مضامین کی فہرست


نومبر۲۰۰۷

آج پاکستانی قوم سوگوار ہے اور ایک گونہ سکتے کے سے عالم میں ہے___  کراچی میں ۱۲مئی کے بعد ۱۸ اکتوبر کا کشت و خون‘ بلوچستان اور وزیرستان میں گذشتہ تین سال سے فوج کشی اور اس کے نتیجے میں ہزاروں افراد کی ہلاکت‘ جولائی میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا خونیں حادثہ اور معصوم بچوں‘ بچیوں‘ اساتذہ اور طالبان علم کے خون کی ارزانی‘ ۲۷ رمضان المبارک کو لیلۃ القدر کے موقع پر ڈھائی تین سو کلمہ گوؤں کا قتل اور وہ بھی ’ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ‘ کا موٹو رکھنے والی فوج اور جہاد کا علَم بلند کرنے والے قبائل کے باہم تصادم کے نتیجے میں ___  یہ سب کیا ہے؟

سوچتے سوچتے ذہن ماؤف ہونے لگتا ہے۔یہ قوم کن خطرناک وادیوں میں گم ہوگئی ہے؟ جن کے ہاتھوں میں ملک کی زمامِ کار ہے وہ ہمیں کہاں لیے جارہے ہیں اور کس کا کھیل کھیل رہے ہیں؟ انتہاپسند کون ہے؟دہشت گردی کا مرتکب کون ہو رہا ہے؟ جمہوریت کی بحالی کے نام پر جو ڈراما رچایا جا رہا ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟___  اور حقیقی جمہوریت کی طرف یہ قوم کیسے گامزن ہوسکتی ہے۔ یہ سوالات محض نظری اور علمی موضوع نہیں۔ پاکستانی قوم کے لیے زندگی اور موت کا ایشو بن چکے ہیں جسے انتہاپسندی اور اعتدال پسند روشن خیالی کی کش مکش بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ جنرل مشرف نے قوم کو تصادم‘ تشدد اور تباہی کی جنگ میں جھونک دیا ہے۔ اس کا اصل مقصد آمریت اور اپنے شخصی اقتدار کا تحفظ ہے اور عالمِ اسلام پر مسلط کی جانے والی امریکا اور مغربی اقوام کی دم توڑتی ہوئی جنگ کو سہارا دینا ہے۔ پاکستان ایک امانت ہے اور اس کے اصل امین پاکستان کے ۱۶ کروڑ عوام ہیں۔ ہر ادارہ خواہ اس کا تعلق پارلیمنٹ سے ہو یا عدالت سے‘ فوج سے ہو یا سول نظام سے‘ سیاسی جماعتیں ہوں یا دینی ادارے اور قوتیں___  ان سب کی اس وقت اصل ذمہ داری یہ ہے کہ پاکستان کو اس تباہی سے بچائیں جس کی آگ میں عالمی ایجنڈے کے تحت اسے جھونکا جارہا ہے___  پاکستان کی آزادی اور حاکمیت‘ اس کی سلامتی اور استحکام‘ اس کا تشخص اور وجود ہرچیز دائو پر لگی ہوئی ہے۔ اگلے چند مہینے بڑے فیصلہ کن ہیں اور اگر عوام اور تمام سیاسی‘ دینی اور اداراتی قوتوں نے جن میں فوج‘ عدلیہ اور میڈیا مرکزی اہمیت کی حامل ہیں‘ نے اپنا اپنا فرض ادا نہ کیا تو ہمیں ڈر ہے کہ ایک لحظہ کی غفلت صدیوں کی منزلوں کو کھوٹا کرسکتی ہے۔

جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے اور ملک کے ہر ادارے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے جس خطرناک کھیل کا آغاز ۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو چیف جسٹس آف پاکستان کی برطرفی (دراصل عدالت عالیہ پر حملہ) سے کیا تھا‘ ۱۲ مئی کا خونیں ڈراما‘ ۲۹ستمبر کا شاہراہِ دستور پر پولیس ایکشن‘ ۵ اکتوبر اور پھر ۱۸ اکتوبر کو ایک اور سابق وزیراعظم کی بش-مشرف ’مفاہمت‘ کی چھتری تلے ملک میں آمد‘ ملک بھر سے ایک سیاسی جماعت کو استقبال کے لیے ہر موقع اور سہولت کی فراہمی۔ پھر اس استقبالی ریلی میں دہشت گردی کے ایک ایسے واقعہ کا ظہور جس سے سیاست کا نقشہ اور انتخابات کے طریق واردات ہی کو تبدیل کیا جاسکے، یہ سب ایک ہی سنگین کھیل کی کڑیاں اور ایک ہی ڈرامے کے مختلف ایکٹ معلوم ہوتے ہیں جو تمام سیاسی قوتوں کو بشمول پیپلزپارٹی حالات کا ازسرنو جائزہ لینے کی دعوت دے رہے ہیں۔ ہم قومی زندگی کے اس فیصلہ کن اور نازک ترین موقع پر پوری دل سوزی کے ساتھ تمام اہلِ وطن کو چند بنیادی امور کی طرف متوجہ کرنا اپنا دینی اور قومی فرض سمجھتے ہیں اور زمین و آسمان کے مالک سے اس دعا کے ساتھ یہ گزارشات پیش کررہے ہیں کہ اگر یہ حق ہیں تو سب کے دل ان کے لیے کھول دے۔


سب سے پہلے ہم اس اصولی بات کا اعلان اور اعادہ کرنا چاہتے ہیں کہ اجتماعی معاملات کے حل کا اصل راستہ صرف ایک ہے اور وہ ہے شوریٰ اور دلیل کے ذریعے سیاسی مسائل اور اختلافات کا حل۔ انسانی زندگی اور سیاسی نظام میں قوت کے استعمال کا ایک متعین مقام ہے اوروہ ملکی دفاع‘ شر اور فساد سے معاشرے کو پاک کرنے‘ قانون کی بالادستی اور انصاف کے قیام کے لیے ہے اور قانون اور ضابطے کے مطابق ہے۔ کسی کو یہ اختیار نہیں کہ قانون اپنے ہاتھ میں لے یا سیاسی مسائل و معاملات کو قوت‘ جبر اور گولی کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرے۔ ریاست‘ حکومت‘ جماعتیں‘ گروہ‘افراد سب قانون اور ضابطے کے تابع ہیں اور شریعت نے ظلم کی تعریف بھی یہ کی ہے کہ وَضْعُ شَیْ ئِ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ ___  یعنی جہاد اور دہشت گردی میں فرق ہی یہ ہے کہ جہاد ایک واضح مقابلے اور قانون کا پابند ہے جب کہ دہشت گردی قوت کے ناحق اور غلط استعمال سے وجود میں آتی ہے۔ بقول اقبال    ؎

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضامیں
کرگس کا جہاں اور ہے‘ شاہیں کا جہاں اور

اس اصولی بات کی روشنی میں ہم یہ بات بالکل صاف الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں کہ ۱۸اکتوبر کو جو کچھ کراچی میں ہوا‘ جس میں ۱۴۰ جانیں تلف ہوئیں اور کئی سو زخمی ہوئے‘ دہشت گردی کی بدترین مثال ہے۔ یہ انسانیت‘ سیاست اور شرافت اور تہذیب پر حملہ تھا اور اسلام اور مہذب معاشرے کی ہر قدر کی نفی ہے‘ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ سیاسی سرگرمی ایک جمہوری معاشرے کی جان ہے اور تہذیبی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ اختلاف راے اور سیاسی اور دینی مسالک کا تنوع انسانی معاشرے کے لیے رحمت ہے‘ اور سیاسی یا مذہبی اختلاف کو قوت اور تشدد  کے ذریعے سے مٹانے کی کوشش فساد اور فتنے کا راستہ کھولنے کے مترادف ہے جو شوریٰ کی ضد اور لَااِکراہَ فِی الدّین کے قرآنی حکم سے بغاوت اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت کی توہین ہے کہ میری امت میں اختلاف راے ایک رحمت ہے۔

جہاں ہم ۱۸ اکتوبر کی دہشت گردی کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور تمام ہی جاں بحق ہونے والوں کے لیے دعاے مغفرت کرتے ہیں‘ زخمیوں کے لیے صحت و زندگی کی دعاگو ہیں اور تمام ہی متاثرین اور خصوصیت سے پیپلزپارٹی کی قیادت اور کارکنوں سے تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں‘ وہیں اس امر کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اس واقعے کی آخری ذمہ داری  جنرل پرویز مشرف کی حکومت اور ان کی سیاسی پالیسیوں اور حکمت عملی پر عائد ہوتی ہے جس کی پوری پوری جواب دہی ایک نہ ایک دن انھیں قوم کے سامنے کرنی ہوگی۔ تمام واقعات کی اعلیٰ ترین سطح پر آزاد اور غیرجانب دار تحقیقات ضروری ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کے قتل پر پردہ ڈالنے سے جو روایت شروع ہوئی ہے‘ وہ آج تک جاری ہے اور جنرل پرویز مشرف کے دورمیں تو ڈھٹائی کا عالم یہ ہوگیا ہے کہ ۱۲ مئی کی کھلی کھلی دہشت گردی اور ۴۰ سے زیادہ جانوں کے اتلاف کے بارے میں نہ صرف آزاد تحقیقات سے صاف انکار کیا گیا بلکہ اسے اپنی قوت کے اظہار تک کا نام دیا گیا۔ جولائی کے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے کربلاے ثانی کے بارے میں بھی یہی رویہ اختیار کیا گیا۔ بلوچستان اور وزیرستان میں خون آشامی کے باب میں بھی کسی آزاد تحقیق تو کیا آزاد رپورٹنگ تک کا راستہ بند کیا ہوا ہے۔ اور اب کراچی کے واقعے کی بھی آزاد تحقیق کے مطالبات کو پوری رعونت کے ساتھ نظرانداز کیا جا رہا ہے‘ حالانکہ خود پیپلزپارٹی کی قیادت نے اس کا مطالبہ کیا ہے اور پولیس کی تفتیشی ٹیم پر عدمِ اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ملکی اور غیرملکی میڈیانے بڑے سنگین سوال اٹھائے ہیں کہ ۲۰ہزار پولیس اور رینجرز کی موجودگی میں جن کے بارے میں دعویٰ تھا کہ سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کر لیے گئے ہیں‘ اتنا بڑا حادثہ کیسے ہوگیا؟ سڑکوں کی بجلیاں کیوں بند ہوگئیں؟ ’خودکش حملے‘ کے مجرب نسخے کا پروپیگنڈا پہلے ہی لمحے سے کیوں کیا جانے لگا جب کہ ابھی تک کوئی واضح ثبوت اس کا نہیں ملا ہے بلکہ عینی شاہدوں اور ملکی اور بین الاقوامی صحافیوں کے مطابق پہلا دھماکا ایک شعلے کی شکل میں دیکھا گیا‘ دو گاڑیوں سے آگ نکلی‘ اور جو ایک سر ملا ہے اس کے بارے میں بی بی سی نے اپنی ۲۳ اکتوبر کے سیربین پروگرام میں پولیس ذرائع سے اس شبہہ کا اظہار کیا ہے کہ یہ سر ایک پولیس اہل کار کا ہے اور ایسا ہی ایک واقعہ کراچی ہی میں اس سے پہلے سندھ مدرسے میں بھی ہوچکا ہے کہ جسے خودکش حملہ کہا گیا تھا وہاںسر پولیس اہل کار کا نکلا۔ اس صورت حال کو اس سے تقویت ملتی ہے کہ خود پیپلزپارٹی کی قیادت نے خصوصیت سے محترمہ بے نظیرصاحبہ اور ان سے زیادہ ان کے شوہر جناب آصف زرداری نے صاف کہا ہے کہ ہمارا شبہہ طالبان یا کسی جہادی گروپ پر نہیں بلکہ حکومت میں شامل کچھ عناصر پر ہے۔

ایک اور بڑا سنگین سوال وہ ہے جو خود محترمہ نے اٹھایا ہے اور جسے عالمی پریس نے نمایاں شائع کیا ہے حالانکہ پاکستان میں اسے دبا دیا گیا ہے۔ لندن کے اخبار دی انڈی پنڈنٹ نے اپنے رپورٹر Andrew Buneombeکے حوالے سے جو محترمہ کے ساتھ تھا‘ لکھا ہے کہ:

انھوں نے یہ بھی کہا کہ حملے کے دوران ان کی گاڑی پر کئی گولیاں چلائی گئیں‘ جب کہ ایک آدمی جو پستول سے مسلح تھا اور دوسرا جس نے خودکش بیلٹ باندھ رکھی تھی‘ اس سے پہلے گرفتار کیے گئے تھے۔

سوال یہ ہے کہ ان دونوں افراد سے کیا معلومات ملیں‘ یہ کہاں ہیں اور ان کا تعلق کس سے تھا؟ اس سلسلے میں یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ اصل واقعہ کے چند گھنٹے کے اندر موقع واردات سے تمام شہادتوں کو ختم کردیا گیا اور راستہ کھول دیا گیا حالانکہ دنیابھر میں یہ ایک مسلّمہ اصول مانا جاتا ہے کہ موقع واردات کو تحقیقات مکمل ہونے تک محفوظ رکھا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں تو جہاں ایسا حادثہ ہو اسے فوری طور پر گھیر دیا جاتا ہے اور کئی دن تحقیق کرنے والوں کے سوا کسی کو ان مقامات کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا جاتا۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اتنے بڑے حادثے کے سارے آثار و کوائف کو چند گھنٹے میں رفع دفع کردیا گیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح کراچی اسٹاک ایکسچینج کے ۲۰۰۵ء کے اسیکنڈل کے سارے کوائف حتیٰ کہ کمپیوٹر ریکارڈ تک تلف کردیے گئے اور دیگر کے لیے تمام شہادتوں کو تباہ کرنے کے بعد ایک امریکی کمیشن کو بلایا گیا جس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ شہادتوں کے تلف ہوجانے کے بعد ہم اسباب کی نشان دہی نہیں کرسکتے۔ نیویارک کے جڑواں ٹاوروں کے سلسلے میں بھی یہی حکمت عملی اختیار کی گئی جس پر آزاد تحقیق کرنے والے آج تک واویلا کر رہے ہیں۔

اس پورے معاملے میں انٹیلی جنس کی ناکامی کے پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور خصوصیت سے اس پس منظر میں کہ ایک طرف بڑے یقین کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ اتنے خودکش بمبار بھیجے گئے ہیں اور دوسری طرف ایک نہیں‘ سیکورٹی کے تین تین حصاروں کے باوجود یہ واقعہ ہوجاتا ہے۔ حالانکہ بتایا گیا تھا کہ پہلا حصار پیپلزپارٹی کے ۲ سے ۵ ہزار جاں نثاروں کا ہے۔   اس کے بعد ۱۰سے ۲۰ہزار پولیس اور رینجرز کا ہے۔ پولیس کی گاڑیاں ہر چارسمت میں موجود ہیں جو اعلیٰ ترین ٹکنالوجی سے لیس ہیں۔

حکومت اور خصوصیت سے سیکولر اور امریکی لابی کے سرخیل آنکھیں بند کرکے الزام جہادی تنظیموں اور طالبان پر تھوپ رہے ہیں۔ اس کے لیے ۱۸ اکتوبر سے قبل ہی ایک فضا بنائی جارہی تھی اور طرح طرح کی جھوٹی گمراہ کن اطلاعات (dis-information) سے ذہنوں کو آلودہ کیا جا رہا تھا‘ حالانکہ طالبان کے ذرائع اس کی بار بار تردید کرچکے ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ ان کو اس میں ملوث کیا جائے‘ البتہ امریکا اور یورپ حتیٰ کہ آسٹریلیا کے سرکاری حلقوں نے بھی اس واقعے کے فوراً بعد حسبِ عادت طالبان کو اس کا ذمہ دار ٹھیرانے میں بڑی مستعدی دکھائی ہے۔ پاکستان میں امریکی اور سیکولر لابی کے سرخیل ڈیلی ٹائمز نے پوری تحدی کے ساتھ ادارتی کالم میں فتویٰ صادر کردیا تھا کہ:

القاعدہ نے کراچی میں ۱۳۸ معصوم لوگوں کو قتل کیا ہے اور ۵۰۰ سے زیادہ کو زخمی کیا ہے۔ (ڈیلی ٹائمز‘ ۲۰ اکتوبر ۲۰۰۷ء)

اداریہ نویس کو شکایت ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت کیوں اس سلسلے میں پس و پیش کا مظاہرہ کر رہی ہے اور وزارتِ داخلہ کے سیکرٹری نے یہ کیوں کہہ دیا کہ اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کے کیمپ پر حملے کا ہدف پیپلزپارٹی نہیں‘ پولیس تھی۔ اسے یہ بھی دکھ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کو امریکی جنگ اور اس میں معاونت سے کیوں مربوط کیا جا رہا ہے اور اس پورے معاملے کو جمہوریت کے فقدان کا نتیجہ کیوں قرار دیا جا رہا ہے۔ اصل مسئلہ جمہوریت نہیں‘ مذہبی دہشت گردی ہے۔ امریکی سیکولرلابی کے ذہن اور عزائم کو سمجھنا بے حد ضروری ہے اور یہی مشرف کی تباہ کن پالیسیوں کی مدافعت کرنے والے عناصر ہیں۔

حزبِ اختلاف یہ نتیجہ نکالتی رہی ہے کہ حکومت ایک دفعہ امریکی ڈیزائن ترک کرنے کا اعلان کردے تو ساری دہشت گردی فی الفور ختم ہوجائے گی۔ یہ بھی کہنا چاہیے کہ پیپلزپارٹی کے بعض رہنما بھی سینیٹ میںاپنے امریکا دشمن جذبے میں یہی بات کہتے رہے ہیں… پاکستان میں یہ فرض کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں مقابلہ اور مزاحمت جمہوریت کی خدمت ہے جس کی غیرموجودگی کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ غلط ہے‘ غلط ہے‘ غلط ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ جمہوریت نہیں‘ بلکہ دہشت گردی اور ریاست کی داخلی خودمختاری کا ختم ہوجانا‘ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

یہ ہے وہ سیکولر ذہن جو اپنے سوچے سمجھے کھیل کے مطابق حالات کو ایک خاص رخ دینا چاہتا ہے۔ اسی اداریے کے آخری جملے کو غور سے پڑھیے کہ کس طرح خود پیپلزپارٹی کو سبق پڑھایا جارہا ہے___ ہم محترمہ کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن پیپلزپارٹی کی قیادت کے ان افراد کو جو آزاد سوچ رکھتے ہیں اور اس کے کارکنوں اور ہمدردوں کو اس اقتباس پر غوروفکر کی خصوصی دعوت دیتے ہیں:

آخری بات یہ کہ پیپلزپارٹی نے ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے ’بدمعاش (rogue) عناصر‘ پر مسزبھٹو کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا ہے اور آئی بی کے ڈی جی کی معطلی کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ غلط موقع پر متعین بات کہنا ہے۔ ان اداروں کی ماضی کی بدمعاشی کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے ریاستی اداروں میں بدمعاش عناصر کی موجودگی کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن   آئی بی کے ڈی جی کو نشانہ بنانا‘ ایک واہیات بات ہے۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے خود جنرل مشرف پر الزام لگایا جائے۔ آئی بی کے ڈی جی پر جو بھروسا اور اعتماد مشرف رکھتے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے اور اس بات کے پیش نظر کہ وہ ان کے ایک اچھے ذاتی دوست بھی ہیں‘ زیادہ مناسب ہوتا اگر صاف صاف القاعدہ کے عناصر کوالزام دیا جاتا جنھوں نے کھلے عام جنرل مشرف اور مسزبھٹو دونوں کو ختم کر دینے کا اعلان کیا ہے۔ آخری بات جو جنرل مشرف اور مسزبھٹو چاہ سکتے ہیں وہ اُن لوگوں کے ہاتھوں میں کھیل جانا ہے جو ان دونوں کے درمیان خلیج پیدا کردینا چاہتے ہیں اور جو لبرل جمہوری اتحاد زیرتشکیل ہے‘ اس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

ہم نے کراچی کے سانحے کے ان پہلوؤں کی طرف اس لیے قدرے تفصیل سے توجہ دلائی ہے کہ قوم‘ ملک کی سیاسی اور دینی جماعتیں اور خود فوج‘ انتظامیہ اور میڈیا کے سوچنے سمجھنے والے عناصر اس حقیقت کو جان لیں کہ اصل مسئلہ وہ نہیں ہے جسے سیکولر اورامریکی لابی اور آمریت اور سیاست میں فوجی مداخلت کے ہم نوا پیش کر رہے ہیں یعنی اصل مسئلہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کا ہے۔ جمہوریت‘ دستور کی بحالی‘ قانون کی حکمرانی‘ فوج کے سیاسی کردار کی مکمل نفی اور سیاسی مسائل کا سیاسی عمل کے ذریعے حل کا نہیں۔ انتہاپسندی اور دہشت گردی دونوں اپنی اپنی جگہ ناپسندیدہ ہیں اور اسلام اور ہرمہذب معاشرے کو ان سے پاک ہونا چاہیے لیکن استعماری تسلط اور سامراجی ثقافت‘ تہذیب اور مداخلت پر گرفت اور تنقید کو انتہاپسندی قرار دینا اور بیرونی قبضے اور تسلط کے خلاف مزاحمت کو دہشت گردی قرار دے کر استعماری عزائم کو تحفظ بلکہ تقویت دینا ایک مجرمانہ فعل ہے۔ ہمارے سارے سیاسی خلفشار کی جڑ ہے اور جب تک ان اسباب کا سدباب نہیں ہوتا اور ان پالیسیوں کو قوت اور جبر کے ذریعے بیرونی ایجنڈے کو قوم پر مسلط کرنے کا کھیل ختم نہیں ہوتا‘ حالات کی اصلاح ممکن نہیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب تمام سیاسی اور دینی قوتیں اور ریاست کے تمام اداروں کے ذمہ دار افراد ٹھنڈے دل سے حالات کا تجزیہ کرکے آمریت اور ملک پر بیرونی عناصر کی گرفت کے مقابلے کے لیے سینہ سپر نہیں ہوتے‘ ملک تباہی سے نہ بچ سکے گا۔


دنیا کے وہ اہلِ نظر اور اصحابِ تحقیق جنھوں نے امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بے لاگ تجزیہ کیا ہے‘ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جسے انتہاپسندی اور دہشت گردی کہاجارہا ہے‘ وہ نتیجہ ہے امریکا اور مغربی اقوام کی سامراجی‘ ظالمانہ اور نوآبادیاتی پالیسیوں اور تیسری دنیا کے خودساختہ اور امریکا کے پروردہ حکمرانوں کا‘ جو ان ممالک میں امریکی ایجنڈے پر عمل درآمد کرکے ان کے آلۂ کار کا کردار ادا کر رہے ہیں‘ پاکستان کی اس کیفیت کی منظرکشی ایک سابق سفیر شمشاداحمد نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں اس طرح کیا ہے:

ایک فوجی حکومت کے لیے اس وقت مقابلے کے لیے کھڑے ہونا آخری بات تھی جو وہ کرسکتی تھی۔ نائن الیون کے بعد پاکستان کی پالیسی میں تیزی سے آنے والی تبدیلی نے اسے دہشت گردی کے خلاف امریکا کی عالمی جنگ میں اہم کھلاڑی بنادیا اور اسے عالمی برادری میں اہمیت دے دی جس نے فوجی حکومت کو اپنے جواز کی تلاش میں مدد دی۔ جنرل مشرف کے لیے یہ ایک فرد کا اسٹرے ٹیجک اتحاد تھا لیکن پاکستان کے لیے یہ اس کی تلاطم خیز تاریخ کا ایک نیا تکلیف دہ باب تھا۔ پلک جھپکتے میں پاکستان نے اپنی آزادی اور خودمختاری چھوڑ دی۔ ایک پراکسی وار میں ایک تابع دار فریق بن گیا جس میںاس کا فیصلہ سازی میں کوئی کردار نہ تھا۔ اس نے اپنے آپ کو ایک کرایے کی (mercenary) ریاست کے طور پر بھرتی ہونے کی اجازت دی جس کی ہم نے خوشی خوشی قیمت قبول کی۔ لیکن اب پاکستان کے عوام اس اسٹرے ٹیجک تعلق کی بڑی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ ہم امریکا کی افغانستان کی طالبان کے خلاف جنگ کو پاکستان میں لے آئے ہیں۔ وزیرخارجہ قصوری نے کھلے عام قبول کیا کہ ہم یہ جنگ امریکی قیادت میں ۳۷ رکنی طالبان دشمن اتحاد کی طرف سے افغانستان میں لڑ رہے ہیں۔ ان کا مطلب یہ تھاکہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے پھر بھی ہم اپنے لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ اس جاری مہم میں بہت بڑے پیمانے پر ضمنی نقصان کے طور پر ہمارے شہری اورفوجی ہلاک ہو رہے ہیں۔ سب سے بڑا نقصان پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کا خاتمہ ہے۔

اس پالیسی کا نتیجہ کیا ہے؟ آج ہم ہر طرف سے معتوب ہیں اور جنرل پرویز مشرف    ان لوگوں کو شریکِ اقتدار کرنے کے لیے مجبور کردیے گئے ہیں جن کو کل تک وہ خود چور‘ ڈاکو‘   خزانہ لوٹنے والے اور سیکورٹی رسک قرار دے رہے تھے۔ رہی بین الاقوامی اہمیت تو اس کا حال سابق سفیر شمشاد احمد کے الفاظ میں یہ ہے:

ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان نے اس پراکسی وار میں سب کچھ دائو پر لگادیا ہے اور اپنے ہزاروں افراد کو قتل کردیا ہے‘ اور پھر بھی اس پر الزام لگ رہا ہے کہ اس نے کافی نہیں کیا۔ قوم کو یہ صدمہ بھی ہے کہ خطے میں اپنے کردار اور اہمیت کے حوالے سے اب    ہم بھارت نہیں بلکہ افغانستان کے ساتھ بریکٹ کیے جاتے ہیں۔ اکتوبر ۹۹ء سے پہلے ایسا ہرگز نہ تھا جب ایک سویلین قیادت کے تحت پاکستان بھارت کے برابر ایک   ایٹمی طاقت بن گیا اور ایک ذمہ دار علاقائی اور عالمی طاقت کے طور پر آگے بڑھ رہا تھا۔ اب ہم کو ایک ذمہ دار علاقائی طاقت نہیں سمجھا جاتا۔ جنرل مشرف کو پاکستان کے مسائل اور چیلنجوں کے بہت زیادہ ہونے کا ادراک ہونا چاہیے اور غور کرنا چاہیے کہ  یہ حالات لانے میں خود ان کا کردار کیا ہے۔ آٹھ سال قبل انتہاپسندی‘ تشدد‘ جرائم   اور کرپشن اس پیمانے کی اتنی سنگین ہرگز نہ تھی۔ آج دنیا پاکستان کو صرف امریکا کی دہشت گردی کی جنگ کا گرائونڈ زیرو اور مذہبی انتہاپسندی اور تشدد کا واحد مقام سمجھتی ہے جہاں یہ پرورش پاتی ہے___ یہ کس کا ورثہ ہے!

انتہاپسندی اور دہشت گردی کے بارے میں پاکستان اور امریکا کے ہم نوا مسلم ممالک ہی نہیں خود امریکا کی پالیسی حالات کے غلط تجزیے پر مبنی ہے اور اس پالیسی کی ناکامی کا اعتراف حکمران تو کھل کر نہیں کر رہے لیکن تمام عوامی جائزے خواہ وہ امریکا اور یورپ کے ممالک میں کیے جارہے ہوں یا پاکستان اور مسلم دنیا میں کھلے الفاظ میں کر رہے ہیں۔ امریکا میں اب ۷۹ فی صد آبادی بش کی پالیسیوں سے غیرمطمئن ہے۔ یورپ میں بھی بے اطمینانی کی یہ کیفیت ۷۰‘ ۸۰ فی صد آبادی کی ہے‘ جب کہ اسلامی دنیا میں یہ ۸۰ اور ۹۰ فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی ہے‘ یا مفادات کا کھیل کہ جنرل پرویز مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو ابھی تک یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ اصل مسئلہ انتہاپسندی اور دہشت گردی ہے‘ اور اصل کش مکش آمریت اور جمہوریت اور فوجی حکمرانی اور عوامی حکمرانی میں نہیں‘ انتہاپسندی اور روشن خیالی ہی ہے۔ ’خودکش حملے‘ انسانیت کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہیں‘ لیکن یہ اسی وقت ختم ہوسکتے ہیں جب ان حالات پر قابو پایا جائے جو ریاستی ظلم اور تشدد کے ستم زدہ انسانوں کو جان سے کھیل جانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ مغرب کے آزاد محقق اس بات کو محسوس کر رہے ہیں اور پکار پکار کر اپنی اندھی قیادتوں کو ان حقائق کو دیکھنے اور ان پر غور کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں اور سیاسی اور عسکری قیادت کو اس سے ہوش کے ناخن لینے چاہییں۔


دہشت گردی اور خودکش حملوں کے اسباب و عوامل کے بارے میں متعدد تحقیقی کتب گذشتہ چند برسوں میں شائع ہوئی ہیں۔ ان میں کرسٹوف ریوٹر کی کتاب My Life is a Weapon: A Modern History of Suicide Bombing ،پرنسٹن یونی ورسٹی‘ ۲۰۰۴ء بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس میں وہ لکھتا ہے:

مغربی میڈیا میں خودکش حملوں کی جو سادہ وجوہات بیان کی جاتی ہیں‘ ان سے نئے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ان حملوں کو انقلابی اسلام سے جوڑ دیا جائے تو پھر یہ پچھلے ۲۰سال ہی میں کیوں ہوئے ہیں؟ اگر غربت‘بدحالی ہی فیصلہ کن عوامل ہیں تو ہم اس حقیقت کی کیا توجیہہ کریں گے کہ ۱۱ستمبر کے تمام حملہ آور جہاں تک ہم جانتے ہیں پُرآسایش اور متوسط طبقے کے خاندانوں سے آئے‘ اور اگر مسلم حملہ آور اپنے آپ کو اس لیے اڑا دیتے ہیں کہ ۷۲دوشیزائیں ان کو جنت میں ملیں گی تو ہم اس کی کیا وجہ بتائیں گے کہ یہی اقدام غیرمسلم بھی کرتے ہیں‘ عورتیں بھی کرتی ہیں یا کوئی بھی جسے جنسی فوبیا ہو؟ یہ اسباب مخصوص حالات میں ان حملوں کی کثرت کی وجہ نہیں بتاپاتے۔ شاید سب سے پریشان کن سوال یہ ہے کہ ایک معاشرہ کس طرح ایک ایسے عمل کو برداشت کرسکتا ہے بلکہ مریضانہ حد تک بڑھا سکتا ہے جو بقا کی حِس کے مخالف ہو۔ ہم ان ماؤں اور باپوں کے بارے میں کیا کہیں گے جو اپنے اس بیٹے یا بیٹی پر فخر کرتے ہیں جس نے دوسروں کو مارنے کے لیے اپنے آپ کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ کس چیز نے ایک ایرانی ماں کو ۱۹۸۰ء کی ایران عراق جنگ کے ابتدائی دنوں میں یہ اعلان کرنے پر آمادہ کیا کہ وہ خوش ہے کہ اس کے پانچ بیٹے شہید ہوئے اور بس یہ افسوس ہے کہ اس کے پاس پیش کرنے کے لیے اور بیٹے نہیں ہیں۔ آج ۲۰سال بعد وہ کیا کہتی ہوگی۔(ص ۱۱)

دوسرا محقق جس کی کتاب نے امریکا اور یورپ میں تہلکہ مچا دیا ہے‘ وہ شکاگو یونی ورسٹی کے پروفیسر رابرٹ پاپ کی Dying To Winہے۔ مصنف کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ:

بہرکیف خودکش دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی کے درمیان مفروضہ تعلق گمراہ کن ہے‘ اور اس سے ان داخلی اور خارجی پالیسیوں کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے جو امریکا کے حالات خراب کر رہی ہیں اور خواہ مخواہ بہت سے مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔

رابرٹ پاپ اپنے طریق کار اور نتائج تحقیقی کو یوں بیان کرتا ہے:

میں نے ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۳ء تک پوری دنیا میں ہونے والے خودکش بمباریوں کے‘ جن کی تعداد ۳۱۵ ہے‘ ہر ایک کے اعدادو شمار جمع کیے ہیں۔ اس میں ہر وہ حملہ شامل ہے جس میں کسی مرد یا خاتون دہشت گرد نے دوسروں کو مارنے کی کوشش میں اپنے آپ کو مار لیا۔ اس میں وہ حملے شامل نہیں کیے گئے جن کی کسی قومی حکومت نے اجازت دی‘ مثلاً شمالی کوریا کے خلاف جنوبی کوریا کے۔ یہ ڈیٹابیس دنیا بھر میں خودکش حملوں کی پہلی مکمل تفصیل ہے جو میں نے جمع کی ہے اور تمام متعلقہ معلومات کی تصدیق کی ہے جو انگریزی‘ عربی‘ روسی یا تامل زبانوں میں بذریعہ انٹرنیٹ یا مطبوعہ ملتی ہیں۔ یہ معلومات خودکش دہشت گرد گروہوں سے حاصل کی گئی ہیں‘ یا ان بڑی تنظیموں سے جو متعلقہ ملک میں ایسی معلومات جمع کرتی ہیں‘ اور پوری دنیا کے نیوزمیڈیا سے۔ یہ ڈیٹابیس خودکش حملوں کا ایک فہرست سے زیادہ جامع ترین اور قابلِ اعتماد سروے ہے جو اس وقت دستیاب ہے۔ یہ ڈیٹا بتاتاہے کہ خودکش دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی یا دنیا کے کسی مذہب کے درمیان بہت کم تعلق ہے۔ خودکش حملوں کے سب سے بڑے ذمہ دار سری لنکا کے تامل ٹائیگر ہیں جو ایک مارکس نواز گروپ ہیں جس کے ارکان اگرچہ ہندو خاندانوں سے ہیں لیکن وہ مذہب کے سخت مخالف ہیں۔ اس گروپ نے ۳۱۵ میں سے ۷۶ حملے کیے‘ حماس سے بھی زیادہ۔ تقریباً تمام خودکش دہشت گرد حملوں میں جو چیز مشترک ہے وہ ایک مخصوص سیکولر اور اسٹرے ٹیجک ہدف ہے: جدید جمہوری طاقتوں کو مجبور کرنا کہ وہ اس علاقے سے اپنی افواج واپس بلائیں جن کو دہشت گرد اپنا وطن سمجھتے ہیں۔ مذہب شاذ ہی اصل وجہ ہوتا ہے‘ گو کہ اسے اکثر دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے بھرتی کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر اور وسیع تر اسٹرے ٹیجک مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ (ص ۳-۴)

رابرٹ پاپ کا کہنا ہے کہ ۱۹۸۰ء سے لے کر ۲۰۰۳ء تک جن حملوں کا انھوں نے مطالعہ کیا ہے‘ اس میں مسلمانوں کا تناسب ۵۰ فی صد ہے‘ یعنی یہ محض مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ تمام ہی مذاہب اور سیکولر عناصر اس میں کارفرما نظر آتے ہیں۔ نیز یہ کسی خاص تعلیمی پس منظر یا سماجی اور معاشی حالت کی پیداوار نہیں۔ ان کا کہنا ہے:

مسلمانوں میں بھی خودکش حملے ایک تہائی سیکولر گروپوں نے کیے ہیں۔ کردوں کی تنظیم ’پی کے کے‘ جس نے خودکش حملہ آوروں کو کرد خودمختاری حاصل کرنے کے لیے حکمت عملی کے ایک جزو کے طور پر استعمال کیا ہے‘ اسلام کے بجاے اپنے لیڈر عبداللہ ادکلان کے سیکولر مارکس لینن کے نظریے کو مانتی ہے۔ ان تنازعات میں بھی جن پر اسلامی بنیاد پرستی کی چھاپ ہے‘ خودکش حملوں کی ایک بڑی تعداد سیکولر نظریوں کے حامل گروپوں کی طرف سے ہوتے ہیں۔ فلسطین کی آزادی کے لیے پاپولرفرنٹ (مارکس لینن گروپ)‘ اور الاقصیٰ شہدا بریگیڈ جس کا تعلق یاسرعرفات کی سوشلسٹ الفتح موومنٹ سے ہے‘ دونوں مل کر اسرائیل کے خلاف کیے جانے والے ۹۲ حملوں میں سے ۳۱ کے ذمہ دار ہیں‘ جب کہ کمیونسٹ اور سوشلسٹ گروپ جیسے لبنانی قومی مزاحمتی فرنٹ‘ لبنانی کمیونسٹ پارٹی اور شام کی قومی سوشلسٹ پارٹی ۸۰ کے عشرے میں ہوئے ۳۶ حملوں میں سے ۲۷ کے ذمہ دار ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ نفسیاتی اسباب اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے کہ خودکش حملے صرف چند مخصوص معاشروں میں صرف مخصوص مواقع پر کیوں ہوتے ہیں۔ خودکش حملوں کی تعداد میں ایک معاشرے سے دوسرے معاشرے میں فرق ہوتا ہے لیکن یہ اتنا زیادہ نہیں ہوتا کہ یہ معلوم ہوسکے کہ کیوں معاشروں کی اکثریت میں___ حالانکہ ان میں سے بہت سے معاشرے سیاسی تشدد سے گزر رہے ہیں___ کسی خودکش دہشت گردی کا مظاہرہ نہیں ہوتا۔ لیکن معاشروں کی ایک تعداد میں‘ ہر ایک میں درجنوں ہوجاتے ہیں۔ اس سوال کا سیاسی یا عمرانی جواب چاہیے۔ اسی طرح خودکش حملے کرنے والے افراد کی فراہمی میں ایک خاص مدت میں کچھ فرق پڑسکتا ہے۔ اس کا کوئی نفسیاتی سبب نہیں معلوم ہوتا کہ کیوں خودکش حملوں کے ۹۵ فی صد منظم مہموں میں ہوتے ہیں جو ایک خاص وقت میں مرکوز ہوتے ہیں۔ پھر یہ کہ خودکش حملہ آوروں کی شخصیت خودکشی کرنے والوں کے ساتھ نہیں ملتی۔ ابھی تک خودکش حملہ آوروں کی نفسیاتی شخصیت کے بارے میں ماہرین کا کہنا تھا کہ غیرتعلیم یافتہ‘ بے روزگار‘ معاشرے میں تنہا‘ غیرشادی شدہ‘ ۱۷/ ۱۸ سے ۲۲/۲۳ برس کی عمر کے ہوتے ہیں۔ اس مطالعے میں خودکش حملہ آوروں کی شخصیت کے بارے میں جامع ڈیٹا جمع کیا گیا ہے (دیکھیے‘ باب ۱۰) جو بتاتا ہے کہ وہ کالج کے تعلیم یافتہ اور غیرتعلیم یافتہ‘ شادی شدہ غیرشادی شدہ‘ مرداور عورت‘ معاشرے سے تنہا اور معاشرے میں مربوط‘ ۱۵ سے ۵۲ برس کی عمر تک کے رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں‘ لائف اسٹائل کے ایک وسیع پس منظر سے آتے ہیں۔

