پاکستان کی تاریخ بہت سے عجوبوں کے تذکرے سے مالا مال ہے لیکن اس میں تازہ ترین اضافہ دو مہینوں میں تین وزراے اعظم کا دورِ حکمرانی ہے جسے جنرل پرویز مشرف کا ’’ہیٹ ٹرک‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔
۲۵ جون ۲۰۰۴ء کو ڈیڑھ سال سے وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالے رکھنے والے جناب ظفراللہ خان جمالی نے ان افواہوں کی تردید کی جو ان کی وزارت عظمیٰ سے رخصتی کے بارے میں چند ہفتے سے گردش کر رہی تھیں‘ اور پھر اچانک ایک دن بعد ہی اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کر کے ’‘میوزیکل چیرز‘‘ کے ایک کھیل کا آغاز فرمایا جس میں چودھری شجاعت حسین کو ایک قسم کے سیاسی حلالے کے طور پر وزیراعظم مقرر کیے جانے کا اعلان کیا گیا۔ چودھری صاحب ۵۷ دن وزیراعظم رہے اور اس اثنا میں جناب شوکت عزیز کا قومی اسمبلی میں انتخاب‘ قائد ایوان کی حیثیت سے تقرر اور پھر بالآخر ۲۸ اگست ۲۰۰۴ء کو وزیراعظم کی حیثیت سے حلف برداری واقع ہوئی۔ اس طرح ۲۶ جون کو شروع ہونے والے ڈرامے کا ڈراپ سین ہوا اور دنیا کی سیاسی تاریخ میں پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہوگیا کہ اس نے دو مہینوں میں تین وزراے اعظم کے اقتدار کا نظارہ دیکھ لیا۔ اس سب کے نتیجے میں پانچ درجن سے زیادہ وزرا پر مشتمل کابینہ ملک کا مقدر بن گئی۔ اس میں ابھی مسلسل اضافے متوقع ہے۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جنرل صاحب کے الفاظ میں اس کھیل کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے most smooth and democratic transition (سب سے زیادہ ہموار اور جمہوری انتقالِ اقتدار) کا نام دیا گیا۔ اور کولن پاول صاحب نے نہلے پہ دہلا مارتے ہوئے یہاں تک فرما دیا کہ اب پاکستان کو ایک بااختیار ور وزیراعظم (empowered prime minister ) میسرآگیا ہے!اور اسی ’’دھول دھپے‘‘ میں جنرل پرویز مشرف صاحب نے بھی‘ جو کھلے عام ۳۱دسمبر۲۰۰۴ء سے پہلے آرمی چیف کی وردی اتارنے کا وعدہ قوم اور دنیا سے کرچکے تھے‘ ایک قلابازی کھائی اور اس بارے میں جو ابہام وہ اور ان کے گماشتے چند مہینوں سے پیدا کر رہے تھے‘ اسے تقریباً کھلے طور پر وردی نہ اتارنے کے ارادے کے اظہار کی شکل دے دی۔
یہ تمام واقعات ایسے ہیں کہ ان پرکھل کر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے اور جو نیا سیاسی نقشہ مرتب ہو رہا ہے اس کے ادراک اور مضمرات کا احاطہ ایک اہم قومی ضرورت کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ اس وقت کچھ اوراہم موضوعات بھی ہمارے سامنے ہیں‘ جیسے: وزیرستان میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف فوج کُشی‘ بلوچستان کے مخدوش حالات‘ عراق کی ہولناک صورت حال‘ بسلان کا سانحہ‘ شیشان میں بے پایاں ظلم اور روس کے نئے عزائم‘ فلسطین اور کشمیر کے تازہ واقعات اور امریکا کا صدارتی معرکہ‘ جن میں سے ہر ایک مفصل تجزیے و تبصرے کا متقاضی ہے لیکن ان سب کو نظرانداز کرتے ہوئے ہم ملک میں تازہ ترین سیاسی مہم کاری (political engineering) اور اس کے مضمرات پر ملک و قوم کو متوجہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ؎
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو‘ زمانہ چال قیامت کی چل گیا
سیاسی بحث میں شخصیات کا تذکرہ فطری ہے اور ناگزیربھی۔ لیکن ہماری دل چسپی کا اصل مرکز و محور ملک و قوم کے مقاصد اور مفادات ہیں اور حقیقی ہدف پالیسی اور اداروں کی اصلاح اور استحکام ہے۔ جب کوئی شخص پبلک لائف میں قدم رکھتا ہے تو گویا وہ خود کو اجتماعی احتساب کے لیے بھی پیش کرتا ہے اور اسے اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ البتہ ہماری کوشش ہمیشہ یہ رہی ہے کہ قومی امور کو زیربحث لاتے ہوئے ذاتی معاملات اور معاشرتی تعلقات سے بالا ہوکر گفتگو کریں۔ جن محترم شخصیات کا ذکر اس بحث میں آیا ہے یا آئے گا‘ ان کے بارے میں ہماری بحث کا محور ان کی ذات نہیں بلکہ ان کے افکار‘ کردار اور اجتماعی رول ہے۔ ہمارا اصل مقصد پاکستان کا نظریاتی‘ سیاسی‘ ثقافتی اور معاشی استحکام ہے اور یہی وہ قدر مشترک ہے جو اس ملک کے تمام خیرخواہوں کو تنقیدواحتساب اور تعمیروترقی کے لیے سرگرم کرتی ہے۔
جس عمل کو ہم نے سیاسی مہم کاری کہا ہے اس کا سب سے اولین اظہار سابق وزیراعظم جناب ظفراللہ خان جمالی کی فارغ خطی اور اس کے اسباب اور طریق کار ہے۔ جمالی صاحب کو ایوان نے اپنا باقاعدہ قائد منتخب کیا تھا اور وہ کابینی حکومت(cabinet government )کے سربراہ تھے۔ اگر ان کی پالیسیوں پر عدمِ اعتماد تھا تو پارٹی اور پارلیمنٹ کو ان پر بحث کرنی چاہیے تھی‘ ان کا احتساب کیا جانا چاہیے تھا اور کھلے انداز میں معروف پارلیمانی ضابطوں کے مطابق ان کو ہٹایا جا سکتا تھا‘ مگر ایسا نہیں ہوا۔ صدرصاحب اپنے پارلیمانی چیمبر میں فوجی وردی میں پہلی بار تشریف لائے اور سرکاری پارٹی کے ارکان سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں ارکان اسمبلی نے ان کے سامنے شکایات کا دفتر کھول دیا ہے۔ جنرل صاحب نے کابینہ اور اسمبلی کی کارکردگی کے بارے میں اپنے تحفظات اور تنقیدات کا کھلا اظہار کیا۔ چند وزیروں کے بدعنوان ہونے کا ذکر بھی فرمایا۔ محلاتی سازشوں کے اس پس منظر میں خود جمالی صاحب کئی دن تک وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کیے جانے کی افواہوں کی تردید کرتے رہے مگر دوسرے ہی دن اچانک اپنے استعفے کا اعلان کر دیا بلکہ متبادل وزیراعظم کی نامزدگی بھی کردی۔ اس پورے عرصے میں صدر پرویز مشرف اور چودھری شجاعت حسین بھی ان پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتے رہے۔ البتہ سیاسی حلقوں میں یہ چہ مے گوئیاں ہوتی رہیں کہ وردی کے مسئلے پر صدرصاحب کی فرمایش کے مطابق دوٹوک بات نہ کہنے‘ عراق فوج بھیجنے کے معاملے میں عوامی جذبات کے احترام کا عندیہ دینے‘ حدود قوانین اور ناموس رسالتؐ کے قانون میں تبدیلی کے بارے میں تحفظات کے اظہار اور خود قومی سلامتی کونسل کے سلسلے میں کچھ دبے دبے احساسات کی بنا پر وہ صدر صاحب کا اعتماد کھو چکے ہیں اور ’باس‘ کی ناراضی مول لے چکے ہیں جس کی قیمت انھیں ادا کرنی پڑی۔
جمالی صاحب کو جس طرح اور جس عجلت میں فارغ کیا گیا‘ اس نے تمام پارلیمانی طور طریقوں‘ ضابطوں اور روایات کو پامال کر کے رکھ دیا ہے۔ ان کو ۱۸ ماہ وزیراعظم رکھنے کے بعد دو ماہ کے لیے بھی گوارا کرنا قبول نہیں کیا گیا اور ایک عبوری وزیراعظم لاکر ایک ایسے اپنے قابلِ اعتماد شخص کو وزیراعظم نامزد کیا جو خواہ کتنا ہی اچھا ٹیکنوکریٹ کیوں نہ ہو لیکن جس کی کوئی سیاسی بنیاد(base) نہ تھی‘ کوئی حلقہ انتخاب نہ تھا‘ پارٹی کے نظام میں اس کا کوئی مقام نہیں تھا‘ کوئی سیاسی تجربہ نہیں تھا‘ اسے نامزد وزیراعظم کا مقام دے کر اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے لیے دوحلقوں سے انتخاب لڑایا اور ایک کھلے کھلے انتخابی تماشے کے ذریعے منتخب بھی کرایا گیا۔ اٹک میں جو ہوا سو ہوا‘ مگر مٹھی‘ (تھرپارکر) میں تو ایسا انتخاب ہوا کہ اس علاقے کے جو روایتی لیڈر تھے ان سے بھی دوگنے اور تین گنے ووٹ کسی طلسماتی عمل کے ذریعے ہونے والے وزیراعظم کو حاصل ہوگئے۔ اس سلسلے میں پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کے نمایندوں کی رپورٹ چشم کشا ہے جو ملک کے انتخابی عمل کے افلاس اور الیکشن کمیشن کی جانب داری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انتخابی عمل کو اس طرح پامال کیا گیا کہ اس پر لوگوں کا اعتماد جو پہلے ہی متزلزل تھا‘ پارہ پارہ ہوگیا ہے اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کا جو برا بھلا عمل شروع ہوا تھا‘ اسے بڑا دھچکا لگا ہے۔
جمالی صاحب کی فارغ خطی کے اسباب آخر ایک نہ ایک دن تو کھل کر سامنے آئیں گے ہی‘ تاہم ان کے بیانات میں بین السطور کچھ چیزیں نمودار ہونے لگی ہیں۔ لیکن جس بھونڈے اور غیرپالیمانی انداز میں یہ سارا کام ہوا‘ اس نے جمہوریت کے فروغ اور ارتقا پر بڑے منفی اثرات ڈالے ہیں۔ یہ اقدام ملک کو بہت پیچھے لے گیا ہے۔
چودھری شجاعت حسین نے عبوری وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں بحیثیت مجموعی وقار کے ساتھ انجام دیں لیکن ان جیسے جہاںدیدہ اور بااثر سیاست دان کا اس پورے عمل کو آگے بڑھانے میں ایسا نمایاں کردار اور ایک انتخابی ڈھونگ کے ذریعے نئی قیادت کو آگے لانے میں ان کا حصہ‘ کسی صورت میں بھی ان کی نیک نامی کا باعث نہیں ہوا بلکہ ان کی شخصیت کو داغ دار کرنے کا ذریعہ بنا۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان کے اقتدار کے دو مہینوں میں اس سلسلے میں جو کچھ ہوا وہ جمہوریت کے چہرے کو بگاڑنے‘ دستور کے تقاضوں کو پامال اور سول نظام اور پارلیمانی اداروں کے استحکام کو مجروح کرنے کا باعث ہوا ہے‘ اور اس میں ان کے ذاتی رکھ رکھائو کے باوجود نتائج کے اعتبار سے ہر بے لاگ مبصر اور تجزیہ نگار کی نگاہ میں ان کا رول منفی اور تکلیف دہ رہا ہے۔
دوسرا بنیادی مسئلہ پارلیمانی نظام کے دروبست کی کمزوری بلکہ اس کے نظامِ کار کا درہم برہم ہوجانا ہے۔ یہ محض نظری یا ظاہری ہیئت کا مسئلہ نہیں۔ پارلیمانی نظام میں اقتدار کا سرچشمہ پارلیمنٹ ہوتی ہے جو عوام کی منتخب کردہ اور ان کے سامنے جواب دہ ہے۔ پارلیمانی نظام کا مرکزومحور وزیراعظم بحیثیت ایوان کے قائد اور ان کی کابینہ ہے جو ایوان کے سامنے انفرادی اور اجتماعی طور پر جواب دہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمانی جمہوریت میں پارٹی نظام کے مؤثر ہونے کے باوجود پارٹی کے صدر کے مقابلے میں پارلیمانی لیڈر کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ صرف انگلستان کے ویسٹ منسٹر (westminister) ماڈل ہی کا خاصہ نہیں۔ دنیا میں جہاں بھی پارلیمانی نظام ہے وہاں وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے اور کابینہ اس کی قیادت میں کام کرتی ہے۔ اگر وزیراعظم کی مرکزی حیثیت نہ ہو اور قوت کا مرکز پارلیمنٹ اور ان کا لیڈر نہیں کوئی اور ہو تو ایسے میں پارلیمانی نظام کام نہیں کرسکتا۔ بھارت میں یہ مسئلہ آزادی کے فوراً بعد رونما ہوا اور اچاریہ کرپلانی جو کانگرس کے صدر تھے اور پنڈت جواہر لعل نہرو جو پارلیمنٹ کے لیڈر اور وزراعظم تھے کے درمیان رونما ہوا‘ اور پارلیمانی نظام کے اصول و روایات کے مطابق وزیراعظم کو مرکزی حیثیت دی گئی جو وہاں پارلیمانی جمہوریت کے استحکام کا ذریعہ بنی۔ بھارت کے سیاسی تجزیہ نگار اور تامل ناڈو کے سابق گورنر ڈاکٹر جی سی الیگزنڈر لکھتے ہیں:
