’’روشن خیالی‘‘ اور ’’اعتدال پسندی‘‘ بڑ ے خوش نما الفاظ ہی نہیں‘ بڑے دل پذیر تصورات بھی ہیں۔ اگر مسلمان تہذیب و ثقافت‘ معاشرت اور شریعت پر اسلام کے فکری‘ نظریاتی اور اخلاقی تناظر میں غور کیا جائے‘ تو یہ اس دین اور تہذیب کی امتیازی خصوصیات میں سے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاملہ عقیدے کا ہو یا عمل کا‘ فرد کی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی‘ عبادت ہو یا معیشت‘ حتیٰ کہ دوستی کے امور ہوں یا دشمنی اور جنگ کے‘ ان سب میں اسلام نے عدل کا حکم دیا ہے جو اعتدال اور توازن کی علامت ہے۔ اسلام نے ہر سطح پر ہراقدام کے لیے احتساب کی شرط لگائی ہے جو شعور‘ اختیار اور روشن خیالی پر منحصر ہے اور تعصب‘ جہل اور جانب داری سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اُمت مسلمہ کو خیراُمت اور اُمت وسط قرار دیا ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام امور میں میانہ روی اور وسط کی راہ کو بہترین راستہ اور طریقہ قرار دیا ہے (خیر الامور اوسطہا)۔ اس لیے اگر روشن خیال اعتدال پسندی کی بات کی جائے تو اس پر تعجب یا اعتراض کچھ بے محل معلوم ہوتا ہے۔ لیکن مشکل یہ آپڑی ہے کہ آج جس ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی بات کی جا رہی ہے اس کا پس منظر ہمارا اپنا دین‘ ہماری اپنی تہذیب‘ ہماری اپنی روایت اور ہماری ضرورت نہیں بلکہ وہ ایک خاص تاریخی عمل کا حصہ بن گئی ہے اور دنیا کے‘ خصوصیت سے‘ مسلم دنیا کے لیے جس نئے سیاسی اور تہذیبی نقشے میں رنگ بھرا جارہا ہے‘ اس کا اہم رنگ ہے۔ عالمی حالات اور رجحانات کا جائزہ لیجیے تو صاف نظر آ رہا ہے کہ اس کا تعلق بیرونی دبائو اور مطالبات سے ہے۔
جو نیا عالمی نظام وضع کیا جا رہا ہے وہ استعمار کی سب سے جامع اور گمبھیر صورت (version) ہے جس میں عسکری‘ سیاسی‘ معاشی اور ثقافتی پہلو مساوی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کا ہدف دنیا کے تمام ممالک اور اقوام کو ایک سوپر پاورامریکا کی صرف سیاسی اور عسکری چھتری تلے لانا نہیں بلکہ فکری‘ معاشی‘ مالیاتی اور ثقافتی طور پر بھی ایک ہی نظامِ اقدار (value system) سب پر مسلط کرنے کا منصوبہ ہے۔ اسے جبر واختیار اور ترغیب و ترہیب کے ہر ممکنہ ذرائع کے استعمال سے کامیاب کرانا مقصود ہے۔ اس ہمہ جہتی حکمت پر سرد جنگ کے دور کے ختم ہونے کے بعد سے‘ بڑی چابک دستی سے عمل کیا جا رہا ہے اور ۱۱ستمبر کے بعد کے اقدامات اس وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ اسے سمجھے بغیر روشن خیالی اور میانہ روی کی جو آوازیں آج اٹھ رہی ہیں‘ ان کی حقیقت اور مضمرات کو سمجھنا ممکن نہیں۔ اس ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کا کوئی تعلق ہماری اپنی ضروریات سے نہیں‘ یہ ہمارے اپنے تہذیبی لنگر سے مربوط اور وابستہ نہیں بلکہ یہ عنوان ہے اس تبدیلی کا‘ جو اسلام اور مسلم معاشرے اور تہذیب کو‘ اس کی اپنی اساس سے ہٹاکر‘ مغرب سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کی جا رہی ہے اور آج سے نہیں سامراج کی یلغار کے پہلے دور ہی سے کی جا رہی ہے۔ البتہ استعمار کی تازہ یورش میں اس کو ایک زیادہ مرکزی کردار دیا گیا ہے۔
گذشتہ ربع صدی میں امریکی دانش ور‘ پالیسی ساز اور میڈیا ایک نئی تہذیبی جنگ میں مصروف ہے اور اس کا ہدف مغرب کے لبرل‘ معاشی اور سیاسی نظام کو پوری دنیا پر مسلط کرنا ہے۔ ہم انھی صفحات میں اس سلسلے میں دسیوں کتب اور تحقیقی اور تجزیاتی رپورٹوں کا ذکر کر سکتے ہیں۔ اس پوری حکمت عملی کو مشہور امریکی رسالہ فارن پالیسی (Foreign Policy) کے ایڈیٹر جوزف نائی (Joseph Nye) نے اپنے ایک مضمون میں کسی تکلف کے بغیر مختصر طور پر بیان کردیا ہے۔ وہ کہتا ہے:
عالمی سیاست میں طاقت کی نوعیت میں تبدیلی آ رہی ہے۔ طاقت کا مطلب یہ ہے کہ آپ جو حاصل کرنا چاہتے ہیں حاصل کریں۔ اور اگر ضروری ہو تو اسے امر واقع بنانے کے لیے دوسروں کے رویوں کو تبدیل کر دیں۔
(Re-Ordering the World: The Long-term implications of 11th Sept. ed. by Mark Leonard. Foreword by Tony Blair, The Foreign Policy Centre, London 2002)
جنگ وہ آخری اور قطعی کھیل ہے جس میں عالمی سیاست کے کارڈ کھیلے جاتے ہیں اور طاقت کا تناسب ثابت کیا جاتا ہے۔
البتہ اب نیوکلیر اسلحے کے ایک کارفرما قوت بن جانے سے حالات کروٹ لے رہے ہیں۔ نیز دنیا کی مختلف اقوام میں قومیت کے تصور کے جاگزیں ہوجانے سے عالمی سیاست کے دروبست میں تبدیلی آگئی ہے۔ اسی طرح عالمی سرمایہ داری کی موجودہ شکل جس میں معاشی فوائد کا حصول‘ دنیا کے ممالک کی منڈیوں پر قبضے کے ذریعے ان سے فائدہ اٹھانے کے اسلوب‘ کثیرالقومی کمپنیوں کا کردار یہ سب جنگ اور محض قوت کے ذریعے دوسروں کو قبضے میں رکھنے کو اگر مشکل نہیں تو مہنگا (too costly)بنائے جا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں فوجی اورمعاشی قوت جسے وہ Hard Power کہتا ہے مؤثرتو ہیں لیکن اب جن عوامل کا کردار بڑھ رہا ہے انھیں جوزف نائی Soft Powerکہتا ہے:
اس صورت میں یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ عالمی سیاست کا ایجنڈا ترتیب دیا جائے اور دوسروں کو فوجی اور اقتصادی ہتھیاروں کی دھمکی یا استعمال کے ذریعے بزور طاقت اس طرف لایا جائے۔ طاقت کا یہ پہلو کہ دوسرے وہ چاہنے لگیں جوآپ چاہتے ہیں‘ نرم طاقت (Soft Power)کہا جاتا ہے۔ نرم طاقت کا انحصار سیاسی ایجنڈے کو اس طرح ترتیب دینے کی قابلیت پر ہوتا ہے جو دوسروں کی ترجیحات کا تعین کرے۔
اس حکمت عملی پر مؤثر عمل کے لیے ابلاغ کی قوت کا استعمال مرکزی اہمیت رکھتا ہے اور اقتصادی قوت کا ہدف افکار‘ اقدار‘ کلچر کی تبدیلی ہے۔ اس نئی جنگ میںاصل مزاحم قوت مقابل تہذیب کا عقیدہ‘ نظریہ‘ اصول اور اقدار بن جاتے ہیں۔ اسلامی دنیا میں عوام کی اسلام سے وابستگی اور اپنی تہذیب اور اقدار کے بارے میں استقامت--- مغرب کے لیے سب سے بڑا دردسر بنی ہوئی ہے۔ جوزف نائی اعتراف کرتا ہے کہ:
یقینی طور پر ایسے علاقے ہیں‘ جیسے شرق اوسط‘ جہاں امریکی کلچر کے حوالے سے گومگو یا مکمل مخالفت کی کیفیت اس کی ’نرم طاقت‘ کو محدود کر دیتی ہے۔
یہ ہے اصل مخمصہ! اور اس کا حل تجویز ہوا ہے مسلم ممالک میں ’روشن خیالی‘ اور ’اعتدال پسندی‘ کی حکمت عملی کا فروغ کہ اس طرح مسلم دنیا کو اس کی اپنی بنیادوں سے ہلا کر مغرب کے رنگ میں رنگنے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے مسلمان عورت کا حجاب بھی توپ اور میزائل کی طرح خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ اسلام سے مسلمانوں کی وابستگی اور اپنی ثقافت اور روایت سے محبت مغرب کی نگاہ میں اس کے عزائم کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسلام میں دین و سیاست کا ناقابلِ تقسیم ہونا اصل سدِّراہ ہے۔
جہاد کا جذبہ جو دفاع کا مؤثر ترین ذریعہ ہے‘ ان کی آنکھوں کا کانٹاہے۔ مسئلہ بنیاد پرستی نہیں‘ اسلام کا ایک مکمل نظامِ زندگی ہونے کا تصور ہے۔ یہ مغرب کی نگاہ میں اصل سنگِ راہ ہے۔ ایک جرمن مستشرق خاتون ایندریا لوئیگ (Andrea Lueg) اپنے ایک مضمون The Perception of Islam in Western Debate میں صاف الفاظ میں مغرب کے دانش وروں کے اس یقین کو یوں پیش کرتی ہے:
مغرب اسلام کو ایک ایسے مذہب کے طور پر زیربحث لاتا ہے جو اسلامی ممالک کے بے شمار سیاسی‘ ثقافتی اور سماجی مظاہرکا ذمہ دار ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ اسلام ایک مذہب کی حیثیت سے مغربی ممالک میں خوف پیدا کرتا ہے۔ مذہب کا وہ خوف جو ہمارا خیال ہے کہ ہم نے اپنے روشن خیال معاشروں سے ختم کر دیا ہے۔
The Next Threat: Perception of Islam, ed. by Jochen Heppila and Andrea Lueg, Pluto Press, London 1995, p27)
مغرب اسلام کی بڑھتی ہوئی سیاسی مقبولیت کو خطرناک‘ یک رخی اور عجیب قرار دیتا ہے۔ جنگجو اسلام کے فروغ نے اس شدید بحث کا آغاز کر دیا ہے کہ مغرب اس کے بارے میں کیا کچھ کر سکتا ہے یا کرنا چاہیے۔ کچھ امریکی سرکاری افسران اور مبصرین نے پہلے ہی جنگجو اسلام کو مغرب کا اگلا دشمن قرار دے دیا ہے جس کو اسی طرح قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے جس طرح سرد جنگ میں کمیونزم کو کیا گیا تھا۔ (ص ۱۳۱)
اس پس منظر میں امریکی اور یورپی دانش وروں اور پالیسی ساز اداروں کی کوشش ہے کہ اسلامی دنیا کو بنیاد پرست‘ جنگجو اور لبرل‘روشن خیال اور اعتدال پسندوں میں تقسیم کریں۔ جسے وہ بنیاد پرست‘ جہادی‘ اور مزاحم قوت سمجھتے ہیں اسے ختم کیا جائے اور اس کی جگہ اسلام کے ایک لبرل ورژن کو فروغ دیا جائے۔ نیوزویک کے مدیر بھارت نژاد امریکی فرید زکریا اسی حکمت عملی کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
اوّلین طور پر ہمیں عرب اعتدال پسند ریاستوں کی مدد کرنی چاہیے لیکن اس شرط پر کہ وہ فی الواقع اعتدال پسندی کو مکمل طور پر اختیار کریں۔ ہم مسلمان اعتدال پسند گروہ اور اہل علم تیار کر سکتے ہیں اور ان کی تازہ فکر عرب دنیا میں نشر کرسکتے ہیں جن کا مقصد یہ ہو کہ بنیاد پرستوں کی طاقت کو توڑا جائے۔ (Re Ordering The World ‘ ص ۴۷)
یہ ہے وہ پس منظر جس میں جنرل پرویز مشرف صاحب کی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی تازہ حکمت عملی کی اصل معنویت اور مناسبت (relevance) کو سمجھا جا سکتا ہے۔ نیتوں کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے‘ لیکن انسانی جائزوں کا انحصار ظاہری عوامل ہی پر ہوتا ہے۔ جنرل صاحب نے اپنے اقتدار کے اولیں ایام میں اتاترک کی بات کی‘ پھر عوامی دبائو میں تاویلیں کیں‘ جب موقع ملا حدود قوانین اور اہانتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا۔ موقع بے موقع اسلام میں لبرلزم کا ذکر کیا۔ پھر جہاد اور جنگِ آزادی اور دہشت گردی کے فرق کو یکسر نظرانداز کرنا شروع کیا اور اب کھل کر روشن خیال اعتدال پسندی کے نام سے اسلام میں نشات ثانیہ اور دہشت گردی کی تباہ کاریوں پر دل گرفتگی کا اظہار کرتے ہوئے اور تصادم کے مضراثرات سے خائف کرتے ہوئے نہ صرف روشن خیال اعتدال پسندی اور لبرلزم کا درس دے رہے ہیں بلکہ پہلی بار کھل کر کہہ رہے ہیں کہ اسلام کا جدت پسندی اور سیکولرازم سے کوئی تصادم نہیں‘ یہ ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔ سیکولرازم کی اتنی کھلی تائید انھوں نے پہلی بار کی ہے اور اس طرح روشن خیالی کی بلی تھیلی سے باہرآگئی ہے۔ اب ان کے پورے وعظ و تلقین کی شان نزول اور روشنی کا منبع بھی کسی پردے میں نہیں رہا۔ نیز یہ بھی کہ یہ آواز نئی نہیں‘ بلکہ بار بار اٹھائی جاتی رہی ہے۔ لبرلزم کے ایسے ہی وعظ ہم سو سال سے سن رہے ہیں۔ اقبال نے مغرب کے مقاصد کی تکمیل کرنے والے دانش وروں اور حکمرانوں کے فکری اور تہذیبی دیوالیہ پن کا بہت پہلے ماتم کر کے ان سے اُمت کو ہوشیار کیا تھا:
ترا وجود سراپا تجلیِ افرنگ
کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر
مگر یہ پیکر خاکی خودی سے ہے خالی
فقط نیام ہے تُو زر و نگار و بے شمشیر
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید
مشرق میں ہے تقلیدِ فرنگی کا بہانہ
اسلام پر حملہ کبھی باہر سے ہوتا ہے ‘ کبھی اندر سے‘ کبھی کھل کر ہوتا ہے اور کبھی چھپ کر‘ اور کبھی تحریف کے ذریعے ہوتا ہے تو کبھی تعبیر کے نام پر۔ کبھی دشمنی کے انداز میں ہوتا ہے اور کبھی اصلاح کے نام پر۔ چراغ مصطفویؐ اور شرار بولہبی بہرصورت ہر دور میں اور ہر میدان میں برسرِپیکار رہے ہیں اور رہیں گے۔
روشن خیالی اور اعتدال پسندی وہی مطلوب ہے جو اللہ کی بندگی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے وابستہ ہو۔ ایمان‘ تقویٰ‘ عبادت‘ شریعت سے وفاداری‘ اُمت کے حقوق کی ادایگی اور آخرت کی جواب دہی کا احساس وہ فریم ورک فراہم کرتے ہیں جس میں اسلام کی انصاف‘ اعتدال اور توازن پر مبنی مثالی تہذیب کی صورت گری ہوتی ہے۔ یہ ہدایت پر مبنی اور ہویٰ (خواہشِ نفس) سے پاک روشن خیالی اور اعتدال پسندی ہے۔ جو روشن خیالی اور اعتدال پسندی اسلام میں معتبر ہے۔ اس کی بنیاد وہ دعا ہے جو ہر مسلمان نماز کی ہر رکعت میں اپنے رب سے مانگتا ہے یعنی:
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ
اے رب! ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا‘ جو معتوب نہیں ہوئے‘ جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔
ہدایت کوئی مبہم اور غیرمتعین شے نہیں‘ وہ اللہ کی وحی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے عبارت ہے اور روشنی کا اصل منبع یہی رہنمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روشن خیالی کا ماخذ اس سے ہٹ کر کوئی دوسری شے نہیں ہوسکتی۔ اللہ ہی کائنات کا نور ہے (اللّٰہ نور السموات والارض) اور اللہ کی کتاب ہی انسانوں کو تاریکیوں سے نور کی طرف لاتی ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمْ بُرْھَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا (النساء ۴:۱۷۴)
لوگو! تمھارے رب کی طرف سے تمھارے پاس دلیل روشن آگئی ہے اور ہم نے تمھاری طرف ایسی روشنی بھیج دی ہے جو تمھیں صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے۔
فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَاعْتَصَمُوْا بِہٖ فَسَیُدْخِلُہُمْ فِیْ رَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَفَضْلٍ وَّیَہْدِیْہِمْ اِلَیْہِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا (النساء ۴:۱۷۵)
اب جو لوگ اللہ کی بات مان لیں گے اور اس کی پناہ ڈھونڈیں گے ان کو اللہ اپنی رحمت اور فضل و کرم کے دامن میں لے لے گا اور اپنی طرف آنے کا سیدھا راستہ ان کو دکھا دے گا۔
یَّہْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہ‘ سُبُلَ السَّلٰمِ وَیُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہٖ وَیَہْدِیْہِمْ اِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (المائدہ ۵:۱۶)
تمھارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اُجالے کی طرف لاتا ہے اور راہِ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے۔
واضح رہے کہ راہ راست ہی اعتدال کی راہ ہے۔ اسی لیے اس اُمت کو اُمت وسط (البقرہ ۲:۱۴۳) اور انصاف اور عدل کو‘ جو توازن‘ حسن‘ ہم آہنگی اور میانہ روی کا جامع ہے‘ اس اُمت کا مشن اور اس کی امتیازی شان قرار دیا (النساء ۴:۱۳۵‘ المائدہ ۵:۸‘ الاعراف ۷:۲۹‘ النحل ۱۶:۹۰) اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی زندگی کے لیے یہ زریں اصول مقرر فرما دیا کہ خیرالامور اوسطھا --- تمام معاملات میں میانہ روی اور اعتدال پسندی ہی بہترین طریقہ ہے۔
حقیقی روشن خیالی اور اعتدال پسندی قرآن و سنت کی مکمل اطاعت اور پاسداری سے عبارت ہے جو ہمارے نظام زندگی میں پہلے سے موجود (built-in) ہے اسے کہیں باہر سے لانے اور دوسروں کی خواہشات اور مطالبات کی روشنی میں کسی انتخاب و اختیار (pick and choose) اور کسی تراش خراش کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ کی نگاہ میں اس کے دین میں کمی بیشی اور دوسروں کی خواہشات کی روشنی میں رد و قبول سے بڑا کوئی جرم نہیں۔ اس پر دنیا میں خسارے اور آخرت میں بدترین عذاب کی وعید ہے۔
اسلام میں روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا جو مقام ہے‘ وہ شریعت کے اس کلّی مثالیے (paradigm) کا حصہ ہے‘ اس سے جدا کوئی جز نہیں۔ اس میں تحریف‘ غلو‘ قطع و برید اور جاہلانہ تعبیرات سے تحفظ اور الفاظ و معانی اور قانون اور روحِ قانون کا ناقابلِ انقطاع رشتہ ہے۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو ہمیشہ صحیح راستے پر قائم رکھنے کے لیے جو نسخۂ کیمیا تجویز فرمایا ہے‘ وہی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے حدود اربعہ کو طے کر لیتا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:
عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ الْعُذْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَحْمِلُ ھَذَا الْعِلْمَ مِنْ کُلِّ خَلَفٍ عُدُوْ لُہٗ یَنْفُوْنَ عَنْہٗ تَحْرِیْفَ الْغَالِیْنَ وَاِنْتِحَالَ الْمُبْطِلِیْنَ وَتَاْوِیْلَ الْجَاھِلِیْنَ (مشکوٰۃ)
اس علم کے حامل ہر نسل میں وہ لوگ ہوں گے جو دیانت و تقویٰ سے متصف ہوں گے وہ اس دین کی غلوپسندوں کی تحریف‘ اہلِ باطل کی غلط نسبت و انتساب اور جاہلوں کی تاویلات سے حفاظت فرمائیں۔
یہ ہے اسلام کی کھلی شاہراہ۔ لیکن جس لبرلزم‘ ماڈرنزم‘ روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی بات امریکی دانش ور اور پالیسی ساز کر رہے ہیں اور جس کی بازگشت خود ہمارے کچھ حکمرانوں اور دانش وروں کی تحریروں اور تقریروں میں سنی جاسکتی ہے اُس میں اور اس میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
چراغ مصطفویؐ سے جو روشن خیالی اور اعتدال پسندی رونما ہوتی ہے‘ وہ شریعت اسلامی کے بے کم و کاست اتباع سے عبارت ہے۔ اس کے مقابلے میں ’شراربولہبی‘ کا جو تقاضا اور مطالبہ ہے وہ یہ ہے کہ وقت کی جابر اور بالادست قوتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کے دین‘ اقدار اور تصورِ زندگی کو قبول کیا جائے‘ ان کے تصور ترقی کو اختیار کیا جائے‘ ان کے رنگ میں اپنے کو رنگ لیا جائے اور ان کے دیے ہوئے معیار کے مطابق اور ان کے پسندیدہ پیمانوں میں اللہ کے دین کو ڈھال دیا جائے۔ گویا جس طرح اکبر بادشاہ نے اپنے دور کے باغیوں کو خوش کرنے کے لیے ایک ’’دین الٰہی‘‘ بنانے کی جسارت کی تھی‘ اسی طرح آج امریکہ اور مغرب کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے ایک نیا ’اسلام‘ وضع کیا جائے جو اُمت کے مرکز سے ہٹ کر ملک اور مقامی مفادات کو مرکز بنائے اور جس کا اصل ہدف شریعت کو عملاً معطل کرکے دین و دنیا کی تفریق اور ماڈرنائزیشن کے نام پر مغربیت کے لیے راہ ہموار کرے۔ اس طرح اسلام کا نام باقی رکھ کر ایک سیکولر نظامِ زندگی پروان چڑھایا جائے تاکہ اسے امریکہ اور مغرب کے حکمران اور دانش ور ’روشن خیال اور اعتدال پسند‘ تسلیم کریں‘ جس کو وہ فنڈامنٹلزم اور انتہاپسندی قرار نہ دیں بلکہ اس ’اسلام‘ میں وہ اپنی تہذیبی اقدار اور عادات و اطوار کی جھلک دیکھ سکیں اور اس پر ’ترقی پسندی‘ کی مہر لگا سکیں۔
’چراغ مصطفویؐ ،اور ’شرار بولہبی‘ کی دائمی ستیزہ کاری اور اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلام اور اکبری دین الٰہی کی پیکار کی یاد دہانی کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ۱۱ستمبر کے بعد مسلم دنیا اور خصوصیت سے پاکستان پر امریکی اثرات بلکہ تسلط کا جو آغاز عسکری تعاون اور سیاسی تابع داری سے ہوا تھا‘ وہ اب نظریاتی‘ تعلیمی اور ثقافتی غلامی کے دائروں تک وسیع ہوتا جارہا ہے۔ اب اس کے لیے ایک تصوراتی خاکہ (conceptual framework) بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ جس کی خصوصی سعادت ہمارے جنرل پرویز مشرف کو حاصل ہو رہی ہے۔ پہلے انھوں نے اپنی تقریروں میں اور اپنے مختلف سیاسی حلیفوں سے ملاقاتوں میں ایک نئے وژن اور ایک تصوراتی ہیولا کی طرف اشارے کیے‘ پھر او آئی سی کے کولالمپور میں منعقد ہونے والے سربراہی اجلاس میں اس ادارے کی تشکیلِ نو کے عنوان سے اُمت مسلمہ کے لیے ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی ایک حکمت عملی پیش کرنے کی سعی بلیغ فرمائی اور اب ۲ جون ۲۰۰۴ء کو امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ کے ایک مضمون کی شکل میں اپنے اس نئے فلسفے کو‘ غالباً اپنی پہلی تحریر کے طور پر پیش کیا ہے جسے پاکستان کے تمام اخبارات نے بھی نمایاں طور پر شائع کیا ہے۔ او آئی سی کے وزراے خارجہ کے اجلاس منعقدہ استنبول میں ان کی پیش کردہ حکمت عملی (روشن خیال اعتدال پسندی- Enlightened Moderation)کو خود او آئی سی کے ہدف کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس تصوراتی خاکے اور حکمت عملی کا معروضی جائزہ لیا جائے اور اس کے حسن و قبح کو علمی تجزیے کے ذریعے واضح کیا جائے تاکہ اُمت کے رہے سہے گلشن کو شرار بولہبی کی آتش زنی سے محفوظ کیا جا سکے۔
دنیا ۹۰ء کے عشرے کے آغاز سے لے کر اب تک‘ ایک انتہائی ابتری اور افراتفری کے دور سے گزر رہی ہے اور اس تشویش ناک صورت حال میں بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ انتہاپسندوں‘ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے ہاتھوں معصوم افراد جس المناک صورت حال سے دوچار ہیں اور خاص طور پر میرے ہم مذہب مسلمان بھائی جس عذاب سے گزر رہے ہیں اس نے مجھے اس بات پر مائل کیا ہے کہ میں اس ابتری اور انتشار سے بھری دنیا کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کروں۔
دہشت گردی اور انتہا پسندی کے جرائم میں ملوث افراد بھی مسلمان ہیں اور ان کا نشانہ بننے والے بدنصیب بھی اسلام ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔
اور ان کی نگاہ میں اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ’’غیر مسلموں میں‘ غلط فہمی کی بنیاد ہی پر سہی مگر ایک عمومی تاثر یہ قائم ہو رہا ہے کہ اسلام عدم رواداری‘ انتہاپسندی اور دہشت گردی کا مذہب ہے‘‘۔
جنرل صاحب ان بے بنیاد تہمتوں سے اتنے خائف اور مرعوب ہیں کہ پہلے ہی شکست تسلیم کرلیتے ہیں یعنی ’’ہم اپنی دلیلوں کے ذریعے ذہنوں میں بیٹھے ہوئے اپنے خلاف تاثرات کو ختم کرنے کی جنگ جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے‘‘۔ اور یہ سب کچھ اس لیے کہ ’’مسلمان آج دنیا میں بہت غریب‘ سب سے زیادہ غیرتعلیم یافتہ‘ سب سے زیادہ بے بس اور سب سے زیادہ عدم اتحاد و استحکام کے شکار گروہ کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں‘‘۔
اس تجزیے کے بعد جنرل صاحب مسئلے کا حل یہ بتاتے ہیں کہ مسلمان اور غیرمسلم دنیا دونوں ان کی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی حکمت عملی کو قبول کرلیں تو سب ٹھیک ہو سکتا ہے۔
جنرل صاحب نے تلقین تو مغربی اقوام کو بھی یہی کی ہے اور بہ کمالِ شفقت مغربی دنیا اور بالخصوص امریکا کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ ’’مسلم دنیا کو درپیش تمام سیاسی تنازعات کو عدل و انصاف کے ساتھ مل کرحل کرنا ہوگا اور محروم اور پسماندہ مسلم دنیا کی سماجی اور معاشی ترقی کے لیے معاونت کرنا ہوگی‘‘۔ لیکن ان کا سارا زور اسلام کی ’اصلاح‘ اور مسلمانوں کے رویوں اور عمل کو تبدیل کرنے پر ہے۔ جنرل صاحب نے اسلام اور مسلمانوں کے لیے جو وژن پیش فرمایا ہے ‘ اس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ:
ہمیں اعتدال کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور ہمیں کشادہ نظری کے ساتھ ایک ایسے رویے کو فروغ دینا ہوگا جو اس غلط تصور کو باطل قرار دے سکے کہ اسلام ایک جارحیت پسند دین ہے اور اسلام جدت پسندی‘ جمہوریت اور سیکولرازم سے متصادم ہے۔
اور اس سب کے باوجود جنرل صاحب متنبہ فرما رہے ہیں کہ:
یہ سب کرتے ہوئے یہ بات بھی ہمیں پیشِ نظر رکھنا ہوگی کہ جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں‘ ضروری نہیں ہے کہ ہر وقت ہمارے ساتھ پوری طرح وہی سلوک روا رکھا جائے جو حق و انصاف کے اصولوں کے عین مطابق ہو۔
جنرل پرویز مشرف صاحب نے اسلامی دنیا کی جہادی تحریکوں کو‘ ایک ایسے ڈھکے چھپے انداز میں جو ان کی سوچ اور دل کی کیفیت کی غمازی کرتا ہے‘ افغانستان میں روس کے استعماری حملے کے خلاف تحریکِ مزاحمت کا نتیجہ قرار دیا ہے اور ۱۹۹۰ء کے بعد رونما ہونے والی نام نہاد دہشت گردی کو اس سلسلے کی ایک کڑی قرار دیا ہے۔ وہ جہاد اور آزادی کی تحریکات اور دہشت گردی کے فرق کو سمجھنے اور بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے اور امریکی دانش وروں اور پروپیگنڈے کے ماہرین کی تیار کردہ نئی تثلیث یعنی ’بنیاد پرستی، انتہاپسندی اور دہشت گردی‘ کو سارے مسائل کی جڑ قرار دے کر ’روشن خیال‘میانہ روی اور اعتدال پسندی‘ کے داعی بن کر اسلامی دنیا میں نشاتِ ثانیہ کی ضرورت کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ مضمون میں ایک پیراگراف اسلام کے اولین دور اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ماڈل کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ہے مگر اس کے بعد نہ مسلمانوں کے عروج اور عالمی قوت بننے کے اسباب پر کوئی روشنی ڈالی ہے اور نہ موجودہ حالت زار کا کوئی علمی تجزیہ کیا ہے۔ بس تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ معاشی ترقی اور سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں ہم پیچھے رہ گئے ہیں‘ مقابلے کی سکت ہم میں نہیں ہے۔ خرابی کی جڑ بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی ہے اور ہمارے لیے نجات کی کوئی راہ اس کے سوا نہیں کہ مغرب سے ہم آہنگی اختیار کریں اور ’’کشادہ نظری کے ساتھ ایک ایسے رویے کو فروغ دیں جو اس غلط تصور کو باطل کر دے کہ اسلام ایک جارحیت پسند دین ہے اور اسلام جدت پسندی‘ جمہوریت اور سیکولرازم سے متصادم نہیں۔
۱- جسے مغرب بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کہتا ہے اسے ترک کر دو اور روشن خیال اعتدال پسندی اختیار کرو۔
۲- ساری توجہ معاشی ترقی‘ تعلیم‘ غربت کے خاتمے‘ صحت اور عدل و انصاف کے حصول پر مرکوز کر دو اور اس کے لیے جدت پسندی‘ جمہوریت اور سیکولرازم کا راستہ اختیار کرو۔
۳- اسلامی کانفرنس کی تنظیم کو مؤثر اور فعال بنائو اور اس میں نئی روح پھونکو تاکہ مسلم دنیا اکیسویں صدی کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے۔