اسی طرح موصوف ثابت کرتے ہیں کہ غربت اس کا اصل سبب نہیں جیساکہ کچھ حلقوں میں دعویٰ کیا جاتا ہے (ص ۱۸-۱۹)۔ پروفیسر پاپ کی تحقیق جس طرف اشارہ کرتی ہے وہ بڑی بنیادی حقیقت ہے یعنی سیاسی ظلم و استبداد اس کا اہم ترین سبب ہے:

خودکش دہشت گردی کی حکمت عملی کا مقصد سیاسی دبائو ہے۔ خودکش حملوں کی بڑی اکثریت چند جنونیوں کے اتفاقی یا غیرمربوط افعال نہیں ہے بلکہ ایک منظم گروہ کی طرف سے کسی مخصوص سیاسی ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ایک بڑی مہم کے حصے کے طور پر  کئی کئی ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں خودکش دہشت گرد گروپوں کے بنیادی مقاصد عموعی طور پر اسی دنیا سے متعلق ہوتے ہیں۔ یہ مہمیں بنیادی طور پر قوم پرست ہوتی ہیں‘ مذہبی نہیں ہوتیں اور خاص طور پر نہ اسلامی ہی۔

گذشتہ دو عشروں میں‘ جس گروپ نے بھی خودکش مہم چلائی‘ لبنان میں حزب اللہ سے لے کر مغربی کنارے میں حماس تک‘ اور سری لنکا میں تامل ٹائیگرز تک‘ ہر ایک کا ایک مرکزی مقصد رہا ہے: ایک بیرونی ریاست کو مجبور کرنا کہ وہ اپنی فوجیں وہاں سے نکالیں جسے یہ گروپ اپنا وطن سمجھتے ہیں۔

پروفیسر پاپ امریکی پالیسی کے یک رخے پن کا نوحہ کرتا ہے‘ اور ایک ایسی حکمت عملی کی بات کرتا ہے جو محض عسکری قوت پر انحصار نہ کرے‘ بلکہ اصل اسباب اور پالیسی کے پہلوؤں کو توجہ کا مرکز بنائے۔

آخری نتیجہ یہ ہے کہ خودکش دہشت گردی دراصل غیرملکی قبضے کے خلاف ردعمل ہے۔ دیگر حالات میں متفرق واقعات ہوئے ہیں‘ مذہب کا بھی ایک کردار ہے لیکن جدید خودکش دہشت گردی کو قومی آزادی کے لیے ایک انتہاپسند حکمت عملی کے طور پر بہتر سمجھا جاسکتا ہے۔ قومی آزادی ان جمہوریتوں سے جن کی افواج ان علاقوں کے کنٹرول  کے لیے ایک فوری خطرہ ہیں جن کو دہشت گرد اپنا وطن سمجھتے ہیں۔

خودکش دہشت گردی کے اسٹرے ٹیجک‘ سوشل اور انفرادی اسباب کو سمجھنے کے امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے اہم مضمرات ہیں۔ ہمارا پالیسی پر حالیہ بحث و مباحثہ صحیح سمت میں نہیں ہے۔ فوجی طاقت سے حملے اور محض رعایتیں طویل مدت تک کام  نہ آئیں گی۔ (ص ۲۳)

اس لیے جس نئی حکمت عملی کی طرف وہ امریکی قیادت کو متوجہ کرتا ہے‘ وہ دوسرے ذرائع سے امریکا کے تیل کی ضرورت پر توجہ مرکوز کرنے سے عبارت ہے‘ نہ کہ قبضہ (occupation) اور عسکری قوت کے ذریعے مسلم دنیا کو اپنے زیرتسلط رکھنا۔

یہ سمجھنے کے کہ خودکش دہشت گردی اسلامی بنیاد پرستی کا نتیجہ نہیں بلکہ غیرملکی قبضے کا ردعمل ہے‘ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے اہم مضمرات ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کس طرح کریں کیونکہ خودکش دہشت گردی کا اصل سبب مسلمانوں میں بھی کسی نظریے میں نہیں ہے۔بحیرۂ فارس میں جمہوریت کو پھیلانا امرت دھارا ثابت نہیں ہوگا جب تک کہ غیرملکی افواج جزیرہ نما عرب میں موجود ہیں۔

خلیج فارس کے تیل میں دنیا کی دل چسپی کو ایک طرف رکھ دیں تو واضح حل‘ جیساکہ رونالڈ ریگن کے لیے تھا جب امریکا کو لبنان میں خودکش دہشت گردی کا سامنا تھا‘ یہ ہوسکتا ہے کہ علاقے کو بالکلیہ چھوڑ دیں۔ یہ بہرحال ممکن نہیں ہے‘ یقینا مستقبل قریب میں بھی نہیں۔ اس طرح اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم خودکش دہشت گردی کا کوئی ایسا مستقل حل تلاش کرسکتے ہیں جو ہمارے بنیادی مفاد‘ یعنی دنیا کے تیل پیدا کرنے والے بڑے علاقوں میں سے ایک پر ہماری رسائی کو متاثر نہ کرے۔ اس کا جواب ایک مشروط ہاں میں ہے۔ گو کہ اِکا دکا خودکش حملے ہوتے ہیں‘ امریکا اور اس کے اتحادی فتح کے لیے ایک ایسی حکمت عملی اختیار کرسکتے ہیں جو ہماری عالمی سلامتی کو قربان کیے بغیر خودکش دہشت گردی کی مہموں کو کم کردیں۔ یہ کرنے کے لیے ہمیں فوجی حملوں اور رعایتوں دونوں کی حدود کو پہچاننا ہوگا اور ساتھ ہی اپنے ملک میں سلامتی کی بڑھتی ہوئی کوششوں کی حدود کو بھی۔ ہمیں اپنی خلیج فارس میں آف شور بیلنسنگ (off shore balancing)کی روایتی پالیسی خوبیوں کو یاد کرنا چاہیے اور اسی حکمت عملی کی طرف واپس آنا چاہیے۔ یہی حکمت عملی دنیا کے تیل پیدا کرنے والے علاقوں میں دہشت گردی کو مزید اُبھارے بغیر ہمارے مفادات کے تحفظ کے لیے بہترین راستہ ہے۔(ص ۲۳۵-۲۳۶)

اسی ماہ پرنسٹن یونی ورسٹی کے عالمی شہرت کے ماہرمعاشیات پروفیسر ایلان کروٹیگر کی کتاب What Makes a Terroristشائع ہوئی ہے جس میں وہ برسوں کی تحقیق کے بعد یہ ثابت کرتا ہے کہ دہشت گردی کا تعلق نہ غربت سے ہے اور نہ مذہبی تعلیم یا تعلیم کی کمی سے اور صاف کہتا ہے کہ:

مجھے یقین ہے کہ مغرب کی غلطی یہ ہے کہ وہ یہ سمجھنے میں ناکام ہے کہ ہماری پالیسیاں منفی یا تشدد آمیز نتائج کی طرف لے جاسکتی ہیں۔ (ص ۵۱)

اسی طرح مذہب کے عنصر کو بھی اس نے غیر اہم قرار دیا ہے:

ہماری تحقیق کے نتائج نے دنیا کے بڑے مذاہب کے درمیان کوئی اہم فرق ظاہر نہیں کیا۔ ان نتائج کی میری تعبیر یہ ہے کہ مذہبی اختلافات ان بہت سے امکانی ذرائع میں سے ہیں جن سے دہشت گردی بڑھتی ہے۔ یہ اس طرح کی شکایات کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے‘ اور کسی ایک مذہب سے وابستہ نہیں ہے۔ اگرچہ آج کل دنیا کی توجہ   اسلامی دہشت گرد تنظیموں کی طرف ہے‘ یہ کسی بھی طرح دہشت گردی کا منبع نہیں ہیں۔ دہشت گردی پر کسی مذہب کی اجارہ داری نہیں ہے۔

پروفیسر کروٹیگر نے انھی خطبات کے بعد سوال جواب کے موقع پر ایک بڑی عجیب بات کہی ہے جس سے جسے دہشت گردی کہا جاتا ہے اس کے عقلی جواز پر روشنی پڑتی ہے۔ سوال اور جواب ملاحظہ ہو:

سوال: آپ نے اپنے لیکچر کے آغاز میں کہا کہ دہشت گردی ایک حکمت عملی ہے‘ ایک مقصد حاصل کرنے کا ذریعہ۔ آپ نے اس بات پر اختتام کیا کہ دہشت گردی کے مقاصد حاصل نہیں ہوئے۔ کیا آپ ہمیں ذرائع اور مقاصد کی معاشی اصطلاحات میں دہشت گردی کے طریقے اور اس کے نتائج کا شروع سے آخر تک کا ایک قیمت اور نفع کا تجزیہ (cost benefit analysis) دے سکتے ہیں؟

جواب: میں آپ کو ایک مکمل طور پر معاشی تخمینہ نہیں دے سکتا لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں یقین رکھتا ہوں کہ اکثر دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے دہشت گردی ایک عقل میں آنے والا اقدام ہوتا ہے۔ قیمت اور نفع کے جو حساب وہ لگا رہے ہوتے ہیں غالباً درست ہوتے ہیں۔ یہ ہمیشہ ٹھیک نہیں ہوتا۔ اس لیے دہشت گردی بعض اوقات بے وقت اور مقاصد کے برعکس کام کرتی ہے۔ دہشت گرد تنظیموں کی اہلیت کو سامنے رکھا جائے تو میرے خیال میں وہ بہترین طریقے استعمال کرتے ہیں جو انھیں دستیاب ہوتے ہیں۔ میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ تنظیمیں جس انداز سے صنعتوں کو نشانہ بناتی ہیں یا دہشت گردوں کے کام سپرد کرتی ہیں وہ سوچا سمجھا ہوتا ہے۔ مجھے یہ بھی نظر آتا ہے کہ ان حملوں کے اوقات بھی اکثر سوچے سمجھے ہوتے ہیں اس لحاظ سے کہ یہ اپنے ہدف کو بہ نسبت اپنی قربانی کے بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔(ص ۱۶۱)

بات لمبی ہو رہی ہے لیکن دنیا میں جو آزاد تحقیق ہو رہی ہے‘ وہ بڑی اہمیت کی حامل ہے اور ہمارے یہاں جو بے سروپا دعوے کیے جا رہے ہیں اور جس طرح مذہبی جنونیت اور جہادی کلچر کی بات کر کے اصل مسائل کو الجھایا جا رہا ہے‘ وہ افسوس ناک تو ہے ہی مگر خطرناک‘ نتائج کے اعتبار سے مہلک اور اپنے مقصد کو آپ شکست دینے والا (self defeating) ہے۔ مشرف صاحب اور بے نظیر صاحبہ دونوں ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سلسلے میں ایک چوٹی کے مؤرخ اور محقق Eric Hobsbawm کی تازہ ترین کتاب Globalisation, Democracy and Terrorism جو ان کے مضامین کے انتخاب پر مشتمل ہے‘ بڑی دل چسپ رہنمائی کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ۲۱ویں صدی میں عالمی سطح پر قوت کے استعمال کو فروغ امریکا کی پالیسیوں کی وجہ سے ہوا ہے اور یہ کہ دہشت گردی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے والے پڑھے لکھے لوگ ہیں‘ مذہبی جنونی یا فاقہ زدہ عوام نہیں۔

تیسرے مرحلے میں جسے موجودہ صدی کے آغاز پر غلبہ حاصل ہے‘ سیاسی تشدد جارج بش کے تحت امریکا کی پالیسیوں اور اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے منظم طور پر عالمی ہوگیا ہے‘ ۱۹ویں صدی کی انارکیت کے بعد شاید پہلی مرتبہ۔

دو باتیں ان نئی تحریکوں کی خاصیت ہیں۔ یہ چھوٹی اقلیتوں پر مشتمل ہیں گو کہ ان اقلیتوں کو عام لوگوں کی خاموش ہمدردی حاصل ہے جن کی خاطر یہ عمل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کا مخصوص طریقۂ کار چھوٹے گروپ ایکشن کا طریقۂ کار ہے۔

پرویژنل آئی آر اے کی نام نہاد سرگرم یونٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک وقت میں اس میں دو یا تین سو سے زیادہ لوگ نہیں ہوتے تھے اور میرا خیال ہے کہ اٹلی کی ریڈبریگیڈ اور باسک ای ٹی اے میں بھی اس سے زیادہ نہیں تھے۔ عالمی دہشت گرد تنظیموں اور تحریکوں میں سب سے بڑی القاعدہ میں افغانستان کے دنوں میں بھی ۴ہزار سے زیادہ لوگ نہیں تھے۔ ان کی دوسری خاصیت یہ تھی کہ عام طور پر وہ بہ نسبت اپنی برادری کے دوسرے لوگوں کے زیادہ تعلیم یافتہ تھے‘ اور اعلیٰ سماجی پس منظر سے تعلق رکھتے تھے۔ افغانستان میں جن لوگوں نے القاعدہ سے تربیت حاصل کی وہ متوسط اور اعلیٰ طبقوں کے لوگ تھے جو مستحکم خاندانوں سے آئے تھے‘ زیادہ تر کالج کے تعلیم یافتہ تھے اور سائنس اور انجینیرنگ کے طالب علم تھے‘ جب کہ دینی مدارس سے بہت کم آئے تھے۔ فلسطین میں بھی خودکش حملہ آوروں میں سے ۵۷ فی صد ہائی اسکول سے زیادہ تعلیم یافتہ تھے‘ جب کہ آبادی میں یہ تناسب ۱۵ فی صد سے کم تھا۔ (ص ۱۳۲-۱۳۳)

Eric Hobsbawm جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ بہت اہم ہے اور اس میں ہمارے لیے  بڑا سبق ہے:

ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی عالمیت اور ایک فوجی طاقت کی جانب سے مسلح بیرونی مداخلت کے احیا نے‘ جس نے ۲۰۰۲ء میں‘ بین الاقوامی تنازعات کے اب تک کے تسلیم شدہ ضوابط کو سرکاری طور پر مسترد کیا ہے‘ حالات کو بدتر کردیا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں مستحکم ریاستوں کی حکومتوں کو اور ایشیا میں بھی‘ نئی عالمی دہشت گرد تنظیموں کا حقیقی خطرہ ناقابلِ ذکر ہے۔ لندن یا میڈرڈ میں شہری ٹرانسپورٹ میں چند درجن یا چند سو زخمی بمشکل ایک بڑے شہر کی کارکردگی میں چند گھنٹوں کا تعطل ڈالتے ہیں۔ نائن الیون کا حادثہ کتنا ہی ہولناک سہی‘ یہ امریکا کی عالمی طاقت اور اس کے اندرونی نظام کے حوالے سے بالکل بے اثر رہا۔ اگر حالات بدتر ہوئے ہیں تو یہ دہشت گردوں کی کارروائی سے نہیں‘ بلکہ حکومتِ امریکا کی کارروائی سے ہوئے ہیں۔ (ص ۱۳۵)


ہماری معروضات کا حاصل یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں خاص طور پر اور عالمِ اسلام بلکہ پوری دنیا میں بالعموم انتشار‘ تصادم اور خون ریزی کا اصل سبب وہ ظلم و تشدد‘ وہ ریاستی جبر اور تسلط‘ اور حکمرانوں کا قانون اور انصاف سے بالا ہونا ہے جس کے نتیجے میں مزاحمت رونما ہوئی ہے اور مزاحمت کے سوا کوئی اور ردعمل نہیں ہوسکتا۔ اسے انتہاپسندی کا نام دینا غلط ہے‘ اور اسے دہشت گردی قرار دے کر عسکری قوت سے دبانا مسئلے کو بگاڑنے اور تشدد اور خون خرابے کو وسیع کرنے کا نسخہ ہے۔ عالمی صف بندی میں ایک طرف امریکا اور اس کے حلیف ہیں جو ظلم اور استبداد کے مرتکب ہیں‘ اور دوسری طرف عوام ہیں جو اپنے حقوق‘ اپنی آزادی اور اپنے تہذیبی تشخص کے لیے جمہوری جدوجہد کرنا چاہتے ہیں اور جب اس کے دروازے بند پاتے ہیں تو بم کا جواب پتھر سے دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ قوت کا بے محابا استعمال اس صورت حال کو اور بگاڑ رہا ہے اور اب دونوں ہی طرف سے کیے جانے والے اقدامات بگاڑ کو بڑھانے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔

پاکستان میں اصل مسئلہ جنرل پرویز مشرف کا آمرانہ نظام‘ فوج کی قیادت اور فوج کا سیاسی استعمال‘ جمہوری عمل اور دستور اور قانون کی بالادستی کو درہم برہم کرنا اور نظامِ حکومت کو ایک اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے غلط طور پر استعمال کرنا ہے‘ اور گرتی ہوئی دیوار کو سہارا دینے کے لیے امریکا اور برطانیہ کے تعاون سے ایک سیاسی پارٹی کو شریکِ اقتدار کرنا اور حزبِ اختلاف کو بانٹنے اور ان کے درمیان تفریق اور بے اعتمادی پیدا کرنا ہے اور ان ہتھکنڈوں کے استعمال میں اس حد تک چلے جانا ہے‘ وہ جو قتل‘ لُوٹ مار‘ قومی دولت کے خردبرد‘ بھتہ خوری اور کرپشن کے ذریعے جسے اپنے نام نہاد صدارتی انتخاب سے چند گھنٹے پہلے بڑی بول تول اور بیرونی قوتوں کی مداخلت کے بعد مرتب کیا گیا تھا‘ عام معافی تک دینے کے گھنائونے جرم تک کا کاروبار کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی۔ اصل مسئلہ یہ غاصب قیادت‘ اور ان کا بنایا ہوا یہ نظام اور سیاسی کھیل ہے جسے دوست دشمن سب دیکھ رہے ہیں‘ مگر مفاد کے پجاری ملک میں بھی اور باہر بھی اس کھیل کو جاری رکھنا اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اسے کامیاب بنانا چاہتے ہیں‘ حالانکہ مجرم ضمیر ’جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا‘ کے مصدق اپنی کوئی نہ کوئی جھلک دکھا دیتا ہے۔ نیویارک ٹائمز اور گارڈین دونوں نے جنرل مشرف اور محترمہ بے نظیربھٹو کی پیٹھ ٹھونکی ہے‘ مگر یہ کہے بغیر بھی نہیں رہ سکے کہ یہ کھیل کتنا گھنائونا ہے۔

نیویارک ٹائمز نے مشرف-بے نظیر معاہدے کو جسے امریکا نے ممکن بنایا dubious dealقرار دیا ہے اور لکھا ہے:

بے نظیر کی واپسی کو جمہوریت کی فتح سمجھنا مشکل ہے‘ خاص طورپر اس لیے کہ یہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ایک مشکوک ڈیل کا نتیجہ ہے جو اس کو مزید پانچ سال کے لیے صدارت دیتی ہے۔ نہ یہ قانون کی حکمرانی کے لیے کوئی بڑی فتح ہے کیونکہ جنرل کے ساتھ بال کھیلنے کے بدلے میں مسزبھٹو کو ایک مناسب معافی دی گئی ہے جو ان کی وزارتِ عظمیٰ کے دور کے سنگین کرپشن کے الزامات سے ان کو بری کردیتی ہے۔

جنرل صاحب کی عزت امریکا میں کیا ہے اور ہمارے داخلی معاملات اور اپنے مطلب کی سیاسی قیادت کو بروے کار لانے میں امریکا کیا کردار ادا کررہا ہے‘ وہ بھی نیویارک ٹائمز ہی کے الفاظ میں یہ ہے:

ایک طویل عرصے تک اس نے جنرل مشرف کو اس کی مفروضہ طور پر طالبان اور القاعدہ کے خلاف پالیسیوں کی وجہ سے اپنی تائید سے نوازا۔ لیکن اب حال ہی میں وہ پالیسیاں اس کے جمہوریت اور قانون قبول کرنے یا شفاف انتخابات کرانے کے اس کے ایک کھوکھلے وعدے سے زیادہ قابلِ اعتماد نہیں رہیں۔ تاخیر سے یہ احساس ہونے کے بعد کہ جنرل کی پالیسیاں خطرناک طور پر انتہاپسندقوتوں کو کمزور نہیں مضبوط کر رہی ہیں۔ واشنگٹن نے اس ڈیل کے ہونے میں مدد دی جس سے مسزبھٹو کی واپسی ممکن ہوئی۔ اس سے پاکستان اور اسے جمہوریت کی طرف واقعی پیش قدمی کرنے میں مدد ملنا چاہیے۔

گارڈین کا تبصرہ بھی قابلِ غور ہے۔ سارا کھیل مفادات کی سیاست کا ہے‘ ورنہ جنرل مشرف اور محترمہ بے نظیر دونوں کی پارسائی کا حال سب کو معلوم ہے:

مسزبھٹو نے نہ حکومت پر اور نہ جنرل پرویز مشرف پر کراچی کے سانحے میں جس میں ۱۴۰افراد ہلاک ہوگئے‘ ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ انھوں نے پاکستان کے سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق‘ جنھوں نے ان کے والد کی حکومت کو ختم کیا اور ان کے باپ کو پھانسی چڑھایا‘ ان کے حامیوں کی طرف اشارہ کیا۔

ان میں سے کوئی بات بھی اسے خارج از امکان نہیں کرتی کہ آئی ایس آئی کے اندر بدمعاش عناصر یا اس کے سابقہ ممبروں نے اسلامی عسکریت پسندوں کے فراہم کیے ہوئے خودکش حملہ آور مسزبھٹو سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرنے کے لیے استعمال کیے ہوں۔ اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ ایک حقیقی معنوں میں سویلین مقبول سیاسی رہنما پاکستان کے ارب پتی جنرلوں کی طاقت کے لیے خطرہ ہے۔ مسزبھٹو اور ان کے شوہر پر جو بھی کرپشن کے الزامات ہوں (انھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا) لیکن ان کی غیرحاضری میں سینیر آرمی جرنیلوں نے جو مال اور جایداد جمع کی ہے اس کے مقابلے میں وہ ایک ہلکا سا عکس ہے۔ وہ پاکستانی جو ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پرآئے بھٹوؤں کے سروں پر کرپشن کے چھائے ہوئے بادلوں سے آگاہ تھے لیکن حکومت کا آٹھ سالہ پروپیگنڈا اور متعدد عدالتی اقدامات سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ ان کی اپنی پارٹی میں ان کے مقام کو جو نقصان پہنچا ہے وہ مشرف سے آٹھ ہفتے کی پس پردہ ڈیلنگ سے ہوا ہے۔ اسی کے نتیجے میں واپسی ہوئی اور ان کی واپسی کا راستہ صاف ہوا۔ اس سے ہی معلوم ہوجانا چاہیے کہ عوام کی ہمدردیاں کہاں ہیں۔ ایک سیاسی لیڈر کی حیثیت سے جنرل مشرف کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ ان کے لیے اب واحد قابلِ عمل راستہ یہ ہے کہ وہ ایک براے نام صدر بن جائیں اور وزیراعظم اور فوج کے درمیان رابطہ کاری کریں۔ (گارڈین‘ ۲۰ اکتوبر ۲۰۰۷ء)

یہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ کچھ جرنیل اور سیاست دان اس ناپاک کھیل میں شریک ہیں اور ملک کو مزید تباہی کی طرف لے جارہے ہیں‘ لیکن یہ ملک ۱۶کروڑ عوام کا ہے‘ کسی جرنیل یا کسی خاندان کی جاگیر نہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اصل مسائل کو سمجھا جائے اور جو کچھ معرضِ خطر میں ہے‘ اس کے حقیقی ادراک کے ساتھ ملک کو بچانے اور اصل دستور کے مطابق حقیقی جمہوری نظام قائم کرنے کی جدوجہد کی جائے۔ اس سلسلے میں عدالت‘سیاسی اور دینی جماعتیں‘ عام فوجی‘ انتظامیہ‘ میڈیا‘ وکلا برادری‘ دانش ور اور عوام اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ    نظریۂ ضرورت کو اس کی ہرشکل میں اور روح اور جسد دونوں کے ساتھ ہمیشہ کے لیے دفن کردیا جائے اور اتنا گہرا گاڑا جائے کہ پھر اس سے باہر آنے کا خطرہ باقی نہ رہے۔ ملک عزیز کو جتنا نقصان نظریۂ ضرورت نے پہنچایا ہے کسی اور نظریے‘ حکمت عملی یا پالیسی نے نہیں پہنچایا‘ اور اس میں ساری ذمہ داری کسی ایک ادارے پر نہیں۔ عدالتیں‘ سیاسی جماعتیں‘ پارلیمنٹ‘ میڈیا سب ہی کسی نہ کسی درجے میں اس ذمہ داری میں شریک رہے ہیں اور اس سے نجات کی جدوجہد میں بھی ہر ایک کو   اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہم اپنی تاریخ کے اس نازک لمحے پر جب ایک طرف عدالت بہت ہی اہم دستوری‘ سیاسی اور اخلاقی امور پر غور کر رہی ہے اور ایسے فیصلے کرنے جارہی ہے جن کے دُوررس اثرات ہوںگے‘ اور دوسری طرف ملک نئے انتخابات کے دروازے پر کھڑا ہے اور    ایک طرف یہ امکان ہے کہ عدالت‘ دستور اور قانون کی بالادستی کو اولیت دے اور عوام‘ سیاسی اور  دینی جماعتیں اور میڈیا جمہوریت کی بحالی کے لیے سیاست میں فوج کی بلاواسطہ اور بالواسطہ مداخلت کا ہردروازہ بند کرنے اور آزاد‘ غیر جانب دار اور شفاف انتخابات کے ذریعے عوام کے  حقیقی نمایندوں کو زمامِ کار سونپنے کی خدمت انجام دیں‘ اور دوسری طرف یہ خطرہ ہے کہ ایک بار پھر نظریۂ ضرورت کا سہارا لے کر خدانخواستہ غلام محمد ‘ جنرل ایوب خان‘ جسٹس منیر‘ جسٹس انوارالحق‘ ضیاء الحق اور جسٹس ارشاد کے دکھائے ہوئے تباہی کے راستے کی طرف رجعت قہقہری کا ارتکاب کیا جائے‘ یا ایمرجنسی اور مارشل لا کے جہنم میں ملک کو جھونکنے کی خودکشی کی راہ اختیار کی جائے۔

یہ سب تباہی کے راستے ہیںاور ہمیں یقین ہے کہ باربار دھوکا کھانے والے عوام اب اس سنگین مذاق کو گوارا نہیں کریں گے۔ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اب ملک کو نظریۂ ضرورت کے نام پر آمروں اور مفاد پرستوں کی گرفت سے نکالنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ آخر یہ ملک کب تک اس ظالمانہ تصور کی کسی نہ کسی شکل کی زنجیروں میں پابہ جولاں رہے گا۔ غاصبوں کو اس کے ذریعے تحفظ ملا ہے۔ بیرونی دبائو اور مداخلت کو اس کے نام پر قبول کیا گیاہے۔ نائن الیون کے بعد یو ٹرن کو اس نظریۂ ضرورت کے سہارے جواز فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وزیرستان میں فوج کشی کے لیے بھی یہی بھونڈا جواز دیا جا رہا ہے کہ اگر ہم نہیں کرتے تو امریکا خود کرڈالے گا۔ یہ سب نظریۂ ضرورت ہی کے مختلف مظاہر ہیں جن کے نتیجے میں ملک کا ہر ادارہ اور اب ملک کی آزادی خطرے میں ہے۔ نظریۂ ضرورت ہی کا ایک مظہر یہ دلیل ہے کہ اگر جنرل پرویز مشرف کو صدر نہیں بنایا جاتا تو ایمرجنسی یا مارشل لا آسکتا ہے۔ عارضی دور (transition) اور تدریجی عمل کے ذریعے فوج کے تسلط اور مداخلت سے نجات کا فلسفہ بھی اسی کا شاخسانہ ہے‘ اس لیے اب اسے پورے  شرح صدر کے ساتھ ختم ہونا چاہیے۔

۱- ہمیں عدالت عالیہ سے توقع ہے کہ وہ دستور‘ قانون‘ انصاف اور میرٹ پر فیصلے کرے گی اور نظریۂ ضرورت کا کسی شکل میں سہارا نہیں لے گی۔

۲- فوج سے توقع ہے کہ وہ اپنے دستوری فرائض پر قانع ہوگی اور سول نظام کی بالادستی کو کھلے دل سے قبول کرے گی‘ اور کسی نظریۂ ضرورت کا سہارا لے کر کسی غیردستوری اور ماوراے دستور انتظام کا خواب نہیں دیکھے گی۔

۳- سیاسی جماعتیں سمجھوتے کے راستے کو ترک کریں گی اور ڈیل اور شراکت اقتدار کے گرداب سے نکلیں گی۔ نیز فوج کی مداخلت کو مکمل طور پر ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا راستہ اختیار کریں گی۔ ماضی میں خواہ آٹھویں ترمیم ہو یا سترھویں ترمیم‘ فوج کو راستہ دینے اور فوجی حکمرانوں کو  جواب دہ کرنے کی کوششیں تھیں اور یہ حکمت عملی ناکام رہی ہے۔ اب دوٹوک انداز میں پوری قوم کو یک زبان ہوکر اعلان کردینا چاہیے کہ دستوری‘ پارلیمانی اور وفاقی نظام کی بحالی کے سوا کوئی راستہ نہیں اور اس کا نقطۂ آغاز ۱۹۷۳ء کا دستور ہے جیساکہ وہ ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء کو تھا۔ یہ عمل ضروری ہے اور اس کے تحت حقیقی آزاد‘ شفاف انتخاب ہی تبدیلی کا صحت مند راستہ ہیں۔ باقی سب نظریۂ ضرورت کے شاخسانے ہیں جن کے لیے اب کوئی گنجایش نہیں۔

اس لیے وقت کی سب سے اہم ضرورت نظریۂ ضرورت سے نجات ہے اور اس کے لیے عدالت‘ سیاسی جماعتوں‘ میڈیا اور خود فوج کو یک سو ہوجانا چاہیے‘ اور ان چاروں کو ایک ہی ہدف کے حصول کے لیے کارفرما ہونا چاہیے۔ نیز جنرل پرویز مشرف کے کسی بھی حیثیت سے صدر ہوتے ہوئے آزاد اور غیر جانب دار انتخاب ممکن نہیں‘ اس لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی قوتیں مل کر طے کریں کہ ایک غیرجانب دار اور حقیقی عبوری نظام قائم ہو جس کے تحت ایک آزاد‘ خودمختار اور باہم مشورے سے قائم کیا جانے والا الیکشن کمیشن جلداز جلد نئے انتخابات کا انعقاد کرے جس میں تمام سیاسی قوتوں اور شخصیات کو برابر کے مواقع حاصل ہوں۔

یہی وہ راستہ ہے جس سے ملک اس دلدل سے نکل سکتا ہے جس میں جرنیلی آمریت نے اسے پھنسا دیا ہے۔ یہ مقصد مؤثر سیاسی جدوجہد اور بنیادی نکات پر حقیقی قومی اتفاق راے پیدا کیے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ وقت کم ہے اور چیلنج بہت عظیم۔

زندہ قوموں کا شیوہ یہی ہے کہ وہ بڑے سے بڑے چیلنج کا مردانہ وار مقابلہ کرتی ہیں اور اپنی آزادی‘ اپنی حاکمیت‘ اپنی شناخت اور اپنی قسمت پر حرف نہیں آنے دیتیں۔ آج پھر ملّت پاکستان کو ایک ایسا ہی معرکہ درپیش ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس امانت کی حفاظت کی توفیق بخشے جو پاکستان کی شکل میں ہمارے پاس ہے۔

 

صدرجارج بش کا دعویٰ ہے کہ جن افراد اور اقوام کو وہ ’دہشت گرد‘ قرار دے کر افغانستان اور عراق میں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں اور پوری دنیا میں خوف و ہراس‘ قانون شکنی اور انصاف سے محرومی کی فضا قائم کیے ہوئے ہیں‘ وہ آزادی‘ حقوق انسانی‘ رواداری اور شرافت کی ان اقدار اور تصورات کے مخالف بلکہ دشمن ہیں جن کا امریکا علَم بردار ہے۔ اس دعوے کو اقوامِ عالم نے کبھی بھی درخورِاعتنا نہیں سمجھا اور دنیا بھر میں امریکا اور اس کی موجودہ قیادت کے خلاف غم و غصے بلکہ نفرت کا جو طوفان اُمڈ آیا ہے‘ وہ عوام الناس کے اصل جذبات اور احساسات کا ترجمان اور امریکا کے بارے میں ان کی بے لاگ راے کا مظہر ہے۔ گذشتہ چار ہفتوں میں عراق اور امریکا میں تین ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے امریکی قیادت کا اصل چہرہ اور دہرا کردار ایک بار پھر کھل کر  سب کے سامنے آگیا ہے اور خود امریکی دانش ور اور باضمیر صحافی بھی ان پر چیخ اُٹھے ہیں۔

پہلا واقعہ ۱۶ستمبر ۲۰۰۷ء کو بغداد میں رونما ہوا جس میں عراق میں امریکا کی ایک نجی سیکورٹی کمپنی بلیک واٹر (Black Water) کے محافظوں نے ۱۷معصوم عراقی شہریوں کو چشم زدن میں بھون ڈالا جس پر عراقی عوام ہی نہیں‘ امریکا کی سرپرستی میں کام کرنے والی عراقی حکومت بھی  چیخ اُٹھی اورساری دنیا میں ایک کہرام برپا ہوگیا۔واضح رہے کہ یہ کوئی منفرد واقعہ نہیں___ جب سے امریکا نے عراق پر فوج کشی (۲۰۰۳ء )کی ہے‘ وہاں امریکا اور اس کے اتحادیوںکے ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کے علاوہ امریکا کی نجی سیکورٹی کمپنیوں کے تقریباً ایک لاکھ محافظ تعینات ہیں جن کو عراق ہی کے نہیں‘ ہرملکی اور بین الاقوامی قانون اور ضابطے سے مستثنا اور بالا رکھا گیا ہے‘ اور عراق میں امریکا کے پہلے منتظم اعلیٰ (administrator) پال بریمر سوم نے باقاعدہ ایک حکم نامے (order 17 transitional administrative laws) کے ذریعے تمام امریکی فوجی اور نیم فوجی کارندوں کو ان کے تمام اعمال و اقدامات کے بارے میں مکمل تحفظ دیا تھا۔ یہ اس تحفظ کا کرشمہ ہے کہ یہ محافظ جس کو چاہتے ہیں‘ ہلاک کر دیتے ہیں‘ جس علاقے پر چاہیں گولہ باری کرسکتے ہیں‘ جس شخص کو چاہیں گرفتار کرسکتے ہیں___اور امریکی فوجیوں کے مقابلے میں‘ جن کے اپنے مظالم کچھ کم نہیں ہیں‘ یہ نجی سیکورٹی گارڈز کہیں زیادہ قتل و خون اور بہیمیت کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔

لندن کے مشہور ہفت روزے نیو اسٹیٹمین کے شہرۂ آفاق کالم نگار جان پائیلگر (John Pilger) نے جو کئی کتابوں کے مصنف اور اہم ٹی وی دستاویزی فلموں کے پروڈیوسر ہیں‘ بارہا لکھا ہے کہ عراق میں شیعہ سنی فسادات کو انگیخت کرنے اور دونوں فرقوں کے لوگوں کو نہ صرف مارنے بلکہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے میں ان کا کلیدی کردار ہے۔بلیک واٹر کی طرح کی درجنوں کمپنیاں عراق میں ظلم کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں اور ان کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔ یہ سب کچھ صدر بش‘ ان کے نائب صدر ڈک چینی‘ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور اس کی سربراہ کونڈولیزارائس کی ناک تلے ہو رہا ہے۔ عراق کے عوام چیخ رہے ہیں‘ عالمی میڈیا اب ان خبروں کو چھاپ رہا ہے مگر آزادی‘ عدل و انصاف‘ حقوقِ انسانی کی علَم برداری کے دعویٰ کرنے والی امریکی قیادت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور وہاں کی عدالتیں‘ جن کی انصاف پسندی کا بڑا غلغلہ ہے‘ اس کا کوئی نوٹس نہیں لیتیں۔

