جولائی ۲۰۰۷ء نے پاکستان کی تاریخ میں ایک منفرد حیثیت اختیار کرلی ہے۔ اس مہینے میں تین اہم واقعات رونما ہوئے۔ یہ تینوں واقعات اپنے موضوع اور نوعیت کے اعتبار سے خواہ کتنے ہی مختلف ہوں‘ لیکن ان کا پیغام ایک ہی ہے۔ ہمارا اشارہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خونیں المیے‘ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے بارے میں تاریخی فیصلے‘ اور کُل جماعتی کانفرنس لندن کے نتیجے میں قائم ہونے والی ’آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ‘ (APDM)کی طرف ہے۔
اسے ایک قومی المیے کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ حصولِ آزادی کے ۶۰ویں سال میں ایک بار پھر پاکستانی قوم کو اپنی آزادی اور اپنے نظریاتی و تہذیبی تشخص کی حفاظت کی جنگ لڑنا پڑرہی ہے۔ ستم بالاے ستم کہ اب یہ جنگ بیرونی حکمرانوں کے خلاف نہیں‘ بلکہ اپنی ہی مملکت کے سپوتوں (زیادہ صحیح الفاظ میں:کپوتوں) اور اپنی ہی فوج کی اس قیادت سے لڑی جارہی ہے‘ جو نہ صرف قیامِ پاکستان کے مقاصد کو بالاے طاق رکھ کر بلکہ دستور‘ قانون‘ اجتماعی اخلاقیات اور ہراصول اور ضابطے کو پارہ پارہ کرتے ہوئے تمام حدود کو پھلانگ چکی ہے۔ اسی لیے اہلِ نظر کی راے ہے کہ یہ قیادت عملاً آج کی سب سے بڑی سامراجی اور فرعونی قوت کے اشارۂ چشم و آبرو اور دھمکی آمیز مطالبات کے آگے سپرڈالتے ہوئے خود ملک اور قوم کی آزادی اور شناخت کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔
اس خطرناک کھیل کا آغاز تو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء ہی کو ہوگیا تھا‘ لیکن اس کا اصل چہرہ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کو رونما ہونے والے الم ناک واقعے کے بعد ہی سامنے آیا‘ جب اسلام اور مسلم دنیا کے خلاف امریکی صدر جارج بش نے نئی صلیبی جنگ (crusade) کا آغاز کیا‘اور جنرل پرویز مشرف نے ان کی ایک ہی دھمکی پر اپنا قبلہ تبدیل کرکے پاکستان کی مقدس سرزمین کو ایک مسلمان ملک کے خلاف فوج کشی کے لیے استعمال کرنے کے مواقع فراہم کردیے۔ پھر جنرل موصوف: امریکی حکمرانوں کے عزائم کی برآوری کے لیے خود اپنی قوم اور اس کے دوستوں کے خلاف صف آرا ہوکر معصوم انسانوں کے خون بہانے اور چند کوڑیوں کے لیے ان کو پکڑپکڑ کر وقت کے جلادوں کے حوالے کرنے میں مصروف ہوگئے (جنرل مشرف نے اپنے اس اقدام کا اعتراف اپنی خودنوشت میں بھی کیا ہے)۔اس طرح اپنے حلیفوں کو دشمن بناڈالا‘ اور جو علاقے ہمارے محفوظ قلعے کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان وفاشعاروں کو امریکی افواج کی مسلط کردہ جنگ کی آگ میں جھونک کر خود اپنے قومی مفادات تک سے عملاً دست برداری اختیار کرلی۔ اس ضمن میں تحریک آزادی کشمیر سے عملاً دست برداری‘ ملک کی ایٹمی صلاحیت کی تحدید اور اپنے محسن سائنس دانوں کو مجرم بناکر نشانۂ ظلم و ستم بنانا بھی شامل ہے۔
اس پسپائی اور پالیسی کے باب میں اُلٹی زقند (u-turn) ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ ’روشن خیالی‘ اور ’انتہاپسندی‘ کی مخالفت کے نام پر اسلام کے مسلمہ اصولوں اور تعلیمات تک پر سمجھوتا‘ دینی تعلیمی نظام کی ناکہ بندی کرنے‘ اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے‘ ناچ گانے کے کلچر کی آبیاری کرنے اور سیکولر نظامِ زندگی اور معاشرت کے جبری فروغ کی باغیانہ راہ اختیار کی جارہی ہے۔ ملک کے اقتدار پر قابض گروہ کے اس شیطانی کھیل نے قوم کو نظریاتی طور پر شدید دبائو کا شکار کردیا ہے۔ ریاست کے وہ سارے وسائل جو ایک مقدس امانت کے طور پر ان کے سپرد تھے‘ حکمران طبقے کے ہاتھوں اپنے ذاتی مفادات کے حصول اور امریکی ایجنڈے کو قوم پر مسلط کرنے کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔ اس ناپاک کھیل میں پاکستان کے غیرمتنازع ادارے مسلح افواج کو ملوث کرکے قومی دفاع‘ عالمی تشخص اور ملکی وحدت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اس دفاعی ادارے کو گروہی سیاسی مہم جوئی کے لیے استعمال کرتے ہوئے‘ گذشتہ تین سال سے اپنی ہی قوم کو دبانے اور سیاسی مسائل کو قوت کے ذریعے حل کرنے کے خونیں کھیل میں اسے بے دریغ جھونک دیا گیا ہے۔ صوبہ بلوچستان اور پاکستان کے قبائلی و شمالی علاقہ جات میں پاکستانی فوج کے بے دردانہ استعمال کے بعد جولائی میں‘ اسلام آباد میں مسجد‘ مدرسہ اور ماں‘ بہن اور بیٹی تک کے تقدس و احترام کو نہ صرف پامال کیا گیا ہے‘ بلکہ انھیں گولیوں سے بھون کر قوم اور قوم کی اپنی ہی دفاعی قوت کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ عدالت اور صحافت دونوں کو راستے کی رکاوٹ تصور کرتے ہوئے انھیں مکمل طور پر اپنے قابو میں لانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جس نے پوری اجتماعی زندگی کو خطرات کی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ آج عالم یہ ہے ہرطرف خون ہی خون بہتا نظر آرہا ہے: اپنے ہی جگرگوشوں اور اپنی ہی بیٹیوں کی شہ رگوں کا خون۔ اسلام آباد کے نالوں میں معصوم بچوں اور بچیوں کی نعشوں کے ٹکڑے اور غلیظ پانی پر قرآن پاک کے بکھرے اور تیرتے ہوئے اوراق‘ استغفراللّٰہ۔
اگر صدربش نے افغانستان اور عراق کی سرزمین کو خون کی ندیوں سے سیراب کر دیا ہے تو انھی امریکی حکمرانوں کے ممدوح جنرل مشرف نے یہاں پاکستان میں خون کی ندیاں بہا دی ہیں۔ ایک سیاسی تجزیہ نگار اور مؤرخ ڈاکٹر صفدرمحمود نے بجاطور پر مشرف کے دور کی شناخت کو ’خون کی ارزانی‘ سے تعبیر کیا ہے۔ مہنگائی‘ غربت‘ انتخابات میں دھاندلی‘ پارلیمنٹ کی بے توقیری‘ آمرانہ اندازِ حکومت‘ سب کا ذکر کرنے کے بعد وہ بڑے درد و کرب کے ساتھ لکھتے ہیں کہ: ’’ان [جنرل مشرف] کے عہد کی صرف ایک ہی پہچان نمایاں طور پر اُبھرتی نظر آتی ہے‘ جو ان کے باقی کارناموں کو دھندلا دے گی اور نہ صرف عوامی حافظے بلکہ تاریخ کے صفحات پر بھی باقی رہ جائے گی اور وہ پہچان ہے ’خون‘۔ وزیرستان سے لے کر پشاور‘ اسلام آباد‘ لاہور‘ ملتان‘ کوئٹہ اور کراچی تک بہتا ہوا خون ...معصوم پاکستانیوں کا خون جو کبھی بھی اتنا ارزاں نہ تھا اور جو گذشتہ کئی برسوں سے بہہ رہا ہے: وانا‘ باجوڑ‘ کھپران‘ گلگت‘ فاٹا‘سرحدی علاقوں‘ پشاور‘ اسلام آباد خودکش حملوںسے لے کر لال مسجد تک اور پھر کوئٹہ اور کراچی میں بہنے والا خون۔ معصوم شہریوں اور طلبہ پر بم باری اور حملوں نے ملک میں نہ صرف انتقامی فضا پیدا کردی ہے اور پولیس اور فوج کو انتقام کا نشانہ بنا دیا ہے‘ بلکہ پاکستانی معاشرے میں لاقانونیت‘ عدم تحفظ اور خوف و ہراس بھی پیدا کردیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان پر ’ناکام ریاست‘ کا لیبل لگ رہا ہے۔ اس لیے میں محسوس کرتا ہوں کہ مستقبل میں موجودہ دور کی پہچان ’خون‘ ہوگی، اپنے ہی شہریوں کا خون!‘‘ (روزنامہ جنگ ‘۱۵جولائی ۲۰۰۷ء)
اس خون آشامی کا ایک اور بھی کرب ناک پہلو یہ ہے کہ معصوموں کا یہ خون وقت کی سب سے بڑی سامراجی قوت امریکا کی قیادت کو خوش کرنے کے لیے بہایا جا رہا ہے۔ جس کا اصل ہدف (target) مسلم دنیا کی قوت کو پارہ پارہ کرنا‘ اُمت مسلمہ کو آپس میں دست و گریباں کرکے پورے علاقے کو جغرافیائی طور پر محکوم بنانا‘ ان کے معدنی و قدرتی وسائل پر قبضہ جمانا اورپوری دنیا پر اپنی بالادستی قائم کرنا ہے۔
بلوچستان میں فوج کشی‘ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں خون کی ہولی‘ اسلام آباد میں مسجدوں کا انہدام اور آرمی کیمپ میں بلاکر چیف جسٹس سے بدسلوکی‘ ان کا حبس بے جا میں رکھنا‘ بدنیتی پر مبنی ریفرنس اور معطلی وغیرہ‘ ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اس ضمن میں ایک طرف جنرل مشرف اور ان کے چند ساتھی ہیں‘ جو اپنا کھیل کھیل رہے تھے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی تدبیر اپنا کام کر رہی تھی۔
لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر جس طرح فوج کشی کی گئی‘ جس بے دردی اورسفاکی سے اساتذہ‘ طلبہ اور طالبات کا قتلِ عام کیا گیا۔ پھر جس رعونت سے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کیا گیا‘ جس انداز سے مسجد اور مدرسے کو ’دہشت گردی کے قلعے‘ کی شکل دے کر ملک کے اندر اور ملک کے باہر پوری دنیا کے سامنے پیش کیا گیا‘ اور جس فریب کاری کے ساتھ دروغ گوئی اور دھوکادہی کا مظاہرہ کیا گیا‘ اور جس ڈھٹائی سے حقائق کو چھپایا گیا___ اس رویے نے مدرسے کی انتظامیہ یا طلبہ کی ابتدائی غلطیوں اور طفلانہ حرکتوں کو فی الحقیقت غیرمتعلق بناکر رکھ دیا ہے۔ یوں اپنے نتائج اور اثرات کی شکل میں اس خونیں واقعے کے اصل مقاصد‘ کردار اور اہداف کو بے نقاب کرکے ثابت کردیا ہے کہ اصل مقصد تو فردِواحد کی آمریت کے اصول کو منوانا‘ فوجی قوت کے سیاسی استعمال اور عسکری دبدبے اور اس کے فیصلہ کن رول کی بالادستی قائم کرنا اور امریکا کی خوشنودی کے حصول کے لیے اپنے ہم وطن معصوم انسانوں کا خون بہاکر تمام اہلِ وطن کو دہشت زدہ کرنا تھا۔
مسئلہ ریاست کی رٹ (writ)کا نہیں تھا‘ بلکہ فوجی آمریت اور بش کی سامراجیت کا بول بالا کرنا تھا___ یہی ایشو اب قوم کے سامنے ہے کہ اس ملک کے نظامِ حکومت کو کسی دستور‘ قانون‘ ضابطے‘ نظامِ اخلاق اور عوامی حکمرانی کی بنیاد پر چلنا ہے یا فردِواحد کے آمرانہ استبداد اور فوج کے سیاسی استعمال کے ذریعے قوم کو غلامی میں جکڑنا ہے؟___ مطلب یہ کہ اس ملک کی قسمت کا فیصلہ اس قوم کے منتخب اور اس کے سامنے جواب دہ نمایندوں کو دستور اور قانون کے مطابق کرنا ہے یا امریکی قیادت کی خوشنودی کے حصول اور ان کی دھمکیوں کے زیرسایہ قائم رہنے والی فوجی حکومت کو یہ حق حاصل رہنا ہے؟
اگر بصیرت کی نظر سے دیکھا جائے تو چیف جسٹس کی معطلی‘ نام نہاد ریفرنس اور ملازمینِ ریاست کے ناقابلِ اعتبار بیاناتِ حلفی کی بھرمار میں بھی اصل ایشو یہی ہے___ یعنی دستور اور قانون کی حکمرانی یا قابض حکمران کا یہ زعم باطل کہ وہ جس فرد یا ادارے کو اپنے عزائم کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ سمجھے‘ اسے دستور اور قانون کو بالاے طاق رکھ کر حقارت کے ساتھ اپنے راستے سے اٹھاکر پرے پھینک دے۔ ایشو یہی ایک ہے: آمریت یا جمہوریت‘ من مانے حکم یا دستور اور قانون کی حکمرانی‘ عوام اور پارلیمنٹ کی عمل داری اور اداروں کا استحکام یا فوجی قیادت کی حکومت اور خفیہ ایجنسیوںکی دھونس کے ذریعے حکمرانی کی روایت؟ سپریم کورٹ کے فیصلے کی اصل اہمیت یہی ہے کہ بات صرف چیف جسٹس کی بحالی کی نہیں‘ وہ تو بلاشبہہ ایک ضروری امر تھا‘ لیکن اصل مسئلہ دستور کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کا ہے اور جس میں اصل الاصول یہ ہے کہ کسی کو بھی ایسے شاہانہ اختیارات حاصل نہیں ہیں کہ وہ وردی یا اقتدار کے رعب میں جس کے خلاف جو چاہے اقدام کرڈالے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔
ہم سمجھتے ہیں کہ لال مسجد کے خونیں المیے اور معصوم انسانوں کے قتلِ عام اور عدالت عظمیٰ پر یورش اور اس کے سربراہ کے اداراتی قتل میں ایک گہرا ربط ہے۔ ان دونوں اقدام کی پشت پر وہ بنیادی مسئلہ ہے جس کی جڑیں قوم کی آزادی اور شناخت کے تحفظ‘ دستور اور قانونی بالادستی اور جمہوری نظامِ حکمرانی میں پیوست ہیں۔ اسی لیے ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ لال مسجد اور سپریم کورٹ دونوں کے بارے میں ہونے والی کارروائی اور اس پر عوامی ردعمل اور بالآخر عدالتی فیصلے (verdict) نے آزادی‘ شناخت‘ دستور کی حکمرانی‘ جمہوریت اور فوج کے سیاسی کردار کے مسئلے کو قومی زندگی کا سب سے مرکزی مسئلہ بنا دیا ہے۔
اسی تسلسل میں ’کُل جماعتی جمہوری تحریک‘ (آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ) کے قیام نے یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ آیندہ چند مہینے اس جدوجہد کے لیے کتنے اہم اور فیصلہ کن ہیں۔ پاکستانی قوم آج ایک بار پھر اسی نوعیت کی جدوجہد کے ذریعے اپنی قسمت اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں مصروف ہے‘ جیسا اس نے تحریکِ پاکستان کے دوران کیا تھا۔ فرق یہ ہے کہ اس وقت جدوجہد کا ہدف پاکستان کا قیام تھا‘ اور اب پاکستان کی بقا‘ اس کے استحکام اوراس کی اصل منزل کی طرف پیش قدمی کا چیلنج درپیش ہے۔ تب مقابلہ بیرونی غاصب اور استعماری حکمرانوں سے تھا اور اب ان اندرونی اور غاصب و جابر قوتوں سے ہے‘ جنھوں نے ملک کے اقتدار پر قبضہ کرکے عوام کو ایک تاریخی جدوجہد کے ذریعے حاصل کی جانے والی آزادی‘ خودمختاری اور حق حکمرانی سے محروم کردیا ہے۔ اسی المیے کے ادراک پر ہی مستقبل کی تعمیر کا انحصار ہے۔
گویا کہ آج ملّی اور قومی سطح پر جدوجہد کا اصل ہدف حقیقی اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی اور وفاقی نظام کا قیام ہے۔ یہی وجہ ہے فوج کا سیاسی کردار‘ اس تحریک کے ایجنڈے میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک فوج کو دستور کے تحت سول نظام کے ماتحت اپنے دفاعی کردار تک محدود نہ کردیا جائے۔
اس مسئلے ہی کی تفہیم کے لیے ہم لال مسجد کے خونیں المیے اور عدالت عالیہ کے تازہ فیصلے کے کچھ اہم پہلوؤں پر اہلِ وطن کو غوروفکر کی دعوت دینا چاہتے ہیں۔
لال مسجد‘ اسلام آباد اور جامعہ حفصہ کا مسئلہ اب ایک مسجد اور ایک مدرسے کا مسئلہ نہیں رہا ہے اور نہ دوبھائیوں کے صحیح یا غلط اقدام ہی اس کا محور اور مرکز ہیں۔ یہ بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں پہنچی؟ اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جائے گا۔ ہم اس کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے‘ بلکہ اس مطالبے کی بھرپور تائید کرتے ہیں کہ اس پورے مسئلے اور سانحے کی آزاد‘ بااختیار اور اعلیٰ ترین عدالتی سطح پر تحقیق ہونی چاہیے‘ اور یہ تحقیق کھلی عدالت کے اصول پر ہونی چاہیے۔ جہاں ہرشخص کو گواہی دینے کا موقع ملے تاکہ پورے حقائق قوم کے سامنے آجائیں اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے۔ یہی وقت کی ضرورت اور انصاف کا تقاضا ہے۔
جیساکہ ہم اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ ایک بڑے اور گمبھیر مسئلے کا سر عنوان معلوم ہوتا ہے۔ لال مسجد آج نہیں بنی اور جامعہ حفصہ ۲۰۰۷ء میں منصہ شہود پر نہیں آئی۔ البتہ جنوری ۲۰۰۷ء سے جو قضیہ شروع ہوا اور ۱۰‘ ۱۱ اور ۱۲جولائی ۲۰۰۷ء کو جس خونیں تباہی پر منتج ہوا‘ وہ جرنیل شاہی اور امریکی سامراج کے نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے وسیع کینوس کا ایک اہم حصہ اور اس جنگ کا ایک نہایت اہم پلاٹ اور ایک گہری سازش ہے۔ ایسی سازش کہ جس کا اصل ہدف اسلام‘ اُمت مسلمہ‘ مسلمانوں کا دینی تعلیمی نظام اور پاکستان کا اسلامی کردار ہے‘ جب کہ عالمی سطح پر امریکا اور مغربی تہذیب کی بالادستی کے خلاف مسلمانوں کی تحریک مزاحمت کو ختم کرنا ہے۔ نیتوں کا حال اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور فیصلہ کرنے والی اصل قوت بھی صرف وہی ہے اور یہ بھی وہی پروردگار جانتا ہے کہ کون سادہ لوحی میں الجھ کر دشمن کے کھیل کا حصہ بنا ہے یا واقعی ایسا نہیں ہوا ہے۔ بہرحال‘ یہاں ہم ذاتیات اور ضمنی واقعات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے جن اصولی اور مرکزی امور کی وضاحت اور تفہیم ضروری سمجھتے ہیں‘ ان میں سے چند ایک کی طرف‘ قوم اور اس کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں:
مغربی اقوام اور مفکرین کے بقول: ’’دین اسلام کا یہی جامع تصور مغربی تہذیب کے لیے اصل خطرہ ہے کہ یہ فکرونظر اور تہذیب و تمدن کا ایک بالکل دوسرا مثالیہ (paradigm) پیش کرتا ہے‘‘۔ جو مذہب‘ مغرب کے تصورِ حیات و اقدار کی بالادستی قبول کرنے‘ اس کے زیرسایہ ویسی ہی زندگی گزارنے کے لیے تیار ہو کہ جس سے مغرب کے مفادات پر ضرب نہ پڑے، وہی فرد، معاشرہ اور نظام فکر ’روشن خیالی اور اعتدال پسندی‘ کا علَم بردار ہے۔ اس کے بالمقابل جس دین کا اپنا تصورِ حیات اور تہذیب و تمدن اور معاشرت‘ معیشت اور سیاست کا نظام ہو‘ وہ اس مغربی تہذیب کے لیے خطرہ ہے۔ مغربی جنگجو حکمرانوں اور متعصب پالیسی سازوں کے نزدیک اس خطرے سے نمٹنے کا طریقہ بس یہی رہ گیا ہے کہ اس تصورِ حیات کو ہوّا اور بھوت (demon) بناکر پیش کیا جائے۔ پھر اس کو نیست و نابود کرنے کے لیے ہرممکن حربہ استعمال کیا جائے۔ اسلام کے لیے ’ریڈیکل اسلام‘ (انقلابی اسلام)، ’اسلامک فنڈامنٹلزم‘ (بنیادپرست اسلام)، ’پولیٹیکل اسلام‘(سیاسی اسلام) اور پھر ’اسلامک ٹیررازم‘ (اسلامی دہشت گردی) اور بالآخر ’اسلامک فاشزم‘ (فسطائی اسلام) کی مضحکہ خیز‘خودساختہ اور توہین آمیز اصطلاحات کا استعمال اسی سلسلے کی سوچی سمجھی کارروائی ہے۔ مسلمانوں کی دینی تعلیم کو اسی لیے ہدف بنایا جا رہا ہے اور دینی مدارس اور مساجد کو بھی اسی حوالے سے نام نہاد دہشت گردی کے مراکز قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ ساری منظرکشی (image building) اس لیے ہے کہ نظریاتی‘ سیاسی اور جہاں ممکن ہو مسلمانوں کے خلاف عسکری کارروائیوں کے لیے جواز فراہم کیا جاسکے۔ اسے بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ نادانستگی میں‘ یا مفادات کی اسیری میں کچھ مسلمان بھی دشمنوں کے اس کھیل میں آلۂ کار بن جاتے ہیں‘ اور پھر ایسے جعلی دانش وروں کی بھی کمی نہیں ہے کہ جن کی تحریروں اور فدویانہ گفتگوؤں میں مغرب کے نکتہ سازوں (spin doctors) ہی کی صداے بازگشت سنائی دیتی ہے۔
روزنامہ ڈان کراچی (۲۲ جولائی ۲۰۰۷ء) میں اردشیر کاؤس جی کا مضمون‘ کراچی کے مرکزی تجارتی علاقے آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ڈھائی ایکڑ کے قطعہ زمین کے بارے میں بڑی چشم کشا معلومات پر مشتمل ہے۔ یہ پلاٹ سندھ حکومت نے ریلوے کے استعمال کے لیے دیا تھا‘ مگر فوج کے کوارٹر ماسٹر جنرل‘ لیفٹیننٹ جنرل افضل مظفر کے ایما پر‘ وزیراعلیٰ سندھ ارباب عبدالرحیم نے اپنے قانونی اختیارات سے تجاوز کرکے اور سرکاری طور پر قائم ۱۴ رکنی کمیٹی کی سفارشات کو نظرانداز کرتے ہوئے ‘۴۳ منزلہ دوہرے مینار کے ’کراچی فنانشل ٹاور‘ کو تعمیر کرنے کی اجازت عطا فرمائی ہے۔ جس کا انتظام و انصرام ایک فوجی ادارے نیشنل لاجسٹک سیل (NLC) کے سپرد ہوگا اور سرمایہ کاری احسان ہولڈنگ دوبئی کے تعاون سے ہوگی۔ اس تعمیراتی منصوبے پر کراچی کے عوام اور انتظامیہ سراپا احتجاج ہیں‘ مگر فوجی قیادت اور اس کی شریک کار نام نہاد سیاسی انتظامیہ نے اس احتجاج کو پرکاہ کی حیثیت نہیں دی۔
دوسری خبر ۲۵ جولائی کے ڈیلی ٹائمز لاہور کی ہے ‘جس میں بتایا گیا ہے کہ صرف لاہور میں ۳۵اسکول کئی سال سے چیخ رہے ہیں کہ ان کی زمینوں پر لینڈمافیا قابض ہے ‘جن کے سامنے حکومت اور قانون بے بس ہیں___ صاف ظاہر ہے کہ جامعہ حفصہ کا مسئلہ محض چند گز زمین کا مسئلہ نہیں تھا‘ کہ جس کے لیے یہ چنگیزی ڈراما رچایا جاتا۔
دوسرا ایشو جامعہ حفصہ کے طلبہ و طالبات کی ان سرگرمیوں کو قرار دیا جاتا ہے‘ جو پچھلے چند ماہ میں رونما ہوئیں (واضح رہے کہ جامعہ کے قیام سے سے اس سال کے آغاز تک ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا تھا اور نہ اسلام آباد کے ۸۰ دوسرے مدارس میں اور پاکستان کے سرکاری اعلان کے مطابق ۱۷ ہزار سے زائد مدارس کے طلبہ نے کبھی کوئی ایسا اقدام کیا تھا)۔ اس جامعہ کے طلبہ اور طالبات کے چند ایسے اقدام جن کے بارے میں ملک کے تمام ہی دینی قائدین اور تعلیمی اداروں کے ذمہ داران اپنے ذہنی تحفظات کا اظہار کرتے رہے‘ انھیں جس طرح پاکستان ہی میں نہیں پوری دنیا میں اُبھارا (project) گیا‘ وہ بڑا معنی خیزہے۔
جس ملک میں جرائم روز افزوں ہوں‘ اغوا براے تاوان کے واقعات عام ہوں‘ پولیس اور انتظامیہ قانون نافذ کرنے میں ناکام ہو‘ افراد اور ادارے پرائیویٹ سیکورٹی کے حصول کے لیے اپنے آپ کو مجبور پاتے ہوں‘ جہاں ایم کیو ایم جیسی تنظیمیں بھتہ خوری اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کیے رکھیں اور کوئی ان سے پوچھنے والا نہ ہو‘ بلکہ مسلح افواج کا سربراہ ببانگ دہل ان کی پشت پناہی کر رہا ہو___ وہاں چند طالبات کا دینی جوش و جذبے ہی میں سہی ایسے چند اقدام کرنا اتنا بڑا جرم کیسے بن گیا؟ وہ اقدام کہ جن کے نتیجے میں کسی جان کا ضیاع تو دُور کی بات ہے کسی کی نکسیر بھی نہ پھوٹی ہو اور نہ کوئی دست و گریباں ہی ہوا ہو‘ وہاں ایسی فوج کشی کی جائے کہ مسجد کا تقدس پامال ہو‘ مدرسے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے اور اسے بالآخر منہدم کر دیا جائے‘ سیکڑوں افراد شہید کردیے جائیں اور فوج کے کمانڈوز (ایس ایس جی) کا اس طرح استعمال کیا جائے کہ جیسے دشمن کے بہت بڑے قلعے کو فتح کیا جا رہا ہو۔ حکمران طبقے نے ساری دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی کہ جامعہ حفصہ میں بارودی سرنگیں ہیں‘ توپیں‘ میزائل اور خطرناک اسلحے کے انبار ہیں اور نہ معلوم کون سی تربیت یافتہ فوج ہے جو وہاں قلعہ بند ہے۔
چاروں طرف سے گھر جانے اور پانی‘ بجلی‘ سوئی گیس کی ناکہ بندی ہوجانے کے بعد چند طلبہ آخری مرحلے میں بہرحال غیرقانونی ہتھیاروں سے اپنا دفاع کررہے تھے۔ اگر فی الحقیقت ان کے پاس وہی اسلحہ موجود تھا کہ جس کا شور ہر طرف بپا کیا گیا تھا‘ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان محصور‘ مجبور اور موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنے والوں نے اسے استعمال کیوں نہیں کیا؟پھر جس اسلحے کی بعد میں نمایش کی گئی‘ اس کے بارے میں ملکی اور غیرملکی صحافیوں سب نے لکھا کہ ان کا کوئی تعلق جامعہ کے طلبہ یا محافظوں سے ثابت نہیں کیا جاسکا۔ رہا چند دن کی مزاحمت کا مسئلہ تو روزانہ کشمیر میں دو دو اور تین تین مجاہد کئی کئی گھنٹے نہیں‘ کئی کئی دن صرف ایک دو کلاشنکوفوں کے ذریعے بھارت کی باقاعدہ فوج کے بڑے بڑے دستوں کو مصروف رکھتے ہیں۔
مسجد اور مدرسے کی انتظامیہ سے انتظامی اور اصولی سطح پر جو غلطیاں ہوئیں اور طلبہ و طالبات نے اچھے مقاصد کے لیے جو غیرمتوازن طریقے استعمال کیے‘ ان پر ناپسندیدگی اور گرفت کا اظہار دینی اور تعلیمی حلقوں نے بروقت کیا اور اصلاح احوال کی کوشش بھی کی (دیکھیے: جامعہ حفصہ کا سانحہ، مولانا زاہد الراشدی)۔ لیکن حکومت‘ اور مدرسے کی انتظامیہ دونوں ہی معاملات کو طول دیتے رہے۔
اس آپریشن کی تمام تر بنیاد جھوٹ‘ مبالغے اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مسجد‘ مدرسے اور اس کے طلبہ کے بارے میں ایسی تصویرکشی پر مبنی ہے جو بش کے عراق پر حملے سے پہلے عراق کے ایٹمی ہتھیاروں کے واویلے کی یاد دلاتی ہے۔ جس طرح وہ فضا بنائی گئی تھی‘ بالکل وہی طریقہ اسلام آباد اور پاکستان کے دینی اداروں کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ جو اصل حقائق تھے‘ ان کو جاننے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور اگر کسی نے ان کی طرف توجہ بھی دلائی تو اسے نظرانداز کردیا گیا۔ ہم مسجد اور مدرسے کی انتظامیہ کے اقدامات کی تائید نہ کرنے کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ جرنیلی آمریت‘ لبرل فسطائی قوتوں اور عالمی میڈیا نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
اپنے تحقیقی تجربے کے پورے دورانیے میں‘ مجھے کبھی ایسا معاملہ درپیش نہیں آیا کہ انسان نے جو کچھ میدان میں دیکھا ہو وہ عام عوامی تاثر میں یک سر مختلف ہو۔ جامعہ حفصہ کی طالبات اور لال مسجد کے قائدین و طلبہ کے اقدامات‘ ذرائع ابلاغ میں شدید تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں کہ وہ ملک میں اپنی تعبیر اسلام نافذ کرنے کی کوشش کرکے دوسرے لوگوں کی آزادیوں پر دست اندازی کے مُرتکب ہورہے ہیں۔ تاہم‘ انھی لبرل حلقوں سے نسبت رکھنے کے باوجود‘ میرا تجربہ اور مشاہدہ مختلف ہے۔ عبدالرشید غازی کے مجھے دیے گئے متعدد انٹرویو اور جامعہ حفصہ کے کئی بار دورے کا تجربہ اس خوف ناک تصور کو سہارا دینے میں مددگار ثابت نہیں ہوا۔ دوسروں کے ردعمل دیکھ کر‘ میں باربار حیران ہوتی ہوں کہ ایسا ردعمل کیوں ہے؟ میں جب اس مدرسے کی حدود میں داخل ہوئی تو مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ کسی لڑکیوں کے کالج کا ہوسٹل ہے۔ لڑکیاں اسلام کی انتہائی کٹر اور سخت گیر تعبیر کرتی ہیں‘ لیکن جو کچھ وہ کہتی ہیں اُس میں شعور موجود ہوتا ہے۔ گفتگو اور بحث و مباحثے کے دوران وہ: قبائلی علاقوں میں حکومت کے غیرقانونی اقدامات یا فوجی آپریشنوں‘ لاپتا لوگوں کے معاملات‘ الیکٹرانک میڈیا کو بہت زیادہ چھوٹ دینے اور ریاستی نظام کے عمومی انتشار کے احوال (جہاں حکومتی اداروں سے کوئی بھی عام شہری کام نہیں کراسکتا‘ جب تک اُس کے [بڑے لوگوں سے] تعلقات نہ ہوں) جیسے موضوعات پر بڑے اعتماد کے ساتھ اور جم کر بات کرتی ہیں۔ وہ سیاہ برقعوں میں نہیں‘ بلکہ اپنے گرد لپیٹے ہوئے دوپٹوں میں ہنستی اور ایک دوسرے سے خوش گوار گفتگو کرتی ہیں۔ وہ آپ میں دل چسپی لیتی ہیں اور یوں لگتا ہے کہ وہ عام کالج کی لڑکیوں جیسی ہی لڑکیاں ہیں‘ تاہم قدامت پرست ذہنی رجحان کے ساتھ۔
بہرحال اپنے ٹی وی انٹرویو کے دوران وہ جس معاملے کو پیش پیش رکھتی ہیں‘ کیا یہی اُن کا اصل رُوپ ہے؟میرے خیال میں‘ اس تاثر کا بہت زیادہ تعلق اُن کے لباس سے ہے۔ مدرسے میں کئی بار جانے کے دوران میں‘ مَیں نے ایک تقریب میں بھی شرکت کی۔ یہ نعت گوئی یا مذہبی موضوع پر تقریری مقابلہ تھا۔ مدرسے کے کھچاکھچ بھرے صحن میں ۳ ہزار لڑکیاں تو ضرور موجود ہوں گی اور کچھ لڑکیوں کی مائیں بھی وہاں موجود تھیں۔ اس پروگرام میں حکومت کے خلاف انتہائی ظریفانہ خاکے (skits) پیش کیے گئے۔ مدرسے کی طالبات پرویز مشرف یا اعجازالحق یا دیگر وزرا اور ذرائع ابلاغ کے نمایندوں کا روپ دھارے ہوئی تھیں۔ ان خاکوں میں حکومت کی کارکردگی پر بڑے لطیف پیرایے میں تنقید کی گئی تھی۔ اس تقریب کا منظرنامہ‘ ان پروگراموں کی یاد دلا رہا تھا جو پاکستان کے عمومی کالجوں میں ہوتا ہے۔
اسی طرح ڈھائی مہینے پاکستان کے چپے چپے پر پھیلے مدرسوں میں انٹرویو کرنے کے بعد جب مجھے عبدالرشید غازی سے انٹرویو کا موقع ملا تو وہ یقینی طور پر نفرت پھیلانے والے بنیاد پرست نظر نہیں آئے۔ اُن تک پہنچنا آسان ہے۔ وہ آپ کو وقت دیتے ہیں اور جدید دنیا کی حقیقتوں سے بھی خوب آگاہ ہیں۔ ہاں‘ یہ بات درست ہے کہ مدرسے میں ایک بندوق بردار [گن مین] بھی موجود ہے‘ لیکن ایک ایسے ملک میں کہ جہاں علما کا قتل ایک معمول ہو‘ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اُنھوں نے اپنے اردگرد سیکورٹی کے مزید انتظامات کیوں نہیںکیے ہیں‘ خصوصاً ایک ایسے وقت میں کہ جب وہ سرفہرست نشانے پر ہیں۔ مجھے ان ملاقاتوں اور رابطوں کے بعد جس چیز نے پریشان کیا‘ وہ یہ تھی کہ ذاتی طور پر دورہ کرنے کے بعد جامعہ حفصہ سے جو تصور بنتا ہے وہ کسی تشدد پسند (militant) ادارے سے یک سر مختلف ہے۔ مجھے کئی لوگوں نے بتایا کہ اس مدرسے میں داخل ہونے کے لیے تمھیں دل گُردے کی ضرورت ہوگی۔ لیکن اس مدرسے کا پُرامن ماحول دیکھ کر مجھے لوگوں کے اس تبصرے پر حیرت ہوئی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ غازی برادران نے اپنے بارے میں انتہائی پُرتشدد ہونے کا تاثر کیوں پیدا کیا؟کیونکہ جب آپ اُن سے ملنے کے لیے جاتے ہیں‘ تو اُس سے بالکل مختلف تصور پیدا ہوتا ہے۔ اس بات کو دو طریقوں سے سمجھا جاسکتاہے: اوّل‘ اگر یہ حقیقتاً خفیہ ایجنسی کا آپریشن تھا تب تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے‘ کیونکہ خفیہ ایجنسیاں یہی چاہتی ہیں کہ وہ انتہاپسند اور تشددپسند کا تصور اُبھاریں اور اُنھوں نے ان بھائیوں سے کہا ہوگا کہ وہ انتہاپسندانہ رویہ اختیار کیے رکھیں۔ دوم: اگر یہ ایجنسی کا آپریشن نہیں تھا اور مدرسے کے ساتھ کئی بار رابطہ رکھنے کے بعد میرے خیال میں یہی معاملہ تھا (اگرچہ کوئی بھی فرد یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا)‘ تب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھائیوں نے اس قدر انتہاپسند موقف کیوں اختیار کیا؟ کیا وہ حقیقت پسندانہ طور پر سمجھتے تھے کہ واقعی وہ حکومت پر کنٹرول حاصل کرکے شریعت نافذ کرسکتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ اُنھوں نے اس قدر انتہائی اقدامات اس لیے اٹھائے تاکہ اپنا وجود برقرار رکھ سکیں‘ نہ کہ حقیقی طور پر شریعت نافذ کرنے کے لیے۔ اس معاشرے میں میرے ساتھی جو لبرل طبقات سے تعلق رکھتے ہیں‘ وہ کسی تحقیق کے بارے میںاسے معقول دلیل قرار دیں گے کہ آپ اپنے مطالعے کے ہدف کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اُسے سمجھنے کی کوشش کریں۔
