مضامین کی فہرست


دسمبر ۲۰۰۹

پاکستان آج اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ہرطرف سے سنگین خطرات کی یورش ہورہی ہے اور گمبھیر بحرانوں کے ایک خوف ناک سیلاب بلکہ سونامی نے زندگی کے ہرشعبے کوتہ و بالا کر دیا ہے۔ عوام بے چین ہیں، دانش ور انگشت بدنداں ہیں، نوجوان مایوس ہیں،  دوست اوربہی خواہ دل گرفتہ ہیں لیکن حکمران جن پر سب سے بڑی ذمہ داری ہے، بے حسی اور   بے تدبیری کی تصویر بنے ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ مفاد پرستوں کو  من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ ہے، ادارے تباہ ہو رہے ہیں، امن و امان کی صورت ابتر ہے،   شب وروز کا اطمینان و سکون اور چین رخصت ہوچکا ہے، اور معیشت کا حال دگرگوں ہے۔ غربت، فاقہ کشی اور بے روزگاری میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے، کرپشن کا طوفان ہے۔ مرکز اور صوبوں کے درمیان بے اعتمادی بڑھ رہی ہے۔

’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکی جنگ نے اب پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ صوبہ سرحد، صوبہ بلوچستان اور مرکز کے زیرانتظام علاقہ جات (فاٹا) میں فوجی آپریشن جاری ہے، جس سے عملاً سارا ملک اس آگ کی لپیٹ میں آگیا ہے۔ پاکستان کی قومی فوج اور عوام ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ امریکا کی مداخلت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب اس کے سفارت کار کھلے بندوں حکمرانی (مائیکرومینجمنٹ) کرتے نظر آرہے ہیں۔ امریکی ڈرون حملے روزمرہ کا معمول بن گئے ہیں، جن پر رسمی احتجاج کا تکلف بھی روا نہیں رکھا جا رہا۔ امریکا کی    خفیہ ایجنسیوں کے کارندے دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں سرگرم ہیں اور اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ وہ ایسی جارحانہ دراندازیوں پر پوری بے حمیتی کے ساتھ عملاً ممنونیت کے پھول نچھاور کر رہے ہیں۔ ایک نہیں متعدد امریکی ذمہ دار اپنی نجی گفتگو میں اس امر کا فخر سے اظہار کر رہے ہیں کہ: موجودہ صدر آصف زرداری سابقہ صدر جنرل مشرف سے بھی زیادہ خوش دلی کے ساتھ امریکا کے ہر اشارے پر عمل کر رہے ہیں___ یہی وجہ ہے کہ ۲۰ ماہ ہی میں موجودہ حکمرانوں نے عوام کو بُری طرح مایوس کر دیا ہے، یوں ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کو روشنی کی جو کرن اُفق پر اُبھری تھی وہ دم توڑ کر رہ گئی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی نمایندہ پامیلا کونسٹیبل پاکستان کے اپنے حالیہ دورے کے بعد ۱۶ نومبر ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں پاکستانی عوام کے جذبات و احساسات کو یوں بیان کرتی ہے:

طالب علم، دکان دار عام شہری غرض جس سے بھی پچھلے ہفتے بات کی گئی، اس نے شکایت کی کہ زرداری حکومت نے ملک کے کسی بھی پیچیدہ مسئلے میں عوام کو سہولت نہیں دی۔ سب نے کہا کہ فوجی حکومت کے بجاے سول حکومت کے آنے پر ہم نے جو اُمیدیں باندھی تھیں وہ ختم ہوگئی ہیں۔

پامیلا کونسٹیبل، قائداعظم یونی ورسٹی اسلام آباد کے ایک پروفیسر کا یہ تبصرہ نقل کرتی ہے:

یہ تاثر عام ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب قوم کو مضبوط قیادت کی ضرورت ہے، حکومت بے پتوار کشتی کی مانند ہچکولے کھا رہی ہے۔ مسٹر زرداری کے بارے میں عام خیال ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ انھوں نے بہترین آدمیوں کو اپنے سے دُور کر دیا ہے اور کابینہ میں ان لوگوں کو بہ کثرت شامل کررکھا ہے جو تعمیل کے لیے احکامات کے منتظر رہتے ہیں۔ اس لیے حکومت سے توقعات ختم ہوگئی ہیں۔

برٹش کونسل کے زیراہتمام پاکستانی نوجوانوں کے ایک سروے کے مطابق جو The Next Generation Report (نئی نسل کے بارے میں رپورٹ)کی شکل میں ۲۱ نومبر ۲۰۰۹ء کے اخبارات میں شائع ہوا ہے، نوجوانوں کے صرف ۱۵ فی صد نے حکومت کے رُخ اور کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے، جب کہ ۸۵ فی صد غیرمطمئن ہیں اور ۷۲ فی صد نے کہا ہے کہ اس زمانے میں ہمارے معاشی حالات بگڑے ہیں۔ رپورٹ کے الفاظ میں:

نتائج زیادہ تر تشویش ناک ہیں۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ نوجوانوں کی اکثریت یقین رکھتی ہے کہ بیش تر پاکستانی ادارے بدعنوانی سے آلودہ ہیں۔ زیادہ تر یہی سمجھتے ہیں کہ حکومت کسی بھی سطح پر کچھ کرنے میں ناکام ہے۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۲۲نومبر ۲۰۰۹ء)

یوں تو اس حکومت کی کارکردگی روزِ اول ہی سے مایوس کن تھی، لیکن گذشتہ دو ماہ میں  حالات نے بڑی فیصلہ کن کروٹ لی ہے۔ ایک طرف امریکا کے شدید دبائو کے تحت سوات اور مالاکنڈ کے بعد جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا آغاز، اور اس کے ردعمل میں صوبہ سرحد ہی   میں نہیں اسلام آباد، راولپنڈی اور لاہور میں بھی تشدد کا لاوا کچھ اس طرح پھٹا ہے کہ ان دو مہینوں میں سیکڑوں افراد لقمۂ اجل بن گئے ہیں اور پورے ملک کا سیکورٹی کا نظام درہم برہم ہے، حتیٰ کہ  تعلیمی ادارے تک محفوظ نہیں رہے ہیں۔

فیصلہ کن موڑ

اس پس منظر میں دو اہم ترین واقعات ایسے ہیں، جنھوں نے وطن عزیز کو ایک فیصلہ کن  موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ پہلا ’کیری لوگر بل‘ کی شرمناک شرائط اور اس کے بعد امریکا کا منظور کیا جانے والا اسی نوعیت کی شرائط سے بھرپور فوجی امداد کا قانون۔ دوسرا این آر او (’قومی مفاہمتی آرڈی ننس‘) کے بدنامِ زمانہ قانون کا سپریم کورٹ کے فیصلے کے تقاضے کے نام پر قومی اسمبلی میں پیش کرنا، پھر اسے واپس لینا۔ عوامی دبائو کے تحت ہزار پس و پیش کے بعد ۸۰۴۱ این آر او زدہ افراد کی فہرست کی اشاعت، جس میں صدرِ مملکت سے لے کر مرکزی اور صوبائی وزرا تک اور پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے لیڈر سرفہرست ہیں۔ اس میں متعدد سفیر اور بیورو کریسی کے بڑے بڑے نام بھی شامل ہیں۔ پہلے نے ہماری سیاسی حاکمیت کو پارہ پارہ کیا تو دوسرے نے ملک کی اخلاقی ساکھ اور عزت کو خاک میں ملا دیا۔

ان تمام ایشوز پر جس بھونڈے انداز میں اور جس بے غیرتی کے ساتھ معاملہ کیا گیا ہے اس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اور حکومت بلکہ خصوصیت سے صدر زرداری، پیپلزپارٹی اور   ایم کیو ایم کی قیادت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں آج پاکستان اپنی سیاسی تاریخ کے   پست ترین مقام پر پہنچا دیا گیا ہے۔ اور اگر این آر او کے آئینے میں اس بدقسمت ملک کی قیادت کی بدنما شکل میں کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ ۲۰۰۹ء کی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے پوری کر دی ہے۔

وقت آگیا ہے کہ ان حالات کا بے لاگ جائزہ لے کر خرابی کی اصل جڑ کا تعین کیا جائے۔ اب لیپاپوتی سے کوئی کام نہیں چل سکتا۔ تلخ حقائق کا کھل کر سامنا کرنا ہوگا۔ قوم کو اور   خود اپنے کو دھوکا دینے کے لیے اس وقت مفادپرست قیادت جو تین بڑی گمراہ کن باتیں کر رہی ہے، ان کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے۔

بے بنیاد خدشات

  •  جمھوریت کے خلاف سازش: پہلی بات یہ کہی جارہی ہے کہ: ’’یہ سب کچھ جمہوریت کے خلاف ایک سازش ہے۔ جب بھی جمہوری حکومت قائم ہوتی ہے، اس قسم کے الزامات شروع کر دیے جاتے ہیں۔ دراصل یہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے جمہوریت پر حملے کے مترادف ہے‘‘۔

ہم صاف لفظوں میں کہنا چاہتے ہیں کہ آمریت فوجی ہو یا سول، تباہی کا راستہ ہے اور پاکستانی قوم باربار کے تجربے کے بعد یکسو ہے کہ فوج کی سیاسی مداخلت یا خفیہ قوتوں کا سیاسی کھیل کسی شکل میں بھی قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ قوم اور اعلیٰ عدلیہ نے پہلی بار دوٹوک انداز میں فوجی مداخلت کے امکان (option) کو رد کر دیا ہے اور متفقہ طور پر طے کر دیا کہ آیندہ کسی کو یہ کھیل کھیلنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ لیکن یہ بھی ناقابلِ برداشت ہے کہ آمریت اور خفیہ قوتوں کا نام لے کر سیاسی قیادت اپنی مجرمانہ حرکتوں کے لیے سندِجواز یا رعایت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ بلاشبہہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت پر قابلِ ترجیح ہے، لیکن بدترین جمہوریت خود جمہوریت کی   تباہی کا راستہ بناتی ہے۔ جمہوریت کو عوام کے لیے خیروفلاح اور عدل و ترقی کا ذریعہ بننا چاہیے۔ اس لیے کہ جمہوریت محض پرچی کے ذریعے اقتدار میں آنے کا نام نہیں۔ جمہوریت دستور اور قانون کی حکمرانی، عوام کے مفادات، احساسات اور عزائم کی بالادستی، پارلیمنٹ کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی، بنیادی حقوق کی حفاظت اور پارلیمنٹ، میڈیا اور عوام کے سامنے حکمرانوں کی جواب دہی کا نام ہے۔ محض آمریت کا ہوّا دکھا کر جمہوریت کی خوبیوں سے قوم کو محروم کر کے زبانی جمع خرچ سے جمہوریت کا واویلا کرنا بھی ایک ایسا مجرمانہ فعل ہے، جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ انتقام غلط ہے لیکن انصاف اور احتساب، جمہوریت کی روح اور اسلام کا تقاضا ہے اور جمہوریت ہی کے نام پر احتساب اور انصاف سے بچنے کی کوشش مجرمانہ فعل ہے۔ کرپشن ایک سرطان (کینسر) ہے اور محض یہ کہہ کر کہ: ’’ہمیں عوام نے ووٹ دیا ہے‘‘، کرپشن پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا اور نہ قانون اور انصاف کی گرفت سے بچا جاسکتا ہے۔

  •  نظام کو خطرہ: دوسری نہایت گمراہ کن دلیل بار بار یہ دی جارہی ہے کہ: ’’نظام کو خطرہ ہے‘‘۔ خطرہ نظام کو نہیں بلکہ بدعنوان عناصر اور مفادات اور طاقت کے اس شیطانی شکنجے کو  خطرہ ہے جس کا سیاہ چہرہ پوری طرح بے نقاب ہوچکا ہے اور جس نے اصل دستوری اور جمہوری نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ دستور اور قانون کی بالادستی ہی نظام کے استحکام کا ذریعہ ہے۔ تبدیلی، دستور اور قانون کے مطابق آنی چاہیے اور سسٹم کی کامیابی کے معنی ہی یہ ہیں کہ حکمرانی کا نظام دستور اور قانون کے مطابق چلے، اور اگر حکمران ناکام ہورہے ہوں یا قانون کی گرفت میں آرہے ہوں تو دستور اور قانون کے مطابق ان کا احتساب ہو اور تبدیلی قانون کی حدود میں لائی جائے۔

درمیانی مدت کے انتخابات (مڈٹرم الیکشن) بھی اس کا ایک ذریعہ ہیں اور یہ ایک معروف جمہوری و دستوری عمل ہے۔ دنیا کے تمام ہی جمہوری ممالک میں یہ عمل جاری و ساری ہے۔ امریکا میں تو دستوری نظام ہی ایسا ہے کہ ہر دوسرے سال قیادت کو عوام کی عدالت میں جانا پڑتا ہے۔ برطانیہ جسے پارلیمانی جمہوریت کا گہوارا کہا جاتا ہے وہاں ایک دو بار نہیں، دسیوں بار پارلیمنٹ کا انتخاب مقررہ مدت سے پہلے ہواہے۔ اس لیے درمیانی مدت کے انتخابات کو گالی بناکر پیش کرنا دراصل اپنی ناکامیوں اور مجرمانہ افعال کے احتساب سے بچنے کی کوشش ہے، جو ہر اعتبار سے جمہوریت کے مسلّمہ اصولوں اور روایات کے خلاف ہے۔ درمیانی مدت کے انتخابات ہی مسئلے کا حل نہیں اور نہ ابھی قوم نے اس کا مطالبہ کیا ہے۔ اس وقت تو مطالبہ صرف یہ ہے کہ: ’’پارلیمنٹ کو بالادست کیا جائے، عدالت کی آزادی اور غیر جانب داری کی مکمل حفاظت ہو، اور قانون کے مطابق ہر ایک کا احتساب اور جواب دہی ہو‘‘۔ لیکن ان معقول مطالبات پر ’نظام‘ کے ’درہم برہم‘ ہونے کی دہائی دی جانے لگتی ہے اور اس میں حکومت ہی نہیں دوسری سیاسی جماعتیں جن کو عوام کے حقوق اور دستور اور قانون کی پاس داری کا علَم بردار ہونا چاہیے، خود وہ بھی سخت الجھائو اور ذہنی انتشار کا شکار نظر آتی ہیں۔

اس لیے ہم یہ بات برملا کہنا چاہتے ہیں کہ دستور اور قانون کے مطابق مکمل، شفاف اور بے لاگ احتساب اور انصاف سے کسی نظام کو کوئی خطرہ نہیں ہے، بلکہ نظام کے تحفظ اوراستحکام کے لیے ضروری ہے کہ قانون کے سامنے سب برابر ہوں اور قانون کے مطابق ہر حکمران اور اس کے ہراقدام کا احتساب ہو، خصوصیت سے کرپشن کے باب میں کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہ کی جائے۔ نہ کسی کو محض سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جائے اور نہ اصل مجرموں کو قانون کی گرفت سے فرار کا موقع دیا جائے۔ قانون اور عدالت کے سامنے سب کو پیش ہونے کا موقع ہو، تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب فوری طور پر احتساب کا ایک قابلِ اعتماد اور غیر جانب دار ادارہ قائم کیا جائے اور کھلی عدالت میں پورے شفاف انداز میں اُوپر سے نیچے تک ان تمام افراد کو جن پر یہ الزامات ہیں، اپنی صفائی کا پورا موقع ملے۔ ان کے اور قوم کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ جو بے قصور ہیں وہ عزت سے بری ہوں اور جنھوں نے قوم کاسرمایہ لُوٹا ہے اور طاقت کا غلط استعمال کیا ہے ان کوقرار واقعی سزا ملے اور عوام کی دولت ان کو لوٹائی جائے۔ حق و انصاف کا یہی راستہ ہے اور اس سے انحراف کی جو کوشش بھی کی جائے گی، اسے قوم کبھی قبول نہیں کرے گی۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے بارے میں بھی پیپلزپارٹی کی قیادت بڑی بے سروپا باتیں کہہ رہی ہے، جس کے پردے کے پیچھے مجرم ضمیر کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ آج نہیں آئی ہے، ۱۱ سال سے اس کی رپورٹیں آرہی ہیں۔ یہ محض پاکستانی ادارہ نہیں ایک عالمی تنظیم ہے جس کا طریقۂ کار معروف ہے۔ اس کی رپورٹ  محض ہوائی خیالات و تصورات پر مبنی نہیں ہوتی۔ اس کے اپنے جائزے کے علاوہ اس بارے میں دوسرے بین الاقوامی اداروں کے تیار کردہ جائزوں سے بھی استفادہ کیا جاتاہے، جن میں عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک بھی شامل ہیں۔

یہ توایک آئینہ ہے۔ اگر اس آئینے میں آپ کی شکل بدنما اور داغ دار نظر آرہی ہے تو آئینے کو برا بھلا کہنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ فکر آپ کو اپنی کرنا چاہیے  ع

زباں بگڑی سو بگڑی تھی، خبر لیجیے دہن بگڑا

  •  میڈیا پر الزام: اس سلسلے میں تیسری بات بڑے دھڑلے سے یہ بھی کہی جارہی ہے کہ: ’’یہ سب کچھ پریس اور خصوصیت سے الیکٹرانک میڈیا کا کیا دھرا ہے اور اسے لگام دینے کی ضرورت ہے‘‘۔ ہم صحافت کی آزادی کے ساتھ اس کے ذمہ دار کردار کو بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ بنیادی سیاسی ایشوز کے سلسلے میں گذشتہ دو تین برسوں کے دوران میں میڈیا کا کردار بحیثیت مجموعی مثبت رہا ہے اور قومی زندگی کو جو خطرات درپیش ہیں، ان کو اس نے بروقت نمایاں (highlight) کیا ہے۔ آمریت کے خلاف عوامی جدوجہد، عدلیہ کی آزادی کی تحریک اور برسرِاقتدار طبقوں اور بااختیار افراد کے اجتماعی احتساب کے سلسلے میں میڈیا کا کردار مفید اور حق و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ممد اور مددگار رہا ہے۔ اربابِ حکومت کو ان بے جان حیلوں کا سہارا نہیں لینا چاہیے بلکہ حقائق کا سامنا کرنا چاہیے۔ اس کے سوا اب ان کے لیے بچائو کا کوئی اور راستہ نہیں بچا۔ اسی سے نظام کی اصلاح کی راہیں استوار ہوں گی۔

اس وقت ’زرداری گیلانی حکومت‘ جن بحرانوں کے گرداب میں ہے، ان کی حقیقت کو  سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ ملک اور خصوصیت سے اس کی سیاسی قیادت جس بحران کا شکار ہے،   وہ کثیرجہتی (multi-dimensional) ہے۔ ضروری ہے کہ قوم اور پارلیمنٹ دونوں کے سامنے اس بحران کے اہم ترین پہلو کھول کر رکھ دیے جائیں، تاکہ اصلاحِ احوال کی مؤثر تدبیر کی جاسکے۔

ہماری نگاہ میں اس کے مندرجہ ذیل پہلو اہم ہیں:

سندِ جواز کا بحران

۱-  اولین طور پر زرداری حکومت اپنی سندِ جواز کے بحران (crisis of legitimacy) کی گرفت میں ہے اور اس کے بھی تین پہلو ہیں: دستوری، سیاسی اور اخلاقی___ اور ہر ایک اپنے طور پر انتہائی اہم ہے۔

  •  دستوری پھلو: اکتوبر ۱۹۹۹ء کی فوجی بغاوت اور اس وقت کی سپریم کورٹ کی جانب سے مجرمانہ معاونت کے نتیجے میں جنرل پرویز کی دستوری ترمیمات نے دستور اور سیاسی نظام کا حلیہ بگاڑ دیا۔ سترھویں ترمیم ایک سیاسی سمجھوتا تھا، جس کے ذریعے کچھ خرابیوں کو دُور کیا گیا تو      کچھ دوسری خرابیوںکو سندِجواز بھی فراہم کی گئی۔ پھر جنرل پرویز کے اس معاہدۂ عمرانی کو، جس کے تحت سترھویںترمیم پارلیمنٹ کے لیے قابلِ قبول ہوئی تھی، تار تار کر دینے کے عمل نے ایسے  دستوری بحران کو جنم دیا جس کی تباہ کاریوں میں ملک اب تک مبتلا ہے۔ ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے غیرقانونی اقدام نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی اور ہماری تاریخ کا تاریک ترین باب شروع ہوا۔

الحمدللہ ۱۵ مارچ ۲۰۰۹ء کو عدلیہ کی بحالی اور ۳۱ جولائی ۲۰۰۹ء کے عدالت عالیہ کے فیصلے نے ملک کی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کے ذریعے صحیح دستوری اور قانونی پوزیشن کو واضح کیا۔ لیکن جو بنیادی خرابیاں (deformities)  دستور اور ملک کے سیاسی نظام پر مسلط کر دی گئی ہیں،  وہ موجود ہیں اور اس کی بڑی ذمہ داری ’زرداری گیلانی حکومت‘ اور ان کے اتحادیوں پر ہے۔    میثاقِ جمہوریت میں دو بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے دستور کو اس کی اصل شکل میں بحال کرنے کا وعدہ کیا تھا اور یہی ان جماعتوں کا انتخابی منشور تھا، جس پر ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کو عوام نے ان کو حکمرانی کا اختیار دیا۔ لیکن زرداری صاحب کی قیادت میں پی پی پی اور اس کے اتحادیوں نے ۲۰ماہ کے اقتدار میں اس سمت میں ایک قدم بھی نہیں اٹھایا اور یوں جنرل پرویز مشرف کے جرم میں برابر کے شریک بن گئے۔ زرداری صاحب نے دو بار پارلیمنٹ کے سامنے اعلان کیا کہ دستور کو اس کی اصل شکل میں بحال کیا جائے گا، مگر عملاً ساری قوت کو اپنے ہاتھوں میں مرکوز رکھا۔پارلیمنٹ اسی طرح بے اختیار ہے اور عدلیہ ہاتھ پائوں مار رہی ہے لیکن عملاً ایوانِ صدر اقتدار کا سرچشمہ بنا ہوا ہے، اور سارے بگاڑ کی وجہ  ہے۔

بجاے اس کے کہ زرداری صاحب اس جواز کے فقدان (lack of legitimacy) کا مداوا کرتے، انھوں نے صدارت کے حلف کے بعد بھی پارٹی کی صدارت کو باقی رکھ کر اور صوبوں میں جنرل پرویز مشرف کے دور کے گورنروں کو باقی رکھ کر اپنے دستوری جواز کو اور بھی داغ دار کردیا۔ صدارتی انتخاب کے ڈرامے کے باوجود دستور کی زبان میں وہ منتخب صدر سے زیادہ عملاً غاصب کا نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ اس چیز نے دستوری بحران میں اضافہ کر دیا ہے۔ ایوانِ صدر پارٹی کا دفتر بن گیا ہے اور تمام سیاسی کھیل وہیں سے کھیلا جارہا ہے۔

  •  سیاسی پھلو:سندِجواز کو مجروح کرنے والا دوسرا پہلو امریکا سے ان کے تعلقات، امریکا کی مدد سے این آر آو کی بیساکھیوں پر ان کی حالیہ سیاست میں آمد، اور امریکا کی تائید سے حکمرانی کا انتظام و انصرام چلانا ہے۔ اس وقت ان کا اصل سرچشمۂ قوت پاکستانی عوام نہیں، امریکا اور اس کی تائید ہے۔ جس طرح پرویز مشرف اپنے ۲۰۰۱ء کے بعد کے دور میں امریکا کے سہارے برسرِاقتدار رہا بالکل اسی طرح اب زرداری صاحب امریکا کی تائید اور امریکی پالیسیوں کی تعمیل کے سہارے کرسیِ صدارت پر براجمان رہنا چاہتے ہیں۔

’کیری لوگر بل‘ کے بارے میں ان کے کردار نے اس تعلق کوبالکل الم نشرح کر دیا ہے۔ صدر اوباما نے اس بل کا اعلان زرداری صاحب کے دورۂ واشنگٹن کے موقع پر کیا اور زرداری صاحب نے اسے اپنا عظیم کارنامہ قرار دیا۔ پھر عوام، پارلیمنٹ، فوج، میڈیا سب کے منفی ردعمل کے باوجود ان کی حکومت نے اس بل کو گلے سے لگایا، اور بالآخر بھونڈے انداز میں پارلیمنٹ کو نظرانداز کر کے اس بل کو اس کی تمام شرمناک شرائط کے ساتھ قبول کرلیا۔ اس بل کے بعد ایک دوسرے فوجی امداد کے بل کو بھی بالکل ویسی ہی شرائط کے ساتھ قبول کیا۔ امریکی احکام کے مطابق جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کو شروع کیا اور پاکستان میں ’دہشت گردی‘ کے واقعات میں افغانستان کی ایجنسیوں اور افغانستان کے راستے بھارت کی ایجنسیوں کے کردار کو نظرانداز کیا۔ پھر انتخابی ڈھونگ کے نتیجے میںبرسرِاقتدار آنے والے افغانستان میں کٹھ پتلی صدر حامدکرزئی کی تقریب حلف برداری میں ذاتی طور پر شریک ہوکر امریکی منصوبے سے اپنی وفاداری کا ثبوت دیا ہے۔ ان سب اقدامات نے پاکستان میں زرداری صاحب کے سیاسی جواز کو اور بھی داغ دار کر دیا ہے۔ اسی لیے آج اہلِ پاکستان کی نگاہ میں ان کی عزت و وقار اپنی پست ترین سطح پر ہے۔

  •  اخلاقی پھلو:کسی ملک کی قیادت کے لیے دستوری اور سیاسی جواز کے ساتھ اخلاقی جواز بھی نہایت ضروری ہے، لیکن اس باب میں بھی صدر زرداری کا ریکارڈ بہت ہی مایوس کن ہے۔ بے نظیر بھٹوصاحبہ کے شوہر کی حیثیت سے وہ سیاست میں آئے، تاہم پیپلزپارٹی کی تنظیم اور حکومت کے نظام میں ان کی کوئی خدمات ریکارڈ پر نہیں ہیں۔ البتہ مالی خیانت کی بدنامیاں ان کے اپنے اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں کے دامن کو داغ دار کرنے کا ذریعہ بنیں۔ وہ این آر او کے کندھے پر سوار ہوکر ملک میں واپس آئے اور اس پس منظر میں آئے کہ یہاں صحت مند اور صحیح و سالم تشریف آوری سے چند ماہ پہلے ہی سوئٹزرلینڈ کی عدالت کے سامنے مشہورزمانہ Cotecna کیس کے سلسلے میں میڈیکل سرٹیفیکیٹ کے ذریعے حاضری سے معذوری کی درخواست پیش کی ہوئی تھی کہ موصوف ایک ایسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہیں جس کی وجہ  سے وہ گواہی دینے اور عدالت میں پیش ہونے سے معذور ہیں۔ این آر او، جنرل پرویز مشرف کا سیاہ ترین اقدام تھا جس کی تشکیل میں برطانیہ کے سابق وزیر جیک اسٹرا اور سابق ہائی کمشنر گرانٹ لائل اور امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزارائس کا فیصلہ کن کردار تھا۔ اس پورے کھیل کا مقصد پاکستان کی سیاست پر ایسے لوگوں کو مسلط کرنا اور رکھنا تھا جن کا کردار  داغ دار ہو اور جو امریکا اور برطانیہ کے مرہونِ منت ہوں اور ان کے مقاصد کو فروغ دینے کا ذریعہ بن سکیں۔ اس سلسلے میں خواہ زرداری صاحب ہوں یا ان کے دوسرے ہم مشرب اور ہم راز افراد،   وہ سب اخلاقی جواز سے اس وقت تک محروم ہیں اوررہیں گے جب تک وہ آزاد اور بااختیار عدلیہ سے پورے شفاف اور کھلے عدالتی عمل کے ذریعے اپنی پاک دامنی ثابت نہیں کرلیتے۔ محض یہ کہنا کہ ہم جیل میں رہے ہیں اورہم پر کوئی چیز ثابت نہیں ہوسکی کوئی وزن نہیں رکھتے، اس لیے کہ متعدد چیزیں ایسی ہیں جو ان تمام دعوئوں کو مشکوک بنادیتی ہیں۔

’سیاسی انتقام‘ کے الزام کا بھی اسی طرح جائزہ لیا جانا چاہیے جس طرح بدعنوانی اور اختیارات کے غلط استعمال کے الزام کا۔ زمینی حقائق این آر او زدہ افراد کے کردار کو بلاشبہہ مشکوک بناتے ہیں اور ان حضرات کی اخلاقی ساکھ اس وقت تک بحال نہیں ہوسکتی جب تک آزاد اور شفاف عدالت کی کسوٹی پر وہ پورے نہیں اُترتے۔

سرے محل ایک حقیقت ہے۔ اس سے زرداری صاحب اور خود بے نظیر صاحبہ کا انکار بھی ایک حقیقت ہے اور پھر زرداری صاحب کا برطانوی عدالت کے سامنے یہ دعویٰ بھی حقیقت ہے کہ یہ محل ان کا تھا اور اس کے نیلام سے حاصل ہونے والی رقم ان کو ملنا چاہیے اور وہ مل بھی گئی۔   سویس عدالت نے ان کو مجرم قرار دیا ہے اور سوئٹزرلینڈ کے بنک میں رقم کا وجود ایک حقیقت ہے۔ ۶۰ملین ڈالر این آر او کے تحت ان کو واپس کیے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ ۶۰ ملین اور دوسرے کروڑوں ڈالر جو ان کے بیرونی ممالک کے بنکوں میں موجود ہیں اور مغربی میڈیا حتیٰ کہ ایک معروف انسائیکلوپیڈیا وکی پیڈیا کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ اسی طرح NASA کے ریکارڈ پر وہ ٹیلی فون گفتگو موجود ہے، جس میں ماں اور بیٹے کے درمیان بنکوں کی رقوم کے بارے میں بات چیت ہے۔ کیا قوم کو یہ حق حاصل نہیںکہ وہ صرف زرداری صاحب ہی نہیں، بلکہ ان سب اربابِ اقتدار سے پوچھیں جن کے باہر کے ملکوں میں حسابات میں یہ اربوں ڈالر ہیں کہ: ’’جناب،یہ رقوم آپ نے کیسے حاصل کیں؟ آپ کی جو آمدنی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے گوشواروں میں ظاہر کی گئی ہے اس میں تو اس کا ذکر نہیں‘‘۔ آگسٹا آب دوز کی ناجائز کمیشن (kickbacks) ایک معروضی حقیقت ہے۔ آپ کے بنک کے حساب میں رقوم آئی ہیں۔ کیا قوم کو یہ حق نہیں کہ کم از کم یہ پوچھیں کہ یہ رقم کہاں سے آئی ہے اور آپ کی کون سی خدمات کا صلہ ہے؟ اسلام آباد میں آپ کے اور آپ کے صاحبزادے کی تجارتی کمپنی پارک لینڈ کو تین ہزار ایکڑ اراضی کوڑیوں کے مول دی گئی اور ملک کی صدارت کے دوران دستور کی پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آپ اس کے ڈائرکٹر ہیں۔

اسی طرح این آر او کے دوسرے مقدمات سے محض دستور کے آرٹیکل ۲۴۸ کے سہارے آپ کیسے پناہ لے سکتے ہیں۔ اخلاقی سندِجواز کے بغیر کوئی حکمران اور کوئی حکومت اپنے اقتدار کے لیے جواز حاصل نہیں کرسکتی۔

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ این آر او کے زیربحث کے آتے ہی کتنے اربابِ اقتدار و سیاست ایسے ہیں جنھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم نے این آر او کے تحت کوئی رعایت حاصل نہیں کی۔ لیکن اب اسی حکومت کے وزیرمملکت نے جو فہرست شائع کی ہے، اس میں یہ سارے نام موجود ہیں۔  یہ فہرست کسی دشمن نے نہیں بنائی، آپ کی اپنی حکومت کی فراہم کردہ ہے۔ اور اس حالت میں ہے کہ ڈان کے نمایندے نے دعویٰ کیا ہے اور اپنے اس دعویٰ پر قائم ہے کہ اس فہرست میں یہ گڑبڑ کی گئی ہے کہ اصل فہرست میں ہرفرد کے نام کے ساتھ خردبرد کی جانے والی رقم درج تھی، مگر اس آخری فہرست میں سے رقم کا خانہ نکال دیا گیا ہے۔ گمان غالب ہے کہ یہ رقم ۱۰ کھرب سے زیادہ کی ہے۔ ایم کیو ایم کے قائدین نے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے این آر او سے فائدہ نہیں اٹھایا لیکن اب جو نام آئے ہیں ان میں ایم کیو ایم کی پوری قیادت اور اس کے ۳ ہزار سے زیادہ کارکن شامل ہیں اور عملاً ان سب نے فروری ۲۰۰۸ء کے بعد اس بدنامِ زمانہ کالے قانون سے فائدہ اٹھایا ہے۔

وزیراعظم صاحب کی اہلیہ کا نام اس میں نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے دومختلف زرعی قرضوں کی شکل میں ۲۰۰ ملین روپے کے قرض لیے جو سود کے ساتھ نادہندگی کی وجہ  سے ۵۷۰ ملین کا قرض بن گئے۔ پھر راضی نامے کے ذریعے ۵ء۴۵ ملین روپے کی ادایگی کے بعد پورے قرضے کو ساقط کر دیا گیا۔ گویا ۵۲ کروڑ سے زیادہ رقم معاف کر دی گئی۔

مسئلہ صرف این آر او کی زد میں آنے والی بدعنوانیوں کا نہیں، بدعنوانی کے پورے کلچر کا ہے جس کے نتیجے میں ملک دیوالیہ ہورہا ہے۔ امیر امیر تر بن رہے ہیں اور غریب دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ صرف این آر او زدگان ہی نہیں تمام قرض معاف کرانے والے سرمایہ داروں، زمین داروں، جاگیرداروں، سرکاری افسروں، تاجروں اور جرنیلوں کا احتساب ہونا چاہیے۔

حکومت پر عدم اعتماد

۲- دستوری، سیاسی اور اخلاقی جواز کی کمی کے ساتھ ساتھ ’زرداری گیلانی حکومت‘ ساکھ کے بحران (credibility crisis)کا بھی شکار ہے۔ زرداری صاحب وعدے توڑنے اور اعلان کر کے مُکرجانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ پھر یہ بھی کہنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے کہ سیاسی عہدوپیمان کوئی قرآن و حدیث ہیں کہ ان کو بدلا نہ جاسکے۔ وزیراعظم صاحب نے بھی پارلیمنٹ کے قائد منتخب ہونے کے وقت سے جو اعلانات کیے ہیں اگر ان کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے  ع

دُور تک ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا

انھوں نے بار بار کہا کہ اصل فیصلے پارلیمنٹ میں ہوں گے، لیکن آج تک کسی اہم مسئلے پر پارلیمنٹ میں فیصلے کی نوبت نہیں آئی ہے۔ حتیٰ کہ ’کیری لوگر بل‘ پر بھی بحث تک مکمل نہ کی گئی، پارلیمنٹ میں فیصلے کا تو کیا سوال۔ نیز جن معاملات پر پارلیمنٹ نے واضح قرارداد متفقہ طور پر منظور کی، اس پر نہ صرف یہ کہ عمل نہیں ہوا بلکہ عمل اس کے برعکس ہوا اور پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی کے دیے ہوئے روڈمیپ پر عمل تو درکنار، کمیٹی کے اس فیصلے کے باوجود کہ حکومت اس رپورٹ پر کارکردگی رپورٹ ایک ماہ میں پیش کرے، آج تک کوئی رپورٹ تک نہیں دی گئی۔

پارلیمنٹ کے منظور کردہ ’مالیاتی ذمہ داری کے قانون‘ (Fiscal Responsibility Act) کی کھلی خلاف ورزی کی جارہی ہے اور ملک پر قرضوں کا بار آنکھیں بند کر کے بڑھایا جا رہا ہے۔ ان دو برسوں میں بیرونی قرضوں میں ۱۵ ارب ڈالر کا اضافہ ہوگیا ہے اور اب کُل بیرونی قرضوں پر سالانہ ۵ ارب ڈالر صرف سود وغیرہ کی ادایگی پر خرچ کرنے پڑ رہے ہیں، جو قرض لے کر ادا کیے جارہے ہیں۔ قول وفعل کا یہ تضاد شدید بحران پیدا کر رہا ہے۔

ناقص حکومتی کارکردگی

۳- بحران کا تیسرا بڑا پہلو حکمرانی کے بحران (crisis of governance) سے متعلق ہے۔ ایک طرف مرکز اور صوبوں میں وزیروںکی فوج ظفرموج ہے اور دوسری طرف حال یہ ہے کہ کسی شعبے میں بھی اچھی حکمرانی کا کوئی نشان دُور و نزدیک نظر نہیں آتا۔ قانون اور ضابطوں کو  بے دردی سے توڑا جارہا ہے۔ پبلک سروس کمیشن کے سربراہ کا تقرر مارچ ۲۰۰۹ء میں ہوجانا  چاہیے تھا اور اس وقت سے سیکڑوں اُمیدوار انتظار میں ہیں، لیکن حکومت کو اس کی کوئی فکر نہیں۔ وزیراعظم صاحب قواعد کو نظرانداز کر کے ۲۱ اور ۲۲گریڈ کی تقرریاں تھوک کے بھائو کررہے ہیں۔ ۵۰ سے زیادہ سینیر سرکاری افسر عدالت جانے پر مجبور ہوئے ہیں کہ جنھیں قواعد کے خلاف نظرانداز کر دیا گیا تھا۔ سفارش، اقرباپروری، دوست نوازی کا دور دورہ ہے۔ حکومت کے ہر شعبے میں میرٹ اور قاعدے قانون کا کھلے بندوں خون ہو رہا ہے، جس سے انتظامی ادارے تباہ ہو رہے ہیں۔    اے اہلِ نظر! نظام پر ضربِ کاری ان حرکتوں سے لگا کرتی ہے، بدعنوانیوں کو بے نقاب کرنے والی اطلاعات سے نہیں۔