وزیراعظم کے اختیارات کو کم کرنے سے روکنے کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ اس کی پارٹی کے تمام ممبر اور حامی اور اتحادی پارٹیاں پارلیمانی طرزِ جمہوریت کے بنیادی اصول یعنی ’’وزیراعظم کی نظام میں بالادستی‘‘ کو ہمہ وقت اور کسی تحفظ کے بغیر قبول کریں۔ (’’پارٹی اور پی ایم ‘‘ دی ایشین افیر‘ لندن‘ ۱۶ ستمبر۲۰۰۴ئ‘ ص ۱۴)
پاکستان میں گذشتہ چند مہینوں میں جو کچھ ہوا ہے اس کا سب سے بڑا نقصان ملک کے پارلیمانی نظام کو ہوا ہے۔ وزیراعظم کی مرکزی حیثیت ختم ہوگئی ہے۔ قوت کا مرکز پارلیمنٹ‘ پارلیمانی پارٹی اور وزیراعظم اور کابینہ سے ہٹ کر صدر اور چیف آف اسٹاف کا عہدہ اور شخصیت بن گیا ہے۔ ایک غیر سیاسی شخص کو‘ خواہ وہ اپنے میدان میں کتنا ہی لائق کیوں نہ ہو‘ بطور وزیراعظم بنیادی طور پر صدر کی خواہش اور اشارے پر لانا اور اس اہم منصب پر فائز کر دینا ایک طرح سے پارلیمنٹ‘ پارلیمانی نظام اور خود وزارت عظمیٰ کے عہدے کی تنزلی (demotion) ہے۔ اب پالیسی سازی اور قوت کا سرچشمہ صدر‘ چیف آف اسٹاف ہے جو پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ نہیں اور نہ وہ پارلیمنٹ کی بحثوں میں شریک ہوکر پالیسی سازی اور قانون سازی میں کوئی مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ وزیراعظم محض ایک ملازم نہیں‘ اصل چیف ایگزیکٹوہے۔ اب صاف نظر آرہا ہے کہ جنرل مشرف ایک بار پھر کھلے کھلے چیف ایگزیکٹو بن گئے ہیں‘ تمام پالیسی فیصلے وہی کر رہے ہیں اور وہی ان کا اعلان بھی کر رہے ہیں‘ جب کہ وزیراعظم برملا اعلان کر رہے ہیں کہ وہ جنرل صاحب کی پالیسی کو لے کر چل رہے ہیں۔ اس طرح پارلیمانی نظام کے دستوری ڈھانچے پر صدارتی نظام مسلط (superimpose)کر دیا گیا ہے جس نے دستور کے ڈھانچے کا تیاپانچا کر دیا ہے اور دستور اور قانون کی حکمرانی عملاً ختم ہوگئی ہے۔ اس میں جو بھی‘ جس درجے میں بھی‘ جن وجوہ کی بنا پر بھی شریک ہوا ہے‘ وہ اس بگاڑ کا ذمہ دارہے۔ پوری قوم اس کے تلخ نتائج کو بھگت رہی ہے اور مزید بھگتے گی۔
تیسرا پہلو صدر‘ وزیراعظم‘ کابینہ اور پارلیمنٹ کے باہمی تعلق اور رول کا ہے۔ جناب شوکت عزیز صاحب جس طرح وزیراعظم بنے ہیں وہ معروف سیاسی عمل کے حلیہ بگاڑنے کے مترادف ہے۔ کیا پوری قومی اسمبلی میں ایک شخص بھی اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لائق نہیں تھا کہ باہر سے ایک فرد کو لانا پڑا۔ پھر انتخاب میں جو کچھ ہوا وہ جمہوریت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ اپوزیشن کے نمایندے کو پارلیمنٹ میں آنے اور انتخابی مہم چلانے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ایک طرف ایک شخص کو قائدایوان کے انتخاب کے لیے اہل قرار دیا جاتا ہے اور دوسری طرف اسے اجلاس میں شرکت کے لیے نہیں بلایا جاتا۔ شوکت عزیز صاحب نے کہا ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ جاوید ہاشمی صاحب کو شرکت کا موقع دیا جائے۔ پھر کس چیز نے اسپیکرکو روک دیا؟ محض ایک تقریر کا خوف؟ کیا یہی شفاف جمہوریت ہے؟
انتخاب کے بعد شوکت عزیز صاحب نے یہ عندیہ دیا کہ ان کی کابینہ صرف میرٹ کی بنیاد پر بنائی جائے گی اور اہل ترین افراد اس میں ہوں گے۔ لیکن جمالی صاحب کی کابینہ کے سارے ارکان ان کی کابینہ کی زینت بھی بن گئے اور صدر صاحب کا کابینہ کی کارکردگی پر اظہار خیال اور چند افراد کی کرپشن کی بات‘ سب پادرہوا ہوگئی۔ پھر سیاسی جوڑ توڑ اور مختلف گروپوں کے ساتھ ملانے کا عمل شروع ہوا اور ناراض عناصر کو راضی کرنے کے کرشمے سب کے سامنے آگئے۔ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ بنی ہے اور اگر کہیں محکموں کی تبدیلی ہوئی ہے تو وہ بھی براے نام۔ پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کے ایک رکن پر الزامات اور ان کے جوابی الزامات اخبارات کی زینت بن چکے ہیں ان کا صرف محکمہ تبدیل کر دیا گیا اور ایک دوسرے صاحب کو وہ محکمہ دے دیا گیا‘ اور لطف کی بات یہ ہے کہ دونوں ہی بزرگ نیب کے مطلوبہ افراد میں سے ہیں اور وزارت بھی ان کو داخلہ کی دی گئی ہے۔ یہ بھی سوالیہ نشان ہے کہ جمالی صاحب جو اب وزیراعظم نہیں رہے اور دو وزرا کا جن کے محکموں کو تبدیل کیا گیا ہے تعلق بلوچستان سے ہے۔ کابینہ کی تشکیل اور بندربانٹ نے میرٹ کے وعدے کی دھجیاں بکھیردی ہیں۔
مبصرین کے اس خدشے کو یہاں نوٹ کیا جانا بے محل نہیں کہ کابینہ کے بنانے میں وزیراعظم اور ان کے اعلان کردہ اصولوں کا رول نہ ہونے کے برابر ہے‘ اور کابینہ ان کو ایک طرح سے ورثے میں ملی ہے اور اضافے کسی اور کے اشارے پر ہوئے ہیں‘ حتیٰ کہ لندن والوں سے رابطے کے لیے صدر کے نمایندہ خاص نے ہی جاکر معاملات طے کیے ہیں۔ اس سب کا حاصل یہ ہے کہ کابینہ جس طرح بنی ہے وہ خود پارلیمانی نظام کے اصول و ضوابط سے مطابقت نہیں رکھتا اور خطرہ ہے کہ یہ پارلیمانی نظام کے صحت مند ارتقا پر ایک ضرب کاری ثابت ہوگی۔