میں جامعہ حفصہ کی طرف ایک اور انداز سے دیکھتی ہوں۔ میں نے ملک بھر کے ۷۰سے زائد مدارس کے دوروں اور مصاحبوں (انٹرویوز) کے بعد جامعہ حفصہ کا دورہ کیا۔ میرے خیال میں ان تمام ہی مدرسوں میں حکومت کی امریکا نواز پالیسیوں‘ قبائلی پٹی میں حملوں‘ لاپتا لوگوں کے مسئلے‘ مدرسوں اور اسلام کو تحقیری لہجے میں پیش کرنے اور ذرائع ابلاغ کو بے حدوحساب چھوٹ دینے کے بارے میں تشویش کااظہار کیا گیا۔ اُن کی راے میں یہ ملک اسلام کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔
جب آپ دیکھتے ہیں کہ معاشرے کی اتنی بڑی تعداد چند اُمور پر تشویش کا اظہار کرتی ہے‘ تب سمجھ لینا چاہیے کہ یہ چند افراد کا خلجان نہیں ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم اور معاشرے کے چند دیگر طبقات کی طرف سے جامعہ حفصہ کو دبانے کے لیے قوت کے استعمال کے مطالبے غیرحقیقت پسندانہ ہیں۔ قدامت پرست اقدار رکھنے والے یہ لوگ بھی تو بہرحال آپ کے معاشرے کا حصہ ہیں اور اُن کی تعداد بہت بڑی ہے۔ پُرتشدد اسلام پسندی کے ایسے مظاہر کو روکنے کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ حکومت ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی پالیسیوں کی اندھی پشتی بان نہ بنے‘ کیونکہ ان کی وجہ سے علما کو یہ قوت مل جاتی ہے کہ وہ بڑی تعداد میں اپنے پیروکاروں کو حرکت میں لے آئیں۔(The Puzzle of Jamia Hafsa ،دی نیوز انٹرنیشنل، ۴مئی ۲۰۰۷ء)
ہم نے ڈاکٹر مسعودہ بانو کے مضمون سے طویل اقتباس اس لیے دیا ہے کہ ایک غیر جانب دار لبرل دانش ور خاتون بھی ان حقائق کی طرف متوجہ کر رہی ہے جنھیں یک سر نظرانداز کر کے سیاسی طالع آزما اور لبرل دانش ور آنکھیں بند کرکے استعماری قوتوں اور فوجی آمروں کی ہاں میں ہاںملانا اپنی معراج سمجھ رہے ہیں۔
جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے خونیں انجام کے دو روز بعد ڈاکٹر مسعودہ بانو کا تبصرہ بھی اس لائق ہے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ وہ دی نیوز میں لکھتی ہیں:
واہ! نام نہاد لبرل جیت گئے۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر بے رحمی سے حملہ کیا گیا‘ [عبدالرشید] غازی‘ ان کی والدہ اور ان کے سیکڑوں شاگرد [طلبہ و طالبات] مارے گئے۔ حکومت نے دارالحکومت کے عین قلب میں انتہائی سفاکانہ قتلِ عام کیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہی لبرل جو امن کی بات کرتے ہیں اور عراق پر جارحیت اور جنگ پر احتجاج کا علَم بلند کرتے ہیں‘ نہ صرف یہ کہ انھوں نے اس [فوجی آپریشن] کی حمایت کی حتیٰ کہ حکومت کو اس پر مبارک باد بھی دے رہے ہیں۔ لیکن کم از کم وہ لوگ جو اس حوالے سے خامہ فرسائی کرتے رہتے ہیں‘ ان کو اس قسم کے مطلق دعوؤں سے اجتناب کرنا چاہیے کہ اکثریت اس سے خوش ہے (یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جو ایک اخبار نے کیا)۔مجھے بطور محقق اس دوران غازی اور مدرسے کے اندر موجود لوگوں کے متعلق [بہت کچھ] جاننے کا موقع ملا‘ اور میں ایک ایسی عورت کی حیثیت سے کہ جو برداشت پر یقین رکھتی ہے اور جو انسانی جان کا احترام کرتی ہے‘ یہ کہنا چاہتی ہوں کہ میں اس تمام آرمی ایکشن کو ایک جرم کی طرح دیکھتی ہوں‘اور میں ایسے بہت سے لوگوں کو جانتی ہوں جو اسی طرح دیکھتے ہیں۔ اس وقت پاکستان ایک بٹے ہوئے گھر کی طرح ہے۔محض اغوا اور حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے جیسے جرائم کی بنا پر کس نے حکومت کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے ہی عوام کا یوں قتلِ عام کرے؟ انھوں نے‘ غازی برادران اور ان کے شاگردوں نے‘ نہ کسی کو قتل کیا اور نہ جسمانی طور پر نقصان پہنچایا‘ تو پھر کس طرح ان کی سزا اس قدر شدید ہوسکتی ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس تمام خوں ریزی سے بآسانی بچا جاسکتا تھا‘ اگر جنرل مشرف کا ایک ایسے وقت میں مغرب کو اپنی وفاداری کا ثبوت فراہم کرنے جیسا مخصوص مقصد نہ ہوتا‘ جب کہ وہ انتہائی کمزور ہوچکے ہیں اور انھیں مغرب کی حمایت کی شدید ضرورت ہے۔ دوسری صورت میں‘ قتلِ عام کے بغیر مسئلے کو حل کرنے کے لیے بہت سے ایسے اقدامات ممکن تھے جو اٹھائے جاسکتے تھے۔ بجلی‘ پانی اور گیس کاٹ دینے سے کم از کم لڑکیوں کو جلد یا بدیر باہر آنے پر مجبور کیا جاسکتا تھا۔ اسی طرح اگر مذاکرات کے لیے مزید کچھ دن دے دیے جاتے تو یقینا پاکستان کے وجود کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہوسکتا تھا۔ (What a Victory!‘دی نیوز‘ ۱۳جولائی ۲۰۰۷ء)
وہ اپنے فکرانگیز تبصرے کے اختتام پر لکھتی ہیں:
لال مسجد کے باب کو ختم کرنے سے پہلے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کس چیز نے [عبدالرشید] غازی کو (جس نے پوسٹ گریجویٹ ڈگری لے رکھی تھی) اور اُن کے طالب علموں کو (جن کی اکثریت متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی اور جو میٹرک یا ایف اے کے بعد وہاں آئے تھے) اس مزاحمت پر مجبور کیا۔ ذرائع ابلاغ میں اُن کے حوالے سے ہونے والی بحث کا ارتکاز اُن کی جانب سے عوامی اخلاقیات سنوارنے کی مہم پر تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ انتہائی بنیادی انسانی حقوق کے مطالبات کی بنا پر حرکت پذیر ہوئے تھے۔ وہ قبائلی علاقوں میں ان ملٹری آپریشنوں کے خاتمے کے لیے دلائل دے رہے تھے‘ جو عام شہریوں کی ہلاکت کا باعث بن رہے تھے۔ وہ ملک میں مقدمہ چلائے بغیر لوگوں کو امریکا کے حوالے کرنے کی مخالفت کر رہے تھے۔ ہم میں سے جن لوگوں نے مدرسے میں جانے اور اُن سے اور اُن کے طلبہ سے بات چیت کرنے کی زحمت کی‘ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ بہ تکرار قانون کی بالادستی کی بات کرتے تھے۔ اپنے اہداف کو کامیاب بنانے کے لیے اُنھوں نے جو راستہ اختیار کیا‘ بلاشبہہ وہ درست راستہ نہ تھا‘ لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ کس چیز نے اُنھیں اور اُن کے پیروکاروں کو اس جدوجہد پر آمادہ کیا‘ کیونکہ حتمی طور پر اخلاقی خیالات و نظریات کی مُدلل قوت ہی لوگوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی زندگی نچھاور کردیں۔ کوئی بھی شخص‘ حتیٰ کہ انتہائی غریب شخص بھی کسی معمولی بات کے لیے اپنی جان نہیں دے سکتا۔ (دی نیوز‘ ۱۳ جولائی ۲۰۰۷ء)
ہم سمجھتے ہیں کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا مسئلہ کوئی منفرد واقعہ نہیں‘ بلکہ امریکا اور جنرل مشرف کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تحت دہشت گردی کے نام پر جرنیلی آمریت کو مستحکم کرنے اور عالمی سامراج کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا مذموم کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اسی لیے جہاں ہم ایک طرف اس پورے کھیل کا پردہ چاک کرنے کو اوّلیت دیتے ہیں اور اسے وسیع تر تناظر میں دیکھتے ہیں‘ وہیں ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سانحے کی تحقیق کے لیے اعلیٰ ترین سطح پر عدالتی کمیشن قائم کیا جائے‘ جو سارے پہلوؤں کاجائزہ لے اورخصوصیت سے ان سوالوں کا جواب دے کہ:
۱- لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی انتظامیہ اور طلبہ و طالبات پر جو الزامات لگائے جارہے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے‘ اور حالات کو اس مقام تک لانے میں کون کون سی قوتیں کس درجے میں شریک تھیں___ ہر ایک کا کردار اور رول بالکل کھل کر سامنے آئے۔
۲- جنوری ۲۰۰۷ء سے پہلے کوئی مسئلہ کیوں پیدا نہیں ہوا ‘اور وہ کیا خاص حالات اور اسباب ہیں جن کی وجہ سے جنوری سے جولائی تک مختلف واقعات رونما ہوئے؟
۳- انتظامیہ اور طلبہ و طالبات کی اصل شکایات کیا تھیں اور ان کو رفع کرنے کے لیے کیا کیا گیا؟
۴- انتظامیہ اور طلبہ و طالبات سے کیا غلطیاں سرزد ہوئیں اور حالات کی اصلاح اور افہام و تفہیم کے ذریعے معاملات کو طے کرنے کی کیا کوششیں ہوئیں‘ کیا معاہدے ہوئے‘ کس نے ان معاہدوں کو سبوتاژ کیا اور مصالحت کا عمل کیوں کامیاب نہ ہوا؟
۵- اس پورے معاملے میں حقیقی تشدد کا کتنا حصہ ہے اور کون اس کا ذمہ دار ہے؟
۶- کیا حکومت کے پاس کوئی مذاکراتی حکمت عملی اور اختیار تھا؟ اور کیا عالمی تجربات کی روشنی میں قوت کے استعمال کے بغیر مسئلے کا حل ممکن نہیں تھا؟ اگر ایسا تھا تو کیا ضروری حد تک قوت کا استعمال ہوا یا قوت کا بے رحمانہ‘ بے محابا اور سفاکانہ استعمال کیا گیا؟
۷- یہ سوال بھی اہم ہے کہ قوت کے استعمال کے لیے جس دستوری اور قانونی جواز کی ضرورت ہے‘ وہ پورا کیا گیا؟ اسلام آباد میں سول اتھارٹی کون ہے؟ پولیس کے ذریعے مسئلے کو کیوں حل نہیں کیا گیا؟ پولیس اور رینجرز کو کئی مہینے اسلام آباد کس اتھارٹی کے تحت لایا گیا‘ اور ان کو کیوں واپس کیا گیا؟ آخری فوجی آپریشن کا فیصلہ کس نے کیا اور کس دستوری اختیار کے تحت کیا گیا؟ اس میں سول انتظامیہ‘ کابینہ‘ چیف آف آرمی اسٹاف ہرایک کا کیا کردار ہے؟
۸- سپریم کورٹ کے بنچ نے مفاہمت کے ذریعے مسئلے کے حل کے لیے ہدایات جاری کی تھیں‘ ان کا کیا بنا؟ عدالت کا کیا رول رہا اور انتظامیہ نے عدالت کے احکام کے الفاظ اور اسپرٹ کی کہاں تک پیروی کی؟
۹- مسجد اور مدرسے میں موجود افراد اور اسلحے وغیرہ کے بارے میں حکومت کے دعوے کیا تھے اور حقیقت کیا نکلی؟ فوجی آپریشن کے لیے جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ کہاں تک ضروری تھا؟ جانی اور مالی نقصان کی صحیح پوزیشن کیا ہے؟ فی الحقیقت کتنے اساتذہ‘ طلبہ و طالبات اور دوسرا عملہ مسجد و مدرسے میں تھا؟ کُل اموات کتنی ہوئیں؟ قرائن و شواہد بتاتے ہیں کہ طالبات‘ طلبہ اور اساتذہ کو اس سے کہیں زیادہ تعداد میں قتل کیا گیا کہ جتنی تعداد حکومتی ترجمان بتاتے ہیں۔ اس قتلِ عام کی باقاعدہ اعلیٰ سطحی تحقیقات ہونی چاہییں۔
۱۰- فوج نے جو ہتھیار استعمال کیے‘ وہ کون کون سے تھے؟ مدرسے کے طلبہ کی طرف سے کون سے ہتھیار استعمال ہوئے؟ انٹرنیٹ پر موجود مضامین اور روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والی تصاویر میں ’سفید فاسفورس‘ کے سفاکانہ استعمال کے شواہد کی کیا حقیقت ہے؟۱؎ کیمیکل اسلحے کے استعمال کا کس نے حکم دیا تھا؟ عمارت کے اندر آگ لگنے‘ لاشوں کے جھلسنے اور اس کے اسباب کا تعین ضروری ہے‘ نیز کس قسم کی گیسوں کا استعمال اس آپریشن میں کیا گیا اور ان کے کیا اثرات رونما ہوئے؟
۱۱- جس اسلحے کی نمایش کی گئی ہے‘ اس کی حقیقت کیا ہے؟
۱۲- مسجد میں طلبہ اور طالبات کو یرغمال بنائے جانے کے دعوے کی کیا حقیقت ہے؟ محاصرے کے دوران علما‘ صلح کاروں اور میڈیا کے نمایندوں کو مسجد اور مدرسے میں جانے سے
۱- یاد رہے کہ حکومت کے فوجی اور سول ترجمان اس امر سے مسلسل انکار کرتے رہے‘ تاہم ۲۶ جولائی کو وفاقی وزیر مذہبی امور اعجازالحق نے اعتراف کیا: ’’لال مسجد آپریشن میں فاسفورس بم استعمال کیے گئے تھے‘‘۔ (روزنامہ نوائے وقت‘ لاہور‘ ۲۷ جولائی ۲۰۰۷ء)
کس نے روکا؟ آپریشن کے بعد بھی دو دن مسجد اور مدرسے میں میڈیا کو داخل ہونے سے کیوں روکا گیا؟ اس زمانے میں اندر کیا کچھ ہوا؟ چار سو کفن منگوانے کے بعد صرف ۹۲لاشوں کی تدفین کا معما کیا ہے؟ بی بی سی کے نمایندے کو گورکن نے بتایا کہ ایک ایک قبر میں دو دو لاشیں ہیں۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟
۱۳- مسجد کی بے حُرمتی‘ قرآن پاک اور دینی کتب کی بربادی اور مسجد میں جوتوں سمیت جانا اور فوجی ترجمان کا یہ فتویٰ نشر کرنا کہ آپریشن کے دوران اس جگہ کی حیثیت مسجد کی نہیں رہی ہے‘ کہاں تک صحیح ہے؟ قرآن پاک کے جلائے جانے اور قرآن کے اوراق کی بے حُرمتی کے بارے میں سپریم کورٹ کے بنچ نے بھی سوال اٹھائے ہیں۔ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے اور اس سلسلے میں سارے حقائق قوم کے سامنے آنے چاہییں۔
یہ اور متعدد دوسرے سوالات ایسے ہیں جن کے مبنی برحق جواب قوم کے سامنے آنا ضروری ہیں‘ اور پھر ان جوابات کی روشنی میں جس نے جس حد تک دستور‘ قانون اور اصولِ انصاف سے انحراف کیا ہے‘ اس کی ذمہ داری کا تعین اور قرارواقعی سزا کا اہتمام۔
ہم پوری ذمہ داری سے یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے۔ جو کچھ ہوا ہے وہ ہماری تاریخ کے الم ناک ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح برطانوی استعمار کے ایک کارندے جنرل ڈائرنے ۱۹۱۹ء میں امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں کئی سو ہندستانیوں کو گولیوں سے بھون کر رکھ دیا تھا‘ پاکستان کی تاریخ میں ایک سیکولر اور نام نہاد روشن خیال جرنیل نے صدربش اور مغرب کے سامراجی حکمرانوں کی خوش نودی اور انھیں اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر یورش اور خون کی ہولی کھیل کر ویسا ہی بدترین اقدام کیا ہے۔ تاریخ تو اس ظلم برپا کرنے والوں کو معاف نہیں کرے گی، لیکن ملّت اسلامیہ پاکستان کا بھی فرض ہے کہ وہ اس کشت و خون کے ذمہ داروں کا احتساب کرے‘ اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ احتساب بھی دستور اور قانون کے مطابق ہو___ ایک سفاکیت کا جواب دوسری لاقانونیت سے نہ دیا جائے___ لاقانونیت اور دہشت گردی کو روکنے کا اصل ذریعہ سب کے لیے قانون کی حکمرانی اور کھلے انداز میں احتساب اور انصاف کا قیام ہے۔ یہی راستہ معقول بھی ہے اور خیر اور صلاح بھی صرف اسی کے ذریعے رونما ہوسکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے ۱۳ رکنی بنچ کے ۲۰جولائی ۲۰۰۷ء کے فیصلے نے قوم کو یہ اُمید دلائی ہے کہ اعلیٰ عدالت نظریۂ ضرورت کے شیطانی چکر سے نکلنے کی طرف بڑھ رہی ہے اور عوام کو یہ اعتماد حاصل ہو رہا ہے کہ اس ملک کے کمزور اور مظلوم انسانوں کے لیے بھی انصاف کا حصول ممکن ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے ملک اپنی حقیقی منزل کی طرف گامزن ہوسکے گا۔
۲۰ جولائی ۲۰۰۷ء کا فیصلہ گہرے غوروخوض کا متقاضی ہے مگر اس کا حق اسی وقت ادا ہوسکے گا جب عدالت اپنا تفصیلی فیصلہ دے گی۔ البتہ مختصر فیصلے نے جو تاریخی خدمت انجام دی ہے‘ اس کا ادراک ضروری ہے۔ ہماری نگاہ میں درج ذیل پہلو غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں:
۱- عدالت نے کوئی مبہم یا نیمے دروں نیمے بروں راستہ اختیار نہیں کیا‘ بلکہ دوٹوک الفاظ میں ایک واضح فیصلہ دیا ہے‘ جس نے قوم کو اُمید کی نئی کرن دکھائی ہے۔ اس پر عدالت پوری قوم کی طرف سے ہدیۂ تبریک کی مستحق ہے۔ ظلمتوں کی ماری اس قوم کے لیے یہ فیصلہ روشنی کا پیغام اور مستقبل پر بھروسے کی نوید کی حیثیت رکھتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔
۲- پاکستان کی تاریخ میں‘ عدالت نے پہلی مرتبہ فوجی حکمرانی ہی کے دور میں ایک فوجی حکمران کے فیصلے کے خلاف دستور اور قانون کے مطابق فیصلہ دیا ہے‘ اور اس طرح طاقت پر قانون کی بالادستی کے اصول کو قائم کیا ہے۔ سیکولرزم اور نام نہاد جدیدیت کے علَم بردار جسٹس محمدمنیر نے تمیزالدین خان کیس سے ’نظریۂ ضرورت‘ کے بل پر دستور اور انصاف کی خلاف ورزی کا جو دروازہ کھولا تھا اور جس کے نتیجے میں آمریت کا عفریت دندناتا ہوا قومی زندگی میں داخل ہوا‘ اس نے جمہوریت کو پنپنے ہی نہ دیا۔ بلاشبہہ جسٹس حمودالرحمن نے جنرل آغا یحییٰ خان کو غاصب (usurper) قرار دیا تھا لیکن یہ فیصلہ جنرل یحییٰ کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد آیا تھا‘ اور یہی وجہ ہے کہ یہ بعد کے طالع آزمائوں کا راستہ نہ روک سکا۔ حالیہ فیصلہ اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اگر قوم اس کی پشت پر مضبوطی سے قائم رہتی ہے توآیندہ یہ جمہوریت کے لیے فتح و کامرانی کے دروازے کھول دے گا‘ اور ان شاء اللہ فوجی آمریت قصۂ پارینہ بن جائے گی۔
۳- اس فیصلے کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس میں دستور اور قانون کی بالادستی کے اصول کو بنیاد بنایا گیا ہے اور صدر (چیف آف اسٹاف) کا وہ اقدام صریحاً غیرقانونی تھا‘ جس کے تحت اس نے وردی کا سہارا لے کر چیف جسٹس کو بلاجواز‘ دستور کے واضح تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے غیرفعال کیا تھا یا جبری رخصت پر بھیجا تھا۔ اس فیصلے کو کالعدم قرار دینے سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ چیف جسٹس اس پورے زمانے میں دستوری اور قانونی طور پر چیف جسٹس تھے‘ قائم مقام چیف جسٹس کا تقرر غیرقانونی تھا ۔
۴- اس فیصلے میں تین کے مقابلے میں ۱۰ کی اکثریت نے یہ بھی فیصلہ دیا ہے کہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دستور کے مطابق نہیں اور اس طرح اسے بھی حرفِ غلط کی طرح منسوخ کردیا گیا اور چیف جسٹس کسی داغ کے بغیر اپنے مقام پر بحال ہوگئے۔
۵- ضمناً اس فیصلے نے اس بات کو بھی واضح کردیا کہ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں اور کوئی بھی احتساب سے بالا نہیں‘ بشمول چیف جسٹس لیکن احتساب‘ قانون اور دستور کے مطابق ہی ہوسکتا ہے۔ من مانے اور اندھادھند (arbitrary) انداز میں نہیں۔
۶- اس فیصلے میں خود عدلیہ کا بھی احتساب موجود ہے‘ خصوصیت سے جس طرح سپریم جوڈیشل کونسل نے کچھ ایسے اختیارات اپنے لیے حاصل کرنے کی کوشش کی‘ یا ایسے انداز میں اپنے کام کا آغاز کیا جو دستور اور اصول انصاف کے مطابق نہیں۔ ان تمام چیزوں پر بھی فیصلے میں گرفت کی گئی ہے اور غلط اقدام کو غیرمؤثر کردیا گیا ہے۔
ان تمام اعتبارات سے یہ فیصلہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے لائق ہے اور عدلیہ کی آزادی اور اس کے اعتبار (credibility)کی بحالی کی راہ پر ایک عظیم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ یہ صرف پہلا قدم ہے‘ ہراعتبار سے اہم اور تاریخی قدم___ لیکن پھر بھی صرف پہلا قدم۔ ابھی ماضی کے ملبے کو صاف کرنے اور دستوریت اور قانون کی حکمرانی کی منزل کو پانے کے لیے عدالت‘ انتظامیہ اور خود قوم کو بہت کچھ کرنا ہوگا۔ جہاں یہ فیصلہ خالص دستور اور قانون کے مطابق ہے اور کسی سیاسی مصلحت کا سایہ اس پر نہیں‘ وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسا صاف ستھرا اور مبنی برعدل فیصلہ ممکن ہی اس لیے ہوا کہ قوم نے‘ اور خصوصیت سے وکلا برادری نے بے لاگ انداز اور بالکل دوٹوک طریقے سے عدالت کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ قوم انصاف اور اصول کی بالادستی چاہتی ہے نہ کہ مصلحت پر مبنی کوئی فیصلہ۔ جس عدالت کو یہ یقین ہو کہ قوم انصاف چاہتی ہے اور انصاف کے لیے قربانی دینے کا عزم رکھتی ہے‘ وہ پھر پوری مضبوطی سے دستور اور انصاف کی علَم بردار بن سکتی ہے اور لاقانونیت اور قوت کے پجاریوں کو چیلنج کرسکتی ہے۔ اس بار الحمدللہ یہی ہوا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اس انداز میں ہوا۔ اب عدالت اور قوم دونوں پر ذمہ داری ہے کہ اس راستے پر استقامت اور حکمت کے ساتھ آگے بڑھے۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ عدالت کو کسی ایسی آزمایش میں نہ ڈالا جائے جس میں اس کے قدم ڈگمگانے کا خطرہ ہو۔ سیاسی فیصلے سیاست کے میدان میں ہوں اور قانون اور دستور کی تعمیر اور تنفیذ کے معاملات عدالت میں طے ہوں۔ یہ توازن ضروری ہے اور اس نزاکت کو سامنے رکھ کر ہی ہم ملک میں جمہوریت کی آگے کی منزلیں سر کرسکتے ہیں۔
البتہ دو باتوں کی طرف توجہ دلانا ہم ضروری سمجھتے ہیں: پہلی یہ کہ اس فیصلے کے کچھ اخلاقی اور ایک حد تک خود قانونی تقاضے ہیں جن کو پورا کیا جانا چاہیے اور ان کا تعلق صدر‘ وزیراعظم‘ وزیرقانون اور ان اداروں کے سربراہوں سے ہے جن کا چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس سے بلاواسطہ تعلق تھا۔ انھیں اپنی ذمہ داری کا اعتراف کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس اور قوم سے معافی مانگنی چاہیے اور اپنے عہدے سے استعفا دے دینا چاہیے تاکہ اس فیصلے کے منطقی تقاضے پورے ہوں۔ واضح رہے کہ وزیراعظم شوکت عزیز نے فیصلے سے پہلے یہ بات کہی تھی کہ اگر فیصلہ حکومت کے خلاف ہوتا ہے تو وزیراعظم کو مستعفی ہوجانا چاہیے۔ معاملہ صرف وزیراعظم کا نہیں‘ ان کے ساتھ جنرل مشرف کا استعفا بھی ضروری ہے۔
ریفرنس کے اصل ذمہ دار جنرل مشرف ہیں‘ جنھوں نے فوجی وردی میں چیف جسٹس کو ریفرنس کا نشانہ بنایا‘ استعفے کا مطالبہ کیا‘ کئی گھنٹوں تک حبسِ بے جا میں رکھا‘ تین مہینے تک پریس اور میڈیا میں ریفرنس کے حق میں دلائل دیتے رہے‘ مزید حقائق بیان کرنے کی دھمکیاں دیں‘ اور طرح طرح کے الزامات لگانے سے بھی گریز نہ کیا۔ ۱۲مئی کے کراچی کے قتلِ عام اور اسلام آباد کے بھنگڑے کے جشن کو عوامی تائید‘ اپنی فتح اور چیف جسٹس کی شکست کا عنوان دیا‘ اور یہاں تک ارشاد فرمایا کہ اگر جھوٹ سچ پر غالب رہا تو وہ روئیں گے___ رونا تو بلاشبہہ ان کے مقدر میں اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا تھا مگر بات رونے پر ختم نہیں ہوسکتی۔ سب سے زیادہ اس ریفرنس کے اور اس ریفرنس کے سلسلے میں جو کچھ کیا گیا‘ اس کے ذمہ دار جنرل مشرف ہیں اور ان کا استعفا پہلا تقاضا ہے۔ ان کے ساتھ وزیراعظم‘ وزیرقانون‘ سیکرٹری قانون اور ان تمام افراد کا استعفا اور احتساب ضروری ہے جنھوں نے جنرل مشرف اور وزیراعظم کے موقف کی تائید میں بیان حلفی دائر کیے۔
دوسرا بنیادی مسئلہ جو اس ریفرنس اور مختلف حلفی بیانات سے سامنے آیا ہے وہ کاروبار حکومت میں ایجنسیوں کے کردار سے متعلق ہے‘ جو اپنے اصل فرائض منصبی سے ہٹ کر جاسوسی اور خلافِ قانون سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ جن کا منہ بولتا ثبوت ان کے اپنے بیانات اور وہ معلومات اور ان معلومات کے ذرائع ہیں جن سے یہ بیانات بھرے ہوئے ہیں۔ حکومت پاکستان اور اس کے اداروں کی بڑی ہی کریہہ تصویر ہے جو ان بیانات میں قوم کے سامنے آئی ہے۔ اگر ان اداروں کا احتساب نہیں ہوتا اور ان سرگرمیوں کو لگام نہیں دی جاتی تو ہم کبھی بھی قانون اور ضابطے پر مبنی ایک ملک اور مہذب معاشرہ نہیں بن سکتے۔ جن حضرات نے قانون کی خلاف ورزی یا محض اثرورسوخ کی بناپر قانون اور ضابطے کے خلاف کام کا اعتراف کیا ہے‘ انھیں اس کی قرارواقعی سزا ملنی چاہیے‘ اور جنھوں نے برسرِاقتدار افراد کی تائید میں غلط بیانی اور فسانہ سازی سے کام لیا ہے‘ انھیں ان کی قیمت ادا کرنا چاہیے۔ ان بااثر مجرموں کو ایسے ہی چھوڑ دینے کے معنی یہ ہیں کہ ملک میں قانون کی حکمرانی محض ایک سراب ہوگی۔ یہ اقبالی مجرم ہیں اور ان کو اس کی ایسی سزا ملنی چاہیے جس میں دوسروں کے لیے عبرت کا سامان ہو اور ملک کے نظامِ حکمرانی سے ان خرابیوں کاہمیشہ کے لیے ازالہ ہوسکے۔
۲۰جولائی کے فیصلے کے یہ دو کم سے کم تقاضے ہیں جو فوری طور پر پورے ہونے چاہییں۔
آخر میں ہم اس پورے معاملے میں کُل جماعتی تحریک جمہوریت کے رول کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ امر باعث افسوس ہے کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں اس میںشریک نہیں ہوئیں اور ایک بڑی جماعت جس نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے تھے وہ اس میثاق کے عہدوپیمان کے علی الرغم فوجی حکومت سے معاملات طے کرنے میں مصروف رہی اور اس فیصلہ کن مرحلے پر بھی پیچھے رہ گئی۔ اس امر پر تاَسف کے اظہار کے ساتھ ہم اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں جو باقی تمام جماعتوں نے اس نئے محاذ کے قیام کی شکل میں اختیار کیا ہے‘ اور اسے ۲۰جولائی ۲۰۰۷ء کے فیصلے کی طرح جمہوریت کے قیام اور دستور اور قانون کی حکمرانی کی جدوجہد کا ایک سنگ میل قرار دیتے ہیں۔
قرارداد مقاصد سے لے کر ۱۹۷۳ء کے دستور تک جن چار باتوں پر قوم کاکامل اتفاق (consensus ) ہے‘ وہ یہ ہیں:
۱- پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اس کے وجود اور بقا کا انحصار اسلام کے احکام‘ اقدار اور اصولوں کے مطابق مبنی برعدل نظام کا قیام ہے۔ اقتدار ایک امانت ہے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وفاداری کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔
۲- پاکستان کا نظامِ حکومت جمہوری ہوگا جس میں عوام کے حقوق کی حفاظت‘ پارلیمنٹ کی بالادستی‘ عدلیہ کی آزادی‘ صاف شفاف انتخابات‘ اور عوام کی مرضی کے مطابق اور ان کے سامنے جواب دہی کے اصول پر حکومت کا قیام اور تبدیلی واقع ہوگی۔
۳- پاکستان ایک فلاحی ریاست ہے جس میں تمام شہریوں کو بلاتفریق نسل‘ زبان اور مذہب زندگی کی ضروری سہولتیں حاصل ہونی چاہییں اور ترقی کے مساوی مواقع میسر ہوں تاکہ مہذب زندگی گزار سکیں۔
۴- پاکستان کا سیاسی نظام وفاق کی بنیاد پر قائم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تمام صوبوں کو اپنے وسائل پر تصرف کا اختیار ہو اور دستور کے دائرے میں تمام صوبوں کو مکمل خوداختیاری حاصل ہو۔ پاکستان کی مضبوطی اور خوش حالی کا انحصار تمام صوبوں کی مضبوطی اور خوش حالی پر ہے۔
ان اصولوں کا واضح تقاضا یہ ہے کہ ہر ادارہ اپنے اپنے دائرے میں دیانت داری سے کام کرے اور دوسرے اداروں میں دخل اندازی سے احتراز کرے۔ فوج کی اصل ذمہ داری دفاعِ وطن اور سول حکومت کے تحت خدمات انجام دینا ہے۔ سیاست میں فوج کی مداخلت دستور کی خلاف ورزی‘ سیاسی نظام کی بربادی کا ذریعہ اور خود فوج کی دفاعی صلاحیت اور قوم کی نگاہ میں غیرمتنازع حیثیت کو مجروح کرنے کا باعث ہوتی ہے۔ اس لیے فوج کو سیاست میں ملوث کرنا فوج اور ملک دونوں کے مفاد کے خلاف ہے۔
عوام کی مرضی کی حکومت اسی وقت قائم ہوسکتی ہے جب سب کو انتخاب میں شرکت کے مساوی مواقع حاصل ہوں اور انتخاب کا نظام ہرقسم کی دراندازی اور جانب داری سے پاک ہو۔ اس کے لیے راے دہندگان کی فہرستوں کا درست ہونا‘ الیکشن کمیشن کی مکمل آزادی اور غیر جانب داری اور پورے انتخابی عمل کا صاف اور شفاف ہونا ضروری ہے۔ صحافت کی آزادی بھی اس کے لیے ایک ضروری عمل ہے تاکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا صحیح حقائق سے قوم کو آگاہ کرسکے۔ انتخابی عمل کو ہربدعنوانی سے پاک ہونا چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب انتخابات ایک غیر جانب دار حکومت کی نگرانی میں منعقد ہوں۔
کُل پاکستان جمہوری تحریک کا قیام انھی مقاصد کے حصول کے لیے ہے۔ ہرجماعت کا اپنا منشور اور پروگرام ہے‘ لیکن ان مشترکہ نکات پر سب کا اتفاق ہے اور سب مل کر ان کے حصول کے لیے سیاسی جدوجہد کا عہد کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کی معطلی کے خلاف وکلا اور عوام کی تحریک نے جمہوریت کی بحالی کے لیے عوامی تائید اور تحرک کی اہمیت کو ایک بار پھر واضح کردیا ہے۔ کُل جماعتی جمہوری تحریک‘ اپوزیشن کی جماعتوں کے اس عزم کا مظہر ہے کہ مشترک مقاصد کے حصول کے لیے وہ فیصلہ کن عوامی تحریک کا راستہ اختیار کر رہے ہیں اور یہ جدوجہد دستور کی مکمل بحالی اور جمہوریت کے قیام اور اسلامی نظام کے نفاذ پر منتج ہوگی‘ ان شاء اللہ!