دوسرے واقعے کا تعلق امریکا کی سپریم کورٹ کی بے حسی یا بے بسی سے ہے۔ جس عدالت کا کام سب انسانوں کو انصاف فراہم کرنا ہے اور جس کا دعویٰ امریکا کے دستور کی پہلی ہی دفعہ میں تمام انسانوں کے مساوی مقام کے دعوے کی شکل میں کیاگیا ہے‘ عملاً وہ دہشت گردی کے خلاف قوانین کا سہارا لے کر بے شمار مظلوم اور معصوم انسانوں کو انصاف سے محروم رکھ رہی ہے اور دلیل وہی گھسی پٹی: ’قومی سلامتی ‘کا تحفظ ہے۔

اس واقعے کا مرکزی کردار ایک لبنانی ذی حیثیت مسلمان ہے جو جرمن شہریت حاصل کرچکا تھا اور ۲۰۰۳ء میں اپنے خاندان کے ساتھ مقدونیہ میں چھٹیاں گزار رہا تھا کہ دہشت گردی کے شبہے میں سی آئی اے نے اسے دھر لیا‘ پھر ایک سال تک وہ امریکی خفیہ ایجنسی کے ہاتھوں افغانستان اور البانیا میں خوار ہوتا رہا۔ تشدد اور تعذیب کا نشانہ بنایا گیا اور اس ظلم کے شکنجے میں   کسا گیا جسے renditionکہا جاتاہے۔ المصری پر کوئی الزام تک نہیں لگایا جاسکا اور بالآخر اسے اپریل ۲۰۰۴ء میں البانیا سے رہا کردیا گیا۔ اس وقت سے وہ امریکا کی عدالتوں میں ٹھوکریں کھا رہا ہے اور انصاف تلاش کر رہا ہے۔ اکتوبر۲۰۰۷ء میں سپریم کورٹ تک نے اس کی بے گناہی کا اعتراف کیا‘ اس کے باوجود محض تکنیکی وجوہ کی بنا پر اسے کوئی ریلیف نہیں دیا۔ وجہ: ’قومی سیکورٹی‘ اور یہ کہ ریاستی رازوں کے افشا ہونے کے خطرات ہیں۔

انصاف کے اس خون پر انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون تک اپنے ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۷ء کے اداریے بعنوان: Supreme Disgrace میں چلّا اٹھا‘ اس نے لکھا:

امریکا کی سپریم کورٹ صرف اپنے فیصلوں سے نہیں بلکہ مقدمات کے انتخاب سے بھی نظامِ عدل کی رہنمائی کرتی ہے‘ یعنی جن کی وہ سماعت کرنا قبول کرے اور جن کی  سماعت سے انکار کردے۔ منگل کو اس نے بالکل غلط رخ میں رہنمائی دی۔ عدالت وہ چار ووٹ نہیں لا سکی جن کی ایک بے گناہ لبنانی نژاد جرمن شہری خالدالمصری کے مقدمے پر نظرثانی کے لیے ضرورت تھی۔ جسے بش انتظامیہ کے اخلاقی‘ قانونی اور  عملی طور پر غلط دہشت گردی کے پروگرام کے تحت اغوا کیا گیا‘ گرفتار کیا گیا‘ اور ایک خفیہ سمندرپار قیدخانے میں ٹارچر کیا گیا۔

مظلوم خالد المصری کو زیریں وفاقی عدالتوں سے بھی انصاف نہیں ملا جنھوں نے اس کے سول مقدمے کو‘ حکومت کے اس نہایت کمزور دعوے کے آگے جھکتے ہوئے کہ اس مقدمے کو آگے بڑھانے سے قومی سلامتی کے راز خطرے میں پڑجائیں گے‘  خارج کردیا۔

اداریے کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے:

مصری کی اپیل کو مسترد کر کے ہائی کورٹ نے ایک بے گناہ شخص کو اس کی غلط قید اور ٹارچر کے لیے کسی قسم کا مداوا فراہم نہیں کیا۔ اس نے دنیا میں امریکا کے مقام کو نقصان پہنچایا اور انتظامیہ کی اپنے افعال کی جواب دہی سے بچنے کی کوششوں میں عدالت کو   اعلیٰ درجے کا مددگار بنا دیا۔ یہ ایسے کام نہیں جن پر فخر کیا جائے۔

تیسرے واقعے کا تعلق بھی اسی عدل کشی اور انسانیت کی تذلیل اور تعذیب سے ہے۔ امریکا کا دعویٰ ہے کہ اس نے ٹارچر کو خلافِ قانون قرار دے دیا ہے اور زیرحراست افراد پر تشدد اور تعذیب کے ذریعے اقبال جرم امریکی قانون اور اقدار کے خلاف ہے‘ لیکن عملاً امریکا‘ اس کی افواج‘ نجی محافظ اور سی آئی اے کے تفتیش کار نہ صرف تعذیب کے گھنائونے حربے دن رات استعمال کر رہے ہیں‘ بلکہ اس کارروائی کی باقاعدہ اجازت امریکی صدر نے نائب صدر اور اٹارنی جنرل کی سفارش پر دی ہے جسے ایک خفیہ دستاویز (secret memo) کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس شرمناک دستاویز کی رو سے امریکی تفتیش کاروں کو تعذیب کے وہ ذرائع استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے جو روس میں اسٹالن کے تاریک دور میں استعمال کیے جا رہے تھے۔ اس دستاویز کو کانگریس کی انٹیلی جنس کمیٹی تک سے خفیہ رکھا گیا۔ بھلا ہو نیویارک ٹائمز کا ‘جس نے اکتوبر ۲۰۰۷ء کے دوسرے ہفتے میں اس دستاویز کا راز فاش کردیا اور اس طرح امریکا کی قیادت کا اصل چہرہ خود امریکی صدر کی ہدایات کی مکروہ شکل میں دنیا کے سامنے آگیا۔ ری پبلکن سینیٹر آرلین سپیکٹر تک چیخ اٹھا کہ یہ وحشت ناک انکشاف ہے اور امریکا کے نام نہاد جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے ٹارچر کو سندِجواز فراہم کی ہے۔ دی بوسٹن گلوب اور انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کا مضمون نگار ایچ ڈی ایس گرین وے (H.D.S. Greenway) اپنے مضمون Undermining Americans Value میں اس صورت حال کا یوں اظہار و اعتراف کرتا ہے:

ساری دنیا سے نصف صدی تک خبریں بھیجنے کے دوران میرا یہ تاثر تھا کہ امریکا آزادی‘ انسانی حقوق اور انسان کے عزوشرف کا علَم بردار تھا۔ بش انتظامیہ نے ہم کو اس   سنہری معیار سے ہٹا دیا ہے اور یہ عزت بڑی حد تک خاک میں ملا دی ہے۔ ابوغریب اور گوانتانامو کے واقعات نے امریکا کی ساکھ اور اخلاقی مقام کو ختم کردیا ہے جس سے ہمارے دوستوں کو دکھ ہوا ہے‘ اورہمارے دشمنوں کو طاقت ملی ہے۔

گرین وے بڑے دکھ سے کہتا ہے کہ:

سب سے زیادہ حوصلہ شکن انکشاف یہ تھا کہ جس وقت امریکا کے عوام سعودی عرب‘ مصر جیسے اپنے حلیفوں سے جمہوریت اور کھلے پن کا تقاضا کر رہے تھے‘ دوسرے امریکیوں کو___ انتظامیہ کی مرضی اور خوشی سے ___خفیہ کمروں میں بتایا جا رہا تھا کہ قیدیوں کو ’بہترین‘ ٹارچر کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ حتیٰ کہ سوویت یونین کے تفتیشی طریقے‘ جو اَب ترک کیے جاچکے ہیں‘ بھی زیرعمل لائے گئے۔

وہ لوگ جو تفتیش سے واقفیت رکھتے ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح کا تشدد بش انتظامیہ روا رکھ رہی ہے‘ وہ غیر ضروری ہے اور معکوس نتائج دیتا ہے۔ سوویت یونین کے طریقوں کی نقل کرنے میں مسئلہ یہ ہے کہ سوویت تفتیش کار اکثر مذہبی معلومات حاصل کرنا نہ چاہتے تھے۔ وہ صرف ان کاموں کے اعترافات چاہتے تھے جووہ جانتے تھے کہ قیدیوں نے نہیں کیے‘ خالص سیاسی وجوہات پر پھانسی دینے کے لیے…

ٹارچر پر قومی اور بین الاقوامی پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے میں بش انتظامیہ کو طویل مدتی مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہمیں اسلامی انتہاپسندی کے خلاف جدوجہد میں سخت نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دیتا ہے جس کی وجہ سے مغرب کے لیے  مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو قائل کریں کہ ہم اسلام کے دشمن نہیں ہیں۔ یہ القاعدہ کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ ان اعتدال پسند مسلمانوں کو روکتا ہے جو بہ صورت دیگر ہمارے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہماری عالمی حیثیت اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ (ہیرالڈ ٹربیون‘ ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۷ء)

وہ اقوام جو مہذب ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں‘ ان کا المیہ ہی یہ ہے کہ ان کا پورا نظام سیاست و حکمرانی اخلاقی اقدار سے خالی ہے‘ اور اصل مقصد صرف مفادات کا حصول اور قوت کے ذریعے دوسروں کا استحصال ہے جسے آج ’میانہ روی‘ اور ’روشن خیالی‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ وہ ظلم و استحصال کے اس خونیں کھیل کا خوش نما عنوان ہے جس سے انسانیت کو دھوکا نہیں دیاجاسکتا۔ البتہ افسوس کا مقام ہے کہ خود مسلمان ممالک میں ایسے ارباب اقتدار اور اقتدار کے متلاشی بھی کم نہیں جو ایک شرمناک کھیل میں امریکی قیادت کے شریکِ جرم ہیں یا شرکت کے لیے بے چین!

قوم اس سانحے پر دل گرفتہ تھی‘ اور خود فوج سے نسبت رکھنے والے دردمند افراد بھی شرمندہ تھے کہ شمالی وزیرستان میں ڈھائی سو فوجی افسروں اور جوانوں کے ایک پورے دستے (garrison) کو ایک گولی چلائے بغیر‘ قبائلی جوانوں نے زیرحراست لے لیا۔ یہ مغوی فوجی تقریباً دو ماہ سے قبائل کے قبضے میں ہیں اور اپنی رہائی کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں افواجِ پاکستان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد‘ اتنی بڑی تعداد میں فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے (سرنڈر) کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔  اس پر جنرل پرویز مشرف نے ایوانِ صدر کے پُرتکلف ماحول میں جس پر اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے   ؎

ترے صوفے ہیں افرنگی‘ ترے قالین ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رُلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی

جرنیلی شان سے جنگی حکمتِ عملی کی کتاب کا ورق کھولتے ہوئے فرمایا کہ ان کو پہلے مورچے لگانے چاہییں تھے اور پھر قبائل سے بات چیت کرنا چاہیے تھی اور چونکہ انھوں نے یہ ’پروفیشنل‘ راستہ اختیار نہیں کیا‘ اس لیے ۱۸ فوجی گاڑیوں کا یہ قافلہ جس میں بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایک چوتھائی حصہ سامانِ رسد اور تین چوتھائی اسلحے پر مشتمل تھا‘ قبائل کی گرفت میں آگیا۔ جنرل صاحب کا    یہ تجزیہ ممکن ہے کتابی اعتبار سے درست ہو‘ لیکن کیا فی الحقیقت پیشہ ورانہ رویے سے محرومی صرف اس ایک دستے کا معاملہ ہے یا جنرل پرویز مشرف کے دورِاقتدار میں جو سب سے اندوہناک سانحہ رونما ہوا ہے‘ اس کا تعلق فوج کے پیشہ ورانہ کردار کی کمزوری ہی سے ہے۔

فوج کو فی الحقیقت پیشہ ورانہ مہارت کے اعلیٰ ترین معیار کا پیکر ہونا چاہیے لیکن جس   فوج کو سیاست میں زبردستی کھینچ کر لایا گیا ہو‘ جو ہمہ وقتی سربراہ کی خدمات سے محروم ہو‘ جس کے  اعلیٰ صلاحیت رکھنے والے سیکڑوں افراد کو سول انتظامیہ میں گھسیٹ لیا گیا ہو‘ جس کو کاروباری معاملات میں اتنا الجھا دیا گیا ہو کہ ایک تازہ تحقیقی کتاب Military Inc. کے مطابق ۲۰۰ ارب روپے سے زیادہ کے کاروبار میں افواج‘ یا ان سے وابستہ ادارے ملوث ہیں‘ اور فوج Mili-Bisکی شکل اختیار کرتی جارہی ہے‘ اس سے کسی پیشہ ورانہ مہارت کی توقع کی جاسکتی ہے؟

گستاخی معاف‘ فوج میں پروفیشنلزم پیدا ہوتا ہے فوجی مقاصد‘ آداب اور جان دینے کے کلچر سے مکمل وابستگی کے ماحول میں۔ اگر ماحول سیاسی کھیل میں کھلاڑی بننے اور دنیا بنانے کا ہو تو پھر جان کی بازی لگانے والی کیفیت کیسے پیدا ہو۔ اگر توجہ کا مرکز سیاست میں الجھنا‘ مادی‘ معاشی اور کاروباری معاملات میں ملوث ہونا اور کیریر بنانا اور زمینوں کی ہوس بن جائیں تو پھر پروفیشنلزم کہاں سے پیدا ہو۔ اگر فوجی قیادت ہی نہیں‘ جوانوں کو دوسروں کی حفاظت کی جگہ خود اپنی حفاظت کی فکر ہو تو پھر ملک کی حفاظت کا خدا حافظ اور فوجی پروفیشنلزم قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔

بدقسمتی سے جس فوج کی شہرت (حقیقت جو بھی ہو اور جتنی بھی ہو) یہ ہوجائے کہ اس کے بارے میں دنیا میں کہا جائے کہ سینیر جنرلوں نے مال و جایداد جمع کرنے میں بے نظیر اور ان کے شوہر کوبہت پیچھے چھوڑ دیا ہے  (دی گارڈین‘۲۰ اکتوبر ۲۰۰۷ء) تو پھر اس کے افسروں اور سپاہیوں سے کون سے پروفیشنلزم کی توقع کی جائے۔ یہ چیزیں فوج کی پیشہ ورانہ مہارت کو فروغ دیں گی‘ یا اسے اس سے بتدریج دُور کرتی چلی جائیں گی۔ یہ بڑا بنیادی سوال ہے جس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

پھر فوج کی پیشہ ورانہ مہارت کا بڑا گہرا تعلق اس امر سے ہے کہ جس آپریشن میں فوج کو لگایا گیا ہے‘ اس کے بارے میںاس کے اور قوم کے جذبات کیا ہیں۔ پیشہ ورانہ مہارت محض کوئی فنی چیز نہیں ہے‘ اس کا تعلق انسان کی پوری شخصیت‘ اس کے محرکات و عزائم اور ان حالات و کوائف سے ہے جن میں کوئی اس سے عملی کام لیتا ہے۔ اگر فوج اور قوم اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ سمجھتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کوئی حقیقی جنگ نہیں ہے‘ یہ پاکستان‘ اسلام یا اُمت مسلمہ کی جنگ نہیں ہے بلکہ امریکا کی عالمی ہوسِ اقتدار اور اسلام دشمنی کی جنگ کا حصہ ہے‘ جس میں فوج کو جھونکا جا رہا ہے تو اس فوج میں پیشہ ورانہ مہارت کہاں سے آسکتی ہے۔ آپ کتنے بھی دعوے کریں کہ یہ ہماری اپنی جنگ ہے‘ قوم اور خود فوج کا ذہن اور دل اسے تسلیم نہیں کرتے۔ بلکہ آپ خود باربار کہہ چکے ہیں کہ اگر ہم یہ کام نہ کریں‘ تو امریکا کرے گا۔ آپ کے وزیرخارجہ نے اسی ہفتے کہا ہے کہ اگر ہم قبائلی علاقوں میں کارروائی نہ کریں‘ تو ناٹو کے تیس ممالک کی فوجیں خاموش نہیں بیٹھیں گی‘ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ پاکستان کی نہیں امریکا اور ناٹو کی جنگ ہے۔ جس فوج کے افسر اور جوان ضمیر کی یہ خلش رکھتے ہوں‘ ان میں پیشہ ورانہ رویہ کہاں سے آئے گا؟ آپ نے فوج کو تیار تو کیا تھا بھارت کی فوج کے مقابلے کے لیے اور یہ معرکہ جب بھی ہوا‘ فوج کے جوانوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ لیکن جس فوج کو ایک جانے پہچانے دشمن کے لیے تیار کیا گیا تھا‘ اسے اپنے ہی اہل و عیال کے کشت و خون کے لیے استعمال کیا جائے اور پھر اسے‘ اس کے غیرپیشہ ورانہ رویے کا طعنہ دیا جائے تو اس سے بڑا ستم اور کیا ہوسکتا ہے۔

پھر ایک اور بڑا بنیادی سوال ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری فوج کی ساری تربیت ہی منظم جنگ کے لیے ہوئی ہے۔ منظم اور روایتی جنگ اور گوریلا جنگ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ جس فوج کی ساری پیشہ ورانہ صلاحیتیں اور تربیت روایتی جنگ کے لیے ہو‘ اسے آپ گوریلا جنگ کے ایک ایسے میدان میں جھونک دیں جس کی نہ اُونچ نیچ سے وہ واقف ہو اور نہ جس کی مخصوص حکمت عملی  پر اس کی گرفت ہو اور پھر اس میں پیشہ ورانہ رویے کی کمی کی بات کی جائے‘ تو یہ فوج میں پیشہ ورانہ رویے کی کمی کا مظہر ہے یا پیشہ ورانہ رویے کا درس دینے والوں کے غیرپیشہ ورانہ طرزِعمل کا ثبوت؟مناسب ہوگا اگر اس پس منظر میں خود امریکا اور ناٹو ممالک کے نہایت ہی    اعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیت اور تربیت رکھنے والی افواج کی زبوں حالی کو بھی نگاہ میں رکھا جائے۔ امریکا کی فوج کی تربیت اور فنی برتری کے بارے میں تو دو آرا نہیں ہو سکتیں‘ لیکن غیرتربیت یافتہ مجاہدین اور مزاحمت کاروں کے ہاتھوں عراق اور افغانستان میں اور اس سے پہلے ویت نام میں اس کا کیا حشر ہوچکا ہے۔ اسرائیل کی فوج کے پروفیشنلزم کا تو بڑا چرچا ہے مگر لبنان میں حزب اللہ کے غیرفوجی مجاہدین نے جس طرح اسرائیل اور اس کے مددگاروں کو شکست سے دوچار کیا‘ وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

امریکا کے سابق کمانڈر کا بیان ۱۴ اکتوبر ۲۰۰۷ء کے امریکی اخبارات میں شائع ہوا ہے اور پوری دنیا میں بشمول پاکستان‘ میڈیا نے اسے بڑی اہمیت دی ہے۔ اس نے عراق میں امریکی افواج کی ناکامی کی پوری ذمہ داری وائٹ ہائوس کی جنگی حکمت عملی پر ڈالی ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں:

امریکا ایک ڈرائونے خواب سے گزر رہا ہے جس کا کوئی اختتام سامنے نہیں ہے۔ ہمارے قومی رہنمائوں نے غیرمعمولی نااہل اسٹرے ٹیجک قیادت کا مظاہرہ کیا ہے۔ بڑے پیمانے پر غلطیوں سے پُر‘ غیرحقیقت پسندانہ حد تک پُرامید جنگی منصوبے سے   لے کر انتظامیہ کی جدید ترین حکمت عملی تک‘ یہ انتظامیہ ممکنہ معاشی اور فوجی طاقت کو ہم آہنگ کرنے اور استعمال کرنے میں ناکام رہی ہے۔ موجودہ انتظامیہ‘ کانگریس‘ خفیہ ایجنسیوں خصوصاً اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو اس عظیم ناکامی کی ذمہ داری کو قبول کرنا چاہیے‘ اور امریکی عوام کو انھیں جواب دہ قرار دینا چاہیے۔ (دی نیشن‘ ۱۴ اکتوبر ۲۰۰۷ء)

جو کچھ وزیرستان میں ہو رہا ہے‘ وہ اس کی کاربن کاپی ہے۔ جو ڈھائی ہزار فوجی حراست میں آئے ہیں‘ وہ جنرل پرویز مشرف کی لہر کا شاخسانہ تھے۔ امریکا کی حکمت عملی کا جو حشر عراق میں ہو رہا ہے‘ وہی جنرل پرویزمشرف کی حکمت عملی کا وزیرستان میں ہونا مقدر ہے۔ جنرل صاحب کی آنکھیں کھلی ہوں یا نہ کھلی ہوں لیکن امریکی کانگریس کی House Armed Services Committee کی جو کارروائی امریکی اخبارات میں ۱۱اکتوبر ۲۰۰۷ء کو شائع ہوئی ہے‘ اس میںاعتراف کیا گیا ہے کہ:

صدرپرویز مشرف سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کچھ زیادہ کرنے کے لیے امریکا کا دبائو معکوس نتائج دے رہا ہے‘ اور قبائلی علاقوں میں انتہا پسندوں کے خلاف جنگ ہاری جاچکی ہے۔

ڈاکٹر مارون وین بام نے جو واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہیں‘ کمیٹی کے سامنے اپنی شہادت میں کہا ہے:

ہم میں سے بیش تر جن کی موجودہ مرحلے میں پاکستان پر نظر ہے‘ یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان شمال مغربی صوبے میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ہارچکا ہے۔

جس طرح امریکی جنرل ریکارڈو سان شیز نے کہا ہے کہ پروفیشنلزم کی کمی فوج میں نہیں‘ اس قیادت میں ہے‘ جس نے فوج کو اس آزمایش میں ڈالا ہے اور جواب دہی اس قیادت کی ہونی چاہیے‘ جو اس اسٹرے ٹیجک تباہی کی اصل ذمہ دار ہے   ع

ہم الزام ان کو دیتے تھے‘ قصور اپنا نکل آیا

 

جب کوئی قوم اللہ کی کتاب اور نبی کی تعلیم کو ترک کردیتی ہے تو طرح طرح کی برائیوں میں ملوث ہوجاتی ہے۔ قومِ یہود نے جب اللہ تعالیٰ کی کتاب کو اور موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کو چھوڑ دیا اور اپنے نفس کی پیروی کرنے لگی تو طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا ہوگئی‘ جس کی بڑی تفصیل قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح جب قومِ نصاریٰ نے اللہ کی کتاب انجیل اور عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کو ترک کردیا تو ان کے اندر بھی برائیاں رونما ہونے لگیں۔

اُمت مسلمہ جسے دنیا کی امامت عطا کی گئی تھی‘ اس نے قرآن و حدیث کا مطالعہ‘ اس میں غوروفکر اور اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا تو اس کے اندر بھی بہت سی برائیاں دَر آئیں۔ ان برائیوں میں ایک بڑی برائی وعدے کا پابند نہ ہونا اور ایفاے عہد کا پاس و لحاظ نہ کرنا بھی ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۳۴ اور ۳۵ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اچھے کام کرنے کی تلقین کی ہے اور کچھ کام کرنے سے منع کرتے ہوئے وعدے کو پورا کرنے اور عہدوپیمان کا پاس و لحاظ کرنے کا تاکیدی حکم دیا ہے‘ اور یہ بھی فرمایا ہے کہ ہروعدے اور عہدوپیمان کے بارے میں قیامت کے دن سوال ہوگا کہ اسے پورا کیا گیا کہ نہیں؟ یہ وعدہ اللہ تعالیٰ سے کیا گیا ہو یا اس کے بندوں سے کیا گیا ہو‘ہر وعدے کے بارے میں پرسش ہوگی(بنی اسرائیل ۱۷: ۳۴-۳۵)۔ یہی بات سورۂ بقرہ میں ایک دوسرے انداز میں اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہے۔ مومن کی چند صفات کا ذکر کرتے ہوئے اسے مومن کی ایک صفت قرار دیا ہے: ’’اور جب وعدہ کرتے ہیں تو اسے پورا کرتے ہیں‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۷۷)

  •  عھدوپیمان: وعدے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وعدہ وہ ہے جس کا تعلق اللہ سے ہے۔ بندہ ہونے کی بنا پر اپنے خالق سے اس کی بندگی کا وعدہ ہم نے کیا ہے کہ ہم صرف آپ کی بندگی کریں گے‘ آپ کے شکرگزار بنیں گے اور آپ ہی سے مدد اور استعانت طلب کریں گے: ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں‘‘۔ (الفاتحہ ۱:۴)

دوسرے وعدے کا تعلق ایک بندے کا اللہ کے دوسرے بندوں سے ہے۔ ہم روز مرہ کی زندگی میں ایک دوسرے سے وعدہ کرتے ہیں اور عہدوپیمان باندھتے ہیں۔ ان وعدوں کو نبھانے کا بھی اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ بندشوں کی پوری پابندی کرو‘‘(المائدہ ۵:۱)۔ ’’اللہ تعالیٰ نے تم کو جو نعمت عطا کی ہے اس کا خیال رکھو اور اس پختہ عہدوپیمان کہ نہ بھولو جو اس نے تم سے لیا ہے‘ یعنی تمھارا یہ قول کہ ہم نے سنا اور اطاعت قبول کی‘ اللہ سے ڈرو‘ اللہ دلوں کے راز تک جانتا ہے‘‘۔ (المائدہ ۵:۷)

  •  عھد الست: اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے وعدے کی ایک نوعیت تو وہ ہے جو ہم لوگوں نے عالمِ ارواح میں کیا ہے۔ یہ وعدہ قرآن میں عہدالست کے نام سے بیان ہوا ہے۔ عالمِ ارواح  میں اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پشت سے قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی ارواح کو جسم و جان دے کر ان سے شعوری عہد لیا۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوںکو خود ان پر گواہ بناکر پوچھا کہ کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ تو سب لوگوں نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ہمارے رب ہیں۔’’اور اے نبیؐ! لوگوں کو یاد دلا دو‘ وہ وقت جب کہ تمھارے رب نے بنی آدم ؑکی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انھیں خود ان کے اُوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا کیا میں تمھارارب نہیں ہوں؟ انھوں نے کہا: ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں‘ اور ہم اس پر گواہی دیتے ہیں‘ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اس سے پہلے بے خبر تھے‘‘۔ (الاعراف ۷:۱۷۲)
  •  ایمان اور عھد: اللہ تعالیٰ سے وعدے کی دوسری نوعیت وہ ہے جو ہم لوگوں نے ایمان کا اقرار کرکے کیا ہے۔ اللہ اور اس کے بھیجے ہوئے رسول کی دعوت کا اقرار دراصل وہ عہدوپیمان ہے جس میں ہم اپنی جان اور مال کو اللہ کے ہاتھوں جنت کے بدلے میں بیچ چکے ہیں۔ اب ہماری جان اور ہمارا مال اللہ کی تحویل میں ہے۔ ہماری جان اور ہمارا مال سب اللہ کے حکم کے تابع ہے۔ اس زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ کی اطاعت اور فرماں برداری میں گزرے گا۔ ہماری یہ زندگی اللہ تعالیٰ کی ایک امانت ہے اور اس امانت کے ہم امین ہیں۔ اس عہدوپیمان کا تقاضا ہے کہ یہ زندگی ہم اہلِ امانت‘ یعنی اللہ کے حوالے کردیں۔ جو مال اور جملہ صلاحیتیں ہمیں دی گئی ہیں ان پر ہمارا کوئی تصرف نہیں اور یہ بھی ہم اللہ کے حوالے کردیں۔ دراصل شعوری ایمان کا اعلان تجدید عہدالست بھی ہے اور اپنے آپ میں ایک نیا عہدوپیمان بھی ہے۔ ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔ ان سے جنت کا وعدہ اللہ کے ذمے پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں۔ کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدے کو پوراکرنے والا ہو؟‘‘ (التوبہ ۹:۱۱۱)

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بار بار یاد دہانی کرائی ہے کہ جو وعدہ اور عہدوپیمان تم نے اپنے خالق حقیقی سے کیا ہے‘ اس کو پورا کرو اور وعدہ خلافی مت کرو۔ قرآن میں یہ یاددہانی بار بار مختلف انداز میں کرائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کے ذریعے بھی اس کی یاد دہانی کراتا رہاہے:

اللہ کے عہد کو پورا کرو‘ جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو‘ اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو‘ جب کہ تم اللہ کو اپنے اُوپر گواہ بناچکے ہو۔ اللہ تمھارے سب اعمال سے باخبر ہے۔(النحل ۱۶:۹۱)

اے بنی اسرائیل! ذرا خیال کرو میری اس نعمت کا جو میں نے تم کو عطا کی تھی‘ میرے ساتھ تمھارا جو عہد تھا اسے تم پورا کرو تو میراجو عہد تمھارے ساتھ تھااسے میں پورا کروں اور مجھ سے ہی تم ڈرو‘ اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پر ایمان لائو۔ یہ اس کتاب کی تائید میں ہے جو تمھارے پاس پہلے سے موجود تھی‘ لہٰذا سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جائو۔ تھوڑی سی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو اور میرے غضب سے بچو۔(البقرہ ۲:۴۰)

اور جب بات کہو انصاف کی کہو‘ خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔ ان باتوں کی ہدایت اللہ تعالیٰ نے تمھیں کی ہے‘ شاید کہ تم نصیحت قبول کرو۔ (الانعام ۶:۱۵۲)

  •  روز مرہ زندگی میں عھد و پیمان: روز مرہ کی زندگی میں بھی ہم لوگ ایک دوسرے سے عہدوپیمان باندھتے ہیں۔ ان کا پورا کرنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح اللہ سے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرنا ضروری ہے: ’’اور ان کا طرزِعمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں۔ انھیں مضبوط باندھنے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے‘‘ (الرعد۱۳: ۲۰)۔ ان وعدوں کو پورا کرنے کا احساس ہمارے اندر کم ہی پایا جاتا ہے۔ کتنے وعدے ہم لوگ روزانہ کرتے ہیں اورانھیں پورا نہیں کرتے۔ ان کے پورا نہ کرنے پر ہمارے اندر پشیمانی بھی نہیں پائی جاتی۔ آپس کے لین دین میں ہم ایک دوسرے سے بہت سے وعدے کرتے ہیں اور انھیں پورا نہیں کرتے۔ کسی سے قرض لیا اور وعدہ کرلیا کہ دو مہینے بعد لی ہوئی رقم واپس کردیں گے۔ قرض کی رقم لے کر بھول گئے۔ اس کی رقم بھی وقت پر واپس نہیں کی اور نہ معذرت چاہی کہ وعدہ خلافی ہوگئی۔ کسی سے وعدہ کیا کہ ہم فلاں جگہ فلاں وقت پر آپ سے ملاقات کریں گے اور مقررہ وقت پر نہیں آئے‘ جب کہ فریق ثانی وقت مقررہ پر انتظار کی گھڑیاں گن رہا ہے۔ اکثر وعدہ خلافی ہم جان بوجھ کر کرتے ہیں‘ اس لیے کہ ہمارے اندر وعدے کی اہمیت کا احساس ختم ہوچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو۔ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں ہو۔ اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔ (الصف ۶۱:۲-۳)

ہم سے ہر وعدے کے متعلق قیامت میں پوچھا جائے گا۔ اس لیے وعدہ شعور کے ساتھ کیا جائے کہ پورا کرسکتے ہیں یا نہیں۔ موقع اور مصلحت اپنی مشغولیت اور اوقاتِ کار کا لحاظ کرکے وعدہ کیا جاناچاہیے اور وعدے کو حتی الامکان نبھانے کی کوشش کرنی چاہیے اِلا.ّ یہ کہ کوئی شرعی عذر پیش آجائے۔ اگر شرعی عذر یا ناگزیر مجبوری پیش آجائے تو پہلے خبر کردینی چاہیے کہ فلاں کام کا وعدہ   ہم نے کیا تھا لیکن یہ مجبوری آگئی ہے‘ اس لیے وعدہ پورا کرنے کی گنجایش نہیں ہے۔ اگر پہلے خبر کرنے کا موقع نہ ہو تو بعد میں معذرت کی درخواست کی جائے اور بعد میں اس وعدے کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ ہروقت یہ خیال رہے کہ زبان سے ہرنکلی ہوئی بات لکھ لی گئی ہے اور اس کے متعلق قیامت کے دن پوچھ گچھ ہوگی۔

کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا کہ اسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضرباش نگراں موجود نہ ہو۔ (قٓ ۵۰:۱۸)

عہد کی پابندی کرو‘بے شک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہوگی۔ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۴)

ان لوگوں نے اس سے پہلے اللہ سے عہد کیا تھا کہ یہ پیٹھ نہ پھیریں گے‘ اور اللہ سے کیے ہوئے عہد کی بازپرس تو ہونی ہی تھی۔(الاحزاب ۳۳:۱۵)

  •  ایفاے عھد پر جزا: جو لوگ اللہ سے کیے ہوئے عہدوپیمان کا پاس رکھتے ہیں اور اس کے بندوں سے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرتے ہیں‘ اللہ نے ان کے لیے انعام کا وعدہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جو شخص اپنے عہد کو پوراکرے گا اور اللہ سے ڈرے گا‘ وہ متقی ہے اور اللہ ان سے محبت کرتا ہے۔ یہاں متقی کی دو صفات بتائی گئی ہیں: ایک‘ عہد کو پورا کرتے ہیں‘اور دوسرے‘ اللہ سے ڈرتے ہیں۔ ان دونوں صفتوں سے متصف ہونے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔

آخر کیوں ان سے بازپرس نہ ہوگی؟جو بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا اور برائی سے بچ کر رہے گا تو اللہ کا محبوب بنے گا‘ کیونکہ پرہیزگار لوگ اللہ کو پسند ہیں۔ (اٰل عمرٰن ۳:۷۶)

سورۂ رعد میں اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل ہونے والوں کی چند صفات کا تذکرہ کیا ہے جس میں پہلی صفت یہ بیان کی ہے کہ وہ لوگ جنت میں جائیں گے اور آخرت کا گھر انھی لوگوں کے لیے ہے جو وعدے کو پوراکرتے ہیں اور وعدہ خلافی نہیں کرتے۔’’اور ان کا طرزِعمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں‘ اسے مضبوط باندھنے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے۔ ان کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے اسے برقرار رکھتے ہیں‘ اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیا جائے۔ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں اور برائی کو بھلائی سے  دفع کرتے ہیں۔ آخرت کا گھر انھی لوگوں کے لیے ہے‘ یعنی ایسے باغ جو ان کی ابدی قیام گاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی اس میں داخل ہوں گے اور ان کے آباواجداد اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو لوگ صالح ہیں وہ بھی ان کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ ملائکہ ہر طرف سے ان کے استقبال کے لیے آئیں گے‘ اور ان سے کہیں گے ’’تم پر سلامتی ہے، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا‘اس کی بدولت آج تم اس کے مستحق ہوئے‘‘۔ (الرعد ۱۳:۲۰-۲۴)

سورۂ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے عہدوپیمان کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ میں تمھارے ساتھ ہوں۔ عہدوپیمان کے ساتھ کچھ فرائض کی پابندی کریں تو ہم انھیں      ایسی جنت میں داخل کردیں گے جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ ’’اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا اور ان میں ۱۲ نقیب مقرر کیے تھے اور ان سے کہا تھا کہ: ’’میں تمھارے ساتھ ہوں‘   اگر تم نے نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دی اور میرے رسولوں کو مانا اور ان کی مدد کی اور اپنے خدا کو اچھا قرض دیتے رہے‘ تو یقین رکھو کہ میں تمھاری برائیاں تم سے زائل کردوں گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی‘ مگر اس کے بعد جس نے تم میں سے کفر کی روش اختیار کی تو درحقیقت اس نے سواء السبیل گم کردی‘‘۔ پھر یہ ان کا اپنے عہد کو توڑ ڈالنا تھا جس کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دُور پھینک دیا اور ان کے دل سخت کردیے۔ اب ان کا حال یہ ہے کہ الفاظ کا اُلٹ پھیر کرکے بات کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں‘ جو تعلیم انھیں دی گئی تھی اس کا  بڑا حصہ بھول چکے ہیں‘ اور آئے دن تمھیں ان کی کسی نہ کسی خیانت کا پتا چلتا رہتا ہے۔ اب ان میں سے بہت کم لوگ اس عیب سے بچے ہوئے ہیں۔ (پس جب یہ اس حال کو پہنچ چکے ہیں جو شرارتیں بھی یہ کریں وہ ان سے عین متوقع ہیں) لہٰذا انھیں معاف کرو اور ان کی حرکات سے چشم پوشی کرتے رہو‘ اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو احسان کی روش اختیار کرتے ہیں‘‘۔ (المائدہ ۵: ۱۲-۱۳)

  •  عھد توڑنا فسق ھے: سورۂ اعراف میں عہد کی پاس داری نہ کرنے والوں کے لیے بڑی وعید بیان ہوئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ عہدوپیمان کا اقرار کرنے کے بعد اس سے اعراض کرنے والے فاسق ہیں۔’’ہم نے ان میں سے اکثر میں کوئی پاسِ عہد نہ پایا بلکہ اکثر کو فاسق ہی پایا‘‘۔(الاعراف ۷:۱۰۲)

یہی بات سورۂ آل عمران میں دوسرے انداز سے دہرائی گئی ہے کہ عہدواقرار کرنے کے بعد اس کو توڑنے والے فاسق ہیں۔’’وہ تم سے ہرگز یہ نہ کہے گا کہ فرشتوں کو یا پیغمبروں کو اپنا رب بنائو۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک نبی تمھیں کفر کا حکم دے‘ جب کہ تم مسلم ہو؟ یاد کرو‘ اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ آج میں نے تمھیں کتاب اور حکمت اور دانش سے نوازا ہے‘ کل اگر کوئی دوسرا رسول تمھارے پاس اسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمھارے پاس موجود ہے‘ تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی۔ یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا: کیا تم اس کااقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہاں‘ ہم اقرار کرتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا: اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمھارے ساتھ گواہ ہوں‘۔ اس کے بعد جو اپنے عہد سے پھر جائے وہی فاسق ہے‘‘۔(اٰل عمرٰن ۳:۸۰-۸۱)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطاب میں اکثر یہ فرمایا ہے کہ ’’جس کے اندر عہد کی پابندی کا احساس نہیں اس کا ایمان نہیں‘ اور جس کے اندر امانت کی پاس داری نہیں اس کا دین نہیں‘‘۔ (مسنداحمد)

  •  بدعھدی پر وعید: عہدوپیمان کو توڑنے والے اور اس کا لحاظ نہ کرنے والے بدترین لوگ ہیں‘ سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں سزا دے گا۔ اللہ تعالیٰ عہد کو توڑنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اللہ نے بدعہدی کرنے والوں پر لعنت کی ہے اور آخرت میں  بُرے گھر، یعنی جہنم کی وعید سنائی گئی ہے: ’’آلِ فرعون اور اس کے پہلے کی قوموں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا وہ اسی ضابطے کے مطابق تھا۔ انھوں نے اپنے رب کی آیات کو جھٹلا یا تب ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انھیں ہلاک کیا اور آلِ فرعون کو غرق کردیا۔ یہ سب ظالم لوگ تھے۔ یقینا اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں سے بدتر وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہم کو ماننے سے انکار کردیا۔ پھر کسی طرح وہ قبول کرنے کو تیارنہیں ہیں۔ ان میںسے وہ لوگ جن کے ساتھ تم نے معاہدہ کیا پھر وہ ہرموقع پر اس کو توڑتے ہیں اور ذرا خدا کا خوف نہیں کرتے (الانفال ۸:۵۴-۵۶)۔  سورئہ رعد میں فرمایا: ’’پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر‘ رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں‘ جو ان رابطوں کو کاٹتے ہیں جنھیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے‘ اور جو زمین پر فساد پھیلاتے ہیں‘ وہ لعنت کے مستحق ہیں اور ان کے لیے آخرت میں بہت بُرا ٹھکانہ ہے‘‘۔(الرعد۱۳:۲۵)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ وعدہ کا پورا نہ کرنا منافق کی نشانی ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’منافق کی نشانیاں تین ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے‘ جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب اس کے سپرد کوئی امانت کی جائے تو اس میں خیانت کرے‘‘۔ (بخاری و مسلم)

حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چار خصلتیں ایسی ہیں کہ جس شخص کے اندر پائی جاتی ہیں وہ خالص منافق ہوتا ہے اور جس کسی میں ان میں سے ایک خصلت پائی جائے‘ اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت موجود ہوتی ہے‘ جب تک کہ اس خصلت کو ترک نہ کردے۔ جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو خیانت کرے‘ جب بات کرے تو جھوٹ بولے‘ جب عہد کرے تو اسے توڑ دے اور جب جھگڑا کرے تو بے ہودہ بکے‘‘۔ (بخاری)

مندرجہ بالا گفتگو سے یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ قرآن و حدیث میں وعدے کی اہمیت مسلّم ہے۔ ہروعدے کے متعلق اللہ تعالیٰ کے یہاں پوچھ گچھ ہوگی۔ وعدہ پورا کرنے والوں کو   اللہ پسند کرتا ہے اور ان کے لیے آخرت کا بہترین وعدہ ہے۔ وعدہ پورا کرنے والوں کے لیے جنت کی بشارت ہے اور دوسرے انعام و اکرام کا وعدہ ہے۔ اس کے برعکس وعدہ پورا نہ کرنے والوں سے اللہ ناراض ہوتا ہے اور وہ لوگ فاسق ہیں۔ وعدہ پورا نہ کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ وعدہ پورا نہ کرنے والوں کے لیے سزا کی وعید ہے اور وہ لوگ جہنم میں جائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منافقت کی نشانی قرار دیا ہے۔ ہم میں سے کون مسلمان جنت میں جانا نہیں چاہے گا اور جہنم سے بچنا نہیں چاہے گا۔ ہرمسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جہنم سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے۔ اگر ہم اس خواہش کی تکمیل چاہتے ہیں تو یقینا چاہیے کہ ہم لوگ وعدوں کی سختی سے پابندی کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ہمیں وعدوں کی پابندی کی توفیق    عطا فرمائے اور وعدوں کی پابندی کرنے والوں کو انعام و اکرام سے اور جنت سے نوازے۔ آمین!