جنرل پرویز مشرف کے اس مضمون میں دو باتیں ایسی ہیں جن کو ہم مثبت سمجھتے ہیں۔ ایک‘ خواہ کتنے ہی ادب سے انھوں نے کہا ہو لیکن ان کا یہ ارشاد کہ ’’مغربی دنیا کو اور بالخصوص امریکا کو مسلم دنیا کو درپیش تمام سیاسی تنازعات کو عدل و انصاف کے ساتھ حل کرنا ہوگا اور محروم اور پس ماندہ دنیا کی سماجی اور معاشی ترقی میں معاونت کرنا ہوگی‘‘ اور دوسری یہ کہ مسلم دنیا کو اپنے گھر کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے اور اس کے لیے ’’اپنی ساری توانائیاں غربت کو دُور کرنے‘ تعلیم اور صحت اور عدل و انصاف کے مثالی نظام کے ذریعے اپنے افرادی وسائل کو فروغ دینے کے لیے‘‘ صرف کرنی چاہییں۔ ان دونوں باتوں سے کسی کو اختلاف نہیں لیکن جس پس منظر میں انھوں نے روشن خیال اعتدال پسندی کی اپنی حکمت عملی کو پیش کیا ہے اور جن دلائل اور شواہد کے بل بوتے پر کیا ہے‘ وہ بڑا خام اور حالات کی بڑی غلط عکاسی کرنے والا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اُمت مسلمہ کا مقدمہ پیش کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں اور عملاً ان کی اس تحریر سے اسلام اور مسلمانوں پر مغرب کے تمام غلط اور ناروا اعتراضات کی بالواسطہ یا بلاواسطہ تائید ہوتی ہے۔ ہم خود ان کے اور تمام سوچنے سمجھنے والے اہل فکرودانش کے غور کے لیے چند گزارشات پیش کرتے ہیں:
۱- دہشت گردی نہ ۱۹۹۰ء کے عشرے سے شروع ہوئی ہے اورنہ اس کا تعلق محض مسلمانوں سے ہے جیسا کہ زیربحث مضمون سے ظاہر ہوتا ہے۔ اول تو دہشت گردی کی تعریف ضروری ہے کیوں کہ قوت کے استعمال کی ہر کوشش کو دہشت گردی نہیں کہا جا سکتا۔ پھر دہشت گردی صرف افراد یا گروہوں کی طرف سے ہی نہیں ہوتی حکومتوں کی طرف سے بھی ہوتی ہے۔ آج دہشت گردی کا زیادہ ارتکاب حکومتوں ہی کی طرف سے ہو رہا ہے بلکہ عوامی سطح پر رونما ہونے والی دہشت گردی بالعموم نتیجہ ہوتی ہے تبدیلی کے سیاسی اور پُرامن مواقع کے مسدود کیے جانے اور ریاستی تشدد اور قومی اور بالاتر قوتوں کے طاقت کے بے محابا اور بے جواز استعمال سے۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کے نام پر جو دہشت گردی حکومتیں اور ریاستی ایجنسیاں انجام دیتی ہیں‘ وہ اس کی بدترین شکل ہے جسے آج دہشت گردی کہا جا رہا ہے۔ وہ دراصل ریاستی ظلم اور استبداد اور بالاتر قوتوں کا اپنے کو قانون‘ انصاف اور جمہوری روایات سے آزاد قرار دے لینے اور طاقت ور عناصر کی کمزوریوں پر دست درازیوں کی پیداوار ہے۔ یہ سیاسی مسائل کو سیاسی طریق کار سے حل نہ کرنے اور محض قوت سے حل کرنے کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
جنرل صاحب کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ جسے وہ اور امریکا دہشت گردی کہہ رہے ہیں وہ ۱۹۹۰ء میں افغانستان میں جہادی جدوجہد‘ روس کی پسپائی اور بعد میں امریکا کے تغافل سے پیدا ہوئی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ جہادی سرگرمیوں کا آغاز افغانستان میں روس کی فوج کشی سے ہوا اور نہ دنیا میں دہشت گردی کا آغازمسلم دنیا سے ہوا۔ بنیادی طور پر دہشت گردی یورپ کی استعماری اور فسطائی حکومتوں کے خلاف عوامی ردعمل کی ایک شکل کو قرار دیا گیا ہے جس میں غیر ریاستی عناصر مسلح سیاسی مقاصد کے لیے جدوجہد پر مجبور ہوئے ہیں۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اورخصوصیت سے مغربی دنیا میں گذشتہ ڈیڑھ سو سال میں اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بیرونی استعماری قوتوں کی مزاحمت کی مختلف تحریکوں نے اس راستے کو اختیار کیا ہے۔
یہ دورِ جدید کی تاریخ کا ایک خاص پہلو ہے جس کا کسی مذہب یا علاقے سے تعلق نہیں۔ سیکڑوں کتابیں اور ہزاروں مقالات اس کے مختلف پہلوئوں پرلکھے گئے ہیں۔ ہم صرف ایک کتاب کا حوالہ دیتے ہیں جسے مارتھا کرنسٹارڈ (Martha Crenstard )نے مرتب کیا ہے اور Terrorism in Context کے نام سے امریکا کی پینسلوانیا اسٹیٹ یونی ورسٹی پریس نے شائع کیا ہے۔ یہ کتاب ۱۱ستمبر کے واقعہ سے ۶ سال پہلے شائع ہوئی ہے اور اس میں مغرب اور مشرق کی درجنوں دہشت گرد تحریکوں کی پوری تاریخ بیان کی گئی ہے۔ نیز مغرب کے سیاسی مفکرین نے‘ خاص طور پر یورپ‘ لاطینی امریکا اور افریقہ کے دانش وروں نے ظالم حکمرانوں اور سامراجی حکومتوں کے خلاف مسلح جدوجہد کا کیا کیا جواز پیش کیا ہے اور اس بحث کو یورپ اور امریکا کے تاریخی تناظر میں انقلابی دہشت گردی (Revolutionary Terrorism) اور انارکسٹ دہشت گردی کے زمروں (Categories) میں بیان کیا ہے۔ شاید ہی دنیا کا کوئی حصہ ہو جہاں گذشتہ ڈیڑھ سو سال میں ایک نہیں‘ کئی کئی تحریکیں ایسی نہ اٹھی ہوں جنھیں آج کی اصطلاح میں دہشت گرد تحریک کہا جاتا ہے۔ ان کے کیا اسباب تھے‘ ذمہ داری کن عناصر پر تھی‘کن تحریکوں کے مثبت نتائج نکلے اور ان کے برپا کرنے والے قومی ہیرو ہی نہیں تاریخی کردار شمار کیے گئے۔ اگر جنرل صاحب اس پورے پس منظر سے واقف نہیں تو انھیں ایسے موضوع پر قلم نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔
۲- جہادی تحریک کو بھی افغانستان سے وابستہ کردینا حقائق سے ناواقفیت ہے یا مسئلے کو الجھانے کی کوشش۔ جہاد اسی ماڈل کا ایک حصہ ہے جسے جنرل صاحب نے ضمنی طور پر اسلام کے ابتدائی دور کے نام سے پیش کیا ہے۔ دورِ جدید میں مغرب کی تمام استعماری قوتوں کا مقابلہ ہر مسلمان ملک میں جہاد ہی کے ذریعے سے کیا گیا اور اسی وجہ سے مغربی اقوام کا خصوصی ہدف جہاد کا تصور رہا جسے ’منسوخ‘ کرانے کے لیے ان کو جھوٹی نبوت تک کا کھیل کھیلنا پڑا۔ الجزائر کی جہادی تحریک جدید تاریخ کا ایک تابناک باب ہے۔ فلسطین میں صہیونی قوت کے خلاف جہاد کا آغاز جدیدانتفاضہ سے نہیں ۱۹۴۸ء کی جدوجہد سے ہوتا ہے جو آج تک جاری ہے۔ کشمیر میں بھی جہاد کا آغاز افغانستان سے روس کی پسپائی سے شروع نہیں ہوتا بلکہ ۱۹۴۷ء میں ڈوگرہ راج اور اس کے مظالم کے خلاف منظم انداز میں ہوا اور آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کسی سیاسی خیرات یا اتفاقی حادثہ کی بنا پر بھارت سے آزاد نہیں ہوئے‘ یہ منظم جہادی جدوجہد سے آزاد کرائے گئے۔
جنرل صاحب نے جو تاریخی پس منظر بیان کیا ہے‘ وہ حقائق پر مبنی نہیں۔ اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ انھوں نے دہشت گردی کا سارا ملبہ مسلمانوں پر گرا دیا ہے۔ نہ اس کے عالمی پس منظر کاذکر کیا ہے‘ نہ ان حقیقی تاریخی‘ سیاسی اور تہذیبی اسباب و عوامل کا تجزیہ کیا ہے اور نہ مغربی اقوام کے اس کردار کی طرف کوئی اشارہ کیا ہے جو اس صورت حال کو پیدا کرنے کا ذریعہ بنے ہیں۔ کاش انھوں نے جرمن محققہ ایندریا لوئیگ ہی کا مطالعہ کر لیا ہوتا جو The Next Threat کے آخری باب میں اپنے نتائج تحقیق بیان کرتے ہوئے اعتراف کرتی ہے کہ:
ان بہت سی خوفناک چیزوں کا اسلام سے بہت کم تعلق ہے‘ بلکہ ان کی بنیادیں کچھ دوسری ہیں۔ اور ان دل دہلا دینے والے (shocking) کاموں میں سے کئی جدید مغربی معاشروں میں بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ‘ انتہا پسندی کی لادینی جڑیں بھی ہوسکتی ہیں‘ چاہے اس کے علم بردار اس کا انکار کریں۔ اس سے پہلے کہ ہم دوسروں کی انتہاپسندی کے بارے میں غضب میں آجائیں‘ ہمیں اپنے کلچر کی انتہاپسندی کا انکار نہیں کرنا چاہیے۔ جب جرمن نوجوان تارکینِ وطن کے ہوسٹل جلا ڈالنا چاہتے ہیں تو ان کا تعلق بھی انتہاپسندی اور غیرمعقولیت سے ہوتا ہے‘ صرف شراب نوشی اور فہم و فراست کے فقدان سے نہیں۔ لیکن شاید ہم میں سے کوئی ان جرائم کی بنیاد مذہب میں بتانے کا نہ سوچے یا یہ کہے کہ ان کا سرچشمہ مغرب کی عیسائی روایات ہیں۔ پس شرق اوسط کے لوگوں کی انتہاپسندی یا غیرمعقولیت کا تعلق ہمیشہ مذہب سے نہیں ہوتا۔ (ص ۱۵۷)
کاش ہمارے اہلِ قلم حقائق کی گہرائی تک جانے کی کوشش کریں اور ان گمبھیرمسائل کی گہرائی میں جاکر سیاسی‘ عمرانی اور نفسیاتی عوامل کی روشنی میں تجزیہ کریں۔ جنرل صاحب کا مضمون اس پہلو سے یک طرفہ‘ سطحی اور ملامتیہ انداز کا حامل ہے۔ ؎
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے
۳- جنرل پرویز مشرف نے مسلمانوں کو بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور ان کے درمیان ایک عارضی تعلق (causal relationship)بھی دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بنیاد پرستی ایک مبہم اور خالص امریکی تصور ہے جس کا اسلام سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہ انیسویں صدی کے آخر میں اور بیسویں صدی کے آغاز کی ایک عیسائی تبلیغی تحریک کی پیداوار تھا جسے گذشتہ چند برسوں سے مسلمانوں پر تھوپا جا رہا ہے۔ جنرل صاحب نے بے سوچے سمجھے اسے مسلمانوں سے وابستہ کردیا۔
انتہاپسندی ایک انسانی کمزوری ہے جو اہلِ مغرب میں بھی ہو سکتی ہے ‘ سیاست دانوں میں بھی‘ فوجیوں میں بھی اور کسی بھی گروہ یافرد میں۔ اس کا رشتہ نام نہاد بنیاد پرستی اور دہشت گردی سے جوڑنے کا کوئی منطقی جواز نہیں۔ دہشت گردی کے اپنے اسباب ہیں اور انتہاپسندی ایک بالکل دوسری شے ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر دہشت گردی انتہا پسندی کا نتیجہ ہو اور ہر انتہا پسندی دہشت گردی پر منتج ہو۔ جنرل صاحب کی یہ ساری بحث محض مغالطوں پر مبنی ہے اور پاکستان اور اسلام دونوں کی بڑی غلط نمایندگی کا ذریعہ بنی ہے۔ تعجب ہے کہ انھوں نے ایک لمحے کے لیے یہ بھی نہیں سوچا کہ اسلام اور مسلمانوں پر بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کا لیبل لگانے میں مغرب اور امریکا کے دانش وروں اور خصوصیت سے‘ صہیونی اہلِ قلم کا کیا کردار اور ان کے کیا مفادات وابستہ ہیں۔ کس طرح اسرائیل کے مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے وہ اسلام‘ عربوں اور مسلمانوں کی ایک خاص انداز میں منظرکشی کر رہے ہیں اور اس میں سیاسی مبصروں‘ دانش وروں اور صحافیوں کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا بلکہ ہالی وڈ کی فلموں نے کیا کردار ادا کیا ہے۔ اگر ان تمام حقائق پر کسی کی نگاہ نہیں تو کیا ضروری ہے کہ جن موضوعات پر آپ کی گرفت نہیں ان پر آپ گوہر افشانی کریں۔ اسلام کے بارے میں مغرب کے خود ساختہ تصورات اور فضا کو خراب کرنے میں ان کے کردار کے بارے میں جوشین ہپلر اور ایندریا لوئیگ کا یہ جملہ قابلِ غور ہے کہ:
یہ کتاب اسلام کا نہیں ‘بلکہ اسلام کے بارے میں مغرب کے دشمنانہ رویے کا جائزہ لے گی] یا مزعومہ ’اسلامی خطرے‘ کا[۔ ہمارا ایک نظریہ ہے کہ اس وقت اسلامی خطرے کے بارے میں عوامی لٹریچر کا جو فیشن ہے‘ مفروضہ خطرے یعنی اسلام سے اس کا بہت کم سروکار ہے۔ اس کا زیادہ تعلق مغرب کے اندازِ فکر سے ہے جس کا ایک جزو سرد جنگ کے اختتام کی وجہ سے ہماری شناخت میں پایا جانے والا خلا ہے۔ یہ پہلو ہمارے اندر دل چسپی پیدا کرتا ہے۔ (ص -۱)
ان مصنفین نے یہ بھی کہا ہے کہ خود بنیاد پرستی کی ساری بحث پر بھی ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی نگاہ میں:
ہمارا استدلال یہ ہے کہ اگرچہ بنیاد پرستی خراب ہے لیکن اس کے ناقد لامحالہ اچھے نہیں ہیں اور ضرور کچھ کے درپردہ محرکات ہو سکتے ہیں۔(ص -۳)
یورپ کے کچھ دانش ور اتنا غور کرنے کو تیار ہیں لیکن ہمارے اپنے ذمہ دار حضرات آنکھیں بند کر کے وہی بات کہنے اور لکھنے میں عار محسوس نہیں کرتے جس کا اظہار مغرب کے متعصب حکمران اور دانش ور کر رہے ہیں! اور جن کے اخلاقی اور ذہنی افلاس کا یہ حال ہے کہ جب ان سے کسی دعوے کے لیے دلیل طلب کی جاتی ہے اور شواہد کی عدم موجودگی پر احتساب ہوتا ہے تو ان کے پاس اس کے سوا کہنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا کہ بس میں یہ کہہ رہا ہوں۔
ہمارے پاس کوئی قابلِ اعتماد شہادت نہیں ہے کہ عراق اور القاعدہ نے امریکا پر حملوں میں تعاون کیا۔
تو اس کے جواب میں امریکی صدر جارج بش صاحب نے جو جواب دیا وہ گنیزبک میں درج کیے جانے کے لائق ہے :
The reason I keep insisting that there was a relationship between Iraq and Saddam and Al-Qaeeda is because there was a relationship between Iraq and Al-Qaeeda.
اس کی وجہ کہ میں برابر اصرار کرتا رہاہوں کہ عراق‘ صدام اور القاعدہ میں تعلق تھا یہ ہے کہ عراق اور القاعدہ میں تعلق تھا۔ (ٹائم ۲۸ جون ۲۰۰۴ئ)
دہشت گردی اور مسلمانوں کے سلسلے میں ہمارے جنرل صاحب اور جارج بش کے اسلوبِ استدالال میں بھی کوئی زیادہ فرق نہیں!
۴- جنرل پرویز مشرف کے مضمون میں دہشت گردی کے سارے منظر اور پیش منظر میں نہ ریاستی دہشت گردی کا کوئی ذکر ہے اور نہ دہشت گردی کے ارتکاب‘ فروغ اور دوام بخشنے میں امریکہ کے کردار پر کوئی گرفت بلکہ اس کا کوئی تذکرہ میں نہیں۔ امریکی قیادت کی بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا کوئی تذکرہ ان کی تحریر ہی نہیں۔ افغانستان اور عراق میں امریکہ جس دہشت گردی کا ارتکاب کر رہا ہے‘ اس پر ان کے ضمیر کی کسی خلش کا کوئی سایہ ان کی تحریر پر نہیں پڑا حالانکہ یہ ایک اہم موقع تھا کہ وہ امریکی قوم سے خطاب کر رہے تھے اور کچھ ان کو بھی آئینہ دکھانے کی خدمت انجام دیتے۔
امریکی دانش وروں اور عوام کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد امریکا کی اپنی دہشت گردی پر نالہ کناں ہے۔ چومسکی جیسے مفکر تو پہلے سے کہہ رہے ہیں کہ امریکا آج ایک غنڈہ ریاست (rogue state)بن چکا ہے۔ سابق امریکی اٹارنی جنرل ریمزے کلارک نے امریکا کے وحشیانہ مظالم پر کئی کتابیں لکھی ہیں اور عراق کی ۱۹۹۱ء کی جنگ سے پہلے‘ جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد کے جنگی جرائم پر ایک بین الاقوامی ٹربیونل کی رپورٹ بھی موجود ہے جو ریمزے کلارک نے جنگی جرائم (War Crimes)کے نام سے قانونی مطالعوں اور ضروری شہادتوں کے ساتھ شائع کی ہے۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کو فروغ دینے میں امریکہ کیا کردار ادا کر رہا ہے‘ اس پر درجنوں کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں۔ لیکن جنرل پرویز مشرف صاحب کی تحریر‘ امریکہ کے اس کردار کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں کرتی۔ اس موقع پر شالمرز جانسن کی تحقیقی کتاب Blowback: The Costs and Consequences of American Empire سے دو اقتباس اصل حقیقت کے ادراک کے لیے مفید ہوں گے۔
ایک آدمی کی نظروں میں جو دہشت گرد ہے‘ بلاشبہہ وہی دوسرے کی نظروں میں آزادی کے لیے لڑنے والا ہے۔ جس چیز کو امریکی اہلکار اپنے معصوم شہریوں پر بلااشتعال دہشت گردحملے کہہ کر مذمت کرتے ہیں ‘ وہ اکثر سابقہ امریکی استعماری کارروائیوں کا ردعمل ہوتا ہے۔ دہشت گرد بے گناہ شہریوں اور غیرمحفوظ امریکی اہداف پر حملہ کرتے ہیں ‘ صرف اس وجہ سے کہ امریکی سپاہی اور ملاح اپنے بحری جہازوں سے کروز میزائل فائر کرتے ہیں اور آسمان کی بلندیوں پر بی-۵۲ طیاروں میں بیٹھ کر بم باری کرتے ہیں اور واشنگٹن سے جابر و استبدادی حکومتوں کی حمایت کی جاتی ہے۔ ڈیفنس سروس بورڈ کے اراکین نے اپنی ۱۹۹۷ء کی رپورٹ میں جو ڈیفنس کے انڈر سیکرٹری کو دی گئی‘ لکھا تھا: تاریخی حقائق عالمی حالات میں امریکا کی شرکت اور امریکا کے خلاف دہشت گرد حملوں میں اضافے کے درمیان واضح تعلق ظاہر کرتے ہیں۔ مزیدبرآں فوجی طاقت میں فرق کی وجہ سے قومی ریاستیں امریکا پر کھلم کھلا حملہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتیں اور یوں وہ سمندر پار عامل استعمال نہیں کر سکتیں۔ (ص-۹)
دہشت گردی کی تعریف یہ ہے کہ جس طاقت پر حملہ نہیں کیا جا سکتا اس کے جرائم پر توجہ دلانے کے لیے بے گناہوں کو نشانہ بنایا جائے۔ ۲۱ویں صدی کے بے گناہ‘ حالیہ عشروں کی استعماری مہمات کے مابعد اثرات کی تباہیوں کی غیرمتوقع فصل کاٹیں گے۔ اگرچہ بیشتر امریکی اس امر سے ناواقف ہیں کہ ان کے نام پر کیا کچھ کیا جاچکا ہے اور کیا جا رہا ہے‘ سب ہی انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی قوم کی عالمی منظر پر غلبہ پانے کی مسلسل کوششوں کی گراں قیمت ادا کریں گے۔ (ص ۳۳)
خدا کرے مسلمان قیادتوں کو کبھی یہ توفیق حاصل ہو کہ وہ بھی امریکا کی قیادت کو بتا سکیں کہ دنیا میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے وہ اس کی کن پالیسیوں اور اقدامات کا ردعمل ہے اور آخری ذمہ داری کس پر ہے ع
اٹھا زمانہ میں جو بھی فتنہ اٹھا تیری رہ گزر سے پہلے!
۵- جنرل پرویز مشرف نے اسلام کے تاریخی کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آج کی زبوں حالی کا ذکر کیا ہے اور اس سے نکلنے کے لیے روشن خیال اعتدال پسندی کا درس دیا ہے اور ساتھ ہی معاشی اور تعلیمی ترقی کی بات کی ہے۔ بلاشبہہ معاشی اور تعلیمی ترقی اُمت کی بڑی ضرورت ہے لیکن ہمارا عروج اور ہمارا زوال محض مادی اسباب کی وجہ سے نہ تھا۔ اسلام کی اصل قوت اس کی دعوت‘ اس کے پیغام‘ اس کے اصول اور اس عملی نمونے میں تھی جو اسلاف نے پیش کیا۔ وہ اخلاقی قوت ان کا اصل سرمایہ تھی۔ دین و دنیا کی وحدت‘ انسانی مساوات‘ قانون کی بالادستی‘ حکمرانوں کی جواب دہی‘ شریعت کی پابندی‘ انصاف کی فراوانی‘ معاشرتی اور معاشی مساوات--- علم اور وسائل کے ساتھ عقیدہ‘ اخلاق‘ سیرت و کردار‘ اداروں کا استحکام اور احتساب کا موثر نظام ہماری قوت کا راز تھا۔ جب ان اصولوں اور اقدار کو فراموش کیا جانے لگا‘ جب عیش و عشرت اور سہولت کی زندگی اختیار کر لی گئی‘ جب جہاد اور اجتہاد کو ترک کر دیا گیا تو ہم دوسروں کے لیے تر نوالہ بن گئے‘ کمزور سے کمزور تر ہوتے گئے‘ غلامی اور محکومی کا نشانہ بنے اور آج بھی آزادی کے حصول کے باوجود دوسروں پر محتاجی اور ان کی سیاسی اور معاشی بالادستی کے تحت جینے کی مہلتیں مانگنے میں مصروف ہیں۔ اقبال نے مرض کی صحیح تشخیص کی تھی کہ:
اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات
جو فقر سے ہے میسر‘ تونگری سے نہیں
اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور
قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں
سبب کچھ اور ہے‘ تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں
اگر جہاں میں مرا جوہر آشکار ہوا
قلندری سے ہوا ہے‘ تونگری سے نہیں
لیکن ہمارا کیا حال ہے؟ ہم کاسہ گدائی سے ترقی کی منزلیں طے کرنا چاہتے ہیں اور خداشناسی اور جہاد کا راستہ ترک کر کے عزت کے حصول کے خواب دیکھ رہے ہیں اور اقبال ہی کی اس بات کو بھول گئے ہیں کہ ؎
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے‘ نہ من تیرا نہ تن
عنقریب ایک وقت آئے گا جب دوسری قومیں اکٹھی ہو کر تم پر ٹوٹ پڑیں گی‘ جس طرح کھانے والے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کسی نے پوچھا کیا ہم اس وقت قلیل تعداد میں ہوں گے؟
آپؐ نے فرمایا: تمھاری تعداد تو بہت زیادہ ہوگی لیکن تم سیلاب کے اوپر بہنے والے خس و خاشاک کی مانند ہوگے۔ اللہ تمھارے دشمن کے سینے سے تمھارا رعب چھین لے گا اور تمھارے دلوں میں ’وہن‘‘ ڈال دے گا۔
پوچھا: اللہ کے رسولؐ! یہ وہن کیا ہے؟ فرمایا: دنیا کی محبت اور موت (شہادت) سے نفرت۔
مسلمانوں کی تاریخ کے نشیب و فراز اور ان کے عروج و زوال کے جس تذکرے میں تجزیے کا یہ رخ موجود نہ ہو‘ اسے حقیقت پسندانہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
۶- جنرل مشرف نے معاشی ترقی‘ انصاف کی فراہمی‘ تعلیم کے فروغ اور جمہوریت کی بات بھی کی ہے لیکن کیا اس سوال سے اغماض برتا جا سکتا ہے کہ ان سب سے محرومی کے اسباب کیا ہیں اور وہ کون سے مفاد پرست طبقات ہیں جو وسائل پر قابض ہیں اور قوم کو ان سے محروم رکھے ہوئے ہیں؟ جمہوریت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مفاد پرست عناصر اور خود فوجی حکمرانوں کا کیا کردار ہے؟ انصاف سے کون محروم رکھے ہوئے ہیں؟ اداروں کے استحکام کی راہ میں کون رکاوٹ ہے؟ اس ملک کے حکمران طبقوں نے کون سی میانہ روی اختیار کی ہے۔ ساری مسلم دنیا کا جائزہ لے لیجیے۔ جن طبقات نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے وہ وہی ہیں جن پر لبرل کا لیبل ہے‘ جو ماڈرنزم کے علم بردار ہیں‘ جو سیکولر نظام کے حامی ہیں۔ یہی سامراجی قوتوں کے رفیقِ کار تھے اور یہی آزادی کے بعد اپنی ہی قوم کا خون چوسنے میں مصروف ہیں۔ ماڈرنزم کی قوتوں نے یورپ میں تو کچھ اچھے کام بھی کیے ہیں لیکن مسلم دنیا میںتو اصل ناکامی نام نہاد لبرل اور سیکولر لیڈرشپ کی ہے۔ کمال اتاترک اور شاہِ ایران اس ماڈرنزم کی علامت تھے۔ جمال عبدالناصر‘ صدام حسین‘ حافظ اسد‘ معمر قذافی‘ حبیب بورقیبہ‘ حواری بومدین‘ کس کس کا نام لیا جائے‘ یہ سب لبرل اور سیکولر قیادت تھی جس نے اسلامی دنیا کو ذلیل او ررسوا کیا۔ پاکستان میں کون سی قیادت ناکام ہوئی--- یہی لبرل سیکولر قیادت: جنرل ایوب سے جنرل پرویز مشرف تک۔ اقبال نے صحیح ہی کہا تھا ؎
زندہ کر سکتی ہے ایران و عرب کو کیونکر
یہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لبِ گور
اور ؎
نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
۷- جنرل مشرف نے یہ بھی کہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ان اسباب کی فکر کرنا ہوگی جو ناانصافی پیدا کر رہے ہیں اور لوگوں کو انتہاپسندی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ کیا جنرل صاحب بتا سکیں گے کہ خود اپنے ملک میں جسے وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کہتے ہیں اس کے ازالے کے لیے اسباب کی تلاش اور ناانصافیوں اور محرومیوں کو دُور کرنے کے لیے انھوں نے کیا کیا؟ اور کیا وہ بھی صدر بش کی طرح محض قوت کے استعمال سے ان خرابیوں کا قلع قمع کرنے کی پالیسی پر گامزن نہیں جن کا حل صرف حقوق کی ادایگی‘ انصاف کے قیام‘ جمہوری عمل کے استحکام‘ مذاکرات اور سیاسی طریقے ہی سے کیا جا سکتا ہے۔
۸- جنرل مشرف نے سیکولرزم کے اسلام سے متصادم نہ ہونے کی بات بھی کی ہے جو اسلام کے تصورِ حیات اور پاکستان کے مقصدِ وجود کی نفی کے مترادف ہے۔ اگر یہ بات سیکولرازم کے تصور اور اس کے مضمرات سے عدمِ واقفیت کی بنا پر کی گئی ہے تو افسوس ناک ہے اور اگر جان بوجھ کر یہ شوشہ چھوڑا گیا ہے تو جنرل صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ سکندر مرزا اور ایوب سے لے کر آج تک جس نے یہ بات کہی ہے‘ اس نے بالآخرمنہ کی کھائی ہے۔ اُمت مسلمہ لادینی نظریۂ حیات کو کبھی قبول نہیں کرسکتی۔ امریکی دین الٰہی کا اصل ہدف اسلامی دنیا میں دین و دنیا اور مذہب و سیاست کی تفریق کے نظام کو رائج کرنا اور اسلام کا ایک ایسا راہبانہ تصور فروغ دینا ہے جس میں دین گھر اور مسجد تک محدود ہو جائے اور دنیا کا نظام شیطانی نظریات کی پیروی میں چلایا جائے۔ شریعت معطل رہے اور جہاد منسوخ ہو جائے۔ لیکن یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف ہے۔
استعماری دور میں بیرونی حکمران ایسی دسیوں کوششیں کرکے ناکام رہے ہیں اور اب وہ اپنے دیسی ساجھیوں کے ذریعے یہ کرانا چاہتے ہیں تو ان شاء اللہ اسی طرح اب بھی ناکام رہیں گے البتہ اس سے بہتوں کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ کر دیں گے۔ ماضی میں نہ دین اکبری چل سکا اور نہ اب دین امریکی کے پنپنے کا کوئی امکان ہے۔ اللہ نے اپنے دین کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور اس دین سے ٹکر لینے کی جس نے بھی کوشش کی ہے بالآخر پاش پاش ہوا ہے۔ ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ یہ راستہ اختیار نہ کریں۔ ؎
مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں‘ کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سرِّ کلیمؑ و خلیلؑ
اور مسلمان فرد اورقوم دونوں کے لیے عزت اور زندگی کا ایک ہی راستہ ہے یعنی ؎
حدیث بے خبراں ہے‘ تو بازمانہ بساز
زمانہ با تو نہ سازد‘ تو بازمانہ ستیز
اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ فَھُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہٖط فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَۃِ قُلُوْبُھُمْ مِّنْ ذِکْرِ اللّٰہِط اُوْلٰٓئِکَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ o (الزمر ۳۹:۲۲)
اب کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے(اُس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جس نے اِن باتوں سے کوئی سبق نہ لیا؟)۔ تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جن کے دل اللہ کی نصیحت سے اور زیادہ سخت ہو گئے۔ وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔
کسی بات پر آدمی کا شرحِ صدر ہو جانا یا سینہ کھل جانا دراصل اس کیفیت کا نام ہے کہ آدمی کے دل میں اُس بات کے متعلق کوئی خلجان یا تذبذب یا شک و شبہہ باقی نہ رہے ‘ اور اُسے کسی خطرے کا احساس اور کسی نقصان کا اندیشہ بھی اُس بات کو قبول اور اختیار کرنے میں مانع نہ ہو‘ بلکہ پورے اطمینان کے ساتھ وہ یہ فیصلہ کر لے کہ یہ چیزحق ہے لہٰذا خواہ کچھ ہوجائے مجھے اسی پر چلنا ہے۔ اس طرح کا فیصلہ کر کے جب آدمی اسلام کی راہ کو اختیار کر لیتا ہے تو خدا اور رسول کی طرف سے جو حکم بھی اسے ملتا ہے وہ اسے بکراہت نہیں بلکہ برضا ورغبت مانتا ہے۔ کتاب وسنت میں جو عقائد وافکار اور جو اصول و قواعد بھی اس کے سامنے آتے ہیں وہ انھیں اِس طرح قبول کرتا ہے کہ گویا یہی اس کے دل کی آواز ہے۔ کسی ناجائزفائدے کو چھوڑنے پر اسے کوئی پچھتاوا لاحق نہیں ہوتا بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ میرے لیے وہ سرے سے کوئی فائدہ تھا ہی نہیں‘ اُلٹا ایک نقصان تھا جس سے بفضل ِخدا میں بچ گیا۔ اسی طرح کوئی نقصان بھی اگر راستی پر قائم رہنے کی صورت میں اسے پہنچے تو وہ اس پر افسوس نہیں کرتا بلکہ ٹھنڈے دل سے اسے برداشت کرتا ہے اور اللہ کی راہ سے منہ موڑنے کی بہ نسبت وہ نقصان اسے ہلکا نظر آتا ہے۔ یہی حال اس کا خطرات پیش آنے پر بھی ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میرے لیے کوئی دوسرا راستہ سرے سے ہے ہی نہیں کہ اس خطرے سے بچنے کے لیے اُدھر نکل جائوں۔ اللہ کا سیدھا راستہ ایک ہی ہے جس پر مجھے بہرحال چلنا ہے۔ خطرہ آتا ہے تو آتا رہے۔