(کتابچہ دستیاب ہے، منشورات، منصورہ، لاہور)
قافلے کا سالار اپنے ہی ساتھیوں کو جھوٹی خبر کبھی نہیں دیتا۔ خدا کی قسم! اگر میں سب لوگوں سے جھوٹ کہنے پر تیار ہوجاتا تب بھی تم سے خلافِ واقعہ بات نہ کرتا‘ اور اگر سب لوگوں کو دھوکا دینے پر بھی آمادہ ہوجاتا تو بھی تم کو ہرگز دھوکے میں نہ ڈالتا۔ اس خدا کی قسم جو وحدہٗ لاشریک ہے! میں تمھاری طرف خصوصاً اور باقی تمام لوگوں کی طرف پیغمبر بناکر بھیجا گیا ہوں۔ بخدا ضرور تم کو ایک دن مرجانا ہے بالکل اس طرح جیساکہ روز سوتے ہو‘ اور پھر بلاشبہہ زندہ ہونا ہے جیساکہ روز خواب سے بیدار ہوتے ہو۔ اور تمھارے اعمال کا ضرور محاسبہ ہوگا۔ نیکی کا بدلہ نیکی اور برائی کا بدلہ برائی مل کر رہے گا۔ اُس وقت یا تو ہمیشہ کے لیے جنت ملے گی یا ہمیشہ کے لیے جہنم۔ (جمہرۃ الخطب)
اگر تم لذتوں کا قلع قمع کرنے والی موت کو پیش نظر رکھتے تو آج میں تم کو ہنستے ہوئے نہ دیکھتا۔ سو‘ موت کو اکثر اپنے سامنے رکھو‘ کیونکہ قبر سے ہر روز آواز آتی ہے: میں غربت اور تنہائی کا گھر ہوں۔ میں خاک میں ملا کر خاک بنا دینے والا مکان ہوں۔ میں کیڑوں کا مسکن ہوں۔ پس جب کوئی مومن قبر میں دفن کیا جاتا ہے تو وہ اس سے کہتی ہے: مرحبا! آنا مبارک ہو۔ میری پشت پر چلنے پھرنے والوں میں سے تم مجھے سب سے زیادہ محبوب تھے۔ آج‘ جب کہ تم مجھے ملے ہو تو میرا سلوک دیکھ لو گے۔ پھر اس کے لیے حدنظر تک فراخ ہوجاتی ہے اوراس کے لیے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ اور جب کوئی کافر یا بے عمل دفن ہوتا ہے تو قبر اسے دھتکار کر کہتی ہے: تجھے فراخی اور آرام نصیب نہ ہو۔ میری پشت پر چلنے والوں میں تو مجھے سب سے زیادہ مبغوض تھا۔ آج جب تو میرے قابو میں آیا ہے‘ تجھے میرا سلوک معلوم ہوجائے گا۔ پھر قبر سمٹ کر اسے بھینچتی ہے‘ حتیٰ کہ اس کی پسلیاں توڑ پھوڑ کر ایک دوسرے میں داخل کردیتی ہے۔
راوی بیان کرتا ہے کہ اس موقع پر آپؐ نے ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں ڈال کر بتایا کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں اس طرح داخل ہوجائیں گی۔
پھر آپؐ نے فرمایا: اور اس کے لیے ۷۰ ایسے زہریلے اژدہے مقرر کیے جاتے ہیں کہ اگر ان میں ایک بھی دنیا میں پھنکار مار جائے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زمین کی قوتِ نامیہ ختم ہوجائے گی۔ حشر تک وہ اژدہے اسے ڈستے اور نوچ نوچ کر کھاتے رہیں گے۔
پھر آپؐ نے فرمایا: قبر یا تو جنت کا باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔(ترمذی)
اے لوگو! تم ان کی طرح نہ بنو جو دنیا اور آرزوؤں کی خواہش میں پھنس گئے‘ بدعتوں کی طرف مائل ہوئے‘ اور جلد فنا ہونے والی دنیا کی طرف جھک پڑے۔ گزرے ہوئے وقت کے مقابلے میں دنیا کا اتنا کم حصہ باقی رہ گیا ہے‘ جیسے ساربان اُونٹنی کو بٹھاتا ہے یا گوالا ایک دودھ کی دھار لیتا ہے۔ تم کس بھروسے پر ہو اور کس بات کا انتظار کر رہے ہو؟ خدا کی قسم! دنیا کا یہ موجودہ وقت ایسے گزر جائے گا گویا کبھی تھا ہی نہیں اور جس آخرت کی جانب تم جارہے ہو وہ غیرفانی ہے۔ سو‘ یہاں سے انتقال کے لیے سامان تیار کرلو اور کوچ کے لیے توشہ مہیا کرلو‘ اور یاد رکھو کہ جو کچھ آگے بھیج دو گے اس کا اجر مل جائے گا اور جو پیچھے چھوڑ جائو گے اس پر نادم ہونا پڑے گا۔
اے لوگو! مرنے سے پہلے اپنے لیے کچھ سامان کرلو۔ تم کو معلوم ہوجائے گا۔ خدا کی قسم! تم میں سے ہر ایک پر موت کی بے ہوشی طاری ہوجائے گی اور اپنی بکریوں کو بغیر نگہبان کے چھوڑ جائے گا۔ پھر خدا جسے نہ ترجمان کی حاجت ہے نہ دربان کی ضرورت‘ اس سے پوچھے گا: کیا میرے رسولؐ نے آکر تمھیں میرے احکام نہیں پہنچائے تھے؟ اور میں نے تم کو دولت نہیں دی تھی؟ اور اپنے فضل و کرم سے نہیں نوازا تھا؟ پس بتائو تم نے اپنے لیے آگے کیا بھیجا ہے؟
اس وقت وہ حیران ہوکر دائیں بائیں دیکھے گا مگر کچھ نظر نہیں آئے گا۔ پھر سامنے کی طرف دیکھے گا تو آگ کے سوا کچھ نظر نہ آئے گا۔ پس جس کو توفیق ہو وہ اپنے آپ کو اس آگ سے بچالے‘ خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے سے ہی کیوں نہ ہو۔ اور جس کو یہ بھی میسر نہ ہو تو اچھی بات کہہ کر اپنے آپ کو عذابِ الٰہی سے بچالے‘ کیونکہ ایک نیکی کا بدلہ ۱۰ گنا سے لے کر ۷۰۰ گنا تک دیا جائے گا۔ والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہٗ۔(زاد المعاد)
اے لوگو! ہماری غفلت کا یہ حال ہے کہ گویا موت ہمارے لیے نہیں بلکہ فقط دوسروں کے لیے مقرر ہوچکی ہے‘ اور گویا حقوق کی ادایگی ہم پر نہیں بلکہ تنہا دوسرے لوگوں پر واجب ہے۔ جن مُردوں کے ساتھ ہم قبرستان تک آتے ہیں گویا وہ چند دن کے مسافر ہیں جو واپس ہوکر ہم سے ملیں گے۔ ہم ان کو تو قبر میں دفن کردیتے ہیں لیکن ان کا مال اتنے اطمینان سے کھاتے ہیں کہ گویا ہم کو ان کے بعد دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے۔ نصیحت کی ہربات ہم بھلا بیٹھے‘ اور ہر آفت کی طرف سے مطمئن ہوچکے ہیں۔
مبارک باد ہے اس شخص کے لیے جو اپنے عیوب پر نظر کر کے دوسروں کی عیب جوئی سے بچ رہا۔
مبارک باد ہے اس کے لیے جس نے حلال کی کمائی خدا کی راہ میں خرچ کی‘ علما اور عقل مندوں کی ہم نشینی اختیار کی‘ اور غریبوں اور مسکینوں کے ساتھ ملتا جلتا رہا۔
مبارک ہے وہ شخص جس کے اخلاق اچھے ہوں‘ دل پاکیزہ ہو اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھے۔ مبارک ہے وہ شخص جو ضرورت سے بچا ہوا مال خدا کی راہ میں خرچ کرے اور فضول گفتگو سے پرہیز کرے۔ راہِ شریعت پر عمل کرنا اس کے لیے آسان ہو‘ اور بدعت اسے اپنی طرف راغب نہ کرسکے(کنزالعمال)۔(انتخاب و ترتیب: مسلم سجاد)
انسان کو زندگی میں بے شمار مصائب و مشکلات اور تکالیف و شدائد سے گزرنا پڑتا ہے۔ کسی تکلیف سے انسان کا دل متاثر ہوتا ہے، کوئی انسان کے بدن کو تکلیف دیتی ہے، کسی سے انسان مالی طور پر خسارے کا شکار ہوتا ہے‘ کسی سے اولاد کے معاملے میں اسے تکلیف پہنچتی ہے اور کوئی اس کے اہل خانہ و شریک حیات کے بارے میں اس کی دل آزاری کا باعث بنتی ہے۔ غرض انسان کو ایک نہیں کئی پہلوئوں سے مصائب اور تکالیف سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ یہ تکلیفیں اور مصیبتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمایش ہوتی ہیں۔ جو شخص ان آزمایشوں پر صبر کرے اور ان کے تقاضوں پر پورا اُترے‘ اللہ تعالیٰ اس کو دنیا و آخرت میں بلند مقام سے نوازتا ہے۔ البتہ آزمایشوں میں ثابت قدم رہنا اور ان میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کے سامنے سرتسلیم خم رکھنا بلند ہمت لوگوں کا کام ہے۔ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ نے امن و امان، صحت و سلامتی، جان و مال اور آل اولاد میں کمی کر کے اہلِ ایمان کی آزمایش کرنے کا ذکر کیا ہے:
وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ َوالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِط وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ لا قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ o اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رَحْمَۃٌ قف وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ o (البقرہ۲:۱۵۵-۱۵۷) اورہم ضرو ر تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘، انھیں خوش خبری دے دو۔ اُن پر اُن کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی‘ اس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔
دوسری جگہ مال و جان کے ساتھ دشمنانِ دین اور مشرکین کی طرف سے زبانی اذیتوں کے پہنچنے کا ذکر یوں کیا گیا:
لَتُبْلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْقف وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَذًی کَثِیْرًا ط وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِo (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۸۶) مسلمانو، تمھیں مال اور جان دونوں کی آزمایشیں پیش آکر رہیں گی، اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔ اگر ان سب حالات میں صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلے کا کام ہے۔
مذکورہ دونوں آیات کی بہترین تفسیر بھی قرآنِ حکیم ہی کے اندر موجود ہے۔ جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ قرآنِ حکیم نے جس اسلوب میں کیا ہے اس سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندے کو جان و مال، بیوی بچوں اور رزق اور امن و امان میں کمی کر کے ہر طرح سے آزمایا‘ اور جب آپ ان تمام آزمایشوں میں کامیاب ٹھیرے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بلند ہمتی اور صبر و ثبات کو دنیا کے لیے یادگار بنا دیا اور ان کو دنیا کا امام بھی بنایا اور ان کی فردِ واحد کی حیثیت ہی میں ان کو امت قرار دیا۔
جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھے۔ آپؐ کو نبوت و رسالت کی گراں بار ذمہ داری سے پہلی بار آگاہ کیا گیا تو اس راہ کی مشکلات کا اندازہ آپؐ کو اسی وقت ہو گیا تھا جب ورقہ بن نوفل نے یہ کہتے ہوئے حسرت و افسوس کا اظہار کیا تھا کہ: ’’کاش! میں اس وقت جوان ہوتا۔ کاش! میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو یہاں سے نکال دے گی‘‘۔ ورقہ کی یہ بات واقعتا سچ ثابت ہوئی کہ جس روز اللہ کے رسولؐ نے لوگوں کو ایک اللہ کی طرف آنے کی دعوت دی اسی روز سے قوم کی نادانیوں اور ایذائوں کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ آپؐ کی راہ روکی گئی، آپؐ کو جھٹلایا گیا، آپؐ کو ٹھٹھہ اور تضحیک سے رسوا کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قریش کی ایذائوں کا ہدف بنے تھے اس وقت آپؐ کے رفقا کو ابھی ان مصیبتوں سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ’’مجھے اللہ کے معاملے میں اس قدر ڈرایا اور دھمکایا گیا کہ کسی اور کو اس قدر نہیں ڈرایا گیا۔ مجھے اللہ کے معاملے میں جس قدر اذیت سے دوچار کیا گیا کسی اور کو نہیں کیا گیا۔ میرے اوپر تیس تیس دن رات ایسے بھی آتے رہے کہ میرے اور بلال کے پاس کھانے کے لیے کوئی چیز نہیں ہوتی تھی جس کو کوئی جان دار کھا سکے، سواے اس معمولی شے کے جو بلال اپنی بغل میں چھپائے ہوتے‘‘۔ (سنن ترمذی، حدیث: ۲۴۷۲)
یہ اس ذات کی کیفیت ہے جس کو قرآن نے تمام جہانوں کے لیے رحمت قرار دیا ہے، انسانیت کا محسن بتایا ہے، لوگوں کی ہدایت و نجات کے لیے اپنی جان کو ہلکان کرنے والا کہا ہے۔ اس شخصیت سے روا رکھے جانے والے سلوک کا تذکرہ تو دلوں کے خون کو منجمد کر دیتا ہے مگر عقل و فراست اور زبان و بیان میں امتیازی شان رکھنے کا دعویٰ کرنے والے اہل مکہ کو دیکھیے کہ وہ انسان بھی ان کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہیں جو ان کے نزدیک پاکیزہ ترین اور صادق و امین ہے۔ بات زبانی ایذارسانی تک محدود رہتی تو تاریخ انسانی کے کاتبوں کے لیے اسے نظر انداز کرنا شاید ممکن ہوجاتا۔ مگر معاملہ عددی قوت کو بروے کار لا کر تلوار زنی اور نیزہ بازی تک پہنچ گیا۔ ۱۳ برس تک قریش مکہ کی ایذائوں کا ہدف بنے رہنے کے بعد بالآخر جب مظلومانہ جذبات سے بھرے دل کے ساتھ یہ رحیم و کریم انسان مکہ کو خیرباد کہتا ہے اور بے سروسامانی کے عالم میں مدینہ چلا جاتا ہے تو یہ کش مکش مسلح جنگ کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ پھر معاملہ ایذا رسانی، جلائو گھیرائو اور سب وشتم سے آگے بڑھ جاتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بقیہ زندگی اسی کش مکش میں گزرتی ہے۔ ایک کے بعد دوسری آزمایش اور دوسری کے بعد تیسری اور پھر یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔
رب کی کبریائی کا پیغام لے کر جو شخص بھی آیا اس کے ساتھ دشمنی روا رکھی گئی۔ انسانی تاریخ کے گذشتہ دور کی شہادت بھی یہی ہے اور ماضی قریب اور عہد رواں کی گواہی بھی یہی ہے۔ تاریخ نے ان کرداروں کی مساعی و مشکلات کی جو تصویر کشی کی ہے، وہ سیکڑوں صفحات پر محیط ہے۔ آج کے داعی اور داعیانہ کرداروں کو بھی بعینہٖ انھی حالات سے سابقہ ہے جو مذکورہ بالا افراد کو تھا۔ یقینا وہ سب اپنے اپنے وقت کے لیے ایک نمونہ تھے، لیکن ان سب میں بہترین اسوہ وہی ہے جس کو قرآنِ مجید نے بہترین کہا ہے‘ یعنی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ!
ان سطور میں اسی اُسوہ حسنہؐ سے ایسی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں جو ایک طرف ایک مومن کے لیے روزمرہ معاملات اور مصائب اور پریشانیوں میں نمونہ ہیں‘ تو دوسری طرف ان میں حق و باطل کی کش مکش میں اہل حق کے لیے رہنمائی کا سامان موجود ہے۔ آیئے دیکھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے حالات میں مصائب و مشکلات کو کس طرح انگیز کیا اور ان کو اپنی دعوت کے لیے کیسے ممدو معاون بنایا۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر و ثواب کے وعدے اور گناہوں پر بخشش کی خوش خبریاں مومنوں کے لیے بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں نے آپؐ سے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! سب سے زیادہ سخت آزمایش کس کی ہوتی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’انبیا کی، پھر ان سے کم درجہ لوگوں کی، پھر ان سے کم درجہ لوگوں کی۔ آدمی کی آزمایش اس کی دینی کیفیت کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر وہ دین میں مضبوط ہو تو آزمایش بھی سخت ہوتی ہے‘ اور اگر دین میں نرم ہو تو اس کی دینی کیفیت کے مطابق ہی آزمایش بھی ہوتی ہے۔ بندے پر آزمایشوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے‘ حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آ جاتا ہے کہ وہ زمین پر چلتا ہے تو اس کے اوپر کوئی گناہ نہیں ہوتا‘‘۔ (ترمذی)
مومن کا یہ ایمان ہے کہ دین کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات و تکالیف بہترین دروس اور مفید تجربات ہیں جو اس کی شخصیت کو آزمایش کی بھٹی سے گزار کر کندن بنا دیتے ہیں اور اس کے ایمان کو جلا بخشتے ہیں، اس سے زنگ کو کھرچ ڈالتے ہیں۔ کسی نے کہا ہے کہ اس مومن کی مثال جس کو کسی آزمایش سے دکھ پہنچے اس لوہے جیسی ہے جس کو آگ میں ڈال دیا جائے تو وہ اس کے کھوٹ کو صاف کر دیتی ہے اور اصل لوہا باقی رہ جاتا ہے۔
اپنے مقصد کو حاصل کرنے اور مصیبتوں تکلیفوں سے نکلنے کے لیے دعا سب سے مضبوط ذریعہ ہے۔ یہ مومن کا ہتھیار ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ اللہ سے مدد و استعانت طلب کرے۔ آپؐ نے دعا کا مقام بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہی عبادت ہے۔ یہ عبادت کا مغز ہے۔ دعا میں غفلت اور تساہل سے آپؐ نے منع فرمایا۔
مصیبتوں اور تکلیفوں کے مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مخصوص دعائیں کیا کرتے تھے۔ ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جب کوئی معاملہ بڑا اہم ہو جاتا تو آپؐ آسمان کی طرف چہرہ بلند کر لیتے‘ اور گڑ گڑا کر دعا کرنا مقصود ہوتا تو یَاحَیُّ یَا قَیُّوْمُ کہتے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا تو آپؐ یوں دعا کرتے: یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ ’’اے زندہ اور قائم ذات! میں تیری رحمت کے واسطے سے تیری مدد کا طالب ہوں‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مصیبت کے موقع پر یوں دعا کرتے: لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ الْعَرْشِ العَظِیْمِ، لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْاَرْضِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ، ’’اللہ بزرگ و برتر رب کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں، ساتوں آسمان و زمین کے رب اور عرشِ کریم کے رب، اللہ کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں!‘‘(بخاری، مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شدائد و مصائب کے مواقع پر دعا کے ذریعے اللہ کی مدد اور نصرت طلب کیا کرتے تھے۔ طائف سے واپسی پر اور غزوئہ بدر کے موقع پر آپؐ کی دعائیں آج بھی رہنمائی دیتی ہیں۔ غزوۂ احد میں مسلمانوں کو گہرے زخم آئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس موقع پر زخمی ہوئے اور آپؐ کو بھی دشمن کے سخت حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت حمزہؓ کی شہادت کا صدمہ بھی اسی غزوے میں آپؐ کو پہنچا۔ اپنے زخموں اور چچا کی شہادت کے صدمے کی شدت سے قریب تھا کہ آپؐ بے ہوش ہو جاتے۔ آپؐ نے اس نازک اور اندوہناک صورتِ حال میں بھی اللہ تعالیٰ ہی کی حمد و توصیف بیان فرمائی۔
غزوۂ احزاب (خندق) کے موقع پر جب دشمن نے مسلمانوں کا محاصرہ سخت کردیا تو اللہ کے رسولؐ مشرکین کے خلاف دعا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوئے اور دعا فرمائی:
اللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الکِتَابِ، سَرِیْعَ الحِسَابِ أَھْزِمِ الأَحْزَابِ، أَللّٰھُمَّ اَھْزِمْھُمْ وَزَلْزِلْھِمْ، اے اللہ، کتاب کے نازل کرنے والے، جلد حساب لینے کی قدرت رکھنے والے! ان لشکروں کو شکست سے دوچار کر دے۔ اے اللہ ان کو شکست دے دے اور ان کے قدم اکھاڑ دے۔
دعا عظیم عبادتوں میں سے ایک عبادت ہے۔ انسانی عقل‘ ذہانت و فطانت کی کتنی ہی بلندیاں کیوں نہ سر کر لے‘ بہرحال وہ متزلزل ہونے سے مبرا نہیں۔ مومن پر ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب وہ تفکر و تدبر سے عاجز ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوتا کہ وہ اللہ کے سامنے دست دعا دراز کر دے۔ پھر ادھر دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھ نیچے آتے اور دعا کے الفاظ کا سلسلہ ختم ہوتا ہے تو اُدھر اللہ رب العالمین کی طرف سے قبولیت کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔
مسلمان کے شایانِ شان نہیں کہ آزمایش و مصائب میں شدت آ جائے، اسلام اور مسلمانوں پر پے درپے حملے ہونے لگیں تو حالات کی اصلاح اور تبدیلی سے مایوسی و ناکامی اس کے دل میں راہ پا جائے۔ راہِ خدا پر چلنے اور لوگوں کو اس طرف بلانے کی جدوجہد جس قدر تکلیف دہ اور صبر آزما تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذاتی حیثیت سے تو اس کا کامل اِدراک تھا۔ آپؐ نے ہرمشکل موقع پر جس عزم و استقلال اور پامردی و ثابت قدمی کا مظاہرہ فرمایا وہ آپؐ ہی کے شایانِ شان تھا۔ آپؐ اپنی دعوت کی کامیابی اور اسلام کی سربلندی کا یہ یقین اپنے صحابہؓ کے دلوں میں جاگزیں کرتے تھے۔ مشرق و مغرب تک ان کا پیغام پہنچ جانے کی نوید سناتے تھے۔ مصائب و مشکلات کا جواں مردی اور جرأت مندی سے مقابلہ کرنے کا درس دیتے تھے۔
ایک موقع پر حضرت خبابؓ بن ارت کو جہاں راہِ دعوت کی سنگینی سے آگاہ فرمایا وہاں کامیابی کا یقین بھی دلایا اور فرمایا:’’تم سے پہلے لوگوں کی حالت یہ تھی کہ آدمی کو پکڑا جاتا‘ اس کے لیے زمین میں گڑھا کھودا جاتا اور اسے اس میں گاڑ دیا جاتا، پھر آرا لایا جاتا اور اس کے سر کے اوپر رکھ کر اسے چیر کر دو حصے کردیا جاتا۔ لیکن یہ چیز اس کو اس کے دین سے ہٹا نہ سکتی۔ لوہے کی کنگھی سے اس کی ہڈیوں سے گوشت نوچا جاتا لیکن یہ چیز بھی اسے اس کے دین سے ہٹا نہ سکتی۔ اللہ کی قسم! اللہ اس معاملے کو مکمل کر کے چھوڑے گا۔ یہاں تک کہ (ایک وقت آئے گا) سوار، صنعا سے چل کر حضرموت آئے گا تو اسے اللہ کے سوا اور اپنی بکریوں کے بارے میں بھیڑیے کے علاوہ کسی کا خوف نہ ہو گا، مگر تم تو جلد بازی میں پڑ گئے ہو‘‘۔
غزوۂ خندق کے روز مسلمانوں کو ہر طرف سے خطروں نے گھیر رکھا تھا۔ اس کٹھن اور سخت موقع پر بھی اللہ کے رسولؐ نے مسلمانوں کو خوش خبریاں سنائیں۔ فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ ضرور تم سے اس سختی کو دور کر دے گا جو تم دیکھ رہے ہو۔ اور مجھے یقین ہے کہ میں بیت اللہ کا طواف کروں گا۔ اور اللہ کعبہ کی کنجیاں مجھے دلا دے گا۔ اور کسریٰ اور قیصر کو ہلاک کر دے گا اور پھر تم ان کے خزانے اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے‘‘۔
دعوت دین اور اسلامی تحریک کے کارکنان اور قائدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس نبویؐ منہج و حکمت عملی کا دامن نہ چھوڑیں۔ مایوسی، پست ہمتی، بزدلی اور بددلی پھیلانے کے بجاے دلوں کو امید اور یقین سے سرشار کیا جائے۔
مصائب و مشکلات اور آزمایش کے مراحل میں مومن وسائل کے محدود ہونے اور کمزور ہونے کے باوجود گھبرایا نہیں کرتا۔ وہ اپنے خدا پر بھروسا کرکے راہِ خدا میں صبرواستقامت دکھاتا ہے۔ حق کی سربلندی کے لیے خواہ کیسے بھی حالات ہوں وہ عزم و استقلال اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ نبی کریمؐ کے اسوئہ مبارک میں غزوئہ احد اور غزوئہ حنین کے معرکے اس کی نمایاں مثال ہیں۔
غزوۂ احد میں کفار نے پلٹ کر حملہ کیا تو اس کی شدت اس قدر تھی کہ بڑے بڑے جواں مرد اور جری مسلمانوں کے لیے بھی میدان میں پائوں جمانا مشکل ہو گیا تھا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف نو صحابہؓ کے ہمراہ پیچھے تشریف فرما تھے۔ حضوؐر اکرم کی حیاتِ مبارکہ کی آزمایشوں کا یہ نازک ترین موقع تھا کہ اس معرکے میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آپؐ کے ساتھ صرف دوصحابی رہ گئے۔ حضرت طلحہؓ بن عبیداللہ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے آپؐ کے دفاع میں اپنے آپ کو وقف کردیا تھا۔ آزمایش کے اس نازک ترین موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری ثابت قدمی سے اپنی جگہ پر موجود تھے اور بلند آواز سے لوگوں کو اپنی طرف بلا رہے تھے‘ حالانکہ اس وقت آواز دے کر بلانا اپنے بارے میں مشرکین کو خبر دینے کے مترادف تھا۔ لیکن آپؐ نے جان ہتھیلی پر رکھ کر ایسا کیا اور صحابہؓ کو دوبارہ اپنے گرد جمع کیا اور مسلمان بالآخر دشمن کو پسپا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
کچھ ایسی صورتِ حال غزوۂ حنین میں بھی پیش آئی۔ جونہی مسلمانوں نے طلوعِ فجر سے پہلے وادی میں قدم رکھا تو گھات میں بیٹھے دشمن نے اچانک ان پر تیروں کی بارش کر دی۔ پھر یکدم جتھوں کے جتھے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔ مسلمان سنبھل نہ سکے۔ ایسی بھگدڑ مچی کہ کوئی کسی کی طرف دیکھ نہیں رہا تھا۔ پسپائی اور فرار کا عالم یہ تھا کہ ابوسفیان نے یہ دیکھ کر کہا اب ان کی بھگدڑ سمندر سے پہلے نہیں رکے گی۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو پکارا: لوگو! میری طرف آئو۔ میں عبداللہ کا بیٹا محمد ہوں۔ اس شدید بھگدڑ کے باوجود آپؐ کا رُخ کفار کی طرف تھا اور اپنے خچر کو ایڑ لگا رہے تھے اور یہ فرما رہے تھے: ’’میں نبی ہوں، یہ جھوٹ نہیں۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں‘‘۔ اس موقع پر بھی آپؐ کے ساتھ چند صحابہؓ تھے۔ لیکن ثبات و استقلال کا عالم دیدنی تھا۔
مشاورت اگر شرعی طور پر مطلوب اور لازمی ہے تو مشکل مواقع پر یہ انتہائی لازم ہے۔ مشورے کے ذریعے ہی یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ معاملات کا فیصلہ کرنے والی شخصیات اہل عقل و راے کی چیدہ آرا سے آگاہ ہوں اور کوئی ایسی جامع راے قائم کر سکیں جو انھیں غلطی کا ارتکاب کرنے سے بچائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں حکم دیا ہے کہ اہل ایمان سے مشورہ کر لیا کرو: وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹)’’اور اہم معاملے میں اِن سے مشورہ کر لیا کرو‘‘۔ جس بات کا حکم قرآنِ مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے دیاگیا ہو‘ یہ کیسے ممکن تھا کہ آپؐ اس حکم کے تقاضوں کو پورا کرنے کا حق ادا نہ کریں۔ چنانچہ آپؐ نے ہرمشکل موقع اور دشوار و کٹھن صورتِ حال میں صحابہؓ سے مشورہ کیا اور بعض مواقع پر لوگوں کی متفقہ راے کو اپنی راے پر ترجیح دی۔واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشاورت کا حکم اور اختیار صرف انھی امور میں دیا گیا تھا جن کے بارے میں کوئی وحی نازل نہ ہوئی ہو یا وہ خالصتاً دنیاوی امور ہوں۔
