جنرل پرویز مشرف نے بالآخر ۱۷ جنوری ۲۰۰۴ء کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلا س سے خطاب کرکے وہ دستوری قرض اتار دیا جو ۱۴ماہ سے ان پر واجب تھا اور وہ مختلف بہانوں کے سہارے اس ذمہ داری کی ادایگی سے مسلسل گریز کرتے آرہے تھے--- کبھی اسمبلی کو ’غیرمہذب‘ گردان کر اور کبھی اس دستوری ضرورت کو غیرضروری بتلا کر--- یا شاید سب سے زیادہ ایک مجرم ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر کہ جس ریفرنڈم پر ان کے قصرصدارت کی دیواریں اٹھائی گئی تھیں اس کی اصل حقیقت سے خود ان سے زیادہ کون واقف تھا؟ لیکن اللہ کی اپنی حکمتیں ہوتی ہیں کہ شاید اس تاخیر کے ذریعے قدرت کو سب کو یہ یاد دہانی کرانا مطلوب ہو کہ جب تک ۱۷ویں دستوری ترمیم کے ذریعے ان کی صدارت کو کسی نہ کسی درجے میں سندجواز میسرنہ آجائے‘ پارلیمنٹ کی تکمیل اور سیاسی عمل کا حقیقی اجرا نہ ہو سکے گا۔ شکر ہے کہ یہ مرحلہ اب گزر گیا ہے لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا جنرل صاحب اور ان کے رفقاے کار نے دستوری بحران کے اس جاں گسل دور سے کوئی سبق سیکھا ہے؟ اور کیا وہ فی الحقیقت ایک نئے اور صحیح معنی میں جمہوری اور دستوری عمل (process) کا حصہ بننے کو تیار ہیں؟یا اس سب کے باوجود حسب سابق فوج کی کمین گاہ میں بیٹھ کر ہی کاروبارِ سیاست و حکومت چلانے پر مصر رہیں گے؟ کیا وہ کابینی حکومت کے صدر کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں یا چیف ایگزیکٹو نہ ہوتے ہوئے بھی اسی حیثیت کے تسلسل کا ڈراما رچانا چاہتے ہیں؟
یہ خطاب ان کے لیے ایک آزمایش اور امتحان ہی نہ تھا بلکہ ان کو ایک تاریخی موقع بھی فراہم کر رہا تھا جس کے ذریعے وہ ایک نئے دور کے آغاز کی نوید قوم کو سنا سکتے تھے۔ لیکن ہم بڑے تاسف سے اس حقیقت کااظہار کرتے ہیں کہ انھوں نے ایک بڑے نادر موقع کو ضائع کر دیا اور ایک ایسی گھسی پٹی اور بے جان تقریر کا اپنے نامۂ اعمال میں اضافہ کر لیا جو نہ دستور کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے‘ نہ پارلیمانی روایات کی امین ہے اور نہ اس تبدیلی کی نوید اپنے دامن میں رکھتی ہے جس کی قوم منتظر تھی مگر ع
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
دستور کی دفعہ ۵۶ (۳) کے مطابق قومی اسمبلی کے ہر نئے انتخاب اور پارلیمنٹ کے ہر نئے سال کے آغاز پر صدرمملکت کے لیے ضروری ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرے۔ اس دفعہ کا مقصد یہ ہے کہ صدر‘ کابینہ کے ایما پر اس خطاب کے ذریعے پارلیمنٹ کے سامنے حکومت کی پالیسی اور نقشہ کار کو رکھے جس پر دونوں ایوانوں میں بحث ہو اور اس طرح سال بھر کے کام کا ایک واضح پروگرام وجود میں آسکے۔ بالعموم اس خطاب کے تین حصے ہوتے ہیں‘ ایک حکومت کی سالِ گذشتہ کی کارگزاری کا جائزہ‘ دوسرے سالِ رواں کے درپیش مسائل کے بارے میں حکومتی موقف اور تیسرے سال کے دوران پارلیمنٹ کے کرنے کے کاموں کی نشان دہی بشمول قانون سازی۔ جنرل صاحب کی ۳۵ منٹ کی اس تقریر میں ’در مدح خود می گوید‘ کے کچھ سُر اور تال تو ضرور موجود ہیں‘ اسی طرح کچھ وعظ اور پندونصیحت کی نوع کی باتیں بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر اپنے زعم میں کچھ چیلنجوں کی بھی انھوں نے نشان دہی فرمائی ہے‘ لیکن جمالی حکومت کی کارکردگی‘ آیندہ کے منصوبے‘ بنیادی امور کے بارے میں پالیسی اور سال بھر کی قانون سازی کا پروگرام‘ ان سب کے ذکر سے وہ خالی ہے۔ گویا ؎
ہم گئے تھے عرض کرنے مدعا
اور عرض مدعا ہی رہ گیا
سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ جس بات کو انھوں نے درپیش چیلنجوں کا نام دیا ہے وہ دراصل بیرونی دنیا کے اعتراضات اور شاہکار الزامات ہیں جنھیں نہ معلوم کس خوف یا مصلحت سے انھوں نے کسی محاسبے اور نقدوجائزے کے بغیر اپنے اور اپنے ملک و قوم کے سر منڈھ دیا ہے اور ان کا بھرپور جواب دینے سے کلی اجتناب کرکے دنیا کے سامنے اپنے قومی موقف کے اعلان کا ایک سنہری موقع انھوں نے گنوا دیا ہے۔ ان کے جن مشیروں نے بھی ان کے ساتھ یہ ہاتھ کیا ہے ‘اس سے ان کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے۔
ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ ۱۷ ویں ترمیم کے سلسلے میں اپنے تحفظات کے باوصف متحدہ مجلسِ عمل نے جس بالغ نظری کا مظاہرہ کیا تھا اور اپنے سارے شور شرابے کے باوجود اے آرڈی اور دوسری جماعتیں جس طرح اب کم از کم پارلیمنٹ کی کارروائی میں شریک ہوگئی تھیں‘ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں ایک قومی مفاہمت کی دعوت دینی چاہیے۔ یہ موقع تھا کہ جنرل صاحب بالغ نظری کے ساتھ وسعت ِ قلب کا مظاہرہ کرتے اور قوم کو بیرونی حالات اور اندرونی مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک قومی اتفاق رائے کی طرف بلاتے۔ دل بڑا کر کے یہ کہتے کہ گذشتہ چار سال میں جو کچھ کرسکتا تھا‘ میں نے کیا اور اب ملک میں منتخب پارلیمنٹ ہے اور نئے عزم اور نئے انتظام کی ضرورت ہے۔ سب جماعتوں اور سب افراد کو میں ایک نئے آغاز اور ایک نئے اجماع کی دعوت دیتا ہوں تاکہ صحیح اور مستحکم جمہوری عمل شروع ہو سکے‘ تاکہ دستور کی بالادستی ہو‘ پارلیمنٹ کی حاکمیت مستحکم ہو‘ برسرِاقتدار جماعتیں اور حزبِ اختلاف کم از کم سب ایک قدر مشرک پر جمع ہوں اور پاکستان کا جو حقیقی وژن ہے--- یعنی ایک مثالی اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی فیڈرل نظامِ حکومت کا قیام--- اس کے لیے سب اپنے اپنے انداز میں سرگرمِ عمل ہوں۔ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر مستقبل کی تعمیرکے لیے ہر ایک کو اس کا کردار ادا کرنے کی دعوت دیتے۔ صاف کہتے کہ فوج کے سیاسی کردار کا دور اب ختم ہوگیا ہے اور فوج اپنی دفاعی ذمہ داریوں کی ادایگی کے لیے پوری یکسوئی کے ساتھ سرگرمِ عمل ہو رہی ہے اور سیاسی نظام اب قوم کے منتخب نمایندوں کے ہاتھوں میں امانت ہے۔ اس امانت کا تقاضا یہ ہے کہ منتخب نمایندے جو ملک کی آزادی اور سالمیت‘ اس کے نظریاتی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت‘ اس کی معاشی اور سماجی ترقی اور عوام کے مسائل اور اُمت مسلمہ کی امنگوں کی تکمیل کے لیے سرگرمِ عمل ہوجائیں۔ میں صدر کی حیثیت سے جو ریاست اور وفاق کی علامت ہے‘ دستور کے تحت اپنے فرائض کی انجام دہی اور جواب دہی کا راستہ اختیار کر رہا ہوں اور اب نظامِ حکومت کو چلانے کی ذمہ داری وزیراعظم‘ کابینہ اور پارلیمنٹ کی ہے جس کا میں بھی ایک حصہ ہوں۔ آیئے !ہم سب مل کر دستور کی بالادستی‘ قانون کی حکمرانی‘ اداروں کے استحکام اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اپنے اور قوم کے تمام وسائل کو دیانت اور محنت کے ساتھ استعمال کریں اور اس طرح ہم سب مل کر اس عظیم مشن کے حصول کے لیے تن‘ من ‘دھن سے سرگرم ہو جائیں۔
یہ تھی وقت کی اصل ضرورت!--- لیکن جنرل صاحب کی تقریر میں ہمیں کیا ملتا ہے--- چند دعوے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں‘ چند الزامات اور اتہامات جن کو انھوں نے خود اوڑھ لیا ہے۔ یہ کسی کی کوئی خدمت نہیں‘ اور کچھ وعظ و نصیحت‘ جس کا کوئی محل نہ تھا۔ اس تقریر سے قطعاً یہ اندازہ تک نہیں ہوتا کہ ملک میں انتخابات کے بعد کوئی نئی تبدیلی واقع ہوئی ہے‘ کوئی منتخب حکومت وجود میں آئی ہے‘ اس کا کوئی منشور اور مستقبل کا وژن ہے جسے حقیقت کا روپ دینے کے لیے اس کے پاس کوئی پروگرام ہے‘ کچھ اہداف ہیں‘ کچھ پالیسی کے خطوط کار ہیں‘ کوئی واضح نقشہ راہ ہے۔ قانون سازی کا کوئی ایجنڈا ہے۔ وزیراعظم‘ کابینہ‘پارلیمنٹ‘ منصوبے‘ پالیسیاں‘ قانون سازی--- ان سب کے ذکر سے تقریرخالی ہے۔ خارجہ پالیسی‘ معاشی پالیسی‘ تعلیمی پالیسی‘ صحت اور اجتماعی بہبود کے نشانِ راہ‘ اخلاقی اور نظریاتی تشکیلِ نو کے مسائل کا کوئی پرتو اس میں نظرنہیں آتا۔ وزیراعظم ظفراللہ جمالی کا تو وزنِ بیت کے لیے بھی نام تک نہیں آیا چہ جائیکہ انھوں نے وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد جو تقریر کی تھی اور اس میں ایک پروگرام اپنے کرنے کے کاموں کے عنوان سے قوم کے سامنے رکھا تھا اس کا کوئی جائزہ پیش کیا جاتا کہ کیا حاصل کیا جا سکا ہے اور کیا ابھی حاصل کرنا ہے۔ پوری تقریر ایک بالکل دوسری ہی wave length پر انڈیل دی گئی ہے اور ہمیں معاف رکھا جائے اگر عرض کریں کہ پوری تقریر پر خوف‘ دبائو اور ایک گونہ بے بسی کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی شدید دبائو میں خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کوئی وژن‘ کوئی حوصلہ‘ کوئی پیغام‘ کسی منزل کے نشان اس میں موجود نہیں--- یہ ایک سانحہ ہے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے‘ کم ہے۔
اس وقت بین الاقوامی سطح پر کئی بڑے اہم مسائل اور ایشوز پر دنیا کے سارے ہی ملک‘ اقوام اور اہلِ نظر گفتگو کر رہے ہیں۔ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد دنیا کے پورے سیکورٹی سسٹم کا نقشہ بدل گیا ہے۔ عالمی برادری نے جو کچھ دو سو سال کی جمہوری جدوجہد سے حاصل کیا تھا وہ معرض خطرمیں ہے۔ اقوامِ متحدہ کی حیثیت اور کردار کے بارے میں اقوامِ عالم پریشان ہیں‘ بین الاقوامی قانون کے مسلّمات تک کو غیرمحکم بنایا جا رہا ہے‘ بلاجواز آزاد اور خودمختار ممالک کو مختلف شکنجوں میں کسنے کی کوششیں ہو رہی ہیں‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر قانون‘ اصول‘ روایات سب پامال کیے جا رہے ہیں‘ ثبوت کے بغیر تعزیر کو رواج دیا جا رہا ہے‘ قیادت کی تبدیلی اور محض موہوم اور ناقابلِ التفات خطرات کے سہارے اقوامِ عالم پر فوج کشی کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ ان تمام حالات میں ایک آزاد ملک کا رویہ کیا ہو اور وہ کس طرح دوسرے تمام امن پسند اور خوددار ممالک کے ساتھ مل کر نئی عالمی سامراجیت کے چنگل سے خود بچنے اور دوسروں کو بچانے کے لیے کیا راستہ اختیار کریں۔ عالمی برادری کس طرح عوامی سطح پر بنیادی انسانی اقدار اور آزادیوں کے تحفظ کے لیے ہاتھ پائوں مار رہی ہے اور ورلڈ سوشل فورم کے انداز میں کس طرح عوامی سطح پر سامراجیت اور لاقانونیت کے خلاف انسان منظم ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں ایک آزاد ملک کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کو کیا راستہ اختیار کرنا چاہیے؟اس کا کوئی شعور جنرل صاحب کے خطاب میں نظرنہیں آتا۔
آج دنیا میں اس وقت جو تہذیبی کش مکش کا راگ الاپا جا رہا ہے اور اس کا ہدف کس طرح دنیابھر میں اسلام اور مسلمانوں کو بنایا جا رہا ہے؟ اس چیلنج کا ہم کس طرح مقابلہ کرسکتے ہیں؟ کیا دوسروں کے لیے لگائے ہوئے الزامات کو ہم خود اپنے سر منڈھ لیں اور دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اپنے تصورات اور عقائد تک کو قطع و برید کا نشانہ بنائیں یادلیل اور شرافت لیکن ہمت اور قوت کے ساتھ اپنے دفاع اور اپنے تصورات کی تشریح و توضیح کی خدمت انجام دیں۔ اس سلسلے میں بھی تقریر خاموش ہے اور کوئی وژن اور کوئی پیغام جنرل صاحب کی تقریر میں دُور دُور نظرنہیں آتا۔
دنیا کی اقوام پر عالم گیریت (گلوبلائزیشن) کے نام پر جو ظلم کیا جا رہا ہے‘ دولت کا ارتکاز جس طرح چند ملکوں اور چند ہاتھوں میں ہو رہا ہے‘ آزاد تجارت کے نام پر ترقی پذیر ممالک اور پس ماندہ اقوام کو جس طرح معاشی ترقی اور صنعت و حرفت کے میدانوں میں پیچھے دھکیلا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا چند سامراجی ممالک کی بالادستی کا شکار ہوکر ان کی چراگاہ بنتی جا رہی ہے‘ اس سے کیسے بچا جائے؟ ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں دولت کی نسبت جو ۱۹۵۰ء میں ایک اور تیس (۳۰:۱) تھی اور جو ۱۹۸۰ء تک ایک اور ساٹھ (۶۰:۱) ہوگئی تھی اب ایک اور پچاسی (۸۵:۱) تک پہنچ گئی ہے اس کا انجام کیا ہوگا؟ اور کیا وقت نہیں آگیا کہ سب مل کر ان حالات کو بدلنے کی سعی کریں اور ایک منصفانہ عالمی نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کریں۔ یہ سارے مسائل خارجہ پالیسی اور عالمی تعلقات کے دروبست کو ازسرنو منظم کرنے کا تقاضا کر رہے ہیں لیکن کیا ان کا کوئی احساس اور شعور ہماری قیادت کو ہے؟
ابھی سارک کانفرنس اسی اسلام آباد میں منعقد ہوئی ہے (۶ جنوری)۔ پاک بھارت تعلقات کے سلسلے میں ایک غیرمعمولی صورت حال رونما ہوئی ہے۔ بھارت‘ امریکہ اور اسرائیل کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ بالکل واضح ہے۔ علاقے میں بھارت کے ایک عالمی طاقت کے طور پر اُبھرنے اور اس کو اُبھارنے کے لیے بہت کچھ ہو رہا ہے۔ امریکہ نے بھارت کو اٹیمی اور میزائل ٹکنالوجی میں شریک کرنے کا اعلان کیا ہے اور یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر وہ این پی ٹی پر دستخط کردے توجو مقام امریکہ کی پالیسی میں اسرائیل کا ہے‘ وہی بھارت کو دیا جا سکتا ہے۔ ادھر روس سے دو بلین ڈالر کی دفاعی خریداری کی جا رہی ہے جس میں نیا ہوائی جہاز بردار پانی کا جہاز ایڈمرل گورشکوف اور مگ ۲۹کا ایک انبوہ شامل ہے جس سے علاقے کا توازنِ قوت شدید متاثر ہوا ہے۔ مگر یہ سب جنرل مشرف کی تقریر کا موضوع نہیںبن سکے۔ کیا یہ سب امور اس بات کے متقاضی نہ تھے کہ صدر کے خطاب میں ان کا احاطہ کیا جائے‘ تجزیہ کیا جائے‘ اور پارلیمنٹ کو نہ صرف اعتماد میں لیا جائے بلکہ پارلیمنٹ کو دعوت دی جائے کہ وہ اس سلسلے میں ضروری پالیسی خطوط کار مقرر کرے لیکن ان تمام معاملات کی کوئی پرچھائیں تک تقریر میں نظر نہیں آئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ۶جنوری اور ۱۷جنوری میں کوئی ربط و تعلق ہی نہیں۔
اسی طرح کشمیر کا مسئلہ جو ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اس کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ بس ایک جملے میں بھارت کے موقف کی اپنے الفاظ میں جگالی کر دی گئی ہے جو سہل انگاری کی انتہا ہے۔ پاک افغان تعلقات‘ پاک بھارت تعلقات‘ پاک چین تعلقات اور سب سے بڑھ کر خود پاک امریکہ تعلقات گہرے غوروفکر اور بحث و مباحثے کے محتاج ہیں۔ پاکستان نے یک طرفہ طور پر بھارت کو جو رعایتیں دی ہیں اور ان کا جو جواب ادھر سے ملا ہے کہ کشمیر میں تشدد بڑھ گیا ہے اور بھارتی فوج پوری بے خوفی کے ساتھ معصوم انسانوں اور آزادی کے متوالوں کے سروں کی فصل کاٹ رہی ہے‘ لائن آف کنٹرول پر لوہے کے کانٹوں کی باڑ لگا رہی ہے اور ہم کشمیریوں کی آزادی کی اس جدوجہد سے یک جہتی تک کا کوئی پیغام دینے سے گریزاں ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ ہو یا شیشان کا یا کوئی اور مسلم مسئلہ‘ ہم خاموش ہیں اور صرف واشنگٹن کے اشارہ چشم و آبرو پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ کیا اسی کا نام قومی مفاد کی پاسداری اور اولیت ہے؟
جنرل پرویز مشرف نے بڑی دیدہ دلیری سے دعویٰ کیا ہے کہ ’’قوم سے کیے گئے تمام وعدے پورے ہوگئے ہیں‘ جس میں حقیقی جمہوریت کا قیام شامل ہے‘‘۔ چوری اور سینہ زوری کی اس سے بڑھ کر بھی کوئی مثال ہو سکتی ہے؟ جمہوریت کی بحالی کی پہلی شرط دستور کی بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا قیام ہے۔ ۱۷ویں دستوری ترمیم کے ذریعے ملک کو دستور اور جمہوریت کے راستے کی طرف لانے کے لیے ایک قدم--- صرف ایک قدم--- اٹھایا گیا ہے لیکن پارلیمنٹ کااصل کام تو باقی ہے کہ فوجی دور کے ساڑھے تین سو قوانین اورفرامین کا جائزہ لے کر ان کو دستور اور جمہوری اصولوں کے مطابق بنائے۔اس کے لیے ایک ۱۲ رکنی کمیٹی کے قیام کا فیصلہ بھی پارلیمنٹ نے وزیراعظم کی تحریک پر کر لیا ہے مگر اس کا اور اس کے کرنے کے کام کاکوئی ذکر تقریر میں موجود نہیں حالانکہ جمہوریت کی بحالی کے لیے اس کی حیثیت فیصلہ کن ہے۔ اس کے بعد‘ جنرل صاحب کو فوج کی سربراہی سے جلد از جلد فارغ ہوکر پوری یکسوئی کے ساتھ سویلین صدر کی حیثیت سے دستور کے تحت اپنے فرائض انجام دینے کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ اختیارات میں جو عدمِ توازن پیدا کر دیا گیا ہے اسے دُور کیا جانا ہے تاکہ ملک کا ہر ادارہ بشمول فوج دستور کے مطابق اپنے اپنے دائرہ کار میں مصروفِ عمل ہو سکے۔
معیشت کے بارے میں بھی جو دعوے کیے گئے ہیں ان کو صرف جزوی طور پر ہی قبول کیا جاسکتا ہے۔ کلاں معاشی اشاریے (macro economic indicators) معیشت کی پوری تصویر پیش نہیں کرتے۔ وہ صرف ایک حصے کی عکاسی کرتے ہیں۔ دوسرے حصے بھی اتنے ہی یا اس سے بھی زیادہ اہم ہیں۔ اس وقت کیفیت یہ ہے کہ افراطِ زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ابھی اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے جو مالیاتی پالیسی بیان جاری کیا ہے (۲۰ جنوری ۲۰۰۴ئ) اس کی رو سے اگست ۲۰۰۳ء کے بعد افراطِ زر میں برابر اضافہ ہو رہا ہے اور خاص طور پر تیل‘ ٹرانسپورٹ اور سب سے بڑھ کر اشیاے خوردنی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ دسمبر ۲۰۰۲ء کے مقابلے میں دسمبر ۲۰۰۳ء میں گندم کی قیمت میں ۴.۱۹ فی صد‘ گوشت میں ۲۲ فی صد اور ترکاریوں میں ۵.۱۵ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح بے روزگاری جو دس سال پہلے لیبر فورس کے صرف ۳ فی صد تک محدود تھی اب بڑھ کر ۹ فی صد تک پہنچ گئی ہے اور غربت جو ۱۹۸۰ میں آبادی کے صرف ۲۰ فی صد کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھی‘ اب بڑھ کر ۴۰ فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ سرکاری اعداد وشمار میں بے شمار تضادات ہیں اور وزارتِ خزانہ ۳۲ اور ۳۳ فی صد کی آبادی کی غربت کی بات کر رہی ہے لیکن آزاد ماہرین تجارت اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک اور دوسرے بیرونی ادارے ۴۰ فی صد کی خبر دے رہے ہیں جو زمینی حقائق سے زیادہ قریب معلوم ہوتی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جنرل صاحب نے تصویر کا صرف ایک رخ پیش کر کے نہ اپنے ساتھ انصاف کیا ہے اور نہ قوم کے ساتھ۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنی تقریر میں جو سب سے بڑا ظلم اس قوم کے ساتھ کیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ ہمارے مخالف ہم پر جو الزامات اور اتہامات لگا رہے ہیں نہ معلوم کس مصلحت سے انھوں نے ان کو من و عن تسلیم کر کے خود اپنے اوپر اوڑھ لیا ہے۔ بجاے اس کے کہ ان اعتراضات کا بے لاگ جائزہ لیتے۔ ان میں اگر کسی حد تک کوئی بات درست تھی تو اس کی اصلاح کا پروگرام قوم کے سامنے رکھتے۔ ان میں جو باتیں صراحتاً غلط اور اتہام کا درجہ رکھتی ہیں ان کی بھرپور تردید کرتے اور اصل حقائق کو دلیل اور قوتِ بیان کے ساتھ پیش کرتے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ صدربش کے جھوٹ کے سیلاب میں جنرل صاحب بھی خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے ہیں۔ اگر امریکہ کے دائیں بازو کے بنیاد پرست (neo-cons) مسلمانوں کو دہشت گرد کہہ رہے ہیں تو جنرل صاحب بھی انھی کی آواز میں آواز ملانے لگتے ہیں۔ اگر اسرائیل اور بھارت اپنے وطن کی آزادی اور اپنے دین و ایمان اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگا دینے والوں کو دہشت گرد کہتے ہیں تو ہمارے صدرصاحب کی تقریر میں بھی انھی کی آواز بازگشت سنائی دیتی ہے حتیٰ کہ اب جو بات جنرل صاحب ۱۷جنوری کو کہی ہے توفوراً ہی ۱۸ جنوری کو اس کی داد ایڈوانی صاحب نے خوشی کے شادیانے بجا کر دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آگرہ میں جنرل صاحب نے یہ کہہ دیا ہوتا تو سارے معاملات کبھی کے طے ہوچکے ہوتے‘ یعنی ان کا قصہ ہی تمام ہوجاتا۔ سنیے‘ لال کشن ایڈوانی کرنال میں آل انڈیا فورسزکی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کیا فرماتے ہیں:
یہ بہت اچھا بیان ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ پاکستان کے اس موقف سے علاقے میں دہشت گردی کے پھیلائو کا روکنا یقینی ہوجائے گا۔ ان بیانات نے علاقے کی صورت حال کو یکدم بدل دیا ہے۔ جہاد یا کسی اور نام پر دہشت گردی کا مقابلہ تمام اقوام کو اجتماعی طور پر کرنا ہے۔ (دی نیوز‘ ۱۹ جنوری ۲۰۰۴ئ)
کل تک یہی جنرل صاحب فرماتے تھے کہ جنگِ آزادی اور دہشت گردی الگ الگ ہیں‘ جہاد کو کبھی دہشت گردی نہیں کہا جا سکتا اور کشمیر میں وہاں کے مظلوم مسلمان اپنے ایمان اور آزادی کے لیے استعماری تسلط (occupation)کے خلاف صف آرا ہیں۔ آج وہی مجاہد دہشت گرد بن گئے اور جو زبان واجپائی اور ایڈوانی استعمال کر رہے تھے وہ صدرِ پاکستان ۶ جنوری کے مشترکہ اعلامیہ کے بعد اب ۱۷ جنوری کے پارلیمنٹ سے خطاب میں بھی ارشاد فرما رہے ہیں اور اس پسپائی اور یوٹرن کا نام ’’حکمت ‘‘اور ’’لچک‘‘ رکھا گیا ہے۔
بھارتی‘ صہیونی اور امریکی انتہا پسند پاکستانی معاشرے کو غیرمعتدل اور پُرتشدد معاشرہ کہتے ہیں تاکہ ہمیں ناقابلِ اعتبار ٹھیرائیں اور ہمارے جوہری سرمایے کو غیرمحفوظ قرار دیں۔ جنرل پرویز مشرف صاحب بھی اپنی تقریر میں پاکستان کی وہی تصویر پیش کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے ہیں۔ اسلام بلاشبہہ اعتدال‘ امن اور اخوت کا مذہب ہے لیکن کون سا معاشرہ ہے جو انسانی کمزوریوں سے پاک ہے۔ کیا امریکہ میں تشدد‘ غنڈہ گردی اور عدم رواداری موجود نہیں۔ کیا رنگ‘ نسل زبان اور اندازِ بودوباش کی بنیاد پر وہاں انسانوں کے درمیان تمیز اور تفریق عام نہیں۔ کیا کالے امریکی جو امریکہ کی آبادی کا پانچواں حصہ ہیں اور ہسپانیہ اور میکسیکو سے آکر آباد ہونے والے لوگ جو اس وقت امریکہ کی آبادی کا ایک چوتھائی ہوچکے ہیں‘ اسی طرح برائون نسل کے لوگ--- کیا ان سب کے خلاف تعصب کا معاملہ نہیں کیا جا رہا؟ کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ آج امریکہ میں آبادی کے تناسب سے جیلوں میں محبوس لوگوں کی تعداددنیا کے بیشترممالک سے زیادہ ہے؟ نیز ان میں بھی کالے امریکی تعداد کے لحاظ سے آبادی میں اپنے تناسب سے دوگنا ہیں؟ کیا دنیا میں امریکہ سول آبادی میں سب سے زیادہ اسلحہ رکھنے والا ملک نہیں؟ اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کے سابق صدراور آئرلینڈ کی سابق صدر میری روبسن نے ابھی جنوری ۲۰۰۴ء میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکہ دنیا کا سب سے پُرتشدد (violent)ملک ہے۔
دنیا میں ۶۳۹ ملین کی تعداد میں چھوٹا اسلحہ ہے اور ۱۶ بلین بارودی یونٹ ہر سال استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ۴۰ فی صد یعنی ۲۵۰ ملین ہتھیار صرف امریکہ میں ہیں‘ جب کہ امریکہ کی آبادی دنیا کی آبادی کا صرف ۸.۵ فی صد یعنی ۶ فی صد سے بھی کم ہے۔ امریکہ کی گن لابی مضبوط ترین لابی ہے اور خود امریکی دستور کی ضمانت کا سہارا لیتی ہے۔ میری روبسن کہتی ہیں کہ ۱۱ستمبر کے بعد صورت حال اور بھی خراب ہوگئی ہے۔(دی نیوز‘ ۴ جنوری ۲۰۰۴ئ)
جنرل پرویز مشرف نے چار چیلنجوں کا ذکر کیا ہے جن پر کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ ’’سب سے پہلے تو منفی تاثرات کو کیسے زائل کیا جا سکتا ہے؟‘‘ پھر کمالِ سادگی سے وہ ہر منفی پروپیگنڈے کو‘ اس کی صحت و عدمِ صحت پر کلام کیے بغیر قبول کرلیتے ہیں اور اس کے خلاف جہاد کا علَم بلند کرنے کا اعلان فرما دیتے ہیں۔
ان کی نگاہ میں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ’’ہمیں اپنے سرحدی علاقوں میںایسے غیرملکی عناصر کے خلاف جو ہمارے ملک کے اندر اور افغانستان میں دہشت گردی کا باعث بن سکیں‘ بھرپور طاقت سے کارروائی کرنا ہوگی‘‘۔ سوال یہ ہے کہ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد جن مجبوریوں کے باعث بھی ہم نے امریکہ کا ساتھ دیا‘ کیا وہ اب ہمیشہ کے لیے ہمارے پائوں کی بیڑیاں بن گئی ہیں۔ آج ہر عرب القاعدہ ہے اور ہر افغانی طالبان بن گیا ہے۔ یہ امریکہ کا خبط (phobia) ہے جس کا نہ زمینی حقائق سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہمارے مصالح اور حالات سے اس کو کوئی نسبت ہے۔
عرب ہمارے اچھے دوست ہیں اور افغانی اور پاکستانی دین ‘ جغرافیہ‘ تاریخ اور ثقافت کے دیرینہ رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ ہم اپنے دوستوں کو دوسروں کی ناروا نازبرداریوں کی خاطردشمن بنانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔ افغانستان پر امریکی سامراجی فوج کشی کے لیے کندھا فراہم کرنے کا ہم نے یہ جواز دیا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور امریکہ ہمارا ساتھ دے گا‘ ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ ہوجائیں گے‘ افغانستان میں جو حکومت بنے گی وہ ہمارے مشورے سے بنے گی‘ شمالی اتحاد کو اقتدار نہیں دیا جائے گا اور علاقے میں ہمارا کردار بڑھے گا‘ افغانستان میں جنگ لمبی نہیں ہوگی بلکہ محدود اور مختصر وقت میں معاملات طے ہوجائیں گے--- لیکن ہوا کیا؟
افغانستان کے زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے امریکہ اپنے مقاصد کے لیے جو دروبست بنارہا ہے ہم تابع مہمل کی طرح اس کے آلہ کار بن رہے ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی جس ڈیونڈر لائن کی حفاظت نہیں کرسکتے ‘انھیں ہم سے اس کی حفاظت کرنے کے مطالبے کا کیا حق ہے؟ شمالی علاقہ جات کی ایک تہذیب اور روایات ہیں‘ اپنا نظام ہے اور قائداعظم نے پوری بالغ نظری سے اس انتظام کا اہتمام کیا تھا۔ آج ہم نے خود اپنی شمالی سرحدوں کو غیرمحفوظ بنا دیا ہے اور ۷۰ ہزار فوج وہاں تعینات ہے اور ایک دلدل میں پھنستی چلی جا رہی ہے--- اور کس کے فائدے کی خاطر؟ امریکہ کا حال یہ ہے کہ جنرل صاحب کی تعریف تو وہ ضرور کرتا ہے لیکن ہماری ہرخدمت اور چاکری کے بعد ھل من مزید کی پکار لگاتا ہے اور مزید کے لیے بلیک میل کرتا ہے۔ افغانستان میں بھارت کا اثر بڑھ رہا ہے اور ہم نے گذشتہ ربع صدی میں جو نیک نامی اور محبت و احترام حاصل کیا تھا‘ وہ خاک میں مل گیا ہے۔ کیا وقت نہیں آگیا کہ ہم ایمان داری سے افغانستان کے معاملات کو افغانوں پر چھوڑ دیں اور فی الحقیقت کسی قسم کی بھی مداخلت کا راستہ ترک کردیں۔ امریکہ سے صاف کہہ دیں کہ جو کچھ ہم کرسکتے تھے ہم نے کر دیا۔ اب آپ اور افغان عوام خود اپنے معاملات کو سنبھالیں۔ ہمارے لیے سب افغانی برابر ہیں اور ہماری زمین سب کے لیے امن اور اخوت کا گھر ہے۔ ہمیں نہ عربوں سے خطرہ ہے اورنہ افغانوں سے--- امریکہ کی خاطر ہم اپنے دوستوں کو دشمنوں کی صف میں کیوں دھکیل رہے ہیں؟
افغانستان ہو یا عراق‘ ان ممالک کے مسائل کا حل افغانستان اور عراق سے امریکی اور اس کے اتحادیوں کی فوجوں کی جلد از جلد واپسی اور وہاں کے لوگوں کا باہم افہام و تفہیم سے اپنے معاملات سنبھالنے میں ہے۔ ہم کسی بھی دھڑے کی تائید یا مخالفت نہ کریں اور ساری توجہ اپنے حالات کی اصلاح پر صرف کریں اور یہ معاملات پوری طرح شفاف انداز میں انجام پائیں۔ البتہ امریکہ کو یہ پیغام جلد جانا چاہیے کہ دہشت گردی کے انسداد کے نام پر جو دہشت گردی وہ دنیا بھر میں کرتا پھر رہا ہے اس کی ایک حد ہے۔ اب ہمارے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ’’ بہت ہوگیا!‘‘ (enough is enough)کی بنیاد پر خارجہ پالیسی میں نئی راہیں اختیار کریں۔