ملکی سلامتی کو سنگین خطرہ

۴- بحران کا ایک اہم ترین اور بے حد خطرناک پہلو حاکمیت کا بحران (crisis of sovereignty ) ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں امریکا کی بالادستی اور ملکی معاملات میں دراندازی کا دروازہ جس طرح کھلا، موجودہ حکومت نے اسے اور بھی چوپٹ کھول دیا ہے۔ اور اب امریکا، اس کے نمایندے، کارندے اور خفیہ ایجنسیوں کے کارپرداز، سیکورٹی اور معیشت دونوں میدانوں میں عملاً حکمرانی کر رہے ہیں۔ ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکا کی جنگ میں شرکت کی جوقیمت اس ملک نے ادا کی ہے، وہ تباہ کن ہے۔ ہماری سرزمین پر امریکا کے فوجی اڈے آج بھی قائم ہیں۔ افغانستان کی جنگ میں امریکا نے ۵۷ہزار سے زیادہ فضائی حملے پاکستان کی سرزمین سے کیے ہیں۔ افغانستان سے پاکستان پر ڈرون حملوں کا عدد ۱۰۰ کا ہندسہ عبور کرچکا ہے۔ جس میں امریکی ترجمان کے مطابق القاعدہ کے مبینہ طور پر ۱۸ یا ۲۰ افراد مارے گئے ہیں، لیکن پاکستان کے عام شہریوں کی ہلاکت ۸۰۰ افراد سے زیادہ ہے، جن میں عورتیں، بچے اور بوڑھے بھی شامل ہیں۔ اس میں سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ مشرف کے زمانے میں حملہ امریکی کرتے تھے، مگر پاکستان کا حکمران ٹولہ اس کا سہرا اپنے سر باندھتا تھا اور بقول سیمور ہرش: ’’مشرف نے خود کہا کہ چاہے حملہ امریکی کریں لیکن اسے پاکستان کے کھاتے میں ڈال دیا کریں‘‘۔ ’زرداری گیلانی حکومت‘ میں پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر ڈرون حملوں کو ملک کی سالمیت اور حاکمیت پر ضرب قرار دیا اور انھیں روکنے کے لیے ہرراستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن عملاً ڈرون حملے، امریکی صدر اوباما کے دورِحکومت میں بڑھ گئے۔ اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ امریکا کا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ ان حملوں میں پاکستان کی حکومت اور اس کی ایجنسیوں کی معاونت موجود ہے۔ گویا یہ سب امریکا اور ’زرداری گیلانی حکومت‘ کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے، جو قوم بھگت رہی ہے۔

دیکھیے خود امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے کن صاف الفاظ میں پاکستان کی سرزمین پر امریکی فوجیوں کے وجود کا اعتراف کیا ہے۔ اپنے حالیہ دورے کے بعد موصوفہ نے کہا ہے: ’’انتہاپسندی اور دہشت گردی کو شکست دی جائے گی، کہ ہم نے افغانستان اور وزیرستان میں اپنے فوجی کھوئے ہیں‘‘۔ (دی نیوز، ۳۰؍اکتوبر ۲۰۰۹ء)

ڈان اخبار نے اپنی ۱۶ نومبر ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں امریکی سی آئی اے کے ایک اعلیٰ افسر کا یہ اعتراف شائع کیا ہے: ’’ڈرون کے ذریعے میزائل حملوں کے لیے سی آئی اے، پاکستان کے تعاون پر انحصار کرتی ہے۔ ان حملوںسے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں درجنوں مشتبہ انتہاپسند ہلاک کیے گئے ہیں‘‘۔ نیز امریکی فوج کی مرکزی کمانڈ کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے واشنگٹن میں اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے: ’’امریکا میزبان ممالک کی رضامندی کے بغیر ڈرون حملے نہیں کرتا‘‘۔ انھوں نے پاکستان میں ڈرون حملوں کی کامیاب کارکردگی کے دعوے کے ساتھ دیکھیے کیا کہا ہے:

جاسوس اور ڈرون طیاروں کے استعمال نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس قسم کے حملوں سے ۲۰ سے زائد انتہاپسند ہلاک ہوچکے ہیں۔ یہ حملے میزبان ملک کی مرضی کے خلاف نہیں کیے جاتے ہیں۔ وہاں [پاکستان میں] ہمارا کام پاکستانی فوجی ہم منصبوں کے ساتھ مکمل تعاون کرنا ہے۔ (نواے وقت، ۱۶نومبر ۲۰۰۹ء)

اس پس منظر میں اگر سیمور ہرش کے نیویارک کے مضمون کے مندرجات پر غور کیا جائے تو مجہول سرکاری وضاحتوں کے برعکس حقیقت سامنے آجاتی ہے۔ مشرف نے ہرش سے کہا: ’’میں نے امریکیوں سے کہا: ہمیں ڈرون طیارے دو۔ مجھے انکار کیا۔ میں نے امریکیوں سے کہا کہ صرف علانیہ طور پر کہہ دو کہ تم ہمیں یہ دے رہے ہو۔ تم ان سے حملے کرتے رہو، لیکن ان پر پاکستان ایئرفورس کے نشانات لگادو، مگر امریکیوں نے اس سے بھی انکار کیا‘‘۔ سیمور ہرش کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ: ’’امریکا پاکستانی فوج سے پاکستان کے ایٹمی اسلحے کی سلامتی کے بارے میں انتہائی حساس نوعیت کے امور پر بات چیت کرتا رہا ہے‘‘۔ ہرش مزید کہتا ہے: ’’صدرمشرف نے تسلیم کیا کہ ان کی حکومت نے امریکا کے محکمۂ خارجہ کے عدم پھیلائو کے ماہرین کو پاکستانی اسلحے کے کمانڈ اور کنٹرول، اس کے برموقع تحفظ اور حفاظت کے طریقۂ کار کے بارے میں آگاہ کیا‘‘۔

اور اب ہرش کا یہ بیان بھی پڑھ لیجیے کہ صدر زرداری نے اپنی خدمات کا کس طرح اعتراف کیا ہے: "we give comfort to each other, and the comfort level is good". (ہم نے ایک دوسرے کو سہولت فراہم کی ہے، ایسی سہولت جس کی سطح بلند ہے)

جس قوم کی قیادت کا یہ حال ہو، وہ اس کے سوا کیا کہے کہ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!

جنرل مشرف اور پی پی پی کی قیادت میں تعاون اور این آر او سب اسی کہانی کے حصے ہیں۔

امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سین میک کورمڈ نے فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے موقع پر صاف لفظوں میں کہا تھا:

ہمارا بہت کچھ دائو پر لگا ہوا ہے اور پاکستان کا بھی بہت کچھ دائوپر لگا ہوا ہے، خصوصاً پاکستان کے مستقبل کے لیے فکرمندی بھی دائو پر لگی ہوئی ہے۔ پینٹاگان نے صدرکرزئی کے ساتھ طویل مدت تک معاملات کیے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ایک ایسا شخص ہے کہ کوئی فوج بھی اس کے قریب رہ کر کام کرنا پسند نہیں کرے گی۔ (دی نیوز،    انجم نیاز، Last Tango in Washington، ۲۸؍اکتوبر ۲۰۰۹ء)

اس سلسلے میں امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزا کی قیادت میں این آر او کا ڈھونگ رچایا گیا۔ اسی لیے مضمون نگار نے دعویٰ کیا ہے: ’’این آر او کی پیدایش اسلام آباد میں نہیں، واشنگٹن میں ہوئی ہے‘‘۔اور یہ بھی کہ: ’’واشنگٹن جو چاہتا ہے اسے مل جاتا ہے‘‘۔

پاکستان کی سرزمین پر امریکی کمانڈروں اور خفیہ ایجنسیوں کے کارندوں کا وجود ایک حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ وزیرداخلہ رحمن ملک جو بھی کہیں یہ حقیقت ہے کہ آج     اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، کراچی ہر جگہ امریکیوں نے قدم جما لیے ہیں۔

امریکی اور ان کے زرخرید پاکستانی کارندے ہر طرف دندناتے پھر رہے ہیں۔ امریکی فوج اور کمانڈر بلاروک ٹوک ملک میں داخل ہوتے ہیں اور وزارتِ داخلہ ان کے اس داخلے میں سہولت فراہم کرتی ہے۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ، سامراجی حکمرانی کا قلعہ بن چکا ہے۔ اسلام آباد میں ۳۰۰ سے زیادہ مکان امریکیوں کے تصرف میں ہیں۔ سہالہ کی پولیس ٹریننگ فیکلٹی کے ایک حصے پر بھی ان کا قبضہ ہے اور وہ وہاں تربیت کے نام پرفوجی اڈا قائم کیے ہوئے ہیں۔

محب وطن کالم نگار، دانش ور اور سیاسی قائدین اس امریکی یلغار پر احتجاج کر رہے ہیں، مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

دی نیشن نے اپنی ۱۶ نومبر ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں یہ خبر دی ہے:

اسلام آباد کے علاقے جی-۶/۳ میں مشتبہ غیرملکیوں کی موجودگی نے جو ’بلیک واٹر‘ کے اہل کار ہوسکتے ہیں، تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ ان میں سے ایک کو سڑک سے  گزرنے والے ایک مقامی شخص سے لڑتے ہوئے دیکھا گیا۔ ’بلیک واٹر‘ جس کا نام  ’ایکس ای سروسز‘ ہوگیا ہے کا عملہ نومبر کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد پہنچا۔ ۲۰؍اگست ۲۰۰۹ء کے نیویارک ٹائمز کے مطابق سی آئی اے نے ۲۰۰۴ء میں القاعدہ کی اعلیٰ قیادت کو تلاش کرنے اور قتل کرنے کے خفیہ پروگرام کے لیے ’بلیک واٹر‘ کی خدمات حاصل کیں۔

دی نیشن ہی نے اپنی ۱۰ نومبر کی اشاعت میں سفارتی عملے کے ان افراد کی نشان دہی کی جو مسلح ہوکر شہر میں گھومتے پھرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق: چار امریکی اور دو ڈچ سفارت کاروں کو اسلحہ اور گرنیڈ کے ساتھ پکڑا گیا مگر وزارتِ داخلہ نے انھیں فوراً رہا کرا دیا۔ ۲۸؍اکتوبر ۲۰۰۹ء کو اسلام آباد کے اخبارات نے ایف-۸/۳ میں ایسے مسلح امریکیوں کی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کی خبر دی، جو افغانوں کے لباس میں تھے اور مسلح گشت کر رہے تھے، لیکن امریکی سفارت خانے کی مداخلت پر ان کو رہا کر دیا گیا۔ ۴نومبر ۲۰۰۹ء کے دی نیشن نے ایکس ای سروسز کے ۲۰۲کمانڈوز کے پی آئی اے کی فلائٹ ۷۸۶-PK سے لندن ہیتھرو ہوائی اڈے سے اسلام آباد آنے کی خبر شائع کی، جنھیں کسی جانچ پرکھ کے بغیر وزارتِ داخلہ کی ہدایت کے مطابق ملک میں آنے دیا گیا۔ ایئرپورٹ پر متعلقہ افسر کا بے بسی سے یہ کہنا تھا: ’’ہمیں ہدایات ہیں کہ غیرملکیوں کو کسٹم کے بغیر داخلہ دیا جائے‘‘۔

اسلام آبادمیں امریکی سفارت خانے کی توسیع اور ۱۸؍ایکڑ مزید اراضی کا حصول ایک جانی بوجھی بات ہے۔ پشاور، لاہور، کوئٹہ اور کراچی میں بھی قونصل خانوں کو توسیع دی جارہی ہے۔ پاکستانی وزیرداخلہ نے اعتراف کیا ہے کہ امریکی پرائیویٹ سیکورٹی کی ایجنسی Dyn Corp   (ڈین کور) کو پاکستان میں آنے اور امریکیوں کو حفاظت فراہم کرنے کی سہولت دی گئی ہے۔   سہالہ کے پولیس ٹریننگ کالج میں جو بہارہ کہو اور سملی ڈیم کے قریب ہے، امریکیوں کو ٹریننگ کے نام پر اڈا قائم کرنے کی سہولت دی گئی ہے۔ سہالہ پولیس کالج کے ذمہ داروں کو بھی اس جگہ      پَر مارنے کی اجازت نہیں۔ امریکیوں کی مشتبہ سرگرمیوں سے پریشان ہوکر پولیس کالج کے سربراہ نے اس اڈے کو وہاں سے ہٹانے کا مطالبہ کیا، جس سے ہمارے پولیس کالج کے انچارج کی نوکری خطرے میں پڑگئی ہے۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور ہمارے ملک کے حکمرانوں کا اس میں کیا کردار ہے؟ یہ سوالات اب نظرانداز نہیں کیے جاسکتے۔۱؎

جنوبی وزیرستان پر فوجی آپریشن امریکا کے دبائو اور مطالبے پر ہوا ہے اور اب امریکی صدر کا پیغام صدر زرداری کے لیے آیا ہے کہ اس کو شمالی وزیرستان اور اورکزئی ایجنسی تک بڑھایا جائے۔ امریکی صدر کے پیغام کے بعد سی آئی اے کے ڈائرکٹر لیون پینیٹا (Leon Panetta) کی آمد ہوئی ہے اور ان کا حکم ہے:’’پاکستان فوجی آپریشن سے قبائلی علاقوں کے تمام انتہاپسندوں کو نشانہ بنائے‘‘۔

اس خدمت کو انجام دینے کے لیے امریکا کی پوری قیادت پاکستان کے ’دفاعی نظام‘ اور ’خطرے کے تصورات‘ کو تبدیل کرنے کے لیے سرگرم ہے۔ اوباما، ہیلری کلنٹن، ایڈمرل مولن،  ہال بروک سب ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ:’’ پاکستان کو اصل خطرہ بھارت سے نہیں،  القاعدہ اور طالبان سے ہے‘‘۔

امریکا خود طالبان سے بات چیت کرنے اور افغانستان کے چھے صوبوں میں ان کو شریعت نافذ کرنے کی اجازت دینے کی باتیں کر رہا ہے۔ امریکا اور یورپ کے سوچنے سمجھنے والے ادارے اور راے عامہ کے جائزے سب اس سمت اشارہ کر رہے ہیں کہ افغانستان سے فوجوں کے انخلا اور سیاسی حل کے سوا کوئی حقیقی آپشن نہیں ہے۔ لیکن اس کے برعکس پاکستان کی افواج کو پشتون علاقے میں پھنساکر مسلسل اور مزید جنگ کی آگ میں جھونکنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

یہ واضح ہے کہ امریکا اور ناٹو کو بہرصورت افغانستان سے جانا ہے۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس پر غور کرکے پاک افغان تعلقات اور خصوصیت سے پاکستان سے ملحق پشتون علاقوں کے درمیان تعاون اور تعلقات کیسے استوار ہوں گے؟ اس کے لیے فوری اور لمبے عرصے کی حکمت عملی بنانے کا یہ وقت ہے۔ خود افغانستان میں جو سوچ اور رجحانات اس وقت فروغ پارہے ہیں، ان کو سمجھنے اور ان کی روشنی میں اپنے ملکی اور ملّی مفاد کی روشنی میں حکمت عملی وضع کرنے اور نیا نقشۂ کار مرتب کرنے کی ضرورت ہے، لیکن ہم آنکھیں بند کرکے امریکی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور یہ بھی نہیں دیکھ رہے کہ افغانستان میں حالات کس رُخ پر جارہے ہیں اوروہاں طالبان کا مستقبل میں کیا کردار ہونا ہے۔

خلیج ٹائمز نے اپنی ۱۶ مارچ کی اشاعت میں ایک چشم کشا حقیقت کا انکشاف کیا ہے کہ: ’’کیپٹن یا میجر سطح کا کوئی ایک افغان افسر بھی چھے سال کی جنگ میں ہلاک نہیں ہوا ہے، اس لیے کہ افغان اس جنگ کو اپنی جنگ نہیں سمجھتے‘‘۔ کیا اس میں ہمارے دفاعی حکام کے لیے کوئی سبق کا پہلو نہیں ہے!

قومی تحریک کی ضرورت

پاکستان کی پارلیمنٹ نے اپنی ۲۲ اکتوبر۲۰۰۸ء کی قرارداد میں متفقہ طور پر یہ ہدایت دی تھی کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی پوری حکمت عملی اور ملک کی خارجہ پالیسی اور سلامتی کے مثالیے پر فوری نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے فوجی حل کی جگہ سیاسی حل اور قوت کے استعمال کے بجاے مذاکرات، ترقی اور سدّجارحیت کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکی ڈرون حملوں کا مقابلہ کرنے اور ان کو روکنے کی ضرورت ہے مگر حکومت نے وہ راستہ اختیار کیا ہے جو اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ مسئلے کی اصل جڑ افغانستان پر امریکا اور ناٹو کی فوجوں کا قبضہ اور ہماری خارجہ پالیسی اور فوجی حکمت عملی کو امریکا کے مقاصد کے تابع کردینا ہے۔ ملک کے وجود اور اس کی حاکمیت اور سالمیت کو خطرہ امریکا کے ساتھ نتھی ہوجانے سے ہے اور دہشت گردی اور شدت پسندی بھی انھی حالات کی پیداوار ہے جس کے دیرپا حل کے لیے ان  حقیقی اسباب کی طرف توجہ دینا ہوگی۔

معاشی اعتبار سے بھی ملک اس جنگ میں شرکت کی جو قیمت ادا کر رہا ہے وہ ہوش اُڑا دینے والی ہے۔ پاکستان ۲۰۰۲ء سے اب تک محتاط اندازے کے مطابق ۴۰ سے ۴۵ ارب ڈالر کی مالیت کا نقصان اُٹھاچکا ہے اور صوبہ سرحد اور فاٹا کے حالیہ آپریشن کے نتیجے میں عملاً سالانہ ۳ سے ۴ ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے، جس میں انسانی جانی نقصان شامل نہیں۔ اس جنگ میں شرکت ہر پہلو سے ہمارے لیے خسارے اور تباہی کا سودا ہے جس سے جتنی جلد نجات حاصل کی جائے بہتر ہے۔

وزیراعظم صاحب آج امریکا سے بھیک مانگ رہے ہیں کہ اپنی افغان پالیسی کے بنانے میں ہم سے بھی مشورہ کرو اور ہم پر رونما ہونے والے اثرات کا بھی لحاظ رکھو۔ لیکن یہ مقصد    بھیک مانگنے سے حاصل نہیں ہوسکتا، اس کے لیے حکمت اور خودداری کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے، جس سے جنرل مشرف کا دامن خالی تھا اور موجودہ حکومت کا بھی دامن خالی ہے۔

ملک کو درپیش بحران کے چار اہم پہلوئوں کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ ان کے علاوہ معاشی بحران بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے اور بحران کے اس پورے عمل کا حصہ ہے اور اس کے ساتھ ملک شدید اخلاقی بحران اور نظریاتی شناخت کے بحران میں جھونک دیا گیا ہے۔ بحران کے یہ چھے پہلو باہم مربوط ہیں اور ان کے لیے مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ملک کی تمام سیاسی اور دینی قوتیں سرجوڑکر بیٹھیں اور ملک کو اس انتشار سے نکالنے کے لیے نئی حکمت عملی وضع کریں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ان تمام امور پر کھل کر بحث ہو اور اصول اور ملکی اور ملّی مفاد کی بنیاد پر قوم کو ایک واضح منزل کا شعور دے کر منظم اور متحرک کیا جائے۔ جس طرح برعظیم کی تاریخ میں ۱۹۴۰ء میں مسلمانوں نے ایک واضح منزل اور مقصد کا تعین کرکے جدوجہد کی، اسی طرح آج پاکستان کو بچانے، اس کو امریکا کی نئی غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کے لیے منظم جدوجہد کی ضرورت ہے۔ جس طرح اس وقت برطانیہ کے ساتھ مقابلہ ان ہم وطنوں سے بھی تھا جو برطانیہ کے نقشے میں رنگ بھرنے اور اس کے مقاصد کو پورا کرنے میں اس کے آلۂ کار تھے، اسی طرح آج امریکا کے ساتھ امریکا کے پاکستانی حواریوں اور امریکی استعمار کو فروغ دینے والی این جی اوز کے خلاف بھی منظم سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ملک کے نوجوان اور غیور عوام ہماری اصل قوت ہیں اور ان کو بیدار اور منظم و متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی نے اس تاریخی جدوجہد کاآغاز کر دیا ہے لیکن وقت کی ضرورت ہے کہ تمام محب وطن اور اسلام دوست قوتیں ایک ہوکر امریکی استعمار کی اس خطرناک یلغار کا مقابلہ کریں۔ مہلت کم ہے اور خطرات روزافزوں ہیں۔ زندگی اور عزت کا راستہ ایک ہی ہے اور وہ حق کی پہچان اور اس پر استقامت کا راستہ ہے۔ اور   حق کے غلبے کے لیے مسلسل جدوجہد اور جہاد کا راستہ ہے۔ یہ وقت تذبذب اور انتظار کا نہیں،  فیصلہ اور پیکار کا ہے۔ ہمیں ہرگز بھولنا نہیں چاہیے کہ   ؎

یا مُردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے

 

مَیں تحریک اسلامی کے مستقبل کے بارے میں بے حد پُرامید ہوں۔ حق و باطل کی جو قوتیں آج برسرِ پیکار ہیں، جب ہم ان کو دیکھتے ہیں اور ان کے حالات کا موازنہ کرتے ہیں، تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ حالات اسلام کی کامیابی اور سربلندی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ مَیں جن وجوہ کی بنا پر یہ بات کہتا ہوں، وہ یہ ہیں:

۱- اسلام کے علاوہ جتنے بھی نظریات ہیں ان سب کو دورِحاضر میں جانچ اور پرکھ کر دیکھا جاچکا ہے اوروہ سب ناکام رہے ہیں۔ باطل قوتوں کے پاس آج کوئی نظریہ باقی نہیں رہا ہے۔ لہٰذا اب ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں فی الواقع لوگوں کے لیے کشش ہو۔ ہم اِس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ انھیں اسلام کا لبادہ اوڑھ کر آنا پڑتا ہے۔ ان کے کھوکھلے پن کا اس سے واضح ثبوت اور کیا ہوگا۔

۲- اِس ملک میں جتنے بھی گروہ اور جتنی بھی قوتیں موجود ہیں، وہ ایک ایک کر کے آزمایش کے مقام پر آتا چلا جا رہا ہے، اور اپنی نااہلی اور نالائقی ثابت کرتا چلا جا رہا ہے۔ خواہ آپ سیاسی گروہوں کو لیں، خواہ دوسرے طبقات کو، ہر ایک آزمایش کی کسوٹی پر کھوٹا ثابت ہوا ہے اور ہورہا ہے۔ اس کے نتیجے میں قوم ان میں سے ایک ایک سے مایوس ہوتی جارہی ہے اور ایک وقت آئے گا کہ وہ ان سے بالکل مایوس ہوجائے گی۔ اور قوم میں خود ہی کسی قابلِ اعتماد عنصر کے لیے پیاس پیدا ہوگی، بلکہ ان حضرات کی کارگزاریوں کی وجہ سے پیدا ہونی شروع بھی ہوگئی ہے۔   جیسے جیسے یہ پیاس بڑھے گی___ اور اسے لازماً بڑھنا ہے ___ ویسے ہی ویسے ان شاء اللہ  تحریکِ اسلامی کے لیے مواقع پیدا ہوتے جائیں گے۔

۳- باطل کی قوتیں اگر متحد ہوتیں تو پھر شاید کچھ خطرناک ہوتا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سب کو ایک دوسرے کا حریف اور دشمن بنا دیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک دوسرے کی طاقت کو توڑنے اور اس کے اعتماد کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ ان کی مخالفت میں بہت سا کام جو تعمیری قوتوںکو کرنا تھا یہ حضرات خود اپنے ہی ہاتھوں کر رہے ہیں۔ اس نے تحریکِ اسلامی کی قوت کو بڑھا دیا ہے۔

۴- جن حالات سے آج ہمیں سابقہ پیش ہے اور جس سمت میںاس ملک کو لے جایا    جا رہا ہے، وہ ہمارے لیے بے شمار مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ خصوصیت سے معاشرے میں جو بگاڑ راہ پارہا ہے اور جس تیزی سے بڑھ رہا ہے، وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ ہمارے پاس اس وقت وہ ذرائع موجود نہیں جن سے ہم اس کو روک سکیں۔ لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ ان شاء اللہ اس بگاڑ کے باوجود تحریکِ اسلامی کا مستقبل نہایت روشن ہے۔ ہم اس مفروضے پر تو کام کر نہیں رہے کہ شیطان کو معزول کردیا جائے اور ہمیں کھلی چھٹی مل جائے گی، یا تحریک اسلامی کے لیے کوئی ایسا مخصوص میدان ہے جہاں شیطان کا عمل دخل نہ ہو۔ ہم اِس قسم کی کوئی توقع نہیں رکھتے اور انھی حالات میں اپنے لیے راہ نکال رہے ہیں اور ان شاء اللہ اس میں کامیاب ہوں گے۔

جو لوگ حالات کے بگاڑ سے مایوس ہوجاتے ہیں، مَیں ان سے کہتا ہوں کہ کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ اِس سے بدرجہا زیادہ خراب حالات کے باوجود اور انتہائی جبروتشدد کے استعمال کے باوجود آج تک [اشتراکی] روس سے اسلام کو خارج نہیں کیا جاسکا [بلکہ آج وسطی ایشیا کی مسلم ریاستیں روس کے چنگل سے نکلنے کے بعد آزاد ریاستیں ہیں]۔ ترکی میں اسلام کو غیرمؤثر بنانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا گیا؟ لیکن نتیجہ کیا ہوا؟ وہاں آج بھی اسلام کے ساتھ دل چسپی اسی طرح ہے۔ یہ ان قوموں کا حال ہے جہاں دین سے انحراف اور معاشرتی بگاڑ کے خلاف کوئی جوابی چیز موجود نہ تھی، جہاں لوگوں کے لیے دُور دُور تک اُمید کی کوئی شعاع نہ تھی لیکن اس کے باوجود وہ اسلام سے وابستہ رہے اور کوئی طاقت اسلام کو مٹا نہ سکی۔ ہمارے ملک میں ایک مثبت جوابی تحریک موجود ہے۔ یہ مسلسل کام کر رہی ہے۔ لوگوں کو ایک سہارا نظر آتا ہے۔ اس لیے بگاڑ کی رفتار خواہ کتنی ہی تیز کیوں نہ ہو مجھے مایوسی کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی، بلکہ جب خود اسلامی تحریک کی ترقی اور اس کے اثرات کا ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے سر خدا کے حضور شکر سے جُھک جاتے ہیں۔ میرے دل میں ایک لمحے کے لیے بھی مایوسی کے جذبات نہیں پیدا ہوتے۔ مَیں حالات کو ہر لحاظ سے اُمیدافزا سمجھتا ہوں۔

۵- پھر مجھے اِس بات پر مکمل یقین ہے کہ اگر کسی حق بات کے لیے موزوں طریقے پر  کام کیا جائے، اور کام کرنے والے بھی موزوں ہوں، اور کام بھی حکمت و دانش مندی کے ساتھ  کیا جائے تو ناکامی کی کوئی وجہ نہیں بلکہ کامیابی ناگزیر ہے۔ حق کی فطرت میں کامیابی ہے۔  ضرورت جس امر کی ہے وہ موزوں طریقے پر صحیح آدمیوں کے ذریعے اور حکمت و تدبر کے ساتھ  کام کرنا ہے اور الحمدللہ یہ کام ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مَیں تحریکِ اسلامی کے مستقبل کے بارے میں ہمیشہ پُرامید رہا ہوں اور آج بھی پُرامید ہوں۔ ان شاء اللہ اسلام غالب ہوکر رہے گا۔ (مولانا مودودی کے انٹرویو، اوّل، ص ۲۰۲-۲۰۴)

 

حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو لشکر کا قائد بناکر بھیجا۔ اس نے ایک جگہ آگ روشن کی اور لشکر سے کہا: اس میں کود جاؤ۔ کچھ لوگوں نے اس کی بات مانتے ہوئے آگ میں کود جانے کا فیصلہ کرلیا۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ نہیں آگ ہی سے بچنے کے لیے تو ہم مسلمان ہوئے ہیں۔ واپس آکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعے کا ذکر کیا گیا تو جن لوگوں نے آگ میں کود جانے کا ارادہ کیا تھا ان سے مخاطب ہوکر آپؐ نے فرمایا: اگر تم آگ میں جاکودتے تو قیامت تک اسی میں رہتے۔ اور جن لوگوں نے آگ میں کودنے سے انکار کیا تھا آپؐ نے ان کی تحسین کی اور فرمایا: اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے کسی شخص کی اطاعت نہیں کی جاسکتی۔ اطاعت صرف نیکی کے کاموں میں ہے (مسلم، حدیث ۳۲۲۴)

مطلق اطاعت کا حق صرف رب ذو الجلال کے لیے ہے۔ باقی تمام اطاعتیں اسی بزرگ و برتر ہستی کی اطاعت سے مشروط ہیں۔ مذکورہ لشکر کا سربراہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقرر کردہ تھا، لیکن حکمت الٰہی نے اپنے حبیبؐ کے امتیوں کی تعلیم کا انتظام کرنا تھا۔ یہ واقعہ روپذیر ہوا اور صحابہ کرامؓ کے ذریعے پوری اُمت کو درس حاصل ہوگیا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سب پر مقدم ہے۔

اسی حدیث سے سمع و طاعت کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے، اگرچہ سربراہ کے حکم پر عمل نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن کئی صحابۂ کرام جذبۂ اطاعت میں اس کے لیے بھی تیار ہوگئے۔ حکم چونکہ اللہ کی تعلیمات کے صریحاً منافی تھا، اس لیے سب صحابہ کرامؓ نے اتفاق راے سے اس پر عمل نہ کیا اور خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی تائید و تحسین فرمائی کہ اسلام اور اسلامی تحریک میں شمولیت کا اصل مقصد ہی رب کی اطاعت اور اس کی آگ سے بچنا ہے۔

حدیث یہ بھی واضح کرتی ہے کہ خودکشی کرنا اللہ کی صریح نافرمانی ہے۔ اللہ کی آگ سے بچنے کے اُمیدوار اس حرام فعل سے اجتناب کرتے ہیں۔

زندگی کے ہر گوشے کے لیے سنہری اور ابدی اصول عطا ہوگیا، خالق کی نافرمانی کرتے ہوئے مخلوق میں سے کسی کی ___ جی ہاں، کسی کی بھی اطاعت نہیں کی جاسکتی۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے زہر  پی کر خودکشی کی، جہنم کی آگ میں جاکر بھی اس کے ہاتھ میں زہر ہی ہوگا اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہیں رہ کر بار بار زہر پی کر، بار بار مرتا رہے گا۔ (ابوداؤد ، حدیث ۳۸۷۲)

زندگی اللہ کی امانت ہے۔ انسان کسی کی تو کجا، اپنی جان بھی نہیں لے سکتا۔ اگر کوئی اس جرم کاارتکاب کرلے تو یہ نہیں کہ بس مرگیا اور قصہ ختم، وہی اقدامِ خودکشی اس کی ابدی سزا بن جاتا ہے۔ دوسری احادیث میں ہے کہ کوئی بلندی سے خود کو گرا کر مرگیا تو وہ بار بار اسی طرح زندہ کیا جاتا رہے گا اور اسی طرح گر گر کر مرتا رہے گا۔ کسی نے تلوار یا کسی بھی ہتھیار سے خود کو قتل کرلیا وہ بھی اسی طرح___  زندگی کی پریشانیوں، مصیبتوں یا غصے کا علاج اور احتجاج کا راستہ خودکشی نہیں ہوسکتا، یہ تو ہمیشہ کا عذاب ہے۔


حضرت عبد اللہ بن بریدہ ؓسے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی قوم ایسی نہیں ہے کہ اس نے بدعہدی کی اور ان کے درمیان قتل و غارت نہ بڑھ جائے۔ کوئی قوم ایسی نہیں ہے کہ اس میں فحاشی عام ہوجائے اور اس پر موت نہ مسلط ہو، اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے کہ زکوٰۃ دینا چھوڑ دے اور اللہ نے اس کی بارش نہ روک لی ہو۔ (مستدرک حاکم ، حدیث ۲۵۲۹)

عہد کی پاس داری، قرآن اور حدیث کی پاس داری ہے۔ انسان کی معاشرتی، معاشی، سیاسی زندگی اور لاتعداد اجتماعی مسائل کا حل اسی ایک اصول کی پابندی کا مرہون منت ہے۔ عہد کی خلاف ورزی سے اختلافات پیدا ہوں گے اور بالآخر نتیجہ جھگڑوں اور قتل و خوں ریزی کی صورت میں نکلے گا۔یہ اصول ابدی اور جامع ہے۔

حدیث سے دوسری اہم بات یہ واضح ہوئی کہ حیاداری نہ رہے تو معاملہ انسانی ضمیر اور نسل انسانی کی موت تک جاپہنچتا ہے۔ ایڈز جیسی ہلاکتوں کا رونا رونے اور اس کا مقابلہ کرنے لیے معصوم بچوں میں بے حیائی کی تعلیم کا پرچار کرنے والے ذرا یہ نسخۂ ’حیاداری‘ آزما کر تو دیکھیں، رسول رحمتؐ کی حقانیت واضح ہوجائے گی۔

تیسرا اصول یہ عطا ہوا کہ زکوٰۃ کی ادایگی برکت ہی برکت ہے، رسول اکرمؐ فرماتے ہیں کہ صدقات سے مال ہمیشہ بڑھتا ہی ہے، کبھی کم نہیں ہوتا۔ ہاں، جو بندہ مال کی محبت میں گرفتار ہو کر سمجھے کہ مال  روک کر رکھنے سے مال بڑھے گا، وہ جان لے کہ پھر صرف وہی نہیں، پورا معاشرہ قحط سالی کا شکار ہوجائے گا۔


حضرت علیؓ کا ارشاد ہے کہ میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی سے یہ کہہ کر مخاطب ہوتے ہوئے نہیں سنا کہ: ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان‘‘ سوائے سعدؓ بن مالک کے۔ آپؐ غزوۂ اُحد کے دوران انھیں فرمارہے تھے: ’’سعد تیر چلاؤ، میرے ماں باپ تم پر قربان!‘‘۔ (بخاری، حدیث ۴۰۵۹)

پوری کائنات جس ہستی پر فدا ہونا اپنے لیے اعزاز سمجھے وہ خود کسی کو کہہ دے ’’میرے ماں باپ تم پر قربان‘‘۔ سبحان اللہ! اس اعزاز و مرتبے پر جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے، لیکن ہم امتیوں کے لیے اصل سوال یہ ہے کہ حضرت سعدؓ کو یہ مقام و مرتبہ کیوں کر حاصل ہوا؟ غزوۂ اُحد کے واقعات اسی سوال کا جواب ہیں۔ ایسے وقت میں کہ جب مسلمانوں پر انتہائی کڑا وقت تھا، لشکر اسلام پر اچانک دوبارہ ہلہ بول دیا گیا تھا___ صحابۂ رسول رضی اللہ عنہم شہید ہورہے تھے ___ حضرت سعدؓ تاک تاک کر دشمن پر تیر برسارہے تھے۔ یہی وہ لمحات تھے کہ جب حضرت سعد ؓ کو تاریخ کا سب سے منفرد اعزاز حاصل ہوگیا۔

آج جب پوری اُمت پر ادبار کا عالم ہے۔ دنیا کے سب ابلیس یک جا ہوکر حملہ آور ہیں،کون ہے جو حضرت سعدؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دفاعِ اُمت کے لیے انؓ کی سی مہارت حاصل کرے۔ اُس وقت کے تیر آج ہر نوع کی عسکری، علمی، اقتصادی قوت اور ٹکنالوجی کے تمام جدید ذرائع کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ قرآن نے ایک لفظ میں پورا مضمون سمو دیا:ما استطعتم ’’جو کچھ بھی تمھارے بس میں ہے‘‘ دشمن کے مقابلے کے لیے تیار کرو۔


حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں ایک بیج (یا پنیری) ہو جسے وہ بونا چاہ رہا ہو، تو اگر ایسا ممکن ہو کہ قیامت واقع ہوجانے سے پہلے پہلے وہ اسے بودے تو ضرور بودے۔ (مسند احمد، حدیث ۱۳۰۰۴)

جب قیامت ہی آجائے گی تو ظاہر ہے سب کچھ ختم ہوجائے گا، لیکن اس تمثیل کے ذریعے،  معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم عمل اور محنت کی عظمت بیان فرمارہے ہیں۔ رزق حلال کے حصول، اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی، معاشرے کی تعمیر و ترقی، دفاع اُمت اور انسانیت کی خدمت و فلاح کی خاطر آخری سانس تک کوشش، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلوب و محبوب ہے۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو چاہتا ہے کہ مصیبت کے لمحات میں اللہ اس کی دُعا قبول فرمائے، اسے چاہیے کہ عافیت کے لمحات میں زیادہ سے زیادہ دُعا کرے (ترمذی ، حدیث ۳۳۸۲)

آزمایش اور مصیبت کے لمحات میں مسلمان ہی نہیں کفار بھی، اللہ ہی کو پکارنے لگ جاتے ہیں۔ بندے اور رب کے مابین تعلق کی اصل پرکھ، سُکھ کے لمحات میں ہوتی ہے۔ آسودہ حالی میں بندہ اپنے رب کو یاد رکھے، اس کے سامنے جھولی پھیلائے رکھے، اس کے ساتھ کیے گئے وعدوں کا پاس کرے، تو وہ غفور و رحیم ذات، تنگی، پریشانی اور مصیبت کے لمحات میں اپنے بندے کو یاد رکھتی ہے۔ پروردگار کی عطائیں جاری رہتی ہیں اور وہ بندے کی دُعاؤں کی لاج رکھتا ہے۔

