چشم فلک نے یہ منظر بار بار دیکھا ہے کہ اسلام دشمن قوتیں بڑی چابک دستی سے اہلِ ایمان کے خلاف ایک چال چلتی ہیں اور مطمئن ہوتی ہیں کہ اپنے اہداف حاصل کرنے والی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ایک دوسری ہی تدبیر کا اہتمام فرماتا ہے اور باطل قوتوں کے سارے اندازے اور منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ ان کے شر کے بطن سے خیر کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں اور جو چیز کسی کے خواب و خیال میں نہ تھی، وہ اہلِ حق کے لیے رونما ہوجاتی ہے۔ قرآن پاک میں تاریخ کے اس معجزاتی عمل کا بار بار ذکر فرمایا گیا ہے تاکہ ہر دور میں اہلِ ایمان کی ہمتوں کو مضبوط اور تاریکی سے روشنی کے نمودار ہو جانے کی امیدوں کے چراغ روشن کیے جاسکیں۔ بنی اسرائیل کی چال بازیوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ربانی ہے :
وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ o(اٰل عمرٰن ۳:۵۴) پھر بنی اسرائیل (مسیحؑ کے خلاف) خفیہ تدبیریں کرنے لگے۔ جواب میں اللہ نے اپنی تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے۔
سورئہ انفال میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے:
وَ اِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَط وَیَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَo (الانفال ۸:۳۰) وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے کہ جب منکرین حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کردیں یا قتل کرڈالیں یا جلاوطن کردیں۔ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔
ان تاریخی حقائق کی روشنی میں ذرا ان حالات پر غور کیجیے جو امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خونی یلغار سے دنیا بھر میں اور خصوصیت سے افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اس جنگ میں جنرل پرویز مشرف کی شرکت اور خود پاکستان کی فوج کو پاکستان کے عوام کے خلاف صف آرا کر دینے سے رونما ہوئے۔ ۴ سال کی مسلسل فوج کشی اور امریکا کے ۱۰۰ سے زائدڈرون حملوں کے باوجود کسی ایک علاقے میں بھی فوجی ایکشن کامیاب نہ ہوسکا اور بالآخر مذاکرات اور سیاسی حل کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ سوات کا علاقہ گذشتہ دو ڈھائی سالوں میں میدانِ کارزار بنا رہا۔ سیکڑوں افراد شہید ہوئے، ہزاروں زخمی ہوئے اور لاکھوں دربدر کی ٹھوکریں کھانے اور مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔
کسے خیال تھا کہ اس علاقے میں امن کی تلاش میں بالآخر شریعت کے نفاذ کا راستہ اختیار کیا جائے گا اور بش اور مشرف کی برپا کردہ جنگ کا اختتام اور آیندہ کا دروبست ایک ایسی جماعت کے توسط سے ہوگا جو سیکولرزم کی دعوے دار ہے اور ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں جس کی کامیابی کو ملک ہی کے نہیں دنیا بھر کے آزاد خیال اور سیکولرزم کے حامی عناصر نے دینی قوتوں کی پسپائی اور سیکولرزم اور آزاد خیالی کی فتح قرار دیا تھا۔ جس قانونی تبدیلی کا مطالبہ علاقے کے عوام ۱۹۶۹ء سے کر رہے تھے اورجس کے لیے کم از کم دو بار قانون سازی آخری مراحل تک پہنچ گئی تھی، اس کی تکمیل اور تنفیذ پیپلزپارٹی اے این پی کی صوبائی حکومت اور تحریک نفاذِ شریعت محمدی کی قیادت کی مشترک مساعی سے اور زرداری صاحب کی ۲ ماہ تک ٹال مٹول کے بعد، قومی اسمبلی کی متفقہ سفارش سے ہونا تھی۔ سارا سیکولر طبقہ آتش زیرپا ہے اور امریکا اور مغربی ممالک واویلا کر رہے ہیں لیکن جو قانون سیدھے سیدھے عوامی مطالبے اور لوگوں کی خواہش کے نتیجے میں نافذ نہ ہوسکا تھا وہ اس معجزاتی انداز میں اسمبلی کی تائید سے نافذ ہو رہا ہے ۔
سوات کی ریاست برطانوی دور میں پہلی جنگ ِ عظیم کے فوراً بعد معرضِ وجود میں آئی اور وہاں کا قانون بڑی حد تک شریعت پر مبنی تھا اور اسلامی اصولوں کے مطابق نظامِ قضا کے ذریعے نافذ تھا۔ یہ سلسلہ ۱۹۶۹ء تک چلتا رہا جب ریاست کو پاکستان میں مدغم کیا گیا اور عوام سے وعدہ کیا گیا کہ شرعی قانون کو جاری رکھا جائے گا مگر ملک کی سیکولر قیادت نے اس وعدے کے ایفا کے لیے کوئی قابلِ ذکر کوشش نہ کی جس کے نتیجے میں شریعت محمدیؐ کے قیام کا مطالبہ در و دیوار سے برابر کیا جاتا رہا اور بالآخر وہ حالات پیدا ہوئے جن میں ۱۹۹۴ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی حکومت میں (جب سیکولرزم کے علَم بردار وکیل جناب اقبال حیدر وزیر قانون تھے اور آفتاب احمد شیرپائو سرحد کے وزیراعلیٰ تھے) ایک مسودہ شرعی نظامِ عدل کے نفاذ کے لیے تیار کیا گیا مگر اس کے نفاذ کی نوبت نہ آئی۔ مطالبہ برابر جاری رہا اور پھر ۹۹-۱۹۹۸ء میں جناب نواز شریف کے دورِاقتدار میں سرحد کے وزیراعلیٰ جناب سردار مہتاب عباسی کی ذاتی دل چسپی سے اس مسودے پر نظرثانی کی گئی اور دینی قوتوں کی مشاورت سے قانون کو ایک واضح شکل دی گئی مگر مشرف صاحب کے انقلاب نے اس سلسلے کو درہم برہم کر دیا۔
یہ صرف قدرت کا کرشمہ ہے کہ ۲۰۰۹ء میں زرداری گیلانی حکومت کے دور میں سرحد کی اے این پی کی حکومت کی مسلسل کوشش اور اس کی اپنی ذمہ داری پر ایک معاہدۂ امن ہوا جس کا مرکزی نکتہ سوات اور مالاکنڈ کے تقریباً تمام علاقوں میں شریعت پر مبنی نظامِ عدل کے قیام کا قانون حکومت اور علاقے کی دینی قوتوں کے اتفاق راے سے تیار ہوا اور زرداری صاحب کے سارے تحفظات اور امریکا کی ساری ریشہ دوانیوں کے باوجود بالآخر ۱۳ اپریل ۲۰۰۹ء کو قومی اسمبلی کی تائید سے اس کا نفاذ عمل میں آیا___ یہ تو ابھی دیکھنا ہے کہ فی الحقیقت اس پر کتنی دیانت اور اخلاصِ نیت سے عمل ہوتا ہے لیکن اس قانون پر اتفاق راے کا رونما ہونا اور پھر دستوری عمل کے مطابق اس کا منظور اور نافذ ہوجانا ایک بہت مبارک اور تاریخی اقدام ہے۔ ہم اس پر ان تمام حضرات کو کھلے دل سے مبارک باد پیش کرتے ہیں جن کا اس سلسلے میں کوئی بھی کردار رہا ہے اور اس توقع کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر اس پر نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ پوری طرح عمل ہوتا ہے تو یہ نہ صرف اس علاقے کی قسمت کو بدلنے اور امن و انصاف کے قیام کا ذریعہ ہوگا بلکہ پورے ملک کے لیے ایک روشن مثال بھی بن سکے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ پہلے یہ دیکھا جائے کہ اس قانون کے ذریعے کیا تبدیلی تجویز کی جارہی ہے اور ملک میں شریعت کے نفاذ کے سلسلے میں اس میں کون سی نئی راہ اختیار کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ان خطرات کا ادراک بھی ضروری ہے جو اس تجربے کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ہوسکتے ہیں، نیز اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس تجربے کو کامیاب کرنے کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہم انھی پہلوؤں کی طرف ضروری اشارات کرنے کی کوشش کریں گے۔
سیکولر لابی جو بھی گل افشانی کرے ، یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ پاکستان کے قیام کا مقصد صرف ایک آزاد ملک کا حصول نہیں تھا بلکہ یہ بھی تھا کہ وہ آزاد ملک اسلام کی تجربہ گاہ بنے اور اس کے پورے نظامِ زندگی کو قرآن و سنت کی رہنمائی کے مطابق مرتب و منظم کیا جائے۔ اقبال اور قائداعظم نے برعظیم کے مسلمانوں کو نجات کی جس راہ کی طرف دعوت دی تھی، اس کا مرکزی نکتہ یہی نظریہ تھا اور ہندستان کے ان مسلمانوں نے جن کا تعلق مسلم اقلیتی صوبوں سے تھا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ پاکستان کا حصہ نہیں ہوں گے، صرف اپنے ایمان اور دین کے تقاضوں کے تحت اس تحریک کی دل و جان سے تائید کی تھی اور اس کی کامیابی کے لیے عظیم قربانیاں پیش کی تھیں۔ پاکستان اور اسلام توام ہیں جنھیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ نفاذِ شریعت کا مطالبہ آج نہیں کیا جارہا۔ یہ تحریک پاکستان کی روح تھا اور آج بھی یہی چیز پاکستان کی بقا اور ترقی کی ضامن ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ اقبال، قائداعظم اور قائد کے دستِ راست لیاقت علی خاں کے ان اعترافات اور وعدوں کو ذہن میں تازہ کرلیں جو پاکستان کے مقصد اور اس کی اصل حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں۔
علامہ اقبال نے اپنے ۱۹۳۰ء کے خطبۂ صدارت میں اپنے پورے تجزیے کی بنیاد ہی اس اصول پر رکھی تھی کہ: ’’اسلام کے پیش نظر ایک ایسا عالم گیر نظامِ سیاست ہے جس کی اساس وحی اور تنزیل پر ہے‘‘۔
اس خطبے میں اقبال نے صاف الفاظ میں کہا تھا:
اسلام میں خدا اور کائنات، روح اور مادہ، چرچ اور ریاست ایک دوسرے کی فطری تکمیل کرتے ہیں۔
ان کا ارشاد تھا:
اسلام کا مذہبی نصب العین اُس اجتماعی نظام سے نامیاتی تعلق رکھتا ہے جو وہ قائم کرتا ہے۔ ایک کے مسترد کرنے سے لامحالہ دوسرا بھی مسترد ہوجائے گا۔ اس لیے کسی پالیسی کی قومی سطح پر اس طرح تشکیل کہ اس سے اسلام کے یک جہتی کے اصول اپنی جگہ نہ رہیں، کسی مسلمان کے لیے بالکل ناقابلِ قبول ہے۔
یہی وجہ ہے کہ برعظیم میں اسلام کی بقا اور فروغ کے لیے ان کی نگاہ میں ایک آزاد مسلم مملکت کا قیام ناگزیر تھا۔
ملک میں ایک تہذیبی طاقت کی حیثیت سے اسلام کی زندگی بڑی حد تک ایک مخصوص علاقے میں اس کی مرکزیت پر منحصر ہے۔
چنانچہ ان کا مطالبہ تھا:
اس لیے میں ہندستان اور اسلام کے بہترین مفاد میں ایک متحدہ مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتا ہوں۔
اصل مسئلہ ہی اسلام کا تحفظ اور فروغ تھا۔ اسی لیے علامہ اقبال نے سید غلام بھیک نیرنگ کے نام اپنے ایک خط میں آزادی کے مقصد کو ان الفاظ میں واضح فرمایا:
اگر ہندستان میں مسلمانوں کا مقصد سیاسیات سے محض آزادی اور اقتصادی بہبود ہے اور حفاظت ِ اسلام اس کا عنصر نہیں تو مسلمان اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔
قائداعظم نے مسلمانوں کے ایک قوم ہونے کا دعویٰ اسی بنیاد پر کیا:
ہم ایک علیحدہ قوم ہیں، جس کے پاس اپنا خاص تمدن و تہذیب، زبان اور ادب، فنونِ لطیفہ اور فنِ تعمیر، نام اور اصطلاحات ، اقدار کا تخیل اور تناسب کا تصور، عدالتی قانون اور اخلاق کا ضابطہ، رواج اور سنہ تاریخ اور روایات، رجحانات اور تمنائیں موجود ہیں۔ مختصر یہ کہ زندگی کے متعلق ہم ایک خاص تصور رکھتے ہیں اور بین الاقوامی قانون کے تمام اصولوں کے مطابق ہم ایک علیحدہ قوم ہیں۔ (گاندھی جناح مراسلت)
اگست ۱۹۴۱ء میں قائداعظم نے حیدرآباد دکن میں نوجوان طلبہ کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اسلامی ریاست کو سیکولر ریاست سے ان الفاظ میں ممتاز و ممیز قرار دیا:
اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے، نہ کسی پارلیمان کی، نہ کسی اور شخص یا ادارے کی، قرآن حکیم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی کی حدود متعین کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول و احکام کی حکمرانی ہے اور حکمرانی کے لیے بہرحال آپ کو علاقے اور سلطنت کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ کی تنظیم، اس کی جدوجہد، اس کا رُخ اور اس کی راہ___ سب اس کے جواب ہیں۔
۲۱ نومبر ۱۹۴۵ء کو صوبہ سرحد میں منعقدہ مسلم لیگ کانفرنس میں آپ نے واضح الفاظ میں فرمایا:
مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں، جہاں وہ خود اپنے ضابطۂ حیات، اپنے تہذیبی ارتقا، اپنی روایات اور اسلامی قانون کے مطابق حکمرانی کرسکیں۔
اور اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
لیگ ہندستان کے ان حصوں میں آزاد ریاستوں کے قیام کی علَم بردار ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے تاکہ مسلمان وہاں اسلامی قانون کے مطابق حکومت کر سکیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد سرحد اور قلات دونوں جگہ قائداعظم نے واضح الفاظ میں ان لوگوں کے الزامات کی تردید کی جو کہہ رہے تھے کہ پاکستان میں قانون سازی شریعت کے بنیادی اصولوں اور قرآنی احکام کے مطابق نہیں ہو گی۔ ان کا ارشاد تھا کہ ’’یہ بات قطعی طور پر غلط ہے‘‘۔
لیاقت علی خاں نے قرارداد مقاصد کی شکل میں پاکستان کے قیام کے اصل مقاصد کو مرتب اور محفوظ کردیا۔ ۵ اپریل ۱۹۴۸ء کو انھوں نے راولپنڈی میں اعلان کیا تھا کہ قائداعظم اور ان کے رفقا کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کی نشووا رتقا ایک ایسی مضبوط اور مثالی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ہو جو اپنے باشندوں کو عدل و انصاف کی ضمانت دے سکے۔ پھر دسمبر ۱۹۴۹ء میں کوہاٹ میں مسلم لیگ کے زیراہتمام ایک جلسۂ عام میں لیاقت علی خاں نے کہا:
جہاں تک لوگوں کی اس اُمنگ کا تعلق ہے کہ پاکستان میں اسلامی اصولوں کے مطابق حکومت ہونی چاہیے، دستور ساز اسمبلی کی منظور کردہ قرارداد مقاصد ان کی کافی ضمانت ہے۔ میرا ایمان ہے کہ اگر ہم نے پاکستان میں اسلامی حکومت قائم نہ کی تو پاکستان زندہ نہیں رہ سکے گا۔
عوام کی اس خواہش کا مظہر پاکستان کا دستور ہے جس میں قرارداد مقاصد نہ صرف اس کا دیباچہ ہے بلکہ دفعہ ۲ الف کی شکل میں اس کا ایک قابلِ تنفیذ حصہ ہے۔ دستور میں مرقوم ریاست کی حکمرانی کے بنیادی اصول زندگی کے ہرشعبے میں اسلام کے قیام کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور دستور کی دفعات ۲۰۳ اور ۲۲۷ پورے قانونی نظام کو شریعت کے تابع اور اس سے ہم آہنگ کرنے کا تقاضا کرتی ہیں۔
سوات اور مالاکنڈ کے عوام قیامِ پاکستان کے مقاصد اور دستورِ پاکستان کے انھی تقاضوں کو پورا کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے جس کی طرف ایک مؤثر قدم ’’عدالتوں کے ذریعے نفاذِ شریعت کے لیے قانون وضع کرنے کا ریگولیشن‘‘ ہے۔ یہ ریگولیشن ایک مثبت اقدام ہے اور اس کے اہم نکات کو سمجھنا اس کی اہمیت کے ادراک کے لیے ضروری ہے۔
اس قانون کی غرض و غایت ہی یہ بتائی گئی ہے کہ ’’قبائلی علاقوں اور سابق ریاست امب کے سوا شمال مغربی سرحدی صوبہ کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں عدالتوں کے ذریعے نفاذِ شریعت کے لیے قانون وضع کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا عنوان ’’شریعۃ نظام عدل ریگولیشن ۲۰۰۹ء‘‘ ہے۔
اس قانون کی اصل اہمیت اور منفرد خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اس طریقے کے علاوہ جو اَب تک پاکستان میں نفاذِ اسلام کے لیے اختیار کیا گیا ہے یعنی ’نفاذ اسلام بذریعہ قانون سازی‘ اب اس کے ساتھ ساتھ ’نفاذِ اسلام بذریعہ نظامِ قضا‘ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت پانچ سطحوں پر مشتمل جس نظامِ قضا کو قائم کیا جا رہا ہے وہ ملکی قانون کے طور پر نفاذ کے ساتھ ان تمام امور پر بھی حاوی ہے جو شریعت کے دائرے میں آتے ہیں لیکن ان کے لیے کوئی متعین قانون موجود نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پوری اسلامی تاریخ میں فقہ کی تدوین کے علی الرغم نفاذِ اسلام کا ایک اہم ترین ذریعہ نظامِ قضا ہی رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی روایت کا اہم سرمایہ ججوں کے بنائے ہوئے قوانین پر مشتمل ہے۔ ریاستی قانون سازی کے ذریعے نفاذِ اسلام کا تجربہ ایک نیا تجربہ تھا اور کم از کم پاکستان کی حد تک اس کے اثرات اور نتائج بہت زیادہ قابلِ فخر نہیں۔ اس پس منظر میں سوات اور مالاکنڈ کے لیے بنایا جانے والا حالیہ قانون ایک اہم تجربے کی طرف پہلا قدم ہے۔ ہمیں تعجب ہے کہ زرداری صاحب اور خود اے این پی کی قیادت نفاذِ شریعت کے پہلوئوں پر پردہ ڈالنے اور نظامِ عدل اور قیامِ امن کے پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو یا ان کی کم علمی کا مظہر ہے یا اس سے بھی زیادہ سنجیدہ اور تباہ کن چیز،یعنی علمی بددیانتی کا۔ اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس قانون کے چند اہم پہلوئوں کو قوم کے سامنے بلاکم و کاست لایا جائے:
۱- نفاذِ شریعت اور قیامِ امن کے لیے ایک مربوط اور خود مکتفی نظام وضع کیا گیا ہے جس کی پانچ سطحیں ہیں اور اپیل کے لیے دو ادارے بنائے گئے ہیں:
۲- شریعت کی تعریف ماقبل کی تمام مساعی کے مقابلے میں زیادہ متعین طور پر کی گئی ہے، یعنی شریعت سے اسلام کے احکام مراد ہیں جیساکہ قرآن اور سنت نبویؐ، اجماع اور قیاس میں بیان کی گئے ہیں۔ ہمارے علم کی حد تک اجماع اور قیاس کا واضح اضافہ پہلی مرتبہ کیا گیا ہے۔ دستور میں صرف قرآن و سنت کا ذکر ہے اور یہی صورت ۱۹۹۱ء کے نفاذِ شریعہ ایکٹ میں ہے۔ نیز ہماری نگاہ سے اس علاقے کے بارے میں جو مسوداتِ قانون گزرے ہیں یعنی ۱۹۹۴ء سے ۱۹۹۹ء کے مسودے، ان میں اجماع اور قیاس کا ذکر نہیں تھا۔ علماے کرام دلائلِ شریعہ سے استنباط احکام کی وضاحت کی ضرورت کو بیان کرتے رہے ہیں لیکن یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اجماع اور قیاس کو بھی تعریف میں شامل کیا گیا ہے۔
۳- اس قانون میں خلافِ قرآن و سنت قوانین کی خود بخود منسوخی کے بارے میں ایک بہت واضح اعلان ہے جو بہت اہم اقدام ہے۔ اس کی دفعہ چار میں وضاحت موجود ہے کہ اس ریگولیشن کے نفاذ سے پہلے اس مذکورہ علاقے میں قرآن مجید اور سنت ِ رسولؐ سے متصادم کوئی بھی نافذالعمل قانون، دستاویز، رواج یا دستور یا کوئی بھی ایسی صورت، اس ریگولیشن کے آغازِ نفاذ سے کالعدم متصور ہوگی۔
۴- شریعت کو بالاتر قانون تسلیم کیا گیا ہے۔ عدالتوں کو واضح ہدایت دی گئی ہے کہ فیصلے صرف شریعت کے مطابق کیے جائیں گے۔ ملاحظہ ہو، دفعہ ۹ جس میں واضح کیا گیا ہے کہ:
قاضی یا انتظامی مجسٹریٹ مقدمات چلانے اور ان کے تصفیے کے لیے طریق کار اور کارروائی کی غرض سے قرآن مجید، سنت نبویؐ، اجماع اور قیاس سے رہنمائی حاصل کرے گا اور ان کا فیصلہ شریعت کے مطابق کرے گا۔ قاضی اور انتظامی مجسٹریٹ قرآن مجید اور سنت رسولؐ کے بیان اور تشریح کے مسلّمہ اصولوں کی پیروی کرے گا اور اس مقصد کے لیے اسلام کے مستند فقہا کے بیانات اور آرا کو بھی مدنظر رکھے گا۔
انتظامی مجسٹریٹ بھی دفعہ ۷ کے تحت ’اپنے فرائض اور ذمہ داریاں‘ شریعت کے مسلّمہ اصولوں اور مذکورہ علاقے میں فی الوقت نافذالعمل دیگر قوانین کے مطابق انجام دیں گے۔
۵- مصالحت کا ایک نظام تجویز کیا گیا ہے جو بڑا مفید اضافہ ہے اور مقدمات اور تنازعات کو جلد نمٹانے کے لیے ایک کارگر نسخہ ہے جسے آج مغربی دنیا میں بھی’متبادل انصاف‘ کے عنوان سے اپنایا جا رہا ہے۔ اس میدان میں بھی شریعت سے مطابقت کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ نیز اعلیٰ عدالت کو شریعت سے عدمِ مطابقت کی صورت میں مصلح یا مصلحین کے تصفیے پر نظرثانی یا تنسیخ کا اختیار دیا گیا ہے۔
۶- اس قانون میں دستور کی دفعہ ۲۲۷ کی طرح شخصی معاملات کے سلسلے میں ہر مکتب فکر کے پیروکاروں کے لیے ان کے اپنے مسلک کے مطابق معاملات کے طے کیے جانے کے اصول کو تسلیم کیا گیا ہے اور اس طرح جو تنوع مسلم معاشرے میں پایا جاتا ہے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
۷- غیرمسلموں کو ان کے شخصی قانون کے سلسلے میں یہ حق دیا گیا ہے کہ ان کے مقدمات ان کے اپنے متعلقہ پرسنل لا کے مطابق چلائے جائیں گے اور ان کا فیصلہ اس کے مطابق کیا جائے گا۔ شریعت نے جو آزادی غیرمسلموں کو دی ہے، اس کا اس قانون میں پورا اہتمام کیا گیا ہے۔
۸- وکلا اور معاونین عدالت کے سلسلے میں واضح بیان اس قانون میں نہیں لیکن اس کے خلاف بھی کوئی بندش موجود نہیں۔ بلکہ دفعہ ۱۵ میں عدالتوں کی امداد و تعاون کا جس طرح ذکر کیا گیا ہے اس میں مقدمات میں وکلا یا دوسرے معاونین کی خدمات کے لیے گنجایش موجود ہے۔
۹- عدالت کی زبان کے باب میں بھی پہلی مرتبہ اُردو اور انگریزی کے ساتھ پشتو کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ بھی ۱۹۹۹ء کے مسودے پر ایک اضافہ ہے۔
۱۰- مقدمات کے جلدی فیصلے کے لیے متعدد دفعات میں ضروری قواعد و ضوابط اور ہدایات موجود ہیں اور تاخیری حربے استعمال کرنے پر تعزیرات بھی لاگو کی گئی ہیں۔ نیز دیوانی مقدمات کے لیے زیادہ سے زیادہ ۶ ماہ اور فوجداری کے لیے ۴ ماہ کی مدت متعین کی گئی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو جلد انصاف میسر آسکے گا۔
۱۱- اس قانون کا ایک اور بڑا اہم پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعے پاکستان کے ۹۴ قوانین کا اطلاق اس علاقے پر کیا گیا ہے اور اس طرح جہاں اس علاقے میں شریعت کے نفاذ کا اہتمام کیا گیا ہے وہیں ان قوانین کی توسیع کے ذریعے اس علاقے کے قانون اور معاملات کو پاکستان کے باقی نظام سے ایک حد تک ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان قوانین میں بہت سے وہ قوانین بھی شامل ہیں جن کے ذریعے اس علاقے میں باقاعدہ سیاسی سرگرمیاں شروع ہوسکیں گی اور سیاسی پارٹیوں کا ایکٹ نافذ العمل ہوجائے گا۔
یہ متذکرہ بالا گیارہ پہلو ایسے ہیں جو اس قانون کو غیر معمولی اہمیت کا حامل بنا دیتے ہیں۔
اس قانون پر جو اعتراضات کیے جا رہے ہیں ان کے تین پہلو ہیں:
اعتراضات کی ایک قسم وہ ہے جو ان حضرات، اداروں اور حکومتوں کی طرف سے آرہے ہیں جو شریعت ہی کے خلاف ہیں اور شریعت کے نفاذ کو اپنے زعم میں حقوقِ انسانی کے خلاف اور جنس کی بنیاد پر امتیاز (gender discrimination) کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ یہاں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ ان کی مخالفت اس قانون سے نہیں، خود شریعت سے ہے۔ ان کو ہمارا جواب یہ ہے شریعت مسلمانوں کے لیے کوئی بیرونی شے یا باہر سے، یا جبر سے مسلط کی جانے والی چیز نہیں ہے بلکہ ہمارے ایمان کا تقاضا اور ہماری آرزوئوں اور اُمنگوں کی تکمیل ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے بارے میں کیے گئے راے عامہ کے سروے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ساری خرابیوں کے باوجود ۹۰ فی صد سے زیادہ مسلمان اسلام ہی کو اپنی شناخت قرار دیتے ہیں اور مسلمان مرد اور خواتین، بوڑھے اور جوان بلاتفریق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی صورت گری اسلام کے اصولوں اور احکام کے مطابق چاہتے ہیں۔ پاکستان کے اور مسلم دنیا کے ۷۲ ممالک کے مسلمانوں کی اکثریت شریعت کو قانون کا واحد سرچشمہ (only source of law) قرار دیتی ہے۔ اگر اس میں ان افراد کو شامل کرلیا جائے جو شریعت کو ’ایک سرچشمۂ قانون‘ (one source of law) کہتے ہیں تو یہ تعداد ۸۰ سے ۹۰فی صد تک پہنچ جاتی ہے۔۱؎ جوحضرات اپنے کو آزادی کا پرستار اور جمہوریت پسند کہتے ہیں ان کو اتنا تو تسلیم کرنا چاہیے کہ اگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت اپنی آزاد مرضی اور قلبی اطمینان کے ساتھ اپنے معاملات کو شریعت کے مطابق دیکھنا چاہتی ہے تو اس ۱۰ فی صد لبرل اقلیت کو کیا حق ہے کہ ان پر اپنی راے مسلط کرے اور مغرب کی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی حکومتوں کو کیا حق ہے کہ وہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کی خواہشات اور عزائم کو یک طرفہ طور پر رد (ویٹو) کریں۔ یہ فسطائی ذہنیت ہے، اس کا جمہوریت سے دُور کا بھی تعلق نہیں۔
بلاشبہہ جمہور مسلمین کے دل کی آواز شریعت کا نفاذ ہے۔ جو جمہوریت کے دعوے دار ہیں انھیں صرف جمہور کی خواہش اور ارادے کا احترام کرنا چاہیے لیکن جہاں تک معاملہ مسلمانوں کا ہے، تو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ مسلمان نام ہی اس مرد یا عورت کا ہے جو اپنی مرضی اور ارادے کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے تابع کرتا ہے اور اپنی زندگی کو اس قانون کے مطابق ڈھالتا ہے جو اللہ نے نازل کیا ہے۔ قرآن کا فیصلہ بہت صاف اور واضح ہے:
وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ… بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ… فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (المائدہ ۵:۴۴-۴۵ و ۴۷) جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہی کافر ہیں… وہی ظالم ہیں… وہی فاسق ہیں۔
اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی ہدایت ہے جو پوری اُمت کے لیے سنت ِ رسولؐ ہے کہ وَ اَنِ احْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ (المائدہ ۵:۴۹) پس اے نبیؐ، تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔
اور یہ بات بھی اچھی طرح ذہن میں رہنی چاہیے کہ شریعت اور انصاف ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ شریعت کے بغیر انصاف ممکن نہیں اور انصاف کا حق اسی وقت ادا ہو سکتا ہے جب شریعت حَکم ہو۔ شریعت اور انصاف کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَیْبِ ط اِِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ o (الحدید ۵۷:۲۵) ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوںاور ہدایت کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں اور لوہا اُتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں۔ یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کو معلوم ہوجائے کون اس کو دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے۔ یقینا اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔
نبی پاکؐ کو مخاطب کرتے ہوئے (اُن کی وساطت سے) اللہ تعالیٰ نے پوری اُمت کے سامنے اپنے قانون اور عدل کے رشتے کو اس طرح واضح فرمایا:
فَلِذٰلِکَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَلاَ تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنْ کِتٰبٍ وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمُ ط (الشوریٰ ۴۲:۱۵) اس لیے اے محمدؐ! اب تم اسی دین کی طرف دعوت دو اور جس طرح تمھیں حکم دیا گیا ہے اسی پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجائو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو اور ان سے کہہ دو کہ اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے میں اس پر ایمان لایا، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان انصاف کروں۔
قرآن اس مضمون سے بھرا پڑا ہے اور اس سلسلے میں کسی مسلمان کو ایک لمحے کے لیے بھی یہ اشتباہ نہیں ہوسکتا کہ حقیقی اسلامی زندگی اور دنیا و آخرت کی کامیابی کا انحصار شریعت کے مطابق اور شریعت کے ذریعے انصاف کے قیام پر ہے۔ اس سلسلے میں چھوٹا ہو یا بڑا، جو اقدام بھی کیا جائے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کو پورا کرنے اور دینِ حق کے تقاضوں کو پورا کرنے کا ذریعہ ہو۔
اعتراضات کی دوسری کھیپ کا تعلق اس مفروضے سے ہے کہ ایک ملک میں ایک سے زیادہ قانونی نظام نہیں چل سکتے۔ یہ قانون ایک متوازی نظام قانون مسلط کرنے کی کوشش ہے جو قابلِ قبول نہیں۔
ہم اس اعتراض کو اس لیے قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے کہ جس مفروضے پر اس کی بنیاد ہے وہ صحیح نہیں۔ پاکستان میں ایک دستور ہے جو پورے ملک پر حاوی ہے۔ اس دستور میں اس علاقے کے لیے قانون اور قانون سازی کا ایک مختلف طریقہ موجود ہے۔ انگریز کے زمانے میں یہاں کا قانون، باقی ملک سے مختلف تھا اور اس پر کسی کو تناقض اور دو نظاموں کے ٹکرائو کا خیال نہیں آیا۔ شریعت پر مبنی نظامِ قضا خواہ جزوی شکل ہی میں تھا مگر برطانوی دور میں ایک نہیں متعدد ریاستوں اور علاقوں میں موجود تھا اور اسے معتبر تصور کیا گیا۔ خود پاکستان بننے کے بعد سوات اور قلات میں ایک عرصے تک قضا کا نظام شرعی بنیادوں پر کام کرتا رہا اور کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا بلکہ لوگ خوش اور مطمئن تھے۔ آج بھی آزاد کشمیر میں قاضیوں کا نظام موجود ہے اور وہ عدالتی نظام کے حصے کے طور پر کام کر رہے ہیں اور کہیں کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ حد تو یہ ہے کہ آج تک قبائلی علاقے میں FCR جیسا جنگل کا قانون موجود رہا اور دُہرے نظامِ عدل کا واویلا نہیں کیا گیا۔ پھر اب یہ آہ و بکا کیوں ہے؟ کیا صرف شریعت کی وجہ سے یہ آوازیں اٹھائی جارہی ہیں؟