وزیراعظم کی گرفت کابینہ پر ڈھیلی ہوگی۔ وفاداری کامرکز کہیں اور ہوگا اور اس طرح اتنی بڑی کابینہ ایک مربوط اور ہم آہنگ ٹیم کی طرح کام نہیں کر سکے گی۔ وزیراعظم پر ایک طرف اوپر والوں کا دبائو ہوگا اور دوسری طرف سے پارٹی کے بااثر گروہوں‘ افراد اور ان کے مطالبات کا۔ ہدایت اور رہنمائی کا منبع کہیں اور ہوگا اور پارلیمنٹ ملک کو اچھی حکمرانی فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ خارجہ پالیسی ہو یا داخلہ پالیسی‘ سب اس انتشار اور رسہ کشی کا شکار ہوں گے۔ خدا کرے یہ خدشات غلط ثابت ہوں لیکن جس طرح معاملات رونما ہو رہے ہیں ان سے صاف نظرآ رہا ہے کہ حکمرانی کا نظام یک مرکزیت سے محروم اور دوہری عمل داری (diarchy) بلکہ ایک نئی قسم کی سہ نکاتی تشکیل (troika) کی طرف جا رہا ہے جسے کسی پہلو سے بھی اچھا شگون قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ٹیکنوکریٹ وزیراعظم کے لیے بھی بیک وقت کئی خدائوں کی بندگی کوئی اچھا نتیجہ نہیں نکال سکتی۔
چوتھا پہلو نئے سیاسی کلچر کا ہے جو بالکل نیا تو نہیں لیکن وہ ان خرابیوں کو مستحکم اور دائمی کرتا جا رہا ہے جو ماضی میں بگاڑ اور تباہی کا سبب رہی ہیں اور جن کی موجودگی میں صحت مند جمہوری نظام اور انصاف‘ حق اور میرٹ پر مبنی اور کرپشن سے پاک اجتماعی زندگی کا وجود ناممکن ہے۔ جنرل پرویز مشرف صاحب نے تو تبدیلی کے اس عمل پر نہ صرف اطمینان کا اظہار کیا ہے بلکہ اسے مثبت قرار دیا ہے۔ ان کا ارشاد ہے: ’’میں ملک میں ایک اچھی تبدیلی دیکھ رہا ہوں اور ایک نئے سیاسی کلچر کا آغاز ہو رہا ہے‘‘۔
یہ نیا سیاسی کلچر کیا ہے؟ وہی جاگیردار طبقے کی بالادستی‘ وفاداریوں کی چشم زدن میں تبدیلی کا وہی کھیل جو پاکستان کی تاریخ میں مسلسل کھیلا جاتا رہا ہے: وزیراعظم ناظم الدین (جو مسلم لیگ کے صدر بھی تھے) کے ارکان پارلیمنٹ کا ان کے اپنے کیمپ سے نکل کر غلام محمد اور محمدعلی بوگرہ سے جا ملنا‘ ری پبلکن پارٹی کے پرچم تلے مسلم لیگیوں کے غول کے غول کا ڈاکٹر خان اورگورمانی کی طرف منتقل ہو جانا‘ کونسل اور کنونشن لیگ کے ڈرامے--- جو افراد آج شوکت عزیز صاحب کے دست راست ہیں اور جنرل پرویز مشرف کی وردی کے گن گارہے ہیں‘ کل وہی جنرل ایوب کی قصیدہ خوانی کر رہے تھے‘ جنرل یحییٰ کے ہاتھ مضبوط کر رہے تھے‘ جنرل ضیاء الحق کی کرسی مضبوط کر رہے تھے‘ نواز شریف صاحب پر جان چھڑک رہے تھے‘ بے نظیر کی وفاداریوں کے حلف اٹھا رہے تھے‘ ظفراللہ جمالی کے آگے پیچھے پھر رہے تھے۔ ان کے لیے سیاسی قبلہ بدلنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ خوشامد اور چاپلوسی ان کی فطرت اور چڑھتے سورج کی پوجا ان کا مستقل دین ہے۔ وزارتیں اور مفادات ان کا اصل مطلوب و مقصود ہیں۔ ان کی ’’جمہوریت پسندی‘‘ ان کو فوجی قیادت کو اقتدار کی دعوت دینے اور دستور اور قانون کو بالاے طاق رکھنے سے باز نہیں رکھتی‘ اور یہ صدارت اور فوج کی سربراہی کو رشتہ ازدواج میں منسلک کرنے میں نہ صرف یہ کہ کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے بلکہ اس میں ان کو اپنا اور جمہوریت کا مفاد نظرآنے لگتا ہے۔ ہوا کے رخ کے ساتھ بدلنا ان کی نگاہ میں ترقی کی علامت ہے۔ ملک اور اس کے اداروں پر چاہے کچھ بھی گزرے!
جنرل پرویز مشرف اصول پرستی اور سیاست میں گندگی سے نجات کے دعوے کے ساتھ برسرِاقتدار آئے تھے مگر وہ ایک ایک کر کے ہر وہ کام کر رہے ہیں جو بدنامِ زمانہ سیاست دان اور اقتدار کے بھوکے بیوروکریٹس اور جرنیل کرتے رہے ہیں۔ حلف کی خلاف ورزی‘وعدوں کونظرانداز کرنا‘ اپنی ذات کو ریاست کے مترادف بنالینا‘ پارٹیاں چھوڑنے والوں کو سینے سے لگانا‘ وزارتوں کے لیے بلیک میل ہونا اور ہر طالع آزما کو ایک ٹکڑا دے کر اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے میں کوئی باک محسوس نہ کرنا--- کیا یہی وہ مثبت تبدیلی ہے جس کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے اور اسی کا نام نیا سیاسی کلچر ہے؟ پاکستان بلاشبہہ بہت سے بیرونی خطرات سے دوچار ہے‘ لیکن اس کی سلامتی اور ترقی کو سب سے بڑا خطرہ گھر کے ان ہی لوگوں سے ہے۔ مفاد اور قوت کی پرستش کا یہی وہ کلچر ہے جس نے جمہوریت کو پراگندا کردیا ہے‘ معاشرہ فساد کا شکار ہے‘ عوام مصائب میں مبتلا ہیں اوراصحاب اقتدار دادعیش دے رہے ہیں۔ ایسے دوستوں کی موجودگی میں دشمنوں سے کیا خطرہ۔ حالیہ تبدیلی نے اس کلچر کے چہرے سے ہر پردہ اٹھا دیا ہے اور اس ڈرامے کے تمام کردار بے نقاب ہوگئے ہیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جب ایک قوم اس راستے پر چل پڑتی ہے تو پھر اسے تباہی سے اگر کوئی چیز بچاسکتی ہے تو وہ ایسا انقلاب ہے جو پورے نظام کو زیروزبر کر دیتا ہے--- کاش اس سے پہلے قوم کی آنکھیں کھل جائیں اور گاڑی کو پٹڑی پر لے آیا جائے۔