عافیت کو عام طور پر صحت و تندرستی کا مترادف سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کا مفہوم بے حد وسیع اور زندگی کے ہر گوشے کا احاطہ کرتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر دُعا فرمایا کرتے تھے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَ تَحَوُّلِ عَافِیَـتِکَ، ’’پروردگار میں تیری نعمتوں کے زوال اور تیری عافیت کے اُٹھ جانے سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘۔ دُنیا میں کتنے انسان ہیں جو خوش و خرم زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں اور اچانک عافیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اس کا تصور ذہن میں لاتے ہوئے اب ذرا حدیث اور اس کے مفہوم کا دوبارہ مطالعہ کرکے دیکھیے، رب سے کس طرح کا تعلق مطلوب ہے۔


حضرت عدی بن حاتمؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس سے اس کا رب براہ راست ہمکلام نہ ہو۔ دونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہوگا۔ بندہ اپنے دائیں طرف دیکھے گا اسے کچھ دکھائی نہ دے گا، سوائے اس کے کہ جو کچھ اس نے آگے بھیجا ہے۔ وہ اپنے بائیں طرف دیکھے گا تو، وہ اپنی آگے بھیجی ہوئی کمائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھے گا۔ وہ اپنے سامنے دیکھے گا تو اسے جہنم کی آگ کے علاوہ کچھ دکھائی نہ دے گا۔ تو (اے لوگو) آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کا صدقہ دے کر۔ اور اگر اللہ کی راہ میں دینے کے لیے تمھارے پاس کچھ بھی نہ ہوتو اچھی بات کہہ کر ہی آگ سے بچو۔ (بخاری، حدیث ۷۵۱۲)

ہر بندے کو اصل فکر مندی اسی لمحے کی ہونی چاہیے جب رب ذو الجلال اس سے خود ہمکلام ہوگا۔ بندے کے ساتھ کچھ رہے گا تو صرف اس کا عمل اور رب رحیم کی رحمت۔ رحمتوں کی طلب اور آگ سے بچاؤ کے لیے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے آسان راہ بتادی___ اللہ کی راہ میں، صرف اور صرف اس کی رضا کے لیے زیادہ سے زیادہ خرچ۔ اور کچھ نہیں تو کھجور کا ٹکڑا ہی سہی، وہ بھی نہیں تو خیرخواہی کے دو بول ہی سہی۔

 

مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ قرآنِ مجید ایک عہدآفرین کتاب ہے۔ اس کتاب کے نزول اور پھر اس کی اشاعت کے بعد دنیا وہ نہ رہی، جو اس سے قبل تھی اور نہ پھر کبھی وہ بن سکے گی۔ لیکن یہ دعویٰ تو اُس قوم کا ہے، جو اس کے الہامی اور مِن جانب اللہ ہونے کو بحیثیت نقطۂ آغاز تسلیم کرتی ہے۔ جو لوگ اس بنیادی مقدمے ہی کو تسلیم نہیں کرتے کہ یہ کُل انسانیت کے نام اللہ کا آخری پیغام اور اس کی ہدایت کا غیرمُبدّل ذریعہ ہے، اُن کے لیے اس دعوے کو جانچنے کا کیا ذریعہ ہوسکتا ہے؟

میرے خیال میں اس کے متعدد ذرائع ہوسکتے ہیں، اور مختلف زاویوں سے ہم اس مسئلے کی طرف توجہ کرسکتے ہیں، مثلاً قرآنِ مجید کی اِن پیش گوئیوں ہی کو لیجیے:

لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (المجادلہ ۵۸:۲۱) میں اور میرا رسولؐ غالب آکر ہی رہیں گے۔

اِنَّـآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ o فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ o اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ o (الکوثر۱۰۸:۱-۳) اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ ہم نے تمھیں خیرکثیر عطا کردیا ہے پس تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو، بلاشبہہ تمھارا دشمن ہی بے نشان ہوگا۔

قرآنِ مجید میں یہ دعوے اللہ تعالیٰ سے منسوب ہیں۔ اب سے ۱۴ سو سال پہلے صحراے عرب میں ایک شخص کھڑے ہوکر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اللہ کا پیامبر ہے، اور پوری انسانیت کے لیے ہادی اور راہنما ہے۔ وہ کوئی جمہوری دَور نہیں تھا، جب اختلافِ راے و عقیدہ آسانی سے برداشت کرلیے جاتے ہوں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ چاروں طرف مخالفت کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ جو کل دوست تھے، آج دشمن ہیں۔ قبائلی نظام میں کسی فرد کی سب سے بڑی قوت اس کے قبیلے کی پشت پناہی ہی ہوتی ہے۔ مگر یہاں تو یہ حال ہے کہ اس دعوت کی سب سے زیادہ مخالفت اور مزاحمت اس کے اپنے قبیلے اور خصوصاً اس کے بااثر سرداروں ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس عہد کے کسی دانا انسان کے ذہن میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ تاریخ اب کسی نئے موڑ پر مڑنے والی ہے۔ اور تو اور آج کا کوئی بڑے سے بڑا مؤرخ یا فلسفیِ تاریخ بھی ابتدا سے تاریخِ اقوام کا گہری نظر سے مطالعہ کرتا ہوا آئے تو چھٹی صدی یا ساتویں صدی عیسوی کی ابتدا میں، اقوامِ عالم میں اُسے کوئی ایسی غیرمعمولی حرکت نہیں دکھائی دے گی، جس کی بنا پر وہ ایک عالم گیر سیاسی انقلاب کی پیش گوئی کرسکے، جس سے صدیوںپرانی سلطنتیں منہدم ہوجائیں، یا کسی ایسے معاشرتی، اخلاقی اور مذہبی انقلاب کا پتا چل سکے، جس نے نہ صرف ہزارہا سال کے انسانی تصورات اور مزعومات کو ہلاکر رکھ دیا، بلکہ انسان کی فکری تاریخ پر ایسے گہرے نقوش چھوڑے کہ اُن کے اثرات اور اثرات کے اثرات نے عالمِ فکر میں ایک زنجیری ردِّعمل برپا کردیا ہے۔ ایسا عمل، جو آج بھی جاری ہے۔

آج سے کوئی پندرہ سو سال قبل جب کسی کتاب نے ایسا دعویٰ کیا، تو سواے اُس شخص کے جو یہ کتاب لے کر آیا، اور اُن چند مٹھی بھر انسانوں کے جو اُس کی صداقت کے قائل ہوگئے تھے، کسی کو اس کا یقین نہ تھا۔ اور یہ عدمِ یقین، تاریخِ اسلام کے ایک مشہور واقعے سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغِ دین کے ابتدائی ایام میں اہلِ قبیلہ کی دعوت کا اہتمام کیا، اور اس کے بعد دعوتِ اسلام پیش کی۔ سب خاموش رہے۔ حضرت علیؓ، جو اس وقت بچے تھے کھڑے ہوئے اور بولے: ’’اگرچہ میری ٹانگیں پتلی ہیں (یعنی میں کمزور ہوں) اور آنکھوں میں آشوب ہے، تاہم میں آپؐ کا ساتھ دوں گا‘‘۔ آپؐ کا چچا ابولہب بولا: ’’یہ چہل سالہ بوڑھا اور یہ لڑکا دنیا کو بدلنے چلے ہیں!!‘‘۱؎

قرآنِ مجید کے انقلابی اثرات کا جائزہ ایک دوسرے انداز میں بھی لیا جاسکتا ہے۔ ایک جگہ کہا گیا ہے:

وَ قِیْلَ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا مَاذَآ اَنْزَلَ رَبُّکُمْ ط قَالُوْا خَیْرًا لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃٌ ط وَ لَدَارُ الْاٰخِرَۃِ خَیْرٌ ط وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِیْنَ o (النحل ۱۶:۳۰) اور جب اُن لوگوں سے جنھوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے، کہا جاتا ہے کہ تمھارے پروردگار نے کیا نازل کیا ہے؟ تو وہ کہتے ہیں: ’’ہمارے رب نے خیرنازل فرمایا ہے‘‘۔ وہ لوگ جنھوں نے اعمالِ حسنہ کیے ہیں، اُن کے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے، اور آخرت کا گھر تو بہتر ہے ہی، اور اہلِ تقویٰ کا ٹھکانا ضرور ہی اچھا ہوگا۔

یہاں قرآنِ مجید میں خود مسلمانوں کے منہ سے اِس کی کُل تعلیمات کے لیے ایک نہایت جامع لفظ ’خیر‘ استعمال کرایا گیا ہے۔ گویا قرآنِ مجید میں جو کچھ تلقین و تعلیم ہے، سراسر خیر ہی خیر ہے۔ اس میں تمام انسانیت کی بھلائی مضمر ہے۔

آیئے ایک نظر حیاتِ انسانی کے اہم انفرادی و اجتماعی اداروں اور نظاموں پر ڈال کردیکھیں کہ قرآنِ مجید کی تعلیمات سے وہ کس طرح اور کس حد تک متاثر ہوئے ہیں۔ اس گفتگو کے لیے ہم نے فی الحال صرف دو اداروں، سیاست و معیشت کو منتخب کیا ہے، ورنہ قرآنِ مجید کے اثرات تو انسانی زندگی پر ہمہ گیر ہیں۔ تصورِ مذہب، اخلاق، علم و تعلیم اور معاشرت پر اس کے اثرات کا کُلی طور پر احاطہ کرلینا تقریباً ناممکن ہے۔

قرآنِ مجید کی تعلیمات کے سیاسی اثرات کو ملاحظہ کرنے کے لیے اس عہد کے فلسفۂ سیاست پر ایک نظر ڈالنا ہوگی:

  •  انسانی تاریخ کے اسٹیج سے پہلے پہل جب پردہ اُٹھتا ہے تو شرقِ اوسط اور مصر کی اقوام منصہ شہود پر نظر آتی ہیں۔ ان تہذیبوں میں جمہوریت یا عوامی حکومت کا کوئی تصور نظر نہیں آتا۔ حکومتیں خاندانی یا موروثی ہوتی تھیں۔ قدیم بابل اور آشوریا میں حکمران کا اقتدار مطلق ہوتا تھا۔ مطلق العنان حکمرانوں کو اپنے عوام کی زندگی اور موت پر کُلی اختیار تھا۔ حکومت کی پالیسی، قانون سازی، اس کے نفاذ کے ادارے، سب انھی کے کنٹرول میں ہوتے تھے۔ اگر کوئی تحدید تھی، تو بعض رسوم ورواج کی، یا طاقت ور قبائلی سرداروں یا اشرافیہ کی بغاوت کے خطرے سے تھی۔ عوام کے کوئی حقوق کہیں نظر نہیں آتے۔ اُن کی قسمت کا دارومدار کلیتاً اس بات پر تھا کہ جو شخص تخت پر قبضہ کرلیتا ہے، وہ ظالم، جابر اور لاپروا ہے، یا اس کے دل میں رحم دلی کی کوئی رمق باقی ہے۔
  •  دنیا میں جمہوریت کا عکس سب سے پہلے ہمیں یونان میں نظر آتا ہے۔ ۷۰۰ قبل مسیح میں ایتھنز میں موروثی بادشاہت کے بجاے بعض اشراف کی حکومت کا بیج پڑا۔ اشرافیہ کے تحت لوگوں نے حقوق طلب کرنے شروع کیے اور آخرکار ۵۰۰ ق م کے لگ بھگ لوگوں نے حکمرانوں کے انتخاب، قانون سازی اور منصفوں کے تقرر کے پورے اختیارات حاصل کرلیے۔ لیکن پھر تیسری صدی قبل مسیح میں مقدونیہ کی طاقت ور بادشاہت کے آگے یونانی جمہوریتیں تاش کے پتّوں کی طرح بکھر گئیں۔
  •  روم میں بھی ابتدائً شہر کے ’اشراف‘ خاندانوں ہی کے ہاتھ میں اقتدارِ کُلی ہوتا تھا، مگر   جوں جوں باہر سے زیادہ لوگ شہر میں آکر آباد ہوتے گئے، حقوق کے لیے چیخ و پکار بڑھتی گئی۔ آخرکار ۵۱۰ قبل مسیح میں عام لوگوں نے تختِ شاہی کو اُلٹ دیا۔ جنگ کے قابل تمام لوگ ہر سال جمع ہوکر دو کونسل (consul) منتخب کرنے لگے۔ مگر یہ تو جمہوریت نہ تھی کہ ’قابلِ جنگ لوگ‘ (comitia curiata)، صرف اُمرا ہی ہوتے تھے۔ یہ گروہ سینیٹ کے ساتھ اقتدارِ اعلیٰ کا شریک ہوتا تھا اور سینیٹ، اشرافیہ کا ایک مختصر تر گروہ تھا جس کے افراد عمربھر کے لیے اس کے رکن ہوا کرتے تھے۔ گو، روم کے عوام نے کئی دفعہ مقبول حکمرانی ’جمہوریت‘ کے قیام کے لیے جدوجہد کی لیکن کسی قابلِ ذکر اور دیرپا کامیابی سے دوچار نہیںہوئے۔ سینیٹر ہی فوج، اُمورِخارجہ اور مالیات کو کنٹرول کرتے تھے۔ دراصل حکمران وہی ہوتے تھے۔

رومی سلطنت کے عروج اور فتوحات کی وسعت کے ساتھ بڑے سپہ سالاروں کا بھی عروج ہوا، جنھوں نے اپنی عسکری قوت کے بل بوتے پر مطلق اقتدار حاصل کرلیا۔ سینیٹ، فطری طور پر اُن سے حسد رکھتی تھی۔ ایسے سب سے بڑے سپہ سالار جولِیس سیزر (۱۴۴-۱۰۰ء) نے سینیٹ کے اقتدار و اختیار کو تقریباً ختم ہی کردیا، اور آخرکار سینیٹ کے ’جمہوریت پسندوں‘ ہی کی سازش سے، جن کا قائد بروٹس تھا، وہ بالآخر قتل کر دیا گیا اور اس طرح سلطنتِ روما سے جمہوریت کا شائبہ تک  ختم ہوگیا، کیوں کہ اس کے بعد مارک انطونی نے اسی طرح اقتدار سنبھال لیا۔

یہ سچ ہے کہ ہماری معلومہ تاریخ میں جمہوریت کا اصول سب سے پہلے یونانیوں نے دنیا کو دیا تھا لیکن یونانی جمہوریت کیا تھی؟ ایتھنز جیسی شہری ریاستوں میں جہاں آبادی کا تقریباً ایک تہائی حصہ غلاموں پر مشتمل تھا، صرف آزاد انسانوں ہی کو حق راے دہی اور حقِ عہدہ حاصل تھا، کیوں کہ قانوناً یہی لوگ ’اصل شہری‘ تھے۔ خود ارسطو، جو ’اہلِ دانش کا شہزادہ‘ کہلاتا ہے، اس بات کا قائل تھا کہ بربروں کو غلام بنانا بالکل درست ہے، کیوں کہ وہ ایک کم تر نسل ہیں۔ پھر اس یونانی جمہوریت کے کئی نقائص اور بھی تھے۔ ’براہِ راست جمہوریت‘ ہونے کی بنا پر یہ زیادہ سے زیادہ ایک شہر ہی کے لیے قابلِ عمل ہوسکتی تھی۔ کسی بڑے ملک یا سلطنت میں اس کے نفاذ کا کوئی طریق نہ تھا۔ دوسرے یہ کہ ریاست کے انتظام میں تکنیکی امور، یہاں تک کہ مقدمات کے فیصلے اور انصاف تک، عوامی صوابدید پر چھوڑ دیے گئے تھے۔ چوتھی صدی قبل مسیح جو علم و دانش میں یونان کا عہدِ زریں   شمار ہوتی ہے۔ اس عوامی جمہوریت تلے دَم توڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اسی بنا پر ایتھنز کو فوجی مہمات میں شکست پر شکست ہوتی ہے، اور ’عوامی عدالت‘ کا سامنا کرکے سقراط کو جو پیغمبروں جیسی حکمت و دانش کا امین تھا، زہر کا پیالہ پینا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دَور کے عظیم ترین مفکر، سقراط، افلاطون اور ارسطو اس نظامِ سیاسی سے سخت نالاں اور اس کے زبردست ناقد نظر آتے ہیں۔

بہرحال، یونانی طرز کی جمہوریت، جیسی بھی وہ تھی، نہایت عارضی ثابت ہوئی اور یورپ میں سیاسی اور فکری اقتدار رومیوں کے ہاتھ آیا، تو انھوں نے ایک طرح کی اشرافیہ اور بدترین ملوکیت کا نظامِ حکمرانی اختیار کیا، حتیٰ کہ حکمران سیزر کا نام ہی ’قیصر‘ کی صورت میں بادشاہی کا مترادف بن گیا۔

  •  ایشیا کی حالت اس سے کسی طرح بھی بہتر نہ تھی۔ یہاں کی دو اہم قومیں فارس اور ہند کی تھیں۔ اہلِ فارس کے ہاں کسی جمہوری روایت کی خبر نہیں ملتی۔ وہاں جابر بادشاہوں کے بڑھے ہوئے ظلم وستم پر کبھی کبھی بغاتوں کے شعلے ضرور بھڑکتے ہوئے نظر آتے ہیں، جیسے پانچویں صدی عیسوی (عہدِ ساسانی) میں مزدکیت کا فلسفہ پھیلتا دکھائی دیتا ہے، جس کے بانی مزدک کا خیال تھا کہ معاشرے میں دولت اور ازواج کی اشتمالیت ہونی چاہیے کہ یہ کسی فرد کی ذاتی ملکیت نہ رہیں، بلکہ ہر ایک کو ان سے استفادے کا حق ہو۔ ظاہر ہے کہ اس تعلیم کا اثر سیاسی، معاشی اور اخلاقی انتشار اور نراج ہی کی شکل میں نکل سکتا تھا۔ خسرو نوشیرواں نے تلوار اور جبر کے زور سے اس عقیدے کو کچلا، تاہم اس وقت تک ہزاروں بچے ایسے پیدا ہوگئے تھے، جن کا نسب متعین کرنا ناممکن ہوگیا تھا، وراثت اور تملیک کیوں کر طے پاتی۔ اب ملوکیت اپنے تمام لوازمات کے ساتھ پھر ایران کا نظامِ سیاسی و معاشی قرار پائی۔
  •  جہاں تک ہندستان کا تعلق ہے، نظامِ حکومت کا جمہوری اصولوں یا سیاسی حقوق سے کوئی دُور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ آریوں نے وسط ایشیا سے تقریباً ۲ ہزار قبل مسیح میں ہندستان میں قدم رکھا تھا۔ قدیم باشندوں کو دُور دراز کے علاقوں اور پہاڑوں، جنگلوں میں دھکیل دیا گیا یا غلام بنالیا گیا۔ اس وقت سے مسلمانوںکی آمد تک ہندستان کئی فکری اور ذہنی انقلابوں سے دوچار ہوا۔ ویدوں کا عہد سیدھا سادا تھا جس میں طاقت ور راجا اور سردار بے داد و ستد (ظلم کے ساتھ) حکومت کرتے تھے۔ معاشرہ چار طبقوں میں منقسم تھا، حکمران کھشتری ہوتے تھے، مذہبی مقتدر طبقہ برہمن، تجارت اور معاش میں سرگرم ویش اور محنت کش، کمترین طبقہ شودر، جن کے چھونے سے بھی اعلیٰ طبقے گریزاں تھے۔ بدھ مت اور جین مت نے بھی جو اس ظالمانہ نظام کے خلاف ایک تحریک کا حصہ کہے جاسکتے تھے، کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہ کی، اور ایک طرح سے ہندومت میں ضم ہوگئے۔ اس طرح ہندستان کے عوام بھی موروثی سیاسی حکمرانی، مذہبی حکمرانی اور معاشی اقتدار کے بدترین نظام کے اسیر رہے۔

غرض دنیا میں کوئی ایسا فلسفہ نہ تھا، جو فردِ واحد یا چند افراد کے ٹولے کے مطلق العنان اقتدار کو چیلنج کرتا، اور اس کے لیے کوئی مؤثر لائحہ عمل مہیا کرتا۔

قرآن کا فلسفۂ سیاست

اس عہد میں قرآنِ مجید نے اعلان کیا اور یہ کتابِ مقدس کا پہلا فقرہ ہے: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o (الفاتحہ ۱:۱) ’’تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، جو تمام کائنات کا رب ہے‘‘۔ گویا اقتدارِ اعلیٰ کسی فرد، خاندان یا گروہ کا نہیں، بلکہ اللہ ہی کا حق ہے:

ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَہٗ الْمُلْکُ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا ھُوَ ج (الزمر ۳۹:۶) یہ اللہ ہے، تمھارا رب، اُسی کی حکومت ہے،اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔

لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (الزمر ۳۹:۴۴) آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا وہی مالک ہے۔

پھر قرآن اعلان کرتا ہے کہ اللہ نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ، یعنی جانشین بنا دیا ہے:

ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓئِفَ الْاَرْضِ (الانعام ۶:۱۶۵) وہی ہے جس نے تمھیں زمین میں اپنا نائب بنایا۔

یہ خیال رہے کہ یہاں پوری نسلِ انسانی سے خطاب ہے، کسی خاص قوم، نسل، یا طبقے سے نہیں۔ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ کسی اور مروج مذہب یا فلسفۂ سیاسی میں پہلی بار تمام انسانوں کو یہ حق دیا جا رہا ہے کہ وہ زمین پر حقیقی مقتدرِ اعلیٰ کی نیابت کریں۔ اگرچہ یہ اقتدار اعلیٰ، موجودہ لادینی جمہوریت کی طرح مطلق العنان نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے تجویزکردہ اجتماعی نظام کا پابند ہے:

اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ (اعراف ۷:۵۴) آگاہ ہوجائو، تخلیق اور حکم دینا اُسی کے لیے مخصوص ہے (یعنی اُسی ذاتِ پاک کا حق ہے)۔

قرآنِ مجید نے اپنے ماننے والوں کو حکم دیا کہ اپنے اُمور کا تصفیہ باہم مشورے سے کریں، اور اس طرح مطلق العنانی کا خاتمہ کیا۔ حضور اکرمؐ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور اور ہدایت یافتہ تھے، تاہم آپؐ کو بھی ہدایت کی گئی کہ معاملات میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ ضرور کریں:

وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ( اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹) اور دنیا کو بتایا گیا کہ حقیقتاً تو مسلمانوں کے معاملات باہمی مشورے ہی سے طے پاتے ہیں۔

وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ ( الشوریٰ ۴۲:۳۸) اُن کے (یعنی مسلمانوں کے) اُمور باہمی مشورے ہی سے انجام پاتے ہیں۔

اس طرح تاریخ میں پہلی دفعہ مطلق العنانی یا اشرافیہ کی من مانی کا ابطال کیا گیا اور شورائیت کا حکم دیا گیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ شورائیت کی یہ تلقین ایک مذہب کر رہا ہے، اور مذہب روایتی طور پر ایک ’حاکمانہ مزاج‘ رکھتا ہے، نہ کہ جمہوری۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف اللہ کے رسول بلکہ مدینہ کی پہلی اسلامی ریاست کے سربراہ بھی تھے۔ آپؐ سیاست، جنگ و صلح اور تمام ملکی انتظامات کے سلسلے میں اپنے اصحاب سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ غزوئہ اُحد کے موقع پر جب یہ خبر ملی کہ کافروں کا بہت بڑا لشکر پوری جنگی تیاریوں کے ساتھ حملہ آور ہونے آرہا ہے، تو آپؐ کی راے یہ تھی کہ مدینہ ہی میں رہتے ہوئے مقابلہ کیا جائے، مگر آپؐ نے صحابہ کی راے کو ترجیح دی، اگرچہ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا اور بہت سی قیمتی جانیں گئیں۔

آپؐ کے بعد مسلمانوں نے سربراہِ حکومت کا انتخاب بھی شورائی طریق پر کیا، اور ’خلیفہ‘ (جو قرآنِ مجید کی اصطلاح کے مطابق اللہ کی زمین پر اللہ کے خلفا(جانشینوں) کا نمایندہ ہوتا ہے) کے انتخاب کے لیے بیعت کا طریق رائج ہوا۔ بیعت دراصل راے دہی ہی کی ایک صورت ہے، اور کوئی شخص قانونی طور پر مسلمانوں کا امیر نہیں بن سکتا، جب تک مسلمانوں کی اکثریت اس کے انتخاب کے حق میں نہ ہو۔ راے دہی کے جدید طریقے، ووٹ ڈالنا اور خفیہ راے شماری___ دراصل اسی اصولِ شورائیت و بیعت کے نفاذ کی جدید صورتیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ اسلام کے    قرنِ اوّل میں اِن طریقوں کا استعمال ممکن نہ تھا۔

جدید مغربی جمھوریت

مغرب میں سیاسی حقوق کا شہرہ ۱۳ویں صدی عیسوی سے ہوتا ہے، یعنی قرآنِ مجید کی آمد کے ۷سو سال بعد۔ جدید مغربی جمہوریت اگرچہ زیادہ ’جمہوری‘ نظر آتی ہے، کہ وہ اقتدارِ اعلیٰ کلیتاً عوام کو عطا کرتی ہے، مگر بڑی حد تک یہ محض کاغذ پر ایک رسمی دعویٰ ہے۔ ۱۲۱۵ء میں انگلستان کے بادشاہ جان کو کچھ نوابوں نے مجبور کیاکہ وہ حقوق کی ’عظیم دستاویز‘___ ’میگناکارٹا‘پر دستخط کردے۔ لیکن سچ پوچھیے تو اب تک دنیا میں کسی ملک میں عوام کو حقیقی معنوں میں اقتدار نصیب نہیں ہوا ہے۔ یورپ میں نظریۂ جمہوریت کے متوازی عہدِ نوآبادیات شروع ہوا۔ فرانس اور برطانیہ جیسی اقوام نے جو خود کو دورِ جدید میں جمہوریت و حریت کی علَم بردار کہتی ہیں، براعظم ایشیا، افریقہ اور آسٹریلیا میں اپنی نوآبادیات قائم کیں۔ وہاں کے اصل باشندوں کے حقوقِ ملکیت، زمین و وسائل، راے دہی اور حق آزادی کو پامال کیا، بلکہ تسلیم ہی نہ کیا۔ حد تو یہ ہے کہ بعض علاقوں سے اصل باشندوں کا تقریباً صفایا ہی کر دیا گیا، جیسے شمالی امریکا سے سرخ ہندی (ریڈ انڈین)اور آسٹریلیا سے وہاں کے قدیم باشندے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کس سیاسی نظریے کی بنیاد پر ہوا؟ ۲۰ویں صدی کے نصف آخر میں جن نوآبادیاتی قوتوں نے اپنے مقبوضات کو چھوڑا ہے،تو پھر برہنہ سیاسی اقتدار کے بجاے ایک نئی قسم کا سیاسی و اقتصادی غلبہ ان نوآزاد مملکتوں پر مسلط کر دیا۔ یہ جدید نوآبادیاتی نظام (neo-colonialism) استحصال اور لُوٹ مار کی ایک جدید ’خوب صورت‘ شکل ہے۔ نام نہاد آزادی حاصل کرنے والے یہ ممالک اپنے آقا ملکوں کے قرض، تکنیکی مہارت اور توازنِ ادایگی کے  نہ ختم ہونے والے چکر میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔

پھر جن ملکوں میں یہ جمہوریت پروان چڑھی ہے، وہاں بھی حریت و اقتدار، حقیقی سے زیادہ سطحی ہے۔ جدید ریاستوں میں بھی سربراہِ مملکت، عسکری قیادت اور مقتدرہ کو عدالت میں جواب دہی کے لیے نہیں گھسیٹا جاسکتا، جب کہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقتدار کے عروج میں اپنی پشتِ مبارک ایک دعوے دار کے لیے کھول دی تھی کہ وہ ایک قمچی کا بدلہ لے لے، اور کسی کو کوئی دعویٰ ہو تو آپؐ مداوا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ حضرت عمرؓ (سربراہِ مملکتِ اسلامیہ) برسرِمنبر اس اعتراض کا جواب دیتے ہیں کہ جو کپڑے تقسیم کیے گئے تھے، وہ اتنے چھوٹے تھے کہ آپ کی قمیص نہ بن سکتی تھی، آپ نے کیسے بنالی؟ فرمایا: میرے بیٹے نے اپنا کپڑا مجھے دے دیا تھا۔

مغرب میں ’جمہوریت‘ کے عروج کے ساتھ صنعتی ترقی شروع ہوئی۔ اس کے نتیجے میں بڑی بڑی صنعتیں سلطنتیں (industrial empires) اور کارپوریشنیں وجود میں آئیں۔ قومی رقابتوں اور اُن کے باہمی تصادم کے خطرے اور نتیجے کے طور پر ہول ناک عسکری قوتیں قائم   کرنا ناگزیر ہوگیا۔ اور ان عسکری قوتوں کے لیے سامانِ حرب بھی لازم تھا۔ غرض صنعت کاروں، سرمایہ داروں، مقتدرہ اور سپہ سالاروں کی ٹولیوں نے جمہوریت کے پردے میں ناموسِ انسانیت کی بے حُرمتی کا ایک نیا اسلوب اور کھیل شروع کیا، جو اَب بھی جاری ہے۔ عراق اور افغانستان پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی یلغار اس کی تازہ مثال ہے    ؎

دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

(بانگِ درا)

معاشی نظریات کا تاریخی پس منظر

دولت کی منصفانہ تقسیم کا مسئلہ، انسان کو درپیش اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ نزولِ قرآن کا پس منظر ملاحظہ کیجیے، تو معلوم ہوگا کہ اس طرف توجہ شاذو نادر ہی کی گئی تھی۔ جہاں تک افلاطون کا تعلق ہے، اپنی ’جمہوریہ‘ میں وہ صرف ’حکمران فلاسفہ‘ ہی کے درمیان اشتمالیت اور    نفیِ ملکیت کی تلقین کرتا ہے۔ بجا طور پر اس کا خیال ہے کہ مال و اسباب کی ہوس ہی سیاسی فساد اور مظالم کا باعث بنتی ہے، مگر یہ تو پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر دولت مند اور باوسائل طبقے ہی ہوسِ اقتدار میں مبتلا ہوجائیں، تو انھیں حکومت پر قبضہ کرلینے سے روکنے والی چیز کیا ہوگی؟جہاں تک قدیم ایران کے مُزدک کا تعلق ہے، اس کی تعلیمات کے منتشر اجزا ہی ہم تک پہنچے ہیں اور اُن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی تعلیمات پر عمل سے مزاج اور انتشار ہی کا راستہ کھل سکتا ہے۔

انسانی فکر ی تاریخ میں قرآن سے پہلے اِن دو افکار سے پہلے کہیں یہ نظر نہیں آتا کہ دولت کی منصفانہ تقسیم کے لیے کوئی نظام دیا گیا ہو، جس سے معاشرے میں مفاسد کا قلع قمع ہو۔ ظلم،   بے انصافی اور استحصال کا خاتمہ ہو، اور تمام انسانوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کا انتظام، معاشرہ یا حکومت خود اپنے ذمّے لے لے۔ قرآنِ مجید نے جو اسلامی نظامِ معاش تجویز کیا ہے۔ اس سے قبل دنیا کے تمام معاشروں میں اقتصادی نظام سخت غیرمتوازن نظر آتے ہیں۔ ایک طرف تو پیدایشِ دولت اور دولت جمع کرنے پر کوئی پابندی نہیں تھی، دولت کمانے کے سلسلے میں جائز و ناجائز کی کوئی تفریق نہ تھی۔ اِسی طرح اُسے خرچ کرنے پر بھی کوئی پابندیاں نہ تھیں، دوسری طرف ملوکِ جابر اور سردار، جہاں اور جس طرح چاہتے اپنی رعایا کی دولت پر قبضہ کرلیتے۔ پیداوارِ دولت کا بنیادی ذریعہ، یعنی ’زمین‘ انھی کی ذاتی ملکیت ہوتا تھا۔ بعض معاشروں میں تو ستم بالاے ستم یہ تھا کہ معاشرے کو ایسے موروثی طبقات میں تقسیم کر دیا گیا تھا کہ بعض افراد اور اُن کی اولاد کا مستقبل کبھی معاشی طور پر خوش آیند ہو ہی نہیں سکتا تھا، جیسے قدیم ہندو معاشرے کے شودر۔ اس کے برخلاف دوسرے طبقات کو غیرمعمولی معاشی فوائد سے متمتع ہونے کا حق دار بنا دیا گیا تھا۔

قرآن کا معاشی فلسفہ

قرآنِ مجید نے ان تمام مفاسد کے انسداد کی تدبیر کے لیے دنیا کو ایک نیا معاشی نظام دیا۔ اگر آپ دولت کی پیدایش کے عوامل پر نظر ڈالیں تو ان میں دو عوامل نمایاں نظر آئیں گے: ۱-وسائلِ پیداوار ۲- محنت۔ آج معاشیات میں دو مزید عوامل، سرمایہ اور انتظام گنائے جاتے ہیں، مگر یہ بھی درحقیقت اوّل الذکر دو عوامل ہی کے تحت آسکتے ہیں۔

جہاں تک وسائلِ پیداوار کا تعلق ہے (جن کو کلاسیکی معاشیات میں ’زمین‘ کے عنوان کے تحت گفتگو کی جاتی ہے، اور اس میں زمین کے علاوہ سمندر اور آبی وسائل، جنگلات، معدنیات اور ہر طرح کے عطیاتِ قدرت شامل ہیں) قرآنِ مجید کے بارے میں واضح اعلان کرتا ہے:

وَ لِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ( اٰل عمرٰن ۳:۱۸۰، الحدید ۵۷:۱۰) آسمان اور زمین اللہ ہی کی ملکیت ہیں۔

اَلَآ اِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ(یونس ۱۰:۵۵) یاد رکھو، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے،وہ اللہ ہی کی ملکیت ہے۔

چوں کہ وسائلِ پیداوار اپنی آخری تحلیل میں زمین ہی سے حاصل ہوتے ہیں، اس لیے قرآن مجید اُن کے لیے ’ارض‘ استعمال کرتا ہے، کیوں کہ انسان اپنی محنت سے جو بھی دولت حاصل کرتا ہے، وہ ’زمین‘ ہی سے آتی ہے، اور اگر کائنات کے دوسرے گوشوں(آفتاب) سے بھی آئے تو ’سموات‘ کی اصطلاح اسے بھی احاطہ کرلیتی ہے۔

جب دولت کا مصدر (source) فی الواقع اللہ ہی کی ملکیت ہے، تو اس پر انسان کو مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہوسکتے۔ دراصل جب انسان کو زمین پر اللہ کا خلیفہ یانائب کہا گیا ہے تو اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ زمین پر اس کا اختیار مالکانہ نہیں، بلکہ ایک امانت دار ہی کا ہوسکتا ہے۔ زمین پر اللہ کی نیابت کوئی انفرادی معاملہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی تصور ہے، یعنی بحیثیت کُل۔ پوری انسانیت خلیفۃ اللّٰہ فی الارض ہے۔ جدید لادینی تصورِ سیاست میں چونکہ اللہ کے تصور کو خارج از بحث رکھا جاتا ہے اس لیے اس میں اللہ کی جگہ ’ریاست‘ لے لیتی ہے۔ یوں زمین اور سارے وسائلِ پیداوار دراصل ریاست ہی کی ملکیت قرار پاتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ ریاست جن افراد یا اداروں کی ملکیت میں انھیں دے دیتی ہے، وہ اس پر مالکانہ تصرف کے مختار قرار پاتے ہیں۔

اگر صورتِ حال ایسی ہو تو ظاہر ہے کہ ’زمین‘ سے حاصل ہونے والی پیداوار پر انسان کا حق نہایت محدود معنوں ہی میں ملکیت قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسلام کے نزدیک وہ دراصل ایک امانت ہے، اور امانت پر امین کا کُلی اختیار نہیں ہوتا۔ اُس کے لیے لازم ہوتا ہے کہ اصل مالکِ امانت کے منشا کے مطابق ہی اُسے استعمال کرے۔

اس نکتے کو قرآنِ مجید نے متعدد مقامات پر نہایت وضاحت سے بیان کیا ہے:

اَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ تَـزْرَعُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ o لَوْ نَشَآئُ لَجَعَلْنٰہُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَکَّھُوْنَ o اِنَّا لَمُغْرَمُوْنَ o بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ o اَفَرَاَیْتُمُ الْمَآئَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ o لَوْ نَشَآئُ جَعَلْنٰہُ اُجَاجًا فَلَوْلاَ تَشْکُرُوْنَ o اَفَرَاَیْتُمُ النَّارَ الَّتِیْ تُوْرُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَھَا اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِئُوْنَ o (الواقعۃ ۵۶:۶۳-۷۲) ذرا اُس کھیتی کو تو دیکھو جس کی تم کاشت کرتے ہو، کیا تم نے اُس (کے بیج) کو اُگایا، یا اُگانے والے ہم ہیں۔ اگر ہم چاہتے تو اُسے بھوسے جیسا بنا دیتے، اور تم ہاتھ ملتے رہ جاتے (اور کہتے) دراصل ہمیں دھوکا ہوا (کہ ہم اُسے اپنی محنت کا ثمرہ سمجھ رہے تھے)۔ فی الواقع ہم نامراد ہیں۔ پھر ذرا اُس پانی کو تو دیکھو جسے تم پیتے ہو۔ کیا تم اُسے بادل سے اُتارتے ہو، یا برسانے والے ہم ہیں۔ اگر ہم چاہتے تو اُسے کھاری ہی بنا لیتے۔ تو تم اس کا شکریہ ادا کیوں نہیں کرے؟ ذرا اُس آگ کو تو دیکھو جسے تم روشن کرتے ہو۔ کیا تم نے اُس کا شجر اُگایا ہے، یا اُگانے والے ہم ہیں۔