برطانیہ کے عدالتی نظام کی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو وہاں کئی سو سال تک common law courts اور equity courts شانہ بشانہ کام کرتی رہی ہیں۔ امریکا ایک فیڈریشن ہے اور اس کی مختلف ریاستوں میں آج بھی دیوانی اور فوج داری دونوں دائروں میں مختلف قوانین کی عمل داری ہے اور علاقائی حالات، رسم و رواج اور تہذیبی اور ثقافتی فرق کی بنیاد پر قوانین میں فرق بلکہ تضاد تک ہے، حتیٰ کہ امریکا کی نصف ریاستوں میں سزاے موت رائج ہے، جب کہ بقیہ نصف میں اسے ختم کردیا گیاہے۔
یہ تو صرف قانون میں تنوع کا مسئلہ ہے۔ چین نے تو ایک ملک اور دو نظاموں کی کامیاب مثال قائم کی ہے اور چین اور ہانگ کانگ میں دو طرح کے نظام اور دو قسم کے قوانین لاگو ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ان اعتراضات کی وجہ قانون میں تنوع نہیں، شریعت سے مخاصمت ہے۔ اگر ان حضرات کو ایک نظامِ قانون کی اتنی ہی فکر ہے تو اس پر غور کیوں نہ کیا جائے کہ پورے ملک میں شریعت کے قانون کو یکساں طور پر نافذ کیا جائے۔ آخر دستور تو پاکستان کو اسلامی ری پبلک قرار دیتا ہے، اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیتا ہے اور دفعہ ۲۲۷ کے تحت پورے قانونی نظام کو شریعت سے ہم آہنگ کرنے کا تصور دیتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ملک کے ۴ ہزار سے زیادہ قوانین کا جائزہ لے کر ان کو شریعت سے ہم آہنگ کرنے کی سفارشات مرتب کر لی ہیں۔ پھر انتظار کس بات کا ہے؟ ہم بجاطور پر توقع رکھتے ہیں کہ عوام کے جذبات اور مطالبات کا احترام کرتے ہوئے پورے ملک میں شریعت کی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ سوات میں اس نظام کی کامیابی سے پورے ملک کو اس تجربے سے فائدہ اٹھانے کا موقع اور تحریک ملے گی۔
تحفظات کا تیسرا حصہ ان امور سے متعلق ہے جو اس قانون کے کامیابی سے نافذ ہونے کی راہ کی مشکلات کی نشان دہی پر مشتمل ہے۔ اس سلسلے میں ہم چند ضروری گزارشات کرنا چاہتے ہیں:
پہلی چیز کا تعلق نیت اور ارادے سے ہے، بلاشبہہ ان علاقوں کے عوام دل کی گہرائیوں سے اس نظام کو چاہتے ہیں اور اس سے بڑی توقعات رکھتے ہیں لیکن ہمیں بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ مرکزی حکومت کے ذمہ دار ترین افراد نہ صرف بددلی کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ بددیانتی کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں۔ شریعت کے پہلو کو یا تو دبایا جاتا ہے یا اسے کم کر کے بتایا جا رہا ہے، جب کہ وہاں کے عوام کی نگاہ میں اگر کسی چیز میں کشش ہے تو وہ شریعت میں ہے۔ جناب زرداری صاحب اور جناب اسفندیارولی علی الاعلان بار بار کہہ چکے ہیں کہ یہ نظام عدل سے متعلق ہے حالانکہ اس قانون کی امتیازی حیثیت ہی یہ ہے کہ یہ شریعت پر مبنی نظامِ عدل کا قیام چاہتا ہے، محض عدل کا نہیں۔ پھر امن کے قیام کے پہلو کو شرط بتایا جا رہا ہے، جب کہ اس قانون کی روح کے مطابق اس کے نفاذ کا فطری نتیجہ ’امن‘ ہوگا۔ اس لیے یہ مشروط نہیں ہے۔
دوسری چیز بیرونی دبائو اور سازشیں ہیں جو پورے زور و شور سے کارفرما ہیں۔ یہ ہمارے معاملات میں مداخلت ہے اور ہمیں خطرہ ہے کہ جس طرح ہماری حکومتیں سیاسی اور معاشی معاملات میں بیرونی دبائو کا شکار ہوکر بڑی طاقتوں کی بلیک میلنگ کے آگے سپر ڈال رہی ہیں، اسی طرح شریعت کے معاملے میں بھی ریت کی دیوار ثابت ہوتی نظر آرہی ہیں۔ ہمیں خطرہ ہے کہ اگر یہ ریشہ دوانیاں راہ پاتی ہیں تو اس قانون پر عمل درآمد متاثر ہوگا جس کے بڑے خطرناک نتائج ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کسی دبائو میں نہ آئے اور اس قانون اور اس کے پیچھے کیے جانے والے معاہدے پر دیانت اور خلوص سے عمل کرے۔
اگر قومی اسمبلی نے اس قانون کی متفقہ طور پر سفارش کی ہے تو حکومت کو پارلیمنٹ کی اس ہدایت پر عمل کرنا چاہیے۔ ایم کیو ایم نے اس سلسلے میں جو ڈراما رچایا ہے وہ ناقابلِ فہم ہے۔ پارلیمنٹ کی کمیٹی براے قومی سلامتی نے بھی اس مسئلے پر اپنی متفقہ راے دی ہے اور ایم کیو ایم کے نمایندے نے ان متفقہ سفارشات کی تائید کی ہے۔ ہم اس سلسلے میں کمیٹی کی سفارشات کو پیش کرنا چاہتے ہیں تاکہ عوام ان لوگوں کی سیاسی بازی گری کو بے حجاب دیکھ سکیں۔ کمیٹی نے پارلیمنٹ کی قرارداد کے نکتہ نمبر ۱۱ پر اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا ہے:
حکومت کو سوات میں امن حاصل کرنے کے لیے این ڈبلیو ایف پی (پختون خواہ) کی صوبائی حکومت کے ذریعے درج ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے:
ا- فوج کو قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں سے تبدیل کردیا جائے اور جدید ترین رسل و رسائل اور دیگر آلات کی ضروریات پوری کر کے ان کی صلاحیت کو بڑھایا جائے۔
ج- حالیہ امن معاہدے کے مطابق وفاقی حکومت/ صدر، دونوں کو مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذِ عدل ضوابط کو اپنے مفہوم اور روح کے مطابق فی الفور منظوری دینا اور نافذ کرنا چاہیے۔ اس کے بعد حکومت کو سوات میں دیرپا امن حاصل کرنے کے لیے پیش قدمی کرتے ہوئے ایک مکالمے پر عمل شروع کرنا چاہیے۔
سیاسی قیادت کے صحیح رویے اور مخلصانہ تعاون اور بیرونی دبائو اور مخصوص مفادات کے لیے کام کرنے والے عناصر کی کارگزاریوں کے مقابلے کے ساتھ جو کام حکومت اور تمام دینی اور سیاسی قوتوں کو کرنا چاہیے وہ ایسے قاضی حضرات کا تقرر ہے جو علم و تقویٰ کے لحاظ سے اعلیٰ معیار کے حامل ہوں اور ہرقسم کے دبائو کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اس قانون کی کامیابی کا انحصار اس قانون پر عمل کرنے اور کرانے والے افراد کے خلوص، دیانت اور صلاحیت پر ہوگا اور یہ بڑا کٹھن اور فیصلہ کن امر ہے۔ اس لیے جزوی اور غیرمتعلقہ بحثوں اور کارروائیوں سے بچتے ہوئے اس نظام کی صحیح بنیادوں پر تشکیل اور اس کی تقویت کو اولین اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔
ہماری نگاہ میں ایک مبہم امر اس نظام کی اپیل کی اعلیٰ عدالتیں ہیں۔ جس شکل میں دارالقضا اور دارالدار القضا کو اس قانون میں رکھا گیا ہے وہ نظام کی کامیابی کے لیے ضروری ہے لیکن اس کے لیے دستور کے تقاضوں کا گہری نظر سے مطالعہ کرنا ہوگا۔ ۱۹۹۹ء کے قانون میں وفاقی شرعی عدالت کو اپیل سننے کا اختیار دینے کی تجویز تھی جسے اب تبدیل کردیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے اختیارات ان نئی عدالتوں کو دینے کے لیے کیا اس قانون سے زیادہ کسی مزید دفعہ کی ضرورت ہے۔ کیا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے قوانین میں اس کے لیے ترامیم کرنا ہوں گی یا اس کے لیے دستوری ترمیم کی ضرورت ہوگی۔
اس پہلو پر ہمدردانہ غور کرنے اور راہ نکالنے کی ضرورت ہے۔ پھر ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ شریعت کے نفاذ کا عمل صرف قضا کے ذریعے مکمل نہیں ہوسکتا۔ قضا کا حصہ بڑا اہم ہے لیکن وہ ایک حصہ ہے، پورا عمل نہیں۔اس کے لیے تعلیم، ذرائع ابلاغ، حکومت، انتظامیہ، سیاسی جماعتوں اور دینی قوتوں سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور سب مل کر ہی شریعت کے قیام کی راہ استوار کرسکتے ہیں۔ شریعت کا تعلق نظامِ عقائد و عبادات سے ہی نہیں، زندگی کے ہر شعبے سے ہے۔
شریعت کا ایک بڑا حصہ خود عمل کرنے کے لیے ہے۔دوسرے حصے کے نفاذ کا انحصار خاندان، تعلیم اور معاشرے پر ہے۔ ایک تیسرے حصے کا تعلق حکومت کی پالیسیوں سے ہے، اور پھر ایک اہم حصے کا تعلق قانون اور نظامِ قضا سے ہے۔ شریعت کا نفاذ ان سب پہلوؤں پر بہ یک وقت کام اور ان کے درمیان ربط اور ہم آہنگی سے ممکن ہے۔ ان میں سے کوئی بھی تنہا مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتا۔ اس کے لیے کلّی اور ضمنیات پر مبنی جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
ہماری خواہش اور دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی دعا ہے کہ حکومت، عوام، انتظامیہ اور سیاسی اور دینی قوتیں سب شریعت کے نفاذ کی کوشش میں اپنا اپنا کردار ادا کریں اور اس تجربے کی کامیابی کے لیے دل و جان سے مصروف ہوجائیں۔ پھر اللہ کی تائید بھی حاصل ہوگی اور تمام مساعی میں برکت کی کیفیت بھی رونما ہوگی۔
ذاتی اور گروہی مفادات اور سیاسی اور جماعتی مصالح سے بالا ہوکر اس قانون اور اس پروگرام کو کامیاب کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں عوام کی شرکت اورتعاون بھی ازبس ضروری ہے۔ اس قانون کے نافذ ہونے کے بعد ہم سب ایک بہت بڑے امتحان میں داخل ہوگئے ہیں اور اگر ہم اِس امتحان میں پورے اُترتے ہیں تو دنیا میں بھی اس کے دُور رس اثرات ہوں گے اور آخرت میں بھی نجات ہمارا مقدر بنے گی۔ کامیابی کے حصول کے سوا ہمارے لیے کوئی راستہ نہیں۔ اس لیے ہم سب کی کوشش ہونی چاہیے کہ ایک دوسرے پر الزامات کی لعنت سے نجات پاکر پُرخلوص جدوجہد اور افہام و تفہیم کے ذریعے شریعت کے سایے میں حقیقی عدل و انصاف کے قیام کے لیے سرگرم ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
تمام تعریفیں اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ کے لیے سزاوار ہیں۔ درود و سلام ہو انبیا علیہم السلام، خصوصاً خاتم النبیین پر، آپؐ کے اصحابِ کرام اور اہلِ بیت پر اور اُمت کے صدیقین، شہدا اور صالحین پر۔
سب سے پہلے میں اپنے آپ کو اور اس کے بعد تحریکِ اسلامی کے تمام وابستگان اور محبان کو اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ موت کو یاد رکھنے اور دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے کی تاکید کرتا ہوں۔ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سچی محبت دل میں بسانے اور آپؐ کی اتباع کی تاکید کرتا ہوں۔
مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کی ذمہ داری (چھوٹی ہو یا بڑی، جُزوی ہو یا کُلّی) دینی نقطۂ نظر سے نہایت سنجیدہ، نازک، گراں بار اور آزمایشوں سے پُر فریضہ ہے۔ اگر بے طلب ملی ہو تو حدیثِ مبارکہ کے مطابق اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ کی تائید و نصرت اور رہنمائی و دست گیری کی اُمید رکھنی چاہیے۔ بس یہی احساس ہے جس کے نتیجے میں، جماعت اسلامی پاکستان کی امارت کی گراں بار ذمہ داری کا حلف میں نے اٹھایا ہے۔ کہنے کو تو یہ حلفِ امارت محض چند فقرے ہیں، لیکن انھیں پڑھ کر ذمہ داریوں، تقاضوں اور جواب دہی کے اُمور کا ایک پہاڑ ہے جس کے نیچے انسان آجاتا ہے۔ ایسے میں خلیفۃ الرسولؐ، ثانی اثنین، رفیقِ بے مثل حضرت ابو بکر صدیقِ اکبرؓ کا وہ ارشاد یاد آرہا ہے کہ ’’لوگو!میں تمھارا امیر بنا دیا گیا ہوں۔ میں ہرگز تم سے بہتر اور برتر نہیں ہوں۔ سو، اگر میں سیدھے راستے پر چلوں تو میری مدد کرواور اگر کجی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کر دو۔ سچائی ایک امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے…… جب تک میں اﷲ اور اس کے رسولؐ کی اِطاعت کروں، تم میری اطاعت کرو اور اگر میں اﷲ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کروں تو تم لوگوں پر میری اطاعت لازم نہیں‘‘۔ اسی طرح امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ نے ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتے وقت اپنے احساسات جن الفاظ میں بیان فرمائے، وہ بھی دل دہلا دینے کے لیے کافی ہیں۔
جماعت اسلامی کی امارت اگرچہ پوری اُمت کی امارت کی مانند تو نہیں، لیکن بہرحال یہ جماعت، اسلام کی نشاتِ ثانیہ اور غلبۂ دین، بلکہ اِقامتِ دین کے لیے برپا عصرِحاضر کی نہایت اہم اور کلیدی تحریک ہے۔ محترم سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، محترم میاں طفیل محمد اور محترم قاضی حسین احمد کے بعد ارکانِ جماعت نے مجھے امارت کا بوجھ اٹھانے کا حکم دیا ہے۔ اپنی تمام تر کمزوریوں اور اپنے احساسِ کم مایگی کے باوجود میں نے جماعت کے طے شدہ طریقِ کار اور دستوری نظام کی پاسداری کرتے ہوئے حلفِ امارت اس اُمید پر اٹھا لیا ہے کہ اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ آپ کی دعائوں، مشوروں، تعاون اور نظامِ جماعت کی برکتوں کے طفیل مجھے اپنی رحمت و برکت اور تائید و نصرت سے نوازے گا۔ ہم سے کام تو اُس کو لینا ہے۔ ہم اپنی ایڑیاں رگڑتے رہیں گے، چشمہ نکالنا اُس کا کام ہے۔ سو میرے بھائیو اور بہنو! میری گزارش ہے کہ اپنے اس بھائی کو اپنی دعائوں میں شامل رکھیے۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ میرے مزاج کے حوالے سے بہت سے رفقا کو گلہ ہے کہ اس میں تیزی اور تندی ہے۔ یقین رکھیے یہ تیزی یا تندی اﷲ اور اس کے دین کے لیے ہوتی ہے۔ ذاتی پرخاش سے میں اﷲ کی پناہ مانگتا ہوں۔ تاہم دعا کیجیے کہ میرے تحمل میں اضافہ ہو، مزاج کی تیزی اور تندی، نرمی اور حلاوت میں تبدیل ہو جائے۔ حق اور راستی کے سامنے میرا دل و دماغ اور مزاج و طبیعت ویسے ہی سرافگندہ ہوجایا کریں جیسے خلیفۂ بے مثل سیدنا عمر فاروقؓ کے معاملہ میں دنیا نے دیکھا اور برتا۔
جماعت اسلامی میں امارت کی تبدیلی کئی اہم اور تابناک پہلو رکھتی ہے۔ صرف دو کا تذکرہ تحدیثِ نعمت ِ اجتماعی کے لیے کرنا چاہوں گا:
ا - جماعت اسلامی پاکستان کا کوئی امیر دوسرے امیر کا نہ رشتہ دار ہے، نہ ہم قبیلہ۔ ان کے خاندان جدا ہیں۔ ان کی نسلی اور علاقائی شناخت الگ ہے۔ ان کے درمیان صرف ایک تعلق اور رشتہ ہے، مقصد اور مشن کا۔ یہ بات اس برعظیم (پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش) کے معمول اور رواج میں بڑی حیران کن بھی ہے اور منفرد و ممتاز بھی۔
ب- جماعت میں امارت کے انتخابات ایک تسلسل اور تواتر سے ہوتے رہے ہیں۔ کسی ایمرجنسی میں، کسی ہنگامی صورت حال میں اور کسی بھی بحران میں انتخابِ امیر کا عمل نہ رُکا ہے اور نہ مؤخر ہوا ہے۔ بڑی باقاعدگی سے ہر پانچ سال کے بعد امیر کا انتخاب ہوتا ہے۔ دستور کی دفعات کی پابندی کرتے ہوئے مجلسِ شوریٰ کے طے کردہ ضوابط اور جماعت کی مستحکم روایات اور طریقِ کار کے مطابق جماعت اپنے امیر کا انتخاب کرتی آئی ہے۔ اس میں نہ کوئی امیدوار ہوتا ہے، نہ انتخابی مہم چلتی ہے، نہ بوگس ووٹنگ ہوتی ہے، نہ کوئی جیتتا ہے، نہ کوئی ہارتا ہے، نہ انتخاب کے بعد الزامات کا تبادلہ ہوتا ہے اور نہ کوئی تلخی ہی پیدا ہوتی ہے۔
اَللّٰہُ اَکبَرُ اَللّٰہُ اَکبَرُ وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ۔ اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَ لَکَ الشُّکْرُ
ہم جیسے انسانوں کی اجتماعیت اگر اِن خوبیوں سے مرصع ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ اس پر اﷲ کا ہاتھ ہے اور یہ ہاتھ اُس وقت تک رہے گا جب تک ہماری اجتماعیت میں خلوص اور خیر غالب رہے گا۔ اللھم زد فزد۔
جماعت اسلامی ۱۹۴۱ء میں قائم ہوئی۔ پاکستان بننے کے بعد اس کی تنظیمِ نو ہوئی۔ اس وقت سے لے کر آج تک اس جماعت کا بنیادی مقصد اﷲ کے بندوں کو اﷲ کی بندگی کی طرف بلانا رہا ہے، دین و ملت کو کمزوری و مغلوبیت سے نکال کر قوت و سرفرازی اور غلبہ و عملداری کی طرف لے جانا رہا ہے۔ اس لیے یہ ’اقامتِ دین‘ کی تحریک ہے۔ یہ دین کو جزوی اور سطحی طور پر نافذ کرنے کی نہیں، اس کو مکمل، صحیح اور جامع صورت میں قائم کرنے کی تحریک ہے۔ یہی ہمارا نقطۂ نظر ہے، ہمارا مطمحِ نظر ہے، ہماری زندگی کا مشن ہے۔ اس کام کو ہم بہت سے کاموں میں سے ایک نہیں، بلکہ اصل، بنیادی اور مرکزی کام سمجھتے ہیں۔ اسی میں اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ کی رضا اور اُس کی جنت تک جانے کا راستہ ڈھونڈتے ہیں۔ بقول سید مودودیؒ ہم دنیا کے دیگر کام تو زندہ رہنے کے لیے کرتے ہیں، مگر زندہ ہیں رضاے الٰہی کی طلب میں اور اِقامتِ دین کی جدوجہد کرنے کے لیے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ’اقامتِ دین‘ کے لیے انفرادی، جزوی اور منتشر جدوجہد نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی۔ اس مقصد کے لیے اجتماعی، ہمہ پہلو، ہمہ گیر، جامع، مربوط، مسلسل اور منظم جدوجہد درکار ہے۔ گویا ’اقامتِ دین‘ کے لیے ’اِقامت ِ جماعت‘ ضروری ہے۔ اسی لیے ہم نے اپنی فہم کے مطابق ایک نظامِ جماعت بنایا ہے۔ جماعت اسلامی، اس کا دستور اور ادارے ’اقامت ِ جماعت‘ کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ہیں اور خود جماعت ’اقامت ِ دین‘ کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں جماعت اسلامی کسی خاص گروہ، قبیلہ، رنگ، نسل، زبان، علاقے، فرقے، مسلک کے لوگوں کی جماعت نہیں اور نہ ہماری دعوت کی بنیاد ہی ان میں سے کسی بات پر ہے۔ یہ ایک اصولی اور نظریاتی جماعت ہے۔ یہ اسلامی نظریہ و نظام اور معاشرہ و تہذیب کی طرف بلاتی ہے۔ یہ جماعت تو اپنے امیر کی طرف بھی نہیں بلاتی بلکہ خالص اور مکمل دین کی بات کرتی ہے، مسلمانوں کو اس کے تقاضوں کی یاد دہانی کراتی ہے، اور غیرمسلموں کو بتاتی ہے کہ قرآن ہمارے لیے بھی ہے اور تمھارے لیے بھی۔ یہ ہمارے اور تمھارے رب کی طرف سے آیا ہے اور یہ کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہر انسان کے لیے رحمت و ہدایت کی روشنی بن کر آئے تھے۔ آئو ہم سب اس روشنی سے اپنی زندگیاں منور کر لیں۔
’اِقامتِ دین‘ کا تصور دین کی اجتماعی عمل داری میں خلل واقع ہونے اور ملّت کی عمارتِ اجتماعی کے منہدم ہونے سے ابھر اہے۔ یوں تو یہ فریضہ پوری امت پر عائد ہوتا ہے کہ دین کو پھر سے قائم کر کے دنیا کو اس کی برکتوں میں شریک ہونے کی دعوت دے۔ مگر بدقسمتی سے سب لوگ اس کام میں شریک نہیں۔ لہٰذا ہم نے اس آیت کے مصداق یہ جماعت بنائی ہے جو اِقامتِ دین کا مشن لے کر مسلسل مصروفِ عمل ہے۔ وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۴)
جماعت نے اپنی جدوجہد کے لیے قرآن و سنت کی رہنمائی میں جو طریقِ کار طے کیا ہے، وہ اس کے دستور اور بنیادی لٹریچر میں درج ہے۔ ہماری جدوجہد اسی کے مطابق ہے، مسلسل جدوجہد۔ لیکن ظاہر ہے کہ غلبۂ دین کی جدوجہد نہ ماضی میں آسان تھی اور نہ آج سہل ہے۔ اس میں طبیعتوں اور مزاجوں کی آزمایشیں بھی ہیں اور جی جان کا زیاں بھی۔ حصولِ دنیا پر قدغنیں بھی ہیں اور صبر و ثبات کی مشکل گھاٹیاں بھی۔ تھکا دینے والی ’اَن تھک‘ سعی و جہد کا لامتناہی سلسلہ بھی ہے اور نت نئے چیلنجوں اور تقاضوں کا کوہِ گراں بھی۔۔۔ اِقامتِ دین اور رضاے الٰہی کی مسلسل جدوجہد کے پل صراط سے گزرنے کے لیے مضبوط ایمان، پختہ ارادہ، گہری بصیرت، دانائی و حکمت، دل موہ لینے والا حسنِ اخلاق، مستحکم اور جاذبِ نظر شخصیت، خلوصِ نیت اور دل کی لگن درکار ہے۔ ورنہ لذات و خواہشات کے اس بت خانۂ جہاں میں پوری عمر کا سودا کر کے اسے دمِ آخر تک نبھانا کس کے بس میں ہے۔ ہم یہ خصوصیات اپنے اندر زیادہ سے زیادہ پیدا کریں اور پھر اپنے رب کی مدد کے اُمیدوار ہوں، تب بات بنے گی۔ تبھی بات بن سکتی ہے۔
آج پوری دنیا اور خصوصاً ملتِ اسلامیہ کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی وسعت و سُرعت نے سب پر سب کچھ عیاں کر دیا ہے۔ اب صرف وہی بے خبر رہ سکتا ہے جو بے خبر رہنے کا طے کیے بیٹھا ہو۔ ورنہ استعمارِ جدید اور اس کی یلغار، اس کا ایجنڈا اور اس کی پیکار، اس کا طریقِ واردات اور اس کے ہتھکنڈے اور ہتھیار تو ظاہر و باہر ہیں۔ ان کی تفصیل کا نہ یہ موقع ہے اور نہ اس کی ضرورت۔ البتہ اگر ضرورت ہے تو اس بات کی کہ پوری امت کو خصوصاً اور کرۂ ارض پر آباد بنی آدم کو عموماً بیدار کیا جائے، ہوشیار کیا جائے اور تبدیلیِ حالات کے لیے آمادہ و تیار کیا جائے۔ یوں بھی یہ دنیا اب عالم گیریت (globalization) کے مرحلے میں ہے۔ ہر ایک ہر ایک سے متعلق ہو گیا ہے، سب لوگ سب لوگوں سے وابستہ ہو گئے ہیں۔ کوئی اگر چاہے کہ دنیا سے، احوالِ دنیا سے، حوادثِ زمانہ سے کٹ کر، لاتعلق ہو کر جی سکتا ہے تو کم از کم اب ایسا ممکن نہیں رہا۔ سب ایک دوسرے سے متاثر ہوتے اور ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں۔ عالمی طور پر مربوط ایسی دنیا میں آنکھیں کھلی رکھنا، ذہن و قلب کو بیدار رکھنا اور ’’چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو‘‘ کا مصداق بننا ضروری بھی ہے اور مفید بھی۔ آپ ہوں، آپ کی مربوط و منظم جدوجہد ہو، عام آدمی کی سطح پر آپ معاشرے میں موجود اور اس سے جُڑے ہوئے ہوں، آپ کی پشت پر انسانوں کا بحرِ بیکراں ہو، ایک مشن کی لگن ہو، نقشۂ کار واضح ہو، منزل کا پتا یاد ہو، جذبے صادق ہوں، اﷲ پر بھروسا ہو، نظم و ضبط اور ڈسپلن کا بے مثل مظاہرہ ہو، اپنے وقت، صلاحیت اور مال کا بیش قدر حصہ تحریک کی جھولی میں ڈالنے کا جذبۂ فراواں ہو اور صبر و حکمت کی ڈھال ہو تو منزلیں خود پکارتی چلی آتی ہیں۔ توسیعِ دعوتِ دین کی منزل، غلبۂ دینِ مبین کی منزل، رضاے ربِ متین کی منزل۔۔۔!!
ہم کسی کے دشمن نہیں، کسی کے بدخواہ نہیں اور نہ کسی انتقامی طرزِ فکر کے علَم بردار ہیں۔ تمام بنی نوعِ آدم سے ہمیں ہمدردی ہے، ہم اُن کے خیرخواہ ہیں اور اِسی لیے ہماری دعوت کے مخاطب ہرملک اور خطے میں بسنے والے تمام انسان ہیں، خواہ اُن کا تعلق کسی رنگ و نسل سے ہو، کسی جنس و ذات سے ہو، یا کسی مذہب و مسلک سے۔ ہمارے دین نے ہر انسان کو ایک خاص نوعیت کی آزادی عطا کی ہے۔ ہم اس کا احترام کرتے ہیں اور دوسروں سے اپنے اِسی حقِ آزادی کے احترام کا تقاضا کرتے ہیں۔ اپنی آزادی کا تحفظ ہمارا حق ہے۔ اگر کوئی ہماری یہ آزادی سلب کرنا چاہے تو یقینا ہم اپنے دفاع کا بھی حق رکھتے ہیں۔ مسلمان اور خصوصاً ’ملّتِ اسلامیہ پاکستان‘ جن استعماری حملوں کی زد میں ہے، اُن سے بچائو ان کا حق ہے اور اس میں ان کا ساتھ دینا ساری دنیا کے انسانوں کا فرض ہے۔
اﷲ کی یہ دنیا ہمیشہ تبدیلیوں کی زد میں رہی ہے، مگر تبدیلیوں اور انقلابات کی جو رفتار آج ہے، غیرمعمولی واقعات کے ظہور کا جو سلسلہ اب ہے، یہ پہلے نہیں تھا۔ ہم نے اپنی حیاتِ مستعار میں ملکوں کو ٹوٹتے اور بنتے، سپر پاورز کو ابھرتے اور ڈوبتے، غیرمعمولی کائناتی وسائل کو انسان کی گود میں تیزی سے گرتے، ممولوں کو شہبازوں سے پنجہ آزمائی کرتے اور دیوِ استبداد کو برف کی طرح پگھلتے دیکھا ہے۔ پچھلے چند عشروں میں ناقابلِ شکست کو سرنگوں ہوتے، ناقابلِ تسخیر کو مسخر ہوتے اور اٹل سمجھی جانے والی شے کو ٹلتے بلکہ پلٹتے دیکھا ہے--- جی ہاں پچھلے چند عشروں میں دنیا نے یہ سب دیکھا ہے اور حیرت سے دیکھا ہے۔ مگر ہم حیران نہیں۔ ہمارا تو ایمان ہے کہ کُلُّ شَیْئٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہٗ (القصص ۲۸:۸۸)’’ہر شے ختم ہو جانے والی ہے، اُس ذاتِ لافانی کے سوا‘‘۔ وَ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ (اٰلِ عمران ۳:۱۴۰) ’’یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں، جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘۔
تیزی سے بدلتے اس جہاں میں خدشات و بلیّات کی کالی گھٹائیں بھی ہیں اور مواقع اور برکتوں کے روشن امکانات بھی۔ دنیا بدل نہ رہی ہو تو اسے بدلنا اور اپنے مطلب کی بدلنا بہت دشوار و محال ہے۔ مگر جب سب کچھ بدل رہا ہو، بار بار بدل رہا ہو، ہر نسل ایک جہانِ نو کا مشاہدہ کر رہی ہو تو ایسے میں دنیا کو اپنے خوابوں کے مطابق بنانا، اپنی امنگوں اور آرزوئوں کے سانچے میں ڈھالنا اور اپنے اصولوں کی بنیاد پر استوار کرنا اس سے کم دشوار و محال ہونا چاہیے۔ امکانات کے در کھلتے اور کام کے مواقع بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ اسی کے ساتھ جہانِ نو کے چیلنج اور تعمیرِ جہاں کے منہ زور تقاضے بھی سیلِ بلا کی طرح سر پر کھڑے ہیں۔ حکمت و تدبر، صبر و تحمل اور جرأت و حوصلے کے ساتھ قدم بڑھا کر ہم بدلتی دنیا پر اپنا نقش ثبت کر سکتے ہیں۔ پگھلتا لوہا دستیاب ہے، اپنے سانچے میں انڈیلنے اور مطلوبہ پراڈکٹ حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ زیادہ وقت، زیادہ صلاحیت، زیادہ یکسوئی، زیادہ اتحاد و اتفاق اور اسی کے ساتھ زیادہ اخلاص، زیادہ حسنِ اخلاق اور زیادہ تعلق باﷲ۔ یہ ہمارا زادِ راہ ہے۔
ہمارا ملک پاکستان بظاہر ایک جغرافیائی وجود ہے مگر اس کی اصل و بِناے حیات ’اسلام‘ ہے۔ اسلامی اقدار، اسلامی اخوت، اسلامی تصورِ حیات، اسلامی نظامِ حیاتِ اجتماعی اور اسلامی تہذیب و تمدن ہی سے ہمارے ملک کی بقا، استحکام، سرفرازی اور ترقی ممکن ہے۔ اسلام اور اسلامی اقدار کے خلاف جو کچھ کیا جارہا ہے، چاہے وہ کسی کے دبائو پر ہی کیوں نہ ہو، یہ دراصل ملک و ملت کی بنیادیں کھوکھلی کرنے اور شجرِ ملت کی جڑیں کھودنے کے مترادف ہے۔ ایسا کرنے والوں کو ہمیں سمجھانا ہوگا، اس کام سے روکنا ہو گا، ملت کو اس کے لیے بیدار اور متحرک کرنا ہو گا۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے موقف، نظریے، طریقِ کار اور جدوجہد پر ہمیں کامل یکسوئی حاصل ہو، اور اس پر پختہ اعتماد و یقین کے ساتھ ہمارے دل پوری طرح مطمئن ہوں۔
قُلْ اِنَّنِیْ ھَدٰنِیْ رَبِّیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ o دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًاط وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo لَا شَرِیْکَ لَہٗ ج وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo(الانعام ۶:۱۶۱-۱۶۳) اے نبیؐ! کہیے، میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں، ابراہیم ؑکا طریقہ جسے یکسو ہو کر اس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ کہیے، میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اﷲ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اِسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِ اطاعت جھکانے والا میں ہوں۔
آئیے! دنیا کے موجودہ نظریاتی، روحانی اور ایمانی خلا کو اپنے دین کے بخشے ہوئے ایمان و اخلاق سے پُر کر دیں۔ راہِ نجات کی متلاشی دنیا کو ربانی ہدایت کے چشمۂ صافی سے سیراب کردیں۔ استعمارِ عہدِ حاضر کے ہاتھوں برباد ہوتی انسانیت کو رحمت للعالمینؐ کے نسخۂ کیمیا سے شفایاب ہونے کی راہ دکھا دیں۔
جماعت اسلامی اپنی عمر کے تقریباً ۷ عشرے پورے کر چکی ہے۔ اس کا نظام، اجتماعی دانش اور باہمی مشاورت سے چلتا ہے۔ اس میں یک لخت کوئی تبدیلی لے آنا نہ تو ممکن ہے اور نہ مفید۔ لیکن وقت و حالات کے تقاضوں کو اپنے اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے پورا کرنا ضروری بھی ہے اور ہماری ذمہ داری بھی۔ میں کوشش کروں گا کہ اپنے بزرگ ساتھیوں، اپنے رفقاء کار اور اپنے بہی خواہوں کے مشوروں سے جماعت کا نظام چلائوں اور اہداف کے حصول کے لیے مناسب اِقدامات کروں۔ اس سلسلے میں ہم مرکزِ جماعت میں ایک شعبۂ تجاویز قائم کر رہے ہیں۔ جماعت کا کوئی بھی کارکن یا بہی خواہ اپنی تجاویز اور مشورے ہمیں ارسال کرے گا تو ہم اس شعبے میں انھیں باقاعدہ زیرِ غور لائیں گے اور جماعت کی اجتماعی بصیرت اور نظامِ مشاورت کے مطابق حتی الامکان مفید تجاویز پر عمل کی کوشش کریں گے۔ تاہم یاد رہے کہ تجاویز اور مشوروں میں سے بعض کو ہی اختیار کرنا ممکن ہوتا ہے۔
اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ امت اور تحریکِ اسلامی کے سامنے نت نئے ابھرتے چیلنجوں اور وقت و حالات کے سیلابِ بلاخیز کے مچلتے تقاضوں کا ہمیں پورا شعور دے۔ ان کا سامنا کرنے کے لیے پہاڑ سے زیادہ مضبوط ایمان دے۔ صبر و حکمت سے تبدیلیِ حالات کا رخ اپنے نقشے کے مطابق موڑنے کی قوت و طاقت دے۔ ہماری دعوت، موقف اور جدوجہد کی قبولیت کے لیے اپنے بندوں کے دل کھول دے۔ ہماری بے کسی و ناتوانی کو زور اور قوت میں بدل دے۔ ہماری خامیوں اور کوتاہیوں کو اپنی رحمت سے دور فرما دے۔ ہم سے راضی رہے اور ہمیں اپنے آپ سے راضی رکھے۔ دنیا میں بھی ہماری جدوجہد کے ثمرات و برکات دکھا کر ہماری آنکھیں ٹھنڈی کرے اور آخرت میں ہمیں نبیِ رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت و قربت کا اعزاز بخشے، آمین!