 

صحابہؓ اور صحابیاتؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا براہ راست تربیت یافتہ اوراس امت کا افضل ترین طبقہ ہے۔ان میں بھی ازواجِ مطہراتؓ کوقربتِ نبوی کی وجہ سے خصوصی فضیلت حاصل ہے ۔ان کو اللہ تعالیٰ نے اقامت دین کے لیے بے مثل جدوجہد کے انعام میں رضی اللہ عنہم ورضوعنہ کے شرف سے نوازا۔ہمیں جہاں اپنے تزکیہ وتربیت اور اصلاح معاشرہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور آپ کی سیرت سے روشنی درکار ہے‘ وہاں ان صاحبِ عزیمت ہستیوں کی روشن زندگیوں سے بھی حرارت مطلوب ہے جنھوں نے دین کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں پیش کیں اور اسے دنیا میں پھیلانے کے لیے بہترین اور ہمہ جہت کوششیں کیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ داعی‘ دعوت کے امکانات کو پہچان کرموقع و محل کے لحاظ سے ان کا استعمال کریں۔ زیرنظر مضمون میںازواج مطہراتؓکی زندگیوں سے ایسے ہی موتی چننے کی کوشش کی گئی ہے۔

  •  اپنے عمل سے منکرات کو ختم کرنے کی مثال: صحابیاتؓ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا جذبہ اتنا غالب تھا کہ اس کے مقابلے میں اور کوئی خواہش ،محبت یاجذبہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔غم کا موقع ہو تایا خوشی کا،وہ اپنے عمل سے سنت کی پیروی کا درس دیتی تھیں۔جب شام سے حضرت اُم حبیبہ ؓ کے والد حضرت ابو سفیان ؓ کی وفات کی خبر آئی تو تین دن کے بعد آپ ؓنے خوشبو منگواکر لگائی، پھر فرمایا: مجھے اس کی ضرورت نہیں تھی اگر میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہوتا کہ کسی مومن عورت کے لیے جائز نہیں جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو، کہ اپنی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے‘ سواے شوہر کے ،جس کا سوگ چار مہینے دس دن ہے۔(بخاری،ترمذی، ابوداؤد)

اسی طرح جب حضرت زینبؓ بنت جحش کا بھائی فوت ہو گیا تو (تین دن کے بعد)آپ نے خو شبو منگوائی اور لگا کردرج بالا حدیث بیان کی۔اس طرح ان دو جلیل القدر ہستیوں نے پہلے اپنے عمل سے پھر قول سے ایک بُری رسم کی اصلاح کی۔

  •  عوام الناس کے قلوب کی اصلاح: حضرت صفیہؓتلاوت قرآن کے ساتھ رونے کی تاکید کرتی تھیں تاکہ علم کے ساتھ بھر پور روحانی فیض بھی حا صل ہو۔ایک مرتبہ کچھ لوگ آپ کے حجرے میں جمع ہو گئے ۔انھوں نے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا ،قرآن کریم کی تلاوت کی اور سجدہ کیا۔ جب آپ ؓنے یہ دیکھا تو ان کو آواز دے کر کہا: ’’یہ سجدے اور تلاوت قرآن تو کر رہے ہو لیکن تمھیں رونا کیوں نہیں آتا؟‘‘(حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء)۔ مراد اس بات کی تعلیم تھی کہ عبادات کے ظاہری مراسم روح سے خالی نہیں ہو نے چاہییں۔ جب بات دل میں اتر تی ہے تو تب ہی رونا نصیب ہوتا ہے اور عملی زندگی اس سے متاثر ہوتی ہے۔
  •  مزاجِ نبوت سے واقفیت: حضرت زینبؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور مزاج سے بخوبی آگاہی حاصل تھی اور مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اس کا بھر پور طریقے سے استعمال کرتی تھیں۔

ایک مرتبہ عبد المطلب بن ربیعہؓ اور فضل بن عباسؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور درخواست کی کہ ان کو بھی عامل مقرر کیا جائے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی درخواست سن کر کچھ زیادہ دیر کے لیے خاموش ہو گئے ۔چونکہ آپ کومزاج نبوت سے بخوبی واقفیت حاصل تھی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی کو سمجھ گئیں اور پردے کے پیچھے سے اشارتاً منع کیا کہ اس کے بارے میں بات چیت نہ کریں (عامل بننے کی درخواست نہ کریں کیو نکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس مطالبے کو ناپسند کرتے ہیں)۔ (مسلم،سنن ابوداؤد )

  •  خواتین کی اصلاح:حضرت عائشہ ؓ داعیانہ مزاج کی مالک تھیں ۔آپ کا رویہ برائیوں کے ساتھ مصالحانہ نہیں بلکہ ا ن کو جڑ سے اکھاڑنے کا تھا۔آپ اس میں کسی چھوٹے بڑے کی تمیز نہیں کرتی تھیں،برائی جس میں بھی دیکھتیں توفوراً اس کو ٹوکتیںاور اصلاح کرتی تھیں۔ ایک دن آپؓ ، حضرت صفیہؓ اُم طلحہ کے پاس آئیں اور دیکھا کہ ان کی بیٹیاں بغیر چادر کے نماز پڑھ رہی ہیں‘حا لا نکہ وہ بالغ ہو چکی تھیں تو فرمایا: ’’ان میں سے کوئی بغیر چادر کے نماز نہ پڑھے۔ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرے میں تشریف لائے۔ میرے پاس ایک لڑکی تھی(اور اس کے سر پر چادر نہیں تھی)۔آپؐ نے مجھے اپنی تہمد دی اور کہا کہ اس کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کرکے ایک ٹکڑا اس کو اور ایک اُم سلمہ ؓ کی گود میں جو لڑکی ہے‘ اس کو دے دو،کیونکہ میرے خیال میں وہ بالغ ہو چکی ہیں۔(مسنداحمد، سنن ابوداؤد)

ایک دفعہ آپؓ کی بھتیجی حفصہ بنت عبدالرحمن آپؓ کے پاس آئی ۔ اس نے باریک اوڑھنی پہن رکھی تھی جس سے اس کا جسم جھلک رہا تھا ۔آپؐ نے اس سے وہ اوڑھنی لے کر پھاڑ ڈالی اور تذکیربالقرآن کرتے ہوئے فرما یا :’’کیا تم نے سو رئہ نور میں اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام نہیں پڑھے ہیں ؟‘‘پھر اس کو ایک موٹی اوڑھنی منگواکر دے دی ۔(موطا)

ایک مرتبہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کر تے ہو ئے ایک عورت کو دیکھا کہ چادر میں صلیب لگا ئی ہوئی ہے تو فو راً منع کر تے ہو ئے فرمایا :’’اپنے کپڑوں سے اس کو اتار دو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس قسم کی چیزیں کپڑوں میںدیکھتے تو توڑ دیتے تھے‘‘۔(مسنداحمد)

ایک خاتون نے منت مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ اس کو بیماری سے شفا دے تو وہ بیت المقدس جاکر نماز پڑھے گی۔صحت یاب ہونے کے بعد اس نے سفرکی تیاری کی اور جانے سے پہلے حضرت میمونہ ؓ کو سلام کرنے کے لیے حاضر ہوئیں تو آپؓ نے اس کوکہا: ’’تم یہا ں بیٹھو اور جو کھانا میں بنائوں اسے کھائو اور مسجد نبویؐ میں نماز پڑھو،کیونکہ میں نے رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اس میں ایک نماز پڑھنا اس کے علاوہ کسی مسجد میں ایک ہزار نمازوںسے افضل ہے‘ سواے بیت اللہ کے۔ (مسند احمد)

ایک مرتبہ کچھ عورتیں حاضر خدمت ہوئیں تو آپ ؓ نے ان کو ہدایت کی کہ مجھے مردوں کو ٹوکتے ہوئے شرم آتی ہے، اس لیے اپنے شوہروں کو آگاہ کرو کہ پانی سے طہارت حاصل کیا کریں کیونکہ یہی مسنون طریقہ ہے۔(مسند احمد)

  •  زیرِ اثر لوگوں کی اصلاح: حضرت عائشہ ؓ کے مکان میں ایک کرایہ دار رہتا تھا۔ اس کی نسبت معلوم ہو ا کہ وہ نرد کھیلتا ہے ،سخت برافروختہ ہوئیں اور کہلا بھیجا کہ کہ نرد کی گوٹیوں کو میرے گھر سے باہر نہ پھینک دو گے تو میں تمھیں اپنے گھر سے نکلوا دوں گی۔(بخاری)

اپنے زیر اثر لوگوں کی اصلاح کے لیے اپنے اختیارات کے استعمال کے ذریعے تنبیہ بھی اکثر سود مند ثابت ہوتی ہے۔کیونکہ کہ معاشرے میں لوگ مختلف ذہنی اور نفسیاتی کیفیات کے حامل ہوتے ہیں۔کچھ لوگ تو سیدھی سادی دعوت سے راہ راست پر آجاتے ہیں‘ جب کہ کچھ لوگوں کو سزا کا خوف دلاکر ہی برائیوں سے روکا جاسکتاہے۔

ایک بار حضرت عبد الرحمٰن بن ابی بکرؓ کو دیکھا کہ وضو اچھی طرح نہیں کیا تو فوراً تنبیہ فرمائی: اے عبدالرحمن ! کامل طریقے پر وضو کرو ، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے کہ ٹخنوں کے لیے آگ ہے( اگر وہ وضو میں خشک رہ جائیں)۔(مسنداحمد)

ایک مرتبہ حضرت ابو سلمہؓ کی اپنے قبیلے والوں کے ساتھ زمین کے بارے میں لڑائی ہوگئی۔ جب وہ حضرت عائشہ ؓکے پاس آئے تو آپ ؓنے ان کو نصیحت کر تے ہو ئے کہا: ابو سلمہؓ !زمین سے بچو، بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : جس نے ایک بالشت بھر زمین ظلم سے حاصل کی‘ قیامت کے دن ساتوں زمینوں سے اس زمین کے ٹکڑے کے برابر اس آدمی کے گلے میں بطورِسزاطوق بنا کر ڈالی جائے گی۔ (مسلم،بخاری، مسند احمد)

حضرت اُم سلمہ ؓ کی عادت تھی کہ اپنے حلقۂ اثر میں جب بھی کوئی کام اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے طریقوں سے ہٹ کر دیکھتیں ،تو فوراً ٹوک دیتی تھیں۔

ایک دفعہ آپ ؓ کا بھتیجا آپ کے ہاں آیا اور مکان میں دو رکعت نماز پڑھی ۔جب سجدے کے لیے جانے لگا تو مٹی کو ہٹانے کے لیے پھونک ماری۔آپؓ نے دیکھا تو اس کو تنبیہ کر کے فرمایا: پھونک نہ مارو ، کیونکہ میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یسار نامی ایک لڑکے کو جس نے سجدے میں پھونک ماری تھی، فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اپنے چہرے کو اللہ تعالیٰ کے لیے خاک آلود کرو۔(مسند احمد)

ایک موقع پر جب سلمہؓ بن ہشام کو جماعت میں غیر حاضر پایا تو ان کی بیوی سے دریافت کیا: کیا وجہ ہے میں سلمہ کو نماز باجماعت میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے ساتھ حاضر ہوتے نہیں دیکھتی؟اس کی بیوی نے بتایا کہ چونکہ وہ جنگِ موتہ میں نہیں گئے تھے‘ اس لیے لوگوں کے عار دلانے کی وجہ سے وہ گھر سے نہیں نکلتے۔(ابن ہشام)

اُم الحسین ؒفرماتی ہیں کہ میں حضرت اُم سلمہ ؓ کے پاس تھی کہ کچھ مساکین آئے جن میں عورتیں بھی تھیں۔انھوں نے سوال کیا‘ تو میں نے کہا:یہاں سے چلے جائو۔حضرت اُم سلمہ ؓ نے سنا تو فوراً تنبیہہ کی: ’’ہمیں ایسا کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کو اور کچھ نہیں تو ایک کھجور ہی دے کر واپس کرو‘‘۔(الادب المفرد)

نماز دین کا ستون ہے اور مسنون اوقات کا التزام اس کی اقامت میں شامل ہے۔جب دیکھا کہ امرا نمازکے مسنون اوقات کاخیال نہیں رکھتے توان پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر تم لوگوں سے جلد پڑھا کرتے تھے اور تم لوگ نماز عصر آپؐ سے جلد پڑھتے ہو!(ترمذی، مسنداحمد)

ازواج مطہراتؓ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مقابلے میں کسی رشتے ناتے کا کوئی لحاظ نہیں کرتی تھیں ۔ ایک مرتبہ حضرت میمونہؓ کے پاس ان کا کوئی رشتے دار اس حالت میں آیا کہ اس کے منہ سے شراب کی بو آرہی تھی ۔جب آپؓ نے دیکھا تو جھڑک کر فرمایا: تم مسلمانوں کے پاس کیوں نہیں جاتے تاکہ وہ تمھیں کوڑے لگاکر‘ پاک کردیں ؟تم آیندہ میرے گھرمیں کبھی نہ آنا۔(الطبقات الکبریٰ)

  •  حاکمِ وقت کو نصیحت: حکام کے سامنے سیدھی اور دو ٹوک بات کہنے کے لیے بڑی جرأت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ کام جتنا مشکل ہے اتنا ہی زیادہ باعثِ اجر و فضیلت ہے۔ حضرت عائشہؓ کو صحبت نبوی کی وجہ سے یہ فضیلت بھی بدرجہ کمال حاصل تھی۔ایک دفعہ حضرت امیرمعاویہؓ نے درخواست کی کہ آپؓ ان کو ایک مختصر اور نصیحت آموز خط لکھیں تو آپؓ نے ان کو لکھا: میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص لوگوں کی ناراضی مول لے کر اللہ تعالیٰ کی رضا تلاش کرے گا‘ اللہ تعالیٰ اس کو لوگوں کی تکالیف سے بچانے کے لیے کافی ہو جائے گا‘ اور جو  اللہ تعالیٰ کو ناراض کر کے لوگوں کی رضا چاہے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو ان کے سپرد کردے گا‘‘۔(ترمذی)

ایک حاکمِ وقت کے لیے اس خط میں اختصار کے ساتھ جامعیت ، موزونیت او ر جرأت مثالی ہے۔ حضرت معاویہؓ کو ایک دوسرے خط میں آپؓ نے لکھا : جو بندہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والے اعمال کرے گا‘ وہ اس کی تعریف کرنے والوں کو اس کی مذمت کرنے والا بنا دے گا۔

جب زیاد نے حضرت حجرؓ بن عدی کوبغاوت کے الزام میں حضرت معا ویہؓ کے دربار میں پیش کیا (کیو نکہ وہ اُمراکے ظلم وستم پر نکیر فرما تے تھے ) تو حضرت معاویہؓ نے ان کو قتل کرایا ۔جب حضرت عائشہؓ حضرت معاویہؓ سے ملیں تو ان کو اللہ تعالیٰ سے ڈراتے ہو ئے فرما یا: اے معاویہ ! کیا تمھیں حجر بن عدیؓ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ڈر نہیں ہے۔

  •  مدعو کے فھم و فراست کو اپیل کرنا: حضرت ام حبیبہ ؓسردار قریش ابو سفیان کی بیٹی تھیں۔وہ باوجود قیادت اور سیادت کے فتح مکہ تک اسلام کے خلاف ہر محاذ پر سرگرم رہا۔   فتح مکہ سے پہلے جب وہ مدینہ آیا ہوا تھا‘تو حضرت اُم حبیبہ ؓ نے دوران گفتگو اس کی عقل ودانش سے اپیل کرتے ہوئے کہا: میرے ابا!اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت سے نوازا ہے اور آپ قریش کے سردار اور بزرگ ہوکر کیونکر اسلام سے محروم رہ گئے ہیں۔ آپ پتھر کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتاہے اور نہ دیکھتا ہے۔ مراد یہ تھی کہ یہ ایک سردار کی عقل و دانش سے قطعاً میل نہیں کھاتا۔ چنانچہ ابوسفیان نے یہ سن کر کہا: تم بھی عجیب بات کررہی ہو،کیامیں اپنے باپ داد ا کے دین کو چھوڑ کر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کرلوں؟یہ کہہ کر وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ لیکن تھوڑے عرصے بعد اسلام قبول کرلیا (تاریخ مدینہ)۔بعید نہیں کہ اس کے قبول اسلام کا ایک محرک یہ گفتگو بھی ہو۔

صحابیات کی دعوتی زندگی کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان کی خدمات زندگی کے تمام پہلوئوں پر مشتمل ہیں۔انھوں نے گھریا معاشرے میں جہاں بھی کوئی کوتاہی دیکھی اس کی اصلاح کی بھرپور کوشش کی اور موقع محل اورمخاطب کا بھی خیال رکھا۔انھوں نے انذار و تبشیر دونوں سے کام لیا اور ہمیشہ امید کا دامن تھامے رکھا۔ دعوت دین کا کام کرنے والے افراد کی کامیابی اسی کا اتباع کرنے میں مضمر ہے۔

 

اللہ تعالیٰ نے کتب آسمانی اور ان میں موجود اپنے احکامات نوع انسانی کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے نازل کیے ہیں۔ ان کا مقصدِ نزول ان پر عمل کرنا ہے۔ ان پر عمل سے نہ صرف آخرت بلکہ دنیا بھی سنور سکتی ہے۔ اس طرح امن و امان اور ہر طرف خوش حالی کا دور دورہ ہوتا ہے۔ آسمان سے رحمتوں کی بارش ہوتی ہے اور زمین سونا اُگلتی ہے۔ انھی انعامات اور رحمتوں کا ذکر کرتے ہوئے قرآن حکیم کہتا ہے: ’’کاش! (اہلِ کتاب) نے تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں۔ ایسا کرتے تو ان کے لیے اُوپر سے رزق برستا اور نیچے سے اُبلتا۔ اگرچہ ان میں سے کچھ لوگ راست رو بھی ہیں لیکن ان کی اکثریت سخت بدعمل ہے‘‘ (المائدہ ۵:۶۶)۔ پھر قدرت کا یہ اصول بھی یاد رکھا جائے کہ جو قومیں احکامِ الٰہی سے گریز کرتی ہیں‘ اِن کو پس پشت ڈالتی ہیں‘ یا حیلوں بہانوں سے ان سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں اور ان پر عمل کرنے سے گھبراتی ہیں‘ یا پھر کمزوری اور مرعوبیت کا شکار ہوتی ہیں‘ تووہ دراصل عذابِ الٰہی اور آفاتِ آسمانی کو دعوت دیتی ہیں اور بحروبر کو شروفساد سے بھر دیتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ہر دور اور ہر زمانے میں اس کی ضرورتوں اور تقاضوں کے مطابق احکام اور آسمانی کتابیں نازل کیں۔ تورات‘ زبور اور انجیل میں اپنے اپنے زمانے کے لوگوں کی ضرورت کے مطابق احکام دیے گئے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم نازل کیا۔ یہ دائمی اور ابدی کتاب ہے اور اپنے احکامات کا نفاذ چاہتی ہے۔

سابقہ الھامی کتب کی روشنی میں

سابقہ کتب آسمانی میں تورات ایک بنیادی اور پرانی کتاب ہے اسی لیے بنی اسرائیل کے انبیا اور ان پر ایمان لانے والوں کو اس پر سختی سے عمل کرنے کو کہا گیا۔ اس کتاب کی حفاظت ان کے ذمے سونپی گئی۔ انھیں حکم دیا گیا کہ اس کے نفاذ میں کسی قسم کی کوتاہی کے مرتکب نہ ہونا اور اس بارے میں ہرگز احساس کمتری کا شکار نہ ہونا۔ارشاد ربانی ہے:

ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔ سارے نبی جو مسلم تھے۔ اسی کے مطابق ان یہودیوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے‘ اور اسی طرح ربانی اور احبار بھی (اسی پر فیصلے کا مدار رکھتے تھے)‘ کیونکہ انھیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنایاگیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے۔ پس (اے گروہِ یہود) تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو ذرا ذرا سے معاوضے لے کر بیچنا چھوڑ دو۔ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔ (المائدہ ۵:۴۴)

ہم نے موسٰی ؑکو ہر شعبۂ زندگی کے متعلق نصیحت اور واضح ہدایت تختیوں پر لکھ کر دے دی۔ اور اس سے کہا ان ہدایات کو مضبوط ہاتھوں سے سنبھال اور اپنی قوم کو حکم دے کہ ان کے بہتر مفہوم کی پیروی کریں۔ (الاعراف ۷:۱۴۵)

یاد کرو وہ وقت‘ جب ہم نے طور کو تم پر اٹھا کر تم سے پختہ عہد لیا تھا اور کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمھیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھامنا اور جو احکام و ہدایات اس میں درج ہیں انھیں یاد رکھنا۔ اسی ذریعے سے توقع کی جاسکتی ہے کہ تم تقویٰ کی روش پر  چل سکو گے۔ (البقرہ ۲:۶۳-۶۴)

تورات صرف اخلاقی اور معاشرتی احکام کا ضابطہ ہی نہیں تھی بلکہ اس میں فوج داری جرائم کی سزائیں بھی بیان کی گئیں‘ اور جو لوگ معاشرے کا امن و امان برباد کریں‘ ان کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئی تھیں۔ ارشاد ہوا:

تورات میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان‘ آنکھ کے بدلے آنکھ‘ ناک کے بدلے ناک‘ کان کے بدلے کان‘ دانت کے بدلے دانت اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ۔ پھر جو قصاص کا صدقہ کردے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔ (المائدہ ۵:۴۵)

موجودہ محرف تورات میں بھی یہ حکم ان الفاظ میں پایا جاتا ہے:

اگر وہ اس صدمے سے ہلاک ہوجائے تو تو.ُ جان کے بدلے میں جان لے اور آنکھ کے بدلے میں آنکھ‘ دانت کے بدلے دانت اور ہاتھ کے بدلے ہاتھ‘ پائوں کے بدلے پائوں‘ جلانے کے بدلے جلانا‘ زخم کے بدلے زخم اور چوٹ کے بدلے چوٹ۔ (خروج ۲۱:۲۳-۲۵)

آسمانی کتاب زبور حضرت دائود علیہ السلام پر اُتری۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے دائود کو زبور دی (النساء ۴:۱۶۲)۔ زبور خدا کی حمدوثنا‘ انسان کی عبدیت‘ پندونصائح اور بصائر و حکم کے مضامین کا مجموعہ تھی۔ مولانا مودودی فرماتے ہیں کہ ’’موجودہ بائبل میں زبور کے نام سے جو کتاب پائی جاتی ہے وہ ساری کی ساری زبورِ داؤد نہیں۔ اس میں بکثرت مزامیر دوسرے لوگوں کے بھی بھر دیے گئے ہیں اور وہ اپنے اپنے مصنفین کی طرف منسوب ہیں۔ البتہ جن مزامیر پر تصریح ہے کہ وہ حضرت دائود ؑکے ہیں ان کے اندر فی الواقع کلامِ حق کی روشنی محسوس ہوتی ہے‘‘ (تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ص ۴۲۴)۔ اس طرح یہ کتاب بھی حکمت کے موتیوں سے بھری ہوئی تھی اور اپنے وقت کے لوگوں کے لیے روشنی کا مینار تھی۔

تورات اور زبور کے بعد بنی اسرائیل کے آخری نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل نازل ہوئی۔ اس کی رو سے تورات کے تمام احکام سچے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انجیل میں رہنمائی‘ ہدایت‘ نصیحت اور روشنی کے احکام دیے۔ اللہ کے نیک بندوں کے لیے یہ نیا اور تازہ نور کا سرچشمہ تھا جس سے یہ لوگ سیراب اور فیض یاب ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انجیل کے نازل کرنے کا مقصد بھی اس کے احکامات کا نفاذ اور تعمیل ہی بتایا۔ اہلِ انجیل کو حکم دیا گیا کہ جو قوانین اس میں موجود ہیں‘ ان کے مطابق فیصلہ کرو۔ اگر ایسا نہ کروگے توفاسق اورنافرماں بن جائو گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

پھر ہم نے ان پیغمبروں کے بعد مریمؑ کے بیٹے عیسٰی ؑکو بھیجا۔ تورات میں جو کچھ ان کے سامنے موجود تھا وہ اس کی تصدیق کرنے والا تھا۔ اور ہم نے اس کو انجیل عطا کی جس میں رہنمائی اور روشنی تھی اور وہ بھی تورات میں سے جو کچھ اس وقت موجود تھا اس کی تصدیق کرنے والی تھی اور خدا ترس لوگوں کے لیے سراسر ہدایت اور نصیحت تھی۔ ہمارا حکم تھا کہ اہلِ انجیل اس قانون کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے اس میں نازل کیا ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں۔ (المائدہ ۵: ۴۶-۴۷)

آخر وہ زمانہ آیا جس کے لیے قرآن حکیم کی ضرورت تھی۔ یہ اللہ کی وہ آخری کتاب ہے جو تمام سابقہ کتب آسمانی کی تصدیق کرنے والی اور ان کی محافظ و نگہبان ہے۔ اس میں نہ صرف سابقہ آسمانی کتب کے حقائق اور اصل عبادات کو جمع کردیا گیا ہے بلکہ قیامت تک کے لیے انسانی ضرورت اور فطرت کے وہ تمام اصول و احکام یک جا کردیے گئے ہیں جواصلاح انسانی اور تہذیب و تمدن کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی برحق تعلیمات کو قرآن حکیم میں جمع اور محفوظ کردیا‘ اور یوں نوعِ انسانی کی بھلائی کے لیے الہامی تعلیمات ضائع ہونے سے بچ گئیں۔ اب ربِ کائنات اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کے ان محفوظ‘ روشن‘ نادر اور فلاح انسانی کے لیے بہتر اور کارآمد اصولوں اور احکامات پر عمل کیا جائے۔ اس بھولے ہوئے سبق کو آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے یوں یاد دلایا گیا:

پھر اے نبی، ہم نے تمھاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اس کی تصدیق کرنے والی اوراس کی محافظ و نگہبان ہے۔ لہٰذا تم خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کافیصلہ کرو اور جو حق تمھارے پاس آیا ہے اس سے منہ موڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہم نے تم (انسانوں) میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہِ عمل مقرر کی۔ اگرچہ تمھارا خدا چاہتا تو تم سب کو ایک اُمت بھی بنا سکتا تھا‘ لیکن اس نے یہ اس لیے کیا کہ جو کچھ اس نے تم لوگوں کو دیا ہے اس میں تمھاری آزمایش کرے۔ لہٰذا بھلائیوں میں ایک دوسرے

سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ آخرکار تم سب کو خدا کی طرف پلٹ کر جانا ہے‘ پھر وہ تمھیں اصل حقیقت بتا دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے ہو___ پس اے نبی‘ تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہوشیار رہو یہ لوگ تم کو فتنے میں ڈال کر  اس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو خدا نے تمھاری طرف نازل کی ہے۔ پھر اگر یہ اس سے منہ موڑیں تو جان لو کہ اللہ نے ان کو مبتلاے مصیبت کرنے کا ارادہ ہی کرلیا ہے ‘اور یہ حقیقت ہے کہ ان لوگوں میںسے اکثر فاسق ہیں۔ (اگر یہ خدا کے قانون سے منہ موڑتے ہیں) تو کیا پھر جاہلیت کافیصلہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہوسکتا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بنائو‘ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انھی میں ہے‘ یقینا اللہ ظالموں کو اپنی صفائی سے محروم کردیتا ہے۔ (المائدہ ۵:۴۸-۵۱)

نفاذ کی اھمیت

مولانا مودودی خدا کے قوانین کو چھوڑ کر انسانوں کے بنائے قوانین کو اختیار کرنے کو ایک بہت بڑا مجرمانہ فعل گردانتے ہیں۔ سورئہ مائدہ کی مذکورہ بالا آیات میں اس کی شدید مذمت کی گئی ہے اور ان سے انحراف اور اعراض اللہ سے بغاوت‘ معاشرے پر ظلم اور انسانوں کے لیے سراسر خسارے کاسودا ہے۔

مولانا لکھتے ہیں: ’’یہاں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے حق میں جو خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں‘ تین حکم ثابت کیے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ کافر ہیں‘ دوسرے یہ کہ وہ ظالم ہیں‘ تیسرے یہ کہ وہ فاسق ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو انسان خدا کے حکم اور اس کے نازل کردہ قانون کو چھوڑ کر اپنے یا دوسرے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین پر فیصلہ کرتا ہے‘ وہ دراصل تین بڑے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔ اوّلاً: اس کا یہ فعل حکم خداوندی کے انکار کے ہم معنی ہے اور   یہ کفر ہے۔ ثانیاً: اس کا یہ فعل عدل و انصاف کے خلاف ہے‘ کیونکہ ٹھیک ٹھیک عدل کے مطابق جو حکم ہوسکتا تھا وہ تو خدا نے دے دیا تھا‘ اس لیے جب خدا کے حکم سے ہٹ کر اس نے فیصلہ کیا تو ظلم کیا۔ ثالثاً: یہ کہ بندہ ہونے کے باوجود جب اس نے اپنے مالک کے قانون سے منحرف ہوکر اپنا یا کسی دوسرے کاقانون نافذ کیا تو درحقیقت بندگی و طاعت کے دائرے سے باہر قدم نکالا اور یہی فسق ہے۔ یہ کفر اور ظلم اور فسق اپنی نوعیت کے اعتبار سے لازماً انحراف از حکمِ خداوندی کی عین حقیقت میںداخل ہیں۔ ممکن نہیں ہے کہ جہاں وہ انحراف موجود ہو وہاں یہ تینوں چیزیں موجود نہ ہوں۔ البتہ جس طرح انحراف کے درجات و مراتب میں فرق ہے اسی طرح ان تینوں چیزوں کے مراتب میں بھی فرق ہے۔ جو شخص حکمِ الٰہی کے خلاف اس بنا پر فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کو غلط اور اپنے یا کسی دوسرے انسان کے حکم کو صحیح سمجھتا ہے وہ مکمل کافر اور ظالم اور فاسق ہے‘ اور جو اعتقاداً حکم الٰہی کو برحق سمجھتا ہے مگر عملاً اس کے خلاف فیصلہ کرتا ہے وہ اگرچہ خارج از ملت تو نہیں ہے مگر اپنے ایمان کو کفر‘ ظلم اور فسق سے مخلوط کر رہا ہے۔ اسی طرح جس نے تمام معاملات میں حکمِ الٰہی سے انحراف اختیار کرلیا ہے وہ تمام معاملات میں کافر‘ ظالم اور فاسق ہے‘ اور جو بعض معاملات میں مطیع اور بعض میں منحرف ہے اس کی زندگی میں ایمان و اسلام اور کفر و ظلم کی آمیزش ٹھیک ٹھیک اسی تناسب کے ساتھ ہے‘ جس تناسب کے ساتھ اس نے اطاعت و انحراف کو ملا رکھا ہے۔

 بعض اہلِ تفسیر نے ان آیات کو اہلِ کتاب کے ساتھ مخصوص قرار دینے کی کوشش کی ہے مگر کلامِ الٰہی کے الفاظ میں اس تاویل کے لیے کوئی گنجایش موجود نہیں۔ اس تاویل کا بہترین جواب وہ ہے جو حضرت حذیفہؓ نے دیا ہے۔ ان سے کسی نے کہا کہ یہ تینوں آیتیں تو بنی اسرائیل کے حق میں ہیں۔ کہنے والے کا مطلب یہ تھا کہ یہودیوں میں سے جس نے خدا کے نازل کردہ حکم کے خلاف فیصلہ کیا وہی کافر‘ وہی ظالم اور وہی فاسق ہے۔ اس پر حضرت حذیفہؓ نے فرمایا: کتنے اچھے بھائی ہیں تمھارے لیے یہ بنی اسرائیل کہ کڑوا کڑوا سب ان کے لیے اور میٹھا میٹھا سب تمھارے لیے۔ ہرگز نہیں‘ خدا کی قسم تم انھی کے طریقے پر قدم بقدم چلو گے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ ص۴۷۵- ۴۷۶)

قرآنی احکام کے نفاذ کی اہمیت بتاتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی تدبر قرآن میں لکھتے ہیں: ’’ان آیات میں اللہ کے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرنے کا یہ مضمون تین مرتبہ بیان ہوا۔ یہ اگرچہ ہے تو یہود و نصاریٰ سے متعلق لیکن اگر یہ جرم مسلمانوں کے کسی گروہ سے صادر ہو کہ وہ  اختیار و آزادی رکھتے ہوئے کتابِ الٰہی کے مطابق معاملات کا فیصلہ نہ کریں بلکہ علی الاعلان اس سے انحراف اختیار کریں‘ جس کی شہادت ہر مسلمان ملک میں موجود ہے تو ان کا حکم بھی یہی ہوگا کیونکہ  خدا کا قانون سب کے لیے ایک ہی ہے۔ کتابِ الٰہی کا مقصد یہی ہے کہ وہ زندگی کے معاملات و نزاعات میں امروحکم اور فیصلہ و قضا کا ذریعہ بنے اور تمام اجتماعی و سیاسی اور قانونی معاملات اس کی روشنی میں انجام پائیں۔ اگر کتابِ الٰہی کی یہ حیثیت تسلیم نہ کی جائے تو یہ اس کے ساتھ مذاق ہے‘‘۔