اقبال نے قرآنِ مجید کے اس فلسفۂ ملکیت کو اپنی نظم الارض لِلّٰہ میں یوں بیان کیا ہے:

پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون؟
کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب؟

کون لایا کھینچ کر پچھّم سے بادِ سازگار؟
خاک یہ کس کی ہے؟ کس کا ہے یہ نورِ آفتاب؟

کس نے بھر دی موتیوں سے خوشۂ گندم کی جیب؟
موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوے انقلاب؟

دِہ خدایا! یہ زمیں تیری نہیں، تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں ، تیری نہیں ، میری نہیں

(بالِ جبریل)

اب، چوںکہ جدید سیکولر ریاستوں میں اصل مالکِ زمین عوام ہیں، اس لیے اللہ کی جگہ عوام یعنی ریاست نے لے لی ہے، اور سارے وسائل اپنے آخری تجزیے میں ریاست کی ملکیت متصور ہوتے ہیں، اور اس لیے انھیں اُن کے مفاد ہی کے لیے استعمال کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔

پیدایشِ دولت کا دوسرا اہم عامل ’محنت‘ کا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ تمام انسان اپنی صلاحیتوں اور کارکردگی میں یکساں نہیں ہوتے، لیکن اگر کوئی بہتر صلاحیت رکھتا ہے، تو یہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ودیعت ہے، اور محض اس بنا پر وہ کسی قدر زائد کا حق دار نہیں۔ ہاں، محنت کی کمی بیشی کی بنا پر معیشت میں فرق ہوسکتا ہے، مگر ظاہر ہے کہ یہ فرق ایک اور ایک ہزار یا لاکھوں کروڑوں کا نہیں ہوسکتا، جیساکہ آج کے سرمایہ دارانہ نظام اور ’ بے روک معیشت‘ میں ہم دیکھتے ہیں۔ اسلام نے قرآنی تعلیمات کی بنا پر اس فضیلت ِ ذہنی وجسمانی کی بناپر ایک گروہ کو دوسرے گروہ کا استحصال کرنے اور اُسے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے آلۂ کار بنانے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر اپنے بعض بندوں کو زائد رزق کے حصول کے مواقع دیتا ہے تو امین کی حیثیت سے ان کا فرض ہے کہ اُسے اپنے نسبتاً کم خوش قسمت بنی نوع پر خرچ کریں؟

وَ اللّٰہُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ فَمَا الَّذِیْنَ فُضِّلُوْا بِرَآدِّیْ رِزْقِھِمْ عَلٰی مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ فَھُمْ فِیْہِ سَوَآئٌ اَفَبِنِعْمَۃِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَo (النحل ۱۶:۷۱) اللہ تعالیٰ نے روزی میں تم میں سے بعض کو بعض پر برتری دی ہے، تو جنھیں زیادہ دیا گیا ہے، وہ اپنا رزق اُن لوگوں کو نہیں لوٹا دیتے جو اُن کے زیردست ہیں، تاکہ وہ باہم مساوی ہوجائیں تو کیا وہ اللہ کی اس (نعمت) کا انکار کر رہے ہیں؟

یہاں ایک نکتہ قابلِ غور یہ ہے کہ بِرَآدِّیْ رِزْقِھِمْ یعنی ’’اپنے رزق کو لوٹانے والے‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، اور لوٹائی وہ چیز جاتی ہے جس کے ہم حقیقی مالک نہ ہوں۔ اسی طرح ایک حدیث میں زکوٰۃ کی بابت ارشاد ہوتا ہے کہ یہ امیروں سے لے کر غریبوں کو لوٹائی جاتی ہے۔ گویا معاشرے کے پس ماندہ طبقوں کی امداد کے لیے اہلِ ثروت جو دیںگے وہ بھیک یا خیرات نہیں ہوگی، بلکہ محتاجوں کا حق ہوگا۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کے نزدیک ضرورت سے زائد تمام دولت معاشرے کے پس ماندہ طبقے کا حق ہے:

یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ (البقرہ ۲: ۲۱۹) لوگ آپؐ سے پوچھتے ہیں کہ ہم (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں؟ کہہ دیجیے، وہ جو ضرورت سے زائد ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ یہ سورئہ بقرہ کی ایک آیت ہے، اور زمانۂ نزول کے اعتبار سے آپؐ کی دی ہوئی ہدایات میں سے آخری ہدایتوں میں سے ہے۔

قرآنِ مجید کا تصورِ معیشت و ریاست خالصتاً فلاحی یعنی welfare کا ہے۔ وہ نہ صرف سرمایہ دارانہ استحصال کو روکتا ہے، بلکہ زر کے جمع کیے جانے والے اور اُسے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے پر وعید بھی سناتا ہے:

وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَ الْفِضَّۃَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ o یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْھَا فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُھُمْ وَ جُنُوْبُھُمْ وَ ظُھُوْرُھُمْ ط ھٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنo (التوبۃ ۹:۳۴۔۳۵) وہ لوگ جو سونا چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں، اور انھیں اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، اُنھیں ایک دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو۔ وہ ایسا دن ہوگا، جب انھیں جہنم کی آگ میں پگھلایا جائے گا، پھر اُن سے ان کے پہلو اور کھالیں داغی جائیں گی۔ یہ ہے جو تم اپنے لیے جمع کرکے رکھتے تھے، تو اپنے اس جمع کرنے کا مزا چکھو۔

اس طرح قرآنِ مجید معاشرے کے پس ماندہ طبقوں پر خرچ کرنے کو محض ایک نفل عبادت اور ’ثواب کا کام‘ نہیں بنا دیتا، بلکہ اِسے ایک فرض قرار دیتا ہے، جس کے سلسلے میں دنیا میں احکام ہیں اور آخرت میں محاسبہ۔

دورِ جدید

نظامِ سرمایہ داری کے مظالم اور تکالیف کا مداوا کرنے کے لیے مغرب میں جتنی بھی تحریکیں شروع ہوئیں، اُن کی ابتدا فرانس اور جرمنی میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہ امر قابلِ غور ہے کہ یورپ میں فرانس اور جرمنی ہی اوّلاً عربوں اور اسلام سے متاثر ہوئے تھے۔ جرمن فلسفی ایمانوئل کانٹ کو اخلاقی تعلیمات میں اسلام کی چھاپ نہایت واضح نظر آتی ہے۔ قدامت پسند چرچ کے ناقدین اور حریت اور شرفِ انسانی کے علَم بردار اگرچہ کسی مذہب کا نام لینے سے گریزاں رہے، لیکن ان کی بوجھ ہٹانے والی اور زنجیروں کو کاٹنے والی تحریروں میں قرآن کا رنگ جھلکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس ضمن میں جو نظام تجویز کیے گئے ان کا نقطۂ منتہا کارل مارکس اور اینجلز کی Manifesto اور اوّل الذکر کی عہدآفریں کتاب سرمایہ (Capital) ہے جو ۱۸۶۷ء میں لکھی گئی تھی۔ ان کی تحریر و تحریک کے نتیجے میں ۱۹۱۷ء کا اشتراکی انقلاب روس آیا، جو بعد میں مشرقی یورپ کے کئی ملکوں اور مشرقِ بعید چین تک پھیل گیا، اور دنیا کی ایک موثر سیاسی و معاشی قوت بن گیا۔ مارکس اور اینجلز نے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں وجود میں آنے والے ظالمانہ نظام کی چکی میں پِسنے والے طبقوں کو للکارا: ’’دنیا کے محنت کشو! متحد ہوجائو، تمھارے پاس گِنوانے کے لیے سواے زنجیروں کے اور کچھ نہیں ہے‘‘۔ لیکن ۱۰۰ سال سے بھی کم عرصے میں اس انقلابی تجربے کی عملی تعبیر نے روس میں بدترین آمریت اور تاریخ کے دہشت ناک ترین ادوار میں سے ایک کو جنم دیا۔ اس نظام نے اپنے زیراثر افراد کی آزادیاں اخلاق اور بلند اقدار چھین لیے۔ اکثریت کو پست حیوانی سطح پر پہنچا دیا۔ جسمانی احتیاجات کی تو ضمانت دے دی گئی، لیکن وہ مقام چھین لیا گیا، جو انسان کو حقیقی شرف عطا کرتا ہے۔

تاہم، اس تحریک اور نظام کے ردِّعمل اورتعامل کے نتیجے میں مغرب کے بے قید سرمایہ دارانہ نظام میں تھوڑی سنجیدگی اور ذمہ داری کا احساس بھی پیدا ہوا۔ مزدوروں اور محنت کشوں کے حقوق کے لیے قانونی تحفظات مہیا کیے گئے، ان کی بہتر زندگی، صحت اور آسایش کی طرف توجہ ہوئی اوربہت سے ملکوں میں بے لگام معیشت پر کچھ پابندیاں عائد ہوئیں۔

مشرق کی طرف نظر ڈالیں تو بلاشبہہ ابتدائی اسلامی دورِ حکومت کے بعد بادشاہوں اور  نام نہاد ’خلفا‘ کا دَور کسی طرح بھی ظلم و استحصال سے پاک مثالی عہد قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن اُس وقت بھی، جب خلافتِ اسلامی زوال پذیر ہوکر ملوکیت کی شکل اختیار کرچکی تھی مسلمانوں کے   ضمیر سے حقوقِ انسانی، عدلِ عمرانی اور معاشی انصاف کے قرآنی تصورات کو ہٹایا نہیں جاسکا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عباسی حکمران مامون کے عہد میں بھی امام ابوحنیفہ کے تلمیذ امام ابویوسف جو ’کتاب الخراج‘ تصنیف کرتے ہیں، اس میں عوام کے سیاسی اور معاشی حقوق کی نہایت شعوری تلقین ہے، حالانکہ یہ ایک نسلی ملوکیت کا دَور تھا، اور خلیفہ، خلیفہ نہیں بلکہ موروثی بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ اس عہد میں قرطبہ، طلیطلہ، سیوائل اور غرناطہ کے مسلم مدرسوں میں عیسائی طلبہ اور علما کا استفادے کے لیے آنا اور علومِ اسلامی کی خوشہ چینی ایک تاریخی حقیقت ہے، جس میں کسی شبہے کی گنجایش نہیں ہے۔ تعلیماتِ قرآنی کے دُھندلے ہوجانے، اور عہدِاوّل سے بُعد کے باوجود ۱۱ویں اور ۱۲ویں صدی عیسوی میں مسلم فکر وعلوم کے اِن اداروں سے اہلِ مغرب کا متاثر ہونا بالکل فطری تھا۔ ’ہسپانوی اسلام‘ کے ایک مؤرخ نے اُس عہد کے ایک عیسائی مفکر کو یوں نوحہ زن پایا ہے:

میرے عیسائی دوست، عربوں کی شاعری اور داستانوں ہی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وہ دین محمدیؐ کے اہلِ دینیات اور فلاسفہ کی کتابوں کو زیرمطالعہ رکھتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ ان کا اِبطال کریں، بلکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اعلیٰ درجے کا عربی اسلوب اختیار کرلیں۔ افسوس! نوجوان عیسائی، جو اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے ممتاز ہیں، سواے عربی کے کسی اور زبان اور ادب سے نا آشنا ہیں۔ وہ عربی کتابیں نہایت ذوق و انہماک سے پڑھتے اور ان کا مطالعہ کرتے ہیں۔ زرِ کثیر صَرف کر کے ان کے پورے کے پورے کتب خانے بنا لیتے ہیں۔ ہر جگہ وہ عرب داستانوں کے گیت گاتے نظر آتے ہیں۔۳؎

ہمارے لیے یہ تو ممکن نہیں کہ اُن معاشی محرکات اور اصلاحات کا، جو آج کی دنیا میں مثالیہ بن چکی ہیں براہِ راست قرآن کی اسلامی تعلیمات سے سراغ لگاسکیں، تاہم یہ تو ثابت شدہ امر ہے کہ یورپ میں نشاَتِ ثانیہ اور تحریکِ اصلاح، مسلم فکر کے زیراثر ہوئی تھی اور احیا العلوم کی یہی حرکت آخرکار دورِ جدید کی پیدایش کا باعث ہوئی اور فلاحی ریاست (Welfare State) کا تصور تو خالصتاً اسلامی تصور ہے، کیوں کہ ایسے کسی تصور کا سراغ یورپ اور ایشیا کے کسی اور فلسفے میں نہیں تھا، جس نے دورِ جدید کی تشکیل میں حصہ لیا ہو۔ یہ توجدید دنیا کی بدقسمتی ہے کہ اُصولاً تو وہ اس تصورِ ریاست و معیشت کو اپنانے کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن عملاً اس سے گریزاں ہے۔

حواشی

۱-  شبلی نعمانی: سیرت النبیؐ، جلد ۱، ص ۲۱۱۔ بعض نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، تاہم صورتِ حال یوں ہی تھی کہ کمزور اور ’بے حقیقت‘ لوگوں ہی نے دعوت کو قبول کیا تھا، اور اہلِ اقتدار اور بااثر لوگوں نے نہ صرف اِسے رد کیا تھا، بلکہ سخت مخالفت اور مزاحمت کی تھی۔

۲-  جدید معاشیات اور انتظامِ کاروبار کی ایک معروف (دل چسپ/ مضحکہ خیز؟) اصطلاح Human Resource ، یعنی انسانی وسیلہ ہے۔ گویا قدرتی وسائل (Natural Resoruces) معدنیات، تیل، جنگل اور زمین اور پانی کی طرح ’انسان‘ بھی ایک وسیلۂ پیدایشِ دولت ہے۔ جرمن مفکر کانٹ نے کہا تھا کہ انسان (انسانیت) کو ایک غایت سمجھا جائے، نہ کہ ایک ذریعہ۔ اور قرآن کہتا ہے: ’’ہم نے بنی آدم کو ’کرامت‘ (عزت، بزرگی، عظمت) عطا کی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی جان کو قیمتی ترین قرار دیا۔

۳-  بحوالہ R. Dozy: Spanish Islam, 1953, New York, p 268, Will Durant: The Age of Faith, 1950, N.Y. p 300

 

سورئہ یوسف کا قرآنِ حکیم میں ایک منفرد مقام ہے۔ اس میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ سارے کا سارا ایک ہی جگہ اور ایک ہی ساتھ بیان کردیا گیا ہے، جب کہ کتاب اللہ میں دوسرے قصص کا اسلوب اور انداز یہ ہے کہ موضوع سخن کے لحاظ سے جہاں ضروری ہو وہاں اتنا ہی بیان کردیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے قصۂ یوسف دیگر قصص قرآنی سے ممتاز اور نمایاں ہے اور    اسے ’احسن القصص‘ قرار دیا گیا ہے۔

سورئہ یوسف کی افادیت اس لحاظ سے بھی ہے کہ اس میں ایک مومن کے لیے امید،  حوصلہ اور کامیابی کا پیغام ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک فرد کی کس کس طرح سے مدد کرتا ہے اور بالآخر اسے منزلِ مقصود تک پہنچا کر رہتا ہے خواہ بظاہر اسے کیسے ہی مصائب کا سامنا ہو۔ بندہ تو کوشش کی حد تک مکلف ہے، معاملات کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ دیا جائے تو انسان مایوس نہیں ہوتا، کسی ذہنی اُلجھن کا شکار نہیں ہوتا، اور اپنے فرض کی ادایگی کے لیے مستعد رہتا ہے۔ اسی طرح اُمت مسلمہ اور   تحریکِ اسلامی کو آج جن مصائب کا سامنا ہے اور جس آزمایش سے وہ دوچار ہے، سورئہ یوسف کے مطالعے سے یہ اُمید اور حوصلہ ملتا ہے کہ بالآخر حق غالب آکر رہتا ہے بظاہر حالات کتنے ہی غیرموافق اور کیسے ہی مصائب کا سامنے ہو۔ اہلِ ایمان کے خلاف کیسے ہی حربے آزمائے جائیں اور تدابیر کی جائیں بالآخر اللہ کی تدبیر ہی غالب آکر رہتی ہے۔ گویا اس دورِ فتن میں اس سورہ کا مطالعہ اہلِ ایمان کے لیے تزکیہ و تربیت، ہمت و حوصلے کا ساماں اور دلوں کے لیے ایک ولولۂ تازہ ہے۔

احسن القصص

عربی زبان کے بلندپایہ ادیب اور مفسرِ قرآن سید قطب شہیدؒ اپنی تفسیر فی ظلال القرآن میں اس قصے کی علمی، ادبی اور فنی خوبیوں کو اُجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ جس طرح قرآن حکیم میں لایا گیا ہے وہ اسلام کے منہجِ قصہ گوئی کی ایک حسین، عمدہ اور خوب صورت مثال ہے۔ اس میں انسانی فطرت، نفسیات، جذبات، نظریات، حرکات اور تاثرات کی عکاسی کی گئی ہے، اور یہ اسلام کے طرزِ تعلیم و تربیت، نیز اسلامی دعوت و تحریک کے مقاصد کو بھی خوب بیان کرتا ہے۔ قرآنِ حکیم میں قصص لانے کا انداز عموماً ایک سا ہی ہے لیکن حضرت یوسف ؑ کے قصے کا اپنے طرزِ ادایگی کے لحاظ سے اور فنی خوبیوں کے اعتبار سے ایک مخصوص انداز ہے۔

مولانا امین احسن اصلاحیؒ اس قصے کے بعض اہم پہلوئوں کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’عام طور پر لوگ ان قصوں سے بہت دل چسپی لیتے ہیں جن میں کچھ چاشنی حسن و عشق کی ہو لیکن ایسے قصے بالعموم اخلاق کو بگاڑنے والے ہوتے ہیں۔ اس قصے کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں حسن و عشق کی چاشنی بھی ہے اور پھر پوری سرگزشت ہر پہلو سے حضرت یوسف ؑ کے اعلیٰ کردار و صفات کا ایک مرقع ہے۔ جو مواقع خاص آزمایش کے آئے ہیں ان میں حضرت یوسف ؑ نے اپنی اعلیٰ فطرت کے جو جوہر نمایاں کیے ہیں وہ ا یسے شان دار ہیں کہ ہر پڑھنے والے کے اندر ان کی تقلید کا جذبہ اُبھرتا ہے اور خاص بات یہ ہے کہ یہ تقلید ناممکن نہیں بلکہ ممکن محسوس ہوتی ہے.... (تدبر قرآن، ج۳، ص ۴۳۱)

اس سورت کی ضرورت و اہمیت اور شانِ نزول پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اس طرح روشنی ڈالتے ہیں کہ ’’اس سورے کے مضمون سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ بھی زمانۂ قیامِ مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی، جب کہ قریش کے لوگ اس مسئلے پر غور کر رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیں، یا جلاوطن کریں یا قید کر دیں۔ اس زمانے میں بعض کفارِ مکہ نے (غالباً یہودیوں کے اشارے پر) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتحان لینے کے لیے آپؐ سے سوال کیا کہ بنی اسرائیل کے مصر جانے کا کیا سبب ہوا؟ چونکہ اہلِ عرب اس قصے سے ناواقف تھے، اس کا نام و نشان تک ان کے ہاں کی روایات میں نہ پایاجاتا تھا اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے بھی اس سے پہلے کبھی اس کا ذکر نہ سناگیا تھا، اس لیے انھیں توقع تھی کہ آپؐ یا تو اس کا مفصل جواب نہ دے سکیں گے، یا اس وقت ٹال مٹول کرکے بعد میں کسی یہودی سے پوچھنے کی کوشش کریں گے، اور اس طرح آپ کا بھرم کھل جائے گا۔ لیکن اس امتحان میں انھیں الٹی منہ کی کھانی پڑی۔ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کیا کہ فوراً اسی وقت یوسف علیہ السلام کا یہ پورا قصہ آپؐ کی زبان پر جاری کردیا، بلکہ مزیدبرآں   اس قصے کو قریش کے اُس معاملے پر چسپاں بھی کر دیا جو وہ برادرانِ یوسف ؑ کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کر رہے تھے‘‘۔ (تفہیم القرآن، دیباچہ، سورئہ یوسف)

اس سورت میں باپ کی محبت، بھائیوں کا سوتیلاپن، سگے بھائیوں کا آپس کا پیار، گمراہ انسانوں کی ظالمانہ فطرت، ان کی سازشیں اور چالیں، آزاد خیال اور اُونچے طبقے کی خواتین کی علیحدہ معاشرتی اقدار اور ان کا اخلاقی دیوالیہ پن، اس طبقے کے مردوں کے دہرے کردار اور پھر انسانی شرمندگیاں و ندامتیں، معافیاں، جدائیاں، ملاپ اور انسانی فطرت کے مختلف پہلوئوں پر ہر زاویے سے خوب روشنی ڈالی گئی ہے۔ انسانی جذبۂ جنس اور اس کی حدود کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ قصہ اسلامی ادب کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس کا انداز فنی ہے۔ اس میں حیرت کا اظہار (creation of suspense) بھی پایا جاتا ہے اور انسانی فطرت کی عکاسی بھی موجود ہے۔ غرض یہ اسلامی ادب کی حدود تحفظات واقعیت، صداقت اور صحت مند مواد کا ایک عظیم سرمایہ ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو احسن القصص کا نام دیا ہے۔

سورئہ یوسف کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس سے بہت سے اسباق اور نصائح اخذ ہوتے ہیں۔ یہاں چند پہلوئوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے:

اللّٰہ کی مدد اور نگرانی

اللہ تعالیٰ انبیا علیہم السلام کی خصوصی نگرانی اور تربیت فرماتے ہیں۔ اسی لیے ان پر  وحی کا مسلسل نزول ہوتا ہے۔ پیغمبرانہ مشن، زندگی کی تگ و دو، کٹھن حالات اور مصائب و آلام   میں ان کو ہمت و حوصلہ، استقامت و استقلال اور ایمان و یقین کی دولت عطا کی جاتی ہے۔  حضرت یوسف علیہ السلام کے اسوہ میں ہمیں بارہا ایسے مواقع نظر آتے ہیں۔حضرت یوسفؑ کے بھائیوں نے انھیں اندھے کنویں میں پھینک دیا تو اللہ تعالیٰ نے انھیں وحی کی کہ ایک وقت آئے گا جب تو ان لوگوں کو ان کی حرکت جتائے گا، یہ اپنے فعل کے نتائج سے بے خبر ہیں (یوسف ۱۲:۱۵)۔ اسی طرح عزیزِ مصر کی بیوی نے جب انھیں رِجھانے کی کوشش کی تو اللہ نے ان کی مدد کی۔ بظاہر انھیں جیل میں قید کیا گیا لیکن یہی جیل ان کے لیے عظمت و سربلندی کا ذریعہ ثابت ہوئی۔

برادرانِ یوسف ؑ اپنے بھائی یوسف ؑ کو کنویں میں پھینک کر اپنے والد یعقوب علیہ السلام  کے پاس پہنچے اور ان کے سامنے یوسف ؑکو بھیڑیے کے کھا جانے کا ڈراما رچایا تو بوڑھے باپ پیغمبر یعقوب علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ہمت و حوصلہ عطا فرمایا اور انھوں نے کہا میں اس پر صبر کروں گا اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگوں گا (۱۲:۱۷-۱۸)۔ اسی طرح جب حضرت یوسف ؑ مصر سے اپنے والد یعقوب ؑ کے لیے اپنی قمیص روانہ کرتے ہیں، تو یہ ایک نشانی تھی کہ یوسف ؑ زندہ ہیں۔ حضرت یعقوب ؑ کنعان میں ان کی خوشبو سونگھ لیتے ہیں۔پھر جب خوش خبری لانے والا آیا تو اس نے یوسف ؑ کا قمیص حضرت یعقوب ؑ کے منہ پر ڈال دیا اور یکایک ان کی بینائی لوٹ آئی۔ ایک عام انسان کے لیے بھی اس میں رہنمائی ہے کہ انسان کو زندگی میں پیش آنے والی رکاوٹوں اور آزمایشوں سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ اگر وہ اپنے رب کی رضا اور خوشنودی کے پیش نظر جدوجہد کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی رہنمائی اور مدد کرتا ہے اور بالآخر وہ اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ کر رہتا ہے۔

آزمایش: تربیت اور سربلندی کا ذریعہ

بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کٹھن، غیرمعمولی اور آزمایش کے حالات میں مبتلا کر کے انسان کی  تعلیم و تربیت اور آیندہ کی قسمت تعمیر کرتے ہیں۔ اللہ کے نبی یوسف ؑ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اس آیت قرآنی کا بھی یہی مفہوم ہے:

اس طرح ہم نے یوسف ؑ کے لیے اس سرزمین (مصر) میں قدم جمانے کی صورت نکالی اور اسے معاملہ فہمی کی تعلیم دینے کا انتظام کیا۔ (۱۲:۲۰)

کنعان اور شمالی عرب کے علاقے میں اس وقت نہ کوئی منظم ریاست تھی اور نہ تمدن و تہذیب نے کوئی بڑی ترقی کی تھی۔ کچھ آزاد قبائل تھے جو وقتاًفوقتاً ہجرت کرتے رہتے تھے۔ یہ پاکستان کے فاٹا اور قبائلی علاقوں جیسے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف ؑسے جو کام لینا تھا، اس کی تعلیم و تربیت کے لیے انھیں ریگستان سے نکال کر مصر جیسے تہذیب یافتہ ملک میں پہنچایا۔ اس تجربے اور بصیرت کے حصول کے لیے قسمت یوسف ؑ کو سلطنتِ مصر کے ایک اعلیٰ عہدے دار کے گھر لے آئی۔ اس شخص نے یوسف ؑ کی صلاحیتوں کو دیکھ کر اپنی جاگیر یا ریاست کا انتظام ان کے حوالے کر دیا۔ اس طرح ایک چھوٹی سی ریاست کے ذریعے انھیں وہ انتظامی اور سیاسی تجربہ حاصل ہوگیا جو آیندہ ایک بڑی ریاست کے امور سنبھالنے کے لیے ضروری تھا۔

آزاد خیال طبقے کی روش

اس سورت میں آزاد خیال طبقے کی تصویر بھی دکھائی گئی ہے اور اس زمانے میں مصر کے اُونچے طبقے کی خواتین کی معاشرتی و اخلاقی حالت کا نقشہ بھی کھینچا گیا ہے:

جب [زلیخا کے] شوہر نے دیکھا کہ یوسف ؑکا قمیص پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تو اس نے [یوسف ؑ کی پاک دامنی ثابت ہوتے اور زلیخا کے جرم کو دیکھ کر] کہا: یہ تم عورتوں کی چالاکیاں ہیں، واقعی بڑے غضب کی ہوتی ہیں تمھاری چالیں۔ یوسف ؑ اس معاملے سے درگزر کر اور اے عورت تو اپنے قصور کی معافی مانگ، تو ہی اصل میں خطاکار تھی۔ (۱۲: ۲۷-۲۹)

اس وقت کی زنانِ مصر کی ایک تکیہ دار مجلس کا منظر اس طرح بیان کیا گیا ہے:

شہر کی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ ’’عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، محبت نے اس کو بے قابو (دیوانہ) کر رکھا ہے، ہمارے نزدیک تو وہ صریح غلطی کر رہی ہے‘‘۔ اس [زلیخا] نے جو اُن کی یہ مکارانہ باتیں سنیں تو ان کو بلاوا بھیج دیا اور ان کے لیے تکیہ دار مجلس آراستہ کی اور ضیافت میں ہر ایک کے آگے ایک ایک چھری رکھ دی (پھر عین اس وقت، جب کہ وہ پھل کاٹ کاٹ کر کھا رہی تھیں) اس نے یوسف ؑ کو اشارہ کیا کہ ان کے سامنے نکل آ۔ جب ان عورتوں کی نگاہ اس پر پڑی تو وہ دنگ رہ گئیں اور اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور بے ساختہ پکار اُٹھیں ’’حاشاللہ، یہ شخص انسان نہیں ہے، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے‘‘۔ (۱۲:۳۰-۳۱)

یہ اس وقت کے مصر کی اُونچے طبقے کی عورتوں کی اخلاقی اور معاشرتی حالت تھی کہ ایک پُررونق مجلس امرا و اولیا مصری خواتین کی سجائی گئی اور اس میں زلیخا نے اپنے خوب صورت محبوب کو دکھایا اور انھیں قائل کرنے کی کوشش کی گئی کہ تم بتائو میں ایسے حسین نوجوانوں پر مروں نہ تو کیا کروں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آزاد منش، عیاش، آوارہ مزاج اور جنسی ہوس کے شکار لوگوں کا رویہ اور بے باکی، ہر دور میں ایک ہی رہی ہے۔ یہ کوئی نئی چیز، روشن خیالی، نرمی اور نئی تہذیب نہیں ہے بلکہ پرانی اور گھسی پٹی تاریک خیالی، تنزل، بدتہذیبی اور جاہلیت اور دقیانوسیت ہی ہے۔

آزمایش میں مومن کا رویہ

اس سورت میں متقی، پرہیزگار اور نیک لوگوں کے ایمان کی وہ کیفیت بھی بیان کی گئی ہے جو آزمایش کے مرحلے میں ان کی ہوتی ہے کہ ان کا خدا پر ایمان اور اپنے اُوپر ضبطِ کمال کا ہوتا ہے۔ ان پر بڑے سے بڑا حربہ ناکام ہوتا ہے۔ وہ نازک لمحات میں بڑے سے بڑے لالچ و ترغیب میں نہیں پھنستے۔ ایسے موقع پر بھی وہ خدا سے مدد، توفیق اور دعا کرتے ہیں۔ ان کا خدا پر یقین پختہ ہوتا ہے اور ان کے دل و دماغ پر خدا کا احساس ہر وقت طاری ہوتا ہے، اور زبان پر خدا کا ذکر جاری ہوتا ہے یہاں تک کہ گناہِ کبیرہ سے بچنے کے لیے بڑی سے بڑی تکلیف قید تک کو قبول کرلیتے ہیں۔ ذیل کی آیات میں ایمان اور آزمایش کی کش مکش کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:

عزیز کی بیوی نے (اپنی محفل کی سہیلیوں سے) کہا: دیکھ لیا! یہ ہے وہ شخص جس کے معاملے میں تم مجھ پر باتیں بناتی تھیں۔ بے شک میں نے اسے رِجھانے کی کوشش کی تھی مگر یہ بچ نکلا۔ اگر یہ میرا کہنا نہ مانے گا تو قید کیا جائے گا اور بہت ذلیل و خوار ہوگا۔ یوسف ؑنے کہا: اے میرے رب، مجھے قید منظور ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں، اور اگر تو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دفع نہ کیا تو میں ان کے دام میں پھنس جائوں گا اور جاہلوں میں شامل ہو رہوں گا۔ (۱۲: ۳۲-۳۴)

’’اس حالت میں یہ خدا پرست نوجوان جس کامیابی کے ساتھ ان شیطانی ترغیبات کا مقابلہ کرتا ہے وہ بجاے خود کچھ کم قابلِ تعریف نہیں ہے۔ مگر ضبطِ نفس کے اس حیرت انگیز کمال پر عرفانِ نفس اور طہارتِ فکر کا مزید کمال یہ ہے کہ اس پر بھی اس کے دل میں کبھی یہ متکبرانہ خیال نہیں آتا کہ واہ رے ، کیسی مضبوط ہے میری سیرت کہ ایسی ایسی حسین اور جوان عورتیں میری گرویدہ ہیں اور پھر بھی میرے قدم نہیں پھسلتے۔ اس کے بجاے وہ اپنی بشری کمزوریوں کا خیال کر کے کانپ اُٹھتا ہے اور نہایت عاجزی کے ساتھ خدا سے مدد کی التجا کرتاہے کہ اے رب، میں ایک کمزور انسان ہوں، میرا اتنا بل بوتا کہاں کہ ان بے پناہ ترغیبات کا مقابلہ کر سکوں، تو مجھے سہارا دے اور مجھے بچا، ڈرتا ہوں کہ کہیں میرے قدم پھسل نہ جائیں___ درحقیقت یہ حضرت یوسف علیہ السلام کی اخلاقی تربیت کا اہم ترین اور نازک ترین مرحلہ تھا۔ دیانت، امانت، عفت، حق شناسی، راست روی، انضباط، اور توازن ذہنی کی غیرمعمولی صفات جو اَب تک ان کے اندر چھپی ہوئی تھیں اور جن سے وہ خود بھی بے خبر تھے، وہ سب کی سب اس شدید آزمایش کے دَور میں اُبھر آئیں، پورے زور کے ساتھ کام کرنے لگیں اور انھیں خود بھی معلوم ہوگیا کہ ان کے اندر کون کون سی قوتیں موجود ہیں اور وہ ان سے کیا کام لے سکتے ہیں‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۲، ص ۳۹۸-۳۹۹)

’’دفع کرنا اس معنی میں ہے کہ یوسف علیہ السلام کی سیرت صالحہ کو ایسی مضبوطی بخش دی گئی جس کے مقابلے میں ان عورتوں کی ساری تدبیریں ناکام ہوکر رہ گئیں، نیز اس معنی میں بھی ہے کہ مشیت الٰہی نے جیل کا دروازہ ان کے لیے کھلوا دیا‘‘۔ (ایضاً، ص۳۹۹)

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی شخص کو شرائط انصاف کے مطابق عدالت میں مجرم ثابت کیے بغیر بس یونہی پکڑ کر جیل بھیج دینا، بے ایمان حکمرانوں کی پرانی سنت ہے۔ اس معاملے میں بھی آج کے شیاطین چار ہزار برس پہلے کے اشرار سے کچھ بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ فرق اگر ہے تو بس یہ کہ وہ ’جمہوریت‘ کا نام نہیں لیتے تھے، اور یہ اپنے اِن کرتوتوں کے ساتھ یہ نام بھی لیتے ہیں۔ وہ قانون کے بغیراپنی غیرقانونی حرکتیں کیا کرتے تھے، اور یہ ہر ناروا زیادتی کے لیے پہلے ایک قانون بنا لیتے ہیں۔ وہ صاف صاف اپنی اغراض کے لیے لوگوں پر دست درازی کرتے تھے اور یہ جس پر ہاتھ ڈالتے ہیں اس کے متعلق دنیا کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اُس سے اِن کو نہیں بلکہ ملک اور قوم کو خطرہ تھا۔ غرض وہ صرف ظالم تھے۔ یہ اس کے ساتھ جھوٹے اور بے حیا بھی ہیں۔

حکمت ِ دعوت

قیدخانے میں حضرت یوسف ؑ کی سیرت و کردار سے متاثر ہوکر دو قیدی اپنے خوابوں کی تعبیر پوچھنے کے لیے آپ ؑ کے پاس آتے ہیں۔ موقع کا فائدہ اُٹھا کر اللہ کے نبی یوسف علیہ السلام اپنی دعوتِ توحید ان کے سامنے نہایت ہی دانائی، حکمت، مؤثر اور مدلل انداز میں پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان کو ان کے خوابوں کی تعبیر بتاتے ہیں، آپ ؑنے فرمایا:

اے زنداں کے ساتھیو! تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے۔ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے آباواجداد نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم سے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ (۱۲: ۳۹-۴۰)

بقول سید مودودی: یہ تقریر اس پورے قصے کی جان ہے اور خود قرآن میں بھی توحید کی بہترین تقریروں میں سے ہے۔ اس کے متعدد پہلو ایسے ہیں جن پر توجہ اور غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ حکمت دعوت کے حوالے سے آپ لکھتے ہیں: ’’حضرت یوسف ؑ نے جس طرح اپنی تبلیغ کے لیے موقع نکالا اس میں ہم کو حکمت ِ تبلیغ کا ایک اہم سبق ملتا ہے۔ دو آدمی اپنا خواب بیان کرتے ہیں اور اپنی عقیدت مندی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تعبیر پوچھتے ہیں۔ جواب میں آپ فرماتے ہیں کہ تعبیر تو میں تمھیں ضرور بتائوں گا مگر پہلے یہ سن لو کہ اس علم کا ماخذ کیا ہے جس کی بنا پر میں تمھیں تعبیر دیتا ہوں۔ اس طرح ان کی بات میں سے اپنی بات کہنے کا موقع نکال کر آپ اُن کے سامنے اپنا دین پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ فی الواقع کسی شخص کے دل میں اگر تبلیغِ حق کی دُھن سمائی ہو اور وہ حکمت بھی رکھتا ہو تو کیسی خوب صورتی کے ساتھ وہ گفتگو کا رُخ اپنی دعوت کی طرف پھیر سکتا ہے۔ جسے دعوت کی دُھن لگی ہوئی نہیں ہوتی اس کے سامنے تو مواقع پر مواقع آتے ہیں اور وہ کبھی محسوس نہیں کرتا کہ یہ موقع ہے اپنی بات کہنے کا۔ مگر وہ جسے دُھن لگی ہوتی ہے وہ موقع کی تاک میں لگا رہتا ہے اور اسے پاتے ہی اپنا کام شروع کردیتاہے۔ البتہ بہت فرق ہے حکیم کی موقع شناسی میں اور اُس نادان مبلغ کی بھونڈی تبلیغ میں جو موقع و محل کا لحاظ کیے بغیر لوگوں کے کانوں میں زبردستی اپنی دعوت ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر لیچڑپن اورجھگڑالوپن سے انھیں اُلٹا متنفر کرکے چھوڑتا ہے۔

