بسم اللہ الرحمن الرحیم
آج پوری ملّتِ اسلامیہ ہر سمت سے اندرونی اور بیرونی چیلنجوں اور خطرات کا نشانہ بنی ہوئی ہے اور اس کا سینہ اپنوں اور غیروں کے تیروں سے چھلنی ہے لیکن ہماری نگاہ میں اس وقت تین ایسے بنیادی اور گمبھیر چیلنج ہیں جن کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے اور ان کا مقابلہ کرنے کی صحیح حکمت عملی مرتب اور اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور پوری اُمت مسلمہ خصوصاً ملّتِ اسلامیہ پاکستان کی بقا‘ استحکام اور ترقی اسی پر منحصر ہے۔ اسلام کی حفاظت کا بیڑا تو اس کے وحی کرنے والے نے اٹھا رکھا ہے۔ اگر ایک قوم اس کا حق ادا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو وہ قادر ہے کہ دوسری قوموں کو اس امانت کا بار اٹھانے کے لیے آگے بڑھا دے جس طرح وہ ماضی میں کرتا رہا ہے۔ اس کی ایک تابناک مثال کی طرف اقبال نے اس طرح اشارہ کیا ہے ؎
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
لیکن اصل مسئلہ اسلام کی بقا کا نہیں‘ بحیثیت قوم اور اُمت ہماری بقا اور ترقی کا ہے۔ تمام اہلِ ایمان اور اصحابِ بصیرت کی ذمہ داری ہے کہ ان چیلنجوں اور خطرات کا صحیح صحیح ادراک کریں جن کی زد میں ہمارا قومی اور ملّی وجود ہے اور اُمت مسلمہ کو بیدار‘ منظم اور متحرک کرنے کی سعی و جہد کریں تاکہ ان چیلنجوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا جا سکے۔
جن تین چیلنجوں کو ہم بنیادی اور فیصلہ کن سمجھتے ہیں ان میں دو چیلنج اندرونی ہیں‘ اور ایک بیرونی ہے۔
سب سے پہلا چیلنج ہماری اپنی داخلی صورت حال کا نتیجہ ہے جس کا تعلق ذاتی کردار سے لے کر اجتماعی زندگی اور نظامِ حیات تک سے ہے۔ آج کا مسلمان فرد اور مسلمان معاشرہ ہمارے سارے دعووں کے باوجود‘ اسلام کے کم سے کم معیار سے بھی کوسوں دُور ہے اور ہم اسلام کی جو تصویر پیش کر رہے ہیں‘ وہ دین حق کا پرتو ہرگز نہیں۔ اچھی مثالیں آج بھی موجود ہیں اور شاید انھی کے طفیل ہمیں زندہ رہنے کی مہلت ملی ہوئی ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ اپنی تمام نمازوں‘ روزوں‘ زکوٰۃ اور حج و عمروں کے باوجود‘ بحیثیت مجموعی ہم‘ انفرادی اور اجتماعی دونوں دائرہ ہاے زندگی میں جہالت‘ غفلت‘ نفاق‘ خود غرضی‘ ناانصافی‘ نفس پرستی اور دنیا طلبی کی گرفت میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ خود دین کے بارے میں ہمارا وژن دھندلا اور پراگندا ہوتا جا رہا ہے۔ زندگی کے تضادات پر ہم کوئی خلش محسوس نہیں کرتے۔ جو ملک لاکھوں انسانوں کی بیش بہا قربانیوں کے ذریعے اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا اس میں اسلام ہی سب سے زیادہ مظلوم ہے۔ اس کے احکام کی کھلی کھلی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو نظرانداز ہی نہیں‘ علی الاعلان پامال کیا جا رہا ہے اور ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
عالم یہ ہے کہ آج جان‘ مال‘ عزت بلکہ ایمان بھی محفوظ نہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اسے توڑنے میں جری ہیں۔ جرائم کی فراوانی ہے اور مظلوم کی دادرسی کرنے والا کوئی نہیں۔ غریب غریب تر ہو رہا ہے۔ اخلاقی گراوٹ اس انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ مجرم کھلے بندوں جرم کرکے دندناتے پھرتے رہتے ہیں لیکن کوئی ان کو روکنے اور قابو کرنے والا نہیں۔ مسلم معاشرے میں خودکشی کا کبھی وجود نہ تھا مگر آج یہ عفریت بھی سر اٹھا رہا ہے اور معاشرے کو تہ و بالا کرنے والے اس ’سونامی‘ سے بچانے کی کوئی فکر اہل اختیار و ثروت کو نہیں۔ انفرادی بگاڑ نے اب اجتماعی بگاڑ کی شکل اختیار کرلی ہے اور اربابِ اقتدار خوابِ غفلت میں محو اور اپنی دل چسپیوں میں گم ہیں‘ بلکہ بگاڑ کی سرپرستی کی خدمت انجام دے رہے ہیں جس کی ایک شرمناک مثال حالیہ بسنت میلہ ہے۔ جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا میں سونامی نے اور خود اپنے ملک میں بارشوں نے تباہی مچائی۔ ۵ فروری کو مظلوم کشمیری بھائیوں سے یک جہتی کا دن منایا گیا مگر عین اسی زمانے میں خالص ہندوانہ انداز میں اور عالمی میڈیا اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے زیرسایہ قومی غیرت اور ذاتی شرم و حیا کو بالاے طاق رکھ کر بسنت میلہ منایا گیا اور اسے ملک کے ذمہ دار ترین افراد کی سرپرستی حاصل رہی۔
اس بگاڑ کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اب اقدار اور پیمانے تک بدلنے لگے ہیں اور ’ناخوب‘ کو ’خوب‘ بناکر اور بڑا مفید اور دل آویز روپ دے کر پیش کیا جا رہا ہے۔ آزادی، ’روشن خیالی اور اعتدال پسندی‘ کے نام پر اصولوں‘ احکام‘قوانین اور اقدار کو سمجھوتے کی سان پر رکھ کر ٹکڑے ٹکڑے کیا جا رہا ہے۔ یہ اجتماعی فساد اس وقت ہمارا سب سے بڑا دشمن بن گیا ہے۔ اگر اپنے تصورِ دین کی حفاظت اور خیروشر کے معیارات کی تفہیم اور ان کے احیا کے باب میں کچھ بھی غفلت برتی گئی تو کوئی چیز ہمیں تباہی سے نہ بچا سکے گی کہ یہ اللہ کی سنت اور تاریخ کا فیصلہ ہے ع
چمن کی فکر کر ناداں ’’تباہی‘‘ آنے والی ہے
اس صورت حال کو پیدا کرنے‘ بڑھانے کی ذمہ دار اور اصلاح کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہماری قیادت اور حکمران قوتیں ہیں۔ یہ بات اُمت مسلمہ کے لیے بالعموم اور پاکستان کے لیے بالخصوص صادق ہے۔ افراد اُمت کی ذمہ داری اور جواب دہی بھی اپنی جگہ حقیقت ہے اور ہم اسے کسی پہلو سے بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہتے مگر بگاڑ کو اس انتہا تک پہنچانے میں سب سے زیادہ ذمہ داری اس قیادت کی ہے جس کا فرض اس کو روکنا اور صلاح و خیر کے غلبے اور فروغ کے لیے جدوجہد کرنا تھا۔ ہم ’قیادت‘ کے لفظ کو اس کے وسیع تر معنی میں استعمال کر رہے ہیں جس میں زندگی کی ہر سطح کی قیادت شامل ہے لیکن اس وقت بگاڑ کا سب سے بڑا سرچشمہ حکومت اور ملک کا بالادست طبقہ ہے جس نے دستور‘ قانون‘ ضابطہ کار‘ روایات‘ اخلاقی اقدار سب کی پامالی کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔ اس میں سرفہرست فوجی قیادت‘ معاشی اشرافیہ‘ بیوروکریسی اور نام نہاد آزاد خیال سیاسی قوتوں کا گٹھ جوڑ ہے جو قوت کے ہر منبع پر قابض ہے اور اختیار اور اقتدار کو ذاتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کر رہا ہے اور اجتماعی زندگی کو بگاڑ‘ تصادم‘ ناانصافی اور بے راہ روی کی طرف لے جا رہا ہے۔
ہم بڑے دکھ سے یہ بات کہنے پر مجبور ہیں کہ اس بگاڑ میں مرکزی کردار جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں کا ہے جو اصلاح کے بلندبانگ دعوے کرتے ہیں مگر ان کے ساڑھے پانچ سالہ دورِاقتدار میں بحیثیت مجموعی بگاڑ انتہا درجے تک پہنچ گیا ہے اور نظریاتی خلفشار‘ اخلاقی بے راہ روی‘ سماجی بے انصافی‘ معاشی ظلم و استحصال‘ سیاسی جنبہ داری‘ مفاد پرستی اور بے اصولی کا یہ حال ہوگیا ہے کہ قوم کی ایک بیٹی کی عصمت دری کی جاتی ہے اور کہا جا رہا ہے حکمران مجرموں کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔ سپریم کورٹ کے اعلیٰ ترین انتظامی افسر ۲۲گریڈ کے رجسٹرار کو بدعنوانی کے الزام میں برطرف کیا جاتا ہے۔ مرکزی وزرا میں وہ ’پارسا‘ بھی شامل ہیں جن پر نیب میں مقدمے چل رہے ہیں۔ ایک صوبے کا وزیراعلیٰ اپنے اہم ترین وزیر کو بدعنوانی کے الزام میں برطرف کرتا ہے اور وہ برطرف وزیر‘ وزیراعلیٰ پر بدعنوانی کا الزام لگاتا ہے اور پارٹی کی مرکزی قیادت دونوں کو خاموش رہنے اور فقط سیزفائر کرانے ہی میں عافیت دیکھتی ہے۔ گویا حمام میں سب ننگے ہیں۔ اور ستم بالاے ستم یہ کہ قومی احتسابی ادارے (نیب) کا ایک سینیر ڈائرکٹر (جو ریٹائرڈ فوجی افسر ہے)‘ رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے اور وہ بھی دو دوسرے ریٹائرڈ فوجیوں ہی کے کروڑوں اور اربوں کے کرپشن پر پردہ ڈالنے کے لیے۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ پولیس کے افسر اور اہل کار جرم کرتے ہوئے نہ پکڑے جاتے ہوں اور ہزاروں ہیں جو ہر قانون سے بالاتر اور ہر گرفت سے آزاد ہیں اور عام شہریوں کی زندگیوں کو عذاب بنانے میں مصروف ہیں۔ ملک کی فوج کو اپنے ہی ملک کے شہریوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اور فوج اور عوام کے درمیان فاصلے روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ غربت‘ مہنگائی اور بے روزگاری میں ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے لیکن حکمران ہیں کہ اپنے لیے مراعات اور تنخواہوں میں اضافوں کے حصول اور حفاظت کے نام پر فاقہ کش قوم کے اربوں روپے سے بلٹ پروف مرسیڈیز اور لینڈ کروزر منگوانے اور سرکاری خرچ پر عمرے کرنے میں مصروف ہیں۔
مبادلۂ خارجہ کے ذخائر میں اضافے کی خبریں سنانے والوں کو ذرہ برابر احساس نہیں کہ عام آدمی زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہے اور ہمہ پہلو بدعنوانی‘ بددیانتی اور کام چوری نے زندگی کے ہر دائرے کو مسموم کیا ہوا ہے۔ ایک طرف کشکول توڑنے کے دعوے ہیں‘ دوسری طرف بڑے پیمانے پر اس غریب قوم پر قرضوں کا نیا بوجھ لادا جا رہا ہے۔ صرف ان پانچ سالوں میں اربوں ڈالر کے نئے قرضے لیے گئے ہیں۔ اب تو اسٹیٹ بنک کی تازہ ترین رپورٹ بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ بیرونی قرضے پھر ۳۶ ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے ہیں۔ وہی ورلڈ اکانومک فورم جس کے داووس (سوئٹزرلینڈ) کے سالانہ اجلاس کے حوالے سے جنرل پرویز مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز اپنی کامیابیوں اور فتوحات کے شادیانے بجانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے‘ دیکھیے وہ پاکستان کی حالت کا کیا نقشہ کھنچ رہا ہے۔ ورلڈ اکانومک فورم گذشتہ پانچ چھے سال سے ایک رپورٹ The Global Competetiveness Index شائع کررہا ہے جس میں دنیاکے مختلف ممالک کی تین بنیادوں پر درجہ بندی کی جاتی ہے یعنی Growth Competetiveness Index ‘ Technology Index اور Public Institutions Index۔ اس میں معیشت کی کیفیت‘ اداروں کی حالت‘ بدعنوانی کی صورت حال‘ مسابقت اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول کی صورت کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ اس ادارے کی تازہ ترین رپورٹ اسی ماہ شائع ہوئی ہے: The Global Competetiveness Report 2004-05 اس کی تیاری میں ۱۰۰ سے زیادہ تحقیقی اداروں نے حصہ لیاہے اور یہ ۱۶۰اشاریوں (indicators) کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے‘ اس رپورٹ میں پاکستان کا مقام دنیا کے ۱۰۴ ملکوں میں ۹۱نمبر پر ہے یعنی ہم معاشی دوڑ میں سب سے پیچھے رہ جانے والے ۱۴ملکوں میں سے ایک ہیں۔ اس اشاریے میں بھارت کا نمبر ۵۵ پر آتا ہے اور مسلمان ملکوں میں دو ہم سے کم تر اور ۱۱ ہم سے بہتر ہیں۔ جنوب ایشیا میں بھارت اور سری لنکا دونوں ہم سے نمایاں طور پر آگے ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ شرم کی بات یہ ہے کہ ۲۰۰۴ء کی فہرست کا مقابلہ جب ۲۰۰۳ء سے کیا جائے تو پاکستان اوپر جانے کی بجاے نیچے چلاگیا ہے۔ ۲۰۰۳ء میں ہم ۱۰۱ ملکوں میں ۷۳ ویں نمبر پر تھے اور ۲۰۰۴ء میں ۱۰۴ ملکوں میں ۹۱نمبر پر آگئے ہیں۔ دعوے ترقی کے ہو رہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ مجموعی طور پر ہم ترقی کی سیڑھی پر اوپر جانے کے بجاے نیچے کی طرف لڑھک رہے ہیں۔
معروف ادارے ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کے تیار کردہ گوشوارئہ بدعنوانی (کرپشن انڈکس) میں بھی وطن عزیز کی یہی صورتِ حال نظر آتی ہے۔ ۲۰۰۳ء میں ۱۳۳ ممالک کے جائزے میں ہمارا شمار ۹۲ نمبر پر تھا اور ۱۰ میں سے ہمیں ۵ئ۲ نمبر حاصل ہوئے تھے۔ ۲۰۰۴ء میں ۱۴۵ ممالک کے جائزے میں گر کر ۱۲۹ کے شمار میں آگیا ہے اور ہمارے نمبر ۱۰میں سے ۱ئ۲ ہوگئے ہیں۔ یہ ہے ہماری کارکردگی کا اصل چہرہ جس پر جنرل پرویز مشرف یہ غلاف چڑھا رہے ہیں کہ اب ملک میں صرف معمولی نوعیت کی (tactical) کرپشن ہے یعنی اعلیٰ سطح پر بڑے پیمانے کی (strategic) کرپشن ختم ہوگئی ہے۔ چوری اور سینہ زوری اگر اس کا نام نہیں تو پھر کیا ہے؟
بگاڑ کے اسباب اور عوامل کا جائزہ لیا جائے تو افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس کا بڑا سبب پاکستان اور مسلم اُمت کی موجودہ قیادتیں ہیں جو ذات اور مفاد کے چکر میں ہیں‘ جو مدد کو دستور‘ قانون‘ ضابطے اور اخلاق ہر چیز سے بالا رکھتی ہیں‘ جو نہ عوام میں سے ہیں اور نہ عوام کے سامنے جواب دہ ہیں بلکہ جن کے مفادات اور قوم کے مفادات متصادم ہیں۔ پاکستان میں صاحبانِ اقتدار کا موجودہ سیاسی گٹھ جوڑ دراصل فوجی قیادت‘ بیوروکریسی‘ معاشی اشرافیہ اور ان سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہے جو ہر قیمت پر اقتدار پر قابض رہنے میں اپنی عافیت دیکھتے ہیں۔
تیسرا چیلنج امریکا کی عالمی سیاست ہے جس کا خصوصی نشانہ اسلام‘ اسلامی دنیا اور پاکستان اور چند دوسرے مسلمان ممالک ہیں۔ صدربش نے اپنی صدارت کے پہلے چار سال میں عالمی بساط پر امریکی تسلط کو مستحکم کرنے اور ہر متبادل قوت کو غیرمؤثر بنانے کے لیے اپنا نقشۂ جنگ خاصے تفصیلی انداز میں بنا لیا تھا اور اب دوسرے دور میں اپنی پہلی ہی تقریر اور پھر کانگریس کے سامنے State of the Nation خطاب میں اسے اور بھی نوک پلک سے درست کر کے پیش کردیا ہے۔ ۲۱منٹ کی صدارتی تقریر میں انھوں نے ۴۲ بار liberty (آزادی) اور freedom (آزادی) کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے دنیا کے ہر گوشے تک آزادی اور جمہوریت کو مسلط کرنے کے عزائم کا اظہار کیا ہے۔ درحقیقت اس طرح صدر بش نے مستقبل کے نقشۂ جنگ کو بالکل واضح کر دیا ہے۔ الفاظ پر کیسا ہی ملمع کیوں نہ چڑھایا جائے‘ دل کی بات زبان پر آہی جاتی ہے۔ صدارتی تقریر میں صدر بش نے freedom (آزادی) کو fire (آگ) سے تشبیہ دی ہے: a fire in the mind of men اور یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ’’آزادی کی جنگ دنیا کے تاریک ترین گوشوں تک پہنچانا‘‘ اس کا مشن ہے۔ درحقیقت یہ آزادی کی تحریک نہیں‘ آزادی کے نام پر دنیا کو آگ اور جنگ کے شعلوں میں دھکیلنے کا خونی کھیل ہے۔
لندن کے اخبار دی گارڈین کے مضمون نگار ٹرس ٹرام ہنٹ (Tristram Hunt) نے اپنے ایک تازہ مضمون میں صدربش کے ایک مشیر کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں جو انھوں نے ایک امریکی صحافی رون سوس کائنڈ (Ron Suskind)سے کہے۔
اب ہم ایک سلطنت ہیں۔ جب ہم کوئی اقدام کرتے ہیں تو ہم اپنے لیے حقائق خود تخلیق کرتے ہیں۔ اور جس وقت آپ اس حقیقت کا مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں‘ ہم دوبارہ اقدام کرتے ہیں‘ جس سے نئی حقیقتیں تخلیق پاتی ہیں۔ ہم تاریخ ساز ہیں۔ اب آپ کا‘ اور آپ سب کا کام محض یہ رہ جائے گا کہ ہم جو کرتے ہیں‘ اس کو پڑھتے (اور دیکھتے) رہیں۔ (گارڈین‘ ۱۸ فروری ۲۰۰۵ئ)
یہ رعونت دنیا میں آزادی اور جمہوریت کے نام پر نئے استعماری نظام کے قیام کے اصل چہرے سے پردہ اٹھادیتی ہے۔ ایسی ہی رعونت کا اظہار ۱۱؍۹ سے بہت پہلے کولن پاول نے بھی کیا تھا۔ اس وقت وہ پہلی عراق جنگ کے وقت امریکن چیف آف اسٹاف تھے‘ امریکا میں پاکستان کی سفیر سیدہ عابدہ حسین نے پاکستان کے نیوکلیر دفاعی حق کا دفاع کرتے ہوئے کولن پاول سے کہا تھا کہ جنرل صاحب‘ ہمارے پاس تو ایک دو ہی ’فٹ بال‘ ہیں، آپ کے پاس تو ہزاروں بم ہیں تو جنرل کولن پاول نے سختی سے جواب دیا:Madame! We are America (محترمہ! ہم امریکا ہیں۔)
یہ ایک حقیقت ہے کہ ’آزادی‘ کا علم بردار امریکا صرف حکم چلا رہا ہے اور ہمارے حکمران صرف اس کی آوازِ بازگشت بنے ہوئے ہیں۔ ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کے جو وعظ دیے جارہے ہیں‘ وہ امریکا کے نئے عالمی نظام میں اس کے حکم کے مطابق اپنے چہرے مہرے کو قابلِ قبول بنانے کی ایک کوشش سے زیادہ نہیں۔ صدربش‘ نائب صدر ڈک چینی‘ نئی وزیرخارجہ کونڈولیزا رائس‘ ۱۱؍۹ کمیشن کی سرکاری رپورٹ‘ امریکی تھنک ٹینکس کی درجنوں رپورٹیں‘ سی آئی اے کے تھنک ٹینک‘ نیشنل انٹیلی جنس کونسل سے لے کر امریکی کانگریس کی ریسرچ سروس کی رپورٹوں تک کو دیکھ لیجیے‘ سب میں یک زبان ہو کر یہی کہا جا رہا ہے ہمیں مسلمانوں کے ذہن کو بدلنا ہے‘ اصل خطرہ انتہا پسندی (Extremism) بنیاد پرستی (Fundamentalism) اور اس اسلامی اداراتی نظام (Islamist infrastructure)سے ہے جو جہاد کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ دہشت گردی‘ حتیٰ کہ اسلامی دہشت گردی (Islamist terrorism) تو صرف مظاہر ہیں‘ اصل منبع اسلام اور اس کا تصورِ جہاد ہے جس سے سیاسی اسلام (Political Islam) رونما ہوتا ہے اور جس کا ہدف سیکولرزم کے مقابلے میں اجتماعی زندگی اور ریاست کے نظام کو دین اور مذہب کی روشنی میں تعمیر کرنا ہے۔
ان تمام پالیسی ساز اداروں اور افراد کے تجزیے کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلم دنیا میں امریکا سے جو نفرت ہے‘ اس کا منبع اسلام اور اس کا انقلابی تصورِحیات ہے جو ریاست اور مذہب کی دوئی کے مقابلے میں ان کی ہم آہنگی اور وحدت سے عبارت ہے۔ صدربش نے ۱۱ستمبر کے واقعے کے بعد صلیبی جنگوں (کروسیڈ) کی بات کر کے مسلمانوں کو چونکا دیا تھا مگر پھرفوراً ہی وہ واشنگٹن کے اسلامک سنٹرگئے اور پہلی بات جو کی وہ یہی اعتدال پسند(moderate) اسلام کی تھی۔ اس کے بعد سے جتنی بھی اہم رپورٹیں امریکی مفکرین یا اداروں کی طرف سے آرہی ہیں‘ ان میں اعتدال پسند اور انتہا پسند (extremist) اسلام کا فرق بیان کیا جا رہا ہے اور حسبِ موقع اسلامی دنیا میں سیکولرزم کے فروغ کی بات بھی کی جارہی ہے۔ ۱۱؍۹ کمیشن امریکا کا سب سے اعلیٰ بااختیار کمیشن تھاجس نے پاکستان اور جنرل پرویز مشرف کی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کو امریکا کے مفاد میں سب سے اہم تصور قرار دیا۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ کے صفحہ ۳۶۹ پر یہ سفارش کی ہے جسے امریکی صدر نے وائٹ ہائوس سے جاری ہونے والے حقائق نامے (۳۰ جولائی ۲۰۰۴ئ) میں امریکی پالیسی قرار دیا ہے:
اگر پرویز مشرف‘ پاکستان اور اپنی بقا کی جنگ میں روشن خیال اعتدال پسندی کے عزم پر ڈٹے رہتے ہیں تو پھر امریکا کو مشکل فیصلوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اسے پاکستان کے مستقبل کے حوالوں سے طویل المیعاد تعلق استوار کرنا ہوگا۔ امریکا کو اپنی موجودہ امداد جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ‘ انتہاپسندی کے خلاف جنگ میں حکومت پاکستان کی مزید مدد کرنا ہوگی۔ یہ مدد ایک جامع کوشش کی صورت میں ہونی چاہیے جس کادائرہ فوجی امداد سے لے کر بہتر تعلیم کے لیے وسائل کی فراہمی پر محیط ہونا چاہیے اور یہ تعاون اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک پاکستانی قیادت مشکل فیصلوں کے لیے تیار رہتی ہے۔ (امریکی شعبۂ تعلقات عامہ کا خبرونظر‘ اگست ۲۰۰۴ء شمارہ۲)
امریکا اور اس کے دوستوں کو ایک اہم فوقیت حاصل ہے کہ ہم ان کو ایسا تصور دے سکتے ہیں جس سے ان کے بچوں کا مستقبل سنور سکتا ہے۔ اگر ہم عرب ممالک اور عالم اسلام کے صاحبِ فکر لیڈروں کے نظریات پر توجہ دیں تو اعتدال پر مبنی اتفاق راے حاصل ہوسکتا ہے۔ (۱۱؍۹ رپورٹ‘باب ۱۲‘ ص ۳۷۶)
کئی عشروں سے دنیا میں آزادی‘ امن و سلامتی اور ترقی کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمیں اب اس دائرے کو مزید بڑھانے کا تاریخی موقع ملا ہے تاکہ بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا انصاف اور عزت و وقار کے ساتھ مقابلہ کیا جاسکے۔
ہمیں مشرق وسطیٰ کے اصلاح پسندوں کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ وہ آزادی اور پرامن جمہوری معاشروں کی تعمیر کے لیے کوشاں ہیں۔
یہ تقریر امریکی شعبۂ تعلقات عامہ کے خبرونظر (اکتوبر ۲۰۰۴ئ‘ پہلا شمارہ) نے صدربش‘ جنرل پرویز مشرف اور صدر حامد کرزئی کی تصویر کے ساتھ شائع کی ہے۔
جنوبی ایشیائی امور کے لیے امریکا کی نائب وزیر خارجہ کرسٹینا روکا نے ۲۲ جون ۲۰۰۴ء کو ایوانِ نمایندگان کی بین الاقوامی تعلقات کمیٹی کے سامنے اپنے بیان میں فرمایا:
پاکستان کو ایک جدید اور اعتدال پسند اسلامی جمہوری ملک بنانے کے لیے اس کی مدد جاری رکھی جائے… پاکستان میں ہماری تمام پالیسیوں اور پروگراموں کا مقصد یہ ہے کہ اسے ایک اعتدال پسند اور خوش حال ملک بنانے میں مدد دی جائے۔ ہم سیکورٹی کے شعبے میں تعاون اور فروغ جمہوریت اور ترقی و خوش حالی کے اپنے پروگراموں کے ذریعے پاکستان کی مدد کر رہے ہیں۔ یہ ایسے پروگرام ہیں جو انتہا پسندی اور عدمِ استحکام کی روک تھام میں مدد دیتے ہیں… ہم حکومت پاکستان کی تعلیمی اصلاحات کی کوششوں میں بھی نمایاں مدد دے رہے ہیں۔ ان میں مدارس کی اصلاح شامل ہے… ہمارے پروگراموں سے سیاسی جماعتوں کی اصلاح میں بھی مدد ملے گی۔ ہم اساتذہ‘ میڈیا اور سول سوسائٹی کے لیڈروں‘ نوجوانوں اور متوسط طبقے کے ان پاکستانیوں پر بھی توجہ دے رہے ہیں جن کی طرف سے جمہوری اقدار کی مزاحمت ہوسکتی ہے۔ (خبرونظر‘ جولائی ۲۰۰۴ئ‘ پہلا شمارہ)
’روشن خیال اعتدال پسندی‘ پر جو وعظ ہم گذشتہ دو سال سے سن رہے ہیں‘ ان کا شجرئہ نسب صدر بش اور ان کی انتظامیہ اور امریکی تھنک ٹینکس کے اسی تجزیے اور اصلاح کے نسخے سے مل جاتا ہے۔ اس کا ہدف اسلام کا تصورِ حیات‘ دین و دنیا کی یک رندگی کا نظریہ‘ تصورِ جہاد اور امربالمعروف ونہی عن المنکر اور اجتماعی زندگی میں اسلام کا کردار ہے۔ امریکا کی نارتھ ایسٹرن یونی ورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ایم شاہد عالم کی کتاب Is There an Islamic Problem? اسی ماہ شائع ہوئی ہے۔ اس میں انھوں نے بڑی دیانت اور جرأت کے ساتھ امریکا کے اصل عزائم کو بیان کیا ہے اور نہایت مدلل انداز میں ان کا تعاقب کیا ہے۔ انھوں نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں امریکی قیادت کے اصل ہدف کو بہت صاف لفظوں میں بیان کیا ہے:
مسلمانوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلامی دنیا کے خلاف امریکی اور اسرائیلی عزائم اب اس سے کہیں زیادہ بڑھ چڑھ کر ہیں جتنے وہ ۱۱؍۹ سے پہلے تھے۔ اس وقت وہ اسلامی دنیا پر گماشتوں کے ذریعے غلبہ حاصل کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اب ان کے عزائم اس سے آگے ہیں۔ وہ اب مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسلامی دنیا‘ بلکہ خود اسلام‘ امریکی شرائط پر اپنی اصلاح کرے۔ (America's New Civilising Mission‘ڈان‘ ۱۲ فروری ۲۰۰۵ئ)
یہ کہ اسلام ہی اصل ہدف ہے اس کا اندازہ اس امر سے کیجیے کہ امریکا صرف دینی مدارس کے نظام کی تبدیلی ہی کے لیے کوشاں نہیں بلکہ پورے تعلیمی نظام کو سیکولر بنانے کا مطالبہ کررہا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے ۲۰۰۲ء میں جو تعلیمی اصلاحات شروع کیں اور جن کے تحت نصاب کی تبدیلی‘ دینی مدارس کا رجسٹریشن اور آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ آرڈی ننس ۲۰۰۲ء وغیرہ کا سلسلہ شروع کیا گیا‘ وہ سب اسی امریکی منصوبے کا حصہ ہیں۔ حال ہی میں امریکی حکومت کی جو دستاویزات سامنے آئی ہیں اور جنھیں وہاں کے قانونِ اطلاعات کے تحت حاصل کیا گیا ہے‘ ان میں ۲۰۰۲ء کا ایک پالیسی پیپر Strategy for Eliminating the Threat from Jehadist Networks of Al-Qaida: Status and Prospects سامنے آیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی حکومت جو پالیسی پاکستان میں فروغ دے رہی ہے وہ اسی نسخے کا استعمال ہے۔
ایک ایسا سیکولر نظامِ تعلیم استوار کرنا جو پاکستان کے دیہی علاقوں کے لوگوں کے بنیاد پرست مدرسوں پر مکمل انحصار کو ختم کر دے۔
تعلیمی ’’اصلاحات‘‘
امریکی حکومت آٹھ مدات کے تحت اس مقصد کے لیے پاکستان کی مدد کر رہی ہے جس میں نصاب کی تبدیلی‘ اساتذہ کی تربیت‘ اساتذہ اور طلبہ کے تبادلے‘ تعلیمی وظائف شامل ہیں۔ لیکن چونکہ امریکا کو جنرل پرویز مشرف اور پاکستانی وزراے تعلیم کے سارے تعاون کے باوجود پورا بھروسا نہیں‘ اس لیے اب امریکی کانگریس میں باقاعدہ ایک بل پیش کیا گیا ہے (HR 4818) جس کی رو سے امریکا تعلیم کی اصلاح کے لیے ۱۰۰ ملین ڈالر کی جو مالی مدد دے رہا ہے وہ اس بات سے مشروط ہوگی کہ انھیں پاکستان کی ’جنوری ۲۰۰۲ئ‘ والی تعلیمی اصلاحات کے نفاذ کے لیے استعمال کیا جائے اور اس قانون کے منظور ہونے کے بعد ۹۰ دن کے اندر سیکرٹری آف اسٹیٹ ایوان نمایندگان کو مطلع کرے گا کہ یہ رقم صرف ان اصلاحات کے لیے استعمال ہوئی ہے جو امریکا کا ہدف ہے۔ ان اصلاحات کی تعریف اس قانون میں یوں کی گئی ہے:
تعلیمی اصلاحات میں پاکستان کے سیکولر نظامِ تعلیم کی توسیع اور بہتری‘ اور پاکستان کے نجی دینی مدارس کے لیے ایک معتدل نصاب تیار کرنے اور نافذ کرنے کی کوششیں شامل ہیں۔ (دی نیوز‘ ۱۶ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)