مفتی محمد شفیع اس حوالے سے لکھتے ہیں: ’’ان آیات میں یہود کو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قانون کے خلاف اپنا قانون جاری کرنے پر سخت تنبیہہ فرمائی اور ایسا کرنے والوں کو کافر اور ظالم قرار دیا۔ اس کے بعد تیسری آیت میں اہلِ انجیل و نصاریٰ کو اسی مضمون کا خطاب فرما کر اللہ کے نازل کیے ہوئے قانون کے خلاف کوئی قانون جاری کرنے پر سخت تنبیہہ فرمائی‘ اور ایسا کرنے والوں کو سرکش و نافرمان قرار دیا۔ اس کے بعد جن آیات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب بنا کر مسلمانوں کو اس مضمون کے متعلق ہدایات دی گئیں کہ وہ اہلِ کتاب کی اس بیماری میں مبتلا نہ ہوجائیں کہ جاہ و مال کے لالچ میں اللہ تعالیٰ کے احکام بدلنے لگیں یا اس کے قانون کے خلاف کوئی قانون اپنی طرف سے جاری کرنے لگیں‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج ۳‘ ص ۱۵۴)

حکمت و برکات

سورئہ مائدہ کی ان آیات میں اسلامی قوانین کی فوقیت‘ محاسن‘ اہمیت‘ اکملیت‘ ہمہ گیریت‘ یکسانیت اور اس کے مفید نتائج اور اثرات کو سید قطب شہید نے نہایت ہی علمی اور مدلل انداز میں بیان کیا ہے۔ اس کے ساتھ دنیاوی اور مغربی قوانین کے نقصانات‘ معائب‘ خامیوں اور خرابیوں کا بھی جائزہ لیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی تفسیر فی ظلال القرآن اور دیگر کتب الاسلام و مشکلات الحضارۃ، خصائص التصویر الاسلامی، ھذا الدین اور المستقبل ھذا الدین قابلِ ذکر ہیں۔سیدصاحب کے درج ذیل دلائل قابلِ غور ہیں:

۱- قرآن حکیم یہ واضح کرتا ہے کہ تمام انبیا کے ضابطۂ حیات‘ مذاہب اور ادیان اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جو قوانین نازل کیے تھے ان کے مطابق فیصلہ کرنا اور پوری زندگی پر اس شریعت کی پابندی‘ ان کا نفاذ اور قیام لازمی اور ضروری تھا۔ قرآن حکیم نے اس حکم کو ایمان و کفر‘ اسلام و جاہلیت‘ شریعت اور ہواے نفس کے مابین فیصلہ کن قرار دیاہے۔

۲- اسلامی قانون سازی کی بنیادی اور کلیدی اہمیت یہ بھی ہے کہ یہ نوع انسانی پر اللہ تعالیٰ کی الوہیت‘ ربوبیت‘ مالکیت اور حاکمیت کے اقرار یا انکار کا معاملہ ہے۔

۳- اللہ تعالیٰ اس کائنات کا خالق اور مالک ہے‘ اسی لیے اس نے فرمایا: آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اس کی فرماں روائی اللہ ہی کے لیے ہے (المائدہ ۵:۱۷)۔ پس دراصل اللہ کی اکیلی اور واحد ذات ہی صاحبِ اقتدار‘ فرماں روا اور ذی اقتدار ہے۔ اللہ سبحانہ کے اقرار اور اعتراف کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کی شریعت کے آگے سرتسلیم خم کیا جائے‘ نیز شریعت الٰہی سے انکار یا زندگی کے کسی ایک حصے میں بھی کوئی اور شریعت اور قانون کا نفاذ دراصل اللہ کی الوہیت‘ ربوبیت‘ مالکیت اور اس کے اقتدارِ اعلیٰ کا انکار ہے۔ یہ انکار یا اقرار چاہے زبان سے ہو یا صرف عمل سے‘ دونوں طریقے سے برابر ہے۔ اسی لیے سورئہ مائدہ میں یہ سخت الفاظ استعمال کیے گئے ہیں: ’’جو لوگ اُس (قانون) کے مطابق جو اللہ نے نازل فرمایا ہے‘ فیصلہ نہ کریں۔ وہ نرے کافر ہیں… سرتاسرظالم… اور پکے فاسق (باغی و نافرمان) ہیں‘‘۔

۴- اللہ تعالیٰ کی شریعت انسانی قوانین سے برتر اور افضل ہے۔ قرآن حکیم فرماتا ہے:

وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْماً لِّقَومٍ یُّوْقِنُوْنَ (المائدہ ۵:۵۰) اور اللہ سے بہتر حکم دینے والا اور کون ہوسکتا ہے ان لوگوں کے لیے جو (اس پر) یقین رکھتے ہیں۔

ہر زمانے اور حالات میں اللہ کا قانون اور شریعت ہی بہتر‘ برتر اور اعلیٰ ہے۔ یہی ایمان کا تقاضا ہے۔ جو شخص اس بات کا انکار کرتا ہے وہ گویا اس بات کا دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ اللہ سے زیادہ لوگوں کی ضروریات کا علم رکھتاہے‘ یا وہ دراصل اس بات کا مدعی ہے کہ انسانی تمدن میں ایسے حالات و واقعات رونما ہوگئے ہیں کہ نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ ان سے واقف نہ تھا‘ یا اسے ان حالات کا علم تو تھا مگر ان کے لیے اس نے قوانین وضع نہیں کیے۔ یہ سب باتیں ایمان و اسلام کے منافی ہیں۔

۵- اللہ تعالیٰ کا قانون‘ ضابطہ اور نظام ہر لحاظ سے مکمل‘ کامل اور مطلق عدل پر مبنی ہے۔ اس لیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو اس امر کا پوراپورا علم ہے کہ کامل عدل کس حکم میں ہے۔ وہ سب کا رب ہے اور سب کے ساتھ یکساں عدل کرتا ہے۔ قرآن حکیم کی اس آیت پر غور کیجیے۔ اس میں  عدل کا ایسا بے لاگ اور صحیح حکم پایا جاتا ہے‘ جو صرف اور صرف اللہ کی کتاب ہی میں پایا جاتا ہے‘ اور یہ الہامی ہی ہوسکتا ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور   رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔(النساء ۴: ۱۳۵)

۶- کامل اور پورا عدل انسان کے وضع کردہ کسی نظام میں نہیں پایا جاتا اور نہ پایا ہی جاسکتا ہے‘ کیونکہ اس میں انسانی خواہشات‘ میلانات‘ رجحانات‘ حرص و ہوس‘ افراط و تفریط‘ ذاتی مفادات‘ جہالت‘ کم علمی اور تنگ نظری جیسی انسانی کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔

۷- یہ خدائی اور الہامی قانون ایسا عظیم اور کامل ضابطہ ہے جو پوری کائنات کے قوانین کے ساتھ ہم آہنگ ہے‘ کیونکہ اس نظام کا واضع وہی ہے جو اس کائنات کا صانع و مالک ہے۔ پھر انسان کا صانع بھی وہی ہے۔ جب وہ انسان کے لیے قانون وضع کرے گا تو اس کی حیثیت کائناتی جوہر و عنصر کی ہوگی۔ اسی طرح انسان کے اعمال و حرکات اور کائنات کی حرکات و سکنات میں     ہم آہنگی ہوجائے گی۔ یوں شریعت الٰہی کائناتی رنگ اختیار کرے گی۔ درحقیقت انسان کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ ایک صحیح محکم نظام کے تحت اس کائنات کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کرے۔

۸- یہ صرف تنہا اور اکیلا اللہ تعالیٰ ہی کا نظامِ شریعت ہے جو انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دلاتا ہے۔ اسلامی نظام کے علاوہ ہر نظام میں انسان انسان کی بندگی کرتا ہے اور انسان انسان کابندہ اور غلام بنتا ہے۔ صرف الٰہی نظام میں بنی نوع انسان بندوں کی غلامی سے آزاد ہوکر خداے وحدہٗ لاشریک کی بندگی اختیار کرتا ہے۔

الوہیت کی سب سے اہم خصوصیت حاکمیت (sovereignty) ہے‘ جو شخص کسی انسانی گروہ کے لیے قانون سازی کرتا ہے وہ ان کے درمیان خدائی کے مقام پر فائز ہوجاتا ہے اور خدائی خصوصیات سے متصف ہونے کا دعویٰ کرتاہے۔ وہ گروہِ خدا کا نہیں بلکہ اس کا بندہ ہوتا ہے اور خدا کے دین کانہیں اُس انسان کے دین کا پیرو ہوتا ہے۔

۹- جاہلیت کسی دور‘ تاریخ یا زمانے کا نام نہیں‘ بلکہ یہ اس حالت نظام اور قانون کا نام ہے جس میں جاہلیت کی خصوصیات پائی جائیں‘ چاہے یہ ماضی میں ہو یا حال میں یا مستقبل میں۔ جاہلیت کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ احکام اور قانون سازی میں خدائی نظام اور زندگی کے لیے خدائی شریعت کی طرف رجوع کرنے کے بجاے انسانی خواہشات و میلانات کی طرف رجوع کیا جائے۔ یہ خواہشات کسی فرد کی ہوں‘ کسی طبقے کی ہوں‘ کسی قوم کی ہوں یا ایک دور کے سب انسانوں کی‘ سب کی حیثیت یکساں ہے۔ جب تک کہ خدائی احکام اور شریعت کی طرف رجوع نہ کیا جائے تو اس کے سوا باقی سب ہوا و ہوس‘ خواہشات و میلانات اور جاہلیت و بے علمی ہے۔

۱۰- افراد‘ گروہوں‘ جماعتوں‘ قوموں اور سب ادوار کے انسانوں کا خالق سب کے لیے قانون وضع کرتا ہے۔ یہ اللہ کی شریعت ہے۔ اس میں کسی شخص کو نقصان پہنچا کر کسی فرد‘ جماعت‘ حکومت یا کسی دور کے انسانوں کے لیے کوئی رعایت نہیں۔ اللہ سب انسانوں کا رب ہے۔ اس کی نظر میں سب برابر ہیں۔ اُسے سب کی حقیقت اور سب کے مفادات و مصالح کا پورا علم ہے۔ اس لیے وہ سب کے مفادات کا صحیح صحیح خیال رکھے گا۔

اللہ انسانوں کے لیے قانون وضع کرتا ہے تو اس طرح سب انسان حریت و آزادی اور مساوی حیثیت کے مالک ہوجاتے ہیں۔ وہ اللہ کے سوا کسی کے آگے سر نہیں جھکاتے اور اللہ کے سوا کسی کی بندگی و عبادت نہیں کرتے۔

پس سورئہ مائدہ کی ان آیات میں اس اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ یہ عقیدے کا سب سے اہم نازک‘ عظیم اور بنیادی مسئلہ ہے۔ یہ انسانی حریت و مساوات کا مسئلہ ہے۔ یہ انسان کی آزادی اور اس کے پیدایشی حق کا مسئلہ ہے اور بالآخر کفر و ایمان اور اسلام اور جاہلیت کا مسئلہ ہے۔ قرآن حکیم نے ایک اور مقام پر اس مسئلے کی عظمت و اہمیت ان الفاظ میں اجاگر کی ہے:

اور حق اگر ان کی خواہشات کے پیچھے چلتا تو زمین اور آسمان اور ان کی ساری آبادی کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ (المومنون ۲۳:۷۱)

اللہ کے نازل کردہ احکام کو چھوڑ کر دوسرے قوانین سے فیصلہ کرنے کا نتیجہ شروفساد‘ جہالت و گمراہی اور بالآخر ایمان کے دائرے سے خارج ہونا ہے۔ یہی قرآنی آیات کا صریح مفہوم ہے۔

 

موجودہ صدی میں انسان جہاں دوسرے مسائل سے دوچار ہے وہاں اس کا سب سے بڑا مسئلہ ماحولیاتی اخلاقیات کا بھی ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں اس مسئلے نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اقوام متحدہ سے لے کردنیا بھر کی تمام حکومتوں‘ حتیٰ کہ افراد نے بھی اس اہم مسئلے پر غوروفکر شروع کر دیا ہے۔

ایک زمانے میں درخت کاٹنا کوئی جرم نہ تھا لیکن موجودہ دور میں درخت کاٹنا جرم ہے۔ جب ہم جرم کی بات کرتے ہیں تو دوسرے الفاظ میں ہم اخلاقیات کی بات کرتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ خیر کا تنزل‘ شر ہے۔ اسی طرح اخلاقیات کا تنزل‘ جرم ہے۔ کوئی بھی عمل اس وقت جرائم کی فہرست میں شامل ہوتا ہے جب وہ انسانی زندگی کے لیے نقصان دہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ درخت کاٹنا جرم میں شامل ہے کیونکہ درخت انسانی زندگی کے لیے صحت مند ماحول پیدا کرتے ہیں۔ وہ فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرکے آکسیجن کو خارج کرتے ہیں جو کہ زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے۔ یوں ماحولیاتی اخلاقیات اور اس کائنات میں پائی جانے والی ہر جان دار شے کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اگرچہ موجودہ صدی میں آلودگی کا شعور بیدار ہوچکا ہے لیکن اب بھی ہم اس کے اصل اسباب کے ادراک سے گریزاں ہیں۔ یہ ذمہ داری صرف حکومت پر نہیں بلکہ پورے معاشرے اور ہر فرد پر عائد ہوتی ہے۔ اس سے قبل کہ ان اسباب کی تلاش کی جائے جو ماحولیاتی اخلاقیات پر اثر انداز ہوتے ہیں‘ مناسب ہے کہ موجودہ دور میں انسانی زندگی کے حقیقی چہرے سے پردہ اٹھایا جائے۔

سائنسی ترقی اور اضطراب

مغرب سے لے کر مشرق تک کہیں بھی نگاہ ڈالیے‘ انسانی زندگی اضطراب کا شکار ہے۔ سائنسی ترقی نے دنیا کو سمیٹ کر ایک بڑے کمرے میں تبدیل کر دیا ہے۔ انٹرنیٹ نے انسانی زندگی میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ مگر یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ سائنسی ترقی کے عروج کے ساتھ ساتھ روحانی ترقی کا گراف گرگیا ہے۔ اخلاقی اقدار میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ انسان دوسروں کے حقوق اور اپنے فرائض سے غافل ہوگیا ہے۔ اس ترقی کے نتیجے میں انسانی خواہشوں کا ایک سیلاب اُمنڈ آیا ہے۔ صنعت نے ان خواہشوں کے مطابق نئی مصنوعات کے انبار لگا دیے ہیں۔ زمین جو اپنا سینہ چیر کر انسان کے لیے اللہ رب العزت کی نعمتوں کے خزانے باہر پھینکتی ہے وہاں  بلندوبالا عمارتوں نے نیزوں کی طرح زمین کے سینے کو چیر کر بڑے بڑے شہر بسا دیے ہیں۔ خواہشات سے بھرے دل و دماغ دن رات ان شہروں میں خرید و فروخت میں مصروف ہیں اور  اپنے مقصد حیات سے دور ہوتے جار ہے ہیں۔ بازار بڑھتے جا رہے ہیں۔ مکانات اور گاڑیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ انسان یہ بھول رہا ہے کہ وہ کیا کھو کر‘ کیا پا رہا ہے۔ اپنے گھرکے کوڑا کرکٹ کو اٹھا کر دوسرے کے گھر کے سامنے پھینک دیتا ہے۔ بازاروں میں گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ اس سے نہ صرف فضا کو نقصان پہنچا بلکہ زمین نے بھی اپنے سینے کو بند کر دیا ۔ دوعشرے پہلے تک زمین نے اپنا سینہ انسان کے لیے کھول رکھا تھا۔ وہ انسان کی صحت مند زندگی کے لیے پھل اور اناج کے ڈھیر لگا رہی تھی۔

شہروں کی ہوا کارخانوں اور گاڑیوں کے دھوئیں سے زہر آلود ہورہی ہے۔ کارخانوںکے فضلات اور انسانی غلاظت سے ندیوں کا پانی زہر آلود ہورہا ہے۔ درختوں کی کٹائی سے زمین کے درجہ حرارت میں روز بروزاضافہ ہورہا ہے۔ جدید تحقیقات کے مطابق جس دن زمین کا درجہ حرارت مزید تین ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ جائے گا‘ گلیشیرپگھل جائیں گے‘ زمین بنجر ہو جائے گی اور سمندر کے ساحلی علاقے غرقاب ہوجائیں گے۔ یوں انسان اللہ رب العزت کے ان خزانوں سے محروم ہوجائے گا جو زمین دن رات اپنا سینہ پھاڑ کر اُگلتی ہے۔

قرآن پاک میں ارشاد خدا وندی ہے:

ان لوگوں کے لیے بے جان زمین ایک نشانی ہے۔ ہم نے اُس کو زندگی بخشی اور اس سے غلہ نکالا جسے یہ کھاتے ہیں۔ ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کیے اور اس کے اندر سے چشمے پھوڑ نکالے‘ تاکہ یہ اس کے پھل کھائیں۔ یہ سب کچھ ان کے اپنے ہاتھوں کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے۔ پھر کیا یہ شکر ادا نہیں کرتے؟ (یٰسٓ ۳۶: ۳۲-۳۵)

اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ آیت انسان سے ماحولیاتی اخلاقیات کا بھی تقاضا کرتی ہے۔

ماحولیاتی فساد

زمین کے اوپر اللہ رب العزت نے اوزون گیس کا ایک حفاظتی غلاف بنا رکھا ہے۔ اس کا کام سورج کی روشنی میں موجود الڑاوائلٹ شعاعوں کے مضر صحت اثرات سے محفوظ رکھنا ہے۔ یہ ان شعاعوں کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے اور انھیں زمین تک نہیں پہنچنے دیتا۔ یہ بھی جگہ جگہ سے پھٹ گیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان شعاعوں کی وجہ سے ہر سال کینسر جیسے موذی مرض میں ۱۰ ہزار افراد کا اضافہ ہو تا ہے۔ کیمیائی کھادوں اور جراثیم کُش ادویات کے استعمال سے سبزیوں اور پھلوں کے رگ و ریشوں میں بھی زہر سرایت کرتا جارہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پورا کرۂ ارض ایک بھیانک ماحولیاتی فساد کی گرفت میں آچکا ہے جس کے ختم ہونے کی اُمید دور دور تک نظر نہیں آتی۔

یہ صورت حال ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے مضر اثرات سے بھی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد بھی زندگی کے کچھ آثار باقی رہ جاتے ہیں لیکن یہ ماحولیاتی فساد ایک ایسا تیزاب ہے جو زندگی کے رگ و پے میں آہستہ آہستہ سرایت کر کے اُسے  اندر ہی اندر ہلاک کرتا جارہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو انسان ایٹمی ہتھیاروں کو استعمال کیے بغیر خود اپنے ہی ہاتھوں نیست و نابود ہو جائے گا۔ اس کے مضر اثرات سے بے خبر انسان بجاے شجرکاری کرنے کے جنگلات کاٹے جا رہا ہے۔ کسی ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اُس ملک کے کُل رقبے کا ۲۵ فی صد حصہ جنگلات پر مشتمل ہو۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سرکاری اعدادو شمارکے مطابق پاکستان کے کُل رقبے کا چار فی صد علاقہ جنگلات پر مشتمل ہے۔ شاید زمینی حقائق اس سے مختلف ہوں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جنگلات کاٹنے کے خلاف قوانین بنائے جائیں‘ اور ان کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔ مگر تمام ترحکمت عملی مسئلے کے ظاہری آثار و مظاہر تک محدود ہے۔ مسئلے کے اصل حل تک پہنچنے کا کوئی شعور و احساس کہیں نظر نہیں آتا۔ روز بروز گاڑیوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے فضا میں دھوئیں کا اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے کلوروفلورو کاربن کے ذرات میں اضافہ ہورہا ہے‘ جو بیرونی فضا میں موجودہ اوزون میں شگاف کا باعث بنتے ہیں۔ کارخانوں کے آلودہ فضلات کے اخراج سے نہ صرف فضائی آلودگی بلکہ آبی آلودگی میں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔

ماحولیاتی اخلاقیات اور ماحولیاتی تحفظ کا تعلق ٹکنالوجی سے زیادہ انسانی رویے، خارج سے زیادہ باطن اور جسم سے زیادہ روح سے ہے۔ یہ سارا فساد اُس مادیت پسندی کا نتیجہ ہے جو خدا اور مذہب سے کٹ جانے کے بعد انسان کا مقدر بن چکی ہے۔ لہٰذا اس فساد کی روک تھام کسی بھی مادی حکمت عملی سے ممکن نہیں۔ اس کا اصل حل تب ہی ممکن ہے جب انسان اپنا تعلق ایک ہمہ وقت حاضر و ناظر رہنے والی ذات‘ یعنی اللہ رب العزت سے جوڑے اور اس کا احساس پیدا کرے تاکہ ہلاکت خیز حرکتوں پر قابو پا سکے۔ دین اسلام میں عبادات سے زیادہ حقوق العباد پرزور دیا گیا ہے۔ دیکھا جائے تو عبادات بھی در اصل معاملات ہی ہیں۔ یوں انسان ساری عمردوسرے کے حقوق اور فرائض میں ہی گزارتا ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی کا خود تجزیہ کریں تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ماحولیاتی اخلاقیات کا تعلق خارجی سے زیادہ داخلی ہے۔

فکرجدید کے اثرات

موجودہ ماحولیاتی بحران کی فکری جڑیں یورپ کے اس ذہنی رویے میں تلاش کی جاسکتی ہیں جس نے انسان کو کائنات کی تمام مخلوقات کا مرکز اور محور قرار دیا اور تمام ذرائع علم کو نظر انداز کر کے صرف عقل انسانی کو علم کا واحد ماخذ اور سر چشمہ قرار دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علم و عقل اور انسان و کائنات کے اس تصور میں کائنات سے ماورا خالق اور رب العزت کے وجود کا کوئی خانہ نہیں تھا۔ چنانچہ حقیقت کا تصور اس حد تک محدود ہو کر رہ گیا کہ حقیقت وہی ہے جو حواس کے ذریعے جانی جاسکتی ہے اور عقل کے ذریعے ثابت کی جاسکتی ہے‘ یعنی حواس کے دائرۂ علم اور عقل کے   دائرۂ تصدیق سے باہر کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ حقیقت خالص مادی حقیقت تھی۔

عقل پرستی کا یہ رویہ اچانک ظہور پذیر نہیں ہوا۔ اس کے لیے مغربی فکر و فلفسہ گذشتہ تین چار سو سال سے زمین ہموار کر رہا تھا۔ اس کاآغاز مغرب میں احیاے علوم یا نشات ثانیہ کی تحریک سے ہوا جس کے زیر اثر قدیم یونان کے عقلی علوم کو ازسرنو زندہ کیا گیا اور آہستہ آہستہ انسان کے اس تصور کو استحکام حاصل ہوا جو آپ اپنی منزل اور مقصد تھا۔

اس تحریک ہی نے اُس سائنسی انقلاب کی راہ ہموار کی جو ۱۷ویں صدی میں جدید مغربی فکر و فلسفے کے بانی دیکارت کے محور پر قائم تھی۔ دیکارت نے ایک ایسی مشینی کائنات کا تصور پیش کیا جس میں کسی مابعد الطبیعیاتی عامل کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ اسی دوران گلیلیو اور کیپلر ایک ایسی فلکیات کی بنیاد ڈال چکے تھے جو خالصتاً مادی تھی۔ ان تصورات کی وجہ سے بڑے خوف ناک نتائج برآمد ہوئے اور کائنات کے تقدس کا تصور منہدم ہوگیا جس نے اب تک انسان اور کائنات کے درمیان ایک گہرا قریبی رشتہ قائم کر رکھا تھا۔

یہی وہ زمانہ ہے جب فرانسس بیکن نے علم کا ایک ایسا تصور پیش کیا جس نے علم، انسان اور فطرت کے رشتوں کو بالکل ختم کر دیا۔ اُس کا کہنا تھا کہ علم یا سائنس قوت ہے۔ اس سادہ جملے میں کیا کیا قباحتیں تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت یورپ میں ابھرنے والے نئے سرمایہ دار بورژوا طبقے نے اُسے اپنا بنیادی عقیدہ اور نعرہ جنگ بنا لیا۔

اس طرح ایک ایسی کائنات معرض وجود میں آئی جہاں کائنات خدا سے خالی تھی اور زمین پرانسان نے خدا سے بغاوت کر کے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا تھا۔ عقل انسان کی سب سے بڑی رہنما تھی اور اس کے دل میں موجزن مادی خواہشات اس کا بنیادی محرک تھیں اور فطرت پر قبضہ، اس کا استحصال اور اس کے نتیجے میں غلبہ و تسلط اس کا نصب العین تھا۔ پھر صنعتی انقلاب شروع ہوا جس نے مصنوعات کے ڈھیر لگا دیے۔ جب یہ مسئلہ مزید آگے بڑھا تو صنعتوں کو خام مال اور اپنی پیداوار کی کھپت کے لیے بازاروں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس کے لیے نو آبادیات کا راستہ اختیار کیا گیا اور ایشیا و افریقہ کے ممالک یورپی طاقتوں کے زیر اقتدار آگئے۔

اگر اس ساری بحث کا عمیق جائزہ لیا جائے تو گذشتہ تین صدیوں کے دوران انسان کا فکری ارتقا باطن سے خارج کی طرف ہوا ہے جس کے نتیجے میں انسان نے اپنے روحانی مرکز سے ناتا توڑ کر اپنے لیے ایک خود مختار مادی اقتدار کے قیام کا اعلان کیا۔ یوں وہ ایک طرف کائنات کی فراخی میں گم ہو کر تنہا ہوتا چلا گیا تو دوسری طرف اس نے ساری کائنات دیگر مخلوقات اور خود انسانوں کو اپنا غلام اور ماتحت بنانے کی مہم چھیڑ دی۔

اسلام کا نقطۂ نظر

یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے ماحولیاتی اخلاقیات کے بحران کو اسلامی تصور حیات کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ آئیے ذرا تفصیل سے دیکھیں کہ قرآن پاک اور سیرتِ رسول ؐ (جو وحی الٰہی کا آئینہ عمل ہے) میں انسان، کائنات، فطرت اور ان کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ہے۔

قرآن پاک میںارشاد خداوندی ہے کہ کائنات اور اس کی ہر چیز ایک خاص انداز پر،  ایک نظم و ترتیب اور توازن و تناسب کے ساتھ اور ایک خاص میزان پربنائی گئی ہے۔ یہ انسان کی ذمہ داری ہے کہ اس توازن کو برقرار رکھے۔

ارشاد خداوندی ہے :

آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کردی۔(الرحمٰن۵۵:۷)

ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور اس دنیا کو جو اُن کے درمیان ہے‘ فضول پیدا نہیں کر دیا ہے۔ یہ تو اُن لوگوں کا  گمان ہے جنھوں نے کفرکیا ہے‘ اور ایسے کافروں کے لیے بربادی ہے جہنم کی آگ سے۔(صٓ ۳۸:۲۷)

یہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزیں ہم نے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنا دی ہیں۔ ان کو ہم نے برحق پیدا کیا ہے‘ مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ (الدخان۴۴:۳۸-۳۹)

ہم نے تمھیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا اور تمھارے لیے یہاں سامانِ زیست فراہم کیا‘ مگر تم لوگ کم ہی شکرگزار ہوتے ہو۔(الاعراف۷:۱۰)

جس نے تہہ بہ تہہ سات آسمان بنائے۔ تم رحمن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پائو گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو‘ کہیں تمھیں خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑائو۔ تمھاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی۔(الملک ۶۷:۳-۴)

یوں قرآن پاک نے ایک ایسی کائنات کا تصور پیش کیا جو ہر لحاظ سے توازن و ترتیب سے معرض وجود میں آئی۔ یہ کائنات محض کھیل تماشا نہیں بلکہ حق کے ساتھ بنائی گئی۔ اس کی تخلیق کا ایک مقصد ہے۔ یہ کائنات انسانوں کے لیے بنائی گئی‘ نہ کہ انسان کائنات کے لیے بنایا گیا ہے۔ اب اس کی حفاظت کرنا اور اس کی ترتیب کو برقرار رکھنا انسان کا اخلاقی فریضہ ہے۔ اس میں نشانیاں اس کے خالق کی ہیں تاکہ عقل مند لوگ اس پر غور و فکر کریں ۔ قرآن پاک کی ۷۵۶ آیات مظاہر فطرت کے مطالعے پرزور دے رہی ہیں۔ تمام مخلوقات کو پیدا کرنے کا بنیادی مقصد اللہ رب العزت کی عبادت اور دوسری کی بھلائی ہے۔ قرآن پاک میں کچھ ایسے لوگوں کو بھی ذکر ہے جنھوں نے اللہ کو اپنا رب تو نہیں مانا مگر انسانیت کی بھلائی کے لیے کام کیا ہے۔ اسی بھلائی کو بنیاد بنا کر ان کا     نام قرآن پاک میں شامل کیا گیا ہے۔ انھیں دوسرے لوگوں کے لیے نمونہ بنایا گیا ہے۔ یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ اس کائنات میں بقاے با ہم کا اصول کار فرماہے۔

اللہ رب العزت نے کائنات میں جتنی مخلوقات پیدا کی ہیں ان میں سے صرف انسان کو شعور کی دولت سے نوازا گیا۔ عقل سلیم کو بنیاد بنا کر اُسے اشرف المخلوقات کا منصب دیا گیا۔ علم کی بنیاد پر نائب کا درجہ دیا گیا۔ اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ ان تمام صلاحیتوں کو بروے کار لا کر کائنات کے اسرار و رموز پر غور و فکر کرے۔ اُسے معلوم ہو جائے گا کہ کائنات کی تمام اشیا ایک  خاص ترتیب سے ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں‘ مثلاً انسان کو سانس لینے کے لیے پودوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ پودوں کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے حصول کے لیے جانوروں اور انسانوں دونوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اگر ایک ایٹم بھی اپنی جگہ چھوڑ دے تو پوری کائنات کا نظام درہم برہم ہوجائے۔

قرآن پاک اور نبی پاکؐ کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان پر فرض ہے کہ وہ کائنات کے اسرار و رموز پر غور وفکر کرے‘ اپنے فرائض و حقوق کو جانتے ہوئے خیرو فلاح کا رویہ اختیار کرے۔ یہ دنیا حسین اور ہری بھری ہے‘ اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کا امانت دار بنایا ہے۔ بقول اقبال: محدود معنوں میں انسان بھی خالق ہے۔ کیونکہ کائنات کی تخلیق اللہ رب العزت نے فرمائی مگر اس کی خوب صورتی کو دوبالا کرنے میں انسان بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ اس دنیا میں جتنے بھی قدرتی وسائل ہیں وہ سب اللہ رب العزت نے انسان کو امانت کے طور پر عطا کیے ہیں۔ یہ سب قدرتی وسائل کسی ایک ملک و قوم کی ملکیت نہیں بلکہ دنیا کے تمام انسان حتیٰ کہ دوسری مخلوقات ان میں برابر کی شریک ہیں۔ جو نسل ان وسائل کو استعمال میں لاتی ہے‘ اس کی ذمہ داری ہے کہ ان قدرتی وسائل کے استعمال میں احتیاط سے کام لے کیونکہ یہ قدرتی وسائل آنے والی نسلوں کی امانت ہیں۔ قرآن پاک کے مطابق ان قدرتی وسائل کا استعمال تمام مخلوقات کی بھلائی کے لیے ہونا چاہیے۔

یہی وہ ماحولیاتی اخلاقیات ہے جس کی ذمہ داری ہر فردپر عائد ہوتی ہے۔ لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ وہ فطرت اور قدرتی وسائل کو اس طرح استعمال نہ کرے کہ وہ آیندہ زمانوں اور نسلوں کے لیے باقی نہ رہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اُسے زندگی کی جن نعمتوں اور فطرت کے جن انعامات سے نوازا ہے انھیں صحیح طور استعمال کرے۔ اس کے ساتھ ہی دوسری مخلوقات کو بھی ان سے فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کرے بلکہ زمین میں پائے جانے والے قدرتی وسائل کو مزید ترقی دے‘ اور ان قدرتی وسائل کو زمین کے حسن کو دوبالا کرنے کے لیے بھی استعمال کرے۔ کاشت کاری اور پھل ،پھول وغیرہ کے ذریعے اس کے حُسن کو دوبالا کیا جاسکتا ہے۔

احادیث کی روشنی میں

نبی پاکؐکا رشاد گرامی ہے:’’کوئی مسلمان ایسا نہیں کہ اُس نے کھیتی باڑی کی ہو، درخت لگائے ہوں اور پھر اس کھیتی یا درخت سے پرندے، آدمی یا جانور خوراک حاصل کریں تو یہ اس کے حق میں صدقہ شمار نہ ہو‘‘۔ (بخاری ‘جلد اول‘ مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور ‘ص ۸۰۳)

موجودہ دور میں ماہرین زراعت کے ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک کسان کھیت سے صرف ۴۰ فی صد اناج حاصل کرتا ہے۔ باقی ۶۰ فی صد چرند پرند کھا جاتے ہیں۔یوں انسان کے ساتھ اللہ رب العزت نے دوسری مخلوقات کو بھی حصہ دار بنایا ہے۔ اسی تحقیق کو مد نظر رکھتے ہوئے چین والوں نے مہم چلائی اور اپنے ملک میں تمام چڑیوں کو مار ڈالا۔ اسی سال اُن کی فصل پر ایک ایسے کیڑے نے حملہ کیا جس کو صرف چڑیاں کھاتی تھیں۔اُس نے اُن کی تمام فصل کو تباہ کردیا۔ چنانچہ دوسرے سال چین والوں کو چڑیوں کو واپس لانے کی مہم چلانی پڑی۔

نبی پاکؐکا ارشاد گرامی ہے:’’جس کے پاس کوئی زمین ہے اور وہ خود زراعت نہ کرسکے تو اپنے بھائی کو دے دے‘‘۔(ایضاً)

اس حدیث میں بھائی سے مُراد صرف حقیقی بھائی نہیں بلکہ تمام مسلمان بھائی ہیں۔ اگر حقیقی بھائی کے پاس اپنی زمین ہے تو پھر پڑوسی کو دے دی جائے۔ اگر پڑوسی بھی صاحبِ جایداد ہوتو پھر کسی اور مسلمان بھائی کو دے دی جائے۔ زمین کا اصل مالک اللہ رب العزت ہے جس نے اس کو تخلیق کیا ہے۔ تمام مخلوقات کو پیدا کرنے والا اللہ رب العزت ہے‘ لہٰذا اس زمین پر تمام مخلوقات کا حصہ برابر ہے۔

اِسی سلسلے کی ایک اور حدیث ہے:’’اگر تم میں سے کسی پر آخری وقت آجائے‘ اس حال میں کہ اس کے ہاتھ میں ایک پودا ہو تو وہ پہلے اُسے لگا دے‘‘۔ (ایضاً)

اس حدیث میں درخت لگانے کی اہمیت کو اُجاگر کیا ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا موجودہ دور میں نباتات کا جتنا بھی علم ہے اُس کا خلاصہ اس حدیث میں بیان کردیا گیا ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا کہ ’’ صحرا کے درخت کو مت کاٹو جس سے کسی انسان یا جانور کو رزق یا سایہ حاصل ہوتا ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ)

درج بالااحادیث میں درختوں کی کاشت کی اہمیت کو اُجاگر کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے    کہ درخت دن رات انسان اور دوسری مخلوقات کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ یہ فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کو جذب کرتے ہیں جو انسانی صحت اور دوسری جان دار اشیا کے لیے مضر ہے اور آکسیجن جس کا دوسرا نام زندگی ہے‘ خارج کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اللہ کی حمد و ثنا، بھی بیان کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا میں جو مختلف گیسوں کا آمیزہ ہے‘ تمام گیسوں کو ایک خاص توازن میں رکھا ہوا ہے۔ اس میںنائٹروجن ۷۸فی صد، آکسیجن ۲۱ فی صد اور باقی ایک فی صد ہیں۔ آکسیجن کے اس توازن میںذرّہ بھر کمی ہوجائے تو لمحے بھر میں پوری دنیا کا نظام درہم برہم ہوجائے اور اس کائنات سے زندگی کا نام و نشان مٹ جائے۔ موجودہ دور میں انسان اس توازن کو بگاڑنے میں لگا ہوا ہے۔ گاڑیوں کا دھواں، کارخانوں کے فضلات فضامیں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ میں (جو ایک خطرناک گیس ہے) شب وروز اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ہوا میں قدرتی طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار ۴ء۰ فی صد ہے ‘ جب کہ موجودہ دور میں یہ شرح بڑھ کر چار فی صد ہوگئی ہے۔ درخت بھی ایک خاص مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں۔ یوں فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوا کے توازن کو بگاڑ رہی ہے۔ اس کے علاوہ جب ایک شاپنگ بیگ اٹھا کر باہر کوڑا کرکٹ میں پھینک دیا جاتا ہے تویہ اُس کوڑا کرکٹ میں سلفر ڈائی آکسائیڈ (SO2) گیس پیدا کرتا ہے۔ یہ گیس ہوا میں شامل ہو کر وہاں سے آکسیجن لیتی ہے اور سلفر ٹرائی آکسائیڈ (SO3) میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد ہوا میں شامل آبی بخارات کے ساتھ مل کر سلفیورک ایسڈ پیدا کرتی ہے جو تیزاب ہے۔ یوں انسان تیزاب کی بارش میں زندگی گزار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے جِلدی اِمراض میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ وہ ماحولیاتی اخلاقیات ہے جس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