اس سے یہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ لوگوں کے سامنے دعوتِ دین پیش کرنے کا صحیح ڈھنگ کیا ہے۔ حضرت یوسف ؑچھوٹتے ہی دین کے تفصیلی اصول اور ضوابط پیش کرنے شروع نہیں کر دیتے بلکہ ان کے سامنے دین کے اُس نقطۂ آغاز کو پیش کرتے ہیں جہاں سے اہلِ حق کا راستہ اہلِ باطل کے راستے سے جدا ہوتا ہے، یعنی توحید اور شرک کا فرق۔ پھر اس فرق کو وہ ایسے معقول طریقے سے واضح کرتے ہیں کہ عقلِ عام رکھنے والا کوئی شخص اسے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ خصوصیت کے ساتھ جو لوگ اس وقت ان کے مخاطب تھے ان کے دل و دماغ میں تو تیر کی طرح   یہ بات اُتر گئی، کیونکہ وہ نوکر پیشہ غلام تھے اور اپنے دل کی گہرائیوں میں اس بات کو خوب محسوس کرسکتے تھے کہ ایک آقا کا غلام ہونا بہتر ہے یا بہت سے آقائوں کا، اور سارے جہان کے آقا کی بندگی بہتر ہے یا بندوں کی بندگی۔ پھر وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ اپنا دین چھوڑو اور میرے دین میں آجائو، بلکہ ایک عجیب انداز میں ان سے کہتے ہیں کہ دیکھو، اللہ کا یہ کتنا بڑا فضل ہے کہ اس نے اپنے سوا ہم کو کسی کا بندہ نہیں بنایا مگر لوگ اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور خواہ مخواہ خود گھڑگھڑ کر اپنے رب بناتے اور ان کی بندگی کرتے ہیں۔ پھر وہ اپنے مخاطبوں کے دین پر تنقید بھی کرتے ہیں، مگر نہایت معقولیت کے ساتھ اور دل آزاری کے ہر شائبے کے بغیر۔ بس اتنا کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ یہ معبود جن میں سے کسی کو تم اَن داتا، کسی کو خداوند نعمت، کسی کو مالکِ زمین اور کسی کو ربِّ دولت یا مختارِ صحت و مرض وغیرہ کہتے ہو، یہ سب خالی خولی نام ہی ہیں۔ ان ناموں کے پیچھے کوئی حقیقی    اَن داتائی وخداوندی اور مالکیت و ربوبیت موجود نہیں ہے۔ اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے جسے تم بھی کائنات کا خالق و رب تسلیم کرتے ہو، اور اُس نے اِن میں سے کسی کے لیے بھی خداوندی اور معبودیت کی کوئی سند نہیں اتاری ہے۔ اس نے توفرماں روائی کے سارے حقوق اور اختیارات اپنے ہی لیے مخصوص رکھے ہیں اور اس کا حکم ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو‘‘۔(ایضاً، ص۴۰۳-۴۰۴)

غلبۂ دین کے لیے حصولِ اقتدار

ان دنوں شاہِ مصر کو ایک خواب نظر آیا۔ بادشاہ نے اپنے درباریوں سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی۔ اب وہ قیدی جو ایک عرصے تک یوسف ؑکے ساتھ جیل میں رہا تھا اور اس وقت وہ مقرب شاہی میں داخل تھا، اسے یاد آیا کہ یوسف ؑہمیں خوابوں کی تعبیر بتاتے تھے اور وہ صحیح نکلتی تھی۔ وہ بادشاہ سے اجازت لے کر قیدخانے میں گیا اور یوسف ؑ کو بادشاہ کا خواب بتایا۔ یوسف ؑ نے اس کی تعبیر بتا دی جو صحیح ثابت ہوئی۔ اس پر شاہِ مصر نے یوسف ؑ کو مقرب شاہی بنانے کے لیے جیل سے بلایا، تو یوسف ؑ نے کہلا بھیجا کہ پہلے اس الزام کی تحقیق کرلیجیے جو میرے کردار پر لگایا گیا تھا۔ بادشاہ نے محفل کی تمام عورتوں کو بلوایا۔ ان سب نے گواہی دی کہ یوسف ؑ میں ہم نے کوئی اخلاقی کمزوری نہیں دیکھی۔ یہاں تک کہ زلیخا بھی بول اُٹھی کہ دراصل میری نیت میں ہی فتور آگیا تھا۔ یوسف ؑ بے شک ایک پاک دامن شخص ہے۔ یوسف علیہ السلام کی پاک دامنی ثابت ہونے کے بعد شاہِ مصر نے تمام اقتدار سلطنت یوسف ؑ کے سپرد کر دیا۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ:’’ حضرت یوسف ؑ نے یہ اختیارات کس غرض کے لیے مانگے تھے؟ انھوں نے اپنی خدمات اس لیے پیش کی تھیں کہ ایک کافر حکومت کے نظام کو اس کے کافرانہ اصول و قوانین ہی پر چلائیں؟ یا ان کے پیشِ نظر یہ تھا کہ حکومت کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر ملک کے نظامِ تمدن و اخلاق و سیاست کو اسلام کے مطابق ڈھال دیں؟ اس سوال کا بہترین جواب وہ ہے جو علامہ زمخشری نے اپنی تفسیر کشاف میں دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’حضرت یوسف ؑ نے اِجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَائِنِ الْاَرْضِ جو فرمایا تو اس سے ان کی غرض صرف یہ تھی کہ ان کو     اللہ تعالیٰ کے احکام جاری کرنے اور حق قائم کرنے اور عدل پھیلانے کا موقع مل جائے اور وہ اُس کام کو انجام دینے کی طاقت حاصل کرلیں جس کے لیے انبیا بھیجے جاتے ہیں۔ انھوں نے بادشاہی کی محبت اور دنیا کے لالچ میں یہ مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ جانتے ہوئے کیا تھا کہ کوئی دوسرا شخص ان کے سوا ایسا نہیں ہے جو اس کام کو انجام دے سکے۔

اور سچ یہ ہے کہ یہ سوال دراصل ایک اور سوال پیدا کرتا ہے جو اس سے بھی زیادہ اہم اور بنیادی سوال ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ آیا پیغمبر بھی تھے یا نہیں؟ اگر پیغمبر تھے تو کیا قرآن میں ہم کو پیغمبری کا یہی تصور ملتا ہے کہ اسلام کا داعی خود نظامِ کفر کو کافرانہ اصولوں پر چلانے کے لیے اپنی خدمات پیش کرے؟ بلکہ یہ سوال اس پر بھی ختم نہیں ہوتا، اس سے بھی زیادہ نازک اور سخت ایک دوسرے پر جاکر ٹھیرتا ہے، یعنی یہ کہ حضرت یوسف ؑ ایک راست باز آدمی بھی تھے یا نہیں؟ اگر راست باز تھے تو کیا ایک راست باز انسان کا یہی کام ہے کہ قیدخانے میں تو وہ اپنی پیغمبرانہ دعوت کا آغاز اس سوال سے کرے کہ ’’بہت سے رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے‘‘، اور بار بار اہلِ مصر پر بھی واضح کردے کہ تمھارے ان بہت سے متفرق خودساختہ خدائوں میں سے ایک یہ شاہِ مصر بھی ہے، اور صاف صاف اپنے مشن کا بنیادی عقیدہ یہ بیان کرے کہ ’’فرماں روائی کا اقتدار خداے واحد کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے‘‘، مگر جب عملی آزمایش کا وقت آئے تو وہی شخص خود اُس نظامِ حکومت کا خادم، بلکہ ناظم اور محافظ اور پشت پناہ تک بن جائے جو  شاہِ مصر کی ربوبیت میں چل رہا تھا اور جس کا بنیادی نظریہ ’’فرماں روائی کے اختیارات خدا کے لیے نہیں بلکہ بادشاہ کے لیے ہیں‘‘ تھا؟

حقیقت یہ ہے کہ اس مقام کی تفسیر میں دورِ انحطاط کے مسلمانوں نے کچھ اُسی ذہنیت کا اظہار کیا ہے جو کبھی یہودیوں کی خصوصیت تھی۔ یہ یہودیوں کا حال تھا کہ جب وہ ذہنی و اخلاقی پستی میں مبتلا ہوئے تو پچھلی تاریخ میں جن جن بزرگوں کی سیرتیں ان کو بلندی پر چڑھنے کا سبق دیتی تھیں ان سب کو وہ نیچے گرا کر اپنے مرتبے پر اُتار لائے تاکہ اپنے لیے اور زیادہ نیچے گرنے کا بہانہ پیدا کریں۔ افسوس کہ یہی کچھ مسلمانوں نے بھی کیا۔ انھیں کافر حکومتوں کی چاکری کرنی تھی، مگر اس پستی میں گرتے ہوئے اسلام اور اس کے علَم برداروں کی بلندی دیکھ کر انھیں شرم آئی، لہٰذا اس شرم کو مٹانے اور اپنے ضمیر کو راضی کرنے کے لیے یہ اپنے ساتھ اس جلیل القدر پیغمبر کو بھی خدمتِ کفر کی گہرائی میں لے گرے جس کی زندگی دراصل انھیں یہ سبق دے رہی تھی کہ اگر کسی ملک میں ایک اور صرف ایک مردِ مومن بھی خالص اسلامی اخلاق اور ایمانی فراست و حکمت کا حامل ہو تو وہ تن تنہا مجرد اپنے اخلاق اور اپنی حکمت کے زور سے اسلامی انقلاب برپا کرسکتا ہے، اور یہ کہ مومن کی اخلاقی طاقت (بشرطیکہ وہ اس کا استعمال جانتا ہو اور اسے استعمال کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہو) فوج اور اسلحہ اور سروسامان کے بغیر بھی ملک فتح کرسکتی ہے اور سلطنتوں کو مسخر کرلیتی ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۴۱۲-۴۱۳)

اس سے معلوم ہوا کہ اقتدار، سیاست اور حکومت ایمان والوں کے لیے کوئی شجرممنوعہ  نہیں ہے۔ معاشرے کی اصلاحِ احوال، امن و امان، خدمتِ خلق، امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور  فلاحِ عامہ کے لیے نیک سیرت اور باکردار لوگ اس میں شریک ہوسکتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ  اللہ کے پیغمبر حضرت یوسف ؑ، حضرت دائود ؑ، حضرت سلیمان ؑ اور نبی آخری الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت کامیابی سے اسلامی ریاستیں چلائی ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ یاد رہے کہ یہ سلطنت و حکومت اور اقتدار و اختیار دو دھاری تلوار کا نام ہے۔ یہ قوت نہایت ہی احتیاط، ذہانت، قابلیت، دانش مندی، تقویٰ اور خدا کی توفیق چاہتی ہے۔ یہ انسانی فلاح و کامرانی کا زینہ بھی ہے اور خسران و ناکامی کا گڑھا بھی۔ اسی لیے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ آخرت کا اجر ان لوگوں کے لیے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لائے اور خدا ترسی کے کام کرتے رہے۔

تدبیر اور توکل

اس قصے میں تدبیر اور توکل کا سبق بھی موجود ہے۔ انسان کو اپنے کام نہایت ہی سوچ بچار، تدبیر، احتیاط، منصوبہ بندی اور تمام حالات کا جائزہ لے کر شروع کرنے چاہییں اور  اللہ پر بھروسا و توکل کرکے نتیجہ اس اعلیٰ ذات پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس کے بعد جو بھی نتیجہ نکلے اسے اللہ کی مشیت اور مرضی سمجھ کر قبول کرلینا چاہیے۔ جیساکہ حضرت یعقوب ؑنے اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے اپنے بچوں کو مصر میں داخلے کے وقت احتیاطاً مختلف دروازوں سے داخل ہونے کی ہدایت کی مگر ان کی تدبیر اللہ کی مشیت کے مقابلے میں کچھ بھی کام نہ آسکی۔

’’تدبیر اور توکل کے درمیان یہ ٹھیک ٹھیک توازن جو تم حضرت یعقوب ؑ کے مذکورہ بالا اقوال میں پاتے ہو، یہ دراصل علمِ حقیقت کے اس فیضان کا نتیجہ تھا جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان پر ہوا تھا۔ ایک طرف وہ عالمِ اسباب کے قوانین کے مطابق تمام ایسی تدبیریں کرتے ہیں جو عقل و فکر اور تجربے کی بنا پر اختیار کرنی ممکن تھیں۔ بیٹوں کو ان کا پہلا جرم یاد دلا کر زجر و تنبیہ کرتے ہیں تاکہ وہ دوبارہ ویسا ہی جرم کرنے کی جرأت نہ کریں، ان سے خدا کے نام پر عہدوپیمان لیتے ہیں کہ سوتیلے بھائی کی حفاظت کریں گے، اور وقت کے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے جس احتیاطی تدبیر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اسے بھی استعمال کرنے کا حکم دیتے ہیں تاکہ اپنی حد تک کوئی خارجی سبب بھی ایسا نہ رہنے دیا جائے جو ان لوگوں کے گھِر جانے کا موجب ہو۔ مگر دوسری طرف ہر آن یہ بات ان کے پیش نظر ہے اور اس کا بار بار اظہار کرتے ہیں کہ کوئی انسانی تدبیر اللہ کی مشیت کو نافذ ہونے سے نہیں روک سکتی، اور اصل حفاظت اللہ کی حفاظت ہے، اور بھروسا اپنی تدبیروں پر نہیں بلکہ اللہ ہی کے فضل پر ہونا چاہیے۔

یہ صحیح توازن اپنی باتوں میں اور اپنے کاموں میں صرف وہی شخص قائم کرسکتا ہے جو حقیقت کا علم رکھتا ہو۔ جو یہ بھی جانتا ہو کہ حیاتِ دنیا کے ظاہری پہلو میں اللہ کی بنائی ہوئی فطرت انسان سے کس سعی و عمل کا تقاضا کرتی ہے، اور اس سے بھی واقف ہو کہ اس ظاہر کے پیچھے جو حقیقتِ نفس الامری پوشیدہ ہے اس کی بنا پر اصل کارفرما طاقت کون سی ہے اور اس کے ہوتے ہوئے اپنی سعی و عمل پر انسان کا بھروسا کس قدر بے بنیاد ہے۔ یہی وہ بات ہے جس کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ان میں سے جس کے ذہن پر ظاہر کا غلبہ ہوتا ہے وہ توکل سے غافل ہوکر تدبیر ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے، اور جس کے دل پر باطن چھا جاتا ہے وہ تدبیر سے بے پروا ہوکر نرے توکل ہی کے بل پر زندگی کی گاڑی چلانا چاہتا ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۴۱۸-۴۱۹)

دین کی وسعت

سورۂ یوسف میں ملکی قانون (Law of Land) کے لیے اللہ تعالیٰ نے دین کا لفظ استعمال کیا ہے:

اس کا یہ کام نہ تھا کہ بادشاہ کے دین (یعنی مصر کے شاہی قانون) میں اپنے بھائی کو پکڑتا اِلا.ّ یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے۔ ہم جس کے درجے چاہتے ہیں بلند کردیتے ہیں۔(یوسف ۱۲:۷۶)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دین کی وسعت بیان کی ہے کہ دین مذہبی عبادت کے ساتھ قانون، عدالت، سیاست، معیشت، معاشرت اور انسانی تمدن تک حاوی ہے۔ جس طرح نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، دین ہیں اسی طرح ملکی قانون، شریعت، عدالتی امور، ملکی نظم و نسق اور انتظامی امور بھی دین میں شامل ہیں۔ پس انبیاؑ کی دعوت محض چند مذہبی رسومات، پوجاپاٹ اور عقائد تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ تو زندگی کے تمام شعبوں سیاسیات، معاشیات، عمرانیات ، قانون و عدالت اور مکمل تہذیب و تمدن کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔

عظمتِ کردار

سورئہ یوسف میں حضرت یوسف ؑ کی ایک دعا کا تذکرہ بھی ہے۔ اپنے خواب کی تعبیر سچ ہونے پر انھوں نے اللہ تعالیٰ سے یوں دعا کی:

اے میرے رب! تو نے مجھے حکومت بخشی اور مجھ کو باتوں کی تہہ تک پہنچنا سکھایا۔ زمین و آسمان کے بنانے والے، تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے، میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجامِ کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا۔ (۱۲:۱۰۱)

یہ چند فقرے جو اس موقع پر حضرت یوسف ؑ کی زبان سے نکلے ہیں ہمارے سامنے ایک سچے مومن کی سیرت کا عجیب دل کش نقشہ پیش کرتے ہیں۔ صحرائی گلہ بانوں کے خاندان کا ایک فرد، جس کو خود اس کے بھائیوں نے حسد کے مارے ہلاک کر دینا چاہا تھا، زندگی کے نشیب و فراز دیکھتا ہوا بالآخر دنیوی عروج کے انتہائی مقام پر پہنچ گیا ہے۔ اس کے قحط زدہ اہلِ خاندان اب اس کے دست نگر ہوکر اس کے حضور آئے ہیں اور وہ حاسد بھائی بھی، جو اس کو مار ڈالنا چاہتے تھے، اس کے تخت شاہی کے سامنے سر نگوں کھڑے ہیں۔ یہ موقع دنیا کے عام دستور کے مطابق فخر جتانے، ڈینگیں مارنے، گلے اور شکوے کرنے، اور طعن و ملامت کے تیر برسانے کا تھا۔ مگر ایک سچا خداپرست انسان اس موقع پر کچھ دوسرے ہی اخلاق ظاہر کرتا ہے۔ وہ اپنے اس عروج پر فخر کرنے کے بجاے اس خدا کے احسان کا اعتراف کرتا ہے جس نے اسے یہ مرتبہ عطا کیا۔ وہ خاندان والوں کو اُس ظلم وستم پر کوئی ملامت نہیں کرتا جو اوائل عمر میں انھوں نے اس پر کیے تھے۔ اس کے برعکس وہ اس بات پر شکر ادا کرتا ہے کہ خدا نے اتنے دنوں کی جدائی کے بعد ان لوگوں کو مجھ سے ملایا۔ حاسد بھائیوں کے خلاف شکایت کا ایک لفظ زبان سے نہیں نکالتا، حتیٰ کہ یہ بھی نہیں کہتا کہ انھوں نے میرے ساتھ برائی کی تھی۔ بلکہ ان کی صفائی خود ہی اس طرح پیش کرتا ہے کہ شیطان نے میرے اور ان کے درمیان برائی ڈال دی تھی۔ اور پھر اس برائی کے بھی بُرے پہلو چھوڑ کر اس کا یہ اچھا پہلو پیش کرتا ہے کہ خدا جس مرتبے پر مجھے پہنچانا چاہتا تھا اس کے لیے یہ لطیف تدبیر اُس نے فرمائی، یعنی بھائیوں سے شیطان نے جو کچھ کرایا اسی میں حکمتِ الٰہی کے مطابق میرے لیے خیر تھی۔ چند الفاظ میں یہ سب کچھ کہہ جانے کے بعد وہ بے اختیار اپنے خدا کے آگے جھک جاتا ہے، اس کا شکر ادا کرتا ہے کہ تو نے مجھے بادشاہی دی اور وہ قابلیتیں بخشیں جن کی بدولت میں قیدخانے میں سڑنے کے بجاے آج دنیا کی سب سے بڑی سلطنت پر فرماں روائی کر رہا ہوں۔ اور آخر میں خدا سے کچھ مانگتا ہے   تویہ کہ دنیا میں جب تک زندہ رہوں تیری بندگی و غلامی پر ثابت قدم رہوں، اور جب اس دنیا      سے رخصت ہوںتو مجھے نیک بندوں کے ساتھ ملا دیا جائے۔ کس قدر بلند اور کتنا پاکیزہ ہے یہ نمونۂ سیرت۔ (ایضاً، ص ۴۳۳-۴۳۴)

حق غالب آکر رھتا ھے!

’’اس قصے سے قرآنِ حکیم ایک اور گہری حقیقت بھی انسان کے ذہن نشین کرتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو کام کرنا چاہتا ہے وہ بہرحال پورا ہوکر رہتا ہے۔ انسان اپنی تدبیروں سے اُس کے منصوبوں کو روکنے اور بدلنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا، بلکہ بسااوقات انسان ایک کام اپنے منصوبے کی خاطر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے ٹھیک نشانے پر تیر مار دیا مگر نتیجے میں ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے اسی کے ہاتھوں سے وہ کام لے لیا جو اس کے منصوبے کے خلاف اور اللہ کے منصوبے کے عین مطابق تھا۔ یوسف علیہ السلام کے بھائی جب ان کو کنویں میں پھینک رہے تھے تو ان کا گمان تھا کہ ہم نے اپنی راہ کے کانٹے کو ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا۔ مگر فی الواقع انھوں نے یوسف ؑ کو اُس بامِ عروج کی پہلی سیڑھی پر اپنے ہاتھوں لاکھڑا کیا جس پر اللہ ان کو پہنچانا چاہتا تھا اور اپنی  اس حرکت سے انھوں نے خود اپنے لیے اگر کچھ کمایا تو بس یہ کہ یوسف ؑ کے بامِ عروج پر پہنچنے کے بعد بجاے اس کے کہ وہ عزت کے ساتھ اپنے بھائی کی ملاقات کو جاتے انھیں ندامت و شرمساری کے ساتھ اسی بھائی کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔ عزیزمصر کی بیوی یوسف ؑ کو قیدخانے بھجواکر اپنے نزدیک تو اُن سے انتقام لے رہی تھی، مگر فی الواقع اس نے ان کے لیے تختِ سلطنت پر پہنچنے کا راستہ صاف کیا اور اپنی اس تدبیر سے خود اپنے لیے اس کے سوا کچھ نہ کمایا کہ وقت آنے پر فرماں رواے ملک کی مربیہ کہلانے کے بجاے اس کو علی الاعلان اپنی خیانت کے اعتراف کی شرمندگی اُٹھانا پڑی۔ یہ محض دوچار مستثنیٰ واقعات نہیں ہیں بلکہ تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے جو اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ اللہ جسے اٹھانا چاہتا ہے، ساری دنیا مل کر بھی اس کو نہیں گرا سکتی۔ بلکہ دنیا جس تدبیر کو اس کے گرانے کی نہایت کارگر اور یقینی تدبیر سمجھ کر اختیار کرتی ہے، اللہ اسی تدبیر میں سے اس کے اُٹھنے کی صورتیں نکال دیتا ہے، اور اُن لوگوں کے حصے میں رسوائی کے سوا کچھ نہیں آتا جنھوں نے اسے گرانا چاہا تھا اور اسی طرح اس کے برعکس، خدا جسے گرانا چاہتا ہے اسے کوئی تدبیر سنبھال نہیں سکتی، بلکہ سنبھالنے کی ساری تدبیریں اُلٹی پڑتی ہیں اور ایسی تدبیریں کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑتی ہے۔

اس حقیقت ِ حال کو اگر کوئی سمجھ لے تو اسے پہلا سبق تو یہ ملے گا کہ انسان کو اپنے مقاصد اور اپنی تدابیر، دونوں میں اُن حدود سے تجاوز نہ کرنا چاہیے جو قانونِ الٰہی میں اس کے لیے مقرر کردی گئی ہیں۔ کامیابی و ناکامی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن جو شخص پاک مقصد کے لیے سیدھی سیدھی جائز تدبیر کرے گا وہ اگر ناکام بھی ہوا تو بہرحال ذلت و رسوائی سے دوچار نہ ہوگا۔ اور جو شخص ناپاک مقصد کے لیے ٹیڑھی تدبیریں کرے گا وہ آخرت میں تو یقینا رسوا ہوگا ہی مگر دنیا میں بھی اس کے لیے رسوائی کا خطرہ کچھ کم نہیں ہے۔

دوسرا اہم سبق اس سے توکل علی اللہ اور تفویض الی اللہ کا ملتا ہے۔ جو لوگ حق اور صداقت کے لیے سعی کر رہے ہوں اور دنیا انھیں مٹا دینے پر تلی ہوئی ہو وہ اگر اِس حقیقت کو پیش نظر رکھیں تو انھیں اس سے غیرمعمولی تسکین حاصل ہوگی، اور مخالف طاقتوں کی بظاہر نہایت خوفناک تدبیروں کو دیکھ کر وہ قطعاً ہراساں نہ ہوں گے،بلکہ نتائج کو اللہ پر چھوڑتے ہوئے اپنا اخلاقی فرض انجام دیے چلے جائیں گے۔

مگر سب سے بڑا سبق جو اس قصے سے ملتا ہے، وہ یہ ہے کہ ایک مردِ مومن اگر حقیقی اسلامی سیرت رکھتا ہو اور حکمت سے بھی بہرہ یاب ہو، تو وہ محض اپنے اخلاق کے زور سے ایک پورے ملک کو فتح کرسکتا ہے۔ یوسف علیہ السلام کو دیکھیے، ۱۷ برس کی عمر، تن تنہا، بے سروسامان، اجنبی ملک اور پھر کمزوری کی انتہا یہ کہ غلام بناکر بیچے گئے ہیں۔ تاریخ کے اُس دور میں غلاموں کی جو حیثیت تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس پر مزید یہ کہ ایک شدید اخلاقی جرم کا الزام لگا کر انھیں جیل بھیج دیا گیا۔ جس کی میعادِ سزا بھی کوئی نہ تھی۔ اس حالت تک گرا دیے جانے کے بعد وہ محض اپنے ایمان اور اخلاق کے بل پر اُٹھتے ہیں اور بالآخر پورے ملک کو مسخر کرلیتے ہیں۔ (ایضاً، ص۳۸۰- ۳۸۱)

 

معا شرتی زندگی کی بنیادی اکائی خا ندان ہے۔ اسلامی معاشرے میں ہر نئے خاندان کی ابتدا ایک مرد اور عورت کے درمیان نکاح کے ذریعے ڈالی جاتی ہے۔ معا شرے کی صالح قدروں کی نشوونما ، استحکام اور بقا، خا ندان کی مضبوطی سے وابستہ ہے۔ ایک صالح خا ند ا ن اس وقت و جو د میں آتا ہے جب صالح مرد اور عورت آپس میں نکاح کے پاکیزہ رشتے سے منسلک ہوجائیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نکاح میری سنت ہے‘‘۔ اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا: ’’میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں، جو میری سنت سے منہ موڑے وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘ (بخاری )۔ گویا ایک مسلم معاشرے میں نکاح بے حد اہمیت کا حا مل ہی نہیں، سنت ِ رسولؐ بھی ہے۔

نکاح مرد و عورت کے د ر میا ن ایک پاکیزہ ، پر خلو ص بندھن کا ا یسا معاہدہ ہے جس میں اللہ نے برکت ، محبت و خوب صورتی پید ا کر دی ہے۔ ’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے  تمھارے لیے تمھاری جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی‘‘(روم ۳۰:۲۱)۔اس مخلص رشتے میں محبت دراصل اللہ کی    بے پایاں رحمت کا حصہ ہے جس کامقصد ایک پر سکون اور صالح معاشرتی زندگی کی تعمیر ہے۔    اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو یہ دعا سکھائی ہے: رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰـتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا o (الفرقان ۲۵:۷۴) ’’اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولادوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنادے‘‘۔

عا م طور پر شادی کی تیار یا ں تو بہت زوروشور سے ہوتی ہیں لیکن شادی کے بعد کی زندگی کی کوئی منصوبہ بندی جس کی بنیاد خالصتاً رضاے الٰہی، یعنی دینی بنیادوں پر ہو نظر انداز ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس سلسلے میں دین دا رگھرانوں کا بھی غیر اسلامی معاملات سے صرف ِ نظر کرنا گویا دین داری کو پھر اسی دائرے میں مقید کر دینا ہے جس کا آغا ز کلمہ کے زبانی ا قرا ر سے شروع ہو کر عبادات کے مظاہر پرختم ہوجاتا ہے۔ ا گر اس میں اللہ کی حدود اوراسلامی تعلیما ت کا خیال رکھا جائے تو خاندان کی ا بتدا اسلامی ا صولوں پر ہوگی۔ اسلام ایک مکمل ضا بطۂ حیات ہے۔ وہ زندگی کے ایک ایسے فیصلے کو  جس پر انسان کی آدھی سے زیادہ زندگی کے اعمال کا ا نحصار ہے، نظرانداز نہیں کرسکتا۔ اسلام میں اس سلسلے میں نہایت وا ضح رہنما ئی ملتی ہے جس پر عمل پیر ا ہوا جائے تو وہ مسائل جن کا فی زمانہ بہت سے لوگوں کو سامنا کرنا پڑ ر ہا ہے ، ان کی شدت میں کمی وا قع ہوجائے۔

شریکِ حیات کا انتخاب

یہ شادی کی تیاری کا پہلا مرحلہ ہے جو ہماری معاشرت میں خالصتاً زنانہ کام سمجھا جاتا ہے۔ بظاہر عام روز مرہ زندگی کا ایک ایسا کام جس کو سال ہا سال سے تقریباً ہر فرد نے اپنی اپنی اولادوں کے لیے سرا نجام دیا ہوگا، ہمارے دین کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں احادیث سے واضح ہدایات ملتی ہیں۔ ہرعمل جو روزمرہ زندگی میں معمول کا حصہ سمجھا جاتاہے ،ایسے مباحات میں شمار ہوتا ہے جن میںدینی لحاظ سے بھرپور منصوبہ بندی کر کے آغاز کیا جائے تو آخرت میں بے حد اجر و ثواب کا باعث ہوسکتا ہے۔ یہاں ذرا ٹھیر کر خود سے سوال کریں کہ آپ انتخابِ زوج کے لیے کیا ترجیحات رکھتے ہیں؟ پھر اس کی درجہ بہ درجہ فہرست مرتب کر لیں تو ہمیں خود اندازہ ہوجائے گا کہ دین ہمارے معاملات میںکس درجہ اور کس حد تک شامل ہے اور رسوم و رواج، جاہلانہ روایات و اقدار جس میں قو م ، قبیلہ ، ذات وغیرہ شامل ہیں ا ن کی کیا اہمیت ہے۔

نیت

حدیث ہے کہ ہر عمل کا دارومدا ر نیت پر ہے۔ مناسب زوج کا انتخاب کرتے وقت اس حدیث کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ آیا میری بیٹی ، بیٹا یا فرد کی اپنی شادی صرف اس و جہ سے ضروری ہے کہ یہ ایک معا شرتی یا طبیعی ضرورت ہے یا اس لیے کہ ایک پاکیزہ رشتے سے ایک صالح خاندان وجود میں آئے گا؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ اخلاص نیت سے کیا گیا ہر کام عبادت میں شمار ہوتا ہے۔ جس طرح ہر عبادت کی نیت ہوتی ہے جو اس عبادت کے لیے یکسو کر دیتی ہے، اسی طرح زندگی کے دیگر معاملات میں بھی نیت کو خالص اللہ کی ر ضا کے لیے متعین کرنا قرب الٰہی کا ذریعہ ہے اور ساتھ ساتھ شیطا نی افکا ر و اعمال سے نجات کا بھی۔ اگر نکاح کی تیاریو ں کے اس مرحلے کو خالص کرلیا جائے تواللہ تعالیٰ کی رحمت شامل حال ر ہے گی۔ اس لیے ضرور ی ہے کہ ا نسا ن اپنی نیتوں کا جائزہ لیتا رہے، اپنی رغبتوں کو پرکھتا رہے کہ نکاح کے لیے میری نیت کیا ہے اور میری ترجیحات میں دین کتنا شامل ہے۔

پسند اور ناپسند کا دینی معیار

دوسرا مرحلہ ایک ایسے فرد کی تلا ش ہے جو نکاح کے لیے ا ن تمام شرائط کو پوراکرتاہو جس کا تقاضا دین اسلام ہم سے کرتا ہے۔ اس ضمن میں ہر فرد کو خوب سوچ بچار کرنے کا حق حاصل ہے لیکن ترجیحات کا تعین ہماری دینی سمجھ بوجھ اور تقویٰ پر منحصر ہے۔ ایک دین دار فرد کے لیے یقینا زندگی کا یہ مرحلہ بہت نازک ہوتا ہے۔ جب زندگی کا ایک حصہ اللہ کے ا حکام کے مطابق گزارنے کی سعی میں صرف ہوچکا ہو تو وہ فرد اپنی باقی ماندہ زندگی کو ایسے فرد کے ساتھ گزارنے کاسوچ بھی نہیں سکتا جو ملحدانہ سوچ کا حامل ہو اور اس کا دین زبانی کلا می اسلامی دعووں تک محدود ہو۔

قرآن صالح مرد کے لیے صالح عورت اور صالح عورت کے لیے صالح مرد کا انتخاب کرتا ہے۔ ’’خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے۔ پاکیزہ عورتیں، پاکیزہ مردو ںکے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ‘‘(النور ۲۴:۲۶)۔ اسی طرح پسند ناپسند کامعیار تقویٰ پر مقرر کرتے ہوئے قرآن میں تاکید آتی ہے کہ ’’تم مشرک عورتوں سے ہرگز نکاح نہ کرنا جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن لونڈی، مشرک شریف زادی سے بہتر ہے ، اگر چہ وہ تمھیں بہت پسند ہو۔ اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا ، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن غلام، مشرک شریف سے بہتر ہے ا گرچہ وہ تمھیں بہت پسند ہو۔ یہ لوگ تمھیں آگ کی طرف بلا تے ہیں اور اللہ ا پنے اذن سے تم کو جنت اور مغفرت کی طرف بلا تا ہے۔ ‘‘(البقرہ ۲:۲۲۱)

انتخا ب کرنے والے فرد کو انتخاب کرتے وقت یہ ضرور سوچناچاہیے کہ پسند ناپسند کامعیار دینی تعلیمات پر مبنی ہے یا اپنی ذاتی رغبتوں اورزمانے کی روایات کے مطابق۔ حدیث نبویؐ اس سلسلے میں ہماری جو رہنمائی کرتی ہے وہ بہت و اضح ہے۔ حضرت ا نس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے کسی عورت سے محض اس کی عزت کی و جہ سے شادی کی، اللہ تعالیٰ اس کو خوب ذلیل کرے گا، جس نے کسی عورت سے اس کے ما ل کے سبب شادی کی تو   اللہ تعالیٰ اسے محتاج بنا د ے گا، اور جس نے کسی عورت سے اس مقصد کے لیے شادی کی کہ اس طرح اس کی نگاہ جھکی رہے اور اس کی شرم گا ہ محفوظ رہے تو اللہ تعالیٰ اس کو عورت کے ذریعے اور عورت کو اس شخص کے ذریعے خیر و برکت سے نواز د ے گا‘‘۔ ( الطبرانی الاوسط)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روا یت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورت سے چار بنیادوں پر نکاح کیا جاتا ہے: اس کے مال کی خاطر ، خاندان کی و جہ سے ،اس کے حُسن کی و جہ سے ، اس کے دین کی خاطر۔ تمھارے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں،تم دین دا ر عورت کو نکاح میں لائو۔(بخاری، مسلم )

اسلام نکاح کا پیغام دینے والے مرد و عو رت کے لواحقین کے سامنے جو معیار پیش کرتا ہے وہ ان احادیث سے واضح ہے۔ ایک مسلمان کی زندگی کا کل اثاثہ دین ہے۔ سارے معاملات کی بنیاد بھی دین ہے کیونکہ اس کے علاوہ سارے معیار ہماری ذاتی ، نفسی اور رسوم و روایات پر مبنی اور باطل ہوتے ہیں۔ ان کے اثرات و نتائج اور نقصانات کے ہم خود ذمہ دار ہوتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا ہے۔ رسولؐ اللہ نے نکاح کرنے والے ہر فرد کو اس بات کی تلقین کی ہے کہ اس کامعیار پا کیزہ طبیعت ، دین داری اور بہترین ا خلا ق پرہونا ضرور ی ہے نہ کہ ظاہری چمک دمک اور ما ل و دولت پر۔ ان معاملات کو دینی بنیادوں پر اسی وقت استوار کیا جاسکتا ہے جب فرد اپنی سوچ کو دین کے تقاضوں کے مطابق کر دے۔ وہ فرد جو حسن ِ صورت اور دنیاوی مرتبہ رکھتا ہو اس کا حصول بہت پُرکشش ہوتا ہے۔ اس معیار پر بھی اسلام نے کوئی قد غن نہیں لگا ئی کیونکہ اس رشتے کی بنیاد دلی رغبت پر بھی ہوتی ہے لیکن صرف اس کو معیار بنا کر دین کو فہرست کی انتہا پر رکھنا یا اسے غیرضروری حیثیت دے دینا درست نہیں ہے۔

عزت کا قرآنی معیار

عزت کا قرآنی معیار ایک ایسا آفاقی معیار ہے جو ہر اس نظریے کی نفی کرتا ہے جس سے  انسا نیت متاثر ہوتی ہے۔ اس معیار کو قرآن اس طرح پیش کرتا ہے: ’’ا ے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد و عورت سے پیدا کیا اور تم کو گروہ اور قبا ئل بنا دیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو ، درحقیقت تم میں سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘(الحجرات)۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روا یت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ تمھاری شکل و صورت اور جسموںکو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمھارے دلوں اور تمھارے عملوں کو دیکھتا ہے ــ‘‘ (صحیح مسلم)۔ اسی طرح خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا کہ ’’تم میں سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔

یہ دراصل وہ اسلامی معیار عزت ہے جس میں قا بل عزت صرف وہی ہے جس کے پاس تقویٰ ہو۔اگر رشتوں کی بنیاد بھی اسی آفاقی معیار عزت پر رکھی جائے تو مرو جہ روایتی طریقوں کی پیروی جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے، خود ہی ختم ہوجائے گی۔ زندگی کے ہر شعبے کو کسی نہ کسی قانون کا پابند کیا جاسکتا ہے اور لوگوں کو اس کی پاس داری پر مجبو ر بھی کیا جاسکتا ہے لیکن گھریلو معاملات کے دائرے میں معاملات درست کرنے کے لیے تقویٰ ناگزیر ہے، ورنہ فرد پر کوئی قانون لاگو نہیں کیا جاسکتا۔ یہی تقویٰ آیندہ زندگی کے معاملات کو درست رکھنے اور رضا ے الٰہی کے حصول کے لیے معاون ہوگا۔ ورنہ شیطان کے چنگل میں پھنسے لوگ اللہ کے خوف سے آزاد ہوکر معاملات کرتے ہیں اور زندگی طنز، طعنے، بدگمانی ، حسد جلن جیسے قبیح افعال سے بھر جاتی ہے۔