میرے لیے خصوصی دعا فرمائیے کہ اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ مجھے صحت و توانائی، علم و حکمت، ایمان و اخلاقِ حسنہ، قوتِ فیصلہ و نافذہ، تدبر و بصیرت، بہترین اعوان و انصار اور محبان و مشیران کی نعمتوں سے متمتع کرے تاکہ آپ کا یہ نیا امیر خود بھی سرخرو ہو اور پوری جماعت کی سرخروئی کا بھی سبب بنے۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (البقرہ ۲:۱۲۷)
وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ (البقرہ ۲:۱۲۸)
اندھیری رات ہو، جھکڑ.ّ چل رہے ہوں، راستہ ٹیڑھا میڑھا اور نا ہموار ہو، جھاڑ جھنکار کی وجہ سے سانپ بچھّو اور دیگر موذی جانوروں اور حشرات الارض کا ہر وقت کھٹکا لگا ہو، ایسے میں ایک شخص چلا جارہا ہو، اس کے ہاتھ میں ٹارچ ہو، لیکن اسے اس نے بجھا رکھا ہو، اس شخص کی بے وقوفی پر ہم میں سے ہر ایک کو افسوس ہوگا۔ وہ ٹارچ جلاکر اپنا راستہ دیکھ سکتا ہے، راہ کی ناہمواریوں میں گرنے پڑنے سے بچ سکتا ہے، موذی جانوروں سے اپنی حفاظت کرسکتا ہے، لیکن اس کی مت ماری گئی ہے کہ وہ ٹارچ جیسی مفید چیز اپنے پاس ہوتے ہوئے اس سے فائدہ نہیں اٹھارہا ہے، اسے بجھا رکھا ہے اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے۔
ایسے بے وقوف شخص پر ہم جتنا چاہیں ہنس لیں، لیکن حقیقت میں ٹھیک ایسا ہی رویّہ ہم مسلمانوں نے قرآن کے ساتھ اختیار کر رکھا ہے۔ ہم مصائب و مشکلات کا شکار ہیں۔ دشمن ہم پر شیر ہیں اور ہمیں نقصان پہنچانے کے لیے طرح طرح کی سازشیں کر رہے ہیں۔ ہمیں صحیح راہِ عمل سجھائی نہیں دے رہی ہے ۔ ایسی صورت حال میں قرآن کی شکل میں ہمارے پاس ایک روشنی موجود ہے جس سے ہم گھٹا ٹوپ تاریکیاں دور کرسکتے ہیں ، اپنی مشکلات و مسائل کا ازالہ کرسکتے ہیں ، اس کی رہ نمائی میں ترقی اور کامیابی کی منزلیں طے کرسکتے ہیں۔ لیکن ہم نے اسے گل کر رکھا ہے اور اس سے فائدہ نہیں اٹھارہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کو متعدد مقامات پر ’نور‘ کہا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے:
قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌ o یَّھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہٖ وَ یَھْدِیْھِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ o (المائدہ ۵:۱۵-۱۶) تمھارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں، سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہِ راست کی طرف ان کی رہ نمائی کرتا ہے۔
مسلمان قرآن کریم سے اپنی گہری عقیدت کا اظہار کرتے ہیں،اسے اپنی مقدّس مذہبی کتاب سمجھتے ہیں اور اس کی ادنیٰ سی توہین بھی برداشت نہیں کرتے۔ اگر کوئی شخص قرآن کے خلاف یا وہ گوئی کرتا ہے یا عملاً اس کی توہین کا مرتکب ہوتا ہے تو ان کا جوشِ انتقام دیدنی ہوتا ہے ۔ وہ اس پر بے چین ہوجاتے ہیں، اس کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتے ہیں اور اسے سزا دینے یا دلانے کی ہر ممکن جدو جہد کرتے ہیں اور اس سلسلے میں اپنی جانوں کی بھی پروا نہیں کرتے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا عملی رویّہ قرآن سے بے اعتنائی کا ہوتا ہے۔ قرآن کا ان کی اپنی ذات سے کیا تعلق ہے؟ وہ ان کی زندگیوں میں کیسی تبدیلی لانا چاہتا ہے؟ وہ کیسا انسان بنانا چاہتا ہے؟ ان سوالات پر وہ مطلق غور نہیں کرتے۔ ان کے اس تضاد کو ایک جملے میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ’’مسلمان قرآن پر مرنا جانتے ہیں، لیکن اس پر جینا نہیں جانتے‘‘۔
امت مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ شاہد ہے کہ جب اس نے قرآن کریم کو اپنا ہادی و راہ نما بنایا، اسے سینے سے لگائے رکھا، اس سے روشنی حاصل کرتی رہی، اس کے احکام و فرامین کو اپنی زندگی میں نافذ کیا اور ان پر عمل پیرا رہی، اس وقت تک اقوامِ عالم کی امامت و قیادت کی زمام اس کے ہاتھ میں رہی، کام یابی و کامرانی نے اس کے قدم چومے اور اس کی عظمت و رفعت مسلّم رہی۔ لیکن جب اس کا رشتہ کتاب اللہ سے کم زور ہوا، اس نے اسے پسِ پشت ڈال دیا اور قرآنی تعلیمات کی جگہ نفسانی خواہشات، ذاتی مفادات اور رسم و رواج نے لے لی تو اس کی ہوا اکھڑ گئی، اس کا شیرازہ منتشر ہوگیا، اس کا رعب و دبدبہ اور سطوت و ہیبت کافور ہوگئی، دوسری قومیں اس پر شیر ہوگئیں اور اس طرح ٹوٹ پڑیں جس طرح بھوکے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ذلّت و نکبت اور پس ماندگی و شکست خوردگی اس کا مقدّر بن گئی۔ امت مسلمہ کے عروج و زوال کی اس تاریخ پر رسولؐ اللہ کا یہ فرمان صادق آتا ہے:
اللہ اس کتاب کی وجہ سے کچھ قوموں کو بلندی عطا کرتا ہے اور کچھ قوموں کو پستی میں دھکیل دیتا ہے۔(مسلم)
اسی مفہوم کو شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے اس شعر میں ادا کیا ہے ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
مسلمانوں کی یہ حالتِ بد اللہ تعالیٰ کی سنّتِ جاریہ کے عین مطابق ہے۔ جو امت بھی اس کی کتاب کی قدر نہیں کرتی، اس کے کلام سے بے اعتنائی برتتی ہے اور اس کے احکام پر عمل نہیں کرتی، ذلّت اور پستی اس کا مقدّر بن جاتی ہے۔ وہ اللہ کی کتاب کو چھوڑ دیتی ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے بے یار و مددگار چھوڑدیتا ہے۔ یہود اور نصاریٰ کا انجامِ بد اس کی واضح مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اس نے ان کے پاس اپنی جو کتابیں بھیجی ہیں، اگرانھیں وہ مضبوطی سے تھامے رہے اور ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو اخروی نجات و فلاح کے ساتھ دنیا میں بھی کام یاب و بامراد اور سرخ رو رہیں گے:
وَلَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ (المائدۃ ۵:۶۶) اگر انھوں نے تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں، تو رزق ان کے لیے اوپر سے برستا اور نیچے سے اُبلتا۔
مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا، بلکہ اللہ کی آیات کا انکار کیا، ان سے روگردانی کی اور ان پر عمل نہیں کیا۔ اس کے نتیجے میں وہ اللہ کے غضب کا شکار ہوئے اور دنیا میں ذلیل و خوار ہوکر رہ گئے:
وَ ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ وَ بَآئُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ط ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ o (البقرہ ۲:۶۱)آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلّت و خواری اور پستی و بد حالی ان پر مسلّط ہوگئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے۔ یہ نتیجہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے، یہ نتیجہ تھا ان کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ وہ حدودِ شرع سے نکل نکل جاتے تھے۔
مسلمانوں کی زندگیوں میں قرآن سے دوری، بے اعتنائی او رغفلت کے مختلف مظاہر پائے جاتے ہیں۔ سطورِ ذیل میں ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے:
طاقوں میں سجایا جاتا ہوں ، آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں
تعویذ بنایا جاتا ہوں ، دھو دھوکے پلایا جاتا ہوں
جزداں حریر و ریشم کے اور پھول ستارے چاندی کے
پھر عطر کی بارش ہوتی ہے، خوشبو میں بسایا جاتا ہوں
جس طرح سے طوطا مینا کو، کچھ بول سکھائے جاتے ہیں
اس طرح پڑھایا جاتا ہوں، اس طرح سکھایا جاتا ہوں
جب قول و قسم لینے کے لیے، تکرار کی نوبت آتی ہے
پھر میری ضرورت پڑتی ہے ، ہاتھوں پہ اٹھایا جاتا ہوں
اس رویے پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بڑا لطیف طنز کیا ہے، فرماتے ہیں: ’’بتائیے، اگر کوئی شخص بیمار ہو اور علمِ طب کی کوئی کتاب لے کر پڑھنے بیٹھ جائے اور یہ خیال کرے کہ محض اس کتاب کو پڑھ لینے سے بیماری دور ہوجائے تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ کیا آپ نہ کہیں گے کہ بھیجو اسے پاگل خانے میں، اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ مگر شافیِ مطلق نے جو کتاب آپ کے امراض کا علاج کرنے کے لیے بھیجی ہے، اس کے ساتھ آپ کا یہی برتاؤ ہے۔ آپ اس کو پڑھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ بس اس کے پڑھ لینے ہی سے تمام امراض دُور ہوجائیں گے ، اس کی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں، نہ ان چیزوں سے پرہیز کی ضرورت ہے جن کو یہ مضر بتارہی ہے۔ پھر آپ خود اپنے اوپر بھی وہی حکم کیوں نہیں لگاتے جو اس شخص پر لگاتے ہیں جو بیماری دور کرنے کے لیے صرف علمِ طب کی کتاب پڑھ لینے کو کافی سمجھتا ہے‘‘۔(خطبات، ۲۰۰۶ء، ص ۴۱-۴۲)
قرآن نے انھیں اتحاد و اتفاق کے ساتھ رہنے اور انتشار و تفرقہ سے بچنے کی تاکید کی تھی،مگر آج باہمی اختلافات ان کی پہچان ہیں۔اس نے انھیں ایک دوسرے کا مذاق اڑانے،برے القاب سے پکارنے، بدگمانی رکھنے،ٹوہ میں لگنے اور غیبت کرنے سے روکا تھا،مگر آج مسلمانوں میں یہ تمام اخلاقی برائیاں در آئی ہیں۔اس نے انھیں ایک ماں باپ کی اولاد قرار دیتے ہوئے سماجی مساوات کا درس دیا تھا،مگر آج غیر قوموں کی طرح ان کا معاشرہ بھی ذات پات کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے اور کچھ لوگوں کو اشراف اور کچھ کو اراذل قرار دے دیا گیا ہے۔ قرآن نے سود کو حرام قرار دیا تھا، مگر آج ان کی معیشت سودی لعنت کا شکار ہے۔ اس طرح کے اور بھی کتنے قرآنی احکام ہیں جنھیں مسلمان جانتے بوجھتے پامال کر رہے ہیں۔
مولانا مودودی نے بہت موثر اسلوب میں اس رویے پر تنقید کی ہے۔ فرماتے ہیں: ’’آپ اس نوکر کے متعلق کیا کہیں گے جو آقا کی مقرر کی ہوئی ڈیوٹی پر جانے کے بجاے ہر وقت بس اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا رہے اور لاکھوں مرتبہ اس کا نام جپتا چلا جائے۔ آقا اس سے کہتا ہے کہ جا کر فلاں فلاں آدمیوں کے حق ادا کر، مگر یہ جاتا نہیں، بلکہ وہیں کھڑے کھڑے آقا کوجھک جھک کر دس سلام کرتا ہے اور پھر ہاتھ باندھ کرکھڑا ہو جاتا ہے۔آقا اسے حکم دیتا ہے کہ جا اور فلاں فلاں خرابیوں کو مٹا دے، مگر یہ ایک انچ وہاں سے نہیں ہٹتا اور سجدے پر سجدے کیے چلا جاتا ہے… اگرآپ کا کوئی ملازم یہ رویّہ اختیار کرے تو میں نہیں جانتا ہوں کہ آپ اسے کیا کہیں گے۔ مگر حیرت ہے آپ پر کہ خدا کا جو نوکر ایسا کرتا ہے آپ اسے بڑا عبادت گزار کہتے ہیں!یہ ظالم صبح سے شام تک خدا جانے کتنی مرتبہ قرآن شریف میں خدا کے احکام پڑھتا ہے، مگر ان احکام کوبجا لانے کے لیے اپنی جگہ سے جنبش تک نہیں کرتا،بلکہ نفل پر نفل پڑھے جاتا ہے،ہزار دانہ تسبیح پر خدا کا نام جپتا ہے اور خوش الحانی کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتا رہتا ہے۔آپ اس کی یہ حرکتیں دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیسا زاہد و عابد بندہ ہے‘‘۔(ایضاً، ص۱۱۸)
کچھ مسلمان ایسے بھی ہیں جو قرآن کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کے بجاے قرآن کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ آیاتِ قرآنی کی دور از کار تاویلیں کرتے ہیں۔ان سے ایسے ایسے معانی مستنبط کرتے ہیں جن سے قرآن کا دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ قرآن نے ہر طرح کا سود حرام قرار دیا ہے، مگر وہ کہتے ہیں کہ قرآن نے صرف مہاجنی سود کو حرام کیا ہے،بنک کے سود پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔قرآن نے عورتوں کے لیے پردے کے مخصوص احکام دیے ہیں، مگر وہ کہتے ہیں کہ قرآن میں پردے کے احکام عہد نبویؐ میں صرف ازواجِ مطہرات کے ساتھ خاص تھے،عام مسلمان عورتیں ان کی مخاطب نہ اس عہد میں تھیں، نہ اب ہیں۔
مسلمان جب تک اپنے رویّوں میں تبدیلی نہیں لائیں گے ان کے حالات نہیں بدل سکتے۔اللہ تعالیٰ کا قانون اٹل ہے۔اس کی سنت غیر مبدّل ہے۔ گذشتہ قوموں کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ جس قوم نے اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھاما،اسے اپنا دستورِ حیات بنایا وہ بامِ عروج پر پہنچی،اسے دنیاوی ترقی بھی حاصل ہوئی اور دوسری قوموں نے اس کی قیادت و سیادت تسلیم کی۔ اس کے برعکس جس قوم نے اللہ کی کتاب کو فراموش کیا، اس سے غفلت برتی، اسے پسِ پشت ڈالا اور اس پر عمل نہیں کیا، وہ دنیا میں ذلیل و خوار ہوئی اور پستی کے گڑھے میںجاگری۔اس سنّتِ الٰہی کا اطلاق مسلمانوں پر بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی روش کو بدلنے اور قرآن سے حقیقی تعلق قائم کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین!
وقت اور اس کی ترتیب و تنظیم ایک اہم علمی، سائنسی اور تکنیکی موضوع بن چکا ہے۔ اس موضوع پر سیمی نارز اور ورک شاپس منعقد کرائی جارہی ہیں اور کتابیں لکھی جارہی ہیں۔ وقت کی ترتیب وتنظیم کا شعور و ادراک مغربی دنیا میں مخصوص مادی مسائل کے باعث صرف نصف صدی سے زیادہ قدیم موضوع نہیں ہے۔ لیکن وقت کی اہمیت اور اس سے متعلق جملہ امور کے بارے میں قرآن کریم اور نبی کریمؐ نے ۱۴۰۰ سال پہلے دنیا کو آگاہ کردیاتھا۔ یہ ہماری بدنصیبی نہیں تواور کیا ہے کہ مغربی اور دیگر اقوام نے وقت کی اہمیت کا بروقت احساس کرکے دنیوی شعبوں میں ترقی کرلی اور ہم سے آگے نکل گئے مگر ہم وقت کی اہمیت کو فراموش کرکے ہر میدان میں پیچھے رہ گئے۔
سید مودودیؒ اپنی معرکہ آرا تفسیر تفہیم القرآن میں سورۃ العصر کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جو زمانہ اب گزر رہاہے وہ دراصل وقت ہے جو ایک ایک شخص اور ایک ایک قوم کو دنیا میں کام کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔ اس کی مثال اس وقت کی سی ہے جو امتحان گاہ میں طالب علم کو پرچے حل کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ یہ وقت جس تیزی کے ساتھ گزررہا ہے اس کا اندازہ تھوڑی دیر کے لیے اپنی گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کو حرکت کرتے ہوئے دیکھنے سے آپ کو ہوجائے گا، حالانکہ ایک سیکنڈ بھی وقت کی بہت تھوڑی مقدار ہے۔ اسی ایک سیکنڈ میں روشنی ایک لاکھ ۸۶ ہزار میل کا راستہ طے کرلیتی ہے اور خدا کی خدائی میں بہت سی چیزیںایسی بھی ہو سکتی ہیں جو اس سے بھی تیز رفتارہوں ’خواہ وہ ابھی ہمارے علم میںنہ آئی ہوں، تاہم اگر وقت کے گزرنے کی وہی رفتار سمجھ لی جائے جو گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کے چلنے سے ہم کو نظر آتی ہے اور اس بات پر غور کیا جائے تو ہم جو کچھ بھی اچھا یا برا فعل کرتے ہیں اور جن کاموں میں بھی ہم مشغول رہتے ہیں سب کچھ اسی محدود مدت عمر ہی میں وقوع پذیر ہوتا ہے جو دنیا میں ہم کو کام کرنے کے لیے دی گئی ہے تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا اصل سرمایہ تو یہی وقت ہے جو تیزی سے گزرا جارہاہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج ۶، ص ۴۵۰)
وقت کی اہمیت و افادیت کو حضوراکرمؐ نے متعدد مواقع پر مختلف انداز سے امت کی رہنمائی اور فلاح و کامرانی کے لیے بیان فرمایا ہے۔ حضرت عمرو بن میمونؓسے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ ’’پانچ حالتوں کو پانچ حالتوں کے آنے سے پہلے غنیمت جانو اور ان سے جو فائدہ اٹھانا چاہو وہ اٹھالو.....غنیمت جانو جوانی کو بڑھاپے کے آنے سے پہلے، تندرستی کو بیمار ہونے سے پہلے، خوشحالی اور فراخ دستی کو ناداری اور تنگدستی سے پہلے، فرحت اور فراغت کو مشغولیت سے پہلے، اور زندگی کو موت سے پہلے‘‘ (الترغیب و ترھیب)۔ اس حدیث مبارکہ میں جن حالتوں کو بیان کیا گیا ہے وہ ہمارے لیے وقت کے استعمال اور ترجیحات سے متعلق رہنمائی کا نمونہ ہیں۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں وقت کی چار بنیادی خصوصیات ہیں:
۱- اس کائنات میں ہر جان دار و بے جان مخلوق کا ایک وقت مقرر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا مقدر اور وقت مقرر کررکھا ہے اور یہ مقدر اللہ تعالیٰ کے پاس محفوظ ہے۔دنیا میں ہر انسان کے نہ صرف پیدا ہونے اور مرنے کا وقت مقرر ہے بلکہ اس کے ہر کام کا وقت مقرر ہے، حتیٰ کہ ہماری سانسیں بھی مقرر ہیں کہ کتنی سانسیں بندہ اس دنیا میں لے گا۔
۲- وقت گزرنے والی چیز ہے۔ وقت لمحہ بہ لمحہ گزر رہا ہے اور گزر جائے گا۔امام رازیؒ نے کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے کہ ’’وقت کی مثال ایک برف والے کی طرح ہے جو پکار پکارکر کہہ رہا ہے کہ دیکھومیرا زندگی کا سرمایہ گھلا جارہا ہے اور اگر یہ برف کارآمد نہیں ہوئی تو یہ رکھے رکھے گھل جائے گی اور ختم ہوجائے گی۔(تفہیم القرآن ،ج ۶، ص ۴۵۰)
۳- تیزی کے ساتھ گزرتا ہوا ہر سیکنڈ اور لمحہ جو گزر گیا وہ واپس نہیں آئے گا۔ اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ انسان جو پیسہ خرچ کرلے وہ دوبارہ کمایا جاسکتاہے لیکن وہ وقت جو گزر گیا واپس نہیں آسکتاہے ۔حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ’’ہر آنے والا دن جب شروع ہوتا ہے تو وہ پکار پکار کر کہتا ہے کہ اے انسان! میں ایک نوپیدا مخلوق ہوں، میں تیرے عمل پر شاہد ہوں، تو مجھ سے کچھ حاصل کرلے، میں تو اب قیامت تک لوٹ کر نہیں آئوں گا۔
۴- وقت کے ایک ایک لمحے کا حساب ہمیں اللہ تعالیٰ کو دینا ہوگا۔ حدیث میںآتا ہے کہ ’’ حشر کے میدان میں آدمی آگے نہ بڑھ پائے گا جب تک کہ پوری زندگی کا حساب نہ دے لے۔ پوچھا جائے گا کہ عمر کہاں گزاری، جوانی کیسے گزاری، مال کس طرح کمایا اور کہاں خرچ کیا اور جو علم حاصل کیا اس کو کس طرح استعمال کیا(الترغیب و ترھیب)۔ حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ’’ تباہ ہو گیا وہ شخص جس کا آج اس کے گزرے ہوئے کل سے بہتر نہ ہو‘‘۔ سرورکائناتؐ کا ایک اور فرمان ہے: ’’مومن کے لیے دو خوف ہیں: ایک اجل جو گزر چکا ہے معلوم نہیں خدا اس کا کیا کرے گا اور ایک اجل، جو ابھی باقی ہے معلوم نہیں اللہ تعالیٰ اس میں کیا فیصلہ صادر فرمائے؟ لہٰذا انسان کو لازم ہے کہ اپنی طاقت سے اپنے نفس کے لیے اور دنیا سے آخرت کے لیے ،جوانی سے بڑھاپے کے لیے اور زندگی سے قبل موت کے لیے کچھ نفع حاصل کرلے‘‘۔
اصل مسئلہ وقت کی کمی کا نہیں بلکہ ترجیحات کے تعین کا ہے۔اگر ہم طے کرلیں کہ کون سی چیز یا کام ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے، دوسری ترجیح کیا ہونی چاہیے، اور تیسری ترجیح کیا ہو، تو وقت کی کمی کا مسئلہ خودبخود حل ہوجائے گا۔حضوراکرمؐ کی پوری ۲۳ سالہ نبوی زندگی میں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ جس دن حضوؐر نے قرآن نہ پڑھا ہو اور دوسروں کو پڑھ کر نہ سنایا ہو۔یہ ان کی زندگی کی ترجیح تھی اوران کے صحابہ ؓ کی زندگی کی ترجیح تھی۔حضوراکرمؐ کے صحابہؓ اتنا قرآن پڑھتے تھے کہ حضوراکرمؐ نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ’’ کوئی تین دن سے کم میں قرآن ختم نہ کرے‘‘(حدیث)۔ اگر ہماری بھی ترجیحات وہی ہوں گی جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے مقرر کی ہیں تو ہمارے لیے وقت کی کمی کا کوئی مسئلہ نہ ہوگا۔حضوراکرمؐ اور صحابہؓ کے بعض خطبوں کا ابتدائی جملہ یہ ہوتا تھاکہ ’’ اے لوگو! تمھاری زندگی گزرتی چلی جارہی ہے۔ یہ اچانک کسی پل ختم ہوجائے گی، جو وقت گزر گیا وہ تو گزر گیا لیکن جو آنے والا ہے اس کی فکر کرو۔ اللہ سے ڈرو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اپنی جنت کے لیے کچھ مال جمع کرلو‘‘۔ حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ ’’بندہ کا صرف وہی ہے جو اس نے کھا لیا یاپہن لیا یا آگے بھیج دیا۔ جو اس نے خرچ نہیں کیا وہ سب وارثوں کا مال ہے‘‘۔(سنن کبریٰ، بیہقی)
ہمارے نزدیک وقت کی ترتیب و تنظیم کے دو بنیادی مقاصدہیں۔ پہلا تو یہ ہے کہ ہم اس بات کا اہتمام اور کوشش کریں کہ ہمارے وقت کا کوئی ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایمان والوں کی یہ خصوصیت بیان کی ہے کہ وہ اپنے وقت کو لغویات میں ضائع ہونے سے بچاتے ہیں(معارف القرآن، سورئہ مومنون)۔دوسرا مقصد یہ ہے کہ جو ۲۴ گھنٹے ہمیں روزانہ ملتے ہیں اس میں ہم کتنا زیادہ سے زیادہ وقت اپنے فرائض کی ادایگی اور اللہ تعالیٰ کے عائدکردہ حقوق کی ادایگی کے لیے نکالتے ہیں، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
وقت میں اضافے کے لیے اور وقت کی کمی کو دور کرنے کے لیے بہت سارے طریقے ہمیں اللہ کے رسولؐ کی احادیث میں ملتے ہیں،نیزجدید دور میں وقت کے ضیاع کے حوالے سے تحقیقات نے بھی ہماری رہنمائی کے کچھ نکات متعین کردیے ہیں۔ ان میں سے چند اہم اصول و نکات درج ہیں۔
حضوراکرمؐ کی بہت ساری احادیث ہیں جن میں آپؐ نے فرمایا کہ صبح سویرے اُٹھو گے تو اس کے نتیجے میں تمھارے رزق و مال میں برکت ہوگی، اور اگر صبح نہیں اُٹھو گے تو پریشان و رنجیدہ رہو گے۔ایک دن حضوراکرمؐ اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ کے پاس صبح کے وقت تشریف لے گئے۔ وہ آرام فرما رہی تھیں۔ حضوراکرمؐ نے ان کو جگاتے ہوئے فرمایا: ’’بیٹی! اُٹھو، اپنے رب کے رزق کی تقسیم کے وقت حاضر رہو اور غفلت کرنے والوں میں سے نہ بنو، کیونکہ اللہ تعالیٰ طلوعِ فجر اور طلوعِ شمس کے درمیان لوگوںکا رزق تقسیم کرتے ہیں‘‘۔
صبح جلدی اٹھنے اور فجر کے بعد نہ سونے کے نتیجے میں ہم کو دن میں کئی گھنٹے اضافی مل جاتے ہیں۔ یہ ہماری بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ صبح ۶ بجے سے ۸ بجے کے وقت کو جسے دنیا میں پرائم ٹائم کہا جاتاہے ہم سونے میں گزار دیتے ہیں۔امام ترمذیؒ نے حضوراکرمؐ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ ’’اے اللہ! میری امت کے لیے صبح کے اوقات میں برکت عطا فرما‘‘۔ایک مشہور چینی روایت ہے کہ ’’جو آدمی صبح جلدی اُٹھتا ہے اس کو دولت مند بننے سے کوئی نہیں روک سکتا‘‘۔
جدید تحقیق سے ثابت ہے کہ انسان رات کو ۹ بجے کے بعد جو کام ایک گھنٹے میں کرتا ہے صبح کے اوقات میں وہی کام صرف ۲۰ منٹ میں کرلیتا ہے۔اس دن اور رات میں ایک وقت ایسا بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پرائم ٹائم قرار دیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ’’ رات کے آخری پہر میں اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر آجاتے ہیں اور منادی کردیتے ہیں کہ مجھ سے مانگو میں تمھیں دوں گا، مجھ سے طلب کرو میں تمھاری ضرورت کو پورا کروں گا‘‘(بخاری)۔ پورے ۲۴ گھنٹوں میں اس سے زیادہ قیمتی وقت کوئی نہیں ہے اوروقت کی ترتیب و تنظیم اس بات کا ہی نام ہے کہ انسان اپنے پرائم ٹائم کو سب سے بہترین طریقے سے استعمال کرسکے۔دنیا میں کوئی لیڈر شپ ایسی نہ ہوگی جس کو کوئی بڑی کامیابی ملی ہو اور وہ سحر خیزی کی عادی نہ ہو۔اگر ہم صبح ۵ بجے اُٹھ جائیں تو جو کام دن میں ہم ۳گھنٹے میں کرتے ہیں وہ صبح میں ایک گھنٹے میں ہی کرلیں گے۔ہمیں محسوس ہوگا کہ ہمارا دن ختم ہی نہیں ہورہا ہے۔ اس سنت کو اپنائے بغیر اور اس عادت کو اختیار کیے بغیر ہمارے لیے نہ اُخروی کامیابی ممکن ہے اور نہ دنیاوی برتری ہی۔
ہرفرد کو چاہیے کہ اپنے معاش کے لیے ایک وقت مقرر کرے کہ مجھے اپنے اوقات کا کتنا حصہ معاش کے لیے صرف کرنا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ ہر آدمی کی روزی اور اس کا رزق مقرر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جتنا ہمارے مقدر میں لکھاہے اُتنا ہی ہمیں ملے گا، چاہے ہم ۸گھنٹے کام کریں یا ۱۶گھنٹے۔ حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ ’’روزی انسان کا پیچھا کرتی ہے‘‘(الترغیب و ترھیب)۔ ’’رزق میں کمی یا تاخیر سے پریشان نہ ہو اورروزی کو کمانے میں خوش اسلوبی سے کام لو‘‘۔ (ایضاً)
انسان کی جسمانی استطاعت کے بارے میں محققین کہتے ہیں کہ کوئی بھی آدمی جب اپنے معاش کے لیے آٹھ گھنٹے سے زیادہ صرف کرتاہے تو اس کا زائد صرف کردہ وقت کارآمدنہیں ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مغربی معاشروں میں ۸گھنٹوں سے زیادہ کی ملازمت نہیں ہوتی۔اور یہ کہا جاتاہے کہ آدمی انھی اوقات میں زیادہ سے زیادہ کام کرکے اپنے حصے کا کام پورا کرے۔ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے معاش کے لیے ایک وقت مقرر کریں جو ۸ گھنٹے سے زیادہ نہ ہو۔انھی گھنٹوں میں پوری قوت اور توانائی کے ساتھ کام کریں۔بہت سارے لوگوں نے تجربہ کرکے یہ سیکھا ہے کہ واقعی جو کام ہم ۱۲ اور ۱۴ گھنٹوں میں کررہے تھے وہی کام اب ہم آٹھ گھنٹوں میں کرسکتے ہیں۔اس کے نتیجے میں ہم اپنے اوقات میں کافی اضافہ کرسکتے ہیں۔
روزمرہ معاملات میں ہم بعض اوقات تکلف یا تعلق کی وجہ سے وعدہ کرلیتے ہیں اور وقت کی کمی کی وجہ سے اس وعدے کوپورا نہیں کرپاتے۔ اس کے نتیجے میں جن سے ہم وعدہ کرتے ہیں وہ بھی مشکل میں پڑ جاتے ہیں اور ہماری ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے ۔اس بات کا بھرپور اہتمام کرنا چاہیے کہ فرد کسی کو وقت دینے سے پہلے پوری طرح اطمینان کرلے کہ یہ ممکن بھی ہو گا یا نہیں۔ معذرت کرنا کوئی گناہ کا کام نہیں لیکن وقت دینے کے بعد نہ پہنچنا عہد کی خلاف ورزی ہے۔ مغربی دنیا میں کہا جاتا ہے کہ اگر آپ نے ’نہیں‘ کہنا سیکھ لیا ہے تو آپ نے گویا اپنا آدھا وقت بچا لیا۔