کشمیر کے حوالے سے ہمارے اوپر جو الزامات ہیں ان سے نبٹنے کا واحد راستہ کشمیر کا پُرامن اور منصفانہ حل ہے۔ اس سلسلے میں جو پیش رفت ہوئی ہے‘ اسے نیک نیتی کے ساتھ اور کشمیریوں کی امنگوں کے ساتھ حل کی طرف لے جانا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ الزام کیا ہے اور وہ کہاں تک درست ہے؟ یہ تو بھارت کی چال ہے کہ اس نے ریاست جموں و کشمیر پر جھوٹ اور دھوکے اور قوت کے ذریعے قبضہ کیا‘ اور اپنے سارے عہدوپیمان کو توڑ کر وہاں کے عوام کی امنگوں کا خون کر رہا ہے بلکہ ان کی رائے معلوم کرنے تک کی ضرورت کا منکر ہے۔ پاکستان اور تمام کشمیری خواہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ہوں‘ آزاد کشمیر میں ہوں‘ پاکستان میں ہوں یا دنیا کے کسی اور علاقے میں ہوں‘ اس کے فریق ہیں۔ مسئلہ کسی زمین کے ٹکڑے کا نہیں‘ سوا کروڑ انسانوں کے حق خودارادیت کا ہے جو بین الاقوامی قانون‘ اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور قراردادوں کے تحت ایک مسلّمہ حق ہے۔ کشمیر کی جنگِ آزادی ایک قومی تحریکِ مزاحمت ہے جس کے سیاسی اور عسکری دونوں پہلو ہیں اور جو ان کا حق ہیں۔ اقوامِ متحدہ کا چارٹر آزادی کی جنگ کے حق کو تسلیم کرتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس حق کو تسلیم کیا ہے۔ غیر جانب دار ممالک کے چارٹر نے اسے مانا ہے۔ ابھی حال ہی میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پاکستان ہی کی قرارداد کے ذریعے عظیم اکثریت سے ایک بار پھر اس حق کا اعادہ کیا ہے۔ اس جدوجہد کی تائید ہمارا قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی حق ہی نہیں‘ فرض بھی ہے۔ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں تازہ ترین معلومات کے مطابق ۸۷ ہزار ۶ سو ۷۸ افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں سے ۶ ہزار ۷ سو کو زیرحراست شہید کیا گیا ہے۔ ۹ہزار سے زیادہ دخترانِ کشمیر کی اجتماعی آبروریزی کی گئی ہے اور ایک لاکھ سے زائد مکانات‘ باغات اور دکانیں مسمار کی جا چکی ہیں۔ لائن آف کنٹرول کے ساتھ آہنی کانٹوں کی باڑ لگائی جا رہی ہے اور جس طرح سیاچن پر قبضہ کر کے شملہ معاہدے میں کیے جانے والے status quo تبدیل نہ کرنے کے معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی ہے اسی طرح باڑ لگا کر نئی خلاف ورزی کی جا رہی ہے؟
پاکستان نے اپنی اصولی پوزیشن کو جس پر قومی اتفاق رائے تھا‘ بیرونی دبائو کے نتیجے میں تبدیل کردیا ہے اور مسلسل پسپائی اختیار کر رہا ہے۔ ہمارا موقف تھا کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے سوا کوئی حل ممکن نہیں‘ اس سے ہم ہٹ گئے ہیں۔ ہمارا دعویٰ تھا کہ یہ سہ فریقی مسئلہ ہے اور پاکستان‘ بھارت اور کشمیر کے نمایندے ہی بات چیت کا حق رکھتے ہیں‘ اس سے بھی ہم ہٹ گئے ہیں۔ پھر ہماری حکمت عملی تھی کہ بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانا‘ کشمیر کے مرکزی اور محوری مسئلے (core issue) کے حل کے بغیر ممکن نہیں۔ اب ہم بھارت کے موقف پر آگئے ہیں کہ پہلے تعلقات کی بحالی اورکشمیر پر بات چیت بھی (چہ جائیکہ مسئلے کاحل) بعد میں! اور سب سے بڑھ کر اب جنگِ آزادی‘ جہادِ کشمیر اور دہشت گردی کے فرق کو بھی ہم بھول گئے ہیں جس کا پرچار ہم آگرہ تک کرتے رہے ہیں اور جنرل صاحب نے خود بھارت کے میڈیا کے سامنے جرأت سے اس موقف کو پیش کیا تھا۔ لیکن اب کارگل کی پسپائی کی طرح وہ ہر محاذ سے پسپائی اختیار کر رہے ہیں اور کشمیر کے مجاہدوں اور سیاسی تحریک کو جو پیغام دے رہے ہیں وہ انتہائی مایوس کن ہی نہیں‘ قومی مفادات کے یکسرمنافی ہے۔
جنرل صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ انصاف اور حق کے حصول کے لیے بھیک نہیں مانگی جاتی۔ یہ تاریخ کا سبق ہے جو قوم اپنے حق کے حصول کے لیے قربانی اور جدوجہد کا راستہ ترک کردیتی ہے‘ اپنی آزادی کی حفاظت کے لیے کمربستہ نہیں ہوتی اور جو دشمن کے ہر مطالبے کے آگے سرتسلیم خم کر دیتی ہے وہ اپنی آزادی کا تحفظ بھی نہیں کر سکتی اور محکومی اور غلامی اس کا مقدر ہوجاتی ہے۔
اگر بھارت کشمیر کے مسئلے پر مذاکرات کے لیے کسی درجے میں تیار ہوا ہے‘ تووہ کشمیریوں کی جنگِ آزادی اور قربانیوں کی وجہ سے ہوا ہے‘ کسی انصاف پسندی اور دوست نوازی کی وجہ سے نہیں۔ اگر یہ دبائو باقی نہیں رہتا تو کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکے گا۔پھر جس طرح ہم کشمیری عوام کو مایوس کر رہے ہیںاورمحض دوطرفہ انداز میں معاملات کو نمٹانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ وہ نہایت غیرحقیقت پسندانہ ہے۔ اگر ہندستان کی ہزارسال کی تاریخ اور کشمیر پر مذاکرات کی ۵۶سال کی داستان سامنے رہے‘ تو اس سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ جس نیک نیتی کی بات جنرل صاحب کر رہے ہیں وہ بھارتی قیادت کے طریق اور اس کے تاریخی کردار سے مکمل اغماض پر مبنی ہے اور ایسی ہی نیک نیتی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کا انجام تباہی ہوتا ہے۔ (Hell is paved with good intentions)
جوہری ہتھیاروں کے عدمِ پھیلائو کے بارے میں جنرل صاحب نے بیرونی الزام اور دبائو کا ذکر کیا ہے۔ ہم ان کے اس اعلان کا تو خیرمقدم کرتے ہیں کہ پاکستان اپنی ایٹمی صلاحیت کی حفاظت کرے گا اور اسے مزید ترقی دے گا۔ آزادی اور عزت کی حفاظت کا یہی راستہ ہے لیکن عملاً جس کمزوری کا مظاہرہ وہ اور ان کی حکومت ایٹمی سائنس دانوں کے سلسلے میں عالمی ایٹمی ایجنسی (IAEA) کے نام نہاد خط کے باب میں کر رہی ہے وہ نہایت تشویش ناک اور شرمناک ہے۔ پاکستان کسی این پی ٹی کا رکن نہیں اور اس پر کوئی قانونی پابندی نہیں۔ امریکہ کے ذریعے جو جوہری پھیلائو دنیا میں ہوا ہے وہ ایک کھلا راز ہے۔ جرمنی‘کینیڈا‘ فرانس نے اپنے اپنے ممدوحین کے لیے جو کچھ کیا ہے‘ وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ہم آخرکیوں ہر چیز اپنے اوپر اوڑھ لیں اور اپنے ہی قومی ہیروز کی بے عزتی پر تل جائیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ایران کے نائب وزیرخارجہ اور کرنل قذافی کے صاحبزادے سیف الاسلام خود کہہ رہے ہیں کہ ہم نے پاکستان یا کسی مسلمان ملک کا نام نہیں لیا اور ہم ہیں کہ امریکی‘ صہیونی اور بھارتی پروپیگنڈے سے خائف ہوکر اپنی ہی جڑوں پر کلہاڑی چلانے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ ڈی بریفنگ کس بلا کا نام ہے؟ اپنے معزز سائنس دانوں سے آپ شرافت سے بات چیت کرسکتے ہیں۔ گرفتاریاں‘ راتوں کو گھروں سے اٹھانا‘ اہلِ خانہ سے ربط و تعلق کی اجازت نہ دینا‘ آپس میں مشورہ اور وکیل تک رسائی کے انسانی حق سے محرومی--- یہ کس مہذب معاشرے کے طور طریقے ہیں۔ یہ راستہ ایٹمی قوت کے استحکام کا نہیں‘ اس کو تباہ کر دینے کا ہے اور قوم کسی کو اس کی اجازت اور موقع نہیں دے گی۔
معاشرے میں انتہا پسندی اور عدمِ اعتدال کے الزام کو بھی جنرل صاحب نے ایک چیلنج کی حیثیت سے پیش کیا ہے اور یہاں بھی وہ خود انصاف اور توازن کی راہ اختیار نہیں کرسکے۔ اسلام ہے ہی اعتدال کا نام اور اس امت کو قرآن نے اُمت وسط ہی قرار دیا ہے۔ ہر معاشرے میں کچھ نہ کچھ بے اعتدالی رونما ہوتی رہتی ہے اور اس کا علاج تعلیم و تلقین‘ اچھی مثال‘ آزاد مکالمے و مجادلے اور افہام و تفہیم ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ اس کے لیے بگاڑ کی تشخیص اور اس کے اسباب کو رفع کرنا بھی ضروری ہے۔ پھر جہاں ایسی چیزیں کچھ خاص سیاسی‘ گروہی‘ علاقائی‘ لسانی یا فرقہ وارانہ مفادات کی بنا پر ظہورپذیر ہوں وہاں‘ ان تمام حالات کا ادراک اور اصلاح ضروری ہے۔ پاکستان میں ملّی یک جہتی کونسل اور متحدہ مجلسِ عمل نے یہی راستہ اختیار کیا اور الحمدللہ حالات کو مثبت انداز میں متاثر کیا۔ بات سخت ہے لیکن حقیقت ہے کہ تشدد مسلکی نام پر ہو یا لسانی اور نسلی‘ اس کو طرح دینے میں ملکی ایجنسیوں اور بیرونی سازشوں کا بڑا دخل ہے اور یہ تمام معلومات سرکاری ریکارڈ میں ہیں اور پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کے سامنے پیش کی جانے والی شہادتوں اور پریس میں طبع ہونے والی معلومات کی بنیاد پر مستند (authenticated) ہیں۔ اس مسئلے پر بھی نہ الزام کو آنکھیں بند کرکے اپنے سر اوڑھنے کی ضرورت ہے اور نہ خرابی جتنی ہے اور جن وجوہ سے ہے ان کو نظرانداز کرنا ہی صحیح ہے۔ خود جنرل صاحب کو جس طرح نشانہ بنایا گیا ہے اس کے بارے میں قوی خدشہ ہے کہ یہ کام ان لوگوں کا ہے جو ان کو‘ فوج کو‘ اور حکومت کو دینی اور جہادی قوتوں کے خلاف برسرِکار کرنا چاہتے اور ملک میں فساد اور تصادم کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان تمام پہلوئوں کونظرانداز کرکے بس انتہاپسندی کے خلاف جہاد کی باتیں کرنا بڑی سطحی بات ہے اور معکوس نتائج دے سکتی ہے۔ اصول پرستی اور انتہاپسندی میں فرق اسی طرح ضروری ہے جس طرح جہاد اور دہشت گردی ہیں۔
یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ مغربی میڈیا میں پاکستانی معاشرے میں تشدد کی بات کو حد اور تناسب سے بڑھا کر (out of proportion) پھیلانے اور اس کا ڈھول پیٹنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ پاکستانی قوم کو غیرذمہ دار ثابت کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ دعویٰ کرسکیں کہ ہماری ایٹمی صلاحیت قابلِ اعتماد ہاتھوں میں نہیں۔ یہ بڑا خطرناک کھیل ہے اور ہمیں اس سے باخبر ہونا چاہیے اور کسی ایسے جال میں نہیں پھنسنا چاہیے۔ اصلاحِ احوال ضروری ہے‘ مگر حقائق کو ہر مبالغے سے محفوظ رکھتے ہوئے۔
اگر ان چند افسوس ناک واقعات کی بنیاد پر جو پاکستان میں ہوئے ہیں‘ اس ملک اور اس کے معاشرے کو انتہاپسند اور تشدد پر مبنی قرار دیا جا سکتا ہے تو پھر بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے اور صرف کشمیر ہی نہیں ۱۶ دوسری آزادی کی تحریکوں کو کچلنے کے لیے کیا جا رہا ہے‘ مسلمانوں‘ دلت اورعیسائیوں کو جس طرح قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور پوٹا (POTA) جیسے قوانین کے ذریعے ہزاروں انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے‘ اسے کیا کہیں گے۔ بات صرف بھارت تک محدود نہیں‘ امریکہ کے معاشرے کا کیا حال ہے۔ کیا وہاں امریکی دہشت پسند گروہوں کی کمی ہے؟ Ku Klux Klanسے لے کر اوکلاہاما کی تباہ کاری کے ذمہ دار گروہوں تک کا انکار کیا جا سکتا ہے؟ کیا امریکہ میں ہر آٹھ منٹ پر ایک قتل نہیں ہوتا؟ کیا امریکہ کے اہم ترین شہروں میں سڑکیں ہی نہیں‘ گھربلکہ ہوٹل تک محفوظ ہیں؟ جو بھی فائیوسٹار ہوٹلوں میں ٹھیرے ہیں‘ جانتے ہیں کہ وہاں جاتے ہی ہوٹل کا عملہ اپنی حفاظت آپ کرنے کے لیے کیا کچھ ہدایات نہیں دیتا۔ لاطینی امریکہ کے ملکوں کا حال تو اور بھی تباہ ہے لیکن کسی ملک کا سربراہ اس طرح اپنے ملک میں تشدد اور بے اعتدالی کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتا اور یہ تاثر نہیں دیتا کہ اس کا ملک انتہاپسندی اور تشدد کے فروغ کا ذریعہ بن رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ایک پُرامن ملک ہے اور اگر کچھ ناخوش گوار واقعات یہاں ہوئے ہیں‘ تو وہ خاص حالات کی پیداوار ہیں جن میں بیرونی ہاتھ اور ایجنسیوں کے کردار سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ بلاشبہہ جو بھی کمزوری ہمارے ملک میں ہے اس کی اصلاح کی ضرورت ہے اور اس کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا لیکن محض دوسروں کے کہنے پر ایسے الزامات کو اوڑھ لینا اور انھیں حقیقت سمجھ کر پورے معاشرہ اور ملک کو بدنام کرنا‘ یہ دشمنوں کا کھیل ہے جس میں ہمیں کسی کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے۔
جس طرح جنرل پرویز مشرف نے اس پوری بات کو چیلنج قرار دے کر پیش کیا ہے‘ وہ مصنوعی ہے اور حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
پاکستان کی فوج قوم کا قیمتی اثاثہ اور دفاع وطن کے باب میں ہماری متاع ہے لیکن جنرل پرویز مشرف نے فوج کے بارے میں بھی جو اندازِ بیان اختیار کیا ہے‘ اسے صحت مندقرار نہیں دیا جا سکتا۔ فوج کی خدمات بیش بہا ہیں اور ہم سب کو ان پر فخر ہے لیکن فوج تنقید و احتساب سے بالا نہیں اور فوجی قیادت نے سیاست میں مداخلت کر کے اور ہماری تاریخ کے ۵۶ برسوں میں سے تقریباً نصف مدت ملک کے سیاہ و سفید کا مالک ہو کر جو غلطیاں کی ہیں اور ان کے نتیجے میں جو تباہ کاریاں واقع ہوئی ہیں ان کی ذمہ داری سے فوج کی ان قیادتوں کو کیسے بری قرار دیا جاسکتا ہے جو اقتدار پر قابض تھیں۔
اس مسئلے کے دو پہلو ہیں: سپریم کورٹ کا فیصلہ چشم کشاہے۔ دوسرا پہلو فوج کی عظیم خدمات اور دفاع وطن کے لیے قربانیاں ہیں لیکن اس کے ساتھ انسانی سطح پر کچھ اہم میدانوں میں فوجی قیادتوں کی غلطیاں بلکہ بھیانک غلطیاں بھی ایک حقیقت ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ فوج کی بحیثیت ادارہ تحفظ اور قدرومنزلت کے ساتھ انفرادی فوجی اقدامات یا اجتماعی کوتاہیوں پر احتساب بھی کیا جاتا ہے اور اسے غلط محرکات اور فوج کو بدنام کرنے کے نام پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ صحیح راستہ درمیان کا راستہ ہے۔ فوج بھی باقی سب اداروں کی طرح محترم ہے اور اس کا احتساب بھی قانون کی بالادستی کا ایک حصہ ہے۔ کوئی بھی مقدس گائے نہیں اور کسی کو بھی قانون سے بالا ہونے کا مقام نہیں دیا جا سکتا۔
فوج کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مکمل طور پر صرف دفاعِ وطن کے لیے مخصوص ہو اور سیاست میں دراندازی کر کے اپنے کو متنازع نہ بنائے۔ اور اگر فوج سیاست میں دخیل ہوگی تو پھر اس کا بھی اسی طرح جائزہ لیا جائے گا جس طرح سیاسی جماعتوں‘ عناصر اور قیادتوں کا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نگاہ میں اس وقت ملک کو جو اہم اندرونی چیلنج درپیش ہیں‘ ان میں ایک یہ بھی ہے کہ کسی طرح جلد از جلد فوج کو صرف دفاع وطن کی ذمہ داری کے لیے مخصوص کر دیا جائے اور اس کے سیاسی کردار کو ختم کیا جائے تاکہ وہ متنازع نہ بنے اور قوم کے احترام اور تعاون کی مستحق رہے۔
ایک بڑا اہم پہلو سیاسی استحکام‘ سیاسی اداروں کا مؤثر ہونا‘ اور قوم کو اعتماد میں لے کر اندرونی سیاسی مضبوطی کا حصول ہے۔ جنرل صاحب نے استحکام کے دو ستونوں‘ یعنی فوج اور معیشت کا ذکر تو کیا ہے لیکن تیسرے ستون‘ یعنی سیاسی استحکام‘ حقیقی جمہوریت کا مؤثر اور معتبر ہونا‘ قانون کی حکمرانی اور انصاف پر مبنی نظام کا فروغ اور چوتھے ستون‘ یعنی نظریاتی‘ اخلاقی اور تہذیبی تشخص کی مضبوطی کا ذکر نہیں کیا۔ قومیں اپنے نظریات اور اپنے عزائم کی بنیاد پر بڑے بڑے معرکے سر کرتی ہیں اور بڑی بڑی آزمایشوں کا مقابلہ کرتی ہیں۔ اخلاقی قوتیں مادی قوتوں کی تقویت کا باعث ہوتی ہیں اورمادی قوت اخلاقی اور نظریاتی قوت اور استحکام کے بغیر اپنی اصل استعداد کو حاصل نہیں کر سکتی۔ اس لیے اندرونی محاذ کی مضبوطی کے لیے معاشی اور دفاعی قوت کے ساتھ ساتھ سیاسی اور جمہوری استحکام اورنظریاتی اور تہذیبی محاذ کی تقویت ازبس ضروری ہے۔ ان میں سے کسی ایک کوبھی نظرانداز کرنا مہلک ہو سکتا ہے۔ سیاسی‘ معاشی‘ دفاعی ہر میدان میں نشیب و فرازممکن ہیں اور تاریخی حقیقت ہیں لیکن اصل فیصلہ کن قوت ایمان‘ نظریاتی اعتماد‘ اخلاقی قوت اور مستقبل کا وژن ہے۔ جنرل صاحب کی تقریر میں یہ دوسرے پہلو مفقود ہیں‘ جب کہ سیاسی ‘ معاشی اور دفاعی میدان میں تسلسل اور بقا کے لیے یہ فیصلہ کن ہیں۔ جنگیں عسکری ہوں یا نظریاتی‘ ان کا اصل انحصار قومی ارادے (national will) اور خودی کی قوت پر ہوتا ہے اور اگر یہی پہلو ہمارے پالیسی ساز افراد اور اداروں کے سامنے نہ ہوں تو اس سے بڑا المیہ ممکن نہیں۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ قوم کو تیار کیا جائے اور فیصلے افرادنہ کریں بلکہ ادارے کریں اور قوم کے عزائم اور امنگوں کی روشنی میں کریں۔ خوف کے تحت کیے جانے والے فیصلے صرف پسپائی اور شکست پر ہی منتج ہوسکتے ہیں‘ کبھی بھی فتح کی نوید نہیں لا سکتے۔
آخر میں ہم پارلیمنٹ کے ارکان سے یہ استدعا کرتے ہیں کہ پارلیمانی روایات کے مطابق صدر کے خطاب پر دونوں ایوانوں میں مفصل بحث ہونی چاہیے اور جن امور کا انھوں نے ذکر کیا ہے اور جن سے وہ پہلوتہی کرگئے ہیں‘ان سب پر پوری تیاری کے ساتھ بات ہونی چاہیے تاکہ پارلیمنٹ ملکی اور غیرملکی مسائل کی روشنی میں کوئی نقشہ راہ قوم اور حکومت کے سامنے پیش کرسکے۔ آج جس طرح اسلام‘ دینی مدارس‘ جہاد اور قومی اقدار و روایات کو پوری دنیا میں نشانۂ تنقید بنایا جا رہا ہے‘ اس کا تقاضا ہے کہ پورے تدبر اور تحمل لیکن مکمل اعتماد کے ساتھ اپنے موقف کو پیش کیا جائے۔ اگر ہمارے عمل میں کوئی خرابی اور کمزوری ہے تو اس کی اصلاح کی بھی پوری فکر کی جائے لیکن محض پرائے شگون پر ناک کٹوانے کی حماقت کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ اقبال اور قائداعظم نے جس یقین‘ تدبر اور بالغ نظری سے اسلام اور مسلمانوں کے مقدمے کو پیش کیا اور بالآخر مقدمہ جیت گئے اسی طرح آج بھی اپنے مقدمے کو پیش کرنے اور اپنی قوم کو تیار کرکے حالات کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دشمن کو گالی دینے سے کام نہیں چلے گا لیکن دوست اور دشمن میں صحیح صحیح تمیز کے بغیر بھی ہم اپنے مفادات کا تحفظ اور اپنے مقاصد کا حصول نہیں کرسکتے۔ ۱۹۳۰ء کے تاریخی خطبے میں علامہ اقبال نے بڑی پتے کی بات کہی تھی جس کا ادراک آج اور بھی ضروری ہے۔ انھوں نے کہا تھا:
ایک سبق جو میں نے تاریخِ اسلام سے سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ آڑے وقت میں اسلام ہی نے مسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا ہے۔ مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہیں کی‘ اسلام نے مسلمانوں کی حفاظت کی ہے۔ اگر آج آپ اپنی نگاہیں پھر اسلام پر جما دیں اور اس کے حیات بخش تخیل میں رچ بس جائیں تو آپ کی منتشر اور پراگندہ قوتیں ازسرِنو جمع ہو جائیں گی اور آپ کا وجود ہلاکت و بربادی سے محفوظ ہوجائے گا۔
تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان اسی جدوجہد کا ثمرہ ہے۔ آج پھر اسی سبق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ قائداعظم نے اسی کے سہارے پاکستان بنا دیا اور ہم اسی کے سہارے پاکستان کی حفاظت کرسکتے ہیں اور ترقی کی منزلیں طے کر سکتے ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کے معزز ارکان اور خود صدر صاحب کو قائداعظم کے وژن کی یاد دہانی کرا دی جائے تاکہ آگے کے سفر کے بارے میں ان کا دکھایا ہوا راستہ ایک بار پھر ہماری نگاہوں کے سامنے ہو۔ ۱۹۴۸ء میں مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ کراچی سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسدِواحد کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس اُمت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے؟ وہ رشتہ وہ چٹان‘ وہ لنگرخدا کی کتاب قرآنِ کریم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے‘ ہم میں زیادہ سے زیادہ اعتماد پیدا ہوتا جائے گا… ایک خدا‘ ایک رسولؐ، ایک کتاب‘ ایک اُمت۔
اس وقت میدانِ سیاست میں ہندو مسلمانوں کی جنگ ہو رہی ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ فتح یاب کون ہوگا۔ علمِ غیب خدا کو ہے لیکن میں ایک مسلمان کی حیثیت سے علی الاعلان کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہم قرآن مجید کو اپنا آخری اور قطعی رہبر بناکر شیوہ صبر و رضا پر کاربند ہوجائیں اور اس ارشادِ خداوندی کو کبھی فراموش نہ کریں کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں تو ہمیں دنیا کی کوئی طاقت یا کئی طاقتیں مل کر بھی مغلوب نہیں کرسکتیں۔ ہم تعداد میں کم ہونے کے باوجود فتح یاب ہوں گے جس طرح مٹھی بھر مسلمانوں نے ایران و روم کی سلطنتوں کے تحت الٹ دیے تھے۔
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو قانون عطا کرنے والے پیغمبراسلامؐ نے ہمارے لیے بنایا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں۔
ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطۂ حیات پر عمل کرنا ہے جو پیغمبراسلامؐ نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہییں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور وسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔
اقبال اور قائداعظم کا وژن بالکل واضح ہے‘ کیا ہم اس وژن کے مطابق پاکستان کی تعمیرکے لیے جدوجہد کرنے اور اس جدوجہد کا حق ادا کرنے کے لیے تیار ہیں؟
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ میں ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مصروف تھا۔ جب میں نے کام کر لیا اور سمجھا کہ اب فارغ ہوگیا ہوں تو یہ سوچ کر کہ اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم قیلولہ فرمائیں گے‘ میں آپؐ کے پاس سے باہر نکل آیا۔ بچے کھیل رہے تھے‘ میں ان کا تماشا دیکھنے کے لیے کھڑا ہوگیا۔ اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ بچوں کو سلام کیا‘ پھر مجھے بلایا اور کسی کام سے بھیجا۔ وہ راز دارانہ کام تھا۔ میں نے وہ کام کیا اور آپؐ کے پاس آگیا۔ اپنی والدہ صاحبہ کے پاس دیر سے پہنچا۔ والدہ نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی۔ میں نے بتلایا کہ رسولؐ اللہ نے کام سے بھیجا تھا۔ والدہ نے پوچھا کس کام سے؟ میں نے عرض کیا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا راز ہے۔ میں رسولؐ اللہ کے راز کی حفاظت کروں گا۔ حضرت انسؓ نے اپنے شاگرد حضرت ثابت سے کہا کہ میں نے وہ راز ابھی تک کسی کو نہیں بتلایا۔ اگر میں کسی کو بتلاسکتا تو تجھے بھی بتلا دیتا۔ (بخاری ‘ادب المفرد)
کسی کے راز کی حفاظت خوش گوار معاشرتی زندگی کا اہم اصول ہے۔ بڑے تو بڑے‘ ایک بچے کو بھی اس کی اہمیت کا اتنا احساس ہے کہ ساری عمر اس نے راز کو راز ہی رکھا‘ حتیٰ کہ والدہ اور دوست کو بھی نہ بتایا۔
حضرت عثمان بن ابی العاصؓ سے روایت ہے‘ جب ثقیف کا وفد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آیا تو میں بھی اس میں شامل تھا۔ نبی کریمؐ کے دروازے پر پہنچ کر ہم نے اپنے ’’حلّے‘‘ (لباس) زیب تن کیے۔ پھر سواریوں کی نگرانی زیربحث آئی کہ کون یہ کام کرے گا۔ سارے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے بے تاب تھے۔ پیچھے رہنے کے لیے کوئی تیار نہ تھا۔ حضرت عثمانؓ کہتے ہیں کہ میں ان سب میں چھوٹا تھا۔ میں نے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں اونٹنیوں کی نگرانی اس شرط پر کرتا ہوں کہ جب آپ لوگ واپس آئیں گے تو میری اونٹنی کوپکڑیں گے تاکہ میں بھی آپؐ سے ملاقات کا شرف حاصل کر لوں۔ کہنے لگے ٹھیک ہے۔ تمام لوگ چلے گئے۔ واپس آئے تو کہنے لگے: چلو۔ میں نے کہا: کدھر؟ کہنے لگے: اپنے گھروں کی طرف واپس۔ میں نے کہا کہ میں اپنے گھر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے تک آپہنچا ہوں۔ اب ملاقات کے بغیر واپس ہوجائوں؟ تم لوگوں نے میرے ساتھ جو وعدہ کیا تھا وہ یاد نہیں ہے؟ کہنے لگے تو پھر جلدی ملاقات کر کے آجائو‘ ملاقات سے زیادہ کسی سوال و جواب کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے ساری باتیں پوچھ لی ہیں۔ اس لیے آپ کو کسی مسئلے اور بات چیت کی حاجت نہیںہے۔
میں حاضر خدمت ہوا۔ عرض کیا : یارسولؐاللہ! میرے لیے دعا کیجیے کہ اللہ مجھے دین کی گہری سمجھ عطا فرمائے اور دین کے علم سے نوازے۔ آپؐ نے فرمایا: تم نے کیا کہا؟ اپنی بات کو دہرائو۔ چنانچہ میں نے اپنی بات دہرائی۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: تم نے مجھ سے وہ چیز مانگی ہے جو تمھارے ساتھیوں میں سے کسی نے نہیں مانگی۔ جائو تم ان کے امیر ہو اور اپنی قوم کے ان تمام لوگوں کے امیر ہو جو تمھارے پاس آئیں۔ (مجمع الزوائد ‘ج۹‘ ص ۳۷۱)
اس حدیث سے قوموں کی قیادت کا بنیادی اصول بڑی خوب صورتی سے واضح ہوگیا ہے۔ جب مسلمان علم کے میدان میں پیچھے ہوگئے تو دنیا کی قیادت بھی ان کے ہاتھ سے نکل گئی۔ آج بھی سربلندی کا راز یہی ہے کہ ملت کے قائدین اور نوجوان علم میں برتری کی منصوبہ بندی کریں اور وسائل اور صلاحیتیں اس پر لگائیں۔
دیکھیے کہ سب سے کم عمر کو ہی یہ سمجھ تھی کہ اس نے آپؐ سے دین کا فہم اور علم کی فرمایش کی اورکم عمری کے باوجود اس بنا پر آپؐ نے اسے اپنی قوم کا امیر بنا دیا۔
حضرت عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف پیغام بھیجا کہ تیاری کرو‘ اپنے کپڑے اور ہتھیار لے لو اور میرے پاس پہنچو۔ میں تیاری کر کے آیا تو آپؐ نے فرمایا: میں ایک لشکر کا امیربناکر تمھیں بھیجنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ تمھیں سلامت رکھے‘ غنیمت عطا کرے۔ میری پسندیدہ خواہش ہے کہ تمھیں مال ملے۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں مال کی خاطر مسلمان نہیں ہوا بلکہ صرف اسلام کی طرف رغبت اور رسولؐ اللہ کی معیت کی سعادت حاصل کرنے کی خاطر مسلمان ہوا ہوں۔ اس پر آپؐنے فرمایا: بہترین مال بہترین مدد ہے‘ صالح آدمی کے لیے۔ (طبرانی‘ مجمع الزوائد‘ ج ۹‘ ص ۳۵۳)
جذبۂ خیر اور خلوصِ نیت کی اپنی اہمیت ہے لیکن وسائل کے بغیر کام نہیں ہوتے۔ مال کی وجہ سے آدمی خود بھی حرکت کرتا ہے اور دوسروں سے بھی کام لیتا ہے۔ ایمان والوں اور نیک لوگوں کے پاس مال ہو تو وہ ایمان و اسلام اور خیرکے کاموں کو فروغ دیتے ہیں اور برائیوں کو مٹانے کے لیے کامیاب جدوجہد کرتے ہیں۔ معاشی حالت اچھی ہو تو غلبۂ دین کی جدوجہد تیز ترکی جاسکتی ہے‘ اور مساجد ومدارس‘ ہسپتال اور رفاہی ادارے قائم کیے جا سکتے ہیں‘ اور اس کے ساتھ دوسری سہولتیں بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس لیے رزق حلال کی طلب‘ اسلام کے لیے مخلصانہ جذبات اور اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص نیت کے منافی نہیں ہے۔ دین دار لوگوں کو اپنی معاشی حالت کو بہتربنانے سے بے فکر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بات سمجھنا چاہیے کہ معاشی حالت کا مضبوط ہونا‘ دین داری کے منافی نہیں ہے۔
حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات اپنے پہلو کے نیچے کھجور کا ایک دانہ پایا تو اسے تناول فرما لیا۔ پھر آپؐ کو ساری رات بے چینی کی وجہ سے نیند نہ آئی۔ ایک زوجہ مطہرہ نے عرض کیا: آپؐ ساری رات بیدار رہے‘ اس کا کیا باعث بنا؟ آپؐ نے فرمایا: میں نے اپنے پہلو کے نیچے سے ایک کھجور پائی تو اسے کھالیا۔ اس کے بعد مجھے خیال آیا کہ ہمارے ہاں صدقے کی کھجوریں بھی تھیں۔ مجھے ڈر لاحق ہوگیا کہ کہیں یہ کھجور صدقے کی نہ ہو۔ (احمد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہمارا ایمان ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماں باپ‘ اولاد اور جان سے زیادہ عزیز رکھنا ایمان کا تقاضا ہے اور آپؐ کی محبت کا تمام محبتوں پر غالب ہونا جزو ایمان ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم آپؐ کے اسوۂ حسنہ کے فیض سے اپنے آپ کو محروم رکھے ہوئے ہیں۔ آج اگر نبیؐ کے اس اسوۂ حسنہ کو پیشِ نظر رکھا جائے تو حرام سے بچنے کے لیے ہماری نیندیں حرام ہو جائیں۔ صدقہ کی ایک کھجور کے شک نے آپؐ کی نیند ختم کی لیکن یہاں دن رات اربوں کھربوں کی حرام خوری نہ صرف قائم ہے بلکہ اسے معاشی ترقی کے لیے ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ تب نبیؐ سے ہم کس قدر دُور اور شیطان سے کس قدر قریب ہیں۔ اس کا اندازہ خود ہی کرلیجیے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا‘ جس نے شراب پی تھی۔ آپؐ نے اس پر حد جاری کرنے کا حکم صادر فرمایا اور حاضرین سے کہا : اسے مارو۔ ہم مارنے لگے۔ کسی نے ہاتھ سے‘ کسی نے جوتے اور کسی نے کپڑے کے کوڑے سے مارا۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: اسے ڈانٹ ڈپٹ کرو۔ مسلمان اسے ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے۔ کسی نے کہا: تو نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کا خیال نہ کیا؟ کسی نے کہا: تجھے اللہ سے ڈر نہ آیا۔ جب ایک آدمی نے کہا: اللہ تجھے رسوا کرے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روک دیا۔ فرمایا: اسے بددعائیں دے کر اس کے خلاف شیطان کی اعانت نہ کرو۔ اس کے بجاے دعائیں دو۔ یوں کہو: اے اللہ! اس کی بخشش فرما‘ اے اللہ! اس پر رحم فرما۔ (ابوداؤد بحوالہ مشکوٰۃ)
مجرم کو اس کے جرم کی سزا ملنی چاہیے۔ جرم سے روکنے کے لیے سزا دینا ضروری ہے لیکن سزا دینے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ عدلیہ‘ انتظامیہ اور عام لوگ اس کے ساتھ ہمدردی‘ حسن اخلاق اور عزت کا سلوک کریں۔ ایسی صورت میں مجرم اپنی اصلاح کرے گا‘ وہ حیا سے کام لے گا اور معاشرے کا باعزت فرد بننے کی کوشش کرے گا۔ لیکن اس کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا جائے‘ اسے گالیاں دی جائیں‘ کوسا جائے اور حوالات میں ذلت آمیز طریقے سے رکھا جائے تو اس کے اندر مجرمانہ ذہنیت پرورش پائے گی۔ شیطان اس کے اندر انتظامیہ کے خلاف دشمنی کے جذبات کو پرورش دے گا جس کے نتیجے میں وہ تائب ہونے کے بجاے جرم کو اپنا پیشہ بنا لے گا۔ آج کل کی انتظامیہ اور عدلیہ یہی کچھ کر رہی ہے۔ ایک مرتبہ جو آدمی پولیس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے عادی مجرم بن جاتا ہے۔ انتظامیہ شیطان کی معاونت کر رہی ہے اور لوگوں کے ساتھ توہین آمیز رویے نے عوام اور انتظامیہ کے مابین عداوت پیدا کر دی ہے۔