قرآن پاک میں اللہ رب العزت کی جو صفات بیان کی گئی ہیں‘ ان کے مطابق وہ خالق ہے، ولی ہے، مالک الملک ہے، رزاق ہے، مقیت ہے، حافظ ہے۔ یہ تمام صفات اللہ رب العزت نے انسان کو بھی عطا کی ہیں‘ یعنی انسان اللہ رب العزت کی صفات کا آئینہ دار ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اللہ رب العزت کی صفات لامحدود ہیں‘ جب کہ انسان میں یہ صفات محدود ہیں۔ انسان کا کام ہے کہ وہ ان صفات کو قدرتی ماحول، قدرتی وسائل کے تحفظ اور ان کی بقا اور برقراری کے تحفظ کے لیے استعمال میں لائے کیونکہ انسان زمین پراللہ کا خلیفہ ہے۔ لیکن اس حقیقت کو بھول گیا کہ اُسے اس زمین پر امن کی فضا پیدا کرنی ہے۔ اس کے بجاے وہ زمین پر فساد پھیلانے میں مصروف ہے‘ اس کے توازن کو بگاڑ رہا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے:

خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ہے تاکہ خدا ان کو اُن کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے‘ عجب نہیں کہ وہ باز آجائیں۔ کہہ دو‘ ملک میں چلو پھرو اور دیکھو کہ جو لوگ تم سے پہلے گزرے ہیں ان کا کیا انجام ہوا۔ ان میں زیادہ تر مشرک ہی تھے۔ (الروم ۳۰:۴۱-۴۲)

اس آیت کریمہ میں فسادسے یہ مراد ہے کہ اللہ رب العزت نے انسان کو جو چیزیں، نعمتیں اور قدرتی وسائل بطور امانت بخشے‘ وہ ان کو تباہ و برباد کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ رب العزت نے زندگی گزارنے کے جو طریقے بتلائے اور فطرت کے جو ضابطے مقرر کیے ہیں ان کی خلاف ورزی کرتا اور کائنات کے نظم و ترتیب کو بگاڑتا ہے۔ انسان جب بھی فطرت میں کوئی بگاڑ پیدا کرتا ہے اُس کا نقصان خود انسان ہی کو ہوتا ہے۔ فطرت کا کچھ نقصان نہیں ہوتا۔ ہوا کے توازن میں بگاڑ پیدا ہوگا  تو انسان کو سانس لینے میں دشواری ہوگی۔ فطرت کے لیے کوئی دشواری نہیں ہے۔

چند توجہ طلب امور

قرآن پاک میں متعدد مقامات پر اس بگاڑ اور فساد کی روک تھام کے لیے ہدایات دی گئی ہیں۔ اللہ رب العزت نے ہوا، پانی، زمین، جانوروں اور نباتات کے تحفظ اور سلامتی کی اہمیت اور افادیت کواُجاگر کیا ہے‘ اور انسان کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر وہ اُن کے اندر کوئی بگاڑ پیدا کرے گا تو ان چیزوں کا کوئی نقصان نہ ہوگا بلکہ نقصان بذات خود انسان کو ہوگا۔ چیونٹی ایک چھوٹی سی جان دار شے ہے مگر زمین کی زرخیزی میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔

  •  پانی زندگی ھے: اللہ رب العزت نے پانی کو زندگی کی بنیاد قرار دے کر انسان کو اس کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ ارشاد ربانی ہے:’’ہم نے ہر جان دار کو پانی سے پیدا کیا‘‘۔(الانبیآء ۲۱:۳۰)

اس آیت سے واضح ہوجاتا ہے کہ ہر جان دار کی زندگی کا انحصار پانی پر ہے۔ جدید سائنسی تحقیق نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ انسان کے جسم میں ۷۰ فی صد پانی ہے۔

ارشاد ربانی ہے: ’’اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا‘ پھر اس کے ذریعے سے ہر قسم کی نباتات اُگائی‘ پھر اس سے ہرے ہرے کھیت اور درخت پیدا کیے‘ پھر ان سے تہہ بہ تہہ چڑھے ہوئے دانے نکالے اور کھجور کے شگوفوں سے پھلوں کے گچھے کے گچھے پیدا کیے جو بوجھ کے مارے جھکے پڑتے ہیں‘ اور انگور‘ زیتون اور انار کے باغ لگائے جس کے پھل ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں اور پھر ہر ایک کی خصوصیات جدا جدا بھی ہیں۔ یہ درخت جب پھلتے ہیں تو ان میں پھل آنے اور پھر ان کے پکنے کی کیفیت ذرا غور کی نظر سے دیکھو‘ ان چیزوں میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں‘‘۔(الانعام ۶:۹۹)

درج بالا آیت میں ایک وسیع موضوع کو بیان کیا گیا ہے۔ اس آیت میں پانی اور پودوں دونوں کی اہمیت کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ پانی کا پودوں اور قدرتی ماحول سے گہرا تعلق ہے۔ پودے زمین سے پانی جذب کرتے اور عمل تبخیر کے ذریعے پتوں میں سے پانی کا اخراج ہوتا ہے۔ یہ پانی فضا میں آبی بخارات کی شکل میں شامل ہو کر نہ صرف فضا کو صاف کرتا ہے بلکہ درجہ حرارت میں بھی کمی کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ پھلوں کا اہم جز  پانی ہے۔ پھل انسانی صحت کے لیے ضروری ہیں۔ پھر درختوں کی اہمیت بتائی گئی ہے۔ درخت بھی قدرتی ماحول کا اہم حصہ ہیں۔ جہاں درخت زیادہ ہوں گے وہاں کا درجہ حرارت کم ہوگا۔ درخت بذاتِ خود بارش لانے میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بارش فضا میں موجود آلودگی کے خاتمے کا سبب بنتی ہے۔ بارش کا یہ پانی زمین میں جذب ہو کر چشموں کی صورت میں دوبارہ پینے کے قابل ہو جاتا ہے۔ زمین فلٹر کاکام کرتی ہے۔

قرآن پاک میں ارشاد خداوندی ہے:’’کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا‘ یہ پانی جو تم پیتے ہو‘ اسے تم نے بادل سے برسایاہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں‘ ہم چاہیں تو اسے سخت کھاری بناکر رکھ دیں‘ پھر کیوں تم شکرگزار نہیں ہوتے؟‘‘(الواقعہ ۵۶:۶۸-۷۰)

اللہ رب العزت نے انسان کو میٹھا پانی عطا کیا‘ لیکن آج کا انسان کارخانوں کے فضلات سے اس کو خود ہی کھاری بنا رہا ہے۔ پانی پر تمام مخلوقات کا برابر کا حق ہے لیکن انسان نہ صرف دوسری مخلوقات کی زندگی کو کھاری پانی سے اجیرن کر رہاہے بلکہ خود اپنا بھی نقصان کر رہا ہے۔ ہیپاٹائیٹس موذی مرض کا سبب گندہ پانی ہے۔ اسی گندے پانی میں سبزیاں وغیرہ اُگائی جاتی ہیں جن کی رگوں میں گندے اجزا شامل ہو جاتے ہیں۔ ان کے کھانے سے انسان میں طرح طرح کی بیماریاں   پیدا ہوتی ہیں۔ نبی پاکؐ نے فرمایا: مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں پانی‘ نمک اور آگ   (ابن ماجہ)۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے دریافت فرمایا کہ اے اللہ کے رسولؐ ! پانی والی بات تو سمجھ آگئی‘ مگر نمک اور آگ کا کیا معاملہ ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: جو شخص آگ دے گا گویا اُس نے وہ ساری چیزیں صدقہ کر دیں جو اُس آگ نے پکائی ہیں‘ اور جس نے نمک دیا‘ اُس نے ساری چیزیں صدقے میں دے دیں جن کو نمک نے اچھا بنایا‘ اور جس شخص نے کسی ایسی جگہ پانی پلایا جہاں پانی نہیں ملتا تھا تو اُس نے گویا کسی کو زندہ کر دیا‘‘۔(القرآن ‘بخاری ‘جلد دوم باب الصدقہ)

اسلام نے پانی کے ضرورت سے زیادہ استعمال سے بھی منع فرمایا ہے۔ ایک دفعہ نبی پاکؐ ایک جگہ سے گزررہے تھے۔ صحابیِ رسولؐ سعدؓ وضو کر رہے تھے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: اے سعد! اسے کیوں ضائع کر رہے ہو۔ اس پر سعدؓ نے دریافت فرمایا کہ اے اللہ کے رسولؐ! وضو میں بھی  پانی ضائع ہوتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: اُس وقت بھی جب تم بہتے ہوئے دریا کے پاس  ہو‘‘۔ (مسند امام احمد ،ابن ماجہ)

احادیث میں ایسے متعدد ارشادات نبویؐ ملتے ہیں جن میں کاشت کاری کی اہمیت اور درخت لگانے پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی درخت کاٹنے سے منع فرمایا ہے۔ ماحولیاتی اخلاقیات اور زندگی کی حرمت کا یہی عرفان ہے جس کے تحت حرم کی حدود میں کسی جان دار کا شکار کرنے یا درخت کاٹنے کی مکمل ممانعت کی گئی ہے۔

  •  جانوروںسے سلوک: اسی طرح اللہ کے رسولؐ نے جانوروں پر ظلم اور انھیں تکلیف پہنچانے سے منع فرمایا ہے اور ان پر رحم کرنے کو اعلیٰ ترین کار خیر قرار دیا ہے۔

امام بخاریؓ نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی پاکؐ نے فرمایا کہ ایک شخص سفر میں جارہا تھا کہ اُسے پیاس لگی اور وہ ایک کنویں پر گیا اور اس کا پانی پیا۔ وہاں سے واپس لوٹتے ہوئے اُس نے دیکھا کہ ایک کتا پیاس سے تڑپ رہا ہے اور کیچڑ کھا رہا ہے۔ اس شخص کو خیال آیا کہ یہ کتا اسی تکلیف میں ہے جس سے میں گزر چکا ہوں۔ سو وہ کنوئیں پر گیا اور اُس نے اپنے جراب میں پانی بھرا اورکتے کی پیاس بجھادی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کو پسند فرمایا‘ اور اُسے بخش دیا۔ لوگوں نے سوال کیا: یارسولؐ اللہ! کیا جانوروں کی خدمت کارِ ثواب ہے؟ اس پر نبی پاکؐ نے فرمایا کہ ہاں بے شک جانوروں کی خدمت میں بھی ہمارے لیے بڑا ثواب ہے۔(بخاری)

  •  قدرتی وسائل کا تحفظ:نبی پاکؐ کے زمانے میں قدرتی وسائل کے تحفظ کی غرض سے محفوظ علاقے قائم کرنے کا بھی قانون تھا۔ ان علاقوں میں موجود جنگلات، پانی کے ذخائر اور جانوروں کو کسی بھی طرح نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر جنگ کے دوران فصلوں اور باغات کو تباہ کرنے سے منع فرمایا۔ اِس کے بعد خلفاے راشدین نے اسی روایت کو جاری رکھا۔ یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ اس اصول کے تحت مکہ مکرمہ کے اطراف میں سارے علاقے کو حرم قرار دیا گیاہے جہاں کسی بھی جانور یا درخت کو نقصان پہنچانا جرم ہے۔ ایک حدیث کے مطابق فتح مکہ کے موقع پر نبی پاکؐ نے روز قیامت تک اسے مقدس قرار دیا۔ یہاں کے کانٹے نہ کاٹے جائیں‘ یہاں کے جانوروں کو شکار نہ کیا جائے اور یہاں کی کوئی چیز کھو جائے تو اسے کوئی نہ اٹھائے   سواے اس کے جو اٹھائے اور اُس کا اعلان کرے‘ اور یہاں کے سبزہ کو کاٹا نہ جائے‘‘۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عباسؓنے مشورہ دیا کہ اے اللہ کے رسولؐ! سواے اذخر کے ۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: سواے اذخر کے‘‘۔ (بخاری‘ جلد اول‘ کتاب فی القطۃ)

یہ حدیث ماحولیاتی اخلاقیات کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ نہ صرف مکہ مکرمہ بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کے لیے لازم ہے کہ ماحول کو خرابی سے بچائیں۔

خلاصۂ بحث

اس ساری بحث سے جونتیجہ برآمد ہوتا ہے اس کا ماحاصل یہ ہے کہ:

  •  تمام کائنات اور اس کے مظاہر فطرت اللہ کی نشانیاں ہیں اس لیے ان کا تقدس بحال رکھناانسان کا فرض عین ہے۔
  •  انسان جس کو اللہ رب العزت نے اپنا خلیفہ بنا کر اس دنیا میں بھیجا ہے‘ اُسے دیگر مخلوقات اور خود اپنے لیے خیرو فلاح کے کام کرنے چاہییں اور اپنے رب کی عبادت کرنی چاہیے۔
  •  فطرت کے تمام قدرتی وسائل اُسے بطور امانت سونپے گئے ہیں‘ وہ اس امانت میں خیانت نہ کرے اور ان قدرتی وسائل کو خیرو فلاح کے لیے استعمال کرے اور ہر قیمت پر ان کا تحفظ کرے اور ان کی بقا کو یقینی بنائے۔ یہ اُس کا اخلاقی فریضہ ہے۔
  •  انسان خدا کی دی ہوئی نعمتوں اور قدرتی وسائل کے بے رحمانہ استعمال کو ترک کر کے زمین پر فسادپھیلانے سے گریز کرے کیونکہ یہ فساد خود اُسی کے لیے نقصان دہ ہے۔

قرآن پاک اپنے اسلوب بیان میں واحد آسمانی کتاب ہے جس میں زندگی کے تمام  شعبہ جات کے بارے میں رہنمائی ملتی ہے۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے ماحولیاتی اخلاقیات کے بارے میں قرآن پاک خاموش رہے۔ قرآنی فکر اور پاک وصاف طرز معاشرت میں گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔ قرآنی نقطۂ نظر سے جس قدر انسان کی فکر پاکیزہ ہوگی اُسی قدر طرز معاشرت پاک وصاف ہوگا۔ اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا۔ ارشاد ربانی ہے: ’’یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انھیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی‘‘۔ (بنی اسرائیل ۱۷: ۷۰)

اس آیت سے تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اولاد آدم کی عزت کو پاکیزہ روزی سے منسوب کیا گیا ہے۔ ماحول کے ساتھ ساتھ جسم کی پاکیزگی اور جسم کے ساتھ روح کی پاکیزگی ضروری ہے۔ روح تب ہی پاکیزہ ہوگی جب رزق پاکیزہ ہوگا اور رزق تب ہی پاکیزہ ہوگا جب انسان کی فکر پاکیزہ ہوگی۔

اِسی پاکیزگی کا ذکر کرتے ہوئے قرآن پاک میں اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ: ’’بے شک اللہ محبت رکھتا ہے توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں سے‘‘۔ (البقرہ ۲:۲۲۲)

جب انسان گناہ کرتا ہے تو گناہ بھی آلودگی ہے۔ اس سے انسان کے دل پر (فکر )پر ایک سیاہ دھبہ بن جاتا ہے لیکن جب وہ توبہ کرتا ہے‘ تو اُس کا یہ عمل سیاہ دھبے کو صاف کردیتا ہے۔ یوں دوبارہ اُس کا دل (فکر) صاف ہو جاتا ہے۔ توبہ کا اصل کام صفائی ہے۔ یہ آیت مابعد الطبیعیاتی نوعیت کی ہے۔

آخر میں اتنا عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ماحول کو پاک و صاف رکھنے اور ماحولیات کے تحفظ کے بارے میں تمام تدابیر صرف اسی وقت کار آمد ہو سکتی ہیں جب انسان کے دل میں اللہ رب العزت کا خوف، اس کی مخلوقات سے محبت، ہمدردی اور اپنے حقوق اور فرائض کی ادایگی کا تصور نقش ہوجائے اور اس کی فکر میں پاکیزگی آجائے۔ جب انسان قرآن پاک کی ہدایات پر عمل پیرا ہوگا‘ تب ہی اُسے ایک خوش گوار فضا اور صاف ستھرے ماحول میں سانس لینا نصیب ہوگا۔

اس دنیا میں تین طرح کے اصول کار فرما ہیں۔ ایک طاقت کا اصول ہے‘ ہر کوئی دوسرے کو دبانا چاہتا ہے۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ ہر کوئی خوش رہنا چاہتا ہے۔ تیسرا اصول اخلاقیات کا‘ یعنی اپنے فرائض اور حقوق کو پہچاننے کا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہر کوئی خوش گوار ماحول میں اپنی زندگی  بسر کرے تو ہمیں تمام معاشروں میں اخلاقیات کے اصول کو حاوی کرنا ہوگا جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ طاقت کا اصول خود بخود دم توڑ دے گا اور ہر کوئی خوش گوار ماحول میں زندگی بسر کرے گا۔

اسلام کے ماننے والوں کو دنیاکے سامنے ایک متبادل ماحولیاتی حکمتِ عملی پیش کرنا چاہیے۔

 

کچھ عرصہ سے بعض انگریزی اخبارات میں سوچی سمجھی سازش کے تحت قرآن کو نعوذباللہ‘ ماضی کی ایک روایتی دانش،مسلمانوں کے ماضی کو ایک خیالی دنیا (یوٹوپیا) اوراسلام کی طرف ہماری آرزوے مراجعت کو ’پتھر کے دور‘ کی طرف پلٹنے کے مترادف گردانا جارہا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے مذہب اور سائنس میں کوئی ازلی تصادم ہے۔ درج ذیل مضمون میں انھی مقدمات پر ایک نظر ڈالی گئی ہے۔

جدیدیت کیا ہے؟ یہ اصرار کرناکہ جدیدیت (modernity) اور مغربیت لازم وملزوم ہیں اور کسی معاشرے کے جدید بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مغربیت کو اپنائے‘ دراصل ایک پیچیدہ سوال کوسادگی سے پیش کرنا ہے۔ ایسی روش نہ صرف بدنیتی پر مبنی ہے بلکہ اپنے اندر خطرناک سیاسی مضمرات بھی سموئے ہوئے ہے۔ میں اسے بدنیت روش اس لیے کہتا ہوں کہ اس سے مسلمانوں کی ’بیماری‘ کے لیے مغرب کے تجویز کردہ نسخے کی بُو آتی ہے۔ کیلی فورنیا میں ’ورلڈ افیرز کونسل‘ کے سامنے سابق وزیراعظم برطانیہ ٹونی بلیئر کی تقریر میں مغربی اقدار کے ذریعے سے مسلم عوام کی تبدیلیِ قلب کی بات کی گئی ہے۔ اہل مغرب اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمانوں کی اسلام سے وابستگی انھیں مغربی تسلط کے خلاف مزاحمتی جذبہ عطا کرتی ہے۔ اور یہ کہ وہ اسی صورت میں مغرب کے سامنے سرتسلیم خم کریں گے کہ ان کے وجود سے اسلام کو نکال کراُنھیں نیا روپ اور نیا وجود دے دیا جائے۔

اسی طرح یہ دعویٰ کرنا بھی حددرجہ سادگی اور بھولپن ہوگا کہ دنیا نے صرف موجودہ عہد میں ہی جدیدیت دیکھی ہے۔ درحقیقت ہر عہد کی اپنی ایک جدیدیت ہوتی ہے جس کا تعلق انسانی حالات کی بہتری سے ہے‘ جو حکومتی کارکردگی اور مستعدی کو یقینی بنانے سے لے کر پیداوار کے ذرائع میں بڑھوتری مواصلاتی نظام کی ترقی پر محیط ہے۔ کوئی بھی معاشرہ جو ان نتائج کو حاصل کرلیتا ہے جدید معاشرے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ مذہب اور تاریخ کے بندھنوں سے آزاد خودی اور ذات (self) کے وہ نظریات‘ جو نفس انسانی کو ہر چیز کے بارے میں مختارکل اور فیصلہ کن صفات کا حامل قرار دیتے ہیں ،محض انھیں جدیدیت کے اجزاے ترکیبی نہیں قرار دیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرتی عقائد و اقدار خواہ کچھ بھی ہوں‘ ہر عہد کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ سماجی اور تاریخی تقاضوں کے جواب میںدلیل اور عقل کوبروے کار لائے۔ لیکن اظہار عقل یا دلیل (reason) کے روبہ عمل ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ تمام ورثے کے انہدام کی حد تک پہنچ جائے۔ کیونکہ یہ وہ نقطہ ہے جہاں اس کا تعلق زندگی سے باقی نہیںرہتا۔

سائنس اور روحانی اقدار

اسی طرح یہ بھی کوئی صحیح سائنس فہمی نہیں ہوگی اور نہ زندگی سے متعلق مسائل کے بارے میں مذہبی رویے کی صحیح توضیح ہی ہوگی اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ سائنس توصرف ایجابی اور حسابی عمل (empiricism) ہے جس کا اخلاقی وروحانی اقدار سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا اور مذہب محض غیرعقلی توہمات ہیں جو انسان کی ترقی میں حائل ہیں۔

تھامس ایس کوہن (Thomas S. Kuhn) نے اپنی تحسین یافتہ تحریر The Structure of Scientific Revolution (سائنسی انقلاب کا ہیکل ترکیبی)میں آزاد منشوں اور لادینوں کی اس متشددانہ فکر کا تارو پور بکھیر کر رکھ دیا ہے۔

اس لیے اخلاقی اقدار کو نظرانداز کرکے سائنسی علوم کو اختصاصی یا استثنائی مقام دینا اور سمجھنا کہ جیسے یہ انسانوں اور ان کے احوال سے کوئی بالا مجموعۂ خیالات وفکر ہیں بذات خود سیکولر متشددانہ سوچ ہے جسے علمی اورعقلی معیارات باطل قرار دیتے ہیں۔

شاید اسی لیے البرٹ آئن سٹائن سے متعلق یہ واقعہ پڑھ کر ہمیں کوئی اچنبھانھیں ہوتا۔ بقول ڈاکٹر برائین سوِم (Brian Swimme) جو بذات خود ایک سائنس دان ہے :

آئن سٹائن بارہا مایوسی کاشکار ہوا کیونکہ وہ تخلیق کائنات کے ضمن میں اپناایک ذاتی تجربہ دوسروں کو سمجھانے میں ناکام رہا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ اسے کس چیز کی تلاش ہے؟ تو اس کاجواب تھا: ’’میں جاننا چاہتا ہوں کہ ذاتِ قدیم [اللہ] سوچتی کیسے ہے؟ باقی تو تفصیل ہے۔

جیساکہ سائنس دان فریڈہائل (Fred Hoyle) نے اپنے گہرے مشاہدے کی بنیاد پر یہ بات کہی:

مجھے ہمیشہ یہ بات بڑی عجیب لگی کہ جہاں سائنس دانوں کی اکثریت دین و مذہب سے پرہیز کرتی ہے، فی الاصل ان کے تصورات پر مذہب کا اثر اور غلبہ علماے دینیات سے بھی زیادہ دیکھنے کو ملا ہے۔

اسی طرح الہامی مذہب اور سائنس کو ایک دوسرے کے مقابل صف آرا دکھانا اب علمی اور سائنسی حلقوں میں ایک فرسودہ اور ازکار رفتہ بات سمجھی جانے لگی ہے۔ کیونکہ تصادم اورکش مکش کا   یہ تصورر ان کی حقیقی روح سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان دونوں کی ایک مختلف النوع تاریخ ہے‘ یعنی کبھی تو ان میں عمل داری (territory) کے سوال پر کشیدگی اور تنائو کی کیفیت نظر آتی ہے اور کبھی دونوں ساجھی بن کر ہاتھ میں ہاتھ دے کر ساتھ چل رہے ہوتے ہیں۔

اصول و نظریات کے ٹکرائو کا تصادم ماڈل (Conflict model) جو وائٹ (White) اور ڈریپر (Draper) نے صدی بھر پہلے وضع کیا تھا، اور جسے لبرل لادین حضرات مذہب پر پھبتیاں کسنے کے لیے اکثر حوالے کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں، اس کا اعتبار قریب قریب ختم ہوچکا ہے۔ اس کے مقابلے میں ایسا بیش بہا تحقیقی موادموجود ہے جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ مغرب میں سائنسی علوم کی نمود اور ترویج میں ان مذہبی تعلیمی اداروں کا بڑا ہاتھ ہے جو چر چ (کلیسا) کے قائم کردہ تھے۔ ان میں یسوعی فرقہ اور متکلمین (Jesuits and Scholastics) نمایاں گروہ ہیں‘ جب کہ اسلامی دنیا میں دینی مدارس (روایتی اسکولوں) نے مربوط فنون کے وہ علما اور حکما پیدا کیے جو بہ یک وقت دینیات، کارگاہ فطرت اور سماجی علوم میں یگانۂ روزگار تھے۔ خود نظام سرمایہ داری، جو جدیدیت کی جان ہے، اپنی ترقی اور ارتقا کے لیے پروٹسٹنٹ ضوابط اخلاق کی ممنون ہے۔ اس موضوع پر معروف جرمن ماہر عمرانیات میکس ویبر (Max Weber) کی کتاب ایک جان دار تحریر ہے۔

جدید یت کا منفی رُخ

آج کی دنیا کے لیے سائنس کی جو بھی اہمیت ہو اور انسانی احوال کی بہتری اور مادی نمو میں اس کا جو بھی کردار رہا ہو، اس نے ساتھ ہی مسائل کا ایک انباربھی کھڑا کر دیا ہے جو مسلسل اور مستقل بنیادوں پر حل طلب ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں یہ مسائل ابھی چنداں نمایاں نظر نہیں آتے لیکن صنعتی مغرب کو اسی سائنس کے ہاتھوں نت نئی مصیبتوں کا سامنا ہے جو جدیدیت کا مخصوص تحفہ ہیں۔ ٹکنالوجی نے انسان کو شرفِ انسانی سے محروم کر دیا ہے۔ اس کو قدرتی سادہ ماحول سے نکال کر مشینی اختراعات (gadegetry) کی دنیا میں اُلجھا دیا ہے جس نے ایک ایسے ذہنی رویے کو جنم دیا ہے جو بقول پروفیسر تارنس (Tarnas) ہر مسئلے کا حل ٹکنالوجی میں ’حقیقی وجودی محرکات کی قیمت‘ پر تلاش کرتا ہے۔جدیدیت نے فضائی آلودگی، ماحولیاتی نظم (ecosystems) اور اوزون (Ozone) تہہ کی بربادی کے مسائل بھی پیدا کر دیے ہیں۔ سماجی حوالوں سے بھی جدیدیت کے اثرات و نتائج ہولناک ہیں۔ جرائم کی شرح کبھی اس بلند سطح پر نہ تھی جیسی آج ہے۔ شراب نوشی، نشہ بازی، بے مہار جنسی طرزعمل، غیر شادی شدہ مائوں اور ناجائز اولاد کی بھرمار،   جنسی امراض خبیثہ، برہنگی کا رواج (nudity) اورنفسیاتی امراض___ یہ سب اس دور جدید کے شاخسانے ہیں۔

اور تو اور جنگوں میں انسانوں کا قتل عام نئی حدود کو چھو رہا ہے۔ اب فرد سے فرد کا دُوبدُو مقابلہ نہیں ہوتا جہاں عمل اور ردعمل کا فیصلہ انفرادی انسانی سطح پر ہوتا تھا۔ جہاں فتح و شکست کو ذاتی تجربے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ جب قاتل اور مقتول آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے اور لڑائی اور مقابلے کے ہر پہلو کو شجاعت، انتقام، نجات، پچھتاوے اور المیے سے بھرپور انسانی ڈرامے کے روپ میںپڑھ سکتے تھے۔ جدیدیت نے اس جنگ کوبھی غیر انسانی کر دیا ۔ اب انسان قتل نہیں کیے جاتے بلکہ دور پار سے چلائے گئے عام بربادی کے ہتھیاروں کے ذریعے پوری کی پوری آبادیاں ہلاک کر دی جاتی ہیں جو اپنے پیچھے ریڈیائی لہروں سے آلودہ پانی کے ذخائر اور مسخ شدہ لاشوں کے ڈھیرچھوڑ جاتے ہیں۔  یقینا یہ سب کچھ جدیدیت کا کوئی خوب صورت روپ نہیں دکھاتا۔

جدیدیت سے متعلق ڈاکٹر پپِن (Pippin) کا تجزیہ ایک ایسا مواخذہ ہے جس میں جدیدیت اور اس کے نتائج و عواقب کے متعلق مغربی سوسائٹی کے اندیشوں کا نچوڑ سامنے آ جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے: ’’جدیدیت نے ہم سے ایک ایسی ثقافت کا وعدہ کیا تھا جس کے زیرسایہ لوگ خوف سے آزاد، معقول، مائل بہ جستجو اور خودکفیل ہوں گے۔ لیکن بدرجۂ آخر ہمیں ایک ریوڑ نما سوسائٹی ملی جس کے افراد حیران و سرگرداں، ڈرپورک، مقلّد اور روایت پسند ’بھیڑیں‘ ہیں___ یک قطبی‘ پیش پاافتادہ اور لش پش ثقافت‘‘۔ ڈنکن ولیمز (Duncan Williams) کا خیال ہے کہ مغربی دنیا اور اس کی تہذیب و ثقافت ’’تشدد اور انسانیت سوز بہیمیت سے لبریز ہوچکے ہیں‘‘۔

اس چیز نے مشہور برطانوی مورخ ٹائین بی (Toynbee) کو جدیدیت اور مغرب کے مستقبل کے بارے میں پریشان کر دیا تھا۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہ تھی کیونکہ اسے جو کچھ نظر آرہا تھا وہ روزِ روشن کی طرح عیاں تھا۔ اپنی موت سے کچھ پہلے اس نے لکھا: ’’دنیا کی تباہی کا مستقبل قریب میں واقع ہونا جسے انبیا و رسل نے وجدانی طور پر مشاہدہ کیا، اُس کے قدموں کی چاپ اب سنائی دینے لگی ہے۔ آج اس منتہا کا قریب الوقوع ہونا محض ایمان بالغیب کی بات نہیں بلکہ مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر ایک مانی ہوئی حقیقت اور شدنی واقعہ ہے‘‘۔

میکس ویبر تو یہاں تک کہہ گیا ہے کہ ’جدیدیت: افسرشاہی عقلیت پسندی کا آہنی پنجرہ ہے‘ جس نے ہمارے اس جدید دور کی زندگی کے ہر پہلو کو گرفت میں لیا ہوا ہے۔ ویبر کا خیال ہے کہ یہ آہنی پنجرہ اس قابل نہیں کہ اس میں محبوس رہ کر زندگی گزاری جائے۔ اس کا اندازہ ہے کہ مستقبل میں ’’اس بے بہا ترقی کے اختتام پر بالکل نئے مصلحین اور مبلغین سامنے آئیں گے۔    یا پھرپرانے تصورات اور نظریات کو دوبارہ ایک عظیم حیات نو ملے گی ‘‘۔

مذھب کا تخلیقی کردار

اسلام جیسے الہامی ادیان و مذاہب نے کبھی مادی ترقی کی مخالفت نہیں کی۔ فی الحقیقت اسلام ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت ترقیاتی ماڈل کا علم بردار ہے۔ اور اس نے انسانی زندگی میں مادی بہتری اور خوش حالی لانے کے لیے ہمیشہ سائنسی ترقی میں مدد دی۔ قرآن بنیادی طور پر سائنس کی کتاب نہیں لیکن اس نے فطرت (nature) اور اس کے طریق عمل کے بارے میں جو بھی خبر دی ہے وہ سچ ثابت ہوئی۔

کوپر نیکائی انقلاب (Copernican Revolution)، نے اپنے لازم اثر اور نتیجے کے طور پر انسان کی اصل پوزیشن بدل کر رکھ دی کہ وہ اشرف المخلوقات نہیں بلکہ لاتعداد سیاروں اور سیاروں سے مزین بے کراں کائنات کی سطح پر محض ایک حقیر مخلوق ہے۔ یہ نظریہ اب نئے تصورات اور انکشافات کے سامنے اپنا علمی دبدبہ اور وقار کھو بیٹھا ہے۔ جدید فلکیاتی دریافتوں پر مبنی تازہ ترین تصور یہ ہے کہ ہماری زمین اس مسلسل پھیلتی کائنات کے عین مرکز میں واقع ہے۔ یہی بات ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کائنات پھیل کر جتنی بھی وسیع ہو جائے، نسل انسانی سے آباد یہ زمینی کرّہ ہمیشہ اس کے مرکز میں رہے گا۔ انسان کی یہ صلاحیت کہ نظم کائنات اس کی ذہنی گرفت میں ہے اس کی غیرمعمولی خصوصیت کا ایک اور پرکشش اور جاذب نظر پہلو ہے۔ ڈاکٹر پال ڈیویز (Paul Davies) جیسے سائنس دان یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ انسان میں یہ حیرت انگیز صلاحیت کیوں اور کیسے موجود ہے کہ وہ کائنات کے رازوں کا متلاشی رہاہے اور انھیں منکشف کرتا رہتا ہے۔ اس کا یہی مطلب بنتا ہے کہ انسان اور کائنات میں اس کے مقام و مرتبے کی ایک خاص اہمیت ہے۔ قرآن انسان کے اسی شرف اور تکریم کے لیے توصیفی کلمات ادا کرتے ہوئے اس کی ذہنی، جذباتی اور اخلاقی ترکیب کی بہترین تشکیل کو ’احسن تقویم‘ قرار دیتا ہے۔

اسی طرح پھیلتی بڑھتی کائنات کا تصورسائنسی دنیا میں ایک نسبتاً تازہ خیال ہے۔ اس سے پہلے مسلسل وسعت پذیر کائنات کی بات آئن سٹائن جیسے لوگوں کو بھی پریشان کر رہی تھی۔ شاید یہ بات سن کر لوگوں کو اچنبھا ہو کہ اپنے ’عمومی نظریۂ اضافیت‘ (General Therory of Relativity) کے ساتھ ساتھ ہی آئن سٹائن نے ۲۲ نومبر ۱۹۱۴ء کو یہ بھی معلوم کر لیا تھا کہ کائنات کی وسعت پذیری کا حسابی امکان موجود ہے۔ چونکہ اس کا یہ اکتشاف اس وقت کے سائنسی عقائد کے خلاف جا رہا تھا، اس نے ’کائنات غیر مبدلات‘ (cosmological constants) کی حسابی اصطلاح کی آڑ میں اپنی نئی دریافت کو دنیا سے چھپالیا مبادا اس سے اس وقت تک کے قائم نظریات کہیں تحلیل نہ ہوجائیں۔

لیکن چھے برس بعد ہبل (Hubble's)کی رصدگاہ نے وسعت پذیر کائنات کی تصدیق کردی جسے آئن سٹائن نے ابتداء.ً  نظرانداز کرنے کی کوشش کی تھی۔ کیا واقعی کائنات کی وسعت پذیری ایک   نیا تصور تھا؟ جی ہاں، لیکن صرف سائنس کے لیے‘ قرآن کے لیے نہیں جس نے صدیوں پہلے کہہ دیا تھا:

وَالسَّمَآئَ بَنَیْنٰھَا بِاَیْدٍ وَّ اِنّاَ لَمُوْسِعُوْنَ o (الذاریٰت ۵۱:۴۷)

آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ہے اور ہم (اس کی پوری قدرت رکھتے ہیں اور) اُسے وسعت دیتے جارہے ہیں۔

قرآن میں چاند کا اس انداز سے (بھی) ذکر موجودہے کہ یہ ایک جداگانہ وجود ہے اور یہ (محض) سورج کے انعکاس سے ہی منور نہیں جو سائنس کا اب تک کا مسلّمہ نظریہ تھا۔ آج نئی فلکیاتی دریافتیں بتاتی ہیں کہ اس کی تنویر (روشنی) خود اس کے اپنے وجود سے ہے۔ بہ قول ڈاکٹر سوِم   (Swimme) چاند کوئی ’’منجمد تودہ نہیں ہے___ بلکہ ایک اہم واقعہ (event) ہے جو موجوداتِ عالم میں ہر لمحہ تھرتھرا رہا ہے‘‘۔

مذہبی عقیدہ کس طرح کائنات کی صحیح تصویر کشی تک رہنمائی کرتا ہے۔اس کی ایک نمایاں مثال پروفیسر عبدالسلام کے تحقیقی مقالے ’حسنِ توازن کے تصورات اور مادے کا بنیادی نظریہ‘  (Symmetry concepts and the fundamental Theory of matter) میں دیکھی جاسکتی ہے۔ پروفیسر موصوف کے کام کو ان نظریات کا حصہ مانا جاتا ہے جنھوں نے ۲۰ویں صدی کی بہت سی دریافتوں اور ترقیات کی اساس مہیا کی۔ اپنے شان دارتحقیقی کام میں پروفیسر عبدالسلام نے دکھایا ہے کہ کائنات اور اس کے اجزا میں اعتدال اور تناسب ہے جس نے اسے توازن کا حسن عطا کیا ہے۔ اپنے مقالے کا لب لباب اور نچوڑ وہ قرآن کے درج ذیل الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ فَارْجِعْ الْبَصَرَ ھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ o ثُمَّ ارْجِعْ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّھُوَ حَسِیْرٌ o (الملک ۶۷: ۳-۴) تم رحمن کی تخلیق میں کس قسم کی بے ربطی نہ پائو گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں تمھیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑائو۔ تمھاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی)۔