وقت کو ضائع کرنے والی چیزوں میں سب سے پہلا نمبر ٹیلی وژن کا ہے۔ ایک عام امریکی دن میں ۳ سے ۴ گھنٹے ٹی وی دیکھتا ہے، جب کہ پاکستان میںاوسطاً لوگ روزانہ دو سے ۳گھنٹے ٹیلی وژن کے سامنے گزارتے ہیں۔ ٹیلی وژن کے بعد اب دوسرا نمبر موبائل فون کا ہے۔ ہمیں یہ اندازہ کرنا چاہیے کہ روزانہ ہم کتنے گھنٹے ٹیلی فون پر صرف کرتے ہیں۔ اوسطاً ایک موبائل فون پر روزانہ ۲۰ کالز اور ۱۲ ایس ایم ایس موصول ہوتے ہیں۔اگر آپ اس وقت کو کنٹرول نہیں کرسکیں گے تو روزانہ ایک سے ۲گھنٹے فون کا اور ایس ایم ایس کا جواب دینے میں لگ جائیں گے۔اپنے ٹیلی فون پر گزرے ہوئے وقت کا اندازہ اور تعین کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کو اس حوالے سے ایک نظم میں لانے کی ضرورت ہے، اگر ہم ہر فون کال کا جواب اُسی وقت دینا چاہیں گے تو ہم نہ آرام کرسکتے ہیں نہ کوئی سنجیدہ کام اور نہ کوئی میٹنگ ہی پوری توجہ کے ساتھ کرسکتے ہیں، فون ہمارے وقت کو ضائع کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے جس کو کنٹرول کیے بغیر ہم اپنے وقت کو قابو نہیں کرسکیں گے۔اسی طرح ہماراجو وقت ٹیلی وژن کے سامنے ضائع ہوتا ہے، اس کو بھی کم سے کم کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے معاشرے میں دیے گئے وقت کی پابندی کا اہتمام نہ ہونے کے کلچر کی وجہ سے روزانہ کئی گھنٹے ضائع ہوجاتے ہیں۔بالعموم میٹنگز اور پروگرامات دیے گئے وقت سے ۲۵،۲۰منٹ بعد شروع ہوتے ہیں۔کچھ لوگ وقت پر آجاتے ہیں اور کچھ لوگ دیر سے آتے ہیں۔اس کے نتیجے میں جو وقت پرآجاتا ہے اس کا بھی وقت ضائع ہوتا ہے اور جس نے بلایا ہوتا ہے اس کا بھی۔ اگرہم اس کا تعین کریں تو روزانہ آدھا یا پوناگھنٹہ انتظارمیں ہی ضائع ہوجاتا ہے۔ اس انتظار کے وقت کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے اپنے دائروں میں انتہائی ممکنہ حد تک وقت کی پابندی کا اہتمام کریں اور کروائیں توسب کے وقت کو ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں۔
اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بہ یک وقت ہمارے سامنے کئی کام ہوتے ہیں۔ اور ہم انھیں ایک ساتھ کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں، اس کے نتیجے میں نہ صرف وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ وہ کام بھی اچھی طرح سے پورا نہیں ہوپاتا۔بہتر یہ ہے کہ اگر کئی کام ہمارے سامنے ہوں تو ہم اس کی ترجیحات طے کریں۔ ان میں سے جو سب سے زیادہ ضروری اور فوری ہو، اس کو مکمل کریں اور اس کے بعد دوسری ترجیح کا کام شروع کریں۔اس کے نتیجے میں نہ صرف ہم اپنے وقت کو بچانے میں کامیاب ہوں گے بلکہ ان کاموں کو بھی موثر طور پر بروقت مکمل کرسکیں گے۔
بعض اوقات ایک ہی وقت میں ہمارے سامنے کئی کام ہوتے ہیں۔ ہم ایک کام شروع کرتے ہیں لیکن اس کو پورا کیے بغیر دوسرا کام شروع کردیتے ہیں۔مثلاًدفتری زندگی میں روزانہ بہت سے خطوط اور نوٹس ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ہم ان کو پڑھتے ہیں اور پھر رکھ دیتے ہیں۔ ایک دو دن کے بعد انھیں پھر دوبارہ پڑھتے ہیں اوررکھ دیتے ہیں، اور پھر تیسری دفعہ اس پر کام شروع کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میںجو خط ہم ایک ہی دفعہ پڑھ کر کام کرسکتے تھے اس کو تین دفعہ پڑھنے کے بعد اس کام کو کرپاتے ہیں۔اسی طرح توجہ اور تجاویز کے ضمن میں بہت ساری چیزیں ہمیں موصول ہوتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان کے جواب دینے کے وقت کو کم سے کم کریں۔ اس کا طریقہ بھی یہی ہے کہ جو کام ہمیں خود کرنے ہیں ان کی ترجیح متعین کریں، اور جو کام دوسروں کے حوالے کرنے ہیں ان کو فوری طور پر دوسروں کے سپرد کردیں۔
روزمرہ کے کاموں میں بہت سے کام ہمارے پاس ایسے ہوتے ہیں جو اگر دوسروں کے سپرد کردیے جائیں تو کام بھی بہتر انداز میں ہوجائے گا اور وقت بھی بچے گا۔ اگر ہم سارے کام خود کرنے کی کوشش کریں گے، مثلاً رپورٹیں بھی خود بنائیں گے، اس کو خود ہی بھیجیں گے بھی، ہر چیز کا ریکارڈ بھی خود رکھیں گے اور جائزہ بھی خود لیںگے تو اس کے نتیجے میں نہ صرف ہمارے وقت کا ضیاع ہو گا بلکہ کام بھی بہتر طریقے سے نہیں ہو سکے گا۔اس کو Micro Management کہتے ہیں جو کہ وقت کے ضیاع کا ایک بڑا سبب ہے۔ اس کا علاج کام دوسروں کو تفویض یا سپرد کرنا ہے اور پھر اس کا جائزہ لیتے رہنا ہے تاکہ ہدف بروقت حاصل ہوسکے۔
مختصر گفتگو ایک فن ہے۔ حضوراکرمؐ کے جو خطبات تحریری صورت میں احادیث کی کتابوں میں ملتے ہیں ان سب کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ مختصر ہیں۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ڈیڑھ لاکھ صحابہؓ کے سامنے حضور اکرمؐ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس کو پڑھنے میں صرف ۷منٹ لگتے ہیں۔ اسی طرح صحابہؓ کے خطبے بھی مختصر ہوتے تھے۔حضوراکرمؐ کے خطبات کی ایک خصوصیت اختصار کے ساتھ ساتھ تکرار بھی تھی۔ حضور اکرمؐ ایک ہی بات کو دو تین دفعہ بیان کرتے تھے تاکہ بات ذہن نشین ہوجائے۔ جدید سائنسی تحقیق سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی فرد ایک گھنٹے کی تقریر توجہ سے سنے تو اس کا صرف ۱۰ فی صد اگلے دن تک یاد رکھ سکتا ہے۔ مختصر گفتگو میں یہ تناسب بڑ ھ کر ۲۵فی صد تک ہوجاتا ہے۔ ہم جتنی طویل گفتگو یا خطاب کریں گے، اس کا استحضار اتنا ہی کم ہوگا۔
اپنی بات کو مختصر کرنے کی عادت ڈالیں اور اس کی تیاری کریں۔ مشہور برطانوی سیاست دان چرچل کا کہنا ہے کہ اگر مجھے تین گھنٹے تقریر کرنی ہو تو میں تیاری نہیں کرتا بس بولتا چلا جاتا ہوں، اور اگر ۱۵منٹ تقریر کرنی ہو تو ۳گھنٹے اس کی تیاری کرتا ہوں۔یہ ایک صلاحیت ہے جس کو ہمیں اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے کہ بات مختصر اور نکات کی صورت میں کی جائے۔ اس سے اپنا بھی اور دوسروں کا بھی وقت بچتا ہے۔ اگر کسی میٹنگ میں ۱۰، ۱۵ لوگ ہوں اور سب ۱۰سے ۱۵منٹ گفتگو کریں تو ۱۵۰منٹ ہوجاتے ہیں۔ اگر ہر آدمی اپنی بات ۳منٹ میں مکمل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو ۴۵منٹ میں بات مکمل ہوجائے گی۔ دعوتی کام کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ بات جامع اور مختصر ہو اور تکرار کے ساتھ ہو تاکہ بات ذہن نشین ہوجائے۔ گفتگو کرنے سے پہلے ایک لمحے کے لیے اس بات کا تصور ضرور کریں کہ جو الفاظ بھی ہم بولیں گے اس کا پورا پورا حساب ہمیں اللہ تعالیٰ کے ہاں دینا ہوگا۔
احادیث سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ حضوراکرمؐ نبوت و رسالت اور اسلامی ریاست کے سربراہ ہونے کی گراں بہا ذمہ داریوں کے باوجود بھی اپنے گھر والوں کے لیے اور تفریح کے لیے وقت نکالتے تھے۔دین کے کام کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہ کھا سکے، گھر کے کام کاج میں ہاتھ نہ بٹا سکے یا تفریح نہ کرسکے۔ احادیث میں آتا ہے کہ حضوراکرمؐ اپنی ساری بیویوں کو جمع کرکے ایک ساتھ کھانا کھاتے تھے ، گفتگو کرتے تھے، ہنسی مذاق کرتے تھے،گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے تھے اور اپنے نواسوں کو جمع کرکے ان کے درمیان کشتی کرواتے تھے۔ یہ ساری چیزیں ہماری زندگی کا بھی حصہ ہونا چاہییں۔ ہمیں اپنی ترجیحات میں اس بات کو بھی شامل کرنا چاہیے کہ ہمارا گھر بھی ہماری دعوت کا مرکز ہو۔گھروالوں کی تربیت اور خوشی و تفریح ان کا حق ہے۔ ہمارے والدین اگر زندہ ہیں توان کی خدمت کرکے جنت کما لینا ہماری ترجیحات کی فہرست میں لازماً شامل ہونا چاہیے۔
روزمرہ کی زندگی میں بہت سارے اوقات ایسے آتے ہیں کہ جب ہم فارغ بیٹھے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ہم سفر میں ہوتے یا انتظار کررہے ہوتے ہیں یا کچھ بھی نہیں کررہے ہوتے۔ ان اوقات میں ہمیں اس بات کی عادت اپنا لینی چاہیے کہ جب بھی ہم فارغ ہوں تو اپنی زبان کو اللہ کے ذکر سے تر رکھیں۔حضوراکرمؐ نے بہت سارے کلمات بتائے ہیں جو زبان پر بہت ہلکے اور اجر میں بہت بھاری ہیں۔ ان کلمات کو باربار دہراتے رہیں۔ کثرت سے استغفار کریں۔ ایک ایک لمحہ جو ہمارے پاس ہے وہ اللہ کے ذکر میں اور استغفار میں صرف ہو تو یہ وقت کا بہترین استعمال ہے۔ ہمارے وقت کا کوئی لمحہ فارغ ہونے کی وجہ سے ضائع نہ ہو۔ حدیث سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ مومن کا ہر لمحہ کارآمد ہوتا ہے۔ جب اس پر کوئی مشکل پڑتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے، جب خوش ہوتا ہے تو شکر ادا کرتاہے اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے۔
ایک ذمہ دار کی حیثیت سے ہمیں اس بات کا بھرپور اہتمام کرنا چاہیے کہ نہ تو ہمارے وقت کا کوئی حصہ ضائع ہو اور نہ ہماری ٹیم میں سے ہی کسی کا وقت ضائع ہو۔جب ہم دوسروں کے وقت کی قدروقیمت کا احسا س کریںگے تو اللہ تعالیٰ ہمارے وقت میں برکت ڈال دے گا۔ اگرہم دوسروں کے وقت کی قدروقیمت کا احساس نہیں کریں گے اور ہماری وجہ سے دوسروں کا وقت ضائع ہوتارہے گا تو اللہ تعالیٰ ہمارے وقت کی قدروقیمت بھی کم کردے گا۔
وقت میں برکت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، جس طرح ہم اپنے مال ،کاروبار ، رزق اور اولاد میں برکت کی دعا کرتے ہیں اسی طرح اپنے وقت میں برکت کے لیے بھی دعا کریں۔ اگر ہمیں وقت میں برکت حاصل ہوگئی تو زندگی بڑی آسان ہو جائے گی۔ جن لوگوں کو اللہ کی یہ نعمت حاصل ہوتی ہے ان کے پاس وقت کی کمی کا شکوہ نہیں ہوتا بلکہ ان پر یہ احساس غالب رہتا ہے کہ میرے پاس وقت ہے اور جو کام بھی میرے سپرد ہوگا میں اُسے کرنے میں کامیاب ہوجائوں گا۔وقت میں یہ برکت اللہ تعالیٰ کا خاص انعام اور اس کی رحمت ہے جو ان لوگوں پر نازل ہوتی ہے جو اس سے برکت طلب کرتے ہیں۔حضرت عمر فاروقؓ دعا فرماتے تھے: ’’یااللہ! زندگی کے اوقات میں برکت دے اور انھیں صحیح مصرف پر لگانے کی توفیق عطا فرما‘‘۔
وقت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ایک غیر معمولی امانت ہے۔ اس کے ایک ایک لمحے کی قدروقیمت کے احساس کے ساتھ اللہ کی بندگی کے لیے ، جہنم سے بچنے اور جنت کے حصول کے لیے اس کا استعمال ہونا چاہیے۔کامیاب وہی ہے جو اس احساس کے ساتھ زندگی گزارے کہ اسے زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب اللہ تعالیٰ کو دینا ہوگا، یقینا وہ اپنے وقت کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی مقرر کردہ ترجیحات کے مطابق گزارنے کااہتمام کرے گا۔
اُمت ِمسلمہ کو درپیش صورتِ حال کے حوالے سے موجودہ اور گذشتہ صدی میں ہمارے ہاں ہونے والے بیش تر فکری کام میں توجہ اس بات پر مرتکز رہی ہے کہ مغرب اور اس کے مشرقی حواری کس حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں اور ہم کس طرح اس کے منفی اثرات سے بچ سکتے ہیں۔اس وقت اس فکری عمل کے معیار یا افادیت سے بحث نہیں بلکہ اس حقیقت کا اظہار مقصود ہے کہ محض ردعمل میںکیے جانے والے اقدامات شاذونادر ہی مشکل سے نکلنے میں مدد دیتے ہیں۔ کسی مشکل کا شکار ہونے والا آگے بڑھ کراس صور ت حال سے خلاصی کی راہ خود سے نہ نکال پائے اور محض حملہ آور کے وار سے بچنے کے لیے کوشش کرتا رہے تو بالآخر اس کا مقدر مقابل کے منصوبے کے مطابق اس کا شکار ہی بننا ہوتا ہے۔لہٰذا جس طرزِ فکر کا انتخاب ہم نے کیا ہے اس کے لازمی نتیجے کے طور پر ہم نہ چاہتے ہوئے اوربزعمِ خود تمام تر کوشش کے باوجود بھی مادی و فکری میدانوں میں مغرب کے متعین کردہ راستوں پر چل رہے ہیں۔ ہم مغربی مفکرین کی پختہ اور خام،ہر طرح کی، خیال آرائیوں کے جوابات دینے اور اپنی دانست میں غلط فہمیاں دور کرنے میں مصروف ہیں۔اگر چہ یہ مشق بھی افادیت سے خالی نہیں ہے، تاہم اس کا یہی نقصان کیا کم ہے کہ ہماری تمام فکری قوت الزامات کا جواب دینے اور وضاحتیں پیش کرنے میں صرف ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں ہم اپنے مسائل کا خود سے مطالعہ و تجزیہ کرنے اور اپنے حالات اور نظریات کی روشنی میں ان کا حل نکالنے سے محروم ہیں۔
اگر بلا کم و کاست موجودہ مسائل کا حل ایک جملے میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ ہمیں خود اپنے ذہن سے سوچنا ہو گا۔ اپنے مسائل کا خود سے تجزیہ کر کے خود ان کا حل تجویز کرنا ہوگا۔ یقینا اس عمل میں بیرونی دنیا کی آرا اور ان کی جمع کردہ معلومات معاون تو ہوں گی مگر انھیں بطور ’ایک وسیلہ‘ استعمال کیا جائے نہ کہ بطور ’واحد وسیلہ‘۔ ہمیں اپنے سوچ کے انداز اور رویوں میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔اس راہ میں پہلے قدم کے طور پرمعاشرے کے تمام افراد کے لیے، یا کم از کم ان افراد کے لیے جو عدم توازن، نا انصافی اور دوہرے معیارات پر مبنی دنیا میں مثبت تبدیلی کے خواہش مند ہیں۔ اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ زندگی کسی فرد کی ہو، قوم کی یا کسی نظریے کی ، جدوجہد ،کش مکش اور سعیِ مسلسل سے عبارت ہے۔ افراد کی طرح معا شرے بھی اپنا تشخص اور وجود صرف اسی صورت برقرار رکھ سکتے اور پروان چڑھا سکتے ہیں جب افراد ِمعاشرہ میں مجموعی طور پر بھی عمل اور پیہم عمل کا دا عیہ موجود رہے۔بے عملی، جمود اور سہل پسندی نہ تو اس کا ئنات کا مزاج ہے اور نہ اس کا ئنات میں ہی قابلِ ــقبول ہے___ بقولِ اقبال ؎
جُنبش سے ہے زندگی جہاں کی
یہ رسم قدیم ہے یہاں کی
ہے دوڑتا اشہبِ زمانہ
کھا کھا کے طلب کا تازیانہ
اس راہ میں مقام بے محل ہے
پوشیدہ قرار میں اجل ہے
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھیرے ذرا ، کچل گئے ہیں
یہ محض ایک فلسفیانہ تعبیر نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ زندگی کی کوئی بھی سرگرمی اس وقت تک جاری نہیں رہ سکتی جب تک اس کے لیے کوئی محرک موجود نہ ہو۔ قوموں کی زندگی کو آگے بڑھنے اور مسلسل آگے بڑھتے رہنے کے لیے طلب کے جس تازیانے کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہماری نظر میں چارعنوانا ت سے عبارت ہے :ہم مقصدیت، عصبیت، جذبۂ مسابقت اور جدت و حکمت۔
انسانوں کا کوئی گروہ صرف اسی وقت قوم کہلانے کا حق دار بنتا ہے جب ان میں کچھ ثقافتی اور سماجی اقدار مشترک ہوں۔قوم کی تشکیل علاقے، زبان یا فلسفے کی بنیاد پر ہو سکتی ہے لیکن یہ عین ممکن ہے کہ قوم کے افراد کے درمیان موجود مشترکات ان کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی نسبت کہیں کم ہوں۔ایسے میں اس بات کا امکان بھی موجود رہتا ہے کہ ایک قوم کے اندر کوئی نیا تشخص پروان چڑھنے لگے اور ایک نئی قوم وجود میں آجائے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ افرادِ معاشرہ میں پائے جانے والے اختلافات زیادہ نمایاں حیثیت حاصل کر لیں اور قوم کی مشترکہ شناخت معدوم ہو کر رہ جائے۔ قومیں اور قومیتیں اسی طرح پیدا بھی ہوتی ہیں، مٹتی بھی ہیں اور مضبوط تر قوموں اور نظریات کے سامنے سپر ڈال کر ان میں ضم بھی ہو جاتی ہیں۔ماضی کی کتنی ہی اقوام ہیں جن کی داستان تک آج سننے کو نہیں ملتی۔یہ اس وقت ہوتا ہے جب غیر ارادی طور پر کسی قوم کا حصہ بن جانے والے افراد کسی مشترک مقصد سے عاری ہوں، یا جب معاشرے کے ہرفرد کا کوئی قلیل وقتی یا بعض اوقات طویل مدتی مقصد تو ہو لیکن بحیثیت قوم ان کے سامنے کوئی واضح مقصد نہ ہو۔ درحقیقت کسی بلند تر مشترک مقصد کا نہ ہونا ہی کسی معاشرے میں حرص و ہوس، مفادپرستی، تنگ نظری اور کم ظرفی جیسے رذائل کا سبب بن کر معاشرے میںانتشار اور افتراق کی راہ کھولتا ہے ۔
اُمت ِ مسلمہ اس حوالے سے اپنی قسمت پر ناز کر سکتی ہے کہ اسے ایک ایسا بلند تر اور ارفع مشترک مقصد ربّ ِکائنات کی طرف سے عطا کر دیا گیا ہے جو اپنی آفاقیت اور ابدیت کی وجہ سے زمان و مکان کے تمام بندھنوں سے آزاد ہے۔ شاید اسلام کے عطا کردہ اس مقصد کو سیدنا ربعی بن عامرؓ سے زیادہ بہتر انداز میں کسی نے بیان نہیں کیا جنھوں نے اُمت ِ مسلمہ کا مقصد بعثت ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ ہماری آمد کا مقصد اللہ کی مشیت کے تحت اللہ کے بندوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب کی غلامی میں دینا، انھیں دنیا کی تنگنائیوں سے نکال کر آخرت کی وسعتوں میں اور ادیانِ باطلہ کے ظلم سے نکال کر اسلام کے نظامِ عدل کے سائے میں لانا ہے۔ یہ جملہ اپنے اندر بے پناہ وسعت اور معنویت رکھتا ہے ۔کوئی ایسا فرد اس کی حکمت سے واقف نہیں ہوسکتا جو دین کے پورے پیغام اور اس کی روح سے آگاہ نہ ہو۔دراصل یہ مقصد اسلامی معاشرے کی بنیاد بھی ہے اوراس دنیا میں اس کا ہدف بھی۔یہی تحریک اسلامی کا مقصد اور بنیادی دعوت بھی ہے۔اسی کے لیے ہر فرد کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر کوشش کرنی ہے اور اسی کے ذریعے سے اپنے لیے ابدی فلاح کا سامان کرنا ہے۔ آج اسی فکر کو اپنانے، اجاگر کرنے اور فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
عصبیت اور تعصب کے الفا ظ سے فوری طور پر ذہن میں ایک منفی تأ ثر ابھرتا ہے مگر یہا ں ہماری مراد ایک ایسا جذبہ ہے جو کسی مشترکہ عنصر یا جذبے کی وجہ سے کسی معا شرے کے افراد کو باہم پیوست رکھتا ہے۔ گو یا یہ ایک طرح کی قوتِ محرکہ (cohesive force)ہے جو نہ صرف افراداور گروہوں کو قوم اور معا شرے کی شکل دیتی ہے بلکہ ان میں آگے بڑ ھنے کا ولولہ اور شوق بھی پیدا کر تی ہے۔ اسی وجہ سے ابن خلدون عصبیت کو کسی معا شرے کی تشکیل اور تعمیر کا بنیادی عنصر قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ـ’’ـ َ عصبیت ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے حمایت ، دفاع اور حق طلبی کا جذبہ پیدا ہو تا ہے۔غرضیکہ قوت کا بلکہ ہر بات کا مدار اسی پر ہے‘‘۔ اسی جذبے کو آج جذبۂ حب الوطنی اور قومی حمیت کا نا م دیا جاتا ہے اور اسی کی بنا پر افراد معاشرہ اپنے مشترکہ تشخص اور مشترکہ اہداف کا تعین کرتے ہیں۔ اگر اپنی قوم یا گروہ کے لیے یہ محبت اور اسے پروان چڑھانے کے لیے جدوجہد کا جذبہ ما ند پڑ جائے، یعنی عصبیت عوارض کا شکار ہو جا ئے تو قومیں اپنے اہداف کھو بیٹھتی ہیں اور کسی دوسری عصبیت کی حامل قو میں اسے روندتی اور کچلتی ہوئی گزر جا تی ہیں۔
یہی حال اس نظریے اور تہذیب کا ہوتا ہے جس کے پیرو کار وں میں خود اس نظریے اور اس کی بنیاد پر تشکیل پا نے والی تہذیب کے لیے عصبیت برقرار نہ رہے۔ اپنے نظریے ، اپنی سوچ اورا پنی قوم کو بالادست یا کم از کم باوقار رکھنے کا داعیہ اگرکسی اندرونی یا بیرونی عامل کے نتیجے میں کمزور پڑ جا ئے تو ابتد ا ً اطا عت وزیر دستی اور بالا ٓخر غلامی اس قوم کا مقدر بن جاتی ہے۔ اس جذبے کو اجتما عی جذبۂ ِخودی بھی کہا جا سکتا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ کسی بھی معاشرے میں صرف ایک عصبیت ہی مو جود نہیں ہوتی بلکہ بہ یک وقت افرادِمعاشرہ کی وابستگی متعدد قسم کی عصبیتوں سے ہوتی ہے۔ ایک ہی فرد بہ یک وقت علاقائی ، نسلی ، نظریاتی ، لسانی اور دیگر عصبیتوں سے منسلک ہو تاہے۔تا ہم ایک ایسی عصبیت ضرور تمام افرادِ معاشرہ میں مشترک ہوتی ہے جو مختلف عصبیتوں پر بالا دست اور ان سب سے زیادہ طاقت ور ہوتی ہے۔یہی بالا دست عصبیت اس قوم کی شنا خت اوراس کے تفا خر کا با عث بنتی ہے۔ اسلام خاندان ، علاقے اورزبان وغیرہ کی عصبیتوںکی موجودگی کو تسلیم کر تا ہے اور اسے فطرت کا حصہ قرار دیتاہے مگر مطالبہ کر تا ہے کہ ان میں سے ہر ایک عصبیت اسلام کی خا طر مطلوب عصبیت و حمیت کے تا بع ہو، اور اگر کوئی دیگر عصبیت اسلام کے ساتھ وابستگی اور اس کی خاطر درکار حمیت و غیرت سے بڑھ جائے تو ایسی عصبیت، عصبیتِ جاہلیہ کہلائے گی ۔ گذشتہ صدی میں وطنیت یا حب الو طنی کو مشترکہ بالادست عـصبیت کی حیثیت حا صل رہی۔ آج یورپ تو جغرافیائی سرحدوں سے ماورا مشترکہ مقاصد اور مشترک نظریے کی بنیاد پر نئی شناخت اپنا رہا ہے، جب کہ مسلمانوں میں من و تو کی تقسیم گہری ہوتی نظر آتی ہے۔ کیا اپنی سوچ کا رُخ بدلنے کے لیے یہ صورتِ حال ہمارے لیے کافی نہیں۔
دورِ حاضر میں میڈیا کی قوت کے استعمال، تعلیمی نصاب اور تعلیمی نظام اور سماجی نظم (social order)میں تبدیلی کے بل بوتے پر مسلم اقوام کو اسلام اور اس کی عطا کردہ فکر، اقدار اور طرزِ معاشرت سے دورکیا جا رہا ہے،بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ مسلمانوں نے اپنے اذہان اور صلاحیتیں مغرب کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھی ہیں، تو زیادہ درست ہو گا ۔بقول اقبال ؎
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تُو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے ، یورپ سے نہیں ہے
افرادِ معاشرہ کی عام حالت یہ ہے کہ وہ اپنے مذہب، اپنی شناخت، اپنی زبان، اپنی اقدار، رسوم ورواج پر شرمندہ نظر آتے ہیںاور ہمہ وقت مغربی اقدار کی اندھی پیروی سے اس خفت کو مٹانے میں مصروف ہیں۔ رہن سہن اور بول چال میںمغرب کی تقلید ترقی کی نشانی اور مذہب یا اپنی روایات کا حوالہ دقیانوسیت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔اس وقت امت کے ہر دانا و بینا فرد کا فرض ہے کہ وہ اپنے مذہب ، اپنی روایات اور اپنی اقدار کو سمجھنے، ان کو پروان چڑھانے اوران کے لیے جذبۂ حمیت پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ اگر یہ جذبہ معدوم ہو گیا تو رہی سہی شناخت اور مزاحمت بھی دم توڑ دے گی اور معاشرہ کلیتاً مغرب کے رنگ میں رنگ جانے کو اپنی خوش بختی سمجھے گا۔
اس حوالے سے یہ بات مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ اپنے مذہب، وطن اور اقدار کے لیے عصبیت کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ دیگر اقوام، مذاہب اور نظریات کے خلاف جذبات کو ابھارا جائے۔ ایک مسلمان کا ظرف کشادہ اورسوچ آفاقی ہونی چاہیے، اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ دنیا میں موجود ہر تہذیب اور اس تہذیب کے پیرو اس دنیا کا حصہ ہیں۔ جس طرح یہ بات ضروری ہے کہ بہترین بات ان کے سامنے پیش کی جائے، اسی طرح اس بات سے اختلاف کو بھی ان کا حق تسلیم کیا جائے ۔طائف کی گھاٹی میں پیش آنے والا واقعہ اور اس موقع پر نبی رحمتؐ کا اسوہ یہ سبق دیتا ہے کہ جو آج حق سے اعراض کر رہا ہے کل وہی حق کا علَم بردار بھی بن سکتا ہے۔
یہ ذکر ہو چکا ہے کہ قومیں اسی صورت میں برقرار رہ سکتی اور ترقی کر سکتی ہیں جب ان میں آگے بڑھنے اور مسلسل آگے بڑھتے رہنے کا دا عیہ موجود ہو۔اگرا فرادِقوم کسی بھی سنگِ میل کو منزل سمجھ کر قبول کر لیں گے تو قوم کا انجام محض ہلاکت ہو گا۔ مسلسل سفر اور تر قی کے اس جذبے کو اس وقت ہی برقرار رکھا جا سکتا ہے جب افراد کو بہ حیثیت ِقوم کسی سے مقابلہ درپیش ہو۔ اگر کوئی فرد یا معاشرہ یہ تصور کر لے کہ اس کا کوئی مدمقابل یا حریف نہیں اور اسے کسی سے مقابلہ درپیش نہیں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ آگے بڑھنے کی جدوجہد تو درکنار عمومی زندگی کی ضروریات کی تکمیل کے لیے درکار کوشش بھی ایک بوجھ بن جائے گی، اور قوم کا ہر فرد انفرادی و اجتماعی زندگی میں اپنے فرائض و واجبات سے بھی پہلو تہی اور صرف ِ نظر کرنے لگے گا۔تعیش اور تساہل پسندی اس میں سرایت کر جائے گی اور رفتہ رفتہ اُسے زندگی کی دوڑ سے نکال باہر کر دے گی۔
درحقیقت مسابقت کایہ جذبہ بھی عصبیت کی ہی پیداوار ہے۔ہر قوم اپنے نظریے ، اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت کو بلند تر اور بالا دست دیکھنا چا ہتی ہے اور یہی خواہش اسے مجبور کر تی ہے کہ وہ مختلف تہذیب، ثقافت اور نظریے کی حامل دیگر اقوام کو اپنا مقابل قراردے کر زندگی کے ہر میدان میں ان سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔یہ جدوجہد اور کاوش اس قوم کی ترقی کا سبب بنتی ہے۔اسی کوشش کے نتیجے میں قومیں بدلتے ہوئے حالات اور بڑھتی ہوئی ضروریات کے مطابق اپنی روایات، طرزِ فکر اور طرزِ زندگی میں تبدیلی بھی لاتی ہیں مگر اس میںاِس احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کہ یہ تبدیلی خود ان کی تجویز کردہ یا اخذ شدہ ہو، کسی دوسرے کی مسلط کردہ نہ ہو۔
مسابقت کا یہی جذبہ بعض اوقات مقاومت یا تصادم کی شکل اختیار کر لیتاہے۔ برتری کی خواہش ،تسلط اور اختیار کی ہوس میں تبدیل ہو جا تی ہے اور جاہلانہ تعصب قومی و اجتماعی زندگی کے تمام مثبت پہلوؤں پر حاوی ہو جاتا ہے۔انسانی معاشروں میں موجود فطری اختلاف اس قدر نا قابلِ برداشت بن جاتا ہے کہ مفاہمت اور مکالمے کے تمام راستے مسدود کر کے جابرانہ قوت کا استعمال واحد راستے کے طور پر اپنا لیا جاتا ہے۔ آج کی دنیا کو بھی یہی معمہ درپیش ہے۔اس وقت کی بالادست قوت اس بات کو تسلیم کرنے سے یکسر منکر ہے کہ دنیا مختلف قوموں کی آماجگاہ ہے اور ان میں سے ہرایک کے لیے خود اس کا نظریہ، اس کی اپنی تہذیب اور ثقافت اہم تر ہے۔ دنیا کی تمام اقوام کو ان کے تمام تر تنوع کے باوجود ایک گلوبل ورلڈ آرڈر کے جال میں جکڑ لینے کی ہوس نے بحروبر میں فساد برپا کر رکھا ہے۔ اگرچہ طاقت کے استعمال اورقوموں کے درمیان باہمی تصادم کے امکانات کو ختم نہیں کیا جاسکتا مگر فکرونظر کی پختگی اور متانت کی حامل تمام اقوام نے افہام و تفہیم اور پرامن بقاے باہمی کے تمام راستے بند ہو جانے کے بعدہی اس تباہ کن آپشن کو اپنایا ہے۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ دنیا میں موجود مختلف نظریات، مختلف مکاتبِ فکر اور مختلف نقطۂ ہاے نظر، ایک دوسرے سے مختلف ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے مقابل بھی ہیں۔ ان کے درمیان توافق کی بے شمار صورتیں ممکن ہیں مگر ان کے درمیان خود کو دوسرے سے زیادہ مفید اور مؤثروممتاز ثابت کرنے کی جدوجہد بھی ہر لمحہ برپا ہے۔اولاً تو ہر فرد کو کھلے دل سے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ دنیا میں مختلف تہذیبیں اور ثقافتیں موجود ہیں اور ان میں ہر ثقافت اور ہر تہذیب اپنی جدا گانہ خصوصیات اور منفرد مقام رکھتی ہے۔یہی اعترافِ حقیقت دلوں میں وسعت اورسوچ میں کشادگی پیدا کر سکتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی تسلیم کی جانی چاہیے کہ ہر ثقافت سے وابستہ افراد اس کی ترویج کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور اس فطری جذبے کو دبایا نہیں جا سکتا۔