پاکستان میں امریکا کی سابق سفیر نینسی پاول نے اس سلسلے میں بہت کلیدی کردار ادا کیا۔ آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ کے حکم نامے پر عمل کرانے کے لیے یو ایس ایڈ نے ۱۳ اگست ۲۰۰۳ء کو آغا خان یونی ورسٹی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور اخباری اطلاعات کے مطابق ۴۵ ملین ڈالر کی مدد کا وعدہ کیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس معاہدے پر دستخط تو امریکی سفیر اور آغا خان یونی ورسٹی کے نمایندہ شمس لاکھا صاحب نے کیے مگر اس تقریب میں اصل گواہ اس وقت کی پاکستانی وزیرتعلیم محترمہ زبیدہ جلال صاحبہ تھیں۔ امریکی سفیر نے یہ بھی کہا کہ آغا خان بورڈ کی مدد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک وہ اپنے پائوں پر کھڑا نہ ہو جائے۔ واضح رہے کہ عراق پر امریکی قبضے کے فوراً بعد‘ پہلے سے تیار نصاب کے مطابق درسی کتب وہاں ۱۰ اپریل ۲۰۰۴ء کو متعارف کرا دی گئی تھیں۔ یہ کتب جون ۲۰۰۲ء میں حملے سے ایک سال پہلے ہی تیار کر لی گئی تھیں۔
صدر بش نے پاکستان کے بارے میں اپنے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں صاف الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان میں نصاب کی تبدیلی میرے مشورے پر امریکی امداد کے تحت کی جارہی ہے۔ اس بیان پر راقم نے سینیٹ میں سوال بھی اٹھایا جس کے جواب میں وزیرتعلیم نے فرمایا کہ یہ سب پروپیگنڈا ہے اور ہمیں کوئی dictate (مجبور) نہیں کر رہا۔ حالانکہ دو اور دو چار کی طرح یہ حقیقت واضح ہے کہ ’روشن خیال اعتدال پسندی‘، ’بنیاد پرستی کی مخالفت‘، ’انتہا پسندی سے برأت‘ کی ساری باتیں امریکا کے مطالبے پر کی جارہی ہیں‘ بالکل اسی طرح جس طرح ۱۳ستمبر کو کولن پاول کے ایک ٹیلی فون پر افغان پالیسی کا یوٹرن لیا گیا تھا اور جس طرح اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی ہماری فوجی قیادت امریکا کی فوجی قیادت کے ہر اشارے پر تسلیم و رضا کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔
ہم بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ۱۱؍۹ کے بعد جنرل پرویز مشرف نے جن محاذوں پر پسپائی اختیار کی ہے‘ ان میں سے ہر محاذ ملک و ملّت کی سلامتی کے لیے بڑا اہم تھا یعنی افغانستان اور عالم اسلام کے عوام سے دوری بلکہ بے وفائی‘ امریکی استعمار کا آلہ کار بننا اور اس کی جنگی کارروائیوں کے لیے اپنا کندھا فراہم کرنا‘ مسئلہ کشمیر پر اپنے اصولی موقف سے پسپائی اور جہاد کشمیر کو بھارت اور امریکا کے دبائو میں پہلے سرحدی دراندازی اور پھر دہشت گردی تک سے موسوم کرنا‘ نیوکلیر محاذ پر کمزوری اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی افسوس ناک تذلیل اور امریکا کے ناجائز مطالبات کے آگے ہتھیار ڈالنا‘ تعلیم‘ میڈیا‘ حتیٰ کہ پارلیمنٹ کے ارکان تک کی تربیت کے لیے امریکی پروگراموں کو اختیار کرنا___ یہ سب محاذ پاکستان کی سیاسی‘ معاشی‘ دفاعی ‘ تہذیبی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اہم ہیں۔ ان کے بارے میں امریکا کے زیراثر پالیسی کی تبدیلی جس کا کریڈٹ کولن پاول اور اس سے زیادہ کونڈولیزا رائس نے اپنی ترغیب اور دبائو (carrot and stick) پالیسی٭ کی کامیابی کے عنوان سے لیا ہے۔
ان میں سب سے زیادہ تشویش ناک قلابازی وہ ہے جو اسلام اور نظریہ پاکستان کے سلسلے میں جنرل پرویز مشرف نے کھائی ہے۔ اس کا حسین عنوان ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ہے حالانکہ اس میں ساری زبان‘ استعارے‘ محاورے‘ موضوع اور مدعا وہی ہے جو صدر بش اور امریکی کارپرداز ان سے کہلوانا چاہتے ہیں۔ کبھی وہ انتہاپسندی اور بنیاد پرستی سے توبہ کرتے ہیں‘ کبھی دہشت گردی پر کان پکڑتے ہیں‘ کبھی جدیدیت‘ جدید کاری اور اعتدال پسندی کی بات کرتے ہیں اور اسی خوش گفتاری میں کبھی’مُلّا‘ پر برس پڑتے ہیں اور داڑھی اور حجاب کو بھی رگید ڈالتے ہیں___ اور پھر ہمت کر کے سیکولرزم کی بات بھی کرڈالتے ہیں کہ اسلام اور سیکولرزم میں گویا کوئی تضاد نہیں ہے اور ان کو متصادم قرار دینا گویا مُلّا کی سازش ہے جس سے اسلام کو آزاد کرانے کے لیے وہ نہ صرف سرگرمِ عمل ہیں بلکہ پوری او آئی سی (OIC) کو بھی متحرک کر دینا چاہتے ہیں۔ جنرل صاحب کے ان ارشادات عالیہ پر نظر ڈالنا ضروری ہے تاکہ مُلّا کے اسلام‘ بش کے اسلام اور مشرف کے اسلام کے خدوخال واضح ہوسکیں۔
ہمارا عقیدہ حرکی ہے جو اجتہاد(یا مشورے کے ذریعے تعبیر) کے عمل کے ذریعے مسلسل تجدید اور اطلاق کو تقویت دیتا ہے۔ اسلامی وژن تاریخ کے کسی ایک عہد کی گرفت میں نہیں ہے۔ یہ معتدل اور مستقبل بین ہے۔ اسلام کو چند انتہاپسندوں کی تنگ نظری کے ساتھ گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔
جنرل صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ دانستہ یا نادانستہ (غالباً نادانستہ) وہ اس جملے میں ایک ایسی بات کہہ گئے ہیں جو اسلام کی پوری تعلیم پر خط تنسیخ پھیر دیتی ہے۔ دورِرسالت مآبؐ اور دورِ خلافت راشدہ ہمارا معیاری دور ہے جو ہمیشہ کے لیے نمونہ‘ معیار‘ دلیل اور حجت ہے۔ انھوں نے trapped in any one period of historyکے الفاظ استعمال کر کے عمومی بیان (sweeping remark) کے ذریعے اس پر بھی ہاتھ صاف کر دیا ہے۔ بلاشبہہ اسلام موڈرن بھی ہے اور مستقبل بین بھی‘ لیکن مسلمانوں کے لیے ان کے ایمان کے تقاضے کے طور پر ان کا اصل حوالہ دورِرسالت مآبؐ اور دورِ خلافت راشدہؓ ہے اور سنت رسولؐ اور سنتِ خلفاے راشدہ اسلام کے اولیں‘ مستقل اور ناقابلِ تغیر مآخذہیں جنھیں ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کے نام پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
یکم جنوری ۲۰۰۴ء کو OIC - Challenges and Response کے عنوان سے خطاب کرتے ہوئے جنرل صاحب مغرب کے پروپیگنڈے کا شکار ہوکر وہی زبان استعمال کرنے لگے جو صدر بش اور اسلام کے ناقدین مغربی میڈیا میں استعمال کر رہے ہیں یعنی: اسلام کا تعلق بنیاد پرستی کے ساتھ‘ بنیاد پرستی کا انتہا پسندی کے ساتھ اور انتہا پسندی کا دہشت گردی کے ساتھ۔
بجاے اس کے کہ وہ علمی انداز میں‘ ان میں سے ہر اصطلاح اور اس کے مالہٗ اور ماعلیہ کا تجزیہ کریں‘ ایک ہی سانس میں سب کا انکار کرجاتے ہیں اور اسلام کے دفاع کے نام پر وہی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کا راگ الاپنے لگتے ہیں جس کا مطالبہ صدر بش اور کونڈولیزا رائس کر رہے ہیں۔
ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے‘ وہ ایک نشاتِ ثانیہ ہے۔ ہمیں اعتدال پسندی کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ ایک مصالحانہ طرزِعمل‘ پُرامن نقطۂ نظر تاکہ ہمارے اوپر سے یہ الزام دھل جائے کہ اسلام جنگ جُو مذہب ہے اور جدیدیت‘ جمہوریت اور سیکولرزم کا مخالف ہے۔
اگر کسی کو یہ گمان ہو کہ جنرل صاحب نے سیکولرزم کا ذکر شاید جوشِ خطابت میں اس کے اصل مفہوم کو سمجھے بغیر‘ صرف مغرب کے ناقدین کو مطمئن کرنے کے لیے کردیا ہے تو وہ اس کی گنجایش بھی نہیں چھوڑتے۔ یورپ میں Renaissance (نشاتِ ثانیہ) ایک متعین فکری‘ تہذیبی اور سیاسی انقلاب کے لیے استعمال ہوتا ہے جو خدا‘ مذہب اور روایت سے بغاوت اور اجتماعی زندگی کے لیے وحی اور دینی اقدار کی جگہ خالص عقل اوردنیاوی علم کی بنیاد پر متبادل بنیادوں کے تلاش کی کوشش تھی۔ ایسا بھی نہیں کہ سیکولرزم کا یہ حوالہ بس مغرب کی زبان بند کرنے کے لیے ہے۔ وہ مسلسل اس تصور کی تبلیغ فرما رہے ہیں کہ سیکولرزم اور اسلام میں کوئی تضاد نہیں۔ واشنگٹن پوسٹ میں جو مضمون ان کے نام سے شائع ہوا ہے اور جسے تمام پاکستانی اور اخبارات نے شائع کیا‘ اس میں بھی وہ کھل کر لکھتے ہیں کہ:
میں اپنے مسلمان بھائیوں سے کہتا ہوں: نشاتِ ثانیہ کا وقت آگیا ہے۔ آگے کا راستہ روشن خیالی کا راستہ ہے۔ ہمیں غربت کے خاتمے اور تعلیم‘ حفظانِ صحت اور عدلِ اجتماعی کے خاتمے کے ذریعے انسانی وسائل کی ترقی پر توجہات مرکوز کرنی چاہییں۔ اگر ہماری سمت یہ ہو تو یہ تصادم کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں اعتدال کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور ایک مصالحانہ روش اختیار کرنا ہوگی تاکہ اس عام خیال کا مقابلہ کیا جاسکے کہ اسلام شدت پسندی کا مذہب ہے اور جدیدیت‘ جمہوریت اور سیکولرزم سے متصادم ہے۔ (واشگٹن پوسٹ ۱-۲ جون ۲۰۰۴ئ)
اسلام اور مسلمانوں کے بارے میںمغرب کا تصور کیا ہے؟ پہلا تصور یہ ہے کہ اسلام انتہا پسندی‘ دہشت گردی‘ بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کا مذہب ہے۔ دوسرا تصور یہ ہے کہ اسلام جمہوریت‘ جدیدیت اور سیکولرزم سے متصادم ہے۔ اور تیسرا یہ ہے کہ مسلمان عالمی برادری میں جذب ہونے سے انکار کرتے ہیں۔
پھر اپنے زعم میں ان کا جواب دیا ہے کہ اسلام جمہوریت‘ سیکولرزم اور موڈرنزم کا مخالف نہیں۔ جمہوریت کی بابت تو بات زیادہ غلط نہیں کہی ہے (اگرچہ وہ یہ بھول گئے کہ خود وردی زیب تن رکھ کر اور صدارت اور چیف آف اسٹاف کے عہدے اپنی ذات میں جمع کر کے وہ کون سی جمہوریت کی بات کر رہے ہیں)۔ موڈرنزم اور سیکولرزم پر ان کے ارشادات ملاحظہ ہوں:
جدیدیت کی بات ہو تو اسلام زمانے اور ماحول کے مطابق فکر کا مسلسل جائزہ لینے کے عمل پر یقین رکھتا ہے۔ اسلام جدید ہے‘ یہ زمانے کا ساتھ دیتا ہے۔ یہ کبھی بھی ماضی سے پیوست نہیں رہا۔ اور تیسرے یہ کہ جہاں تک سیکولرزم کا تعلق ہے۔ اسلام اقلیتوں کے مساوی حقوق میں یقین رکھتا ہے۔ چنانچہ تفصیلات میں جائے بغیر‘ پاکستان جیسے ملک میں جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام کے ساتھ معروف ہے‘ لازماً یہ بات مضمر ہے کہ ہمیں اپنے تصورات میں جمہوری ہونا‘ سیکولر ہونا اور جدید ہونا ہے۔
اس کے جواب میں اس سے زیادہ کیا کہاجائے کہ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
اور موڈرنزم اور سیکولرزم کی جو تعریف جنرل صاحب نے فرمائی ہے۔اس کے بارے میں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ عالمی خاندان میں فٹ نہ ہونے کی بات کے جواب میں کٹّر(bigoted) مسلمانوں پر ہاتھ صاف کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ کچھ سرپھرے ہیں جوساتھ نہیں چل پاتے‘ نہ یہ جدید علم حاصل کرتے ہیں‘ نہ انگریزی زبان سیکھتے ہیں اور موسیقی سے بھی دل نہیں بہلاتے‘ یہ مٹھی بھر لوگ ہیں‘ ان کی فکر نہ کرو۔
اب جنرل صاحب کو یہ کون سمجھائے کہ جس طرح Renaissance(نشاتِ ثانیہ)کا ایک خاص تاریخی پس منظر ہے اسی طرح Enlightenment (روشن خیالی)بھی مغرب کی تہذیبی و فکری تاریخ کی ایک معروف اصطلاح ہے جس کے معنی ہی یہ ہیں کہ وحی کے بجاے عقل کی بنیاد پر تمام معاملات کا حل تلاش کیا جائے۔ آخرت اور روحانی پہلو غیرمتعلق ہیں اور اصل میدانِ کار صرف یہ دنیا اور اس کے امور ہیں اور سیکولرزم اس تثلیث (نشاتِ ثانیہ‘ روشن خیالی اور سیکولرزم) کا لازمی جزو ہے‘ اور سیکولرزم ضد ہے زندگی کے اس تصور کی جو دنیا کے معاملات کو دین اور وحی کے ذریعے حاصل شدہ علم و اقدار کی بنیاد پر مرتب کرنے کا داعی ہے۔ یہ کہنا کہ سیکولرزم کا تعلق محض مذہبی رواداری یا اقلیتوں سے خوش معاملگی سے ہے ‘علم سیاست اور تاریخ دونوں سے لاعلمی کا غماز ہے۔
Vergilius Ferm کی مرتب کردہ An Encyclopaedia of Relegions (مطبوعہ: دی فلاسوفیکل لائبریری‘ نیویارک) میںThe Enlightenment کی وضاحت یوں کی گئی ہے: ’’روشن خیالی اس تحریک کا نام ہے جو اٹھارویں صدی کے عمومی ماحول کو بیان کرتی ہے‘‘۔
علمی اور جمالیاتی بیداری کی لہر‘ جس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ۱۴ویں صدی میں اس کا آغاز ہوا۔ یہ اچھا ہو یا برا‘ نشاتِ ثانیہ میں ایک انقلاب کی خاصیت تھی‘ اس کا کلیدی نکتہ سیکولر انسانیت دوستی تھا جس میں انسانی اور دنیاوی اقدار کو تسلیم کیا گیا تھا بغیر کسی دین یا کلیسائی جواز کے۔ (ص ۶۵۵-۶۵۶)
سیکولرزم افادی ‘ عمرانی اخلاقیات کی ایک مخصوص شکل (جی جے ہولی اوک: ۱۸۱۷ئ- ۱۹۰۶ء نے اس کو پیش کیا)‘ جو مذہب کے کسی حوالے کے بغیر اور صرف انسانی عقل‘ سائنس اور نظمِ اجتماعی کے ذریعے انسان کی بہتری چاہتا ہے۔ (ص ۷۰۰)
چونکہ سیکولرزم ان تمام اصطلاحات میں سب سے مرکزی حیثیت رکھتا ہے اس لیے اس کے مفہوم کو بالکل محکم کرنے کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند مزید حوالے دے دیے جائیں۔
سیکولر بنانے کا مطلب ہے کہ معاشرے کی اخلاقی زندگی سے مذہبی عقائد اور رسومات اوراجتماعیت کے لیے احساس کو ختم کر دیا جائے۔ ایک سیکولر سوسائٹی میں روز مرہ کے امور کسی الہامی مداخلت کے بغیر انجام دیے جاتے ہیں۔ دراصل یہ روشن خیالی کا فلسفہ تھا جس نے سیکولر فکر کو اصل طاقت فراہم کی۔ اس نظریے کا دعویٰ ہے کہ معاشرے کو ان اخلاقی اصولوں پر مبنی ہونا چاہیے جو انسان کی اجتماعی زندگی کے آفاقی نوعیت کے بارے میں صرف عقلی بنیادوں پر حاصل کیے جائیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نظم اجتماعی کے عقلی اصولوں کو عموماً عقیدے پر مبنی مذہبی روایات کی ضد کے طور پر پیش کیا گیا۔
سیکولر کی اصطلاح کا مطلب ہے کہ وہ جو مذہبی نہیں ہے۔ یہ لاطینی لفظ sacculum سے نکلا ہے جس کا ابتدائی مطلب وقت کے حوالے سے عہد یا نسل ہے۔ بعد میں اس کی شناخت وہ تمام معاملات ہو گئے جن کا کوئی تعلق جنت کے حصول سے نہ ہو‘ یعنی اس دنیا کے معاملات سے وابستہ ہوگیا۔
سیکولرزم یا لادینی عمل یورپ کے تاریخی تجربے پر مبنی ہے۔ اس کا مطلب تھا زندگی اور فکر کے تمام پہلوئوں کا مذہب سے کسی رشتے یا کلیسائی ہدایت سے بتدریج علیحدگی۔
ہم بالکل صاف لفظوں میں یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ جہاں تک دنیاوی امور اور مسائل کا تعلق ہے‘انسانی حقوق‘ آزادی‘ انصاف‘ تعلیم‘ صحت اور معاشی ترقی اور خوش حالی کا حصول‘ یہ سب اسلام کی نگاہ میں مطلوب ہی نہیں اس کے نظامِ حیات کا لازمی حصہ ہیں۔ اسی طرح دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ رواداری‘ اقلیتوں کے حقوق کا مکمل تحفظ اور تہذیب‘ سیاست اور معیشت کے دائروں میں مختلف مذاہب‘ ثقافتوں اور مکاتبِ فکروخیال کا وجود (co-existence) اسلام کے اجتماعی نظام کا خاصہ ہیں لیکن اسلام اور سیکولرزم کا فرق___اور بڑا بنیادی اور جوہری فرق___ یہ ہے کہ اسلام زندگی کے تمام معاملات کو عقل کے ساتھ وحی الٰہی کی بالا اتھارٹی کے تابع کرتا ہے اور دنیا میں حسنات کے حصول کو آخرت میں حسنات کے حصول سے مربوط کرتا ہے۔ اسلام میں رہبانیت کا کوئی تصور نہیں۔ اسلام پوری انسانی زندگی کو دین کی فراہم کردہ ہدایت کی بنا پر حق وا نصاف کے ساتھ مرتب و منظم کرتا ہے اور اس طرح وہ تصورِ حیات جو صرف اس دنیا کی فلاح کا متلاشی ہو اور صرف عقل پر بھروسا کرے‘ اسے اسلام رد کردیتا ہے اور اس کی جگہ زندگی کا وہ تصور دیتا ہے جس میں دنیا کی تعمیروترقی کا سامان آخرت پر نگاہ رکھ کر اور اس کی کامیابی کو اصل منزل قرار دے کر نیز اللہ اور اس کے رسولؐ کی دی ہوئی رہنمائی کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ یہ سیکولرزم کی ضد ہے اور اس نظام میں اس سیکولرزم کی کوئی گنجایش نہیں جو مغرب کے نشاتِ ثانیہ اور روشن خیالی کے جلو میں رونما ہوا اور جس نے دنیا کو جنگ و جدال‘ ظلم و استحصال اور سماجی بے راہ روی اور انتشار کی آماج گاہ بنا دیا۔
اسلام نے زندگی کو خانوں میں تقسیم نہیں کیا اور دین اور دنیا کو دو الگ الگ خانے بنانے کو وہ جاہلیت اور شیطان کی پیروی قرار دیتا ہے اور ایمان لانے والوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ پورے کے پورے دین میں داخل ہوجائیں۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص وَلاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌo (البقرہ ۲:۲۰۸)
اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔
اسلام کی نگاہ میں صرف دنیا طلبی یا دنیا اور عقبٰی دونوں کی یکساں طلب زندگی کے دو مختلف نظریات ہیں جن کا مقصد‘ مزاج اور نتائج جدا جدا ہیں۔ صرف دنیاطلبی‘ سیکولرزم کا مقصود ہے اور اسلام دنیا اور آخرت دونوں کی بیک وقت فکر کا نام ہے۔ قرآن پاک میں ان دونوں نقطہ ہاے نظر کو تین متصل آیات میں بڑے جامع انداز میں بیان کر دیا گیا ہے حالانکہ یہاں اول الذکر خداکے منکر نہیں بلکہ اس کے ماننے والے ہیں البتہ وہ دنیا کے حسنات کو آخرت سے مربوط نہیں کرتے۔ اس میں یہ رمز بھی پوشیدہ ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ سیکولرزم میں مذہب کی نفی نہیں بلکہ بس اسے ذاتی معاملہ قرار دیا گیا ہے‘ ان کا جواب بھی اسی میں آگیا:
فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَـآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍo وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَـآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ o اُولٰٓئِکَ لَھُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْاط وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِo (البقرہ ۲:۲۰۰-۲۰۲)
(مگر اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں میں بھی بہت فرق ہے) ان میں سے کوئی تو ایسا ہے جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دے دے۔ ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور کوئی کہتا ہے کہ اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی‘ اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔ ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ) حصہ پائیں گے اور اللہ کو حساب چکاتے کچھ دیر نہیں لگتی۔
اسلام تو نام ہی اس دین اور مسلک کا ہے جس میں انسان پوری زندگی کو اللہ کی اطاعت کے دائرے میں لے آئے اور صرف اسی طریقے کو اللہ نے پسندیدہ قرار دیا ہے۔
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ قف (اٰل عمرٰن ۳:۱۹)
اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔
اور
وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ج (اٰل عمرٰن ۳:۸۵)
اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اُس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔
اسلام کی نگاہ میں زندگی کے تمام معاملات کے لیے حَکَم اور قانون ساز اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور وہی آخری سند ہیں۔ ہر معاملے میں‘ خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات سے‘ خاندانی تعلقات ہوں یا معاشی امور‘ سیاست ہو یا عدالت‘ ملکی زندگی ہو یا خارجی اور بین الاقوامی مسائل‘ حلال و حرام کا تعلق انسان کی زندگی کے تمام پہلوئوں سے ہے اور ان حدود کا تعین کرنے کا اختیار اللہ اور اس کے رسولؐ کو ہے۔ ایمان کے معنی اس اختیار کو اپنے رب کو سونپنا ہے اور جس نے اس نکتے کو نہیں سمجھا‘ اسے اسلام کی ہوا تک نہیں لگی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مومن وہ ہے جو اپنے ہوائے نفس کو میری لائی ہوئی ہدایت کے تابع کرلے۔ پھر بندے کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَہٗ ج (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳)
کہو‘ میری نماز ‘میرے تمام مراسمِ عبودیت‘ میرا جینا اور میرا مرنا‘ سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید ۵۷:۲۵)
ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا‘اور ان کے ساتھ کتاب (قانونِ حیات) اور میزان (عدل) نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ (الاعراف ۷:۹۶)
اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔
اسلام پوری دنیا کو اور اس کے تمام امکانات کو انسان کے لیے مسخر کرتا ہے اور یہی معنی ہیں انسان کی خلافت کے‘ لیکن ساتھ ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں اس گھوڑے کی سی ہے جو کھونٹے سے بندھا ہوا ہے اور اس کی آزادی کی حد وہ ہے جو اس کی رسی متعین کرتی ہے جس سے وہ کھونٹے سے بندھا ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ انسان آزاد ضرور ہے مگر اس کی آزادی ان حدود کی پابند ہوجائے جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے مقرر فرمائی ہیں۔ کافراور مومن میں یہی فرق ہے۔ اسلام نہ مُلّا کا اسلام ہے اور نہ اسے کسی بش اور کسی مشرف کی خواہشات کے تابع کیا جا سکتا ہے۔ وہ تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہدایت کا نام ہے اور بات وہی معتبر ہے جس کی سند اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہو۔ اہلِ ایمان اور اہلِ رحمت کی تعریف ہی قرآن یہ کرتا ہے:
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰئۃِ وَالْاِنْجِیْلِ ز یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ لا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَـانِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج لَآ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ ص فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ o (الاعراف ۷:۱۵۷-۱۵۸)
(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر‘ نبی اُمی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اورانجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے‘ بدی سے روکتا ہے‘ ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے‘ اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتاہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے‘ وہی فلاح پانے والے ہیں۔ اے محمدؐ، کہو کہ ’’اے انسانو‘ میں تم سب کی طرف اس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمان کی بادشاہی کا مالک ہے‘ اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے‘وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے: پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے‘ اور پیروی اختیار کرو اس کی‘ امید ہے کہ تم راہِ راست پالوگے۔
اس راستے کو اختیار کرنے کے بعد انسان اپنی آزادی کو اللہ کی مرضی اور اس کے حکم کے تابع کر دیتا ہے اور اسی کا نام اسلام ہے۔
فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا o (النساء ۴:۶۵)
نہیں‘ اے محمدؐ، تمھارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں‘ پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں‘ بلکہ سربسرتسلیم خم کرلیں۔
وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ق وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ o (الحشر ۵۹:۷)
جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جائو۔ اللہ سے ڈرو‘ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
جو بھی اس راستے کو اختیار کرے گا وہ اللہ کا چہیتا ہوگا اور جو اللہ کے بتائے ہوئے راستے سے انحراف کرے گا یا اللہ کی بندگی کرنے والوں کا استخفاف کرے گا‘ اس کا دل نورِایمان کا مسکن نہیں ہو سکتا۔ اسلام نہ مُلّا کا ہے اور نہ مشرف کا‘ اور نہ اسلام کو بش کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے تراش خراش کا تختۂ مشق بنایا جا سکتا ہے۔ یہ تو صرف محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کا نام ہے اور قیامت تک انھی نقوش پر چلنے کا نام اسلام ہے۔ یہ ایک ازلی اور ابدی حقیقت ہے اور کسی کے کہنے سننے سے اس حقیقت پر کوئی حرف نہیں آسکتا۔ مسلمان وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر ڈٹ جاتا ہے اور اس سے سرِموانحراف نہیں کرتا خواہ کوئی اسے انتہاپسندی قرار دے یا بنیاد پرستی۔ مسلمان اُمتِ وسط ہیں اور اسلام عدل اور اعتدال کا راستہ ہے لیکن یہ اعتدال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا متعین کردہ ہے‘ کسی دوسرے کی خواہش پر کی جانے والی تراش خراش کا نام اعتدال نہیں‘ تحریف اور ضلالت ہے۔ ان مسلمہ اصولوں اور تاریخی حقائق کی روشنی میں جنرل پرویز مشرف کی یہ جسارت بھی دیکھ لیںکہ وہ احکامِ الٰہی اور اسلام کے شعائر کا ذکر کس طرح کرتے ہیں اور اپنی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی رَو میں وہ کیا کچھ کہنے سے باک نہیں کرتے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان بشمول مسلمان اور دوسرے اعتدال پسندوں کا ملک ہے۔ انھوں نے کہا: ’’ہمیں انتہاپسند ملائوں کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ اسلام کو ان کی ضرورت ہے‘‘۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کسی کو اجازت نہیں دے گی کہ وہ پردہ کرنے‘ یا داڑھیاں رکھنے جیسی خود ساختہ اسلامی اقدار کو مسلط کریں۔ ہاں یہ بھی ہے کہ کسی کو بھی پردہ کرنے یا داڑھی رکھنے سے منع نہیں کیا جائے گا۔ پرویز مشرف نے عہد کیا کہ پاکستان میں انتہا پسندی کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔ (ڈیلی ٹائمز‘ ۱۹ دسمبر ۲۰۰۴ئ)
مُلّا پرتبّر ا کرنے کی آڑ میں‘ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح احکام اور دینی شعائر کا استخفاف کرنے والے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اسی ہرزہ سرائی کو ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ سمجھا جائے گا‘ تو ان کی عقل پر فاتحہ ہی پڑھی جاسکتی ہے۔ اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ انتہاپسندی کی تہمت کی دھول (smoke screen) میں اصول‘ احکام اور شعائر کے بارے میں ایسی لاف زنی کو قبولیت حاصل ہوسکتی ہے تو اسے امریکا کے سینیٹر بیری گولڈ وائر کے یہ الفاظ سنانا شاید بے محل نہ ہو کہ:
I would remind you that extremism in the defence of liberty is no vice. And let me remind you also that moderation in the pursuit of justice is no virtue.