مستقبل کے والدین کا انتخاب

مومن کوتاہ بین نہیں ہوتا۔ اس کی بصیرت کا تقاضا ہے کہ وہ ا پنے ہر عمل کامستقبل آخرت میںدیکھے۔ انتخا ب کرتے وقت اس بات کا بھی ادراک ہونا ضرور ی ہے کہ یہ انتخاب محض زوجین کا ہی نہیں بلکہ مستقبل کے والدین کا انتخا ب بھی ہے۔ ان کو آگے چل کر امت مسلمہ کے لیے ا یسے افراد کی تربیت کرنے کا فرض ادا کرنا ہے جنھیں خلیفۃ اللہ فی الارض کامنصب سنبھالنا ہے۔ وہ نکاح جس میں دینی اقدار کا خیال رکھا جاتا ہے تربیت اولاد کے سلسلے میں بھی ٹھوس کردار ادا کرتا ہے اور اسی کے ذ ریعے ایک صالح نسل وجو د میں آتی ہے۔ لہٰذا انتخاب زوجین کے وقت ایک ا یسا خا ندان ضرور چشمِ تصور میں رکھنا چاہیے جو صالحیت کے قرآنی معیارپر پورا اترتا ہو اور جس میں زوجین بحیثیت ما ں باپ کے ا پنے اپنے فرا ئض و حقوق ادا کر کے نسلِ نو کی اسلامی اصولوں پر تربیت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ جہا ں ما ں کی گود اولاد کے لیے پہلا مدرسہ ہے وہیں حدیث کے مطابق ایک باپ کااپنے بچے کے لیے سب سے بہترین عطیہ اچھی تعلیم و تربیت ہے۔ یوں تربیت کی   ذمہ داری ما ں باپ دونوں کے کاندھوںپر آجاتی ہے۔ تربیت وہی فرد بحسن و خوبی کر سکتا ہے جو اپنے فرض و ذمہ داری کا بخوبی ادراک رکھتا ہو۔

قرآن میںہے کہ ’’اے مومنو! ا پنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو آگ سے بچائو‘‘ (التحریم ۶۶:۶)۔ قرآن نجات کا یہ اصول پیش کرتا ہے کہ صرف اپنی ہی فکر نہ کر و بلکہ ا پنے  اہل خا نہ کو بھی آتش دوزخ سے نجات دلا ناسرپرست ہی کا فریضہ ہے۔ اس فرض کی ادایگی اسی وقت ممکن ہے جب والدین کے اپنے دل میں حب الٰہی ، خوف خدا اور ایمان کی کیفیات ہوں جو ان کے معاملات سے بھی جھلکتی ہوں۔ آج کی نوجوان نسل کے کاندھوں پر کل کے مستقبل کے معماروں کی تربیت اور نشوونما کی ذمہ داری ہے۔ اس میں کی جانی والی کوتاہی ہماری نسلوں کے ایمان و عمل کو تباہ کرسکتی ہے۔

جنت کا حصول

جنت کے حصول کا ایک اہم ذریعہ نیک اور صالح زوجین کے انتخاب سے بھی مشروط ہے۔ قرآن میں مختلف مقامات پر بیویوں اور اولاد کے لیے جنت کا وعدہ ہے:’’ آخرت کا گھر انھی لوگوں کے لیے ہے ، یعنی ا یسے باغ جو اِن کی ا بدی قیا م گاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں اور ان کے آبا و ا جداد اور ا ن کی بیویوں اور ا ن کی اولاد میں سے جو جو صالح ہیں وہ بھی اُن کے ساتھ وہاں جائیں گے‘‘(الرعد۱۳:۲۳-۲۴)۔ ان آیا ت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہا ں کامیا بی کا تصور جنت میں داخل ہونے اور آتش جہنم سے نجات سے منسلک ہے۔ اس لیے نیک زوج کی اہمیت اور بھی بڑ ھ جاتی ہے کہ وہ نہ صرف خود کو بلکہ ا پنے ا ہل و عیال کو بھی آتش دوزخ سے بچانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔

ایک اور مقام پر ہے: ’’جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ا ن کی اولاد بھی کسی درجۂ ایمان میں ان کے نقش قدم پر چلی ہے اُن کی اُس اولاد کو بھی ہم (جنت میں ) ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان کے عمل میں کوئی گھا ٹا ان کو نہ دیں گے‘‘ (الطور ۵۲:۲۱)۔ پس انتخا ب کرتے وقت مستقبل کا وہ نقشہ ضرور سامنے رہنا چاہیے جس میں آخرت کا خسارہ نہ ہو۔ مستقبل تو لازمی سوچا جاتا ہے لیکن وہ اسی روزمرہ زندگی کے حوالے سے یا اپنے ساتھ تعلقات کی بنیاد پر تعمیر کیا گیا ہوتا ہے۔ اس مستقبل میں اگر آخرت کا حصہ بھی شامل کر لیں تو ان شا ء اللہ اصل نا کامی اور خسارے سے بچ رہیں گے۔

مستحکم گہرانا

مشاورت ، اخوت و محبت اور نظم و ضبط کسی بھی گھرانے کو مستحکم کرنے کاسبب ہیں۔ ا یسے گھرا نے کی تشکیل وہی افراد کر سکتے ہیں جن کے دل میں حب ا لٰہی ہو اور ا ن کی محبت و نفرت ، کسی سے ملنا اور کٹنا صرف اور صرف اللہ رب العالمین کی خوشنودی کے لیے ہو۔ جن گھرانوں میں ا ن اوصاف کی قدر کی جاتی ہے وہا ں خود بہ خود تعلقات مستحکم اور پایدار ہوجاتے ہیں اور فرد کو ا پنے حقوق کے بجاے ا پنے فرائض کی ادایگی کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ عفو و درگزر کا رویہ ایک مومن ہی کی شان ہے۔ نیک و صالح زوجین ا پنے تعلقات کی بنیاد اللہ رب العزت کی خوشنودی کے حصول پر رکھتے ہیں، لہٰذا وہ اپنے ا خلا ق کی ہر ممکن حفاظت کرتے ہیں۔ بڑوں کی عزت ، چھوٹوں سے  شفقت و محبت ، راے کی قربانی ، کسی کی خاطر اپنے جذبات و احساسات کو قربان کر دینا جیسے اعلیٰ اوصاف گھر ہی سے پروان چڑھتے ہیں۔ جن افراد کے دل میں ایمان کا بیج خوب اچھی طرح جڑ پکڑ چکا ہو تو اس کی بہاریں ان کے عمل سے ظاہر ہوتی ہیں۔ ایسے افراد ہمارے آس پاس ، ارد گرد ہی موجود ہوتے ہیں لیکن ہماری ترجیحات کی بنا پر وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ یہ ہر فرد کا اپناانتخا ب ہے کہ وہ زوجین کے انتخا ب کے وقت مستقبل کی ا ن چیزوں کو مدنظر رکھتا ہے یاوقتی   دل کشی اورآسودگی کے معیارات میں کھو کرتھوڑے فائدے کو اپنا مطمح نظر جان لیتا ہے جس میں ممکن ہے کہ دنیا کی کامیابی ہو لیکن بہت ممکن ہے کہ اس عارضی کامیابی میں جنت کی را ہ کہیں کھو جائے اور کُلی خسارہ اس طرح ہماری جھولی میں آ گرے کہ ہمیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔

دینی معیار پر سمجہوتا

مغر بی تہذ یب کے مفاسدہماری معا شرت و معاملات میں اس حد تک سر ایت کر گئے ہیں کہ جب دین کی بنیادوں پر معاملات کی بات ہو تواس پر عمل کرنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور نظر آتا ہے۔ خاص طور پر اس مرحلے میں فرد خود اس بات کا اندازہ نہیں کر پا تا کہ وہ کس و جہ سے کون سا کام کر ر ہا ہے تا قتیکہ وہ ا پنے ہر ہر عمل کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کر دے، اور ا پنے ہرعمل کا جواز ا پنے دل سے پوچھے کہ کیا اس میں میری ذاتی رغبت ہے یا یہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کیا گیا ہے۔ معا شرے کا چلن اس طرح ہوگیا ہے کہ ان مراحل میںاس عارضی زندگی کے لوازمات اور ضروریات پر توخوب بات کی جاتی ہے اورکمی بیشی کی صورت میں شاذ و نادر ہی سمجھوتا کیا جاتا ہے، تاہم دینی معیار پر خوب خوب سمجھوتا کیا جاتا ہے۔ جب مرد کے لیے    معیارِ انتخا ب ما لی حیثیت، گھر والوں کی تعدادوغیرہ جیسے امور پر ہی ختم ہوجائے اور عورت کے لیے خوب صورتی، جان پہچان، مال و دولت وغیرہ پر، تو دینی معیار بہت ہلکے پھلکے انداز میںلیا جاتا ہے۔ فریقین کے بارے میں ان باتوں کا جاننا کہ نماز کی پابندی کا کیا حال ہے ، قرآن سے تعلق کی کیا کیفیت ہے ،قرآن سمجھنے ، سمجھا نے میں کتنا وقت لگا نا معمول ہے، سنت رسول ؐ سے محبت و اُلفت کتنی ہے ، زندگی کے معمول میں اقا مت دین کی جد و جہد کاکتنا حصہ ہے، دنیا میں ا پنے اصل مقصد سے کتنی آگاہی ہے اور معاملات میں اسلام کتنا ہے،جیسے اہم سوالات جو کہ درحقیقت سیرت و کردارسازی کی بنیاد ہیں اور آگے چل کر پُرسکون زندگی کا باعث بنتے ہیں، جنھیں اصل میں جاننے کی جستجو ہونی چاہیے ا نتہا ئی غیر اہم سمجھے جاتے ہیں، جب کہ اس سے کہیں ز یادہ محنت ان باتوں کی تحقیق میںکی جاتی ہے جو اس چند روزہ زندگی کا کھیل تماشا ہیں۔ سمجھوتا ہوتا ہے تو دینی معاملات میں۔ زندگی کے ہر معاملے میں ہم خوب سے خوب تر کی تلا ش میں سرگرداں رہتے ہیں بس ایک دینی معاملات ہی ا یسے ہوتے ہیں جن میں سمجھوتا کرنے کامشورہ د ے کر اپنے عقل مند اور حقیقت پسند ہونے کا ثبوت دیا جاتا ہے۔

یہ دراصل اس بات کا نتیجہ ہے کہ صالحیت کا قرآنی معیار رائج الوقت نہیں ہے، لہٰذا اس کی خواہش و جستجو کرنا ایک لاحاصل کام سمجھا جاتا ہے۔ صالحیت ایک طرزِ زندگی کا نا م ہے جو کسی محدود دائرے میں مقید نہیں رہتی اور مصلحتوں کے ا نبا ر میں نہیں دبتی۔ اس کا اظہار ہربات اور ہر معاملے سے ہوتا ہے۔ عقل مند تو اللہ کی نظر میں وہ ہے جو اپنی آخرت کی فکر کرتا ہے نہ کہ وہ جو دنیا کی زند گی کو اپنا مطمح نظر مان کر ساری تگ و دو اسی کے لیے کرتا ہے جو کہ غارت ہوجانے والی ہے۔ کیا    اللہ رب العزت بھی تقویٰ کا وہی معیار قبول کر یں گے جو ہمارے پیش نظر ہوتا ہے؟ اگر کسی کو اس بات کا پختہ یقین ہے تو پھر تو دینی معیار پر سمجھوتے کی گنجایش نکل بھی آتی ہے تاہم دوسر ی صورت میں چند روزہ زندگی کے لیے آخرت تباہ کرنا کوئی دانش مندی کی بات نہیں ہے۔ یہی معیار ہمیں جنت کے حصول کے لیے چاہیے تو ذراسوچ لیں کہ کیا جنت کاسودا ا تناسستا ہے کہ وہ یوں ہی    مل جائے گی، جب کہ ہماری زندگیاں مادہ پرستی کا بھرپور شاہکار ہوں۔ اپنی اولاد ، زوج ، رشتہ داریوں اور تعلقات کے لیے اپنی پسند کا اسلام قبول کرتے ہوں گو کہ ہمارا دعویٰ ہو کہ ہم مسلمان ہیں،   جب کہ ایمان ہمارے حلق سے نیچے نہ اُترا ہو۔ سیرتِ رسولؐ اور سیرتِ صحابہ ؓ سے ہمیں اُس معیار تقویٰ کی جھلک نظر آتی ہے جو مسلمان مرد و عورت کو زوجین کے انتخاب کے وقت پیش نظر رکھنا چاہیے۔ حضرت عمر فا رو قؓ کا صرف اس بات سے متاثر ہو کر ایک دودھ بیچنے والی کی لڑکی کو اپنی بہو بنالینا کہ اس نے اللہ سے خوف کی بناپر دھوکا و ملاوٹ سے انکار کردیا، اس بات کی روشن دلیل ہے کہ ایک مسلمان کامطلو ب و مقصو د تقویٰ ہوتا ہے۔ تاریخ گو ا ہ ہے کہ ا نھی کی نسلوں سے ایک با ر پھر عمرؓثانی کی مثال دنیا کو ملتی ہے۔

نکاح کو بوجہل بنانے والے عوامل

ذیل میں ا ن عو ا مل کی نشان دہی کی جا رہی ہے جو نکاح کو مشکل اور حرام کو آسان بنا رہے ہیں اور جن کی بنیادیں اسلام میں نہیں ہیںلا محالہ یہ عوامل فساد فی الارض کاسبب بھی ہیں۔

دینی قدروں کو نظر انداز کرنا

حضو ر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تمھارے پاس ایسا شخص ( نکاح کا پیغام ) لے کر آئے جس کی دین داری اور اخلا ق سے تم خوش ہو توپھر اس کے ساتھ نکاح کر لو ورنہ زمین میں   فتنہ و فساد بر پا ہوجائے گا۔ (ترمذی)

جہا ں دینی قدروں پر سمجھوتا کیا جاتا ہے وہا ں دین دارو ں کو اس و جہ سے مسترد بھی کر دیا جاتا ہے کہ وہ بہت سی دنیا و ی لوازما ت میں پیچھے ہوتے ہیں یا ہم پلہ نہیں ہوتے۔ اسلامی معاشرے کا اس سے بڑا ا لمیہ اور کیا ہوگا کہ ایک پاک باز لڑکی کو ایک بے دین ، ملحدانہ نظریات و خیالات رکھنے والے مرد کے عقد میں دے دیا جائے جس کی نظر میں اعلیٰ اخلاقی قدروں اور اوصاف کی کوئی وقعت ہی نہ ہو ، اور پھر لڑکی کو فرعون کی بیوی حضرت آسیہ کی مثالیں د ے کر سمجھوتا کرنے کو کہا جائے، یا شوہر کے رنگ میں رنگ کر اپنی آخرت تباہ کرنے کے لیے آمادہ کیا جائے۔ انتخاب کے عمل میں ترجیح، تقویٰ کو ہونا چاہیے۔ خدا نخواستہ کبھی معاملہ اس کے برعکس ہوجائے تو فرد آسیہ کا کردار بھی ضرور ادا کرے لیکن شادی ہی یہی سوچ کر کی جائے تو یہ اللہ سے مایوسی کا رویہ ہے۔ ایسے میں ا پنے اُخروی مستقبل کا ضرور سوچ لینا چاہیے۔ اسی طرح مرد کے لیے بے دین بیوی کا انتخاب مرد کی دین داری کو متاثر کرتا ہے۔ جنت کے حصول کے خواہش مند فرد کا انتخاب حدیث نبویؐ کے مطابق ہوتا ہے۔ حدیث ہے کہ دنیا متاع ہے اور اس کی بہترین متاع نیک بیوی ہے (مسلم)۔ اسی طرح ایک اور حدیث ہے کہ نکاح آدمی کا نصف دین ہے۔ پس آدمی کو ا پنے باقی نصف دین کی فکر کرنی چاہیے۔

ان ہدایات کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ کیفیت یہ ہے کہ نکاح جیسے حلال ، پاکیزہ اور آسان عمل کو مشکل ترین بنادیا گیا اور حرام کے تمام ذرائع آزادانہ چاروں طرف میسر ہیں۔ سرپرست ، والدین ا پنے بچوں کی طرف سے متفکر رہتے ہیںلیکن معاشرے کی اس صورت حال میں کس کا کتنا حصہ ہے اس پر بھی غو ر کرنا ضروری ہے۔ جب ہم اپنی اولاد کے لیے حلال ذرائع خود مشکل بناتے ہیں، ان کو اپنی خود ساختہ رسوم و روایات کا پا بند کرتے ہیں تو حرام ذریعہ اپنی جگہ خود بنا لیتا ہے اور اسی کے راستے ہموار ہوتے ہیں۔ آج نکاح مشکل ہے اور زنا آسان۔ اس سے بڑا فتنہ اور فساد فی الارض اور کیا ہوگا کہ وہ گنا ہ جس سے صالحیت کی عما رت زمین بوس ہوجائے آسان ہو اور جو بات معاشرے کی پاکیزگی کی ضا من ہے وہ ہماری پسند ناپسند، خاندانی  اَنا و وقار کے بوجھ تلے دب کر سسک رہی ہو۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے اور سوچنے کامقا م ہے کہ کہیں ہمارے کسی عمل سے حرام کا ر ستہ آسان تو نہیں ہو ر ہا ہے ؟

رسوم و رواج کا خود اختیاری ظلم

رسم و رواج ہماری زندگی کا ایسا لازمہ بن گئے ہیں کہ اس کو اختیار نہ کرنے والا فرد دنیا میں معتوب و مغضوب ٹھیرتا ہے۔ دلوں کے نہا ںخا نو ں میں چھپے یہ بت ہیں کہ ٹوٹتے ہی نہیں۔ کہیں یہ معروف طریقہ اختیار کرنے کے پردے میں سامنے آتے ہیں ، کہیں اپنی حیثیت کا اظہار کے نام پر اور کہیں کچھ اور بہانوں سے۔ رسوم و رواج کے یہی طوق تھے جن سے ا نبیاے کرام نے ہر دور میںلوگوں کو نجات دلائی۔ اسلام میں تصور جہیز، بری ، بارا ت ، لڑکی کی طرف سے دعوت طعام جیسے تصورات کا کوئی و جود نہیں اور نہ یہ کوئی تسلیم کرنے والی چیزیں ہیں۔ آج ان کواسلامی غلاف چڑھا چڑھا کرقا بل قبول بنانے کی کوششوں نے دین کا حلیہ بگاڑ دیا ہے اور نہ کرنے والوں پر مختلف پھبتیاں کسنا عام ہوگیا ہے۔ شاید یہ وہ دور ہے جب دین اجنبی ہوجائے گا اور اس پر عمل پیرا ہونا فرد کو اجنبیت کے دائر ے میںلے آئے گا۔

زما نے کاساتھ دے کر منکر کو معروف میں بدلنے میں بہت تھوڑا فائدہ ہے، جب کہ اللہ کے بتائے ہوئے معروف کو اختیار کرنا اور زمانے بھر میں اجنبی بن جانا ، مشکل سہی لیکن فائدے کاسودا اور پُرسکون زندگی کی بنیاد ہے۔ یہ اس لحاظ سے بھی مفید ہے کہ جب ا نفرادی طور پر اپنی خوشی کے لیے بہ ظا ہر بے ضرر نظر آنے والی چیز بھی معاشرے میں فتنے کاسبب بنے اور دوسرے افراد کے لیے ایک ایسی مثال قا ئم کرنے کا باعث ہو جس سے دین کی کسی بات پر عمل مشکل ہوجائے تو فرد کو اس چیز سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں اتباع سنتؐ کی اصل روح برقرار رہے، اورمسلمانوں کی طرف سے یہ پیغام جائے کہ اسلام جائز اور حلال رشتوں کو آسان بنا کر لوگوں کو آسانیاں فراہم کرتا ہے اور حرام کا رستہ روکتا ہے۔

خود ساختہ نظریات

انتخا ب زوجین میںسرپرست ، یا والدین کا سارا زور ا ن خود ساختہ نظریات پر ہوتا ہے جو کسی خاندان، روایات ، یار ہن سہن کی بنا پر ذہنوں میں راسخ ہو چکے ہوتے ہیں اور ا ن کی کوئی دلیل حدیث و سنت سے بھی نہیں ملتی ہے۔ یہاں ہم ان خود ساختہ نظریات کا جائزہ لیتے ہیں اور احادیث کی روشنی میں اس عمل کی دلیل دیکھتے ہیں:

۱-  نکاح کے لیے خاتون لازماً مرد سے کم عمر ہو۔

نبی کریمؐ کے اسوہ کو دیکھیں تو آپؐ نے اپنا پہلا نکاح ۲۵ سالہ نوجوان ہوتے ہوئے بھی ایک ۴۰ سا لہ بیوہ سے کیا، لہٰذا لڑکی کا لازماً کم عمر ہونا ضروری نہیں۔ اس قسم کی پابندیوں کا مقصد نکاح کو مشکل بنانا ہے۔ بعض اوقا ت دو چار سا ل ہی کا فرق ایسا اہم ہو جاتا ہے کہ ساری کی ساری دین داری اس کی نذر ہوجاتی ہے اور فرد محض اس بنا پر نامعقول قرار پاتا ہے کہ وہ مرد سے دو ، چار سال کے فرق سے بڑا ہے۔ اسلام میں نکاح کے لیے خاتون کا لازماً مرد سے کم عمر ہونا کوئی شرط نہیں ہے۔

۲- غیر شادی شدہ مرد کی شادی لازماً ایک غیر شادی شدہ خاتون ہی سے ہونی چاہیے۔

سیرت سے آنحضرتؐ کے پہلے نکاح کی مثال تو ملتی ہی ہے، تاہم اس سلسلے میں    حدیث سے بھی مثال ملتی ہے کہ ’’حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ میرے والد جنگ اُحد میں شہید ہوئے اور سات یا نو بیٹیاں چھوڑ گئے۔ پھر میں نے ایک عورت سے نکاح کیا۔ آنحضرتؐ نے پوچھا جابر ؓ تو نے نکاح کیا ؟ میں نے عرض کیا جی ہا ں ! آنحضرتؐ نے فرمایا باکرہ سے یا مثیبہ(شادی شدہ ) سے ؟ میں نے عرض کیا مثیبہ سے۔ آپؐ نے فرمایا اور! کنواری سے کیوں نہ کیا ؟ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میرے باپ شہید ہوئے اور سات یا نو بیٹیا ں ( میری بہنیں ) چھوڑ گئے، میں نے    یہ پسند نہ کیا کہ انھی کی سی ایک اور ( کم عمر) بیا ہ لائوں، اس لیے میں نے ایک جہاندیدہ عورت سے نکاح کیا جو ان کی نگر ا نی رکھے۔ (بخاری )

پس حالات و و اقعا ت کے تنا ظر میں ا گر کوئی فرد یہ فیصلہ کرتا ہے تو خلا ف اسلام کام کا پہلو نہیں نکلتا، یعنی معاملہ ترغیب کا ہے، لازماً شرط ِنکاح بنا لینے کا نہیں۔ بہترہے کہ خوش گوار زندگی کے لیے ہم مزاج اور ہم عمرفرد کا ا نتخاب کیا جائے تاہم ا گر کبھی حالا ت کے پیش نظر یا ضرورتاً یا ان وجوہات کے علا وہ ا گر کوئی فرد رغبتاً بھی کسی بیوہ یا مطلقہ کو اپنے نکاح میں لا نا چا ہ ر ہا ہو، جب کہ وہ خود ایک غیر شادی شدہ مرد ہے، تو یہ شرعاً کوئی ممنوع فعل نہیں ہے۔ نبی اکرم ؐ اور حضرت خدیجہ ؓ کی مثال پھر ہماری یہاں رہنمائی کرتی ہے۔ ہمیں ہمہ وقت یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ہماری نظر میں قا بل اعترا ض حرام امور ہونے چاہییں نہ کہ جائز اور مستحب امور جن کاسنت میں بھی پایا جانا ثابت ہو۔

۳- خاتون یا خاتون کے سرپرست کی طرف سے پیغام نکاح قا بلِ شرم فعل ہے۔

ہمارے ہاں خاتون یا خاتون کے سرپرست کی جانب سے پیغامِ نکاح بھیجنا معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے۔ حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور ا ن سے نکاح کی خوا ہش کا اظہار کیا۔ یہ سن کر حضرت انس ؓ کی بیٹی بولی (کمبخت) کیا بے شرم عورت تھی، ارے تھو، ارے تھو۔ حضرت ا نس ؓ نے کہا: وہ عورت تجھ سے بہتر تھی۔ اس نے آنحضرتؐ کی محبت میں خود اپنے آپ کو پیش کیا (بخاری)۔ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو براہِ راست پیغامِ نکاح دینا حیا کے منافی نہیں ہے بلکہ شرف حاصل کرنے کا جذبہ ہے۔ امام بخاری نے اس حدیث سے استنباط کیا ہے کہ ایک عورت کسی صالح شخص کو اس کی نیکی کی وجہ سے پیغامِ نکاح دے سکتی ہے۔ اسلام کا عمومی اصول نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بتلایا ہے کہ لا نکاح الا بولی ’’نکاح ولی کے ذریعے ہوتا ہے‘‘۔ اس طرح کے نادر واقعات سے ایسی صورت میں جب ولی نہ ہو یا عورت خود جرأت کر کے پیغامِ نکاح دے سکتی ہو، کا جواز نکلتا ہے، جب کہ بنیاد دین دار شوہر کی طلب ہو۔

حضرت خدیجہ ؓ بھی ایک بیوہ خاتون تھیں انھو ں نے بھی آپؐ کو پیغام ِ نکاح بھجو ایا تھا۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ بیا ن کرتے ہیں کہ جب ام المومنین حفصہ ؓ بیوہ ہوگئیں (ان کے خاوند خنیسؓ بن خدا فہ سہمی جو آنحضرتؐ کے ا صحا ب میں سے تھے مدینہ میں گزر گئے، جنگ اُحد میں زخمی ہوئے تھے) تو حضرت عمر ؓ نے حضرت عثمانؓ اور حضرت ابوبکرؓ سے حضرت حفصہؓ سے نکاح کے لیے کہا مگر انھوں نے خاموشی اختیار کرلی۔ اس کے بعد رسول اکرمؐ نے حضرت حفصہؓ سے نکاح کا پیغام بھیجا (بخاری )۔ یہ ایک طویل واقعے کا اقتباس ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خاتون یا خاتون کے سرپرست کا اسلامی حدود کے اندر رہتے ہوئے پیغام نکاح میں پہل کرنا کوئی قا بل اعتراض اور قابلِ شرم بات نہیں، جس طرح ہمار ے معاشرے میں اس کو سمجھا جانے لگا ہے۔ خیال رہے کہ اسلامی حدود کی پامالی اور بے حیائی کا کوئی پہلو اس میں شامل نہ ہو۔

تقریبِ نکاح

اب ہم مختصراً دیکھتے ہیں کہ سیرتؐ سے ہمیں تقریب نکاح کا کیا نمونہ ملتا ہے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے عبد الرحمن بن عوفؓ کے (بدن یا کپڑے ) پر زرد دھبہ دیکھا تو پوچھا: کہو کیا حال ہے (یہ زردی کیسی ہے؟)۔ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ ! میں نے گٹھلی برابر سونا مہر مقرر کرکے ایک عورت سے نکاح کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: بارک اللّٰہ لک، ولیمہ تو کرو خواہ ایک بکری ہی کاسہی (بخاری)۔ لڑکی کے گھر والوں کی طرف سے دعوت طعام کا بوجھ ہٹا کر ایک کھانا دعوت ولیمہ کاسنت رکھا گیا۔ حدیث میں اس ضمن میںجو ہدایات و رہنمائی ملتی ہیں وہ بھی ہم سب کے سامنے ہیں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’وہ دعوت ولیمہ کیا ہی بری دعوت ہے جس میں صا حب حیثیت لوگوں کو بلایا جاتا ہے اور مسکینوں سے صرف نظر کیا جاتاہے۔(مسلم)

ایک اور جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بلا شبہہ برکت کے اعتبار سے سب بڑا نکاح وہ ہے جس میں کم سے کم اخراجات ہوں (شعب ا لایمان للبیھقی)

یہ تمام ا حادیث ہمارے معاشرے کے موجود ہ رجحانات اور طریقہ کار کی نفی کرتی ہیں جو ہم نے نکاح جیسی سادہ ، آسان اور پاکیزہ سنت کے ضمن میں اختیار کیا ہے۔ نہ مہمانوں کی تعداد کا مسئلہ اور نہ اس شان و شوکت کا اظہار جو اسراف اور نمودو نما یش میں شمار ہوتی ہیں کہ وقت کے نبیؐ کے بھی ان دو اصحاب ؓ ( حضرت جابر ؓ اور حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ) کے نکاح میں شرکت ممکن نہ ہوئی تو نہ کوئی ناراضی پیدا ہوئی نہ کوئی گلہ شکوہ۔ اتبا ع سنت کے ضمن میں اگر ہم نے انتخابِ ازواج اور نکاح کی تقریب ہی کو سنت کے مطابق کر لیں تو ہمارے حب رسولؐ کا دعویٰ کچھ ثابت ہوجائے۔

ایمان دراصل ہے ہی یہ کہ انسان ان تمام رسوم و رواج اور طریقوں سے جو اسلام کے بالمقابل آکراسلامی طرزِ حیات کو مسخ کرتے ہوں، دستبرداری کا اعلا ن کر کے کلمہ کو عملاً اپنی    زندگی میں نافذ کرے۔ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ درآمد شدہ تمام رسومات اور نظریات کو پوری ہمت و جرأت کے ساتھ پائوں تلے روند دیا جائے کیونکہ ان چیزوں نے نہ صرف دین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے بلکہ معاشرے میں مفسدات و غلط رجحانات کا باعث یہی چیزیں ہیں۔ بے شک یہ تمام کام جاہلیت کی نشانیوں میں سے ہیں اور اسلام جاہلیت سے نجات دلانے آیا تھا۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے نظریات و افکار کو بھی مسلمان کرنے کی توفیق دے اور معاشرے میں اسلام کی اصل تصویر کو پیش کرنے والا بنا ئے جس میں معروف پر عمل آسان اور منکرپر مشکل ہوتا ہے۔ (آمین)

 

امریکی وزیرخارجہ کولن پاول خطے کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔دورے کے اختتام پر ایوانِ صدر میں الوداعیہ پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ ایک طرف وزیرخارجہ پاول کھڑے تھے اور دوسری جانب، ہر پروٹوکول کو خاک میں ملاتے ہوئے صدر مملکت جنرل پرویز مشرف۔ کولن پاول نے احسان جتاتے ہوئے اعلان کیا: ’’پاکستان ہمارا اسٹرے ٹیجک حلیف ہے‘‘۔ اعلان کے بعد وزیرخارجہ پورے تزک و احتشام کے ساتھ روانہ ہوئے اور سیدھے دلی پہنچے، وہاں وزیرخارجہ کے برابر بھارتی وزیرخارجہ نے کھڑے ہوکر پریس کانفرنس کی۔ وہاں کولن پاول کامل اطمینان و مسرت سے اعلان کر رہے تھے: ’’بھارت ہمارا فطری حلیف ہے‘‘۔ ظاہر ہے اسٹرٹیجی اور پالیسی تو تبدیل ہوتی رہتی ہے لیکن فطرت کبھی تبدیل نہیں ہوسکتی۔

نائن الیون سے پہلے اور بعد کے حالات اسی حقیقت کا عملی مظہر و ثبوت ہیں۔ ہم نے امریکی احکامات کی بجاآوری اس انداز سے کی ہے کہ اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ دنیا کا کوئی عام شہری بھی پاکستان کو مقبوضہ افغانستان اور عراق سے زیادہ حیثیت نہیں دیتا، لیکن اس ساری خدمت گزاری کا اصل اجر وثواب بھارت کی گود میں ڈالا جا رہا ہے۔ ہرچند ماہ، بلکہ بعض اوقات چند ہفتوں کے وقفے سے امریکا یا اس کی لے پالک صہیونی ریاست کی طرف سے کوئی نہ کوئی بڑی فوجی یا اقتصادی امداد بھارت کے چرنوں میں لا ڈالی جاتی ہے۔

نومبر کے آغاز میں ایک ارب ۱۰ کروڑ ڈالر مالیت کا جدید ترین اسرائیلی دفاعی نظام بھارت کو پیش کیا گیا۔ اسی طرح کا ایک سودا تقریباً ایک ماہ قبل، گذشتہ اکتوبر میں سامنے آیا تھا۔ ایک طرف پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف بھارت، اسرائیل اور امریکا ہمیشہ سرجھاڑ، منہ پھاڑ پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں، لیکن دوسری طرف ’پُرامن مقاصد‘ کی دُم لگا کر بھارت کے ایٹمی پروگرام کو بلاروک ٹوک آگے بڑھایا جارہا ہے۔ بھارت کے علاقوں آندھرا پردیش اور گجرات میں خود امریکی جوہری کمپنیوں کی جانب سے ایٹمی تنصیبات تعمیر کرنے کے معاہدوں پر عمل درآمد کیا جارہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ ان دنوں دورئہ واشنگٹن پر ہیں۔ اس دورے میں امریکا اور بھارت کے درمیان ۱۸ ارب ڈالر کے جنگی جہازوں اور دیگر عسکری سازوسامان کے سودوں پر دستخط متوقع ہیں۔ ہرسال ایک لاکھ بھارتی طلبہ کو امریکا میں اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلے دیے جارہے ہیں۔ ہرسال دنیا بھر میں امریکی سفارت خانے، ملازمتوں کے لیے جتنے ویزے جاری کرتے ہیں، ایک اندازے کے مطابق ان میں سے ۵۰فی صد صرف بھارتیوں کو دیے جاتے ہیں۔امریکا اور بھارت کے درمیان باہمی تجارت گذشتہ چارسال میں دگنی ہوکر ۴۳ ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی ہے۔ امریکا میں مقیم بھارتی نژاد امریکیوں کی تعداد تقریباً ۳۰ لاکھ ہوچکی ہے۔ ان بھارتی نژاد امریکیوں کی ایک سب سے اہم سرگرمی، بھارت امریکا اور اسرائیل کے تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا ہے۔ اس پورے کام کو بھارتی حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل رہتی ہے۔

امریکا، اسرائیل اور بھارت پر مشتمل برائی کا محور (Axis of Evil)  ایک عالم کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے بے تاب ہے۔ اس موضوع پر لاتعداد مقالے، تحقیقی رپورٹیں اور کتابیں روشنی ڈالتی ہیں۔ ۸مئی ۲۰۰۳ء کو امریکی یہودی کمیٹی (American Jewish Committee -AJC) کے ۹۸ویں سالانہ عشائیے میں بھارتی قومی سلامتی کے مشیر برجیش مشرا کا خصوصی خطاب بھی اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ اپنے اس کلیدی خطاب میں جناب مشرا نے انھی تین ممالک پر مشتمل تکون کو مضبوط کرنے پر زور دیا تھا۔ یہ تکون بنانے کے اسباب و اہداف واضح کرتے ہوئے انھوں نے اس  ’نظریۂ تثلیث‘ کو ایک تو انتہا پسند اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری قرار دیا تھا، اور دوسرے  سبز اور سرخ (عالم اسلام اور چین) کے ممکنہ اتحاد کا مقابلہ کرنے کے لیے۔ مشرا نے اپنی تقریر میں  یہ خوش خبری دی تھی کہ اس تکون کی تشکیل عملاً وجود میں آچکی ہے۔

مشرا نے کہا: ’’ہم تینوں کا عسکری تعاون پہلے ہی سے جاری ہے۔ امریکا اور بھارت دونوں کی افواج اسرائیل میں تربیت حاصل کررہی ہیں۔ یہ افواج دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں، شہروں میں گوریلا کارروائیوں کی ٹریننگ اور دیگر مہارتیں حاصل کررہی ہیں.... جاسوسی معلومات کے تبادلے میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ اسرائیلی جاسوسی ادارے بھارت کو ایسی جاسوسی اطلاعات فراہم کرنے میں خصوصی طور پر فعال ہیں، جن سے پاکستان پر نگاہ رکھنے میں مدد ملتی ہے‘‘۔

موصوف نے اپنی تقریر میں تینوں ملکوں کو ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنے کا درس  دیتے ہوئے کہا: ’’خصوصی طور پر یہ کہ ہم تینوں ملک ایک دوسرے کو وہ کچھ پیش کرسکتے ہیں جو دوسرے کے پاس نہیں ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے میدان میں دیکھیں تو ہم تینوں میں سے ہرملک دوسرے دو کے بدترین دشمنوں سے اچھے تعلقات رکھتا ہے۔ بھارت کے سب سے بڑے دشمن پاکستان کے ساتھ ’فی الحال‘ امریکا کے اچھے تعلقات ہیں۔ ایران، اسرائیل اور امریکا کا دشمن ہے، لیکن بھارت کے اس سے اچھے تعلقات ہیں۔ چین، امریکا کا بہت بڑا حریف ہے ،بھارت کے لیے بھی وہ بڑا خطرہ ہے لیکن اسرائیل کے ساتھ اس کے بہتر تعلقات ہیں‘‘۔ ان الفاظ میں چھپا اصل پیغام یقینا وہاں بیٹھے تمام حاضرین کو بخوبی سمجھ میں آگیا ہوگا کہ ہم میں سے جو ملک ہمارے کسی دشمن ملک کے ساتھ دوستی رکھتا ہے، وہ وہاں باقی دونوں کے مقاصد کی تکمیل کرے۔