اس کی ایک نمایاں مثال غزوئہ بدر ہے۔ مدینہ کے مسلمان کسمپرسی‘ بے سروسامانی اور بہت سے مسائل سے دوچار تھے۔ ایسے میں جنگ کا مسلط ہوجانا‘ جب کہ بڑی تعداد میں لشکر کی آمد تھی‘ زندگی موت کا سوال تھا۔ اس نازک مرحلے پر آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا اور مختلف مراحل پر راے لی۔ مدینہ سے باہر نکل کر دفاع کا فیصلہ کیا۔ میدانِ بدر میں جب آپؐ نے اسلامی لشکر کو بدر کے قریب ترین چشمے پر ٹھیرایا تو آپؐ نے حضرت حباب بن منذرؓ کی راے کو اپنی راے پر ترجیح دی اور فرمایا: تم نے بہت ٹھیک مشورہ دیا۔ اس کے بعد آپؐ لشکر سمیت اٹھے اور آدھی رات کے وقت دشمن کے قریب ترین چشمے پر پہنچ کر پڑائو ڈال دیا۔اسوئہ رسولؐ میں اس حوالے سے بہت سی مثالیں سامنے آتی ہیں۔
دشمنانِ دین کا ایک ہتھکنڈا یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اہل دین کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرتے، شکوک و شبہات ڈالتے، افواہیں پھیلاتے اور اسلام و مسلمان کے بارے میں طرح طرح کی غلط باتیں مشہور کرتے ہیں۔ دین اور اہل دین کے لیے یہ لمحات بڑے نازک اور خطرناک ہوتے ہیں خصوصاً اسلامی عناصر کے لیے جو مسلمانوں کی بیداری اور اسلام کے احیا کے لیے کام کررہے ہوں۔ احیاے اسلام کی تاریخ میں ایسے بے شمار مواقع ہیں جب دشمن اپنے ان عزائم کو مسلمانوں کے خلاف کامیاب بناتا دکھائی دیتا ہے۔ اس مقصد کی خاطر دشمن جو طریقہ اختیار کرتا ہے وہ انتہائی گھٹیا اور رقیق بھی ہو سکتا ہے۔ ایسے حالات میں اسلامی قیادت کے لیے بھی اور کارکنانِ دعوت کے لیے بھی انتہائی ہوش مندی اور احتیاط کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
عہد حاضر میں بھی اس کی بے شمار مثالیں ہمارے روزانہ کے مطالعے اور مشاہدے میں آتی ہیں۔ اس معاملے میں دشمن یہاں تک بھی گر سکتا ہے کہ مسلمانوں کی ذاتیات کو ہدف بنا کر ان کے اخلاق و کردار کو داغ دار کرنے کی کوشش کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اہل خانہ کے اعلیٰ اخلاق کے بارے میں کسے شک ہو سکتا ہے مگر دشمن یہاں بھی وار کر گیا اور آپؐ کی زوجۂ محترمہ حضرت عائشہؓ پر تہمت لگا دی۔ چونکہ یہ افواہ سراسر بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی تھی، اس لیے قرآنِ حکیم نے اس پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے اہل ایمان سے یہ کہا کہ جب تمھیں خانۂ نبوت کی پاک دامنی کے بارے میں شک نہیں تھا تو تم نے یہ خبر سنتے ہی فوراً کیوں نہیں کہہ دیا کہ یہ بہت بڑا جھوٹ اور بہتانِ عظیم ہے۔
بدگمانی سے اجتناب اور اپنے ساتھیوں کے بارے میں محتاط گفتگو ہی دراصل کسی اجتماعیت کو مستحکم رکھنے کا باعث ہوتی ہے اور محض افواہوں پر کارروائیاں ہونے لگیں تو بھی یہ شیرازہ متحد نہیں رہ سکتا‘ اور اگر حقیقی خامیوں کو نظرانداز کیا جاتا رہے تب بھی مخلصین کی رفاقت کو تادیر شکوک و شبہات سے بچائے رکھنا مشکل ہوتا ہے۔
بعض لوگ صبر کو ایک منفی رویہ سمجھتے ہیں اور کمزوری و بے بسی اور ذلت و خواری کے ساتھ خلط ملط کر دیتے ہیں۔ یہ صبر نہیں ہے، بلکہ صبر تو قابل تعریف اوصاف اور مثبت رویوں کا نام ہے۔ صبر تو یہ ہے کہ دشمنانِ دین ہی نہیں بلکہ اپنے بھائی بندوں کی طرف سے بھی ایک داعی جو ذہنی و جسمانی تکلیفیں اٹھائے ان پر بددلی، کم ہمتی اور جزع فزع کا شکار نہ ہو۔ ثابت قدمی اور صبر لازم و ملزم ہیں۔ اگر داعی صبر سے کام لے گا تو وہ ثابت قدم رہے گا۔ صبر کا دامن جونہی اس کے ہاتھ سے چھوٹے گا اس کے قدم لڑکھڑا جائیں گے۔
اپنے نفس سے جہاد پر بھی صبر کرنا ہوتا ہے۔ دوسروں سے جہاد پر بھی صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ مشقتوں مصیبتوں کے جھیلنے کے لیے بھی صبر کی ضرورت پڑتی ہے۔ باطل سے ٹکرانے کے لیے بھی صبر ضروری ہے۔ دعوتِ حق کے راستے کی طویل مسافت بھی صبر کی متقاضی ہے۔ اس راہ کے تکلیف دہ نشیب و فراز بھی صبر ہی سے طے ہو سکتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ۲۳ برس کی داعیانہ زندگی صبر کی ایک دردناک داستان ہے۔ دیکھیے وہ شخص جو اپنی قوم سے صادق و امین کا لقب پا چکا ہو اور قوم اس کو سرآنکھوں پر بٹھاتی ہو‘ وہ جب کائنات کی عظیم ترین صداقت قوم کے سامنے پیش کرے اور قوم اس کو جھٹلا دے تو اس سے بڑی تکلیف دہ بات کیا ہو سکتی ہے۔
معزز و محترم اور کعبہ کا متولی قبیلہ محض اس بنا پر تین سال کے لیے شعب ابی طالب میں محصور کر دیا جائے کہ اس کے ایک فرد نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا ہے۔ کیا یہ کوئی معمولی واقعہ ہے کہ تین برس تک ان لوگوں کو انسانی ضروریات کی اشیا فراہم نہ ہونے دی جائیں اور انھیں قوتِ لایموت بھی میسر نہ آ سکے۔ کیا اس سے بڑی حق تلفی بھی کوئی ہو سکتی ہے کہ کعبہ کے حدودِ حرم کے اندر تو جانور بھی محفوظ و مامون ہوں مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں بھی آزادانہ عبادت کی اجازت نہ ہو اور ان پر گندی اوجھڑی پھینکی جائے، ان کا گلا دبایا جائے، ان سے بدکلامی کی جائے۔ کیا یہ نہایت تکلیف دہ امر نہیں کہ حقیقی چچا کے بیٹے آپؐ کی بیٹیوں کو اپنے نکاحوں سے خارج کر کے آپؐ کے گھر بھیج دیں اور وجہ صرف آپؐ کی دعوتِ دین ہو۔ کیا دنیا کی تاریخ کا یہ انوکھا واقعہ نہیں کہ قوم کے معزز و محترم قبیلے کا پاک دامن چشم و چراغ زندگی کا ایک حصہ مکہ میں گزارنے کے بعد اپنے گھر بار کو چھوڑنے پر مجبور ہو جائے اور انتہا یہ ہو کہ دوسری جگہ پہنچ کر بھی اس کو سکون سے نہ رہنے دیا جائے بلکہ مسلسل ۱۰ برس جنگوں میں مصروف رکھا جائے۔ طائف کا واقعہ کسے یاد نہیں ہے اور اس واقعے میں رسولِ رحمتؐ کے منہ سے نکلے الفاظ بھی سب کو یاد ہونے چاہییں کہ ’’نہیں اے اللہ، نہیں! انھیں تباہ نہ کرنا۔ یہ نہیں تو ان کی اولاد میں سے کوئی تیرا نام لیوا ہو گا‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مصیبتوں، تکلیفوں اور ابتلائوں آزمایشوں سے لبریز ہے۔ ان تمام لمحات میں صبر آپ کا اوڑھنا بچھونا رہتا ہے اور آپؐ قرآن کے اس بیان کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کرتے دکھائی دیتے ہیں:
وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْاعَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَ اُوْذُوْا حَتّٰیٓ اَتٰھُمْ نَصْرُنَا وَ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ (الانعام۶:۳۴) تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں، مگر اس تکذیب پر اور اُن اذیتوں پر جو انھیں پہنچائی گئیں، انھوں نے صبر کیا، یہاں تک کہ انھیں ہماری مدد پہنچ گئی۔ اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ نے مخالفین کی طرف سے تحقیر و تضحیک کی ایک کھلی جنگ کا سامنا کیا۔ قتل و تعذیب سے دوچار ہوئے۔ ہجرت کے عمل سے گزرے۔ مال و اسباب سے محروم ہوئے۔ غرض کوئی ایسی تکلیف باقی نہیں رہ گئی تھی جو آپؐ کو اور آپؐ کے ساتھیوں کو نہ پہنچائی گئی ہو۔ عہد حاضر کی میڈیا یلغاروں اور ابلاغی ہتھکنڈوں جیسے حربے خوب آزمائے گئے۔ اسلام اور مسلمانوں کو عوام کی نظروں سے گرانے کے لیے مضحکہ خیز استدلال اور اوچھے نقطۂ نظر پیش کیے گئے۔ الزام عائد کرتے وقت عقل و منطق کے تقاضوں کو بالاے طاق رکھ دیا گیا‘ حتیٰ کہ آپؐ کو جھوٹ بولنے والا، مجنون، پاگل، دیوانہ اور جادوگر کہا گیا (نعوذ باللہ)۔ معاملہ اس ابلاغی مہم جوئی تک ہی رہتا تب بھی کچھ کم تکلیف دہ نہ تھا لیکن مخالفین نے عداوت کی آخری حد تک پہنچنے کے لیے آپؐ کو راستے سے ہٹانے کی دھمکی تک دے دی۔
پھر معاملے کی نزاکت اپنے نقطۂ عروج کو پہنچتی ہے اور آپؐ کے قتل کا عملی منصوبہ مشرکین مکہ کی مجلس میں منظور ہوتا ہے اور رات کے اندھیرے میں اس پر عمل درآمد بھی کیا جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ان لوگوں سے محفوظ رکھا۔
اس سارے عرصے میں دشمن اپنا کام کرتا ہے اور داعی اپنا۔ دشمن نے اپنے ہتھکنڈے آزمائے اور داعی نے اپنے صبر و استقلال کا مظاہرہ کیا اور ان مخالفتوں کی پروا کیے بغیر قوم کی مجلسوں میں جا کر اور ایک ایک فرد کو مل کر اپنی دعوت پیش کی۔ حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے: کیا کوئی شخص مجھے سوار کر کے اپنی قوم کے پاس نہیں لے جائے گا؟ (تاکہ میں انھیں دعوت دوں)‘کیونکہ قریش نے مجھے میرے رب کا کلام لوگوںتک پہنچانے سے روک رکھا ہے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے راستے کی ان تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے محو سفر رہے اور داعی کے شایانِ شان بھی یہی ہے کہ وہ اپنے عزم کو شکستہ نہ ہونے دے اور دعوتِ دین جن قربانیوں کا مطالبہ کرتی ہے ان کو پیش کر کے حمیت فی الدعوۃ کی لاج رکھے۔ یہ بات داعیانِ دین کے ذہن میں ہمیشہ تازہ رہنی چاہیے کہ دعوت اس وقت تک کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکتی جب تک اس کی راہ میں روحوں کو گھلانہ دیا جائے۔ دعوت کی نصرت و تائید کے لیے عزم کی شدت سے بڑھ کر کوئی چیز اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ قوتیں صَرف کیے بغیر اور قربانیاں دیے بغیر دعوت‘ نظریات و خیالات تک محدود ہو گی جو کتابوں میں رقم اور مقررین کی تقریروں میں موجود ہوتی ہے مگر ایسی دعوت کوئی تبدیلی اور انقلاب پیدا نہیں کرسکتی۔ سیرتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے یہ چیز روزِروشن کی طرح عیاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ آپؐ اور آپؐ کے صحابہؓ نے اپنے جسم و جان سے لے کر دنیاوی سازو سامان تک ہر چیز کو اسلام کے اوپر نچھاور کر دیا جس کے نتیجے میں ایک عظیم انقلاب برپا ہوا۔ آج بھی انقلاب کی منزل اسی طریقے سے قریب ہو سکتی ہے!!
ممالک اسلامیہ میں احیاے دین کے لیے اس وقت حکمت عملی کے اعتبار سے دو طریقے اسلام پسند عنصر کی بڑی تعداد میں مقبول و معروف نظر آتے ہیں۔ ایک نظری تبلیغ و تعلیم کا طریقہ ہے اور دوسرا عملی جہاد کا طریقہ۔
نظری تبلیغ و تعلیم کے نتیجے میں کہا جاتا ہے کہ جب معاشرے کے افراد کی اکثریت سدھرے گی تو اس کے نتیجے میں خود بخود ایک صالح انقلاب برپا ہو گا جو مقتدر طبقات میں بھی اپنے حامی افراد تلاش کر لے گا۔ لیکن ان کے پاس اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں کہ جب باطل نظریات محض علمی و نظری صورت میں ہی نہیں بلکہ ایک جیتے جاگتے معاشرے اور زندہ و متحرک اجتماعیت کی صورت میں موجود ہوں‘ اور باطل نظام نہ صرف عملی دنیا پر قابض ہو بلکہ اس کی پشت پناہی کے لیے فعال سماجی و سیاسی اور اقتصادی ادارے موجود ہوں‘ تو ایسی صورت میں اسلام کو محض علمی و نظری حیثیت سے پیش کرنے والی تحریک اس کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہے ؟ بالخصوص‘ جب کہ مقصد ایک بالفعل قائم نظام کو ختم کر کے اس کی جگہ ایک ایسے نظام کو عملاً برپا کرناہو جو اپنے مزاج، اصول حیات اور ہرکلّی و جزئی معاملے میں موجود غالب نظام سے مختلف ہو۔ نظریہ و نظام کی حیثیت سے اسلام کی خوبیوں کو زبان و قلم سے خواہ کتنا ہی واضح کیا جائے، یہ جدوجہد کبھی بھی اسلام کے غلبے کی تحریک برپا نہیں کرسکتی۔
محض ’نظری‘ مسلمان بالفعل قائم شدہ نظام اور متحرک وفعال فاسد معاشرے کی مشین کے ایک پرزے کی حیثیت سے اس کے تمام تنظیمی تقاضوں کو لبیک کہنے پر مجبور ہوں گے۔ فاسد اجتماعیت کو اکھیڑنا تو کجا ،وہ الٹے اسی بوسیدہ نظام کو اپنے سرمایۂ ایمان و اخلاق سے مستحکم کرنے کا باعث بنیں گے جس کی وہ نظری و علمی لحاظ سے مخالفت کر رہے ہوتے ہیں۔سید قطب شہیدؒ کے الفاظ میں: یہ لوگ اس نظام کے نسبتاً جان دار خلیے (cells) ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے لیے عناصر بقا اور اسباب حیات فراہم کرتے ہیں۔ اپنی قابلیتیں، اپنے تجربات اور اپنی تازہ دم قوتیں اس کی خدمت میں صرف کرتے ہیں تا کہ اسے عمرِ دراز اور قوتِ مزید حاصل ہو۔ اس لیے کہ ’کُل‘ جب اپنے تمام فرائض انجام دے گا تو ’جز‘ کو لازماً انھی فرائض کی ادایگی کے لیے ’کُل‘ کے مطابق ہی حرکت کرنا ہوگی۔ (معالم فی الطریق)
انسانوں کی حاکمیت کے بجاے حاکمیت الہٰیہ کا قیام، زمام کار کو غاصبین و فاسدین سے چھین کر قوانین انسانی کی تنسیخ اور شریعت الٰہی کی تنفیذ ایک ایسی کٹھن مہم ہے جو محض دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تربیت کے نتیجے میں کامیاب نہیں ہو سکتی ۔ خلق خدا کی گردنوں پر سوار غاصبانہ تسلّط رکھنے والوں نے تاریخ میں پہلے کبھی محض تعلیم و تبلیغ اور اپیل کے نتیجے میں سماجی و سیاسی قیادت سے دست برداری اختیار کی نہ آیندہ ایسا ممکن ہے، کیونکہ اللہ کے سوا ہر قسم کے اقتدار کی نفی کے ساتھ ساتھ خدا کے شرعی نظام کے قیام کا مثبت کام اس دعوت کا مغز ہے۔ اتنے اہم مشن کی انجام دہی کے لیے دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ ایک ہمہ جہت تحریکِ جہاد کا برپا ہونا بھی اس مشن کا فطری تقاضا ہے۔ اسلامی نظریے کا ایک ایسی منظم تحریک کا قالب اختیار کر لینا جو باطل سے باغی اور بالکل جداگانہ طرز کی قیادت کے تابع ہو ، دین کا اس شکل میں دنیا سے اپنا تعارف کرانا ہی اس امر کے لیے کافی ہے کہ ارد گرد کے تمام باطل و فاسد معاشرے اور طبقے اس کو مٹانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے وجود کے تحفظ کے لیے باہر نکل آئیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں نئی اسلامی اجتماعیت کو بھی اپنے تحفظ کا انتظام کرنا ہوگا۔ اس کش مکش کو چھیڑنے میں اسلام کی پسند و ناپسند کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ کش مکش تو اسلام پر ٹھونسی جاتی ہے جو دو ایسے نظاموں کے مابین چھڑ کر رہتی ہے جو زیادہ عرصے تک بقاے باہم کے اصول پر ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اسلامی تحریک پر مسلط کردہ یہ جنگ لڑے بغیر چارہ نہیں۔
فساد فی الارض کفر کی فطرت اور اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنا (یصدون عن سبیل اللّٰہ) اس کی فطرت کا لازمی تقاضاہے۔ لیکن اگر مسلم ممالک کے حکمران بھی اسی روش پر گامزن ہوں تو ان کے بارے میں کیا رویہ اختیار کیاجائے؟ یہ آج کی مسلم دنیا کا اہم سوال ہے۔ غیروں کے سُر میں سُر ملاتے ہوئے یہ حکمران بھی اگر اسلامی بنیاد پرستی کے نام سے ہوّا کھڑا کریں تو پوچھا جا سکتا ہے کہ آخر ان بنیاد پرستوں کا مطالبہ کیا ہے؟ ’اسلام‘ ۔۔۔ صرف اور صرف ’اسلام‘، وہ اسلام جو ان ممالک کی اکثریت کا عقیدہ و مذہب ہے۔ کیا کسی اجتماعیت کا اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے نظام کو اپنے عقیدے کے مطابق چلانے کا مطالبہ کرنا کوئی ایسا جرم ہے جس کی پاداش میں انھیں دہشت گرد، بنیاد پرست‘ جنونی‘ رجعت پسند قرار دیا جائے ،ان کے لیے درِزندان کھولے جائیں او ر صلیبیں گاڑی جائیں۔
ترکی و الجزائر میں انتخابی کامیابیوں کے باوجود اسلامی تحریکوں کو اقتدار سے محروم رکھنے کی سازش، پاکستان اور مصر میں جمہوریت کے ادھورے تجربات کے نتیجے میں غلبۂ اسلام کی منزل سے دُوری ، عوام کی سیاسی و معاشی بدحالی کی ذمہ دار امریکا کی آلۂ کار مقامی قوتوں کی کاسہ لیسی اور بین الاقوامی اداروں کی سیاسی و معاشی دھونس نے مسلمان نوجوانوں میں اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف جنگ آزمائی کا ایک مزاج پیدا کیا جسے افغانستان و کشمیر اور چیچنیا میں مجاہدینِ آزادی کی معرکہ آرائیوں اور افغانستان میں اس کے ذریعے طالبان کی اسلام پسند حکومت کے قیام نے ان کے جذبے کو مہمیز دی ہے۔ غیر ملکی تسلط کے خلاف برسرپیکار جہادی قوتیں ، جن کے زیر اثر افراد کی اکثریت جمہوریت سے بیزار اور سیاست سے نابلد ہے، اس احساس کو فزوں تر کر رہی ہے کہ پاکستان میں غلبۂ اسلام کی صورت صرف جہاد ہے ۔ تاہم‘ یہ سوال غور طلب ہیں: ایک مسلم اکثریتی ریاست میں یہ جہاد کیسے ہوگا، مسلح یا غیرمسلح؟ اگر مسلح ہوگا تو اس کا نشانہ کون سے طبقات اور افراد ہوں گے‘ اور اگر غیرمسلح ہو گا تو اس کا طریق کار کیا ہو گا؟ نیزاس جہاد کو فساد اور خانہ جنگی بننے سے کیسے روکا جائے گا؟
تمام تر خلوص اور جذبۂ قربانی کے باوجود یہ جہادی عنصر داخلی جہاد کے بارے میں ایک ابہام کا شکار ہے۔ یہ حضرات نہ تو زمینی حقائق سے آنکھیں چار کرنے کے لیے تیار ہیں اور نہ سیاسی و تمدنی ارتقا اور جغرافیائی اسٹرے ٹیجک تبدیلیوں کے تناظر میں قرآن و سیرت نبویؐ سے اجتہادی بصیرت کے ساتھ رہنمائی کے حصول کی صلاحیت سے ہی متصف ہیں ۔ عصر حاضر کے انقلابی مفکر راشد الغنوشی کے نزدیک جب تک صورت حال یا امر واقعہ کے اساسی اور فیصلہ کن توازن کا بغور جائزہ نہ لیا جائے، معروضی حالات کو سمجھ نہ لیاجائے، حالات کی نبض پر ہاتھ نہ ہو، تغیر و تبدل کے مواقع کابڑی باریک بینی سے جائزہ نہ لیا جائے‘ اور پھر اس نتیجے پر نہ پہنچا جائے کہ ہمیں جدوجہد کس سطح پر کرنی ہے؟ ہماری استطاعت کیا ہے اور امکانات کیا ہیں؟ کبھی اقدام درست نہیں ہوسکتا۔
تغیر احوال کو صحیح طر ح سے نہ سمجھ سکنے کی ایک وجہ ریاست کے جدید ادارے اور اس کے تقاضوں کا عدام ادراک ہے‘ اور یہ کمزوری نتیجہ ہے اجتہاد سے گریز کرنے کا۔ اپنے موضوع کو صرف پاکستان تک محدود رکھتے ہوئے پہلے ہمیں ملک کے معروضی حالات اور آئینی پوزیشن کا تعین کرناہوگا۔
(ا)دستوری لحاظ سے: (۱)پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے جس میں اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ کو تسلیم کیا گیا ہے۔ (۲) ملکی پارلیمنٹ کے لیے قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کی ممانعت ہے۔(۳) حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے لیے ایسا سازگار ماحول پیدا کرے جس میں وہ صحیح مسلمان بن سکیں۔ (۴) صدر، وزیراعظم اور دیگر کلیدی عہدوں پر تقرر کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے۔ (۵) ہر شہری کو بنیادی انسانی حقوق بشمول عقیدہ و عبادت کی آزادی، ظلم کے خلاف احتجاج ، تنقید و محاسبے کی آزادی ، انتخاب حکومت کے لیے حق راے دہی، تنظیم سازی و تبلیغ و تربیت جیسے حقوق حاصل ہیں۔
(ب) انتظامی اعتبار سے: ریاستی نظام کو چلانے اور کسی قسم کی مسلح بغاوت سے نبٹنے کے لیے ایک منظم اور جدید ترین حکومتی مشینری، فوج، پولیس اور دیگر عدالتی و انتظامی اداروں کا مضبوط نیٹ ورک موجود ہے۔
(ج) عملی اعتبار سے: (۱) ارباب اختیار کا رویہّ مجموعی طور پر اسلام سے منافقانہ رہا ہے۔ (۲) اسلامی قانون و دستور پر عمل در آمد بحیثیت مجموعی تعطل کا شکار رہاہے۔ (۳) بالادست طبقے بالعموم آئینی و جمہوری حقوق کو غصب کرتے آ رہے ہیں ۔ (۴) عوام کی اکثریت مسلمان ہے مگر اجتماعی معاملات غیر الٰہی رسوم و قوانین کی گرفت میں ہیں‘ جب کہ انفرادی زندگی بھی مجموعی طور پر کفرو اسلام کا مرکب ہے۔
ان تینوں پہلوئوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں دیکھنا ہو گا کہ آغاز دعوت میں حضوؐر کی جدوجہد کا اسلوب کیا تھا ۔ امام مالکؒ کے مطابق امت کے آخری دور کی اصلاح بھی اسی طریقے پر ہو گی جس طورسے آغازِ دعوت کے دور میں ہوئی۔ دیکھنا یہ ہے کہ مکی و مدنی ادوار جدوجہد کے کون سے راستے کی طرف ہماری رہنمائی کرتے ہیں ۔
مکی دور میں نازل شدہ ذیل کی دو آیات جہاد کے مفہوم کے باے میں واضح ہیں:
(۱) ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا مِنْم بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰھَدُوْا وَ صَبَرُوْٓا لا اِنَّ رَبَّکَ مِنْم بَعْدِھَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (النحل ۱۶:۱۱۰) بخلاف اس کے جن لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب (ایمان لانے کی وجہ سے) وہ ستائے گئے تو انھوں نے گھربار چھوڑ دیے‘ ہجرت کی‘ راہِ خدا میں سختیاں جھیلیں اور صبر سے کام لیا‘اُن کے لیے یقینا تیرا رب غفورو رحیم ہے۔
(۲) فَلاَ تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَجَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا (الفرقان ۲۵: ۵۲) پس اے نبیؐ، کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ زبردست جہاد کرو۔
پہلی آیت میں ہجرت کرنے والوں سے مراد مہاجرین حبشہ ہیں‘ اور اس کے بعد جس جہاد کا ذ کرہے وہ مکہ کے پورے دور میں تلوار کے ذریعے نہیں کیا گیا۔ اس دور میں جس طریقے سے جہاد کیا گیا، اس کا بیان دوسری آیت میں ہے جس میں جہاد کا حکم بھی دیا گیا ہے اور ساتھ جہاد کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے‘ جس کے مطابق ایک تو کافروں کی کسی نوعیت کی اطاعت نہیں کرنا‘ اور دوسرے اس قرآن کے ذریعے جہادکبیر کرنے کا حکم ہے۔ ظاہرہے کہ قرآن کوئی ہتھیار نہیں جس سے کسی پر ضرب لگائی جائے۔ قرآن کے ذریعے جہاد کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس کے استدلال کے ذریعے نظام شرک کا باطل اور اسلام کا حق ہونا واضح کیا جائے۔ حضوؐر نے پورے مکی دور میں کفار کے تمام تر ظلم و استبداد کے باوجود کوئی ہتھیار نہ اٹھایا ۔ امام ابن قیم ؒ فرماتے ہیں: ’’آپؐ اپنی بعثت کے بعد تقریباً ۱۳سال تک دعوت و تبلیغ کے ذریعے لوگوں کو اللہ کا خوف دلاتے رہے۔ اس عرصے میں نہ جنگ کی اور نہ جزیہ لیا بلکہ آپؐ کو یہی حکم ملتا رہا کہ ہاتھ روکے رکھیں، صبر سے کام لیں۔ (زاد المعاد)
گویا کہ مکی زندگی میں بھی جہاد کا عمل جاری تھا مگر قتال پر پابندی تھی۔ ایسا کیوں تھا؟ سیدقطب شہید ؒکے مطابق: مکی زندگی میں جہاد بالسیف سے دست کش رہنا قابل فہم ہے۔ اس لیے کہ مکہ میں حضوؐر کے لیے بنو ہاشم کی تلواروں کی حمایت کی وجہ سے حریت تبلیغ کا انتظام موجود تھا، آپؐ فرداً فرداً ہر شخص کو مخاطب کر سکتے تھے۔ مکہ میں کوئی ایسی منظم سیاسی قوت موجود نہ تھی جو دعوت و تبلیغ کی آواز کے سامنے ایسی دیواریں کھڑی کر سکتی کہ لوگ اسے سننے سے بالکل محروم ہوجاتے۔ (فی ظلال القرآن)
سیدقطب شہید ؒ کُفُّوْا أَیْدِیَکُمْ (اپنے ہاتھ روکے رکھو) کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اس وقت کسی باضابطہ حکومت کا کوئی وجود نہ تھا، جو اہل ایمان کو ایذا رسانی کا نشانہ بناتی‘ بلکہ تعذیب و تادیب کا عمل ہر مومن کے اپنے ہی رشتہ داروں اور سرپرستوں کے ہاتھوں جاری تھا۔ اس طرح کی فضا میں اِذن قتال کے صاف معنی تھے کہ گھر گھر میں معرکہ برپا ہو جاتا اور خانہ جنگی کا طویل اور لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا۔ (فی ظلال القرآن)
مکی دور میںاگر جہاد بالسیف فرض کر دیاجاتا تو یہ محدودجنگ مسلمانوں کی اس قلیل جماعت کے کلّی خاتمے پر منتج ہوتی۔ خواہ مسلمان اپنے سے کئی گناز یادہ لوگوں کو مار ڈالتے لیکن نظام شرک و ظلم کی عمل داری جوں کی توں قائم رہ جاتی۔
اس صورت حال کے پیش نظر اگر ہمیں پاکستان میں آزادی تقریر و تحریر اور آزادی اجتماع و تنظیم حاصل ہے تو ابلاغ کے آئینی راستے کو چھوڑ کر جہاد کے لیے بندوق اٹھا کر کھڑے ہو جانا کہاں کی دانش مندی ہے‘ جب کہ ابھی دعوت و تبلیغ کا حق بھی ادا نہ کیا گیا ہو۔ آج‘ جب کہ ملک وملّت کو دشمن کے خلاف یک جہتی و اتحاد کی ضرورت ہے، مسلح جدوجہد کے نتائج سواے خانہ جنگی وانارکی کے، اسلام کے حق میں کچھ بھی بہتر نہ ہوں گے۔
موجودہ دور میں جب سبک رفتار ذرائع رسل و رسائل کے ذریعے حکومتی مشینری حرکت میں آتی ہے تو اپنے مضبوط نیٹ ورک کے ذریعے کسی بھی گروہ کی بڑی سے بڑی جدوجہد کو سختی سے سے کچل بھی سکتی ہے اور عوام الناس کو اپنے سریع الاثر ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈے کے ذریعے اسلامی تحریک کو یکہ وتنہا کر سکتی ہے۔ اس کے مقابلے میں آئینی و جمہوری خطوط پر استوار تحریک عوام میں اپنا ایک اخلاقی جواز اور عدالت میں قانونی تحفظ رکھتی ہے، جس کی وجہ سے ایک لمبے عرصے تک تحریک کو جاری رکھنا ممکن ہے ۔
مکی دور کی اس تحریک جہاد کاایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ تحریک اپنی دعوت کے آفاقی ہونے کے باوجود زندگی کے روز مرہ معاملات اور مقامی مسائل سے بھی پوری طرح مربوط تھی اور ان کے حل کے لیے مروجہ متوازی و سائل سے کام لے رہی تھی۔ اس تحریک نے جہاں عقیدہ و اخلاق کی اصلاح کے لیے آواز بلند کی وہاں ظلم کے خاتمے کی جدوجہد کو دعوت کی کامیابی تک ملتوی نہیں کیا‘ بلکہ قولی دعوت کا عملی اظہار اسی صورت میں تھا کہ ہر داعی مظلوم کا ساتھی اور پشتیبان بن گیا۔