میں آپ کو یاد دلائوں گا کہ آزادی کے دفاع میں انتہا پسندی کوئی برائی نہیں ہے۔ اور یہ بھی آپ کو یاد دلائوں گا کہ عدل کے حصول میں اعتدال پسندی کوئی خوبی نہیں ہے۔
آخر میں ہم صرف اتنا ہی عرض کریں گے کہ اسلام ایک اور صرف ایک ہے اور وہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام ہے۔ ملّتِ اسلامیۂ پاکستان پوری اُمتِ مسلمہ کی طرح صرف اسی اسلام کو معتبر جانتی ہے۔ کسی مُلّا‘ کسی مشرف اور کسی بش کے قول یا خواہش کو اسلام کی سند حاصل نہیں ہوسکتی۔ ماضی میں بھی جس نے اسلام کا چہرہ بگاڑنے اور اسے اپنی خواہشات کا تابع بنانے کی کوشش کی‘ وہ ناکام و نامراد ہوا اور آج بھی ہر ایسی کوشش کا مقدرناکامی اور نامرادی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ ہم نے جس ذکر کو اتارا ہے‘ ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں (نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ o الحجر۱۵:۹)‘ اور یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (الصف ۶۱:۸) ’’یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں‘ اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا‘ خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔
؎ نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
اسی شہر لاہور میں جس وقت مسلمانوں نے یہ طے کیا تھا کہ ہم ایک الگ خطۂ زمین حاصل کریں گے۔ اس وقت تمام متحدہ ہندستان کے مسلمانوں کا ارادہ یہ تھا کہ قطع نظر اس کے کہ وہ پاکستان میں شامل ہوسکیں یا نہ ہوسکیں‘ لیکن ایک خطۂ زمین ہندستان میں ایسا حاصل کیا جائے جس کے اندر اسلامی تہذیب کو زندہ کیا جائے‘ جس کے اندر اسلامی قوانین جاری ہوں‘ جس میں مسلمان اپنے نظریۂ حیات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ یہ جذبہ جنوبی ہند کے آخری گوشوں سے لے کر شمالی اور مغربی ہندستان کے انتہائی گوشوں تک تمام مسلمانوں میں یکساں طور پر پایا جاتا تھا۔ اُن مسلمانوں میں بھی پایا جاتا تھا جن کو کبھی یہ توقع نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ کبھی پاکستان میں شامل ہوسکیں گے۔ اسی چیز کے نتیجے میں پاکستان بنا۔
اگر مسلمانوں میں مسلمان ہونے کا احساس تمام دوسرے احساسات پر غالب نہ ہوتا‘ اگر مسلمان اس بات کو بھول نہ گئے ہوتے کہ ہم مدراسی ہیں‘ پنجابی ہیں‘ بنگالی ہیں‘ گجراتی ہیں‘ پٹھان ہیں اور سندھی ہیں اور صرف ایک تصور ان کے اوپر غالب نہ ہوتا کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کی حیثیت سے اس سرزمین میں جینا چاہتے ہیں تو پاکستان کبھی وجود میں نہیں آ سکتا تھا‘ بلکہ پاکستان کا تخیل سرے سے پیدا ہی نہیں ہو سکتا تھا۔
پاکستان کا تخیل ہمارے مسلمان ہونے کے احساس پر مبنی تھا۔ پاکستان کا تخیل ہمارے اس جذبے پر مبنی تھا کہ ہم اسلام کے مطابق زندگی بسر کریں گے۔ یہ عام مسلمانوں کے احساسات تھے۔ مجھے کچھ پتا نہیں کہ بڑے بڑے لیڈروں کے ارادے کیا تھے‘ اور ان کے احساسات کیا تھے؟ یہ بھی یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارے کھاتے پیتے طبقوں کے احساسات کیا تھے؟ یہ بھی مَیں نہیں جانتا کہ جو لوگ ہمارے ہاں سرکاری ملازمتوں میں اُونچے مناصب پر تھے ان کے کیا خیالات تھے اور اس وقت وہ کیا سوچ رہے تھے‘ لیکن عام مسلمان یہی کچھ سوچ رہا تھا‘ اور اس نے یہی سمجھتے ہوئے اپنی جان و مال لٹائے کہ یہ سب کچھ غلبۂ اسلام کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس کو یقین تھاکہ ہندستان کے ہندو ان سے بدلہ لیے بغیر نہیں رہیں گے۔ ان کے خون کی ندیاں بہائیں گے‘ ان کی آبرو پر ہاتھ ڈالیں گے‘ ان کے مال برباد کریں گے‘ مگر اس کے باوجود انھوں نے اس خطرے کو مول لیا اور اس مملکت کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد کیا ایک دن کے لیے بھی یہاں اسلام کے لیے خلوص کے ساتھ کام کیا گیا۔ پوری تاریخ آپ کے سامنے ہے۔
پاکستان بننے کے بعد یہاں اسلام کو مملکت کی بِنا قرار دینے میں پس و پیش شروع کر دی گئی۔ بڑی جدوجہد اور مطالبوں کے بعد اگر قرارداد مقاصد پاس کی بھی گئی تو اس کی بنیاد پر اوّل تو دستور بنانے کے بعد بھی اس قرارداد کو محض ایک دیباچے کے طور پر اس میں شامل کیا گیا۔
اس کے ساتھ جس بات کی سب سے پہلے ضرورت تھی وہ یہ کہ نظامِ تعلیم کو تبدیل کیا جائے۔ طلبہ کے اندر اسلام کا فہم پیدا کیا جائے‘ ان کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنے اس ملک کو اسلام کے مطابق چلا سکیں۔ لیکن اس چیز کی طرف بار بار توجہ دلانے کے باوجود اس کی کوئی فکر نہ کی گئی اور نظامِ تعلیم میں کوئی تغیر نہ کیا گیا۔ اسی طرح سے نشرواشاعت کے جو ذرائع موجود تھے جن سے لوگوں کی رائے تیار کی جاسکتی تھی‘ جن سے لوگوں کے ذہن اسلام کے مطابق بدلے جاسکتے تھے‘ ضرورت تھی کہ ان سے کام لے کر مسلمانوں کے اندر مسلمان ہونے کا جذبہ زیادہ سے زیادہ شدید کیاجائے۔ اس لیے کہ وہی ہماری مملکت کی بنیاد تھی اور ہے۔ اس کے مضبوط رہنے پر اس مملکت کو مضبوط رہنا ہے‘ اور اس کے کمزور ہونے پر اس مملکت کا کمزور ہونا منحصر ہے۔ لیکن اس چیز کی طرف بھی توجہ نہیں کی گئی‘ بلکہ اس کے بالکل برعکس نشرواشاعت کے تمام ذرائع کو اسلام سے لوگوں کو منحرف کرنے کے لیے استعمال کیا گیا اور ان کے ذریعے ہر طرح کے باطل خیالات اور نظریات پھیلائے گئے۔
تعلیم کے بعد جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ یہ کہ مسلمانوں کے اخلاق کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جاتی۔ کیونکہ ایک اسلامی مملکت کی بنیاد اسلامی فکر کے بعد اسلامی اخلاق ہے۔ اگر اسلامی فکر کے ساتھ اسلامی اخلاق موجود ہو تو ایک نہایت مضبوط و مستحکم مسلم مملکت تیار ہوسکتی ہے۔ لیکن نہ یہاں اسلامی فکر کو مضبوط کیا گیا اور نہ اسلامی اخلاق کو۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے اخلاق کو خراب کرنے کے لیے جو کچھ کیا جا سکتا تھا‘ وہ کیا گیا۔ مسلمانوں میں تقسیم سے قبل ناچ گانے کا وہ زور نہ تھا جو بعد میں ہوا۔ گویّے اور نچیّے تقسیم سے پہلے مسلمانوں کے ہیرو نہ تھے مگر تقسیم کے بعد [ان پیشوں سے وابستہ لوگ] ہمارے ہیرو قرار پائے۔ تقسیم کے بعد ملک کے دونوں حصوں کے درمیان جو ثقافتی وفود کا تبادلہ ہوتا تھا وہ ناچنے اور گانے والوں کا ہوا۔ گویا یہ تصور کیا گیا کہ ناچ اور گانے سے یہ مملکت قوی ہوگی ۔مسلمانوں میں شراب نوشی‘ بدکاری اور بے حیائی پھیلانے کے لیے جتنا کام انگریز نے ڈیڑھ سو برس کے اندر نہیں کیا تھا وہ ہمارے ہاں [چند] برس کے اندر کر ڈالا گیا۔ اس طرح سے ہمارے افکار کو اسلام سے منحرف کیا گیا۔ ہمارے اخلاق کو اسلام سے منحرف کیا گیا اور ہمارے اندر سے وہ تمام جڑیں کھودنے کی کوشش کی گئی جن کی بنا پر ہم مسلمان تھے اور مسلمان ہونے پر فخر کرتے تھے۔ جو تعلیم ہمیں دی جارہی تھی وہ لادینیت کی تعلیم تھی۔ اس کے اندر سب کچھ تھا مگر خدا نہ تھا۔ اس میں سب کچھ تھا مگر خدا کا رسولؐ اور خدا کی کتاب نہ تھی۔
لازمی طور پر اس ماحول میں جو ہماری نئی نسلیں اٹھیں‘ مشرقی پاکستان میں تھیں تو ان کے اندر بنگالیت کا احساس پیدا ہوا۔ مغربی پاکستان میں تھیں تو ان کے اندر پنجابی‘ سندھی‘ پٹھان اور بلوچی ہونے کا احساس اُبھرنا شروع ہوا۔ ظاہر بات ہے کہ جب مسلمان ہونے کا احساس دبے گا تو اس کے بعد اگر کوئی دوسرا احساس ہوسکتا ہے تو مقامی اور علاقائی قومیتوں کا احساس ہوسکتا ہے‘ اور وہی چیز پیدا ہوئی۔
بنگالی مسلمانوں میں بنگالی زبان‘ بنگالی تہذیب‘ بنگالی ثقافت‘ ساری کی ساری وہ پھیلائی گئی جو ان کو ہندوئوں کے ساتھ جوڑتی تھی‘ مسلمانوں سے الگ کرتی تھی۔ ان کے اسلامی احساسات کو زیادہ سے زیادہ فنا کرنے اور مٹانے کی کوشش کی گئی اور نتیجے میں ان کے اندر بنگالیت اور بنگالیت کے ساتھ ہندوئیت کے احساسات پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ یہاں تک کہ آخرکار بنگالی مسلمان نوجوان اور ہندو نوجوان کے درمیان کوئی وجہ امتیاز باقی نہ رہی۔ نہ صرف مردوں میں بلکہ عورتوں میں جو عورتیں بھی نئی تعلیم پانے والی تھیں ان میں اور نئی تہذیب اختیار کرنے والی ہندو بنگالی عورت میں بظاہر کوئی فرق نظر نہ آتا تھا۔ وہی ان کی تہذیب‘ وہی ان کے تصورات اور وہی ان کا ناچ گانا....
آپ نے اس کا نتیجہ اب دیکھ لیا کہ آخرکار وہاں وہ تحریک اٹھی جس کے چلانے والے‘ جس کے لیڈر اور جس کے کارکن نہ صرف یہ کہ اسلام کے تصورات سے خالی تھے‘ نہ صرف یہ کہ اسلام سے منحرف تھے بلکہ ان کے اندر اسلام کے لیے چڑ پیدا ہوئی۔ وہ اسلام کا نام سننا گوارا نہیں کرتے تھے… ان کے اندر نفرت مغربی پاکستان کے خلاف اس حد تک پھیلی کہ آخرکار انھوں نے ارادہ کر لیا کہ چاہے کافروں سے بھی مدد لینی پڑے لیکن ہم کو مغربی پاکستان سے الگ ہونا ہے۔ تاریخ میں بہت کم مثالیں آپ کو ایسی ملیں گی کہ مسلمانوں نے مسلمانوں سے لڑنے کے لیے کافروں سے مدد حاصل کی ہو۔ یہاں یہ مثال دیکھی گئی کہ مسلمان‘ بت پرستوں سے اس غرض کے لیے مدد لیتے ہیں کہ مسلمان مملکت سے الگ ہوں اور اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑیں۔ اس طرح سے آخرکار مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا۔
ظاہر بات ہے کہ مشرقی پاکستان نہ فوج کی طاقت سے اور ہتھیاروں کی طاقت سے پاکستان میں شامل ہوا تھا اور نہ ان کی طاقت سے شامل رکھا جا سکتا تھا۔ وہ اگر شامل ہوا تھا تو اسلامی احساسات کی بنا پر‘ مسلمان ہونے کے جذبات کی بنا پر شامل ہوا تھا‘ اپنے ارادے سے شامل ہوا تھا‘ کسی نے اسے فتح کرکے شامل نہیں کیا تھا۔ اور آخرکار آپ نے اسلام سے اپنے انحراف کی بناپر ان کے اندر مسلمان ہونے کے احساس کو دبا دیا بلکہ مٹا دیا‘ تو ظاہر ہے کہ فوج کی طاقت سے ان کو مغربی پاکستان کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا تھا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ پاکستان کی فوج کے مقابلے میں وہ نہیں لڑسکتے تو انھوں نے ہندستان کو دعوت دی‘ اس کی مدد حاصل کی اور اس کے ذریعے سے علیحدہ ہوگئے۔
اب اس کے بعد صرف مغربی پاکستان رہ گیا ہے جس کو ہندستان کے مقابلے میں تقریباً ایک اور گیارہ کی نسبت ہے‘ پہلے ایک اور پانچ کی نسبت تھی۔ اس خطے کے اندر بھی آپ دیکھیے کہ اسلام سے انحراف کے نتیجے میں کیا صورت پیدا ہوگی۔ اس خطے میں بھی چونکہ اسلامی تعلیم نہیں دی گئی‘ نہ اسلامی اخلاق پیدا کیے گئے بلکہ اُلٹا اسلامی تصورات کو دبایا گیا اور غیراسلامی تصورات کو اُبھرنے کا موقع دیا گیا‘ اس لیے یہاں بھی الحاد‘ دہریت‘ سوشلزم اور دوسرے لادینی نظریات پھیلے اور اخلاقی اباحیت کو فروغ حاصل ہوا۔
اس کے نتیجے میں آپ دیکھیے یہاں پنجابی‘ پٹھان‘ سندھی اور بلوچی ہونے کے احساسات اُبھر رہے ہیں اور مسلمان ہونے کا احساس ختم ہو رہا ہے۔ اب اِس خطے کے ٹکڑے اڑتے نظرآرہے ہیں۔ اُس خطے کو بھی جمع کرکے رکھنے والی اگر کوئی چیز تھی تو وہ اسلام اور مسلمان ہونے کا احساس تھا۔ اگر اِس چیز کی اب فکر نہ کی گئی تو یہ بھی منتشر ہوجائے گا‘ اور پھر منتشر ہوجانے کے بعد اس کا کوئی حصہ بھی آزاد نہ رہے گا۔ یہ سب غلام بن جائیں گے اور یہ غلامی اس سے بدتر ہوگی جو تقسیم سے پہلے آپ کی غلامی تھی۔ (مولانا مودودی کی دو اہم تقاریر‘ مرکزی مجلسِ شوریٰ سے خطاب‘ ۱۲-۱۷ فروری ۱۹۷۲ئ‘ ص ۶-۱۰)
حضرت عمران بن حطاّن تابعی ؒ رو ایت کرتے ہیںکہ ایک روز میں حضرت ابو ذر غفاریؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ وہ ایک کالی کملی لپیٹے ہوئے مسجد میں با لکل اکیلے بیٹھے ہیں۔ میںنے عرض کیا: ’’ اے ابوذر! یہ تنہائی اور یکسوئی کیسی ہے (یعنی آپ نے اِس طرح اکیلے اور سب سے الگ تھلگ رہنا کیوں اختیار فرمایا ہے؟‘‘ اُنھوں نے جواب دیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’ برے ساتھی کی ہم نشینی سے اکیلے رہنا اچھا ہے‘ اور اچھے ساتھی کے ساتھ بیٹھنا تنہائی سے بہترہے‘ اور کسی کواچھی باتیں بتاناخاموش رہنے سے بہترہے‘ اوربری باتیںبتانے سے خاموش رہنا بہتر ہے ‘ ‘۔ (شعب الایمان‘البیہقی)
نبی مکرم ؐکے اِن حکیمانہ اور جامع ارشادات مبارکہ سے معلو م ہوا کہ تنہائی اختیار کرنے کے بجاے اچھے مسلمانوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ اِس کے نتیجے میں‘محبت‘ بھائی چارے اورنیک اعمال میں اضافہ ہوگا۔
ایک روز رسولؐ اللہ نے اپنی ایک تقریرمیں کچھ افراد کی تعریف فرمائی (جو دوسروں کو دین کی باتیں بتاتے تھے)۔ پھر فرمایا: ’’ایسا کیوں ہے کہ کچھ لوگ اپنے پڑوسیوںمیںدینی سوجھ بوجھ پیدا نہیں کرتے؟ اُن کو تعلیم نہیں دیتے؟ اُن کو نصیحت نہیں کرتے؟ بری باتوں سے کیوں نہیں روکتے؟‘‘ پھر فرمایا: ’’ اور ایسا کیوں ہے کہ کچھ لوگ دین کی باتیں نہیں سیکھتے؟کیوں اپنے اندردینی شعور پیدا نہیں کرتے؟ کیوں دین نہ جاننے کے نتائج معلوم نہیں کرتے؟ خدا کی قسم! لوگوں کو آس پاس کی آبادی کو دین سکھانا ہوگا‘ اُن کے اندر دینی شعور پیدا کرنا ہوگا‘ وعظ و تلقین کاکام کرنا ہوگا‘ اور لوگوں کو لازماً اپنے قریب کے لوگوں سے دین سیکھنا ہو گا‘ اپنے اندر دینی سمجھ بوجھ پیدا کرنی ہوگی اور وعظ و نصیحت قبول کرنا ہوگا‘ ورنہ میں اُنھیں اِس دنیا میں جلد سزا دوں گا‘‘۔(عن ابو موسیٰ الاشعریؓ، الطبرانی)
نبی مکرمؐکے اِن حکیمانہ ارشادات مبارکہ سے معلو م ہواکہ لوگوںکو نیکی اور بھلائی کی تلقین کرنا‘ خاموشی اختیا ر کرلینے کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولؐ اللہ بہت زیادہ خاموش رہتے تھے‘ اور آپؐ صرف وہی بات کرتے تھے جس پر آپ ؐ کو ثواب کی امید ہوتی تھی۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اِس طرح کی گفتگو کے نقصانات کو ان الفاظ میںبیان کیا ہے: مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلاَّلَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ o (قٓ۵۰: ۱۸)’’ کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگران موجود نہ ہو‘‘۔ اِس لیے ہر شخص کو چاہیے کہ کوئی با ت منہ سے نکالنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لے کہ وہ نوٹ ہو رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں اِس کا حساب بھی دینا ہو گا ۔ حضوراقدسؐ نے اِس بات کو ایک اور انداز سے سمجھایا ہے۔آپؐ نے فرمایا:’’بلاشبہہ بندہ اپنی زبان سے کبھی اللہ کی ناراضی کا کوئی ایسا کلمہ کہہ گزرتا ہے جس کا اُسے خیال بھی نہیں ہوتا اوروہ کلمہ اُسے جہنم میںگرادیتا ہے‘‘۔(عن ابوہریرہؓ، بخاری‘ مشکوٰۃ)۔ ایک اور موقع پر آپؐ نے فرمایا: ’’بلاشبہہ انسان اپنی زبان سے اتنا زیادہ پھسل جاتا ہے‘جتنا اپنے قدم سے بھی نہیں پھسلتا‘‘۔ (عن ابوہریرہؓ، بیہقی‘ مشکوٰۃ )
بدی اور برائی کی طرف مائل کرنے والی گفتگو کے بارے میں ہا دیِ اعظمؐکی چند اور ہدایات عالیہ سنیے جو آپؐ نے مختلف مواقع پرعطا فرمائی ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا: ’ ’فضو ل باتیں کرنے والے اور یاوہ گوئی کرنے والے میری اُمت کے بد ترین لوگ ہیں‘‘(موطا امام مالک‘ ابوداؤد)۔ایک اور موقع پرفرمایا:’’جو شخص مجھے اپنے دونوں کلّوںکے درمیان والی چیز (یعنی زبان)‘ اور اپنی دونوں رانوں کے درمیان والی چیز(یعنی شرم گاہ )کی حفاظت کرنے کی ضمانت دے دے گا‘ میں اُسے جنت کی ضمانت دے دوں گا‘‘ (عن سہل بن سعدؓ، بخاری‘ مشکوٰۃ)۔ ایک اور موقع پرفرمایا:’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اورہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں‘‘ (عن عبداللہ بن عمروؓ، بخاری )۔ اسی طرح ایک اور موقع پرآپؐ نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ اور روزِآخرت پر یقین رکھتا ہے‘ اُس کو چاہیے کہ وہ بھلی بات کہے یا چپ رہے‘‘۔ (کتاب الایمان، مسلم)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مسلمانوں کوہادیِ اعظمؐکی ہدایات پر عمل کر نے کی توفیق عطافرمائے۔آمین!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مبارکہ ایک نہایت عظیم تاریخی واقعہ ہے ۔ سنہ ہجری کا آغاز بھی اسی واقعے کی مناسبت سے کیا گیا ہے۔ اس واقعے نے مسلمانوں کی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔ ہجرت کے موقع پر نبی کریمؐ اور اہل ایمان کو غیرمعمولی مسائل کا سامنا تھا۔ آپؐ نے ان تمام مشکلات پر قابو پاتے ہوئے غلبۂ دین کی جدوجہد کو جاری رکھا اور بالآخر عالم عرب مسخر ہوکر رہا۔ آج بھی اُمت مسلمہ کو بہت سے مسائل اور چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ واقعۂ ہجرت سے اخذ کردہ اسباق کو ایک بار پھر ذہنوں میں تازہ کریں۔آئیے اس سلسلے کے چند اہم اسباق پر نظر ڈالیں۔
بوقت ہجرت آپ ؐ نے مکہ کو مخاطب کر کے فرمایا: واللّٰہ انک لاحب بلاد اللّٰہ الی‘ ولولا ان اھلک اخرجونی ماخرجت،اللہ کی قسم !اے مکہ! تو اللہ کے شہروں میں سے مجھے محبوب ترین ہے۔ اگر تیرے باسی مجھے نکال نہ دیتے تو میں کبھی یہاں سے نہ جاتا۔آپ ؐ اور آپ ؐ کے ساتھیوں کو مکہ میں جس قسم کی اذیتوں کا سامنا رہا اور پھر جس کسمپرسی کے عالم میں انھیں پہلے حبشہ اور پھر مدینہ کی جانب سفر ہجرت اختیار کرنا پڑا‘اس سارے عمل میں ہمارے لیے بے حد اہم اسباق پوشیدہ ہیں۔ہمیں بھی اُمت کو درپیش چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے ان اسباق کا پوری دقت ِ نظر سے مطالعہ کرنا ہوگا تاکہ یہ ہمارے لیے مایوسی اور ناامیدی کے بجاے پیش قدمی اور فتح مندی کا ذریعہ بن جائیں ۔شرط یہ ہے کہ ہم اپنے دلوں کو اخلاص لِلّٰہ سے بھر لیں۔ فرمان نبویؐ ہے: اعمال کا تمام تر دارومدار نیتوں پر ہے۔ ہر شخص وہی پائے گا جس کی نیت کرے گا۔ پس جس کی ہجرت واقعی اللہ اور اس کے رسول کی جانب ہوگی‘ واقعی اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی جانب ہوگی‘ اور جس کی ہجرت کسی دنیاوی مفاد یا کسی خاتون سے نکاح کی خاطر ہوگی‘ تو اس کی ہجرت بھی اسی کام کے لیے ہوگی جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔(متفق علیہ)
۱- دوتیز رفتار سواریوں کی یوں تیاری کی کہ چار ماہ تک دونوں اونٹنیوں کی خوب دیکھ بھال کی گئی اور عین سفرِ ہجرت کے موقع پر انھیں ضروری سازو سامان سے پوری طرح لیس کیا گیا۔
۲- راستوں کے ماہر عبد اللہ بن اریقط کو راستے کی نشان دہی کے لیے باقاعدہ اجرت پر ساتھ لیا ۔ اگرچہ عبد اللہ اس وقت مشرک تھے‘ لیکن اپنے کام میں خوب مہارت رکھتے تھے‘ اس لیے آپؐ نے ان کا انتخاب کیا۔
۳- زاد راہ اور سامان خوردو نوش کا باقاعدہ انتظام کیا گیا۔ حضرت اسما بنت ابوبکر ہر شام کھانا پہنچایا کرتیںاور عامر بن فہیرہ رات کودودھ پہنچایا کرتے۔حضرت ابوبکر ؓنے اپنی جمع پونجی (تقریباً چھے ہزار درہم )سفر میں اپنے ساتھ رکھی۔
۴- ہجرت کے معاملے کو مکمل راز داری میں رکھا گیا ۔صرف انھی چند لوگوں کو اس کی خبر تھی جنھیں براہ راست اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانا تھا۔ راستوں کے بارے میںدشمنوں کو مغالطہ دینے کے لیے آپ ؐ نے جنوب میں واقع یمن کا راستہ اختیار کیا حالانکہ مدینہ سمتِ شمال میں واقع ہے۔ اسی طرح دشمنوں کی نقل و حرکت سے لمحہ بہ لمحہ باخبر رہنے کا انتظام بھی تھا۔
۵- غار ثور میں تین روزتک قیام پذیر رہے تاکہ دشمن کی تگ و دو ماند پڑجائے۔ قدموں کے نشان مٹانے کا بھی مکمل انتظام کیا گیا‘ کہ کہیں یہ نشان کفار کو سمتِ سفر اور جگہ کے تعین میں مدد نہ دیں۔
سیدنا ابوبکر الصدیق ؓ: اے اللہ کے رسولؐ!اگر ان ( تعاقب کرنے والوں) میں سے کسی نے بھی اپنے قدموں پر نظر ڈالی تو ہم ضرور دیکھ لیے جائیں گے۔
اللہ پر کامل اعتماد ‘بہترین تیاری ‘منصوبہ بندی اور فراہمی اسباب و وسائل کے بعد پھر اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسا برحق ہے۔ اس سارے عمل کا براہ راست پھل اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت اور سفر ہجرت کی بحفاظت تکمیل کی صورت میں برآمد ہوا تھا۔
صدیق اکبر ؓکیا کہتے ہیں: ’’اللہ کی قسم! اس (غار ) میں آپ سے پہلے میں داخل ہوں گا‘ اس میں اگر کوئی خطرناک چیز ہو تو آپ کے بجاے مجھے نقصان پہنچائے‘‘۔پھرحضرت ابو بکرؓغار میں موجود تمام سوراخ بند کر چکے تو ایک سوراخ ایسا باقی تھا جو بند نہیں کیا جا سکا تھا ۔ اسے حضرت ابو بکر ؓ نے اپنا پاؤں رکھ کر بند کر دیا ۔نبی کریم ؐ حضرت ابوبکر ؓ کے زانو پر سر رکھ کر سوگئے۔ اسی دوران بل میں مو جود کسی زہریلی چیز نے ڈنک مارا لیکن ابو بکر ؓ ہلے تک نہیں کہ کہیں آپؐ کی نیند نہ خراب ہوجائے۔یہاں تک کہ تکلیف کی شدت سے حضرت ابو بکرؓ کی آنکھوں سے بے اختیاربہہ پڑنے والے آنسو آپؐ کے چہرۂ انور پر گرے تو صورت واقعہ کا علم ہوا۔
پھر مدینہ کے راستے میں ابو بکر صدیق ؓکبھی آپؐ کے آگے چلتے تو کبھی پیچھے۔ نبی کریم ؐ ْٗحضرت ابوبکرؓ کے اضطراب کو بھانپ گئے ۔پوچھنے پر ابوبکرؓ نے جواب دیا : یارسولؐ اللہ !مجھے جب کفار کی طلب اور جستجو یاد آتی ہے تو آپؐ کے پیچھے چلنے لگتا ہوں‘ اور جب ان کا اعلان کردہ انعام میرے ذہن میں آتا ہے تو آپؐ سے آگے چلنے لگتا ہوں۔فرمایا:ابوبکرؓ کوئی چیز ایسی ہے جوتم پسند کرتے ہوکہ میرے بجاے تمھیں مل جائے؟ابوبکرؓ کہنے لگے: جی ہاں!اس راہ میں مارا جانا۔ میں اگر قتل ہوتا ہوں تو میں اکیلا ہی مارا جاؤں گا‘ اور اگر آپؐ شہید ہوگئے تو گویاساری امت ہلاک ہوگئی۔
ہجرت مدینہ دراصل ایک نئے مرحلے کی ابتداتھی‘ جس میں دعوت الی اللہ کا کارواں ‘ صبروابتلا کے طویل دور کے بعد کامیابی کی منزلوں سے ہمکنار ہوا۔ذہن میں رہے کہ کامیابی کی اس منزل کے پیچھے تمام ممکنہ اسباب کی فراہمی‘بہترین تیاری اور منصوبہ بندی‘اللہ پر کامل بھروسا اور توکل‘ اسی کی ذاتِ بے ہمتا پر کامل اعتماد ‘رسولؐ اللہ کی ذات گرامی سے بے پناہ محبت‘ ہرقسم کی صلاحیتوںاور قوتوں سے استفادہ‘ایسی حقیقی اخوت کا قیام جس نے رسولؐ اللہ کے اصحاب کے دلوں کو یکجان کرکے خوب صورت ترین مثال بنادیا ‘یہی وہ عناصر تھے جن کی بدولت کامیابی اور فتح مندی مقدر ٹھیری۔
اس ساری مہم میں حضرت اسماء ؓبنت ابوبکر اور حضرت عائشہؓنے جو کردار انجام دیا‘ اس سے دعوت الی اللہ کے میدان میں مسلمان خواتین کا کردار بخوبی واضح ہوجاتا ہے ۔اسی طرح عبد اللہ بن ابو بکر ؓجس طرح دن بھر قریش کی خبریں اکٹھی کرتے اور شام کے وقت آپؐ تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے رہے‘ اس سے نوجوانوں کے کردار کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔مزید یہ کہ نوجوانوں کی فعال صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کیا جانا چاہیے۔
آئیے!ہم بھی ہجرت الی اللہ کے اس نئے مرحلے میں ‘ہجرت اولیٰ (ہجرت ِنبویؐ) کے اسباق کوحرز جاں بنائیں۔ اپنی نیتوں کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے‘مادی ومعنوی اسباب و وسائل کے ساتھ اپنی انتہائی کوششیں صرف کرکے‘سید المرسلین ؐ کی اقتدا میں بھرپور تیاری و منصوبہ بندی اور پوری قوت وطاقت کو صرف کرتے ہوئے‘اللہ پر مکمل بھروسا ‘اور پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو بھی مصیبت آئے صبرو ثبات کے ساتھ اجر کی نیت لیے اسے برداشت کرتے ہوئے‘اللہ کی نصرت کے وعدے پر پختہ یقین کے ساتھ ‘رسولؐ اللہ کی محبت دل میں لیے ‘آپؐ کے نقوش پا کی پوری پیروی کرتے ہوئے‘اپنے بہنوں اور بھائیوں کی صلاحیتوں اور قوتوں سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے‘ اخوت کے تقاضوں پر پورا اتر کر‘بیک دل اور بیک آواز باری تعالیٰ کے اس فرمان کے مصداق بن جائیں :
جنھوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسولؐ کی پکار پر لبیک کہا___ اُن میں جو اشخاص نیکوکار اور پرہیزگار ہیں اُن کے لیے بڑا اجر ہے___ جن سے لوگوں نے کہا کہ ’’تمھارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں‘ اُن سے ڈرو‘‘، تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انھوں نے جواب دیا کہ ’’ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے‘‘۔ آخرکار وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹ آئے‘ ان کو کسی قسم کا ضرر بھی نہ پہنچا اور اللہ کی رضا پر چلنے کا شرف بھی انھیں حاصل ہوگیا‘ اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔ اب تمھیں معلوم ہوگیا کہ وہ دراصل شیطان تھا جو اپنے دوستوں سے خواہ مخواہ ڈرا رہا تھا۔ لہٰذا آیندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا‘ مجھ سے ڈرنا اگر تم حقیقت میں صاحبِ ایمان ہو۔(اٰل عمرٰن ۳:۱۷۲-۱۷۵)
امن و انصاف کا حصول انسان کا ایک بنیادی مسئلہ ہے اور تمام مذاہب نے اس کی اہمیت اور مرکزیت کے پیش نظر اسے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو سیکولر مفکرین کے نزدیک بھی یہ اتنا ہی اہم ہے اگرچہ اس کے بنیادی تخیلات اور پس پردہ جذبہ مکمل طور پر کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہو۔
سرمایہ دارانہ ذہنیت کے زیراثر جو معیشت کے استحکام‘ انفرادیت اور ہر دم بدلتی ہوئی اخلاقیات کا مجموعہ ہے‘ ایک نئی سوچ اور فکر یہ پیدا ہوگئی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے طویل المیعاد سماجی اور معاشی فوائد جنگ کے ذریعے حاصل نہیں کرسکتے۔
عدم تشدد اور عدم جارحیت کا فلسفہ جو پہلے چند افراد یا مذاہب کی ذاتی فکر کا مظہر سمجھا جاتا تھا‘ وقت گزرنے کے ساتھ عالمی سیاسی حکمت عملی کی صورت اختیارکرگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج اور جنگوں کے ذریعے خام مال پر قبضہ اور نئی معاشی منڈیوں کی تلاش کی سرمایہ دارانہ حکمت عملی کی جگہ یہ سوچا جانے لگا ہے کہ امن کے نام پر‘ عدم جارحیت کے زیرعنوان اور آزاد تجارت کا نعرہ بلند کر کے بھی سرمایہ دارانہ قوتیں وہی کچھ حاصل کرسکتی ہیں جس کے لیے پہلے طول طویل اور خوں ریز جنگیں لڑی جاتی تھیں۔
عالمی جنگوں کے دور کے بعد بین الاقوامی سطح پر ترقی پذیر ممالک پر قابو پانے اور انھیں اپنا ماتحت بنانے کے لیے تجارت‘ سیاحت اور جمہوریت کو قابلِ عمل طریقہ اور بنیاد سمجھا گیا۔ امن کی تلاش کے اس دور میں جنگی تصادم سے بچنے کی کوششیں اس لیے بھی کی گئیں کیوںکہ جنگ کو تجارت اور سیاحت کا دشمن خیال کیا جاتا ہے۔
سرد جنگ کے زمانے میں علاقائی معیشت‘نیوکلیئر صلاحیت اور باہمی تعاون کی راہیں کھلیں۔ گو صرف فکری طور پر ہی سہی ‘ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کا قیام عدم جارحیت کے فلسفے کا عالمی سطح پر ظہور تھا۔ اس ادارے کی کامیابی اور ناکامی سے قطع نظر اس کے قیام کا بڑا مقصد مسائل کا پرامن حل تلاش کرنا تھا۔ اس لیے امن کا قیام و انصرام اس سیکولر ادارے اور اس کے رکن ممالک کا جزو ایمان بن گیا۔
دیگر اقوام کو یورپ کے سامراجی اور نوآبادیاتی تسلط اور چیرہ دستیوں سے آزاد کرانے والی جمہوری جدوجہد ایک عرصے تک نہ صرف پُرامن تحریک اور تشدد سے آزاد مزاحمتی تحریک سمجھی جاتی رہی‘ بلکہ دیگر تحریکات کو بھی اس کا حصہ تصور کیا جاتا رہا‘ مثلاً مساوات مرد و زن کی تحریک۔ مغرب میں یہ تحریک عورتوں کے مساوی حقوق کی علم بردار بن کر اٹھی‘ جب کہ عورتوں کی معاشرے میں انصاف پسندانہ اور شفاف شراکت کار کو اہمیت نہیں دی گئی۔ بہرصورت یہ ایک پُرامن تحریک ہی رہی۔ لیکن سیاسی منظرنامے پر موجود معاشرے میں جمہوریت کے نفاذ کی تحریکیں کبھی تو پرامن رہیں اور بعض اوقات تشدد پسند۔ تاہم‘ عالمی امن اور مسائل کے غیرفوجی حل پر مشتمل تحریکیں اپنے تمام تر سیکولر کردار کے باوجود ایک اچھے انسانی معاشرے کے قیام کا دعویٰ اور اس کے لیے سرگرمی اختیار کرتی رہیں۔ ایٹمی قوت سے پاک دنیا کی تحریک بحالیِ امن اور سیکولر معاشرے کے قیام کی داعی رہی۔
دوسری طرف اُن لوگوں کو انتہا پسندی‘ بنیاد پرستی‘ تشدد‘ دہشت گردی اور خون خرابہ شروع کرنے کا الزام دیا جاتا تھا جن کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ گو کئی عشروں تک شمالی آئرلینڈ کے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائی فرقوں کو مذہبی تشدد‘ بنیاد پرستی اور انتہاپسندی کا الزام دیا جاتا تھا‘ تاہم اگر حقیقت کا جائزہ لیا جائے تونہ کیتھولک اور نہ پروٹسٹنٹ فرقہ ہی اس قسم کے خون خرابے کی اجازت دیتا ہے‘ نہ کروشیا اور سربیا کے لوگوں کی بوسنیا کے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی ہی صحیح مذہبی عیسائیت کا اظہار کہی جاسکتی ہے۔ اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ باضمیر‘ دیانت دار اور صحیح العقیدہ یہودی بھی صہیونیوں کے فلسطینی مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف کھلے تشدد اور ننگِ انسانیت اقدامات کی حمایت نہیں کرتے۔ بہت سے اسرائیلی پائلٹوں کے فلسطین کے مختلف ٹھکانوں پر بم باری کرنے کے انکار سے واضح ہوتا ہے کہ تمام یہودی فلسطین میں ہونے والی صہیونی دہشت گردی میں شریک نہیں‘ یعنی چاہے مجبوراً انھیں ایسے اقدام کرنے پڑتے ہوں۔ اس مختصر جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امن ہر انسان کی مشترک خواہش ہے‘ چاہے وہ دین دار ہو یا سیکولر۔ مزید یہ کہ مذہب کے نام پر تشدد کسی بھی معاشرے میں پسند نہیں کیا جاتا۔
عام طور پر امن اور بحالی امن کے اقدامات‘ مسائل کے پرامن حل‘ اجتماعی دفاع کی سوچ‘ بچائو کی مختلف تدابیر‘ تخفیف اسلحہ جیسے موضوعات آج کی دنیا کے عملی مسائل ہیں اور عموماً یہ مسائل اور جھگڑے‘ چاہے سیاسی ہوں یا معاشی‘ ہمیں غور کرنا ہوگا کہ ان کا حل طاقت و قوت سے ہوگا یا گفت و شنید سے۔ اس لیے بحالی امن کے اقدامات پر گفت و شنید کے لیے ایسے فورم (forum) ضروری ہیں جہاں ان مسائل پر معروضی طور پر غور اور تبادلۂ خیالات کیا جاسکے۔
اجتماعی دفاع کی سوچ باہمی اور کثیرجہتی تعلقات کی صورت میں نمودار ہوتی ہے اور علاقائی یا عالمی امن پر منتج ہوتی ہے۔ تخفیف اسلحہ کا مطلب اسلحے کے عدم توازن کو ختم کرنے کی کوششیں‘ ایٹمی اسلحے پر موثر کنٹرول اور ایٹمی فضلہ جات کو صحیح طور پر ٹھکانے لگانا اور شعوری طور پر اسلحے کی دوڑ میں حصہ نہ لینے جیسے اقدامات کرنا ہیں۔ امن کے لیے اقوام متحدہ جیسے اداروں کو بلاواسطہ شریک کرنا‘ بچائو کی حکمت عملی اور تدابیر کا اہم جزو ہوسکتا ہے۔ اگرچہ امریکی سامراج کی یک قطبی دنیا اور اس کے غیر قانونی طور پر عراق پر حملے اور قبضہ کرنے کے اقدامات نے نہ صرف اقوام متحدہ اور اس جیسے اداروں کی بے بسی کو واضح کر دیا ہے بلکہ ان کی موت پر مہر تصدیق بھی ثبت کر دی ہے۔ لیکن ہم اس سے مایوس نہیں ہیں بلکہ اس سے ہمارے اس خیال کو تقویت پہنچی ہے کہ دانش ور‘ مذہبی قائدین اور وہ تمام لوگ جو کسی بھی سطح پر پالیسی کی منصوبہ بندی سے وابستہ ہیں‘ اجتماعی طور پر موجودہ بین الاقوامی معاشی‘ سماجی اور سیاسی مسائل پر ہماری رہنمائی کرسکتے ہیں اور ایک نئی دنیا تعمیر کرنے میں اپنا حصہ ادا کرسکتے ہیں‘ ایسی دنیا جس کی بنیاد گفت و شنید‘ دلیل و برہان‘ باہمی تعلق اور عدم تشدد کی سوچ پر ہو۔
عالمی امن کے حصول میں موجودہ مذاہب کا کیا کردار ہے‘ اور خاص طور پر اسلام کا اس بارے میں کیا نقطۂ نظر ہے؟ یہ سوال ہمیں غیر جذباتیت اور خالص دلیل و برہان کی بنیاد پر قرآن و سنت کی رہنمائی میں حل تلاش کرنے کی دعوتِ تحقیق دیتا ہے۔
لغوی طور پر اسلام کا مادہ س ل م ہے جس کے معنی امن‘ سکون‘ بندگیِ رب اور اللہ کی بڑائی کے سامنے سرتسلیم خم کر دینا ہے۔ اگر عملی حقیقت یہی ہے تو نام نہاد ’’مقدس جنگ‘‘ اور ’’اسلامی جہاد‘‘ کا عالمی شوروغوغا کیوں؟ اس شوروغوغا میںاور اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرنے میں عالمی ابلاغ عامہ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا‘ مستشرقین اور آزاد خیال لوگوں کی ان تحریروں کا بڑا کردار ہے جن میں اسلام کی مسخ شدہ تصویر پیش کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جوڈتھ مِلر (Judith Miller) کی کتاب ’’خدا کے ننانوے نام‘‘ پیش کی جاسکتی ہے جو اپنے منصب اور ذمہ داری کے لحاظ سے نیویارک ٹائمز کی مشرق وسطیٰ کے امور پر ماہر اور نامہ نگار ہے لیکن اسے کبھی خود مشرق وسطیٰ کے کسی ملک میں معقول عرصے تک رہنے اور مطالعہ کرنے کا موقع نہیں ملا‘ اور نہ وہ عربی کی ابجد سے ہی واقفیت رکھتی ہے لیکن پھر بھی اسلام کے بارے میں سند سمجھی جاتی ہے۔ ایڈورڈ سعید (Edwards Saeed) اس کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ان ’’ماہرین‘‘ (مِلر‘ سیموئیل ہن ٹنگٹن‘ مارٹن کرامر‘ برنارڈ لیوس‘ ڈینیل پائپز‘ سٹیفن ایمرسن اور باری رُبن‘ اس کے علاوہ اسرائیلی مصنفین) کے لکھنے کا ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسلام کو ’’خطرے‘‘ کے طور پر پیش کیا جائے‘ اسلام کو دہشت اور تشدد کا علم بردار ثابت کیا جائے اور دوسری طرف ذاتی تشہیر‘ میڈیا میں اثرورسوخ پیدا کرنے کے ساتھ اپنی جیبیں بھی بھری جائیں۔ اسی طرح کی ایک اور مثال اسٹیفن شوارٹز (Stephen Schwartz) کی کتاب ’’اسلام کے دو چہرے: آل سعود روایت سے دہشت تک‘‘ ہے جوایسے ’’شیاطین‘‘ کو تلاش کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے جن کا وجود شاید مصنف کے ذہن کے علاوہ اور کہیں نہیں پایا جاتا۔
اسلام کی اس تصویر کشی کی ایک کھلی وجہ ’’جہاد‘‘ کو غیرمسلموں اور ان کی تہذیب کے دشمن کے طور پر پیش کرنا ہے۔ ۱۱ستمبر کے ہولناک واقعات نے مسلمانوں اور جہاد کے متعلق صدیوں سے مروجہ غلط فہمی پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس بارے میں عمومی طور پر مسلمانوں نے معذرت خواہانہ یا جذباتی رویے اختیار کرتے ہوئے مغرب کو جہاد کے صحیح تصور اور حقیقی مقصد کو سمجھانے میں کوئی مدد کی اور نہ مثبت طور پر اسلام کے اصول پیش کیے۔ نتیجتاً آج جہاد کو بڑی آسانی کے ساتھ تشدد اور دہشت گردی کا ہم معنی قرار دے دیا گیا ہے۔
لغوی طور پر تشدد کا مطلب کسی کو تکلیف دینے‘ زخمی کرنے اور تذلیل کرنے کے لیے طاقت کا سوچا سمجھا استعمال کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے کسی کو زخمی کرنا یا قتل کرنا یا املاک کو نقصان پہنچانا دہشت گردی اور تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ گو‘ہر قوت کا استعمال تشدد نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن جب بھی قوت کے استعمال کے ساتھ مقصد یہ ہو کہ کسی کو اذیت اور ذلت کا مزا چکھایا جائے تو پھر یہ استعمالِ قوت تشدد بن جاتا ہے۔
اس چیز کو ہم سرجن کے نشتر کی مثال سے واضح کرسکتے ہیں جس کا مقصد نشتر کے ذریعے تکلیف دینا نہیں ہوتا‘ بلکہ فاسد مادہ کا نکالنا یا ناکارہ عضو کا اس غرض سے کاٹنا ہوتا ہے کہ باقی سارا جسم اس تکلیف اور غلاظت سے نجات حاصل کر کے صحت مند اور توانا رہے۔ جہاد کا ٹھیک یہی مقصد اور مقام قرآن میں بیان کیا گیا ہے‘ یعنی معاشرے میں امن و انصاف کے قیام اور لاقانونیت اور استحصال کے خاتمے کے لیے جہاد کو ایک ذریعہ بنانا۔
معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے والے لوگ اکثر جہاد کی دو قسمیں مدافعانہ اور جارحانہ بیان کرتے ہیں اور دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں‘ یعنی دارالحرب اور دارالسلام۔ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ جہاد صرف اور صرف مدافعانہ ہی ہوتا ہے اور کسی کے خلاف جنگ کرنا اسلام کا مدعا نہیں ہے۔ دوسری طرف کچھ لوگ ہر اُس چیز کے خلاف جنگ کرنا جہاد قرار دیتے ہیں جو غیراسلامی ہو۔ دونوں تعبیرات جہاد کے حقیقی اور وسیع مفہوم کا احاطہ نہیں کرتیں۔
اگر ہم قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو اس میں لفظ جہاد تقریباً۴۰ مرتبہ اور لفظ قتال تقریباً ۱۶۰ مرتبہ مختلف معنوں میں آیا ہے۔قرآنی تعلیمات کے مطابق جہاد کسی مقصد کے حصول کے لیے بھرپور کوشش‘ انتہائی جدوجہد اور پیہم عمل کا نام ہے‘ جب کہ قتال سے مراد لڑنا اور جنگ کرنا ہے۔
قرآن کے مطابق جہاد کا مقصد لوگوں کو ظلم و ناانصافی‘ غلامی اور استحصال سے نجات دلانا اور حقوقِ انسانی کی بحالی ہے۔ اگرچہ زیادہ زور مسلمانوں کے حقوق پر دیا گیا ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہیں کہ جہاد صرف مسلمانوں کو ان کے حقوق دلانے سے تعلق رکھتا ہے۔ قرآن میں لفظ مستضعفین ان لوگوں کے لیے استعمال ہوا ہے جو ظلم و زیادتی کا شکار ہوں اور قرآن ان کے حقوق کی بحالی کے لیے لڑنے پر اُبھارتا ہے۔ یہ مستضعفین مسلمانوں کے علاوہ دیگر مظلوم افراد بھی ہو سکتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:
بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان ناتواں مردوں‘ عورتوں اور ننھے منے بچوں کے لیے جہاد نہ کرو جو یوں دعا مانگ رہے ہیں کہ اے پروردگار ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لیے خود اپنے پاس سے حمایتی اور کارساز مقرر کردے اور ہمارے لیے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا۔ (النساء ۴:۷۵)
اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے ہٹاتا نہ رہتا تو عبادت خانے‘ گرجے اور معبد اور مسجدیں بھی ڈھائے جا چکے ہوتے جہاں اللہ کا نام بکثرت لیا جاتا ہے۔ (الحج ۲۲:۴۰)
سورۂ نساء اور سورۂ حج کی مندرجہ بالا آیات سے جو اصول نکلتے ہیں وہ جہاد کے ایک عملِ اصلاح اور حقوق انسانی کے قیام کے لیے ایک حکمت عملی ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔ پہلی بات یہاں پر یہ کہی گئی کہ جن عورتوں‘ بچوں اور مردوں کو محض اس بنا پر کہ وہ اپنے رب کی بندگی کرنا چاہتے ہوں‘ ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہو (جیسے آج مقبوضہ کشمیر ہی میں نہیں بعض مسلم اکثریتی ممالک میں اہلِ حق کے ساتھ کیا جا رہا ہے)‘ تو اہلِ ایمان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان کی رہائی اور نجات کے لیے مادی اور اخلاقی امداد کریں۔
اگلی بات یہ واضح کر دی گئی کہ جہاد محض مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے حصول کے لیے نہیں ہے‘ بلکہ یہود و عیسائی وغیرہ کو بھی اگر اپنے عبادت خانوں میں عبادت کرنے سے محروم کردیا جائے تومسلمانوں کا فرض ہے کہ ان کا یہ مذہبی حق ان کو دلوائیں۔ اس طرح جہاد محض اُمت مسلمہ کے حقوق انسانی کے تحفظ تک محدود نہیں رہتا بلکہ عالمی طور پر مذہبی حقوق کے احیا و بحالی کے لیے ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اصل میں جہاد قرآنی تعلیمات کی روشنی میں انسانی حقوق کی آزادی‘انسانی عظمت کی حفاظت اور بحالی کی ’’تحریک‘‘ کا نام ہے۔ یہ صرف کافروں کے خلاف ایک مقدس جنگ (holy war) نہیں ہے۔ مقدس جنگ کا عربی ترجمہ ’’حرب المقدس‘‘ ہوگا۔ قرآن و سنت کسی مقام پر بھی ’’حرب المقدس‘‘ کی اصطلاح استعمال نہیں کرتے۔ تاریخی طور پر ’’مقدس جنگ‘‘ کا تصور عیسائیت کی پیداوار ہے۔اسی طرح امن و سلامتی اور صلح کے الفاظ اسلامی روایات میں جنگ کی ضد میں استعمال نہیں ہوتے‘ بلکہ اس سے مراد امن‘ برداشت‘ رواداری‘ باہمی اعتماد اور افہام و تفہیم کا کلچر ہے۔ قرآن تمام انسانیت کو ایک امہ قرار دے کر امن کی دعوت دیتا ہے: ’’اور اللہ تم کو سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے راہِ راست پر چلنے کی توفیق دیتا ہے‘‘ (یونس ۱۰:۲۵)۔ مختلف الفاظ اور حوالوں سے سلامتی اور امن کا تقریباً ۱۳۸ مرتبہ قرآن میں ذکر کیا گیا ہے۔
امن و سلامتی کا وہ تصور جو اسلام کے پیشِ نظر ہے صرف تخفیفِ اسلحہ‘ اجتماعی دفاع کی تدابیر اور عدم جارحیت تک محدود نہیں بلکہ زیادہ وسیع اور ہمہ گیر ہے۔ جزئیات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اسلام کے تصور ’’امن و صلح‘‘ کو سات نکات کی صورت میں پیش کیا جاسکتا ہے جوکہ ’’عالمی امن‘‘ کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
اسلامی تصور حیات میں ’’امن و انصاف‘‘کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور اس کا اظہار انفرادی و اجتماعی طور ہردو جگہ پر ہوتا ہے۔ قرآن میں بیان کردہ امن کا تصور بلاواسطہ طور پر تصورِتوحید سے جڑا ہوا ہے۔ توحید‘ جس پر اسلامی فکر کی بنیاد ہے‘ کا مفہوم دراصل ایک انسان کا اپنے طرزِعمل‘ اپنی شخصیت اور سماجی رویوں میں موجود تناقصات اور تضادات کا شعوری خاتمہ کرنا ہے۔ اس کے بعد انفرادی سطح پر جو شخصیت سامنے آتی ہے وہی امن و انصاف کی مستند اور مؤثر بنیاد بنتی ہے۔ توحید انسان کو ہر قسم کے دوغلے پن اور شخصیت کے انتشار سے بچاتی ہے‘ چنانچہ خواہ اپنے خاندان یا کاروباری شریکِ کار سے معاملات طے کرنے ہوں‘یا کسی حکومتی عہدے کی ذمہ داری پوری کرنی ہو‘ توحید ہر ہر مرحلے میں اس کے لیے رہنما اصول فراہم کرتی ہے۔
اندرونی تضادات کا خاتمہ اور فکروعمل کی یہ یک جائی (توحید) ایک واقعاتی امن کا راستہ کھولتی ہے۔ توحید یا ایک بالاتر اصول کی آفاق و انفس میں فرمانروائی ان لوگوں کے لیے بھی زندگی میں یک رنگی پیدا کرنے کی بنیاد فراہم کرتی ہے جو بظاہر مسلمان ہونے کے دعوے دار نہیں۔ یہی سوچ و فکر کی یکجائی عالمی سطح پر انفرادی اور اجتماعی مسائل کے حل اور امن و انصاف کے لیے اولین بنیاد فراہم کرتی ہے۔
انسانی معاشرے میں قیام امن کا دوسرا سنہری اصول عدل ہے۔ قرآن عدل کی تقریباً سات جہتوں کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے جو پایدار معاشرتی امن کی بنیادیں ہیں۔
پہلی اور بنیادی چیز قانون کی حکمرانی‘ مساوات اور انسانی جان کا احترام ہے۔ قانون کی حقیقی حکمرانی سے معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان فرق ختم ہوجاتا ہے۔ قانون بنیادی انسانی حقوق میں مسلم اور غیرمسلم کی تقسیم نہیں کرتا۔غیرمسلم کی جان‘ مال اور عزت و آبرو کی حفاظت اتنی ہی اہم ہے جتنی کسی مسلم کی۔ انسانی جان کی حفاظت اور نشوونما بنیادی انسانی قدر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں امن و سکون اس وقت ہی قائم ہوسکتاہے جب انسانی جان کی حفاظت کو سب سے زیادہ اہمیت دی جائے۔ انسانی جان کی حفاظت اور نشوونما ہی امن و سکون اور پایدار معاشرے کی ضمانت ہے۔ قرآن نہ صرف انسانی قتل کی مذمت کرتا ہے بلکہ اس نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسان کی زندگی کے بچانے کو‘ گویا پوری انسانیت کو بچانا قرار دیا ہے (المائدہ ۵:۳۲)۔ اور تعلیمات نبویؐ میں تو درختوں‘ پرندوں اور جانوروں تک پر ظلم و زیادتی کی اجازت نہیں دی گئی۔
اگلا پہلو سماجی اور معاشی عدل ہے۔ اس کا مطلب ہے ایک شخص اپنے خاندان اور معاشرے حتیٰ کہ ناواقفوں کے حقوق و فرائض کی بھی صحیح طور پر بجاآوری کی کوشش کرے۔ قرآن و سنت حقوق و فرائض پر بہت زور دیتے ہیں اور اسی چیز کو بالکل بنیادی اور نچلی سطح تک پُرامن زندگی کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ حقیقی جاے امن‘ یعنی جنت میں داخلہ اس بات پر منحصر ہے کہ انسان اپنے مالک اور بھائی بند کے حقوق کی ادایگی صحیح طریقے پر کرتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد‘ دونوں کی صحیح ادایگی ہی اسے آخرت میں کامیاب بناسکتی ہے۔
پایدار معاشرتی عدل کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ ہم نہ صرف اپنے معاملات اور سماجی رویوں میں اس کا اظہار کریں بلکہ اس کا مظاہرہ اپنی تجارت اور معاشی زندگی میں بھی کریں۔ لین دین میں خیانت اور استحصال نہ صرف ایک سماجی برائی ہے بلکہ یہ امن و سکون کو بھی برباد کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے خیانت کی سخت سزا مقرر کی ہے تاکہ معاشرے میں امن و سکون پیداہو‘ تجارتی شاہراہیں محفوظ و مامون ہوں اور تجارتی قافلوں کی بھی محفوظ نقل و حرکت ممکن ہو۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھائو‘ لین دین ہونا چاہیے آپس کی رضامندی سے۔ اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقین مانو اللہ تمھارے اوپر مہربان ہے۔ (النسائ۴:۲۹)
اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو‘ نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم و ستم سے اپنا لیا کرو‘ حالانکہ تم جانتے ہو۔ (البقرہ ۲:۱۸۸)
اور جب ناپنے لگو تو بھرپور پیمانے سے ناپو اور سیدھی ترازو سے تولا کرو یہی بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت اچھا ہے۔ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۵)
اسلام نہ صرف معاشی معاملات میں عدل و انصاف اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے‘ بلکہ معاشی استحصال (چاہے وہ سود ہو یا کسی اور شکل میں) کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا بزور انسداد کرتا ہے اور اس کو معاشرے کے لیے باعثِ نزاع اور معاشی جبر قرار دیتا ہے۔
سیاسی عمل میںآزادانہ شرکت قرآن کے نزدیک ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ سیاسی انصاف‘ حمایت و مخالفت کا حق ‘ آزادی اور حکومتی امور میں شرکت امن و سکون کی بنیادیں ہیں۔
معاشرتی عدل کا چوتھا نکتہ قرآنی تعلیمات کے مطابق عالمی امن کے قیام کے لیے انفرادی اور سماجی معاملات میں انسان کے اندر تنقیدی سوچ‘ غوروفکر اور شعور کا پیدا کرنا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے امن کا قیام اس وقت تک ناممکن ہے جب تک افراد اور معاشرہ دونوں اپنے معاملات میں راستی کا رویہ نہیں اپنا لیتے۔
انفرادی اور اجتماعی پالیسی سازی کا قریبی تعلق معاشرے میں مروجہ تنقیدی رویوں کے ساتھ ہے۔ تنقیدی نقطۂ نظر سے مراد کسی شخص کی ذاتی پسند و ناپسند نہیں بلکہ عقل کا صحیح‘ معروضی اور متوازن استعمال ہے۔ اجتماعی منصوبہ بندی اور پایدار امن کے لیے اس کا وجود ایک بنیادی ضرورت ہے۔
اسلامی تصورحیات میں امن و سکون‘ صنفی تعلقات اور جنسی اخلاقیات کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ غیراخلاقی جنسی تعلق کو قرآن نہ صرف فحش‘ بلکہ ایک بڑی خیانت‘استحصال اور معاشرے کی ’’بیمار‘‘ ذہنیت کی عکاسی قرار دیتا ہے۔ دنیا میں پائے جانے والے باقی مذاہب کے برعکس اسلام تجرد اور رہبانیت کی زندگی اختیار کرنے کی نفی کرتا ہے۔ اسلام کے نزدیک خاندان کے ادارے کا قیام‘ معاشرے اور ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس کا فریضہ ہے کہ وہ غیرشادی شدہ لوگوں کو رشتۂ ازدواج میں منسلک کرائے:
تم میں سے جو مرد اور عورت مجرد ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام اور لونڈیوں کا بھی۔ اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ انھیں اپنے فضل سے امیر بنادے گا۔ اللہ کشادگی والا اور علم والا ہے۔ (النور۲۴:۳۲)
اسلام نہ صرف بیوہ کو شادی کی اجازت دیتا ہے ‘ بلکہ خاندان اور بڑے کنبے کی تعریف و توصیف بھی کرتا ہے اور اس پر اُبھارتا ہے۔ ان اقدامات کے ذریعے سے اسلام جنسی بے راہ روی سے بچاتا ہے اور معاشرے میں امن و سکون اور اخلاقی فضا کو قائم کرتاہے۔
اسلامی تصور عدل کا چھٹا اہم پہلو مسلمان معاشروں میں مذہبی آزادی اور اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔ مذہبی آزادی کے حق کو قرآن میں امن و انصاف قائم کرنے کے لیے بہت اہم قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ قرآن میں آتا ہے:
دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں۔ (البقرہ ۲:۲۵۶)
بے لاگ قانونی انصاف کا حصول بھی عدل ہی کا ایک پہلو ہے اور اس کا اطلاق مذہب‘ رنگ و نسل‘ صنف اور کسی انسان کے سماجی مقام و مرتبے کے تعصب سے بلند ہے۔ قرآن کہتا ہے:
اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہوجائو‘ راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جائو‘ کسی قوم کی عداوت تمھیں خلافِ عدل پر آمادہ نہ کر دے۔ عدل کیا کرو جو پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو‘ یقین مانو کہ اللہ تمھارے اعمال سے باخبر ہے۔ (المائدہ ۵:۸)