تہذیبوں اورتہذیب کی بنیاد پر قائم معاشروں کے درمیان تصادم کی صورت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی ایک معاشرہ اپنی تہذیبی اقدار و روایات کو کسی دوسرے معاشرے پر ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے۔دورِ حاضر میںپوری دنیا کے اندر موجودمعاشروں میں ان کے تاریخی، جغرافیائی اور نظریاتی پس منظر سے قطع نظر اور ان کے حالات و تجربات کے اختلاف کے باوجو د زندگی کے تمام شعبوں میں یکساں نظام رائج کرنے کی کوشش نے پوری دنیا کو ایک میدانِ جنگ بنا دیا ہے۔ چونکہ ہرمعاشرے کے افراد اپنی تہذیب و ثقافت سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں اس لیے وہ اس ’ثقافتی دہشت گردی‘ کی مزاحمت کررہے ہیں ۔ اپنے نظریے اور ثقافت سے کسی قوم کی وابستگی جس قدر مضبوط اورگہری ہے، اس کی مزاحمت میں بھی اسی قدر شدت ہے ۔اگر اس مزاحمت کو دشمنی سے تعبیر کیا جائے تو اسے جہالت اور تنگ نظری کے سوا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔
اس وقت مسلم امہ کو جو چیلنج درپیش ہے وہ دراصل تہذیب کی بقا کا چیلنج ہے۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ مغرب اپنے طرزِ زندگی ، اپنے نظامِ حکومت اور اپنی ثقافت کو دنیا بھر کے معاشروں میں فروغ دینا چاہتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ تمام وسائل استعمال کررہا ہے جنھیں ہارڈ اور سافٹ پاور کا نام دیا جاتاہے۔ اس ثقافتی حملے کے ردِ عمل میں جہاں ایک طرف امت کا ایک حصہ اپنی تہذیب اور ثقافت سے بیگانگی کو وقت کا تقاضا خیال کر رہا ہے وہاں ان کی ایک بڑی تعداد اس تہذیب، سوچ اور نظریے کی بقا کے لیے کٹ مرنے کو تیار ہے اور اس پر حملہ آور ہر قوت کے خلاف کسی بھی حد تک جانے پر آمادہ ہے۔اس حوالے سے خطرناک ترین بات یہ ہے کہ یہ دونوں طبقات ایک دوسرے کو اپنا حریف سمجھتے ہیں۔ اس طرح مسلم معاشرے خود اپنی تنظیم کھو رہے ہیں۔اس طرح انھیں نہ صرف داخلی انتشار کا سامنا ہے بلکہ انھیں عصرِحاضر کی بالادست تہذیب کی عسکری، اقتصادی ، نظریاتی اورثقافتی یلغار کا مقابلہ بھی درپیش ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم کی وحدت کو اجاگرکرتے ہوئے اس سوچ کی ترویج کے لیے کوشش کی جائے کہ ہمیں امت میں موجود تمام گروہوں، فرقوںاور مکاتبِ فکر کے افراد کواسلامی معاشرے کی عمومی اصلاح و ترقی کے لیے خیر خواہی کے جذبے کے تحت تعاون اور مکالمے کا عمل تو جاری رکھنا ہوگا لیکن مسلم تشخص کو اپنی بنیادی شناخت قرار دیتے ہوئے اپنی صلاحیتوں، وسائل اور وقت کو پوری امت کے مفاد کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔ اس کے نتیجے میں ہی ترقی، بالادستی اور خوش حالی کی بین الاقوامی دوڑ میں ہم آگے بڑھ سکیں گے۔ لا اکراہ فی الدین کا یہی وہ تصور ہے جو اسلام کی انفرادیت اور تشخص ہونے کے ساتھ ساتھ تمام انسانوں کو اپنی آزاد مرضی کے ساتھ اسلام یا کفر پر جینے کا حق دیتا ہے اور اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ بھی فراہم کرتاہے۔
اگرچہ اس ضمن میں کچھ اشارے اوپر کی بحث میں حسبِ موقع آتے رہے ہیں لیکن قومی زندگی کے اس پہلوکی اہمیت کے پیشِ نظر اسے الگ سے بھی جاننے اور سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کو سمجھنا اور اس کے مطابق ردعمل ظاہر کرناحکمت کی سادہ تعریف ہو سکتی ہے۔ تاہم یہ بات ذہن میں رکھنی ازحد ضروری ہے کہ حالات کے مطابق اپنے عمل میں تبدیلی، قوم کے بنیادی اصول، ضوابط اوراجتماعی مقاصد کی حدود میں رہ کر ہونی چاہیے۔ محض حالات کے مطابق خود کو ڈھال لینا مفادپرستی، جب کہ حالات کو مدنظر رکھ کر حکمت عملی اختیار کرنا اور اپنے مقاصد حاصل کرنا عقل مندی، فراست اور حکمت ہے۔اسی طرح فرسودہ روایات اور جاہلانہ رسوم کے ساتھ صرف اس بنا پر چمٹے رہنا کہ حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَآئَ نَا ط (المائدہ ۵:۱۰۴)،بھی ایک قابلِ افسوس رویہ ہے۔’آئینِ نو سے ڈرنا اور طرزِ کہن پہ اَڑنا‘ درحقیقت قوموں کے لیے مسابقت کی عالمی دوڑ میں ناکامی کا باعث بن جاتا ہے۔ نئی راہیں تراشنا اور جدید خیالات اور رجحانات کو صحتمندانہ رُخ دینا خود کسی معاشرے، تہذیب اور تمدن کی بقا کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
گویا کرنے کا کام یہ ہوا کہ مرعوبیت سے نکل کر اپنے مذہب، اپنی روایات، اپنے وطن اور اپنی ثقافت کے لیے مثبت عصبیت پیدا کی جائے، اسے فروغ دیا جائے اور اسے اپنی سوچ کا محور قرار دیا جائے۔ صرف اسی صورت میں ہم خود اپنے ذہن سے سوچ سکیں گے، جب ہم اس مرعوبیت سے نکل آئیں کہ مغربی مفکرین کی آرا زیادہ باوثوق اور قابلِ عمل اور معلومات شک و شبہے سے بالاتر ہیں۔ ہمیں فکر کے اس تسلسل کو جاری رکھنا ہوگا جس کی بنا مسلمان معاشروں میں خود اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے۔ ہمیں اسی اندازِ فکر سے خود کو وابستہ کرنا ہو گا اورموجودہ حالات کے مطابق تمام دستیاب وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے جدید مسائل سے نمٹنا ہو گا۔ اپنے وسائل کوترقی دینا اور ان پر انحصار کی عادت کو اپنانا ہوگا ۔نظریاتی و عملی ترجیحات کے نئے سِرے سے تعین (redefinition)کا یہ عمل جبراً مسلط کرنا ممکن نہیں۔ یہ صرف اسی وقت ہو گا جب معاشرے کے تمام ا فراد یاکم از کم ا ن کی ایک کثیر تعداد پورے شعور اور احساس کے ساتھ اس عمل میں شریک ہو۔
اگر اس تدبیر کو اپنا لیا جائے تو گویا نصف کام مکمل ہو جائے گا۔گھر کی چھت اور دیواریں مضبوط ہوں تو باہر چاہے طوفانِ بلا خیز ہی کیوں نہ ہو گھر کے مکینوں کو نقصان نہیں پہنچا سکتا، مگر اس عمل میں اعتدال کی راہ اپنانا نہایت ضروری ہے۔ نہ تو خود کو اس قدر محدود و مقید کر لیا جائے کہ مکینوں کا دم گھٹنے لگے اور نہ تازہ ہوا کے شوق میں اتنے راستے ہی بنا دیے جائیں کہ دیوار کا کھڑا رہنا ہی ناممکن ہو جائے اور عمارت دھڑام سے زمیں بوس ہو جائے۔ گویا خود معاشرے میں پیدا ہونے والے یا بیرونی اثرات کے تحت پنپنے والے نئے رجحانات و خیالات کی راہ بند نہ کی جائے بلکہ علیٰ وجہ البصیرت ان میں سے ہر ایک کا تجزیہ کیا جائے ۔ اس کے پس منظر، مقاصد، اثرات و عواقب کا جائزہ لیا جائے اور خذ ما صفی و دع ما کدر کے زرّیں اصول کے مطابق عمدہ اور اچھی سوچ کو تو اپنے ہاں حسبِ ضرورت ترمیم یا اضافے کے ساتھ فروغ کا موقع دیا جائے، مگر منفی اور بدنیتی پر مبنی امور کو پوری قوت سے مسترد کر دیا جائے۔
اگر تصادم ناگزیر ہو تو اس سے نظریں چرانا بزدلی اور حماقت ہے۔ بصورتِ دیگر اس سے اجتناب کرتے ہوئے خود اپنی اصلاح و ترقی کی طرف توجہ دی جائے۔ اس نکتے کی تفہیم کے لیے چین کے اس فرد کی مثال مؤثر ہو گی جس سے پوچھا گیا کہ تبت میں انسانی حقوق سے متعلق دنیا بھر میں چین مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں، کیا آپ اس پر اپنے ردعمل کا اظہار نہیں کریں گے، تو اس نے جواب دیا کہ اگر چین اب سے ۲۰ سال قبل اس قسم کے واقعات پر اپنا ردعمل دکھاتا تو اس وقت کی بالادست قوتیں ہم پر چڑھ دوڑتیں۔ہم نے ان کی طرف توجہ کرنے کی بجاے خود کو مضبوط کیا اس لیے آج یہ لوگ ہمارے خلاف صرف مظاہرے ہی کر سکتے ہیں، جب کہ ہم اب بھی ان کی طرف توجہ نہیں دیں گے اور اپنے استحکام اور ترقی کا سفر جاری رکھیں گے۔ یہاں تک کہ اب سے ۲۰سال بعد کسی کو ہمارے خلاف مظاہرے کی بھی جرأت نہیں ہو گی۔لہٰذا اپنے اداروں کو مضبوط بنایا جائے، اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کیا جائے اوراس حوالے سے کسی دوسرے کا انتظار نہ کیا جائے۔ حکمرانوں یا معاشرے کے دیگر افراد کی سوچ اور طرزِ فکر میں مثبت تبدیلی کی ہر ممکن کوشش تو ضرور کی جائے مگر اس حوالے سے خود اپنے عمل کے آغاز کے لیے کسی کا انتظار نہ کیا جائے۔ وقتی طور پر جو سختیاں یا پابندیاں برداشت کرنی پڑیں انھیں بہتر مستقبل اور دیرپا امن و خوشحالی کے لیے خندہ پیشانی سے برداشت کیا جائے کیونکہ جدا گانہ تشخص اور وقار جفاکشی کا تقاضا کرتا ہے۔
جب کبھی کوئی آدمی شخصی یا گھریلو الجھنوں اور سماجی ذمہ داریوں سے دو چار ہوتا ہے، یا اپنے حسب ِمنشا عہدہ ومنصب کے حصول میں ناکام رہتا ہے، تو وقتی طور پر اسے اِس کا رنج بہت ہوتا ہے۔ اسی کرب میں کچھ لوگ خود کشی بھی کرلیتے ہیں، تاکہ ان کا واسطہ آیندہ مزید ناکامیوں اور نامرادیوں سے نہ پڑے۔اب یہ رجحان اتنا عام ہوتا جارہا ہے کہ پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں آئے دن خودکشی کے واقعات رونما ہورہے ہیں ،جن کی خبروں سے ہر روز اخباروں کے صفحات بھرے ہوتے ہیں۔حالاں کہ اس نامناسب اقدام کو کسی بھی سماج اورمعاشرے میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔ یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ ملکی قانون میں یہ اقدام بذات خود کوئی برا نہیں ہے اور نہ قابل مواخذہ ہے، البتہ اقدام خودکشی کو ضرور جرم قرارد یاگیا ہے۔ گویا کہ کوئی شخص خودکشی کا اقدام کرے اور کسی وجہ سے وہ اس میں ناکام ہوجائے تو ایسی صورت میں اسے سزادی جائے گی۔اس کے مقابلے میں اسلام کی تعلیم اس کے بالکل برعکس ہے اور وہ اس عمل کی کسی بھی صورت میں پذیرائی نہیں کرتا ۔
مصائب ومشکلات او ر ناکامی ونامرادی وقتی چیزیں ہیں۔ یہ کبھی جلد رفع ہوجاتی ہیں اور کبھی وقت لگتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی ان کا مقابلہ نہ کرے۔ اللہ نے انسان کو دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے اور اپنی عبادت کے لیے پیدا کیاہے، تو پھر کیوں نہ اس کے حکم کی تعمیل کی جائے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو کفرانِ نعمت اور بزدلی ہے جو مومن کی شان کے خلاف ہے۔
کون انسان کب تک زندہ رہے گا اور کب اس کی موت واقع ہوگی، یہ اللہ ہی جانتا ہے اور زندگی اور موت دینے کا حق بھی اللہ ہی کو ہے۔ انسان کے بس میں اگر یہ چیز ہوتی تو دنیا کا نظام درہم برہم ہوکر رہ جاتا۔ انسان کا دنیا میں زندہ رہنا بھی تقویت اور ترقیِ درجات کا باعث ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کسی بھی آدمی کو موت کی تمنا نہیں کرنی چاہیے، اس لیے کہ اگر وہ نیک ہے تو امید ہے کہ اس سے اس کی نیکی میں اضافہ ہوگا اور اگر برا ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس سے تائب ہوجائے‘‘۔۱؎
قرآن وحدیث میں متعدد مقامات میں وارد ہو اہے کہ اہل ایمان کو موت کی دعا نہیں کرنی چاہیے، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مصائب ومشکلات اور بیماری وغیرہ سے دوچار ہونے کے بعد انسان کو خودکشی کی اجازت دے دے۔ اگر کوئی شخص خودکشی کرتا ہے تو وہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے اور اس کی سزا بڑی سخت ہوگی۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی نفس کو قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے‘‘۔۲؎
انسان کتنا ہی متقی اور پرہیزگار ہو او ر کتنی ہی نیکیاں اس نے کمائی ہوں اور بھلائی کے کام کیے ہوں، اگر وہ دنیاوی پریشانیوں اور ناکامیوں سے دوچار ہوکر یہ اقدام کرتا ہے تووہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہوگا۔ موت کا وقت متعین ہے اور جس نے انسان کو پیدا کیاہے وہی اس کا اختیار رکھتا ہے کہ کب تک اسے زندہ رہنا ہے اور رہنا چاہیے۔ ارشاد ربانی ہے:
فَاِذَا جَائَ اَجَلُھُمْ لاَ یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃٌ وَّلاَ یَسْتَقْدِمُوْنَ (النحل ۱۶:۶۱) جب موت کا وقت آجاتا ہے تو ایک ساعت بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔
خودکشی کا اقدام مشکلات سے فرار کا راستہ ہے۔ یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ ہر وقت اور ہرمنزل پر آدمی کا واسطہ نئے نئے مسائل سے پڑتا ہے، وہی شخص اس میں کامیاب ہے جو ہر طرح کی پریشانیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے اور زندگی کی آخری منزل تک پہنچ جائے۔ جو شخص شدائد ومشکلات میں صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے اور جلد بازی و بے صبری میں متاعِ حیات ہی کو ختم کردے، وہ موت کے بعد والی زندگی کو اپنے ہی ہاتھوں درہم برہم کردیتا ہے۔ اس دوسری زندگی میں بھی وہی شخص کامران ہوگا اور اس کا لطف اٹھائے گا جس نے اس دنیا میں نازک ترین لمحات میں بھی خدا کا بندہ ہونے کا ثبوت دیا اور زندگی کی آخری سانس تک وہ اس پر قائم رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس دنیا کو آنے والی دوسری دنیا کا ضمیمہ قرار دیا ہے۔ یہاں جو عمل اچھا یا برا کیاجائے گا اس کا بدلہ اسے دوسری زندگی میں مل کر رہے گا۔ خودکشی بھی ایک غلط اور ناپسندیدہ عمل ہے جس سے آدمی کی آخرت خراب ہوتی ہے۔
روایت میں آتا ہے کہ ایک شخص نے رسولؐ اللہ کے ساتھ کسی غزوہ میں بڑی شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ کیا اور ہر محاذ پر دشمنوں کا مقابلہ کرتارہا۔ اس کی اس بہادری کو دیکھ کر ہر طرف سے تحسین وتعریف ہونے لگی۔ بالآخر وہ لڑتے لڑتے شدید زخمی ہوگیا اور زخم کی تکلیف برداشت نہ کرسکا، تو اس نے اپنی ہی تلوار کی نوک اپنے سینے میں پیوست کرلی جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ اس سے وہ جہنمی ٹھیرا۔
آپؐ نے فرمایا: لوگوں کی نظر میں ایک آدمی (ساری عمر) بہشت والوں کے سے کام کرتا رہتا ہے، حالاں کہ وہ دوزخی ہوتا، اور ایک آدمی (عمر بھر) دوزخ والوں کے سے کام کرتا ہے ، حالاں کہ وہ جنتی ہوتا ہے‘‘۔۳؎
اسی طرح حضرت جندبؓ بن عبد اللہ بجلی روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’تم میں سے پہلے جو قومیں گزرچکی ہیں، ان میں کے ایک شخص کا واقعہ ہے کہ اسے زخم لگا، وہ اس کی تکلیف برداشت نہ کرسکا اور چاقو سے اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا۔ اس سے اس قدر خون بہا کہ اس کا انتقال ہوگیا۔ اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے جلدی کی، قبل اس کے کہ میں اس کی روح قبض کرتا، اس نے خود ہی اپنے آپ کو ختم کردیا۔ لہٰذا میں نے اس کے لیے جنت حرام کردی‘‘۔۴؎
ایک دوسری حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا:’’جو شخص اپنے آپ کو کسی لوہے کے ہتھیار سے قتل کرلے تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا،وہ اس کو اپنے پیٹ میں بھونکتا رہے گا اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔اور جو شخص زہر پی کر اپنی جان لے تو وہ چوسا کرے گا اسی زہر کو۔ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا___ اور جو شخص اپنے آپ کو پہاڑ سے گراکر مارڈالے تو وہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں گراکرے گا ۔ سدا اس کا یہ حال رہے گا ‘‘۔۵؎
خودکشی کرنے والے کے ساتھ نہ صرف اللہ تعالیٰ کا معاملہ درد ناک ہوگا، بلکہ دنیا میں بھی ایسے لوگوں کی کوئی وقعت نہیں ہوتی اور اس کے برے نتائج سے اس کے گھر والے اور عزیز و اقارب دوچار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے رشتہ داروں سے معاشرے کے دوسرے لوگ تعلق نہیں رکھتے۔ رشتہ داری کرنے میں ان سے خائف ہوتے ہیں اور ان کے گھر والوں کے ساتھ طعن وتشنیع کا معاملہ کرتے ہیں۔ وہ سماج ا ورمعاشرے کی ہمدردی سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔
خودکشی کرنے والا تو چلاجاتا ہے، مگر اس کے اس غلط عمل سے اس کے احباب کو کتنا نقصان پہنچتا ہے، اس کا اندازہ اگر اسے ہوجائے تو کوئی شخص اس فعل حرام کا مرتکب نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اللہ کے رسولؐ کو ایک مسلمان کے خودکشی کرنے کی خبر ملی تو آپ برہم ہوگئے اور فرمایا کہ میں اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھوں گا۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’ایک شخص بیمار ہوا ،پھر اس کی موت کی خبر مشہور ہوئی۔ اس کا ہمسایہ رسولؐ اللہ کے پاس آیا،عرض کیا :یارسولؐ اللہ! فلاں شخص مرگیا۔ آپؐ نے فرمایا:تجھے کیسے معلوم ہوا؟کہا میں خود اس کودیکھ کر آیا ہوں۔آپؐ نے فرمایا:وہ مرا نہیں ہے۔پھر وہ لوٹ گیا، تھوڑی دیر بعد وہ پھر آیا اور عرض کیا :یا رسولؐ اللہ: وہ تو مرگیا۔رسولؐ اللہ نے فرمایا :وہ مرا نہیں ہے۔پھر وہ لوٹ گیا،پھر خبر مشہور ہوئی کہ وہ مرگیا۔ اس کی بیوی (مریض کی بیوی) نے اس آدمی سے (یعنی ہمسایے سے) کہا : جاؤ اور اللہ کے رسولؐ اللہ کو خبر کردو۔ تب پھر وہ شخص اس مریض کے پاس گیا اور دیکھا کہ اس نے تیرکی نوک سے اپنے گلے کو کاٹ لیا ہے۔ پھر وہ رسولؐ اللہ کے پاس آیا اور عرض کیا:یا رسولؐ اللہ! وہ مرگیا ۔آپؐ نے فرمایا: تجھے کیسے معلوم ہوا؟وہ بولا :میں خود اس کو دیکھ کر آیا ہوں،اس نے اپنا گلا تیر سے کاٹ لیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: تونے دیکھا؟ اُس نے کہا: ہاں۔ آپؐ نے فرمایا: پھر تو میں اس کی نمازجنازہ نہیں پڑھوں گا‘‘۔۶؎
اسلام نے کسی بھی حال میں خودکشی کی اجازت نہیں دی ہے۔ اندازہ لگائیے جس نے انسان کو پیدا کیا، ماں کے شکم سے لے کر زندگی کے آخری لمحے تک اس کی حفاظت ونگرانی فرمائی اور سکون وراحت کی نعمت سے سرفراز کیا، وہی اپنے بندوں کو مصائب ومشکلات میں مبتلا کرتا ہے۔ اس انسان کو جب خوشی ملتی ہے تو وہ عیش کرتا ہے اور جب پریشانی آتی ہے تو وہ اس سے فرار کی راہ اختیار کرتا ہے اور اپنے اوپر موت کو طاری کرتا ہے، یہ کیسی بوالعجبی ہے۔ کچھ لوگ خودکشی کے حق میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ انسان اپنی جان کا مالک ہے اور اسے اختیار ہے کہ وہ اسے ختم کردے یاباقی رکھے۔ طرفہ تماشایہ کہ عام حالات میں تو اس عمل کو وہ پسند نہیں کرتے مگر بیماری اور تکلیف کی حالت میں اس عمل کو بروے کارلانے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے، اور کہتے ہیں کہ ایسا شخص زندگی کو اس لیے ختم کررہا ہے کہ وہ تکلیف کا باعث بن گئی ہے اور اس کی وجہ سے وہ سخت اذیت محسوس کررہا ہے۔ جب وہ معاشرے کے حقوق ادا کرنے کی حالت میں نہیں ہے تو اس سے گریز کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی یا نہیں؟ اس کے متعلق قرآن وحدیث میں کوئی واضح صراحت نہیں ملتی۔اسی وجہ سے اس مسئلے میں فقہاے کرام اور علمائے امت کا اختلاف ملتا ہے۔بعض کہتے ہیں کہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور بعض کے نزدیک ادا نہیں کی جائے گی، جب کہ درست یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شخص کی نماز پڑھی جانی چاہیے۔البتہ مسلمانوں کے ذی وجاہت اور سربرآوردہ لوگ چاہیں تو اس میں شریک نہ ہوں۔اہل سنت کا اس پر اجماع ہے کہ مومن گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے کافر نہیں ہوتا۔۷؎جو شخص دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا اس کے لیے دعاے مغفرت کرنے میں کیا مضائقہ ہے۔نماز جنازہ بھی دعاے مغفرت کی ایک شکل ہے۔ قرآن مجید میں صرف مشرکین کے لیے استغفار کی ممانعت ہے یا پھر عہد نبویؐ میں جس شخص کا نفاق بالکل کھلا ہواتھااور جس کا نبیؐکو علم دیا گیا تھا، صرف ایسے منافقین کے لیے دعاو استغفار کرنے اور نماز جنازہ پڑھنے سے آپ ؐکو روکا گیا تھا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِسْتَغْفِرْ لَھُمْ اَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ ط اِن تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَن یَّغْفِرَ اللّہُ لَھُمْ ط ذَلِکَ بِاَنَّھُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُولِہِ ط وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِیْ الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ o (التوبہ ۹:۸۰) اے نبیؐ! تم خواہ ایسے لوگوں کے لیے معافی کی درخواست کرویا نہ کرو ،اگر تم ۷۰ مرتبہ بھی انھیں معاف کر دینے کی درخواست کرو گے تو اللہ انھیں ہرگز معاف نہ کرے گا ۔اس لیے کہ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور اللہ فاسق لوگوں کو راہ نجات نہیں دکھاتا۔
جیسا کہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے کسی گنہ گار یا خطا کا ر کا جنازہ آپؐ نے خود نہیں پڑھایا ۔یہ محض زجرو توبیخ کے طور پر تھا اور اس کی نوعیت بھی بعض اوقات عارضی تھی۔یہ مقصود نہیں تھا کہ اس خطا کے مرتکب کا جنازہ کوئی دوسر ا شخص بھی نہ پڑھے۔بلکہ بعض حالات میں آپؐ نے صحابہ کرام کو اس کا جنازہ پڑھنے کی ہدایت فرمائی تھی۔اس کی ایک نمایاں مثال مقروض کا جنازہ ہے۔جب کوئی صحابیؓ فوت ہوتے تھے تو آپؐ دریافت فرماتے کہ ان پر قرض تو نہیں ہے؟ اگر ہوتا تو آپؐ جنازہ پڑھانے سے اجتناب کرتے تھے مگر دوسرے صحابہؓ کو پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔ بعد میں ایسا بھی ہوا کہ کوئی ادایگیِ قرض کا ذمہ لے لیتا تھا یا بیت المال سے اس کا انتظام ہوجاتا تھا تو حضوؐر جنازہ پڑھادیتے تھے۔
اسی طرح کا معاملہ خودکشی کرنے والے کا بھی ہے۔کو ئی صحیح حدیث ایسی نہیں ملتی جس سے یہ ثابت ہو کہ نبیؐ نے خود کشی کرنے والے کی نمازجنازہ پڑھانے کی ممانعت فرمائی ہو اور ایسے شخص کو جنازہ پڑھائے بغیر دفن کردیا گیا ہو۔جس جرم کے مرتکب کا جنازہ پڑھانے کی اللہ کے رسولؐ نے اجازت مرحمت فرمادی ہے اور صحابہؓ کرام کی جماعت نے جس کا جنازہ پڑھادیا ،اس کے جنازے کی عام ممانعت کس بناپر جائز ہوسکتی ہے؟یقینا بعض فقہانے خود کشی کرنے والے اور بعض دوسرے کبائر کا ارتکاب کرنے والے کا جنازہ نہ پڑھنے کا فتویٰ دیا ہے۔ اس کا علی الاطلاق انطباق درست نہیں معلوم ہوتا۔اس سلسلے میں ان فقہاے کرام اور علماے عظام کی راے قابلِ ترجیح ہے کہ بڑے سے بڑا گناہ گار بھی دعاے مغفرت اور نمازِ جنازہ کا محتاج و مستحق ہے۔
[حیرانی ہوتی ہے کہ اسلام میں خودکشی کے بارے میں اتنی واضح تصریحات کے باوجود، آج ہمارے معاشرے میں یہ بہت عام ہوگئی ہے۔ روزانہ کا اخبار ۴،۵ خودکشیوں کی خبر لیے آتا ہے۔ جو ادارے اعداد و شمار جمع کرتے ہیں، وہ سیکڑوں اور ہزاروں کی بات کرتے ہیں۔ معاشرے میں مسائل اور پریشانیاں ضرور بڑھ گئی ہیں، لیکن ایک مسلمان کو اللہ تعالیٰ سے استعانت طلب کرتے ہوئے ہمت و حوصلے سے ان کا مقابلہ کرنا چاہیے، نہ کہ ہمت ہار کر اپنی جان لے لے اور پس ماندگان کو مزید پریشانیوں کا شکار کردے۔ معاشرے میں اسلامی تعلیمات عام ہوں تو خودکشی کے رجحان کو کمزور کیا جاسکتا ہے۔ مساجد کے ائمہ جمعہ کے خطبے میں اسے کھل کر موضوع بنائیں اور پریشان حالوں کو راہِ راست سمجھائیں۔ ذرائع ابلاغ اس مسئلے کو بھرپور طور پر اُٹھائیں اور عوام کی صحیح رہنمائی کریں اور فرائض کی ادایگی کی طرف متوجہ کریں۔
صلۂ رحمی اسلامی معاشرت کا ایک نمایاں وصف ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی ضروریات کا خیال رکھے اور انھیں ترجیح دے۔ ہمسایہ، اہلِ محلہ، دوست احباب اور اقربا و رشتہ داروں کے باقاعدہ حقوق کا تعین کیا گیا ہے اور وہ اخلاقی طور پر اس کے پابند ہیں کہ اپنے پریشان حال بھائیوں کی ضروریات کا خیال رکھیں۔ اہلِ جنت کی صفات میں سے ایک نمایاں صفت بھوکوں کو کھانا کھلانا اورحاجت مندوں کی ضروریات کو اپنا فرض سمجھ کر پورا کرنا ہے۔ اس روایت کو بھی آگے بڑھانے اور توانا کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں اہلِ محلہ اور رشتے دار ہی ایک دوسرے کی ضروریات کو بخوشی پورا کرتے تھے اور اسے خدا کی رضا و خوشنودی کا ذریعہ سمجھتے تھے، مگر آج معاشرہ انتشار کا شکار ہے اور نفسا نفسی کا عالم ہے جس کی وجہ سے پریشان حال لوگ مایوس ہوکر خودکشی جیسے گناہ کا ارتکاب کرنے لگے ہیں۔ ایسے میں جہاں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کی پریشانیوں کے ازالے کے لیے بھرپور اقدام اٹھائے وہاں غیرسرکاری تنظیموں، خدمتِ خلق اور رفاہی امور کی حامل تنظیموں کا کردار اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کا تقاضا ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے انفرادی، اجتماعی اور حکومتی سطح پر ایک بھرپور اور منظم جدوجہد کی جائے۔ یہ ہم سب کا قومی و ملّی فریضہ بھی ہے۔]
۱- صحیح البخاری، کتاب المرضی، باب تمنی المریض … صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعا، باب کراھیۃ تمنی الموت
۲- صحیح البخاری، کتاب الأیمان والنذور، باب یمین الغموس ولا تتخدوا ایمانکم۔ کتاب الدیات ،باب ومن احیاھا۔کتاب الاستنابہ المرتدین وقتالھم، باب اثم من اشراک باللّٰہ