موجودہ سیاسی منظر اور پس منظر کا سب سے اہم اور سب سے تشویش ناک پہلو ملک کے سیاسی نظام میں فوج کے سیاسی کردار کا ہے اور ان دو مہینوں کی اکھاڑ پچھاڑ کا ایک مرکزی پہلو اسی مسئلے سے متعلق ہے۔ اندر اندر جو کھچڑی پکتی رہی ہے اس کا اصل ہدف فوج کی قیادت کو ایک دستوری اور سیاسی کردار عطا کرنا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی تاریخ کوئی اچھی تصویرپیش نہیں کرتی۔ اصولی طور پر فوج کا کام ملک کا دفاع ہے اور فوج کو مکمل طور پر سیاسی قیادت کے تابع ہونا چاہیے۔ یہ جمہوریت کی اصل روح ہے اور کیسی ہی ملمع سازی کی جائے‘ فوج کو دفاع سے ہٹا کر کوئی سیاسی کردار دینا اصولی اور عملی ہر دو پہلوئوں سے ناقابلِ تصور اور عملی اعتبار سے ملک کی سیاست اور دفاع دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔
قائداعظمؒ نے ۱۴ جون ۱۹۴۸ء کو کوئٹہ اسٹاف کالج کے فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ فوج سول نظام کے تابع اور اس کے احکام اور ہدایات کی پابند ہے اور یہی خود ان کے اس حلف کا تقاضا ہے جو وہ فوج میں شمولیت کے وقت اٹھاتے ہیں۔ دستورِ پاکستان میں یہی بات اعلیٰ ترین قانون کی حیثیت سے رقم کر دی گئی ہے۔ دستور کی دفعات۲۴۴ اور ۲۴۵ بالکل واضح ہیں۔ دفعہ ۲۴۵ کہتی ہے:
مسلح افواج‘ وفاقی حکومت کی ہدایات کے تحت‘ بیرونی جارحیت یا جنگ کے خطرے کے خلاف پاکستان کا دفاع کریں گی اور قانون کے تابع شہری حکام کی امداد میں‘ جب ایسا کرنے کے لیے طلب کی جائیں‘ کام کریں گی۔
اور دفعہ ۲۴۴ کے تحت حلف ان کے کردار اور ان حدود کی وضاحت کر دیتا ہے جن میں رہ کر انھیں اپنے فرائض انجام دینے ہیں:
میں ……… صدق دل سے حلف اٹھاتا ہوں کہ میں خلوصِ نیت سے پاکستان کا حامی اوروفادار رہوں گا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی حمایت کروں گا جو عوام کی خواہشات کا مظہر ہے‘ اور یہ کہ میں اپنے آپ کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں مشغول نہیں کروں گا‘ اور یہ کہ میں مقتضیات قانون کے مطابق اور اس کے تحت پاکستان کی بّری فوج (یا بحری یا فضائی فوج) میں پاکستان کی خدمت ایمان داری اور وفاداری کے ساتھ انجام دوں گا۔
ہماری عدالتوں نے اس حقیقت کو نظرانداز کر کے ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت فوج کی بار بار سیاسی مداخلت کو جو جواز فراہم کیا ہے اس نے سیاسی نظام کا حلیہ بگاڑ دیا ہے‘ اور ہر طالع آزما کو سیاسی نظام کی بساط لپیٹنے اور ’’قومی مفاد‘‘ کے نام پر فوجی اقتدار قائم کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ سیاسی قیادتوں اور خود عوام نے بھی اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کیا اور آج عالم یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف صاحب ایک نیا فلسفہ وضع فرما رہے ہیں کہ گویا فوج کو سیاست میں مداخلت کا ایک دائمی اختیار حاصل ہے۔ قائداعظم کے اس ارشاد کی ضد میں اور بالکل ان کے مدمقابل آتے ہوئے کوئٹہ ہی میں فوج کے گیریزن کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:
ہمیں اپنے ملک کا محض دفاع ہی نہیں کرنا ہے بلکہ ایک نئے وژن کے ساتھ اسے ترقی بھی دینا ہے‘ اور کوئی دوسرا ہمارے لیے اس کو نہیں کرے گا۔
جنرل صاحب کے قومی سلامتی کونسل کے تصور اور دستور کی سترھویں ترمیم کے موقع پر ان کے‘ سرکاری جماعت کی پوری قیادت کے‘ بلکہ ساری پارلیمنٹ کے عہدوپیمان کے باوجود ۳۱دسمبر ۲۰۰۴ء کے بعد بھی چیف آف اسٹاف کے عہدے سے چمٹے رہنے کے عزائم کے اظہار کی اصل حقیقت کو فوج کے اس تبدیل شدہ سیاسی کردار کے پس منظر میں ٹھیک ٹھیک سمجھا جا سکتا ہے۔ مسئلہ بالکل کھل کر سامنے آگیا ہے اور اب اسے ہمیشہ کے لیے طے ہوجانا چاہیے۔ یا فوج ایک دفاعی قوت ہوگی اور اس شکل میں اسے سیاسی قیادت کے تابع ہونا ہوگا اور سیاسی نظام کے بنانے اور چلانے میں اس کا کوئی کردار نہیں ہوسکتا۔ اور اگر فوجی قیادت کا سیاسی نظام کو بنانے اور چلانے میں کوئی کردار ہوگا تو پھر فوج ایک سیاسی پارٹی اور قوت بن جاتی ہے اور وہ پورے ملک اور پوری قوم کی امیدوں کا مرکز اور تائید کا محور نہیں رہ سکتی۔ پھر اس پر بھی اسی طرح تنقید ہوگی جس طرح تمام سیاسی قوتوں پر ہوتی ہے۔ پھر وہ بھی ایک پارٹی اور ایک گروہ کی نمایندہ بن جاتی ہے‘ پھر وہ بھی حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف میں سے ایک کی حلیف بنتی ہے‘ پھر وہ بھی سیاسی طورپر متنازع بن جاتی ہے۔ پھر وہ بھی مفادات کی جنگ میں ایک مخصوص حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔ ایسی فوج کبھی بھی پوری قوم کی تائید کی دعوے دار نہیں ہوسکتی۔ ایسی فوج کی دفاعی صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اس میں بھی اسی طرح پارٹی بازی کا دروازہ کھل جاتا ہے اور جنبہ داری کا مرض لگ جاتا ہے۔ ایسی فوج کی پیشہ ورانہ حیثیت بری طرح متاثر ہوتی ہے اور فوج کو جس ذہنی افتاد ‘جس ڈسپلن اور جس غیر جانب داری کی ضرورت ہوتی ہے وہ اس سے محروم ہوجاتی ہے۔