محبت کا لفظ کتنا خوب صورت ہے۔ جب ہمیں محبت ملتی ہے‘ چاہے وہ والدین کی ہو‘ شوہر کی ہو‘ بچوں کی ہو یا دوستوں کی‘ تو فوراً دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے اور اُس میں اطمینان اور سکون پیدا ہوتا ہے۔
لیکن --- ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اس محبت کا ماخذ کیا ہے؟ محبت کا یہ جذبہ ہمارے لیے لوگوں کے دلوں میں کس نے ڈالا۔ شاید اپنی زندگی میں آپ نے کبھی یہ محسوس کیا ہو کہ جب آپ بہت غمگین ہوں اور اک دم کوئی شخص‘ بالکل غیر متوقع طور پر آپ کے ساتھ اتنی اچھی طرح پیش آئے‘ یا ایسی کوئی بات کہہ جائے جو آپ کو مسرور کر دے اور آپ سوچتے رہ جائیں کہ یہ کیسے ہو گیا۔ کبھی آپ کے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ بات ایک ایسی ہستی نے‘ اس شخص سے کہلوادی جسے آپ کا خیال ہے اور جو ہر لمحہ آپ کو دیکھ رہا ہے۔
یہ ساری محبتیں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی دی ہوئی ہیں۔ پھرسوچیے کہ جو ان سب محبتوں کا سرچشمہ و منبع ہے وہ کتنا محبت کرنے والا ہو گا اور کیا ہم بھی اس سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں جتنی وہ ہم سے کرتا ہے۔ ہم سب اپنے آپ کو ٹٹول کر دیکھیں کہ ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا کیا مقام ہے۔ حضرت جابرؓ سے ایک حدیث روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: جو یہ جاننا چاہتا ہے کہ اللہ کے نزدیک اس کا مقام کیا ہے‘ وہ یہ دیکھے کہ اللہ کا مقام اس کے نزدیک کیا ہے؟
شاید اس محبت سے دور ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آج کے دور میں اسلام کی جو تصویر پیش کی جاتی ہے اس میں زیادہ تر اللہ تعالیٰ کے عذاب کاذکر ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ احساس بھی اللہ تعالیٰ سے محبت کا باعث ہے۔اگر ایسا نہیں کرو گے تو جہنم کی آگ میں جلو گے‘ جنت کے دروازے تم پربند کر دیے جائیں گے‘ وغیرہ وغیرہ۔ ہم کو ان سب باتوں سے اتنا خوف آنے لگتا ہے کہ ہم سوچتے ہیں کہ ان چیزوں سے دور ہی رہیں تو بہتر ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ تو ایسے نہیں ہیں۔ انھوں تو ہمارے لیے یہ نہیں چاہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے یہ دنیا بنائی اور طرح طرح کی نعمتیں ہمارے لیے نازل کیں۔
کبھی آپ اس کائنات کی خوب صورتی پر غورکریں۔کبھی آنکھیں بند کر کے سوچیں کہ آپ کسی اونچے پہاڑ پر کھڑے ہیں‘ ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے اوپر نیلا آسمان ہے‘ پرندے چہچہا رہے ہیں‘ پیروں تلے نرم نرم گھاس ہے‘ پھولوں کی خوشبو ہے اور جہاں تک نظر جائے لہلہاتے کھیت ہیں‘ پانی کے جھرنے ہیں--- کتنا خوب صورت اور سکون بخش ہے یہ منظر! یہ ساری خوب صورتی اللہ تعالیٰ نے انسان ہی کے لیے تو بنائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تمام چیزوں کو ہمارے لیے مسخر کر دیا ہے۔ جس طرح ہم چاہیں ان کو استعمال کر سکتے ہیں۔ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ ہم اس کے ہو جائیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں امتحان کے لیے بھیجا ہے۔ یہ دنیا ایک عارضی جگہ ہے۔ یہاں پر ہم جس طرح کے عمل کریں گے اسی طرح کا اللہ تعالیٰ ہمیں بدلہ دے گا۔ گویا اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ انسان اس کی عبادت کرے‘ صرف اس لیے کہ وہ اس کو انعام اور نعمتوں سے نواز دے۔ دنیا اور آخرت میں اس کی پریشانیوں اور مشکلات کو دُور کردے تاکہ نہ وہ کبھی خوف زدہ ہوں اور نہ غمگین۔ قرآن پاک میں آتا ہے:
بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَ ھُوَ مُحْسِنٌفَلَـہٓٗ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُونَ o (البقرہ۲: ۱۱۲)
جو بھی اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں سونپ دے اور عملاً نیک روش پر چلے اس کے لیے اس کے رب کے پاس اس کا اجر ہے۔ اور ایسے لوگوں کے لیے کسی خوف یا رنج کا کوئی موقع نہیں ہے۔
ہم سوچتے ہیں کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ نہ ہمیں کوئی خوف ہو اور نہ کوئی غم؟ اس کی وضاحت ہمیں حدیث سے ملتی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا:’’بیشک اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے بندے کا‘ میرے عاید کردہ فرائض کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرنا مجھے باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔ میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ اور جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے۔ اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے۔ اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے۔ اور اس کا پائوں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اور مجھ سے کوئی سوال کرتا ہے تو میں اسے وہ دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے کسی چیز سے پناہ مانگے تو میں ضرور اسے پناہ دیتا ہوں۔ (بخاری)
جب ہم اللہ کے لیے ہو جاتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ ہمارا خاص مددگار بن جاتا ہے ۔ ہمارے اعضا اور جوارح کی حفاظت کرتا ہے اور انھیں اپنی نافرمانی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیتا اور ہمارے دل کو ہر نعمت جو اس نے ہمیں عطا کی ہے‘ اس پر راضی کر دیتا ہے۔ استغنا کی دولت سے مالا مال کر دیتا ہے۔ ہمارے پاس جو ہے اس پر ہم راضی اور خوش ہو جاتے ہیں۔
حدیث قدسی ہے: ’’اے آدم کے بیٹے! تو اپنے آپ کو پوری طرح میری بندگی کے لیے فارغ اور مطمئن کردے‘ میں تیرے دل کو بے فکری کی دولت سے بھردوں گا اور فقر اور محتاجی کے سوراخوں کو بند کردوں گا‘‘(ابن ماجہ)۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:’’جو صرف آخرت کی فکر کرے ‘اللہ تعالیٰ اس کے دل کو غنی کر دیتا ہے۔ اس کے الجھے ہوئے کاموں کو سلجھا دیتا ہے اور اس کے پاس دنیا بھی آتی ہے مگر ناک رگڑتی ہوئی‘‘۔(ترمذی)
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کریں۔ وہی تو ایک ہستی ہے جو ہماری محبتوں کی قدر کرے گا اور ایسی قدر جو ہمیں دنیا کے کسی شخص سے نہیں ملتی۔ والدین ہم سے بے لوث محبت کرتے ہیں لیکن ان سے بھی ہمیں شکایت رہتی ہے۔ اس کے بعد شوہر سے امیدیں وابستہ ہوتی ہیں اور شوہر کوبیوی سے اور پھردونوں کو اولاد سے۔ ہم ان سب سے محبت کرتے ہیں اور یہ توقع رکھتے ہیں کہ یہ ہمارے لیے وہی کچھ کریں گے اور ہم کو اتنی ہی محبت دیں گے جتنی ہم نے ان کو دی ہے۔ لیکن کبھی نہ کبھی‘ کسی نہ کسی وقت ہماری یہ امیدیں پوری نہیں ہوتیں۔ کبھی شوہر سے اتنی محبت نہیں ملتی تو ہم اپنی اولاد پر ساری محبت نچھاور کر دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ تو ہماری قدر کریں گے۔ لیکن اگر انھوں نے بھی نہیں کی تو پھر ؟؟ اس طرح ہماری زندگی خوف اور غم میں گزر جاتی ہے۔
وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ ط (الطلاق۶۵:۳)
جو اللہ پر بھروسا کرے اس کے لیے وہ کافی ہے۔
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَo (البقرہ۲:۱۸۶)
اور (اے نبیؐ) جب میرے بندے تم سے میرے متعلق سوال کریں‘ تو (کہہ دیجیے کہ) میں قریب ہوں۔ میں دعا مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے مانگتا ہے۔ تو انھیں چاہیے کہ مجھے پکاریں اورمجھ پر ایمان لائیں ‘ تاکہ وہ ہدایت پا جائیں۔
وہ ذات تو ہمیں ہر چیز دینے پر قادر ہے لیکن ہم پکارتے ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اتنے قریب ہیں‘ اتنی محبت کرنے والے ہیں لیکن ہم ان سے غافل رہتے ہیں۔ آخر کیوں؟
حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: ’’میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں‘ اور میں اس کے ساتھ ہوں‘ جہاں بھی وہ مجھے یاد کرے۔ اور جو ایک بالشت میرے قریب ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں ۔جو ایک ہاتھ میرے قریب آتا ہے تو میں دوہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں۔ اور جب وہ میری طرف چلتا ہوا آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑتا ہوا آتا ہوں‘‘۔محبتوں کے اظہار میں ہم جھجکتے ہیں کہ پتا نہیں دوسرے شخص کے دل میں کیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی اپنے بندوں کو بتا دیا ہے کہ بس تم چل کر آئو اور میں بھاگ کر تمہیں اپنی پناہ میں لے لوں گا۔
اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم دوسروں سے محبت کرنا چھوڑ دیں۔ جب اللہ تعالیٰ سے محبت ہوتی ہے تو پھر اس کے سب بندوں سے بھی محبت ہوتی ہے۔ ہم کسی انسان کو حقارت یا تکبر سے نہیں دیکھتے کیوں کہ وہ بھی اللہ کا بندہ ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی ہم سے یہی چاہتے ہیں کہ ہم سب سے نرم دلی اور شفقت سے پیش آئیں اور سب کے حقوق خوش اسلوبی سے ادا کریں۔ لیکن یہ سب ہم صرف اور صرف اللہ کے لیے کریں اور اس لیے نہیں کہ وہ شخص بھی ہمیں اس کے بدلے میں کچھ دے گا۔ اگر اس نے دے دیا تو یہ بھی اللہ ہی کا کرم ہے اور نہیں دیا تو بھی ہم خوش ہیں۔ زندگی کتنی پرسکو ن ہو جاتی ہے جب بھروسا صرف اللہ پر ہو اور امیدیں صرف اللہ ہی سے وابستہ ہوں۔
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ط (البقرہ ۲:۱۶۵)
ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔
بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ ہوں گی وہ ان کی بدولت ایمان کی لذت اور مٹھاس محسوس کرے گا۔یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اسے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہو۔یہ کہ وہ کسی آدمی سے صرف اللہ کے لیے محبت رکھے۔اور یہ کہ وہ دوبارہ کفر میں لوٹنے کو‘جب کہ اس سے اللہ نے اس کو بچالیا اس طرح برا سمجھے جیسے آگ میں ڈالے جانے کو وہ برا سمجھتا ہو‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ اگر تمھاری محبت میرے لیے ہو گی تو میں لوگوں کے دلوں میں بھی تمھارے لیے محبت پیدا کر دوںگا۔ بے شک دلوں کا پلٹنا بھی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا o (مریم ۱۹:۹۶) ’’یقینا جو لوگ ایمان لائے ہیں اور عمل صالح کر رہے ہیں عنقریب رحمن ان کے لیے دلوں میں محبت پیدا کر دے گا‘‘۔ تو پھر کس وجہ سے ہم رکے ہوئے ہیں؟ شاید دل میں یہ خیال آتا ہے کہ اتنے گناہ ہو گئے ہیں۔ اب اللہ سے رجوع کرنے کا کیافائدہ‘ اب تو بہت دیر ہو گئی ہے۔ لیکن یہ سب شیطان کے ہتھکنڈے ہیں۔ وہ چاہتا ہی نہیں کہ ہمیں کوئی کامیابی حاصل ہو۔ وہ تو جلا بھنا بیٹھا ہے اور حسد کا شکار ہے کہ انسان کو یہ مقام اللہ تعالیٰ نے کیوں عطا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں :
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُالذُّنُوْبَ جَمِیْعًاط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ o (الزمر۳۹:۵۳)
(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو‘ جنھوںنے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائو‘ یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ وہ تو غفور و رحیم ہے۔
ترمذی کی حدیث ہے۔ حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے انسان! جب تک تو مجھے پکارتا رہے گا اور مجھ سے اچھی امید رکھے گا میں تجھے بخشتا رہوں گا۔ چاہے تیرے عمل کیسے ہی ہوں‘ میں پرواہ نہیں کروں گا۔ اے ابن آدم اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک پہنچ جائیں‘ پھر تو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں تجھے بخش دوں گا۔ اے آدم کے بیٹے اگر تو میرے پاس زمین بھر گناہوں کے ساتھ آئے اور تو مجھے اس حال میں ملے کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھیراتا ہو گا تو میں تیرے پاس زمین بھر بخشش لے کر آئوں گا۔ اس لیے کبھی بھی کسی وقت بھی اگر ہم سچے دل سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیں تو اللہ تعالیٰ کبھی بھی ہمیں ناامید نہیں کریں گے۔
دوسری بات جو ہمیںاللہ سے رجوع کرنے سے روکتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ہو گئے تو دنیا چھوڑنی پڑے گی۔ یہ بھی بالکل غلط خیال ہے۔ اسلام ہی تو ایسا ایک دین ہے جس نے روحانیت اور مادیت دونوں کو یکجا کیا ہوا ہے۔ دین اور دنیا ساتھ لے کر چلنے کو کہا گیا ہے۔ صرف عبادت ہی نہیں ‘دنیا کے ہر کام انسان کو کرنے ہیں‘ بس نیت اللہ کے لیے ہونی چاہیے۔ جیسے اگر آپ رشتہ داروں سے ملیں تو یہ سوچ کر ملیں کہ اللہ تعالیٰ نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے‘ اس لیے یہ میں اس کی رضا کے لیے کر رہا ہوں۔
ہمیں یہ خیال بھی آتا ہے کہ اتنے ضابطے اور پابندیاں ہوں گی۔ ہم تو کر ہی نہیں سکتے۔ یہ ہمارے بس کی بات نہیں۔ لیکن ہم یہ بھی تو سوچیں کہ یہ ضابطے اور پابندیاں ہماری بھلائی کے لیے بنائے گئے ہیں‘ جیسے ہمارے والدین بھی ہمارے اوپر کچھ پابندیاں لگاتے ہیں۔ اس وقت وہ ہمیں بڑی مشکل اور دشوار لگتی ہیں اور کبھی کبھار سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے والدین ایسا کیوں کررہے ہیں۔ لیکن بعد میں احساس ہوتا ہے کہ ہمارے والدین نے جو بھی کیا وہ ٹھیک ہی کیا۔ اس طرح جب والدین اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگواتے ہیں اس وقت دیکھ کر لگتا ہے کہ بچوں پرکتنا ظلم ہو رہا ہے۔ بچہ چیخ رہا ہے‘ چلا رہا ہے‘ لیکن ماں باپ ہیں کہ بے دردی سے اسے پکڑ کر ٹیکہ لگوادیتے ہیں۔ والدین ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اسی لیے کہ بچوں کی بیماری کا علاج ہو اور بعد میں بھی ان کے بچے مہلک بیماریوں سے محفوظ رہیں۔
پھر اللہ سے رجوع میں لوگوں کا خوف ہمارے آڑے آتا ہے۔ ہم سوچتے ہیںکہ لوگ کیا کہیں گے۔ ہماری جو عزت دنیا میں بنی ہوئی ہے وہ ختم ہو جائے گی۔ یہ سب ہمارا وہم ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی اس بات پر یقین کیوں نہیں کرتے جو اس نے قرآن پاک میں فرمائی ہے:
قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَـآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَـآئُ ز وَتُعِزُّ مَنْ تَشَـآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَـآئُط بِیَدِکَ الْخَیْرُ ط اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ o (اٰل عمرٰن۳: ۲۶)
کہو‘ خدایا‘ ملک کے مالک‘ تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کردے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ بندے سے محبت فرماتا ہے تو جبریلؑ کو بتلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے پس تو بھی اس سے محبت کر۔ پس جبریلؑ بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پھر جبریل ؑ آسما ن والوں میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو۔پس آسمان والے اس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں۔ پھر اس شخص کے لیے زمین میں بھی قبولیت رکھ دی جاتی ہے (یعنی دنیا میں بھی وہ مقبول و محبوب ہو جاتا ہے)۔ (بخاری و مسلم)
نیکی کا جذبہ ہر انسان کے دل میں ہوتا ہے لیکن دنیا کی رنگینیاں ہمیں سب کچھ بھلا دیتی ہیں اور ہم سوچتے ہیں کہ ابھی تو وقت ہے بعد میںکر لیں گے۔ موت تو برحق ہے کسی وقت‘ کسی لمحے بھی آ پہنچے گی اور اس وقت ہم سے یہ موقع چھن جائے گا‘ نہ ہم اس کو ایک لمحہ بڑھا سکیں گے اور نہ پیچھے کر سکیں گے‘ اس لیے ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ جتنا بھی وقت ہمیں ابھی مل رہا ہے اس کو پوری طرح استعمال میں لائیں‘ پتا نہیں کب کس وقت اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا لمحہ آ جائے۔
اللہ تعالیٰ کی قربت کیسے حاصل ہو گی؟ جب ہم اللہ کا وہ پیغام پڑھیں گے جو اس نے ہمارے لیے بھیجا ہے۔ دنیا میں کوئی محبت کرنے والا ہمیں خط بھیجے تو کیسی بے چینی ہوتی ہے کہ کب ہم اس کو کھول کر پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں ایک پوری کتاب بھیجی ہے۔ اسے تو ہم نے بس سجا کر رکھ دیا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کو اپنی کتاب سے یہی مقصود تھا۔ اس نے تو اپنے بندوں کے لیے یہ کتاب بھیجی تاکہ اس کے ذریعے وہ ان کی زندگیاں آسان کر دے۔ ان کو بتا دے کہ دل کا سکون اور اصل خوشی کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔ لیکن ہم لوگوں نے اس کو خوب صورت غلافوں میں بند کر کے رکھا ہوا ہے اور یہ توفیق ہی نہیں ہوتی کہ ہماری آسانیوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو بات لکھی ہے اس کو پڑھ کر اور سمجھ کر ہم دیکھیں۔ اسی طرح اللہ کو یاد کرنے سے اور اس کا ذکر کرنے سے دلوں کو سکون پہنچاتا ہے۔ اَلاَ بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُo ’’خبردار رہو‘ اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے‘‘۔ (الرعد ۱۳:۲۸)
قرآن کو پڑھنا‘ اس کے ذریعے اپنے رب کو پہچاننا‘ اس کی صفات کو جاننا‘ یہ سب اللہ کا ذکر ہی تو ہے۔پھر ہم سوچتے ہیں کہ اگر قرآن پڑھیں گے تو پھر اس کے احکام کی بھی پیروی کرنی پڑے گی۔ اس لیے نہ پڑھو اور نہ پکڑ ہو گی‘ کیا واقعی ایسا ہو گا؟ اگر آپ کا امتحان ہو اور آپ کو پتا ہو کہ امتحان تو ہونا ہی ہے اور پھر آپ کے استاد آپ کو کتاب لا کر بھی دے دیں کہ اگر تم یہ کتاب سمجھ لو گے تو امتحان میں کامیاب ہو جائو گے ۔ مگر آپ کتاب کو لے کر بیٹھ جائیں اور یہ سوچیں کہ یہ پوری کتاب تو آپ یاد کر ہی نہیں سکتے‘ اس سے اچھا ہے کہ اس کو نہ پڑھیں۔ کیا ایسے میں آپ کے استاد آپ کو پاس کر دیں گے؟ وہ تو کہیں گے کہ کوشش تو کی ہوتی پھر میں دیکھ لیتا ‘کچھ نہ کچھ کر کے شاید تمھیں پاس کر دیتا۔ پھر کتنا افسوس ہو گا۔ جتنا یاد کر سکتے تھے اتنا تو کر لیتے‘ کتنی بیوقوفی کی ہم نے!
ہمارا یہی رویہ قرآن کے ساتھ ہے۔ ہمیں پتا ہے کہ یہ دنیا ایک امتحان ہے اور آخرت میں اس امتحان کے نتیجے کا اعلان ہو گا لیکن ہم کوشش ہی نہیں کرتے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ تو اتنے مہربان ہیں‘ وہ تو دلوں کا حال جانتے ہیں‘ وہ تو یہی دیکھیں گے کہ کس نے کتنی کوشش کی اور کس کی نیت میں کتنا اخلاص تھا۔
وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَسَعیٰ لَھَا سَعْیَھَا وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعْیُھُمْ مَّشْکُوْرًا o (بنی اسرائیل۱۷: ۱۹)
اورجو آخرت کا خواہش مند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے اور ہو وہ مومن تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہو گی۔
آخرت میں اجر ہمیں اپنی کوششوں کا ملے گا۔ دنیا کے امتحان میں تو حتمی نتیجہ دیکھا جاتا ہے۔ کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ کس شخص نے کتنی کوشش کی ۔مثال کے طور پر اگر ایک بچہ بہت محنت کرے اور بڑی مشکل سے پڑھائی کرے اور دوسرا بچہ جسے پڑھائی کے لیے تمام آسایشیں میسر ہوں تو ہو سکتا ہے کہ دوسرے بچے کے نمبر زیادہ آئیں‘جب کہ اس کی بہ نسبت پہلے بچے نے زیادہ کوشش کی ہو۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہماری کوشش دیکھیں گے۔ اور اجر اسی کے مطابق عطا کریں گے۔ بس پھر ہم تھوڑی کوشش کر کے تودیکھیں۔ اللہ تعالیٰ خود ہی ہماری مدد کرنے کو تیار ہیں۔
کیوں نہ ہم سب آج سے یہ عزم کریں کہ اللہ تعالیٰ کی قربت اور رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے‘ اس کے پیغام کو سمجھیں گے‘ اور اللہ تعالیٰ ہی سے مدد مانگیں گے کہ وہ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق دے اور ہماری کوششوں کو قبول فرمائے اور ہمیں ہمیشہ اس راستے پر رکھے جو اس کے نزدیک پسندیدہ ہو ۔ جب اللہ تعالیٰ کی مدد ساتھ ہو گی تو پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اس امتحان میں ناکام ہو جائیں۔ ہم ضرور سرخرو ہوں گے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میںبھی۔ ان شاء اللہ
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَنْ یُحِبُّکَ وَحُبَّ کُلِّ عَمَلٍ یُقَرِّبُنِیْ اِلٰی حُبِّکَ -
اے اللہ! میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور اس شخص کی محبت کا بھی جو تجھ سے محبت رکھتا ہے‘ اور ہرایسے عمل سے محبت کا خواستگار ہوں جو مجھے تیری محبت کے قریب کر دے۔
اَللَّھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَفْسِیْ وَ اَھْلِیْ وَمَالِیْ وَوَلَدِیْ وَمِنَ الْـمَائِ الْـبَارِدِ عَلَی الظَّمَأِ -
اے اللہ! اپنی محبت کو میرے ہاں‘ میرے اہل و عیال‘ میرے مال و دولت اور پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب فرمادے۔
اَللَّھُمَّ ارْزُقْنِیْ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَنْ یَّنْفَعُنِیْ حُبُّہٗ عِنْدَکَ‘ اَللَّھُمَّ مَارَزَقْتَنِیْ مِمَّا اُحِبُّ فَاجْعَلْہُ قُوَّۃً لِّیْ فِیْمَا تُحِبُّ۔ اَللَّھُمَّ مَازَوَیْتَ عَنِّیْ مِمَّا اُحِبُّ فَاجْعَلْہُ فَرَاغاً لِیْ فِیْمَا تُحِبُّ -
اے اللہ! مجھ کو اپنی محبت عطا کر اور اس شخص کی محبت دے جس کی محبت مجھے تیرے نزدیک ہونے میں فائدہ دے۔ اے اللہ! جو تو نے مجھے عطا کیا ہے جس سے میں محبت کرتا ہوں تو اس کو میرے ان کاموں کے لیے قوت کا سبب بنا دے جن سے تو محبت رکھتا ہے۔ اے اللہ! جو تو نے مجھ سے لے لیا ہے جس سے میں محبت کرتا ہوں تو اس کو میرے ان کاموں کے لیے فراغت کا باعث بنا جس سے تو محبت کرتاہے۔
سادہ الفاظ میں قیادت‘ اس صلاحیت اور کردار کا نام ہے جس کے ذریعے آپ لوگوں کو مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے اپنے ساتھ لے کر چل سکیں‘یعنی وہ آپ کے کہے کو ماننے لگیں۔ اس حوالے سے روزمرہ زندگی پر غورکریں تو آپ محسوس کریں گے کہ یہ ایک فطری جذبہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو ودیعت کیا ہے۔ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کی بات مانیں اور درحقیقت اسی جذبے کے نتیجے میں انسانی زندگی آگے بڑھتی ہے۔ جس معاشرے یا گروہ میں یہ جذبہ مفقود ہو جائے اس کے آگے بڑھنے کا عمل رک جاتا ہے۔
اسی بات کو اس مشاہدے کی روشنی میں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ کسی بھی مقام پر اور کسی بھی مجلس میں‘ جہاں ایک سے زائد لوگ موجود ہوں‘ وہاں کوئی نہ کوئی قائد ہوتا ہے اور باقی لوگ پیچھے چلنے والے ہوتے ہیں‘ یعنی ایک آدمی وہ ہوتا ہے جس کی بات مانی جاتی ہے اور باقی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس کی بات مان رہے ہوتے ہیں‘ اور اس میں کسی کا عمر میں چھوٹا یا بڑا ہونا بھی اہم نہیں ہے۔
لوگ کسی کی بات کیوں مانتے ہیں؟ اس کے عوامل کچھ بھی ہوں،لیکن قیادت اور اُس کے پیچھے چلنے والوں میں یہی تعلق ہوتا ہے۔ قیادت فیصلہ کرتی ہے اور لوگ اس کے پیچھے چل رہے ہوتے ہیں ۔ یوں قیادت کا یہ تصور منصب کے بجاے ایک کردار کی نشان دہی کرتا ہے۔ ایسا کردار جو رہنمائی اور نشان دہی کر سکے کہ کس سمت میں جانا ہے، کس رفتار سے جانا ہے‘ اور کس تیاری کے ساتھ جانا ہے‘ اور یہ کردار انسانی زندگی کی ایک فطری ضرورت ہے۔ انسانوں کے جس گروہ میں اس طرح سے رہنمائی کے لیے قیادت موجود نہ ہو، اس گروہ میں بحران، انتشار اور تصادم ناگزیر ہے۔
قیادت کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر اللہ کے رسولؐ نے بھی یہ بات سمجھائی ہے کہ دو آدمی ہوں اور کسی جنگل میں بھی سفر کر رہے ہوں، تب بھی اپنے میں سے ایک کو قائد بنالیں۔ اس لیے کہ ’’قائدانہ کردار‘‘ کی ضرورت بار بار پیش آئے گی، اختلاف رائے ہو گا، یہ سوال پیدا ہو گا کہ کیسے اور کس سمت آگے بڑھا جائے؟ قائدانہ کردار متعین ہو گا تو ان امور میں فیصلہ کرنے کا عمل بہ حسن و خوبی مکمل ہو جائے گا۔ اس طرح قیادت ایک اسلامی تصور ہے۔
متعدد دوسری تعلیمات بھی ہمیں یہ احساس دلاتی ہیں کہ قیادت تو خالص اسلامی تصور ہے، جسے انسانی زندگی میں نظر انداز کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ نبیؐ کی یہ حدیث کہ: تم میں سے ہرایک راعی ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا‘ اسی جانب اشارہ کرتی ہے۔ یہ وہی بات ہے کہ آپ گھر میں ہوں، کسی مجلس میں ہوں، دفتر میں ہوں، سکول یا کالج میں ہوں، کوئی نہ کوئی راعی ہو گا، اور باقی اس کی رعیت۔
قیادت کے تصور پر اس حوالے سے بھی غور کیجیے کہ نبیؐ سے بڑا قائد کون ہو گا؟ ہمارا تو یہ ایمان ہے کہ اس دنیا میں انسانوں کی رہنمائی کے لیے آنے والے سب سے بڑے لیڈر اللہ کے نبیؐ تھے اور رہتی دنیا تک وہی سب سے بڑے لیڈر ہیں۔ اگر وہ سب سے بڑے قائد ہیں تو کیا قائد یا لیڈر ہونا نامطلوب قرار پائے گا؟ نہیں‘بلکہ یہ تومسلمان ہونے کا ایک اہم تقاضا قرار پائے گا۔ کیونکہ یہ نبیؐ کی سنت کا ایک حصہ ہو گا اور جب اس کو سنت نبویؐ کا ایک حصہ سمجھا جائے تو جس فرد کو قیادت کے مقام پر فائز کردیا گیا‘ اسے دراصل نبیؐ کی ان تمام سنتوں کو قائم کرنے کا موقع ملا ہے جو آپؐ نے قائد کی حیثیت سے ادا کیں۔ سنت نبویؐ کو ایک اور انداز میں آگے بڑھانے کا موقع تو اس کے لیے ایک سعادت ہے، کہ وہ نبی ؐ کی ان سنتوں پر بھی عمل کرسکے جو قیادت کے منصب پر فائز نہ ہونے والے لوگ نہیں کر سکتے۔
قیادت کے متعدد پہلوؤں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قرآن مجید کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے تو دراصل اسے ایک خاص دائرے میں‘ دیگر تمام مخلوقات پر فیصلہ کن حیثیت دے دی ہے۔ خلیفہ کی یہ حیثیت دراصل قیادت ہی کی ایک صورت ہے۔
قیادت سے متعلق ان تصورات کو سامنے رکھا جائے تو اس بارے میں کوئی غلط فہمی نہیںہونی چاہیے کہ قیادت سے گریز یا فرار کوئی موزوں طرز عمل نہیں ہے۔ بلاشبہہ قائد کی ذمہ داری اور جوابدہی زیادہ ہے لیکن درحقیقت کسی فرد کو قائدانہ کردار ادا کرنے کاموقع ملتا ہے تو یہ اس مفہوم میں بھی اس کے لیے سعادت ہے، کہ اسے صدقہ جاریہ کا موقع دستیاب ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جب آپ مامور (follower) ہیں تو آپ صرف اپنے کام کے ذمہ دار ہیں اور آپ کو صرف اپنی حد تک کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن جب آپ قائد ہوں اور رفقا اور کارکنوں کو بامقصد کام کی جانب لے جائیں تو وہ تمام نیکیاں بھی آپ کے حصے میں آئیں گی جو یہ سارے لوگ کر رہے ہوں گے۔ قیادت کے تصور کو اس حیثیت میں قبول کریں تو اس کے نتیجے میں آپ کی اپنی کارکردگی بھی بڑھے گی‘ اور جس جس دائرے میں آپ قیادت کا منصب سرانجام دے رہے ہیں اس میں زیادہ بہتر نتائج حاصل کر سکیں گے۔
قیادت اگر ایک فطری عمل اور کردار کا نام ہے تو یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل نہیںکہ اس کردار کی ادایگی کا فطری حق کسے حاصل ہو؟ ذرا غور کیجیے! انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ کس بنا پر حاصل ہوا؟ معلوم ہو گا کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو جو عقل دی ہے اس کی بنا پر‘ وہ دیگر تمام مخلوقات سے ممتاز ہو جاتا ہے۔ جسامت میں انسان بہت سوں سے چھوٹا اور جسمانی قوت میں بہت سی دوسری مخلوقات سے کمزور ہے۔ بصارت اور سننے کی صلاحیت بلکہ گویائی کی قوت بھی اللہ تعالیٰ نے بہت سارے حیوانات کو دی ہے۔ جدید تحقیقات تو یہ بتاتی ہیں کہ نباتات کو بھی کسی نہ کسی درجے میں یہ صلاحیت حاصل ہوتی ہے۔ جس میدان میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے زیادہ اشرف بنایا ہے‘ وہ اس کی عقل یعنی سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کرنے کی صلاحیت ہے۔ چنانچہ اگر اشرف المخلوقات کا رتبہ انسان کو عقل کی بنا پر حاصل ہوا ہے تو پھر انسانوں میں بھی فطری طور پر وہی اشرف اور برتر ہو گا جو عقل کے میدان میں برتر ہو۔ جینیاتی اعتبار سے انسانوں میں کچھ نہ کچھ فرق ہو سکتا ہے لیکن مستثنیات کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ نے سب ہی انسانوں کو دماغ دیا ہے۔جو اس دماغ اور اسے دی گئی صلاحیت‘ یعنی عقل کا بہتر استعمال کرے گا اور غور و فکر اور تدبر کرے گا‘ سوچ بچار میں اپنا وقت لگائے گا، وہی اصل میں ایک فطری لیڈر قرار پائے گا۔