ایک اور اہم بات معاشرے میں کثیریت (pluralism) کا فروغ‘ مذہبی اور مسلکی آزادی اور اس کا احترام ہے۔ اس کی وجہ سے مختلف مذاہب اور مسالک کے لوگ اکٹھے ایک معاشرے میں امن وسکون کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
عدل وا نصاف کی ان سات جہتوں کا تعلق مسلمانوں یا کسی خاص وقت اور خاص جگہ کے ساتھ نہیں ہے‘ بلکہ یہ آفاقی اخلاقی اصول ہیں جو عالمی مکالمے کی اساس اور بنیاد ہیں اور انھی کے ذریعے امن وسکون‘ عدل و انصاف اور باہمی تعاون کو فروغ ملتا ہے‘ اور یہ اصول ایسی دنیا کی تعمیر کرتے ہیں جس کی بنیاد مذہبی آزادی و رواداری‘ انسانی جان کے احترام اور نشوونما اورفکرونظر کی آزادی پر ہو۔
مسلمان فلاسفر‘ مثلاً الغزالی (م: ۱۱۱۱ئ) اور شاطبی (م: ۱۳۸۸ئ) کے خیال میں اوپر بیان شدہ نکات میں سے پانچ نکات الہامی قانون‘ یعنی قرآن و سنت کی بنیاد بنتے ہیں۔ قرآن کی بہت سی تعلیمات اور احکامات انھی اصولوں کی بنیاد پر ہیں۔ ان اصولوں کی آفاقیت اور اسلامی اصولوں (توحید اور عدل) کے ساتھ عقلی تعلق‘ ان کو ہر ایک کے لیے قابلِ عمل بناتا ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا ثقافت سے ہو‘ اور یہی چیز معاشرے میں امن و انصاف کو دوام بخشتی ہے۔
یہ آفاقی اور غیر فرقہ وارانہ اصول امن کے عالمی مکالمے کی بنیاد ہیں اور شفاف سماجی ایجنڈے کی اساس۔ یہ اصول امن کے قیام اور سیاسی‘ سماجی اور معاشی انصاف کے نفاذ کے لیے بنیادی شرط کی حیثیت رکھتے ہیں۔
آج‘ جب کہ عالمی طور پر ’’سیکولر بنیاد پرستی‘‘ اپنے غیرجامد اور ہرلمحے بدلتے ہوئے خیالات اور اخلاقیات کے ساتھ سیاسی‘ معاشی‘ سماجی‘ قانونی اور تعلیمی اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے ‘اور آفاقی عالمی اقدار کی جگہ لادین اور سرمایہ دارانہ اقدار فروغ کے لیے سرگرمِ عمل ہیں‘ امن و سکون اور عدل و انصاف ہر شخص کی ذاتی پسند و ناپسند اور سوچ تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ ’’آفاقی اخلاقی قدروں‘‘ کی جگہ مادیت کا دور دورہ ہے۔ اس خلا کی وجہ سے معاشرے میں تصادم برپا ہے۔ کثیریت‘ انصاف اور امن (داخلی اور خارجی)‘ اس سیکولر تہذیب کا شکار ہوگئے ہیں۔
امن و انصاف کا خواب حقیقت کا روپ کیسے دھارے؟ شاید اس کا جواب ایک ’’اخلاقی فورس‘‘ کے قیام میں مضمر ہے جس میں وہ تمام مذہبی اور سیکولر عناصر شامل ہوں جو تشدد‘ سماجی اور معاشی ناانصافی‘ استحصال اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف متحد ہوں۔
دانش وروں‘ مذہبی قائدین اور پروفیشنل پر مشتمل یہ ’’اخلاقی فورس‘‘ نہ صرف لوگوں کو حقیقی امن کی آگاہی دے سکتی ہے بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر راہِ عمل بھی متعین کرسکتی ہے۔ (Policy Perspectives‘اسلام آباد‘ اپریل ۲۰۰۴ئ)
یہ ۱۹۴۵ء کی بات ہے‘ جب اقوام عالم میں پنچایت کا کردار ادا کرنے کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ تشکیل پایا۔ اسی ادارے کے تحت ۱۹۴۶ء میں انسانی حقوق کمیشن اور پھر اس کے بعد خواتین حقوق کمیشن بنا‘ جب کہ خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس ۱۹۷۵ء میں میکسکو میں ہوئی اور مساوات‘ ترقی اور امن جدوجہد کے لیے نعرہ قرار پایا۔
بعدازاں ہر پانچ سال بعد کوپن ہیگن (۱۹۸۰ئ) ‘نیروبی (۱۹۸۵ئ) ‘بیجنگ (۱۹۹۵ئ)‘ نیویارک (۲۰۰۰ئ) میں یہ خواتین عالمی کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔ تاہم‘ ۱۹۹۰ء میں نہیں ہو سکی اور اب ۲۰۰۵ء نیویارک میں ہونی ہے۔ دسمبر ۱۹۷۹ء میں حقوقِ نسواں کے لیے ایک عالمی معاہدہ کنونشن فار الیمی نیشن آف ڈسکریمی نیشن اگینسٹ ویمن جسے ’سیڈا‘ (CEDAW) کہا جاتا ہے‘ ہوا۔اس میں یہ طے پایا کہ عورت اور مرد کو مساوات اور برابری کے مقام پر لانے کے لیے ہر طرح کے امتیاز کو ختم کیا جائے۔ اس کی ۳۰ دفعات ہیں جن میں ۱۶دفعات خواتین کے مختلف حقوق سے متعلق ہیں اور بقیہ انتظامی نفاذ سے متعلق۔
اس معاہدے کی دفعہ ۲۹ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے بارے میں ہے۔ اس کا مطلب امریکا کے ایک دانش ور رچرڈ نے راولپنڈی کے ایک میڈیکل کالج میں لیکچر دیتے ہوئے یوں سمجھایا تھا کہ: کوشش جاری ہے کہ عورت کو یہ حق دلایا جائے کہ اولاد کی پیدایش کا فیصلہ وہ کرے۔ اگر کسی مرحلے پر وہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ میں یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتی اور وہ ایک ڈاکٹر کے پاس جاتی ہے کہ مجھے اس بوجھ سے نجات دلا دی جائے۔ اگر ڈاکٹر انکار کرتا ہے کہ وہ اس عمل کو درست نہیں سمجھتا تو خواتین کے حقوق کے مطابق یہ علاج مہیا نہ کرنے والا ڈاکٹر مجرم تصور کیا جائے گا‘ اُس عالمی عدالت میں اس پر مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔
۱۹۷۹ء کے ’سیڈا‘ معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ۱۳ دائرہ کار طے کیے گئے۔ انھی نکات کو آیندہ جائزوں کے لیے بنیاد قرار دیا گیا۔ اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ایک فریق حکومت ہے اور دوسری این جی اوز۔ حکومتوں کو امداد دینے والے عالمی اداروں کی مراعات کئی پہلوئوں سے اس معاہدے پر عمل درآمد کے ساتھ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر مشروط ہیں۔ عالمی ایجنڈے کی علم بردار اور بالخصوص عالمی امداد حاصل کرنے والی این جی اوز بھی اپنے کام کے ساتھ‘ حکومتی اقدام کی نگرانی اور محاسب کا کردار ادا کرتی ہیں۔ ہر چار سال بعد حکومت کو یہ رپورٹ دینی ہوتی ہے ۔ رپورٹ کے لیے نکات‘ تفصیلی جزئیات کے ساتھ اقوام متحدہ کی طرف سے بھجوائے جاتے ہیں۔
’سیڈا‘ پر اب تک ۱۵۰ ممالک دستخط کرچکے ہیں۔ اس میں بھی اہم پہلو یہ ہے کہ کئی یورپی ممالک اور خود امریکا نے ابھی تک اس پر دستخط نہیں کیے۔ پاکستان کی طرف سے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں صدر فاروق خان لغاری نے کچھ تحفظات کے ساتھ اس پر دستخط کیے تھے کہ ہم اپنے ملکی آئین کے منافی ضوابط پر عمل درآمد کے پابند نہیں ہوں گے۔
مساوات‘ ترقی اور امن کے نام پر بنایا جانے والا خواتین حقوق کمیشن ہو‘ یا وقتاً فوقتاً کی جانے والی خواتین عالمی کانفرنسیں ‘ یہ عالمی حقوق نسواں تحریک کے مختلف شاخسانے ہیں۔ اسی طرح بیجنگ پلیٹ فارم آف ایکشن کے ۱۳ نکاتی عنوانات سے بظاہر اختلاف ممکن نہیں۔ اس لیے کہ وہ عورت کی فلاح و ترقی کے لیے جامع منصوبے کی تصویر پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اس بظاہر صورت حال سے فریب کھانے کے بجاے گہرائی میںجاکر جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ یہ ردعمل کی ایک عالمی تحریک ہے جس میں بہت سے پیغامات مضمر ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں خواہ مغرب ہو یا مشرق‘ غیرمسلم معاشرہ ہو یا مسلم معاشرہ‘ عورت کے ساتھ کئی حوالوں سے دوسرے درجے کے شہری کا سلوک کیا جاتا ہے۔ اسلام کے مسلمہ اصولوں پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے نام نہاد اسلامی معاشروں میں بھی کئی ایسے رویے مروج ہیں۔
اسلام‘ عورت کے کردار کے لیے جو نمونہ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے‘ اُس نے پستیوں میں گری ہوئی عورت کو عملاً اٹھا کر معاشرے کی ایک قابلِ احترام ہستی بنا کر اعلیٰ مقام سے نوازا۔ قرآنی تعلیمات‘ احادیث نبویؐ اور خود اسوۂ رسولؐ آج بھی نشانِ راہ و منزل ہیں۔ بیٹی کے قتل کی ممانعت‘ پرورش میں برابری‘ بچیوں اور بچوں کی تعلیم کے لیے ہدایات‘ بچیوں کی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی‘ کفالت‘ بلوغت کے بعد نکاح میں بیٹی کی مرضی کا لحاظ رکھتے ہوئے رخصتی کا اہتمام کرنا اور باپ کے ترکے میں حصہ دار ہونا اس کا حق ٹھیرا۔ شادی کے وقت مہر کی ادایگی اور وہ بھی کوئی لگابندھا ۳۲ روپے کے شرعی مہرکا تصور نہیں ہے‘ بلکہ عورت کے خاندان کی مناسبت سے مہر کا تعین ہونا قرار پایا۔ جب حضرت عمرؓ نے مہر کی رقم مقرر کرنے کے لیے مشورہ چاہا تو ایک عورت کھڑی ہوگئی اور کہا: قرآن نے تو ڈھیروں مال بھی عورت کو دیا ہو تو واپس نہ لینے کی نصیحت کی ہے‘ آپ کیسے اس رقم کو مقرر کر سکتے ہیں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے اپنی رائے سے رجوع کیا۔
نان نفقہ‘ یعنی خوراک‘ لباس‘ مکان اور استطاعت ہو تو خادم کا انتظام کرکے دینا بھی شوہر کی ذمہ داری اور بیوی کا حق ٹھیرا۔ حضرت عائشہؓ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشیوں کا تماشا دکھا کر بیویوں کے لیے تفریح کی نظیر بھی قائم کی۔ شوہر کے ترکے سے آٹھویں حصے کی بیوی حق دار ٹھیری۔ بحیثیت ماں حق خدمت باپ سے تین گنا زیادہ دیا گیا۔ سعی ہاجرہ کو حج کا لازمی رکن قرار دے کر بچے کی پرورش کے لیے کی جانے والی دوڑدھوپ کو اعزاز بخشا گیا‘ بیٹے سے بھی وراثت دلوائی گئی۔ بحیثیت آزاد شہری عورت جان‘ مال اور عزت میں برابر کی محترم ٹھیری۔ حق ملکیت تسلیم کیا گیا‘ کاروبار و ملازمت‘ رائے‘ مشورے و محاسبے کا حق بھی ملا۔حضرت ام سلمیٰؓ کے مشورے پر خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر عمل کیا۔
فرائض میں اولاد کی پیدایش و پرورش‘ شوہر کی فرماں برداری و شکرگزاری ضروری قرار پائی۔ عورت اور مرد کے نکاح کے ذریعے وجود میں آنے والے معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان میں‘ تقسیمِ کار میں مرد بیرون خانہ معاشی سرگرمیوں کے لیے اور عورت اولاد کی پرورش کے لیے گھر کی نگران ٹھیری۔ یوں باہم تعاون کے لیے ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ کے مصداق ایک دوسرے کی کمزوریوں کے ساتھ نبھائو‘ اور خوبیوں کی قدردانی کی تلقین کے ساتھ گھر کے ادارے کو پُرسکون گہوارہ بنایا گیا۔ اگر کبھی غلط فہمی پیدا ہوجائے تو خاندان کے حَکم تصفیہ اور صلح کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کی گئی۔ طلاق جائز مگر ناپسندیدہ گردانی گئی اور اگر نبھا نہ ہوپائے تو آخری چارہ کار کے طور پر مرد طلاق دے سکتا ہے اور عورت خلع کے ذریعے علیحدگی اختیار کرسکتی ہے۔
اسلام کی تعلیمات اور اس کے نتیجے میں بننے والے معاشرے کے مقابلے میں حقوقِ نسواں کے لیے کی جانے والی کوششیں معاشرے پر ایک دوسری طرح سے اثرانداز ہوئی ہیں۔ نتیجتاً معاشرہ بہت سے مسائل سے دوچار ہے اور انسانی زندگی عدم توازن اور انتشار کا شکار ہوکر رہ گئی ہے۔
عورتوں کی برابری کے ایجنڈے اور ہر طرح کی تفریق ختم کرنے کی کوششوں کے ساتھ‘ یہ تقسیم ذہنوں کو پراگندا کررہی ہے۔ پہلے ۵ فی صد کوٹہ ملازمت خواتین کے لیے مخصوص ہوا‘ اب اس کو ۵۰ فی صد تک لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر ملازمتوں پر ۵۰ فی صد کوٹے پر اور ۱۵ سے ۲۰ فی صد میرٹ پر خواتین آجائیں‘ تو تقریباً ۷۰ فی صد ملازمتیں عورتوں کے پاس اور ۳۰فی صد مردوں کے پاس ہوں گی۔ اس طرح مردوں کی بے روزگاری میں اضافے اور گھر میں تعاون اور ذمہ داری کی تقسیم پر اصرار سے معاشرے کا ایک نیا نقشہ بنے گا۔ معاشی میدان میںعورتیں سرگرم اور مرد گھر کے نگہبان ہوں گے۔ ماں کے اندر ممتا کے روپ میں اولاد کی پرورش کے لیے عطاکردہ تحمل‘ نرمی‘ الفت کی جگہ باپ لے گا جس کو بیرونی محاذکے لیے زیادہ طاقت ور اور سخت جان بنایا گیا۔ اس طرح توازن کے بگڑنے سے اولاد اور خاندان پر اس کے منفی اثرات آئیں گے۔
ان ممکنہ خدشات کے باوجود مغرب سے ذہنی مرعوبیت کی بنا پر عورت کی معاشی ترقی کے لیے‘ ہر میدان میں مخصوص نشستیں‘ قرضہ جات کا نظام‘ ہر شعبۂ زندگی میں بلاتفریق تعلیم و ملازمت‘ مرد کے ساتھ شانہ بشانہ دوڑ اور اعتدال پسند اور روشن خیال ثابت کرنے کے لیے‘ عالمی اور ملکی سطح پر کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف ملک میں مہنگائی‘ غربت اور بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے‘ جب کہ میڈیا کے ذریعے مادہ پرستانہ تہذیب کی یلغار ہے۔
معاشی ترقی اور خودانحصاری کے نام پر مرد کی کفالت سے محروم کرنے‘ اور عورت کی کمائی کے لیے عوامل و حالات پیدا کرنا عورت کے ساتھ خیرخواہی نہیں ظلم ہے۔ اگرچہ موجودہ مسلم معاشرے کسی بھی جگہ اپنی اصل روح کے مطابق اسلامی قدروں کی آبیاری نہیں کر رہے‘ تاہم ۹۹فی صد مرد خواہ دین کا کوئی فہم رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں‘ یہ جانتے ہیں کہ بیوی کو کما کر کھلانا ان کی ذمہ داری ہے۔
گھر کے اندر عورت کے کردار کو معاشی ترقی کے عوامل کے طور پر تسلیم کیا جانا‘ وراثت کی تقسیم اور منتقلی‘ حق مہر کی ادایگی اور حق ملکیت کے آزادانہ استعمال‘ اسلام کے دیے گئے ماڈل کی روشنی میں عورت کی معاشی ترقی کا حصہ تھے مگر ان سے صرفِ نظر کیا گیا۔ ضرورت ہے کہ ان پر پوری دلجمعی کے ساتھ‘ تمام معاشرے میں اخلاقاً و قانوناً عمل درآمد ہو۔
معاشی کفالت کے حوالے سے جہاں مرد حقیقی مجبوری‘ بیماری یا نشے وغیرہ کی بری عادات کی وجہ سے نہ کماتے ہوں یا کم کماتے ہوں‘ وہاں بھی عورت کو کمائی کے لیے دھکیل دینے کے بجاے ریاست کو ایسا نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے کہ خوش حال رشتہ دار اور ریاست اُس کی کفالت کا بوجھ اُٹھائے۔
۲۰۰۰ء میں نیویارک میں ہونے والی بیجنگ پلس فائیو کانفرنس کے دوران ایک امریکی خاتون‘ ہم پاکستانی خواتین کے وفد کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور بتایا کہ میں تین سال پاکستان رہی اور میں نے پاکستانی عورتوں پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ہے: ’’پاکستانی عورتو! تم کہاں ہو؟‘‘
اُس سے جب یہ پوچھا گیا :بتائو عافیت کس میں ہے‘ مرد عورت کے لیے کما کر لائے یا عورت خود اپنے لیے کمائے؟ اُس نے کہا: عافیت تو اسی میں ہے کہ عورت گھر بیٹھے اور کمانے کی پابند نہ ہو‘ مگر یہ غلط ہے کہ اُس کو باہر نکلنے نہ دیا جائے۔ اُسے بتایا گیا کہ اسلام عورت کو اپنی آزاد مرضی و منشا پر چھوڑتا ہے چاہے تو باہر جاکر ملازمت و کاروبار کرے‘ چاہے گھر بیٹھے مگر اُس کی کفالت کی ذمہ داری ہر دو صورت میں مرد ہی پر ہے۔ اُس نے تسلیم کیا: اگر ایسا ہے تو یہ بہترین ہے۔ پھر مغرب کی عورت کی وہ قابلِ رحم حالت بھی زیربحث آئی‘ جس کے کئی ساتھی تو ہوتے ہیں مگر کوئی شوہر یا کفیل نہیں ہوتا۔ اُس کے اپنے بچے ہونے نہیں پاتے‘ اگر ہوں تو ریاست پالتی ہے یا وہ خود نہ صرف اپنے لیے بلکہ اُن کے لیے کماتی اور انھیں پالتی بھی ہے۔
عورت مخصوص میدانوں کا انتخاب کرے یا ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں سے معاشرے کی خدمت و فلاح کے لیے کام کرنا چاہے‘ اُس کو اُس کے لیے میدان کار مہیا کیا جانا چاہیے۔ باہم مسابقت ہو مگر وہ صرف عورتوں کے مابین۔ مرد اور عورت کو مکمل مخلوط ماحول میں یا تحفظ فراہم کیے بغیر ملازمت و معاشی ترقی میں ساتھ ساتھ کھڑا کیا گیا تو کئی واقعات ہوں گے۔ لہٰذا ہرہر سطح پر مخلوط ماحول جہاں اسلام کی روح اور اقدار کے منافی ہے وہاں خود عورتوں کے لیے بھی غیرمحفوظ اور مسائل کا باعث ہے۔
اس نمایندگی کے ذریعے خواتین کے حقوق کے حصول کے بارے میں کئی طبقے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں کہ جب ملک کی نصف صدی سے زائد پر محیط تاریخ میں‘ ۹۸ فی صد مرد نمایندگان مردوں کی ترقی کی ضمانت نہیں بنے تو یہ اقدام مروجہ نظام کی اصلاح کے دیگر اقدامات کے بغیر کتنا فائدہ مند ہوگا۔ مگر اس سے عورتوں کو مشاورت کے فورم تک رسائی ضرور ملی ہے‘ تاہم بچوں پر اثرات‘ شوہر بیوی کے مابین غلط فہمیوں‘ عورت پر گھر اور سیاست کے بوجھ کے باعث خاندان کا ادارہ متاثر ہونے کے شواہد سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام عورت کے مشورے کو اہمیت دیتا ہے۔ اُس کو راے دینے اور محاسبہ کرنے کی بھی آزادی ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ اپنی اقدار و روایات کی روشنی میں جائزہ لیا جائے اور اس چیلنج سے نبٹنے کے لیے حکمت عملی اختیار کی جائے۔ پارٹی نشستوں پر متناسب نمایندگی عورت کو ایک مرد امیدوار کی طرح تمام تر انتخابی جدوجہد سے بچانے اور نمایندگی دلوانے کا ذریعہ ہے۔ اگرچہ این جی اوز ’سیڈا‘ کی روشنی میں اس طریق کار کو عورتوں کا قومی دھارے میں شامل کیا جانا نہیں گردانتی اور مردوں کی طرح انتخابی امیدوار بننے کی حامی ہیں۔ خواتین کی نمایندگی کے حوالے سے یہ امور توجہ طلب ہیں: پارٹی نامزدگی میں عمر‘ دیگر گھریلو حالات کا لحاظ اور پھر پارلیمنٹ میں الگ نشستیں‘ کارروائی میں حصہ لینے اور تیاری کے لیے کچھ ضوابطِ کار‘ خاندان کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے لیے کچھ رعایتیں‘ مثلاً شوہر و بچوں کا مقام اسمبلی پر تبادلہ و داخلہ‘ ہر محفل و استقبالیے و عشایئے میں شامل کیا جانا وغیرہ۔
بلوغت کی تبدیلیاں و اثرات‘ ازدواجی زندگی کے مقتضیات‘ ایڈزبچائو کے طریقوں کی ضرورت پر بحث کرتے ہوئے جنسی تعلیم دی جانے پر بعض باشعور طبقات کی طرف سے اصرار کیا جاتا ہے۔ مغربی طرز تعلیم سے بچانے کے لیے اپنی اقدار و اخلاقیات کے حدودِکار میں رہتے ہوئے‘ مناسب انداز میں اس کو حدیث و فقہ کے مطابق ترتیب دیا جائے یا چھوڑ دیا جائے‘ یہ بھی ایک چیلنج ہے۔
بچوں کی دیکھ بھال کے لیے آیا کا انتظام اور خود دن رات یا کئی کئی روز بیرون شہر یا بیرون ملک ملازمت‘ میٹنگوں‘ سیمی ناروں‘ ورکشاپوں‘ اجلاسوں میں شرکت یا دورے اور فنکشنوں میں غیرمحرم مردوں کے ساتھ مصروف عمل رہنا‘ جہاں آیندہ نسلوں کی تربیت پر اثرانداز ہوگا وہاں گھروں میں غیرمحرم نوکرانی یا آیا اور شوہر کی موجودگی بھی معاشرے میں کئی کہانیوں کو جنم دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بچوں کو کارٹون‘ انٹرنیٹ‘ سی ڈی پروگراموں میں مصروف کرکے‘ یا کئی کئی چینلوں کے ٹی وی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے یا معاشی ترقی میں حصے کے فوائد و نقصانات کا موازنہ کر کے ایک بہتر لائحہ عمل ترتیب دیا جائے؟
عورت کی ترقی کے ایسے فورموں پر‘ یہ موقف بھی بغیر رو رعایت کے کھل کر بیان کیا جاتا ہے کہ ’سیڈا‘ پر عائد تحفظات ختم کر دیے جانے چاہییں‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو صرف پاکستان ہونا چاہیے‘ دستور میں شامل قرارداد مقاصد کی حامل دفعہ کوحذف کردیا جانا چاہیے___ کچھ نہیں کہاجاسکتا کہ کس وقت کیا فیصلہ کر لیا جاتا ہے!
حقوق نسواں کی عالمی تحریک اس حد تک آگے بڑھ چکی ہے کہ’سیڈا‘ اس وقت ملک کی ترقی ناپنے کا پیمانہ بنا دیا گیا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی امداد کو اس پر عمل درآمد کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے‘ این جی اوز کی صورت میں منظم قوتیں سیکولر ایجنڈے کو مؤثر انداز میں آگے بڑھا رہی ہیں‘ حکمران وقت سامراجی قوتوں کے آلۂ کار بن چکے ہیں‘ تعلیم کے سیکولر ایجنڈے کے ذریعے تہذیبی تبدیلی کا عمل جاری ہے‘ اور روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر اسلام کو تحریف کا نشانہ بنایاجا رہا ہے۔ ان مسائل کے ہوتے ہوئے آج کے دور کی تہذیبی جنگ میں اپنی شناخت قائم رکھنا ایک بڑا چیلنج ہے‘ نیزعالمی برادری کے ساتھ بھی رہیں اور اپنی اقدار و روایات کی حفاظت بھی کریں‘ یہ کیسے ممکن ہو۔ ان تمام چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے اور عورت کو اس کا حقیقی مقام دینے کے لیے ایک بھرپور جدوجہد اور ٹھوس لائحہ عمل کے ساتھ ساتھ بالخصوص خواتین میں دینی شعور کی آبیاری اور احیا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔
_____________
بہت دُور سے ‘مگر درحقیقت بہت قریب سے---موت کے قافلے کی صداے جرس مجھے سنائی دے رہی ہے۔ یہ قافلہ مجھے لے جانے کے لیے آ رہا ہے۔ پیشتر اس کے کہ یہ مجھ تک پہنچے‘ میں اپنی قوتوں کی آخری پونجی اس پر صرف کرنا چاہتا ہوں کہ دل کی محبت کی باتیں جو بس اسی گھڑی کہنے کی تھیں ‘ان کو تم تک پہنچانے کی فکر کروں۔
O
یہ سربمہر وصّیت نامہ جسے لکھواتے ہوئے میرے ذہن میں سب سے پہلے حضرت سیدنا ابراہیم و اسمٰعیل علیہم السلام کی وہ پاکیزہ تمنّا ضوبار ہوئی جو تعمیر کعبہ کے دوران میں ان الفاظ میں نمودار ہوئی تھی: ’’اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنا اطاعت گزار بنا اور ہماری نسل میں سے اپنی اطاعت کرنے والی ایک امت برپا کر‘‘ ، اور پھر وہ پاکیزہ وصیت کہ: ’’اے میرے بچو! اللہ نے تمھارے لیے ایک طریق زندگی منتخب کر دیا ہے سو اب تم کو موت نہ آئے بجز اس حال کے کہ تم مسلم ہو‘‘۔ اس کے ساتھ ساتھ میرے سینے میں یعقوب علیہ السلام کے دل کی وہ تڑپ بھی لہرائی جو بسترمرگ پر اولاد سے بالفاظ ذیل خطاب کرنے کی محرک ہوئی: ’’میرے بعد تم کس کی بندگی و طاعت کرو گے‘‘--- اور پھر ان الفاظ کا وہی جواب سننے کی آرزو مجھے اپنے اندر محسو س ہوئی جو یعقوب علیہ السلام کو ان کی اولاد کی طرف سے ملا تھا کہ: ’’ ہم تیرے اللہ کی اور تیرے آبا ابراہیم اور اسماعیل ؑاور اسحاقؑ کے اللہ کی بندگی و طاعت کریں گے جو واحد اللہ ہے اور ہم اس کے آگے سرتسلیم خم کرنے والے ہیں‘‘ ! اور پھر میرے ذہن میں لقمان کے وہ کلمات وصّیت بھی نمودار ہوئے جن کو قرآن میں جگہ پانے کی سعادت ملی۔ اور پھر سب سے آخر میں اپنے دور کے سب سے بڑے مسلم شاعر کا وہ جذبہ انگیز نتیجہء کاوش سامنے آیا جو اس نے ’’ سخنے بہ نژادِنو‘‘ کے نام سے قلم بند کیا ہے اور میرا جی چاہا کہ اس صاحبِ درد کے یہ معنی خیز الفاظ دہرا دوں کہ:
لاالہٰ گوئی؟ بگو از روے جاں
تا ز اندام تو آید بوے جاں!
مومن و پیشِ کساں بستن نطاق!
مومن و غدّاری و فقر و نفاق!
شیوۂ اخلاص را محکم بگیر
پاک شو از خوف سُلطان و امیر
عدل در قہر و رضا از کف مدہ
قصد در فقر و غناء از کف مدہ
سِّر دیں! صدق مقال‘ اکلِ حلال
خلوت و جلوت تماشاے جمال!
در رہِ دیں سخت چوں الماس زی
دل بحق بربند و بے وسواس زی!
دیں سراپا سوختن اندر طلب
انتہایش عشق و آغازش ادب!
سترِ زن! یا زوج یا خاک لحد
سترِ مرداں! حفظِ خویش از یارِ بد
گرچہ باشی از خداونداں دہ
فقر را از کف مدہ‘ از کف مدہ
درجہاں جز دردِ دل ساماں مخواہ
نعمت از حق خواہ و از سلطاں مخواہ!
سالہا اندر جہاں گردیدہ ام
نم بچشم منعماں کم دیدہ ام
لاالٰہ کہتا ہے‘ تو دل کی گہرائیوں سے کہہ تاکہ تیرے بدن سے بھی روح کی خوشبو آئے۔ مومن اور دوسروں کی غلامی کرے؟ مومن ہو اور غداری‘ نفاق اور فاقہ مستی اختیار کرے؟ اخلاص کے طریقے کو مضبوطی سے پکڑ اور سلطان و میر کے خوف سے آزاد ہو جا (صرف اللہ تعالیٰ کا ہو جا)۔ غصّے میں ہو یا خوشنودی میں‘ عدل کو ہاتھ سے نہ دے اور افلاس ہو یا امارت‘ میانہ روی نہ چھوڑ۔ دین کا راز سچ بولنے اور حلال کھانے اور خلوت و جلوت میں حق تعالیٰ کے جمال کا نظارہ کرنے میں ہے۔ دین کی راہ میں الماس کی طرح سخت زندگی بسر کر‘ اللہ تعالیٰ سے دل لگا اور ہر قسم کے وسوسہ سے آزاد ہو۔ دین کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی طلب میں اپنے آپ کو سوختہ کر دینا‘ اس کی ابتدا ادب ہے اور انتہا عشق ۔ عورت کا ستر اس کا خاوند ہے یا قبر‘ مرد کا ستر بُری صحبت سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔خواہ تو کتنا بڑا جاگیردار ہو‘ پھر بھی فقر کو ہرگز ہاتھ سے نہ چھوڑ۔ دنیا میں درد دل کے علاوہ کسی اور سامان کی خواہش نہ رکھ‘ جو بھی نعمت چاہتا ہے اللہ تعالیٰ سے مانگ‘ کسی بادشا ہ سے نہ مانگ۔ میں برسوں دنیا میں پھرا ہوں‘ میں نے دولت مندوں کی آنکھوں میں نم بہت کم دیکھی ہے۔
مجھے اس سے زائد کچھ کہنا نہیں اور میرے دل میں جو کچھ ہے اسے مجھ سے پہلے مجھ سے بہتر لوگ کہہ گئے ہیں۔ لیکن آدمی اپنے دل کی بات اپنی زبان سے اور اپنے لفظوں میں کہہ کر ہی آسودگی پاتا ہے‘ سو میں کہتا ہوں تم سنو!