ایک مظلوم کا حق دلوانے کے لیے حضوؐر کا ابو جہل جیسے دشمن کا دروازہ کھٹکھٹانا (ابن ہشام)، مظلوموں کی حمایت کے لیے دور ِ جوانی میں کئے گئے معاہدہ حِلف الفضول کی دورِنبوت میں بھی تصویب و تائید (طبقات، مستدرک) ، پہلی وحی کی گھبراہٹ کے موقع پر حضرت خدیجہؓ کی طرف سے تسلی کے الفاظ: ’’آپ درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ، محتاجوں کو کما کر دیتے اور راہِ حق میں پیش آمدہ مصائب پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں‘ ‘ (بخاری)، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو ان کی زمین سے بے دخلی کرنے والوں کو فرمانا: اگر میرے آنے کے بعد بھی کمزوروں پر ظلم ہو تو مجھے پھر اللہ نے رسول بناکر کیوں بھیجا ہے (انتخاب حدیث)‘ فرمان نبویؐ:’’بے شک اللہ ایسی امت کو پاکیزگی نہیں بخشتا جس کے ماحول میں کمزوروں کو ان کا حق نہ دلوایا جائے‘‘(مشکوٰۃ)___ سیرت نبویؐ کا یہ پہلو نہ صرف عام مسلمانوں نے نظر انداز کر دیا ہے بلکہ وہ لوگ جو افغانستان و کشمیر میں ہونے والے ظلم پر تڑپ اٹھتے ہیں اور جان کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں‘ وہ اپنے ملک میں اپنے ارد گرد ہونے والے ظلم سے بالکل آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ ظالم جاگیرداروں او بدعنوان حکمرانوں اور افسران کے ہاتھوں کتنی ہی عصمتیں، عزتیں اور محنت کی کمائیاں برباد ہو رہی ہیں اور ان مظلوموں کی جنگ لڑنے والا کوئی نہیں۔ جذبات میں آکر گولی کھا لینا اتنا مشکل کام نہیں ہے جتنا ظلم اور گھٹن کے شکار معاشرے میں کسی مظلوم کے ساتھ کھڑے ہو کر خوف و دہشت اور مایوسی کی فضا میںکسی ظالم کے سامنے مسلسل آوازۂ حق بلند کرنا مشکل ہے۔
مدنی زندگی کے اوائل میں‘ جب کہ مدینہ و اطراف مدینہ کے قبائل کی اکثریت ابھی تک شرک پر قائم تھی، عدم جنگ کے معاہدے کے مطابق وہاں تبلیغ و دعوت کے کھلے مواقع حاصل ہوگئے تھے اور کوئی سیاسی قوت اس پر قدغن لگانے والی اور لوگوں کو اس سے روکنے والی نہ تھی، حضوؐر نے منافقین کے خلاف تلوار نہ اٹھائی۔ اللہ کے عطا کردہ علم کی بنیاد پر حضوؐر کو منافقوں کی منافقت کا حال بھی معلوم تھا اور بعض مواقع پر تو ان کی مخالفت واضح شکل میں سامنے بھی آگئی اور مسلمانوں کو ان کی وجہ سے کئی مواقع پر نقصان بھی اٹھانا پڑا لیکن جب انھوں نے کوئی عذر بیان کیا تو آپؐ نے ان کے عذر کو قبول کیا۔ حتیٰ کہ غزوئہ بنو مصطلق کے موقع پر عبداللہ بن ابی نے حضوؐر اور مہاجر صحابہ کے بارے میں ہرزہ سرائی کی۔ حضرت عمرؓ نے آپ سے اس کے قتل کی اجازت طلب کی تو آپؐ نے فرمایا : ’میں نہیں چاہتا کہ لوگ کہیں کہ محمد اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرنے لگا ہے۔ (تفہیم القرآن)
مسلم معاشرے میں موجود منافقین کے خلاف جہاد بالسیف کے لیے سورۂ توبہ کی آیت یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاَغْلُظْ عَلَیْھِمْط (۹:۷۳) سے استدلال کیا جاتا ہے۔ اس آیت کا حقیقی مفہوم کیاہے‘ اور منافقین کے خلاف جہاد کی نوعیت کیا ہوگی؟ امام ابن قیمؒ کے مطابق : کفار اور منافقین کے بارے میں اس آیت میں کہا گیا ہے کہ ان کے خلاف جہاد کیا جائے اور ان سے سخت برتائو کیا جائے۔ چنانچہ آپ نے کفار کے ساتھ شمشیروسناں سے جہاد کیا اور منافقین کے ساتھ دلیل و زبان سے___ رہا منافقین کے بارے میں آپؐ کا اسوہ توآپ ؐ کو حکم دیا گیا کہ آپؐ ان کے ظاہر کو قبول کر یں اور ان کے باطن کے حالات کو اللہ پر چھوڑ دیں‘ اور علم اور دلیل سے ان کے ساتھ جہاد کریں۔ ان سے شدت کا برتائو کریں۔ان کا جنازہ پڑھنے اور ان کی قبروں پر قیام کرنے سے منع کر دیا گیا ۔ (زاد المعاد)
مولانا مودودیؒ کے مطابق: منافقین کے خلاف جہاد اور سخت برتائو سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان سے جنگ کی جائے۔ دراصل اس سے مراد یہ ہے کہ ان کی منافقانہ روش سے جو چشم پوشی اب تک برتی گئی ہے، جس کی وجہ سے ان کو جماعت کے معاملات میں دخل دینے اور سوسائٹی میںاپنے نفاق کا زہر پھیلانے کا موقع ملتا رہا، اس کو آیندہ کے لیے ختم کر دیا جائے۔ اب جو شخص بھی مسلمانوں میں شامل رہ کر منافقانہ روش اختیار کرے ، اسے کھلم کھلا بے نقاب کیا جائے، علانیہ اس کو ملامت کی جائے، سوسائٹی میں اس کے لیے عزت و اعتبار کا کوئی مقام باقی نہ رہنے دیا جائے، معاشرت میں اس سے قطع تعلق ہو، جماعتی مشوروں سے وہ الگ رکھاجائے، عدالتوں میں اس کی شہادت غیر معتبر ہو، عہدوں اور مناصب کا دروازہ اس کے لیے بند رہے۔ (تفہیم القرآن)
جہاں تک معاملہ ہے ایک مسلم ریاست میں ظالمانہ و غاصبانہ تسلط رکھنے والے مسلم حکمرانوں کا تو اس بارے میں مسلح جدوجہد(خروج) جمہور علما کے نزدیک ناپسندیدہ عمل رہاہے۔ یہ موقف مثالی نہ ہونے کے باوجود عملی طور پر امت کے لیے نسبتاً کم نقصان دہ ثابت ہوا ہے‘ جب کہ مسلح جدوجہد میں کامیابی کے بعد بھی ایک صالح انقلاب کی منزل ایک خواب ہی رہی۔ ابتدائی دور میںخوارج اور بنو عباس اور دور حاضر میں جنرل نجیب و ناصر کی حکومتیںاس کی واضح مثالیں ہیں۔ خوارج اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والوں کی خون ریز معرکہ آرائیوں کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کو ظلم سے نجات حاصل نہیں ہوئی بلکہ معصوموں کی جان تلفی کے ساتھ ساتھ دشمنان ملّت کی امت میں مداخلت کے لیے انتشار کے کئی دروازے کھل گئے ۔سید مودودی نے بھی اس تاریخی تجربے کی روشنی میں دعوت و تحریک کے آئینی اور علانیہ ذرائع اختیار کرنے پر زور دیا۔ان کے نزدیک سازشی اور خفیہ طریقے سے آنے والے انقلابات انھی ذرائع سے ختم کر دیے جاتے ہیں اور کبھی پایدار نہیں ہوتے۔
راشد الغنوشی کے نزدیک فتنہ و فساد اور انارکیت سے بچنے کاواحدراستہ یہی ہے کہ ’اسلامی جہاد‘ کا اصول اپنایا جائے اور اس میں سب سے افضل جہاد ’کلمۂ حق‘ ہے۔حضوؐر نے ظالم سلطان کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنے کو سب سے بڑا جہاد قرار دیا ہے (ترمذی)۔ ارشاد نبویؐ ہے کہ جو کوئی تم میں سے کوئی منکردیکھے اسے اپنے ہاتھ سے تبدیل کر ے۔ اگر اس کی استطاعت نہیں تو پھر زبان سے، اور اگر اس کی استطاعت نہیں تو اپنے دل میں بُرا جانے(مسلم)۔ اس ارشاد کے ذریعے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ازالہ منکر اور ظالم و ناپسندیدہ عناصر کا قلع قمع کرنے کے لیے مسلمانوں کے سامنے کئی راستے کھول دیے ہیں تا کہ وہ خود پیش آمدہ حالات کا اچھی طرح جائزہ لے کر، حالات و امکانات سامنے رکھ کر مناسب اور موزوں قدم اٹھائیں۔ شارع نے اسے مسلمانوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا اور امربالمعروف و نہی عن المنکر جیسے تنظیمی و وجوبی حکم کی کوئی خاص شکل متعین نہیں فرمائی جس کی بناپر علما کہتے ہیں: ’’قرآن میں کیفیت کی تحدید نہیں ہے کہ کس طرح اس واجب کی ادایگی کی جائے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ محض مسلمانوں کی مصلحت اور ان کے حالات وظروف کی رعایت سے کیفیت کے بیان کو چھوڑ دیاگیا ہے‘‘۔ (الدستور القرآنی)
عصر حاضر میں سیاسی اداروں کے ارتقا او ر تمدنی تنظیم کے تغیرات نے مسلح جدوجہد (خروج) اور محض نظری تبلیغ کے درمیان ایک ایسا راستہ ہمارے لیے کھول دیا ہے جو ہمیں بد امنی و انتشار سے بھی بچا سکتا ہے اور کسی بھی منکر کے خلاف اسلامی غیرت و حمیت کے اظہار کا طریقہ بھی ہے۔ یہ ظالموں اور حق کے غاصبوں کے خلاف اہل حق اور مظلوموں کابہترین ہتھیار بھی ہے اور جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے کا مؤثر ذریعہ بھی___ وہ ہے احتجاج کا حق۔ قرارداد مذمت، ہڑتال، جلسہ جلوس، دھرنا، احتجاج کی مختلف شکلیں ہیں۔ جو لوگ ان ذرائع کے اختیار کرنے کو وقت اور صلاحیت کا ضیاع قرار دیتے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ آج احتجاج اور مظاہرے عوامی ہمدردیوں کے حصول اور اپنی بات کو اوپر پہنچانے اور منوانے کا ذریعہ بھی ہیں، اور قومی و بین الاقوامی راے عامہ کے جاننے کا پیمانہ بھی۔ خود پاکستان کی دستوری تاریخ میں قرارداد مقاصد کی منظوری، قادیانیوں کا غیر مسلم قرار پانا، اور سیاسی لحاظ سے پاکستان میں سوشلزم کی پسپائی، جہادافغان و کشمیر کی پشت پناہی، ایٹمی دھماکوں پر حکمرانوں کا مجبور ہونا، توہین رسالتؐ کے معاملے میں یورپ کا زیر دبائو رہنا ،امریکی پشت پناہی کے باوجود شاہ ایران کا ملک سے فرار انھی ذرائع سے ممکن ہوا ہے ۔ اب‘ جب کہ دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے اور منکرات کے رسیا اپنی عوامی قوت کے اظہار کے ذریعے راے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرکے اپنی بات منوالیتے ہیں تو نیکی کے علَم برداروں کا احتجاج کے آئینی راستے کو مخالفین کے لیے کھلا چھوڑ کراپنے کو حصولِ حق کے ایک جائز ذریعے سے محروم رکھنا کہاں کی دانش مندی ہے۔
مذہب کے روایتی تصور کے مطابق اس بات کو دینی تقاضا سمجھنا بڑا مشکل ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ مذہب قدیم تنظیم و معاشرت کانام نہیں بلکہ ان تعلیمات کا نام ہے جو اس کے اندر حلول کیے ہوئے ہیں۔ جس طرح قدیم کو اسلامی تعلیمات کے ذریعے مذہبی بنایا گیا اور آج ہم اسے مذہبی سمجھتے ہیں‘ اسی طرح جدید کو بھی ہر دور میںدینی تعلیمات کی روشنی میں مذہبی بنایا جا سکتا ہے۔ ادوار کی تبدیلی کے ساتھ تمدن و معاشرت کی تنظیمی ہیئت اورمراکز قوت تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
حضوؐر نے جب کوہ صفا پر پہلاخطاب عام ارشاد فرمایا تو اس موقع پر آپؐ نے بھی قریش کو عرب کے اسی خاص اسلوب سے پکارا جس سے وہاں کسی خطرے کے نازک لمحے میں قوم کو بلایا جاتا تھا۔ پکارنے والابلندی پر کھڑے ہو کر معاملے کی سنگینی کا احساس دلانے کے لیے اپنا لباس اتار کر اسے فضا میں لہراتا اور واصباحاہ واصباحاہ کی ہانگ لگاتا۔ لازم تھا کہ لوگ دوڑ کر آئیں اور اس کی بات سنیں۔ حضوؐرکی شرم و حیا سے یہ تو بعید تھا کہ آپؐ اپنا لباس اتارتے، البتہ اس کی بجاے آپؐ نے اپنی رداے مبارک فضا میں لہرائی اور وہی واصباحاہ واصباحاہکی آواز بلند کی۔ گویا کہ عرب کے رواج کے غلط پہلو کو چھوڑ دیا اور اس کے ذریعے ابلاغ کے مقصدی پہلو سے استفادہ کیا۔
تمدنی تنظیم کی جدت کو اپنانے کی ایک مثال دیّت اور عاقلہ کے نظام میں ہے۔ زمانۂ جاہلیت کے قبائلی نظام میں عاقلہ (قریبی ورثا) کے ذریعے حادثات و خطرات کی تلافی کے لیے امداد باہمی اور اجتماعی جرمانے کی شکل نکالی گئی تھی، رسولؐ اللہ نے اسے برقرار رکھا۔ ابتدا میں نظام عاقلہ صرف خاندان و قبیلے تک محدود رہا لیکن عہد فاروقی میں حالات کی تبدیلی سے جب معاشرے کی نئی تنظیم وجود پذیر ہوئی تو حضرت عمرؓ نے نظام عاقلہ کو وسعت دیتے ہوئے قانون مقرر کیاکہ اگر قاتل اہل دیوان سے ہے تو عاقلہ اہل دیوان ہوں گے۔ اہل دیوان میں ایک دفتر یا محکمہ کے لوگ شامل ہوتے تھے جن کے نام ایک رجسٹر میں درج ہوتے تھے۔ اس تبدیلی کا سبب علامہ سرخسیؒ کی راے میں یہ ہے کہ: ’’رسولؐ اللہ نے دیّت کی ذمہ خاندان و قبیلے پر اس لیے ڈالی تھی کہ اس وقت قوت و مدد انھی کے ذریعے حاصل ہوتی تھی۔ پھر حضرت عمرؓ نے دفاتر کا نظام مرتب کیا تو یہ قوت و مدد اہل قبیلہ سے منتقل ہو کر اہل دفاتر سے وابستہ ہو گئی۔ آج اگر ہم پیشہ افراد کی یونین یا جماعت کے ممبران یا پیرکے مرید ین سے قوت و مدد حاصل ہو تو ان سب کو دیّت کاذمہ دار بنایا جاسکتاہے۔ جیسا کہ ہدایہ میں ہے: اگر آج باہمی مدد ہم پیشہ لوگوںسے ہو سکتی ہے تو عاقلہ ہم پیشہ لوگ ہی قرا ر پائیں گے۔ گویا کہ ناگریز ہے کہ ہر دور کی تنظیمی ہیئت میںقوت کے انتقال کا لحاظ کیا جائے ‘جب کہ اس مرکز قوت میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو۔
اس لحاظ سے دو ر حاضر میں احتجاج بھی ایک شرعی ضرورت ہے اور شرعی اصول کے مطابق ناگریز ضرورت کی صورتوں میں بہت سی ممنوعات بھی مباحات میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ الضرورات تبیح المحظورات(سرخسی،المبسوط)۔ جس طرح جہاد کے مروجہ قدیم طریقوں کو عبادت شمار کیا گیا‘ اسی طرح ان جدید طریقوں کے اختیار کرنے کو بھی قابل اجر و ثواب اور مذہبی امور گردانا جائے گا۔ شریعت میں دنیوی مصالح کو جو درجہ حاصل ہے، اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے: ’’دنیوی زندگی میں جن چیزوںکی ضرورت ہے اور جو ممدومعاون ہیں ان کے بغیر لوگ حق قبول نہیں کرتے۔ اس بنا پر دینوی حظوظ بھی عبادت میں شمار ہو ںگے، کیونکہ عبادات ان کے بغیر پوری نہیں ہوتی ہیں اور جس کے بغیر واجب کی ادایگی نہ ہو ، وہ بھی واجب ہے‘‘۔(الجوامع فی السیاسۃ الالٰہیہ)
اس اعتبار سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ حصول حق کے لیے پر امن احتجاج اور مظاہرے کا طریقہ اگر حضوؐر کے زمانے میں مروّج ہوتا تو اقامت دین اور حمایت مظلوم کے لیے آپؐ اس سے ضرور استفادہ فرماتے۔ جو لوگ احتجاج کے اس معروف طریقے کو خلافِ سنت کہہ کر رد کر دیتے ہیں، انھیں اس حدیث پر تدبر کی نگاہ ڈالنی چاہیے جسے بخاری و ابوداؤد نے روایت کیا ہے کہ: ایک صحابی نے رسولؐ اللہ سے اپنے پڑوسی کی طرف سے اذیت کی شکایت کی۔ آپؐ نے اسے صبر کی نصیحت کی۔ کچھ عرصے بعد پھر شکایت کی، آپؐ نے پھر صبر کرنے کو کہا۔ تیسری مرتبہ جب اس نے شکایت کی تو آپؐ نے فرمایا کہ اپنے گھر کاسامان باہر گلی میں ڈال کر بیٹھ جائو۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ جب گلی میں سے گزرنے والوں نے اس سے وجہ پوچھی تو اس نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ سب لوگوں نے اس کے پڑوسی کو ملامت کی۔ وہ بہت شرمندہ ہوا۔ اس نے پڑوسی کو منایا اور آیندہ نہ ستانے کا وعدہ کیا۔ ثابت ہوا کہ ناپسندیدہ عمل پر حضوؐر نے مظلوم کو صرف صبر کی تلقین ہی نہیں فرمائی بلکہ اظہار ناراضی اور حصول حق کا پر امن راستہ بھی دکھا دیا۔ اس واقعے سے اس طریقے کی قوت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔
اسلامی جہاد درحقیقت ایک عملی تحریک ہے جو ہر مرحلے میں اپنی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق متوازی اور موزوں وسائل اختیار کرتی ہے۔ دین اسلام عملی زندگی کامقابلہ محض تجریدی نظریات سے نہیں کرتا، نہ وہ زندگی کے مختلف مراحل کو جامد اور ناقابل تغیر ذرائع سے طے کرتا ہے۔ جو لوگ نظام جہاد پر گفتگو کرتے ہوئے قرآنی نصوص سے استدلال کرتے وقت دین کے اس امتیازی وصف کا لحاظ نہیںکرتے اور ان ادوار و مراحل کی فطرت و حقیقت سے آگاہ نہیں ہوتے جن سے تحریک گزری ہے‘ تو اس طرح کے لوگ نظام جہاد کو نہایت بھونڈے انداز سے خلط ملط کر دیتے ہیں۔
اسلامی تحریک مادی اقتدار سے نبر د آزمائی میں محض دعوت و تبلیغ پر اکتفا نہیں کرتی اور نہ عام انسانوں کے افکار کو بدلنے کے لیے محض جبرو اکراہ اور قوت کا استعمال ہی مناسب سمجھتی ہے۔ یہ دونوں اصول اس دین کے طریق کار میں یکساں طور پر اہمیت رکھتے ہیں۔ سید قطب شہیدؒ کے الفاظ میں: ’’اسلام کی برپا کردہ تحریک جہاد کا مقابلہ ایک ایسی جاہلیت سے ہوتا ہے جو ایک طرف خیالات و عقائد پر قابض ہوتی ہے‘ اور دوسری طرف اس کی بنیاد پر زندگی کا عملی نظام قائم ہوتا ہے‘ اور تیسری طرف اسے اور اس کے قائم کردہ نظام زندگی کی پشت پناہی کے لیے سیاسی و مادی اقتدار موجود ہوتاہے۔ اس لیے تحریک کو جاہلیت کا مقابلہ کرنے کے لیے متوازی وسائل و اسباب بروے کار لانا پڑتے ہیں‘‘۔ (معالم فی الطریق )
واضح رہے کہ اسلام کی عمومی تعلیمات تو انقلاب کے لیے پُرامن جدوجہد کی ہیں۔ البتہ جہاں آزادیِ اظہار اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے تبدیلی کی راہیں مسدود ہوجائیں یا غاصب قوتیں ملک پر قبضہ ہی کرلیں‘ جیساکہ فلسطین‘ کشمیر‘ افغانستان اور عراق کی صورت حال ہے‘ تو وہاں پُرامن جدوجہد کے ساتھ ساتھ اگر حق کی سربلندی اور آزادی کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد بھی کرنا پڑے تو اس کا بھی جواز ہے۔
اس پہلو سے دیکھا جائے تو اسلامی تحریک:
(ا) خیالات و عقائد کی اصلاح کے لیے دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تربیت کو ذریعہ بناتی ہے ۔
(ب) باطل نظام زندگی کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلامی تحریک حق کی قولی شہادت اداکرنے والو ں کی ایک ایسی منظم جماعت تشکیل دیتی ہے جو زندہ و فعال ہو۔ افراد کے اندر باہمی تعاون و یک جہتی اور ہم آہنگی و ہم نوائی ہو۔ وہ اپنے جداگانہ تشخص پر حملہ آورایسے عوامل و اسباب کا تدراک کرتی ہے جو اس کے وجود کو مٹانے کے درپے ہوں۔ دوسری طرف اپنے اسلامی تشخص کے استحکام اور توسیع کا انتظام کرتی ہے ۔
(ج) باطل نظام زندگی کے پشت پناہ اقتدار کے ازالے کے لیے اسلامی تحریک حالات و زمانے کی رعایت سے مادی طاقت اور جہاد سے کام لیتی ہے۔ اس لیے کہ قوم کی اصلاح کے لیے اسلام نے بااثر طبقات کی اصلاح کو مقدم رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضوؐر اور تمام انبیا ؑنے اپنی دعوت کا پہلا مخاطب قوم کے بااثر افراد و طبقات کو بنایا۔ اس لیے کہ اللہ حکومت اور اقتدار کے ذریعے ان امور کی تنظیم کرتا ہے جن کی تنظیم صرف قرآن سے نہیں ہوتی: ان اللّٰہ لیزع بالسلطان مالا یزع بالقرآن۔ اگر تبلیغ عقائد و تصورات کی اصلاح کرتی ہے تو تحریک جہاد دوسرے مادی سنگ ہاے راہ کو صاف کرتی ہے۔ جن میں سر فہرست وہ سیاسی قوت ہے جو اجتماعی و اقتصادی سہاروں پر قائم ہوتی ہے اور یہ دونوں مل کر قائم شدہ نظام پر چاروں طرف سے اثر انداز ہوتے ہیں۔
یہی وہ فطری طریق کار ہے جس کی بدولت اسلام کا عملی وجود دنیا میں قائم ہواتھا۔ اس کے آتے ہی اس کی بنیاد پر ٹھوس، جان دار اور متحرک جماعت وجود میں آگئی جس نے نہ صرف باطل معاشرے میں اپنا جداگانہ تشخص قائم کیا بلکہ باطل وجود کو بھی چیلنج کر دیا۔ وہ ہرگز عملی وجود سے عاری محض خیالی نظریے کی صورت میں نہیں اترا‘ اور آیندہ بھی اس کا وجود ایک عملی نظام کے ذریعے ہی منصہ شہود پر آسکتا ہے۔
ملتِ اسلامیہ کو ایک تازہ زخم یہ پہنچا ہے کہ سلمان رشدی کو مملکت برطانیہ نے اس سال سر کے خطاب (Knighthood) سے سرفراز کیا ہے۔ امت کو بے عزت کرنے کا یہ تازہ ترین واقعہ ہے۔ مغرب نے مسلمانانِ عالم کو ایک بارپھر یہ یاد دلایا ہے کہ ہماری نظر میں تمھاری جانوں، تمھارے جذبات، احساسات، تمھاری اقدار کی کوئی قدر نہیں ہے۔ کچھ عرصے پہلے پوپ بینڈکٹ نے بھی رسولؐ اللہ کی توہین کی تھی‘ اور پاپائیت کے بام عروج سے فرمایا تھا کہ محمدؐ نے بجز تلوار کے انسانیت کو اور کیا دیا ہے۔
گویا وہ تہذیب جسے تم دل و جان سے عزیز رکھتے ہو وہ ہماری نگاہ میں خس و خاشاک کے برابر ہے۔ ہم جب چاہیں انھیں جلاکر خاک کرسکتے ہیں اور جس لمحے چاہیں اس کے نشانات مٹاسکتے ہیں۔ جن پاک شخصیتوں پر اپنی جان قربان کرنے کے لیے تم تیار رہتے ہو، انھیں ہم اپنی تہذیب کے چاکروں اور اپنے پروردہ دانش وروں، ناول نگاروں، آرٹ کے نقش و نگار بنانے والوں کے ذریعے رسوا کرسکتے ہیں۔ جیسا کہ ڈنمارک کے کارٹون سازوں کے ذریعے ہم نے حال ہی میں کیا تھا‘اور جیسا کہ سلمان رشدی جیسے دریدہ دہن ناول نگار کے وسیلے سے ہم نے کیا ہے، اور تیسرے درجے کی افسانہ نگار تسلیمہ نسرین کی خدمات حاصل کرکے ہمارے کارپردازوں نے انجام دیا ہے۔
مزید برآں یہ کہ ان ناشائستہ حرکات کو انجام دینے والوں کو ہم انعام سے سرفراز کرسکتے ہیں۔ انھیں القاب و آداب سے نواز کرانھیں دولت سے بھی بہرہ ور کرسکتے ہیں۔ ہمارے پاس ذرائع ابلاغ کی ایسی قوت موجود ہے کہ ہم دشنام طرازوں کو جنونیوں کا مظلوم قرار دے سکتے ہیں‘ اور پوری ملت اسلامیہ کے گہرے زخموں کو کرید کر انھیں وقتاً فوقتاً تازہ اور ہرا رکھ سکتے ہیں۔ سلمان رشدی کی داستانِ خرافات سے بے چین ہوکر اس کے قتل کا فتویٰ دینے والے کو ہماری تہذیب بنیاد پرست اور ماضی کی تاریکیوں کا آئینہ دار قرار دینے کا طوفان اٹھا سکتی ہے،کیونکہ اس سے ہماری اقدار مجروح ہوتی ہیں، فن و آرٹ پر زد پڑتی ہے، چاہے اس کی ضرب سے لاکھوں انسانوں کے دل کے آئینے ٹوٹ جاتے ہوں‘ روح میں گہرے زخم پڑجاتے ہوں۔ تمھارے دل اور تمھاری روحیں اگر ہماری قدروں سے متصادم ہوتی ہوں تو ہم انھیں پیروں تلے روندتے ہوئے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ہم اسی مقصد کے لیے دانش ور غلام پال پوس کر بڑا کرتے ہیں، انھیں راہ دکھاتے ہیں، ان کی تربیت کرتے ہیں اور پھر انھیں انعام و اکرام سے سرفراز کرتے ہیں۔ طرفۂ تماشا یہ ہے کہ میڈیا اور بزعم خود دانش ور ملت کے گہرے زخم کے باوجود اس کتاب کو متنازع کہتے ہیں تاکہ یہ تاثر دے سکیں کہ صرف ایک طبقے کو اس سے تکلیف پہنچی ہے۔
ان واقعات کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ یہ اس سیکولرزم اور جمہوریت کے پروردہ جراثیم اور ان کی سینچی ہوئی کھیتی کی تربیت ہے جس نے انسانیت کو تقسیم کے چرکے لگائے ہیں۔ جس نے منافقت اور دوغلے پن کے ایسے سبق سکھائے ہیں جس سے انسانیت عظمیٰ کراہ رہی ہے۔ ان کی نظرمیں سیکولرزم وہ باغ ہے جس سے صرف ایک خاص مذہب اور ایک مخصوص تہذیب فیض یاب ہوتی ہے۔ جمہوریت کا حق صرف ان کو پہنچتا ہے جو دنیا کی غالب تہذیب اور چیرہ دست ثقافت سے ہم آہنگ ہیں۔ اگر جمہوری انقلاب مسلمان ملکوں میں سر اٹھاتا ہے وہ کچلنے کے لائق ہے، مثلاً الجزائر میں اور فلسطین کی سرزمین پر حماس کے ذریعے۔ جمہوریت مصر میں نہیں پنپ سکتی۔ اس کو سعودی عرب، شام اور دوسرے عرب ممالک میں پنپنے کے مواقع فراہم نہیں کیے جاسکتے۔ اسے پاکستان میں جمہوریت نہیں بلکہ اپنے سے ہم آہنگ ڈکٹیٹر کے ذریعے حکومت درکار ہے۔ اگر کسی مسلمان ملک‘ مثلاً ایران میں جمہوریت نظر آتی ہے تو تہذیب کے علَم برداروں کی نیند اڑا دیتی ہے۔ اس کو ’بدی‘ (evil)کا نمایندہ قرار دیا جاتا ہے۔
یہ مغرب کا سیکولرزم ہے جس نے ساری دنیا کو یہ سبق سکھایا ہے کہ اگر معاملہ اسلام اور دوسرے مذاہب کا ہو تو سیکولرزم محض ایک فریب تخیل ہے۔ جمہوریت صرف غیر مسلم عوام کا حق ہے۔ مسلمان اگر اپنی تہذیب کو گلے سے لگاتے ہیں، صرف اپنی پسندیدہ تہذیب اور ثقافت پر ثابت قدم رہنا چاہتے ہیں تو وہ اس لائق نہیں ہیں۔ وہ صرف عصر حاضر کی جمہوریت اور مغرب کے تراشیدہ اڈیشن سیکولرزم سے مستفید ہوں۔ انھیں دبا کر اور کچل کر رکھنا چاہیے ورنہ وہ حق جمہوریت کو اختیار کرکے پورے عالم کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔ وہ امن پسند نہیں بلکہ فسادی ہیں۔
سیکولرزم عملاً ایک جانب دارانہ فلسفہ ہے۔ اس کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ یہ ریاستی تشکیل میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو یکساں حقوق عطا کرتا ہے۔ ہر مذہب اور اس کے ماننے والوں کو محترم قرار دیتا ہے‘ اور ہر عقیدے کو مناسب قدر سے نوازتا ہے۔ مگر یہ فلسفہ مسلمانوں کی حد تک ایک انتہائی منافقانہ روش اختیار کرتا ہے۔امریکا اور اس کے حواری مغرب کی نگاہ میں اسلام ا ور مسلمان اس قدر اور احترام کے مستحق نہیں ہیں جس کے بارے میں سیکولرزم پروپیگنڈا کرتا ہے۔ عرب ممالک ہوں یا دوسرے اسلامی ممالک، ان کے بارے میں یہ الزام ہے کہ ان کا مذہب دوسرے مذاہب کو برداشت نہیں کرتا، وہ مل جل کر رہنے کا سبق نہیں سکھاتا، اس لیے وہ ہر اس رعایت اور احترام سے محروم رہے گا، جو سیکولرزم کا فلسفہ سکھاتا ہے، جیسا کہ یورپ اور امریکا کے صاحبان اقتدار ہمیں سکھاتے ہیں۔ اس طرح وہ عوام تو جمہوریت کے مستحق نہیں جو مغرب سے ہم آہنگ نہ ہوں، نہ ان کی نظریں اس رنگ میں رنگی ہوں جو مغرب کا رنگ ہے، اس لیے ان کو جمہوریت نہیں بلکہ ملٹری ڈکٹیٹر شپ کے ہاتھوں سے کچلتے رہنا چاہیے۔ انھیں مصرمیں حسنی سادات، پاکستان میں سلسلۂ ملٹری ڈکٹیٹرز کے تحفے دینے چاہییں۔ ہندستان کے حالات اگرچہ بعض حیثیتوں سے بدرجہا بہتر ہیں، لیکن سیکولرزم کے ثمرات سے انھیں محروم رکھنے کے لیے یہاں بھی تحریکات چلائی جاتی رہی ہیں۔