۳- صحیح البخاری، کتاب الجہاد، باب لایقول فلاں شہید۔ کتاب المغازی، باب غزوۃ خیبر۔کتاب الرقاق،باب الاعمال بالخواتیم وما یخاف منہا۔ کتاب القدر، باب العمل بالخواتیم …صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب غلط تحریم قتل الانسان نفسہ
۴- صحیح البخاری، کتاب الانبیاء، باب ذکر عن بنی اسرائیل۔کتاب الجنائز، باب ماجاء فی قاتل النفس
۵- صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب تحریم قتل الانسان نفسہ…شرح نووی علٰی صحیح مسلم،ابوزکریا یحییٰ بن شرف النووی،کتاب الایمان، باب غلط تحریم قتل الانسان نفسہ، ص:۱۱۸،ج:۱،جز:۲،دارالریان للتراث قاہرہ، ۱۹۸۷ء …سنن ترمذی،کتاب الطب، باب ماجاء فیمن قتل نفسہ بسم اوغیرہ
۶- سنن ابو داؤد، کتاب الجنائز، باب الامام لایصلی علی من قتل نفسہ
۷- ردالمحتار علی الدرالمختار،ص:۱۰۲،ج:۳
مغرب کی ایک خوبی کا اعتراف نہ کرنا، نادانی ہوگا۔ اپنے دوستوں کی طرح وہ اپنے حقیقی یا مزعومہ دشمنوں سے بھی (اپنے مخصوص زاویے سے) وابستگی رکھتے ہیں، اور ان پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں۔ ۱۸ویں؍۱۹ ویں صدی میں مسلم دنیا کو فتح کر کے زیرنگیں لانے والے اہلِ مغرب نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جتنا کچھ لکھا، کمیت کے اعتبار سے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ۲۰ویں اور اب ۲۱ویں صدی میں، جب کہ رُوحِ مغرب کی اسلام سے آویزش ایک نئی شکل اختیار کر گئی ہے، وہاں کی مجالسِ دانش (think tanks) اور دانش ور، پینترے بدل بدل کر اسلام سے نبردآزما ہو رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک مطالعہ زیڈین میری بوتے کی کتاب Islam's Fateful Path (اسلام کی پُرخطر راہ) کی صورت میں سامنے آیا ہے جو پیش نظر ہے۔ بقول اسما افسرالدین (پیش نظر کتاب کی ایک مبصرہ)، جو یونی ورسٹی آف نوٹرے ڈیم میں عربی اور اسلامیات کی استاد ہیں___ مذکورہ بالا کتاب کے مصنف کی یہ کوشش قابلِ داد ہے کہ انھوں نے اسلامی روایات کے تنوع، رواداری، حقوقِ انسانی کی پاس داری، خواتین کے مرتبے اور مذہبی حریت کی طرف بھی اشارے کیے ہیں، جب کہ مسلم اور غیرمسلم، دونوں جانب کے انتہا پسند، مشترک اقدار اور پُرامن بقاے باہمی کو نظرانداز یا مسترد کرتے نظر آتے ہیں۔
خود مصنف (ایک فرانسیسی عالم اور انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈکراس کے سینیر لیگل کنسلٹنٹ) کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ آیا اسلام، خوف، عدم برداشت، قسمت پر قناعت (fatalism)، دہشت گردی اور حقوقِ نسواں کے بارے میں حقارت و تردید کا مذہب ہے، یا اس کے برخلاف یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جسے غلط سمجھا گیا اور بدنام کیا گیا ہے۔ کیا مخالف مبصرین نے اس کے درست اخلاقی پیغام کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے؟ وجوہ سیاسی ہوں یا ذاتی (ص vii)۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ کتاب کا ذیلی عنوان The Critical Choices Facing Modern Muslims (دورِ جدید کے مسلمانوں کے لیے پُرخطر ممکنہ راستے) مصنف کے نقطۂ نظر کی غمازی کرتا نظر آتا ہے۔
مصنف کو اس بات کا شعور ہے اور ایک حد تک اعتراف بھی کہ مسلمان دانش ور جب یہ خیال کرتے ہیں کہ موجودہ دَور میں نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد مغرب نے، مشرقی دنیا (خصوصاً مسلم دنیا) کو زیرنگیں کرنے کے لیے ایک نئی حکمت عملی اپنائی ہے: اب فتوحات، ’’روحانی اور معاشی میدان میں ہوں گی‘‘___ اور یہ خیال کچھ ایسا غلط بھی نہیں، بقول مصنف: یہ حکمت عملی کوئی نئی نہیں ہے۔ فرانس کے صلیبی جنگ جُو شاہ لُوئی نہم (سینٹ لُوئی) نے ایک خفیہ دستاویز میں یہ اعتراف کرنے کے بعد کہ مسلمانوں کو جنگ کے ذریعے فتح کرلینا مشکل ہے، دوسرے حربوں سے کام لینے کی تلقین کی۔ لُوئی نہم کو ایک مقدس اور متبرک ہستی خیال کیا جاتا تھا۔ اس نے یروشلم سمیت مقاماتِ مقدسہ کو فتح کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، تاکہ انھیں ’بے دین کافروں‘ (مسلمانوں) کے ہاتھوں سے چھڑایا جاسکے۔ ۱۲۴۸ء میں اس نے مصر پر حملہ کیا۔ ناکام رہا، قیدی بنا اور بعد میں فدیہ دے کر رہا ہوا۔ دوسری کوشش میں کارتھیج (شمالی افریقہ) فتح کرنے کی مہم بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔ تاہم، مرنے سے پہلے اس نے اپنے ’مسلمان دشمنوں‘ کا قلع قمع کرنے کے لیے عیسائی بھائیوں کو وصیت کی کہ وہ مشرقی زبانیں سیکھیں، مسلم دینیات اور عقائد کا تنقیدی نقطۂ نظر سے مطالعہ کریں، اور اس طرح تعلیم و تلقین کے ہتھیاروں سے اپنے دشمن کو مسخر کریں۔ (ص ۳)
یوں ’مستشرقین‘ ___ عربی اور اسلامیات کے غیرملکی، غیرمسلم ماہرین کا وہ گروہ پیدا ہوا، جس نے تحقیق اور تصنیف کے ذریعے اسلام کی بیخ کنی شروع کی۔ اگرچہ شروع ہی سے علما اور مسلم دانش وروں نے ہمیشہ ان مستشرقین کی ’علمی کاوشوں‘ کو شک و شبہے ہی کی نظر سے دیکھا ہے، اور کبھی اسے قبول نہیں کیا۔ لیکن یہ کوشش جاری ہے، اور اس کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نظر نہیںآتا کہ ایک طاقت ور عقیدے پر اس کے اندر گھس کر تخریبی کارروائی کی جائے۔
کیا یہ خیال ’مسلم بنیاد پرستوں‘ کا مزعومہ ہے؟ وہم ہے یا حقیقت؟ مصنف اس سلسلے میں دوٹوک گفتگو نہیں کرتے۔ کبھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ مغرب کی اس ’سازش‘ کو بے نقاب کر رہے ہیں، اور کبھی وہ خود اس کا ایک حصہ اور ایک کردار نظر آتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ عیسائی مغرب کی اسلام سے اس مخاصمت کے اسباب کیا ہیں؟
مصنف کے نزدیک اس سوال کا جواب صدیوں کی تاریخ پر محیط ہے۔ لیکن صورت حال بہت واضح ہے: اسلام اپنی ابتدا ہی سے ایک طاقت ور، ساری دنیا پر چھا جانے کا عزم رکھنے والی ایک تحریک کے طور پر ظہور پذیر ہوا۔ ناقابلِ مزاحمت قوت کے ساتھ وہ کرئہ ارض پر پھیلتا چلا گیا۔ عیسائیوں، ایران کے ساسانیوں، ہندوئوں اور کنفیوشسیوں سے اس نے وسیع علاقے چھین لیے۔ اس کے پھیلنے کی رفتار اور نفوذ کی صلاحیت بھی اس نفرت کا ایک سبب ہے جو عالمی سطح پر صدیوں سے اسلام کے حصے میں آئی ہے۔ ان ’’شکست خوردہ اقوام میں عیسائی متاثرین وہ واحد قوم ہیں، جو محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] کو …………… سمجھتے ہیں‘‘ [یہاں ایسے الفاظ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں لکھے گئے ہیں، جنھیں کوئی بدبخت اور شقی القلب بددیانت ہی زیرقلم لاسکتا ہے] (ص ۴)۔ مغرب، اسلام کو ایک بے شعور، عقل سے کورا، قدامت پسند اور وحشیانہ مذہب گردانتا ہے، جو ایک دینی پاور بلاک کی حیثیت سے ساری دنیا پر اپنے غلبے کے لیے کوشاں ہے کہ یہ اسے اپنا حق سمجھتا ہے (ص ۴، ۵)۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے سے مسلم دنیا اور مغرب کی آویزش نے ایک نہایت متشددانہ صورت اختیار کرلی ہے، اور دونوں فریق ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ (ص ۵)
یہ ہے وہ مزعومہ پس منظر جس میں یہ کتاب لکھی گئی ہے۔
اہلِ مغرب کو اس جنگ میں ایک اُمیدافزا بات یہ نظر آتی ہے کہ خود مسلم دنیا بھی کوئی ایک مضبوط اکائی (monotithic block) نہیں رہی بلکہ اس میں ’بنیاد پرستوں‘ اور عقلیئین (rationalists) ___ مراد روشن خیالوں ___ لادین اور اہلِ تصوف کے درمیان ایک پُرتشدد آویزش صاف نظر آتی ہے۔ پھر صدیوں سے شیعہ سُنّی، فلسفی، صوفی، روشن خیالی اور قدامت پسندی کی خلیجیں ہیں۔ مختلف مسلم ملکوں کے درمیان جھگڑے ہیں، جنھیں بڑھانے کی ضرورت ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس نوصلیبی جنگ کا ادراک کرکے مسلمانوں کی وسیع اکثریت کے ذہن میں ایک ردعمل انگڑائی لے رہا ہے، اور وہ ہے ’اسلام کی طرف رجعت‘۔
مصنف کے خیال میں اگر مسلم عوام کے خدشات دُور نہ کیے گئے، اور خصوصی کوشش کے ذریعے اُن کے دلوں میں اعتماد نہ پیدا کیا گیا، تو اسلام پسندی کا یہ چیلنج جو مغرب (اور ساری دنیا) کو درپیش ہے، ایک ایسا فلیتہ بن جائے گا، جو پہلے تو مشرق وسطیٰ کو دہکائے گا اور پھر افریقہ، ایشیا، امریکا کے دونوں براعظموں اور جلد یا بدیر خود یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اس طرح آنے والے برسوں میں دہشت گردی اور مسلح تصادم عام ہوجائیں گے۔ مسلح جھڑپوں کے علاوہ اس جنگ کو بھڑکانے کے دوسرے ذرائع بھی اختیار کیے جائیں گے۔ بنیاد پرست مسلمان، ہتھیار سازی، خصوصاً کیمیائی، حیاتیاتی اور نیوکلیائی کی تیاری اور استعمال پر توجہ مرکوز کریں گے۔ (ص ۶)
ایک دوسرا خطرہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا بھی ہے۔ جنوری ۲۰۰۰ء میں دنیا میں مسلمانوں کی تعداد اندازاً ڈیڑھ ارب سے کچھ اُوپر تھی۔ مصنف کہتے ہیں کہ ’’سی آئی اے کی کتابِ حقائق‘‘ (CIA Factbook) کے اندازے کے مطابق آبادی ایک ارب ۹۰ کروڑ ۲۰لاکھ ۹۵ہزار ہے (ص ۲۱۸)۔ مصنف نے بڑی تفصیل سے یورپی ممالک اور امریکا میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا ’تشویش ناک‘ جائزہ لیا ہے۔ فرانس میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی نے پروٹسٹنٹ عیسائیوں کی تعداد کو پیچھے چھوڑ دیا ہے (۴۰؍۵۰ ہزار مسلمانوں کے مقابل ۱۷لاکھ پروٹسٹنٹ اور ۸ لاکھ یہودی) (ص ۷)۔ مسلم ملکوں میں آبادی ۴ء۶ فی صد سالانہ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے (ص ۲۱۲)۔ اس پر مستزاد یہ کہ بہت سے اصلی نسلی یورپی بھی اسلام قبول کرتے جارہے ہیں۔ (ص ۷)
مصنف کے خیال میں مغرب آج بھی اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے حسب ِ سابق ترغیب و ترہیب دونوں کا استعمال کر رہا ہے۔ مسلم دنیا اور مسلم آبادیوں پر جارحیت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو سمجھنے سمجھانے کے لیے مستشرقین کے علاوہ ’اسلامیئین‘ (ماہرین اسلامیات، Islamologists) کی ایک نئی کھیپ ظہور میں آئی ہے، جو مسلمانوں کا حلیہ بگاڑ کر اُنھیں اکثر مضحکہ خیز اور غیرانسانی ہیولوں میں پیش کرتے ہیں: یہ مسلمان کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ سفاک اور ظالم، دغاباز، بے ایمان، منافق اور بددیانت و بدنہاد ہو (ص ۱۰)۔ ارنسٹ ریناں (Earnest Renan) نے مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے بارے میں ایسے ہی بے ہودہ تعصب کا اظہار کیا تھا: سامی النسل لوگ عدمِ تجسس کا شکار ہوتے ہیں۔ اُن میں رواداری کا بھی فقدان ہوتا ہے، اور یہ لوگ فتنہ انگیز ہوتے ہیں۔ مداوا؟ اسلام کو تباہ کردیا جائے۔ ریناں فرماتے ہیں: ’’جنگ کا خاتمہ اُسی وقت ہوگا جب اسماعیل [علیہ السلام] کا آخری بیٹا یا تو مرجائے یا ریگستان کی پہنائیوں میں دھکیل دیا جائے‘‘۔ (ص ۲۱۹، حاشیہ ۶)
ریناں کے پوتے ارنسٹ سیچاری (Earnest Psichari) جنھوں نے عیسائیت کو ازسرنو دریافت کیا، فرماتے ہیں کہ ’’جلد یا بدیر ہم مسلمانوں کو فتح کرلیںگے۔ ہم فاتح ہیں اور وہ فانی مفتوح۔ اور کیا درکار ہے؟‘‘ (ص ۱۹۶)، جب کہ آگست پامل (August Pomel) کے خیال :میں ’’محمدیت [اسلام] اُن معاشروں کے لیے تو ایک موزوں عقیدہ ہوسکتا ہے، جن کا سماجی ارتقا ایک وحشیانہ سطح پر آکر رک گیا ہے--- عرب معاشرہ اس کی موزوں مثال ہے--- یہ [یعنی اسلامی] معاشرہ ۳اقسام کے انسانوں پر مشتمل ہے۔ پہلی سطح پر رذیل، منافق اور کاہل مذہبی زعما کا گروہ ہے، جس کے اثرات جہالت (مذہبی عصبیت) کی پیداوارہیں۔ دوسرا گروہ پِسّو زدہ (flea bitten) اشرافیہ کا ہے جن کے نزدیک تعمیری اور پیداآوری سرگرمیاں شجرِممنوعہ ہیں۔ احمقانہ اور تخریبی سرگرمیاں ان کے معزز مشاغل ہیں۔ تیسرا طبقہ غریب، مسکین ہاریوں کا ہے، جو مندرجہ بالا دو طبقات کو پالتے ہیں، اور خود فاقہ کشی میں یا خُمس پر گزارا کرتے ہیں‘‘ (ص ۱۹۷)۔ مسلمان ’’وحشی اور بچگانہ ذہن کے لوگ ہیں… جو اپنے شان دار ماضی کی جھوٹی یادوں اور مستقبل کے بے مصرف خوابوں پر زندہ رہتے ہیں‘‘۔ (ص ۱۹۷)
مصنف کہتے ہیں کہ آج بھی مغرب کے متشدد عیسائی خود کو اعلیٰ اور مسلمانوں کو ادنیٰ خیال کرتے ہیں، اور اُن کے نزدیک مسلمانوں کا نہ کوئی ضمیر ہے نہ اخلاقیات اور نہ عزت و وقعت۔ اپنی اِنھی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے وہ مغرب کی اعلیٰ اقدار کے فہم سے عاجز ہیں۔ ان ’’لرزتے، کانپتے غلاموں‘‘ کے بالمقابل عیسائی اپنی سرشت کے اعتبار سے مخیر ہیں، اُس محبت کے امین، جو اُن کے اندر یسوع مسیح کے فیضان (grace) سے پیدا ہوگئی ہے۔ (ص ۱۹۶)
مصنف کے نزدیک قرونِ وسطیٰ سے انیسویں صدی تک کے مسلمانوں کے ہاں بھی یورپی اقوام کے لیے کوئی اچھی راے نہیں پائی جاتی اور آج بھی مغرب کے تسلط اور مزعومہ مظالم کے خلاف قدامت پسند اور عام مسلمانوں میں بھی، مغرب کے خلاف ایک نفرت واضح نظر آتی ہے۔ تاہم، ان کے خیال میں دنیا میں امن کے قیام کے لیے ’’ثقافتی اور مذہبی عدمِ اعتماد اور نفرتوں کو ختم کرنے‘ ‘کی گنجایش ابھی موجود ہے۔
اس میں شک نہیں کہ بعض مغربی علما نے مسلم فلاسفہ اور صوفیا پر تحقیقی کام کرتے ہوئے، مغربی تہذیب اور سائنس کو ان کا مرہونِ منت بھی بتایا ہے، تاہم اکثریت نے اہلِ مغرب کے ذہن میں اسلام کا وہ تصور بٹھا دیا ہے، جس کی عکاسی، بقول ان کے: قدامت پسند ابن تیمیہ، محمد بن عبدالوہاب اور موجودہ سعودی حکمراں کرتے ہیں۔ ۱۹ویں، ۲۰ویں صدی میں مسلم مفکرین میں مغرب پر تنقید اور اسلام کی طرف رجعت کا وہ عمل شروع ہوا، جس کی عکاسی ابوالاعلیٰ مودودی (جماعت اسلامی کے بانی)، حسن البنا (اخوان المسلمون کے بانی)، سید قطب اور بعض دوسرے مسلم مفکرین کرتے ہیں۔ برعظیم کے علاوہ افریقہ کے کئی ملکوں، تیونس، مراکش، الجزائر وغیرہ میں ان مفکرین کی تحریروں سے متاثر ہوکر، اسلام کی طرف رجعت کی تحریکیں اُبھریں۔ اُسامہ بن لادن کی تحریک، القاعدہ اور ’اسلامی جہاد‘ کی تحریکیں اسی ’تھیوکریٹک اسلام‘(سیاسی اسلام) کی پیداوار ہیں۔
اسلام کی ایک دوسری صورت اور جہت، جس کی جڑیں مسلمانوں کے روشن ادوار میں ملتی ہیں ’’وسیع المشربی، عقل دوستی اور روشن خیالی‘‘ کا اسلام ہے، جس کے بیج معتزلہ، ابنِ رشد، ابنِ سینا، الخوارزمی، منصور بن حلّاج، ابن عربی اور رومی نے ڈالے تھے۔بعد میں جمال الدین افغانی اور محمدعبدہٗ نے اسے بازیافت کیا۔ زمانۂ حال میں عبداللہ بدوی (مصر) اور محمدالجبری (مراکش) اس کے نمایندہ ہیں۔ لیکن قدامت پسند علما اور سیاست دان انھیںتسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ (ص ۱۲)
کتاب کے وسیع مباحث اسلام کی ابتدا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ اور آپؐ کے مشن اور خلافت (راشدہ، بنواُمیہ، بنوعباس) سے لے کر ۲۰ویں صدی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ کتاب تین اجزا اور ایک اختتامیہ پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں مصنف نے قبلِ اسلام عرب معاشرے کی حالت، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بعثت اور جزیرہ نماے عرب میں پہلی مرتبہ ایک باقاعدہ ریاست کی سیاسی تشکیل پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضور اکرمؐ کی وفات کے بعد ہی ’اُمہ میں مستقل انتشار‘ کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جو بنوعباس کے برسرِاقتدار آنے (۶۶۰ء) تک جاری رہا، یہاں تک کہ مرکزی ’اسلامی ریاست‘ پر بنوعباس قابض ہوئے (۷۵۰ء) اور تاتاریوں (منگول) کی یلغار (۱۲۵۸ئـ) تک برسرِاقتدار رہے۔ وحشی تاتاریوں نے بنوعباس کو چن چن کر قتل کیا، مگر انھیں بغداد کی خلافت کی خواہش نہ تھی۔ خلافت کا ادارہ مصر اور پھر ترکی میں منتقل ہوگیا اور پھر مصطفی کمال کے ’روشن خیال، جدیدیت‘ کے انقلاب کے بعد ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا (۱۹۲۴ء)۔ اس طرح مسلم دنیا کی مرکزیت ختم ہوگئی۔ شرق اوسط چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوگیا۔ مگر اس سے پہلے ہی اُمت خوارج، شیعہ، اسماعیلی، دروزی، علوی اور زیدیہ میں منقسم ہوچکی تھی۔ اس پر مستزاد اسلامی تعلیمات اور قانون پر اختلافات جو اہلِ سنت کے چار علما کے مسالک (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل) کی شکل میں ظاہر ہوچکے تھے۔ معتزلہ، اشاعرہ اور صوفیہ کے درمیان خلیجیں الگ تھیں۔ ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب نے ’سنتِ اسلام‘ کی طرف رجعت کی۔ انھی کے شاخسانوں میں ’رجعت پسند اور تنگ نظر‘ انتہا پسند نظریات بھی وجود میں آئے۔ سعودی عرب میں حکومت اور معاشرے پر اُن کی فکر کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔
’عصری اسلامیت‘ کے خالق حسن البنا، سید قطب اور سید مودودی بتائے گئے ہیں۔ یہ رجحان ۱۹ویں/۲۰ویں صدی میں مغرب کے تعامل سے وجود میں آنے والے ’روشن خیال‘ اور ’رواداری‘ والے اسلام سے متصادم ہے۔ مصر کے حسن البنا نے اسلام کو زندگی کے ایک مکمل نظام کے طور پر پیش کیا۔ مثالی اسلامی ریاست قائم کرنے کے لیے ان کی حکمت عملی کے دو زاویے تھے: اسلامی تعلیم و تربیت اور عوام میں نئے سیاسی شعور کی بیداری۔ انھوں نے اخوان المسلمون کی تحریک برپا کر کے ’اُسرہ‘ (خاندان) کا نظام قائم کیا۔ مدارس، جامعات، مساجد، ہسپتالوں اور پیشہ وارانہ تنظیموں اور سرکاری سماجی خدمت کے اداروں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، اور مسلمانوں کو ایک نیانعرہ دیا: اللہ ہمارا مقصود ہے، رسولؐ ہمارے قائد ہیں، قرآن ہمارا دستور ہے، جہاد ہمارا راستہ ہے، اور اللہ کی راہ میں شہادت ہماری اعلیٰ ترین خواہش اور تمنّا ہے‘‘۔ اگرچہ مصر میں شاہ فاروق کے زمانے میں حسن البنا اور پھر انقلابی حکومت (جمال عبدالناصر) کے دور میں ان کے جانشین سیدقطب کو شہید کردیا گیا، اور اس جماعت پر پابندی اور مظالم کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا، تاہم آج بھی مصر میں اس کے زیراثر ۶ ہزار مساجد ہیں اور جماعۃ الشریعہ (ایک رفاہی تنظیم) کے ۲۰ لاکھ اراکین کام کر رہے ہیں۔
سیدابوالاعلیٰ مودودی کو بھی مصنف ابن تیمیہ /محمد بن عبدالوہاب کے متشددانہ اسلام کا ایک جدید ایڈیشن گردانتے ہیں (ص ۶۸)۔ سید نے ۱۹۲۰ء سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ ’جماعت اسلامی‘ کے عنوان سے ایک تحریک برپا کی، آزاد خیالی اور لادینیت کے خلاف اور ’سلفی اسلام‘ کے حق میں علمی، عملی اور سیاسی میدان میں جہاد کیا (ص ۶۸-۸۰)
آزاد خیالی اور مغربی نظریات کے خلاف سیدمودودی کی تحریک، جسے پڑھے لکھے نوجوانوں اور طلبہ میں بھی پذیرائی حاصل ہوئی، بڑی حد تک پُرامن تحریک تھی۔ تاہم ۲۰ویں صدی کے وسط اور اواخر میں بین الاقوامی حالات، پہلی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی شکست (۱۹۶۷ء)، لبنان کی خانہ جنگی (۹۰-۱۹۷۵ء)، ایرانی انقلاب (۷۹-۱۹۷۸ء)، سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے کی مزاحمت (۹۲-۱۹۷۹ء)، پہلی خلیجی جنگ (۹۲-۱۹۹۱ء) اور حال ہی میں عراق اور افغانستان پر امریکی یلغار نے مسلم دنیا میں مغرب کے خلاف ایک عملی فساد اور نفرت، اور نتیجتاً کچھ عملی اقدامات کی طرف رجحان کو فروغ دیا ہے، جو بقول مصنف، ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کی صورت میں سامنے آئے ہیں، جب کہ امریکا پر براہِ راست حملہ کیا گیا، خودکش حملہ آوروں نے اپنے جہاز ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون کی عمارتوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیے۔
اس قدامت پسند، ’سلفی‘ اور ’جہادی اسلام‘ کے خلاف اور بعض صورتوں میں اس کے متوازی دوسرے رجحان کی مصنف بار بار تکرار کرتے ہیں، جسے وہ ’عقلیئین کا اسلام‘ قرار دیتے ہیں۔ مصنف بار بار مسلم فلاسفہ اور دورِ جدید میں جمال الدین افغانی اور محمد عبدہٗ کا ذکر کرتے ہیں (وہ برعظیم پاک و ہند کے روشن خیالوں سرسیداحمد اور تشکیلِ جدید… والے ’نثری‘ محمداقبال کو فراموش کرگئے ہیں)۔ جمال الدین افغانی (م: ۱۸۹۷ء) نے برطانوی استعمار کے خلاف آواز بلند کی اور ایک انقلابی کی حیثیت سے شہرت پائی، وہ ہندستان، مصر، روس، فرانس، ایران، برطانیہ اور ترکی میں گھومتے اور درسِ حریت دیتے پھرے۔ محمد عبدہٗ (م:۱۹۰۵ء) بڑی حد تک جمال الدین افغانی کے ساتھی اور جدیدیت کے علَم بردار تھے۔ انھوں نے اپنی سرکاری حیثیت (جج ۱۸۸۱ء، مفتی مصر ۱۸۹۱ء) میں بعض ایسے فتوے دیے جو قدامت پسند علما کو پسند نہ تھے۔ انھوں نے مصر کی جامعہ الازہر میں بھی بعض اصلاحات کیں اور عقل و روایت کے درمیان اختلاف کی صورت میں عقلی بنیاد پر فیصلے کرنے پر زور دیا۔ ساتھ ہی ان کے ہاں تصوف کی طرف میلان بھی پایا جاتا ہے: ’’صوفیا میں بہت سے نبوت کے درجے کے قریب پہنچ جاتے ہیں، اور ماورا کی ایک جزوی آگاہی بھی حاصل کرلیتے ہیں‘‘ (ص ۱۵۶)۔ مصنف کو محمد عبدہٗ کی روشن خیالی، رواداری، انسان دوستی، سب کی بے لوث خدمت اور تمام مذاہب (خصوصاً اہلِ کتاب) کے لیے نرم گوشہ، اسلام کی سخت قدامت پسندی کے خلاف گفتار میں ایک مستحسن رجحان نظر آتاہے۔
ضوابط میں جکڑے ہوئے، سخت گیر اسلام کے خلاف، مصنف تکرار کے ساتھ متصوفانہ نرم اسلام سے امیدیں وابستہ کرتے دکھائی دیتے ہیں جس نے عباسی عہد میں یونانی، یہودی اور عیسائی رہبانیت، ترکِ دنیا اور زُہد کے رجحانات کو فروغ دیا۔ اس رجحان کے نمایندے انھیں منصور حلّاج، ابن عربی اور رُومی نظر آتے ہیں۔ یہاں بھی مصنف مسلم تصوف کے اہم سلاسل قادریہ (شیخ عبدالقادر جیلانی، م: ۵۶۱ھ/۱۱۶۶ء) نقش بندیہ (خواجہ بہاء الدین نقش بند، م: ۷۹۱ء) اور مجددیہ (شیخ احمد سرہندی، م: ۱۶۲۴ء) کو فراموش کر دیتے ہیں، جو اسلام کے بنیادی عقائد، عبادات اور ضوابط کے سلسلے میں کسی بھی طرح کی مداہنت کے قائل نہیں۔ اُن کی اُمید اہلِ تصوف اور روادار، روشن خیالوں کے ایسے گروہ سے ہے جو رواداری،حریت، آزاد رَوی اور ’نرم کردار‘ کے قائل ہیں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ حال ہی میں امریکا کی ایک مجلسِ دانش (Rand Corporation) نے خیال ظاہر کیا تھا کہ مسلمانوں کو جیتنے کے لیے اُن کے ہاں مروّج ایک خاص نہج کے تصوف کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ (دی اکانومسٹ، ۲۰دسمبر ۲۰۰۸ء)
اس کے علاوہ بھی کرنے کے اور بہت سے کام ہیں، جو مصنف کتاب کے اختتام میں تجویز کرتے ہیں۔ اُن کے خیال میں اس کے لیے دوسروں کی اقدار کے لیے رواداری اور اعتماد کی فضا پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ عیسائی، یہودی، ہندو اور مسلمان مل کر ایک ضابطہ ٔ اخلاق مرتب کریں، ایک دوسرے پر حملے اور الزامات بند کریں۔ اقوامِ متحدہ، یونیسکو، ریڈکراس، ریڈ کریسنٹ، یورپی یونین، افریقی یونین، آرگنائزیشن آف دی اسلامک کانفرنس، ایکومینیکل کونسل آف چرچز اور دوسرے مل بیٹھیں، اور امن و آشتی کے لیے کوشش کریں۔ ایک اہم عملی بات: اسلامی تعلیمی اداروں میں یہودیوں کے پروٹوکول (Protocols of the Elders of Zion) کے حوالے دینے بند کیے جائیں کہ یہ یہودیوں کو بدنام کرنے والی ایک جعلی دستاویز ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کا غلغلہ بند کیا جائے، اور عالمی مذہبی ڈپلومیسی کے زیرعنوان سارے فریق آپس کی دشمنی کو ختم کرکے باہمی رواداری اور احترام کا رویّہ اپنائیں۔ مذہبی اور سیاسی قائدین مل بیٹھ کر اپنے لیے ایک ضابطہ ٔ عمل مرتب کریں۔ القاعدہ کو بھی شریک کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ (ص ۶، ۲۰۰۵ء)
بیش تر مسلم ملکوں میں سرکاری اسکولوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور بہت سی مذہبی تنظیموں نے ایک متوازی نظامِ تعلیم قائم کر رکھا ہے، جو سرکاری کنٹرول سے آزاد ہے۔ مدارس، ازکار رفتہ تعلیم کے ذریعے ’یک سمتی ذہن‘ اور قدامت پرستی کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس طرح وہ روشن خیالی کا استحصال کرتے ہیں۔ مذہب کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اسے اجتماعی زندگی سے متعلق اداروں___ ریاست، عائلی قوانین، محنت اور معاشیات میں دخل اندازی سے روک دینا چاہیے (ص ۲۱۱)۔ فرد اور خواتین کے حقوق کی پاس داری کی جائے۔ مسلمانوں کی آبادی جو ۴ء۶ فی صد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے، اُسے روکنے کی ضرورت ہے، تاکہ مسلم دنیا میں معیارِ زندگی بلند ہو۔ ’اسلامیت‘ سے تیسری دنیا میں جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں، ان کی طرف توجہ دینا اشد ضروری ہے۔
اسلام کے لیے ایک غیر معاندانہ روش، لیکن اس کی اصل تعلیمات اور روح سے نابلد ذہن، اس دین اور اس کے وابستگان کو کس تناظر میں دیکھتا ہے___ پیش نظر کتاب، اس کی ایک اچھی مثال ہے، یا ذہنی انجینیری کی ایک کوشش۔
(Islam's Fateful Path، [اسلام کی پُرخطر راہ] مصنفہ: زیڈین میری بوتے (Zidane Meriboute)، ناشر: I.B. Tanris ،لندن، صفحات: ۲۴۶، قیمت: درج نہیں۔)
۲۹ مارچ کو ہونے والے ترکی کے بلدیاتی انتخابات کی بازگشت ابھی جاری تھی کہ ۹ اپریل کو انڈونیشیا کے عام انتخابات نے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی۔ پھر اپریل کو الجزائر میں بھی صدارتی انتخابات کا رسمی اہتمام و غوغا دکھائی اور سنائی دیا، جس کے نتائج اکثر عرب ممالک کے معمول کے مطابق موجودہ صدر بوتفلیقہ کے حق میں نکلے۔ ۹۰فی صد ووٹ اپنے نام سے منسوب کرکے وہ اپنے تئیں آیندہ مزید پانچ برس کے لیے صدر منتخب ہوگئے۔