شرحِ صدر کے مقابلے میں انسانی قلب کی دو ہی کیفیتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک ضیقِ صدر(سینہ تنگ ہوجانے اور دل بھچ جانے) کی کیفیت جس میں کچھ نہ کچھ گنجایش اس بات کی رہ جاتی ہے کہ حق اُس میں نفوذ کر جائے‘ اور دوسری قساوتِ قلب ( دل کے پتھر ہوجانے) کی کیفیت‘ جس میں حق کے لیے نفوذ یا سرایت کرنے کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ اس دوسری کیفیت کے متعلق فرماتا ہے کہ جو شخص اس حد تک پہنچ جائے اس کے لیے پھر کامل تباہی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص‘ خواہ دل کی تنگی ہی کے ساتھ سہی‘ ایک مرتبہ قبولِ حق کے لیے کسی طرح تیار ہو جائے تو اس کے لیے بچ نکلنے کا کچھ نہ کچھ امکان ہوتا ہے۔ یہ دوسرا مضمون آیت کے فحویٰ سے خود بخود نکلتا ہے‘ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کی صراحت نہیں فرمائی ہے‘ کیونکہ آیت کا اصل مقصود اُن لوگوں کو متنبہ کرنا تھا جو رسول اللہ صلی علیہ و سلم کی مخالفت میں ضد اور ہٹ دھرمی پر تلے ہوئے تھے اور فیصلہ کیے بیٹھے تھے کہ آپؐ کی کوئی بات مان کر نہیں دینی ہے۔ اس پر انھیں خبردار کیا گیا ہے کہ تم تو اپنی اس ہیکڑی کو بڑی قابلِ فخر چیز سمجھ رہے ہو‘ مگر فی الحقیقت ایک انسان کی اس سے بڑھ کر کوئی نالائقی او ربدنصیبی نہیں ہو سکتی کہ اللہ کا ذکر اور اس کی طرف سے آئی ہوئی نصیحت سُن کر وہ نرم پڑنے کے بجاے اور زیادہ سخت ہوجائے۔(ج ۴‘ ص ۳۶۷-۳۶۸)
اِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنْکُمْقف وَلَا یَرْضٰی لِعِبَادِہِ الْکُفْرَج وَاِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَہُ لَکُمْط (الزمر ۳۹:۷)
اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے‘ لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا‘ اور اگر تم شکر کرو تو اسے وہ تمھارے لیے پسندکرتا ہے۔
یعنی تمھارے کفر سے اس کی خدائی میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آسکتی۔ تم مانو گے تب بھی وہ خدا ہے ‘ اور نہ مانو گے تب بھی وہ خداہے اور رہے گا۔ اس کی فرمانروائی اپنے زور پر چل رہی ہے‘ تمھارے ماننے یا نہ ماننے سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑسکتا۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یَاعِبَادِیْ لَوْ اَنَّ اَوَّلَکُمْ وَاٰخِرَکُمْ وَاِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْا عَلٰی اَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ مِّنْکُمْ مَا نَقَصَ مِنْ مُلْکِیْ شَیْئًا۔’’اے میرے بندو‘ اگر تم سب کے سب اگلے‘ اور پچھلے انسان اور جنّ اپنے میں سے کسی فاجر سے فاجر شخص کے دل کی طرح ہو جائو تب بھی میری بادشاہی میں کچھ بھی کمی نہ ہوگی۔(مسلم)
]وہ اپنے بندوں کے لیے کفر پسند نہیں کرتا[‘ یعنی وہ اپنے کسی مفاد کی خاطر نہیں بلکہ خود بندوں کے مفاد کی خاطر یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ کفر کریں‘ کیونکہ کفر خود انھی کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور چیز ہے اور رضا دوسری چیز۔ دنیا میں کوئی کام بھی اللہ کی مشیت کے خلاف نہیں ہو سکتا‘ مگر اس کی رضا کے خلاف بہت سے کام ہو سکتے ہیں اور رات دن ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً دنیا میں جباروں اور ظالموں کا حکمراں ہونا‘ چوروں اور ڈکوائوں کا پایا جانا‘ قاتلوں اور زانیوں کا موجود ہونا اسی لیے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بنائے ہوئے نظامِ قدرت میں اِن برائیوں کے ظہور اور اِن اُشرار کے وجود کی گنجایش رکھی ہے۔ پھر ان کو بدی کے ارتکاب کے مواقع بھی وہی دیتا ہے اور اُسی طرح دیتا ہے جس طرح نیکوں کو نیکی کے مواقع دیتا ہے۔ اگر وہ سرے سے اِن کاموں کی گنجایش ہی نہ رکھتا اور ان کے کرنے والوں کو مواقع ہی نہ دیتا تو دنیا میںکبھی کوئی بُرائی ظاہر نہ ہوتی۔ یہ سب کچھ بربناے مشیت ہے۔ لیکن مشیت کے تحت کسی فعل کا صدور یہ معنی نہیں رکھتا کہ اللہ کی رضا بھی اس کو حاصل ہے۔ مثال کے طور پر اس بات کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص اگر حرام خوری ہی کے ذریعے سے اپنا رزق حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ اسی ذریعے سے اس کو رزق دے دیتا ہے۔ یہ ہے اس کی مشیت۔ مگر مشیت کے تحت چور یا ڈاکو یا رشوت خوار کو رزق دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چوری‘ ڈاکے اور رشوت کو اللہ پسند بھی کرتا ہے۔ یہی بات اللہ تعالیٰ یہاں فرمارہا ہے کہ تم کفر کرنا چاہو تو کرو‘ ہم تمھیں زبردستی اس سے روک کر مومن نہیں بنائیں گے۔ مگر ہمیں یہ پسند نہیں ہے کہ تم بندے ہو کر اپنے خالق و پروردگار سے کفر کرو‘ کیونکہ یہ تمھارے ہی لیے نقصان دہ ہے‘ ہماری خدائی کا اس سے کچھ نہیں بگڑتا ۔
کفرکے مقابلے میں یہاں ایمان کے بجاے شکر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے خود بخود یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ کفر درحقیقت احسان فراموشی و نمک حرامی ہے اور ایمان فی الحقیقت شکر گزاری کا لازمی تقاضا ہے۔ جس شخص میں اللہ جل شانہ کے احسانات کا کچھ بھی احساس ہو وہ ایمان کے سوا کوئی دوسری راہ اختیار نہیں کر سکتا۔ اس لیے شکر اور ایمان ایسے لازم و ملزوم ہیں کہ جہاں شکر ہوگا وہاں ایمان ضرور ہوگا۔ اور اس کے برعکس جہاں کفر ہو گا وہاں شکر کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘کیونکہ کفر کے ساتھ شکر کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ (ج ۴‘ ص ۳۶۰-۳۶۱)
قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَھُمْ وَاَھْلِیْھِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِط اَلَا ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنَ o (الزمر ۳۹:۱۵)
کہو‘ اصل دیوالیے تو وہی ہیں جنھوں نے قیامت کے روز اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو گھاٹے میں ڈال دیا۔ خوب سن رکھو‘ یہی کھلا دیوالہ ہے۔
دیوالہ عرفِ عام میں اس چیز کو کہتے ہیں کہ کاروبار میں آدمی کا لگایا ہوا سارا سرمایہ ڈوب جائے اور بازار میں اُس پر دوسروں کے مطالبے اتنے چڑھ جائیں کہ اپنا سب کچھ دے کر بھی وہ ان سے عہدہ برآنہ ہو سکے۔ یہی استعارہ کفارو مشرکین کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں استعمال کیا ہے۔ انسان کو زندگی‘ عمر‘ عقل‘ جسم ‘ قوتیں اور قابلیتیں‘ ذرائع اور مواقع ‘ جتنی چیزیں بھی دنیا میں حاصل ہیں‘ ان سب کا مجموعہ دراصل سرمایہ ہے جسے وہ حیاتِ دنیا کے کاروبار میںلگاتا ہے۔ یہ سارا سرمایہ اگر کسی شخص نے اس مفروضے پر لگا دیا کہ کوئی خدا نہیں ہے‘ یا بہت سے خدا ہیں جن کا میں بندہ ہوں‘ اورکسی کومجھے حساب نہیں دینا ہے‘ یا محاسبے کے وقت کوئی دوسرا آکر مجھے بچالے گا‘ تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے گھاٹے کا سودا کیا اور اپنا سب کچھ ڈبودیا۔ یہ ہے پہلا خُسران۔
دوسرا خُسران یہ ہے کہ اس غلط مفروضے پر اس نے جتنے کام بھی کیے ان سب میں وہ اپنے نفس سے لے کر دنیا کے بہت سے انسانوں اور آیندہ نسلوں اور اللہ کی دوسری بہت سی مخلوق پر عمر بھر ظلم کرتا رہا۔ اس لیے اس پر بے شمار مطالبات چڑھ گئے‘ مگر اُس کے پلّے کچھ نہیں ہے جس سے وہ ان مطالبات کا بھگتان بھگت سکے۔ اس پر مزید خُسران یہ ہے کہ وہ خود ہی نہیں ڈوبا بلکہ اپنے بال بچوں اور عزیز واقارب اور دوستوں اور ہم قوموں کو بھی اپنی غلط تعلیم و تربیت اور غلط مثال سے لے ڈوبا۔ یہی تین خسارے ہیں جن کے مجموعے کو اللہ تعالیٰ خُسرانِ مبین قرار دے رہا ہے۔(ج ۴‘ ص ۳۶۴-۳۶۵)
اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّاج وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ قف اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ o (المومن ۴۰:۴)
دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے صبح وشام وہ پیش کیے جاتے ہیں‘ اور جب قیامت کی گھڑی آجائے گی تو حکم ہو گا کہ آلِ فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو۔
یہ آیت اُس عذابِ برزخ کا صریح ثبوت ہے جس کا ذکر بکثرت احادیث میں عذابِ قبرکے عنوان سے آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں صاف الفاظ میں عذاب کے دو مرحلوں کا ذکر فرمایا ہے‘ ایک کم تر درجے کا عذاب جو قیامت کے آنے سے پہلے فرعون اور آلِ فرعون کو اب دیا جا رہا ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ انھیں صبح وشام دوزخ کی آگ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جسے دیکھ کر وہ ہر وقت ہَول کھاتے رہتے ہیں کہ یہ ہے دوزخ جس میں آخر کار ہمیں جانا ہے۔ اس کے بعد جب قیامت آجائے گی تو انھیں وہ اصل اور بڑی سزا دی جائے گی جو ان کے لیے مقدر ہے‘ یعنی وہ اس دوزخ میں جھونک دیے جائیں گے جس کا نظارہ انھیں غرقاب ہو جانے کے وقت سے آج تک کرایا جا رہا ہے اور قیامت کی گھڑی تک کرایا جاتا رہے گا۔ اور یہ معاملہ صرف فرعون و آلِ فرعون کے ساتھ ہی خاص نہیںہے۔ تمام مجرموں کو موت کی ساعت سے لے قیامت تک وہ انجامِ بد نظر آتا رہتا ہے جو ان کا انتظار کر رہا ہے‘ اور تمام نیک لوگوں کو اُس انجامِ نیک کی حسین تصویر دکھائی جاتی رہتی ہے جو اللہ نے ان کے لیے مہیا کر رکھا ہے۔ بخاری ‘ مسلم اور مُسند احمد میں حضرت عبداللہؓ بن عمر کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: ’’اِنَّ اَحَدَکُمْ اِذَا مَاتَ عُرِضَ عَلَیْہِ مَقْعَدُہٗ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ ، اِنْ کَانَ مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ‘ وَاِنْ کَانَ مِنْ اَھْلِ النَّارِ‘ فَیُقَالُ ھٰذَا مَقْعَدُکَ حَتّٰی یَبْعَثَکَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔’’ تم میں سے جو شخص بھی مرتا ہے اسے صبح و شام اس کی آخری قیام گاہ دکھائی جاتی رہتی ہے‘ خواہ جنتی ہو یا دوزخی۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں تو اُس وقت جائے گا جب اللہ تجھے قیامت کے روز دوبارہ اُٹھا کر اپنے حضور بلائے گا‘‘۔ (ج ۴‘ ص ۴۱۲-۴۱۳)
لَھُمْ مَّا یَشَآئُ وْنَ عِنْدَ رَبِّھِمْ ط (الزمر ۳۹:۳۴)
انھیں اپنے رب کے ہاں وہ سب کچھ ملے گا جس کی وہ خواہش کریں گے۔
یہ بات ملحوظ رہے کہ یہاں فِی الْجَنَّۃِ (جنت) نہیں بلکہ عِنْدَ رَبِّھِمْ (ان کے رب کے ہاں) کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ اپنے رب کے ہاں تو بندہ مرنے کے بعد ہی پہنچ جاتا ہے۔ اس لیے آیت کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں پہنچ کرہی نہیں‘ بلکہ مرنے کے وقت سے دخولِ جنت تک کے زمانے میں بھی مومنِ صالح کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہی رہے گا۔ وہ عذابِ برزخ سے‘ روزِ قیامت کی سختیوں سے‘ حساب کی سخت گیری سے‘ میدانِ حشر کی رسوائی سے‘ اپنی کوتاہیوں اور قصوروں پر مواخذے سے لازماً بچنا چاہے گا اور اللہ جل شانہ ‘ اس کی یہ ساری خواہشات پوری فرمائے گا۔ (ج ۴‘ ص ۳۷۳)
اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْاج رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْ ئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِھِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ o رَبَّنَا وَاَدْخِلْھُمْ جَنّٰتِ عَدْنِ نِ الَّتِیْ وَعَدْتَّھُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآئِھِمْ وَاَزْوَاجِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (المومن ۴۰: ۷-۸)
عرشِ الٰہی کے حامل فرشتے‘ اور وہ جو عرش کے گرد و پیش حاضر رہتے ہیں‘ سب اپنے رب کے حمدکے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں۔ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دُعائے مغفرت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’اے ہمارے رب‘ تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہرچیزپرچھایا ہوا ہے‘ پس معاف کر دے اور عذابِ دوزخ سے بچالے اُن لوگوں کو جنھوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ اے ہمارے رب‘ اور داخل کر اُن کو ہمیشہ رہنے والی اُن جنتوں میں جن کا تو نے اُن سے وعدہ کیا ہے‘ اور اُن کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں(اُن کو بھی وہاں اُن کے ساتھ ہی پہنچا دے)۔ توبلاشبہ قادرِمطلق اورحکیم ہے۔
یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھیوں کی تسلی کے لیے ارشاد ہوئی ہے۔ وہ اس وقت کفارِ مکّہ کی زبان درازیاں اور چیرہ دستیاں ‘ اور ان کے مقابلے میں اپنی بے بسی دیکھ دیکھ کر سخت دل شکستہ ہو رہے تھے۔ اس پر فرمایا گیا کہ اِن گھٹیا اور رذیل لوگوں کی باتوں پر تم رنجیدہ کیوں ہوتے ہو‘ تمھارا مرتبہ تو وہ ہے کہ عرش الٰہی کے حامل فرشتے اور عرش کے گرد و پیش حاضر رہنے والے ملائکہ تک تمھارے حامی ہیں اور تمھاے حق میں اللہ تعالیٰ کے حضور سفارشیں کر رہے ہیں۔ عام فرشتوں کے بجاے عرش الٰہی کے حامل اور اس کے گرد و پیش حاضر رہنے والے فرشتوں کا ذکر یہ تصور دلانے کے لیے کیا گیا ہے کہ سلطنت خداوندی کے عام اہل کار تو درکنار‘ وہ ملائکہ مقربین بھی جو اس سلطنت کے ستون ہیں اور جنھیں فرمانروائے کائنات کے ہاں قرب کا مقام حاصل ہے ‘ تمھارے ساتھ گہری دلچسپی و ہمدردی رکھتے ہیں۔ پھر یہ فرمایا گیاکہ یہ ملائکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان کا رشتہ ہی وہ اصل رشتہ ہے جس نے عرشیوں اور فرشیوں کو ملا کر ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے‘ اور اسی تعلق کی وجہ سے عرش کے قریب رہنے والے فرشتوں کو زمین پر بسنے والے ان خاکی انسانوں سے دلچسپی پیدا ہوئی ہے جو انھی کی طرح اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ اللہ پر فرشتوں کے ایمان رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کفر کر سکتے تھے‘ مگر انھوں نے اسے چھوڑ کر ایمان اختیار کیا‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ وحدہ‘ لاشریک ہی کا اقتدار مانتے ہیں۔ کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں ہے جو انھیں حکم دینے والی ہو اور وہ اس کے آگے سراطاعت جھکاتے ہوں۔ یہی مسلک جب ایمان لانے والے انسانوں نے بھی اختیار کر لیا تو اتنے بڑے اختلافِ جنس اور بُعدِمقام کے باوجود اُن کے اور فرشتوں کے درمیان ہم مشربی کا مضبوط تعلق قائم ہوگیا۔ (ج ۴‘ ص ۳۹۴)
ہمارے مسلمان معاشرے میں امام مسجد کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ عام آدمی کی نظر میں وہ ایک عالمِ دین ہوتا ہے۔ یہ ایک بہت بلند مقام ہے۔ حدیث رسولؐ کے مطابق علما درحقیقت انبیا کے وارث ہیں۔ لہٰذا امامت کا فریضہ اپنے مرتبہ و مقام کے لحاظ سے خدا کی کسی بڑی نعمت سے کم نہیں‘ اور جسے وہ اپنی مشیت سے اس منصب کے لیے منتخب کرلے فی الواقع اسے ایک بڑی نعمت حاصل ہوگئی۔ اس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے‘ اس لیے کہ اس کے پاس وہ علم ہے جو انبیاے کرام لے کر آئے‘ وہ انبیا کا وارث ہے‘ اور اسے لوگوں کی امامت و رہنمائی اور تزکیہ و تربیت کا موقع حاصل ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے مسجد کی امامت ہمارے معاشرے میں ایک چلن بن کر رہ گیا ہے کہ گویا یہ صرف دو رکعت کی امامت ہے‘ لیکن حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔ عملاً ایک امام اس مصلے پر کھڑا ہوتا ہے جس پر سیدالانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے تھے۔ یوں تمام ائمہ آپؐ کے وارث اور نائب ہیں۔ اس لیے ائمہ کو آج پھر وہی فرائض انجام دینے ہیں جو آپؐ نے انجام دیے۔
یہ بھی ہماری بدنصیبی ہے کہ ہمارے معاشرے میں مسجد کو وہ مقام حاصل نہیں رہا جو مسجدنبویؐ کو حاصل تھا ‘اور نہ ائمہ ہی کو وہ مقام حاصل ہے جو انھیں حاصل ہونا چاہیے۔ مسجد محض ایک عبادت گاہ بن کر رہ گئی ہے جہاں نمازی حضرات رسماً عبادت کے لیے آتے ہیں۔ اب اس بات کا شعور نہیں رہا کہ مسجد صرف ایک عبادت گاہ نہیں ہے بلکہ اسلامی بستی کے مرکز کی حیثیت رکھتی ہے‘ اور امام محض امامِ مسجد نہیں ہے بلکہ فی الواقع وہ اس بستی کا قائد و فکری رہنما ہے۔ مسجد تو اُمت کی زندگی کا مرکز ہے۔ اذان و نماز کے ذریعے ایک مسلمان کے ایمان و عہدِ بندگی کو تازہ کرنے اور اطاعت کی مشق دن میں پانچ مرتبہ کروائی جاتی ہے۔ اخوت‘ مساوات اور ہمدردی و غم خواری کا سبق سکھایا جاتا ہے۔ وہ اپنے بھائیوں سے بے تعلق نہیں رہ سکتا کہ ان کے دکھ درد میں شریک نہ ہو اور ان کے دکھ نہ بانٹے۔
یہ مرکز دعوت و ارشاد ہے۔ اس لیے کہ یہاں احکامات الٰہی سے روشناس کروایا جاتا ہے۔ مسجد تعلیم و تربیت کا مرکز ہے‘ مدرسہ و اسکول ہے اور لائبریری و مطالعہ گاہ ہے۔ سیاسی مرکز ہے جہاں قائدین و عوام اپنے مسائل باہم مشاورت سے حل کرتے ہیں۔ بیت المال ہے کہ زکوٰۃ وغیرہ جمع اور تقسیم کی جاتی ہے‘ اور حاجت مندوں کی کفالت کی جاتی ہے۔ عدالت ہے کہ جھگڑے نبٹائے جاتے ہیں‘ اور فیصلے کیے جاتے ہیں۔ مسجد مرکز ثقافت (کمیونٹی سنٹر) ہے جہاں شادی بیاہ اور مختلف مواقع پر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ افسوس کہ آج نہ ہم مسجد کے مقام سے صحیح طرح آگاہ ہیں اور نہ امام ہی اپنے منصب و مقام اور تقاضوں کو جانتا ہے ع
رہ گئی رسمِ اذاں روح بلالی نہ رہی
۱- غارحرامیں نزولِ وحی کا آغاز ہوا۔ انسانیت کو قرآن دیا گیا جس پر اُمت کی پوری زندگی کی بنیاد ہے۔ قرآن وہ سرچشمۂ حیات ہے جس نے انسان کے لیے خدائی ہدایت کی تکمیل کی اور انسانیت کے لیے دین کو ایک مکمل اور جامع نظامِ حیات کے طور پر پیش کیا۔ نبی کریمؐ نے ایک جاں گسل جدوجہد کے بعد قرآنی نظام کو دنیا میں نافذ کر کے ایک جیتی جاگتی اسلامی ریاست کا نمونہ پیش کر کے دکھا دیا کہ انسانیت کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اب دنیا میں قرآنی نظام کے علاوہ کسی اور نظام اور ازم کی گنجایش نہیں۔
۲- ۱۱ سال بعد مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کا واقعہ پیش آیا۔ یہ اتنا اہم واقعہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے کیلنڈر کی بنیاد اس پر رکھتے ہیں۔ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت‘ اسلام کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن سفر تھا۔ اس سے ایک اسلامی ریاست کی بنیاد فراہم ہوئی۔ معرکہ حق و باطل کا یہ وہ تاریخ ساز لمحہ ہے جس نے یہ فیصلہ سنا دیا کہ حق حق ہے اور اسے بالآخر غالب آنا ہے‘ اور باطل باطل ہے‘ اسے ایک روز لازماً مٹ جانا ہے خواہ وہ کتنی ہی طاقت‘ کروفر اور جاہ و حشم کا مالک ہو۔ اس کا مقدر بہرحال ذلت‘ شکست اور مٹ جانا ہی ہے۔
۳- ۸ ہجری میں فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا اور دنیا کو یہ پیغام ملا کہ مستقبل اسلام کا ہے۔ فتح مکہ نے عملاً یہ ثابت کر دیا کہ انسانیت کو اگر امن‘ انصاف اور مسائل زندگی کے حل کے لیے کوئی متوازن‘ معتدل اور پایدار نظامِ حیات چاہیے تو وہ اسلام ہی ہے‘ اور اگر کوئی قابلِ تقلید بہترین اسوہ کی کسی کو تلاش ہے تو وہ نبی اکرمؐ کی ذات میں ہے--- ایک فرد کی زندگی سے لے کر ایک انسانی ریاست کی تشکیل تک!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تشریف لانے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ مسجد کی تعمیر کی۔ اس بات سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام میں مسجد کا کیا مقام اور کتنی اہمیت ہے۔ اس مسجد کی تعمیر میں آپؐ خود شریک ہوئے اور اپنے ہاتھوں سے پتھر اٹھائے۔ اگرچہ مسجد نبویؐ اپنی عمارت اور زیبایش کے لحاظ سے ایک عام سی مسجد تھی لیکن یہ مسجد دراصل ان تمام عالی شان مساجد کے قیام کی بنیاد بنی جو بعد میں دہلی‘ قرطبہ‘ اصفہان‘تاشقند اور لاہور میں نظر آتی ہیں۔ مسجد کا تعلق اُمت کی زندگی سے اسی وقت قائم ہوگیا تھا۔ مسجد دعوت‘ عدالت اور سیاست کا مرکز بن چکی تھی۔ مقدمات کا فیصلہ یہاں کیا جاتا‘ جہاد کے لیے پکار کر لوگوں کو جمع یہاں کیا جاتا‘ لشکر کی روانگی بھی یہیں سے ہوا کرتی۔ مجلس شوریٰ کا اجلاس بھی یہاں ہی ہوا کرتا تھا۔ پنج وقتہ نماز مسجد میں ہوتی تھی حتیٰ کہ منافق بھی مسجد میں حاضر ہوتے تھے۔ یہ تصور نہیں تھا کہ کوئی فرد‘ اُمت کا ایک فرد ہو اور مسجد میں حاضر نہ ہو۔ فجر کی نماز کی خصوصیت سے اہمیت تھی۔ خلیفۂ وقت حضرت عمرؓ جب نماز فجر کے لیے مسجد جایا کرتے تھے تو لوگوں کو نماز کے لیے جگایا کرتے تھے۔ صفیں درست اور سیدھی رکھنے کا مکمل اہتمام کرتے تھے۔ گویا مسلمان معاشرے میں مسجد‘ اُمت کی پوری زندگی کا مرکز تھی۔ سیاست‘ عدالت اور اجتماعی زندگی کا مرکز بھی مسجد تھی اور تعلیم و تربیت کا مرکز بھی۔ اسلام کی تاریخ میں بڑے بڑے مدارس مساجد سے ملحق رہے۔ وہ مدارس ہماری بڑی جامعات تھیں‘ ملت مسلمہ کی کیمبرج اور آکسفورڈ تھیں۔ ان مساجد سے متصل طلبا کے قیام کے لیے حجرات تعمیر کیے گئے تھے۔ نظام تعلیم مساجد کے گرد قائم تھا۔
یہ ہمارا عروج کا دور تھا لیکن بعد میں‘ جیسے جیسے اُمت کا زوال زور پکڑتا گیا‘ اس کے ہاتھ سے دنیا کی قیادت نکلتی چلی گئی‘ اور ساتھ ہی مسجد کے ہاتھ سے اُمت کی قیادت بھی نکل گئی۔
ضروری ہے کہ مسجد کے ائمہ کو وہی مقام حاصل ہو جو مقام ان کا حق ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ مسجد کے ائمہ اپنے آپ کو اس منصب اور مقام کو سنبھالنے کا اہل بنائیں۔ اس کے بغیر اُمت کی اجتماعی زندگی کا احیا اور اس کو درپیش چیلنج کا مقابلہ ممکن نہیں۔
اس وقت اُمت کے اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود‘ ذلت و مسکنت ہمارا مقدر ہے۔ ہم پر غیراقوام کا غلبہ ہے۔ دنیا کی قومیں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑی ہیں۔ اس وقت مسلمان اپنی زندگی کے ایک انتہائی خطرناک دور سے گزر رہے ہیں۔ لیکن جہاں خطرات ہیں وہیں امکانات بھی موجود ہیں۔ آج اُمت کو اتنا بڑا خطرہ درپیش ہے کہ تاریخ میں کبھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ غالب تہذیب نے جس طرح مسلمانوں کو اپنا حریف اور نشانہ بنالیا ہے‘ اس کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف تقاریر‘ قراردادوں اور ان کی سازشوں کو بے نقاب کرنے سے بات نہیں بنے گی۔ ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ائمہ کرام کو اپنا حقیقی کردار ادا کرنا ہوگا۔ اپنا مقام و منصب پہچاننا ہوگا۔ یہ ناگزیر ہے کہ مسجد کے ائمہ اس بات کے اہل ہوں کہ وہ وہی مقام سنبھال سکیں‘ اُمت کی رہنمائی کر سکیں‘ اور مسجد کا اُمت کی زندگی میں وہی مقام ہو جو نبی اکرمؐ نے مسجد کو مدینہ کی اجتماعی زندگی میں دیا تھا۔
آج اُمت تاریخ کے انتہائی نازک موڑ پر کھڑی ہے اور اسے سنگین نوعیت کے خطرات لاحق ہیں‘ لیکن انھی خطرات میں روشن مستقبل پوشیدہ ہے۔ ہمارے لیے دنیا کی قیادت کے کھلے امکانات موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن ہمارے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ دنیا کی ابلیسی تہذیب کے مستقبل کو اصل خطرہ مسلمان سے ہے۔ اس حقیقت کی نشان دہی علامہ اقبال نے ابلیس کی زبان سے کی تھی۔ مغرب کو نہ اشتراکیت سے خطرہ ہے نہ مزدکیت سے‘ اصل خطرہ اسلام سے ہے۔ اسلام ہی میں یہ قوت و صلاحیت پائی جاتی ہے کہ وہ اس کے مقابلے میں اٹھ کھڑا ہو اور اس کو چیلنج کرے۔
اُمت کی ہیئت ترکیبی کے اندر یہ خاصیت پوشیدہ ہے۔ رب العالمین کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے: اُخرجت للناس، یہ تمام انسانوں کے لیے برپا کی گئی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کے لیے نبی بناکر بھیجے گئے تھے اور اُمت کو قیامت تک یہی مشن سونپا گیا: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطاً لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ(البقرہ ۲:۱۴۳) ’’ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’امت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو‘‘۔ اُمت کا شعار یہ بتایا گیا: وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖط(الحج ۲۲:۷۸) ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے‘‘۔ قرآن نے رہنمائی کر دی ہے کہ یہ اُمت کس لیے وجود میں آئی ہے۔ یہ اُمت معاشی مفادات کے لیے‘ سیاست گری کے لیے یا دنیا میں محض ناموری کے لیے نہیں‘ بلکہ تمام انسانیت کو اللہ کی بندگی میں داخل کرنے کے لیے برپا کی گئی ہے۔ اس اُمت نے جب اپنے منصب کو پہچانا تو صرف ۳۰ سال کے اندر دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپا کرکے رکھ دیا۔
اُس وقت مسلمان بے سروسامان تھے لیکن ان کے پاس ایمان تھا‘ یقین تھا‘ وحدت تھی۔ صرف ۳۰ سال کے اندر‘ ایران و روم اور صرف ۱۰۰ سال کے اندر اندر وہ اسپین کے غاروں اور چین کے ساحل تک پہنچ گئے۔ دنیا ورفعنالک ذکرک کی عملی صورت اپنی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
لیکن یہ سب کچھ خود بخود نہیں ہوگیا۔ اس کے کچھ تقاضے تھے جو پورے کیے گئے۔ آج درپیش چیلنجوں سے نمٹنے اور امکانات سے فائدہ اٹھانے کی بھی یہی صورت ہے کہ اُمت اپنے فرائض کو کماحقہ انجام دے اور اس کے لیے کمر کس لے۔
ائمہ کی ذمہ داریاں
اس کام میں مرکزی اہمیت ائمہ کرام کو حاصل ہے۔ آپ کو صرف نماز کا امام نہیں‘ بلکہ معاشرے کا امام و لیڈر بننا ہے اور معاشرے کو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے پر چلانا ہے ؎
بمصطفیٰ ؐبرساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است