سیکولرزم اور جمہوریت پسندی کے بلند آہنگ دعووں، تقریروں، دانش وری پر مبنی لاکھوں نعروں کے باوجود، مسلمانوں کی جان، عزت و آبرو اور ان کی تہذیب پر حملہ کرکے جس طرح بش اور بلیئر نے افغانستان اور عراق کو تباہ و برباد کیا ا ور جس طرح ان کی حریصانہ نگاہیں اب ایران پر مرکوز ہیں‘ اس سے ثابت ہوگیا ہے کہ مغربی سیکولرزم اور جمہوریت محض کھوکھلے دعوے ہیں۔ مسلمانوں کی بے آبروئی دراصل ان کی غیر معمولی کمزوری اور بے بسی کی مرہونِ منت ہے، بقول علامہ اقبال ع
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
یہ ملت اسلامیہ کی کمزوری اور بے بسی کے عبرت ناک شواہد ہیں کہ پوری ملت کے جذبات اور اس کے دکھ کو نظر انداز کرکے سلمان رشدی کو سالِ نو میں سر کے لقب سے سرفراز کیا گیا ہے۔ یہ اس ملک کا کارنامہ ہے جو پوری دنیا میں رواداری اور حسن سلوک کا دعوی کرتا ہے، مگر اسے خود اپنے ملک کے مسلمان عوام کے جذبات کی پروا نہیں ہے۔ اس کے ساتھ مسلمان ملکوں کے سربراہوں کی بے غیرتی کااندازہ کیجیے کہ بھرپور ردعمل سامنے نہیں آیا۔مسلمان حکومت (ایران) نے اس اقدام کو مسلمانوں کی بے عزتی قرار دیا ہے، پاکستان کی پارلیمنٹ نے اس اقدام کی مذمت کی ہے اور حکومت برطانیہ پر زور دیا ہے کہ اس اعزاز سے اس شخص کو محروم کردیا جائے۔ بقیہ عرب دنیا کے مسلمان ممالک دم بخود اور خاموش ہیں۔ بے عزتی کی یہ انتہا ہے کہ شاتم رسولؐ کو محض امت مسلمہ کو بے عزت کرنے کے لیے سر کے خطاب سے نوازا ہے۔ یہ جرأت دیکھیے اور یہ بے غیرتی ملاحظہ کیجیے کہ وہ زخم جو امتداد زمانہ سے مندمل ہورہے تھے، ان کو پھر سے تازہ کردیا گیا۔
اسلامی ممالک کو اب بھی سبق لینا چاہیے کہ آخر ضعف اور بے بسی کے عمیق غاروں میں وہ کتنے گہرے گرتے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں تیل کے وسائل سے نوازا تھا، مگر انھیں اپنی ریاستی قوت کو بڑھانے اور مستحکم کرنے کا خیال بھی نہ آیا۔ وہ چوڑی سڑکوں، شان دار ایئرپورٹ بنواتے رہے۔ ان کے امرا اور رؤسا بڑی بڑی رقموں کو مغرب کے بینکوں میں جمع کرتے رہے۔ ملک کی تعمیر اور استحکام کے لیے انھوں نے اپنے حریفوں سے ماہرین، انجینیراور آرکی ٹیکٹ بلائے جنھوں نے انھیں ایسے مشورے دیے کہ تمھارا ملک خوب صورت بن جائے گا، روشنیاں، شاہراہوں پر جگمگانے لگیں گی۔ ان ماہرین کو ا ن ملکوں سے صرف دولت کمانی تھی، جو انھوں نے کمائی۔ لیکن انھیں تیل کی پیداوار سے ان ملکوں کی ملٹری اور سائنٹی فک قوت کو بڑھانے سے نہ غرض تھی اور نہ انھوں نے اس کا مشورہ دیا۔
انھوں نے تعلیم گاہیں ضرور قائم کیں مگر اپنے ہمدردوں اور بہی خواہوں کے اس مشورے کو نہ قبول کیا کہ تمام مسلمان ممالک کے ماہرین، سائنٹسٹ اور انجینیروں کو جمع کرکے اپنی معیشت اور مادی بنیادوں کو مستحکم کرتے (جیسا کہ شاہ فیصل شہید کو مولانا مودودی نے مشورہ دیا تھا)۔ لہٰذا چند عشروں کے بعد تیل کی دولت سے عرب ممالک میں شان دار سڑکیں، ائیر پورٹ وغیرہ بن گئے لیکن صنعتی ترقی براے نام ہوئی۔ سڑکیں روشنی سے جگمگانے لگیں، بڑے بڑے عالی شان شاپنگ مال بن گئے، مگرساری معیشت زیادہ سے زیادہ مالیاتی اور صارفانہ (consumer ) بنیادوں پر استوار ہوتی گئی۔ اور آج غلط پالیسیوں کے نتیجے میں اپنی ملکی سیکورٹی کے لیے یہ ممالک امریکا کے محتاج ہیں۔ ابوظبی، دبئی، قطر، کویت، سعودی عرب صرف غلبے کی معیشت بن گئے ہیں، مگر ان کی صنعتیں براے نام ہیں۔
ایک علامتی واقعہ بھی یاد رکھیے۔ تیل کی دولت پیدا ہوئے ابھی کچھ عرصہ گزرا تھا کہ شاہ سعود کی ملاقات ایک بحری سفر میں امریکی صدر روزولٹ سے ہوگئی۔ اس ملاقات کے دوران یہ معاہدہ ہوگیا کہ آپ امریکا کو ہمیشہ تیل برآمد کرتے رہیں‘ ہم آپ کی سیکورٹی کی ضمانت فراہم کریں گے۔ اس غیر تحریری معاہدے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب تمام تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک اپنی سیکورٹی کے لیے امریکا کے محتاج ہیں۔ ایسے کمزور ممالک کے عوام کے جذبات اور احساسات کا، متکبر اور مستبد حکمراں اور ان کے دریوزہ گر سلمان رشدی کیا پروا کریں گے۔
مسلم مملکتوں کی کمزوری کا استحصال کرنے کے لیے مغرب جن چالوں کا افغانستان اور عراق میں استعمال کررہا ہے وہ اظہر من الشمس ہیں۔ پہلے بمباری کرکے تباہ کیا‘ اب فرقہ وارانہ خانہ جنگی کو ہوا دے رہا ہے۔ فلسطین میں محمود عباس جیسے لوگوں کو پال کر جاں نثار فلسطینیوں کو آپس میں لڑا رہا ہے۔ عراق میں شیعہ، سنی فرقوں کو خوں ریزی کی ترغیب دے رہاہے۔ ہمارے پاس اس کا قطعی ثبوت نہیں ہے لیکن ان تمام لڑائیوں میں دولت کا بے تحاشا استعمال ہورہا ہے، ذاتی رنجشوں کو ہوا دی جارہی ہے۔ اس ملت کی انتہائی بدنصیبی ہے کہ دشمن سے لڑنے کے بجاے آپس میں لڑکر اپنی طاقت ضائع کررہے ہیں۔
ان کی دوسری بدنصیبی یہ ہے کہ ان میں سے چند حکمرانوں نے اپنے جاں نثاروں اور گلہاے سرسبد کو اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔ لہٰذا ان کی افرادی قوت ضائع ہوتی رہی۔ اس وقت میرے پاس اعدادو شمار تو نہیں ہیں لیکن اخوان المسلمون پر مسلسل ظلم کے نتیجے میں مصر سے ہزاروں کی تعداد میں نوجوان ماہرین فن اور سائنٹسٹ اور انجینیر اپنے ملکوں کو چھوڑ کر امریکا اور یورپ چلے گئے۔ اسی طرح عراق میں بھی ہوا۔ اس کا انداز ہ بالواسطہ طور پر اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ امریکا اور یورپ میں اعلیٰـ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی سرسری شماریات معلوم کرلی جائیں تو مصر، عراق جیسے ممالک کی افرادی قوت کو جو نقصان پہنچا، اس کی ملت کے استحکام کو بدرجہ مجبوری حریف ممالک کے ہاتھوں فروخت کرنے کے جو غیر دانش مندانہ اور ظالمانہ اقدامات عرب کی بعض حکومتوں نے اپنے مغربی آقاؤں کے اشارے پر کیے‘ وہ دلوں کو گہرا زخم فراہم کرتے ہیں۔
کچھ عشروں پہلے کی بات ہے کہ مصر خود کو عرب ملکوں کا قائد تصور کرنے پر مصر تھا، چنانچہ اس زمانے میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات بہت خراب ہوگئے تھے۔ کچھ زمانے بعد عرب لیگ تشکیل دی گئی تھی مگر عالمِ عرب کے اتحاد کا خواب ادھورا رہا۔
آپس کی لڑائی اور غلبے کی معیشت کو فروغ دینے کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اس صورتِ حال میں مسلمانوں کی بے وقعتی بڑھے گی نہیں تو کیا گھٹے گی۔
حکومت برطانیہ کے اس اقدام کا جواب صرف چیخ پکار سے ممکن نہیںہے۔ اس کے لیے وہ قوت اور استحکام حاصل کرنا چاہیے جو عالمی سوسائٹی میں ملت کی وقعت بڑھانے میں ممد و معاون ہو۔ انھی باتوں کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو سامنے رکھنا چاہیے:
وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّاللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ لَا تَعْلَمُوْنَھُمْ اَللّٰہُ یَعْلَمُھُمْط (انفال ۸:۶۰) اور تم لوگ‘ جہاںتک تمھارا بس چلے‘زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو‘ تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور اُن دوسرے اعدا ء کو خوف زدہ کردو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔
زیادہ زمانہ نہیں گزرا‘ جب کہ دنیا بھر میں ہمارا پرچم بلند تھا۔ ہماری تہذیب سب پر بھاری تھی۔ ہمارا علم، ہماری سائنس، ہمارا فلسفہ اور ہماری تنظیم اور استحکام دنیا کی رہنمائی کرتی تھی۔ اس زمانے میں کسی بدخواہ کو منہ چڑانے کی ہمت نہ تھی۔ اگرچہ شاتمانِ رسول اس زمانے میں بھی اِکا دکا پیدا ہوتے رہے، لیکن ہم کو اور ہماری حکومتوں کو اتنااعتماد تھا کہ وہ اس کو بسا اوقات نظر انداز کردیتے تھے، جیسا کہ ابتدائی دورِ عباس میں ایک مشہور شاتمِ رسول تھا جس کا نام الکندی تھا۔ اسی طرح کی ہمہ جہتی ترقی، اور تعمیر نو پر ہم پھر سے عامل ہوجائیں تو ہمیں وہ قوت حاصل ہوسکتی ہے جو مملکتِ برطانیہ کے کارپردازوں کی ہمت توڑ دے۔
اس مسئلے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ عالم انسانیت پر یہ واضح کیا جائے کہ وہ سیکولرزم جو تمام مذاہب اور تمام عقائد کو یکساں احترام عطا کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، جس کی نظر میں ہر رنگ و نسل اور ہر عقیدہ و مسلک پر عامل انسان حقوق اور فرائض کے اعتبار سے برابر ہیں، یہ مساوات اسلامی تاریخ میں عملاً قائم اور دائم رہی ہے۔ اس کے نفاذ میں نہ کبھی دو رنگی شامل رہی اور نہ منافقانہ طرزِعمل۔ اگرآج بھی عالم انسانیت اس مساوات اور اس احترام کی متلاشی ہے تو اسے قرآن کی طرف دیکھنا چاہیے۔ ٹھیک اسی طرح اگر واقعی جمہوریت کی جستجو ہے تو اس نظام عدل و قسط کو گلے لگانا چاہیے جس کا اسلام داعی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انسانوں کے درمیان عدل و قسط اور بلا امتیاز احترام قائم کرنا ہے تو اس دین کی طرف رخ کرنا چاہیے۔ یہ مساوات خدا کے خوف اور اس کی مرضیات کے اتباع میں قائم کی جاتی ہے۔ کسی مادی مفادات کا نتیجہ نہیں ہوتی‘ نہ عارضی ہوتی اور نہ دورنگی کا شکار۔
حسن البنا شہیدؒ ____ ایک مطالعہ
[حسن البنا شہیدؒ پر ترجمان القرآن کی اشاعت ِ خاص کا دوسرا حصہ]
یہ کتاب منشورات سے جلد شائع ہوگی۔
آج دنیا میں مختلف نظریات اور اِزموں کی بھرمار نے فضا کو دھندلا دیا ہے۔ بے یقینی اور عدمِ اطمینان کی کیفیت نے انسان کا انسانیت پر اعتماد متزلزل کردیا ہے۔ لوگ اور معاشرے غموں سے دل گرفتہ اور دکھوں سے آزردہ ہیں‘ جب کہ انسان ہر مادی آسایش کے باوجود ناآسودہ ہے۔ گوہرمقصود مفقود‘ سچی خوشی کا حصول محال اور ایک لمحے کی طمانیت عنقا۔ ہر طرف دہشت و وحشت اور بے یقینی و بے اطمینانی ہے۔ قومیں قوموں سے‘ فرقے فرقوں سے‘ طبقے طبقوں سے دست و گریباں ہیں اور یہ کش مکش ختم ہوتی نظرنہیں آتی۔ ہرشخص خودغرضی میں مبتلا ہے۔ نیکی‘ شرافت اور اخلاق نام کی کوئی چیز نہیں۔ آج انسان کی علمی سطح بہت بلند ہوچکی ہے۔ وہ بڑے بڑے خوش نما فلسفے گھڑتا ہے لیکن اس کی تمام تدبیریں ناکام ہوچکی ہیں۔ انسان کو خدا کی ہدایت اور اس کے رسولوں کی رہنمائی کی ضرورت آج پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ موجودہ دور کے انسان کی سب سے بڑی مشکل ’متفقہ اقدار‘ کا نہ ہونا ہے‘ جنھیں سب مل کر تسلیم کرسکیں اور جو انسانیت کے شیرازے کو مجتمع رکھ سکیں‘ اور جو اخوتِ انسانی کا باعث ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں تصادم اور کش مکش کا ایک طوفان برپا ہے اور اسے روکنے والا کوئی نہیں۔ یہ سب سے بڑی گتھی ہے جس کے حل ہونے پر دوسری گتھیوں کے سلجھنے کا دارومدار ہے۔
آج دنیا میں ’اخوت انسانی‘ کا فقدان ہے‘ اور یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ انسانی اخوت اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تمام انسانوں کے مابین کوئی قدرِمشترک نہ دریافت کرلی جائے۔ انسانی معاشروں کے مابین کسی ’قدرِمشترک‘ کے حصول کے لیے سب سے بڑی بنیاد توحید ہے۔ اشتراکِ عقیدہ کے لیے توحید پر اتفاق نہایت ضروری ہے، یعنی انسان خدا کی چوکھٹ کے سوا کسی انسانی بارگاہ پر‘ خواہ وہ دنیاوی اعتبار سے کتنی ہی معتبر اورمقتدر کیوں نہ ہو‘ اپنی جبین نیاز نہ جھکائے۔ یہی وہ پیغام ہے جو سورۂ آلِ عمران میں دیا گیا ہے:
قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍم بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِط (اٰل عمرٰن ۳:۶۴) اے نبیؐ، کہو‘اے اہلِ کتاب، آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں‘ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں‘ اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سواکسی کو اپنا رب نہ بنالے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آواز اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ساتھ بلند ہوئی۔ رحمت الٰہی کا فیضان عام ہوا‘ وحدانیت کی برکات ارزاں ہوئیں۔ بے چین اور آوارہ و سرگرداں دنیا کو پیامِ امن و راحت اور انسانی قافلوں کو پرچم رسالت کے سائے میں جگہ میسر آئی۔ یہ دعوت کسی خاص قوم و گروہ‘ خطے یا علاقے تک محدود نہیں تھی بلکہ اس کی برکتیں اور رحمتیں تمام بنی نوع انسان کے لیے تھیں۔ جیساکہ ارشاد ربانی ہے:
قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَانِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُص فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ کَلِمٰتِہٖ وَ اتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَo (الاعراف ۷:۱۵۸) اے محمدؐ،کہوکہ اے انسانو‘ میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے‘ اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے‘ وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے‘پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمیؐ پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے‘ اور پیروی اختیار کرو اُس کی‘ امید ہے کہ تم راہِ راست پالو گے۔
گویا اس آیت میں حسب ذیل نکات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی دعوت پوری حقیقت کے ساتھ واضح کردی گئی ہے:
۱- یہ دعوت عالم گیر اور یکساں طور پر تمام نوع انسانی کے لیے ہے۔
۲- یہ ایک خدا کے آگے سب کے سروں کو جھکا ہوا دیکھنا چاہتی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
۳- ایمان باللّٰہ وکلماتہٖ اس کا شعار ہے‘ یعنی خدا پر اور اس کے کلمات وحی پر ایمان لازمی ہے۔
اس طرزِ استدلال سے فائدہ یہ ہوا کہ داعی کے متعلق یہ بدگمانی پیدا نہیں ہوتی کہ یہ کوئی ایسی شخصیت ہے جو انفرادیت کے زعم میں تمام ماضی پر خط ِ تنسیخ پھیرنا چاہتی ہے‘ بلکہ یہ خیال ہوتا ہے کہ اسے انسانیت کو اُس کا قدیم ترین ورثہ منتقل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ آپؐ نے اپنے مخاطبین سے نزاع یا افتراق پیدا کرنے کے بجاے اس بات کی کوشش فرمائی کہ جن اصولوں پراشتراک و اتحاد ہے اس کے مشترکہ پہلوؤں کو استدلال کے ذریعے واضح کردیا جائے‘ تاکہ مخاطب داعیِ حق کی بات سننے کی طرف راغب ہو۔ اس میں ضد اور ہٹ دھرمی کا مادہ کم سے کم پیدا ہو اور پھر اس کے سامنے ان نتائج کو رکھا جائے جوا س کے اپنے اقرار کردہ اصولوں سے لازمی طور پر نکلتے ہیں تاکہ وہ ان کو اپنی بات سمجھ کر قبول کرنے کی طرف مائل ہو۔ چنانچہ سورئہ عنکبوت میں یہ ہدایت: وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَھْلَ الْکِتٰبِ، ’’ اہلِ کتاب سے بحث نہ کرو‘ اسی امر کی غماز ہے‘ جب کہ اس کا خوب صورت ترین پیرایہ یہ ہے: ’’اے اہلِ کتاب! اس بات کی طرف آئو جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے‘‘۔
بہرصورت رسولؐ نے اپنے اور عہدِقدیم کی دیگر اقوام کے درمیان ’قدرِ مشترک‘ کو تلاش فرمایا اور اس کو بناے بحث و استدلال بنایا۔ نوعِ انسانی اپنے ظاہری اختلافات کے لحاظ سے کتنی ہی متفرق اور پراگندا کیوں نہ نظر آئے لیکن اس کے اس تفرق اور دُوری کی تہہ میں بے شمار اصول و قواعد ایسے بھی ہیں جن پر سب متحد ہوسکتے ہیں۔ آفاق کے قوانین و ضوابط‘ فطرت کے مظاہر‘ تاریخ کے مسلّمات اور بنیادی اخلاقیات میں سے بہت سی چیزیں ایسی ہیں‘ جن میں شرق و غرب اور عرب و عجم سب ایک ہی نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ رسولؐ کے اس طرزِاستدلال اور طریق دعوت کا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ جو لوگ ایمان قبول کرتے گئے‘ ان کو ذہنی و فکری طور پر مزید اطمینان حاصل ہوا اور وہ اس پر پوری طرح جم گئے‘ اور معاشرے کا وہ طبقہ جو شک و تذبذب اور شبہات و احتمالات کا شکار تھا اور قبولِ حق میں چند رکاوٹوں کے سبب ہچکچا رہا تھا‘ اس طرزِ استدلال سے مطمئن ہوگیا۔
ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گتھی کو انتہائی خوش اسلوبی سے سلجھایا ہے۔ آپؐ نے رہتی دنیا تک کے انسانوں کے سامنے یگانگت‘ ہم آہنگی اور اتحادِعالم کے تصورات ان دلائل کی روشنی میں رکھے کہ دنیا کے انسان جو کبھی پیدا ہوئے تھے‘ جو آج موجود ہیں‘اور جو آیندہ رہتی دنیا تک پیدا ہوں گے‘ ان کا پیدا کرنے والا‘ پالنے والا‘ ان کی زندگی و موت کامالک‘ ان کے لیے زندگی کا تمام سامان بہم پہنچانے والا‘ انھیں جسمانی‘ ذہنی‘ روحانی‘ ہر قسم کی قوت بخشنے والا‘ صرف اللہ ہے۔ اسی نے اس ساری کائنات کو پیدا کیا ہے اور وہی اس نظامِ عالم کا نگران اور مدبر و منتظم ہے۔ وہی تمام انسانوں کا مالک اور آقا ہے اور وہی ان کا حقیقی فرماںروا ہے۔ نبیؐ خدا کی جو کتاب انسانوں کی ہدایت کے لیے لائے‘ اس کی ابتدا اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (شکروستایش اللہ کے لیے ہے جو ساری کائنات کا مالک اور پروردگار ہے۔ الفاتحہ ۱:۱) سے ہوتی ہے‘ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِo مَلِکِ النَّاسِ o اِلٰہِ النَّاسِ(کہہ دیجیے میں پناہ چاہتا ہوں تمام انسانوں کے پروردگار کی‘ تمام انسانوں کے بادشاہ کی اور تمام انسانوں کے معبود کی۔الناس ۱۱۴:۱-۳) پر اس کلام کی انتہا ہوتی ہے۔ اس کی تعلیمات کا مرکزی نکتہ یہی ہے کہ تمام انسان اللہ کو اپنا مالک و آقا مانیں اور اُسی کو ’مقتدرِاعلیٰ‘ تسلیم کریں۔
آج اگرچہ پوری دنیا ایک عالمی گائوں بن چکی ہے۔ انسانی آبادیاں بظاہر ایک بستی کی صورت اختیار کرچکی ہیں مگر ان کے درمیان کسی مشترکہ رشتے کا تصور پروان نہیں چڑھ سکا‘ جو ان انسانی آبادیوں کو ایک دوسرے کے دکھ درد کا احساس دلا سکے۔ سفیدفام‘ سیاہ فام کے دشمن ہیں۔ ایشیا اور یورپ میں برتری اور کہتری کی مستقل دوڑ موجود ہے۔ آرین نسل‘ سامی نسل سے بیر رکھے ہوئے ہے۔ گویا ہر قوم دوسری قوم کی بدخواہ اور ہر ملک دوسرے ملک کا دشمن ہے۔
عالمی اتحاد و یک جہتی کے سب سے بڑے اور عظیم علَم بردار‘ ہادی برحق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ’وحدتِ انسانی‘ کے عظیم تصور کو دنیا کے ذہنوں میں راسخ فرمایا کہ سب انسان ایک خالق کی مخلوق ہیں‘ ایک مالک کے بندے اور ایک حاکم کی رعیت ہیں‘ اور ان کا حاکم و مالک اپنی رعیت کو متحد و متفق دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ جھگڑے‘ تفرقے‘ نفاق‘ دشمنی اور ایک دوسرے کی بدخواہی کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جغرافیائی‘ سیاسی اور معاشی حدود میں منقسم لوگوں پر یہ حقیقت واضح فرما دی کہ ان تفرقوں اور اس تقسیم کی کوئی اصل نہیں ہے۔ پوری زمین اللہ کی ہے اور اس پر موجود سارے ذرائع اور وسائل اللہ کے پیدا کردہ ہیں اور وہ سب انسانوں کے لیے ہیں۔ ساری زمین انسان کا وطن ہے۔ وطن پرستی کے تمام تعصبات نہ صرف بے اصل ہیں بلکہ انتہائی غلط اور مالک ارض و سما کی ناخوشی کا باعث ہیں۔ اس کے ساتھ نبی اکرمؐ نے لوگوں کے دلوں میں یہ بات راسخ فرمائی کہ تمام انسان ایک ہی ماں، باپ (آدم و حوا) کی اولاد ہیں۔ اس خونی اشتراک کے سبب یہ سب بھائی بھائی ہیں۔ رنگ و نسل کی ساری تفریقیں غلط اور بے بنیاد ہیں۔ تقسیم صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے اچھوں اور بُروں کی تقسیم‘ خدا کو ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کی تقسیم۔
عالمی یگانگت اور اتحاد و یک جہتی کے لیے ضروری ہے کہ انسانیت کے پاس متفقہ اور مشترکہ نصب العین اور لائحہ عمل ہو۔ مختلف طبقات اگر مختلف مقاصد اور نظریۂ حیات کے حامل ہوں گے تو باہمی آویزش موجود رہے گی۔ نصب العین کا ٹکرائو دنیا کے لیے خطرے کی علامت بن جاتا ہے‘ جس کے سبب انسانی بستیاں ہمہ وقت ذہنی‘ فکری‘ سیاسی اور معاشی پریشانیوں میں مبتلا رہتی ہیں۔ اس مشکل کو نبی اکرمؐ نے بڑی عمدگی کے ساتھ حل فرمایا اور اعلان فرما دیا کہ پوری انسانیت کے نصب العین کا تعین صرف خالقِ کائنات کا حق ہے۔ اسی کا وضع کیا ہوا ’نصب العین‘ انسانی قافلوں کے لیے رشد و ہدایت کا باعث ہوگا۔ اس کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ کا تابع فرمان ہے۔ انسان بھی کائنات کا ایک جزو ہے۔ انسان کی زندگی کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے مالک و آقا کی اطاعت و بندگی اختیار کرے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالمی اتحاد‘ یگانگت اور ہم آہنگی کے لیے آثارِ کائنات اور قوانین فطرت کی روشنی میں دنیا کو اس حقیقت سے روشناس کرایا کہ صرف دنیا کی زندگی ہی زندگی نہیں ہے‘ بلکہ مرنے کے بعد ایک دوسری زندگی انسان کو ملے گی جو دائمی و ابدی ہوگی اور جس کی نعمتیں اور تکلیفیں بے پایاں و غیرفانی ہوں گی۔ اس عالم کی دائمی اور لامحدود نعمتوں کے مقابلے میں اس دنیا کے چندروزہ اور محدود فائدوں کی وہی حیثیت ہے جو سمندر کے مقابلے میں ایک قطرے کی ہوتی ہے۔ دنیاکی یہ حقیر سی نعمتیں پوری جدوجہد اور دوڑدھوپ کے باوجود اکثر انسانوں کو حاصل نہیں ہوپاتیں‘ اور وہ اس کی تمنا کرتے کرتے ہی دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس عالم لازوال کی عظیم نعمتیں ہراس انسان کو جو اُن کے لیے مناسب کوشش کرے گا‘ یقینا ملیں گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ انسان تقویٰ کی رَوش اختیار کرے اور آخرت کے تصور جزا و سزا کو اپنے قلب و جگر میں موجزن کرے۔ کیونکہ یہی تصور انسان کی فلاح کا ضامن ہوسکتاہے۔
بین المذاہب اور بین الاقوامی اتحاد و یگانگت کے لیے درج ذیل پہلو بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں:
جس طرح اسلام نے ایک ہمہ گیر عالمی اخلاقی نظام دیا ہے‘ اسی طرح اس نے ہر صنف‘ ہرطبقے اور ہرمذہب کے افراد کے حقوق مقرر کردیے ہیں تاکہ انسانی بھائی چارے‘ احترامِ آدمیت اور معاشرتی و سماجی مساوات میں کہیں خلل واقع نہ ہو۔ انسانی حقوق کی ادایگی میں اسلام نے قومی‘وطنی‘ مذہبی اور طبقاتی عصبیت کا نام و نشان جس انداز میں مٹایا ہے اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ انسانی حقوق کی ادایگی کے حوالے سے وہ مسلمانوں کے لیے جو معیار مقرر کرتا ہے وہ یہ ہے: ’’کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک بنی نوع انسان کی بھلائی کا جذبہ کسی انسان کے دل میں پیدا نہ ہو تو وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔ رنگ و نسل اور اس کے امتیازات کو ختم کرتے ہوئے عالم گیر معاشرت کے تصور کو‘ خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ نے یوں واضح فرمایا: ’’اے لوگو! تمھارا رب ایک ہے اور تمھارے باپ آدم ؑ بھی ایک ہیں۔کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، مگر پاک بازی اور تقویٰ کی وجہ سے۔ سارے انسان آدم ؑ کی اولاد ہیں اور آدم ؑ مٹی سے بنائے گئے تھے‘‘۔
خدا نے پہلے انسان کی تخلیق خلافت و نبوت کی ذمہ داری کے ساتھ کی تھی‘ اس لیے بنی نوع انسان کے ہرہرفرد کو چاہیے کہ وہ اس دنیا میں خلافتِ الٰہی کا فریضہ ایک فرض شناس کی طرح انجام دے۔ وہ اس کائنات میں معین خدا بن کر نہیں بلکہ نائب خدا بن کر تصرف کرے۔ وہ صفاتِ الٰہی کا مظہر بن کر کائنات ارضی کا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لے۔ اس کو تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاق اللّٰہ کا حکم دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اس کائنات کے خالق کی نظر جہان ہست و بود کی پہنائیوں سے بھی زیادہ وسیع ہے‘ اسی طرح انسان کے قلب و نظر میں وسعت و ہمہ گیری ہونی چاہیے۔ جس طرح اس کے رحم و کرم کا فیضان ساری مخلوقات کے لیے عام ہے‘ اسی طرح اس کے دل میں بھی یہی ہمہ گیر جذبہ رحم و کرم موجزن ہونا چاہیے۔ اس کا خوانِ ربوبیت جس طرح اپنے نافرمانوں پر بھی بند نہیں ہوتا‘ انسان کو بھی اپنے اندر ربوبیت عامہ کا یہی جذبہ اُبھارنا چاہیے۔ وہ سب کو دیتا ہے مگر خود کسی سے کچھ نہیں لیتا۔ یہی بے نیاز اور بے غرض جذبہ انسان کو اپنے دل کی گہرائیوں میں پیدا کرنا چاہیے۔ ساری مخلوق خدا کی عیال ہے‘ اس کے ایک ایک فرد سے اس کو محبت ہے‘ اس لیے ایک انسان کو ایک انسان کے ساتھ وہی برتائو کرنا چاہیے جو وہ اپنے بال بچوں کے لیے پسند کرتا ہے۔