سب سے بڑھ کر دستوری حکومت اور خصوصیت سے جمہوری نظام میں فوج کے ایسے کردار کا تصور ممکن نہیں۔ آج ترکی کے یورپی یونین میں داخلے کے سلسلے میں جو سب سے اہم بحث ہو رہی ہے ان کا تعلق فوج کے سیاسی کردار ہی سے ہے اور اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ فوج کو غیر سیاسی کیے بغیر ترکی کے جمہوری کردار کو دنیا تسلیم نہیں کرسکتی۔ ہمارا بھی یہی مسئلہ ہے کہ فوج کی قیادت ایک سیاسی کردار بن گئی ہے اور جب تک اس باب کو واضح طور پر بند نہیں کیا جاتا‘ ملک میں سیاسی استحکام محال ہے اور ایک جمہوری ملک کی حیثیت سے نہ ملک کے عوام اس پر مطمئن ہوں گے اور نہ دنیا اسے قبول کرے گی۔
اگر ہم اپنی ۵۷ سالہ تاریخ کا جائزہ لیں تو اس میں ۲۳وزیراعظم آئے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کا اوسط اقتدار اڑھائی سال رہا ہے بلکہ صحیح تر الفاظ میں اگر فوجی اقتدار کے زمانے کو نکال دیا جائے تو یہ اوسط کم ہوکر سوا سال ہی رہ جاتا ہے۔اس کے برعکس فوج کے چیف آف اسٹاف کی صدارت کا زمانہ ۳۰ سال ہے جس میں ۴ فوجی سربراہ صدر رہے ہیں۔ گویا ان کا اوسط اقتدار ساڑھے سات سال تھا۔ ان ۵۷ برسوں میں فوج کے ۱۱چیف آف اسٹاف رہے ہیں اور ان کی چیف آف اسٹاف ہونے کی اوسط مدت قواعد کے مطابق تین سال کے بجاے ۵سال سے زیادہ آتی ہے۔ فوجی قیادت ملک کو نہ سیاسی استحکام دے سکی‘ نہ معاشی ترقی میں کوئی غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا اور دفاعی اعتبار سے بھی ۱۹۶۵ء کے معرکے کے بعد فوج اعلیٰ دفاعی صلاحیت کا ثبوت نہیں دے سکی۔ فوج کو ایک مؤثر دفاعی قوت بنانے کا ایک ہی راستہ ہے اور یہ کہ وہ خالص پروفیشنل فوج ہو‘ اس کی ہر جائز ضرورت پوری ہو‘ لیکن سیاست میں اس کی دخل اندازی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں عوام‘ پارلیمنٹ‘ سیاسی جماعتیں اور عدالت ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور خود فوج کی قیادت کو بھی یکسو ہونا پڑے گا کہ وہ بیک وقت دوکشتیوں میں سفرنہیں کر سکتی۔
ان حالات میں سترھویں ترمیم کے ذریعے یہ طے کیا گیا کہ دستوری انحراف کا یہ دروازہ ۳۱دسمبر ۲۰۰۴ء کو بند ہوجانا چاہیے اور اس کے بعد فوج اور اس کا سربراہ صرف دفاعی ضرورتوں تک اپنی صلاحیتوں کو وقف رکھے گا اور سیاسی قیادت سیاسی طریقے سے عوام کے نمایندوں اور پارلیمنٹ اور دستور کے تحت اپنا کردار ادا کرے گی۔ اس عہد سے نکلنے کی جوکوشش کی جا رہی ہے وہ قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی‘ ہر اعتبار سے مجرمانہ اقدام ہے جسے کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ اگر ہم نے اب بھی اپنے ماضی سے کوئی سبق نہ سیکھا تو اس ملک میں جمہوریت‘ قانون کی بالادستی اور عوام کے حق حکمرانی کا مستقبل مخدوش ہے اور ملک کا دفاع بھی بری طرح متاثر ہوگا۔
اس سلسلے میں بظاہر جو دلائل دیے جا رہے ہیں وہ نہایت بودے بلکہ لچر ہیں۔ بنیادی طور پر تین باتیں کہی گئی ہیں جن کا تجزیہ ضروری ہے۔
m دستور کے تحت دونوں عُہدوں کا ساتھ :پہلی بات دستور کے حوالے سے کہی جارہی ہے کہ دونوں عہدے ساتھ ساتھ رکھے جاسکتے ہیں۔ اس سے زیادہ لغو دعویٰ مشکل ہی سے کیا جاسکتا ہے۔ بلاشبہہ ہمارا دستور باربار فوجی قیادتوں کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنا ہے اور اس سے اسے بری طرح نقصان ہوا ہے لیکن ہر دستور کا ایک ڈھانچا (structure) ہوتا ہے اور اس ڈھانچے میں فوج کے سیاسی کردار کی کوئی گنجایش نہیں۔ اسی لیے جنرل ضیاء الحق نے اور پھر جنرل پرویز مشرف نے اپنے اپنے دور میں اپنے لیے دستور میں خصوصی جگہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جو عارضی تھی اور اس کی حیثیت دستور سے انحراف کی تھی جسے بہ حالت مجبوری وقتی طور پر اور ایک متعین مدت کے لیے گوارا کیا گیا جس کے بعد اسے لازماً ختم ہوجانا تھا۔ سترھویں ترمیم میں آرٹیکل ۴۱ کے تحت ترمیم کا جواز ہی یہ تھا کہ چیف آف اسٹاف کے عہدے کو صدارت کے ساتھ جمع کرنے کو ایک تاریخ کا پابند کر دیا جائے۔ اسے دستور کی اصطلاح میں Musharruf-specific بھی کہا جاسکتا ہے اور عمومی طور پر ہر چیف آف اسٹاف پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
اگر یہ مقصد نہیں تھا تو پھر اس ترمیم کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اب جو قانونی موشگافیاں کی جارہی ہیں وہ بدنیتی اور عہدفراموشی پر مبنی ہیں اور اس کے سوا ان کو کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ دفعہ d(۱)۶۳میں سروس آف پاکستان کا تصور واضح ہے اور دفعہ ۲۶۰ میں مزید وضاحت موجود ہے کہ فوجی سروس اس میں شامل ہے۔ اس سے ہٹ کر اس کی کوئی تعبیر دستوری تعبیر کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔ notwithstanding کا اطلاق پوری دفعہ ۴۱ پر ہوتا ہے۔ اس کے صرف کسی ایک حصے تک اس کو محدود نہیں رکھاجاسکتا اور قانون کے ذریعے ترمیم کے معنی یہ ہیں کہ چیف آف اسٹاف کا تعلق ’’آرمڈ سروسز‘‘ سے نہیں رہے گا‘ نیز یہ کسی ایک فرد تک محدود نہیں ہوسکتا بلکہ اس عہدے کو سروس سے باہرکرنا پڑے گا۔ لیکن کیا اس کا تصور ممکن ہے کہ چیف آف اسٹاف ’’فوجی سروس‘‘ کا حصہ نہ رہے اور پھر چیف آف اسٹاف بھی ہو--- یہ ایک مضحکہ خیز اور سیاسی نظام اور فوجی انتظام دونوں کو تہ و بالا کرنے والا تصور ہی ہو سکتا ہے۔ دستور و قانون میں اس کی کوئی گنجایش نہیں۔