اس کے لیے آپ کو ‘ اپنے آپ کو تیار کرنا ہے۔ مسجد کو اُمت کی اجتماعی زندگی کی تعلیم گاہ بنانا ہے۔ اپنے اندر یہ اہلیت پیدا کرنا ہے کہ اس مقام پر بیٹھ کر اُمت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکیں۔
معاشرے میں اس وقت مسجد کے حقیقی مقام و مرتبے کی حیثیت بہت کمزور ہے‘ اور امام عملاً اس قدر بے بس ہے کہ اسے (متولی کی اجازت کے بغیر) نماز کا وقت متعین کرنے کا بھی اختیار نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ آپ ‘ائمہ کے اندر بے پناہ قوت ہے۔ اگر آپ کے پاس اہلیت اور صلاحیت ہو تو معاشرے میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے‘ مگر ہم ان صلاحیتوں اور امکانات سے آگاہ نہیں۔ عرب کے ریگستان میں پلنے والے لوگوں کے اندر یقین اور ایمان کی کیفیت پیدا ہوئی تو نتیجہ یہ نکلا کہ بہترین جرنیل پیدا ہوگئے۔ ان کو تاریخ کے چیلنجوں کا ادراک تھا۔ ان سے نبٹنے کی صلاحیتوں کا شعور تھا۔ انھوں نے دنیا میں عظیم فتوحات کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ایک بڑی دنیا نے ان کے پیغام کو قبول کیا اور تاریخ کا دھارا موڑ کر رکھ دیا۔
آپ کو اس کا ادراک کرنا ہے کہ آپ کا مقام کیا ہے؟ منصب کیا ہے؟ اگر مسجد کو مرکز بننا ہے‘ اور آپ کو اس مرکز میں دعوت و ارشاد اور قیادت کا وہ کام انجام دینا ہے‘ تو آپ کے سامنے ایک ہی روشنی کا مینارہ ہے اور وہ ہیں مسجد نبویؐ کے امام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم۔ آپؐ کا اخلاق‘ شہرت‘ کردار‘ اخلاص‘دلسوزی--- اس کے بغیریہ عظیم کام انجام نہیں پاسکتا ہے۔
۱- سب سے پہلی اور اہم ترین بات یہ ہے کہ آپ کو صحیح چیزوںکا علم ہو جائے۔ اللہ کی وحدانیت اور رسولؐ کی شہادت آپ کی زندگی کا جزو ہو جائے۔ اسلام کی پوری روح اور اس کی پوری عمارت توحید پر قائم ہے۔ مسجد میں آنے والوں میں اللہ کی محتاجی کی کیفیت پیدا کریں۔ زندگی کے ہر مسئلے میں ہم اللہ اور اس کے رسولؐ کے محتاج ہوں۔ شعوری طور پر اس کی کوشش کرنا ہوگی اور اس کے لیے تدابیر اختیار کرنا ہوں گی۔ اللہ کی محتاجی کی نسبت پیدا کرنا‘ اللہ کے ساتھ لوگوںکا تعلق قائم کرنا‘ یہ آپ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
۲- آپ اپنے مقتدیوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اطاعت کا جذبہ پیدا کریں۔ ذات مصطفویؐ سے عشق پیدا کریں‘ اس سے ملت کے جسد میں قوت پیدا ہوگی۔ نبی اکرمؐ کی ذات گرامی سے محبت‘ قوت کا وہ سرچشمہ ہے جو صرف آپ کے پاس ہے‘ کسی اور اُمت کے پاس نہیں۔ صنعتی ترقی اور کارخانوں کی قوت اصل قوت نہیں۔ ان سے وہ کام نہیں بنے گا جو آپ کے پیشِ نظر ہے۔
۳- اُمت کی زندگی میں دین و دنیا کی وحدت پیدا کرنا بھی آپ کا کام ہے۔
۴- علم صرف احکام اور مسائل کو جاننے کا نام نہیں‘ بلکہ احکام و مسائل کے ساتھ ساتھ حکمت اور مصلحت کو جاننے کا نام ہے۔ نبی اکرم ؐکتاب کے ساتھ ساتھ حکمت کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ حکمت وہ چیز ہے جسے خیرکثیر کہا گیا ہے: وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط (البقرہ ۲:۲۶۹) ’’اور جس کو حکمت ملی‘ اُسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی‘‘۔
اگر آدمی حکمت سے آشنا نہ ہو تو دین پر چلنا‘ دین پر چلانا‘ دین کو قوت بنانا ممکن نہیں۔ صرف احکام و مسائل کے بیان سے دین پر عمل نہیں ہوتا۔ ایسا صرف اس وقت ہوتا ہے جب لوگوں کو حکمت کے ساتھ دین کی راہ پر لایا جائے۔ لوگوں کو آمادہ کیا جائے کہ وہ دین کی ذمہ داریوں کے متحمل ہوسکیں‘ ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھاسکیں‘ یعنی ان میں اطاعت کی استعداد پیدا ہو۔ اس حکمت کے بہت سارے پہلو ہیں:
ایک حکمت‘ احکام کے درمیان مدارج کا فہم ہے۔ سارے احکام ایک جیسے نہیں۔ عمل کرنے والوں کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ احکام کے اندر مدارج ہیں۔
ایک دفعہ مسجد نبویؐ میں لوگ نماز میں فرض ادا کرنے کے بعد اسی مقام پر کھڑے ہوکر جہاں فرض ادا کیے تھے‘ سنتیں ادا کرنے لگے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: پہلی امتیں اسی وجہ سے تباہ ہوئیں۔ جب فرائض‘ سنن‘ مستحبات کے درمیان فرق ختم ہوجائے تو اُمت زوال کے راستے پر آجاتی ہے۔ پھر سارا زور مستحبات اور سنن پر ہوجاتا ہے اور فرائض کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔
قرآن کے اندر صرف سؤر کے گوشت اور شراب نوشی ہی کی ممانعت نہیں ہے بلکہ حسد کو اور غیبت کو بھی حرام کیا گیا ہے‘ نیز اللہ کی راہ میں جدوجہد اور جانفشانی کو بھی بڑی نیکیوں میں شمار کیا ہے۔
اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِط (التوبہ ۹:۱۹)
کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اُس شخص کے کام کے برابر ٹھیرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں؟
اللہ کے رسول ؐنے ان احکامات کو بھی اچھی طرح واضح فرمایا ہے اور عملی نمونہ پیش کیا ہے۔ گویا احکامات کے ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیمات اور راہ خدا میں جدوجہد کو بھی اتنی ہی اہمیت حاصل ہے۔ لہٰذا ایمان کے ساتھ ساتھ اخلاق اور کردار سازی اور دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کی طرف بھی توجہ رہنی چاہیے۔ اس کے نتیجے میں ایک مسلمان کا وہ اخلاق اور کردار تعمیر ہوسکے گا جو اصلاً مطلوب ہے اور غلبۂ دین کے لیے جدوجہد کے نتیجے میں ایک صحیح اسلامی معاشرت سامنے آسکے گی جو اسلام کا طرئہ امتیاز ہے۔ یوں معاشرہ اسلام کے مکمل نظامِ حیات کی حقیقی برکات سے مستفید ہو سکے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ آپ کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ہر کام تدریج کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ پورا دین لوگوں پر ایک ہی دفعہ میں نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ طبیعت اور نفس کی استعداد کے ساتھ ساتھ تدریج کے ساتھ لوگوں کو چلایا جائے۔ سب سے پہلے دل کے اندر ایمان پیدا کیا جائے۔ یہی سلف کا طریق کار تھا۔ وہ تدریج کا اہتمام کرتے تھے۔ دین کے سارے مطالبات ایک ساتھ ہی سامنے نہیں رکھے دیتے تھے۔
سیرت پاکؐ کا مطالعہ کیا جائے تو نبی اکرمؐ کی کامیابی کا راز یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ محبت‘ رحمت اور شفقت کے پیکرِ مجسم تھے۔ قرآن گواہ ہے: فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَص (اٰل عمرٰن۳:۱۵۹) ’’(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے‘‘۔
آپؐ نرم دل تھے‘ تادیب وتعزیر میں نرمی کرتے تھے۔ ایک بدو مسجد نبویؐ کے صحن میں پیشاب کرنے لگا۔ صحابہ روکنے کے لیے اٹھے۔ آپؐ نے منع کر دیا۔بعد میں صحابہؓ سے فرمایا: اس کو دھو کر صاف کر دو۔ آپؐ کے اس طرزعمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ شخص ہمیشہ کے لیے مطیع و فرماں بردار ہوگیا۔
سید قطبؒ سورۃ الاعلیٰ کی تفسیر میں واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص رسولؐ اللہ کے پاس آیا۔ کچھ مانگا‘ آپ ؐنے عطا کیا۔ اس نے بے اطمینانی ظاہر کی۔ آپؐ نے اس کو اور دیا۔ پھر وہ خوش ہوکر گیا۔
آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میری اور تمھاری مثال ایسی ہے جیسے ایک اونٹنی ہو جو بدک گئی ہو‘ اور تم ڈنڈے لے کر اس کے پیچھے لگ جائو جس سے وہ اور زیادہ خوف زدہ ہو جائے اور بدک جائے۔لیکن مالک محبت و شفقت سے اس کو قابو کر لیتا ہے۔
آج ہمیں بھی اس قوم کے اوپر سواری کرنے کے لیے‘ اس کی صحیح سمت میں رہنمائی اور تربیت کے لیے‘ اسی نرمی اور محبت و شفقت کی ضرورت ہے۔ مسجد کے منبر سے دین کی تعلیم اس انداز سے ہو تو نتیجہ خیز ہوگی۔
مسجد کا معاشرے سے تعلق قائم کرنے اور رکھنے میں بھی فیصلہ کن کردار امام کا ہی ہوگا۔ مسجد کو صاف رکھنا چاہیے۔ نظافت و طہارت کو دین میں بڑی اہمیت ہے۔ اس کا اہتمام مسجد میں نظرآنا چاہیے۔ مسجد محلے کے لوگوں کا مرکز ہو‘ لوگ وہاں بیٹھیں اور اپنے مسائل پر بات کریں۔
مسجد تو وہ جگہ ہے جہاں ہم سجدہ کرتے ہیں لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے خصائص نبوت میں سے یہ ہے کہ پوری زمین کو آپؐ کے لیے سجدہ گاہ بنا دیا گیا۔ مسلمان کسی بھی جگہ خاک پر سر رکھ کر سجدہ کر سکتا ہے۔
اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ مسلمان جہاں چاہے نماز پڑھ سکتا ہے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ پوری دنیا اللہ کی بندگی میں آجائے۔ نبی اکرمؐ نے مسجد کی تعمیر کے بعد ساری توجہ مسجد پر ہی نہیں دی۔ محض اس کی آرایش و زیبایش کو مرکز توجہ نہیں بنایا۔ آپؐ کی اصل توجہ اور سرگرمی دین کو غالب کرنے‘ دنیا کو دین پر چلانے پر رہی۔ آپؐ لوگوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اور دنیا کی تنگیوں سے نکال کر‘ ایک اللہ کی بندگی کی وسعت و کشادگی میں لائے۔ ائمہ مساجد کا اصل فریضہ یہی ہے اور اسے ترجیحِ اول ہونا چاہیے۔
آپ مسجد کو نور کا مینارہ بنایئے۔ امامت کی ذمہ داری دے کر آپ کو اعلیٰ مقام پر فائز کیا گیا ہے۔ اللہ نے آپ کو آزمایش میں ڈالا ہے۔ آپ پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عائد کی ہیں۔ آپ انھیں اپنی وسعت اور استعداد کے مطابق انجام دیں۔ اسوہ رسولؐ کی ہدایت‘ رہنمائی اور روشنی میں اپنی صلاحیتوں کو کام میں لائیں۔ اسوہ رسولؐ کا فہم حاصل کرنے کے لیے سیرت کا خوب مطالعہ کریں‘ خود بھی عمل کریں‘ نمازیوں کو بھی آمادہ کریں۔ اس سے امت میں وہ طاقت اور قوت پیدا ہوگی کہ وہ دنیا کی قیادت کر سکے گی۔
خطبۂ جمعہ اسلام کے نظامِ تعلیم و تربیت میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نمازجمعہ کو فرض قرار دیا گیا ہے اور کوئی شخص جماعت سے الگ انفرادی طور پر نماز جمعہ ادا نہیں کرسکتا۔ بستی کا مرکز ہونے کی وجہ سے ہر شخص کا مسجد پہنچنا لازم قرار دیا گیا ہے اور خطبۂ جمعہ کے ذریعے فکری رہنمائی اور تزکیہ و تربیت کا سامان کیا گیا ہے۔ اس طریقے سے ہر ہفتے اس عمل کو دہرایا جاتا ہے۔ لہٰذا خطبۂ جمعہ خصوصی اہمیت اور توجہ چاہتا ہے۔ اگر ائمہ حضرات گذشتہ نکات کی روشنی میں ترجیحات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے‘ ایمان‘ اخلاق اور تدریج اور عوام کے مسائل کو موضوع بناتے ہوئے خطبہ دیں تو جہاں یہ فریضہ بہ احسن ادا ہوسکے گا‘ وہاں عوام کی دل چسپی بھی بڑھے گی اور بتدریج مسجد بستی کے مرکز کا مقام حاصل کر لے گی۔ البتہ ایک بات کا خصوصی اہتمام کیا جائے کہ ائمہ جو خطبہ دیں‘ اس میں صرف وہ باتیں بیان کریں جو تمام علما کے ہاں مسلّمہ ہیں۔ اس سے فکری ہم آہنگی اور ملّی یک جہتی پیدا ہوگی اور اختلاف و انتشار کا خاتمہ بھی ہو سکے گا اور مسلمان جسدِواحد بن کر اُمت کا وہ مطلوبہ کردار بھی ادا کرسکیں گے جو وقت کا تقاضا اور ضرورت ہے۔
آج اُمت زوال کا شکار ہے۔ ایمان اور اعمال میں زوال اور کمزوری رونما ہوگئی ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ لوگوں کو دین کی صحیح صحیح تعلیم دی جائے۔ اس راہ میں مشکلات لازمی ہیں لیکن آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنا کام جاری رکھیں‘ مشکلات کو خاطر میں نہ لائیں اور اپنے کام میں لگے رہیں۔ عزم‘ ارادہ اور کوشش--- اپنے اپنے دائرے میں اخلاص نیت کے ساتھ کام کریں۔ اس کے ثمرات ضرور نکلیں گے۔ اس دور میں رواداری اور وسعت نظر کی ضرورت ہے۔ اس کا اظہار آپ کے رویے سے‘ آپ کی باتوں سے ہونا چاہیے۔
یقین ہے کہ ان امور کا خیال رکھ کر اگر آپ منصبِ امامت کی ذمہ داری ادا کریں اور اس تحریک کو ائمہ مساجد میں عام کردیں‘ تو معاشرے پر جلد مثبت اثرات نظر آئیں گے۔
(کتابچہ دستیاب ہے۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے کچھ اٹل قوانین مقرر فرمائے ہیں جن کو سنت ِ الٰہی کہا جاتا ہے۔ یہ خدائی ضابطے جس طرح آدم علیہ السلام کی اگلی نسلوں میں نافذ تھے ‘ ٹھیک اسی طرح اُن کے بعد کی نسلوں میں بھی جاری اور نافذ ہیں۔ اس سنت ِ الٰہی کا معاملہ مسلمانوں اور کافروں کے ساتھ یکساں ہوتا ہے۔ یہ قوانین الٰہی کبھی اور کسی کے معاملے میں ذرا بھی تبدیل نہیں ہوتے۔ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًاج وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًاo (فاطر۳۵:۴۳) ’’تم اللہ کی سنت میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائو گے‘ اور تم اللہ کی سنت کو ٹلتی ہوئی ہرگز نہ دیکھو گے‘‘۔
اگر ہم ماضی وحال میں سنت ِ الٰہی کی کارفرمائیوں کا جائزہ لے کر دیکھیں تو مستقبل میں ہمیں غلبۂ اسلام کی متعدد بشارتیں ملتی ہیں۔ جب ہم دنیا میں رونما ہونے والے حوادث و واقعات اور حالات کی بدلتی ہوئی کروٹوں کا بنظرِغائر مطالعہ کرتے ہیں تو واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اُمتِ مسلمہ اور داعیانِ اسلام کے حق میں فالِ نیک ہے‘ اور آخرکار ان سب کا فائدہ اسلام کو پہنچے گا۔ اس کائنات میں جاری سنت ِ الٰہی کے ضابطوں میں سے بعض کا ہم یہاں ذکر کریں گے۔
اس کائنات میں کارفرما الٰہی قوانین میں سے ایک اہم قانون‘ اقوام و ملل کے عروج و زوال کا ہے۔ اس سنت ِ الٰہی کی توثیق اس آیت سے ہوتی ہے جس میں مسلمانوں کو غزوئہ اُحد کی عارضی شکست پر تسلی دی گئی ہے‘ اور اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے اقوام و ملل کے باب میں اپنی سنتِ ثابتہ کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:
اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗط وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُھَدَآئَ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۴۰)
اگر تمھیں زخم لگا تو اس سے پہلے ایسا ہی زخم تمھارے فریق مخالف کو بھی لگ چکا ہے۔ یہ تو گردشِ زمانہ ہے جسے ہم لوگوں کے درمیان اَدل بدل کر لاتے رہتے ہیں اور ایسا اس لیے ہوا کہ اللہ تعالیٰ یہ جان لینا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں اور اُن لوگوں کو چھانٹ کر الگ کر لینا چاہتا تھا جو واقعی حق کے گواہ ہوں۔
یہ روز کا مشاہدہ ہے کہ حالات بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں۔ پوری دنیا میں تغیر اور تبدیلی کا عمل انتہائی سرعت کے ساتھ جاری ہے۔ کتنی قومیں اور افراد ایسے ہیں جن کی عزت و سرفرازی کا کبھی ڈنکا بجتا تھا‘ آج وہ ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ اس کے برعکس کتنی ہی پست و حقیر قوموں کے سر پر عزت و وقار کا تاج رکھا جا رہا ہے۔ کتنی ہی خوش حال زندگیاں تنگ حالی و بدحالی کا شکار ہوگئیں اور کتنے ہی تنگ حال و پریشان حال لوگ فارغ البالی و خوش حالی سے شادکام ہو رہے ہیں: فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o (الشرح ۹۴:۵-۶) ’’پس یقینا تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔ بلاشبہہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے‘‘۔ سَیَجْعَلُ اللّٰہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا (الطلاق ۶۵:۷) ’’عنقریب اللہ تعالیٰ تنگی کے بعد فراخی پیدا کردے گا‘‘۔
جن لوگوں کی نظر اقوامِ عالم کی تاریخ پر ہے وہ جانتے ہیں کہ تہذیب و تمدن کی شمع یا اقتدار اور حکومت کی کنجیاں کبھی ایک قوم یا فرد کے ہاتھ میں ہمیشہ نہیں رہی ہیں بلکہ یہ ایک قوم سے دوسری قوم اور ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ ہم مسلمانوں کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اس وقت اقوامِ عالم کے درمیان تبدیلی کا یہ الٰہی ضابطہ ہمارے خلاف نہیں بلکہ ہمارے حق میں ہے‘ جیسا کہ امام حسن البنائؒ کا قول ہے کہ: ’’اب گردشِ دوراں ہمارے موافق ہے‘ ہمارے مخالف نہیں ہے‘‘۔
اقوامِ عالم کی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے زمانۂ قدیم میں فرعونی‘ آشوری‘ بابلی‘ کلدانی‘ فینفی‘ ایرانی‘ ہندستانی اور چینی تہذیبوں کے غلبے و تسلط کے باعث دنیا کی قیادت و سیادت مشرقی اقوام کے ہاتھوں میں تھی۔ پھر جب یونانی تہذیب اپنے ایک خاص فکروفلسفے کے ساتھ دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی اور ساتھ ہی رومی تہذیب ایک مخصوص نظامِ حکمرانی کے ساتھ دنیا میں جلوہ گر ہوئی تو ساری دنیا میں اِن دونوں تہذیبوں کے غالب آجانے کے نتیجے میں مغربی اقوام‘ دنیا کی قیادت کے منصب پر فائز ہو گئیں‘ اور ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ طلوعِ اسلام کے نتیجے میں پوری دنیا میں اسلام اور عربی تہذیب و ثقافت کا بول بالا ہوگیا۔ اس طرح عالمی قیادت ایک بار پھرمشرق کے حصے میں آگئی۔ اسلامی تہذیب دوسری تہذیبوں کے مقابلے میں اس لحاظ سے ممتاز و منفرد ہے کہ اس کے اندر سائنس‘ ایمان و عقیدہ‘ مادی ترقی اور روحانی بلندی‘ الغرض سب کے لیے گنجایش پائی جاتی ہے۔ لیکن جب عالمِ مشرق پر مجرمانہ خوابیدگی طاری ہوئی اور وہ اپنے اصل مشن سے غافل ہوگیا تو انجامِ کار مغرب نے زمامِ اقتدار چھین لی‘ اور اس طرح مغربی اقوام کا عالمی قیادت پر دوبارہ قبضہ ہوگیا۔ لیکن مغرب اس امانت عظمیٰ کا حق ادا نہ کر سکا اور بُری طرح روحانی واخلاقی انحطاط کا شکار ہو گیا جس کا لازمی انجام یہ ہوا کہ مغرب نے دنیا میں ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ کا قانون چلا دیا۔ چنانچہ اعلیٰ اخلاقی قدریں ذاتی مفادات کے مقابلے میں دب کر رہ گئیں اور مادیت‘ روحانیت پر غالب آگئی‘ اورانسان کی حیثیت اور قدروقیمت حیوانات و جمادات کے مقابلے میں کم تر ہوگئی۔ انسانی مسائل کے حل کے سلسلے میں دہرا معیار رائج ہوگیا۔ قوموں کی زندگی میں یہی وہ فیصلہ کن موڑ ہوتا ہے جب سنت ِ الٰہی کے مطابق دنیا کی قیادت اور سربراہی نااہل لوگوں سے چھین کر کسی اور کے حوالے کردی جاتی ہے۔
تاریخی شواہد سے اس بات کا واضح اشارہ مل رہا ہے کہ تہذیب و تمدن کی شمع پھر مشرق کے ہاتھوں میں آنے والی ہے۔ کیوں کہ مشرقی دنیا کے پاس اسلام کا ایک ایسا زندہ پیغام ہے جو مغرب کے پیغام سے بالکل مختلف اور منفرد ہے۔ مغرب نے اپنی بے خدا تہذیب کے ذریعے سے دنیاے انسانیت کو روحانی کرب اور اخلاقی بے راہ روی کی جس دلدل میں پھنسا دیا ہے‘ صرف اسلام کا طاقت ور اور روحانی پیغام ہی اُسے اس دلدل سے نکال سکتا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ مشرقی دنیا کے لوگوں کو اپنی اس حیثیت کا صحیح ادراک ہو اور وہ دنیا کی امامت و قیادت کے منصب پر فائز ہونے کے لیے پوری تیاری کریں اور اپنے اندر اِس بارگراں کو اٹھانے کی اہلیت پیدا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّھْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَکَیْفَ تَعْمَلُوْنَ o (الاعراف ۷:۱۲۹) ’’قریب ہے وہ وقت کہ تمھارا رب تمھارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے‘ پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘۔ وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْم بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَo (الانبیاء ۲۱:۱۰۵) ’’اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے‘‘۔
اِن آیات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر عالمی قیادت کاپہیہ مغرب سے گھوم کر مشرق کی طرف آجائے تو یہ کوئی تعجب خیز بات نہ ہوگی‘ حالانکہ مغرب کو اس وقت دنیا کے سارے علوم و فنون میں مہارت اور ہر قسم کا غلبہ و اقتدار حاصل ہے‘ جب کہ مشرق بالکل پس ماندہ اور درماندہ ہے۔
امرواقع یہ ہے کہ اس وقت مغرب کی فکری و عملی زندگی پر مادیت بُری طرح چھائی ہوئی ہے اور مغربی معاشرہ اخلاقی بگاڑ اور بے راہ روی میں سر سے پائوں تک ڈوبا ہوا ہے۔ اور سنت الٰہی یہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی تہذیب‘اخلاقی قدروں کو پامال کر کے دیر تک باقی نہیں رہ سکتی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اخلاقی قدروں پر جب تک ایمان و عقیدہ سایہ فگن نہ ہو‘ اس وقت تک نہ اُن کی نشوونما ہو سکتی ہے اور نہ وہ انسانی معاشرے میں ہی کوئی مؤثر کردار ادا کرسکتی ہیں۔
یہ چند برس قبل ہی کی بات ہے کہ دنیا کی دوسری بڑی طاقت (سوویت یونین) بغیر کسی قابلِ ذکر علامت کے زوال کا شکار ہوگئی‘ جب کہ اُس کے پاس ایٹمی اور بے پناہ اسٹرے ٹیجک ہتھیار تھے اور اُسے ہوش ربا فوجی و اقتصادی قوت حاصل تھی۔ ان سب ظاہری قوتوں کے باوجود چونکہ اُس کے باطن میں اس کی تباہی کا سامان پیدا ہوچکا تھا اور اس کی مادی تباہی سے قبل اُس کی روحانیت پامال ہوچکی تھی‘ اس لیے دنیا کی یہ دوسری بڑی طاقت سنت ِالٰہی کے اٹل قانون کے زد میں آگئی اور وہ اپنے آپ کو زوال سے نہ بچا سکی۔
اس کائنات میں کارفرما الٰہی سنتوں میں سے جن کو اس وقت ہم مسلمانوں کے حق میں پارہے ہیں اور اُنھیں ہم غلبۂ اسلام کی بشارتوں میں شمار کرتے ہیں‘ اُن میں سے ایک‘ قوموں اور افراد کے حالات کی تبدیلی کا الٰہی ضابطہ بھی ہے۔ قرآن کریم نے متعدد آیات میں اس سنت ِ الٰہی کو بیان کیا ہے۔ جب لوگ خیر کو چھوڑ کر شراختیار کرلیتے ہیں‘ بنائو کے بجاے بگاڑ کے کام کرنے لگتے ہیں‘ اور ہدایت کے مقابلے میں گمراہی کو ترجیح دینے لگتے ہیں‘ تواللہ تعالیٰ اپنے ضابطے اور سنت کے مطابق اُن کی خوش حالی کو بدحالی سے‘ طاقت کو ضعف سے‘ عزت کو ذلّت سے اور ان پر جاری اپنی نوازشوں کو اپنے غضب اور عذاب سے بدل دیتے ہیں۔ قرآن میں آلِ فرعون اور اُن سے پہلے لوگوں کا انجام بیان کرنے کے بعد اسی سنت الٰہی کا ذکر کیا گیا ہے:
ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَھَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَابِاَنْفُسِھِمْ لا وَاَنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ o کَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَلا وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْط کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ فَاَھْلَکْنٰھُمْ بِذُنُوْبِھِمْ وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَکُلٌّ کَانُوْا ظٰلِمِیْنَo (الانفال ۸:۵۳-۵۴) یہ اللہ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جو اُس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِعمل کو نہیں بدل دیتی۔ اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ آلِ فرعون اور اُن سے پہلے کی قوموں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا وہ اِسی ضابطے کے مطابق تھا۔ اُنھوں نے اپنے رب کی آیات کو جھٹلایا تب ہم نے اُن کے گناہوں کی پاداش میں انھیں ہلاک کیا اور آلِ فرعون کو غرق کر دیا۔ یہ سب ظالم لوگ تھے۔
اب وہ وقت آگیا ہے کہ اس سنت ِ الٰہی کا نفاذ مغربی تہذیب کے علم برداروں پر ہو‘ جنھیں اللہ تعالیٰ نے اِس سرزمین پر قوت و اقتدار بخشا‘ اس کی ساری قوتوں کو اُن کے لیے مسخر کردیا‘ اُن پر سارے علوم و فنون کے دروازے کھول دیے اور اُنھیں رزق کی فراوانی سے ہم کنار کیا‘ لیکن اہلِ مغرب نے اللہ کی نعمتوں کو پاکر زمین میں سرکشی کی اور اُسے بگاڑ اور فساد سے بھر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی قیادت و سربراہی کی جو امانت اُن کے حوالے کی تھی‘ انھوں نے اُس کا حق ادا کرنے کے بجاے اس میں خیانت کی۔ مختصراً یہ کہ وہ اس کے سزاوار ہوگئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کے معاملے میں اپنی سنت کو بروے کار لائے اور دنیا کی قیادت کا منصب اُن سے چھین کر دوسروں کے حوالے کر دے۔
اس سنت ِ الٰہی کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جس کے بغیر یہ سنت مکمل نہیں ہوتی۔ اس کا ظہور اس وقت ہوتا ہے جب لوگ اپنے اندر یا اپنے طرزِعمل میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ جب اُن کی اِس تبدیلی کا رجحان شر سے خیر‘ گمراہی سے ہدایت‘ انحراف سے استقامت‘ بگاڑ سے بنائو‘ کسل مندی سے عمل اور رذائلِ اخلاق سے اعلیٰ اخلاق کی طرف ہوجاتا ہے‘ تو وہ اس ضابطہء الٰہی کی رو سے اس بات کے مستحق ٹھیرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کی بدحالی کو خوش حالی ‘ اُن کی کمزوری کو طاقت وقوت ‘ ذلت کو عزت ‘ ہزیمت کو فتح و نصرت اور حالت ِ خوف کو حالت ِ امن سے بدل دے۔ جس طرح وہ اپنی بداعمالیوں کے سبب سے اس دنیا میں دوسروں کی نگاہ میں بے حیثیت اور بے وزن ہوگئے تھے‘ اب انھیں اسی دنیا میں اقتدار و تمکنت عطا کرے۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَابِاَنْفُسِھِمْط (الرعد۱۳:۱۱) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔
سنت ِ الٰہی کا یہی وہ پہلو ہے جس سے ہم مسلمانوں کے دلوں میں یہ اُمید جاگزیں ہوتی ہے کہ ہماری حالت بھی ایک دن لازماً بدلے گی اور اس میں بہتری آئے گی۔ ہم سب کا مشاہدہ ہے کہ جب سے احیاے اسلام کا عمل شروع ہوا ہے‘ بیشتر مسلمانوں کی زندگیوں میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ وہ اپنی روزمرہ زندگی اسلام کے مطابق گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسلامی احکام سے ناواقفیت پر قانع ہونے کے بجاے اُن کے اندر اسلامی افکار سے واقف ہونے کا رجحان بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ جو لوگ اسلامی تعلیم سے دانستہ یا نادانستہ فرار کی زندگی گزار رہے تھے‘ اب وہ اسلامی ہدایات کی پابندی میں ذہنی و قلبی اطمینان پاتے ہیں۔ جو کبھی اپنے آپ میں مگن تھے اور اُمت کے مسائل و معاملات سے اُنھیں کوئی دل چسپی نہیں ہوتی تھی‘ وہ اُس کے مسائل کو حل کرنے کی مخلصانہ اور مثبت کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ نوجوان جو دنیوی لذتوں اور خواہشاتِ نفس کے پیچھے دیوانہ وار دوڑ رہے تھے‘ اب وہ احیاے اسلام کے عمل میں لگ گئے ہیں‘ اور اُنھوں نے دین اسلام اور اُس کے مقدسات کے دفاع کے لیے جہاد کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ اسی طرح عورتوں میں پردے کا اہتمام بڑھ رہا ہے اور مسجدیں جو کبھی نمازیوں سے خالی ہوتی تھیں‘ اب وہ نمازوں کے علاوہ دینی تعلیمات کے پروگراموں کے سبب بھری نظرآتی ہیں۔