ہرانسان کو چونکہ خدا نے عقل و تمیز دی ہے‘ پھر اس نے وحی کے ذریعے اس کو صحیح زاویۂ نظر اختیار کرنے کی طرف رہنمائی بھی کردی ہے‘ اِس لیے ہرشخص کو اس بات کی آزادی ہے کہ وہ صراطِ مستقیم پر چلتا رہے یا غلط عقیدہ قائم کرکے چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیوں میں بھٹکتا پھرے۔ بہرحال اس دنیا میں اسے کوئی نظریہ یا عقیدہ قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْتَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ (البقرہ ۲:۲۵۶) دین کے بارے میں کوئی زبردستی اور جبر نہیں‘ ہدایت گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے۔ (جس کا جی چاہے قبول کرے‘ جس کا جی چاہے نہ کرے)
قرآن پاک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے ہرمسلمان کو تنبیہہ کرتا ہے کہ:
وَ لَوْشَآئَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّھُمْ جَمِیْعًاط اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَo (یونس ۱۰:۹۹) اگر اللہ چاہے تو زمین کے تمام رہنے والے مومن ہوجائیں تو کیا تم لوگوں کو مومن بنانے میں جبرواکراہ کرنا چاہتے ہو۔
اس نے محض حریت عقیدہ کا نظریہ ہی نہیں پیش کیا بلکہ عملی و قانونی طور پر اس کی حفاظت بھی کی ہے۔ اس سلسلے میں کسی پر کوئی جبر نہ کیا جائے‘ جیساکہ مذکورہ آیات سے معلوم ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر کسی کو اپنے کسی عقیدے کی طرف دعوت دینا ہے یا کسی کے عقیدے پر تنقید کرنی ہے توعمدہ پیراے اور نرمی کے ساتھ کرنی چاہیے۔
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ(النحل ۱۶:۱۲۵) اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ‘ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔
پوری اسلامی تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ دعوت اسلام کے معاملے میں کبھی جبر کو اختیار نہیں کیا گیا اور غیرمسلموں کی مذہبی آزادی کو ہمیشہ مقدم رکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مدینہ پہنچ کر آپؐ نے یہود سے جو معاہدہ کیا تھا‘ اس میں اُن کی دینی آزادی کو واضح انداز میں متعین فرما دیا تھا۔
مدینہ منورہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انقلابی اقدامات نے وہاں کی قومی زندگی کو ایک ہمہ گیر معاشرت سے بھی متعارف کرایا۔ ہجرت کے سال میں آپؐ نے مندرجہ ذیل پانچ امور پر اپنی توجہ مبذول فرمائی:
۱- میثاقِ مدینہ کے ذریعے سے آپؐ نے اہلیانِ مدینہ کو بین المذاہب یگانگت اور اتحاد کا درس دیا۔ میثاقِ مدینہ آپؐ کا ایسا اقدام تھا جس کے نتیجے میں ریاست مدینہ میں آپؐ کی حاکمیت مسلم ہوگئی۔
۲- مواخات کے ذریعے آپؐ نے معاشی استحکام کا پروگرام دیا۔ اس طرح مکے سے آنے والے مہاجرین کی آبادکاری و معاشی بحالی ممکن ہوئی۔
۳- مسجدنبویؐ تعمیر کی گئی اور افرادِ معاشرہ کی تربیت کا کام بھی شروع کردیا گیا۔
۴- ریاست مدینہ کا نظم و نسق چلانے کے لیے آپؐ نے نظامِ سلطنت (administrative system) دیا۔
۵- ریاست مدینہ کے دفاع کے لیے آپؐ نے اقدامات فرمائے۔
آپؐ نے یہود و نصاریٰ سمیت کفارِ مکہ اور دیگر عرب قبائل کے ساتھ معاہدات فرمائے۔ ان معاہدات میں قابلِ ذکر بات یہ تھی کہ یہ سب کی سب اسلام دشمن سیکولر اکائیاں تھیں جن کے ساتھ آپؐ نے مختلف اوقات میں مختلف نوعیت کے اتحاد کیے۔ لیکن آپؐ کے دو اتحاد بطور خاص مشہور ہوئے اور نتائج کے اعتبار سے تاریخی اور فیصلہ کن اہمیت کے حامل ٹھیرے۔ ان میں ایک میثاقِ مدینہ اور دوسرا معاہدۂ حدیبیہ۔ میثاقِ مدینہ ایک ہجری میں یثرب کے قبائل اور بالخصوص یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ ہونے والا سیاسی اور دفاعی معاہدہ تھا‘ جب کہ معاہدۂ حدیبیہ ۶ہجری میں عرب کی سب سے بڑی اسلام دشمن قوت کفار و مشرکین مکہ کے ساتھ طے پایا۔
بین المذاہب اور بین الاقوامی اتحاد و یگانگت کی بنیاد کو مؤثر اورمستحکم کرنے کے لیے اسلام نے سب سے زیادہ زور بے لاگ اور مساویانہ انصاف پر دیا۔ اسلام کے نزدیک عدل و انصاف محض ایک قانونی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ وہ ضابطہ قانونی کے ساتھ اخلاقی ذمہ داری بھی ہے‘ جو انصاف کو صرف عدالت تک محدود نہیں رکھتا بلکہ وہ انفرادی‘ اجتماعی اور معاشرتی زندگی کے ہرگوشے میں منصف اور عادل بناتا ہے۔ وہ جس طرح ایک فرد کے ساتھ انصاف کا حکم دیتا ہے‘ اسی طرح قومی‘ ملکی اور بین الاقوامی معاملات میں بھی ہر ہرقدم پر اس کی نگرانی کرتاہے۔ قرآن میں جگہ جگہ اس موضوع کو بیان کیا گیا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا لا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِط (النساء ۴:۵۸) مسلمانو‘ اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو‘ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔
جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح مکہ سے ہم کنار کیا تو اس موقع پر اس آیت کے ذریعے مسلمانوں کے دلوں میں انتقام کے جذبے کی ہمیشہ کے لیے بیخ کنی کردی گئی:
وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْاط اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَ اتَّقُوْا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ o(المائدہ ۵:۸) کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو‘ یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو‘ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
وہ چیز جس سے بین المذاہب اور بین الاقوامی تصورات اور جذبات کو نظری اور عملی طور پر مضبوطی میسر آتی اور بھائی چارے کی فضا کو فروغ ملتا ہے‘ وہ معاہدات کی پابندی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدات کی پابندی کو اخلاقی اور قانونی دونوں حیثیتوں سے ضروری قرار دیا ہے۔ معاہدہ خواہ شخصی ہو یا اجتماعی‘ معاشی ہو یا تجارتی‘صلح کا ہو یا امن و امان کے قیام و بقا کا___ اس کی پابندی ہرصورت لازمی ہے۔ اسلام کا دامن توثیق معاہدات کے سلسلے میں بڑا وسیع ہے۔ اس کے نزدیک اگر برسرِجنگ قوم بھی صلح اور مصالحت کے لیے ہاتھ بڑھائے تو جب تک مسلمانوں کو کوئی شدید نقصان نہ ہوا ہو یا اس میں کوئی کھلا ہوا فریب نہ نظر آتا ہو‘ اس وقت تک اس کا خیرمقدم کرنا ضروری ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی بار بار اور سخت تاکید آئی ہے اور عملی طور پر اسلامی حکومتیں اس کی پابندی کرتی رہی ہیں:
وَ اَوْفُوْا بِالْعَھْدِ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلًا(بنی اسرائیل ۱۷:۳۴) عہد کو پورا کرو بے شک عہد کے بارے میں خداے تعالیٰ کے حضور بازپرس ہوگی۔
اسلام نے معاہدے کو اسلامی اور اخلاقی دونوں حیثیتوں سے بڑی اہمیت دی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ حق کے فروغ اور اسلام کے استحکام کے لیے کثیرالجہات حکمت عملی اختیار فرمائی جس میں آپؐ نے مخالف قوتوں کے ساتھ اتحاد و معاہدات کیے۔ یہود سے معاہدہ توحید کے ’مساوی کلمہ‘ کی بنیاد پر طے پایا۔ دیگر کئی قبائل سے معاہدات طے کرتے وقت آپؐ نے حالات کے مطابق حکمت عملی اختیار فرمائی۔ طائف کے قبیلہ بنوثقیف نے معاہدے کے لیے یہ مطالبات پیش کیے: ۱-نماز سے استثنا ۲- حرمتِ زنا سے استثنا ۳-طائف کو حرم قرار دینا ۴-فرضیت زکوٰۃ سے استثنا ۵-فرضیت جہاد سے استثنا۔ آپؐ نے انھیں پہلی دو شرطوں پر منوا لیا اور بعد کی تین شرطیں مان لیں۔ صحابہ کرامؓ سے آپؐ نے فرمایا کہ جب اسلام ان کے دل میں جم جائے گا تو وہ خودبخود مکمل اسلام کو مان لیں گے۔ آپؐ نے صرف یہود مدینہ سے ہی نہیں بلکہ دیگر کئی قبائل‘ مثلاً بنی ضمرہ‘ بنی غفار‘ نعیم بن مسعود اشجعی اور نجران کے عیسائیوں سے بھی معاہدات کیے۔ آپؐ نے پیغامِ حق کے فروغ کے لیے مختلف النوع اتحاد کیے جو سماجی‘ سیاسی‘عسکری و دفاعی‘ اقتصادی اور تجارتی نوعیت کے تھے۔ آپؐ نے مدینہ تشریف لانے کے بعد سب سے پہلے مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے کی فضا پیدا کی۔ آپؐ نے وہاں کے عام شہریوں اور یہودیوں سے جو معاہدہ کیا اس میں ۴۸ دفعات ہیں۔ ان میں سے ہر دفعہ معاہداتی دنیا میں اپنی انفرادیت رکھتی ہے اور یہ بھی وضاحت ہوتی ہے کہ اسلامی مملکت میں دوسرے مذاہب کی کیا حیثیت ہے‘ نیز یہ کہ اسلام اپنے ہمسایوں کے ساتھ پُرامن بقاے باہمی کا کس قدر خواہاں ہے۔
بین الاقوامی تعلقات کے استوار کرنے اور بین المذاہب اتحاد اور رواداری کو فروغ دینے میں دوست اور دشمن ملکوں کے سفرا اور نمایندوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ بسااوقات یہ سفیر اور نمایندے بڑے بڑے بگڑے اور الجھے ہوئے معاملات کو سلجھا دیتے ہیں‘اور کبھی ان کی ذرا سی غلطی سے بہت سے معاملات خراب بھی ہوجاتے ہیں۔ سفرا اور نمایندے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ نمایندے یا وفود جو کسی عارضی مہم پر یاکسی وقتی اقتصادی یا سیاسی معاملہ طے کرنے کے لیے کسی ملک میں آجاتے ہیں‘ اور دوسرے وہ سفیرجو مستقل طور پر اپنے ملک کی نمایندگی کرتے ہیں۔
اس وقت بین الاقوامی تعلقات کی استواری کے لیے ناگہانی اور معاشی ضرورتوں پر امداد کا طریقہ بھی رائج ہے۔ اس سلسلے میں اسلام کا تصور دوسرے تمام نظاموں سے زیادہ آفاقی اور پاکیزہ ہے۔ قریش اور ان کے ہم نوا قبیلوں کو مسلمانوں سے جو پُرخاش تھی اور جس طرح وہ ان کے خون کے پیاسے تھے اس سے ہر ایک واقف ہے‘ مگر اسی دوران ایک زبردست قحط پڑتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوتی ہے۔ آپؐ مدینہ سے اسلام کے سب سے بڑے دشمن ابوسفیان کے پاس کھجوریں اور پانچ سو دینار نقد اس لیے روانہ فرماتے ہیں کہ وہ قحط زدہ اشخاص کی اس سے مدد کریں۔ یہ بات ذہن میںرکھنی چاہیے کہ یہ امداد مدینہ جیسی غریب اور چھوٹی سی آبادی کی طرف سے اُس قوم کو دی گئی جو دنیا میں اسلام کی سب سے بڑی دشمن تھی۔
خلاصہ: ان تمام تفصیلات کا خلاصہ یہ ہوا کہ:
۱- اسلام توحید و رسالت‘ کتاب اور کائنات کا آفاقی تصور دے کر انسان میں ہمہ گیر بین الاقوامی ذہنیت پیدا کرتا ہے۔
۲- وہ خلافتِ آدم کا تصور دے کر صرف انسان کو انسان سے نہیں بلکہ پوری کائنات سے ہم آہنگ بناتا ہے اور اس میں اس کی ذمہ داری کو محسوس کراتا ہے۔
۳- وہ انسانی بھائی چارے کی بنیاد عقل و ضمیر کے اشتراک پر نہیں بلکہ خون کے رشتے پر رکھتا ہے۔
۴- وہ اس میں مساوات کا جذبہ اُبھارتا ہے اور اس کے ذریعے ہر طرح کی نسلی‘ قومی اور وطنی تنگ نظری کی جڑ کاٹتا ہے۔
۵- قومی‘ وطنی تقسیم کو محض ایک عارضی اور تعارف کی حیثیت سے تسلیم کرتا ہے۔
۶- وہ اخلاق و حقوق میں ہرانسان کو برابر سمجھتا ہے۔
۷- ہر شخص کی عزت‘ جان‘ مال‘ عقل‘ نسل اور ملکیت کی حفاظت کرتا ہے۔
۸- ہر شخص کو عقیدہ‘ راے‘ فکر اور قول کی آزادی دیتا ہے۔
۹- وہ حقوق شہریت میں کم سے کم پابندی عائد کرتا ہے۔ وہ ’ہرملک ملک ما ست کہ ملک خداے ماست‘ کا تصور پیش کرتاہے۔
۱۰- وہ آزاد تجارت کا حامی ہے جس میں کم سے کم ٹیکس لیا جائے۔
۱۱- مادی معاملات‘ بین الاقوامی تعلقات اور معاہدات میں خواہ وہ سیاسی ہوں یا معاشی‘ اس صورت کو پسند کرتا ہے جس کی بنیاد اخلاق اور عام خلقِ خدا کی منفعت پر ہو۔
۱۲- وہ ضرورت کے وقت دنیا کے ہر انسان کی بے غرض مدد کرنے کی ترغیب دیتا ہے خواہ یہ مدد ایک فرد کو دی جائے یاکسی حکومت کو‘ کسی مسلمان کو دی جائے یا غیرمسلم کو‘ کالے کو دی جائے یا گورے کو۔ وہ اس سے مادی منفعت اٹھانے سے نہ صرف منع کرتا ہے‘ بلکہ اس کے اظہار کو بھی ناپسند کرتا ہے۔ قرآن پاک میں بار بار اس کی صراحت آتی ہے کہ امداد دے کر کسی فرد یا جماعت کو اپنا ممنونِ احسان بنانے کی کوشش نہ کرو۔
۱۳- اسلام انسانوں کے درمیان جس تفریق کا قائل ہے وہ خالص الہامی اصولوں کی بنیاد پر ہے۔ اس میں وہ نہ تو کسی طرح کی قومی‘ وطنی عصبیت کو راہ دیتا ہے اور نہ نسلی برتری‘ جانب داری یا کسی انسان کی حق تلفی کو گوارا کرتا ہے۔ اسلام کی یہ تقسیم حق و ناحق کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اہلِ حق وہ ہیں جو خدا کی اس ہدایت کو مانتے اور اس پر عمل کرتے ہوں جو اس نے اپنے نبیوں کے ذریعے بھیجی ہے۔ جس کی آخری کڑی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور وہ اہلِ باطل غلط کار ہیں جو اس ہدایت پر یقین نہیں رکھتے اور اس پر عمل نہیں کرتے۔ یہ تقسیم اس لیے کرنی پڑتی ہے کہ زندگی کے ہر ہرمعاملے کی طرح‘ بین الاقوامی معاملات میں بھی جیساکہ اُوپر کی تفصیل سے معلوم ہوچکا ہے‘ اسلام اپنا ایک خالص اخلاقی اور ماورائی تصور رکھتا ہے۔ اس کو ممتاز کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ اس کے ماننے والوں کو ایک ایسا امتیازی نام دیا جائے جس سے کسی طرح کی قومی‘ وطنی اور طبقاتی عصبیت بھی نہ پیدا ہو اور اصولی اعتبار سے آفاقیت کے ساتھ ان کی یہ امتیازی حیثیت بھی باقی رہے۔
’کم بچے خوش حال گھرانہ‘ کا نعرہ پاکستان میں بھی عرصے سے لگایا جا رہا ہے۔ جو لوگ زیادہ افرادِخانہ کے حق میں بات کرتے ہیں اُن کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہ عاقبت نااندیش اور قدامت پرست ہیں‘ موجودہ عمرانی و سیاسی عوامل سے ناواقف ہیں۔ کم بچوں کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ وسائل سُکڑ رہے ہیں‘ آمدن ناکافی ثابت ہورہی ہے۔ اس لیے جو وسائل آپ کو ۹‘ ۱۰ بچوں پر خرچ کرنا ہیں وہ ۲‘۳ بچوں پر صرف کریں۔ آپ کے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت بھی ہوجائے گی اور خوراک‘ علاج‘ تعلیم‘ لباس اور دیگر ضروریاتِ زندگی بھی بآسانی دستیاب ہوسکیں گی۔
کچھ عرصہ قبل ترجمان القرآن میں ایک مغربی تجزیہ نگار کے مضمون: ’وسائل کم نہیں پڑتے‘ (مارچ ۱۹۹۸ء) میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ جس قدر آبادی بڑھ رہی ہے اُسی رفتار سے قدرتی وسائل‘ زرعی پیداوار اور انسانی صلاحیت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جو زمین ایک مَن اناج کی پیداوار دیتی تھی‘ اب اُس کی صلاحیت میں ۴۰ گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ بلاشک و شبہہ اس منزل تک پہنچنے میں جدید سائنس اور ٹکنالوجی کا بھی بھرپور دخل ہے۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ مغرب کو تحدید خاندان اور آبادی کم کرنے کے اس تجربے سے کیا ملا!
مغربی یورپ‘ جاپان اور شمالی امریکا میں ایسے درجنوں قلم کار‘ تجزیہ نگار اور دانش ور منظرعام پر آچکے ہیں جو تحدید خاندان کو اپنی تہذیب کے لیے زہرقاتل سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اگر نئی نسل اپنی تعداد میں اضافہ نہ کرے تو فنا ہوکر رہ جائے گی۔
حال ہی میں‘ اسی موضوع پر پیٹرک جے بچانن کی کتاب The Death of the West (مغرب کی خودکُشی) منظرعام پر آئی ہے۔ بچانن ۱۹۹۲ء اور ۱۹۹۶ء میں ری پبلکن پارٹی کی طرف سے صدارتی اُمیدوار رہے اور سال ۲۰۰۰ء میں ریفارم پارٹی کے صدارتی اُمیدوار رہے۔ وہ تین امریکی صدور کے ساتھ مشیر کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ اُن کی پانچ کتابیں شائع ہوچکی ہیں‘ جب کہ وہ این بی سی‘ سی این این کے لیے کئی پروگرام بھی کرتے رہے ہیں۔
بچانن نے اعداد وشمار کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ مغربی ممالک میں شرحِ تولید میں اضافہ نہ ہوا تو مغربی ممالک عددی اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ جرمنی میں گذشتہ ۱۰ برس سے شرحِ تولید میں کمی واقع ہورہی ہے۔ موجودہ افراد کی جگہ لینے کے لیے ۱ء۲افراد فی عورت درکار ہیں‘ جب کہ شرحِ تولید ۳ء۱ ہے۔ اگر یہی صورت حال رہی تو ۲۰۵۰ء تک ۲کروڑ ۳۰لاکھ جرمن صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہوں گے‘ جرمنی کی آبادی ۸کروڑ سے ۵ کروڑ ۹۰لاکھ رہ جائے گی۔ جرمنی کی ایک تہائی تعداد کی عمر ۶۵برس سے زائد ہوگی اور بوڑھے لوگوں کا جوان لوگوں سے تناسب ۲:۱ کا رہ جائے گا۔ ہر ۱۵۰ میں صرف ایک فرد جرمن ہوگا اور ۲۰۵۰ء تک جرمنی بوڑھے ترین لوگوں کا مسکن بن جائے گا۔ ایک ۳۴سالہ جرمن خاتون سے سوال کیا گیا کہ اُس نے شادی کیوں نہ کی؟ اس کا جواب تھا: میں رات کو سکون سے سونا پسند کرتی ہوں۔ میں اپنے دوست کے ساتھ اچھا وقت گزارتی ہوں۔ میں بچوں کے جھنجھٹ میں کیوں پڑوں؟
اس وقت اٹلی کی آبادی ۵ کروڑ ۸۰ لاکھ ہے۔ ۴۵سال بعد یہ آبادی گھٹ کر ۴ کروڑ ۱۰لاکھ رہ جائے گی۔ امریکن انٹرپرائزز انسٹی ٹیوٹ کے اندازے کے مطابق ۲۰۵۰ء میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی تعداد ۲ فی صد ہوگی‘ جب کہ ۴۰ فی صد آبادی کی عمر ۶۵ سال یا اُس سے زیادہ ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چند نسلیں مزید گزر جانے کے بعد اٹلی کا ذکر ایک معدوم ریاست کے طور پر کیا جائے گا۔ Semi feministنامی رسالے نے لڑکیوں کے سروے کے بعد یہ رپورٹ جاری کی کہ ۱۶سال سے ۲۴ سال کی عمر کی ۵۲ فی صد لڑکیوں نے کہا کہ وہ بچے پیدا نہیں کریں گی۔ جب اُن سے سوال کیا گیا کہ اُنھوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا ہے تو اُن کا کہنا تھا کہ ہم اپنا کیریئر بنانا چاہتی ہیں۔ بچے اس راستے میں رکاوٹ بنیں گے۔
روس نے عالمی منظرنامے پر طویل عرصے تک اہم کردار ادا کیا ہے۔ روس میں ہر تین میں سے دو حمل ضائع کرا دیے جاتے ہیں۔ ہر روسی عورت ۵ء۲ سے چار بار اسقاطِ حمل کے عمل سے گزرتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ روس میں شرحِ اموات‘ شرح پیدایش سے ۷۰ فی صد زیادہ ہے۔ ۲۰۵۰ء تک روس کی ۱۴ کروڑ ۷۰لاکھ آبادی گھٹ کر ۱۱کروڑ ۴۰لاکھ رہ جائے گی۔ ۱۶سالہ سے کم عمر لوگوں کی تعداد ۲کروڑ ۶۰لاکھ سے ایک کروڑ ۶۰لاکھ رہ جائے گی۔ ۷۰برس تک امریکا سے پنجہ آزمائی کرنے والے روس کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ اوسطاً ۱۰عورتوں سے مجموعی طور پر ۵ء۱۳ بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اس سے زیادہ اولاد پیدا کرنا وہ اپنے لیے توہین سمجھتی ہیں۔ ۲۰۵۰ء میں ۱۵ سال سے کم عمر بچوں کی تعداد ۲کروڑ ۶۰ لاکھ سے گھٹ کر ایک کروڑ ۶۰لاکھ رہ جائے گی‘ جب کہ موجودہ ایک کروڑ ۸۰لاکھ بوڑھے اس وقت تک پونے تین کروڑ بوڑھوں میں تبدیل ہوجائیں گے۔
پال کریک رابرٹس کا کہنا ہے کہ اس صدی کے اختتام تک انگریز قوم اپنے ہی وطن برطانیہ عظمیٰ میں اقلیت میں تبدیل ہوجائے گی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ملک کی اصلی آبادی جنگ‘ قحط یا وبائی امراض کے بجاے رضاکارانہ طور پر اپنی تعداد کم کر رہی ہے۔ لندن شہر میں مختلف نسلوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد ۴۰ فی صد ہے۔ انگریزوں کی شرحِ پیدایش میں ۳فی صد کمی آتی رہی تو لندن میں گورے انگریز اقلیت بن کر گھومتے پھرتے نظرآئیں گے۔ ۱۹۲۴ء سے شرحِ پیدایش میں کمی ہوتی چلی جارہی ہے۔ اس وقت شرحِ پیدایش ۶۶ء۱ فی عورت ہے۔ برطانیہ کو اس کا احساس نہیں ہے کہ انگلینڈ اور ویلز کے رہنے والوں کی تعداد میں خوف ناک کمی ہوگی تو اُن کا اپنا ملک ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ برطانیہ اور اہلِ برطانیہ کو اس کا اندازہ ہو یا نہ ہو‘ صورت حال اسی سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔
یورپ کے تمام ممالک میں‘ اسپین میں شرحِ پیدایش سب سے کم ہے۔ اٹلی‘ رومانیہ اور چیک ری پبلک میں شرحِ تولید ۲ء۱ فی بچہ فی عورت تک جاپہنچی ہے‘ جب کہ اسپین میں یہ شرح ۰۷ء۱ تک پہنچ چکی ہے۔ آیندہ ۵۰برسوں میں اسپین کی آبادی میں ۲۵ فی صد کمی ہوجائے گی اور ۶۵سال سے زائد عمر کے باشندوں میں ۱۱۷ فی صد اضافہ ہوجائے گا۔ میڈرڈ کے ماہر سماجیات وکٹرپیریز ڈِیاز کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے وطن میں چند نسل قبل ہر گھرانے میں آٹھ سے ۱۲ افراد کی موجودگی عام بات تھی۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سیکڑوں شادی شدہ جوڑے ایسے مل جاتے ہیں جنھوں نے اولاد پیدا کرنے کی زحمت تک نہ کی۔ اگر ایک بچہ پیدا ہوگیا تو دوسرے کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں‘‘۔ ۱۹۵۰ء میں اسپین کی آبادی مراکش سے تین گنا زیادہ تھی۔۲۰۵۰ء میں مراکش کی آبادی اسپین سے تین گنا ہوجائے گی۔ آج اگر ۱۰۰ اسپینی جوڑے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوں تو ساری زندگی میں یہ ۱۰۰ گھرانے ۵۸ بچے پیدا کریں گے۔ ان کے پوتوں کی تعداد ۳۳ ہوگی اور ان کے پڑپوتوں کی تعداد ۱۹ رہ جائے گی اور اُس وقت تک اہلِ اسپین کی اوسط عمر بھی ۵۵سال تک گھٹ جائے گی۔ اسپین اور مراکش کے درمیان آبنائے جبل الطارق کی رکاوٹ ہے۔ مراکش کی بڑھتی ہوئی آبادی نجانے کس وقت اسپین کو غلام بنا لے۔
بچانن کا کہنا ہے کہ ۱۹۶۰ء میں امریکی‘ آسٹریلوی‘ اہلِ کینیڈا اور اہلِ یورپ کی مجموعی آبادی ۷۵ کروڑ تھی۔ اُس وقت دنیا کی آبادی ۳ ارب تھی اور مغربی اقوام کی تعداد ایک چوتھائی بنتی تھی اور اُن سب کی معقول شرحِ پیدایش تھی۔ مالتھس کے پیروکاروں نے انھیں خوب ڈرایا کہ وسائل کم پڑ رہے ہیں۔ آبادی کم کرو‘ سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ لیکن آبادی کم کرنے کے باعث اُن کی زبان‘ اُن کی تہذیب‘اُن کی نسل بلکہ اُن کے ممالک کی بقا کا بھی مسئلہ بن چکا ہے۔
۲۰۰۰ء میں دنیا کی آبادی ۳ ارب سے بڑھ کر ۶ ارب ہوچکی ہے لیکن اہلِ یورپ نے اولاد پیدا کرنا تقریباً بند کردیا ہے۔ کئی ممالک میں شرحِ پیدایش ایک مقام پر رُک گئی ہے‘ جب کہ کئی اور ممالک میں یہ شرح گرتی چلی جارہی ہے۔ حد سے حد کوشش یہ ہے کہ دو افراد پر مشتمل ایک خاندان سے دو افراد وجود میں آجائیں۔
مصنف کے مطابق ۲۰۵۰ء تک دنیا کی آبادی ۶ ارب سے ۹ ارب ہوجائے گی لیکن آبادی میں یہ سارے کا سارا اضافہ ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکا میں ہوگا۔ لیکن یورپی نسل کے ۱۰کروڑ افراد صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہوں گے۔ انھیں اس کا احساس بھی نہ ہوگا کہ اپنی پُرسکون زندگی کی تلاش میں اُنھوں نے اپنے قبیلوں اور نسلوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے میں اہم کردار ادا کیا۔
۱۹۶۰ء میں یورپی نسل کے افراد‘دنیا کی آبادی کا چوتھا حصہ تھے۔ تحدید نسل پروگرام پر عمل درآمد کرتے کرتے ۲۰۰۰ء میں وہ دنیا کی آبادی کا چھٹا حصہ رہ گئے اور ۲۰۵۰ء میں سفید یورپی اقوام دنیا کی آبادی کا دسواں حصہ رہ جائیں گی۔ یورپی اقوام colonializationکی جس پالیسی پر ۱۷ویں اور ۱۸ویں صدی میں عمل پیرا رہے اُس کا دورِثانی اب کبھی نہیں آئے گا۔
بن ویٹین برگ کا کہنا ہے کہ اگر یورپ نے کم آبادی کے مسئلے کا حل تلاش نہ کیا تو یورپ مٹ جائے گا۔ دنیا میں ۲۰ممالک ایسے ہیں کہ جن کی شرحِ پیدایش سب سے کم ہے اور اُن میں سے ۱۸ یورپ میں ہیں۔ اگر یورپی ممالک چاہتے ہیں کہ موجودہ نسل کی جگہ لینے کے لیے اتنے ہی افراد وجود میں آجائیں تو ہر یورپی عورت کو ۱ء۲ بچے فی کس پیدا کرنا ہوں گے‘ جب کہ مجموعی طور پر یہ شرح ۴ء۱ فی عورت ہے۔ یہ صفر شرحِ آبادی نہیں‘ صفر آبادی کا اعلان ہے۔
مغربی تہذیب کا گہوارا (یورپ) مغربی تہذیب کا قبرستان بن جائے گا۔ Bologna کی جان ھاپکنز یونی ورسٹی کے ڈاکٹر جان وہلیس کا کہنا ہے: ’’خودمختاری کے لیے عورت کو جس قدر معاش کی ضرورت ہے اوروہ اُس سے زیادہ کما سکتی ہے تو پھر شوہر کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر آپ کو جنسی لطف بھی مل جائے اور بچے بھی پیدا نہ کرنا پڑیں توخاندان بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ کیتھولک اٹلی اور سیکولر برطانیہ میں یہی ہو رہا ہے___ شادی کیوں کریں؟‘‘
شوہروں‘ بیویوں اور بچوں کو خاندانی ذمہ داریوں سے فارغ کر کے یورپ کے سوشلسٹوں نے خاندان کی ضرورت ہی کو ختم کردیا ہے۔ آہستہ آہستہ خاندان ختم ہورہے ہیں۔ خاندانوں کے ختم ہونے سے یورپ بھی ختم ہو رہا ہے۔ ۲۰۵۰ء تک یورپ سے جس قدر لوگ فوت ہوجائیں گے اُن کی مجموعی آبادی بیلجیم‘ ہالینڈ‘ ڈنمارک‘ سویڈن‘ ناروے اور جرمنی کی آبادی سے زیادہ ہوگی۔ اگر یورپ کی آج کی عورتیں چاہتی ہیں کہ اُن کی نسلیں‘ اُن کے خاندان‘ اُن کی ثقافت اور اُن کے ممالک دنیا کے نقشے پر موجود رہیں تو اُنھیں اتنے ہی بچے پیدا کرنے ہوں گے جتنے اُن کی نانیوں اور دادیوں نے پیداکیے تھے___ ہے کوئی جو فطرت کے انتقام اور مغرب کی خودکُشی سے سبق سیکھے!
(The Death of The West by Patrick J. Buchanan, Published by: Thomas Dunne Books, St. Martin's Griffin, 175 Fifth Avenue, New York. 10010, pp310).