انھی دنوں کویت کے امیر نے ایک بار پھر پارلیمنٹ کی معطلی کے بعد ۱۶مئی کو نئے عام انتخابات کا اعلان کردیا۔ یہ گذشتہ ۳ سالوں کے دوران چوتھے انتخابات ہیں۔ ہر بار اپوزیشن میں موجود مختلف اسلامی گروپوں کے افراد نے متعدد وزرا اور ذمہ دارانِ حکومت کے خلاف تحریکاتِ مواخذہ پیش کیں اور انھیں مزید زیربحث آنے سے بچانے کے لیے پارلیمانی بحران کا آسان حل پارلیمنٹ کی تحلیل اور نئے انتخابات سمجھا گیا۔ انتخابات تو شاید پوری دنیا میں ہی پیسے کا کھیل بن گئے ہیں، لیکن کویت کے متمول معاشرے میں انتخابی اسراف میں مسابقت نے خود اہلِ کویت کو بھی حیرت زدہ کر دیا ہے۔ یہ کثیر اخراجات اس کے باوجود ہیں کہ وہاں انتخاب میں اصل فیصلہ کن عنصر، پارٹیوں اور قبیلوں سے نسبت قرار پاتا ہے۔ اب تک کے تجربات کے مطابق آدھی سے زیادہ پارلیمانی نشستیں مختلف اسلامی دھڑوں کے حصے میں آتی ہیں جن میں سرفہرست ’دستوری تحریک‘ کے نام سے اسلامی تحریک اور سلفی و شیعہ دھڑوں کے افراد ہوتے ہیں۔ آیندہ انتخابات میں بھی کم و بیش یہی نتائج رہنے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے البتہ چہرے شاید تبدیل ہوجائیں۔
انھی دنوں لبنانی انتخابات کا غلغلہ بھی عروج پر ہے۔ شیعہ، سنی اور عیسائی آبادیوں میں عمومی تقسیم کے باعث یہ انتخابات بھی علاقائی و عالمی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔ اس کا اہم ترین سبب حزب اللہ ہے۔ حزب اللہ کی اہمیت کی وجہ اپنی منظم قوت کے علاوہ اس کے شام اور ایران سے مضبوط تعلقات، ماضی قریب میں رفیق حریری کی جماعت سے اور حال ہی میں مصر سے ہونے والے اختلافات و تنازعات بھی ہیں۔ مصر نے صحراے سینا سے کچھ لبنانی باشندوں کو گرفتار کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ یہ حزب اللہ کے دہشت گرد ہیں جو غزہ کو ہتھیار سمگل کرنے کے علاوہ مصر میں بھی دہشت گردی پھیلانا چاہتے تھے۔
۱۶ اپریل سے شروع ہونے والے اور ۱۳مئی تک جاری رہنے والے بھارتی انتخابات بھی ذرائع ابلاغ میں خوب جگہ پا رہے ہیں۔ اگرچہ بی جے پی یا کانگریس اور ان کی حلیف جماعتوں میں سے کسی کی بھی کامیابی سے بھارت کی عمومی پالیسیوں میں عملاً کوئی خاص فرق رونما نہیں ہوتا لیکن ہار اور جیت کے بعض نفسیاتی اثرات ملک کے اندر اور باہر اہم سمجھے جاتے ہیں۔ ان انتخابات میں اندرا گاندھی کے پوتے رُوَن گاندھی کی مسلمان دشمنی پر مبنی ہرزہ سرائی نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے داروں کے حقیقی چہرے سے کچھ پردہ سرکایا ہے۔ مسلمانوں کو قابلِ گردن زدنی قرار دینے کے باوجود حرام ہے کہ اس ’گاندھی زادے‘ کو لگام دینے اور کروڑوں بھارتی مسلمانوں کو احساس تحفظ دینے کے لیے سب سے بڑی جمہوریت نے کوئی بھی مؤثر کارروائی کی ہو۔ البتہ ان انتخابات کی ایک اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں ووٹ دینے کی اہمیت کا احساس بڑھا ہے، اگر مؤثر و معقول قیادت اور باہمی یک جہتی بھی نصیب ہوجائے تو کسی کو دھمکیاں دینے کی ہمت نہ ہو۔
انتخابی موسم میں ۶ جون کو ہونے والے موریتانیا کے صدارتی انتخابات کا ذکر اس حوالے سے دل چسپ ہے کہ چند ماہ قبل ایک منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ کر برسرِاقتدار آنے والے جنرل محمد بن عبدالعزیز نے فوجی وردی اُتارنے کا اعلان کردیا ہے۔ اس وقت ملک پر ایک فوجی کونسل کا اقتدار مسلط ہے۔ جنرل صاحب خود اس کے سربراہ تھے۔ اب اگرچہ استعفا دے کر سینیٹ کے سربراہ کو دو ماہ کی عبوری حکومت سونپنے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن فوجی کونسل کا وجود باقی رہے گا۔ اب اس کی ذمہ داری ملک میں امن و امان برقرار رکھنا قرار دی گئی ہے۔ اسی کے زیرسایہ ۶جون کے انتخابات ہوں گے تاآنکہ ریٹائرڈ جنرل صاحب عوام کے پُرزور اصرار اور شاید اِسی ۹۰ فی صد والے تناسب سے کامیاب ہوکر منتخب ’سویلین‘ صدر ہوجائیں۔
۱۲ جون کو منعقد ہونے والے ایرانی صدارتی انتخابات کی تیاریاں بھی جاری ہیں، لیکن ابھی اس کا ناک نقشہ پوری طرح واضح نہیں ہوا۔ امیدواروں کے ناموں کے حوالے سے متضاد اطلاعات آرہی ہیں البتہ ایک بات طے شدہ لگتی ہے کہ ایران میں اصل حکمران طاقت یعنی علماے کرام، رہبر آیت اللہ علی خامنہ ای کی سربراہی میں اپنا سفر اسی نفوذ و ثبات کے ساتھ جاری رکھیں گے۔ امریکی صدر اوباما کی طرف سے ایران کے ساتھ بات چیت اور اچھے تعلقات کی خواہش پر مبنی بیانات نے ایرانی قیادت کو مزید توانائی فراہم کی ہے۔ حماس و حزب اللہ کی تائید اور اسرائیل کی مخالفت سے بھی پذیرائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ان تمام انتخابات میں ترکی کے بلدیاتی اور انڈونیشیا کے پارلیمانی انتخابات اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں کہ دونوں ممالک میں اسلامی طاقتوں نے اپنے قدم مزید آگے بڑھائے ہیں۔ ترکی کی حکمران، ’انصاف و ترقی (جسٹس و ڈویلپمنٹ) پارٹی‘ کو ووٹوں کا ۳۹ فی صد حصہ ملا ہے اور تمام بڑے شہروں سمیت بلدیاتی اداروں کا ۴۶ فی صد۔ ان کے یہ ووٹ عام انتخابات میں انھیں ملنے والے (۴۷ فی صد) ووٹوں سے کم ہیں لیکن وہ اپنے تئیں مطمئن نہ ہونے کے باوجود سمجھتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات میں عام طور پر ووٹ زیادہ تقسیم ہوجاتے ہیں اور قومی سے زیادہ مقامی سیاست اور تعلقات اثرانداز ہوتے ہیں۔
دوسری طرف پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین اربکان کی ’سعادت پارٹی‘ نے پارٹی کے نئے صدر ڈاکٹر نعمان کور تلموش کی سربراہی میں لڑے جانے والے انتخابات میں عام انتخابات میں حاصل ہونے والے ۳ فی صد ووٹوں میں ۱۰۰ فی صد اضافہ کرتے ہوئے ۶ فی صد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ ان کے بقول یہ ووٹ ہماری توقعات سے کم ہیں لیکن پھر بھی دگنے تو ہوگئے، آیندہ عام انتخابات میں ہم بہرصورت اسمبلی میں اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ واضح رہے کہ پارلیمانی انتخابات میں ۱۰ فی صد سے کم ووٹ لینے والی پارٹی کے ووٹ بھی بڑی پارٹیوں میں تقسیم کرتے ہوئے اسے اسمبلی میں جانے سے روک دیا جاتا ہے۔
عین انتخابات کے دنوں میں ناٹو کے نئے سربراہ کا انتخاب بھی ہوگیا جس کے لیے ڈنمارک کے وزیراعظم اینڈرس فوگ راسموسن کا نام پیش کیا گیا تھا۔ ترکی نے اس کے نام پر اعتراض کیا لیکن امریکی و یورپی اصرار پر اسی کو سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا، البتہ ترکی کو اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل کا عہدہ دے دیا گیا جو یقینا راسموسن کے شر کو کم کرنے اور ترکی کے کردار میں اضافے کا ذریعہ بنے گا۔ واضح رہے کہ سیکرٹری جنرل کے انتخاب کے لیے ناٹو کے تمام ۲۸ ارکان کا اجماع ضروری ہے۔ منتخب ہونے کے بعد راسموسن نے بیان دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کا احترام کرتا ہے اور ان سے مذاکرات کرے گا۔ بلدیاتی انتخابات کے فوراً بعد امریکی صدر اوباما نے ترکی کا اہم دورہ کیا۔ اس دورے کی بازگشت کئی ہفتوں سے سنی جارہی تھی اور کہا جا رہا تھا کہ امریکی صدر عالمِ اسلام بلکہ اُمت مسلمہ کو اہم پیغام دے گا۔ صدر منتخب ہونے کے بعد ان کا کسی بھی مسلم ملک کا یہ پہلا دورہ تھا۔ اوباما نے ترکی میں وزیراعظم اردگان کے ہمراہ تاریخی مساجد اور عثمانی آثار کا دورہ یا ’سیر‘ کرتے ہوئے عالمِ اسلام سے دوستی کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں واضح طور پر اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ امریکا عالمِ اسلام کے ساتھ حالت ِ جنگ میں نہیں ہے… ہم باہمی احترام اور مشترک مفادات کی بنیاد پر وسیع تر تعاون کی راہ نکالیں گے۔ ہم دھیان سے بات سنیں گے، غلط فہمیوں کا ازالہ کریں گے اور مشترکات کی تلاش جاری رکھیں گے‘‘۔ خدشہ ہے کہ خلافت عثمانی کے دارالحکومت سے دیے گئے یہ بیانات نقش برآب ثابت ہوں گے کیونکہ اصل فیصلہ اقوال نہیں اعمال کی بنا پر ہوتا ہے۔
انڈونیشیا کے حالیہ انتخابات جولائی ۱۹۹۸ء میں صدر سوہارتو کے ۳۲ سالہ اقتدار کے خاتمے کے بعد تیسرے عام انتخابات تھے۔ ۳۸ چھوٹی بڑی پارٹیوں اور گروہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے ۱۸ لاکھ امیدوار میدان میں اُتارے تھے۔ ۱۷ کروڑ ووٹروں کو ووٹ کا حق حاصل تھا۔ تجزیہ نگاروں نے پانچ سیاسی پارٹیوں کو فیصلہ کن قوتیں قرار دیا تھا، نتائج کے بعد اکانومسٹ کے مطابق جیتنے والا صرف ایک تھا اور ہارنے والے کئی۔ موجودہ صدر (ریٹائرڈ جنرل) سوسینو بامبانگ یودھویونو کی ’ڈیموکریٹک پارٹی‘ ۲۰ فی صد ووٹ لے کر سب سے بڑی قوت بن گئی۔ ۲۰۰۴ء میں ہونے والے انتخابات کی نسبت اس پارٹی کے ووٹ ۳ گنا زیادہ ہوگئے۔ میگاوتی سوئیکارنو پتری کی پارٹی نے ۱۵ فی صد، جب کہ سابق صدر سوہارتو کی ’گولکر پارٹی‘ کے موجودہ سربراہ اور ملک کے حالیہ نائب صدر یوسف کالا نے ۱۴ فی صد ووٹ حاصل کیے۔ نائب صدر آیندہ صدارتی انتخابات میں صدر سوسینو کے مدمقابل صدارتی امیدوار بننے کی کوشش کر رہے ہیں، جب کہ چوتھے نمبر پر وہاں کی اسلامی تحریک ’جسٹس پارٹی‘ آئی ہے، اسے ۴ء۸ فی صد ووٹ حاصل ہوئے۔
انتخابات کے باقاعدہ نتائج کا اعلان ۹مئی کو ہوگا۔ ابھی تک صرف یہی تناسب بتانے پر اکتفا کیا گیا ہے، سیٹوں کی تعداد بعد میں ہی بتائی جائے گی۔ جسٹس پارٹی نے سوہارتو کی ۳۲ سالہ طویل ڈکٹیٹرشپ کے بعد ۱۹۹۹ء کے انتخابات میں پہلی بار شرکت کی اور ۴ء۱ فی صد ووٹ حاصل کیے۔ پھر ۲۰۰۴ء کے انتخابات میں ۳ء۷ فی صد ووٹ لیے اور اب ۴ء۸ فی صد۔ پارٹی کے سربراہ ہدایت نور وحید کے مطابق جو گذشتہ پارلیمنٹ کے اسپیکر اور انتہائی قابلِ احترام شخصیت ہیں، ووٹوں کی نسبت سیٹوں کی تعداد میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی چالیس سے زائد پارٹیوں میں جسٹس پارٹی ہی واحد جماعت ہے جس کے ارکان اور ذمہ داران پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ اسلامی پارٹیاں کہلانے والی جماعتوں کے کل ووٹ گذشتہ انتخابات کی نسبت کافی کم ہوئے ہیں۔ گذشتہ بار انھیں ۳۹ فی صد ووٹ ملے تھے جب کہ اب تقریباً ۳۰ فی صد۔ مجموعی کمی کے باوجود ’عدالت پارٹی‘ کو نہ صرف یہ کہ کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ اس کی سیٹوں اور ووٹوں میں اضافہ ہوا ہے۔
اب آیندہ مرحلے میں صدارتی انتخاب ہونا ہیں، نئے نئے اتحاد وجود میں آرہے ہیں۔ قوانین کے مطابق ہر صدارتی امیدوار کے لیے کسی نہ کسی ایسی پارلیمانی جماعت یا اتحاد کے ساتھ اتحادبنانا ضروری ہے جو ۵۶۰ ارکان کے ایوان میں کم از کم ۱۲ نشستیں رکھتا ہو۔ عام انتخابات کے بعد ہونے والی ملاقاتوں اور کئی بیانات سے یہ امکان قوی تر ہو رہا ہے کہ صدر سوسینو کی ڈیموکریٹک پارٹی اور اسلامی تحریک جسٹس پارٹی کے درمیان انتخابی اتحاد وجود میں آجائے۔ خود صدر کی طرف سے بار بار اس خواہش کا اظہار کیا گیا ہے، لیکن جسٹس پارٹی کے سربراہ ہدایت نور وحید نے ایک پالیسی بیان میں کہا ہے کہ سیاسی اتحاد صرف سرکاری مناصب کی تقسیم کے لیے نہیں، بلکہ اس بنیاد پر بننا چاہیے کہ جیتنے والا اپنے اعلان کردہ پروگرام اور منشور پر عمل درآمد کرسکے، ووٹروں کے اعتماد پر پورا اُتر سکے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہم چند ووٹوں کے فرق سے جیتنے والے صدر کے بجاے مضبوط بنیادوں پر قائم اور مضبوط ارادوں کا مالک صدر چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ماضی کے ایسے تجربات دوبارہ نہ دہرائے جاسکیں کہ کسی بھی چھوٹے سے سیاسی مسئلے کو بنیاد بناکر صدر اور نائب صدر کو اپنے پروگرام پر عمل درآمد نہ کرنے دیا جائے۔ حالیہ انتخابی نتائج بعض لوگوں کے لیے انتہائی غیرمتوقع ثابت ہوئے۔ ایک سیاسی لیڈر نے تو حرام موت ہی کا انتخاب کرلیا اور خودکشی کی نذر ہوگیا جب کہ دو کے لیے دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا۔
انڈونیشیا کو بھی اگست ۱۹۴۷ء ہی میں ہالینڈ کے استعمار سے آزادی حاصل ہوئی تھی۔ تقریباً ۲۴ کروڑ نفوس پر مشتمل ہونے کے باعث آبادی کے لحاظ سے دنیا میںچوتھے اور عالمِ اسلام میں پہلے نمبر پر آنے والا انڈونیشیا، ڈکٹیٹرشپ اور مالی بدعنوانیوں کے باعث دنیا میں اپنا اصل مقام حاصل نہیں کر سکا۔ ۹۰ فی صد آبادی مسلمان ہے، ۷ فی صد عیسائی، ۲ فی صد ہندو اور ایک فی صد دیگر مذاہب سے ہیں۔ سوہارتو سے نجات کے بعد لگاتار تیسرے انتخاب منعقد ہوجانا اور بدعنوانیوں سے نجات کے مطالبے کا مرکزی حیثیت حاصل کر جانا اِس اُمید کو روشن تر کر رہا ہے کہ انڈونیشیا اپنے وسیع رقبے (ایک لاکھ ۹۱ ہزار ۹ سو ۴۰ مربع کلومیٹر)، بڑی آبادی اور کرپشن سے نجات کی دعوے دار اصلاحی تحریکوں کی کامیابی سے دنیا میں اپنا حقیقی کردار ادا کرسکے گا۔
حالیہ انتخابات سے پہلے ’کرپٹ لیڈروں کے خلاف قومی تحریک‘ کے عنوان سے ایک نمایاں سرگرمی سامنے آئی۔ جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر وجود میں آنے والے اس پلیٹ فارم نے ان لیڈروں کی فہرست تیار کی جن کی کرپشن کے باقاعدہ ثبوت ان کے پاس تھے۔ اس فہرست کو بڑے پیمانے پر عوام میں پھیلایا گیا۔ اس تحریک کے ایک ذمہ دار عدنان توبان نے رائٹر سے گفتگو میں کہا کہ ’’ہمارا مقصد ایسے افراد کو دوبارہ پارلیمنٹ جانے سے روکنا ہے جو ماضی میں اپنے دامن کو بدعنوانی سے نہیں بچاسکے‘‘۔ ایک سابق وزیر کے بقول: ’’اب حکومت اور عوام کے ساتھ ساتھ خود سیاسی پارٹیوں کی اصلاح کا وقت بھی آگیا ہے‘‘۔
عالمی انتخابی موسم میں عوام کا یہ روز افزوں احساسِ زیاں اطمینان کا باعث ہے۔ ترکی کے بعد انڈونیشیا کے انتخاب نے بھی اس حقیقت کو نمایاں کیا ہے کہ اگر پُرامن، شفاف، آزادانہ اور مسلسل انتخابات کا عمل جاری رکھا جائے تو نہ صرف تعمیر و ترقی اور اصلاح کو یقینی بنایا جاسکتا ہے بلکہ بہت سے ناقابلِ فہم، جلدباز اور لٹھ مار رجحانات کا راستہ بھی روکا جاسکتاہے جو نہ صرف اسلامی تعلیمات کا چہرہ مسخ کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ اُمت کی وحدت و سالمیت کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔
سچ فرمایا رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے: ’’جلدبازی کے لٹھ سے سواری کو ہلاک کرڈالنے والے نے نہ تو منزل حاصل کی اور نہ اپنی سواری ہی باقی رہنے دی‘‘۔ ان المنبت لا أرضاً قطع ولا ظھراً أبقی۔
سوال: جمہوریت کو آج کل ایک بہترین نظام قرار دیا جاتا ہے۔ اسلامی نظامِ سیاست کے بارے میں بھی یہی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بہت بڑی حد تک جمہوری اصولوں پر مبنی ہے۔ مگر میری نگاہ میں جمہوریت کے بعض نقائص ایسے ہیں جن کے متعلق میں یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ اسلام انھیں کس طرح دُور کرسکتا ہے۔ وہ نقائص درج ذیل ہیں:
۱- دوسرے سیاسی نظاموں کی طرح جمہوریت میں بھی عملاً آخرکار اقتدار جمہور کے ہاتھوں سے چھن کر اور چند افراد میں مرتکز ہوکر جنگ ِزرگری کی صورت اختیار کرلیتا ہے اور plutocracy [امرا کی حکومت] یا oligarchy [ایک محدود طبقے کی حکومت]کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کا کیا حل ممکن ہے؟
۲- عوام کے متنوع اور متضاد مفادات کی بہ یک وقت رعایت ملحوظ رکھنا نفسیاتی طور پر ایک بڑا مشکل کام ہے۔ جمہوریت اس عوامی ذمہ داری سے کس شکل میں عہدہ برآ ہوسکتی ہے؟
۳- عوام کی اکثریت جاہل، سادہ لوح، بے حس اور شخصیت پرست ہے اور خود غرض عناصر انھیں برابر گمراہ کرتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں نیابتی اور جمہوری ادارات کے لیے کامیابی سے کام کرنا بڑا دشوار ہے۔
۴- عوام کی تائید سے جو انتخابی اور نمایندہ مجالس وجود میں آتی ہیں، ان کے ارکان کی تعداد اچھی خاصی ہوتی ہے اور ان کے مابین باہمی بحث و مشاورت اور آخری فیصلہ کرنا بڑامشکل ہوجاتا ہے۔
آپ رہنمائی فرمائیں کہ آپ کے خیال میں اسلام اپنے جمہوری اداروں میں ان خرابیوں کو راہ پانے سے کیسے روکے گا؟
جواب: آپ نے جمہوریت کے بارے میں جو تنقید کی ہے اس کے تمام نکات اپنی جگہ درست ہیں، لیکن اس مسئلے میں آخری راے قائم کرنے سے پہلے چند اور نکات کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔
اولین سوال یہ ہے کہ انسانی معاملات کو چلانے کے لیے اصولاً کون سا طریقہ صحیح ہے؟ آیا یہ کہ وہ معاملات جن لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کی مرضی سے سربراہ کار مقرر کیے جائیں اوروہ ان کے مشورے اور رضامندی سے معاملات چلائیں اور جب تک ان کا اعتماد سربراہ کاروں کو حاصل رہے اسی وقت تک وہ سربراہ کار رہیں؟ یا یہ کہ کوئی شخص یا گروہ خود سربراہ کار بن بیٹھے اور اپنی مرضی سے معاملات چلائے اور اس کے تقرر اور علیحدگی اور کارپردازی میں سے کسی چیز میں بھی اُن لوگوں کی مرضی و راے کا کوئی دخل نہ ہو جن کے معاملات وہ چلا رہا ہو؟ اگر ان میں سے پہلی صورت ہی صحیح اور مبنی برانصاف ہے تو ہمارے لیے دوسری صورت کی طرف جانے کا راستہ پہلے ہی قدم پر بند ہو جانا چاہیے، اور ساری بحث اس پر ہونی چاہیے کہ پہلی صورت کو عمل میں لانے کا زیادہ سے زیادہ بہتر طریقہ کیا ہے۔
دوسری بات جو نگاہ میں رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ جمہوریت کے اصول کو عمل میں لانے کی جو بے شمار شکلیں مختلف زمانوں میں اختیار کی گئی ہیں یا تجویز کی گئی ہیں، ان کی تفصیلات سے قطع نظر کرکے اگر انھیں صرف اس لحاظ سے جانچا اور پرکھا جائے کہ جمہوریت کے اصول اور مقصد کو پورا کرنے میں وہ کہاں تک کامیاب ہوتی ہیں، تو کوتاہی کے بنیادی اسباب صرف تین ہی پائے جاتے ہیں۔
اول یہ کہ ’جمہور‘ کو مختارِ مطلق اور حاکمِ مطلق (sovereign) فرض کر لیا گیا اور اس بنا پر جمہوریت کو مطلق العنان بنانے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ جب بجاے خود انسان ہی اس کائنات میں مختار مطلق نہیںہے تو انسانوں پر مشتمل کوئی جمہور کیسے حاکمیت کا اہل ہوسکتا ہے۔ اسی بنا پر مطلق العنان جمہوریت قائم کرنے کی کوشش آخرکار جس چیز پر ختم ہوتی رہی ہے وہ جمہور پر چند آدمیوں کی عملی حاکمیت ہے۔ اسلام پہلے ہی قدم پر اس کا صحیح علاج کردیتا ہے۔ وہ جمہوریت کو ایک ایسے بنیادی قانون کا پابند بناتا ہے جو کائنات کے اصل حاکم (sovereign) نے مقرر کیا ہے۔ اس قانون کی پابندی جمہور اور اس کے سربراہ کاروں کو لازماً کرنی پڑتی ہے اور اس بنا پر وہ مطلق العنانی سرے سے پیدا ہی نہیں ہونے پاتی جو بالآخر جمہوریت کی ناکامی کا اصل سبب بنتی ہے۔
دوم یہ کہ کوئی جمہوریت اس وقت تک نہیں چل سکتی جب تک عوام میں اس کا بوجھ سہارنے کے لائق شعور اور مناسب اخلاق نہ ہوں۔ اسلام اسی لیے عام مسلمانوں کی فرداً فرداً تعلیم اور اخلاقی تربیت پر زور دیتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ ایک ایک فرد مسلمان میں ایمان اور احساسِ ذمہ داری اور اسلام کے بنیادی احکام کا اور ان کی پابندی کا ارادہ پیدا ہو۔ یہ چیز جتنی کم ہوگی جمہوریت کی کامیابی کے امکانات کم ہوں گے، اور یہ جتنی زیادہ ہوگی امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔
سوم یہ کہ جمہوریت کے کامیابی کے ساتھ چلنے کا انحصار ایک بیدار اور مضبوط راے عام پر ہے، اور اس طرح کی راے عام اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب معاشرہ اچھے افراد پر مشتمل ہو، ان افراد کو صالح بنیادوں پر ایک اجتماعی نظام میں منسلک کیا گیا ہو اور اس اجتماعی نظام میں اتنی طاقت موجود ہو کہ برائی اور بُرے [لوگ] اس میں نہ پھل پھول سکیں اور نیکی اور نیک لوگ ہی اس میں اُبھر سکیں۔ اسلام نے اس کے لیے بھی ہم کو تمام ضروری ہدایات دے دی ہیں۔
اگر مندرجہ بالا تینوں اسباب فراہم ہوجائیں تو جمہوریت پر عمل درآمد کی مشینری خواہ کسی طرح کی بنائی جائے، وہ کامیابی کے ساتھ چل سکتی ہے۔ اور اس مشینری میں کسی جگہ کوئی قباحت محسوس ہو تو اس کی اصلاح کرکے بہتر مشینری بھی بنائی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد اصلاح و ارتقا کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ جمہوریت کو تجربے کا موقع ملے۔ تجربات سے بتدریج ایک ناقص مشینری بہتر اور کامل تر بنتی چلی جائے گی۔ (سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، رسائل و مسائل، چہارم، ص ۲۷۹-۲۸۳)
س: ایک عرصہ سے میرے دل میں ایک شیطانی وسوسہ بیٹھ گیا ہے۔ مجھے اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف پر شک ہونے لگا ہے۔ میں بار بار اپنے دل سے پوچھتا ہوں۔ ایسا کیوں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کو انتہائی امیر اور کچھ لوگوں کو انتہائی غریب بنایا ہے۔ اگر سب برابر ہوتے تو کیا اچھا نہ ہوتا؟ اس شیطانی وسوسے کی وجہ سے میری نمازیں چھوٹ گئی ہیں۔ ان وسوسوں سے نجات پانے میں ہماری رہنمائی فرمایئے۔
ج: ہر مومن کے ساتھ ایسا لمحہ آتا ہے، جب شیطان اسے بہکاتا اور ورغلاتا ہے۔ اسے وسوسوں میں مبتلا کر دیتا ہے اور جن کا ایمان پختہ ہوتا ہے وہ جلد ہی ان وساوس سے نجات حاصل کرلیتے ہیں۔ آپ نے جن وسوسوں کا تذکرہ کیا ہے وہ دراصل دو بڑی غلط فہمیوں پر مبنی ہیں:
۱- پہلی غلط فہمی یہ ہے کہ آپ نے دنیوی مال و دولت ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ آپ کا عقیدہ ہے کہ مال و دولت ہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ آپ کو جاننا چاہیے کہ انسان کی زندگی میں مال و دولت ہی سب کچھ نہیں ہے۔ کتنے پیسے والے ایسے ہیں جنھیں مختلف بیماریوں نے گھیر رکھا ہے، اپنے پیسوں سے وہ صحت نہیں خرید سکتے۔ مال و دولت کے انبار کے باوجود ذہانت کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں، یا اولاد جیسی نعمت کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ اولاد ہوتی بھی ہے تو ناکارہ ثابت ہوتی ہے۔ کتنے ایسے ہیں جو غریبوں کی طرح پیٹ بھر کر کھانا چاہتے ہیں لیکن وہ اپنے پیسوں سے بھوک نہیں خرید سکتے۔ بھوک ہے تو موٹاپے کے خوف سے پیٹ بھر کر نہیں کھا سکتے۔ مان لیجیے وہ پیٹ بھر کر کھاسکتے ہیں لیکن کتنا کھائیں گے؟ کیا اپنے پیٹ میں زمین و آسمان کو سمو لیں گے؟ کیا اپنی دولت کو قبر میں ساتھ لے کر جائیں گے؟ اس پر مستزاد یہ کہ جس کے پاس جتنی دولت ہوگی اتنا ہی قیامت کے دن اس کا حساب کتاب بھی ہوگا۔ حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن بندہ اس وقت تک اپنی جگہ سے نہیں ٹل سکے گا جب تک کہ اس سے چار چیزیں نہ پوچھ لی جائیں۔ ان میں سے ایک سوال یہ ہوگا کہ جو دولت تمھیں عطا کی گئی تھی وہ کیسے کمائی اور کہاں خرچ کی؟
معلوم ہوا کہ مال ودولت ہی سب کچھ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی دنیا میں ہزارہا نعمتیں ایسی ہیں جو اس سے قیمتی ہیں۔ اب آپ ذرا خود پر غور کیجیے کہ جو قوت بینائی آپ کو عطا کی گئی ہے کیا لاکھ دو لاکھ کے عوض آپ اسے فروخت کرسکتے ہیں؟ یہ جو قوتِ سماعت آپ کو ملی ہے اسے سونے چاندی کے بدلے آپ فروخت کرسکتے ہیں؟ غرض کہ ہاتھ، کان، ناک، پائوں اور دوسرے سارے اعضا اللہ کی وہ نعمتیں ہیں جن کا بدل سونا چاندی نہیں ہوسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا ط (ابراھیم ۱۴:۳۴) اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے۔
ہر چیز کو مادیت کی نظر سے دیکھنا انسان کی بہت بڑی غلطی ہے۔
۲- دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ آپ نے یہ سمجھ لیا کہ اللہ کے عدل و انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ سارے انسان مال و دولت میں برابر ہوتے۔
بخدا برابری میں کوئی حکمت نہیں ہے۔ حکمت تو اس میں پوشیدہ ہے کہ سب برابر نہ ہوں تاکہ انسانوں کی آزمایش ہوسکے اور معلوم ہوسکے کہ کون شکرگزار ہے اور کون ناشکرا۔ کون مصیبت کی گھڑی میں صبر کرتا ہے اور کون صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتا ہے۔
اللہ نے یہ جو زمین و آسمان پیدا کیے، ہماری تخلیق کی تو کیا یہ سب کچھ یونہی بلامقصد کیا؟ کیا ہمیں صرف اس لیے بنایا ہے کہ ہم سب کھائیں پئیں اور مرجائیں؟ اگر سب کوبرابر پیدا کرنا ہوتا تو اللہ تعالیٰ یہ بھی کرسکتا تھا کہ انسان کو بغیر پیٹ کے پیدا کرتا، نہ اُسے لباس کی ضرورت ہوتی، نہ سرچھپانے کے لیے گھر کی۔ پھر تو امیروغریب کا کوئی جھگڑا ہی نہ ہوتا۔ لیکن نہیں، حکمت و مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کے ساتھ انسانی ضروریات بھی پیدا کی جائیں۔ آزمایش کی خاطر انسانوں میں فرق بھی رکھا جائے۔ اگر کوئی احسان و بھلائی کرنے والا ہے تو کوئی ایسا بھی ہو جس کے ساتھ وہ بھلائی کرے۔ اگر کوئی صبر کرنے والا ہے تو کوئی ایسا بھی ہو جسے دیکھ کر وہ صبر کرے۔ اگر سب برابر ہوتے تو اس زندگی میں کوئی مزہ نہ ہوتا۔ کوئی بھاگ دوڑ اور گہماگہمی نہ ہوتی۔ ساری رونق حیات مفقود رہتی۔دن اور روشنی کی اہمیت و منفعت کا احساس ہمیں اسی لیے تو ہے کہ ان کے ساتھ رات اور تاریکی بھی پیدا کی گئی ہے۔ اگر تاریکی نہ ہوتی تو روشنی کا ہمیں کیا احساس ہوتا؟
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ہم انسان خدا کی حکمت کا تعین کیسے کرسکتے ہیں؟ ایک بیمار شخص رات بھر درد سے تڑپتا ہے اور چاہتا ہے کہ درد بھری رات منٹوں میں ختم ہوجائے، دوسری طرف شب زفاف کی رنگینیوں میں مگن شادی شدہ جوڑا یہ تمنا کرتا ہے کہ یہ رات کبھی ختم نہ ہو۔ اب آپ بتائیں کہ کس کی مانی جائے اور کس کی نہ مانی جائے، نیز کیا معلوم کس عمل میں خدا کی کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ حق تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو ایک نظام کے تحت پیدا کیا ہے۔ اس کی حکمت وہی بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔
یہاں پر ایک قصے کا بیان قرینِ سیاق معلوم ہوتا ہے۔
ایک باغ میں باپ بیٹے محوِ گفتگو تھے۔ بیٹے نے باپ سے کہا کہ ہمیں تو اس میں اللہ کی کوئی حکمت نظر نہیں آتی کہ کھجور ایسے ننھے پھل کو ایک بڑے مضبوط درخت میں پیدا کیا اور تربوز ایسے بھاری بھرم پھل کو کمزور سی بیلوں میں جنم دیا کہ یہ بیلیں زمین سے اُوپر نہیں جاسکتیں۔ باپ نے کہا کہ اس میں بھی اللہ کی کوئی مصلحت ہوگی لیکن ہم انسان نہیں سمجھ سکتے۔ تھوڑی دیر کے بعد دونوں سوگئے۔ اسی دوران ایک کھجور ٹوٹ کر بیٹے کے سر پر آگری۔ بیٹے کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے بتایا کہ کھجور گرنے کی وجہ سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ باپ نے کہا کہ خدا کا شکر ادا کرو کہ اس بڑے درخت میں تربوز نہیں پھلتا ورنہ آج تم آخری سانس لے رہے ہوتے۔ گرچہ یہ ایک قصہ ہے لیکن سوچنے والوں کے لیے اس میں سامانِ عبرت ہے۔ مومن بندے کو چاہیے کہ وہ کسی شے میں بھی خدا کی مصلحت کو سمجھے یا نہ سمجھے، ہرحال میں اسے وہی کہنا چاہیے جو فرشتوں نے کہا تھا:
سُبْحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ o(البقرہ ۲:۳۲) نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں جتنا تو.ُ نے ہم کو دے دیا ہے۔
یا پھر وہ کہنا چاہیے جو قرآن میں درج ہے:
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ o(اٰل عمرٰن ۳:۱۹۱) پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو.ُ پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے۔ پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔
آپ کو چاہیے کہ جو شیطانی وسوسہ آپ کے ذہن میں آیا ہے اسے فوراً جھٹک دیجیے۔ خدا سے توبہ کیجیے ، اپنے ایمان کا اعادہ کیجیے۔ نمازیں پڑھنی شروع کر دیجیے اور جب کوئی شک ذہن میں آئے فوراً اہلِ علم کی طرف رجوع کیجیے۔ (علامہ یوسف قرضاوی، مترجم: سید زاہد اصغر فلاحی، فتاویٰ یوسف القرضاوی، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، بھارت، ص ۱۰۱-۱۰۴)
عصرحاضر کے معاشی، سیاسی، معاشرتی اور قانونی معاملات کے حوالے سے عموماً مغربی تعلیم یافتہ طبقے کی طرف سے یہ سوال گاہے بہ گاہے اٹھتا رہتا ہے کہ قرآن و سنت کے وہ قوانین جو ایک بدویانہ معاشرے میں آج سے ۱۵۰۰ سال پہلے نافذ کیے گئے تھے آج کس طرح نافذ کیے جاسکتے ہیں؟ یہ اور اس قبیل کے بہت سے سوالات جن میں اسلامی قوانین میں شدت کا عنصر، عورت کی گواہی خصوصاً حدود کے معاملات میں، عورت کا ووٹ کاحق ، خود اسلامی حکومت کا شرعی جواز وغیرہ شامل ہیں، کوئی نوزائیدہ سوالات نہیں ہیں۔ ان پر مختلف ادوار میں مختلف زایوں اور لہجوں میں بات ہوتی رہی ہے اور ان سوالات کا بار بار اٹھنا ایک لحاظ سے بہت مفید بھی ہے کہ اس طرح اہلِ فکر کو مزید غور اور تحقیق کرنے کا داعیہ ہوتا ہے اور اسلام کے روشن اور عملی پہلو مزید اُجاگر ہوکر سامنے آتے ہیں۔ اس نوعیت کے سوال اٹھنے کا ایک سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی فکر اور فقہ کی تدوین کن بنیادوں پر ہوئی اور آج بھی ہوسکتی ہے، اس پہلو پر ہمارے نظامِ تعلیم میں کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ دینی مدارس بھی اس اہم پہلو کو نظرانداز کرجاتے ہیں۔
اسلامی فقہ اور قانون میں ایک بہت اہم شعبہ مقاصد الشریعہ کا ہے جس کی نسبت حضرت عمرؓ کے علم اسرار دین کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ معروف مسلم فقہا نے اس موضوع پر براہِ راست اور بالواسطہ غیرمعمولی تحقیقی کام کیے ہیں جنھیں امام غزالی کی المُصتسفٰیاور امام الشاطبی کی الموافقات کا تذکرہ کیے بغیر اس علم کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ دورِ جدید میں محمد الطاہر ابن عاشور (۱۸۶۸ء-۱۸۱۵ء) کی معرکہ آرا تصنیف مقاصد الشریعۃ (جس کا انگریزی ترجمہ ابھی حال ہی میں لندن اور واشنگٹن سے بین الاقوامی ادارہ فکراسلامی ، ہرنڈن ورجینیا، امریکا سے طبع ہوا ہے) گذشتہ معروف کتب سے استفادہ کرتے ہوئے نئی راہوں کی نشان دہی کرنے والی ایک تصنیف ہے۔
اُردو میں اس موضوع پر تراجم کو چھوڑتے ہوئے غالباً یہ پہلی طبع زاد تصنیف ہے جو معروف ماہرِ معاشیات ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے مقالات پر مبنی کتابی شکل میں شائع کی گئی ہے۔
اس موضوع پر تعارفی اور اعلیٰ تحقیقی مواد کی ضرورت ایک عرصے سے شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی تھی۔ برادر محترم نجات اللہ صاحب نے اس کمی کو پورا کرتے ہوئے اس موضوع پر مزید توجہ اور تحقیق کی طرف اُمت مسلمہ کو متوجہ کیا ہے۔ کتاب ۸ ابواب پر مشتمل ہے جن میں مقاصد شریعت کا ایک عصری مطالعہ، مقاصد شریعۃ اور معاصر اسلامی فکر، مقاصد شریعت کی پہچان اور تطبیق، مقاصد کے فہم و تطبیق میں اختلاف کا حل، مقاصد کی روشنی میں اجتہاد کی حالیہ کوششیں، مقاصد کی روشنی میں معاصر اسلامی مالیاتی مسائل کا جائزہ، مقاصد اور مستقبلِ انسانیت اور مقاصد اور فہم و تطبیق شامل ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو اس علم کے صحیح طور پر فہم و عبور کے بغیر کسی بھی دور میں پیدا ہونے والے مسائل کا حل مناسب انداز میں نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے یہ ایک بنیادی علم ہے۔ لیکن نہ صرف برعظیم بلکہ عالمِ اسلام کی دینی جامعات میں اس پر وہ توجہ نہیں دی جاتی جس کا یہ مستحق ہے۔ عموماً تاریخ، فقہ اسلامی، فقہ الطہارہ، فقہ العبادات، فقہ المعاملات، فقہ العقود، فقہ الاسرہ وغیرہ کی تعلیم بقدر ضرورت دے دی جاتی ہے اور کئی سال کے دورانیے میں ایک ضمنی موضوع کے طور پر مقاصد کی طرف بھی اشارہ کردیا جاتا ہے۔ ایک طالب علم یہ جاننے کے باوجود کہ حفظِ نفس کا تعلق قصاص و دیت کے باب سے ہے، بہت کم غور کرتا ہے کہ حُرمتِ نفس جو شریعت کا ایک بنیادی مقصد ہے اس کے براہِ راست اثرات کن کن شعبوں پر پڑتے ہیں، کیا ماحولیاتی آلودگی کو اس سے الگ کیا جاسکتا ہے، کیا غذا میں ملاوٹ سے اس کا براہِ راست تعلق نہیں ہے، کیا دواساز اداروں میں ایسے کیمیاوی اجزا کا استعمال جو طویل مدت میں انسانی جان کے وجود کے لیے خطرہ ہو اس بحث سے خارج ہوں گے؟
حقیقت یہ ہے کہ فقہ کے وجود میں آنے کا براہِ راست تعلق مقاصد شریعہ سے ہے اور اس علم سے کماحقہ، واقفیت اور عبور کے بغیر ایک فقیہہ فتاویٰ اور معروف کتب فقہ، مثلاً البدائع والصنائع یا ھدایہ اور قدوری کی بنیاد پر ایک مستند راے تو دے سکتا ہے لیکن جدید مسائل کا صحیح فہم اور حل پیش نہیں کرسکتا۔
نجات اللہ صاحب شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اُردو خواں طبقہ کے لیے ایک انتہائی اہم موضوع پر غوروفکر کا مواد فراہم کیا ہے۔
تجدید و احیاے دین کی اسلامی تحریکوں کے حوالے سے جائزہ لیتے ہوئے (ص ۵۶) مصنف نے سیاست میں حصہ لینے اور حکمران وقت کے خلاف قوت کے استعمال کی طرف اشارہ کرنے کے بعد بعض عصری مسائل کا تذکرہ کیا ہے جن میں کرنسی نوٹ کی شرعی حیثیت، عورت کا بغیر محرم سفر کرنا، صدقہ فطر کی نقد ادایگی، قطبین میں نماز روزہ کے اوقات، لیزنگ وغیرہ سے بحث کی ہے، اور عصرِحاضر کے معروف مفکرین کی آرا بھی نقل کی ہیں جن میں شیخ یوسف قرضاوی، مفتی محمدشفیع، شیخ بن باز، شیخ غزالی اور حسن ترابی بھی شامل ہیں۔ لیکن ۲۰ویں صدی کے ایک ایسے مفکر کا نام اشارتاً بھی کہیں نظر نہیں آیا جس نے شاید ان سب سے زیادہ مقاصد شریعہ کی بنیاد پر نصوص پر مبنی سیاسی، معاشرتی، معاشی، اخلاقی اور تعلیمی مسائل پر لکھا۔ بلاشبہہ عورت کی سربراہی کے معاملے میں جب سیدابوالاعلیٰ مودودی نظربند تھے، مفتی محمد شفیع مرحوم نے فتویٰ دیا لیکن اس فتوے کی توثیق کرتے ہوئے پشاور سے کوئٹہ تک دلائل کے ساتھ جو کام استاذ مودودی نے کیا، اس کا ذکر نہ آنا ایک غیرمعمولی اور غالباً غیرشعوری بھول ہے۔
کتاب کی ایک بڑی خوبی سلاست بیان ہے، چنانچہ ایک علمی موضوع پر ہونے کے باوجود ایک عام قاری اسے بوجھل محسوس نہیں کرے گا۔ تحریکاتِ اسلامی کے کارکنان کے لیے اس کا مطالعہ دعوتی مقاصد کے لیے بہت مفید ہے۔(ڈاکٹر انیس احمد)
زیرنظر کتاب ڈاکٹر طٰہٰ جابر فیاض علوانی کی کتاب آداب الاختلاف فی الاسلام کا اُردو ترجمہ ہے۔ اس کتاب میں شیخ عبداللہ بن محمد الغنیمان کا کتابچہ اختلافی مسائل میں ذاتی میلانات و رجحانات کا اثر اور ڈاکٹر صالح بن عبداللہ بن حمید کا مقالہ ’سلیقۂ اختلاف‘ بھی شامل کیا گیا ہے۔
مؤلف نے اختلافات کی حقیقت، عہدِرسالت میں اختلافات، استنباط میں مناہج ائمہ کے اختلافات بیان کیے ہیں۔ مزیدبرآں وہ ایمان افروز واقعات ذکر کیے گئے ہیں جن کو پڑھ کر بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ ائمہ کرام رحمہم اللہ کے درمیان علمی اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے لیے کتنا احترام تھا اور پھر محبت و مودت کی یہ فضا اُن کے شاگردوں میں بھی قائم رہی۔
فقہ اور فروعی مسائل میں اختلافی مسائل کو کفر اور اسلام کا مسئلہ سمجھنے والوں اور اس بنیاد پر تکفیروتفسیق کی روش اختیار کرنے والوں کے لیے اس میں بہترین درس موجود ہے۔ ڈاکٹر طٰہٰ جابر فیاض علوانی رقم طراز ہیں: ’’مسلمانوں کا عموماً اور داعیانِ دین کا خصوصاً سب سے اہم فریضہ یہ ہے کہ اسلامی جماعتوں اور ان کے داعیوں کو متحد رکھنے کا عمل شروع کریں اور سارے باہمی اسبابِ اختلاف ختم کرڈالیں۔ اگر کہیں اختلاف ضروری ہو جب بھی اس کا دائرہ محدود رکھیں اور سلف صالحین کے آداب کا ہرطرح خیال رکھیں۔ (ص ۱۳۶)
مجموعی طور پر یہ کتاب اس اہم موضوع پر مفید اضافہ ہے، تاہم اس موضوع پر مزید تفصیل کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ بعض مقامات پر پروف کی غلطیاں توجہ طلب ہیں، مثلاً واصل بن عطاء کو واصل بن عطار (ص ۱۳)، محمد بن حنیفہ کو جعفر بن محمد بن حنیفہ (ص ۷۹) لکھا گیا ہے۔ (ساجد انور)
بچوں کے لیے مجلد خوب صورت گردپوش کے ساتھ مکی اور مدنی زندگی پر ۲ جلدوں پر مشتمل سیرت النبیؐ کی یہ کتاب مؤلف نے مستند مآخذ سے بہت ہی سہل انداز میں مرتب کی ہے۔ کتاب حُسنِ طباعت کے لحاظ سے اعلیٰ معیار کی ہے۔ اہم مقامات کی تصاویر بھی دی گئی ہیں۔ بہترین کاغذ پر کھلے کھلے الفاظ میں تحریر نگاہوں کو کھینچتی ہے۔ یہ مضامین پہلے ہفت روزہ بچوں کا اسلام میں شائع ہوکر مقبولیت حاصل کرچکے ہیں۔ کردار کی تعمیر اور شخصیت کے نکھار میں سیرت پاکؐ کے مطالعے کی اہمیت محتاجِ بیان نہیں۔ آج ہم دورِ نبوتؐ سے صدیوں کے فاصلے پر ہیں لیکن اس طرح کی کتابوں میں حالات پڑھ کر اپنے کو دورِ نبویؐ میں محسوس کرتے ہیں۔ پیارے نبیؐ سے محبت کا رشتہ استوار ہوتا ہے اور اتباع کا شوق بھی پیدا ہوتا ہے۔
ایم آئی ایس پبلشرز نے روشن ستارے کے نام سے صحابہؓ کے حالات پر بھی کتابیں شائع کی ہیں، نیز بچوں کے لیے کیسٹ اورسی ڈی وغیرہ بھی پیش کی ہیں۔ (مسلم سجاد)
ان دنوں عربی میں ایسی بہت سی کتابیں لکھی جارہی ہیں جن میں دین کی تعلیمات کو موجودہ دور کے لحاظ سے عملی انداز میں پیش کیا گیا ہے، اور اچھی بات یہ ہے کہ ان کے ترجمے شائع کیے جا رہے ہیں۔
عائلی زندگی اور میاں بیوی کے تعلقات کے بارے میں قرآن میں اور بالخصوص حدیث میں جو چھوٹی چھوٹی باتیں آئی ہیں،اس ۲۰۰ صفحے کی کتاب میں مرتب کرکے پیش کردی گئی ہیں۔ کتاب کی خاص بات عنوان قائم کرنا اور ان سب کو فہرست میں لکھ دینا ہے۔ اسی لیے فہرست ۶صفحات پر مبنی ہے۔ چند عنوانات سے اندازہ ہوگا کہ کتاب میں کیا کچھ ہے، ہر بات کی سند دی گئی ہے: شوہر کو بیوی کی بعض بدذوقیوں پر صبر کرنا چاہیے، بیوی کی تفریح کے لیے بعض تفریحی امور کا اہتمام کرنا چاہیے، بیوی خاوند کی شکایتیں لگانے سے پرہیز کرے وغیرہ۔
آخر میں سعودی عرب کے مشہور فقیہہ محمد بن صالح العثیمین کے دو مقالے شامل کیے گئے ہیں: ’نوجوانوں کی مشکلات اور اس کا حل‘ اور دوسرا :’اصلاحِ معاشرے میں عورت کا کردار‘ جس میں تربیت اور دعوت کے ضمن میں عورت کی ذمہ داری بتائی گئی ہے۔ (م - س)
زیرتبصرہ کتاب عزام تمیمی کی انگریزی کتاب Hamas: Unwritten Chapters کا ترجمہ ہے جو بزرگ صحافی محمد یحییٰ خاں نے کیا ہے۔ کتاب حماس کے بارے میں صحیح نقطۂ نظر، آگہی اور شعور کا مرقع ہے۔ حماس کے بارے میں تازہ ترین معلومات، موقف، مقاصد کا تذکرہ، حماس کے قائدین،معتقدین کی سوچ، اقدار، جدوجہد اور نظریات کی تفصیل دی گئی ہے۔ پیش آمدہ چیلنجوں سے کیسے عہدہ برآ ہوئے، دوست اور دشمن کے ساتھ رویہ کیا رہا، ناکامیوں کا سامنا کس طرح کیا؟ غرضیکہ حماس کو عالمی سیاق و سباق اور تناظر میں جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔
۲۰۰۳ء میں انگریزی میں لکھی جانے والی یہ کتاب حماس کی جدوجہد کا حقیقی اور صحیح رُخ پیش کرتی ہے۔ آغاز میں مترجم نے فلسطین کی ابتدائی تاریخ ، برطانوی قبضہ، پہلی جنگ ِ فلسطین، سویز سنائی جنگ، ۶روزہ جنگ اور جنگ اکتوبر کے نام سے چند نقشہ جات کا اضافہ بھی کیا ہے۔ کتاب میں واضح کیا گیا ہے کہ مغرب، حماس اور حزب اللہ جیسی تحریکوں کے بارے میں اپنے غیرمنصفانہ موقف کے باعث شدید غلط فہمیوں کا شکار ہے اور ’حماس‘ کو القاعدہ سے جوڑنا شدید قسم کی بے انصافی اور انتہاپسندی ہے۔ کتاب ۱۰ ابواب، ۶ ضمیموں اور چند نقشوں پر مشتمل ہے اور مسئلہ فلسطین اور اسرائیل کی حالیہ جارحیت کو سمجھنے کے لیے مفید ہے۔ ترجمے سے اُردوخواں طبقے تک بھی رسائی ممکن ہوگئی ہے جو مفید کاوش ہے۔ (عمران ظہور غازی)
اسلامی تحقیقاتی اور دعوتی اداروں کی جانب سے اعلیٰ معیار کے مجلے اُردو میں کمیاب اور انگریزی میں نایاب ہیں۔ اس صورت حال میں ۷ معیاری مقالات کا یہ مجموعہ خوش گوار ہوا کا جھونکا ہے جو نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی منظر پر اسلام کو پیش کرے گا۔ حجۃ الوداع پر ظفراسحاق انصاری کا مقالہ ہے۔ ایازافسر نے انگریزی کی درسی کتب میں مناسب اسلامی، ثقافتی پس منظر پیش کرنے کے بارے میں تجاویز دی ہیں۔ عبدالجبار شاکر نے سیرتِ نبویؐ پر رحمت کے حوالے سے لکھا ہے۔ ترکی کے محمود عائیدین نے ویٹی کن کونسل اور عیسائی مسلم تعلقات پر معلومات دی ہیں۔ ایک مضمون حضرت عمر فاروقؓ کے بیت المقدس کے لوگوں کے ساتھ معاہدے پر ہے۔ آسٹریا میں اسلام پر ۲۵صفحے کے مقالے میں تازہ تفصیلی معلومات ملتی ہیں۔ مراد ہوفمین کی ڈائری سے بنیادی مسائل پر روشنی پڑتی ہے۔ برنارڈ لیوس کی The Crisis of Islam: Holy War and Unholy Terrorپر امتیاز ظفر نے تبصرہ کیا ہے۔ مجموعی طور پر جیساکہ موضوعات سے اندازہ ہوتا ہے، ایک وقیع رسالے کا اضافہ ہوا ہے۔ امید ہے ہر سہ ماہی پر آتا رہے گا۔
انگریزی میں دعوتی رسالوں کا ذکر ہے تو دو دوسرے رسالوں کا ذکر بھی مناسب ہوگا۔ یہ بھی سہ ماہی ہیں۔ ایک INTELLECT بڑے سائز کے ۸۲ صفحات، آرٹ پیپر پر بہترین معیار پر طبع شدہ۔ مدیرہ: بنت زاہد۔ (مکتبہ فہم دین نزد مسجد دارالسلام، فیزIV، ڈی ایچ اے، کراچی-۷۵۵۰۰، فون: ۴۲۵۱۶۵۳-۰۲۱) ۔دوسرا خواتین کے لیے HIBA کے نام سے ہے جس کی چھٹی جِلد کا پہلا شمارہ میرے سامنے ہے۔ یہ ۴۸ صفحات کا ہے، آرٹ پیپر پر، قیمت : ۱۵۰ روپے، مدیرہ: رانا رئیس خان (یونٹ نمبر۲، بلڈنگ سی/۲۲، اسٹریٹ ۱۴، آف خیابان شمشیر، فیزV ، ڈی ایچ اے، کراچی، فون: ۵۳۴۳۷۵۷-۰۲۱)۔ اس شمارے میں شیطان کو موضوع بناکر مؤثرانداز سے تذکیر کی گئی ہے کہ گھر میں کس طرح آتا ہے، عورتوں پر کس طرح حملہ کرتا ہے وغیرہ۔ دونوں رسالے پڑھنے کے ساتھ دیکھنے سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ اچھا کام اچھے معیار پر دیکھ کر دلی خوشی ہوئی۔ (م - س)
انبیا کا طریقۂ تبلیغ کوئی جامد طریقہ نہیں ہے بلکہ انسان کی علمی و ذہنی ترقیوں کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی اور ترقی ہوتی رہی ہے جس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ سائنس اور تمدن کی ترقی سے انسان کے وسائل کار اور ذرائع معلومات میں جو اضافے ہوئے ہیں ان سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے کا حق داعیانِ حق کو ہے۔ مثلاً آج پریس اور ریڈیو وغیرہ نے انسان کی قوتِ ابلاغ کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے۔ ایک بڑی سے بڑی تقریر چند منٹوں کے اندر دنیا کے ایک گوشے سے لے کر دوسرے گوشے تک پہنچائی جاسکتی ہے، کسی وسیع سے وسیع تحریک سے چند دنوں کے اندر اندر دنیا کے تمام پڑھے لکھے انسانوں کو آشنا کیا جاسکتا ہے، مشکل سے مشکل باتیں بہت معمولی محنت سے عوام اور خواص سب کے ذہن نشین کی جاسکتی ہیں۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ آج حق کی تبلیغ کے لیے ان ذرائع پر قبضہ کیا جائے۔
اگر اہلِ حق یہ خیال کر کے ان چیزوں کو نظرانداز کردیں کہ انبیا نے تبلیغ دین کے کام میں ان چیزوں کو استعمال نہیں کیا ہے بلکہ دروازے دروازے پر پہنچ کر ایک ایک شخص پر تبلیغ کی ہے، اس وجہ سے ہمارے لیے بھی اولیٰ یہی ہے کہ ہم ان چیزوں کو ہاتھ نہ لگائیں بلکہ گھر گھر پہنچ کر لوگوں کو تبلیغ کریں، تو یہ انبیا کے طریقے کی پیروی نہیں ہے بلکہ شیطان کا ایک بہت بڑا دھوکا ہے، جو وہ اس لیے دے رہا ہے تاکہ جب تک آپ اپنے ’دین دارانہ‘ طریقے پر چل کر دو آدمیوں سے کوئی بات کہیں، اس وقت تک وہ ان سائنٹی فک وسائل سے کام لے کر ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں تک اپنی دعوتِ باطل نہایت مؤثر طریقہ پر پہنچا دے۔ شیطان نے یہی دھوکا دے کر اکثر اہلِ حق کی کوششوں اور قابلیتوں کو نقصان پہنچا دیا ہے اور ان کے مقابل میں خود اپنا پلّہ بھاری رکھا ہے۔ یہاں تک آہستہ آہستہ اب زندگی کے ہرمیدان میں یہ پیچھے ہیں اور وہ آگے ہے اور دونوں کی کوششوں کے نتائج میں سرے سے کوئی نسبت ہی باقی نہیں رہ گئی ہے، اور یہی صورت حال اس وقت تک باقی رہے گی جب تک اہلِ حق ان زبردست قوتوں کو حق کی خدمت میں استعمال کرنے کا ڈھنگ نہ سیکھ جائیں جو آج ۱۰۰ فی صد شیطان کے تصرف میں ہونے کی وجہ سے باطل کی خدمت میں صرف ہو رہی ہیں۔ (’دعوت کے طریقے‘، مولانا امین احسن اصلاحی، ترجمان القرآن، جلد ۳۰، عدد ۵،جمادی الثانی ۱۳۶۶ھ، اپریل ۱۹۴۷ء، ص ۱۹-۲۰)
کتاب ’مفاہمت‘ کا موضوع (مارچ-اپریل ۲۰۰۹ء) بظاہر مغرب اور مسلم دنیا کے درمیان مفاہمت کا پُل باندھنا ہے مگر تحریر کا انداز متعصبانہ، جارحانہ اور تنگ نظرانہ ہے۔ کتاب میں بغیر کسی حوالے کے قائدین تحریکاتِ اسلامی کے خلاف جس انداز سے کیچڑ اُچھالا گیا ہے یہ تاریخ سے انتہائی زیادتی ہے۔ فاضل تجزیہ نگار نے مدلل انداز میں جس طرح سے تحریکِ اسلامی کی وکالت کی، یہ وقت کی ایک اہم ضرورت تھی اور ریکارڈ کی درستی کا تقاضا بھی۔
محترمہ کے دنیا سے چلے جانے کے بعد جس جلدبازی سے کتاب کا دیباچہ اور اختتامیہ قلم بند کیا گیا ہے، اس سے بھی شکوک و شبہات کو تقویت ملتی ہے۔ اس کتاب کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ جو حقیقت محترمہ کے وصیت نامے کی ہے وہی حقیقت غالباً اس تصنیف کی بھی ہے۔
’مفاہمت کے نام پر‘ تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش کا بروقت اور برمحل محاکمہ ہے۔ پی آئی اے کے جہاز کو اغوا کرنے کے بعد کابل ایئرپورٹ پر میجر طارق رحیم کو محض فوجی ہونے کی بنا پر ’الذوالفقار‘ نے قتل کردیا، اس کا ذکر کرنا مبصرصاحب غالباً بھول گئے۔ پروفائل آف انٹیلی جنس کے مصنف بعد میں بریگیڈیئر کے عہدے پر فائز رہے اور بھٹو صاحب کے حامی اور ہم مسلک بھی ہیں، ان کے بیان کے مطابق ۱۹۷۷ء میں تحریکِ نظامِ مصطفیؐ کے دوران لاہور اور گوجرانوالہ میں صرف ایک دن میں ۳۵ افراد پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے جس کے بعد ان شہروں میں مارشل لا لگانا پڑا۔ بھٹو کھر کش مکش کے زمانے میں لاہور کے حلقہ ۶ کا الیکشن بھی لوگوں کو نہیں بھولا جس میں درجن بھر لوگ قتل ہوئے۔
’مفاہمت کے نام پر‘ـ (مارچ ،اپریل۲۰۰۹ء) ایک عمدہ پیش کش ہے بالخصوص دور حاضر میں، جب کہ دانش وری کے نام پر حقائق کو توڑ مروڑ کے پیش کرنے میں کوئی بھی شخصیت خواہ اس کا قد کتناہی بلند کیوں نہ ہو کوئی عار نہیں سمجھتی۔ محض عارضی سیاسی فوائد کے لیے یا کسی شخصیت کے قد اور اس کے معاشرتی اثرات سے متاثر ہوکر اس کے حقیقی خیالات کو منظر عام پر لانے کے بجاے چھپائے رکھنے کی سوچ کسی اوسط درجے کے سیاسی کارکن ہی کی ہوسکتی ہے۔
’چین میں سات دن‘ (مارچ ۲۰۰۹ء) میں یہ امر وضاحت طلب ہے کہ چین کی ترقی پذیر معیشت کا اصل راز کیا ہے جو ہمارے ہاں نہیں۔ اس پہلو کو نمایاں کرنے کی ضرورت تھی، یہ تشنہ رہا۔
اب اس رسالے میں وہ خامیاں (ہماری ناقص راے کے مطابق) جو قارئین بتاتے تھے ختم ہوگئی ہیں، مثلاً ثقیل اُردو اب سلیس ہوگئی ہے۔ ’اشارات‘ اور ’شذرات‘ اب عام فہم اور زودہضم ہوگئے ہیں۔ ’تذکیر‘ ، ’اسوۂ حسنہ‘ ، ’تزکیہ و تربیت‘ اور ’نظامِ حیات‘ مفید سلسلے ہیں اور آپ نے اب جو مضامین مارچ کے شمارے میں شائع کیے ہیں وہ زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں کہ آپ کو واقعی عام آدمی کے مسائل کا بھی بخوبی اندازہ ہے۔ ویسے تو عالمی مسائل پر بھی اسلامی نقطۂ نگاہ سے آپ لوگوں کا تجزیہ زبردست ہوتا ہے، مگر آج کل کا مہنگائی کا مارا اور پریشان حال فرد اسے کم ہی جاننا پسند کرتا ہے۔ ’مدیر کے نام‘ میں قارئین کے خطوط میں وضاحت طلب امور کا جواب ضرور دیا جائے۔ کچھ تفصیلی خطوط بھی دیں۔ اس سے قارئین کی دل چسپی بھی بڑھے گی، نیز صفحات بھی بڑھائیں۔
’اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنج اور ہماری ذمہ داری‘(فروری ۲۰۰۹ء) پڑھ کر اُمت مسلمہ کے خلاف مکروفریب اور سازشوں کا علم ہوا۔ ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج مغرب کی تہذیبی یلغار ہے جس کا سب سے اوّلین ہدف ہمارا خاندانی نظام ہے جس میں اسلامی تعلیمات اور اسلامی اقدار سیکھنے اور سکھانے والوں، یعنی بچوں اور خواتین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کے لیے تعلیمی نصاب میں تبدیلی، آغا خان تعلیمی بورڈ اور امریکی سفارت خانے کی طرف سے یوتھ ایکسچینج اینڈ اسٹڈی پروگرام (YES) جاری ہے جس کے تحت ہمارے نوجوان طلبہ اور طالبات کو ایک سال کے لیے امریکا لے جاکر ایک خاندان میں رہنے کا انتظام کیا جاتا ہے تاکہ اُن کے ذہنوں میں مغربی تصورات کو راسخ کیا جاسکے۔ ہماری خواتین کو مختلف بہانوں سے خوش نما نعروں کے ذریعے ان کے اصل مقام سے ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے، جب کہ والدین نہایت سادہ دلی سے اپنی نئی نسل کو مغرب کی جھولی میں ڈال رہے ہیں۔ تہذیبی یلغار کو روکنے کے لیے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے قیام کو ۶۰ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا مگر آج بھی پاکستان کے ۴۹ فی صد شہری خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ غربت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ صورتِ حال اس حد تک تشویش ناک ہوچکی ہے کہ خاندان اجتماعی خودکشیاں کر رہے ہیں۔ مفلس اور نادار لوگ اپنے بچوں کو فروخت کررہے ہیں یا انھیں ایدھی سینٹر کے حوالے کر رہے ہیں۔ غریب عوام قرض اُتارنے کے لیے اپنے گردے بیچ رہے ہیں۔ پاکستان کے ۷۰ فی صد شہری روٹی، روزگار، صاف پانی، بجلی، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ ۱۹۷۳ء کا آئین محض دکھاوے کے لیے ہے۔ اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ اختیارات کی مرکزیت کی وجہ سے صوبے خودمختاری سے محروم ہیں۔ پاکستان عالمی سازشوں کی زد میں ہے۔ اس پر دنیا کی ناکام ریاست ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔
درحقیقت ملک کا سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ استحصالی ریاستی نظام ہی تمام سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل کا سبب ہے۔ اس نظام کی بنیاد ہی ظلم، ناانصافی اور کرپشن پر قائم ہے۔ اس نظام میں وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن نہیں ہے۔ یہ نظام ناکارہ، ناکام اور فرسودہ ہوچکا ہے۔ اس کی بنیاد پر کبھی اچھی حکومت قائم نہیں ہوسکتی۔ یہ ایک غیراسلامی، غیر اخلاقی اور غیرانسانی نظام ہے۔جب تک پاکستان میں جاگیردارانہ استحصالی اور جابرانہ ریاستی نظام موجود ہے اور جب تک معاشی، تعلیمی، حکومتی، انتخابی، عدالتی اور پولیس کے نظام میں انقلابی تبدیلیاں نہیں لائی جاتیں ملک میں اسلامی فلاحی ریاست اور عوامی جمہوریت کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ جب ریاستی کلچر کرپشن کا شکار ہوجائے اور سیاسی ذہنیت مفاد پرستی اور موقع پرستی میں ڈھل جائے تو ایسی ملک دشمن ذہنیت اور ایسے عوام دشمن کلچر کو تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ انقلابی تبدیلی کے بعد ہی ایسا معاشرہ وجود میں آتا ہے جس میں تمام شہریوں کو بلاتفریق اور بلاامتیاز ترقی کے مساوی مواقع ملتے ہیں اور انھیں عزت سے جینے کا حق ملتا ہے۔ چہرے نہیں نظام بدلنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہی نظام چلتا رہا تو شاید پاکستان کے اگلے ۶۰ سال گذشتہ ۶۰سالوں سے بھی بدتر ہوں۔ اس سوچ کو عوام میں آگے بڑھانے سے ہی انقلابی شعور عام ہوگا اور تبدیلی کی راہ ہموار ہوگی۔