یکم نومبر ۲۰۰۸ء کو شکاگو میں دیے گئے ایک اور لیکچر کا عنوان ہی ’بھارت، اسرائیل، امریکا اتحاد: انسانیت کی آخری عظیم اُمید‘ تھا۔ اس لیکچر میں ڈاکٹر رچرڈ بنکن (Richard Benkin) نے جو کچھ کہا ہوگا وہ اس کے عنوان سے ظاہر ہے۔ اس نظریاتی اور جذباتی وابستگی کی بنیاد پر تینوں ملکوں کے تعلقات کو مستحکم اور ہمہ پہلو بنانے کے لیے کئی امریکی اور یہودی ادارے مصروف کار ہیں۔ تین اہم امریکی تھنک ٹینک اس سلسلے میں اپنی سالانہ کانفرنسیں باقاعدہ منعقد کررہے ہیں، تاکہ تینوں ملکوں کے درمیان گہرے تعلقات کا سفر جاری رہے۔اس تعاون کا ایک عملی نتیجہ ۲۰۰۰ء کے وسط میں، اسرائیل کا کلنٹن انتظامیہ کو اس بات پر آمادہ کر لینا تھا کہ وہ اپنا جدید ترین فضائی اور جاسوسی نظام ’اواکس‘ (AWACS) بھارت کو فروخت کردے، حالانکہ امریکی انتظامیہ خطے میں طاقت کا توازن بگڑ جانے کے خدشے سے یہ نظام بھارت کو دینے میں متردد تھی۔ ۲۱ جنوری ۲۰۰۸ء کو بھارتی سرزمین سے، بھارتی راکٹوں کے ذریعے فضا میں چھوڑا جانے والا اسرائیلی جاسوسی  خلائی سیارہ اس عالمی تکون کا ایک اور خطرناک اقدام تھا۔ اس جاسوسی سیارے کے ذریعے ہر طرح کے موسم میں ایک مربع میٹر کے علاقے تک کی انتہائی واضح تصاویر بنا لینا آسان ہوگیا ہے۔

امریکی عسکری رسالے ڈیفنس نیوز کے مطابق اسرائیل امریکا کے تعاون سے ۲۰۱۰ء کے وسط میں Horizon-8 نام کا ایک نیا جاسوسی سیارہ فضا میں چھوڑنے جا رہا ہے۔ اس کے بعد Horizon-9کے نام سے ایک مزید سیارہ بھی چھوڑا جانا ہے لیکن اس کے لیے کسی ایسے دوسرے ملک کی تلاش ہے جو اس کے اخراجات اور ٹکنالوجی میں معاونت دے سکے۔ امریکی رسالے کے مطابق اسرائیل اور بھارت ۲۰۱۱ء کے آخر تک Tec SAR-2 نامی ایک اور مشترکہ خلائی سیارہ بھی فضا میں چھوڑیں گے۔

تینوں ملکوں کے تعلقات میں سے بھی بھارت اسرائیل تعلقات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ فلسطینی اسٹرے ٹیجک رپورٹ ۲۰۰۷ء نے ان دونوں ملکوں کے تعلقات کا مفصل جائزہ لیا ہے۔ کئی صفحات پر پھیلی یہ رپورٹ واضح کرتی ہے کہ:

بھارت نے صہیونی ریاست کو اس کے اعلان تشکیل کے فوراً بعد ہی ایک حقیقت واقعہ (de-facto) کی حیثیت سے تسلیم کرلیا تھا۔ چند ماہ بعد ہی اسے ممبئی میں اپنا تجارتی دفتر کھولنے کی اجازت دے دی گئی۔ جون ۱۹۵۳ء میں یہ دفتر باقاعدہ اسرائیلی قونصلیٹ کا درجہ اختیار کرگیا، اگرچہ بھارت کا علانیہ موقف یہی رہا کہ اسرائیل کو قانونی طور پر تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ اندراگاندھی نے اپنے دور اقتدار میں اسرائیل کے ساتھ خفیہ عسکری تعلقات کا آغاز کردیا، لیکن دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ اور علانیہ سفارتی تعلقات ۱۹۹۲ء میں اس وقت قائم ہوئے، جب نرسیما راؤ نے کانگریس پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ اسرائیلی سفارت خانہ جلد ہی بھارت میں موجود سفارت خانوں میں فعال ترین سفارت خانے کی حیثیت اختیار کرگیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان ہمہ جہت تعلقات کی ایک جھلک فروری ۲۰۰۷ء میں دلی میں منعقد ہونے والی ہندو یہودی مشترکہ کانفرنس میں دیکھی جاسکتی ہے، جس میں دونوں طرف سے چوٹی کی مذہبی قیادت شریک ہوئی۔ اگرچہ اس کانفرنس کا  انعقاد ایک مجہول تنظیم ’عالمی کونسل براے مذہبی قیادت‘ کی طرف سے کیا گیا تھا لیکن اس کا اعلامیہ اسرائیلی وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری کیا گیا۔ دیگر امور کے علاوہ اس کانفرنس میں ایک  ’ہندو یہودی دائمی کمیٹی‘ کے قیام کا اعلان کیا گیا۔

تعاون کا ایک اور اہم پہلو باہم اقتصادی تعاون ہے۔ ۱۹۹۲ء میں باقاعدہ اور علانیہ تعلقات کے قیام کے وقت دونوں ملکوں کے درمیان ۲۰ کروڑ ڈالر کی سالانہ تجارت ہوتی تھی۔  ۲۰۰۵ء-۲۰۰۶ء میں یہ تجارت ۲ ارب ۲۰ کروڑ تک جاپہنچی۔ یہ اعداد و شمار بھی بھارت کے    اعلان کردہ ان اعداد و شمار کے مطابق ہیں جن کے بارے میں عمومی خیال ہے کہ ان میں دونوں ملکوں کے درمیان عسکری تعاون کی اصل رقوم چھپائی جاتی ہیں۔ عسکری تعاون کا جائزہ لیں تو وہ دونوں کے باہمی تعلقات کا سب سے اہم حصہ ہے۔ کشمیر کی تحریک آزادی اور ۱۹۹۹ء میں کارگل کے واقعات کو اس میں مزید اضافے کے لیے خوب خوب استعمال کیا جارہا ہے۔ اسرائیلی فوج کا ڈپٹی چیف جنرل موشیہ کا بلینسکی خود جون ۲۰۰۷ء میں کشمیر کا دورہ کرچکا ہے، تاکہ کشمیر کی جدوجہد آزادی ختم کرنے کے لیے ماہرانہ رہنمائی دے سکے۔ اب بھارت، اسرائیل سے اسلحہ خریدنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل، بھارت کو گذشتہ کئی برس سے سالانہ تقریباً ایک ارب ڈالر کا اسلحہ دے رہا تھا۔ ۲۰۰۶ء میں یہ مقدار ڈیڑھ ارب ڈالر تک جا پہنچی جو بھارت میں درآمد کیے جانے والے کل ہتھیاروں کا ایک تہائی ہے۔ اب معاملہ صرف اسرائیلی ہتھیار خریدنے پر ہی موقوف نہیں، دونوں ملک مل کر بھی بہت سا جدید اسلحہ تیار کررہے ہیں۔ وزیراعظم من موہن سنگھ کی سربراہی میں ایک مشترک کمیٹی نے درمیانے درجے کے نئے میزائل تیار کرنے کے ایک منصوبے کی منظوری دی ہے، جس کی مالیت اڑھائی ارب ڈالر ہے۔ یہ میزائل روسی ساخت کے پچوڑا (Pechora ) میزائل کی جگہ لے گا۔

The Hindu کے شمارے (یکم ستمبر ۲۰۰۷ء)کے مطابق دونوں ملک مزید ۱۸ مشترکہ عسکری منصوبوں پر کام کررہے ہیں۔ (ان خبروں کے پس منظر میں ۲۳ نومبر ۲۰۰۹ء کو بھارت کے اگنی۲ میزائل جس کی مار ۲ہزار کلومیٹر تک ہے اور جو ایک ٹن ایٹمی مواد اٹھا سکتا ہے، کا تجربہ، ساتھ ہی ۳ہزار اور ۵ہزار کلومیٹر دُور مار کرنے والے میزائلوں پر کام جاری ہونے کی اطلاعات، بہت سے سوالیہ نشان پیدا کرتی ہیں۔ سب سے اہم تو یہ کہ آخر بھارت کو اتنی دُور تک تباہی پھیلا سکنے والے میزائلوں اور ان پر اربوں ڈالر بھسم کرڈالنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اگر پاکستان سے خطرات  لاحق ہیں تو اس کے لیے تو چند سو کلومیٹر تک جاسکنے والے میزائل ہی کافی تھے؟ تو پھر کیا یہ میزائل اسرائیلی مفادات کی آبیاری کے لیے تیار کیے جارہے ہیں؟ اور کیا یہ بھی انھی ۱۸ مشترکہ عسکری منصوبوں کا حصہ ہیں؟ پھر یہ کہ یہ تجربہ اور اعلانات من موہن کی امریکی موجودگی کے عین دوران کیوں کیے گئے؟ کیا ان کا مقصد ایران اور پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کو دی جانے والی امریکی اسرائیلی دھمکیوں کو، عملاً نافذ کرنے کی تیاریوں کی اطلاع دینا ہے؟)

بھارت اور اسرائیل کے بدنام زمانہ جاسوسی اداروں ’را‘ اور ’موساد‘ کے مابین جاسوسی تعاون،  سابق الذکر تعاون کے تمام منصوبوں پر مستزاد ہے۔ اسٹرے ٹیجک رپورٹ کے مطابق اس کی ایک جھلک Radiff.com کی ویب سائٹ پر موجود مضمون: Raw & Mosad: The Secret Link میں دیکھی جاسکتی ہے۔

کچھ لوگوں کے لیے یہ حقائق اور معلومات یقینا غیر متوقع نہیں ہوں گے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس سب تعاون کے جواب میں پاکستان، جو اس ساری تیاری اور تعاون کا اولیں ہدف ہے، کیا کررہا ہے؟ امریکا، بھارت اور اسرائیل کے اہداف بھی واضح ہیں اور ان کی پالیسیاں اور اقدامات بھی۔ لیکن اس سب کچھ کے مقابل ذرا ہم اپنی طرف سے مسلسل الاپے جانے والے راگ سنیں: ’’امریکا ہمارا قابلِ اعتماد دوست ہے، ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں ہم اس کے حلیفِ اول ہیں۔ امریکی جنگ، ہماری اپنی جنگ ہے۔ ہم بھارت سے دوستی چاہتے ہیں۔ آخر کب تک کشمیر پر لڑتے رہیں، اقوامِ متحدہ کی قراردادیں ہی نہیں درجنوں مزید آپشن موجود ہیں۔ خفیہ سفارت کاری سے مسئلہ حل کریں گے۔ مسئلہ فلسطین پر خود عرب اپنا ایمان بیچ رہے ہیں تو ہم کیوںنہ اسرائیل سے دوستی کرلیں۔ بھارت کا راستہ روکنا اور امریکا کا دل جیتنا ہے تو ہم خود اسرائیل کو تسلیم کرلیں‘‘۔

یہ اور اس طرح کی مزید بہت سی خودفریبیاں دشمن کا کام یقینا آسان کردیں گی اور پھر کسی فریب خوردہ ملک و قوم کے لیے نجات کی کوئی راہ باقی نہ رہے گی۔ آج بھی وقت ہے سنبھلنے کا۔ پروردگار اہل باطل کو دُور تک اور دیر تک ڈھیل، اور اہل ایمان کو آخری لمحے تک مہلت عمل دیتا ہے۔

  • سنبھلنے کی کوششوں میں سب سے پہلا قدم اپنی حفاظت اور دفاع کا پختہ عزم و ارادہ اور یقین پیدا کرنا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسے اخلاصِ نیت اور اللہ کی نصرت پر یقین بھی کہہ سکتے ہیں۔
  •  دوسرے قدم پر مرض یعنی اصل دشمن کو پہچاننا ہوگا۔ دشمن یا دشمنوں کے گروہ کو درست طور پر پہچاننے میں تمام زمینی حقائق، تاریخی مراحل، علمی و عملی معلومات اور مخالف کی سرشت کو سمجھنا، سب شامل ہے۔ اس ضمن میں قرآن کریم کی یہ آیت بھی رہنمائی کرتی ہے:

وہ تمھاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں نہیں چوکتے۔ تمھیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی اُن کو محبوب ہے۔ ان کے دل کا بُغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے بھی شدید ترہے۔ ہم نے تمھیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں، اگر تم عقل رکھتے ہو (تو ان سے تعلق رکھنے میں احتیاط برتو گے)۔ تم ان سے محبت رکھتے ہو مگر وہ تم سے محبت نہیں رکھتے حالانکہ تم تمام کتب ِ آسمانی کو مانتے ہو۔ جب وہ تم سے ملتے ہیں تو (وہ تم سے اظہارِ محبت و قربت کرنے کے لیے) کہتے ہیں کہ ہم نے بھی (تمھارے رسول اور تمھاری کتاب کو) مان لیا ہے، مگر جب جدا ہوتے ہیں تو تمھارے خلاف ان کے غیظ و غضب کا یہ حال ہوتا ہے کہ اپنی اُنگلیاں چبانے لگتے ہیں۔ ان سے کہہ دو کہ اپنے غصہ میں آپ جل مرو، اللہ دلوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔(اٰل عمرٰن ۳:۱۱۸-۱۱۹)

  • ہم سب اس ایمان کی تجدید کریں کہ امریکا نہیں سب سے بڑی قوت رب ذو الجلال کی قوت ہے۔ امریکا تو خود افغانستان و عراق کی دلدل میں ڈوب رہا ہے۔ ٹھیک ہے وہ اب بھی وہاں فساد پھیلا رہا ہے، لیکن کوئی وقت جاتا ہے کہ وہ دونوں ممالک سے بھاگنے کے لیے تنکوں کا سہارا تلاش کررہا ہوگا۔ مثلث خبیثۃ کے باقی دونوں ارکان اپنے اپنے مفادات کی خاطر اسے وہاں روکنے کی کوششیں کریں گے، لیکن اس قانون فطرت کو کوئی نہیں رد کرسکتا کہ جس نے بھی دعواے خدائی  کیا عبرت کا نشان بن گیا۔ امریکا کے اندورنی بحران اس سنت الٰہی کے نافذ ہوجانے ہی کی ایک دلیل ہیں، صرف ۲۰۰۹ء میں اب تک امریکا کے ۱۱۵بنک قلاش اور دیوالیہ ہونے کا اعلان کرچکے ہیں۔ خود اس کے تجزیاتی ادارے ۲۰۲۵ء میں ولایت ہاے متحدہ امریکا کے ناپید ہوجانے کی  پیشین گوئیاں کر رہے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل میں بھی بہت سے ایسے گروہ میدان میں ہے کہ جو اس صہیونی ریاست کو تورات کی تعلیمات سے صریحاً متصادم قرار دے رہے ہیں۔
  •  دشمنوں کے گروہ کے مقابل پاکستان کو اہم دوست ممالک کا اعتماد بحال کرتے ہوئے، ایک متبادل بلاک مضبوط کرنے کی سعی کرنا ہوگی۔ ان ملکوں کے ساتھ تعلق، صرف کشکول پھیلانے کا تعلق نہ ہو، بلکہ تعاون کی اصل روح، ایک دوسرے کے مشترک مفادات کا تحفظ ہو۔ ان ممالک میں ہونے والی بیرونی سازشوں کو ناکام بنانا بھی اسی دوطرفہ تعاون کا حصہ ہو۔ حال ہی میں یمن سعودی عرب سرحدوں پر بعض یمنی قبائل کے ذریعے بغاوت پھیلانا اور پھر جنگ کا دائرہ سعودی عرب تک پھیلادینا، سرزمین حرمین شریفین میں بھی آگ کے شعلے بلند کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ چند قبائل کا دو ملکوں کی باقاعدہ افواج کے سامنے کئی ماہ تک ڈٹا رہنا کسی بیرونی امداد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پاکستان اور ترکی آگے بڑھ کر یہ آگ بجھانے کی کوشش کریں، تو یہ سابق الذکر متبادل عالمی بلاک کی مضبوط بنیاد ثابت ہوسکتی ہے۔
  •   امریکی، صہیونی اور ہندو گٹھ جوڑ کا سب سے اہم اور خطرناک پہلو آیندہ نسلوں کو ہم سے چھین لینے کی سعی کرنا ہے۔ اپنی نسلوں کو خوف و دہشت کے گہرے سایوں کی نذر کردینے کے بجاے، ان کے دلوں میں عزم و ہمت اور جرأت و شجاعت راسخ کرنے اور ملّی مفادات سے ہم آہنگ تعلیمی نصاب رائج کرنے پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ لفظ جہاد ہی کو نعوذ باللہ نفرت و حقارت کا شکار کردینے کے بجاے جہاد، قربانی اور شہادت کا حقیقی اور درست مفہوم واضح کرنا ہوگا۔ سچی اسلامی تعلیمات کا پابند اور حقیقی اور اصل دشمن کے خلاف جہاد، ایمان کا جزو لازم اور قوموں کی زندگی میں بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔

سب سے اہم یہ کہ ہم سب کو اپنے اللہ کی پناہ حاصل کرنا ہوگی۔ دن رات دہرائے جانے والے اپنے وعدے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کا عملی ثبوت دینا ہوگا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش پا پر چلتے ہوئے، ہر دم اس خبیر و قدیر ذات کے سامنے ہاتھ پھیلانا ہوں گے اَللّٰھُمَّ  اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُورِھِمْ وَنَعُوذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ، اے ہمارے پروردگار ہم اپنے دشمنوں کی گردنیں تیرے ہاتھ دیتے ہیں اور ہم ان کے ہر شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

 

عالمِ اسلام کی معروف تحریک الاخوان المسلمون پر ایک جامع اور تفصیلی مضمون برطانوی جریدے دی اکانومسٹ (۱۰؍اکتوبر ۲۰۰۹ء)نے شائع کیا ہے۔ مضمون نگار نے اپنے تجزیے میں مختلف عرب ممالک میں سرگرمِ عمل اخوان تحریک کی حقیقی مشکلات و مسائل اور درپیش چیلنجوں کا احاطہ کرنے کی بھی کوشش کی ہے اور بین السطور اپنے دل میں چھپی مخصوص تمنائوں اور آرزوئوں کا اظہار بھی کیا ہے۔ بلاشبہہ آج پورا عالمِ اسلام کفر کی یلغار اور نرغے میں ہے۔ اسلام دشمن قوتوں کا اصل ہدف اسلامی نظریۂ حیات اور قرآن و سنت کی تعلیمات پر مشتمل وہ حقیقی تصورِ دین ہے جس سے بحیثیتِ مجموعی امتِ مسلمہ کے انحراف اورحکمران ومترفین طبقات کے فکری اور عملی لحاظ سے غیرمسلم نظریات کے سانچے میں ڈھل چکنے کے باوجود دشمنانِ اسلام خوف زدہ ہیں۔

یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ امتِ مسلمہ کے درمیان احیاے دین اور نشاتِ ثانیہ کی تحریکیں مسلمان ممالک ہی میں نہیں، غیر مسلم ممالک میں بھی کسی نہ کسی انداز میں موجود ہیں۔ چومکھی لڑائی کا محاورہ پوری آب و تاب کے ساتھ آج اسلامی تحریکوں کی جدو جہدپر منطبق ہوتا نظر آتا ہے۔ آج امتِ مسلمہ کو درپیش خطرات بیرونی بھی ہیں اور اندرونی بھی۔ اندرونی خطرات سیکولر اور مغرب نواز حکمرانوں کے بھی پیدا کردہ ہیں اور نام نہاد سیکولر اہلِ دانش (intelligentsia) بھی اسلامی اقدار کے خلاف پورے لا ؤ لشکر کے ساتھ محاذ پر موجود ہیں۔ یہاں تک تو بات قابلِ فہم ہے لیکن اس سے اگلا مرحلہ یہ ہے کہ خود اسلام کا نام لینے والوں کے درمیان کئی مختلف اللّون لہریں اُٹھا دی گئی ہیں، جن کا آپس میں کوئی تال میل نہیں بلکہ بعض اوقات تو وہ ایک دوسرے سے متحارب نظر آتی ہیں۔

انٹرنیشنل اور عالم عرب کے ممالک کی سطح پراخوان المسلمون فکری، اعتقادی اور عملی لحاظ سے بہت مضبوط بنیادوں پر قائم اسلامی تحریک ہے مگر عالمی اور مقامی میدانوں میں معروضی حالات نے اسے کئی مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ اکانومسٹ کا تجزیہ نگار مختلف ملکوں میں اخوان کے بڑھتے ہوئے قدم رک جانے کا تذکرہ مزے لے لے کر کرتا ہے۔ دنیا بھر میں جن ممالک کے اندر کسی بھی انداز میں انتخابات ہوتے ہیں وہاں آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے کی تمام کھلاڑیوں کے لیے کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کبھی نشستیں کم ہوتی ہیں تو اگلے مرحلے میں زیادہ بھی ہو سکتی ہیں لیکن اکانومسٹ کے نمایندے نے اس تناظر میں بجا طور پر مختلف حکومتوں کی طرف سے اخوان کا ناطقہ بند کرنے کی مذموم کاوشوں کا بھی ذکرکیا ہے۔ ان ممالک میں سے اکثر میں انتخابات محض ایک ڈھونگ اور ڈراما ہوتے ہیں۔ مغرب نواز حکمران اپنی من مانی سے مخالفین کو کامیابی سے محروم کرنے کے لیے جو چاہیں کریں، مغربی دنیا خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ اسی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ جمہوریت کے یہ عاشقان اپنے دعووں میں کس قدر سچے ہیں۔

اخوان المسلمون کی بنیاد مصر میں ۱۹۲۸ء میں پڑی تھی، پھر وہاں سے یہ تحریک دوسرے ملکوں میں پھیلی۔ مصر کے بعد سب سے پہلے جس ملک میں یہ تنظیم قائم ہوئی وہ شام ہے۔ حالیہ برسوں میں سیاسی لحاظ سے جہاں اخوان کے متاثرین کو سب سے بڑی کامیابی حاصل ہوئی، وہ غزہ اور فلسطین ہیں۔ شامی حکومت اور غزہ و فلسطین کی تحریکِ آزادی حماس کے تعلقات آپس میں بہت قریبی اور دوستانہ ہیں۔ اس کی حقیقی وجہ شامی حکومت کی حماس سے محبت نہیں بلکہ علاقے کی معروضی صورتِ حال ہے۔ دوسری جانب حماس کو بھی اگرچہ شامی حکومت اور اس کی مجموعی سوچ کے علاوہ مقامی اخوان کے ساتھ اس کے رویے پر خاصے تحفظات ہیں مگر ان کی مجبوری اور مصلحت کا تقاضا ہے کہ وہ شام کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہ کریں۔ کسی عرب ملک نے انھیں اپنے ہاں وہ سہولیات فراہم نہیں کیں جو انھیں شام میں حاصل ہیں۔

شام کے جو علاقے جولان کی پہاڑیوں سمیت اسرائیل نے ۱۹۶۷ء کی جنگ میں قبضے میں لے لیے تھے اور جنھیں پوری ڈھٹائی کے ساتھ بعد میں اسرائیل کا حصہ بنادیاگیا، اس پر شامی حکومت اور عوام کو شدید قلق اور صدمہ ہے۔ اس لیے مصر اور اُردن کے برعکس شام کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات خاصے کشیدہ ہیں۔ حماس غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی ناجائز ریاست اور اس کے ظالمانہ حملوں کا جس جرأت ودلیری کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہے، اس کی بدولت اُمتِ مسلمہ کے بیدار مغز مسلمانوں کے نزدیک اسے ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ اندریں حالات شام کے اخوانی، شامی حکومت کے بے پناہ مظالم کی وجہ سے جس ابتلا و آزمایش سے گزر رہے ہیں، اس کی بنا پر انھیں جہاں شام کی نصیری حکومت سے شدید نفرت ہے، وہیں حماس اور شام کے باہمی تعلقات پر بھی وہ کبیدہ خاطر ہوتے ہیں۔ شام میں اخوان کی بنیاد ۱۹۴۵ء میں پڑی تھی۔ اس کے پہلے سربراہ عالمی شہرت کے حامل عالمِ دین اور دانش ور الشیخ ڈاکٹر مصطفی السباعی تھے۔ شام میں اخوانی سربراہ کو مراقبِ عام کہا جاتا ہے۔ جب اخوان نے اپنا عالمی تنظیمی ڈھانچا ترتیب دیا تو اس میں مصری تنظیم کے سربراہ (مرشدِعام)کو تنظیم کا عالمی قائد تسلیم کیا گیا، جب کہ شام اور دیگر علاقوں کے سربراہانِ اخوان بالعموم نائب صدر مقرر کیے جاتے ہیں۔ چونکہ عالمی تنظیم ایک ڈھیلے ڈھالے ڈھانچے پر مشتمل ہے، اس لیے شام کے مخصوص حالات کے بارے میں اس فورم پر بھی کبھی کبھار بحث و تکرار کی نوبت آجاتی ہے۔

شام میں اخوان نے اپنے قیام کے بعد جمہوری دور میں انتخابی عمل میں شرکت اور جمہوری اداروں کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا تھا۔ شامی اخوان عملاً منتخب اداروں میں نمایندگی کرتے رہے، حتیٰ کہ بعض اوقات انھیں مخلوط حکومتوں میں وزارتی ذمہ داریاں ادا کرنے کا موقع بھی ملا۔ ان کا یہ سلسلہ کامیابی سے آگے بڑھ رہا تھا کہ بدقسمتی سے ملک فوجی آمریت اور اس کے نتیجے میں یک جماعتی سیاست کی نذر ہو گیا۔ ۱۹۴۷ء، ۱۹۵۰ء، ۱۹۵۴ء اور ۱۹۶۲ء کے انتخابا ت میں شامی اخوان نے حصہ لیا اور دستور سازی کے عمل میں بھی ایوان کے اندر اور باہر فعال کردار ادا کیا۔ ۱۹۴۸ء میں مراقبِ عام الشیخ مصطفی ا لسباعی پارلیمنٹ کے رکن تھے، جنھیں ۱۹۴۹ء میں پارلیمان میں ڈپٹی سپیکر بھی منتخب کیا گیا۔ ۱۹۶۲ء کے انتخابات میں اخوان کے ۱۳ چیدہ چیدہ راہ نما پارلیمان میں منتخب ہو گئے۔ ان میں جناب عصام العطار، عمر الخطیب، زھیر الشاویش، محمد سعید العباد، طیب خواجہ، محمد علی مشعل، شیخ عبدالفتاح (ابوغدہ)اورڈاکٹر نبیل صبحی کے اسماے گرامی قابلِ ذکر ہیں جنھیں عا لمِ عرب کے تمام پڑھے لکھے لوگ جانتے ہیں۔ اخوان کے پارلیمانی گروپ کی کارکردگی اور اہلیت کی بنا پر کچھ دیگر آزاد ارکان بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے، یہاں تک کہ ان کی تعداد ۲۰ ہو گئی۔

مختلف حکومتوں میں جو شامی اخوان وزارتی ذمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں ان میں خالدالعظم کی وزارتِ عظمیٰ میں جناب عمر الخطیب، ڈاکٹر نبیل اور احمد مظہر العظمہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ جب جمہوریت پر شب خون مارا گیا اور بعث پارٹی فوجی انقلاب کے نتیجے میں برسرِ اقتدار آئی تو شامی اخوان پر سرزمینِ شام تنگ کر دی گئی۔ نصیری انقلاب سے قبل بھی لادین قوتیں جن میں شامی عیسائی بہت پیش پیش تھے اسلامی شعائر کے خلاف کھل کر میدان میں آچکی تھیں۔ ان کی جسارت کا حال اس سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کھلے عام اپنے منشور میں بعث پارٹی نے اپنا عقیدہ یوں بیان کیا    ؎

اٰمنت بالبعثِ رباً لا شریک لہ
و بالعروبۃ دیناً مالہ ثانی

(میں نے بعث پارٹی کو اپنا رب تسلیم کر لیا ہے اور اس میں کسی دوسرے کو شریک نہیں سمجھتا۔ عرب قومیت میرا دین ہے اور اس کا کوئی بدل نہیں)۔

یہ در اصل اس اسلامی شعر کا جواب ہے جس میں کہا گیا تھا    ؎

اٰمنت باللہ رباً لا شریک لہ
و بالاسلام دیناً مالہ ثانی

اسلامی شعائر کے خلاف بغاوت دن بدن بڑھتی چلی گئی۔ بعث پارٹی کے دورِ حکومت میں بے شمار جرائم کا ارتکاب ہوا۔ شناختی کارڈ سے مذہب اور مسلم کا خانہ خارج کر دیا گیا۔ اوقاف کی تمام املاک کو اونے پونے داموں اپنے منظورِ نظر لوگوں کے ہاتھ بیچ دیا گیا۔ حافظ الاسد کے بھائی رفعت الاسدنے قتل و غارت گری کے ذریعے پورے ملک میں خوف وہراس کا ماحول پیدا کر دیا (بعد میں حافظ الاسد نے اپنے بھائی کو اپنے اور اپنی اولاد کے لیے خطرہ سمجھا تو اسے بھی راستے سے ہٹادیا گیا)۔تعلیمی نصاب سے اسلامی مضامین خارج کر دیے گئے۔ اسلامی شعائر کا مذاق سرکاری سرپرستی میں چلنے والے رسائل و اخبارات میں روزمرہ کا معمول بن گیا۔ مجلہ الفجر نے گدھے کا کارٹون بنا کر اس کے سر پر عمامہ پہنایا۔ مجلہ الشعیب میں لکھا گیا کہ (نعوذ باللہ)اللہ اور تصورِادیان کو میوزیم میں رکھوا دینا چاہیے۔ حلب، حمص اور دمشق میں تمام اخوانی رہنمائوںاور اہلِ علم کو جیلوں میں بند کر دیا گیا۔ ڈاکٹر حسن ہویدی، عبدالفتاح ابو غدہ، شیخ سعیدحوّٰی اور امین شاکر جیسی بلند پایہ شخصیات سال ہا سال جیلوں میں بند رہیں۔

اس دور سے شا می مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا ہونا شروع ہوئیں۔ ۸مارچ ۱۹۶۳ء ہی کو فوجی انقلاب کے ساتھ سیاسی پارٹیوں بالخصوص اخوان پر پابندی لگا دی گئی۔ تما م اسلامی رسائل وجرائد بند کر دیے گئے، منبر و محراب کی آزادی چھین لی گئی اور سیاسی آزادیوں کا باب مکمل  طور پر بند کر دیا گیا۔ اس عرصے میں عیسائی اور اشتراکی عناصر نے قومیت پرستوں کے ساتھ مل کر خود کو منظم کیا، فوج سے اسلامی ذہن رکھنے والے افسران کو چن چن کر نکالا گیا اورایک نصیری (علوی) جرنیل صلاح جدید کو ۲۳ فروری ۱۹۶۶ء کو فوج کے سربراہ کا منصب سونپ دیا گیا اور جرنیلوں کو وزارتوں کے قلم دان سونپ دیے گئے۔ اسی سال ایئر فورس سے تعلق رکھنے والے فوجی افسر حافظ الاسد کو وزیر ِ دفاع بنایا گیا۔ فوجی کونسل میں جو ملک کے سیاہ و سفید کی مالک قرار پائی، ۱۵ارکان تھے۔ ان میں پانچ نصیری، دو دروز، دو اسماعیلی اور چھے سنی ارکان تھے۔ بعد میں تین نصیری مزید شامل کیے گئے اور ان کے شامل ہوتے ہی ۱۹۷۰ء کا انقلاب برپا ہوا جس کے نتیجے میں حافظ الاسد (موجودہ صدر بشار الاسد کا والد) بلاشرکتِ غیرے ملک کا حکمران بن گیا۔ اس نے ۲۰۰۰ء تک بد ترین آمریت کے تحت حکومت کی اور اپنی موت سے پہلے اپنے بیٹے بشارالاسد کو تخت و تاج کا مالک قرار دے دیا۔

حافظ الاسد کے دور میں شام کے اندر اخوان پر بے پناہ مظالم ڈھائے گئے۔ جہاں کہیں اخوان نے احتجاج کیا، انھیں مسلح ایکشن کے ذریعے انتہائی سنگ دلی سے کچل دیا گیا۔ ہزاروں اخوان مردوخواتین جیل میں بند کردیے گئے۔ حلب کے شہر کو ۲۰ستمبر ۱۹۷۹ء میں شامی فوجوں نے یوں گھیرے میں لے لیا جیسے کوئی دشمن ملک اپنے مخالف پر چڑھ دوڑتا ہے اور اخوان کی بہت بڑی تعداد قتل کر دی گئی۔ دوسرے بڑے شہر حماۃ میں بھی ۱۹۸۲ء میں ایسے ہی ایک آپریشن کے ذریعے ہزاروں بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ آج تک اخوان کی ایک بڑی تعداد جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ جو لوگ ملک کے اندر موجود ہیں وہ یا تو جیلوں میں بند ہیں یا ان کے کاروبار بند کرنے اور انھیں ملازمتوں کے لیے نااہل قرار دینے کے بعد ان کا معاشی قتلِ عام کیا گیا ہے۔ داخلی طور پر یہ صورتِ حال بہت درد ناک ہے لیکن حماس کے قائد خالد المشعل اور ان کے قریبی ساتھی دمشق میں امن سے زندگی گزار رہے ہیں۔ انھیں یہ پناہ کسی دوسرے ملک میں نہیں  مل سکتی۔ کوئی شک نہیں کہ شام کے سارے شر میںسے حماس کی حمایت کا یہ پہلو ہی خیر کا ایک مظہر ہے لیکن شامی اخوان شاکی ہیں کہ عالمِ اسلام اور ان کے اپنے بھائی بند انھیں فراموش کر بیٹھے ہیں۔ مغربی ذرائع بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حماۃ شہر میں ۱۰ ہزار شہری موت کے گھاٹ اتار دیے گئے تھے۔ اکانومسٹ کے تجزیہ نگار نے اپنے مضمون میں بیان کیا ہے کہ اس سال اپریل میں اخوان نے شام کی اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لی ہے، اور یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ شامی اخوان حکمران بعث پارٹی سے سودا بازی کے لیے پر تول رہے ہیں۔ شام میں چونکہ عوام کو جمہوری آزادیاں حاصل نہیں، اس لیے اخوان کی نمایندگی کہیں موجود نہیں۔ اگر عرب ملکوں میں حقیقی معنوں میں عوام الناس کو آزادانہ ماحول میسر آجائے تو مصر و شام دو ایسے ممالک ہیں، جہاں اخوان کو سیاسی میدان میں کوئی شکست نہیں دے سکتا مگر یہ مواقع کب میسر آئیں گے، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ سرِدست تو مصر میں بھی اخوان پر مزید پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں اور ان کے سیکڑوں مؤثر لوگ جیل میں بند ہیں۔

اکانومسٹ کا نمایندہ بظاہر غیر جانب دارانہ تجزیہ پیش کرتا ہے مگر یہ بیان کرتے ہوئے اس کی خوشی ڈھکی چھپی نہیں رہتی کہ سابقہ انتخاب میں مصر میں ۸۵نشستیں حاصل کرنے والے اخوان کے ارکان جو آزاد نمایندگان کے طور پر جیتے تھے، آیندہ شاید پارلیمنٹ کا منہ نہ دیکھ سکیں۔ اس نے خود ہی یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ مصر میں اخوان کے مرشدِ عام محمد مہدی عاکف (عمر ۸۱سال) حالات سے دل برداشتہ ہو گئے ہیں اور انھوںنے آیندہ سال جنوری میں قیادت سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے، جب کہ اس سے قبل تمام مرشد انِ عام تا دمِ آخر قیادت کرتے رہے ہیں۔ اس کے نزدیک اس روایت کو توڑنے کی وجہ بد دلی اور مایوسی ہے۔ یہ عجیب مغربی منطق ہے جس کی توجیہ سمجھ میں نہیں آتی۔ تاعمر قیادت اخوان کی ایک روایت ہے، یہ نہ ان کے دستور کی کوئی دفعہ ہے نہ یہ قرآن و سنت کا منصوص حکم۔ اخوان مشکلات کا شکار ضرور ہیں مگر ان کی صفوں میں کہیں کوئی مایوسی نظر نہیں آتی۔ مشکل ترین حالات میں بھی یہ لوگ پر عزم اور مستقل مزاج رہے ہیں۔

مذکورہ تجزیے میں بعض باتیں حقائق کے برعکس ہیں۔ کویت کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ پچھلی اسمبلی میں حامیانِ اخوان کے چھے نمایندے تھے۔ اب انھیں صرف ایک سیٹ ملی ہے۔ مراکش میں اخوان کی فکر سے متاثر جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی مسلسل آگے بڑھ رہی تھی لیکن موجودہ بلدیاتی انتخابات میں چھے فی صد سے بھی کم کامیابی حاصل کرپائی ہے۔ سوڈان میں ڈاکٹر حسن ترابی کو حکومت نے اقتدار سے بہت دُور کر دیا ہے، جب کہ تجزیہ نگار کے مطابق اردن اور غزہ میں بھی اخوان کے سیاسی مستقبل کا ستارہ گردش میں نظر آتاہے۔ غزہ کی سابقہ ۲۲روزہ جنگ سے تجزیہ نگار کے بقول عام فلسطینی سخت نالاں ہیں کہ حماس نے بلاوجہ اسرائیل سے چھیڑخانی کرکے اپنے اور عوام کے لیے تباہی کا سامان فراہم کیا۔ یہ تجزیہ حقائق کے بالکل برعکس ہے۔ بہرکیف جہاں ایسے تجزیے مغرب کی مخصوص فکر کی عکاسی کرتے ہیں، وہیں یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ مسلمان معاشروں میں اسلامی سوچ کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے یا کم از کم اتنا محدود کر دینے کا منصوبہ کہ وہ بے اثر ہو کر رہ جائے مغربی تھنک ٹینکس نے گذشتہ صدی ہی میں بنا لیا تھا۔ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے مسلمان حکمرانوں کو خدمات سونپ دی گئی ہیں۔ ان حالات میں اسلامی تحریکوں کی ذمہ داریاں کئی گنابڑھ جاتی ہیں۔ اپنی صفوں میں اتحادبرقرار رکھنا اور اپنے کارکنان کے حوصلے بلند رکھنے کے لیے قلیل المیعاد اور طویل المیعاد منصوبہ بندی وقت کا تقاضا ہے۔ اسلامی تحریکوں کی قیادت یقینا ان تمام حالات سے باخبر بھی ہے اور چیلنج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ مغربی تجزیہ نگاروں کے تجزیے سے باخبر رہنے کے ساتھ ان سے فائدہ اٹھانے کی بھی ضرورت ہے۔