سوال : ایک تنظیم کے تحت لوگ ہر ماہ کے آخری ہفتے کو مسجد میں اجتماعی شب بیداری کرتے ہیں۔ مسجد میں سب افراد مل کر قبرستان جاتے ہیں۔ ہر فرد ایک ایک قبر کے پاس بیٹھ جاتا ہے اور وہاں عالم صاحب اجتماعی دعا کرواتے ہیں۔ پھر کچھ دیر آرام کے بعد تہجد‘ نمازِ فجر اور درسِ قرآن کے بعد پروگرام کا اختتام ہوتا ہے۔ کیا نبی کریمؐ سے ایک رات مخصوص کرکے اجتماعی شب بیداری اور قبرستان میں جاکر دعائیں مانگنا ثابت ہے؟
حضرت عمرؓ کے دور کی بات ہے کہ چند افراد مل کر پتھروں پہ کلمہ پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ انھیں میرے پاس لے کر آئو۔ جب سب افراد آئے تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ ابھی تو میرے محبوب کا کفن بھی میلا نہیں ہوا اور آپ لوگوں نے بدعات کا آغاز کردیا ہے۔ اگر میں نے تمھیں میدانِ بدر میں نہ دیکھا ہوتا تو میں تمھارے سر قلم کردیتا۔
جواب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبرستان میں جانا‘ قبرستان والوں کے لیے دعائیں کرنا ثابت ہے۔ دن اور رات‘ دونوں اوقات میں ثابت ہے۔ اسی طرح تہجد انفرادی طور پر اور بلاتداعی‘ یعنی بلاوے کے بغیر اجتماعی طور پر بھی ثابت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عبداللہ بن عباسؓ نے رات کے وقت تہجد پڑھی۔ انھوں نے پیچھے نیت باندھ لی‘ آپؐ نے انھیں دائیں جانب کیا۔ اسی طرح بعض دوسرے صحابہ کرامؓ کے واقعات موجود ہیں کہ انھوں نے آپؐ کے پیچھے تہجد پڑھی۔
تین دن رمضان المبارک میں آپؐ نے آٹھ رکعت تراویح پڑھائی۔ اس بنیاد پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد سیدنا عمرفاروقؓ نے اپنے دورِخلافت میں تراویح کی مستقل طور پر باجماعت نماز شروع کردی۔ کسی بھی عبادت کو جو انفرادی طور پر مطلوب ہو ازخود بلادلیل اجتماعی شکل دینا اور اسے ثواب سمجھنا بدعت ہے۔ لیکن ایسی بدعت جو عبادت کی انفرادی شکل کو اجتماعی شکل دے دے‘ مکروہ کا درجہ رکھتی ہے۔ آپ نے جس شکل کا ذکر کیا ہے‘ اگر اس میں غیرشرعی حرکت کا ارتکاب نہیں ہے تو مکروہ شمار ہوگی۔
حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا قول جن الفاظ میں آپ نے ذکر کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ پتھروں یا گٹھلیوں پر پڑھنا‘ کسی خاص مقام کو ورد کے لیے متبرک سمجھنا ایسی بدعت نہیں ہے کہ جس پر قتل کی سزا نافذ کی جائے۔ تعزیری سزا بھی لازم نہیں ہے ورنہ حضرت عمرؓ اسے جاری کردیتے۔ البتہ سختی سے روکنا چاہیے۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
س: ڈاکٹروں کی ایک تنظیم کے زیراہتمام ڈاکٹروں کی تربیت کے لیے وقتاً فوقتاً مختلف اجتماعی پروگرام ہوتے ہیں۔ اگر ایک خاتون ڈاکٹر کو کسی طبی موضوع پر لیکچر دینے کے لیے بلایا جائے‘اور وہ پردے کے اہتمام کے ساتھ نقاب میں رہتے ہوئے‘ مرد ڈاکٹروں کے سامنے اسٹیج پر لیکچر دے‘ تو اس حوالے سے قرآن و سنت کی روشنی میں کیا حکم ہے؟
ج: ’علم‘ خواتین سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایک خاتون کسی فن میں ماہر ہو اور اس سے مردوں کے مقابلے میں احسن انداز سے استفادہ کیا جا سکتا ہو تو وہ شرعی آداب‘ یعنی پردہ وغیرہ کا لحاظ رکھتے ہوئے مرد حضرات کو لیکچر دے سکتی ہے۔
صحیح بخاری کا ایک نسخہ محدثۃ کریمۃ بنت احمد بن محمد بن حاتم المروزی سے منقول ہے۔ انھوں نے صحیح بخاری پڑھی‘ لکھی اور پھر لوگوں کو پڑھائی‘ لوگوں نے ان سے لکھی اور ان کا نسخہ بھی معروف ہوگیا۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں ہماری تاریخ میں پائی جاتی ہیں۔ نیز اس بات کا اطمینان بھی ہونا چاہیے کہ اس طرح کے لیکچر کے نتیجے میں خاتون خود‘ یا کوئی شخص فتنہ میں مبتلا نہ ہوجائے۔(ع - م )
س: میں ایک بڑے کاروباری ادارے کا سربراہ ہوں اور اس حوالے سے بنکوں کے ساتھ مالی لین دین کے سلسلے میں رابطہ رہتا ہے۔ بنک عموماً بڑے اداروں کے لیے ایک مخصوص رقم کی لمٹ (limit) منظور کرتا ہے جس میں جب تک آپ لمٹ کی رقم کو اپنے اکائونٹ میں سے لے کر استعمال نہیں کرتے اس وقت تک آپ کو مارک اَپ نہیں پڑتا‘ یعنی آپ جتنے دن رقم استعمال میں لاتے ہیں اُتنا ہی مارک اَپ دینا پڑے گا‘ پورے مہینے کا نہیں۔ کیا قرآن و سنت کے حوالے سے یہ صورت جائز ہے؟
ج: بنک لمٹ (bank limit) کی جو صورت آپ نے بیان کی ہے یہ واضح طور پر ایک قرض کا معاملہ ہے۔ آپ بنک سے قرض لیتے ہیں‘ اسے خواہ loan کہا جائے یا limit کی صورت ہو‘ صرفی مقاصد کے لیے ہو یا کاروباری مقاصد کے لیے‘ شرح سود/مارک اَپ کم ہو یا زیادہ‘ ربا کی تعریف میں آتا ہے۔
ربا کی تعریف یہ ہے: قرض کے معاملے میں اصل مال پر بڑھوتری۔ اسی طرح اگر ایک شخص (یا ادارے) کا کسی دوسرے شخص (یا ادارے) کو قرض دینا‘ جب کہ شرط یہ ہو کہ اتنی مدت گزرنے کے بعدوہ اس پر اتنی زائد رقم وصول کرے گا تو یہ بھی ربا ہے۔قرض کے معاملے پر بڑھوتری کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی خاص مدت (جیساکہ آپ نے لکھا کہ آپ کو پورے ماہ کا مارک اَپ نہیں دینا پڑتا) کے لیے ہو تو اسی صورت میں سود ہوگا۔ مزیدبرآں آج کل ہماری منڈیوں خاص طور پر غلہ منڈیوں میں زیادہ تر کاروبار اسی لمٹ کے پیسے سے ہورہا ہے۔ بہرطور قرض کے کسی بھی معاملے میں جہاں اضافی رقم کی ادایگی کی شرط ہو‘ سود/ربا ہے۔ اس لیے اپنے ایمان کی سلامتی کے لیے اس سے بچنا ہرمومن پر فرض ہے واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (پروفیسر میاں محمد اکرم)
س: ہمارا گھرانہ ایک دینی گھرانہ ہے۔ والدین نے ہماری تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔ فہم دین‘ صحیح اور غلط کی تمیز اور حلال و حرام کا شعور دیا ہے۔ مگر اس تمام تر تربیت اور اچھے ماحول کے باوجود ہمارے دو بھائی جس اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں اس نے گھر کا سکون برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ ایک طرف وہ گھر سے باہر دعوتِ دین کا کام کرتے ہیں اور دوسری طرف لڑکیوں سے راہ و رسم بڑھا رکھی ہے۔ فون پر لمبی لمبی گپ شپ کرتے ہیں‘ تحائف کا تبادلہ‘ ایک دوسرے سے ملنا جلنا بھی ہے۔ اگر اعتراض کیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ ہمارا ذاتی فعل ہے اور پسند کی شادی کرنا گناہ تو نہیں۔ یہ دیکھ کر والدہ اور ہم بہنوں کو بہت دکھ ہوتا ہے اور دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ایک ہی گھر میں تربیت پاتے ہوئے کردار کااتنا فرق حیران کردیتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ :
کیا اللہ تعالیٰ نے چوری چھپے آشنائی سے منع نہیں فرمایا‘ اور اس کے مرتکب عذاب کے مستحق نہیں؟
کیا غیرمحرموں سے دل لگی کی باتیں کرنا زبان اور دل سے زنا کا ارتکاب نہیں ہے؟
کیا اس طریقے سے پسند کی شادی کی راہ ہموار کرنا درست ہے؟ اگر اس طرح سے کسی لڑکی کی شادی ہوتی ہے توہم اس کو عزت و احترام کا مقام نہیں دے سکتے۔ اگر نہ دیں تو کیا یہ غلط ہوگا؟
ج:آپ کے مفصل خط میں ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے بعض انتہائی مہلک رجحانات کے حوالے سے جو سوالات اُٹھائے ہیں‘ وہ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اس ضمن میں چندنکات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے:
۱- قرآن کریم اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے جن بڑے گناہوں سے بچنے کا واضح حکم دیا ہے‘ ان میں چوری چھپے یا بغیر چوری کے آشنائی اپنی شدت کے لحاظ سے کفروشرک سے کم تر نہیں کہی جاسکتی ہے۔ ایک حدیث صحیح میں یہ بات بیان فرمائی گئی ہے کہ جب ایک شخص زنا کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے تو اس کے قلب میں ایمان موجود نہیں ہوتا۔ لہٰذا وہ یہ فعل کرتے وقت کفر کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اللہ تو اپنے بندوں کو پاک بازی‘ عبادت اور تقویٰ کا حکم دیتا ہے‘ جب کہ شیطان فحش‘ منکر اور ظلم و شرک کی دعوت دیتا ہے۔ چنانچہ ایک شخص جب زنا کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے تو وہ شیطان کی مرضی پوری کرتا ہے اور اپنے رب کے حکم کی خلاف ورزی کررہا ہوتا ہے۔ گویا کہ اس لمحے وہ شیطان کا بندہ بن کر ہی یہ کام کرتا ہے۔
جہاں تک سوال عذاب کا ہے‘ عذاب اور اچھے اجر کا اختیار صرف اور صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو ہے۔ ہم یہ بات تو کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے مشاہدے اور تحقیق کی روشنی میں فلاں شخص نے ایک بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے لیکن اس کا آخری فیصلہ رب کریم ہی کرے گا۔ یہ نہ میرے اور آپ کے سوچنے کا مسئلہ ہے‘ اور نہ اس پر کوئی مثبت یا منفی رائے ایسے فرد کے آخرت میں حساب کتاب پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔
۲- کسی غیرمحرم کے ساتھ تنہائی اختیار کرنا یا لگاوٹ کی بات کرنا زنا ہی کی ایک شکل ہے۔ گو‘ ایسے کام میں پوری گنجایش ہوتی ہے کہ اگر ایسے فعل کا عملاً ارتکاب نہیں کیا گیا اور توبہ و استغفار کو اختیار کرلیا گیا تو اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا اور معاف فرمانے والا ہے۔
۳- کسی کا یہ کہنا کہ اگر وہ برائی کا ارتکاب کر رہا ہے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے اور اس کی بہن‘ ماں‘ باپ‘ بھائی‘ دوست یا کسی اور مسلمان کو اس پر نہ پریشان ہونا چاہیے‘ نہ اس سے بازپرس کرنی چاہیے‘ ایک مکمل غیراسلامی رویہ ہے۔ قرآن کریم نے واضح طور پر یہ بات کہی ہے کہ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے اولیا ہیں جو بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔ شارع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کو نصیحہ‘ یعنی بھلائی کی طرف متوجہ کرنا‘ اصلاح اور برائی سے روکنے اور نیکی کی طرف راغب کرنے سے تعبیر کیا ہے۔
اسلام کا بنیادی نقطۂ نظر جو دیگر مذاہب سے مختلف ہے‘ یہی ہے کہ یہاں مسئلہ ایک شخص کی ’ذاتی نجات‘ (personal salvation)کا نہیں ہے بلکہ قرآن کریم کے الفاظ میں اپنے نفس اور اپنے اہلِ خانہ کو جہنم کی آگ سے بچانے کا ہے۔ اس لیے بھائی بہن ہوں یا اولاد یا پڑوسی یا اجنبی مسلمان‘ جب بھی اور جہاں بھی برائی نظر آئے اس کی اصلاح اور بھلائی کی حمایت و تقویت قرآنی حکم ہے۔ آپ کے بھائی صاحب کا خیال بالکل درست نہیں ہے۔
۴- آپ کی بات بالکل درست ہے کہ اپنی پسند کی شادی کے نتیجے میں خاندان کے دیگر افراد آنے والی لڑکی کا وہ استقبال نہیں کرسکتے جو وہ مشورے کے بعد ایک لڑکی کے انتخاب کی شکل میں کریں گے۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے۔ اس کے باوجود اپنی پسند کا اظہار کرنا لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے ضروری ہے۔ دین کا غالب رجحان یہی ہے کہ شادی کے لیے لڑکی کے انتخاب میں والدین اور اعزہ کے حق کو تسلیم کیا جائے۔
۵- شادی سے قبل یا بعد‘ غیرمحرم سے بات کرنے کا حکم یکساں ہے۔ قرآن کریم نے اُمہات المومنینؓ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ اصول بیان کیا ہے کہ وہ کسی سوال کرنے والے کا جواب ایسے لہجے میں دیں جس میں لگاوٹ نہ ہو۔ بات صرف اتنی ہو جتنی ضرورت ہے‘ بلاوجہ حکایت کو طول دینے کی ممانعت ہے۔ اگر ایک کالج یا یونی ورسٹی میں ایک لڑکا یا لڑکی ایک دوسرے سے کسی درسی موضوع پر بات کرتے ہیں تو یہ بات حرام نہیں ہوگی۔ ہاں‘ اگر اس کا مقصد دوستی پیدا کرنا‘ لطائف کا تبادلہ کرنا اور اس طرح بے تکلفی پیدا کرنا ہے تو یہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے منافی اور حرام ہے۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ایک ہی گھر میں تربیت پانے کے باوجود کردار کا یہ فرق کیوں‘ تو اس میں بنیادی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ہرشخص حالتِ امتحان میں ہے۔ ہرایک کو اپنے اعمال کا خود جواب دہ ہونا ہے۔ لازمی نہیں کہ باپ کے راستے پر بیٹا بھی چلے۔ حضرت نوحؑ کے بیٹے کی مثال معروف ہے۔ ایسے میں آپ کو خدا کے ہاں جواب دہی اور اخلاقی ذمہ داری کا احساس دلانا چاہیے۔ اس کے علاوہ خاندان کے بزرگوں کو بھی توجہ دلانی چاہیے اور معاشرتی دبائو بھی بڑھانا چاہیے۔ کوئی تادیبی اقدام بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس سب کے نتیجے میں منفی معاشرتی رجحانات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔(ڈاکٹر انیس احمد)
کسی زبان کو سیکھنے کے لیے اس کے اصول و قواعد سے واقف ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے عربی زبان سیکھنے کے لیے علمِ صرف اور علمِ نحو کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ عربی صرف و نحو پراُردو زبان میں بیسیوں کتابیں ملتی ہیں۔ مولانا فراہیؒ نے اسباق النحو کے نام سے قواعدِ نحو کو آسان انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی تھی جس میں بعض پہلوتشنہ رہ گئے تھے۔ خالد مسعود مرحوم نے کتاب کے تشنہ پہلوئوں کو مکمل کیا ہے۔
کتاب کے آغاز میں ’عربی زبان کی ابتدائی باتیں‘ کے عنوان سے فراہم کی گئی معلومات عربی کے مبتدی طالب علموں کے لیے بہت اہم اور مفید ہیں۔ عربی زبان کی عمارت میں کلمے اور کلام کی حیثیت ایک بنیادی اینٹ کی ہے۔ مؤلف نے کلمے کی تین قسموں‘ یعنی اسم‘ فعل اور حرف کو الگ الگ عنوانات کے تحت پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس لیے یہ کتاب علمِ نحو کی ایک جامع دستاویز بن گئی ہے۔ کتاب کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ ہرسبق کے آخر میں اس کے مضامین سے متعلق ایک مشق دی گئی ہے جسے اگر اساتذہ اپنی نگرانی میں طلبہ سے حل کرائیں گے تو ساتھ ساتھ اس کا عملی اجرا بھی ہوتا جائے گا۔ کتاب کے آخر میں تمام مشقوں کا حل بھی دیا گیا ہے جو طلبہ کے لیے اپنی مشق کی صحت جانچنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ اس طرح مولانا امین احسن اصلاحی کے بقول: یہ کتاب طلبۂ فن کے لیے کافی ہے۔ اس سے عربی زبان سیکھنے کا راستہ کھل جائے گا۔ پھر قرآن و حدیث اور ادبِ عربی کی اعلیٰ کتابوں کے مطالعے سے اس زبان کا ذوق پیدا ہوجائے گا (ص ۷)۔ مدارس کے ابتدائی سالوں کے نصاب میں شامل کرنا مفید ہوگا۔ (گل زادہ شیرپاؤ)
اسلامی علوم کی روایت کا یہ ایک روشن پہلو ہے کہ اس میں فرد کے محض علم و کلام پر اکتفا نہیں کیاجاتا‘ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر خود مصنف یا کسی علمی ماخذ کے مددگارفرد کے کردار و افکار تک کے زاویے کوپرکھا جاتا ہے۔ دوسرے پہلو پر توجہ دیتے ہوئے بسااوقات تعصب یا غلط فہمی کی آلودگی ظلم کی داستانوں کو پیچھے چھوڑ جاتی ہے اور بے چارا صاحب ِ علم و فن عبرت کا نشان بن جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ محمد بن مسلم المعروف امام ابن شہاب زہری کے ساتھ پیش آیا۔
حضرت ابوہریرہؓ کی روایت کردہ احادیث (۵۳۷۴) کے بعد سب سے زیادہ احادیث کی روایات‘ تابعی امام فی الحدیث ابن شہاب زہری سے مروی (۲۲۰۰) ہیں (ابتدائیہ)۔ اتنی بڑی تعداد میں احادیث کو محفوظ کرنے والے ابن شہاب خود مسلمانوں کے ایک گروہ اور مستشرقین کی سخت تنقید کا نشانہ بنے۔مستشرق گولڈزیہر نے ابن شہاب کو بے وزن ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا‘ حالانکہ: ’’امام زہری کے ثقہ اور ضابط و عادل ہونے پر اَئمہ محدثین کا اتفاق ہے‘‘ (ص ۱۱)۔ زیرنظر کتاب میں فاضل محقق نے امام زہری پر الزامات کو متعین شکل میں پیش کیا ہے اور ان کا مدلل علمی جواب دیا ہے۔ انھوں نے استشراقی حملوں اور ان کی ہم نوائی پر تلے ہوئے بعض قلم کاروں کے استدلال کاعلمی نظائر سے توڑ پیش کیا ہے‘ جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔
کتاب کے تمام قارئین عربی دان نہیں ہوتے‘ اس لیے ضروری تھا کہ عربی حوالہ جات/ اتھارٹیز کا اُردو ترجمہ بھی درج کردیا جاتا۔ شیخ زاید اسلامک سنٹر کی فاضل [سابق] ڈائرکٹر محترمہ جمیلہ شوکت اہلِ علم کے تشکروامتنان کی مستحق ہیں کہ انھوںنے اسلامک سنٹر کو تدریسی مشاغل کے ساتھ ٹھوس علمی سرگرمیوں کی شاہراہ پر گام زن کر دیا۔ (سلیم منصور خالد)
احکامِ احادیث پر مشتمل امام ابن حجر عسقلانیؒ کی مشہور کتاب بُلُوغ المَرام دنیا بھر کے اکثروبیش تر مدارس دینیہ کے نصاب کا حصہ ہے۔ اس میں تقریباً ڈیڑھ ہزار احادیث ہیں اور متعدد زبانوں میں اس کی شروح لکھی جاچکی ہیں‘ لیکن اُردو زبان میں تاحال کوئی ایسی شرح دستیاب نہ تھی کہ جس میں تمام احادیث و آثار کی مکمل تخریج و تحقیق کی گئی ہو‘ قدیم و جدید مسائل اور احکام یک جا کیے گئے ہوں۔ حافظ عمران ایوب نے اس علمی ضرورت کے پیش نظر زیرنظر شرح تیار کی ہے۔
تمام احادیث کی تخریج کی گئی ہے‘ صحت و ضعف کا تعین کیا گیا ہے‘ اور اختلافی مسائل میں برحق موقف کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ اس ضمن میں ائمہ اربعہ کے علاوہ علامہ ناصرالدین البانی‘ شیخ عبداللہ بہام‘ علامہ شوکانی‘ امام نووی‘ امام ابن تیمیہ‘ امام ابن قیم‘ شیخ عبدالعزیز بن باز وغیرہ کی تحقیقات کو پیش نظر رکھا گیا ہے‘ نیز سعودی مستقل فتویٰ کمیٹی کے اقوال و فتاویٰ بھی نقل کیے گئے ہیں۔ اس طرح یہ شرح جدید و قدیم علوم کے امتزاج کی حامل ہے جو اس کی انفرادیت ہے۔
زندگی کے مختلف شعبوں (مثلاً معاشرت‘ تجارت‘ جرائم‘ حدود‘ جہاد وغیرہ) سے متعلق فقہی رہنمائی میں عام لوگوں کی ضروریات کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اسلوب عام فہم ہے۔ عربی متن کے ساتھ مشکل الفاظ کی لغوی توضیح اور پھر معنی و مفہوم اور مسائل پر بحث کی گئی ہے۔ یہ مفید علمی و تحقیقی کاوش اہلِ علم‘ طلبہ اور عوام الناس کے لیے یکساں مفید ہے۔(امجد عباسی)
جامعہ حفصہ اور جامع لال مسجد‘ اسلام آباد کے جس خونیں واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ایک سنگ دل انسان کا دل بھی موم ہوجاتا ہے‘ یہ کتاب اس تذکرے پر مبنی ہے۔ یہ مولانا زاہد الراشدی کے ۱۱کالموں اور آپریشن سے چند گھنٹے پہلے تک جاری رہنے اور پھر ناکامی سے دوچار ہونے والے مذاکرات کے تفصیلی رپورتاژ پر مشتمل کتاب ہے۔
فاضل مصنف نے اس المیے کے جملہ مراحل کو بڑے شستہ‘ متوازن‘ مدلل اور بصیرت افروز انداز سے قلم بند کیا ہے۔ انھوں نے مسئلے کی نوعیت‘ اس قضیے کے اُتارچڑھائو‘سلجھائو اور الجھائو کی راہوں کو بے نقاب کرکے مؤرخ کے لیے ایسا لوازمہ فراہم کر دیا ہے کہ جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکے گا۔ مولانا راشدی کے استدلال سے اختلاف کی گنجایش کم ہے۔ انھوں نے نہ صرف علما کے موقف کو خوبی سے منقش کیا ہے‘ بلکہ مشرف حکومت کے اس پروپیگنڈے کو بھی تارتار کردیا ہے کہ: ’یہ مذاکرات غیرملکیوں کے لیے تحفظ مانگنے کے سوال پر ٹوٹے تھے‘ (ص ۶۳)۔ اس کتابچے کا عربی اور انگریزی میں ترجمہ مفید رہے گا۔(س - م - خ )
زیرنظر کتاب میں اسلامی تہذیب‘ اسلامی ریاست‘ قرآن اور عدل پر سیرحاصل گفتگو کے بعد‘ قرآنی قوانین کو ایک منضبط بیان میں پیش کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی پاکستان میں اس دائرے میں رائج قوانین کے بیان سے تقابلی مطالعہ بھی ہے۔ کتاب میں علمی مزاج اور تحقیقی ذوق کے ساتھ ایک منطقی استدلال بھی ملتا ہے۔ مصنف نے قرآنی قوانین کے مقابلے میں پاکستان میں رائج قوانین کی کمزوریوں اور خامیوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔یہ کتاب وکلا کے ساتھ‘ عام قاری کے لیے بھی دل چسپی کا سامان رکھتی ہے۔(محمد الیاس انصاری)
فاضل گرامی ڈاکٹر انعام الحق کوثر ایک باہمت شخصیت ہیں۔ عرصۂ دراز تک بلوچستان کے دُوردراز علاقوں میں درس و تدریس میں مصروف رہے‘ اور ملازمت سے سبک دوشی کے بعد اب تصنیف و تالیف کو مشغلۂ حیات بنا رکھا ہے۔ کوئی برس نہیں جاتا کہ اُن کی دوچار کتابیں چھپ کر منظرعام پر نہ آتی ہوں۔ علم و ادب کے لیے بلوچستان کی بظاہر سنگلاخ زمین میں انھوں نے کتابوں کے گل و گلزار کھلا .ِ دیے ہیں ع ایں سعادت بزورِ بازو نیست۔
زیرنظر کتاب بلوچستان میں اُردو کا ایک مختصر مگر جامع تذکرہ ہے اور ایک اعتبار سے اُردو زبان و ادب کے ارتقا کی ایک مختصر تاریخ بھی ہے جسے زیادہ تر اصنافِ ادب کے اعتبار سے مرتب کیا گیا ہے۔ قدرتی طور پر شاعری کا ذکرطویل اور ضخیم ہے۔ نئے پرانے مقامی اور غیرمقامی شعرا کا مختصر تعارف اور نمونۂ کلام دیا گیا ہے۔ ترتیب الف بائی ہے۔ اسی طرح دیگر اصنافِ ادب (تحقیق و تنقید‘ افسانہ نگاری‘ ناول نگاری‘ سفرنامہ‘ تذکرہ نویسی و سوانح نگاری‘ یادداشتیں‘طنزومزاح‘ بچوں کا ادب‘ تراجم) کے لحاظ سے بلوچستان کے اُردو ادب‘ ادیبوں‘ قلم کاروں اور اُن کی تصانیف کا تعارف کرایا گیا ہے۔ آخر میں مفصل کتابیات شامل ہے ___ یہ علمی کاوش ہر اعتبار سے قابلِ قدر ہے۔ اُردو زبان و ادب کے مؤرخین کے لیے یہ ایک معلومات افزا دستاویز ثابت ہوگی۔ (رفیع الدین ہاشمی)
۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے سانحے کو بہانہ بنا کر‘ امریکا نے افغانستان پر جارحانہ حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تو روزنامہ اوصاف اسلام آباد کے صحافی مقدراقبال حالات کے مشاہدے کے لیے افغانستان پہنچ گئے۔ اس کے بعد بھی وہ کئی مرتبہ وہاں گئے۔ زیرنظر کتاب ان کے مشاہدات اور افغانستان پر ان کی تحقیق کاحاصل ہے۔ انھوں نے زمانۂ قبل مسیح سے تاحال افغانستان کی مختصر تاریخ بیان کی ہے اور پھر طالبان کی حکومت سے امریکی حملے تک کے واقعات بھی ایجاز کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔
طالبان کے انتظامِ مملکت کو تفصیل سے پیش کیا گیا ہے۔ جس میں نہ صرف ملّاعمر کی سادگی‘ بلکہ ان کے گورنروں‘ وزیروں‘ سکرٹریوں کی درویشی کا ذکر ہے۔ طالبان کی عمل داری میں غربت‘ پوست کی کاشت اور گداگری کا خاتمہ ہوگیا اور شرعی حدود نافذ ہوئیں۔
مصنف کا اسلوب سادہ‘ عام فہم اور انداز تحقیقی ہے۔ فارسی و اُردو اشعار اور حوالوں سے اپنی بات کو مؤثر بنایا گیا ہے۔ یہ دل چسپ کتاب خصوصاً نوجوانانِ اُمت کے لیے سبق آموز ہے۔(قاسم محمود وینس)
معین کمالی کے کالموں میں شگفتگی‘ طنز اور تلخی کے عناصر نمایاں نظر آتے ہیں۔ انھوں نے باقاعدہ کالم نویسی کا آغاز ۱۹۶۶ء میں کیا تھا اور مختلف عنوانات (’چھلکے‘، ’قلم برداشتہ‘، ’دوراہے پر‘، ’چٹکیاں‘، ’خبرونظر‘، ’برجستہ‘ وغیرہ) کے تحت لکھتے رہے ہیں۔ زیرنظر کتاب میں ۳۹ دل چسپ کالم یک جا کیے گئے ہیں‘ مثلاً صفحہ ۴۱ پر ’حبیب و داماں کی خیر ہو یارب‘ کے عنوان سے کراچی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ: ’’بہت سے مسلمان جیب کترے… روزی کی تلاش میں نکلتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ اپنے دھندے کی ابتدا بسم اللہ کوچ سے کریں‘‘۔ معین کمالی نہایت خوب صورتی سے روزمرہ کے تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر قارئین کو ایک زمانے کی سیر کرا دیتے ہیں۔یہ مجموعہ ایک محب ِ وطن کے دل کے احساسات کا آئینہ ہے۔(م - ا - ا )
’ہمارا سیاسی بحران اور نجات کی راہ‘ (جولائی ۲۰۰۷ء)‘ میں محترم قاضی حسین احمد نے ملک کی موجودہ صورت حال کا بروقت تجزیہ کیا اور رہنمائی دی ہے۔ ’مولانا عبدالغفار حسنؒ، میں، پروفیسر خورشیداحمد نے جہاں اپنے اُستادمحترم کو خراج تحسین پیش کیا ہے وہاں مولانا کی حیات و خدمات کا مختصراً احاطہ بھی ہوگیا۔
’شیعہ سنی مکالمہ، وقت کی ضرورت‘ (جولائی ۲۰۰۷ء) نظر سے گزرا۔ میں گذشتہ ۳۰-۳۵سال سے شیعہ لٹریچر پڑھتا چلا آرہا ہوں اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شیعوں سے مذہبی بنیاد پر قیامت تک مصالحت نہیں ہوسکتی۔ صرف سماجی بنیاد پر اور بقاے باہم کے نظریے سے ان سے مفاہمت ہوسکتی ہے۔
’شیعہ سنی مکالمہ، وقت کی ضرورت‘ میں مقالہ نگار کا موقف بجا کہ شیعہ سنی مکالمہ وقت کی ضرورت ہے‘ لیکن کسی ایک نکتے پر اتفاق‘ جو شیعہ سنی مکالمے کا مرکزی خیال ہو کسی صورت میں بھی بارآور نہ ہوگا۔ مکالمے کی ایک صورت یہ ہے کہ دونوں اطراف کے اہلِ فکرودانش اور غیر جانب دار منصف مزاج صاحبانِ بصیرت قرآن وسنت سے استفادہ کرکے احسن طریقے سے ایک دوسرے کو قائل کریں کہ وہ اپنے بے جا موقف سے رجوع فرمائیں۔
’شیعہ سنی مکالمہ، وقت کی ضرورت‘ یقینا ایک غورطلب موضوع ہے۔ موجودہ حالات میں‘ جب کہ طاغوتی طاقتیں مسلمانوں کو باہم دست و گریباں کرکے صفحۂ ہستی سے نیست و نابود کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں اور مسلم حکمران اس طاغوتی جنگ میں برابر کے شریک ہیں‘ اتحاد اور مکالمے کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔ ضرورت ہے کہ سب باہم مل بیٹھ کر آپس کے اختلاف افہام و تفہیم سے حل کریں اور مل کر مشترکہ دشمن کا مقابلہ کریں۔
’تربیت اولاد میں باپ کا خصوصی کردار‘ (جولائی ۲۰۰۷ء) میں، باپ کے خصوصی کردار کی طرف بجاوجہ دلائی گئی ہے جس سے عام طور پر غفلت برتی جاتی ہے۔ قرآن و سنت‘ معاشرتی مسائل ‘جدید نفسیات اور رجحانات کی روشنی میں کردار سازی اور تربیت اولاد کے لیے عملی نکات بھی سامنے آتے ہیں۔
’مغرب میں بڑھتی ہوئی مسلم آبادی‘ (جولائی ۲۰۰۷ء) ایک حوصلہ افزا تحریر ہے۔ یہ واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ مغربی تہذیب و ثقافت خود اپنے ہی ہاتھوں‘ اپنے ہی خنجر سے خودکشی کر رہی ہے۔ یہ نوید ہے ایک عالم گیر اسلامی انقلاب کی!
اشاعت خاص حسن البنا شہید‘ (مئی،جون ۲۰۰۷ء) مُردہ روحوں کو جگانے والی شخصیت کی پُراثر تحریروں اور تبصروں پر مشتمل تحریکِ اسلامی کے لیے پیامِ زندگی ہے۔ احباب اور رفقا اس کے مطالعے سے اپنی تحریک سے وابستگی کو مزید پختہ اور فعال بنا سکتے ہیں‘ جب کہ عام لوگوں کے لیے تازگی ایمان اور دلوں کو گرمانے کا سامان ہے۔ ’اشاعت خاص‘ ایک داعی کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
’اشاعت خاص‘ کا مقصد اخوان المسلمون کے شہید رہنما کو محض خراجِ عقیدت پیش کرنا ہی نہیں‘ اس میں بڑی قیمتی رہنمائی اور جذبہ و تحرک ہے۔ ’حسن البنا، اخوان اور مغربی مفکرین‘/ڈاکٹر انیس احمد، ’مَیں ہم سفر رہا‘ / شیخ عبدالمعزعبدالستار، ’حسن البنا کی حکمت عملی‘/ابوجرۃ عبداللہ سلطانی‘ ان پر تو اسٹڈی سرکل ہونے چاہییں۔ ضرورت ہے کہ اجتماعات میں تقاریر کا موضوع بنایا جائے۔
گذشتہ چند ماہ سے کتب و جرائد میں ایک مہم کے انداز میں یہ کہا جا رہا ہے۔ اگر دین اسلام میں سیاست کو شامل کیا گیا تو نتیجہ خون خرابے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ اردشیر کاؤس جی نے اپنے کالم (ڈان، یکم جولائی ۲۰۰۷ء) میں لکھا ہے کہ سیاست کو اسلام میں لانے سے قتل و خون ریزی کے وہی واقعات رونما ہوں گے جیسے خلفاے راشدینؓ کے دور میں ہوئے جس کے نتیجے میں تین خلفا شہید ہوگئے۔ ایک مصری ادیب فواد عجمی کی کتاب The Dream Palace of Arabsمیں بھی اسی بات کی تکرار کی گئی ہے۔ یہ کتاب Vintage Books امریکا سے شائع ہوئی ہے۔ تقریباً دو ماہ قبل جسٹس جاوید اقبال صاحب حیدرآباد تشریف لائے اور سندھ یونی ورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے بھی یہی بات کہی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک منظم سازش ہے جس کے ذریعے اسلام اور رسالت مآبؐ کے دور کو مطعون کیا جا رہا ہے‘ حالانکہ خلفاے راشدینؓ کا دور برکت و فضیلت کا زمانہ تھا۔ ان الزامات کا مؤثر جواب دینے کی ضرورت ہے۔
ہم نے [قیامِ پاکستان کے موقع پر دارالاسلام پٹھانکوٹ میں] دفاع کا تفصیلی نقشہ مرتب کرکے مورچوں کو مضبوط کیا اور سرِشام ہی عورتوں اور بچوں کو امیرجماعت کے مکان میں جمع کرکے ہر صورت حال کے مقابلے کے لیے تیار ہوگئے۔ امیرجماعت نے عورتوں کو خطاب کرکے فرمایا کہ ’’شاید اہلِ دارالاسلام کی زندگی کا یہ آخری دن ہو۔ جب تک ہم میں سے ایک مرد بھی زندہ ہے‘ دشمن ان شاء اللہ تم تک نہ پہنچ سکے گا۔ لیکن اگر مرد خدانخواستہ ختم ہوجائیں تو تمھیں مومن عورتوں کی طرح کٹ مرنا ہوگا‘ نہ خودکشی کرنا اور نہ اپنے آپ کو زندہ کسی کے حوالے کرنا۔ جو حملہ آور ہو اس کا مقابلہ کرو اور اپنی عزت کے لیے لڑ کر جان دے دو‘‘۔ یہ پوری رات دارالاسلام کے مردوں اور عورتوں کے لیے بالکل محاذجنگ کی سی کیفیت میں گزری...
اسی روز (۲۵ اگست ۴۷ء)شام کو عصر کے بعد ہمارے رفقا لاہور سے ایک کنوائے کے ساتھ دوبسیں لے کر دارالاسلام پہنچ گئے...[اور کہا] ’’آپ لوگ عورتوں اور بچوں کو لے کر فوراً سوار ہوجائیں‘ سامان اور دوسری اشیا کا خیال چھوڑ دیں‘‘...لیکن ہم ڈھائی ہزار پناہ گزینوں کو اپنے ہاں پناہ دے چکے تھے... اس لیے امیرجماعت نے فرمایا کہ ’’جب تک پناہ گزینوں کی حفاظت کا تسلی بخش انتظام نہ ہوجائے یا ان کو ساتھ لے کر چلنے کا بندوبست نہ ہوجائے‘ ہم دارالاسلام سے نہیں جائیں گے۔ ہم نے انھیں خدا اور رسول کے نام پر پناہ دی ہے۔ ہم اپنے عہد کو ان شاء اللہ ہرقیمت پر پورا کریں گے‘‘۔ آخرکار طے ہوا کہ عورتوں اور بچوں کو ان بسوں میں بھیج دیا جائے اور مرد سارے کے سارے دارالاسلام میں پناہ گزینوں کے ساتھ رہیں... [اس دوران] ۲۹اگست کی شام کو فوج نے آکر دونوں جگہ کا چارج لے لیا۔ اس طرح سے پناہ گزینوں کی حفاظت کی جو ذمہ داری ہم نے اٹھائی تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس سے ہمیں بخیروخوبی سبک دوش فرما دیا۔
اسی روز شام کو خدا کی مدد پہنچ گئی۔ لاہور سے ایک اور فوجی قافلے کے ساتھ غازی صاحب تین بسیں لے کر آگئے۔ ہم نے اپنے کپڑے‘ ضروری برتن‘ مکتبے کی کتابوں کا بڑا حصہ‘ اور جماعت کا دوسرا زیادہ سے زیادہ سامان لادا۔ اپنے تین رفقا کو پناہ گزینوں کی ڈھارس بندھانے اور جماعت کے بقیہ سامان کی حفاظت کے لیے دارالاسلام میں چھوڑا‘ اور جتنے پناہ گزینوں کو ساتھ لیا جاسکا انھیں ساتھ لے کر ۳۰ اگست ۴۷ء بروز ہفتہ صبح آٹھ بجے کے قریب دارالاسلام سے لاہور روانہ ہوگئے۔ اس کے بعد پھر دارالاسلام سے ہمارے ذاتی یا جماعت کے سامان میں سے کوئی چیز نہیں لائی جاسکی۔ (’خلاصہ روداد جماعت اسلامی‘ میاں طفیل محمد، ترجمان القرآن‘ جلد ۳۱‘ عدد۴‘ شوال ۱۳۶۷ھ‘ اگست ۱۹۴۸ء‘ ص ۶۷-۶۹)