اس بات کو دہرا لیجیے کہ قیادت منصب کا نام نہیں ہے بلکہ قیادت درحقیقت یہ ہے کہ لوگ رضاکارانہ آپ کے پیچھے چلیں۔ اس پہلو سے دیکھیں تو بعض اوقات لوگ منصب پر فائز نظر آئیں گے لیکن مامورین ان کی بات مان نہیں رہے ہوںگے‘ یا اصل رہنمائی و ہدایت کے برعکس اپنے اپنے انداز میں عمل کر رہے ہوں گے‘ یا یہ عمل مارے باندھے اور مجبوری کی بنا پر ہو رہا ہو گا۔ یوں قیادت پر فائز افراد کے لیے‘ اپنے آپ کو جانچنے کا ایک آسان پیمانہ یہ ہے کہ کیا لوگ ان کی بات مانتے ہیں اور کس حد تک مانتے ہیں؟ بات ماننا اور قیادت کے پیچھے چلنا‘ اگر حکم اور جبر کے ذریعے سے ہو یا اس کے لیے تاکید ، اور بار بار تاکید کرنی پڑ رہی ہو توپھریہ حقیقت میں پیچھے چلنا نہیں ہے، یہ جبر اور مجبوری کی بنا پر کیا جانے والا عمل ہے جو پایدار نہیں ہو سکتا۔ حقیقی اور فطری قیادت کو کچھ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی‘ لوگ خود اشارے دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ ان کا قائد کیا چاہ رہا ہے؟ اور اس مقام تک پہنچنے میں وہی کامیاب ہو سکتا ہے جس کی عقل اور ذہانت کی بنا پر لوگ اس کے شعور اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت پر اعتماد رکھتے ہوں۔
قیادت کے حوالے سے یہ اصول فرد ہی پر نہیں بلکہ ادارہ‘ تنظیم‘ گروہ‘ قوم‘ یا ملک‘ تمام پر یہی اصول صادق آتا ہے کہ غور و فکر، تدبر اور علم و تحقیق میں دل چسپی‘ انھیں قیادت پر فائز کر دیتی ہے۔ اگر حادثاتی طور پر کوئی دوسرا آگے آ بھی جاتا ہے تو قیادت کے مقام پر اس کا برقرار رہنا ممکن نہیں ہے۔ نبیؐ کی زندگی میں غور و فکر اور تدبر کا اندازہ آپؐ کی قبل از نبوت کی زندگی سے بھی لگایا جا سکتا ہے‘ جب آپؐ باقاعدگی سے غار حرا تشریف لے جاتے اور کئی کئی روز غور و فکر میں مشغول رہتے تھے۔
قیادت کے بارے میں اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قیادت اور تبدیلی میں بہت گہرا تعلق ہے۔ انسانی زندگی مسلسل حرکت، تبدیلی اور اتار چڑھاؤ کا نام ہے۔ جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں اس میں مسلسل تبدیلیاں آ رہی ہوتی ہیں۔ زمین مسلسل گردش میں ہے، دن، رات میں اور رات، دن میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ موسم تبدیل ہوتے ہیں، علم‘ ٹکنالوجی اور سائنس کے میدان میں تبدیلیاں آرہی ہوتی ہیں، ہر تبدیلی کسی نہ کسی شکل میں انسانوں پر اثر انداز ہو رہی ہوتی ہے۔ قائدانہ کردار کے نقطۂ نظر سے تبدیلی اور اس پر ردعمل کے حوالے سے انسانوں کو پانچ گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔
پہلی قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو آنے والی سماجی و معاشرتی تبدیلیوں اور انسانی زندگی پر ان کے اثرات سے بے نیاز، اپنی ایک محدود دنیا میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ اردگرد کی تمام تبدیلیوں سے بے نیاز یہ لوگ ایک مخصوص دائرے میں سرگرم اور مطمئن ہوتے ہیں۔
دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو موجودہ صورت حال (status quo) میں آنے والی ہرتبدیلی کے مخالف ہوتے ہیں۔ تبدیلیوں کے منفی یا مثبت اثرات پر غور کیے بغیر‘ ہر تبدیلی سے خوف زدہ یہ لوگ، آنے والی تبدیلیوں کی مزاحمت کر کے ان تبدیلیوں کو روکنا چاہتے ہیں۔
تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو ہر صورت حال اور تبدیلی کے اثرات کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ ان کے کوئی نظریات اور اپنی ترجیحات نہیں ہوتیں۔ جو بھی تبدیلیاں آ رہی ہوتی ہیں یہ انھیں بخوشی، ورنہ بہ امر مجبوری قبول کر لیتے ہیں۔
چوتھی قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جو متوقع تبدیلیوں کا قبل از وقت اندازہ کر کے ان کے مطابق اپنے آپ کو، اردگرد کے ماحول کو اور اپنے اہداف اور ترجیحات کو ایڈجسٹ کرتے ہیں۔ اس طرح یہ آنے والی تبدیلیوں کے مطابق اپنے آپ کو manage کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
ان سب کے مقابلے میں پانچویں قسم‘ تبدیلیوں کے لیے خود ہوم ورک کرنے والوں کی ہے جو آنے والے حالات کا اندازہ کرتے ہیں اور تجزیے کی بنیاد پر اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی کو خود تخلیق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مذکورہ بالا تقسیم پر غور کیا جائے تو یہ وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ بلاشبہہ ان پانچوں میں سے قیادت کے منصب پر وہی لوگ فائز ہو سکتے ہیں جو اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیوں کی تخلیق کے لیے سرگرم ہوتے ہیں۔ وہ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آنے والے وقت کو وہ کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ تبدیلیاں لانے کے لیے ماحول کو ساز گار بنانے کے نقطۂ نظر سے ضروری اقدامات کرتے ہیں۔ عزم کرتے ہیں کہ کسی اور کی سوچ بچار‘ غور و فکر اور ترجیح کے مطابق اپنے آپ کو تبدیل کرنے کے بجاے تبدیلی ہمیں خود لانی ہے۔مستقبل ہماری مرضی کے مطابق ہوگا‘ اور دوسروں کو اس کے مطابق تبدیل ہونا ہو گا۔ یوں یہ ایک رویے کا نام ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ اپنے عزائم میں کامیاب بھی ہو جائیں لیکن وہ اس کی ہر ممکن کوشش ضرور کرتے ہیں۔ یہی قائدانہ رویہ اور قائدانہ کردار ہے۔
تبدیلی سے بے نیاز، تبدیلی پر مزاحمت کرنے، تبدیلی کو قبول کرنے والے‘ یا تبدیلی کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرنے والے پیچھے رہنے والے لوگ ہیں۔ چنانچہ قیادت کے منصب پر اگر آپ فائز ہیں تو آپ کو یہ سوچنا ہو گا کہ ہمارے اردگرد کیا کیا تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں‘ اور ان تبدیلیوں کی روشنی میں مستقبل کا نقشہ کیا بن رہا ہے، اس مستقبل کے نقشے کو ہم اپنی مرضی کے مطابق کیسے ڈھال سکتے ہیں؟ یہی قیادت ہے۔ ورنہ تبدیلی اور قائدانہ کردار کسی اور کا حق ہوتا ہے اور آپ اس کے پیچھے چلنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
تبدیلی کے حوالے سے ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ جو لوگ تبدیلی تخلیق کرنا چاہتے ہوں‘ ان کا ہر فیصلہ اور اقدام ایک طے شدہ حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے۔ ان کے علم میں ہوتا ہے کہ کون سے ایسے مواقع ہیں جہاں آگے بڑھ کر کوئی کردار ادا کرنا ہے‘ اور کن مواقع پر آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں۔ بے نیازی، مزاحمت یا قبولیت اور ایڈجسٹمنٹ کا رویہ بذات خود غلط نہیں ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ کچھ چیزوں سے بے نیازی اور انھیں نظرانداز کر دینا ہی بہتر ہے۔ نوٹس صرف اس چیز کا لینا ہے جو اپنی مطلوبہ تبدیلی کے راستے میں رکاوٹ ہے‘ اور یہ نوٹس بھی صرف اس حد تک لینا ہے جس حد تک کوئی چیز رکاوٹ ہے‘جب کہ اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی میں جو چیز معاون ہے اس کو آگے بڑھانے کی کوشش ناگزیر ہے۔
اس بات کو مختصراً ایک بار پھر دہرا لینا چاہیے کہ ایک جانب قیادت اور قائدانہ کردار اس عمل کا نام ہے کہ آپ تبدیلی کو تخلیق کرنے کی کوشش کر رہے ہوں اور دوسری جانب یہ اس عمل کا نام ہے کہ آپ کو معلوم ہو کہ جس نوعیت کی تبدیلی کو آپ تخلیق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ اگر کوئی چیز اس سے متعلق نہیں تو آپ بھی اس سے غیر متعلق اور بے نیاز ہو جائیں گے۔ اسی طرح مزاحمت، قائد کا بنیادی کردار نہیں ہے کیونکہ مزاحمت ردعمل کا نام ہے۔ لیکن اگر مرضی کی تبدیلی لانے میں کوئی چیز رکاوٹ ہے‘ تب آپ مزاحمت بھی کریں گے۔ قائد کی حیثیت سے آپ کو ہر ہر مرحلے پر سوچ سمجھ کر اقدام کرنا ہے۔
قائد کے مذکورہ بالا کردار کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ قائدانہ اوصاف کیا ہو سکتے ہیں۔ ہم یہاں انھیں مختصراً تین عنوانات: بصیرت، اپنی ذات پر قابو اور انسانی تعلقات‘ کے تحت بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔ درحقیقت قیادت کی صلاحیت اور بنیادی صفات ہر آدمی میں موجود ہوتی ہیں لیکن میدان عمل میں قیادت کا کردار ادا کرنے کے لیے مسلسل عمل اور شعوری کوشش سے ان صلاحیتوں کو نکھارنے اور جِلا بخشنے پر توجہ دینا ناگزیر ہے۔ سوچنے اور عمل کرنے میں یہ اوصاف جس قدر کسی شخصیت کا حصہ بنتے چلے جائیں گے اس قدر ہی وہ شخصیت قائدانہ مزاج کی حامل قرار پائے گی۔
بصیرت (مستقبل میں دیکھنے کی صلاحیت): قائد کے لیے اہم ترین چیز وژن (بصیرت) ہے۔ وژن سے مراد مستقبل میں دیکھنے کی صلاحیت ہے۔ کیونکہ تبدیلی ماضی میں نہیں مستقبل میں آتی ہے‘ اور مستقبل میں تبدیلی وہی لا سکتا ہے جو مستقبل میں دیکھ سکتا ہے۔ چنانچہ قیادت اس صلاحیت کا نام ہے کہ آپ مستقبل میں دیکھ رہے ہوں۔ مثلاً یہ مارچ کا مہینہ ۲۰۰۴ء ہے۔ آپ ایک تنظیم کے سربراہ یا ایک علاقے کے منتظم ہونے کی حیثیت سے آج سے پانچ سال کے بعد‘ یعنی ۲۰۰۹ء میں اس تنظیم یا علاقے میں کیا تبدیلیاں دیکھنا چاہتے ہیں، اس کا تعین آپ کو آج کرنا ہو گا۔ قائد‘ ماضی کی کامیابیوں اور ناکامیوں پر غور و فکر کر کے ماضی سے سبق بھی حاصل کرتا ہے اور اس کا یہ سارا عمل مستقبل کے لیے ہوتا ہے۔ کیونکہ اسے آگے جانا ہے۔ جو لوگ ماضی میں ڈوبے رہتے ہیں کہ فلاں چیز غلط ہو گئی تھی اس پر شکوہ کر رہے ہیں، مایوسی کا شکار ہیں یا حوصلہ ہار بیٹھے ہیں‘ وہ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ یا اسی طرح اگر کامیابی حاصل ہو گئی ہے تو اس پر سرشاری میں اردگرد سے بے نیاز ہو جانے والے لوگ بھی قائدانہ کردار ادا نہیں کرسکتے۔ جسے آگے سفر کرنا ہے اسے دل کا بخار نکالنے، کسی دوسرے کو مطعون کرنے‘ یا کسی دوسرے پر ناکامی کی ذمہ داریاں ڈال دینے سے دل چسپی نہیں ہوتی۔ یہ وقت ضائع کرنے والے لوگ ہیں۔ جس کے سامنے مستقبل میں کوئی منزل ہو گی وہ اپنے وقت کے بارے میں بے فکر نہیں ہو سکتا۔ جس کی کوئی منزل طے ہے اور اسے منزل تک کسی خاص وقت پر پہنچنا ہے‘ وہ اپنے ہدف اور منزل کے بروقت حصول کے لیے بہت سی غیر ضروری اور کم اہم چیزوں کو نظرانداز کرنے کے لیے تیار رہے گا‘ اور ایک منزل پر پہنچنے کے بعد اگلی منزل کا تعین اور اس کے لیے پیش قدمی اس کا ہدف ہو گی۔
اس نقطۂ نظر سے دنیا پر نظر ڈالیں تو صاف نظر آئے گا کہ وہی ادارے، گروہ اور قومیں قیادت کے منصب پر فائز ہیں اور ماضی میں بھی فائز رہی ہیں جنھوں نے مستقبل کو سمجھنے، جاننے اور اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
مستقبل ظاہر ہے غیر یقینی ہے۔ لیکن یہی اس کا چیلنج ہے۔ اس میں دیکھنے کے لیے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ معلومات اور حالات کی روشنی میں آپ عمل اور ردعمل، اقدامات اور نتائج اور واقعات و اثرات کے درمیان رشتے کو سمجھنے کی صلاحیت حاصل کریں۔ یہی عمل مستقبل کا تجزیہ کرنے کی کوشش کہلاتی ہے اور اسی بنیاد پر قائد یہ فیصلہ کرتا ہے کہ مطلوبہ تبدیلیاں لانے کے لیے کیا کیا جائے۔
پُرامید ہونا: قائد کے لیے محض مستقبل پر نگاہ رکھنا ہی کافی نہیں، بلکہ مستقبل کے بارے میں پرامید ہونا ضروری ہے۔ مایوسی کے شکار لوگ کبھی کوئی قائدانہ کردار ادا نہیں کرسکتے۔ قائد کو خود بھی پُرامید ہونا ہے اور اپنے ساتھ چلنے والے لوگوں کو بھی پُرامید رکھنا ہے۔
پُرعزم اور منصوبہ ساز: مستقبل کے بارے میں پرامید ہونے کے لیے پرعزم ہونا ضروری ہے۔ یہ عزم کہ میں جو کرنا چاہتا ہوں وہ ان شاء اللہ کر کے رہوں گا۔ مستقبل کو تسخیرکرنے کا عزم قائد کے پاس ہونا چاہیے۔ تسخیر کا عزم اور اعتماد اسی وقت ممکن ہے جب مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی کا ضروری اہتمام ہو اور پورے منصوبے کے لیے موزوں حکمت عملی اور اس کے مطابق ٹیم بنانے کا درست طور پر اہتمام ہو۔ اس ٹیم کو متحرک رکھنا، اسے motivate کرنا اور ٹیم کے ہر فرد سے اس کی صلاحیتوں کے مطابق کام لینے کی استعداد‘ قائد کے اہم اور ضروری اوصاف ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مسلسل جائزہ لینے اورمنصوبے میں حسب ضرورت ردوبدل کرنے کی صلاحیت اور آمادگی بھی ضروری ہے۔
قائدانہ کردار کا تعلق عقل کے استعمال سے ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ کیا ایسا آدمی جو غبی یا ذہین ہو لیکن غور و فکر اور تدبر کے لیے تیار نہ ہو‘ یا روزمرہ مصروفیات میں اس طرح الجھا ہوا ہو کہ اس کے پاس غور و فکر کے لیے وقت ہی نہ ہو‘ تو کیا اس میں مستقبل بینی کی صلاحیت ہو گی؟
اس تناظر میں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قائد کا یہ کام نہیں کہ وہ ۲۴ گھنٹے بہت مصروف رہے‘ بڑی بھاگ دوڑ کر رہا ہو۔ یہ تو مینیجراور منتظم کا کام ہے۔ کوئی چاہے تو اس کردار پر بھی مطمئن ہو سکتا ہے‘ یہ قابلِ تعریف عمل ہے لیکن بحیثیت قائد یہ مطلوب نہیں ہے۔ قائد کا اصل کام یہ ہے کہ وہ مشکلات کا قبل از وقت اندازہ لگائے اور ان مشکلات سے نکلنے‘ آگے بڑھنے اور دوسرے لوگوں کو متحرک کرکے اپنے ساتھ چلانے کے لیے سوچے اور بروقت فیصلے کرے۔
اپنے آپ پر قابو: قائدانہ کردار ادا کرنے والے لوگ وہی ہو سکتے ہیں جو خود اپنی قیادت کر سکتے ہیں یعنی جن کو اپنے اوپر قابو (کنٹرول) ہو۔ اپنے آپ پر قابو پانے کے یوں تو کئی پہلو ہیں لیکن اہم ترین پہلو‘ قائد کا اپنے وقت پر قابوپانا ہے۔ قائد اپنی مرضی سے اور اپنی ترجیحات کے مطابق اپنا وقت گزارتے ہیں۔ ان کی مصروفیات ان کی اپنی طے کردہ ہوتی ہیں اور ان کا تعلق اس ہدف کے حصول سے ہوتا ہے جو انھوں نے طے کیا ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ سماجی تعلقات ختم کر لیتے ہیں یا دوسروں کے کام نہیں آتے۔ اس کے برعکس وہ اپنے تعلقات کو اپنے اہداف کے حصول میں معاون بناتے ہیں۔
اپنی ذات پر قابو پانے کا دوسرا اہم پہلو قائد کا اپنے جذبات پر قابوہے۔ ایسا نہیں ہے کہ قائد جذباتی نہیں ہوتا۔ درحقیقت اچھا قائد خود بھی جذباتی ہوتا ہے اور انسانی جذبات و احساسات کو سمجھتا بھی ہے لیکن اس کے فیصلے اور اقدامات‘ جذبات کی بنیاد پر نہیں ہوتے۔ اسے کوئی مشتعل نہیں کر سکتا۔ حالات خواہ کتنے ہی غیر معمولی کیوں نہ ہوں‘ وہ ردعمل اور اشتعال سے بچنے کا اہتمام کرتا ہے۔
قائدانہ کردار‘ اپنے معمولات پر قابو پانے کا نام ہے۔ معمولات کے مطابق زندگی گزارنا لیکن اس کے لیے ذہنی اور جسمانی طور پر تیار ہونا کہ معمولات میں تبدیلی کے باوجود کارکردگی متاثر نہ ہو‘ بہ الفاظ دیگر قائد کے معمولات اس کی مجبوری نہیں ہوتے۔ اسے اپنی امیدوں، دل چسپیوں اور خواہشات پر کنٹرول ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ ہر نئی اور پرکشش چیز اسے کھینچ کر اپنی جانب لے جائے اور اس کی ترجیحات گڈ مڈ ہو جائیں۔
اپنے ساتھیوں پر اعتماد: اپنے آپ پر قابو پانے کا ایک اور اہم پہلو‘ دوسروں پر اعتماد ہے۔ اپنی اجتماعیت (ادارہ، تنظیم وغیرہ) میں ایسا نظام قائم کرنا کہ لوگوں کو کام تفویض کیا جائے۔ قائد کو ہر کام خود کرنے کی خواہش نہیں ہوتی۔ اگرچہ وہ جانتا ہے کہ جب کام تفویض کیا جائے تو اس میں بعض اوقات غلطی یا معیار میں کمی کا خطرہ ہو سکتا ہے‘ جب کہ وہ خود اسے بہت اچھی طرح کر سکتا ہے۔ لیکن قائد غلطی کے امکان کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اسے آگے بڑھنا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر میں خود یہی کام کرتا رہوں اور یہی تقسیمِ کار رہے تو ہم کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ جو کام میں آج کر رہا ہوں یہ مجھے کل نہیں کرنا۔ میری جگہ کوئی اور آنا چاہیے۔ مجھے دو قدم اور آگے بڑھنا چاہیے۔ اس طرح قیادت ایک عمل (پراسیس) ہے اور جہاں یہ عمل جاری نہیں وہاں افراد ‘تنظیمیں اور ادارے آگے نہیں بڑھ سکتے۔
محنتی اور سخت کوش: اپنے اوپر قابو پانے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ قائد سخت کوش، ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے آمادہ ہوتا ہے ‘ وہ اپنے جسمانی آرام اور صحت کا خیال ضرور رکھتا ہے کہ یہ اس کی توانائی برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے، لیکن آرام طلبی اور سُستی اس کی طبیعت پر بوجھ ہوتی ہے۔ وہ اپنا ایک ایک لمحہ ہدف کے حصول کے لیے صرف کرتا ہے۔
خود احتسابی: ایک اور اہم بات یہ ہے کہ قائد خود احتسابی کر سکتا ہے کہ میں نے کہاں غلطی کی؟ جو کچھ کیا اسے کس طرح بہتر طور پر کیا جا سکتا تھا؟ یہاں یہ فرق واضح رہنا چاہیے کہ خوداحتسابی اور خود ملامتی دو مختلف چیزیں ہیں۔ خود احتسابی آگے بڑھنے کے لیے ہے اور خود ملامتی انسان کو اپنے آپ سے مایوس کرتی ہے، اس کی خود اعتمادی اور حوصلے کو ٹھیس پہنچاتی ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا فرد نہیں جو ہمیشہ کامیاب ہو اور اسے کبھی ناکامی کا سامنا نہ ہو۔ اتفاقات اور حادثات بھی ہوسکتے ہیں اور بڑے سے بڑے انسان غلطیاں بھی کرتے ہیں۔ بہت سارے ایسے عوامل ہوتے ہیں جن کی بنا پر آگے بڑھنا ممکن نہیں ہو پاتا۔ ایسی صورت حال میں خوداحتسابی کے ذریعے غلطی کا تعین اور اس کی روشنی میں منصوبہ، حکمت عملی یا اقدامات میں حسب ضرورت تبدیلی لانا‘ یا اسے نئے سرے سے بنانا‘ قائدانہ کردار کی پہچان ہے‘ جب کہ خود ملامتی میں مبتلا لوگ آگے بڑھنے کا ازسرنو منصوبہ نہیں بنا سکتے۔
سیکھنے کی صلاحیت: قائدانہ مزاج کی ایک اور اہم خصوصیت اپنی محدودیتوں (limitations) کو جاننا ہے۔ قائد دوسروں کے تجربات سے سیکھنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ قائدانہ کردار یہ نہیں ہے کہ ہر کام کو خود کر کے دیکھا جائے۔ دنیا ترقی کے جس مقام پر آج پہنچی ہے اس مقام پر پہنچ نہیں سکتی تھی اگر ہر انسان ہر چیز کے لیے خود تجربہ کرتا۔ قائد دوسروں سے‘ حتیٰ کہ اپنے مامورین سے بھی‘ بہت سی چیزیں سیکھ رہا ہوتا ہے۔ سیکھنے کی یہ صلاحیت قائد کی خود اعتمادی کی بنا پر ہوتی ہے۔ جن لوگوں میں خود اعتمادی ہو وہ دل و دماغ کو کھلا رکھتے ہیں‘ دوسروں کے تجربات معلوم کرتے ہیں‘ پڑھتے ہیں‘ سنتے ہیں‘ تجزیہ کرتے ہیں کہ دوسرے کیسے آگے بڑھ گئے، انھوں نے کیسے کامیابی حاصل کی‘ حتیٰ کہ دشمن کے تجربات سے بھی اپنے لیے کوئی مفید پہلو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
قیادت سے دستبرداری کے لیے تیار: قائدانہ کردار اپنے ہدف کے لیے قربانی بھی مانگتا ہے۔ یہ قربانی کئی طرح کی ہو سکتی ہے۔ قائد ہر قربانی کے لیے تیار ہوتا ہے لیکن بعض اوقات یہ قربانی خود منصبِ قیادت سے دستبرداری بھی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ قائد کی نگاہ مستقبل میں ہدف کے حصول پر ہوتی ہے اور وہ اپنی محدودیتوں کو بھی جانتا ہے۔ چنانچہ اچھے جانشین کی تلاش اور تیاری بھی اس کے پیش نظر ہوتی ہے اور اس لیے وہ مناسب وقت پر قیادت سے دستبرداری کے لیے تیار رہتا ہے۔
دوسری جانب اس بات کو اس تناظر میں بھی سمجھنا چاہیے کہ کسی بھی گروہ میں فطری قائد ایک ہی ہوتا ہے۔ میرٹ پر فیصلے ہوں تو عمر‘ علم‘ تجربے اور صلاحیت خود بخود انسانوں کو قیادت کے منصب پر لے آتی ہیں۔ یہ ساری چیزیں اول تو کسی خاص وقت میں تمام انسانوں میں برابر نہیں ہوتیں۔ لیکن اگر نظری طور پر یہ تصور بھی کیا جائے کہ کسی خاص وقت میں یہ برابر ہوں تو بھی قائد کوئی ایک ہی ہوسکتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں کسی بھی اجتماعیت کا امتحان ہوتا ہے۔ یہ امتحان کہ اجتماعیت کی بقا اور تحفظ کے لیے کوئی ایک اپنے آپ کو پیچھے ہٹا لے۔ ایسی صورت میں کسی ایک کو یہ فیصلہ کرنا ہی پڑتا ہے کہ اپنی باری کا انتظار کرے۔ کیونکہ کسی ایک مقام پر دو قائد ہوں گے تو ان میں تصادم ہو جائے گا۔
لوگوں سے تعلقات: قائدانہ اوصاف کے حوالے سے اگلا عنوان انسانی تعلقات ہے۔ انسانوں کے ساتھ رویہ اور ان کے ساتھ میل جول کا انداز‘ ان پر اثر انداز ہونے کا موقع بھی ہوتا ہے اور انھیں اپنے سے دور کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ قائد اور اس کے ساتھیوں کے درمیان محبت اور اخلاص کا تعلق جتنا بڑھتا چلا جائے گا‘ قائد کا کام آسان تر ہوتا جائے گا۔ حقیقی قائد کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ تعلق مادیت اور مفاد پر نہیں بلکہ اعتماد اور خیر خواہی پر مبنی ہوتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ لوگ قائد کی بات مانتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ڈاکٹر مریض کو اس کی پسندیدہ غذا سے روکتا ہے اور مریض اس کی ہدایات کی تعمیل کرتا ہے‘ یا بچے کو آپ کسی وقت اس کی دل چسپی کے کسی عمل سے روکتے بھی ہیں تو بھی وہ بخوشی آپ کی بات مانتا ہے۔ وہ یہ اعتماد کرتا ہے کہ یہ عمل اس کے ساتھ خیر خواہی‘ اخلاص و محبت پر مبنی ہے۔ یہی عام مشاہدہ ہے۔ لیکن جہاں والدین سے تعلق کے بارے میں محبت‘ اخلاص اور خیرخواہی کا تصور موجود نہ ہو وہاں بچہ پھر اپنے والدین کی بات نہیں مانتا۔ ایسا نہیں ہے کہ والدین بچے کے خیر خواہ نہ ہوں‘ لیکن درحقیقت ان کے درمیان باہمی ابلاغ میں ایک فاصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ قائد اور اس کے ماننے والوں کے درمیان اعتماد اور تعلق برقرار رہنا چاہیے۔ ایسا تعلق جو اخلاص اور محبت پر مبنی ہو کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھی اور حصہ ہیں۔
واقفیت: اس تعلق کے قیام اور اسے برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ قائد اپنے ساتھ چلنے والے لوگوں سے واقف ہو۔ واقفیت صرف نام جاننے کا نام نہیں‘ واقفیت گھر کے حالات سے ہو‘ اہل خانہ کے بارے میں ہو‘ خاندان سے ہو۔ اس شناسائی کے نتیجے میں روزمرہ معاملات میں شرکت ہوتی ہے اور ایک دوسرے سے قربت کے نئے نئے مواقع ملتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں کا خیال اور اپنے ساتھیوں کی خوشیوں اور پریشانیوں میں شرکت کے نتیجے ہی میں قائد کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنا ممکن ہے۔ اس کے بغیر قائم ہونے والا تعلق ملازم اور افسر کا تعلق ہوتا ہے۔ یہ تعلق بھی ایک حد تک نتائج دیتا ہے لیکن یہ کسی ادارے یا تنظیم کو آگے بڑھانے اورمستقبل میں اپنے مقاصد کے تحت کسی بڑی تبدیلی لانے کے قابل نہیں بنا سکتا۔ اس اعتبار سے اپنے ساتھیوں کو جاننا‘ انھیں اپنی محبت‘ ہمدردی‘ اپنائیت‘ ذاتی تعلق اورخیرخواہی کا احساس دلانا۔ ان کی پسند‘ان کے مزاج کا خیال رکھنا یہ ساری کی ساری چیزیں قائد کے مزاج اور طبیعت کا ناگزیر حصہ ہوتی ہیں۔
مزاج کا خیال: مزاج کا خیال بذات خود ایک اہم عنوان ہے۔ قائد کا کام ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی منصوبہ بندی اور ترجیحات کے مطابق کام پر لگائے لیکن یہ ممکن نہیں کہ ہر آدمی اپنے مزاج‘ دل چسپی اور میدانِ کار کے حوالے سے یکساں ہو۔ چنانچہ قائد کا ایک بہت اہم فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ چلنے والوں کے بارے میں سوچے اور فیصلہ کرے کہ کون سا آدمی کس کام کے لیے اہل ہے؟ جو جس کام میں دل چسپی اور شوق رکھتا ہے وہ بالعموم اس کام کی اہلیت بھی حاصل کر لیتا ہے۔ حکم اور ہدایت تو دُور کی بات ہے‘ ایسی صورت میں اشارے کی بھی ضرورت نہیں ہو تی۔ لوگ مشکل سے مشکل صورت حال سے نمٹنے کے لیے خود ہی راستہ نکال لیتے ہیں‘ نئے نئے تجربات کرتے ہیں اور اپنی نجی ضروریات کی قربانی بھی دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً وہ خود بھی کامیاب ہوتے ہیں اور قائد کا سر بھی بلند کرتے ہیں۔
چنانچہ جب کہا جاتا ہے کہ قائد کو عقل استعمال کرنی ہے‘ تو عقل کے استعمال کا یہ ایک اہم مقام ہے کہ وہ اپنے پاس موجود انسانی وسائل کو بہترین انداز میں استعمال کرنے کے لیے سوچے‘ غوروفکر کرے۔ جتنا وہ اس پر غور کرے گا اس کے لیے ضروری ہوتا جائے گا کہ اپنے ہدف کے حصول کے لیے نئے نئے راستے اور نئے نئے کام نکالے۔ اگر میدان عمل محدود ہے جس میں نئے اقدامات کی گنجایش نہ ہو تواس کا فرض ہے کہ جو کام فی الوقت موجود ہیں انھیں دل چسپ بنائے۔ لوگوں میں کسی خاص کام یا شعبے کے حوالے سے کوئی حجاب ہے تو اسے دور کرنے کے لیے اقدامات کرے اور جہاں ضروری ہو ان کے لیے تربیت کا اہتمام کرائے۔
قائد کو یہ احساس ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اپنا وقت اس کے حوالے کر دیا ہے‘ جو اس کے فیصلوں اور اس کی ترجیحات کے مطابق اپنی صلاحیتوں اور وسائل کے ساتھ سرگرم عمل ہیں تو ان کی صلاحیتوں کی نشوونما‘ ان کی ترقی اور ان کا مفاد قائد کے اپنے مفاد کی طرح ہے۔ وہ انتظام کرتا ہے کہ وہ لوگ نئے نئے کام اور ہنر سیکھیں‘ ان میں مشکلات سے نبرد آزما ہونے کی استعداد پیدا ہو جائے اور وہ زندگی کے میدان میں بڑا کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اس طرح لوگ آگے بڑھتے ہیں تو مجموعی استعداد میں بھی اضافہ ہوتاہے۔ ماحول سازگار تر ہو جاتا ہے اور ادارہ اور تنظیم جس تبدیلی (ہدف کے حصول) کے لیے کوشاں ہوتے ہیں وہ تبدیلی آسان تر ہو جاتی ہے۔
سماجی و نظریاتی اور دعوتی تنظیموں کے حوالے سے تو اس میدان میں بڑی وسعت ہے۔ یہاں تو معاشرے کے ہر طبقے میں کام کے لیے لوگ درکار ہوتے ہیں اور ہر طرح کے کاموں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ چنانچہ ہنر سکھانے‘ یعنی اپنی ٹیم کے افراد کو زیادہ کار آمد بنانے کے لیے کتنے ہی عنوانات ہوسکتے ہیں مثال کے طور پر آپ کو پبلسٹی اور ریکارڈ کے لیے تصویر کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے اس کے لیے اپنے کارکن کو فوٹو گرافی سکھائی جا سکتی ہے۔ کسی کارکن کو ڈرائیونگ نہیں آتی تو اسے ڈرائیونگ سکھائی جا سکتی ہے۔ اپنے کارکنوں کو ابتدائی طبی امداد کے طریقے سکھائے جا سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے تنظیمی اور ادارتی طور پر کئی برسوں میں بھی اس کی ضرورت نہ پیش آئے لیکن ابتدائی طبی امداد کا کام سیکھ کر وہ اپنے محلے اور گاؤں میں‘ اپنے حلقۂ احباب اور برادری میں یا کسی ہنگامی صورت حال میں‘ لوگوں کی خدمت کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ یہ درست ہے کہ بعض کارکنوں کے لیے ایسا سلسلہ ایک بڑا اضافی بوجھ ہو گا۔ ایسے کارکنوں کو یہ کام نہ دیا جائے لیکن بہت سے کارکن‘ بڑے شوق سے ایسے کام کریں گے۔ سماجی تنظیموں کے قائد کا کام تو یہ ہے کہ معاشرے کے بے شمار مسائل میں سے جس جس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی تربیتی پروگرام وہ بنا سکتے ہوں بنائیں۔ تربیتی پروگرام سے ان کی انفرادی اور اجتماعی صلاحیت میں اضافہ ہو گا۔ اس اعتبار سے قائد کا کام ایک لگی بندھی فہرست پر کام کروانا نہیں ہے۔ جو لوگ ساتھ چل رہے ہیں ان کو جاننے‘ ان کے مزاج‘ شوق اور دل چسپیوں کو جاننے اور ان کی صلاحیت اور استعداد کار میں اضافہ کرنے کے ان تمام پہلوؤں پر قائد کی نگاہ ہوتی ہے۔
رابطے اور گفتگو کی صلاحیت: اس کے ساتھ ساتھ قائد ابلاغ اور رابطے کی صلاحیت پر توجہ دیتا ہے۔ اس کی بات میں ابہام نہیں ہوتا۔ اس کا ذہن صاف ہوتا ہے کہ اسے کیا کرنا اور کرانا ہے۔اپنے پیغام کو وہ اس کے مطابق واضح طور پر ترتیب دیتا ہے اور اس واضح پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے صحیح الفاظ اور صحیح وقت کا انتخاب کرتا ہے۔ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ قائد دوسروں کی ذہنی سطح پر اور ان کے حالات کی روشنی میں چیزوں کو سمجھ سکتا ہو۔