یہی وہ اعمال وآثار ہیں جنھیں دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اُمت مسلمہ کے اندر مجموعی طور پر بڑی حد تک تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ اس لیے اب اللہ تعالیٰ کے عدل اور اس کی سنت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اُمت مسلمہ کو یوں ہی بے یارومددگار نہ چھوڑ دے‘ بلکہ اُس کی اِس گہری نفسیاتی اور عملی تبدیلی پر اُسے اپنے بھرپور صلے سے نوازے‘ اور اُس کی بدحالی و زبوں حالی کو خوش حالی و سرفرازی سے بدل دے‘ اور اُس کے جملہ حالات کو سنوار دے۔
آج یہ ضروری ہے کہ شعاعِ اُمید سے ہر مسلمان کا سینہ روشن ہو‘ اُس کی روشنی اس کے دل میں بھی پہنچ گئی ہو‘ یاس و قنوطیت کے بادل چھٹ گئے ہوں‘ دلوں میں یہ شعورواحساس جاگزیں ہو کہ نصرتِ الٰہی ہر آن اُس کے مومن بندوں سے قریب ہو رہی ہے۔ ہرچند کہ مسلمانوں کے گرد سازشوں کا جال بُنا جا رہا ہے‘ اور اسلام پر کبھی انتہاپسندی‘ کبھی دہشت گردی اور اکثر وبیشتر بنیاد پرستی کے نام سے رکیک حملے کیے جا رہے ہیں۔یہ بات درست ہے کہ اس وقت احیاے اسلام کی تحریک پر سخت دبائو ہے اور اسے کچلنے کے لیے ہر طرح کے وحشیانہ حربے آزمائے جا رہے ہیں۔ اُمت مسلمہ کو نیست ونابود کرنے کے لیے ہر طرف علانیہ اقدامات اور خفیہ سازشیں ہو رہی ہیں۔ یہ سب کچھ مسلمانوں کی غفلت اور ان پر مسلط حکمرانوں کے تعاون سے ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اُمت مسلمہ کے روشن مستقبل اور اسلامی بیداری اور دعوت اسلامی کی کامیابی کے امکانات کم نہیں۔
اگر اُنیسویں صدی سرمایہ داری کی صدی تھی اور بیسویں صدی اشتراکیت کی صدی تھی‘ تو اکیسویں صدی اسلام کی صدی ہوگی۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر انیسویں صدی مسیحیت کی صدی تھی اور بیسویں صدی یہودیت کی صدی تھی کہ اسی بیسویں صدی میں یہودیت کو ۲۰ سے زائد عرب ملکوں اور ۴۰ سے زیادہ اسلامی ملکوں پر غلبہ حاصل ہوا‘ لیکن اکیسویں صدی اسلام کی صدی ہوگی۔
ہم جب بحیثیت دین و مذہب کے یہودیت و مسیحیت کے مقابلے میں اسلام پر نگاہ ڈالتے ہیں‘ یا بحیثیت ایک نظامِ حیات کے سرمایہ داری اور اشتراکیت کے مقابلے میں اسلام کا جائزہ لیتے ہیں‘ تو اسلام ہر دو پہلو سے ممتاز اور نمایاں نظرآتا ہے۔ اسلام اپنے آپ میں ایک ایسا منفرد و یکتا مذہب ہے‘ جس کے مزاج میں زندہ اور باقی رہنے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہی نہیں بلکہ اسلام کے اندر اپنی ملت کو زندہ رکھنے اور اپنی دعوت کو پھیلانے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔ مزیدبرآں یہ کہ آج دنیا کو اسلام کی سخت ضرورت بھی ہے‘ کیوں کہ آج پوری دنیا میں عدمِ توازن کے باعث ہر سطح پر فساد اور بگاڑ پھیلا ہوا ہے۔ دنیاے انسانیت کو اِس بگاڑ اور فساد سے نجات کے لیے ایک متوازن اور صالح نظام کی ضرورت ہے اور وہ صرف اور صرف اسلام کے پاس ہے۔
اس حقیقت کا اعتراف کہ آنے والی صدی ان شاء اللہ اسلام کی صدی ہوگی‘ ڈاکٹر مراد ہاف مین نے اپنی مشہور کتاب اسلام بیسویں صدی میںبڑے پُراعتماد لہجے میں کیا ہے کہ اب اسلام کے سامنے اس کے پورے مواقع ہیں کہ وہ اکیسویں صدی میں اوّلین حیثیت کا مذہب بن کر اُبھرے۔
امریکی کانگریس میں خارجہ امورکمیٹی کے ایک ممتاز رکن جیمس میران نے بھی یہی بات کہی ہے۔ انھوں نے امریکیوں کو اس بات کی دعوت دی ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں صحیح واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کریں‘ کیوں کہ اسلام امن و سلامتی اور رواداری کا دین ہے۔ یہ وہ مذہب ہے جو لوگوں کو محنت اور مشقت اور جدوجہد پر اُبھارتا ہے اور نظم و ضبط کو پسند کرتا ہے۔ اس کے چشمۂ صافی سے محبت و ہمدردی کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ وہ نہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تاریخ کا ایک عظیم ترین انسان تصور کرتا ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر صحابہ کرامؓ میں سے بیشتر کی زندگیوں سے بھی واقفیت حاصل کرنے پر زور دیتا ہے۔ اُس کے خیال میں دنیا کی ساری اقوام کے لیے ضروری ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات سے بخوبی واقف ہوں۔ لیکن افسوس کہ دو سبب سے ایسا نہ ہوسکا:
۱- پہلا سبب یہ ہے کہ غیرمسلموں نے اُن تعلیمات کے سلسلے میں تعصب و تنگ نظری اور جانب داری اور جہالت کا رویہ اختیار کیا۔
۲- دوسرا اہم اور بڑا سبب یہ ہے کہ خود مسلمانوں نے بھی دین اسلام سے اغیار کو کماحقہ روشناس کرانے کی کوشش نہیں کی۔
جیمس میران نے المجتمع سے انٹرویو ان الفاظ پر ختم کیا: ’’میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ اکیسویں صدی اسلام کی صدی ہوگی‘ اور اس صدی میں اسلامی تہذیب و ثقافت کو دنیا بھر میں فروغ حاصل ہوگا اور یہی وہ وقت ہوگا جب دنیا کے چپے چپے کو اسلام کے زیرسایہ امن و سلامتی اور خوشحالی و فارغ البالی سے بہرہ ور ہونے کا موقع ملے گا۔ (۵مارچ ۱۹۹۶ئ)
سب ماہرین عمرانیات اِس بات کے قائل ہیں کہ آج جو چیزیں حقیقت بن کر ہمارے سامنے آگئی ہیں‘ ماضی میں ان کی حیثیت محض خواب وخیال کی تھی اور آج ہم جس چیز کو خواب اور ناممکن سمجھ رہے ہیں وہ بھی مستقبل میں حقائق کا روپ دھارلے گی۔ یہ ایک ایسا نقطۂ نظر ہے جس کی تائید پیش آمدہ واقعات سے بھی ہوتی ہے اور منطقی دلائل و براہین بھی اس کے حق میں ہیں‘ بلکہ یہی وہ محور ہے جس کی بنیاد پر انسانیت درجہ بدرجہ منزلِ کمال کو پہنچتی ہے۔ آج ہمارے سامنے جو ایجادات و انکشافات ہو رہے ہیں‘ اِن کے وجود میں آنے سے چند سال پہلے تک کون یقین کرسکتا تھا کہ سائنس دان یہاں تک پہنچ جائیں گے‘ بلکہ خود اساطینِ علم وفن بھی اپنے ابتدائی دور میں اُنھیں اَن ہونی خیال کرتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آگیا کہ حقائق نے انھیں ثابت کردکھایا اور دلائل نے اُن کی تائید کر دی۔ اس کی مثالیں بے شمار ہیں اور وہ اتنی واضح ہیں کہ اُن کے تذکرے کی چنداں ضرورت نہیں۔
تاریخ کے اوراق بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ جتنی قومیں تعمیروترقی کے بامِ عروج پر پہنچی ہیں‘ سب نے ابتداً انتہائی ضعف کی حالت میں قدم آگے بڑھایا اور بظاہران کا اپنے منتہاے مقصود کو پالینا ایک امرمحال تھا۔ مگر صبروثبات اور حکمت اور پیہم جدوجہد نے معمولی حیثیت اور قلیل وسائل کی حامل ان قوموں کو عظمت و سربلندی کی انتہا پر پہنچا دیا۔
اگر جزیرۃ العرب کا جائزہ لیا جائے تو کیا کوئی یہ یقین کر سکتا تھا کہ اِس خشک اور بے آب و گیاہ سرزمین سے ایک دن نوروعرفان کے سوتے پھوٹیں گے‘ اور اِسے دنیا کے ایک بڑے حصے پر روحانی و سیاسی غلبہ حاصل ہوجائے گا۔ کون یہ گمان کر سکتا تھا کہ صلاح الدین ایوبی عرصۂ درازتک صلیبی یلغار کے سامنے ایک مردِ آہن بن کر کھڑا رہے گا۔ اس نے سلاطین یورپ کو اُن کی کثرتِ تعداد اور فوجی کروفرکے باوجود پسپائی پر مجبور کر دیا حالانکہ ۲۵ بڑے ملکوں کے سربراہان اُس کے خلاف صف آرا تھے۔
راستہ خواہ کتنا ہی طویل ہو اور خواہ کتنے ہی مسائل کا سامنا ہومگر قوموں اور ملکوں کی تعمیروترقی کا واحد راستہ جدوجہد ہی ہے اور تجربے نے بھی اس نقطۂ نظر کو درست ثابت کیا ہے۔
دعوت الی اللہ کا کام کرنے والوں کے سامنے یہ تصور ہمیشہ واضح رہنا چاہیے کہ یہ کام کرکے دراصل وہ اسلام کے تئیں اپنی ذمہ داری کو ادا کر رہے ہیں۔ پھر دوسرے درجے میں اِس عمل کے ذریعے سے اجرِآخرت کا حصول اُن کا مطمح نظرہونا چاہیے۔ ان دعوتی سرگرمیوں کے ذریعے سے حاصل ہونے والے دنیوی فوائد کو تیسرے اور آخری درجے میں رکھنا اس جدوجہد کا تقاضا ہے۔
اگر اِس نقطۂ نظر سے دعوتِ الی اللہ کاکام کیا جائے توگویا ذمہ داری ادا کر دی گئی۔ اور اگر اخلاص و للہیت اور بے نفسی کی مطلوبہ شرائط کے ساتھ اس کارِعظیم کو انجام دیا جائے تو اس میں شک نہیں کہ اللہ کے یہاں اِس کام کے اجروانعام اور اس کارِدعوت کے ممکنہ دنیوی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔ لیکن کون سا فائدہ کب اور کس شکل میں ظاہر ہوگا‘ اس کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ بسااوقات کسی مرحلے میں اِس دعوتی جدوجہد کے ایسے عظیم اور بابرکت ثمرات ظاہر ہوسکتے ہیں جن کا پیشگی اندازہ نہیں ہوسکتا۔
اگر اپنی دعوتی ذمہ داریوں سے غفلت برتی جائے تو گناہ کے مرتکب قرار پائیں گے اور دعوتی جدوجہد کے اُخروی انعام کو بھی نہ پاسکیں گے اور اس کے دنیوی فائدوں سے بھی یقینا محروم رہ جائیں گے۔ اب یہاں فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ اِن دونوں میں کون سا طرزِعمل حسنِ انجام کا مستحق ہے۔ قرآن کریم نے اسی بات کو بڑے عمدہ اور واضح انداز میں پیش کیا ہے: ’’جب ان میں سے ایک گروہ نے دوسرے گروہ سے کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو‘ جنھیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے‘ تو انھوں نے جواب دیا کہ ’’ہم یہ سب کچھ تمھارے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور اس امید پر کرتے ہیں کہ شاید یہ لوگ نافرمانی سے پرہیز کرنے لگیں۔ آخرکار جب وہ ان ہدایات کو بالکل ہی فراموش کر گئے جو انھیں یاد کرائی گئی تھیں تو ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے اور باقی سب ظالموں کو ان کی نافرمانیوں کی پاداش میں ہم نے سخت عذاب میں پکڑلیا‘‘۔(الاعراف ۷:۱۶۴-۱۶۵)
اسلام کے غلبے سے متعلق جن بشارتوں کو پیش کیا گیا ہے‘ ہم اُن ہی پر تکیہ کرکے بے فکری سے سو نہ جائیں۔ ہمارے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ ہم ان بشارتوں کو جاننے کے بعد آرام طلبی اور کسل مندی کو اپنا شیوہ بنائیں اور کسی طرح کی جدوجہد اور مجاہدانہ کوشش کے بغیر اِس کا انتظار کریں کہ ہمارے اوپر نصرتِ الٰہی کا نزول ہوگا۔ یہ بشارتیں تو ہم سے اپنی زندگی میں ہر پہلو سے انقلابی جدوجہد اور عملِ پیہم کا مطالبہ کرتی ہیں۔
قرآن کریم نے اس بات کو نہایت واضح انداز میں بیان کیا ہے کہ نصرتِ الٰہی کا ظہور ہمیشہ مومن گروہ کے ذریعے سے ہوتا ہے اور اسی کے ذریعے سے اُس کا اِتمام بھی ہوتا ہے اور یہ چیز صرف مومنین کے لیے مخصوص ہے‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مخاطب کر کے فرمایا ہے: ھُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَo (الانفال ۸:۶۲) ’’وہی وہ ذات ہے جس نے اپنی مدد اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید فرمائی‘‘۔
ہمیں اس بات کی توقع ہرگز نہیں رکھنی چاہیے کہ غزوئہ بدر‘ غزوئہ احزاب اور غزوئہ حنین میں جو فرشتے آسمان سے اُترے تھے‘ وہ آج ایسے لوگوں پربھی اتریں گے جن کے قلوب ایمانی حرارت سے خالی ہیں اور جن کی زندگیاں اسلامی اخلاق اور مومنانہ اعمال سے بالکل بے بہرہ ہیں۔
کسی پیغام یا دعوت کی کامیابی کا انحصار محض اس کی ذاتی خوبیوں پر نہیں ہوا کرتا‘ بلکہ بڑی حد تک اُس کی کامیابی کا انحصار پیروئوں اور متبعین کے عمل اور کردار پر ہوتا ہے۔ اسی طرح حق کی سربلندی تنہا حق کے سبب نہیں ہوتی ہے بلکہ سنت ِ الٰہی یہ ہے کہ داعیانِ حق کی ایک ایسی جماعت اُسے بلندیوں پر پہنچاتی ہے جو علم و عمل اور اخلاص کے جوہر سے آراستہ ہوتی ہے۔
بلاشبہہ غلبۂ اسلام کی بشارتوں کے ذریعے سے ہمارے اندر ایک نئی قوت اورنیا عزم وحوصلہ پیدا ہونا چاہیے تاکہ ہم اُمت کی ضرورتوں کے مطابق ہرسطح پر مزید جدوجہد اور سرگرم عمل ہونے کا مظاہرہ کرسکیں۔ اُمت مسلمہ کو ہرگز اس کی توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ اُس کی موجودہ بدحالی و بداعمالی کے باوجود اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نصرت سے نوازے گا‘ بلکہ نصرتِ الٰہی کے حصول کے لیے اُمت کو اپنی موجودہ حالت بدلنی ہوگی تاکہ اللہ تعالیٰ بھی اُس کی ذلت و رسوائی اور نکبت کو عزت و سرفرازی اور نصرت سے بدل دے۔
اگر اُمت مسلمہ یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ اپنی پس ماندگی‘ انتشار و اضطراب‘ باہمی عداوت اور دشمنی‘ بے بسی و کسل مندی اور بے پروائی و بربادی کی جس صورت حال سے دوچار ہے‘ اس کے ہوتے ہوئے بھی یہود پر غالب آجائے گی‘ تو اُس کی یہ توقع سراسر باطل ہے۔
یہ امرمحال ہے کہ اللہ تعالیٰ سرگرم عمل لوگوں کے مقابلے میں کاہلوں کی اور متحدومنظم لوگوں کے مقابلے میں ان لوگوں کی مدد فرمائے جو انتشار کا شکار ہوں۔ یہ سنت ِ الٰہی کے خلاف ہے کہ وہ منظم گروہ کے مقابلے میں پراگندہ حال لوگوں کی اور منصوبہ بند لوگوں کے مقابلے میں الل ٹپ کام کرنے والوں کی مدد کرے‘ یا نظم وضبط کے پابند لوگوں کے مقابلے میں بے پروا لوگوں کامددگار ہو‘ یا اپنی ملّت کے غم میں فکرمند رہنے والوں کو چھوڑ کر وہ ان لوگوں کی مدد کو پہنچے جنھیں اپنے ذاتی مفاد کے سوا کسی چیزکی فکر دامن گیر نہیں ہوتی۔
اب یہ داعیانِ حق اور مصلحین کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ باہمی تعاون کے جذبے سے سرشار ہوکر اُمت مسلمہ کو اندر سے بدلنے کی حتی المقدور کوشش کریں اور اس کی پوشیدہ وپنہاں ذاتی قوتوں کو پھر سے بروے کار لائیں تاکہ تلافی مافات ہوسکے اور اُمت مسلمہ ترقی یافتہ دنیا کی بہترین چیزیں جذب کرے اور اپنی بہترین چیزوں سے اُنھیں روشناس کرائے۔
ہمیں اللہ کی نصرت پر یقین رکھتے ہوئے پورے اخلاص‘ عزمِ مصمم اور ثابت قدمی کے ساتھ اس میدان میں کام کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے اور اس کام کو ایسے عزم کے ساتھ انجام دینا ہے کہ کسی طرح کی اُکتاہٹ و گھبراہٹ آڑے نہ آئے۔ اور اس کام کی کامیابی پر ہمیں اتنا یقین ہو کہ کوئی شک و تردد اُسے متزلزل نہ کر سکے۔ یاس و قنوط کی زنجیروں سے آزاد ہوکر اور اپنے ہاتھوں میں اُمید کی شمع لے کر اگر ہم نے جہد ِ مسلسل کے ساتھ اس کام کو جاری رکھا تو کامیابی لازماً ہمارے قدم چومے گی۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے:
وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا ط وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ o (العنکبوت۲۹:۶۹) ’’جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے ‘ اُنھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے اور یقینا اللہ نیکوکاروں ہی کے ساتھ ہے‘‘۔
مصر نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے (جنوری ۱۹۷۴ئ) میں اسرائیل کو تسلیم کرلیا تھا۔ اسرائیل کے ساتھ متحارب عرب ریاستوں میں سے مصر اپنی قوت اور تعداد کے لحاظ سے اہم ملک تھا۔ مصری قوم نے اس ذلت آمیز معاہدے کو دل سے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ مصر کو جتنا بھی سیکولر‘ جدید‘ لبرل اور مغرب زدہ بنانے کی حکومتی اور عالمی کاوشیں ہوئی ہیں‘ حقیقت یہ ہے کہ وہ سب مصر کی اسلامی تحریک کے وسیع اثرات‘ منظم جدوجہد اور بحیثیت مجموعی‘ مصر کے عام مسلمان شہری کی اسلام کے ساتھ وابستگی کی بدولت اپنے مطلوبہ مذموم نتائج حاصل نہیں کر سکیں۔ مصری اداروں میں اسرائیل کے سرکاری سطح کے اثر و رسوخ کو ایک مصری‘ خواہ تحریک اسلامی کے ساتھ وابستہ ہو یا نہ ہو‘ نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
صدر محمد انوار السادات نے ناصری آمریت کے بعد اگرچہ ملک میں بنیادی حقوق بحال کر کے جمہوریت تو رائج نہیں کی تھی مگر سابقہ ادوار کے شدید جبروتشددکے مقابلے میں کچھ کمی ضرور آگئی تھی۔ اس کے نتیجے میں اخوان المسلمون کی اعلیٰ قیادت اور کارکنان جو سیکڑوں کی تعداد میں گذشتہ ۱۹ سالوں سے جیلوں میں بدترین قسم کے مظالم کا شکار تھے‘ رہا کر دیے گئے۔ اس کے باوجود سادات کا یہودیوں کی ناجائز ریاست کو قانوناً تسلیم کرلینا ملک بھر میں اس کے بہت بڑے جرم کی نظر سے دیکھا گیا اور مظلوم و بے گھر فلسطینی عوام سے انسانی اور اسلامی ہمدردی کا یہی تقاضا بھی تھا۔ تاہم‘ اخوان کے نزدیک اس بدترین فیصلے کے باوجود حکومت کے خلاف کوئی غیرقانونی اقدام کرنے کا جواز نہ تھا۔ اخوان نے قانونی حدود کے اندر احتجاج کیا مگر ایک اور انتہا پسند گروپ ’جماعت التکفیر والھجرہ‘ کے نوجوانوں نے سادات کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا جس کو ۶اکتوبر ۱۹۸۱ء کو ایک نوجوان خالد اسلامبولی نے عملی جامہ پہنایا۔ (اخوان کے موقف کے لیے دیکھیے مرشدِعام سید عمرتلمسانی کی یادداشتیں‘ یادوں کی امانت‘ باب پنجم)
اس موقع پر بھی اخوان کے خلاف بہت واویلا ہوا‘ پکڑ دھکڑ بھی ہوئی مگر ان کے خلاف کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا‘ کیونکہ قاتل نے پوری ذمہ داری کے ساتھ قتل کا اعتراف کیا اور اس کا کوئی تعلق اخوان کے ساتھ نہ مل سکا تھا۔ اخوان نے قانونی حدود کے اندر ہمیشہ اس فیصلے کے خلاف صداے احتجاج بلند کی۔ یہودیوں کے فلسطین میں مظالم اور صہیونی منصوبوں میں پیش رفت کے خلاف بھی اخوان مسلسل زبان‘ قلم اور راے عامہ کے ذریعے نکیر کرتے رہے۔ پارلیمان میں بھی اخوان کے ارکان ہمیشہ بدعنوانی‘ حکومتی اہل کاروں کی نااہلی‘ انتظامیہ کے ظلم و ستم اور عوامی نوعیت کے دیگر مسائل‘ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ زراعت و تجارت کی بدحالی پر احتجاج کے ساتھ ساتھ فلسطین کے اندر اسرائیلی حکومت کے مظالم کے خلاف توجہ دلائو نوٹس‘ تحاریکِ التوا‘ تحاریکِ استحقاق‘ قراردادوں اور تقاریر کے ذریعے مصری عوام کے جذبات کی حقیقی ترجمانی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ مصر کے معاملات میں یہودیوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ بلکہ مداخلت پر بھی اخوان کی پارلیمان میں کارکردگی بہت نمایاں رہی۔ واضح رہے کہ اخوان پر اگرچہ قانوناً پابندی ہے مگر ان کے قابلِ لحاظ افراد آزاد حیثیت میں یا بعض انتخابات میں دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے پلیٹ فارم سے کامیاب ہوکر پارلیمنٹ میں پہنچتے رہے ہیں۔
یہودی ریاست اور اس کے سرپرست امریکہ نے ہمیشہ اخوان کی ان ’گستاخیوں‘کو تشویش کی نظر سے دیکھا اور انھیں ’حدود کا پابند‘ بنانے کے احکامات مصری حکمرانوں کو وقتاً فوقتاً جاری ہوتے رہے۔ شیخ احمد یاسینؒ اور ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسیؒ کی شہادتوں پر بھی اخوان نے پُرزور احتجاج کیا‘ اور رفاہ پر تباہ کن صہیونی حملوں کی بھی زوردار انداز میں مذمت کی۔ اخوان کے ارکان پارلیمان اور دیگر اہم اور فعال شخصیات کے خلاف صہیونی لابی کئی سالوں سے سرگرم عمل تھی۔ کافی عرصے سے فضا بن رہی تھی کہ اخوان پر ہاتھ ڈالا جائے۔
صدر حسنی مبارک نے واشنگٹن پوسٹ (۲۲ مارچ ۲۰۰۳ئ) کو اپنے انٹرویو میں گذشتہ سال کھل کر کہا تھا کہ ’’اگر مصر میں کھلی آزادیاں دے دی جائیں تو حالات خطرناک صورت اختیار کرلیں گے۔ کٹر مذہبی عناصر‘ بالخصوص اخوان اداروں پر چھا جائیں گے‘‘۔ یہی بات یہودی مسلسل کہے چلے جا رہے ہیں۔ گویا صدر حسنی مبارک نے خود مغرب کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا کہ آزادیوں اور جمہوری حقوق کا مطالبہ کرو گے تو ہمارے ساتھ تم بھی پچھتائو گے۔ صدر حسنی مبارک نے اس سال ۱۲ مارچ ۲۰۰۴ء کو سکندریہ میں جدید اصلاحات کے موضوع پر ایک کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے زوردار الفاظ میں اس تصور کو رد کر دیا کہ شدت پسند مذہبی افکار کو پنپنے کا موقع دیا جائے (المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۶۰۴‘ ۱۱ جون ۲۰۰۴ئ)۔ اپنے سابقہ دورئہ یورپ میں بھی وہ جگہ جگہ الجزائر کی مثال دے کر مکمل آزادیوں کے خطرات سے یورپ اور مغرب کو ڈراتے رہے ہیں۔ عرب اخبارات نے اٹلی کے اخبار لاریبوبلیکا کی ۵ مارچ ۲۰۰۴ء کی اشاعت کے حوالے سے ان کا جو انٹرویو شائع کیا ہے وہ خطرے کی کئی گھنٹیاں بجاتا سنائی دیتا ہے۔
اس دوران ناصری آمریت کے ابتدائی دور میں کیے جانے والے کئی اقدامات کی ریہرسل بھی دیکھنے میں آئی۔ اخوان اور دیگر باخبر حلقے سمجھ رہے تھے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ اخوان کے ایک سابق رکن انجینیرابوالعلا ماضی کی قیادت میں ایک نئی ’معتدل، لبرل‘ سیاسی پارٹی کی بنیاد بھی رکھی جا رہی ہے جس کا نام ’حزب الوسط‘ تجویز کیا گیا ہے۔ مصری پارلیمان کا موسمِ گرما کا اجلاس جاری تھا۔ اس میں ۷۵ ارکان نے حکومت سے سوال کیا کہ وہ اصلاح کے نام پر پکنے والی کھچڑی کے بارے میں ایوان اور قوم کو کچھ بتائے۔ بے چارے وزرا بتا تو کیا سکتے تھے‘ اس کے چند روز بعد ۱۵ مئی کو اخوان کے ۵۸ اہم رہنمائوں کو گرفتار کر لیا گیا۔
گرفتاری کے ساتھ ہی ان کے خاندانوں کو بھوکا مارنے اور ان کے کاروباری شراکت داروں کو خوف زدہ کرنے کے لیے ان کی کمپنیاں‘ تجارتی ادارے‘ فارمیسیاں اور سرمایہ کاری کے تمام ذرائع پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ واضح رہے کہ یہ تمام ارکان اپنے اپنے پیشہ ورانہ شعبوں میں مہارت کی اعلیٰ مثال بھی ہیں اور کئی خاندانوں کو اپنے منصوبوں میں سرمایہ کاری اور شراکت کی بنیاد پر سہارا دیے ہوئے تھے۔ اخوان کے لوگ اپنے کاروبار ہمیشہ کامیابی اور دیانت سے چلاتے رہے ہیں اور حکومت نے جب بھی ان پر ظلم کا کوڑا برسایا ہے‘ اس پہلو کو بھی خصوصی ہدف بنانا ضروری سمجھا گیا ہے۔ آج پھر مصری حکومت کی طرف سے یہ ظلم ایسے وقت میں ڈھایا گیا ہے جب اخوان صہیونی شیطانی حملوں کے مدمقابل نہ صرف فلسطینی عوام کی حمایت کر رہے تھے بلکہ حکومتِ مصر کو بھی مضبوط موقف اپنانے پر اپنی حمایت کا یقین دلا رہے تھے۔ انھوں نے عراق میں امریکی مظالم کے خلاف زبردست احتجاج کیا اور تمام عرب و مسلمان ممالک کے حکمرانوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے اسلامی فریضے کی ادایگی کے لیے متحدہ موقف اپنائیں۔
گرفتار شدگان کے ساتھ کیا کچھ کیا گیا؟ مصری پارلیمنٹ کی دفاع‘ امن و امان اور عوامی حقوق کی مجلس قائمہ نے جب ان نظربندوں سے جیل میں ملاقات کی تو ان کے بقول ان کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی۔ عراق کی ابوغریب جیل ہی کی طرح یہاں ان پاکیزہ صفت ابناے وطن کے ساتھ ان کی اپنی سرکاری مشینری نے ناقابلِ بیان مظالم ڈھائے تھے۔ ان ارکان پارلیمنٹ میں حکومتی جماعت اور دیگر پارٹیوں کے نمایندے شامل تھے۔ کمیٹی کے سربراہ انجینیرفتحی قزمان تھے‘ جب کہ ارکان میں بریگیڈیئر حازم حمادی‘ بریگیڈیئر بدر القاضی‘ ڈاکٹر ایمن نور‘ حمدین صباحی‘ طلعت سادات‘ ڈاکٹر محمد مرسٰی (اخوان کے پارلیمانی گروپ لیڈر) کے نام تھے۔ تمام ارکان نے قاہرہ کے جنوب میں واقع تاریخی اور بدنامِ زمانہ جیل خانے لیمان طرہ فارم کا ۹ جون ۲۰۰۴ء کی شام کو معائنہ کیا۔ یہ بدترین قسم کا عقوبت خانہ ہے۔ اخوان کی تاریخ جاننے والے اچھی طرح باخبر ہیں کہ ناصر کے دور میں بھی یہاں اخوان پر قیامت ڈھائی گئی تھی۔ اس کی دلدوز تفصیلات اخوان کے تیسرے مرشدعام عمر تلمسانیؒ کی یادداشتوں یادوں کی امانت اور چوتھے مرشدِعام سید محمد حامد ابوالنصرؒ کی خودنوشت تحریکی داستانِ حیات وادی نیل کا قافلہ سخت جان کے علاوہ ڈاکٹر محمود عبدالحلیم مرحوم (سابق شیخ ازھر) کی ضخیم کتاب تاریخ اخوان المسلمون کی دونوں جلدوں میں مختلف مقامات پر دیکھی جا سکتی ہیں۔
اس ملاقات میں کمیٹی کے ارکان کے علاوہ اخوان کے دیگر ۱۴ ارکانِ پارلیمنٹ بھی موجود تھے۔ پارٹیوں کی تقسیم سے قطع نظر کمیٹی کے جملہ ارکان کی رائے میں تمام نظربندوں کے ساتھ انتہائی وحشیانہ‘ غیر انسانی‘ اذیت ناک اور توہین آمیز سلوک کیا گیا۔ اکثر کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں‘ سبھی کے جسم پر بدترین تعذیب کے نشانات پائے گئے۔ بعض ان صدمات اور بجلی کے جھٹکوں کی وجہ سے اپنے اعصاب اور حواس تک کھو چکے تھے۔ عرب اخبارات اور مختلف ویب سائٹس پر اس کی مکمل تفصیلات سامنے آئی ہیں جو دل دہلا دینے والی ہیں۔(شرق الاوسط‘ لندن‘ ۱۵ جون ۲۰۰۴ئ۔ القدس العربی‘ ۱۷جون ۲۰۰۴ئ۔ الدعوۃ ویب سائٹ‘ www.aldaawah.org ‘۱۷ جون ۲۰۰۴ئ)
نظربندوں کو اذیت پہنچانے کے لیے مختلف اصطلاحات اور خفیہ الفاظ ایجاد کیے گئے تھے۔ ان میں سے ایک تھا: ’استاکوزا‘۔ اس کا مطلب تھا کہ سر سے لے کر پائوں تک تمام جسم اور بالخصوص نازک اعضا کو بجلی کے جھٹکے دیے جائیں۔ ایک حکم ہوتا تھا: ’ابوغریب کا تجربہ دہرائو‘۔ اس کے نتیجے میں بجلی کے جھٹکوں والی سلاخیں جسم کے نازک حصوں میں داخل کی جاتی تھیں اور ایسے ایسے مذموم ہتھکنڈے استعمال کیے گئے جن کا بیان بھی یہاں ممکن نہیں۔ صبحی صالح ایڈووکیٹ (صدر اسکندریہ بار ایسوسی ایشن) جس نے انٹرنیشنل وکلا پینل کے ہمراہ ابوغریب جیل کا معائنہ کیا تھا‘ اپنے بیان میں یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ لیمان طرہ جیل کے مظالم نے ابوغریب جیل اور گوانٹاناموبے کے عقوبت خانوں کی یاد تازہ کر دی ہے۔ پھر اس نے اخوان کے ان نظربندوں پر مظالم کے دردناک واقعات بیان کیے۔ ان کو ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال کر چھت سے لٹکا دیا گیا جس کے نتیجے میں کئی نظربندوں کی کلائی کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں مگر ان کو کسی قسم کے علاج معالجے کی کوئی سہولت حاصل نہ تھی۔ یہ سب اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ ڈاکٹر‘ انجینیر‘ چارٹرڈ اکائونٹنٹ‘ وکلا‘ پروفیسر‘ علما‘ سابق امیدوارانِ پارلیمنٹ اور پی ایچ ڈی حضرات ہیں۔ (الدعوہ‘ حوالہ مذکورہ بالا)
ان سب مظالم سے بڑا ظلم یہ ہے کہ ایک قیمتی انسانی جان کو اذیتیں پہنچا پہنچا کر شہید کردیا گیا۔ اس کا انگ انگ زخمی تھا اور ہر ہڈی پسلی توڑ دی گئی۔ یہ عظیم انسان ۴۶ سالہ انجینیراکرم زہیری شہیدؒ ہے جو جامِ شہادت نوش کر کے زندۂ جاوید ہوگیا‘ مگر یہ سوال اُمت کے سامنے چھوڑ گیا کہ یہ مظالم کب تک برداشت کیے جاتے رہیں گے!