m ایم ایم اے سے معاہدہ: دوسری دلیل سیاسی ہے کہ ایم ایم اے سے جو معاہدہ کیا گیا تھا وہ مؤثر نہیں رہا۔ ان کے بقول ایم ایم اے نے اس کی پابندی نہیں کی‘ اس لیے صدر صاحب بھی اس کی خلاف ورزی کرسکتے ہیں۔ یہ دعویٰ بھی غلط اور بددیانتی پر مبنی ہے۔ صدر صاحب اور ایم ایم اے میں کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ معاہدہ حکمران پارٹی اور ایم ایم اے میں ہوا جس کے نتیجے میں دستور میں ترمیم ہوئی اور وہ ایک دستوری تقاضا بن گیا جس کو کھلے طور پر صدر صاحب نے قبول کیا اور قوم سے عہد کیا کہ وہ اس کا احترام کریں گے۔ اب اصل معاملہ دستور کی اطاعت کا ہے‘ کسی خاص معاہدے کا نہیں۔
رہا ایم ایم اے کا معاملہ تو اس نے معاہدے کی مکمل پابندی کی ہے اور آج بھی اس پر قائم ہے۔ اس نے معاہدے کے تحت سترھویں ترمیم کے حق میں ووٹ دیا اور صدر‘ وزیراعظم اور حکمران پارٹی نے اس کا برملا اعتراف کیا۔ اس معاہدے کے تحت ایم ایم اے صدر کو اعتماد کا ووٹ دینے کی پابند نہیں تھی بلکہ معاہدے میں صاف لفظوں میں لکھا ہوا تھا کہ:
طے پایا کہ صدرمملکت کی پانچ سالہ جاری ٹرم کے تسلسل اور ان کے اس عہدے پر فائز رہنے کے لیے آئینی ترمیم کی حمایت کی جائے گی۔ مزیدبرآں سینیٹ‘ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں ایم ایم اے کے ممبران صدر کو اعتماد کا ووٹ دینے کے پابند نہ ہوں گے۔ ایم ایم اے کے ممبران صدر مملکت کے خلاف ووٹ نہیں دیں گے اور نہ کسی مخالفانہ فعالیت کا مظاہرہ کریں گے‘ نیز ووٹنگ کے عمل کے دوران ایم ایم اے کے تمام ممبران پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ایوانوں میں موجود رہیں گے۔
رہا مسئلہ قومی سلامتی کونسل کا‘ تو ایم ایم اے نے اس دفعہ کو دستور سے خارج کرانے کا ہدف حاصل کیا۔ جہاں تک عام قانون کے تحت ایسے ادارے کے قیام کا تعلق ہے‘ ایم ایم اے نے تعاون کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔ البتہ وہ مذاکرات کے لیے تیار تھی لیکن حکومت نے اس قانون سازی میں ایم ایم اے سے کسی بات چیت کی زحمت تک نہ کی۔ پھر بھی ایم ایم اے نے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں متعلقہ قانون میں اپنی ترامیم داخل کرائیں جو اس کے اس عندیہ کی علامت ہے کہ وہ اس معاملے میں کوئی درمیانی راہ نکالنا چاہتی تھی جسے حکومت نے درخوراعتنا نہ سمجھا۔ لہٰذاایم ایم اے کی طرف سے کوئی وعدہ خلافی نہیں ہوئی۔
آخری مسئلہ وردی تھا۔ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔ میں نے پاکستان اور بیرونی دنیا میں ہمیشہ یہ کہا کہ صدر کا وردی میں ہونا جمہوریت کا حصہ نہیں ہے۔ یہ غیرجمہوری بات ہے لیکن پاکستان کے حالات کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ میں کہتا رہا ہوں کہ مجھے اس کا احساس ہے کہ یہ جمہوری نہیں ہے اور مجھے کسی مرحلے پر یہ وردی اتارنا ہوگی۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے بہت سے خیرخواہ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں اپنی وردی نہ اتاروں کیونکہ وہ پاکستان کی سلامتی کے لیے فکرمند ہیں‘ میں بھی پاکستان کی سلامتی کے لیے فکرمند ہوں‘ مجھے پاکستان کی ترقی کی بھی فکر ہے۔
میں نے حالات پر گہرا غوروخوض کیا ہے اور ان کا جائزہ لیا ہے۔ میں نے اپنے آپ کو ایک طرف رکھ کر اس کا جائزہ معروضی طور پر لیا ہے‘ میں نے پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی سوچا اور سیاسی ہم آہنگی کے لیے بھی۔
میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس مسئلے پر صحیح وقت پر فیصلہ کرنا بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ چنانچہ میں نے محسوس کیا کہ فیصلے کا یہی وقت ہے‘ اور اس لمحے فیصلہ کرنا ضروری ہے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں دسمبر۲۰۰۴ء تک اپنی وردی اتار دوں گا اور چیف آف آرمی اسٹاف کے منصب سے دستبردار ہوجائوں گا۔ اس عرصے میں‘ میں خود ہی قطعی تاریخ کا فیصلہ کروں گا۔
آخر میں‘ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے یہ فیصلہ کرنے میں میری رہنمائی کی۔ میں اس موقع پر پاکستانی قوم کو مبارک باد دیتا ہوں اور میں اپنی طرف سے قوم کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں پاکستان کی ترقی اور خودمختاری پر کوئی آنچ نہ آنے دوں گا۔
اللہ ہم سب کی حفاظت کرے۔
۱- بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کرلیا گیا۔
۲- یہ طے ہوگیا کہ ایک عہدہ‘ یعنی چیف آف اسٹاف کا عہدہ چھوڑ دیا جائے گا۔
۳- اور یہ کام ۳۱ دسمبر تک ہوجائے گا۔
صرف ایک اختیار باقی تھا اور وہ یہ کہ ۳۱ دسمبر سے پہلے اگر اعلان کرنا چاہیں تو جنرل صاحب کرسکتے ہیں۔ یہ کوئی مشروط فیصلہ نہیں تھا کہ جب چاہیں اسے تبدیل کر دیں۔
حکمرانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ عوام کے اعتماد کا احترام کریں اور اپنے وعدوں کو پورا کریں۔
اگر افراد کو یہ حق دے دیا جائے کہ جب چاہیں اپنے عہدوپیمان سے پھر جائیں تو پھر زندگی کا نظام کیسے چل سکتا ہے اور ایسے قائدین کے قول و فعل پر کون بھروسا کر سکتا ہے۔