ابلاغ اور رابطے ہی کا ایک اہم پہلو جس کی جانب پہلے بھی ضمنی طور پر اشارہ آیا‘ یہ ہے کہ قائد خود اپنے ساتھ بات کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے پاس اپنے لیے کچھ وقت ہوتا ہے۔ روزانہ‘ ہفتے میں چند گھنٹے‘ وہ تنہائی میں غور کرتاہے‘ سوچتا ہے کہ جو کچھ کیا‘ ٹھیک کیا ہے؟ کیسے آگے بڑھوں؟ فلاں فلاں مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے؟ جب کوئی فرد اپنے ساتھ ملاقات کا وقت نہیں نکال سکتا تو اس کی اصلاح کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ وہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ درحقیقت وہ مستقبل میں درست طور پر دیکھنے کے قابل نہیں رہتا۔ چنانچہ جو جتنے بڑے منصب پر فائز ہے‘ اس کے لیے اتنا ہی ناگزیر ہے کہ وہ اپنے ساتھ ملاقات کے لیے وقت نکالے۔
مخاطب کی استعداد اور دل چسپی: واضح اور دوٹوک پیغام‘ غیر مبہم الفاظ‘ مناسب وقت اور مو قع محل کا انتخاب ابلاغ اور رابطے کے بے حد اہم اجزا ہیں۔ کیا بات کرنی ہے اور کس طرح کرنی ہے‘ اس پر قائد کی مسلسل توجہ رہتی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ قائد کو یہ معلوم ہوتا ہے‘ اور یہ بہت اہم بات ہے‘ کہ اس نے اپنی بات کب ختم کرنی ہے۔ قائدانہ کردار کے حامل لوگ ماحول‘ مخاطب کی ذہنی استعداد اور موضوع میں ان کی دل چسپی کے مطابق گفتگو کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ یہ منصوبہ بندی ایک ایسا ذہنی عمل ہے جو ملاقات اور گفتگو کے دوران بھی جاری رہتا ہے۔ چنانچہ وہ بہت جلد یہ اندازہ کر لیتے ہیں کہ ان کی گفتگو میں سامعین کی دل چسپی کس قدر ہے۔ اگر یہ دل چسپی باقی نہ رہے توکسی مناسب انداز میں بات کو ختم کر دینا یا موضوع کو تبدیل کرنا چاہیے۔ گفتگو کے ضمن میں یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ گفتگو صرف بولنے کا نام نہیں ہے۔ درحقیقت گفتگو‘ بولنے اور سننے کے مشترکہ عمل کا نام ہے۔ قائد کی گفتگو کا بڑا حصہ سننے پر مشتمل ہوتا ہے۔ زیادہ بولنے والا‘ درحقیقت دوسروں کی رائے‘ جذبات‘ معلومات اور تجزیے سے محروم ہوجاتا ہے۔
حرکات و سکنات کا فہم: یہاں ابلاغ کے اہم ترین پہلو کی نشان دہی ضروری ہے۔ عام خیال کے برعکس رابطہ‘ ملاقات اور گفتگو میں الفاظ کی اہمیت سے کہیں زیادہ اہمیت‘ چہرے کے تاثرات اور ان جسمانی حرکات کی ہوتی ہے جو بولنے اور سننے والے کی جانب سے بے ساختہ سامنے آتی ہیں۔ اسے حرکات و سکنات کی زبان (Body Language) کہا جاتا ہے۔ الفاظ کی ادایگی کس لب و لہجے میں کی جا رہی ہے؟ چہرے کے تأثرات کیا ہیں؟ ہاتھ اور پاؤں کی جنبش کیا اشارے دے رہی ہے؟ انسان کی آنکھیں بتاتی ہیں کہ وہ کسی چیز میں کس قدر دل چسپی لے رہا ہے‘ جسے حرکات و سکنات سمجھنا نہیں آتا وہ ابلاغ کے فن سے ناواقف ہے۔ باڈی لینگویج بتا دیتی ہے کہ غصہ آ رہا ہے‘ حیرانی ہو رہی ہے‘ دل چسپی بڑھ رہی ہے‘ مخاطب محظوظ ہو رہا ہے یا دل چسپی ختم ہو چکی ہے اور ذہن کسی اور طرف متوجہ ہو چکا ہے۔ اور جو ان چیزوں کو جانتا ہے وہ زبان سے الفاظ کی ادایگی کے ساتھ اپنے تاثرات اور اپنی حرکات و سکنات سے بھی پیغام رسانی کر رہا ہوتا ہے۔ باڈی لینگویج کی اہمیت انفرادی رابطے میں بھی اسی قدر ہے جتنی خطابت اور اجتماعی رابطے میں ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ ٹیلی فون اور خط و کتابت میں بھی اس کی جھلک پوری طرح موجود ہوتی ہے جسے قائدانہ مزاج کے حامل لوگ بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔
بروقت فیصلہ: قائدانہ کردار کے حوالے سے ایک اہم عنوان فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ یہ اتنا اہم اور بڑا موضوع ہے کہ اس پر علیحدہ سے گفتگو ہونی چاہیے‘ تاہم ابلاغ کے ذیل میں اس کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ قائد کا بنیادی کام ہی فیصلے کرنا اور عملدرآمد کے لیے اپنے ساتھیوں کو مطلع کرنا ہے۔ اگر وہ تذبذب کا شکار اور گومگو کے عالم میں ہے تو لوگ منتظر ہی رہ جائیں گے اور بہت سا قیمتی وقت ضائع ہو جائے گا۔ قائد جانتا ہے کہ فیصلے میں غلطی ہو سکتی ہے لیکن وہ خطرات مول لینے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ غور و فکر کے ضروری تقاضوں کی تکمیل کے بعد وہ بروقت فیصلے کرتا اور متعلقہ افراد تک پہنچاتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ ایک غلط فیصلہ اس سے بہتر ہے کہ غیریقینی صورت حال میں رہا جائے۔ غلط فیصلہ ہو بھی جائے تو اس کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے کوئی نیا فیصلہ ہو سکتا ہے۔ لیکن جو لوگ تذبذب اور گومگو کے عالم میں رہتے ہیں ان کے ساتھ لوگ چل نہیں سکتے۔
آپ اچھی طرح سوچیں‘ بہتر سے بہتر فیصلہ کرنے کے بارے میں غور و فکر اور مشاورت کریں۔ دعا اور استخارہ اور اللہ سے مدد طلب کرنے کا اہتمام کریں۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود کوئی حد ہونی چاہیے کہ سارے خطرات کے باوجود اب فیصلہ کرنا ہے۔ فیصلے کے اثرات توقع کے مطابق نہ ہوں تو اس پر بھی غور کریں کہ کیا فیصلے کے لیے سوچ بچار میں کوئی کسر تھی؟ مفروضے اور اندازے غلط تھے؟ یا محض حادثہ اور اتفاق ہے کہ حالات تبدیل ہو گئے اور فیصلے کے مطلوبہ اثرات سامنے نہ آ سکے۔ بلاشبہہ اب ان اثرات کے تدارک کا انتظام کرنا ہو گا۔ لیکن آپ غیر یقینی کیفیت سے نکل آئیں گے۔
نظرانداز کرنے کی خوبی: قائدانہ کردار کے لیے ایک اور اہم وصف بھول جانے اور نظرانداز کرنے کی صلاحیت ہے۔ قائد‘ اعلیٰ ظرف ہوتا ہے۔ اس لیے لوگوں کی جانب سے پہنچنے والی بہت سی تکالیف کو نظر انداز کر سکتا ہے۔ تلخیوں اور شکایتوں کو یاد رکھنے والے لوگ قائدانہ کردار ادا نہیں کر سکتے کیوں کہ وہ اشتعال‘ غصے اور انتقام کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کی صلاحیتیں منفی مقاصد کے لیے استعمال ہونے لگتی ہیں اور اصل اہداف اور ترجیحات پسِ منظر میں چلی جاتی ہیں۔ انتقام ہی ہدف بن جاتا ہے۔
انسانی ذہن کو اللہ تعالیٰ نے بہت کچھ ذخیرہ کرنے کی صلاحیت دی ہے لیکن ہر ہر چیز کو یاد رکھنا اور اپنے ذہن پر بوجھ بنانا درست طرز عمل نہیں ہے۔ کامیاب لوگ محض کام کی بات یاد رکھتے ہیں اور مختصر الفاظ میں یاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی لوگ دراصل قائدانہ کردار ادا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ قائدانہ کردار کے حوالے سے ان چیزوں کو اپنے دماغ میں محفوظ کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے جن کا تعلق مطلوبہ ہدف اور منزل سے ہے۔ ہدف کی طرف آگے بڑھانے والی چیزوں کے علاوہ باقی چیزوں کو نظرانداز کر دینا چاہیے۔
اسی طرح قائد پریشانیوں اور مشکلات کو اپنے اوپر طاری نہیں ہونے دیتا۔ وہ جانتا ہے کہ پریشانیاں اور مشکلات زندگی کا حصہ ہیں۔ بلاشبہہ انھیں حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے لیکن اگر وہ حل نہیں ہو سکتیں تو انھیں بھول جانا ہی بہتر ہے‘ کیونکہ انھیں ہروقت ذہن پر طاری رکھا جائے تو ذہن الجھاؤ اور انتشار کا شکار رہے گا اور کوئی بھی کام مثبت طور پر نہ ہو سکے گا۔ اسی طرح قائد جانتا ہے کہ بڑھتی ہوئی عمر اور بیماریوں کو بھول جانا چاہیے۔ جو لوگ عمر کو یاد رکھتے ہیں کہ میں اب ۵۰یا ۶۰سال کا ہو گیا ہوں‘ اب فلاں فلاں کام کیسے کر سکوں گا؟ پہلے بہت کچھ کرتا تھا اب مشکل ہو گیا ہے‘ مشکلات ان کے ذہن پر مسلط ہوتی چلی جاتی ہیں جس سے اُن کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔
دُور رس اثرات اور اعلٰی معیار پر توجہ: یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جتنے دن ہم اس دنیا میں ہیں‘مستقبل اس سے کہیں زیادہ طویل اور لامتناہی ہے۔ زندگی تو ایک ہزار سال بعد بھی ہو گی۔ سال ۲۰۰۳ء کے بعد سال ۳۰۰۳ء بھی آئے گا۔ دنیا تو اس سے آگے بھی چل رہی ہو گی۔ قیادت کو صدقہ جاریہ کا موقع حاصل ہے اور صدقہ جاریہ تو نام ہی اس کا ہے کہ مستقبل کے بارے میں سوچا جائے۔ ایسا کام جو انسان کی موت کے بعد بھی نتائج دے سکتا ہو اس حوالے سے کاموں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے‘ اس کو اپنی عمر کے ساتھ محدود کیوں کیا جائے۔ آج ہم وہ کتابیں پڑھتے ہیں جو آج سے ایک ہزار سال پہلے لکھی گئیں۔ کیا ان کتابوں کے لکھنے والوں نے یہ سوچا تھا کہ وہ اپنے یا اپنے بعد کے دور کے لیے لکھ رہے ہیں؟ اگر آج سے ایک ہزار سال پہلے لوگ یہ کام کر سکتے تھے تو آج تو سہولتیں زیادہ ہیں۔ ٹکنالوجی بہت آگے بڑھ گئی ہے۔ ٹکنالوجی کی ترقی اور دستیاب سہولتوں کو دیکھا جائے تو آج کے انسان کا حصہ (contribution) تو ماضی کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہو سکتا ہے۔ بڑا اور وسیع تر وژن سامنے ہو تو انسانی صلاحیت محدود نہیں ہوتی۔
اسی ضمن میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ہر کام کو اچھے سے اچھے معیار پر کرنے کی کوشش کی جائے۔ اچھے معیار کا پیمانہ یہ ہے کہ خواہ معمولی کام ہی کیوں نہ ہو‘ پوری توجہ اور اہتمام سے اس طرح کریں کہ اگر اس پر اپنے دستخط کرنے کے لیے کہا جائے تو آپ خوشی خوشی دستخط کر رہے ہوں کہ ہاں‘ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے یہ کام میں نے کیا ہے۔ جب آپ نے ایک کام میں ہاتھ ڈال دیا تو پھر اسے احسن انداز میں ہونا چاہیے۔ ہدف یہ ہو کہ اس کام کو اتنی اچھی طرح کرنا ہے کہ اس سے زیادہ بہتر انداز میں اسے سرانجام دینے والا دنیا بھر میں کوئی نہیں ہو گا۔ احسن انداز میں کام کی بروقت اور وسائل کے اندر رہتے ہوئے تکمیل بھی شامل ہے۔ معیار اور معیار کے حصول میں درکار وقت اور وسائل میں توازن قائم کرنے کا نام قائدانہ کردار ہے۔ یہ لوگ اپنے کاموں کے ساتھ تعلق کی اس کیفیت میں ہوتے ہیں۔ ان کو جب کوئی کام ملتا ہے تو وہ اپنے میدان میں خود بخود آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ قائد کا یہ طرز عمل اس کے ساتھیوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
کامیابیوں کو یاد رکھنا: قائد کے لیے جہاں بہت سی چیزوں کو بھول جانا ضروری ہے وہاں اپنی کامیابیوں کو یاد رکھنا بھی ضروری ہے۔ قائد ‘تنہائی میں اپنی کامیابیوں کو بھی یاد کرتے ہیں۔ اس لیے کہ کامیابیاں خود اعتمادی اور آگے بڑھنے کے لیے امنگ پیدا کرتی ہیں۔ کامیابیوں پر خوش ہونا فطری ہے۔ پریشانیاں گھیر رہی ہوں‘ مشکلات کا سامنا ہو تو اس موقع پر اپنی خوشیوں کو یاد کیجیے۔ اس سے ناکامیوں اور مشکلات کے ناگوار اثرات کم ہو جاتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ کے شکر کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور اس ہستی کی جانب انسان متوجہ ہو جاتا ہے جو سب سے زیادہ طاقت ور ہے اور ہر مشکل کو آسان بنا سکتی ہے۔ زندگی کامیابیوں اور ناکامیوں کے امتزاج کا نام ہے۔ اس میں سارے لوگوں کو کامیابیاں بھی نہیں ملتیں‘ اور سارے لوگوں کو ناکامیاں بھی نہیں ملتیں۔ کامیاب لوگ کامیابیوں اور ناکامیوں کے ذخیرے سے اپنی کامیابیاں یاد رکھتے ہیں‘ ان سے خود اعتمادی اور حوصلہ حاصل کرتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر دوسروں کو حوصلہ بھی دیتے ہیں۔
اپنی جگہ سے ہٹ کر دیکھنا: قائد اس امر کا بھی اہتمام کرتا ہے کہ کبھی کبھی اپنی جگہ سے ہٹ کر دوسروں کے نقطۂ نظر اور زاویۂ نگاہ سے چیزوں پر غور کرے۔ وہ جانتا ہے کہ جب مسلسل ایک ہی مقام سے چیزوں کو دیکھا جائے تو تصویر کا ایک خاص رخ ہی نظر آتا ہے۔ دوسری جانب سے دیکھا جائے تو تصویر کا دوسرا رخ بھی نظر آنے لگے گا۔ قائدانہ کردار ادا کرنے والوں کی یہ انتہائی اہم ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ اپنی جگہ سے ہٹ کر چیزوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ کوئی دوسرا منظر اور تناظر بھی ہے۔ اس کے نتیجے میں فیصلے کا پورا عمل مثبت طور پر متاثر ہوتا ہے۔
مشغلہ اور شوق: اپنے معمولات میں کوئی نہ کوئی مشغلہ اور شوق اختیار کرنا بھی کامیاب قائد کے اوصاف میں شامل ہے۔ قائدانہ کردار ادا کرنے والے کامیاب لوگوں پر نظر ڈالی جائے تو ان کی زندگی میں کہیں نہ کہیں کوئی ایسا مشغلہ مل جائے گا جس سے وہ اپنے آپ کو relax کرتے ہیں‘ اپنے آپ کو تروتازہ اور ازسرنو کام کے لیے تیار کرتے ہیں۔ درحقیقت عام مشاغل اور دل چسپیاں انسان کو ایک مختلف دائرے میں کامیابیاں اور کامیابیوں کا احساس دے رہی ہوتی ہیں۔ یوں بھی انسان یکسانیت سے اکتا جاتا ہے دیگر مشاغل‘ روز مرہ معمول کے مقابلے میں تبدیلی فراہم کرتے ہیں۔ مشاغل اور دل چسپیاں عمومی دائرے سے ہٹ کر نئے نئے تعلقات اور نئے تجربات کے حصول کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔
مسکراہٹ: مسکراہٹ‘ قائد کی شخصیت کا اہم ترین پہلو ہے۔ قائد کا مسکراتا ہوا چہرہ لوگوں کو اس کے قریب لاتا ہے۔ نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے اسی لیے مسکراہٹ کو صدقہ قرار دیا ہے۔ چہرے پر تناؤ‘ اجنبیت‘ غصہ یا سرد مہری‘ شخصیت کی ساری کشش ختم کر دیتی ہے۔ قائد کی مسکراہٹ لوگوں کو خوشیاں دیتی ہے۔ اور یاد رکھیے لوگوں کو خوشیاں وہی دے سکتا ہے جو مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود زندگی کے مثبت پہلو کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور بھرپور اور مطمئن زندگی گزارتا ہو۔ (یہ تحریر ستمبر ۲۰۰۳ء میںلاہور میں کی گئی ایک تقریر کی تلخیص پر مبنی ہے)
سب سے پہلے میں قطرکے امیرشیخ حمد بن خلیفہ الثانی اور بروکنگز انسٹی ٹیوشن کا یو ایس اسلامک ورلڈ فورم کے انعقاد اور عالم اسلام اور امریکہ کی ممتاز شخصیات کے اس باوقار اجتماع سے خطاب کا موقع فراہم کرنے پر شکر گزار ہوں۔ امریکہ اورمسلم معاشروںکے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کا جواب تلاش کرنا واقعی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بروکنگز کے سبان سنٹر کا یہ نیا اقدام امریکہ کے اسکالرز اور پالیسی سازوں کے اس احساس کا غماز ہے کہ بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات ضروری ہیں‘ اور ایک ارب ۴۰ کروڑ مسلمانوں اور دنیا کی بڑی طاقت کے درمیان ہم آہنگی بحال کرنے کے لیے وحشیانہ طاقت کا استعمال غیرضروری ہے۔ میرے خیال میں اس سال کا اس سے اچھا آغازاور نہیں ہو سکتا کہ اقوامِ متحدہ اسے تہذیبوں کے درمیان مکالمے اور افہام و تفہیم کے فروغ کے لیے مختص کردے۔
سامعین کرام! ہم مانتے ہیں کہ امریکہ آج کرہ ارض پر سب سے زیادہ بااثر اور باوسائل قوت ہے اور سردجنگ کے خاتمے کے بعد سے واحد عالمی قوت بن گیا ہے۔ اس کی عسکری طاقت سارے کرئہ ارض پر محیط ہے اور آگ برسانے کی وہ طاقت اس نے حاصل کرلی ہے کہ انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ قریباً ۵ کھرب ڈالر دفاع اور سیکورٹی پر خرچ کرتا ہے جو ساری دنیا کے دفاعی اخراجات کے ایک تہائی سے بھی زیادہ ہے۔ ساری دنیا پر اس کا معاشی‘ سیاسی اور تہذیبی اثر چھایا ہوا ہے۔ اس لحاظ سے دنیا کا کوئی بھی ملک اپنے خطے میں امریکی پالیسیوں اور منصوبوں کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ عالمِ اسلام کو بھی ایک قوت سمجھنا چاہیے۔ یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں ہونی چاہیے کہ مسلمان انسانی آبادی کا پانچواں حصہ ہیں جو ۵۶ آزاد ممالک میں اکثریت اور بشمول امریکہ باقی دنیا میں ایک نمایاں اقلیت ہیں۔ عالمِ اسلام کو بڑی اسٹرے ٹیجک‘ سیاسی اور اقتصادی اہمیت حاصل ہے۔ حکومتوں اور داخلہ و خارجہ روابط کی ناکامی کے باوجود مسلم عوام پُرعزم ہیں اور ہر اس کوشش کی مزاحمت کرتے ہیں جو ان کی آزادی و خودمختاری اور دینی معاملات میں مداخلت کرے۔
اسی تناظر میں امریکہ اور عالمِ اسلام کے تعلقات کو دیکھنا چاہیے۔ ہماری رائے ہے کہ ان تعلقات کو باہمی احترام‘ مکالمے‘ افہام و تفہیم اور عدل‘ کثیرجہتی اور بقاے باہمی پر مبنی عالمی نظام کے قیام کی بنیاد بننا چاہیے۔ مگر افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ عالمِ اسلام اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ زیادہ دوستانہ نہیں ہے۔ ہمارے اختلافات اور انھیں پروان چڑھانے کے اسباب کا غیرجانب دارانہ تجزیہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دونوں طرف بہت سی غلط فہمیاں ہوسکتی ہیں لیکن میری نگاہ میں امریکہ اور عالمِ اسلام کے تعلقات میں سب سے اہم عامل ان اعلیٰ اخلاقی اقدار جن کا امریکہ علمبردار ہے اور عالمِ اسلام سے تعلقات میں امریکی حکومتوں کے طرزِعمل میں پایا جانے والا تضاد ہے۔ جب ہم امریکہ کی پالیسیوں کو دیکھتے ہیں تو ان میں عالمِ اسلام میں شخصی حکومتوں کی امریکی تائید‘ یک طرفہ پابندیاں‘ تجارتی بندشیں‘ اسٹرے ٹیجک دفاعی تنصیبات کے معائنے اور علاقائی تصادموں میں مخالفانہ رویہ عام نظرآتے ہیں۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف جیسے بین الاقوامی اداروں کی پالیسیوں کو استعمال کرتے ہوئے آزاد ممالک کو اپنے ایجنڈے پر راضی کرنا بھی ہمارے تعلقات میں ناراضی اور نفرت پیدا کرتا ہے۔ خارجہ پالیسی کے یہ تمام حربے دو آزاد اور خودمختار مسلم ممالک افغانستان اور عراق پر حالیہ کھلے حملے اور قبضے کے لیے استعمال کیے گئے۔
یہ بہت اہم ہے کہ واشنگٹن کے پالیسی ساز سمجھیں کہ امریکہ کو باقی دنیا کس نظر سے دیکھتی ہے۔ امریکہ کے استعماری خواب یا کردار کو فروغ دینے والی پالیسیاں راے عامہ کے لیے ناقابلِ قبول اور ناقابلِ فہم ہیں اور یہ انسانی فطرت کے بھی خلاف ہیں کیونکہ اکیسویں صدی میں اجارہ داری‘ استبداد اور تسلط کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ تنہا طاقت‘ پیشگی حملے‘ انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں جیسے گوانٹانامو جزیرے میں یا امریکی مسلمانوں کے ساتھ ہو رہی ہیں‘ اقوامِ متحدہ کو خاطر میں نہ لانا یااس کی قراردادوں کو نظرانداز نہ کرنا‘ نائن الیون کے بعد سے طاقت کے استعمال پر فریفتگی وہ فعل ہیں جو عالمی رائے‘ وژن اور اقدار کے خلاف ہیں۔ مسلمان ہی نہیں بلکہ ساری مہذب دنیا حتیٰ کہ امریکہ کے بانی سب اس کے خلاف ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ آزادی‘ جمہوریت اور فرد کی بہبود سارے بنی نوع انسان کی مشترکہ اقدار ہیں۔ اسی طرح انسداد دہشت گردی کے اقدامات‘ سیکورٹی اور انسانی بھلائی مشترکہ مقاصد ہیں لیکن یہ اعلیٰ اقدار اس وقت اپنا مفہوم کھوبیٹھتی ہیں جب انھیں حملوں اور کمزور قوموں کے وسائل‘ طرزِ زندگی اور اقدار پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ گذشتہ دو برس سے جس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے‘ اس نے عالمِ اسلام میں بڑے پیمانے پر بے چینی اور اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ فلسطین‘ کشمیر اور چیچنیا کی حق خودارادیت کی جدوجہد کو جس طرح دہشت گرد تحریکیں کہہ کر بدنام کیا جا رہا ہے‘ اس سے امریکی پالیسیوں کے دوہرے معیار بے نقاب ہوگئے ہیں۔ جب ہم مسلمان عورتوں اور بچوں کو فلسطین‘ کشمیر‘چیچنیا‘ عراق اور افغانستان میں اپنے ہی گھروں کے ملبے پر بیٹھے روتے دیکھتے ہیں تو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان پر دہشت گردی کا الزام کیسے لگ سکتا ہے۔
کسی عربی کو غیر عربی (عجمی) پر یا غیر عربی کو عربی پر‘ گورے کو کالے پر‘ یا کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں۔ تم سب آدم ؑکی اولاد ہو اور آدم ؑ مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ (النسائ۴:۱۳۵) ’
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَلاَیَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا‘ اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (المائدہ ۵:۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھرجائو۔ عدل کرو‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔
اب یہ امریکہ کو فیصلہ کرنا ہے کہ اسے اپنے اِن عظیم رہنمائوں کی اقدار کی طرف پلٹناچاہیے: جیفرسن آزادی و جمہوریت کا علم بردار تھا جسے بیسویں صدی کے حریت پسندوں نے دنیا کے مختلف حصوں میں پسندکیا‘ ولسن کے اصولوں میں حق خودارادیت ناقابلِ انکار حق قرار دیا گیا ہے‘ فرینکلن روز ویلٹ کی تیسری دنیا میں استعمار مخالف جدوجہد کی تائید نے مظلوم اقوام کو جذبہ دیا ہے --- یا امریکہ اخلاقی ساکھ سے محروم وحشیانہ قوت پر انحصار کی موجودہ روش جاری رکھ سکتا ہے جو امریکہ کو اس کے اپنے دوستوں اور یورپ کے اتحادیوں میں بھی تنہا کرسکتی ہے‘ مسلم دنیا کو ایک طرف چھوڑ دیجیے۔
اہل علم اور دانش ور حضرات سے میری اپیل ہے کہ تاریخ کے اس نازک دور میں ان مسائل پر اخلاقی و اصولی موقف اپنائیں اور امریکی پالیسی کو مثبت سمت کی طرف لے جانے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ یہ نہیں کہا جانا چاہیے کہ ایسے ذہین لوگوں نے کچھ کام نہ کیا‘ یا وہ ناکام ہوئے کیونکہ ان میں سچ کہنے‘ عدل قائم کرنے اور امریکہ کی جنگ آزادی کے بنیادی اصولوں کو فروغ دینے کی اخلاقی جرأت نہ تھی۔
خواتین و حضرات! میں یہ اہم موقع فراہم کرنے پر ایک بار پھرآپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
۱۰ سے ۱۲دسمبر ۲۰۰۳ء تک قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک اہم عالمی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کا اہتمام قطر کی وزارتِ خارجہ نے واشنگٹن کے ایک فکری مرکز بروکنگز (Brookings) کے تعاون سے کیا تھا۔ اخراجات و وسائل قطرکے اور زیادہ تر پروگرام و افکار بروکنگز کے۔ طرفین نے آج سے ایک سال پہلے ’’امریکہ و عالمِ اسلام فورم‘‘ کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دیا تھا۔ یہ اس فورم کی دوسری سالانہ سرگرمی تھی۔ اس برس کی کانفرنس‘ سابقہ سے یوں ممتاز تھی کہ اس میں دونوں طرف سے نمایندگی بھرپور تھی۔ امریکہ سے سابق صدر بل کلنٹن سمیت متعدد ذمہ داران اور سابق سفرا و دانش ور موجود تھے اور عالمِ اسلام کی ترجمانی کا حق علامہ یوسف قرضاوی اور محترم قاضی حسین احمد ادا کر رہے تھے۔
افتتاحی سیشن ہی سے پوری کانفرنس کا مزاج طے ہوگیا۔ امیرقطر شیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی نے اپنے افتتاحی کلمات میں امریکہ اور عالمِ اسلام کے درمیان سنجیدہ مذاکرات کی اہمیت و ضرورت پر زور دیا۔ قطر میں اس کے لیے ’’امریکہ و عالمِ اسلام فورم‘‘ کے مستقل سیکرٹریٹ کے قیام کا اعلان کیا اور ساتھ ہی ساتھ اس بات پر بھی زور دیا کہ فلسطین میں اسرائیلی مظالم ختم ہوئے بغیر خطے میں امن و امان ممکن نہیں۔ انھوں نے شام اور لبنان کی سرزمین سے اسرائیلی قبضے کے خاتمے اور عراق میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
افتتاحی خطاب کے بعد سب سے پہلے محترم قاضی حسین احمد کو دعوتِ خطاب دی گئی۔ انھوں نے اپنے جامع اور مؤثر خطاب میں حالات کی مکمل تصویرکشی‘ تباہ کن امریکی پالیسیوں اورمطلوبہ اقدامات کا احاطہ کیا (خطاب کا مکمل متن اسی شمارے میں دیکھیے)۔ ان کے بعد علامہ قرضاوی نے بھی زوردار انداز میں کفار سے تعلقات کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی وضاحت کی۔ اہلِ کتاب میں سے غیرمتحارب عناصر کے ساتھ حسنِ سلوک کے قرآنی احکام واضح کیے اور پھر کہا کہ امریکہ اور ہمارے اختلافات کی دو بنیادی وجوہات ہیں: ۱- اسرائیلی ریاست کی اندھی تائید و حمایت‘ ۲- امریکی دانش وروں اور پالیسی سازوں کا سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اسلام کو اپنا متبادل حریف قرار دے دینا۔ علامہ قرضاوی نے کہا کہ دہشت گردی کی کارروائی جہاں بھی ہوئی ہے‘ ہم نے سب سے پہلے اس کی مذمت کی ہے‘ لیکن پھر بھی ہم ہی پر دہشت گردی کا الزام ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ امریکی پالیسی ۱۱ستمبر سے پہلے ہی شروع ہو گئی تھی۔ ۱۱ستمبر کے واقعات کو آگ پر پٹرول کی حیثیت سے استعمال کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم باہم بہتر تعلقات اور مذاکرات کے ذریعے اختلافات کا حل چاہتے ہیں‘ لیکن مقابل میں چاہتے یہ ہیں کہ ہمیں اپنے دین کے مطابق زندگی بسر کرنے دی جائے۔
علامہ قرضاوی کے بعد اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سابق سفیر ہولبروک نے خطاب کیا۔ وہ مراکش میں بھی سفیر رہ چکے ہیں۔ انھوں نے بوسنیا کے مسئلے میں امریکی کردار کے حوالے سے اپنی خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی گفتگو کا آغاز کیا۔ تجربہ کار سفارت کار ہونے کے باوجود انھوں نے بہت جارحانہ اسلوب اختیار کیا۔ انھوں نے ایک طرف تو اس بات پر زور دیا کہ مشرق وسطیٰ کا مسئلہ بہت گمبھیر ہے‘ اس لیے اس پر زیادہ گفتگو نہ کی جائے وگرنہ ساری کانفرنس میں یہی گفتگو ختم نہ ہوگی۔ لیکن ساتھ ہی درشت الفاظ میں کہا کہ ’’ہم کبھی بھی اسرائیل کی مدد سے پیٹھ نہیں پھیریں گے‘‘۔ ’’اسرائیل ایک جمہوری‘ آزاد اور اقوامِ متحدہ کا رکن ملک ہے۔ ہم اس پر اپنی پالیسیاں ٹھونس نہیں سکتے‘‘۔
انھوں نے ۱۱ستمبر کے واقعات کی سنگینی پر بھی زور دیا اور اس امر پر بھی کہ ’’ہمیں اس کانفرنس میں صحت‘ تعلیم اور غربت جیسے مسائل پر بات کرنی چاہیے۔ پاکستان میں بھی ایڈز بہت پھیل چکی ہے‘ ہمیں اس پر بات کرنا چاہیے‘‘۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ میں امریکی حکومت کی پالیسیوں کا دفاع نہیں کرتا‘ میں تو آرزو کرتا ہوں کہ اختتامِ سال سے پہلے پہلے یہ حکومت تبدیل ہو جائے (اس پر اکثر شرکاے کانفرنس نے انھیں تالیوں اور قہقہے سے داد دی)۔ بعد میں امریکی سیاست سے باخبر لوگوں نے بتایا کہ ہولبروک بش انتظامیہ کے سخت نقاد ہیں۔اگر ڈیموکریٹس جیت گئے تو انھیں ان کی حکومت میں اعلیٰ عہدہ مل سکتا ہے۔ اگرچہ تقریر میں ان کا لہجہ کرخت تھا لیکن بعد میں وہ محترم قاضی حسین احمد سے کہتے رہے کہ ’’کاش! صدر بش بھی آپ کی تقریر اور یہاں ہونے والی گفتگو سن سکتا۔
ہولبروک کے بعد اسرائیل میں سابق امریکی سفیر مارٹن انڈک نے بھی تقریباً انھی خطوط پر گفتگو کی۔ افتتاحی سیشن اختتام پذیر ہوا تو اکثر شرکا کی زبان پر محترم امیرجماعت کی متوازن‘ جامع‘ جرأت مندانہ اور مسلم اُمت کی ترجمان تقریر کا ذکر تھا۔ افتتاحی سیشن کے اختتام پر عشایئے کا انتظام تھا اور اسی میں مزید سوال و جواب کے لیے افتتاحی سیشن والا چار رکنی پینل موجود تھا۔
محترم قاضی حسین احمد اور علامہ قرضاوی نے وہاں ایک بار پھر اس بات کو واضح کیا کہ صحت‘ تعلیم‘ غربت‘ یقینا اہم مسائل ہیں اور ان کے لیے بلاتفریق و تعصب پوری دنیا کو جدوجہد کرنا چاہیے‘ لیکن یہاں جس مکالمے اور مذاکرات کی بات ہو رہی ہے وہ سیاسی اختلافات کے حوالے سے ہے۔ ان پالیسیوں اور سیاسی اختلافات کو جرأت سے زیربحث لانے کی ضرورت ہے۔
اگلے دو روز گروپ ڈسکشن کے لیے وقف تھے جن میں ۱۲ مختلف موضوعات زیربحث آئے۔ ان میں جمہوری اقدار‘ امریکہ عالمِ اسلام کے تعلقات کا مستقبل‘ دونوں کے درمیان خلیج کو پاٹنے کے وسیلے‘ ذرائع ابلاغ کا کردار‘ اسلام اور امریکہ کے متعلق پایا جانے والا عمومی تاثر‘ نمایاں تھے۔ ان اور دیگر موضوعات پر ۱۵۰ کے قریب امریکی و مسلم دانش وروں نے چھ مختلف اجلاسوں اور ۱۲ گروپوں میں بات کی۔ شرکا میں سابق و حالیہ کئی وزرا بھی تھے‘ جیسے عراق کے وزیر پٹرولیم‘ اُردن کے وزیرخارجہ‘ فلسطین کے وزیر اطلاعات اور سابق وزیرداخلہ۔ امریکی شرکا میں بڑی تعداد سابق سفرا اور بروکنگزکے دانش وروں کی تھی۔ اکثر شرکا امریکی نقطۂ نظر سے قریب سمجھ کر بلائے گئے تھے‘ جب کہ جماعت اسلامی‘ علامہ یوسف قرضاوی اور اسلامی پارٹی ملائشیا کے وفود کو شاید کانفرنس کی ساکھ کی خاطر اور ان سے ان کی حقیقی سوچ براہِ راست سننے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ ہم نے بھی باہم اور بیرونِ ملک بعض احباب سے مشورے کے بعد اسی ارادے سے شرکت کی کہ صحیح موقف براہِ راست سنایا جائے‘ ان کا موقف سنا جائے۔ پاکستان سے بلائے جانے والے دیگر شرکا کی فہرست دیکھ کر آپ کو عالمِ اسلام کے دیگر شرکا کا اندازہ کرنے میں آسانی ہوگی۔ یہاں سے محترم امیر جماعت ‘ جنرل (ر) طلعت مسعود‘ فرائیڈے ٹائمز کے ایڈیٹر اعجاز حیدر‘ معروف صحافی ایازمیر‘ سابق وزیر اطلاعات مشاہد حسین‘ جماعت کے شعبہ امورخارجہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر آصف لقمان اور راقم نے شرکت کی۔ ان مختلف الخیال اور ’’مختلف المشرب‘‘ ‘افراد نے موقع ملنے پر قومی اور ملّی موقف کی اچھی ترجمانی کی۔
علامہ یوسف قرضاوی‘ کانفرنس کے بعد ایک نجی نشست میں فرما رہے تھے کہ افتتاحی سیشن میں ہونے والی زوردار تقاریر سے تمام شرکا کی ایک جہت کا تعین ہوگیا‘ اور بظاہر دین اور دینی تعلیمات سے بہت دُور نظر آنے والے بعض افراد نے بھی حق بات کہی۔