جہاں تک شامی اخوان کا معاملہ ہے، عالمِ اسلام کی جملہ اسلامی تحریکوں کو ان کے مسئلے کو زندہ کرنے کے لیے فکر بھی کرنی چاہیے اور ان کے حق میں آواز بھی اٹھانی چاہیے۔ حماس تو بے شک مجبور ہے کہ اسے بوجوہ کسی عرب ملک میں وہ سہولتیں حاصل نہیں جو شام میں حاصل ہیں۔ ان کی ضرورت ہے کہ انھیں فلسطین سے ملحق ممالک میں جاے پناہ مل جائے۔ چار ممالک ہی ایسے ہیں جو یہ جغرافیائی پوزیشن رکھتے ہیں۔ ان میں سے مصر اوراُردن تو کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد سے اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں اور فلسطین کی جدو جہدِ آزادی کے عملاً مخالف ہیں۔ لبنان کے اپنے مخصوص حالات اور مسائل ہیں۔ یہاں حزب اللہ اسرائیل دشمن ہے مگر اپنی مصلحتوں کے تحت   اسے شام سے بھی بنا کر رکھنا پڑتی ہے۔ اس ملک میں حزب اللہ کی عسکری و سیاسی قوت ایک حد تک  قابلِ ذکر ضرور ہے مگر وہ اقلیتی گروہ ہے۔ شام ہی ایک ایسا ملک رہ جاتا ہے جس نے حماس کو  اپنے ہاں مہمان بنایا ہوا ہے اور بیرونی دبائو کے باوجود اس پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ حماس کی حمایت ضرور ی اور فرض ہے مگر شامی اخوان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک معتدل اور متوازن پالیسی کے ذریعے حالات کا مقابلہ ممکن ہے اور یہی وقت کا تقاضا بھی ہے۔

 

خطابتِ نبویؐ، سید عزیز الرحمن۔ ناشر: زوار اکیڈمی پبلی کیشنز، اے ۴؍۱۷، ناظم آباد ۴، کراچی۔ صفحات: ۲۸۴۔ قیمت: ۲۴۰؍ روپے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خطابت آپؐ کی شخصیت، نبوت اور سیرت کا ایک اہم عنوان ہے۔سیرتِ نبویؐ پر اَن گنت تصانیف و تالیفات ملتی ہیں مگر سیرتِ نگاروں نے بالعموم خطباتِ نبویؐ کو الگ سے کوئی حیثیت دینے کے بجاے اس اہم پہلو کو بھی کتبِ سیرت میں ہی سمو دیا ہے۔ یوں آپؐ کے فنِ خطابت پر کوئی جامع اور تحقیقی کام منظر عام پر نہیں آ سکا۔ اس کتاب کو سید سلمان ندوی نے ’’اپنے موضوع پر ایک کامیاب کاوش‘‘ قرار دیا ہے۔

مؤلف نے فصاحت و بلاغت، فصاحت ِ نبوی کے ترکیبی عناصر،بلاغت ِ نبوی کے خصائص و امتیازات، جوامع الکلم کی اصطلاح کی وضاحت، کلامِ نبوی سے اس کی نسبت اور  حیاتِ مصطفی سے چند ایک مثالیں، مکاتیبِ نبوی کے اجزا اور خصوصیات، اور حضورِ اکرمؐ سے منسوب مسنون دُعاؤں کے ذریعے سے کلامِ نبوی کے امتیازات کو ظاہر کیا ہے۔

مؤلف نے حسن ِ صوت، قبائل کی لغات اور لہجوں سے واقفیت، فصل و ترتیل، برجستگی اور فی البدیہ گفتگو پر مکمل قدرت، اختصار، سجع اور قافیہ بندی، کلام کی جامعیت، دِل سوزی و خیرخواہی ، بامقصد خطاب اور اثر انگیزی کے تحت نبی کریمؐ کی خطابت کا جائزہ پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ  خاص مواقع کی نسبت سے آپؐ کے اندازِ خطابت کی نوعیت بدل جاتی تھی۔

آخری باب (۵۱) میں بحث کو سمیٹتے ہوئے دینی رجحان، منافرت کا اختتام، سادگی، مقصدیت کا فروغ ، قرآن کریم اور کلامِ نبوی سے استشہاد کے حوالے سے خطابت ِ نبوی کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں ۱۳۳ ماخذات و مصادر کی جامع فہرست دی گئی ہے۔

مولانا سلیم اللہ خاں نے اس کاوش کی تحسین کرتے ہوئے کتاب کو بہتر بنانے کے لیے چند مفید مشورے دیے ہیں، مثلاً بعض اسرائیلی روایات کی علمی تحقیق، آیاتِ قرآنی میں بین القوسین تشریحات اور بعض مقامات پر حاشیے میں تشریحی نوٹ کی ضرورت وغیرہ، تاہم زبان و بیان، ایجاز و اختصار، ابواب بندی، تحقیقی طریقِ کار ، حواشی و تعلیقات اور مجموعی طور پر ایک علمی اسلوبِ تالیف کے اعتبار سے یہ ایک بلند پایہ تصنیف ہے ۔ (خالد ندیم)


خیرالبشرؐ کے بارہ خادمانِ خاصؓ، طالب الہاشمی، ناشر: طٰہٰ پبلی کیشنز، ۱۹-ملک جلال الدین بلڈنگ، چوک اُردو بازار،لاہور۔ فون: ۶۱۲۰۴۲۲-۰۴۲۔ صفحات: ۳۳۶۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

سیرت النبیؐ، سیرتِ صحابہؓ اور تذکرہ و سوانح نگاری جناب طالب الہاشمی مرحوم کا مخصوص موضوع تھا۔ اس تسلسل میں ان کی آخری کتاب خیرالبشرؐ کے بارہ خادمانِ خاص ہے۔ یہ حُسنِ اتفاق ہے کہ انھوں نے خود بھی اس کتاب کو اس سلسلے کی آخری اور تکمیلی کتاب قرار دیا ہے (ص ۱۳)۔ یہاں جن اصحابِ رسولؐ کا تذکرہ موجود ہے، اُن میں سے کچھ کے سوانح مصنف کی دیگر کتب میں آچکے ہیں لیکن بقول مصنف: ’’وہاں کے پیرایۂ بیان اور زیرکتاب کے اسلوب نگارش و اندازِ تحقیق میں نمایاں فرق ہے‘‘۔ (ص ۱۴)

اس کتاب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کا شرف پانے والے جن ۱۲ صحابہ کرامؓ کا تذکرہ قلم بند کیا گیا ہے اُن میں ایسے اصحاب بھی ہیں جو خدمتِ رسولؐ کے حوالے سے معروف و مشہور میں اور وہ اصحاب بھی جن کا تعارف اس اعتبار کچھ زیادہ اور عام نہیں ہے۔ یہ اصحابِ کرام خدمتِ اقدس میں نام پانے کے علاوہ علم و فضل کے اعتبار سے بھی بلند مرتبہ ہیں۔ بارہ خادمانِ خاص میں حضرت زید بن حارثہ، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت بلال بن رباح، حضرت عقبہ بن عامر جہنی، حضرت ثوبان، حصرت ایمن بن عبید، حضرت اسلع بن شریک تمیمی، حضرت انس بن مالک انصاری، حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی، حضرت معیقیب بن ابی فاطمہ الدوسی، حضرت ذومخمر حبشی اور حضرت ابورافع رضی اللہ عنہم اجمعین کے حالات زندگی کی تفصیل علمی، تحقیقی اور ایمانی طرز و اسلوبِ نگارش میں بیان کی گئی ہے۔ ان تذکروں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان ہستیوں کی ہر ہر ادا میں حب ِ رسولؐ کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آتا ہے۔ ان کی انفرادیت و امتیاز بھی اسی بنا پر ہے کہ انھوں نے دنیا ومافیہا کے ہر تعلق پر خدمت ِ رسولؐ کو ترجیح دے رکھی تھی اور یہ سعادت اُن کی کامیابی و کامرانی کے علاوہ نام وَری و شہرت کا باعث بھی بن گئی۔

طالب الہاشمی مرحوم کی یہ تصنیف بھی اُن کی سابقہ تصانیف کی تمام خوبیاں اور خصائص اپنے اندر جمع کیے ہوئے ہے۔ یقینا اُردو قارئین کے لیے یہ ایک بہترین تحفہ ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)


عہدفاروقی کے باکمال، پروفیسر علی محسن صدیقی۔ ناشر: زوّار اکیڈمی پبلی کیشنز، ۱ے-۴/۱۷، ناظم آباد نمبر ۴، کراچی۷۴۶۰۰۔ فون: ۶۶۸۴۷۹۰-۰۲۱۔ صفحات: ۳۱۲۔ قیمت: ۲۴۰ روپے۔  ملنے کا پتا: کتاب سراے، اُردو بازار، لاہور۔

مصنف کو امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات لکھنے کے دوران میں اس کتاب کو ترتیب دینے کا خیال آیا۔ انھوں نے ان باکمال صحابہ کرامؓ کے حالاتِ زندگی جمع کیے ہیں جنھوں نے دورِ فاروقی میں سرکاری نوعیت کا کام انجام دیا اور بطور خاص کاروبارِ خلافت کی انجام دہی میں جناب امیرالمومنین رضی اللہ عنہ کی معاونت کی۔ ۳۰صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں حضرت ابوعبیدہ جراح، حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت خالد بن ولید، حضرت زبیر بن عوام، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عمرو بن عاص اور حضرت مغیرہ بن شعبہ ثقفی رضی اللہ عنہم زیادہ اہم ہیں۔ پروفیسر علی محسن صدیقی کا مزاج محققانہ ہے۔ ممکن ہے بعض تحقیقی آرا سے قاری متفق نہ ہوسکے۔ کتاب مجلد اور رنگین مگر سادہ سرورق سے مزین ہے۔ بعض اغلاط باقی رہ گئی ہیں۔ امید ہے آیندہ اڈیشن میں درست کردی جائیں گی۔ (ملک نواز احمد اعوان)


پھر نظر میں پھول مہکے، محمد اکرم طاہر۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور- ۵۴۷۹۰۔  فون: ۳۵۴۳۲۴۷۶۔ صفحات: ۲۲۳۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔

پروفیسر محمد اکرم طاہر کی زیرنظر کتاب ان کے سفرِحج اور عمرہ کے مشاہدات اور وارداتِ قلبی کا نچوڑ ہے۔ حج کے سفرناموں میں طبائع انسانی کے تنوع کے ساتھ ساتھ ادبی اعتبار سے بھی اس سفرنامے میں خاصی جاذبیت ہے۔

جوں جوں ہم رسالت مآبؐ کے زمانے سے دُور ہوتے جارہے ہیں ارکانِ اسلام کی بجاآوری میں بھی غفلت کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ حالی نے بجا کہا تھا: ع  ’’زحمتِ روزہ بھی کرتے ہیں گوارا تو غریب‘‘۔ ایک باشعور مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ حج کرے اور اپنی کمائی اور رزقِ حلال کو اس سفر کے لیے خرچ کرے (سرکاری اخراجات پر سفر کرنے والوں کے تاثرات کیا ہوتے ہوں گے)؟ البتہ رزق حلال سے حج کرنے والوں کے تاثرات یقینا دلوں میں ایک نیا ولولہ اور جوش پیدا کرتے ہیں۔ اکرم طاہر کا یہ سفرنامہ ایک ایسے زائر کے جذبات سے لبریز ہے جو اسلامی شعائر سے محبت کرنے والا ہے۔ عشقِ رسولؐ سے قلب و نظر میں جو پاکیزگی و طہارت پیدا ہوتی ہے، وہ بھی اس سفرنامے میں جگہ جگہ عیاں ہے۔

مصنف نے سفرنامے کے شروع میں ان وسوسوں اور اندیشوں کا ذکر کیا ہے جو انھیں ہوّا بن کر ڈراتے تھے اور مانع سفر تھے مگر ان کے عزم بالجزم کے سامنے سارے وسوسے اور اندیشے خودبخود ختم ہوتے چلے گئے۔ سرزمینِ مکہ اور مدینہ کی خاک ایک مسلمان کے لیے سرمۂ نور کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کے شب و روز انسانی دل پر بے پناہ اثرات چھوڑتے ہیں۔ دربارِ رسالت میں زبان گنگ ہوجاتی ہے اور جذبات اشکِ رواں کی صورت اختیار کرجاتے ہیں۔ اکرم طاہر اپنے سفرنامے میں اس کیفیت کا نقش ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں: ’’شمعِ رسالتؐ کے پروانے آگے  بڑھ گئے، چاروں طرف آنسو کا ایک سیلاب تھا کہ تھمتا نہ تھا۔ آنسو، اپنی اپنی سیاہ کاریوں پر شرم ساری کے آنسو، حبیبِؐ خدا کی قربت میں سرشاری کے آنسو… آج کسی کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔ خانہ کعبہ میں ہربے زبان کو زبان مل جاتی ہے۔ درِ رسولؐ پر بڑے بڑے زبان دانوں کی زبان گنگ ہوجاتی ہے‘‘۔

مصنف نے عرب کی قدیم تہذیب کے نمونے بھی پیش کیے ہیں اور معدنی تیل کے ثمرات اور اثرات کا ذکر بھی کیا ہے جس نے عربوں کی اقدارِ حیات کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ ایک جملہ ملاحظہ کریں: یہاں تین نئی چیزیں باہم مربوط ہیں: سنہ جدیدہ، سیارۂ جدیدہ و حرمۂ جدیدہ (نیا سال، نئی گاڑی اور نئی بیوی)۔

سفرنامے میں اُمت کی مجموعی حالت پر نوحہ خوانی کا تاثر بھی ملتا ہے۔ کشمیر اور فلسطین جیسے سلگتے مسائل سے اُمت مسلمہ کی عدم دل چسپی اور بے حسی پر بھی افسوس کیا گیا ہے، پھر یہ کہ مملکت سعودی عرب نے سرورِ کونینؐ اور صحابہؓ کے آثار اور یادگار مقامات کو مٹانے میں اعتدال سے   تجاوز کیا ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ سفرنامہ ایک مسلم قاری کے جذبۂ ایمانی میں نیا جوش پیدا کرتا ہے۔(محمد ایوب لِلّٰہ)


تعلیم کا تہذیبی نظریہ، نعیم صدیقی [مرتبین: ڈاکٹر مشتاق الرحمن صدیقی، نوید اسلام صدیقی]۔ ناشر: الفیصل ناشران، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۷۷۷-۰۴۲۔ صفحات: ۶۷۹۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

ہر معاشرے کی تشکیل و تعمیر میں تعلیم کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے، جب کہ ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل میں تعلیم کے پہلو بہ پہلو تربیت کو نہایت کلیدی مقام حاصل ہے۔ بیسویں صدی کے دوران میں برعظیم پاک و ہند نے جن اعلیٰ دماغ مسلمان رہنمائوں اور عالموں کو پروان چڑھایا، ان میں ایک نام نعیم صدیقی (۱۹۱۶ء-۲۰۰۲ء) ہے۔ ان کے بارے میں زیرنظر کتاب کے دیباچے میں پروفیسر خورشیداحمد لکھتے ہیں: نعیم صدیقی ایک بالغ نظر مفکر، ایک صاحب ِ دل داعی، اور ایک دردمند مصلح تھے، بیسویں صدی میں تحریکِ اسلامی کی ایک قیمتی متاع(ص ۱۴)، اور اس متاع    نے اپنے قلم، دماغ، زبان، فکر، نظر اور عمل سے جو بے پناہ کام کیا، اس کا تعلق دین اسلام کی   نعمت و صداقت کو اہلِ فکر سے لے کر عام لوگوں تک پہنچانا تھا۔

زیرتبصرہ کتاب کا مرکزی موضوع تعلیم ہے جسے نعیم صدیقی کے مقالات، مکاتیب، خطبات اور رشحات سے مرتب کیا گیا ہے۔ محترم مؤلف رسمی طور پر علم التعلیم (ایجوکیشن) کے ماہر نہ ہونے کے باوجود زیربحث موضوع پر ماہرین تعلیم سے کہیں زیادہ مہارت اور مضبوطی سے کلام کرتے ہیں۔

جناب نعیم صدیقی نے اس کتاب میں نہ صرف مروجہ تعلیمی نظاموں پر نقد و جرح کی ہے، بلکہ اس کے ساتھ ایک متبادل نظامِ تعلیم کے لیے فکرانگیز تجاویز بھی پیش کی ہیں۔ انھیں پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ شعروادب اور سیاست و صحافت کا یہ حُدی خواں تعلیم کے نام پر اُگنے والے جھاڑ جھنکار کی جڑوں کو جانتا اور ان کے مقابلے میں اسلامی نظام تعلیم کے ایک قابلِ عمل اور   قابلِ طلب ڈھانچے کو گہرے یقین و اعتماد کے ساتھ پیش کرتا ہے۔

کتاب چار حصوں اور بڑے چھوٹے ۶۷ مضامین پر مشتمل ہے۔ ان مضامین میں نہ صرف فکری مضامین ہیں، بلکہ کم و بیش تمام اصولی اور عملی مسائل بھی زیربحث لائے گئے ہیں۔ مثال   کے طور پر چند جملوں کو ملاحظہ فرمائیں: ’’میں جب ہر روز صدہا ایسے چہروں کو دیکھتا ہوں جن کی لوحِ پیشانی پر جلی خط میں ’لامقصدیت‘ لکھی ہوتی ہے۔ میں جب ماحول میں پریشان فکری،   آوارہ نگاہی، تشدد پسندی، اشاعتِ جرم، تشکیک و بے یقینی، خوف و حزن اور یاس و قنوط کے رنگ دیکھتا ہوں تو میرے اندر یہ سوال بار بار اُبھرتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟‘‘ (ص ۱۹۱)۔ ’’تحریکی و انقلابی شعور کا اوّلین دائرہ عمل، علم وفکر کا میدان ہے۔ ہمیں علمی حیثیت سے یہ واضح کرنا ہے کہ اسلامی ثقافت کی فکری بنیادیں کیا ہیں؟ پھر گہری نظر سے جائزہ لینا ہے کہ ہمارا سرمایۂ ثقافت کیا ہے؟ اور اس میں سے کتنا حصہ قابلِ قدر ہے، جسے نامطلوب کوڑے سے الگ کر کے ساتھ لینا ہے۔ [اس] کے ساتھ ہمیں اپنے حال پر بھی ناقدانہ نگاہ ڈال کر یہ دیکھنا ہے کہ آج ہمارے ثقافتی کباڑخانے میں کیا کچھ بھرا پڑا ہے… ان کی تطہیر کیسے ممکن ہے؟‘‘ (ص ۲۵۲)۔ ’’ہمارے تحریکی و انقلابی شعور کا دوسرا دائرہ عمل نظامِ تعلیم و تربیت ہے۔ اپنی ثقافت کے بارے میں ہم جو جو کچھ علمی حیثیت سے طے کرتے جائیں، ان سارے فیصلوں کو ہمیں اپنے نظام تعلیم و تربیت میں سمو دینا چاہیے۔ انھی کے مطابق ہمیں اپنی موجودہ اور آیند نسلوں کے دل و دماغ، ان کے جمالیاتی ذوق اور ان کے ثقافتی مزاج کو ڈھالنا چاہیے‘‘ (ص ۲۵۳)۔ ان تین اقتباسات سے مصنف کے فکری تعمق اور دائرۂ خیال کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔یوں اس کتاب کے مندرجات پاکستان کے تعلیمی و ثقافتی پالیسی سازوںکی رہنمائی کے ساتھ معلمین و مربیّین کے لیے روشنی کے چراغ مہیا کرتے ہیں۔

کتاب کے مرتبین ڈاکٹر مشتاق الرحمن اور نوید اسلام، ہم سب کے شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے مصنف کی اِن قیمتی تحریروں کو مربوط اور سائنٹی فک انداز سے مرتب کر کے، اس کتاب کے روپ میں پیش کیا۔(سلیم منصور خالد)


Essays on Muslims and The Challenges of Globalization، مرتبین: خالد رحمن، عرفان شہزاد۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، بلاک ۱۹، مرکز F-7، اسلام آباد۔ صفحات: ۴۵۰۔ قیمت: درج نہیں۔

پینے کے پانی سے لے کر بڑے بڑے مسافر طیاروں کی خرید وفروخت تک کاروباری معاملات انتہائی منظم اداروں کے ہاتھ میںچلے گئے ہیں۔ چھوٹی کمپنیاں بیک وقت کئی ممالک میں سرگرم بین الاقوامی فرموں میں ضم ہوچکی ہیں ان میں سے کئی کمپنیوں کے بجٹ کئی ممالک کی سالانہ قومی آمدن سے بھی زائد ہیں۔ اپنے معاشی حجم کو بڑھانے اور اپنی معاشرتی ضرورت میں اضافے کے لیے اِن کمپنیوں نے اہم ممالک کو بھی تجارتی مراعات اور دیگر پھندوں میں پھنسا رکھا ہے اور اس سارے عمل کو ’عالم گیریت‘ کانام دے دیا گیا۔

زیرتبصرہ کتاب میں اِس اہم موضوع پر نمایاں اہلِ علم کی آرا جمع کر دی گئی ہیں۔ چار حصوں میں تقسیم اہلِ قلم کے ۱۳ مضامین کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ ان میں اختصار بھی ہے اور موضوع زیربحث کے کسی نہ کسی پہلو کا جائزہ بھی لیا گیا ہے اور اس دلدل سے نکالنے کے لیے قابلِ عمل تجاویز بھی شامل ہوگئی ہیں۔

فرانس ویری لاڈ نے اعلیٰ تعلیم اور عالم گیریت کا جائزہ لیا ہے، جب کہ محمدچھاپرا نے عالم گیریت کے مسئلے کو اسلامی نقطۂ نظر سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایسی    عالم گیریت کی ضرورت ہے جس میں تمام انسانوں کا اور اُن کی ثقافت و تاریخ کا احترام ہو۔

پروفیسر خورشیداحمد کا یہ کہنا ہے کہ عالم گیریت کے سیلاب کا نعروں اور جذباتی فضا پیدا کرنے سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ مسلم دنیا کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ غلامی سے نکل کر خودمختاری کی منزل حاصل ہوسکے۔

محمد عمر چھاپرا کا مضمون: ’مسلم دنیا میں سماجی و اقتصادی انصاف‘ ایک ایسی تحریر ہے جو مسلمانوں کو آئینہ دکھاتی ہے۔ مسموم ثقافت، تعلیم، ذرائع ابلاغ اور عالم گیریت کے زیراثر مسلمان نوجوانوں اور خواتین میں پیدا ہونے والی تبدیلیاں ایک علیحدہ کتاب کا موضوع ہیں؟ امید ہے کہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ان موضوعات پر بھی رہنمائی دے گا۔ (محمد ایوب منیر)

تعارف کتب

  •  قرآن حکیم اورامت مسلمہ، مرتب:محمدمحمودالصواف، ترجمہ :خدابخش کلیارا یڈووکیٹ۔ ناشر:ادارہ معارف اسلامی منصورہ،لاہور۔صفحات:۸۰۔ قیمت:۶۰ روپے۔[اخوان المسلمون کے رہنما محمدمحمود الصواف (۱۹۱۴ء-۱۹۹۲ء) نے مطالعے کے رجحان میں کمی کے پیش نظر بالخصوص نوجوانوں میں قرآن کے فہم کو      عام کرنے کے لیے ایسے مختصر تفسیری کتابچے شائع کرنے کا سلسلہ المکتبہ القرآنیہ کے نام سے شروع کیا  جو عام فہم ہونے کے ساتھ ساتھ دل و دماغ پر قرآن کے اثرات مرتب کرسکیں۔ دل کش اندازِ بیان اور قرآن پر عمل کے لیے تحریک۔اس مفید سلسلے کے دیگر کتابچوں کے ترجمے کی بھی ضرورت ہے۔]
  •  تہذیب الاخلاق، افادات: مولانا اشرف علی تھانویؒ ،مرتبہ: محمداقبال قریشی۔ ناشر: ادارہ تالیفات اشرفیہ، جامع مسجدتھانہ والی، ہارون آباد، بہاول نگر۔ صفحات: ۲۴۰۔ قیمت: ۱۳۵ روپے۔[بعض اخلاقی خامیاں، جیسے بدنگاہی، غیبت، تجسس، بدگمانی، غصہ اور کینہ، اِسراف اور تکبر وغیرہ  کے ازالے کے لیے     مولانا اشرف علی تھانویؒ کے افادات سے رہنمائی کے ساتھ عملی علاج بھی تجویز کیا گیا ہے۔ تزکیہ و تربیت کے لیے اخلاقی خوبیوں کے ساتھ ساتھ صحبت ِ صالح اور شیخ کامل سے تعلق پر بھی زور دیا گیا ہے۔]
  •  نماز کی ظاہری ہیئت اور معنویت ،مرتب: خلیل الرحمن چشتی۔ ناشر: الفوز اکیڈمی، ای-۱۱/۴، گولڑہ، اسلام آباد۔ فون: ۲۲۲۲۴۱۸- ۰۵۱۔ صفحات: ۱۱۸۔ قیمت: ۸۵ روپے۔ [نماز کے فرائض، واجبات، سنن اور مستحبات کے اہتمام کی تلقین۔ دعاے استفتاح، رکوع، قومہ ، سجدہ، جلسہ، سلام سے پہلے اور سلام پھیرنے کے بعد کئی کئی مسنون اذکار اور دعائیں باترجمہ ارکانِ نماز کا خلاصہ، نماز کا حاصل، نمازیوں کی قسمیں اور توحید کی قسمیں۔ نماز کی ظاہری و معنوی حالت کو بہتر بنانے اور خضوع وخشوع پیدا کرنے میں معاون کتاب۔]
  • کرم کی برسات (سفرنامۂ حج)، ڈاکٹر خالد عاربی۔ ناشر: دارالتذکیر، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ،    اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۲۳۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ [حج کے مشاہدات و تاثرات پر مبنی خوب صورت پیراے میں تحریر کی گئی ایمان افروز اور قلبی کیفیات کی آئینہ دار یہ کتاب مطالعے کے دوران قاری پر روحانی اور وجدانی کیفیت طاری کردیتی ہے اور جذبات کو مہمیز دیتی ہے۔ حج کے مسائل کے ساتھ ساتھ حضوؐر کے حج و عمرہ کے اسفار کی تفصیل اور تقاریر کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔]
  • نو زبانی لُغت، پروفیسر عبدالعزیز مینگل۔ ناشر: اُردو سائنس بورڈ، ۲۹۹-اَپرمال، لاہور۔ صفحات: ۶۵۸۔ (بڑی تقطیع)۔قیمت: ۱۰۰۰ روپے۔ [بہ ترتیب حروفِ تہجی اُردو الفاظ کے بالمقابل بتایا گیا ہے کہ آٹھ دیگر زبانوں (براہوی، بلوچی، پشتو، پنجابی، سرائیکی، سندھی، فارسی، انگریزی) میں ان کے مترادفات کیا ہیں۔ مصنف کی محنت قابلِ داد ہے مگر اس کی افادیت محدود ہے۔]
  •  محنت کش، مسائل، مشکلات، حل ،شفقت مقبول۔ناشر: محنت پبلی کیشنز، پوسٹ بکس نمبر۳۲، جی ٹی روڈ، واہ کینٹ۔ فون: ۴۵۳۵۳۳۴- ۴۵۳۷۵۵۰-۰۵۱۔ صفحات: ۱۵۶۔ قیمت: درج نہیں۔ [اس کتاب میں محنت، کسبِ معاش کی اہمیت و فضیلت، مختلف نظریہ ہاے محنت (سرمایہ داری نظام، اشتراکیت اور اسلام کا نظریۂ محنت)، محنت کش کی انسانی تاریخ، دیگر مذاہب میں اور نظاموں میں مزدور کی حالت، نیز پاکستان میں محنت اور محنت کش کی صورت حال، آجر اور اجیر کے درمیان مثالی تعلقات جیسے موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔]

 

احمد علی محمودی ، حاصل پور

’پاکستان اور امریکا کے تعلقات‘ (نومبر ۲۰۰۹ء) میں کیری لوگر بل کا آئینہ سامنے رکھ کر بجا توجہ دلائی گئی ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو ہمیشہ یہ غلط فہمی رہی ہے کہ امریکا ہمارا دوست ہے، جب کہ تاریخ شاہد ہے کہ امریکا کبھی بھی ہمارا دوست نہیں رہا بلکہ اس نے ہر آڑے وقت میں ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔

ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ حکمرانوں کے ذاتی مفادات ہیں جس کی وجہ سے وہ قوم کے سامنے دشمن کو دوست کے روپ میں پیش کرکے سادہ لوح عوام کو دھوکا دیتے ہیں۔ غلط پالیسیوں کے نتیجے میں ملک کی آزادی، خودمختاری اور عزت و وقار کا سودا کر کے اسے امریکا کی غلامی میں دے دینا، تاریخی کامیابی ہے یا تاریخی ذلت؟ حکمرانو! خدارا ہوش کے ناخن لو!

افضال احمد چشتی ،کراچی

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا جرم کیا ہے؟ (ستمبر ۲۰۰۹ء) کتاب پر تبصرہ نظر سے گزرا۔ افغانستان کے بدنام امریکی جیل خانے (بگرام) میں پانچ برس مقید رہنے کے بعد اب مظلومہ عافیہ صدیقی امریکا میں جیل کی صعوبتیں برداشت کر رہی ہے۔ اس پر وحشیانہ مظالم جاری ہیں اور کوئی قصور بھی سامنے نہیں آسکا۔ مسلمان حکمران بھی بے بس اور بے حِس نظر آتے ہیں۔ کسی مسلم حکومت نے کوئی بھرپور احتجاج بھی نہ کیا جس سے اُمت مسلمہ کی غیرت کا اظہار ہوتا۔ حکومتِ پاکستان امریکا کی ہر طرح خدمت کر رہی ہے لیکن اتنا نہ کرسکی کہ خیرسگالی کے اظہار کے طورپر عافیہ صدیقی کو رہا کروا لیتی۔

محمد اسلام علوی ،پشاور

ہمارے حکمرانوں اور میڈیا پر تو جیسے مغرب کا سحر طاری ہوگیا ہے۔ مغربی طرز کے عائلی قوانین،  خاندانی منصوبہ بندی اور اس کے اشتہارات کی بھرمار، مغربی معاشرت کے فروغ کے لیے میڈیا کا استعمال،  فوج میں خواتین کی بھرتی، مخلوط تعلیم اور جنسی تعلیم وغیرہ حکومتی ’کارناموں‘ کی ایک لمبی فہرست ہے۔ مغرب کی اندھی تقلید میںہم یہ بھی بھول گئے ہیں کہ خود مغرب نے اپنے تجربات سے کیا پایا ہے۔ مغرب اور مغربی تہذیب جن مسائل سے دوچار ہے انھیں بھرپور انداز میں سامنے لانا چاہیے تاکہ مغرب کی تقلید کا راگ الاپنے والوں کے سامنے حقیقت ِ حال اور تصویر کا دوسرا رُخ بھی سامنے آسکے۔ کچھ عرصہ قبل ترجمان میں ’افواج میں  خواتین کی بھرتی‘ (جنوری ۲۰۰۹ء) کے مغربی تجربے پر تحقیقی مضمون شائع ہوا تھا، اس نوعیت کی تحریریں بار بار آنی چاہییں تاکہ مغرب کا سحر ٹوٹ سکے اور میڈیا کی یلغار کا بھی مقابلہ کیا جاسکے۔

فضل ہادی حسن ،اسلام آباد

مسلم دنیا بالعموم اور پاکستان بالخصوص گذشتہ نو دس برس سے اپنوں اور دشمنوں کی وجہ سے پیچیدہ ترین حالات سے گزر رہا ہے۔ اسی سلسلے میں ’دہشت گردی‘ کی حالیہ لہر نے پورے ملک کی فضا کو سوگوار بنا دیا ہے۔ تعلیمی ادارے ہوں یا عبادت گاہیں، سب امن و سلامتی کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ ہمیں ’دہشت گردی‘ کا جواب بندوق سے نہیں، بلکہ اصل مسئلے کو حل کرنے سے دینا چاہیے۔ ’آپریشن راہِ راست‘ سے سوات، بونیر اور دیر میں کتنے لوگ راہِ راست پر آگئے اور ’آپریشن راہِ نجات‘ سے کیا ملک کو ’دہشت گردی‘ سے واقعی نجات     مل جائے گی…؟؟ علماے کرام کا خودکش حملوں کو حرام قرار دینے اور محض اخبارات میں اشتہارات لگوانے سے خودکش حملے نہیں روکے جاسکتے۔

اگر ’دہشت گردی‘ کے ایک واقعے پر امریکا پوری دنیا کا منظرنامہ اور نقشہ تبدیل کرسکتا ہے اور     ایک کمیشن بناکر نام نہاد دہشت گردی کے نام پر جاری جنگ کے لیے عوامی تائید اور قوم کا اعتماد حاصل کرسکتا ہے، تو ہم صرف اپنے ملک کی حد تک اس کو حل کرنے اور پُرامن بنانے کے لیے ’دہشت گردی‘ پر ایک اعلیٰ اور  بااختیار کمیشن کیوں نہیں بناسکتے؟ جس میں اسباب، وجوہات اور حقائق سمیت ہر پہلو کا جائزہ لیا جائے اور پُرامن و خوش حال پاکستان کے لیے اس کی سفارشات پر عمل درآمد ہو۔

 

دعوتِ حق اور تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کا کام بالکل ایک کسان کا سا ہوتا ہے۔ ایک مدّت  کھیتی کوتیار کرنے پر صرف ہوتی ہے، پھر اِسے سینچنا ہوتا ہے، پھر اِس میں بیج ڈالنا ہوتا ہے، پھر اِس کے   گرد باڑکھڑی کرنی ہوتی ہے، پھر اس کی نلائی اور گوڈی کرنی ہوتی ہے، اور پھر صبر سے اُس ’اجل مسمّٰی‘ کا انتظار کرنا ہوتا ہے، جب کہ وہ اپنا حاصل دے۔ اگر کسان بے صبرا ہو اور ہل جوتنے کے ساتھ ہی زمین سے مطالبہ کرے کہ لافصل دے، یا بیج ڈالنے کے ساتھ ہی اس سے معاوضۂ محنت طلب کرے، تو زمین اسے  مایوسی و نامرادی کے سوا اور کچھ نہ دے سکے گی! ایسے ہی اقامتِ دین کی جدوجہد کرنے والوں کوانسانی   تمدن و سیاست کی کھیتی پر لمبے صبر کے ساتھ محنت کرنی ہوتی ہے اور نتائج کے لیے اجلِ مسمّٰی کا انتظار پورے سکون سے کرنا پڑتا ہے، تب کہیں جاکے کچھ حاصل پلّے پڑتا ہے۔ ورنہ اگر بے صبری کا یہ عالم ہو کہ ادھر  آپ بیج ڈال کے فارغ ہوئے، ادھر آپ بورے خُرجیاں لے کے  پہنچ گئے کہ بس اب پھلوں اور غلّے کو  گھر پہنچانا ہے، تو ظاہر بات ہے کہ پھلوں اور غلّے کا تو کیا سوال، وہاں تو کھیتی میں کوئی کونپل بھی پھوٹتی ہوئی نظر نہ آئے گی۔ ایسا بے صبرا کسان بددل اور مایوس ہی تو ہوگا!....

اللہ نے تحریکِ حق کے کارکنوں کے لیے صبر سے محنت کرنے کو لازم ٹھیرایا ہے۔ اس مطالبے کو پورا کیے بغیر اگر آپ دن میں ہزار مرتبہ بھی اِس بات کے لیے دعائیں کریں کہ غیراسلامی نظام کا غلبہ ختم ہو اور اسلامی نظام غالب ہوجائے تو ایسی دعائیں موجبِ ثواب سہی ___ لیکن انقلابِ حق کے بپا کرنے میں    یہ بالکل لاحاصل رہیں گی! ایسی دعائوں میں جان اسی وقت آسکتی ہے کہ جب تواصی بالحق کے فریضے کو تواصی بالصبر کے ساتھ کوئی منظم جماعت انجام دے رہی ہو!

پس آپ حضرات اللہ کے قوانین کا طریق کار اگر ذہن نشین کرلیں تو پھر آپ مایوسی کے نرغے سے نکل سکتے ہیں، ورنہ اگر آپ نے کلمٰت اللّٰہ [اللہ کے قوانین] کے مفہوم کو پیشِ نظر نہ رکھا اور ان کے تقاضے پورے نہ کیے تو آپ خود تو قنوطیت کا شکار رہیں گے ہی، نہ جانے اور کتنے حوصلہ مند افراد کے دل   توڑ کے اس دنیا سے رخصت ہوںگے اور اس طرح اندیشہ ہے کہ آپ غلبۂ دین کی حمایت کے بجاے ایک طرح سے صد عن سبیل اللّٰہ کے مجرم قرار پا جائیں۔ وقت ہے کہ آپ اپنے طرزِ فکر کو بدل لیں اور اپنے دلوں میں اُمید اور یقین کے بیج بوئیں! (’ہمارا معاشرہ‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد ۳۳، عدد ۱-۳، محرم، صفر، ربیع الاول ۱۳۶۹ھ، دسمبر ۱۹۴۹ء- جنوری ۱۹۵۰ء، ص۱ ۷-۷۲)