O
جب یہ وصّیت نامہ اول اول تمھارے ہاتھوں میں دیا جائے گا تو ایک طرف تو میری ہستی اور میری عمر رفتہ کی ساری جھلکیاں اور تمھارے اور میرے تعلقات کی دور تک پھیلی ہوئی یادیں سمٹ کر تمھاری آنکھوں کے سامنے آجائیں گی اور تمھیں وہ خلا بہ شدت محسوس ہو گا جو میری موت سے پیدا ہونے والا ہے اور جسے پُر کرنے کی ذمہ داری اب تمھارے اوپر عائد ہوتی ہے۔ دوسری طرف تم دھڑکتے ہوئے دلوں کے ساتھ مہریں توڑتے ہوئے یہ گمان بھی کرو گے کہ نہ معلوم تمھارے باپ نے تمھارے لیے کہیں کوئی خزانہ چھپا رکھا ہو‘ کہیں کوئی ترکہ محفوظ پڑا ہو‘ اور یہ وصیت نامہ اس کی اطلاع کے لیے قلم بند کرایا گیا ہو--- نہیں--- مگر غالباً تم ایسے پست خیالات سے بسا بلند نکلوگے۔ پر اگر تم ایسے خواب دیکھ سکتے ہو اور تمھاری توجہ تمھاری سطح سے نیچے کی چیزوں کی طرف جا سکتی ہے‘ تو پھر میں تم کو صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ تمھارے باپ نے نہ کبھی ضرورت سے زیادہ کمایا‘ نہ کبھی کچھ بچایا‘ اور نہ وہ تمھارے لیے سونے چاندی کے ذخائر‘ قطعات اراضی‘ باغات اور محل چھوڑ مرنے کے پروگرام سامنے رکھ کر جیا تھا۔
O
مجھے خوشی ہے کہ میں نے تمھارے لیے کچھ نہیں چھوڑا--- اور مجھے خوشی ہے کہ میں نے تمھارے لیے بہت کچھ چھوڑا --- میں نے عمر بھر اس بات کی پوری پوری کوشش کی ہے کہ تمھارے دماغوں کو ایسے افکار‘تمھارے قُلوب کو ایسے عقائد‘ تمھاری سیرتوں کو ایسے اصول ‘اور تمھارے عمل کو ایسے محرکات سے مالا مال کر دوں کہ تمھارے پیکر نہ صرف تمھارے لیے بلکہ ساری دنیا کے لیے لازوال خزانے بن جائیں۔
ہم جس دور میں پیدا ہوئے وہ انسانیت کی انتہائی پستی کا دور تھا اور جو ماحول ہمیں نصیب ہوا وہ ’’کافر گر‘‘ ماحول تھا‘ ’’مسلم ساز‘‘ کسی لحاظ سے نہیں تھا--- اور اب یہی ماحول میں تمھارے لیے ترکے میں چھوڑ رہا ہوں۔ مگر اب اس ماحول میں ایک تبدیلی آ چکی ہے جس سے تم فائدہ اٹھا سکتے ہو۔
ایسے گندے دور اور ایسے پلید ماحول نے ہمارے دماغوں میں دنیا کے بد ترین خیالات کی کاشت کی اور پھر ان کی خوب خوب آبیاری کی۔ اس نے ہماری فطرتوں کو مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘ اس نے ہمارے اخلاق کو روگ لگانے میں کسی پہلو سے کوتاہی نہیں کی۔ اس نے ہماری روحانی موت کے سامان کرنے میں کسی طرح کی کمزوری نہیں دکھائی۔ اس دور اور اس ماحول کی لپیٹ میں جو آیا‘ اس میں خواہش پرستی پیدا ہوئی‘ اس میں نفس کی غلامی پیدا ہوئی‘ اس میں نفاق پیدا ہوا‘ اس کے ذہن میں تضاد نے اپنے گل کھلائے‘ اس میں بے حیائی نے جڑیں پکڑیں‘ اس میں نفسانیت اور بہیمیت نے چھائونیاں ڈالیں اور اس میں نمایش اور ریانے اپنے اڈے جمائے۔ اُسے تعلیم‘ لٹریچر‘ صحافت اور دوسرے موثر ذرائع سے مجبور کر دیا گیا کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل ترین سانچوں میں ڈھالنے پر تیار ہو جائے۔ چنانچہ وہ ذلیل ترین سانچوں میں ڈھل رہا ہے اور ہم بھی ان ہی سانچوں میں ڈھال دیے گئے‘بلکہ ہر طرف سے بہ بہا کر آئے اور خودبخود ان سانچوں کے اندر اتر گئے۔
O
تمھارا باپ‘ تاریکی اور طوفان اور غلاظت کے درمیان پیدا ہوا‘ تاریکی اور طوفان اور غلاظت میں پلا‘ اور تاریکی اور طوفان اور غلاظت کے سائے میں جواں ہوا۔
انھی حالات میں ہم نے اپنے خالق کی آواز سنی۔ یہ آواز تو ہمیشہ سے ہر ایک کے دل میں گونجتی رہی ہے‘ لیکن اس پر متوجہ ہونے کی سعادت جسے مل گئی‘ مل گئی--- اس آواز پر ہم نے لبّیک کہی اور ہمیں ہمارے مقام کا پتا چلا کہ وہ کتنا بلند ہے اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوا کہ وہ کتنی بھاری ہیں۔
وہ ایک نئی دنیا پیدا کرنے کا فرض تھا جس پر ہم نے لبیک کہی’ ہم نے وہ کڑی اٹھالی جس سے بڑے بڑوں کے دل اِبا کرتے تھے۔ ہم اس قابل فخر مہم کو لے کر اٹھ کھڑے ہوئے جس کی طرف رُخ کرنا ایک ناپاک ماحول میں موجب صد شرم بن چکا تھا۔ ہم نے وہ نعرہ علی الاعلان بلند کردیا جسے زبان پر لاتے ہوئے خواص و عوام سبھی اپنے اندر احساس کمتری کی لہر اٹھتی دیکھتے تھے۔
O
تمھارے باپ نے جب ’’نظام باطل‘‘ کے خلاف کش مکش کر کے نظام حق کو بپا کرنے کا تہیہ کر لیا تو نظام باطل نے اس سے کہا کہ اس نیت کے ساتھ ایک انچ بھی حرکت کرو گے تو عزت‘ شرف‘ سر بلندی ‘ ترقی اور شہرت کے دروازے تمھارے اوپر بند کر دیے جائیں گے۔ عُہدوں کی کرسیاں تمھارے لیے حرام قرار دی جائیں گی‘ علم و ادب کے میدان میں کوئی خدمات انجام دو گے تو ان خدمات کو صحیح قدر و قیمت کا مقام کبھی حاصل نہ ہو گا‘ تم دن رات محنت کر کے بھی میرے خزانہ ہاے رزق سے پیٹ بھرروٹی نہ پاسکو گے۔
عزیز بچو! جانتے ہو کہ تمھارے باپ نے اس کا کیا جواب دیا؟ میرے خیال میں تم بہت اچھی طرح جانتے ہو۔ اس نے کہا کہ میں حق کے لیے ان سارے نقصانات کو قبول کرتا ہوں اور باطل کو راضی رکھ کر جو فوائد حاصل ہوتے ہوں ان سب پہ لات مارتا ہوں۔
جس دن نظام باطل کے خاموش چیلنج کا یہ جواب میں نے دے دیا‘ اس دن گویا میں نے اپنی دنیا بنانے اور تمھارے لیے لذتوں کے اسباب سمیٹنے اور بھاری ترکہ چھوڑ جانے کے سارے پروگرام دریا برُد کر دیے۔
پھر نظام باطل نے کہا کہ تم جس راہ پر گامزن ہونا چاہتے ہو‘ کچھ معلوم بھی ہے کہ یہ راہ کیسی پرخار راہ ہے۔ اس راستے کے چپے چپے پر بھوک اور فاقہ ہے‘ نفرتیں اور حقارتیں ہیں‘ گالیاں اور الزام تراشیاں ہیں‘ جیل اور پھانسیاں ہیں ‘ ظلم اور تشدد ہیں‘ اور یہاں موت ہر مرحلے پر رقص کرتی نظر آتی ہے‘ یہاں اپنے بیگانے بن کر ڈستے ہیں‘ یہاں رہبر غول بیابانی سے ساز باز کر کے حملہ آور ہوتے ہیں‘ یہاں دوستوں کو دشمنوں میں جا ملتے دیر نہیں لگتی‘ یہاں زہد و تقدس تک کفر و فسق کی حفاظت کے لیے کمر بستہ ملے گا۔ پھر کیا تمھیں اس وادی جانکاہ میں غبار بن کر پریشان ہو جانا منظور ہے؟
تب تمھارے غیور و جسّور باپ نے کہا کہ ہاں‘ میں ہزار مسّرتوں کے ساتھ ان سارے ممکن حوادث کا خیر مقدم کرتا ہوں۔
چنانچہ تمھارے باپ نے اور اس کے ساتھیوں نے اپنی قلت اور اپنی بے سروسامانیوں کے ساتھ دشمن کی کثرت اور اس کے سروسامان کی پرواہ کیے بغیر وہ کش مکش چھیڑ دی جو اب پرُزور معرکہ آرائیوں کے ساتھ تمھارے گردوپیش میں جاری ہے۔
اس کش مکش کے لیے اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرح تمھارے باپ کو اپنی ساری سیرت کو ادھیڑ کر از سر نو بُننا پڑا ہے‘ اپنی عادتوں سے جنگ کرنی پڑی ہے‘ اپنے پرانے خیالات کی گہری جمی ہوئی جڑیں دماغ سے اکھڑتے ہوئے بہت ہی دور تک چبھنے والا درد محسوس کرنا پڑا ہے‘ روحانی لحاظ سے تحویل قبلہ کرنی پڑی ہے‘ اسے دوستیوں اور دشمنیوں کا رخ بدلنا پڑا ہے۔ اسے نیا جنم لینا پڑا ہے۔ تم کیا جانو کہ تمھارا باپ کن احوال سے گزرا ہے اور اس نے دوسروں کی چوٹیں کھانے سے پہلے اپنے آپ کو تیار کرنے کے لیے خود اپنے اوپر کتنی چوٹیں لگائی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ایسے باپ کی کوتاہیوں پر رنجیدہ ہونے کے بجاے تم اس پر رحم کھائو گے اور اس کے لیے دعاے مغفرت کرو گے۔
O
نظام باطل کے بنائے ہوئے ماحول کے انسان اپنے شعوری فیصلے کے تحت چاہے کتنی ہمہ گیر تبدیلیاں اپنے اندر بپا کر لیں‘ لیکن وہ کبھی بھی پوری طرح اپنے آپ کو آلودگیوں سے پاک نہیں کر سکتے۔ افسوس کہ تمھارا باپ اگرچہ ساری عمر اپنی ذہنی ساخت اور اپنی سیرت کی تعمیر کو درست کرنے میں مصروف رہا لیکن اسے بعض کمزوریاں ساری عمر چمٹی رہیں اور وہ ان سے پوری طرح نجات نہ پا سکا۔ اسے اس بات کا بہت ہی صدمہ ہے کہ اس کی ان کمزوریوں کا پرتو تم پر پڑکے رہا ہو گا۔
میں نے دراصل ساری عمر یہ چاہا کہ تم کو ایک ’’مسلم‘‘ کی اٹھان پر اٹھائوں۔ اس کے لیے میں نے گھر میں ایک ماحول بنایا‘ اس کے لیے میں نے اپنے اوپر کئی پہلوئوں سے جبر کیا‘ اپنے جذبات کی باگ مضبوطی سے تھامی‘ اپنی بہت سی خواہشوں کو پامال کیا ‘ اپنے بہت سے ارمان دل کے دل میں دبے رہنے دیے۔ پھر اپنی بے شمار کمزوریاں تھیں کہ جن کو تم سے پوری طرح چھپانے کی کوشش کی۔ پھر بھی میں مطمئن نہیں ہوں کہ میں اس مہم کو ٹھیک سے مکمل کر کے رخصت ہو رہا ہوں۔
O
میں تم سے اس بات پر بھی معافی چاہتا ہوں کہ میں نے تم کو تمھاری بہت سی خواہشات سے روک کے رکھا ہے۔ میں نے تم کو بے شمار دل چسپیوں سے محروم کیا ہے۔ میں نے بہت سی مروجہ تفریحات سے تمھیں لطف اندوز ہونے نہیں دیا۔ میں نے تمھیں بڑے بڑے عہدے حاصل کرنے اور وسیع کاروبار چلانے کے لیے نہ تربیت دی اور نہ وسائل مہیا کیے۔ میرے جگر کے ٹکڑو!--- میں نے تم پر زیادتی نہیں کی بلکہ میری یہ خدمت ایسی ہی ہے جیسے ایک باپ نباتاتی گھی کی مٹھائیوں سے‘ گندے سڑے پھلوں سے اور جراثیم ملے شربتوں سے اپنے بچوں کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ میں نے تمھارے اخلاق و سیرت کی صحت و قوت کو ہر خطرے سے بچانے کی پوری پوری کوشش کی ہے۔ میں اپنے گندے ماحول کی رگ رگ سے چونکہ واقف تھا‘ اس لیے میں اس کی یورشوں کے خلاف بالکل اسی طرح تمھارے بچائو کی سعی کرتا رہا جیسے ایک مرغی‘ اپنے چوزوں کو دشمن کی زد سے بچانے کے لیے خاص اہتمام کرتی ہے۔ میں نے تمھیں اس طرح سینت سینت کر رکھا ہے جیسے کوئی اپنی ساری عمر کی کمائی کو چوروں اچکوں سے بچا بچا کر رکھتا ہو۔ میں نے تمھاری حفاظت اس طرح کی ہے جیسے روپے سے بھری ہوئی جیب کی حفاظت جیب کتروں سے کی جاتی ہے۔ میں سائے کی طرح ہمیشہ تمھارے ساتھ رہا‘ میں نے تم کو کبھی اکیلا چھوڑنا گوارا نہیں کیا‘ میں تمھارے گردوپیش میں ہر طرف تمھارے خلاف سر اٹھانے والے خطروں کو سونگھتا پھرا ہوں۔
O
ہم نے جس جنگ کو شروع کیا تھا‘ وہ اگرچہ روزبروز گرم سے گرم تر ہوتی جا رہی ہے اور بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ عنقریب حق کی فتح اور باطل کی شکست پر اس کا خاتمہ ہونے والا ہے‘ لیکن اس کا امکان بھی موجود ہے کہ یہ جنگ کچھ اور طول پکڑے تو اس صورت میں تمھارا باپ تم سے --- اور حق پرستوں کی موجودہ نسل اپنے سلیم الفطرت اخلاف سے--- یہ توقعات رکھتی ہے کہ ان کے بعد تم سب اس جنگ کو لڑ کر فتح تک پہنچائو گے۔ یہی وہ مقصد تھا کہ جس کے لیے میں نے تمھیں ایک مسلم‘ ایک مجاہد‘ ایک سپاہی‘ ایک غیور و جسور اور با اصول انسان کی اٹھان پر اٹھایا ہے۔
یہ مقصد جو میرے سامنے تھا‘ اگر تم اس کو قبول کرتے ہو جیسے کہ مجھے تم سے توقع ہے تو ابھی اسی وقت خدا کے سامنے سر اطاعت کو زمین پر رکھ کر یہ عہد استوار کرو کہ ہم اس مقصدِ حق کی کامیابی کے لیے اپنے سارے دل‘ اپنی ساری روح اور اپنی ساری جان کے ساتھ جدوجہد کریں گے۔
اور اگر--- خدانخواستہ--- جس کی مجھے تم سے دُورپار کی کو ئی خفیف سے خفیف توقع بھی نہیں--- بہر حال خدانخواستہ اگر تم اپنے باپ کے مقصدِ حق کو اور اس کی ذمہ داریوں کو اٹھانے سے کترائو اور اپنی بُزدلی اور بے غیرتی کی وجہ سے میرے اس ترکے کو نظام باطل کے ہاتھ دنیوی فوائد کے لیے بیچ ڈالو تو پھر میں اور توکچھ نہیں کر سکتا‘ اور تمھارے فیصلوں کو بدلنے کی قدرت نہیں رکھتا‘ لیکن اتنی درخواست تم سے ضرور کروں گا کہ پھر مجھ سے اپنے آپ کو منسُوب کر کے میری روح کو تکلیف نہ پہنچانا۔ میرے لیے اس سے زیادہ مایوس کن حادثہ کوئی نہ ہوگا کہ گوشت کے جن لوتھڑوں کو پال پوس کر میں نے ایک ناپاک قوت کے خلاف لڑنے کے لیے تیار کیا ہو‘ وہ اداے فرض کا لمحہ آنے پر اپنے آپ کو‘ اپنے باپ کے اصولوں کو اور اس کے مقاصد کو‘ دشمنوں کے ہاتھ جاکے فروخت کر دیں۔
O
جائو! میرے خالی کیے ہوئے مورچوں پر کھڑے ہو جائو‘ لڑو‘ ٹکرائو‘ آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائو‘ یہاں تک کہ یا تو باطل کا عَلَم قطعی طور پر سرنگوں ہو جائے‘ یا تمھاری لاشیں خاک و خون میں تڑپتی نظر آئیں۔ یاد رکھو! کہ میں نے تم کو دنیا کے عیش لوُٹنے کے لیے نہیں پالا ہے۔
ایک یہ کہ حق کا بول بالا کرنا وہ پاکیزہ نصب العین ہے جو تمھارے باپ کو خدا کے انبیا وصلحا سے ورثے میں ملا ہے اور اسی کو میں تمھارے لیے ترکے میں چھوڑ رہا ہوں۔ ہر لحظہ اس پر نگاہیں جمائے رکھو!
دوسرے یہ کہ مہلک ماحول تم کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ اس سے خبردار رہو‘ اس کے خفیہ حملوں کی مدافعت کی فکر کرو‘ اور اس کے جادو کا توڑ فراہم کرو‘ اس کے دام کے ’دانوں‘ کی حقیقت پر نگاہ رکھو!
اگر نظام حق کا قیام تمھارے ہاتھوں ہو گیا اور اس کی پاکیزہ فضا میں ایک لمحہ بسر کرنے کی سعادت بھی تم کو مل گئی تو تم محسوس کرو گے کہ وہ ایک لمحہ ہزار سال سے زیادہ قیمتی‘ زیادہ میٹھا اور زیادہ دل چسپ ہے۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو تو ہم اور تم اور وہ سارے لوگ جو اپنے سے بعد والوں کے لیے کسی آنے والے زمانے میں ایک جنت خیروفلاح کی بنیاد ڈال رہے ہیں‘ دنیا کی اس عظیم ترین نیکی کو قائم کرنے میں حصہ دار ہیں کہ جس کے فیضان کی وسعتوں کو سامنے رکھا جائے تو یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ اس پاک مہم میں قوت کی جو ایک رمق‘ مال کا جو ایک حبّہ‘ خون کا جو ایک قطرہ‘ اور وقت کا جو ایک پل کسی نے خلوص سے صرف کیا ہوگا‘ عنداللہ اس کی جزا کیا ہو گی!
O
میرا مقصد تمھیں نہ اپنی ذات کی طرف بلانا ہے اور نہ کسی ذاتی عقیدہ و تصور کی طرف۔ نظریہ اور نظام اور طریق انقلاب صرف وہی برحق ہے جس کی تعلیم خدا کی کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ملتی ہے---میں چاہتا ہوں کہ تم نہ مجھے دیکھو‘ نہ کسی اور شخصیت کو--- بلکہ اپنا رشتہ سیدھا خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے استوار کرو۔ اُدھر سے جو اصول اور ہدایات ملیں ان پر سختی سے کاربند رہو۔ اپنے نفس یا دوسروں کی خاطر ان میں سے نہ کسی چیز کو چھوڑو‘ نہ اضافہ کرو‘ اور نہ ا حکام میں ترمیمیں کرو۔
اگر کتاب و سنت سے رشتہء وفا استوار کر لو تو وقت کے نت نئے نظریات اور باطل کے فتنہ آفریں اسالیب کار سے نہ تم مرعوب ہو گے اور نہ اقتدار‘ شان و شوکت اور دولت کے مظاہروں کا جادو تم پر چل سکے گا۔
خدا تمھیں قول و عمل کے تضاد سے بچائے اور تم ایمان اور مفاد پرستی میں جوڑ لگا کر منافقانہ طرز عمل اختیار کرنے سے مجتنب رہو!
اللہ کا کام کرتے ہوئے اللہ ہی تمھار حامی و ناصر ہو!
(ٹھنڈی آگ ‘مکتبہ چراغ راہ کراچی‘ ۱۹۵۷ ‘ ص ص ۲۹۴- ۳۰۴)
رفیق بہاء الدین الحریری نے لبنان کے ایک غریب کاشتکار گھرانے میں آنکھ کھولی۔ بچپن میں صیدا شہر کے گردونواح میں لیموں اور مالٹے کے باغات میں پھل چننے کا کام کرتا رہا‘ پھر تعلیم کے ساتھ ساتھ لبنان کے اخبار النہار میں چھوٹی سی ملازمت کرتا رہا۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے اسے اتنی دولت سے نوازاکہ ۳۰ سال کے بعد اسی اخبار کا مالک بن گیا‘ پھر ’’المستقبل‘‘ نامی سیٹلائٹ چینل ، المستقبل اخبار اور دنیا بھر میں ہوٹلوں‘ تعمیراتی کمپنیوں‘ بنکوں‘ جہازوں اور اسٹاک ایکسچینج کی بے شمار دولت کا مالک بنا اور دنیا میں چوٹی کے مال دار ترین ۱۰۰ افراد میں ۵۴ویں نمبر پر آگیا۔
۱۹۷۳ء میں پٹرول کے عالمی بحران کے وقت رفیق الحریری سعودی عرب میں تھا۔ مختلف تعمیراتی منصوبوں کے ذریعے آگے بڑھتے بڑھتے شاہی خاندان سے تعلقات استوار ہوچکے تھے۔ شہزادہ فہد بن عبدالعزیز سے ذاتی دوستی ہوگئی تھی اور کئی سرکاری ٹھیکے بھی مل رہے تھے۔ ۱۹۷۷ء میں شاہ خالد بن عبدالعزیز نے کانفرنس پیلس بنانے کا ٹھیکہ دیا جو الحریری نے چھے ماہ کی ریکارڈ مدت میں پورا کر دیا اور پھر ہر جانب سے ہُن برسنے لگا۔ ۱۹۷۸ء میں ایک نادر المثال تکریم کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ لبنانی رفیق الحریری کو سعودی شہریت دے دی گئی‘ اور پھر لبنانی نژاد سعودی ساہوکار ’’حی الورود‘‘ پھولوں کی بستی میں اپنے محل ’’قصرالحریری‘‘ کا باسی ہوگیا۔
۱۹۷۶ء میں لبنان خانہ جنگی کا شکار ہوگیا‘ اور ۱۷ سال تک لبنان میں وہ خونریزی ہوئی کہ ’’لبنانائزیشن‘‘ کا لفظ خانہ جنگی‘ باہمی قتل و غارت اور تباہی و بربادی کا مترادف لفظ بن کر ڈکشنریوںمیں لکھا گیا۔ ۱۹۸۹ء میں سعودی عرب کے شہر طائف میں شاہ فہد بن عبدالعزیز کی دعوت پر تمام متحارب لبنانی فریق جمع ہوئے اور لبنان میں مصالحت کی لاتعداد کوششوں کے بعد بالآخر یہ کوشش کامیاب ہوگئی۔ معاہدئہ طائف ایک نئے لبنان کی بنیاد بن گیا۔ اہم حکومتی عہدے مختلف فرقوں میں تقسیم کر دیے گئے۔ اب اگر لبنان کا صدر مارونی مسیحی ہے تو وزیراعظم سنی اور پارلیمنٹ کا اسپیکر شیعہ ہوتا ہے۔ معاہدئہ طائف پاکستان کے ۷۳ء کے دستور کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس پر سب کا اجماع ہے۔ رفیق الحریری بھی سنی وزیراعظم کی حیثیت سے حکمران رہے۔ اپنی سیاسی حیثیت منوانے کے لیے ان کا سرمایہ اور وسیع بین الاقوامی تعلقات ان کا اصل ہتھیار تھے۔ ان کی شخصیت اور سوچ کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بار سعودی فرمانروا شاہ فہد بن عبدالعزیز نے متعدد افراد کو سعودی عرب میں تعمیروترقی میں اضافے کے لیے مشورے دینے کے لیے کہا تو رفیق الحریری کا کہنا تھا کہ ’’دنیا میں سعودی عرب کی اقتصادی ترقی کی تصویر اجاگر کرنے کے لیے کروڑوں ڈالر صرف کر کے دنیا کے اربوں ڈالر کا رخ اپنی طرف موڑا جا سکتا ہے‘‘۔ شاید اسی فارمولے پر عمل درآمد کرتے ہوئے حریری نے امریکا کے شہر بوسٹن میں بزنس اینڈ ایڈمنسٹریشن کالج کی تعمیر کے لیے ۲۵ ملین ڈالر کا عطیہ دیا۔
لبنان میں متفق علیہ قومی فارمولے کے مطابق امور مملکت چلائے جا رہے تھے۔ اپوزیشن بھی فعال رہی ہے لیکن ایسا شاذونادر ہوا کہ کوئی لاینحل بحران اٹھ کھڑا ہوا ہو۔ جنوبی لبنان پر اسرائیلی قبضہ طویل جہاد کے بعد ختم کروا لیا گیا۔ بلدیاتی اور قومی انتخابات بھی ہو رہے تھے‘ لیکن عراق پر امریکی قبضے کے بعد لبنان میں جو سیاسی بحران اٹھے‘ رفیق الحریری کا قتل ان کا نقطۂ عروج ہے۔ لبنان میں شامی افواج گذشتہ ۲۹ سال سے موجود ہیں۔ لبنان اور شام کے تعلقات عملاً دوقالب یک جان کے مترادف ہیں۔ دونوں ملکوں کے شہری بلاروک ٹوک ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے ہیں۔ لاکھوں شامی باشندے لبنان میں تجارت یا ملازمت کرتے ہیں۔ دونوں ملکوں کو لاحق صہیونی خطرے کے مقابلے کے لیے بھی دونوں یک جا ہیں۔ لبنان میں داخلی و خارجی امن میں مدددینے کے لیے ۱۵ ہزار سے زائد شامی افواج لبنان میں ہی رہتی ہیں۔ انٹیلی جنس کا نظام مستزاد ہے۔ معاہدئہ طائف میں بھی شامی افواج کی موجودگی کا ذکر ہے اور کہا گیا ہے کہ شامی افواج وادیِ بقاع میں رہیں گی۔
امریکا کی طرف سے شام‘ اس کی افواج اور اس کے ایٹمی اسلحے کے بارے میں پہلے بھی بارہا تان اٹھائی جاتی تھی‘ لیکن عراق پر امریکی قبضے کے بعد سے اس کی لَے بلند تر ہوتی چلی گئی۔ لبنانی اپوزیشن نے بھی لبنان سے شامی افواج کی واپسی اپنا ہدف اولیں قرار دے دیا۔ امریکا سے گہرے تعلقات رکھنے والے وزیراعظم رفیق الحریری نے بھی اسی نہج پر کام شروع کر دیا‘ یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں اس کے بجاے سابق وزیراعظم عمر کرامے کو وزیراعظم چن لیا گیا اور الحریری کھل کر شام پر تنقید کرنے لگا۔ دُرزی (فرقۂ دروز کے) رہنما ولید جنبلاط تو پہلے ہی شمشیربرہنہ تھا اب سرمایہ دار حریری بھی ان سے آملا۔ ستمبر ۲۰۰۴ء میں سلامتی کونسل نے شام کے خلاف قرارداد ۱۵۵۹ منظور کرتے ہوئے اسے لبنان سے افواج نکال لینے کاکہا۔ یہ قرارداد منظور کروانے میں فرانس اور امریکا پیش پیش تھے اور رفیق الحریری نے اپنے ذاتی دوست صدر شیراک اور دیگر عالمی رہنمائوں سے مل کر اس قرارداد کی منظوری میں فعال کردار ادا کیا۔
الحریری نے شام نواز لبنانی صدر امیل لحود کو ہٹانے اور ایک ایسا صدر لانے کی بھی کوشش کی جو شامی افواج کو نکالنے کا کام انجام دے‘ لیکن لبنانی حکومت نے شامی اثرونفوذ کے سائے میں دستوری ترمیم کرتے ہوئے لحود کے عرصۂ صدارت میں تین سال کا اضافہ کر دیا۔
اس سارے پس منظر میں جب ۱۴ فروری ۲۰۰۵ء کو بیروت کے قلب میں دن دہاڑے رفیق الحریری کا پورا قافلہ نامعلوم دھماکے کا شکار ہوا تو پہلے ہی ثانیے سے اس قتل کا الزام شام پر لگنا شروع ہوگیا۔ جرمن اخبارات‘ ایک ہسپانوی اور ایک فرانسیسی اخبار کے علاوہ باقی تمام عالمی میڈیا حریری کے قتل کا ذمہ دار شام کو ٹھیرانے لگا اور پھر جیسے جیسے تدفین کے لمحات قریب آتے گئے‘ قتل کا الزام پیچھے رہ گیا اور لبنان سے انخلا کا مطالبہ سرفہرست آگیا۔ امریکا نے فوراً ہی دمشق سے اپنی سفیرہ کو واپس بلالیا‘ امریکی نائب وزیرخارجہ اور کئی عالمی رہنما بیروت پہنچنے لگے‘ اور صدر بش گویا ہوئے:’’شام لبنان سے اپنا استعماری قبضہ ختم کرے۔ لبنانی عوام کو آزادی سے جینے کا حق ہے‘‘۔ لبنانی اپوزیشن نے حریری کے جنازے میں جمع ہونے والے لاکھوں شہریوں کے جلوس کو ’’انتفاضہ الاستقلال‘‘قرار دے دیا اور حریری کی جدوجہد کو جاری رکھنے کا عہد کیا۔ ولد جنبلاط کے الفاظ میں: ’’لبنان کی آزادی اور بالادستی کے لیے بیرونی جمہوری طاقتوں سے استعانت بھی جائز ہے۔ ہم باہر سے بھی مدد لیں گے۔ اب ہم ہر پابندی سے آزاد ہیں‘‘۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان نے ارشاد فرمایا: ’’لبنانی عوام کو دہشت گردی اور شام کے استعماری قبضے سے آزادی ملنی چاہیے‘‘۔
رفیق الحریری کے مجرمانہ قتل کا ارتکاب کرنے والوں کے سوا ابھی تک کسی کو معلوم نہیں کہ یہ قتل کس نے کیا ہے اور قطع نظر اس کے کہ اس میں شام ملوث ہے یا نہیں‘ کسی بھی طرح کی تحقیقات سے پہلے تمام تر الزام شام پر لگاتے ہوئے پورا مغرب اس پر دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ لبنان سے نکل جائے۔ لیکن کیا صرف شامی افواج لبنان سے نکال لیے جانے پر یہ عالمی دبائو ختم ہوجائے گا؟ قطعاً نہیں۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان کا جملہ ہی دیکھ لیجیے:’’…دہشت گردی اور شام کے استعماری قبضے کا خاتمہ‘‘۔ دہشت گردی سے ان کی مراد شام کا شیعہ لبنانی تحریک ’’حزب اللہ‘‘ سے تعاون‘ حماس کی قیادت کو دمشق میں پناہ دینا‘ اور عراق میں جاری تحریک مزاحمت کو مدد فراہم کرنا ہے۔ شام لاکھ انکار کرے اور ہزار مطالبات پورے کر ڈالے عراقی و فلسطینی مزاحمت کی سرپرستی کے الزام سے چھٹکارا ممکن نہیں کہ اسی الزام کی آڑ میں شامی ایٹمی اسلحے کی تیاری کے امکانات کا خاتمہ‘ جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضہ تسلیم کروانا‘ اور ایران سے قطع تعلق کرتے ہوئے خطے میں امریکی و صہیونی منصوبوں کی تکمیل میں شریک کرنا بھی مطلوب و مقصود ہے۔
دہشت گردی کے اس بڑے واقعے کے فوراً بعد صہیونی وزیراعظم شارون نے سلامتی کونسل کی قرارداد ۱۵۵۹ پر عمل درآمد کرتے ہوئے لبنان سے شامی فوجیں نکالے جانے کو شام کے ساتھ کسی بھی گفتگو کے لیے شرط اولیں قرار دیا۔ اس کے وزیرخارجہ سلفان شالوم نے بھی حادثے کے لمحۂ اول سے شام کو اس کا مرتکب اور ذمہ دار قرار دیا۔ ایک بڑے صہیونی روزنامے معاریف نے حادثے کے اگلے ہی روز (۱۵ فروری) کو تل ابیب یونی ورسٹی کے شعبۂ تاریخِ مشرق وسطیٰ کے سربراہ پروفیسر ایال زیسر کے ایک مضمون میں لکھا: ’’صورت حال جو بھی ہو شام کو قتل کے اس واقعے کی قیمت چکانا ہوگی‘ خواہ عملاً اس واقعے کے پیچھے اس کا ہاتھ نہ بھی ہو‘‘۔ باعث حیرت و افسوس امر یہ ہے کہ شام پر عالمی دبائو دن بدن بڑھ رہا ہے۔ صدر بش نے برسلز میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’لبنان میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ پورے خطے کی تشکیلِ نو کے منصوبے کا حصہ ہے‘‘۔ لیکن خطے کے تمام ممالک لاتعلق بیٹھے ہیں۔
اخوان المسلمون کو شام میں بڑی اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا ہے‘ اب بھی ان کے ہزاروں کارکنان و قائدین ملک بدر‘ گرفتار یا لاپتا ہیں‘ لیکن اخوان نے اپنے بیان میں شام کے خلاف تمام امریکی و اسرائیلی منصوبوں اور سازشوں کو مسترد کرتے ہوئے پوری مسلم دنیا سے اپیل کی ہے کہ وہ اس حساس موقعے پر خاموش تماشائی نہ رہیں‘ شام کو تنہا نہ چھوڑیں اور صورت حال کو سنبھالنے کے لیے آگے بڑھیں۔