اگرچہ اکثر منتظمین بار بار کہہ رہے تھے کہ مشرق وسطیٰ اور عرب اسرائیل مسئلے کو چھوڑ کر صحت اور تعلیم جیسے مسائل پر بات کی جائے لیکن کانفرنس کے دوسرے روز ظہرانے پر ہونے والی گفتگو کا عنوان ہی ’’مشرق وسطیٰ کا مسئلہ‘‘ رکھا گیا تھا۔ اس کے تمام شرکا بہت سوچ سمجھ کر رکھے گئے تھے۔ پینل میں کوئی بھی مکمل حق کہنے کے لیے آمادہ نہیں تھا۔ اُردنی وزیرخارجہ مروان المعشر‘ فلسطینی سابق وزیراطلاعات یاسر عبدربہ‘ اسرائیل میں سابق امریکی سفیر مارٹن انڈیک اور سابق اسرائیلی نائب وزیراعظم امنون شاحاک‘ سب نے وہی بات کی جس کی ان سے توقع تھی۔ فلسطینی نمایندہ اس قدر بودا تھا کہ ان کی اسٹیج پر موجودگی کے دوران ایک مقرر نے ان کے سربراہ یاسرعرفات کے بارے میں انتہائی نازیبا الفاظ کہہ دیے‘ لیکن وہ اس پر مؤدبانہ احتجاج بھی نہ کرسکے یا کرنا ہی نہیں چاہا۔ کئی شرکا نے آرزو کی کہ کاش! اس سیشن میں علامہ قرضاوی یا قاضی صاحب بھی شریک ہوتے۔
آخری سیشن میں صرف قطری وزیرخارجہ اور صدر بل کلنٹن کا خطاب تھا۔ ایک امریکی سیاست دان اور سابق صدر کی حیثیت سے انھوں نے بہت اچھی تقریر کی اور اپنے تمام اصولی و قومی موقفوں پر مضبوطی سے جمے رہنے کے ساتھ ساتھ عالمِ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں بھی اچھے جذبات کا اظہار کیا۔ مسلمان علما کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ انھوں نے اس امر پر زور دیا کہ ہمیں اسلام کو اور عالمِ اسلام کو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ۱۱ستمبر کے بعد صدربش کا سب سے اچھا اقدام واشنگٹن میں اسلامی مراکز و مساجد کا دورہ کرنا تھا۔ انھوں نے اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت پر بھی زور دیا کہ دنیا میں امریکہ سے نفرت میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے‘ حالانکہ ان کے بقول امریکہ عالمی امن و سلامتی کے لیے کوشاں ہے۔
مشرق وسطیٰ اورفلسطین کے حوالے سے ان کا موقف تھا کہ ’’اسرائیل کو اقوامِ متحدہ نے وجود بخشا ہے۔ اس کے لیے ہماری مدد جاری رہے گی۔ ہماری خواہش ہے کہ فلسطین اور اسرائیل دو اچھے پڑوسی ریاستوں کی حیثیت سے جیئیں۔ انھوں نے اس امر پر بھی اصرار کیا کہ مسلم دنیا ہمیں صرف ہماری مشرق وسطیٰ کی پالیسی کے تناظر میں نہ دیکھے۔ ہمارے اور آپ کے بہت سے مفادات مشترک ہیں۔ شاید اس لیے کہ اگر دنیا ہمیں صرف ہماری مشرق وسطیٰ کی پالیسی کے تناظر میں دیکھے گی تو ہمارا ناانصافی اور دوہرے معیار کھل کر سامنے آجائیں گے۔ ہمارے خلاف اس کی نفرت میں اضافہ ہوگا۔ اس لیے ’’ہمیں صرف ہماری مشرق وسطیٰ کی پالیسی کے تناظرمیں نہ دیکھیں‘‘۔
صدر کلنٹن کے خطاب کے بعد دو تین سوالات کا بھی موقع دیا گیا۔ مشاہد حسین نے سوال کیا: ’’۱۱ستمبرکے بعد امریکہ نے ایک بے نام‘ بے وطن اور بلاچہرہ دشمن کے خلاف بڑی جنگ شروع کر دی ہے۔ پورا عالمِ اسلام اس جنگ سے متاثر ہو رہا ہے۔ اگر صدر بش کے بجاے آپ وائٹ ہائوس میں ہوتے تو کیا آپ بھی وہی کرتے جو صدر بش کر رہے ہیں؟‘‘
بہت تردد اور بوجھل ہوتی ہوئی خاموشی کے بعد انھوں نے کہا: ’’ہاں‘ میں بھی یہی کرتا اور پھر دہشت گردی کی سنگینی کے تناظر میں اپنے اس موقف کی وضاحت کرنے کی مختصر کوشش کی‘‘۔
اختتام پر ہولبروک محترم قاضی حسین احمد کے پاس آئے اور انھیں ساتھ لے جا کر صدرکلنٹن سے ان کا تعارف کروایا۔ دونوں کے درمیان مختصر جملوں کا تبادلہ ہوا۔ اس طرح یہ کانفرنس امریکہ اور عالمِ اسلام کے درمیان رابطے اور مذاکرات کی اچھی کوشش ثابت ہوئی۔ اگر تعصب اور مفادات سے بالاتر ہوکر اس کوشش کو جاری رکھا گیا تو ٹھوس بنیادوں پر باہمی مذاکرات ناممکن نہیں رہیں گے۔
بوسنیا--- یورپ کے قلب میں واقع اسلامی مملکت اور وہ سرزمین ہے جہاں مسلمانوں نے محض اسلام کے نام پر اَن گنت قربانیاں دیں‘ لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کیے‘ بے بسی کے عالم میں عملاً جہاد کیا‘ ایسی تعذیب اور ظلم وتشدد کا سامنا کیا کہ جس کے تذکرے سے رونگٹے کھڑے ہوجائیں اور انسانیت لرز کر رہ جائے۔ اہلِ بوسنیا نے عزیمت کی ایک نئی داستان رقم کی ہے۔ آگ اور خون کا ایک سمندر تھا جو انھوں نے عبور کیا اور تحریکِ آزادی کے قائد علیجاہ عزت بیگووچ کی سربراہی میں اپنی آزادی کی جنگ لڑی اور بالآخر کامیابی و سرفرازی سے ہمکنار ہوئے۔ اس عظیم تاریخ کی حامل اور برسوں عالمی خبروں کا موضوع بنی رہنے والی اس سرزمین اور باہمت قوم کو دیکھنے کی خواہش ایک مدت سے تھی‘ اور یہ خواہش اس وقت پوری ہوئی جب حالیہ ماہِ رمضان میں مجھے اپنے چنددوستوں کے ہمراہ بوسنیا جانے کا موقع میسرآیا۔ ہم نے اس موقع کو غنیمت جانا اور بوسنیا کے لیے سربیا اور کوسووا سے ہوتے ہوئے عازمِ سفر ہوئے‘ جب کہ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو عالمی تجارتی مرکز کی تباہی کے نتیجے میں‘ اسلامی دنیا اور مسلمانوں کے لیے بدلے ہوئے حالات کے تحت‘ پکڑدھکڑ اور دیگر خدشات بھی دل میں کھٹک رہے تھے۔
سربیا میں ہم بلغراد سے داخل ہوئے جہاں کسی وقت ایک سو مساجد آباد تھیں جنھیں شہید کردیا گیا۔ چونکہ نمازِ ظہر کا وقت ہوچکا تھا لہٰذا ہم کسی مسجد کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ کچھ دیر تلاش کے بعد ہمیں ترکی طرز پر بنی ہوئی ایک مسجد نظر آئی جہاں ہم نے نماز ادا کی۔ نماز سے فارغ ہوکر جیسے ہی ہم ہوٹل پہنچے‘وہی ہوا جس کا ہمیں خدشہ تھا۔ انٹیلی جنس والے ہمیں پکڑ کر لے گئے اور ہمیں نفسیاتی طور پر مختلف طریقوں سے ٹارچر کرتے رہے کہ آپ لوگوں نے داڑھی رکھی ہوئی ہے‘ آپ کون ہیں‘ کن لوگوں سے آپ کا تعلق ہے اور مسجد میں آپ کیوں گئے تھے؟ انھوں نے ہمارے پاسپورٹ اپنے پاس رکھ کر ہمیں رسید دے دی اور یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ واپسی پر آپ پاسپورٹ لے جائیں۔ اس کے بعد ہم جہاں بھی جاتے انٹیلی جنس کے لوگ ہمارے آگے پیچھے رہتے۔ ایک بار توہمیں پاکستانی سفارت خانے میں پناہ لینی پڑی۔جب ہم نے سفارت خانے والوں کو بتایا کہ یہاں کی انٹیلی جنس کس طرح ہمیں پریشان کر رہی ہے تو بے اختیار انھوں نے کہا کہ آپ یقینا مسجد میں نمازپڑھنے گئے ہوں گے۔ ہم نے بتایا کہ واقعی جس روز ہم مسجد میں گئے اسی روز سے ہمارے ساتھ یہ سلوک ہونے لگا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ آپ سے پہلے یہاں تبلیغی جماعت کا ایک گروپ آیا تھا جنھیں گرفتار کر لیا گیا اور ہم نے بڑی کوششوں کے بعد انھیں رِہا کروا کر واپس بھیجا۔ انھوں نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہم اپنا ویزہ ختم ہونے سے پہلے پہلے اس ملک کو چھوڑ دیں۔ لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم کوسووا چلے جائیں جو اس وقت یو این کی زیرِنگرانی ہے۔ پاکستانی سفارت خانے نے ہمیں ایک خط جاری کر دیا جسے دکھانے کے بعد ہمیں اپنے پاسپورٹ واپس ملے اور ہم کوسووا کے لیے روانہ ہوگئے۔
جیسے ہی ہماری بس نے سربیا کی سرحد عبور کی تو جگہ جگہ جلی ہوئی اور ٹوٹی پھوٹی عمارتیں اور جلی ہوئی گاڑیاں نظرآئیں جو سربیا کے ظلم کی داستان بیان کر رہی تھیں۔ کوسووا کا ہر گھر سربیا کے ظلم کا شکار رہا ہے اور یہاں کے مسلمانوں نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ کوسووا میں ذبیحہ ہر جگہ عام ہے‘ اور ہر ہوٹل میں حلال کھانے بآسانی میسرہیں۔یہاں پر مرد و خواتین مغربی طرزکا لباس پہنتے ہیں۔ البتہ اکثر مسلمان خواتین اسکارف اور گائون پہنے نظرآتی ہیں۔ یہاں کے کئی نوجوان چیچنیا کے جہاد میں بھی شریک رہے ہیں۔ٹیلی وژن اور میڈیا پر عام طور پر یورپین اور امریکن پروگرام دکھائے جاتے ہیں اور یہ پروگرام اپنے اندر مادر پدر آزادی کی ترغیب لیے ہوئے ہوتے ہیںمگر اس کے ساتھ ساتھ چند ایک اسلامی پروگرام بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ اگر مسلم ممالک اسلامی افکار کی اشاعت‘ تعمیرسیرت و کردار اور تہذیبی و تمدنی تقاضوں کو پیش نظررکھتے ہوئے معیاری پروگرام‘ میڈیا کے ذریعے پیش کریں تو اس کے لیے یہاں طلب پائی جاتی ہے اور ایک وسیع میدان ہے۔
انقلاب آزادی اور یہاں کے مسلمانوں میں روح اسلامی کی بیداری میں عالیجاہ عزت بیگووچ ؒکی شخصیت اور اسلامی لٹریچر کا بڑا عمل دخل ہے۔ اگرچہ نظام تعلیم سیکولر ہے اور مخلوط طرزِتعلیم ہے لیکن اس کے باوجود دین سے گہرا شغف پایا جاتا ہے۔ لوگ نمازِ جمعہ کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ پہلی اذان کے ہوتے ہی لوگ مساجد کی طرف دوڑے چلے آتے ہیں۔ ہر مسجد میں خواتین کے لیے الگ گیلری ہے۔ یہاں کی بڑی مساجد میں مرد وخواتین اور بچوں کو قرآن اور دین سکھانے کے خصوصی انتظامات ہیں۔ کئی گھرانوں میں پردے کی خاص پابندی کی جاتی ہے۔
تبلیغی جماعت کے وفود بھی یہاں پر آتے رہتے ہیں اور اشاعت اسلام کے لیے کوشاں ہیں۔ تحریک اسلامی اور اخوان المسلمون کے کارکن بھی اپنی اپنی سطح پر اقامت ِدین کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ پاکستان اور پاکستانی عوام سے لوگ بے حد محبت کرتے ہیں۔ یہاں یو این میں پاکستانی پولیس‘ پاکستانی رینجرز اور پاکستان آرمی کے یونٹس کا کردار سب سے بہتر اور بلند گردانا جاتا ہے۔ دعوت و تبلیغ میں بھی ان کا کردار قابلِ تحسین ہے۔ البتہ ان تمام کوششوں کو مربوط انداز میں آگے بڑھانے پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔
ہم ابھی کوسووا ہی میں تھے کہ ہمیں عالیجاہ عزت بیگووچ ؒکے انتقال کی خبر ملی۔ ان کی وفات پر کوسووا کے ہر مسلمان کی آنکھ پرنم تھی اور دل رو رہا تھا۔ ہم خبرملتے ہی بوسنیا ہرذی گووینا کے لیے روانہ ہوگئے۔ یوں محسوس ہوا جیسے بوسنیا کی فضا صدمے سے بوجھل ہے‘ ہر شخص غم سے نڈھال اور ہر آنکھ اشک بار۔ بوسنیا کے دارالحکومت سرائیوو میں‘ ایوانِ صدر کے سامنے‘ بوسنیا کے اس عظیم رہنما‘ عالیجاہ عزت بیگووچؒ کا جنازہ ایک عظیم منظرپیش کر رہا تھا۔ کئی لاکھ لوگ اس جنازے میں شریک تھے۔ آسمان سے برسنے والی موسلادھار بارش کی پرواہ کیے بغیر‘ ہر شخص اپنے اس عظیم قائد کے آخری دیدار کے لیے بے قرار تھا۔ فضا میں اللہ اکبر کے نعروں کی گونج تھی‘ اور علیجاہ عزت بیگووچ کے پُرنور چہرے پر بکھری مسکراہٹ ‘مستقبل میں اسلامی جمہوریہ یورپی یونین کی نوید سنا رہی تھی۔ عزت بیگووچ مرحوم کو پورے صدارتی اعزاز کے ساتھ ان کی وصیت کے مطابق شہدا کے قبرستان میں دفنایا گیا۔
اقوامِ متحدہ کی طرف سے نامزد‘ بوسنیا ہرذی گووینا کے صدر جناب پیڈی شیڈور نے بیگووچ مرحوم کی وفات پر قوم کے احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ: آج بوسنیا ہرذی گووینا کا باپ وفات پا گیا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتے تو شاید بوسنیا کا دنیا میں نام و نشان تک نہ ہوتا۔
یورپ کے قلب میں واقع بوسنیا ہرذی گووینا کی کل آبادی تقریباً۳۵ لاکھ افراد پر مشتمل تھی جس میں سے ۲۰ لاکھ کے قریب مسلمان اور باقی عیسائی ہیں۔ اندازاً۳ لاکھ مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا‘ ۵ لاکھ مسلمان ہجرت کرچکے ہیں اور ۱۲ لاکھ کے قریب مسلمان اس وقت بوسنیا میں موجود ہیں۔ بوسنیا کے رئیس العلما ڈاکٹر مصطفی سیریج نے ایک موقع پر کہا کہ: ہم تو اسلام کو بھول چکے تھے مگر ہمیں سربیا نے اسلام سے ایک بار پھر جوڑ دیا۔
یہاں یہ بات واضح طور پر محسوس ہوئی کہ کمیونزم کے تسلط نے یہاں کے مسلمانوں کو دین سے دُور کر دیا تھا‘اور ہر اس ذریعے پر پابندی عاید کر دی تھی جس سے اسلام کے بارے میں معلومات لوگوں تک پہنچ پائیں۔ موجودہ نوجوان نسل نے اگرچہ کمیونزم کے ماحول میں آنکھ کھولی‘ مادر پدر آزادی کی تعلیم انھیں دی گئی اور وہ اسی رنگ میں پل کرجوان ہوئے مگر اُن کی روح میں اسلام کو جاننے اور اسے اپنانے کے لیے ہمیشہ ایک پیاس اور تڑپ موجود رہی ہے۔ ان میں دین کے بارے میں کتنا شعور ہے‘ اور اس کے لیے وہ کتنی تڑپ رکھتے ہیں‘ اس کا اندازہ درج ذیل ایک واقعے سے لگایا جا سکتاہے:
ہم سرائیوو کے ایک سنٹر سے گزر رہے تھے کہ ظہر کی اذان سنائی دی۔ جب ہم مسجد میں داخل ہو رہے تھے تو ہم نے ایک خاتون کو دیکھا جو پینٹ شرٹ میں ملبوس تھی (یہاں پر یہی لباس پہنا جاتا ہے)۔ اس نے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر اپنے پرس سے اسکارف نکالا‘ سر پر باندھا اور گائون پہن کر مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے داخل ہوئی۔ نماز پڑھنے کے بعد اس خاتون نے دونوں چیزیں دوبارہ اپنے پرس میں رکھیں اور چلی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ خواتین نے بھرپور پردہ کر رکھا ہے حتیٰ کہ ہاتھوں پر دستانے تک پہن رکھے ہیں۔ یہ منظر بھی دیکھنے میں آیا کہ ریستوران میں ایک نوجوان لڑکی کے سامنے سگریٹ اور افطار کے لیے سامان رکھا ہے اور وہ افطاری کے وقت کا انتظار کر رہی ہے۔ بوسنیا کے لوگوں کی اسلام سے دل چسپی سے متعلق جب مختلف لوگوں سے تبادلۂ خیال ہوا تو انھوں نے بتایاکہ جوں جوں ہمیں دین اسلام کا پتا چلتاجا رہا ہے‘ ہم اور ہماری خواتین اپنے لباس‘ پردہ‘ رہن سہن اور دیگر معاملات کو اسلامی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے جارہے ہیں۔ سرب بوسنیا جنگ کے بعد یہاں کے مسلمان اپنے رسم و رواج کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے میں کوشاں ہیں۔مساجد اور مدرسے آباد ہو رہے ہیں۔ نوجوان نسل اسلام کی طرف پلٹ رہی ہے۔ وہ عالمِ اسلام سے اپنا تعلق قائم کرنا اور اسے بڑھانا چاہتے ہیں۔
ہمیں بوسنیا ہی میں رمضان المبارک گزارنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ تمام مساجد نمازِ تراویح کے لیے مرد و خواتین سے کھچا کھچ بھر جاتی تھیں۔ اجتماعی افطاری کا رواج بھی تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ دورانِ جنگ بوسنیا ہرذی گووینا کے اندر ۱۰۵۰ کے قریب مساجد شہید کر دی گئی تھیں جن میں سے اب تک ۴۰۰ کے قریب دوبارہ تعمیرہوچکی ہیں۔ ان مساجد کی تعمیر‘ ملک کی تعمیروترقی اور مختلف شعبوں میں سعودی عرب‘ عرب امارات‘ قطر‘ کویت‘ ملائشیا‘ انڈونیشیا اور ایران کی خدمات نہایت قابلِ قدر ہیں۔ فری ڈسپنسریوں کے قیام میں بھی ان ممالک کی کارکردگی قابلِ ستایش ہے۔ ان ممالک کے تعاون سے ہی بوسنیا کے ۲۰ہزار کے قریب یتیم بچوں کی تعلیم‘ رہایش ‘ کھانے پینے اور دیگر کفالتی ذمہ داریاں پوری کی جارہی ہیں۔ سرائیوو شہرمیں سعودی عرب کے تعاون سے یتیم بچوں کے لیے ایک بہت بڑا اسکول قائم ہوا ہے جہاں بڑی تعداد میں بچے زیرتعلیم ہیں۔
مہاجرین کے تباہ شدہ اور جلے ہوئے گھروں کی مرمت اور ازسرِنو تعمیرکا کام بھی جاری ہے۔ ریٹرن ایگریمنٹ کے مطابق یو این کمیشن‘ لوگوں کو ان کے گھروں میں واپس لاکر آباد کر رہا ہے۔ عیسائی تو بڑی آسانی کے ساتھ واپس آکر اپنے مکانات واپس لے رہے ہیں مگر جو مسلمان‘ عیسائی علاقوں میں آباد ہیں ان کو اپنے مکانات کی واگذاری میں حائل دشواریاں وہاں پر اُن کی آبادکاری میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
بوسنیا کے ڈائریکٹر اوقاف جناب ناظم خلیلووچ نے ایک ملاقات کے دوران بتایا کہ یواین او کے ریٹرن ایگریمنٹ کے مطابق ہر شخص اپنی جگہ پر واپس آئے گا مگر بہت کم لوگوں نے اسے قبول کیا۔ صرف ۱۵ فی صد ایسے لوگ ہی واپس آئے ہیں جو عمر کے آخری حصے میں ہیں۔ اس لیے یہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ یہ صورت حال ہمارے لیے باعثِ تشویش ہے۔ چونکہ بوسنیا کے چاروں طرف عیسائی آباد ہیں ‘ لہٰذا یہاں اسلام کے تحفظ میں مشکلات بڑھ جائیں گی۔ ڈائریکٹر اوقاف نے بتایا کہ زیادہ تر لوگ بے روزگار ہیں۔ جن لوگوں نے جہاد کیا‘ وہ بے روزگاری کے ہاتھوں مجبور ہوکر ہجرت کرگئے۔ یورپ نے ایک سازش کے تحت ہمیں تقسیم کردیا تاکہ انھیں سستی لیبر میسرآسکے اور بالآخر بوسنیا ان کا دستِ نگر ہوجائے۔
ڈائریکٹر اوقاف نے بتایا کہ جنگ کے دوران سربیا کی فوج پہاڑوں پر تھی اور ہم لوگ نیچے تھے۔ سرائیوو سے باہر نکلنے کا ایک ہی راستہ تھا جو ہوائی اڈے سے سرنگ کے ذریعے بنایا گیا تھا۔ اس سرنگ سے عالیجاہ عزت بیگووچ کئی مرتبہ گزر کر گئے۔ امیرجماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے دورانِ جنگ جب بوسنیا کا دورہ کیا تو وہ بھی اسی راستہ سے گزر کر آئے تھے۔ لوگوں کے دل میں ان کے لیے بڑی قدر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عالیجاہ عزت بیگووچ کو بوسنیا کے لیے منتخب فرمایا تھا اور ان کے ہاتھوں ہمیں آزادی نصیب ہوئی لیکن ان کی رحلت کے بعد اس پائے کا کوئی دوسرا فرد نظر نہیں آتا۔ البتہ سلیمان تھیج ایک ایسے لیڈر ہیں جو اس اہم ذمہ داری کو اُٹھا سکتے ہیں۔ ہمارا ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ایک حکمران یا لیڈر کے گزرنے کے بعد ہمارے پاس اس کا متبادل نہیں ہوتا۔
پاکستان کے حوالے سے یہاں کے لوگوں کے دلوں میں ایک الگ جذبہ پایا جاتا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ایٹمی ملک ہے۔ جونہی ان کے سامنے پاکستان کا نام لیا جاتا ہے تو وہ فوراًکہتے ہیں کہ پاکستان ہی تو عالمِ اسلام کا دھڑکتا ہوا دل ہے‘ اسلام کا قلعہ اور اسلامی دنیا کا حقیقی رہنما ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام عالمِ اسلام کے تحفظ کا ضامن ہے۔
جنگ کے بعد یہاں پر ۷۰ فی صد لوگ بے روزگار ہیں‘ صرف ۳۰ فی صد لوگ برسرِروزگار ہیں۔ عام طور پر تنخواہ کا معیار ۱۰۰ ڈالر سے ۲۰۰ ڈالر تک ہے مگر اب آہستہ آہستہ اس میں بہتری آرہی ہے۔ بوسنیا کے مسلمان منتظرہیں کہ عالمِ اسلام‘ بوسنیا میں آکر سرمایہ کاری کرے تاکہ لوگوں کی معاشی حالت بہترہوسکے۔ یورپ بھی یہاں کی صنعتی ترقی کے لیے کوئی بڑی سرمایہ کاری نہیں کر رہا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت ہمیں معاشی بدحالی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے تاکہ حالات سے مجبور ہوکر لوگوں کا اسلام کی طرف بڑھتا ہوا رجحان بدل جائے اور وہ روزگار کے چکرمیں پھنس کر رہ جائیں‘ اور اسلام اور عالمِ اسلام سے مایوس ہوکر ایک بار پھر مغرب سے اپنی امیدیں وابستہ کر لیں۔ عالمِ اسلام اگر پوری ذمہ داری کے ساتھ یہاں سرمایہ کاری کرتا ہے تو جہاد کے ثمرات ہمیشہ حاصل رہیں گے۔
۱۱ستمبرکے واقعے کے بعد دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں انھیں بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ عالم اسلام کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے‘ یورپ کے قلب میں واقع‘ اس ننھی منی سی اسلامی ریاست کی ہر پہلو سے مدد کرنی چاہیے اور ان کے ساتھ رابطے کی موثر صورت نکالنی چاہیے تاکہ ان کے عزم اور حوصلے میں کمی نہ آئے اور وہ اپنے آپ کو عالمِ اسلا م سے الگ تھلگ‘ یا لاتعلق نہ سمجھیں۔ بوسنیا کی تعمیرنو اور بحالی پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ امریکہ اور مغرب کے دبائو کے سبب اکثر مسلم این جی اوز اپنا کام سمیٹ کر یہاں سے جاچکی ہیں۔ البتہ کچھ این جی اوز کام کر رہی ہیں۔
اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ بوسنیا کے طالب علموں کو حصولِ تعلیم کے لیے پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں اسپانسر کیا جائے۔ باصلاحیت لوگوں سے رابطہ کر کے ان کو وسائل مہیاکیے جائیں تاکہ تفہیم القرآن اور دیگر اسلامی لٹریچر کا بوسنیائی زبان میں ترجمہ اور اس کی اشاعت کا کام مربوط انداز میں ہو سکے۔ وہاں کے ٹیلی وژن اور میڈیا کے ذریعے لوگوں میں اسلامی رہن سہن اور مسلمان کے روز و شب‘ ترتیلِ قرآن‘ نماز کی ادایگی کا طریقہ‘ قرآنی تعلیمات‘ پردے کی اہمیت وغیرہ جیسے موضوعات پر پروگرام تیار کرکے پیش کیے جانے چاہییں تاکہ لوگ اسلام پر صحیح معنوں میں عمل پیرا ہوسکیں۔ نیز وفود کا تبادلہ ہونا چاہیے‘ تربیتی پروگراموں میں بوسنیا کے لوگوں کی شرکت ممکن بنانی چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد کی تربیت کے مواقع میسرآسکیں اور قیادت کے بحران کا مسئلہ بھی کسی حد تک حل ہوسکے۔
امید کی جاتی ہے کہ ان چند ناگزیر اقدامات کے نتیجے میں بوسنیا کا اسلامی تشخص مزید گہرا ہوسکے گا‘ اُمت مسلمہ سے قربت پیدا ہوگی ‘اور یورپ کے قلب میں اسلام کا علَم صحیح معنوں میں بلند کیا جا سکے گا۔
فرانس کو روشنیوں‘ خوشبوئوں‘ فنون اور آزادی کا ملک کہا جاتا ہے۔ عراق پر امریکی جارحیت کے خلاف آواز اٹھا کر‘ عالمی سیاست میں بھی فرانس اور جرمنی نے اپنا علیحدہ تشخص قائم کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ فرانس میں مسلمانوں کی تعداد یورپ میں سب سے زیادہ ہے۔ یورپ میں مقیم ۲ کروڑ مسلمانوں میں سے ۶۰لاکھ صرف فرانس میں رہتے ہیں‘ ۳۰ لاکھ جرمنی میں اور تقریباً ۲۰ لاکھ برطانیہ میں۔ فرانس میں زیادہ تر مسلم آبادی شمال مغربی افریقی ممالک الجزائر‘ تیونس‘ مراکش اور چنددیگر افریقی ممالک سے آکر بسی ہے۔
مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پندرھویں اور سولھویں صدی میں ہی فرانس منتقل ہوگئی تھی۔ ۱۴۹۲ء میں سقوطِ غرناطہ کے بعد اندلس میں ان کا جینا دوبھر کر دیا گیا تو۳لاکھ افراد ملک بدری پرمجبورہوگئے‘ جب کہ اس سے کئی گنابڑی آبادی شہید کر دی گئی۔گذشتہ صدی کے آغاز میں سمندر پار پڑوسی ممالک پر فرانسیسی استعمار‘منظم ثقافتی حملوں اور قرب مکانی کی وجہ سے بھی ان ممالک سے بڑی تعداد میں لوگ فرانس جا بسے۔ عالمی جنگوں کے خاتمے کے بعد فرانس کی تعمیرنو کے لیے مطلوب افرادی قوت بھی زیادہ تر یہیں سے حاصل کی گئی۔
دورِحاضرمیں فرانسیسی مسلمانوں کی اکثریت وہاں صرف مہاجرت نہیں بلکہ شہریت اور برابری کی قانونی حیثیت رکھتی ہے۔ ۱۹۱۷ء میں فرانس میں پہلی باقاعدہ اسلامی کونسل بنی۔ ۱۹۲۶ء میں اس نے بڑی پیرس مسجد بنائی۔ ۱۹۸۲ء میں ایک قانون کے ذریعے مسلمانوں کو اپنی تنظیمیں اور ادارے رجسٹرڈ کروانے کی باقاعدہ اجازت دے دی گئی اور اب وہاں بڑی تعداد میں مسلم ادارے تعلیمی‘ ثقافتی‘ علمی اور تربیتی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔
مسلمانوں اورفرانس کے تعلقات کی پوری تاریخ میں یہ پہلو اہم ترین رہا ہے کہ انھیں کیونکر فرانسیسی تہذیب و ثقافت میں ڈھالا جائے۔ عہداستعمار میں الجزائر اور پڑوسی ممالک ان کوششوں کا بنیادی ہدف رہے۔ عربی زبان کو عرب ممالک میں اجنبی بنانے کی کوشش کی گئی۔ لباس و طعام یکساں کر دیے گئے اور ہر طرف فرانسیسی تہذیب غالب ہوتی چلی گئی۔ فرانس کے اندر بھی یہ کش مکش جاری رہی لیکن نرمی اور خاموشی سے۔ اکثریت اس بات کو اپنا فطری حق سمجھتی ہے کہ اپنی تہذیب وثقافت اقلیت کی زندگی میں غالب کر دے۔
فرانسیسی مسلمانوں نے پورے اخلاص و محنت سے فرانس کی تعمیرمیں حصہ لیا‘ فرانس کے قوانین کا احترام کیا اور فرانس کے قومی مفادات کو اپنے مفادات سمجھا۔ فرانس کے سیکولر قوانین نے ہر شہری کو دین و اعتقادی آزادی کی ضمانت دی۔ بعض اوقات ایسا ہوا کہ کسی فرد یا ادارے نے کسی مسلم فرانسیسی کی آزادی مذہب کو مقید کرنا چاہا تو خود اعلیٰ سطحی حکومتی ذمہ داروں نے مداخلت کرتے ہوئے ان رکاوٹوں کو دُور کر دیا۔ ۱۹۸۹ء اور پھر ۱۹۹۲ء میں جب بعض طالبات کو حجاب‘ یعنی اسکارف سے منع کرنے کی کوشش کی گئی تو عدلیہ کے اعلیٰ ترین ادارے اسٹیٹ کونسل نے یہ فیصلہ دیا کہ ’’دینی شعائر کا التزام ریاست کے سیکولر نظام سے متصادم نہیںہے‘‘۔
حال ہی میں سابق فرانسیسی وزیر برنرسٹازے کی زیرصدارت تشکیل پانے والی کمیٹی نے یہ کہتے ہوئے تمام سرکاری تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی لگا دی ہے کہ ہم کوئی بھی دینی علامت لے کر مدارس میں آنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اس طرح مسلم طالبات کے حجاب‘ عیسائیوں کے صلیب کے نشان اور یہودیوں کی مختصر ٹوپی کیپا‘ تعلیمی اداروں میں ممنوع قرار دے دیے گئے ہیں۔ صدر شیراک نے تیونس کے ایک مدرسے کا دورہ کرتے ہوئے بیان دیا کہ ’’مکمل سیکولر فرانسیسی حکومت طالبات کواجازت نہیں دے سکتی کہ وہ اپنے ہدایت یافتہ ہونے کا اعلان کرتی پھریں۔ حجاب میں جارحیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’فرانس میں مسلمانوں کی اکثریت سے ہمیں کوئی شکوہ نہیں ہے اور ہماری حکومت فرانس ہجرت کرجانے والوں کواپنے ماحول و معاشرے میں ڈھالنے کی پوری سعی کر رہی ہے۔ لیکن ظاہری دینی علامتوں اور دوسروں کو کھلم کھلا اپنے دین کی طرف بلانے کی اجازت نہیں دے سکتے‘‘۔ اس سے پہلے فرانسیسی وزیراعظم جان پیررافاران بھی کہہ چکے تھے کہ ’’سرکاری اسکولوں میں حجاب کو بہرصورت مسترد کر دینا چاہیے‘‘۔
برنرسٹازے کمیٹی نے ۱۱ دسمبر ۲۰۰۳ء کو اپنی رپورٹ میں ایک طرف تو دینی ’’علامت‘‘ قرار دیتے ہوئے حجاب کو ممنوع قرار دے دیا۔ ساتھ ہی مسلمان کمیونٹی کے لیے عیدالاضحی اور مسیحیوں کے لیے عیدغفران کو سرکاری چھٹی قرار دینے کی سفارش کی تاکہ مذاہب کی آزادی کا تاثر باقی رہے۔
یہ سفارشات تیار کرتے اور حکومت کی طرف سے انھیں منظور کرتے ہوئے جس بڑی حقیقت کو فراموش کرنے کی کوشش کی گئی وہ اسلام میں حجاب کی حیثیت و اہمیت ہے۔ فرانسیسی حکمران یقینا جانتے ہوں گے کہ اسلامی حجاب‘ مسیحی صلیب یا یہودی کیپا کی طرح کوئی علامت نہیں‘ خالق کی طرف سے قرآنِ کریم و سنت نبویؐ میں دیا جانے والا صریح حکم ہے۔ مسلمانوں میں یہ فقہی اختلاف تو رہا ہے کہ حجاب کی کیفیت و حدود کیا ہوں‘ چہرے کو ڈھانپا جائے یا چہرہ و ہاتھ کھلے رکھتے ہوئے باقی پورا جسم ڈھانپا جائے‘ لیکن کوئی بھی مسلمان اس امرِقرآنی کا انکار نہیں کرسکتا کہ وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوْبِھِنَّص (النور۲۴: ۳۱)‘خواتین اپنی چادریں (سر کے علاوہ) اپنے سینوں پر بھی ڈالے رکھیں۔
اس حیرت ناک فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے مختلف فرانسیسی ذمہ داران کی طرف سے مختلف مضحکہ خیز تاویلات سامنے آئیں۔ کبھی کہا گیا: ’’طالبات کو ان کے گھر والوں کی طرف سے حجاب پر مجبور کیا جاتا تھا‘ انھیں اس جبر سے نجات دلانا مقصود ہے‘‘۔ کبھی کہا گیا: ’’خواتین و مرد برابر ہیں۔ حجاب سے مرد و زن میں تفرقہ رواج پاتا ہے‘‘۔ کبھی کہا گیا: ’’مذہبی تفریق کو بلاتفریق ختم کر دیا گیا ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں پر بھی پابندی عائد ہوئی ہے‘‘۔ لیکن ان تمام تاویلوں کا بودا پن خود یہ تاویلیں پیش کرنے والوں کو بھی بخوبی معلوم ہے۔ اگر صلیب و کیپا کے ساتھ ہلال و ٹوپی کا تقابل ہوتا تو شاید اتنی حیرت نہ ہوتی لیکن یہاں تو سارے کا سارا ہدف ہی مسلمان ٹھیرے کہ وہ اپنے رب کا حکم مانیں یا فرانسیسی حکومت کا۔
سابق وزیرتعلیم کلوڈ الاجر نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’سیکولرازم کو اسلام کے مطابق نہیں ڈھلنا‘ اسلام کو فرانسیسی سیکولرازم کے مطابق ڈھلنا ہوگا‘‘۔ اسی طرح کی ایک بات ۱۶۰۰ عیسوی میں پیڈروفرانکیزا نے اپنے آقا شاہ فلپ سوم سے اپنی سفارشات میں کہی تھی۔ اس نے کہا تھا: ’’ہمیں ہرممکنہ اقدامات کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس بات سے روکنا ہوگا کہ وہ اپنے مُردوں کو اپنے دینی رواج کے مطابق دفن کریں۔ ہمیں ان کی زبان‘ ان کا مذہبی لباس‘ حلال گوشت پر ان کا اصرار‘ ختم کرنا ہوگا۔ ان کی مساجد و مدارس اور حمام ڈھا دینا ہوں گے‘‘۔ لیکن جب ان سفارشات پر عمل درآمد کروانے کی ہرممکن کوشش کرنے کے بعد بھی انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو اسی فرانکیزا نے دوبارہ لکھا: ’’ان مسلمانوں سے خیر کی اُمید نہیں۔ یہ موت قبول کرلیں گے‘ اپنی دینی روایات نہیں چھوڑیں گے‘‘۔