اکرم زہیری شہیدؒ دیگر اخوان کے ساتھ ۱۵ مئی ۲۰۰۴ء کو گرفتار کیے گئے۔ وہ شوگر کے مریض تھے۔ انھیں اپنے ساتھ کوئی دوا رکھنے کی اجازت تک نہ دی گئی۔ تفتیش کے دوران تشدد کے نتیجے میں ان کی حالت مزید بگڑ گئی۔ ان کے ساتھیوں نے جیل حکام کو بار بار اس جانب متوجہ کیا مگر بے سود۔ جب حالت زیادہ خراب ہوئی تو انھیں جیل کے ہسپتال میں لے گئے مگر وہاں علاج معالجے کی کوئی سہولت موجود نہ تھی۔ جب انھیں وزارت داخلہ کے ہسپتال قاہرہ بھیجنے کا فیصلہ ہوا تو ایسی ایمبولینس میں انھیں بھیجا گیا جو نہایت خستہ حال تھی۔ ان کے دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دی گئیں ۔ راستے میں خراب گاڑی اور غیرمحتاط ڈرائیونگ کی وجہ سے وہ کئی بار گرے اور ان کی کئی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔
اخوان کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر محمد مرسیٰ کے بیان کے مطابق ۱۰ دن تک انجینیراکرم زہیری موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا رہے مگر ان کا نہ کوئی مناسب علاج کیا گیا نہ انھیں کسی معالج کی خدمات حاصل ہوسکیں۔ بدھ کے دن ۹ جون ۲۰۰۴ء کو فجر کے وقت اکرم زہیری شہادت کے مرتبے پر فائز ہو کر ان مصیبتوں سے نجات پاگئے۔ ان کا تعلق اسکندریہ سے تھا۔ وہ سول انجینیرتھے اور انجینیرکونسل کے شعبہ منصوبہ بندی کے صدر تھے۔ ۱۹۸۴ء میں وہ طلبہ کی انجینیرنگ کونسل کے صدر اور ۱۹۸۵ء میں اسکندریہ یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ شہید نے اپنے پیچھے دو بیٹے‘ ایک بیٹی اور بیوہ سوگوار چھوڑے ہیں۔ ان کے بچے ابھی اسکول میں زیرتعلیم ہیں۔ انجینیراکرم زہیری شہیدؒ کی کمپنی جو جبراً بند کردی گئی ہے‘ کا بہت اچھا کام تھا۔ یہ زمینوں اور مکانوں کی خرید وفروخت اور تعمیرات کی پرائیویٹ رجسٹرڈ کمپنی تھی۔
شہید کے خاندان اوراسکندریہ کے اخوان کی خواہش تھی کہ ان کا جنازہ جمعرات ۱۰ جون کو بعد نماز ظہر پڑھا جاتا۔ مگر امن و امان قائم رکھنے کے ٹھیکیدار حکمرانوں نے حکم صادر کیا کہ جنازہ رات ہی کو پڑھا جائے گا۔ چنانچہ شام کو جیل سے شہید کا جسدِخاکی ان کے گھر پہنچنے کے تین چار گھنٹے بعد رات کو ۱۰ بجے ان کا جنازہ اٹھا۔ جنازے کے ساتھ پولیس کی گاڑیاں خوف و ہراس پیدا کر رہی تھیں۔ ۵ ہزار نمازی جنازے کے ساتھ چل رہے تھے۔ اخوان کی قیادت میں سے استاد جمعہ امین عبدالعزیز‘ ڈاکٹر محمود عزت‘ جناب مسعود السبحی‘ ڈاکٹر ابراہیم زعفرانی‘ استاد حسن محمد ابراہیم (رکن پارلیمان)‘ انجینیرصابر عبدالصادق (رکن پارلیمان) اس موقع پر موجود تھے۔ سب لوگوں کی زبان پر اللہ کی حمدوثنا‘ شہید کے درجات کی بلندی کے لیے دعا اور پسماندگان کے لیے صبرواجر کی مناجات تھی۔ اس موقع پر استاد جمعہ امین نے بہت رقت انگیزخطاب کیا۔ اخوان کو حسب سابق صبر کی تلقین کی‘ پسماندگان کے لیے دعائوں اور نیک تمنائوں کا اظہار کیا اور کہا کہ جن لوگوں نے اکرم کو اذیتیں پہنچائی ہیں انھوں نے اپنے لیے ذلت و رسوائی اور عذاب کا سودا کیا ہے‘ مگر اللہ نے اکرم کو شہادت عظمیٰ کا تاج پہنا دیا ہے۔
گرفتار شدہ اخوان ابھی تک جیل میں ہیں۔ یہ نظربند اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ مصر بلکہ پورے عالمِ عرب میں اپنی قابلیت و صلاحیت کی وجہ سے معروف شخصیات کے مالک ہیں۔ شہید اکرم عبدالعزیز کے علاوہ اہم شخصیات میں محمد اسامہ‘ ڈاکٹر جمال نثار‘ مدحت الحداد‘ جمال ماضی‘ابراہیم زویل‘ حمزہ صبری حمزہ‘ محمدی السید (سابق امیداوار پارلیمان)‘ حمدی سلیمان ایڈوکیٹ‘ ڈاکٹر مصطفی الغنیمی‘ ڈاکٹر محمد رمضان‘ ڈاکٹر محمد المھدی اور ڈاکٹر عاشور الحلوانی جیسے نابغۂ روزگار فرزندانِ اسلام شامل ہیں۔ ان میں سے بعض نظربندوں بالخصوص محمد اسامہ کی حالت تشویش ناک ہے۔
اخوان کے مرشدعام جناب محمد مہدی عاکف نے اپنے ساتھیوں کی گرفتاری پر اپنے فوری ردعمل میں شدید غم و الم اور غصے کا اظہار کیا اور مصری حکومت کے اس فیصلے کو صہیونی اور امریکی جارح قوتوں کو خوش کرنے کی مذموم حرکت قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ اخوان کی تاریخ قربانیوں اور صبرواستقامت سے بھری پڑی ہے۔ ہم تمام حالات کا پامردی سے مقابلہ کریں گے۔ اکرم زہیری کی شہادت پر بھی انھوں نے اخوان کو صبروتحمل اور عزیمت کی تلقین فرمائی اور کہا کہ اکرم کو اللہ نے شہادت کی کرامت عطا فرما دی ہے۔
ایک برادر اسلامی ملک میں یہ کچھ ہو جائے اور کہیں سے کوئی احتجاج نہ ہو‘ یہ کوئی اچھی صورت حال نہیں ہے۔ غم تو اس بات کا کیا جاتا ہے کہ امریکہ افغانستان اور عراق میں خود آکر مظالم کی انتہا کر رہا ہے لیکن اُمت مسلمہ کی جانب سے اسے کوئی رکاوٹ پیش نہیں آرہی ہے (بلکہ آگے بڑھ کر تعاون پیش کیا جا رہا ہے) لیکن مصر اور دوسرے اسلامی ممالک میں اپنے پٹھوئوں کے ذریعے جو کچھ کروا رہا ہے‘ کیا اسے بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جائے گا؟ موجودہ صلیبی جنگ کا تقاضا ہے کہ اسلام کا ہر سپاہی خاموش رہنے اور بیٹھنے کے بجاے‘ میدان میں نکلے اور اپنا فرض ادا کرے۔ منظم گروہ‘ اتنا منظم احتجاج تو کرسکتے ہیں کہ ظالم کو اپنی گرفت ڈھیلی کرنا پڑے۔ اسلامی تحریکوں کی قیادت کو اس طرف توجہ کرنا چاہیے۔
ونی ریڈلے وہ بر طانوی خاتون صحافی ہیں جو ۲۸ ستمبر ۲۰۰۱ء کوخفیہ طور پر افغانستان میں داخل ہوتے وقت اس وقت اخباروں کی شہ سرخی بن گئیں ، جب طالبان نے ان کو گرفتار کرلیا۔ان کو ۱۰ دن بعد رہا کردیا گیالیکن قید کے ان ایام نے نہ صرف ان کی زندگی کی کایا پلٹ دی بلکہ دنیا اور اس کے مسائل کے بارے میں ان کی پوری فکر کو بھی تبدیل کردیا۔ رہائی پانے کے بعدانھوںنے اپنے پروٹسٹنٹ عیسائی مذہب کو چھوڑ کر اسلام قبول کرلیا۔
افغانستان کی جیلوں میں کئی بار کوشش کی گئی کہ وہ اسلام قبول کر لیں۔ انھوں نے یہ وعدہ کیا کہ رہا ہوتے ہی قرآن ضرور پڑھیں گی۔ونی ریڈلے کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر رہا کردیا گیا اور اب یہ ان کی باری تھی کہ وہ اپنے وعدے کوپورا کریں۔ رہائی کے بعد طلبہ کے ایک وفد سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا :چونکہ مجھے قید میں رکھنے والوں نے میرے ساتھ ہمدردی اور عزت کا سلوک کیا ہے‘ اس لیے اس کے بدلے ،میں نے اپنے وعدے کا پاس رکھااور ان کے مذہب کے مطالعے کاآغاز کر دیا۔اس طرح شروع ہونے والے روحانی سفرکی تکمیل بالآخر ۳۰ جون ۲۰۰۳ء کوصبح ۱۱بجے اسلام قبول کرکے ہوئی۔
ایک موقع پر قید کے دوران پیش آنے والے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ونی ریڈلے نے کہا: ’’ایک وقت ایسا بھی آیا جب کابل کے جیل میں قید کے دوران میری قوت برداشت اس حد تک جواب دے گئی کہ میں نے اپنے قید کرنے والوں کے منہ پر تھوکا اور ان کو گالیاں دیں۔مجھے اس کے بدلے میں ان سے بدترین جواب کی امید تھی لیکن ان لوگوں نے میرے اشتعال دلانے والے رویے کے باوجود مجھے بتا یا کہ میں ان کی بہن اور مہمان ہوں‘‘۔
عراق میں قیدیوں پر امریکی اور برطانوی فوجیوں کے ناقابل بیان مظالم کے پسِ منظر میں ونی ریڈلے کی داستان نہایت اہمیت اختیار کر گئی ہے۔اس میں دو مختلف تہذیبوں کی حقیقی تصویر آئینے کی طرح صاف نظر آتی ہے۔ایک وہ جو آزادی،انسانی حقوق اور خواتین کے مقام کی عالمی ٹھیکیدار بنی ہوئی ہے لیکن قیدیوں کے ساتھ اس کا سلوک وحشیوں کو بھی شرماتا ہے‘ اور دوسری وہ جس پر دہشت گردی ،حقوق نہ دینے اور خواتین کو پس ماندہ رکھنے کا الزام ہے لیکن اس کا سلوک ایک جدید تعلیم یافتہ خاتون کو جیت لیتا ہے ۔آج طالبان کا نام گالی بنا دیا گیا ہے لیکن اسلام کی تعلیمات پر عمل میں جو کشش بلکہ جادو ہے وہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔
ونی ریڈلے ۲۰۰۱ء سے اب تک دو کتابیں لکھ چکی ہیں اور بقول ان کے ’’ اس واقعے نے میری صحافتی زندگی کے دائرہ کار کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن تک بڑھا دیا ہے‘‘۔ ان کی ایک کتاب In the Hands of Taliban طالبان کے ساتھ ان کے تجربات کی روداد پر مشتمل ہے‘ جب کہ دوسری کتاب Ticket To Paradiseایک ناول کے طرز پر ہے۔
ہم یہاں سعودی عرب کی وزارت حج کے خوب صورت اوروقیع عربی انگریزی مجلے الحج والعمرہ (جون ۲۰۰۴ئ) سے ان کا خصوصی ای میل انٹر ویو پیش کر رہے ہیں۔(ادارہ)
اسلام قبول کر نے سے پہلے آپ اس مذہب کے بارے میں کس قدر جانتی تھیں؟
میں اسلام کے بارے میں بہت کم جانتی تھی اور جو کچھ جانتی تھی ، وہ مسخ شدہ اور گمراہ کن معلومات کے سوا کچھ نہ تھا۔
آپ کہتی ہیں کہ ’’ ۱۱ ستمبر کا واقعہ اسلام کے لیے تباہ کن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خوش گوارحادثے کی حیثیت بھی رکھتا ہے‘‘۔ اس کا کیا مطلب ہے ؟
۱۱ ستمبر کے واقعے کی اسلام کے لیے بدترین شکل تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے حوالے سے نفرت اور غلط فہمی میں اضافہ ہوا ، جس کا کوئی جواز نہیں۔ مجھے تو اس بات سے بھی شدید نفرت ہے کہ اس واقعے سے فائدہ اٹھا کراسے مسلمانوں کو رگیدنے کے لیے ایک لاٹھی کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے ‘ تاہم اس کے نتیجے میں ایک حیرت انگیز بات یہ ہوئی ہے کہ مجھ جیسے کم علم لوگوں نے اسلام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کے لیے قرآن اور دیگر اسلامی لٹریچر کا مطالعہ شروع کردیا۔ اس کانتیجہ یہ ہوا کہ اب اسلام دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے۔خود برطانیہ میں ۱۱ستمبر سے اب تک کوئی ۱۴ہزار افراد اسلام کی طرف آچکے ہیں اور بہت سے مسلمان اپنے ایمان کو ازسر نو تازگی بخشنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔
اسلام میں خواتین کے حقو ق کے بارے میں آپ کی ذاتی رائے کیا ہے؟
قرآن اس بات کو انتہائی صراحت کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ دین سے تعلق ، فرد کی اہمیت اور تعلیم کے حوالے سے مرد وخواتین برابر ہیں۔ مزید یہ کہ بچوں کی پیدایش اور ان کی پرورش کی ذمہ داری کے حوالے سے بھی ہمیں سراہا گیا ہے۔ میرے خیال میں تو یہ ہمیں انسانیت کی معراج پر پہنچادیتا ہے۔
آپ ۲۰۰۱ء کو پہلی فرصت میں افغانستان کیوں گئی تھیں ؟
میںدراصل ان لوگوں سے بات کر نا چاہتی تھی‘ جنھیں امریکا اور برطانیہ کی طرف سے جنگ کرنے کے فیصلے سے براہ راست متاثر ہونا تھا۔ میں ان کے احساسات کے بارے میں جاننا چاہتی تھی۔ میں یہ جاننا چاہتی تھی کہ وہ ۱۱ ستمبر کے حوالے سے کیا کہتے ہیں اور طالبان کی حکومت کے تحت وہ کس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں۔
آپ نے جب اسلام قبول کر نے کا ارادہ کیا تو اس وقت آپ کے خاندان اور بالخصوص بیٹی ڈیسی کے کیا تاثرات تھے؟
اس حوالے سے میرے خاندان کے ملے جلے تائثرات تھے۔ میری ماں نے پھر سے چرچ جانا شروع کردیا‘ جب کہ میری بیٹی ڈیسی‘ میری سب سے بڑھ کر معاون بن گئی۔ وہ اسلام میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہی ہے۔
آپ کیا سمجھتی ہیں کہ معاشرہ آپ کو کس نظر سے دیکھ رہا ہے : ایک بہادر خاتون یا ایک ایسا فرد جس نے اپنے مذہب سے بے وفائی کی؟
مجھے عیسائی بنیاد پرستوں کی طرف سے قتل کی دھمکیاں مل چکی ہیں کہ میں نے اپنے مذہب سے غداری کی ہے لیکن میرے مسلمان بھائی ، جو پہلے دن سے ہی میرے مددگار چلے آرہے ہیں، اس کا جواب دے کر اس کا اثرزائل کردیتے ہیں۔
آپ اپنی بیٹی کو بھی افغانستان لے کر گئیں۔ آپ نے ایسا فیصلہ کیوںکیا اور خود اس کے تاثرات کیا ہیں؟
میں ۲۰۰۲ء کے موسم بہار میں اپنی بیٹی کو افغانستان اس لیے لے کر گئی تھی تا کہ وہ اس بات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرسکے کہ افغان ، انسانوں کی وہ نسل ہیں جن کے دل ہمدردی کے خوب صورت جذبوں سے سر شار ہیں۔ یہ ایک ایسا خوش گوار تجربہ ہے جو ہمیشہ اس کے دل میں تازہ رہے گا‘ اوریہ یقینا ڈزنی لینڈ دیکھنے کے تجربے پر غالب رہے گا۔
آپ نے ماضی قریب میں افغانستان کا دورہ کیا ۔ وہاں جاکر آپ نے کیا دیکھا؟
میں رہائی کے بعد کئی بار افغانستان آچکی ہوں۔ جو کچھ مجھے نظر آیا وہ یہ ہے کہ پورا ملک ایک ایسا کھنڈر بن چکا ہے جس پر حکومت کرنے والے شخص کو کابل کا میئر کہا جاتا ہے‘ کیونکہ حامدکرزئی کابل سے باہر باقی ماندہ ملک پر کوئی گرفت نہیں رکھتے۔ امریکی فوجیوں نے افغان عوام کے دل و دماغ جیتنے کے لیے کچھ نہیں کیا ۔ ان کا رویہ افغان عوام کے ساتھ توہین آمیز ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب تک کسی نے بھی ان کو خوش آمدید نہیں کہا ۔
افغانستان میںامریکی فوجی قیامِ امن کے بجاے دنیا بھر کے مسلمان جنگجوؤں کے لیے ایسا مرکز توجہ بن گئے ہیں کہ وہ گروہ در گروہ افغانستان آئیں اور ان کو قتل کریں۔
افغانستان کے اندر خواتین کو مسلسل مصیبتوں کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔ ان حالات میں پیشہ ور خواتین کس طرح تیار ہوں۔ امریکا قوموں کو آزادی دلانے والا نہیں بلکہ استعماری ظالم وجابر ملک ہے ۔ ثبوت درکار ہو تو افغانستان جاکر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔
اسلام قبول کرنے کے بعد آپ میں کیا تبدیلی آئی؟
میرایہ عزم پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہوگیا ہے کہ جدھر بھی جائوں، اسلام کو پھیلاؤں۔ مذہب تبدیل کروانا میرا کام نہیں۔ میں اس حیرت زدہ کرنے والے مذہب کے حوالے سے لوگوں کی جہالت اور تعصب کی آگ بجھانا چاہتی ہوں ۔
اسلام کی کس خوبی نے آپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا ؟
جس طرح یہ خواتین کی حوصلہ افزائی کرتا ہے‘ اورنبی کریمؐ نے عورتوں کے ساتھ سلوک کی جواعلیٰ مثالیں قائم کی ہیں۔یقیناوہ خواتین کا سب سے بڑھ کر احترام کر نے والے اور ان کی صلاحیتوں اور خوبیوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے تھے۔
برطانیہ میں مسلم معاشرے کے ساتھ بھی آپ کا واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ آپ ان کو کیسا پاتی ہیں؟
میں نے زیادہ تر وقت مسلمانوں کے ساتھ گزارا ہے کیونکہ اب تو میں خود بھی مسلمان ہوں اور یہ ایک فطری بات ہے کہ ہم ایک دوسرے کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔۱۱ ستمبر کے بعد مسلمان مصیبت میں ہیں۔ اب اس بات کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سینے سے لگا کر باہم مددگار بن جائیں ۔
آپ طالبان کے کابل کے قید خانے کا گوانٹانامابے کے ایکس رے کیمپ سے کس طرح موازنہ کرتی ہیں؟
میں لوگوں کو بتاتی رہتی ہوں کہ میں اس حوالے سے بہت خوش قسمت واقع ہوئی ہوں کہ مجھے امریکا کے بجاے’’ روے زمین کے سب سے زیادہ برے اور وحشی لوگوں ‘‘کی قید میں رہنے کا موقع ملا ۔
مجھے مسلسل چھے دن تک ایک ائر کنڈیشنڈ کمرے میں رکھا گیا جس کی چابی تک مجھے دے دی گئی۔ میرے ساتھ ہمدردی اور احترام کا سلوک کیا گیا۔ مجھے ذہنی یا جسمانی طور پر ہراساں کرنے‘ کسی قسم کی تعذیب دینے یا حملہ کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی‘ گو کہ کچھ سوال جواب ضرور ہوئے۔ وہ مجھے مسلسل یہ بتاتے رہے کہ وہ مجھے خوش رکھنا چاہتے ہیں اور یہ کہ میں ان کی بہن اور مہمان ہوں۔
جیل میں رہتے ہوئے آپ کے احساسات اور خدشات کیاتھے ؟
ان کی سب مہربانیوں کے باوجود میں یہ سوچتی رہی کہ یہ اس وقت تو اچھا برتائو کررہے ہیں لیکن کسی بھی وقت کچھ برے لوگ آکر مجھے ایذا دینا شروع کردیں گے۔ میں ہر روز یہ سوچتی کہ آج مرنے والی ہوں، لیکن یہ سب میرے محض خیالات ثا بت ہوئے۔ اس کے باوجود کہ میرا رویہ ان کے ساتھ کافی تضحیک آمیز تھا ، انھوں نے میرے ساتھ ہمدردی اور مہربانی کا سلوک ہی جاری رکھا۔
کیا آپ کو امید تھی کہ آپ زندہ سلامت باہر نکل آئیں گی؟
نہیں‘ بالکل نہیں۔ مجھے یہ یقین تھا کہ میں ماری جائوں گی، بالخصوص ۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو جب میں کابل کی جیل میں تھی اور امریکا نے بم برسانے شروع کردیے تھے۔ ایک لمحہ تو ایسا بھی آیا کہ میں نے سمجھا کہ اب اگر طالبان مجھے قتل نہیں کریں گے تو امریکا یا برطانیہ کا کوئی بم یہ کام کردے گا۔
طالبان کو میڈیا میں دہشت گرد کے طور پر دکھایا جاتا ہے اور ایک آپ ہیں کہ جس نے ان سے رہائی پانے کے بعد ، ان کے مذہب کو گلے سے لگایا ۔ یہاں ایک تضاد پایا جاتا ہے ۔ آپ اس کے بارے میں کیا محسوس کرتی ہیں؟
میں اب بھی خواتین کے حقوق کی بڑی علم بردار ہوں۔ اگر طالبان نے مجھے اسلام قبول کرنے پر قائل کرلیا ، تو یہ ان کی اپنی ایک کامیابی تھی۔ میں طالبان کی کوئی بہت بڑی مداح نہیں‘ لیکن ٹونی بلیئر اور جارج بش نے ان کی سب خوبیوں کے باوجودانھیں ایک بہت بڑی برائی کے طور پرپیش کیا۔ لیکن تم شائستہ لوگوں پر تو بم نہیں برسا سکتے۔ کیا تم ایساکرسکتے ہو؟
کیا آپ اب اسلام اور مسلمانوں کے متعلق پھیلائے گئے افسانے اور حقیقت میں فرق کرسکتی ہیں؟
یہ تو بہت آسان بات ہے۔ اسلام ایک مکمل اور جامع دین ہے‘ جب کہ اس پر عمل کرنے والے ایسے نہیں۔
کیا آپ مسلمانوں کے حوالے سے میڈیا کا رویہ انصاف پر مبنی پاتی ہیں؟
مسلمانوں کے حوالے سے مغربی میڈیاکا رویہ منصفانہ نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ غلط فہمی پر مبنی ایک راسخ فکر،مسخ شدہ معلومات اور لا علمی کے ساتھ ساتھ سیاسی مقا صد کے حصول کے لیے اسلام کو بدنام کر نے کی ایک سوچی سمجھی کوشش بھی ہے۔
کیا اسلام لانے سے قبل اس حوالے سے آپ کارویہ منصفانہ تھا؟
مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں نے کبھی اس موضوع پرکچھ لکھا ہو۔
آج مغرب دہشت گردی کی جو تعریف کر رہا ہے ، اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جی ہاں‘ جس طرح کہ جارج بش نے کہا تھا کہ اگر تم اس کے ساتھ نہیں تو دہشت گردوں کے ساتھی ہو۔ ذاتی طور پر میرا یہ خیال ہے کہ اب اس لفظ کے استعمال پر پابندی لگنی چاہیے۔اس لیے کہ یہ بے معنی ہو چکاہے۔ مارگریٹ تھیچر ( سابق برطانوی وزیراعظم) نے ایک دفعہ نیلسن منڈیلا کو بھی دہشت گرد کہا تھا لیکن آج اس کی حیثیت ایک عظیم قائد کی ہے۔
آپ دہشت گردی کی تعریف کس طرح کرتی ہیں؟
دہشت گرد وہ ہے جو معصوم لوگوں کو بموں سے اڑاتا ہے اور عام آبادی کو خوفزدہ کرتا ہے۔ میں نے یہ سب کچھ افغانستان ، عراق اور فلسطین میں ہوتے دیکھا ہے اور اسی کو ریاستی دہشت گردی کہتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے حال ہی میں کہا ہے کہ میں نے لاکر بی کے ملبے سے بچوں اور خواتین کی لاشوں کو اس وقت بھی نکالتے ہوئے دیکھا ہے‘ جب سکاٹ لینڈ کے ایک سرحدی گائوں کے اوپر پان امریکن ۱۰۳ کا جمبوجیٹ طیارہ پھٹ گیا تھا ۔ میںنے جنین(فلسطین) کے ملبے سے‘ بچوں اور عورتوں کی لاشوں کو نکالتے ہوئے دیکھا ہے اور یہی سب کچھ جنوبی افغانستان اور عراق میںبھی دیکھ رہی ہوں۔
مجھے یہ سب لاشیں ایک جیسی لگتی ہیں۔آپ انسانی زندگی کی کوئی قیمت نہیں لگاسکتے، حالانکہ امریکی یہی کرتے ہیں۔ ایک امریکی کی زندگی کی قیمت تو لاکھوںڈالر میں لگائی جاتی ہے‘ جب کہ ایک عرب مسلمان کی زندگی اس کے مقابلے میں کوئی قیمت نہیں رکھتی۔
آپ کے خیال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کس سمت میں جارہی ہے؟
دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی یہ جنگ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ بن چکی ہے کیونکہ اب اس کو ایریل شیرون اور ولادی میرپوٹن جیسے لوگوں نے فلسطینی اور چیچن عوام کو کچلنے کے لیے یرغمال بنا لیا ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جس کا رخ اب امریکا کی طرف پھر رہا ہے اوریہ خود جارج بش کے لیے ڈراؤنا خواب بن جائے گی۔ میں سوچتی ہوںکہ اس کا انجام بھی اس کے آغاز ہی جیسا ہو گا---۱۱ ستمبر کی طرح ایک بہت بڑی تباہی!