رفیق الحریری کے قتل کو بجا طور پر مشرق وسطیٰ کا سونامی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کے تباہ کن اثرات لبنان یا شام تک محدود نہیں رہیں گے۔ صدر بش کے الفاظ میں یہ سب: ’’خطے کی تشکیلِ نو کے منصوبے کا حصہ ہے‘‘۔ اس صورت حال کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل اٹھانا چاہے گا تاکہ حماس‘ حزب اللہ‘ جہاد اسلامی اور الفتح کے جہادی عناصر کا قلع قمع کردے۔ اس حادثے کے ذریعے امریکا بھی وہ تمام مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرے گا‘ جن کے حصول کے لیے وہ شام پر فوجی حملے کی دھمکیاں دیتا اور تیاریاں کرتا آرہا ہے‘ لیکن عراقی دلدل میں دھنس جانے کے باعث عمل درآمد نہیں کرپارہا۔ حصولِ مفادات کی لمبی فہرست کے اس تناظر میں تجزیہ نگار یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ حریری کے قتل کے پیچھے امریکا اور اسرائیل کا ہاتھ کیوں نہیںہوسکتا۔ آخر اپنے ہر حلیف کو بالآخر ٹھکانے لگانا بھی تو ان دونوں کی سرشت میں ہے۔ خاص طور پر ان حالات میں کہ جب قربانی کے اس بکرے کے ذریعے کئی دیگر اہداف کو شکار کرنا مقصود ہو۔ اب امریکا کے لیے اصل پریشانی یہ ہے کہ حریری کے قتل کو دو ہفتے گزرنے اور شام کو عالمی دھمکیوں کا ہدف بنادینے کے باوجود بھی عراق میں امریکی فوجیوں پر حملوں میں کوئی کمی کیوں نہیں آئی۔
بلڈوزر نے گندے پانی کے جوہڑ سے ملبہ نکال کر ہمارے سامنے لاپھینکا۔میں اس بلڈوزر کی تصویر لینا چاہتا تھا۔ چند قدم آگے بڑھا تو شدید بدبو میری ناک سے آٹکرائی حالانکہ میں نے ناک پر ماسک چڑھا رکھا تھا۔ ناگواری کے احساس کے ساتھ میں نے اس ملبے پر نظر دوڑائی جو ابھی ابھی میرے سامنے ڈالا گیا تھا۔ کچھ سیمنٹ‘ کچھ اینٹیں‘ کچھ لکڑیاں اور کچھ گلی سڑی سی چیز ایک ڈھیر کی صورت میں پڑی ہوئی تھی۔ میں نے غور سے دیکھا تویہ تین انسانوں کی لاشیں تھیں اور ان سے ناقابلِ برداشت حد تک بدبو اٹھ رہی تھی۔ زمانۂ طالب علمی میں ڈائسیکشن ہال میں مُردوں کی چیرپھاڑ تو میں دیکھ ہی چکا تھا مگر بلامبالغہ اس منظر نے مجھے خوفزدہ کردیا۔ کچھ لمحات تک تو میں سمجھ ہی نہ سکا کہ یہ کیا ہے۔
الخدمت فائونڈیشن پاکستان اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کا پانچ رکنی وفد ڈاکٹرمحمد اقبال خان کی سربراہی میں ۱۳ جنوری ۲۰۰۵ء کو بنڈہ آچے انڈونیشیا‘سونامی کے متاثرین کی امداد و بحالی کے کام میں تعاون کے لیے پہنچا۔ راقم اس وفد کا رکن تھا۔
آج بنڈہ آچے میں ہمارا تیسرا دن تھا اور ہم اُس علاقے کا دورہ کرنا چاہتے تھے جو سونامی طوفان کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہوچکا تھا۔ طوفان کو آئے ہوئے دو ہفتے گزر چکے تھے۔ حدِنگاہ تک تباہ شدہ مکانات‘ گاڑیوں اور کشتیوں کے ڈھیر جن کے ملبے تلے لاشیں دب چکی تھیں اور کہیں کہیں کٹے ہوئے انسانی اعضا بھی نظرآجاتے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی کو دم لینے کی بھی مہلت نہ ملی ہو‘ اور جو جس حال میں تھا وہیں موت سے ہمکنار ہوگیا۔
ہماری گاڑی آہستہ آہستہ اس ساحل کی طرف بڑھ رہی تھی جہاں سے یہ قیامت خیز سمندری طوفان زمین پر چڑھ آیا تھا۔ ہمارے ساتھی نے ایک مکان کے پاس سے گزرتے ہوئے اشارہ کیا۔ اس مکان کی دوسری منزل سے ایک کٹا ہو انسانی بازو لٹک رہا تھا۔ یہ منظر اس پورے طوفان کی منظرکشی کے لیے کافی تھا۔ معلوم نہیں مرنے والا اپنے آخری لمحات میں جدوجہد کے کن مراحل سے گزراہوگا۔ اس طرح کے دہشت ناک مناظر قدم قدم پر نظرآرہے تھے۔
جب ہم ساحلِ سمندر پر پہنچے توسمندر کے خاموش پانی سے بھی خوف سا محسوس ہوتا تھا۔ یہیں ساحل پر ایک خوب صورت مسجد بنی ہوئی تھی‘ جس کی چند جالیاں ٹوٹی ہوئی تھیں‘ لیکن عمارت جوںکی توں موجود تھی۔ مسجد کے اندر ریت کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ اس مسجد کے امام نے واقعے کی تفصیلات سنائیں۔ ان کے کہنے کے مطابق طوفان والے روز وہ حسبِ معمول فجر کی نماز پڑھا کر تقریباً سات بجے تک مسجد میں موجود رہے۔ پھر وہ اپنی موٹرسائیکل پر شہر کی جانب چل پڑے اور کچھ دور جاکر ایک چھوٹے سے ہوٹل میں چائے پینے کے لیے رکے۔ اسی دوران زلزلے کے شدید جھٹکے آنے لگے۔ وہ فوراً موٹرسائیکل لے کر اپنے گھر کی خیریت معلوم کرنے کے لیے دوڑے۔ اسی وقت ان کو طوفان آنے کی اطلاع ملی تو وہ واپس اپنی مسجد کی طرف پلٹے‘ لیکن اس وقت تک پانی شہر کے مرکز میں واقع مسجد بیت الرحمن تک پہنچ چکا تھا۔ پانی تقریباً ساڑھے سات سو کلومیٹر کی رفتار سے تقریباً ۱۰میٹر کی بلندی تک آیا اور زلزلے سے نیم تباہ شدہ مکانات اور دیگر تنصیبات کو ناقابلِ شناخت حد تک برباد کر گیا۔
مقامی لوگوں کے مطابق پانی کا زور مسجد بیت الرحمن کے سامنے آکر ٹوٹا جو ساحل سے سات کلومیٹر دور شہر کے وسط میں ہے۔ یہ مسجد انڈونیشیا کی اوّلین مساجد میں سے ہے اور اسے یہاں کے مقامی سلطان نے قبولِ اسلام کے بعد تعمیر کروایا تھا جس کے ساتھ ہی آچے کی ساری قوم نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ آچے کو مکہ کا برآمدہ کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں اسلام سب سے پہلے پہنچا۔ اسلام کی جڑیں آچے میں انتہائی گہری ہیں اور یہاں کی مقامی حکومت نے اس صوبے میں شریعت نافذ کر رکھی ہے۔ یہ صوبہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے لیکن اس سے پوری طرح استفادہ نہیں کیا جا رہا۔ بین الاقوامی طاقتیں اس دولت کو انڈونیشیا کے ہاتھ میں دے کر اسے مضبوط نہیں کرنا چاہتیں۔ ان کے نزدیک آچے کو الگ کرکے برونائی کی طرح ایک نرم و نازک سلطنت تو بنائی جاسکتی ہے لیکن انڈونیشیا کو آسٹریلیا کے مقابلے میں انتہائی کمزور رہنا چاہیے۔
بنڈہ آچے‘ آچے کا دارالحکومت ہے (بنڈہ کے معنی بندرگاہ کے ہیں)۔ یہ شہر سونامی سے بری طرح برباد ہوا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ تباہی سماٹرا کے جنوبی ساحل پر موجود شہروں میں ہوئی ہے جہاں ملابونامی بڑا شہر تقریباً صفحۂ ہستی سے مٹ گیا ہے لیکن وہاں اموات کم واقع ہوئی ہیں۔ ہمارے میزبان ڈاکٹر صائفہ کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ اس علاقے کے لوگوں میں ان کے بزرگوں سے یہ روایت چلی آ رہی تھی کہ جب اس قسم کا زلزلہ آئے تو فوراً پہاڑوں کی طرف بھاگو۔ زلزلہ آتے ہی لوگ اونچے مقامات کی طرف دوڑ پڑے اور کچھ دیر بعد سمندر نے ان کے شہر کو نگل لیا۔ سماٹرا کے جنوبی شہروں تک رسائی کا واحد ذریعہ ہیلی کاپٹر ہے کیونکہ سڑکیں اور بندرگاہیں تباہ ہوچکی ہیں۔ یہ علاقے مدد کے سب سے زیادہ محتاج ہیں‘ مگر تمام بین الاقوامی امداد بنڈہ آچے میں آکر ڈھیر ہو رہی ہے اور بیش تر این جی اوز صرف تصویریں کھچوا کر اور اپنی انسانیت دوستی کا چرچا کر کے واپس جارہی ہیں۔ یہاں کے لوگ سفیدفام قوموں کو پسند نہیں کرتے اور کسی بھی مسلمان ملک کی امداد پر انتہائی خوش ہوتے ہیں۔ پاکستان کا نام سن کر ان کے چہرے کھل اٹھتے تھے۔
ہماری ٹیم کے ڈاکٹروں نے مقامی ملٹری ہسپتال میں کئی پیچیدہ آپریشن کیے اور شدید بیمار بچوں کو بروقت طبی امداد پہنچائی۔ یہاں میں اُس مریض کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا‘ جس کی ٹانگ ہمارے ڈاکٹروں کی بروقت مداخلت سے بچا لی گئی‘ وگرنہ آسٹریلیا کے ایک سرجن اس کو بے کار قرار دے کر کاٹنے کے درپے تھے۔ ہسپتال کے انچارج نے پاکستانی ڈاکٹروں کی تعریف کی۔ انھوں نے ہماری ٹیم کے ڈاکٹروں سے سیکھنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔
جمعے کے روز ہم مسجدِبیت الرحمن پہنچے‘ جو اس روز طوفان کے بعد پہلی دفعہ کھل رہی تھی۔ یہاں سے ۴۰۰ لاشیں برآمد کی گئی تھیں جو پانی میں تیر رہی تھیں۔ آج مسجد بالکل صاف ستھری اور بدبو سے پاک تھی البتہ مسجد کا مینار شکستہ حالت میں گزری ہوئی تباہی کا پتا دے رہا تھا۔ یہ مسجد اس شہرکا مرکز ہے اور مقامی لوگوں کی اسلام دوستی کا ثبوت یہ ہے کہ یہ مسجد سب سے پہلی عمارت تھی جو طوفان سے متاثر ہونے کے بعد بحال کی گئی۔ مسجد میں بے پناہ رش تھا۔ لوگ بہت جوش وخروش سے نماز پڑھنے آرہے تھے۔ امام صاحب نے اپنے خطبے میں گناہوں پر معافی مانگنے اور اللہ کی طرف پلٹنے پر زور دیا۔
بنڈہ آچے میں دو روز ہم انڈونیشیا کی ریڈ کریسنٹ کے ہسپتال میں مقیم رہے۔ تیسرے روز ہم نے ایک مکان کرائے پر لے کر اس میں اپنا مستقل مرکز قائم کرلیا۔ آنے والے گروپوں کے لیے تو ہم نے اپنے تجربے کی بنیاد پر مناسب انتظامات کرلیے‘ مگر خود ہم انتہائی سخت حالات سے گزرے۔ سب سے بڑی مشکل خوراک کی تھی۔ تقریباً ایک ہفتہ ہم نے صرف پھل کھا کر گزارا کیا۔ کیونکہ اس کے علاوہ کھانے کی کوئی چیز شہر میں دستیاب نہ تھی۔ مقامی خوراک پاکستانی ذائقے سے بالکل مختلف تھی اور ایک نوالہ بھی حلق سے نہ اترتا تھا۔ دوسری مشکل آرام کی تھی۔ مچھر وافر تعداد میں موجود تھے۔ ایک خاص قسم کی چھپکلی جسے وہ لوگ ’کوکے‘ کہتے تھے (کیونکہ وہ کو اور کے کی آواز نکالتی تھی) رات کے پچھلے پہر انتہائی بلند آواز نکالنا شروع کر دیتی تھی۔
بنڈہ آچے کا سارا نظام تباہ ہوچکا ہے۔ ہماری موجودگی میں بھی دو مرتبہ زلزلے کے شدید جھٹکے آئے۔ہر جگہ انڈونیشیا کے دوسرے علاقوں کے لوگ عارضی طور پر کام کر رہے ہیں جو مقامی حالات سے بھرپور واقفیت نہیں رکھتے۔ اس کے علاوہ بیشتر جگہوں پر غیرملکی این جی اوز نے اپنا راج قائم کر رکھا ہے۔ آچے میں موجود علیحدگی پسند تحریک کی بنا پر تمام غیرملکی این جی اوز کو مارچ کے وسط تک آچے سے نکل جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ کسی غیرملکی فوج کو آچے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ صرف ملائشیا کی فوج ہمارے جانے سے ایک روز پہلے ایک معاہدے کے تحت شہر میں داخل ہوئی اور نظام سنبھالنا شروع کر دیا۔ ملائشیا کو تعمیراتی میدان میں مہارت حاصل ہے۔ ہماری آچے میں موجودگی تک جو مشینری اور افرادی قوت شہر کی صفائی کا کام کر رہی تھی وہ ناکافی تھی۔
واپسی پر ہم جکارتا کے لیے روانہ ہوئے تو دن کا وقت تھا۔ ائرپورٹ پر تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ تقریباً دو گھنٹے قطار میں کھڑے رہنے کے بعد ہماری باری آئی۔ جہاز واپسی کے لیے اڑا تو نیچے حدِّنگاہ تک سبزہ نظر آرہا تھا۔ ساحلوں پر تباہی جہاز سے بھی دکھائی دے رہی تھی مگر ساحل سے ہٹ کر اندر کا علاقہ بہت خوب صورت تھا۔
جکارتا میں آخری دن انتہائی مصروف تھا۔ اس دن ہم نے بچی ہوئی نقد رقم سے ایک بڑی ایمبولینس خریدی اور اسے انسانی کمیٹی برائے آچے (انڈونیشین ہیومینیٹیرین کمیٹی KKIA) کے حوالے کیا۔ اس کے علاوہ ہم نے تقریباً ۲۰ لاکھ روپے کی ادویات ان کے حوالے کیں۔ ڈاکٹرطوطی علویہ صدارتی امیدوار کی یونی ورسٹی میں یتیم خانے کا دورہ کیا۔اس یتیم خانے میں ایک ہزار آچے سے تعلق رکھنے والے یتیم بچوں کی کفالت کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔
’ہدایت عبدالواحد‘ یہاں کی جسٹس اینڈ ویلفیئر پارٹی کے لیڈر ہیں اور ہمارے ساتھ نظریاتی مطابقت رکھتے ہیں۔ آج کل وہ پارٹی صدارت چھوڑ کر پارلیمنٹ کے اسپیکرہیں۔ انھوں نے ہمارا خیرمقدم کیا اور قاضی حسین احمد صاحب کے لیے سلام کہا۔
رات کو الوداع کہتے ہوئے ہمارے میزبان کی آنکھوں کے آنسو یہ پیغام دے رہے تھے کہ پاکستانیوں سے کہنا کہ ہم ایک ہی قوم ہیں اور ایک نہ ایک دن ہم یہ سرحدیں مٹاکر ضرور ایک ہوجائیں گے!
سوال : نقد اور اُدھار قیمت کے فرق کو جائز قرار دیا جاتا ہے۔ اس بنیاد پر بنک جو گاڑیاں اقساط پر دیتے ہیں‘ وہ اضافی قیمت لیتے ہیں۔ عموماً بنک بھی اسے سودی کاروبار کہتے ہیں۔ لہٰذا اضافی قسط‘ انٹرسٹ‘ منافع یا ایگریمنٹ یا کوئی اور نام رکھنے سے بلاسود بنک کاری نہیں ہوجاتی۔ اگر کوئی خریدار مقررہ وقت پر گاڑی کی قسط ادا نہ کر سکے تو کیا جرمانہ سود نہ ہوگا؟دوسرا پہلو یہ ہے کہ رضامندی سے طے شدہ زائد ظالمانہ رقم اگر سود نہیںتومجبوراً ادا کیا جانے والا جرمانہ تو سود ہی ہوگا۔ قسطوں کے کاروبار میں نقد اور اُدھار کے فرق پر شرعی نقطۂ نظر واضح کریں۔
جواب: نقد اور اُدھار کی قیمتوں کے فرق کی گنجایش کو ایسے کاروبار کا ذریعہ نہ بنا دینا چاہیے جو سود کا متبادل بن کر رہ جائے اور جس میں سودی ذہنیت کارفرما ہو۔ مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں سود اور بیع کا فرق بیان کرتے ہوئے اس مسئلے کی اچھی طرح وضاحت فرمائی ہے: ’’تجارت میں بائع مشتری سے خواہ کتنا ہی زائد منافع لے‘ بہرحال وہ جو کچھ لیتا ہے‘ ایک ہی بار لیتا ہے۔ لیکن سود کے معاملے میں مال دینے والا اپنے مال پر مسلسل منافع وصول کرتا رہتا ہے اور وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ اس کا منافع بڑھتا چلا جاتا ہے۔ مدیون نے اس کے مال سے خواہ کتنا ہی فائدہ حاصل کیا ہو‘ بہرطور اس کا فائدہ ایک خاص حد تک ہی ہوگا۔ مگر دائن اس فائدے کے بدلے میں جو نفع اٹھاتا ہے‘ اس کے لیے کوئی حد نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مدیون کی پوری کمائی‘ اس کے تمام وسائل معیشت حتیٰ کہ اس کے تن کے کپڑے اور گھر کے برتن تک ہضم کرلے اور پھر بھی اس کا مطالبہ باقی رہ جائے‘‘(تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ ص ۲۱۲-۲۱۳)۔ مزید تفصیل کے لیے حاشیہ ۳۱۸‘ جو آیت وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا(البقرہ ۲:۲۷۵) ’’حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام‘‘ کی تفسیر کے سلسلے میں تحریر کیا گیا ہے‘ کا مطالعہ فرمائیں۔
اقساط کی صورت میں وہ منافع جو غیرسودی ہے اور وہ جو سودی ہے‘ کا فرق اس طرح ملحوظ رکھا جائے کہ قسطیں طے ہونے کے بعد اس میں مزید اضافہ کسی صورت میں نہ ہو تو یہ بیع اور غیرسودی کاروبار شمار ہوگا‘ جیسے کہ تفہیم القرآن میں وضاحت ہوگئی ہے کہ بیع میں منافع طے شدہ ہوتا ہے اور ایک ہی مرتبہ ہوتا ہے‘ اس میں اضافہ نہیں ہوتا اور اگر اس میں اضافہ ہوتا رہے تو پھر وہ اقساط سود شمار ہوں گی۔ نیز کسی شے کا بہت زیادہ مہنگا ہونا جو سود کا متبادل بن کر رہ جائے‘ وہ بھی درست نہیں ہے۔ اگرچہ طے شدہ ہونے کی صورت میں ہم اسے سود نہیں بلکہ منافع ہی کہیں گے۔واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
س : حج کے بعد عمرہ ادا کرنے کے متعلق دو آرا ہیں۔ ایک رائے ہماری وزارت مذہبی امور کی ہے جن کے مطابق حج کے بعد عمرہ کرنے کی کھلی اجازت ہے:
منیٰ سے واپس آکر جب تک مکہ مکرمہ میں قیام رہے بکثرت طواف کرتے رہیں۔ یہ سب سے اعلیٰ عبادت ہے۔ اگر وقت ملے تو عمرے بھی کریں۔ (انوارحرمین‘ حصہ اول‘ وزارت مذہبی امور اسلام آباد‘ص ۵۱)
جو لوگ حج کے بعد تنعیم یا جعرانہ وغیرہ سے بکثرت عمرہ کرتے ہیں تو اس کی مشروعیت کی کوئی دلیل نہیں… تنعیم سے حضرت عائشہؓ کا عمرہ مخصوص سبب سے تھا… لہٰذا جس کو حضرت عائشہؓ جیسا عذر درپیش ہو‘ اس کے لیے اجازت ہے کہ حج سے فارغ ہونے کے بعد عمرہ کرے[عام اجازت نہیں ہے]۔(حج و عمرہ اور زیارت‘ علامہ عبدالعزیزبن عبداللہ بن بازؒ، ترجمہ: شیخ مختار احمد ندوی‘ وزارتِ اسلامی ‘سعودی عرب‘ ص ۴۳-۴۴)
ان دو متضاد آرا کی وجہ سے زائرین حج اُلجھن میں پڑجاتے ہیں کہ کیا صحیح اور کیا غلط ہے؟
ج: جب یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عائشہؓ نے حج کے بعد عمرہ کیا ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ حج کے بعد عمرہ کیا جاسکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ حضرت عائشہؓ کا عمرہ اس عمرہ کی قضا تھی جو ان سے رہ گیا تھا‘ تو اس سے حج کے بعد عمرہ کو قضا کی صورت کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جاسکتا‘ بلکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حج کے بعد نفل عمرہ کیا جاسکتا ہے جس طرح عمرہ کی قضا کی جاسکتی ہے۔ اس لیے کہ عمرہ قضا ہو یا ادا‘ واجب ہو یا سنت‘ اس کا طریق کار‘ شرائط‘ واجبات اور سنن میں کوئی فرق نہیں ہے‘ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جعرانہ سے مستقل عمرہ کیا تھا۔ حج کے بعد عمرہ کی نفی اس وقت کی جاسکتی ہے جب نبی کریمؐ نے اس کی نفی یا حمایت کی ہو یا حضرت عائشہؓ کو عمرہ کرنے کے موقع پر فرمایا ہو کہ جس کا عمرہ رہ گیا ہو وہ حج کے بعد عمرہ کر سکتا ہے۔ دوسرا شخص جس نے حج سے پہلے عمرہ کر لیا ہو‘ وہ بعد میں عمرہ نہیں کرسکتا۔ رہی یہ بات کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مرتبہ حج کے بعد عمرہ کو معمول نہیں بنایا تو اس سے بھی حج کے بعد عمرہ کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے کہ بیان جواز کے بعد معمول نہ بنانے سے جواز کی نفی نہیں کی جاسکتی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر ت عائشہؓ کو حج کے بعد عمرہ کروا کر اس بات کا جواز بیان کر دیا کہ حج کے بعد عمرہ کرنے کی اجازت ہے۔ آج کل بھی حجاج کرام کا معمول نہیں ہے کہ وہ حج کے بعد تنعیم سے عمرہ کریں۔ کچھ لوگ عمرہ کرتے ہیں اور کچھ لوگ محض طواف پر اکتفا کرتے ہیں۔ دونوں طریقے صحیح ہیں۔ اعتدال کی راہ یہ ہے کہ کسی کی اپنی طرف سے نفی نہ کی جائے کہ یہ شریعت میں اپنی طرف سے اضافہ کرنے کے مترادف ہے۔ غلو اور افراط و تفریط سے پرہیز کرنا چاہیے۔ واللّٰہ اعلم! (ع - م)
س : کیا اسلام میں کسی ایک امام کو لازماً ماننا اور اس کی اتباع کرنا ضروری ہے؟ کیا بیک وقت تمام ائمہ میں سے جس کی جو بات پسند آئے‘ لی جا سکتی ہے‘ یعنی کچھ باتیں امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کے مطابق اورکچھ باتیں امام شافعیؒ کے مسلک کے مطابق‘ جب کہ تمام ائمہ ایک ہی دین کے پیروکار تھے؟
ج: آپ نے دریافت کیا ہے کہ کیا اسلام میں کسی ایک امام کو لازماً ماننا اور اس کی اتباع کرنا ضروری ہے۔ جہاں تک سوال اتباع کا ہے‘ قرآن نے سورۂ آل عمران میں اس کو واضح کردیا ہے کہ اللہ اور رسولؐ کی اتباع غیر مشروط ہے‘ جب کہ اولی الامر کی اتباع مشروط ہے‘ یعنی جب تک وہ اللہ اور رسولؐ کے احکامات کی پیروی کرتے اور کرواتے ہیں ان کی پیروی کی جائے گی (اٰل عمرٰن ۳:۵۹)۔ اسلام کے اس اصولِ اطاعت کو حدیث نبویؐ میں یوں واضح کر دیا گیا ہے کہ لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق، یعنی خالق کی نافرمانی ہوتی ہو تو کسی مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔
اس اصولی وضاحت کے بعد قرآن و سنت ہم سے یہ چاہتے ہیں کہ ہر مسلمان عورت اور مرد اپنے تمام معاملات کا فیصلہ اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی ہدایات کی روشنی میں کرے۔ ظاہر ہے کہ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہرمسلمان خود قرآن وسنت کا مطالعہ کرنے کی عادت ڈالے اور قرآن و سنت کے طریق و حکمت سے واقفیت پیدا کرے۔ ہماری تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ ہمارے ادوارِ زوال میں بھی اعلیٰ طبقات کے افراد ہی نہیں وہ بھی جنھیں آزادی سے محروم کر کے غلام بنا لیا گیا تھا‘ اجتہادی صلاحیت رکھتے تھے‘ حتیٰ کہ اگر ادب کا مطالعہ کیا جائے تو الف لیلہ و لیلہ میںایسے واقعات ملتے ہیں جب ایک خادمہ ہر ہر سوال کے جواب میں صرف قرآنی آیات سے جواب دیتی ہے۔ اس صلاحیت کا تعلق اس ثقافتِ علم سے ہے جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تک ایسی مثالی صورت حال پیدا نہ ہو توکیا کیا جائے؟ ظاہر ہے بغیر علمی وسائل کے اگر ہر فرد اپناامام خود بن جائے تو گمراہی کا امکان بڑھ جائے گا۔ اس لیے علما وفقہا یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اپنی طرف سے پوری کوشش کرنے کے بعد جس امام کی تعلیمات پر ایک فرد کا دل مطمئن ہو یا وہ جس مسلک فقہی میں پیدا ہوا ہو اور اُس سے مطمئن ہو‘ اس پر قائم رہے۔ تاآنکہ وہ خود مصادر شریعہ کو سمجھنے اور اصول و قواعد فقہ کے استعمال سے واقف ہو جائے۔
فقہا و حکما کا کہنا یہ بھی ہے کہ چونکہ انسانی فطرت سہولت طلب ہے‘ اس لیے اگر ہر ہر فقہ سے صرف آسان ترین راستے اختیار کر لیے جائیں تو یہ دین کی وسعت کا صحیح استعمال نہ ہوگا۔ دین لازمی طور پر آسانی چاہتا ہے لیکن سستی اور کاہلی کو بھی پسند نہیں کرتا۔ اس لیے کسی ایک مسلک کو اختیار کرنا بہتر ہوگا تاکہ اس کی بعض بظاہر مشکلات کے ساتھ بہت سی آسانیوں سے بھی فائدہ حاصل کرسکے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
زیرتبصرہ کتاب کا موضوع سیرت النبیؐ ہے‘ لیکن مصنف نے ایک انوکھے انداز سے قلم اٹھایا ہے۔ فاضل مصنف نے کتاب کے پہلے حصے میں سیرتؐ کے واقعات کو اختصار کے ساتھ‘ مگر ایک متحرک تجربے کی صورت میں پیش کیا ہے۔ جب قاری کا تعلق‘ اللہ تعالیٰ کے بعد کائنات کی سب سے بڑی ہستیؐ سے جڑ جاتا ہے تو پھر مصنف ۱۴۰۰سال پہلے کی فضا کو‘ اکیسویں صدی کے ظلم‘ بغاوت اور لادینیت پر مبنی فساد کے جدید زمانۂ جاہلیت کے مدِّمقابل لاکھڑا کرتے ہیں۔ اس طرح ایمان کی پختگی اور عصرِحاضر کے چیلنجوں کو آمنے سامنے دیکھنے کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔
مصنف اگرچہ ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں‘ تاہم دانشِ برہانی اور عشقِ رسولؐ سے سرشار اور زمانۂ حال کے قلب کی دھڑکنوں سے واقف اور فسادِ دوراں کی رمزوں سے خوب شناسا ہیں۔ قرآن‘ سنت اور ایمان سے وابستگی نے‘ مصنف کو رہنمائی کے لیے دلیل‘ دانش اور ابلاغ کی دولت سے نوازا ہے‘ جس کے نتیجے میں انھوں نے مغربی تہذیب و فکریات کو بڑے عام فہم انداز سے بے نقاب کیا ہے۔ جس میں خصوصاً ڈارون کے نظریۂ ارتقا‘ مارکس کے نظریۂ اشتراکیت اور فرائڈ کے نظریۂ جنس کو اس انداز سے موضوع بحث بنایا ہے‘ کہ تہذیبِ مغرب کے ان سرچشموں کی باطنی کجی اور شرانگیزی بخوبی الم نشرح ہوجاتی ہے۔ اس ضمن میں مغربی فلاسفہ کی اُمہاتِ کتب کے ٹھوس شواہد اور رہنمائوں کے تعامل سے ثبوت لاکر قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کا تجزیہ کیا ہے۔ یوں حیوانیات‘ نفسیات اور معاشیات کے بڑے بنیادی سوالات پر سیرحاصل بحث سامنے آگئی ہے۔
قارئین کی دل چسپی کے لیے ابتدائیے کے چند جملے پیش ہیں: ’’(محمد عربیؐ) کے نام لیوا اب بھی دنیا کے ہر گوشے میں بکثرت پائے جاتے ہیں‘ پڑھایا ہوا سبق بھی خوب صورت جلدوں میں ان کے پاس موجود ہے‘ لیکن ان کے دلوں میں وہ پہلی سی حرارت نہیں رہی۔ ذہن شکوک و شبہات سے لبریز ہیں اور روحِ عمل مفقود ہے--- ان کے تعلیم یافتہ اور ذی اقتدار طبقوں کو یقین ہوچلا ہے کہ افکار اور مسائل کے اقدار اس قدر بدل چکے ہیں کہ [اسلام] کہنہ اور فرسودہ ہوکر رہ گیا ہے۔ قدیم خیال علما اس رجحان کو الحاد اور زندقہ کے نعروں [یا فتووں] سے دبانا چاہتے ہیں‘ لیکن ان کی کوششیں ناکام نظر آتی ہیں۔ خیالات کی کسی نئی کروٹ کو الجھی ہوئی تحریروں اور جذباتی تقریروں سے دبایا نہیں جاسکتا۔… تہذیب مغرب کی نئی روشنیوں: ڈارون‘ فرائڈ اور مارکس کی تعلیم [کا مطالعہ] نہایت سنجیدہ توجہ کا محتاج ہے… ان مغربی نظریات کا تنقیدی جائزہ اور تعلیم‘ اسلام کے ساتھ ان کا ایسا موازنہ جو دانشِ مغرب کو بھی غوروفکر پر مجبور کرے‘ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ کتاب اسی ضرورت کے مدنظر لکھی گئی ہے‘‘ (ص ۱۱)۔
یہ کتاب‘ جدید تہذیب کے بڑے بنیادی مقدمات پر جامع بحث کرتے ہوئے قاری کا رشتہ سیرتِ رسولؐ سے جوڑتی ہے۔ مصنف نے جدید فکریات کی چمک میں پوشیدہ جہالت کے تاروپود بکھیر دیے ہیں۔ افسوس کہ یہ کتاب گذشتہ ۳۵ برس تک گوشۂ خمول میں پڑی رہی۔ اب یہ تقاضا کرتی ہے کہ خصوصاً اساتذہ اور طلبہ توجہ سے اس کا مطالعہ کریں۔ (سلیم منصور خالد)
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا جب بھی اور جہاں بھی تذکرہ ہوگا‘ ناممکن ہے کہ وہاں آپ کے عہدِطفلی کے حوالے سے جناب عبدالمطّلب بن ہاشم کا ذکرِخیر نہ آئے۔ جناب عبدالمطّلب حضوؐر کے شفیق دادا تھے۔ انھوں نے اپنے کم سن ’دُرِیتیم‘ پوتے کی جس بے پناہ محبت اور شفقت کے ساتھ سرپرستی اور کفالت کی‘ اس بنا پر ننھے حضوؐر کو بھی ان سے بے انتہا محبت ہوگئی تھی۔ ابھی حضوؐر آٹھ سال کے نوخیز بچے تھے کہ جناب عبدالمطّلب نے وفات پائی۔ حضوؐر کو ان کی وفات سے انتہائی صدمہ ہوا۔ مستند روایتوں میں ہے کہ آپؐ اُن کی میت کے قریب کھڑے ہوکر روتے رہے اور جب ان کا جنازہ اٹھا تو آپؐ اس کے ساتھ روتے چلے جارہے تھے۔ اس سے جناب عبدالمطّلب سے حضوؐر کے تعلقِ خاطر کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