ڈاکٹر عبدالسلام کا تحقیقی کام جس کے لیے انھیں نوبل انعام ملا، فطرت میں موجود کمزور اور برق مقناطیسی(electromagnetic) قوتوں کے اتحاد و اتصال کو ثابت کرتا ہے کہ یہ دراصل ایک ہی قوت کے دو پہلو ہیں۔ یہ خیال انھیں اصلاً الہامی تصور توحید اور تخلیق کی وحدت سے حاصل ہوا جس کا ظہور ایک ذات واحد ___ خالق کائنات ___ سے ہوا ہے۔

چنانچہ سائنس کی مخالفت تو دُور کی بات ہے، مذہبی عقائد کا کردارتو تخلیقی عوامل کارہا ہے۔ جب بھی انھوں نے دیکھا کہ سائنس کائناتی سچائی کی تلاش میں غلط نتائج پر پہنچ رہی ہے تو انھوں نے اس کی لغزشوں کی تصحیح کی۔ آج تک کوئی ایسی قابل قبول شہادت سامنے نہیں آئی جس سے ثابت ہوتا ہو کہ دین و مذہب سائنسی طرز فکر و عمل کی ضد ہیں۔ اِکّا دکّا واقعات جیسے ۱۹۷۰ء کی دہائی میں کسی سعودی مسلمان نے ٹیلی ویژن توڑ دیا‘ یا برسوں پہلے کچھ ’علما‘ نے لائوڈ اسپیکروں کے استعمال کی ممانعت کا فتویٰ دیا، یہ قطعاً ثابت نہیں کرتے، نہ ان کی یہ شرح و تعبیر جائز ہے کہ سائنس کی کوئی منظم مخالفت ہوئی۔ پھر ایسی خطائوں کو صرف علماے دین سے جوڑ دینا بھی غلط ہے۔ ایک شاذ قول یا واقعے کو اجتماعی رویہ اور اصول و کلیہ قرار دینا بجاے خود غیر سائنسی رویہ ہے جو اِن اصحاب کو تو بالکل نہیں جچتا جو واضح حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے سائنسی حجت کا مقدمہ لڑتے پھرتے ہیں۔

اور اگر بالفرض ٹیلی ویژن کی بھی دین دار حلقوں کی جانب سے مخالفت کی بھی گئی تھی تو یہ کسی مشینی ایجاد کی مخالفت نہیں تھی بلکہ اس کے ممکنہ تہذیبی اثرات تھے جنھیں وہ وقت سے پہلے دیکھ رہے تھے۔

آج اکیسویں صدی میں ٹیلی ویژن کے مضر اثرات بذات خود ایک حقیقت ہیں اور پچھلے دوعشروں میں ان پر متعدد نوعیت کا تخلیقی کام ہوا ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ اس سے یادداشت کُند ہوجاتی ہے، عرصہ توجہ (attention span) مختصر ہو جاتا ہے، تحریر پڑھنے میں تکلیف ہوتی ہے اورمسلسل بیٹھنے سے جسمانی ساخت میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ مارشل میکلوہن (Marshal Mcluhan) کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے متعلق مطالعے اپنی تخلیقی جدت اور گہرائی کے حوالے سے غیر متنازع ہیں۔ وہ جب ٹیلی ویژن کو ’ابلہ وبے مغز (idiot) باکس‘ کا نام دیتا ہے تو بالکل حیرت نہیں ہوتی۔

اسی طرح یہ باور کرنا اور کراتے رہنا کہ ہماری ساری کوتاہیاں اور کمزوریاں ان علما کی وجہ سے ہیں‘ ایک سنگین غلط بیانی ہے۔ مثلاً اس کا تو یہ مطلب بنتا ہے کہ پاکستان پریہی علماے دین حضرات حکمران رہے ہیں، ہماری سول سروس کو یہی بزرگ چلا  رہے ہیں، ہمارے تعلیمی ادارے انھی کے ہاتھوں میں ہیں اور آزادی کے بعد کی چھے عشروں کے دوران ہماری قومی پالیسیاں یہی علما طے کرتے رہے ہیں۔ یہ جو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے‘ کیا اس کے ذمہ دار یہی مولوی حضرات ہیں؟ ایسا اخذ کردہ نتیجہ قطعاً غیر سائنسی ہوگا۔ بالخصوص جب یہ رویہ ان لوگوں کا ہو جو راگ تو سائنس کا الاپتے ہیں لیکن سامنے کے حقائق سے منہ موڑتے ہیں۔ ایسی روش خود عقلی سوچ کی تذلیل ہے، سنجیدہ بحث و مباحث میں پامال خیالات اورتراکیب نہیں چلتیں۔ اگر ماضی کی پالیسیوں کے لیے کسی کو موردِ الزام ٹھیرانا ہی ہے تو انگلی چار وناچار پڑھے لکھے مغربی نقالوں کی طرف ہی اُٹھے گی جنھوں نے اپنے آپ کو بڑا جدیدیت پرست سمجھا اور جتایا لیکن ایک اچھی حکمرانی کی ابجد سے بھی ناآشنا نکلے۔

جدیدیت بذات خود کوئی شے نھیں

اسی طرح قرآن پاک کو ’استہزاء.ً موصولہ دانش‘ (received wisdom) قرار دینا ایک ناقابل معافی جسارت ہے۔ قرآن اس لحاظ سے تو موصولہ ہے کہ وہ ایک الہامی کتاب ہے لیکن اسے اس معنی میں موصولہ کہنا جیسے وہ کوئی قدیم اور فرسودہ رسومات وعقائد کا مجموعہ ہو جو مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے‘ صریح کذب بیانی ہے۔ یہ قرآن کااعجاز ہے کہ وہ منکرین پر اپنا مدّعا ظاہر نہیں کرتا بلکہ ان کے انکار میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ صرف ان لوگوں پر اپنے معانی و مفہوم ظاہر کرتا ہے جو اس کے مضامین اور خبروں پر غور کرنے کے لیے سنجیدہ ہوں اور جن کا اللہ رب العزت اور یوم الحساب پر پختہ ایمان ہو۔

یہ سب کہنے کے باوجودیہ پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا مسلمان جدیدیت سے نفرت کرتے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمان جدیدیت سے نفرت نہیں کرتے۔ بات صرف اتنی ہے کہ وہ جدیدیت کے لادین اور مادہ پرست مندرجات کو ہضم نہیں کر پاتے۔مثلاً جدیدیت کے حوالے سے سیمویل ہن ٹنگٹن (Samuel Huntington) ہی کو لے لیں، اس کے نزدیک مغربی تہذیب عیسائیت ،تکثیریت (pluralism)‘ انفرادیت پسندی (individualism) اور قانون کی حکمرانی سے بن پاتی ہے۔ عیسائیت اس کے نزدیک مغربی تہذیب کا اولین جزو ہے۔

جدیدیت بذات خود کوئی شے نہیں بلکہ اس کے نزدیک یہ اس وقت وجود میں آتی ہے جب مغربی تہذیب کے چاروں عناصر باہم مربوط ہوتے ہیں۔ باالفاظ دیگر جدیدیت مذکورہ    چار بنیادی عناصر سے مرکب ہے۔

جدیدیت کا جو نسخہ ہن ٹنگٹن نے تجویز کیا ہے اسلام کے لیے اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔ کیونکہ عیسائیت کا عقیدۂ تثلیث اگربیچ میں سے نکال دیں تو باقی تصورات اور موضو عات سب اسلامی ہیں۔ اگر جدیدیت سے مراد جدت پسندی اور نئے تخلیقی اُفق ہیں یا اس سے مراد حسنِ کارکردگی ہے جس سے معاشرے کی پیداواری صلاحیت بڑھے، یا یہ کہ جدیدیت سے مراد انتظام و انصرام کے  وہ مختلف النوع نظام ہیں کہ جن سے یہ اہداف حاصل ہوسکیں تو پھر اسلام کو اس سے کوئی ضد نہیں۔ اسی طرح جدیدیت اگر سائنس کو افزودگی اور نمو کا انجن سمجھتی ہے یا خالص عقلیت کا تقاضا کرتی ہے  تو اسلام کو یہ بھی قبول ہے۔ شرط صرف ایک ہے کہ جدیدیت اُس الہامی دائرے کے اندر رہ کر   یہ ساری تگ و تاز کرے، جس کااحترام ایک مسلمان معاشرہ لازمی قرار دیتاہے۔

لیکن اسلام جدیدیت کے بے مہار اسراف و تبذیرکو، یا ایسی حدود ناآشنا انفرادیت کو جو سوسائٹی کی ترجیحات سے اغماض برتتی ہے، قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ اسی طرح سوقیانہ بازاری پن اور بہیمانہ نفس پرستی کی علَم بردار مغربی تاجرانہ ثقافت کو بھی اسلام ناقابل برداشت سمجھتا ہے۔ مسلمان معاشرے میں یہ ناہنجار بالکل بار نہیں پاتا‘ اس لیے مردود ہے۔

 

ویت نام کا نام حالیہ تاریخ میں اس حوالے سے معروف ہے کہ امریکی جارحیت کے خلاف شدید مزاحمت کے بعد اسے ویت نام چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ آج پھر عراق اور افغانستان پر امریکی جارحیت نے ویت نام کی یاد تازہ کردی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ ایک بار پھر دہرائی جارہی ہے۔ اسلام ویت نام کے مذاہب میں سے ایک اہم مذہب ہے‘ اور ویت نام کے مسلمانوں کے بارے میں عالمِ اسلام میں زیادہ معلومات نہیں پائی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے ایک مختصر جائزہ پیش ہے۔

  •  حدود اربعہ اور آبادی: سوشلسٹ جمہوری ویت نام کا رقبہ ۳ لاکھ ۳۱ ہزار ۶ سو ۹۰ مربع کلومیٹر ہے جو ایشیا کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ اس کے ایک طرف تھائی لینڈ کی خلیج ٹونکین‘ جب کہ دوسری طرف جنوبی چین کا سمندر ہے۔ یہ چین‘ لائوس اور کمبوڈیا سے گھرا ہواہے۔

دنیا کا تیرھواں سب سے زیادہ آبادی اور جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ شرح ترقی کا حامل یہ ملک بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ چاول‘ چینی‘ چائے‘ کافی اور ربر اس کی پیداوار ہیں۔ صنعتی پیداوار میں بجلی‘ کوئلہ‘ اسٹیل‘ سیمنٹ‘کپڑا‘ کاغذ اور مچھلی شامل ہے‘ جب کہ لوہا‘ ٹین‘ تانبا‘ سیسہ‘ جست و دیگر قیمتی دھاتیں معدنی پیداوار ہیں۔ ۲۰۰۰ء کی مردم شماری کے مطابق کُل آبادی ۸کروڑ ۵ لاکھ ۸۵ ہزار ہے جن میں ۸۷ فی صد ویت نامی ہیں اور ۱۳ فی صد دیگر نسلیں ہیں‘  مثلاً بہارچم‘ یا چام چینی وغیرہ، جب کہ مذاہب میں بدھ ازم‘ عیسائیت اور اسلام معروف ہیں۔  ویت نامی مسلمانوں کے تین واضح گروہ ہیں۔ زیادہ تر کئودائی چم ہیں‘ باقی ویت نامی ہیں    جنھوں نے اسلام قبول کیا۔ تیسرے وہ مسلمان ہیں جو ویت نام میں آکر آباد ہوئے۔ ۱۹۹۹ء کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی آبادی ۶۳ ہزار سے زائد ہے۔

  •  ملکی صورت حال: ویت نام زیادہ تر چین کے زیراثر رہا ہے لیکن ویت نام کے عوام اپنے ملک کی مکمل آزادی کی جدوجہد کرتے رہے۔ انیسویں صدی کے وسط میں اسے   فرانسیسی سامراج کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان نے ویت نام پر قبضہ کرلیا لیکن بعد میں دوبارہ فرانس نے کنٹرول سنبھال لیا۔ ۱۹۵۴ء میں‘ جنیوا معاہدے کے تحت ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر کے آزادی دے دی گئی‘ اس وعدے کے ساتھ کہ شفاف جمہوری انتخاب کے بعد    ملک کو دوبارہ متحد کردیا جائے گا مگر ملک کی تقسیم ’ویت نام جنگ‘پر منتج ہوئی۔ سرد جنگ کے زمانے میں  شمالی ویت نام کو روس اور چین کی حمایت حاصل رہی‘ جب کہ جنوبی حصے کو امریکا کی۔ لاکھوں ویت نامی باشندوں کی ہلاکت اور بڑے پیمانے پر تباہی اور امریکا کی ہزیمت کے بعد ۱۹۷۶ء میں متحدہ ویت نام سامنے آیا۔ ۱۹۸۶ء میں‘ کمیونسٹ پارٹی ویت نام اپنی قومی پالیسی میں تبدیلی لائی‘ ملک کو سوشلسٹ کمیونسٹ قرار دیا گیا اور پرائیویٹ سیکٹر کو فروغ دیا گیا۔ آج ویت نام کی معیشت تیزی سے ترقی پذیر ہے‘ سیاسی پابندیوں میں بھی کچھ نرمی واقع ہوئی ہے‘ تاہم کرپشن جیسے مسائل بھی موجود ہیں۔

ملک کا دستور رسمی مذہبی آزادی دیتا ہے۔ سات مذاہب بشمول اسلام کو قانونی طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ ہر شہری کو بظاہر ملکی قانون کی خلاف ورزی سے بچتے ہوئے اپنے مذہب کی پیروی کی آزادی ہے اور مذہبی بنیادوں پر کوئی امتیاز نہ برتنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے‘ تاہم کچھ     مذہبی پابندیاں بھی ہیں۔ مشنریوں کو ملک میں داخلے اور تبلیغ و دیگر سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہے۔ مبلغین اور مذہبی تنظیموں کو کمیونسٹ حکومت کے نظریات کے خلاف مذہب کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ حکومتی دبائو کی بنا پر بہت سے مذہب پسند ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ حکومت کو عالمی سطح پر مذہبی آزادی کے خلاف دبائو کا بھی سامنا ہے۔ حکومت نے عالمی سطح پر اپنے تاثر کو درست کرنے کے لیے مذہبی آزادی کے لیے مزید کچھ اقدام بھی اٹھائے ہیں لیکن سختی اور دبائو بھی موجود ہے۔ قانون شکنی کے الزام کے تحت مذہبی عناصر کو گرفتار کرنا اور ان کے گھر مسمار کر دینا جیسے اقدامات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں ویت نامی مسلمان جدوجہد کر رہے ہیں۔

  •  اسلام کا آغاز: ویت نام میں اسلام عرب اور ایرانی تاجروں اور بعدازاں ملایائی مسلمانوں کی کوششوں سے پھیلا جن کے ساتھ ویت نام کے گہرے ثقافتی روابط تھے۔ جب ہندستان میں اسلام کی اشاعت ہوئی تو پھر ہندستانی مسلمانوں نے بھی چمپا (ویت نام) میں اسلام کی اشاعت میں حصہ لیا۔ان سے بہت پہلے اُن چینی تاجروں نے بھی جو ان عرب اور ایرانی تاجروں سے روابط کی وجہ سے مسلمان ہوگئے تھے‘ نہ صرف چینیوں میں بلکہ چمپا اور جاوا میں بھی اسلام پھیلایا۔ بعض کا خیال بلکہ اعتقاد ہے کہ ان نو مشہور اولیا (ولی سانگر) میں جنھوںنے انڈونیشیا میں اسلام پھیلایا کچھ چینی بھی تھے‘ لیکن تیرھویں صدی کے بعد تو یہ صرف ملایائی مسلمان تھے جنھوں نے چمپا کے عوام کو اسلام قبول کرنے پر آمادہ کیا۔ ملایائی اور چم عوام میں صدیوں سے ثقافتی اور علاقائی رشتے قائم تھے کیونکہ یہ دونوں نسلیں ہندستانی تہذیب سے تعلق رکھتی تھیں۔ سلطنت چمپا‘ چین اور ملایشیا کے درمیان بفرزون کا کام دیتی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ ۱۵۹۴ء میں چمپا کے بادشاہ نے ملاکا میں پرتگالیوں سے مقابلہ کرنے   کے لیے ایک فوج سلطان جوہور کی مدد کے لیے بھیجی۔ حکایات کیلنتن کے مطابق سلطنت چم کا  ایک شہزادہ جس کا نام نیک مصطفی تھا سترھویں صدی کے وسط میں کیلنتن آیا (کیلنتن بھی ایک سلطنت تھی جس کا بانی لونگ یونس تھا جس کے آباواجداد کیلنتن وقائع کے مطابق سلطنت چمپا سے تعلق رکھتے تھے) اور کئی سال تک یہاں رہا۔ پھر جب وہ واپس چمپا گیا تو اسے (بادشاہ کی وفات کے بعد) چمپا کا بادشاہ بنا دیا گیا اور اس نے سلطان عبدالحمید کے لقب سے حکومت کی۔ ایک اور مسلمان بادشاہ پوروم کا بیٹا پوسال تھا جس نے ۱۶۶۰ء سے ۱۶۹۲ء تک پدوکاسری سلطان کے لقب سے (جو ملایائی لقب ہے) حکومت کی۔ یہ چمپا کا آخری بادشاہ تھا۔ اس کی تائید الدمشقی (۱۳۲۵ء) کی کتاب سے بھی ہوتی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ مملکتِ چمپا میں مسلمان عیسائی اور بت پرست بستے ہیں۔ اسلام وہاں حضرت عثمانؓ اور علویوں کے دور میں آیا۔

  •  آزادی کے بعد: ویت نامی فوج (نگوئن آرمی) کے ہاتھوں پے درپے شکستوں کی وجہ سے چم مسلمان چمپا سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ اکثر چم کمپوچیا اور لائوس ہجرت کرگئے اور بہت سے ملایشیا‘ امریکا اور تھائی لینڈ چلے گئے۔ چم صرف نہاترانگ پھان رانگ اور پھان تھٹ‘ یعنی وسطی ویت نام میں رہ گئے ہیں۔ ہند چینی مسلمانوں کی اکثریت انھی چم مہاجرین کی نسل سے ہیں۔ ویت نامی حکومت نے مسلم چم پر بڑی سخت ناروا پالیسیاں نافذ کیں۔ انھیں زبردستی ویت نامی زبان‘ کلچر اور اقدار اپنانے پر مجبور کیا اور ان کے دیگر مسلمان ممالک خصوصاً ملایشیا سے رابطے بالکل محدود کر دیے تھے۔

۱۵ سالہ طویل ویت نامی جنگ کے دوران ویت نام کے دیگر لوگوں کی طرح مسلمانوں کو بھی بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ ۱۹۷۶ء میں جنگ کے خاتمے کے بعد دونوں ویت نام ایک ہی کمیونسٹ حکومت کے تحت پھر اکٹھے ہوگئے۔ویت نامی مسلم کانگریس کا دفتر ہنوئی میں بند کردیا گیا اور اس کے تاسیسی ارکان کو ویت نام سے ہجرت پر مجبور کردیا گیا جن میں محترمہ زینب بھی شامل تھیں جو امریکا ہجرت کرگئیں۔ مساجداور دینی مدارس کو صحت کے مراکز میں تبدیل کردیاگیا یا انتظامی ایجنسیوں کے دفاتر بنا دیے گئے یا پبلک جلسوں اور نجی میٹنگز کے مراکز کے طور پر استعمال کی جانے لگیں۔

اپریل ۱۹۷۵ء کے بعد ویت نامی مسلمانوں کی اچھی خاصی اکثریت دیگر ممالک‘ مثلاً امریکا‘ فرانس‘ کینیڈا‘ بھارت‘ ملایشیا ہجرت کرنے پر مجبور کر دی گئی اور کچھ آسٹریلیا ہجرت کر گئے۔ محمدعلی کیتانی کے بقول ۱۹۷۶ء میں ۱۷۵۰ مسلم چم چین میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے‘ جب کہ  ۱۹۷۶ء سے ۱۹۹۳ء تک ۵۵ ہزار چم کمپوچیا اور ویت نام سے ملایشیا میں پناہ لینے پرمجبور ہوئے۔ ویت نام کی جامع مسجد کو بند کردیا گیا اورہنوئی کی مسجد کو فیکٹری میں تبدیل کردیا گیا۔ یہ ہنوئی کی واحد مسجد تھی اور اسے ایک پاکستانی مخیر میاں بیوی نے تعمیر کرایاتھا۔ اگرچہ ان مساجد کو مسلم سیاست دانوں کی مساعی کی وجہ سے واگزار کروا لیا گیا لیکن وہاں مسلمانوں کے نماز پڑھنے میں بڑی رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں۔ جمعہ کی نمازکے لیے انھیں مقامی پولیس کے سربراہ اور مسجد کے منتظم سے پیشگی تحریری اجازت لینا پڑتی تھی اور پھر جمعہ کی نماز ادا کرنے والے مسلمانوں کی تعداد‘ ان کے ناموں اور پتوں کی فہرست مہیا کرنا پڑتی تھی اور ہر جمعہ کو ایسا کرنا ضروری تھا۔

۱۹۷۵ء سے ۱۹۷۸ء تک بہت سے مسلم رہنما حراست میں لیے گئے۔ ہنوئی میں دومسلم رہنما جو سگے بھائی عبدالحمید بن عیسیٰ (دوحمید) اور عبدالرحیم بن عیسیٰ (درہام) جو آلوچی منہ کی حکومت سے پہلی حکومت میں سول سروس کے ملازم تھے اور ان کے ساتھ عبدالکریم سابق رکن قومی اسمبلی کو بھی تفتیش کے لیے اٹھا لیا گیا اور پھر ان کی کوئی خبر ان کے بدنصیب خاندان کو نہیں ملی۔

  •  مسلمانوں کی موجودہ صورت حال : موجودہ کمیونسٹ حکومت میں مسلمانوں کی حالت بڑی ابتر ہے۔ اکثریت تو اچھے حالاتِ کار اور آزادی کی امید لیے ویت نام سے ہجرت کر گئی ہے۔ ۱۹۷۸ء سے حکومت نے یہ طے کیا کہ مسلمان ملک کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔ لہٰذا کچھ پابندیاں نرم کر دی گئی ہیں۔ البتہ ایک اہم پابندی باقی ہے کہ وہ بیرون ملک مسلمان تنظیموں سے رابطہ نہیں رکھ سکتے‘ تاہم اسلامی لٹریچر ویت نام بھیجا جاسکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ویت نامی زبان میں ہو۔ عربی یا ملایائی زبان کا لٹریچر درآمد کرنا بہت مشکل ہے۔

ویت نام کی سول سروس میں یا سیکورٹی فورسز میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے‘ نہ انھیں سیاست میں ہی کوئی نمایندگی حاصل ہے۔ مسلمان کاشت کاری کرتے ہیں یا ماہی گیری یا شہروں میں بس ڈرائیوری۔ مسلم قوم کا پیشہ گلہ بانی‘ لکڑی کی ٹال پر لکڑیاں کاٹنا‘ پارچہ بافی یا قصاب کا کام کرنا ہے کیونکہ ویت نامی بدھ گوشت تو کھاتے ہیں لیکن جانور ذبح نہیں کرتے۔ ہوچی منہ سٹی (سیگون) میں مسلمانوں کی چند دکانیں اور ریستوران بھی ہیں۔ ان میں مشہور فورسینز ریسٹورنٹ ایک چم مسلم کی ملکیت ہے۔ بلیو روز ریسٹورٹ اور بمبئی ریسٹورنٹ بھی مسلمانوں کے ہیں۔ دیہات میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے حلال گوشت کی دکانیں بھی ہیں۔

  •  ویت نامی زبان میں قرآن مجید کی تفسیر: حاجی حسن عبدالکریم نے ویت نامی زبان میں قرآن مجید کی تفسیر لکھی ہے۔ حاجی عبدالکریم اور محمد سمیع صدیق نے رحمۃ للعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مختصر سیرتِ طیبہ بھی لکھی ہے۔ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی دینیات بھی ویت نامی زبان میں ترجمہ کی گئی ہے۔ حاجی محمد طیب فہمی نے روح اسلام اور ارکانِ اسلام ویت نامی زبان میں لکھی ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ ویت نامی مسلمانوں کا کوئی اخبار یارسالہ نہیں ہے۔ قرآن مجید کی طباعت پر پابندی نہیں ہے لیکن مسلمانوں کا کوئی اشاعتی ادارہ نہیں ہے‘ جب کہ ویت نام کے مسلمانوں میں اسلام کی صحیح تعلیمات کا شعور عام کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
  •  تعلیمی پس ماندگی: اکثر مسلم نوجوان ہائی اسکول تک نہیں جا پاتے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پرائمری یا مڈل اسکول کے بعد ان کی مالی حالت انھیں اجازت نہیں دیتی کہ وہ آگے پڑھیں۔ اِکا دکا نوجوان بیرون ملک تعلیم کے لیے بھی جاتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ انھیں  ویت نامی زبان میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جو ان کی مادری زبان نہیں ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ مسلمان ویت نامی زبان اور کلچر اختیار کر کے ویت نامی معاشرے میں ضم ہوجائیں۔ اس کی خاطر اس نے ان کے ناموں کے ساتھ اونگ‘ ما‘ ترا اور چی کے حصے بھی لگائے ہیں۔
  •  مساجد اور مدارس کی صورت حال: ۱۹۸۲ء میں ویت نام میں ۳۷ مساجد اور ۲۷ مصلے تھے۔ ہوچی منہ سٹی (سیگون) میں چھے مساجد اور سات مصلے تھے اور چاڑڈاک (این گیانگ) صوبے میں نو مساجد اور ۱۷ مصلے تھے۔ اکثر مساجد پکی نہیں تھیں۔ ۲۰ویں صدی کے وسط تک بلکہ آج بھی اکثر مساجد گھاس پھوس اور بانسوں سے بنائی جاتی ہیں۔ محراب کے پاس ایک منبر ہوتا ہے جس پر خطیب جمعے کا خطبہ دیتا ہے۔ نمازیوں کے لیے چٹائیاں بچھائی جاتی ہیں۔ وضو کے لیے پانی سے بھرے کینٹینر مساجد میں رکھے ہوتے ہیں۔ کمیونسٹ انقلاب میں یہ سب مساجد یا تو بند کر دی گئیں یا فیکٹریاں یا پبلک اجتماع گاہ بنا دی گئی تھیں۔ ۱۹۸۲ء تک ہوچی منہ سٹی میں ۱۳ مساجد تھیں۔

اسلامی درس گاہیں کوئی خاص نہیں ہیں لیکن مساجد کے ساتھ ایک حصہ بچوں کی بنیادی اسلامی تعلیمات کے لیے مخصوص کیاگیا ہے۔ ان میں تن چائو ضلع کی مسجد نیک ماں ہے جہاں لڑکوں کے لیے سات اور لڑکیوں کے لیے ایک کلاس ہے۔ صوبہ این گیانگ کی مسجدالامان میں مدرسہ اصلاح قائم ہے جس میں ۱۵۰ طلبہ زیرتعلیم ہیں۔ ضلع آن پھوکی مسجدالاحسان کے مدرسہ میں ۱۲۰ طلبہ زیرتعلیم ہیں۔ ضلع پھونہاں کی جامع مسجد المسلمین میں بھی ایک مدرسہ ہے۔ ویت نام میں اب کُل ۴۰ مساجد اور ۲۲ مصلے ہیں۔ ویت نام کی قدیم ترین مسجد جامع الازہر جو صوبہ آن گیانگ کے ضلع پھوتان میں واقع ہے ۱۴۲۵ء میں تعمیر ہوئی تھی۔ دوسری قدیم ترین مسجدالرحیم ہے جو ہوچی منہ سٹی (سیگون) میں ہے۔ اسے ۱۸۸۵ء میں ملایشیا اور انڈونیشیا کے مسلمانوں نے مل کر تعمیر کیا تھا۔ چوتھی قدیم ترین مسجد ہنوئی کے ضلع ہوان کیم میں ہے جو مسجدالنور کے نام سے مشہور ہے۔ اسے ہندی تاجروں نے ۱۸۹۰ء میں تعمیر کیا تھا۔ صوبہ آن گیانگ کے ضلع آن پھو میں واقع پانچویں قدیم ترین مسجد کھان بنہ (ماکورہما) ہے جو ۱۰۰ سال پرانی ہے۔

جدید ترین مساجد میں صوبہ بن پھوک کی مسجد حیات الاسلام ہے جو ۱۹۹۰ء میں تعمیر ہوئی اور صوبہ بنہ دوانگ کی مسجدالمتقین ہے جو ۱۹۹۲ء میں تعمیر ہوئی۔ مسجد جامع الاسلامیہ ہوچی منہ سٹی کو ۲۰۰۴ء میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ اسے عربی طرزِتعمیر میں ایک ویت نامی آرکیٹیکٹ نے تعمیر کیا۔ ہوچی منہ سٹی کے ضلع پھونہان کی مسجد جامع المسلمین ایک اور مشہور مسجد ہے۔ اس کی تعمیر ۱۹۶۹ء میں شروع ہوئی اور ۱۹۷۱ء میں مکمل ہوئی۔ اس کی پہلی منزل پر ہوچی منہ سٹی کی اسلامک کمیونٹی کا دفتر ہے۔ دوسری منزل نمازیوں کے لیے ہے جہاں خواتین کے لیے بھی علیحدہ انتظام ہے۔

  •  مسلم تنظیمیں:شمالی ویت نام اور جنوبی ویت نام کے اتحاد سے پہلے شمالی ویت نام میں کوئی قابلِ ذکر مسلم تنظیم نہیں تھی کیونکہ وہاں مسلمان براے نام تھے۔ البتہ جنوبی ویت نام میں  کئی مسلمان تنظیمیں تھیں جن میںچم ویت نام ایسوسی ایشن (CAMA) اور ویت نام گریٹ  اسلامی کونسل اور سیخون السلام وغیرہ نے مل کر ایک تنظیم کی صورت اختیار کرلی جس کا نام     کونسل براے ویت نام مساجد ہے۔یہ ڈاکٹر صدیق طوطی (توتی) کی مساعی کا نتیجہ ہے جو    اسلامی ترقیاتی بنک کے نمایندہ ہیں ان کے ساتھ رابطہ العالم الاسلامی کے ابراہیم عادل جی بھی شامل تھے جنھوں نے ۱۹۸۲ء میں ویت نام کا دورہ کیا تھا۔ ایک اور معاصر اور فعال مسلم تنظیم ہوچی منہ سٹی کی اسلامک کمیونٹی ہے جو ۱۹۹۲ء میں قائم ہوئی۔ یہ شہر کے ۷ہزار مسلمانوں کی نمایندہ تنظیم ہے۔ جمعیۃ السعادۃ ایک اور تنظیم ہے۔ ویت نامی چم مسلم تنظیم نوجوانوں کی تنظیم ہے۔ ویت نام   چم مسلم ایسوسی ایشن اور ویت نام مسلم آرگنائزیشن بھی ہیں لیکن ان کی کارکردگی براے نام ہی ہے۔

ویت نام کے مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ تاریخ بڑے مصائب اور مسائل سے پُر رہی ہے۔ اس میں سب سے کٹھن دور کمیونسٹوں کا دور رہا ہے جنھوں نے انھیں جیسا کہ ان کا دستور ہے باقی دنیا سے بالکل الگ تھلگ کر کے رکھ دیا‘ اور نہ وہاں کسی بیرونی میڈیا کے نمایندوں کو جانے کی اجازت تھی کہ وہ ان پر بیتنے والے مظالم دنیا کو بتا سکتے۔ ان پر بڑی ناروا پابندیاں لگائی گئیں۔  اب بھی انھیں بہت سے مسائل کاسامنا ہے‘ مگر ویت نام کے مسلمان ایک عزم اور جذبے کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ (ماخوذ: ہمدرد اسلامکس ’ جلد ۲۹‘ شمارہ ۲‘ ۲۰۰۷ء‘ وکی پیڈیا انسائیکلوپیڈیا، www.wikipedia.org)

اسرائیل اور اس کے حواریوں کے لیے حماس کی نمایاں کامیابیوں کا صدمہ ایک ناسور بن چکا ہے۔ فلسطینی عوام کی واضح اکثریت کی منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے کے باوجود وہ حماس کے خوف سے نجات نہیں پاسکے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی سازش تیار کی جارہی ہے۔ اب ایک قابلِ بقا و استمرار (sustainable state)فلسطینی ریاست کے قیام کے دعوے کے تحت نومبر ۲۰۰۷ء میں منعقد ہونے والی واشنگٹن کانفرنس___ حقیقت میں یہ ایک ایسا سراب ہے جو صدر بش نے فلسطینیوں‘ عربوں‘ مسلمانوں اور ساری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے تیار کیا ہے۔ صدر بش   نے بڑی ہوشیاری‘ چالاکی اور چال بازی کے ساتھ فلسطینی مسئلے کو حل کرنے کی سعودی تجویز‘    سابق وزیراعظم برطانیہ ٹونی بلیئر اور عالمی چار رکنی کمیٹی جو امریکا‘ یورپی یونین‘ روس اور اقوام متحدہ سے مل کر بنی ہے___ ان تینوں کو موت کی نیند سلانے کی نیت سے یہ سازش تیار کی ہے۔ اس کانفرنس کی ناکامی پہلے ہی سے معلوم ہے اور ہدف بھی یہی ہے‘ تاکہ ناکامی کا سارا الزام فلسطینیوں کے سرمنڈھ کر اسرائیل کو اپنے جارحانہ اور مجرمانہ منصوبوں کو پورا کرنے کا کھلا لائسنس دیا جاسکے۔

اس عالمی کانفرنس میں شام کو دعوت نامہ نہ بھیجنا بھی اس نیت کی حقیقت عیاں کرتا ہے  کہ اس ناکام مگر امریکی‘ یورپین اور اسرائیلی نقطۂ نظر سے ’’کامیاب ___ بہت ہی کامیاب،   عالمی پیمانے پر عالمی برادری کے معیار پر کامیاب‘‘ کانفرنس کو ناکام کرنے کی مسلسل کوششوں کا الزام شام پر بھی تھونپا جاسکے اور پھر اس پر حملہ آور ہونے کے لیے اسرائیل کو جواز فراہم کیا جائے۔ اس حملے کی تیاری کے لیے اسرائیلی ہوائی جہازوں نے شمال مشرقی شام میں دید الزور پر حملہ کر کے اپنی ریہرسل کرلی ہے اور اس میں وہ کامیاب ہونے کا دعویٰ بھی کرچکے ہیں۔ یقینا آگے بڑھ کر لبنان میں حزب اللہ‘فلسطین میں حماس‘ غزہ اور غزہ حماس اور آخرکار ایران اس کا اصل اور آخری ہدف ہوگا۔

اسرائیل اپنے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کے بارے میں کوئی لچک نہیں رکھتا۔ وہ اپنے مبنی برظلم موقف کے بارے میں ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ بنیادی حساس موضوعات کو وہ چھیڑنا ہی نہیں چاہتا ہے اور فلسطینیوں سے وہی مطالبہ کر رہا ہے جو امریکا‘ برطانیہ اور یورپ اور اسرائیل نواز عالمی لابی بھی ہمیشہ سے دہراتی ہے ___ امن ‘ امن اور امن۔ صرف اسرائیل ہی کے لیے امن‘ اور ہلاکت‘ تباہی اور بدامنی اور قتل و غارت گری صرف اور صرف فلسطینیوں کے لیے۔

یہ عجیب و غریب اور ظالمانہ مساوات جو یہودی صہیونی ذہن کی خاص پیداوار ہے اور جسے یورپ اور بعد میں امریکا نے بحیثیت ملک و قوم اور نظامِ حیات اپنا لیا اور سینے سے لگالیا ہے‘ اس حد کو پہنچ چکا ہے کہ چار رکنی کمیٹی میں اقوامِ متحدہ کے نمایندے کو کہنا پڑا کہ اقوام متحدہ کو اس کمیٹی کی رکنیت سے مستعفی ہوجانا چاہیے‘ کیونکہ یہ کمیٹی فلسطین پر عائد کردہ اسرائیلی‘ امریکی‘ برطانوی‘ یورپی پابندیوں کو ختم کرانے میں ناکام رہی ہے(بی بی سی نیوز‘ ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۷ء)۔ اقوامِ متحدہ جو امریکا‘ یورپ اور روس کے بعد باقی دنیا کی اس کمیٹی میں نمایندہ تھی‘ کے نمایندے کا یہ بیان اس امر کی کھلی دلیل ہے کہ یہ ایک ایسا یک طرفہ ڈراما ہے جس کے سارے کردار اسرائیل اور اسرائیلی ہی ہیں۔ اس میں کسی اور کی کوئی گنجایش نہیں۔

اللہ تعالیٰ اَسْرَعُ مَکْرًا ہے‘ یعنی اللہ اپنی چال چلنے میں سب سے تیز ہے۔ اس لیے اس نے اپنی قدرت‘ حکمت اور مصلحت سے غزہ کی پٹی میں حماس کو غالب کر کے اسرائیل‘ امریکا‘ برطانیہ‘ یورپ اور دیگر اسرائیلی ہم نوائوں کے سینے میں ایک زہریلا خنجر گھونپا ہے۔ سب ہی جانتے ہیں کہ جو حق‘ اہلِ حق کے لیے زندگی کا باعث ہوتا ہے‘ وہی حق‘ حق کے دشمنوں کے حق میں زہرہلاہل ہوتا ہے۔ شمال میں حزب اللہ اور جنوب مشرق میں حماس کے نرغے میں پھنسی ہوئی اسرائیلی ریاست‘ اور اس کے ساتھ یہ سب کے سب ظالم اورمجرم ملک اور قومیں درحقیقت اپنی اپنی موت کی تیاریوں میں لگی ہوئی ہیں کیونکہ اہلِ حق کو ختم کرنے کے زعم میں ان شاء اللہ ایک روز یہ خود صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں گی۔ عاد و ثمود‘ فرعون و ہامان اس کی زندہ مثالیں ہیں۔

گذشتہ برس حزب اللہ کے کمزور اور ناتواں ہاتھوں سے اسرائیل‘ امریکا‘ برطانیہ وغیرہ کی شرمناک شکست اللہ تعالیٰ کی چالوں کی ایک کڑی تھی۔ اب یہ ظالم قومیں اپنے پیروں سے خود چل کر واشنگٹن کے اندھے کنوئیں میں اپنی مرضی سے چھلانگ لگا رہی ہیں۔ یہ قوموں کی اجتماعی خودکشی ہے جو عذابِ خداوندی کی بہترین مثال ہے۔

یہ صرف اور صرف کُنْ فَیَکُوْنُ کا کھیل ہے اور کچھ نہیں۔ وَّمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ (ابراھیم ۱۴:۲۰) ’’ایسا کرنا اللہ کے لیے کچھ بھی دشوار نہیں ہے‘‘۔

 

غیرمسلموں سے اظہارِ تعزیت

سوال: میرے شوہر کے تایا قادیانی (مرتد) ہوگئے تھے‘ اور اب اُن کی اولاد بھی قادیانی ہے۔ جب سے پروردگار نے ہدایت دی ہے‘ ہم لوگوں کا ان سے میل جول نہیں ہے۔گذشتہ دنوں میرے شوہر اپنے بھائیوں کے ساتھ گائوں گئے‘ تو وہاں موجود قادیانیوں کے گھر بھی تعزیت کے لیے گئے۔ جب مجھے پتا چلا کہ میرے شوہر کسی قادیانی کے گھر گئے ہیں تو مجھے بہت افسوس ہوا کہ یقینا یہ اُن کو اپنا رشتے دار سمجھتے ہوئے تعزیت کے لیے گئے ہوں گے۔ میرے شوہر کا موقف ہے کہ اُن کے تایا مرتد تھے لیکن اُن کی اولاد کا کیا قصور‘ وہ تو اُن کی ڈگر پر ہی چل رہی ہے‘ وہ مرتد نہیں‘ اور یہ کہ اسلام کافروں‘ عیسائیوں وغیرہ سے ملنے سے نہیں روکتا۔ اچھا سلوک تو ہرکسی سے کرنے کا حکم ہے‘ خواہ وہ قادیانی ہو یا کوئی بھی غیرمسلم۔ میرے میاں کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے فاتحہ نہیں پڑھی‘ صرف افسوس کرنے گئے تھے۔ اس ضمن میں شرعی نقطۂ نظر واضح فرما دیں تاکہ ان جیسے پڑھے لکھے اور سادہ لوح مسلمان کسی غلط فہمی کی بنا پر اپنی آخرت نہ خراب کر بیٹھیں۔

جواب: آپ کا دینی جذبہ قابلِ قدر ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر آپ کو برکت اور اجر عطا فرمائے۔ آمین!