اس نازک صورت حال میں مسلمانوں کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟
ان کو گردن اٹھا کے چلنا چاہیے اور اس بات پر فخر محسوس کر نا چاہیے کہ وہ کون ہیں۔ اُن رویوں کو بالکل برداشت نہ کیا جائے جو اسلام کے خلاف ہیں۔
سی آئی اے آپ کو قتل کر نا چاہتی تھی۔ آپ نے کوشش کی کہ اس پورے معاملے کی چھان بین ہو ۔ کیا آپ اب تک اس بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت لانے میں کامیاب ہوسکی ہیں؟ کیا اس حوالے سے لاحق خوف اب ختم ہو چکا ہے؟
سی آئی اے نے میرے وکیل کو میرے بارے میں بنی ہوئی فائل دینے سے انکار کردیا۔ میں نے ذاتی طور پر اس معاملے کو نظر انداز کرکے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ۔چونکہ میں ان کے ڈرامے میں رنگ بھر نے والی مطلوبہ کردار تھی‘ اس لیے امریکی یہی چاہتے تھے کہ جنگ کی مخا لفت میں اٹھنے والی پوری تحریک سے توجہ ہٹانے کے لیے متوسط طبقے کی ایک شریف، سفیدفام مظلوم شہری‘ ایک ذاتی جنگ کا آغاز کرے ۔میں کسی سے نہیں ڈرتی ۔مجھے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا کوئی خوف نہیں ۔
امریکا نے ۱۱ ستمبر کے واقعے کو کس طرح استعما ل کیا؟ کیاآپ سمجھتی ہے کہ۱۱ ستمبر کے بعد کے واقعات نے امریکا مخالف جذبات کو ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا ہے؟
امریکا کے خلاف جذبات تو آج ہر جگہ موجود ہیں۔ امریکا نے جس طرح سے ۱۱ ستمبر کو غلط استعمال کیا ہے ، اس کے نتائج تو ابھی آنے ہیں ۔تاہم‘ اسپین کے لوگوں نے عراق میں جاری جنگ کے حوالے سے اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ٹونی بلئیر کو بھی اپنے برطانوی عوام سے یہی کچھ ملنا ہے ( جو سپین کے سابق وزیراعظم ازنار کو ملا ہے)۔ ان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ جن لوگوں نے ان کو ووٹ دے کر منتخب کیا ، ان سے مشورہ لینے کے بجاے انھوں نے واشنگٹن سے احکامات لیے ۔
آپ نے کچھ وقت قطر میں بھی گزارا۔ آپ کا یہ تجربہ بالخصوص اسلام قبول کر نے کے بعد ، کیسا رہا؟
مجھے قطر میں جاکر سخت مایوسی ہوئی ۔تاہم‘ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے میں نے ایک بہت بڑا سبق پایا : اسلام کامل ہے‘ لیکن اس پر عمل کرنے والے لوگ ایسے نہیں۔وہاں میں ابوبکر صدیق نامی ایک مسجد میں جایا کرتی تھی اور مجھے یہ خوش گوار احساس ہوا کہ میری آمد سے لوگوں کو خوشی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جب میں قطر میں اپنی آمد کے فوراََبعد ایک مسجد میں گئی تو مجھے جس توہین آمیز سلوک کا وہاں سامنا کر نا پڑا ، اس قسم کا تجربہ مجھے اس سے قبل مسلمانوں کے درمیان رہتے ہوئے کبھی نہیں ہوا تھا۔
کیا آپ یہ محسوس کرتی ہیں کہ طالبان والا یہ واقعہ آپ کے پیشہ وارانہ اورذاتی زندگی کا ایک عظیم واقعہ ہے؟
میرا خیال ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ طالبان کا تجربہ میری زندگی میں موت کو قریب سے دیکھنے کا ایک تجربہ تھا۔ میں اب سنجیدگی کے ساتھ سیا ست میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتی ہوں‘ اور مجھے امید ہے کہ میں ایک بار پھر خبروں کی زینت بنوں گی--- محض حق اور سچائی کی خاطر‘ ان شاء اللہ!
عام طور پر اس قسم کی باتیں سننے میں آتی ہیں کہ یہ دور نفسانفسی‘ مادیت اور مفاد پرستی کا دور ہے۔لوگوں میں بے حسی پائی جاتی ہے۔ رہی سہی کسر ثقافتی یلغار‘میڈیا اور کیبل وغیرہ نے پوری کر دی ہے۔ لوگ معاشی مسائل میں اس بری طرح جکڑے گئے ہیں کہ انھیں کسی اور کام کے متعلق سوچنے یا کرنے کی فرصت ہی نہیں۔
ایسے میں‘ گذشتہ دنوں لاہور میں فہم قرآن کلاس کے ذریعے سے ایک خوش گوار اور ایمان افروز منظر دیکھنے میں آیا۔ کیفیت یہ تھی کہ لوگ بلامبالغہ جوق در جوق فہم قرآن کلاس میں شرکت کے لیے امڈے چلے آرہے تھے‘ شدید گرمی اور حبس کے باوجود ہزاروں لوگوں نے اس میں شرکت کی۔ خواتین‘ حاضری میں سبقت لے گئیں۔
جماعت اسلامی پاکستان کے شعبہ فہم دین کے تحت ۱۰ روزہ فہم قرآن کلاسوں کا سلسلہ گذشتہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ ملک کے مختلف شہروں اور قصبات میں پروگرام ہو چکے ہیں۔ لاہور میں ۱۰ روزہ فہم قرآن کلاس کے تین پروگرام: وحدت روڈ‘ سمن آباد اور گلشن راوی میں ماہ مئی اور جون میں ترتیب دیے گئے۔ پروفیسر عرفان احمد چودھری اس کے روح رواں ہیں۔ ان پروگراموں کی تشہیر کے لیے بڑی تعداد میں دعوت نامے‘ ہینڈبل اور اشتہارات پھیلائے گئے۔ مناسب جگہوں پر بینر آویزاںکیے گئے اور بڑے پیمانے پر دعوت دی گئی۔ کارکنان جماعت متحرک ہوئے‘ عوام سے رابطہ کیا گیا اور ان پروگراموں میں ان کی شرکت ممکن بنانے کے لیے بھرپور کوشش کے ساتھ جہاں ممکن ہوا آمدورفت کی سہولت بھی فراہم کی گئی۔ ۱۰ روزہ کلاس کے لیے خصوصی نصاب میں شامل آیات اور احادیث کا انتخاب ایک خاص ترتیب اور حکمت کو پیش نظر رکھ کر کیا گیا ہے۔ تمام شرکا کو اس کا کتابچہ فراہم کیا گیا جو دوران کلاس ان کے سامنے رہا۔ کلاس کے اوقات بعد نماز فجر ۱۵:۵ تا ۳۰:۶ مقررکیے گئے‘ جب کہ عام طور پر فجر کے بعد پروگراموں میں شرکت ایک مشکل امر خیال کیا جاتا ہے۔ارزاں نرخوں پر لٹریچر کی فراہمی کے لیے اسٹال لگائے گئے اور شرکا کو حقیقت اسلام تحفے میں دی گئی۔
اس کلاس کی خاص بات یہ ہے کہ ہر روز حاضرین کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے۔ آخری پروگرام‘ حاضری اور شرکا کے اعتبار سے اپنی جگہ ایک تاریخ ساز اجتماع ثابت ہوا کہ اس نوعیت کا اتنا بڑا دعوتی اجتماع لاہور میں کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔
پروفیسر عرفان احمد نے اسلام کی دعوت اور قرآن کا پیغام نہایت موثر پیرایے میں پیش کیا۔ ان کی کوشش تھی کہ وہ مخاطبین کا تعلق قرآن سے قائم کر دیں۔ ۱۰ روزہ نصاب میں دین کے تقریباً تمام بنیادی موضوعات شاملِ گفتگو رہے۔ آخری روز غُلِبَتِ الرُّوْم کی تفسیر میں حالاتِ حاضرہ خصوصاً اُمت مسلمہ پر امریکی یلغار اور اسلام کے روشن مستقبل پر بھی خوب تبصرہ ہوگیا۔
درس قرآن کے ساتھ حدیث‘ فقہ اور تجوید کا مختصر پروگرام بھی رکھا جاتا ہے۔ یوں قرآن کی دعوت کو قرآن و حدیث‘ اسوہ رسولؐ اور سیرت صحابہؓ کی روشنی میں اس طرح سے پیش کیا گیا کہ وہ حالات کا تقاضا اور ضرورت محسوس ہوئی۔ سننے والوں کو اپنا ایمان بڑھتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ شرکا محض سامع نہ تھے بلکہ شریکِ گفتگو تھے۔ انھوں نے جانا کہ داعی دین کی حیثیت سے ان کا فرض ہے کہ قرآن کی دعوت انھیں دوسروں تک پہنچانا ہے۔ لہٰذا سب شرکا اپنی اپنی جگہ داعی بن گئے جس کا ایک واضح اظہار حاضری میں روزانہ اضافہ تھا۔لوگوں میں اس احساس کا بیدار ہونا ہی اس تمام جدوجہد کا حاصل ہے۔
گلشن راوی میں فہم قرآن کلاس کے آخری روز قیم جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے بھی خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ اصل کش مکش معروف و منکر کی ہے۔ ہماری تمام تر توانائیاں اسی جدوجہد میں کھپنا چاہییں۔ یہ پیغام عملاً اقامت دین کا پیغام ہے اور شرکاے قرآن کلاس کے لیے ’ہوم ورک‘ بھی‘ جو اس ایمان پرور پروگرام کے اختتام کے بعد عمربھر انھیں انجام دیتے رہنا ہے۔
میری زندگی کا واحد نصب العین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کے مطابق اللہ کی بندگی‘ اقامت دین اور اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کے ذریعے اس کی رضا اور جنت کا حصول ہے۔
میں‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت‘ وفاداری کو ہر چیز پر مقدم رکھوں گا۔ فرائض کا پابند اور کبائر سے دُور رہوں گا۔ عدل و احسان اور صلہ رحمی کے رویے پر قائم رہوں گا‘ اور ہر قسم کے کھلے اور چھپے فواحش اور ظلم و زیادتی کے کاموں سے بچوں گا۔
انسان جن مسائل سے دوچار ہے‘ وہ ان سے نجات کے لیے کسی پایدار حل کی تلاش میں ہے۔ قرآن مجید مختصر جملوں میں ان کا ایسا حل پیش کرتا ہے کہ دل ٹھک کر رہ جاتا ہے۔ یہ قرآن کی تعلیمات ہیں جو انسان کو اس کی اصل حیثیت یاد دلاتی ہیں‘ اس کی کمزوریوں سے اسے آگاہ کرتی ہیں اور پھر اس کو سیدھے راستے کی طرف رہنمائی بھی دیتی ہیں۔ دراصل قرآن انسان کی فطرت کی پکار کا جواب ہے۔ یہی اس کی کشش کا راز ہے۔
قرآن سے تعلق کی اصل بنیاد تو مسلم معاشرے کی یہ روایت ہے کہ ہر بچے کو ابتدا میں ہی قرآن ضرور پڑھایا جاتا ہے۔ لیکن بعد میں عموماً عملی زندگی میں اس سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔ روز کا مطالعہ بھی کم خوش نصیبوں کے حصے میں آتا ہے۔ فہم قرآن کا یہ پروگرام‘ اور اس نوعیت کے ہونے والے دوسرے تمام پروگرام جو مختلف افراد‘ تنظیموں اور اداروں کی جانب سے ہو رہے ہیں‘ انتہائی قابلِ تحسین اور وقت کی ضرورت ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ ایک عام مسلمان قرآن کو خود سمجھے اور اسے اپنی زندگی کا راہنما بنائے۔ مکہ کے باشندوں نے جب قرآن کی یہ دعوت قبول کی تو عرب و عجم ان کے زیرنگیں آگئے‘ آج ہم قرآن کے نام لیوا تو ہیں لیکن ضرورت ہے کہ اس کی دعوت کو قبول بھی کیا جائے۔
سوال: ایک فرد کی ماہانہ بچت چار سے پانچ ہزار روپے ہے۔ اس کے نزدیک ایک طرف تحریک اسلامی کو دیگر وسائل کے علاوہ نقد رقوم کی بھی سخت ضرورت ہے‘ دوسری طرف اس شخص کو حج پر جانے کی بھی شدید خواہش ہے‘ اور تیسری طرف ایسے مستحق لوگ بھی اس کی نظر میں ہیں جنھیں لٹریچر کے ذریعے دین کا پیغام پہنچانا بھی وقت کا تقاضا ہے۔ ان حالات میں کیا اُسے رقم جوڑ کر حج کرنا چاہیے‘ یا دین کو قائم کرنے کی جدوجہد میں مال لگانا چاہیے؟
جواب: خوشی ہوئی کہ آج کے دور میں بھی معاشرے میں ایسے افراد بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں جو دین کی نشرواشاعت کے جذبے سے سرشار ہیں اور اپنی ضروریات پر دین کے تقاضوں کو فوقیت دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے اس جذبے میں مزید برکت ڈالے اور اس طرح کے لوگوں کی تعداد میں اضافہ فرمائے۔ آمین!
اس طرح کے جذبات کو بارآور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دین اور خدمتِ خلق کے کام کے لیے اجتماعی کوششیں کی جائیں‘ ایک یا چند افراد اگر اپنی بچتیں لوگوں میں لٹریچر تقسیم کرنے اور ان کی ضروریات پورا کرنے میں خرچ بھی کر دیں تو کام زیادہ نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا‘ لہٰذا ضروری ہے کہ اس مقصد کے لیے کام کرنے والی تنظیم کو وسعت دی جائے۔ زیادہ سے زیادہ افراد سے مالی اعانت جمع کی جائے۔ لوگ اپنی اپنی توفیق کے مطابق مالی اعانتیں دیں‘ پھر جمع شدہ رقوم سے ایک طرف توسیع دعوت کا کام لیا جائے‘ لٹریچر تقسیم کیا جائے اور دروس قرآن و حدیث کے اجتماعات منعقد کیے جائیں‘ اور دوسری طرف حاجت مندوں کی حاجات پوری کی جائیں۔ ایک شخص کا اپنی بچت کی ساری رقم کو فی سبیل اللہ خرچ کرنا اس وقت ضروری ہوتا ہے جب اس کے بغیر چارہ نہ ہو۔ موجودہ حالات میں افراد سے اپنی ساری بچت فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا تقاضا نہیں ہے‘ بلکہ اپنی اور اہل و عیال کی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ انفاق کا مطالبہ ہے۔ ایک شخص اگر مہینے میں چار پانچ ہزار روپے کی بچت کرتا ہے‘ اور وہ خود صاحب ِاہل و عیال ہے‘ اس کے پاس اپنا مکان نہیں ہے تو اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ کچھ رقم مکان کے لیے‘ کچھ اہل و عیال کی ضروریات کے لیے اور کچھ فی سبیل اللہ خرچ کرنے کے لیے مخصوص کر دے اور اس بات کو بھی پیشِ نظر رکھے کہ وہ اپنی ضروریات کو خود پورا کر سکے اور بوقت ضرورت کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ عام حالات میں اگر وہ شخص حج کے لیے بھی کچھ رقم مخصوص کرتا ہے تو اس کی بھی گنجایش ہے۔
صحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ وہ کیا خرچ کریں‘ تو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے جواب نازل فرمایا کہ یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ العَفْوَ (البقرہ ۲:۲۱۹) ’’آپ فرما دیجیے کہ جو بہ سہولت خرچ کر سکتے ہو‘ خرچ کرو‘‘۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: بہترین صدقہ وہ ہے جو مال دار پشت سے ہو۔ پہلے ان پر خرچ کرو جو تمھاری پرورش میں ہیں (بخاری،عن ابی ھریرہ)‘ یعنی پورا مال ہی خرچ نہ کر دیا جائے‘ بلکہ کچھ بچا کر بھی رکھنا چاہیے۔ اسی طرح آپؐ نے فرمایا کہ ایک دینار وہ ہے جس کو تم فی سبیل اللہ خرچ کرو‘ ایک دینار وہ ہے جس کو غلام آزاد کرنے میں خرچ کرو‘ ایک وہ ہے جسے مسکین پر صدقہ کرو‘ اور ایک دینار وہ ہے جسے تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو۔ ان میں افضل وہ ہے جسے تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہو۔مسکین پر صدقہ صدقہ ہے اور قرابت دار پر دہرا اجر ہے۔ صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی (احمد‘ ترمذی‘ ابن ماجہ‘ نسائی)۔ یہ تمام روایات مشکوٰۃ میں ذکر کی گئی ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب صدقے کی اپیل کیا کرتے تھے تو صحابہ کرامؓ اپنے اپنے حالات اور جذبے کے مطابق مال پیش کر دیتے تھے۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق ؓنے سارا مال اور حضرت عمرؓ نے نصف مال فی سبیل اللہ پیش کیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور حضرت علی ؓنے بڑی بڑی رقوم پیش کیں۔ دیگر صحابہ کرامؓ نے بھی ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
اس طرح کی صورت حال اگر آج پیش آجائے اور اجتماعی نظم مالی اعانتوں کی اپیل کرے تو ایسی صورت میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر رقوم پیش کر کے صحابہ کرامؓ کی سنت پر عمل کرنا ہوگا۔ لیکن عام حالات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انفاق میں بقدر استطاعت حصہ لینے کے ساتھ اہل و عیال اور قرابت داروں پر خرچ کرنے اور ان کی مالی حیثیت مضبوط کرنے کو ترجیح دی۔
جب قرآن پاک کی آیت لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (نیکی کو ہرگز نہیں پاسکتے یہاں تک کہ خرچ کرو اس مال کو جو تمھیں محبوب ہے۔ اٰل عمرٰن ۳:۹۲) نازل ہوئی تو حضرت طلحہؓ رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا میرا سب سے محبوب مال ’’بیرحا‘‘ کا باغ ہے‘ وہ اللہ کے لیے صدقہ ہے۔ میں اس کا ثواب حاصل کرنا چاہتا ہوں اور اسے اللہ کے ہاں ذخیرہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ اسے جہاں چاہیں صرف کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واہ واہ! یہ تو بڑا قیمتی مال ہے۔ میں نے تمھاری بات سن لی۔ میں سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے قرابت داروں پر خرچ کرو۔ ابوطلحہؓ نے کہا: میں اسی طرح کرتا ہوں۔ چنانچہ ابوطلحہؓ نے اسے اپنے قرابت داروں اور چچازادوں میں تقسیم کر دیا۔ (متفق علیہ)
بعض اوقات سارے مال کو خرچ کرنے پر آپ نے ناراضی بھی ظاہر فرمائی ہے۔ ایک دفعہ ایک شخص سونے کی ڈلی لے آیا۔ عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ مجھے سونے کی کان سے ملی ہے‘ آپ اسے لے لیجیے۔ یہ صدقہ ہے۔ میں اس کے سوا کسی چیز کا مالک نہیں۔ آپ نے اس سے منہ موڑ لیا۔ وہ دائیں جانب سے آیا‘ پھر وہی بات کی۔ آپ نے اپنا چہرہ دوسری طرف موڑ لیا۔ پھر وہ بائیں جانب سے آیا‘ آپ نے پھر رخ موڑ لیا۔ پھر وہ پیچھے سے آیا۔ آپ نے وہ ’’ڈلی‘‘ لے لی اوراس کو دے ماری۔ اگر وہ اسے لگ جاتی تو اسے تکلیف پہنچاتی یا زخمی کر دیتی۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: تم میں سے ایک آدمی اپنا سارا مال لے کر آجاتا ہے اور کہتا ہے یہ صدقہ ہے۔ پھر لوگوں سے مانگنے بیٹھ جاتا ہے۔ بہترین صدقہ وہ ہے جو مال دار آدمی کا ہو۔ (ابوداؤد‘ کتاب الزکوٰۃ)
اس سے معلوم ہوا کہ غریب آدمی کو احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ جذبات میںآکر سارا مال صدقہ کرنے کے بجاے کچھ صدقہ کرے اور باقی سے اپنی اور اہل و عیال کی ضروریات پوری کرے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ غزوئہ تبوک کے موقعے پر حضرت ابوبکرؓنے اپنی ساری دولت پیش کر دی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول کرلیا۔ امام بخاریؒ نے اس کا جواب بخاری میں دیا ہے کہ جو شخص ابوبکرؓ کے مقام پر فائز ہو‘ صبروقناعت کر سکتا ہو‘ اس کے لیے بے شک ساری دولت خرچ کر دینے کی اجازت ہے۔ لیکن عام لوگوں کے لیے یہی ہدایت ہے کہ وہ دولت کے خرچ کرنے میں اعتدال اور توازن سے کام لیں۔ اس لیے جو صاحب چار پانچ ہزار روپے ماہوار بچت رکھتے ہیں‘ انھیں چاہیے کہ وہ کچھ رقم فی سبیل اللہ خرچ کریں‘ باقی گھریلوضروریات اور حج کے لیے پس انداز کر لیں۔ دعوت واقامت دین کا فریضہ اوراس کے تقاضے اپنی جگہ اہم ہیں‘ اس کے لیے فی سبیل اللہ خرچ کرنے کے لیے مالی معاونین بڑھانے چاہییں۔ اس سے دینی کام زیادہ بہتر اور مؤثر انداز میں ہو سکے گا۔ واللّٰہ اعلم!(مولانا عبدالمالک)
س:قرآن حکیم امیر کی اطاعت کا حکم دیتا ہے(النساء ۴:۵۹)۔ کیا امیر کے ہرحکم کی اطاعت و پیروی لازمی ہے یا بعض صورتوں میں نافرمانی بھی کی جا سکتی ہے؟ ہمیں قرآن و سنت سے کیا ہدایات ملتی ہیں؟
ج: آپ نے سورۂ نساء کی آیت کے حوالے سے جو سوال کیا ہے اس کا اصولی جواب خود اسی آیت میں موجود ہے۔ فرمایا گیا ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور اپنے اولوالامر کی۔ اگر کسی معاملے میں اختلاف رائے واقع ہو تو اس کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف لوٹا دو‘ اگر تم اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو‘‘(النسائ۴: ۵۹)۔ اس آیت مبارکہ میں پہلی حقیقت یہ واضح کر دی گئی کہ جن اولی الامر کی اطاعت کی بات کی جارہی ہے وہ خود اُمت مسلمہ ہی کے اولی الامر ہیں۔
دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت غیرمشروط اور ہمہ وقتی ہوگی۔ ان سے اختلاف اور روگردانی جائز نہیں۔ اس لیے اطاعت الٰہی اور اطاعت رسولؐ کو غیرمشروط رکھا گیا ہے۔ دوسرے مقام پر اس اصول کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا کہ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (النسائ۴:۸۰)،’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی‘‘۔ پھر ایک تیسری سطح اطاعت کے حوالے سے بیان کی گئی ہے جس میں اصحابِ امر کی اس وقت تک مشروط اطاعت کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ اپنے تمام معاملات میں اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی دی ہوئی ہدایات کی پیروی کر رہے ہوں۔ اگلی بات یہ فرمائی گئی کہ اگر صاحب ِ امر سے کسی معاملے میں اختلاف ہوجائے‘ جو ایک مسلمان شہری کا بنیادی حق بھی ہے‘ تو پھر صاحب ِ امر اور ایک عام شہری کے اختلاف کا فیصلہ قرآن و سنت کی روشنی میں کیا جائے گا۔ ایسی صورت حال میں صاحب ِ امر کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنا حکم اور فیصلہ عوام الناس پر زبردستی نافذ کرے اور عوام الناس کے لیے ایسے حکم کی پیروی واجب نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اللہ اور اللہ کے رسولؐ ایک مسلمان کو یہ حق دیتے ہیں کہ اگر وہ عدل قائم رکھ سکتا ہو تو ایک سے زائد نکاح کرسکتا ہے‘ لیکن اگر ایک حکمران یہ حکم دے کہ دوسری شادی غیرقانونی ہے تو ایسے قانون کی اطاعت جو شریعت سے ٹکراتا ہو‘ قطعاً جائز نہ ہوگی۔
صاحب ِ امر سے عموماً فرماں روا یا حاکم مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن اپنے وسیع تر مفہوم میں اس میں وہ سب حضرات شامل ہیں جو کسی ذمہ داری کے منصب پر فائز ہوں‘ مثلاً علما و فقہا‘ کسی ادارے کے سربراہ‘ وہ متخصص افراد جو اپنے اپنے میدان میں فیصلہ کُن مقام رکھتے ہوں۔ اس غرض سے ایک اسکول یا کالج کے پرنسپل‘ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر‘ ایک فیکٹری کے مینیجر یا ایک سربراہِ خاندان‘ ہر ایک کے لیے حکم یکساں ہوگا اور اُس کی اطاعت اسی وقت تک ہوگی جب تک وہ حکمِ شریعت‘ یعنی قرآن و سنت کی پیروی کر رہا ہو۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مشہور حدیث لاَطَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ (اللہ کی نافرمانی میں کسی کی فرماںبرداری نہیں)‘ میں اس اصول کو متعین فرما دیا کہ اگر ایک شوہر‘ بیوی کو یا بیوی‘ شوہر کو کسی ایسے کام کے لیے کہے جو قرآن و سنت کے منافی ہے تو اطاعت نہیں کی جائے گی۔ یہی شکل دیگر شعبہ ہاے حیات میں ہوگی‘ مثلاً ایک سرکاری دفتر میں کسی افسر کا وہ حکم جو براہِ راست قرآن و سنت سے ٹکراتا ہو‘ قابلِ تعمیل نہیں قرار پائے گا۔
قرآن و سنت کے احکام میں اگر ایک سے زائد تعبیرات کا امکان ہو تو کسی ایک تعبیر کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ان تعبیرات اور قرآن وسنت کے بنیادی اصولوں میں کوئی تضاد نہ ہو۔
غیرشرعی احکام کے نہ ماننے کا طریقہ کیا ہوگا اور کن حالات میں کسی صاحب ِ امر کے خلاف کھلم کھلا عوامی مظاہرہ کیا جائے گا؟ یہ سوالات ہمارے معروف فقہا کے بھی پیش نظر تھے۔ چنانچہ ’سیاست شرعیہ‘ کے زیرعنوان اس مسئلے پر تفصیلی مباحث مختلف مقامات پر ملتے ہیں۔ امام ابن تیمیہ ؒنے بھی اس موضوع پر لکھا ہے۔ پہلی بات جو ہمارے علما نے واضح طور پر بیان کی‘وہ یہ ہے کہ جب بھی صاحب ِ امر گمراہی کی طرف جائیں انھیں نصیحت کی جائے‘کیونکہ حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ (بخاری)۔ مسلم کی روایت ہے کہ ’’تین چیزوں سے اللہ تعالیٰ تم سے بہت خوش ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ اسی کی عبادت کرو‘ اور کسی کو اس کا شریک نہ گردانو۔ دوسری یہ کہ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رہو‘ فرقے فرقے مت بن جائو۔ تیسری یہ کہ جس شخص کو اللہ نے تمھارا صاحب ِ امر بنایا ہے اس کو نصیحت کیا کرو‘‘۔
نصیحت کے تمام ذرائع جب ناکام ہوجائیں تو راے عامہ کو ہموار کرنا اور ملک میں فتنہ و فساد برپا کیے بغیر تبدیلی ٔ امامت اُمت مسلمہ پر واجب ہوجاتی ہے کیونکہ اسلامی شریعت کے قیام و نفوذ کے لیے صالح امامت کا ہونا ہی اُمت مسلمہ کے عمومی مصالح کا تحفظ کرسکتا ہے۔ چنانچہ جہاں تک ممکن ہو تشدد اور قتل و غارت سے بچتے ہوئے تبدیلی ٔ قیادت کی جدوجہد کرنا اُمت مسلمہ کا فریضہ بن جاتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔(ڈاکٹر انیس احمد)
سیرت پاکؐ پر لکھنا ایک سعادت بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ یہ موضوع جتنی رفعتوں سے آشنا کرتا ہے‘ اس سے کہیں زیادہ نزاکتوں کے پُل صراط پر چلنے کا تقاضا کرتا ہے۔ خالد مسعود نے اس پیش کش کا آغاز اس دعویٰ سے کیا ہے کہ: ’’] سیرت نگاروں نے سیرت نگاری میں[ اگر کسی حیثیت کونظرانداز کیا ہے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ کا رسول ہونے کی حیثیت ہے‘‘ (ص ۱۱)۔ جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ خود خالد مسعود نے کم از کم اس کتاب میں اسی کمی کو پورا کرنے کے لیے قلم اٹھایا ہے۔ ہرچند کہ کتاب کے مندرجات‘ موضوعات کی پیش کش‘ زبان و بیان کی سلاست نے اسے انفرادیت تو دی ہے‘ لیکن چند مباحث کے علاوہ‘ یہ کتاب بھی سیرت نگاری کی روایت ہی کا ایک قابلِ قدر تسلسل ہے۔ (کتاب پر مفصل تبصرہ دیکھیے: توقیراحمد ندوی‘ معارف‘ اعظم گڑھ‘ بھارت‘ مئی ۲۰۰۴ئ)