زیرِنظر کتاب میں جناب عبدالمطّلب کے سوانح حیات بڑی تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ فاضل مصنف نے بالکل درست لکھا ہے کہ جناب عبدالمطّلب‘ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا ہونے کے شرف کی بنا پر ہمارے لیے اور غالباً ساری دنیا کے لیے ایک عظیم ترین شخصیت ہیں‘ مگر وہ اپنی ذات‘ صفات‘ زمان‘ مکان اور مجموعی شخصیت کے اعتبار سے بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ فی الحقیقت جناب عبدالمطّلب اپنی فیاضی‘ دانش و حکمت‘ خدمتِ خلق اور دوسرے اوصافِ حمیدہ کی بناپر نہ صرف قریشِ مکہ بلکہ عرب بھر میں ایک ہمہ گیر و ہمہ جہت شخصیت کے طور پر مشہور و معروف تھے۔ لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بیش تر کتبِ سیّر میں ان کے بہت تھوڑے حالاتِ زندگی ملتے ہیں۔
پروفیسر محمد یٰسین مظہر‘تحسین کے مستحق ہیں کہ انھوں نے زیرتبصرہ کتاب لکھ کر یہ کمی پوری کر دی ہے۔ فاضل مصنف نے اس کتاب کی تصنیف میںقرآن حکیم کے علاوہ حدیث‘ سیرت اور تاریخ کی کم و بیش ڈیڑھ سو کتابوں سے استفادہ کیا ہے اور بڑی محنت اور کاوش کے ساتھ جناب عبدالمطّلب کے تمام حالاتِ زندگی فراہم کیے ہیں۔ پھر ان کو نہایت قرینے سے مرتب کر کے نتائج اخذکیے ہیں اور ان کا اندازِ نگارش بڑا شستہ اور عام فہم ہے۔ بلاشبہہ یہ کتاب پروفیسر محمدیٰسین کا قابلِ ستایش کارنامہ ہے اور ساتھ ہی پوری چھٹی صدی ہجری کی تاریخِ عرب (بالخصوص مکّہ و قریش) بھی بیان کر دی ہے۔ اردو کتب تاریخ و سیرت میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ اگر کتاب کے عربی الفاظ و اسما پر اِعراب لگا دیے جاتے تو اس کی افادیت میں اضافہ ہوجاتا۔ صفحہ ۵۰ پر امیمہ بنت عبدالمطّلب کے شوہر کا نام حجش (ح ج ش) بیان کیا گیا ہے‘ صحیح نام جحش (ج ح ش) ہے‘ غالباً یہ کمپوزنگ کی غلطی ہے۔ (طالب الہاشمی)
پروفیسر فتح محمد ملک اُردو ادب کے جیّد نقاد اور معروف دانش ور ہیں۔ شعروادب اور نقدو انتقاد کے مسائل پر تو اُن کا جان دار قلم پہلے بھی رواں رہتا تھا لیکن ادھر کچھ عرصے سے انھوں نے بعض قومی و ملّی مسائل (خصوصاً مسئلہ کشمیر اور پاکستان کی نظریاتی اساس) پر قلم اٹھایا ہے اور پے درپے ایسے مضامین لکھے ہیں جو ایک سچے اور کھرے ادیب اور قلم کار کی پہچان ہیں۔ (اُن کے مجموعۂ مضامین کشمیر کی کہانی پر مفصل تبصرہ دیکھیے: ترجمان القرآن‘اکتوبر ۲۰۰۱ئ)
اُن کے ۳۱مضامین پر مشتمل زیرنظر مجموعے کا انتساب ’’نظریاتی محاذ پر ثابت قدمی کی روشن مثال مجید نظامی کے نام‘‘ ہے۔ یہ سب یا ان میں سے بیش تر مضامین نواے وقت میں چھپ چکے ہیں۔ یہ مضامین پاکستان‘ بھارت اور بعض غیرملکی قلم کاروں کے جواب میں لکھے گئے ہیں۔ زیادہ تر دو قومی نظریے‘ قائداعظم‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان مفاہمت‘ اردو زبان اور مشترکہ نصابِ تعلیم کی تجویز کے حوالے سے لکھے گئے ہیں۔
پروفیسر‘ ملک پاکستان کی نظریاتی اساس کے بارے میں ایک واضح تصور رکھتے ہیں۔ نظریۂ پاکستان سے انحراف اور کشمیر پر پاکستان کے اصولی تاریخی موقف سے روگردانی کو وہ ملتِ اسلامیہ کے لیے خودکشی کے مترادف سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں ایک آزاد‘ خودمختار اور ترقی پسند اسلامی معاشرے کی تشکیل اُن کا دیرینہ خواب ہے۔چنانچہ ’’نظریاتی استحکام کی تمنا‘‘ سے سرشار‘ یہ مضامین پاکستان کی نظریاتی اساس کے دفاع کے ضمن میں ایک قلمی جہاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اشتراکی دانش ور طارق علی ہوں یا صحافت کار ایاز امیر‘ بھارتی تجزیہ نگار کلدیپ نیر ہوں یا اسٹاک ہوم یونی ورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسراشتیاق احمد یا ماہرمعاشیات ڈاکٹر اکمل حسین--- اس طبقہ فکر کے دانش ور’علاقائی امن و سلامتی‘کی خاطر ہمیں ’نئے وژن اور نئی حکمت عملی‘ اختیار کرنے اور پاکستان کو ’بچانے‘ کی خاطر کشمیر پر استصوابِ راے کے اصولی موقف سے دست بردار ہونے کی ترغیب دے کر ’سائوتھ ایشین یونین‘ جیسی لغو تجاویز پیش کرنے میں پیش پیش رہے ہیں۔ پروفیسر ملک نے ایسے دانش وروں کا فکری اور قلمی سطح پر تعاقب کر کے‘ فرضِ کفایہ ادا کیا ہے۔ وہ بجاطور پر سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ اتحاد اور یہ مشترکہ دفاع کس کے خلاف ہوگا؟ دنیاے اسلام کے خلاف اور چین کے خلاف؟--- یقینا‘ جیسا کہ وہ کہتے ہیں: ’اسلام بے زار یا اسلام مخالف قوتوں کو پاکستان کا آزاد اور خودمختار وجود گوارا نہیں‘۔ چنانچہ ’سائوتھ ایشین یونین کا تصورعام کرنا گویا نواستعماری خواب کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش ہے‘۔ (ص ۵۷)
پروفیسر ملک کا خیال ہے کہ: پاکستانی قوم اس لیے مصائب و مشکلات کا شکار ہے کہ اسے اسلام کے صراطِ مستقیم کے بجاے مُلائیت اور خانقاہیت کی ٹیڑھی میڑھی راہوں پر ڈال دیا گیا ہے (ص ۱۶۰)۔ ان کی یہ تشخیص غلط تو نہیں‘ مگر ہماری رائے میں اس کی ذمہ داری ملّا سے کہیں زیادہ ضمیرفروش اربابِ سیاست‘ جاگیرداروں‘ فوج اور نوکرشاہی پر عائد ہوتی ہے۔ اگر تاریخِ پاکستان کے اوراق اُلٹیں تو معلوم ہوگا کہ اول روز ہی سے اختیار و اقتدار مسلم لیگ‘ جناح لیگ‘ ری پبلکن پارٹی‘ عوامی لیگ‘ کونسل لیگ‘ کنونشن لیگ‘ پیپلز پارٹی‘ نون لیگ اور ق لیگ کے نام پر متذکرہ بالا چار طبقوں کے پاس رہا ہے اور اب تو یہ سب ایک دوسرے کے پشتی بان بن چکے ہیں۔
پروفیسر ملک کے ان مضامین میں اختلاف کے کچھ پہلو بھی موجود ہیں‘ مثلاً یہ کہنا کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مرزا بشیرالدین محمود ہر دو نے جاگیرداری نظام کے شرعی جواز مہیا کرنے میں یکساں داد تحقیق دی ہے‘ بڑی زیادتی ہے۔ جن لوگوں نے سید مودودی کو پڑھا ہے‘ وہ پروفیسر ملک کی بے خبری پر اظہارِ تاسف ہی کریں گے۔ جاگیرداری اس ملک سے کیوں نہ ختم ہوسکی اور ’’پاکستان میں اسلام کے ابدی اصولوں پر مبنی ایک انقلابی معاشی نظام‘‘ کیوں نہ قائم ہوسکا؟ اس لیے کہ پروفیسر ملک کے بقول: ’’قائداعظم کی جیب کے کھوٹے سکّے‘ اس کے برعکس عزائم کے حامل تھے‘‘(ص ۱۵)۔ یقینا سید مودودی کی تحریریں جاگیرداری کے خاتمے میں رکاوٹ نہیں بنیں۔ پروفیسرملک‘ ذوالفقار علی بھٹو کے مداح ہیں‘ اور پاکستان کی آئیڈیالوجی پر بھٹو کے ’غیرمتزلزل ایمان‘ کے قائل ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ۱۹۷۰ء کے انتخاب میں ’’عوام نے جعلی آئیڈیالوجی کو رد کر کے حقیقی آئیڈیالوجی کو ووٹ دیے‘‘ (ص ۱۴۱)۔ بالیقین اگر ذوالفقار علی بھٹو کے پاس واقعی کوئی آئیڈیالوجی ہوتی یا وہ ’’حقیقی آئیڈیالوجی‘‘ پر (جس کے وہ علم بردار تھے)صدقِ دل سے یقین رکھتے تو جاگیرداری کو ختم کردیتے۔ اصل بات یہ کہ بقول پروفیسر ملک ’’پاکستان کے تمام تر مسائل آئیڈیالوجی سے اس شرم ناک انحراف کا شاخسانہ ہیں‘‘ (ص ۱۳۰)۔ فکروبیان کے جزوی اختلاف کے باوجود‘ مجموعی طور پر یہ ایک قیمتی کتاب ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
عسکری امور کے ماہر اور سیاسی و سماجی تجزیہ نگار کی حیثیت سے جناب شمس الحق قاضی کا نام محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ وہ ان معدودے چند فوجی افسروں میں سے ہیں جو پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ‘ اپنے علمی اور تاریخی ورثے سے بھی بخوبی آگاہی رکھتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ وہ قومی و ملّی شعور اور دینی جذبے سے بھی سرشار ہیں۔ قاضی صاحب موصوف ملک و ملّت کے مسائل پر برابر سوچ بچار کرتے ہیں اور اپنے مطالعے اور نتائجِ فکروتحقیق سے اہلِ ملک و ملّت کو بواسطہ قلم و قرطاس باخبر رکھنے کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔
زیرنظر کتاب اُن کی برسوں کی علمی تحقیق کا حاصل ہے۔ اس میں بارود کی ایجاد سے لے کر جدید زمانے کی توپوں اور میزائلوں تک کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ بارود کا استعمال حربی تاریخ میں ایک بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ سب سے پہلے مسلمانوں نے عیسائیوں کے خلاف باقاعدہ توپ خانہ استعمال کیا۔ جدید دور کی راکٹ سازی سلطان حیدر علی والیِ میسور کی مرہونِ منت ہے۔ اس سے پہلے مسلمان منجنیق کا کامیاب تجربہ کرچکے تھے جسے انگریزی میں مشین کا نام دیا گیا۔
مغلوں کے بعد سکھوں نے توپ خانے سے کیسے فائدہ اٹھایا؟ اور چھوٹی بڑی توپوں نے بسااوقات کسی لڑائی میں کیسے پانسا پلٹ دیا؟ قاضی صاحب نے تاریخی حوالوں کے ساتھ زیرِنظر کتاب میں اس کی پوری تفصیل پیش کی ہے۔ تاہم یہ کتاب خشک‘ فنی حقائق یافقط بندوق و بارود کے کوائف پر مشتمل نہیں بلکہ برعظیم کے سیاسی مدوجزر کا ایک روشن آئینہ بھی ہے۔ خصوصاً اس تناظر میں کہ توپ خانے اور جنگی ہتھیاروں نے کس طرح سیاست کے نشیب و فراز کو متاثر کیا۔ مصنف یہ بھی بتاتے ہیں کہ مدمقابل پر غلبے اور اسے شکست دینے کا انحصار محض توپوں اور دیگر جنگی ہتھیاروں پر نہیں ہوتا بلکہ اصل چیز وہ عسکری روح ہے جو کسی فوج کے جسم و جان میں سرایت کرکے اسے فتح سے ہم کنار کرتی ہے۔ انھوں نے مثالیں دے کر بتایا ہے کہ مغلوں کے زوال میں بنیادی کردار فوجی افسروں کی آرام طلبی‘ بزدلی اور غداری کا تھا۔
کتاب میں متعدد تصاویر اور دستاویزات بھی شامل ہیں۔ مصنف موضوع پر قابلِ رشک مہارت اور دسترس رکھتے ہیں۔ انھوں نے عربی اور فارسی مصادر سے بھی استفادہ کرتے ہوئے کتاب کو نادرمعلومات سے مزین کیا ہے۔ ہمارے خیال میں اس اہم علمی تحقیق کو اُردو میں بھی شائع ہونا چاہیے۔ (ر-ہ)
’’ہم نہ موت سے ڈرتے ہیں نہ کسی کے سامنے جھکتے ہیں۔ ہمارے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہے: عزت کی زندگی یا عزت کی موت! جب اپنا قومی وجود خطرے میں ہو تو ہر مرد‘ ہر عورت‘ ہر بچے اور ہر بوڑھے پر مزاحمت لازم ہوجاتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ظلم ہوتا رہے اور ہم کسی دوسرے سیّارے کی مخلوق بن کر چپ چاپ اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں‘‘---شیخ احمد یاسین کے یہ الفاظ ان کی تحریک کا بنیادی منشور اور ان کی فکر کا خلاصہ ہیں۔ شیخ جسمانی طور پر معذور لیکن ذہنی اور فکری اعتبار سے اقبال کے اس شعر کے مصداق تھے ؎
نگہ بلند‘ سخن دل نواز‘ جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِکارواں کے لیے
ڈاکٹر مفکراحمد نے فلسطین کے اس بطلِ حریت اور پیکرِعزم و وفا کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ کتاب میں شیخ کے حالاتِ زندگی‘ ان کے انٹرویو‘ ان کے خطوط‘ اہلِ قلم کے تاثرات اور اہم شخصیات کے مضامین کو یکجا کیا گیا ہے۔ مصنف نے جملہ نگارشات کو خوش اسلوبی سے ترتیب دیا ہے۔ اس سے شیخ احمد یاسین کی پوری زندگی پوری تفصیل اور توانائی کے ساتھ سامنے آگئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے یہودی و عیسائی حکمرانوں کے عزائم بھی بے نقاب ہوتے ہیں‘ نیز یہود و نصاریٰ کے آلہ کار بعض نام نہاد مسلم حکمرانوں کا منافقانہ کردار بھی سامنے آتا ہے۔
اس کتاب کو پڑھتے ہوئے‘ قدرتی طور پر ایک مسلمان کا ایمانی ولولہ و جوش تازہ ہوجاتا ہے۔ شیخ کی زندگی سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ عزم بلند ہو تو راستے کی مشکلات سدِّراہ نہیں بنتیں۔ اُمت مسلمہ کو ایسے ہی بلند حوصلہ اور جواں عزم رکھنے والے قائدین کی ضرورت ہے جو مادی منفعت اور اقتدار سے بے نیاز ہوکر جذبۂ ایمانی کی حرارت سے مالا مال ہوں۔
کتاب میں شیخ کی چند تصاویر بھی شامل ہیں۔ شہادت کے بعد شیخ کے جسدخاکی کی تصویر یہود کی وحشت و بربریت کی بدترین مثال ہے۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)
نواب محمد یوسف علی خان مگسی (۱۹۰۸ئ-۱۹۳۵ئ) بلوچستان کے ایک مخلص‘ اولوا العزم اور روشن خیال خادمِ ملک و ملّت تھے۔ گو انھوں نے صرف ۲۷ برس عمرپائی مگر جب تک جیے‘ اپنے پس ماندہ معاشرے میں انقلابی تبدیلیوں اور اپنی قوم کی بیداری اور تعلیمی ترقی اور غلامانہ ذہنیت سے نجات کے لیے کوشاں رہے۔ بلوچستان میں تعلیمی بیداری‘ سماجی شعور پیدا کرنے میں ان کی کاوشوں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ قبائلی اور سرداری نظام میں پرورش پانے کے باوجود‘ وہ صحیح معنوں میں غریبوں کے ہمدرد اور اُن کے لیے تڑپ رکھنے والے شخص تھے۔ انھیں قیدوبند کی صعوبت سے بھی دوچار ہونا پڑا۔۱۹۳۴ء میں انھیں علاج کے بہانے جلاوطن کرکے لندن بھیج دیا گیا۔ قائداعظم سے بھی اُن کا رابطہ تھا اور وہ علامہ اقبال کی شاعری سے بھی بہت متاثر تھے۔ خود انھوں نے اُردو اور فارسی میں شعر بھی کہے ہیں۔ انگلستان سے واپسی پر وہ ۳۱ مئی ۱۹۳۵ء کو کوئٹہ کے خوفناک زلزلے میں لقمۂ اجل بن گئے۔
یہ صاحبِ دل نوجوان‘ میرجعفر خان جمالی کے بقول: ’’صحیح معنوں میں اپنی درماندہ قوم کو عزت و آبرو سے سیاسی زندگی بسر کرنے کے لیے عمربھرکوشاں رہا‘‘۔ جناب انعام الحق کوثر نے مرحوم کی سیاسی و سماجی‘ علمی و ادبی اور تعلیمی خدمات کا ایک مختصر تذکرہ مرتب کیا ہے۔ وہ اس موضوع پر اس سے پہلے بھی کچھ کام کر چکے ہیں۔ زیرنظر کتاب میں یوسف عزیز کے مختصر حالات‘ ان کی گوناگوں خدمات کی جھلکیاں‘ شاعری کے نمونے اور ان کے دست نوشت خطوں اور تحریروں کے عکس شامل ہیں۔ (ر-ہ)
زیرنظر کتاب بچوں کے لیے اختر عباس کی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ وہ بچوں کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں اور انھیںبچوں کی ذہنی کیفیات کو مختلف کرداروں کے ذریعے اجاگر کرنے کا ملکہ حاصل ہے۔ اسی بنا پر انھوں نے بچوں کے مسائل کو بعض کرداروں کی مدد سے اتنی اپنائیت سے پیش کیا ہے کہ محسوس ہوتا ہے جیسے ہر بچہ ان کا دوست ہے اور سچ بھی یہی ہے کہ یہ کہانیاں انھیں بچوں کا سچا دوست ثابت کرتی ہیں۔
ہمارے اردگرد ایسے بے شمار کردار ہیں‘ جنھیں ہم درخوراعتنا نہیں سمجھتے‘ اور نظرانداز کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ’’دیمک‘‘ ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جس کے والد کو محض اپنے نفع کی فکر ہے اور وہ بچوں کا ذہنی اور دلی دکھ نہیں جان سکتے۔ ’چھیلا‘ اس باپ کے دل کی بپتا ہے جسے اس کے بیٹے نے کسی قابل ہی نہیں سمجھا تھا۔ ’پیمانہ‘ پڑھ کر یقین کرنا مشکل ہے کہ کیا مائیں ایسی سنگ دل بھی ہوسکتی ہیں جو بیٹوں کی سلامتی کے بجاے ان سے ملنے والی دولت کی خواہش مند ہوں۔ ’کمشن‘، ’دربان‘ اور ’قیمت‘ میں بھی ایسے ہی معاشرتی اور سماجی رویوںکابیان ہے جنھیں ہم عام طور پر قابلِ توجہ نہیں سمجھتے۔ بقول علی سفیان آفاقی: ان کی اکثر کہانیاں دکھوں کی کہانیاں ہیں مگر انھی میں سے خوشیوں کی کرنیں پھوٹیں گی۔
ان کہانیوں میں پلاٹ کی بُنت عمدہ‘ اسلوب سادہ اور عام فہم ہے۔ نئی نسل بلکہ والدین اور بزرگوں کے لیے بھی یہ کہانیاں سبق آموز ہیں اور زندگی کے چھوٹے مگر مختلف النوع رویوں کو سمجھنے میںمدد دیتی ہیں۔ ان کہانیوں کو پڑھتے ہوئے قاری کے دل میں ہمدردی‘ محبت اور خلوص کے جذبات اُبھرتے ہیں۔
کتاب کی حقیقی افادیت اسی وقت ممکن ہے جب قارئین ان کہانیوں کو صرف پڑھ لینے پر اکتفا نہ کریں بلکہ خود کو وقارعظیم (دیمک) سرمد کی والدہ (اندر کی چٹخنی) اور نعیم راٹھور (چیخ) جیسے کردار بننے سے روکیں‘ اور ایسے کرداروں کی مذمت کریں تاکہ معاشرہ ان کے بد اثرات سے محفوظ رہے۔ (قدسیہ ہاشمی)
مصنف ایک معروف ریسرچ اسکالر ہیں۔ یہ ان کی بارھویں تالیف ہے جس میں بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت (۲۰ اکتوبر ۱۹۹۳ء تا ۵ نومبر ۱۹۹۶ئ) میں معاصر اخبارات و رسائل کی مدد سے حقوقِ انسانی کی پامالی (ظلم و بربریت‘ قتل و غارت گری‘ بدعنوانیوں اور رشوت ستانی وغیرہ) کا ریکارڈ مرتب کیا گیا ہے۔ لوٹ مار‘ ڈاکازنی‘ پولیس کی زیادتیاں‘ اغوا براے تاوان‘ ناجائز اسلحے کی برآمدگی‘ گاڑیاں نذرآتش‘ ٹارچرسیل‘ بھتّے کی وصولی‘ ناجائز گرفتاریوں وغیرہ کے ضمن میں جو کچھ عہدِ بے نظیر میں ہوا‘ یہ اس کی تاریخ وار تفصیل ہے۔ اس سب کچھ کی ذمہ داری براہ راست بے نظیر بھٹو پر تو نہیں عائد ہوتی‘ مگر وہ اس سے بالکل بری الذمہ بھی نہیں ہو سکتیں۔
مؤلف نے اپنے مفصل مقدمے میں اس چشم کشا اور عبرت خیز کتاب کی ترتیب کا جواز پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’انسان اقتدار میں ہو یا عدمِ اقتدار میں‘ ان دونوں صورتوں میں بلکہ ہر صورت میں انسان یا انسانوں کو لذت گناہ سے روکنے والی ایک ہی طاقت ہے--- جسے قوتِ قاہرہ یا اللہ رب ذوالجلال کہتے ہیں‘‘ (ص ۶)--- مؤلف نے اختتامیے میں ’بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ اقتدار‘ کا مختصر احوال بھی بیان کر دیا ہے۔
ڈاکٹر ایچ بی خان کی محنت قابلِ داد ہے۔ یہ تاریخی ریکارڈ مرتب کر کے‘ انھوں نے تاریخ و سیاست کے اساتذہ اور طلبہ کے لیے ایک مفید معاون مرتب کردیا ہے۔ (ر-ہ)
’’فوجی حکومت اور عوام کے جمہوری حقوق‘‘ (فروری ۲۰۰۵ئ) میں ملک کو درپیش تمام اہم مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے حکمرانوں کو بروقت متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ خود ’’روشن خیالی‘‘اور ’’اعتدال پسندی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقائق کو تسلیم کریں اور عوام کو متحدہ حزب اختلاف کی قیادت میں آخری چارئہ کار کے طور پر ایک ملک گیر عوامی تحریک پر مجبور نہ کریں۔ ابھی وقت ہے کہ ماضی سے سبق سیکھا جائے۔
’’حکمت مودودیؒ ،،(جنوری ۲۰۰۵ئ) کے تحت جہاد پر بہت عمدہ انتخاب تھا جس سے جہاد کا حقیقی تصور اجاگر ہوکر سامنے آیا اور بہت سی غلط فہمیاں دُور ہوئیں۔
’’دہشت گردی کے بارے میں سچائی کی تلاش‘‘ (فروری ۲۰۰۵ئ) سے معلوم ہوا کہ خود مغرب کے علمی حلقوں میں بھی امریکا کی ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے۔ اب یہ مسلمانوں کا ہی مسئلہ نہیں ہے۔ اس سوچ کے حامل طبقے تک رسائی اور اس آواز کو توانا کرنے کی ضرورت ہے۔
’’برکت کا تصور‘‘ (فروری ۲۰۰۵ئ) سے برکت کا جامع تصور سامنے آیا۔ واقعی اگر ایمان اور تقویٰ کی روش اپنائی جائے اور دین و ایمان کے عملی تقاضے پورے کیے جائیں تو تھوڑا بہت ہوجائے۔ فارسی مقولہ درست یوں ہے: مسلمانی در کتاب و مسلماناں درگور۔
’’اپنی تربیت آپ‘‘ (فروری ۲۰۰۵ئ) ایک فرد کے لیے تربیت کے بہت سے پہلو اجاگر کرتا ہے لیکن اصل ضرورت عمل کی ہے۔
بدیع الزمان سعید نورسیؒ کے مریضوں اور مصیبت زدگان کے لیے روحانی مرہم کے ۲۳ نسخے (جنوری۲۰۰۵ئ) مادہ پرستی اور مفاد پرستی کے اس دور میں ہر مسلمان کی عمومی اور طب کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں‘ ہسپتالوں اور شفاخانوں کے لوگوں کی خصوصی ضرورت ہیں۔ یہ نسخے جہاں ہر انسان (جو کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہے) کے لیے علاج ہیں وہاںمعالجوں کے لیے مختصر مگر جامع ریفریشر کورس بھی ہیں۔
الحمدللہ ’’اشارات‘‘ کا معیار مولانا مودودیؒ کے رسالے کے شایانِ شان ہے بلکہ زورِقلم‘ تجزیہ اور استدلال تو خود مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی یاد تازہ کر دیتے ہیں۔
مغربی تہذیب کوئی نئی فکر و فلسفہ پیش کرنے سے تو اب قاصر ہے‘ تاہم اپنی بداعمالیوں کے جواز تلاش کرنے میں اب بھی خاصی چست و چالاک ہے۔ اسی سلسلے میں آج کل یہاں پہلے ہم جنس پرستی کو دو بنیادوں پر سندِجواز دی گئی۔ ایک ’’فرد‘‘ کی آزادی کی بنیاد پر‘ اور دوسرے اس رجحان کو جینیاتی تقاضا قرار دے کر۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں بنیادیں نہایت کمزور ہیں۔ مگر یہاںخالص علمی اور عقلی انداز میں کوئی ان پر تنقید کا حق ادا کرنے والا نظر نہیں آتا۔
یہاں کے ماحول میںکام کرنے والے تحریک اسلامی کے کارکنوں کو اس لعنت کے خلاف ہتھیار فراہم کرنا آپ جیسے عالمِ اسلام کے فکری رہنمائوں کی ذمہ داری ہے کیونکہ یہاں تو مذہب اور قانون دونوں نے اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ چرچ میں ہم جنس جوڑوں کی شادیاں ہو رہی ہیں۔ اعلیٰ ترین عدالتوں نے اس رجحان کو فرد کی آزادی کے نام پر جائز قرار دے دیا ہے اور اب حکمران پارٹی نے پارلیمنٹ میں اس طرح کی شادیوں کو مکمل قانونی درجہ دینے کے لیے باقاعدہ ایک مسودۂ قانون براے منظوری پیش کر دیا ہے۔
آج ہم جس جدید دور میں سانس لے رہے ہیں‘ اگرچہ معاشرہ بظاہر ترقی یافتہ نظر آتا ہے لیکن حقیقی ترقی سے کوسوں دور ہے۔ معاشرہ ہمدردی‘ اخوت‘ محبت اور اخلاص جیسی اعلیٰ اقدار سے عاری‘ جب کہ نفرت و حقارت‘ بے راہ روی اور خودغرضی اور ظلم و استحصال اور انسانیت کا خون عام ہے۔امن و مساوات کے علم بردار اور انسانیت کا درس دینے والے اپنے مذموم مقاصد کی خاطر اپنی طاقت کے زعم میں عدل وا نصاف اور امن عالم کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں اور جمہوریت کی آڑ میں بدترین آمریت مسلط کر رہے ہیں۔ دنیا کو آج کل سے زیادہ امن و انصاف اور انسانیت کی تلاش ہے۔ مغرب کے اس تضاد کو بھرپور اور مدلل انداز میں سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں کمیونسٹ نظریات کے خلاف اہلِ قلم‘ ادیب اور شاعر پیش پیش رہے۔ آج پھر امریکی سامراجیت کے مقابلے کے لیے ضروری ہے کہ اہلِ علم و دانش اپنا کردار ادا کریں۔ اس محاذ پر منظم اور بھرپور سرگرمی وقت کا تقاضا ہے۔
ہمارے رفقا اور ہم خیال اصحاب کے حلقے میں اشتراکیت کے بڑھتے ہوئے طوفان سے ایک اضطراب پیدا ہوگیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اشتراکی تحریک اب روس کی کامیابی کی بدولت بہت زور پکڑ گئی ہے اور حکومت نے اپنی مصلحتوں کی خاطر اسے قوت حاصل کرنے کا جو موقع دیا ہے وہ بھی اس کے لیے کافی مفید ثابت ہوا ہے‘ لیکن ان چیزوں سے مضطرب ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘ اور اضطراب کے ساتھ اگر کوئی قدم اٹھایا گیا تو وہ فائدہ مند ہونے کے بجاے اُلٹا مضر ثابت ہوگا۔ یہ صحیح ہے کہ اشتراکیت عوام کے سفلی جذبات اور ان کی خواہشات نفس سے اپیل کرنے کی بنا پر آگ کی طرح پھیلنے کی خاصیت رکھتی ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ ایک مدتِ دراز سے اس کا مسلسل پروپیگنڈا ہوتا رہا ہے‘ اس کے پاس ایک بہت طاقت ور لٹریچر ہے اور کثیرالتعداد کارکن موجود ہیں‘ دنیا کے مختلف ممالک میں اس کی بہت کامیاب اشاعت ہوچکی ہے اور ایک عظیم الشان سلطنت اس کی علم بردار ہے جسے تازہ فتوحات نے غیرمعمولی اثر اور رسوخ بخش دیا ہے‘ ان وجوہ سے یہ بہت زیادہ بعید از قیاس نہیں ہے کہ ایک مرتبہ یہ تحریک ایک سیلاب کی طرح ہمارے ملک اور دوسرے بہت سے ملکوں پر چھا جائے گی۔ لیکن ان پہلوئوں کے ساتھ بعض دوسرے پہلو بھی ہیں جنھیں ہم نظرانداز نہیں کر سکتے۔
ہندستان میں اور اس طرز کے غلام ذہنیت رکھنے والے ملکوں میں اس تحریک کی ترقی کا انحصار تمام تر روس کی طاقت پر ہے۔ جس وقت روس جرمنی سے پِٹ رہا تھا آپ نے دیکھا ہوگا کہ اس وقت ہندستان میں اشتراکیت بھی دم توڑ رہی تھی۔ جب روس ازسرِنو سنبھل کر اٹھا اور جرمنی کے مقابلے میں کامیابی حاصل کرتا چلا گیا تو یہاں بھی اشتراکیت کے جسم میں روح دوڑنے لگی۔ اس لیے یہ نتیجہ نکالنا صحیح ہے کہ اشتراکیت کا گرنا اور اٹھنا روس کے دامن کے ساتھ بندھا ہوا ہے لیکن روس کا حال یہ ہے کہ اب وہ ایک بین الاقوامی اشتراکی تحریک کی پوزیشن سے ہٹتے ہٹتے ٹھیک اس مقام پر آ رہا ہے جہاں نازی جرمنی کھڑا تھا‘ یعنی اس کی اشتراکیت اب قوم پرستانہ اشتراکیت (National Socialism) ہے اور وہ بہت تیزی کے ساتھ قیصریت (imperialism) کے میدان میں امریکا اور انگلستان کا حریف بن رہا ہے۔ یہ چیز ممکن ہے کہ روس کی قیصریت کو اتنی جلدی نہ لے بیٹھے لیکن ایک بین الاقوامی تحریک کی حیثیت سے اشتراکیت کو یقینا لے بیٹھے گی۔ (’’جماعت اسلامی کے پہلے کل ہند اجتماع کی روداد‘‘،خطاب سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۶‘ عدد ۳-۶‘ ربیع الاول تا جمادی الثانی ۱۳۶۴ھ‘ مارچ تا جون ۱۹۴۵ئ‘ ص ۱۵۸)