حالیہ فرانسیسی فیصلے کا تجزیہ کرتے ہوئے لاتعداد تجزیے لکھے گئے ہیں لیکن ہالینڈ سے ایک عرب تجزیہ نگار یحییٰ ابوزکریا کا یہ تبصرہ اہم ہے کہ ’’فرانس میں اتنی بڑی مسلم آبادی ہے کہ ان کی خواتین کے مقدس و عفیف حجاب نے فرانس کے عریاں و فحش کلچر کو خطرے میں ڈالنا شروع کر دیا تھا‘‘۔ جیسے جیسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ ان میں اور خود غیرمسلموں میں بھی اسلامی تعلیمات سے آگاہی کا شعور بڑھتا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں خود مغرب میں جنم لینے اور پرورش پانے والے مغربی مسلمان نوجوان مغرب کے لیے بڑا سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔ یہ نوجوان انھی کی زبان‘ انھی کی اٹھان رکھتے ہیں۔ اپنے قانونی و اخلاقی حقوق و فرائض سے آگاہ ہیں‘ شراب و شباب کی غلاظت سے محفوظ ہیں اور اپنے دین کو ہر چیز سے زیادہ قیمتی و مقدس سمجھتے ہیں۔ اس نسل کو اس ’’متشدد دینی سوچ‘‘ سے بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس عجیب فرانسیسی فیصلے پر مختلف اطراف کا ردعمل بھی عجیب تھا۔ صدربش نے جو مسلمانوں کے خلاف پالیسیوں کے سرخیل ہیں‘ اسکارف کے حق میں بات کی اور کہا کہ مسلم خواتین کو یہ حق ملنا چاہیے کہ اپنے مذہب کے مطابق سر پر اسکارف رکھ سکیں۔ امریکہ میں بھی اس کی آزادی ہے۔ دوسری طرف عالمِ اسلام کے تاریخی مرجع جامعہ الازھر کے سربراہ محمد سیدطنطاوی نے ارشاد فرمایا: ’’اسکارف کے خلاف احکامات فرانس کا اندرونی مسئلہ ہے‘ ہم مداخلت نہیں کرسکتے۔ فرانس کو اپنی مرضی کے مطابق قانون سازی کا حق ہے۔ جو مسلمان خواتین فرانس میں رہتی ہیں وہ اضطرار کی حالت میں اسکارف چھوڑ سکتی ہیں‘‘۔ البتہ جامعہ الازھر کے باقی علماے کرام اور خود مفتی مصر نے دوٹوک الفاظ میں کہا: ’’حجاب صریح حکم خداوندی ہے۔ کوئی علامت یا اختیاری امر نہیں۔ مخلوق میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ خالق کے حکم سے متصادم احکام جاری کرے‘ یا ان پر عمل درآمد کرے۔ یہی موقف مغرب ومشرق میں مسلم اکثریت کا ہے۔ ۱۷ جنوری ۲۰۰۴ء کو یورپ کے اکثر اور لبنان‘مصر‘ اُردن‘ ترکی‘عراق سمیت متعدد ممالک میں ہزاروں خواتین کے مظاہروں اور اجتماعات میں اس موقف کا اعادہ کیا گیا۔
۱۱ دسمبر کو برنر سٹازے کمیٹی کی رپورٹ سامنے آنے سے پہلے صدرشیراک نے ۳ سے ۵دسمبر کو تیونس کا دورہ کیا اور تیونس میں حجاب پر پابندی کی توصیف و ستایش کی۔ فرانسیسی اخبارات نے ’’بے پردہ تیونس‘‘ کے عنوان سے بڑی بڑی سرخیاں سجاتے ہوئے فرانس کے کئی علاقوں میں یہ اخبار مفت تقسیم کیا۔ واضح رہے کہ تیونس ایسا اکلوتا مسلم ملک ہے جہاں کے دستور میں اسکارف پر پابندی (شق ۱۰۸) ہے۔ سر پر اسکارف رکھنے والی خواتین کو تعلیم‘ ملازمت‘ حتیٰ کہ علاج کے حق سے بھی محروم کردیا جاتا ہے۔ ترکی میں بھی یہ مسئلہ گمبھیر ہے لیکن وہاں یہ پابندی دستور میں نہیں‘ اعلیٰ تعلیمی کونسل کے احکامات کے طور پر لاگو ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تمام تر پابندیوں‘ تعذیب اور سزائوں کے باوجود ان دونوں ممالک میں بھی اسکارف رکھنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ حکمران اس اضافے پر حیران و ششدر ہیں۔ فرانس میں یہ پابندی لگنے کے بعد وہاں بھی اس تعداد میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ عام مسلمانوں کے دل میں یہ احساس قوی تر ہوا ہے کہ فرانس میں لگنے والی اس پابندی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا گیا‘ تو یہ وبا دیگر مغربی ممالک میں بھی پھیلتی چلی جائے گی۔ اب بلجیم سے بھی یہ صدا اٹھی ہے کہ پاسپورٹ اور شناختی کارڈوں کی تصویر میں تمام خواتین کا ننگے سر ہونا ضروری ہے۔ فرانس میں اس پابندی پر احتجاج اس متعدی مرض کو پھیلنے سے روکنے کی ایک لازمی تدبیر بھی ہے۔
ایٹمی ہتھیار بنانے کے منصوبے سے لیبیا کی پسپائی کا اعلان گذشتہ ماہ کی سب سے بڑی خبر بنا رہا اور امریکہ نے بجا طور پر اسے اپنی فتح قرار دیا۔ کرنل قذافی کا امیج عالمِ اسلام میں ایک دم مجروح ہوکر کاغذی شیرکی سطح پر آگیا۔ البتہ مغرب میں انھیں کچھ خیرسگالی حاصل ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس فیصلے کے پیچھے کرنل قذافی کا اتنا زیادہ ہاتھ نہیں جتنا کہ ان کے بیٹے سیف الاسلام قذافی کا ہے۔ خود سیف الاسلام نے برطانوی اخبار کو انٹرویو میں بتایا کہ انھوں نے ہی اپنے والد کو قائل کیا تھا۔ ممکن ہے قذافی اپنا امیج بچانے کی خاطر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ فیصلے کا کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ ان کے بیٹے کو جاتا ہے‘ تاہم مغربی میڈیا کی یہ اطلاعات قابلِ غور ہیں کہ فیصلہ راتوں رات نہیں ہوا بلکہ مغرب کے ساتھ سفارت کاری کا عمل کئی ماہ سے جاری تھا۔
آمر حکومتیں ہمیشہ غیرملکی دبائو کے مقابلے میں پسپا ہوجاتی ہیں۔ اندرونِ ملک انھیں عوامی طاقت کا سہارا نہیں ہوتا چنانچہ انھیں ڈھیر ہونا ہی پڑتا ہے۔ لیبیا پر عالمی دبائو تولاکربی طیارے کے حادثے کے وقت سے ہی چلا آرہا ہے لیکن ماضی میں سوویت یونین موجود تھا‘ اس لیے ۱۹۹۰ء میں اس کے انہدام تک لیبیا نے آسانی سے اس دبائو کا مقابلہ کرلیا۔ ۹۰ء کے بعد کے حالات اس طرح کے ہوئے کہ لیبیا پر زیادہ توجہ نہ رہی۔ پہلے عراق کی جنگ چھڑی۔ پھر امریکی توجہ کا مرکز فلسطین رہا۔ سعودی عرب کے اندرونی مسائل بھی امریکی توجہ کھینچتے رہے۔ اسی دور میں بلقان کا مسئلہ اُبھرا اور کلنٹن دورِ حکومت میں امریکہ کی سب سے زیادہ توجہ اسی طرف رہی۔ پہلے بوسنیا اور پھر کوسووا کی صورت حال عالمی فلیش پوائنٹ بنی رہی۔ چنانچہ لیبیا کی پوزیشن اس نالائق طالب علم کی طرح رہی جس کی طرف استاد ابھی متوجہ نہ ہوا ہو۔ اس طرح وہ اپنا ایٹمی پروگرام خفیہ طور پر آگے بڑھاتا رہا۔ اس عمل میں اسے شمالی کوریا سے بھی مدد ملتی رہی۔ لیکن عراق پر حملے کے بعد سے لیبیا کو اپنی کمزور پوزیشن کا احساس ہونا شروع ہوا۔ گذشتہ ڈیڑھ ماہ میں ایران نے بھی اپنے ایٹمی پروگرام پر لچک دکھائی اور لیبیا کو محسوس ہوا کہ ایران اب عراق کے وار تھیٹر میں امریکہ کا عملاً اتحادی ہے اور اس کے ساتھ گرم محاذآرائی کی پالیسی بھی تبدیل ہورہی ہے۔ لیبیا نے دیکھا کہ وہ یکہ و تنہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان نے نائن الیون کے بعد جس طرح اچانک یک طرفہ پسپائی دکھائی‘ عراق کی فتح اور لیبیا کی اپنے ایٹمی پروگرام سے دستبرداری اسی کا دوسرا اور تیسرا حصہ ہے۔ امریکہ یکے بعد دیگرے مورچے فتح کرتا جا رہا ہے کیونکہ پاکستان نے اس کی ’’چین ری ایکشن‘‘فتوحات کا دروازہ کھول دیا ہے۔
برسرِاقتدار آنے کے بعد سے کرنل قذافی کی یہ شعوری کوشش رہی کہ وہ جمال ناصر کی جگہ لے لیں اور عرب دنیا کو عرب قوم پرستی کے نام پر متحد کریں۔ لیکن اس کوشش میں وہ عرب دنیا کو مزید منتشرکرنے کے سوا کچھ نہ کرسکے۔ عراق کی فتح سے قبل قذافی پان عرب ازم اور پان اسلام ازم سے تائب ہوکر عظیم تر افریقہ کے مبلغ بن چکے تھے اور پورے افریقہ کو ایک ہی ملک بنانے کا منصوبہ شروع کر چکے تھے۔ لیکن ان کا یہ منصوبہ اپنی کمزوری کی وجہ سے اور کچھ عراق پر امریکی قبضے کی وجہ سے ادھورا رہ گیا اور قذافی کو اپنی اور اپنے ملک کی فکر پڑ گئی۔
اپنے بچائو کے لیے سب سے پہلے انھوں نے لاکربی تنازعہ نمٹانا چاہا اور حادثے میں مرنے والوں کے لواحقین کو بھاری معاوضہ دینے کا اعلان کر دیا۔ یہ کھلا اعتراف تھا کہ لاکربی کے حادثے میں لیبیا سرکاری طور پر ملوث تھا۔ اس حادثے کی وجہ سے سلامتی کونسل نے جو پابندیاں لگائی تھیں‘ وہ اس نے مذکورہ اعلان کے بعد اٹھالیں۔ اس سے قذافی کو کافی ریلیف ملا اور اب انھوں نے مغرب اور امریکہ کی مزید ’’گڈوِل‘‘حاصل کرنے کی ٹھانی۔ کئی مہینے تک امریکہ اور مغرب کے سفارت کاروں سے رابطے اور خفیہ یقین دہانیوں کا عمل جاری رہا جس کے بعد اچانک دسمبر۲۰۰۳ء میں لیبیا کا یہ اعلان سامنے آکر پوری دنیا کو چونکا گیا کہ وہ وسیع تباہی والے ہتھیار بنانے کے اپنے منصوبے ترک کر رہا ہے۔ اس اعلان کو برطانیہ نے سراہا اور امریکہ نے اسے آزاد دنیا سے تعلقات بحال کرنے کے لیے ایک مثال قرار دیا۔ عرب لیگ نے لیبیا کے فیصلے کو سراہتے ہوئے آزاد دنیا سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل سے بھی ایسے ہی فیصلے کا مطالبہ کرے۔
برطانیہ کا سرکاری بیان یہ ہے کہ لیبیا کو قائل کرنے کے لیے سفارتی عمل نو ماہ سے جاری تھا۔ مغربی میڈیا کی تحقیقاتی رپورٹنگ سے یہ بات سامنے آئی کہ فیصلہ کُن مہینہ اصل میں اکتوبر کا تھا جب امریکی اور برطانوی انٹیلی جنس افسروں کی ایک مشترکہ ٹیم نے لیبیا میں قذافی کے ساتھ طویل مذاکرات کیے۔ یہ ٹیم دو ہفتے تک لیبیا میں رہی اور قذافی نے خود اسے اپنے اسلحی پروگرام کے خفیہ اڈوںکا معائنہ کرایا۔ ان میں میزائل سازی‘ کیمیائی اور حیاتیاتی اسلحے کے کارخانوں کے علاوہ ایٹمی پلانٹ بھی شامل تھا جس کے بارے میں امریکہ کی ابتدائی اطلاعات یہ تھیں کہ وہاں سات برس میں ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کی جاسکتی ہے۔ لیکن جب ٹیم نے معائنہ کیا تو پتاچلا کہ سات برس کا اندازہ غلط تھا۔ لیبیا محض ایک ڈیڑھ سال کے فاصلے پر تھا۔
عالمی دبائو اور عالمی تنائو کے عوامل کے ساتھ ساتھ قذافی کو ایک داخلی چیلنج کا بھی سامنا تھا۔ اگرچہ ان کی آمرانہ حکومت ایک تہائی صدی سے قائم ہے اور اس دوران وہ تنقید کرنے والے ہر شخص کو موت کے گھاٹ اتارتے رہے ہیں لیکن نائن الیون کے آگے پیچھے کا زمانہ دوسرے ممالک کی طرح یہاں بھی زیرزمین اسلامی انتہاپسندی کے عروج کا زمانہ تھا۔ یہ انتہا پسند زیادہ مقبولیت اور طاقت حاصل کرتے نظر آرہے تھے۔ چنانچہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے بھی ضروری تھا کہ امریکہ کی آغوش میں پناہ لی جائے۔ لیبیا کا دورہ کرنے والی انٹیلی جنس ٹیم کے ایک افسرنے خبر رساں ایجنسی رائٹر کو بتایا کہ انتہاپسندی کے خلاف جنگ میں ہم قذافی سے اشتراک کے لیے تیار ہیں۔ اس افسر نے بتایا کہ لیبیا میں انتہاپسندوں کے کئی گروپ موجود ہیں جو ہر طبقے کے لوگوں کو ڈرادھمکا رہے ہیں۔ رائٹر کی یہ رپورٹ ۲۰ دسمبر۲۰۰۳ء کو جاری ہوئی اور اس سے پتاچلا کہ آہنی پردوں والے لیبیا میں ’خطرناک‘ لوگوں کے ایک دو نہیں‘ کئی گروپ کام کررہے ہیں اور وہ اتنے طاقت ور بھی ہیں کہ مقابلے کے لیے تنہا لیبیا کی حکومت کافی نہیں‘ اسے امریکی تعاون بھی درکار ہے۔ رپورٹ سے ظاہر ہے کہ امریکہ ہر تعاون فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔
اسی ٹیم کے ایک اور افسر نے بتایا کہ سفارت کاری کا یہ سارا عمل ہم نے پوری طرح خفیہ رکھا اور ساری ملاقاتیں صرف لیبیا میں نہیں ہوئیں بلکہ بعض اجلاس یورپ میں بھی ہوئے۔ انھی افسروں نے بتایا کہ سلسلہ جنبانی کا آغاز خود قذافی نے وسط مارچ میں کیا تھا۔ ان ملاقاتوں میں قذافی کا طرزِعمل یہ تھا کہ وہ اپنے تباہ کن ہتھیاروں کے پروگرام کے بارے میں اعتراف پر اعتراف کیے چلے جا رہے تھے‘ یعنی خود ہی ایک ایک تفصیل بتا رہے تھے۔ افسروں کی مذکورہ ٹیم کو مہلک ہتھیار بنانے کے کم از کم ایک درجن اڈے دکھائے گئے۔ ٹیم کو وہ جدید اور ترقی یافتہ میزائل بھی دکھائے گئے جو شمالی کوریا نے ۱۹۹۰ء کی دہائی کے شروع میں اسے فراہم کیے تھے۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق لیبیا کی اس پسپائی کے محرکات میں عالمی دبائو اور داخلی صورت حال کے علاوہ معاشی بحران بھی شامل تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق لیبیا کی معیشت کو کمزوری کا سامنا ہے اور اس کے عوام کا معیارِ زندگی تیل پیدا کرنے والی خلیجی ریاستوں کے مقابلے میں گر رہا ہے۔ تاہم یہ عامل ثانوی نوعیت کا ہوسکتا ہے‘ بنیادی نہیں۔
شمالی کوریا کے علاوہ‘ لیبیا کے ایٹمی پروگرام میں تعاون کرنے کا الزام ایران اور پاکستان پر بھی لگ رہا ہے۔ جاپان کے ایک اخبار سانکی شمبون کی رپورٹ کے مطابق شمالی کوریا کے کئی درجن سائنس دان اور انجینیرکئی برس تک لیبیا میں تباہ کن ہتھیاروں کی تیاری میں ملوث رہے۔ اس سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان ۱۰۰ کے قریب معاہدے ہوئے۔ اسی طرح ایران کے بھی کئی انجینیرلیبیا میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ پاکستان کو خود قذافی کے بیٹے سیف الاسلام نے ملوث کیا۔ برطانوی اخبار انڈی پنڈنٹ کو انٹرویو میں اس نے بتایا کہ دسیوں لاکھ ڈالر کے معاوضے پر پاکستانی سائنس دانوں نے لیبیا کو اہم ایٹمی معلومات دیں جن کی وجہ سے لیبیا ایٹم بم بنانے کے قریب پہنچ گیا۔ پاکستان کی تردید اور غالباً خفیہ احتجاج کے بعد پاکستان میں لیبیا کے سفارت خانے نے جو وضاحتی بیان دیا اس میں بتایا کہ سیف الاسلام نے یہ بات ’’شاید‘‘ کے لفظ کے ساتھ کہی تھی۔
لیبیا کو توقع تھی کہ وہ اچانک امریکہ کا ڈارلنگ بن گیا ہے۔ اس لیے اب امریکہ اس پر سے عائد پابندیاں اٹھا لے گا لیکن اسے یہ معلوم کر کے سخت مایوسی ہوئی کہ صدربش ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ بش نے واضح الفاظ میں بیان جاری کیا کہ لیبیا اپنے اسلحی پروگرام کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔ جب وہ ایسا کرلے گا توہم جوابی خیرسگالی اقدام کریں گے‘ فی الحال پابندیاں نہیں اٹھائی جاسکتیں۔ ان پابندیوں کے تحت امریکہ میں لیبیا کے تمام اثاثے منجمد ہیں جن کی مالیت سیکڑوں ملین ڈالر ہے۔
لیبیا نے پسپائی میں مزید پیش رفت کرتے ہوئے اسرائیل سے بھی رابطے کیے ہیں اور مختصر عرصے میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا قوی امکان ہے۔ لیبیا کے نمایندوں نے جنوری کے پہلے ہفتے میں اسرائیلی وزیراعظم شیرون سے ملاقات کی تھی اور ان سے استدعا کی تھی کہ بوجوہ اس ملاقات کو اخفا میں رکھا جائے‘ لیکن اسرائیل کے ایک اخبار نے یہ خبر شائع کر دی جس پر لیبیا نے برہم ہوکر اس امر کی تردید کر دی کہ وہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کرنے والا ہے‘ تاہم یہ قضیہ نہ ہونے کے برابر ہے اور جلد طے ہوجائے گا۔ یہ امر دل چسپی کا حامل ہے کہ انکشاف خود شیرون نے کیا۔ اسرائیلی ذرائع کے مطابق اسرائیل کی وزارتِ خارجہ لیبیا سے تعلقات کی بحالی کی حامی ہے لیکن شیرون کا کیمپ ایسا نہیں چاہتا۔
لیبیا نے بھی اپیل کی تھی اور امریکہ نے بھی کہا تھا کہ اب شمالی کوریا اور ایران بھی لیبیا کی پیروی کریں لیکن شمالی کوریا نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔ شمالی کوریا نے کہا ہے کہ اگر امریکہ کو ایسی کوئی توقع ہے تویہ اس کی حماقت ہے۔ یہ بیان ملک کی وزارتِ خارجہ نے دیا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ لیبیا کی اس پسپائی کے بعد شام پر دبائو بڑھے گا جس نے ترکی سے دوستی بڑھا کر اس دبائو کا مقابلہ کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ صدر بش ۱۲ دسمبر کو شام پر اقتصادی اور سفارتی پابندیوں کی منظوری دے چکے ہیں جو شام کے محاصرے کا آغاز سمجھی جانی چاہییں۔ امریکہ کے شام پر جو الزامات ہیں ان میں سرفہرست دو ہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ دہشت گرد گروپوں کی امداد کر رہا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ ہتھیار بنا رہا ہے۔ شام نے صرف ایک جوابی بیان دیا ہے کہ اسرائیلی خطرے کے پیشِ نظر اسے ہر قسم کااسلحہ بنانے کا حق حاصل ہے۔ عرب سفارتی حلقوں میں یہ رائے عام ہے کہ شام امریکہ سے ’’سفارتی صلح‘‘ کی کوشش کرے گا۔
سوال: کچھ عرصہ قبل ’رسائل و مسائل‘میں اپنے باپ کے نامناسب رویے پر ایک بیٹے کا جواب ’والد سے حق کی وصولی‘ (جولائی ۲۰۰۳ئ) شائع ہوا تھا۔ میں ایک باپ کی حیثیت سے ناخلف بیٹے کے رویے کے بارے میں قرآن و سنت سے رہنمائی چاہتا ہوں۔
میرا بڑا بیٹا اپنے بیوی بچوں کے ساتھ الگ مکان میں رہتا ہے۔ ۲۰سال قبل اپنی معاشی پریشانی کے پیشِ نظراپنے باپ سے مدد کے لیے کہتا ہے۔ بحیثیت والد اس کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے میں اپنے ذاتی اثاثے فروخت کرکے ایک دکان خرید کر بیٹے کے حوالے کر دیتا ہوں اور کاروبار کی بہتری کے لیے امکانی حد تک تعاون کرتا ہوں۔ میرے بیٹے نے مجھے یقین دہانی کرائی تھی کہ اس دکان کے آپ ہی مالک ہیں اور جیسے آپ چاہیں گے ویسا ہی ہوگا۔ میرا بیٹا تحریکِ اسلامی سے بھی وابستہ ہے‘ رکن ہے۔ لیکن اچانک ایک روزبغیرکسی مشورے اور اطلاع کے میرے بیٹے نے وہ دکان فروخت کر دی۔ اب میں اس پیرانہ سالی میں انتہائی کس مپرسی کے حالات میں زندگی گزار رہا ہوں‘ اپنی بیوی اور بیٹی کے اخراجات برداشت کر رہا ہوں۔ میرا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے اور خیرات اور زکوٰۃ پر گزربسر کرتے ہوئے مجھے شرمندگی بھی ہوتی ہے۔ سرِدست خدا کی ذات پر بھروسا اور صبر کا سہارا ہے۔ اپنے حق کی وصولی کے لیے میرا کیا طرزِعمل ہو‘ نیز ایسے بیٹے کے ساتھ ایک باپ کا کیا رویہ ہونا چاہیے؟
جواب: آپ نے اپنے صاحبزادے کے طرزِعمل کے بارے میںجو تفصیلات لکھی ہیں وہ ہر حساس اور اللہ سے ڈرنے والے کے لیے تکلیف کا باعث ہیں لیکن حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب تک ہر دو جانب سے بات نہ سن لی جائے‘ کوئی قطعی راے نہ قائم کی جائے۔ ویسے تمام تفصیلات لکھنے کے باوجود آپ کے خط میں کوئی واضح سوال بھی نہیں اٹھایا گیا۔ غالباً مدعا یہی ہوگا کہ اس طرح کے طرزِعمل کے بارے میں ایک باپ کا ردعمل کیا ہو۔ جو کچھ آپ نے تحریر فرمایا ہے اس میں آپ کا ردعمل وہی نظر آتا ہے جو اسلام چاہتا ہے یعنی اپنی اولاد کی طرف سے مایوس کن اور غیرمتوقع رویے کے باوجود قطع رحمی نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس پر بہترین اجر دے اور صبرواستقامت کے ساتھ اس تکلیف دہ صورت حال کو برداشت کرنے کی توفیق بخشے۔
آپ نے خط میں جو مسائل اٹھائے ہیں ان میں پہلا یہ ہے کہ اگر آپ نے اپنے بیٹے کو ایک دکان خرید کر دی جس کی ملکیت اس کے نام ہے اور آپ اس کا انتظام ونگرانی کر رہے ہیں تو کیا قانونی طور پر اسے اس دکان کو فروخت کرنے کا حق ہے یا نہیں؟ میرے خیال میں بات واضح ہے۔ اگر آپ نے دکان اس کے نام سے خریدی ہے تو اصل مالک تو بیٹا ہی ہوا۔ اب یہ آپ کا ایک انتظامی معاملہ تھا کہ آپ دکان پر بیٹے سے تعلق کی بنا پر محنت کے ساتھ وقت دیتے رہے۔ دراصل مالی معاملات میں قرآن کریم نے بلاتخصیص یہ اصول رکھا ہے کہ ہر معاہدے کو تحریر میں لے آیا جائے۔ اگر آپ نے یہ بات تحریر کرالی ہوتی کہ جب تک آپ حیات ہیں اس وقت تک آپ دکان کے مالک و منتظم ہوں گے توآپ کا بیٹا بھی اس معاہدے کا پابند ہوتا۔
یہاں تک تو بات قانونی نوعیت کی تھی۔ اس معاملے کا دوسرا زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ قرآن وسنت نے والدین کو جو مقام خاندان میں دیا ہے‘ اس کے پیشِ نظر اگر ایک باپ مفلس بھی ہو اور بیٹا مال دار ہو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق: وہ اور اس کا مال سب اس کے باپ کا ہے۔ اس حدیث کی تعبیر بعض حضرات یہ کرتے ہیں اس میں ترغیب و تعلیم ہے تشریع نہیں ہے۔ لیکن اگر حدیث کے سیاق پر غور کیا جائے تو بات محض اخلاقی وعظ کی نہ تھی بلکہ ایک باپ نے حضورؐ سے اپنے بیٹے کی شکایت کی تھی۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ باپ اور بیٹا دونوں صحابی تھے اور ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اصحاب رسولؐ ہر لحاظ سے ہم سے زیادہ اللہ کا خوف کرنے والے اور تربیت یافتہ تھے۔ گویا اس تربیت کے باوجود ایک بیٹا بوجوہ‘ اپنے باپ کی ضروریات سے لاپروائی برتتا ہے حتیٰ کہ باپ کو نبی کریم ؐ سے شکایت کی نوبت آتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان صحابی کی مثال کی روشنی میں آج کا بیٹا باپ کی ضروریات سے لاپروا ہوجائے یا ایسے معاملات میں جن میں مشاورت کا حکم دیا گیا ہے خود کو بالغ سمجھتے ہوئے جو چاہے کرڈالے‘ بلکہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیٹے پر باپ کا کتنا زیادہ حق ہے‘ اس لیے آپ کے صاحبزادے نے آپ کے بیان کے مطابق جو کچھ کیاہے‘ وہ مناسب نہیں۔ انھیں آپ سے مشورے کے بعد دکان کا معاملہ طے کرنا چاہیے تھا اور آپ کے حقوق کا مکمل احترام و اہتمام کرنا چاہیے تھا۔
مزید یہ کہ اگر وہ جانتے ہیں کہ آپ کتنی سخت مالی مشکلات میں ہیں تو قرآن کا حکم ان کے لیے واضح طور پر یہ ہے کہ اپنے والدین پر خرچ کرو‘ بطور احسان نہیں بلکہ بطور فریضہ۔ اور آپ کو بھی ان سے مالی خدمت لینے میں کوئی تکلف نہیں کرنا چاہیے۔ یہ آپ کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ اولاد اور والدین دونوں کو راہِ راست پر چلنے کی توفیق دے۔ ضمناً یہ بھی عرض کر دوں کہ ایسے معاملات میں اگر لڑکا کسی ناانصافی کا مرتکب ہو رہا ہے اور اس کا تعلق اسلامی تحریک سے ہے تو تحریک کے نظم یا خاندان کے ایسے افراد سے رجوع کیا جاسکتا ہے جو لڑکے پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔(ڈاکٹر انیس احمد)
س : میں سندھ میڈیکل کالج کراچی کی طالبہ ہوں۔ ہمارے کالج میں شہر کا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ طبقہ آتا ہے‘ تاہم یہاں کا ماحول ان کے لیے زہرقاتل کا کام انجام دے رہا ہے۔ کالج میں طلبہ کی سیاسی تنظیموں کی بھرمار ہے اور ہرتنظیم بدی کو پھیلانے میں اپنا پورا حصہ ڈال رہی ہے۔ خصوصاً ایم کیو ایم کی اے پی ایم ایس او‘ پنجابی پختون ایسوسی ایشن‘ سندھی میڈیکوز وغیرہ۔ ان تمام تنظیموں کی دو طرح کی سرگرمیاں ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف کالج میں بدی اور بدامنی کا فروغ ہے۔ تفریح کے نام پر میوزیکل کنسرٹ‘غزل نائٹ‘ اسپورٹس ویک جیسے پروگرام اتنے تواتر سے ہوتے ہیں کہ تقریباً ہرماہ ایک پروگرام ضرور کالج میں ہورہا ہوتا ہے۔ جس دن یہ پروگرام ہوتے ہیں اُس سے ایک ہفتہ پہلے ہی یہ تنظیمیں پورے کالج کی تعلیمی سرگرمیاں بند کرا دیتی ہیں اور پھر ریہرسل کے نام پر پورا پورا دن تیز میوزک‘ ڈانس اور اس طرح کی دیگر سرگرمیاں کالج کے اندر ہوتی رہتی ہیں۔ نہایت افسوس کا مقام یہ ہے کہ طلبہ و طالبات کی کثیرتعداد ان سرگرمیوںمیں بھرپورحصہ لیتی ہے۔ دین کی سمجھ اور اللہ رب العالین کی عطا کردہ غیرت رکھنے والا دل‘ یہ سب کچھ بہت مشکل سے برداشت کرپاتا ہے۔ ان حالات میں ہم‘ اسلامی جمعیت طالبات‘ میوزک کے حوالے سے پوسٹرز‘ جن میں قرآنی آیات درج ہوتی ہیں‘ کالج میں لگاتے ہیں۔ اس کے علاوہ طالبات سے خصوصی ملاقات کر کے انھیں اس حوالے سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود نہ صرف یہ کہ وہ ان پروگراموں میں شرکت کرتی ہیں بلکہ جمعیت طالبات سے کترانے بھی لگتی ہیں۔
گذشتہ کئی برسوں سے کالج میں ’فرسٹ ایئرفولنگ‘کے نام پر انتہائی قبیح برائی جاری ہے جس میں نئے آنے والوں کو محض بے وقوف بنانے ہی پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ لیکچر کے دوران ساری تنظیموں کے لڑکے اور لڑکیاں کلاسوں میں داخل ہوکر‘ٹیچر کو کلاس سے باہر نکال دیتے ہیں اور کمرے بند کر کے لڑکے اور لڑکیوں کے ساتھ انتہائی قابلِ مذمت اور شرمناک حرکتیں کرتے ہیں۔ اس مسئلے پر جمعیت طالبات نے پرنسپل سے بات کی‘ اساتذہ سے ملاقاتیں کیں کہ وہ اس غلط حرکت کو روکیں‘ تاہم پرنسپل تو عموماً ان اوقات میں غائب ہوجاتے ہیں‘ ٹیچر بھی کچھ نہیں کرتے اور ایک دفعہ تو اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک سابق رفیق‘ ہمارے ٹیچر نے اُلٹا ہمیں ہی ڈانٹ دیا کہ ’’آپ یہاں ڈاکٹر بننے آئی ہیں مسلمان نہیں۔ اسلام کو مسجد تک رہنے دیں‘‘۔ غرض اس طرح کا رویہ اساتذہ کا ہے۔ جہاں تک طلبہ و طالبات کی بات ہے تو واقعی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ طلبہ کی بہت بڑی تعداد ان تمام چیزوں سے محظوظ ہوتی ہے۔ یقین کیجیے کہ اُس وقت دل خون کے آنسو رو رہا ہوتا ہے جب پورا کالج گانوں کی آواز سے گونج رہا ہوتا ہے اور ساتھ ہی لڑکے لڑکیاں اس آواز پر جھوم رہے ہوتے ہیں۔
ان حالات میں ہم کالج میں ہفتہ وار درسِ قرآن رکھتے ہیں۔ دو سال پہلے تک طالبات کی اچھی خاصی تعداد اس میں شرکت کیا کرتی تھی‘ لیکن اب آہستہ آہستہ یہ تعداد گھٹتی جا رہی ہے۔ اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ درس میں صرف اور صرف کارکنان ہی آتی ہیں۔ طالبات کے ساتھ ملاقاتیں کی جاتی ہیں جس میں کبھی ان کے ساتھ مل کر حدیث یا قرآن کا مطالعہ کرلیا جاتا ہے‘ کبھی کوئی اور اچھی بات‘ لیکن گذشتہ دو برسوں سے ہمارا یہ مشاہدہ ہے کہ اب طالبات ہماری بات سننے کو بھی تیار نہیں ہوتیں۔ اگرچہ پورے کالج میں عام تاثر یہ ہے کہ جمعیت سے وابستہ طالبات اخلاق اور پڑھنے کے لحاظ سے بہت اچھی ہوتی ہیں۔ لہٰذا لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے ہمارے پاس آتے ہیں۔ امدادِ طالبات کے حوالے سے ہمارا بھی کافی کام ہے۔ مستقل بُک بنک ہے‘ کتابوں کی لائبریری ہے‘ طالبات کی ضرورت کے حوالے سے نوٹس وغیرہ بھی مفت تقسیم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وظائف بھی دیے جاتے ہیں۔ غرض طالبات اپنے کاموں کے لیے تو ہمارے پاس خوشی خوشی آتی ہیں لیکن اگر ہم ان کے پاس قرآن یا پھر اس حوالے سے کسی اور پروگرام کے لیے جاتے ہیں تو وہ فوراً کسی دوسری طرف چلی جاتی ہیں یہاں تک کہ جب گرلز کامن روم میں درسِ قرآن ہوتا ہے تو باہر ہی سے دیکھ کر وہ اُلٹے قدموں واپس لوٹ جاتی ہیں۔
ہم اپنے تئیں انھیں مثبت تفریح فراہم کرنے کے لیے کالج کی سطح پر بہت بڑا میلہ بھی منعقد کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف پروگراموں میں ڈرامے وغیرہ بھی ہوتے ہیں لیکن طالبات کی شرکت بہت کم رہتی ہے۔ غرض یہ کہ ہم ہر طرح سے کوشش کرتی ہیں کہ انھیں تفریح بھی فراہم کریں اور اللہ کا پیغام بھی پہنچا دیں۔ لیکن ہم یہ محسوس کرتی ہیں کہ ہماری تمام کوششیں اور محنتیں اس وقت ضائع ہوجاتی ہیں جب لوگ ہماری بات تک سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ قریبی سہیلیاں تک دُور ہو جاتی ہیں۔ یہ تاثر بھی ہے کہ لوگ ہم سے اس لیے دُور ہوجاتے ہیں کہ ہم روک ٹوک کرتی ہیں۔ ہم لوگ آزمایش اور کام کی محنت سے تو نہیں گھبراتے لیکن بس یہ بات پریشان کر دیتی ہے کہ کیا دعوت کا کام رُک جائے گا‘ دعوت محدود ہو جائے گی؟
ازراہ کرم ہماری رہنمائی فرما دیجیے کہ ہمیں اپنی تربیت کے کن پہلوئوں پر زیادہ توجہ دینی چاہیے؟ دعوت کے کٹھن میدان میں آنے والی ان مشکلات کا سامنا کیسے کیا جائے اور کیا حکمت عملی اختیا ر کی جائے‘ اور کن دعوتی اصولوں کو مدنظر رکھا جائے‘ نیز اس طرح کے حالات کو انقلابِ اسلامی کے لیے ہونے والی کوشش اور ان کے اثرات کے حوالے سے کس نظر سے دیکھا جائے؟
ج: آپ نے اپنے میڈیکل کالج میں جس ماحول کا تذکرہ اپنے مفصل خط میں کیا ہے‘ وہ آپ کے کالج تک محدود نہیں بلکہ گذشتہ ۵۵سال سے قوم کی غفلت اور اپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے کے سبب ایک سرطان کی طرح ملک کی تمام درس گاہوں میں پھیل چکا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ نہ بھولیے کہ ان ۵۵ برسوں میں نوجوان نسل میں آپ جیسی باشعور‘ بااصول اور باہمت قیادت کرنے والی بچیاں بھی اُبھر کر سامنے آئی ہیں اور انھوں نے خراب سے خراب ماحول میں اپنے کردار‘ اپنے لباس ‘ اپنے تعلیمی نتائج غرض ہرحیثیت سے اپنے آپ کو ممتاز حیثیت میں پیش کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کفر اور فحاشی اور عریانیت کے سورمائوں کے مقابلے میں ایک باشعور اور باکردار بچی کا اپنے دین پر قائم رہنا زیادہ بھاری ہے اور اس کا وجود کفراور فحاشی کے ایوانوں کو لرزانے کے لیے کافی ہے۔
جہاں تک محافلِ موسیقی اور دیگر غیر اخلاقی پروگراموں اور ان کی ریہرسل کے ذریعے‘ طلبا تنظیموں کی جانب سے تدریسی عمل میں خلل ڈالنے کا سوال ہے تو اس میں آپ کو ایک جانب کالج کی انتظامیہ پر کام کرنا ہوگا اور دوسری جانب یہ دیکھنا ہوگا کہ جو طلبہ اور طالبات موسیقی اور گانوں کے اسیرہوچکے ہیں‘ انھیں کس طرح اس لت سے نکالنا ہے۔ قرآن کریم نے اہلِ مکہ کے حوالے سے ہمیں بتایا ہے کہ وہ بھی دعوت اسلامی کا مقابلہ کرنے کے لیے دلائل کے بجاے لہوالحدیث ہی کو لائے تھے‘ چنانچہ ناچنے گانے والے اور قصہ گو طائفوں اور موسیقاروں کے ذریعے انھوں نے اہلِ مکہ کو منکرات میں اُلجھانا چاہا اور اس میں کامیاب بھی ہوئے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوتی سرگرمی میں کوئی کمی نہ کی۔ اور ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کے بارے میں یہ بات کہی کہ اگر تم قصوں کو اہمیت دیتے ہو تو ہم تمھیں احسن القصص سناتے ہیں گویا ایسے کوائف جو بجاے منکر کے مُعروف اور بھلائی اور نیکی کی طرف لے جانے والے ہوں۔