انفرادیت کی ایک وجہ سیرت پاکؐ کے حوالے سے صدیوں سے بیان کی جانے والی بعض معروف روایات کا درایت کی بنیاد پر استرداد ہے‘ جن میں خصوصاً حضرت عائشہؓ کی نکاح کے وقت عمر‘ حضرت عمرؓ کا قبولِ اسلام کا واقعہ‘ تدوین قرآن کی روایت اور بعض دیگر روایات شامل ہیں۔ یہ مباحث تحیرآمیز اور بعض پہلوئوں سے ادھورے دعوے ہونے کے باوجود تقاضا کرتے ہیں کہ اس اختلافِ فکر ونظرکا علمی سطح پر ہی جائزہ لینا چاہیے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ان روایات پر نقدوبحث کو کسی فتوے کی زد میں لاکر رد کر دیا جائے‘ تاہم اس کتاب کا یہ مرکزی پہلو نہیں ہے‘ بلکہ مرکزیت اس اسپرٹ کو حاصل ہے‘ جس کے تحت قاری‘ مطالعے کے دوران‘ محبت‘ جذب‘ تعقل اور والہانہ وابستگی سے دوچار ہوتا ہے۔
حیاتِ رسول امیؐ میں مستشرقین کی یاوہ گوئی کا مسکت اور مدلل جواب بھی خوب ہے لیکن غزوات رسولؐ کے ابواب تو اس کتاب کا جوہر ہیں۔ آج کل ہمارے گاندھی زدہ یا بش گزیدہ دانش ور سیرت کے باب میں جس فکری افلاس سے قلم کاری کر رہے ہیں ‘اس کا ایک ہدف ’میثاق مدینہ‘ بھی ہے۔ اس حوالے سے خالد مسعود لکھتے ہیں: ’’ہمارے اہلِ تحقیق نے اس بات پر بڑا زور دیا ہے کہ ’میثاقِ مدینہ‘ کے تحت مسلمان‘ یہود اور مشرکین‘ جو بھی وادیِ یثرب میں آباد تھے‘ وہ ایک اُمّت قرار دیے گئے‘ اور ان کو مذہبی تحفظ فراہم کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ معاہدے میں یہود کا نام قبیلوں کے تعین کے ساتھ آیا ہے‘ جب کہ مشرکین کا اس میں تذکرہ بھی نہیں ہوا۔ ] یہ[ اہلِ تحقیق بھول جاتے ہیں کہ رسولؐ اللہ کا کارِ رسالت ابھی پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچا تھا‘ نیز آپؐ لوگوں کے غلط ادیان کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مبعوث نہیں ہوئے تھے۔ ] ان نام نہاد دانش وروں کی[ یہ غلط فہمی ] صرف[ اس صورت میں رفع ہو ]سکتی[ ہے‘ جب یہ مانا جائے کہ میثاق مدینہ کوئی ابدی دستاویز نہیں تھی‘ بلکہ ذمہ داریوں کا وقتی تعین تھا‘‘ ۔(ص ۲۸۷)
اس صدقہ جاریہ کا فیض بلاشبہہ مولانا امین احسن اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ کے نامۂ اعمال کا بھی حصہ بنے گا‘ جن کے تحقیقی نکات اور خرد افروز تفردات اس کتاب کا حصہ ہیں‘ اور جنھوں نے اپنے محبوب شاگرد کی ایسی تربیت کی کہ وہ ان نکات کو حسنِ ترتیب سے پیش کر سکے۔ اس کتاب کو خوب صورتی سے شائع کرنے پر ناشرین بھی مبارک کے مستحق ہیں۔ تاہم‘ آیندہ اشاعت میں اشاریے کا اضافہ اور حوالہ جات کا درست اندراج کرنا ضروری ہے۔ (سلیم منصور خالد)
فاضل مرتب نے مختلف اردو‘ انگریزی اور عربی روزناموں‘ ہفت روزوں اور ماہناموں سے مسلم ممالک کے بارے میں ضروری معلومات جمع کی ہیں۔ یہ کام انتہائی محنت‘ جستجو اور عرق ریزی سے کیا گیا ہے۔ اس سلسلے کی پہلی جلد ۱۹۹۰ء میں منظرعام پر آئی تھی۔ ۱۹۹۲ء اور ۱۹۹۷ء میں مزید دو جلدیں شائع ہوئیں ۔ تازہ جلد جنوری ۱۹۹۷ء سے دسمبر ۲۰۰۲ء تک کے حالات و واقعات پر مشتمل ہے۔
کتاب کے شروع میں مسلم ممالک کی آبادی اور غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کے تناسب آبادی کے اعداد و شمار کے علاوہ بعض مسلم ملکوں اور شہروں کے ناموں کے صحیح تلفظ و املا کی تصریح بھی کی گئی ہے۔
کتاب تین ابواب میں منقسم ہے۔ پہلے باب میں ۴۷ مسلم ممالک کے حالات و کوائف جمع کیے گئے ہیں۔ دوسرے باب (مسلم اقلیتیں) میں ایشیا‘افریقہ‘ یورپ اور شمالی و جنوبی امریکا سمیت ۳۲ غیر مسلم ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کے حالات و واقعات‘ درپیش مسائل‘ امکانات اور چیلنجوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ باب سوم (متفرقات) میں دنیا بھر میں منعقد ہونے والی اسلامی کانفرنسوں کا احوال‘ مختلف ممالک کے باہمی معاہدوں اور قدرتی آفات و حادثات کا ذکر کیا گیا ہے۔
اس کتاب کے حوالے سے یہ کہنا غلط نہیں کہ ادارہ معارف اسلامی انتہائی اہم کام انجام دے رہا ہے۔ لیکن دسمبر ۲۰۰۲ء تک کے کوائف کا احاطہ کرنے والی یہ کتاب تاخیر سے منظرعام پر آئی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہر نئے سال کے ابتدائی ہفتوں یا مہینوں میں پچھلے سال کی ایئربک مارکیٹ میں آجایا کرے۔
کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم ممالک بے پناہ قدرتی وسائل اور طرح طرح کی دیگر نعمتوں سے مالا مال ہیں مگر عسکری و افرادی قوت رکھنے کے باوجود‘ استعمار اور ان کے مسلط کردہ گماشتوں کے شکنجۂ استبداد میں کراہ رہے ہیں۔ اس کا ایک ہی سبب ہے کہ مسلمان ملکی معاملات میں دل چسپی لینے اور حکمرانوں کا احتساب کرنے کے بجاے ذاتی مفادات کی فصل کاٹنے اور لسانی‘ علاقائی اور مذہبی فرقہ پرستی میں مبتلا ہیں۔
بہرحال یہ کتاب معلومات کا ایک خزانہ ہے۔ اچھی طباعت‘ خوب صورت سرِورق اور جلد کے ساتھ قیمت انتہائی مناسب ہے۔ (عبدالجبار بھٹی)
پروفیسر ڈاکٹر نگار کی نصف درجن سے زائد کتب منصہ شہود پر آچکی ہیں جن میں شاعری اور افسانوں کے مجموعے بھی شامل ہیں لیکن ان کا اصل میدانِ تحقیق‘ اسلامی تاریخ خصوصاً پہلی صدی ہجری کی تاریخ ہے۔ سرزمینِ نجد وحجاز کے اس سفرنامے میں بھی تاریخی حقائق کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔
اردو ادب میں سفرنامہ ایک دل چسپ اور اہم تخلیقی صنفِ نثر کی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ مختلف ممالک کے سفرناموں کے ساتھ ساتھ‘ سرزمین حجاز کے سفرناموں میں بھی ایک تسلسل سے اضافہ ہو رہا ہے لیکن ان میں سے اکثر‘ مقاماتِ مقدسہ کی تفاصیل اور قلبی واردات وکیفیات اور تاثرات کے بیان پر مشتمل ہیں۔ یہ سفرنامہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ مصنفہ نے نجد و حجاز کے سفر بار بار کیے اور دیگر سفرناموں کا گہری نظر سے مطالعہ کیا اور تقابلی جائزے سے نجدوحجاز کی بدلتی ہوئی صورت حال کو نمایاں کیا ہے۔ تاریخی واقعات کی تحقیق میں بنیادی ماخذ کے طور پر قرآن پاک کو مدنظر رکھا ہے۔ اس کے بعد مستند تاریخی کتب سے مدد لی ہے۔
مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ دشتِ امکاں نجدوحجاز کے سفرناموں میں ایک منفرد اور عمدہ اضافہ ہے۔ کتاب میں تاریخی مقامات کی تصاویر بھی دی گئی ہیں۔ ان میں عبدالوہاب خان سلیم (جن کے پاس حجاز کے اردو سفرناموں کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے) کی مہیا کردہ نادر تصاویر بھی شامل ہیں۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
زیرنظر کتاب حسب ذیل چھے مضامین پر مشتمل ہے: ا- انسان سازی یا انسانیت سوزی ۲- تعلیم یا تدریس ۳- تعلیم اور تہذیب کا تعلق مولانا مودودی کی نظر میں ۴- تباہی ہے اس قوم کے لیے جس سے اس کی زبان چھن گئی ۵- استاد کمرۂ جماعت میں ۶- تدریس اُردو۔
مصنف نے اکبر الٰہ آبادی‘ علامہ اقبال اور مولانا مودودی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ تینوں شخصیات نے تعلیم کو تہذیب کی حفاظت کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور ان کے نزدیک تعلیمی شعبے کی کوتاہی ثقافتی اور اخلاقی دولت کے زوال کا سبب بنتی ہے۔ بقول مولانا مودودیؒ: ’’عقل مند قومیں اپنی تہذیبی بقا کا ضامن تعلیم کے شعبے ہی کو سمجھتی ہیں۔ ان کی پالیسیوں کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ ایسا نظام تعلیم وضع اور نافذ کیا جائے جس سے ان کی تہذیبی روایات کے پنپنے کے امکانات روشن ہو سکیں‘‘۔
مصنف نے تعلیم کا رشتہ تہذیب و ثقافت سے استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔مصنف کا اپنا تعلق بھی تدریس کے شعبے ہی سے ہے‘ اس لیے وہ تعلیم اور تہذیب و ثقافت کے نشیب و فراز سے بخوبی واقف اور جانتے ہیں کہ کسی قوم کی تہذیب صفحۂ ہستی سے ناپید ہوجاتی ہے تو یقینا وہ قوم ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتی ہے۔ مصنف کے نزدیک کسی قوم کی زبان کا بھی اس کی تہذیبی بقا سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ فرانس کے آنجہانی متراں نے ایک مرتبہ کسی کانفرنس میں اپنی زبان کے حوالے سے کہا کہ فرانس کی عظمت اس کی زبان سے قائم ہے۔
کسی ملک کے تعلیمی نظام کی کامیابی کا انحصار بڑی حد تک استاد کی شخصیت پر ہوتا ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ ایک استاد میں تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے‘ اول: وہ اپنے اخلاق و کردار کے اعتبار سے اتنا بلند ہو کہ طلبا اسے اپنے لیے نمونہ تصور کر سکیں۔ دوم: اپنے پیشے کی اہمیت سے اچھی طرح آگاہ ہو۔ سوم: جو مضمون وہ پڑھانے جا رہا ہو‘ اس پر مکمل عبور رکھتا ہو۔
ہر مضمون کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ یہ کتاب اساتذہ کے لیے رہنما بن سکتی ہے۔ سرورق خوب صورت ‘ طباعت مناسب ہے اور املا کی غلطیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کاغذ کے اعتبار سے قیمت زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ (محمد رمضان راشد)
کاروبارِ حکومت میں عوام الناس کی براہِ راست شرکت اور مقامی سطح پر مسائل کے جلد اور بہ سہولت حل کے لیے‘ فوجی حکومت نے ضلعی نظامِ حکومت متعارف کرایا۔ ۲۰۰۲ء میں ضلعی حکومتوں کے انتخابات میں مقامی قیادتوں کا انتخاب عمل میں آیا اور تحصیل اور ضلعی سطح پرمقامی حکومتوں نے کام کا آغاز کیا۔ بظاہر خیال یہ تھا کہ سرخ فائل کا شکار دفتری نظام‘ ایک نیا رُخ اختیار کر کے بہتر صورت اختیار کرے گا۔
مصنفین کہتے ہیں کہ اس نظام کی خوبیاں بھی ہیں لیکن اس کی پیچیدگی اور طوالت نئے مسائل کو جنم دیتی ہے۔ مصنفین نے یونین کونسل‘ تحصیل کونسل اور ضلعی اسمبلی کے انتخاب کے طریق کار‘ اُن کے اختیارات اور اُن کی حدود و قیود کو واضح کیا ہے۔ علاوہ ازیں مسائل کے حل کے لیے جو طریقے ضلعی نظام میں استعمال کیے جاسکتے ہیں‘ اُن کی وضاحت بھی کی ہے۔
پاکستان میں ہونے والے گذشتہ انتخابات کا مختصر اور ۲۰۰۲ء کے انتخابات کا تفصیلی ذکر اور ریکارڈ اور ریفرنڈم ۲۰۰۲ء کا تذکرہ بھی کتاب میں شامل ہے۔ یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ اس غریب ملک میں انتخابات میں جیتنے والے لوگ کس طرح پانی کی طرح روپیا بہاتے ہیں۔ ضلعی نظام کو سمجھنے کے لیے یہ ایک مفید اور معلومات افزا کتاب ہے۔ (محمدایوب منیر)
نوآبادیاتی دور کے خاتمے پر اُمت مسلمہ ایک بار پھر اپنے ماضی کی روشن روایت اور دورحاضر کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلامی معاشرے کی تشکیل و تعمیرمیں مصروف ہے۔ اس مرحلے پر دورِغلامی کے اثرات‘ جدید ٹکنالوجی کی وجہ سے دنیا کے سمٹ جانے‘ مغرب کی معاشی اور ابلاغی بالادستی کی وجہ سے درپیش عملی مسائل ہیں۔ ان میں شریعت کی رہنمائی معلوم کرنے کے لیے اسلاف کے کارناموں سے اکتسابِ نو ناگزیر ہے۔ ۵ تا۸ اکتوبر ۱۹۹۸ء امام ابوحنیفہؒ کی حیات‘ فکر اور خدمات پر اسلام آباد میں ادارہ تحقیقات اسلامی کی بین الاقوامی کانفرنس اس سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ زیرتبصرہ کتاب اس کانفرنس کے ۹منتخب مقالات اور ایک نہایت تاریخی معلومات سے پُر ’حرف اول‘ پر مشتمل ہے۔
اس وقت پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ ترکی‘مصر‘ شام‘ فلسطین‘ اُردن‘عراق‘ افغانستان‘ وسطی ایشیا‘ مشرقی یورپ اور کئی دوسرے ممالک میں مسلمانوں کی اکثریت حنفی المذاہب ہے۔ ماضی میں سلطنت مغلیہ اور سلطنت عثمانیہ کا سرکاری مذہب بھی حنفی فقہ تھا۔ اس فقہ کی مقبولیت کا راز شرعی فرائض میں رفع حرج و مشقت‘ تکلیف بقدر استطاعت اور سہولت و آسانی کے اصولوں کا لحاظ ہے جو دوسرے مسالک میں نہیں ملتا۔ اسی طرح استحسان کے حنفی اصول اسلامی قانون کو ترقی دینے اور معاشرے کی بدلتی ہوئی ضروریات اور تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ فاضل مقالہ نگاروں کی تحریروں سے یہ پہلو اجاگر ہوگئے ہیں۔
تاریخی و نظری لحاظ سے مقالات بہت خوب ہیں‘ لیکن ایک ایسے مقالے کی ضرورت باقی رہ گئی جس میں دورِحاضر کے بعض اہم متعین پانچ سات مسائل کے بارے میں فقہ حنفی کی رہنمائی پر بحث کی جاتی۔
ادارہ تحقیقات اسلامی نے اشاعت ِ کتب کے باب میں اعلیٰ معیار قائم کیا ہے‘ اس پر وہ مبارک باد کا مستحق ہے۔ وسائل تو تمام سرکاری اداروں کو ملتے ہیں‘ لیکن ان کا بہترین اور دل و نظر کو خوش کر دینے والا مقصدی استعمال ہر کسی کے نصیب میں نہیں۔ (مسلم سجاد)
۲۳ مضامین پر مشتمل یہ ایک اہم مجموعہ ہے۔ ایک ہی موضوع پر لکھے اور لکھوائے گئے مضامین میں عام طور پر تکرار کی صورت پیدا ہوجاتی ہے لیکن یہاں کوشش کی گئی ہے کہ سید سلیمان ندویؒ کے زندگی کے تمام گوشوں کے ساتھ ان کی شخصیت اور ان کی علمی و فکری دل چسپیوں کو بھی سامنے لایا جائے مگر تکرار محسوس نہ ہو۔ سید سلیمان سے جن لوگوں کا ارادت کا رشتہ رہا ‘ان پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ ڈاکٹر غلام محمد‘ ڈاکٹر نثاراحمد فاروقی اور محمدنعیم صدیقی ندوی کے مضامین مولاناؒ کی شخصیت کے مختلف زاویے اجاگر کرتے ہیں۔ ابوالحسن علی ندویؒ کا مضمون سید سلیمان ؒکی درس و تدریس سے دل چسپی اور علمی معاملات میں ان کے تحقیقی اندازِنظر‘نیز ان کی علمی تلاش و جستجو سے رغبت کے کئی پہلو سامنے لاتا ہے۔
سید سلیمانؒ سے روحانی و فکری تعلق کی بنا پر اکثر مضمون نگاروں کے ہاں عقیدت و احترام کا پہلو بطور خاص نمایاں ہے۔ اگر سلمان ندوی صاحب کا قلمی تعاون بھی شامل ہوتا تو اس مجموعے کی اہمیت میں گراں قدر اضافہ ہوجاتا۔ (محمدایوب لِلّٰہ)
اشاعت خاص-۲ ملی۔ اس نمبر میں مرکزی حیثیت’’مکاتیب سید‘‘ اور مکتوب بنام قاضی عبدالقادر اور مکتوب بنام مولانا وصی مظہر ندوی کو حاصل ہے جو خاصے کی چیز ہیں۔ بلوچستان قانون کمیشن کے سوال نامے کے جوابات از مولانا مودودیؒ نہایت اہم اور مربوط تحریر ہے۔ افسوس کے وہ خط جو مولانا نے کمیشن کے صدر کے نام‘ اپنے دستخط سے لکھا‘ اور جس کا ذکر محمد اسلم سلیمی صاحب کے خط بنام ڈاکٹر فضل الٰہی قریشی میں آیا ہے‘ درج نہیں ہے ۔ اگر یہ بھی ہوتا تو یہ مضمون مکمل ہوجاتا۔
ڈاکٹر حسن صہیب مراد کا مضمون اس اعتبار سے اچھوتا ہے کہ اب تک اس موضوع پر کسی نے بھی قلم نہیں اٹھایا ہے۔ یوں وہ ایک غیر دریافت کردہ میدان (unexplored field) کے رائد (pioneer) ہیں۔ اگر اس کو پروفیسر خورشیداحمد کے مضمون: ’’مولانا مودودیؒ: مفکر‘مصلح اور مدبر‘‘ سے ملا کر پڑھا جائے تو خاندان‘ معاشرہ اور جماعت اور ریاست کی تنظیم اور حکمتِ عملی میں شوریٰ‘اطاعت‘ اظہارِ راے کی آزادی‘ احتساب اور بحیثیت مجموعی شورائی نظام حیات‘ خاندان سے ریاست تک کے پیچیدہ مسائل میں بڑی رہنمائی حاصل ہوجاتی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر خالد علوی کا مقالہ:’ ’تجدید دین حق اور مولانا مودودی ؒ،، پچھلی تجدیدی کوششوں پر گہرے تبصروں اور ان کی جان دار تحلیل کے ساتھ مولانا مودودیؒ کی کتاب: تجدید و احیاے دین کی مختصرمختصر تحدیث (updating) ہے۔ میرے نزدیک اس کے بعض اجزا کو ترتیب دے کر مذکورہ کتاب کے آخر میں شامل بھی کیا جا سکتا ہے۔
پروفیسر عبدالجبار شاکر نے: ’’سیرت پر ان کی تحریروں کا اسلوب اور منہج ماقبل کے تمام ذخیرئہ سیرت سے جدا اور منفرد تشخص رکھتا ہے‘‘، کہہ کر سیرت پر پچھلی ساری نگارشات پر ایک جامع تبصرہ کر دیا۔ پھر وہ مولانا مودودیؒ کی سیرت نگاری کے عصرِحاضر میں اثرات کو بھی نہ بھول سکے۔ انھوں نے ۱۲ کتبِ سیرت میں مولانا کے اثرات کی نشان دہی کی ہے۔ ان سے چوک ہوگئی کہ ان کو مولانا صفی مبارک پوری کی عربی زبان میں الرحیق المختوم یاد نہیں رہی۔اس میں بھی مولانا مودودیؒ کے اثرات نمایاں ہیں۔ اس کے ذریعے یہ اسلوبِ تفکر و تحریر عربی سیرت نگاروں کے لیے ایک نمونے کا کام دے سکتا ہے۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی: ’’مولانا مودودیؒ اور ابن تیمیہؒ ،، میں لکھتے ہیں: یہی وجہ ہے کہ غزالیؒ اور رازیؒ اور ان کے بعد ابن تیمیہؒ کی تنقیدوں کے جواب میں جو آوازیں منطق اور فلسفے کے دفاع میں اٹھیں ان کو کسی حکومت یا سیاسی قوت کی تائید حاصل نہ تھی… لیکن کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ یہ حضرات ایک ایسے فلسفے اور نظریے پر تنقید کر رہے تھے جس کو ہم بلاخوف تردید سیاسی اعتبار سے ایک یتیم فلسفہ قرار دے سکتے ہیں۔ اس کے برعکس جس فلسفے اور نظریے کو مولانا مودودیؒ اور ان کے معاصرین نے تنقید کا نشانہ بنایا ‘ اس کی پشت پر بڑی بڑی مضبوط سلطنتیں اور سیاسی قوتیں موجود تھیں جن کا سوچا سمجھا مطمح نظر اور طے شدہ ایجنڈا ہی یہ تھا کہ اپنی سیاسی قوت کو اپنے نظریات کے فروغ میں استعمال کیا جائے‘‘۔ اس طرح ڈاکٹر محمود احمد غازی اس چیلنج کی گہرائی اور ہمہ گیری ثابت کرنا چاہتے ہیں جو مولانا مودودیؒ کو درپیش تھا۔ مجھے یہاں صرف یہ اضافہ کرنا ہے کہ جس صورتِ حال کا نقشہ ڈاکٹر صاحب نے کھینچا ہے وہ ابھی ’’تھا‘‘ کے صیغے میں بیان نہیں کی جا سکتی‘ کیونکہ یہ استعماری حکومتیں اور طاقتیں اس وقت سے زیادہ طاقت ور ہوکر افغانستان اور عراق پر قبضہ کر چکی ہیں۔ اب ان کا ایجنڈا یہ ہے کہ ’’وسیع تر شرقِ اوسط‘‘ میں اپنے طرز کے نظام حکم‘ نظامِ تعلیم اور نظامِ ثقافت اور اقتصادی و مالی نظام بالجبر اور بالقوۃ قائم کریں۔
مجھے ڈاکٹر مالک بدری کا موازنہ ’ایک طرح سے غیرمتوازن نظرآیا‘۔ الحمدللہ اخوان مصر‘ شام وغیرہ میں ناقابل برداشت سختیوں کے علی الرغم ابھی تک اپنے اصولوں پر پامردی سے ثابت قدم ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کا یہ مشاہدہ سوڈان کی حد تک صحیح ہو‘ مگر اس کو سارے ممالک میں تحریکِ اخوان پر عام کر دینا سراسر زیادتی ہے۔
میرے محسن اور کرم فرما جناب میاں طفیل محمد صاحب اور محترمہ سیدہ حمیرا مودودی کے مضامین قندِمکرر کی حیثیت رکھتے ہیں‘ جن کا مزہ ہر بار کچھ نیا نیا سا لگتا ہے!!
اشاعت خاص-۲ زیرمطالعہ ہے۔ اس میں ’’ہمارے والدین شجر سایہ دار‘‘ سب سے پہلے پڑھا۔ بلاشبہہ یہ ایسی تحریر ہے جو دلوں کے تار ہلا دیتی ہے۔ مثالی لوگ کہلانا اور بات ہے‘ مثالی بن کے دکھانا اور بات۔ مولانا کی صاحبزادی نے اپنے قلم کے جوہر دکھائے‘ یہ صفت انھیں والدین سے ورثے میں ملی۔ ایک آئیڈیل بیوی اور ماں بننے کے لیے کس قدر حوصلے‘ صبر ‘ استقامت اور خدا پر توکل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ بتاتے ہوئے انھوں نے امیرخسرو اور دیگر شعراے کرام کے اشعار نگینوں کی طرح پروئے ہیں۔ لطف آگیا! محترمہ اپنی قیمتی یادداشتوں کا سرمایہ پڑھنے والوں تک ضرور منتقل کریں۔ یہ ان کے پاس امانت ہے۔
اشاعت خاص کے دونوں شمارے ملے۔ دوسرا شمارہ علمی مضامین کے حوالے سے‘ اول الذکر سے بڑھ کر ہے‘ تاہم اس میں بھی والہانہ وابستگی سے لبریز تحریریں حاوی دکھائی دیتی ہیں۔ پروفیسر خورشیداحمد کا مضمون: ’’سید مودودیؒ: مفکر‘مصلح اورمدبر‘‘ نہایت فکرانگیز تحریر ہے۔ مالک بدری کا مضمون تجزیے اورمشاہدے کا خوب صورت امتزاج ہے۔ میرے لیے یہ مضمون اس لیے بھی دل چسپی کا باعث ہوا کہ اس میں مذکورہ بہت سے سوڈانی دوستوں سے مجھے تعلق خاطر رہا ہے۔ اس طرح یہ تذکرہ زمانۂ رفتہ کی خوش گوار بازگشت بھی ہے۔ حسین خان اس سے بھی زیادہ مؤثر مضمون لکھ سکتے تھے۔ اس قابلِ قدر اشاعت پر تشکر اور مبارک باد قبول کیجیے۔
اشاعت خاص‘ اول دوم ایک اہم علمی اضافہ ہے۔ اس کے ذریعے مولانا محترم کی شخصیت و افکار ایک بار پھر تازہ ہوگئے۔ اس حوالے سے یہ ایک نئی دریافت ہے۔ بالخصوص نئی نسل کے لیے مولانا مودودیؒ کی فکر کو جدید تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔ تحریکِ اسلامی کو اب جن مسائل کا سامنا ہے اور آیندہ جو مراحل درپیش ہیں‘ ان کے لیے فکری رہنمائی دی گئی ہے۔ یہ اشاعت اپنے موضوع پر ابتدا ہے‘ بیج کی حیثیت رکھتی ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اس کی روشنی میں لوگ مزید لکھنا چاہیں گے۔ یوں علمی و فکری رہنمائی کا یہ سفر صدیوں پر محیط ہوجائے گا۔
’’نئی صلیبی جنگ کا سب سے مہلک ہتھیار--- تعلیم پر وار‘‘ (جون ۲۰۰۴ئ)‘ میں نظریاتی نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم کی اہمیت اور ثقافتی یلغار کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کے نظامِ تعلیم کے لیے استعمار کی شیطانی منصوبہ بندی اور نصابِ تعلیم پر یلغار کا بروقت مفصل تجزیہ کیا گیا ہے۔ یقینا یہ بہت حساس مسئلہ ہے اور اُمت مسلمہ کے مستقبل کا سوال ہے۔
’’علم، طاقت اور استعمار‘‘ (جون ۲۰۰۴ئ) کے ذریعے عالمِ عرب کے معروف مفکر مالک ؒبن نبی سے تعارف اور ان کے افکار سے آگاہی ہوئی۔ مولانا مودودیؒ کے علاوہ عالمِ اسلام کے دیگر مفکرین کے افکار دینا بھی مفید ہوگا۔
جون کا شمارہ اہم موضوعات پر فکرانگیز اور چشم کشا نگارشات کا مجموعہ ہے۔ تعلیم‘ نئی صلیبی جنگ کے مہلک ہتھیار‘ عصرِحاضر میں خواتین کے لیے کام کے امکانات‘ عراق میں انسانیت کی تذلیل‘ انڈونیشیا‘ ملایشیا اور الجزائر کے انتخابات اہم مضامین ہیں۔ شیخ احمد یٰسین شہیدؒ اور عبدالعزیز رنتیسیؒ کی زندگی کے چھپے گوشوں نے بہت متاثر کیا۔
’’گلستان شہادت میں،فلسطین کے دو پھول‘‘ (جون ۲۰۰۴ئ) چھلکتی آنکھوں کے ساتھ پڑھا۔ فاضل مضمون نگار نے دونوں فلسطینی رہنمائوں کی زندگی کے چھپے گوشے نہایت مؤثر اور دل نشیں انداز میں پیش کیے۔
پاک وطن کو غلامی کے شکنجے میں جکڑنے اور تعلیم و تہذیب کو سامراجی عزائم اور استعماری سازشوں کا شکار کرنے کا جو بھیانک کھیل منافقین اور نام نہاد مسلمانوں کے ذریعے کھیلا جا رہا ہے‘ اس کا پردہ ’’اشارات‘‘ (جون ۲۰۰۴ئ) میں خوب چاک کیا گیا ہے۔ کاش! دردمند اور بہی خواہ اس پر سنجیدگی سے غور کرسکیں۔
اس کے بعد مولانا ]عبیداللہ سندھی[ کے تخیل کی آخری منزل ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ شرائع اور سنن کو وقتی اور قومی قرار دینے کے بعد مولانا یہ چاہتے تھے کہ اُس دین مطلق کو‘ جس کا تصور اوپر بیان ہوا ہے‘ لے لیا جائے اور اس کے ساتھ قرآنی و محمدی شرائع و سنن کے بجاے اُن شرائع وسنن کا جوڑ لگا لیا جائے جو ہم کو یورپ اور اشتراکی روس وغیرہ سے ملتے ہیں۔ ان کے نزدیک یورپ اور اشتراکی روس کے طریقوں میں اگر کوئی قصور ہے تو صرف یہ کہ ان کے ساتھ دین مطلق کا جوڑ لگا ہوا نہیں ہے …… صاف اور سیدھی زبان میں اگر اسے بیان کیا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ صرف چند مطلق مذہبی تصورات قرآن سے لے لیے جائیں۔اور قرآن ہی سے کیوں؟ وہ تو تمام مذاہب و ادیان میں ہیں ہی مشترک!--- رہی شریعت اور تہذیب و تمدن و معاشرت کی مخصوص شکل‘ تو اس معاملے میں قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ پیش کیا تھا وہ صرف عرب کی قوم کے لیے تھا‘ لہٰذا ہمیں آزادی ہے کہ اسے کلاً یا جزاً‘ اپنے لیے منسوخ ٹھیرا کر شریعتِ فرنگ اور سننِ روسیہ کو اختیار کرلیں۔
تخیل کی ان بے پایاں وسعتوں کو لیے ہوئے مولانا جب تاریخِ اسلام پر نگاہ ڈالتے ہیں تو انھیں خلفاے راشدین‘ بنوامیہ‘ بنوعباس‘ اکبر اور اورنگ زیب‘ سب ہی یکساں قابلِ قدر اور قابلِ تعریف نظر آتے ہیں‘ کیونکہ مذکورئہ بالا نظریات کو ایک نظامِ فکر کی شکل میں مرتب کر کے جو شخص بھی دنیا پر نگاہ ڈالے‘ اسے باطل تو کہیں نظر آہی نہیں سکتا۔ تمام مختلف چیزیں خواہ وہ بالکل ایک دوسرے کی ضد ہی کیوں نہ ہوں‘ اس کے تخیل کی فضاے مطلق میں حق کی حیثیت سے جگہ پاسکتی ہیں۔
اگر ہم حسنِ ظن سے کام لیں‘ توکہہ سکتے ہیںکہ مولانا مرحوم کے نظامِ فکر کے بیشتر اجزا ایسے تھے جو ان کا اصل عقیدہ و مسلک نہ تھے بلکہ انھوں نے یہ ایک جدید علم کلام محض اس لیے مرتب کیا تھا کہ ان کے نزدیک موجودہ زمانے میں دین کی دعوت انھی اصولوں پر پھیلائی جاسکتی تھی‘ لیکن اس حسنِ ظن کے باوجود ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ یہ فلسفہ و کلام قطعی غلط اور سراسر ضلالت ہے‘ اور اگر دین کی دعوت پھیلنے کی بس یہی ایک صورت رہ گئی ہے تو اس طرح اس کے پھیلنے سے نہ پھیلنا ہزار درجہ بہتر ہے۔ (’’مطبوعات‘‘ مولانا عبیداللّٰہ سندھی‘ تالیف پروفیسر محمد سرور‘ ترجمان القرآن‘ جلد۲۵‘ عدد ۱‘۲‘ ۳‘۴‘ رجب‘ شعبان‘ رمضان‘ شوال ۱۳۶۳ھ‘ جولائی‘ اگست‘ ستمبر‘اکتوبر۱۹۴۴ئ‘ص ۱۱۸-۱۱۹)