مرتد‘ کافر و مشرک اور زندیق کے لیے دعاے مغفرت نہیں کی جاسکتی‘ اور اس کے فوت ہونے پر غم کا اظہار بھی نہیں کیا جاسکتا‘ البتہ یہ کلمات کہے جاسکتے ہیں: ’’کاش! وہ ایمان کے ساتھ رخصت ہوتا‘‘۔ آپ کے شوہر نے ان کے لیے دعاے مغفرت نہیں کی‘ اچھا کیا۔

اس سلسلے میں یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ :

۱- کفار سے موالات ناجائز ہے۔ موالات کا معنی دلی دوستی اور دلی محبت اور ان کے ساتھ رشتے ناتے اور شادی غمی میں شرکت ہے کہ ان کی خوشی کو اپنی خوشی اور ان کے غم کو اپنا غم سمجھنا___ ایسا کرنا صحیح نہیںہے۔

۲- ’مواساۃ‘ ہمدردی و غم گساری‘ بھوکوں کو کھانا کھلانا‘ پیاسوں کو پانی پلانا‘ بیماروں کا علاج کرنا‘ یہ ایسے کافروں کے ساتھ ہوسکتا ہے جن کے ساتھ برسرِ جنگ نہ ہوں اور جن سے دشمنی نہ ہو۔

۳- مدارات‘ رواداری‘ خوش اخلاقی‘ یہ تمام کفار سے ہوسکتی ہے بلکہ ہونی چاہیے تاکہ وہ متاثر ہوں‘ ہمارے ساتھ دشمنی نہ کریں اس لیے کہ جب دشمنی ہوجاتی ہے تو پھر تبلیغ کا اثر نہیں ہوتا۔ کفار چاہے مرتد نہ ہوں‘ ان سے برادرانہ مراسم نہیں رکھنے چاہییں۔ صرف خوش اخلاقی اور رواداری سے پیش آنا چاہیے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آپ کے شوہر کے تایا مرتد ہوگئے‘ ان کی اولاد کا کیا قصور ہے‘ وہ مرتد نہیں‘ درست نہیں ہے۔ ان کی اولاد منافقین اور زندیق کے حکم میں ہے۔ وہ اپنے کفر کو اسلام قرار دے کر دھوکا دہی کے مرتکب ہیں۔ یہ بھی ارتداد کی طرح کا جرم ہے۔ ان کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ اور تعلق رکھنا جائز نہیں ہے جس کے سبب لوگ ان کو مسلمان سمجھیں یا ان سے مسلمانوں کا سا معاملہ کریں۔ ان سے تعلق ’مدارات‘ تک رہنا چاہیے جسے رواداری اور خوش اخلاقی کہا جاسکے۔ اظہار افسوس اور دعاے مغفرت درست نہیں ہے۔ البتہ آپ کے شوہر نے جو اظہار افسوس کیا اس میں وضاحت ہونی چاہیے تھی کہ ہمیں افسوس ہے کہ قادیانیت پر ایمان کی حالت میں فوت ہوگیا اور اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو دائرۂ اسلام میں آنے کی توفیق دے۔

خیال رہے کہ محض آنا جانا منع نہیں ہے‘ جب کہ مقصد برادرانہ تعلق قائم کرنا نہ ہو بلکہ صرف رسمی تعلق قائم کرنا ہو‘ تا کہ ان کو دائرۂ اسلام میں لانے کی کوشش کی جاسکے اور سمجھا بجھا کر راہِ ہدایت پر ڈالا جاسکے۔

آپ اپنے شوہر کی موجودہ حالت پر زیادہ پریشان نہ ہوں‘ انھوں نے ان سے برادرانہ تعلق قائم نہیں کیے‘ دعاے مغفرت نہیں کی‘ البتہ افسوس کا طریقہ ان کو نہیں آتا تھا۔ اس وضاحت کے بعد ان پر حقیقت اجاگر ہوجائے گی۔ (مولانا عبدالمالک)

نکاح اور والدین میں اختلاف راے

س: میرے بڑے بیٹے کی شادی اُس کی والدہ اور نانی‘اُس کی خالہ زاد سے کرنا چاہتی تھیں‘ لیکن میرا بیٹا اس پر رضامند نہ ہوا اور اُس کی خالہ زاد کی شادی کہیںاور ہوگئی۔ اب میرا بیٹا اپنی پھوپھی زاد سے شادی کرنا چاہتا ہے اور اپنے دوستوں کے ذریعے اُس نے یہ بات مجھ تک اور اپنی والدہ تک پہنچائی بھی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ بنا کہ اُس کی نانی صاحبہ اور ماموں صاحب نے سخت مخالفت شروع کر دی اور اپنی اَنا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ میری بیوی سخت الجھن میں ہے۔ ایک طرف اُس کے میکے والے ہیں اور دوسری طرف بیٹا اور اُس کی خواہش۔

بیٹے کی والدہ گناہ کے ڈر سے اپنی والدہ کو ناراض نہیں کرنا چاہتی۔ لیکن میرے خیال میں اسلام نے ہر فرد کو خواہ وہ اولاد ہو‘ بیٹا یا بیٹی ہی کیوں نہ ہوں‘ شادی کے معاملے میں اپنی خواہش اور مرضی کے اظہار کی اجازت دی ہے اور والدین کے لیے اولاد کی خوشی کو مدنظر رکھنا حکمت کا تقاضا ہے۔ سوال یہ ہے کہ میرے سسرال والوں کی ضد کیا عصبیت جاہلیہ کے شمار میں نہیں آتی؟ میرے اور میری اہلیہ کے لیے صحیح طرزِعمل کیا ہے؟ اگر میری بیوی بحیثیت والدہ بیٹے کو حکم دیتی ہے کہ وہ یہ خیال چھوڑ دے اور پھر وہ نہ مانے یا مان تو لے لیکن اپنے دل میں بوجھ بنا بیٹھے‘ کیا ایسا اُس کے لیے کرنا والدہ کی نافرمانی کے زمرے میں آتا ہے۔ نیز کیا میں قطع رحمی کا مرتکب تو نہ ہوجائوں گا؟

ج: آپ نے اپنے بیٹے کے عقد نکاح کے بارے میں جو سوال کیا ہے‘ اس کا جواب یہ ہے کہ نکاح کے مسئلے میں عقد میں منسلک ہونے والوں کی رضامندی دوسری رضامندیوں پر فائق ہے۔ آپ کا بیٹا اگر اپنی پھوپھی زاد سے شادی کرنا چاہتا ہے تو اسے اس کا حق حاصل ہے۔     نانی صاحبہ اور ماموں صاحب کے پاس اگر ایسا دوسرا رشتہ نہیں ہے جو آپ کے بیٹے کو پسند ہو تو پھر انھیں پھوپھی زاد سے شادی میں رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہیے۔ وہ اگر ناراضی کا اظہار کریں یا ناراض ہوجائیں تو اس میں آپ کے بیٹے یا آپ کا اور آپ کی اہلیہ کا کوئی قصور نہیں ہے‘ اور یہ قطع رحمی نہیں ہے کہ آپ اپنے بیٹے کی پسند کے مطابق اس کی شادی کردیں۔ نانی صاحبہ اور ماموں صاحب کو ناراض نہیں ہونا چاہیے۔

لڑکی کے نکاح کے لیے والد کی رضامندی ضروری ہے لیکن اختلاف کی صورت میں لڑکی کی رضامندی فائق ہوگی‘ بشرطیکہ لڑکی کی رضامندی سے باپ یا خاندان کی عزت میں فرق نہ آتا ہو کہ وہ کسی گھٹیا شخص سے شادی کرنا چاہے۔ لڑکے کے بارے میں تو والد کی رضامندی کو بھی ضروری قرار نہیں دیا گیا‘ اس کے لیے ولی کی رضامندی کی شرط نہیں ہے۔ البتہ اتنی بات اسلامی معاشرے میں معروف چلی آئی ہے کہ لڑکے اور لڑکی دونوں کی شادی والد کی ذمہ داری ہے‘ اورحدیث میں اس کا ذکر بھی ہے کہ بالغ ہونے کے بعد شادی کرانا والد کی ذمہ داری ہے۔ یہ کام والدین اور خاندان کی رضامندی سے ہوتا ہے اور سب کو اس سے خوشی ہوتی ہے۔ لہٰذا لڑکے یا لڑکی کو اس کی مرضی کے خلاف شادی پر مجبور کرنا یا ان پر دبائو ڈالنا درست نہیں ہے۔ آپ کو چاہیے کہ نانی اور ماموں کو خاندان کے بااثر لوگوں کے ذریعے لڑکے کی مرضی کے مطابق شادی کرنے پر راضی کریں اور اگر  وہ راضی نہ ہوں تو آپ کی اہلیہ اور آپ کے بیٹے پر اس شادی کے کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔

اگر شریعت کے مطابق کام کیا جائے تو پھر قطع رحمی کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ صلہ رحمی اور  قطع رحمی کا دائرہ شریعت نے مقرر کردیا ہے۔ اگر ’نکاح‘ کے مسئلے میں تمام لوگوں کی رضامندی برابری کے درجے میں ہو تو پھر تو کبھی بھی کوئی نکاح نہیں ہوسکے گا۔ اس لیے شریعت نے اس کے لیے معیار اور ضابطہ مقرر کردیا ہے جو تمام نزاعات کے خاتمے کا ذریعہ ہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں: فَاِنْ تَشَاجَرَا فَاسُّلْطَانُ وَلِیُّ مَن لَا وَلِیّ لَہٗ ، اگر لڑکی اور ولی میں اختلاف پیدا ہوجائے تو پھر عدالت اس کی ولی ہے جس کاکوئی ولی نہیں۔ گویا ایسی صورت میں عدالت لڑکی کے حق میں فیصلہ دے گی اور ولی کو اس بات کی اجازت نہیں ہوگی کہ وہ لڑکی کی مرضی کے خلاف اس کا نکاح کرے۔ رہا لڑکا تو وہ تو بدرجۂ اولیٰ اس کا مستحق ہے۔ وہ ولی کا قانوناً نہیں بلکہ اخلاقاً پابند ہے۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

 

تدبر قرآن پر ایک نظر، مولانا جلیل احسن ندوی‘ترتیب و تعلیق: مولانا نعیم الدین اصلاحی۔ ناشر: دارالتذکیر‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۷۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

آٹھ ضخیم جلدوں پر مشتمل تدبر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی کی عظیم شاہ کار تفسیر ہے۔ گوناگوں خصوصیات کی حامل اس تفسیر کی سب سے بڑی خوبی نظم قرآن کی پیش کاری ہے‘ تاہم غلطیوں‘ تسامحات اور فروگذاشتوں سے انبیاے کرام کے سوا نہ کوئی انسان پاک ہے اورنہ کوئی انسانی کاوش۔ مولانااصلاحی کے نزدیک قرآن فہمی میںعربی ادب‘ نزولِ قرآن کے دور کے عربی لٹریچر اور روایات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس لیے اِن اور بعض دیگر علمی معاملات میں اُن کی راے جمہور علما سے مختلف ہے۔

زیرنظر کتاب میں مولانا جلیل احسن ندوی نے کئی مقامات پر مولانا اصلاحی کے نقطۂ نظر سے اختلاف کیا اور تدبر قرآن کے تسامحات کا محاکمہ کیا ہے۔ ایک مثال ملاحظہ ہو: سورۂ بقرہ آیت ۲ (ذٰلِکَ الْکِتَاب… للمتقین) کا ترجمہ مولانا اصلاحی نے اس طرح کیا ہے: ’’یہ کتابِ الٰہی ہے، اس کے کتاب الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں‘ ہدایت ہے ڈرنے والوں کے لیے‘‘ (تدبر قرآن‘ اوّل‘ ص ۳۷)۔ تفسیری حصے میں ذٰلِکَ کا مطلب بتاتے ہوئے کہتے ہیں: ’’جو چیز مخاطب کے علم میں ہے یا جس کا ذکر گفتگو میں آچکا ہے‘ اگر اس کی طرف اشارہ کرنا ہو تو وہاں ذٰلِکَ استعمال کریں گے‘‘۔ اس پر مولانا ندوی نے اعتراض کیا ہے کہ تب تو اس (ذٰلِکَ) کا ترجمہ ’وہ‘ سے کرنا چاہیے نہ کہ ’یہ‘ سے۔ صاحبِ تدبر قرآن آگے لکھتے ہیں: یہاں ذٰلِکَ کا اشارہ سورہ کے اس نام کی طرف ہے جس کا ذکر گزر چکا ہے اور بتانا یہ مقصود ہے کہ یہ الم قرآن عظیم کا ایک حصہ ہے (ایضاً، ص ۴۱)۔ ندوی صاحب لکھتے ہیں: ذٰلِکَ کا ’یہ‘ سے ترجمہ کرنا درست نہیں اور نہ یہ درست ہے کہ ذٰلِکَ کا اشارہ سورہ کی طرف ہے بلکہ ذٰلِکَ کا ترجمہ ’وہ‘ درست ہے۔ نیزیہاں سورہ کے نام کی طرف اشارہ نہیں ہے بلکہ اس کتاب کی طرف اشارہ ماننا چاہیے جس کا اہلِ کتاب بالخصوص یہود انتظار کر رہے تھے جس پر ایمان لانے کا ان سے اللہ نے موسٰی ؑاور دوسرے انبیاے بنی اسرائیل کے ذریعے پختہ عہدوپیمان لیا تھا(ص ۱۱)۔ مصنف نے گروہی تعصبات سے بالاتر ہوکر تجزیہ اور مدلل بحث کی ہے۔ بعض مقامات پر اسلوبِ تنقید قدرے سخت ہے لیکن بحیثیت مجموعی یہ اختلاف و تنقید صاحبِ تدبر قرآن کے پورے احترام کے ساتھ علمی و فکری حدود میں ہے۔

سورئہ بقرہ سے سورئہ فتح تک کی مختلف آیات کے تراجم اور ان کی تفسیر پر مشتمل یہ مضامین وقتاً فوقتاً ماہ نامہ زندگی اور ماہ نامہ حیاتِ نو میں شائع ہوتے رہے۔ نعیم الدین اصلاحی نے انھیں جمع کیا‘ کتابی شکل دی اور اس پر تعلیقات و حواشی کا اضافہ کیا۔ یہ صرف چند سورتوں تک محدود ہیں۔ زیرنظر کتاب قرآنی مطالعے کے سلسلے میں متوازن راے قائم کرنے اور قرآن فہمی کے ذوق میں اضافے کا سبب بنے گی۔ (حمیداللّٰہ خٹک)


اسلام اور مغرب کا تصادم، اسرارالحق‘ مترجم: وسیم الحق۔ ناشر: کتاب سراے‘ الحمدمارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۲۳۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

اسرارالحق کی کتاب The End of Illusionsکے چھٹے باب کا اُردو ترجمہ وسیم الحق نے کیا ہے۔ اس اہم تصنیف میں بہ دلائل یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اسلام‘ قرآن‘ جہاد‘ حجاب اور مسجد کے خلاف مغرب کے چند لوگ نہیں بلکہ صدارتی مشیر‘ انتہائی بااثر تھنک ٹینک‘ پالیسی ساز ادارے‘ یونی ورسٹیاں اور ذرائع ابلاغ کے سرخیل سب کے سب شب و روز سرگرمِ عمل ہیں۔ نام نہاد دہشت گردی کا مرتکب مسلم دہشت گرد قرار پاتا ہے‘ جب کہ کسی عیسائی‘ یہودی‘ جاپانی‘ ہندو یا تامل فرد کے لیے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ اُس کے مذہب کی شناخت کی جائے۔

اسرارالحق صاحب نے سیکڑوں حوالوں کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ ڈنمارک کے خاکہ نگار کے خاکوں نے شہرت حاصل کرلی ورنہ امریکا اور یورپی ممالک کے متعدد صدور‘ سربراہانِ فوج اور پالیسی ساز اداروں کے بیانات بھی اپنی زہرناکی میں خاکوں سے کم نہیں۔ سب سے بڑا عملی ثبوت افغانستان وعراق ہیں کہ جہاں انسانیت کے ہر اصول کو پامال کر کے طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

۲۲۳ صفحات کی زیرنظر کتاب میں امریکی ذرائع ابلاغ‘ امریکی کانگرس‘ اقوامِ متحدہ‘ یورپی یونین‘ بھارت اور جاپان کے درجنوں ایسے حوالے درج کیے گئے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ وہاں اسلام کو روے زمین سے نیست و نابود کرنے کے لیے کیا کچھ سازشیں ہو رہی ہیں۔ ان مسلسل حوالوں اور بیانات کو پڑھ کر ایک بار تو یہ احساس ہوتا ہے کہ میڈیا نے ہمیں اس طرح بے دست و پا کردیا ہے کہ ہم اپنے ہی قتل کے لیے کی جانے والی کوششوں سے آگاہ نہیں ہیں۔

اسرارالحق نے غیر جانب داری سے اسلامی نظامِ معاشرت‘ تہذیب‘ جذبۂ جہاد‘ شہادت‘ پُرمسرت زندگی‘ شراکتِ اقتدار‘ رواداری اور نظامِ حکومت کے خدوخال اور ان کے رہنما اصولوں کی نشان دہی کردی ہے۔ کتاب کے ابتدائی ۵۷ صفحات تو حقیقتاً آنکھیں کھول دینے والے ہیں۔ انگریزی سے اُردو ترجمہ انتہائی محنت سے کیا گیا ہے۔ مغرب اور مغربی فکر سے آگاہی کے لیے یہ ایک اہم کتاب ہے۔ (محمد ایوب منیر)


۱- صحت کی حفاظت ، ۲- قدرتی دوائیں،۳- امراض اور علاج ، ڈاکٹر حکیم عبدالحنان۔ ناشر: ٹائم مینجمنٹ‘ پوسٹ بکس ۱۲۳۵۶‘ ڈی ایچ اے‘ کراچی-۲۵۵۰۰۔ صفحات: (علی الترتیب)  ۲۷۲، ۱۵۲،۲۲۴۔ قیمت: ۲۰۰، ۱۳۰،۱۷۰ روپے۔

پرانا محاورہ ہے کہ صحت دولت ہے‘ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ اس دولت کی قیمت بہت بڑھتی جارہی ہے۔ جو بیماری کسی کو ہوجائے معلوم ہوتا ہے کہ ساری عمر کا علاج چاہیے۔ دوائیں غذا اور خوراک کا حصہ بن گئی ہیں۔ پرانے وقتوں میں بہت ساری بیماریاں گھروں ہی میں نبٹائی جاتی تھیں۔ خاندان کی بزرگ خواتین کے پاس اتنے مجرب نسخے ہوتے تھے کہ صرف پیچیدہ بیماریوں کے لیے ڈاکٹر کا منہ دیکھنا پڑتا تھا۔ یہ صدری نسخے بھی آہستہ آہستہ متروک ہوگئے اور ڈاکٹری علاج کا چلن بڑھ گیا۔ اس پس منظر میں ڈاکٹر حکیم عبدالحنان کی یہ تین کتابیں نعمت سے کم نہیں۔ حکیم صاحب نے سادہ اور عام فہم زبان میں اتنا کچھ فراہم کر دیا ہے کہ اگر عام تعلیم یافتہ مرد اور خواتین ان تینوں کتابوں کو کورس کی طرح پڑھ لیں، (یعنی اس پر امتحان میں ۵۰ فی صد سے زائد نمبر لے سکیں) تو نہ صرف وہ اپنی ذاتی صحت ٹھیک رکھیں گے بلکہ خاندان کے دوسرے چھوٹے بڑوں کے لیے ایک حد تک معالج کا کام کرسکیںگے (اور یوں علاج پر خرچ ہونے والے ہزاروں بلکہ شاید لاکھوں روپے کی بچت کریں گے)۔

صحت کی حفاظت میں بیماریوں سے بچائو اور زندگی گزارنے کے آسان طریقے فراہم کیے گئے ہیں۔ قدرتی دوائیں میں پھلوں‘ سبزیوں اور عام جڑی بوٹیوں سے محفوظ اور مؤثر انداز سے علاج کے طریقے بیان کیے گئے ہیں۔ وہ باتیں جو اخبارات اور رسائل میں موسم کے لحاظ سے پڑھنے کو ملتی ہیں‘ سب یہاں یک جا اور مستند موجود ہیں۔ امراض اور علاج میں ہر قسم کے عام امراض (بلڈپریشر‘ ذیابیطس‘ دمہ اور دیگر) کے بارے میں بہت کام کی باتیں اور مفید مشورے دیے گئے ہیں اور ساتھ ہی طبِ یونانی کے کچھ آسان نسخے بھی بیان کیے گئے ہیں۔

عام فائدے کی یہ معیاری کتابیں ہر فرد کی ضرورت ہیں۔ (مسلم سجاد)


مجھے ہے حکمِ اذاں، اوریا مقبول جان۔ ناشر: کتاب گھر‘ ادارہ الانوار‘ دکان۲‘ انور مینشن‘ بنوری ٹائون‘ کراچی۔ فون: ۴۹۱۹۶۷۳۔ صفحات، حصہ اوّل: ۳۱۰‘ دوم: ۳۱۲۔ قیمت: درج نہیں۔

پاکستان کے اخباری صفحات پر روزانہ لاکھوں الفاظ خرچ کر کے خبریں پیش کی جاتی ہیں اور مضامین یا کالم لکھے جاتے ہیں۔ جملوں اور حرفوں کی یہ برکھا چند گھنٹوں میں فنا کے گھاٹ اُتر جاتی ہے۔ تاہم جو چند ہزار الفاظ زندگی پاتے ہیں‘ ان میں سے ایک قابلِ لحاظ تعداد اوریا مقبول جان کے حصے میں آئی ہے۔ حرفِ راز کے اس پُرعزم رازدان نے لفظوں کو پاکیزگی اور عصری شعور کو دانش کی کسوٹی پر پرکھنے کی روایت میں بامعنی پیش رفت کی ہے۔

ان دو مجموعوں میں شامل مختصر مضامین معروف ہفت روزہ ضربِ مومن میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان نثرپاروں میں ہماری زندگی کے روز مرہ حادثات و واقعات کو تاریخی‘ سماجی‘ دینی‘ اخلاقی اور نفسیاتی تناظر میں سمجھنے اور سمجھانے کا توجہ طلب انداز پایاجاتا ہے۔ مجموعی طور پر کتاب کے اوراق پر مغرب کی غیرمنصفانہ یلغار‘ دھونس اور زیادتی کے فہم کو نمایاں کیا اور خود مسلم دنیا میں   بکھری بے عملی اور بے حمیتی پر نظر ڈالی گئی ہے۔ مسلم دنیا بھی کیا‘ مسلم قیادتوں کی بے وفائی نے دشمن کے راستے صاف اور آراستہ کرنے کے لیے جو گل کھلائے ہیں‘ ان مضامین میں انھیں دیکھا اور احساسِ زیاں کی کسک محسوس کی جاسکتی ہے۔(سلیم منصورخالد)


دل پہ دستک،اخترعباس۔ ناشر: منشورات‘ منصورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۲۳۸۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

اخترعباس صحافتی اور ادبی حلقوں میں جانا پہچانا نام ہے۔زیرنظر کتاب کے ۳۳ اخباری کالم‘ دین‘ وطن اور اپنی اقدارکے ساتھ محبت کرنے والے قلم کار کی سوچ بچار‘ذاتی تجربے‘ مشاہدے اور مطالعے کا عکس ہیں۔ خوب صورت الفاظ‘ عام فہم‘سادہ اور چھوٹے چھوٹے جملوں کے ساتھ بات کہنے کا فن‘ پُرکشش عنوانات کے ساتھ۔ چند عنوانات درج ذیل ہیں: ’انھیں موت دوست لگتی ہے‘، ’خالی ہاتھوں والوں کو کوئی کیسے یاد رکھے‘، ’غلط فیصلوں کے پہاڑ اکثر سر نہیں ہوتے‘، ’جتنا بڑا یقین اتنی بڑی کامرانی‘، ’اتنے سخت دل تو نہ ہوجایا کرو‘۔

اخترعباس نوجوان قلم کار ہیں جنھوں نے قلمی جہاد کا بیڑا اٹھایا ہے۔واعظانہ انداز کے بجاے خاموشی سے اپنی بات اس طرح کہتے ہیں جس سے امید‘ سرشاری کے جذبات اُجاگر ہوتے ہیں۔ یہی ان کی تحریر کی خوبی اور بات کہنے کا وہ ڈھنگ ہے جو ان کو موجودہ دور کے اہلِ قلم میں ممتاز کرتا ہے۔ اگرچہ یہ کالم پھول ڈائجسٹ میں بچوں کے لیے لکھے گئے ہیں مگر یہ ہرعمرکے قاری کو متاثر کرتے ہیں۔ جہادِ زندگی میں نئے راستوں اور منزلوں کے متلاشی حضرات کے لیے یہ کتاب ایک انمول تحفہ ہے۔ (عمران ظہور غازی )

تعارف کتب

  •  ماہ نامہ چراغ اسلام، مدیراعلیٰ: مولانا عطاء الرحمن مدنی۔ پتا: جامعہ عربیہ‘ انور انڈسٹری‘ جی ٹی روڈ‘ گوجرانوالہ۔ صفحات: ۸۰۔ قیمت: ۱۵ روپے۔ [ملک بھر سے نکلنے والے دینی رسائل کی تعداد میں ایک خوش گوار اضافہ‘  چار شمارے شائع ہوچکے ہیں۔ مضامین کا انتخاب معیاری ہوتا ہے۔ اکتوبر کے شمارے میں اعتکاف ‘شب قدر اور غزوئہ بدر پر مضامین ہیں۔ عیدکارڈ کے خلاف ایک مؤثر مضمون بھی شامل ہے۔]
  •  سہ ماہی الحنیف ، مدیراعلیٰ: قاری افضل اکبر۔پتا: فاروقی مسجد‘ سعود آباد‘ ملیر‘ کراچی-۳۷۔ صفحات: ۶۲۔ قیمت: درج نہیں۔ [یہ بھی ایک اضافہ ہے لیکن سہ ماہی۔ پہلے شمارے میں سیدابوالاعلیٰ مودودی‘ سید قطب شہید‘ سید ابوالحسن ندوی‘ مولانا گوہر رحمن‘ مولانا جلال الدین عمری‘ علامہ زاہد الرشدی‘ سید عارف شیرازی کے مقالات شامل ہیں۔ ان رسائل کا یہ فائدہ ضرور ہونا چاہیے کہ مدرسے کے استاد اور طلبہ جدید مسائل پر تحقیق کر کے عام فہم انداز سے لکھیں۔]
  •  دوماہی سربکف ، مدیراعلیٰ: منظرعارفی۔ پتا: سربکف‘ پوسٹ بکس ۷۲۷۲‘ کراچی۔ صفحات: ۱۶۸۔ قیمت: (خاص نمبر) ۸۰ روپے۔ [سیرت پر متعدد اچھی تحریروں کا مجموعہ۔ لکھنے والوں میں مولانا مودودی‘ نعیم صدیقی‘ اسعدگیلانی‘ پروفیسر خورشیداحمد اور خالد علوی صاحبان شامل ہیں‘ نیز ہر صفحے پر معروف شعرا کے اشعار۔]
  •  آزادی نسواں، زوال نسواں، ڈاکٹر جاوید اقبال (ہومیو)۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز‘ ۳۴- اُردو بازار‘ لاہور۔ فون: ۷۲۳۲۳۳۶۔ صفحات: ۱۸۳۔ قیمت: ۱۵۰ روپے (مجلد)۔ [مؤلف نے دینی غیرت کے جذبے سے اس منفی پروپیگنڈے کاجائزہ لیاہے جس کے تحت مسلمان خواتین کی بدحالی کی خودساختہ داستانوں کی تشہیر کی جاتی ہے۔ چار ابواب: عورت اور مذاہبِ عالم‘ عورت اور معاشرتی زندگی‘ عورت اور اسلامی احکام‘ آزادیِ نسواں یا زوالِ نسواں ___میں ان مباحث کو سمیٹا گیا ہے۔]
  •  Islam , Essence and Spirit، محمد زبیر فاروقی۔ ناشر: دعوہ اکیڈیمی‘ انٹرنیشنل اسلامک  یونی ورسٹی‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۱۰۰۔ قیمت: ۷۰ روپے۔ [بنیادی اسلامی عقائد کا فلسفہ۔ ہر لحظہ بدلتی دنیا میں توحید‘ رسالت‘ آخرت کے تصورات‘ مستحکم خاندانی نظام اور نظامِ معاشرت میں اخلاقیات کی غرض و غایت۔ علمِ وحی اور اکتسابی علم نے انسانیت کے لیے کون سے راستے کشادہ کیے ہیں۔ بے خدا تہذیب اور معیشت و معاشرت نے کیا گُل کھلائے‘ ان موضوعات پر قلم اٹھایا گیاہے۔ انگریزی دانوں کے لیے اسلام کا ایک مؤثر تعارف۔]

احمد علی محمودی ‘حاصل پور

’مستقبل کا چیلنج اور ہم‘ (اکتوبر ۲۰۰۷ء) میں امامت کی حقیقت جس دل نشین پیرایے میں بیان کی گئی ہے‘ وہ نہ صرف قابلِ ستایش بلکہ قابلِ تقلید ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی و فروعی مسائل نے دورِحاضر کے امام کی فکرونظر کو محدود کردیا ہے۔ عالم گیر اسلامی انقلاب کی منزل کے حصول کے لیے مفید فکری لوازمہ ہے۔

اے ڈی جمیل ‘جھنگ

محترم محمد یوسف اصلاحی کی تحریر: ’آپ کا گھر‘ (اکتوبر ۲۰۰۷ء) اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ اپنے گھروں کی طرف توجہ اور اہلِ خانہ کی تربیت اور اسلامی روایات سے گہرا رشتہ جوڑنے کے لیے نہ صرف  دل سوزی سے توجہ دلائی گئی ہے بلکہ عملی رہنمائی بھی دی گئی ہے۔

محمد ابوبکر صدیق ‘بورے والہ

’افیون کی گولیاں‘ (ستمبر ۲۰۰۷ء) بہت ہی alarming ہے۔ ’پاک امریکا تعلقات‘ میں جو کچھ آپ نے فرمایاہے‘ اگر اُس پر پاکستانی قوم پوری سنجیدگی سے غور کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری اجتماعی خرابیِ بسیار کا   پتا نہ چل سکے۔اتنے واشگاف الفاظ میں ’انجیوگرافی‘ کرانے کے بعد بھی اگر ہم علاج کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تو شاید مستقبل قریب میںہم ایسی ’دلدل‘ میں پھنس بلکہ دھنس جائیں کہ جہاں سے قومیں صدیوں بعد ہی کہیں جاکر نکلا کرتی ہیں۔ تعلق مع اللہ سے کٹ کر‘ ہمارے لیے سواے ذلت و رسوائی کے اور کوئی راستہ نہیں بچتا۔

ڈاکٹر راشد محمود ‘لاہور

حکمت مودودی کے تحت ’دعوت دین کی تڑپ‘ (ستمبر ۲۰۰۷ء) میں‘ سیدمودودیؒ نے انقلاب برپا کرنے کے لیے اَن پڑھ لوگوں تک دعوت پہنچانے کی طرف توجہ دلائی ہے اور اصل رکاوٹ جذبۂ تبلیغ کی کمی کو قرار دیا ہے۔ دوسری طرف ’تجوید و قرا ء ت کی فضیلت‘ میں صحیح مخرج کی ادایگی پر بہت زوردیا گیا ہے اور صحیح ادایگی نہ ہونے پر سخت تنبیہہ کی گئی ہے اور وعیدیں سنائی گئی ہیں۔ یہاں تضاد محسوس ہوتا ہے۔ تجوید و قراء ت کی ضرورت و اہمیت اپنی جگہ لیکن اصل ترجیح پیغامِ قرآن اور روحِ قرآن سے آشنا کرنا‘ ہونی چاہیے۔ کسی عجمی سے مخرج کی صحیح ادایگی امرمحال ہے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ نبی کریمؐ نے دعوت دین دیتے ہوئے مخرج کی ادایگی پر اتنا زور نہیں دیا۔ اگر ایسا ہوتا تو شاید سیدنا بلالؓ اذان ہی نہ دے پاتے کیوں کہ ان کے لیے مخرج کی صحیح ادایگی ممکن نہ تھی۔

 

مفتی اور قاضی آپ کے ایمان و اسلام کا اندازہ کرنے میں غلطی کھا سکتے ہیں‘ مگر آپ خود اگر خدا کو عالم الغیب اور علیم بذات الصدور جانتے ہوئے اپنے قلب پر نگاہ ڈالیں گے تو آپ کے اپنے ضمیر سے یہ بات نہیں چھپ سکتی کہ جس دین کو آپ اپنی دنیوی اور اخروی نجات کا ضامن مانتے ہیں اس پر آپ کے ایمان کا فی الواقع کیا حال ہے۔ یہ آپ کے زبانی دعوے اور یہ     فلک شگاف نعرے انسانوں کو ممکن ہے مرعوب کر دیں اور انھیں کسی غلط فہمی میں بھی مبتلا کردیں لیکن خدا کے روبرو تو سب حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔ وہاں نعرے اور نام نہیں‘ نیتیں اور کام دیکھے جائیں گے۔ اسلام کا جو نمونہ آپ اِس وقت دنیا میں پیش کر رہے ہیں اس کا نتیجہ تو بجز خسرالدنیا والآخرہ کے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ آپ کے اِس اسلام نے دنیا بھر کو اصلی اسلام سے بدگمان کرکے رکھ دیا ہے اور خدا کی کتاب گواہ ہے کہ ایسے اسلام کی آخرت میں بھی کوئی قدروقیمت نہیں ہوگی۔ دوسرے مسلکوں اور نظام ہاے زندگی کی طرح اسلام بھی دو ہی صورتیں پیش کرتا ہے کہ یا تو اسے سارے کا سارا قبول کرو یا پھر اس معاملے ہی کو ختم کردو۔ یہ مسلمان اور نامسلمان ایک ساتھ بنے رہنے کے لیے کوئی گنجایش نہیں اور اگر آپ اس پر اصرار کریں گے تو پھر آپ سے پہلے کی مسلمان قوم‘ یعنی یہودیوں کا انجام آپ کے سامنے ہے۔ اگر آپ اس انجام سے بچنا چاہتے ہیں تو اس کی صورت یہی ہے کہ خدا کے دین پر فی الواقع ایمان لائیں اور اپنی زندگی اور اس کے معاملات سے‘ اپنے قول و عمل سے اور اپنی دوڑ دھوپ اور نقل و حرکت سے اسلام کی سچی شہادت پیش کریں۔ (’کارروائی اجتماعات جماعت اسلامی‘، میاں طفیل محمد، ترجمان القرآن‘ جلد۳۱‘ عدد۱‘ رجب ۱۳۶۶ھ‘ جون ۱۹۴۷ء‘ ص ۷-۸)