آپ ایک جانب کالج کی انتظامیہ کے لیے ایک حکمت عملی بنائیں کہ ان میں کون سے افراد ایسے ہیں جو دلی طور پر فحاشی کے حامی نہیں ہیں لیکن ماحول کی وجہ سے خاموش ہیں اور کون لوگ آپ کی سی فکر رکھتے ہیں اور کتنے افراد فحاشی کی حمایت کرنے والے ہیں۔ آخری قسم کو چھوڑ کر بقیہ کے لیے ایک منصوبہ بنائیں‘ ان سے کالج میں ہونے والے واقعات پر‘ ایسے وفود کی شکل میں ملیے‘ جس میں نہ صرف باحجاب بلکہ ایسی لڑکیاں بھی ہوں جو حجاب نہ کرتی ہوں لیکن آپ کی مخالفت بھی نہ کرتی ہوں اور برائی کو برائی سمجھنے میں آپ کی ہم خیال ہوں۔ یہ کام صبر اور ہمت سے کافی عرصہ کرنا ہوگا جب اس کے اثرات نظرآئیں گے۔
دوسری جانب بجاے محض پوسٹرلگانے یا محض درسِ قرآن یا درسِ حدیث کرنے کے‘ دیگر ایسے موضوعات پر پینل ڈسکشن یا ڈائیلاگ کروائیں جن میں دیگر طالبات کو بھی دل چسپی ہو۔ شام غزل میں اگر آپ لوگ ایسے شعرا کا کلام منتخب کریں جس میں کوئی فحاشی نہ ہو‘ چاہے وہ شعرا اسلامی ادب کی تحریک سے وابستہ نہ ہوں۔ اردو شاعری میں میرتقی میر‘سودا‘ غالب‘ مومن‘ ذوق‘ حالی سے اقبال‘ حسرت‘ اصغر‘ جگر‘ ماہر‘ فضلی‘ نعیم صدیقی اور منیرنیازی تک ہر شاعر کے یہاں اچھی غزلیں اور نظمیں ہیں جن کو جائز تفریحی پروگراموں میں بلاتکلف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ طالبات کو ایک متبادل ماحول دیکھنے کا موقع ملنا چاہیے۔ یاد رکھیے جب کوئی شخص آپ سے بھاگنا شروع کر دے تو اس پر الزام دینے کے بجاے اپنی حکمت عملی پر غور کیجیے کہ اس میں کیا کمی یا خامی ہے۔ بعض اسلامی فکر رکھنے والے افراد نے ایسے نغمے لکھے ہیں جو محفلوں میں پیش کیے جاسکتے ہیں‘ مثلاً یوسف اسلام کے بعض نغمے۔ جو حضرات اسلام کو مسجد میں قید کرنے کے قائل ہیں انھیں بھی lost case نہ سمجھیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں میں برکت دے کر انھیں بھی آپ سے قریب لاسکتا ہے۔
اپنے متعین سوالات کے حوالے سے پہلی بات یہ یاد رکھیے کہ گفتگو کا مقصد تو لازماً قرآن و سنت سے قریب لانے کی خواہش میں ہونا چاہیے لیکن گفتگو کے موضوعات میں کرکٹ میچ‘ کسی ٹی وی ڈرامے کی کہانی‘ شہرمیں ہونے والا کوئی واقعہ‘ کالج کی سرگرمیوں پرتبصرہ‘ کسی طبی فنی معاملے میں ہونے والی کوئی تحقیق‘ جس میں اسلامی نقطۂ نظر سے بحث کی گئی ہو‘ عالمی حالات‘ ملک کی معاشی صورت حال‘ ثقافت کس چیز کا نام ہے‘ کیا ہندو ثقافت اور ہماری ثقافت میں کوئی اشتراک ہے؟ کیا اسلام کو دہشت گردی سے منسوب کرنا درست ہے؟ کیا امریکہ‘ افغانستان‘ مشرق وسطیٰ اور دیگر مقامات پر دہشت گردی کا مرتکب ہوا ہے؟ کیا اقوامِ متحدہ مسائل کا حل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے؟ گویا قرآن و حدیث تک لانے کے لیے زندگی کے تمام معاملات پر گفتگو کو اختیار کریں۔ اس میں آپ کو بھی مطالعہ وسیع کرنے کی ضرورت ہوگی اور آپ کی image محض درسِ قرآن کی نہیں رہے گی۔ ان تمام موضوعات پر ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارا نقطۂ نظر کیا ہو۔ اگر اس پہلو پر آپ کی سوچی سمجھی رائے دوسروں کے سامنے آئے گی تو یہ بھی دعوت دین ہی ہے۔
دعوت کے ضمن میں یہ بنیادی بات ذہن نشین کرلیجیے کہ جب تک آپ خود ان لوگوں کے قریب نہ ہوں جنھیں قریب لاکر پیغامِ ربانی پہنچانا مقصود ہو تو دعوت کا اثر بھی کم ہوگا۔ طالبات میں امدادی کام‘ امتحانی پرچوں کی فراہمی‘ نوٹس اور کوچنگ اس حوالے سے ملاقات اور تعاون کا ایک اچھا موقع فراہم کرتے ہیں لیکن اس میں مزید نئے راستے نکالنے ہوں گے۔ مثلاً مختلف قسم کے کھانوں کا بازار‘ جس کا مقصد نہ صرف متنوع کھانے فراہم کرنا ہو بلکہ دو تین دن تک اس بہانے عام طلبہ سے تعارف ہو تاکہ آپ بعد میں ان کو دعوت دے سکیں۔
جہاں تک سوال اپنی تربیت کا ہے‘ وہ اس مخالف ماحول میں سوچ سمجھ کر‘ صبرواستقامت‘ اور حکمت کے ساتھ کام کرنے سے ہی خود بخود ہوتی رہے گی۔ اس کے لیے آپ کو الگ سے کوئی ہفتہ تعمیر سیرت منانے کی ضرورت نہیں۔ ہاں مشکلات و مصائب کا مقابلہ کرتے وقت یہ سوال سامنے ضرور لائیں کہ اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ صورتِ حال درپیش ہوتی تو آپؐ اس کا کیا حل نکالتے۔ کس حد تک جاتے اور کن باتوں کونظراندازکرتے‘ کن پر گرفت کرتے‘ جس چیز کا نام اسلامی انقلاب ہے وہ ایک مسلسل تعمیری عمل ہے۔ اس میں فکری تبدیلی‘ عملی اصلاح‘ اجتماعی تربیت و تزکیہ اور آخرکار اداروں کی تبدیلی شامل ہے۔ ظاہر ہے یہ سب کام چند دنوں میں نہیں ہوسکتے۔ اس میں وقت‘ مال‘ انسانی کاوش ہر ایک کا حصہ شامل ہوگا۔ لیکن یہ یقین رکھیے کہ اس تبدیلی کا آغاز ہوچکا ہے اور ان شاء اللہ جلد اس کے اثرات نظرآنا شروع ہوجائیں گے۔(۱-۱)
عالم گیریت یا گلوبلائزیشن‘ اکیسویں صدی کا ایک ایسا فتنہ ہے‘ جو اپنی تمام حشرسامانیوں کے ساتھ تدریجاً‘ لیکن نہایت تیزی سے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتا جا رہا ہے۔ اگرچہ یہ اصطلاح بھی نئی ہے‘ اس کے اطلاقات بھی ‘اور اس کی جڑیں بیسویں صدی کے وسط میں بآسانی تلاش کی جاسکتی ہیں۔ لیکن مغرب سے آنے والی اس یلغار کا تعلق اٹھارھویں‘ انیسویں صدی کے اس دور سے ہے‘ جب اس سمت سے اٹھنے والا طوفان ایشیا‘ افریقہ اور جنوبی امریکہ کے عوام پر قہر بن کر ٹوٹ پڑا تھا۔ مزاحمت کرنے والے سفاکی کے ساتھ نیست و نابود کیے جا رہے تھے‘ وسائل کا بے پناہ استحصال ہو رہا تھا‘ اور قیادت و حکومت’غیروں‘ کے ہاتھوں میں چلی گئی تھی۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد’نوآبادیات‘ کا یہ دور سمٹتا چلا گیا‘ لیکن اس کی جگہ ایک نئے استعمار نے لے لی‘ جو زیادہ ’نفیس‘ ، بظاہر نرم لیکن اندر سے اسی طرح سفاک اور بے رحم تھا۔
۱۹۴۵ء میں اقوامِ متحدہ (جس میں چار بڑی طاقتوں کو ساری دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے ویٹو کا اختیار دیا گیا) اور پھر ۱۹۹۰ء میں ’نیا عالمی نظام‘ (New World Order) اور پھر۱۹۹۵ء میں عالمی تجارتی کانفرنس میں ایک نئی عالمی تنظیم براے تجارت (WTO) کے پردے میں عالم گیریت کے عفریت نے جنم لیا‘ جو اپنی ساری حشرسامانیوں کے ساتھ ساری دنیا میں اکھاڑ پچھاڑ میں مصروف ہے۔ پچھلی صدی میں ۹۰ء کی دہائی میں روس کے انہدام کے بعد (جو مغربی استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کے لیے ایک چیلنج تھا)‘ کوئی قابلِ ذکر طاقت نہ رہی جو اس عفریت کو للکارتی۔ ماوزے تنگ کے بعد چین بھی اس ’زلف‘ کا اسیر ہوگیا‘ اور اب یہ ساری دنیا میں کوس’ ’لمن الملک‘‘ بجا رہا ہے۔
عالم گیریت کے حامی اسے جدیدیت کی ایک ایسی لہر قرار دیتے ہیں‘ جس کے ذریعے یورپ اور امریکہ کی ’خوش حالی‘ ساری دنیا کا مقدر بن جائے گی‘ سب کا معیارِ زندگی بڑھے گا‘ تعلیم و ثقافت عام ہوگی‘ صحت و مسرت سے سبھی فیض یاب ہوں گے۔ گویا دنیا سے پس ماندگی‘ تاریکی اور غربت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ مگر یہ ہوگا کس طرح؟ یوں کہ صنعت‘ تجارت (اور سیاست)‘ اور ثقافت کے لیے انسان کی بنائی ہوئی سرحدیں دھندلی پڑ جائیں گی‘ ساری دنیا ایک ایسا قصبہ بن جائے گی‘ جس کے سارے شہری خوش حالی اور ترقی کے ثمرات سے یکساں مستفید ہوسکیں گے۔ مگر عملاً ہوا کیا؟ ہوا یہ ہے کہ مغربی قوتوں نے‘ جو ساری دنیا کے وسائل کے استحصال‘ سائنس اور فنیات کی ترقی اور سامانِ حرب و ضرب کے نتیجے میں پہلے ہی دنیا کے بیشتر ممالک پر حاوی ہوچکی تھیں۔ یہ مطالبے شروع کیے کہ تجارت‘ صنعت و حرفت اور دولت کی نقل و حرکت پر ساری پابندیاں ختم ہونی چاہییں۔
نتیجتاً پس ماندہ ملکوں میں مزاحمت کمزور پڑتی جا رہی ہے‘ بیشتر حکمران اور پالیسی ساز یا تو خرید لیے گئے ہیں‘ یا انھوں نے یہی مناسب جانا ہے کہ اپنے مفادات کو انھی سے وابستہ کریں۔ کھلی منڈی‘ ملکی تجارت‘ بے روک ٹوک وسائل کی حرکت کے نتیجے میں غریب ملکوں ہی کا نقصان ہو رہا ہے۔ ’کثیرالقومی‘ کمیٹیاں پس ماندہ ملکوں میں ہشت پا کی طرح وسائل کو چُوس رہی ہیں۔ سستی مزدوری اور وسائل سے اپنی مہارت کے نتیجے میں ’قدر افزونی‘ کے ذریعے اپنی دولت میں اضافہ کررہی ہیں۔ ایک کلچر‘ ایک زبان‘ اباحیت‘کرپشن‘ لادینیت کے ذریعے نہ صرف اخلاقی بندشیں ڈھیلی پڑتی جا رہی ہیں‘ بلکہ غربت‘ بے روزگاری اور لاقانونیت میں بھی اضافہ ہوا ہے‘ کیوں کہ عالم گیریت کا ایک اہم اصول ’نج کاری‘ بھی ہے‘ جس کے نتیجے میں حکومتیں اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوکر عوام کی فلاح و بہبود اور خبرگیری کو اپنے استحصالی اداروں کے سپرد کر رہی ہیں‘ جن کا ایمان ’’کثیر ترین نفع کا حصول‘‘ (maximization of profit) ہے۔
اس نئے رجحان پر انگریزی اور دوسری مغربی زبانوں میں بہت سا لٹریچرآچکا ہے اور آرہا ہے۔ اس کے حق میں بھی اور اس پر تنقید کرتے ہوئے اس کے خلاف بھی۔ اُردو میں گلوبلائزیشن اور اسلام اس موضوع پر ایک نئی کتاب ہے۔ فاضل مصنف نے جو دیوبند کے ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں‘ اور دینی علوم کے فاضل ہیں‘ عربی‘ انگریزی اور اُردو کے تمام دستیاب مصادر سے استفادہ کر کے اس نئے رجحان کی تاریخ‘ اس کے عواقب و نتائج پر سیرحاصل بحث کی ہے۔
مصنف کا کہنا ہے کہ ’’جدید گلوبلائزیشن جن نظریات کو دعوت دے رہا ہے‘ اور جن افکار وخیالات کو نافذ کرنا چاہتا ہے‘ وہ انھی جاہلی مفاسد کا عکس ہیں‘ جو ]قبل اسلام[ غضب ِ خداوندی کا باعث بنے تھے۔ جاہلیت کی طرح گلوبلائزیشن نے بھی سُود‘ اباحیت‘ اور جنس پرستی کو درست ٹھیرایا اور عالمی استحکام کے نام پر سیاسی انارکی پھیلائی۔ زمانۂ جاہلیت میں جس طرح مال داروں کے مفادات ہی کو محبوب رکھا جاتا تھا اور غُربا کی زندگی کو تنگ سے تنگ کر دیا جاتا تھا‘ عالم گیریت میں بھی چند گنی چُنی کمپنیوں کے مالکان اور ان کے ذاتی مفادات کی رعایت کی جاتی ہے۔ عالمی اقتدار پر چند طاقتوں ہی کا غلبہ ہے‘ جو سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے ذریعے پوری دنیا کو غلام بنائے ہوئے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ آج کا گلوبلائزیشن زمانۂ جاہلیت کی کھلی تصویر اور اس کا عکاس ہے‘‘۔ (ص ۴۳۲-۴۳۳)
اس کتاب کی ایک بڑی خوبی ہے کہ فاضل مصنف نے اُردو کے قارئین کو اس موضوع پر لکھی جانے والی بہت سی عربی تحریروں سے روشناس کرایا ہے۔ تاہم انگریزی زبان میں موجود اس وسیع ذخیرے سے کماحقہ استفادہ نہیں کیا گیا‘ جو’گھر کے گواہ‘کی حیثیت سے دستیاب ہے‘ اور اس نظام کی تمام ہلاکت سامانیوں کے باوجود اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ بہت عرصہ نہیں گزرے گا کہ یہ طلسم تارِ عنکبوت کی طرح بکھر جائے گا۔ (پروفیسر ڈاکٹر عبدالقدیرسلیم)
مظلومیِ نسواں کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ عصرحاضرمیں یہ ظلم مختلف روپ بدل بدل کر عورت کو نشانۂ ستم بنا رہا ہے۔ طرفہ تماشا دیکھیے کہ اس ظلم کی شکار ہستی عورت‘ ستم گر کے دام کو دانہ سمجھتی نظرآتی ہے۔
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ’اپوا‘ قسم کی تنظیموں نے مسلم عورت کو گھر کی چاردیواری سے کھینچ کر باہر لانے کا بیڑا اٹھایاتھا۔ وقتاً فوقتاً اس ہدف کی جانب بڑھنے کے مختلف بہانے تراشے گئے اور نئی نئی سبیلیں نکالی گئیں۔ گذشتہ ۲۵ برس سے اسی حلقے نے حدود آرڈی ننس پر تنقید کا بازار گرم کیا ہوا ہے‘ جس میں نام تو عورت کی ہمدردی کا ہے‘ مگر اس مہم کا نشانہ اسلامی تہذیب اور اسلامی قوانین ہیں۔ اس کتاب میں حدود آرڈی ننس ۱۹۷۹ء کے متن کا تعزیرات پاکستان کے سابقہ قوانین سے موازنہ کیا گیا ہے۔ یوں لفظی اور معنوی سطح پر اس پروپیگنڈے کے تاروپود بکھیرنے کی کوشش کی گئی ہے‘ جس کا سلسلہ بڑے تواتر سے جاری ہے۔ پھر حدود آرڈی ننس پر مختلف اعتراضات کا جائزہ لیتے ہوئے دیگر متعلقہ امور کو بھی زیربحث لایا گیا ہے اور آخر میں سفارشات پیش کی گئی ہیں۔
اہلِ علم کی جانب سے ‘ اس جارحانہ الزامی مہم کا ساتھ ہی ساتھ جواب دیا جاتا رہا ہے‘ لیکن زیرنظرکتاب میں اس بحث کو اختصار سے مرتب کیا گیا ہے۔ جتنا بڑا چیلنج درپیش ہے‘ اس میں گنجایش موجود ہے کہ اس موضوع پر مزید گہرائی سے کام کیا جائے۔ حدود آرڈی ننس ہو یا اس کتاب میں پیش کردہ سفارشات‘ سبھی پر بات کی جاسکتی ہے‘ مگر راستہ قرآن وسنت اور تعامل صحابہؓ کی روشنی میں دیکھا جائے تو عصرِحاضر میں بہترراہیں متعین کی جاسکتی ہیں۔ البتہ اگر معاملات کو مغربی دبائو کے نتیجے میں ’’درست کرنے‘‘ کی کوشش کی گئی تو ان قوانین کی روح اور احکامِ الٰہی کا منشا دونوں متاثر ہوں گے۔
پیش لفظ میں ڈاکٹر محموداحمد غازی نے لکھا ہے: ’’یہ جائزہ ملک کے تمام اہلِ علم‘ خاص طور پر قانون دانوں اور قانون ساز حضرات تک پہنچنا چاہیے‘‘ (ص ۷)۔ بلاشبہہ اپنی موجودہ شکل میں یہ ایک موثر اور قابلِ لحاظ پیش کش ہے۔(سلیم منصورخالد)
جاویدنامہ (۱۹۳۲ئ) علامہ اقبال کی شاعرانہ فکر کا شاہکارہے۔ وہ اسے اپنی زندگی کا ماحصل (ان کے اپنے بقول: life work) بنانے کے لیے کوشاں رہے۔ اپنے اس مجموعۂ شعر کووہ ’’ڈوائن کامیڈی کی طرح ایک اسلامی کامیڈی‘‘ سمجھتے تھے‘ جس میں انھوں نے اپنے مرشد مولانا جلال الدین رومی کی معیت و رہنمائی میں مختلف افلاک اور سیاروں کا تصوراتی اور روحانی سفر کیا ہے۔ متعدد اکابر وشخصیات کی ارواح سے ملاقات و گفتگو کی اور اس حوالے سے ’’بہت سے روحانی تجربات‘ دینی حقائق‘ علمی افکار اورشاعرانہ خیالات‘‘ کا اظہار کیا۔ فلک عطارد کے دورے میں جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا کے ساتھ مکالمے میں علامہ نے ’’عالمِ قرآنی‘‘ کے عنوان کے تحت چار محکمات کا ذکر کیا ہے۔ زیرنظر کتاب میں اس حوالے سے عالمِ قرآنی کی تشکیلِ نو اور جہانِ قرآنی کی ازسرِنودریافت کو موضوعِ گفتگو بنایا گیا ہے۔ کتاب کا ضمنی عنوان ہے: ’’علامہ اقبال کی نظرمیں قرآنی دنیا کی امتیازی خصوصیات اور اس کی بنیادیں (جاوید نامہ کی روشنی میں)‘‘۔
جاوید نامہ کے مجموعی تنقیدی اور تجزیاتی مطالعے پر مبنی کئی ایک کتابیں اور تحقیقی مقالے ملتے ہیں۔ زیربحث تصنیف‘ اس کے صرف ایک مبحث (محکماتِ عالمِ قرآنی) سے متعلق ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب نے عالمِ قرآنی کی ان چار محکمات (خلافتِ آدم‘حکومت ِ الٰہی‘ زمین خدا کی ملکیت ہے‘ حکمت خیرکثیر ہے) پر اقبال کی شعری و فکری توضیحات کے حوالے سے کلام کیا ہے۔ ابتدا میں جاوید نامہ کامختصر تعارف ہے‘ بعدازاں چار ابواب میں چاروں محکمات پر بحث کی گئی ہے۔ آخر میں یہ وضاحت کہ عالمِ قرآنی وجود میں آسکتا ہے‘ بشرطیکہ افرادِ اُمت اہلِ فرنگ کی تقلید سے اجتناب کریں اور اپنی مملکتوں میں سرمایہ داری‘ جاگیرداری اور ملوکیت کے بجاے قرآنی نظام رائج کریں۔ جب وہ اپنے اسلوبِ حیات کو توازن‘ اعتدال اور فقرپر استوار کریں گے تو خودی اور اپنے حقیقی تشخص کو پالیںگے‘ اور یہ اُمت کی سربلندی کا راستہ ہوگا۔
جنابِ مولف کی یہ کاوش جاوید نامہ کے متعلقہ حصے کی ایک عمدہ تشریح ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ اقبال محض ایک شاعرہی نہ تھے‘ قانون و سیاست اور معاشیات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے اور بجاطور پر انھیں شدید احساس تھا کہ دولت کی منصفانہ تقسیم کے بغیر‘ روے زمین پر عدل وانصاف کا قیام ممکن نہیں۔ کتاب کا معیار طباعت و اشاعت اطمینان بخش ہے مگر آغاز میں فہرست کی کمی کھٹکتی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
معلم اگر باعمل بھی ہو تو اس کی ہر بات روح کی گہرائیوں تک اترتی چلی جاتی ہے۔ جناب عتیق الرحمن صدیقی ہمارے اہلِ قلم حضرات کے اُسی قافلے سے تعلق رکھتے ہیں جو گل و بلبل کے قصوں کو خیرباد کہہ کر اپنے زورِ قلم سے اور نورِ علم سے مسلمان معاشرے کی اصلاح میں تندہی سے مصروف ہے۔
زیرِنظر کتاب مختلف موضوعات پر لکھے گئے ایسے مضامین کا مجموعہ ہے جن میں مصنف نے معاشرتی اصلاح کے مقصد اور تعلیم و تلقین کے جذبے کے ہمراہ‘ دین مبین کی ترویج و تبلیغ میں جولانیِ قلم کا خوب خوب مظاہرہ کیا ہے۔ اُن کے یہ مضامین ایک سچے مسلمان اور ایک سچے پاکستانی کے جذبۂ حب الوطنی کے بھی آئینہ دار ہیں۔ حرفِ اول میں لکھتے ہیں: ’’میرے پیشِ نظر مقصد یہ ہے کہ اسلام کے سیاسی‘ معاشرتی‘ تعلیمی اور اخلاقی نقوش کو ابھارا اور اُجاگر کیا جائے تاکہ پاکستان میں فکروعمل کے اعتبار سے ایک صالح اور صحت مند معاشرہ وجود میں آئے‘‘۔
اُن کی یہ کتاب اول تا آخر اُن کے اسی عزم کی ترجمان نظرآتی ہے۔ وہ ارضِ پاکستان میں دین کے بنیادی علوم کے ہمراہ جدید سائنسی اور دیگر معاون علوم کی درس و تدریس سے ایک ایسا ریاستی نظام تشکیل دینے کے متمنی دکھائی دیتے ہیں جو تقویٰ و جہاد‘ عشق رسالتؐ اور عدل و مساوات کی عملداری کے ہم سفر جدید سائنسی ترقی کا بھی مظہر ہو۔
یہ مضامین اپنے متنوع موضوعات کے اعتبار سے ایک خوب صورت گلدستے کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ ان کے بعض سیاسی زاویہ ہاے نظر سے ہٹ کر سوچا جا سکتا ہے لیکن ان کے خلوص سے کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا۔ (سعید اکرم)
ایک زمانہ تھا کہ اخبارات میں کالم صرف فکاہی نوعیت کے شائع ہوتے تھے۔ لیکن اب تو ہر طرح‘ ہر نوعیت اور ہر معیار و انداز کے کالم لکھے جا رہے ہیں‘ بلکہ کالم نگاری ایک الگ صنف بن گئی ہے اور کالم نگار اتنی سیاسی اہمیت اختیارکرگئے ہیں کہ بڑے بڑے سیاست دان‘ کالم نگاروں سے مناسب رابطہ رکھنے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں--- رضی الدین سید کسی بڑے اخبار کے اس نوعیت کے معروف کالم نگار نہیں۔ ان کے کالم ان کے زخمی اور حساس دل کی پکار ہوتے ہیں اور گاہے بہ گاہے ملک کے مختلف اخبارات اور رسائل میں شائع ہوتے ہیں۔ اپنے ۴۱کالموں کو انھوں نے اس کتاب میں پیش کر دیا ہے۔
کالموں کے موضوعات میں بڑی وسعت اور تنوع ہے۔ خود ہی انھوں نے سیاسی‘ سماجی‘ مذہبی‘ فکری اور متفرق عنوانات میں ان کو تقسیم کیا ہے اور ان میں موجودہ پاکستانی معاشرے کے سب ہی پہلو زیربحث آگئے ہیں۔ معاشرہ آج جن تکلیف دہ مسائل کا شکار ہے‘ تجزیہ کیا جائے تو ان کا ایک سبب توعوام کی اپنی مسلمہ اقدار سے دُوری ہے۔ دوسرے‘ ملک کا اقتدار ایسے عناصر کے ہاتھوں میں ہے جو مسائل کے حل کے بارے میں لاپروا ہیں اور مغرب کی نقالی ہی کو معراج سمجھتے ہیں۔ بعض عنوانات سے کالم کی نوعیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے‘ مثلاً :علامہ اقبال بھی آج القاعدہ کے رکن شمار کیے جاتے--- اگر جاپان کے پڑوس میں ہندستان ہوتا--- اگر حج کی ادایگی پاکستان میں ہوتی--- وغیرہ۔
کتاب دل چسپ ہے اور ایمانی جذبے کی آبیاری کرتی ہے۔ رضی الدین سید انگریزی اور اُردو دونوں میں لکھتے ہیں‘ کئی کتابوں کے ترجمے کیے ہیں۔ ان کی اصل دل چسپی صہیونیت کے بارے میں احادیث نبویؐ کی پیش گوئیوں پر تحقیقات سے ہے۔ (مسلم سجاد)
کردار اور بنی آدم ساتھ ساتھ چلے آ رہے ہیں۔ انسان تخلیق کیا گیا تو اس کا کردار بھی متعین کر دیا گیا کہ انسان کی اچھائی یا برائی کا انحصار اس کے کردار پر ہوگا۔
آئینۂ کردار میں تاریخی حوالوں کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ مختلف معاشروں میں اخلاق کی اہمیت مسلّم رہی ہے۔ جو قومیں اخلاق کے ضابطوں کو توڑتی ہیں وہ ذلیل و رسوا ہوجاتی ہیں۔ مصنف نے تاریخ کے مختلف ادوار میں اخلاق کے مختلف پیمانوں اور اتار چڑھائو کی وضاحت کی ہے اور موقع محل کی مناسبت سے حوالے اور اقوال بھی درج کیے ہیں۔استقامت‘ صبر‘ پاکیزگی‘ مطابقت‘ تشکر‘ سفارش اور کامیابی اور اسی طرح کے متعدد موضوعات پر اظہارخیال کیا گیا ہے۔
مولف کا دھیما اسلوب ایسا ہے جیسے کوئی سرگوشیاں کر رہا ہے۔ بات دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔ الفاظ شناسی اور شگفتگی ان کے اسلوب کا خاصہ ہیں۔ عربی و فارسی اشعار کا حوالہ ان کے وسیع مطالعے کا ثبوت ہے۔ قارئین‘ کتاب کو دل چسپ پائیں گے۔ (قاسم محمود وینس)
جنوری ۲۰۰۴ء کا ترجمان القرآن سرورق سے لے کر مضامین تک‘ ایک خوش گوار تازگی و تبدیلی لیے ہوئے محسوس ہوا۔ خصوصاً فہم قرآن کے تحت ’’منتخب تفاسیر سے ایک مطالعہ‘‘ نے بہت متاثر کیا۔ ایک ہی نشست میں مختلف النوع تفاسیر‘ ایک ہی آیت کے حوالے سے مفید‘ موثر اور طلبِ علم کے پیاسوں کے لیے تسکین کا باعث ہے۔ کیا یہ سلسلہ مستقل جاری رہ سکتا ہے؟ ’’تربیت: چند بنیادی باتیں‘‘ ، خرم مرادؒ کی باتیں ’’جوبات دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘‘کا زندہ ثبوت ہیں۔
مولانا مودودیؒ کی تحریر ’’خسارے کی تجارت‘‘ (جنوری ۲۰۰۴ئ) پڑھی۔ ۶۰ سال پہلے کی تحریر کا آج بھی ہمارے حالات پراسی طرح انطباق ہوتا ہے۔ آج بھی وطن عزیز کے ڈاکٹر‘انجینیراور ماہرین مالیات بیرون ملک اغیار کے لیے خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور ہم ہیں کہ ان کی طرف سے زرمبادلہ کی ترسیل پر خوش ہیں۔ مولانا علیہ الرحمہ کی یہ رائے بالکل صد فی صد درست اور صائب تھی کہ ہم ایسا کرنے سے اپنے تعلیم یافتہ افراد کو ضائع کر رہے ہیں۔ واقعی مولانا علیہ الرحمہ اس صدی کے عظیم انسانوں میں سے ایک تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی قبرپر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔
’’تربیت: چند بنیادی باتیں‘‘ (جنوری ۲۰۰۴ئ) بہت اچھا مضمون ہے۔ ترجمان القرآن اپنی تحریروں کے حوالے سے پہلے سے زیادہ معیاری بن گیا ہے۔ ’’رسائل و مسائل‘‘ مفید سلسلہ ہے۔ اس کی کمی محسوس ہوئی۔ ’اشاعت ِ خاص‘یقینی طور پر ایک تاریخی دستاویز ہے۔
نکٹائی کے بارے میں ڈاکٹرانیس احمد (’’رسائل و مسائل‘‘، دسمبر ۲۰۰۳ئ) کے ارشادات محل نظر ہیں۔ ان کے خیال میں ایک عمل اگر عموم کے درجے میں آجائے تو قباحت رفع ہوجاتی ہے۔ جہاں تک نکٹائی کا معاملہ ہے‘ اس کا رواج عیسائیوں میں ہے۔ وہ کسی نہ کسی طریق پر گلے میں اسے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بارے میں ان کا اصرار یہاں تک ہے کہ سابق صدرِامریکہ نے وہائٹ ہائوس کے ملازمین سے نکٹائی باندھ کر دفترآنے کی باقاعدہ فرمایش کی اور فرمایا کہ یہ امر ’’ہمارے لیے باعث ِ فخرہے‘‘۔ جہاں تک اس کے عموم کا تعلق ہے وہ عموم اتباع کا ہے آزاد مرضی کا نہیں۔ چونکہ نصرانی ہم پر صدیوں تک حکمران رہے‘ علم وعمل‘ قوت و زور اور وسائل دنیاوی میں وہ ہم سے آگے ہیں اور ہم تابعِ محض‘نتیجہ یہ کہ ان کا ہر خوب و ناخوب‘ خوب ہی ہے اور ہمارے لیے عموم!
نکٹائی باندھ لینے میں کوئی اخلاقی برائی نہیں ہے لیکن ہمارے ہاں جذبہ یہ ہے کہ ہم وہ نظرآئیں جو وہ ہیں۔ یہ ذہن کی مرعوبیت کی دلیل ہے۔ بنیادی جذبہ درست ہونا چاہیے۔ جب ہم اپنے قدموں پر چلنے کے قابل ہوجائیں گے تو دنیا کے تمام’’خوب‘‘ہم اپنی کھوئی ہوئی میراث ہی سمجھیں گے۔ جہاں تک مسائل کا معاملہ ہے‘ نکٹائی اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ روزی کو ٹھکرایا جائے۔ اگر بہتر ملازمت مل سکتی ہو تو کراہت کو اپنے اوپر لازم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ دوسری صورت میں بدمزگی پیدا کرنے کے بجاے’برداشت‘کیا جانا چاہیے۔
’اشاعت ِ خاص‘ علم و ادب کا بہترین مرقع ہے جس کے لکھنے والے اور مرتبین سب لائقِ تحسین ہیں۔ یوں تو ہرمضمون کا ہر جملہ سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے لیکن مجھے سب سے زیادہ محترمہ بشریٰ تسنیم اور خلیل الرحمن چشتی صاحب کی تحریر پسند آئی۔ خصوصاً وہ دعا جو ڈاکٹر صاحبہ کو اُن کے والدین نے سکھائی تھی وہ ہم سب کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
’مولانا مودودی نمبر‘جامع و مانع اور ظاہری وباطنی خوبیوں کی بنا پر اپنی مثال آپ--- ایک قابلِ ستایش کاوش! ’اشاعت ِخاص‘میں خاص مضمون محمدمامون الہضیبی کے قلم سے ہے جن کو مجاہد ابن مجاہد اور مرشدعام الاخوان المسلمون ابن مرشد عام الاخوان المسلمون ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یہ سونے پہ سہاگا ہے۔ ایک ایسے نادر روزگار شخص کے قلم سے الامام الشہیدحسن البنا اور الامام العبقری سیدابوالاعلیٰ مودودی کی سیرتوں کا تقابلی مطالعہ‘ مماثل پہلوئوں کو گنانے کی نیت سے کیا جائے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ مودودی کو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا کہ وہ حسن البنا سے واقف ہیں۔ یہ ان کی علمی وسعت اور فکر کی گہرائی کی دلیل ہے۔
میرے نزدیک دوسرا خاص مضمون محمداسماعیل قریشی ایڈووکیٹ کا ’’یاد ہے مجھ کو ترا حرفِ بلند‘‘ ہے جس میں نہ صرف پاکستانی قانون دانوں کی طرف سے بلکہ عالمِ اسلامی کے قانون دانوں کی جانب سے مودودیؒ کی دستوری اور قانونی عبقریت کا اعتراف ان کو ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیورسٹس کی تنظیم کا سرپرست اعلیٰ منتخب کرکے کیا گیا۔
اسلامی دستور کا معرکہ اور محاذ مودودیؒ کی عبقری فکر کا مرہونِ منت تھا۔ انھوں نے اس محاذ پر معرکے کا آغاز کیا اور پھر اس کے ہر مورچے پر یہاں تک ڈٹ کر مقابلہ کیا کہ باطل کو ہمیشہ پسپا ہی ہونا پڑا۔ اسی معرکے کا ایک رخ پاکستان کی مختلف عدالتوں میں نہایت درجے نازک دستوری اور قانونی مسائل پر بحثیں بھی ہیں جن میں کامیابی کا کریڈٹ خود صف ِ اوّل کے وکلا نے مودودیؒ کو دیا ہے۔ یہ اچھوتا معرکہ تھا جو اپنے جلو میں اچھوتے مسائل لایا اور جس کو ایک بے مثال دستوری اور قانونی دماغ نے حل کیا۔ ابھی ضرورت باقی ہے کہ خود قانون دان حضرات دستوری اور قانونی میدان میں مودودیؒ کی عبقریت پر لکھیں اور مختلف پہلوئوں کو اجاگر کریں۔
خلیل الرحمن چشتی کا مضمون: ’’تحریک احیاے دین کا قافلہ سالار‘‘ بھی خوب ہے۔ ان کی یہ تجویز بھی قابلِ غور ہے کہ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں کی شرح لکھی جائے۔ ڈاکٹرجاوید اقبال نے ’’اجماع‘‘ کی بات بھی خوب کہی۔ یہ کن کا اجماع ہے؟ بشر کا اجماع خدا کے خلاف‘ حق کو حق ہونے کی صفت سے محروم نہیں کر سکتا۔
اشتراکیت بری طرح نوجوانوں میں نشوونما پانے لگی ہے۔ اس سلسلے میں رہ نمائی کی بڑی ضرورت ہے۔ اگر آپ اس کے مقابلے کی طرف توجہ کریں‘ اور اس کی تردید کے لیے قلم اٹھائیں‘ تو غالباً وقت کا ایک اہم تقاضا پوا ہو جائے گا۔
اشتراکیت کے مقابلے کی طرف مجھے توجہ ہے۔ سات آٹھ برس‘ اس کے مطالعے میں صرف کرچکا ہوں اور اس کے ساتھ اسلام کے معاشی نظام کو بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے‘ لیکن جس وجہ سے اب تک اس چیز پر براہِ راست حملہ نہیں کیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ اشتراکیت کا مقابلہ محض ایک آدھ کتاب یا چند مضامین سے نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک تحریک ہے جو ۸۰‘ ۹۰ سال کے اندر بڑے سازوسامان اور بڑی زبردست علمی تیاریوں کے ساتھ پرورش پاکر دنیا پر چھا گئی ہے۔ اس کا ایک پورا نظامِ فلسفہ ہے جس پر اخلاق‘ تمدن‘ معیشت‘ معاشرت‘ ادب‘ تعلیم‘ علومِ طبیعی‘ غرض تمام شعبہ ہاے زندگی کے متعلق ایک ہمہ گیر ’’دین‘‘ کی عمارت قائم کی گئی ہے‘ اور پھر وہ کاغذ ہی پر نہیں بنی ہے بلکہ ہزاروں لاکھوں ذہین‘ ذی علم‘ جفاکش اور ایثار پیشہ لوگوں نے‘ سالہا سال کی محنتوں سے اس دین کو ایک تحریک کی شکل میں‘ دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلایا ہے اور ایک وسیع خطۂ زمین میں اس کی بنیاد پر ایک نہایت طاقتور حکومت عملاً چلاکر دکھائی ہے۔ ایسی تحریک کا مقابلہ صرف ایک تحریک ہی کرسکتی ہے جس کی پشت پر ایک ایسی جماعت ہو جو علمی ہتھیاروں سے بھی مسلح ہو‘ کیرکٹرکی طاقت بھی رکھتی ہو‘ عمل اور قربانی کے میدان میں بھی ٹکرلے سکتی ہو‘ اور پھر وہ اتنی تیار ہو کہ جس دین کو وہ دین مارکس کے مقابلے میں لے کر اٹھے اس کی ترجمانی زندگی کے ہر شعبے میں مارکسیوں سے زیادہ کامیاب علمی و عملی طریقوں سے کر سکے۔ اسی لیے میں نے اشتراکیت کے خلاف محض دل کی تسلی کے لیے کوئی کتاب یا مضمون لکھنے کے بجاے وہ پروگرام اختیار کیا ہے جسے آپ جماعت ِاسلامی کی تحریک کی صورت میں‘ اس وقت عہدِطفولیت سے گزرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔میں پوری قوت کے ساتھ نہ صرف دینِ مارکس بلکہ ہر دینِ باطل کے مقابلے میں اُترنا چاہتا ہوں اور اسی کی تیاری کر رہا ہوں۔ اللہ مدد فرمائے۔ (’’رسائل و مسائل‘‘، ابوالاعلیٰ مودودی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۴‘ عدد ۱-۲‘ محرم و صفر ۱۳۶۳ھ‘ جنوری و فروری ۱۹۴۴ئ‘ ص ۸۸)