دستور نے صدر کو اختیارات دیے ہیں اور اس کی قوت کا سرچشمہ دستور اور قانون ہے‘ بندوق کی نالی نہیں۔ اگر استحکام کے لیے وردی کی ضرورت ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ دستور نے صدر کو جو اختیارات دیے ہیں اور ان میں وافر اضافہ آٹھویں ترمیم اور سترھویں ترمیم کے ذریعے کیا جا چکا ہے‘ وہ کافی نہیں ہیں۔ اس طرح پارلیمنٹ جو اصل خودمختار (sovereign) ادارہ ہے وہ اقتدار کا سرچشمہ نہیں بلکہ اقتدار کا اصل سرچشمہ چیف آف اسٹاف کا عہدہ اور فوج ہے۔ یہ پورے سیاسی نظام اور دستوری انتظام کی نفی کے مترادف ہے۔ پہلے ہی پارلیمنٹ اور وزیراعظم دونوں کی تنزلی اور سبکی ہوچکی ہے اور اختیارات کا خاصا ارتکاز صدر کی ذات میں ہوگیا ہے۔ برا یا بھلا یہ انتظام پھر بھی دیکھنے میں دستوری لگتا ہے۔ لیکن یہ دعویٰ کہ سیاسی اور معاشی استحکام اور ترقی کے لیے صدر کا عہدہ اور اختیارات کافی نہیں اور اس کے لیے چیف آف اسٹاف ہونا ضروری ہے‘ یہ پورے سیاسی انتظام کی نفی کرتا ہے اور خود جنرل صاحب کے پانچ سالہ ’’کارناموں‘‘ پر خط تنسیخ پھیر دیتا ہے۔
سیاست دانوں کا وردی جاری رکھنے کی بات کرنا اور پنجاب کی اسمبلی کی شرمناک قرارداد سیاسی خودکُشی کے مترادف ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص اپنی آزادی کو خود ہی فروخت کر دے اور اپنے کو غلام بنانے پر آمادگی کا اظہار کرے لیکن قانون کی دنیا میں یہی ایک چیز ہے جس کے بارے میں مکمل اتفاق راے ہے کہ کوئی شخص اپنی آزاد مرضی سے بھی خود اپنے کو فروخت نہیں کرسکتا۔
سیاسی اور دفاعی مضمرات کے ساتھ ان حالات کے کچھ بڑے اہم بین الاقوامی اثرات بھی ہیں۔ اگر کسی ملک کی قیادت عہدوپیمان کے بارے میں ایسی غیر ذمہ دارانہ روش اختیار کرسکتی ہے تو اس کے عالمی عہدوپیمان کی کیا حیثیت ہوگی۔ پاکستان نے جمہوریت کے احیا کے سلسلے میں پوری دنیا سے ایک عہد کیا ہے۔دولت مشترکہ میں ہماری واپسی اور یورپی یونین کا پاکستان کو جمہوری ملک تصور کرنا اس شرط سے مشروط تھا کہ صدر چیف آف اسٹاف کا عہدہ چھوڑدیں گے اور دستوری عمل کو مکمل طور پر بروے کار لانے کا موقع دیا جائے گا۔ امریکا کے مفادات جو کچھ بھی ہوں اور ہمیں علم ہے کہ امریکا کی جمہوریت سے دل چسپی کسی دوغلے پن اور مفاد پرستی پر مبنی ہے‘لیکن عالمی برادری میں ہمارا وقار اسی وقت بحال ہو سکتا ہے جب ہم جمہوری سفر کو جاری رکھیں اور اپنے تمام عہدوپیمان پورے کریں ورنہ ہماری اس کمزوری کا اصل فائدہ امریکا کو ہوگا جو پہلے ہی ہمیں بلیک میل کر کے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے اور صدر جنرل مشرف کو اپنا حلیف بنا کر پاکستان کو اپنی چاکری پر مجبور کر رہا ہے۔ جنرل صاحب نے بڑے طمطراق سے دعویٰ کیا ہے کہ میں کسی کے دبائو میں نہیں آتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ۱۱/۹ کے بعد جس طرح انھوں نے امریکا کے آگے گھٹنے ٹیکے ہیں اور مسلسل اس کے احکامات کی اطاعت کررہے ہیں‘ اس نے پاکستان کی آزادی‘ خودمختاری اور سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ بوب وڈورڈ کی کتاب Bush at War کا مطالعہ کرلیجیے۔ کانڈولیزا رائس کی امریکی کانگرس کے سامنے گواہی کو دیکھ لیجیے‘ صاف کہتی ہے ہم نے جنرل مشرف کے لیے گاجر اور چھڑی (carrot and stick) کی پالیسی اختیار کی۔ گاجر کم اور چھڑی زیادہ۔ بوب وڈورڈ لکھتا ہے کہ جنرل محمود احمد اور جنرل پرویز مشرف دونوں نے بلاچون و چرا امریکا کے ساتوں مطالبات اس طرح تسلیم کرلیے کہ خود جنرل پاول کو تعجب ہوا اور امریکا کی قیادت اس پسپائی اور سپردگی پر حیرت زدہ ہوگئی۔
Bush at Warکے صفحہ ۴۷ پر آرمٹیج کی جنرل محمود سے گفتگو بلکہ ڈانٹ ڈپٹ کا مطالعہ کرلیجیے جس سے ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ پھر صفحات ۵۸-۵۹کے مطالبات اور ان پرآمنا وصدَّقنا کی داستان پڑھ لیجیے اور خود امریکی قیادت کے تعجب کا حال پڑھ کر پسینہ پسینہ ہوجایئے۔ بہادری کے سارے دعوے اپنے کمزور عوام ہی کے مقابلے میں ہیں۔ کیا پاکستان‘ ایران‘شمالی کوریا اور لبنان سے بھی کمزور ہے--- لیکن ہماری قیادت نے ہمارے ملکی وقار کو جو چرکے لگائے ہیں وہ اب تاریخ کا حصہ اور ہماری غیرت اور آزادی پر بدنما داغ ہیں۔ سات مطالبات کی بات اب امریکا کے ۱۱/۹ کے سرکاری کمیشن کی رپورٹ میں بھی آگئی ہے۔ (دیکھیے صفحہ ۳۳۱)
ہم یہ ساری باتیں دل پر پتھر رکھ کر رقم کر رہے ہیں لیکن حقائق حقائق ہیں اور ان سے آنکھیں بند کر کے ہم حالات کی اصلاح کی طرف کوئی پیش رفت نہیں کرسکتے۔
جناب شوکت عزیز صاحب اب ملک کے وزیراعظم ہیں اور انھوں نے دستور کی حفاظت کا حلف لیا ہے۔ پارلیمنٹ کے سارے ارکان اس حلف کے پابند ہیں۔ شوکت عزیز صاحب نے ملک میں قومی یک جہتی اور اتفاق راے پیدا کرنے اور اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی بات بھی کی ہے۔ اب ان کا اور ان کی پارٹی کا امتحان ہے۔ وہ اس ملک کو دستور کے مطابق اور پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کر کے چلانا چاہتے ہیں یا ملک کے پارلیمانی نظام کو تہ وبالا کرنے‘ اس پر ’’خاکی صدارتی نظام‘‘ مسلط کرنے کے عمل میں آلہ کار بنتے ہیں ۔ ہمیں کوئی شبہہ نہیں کہ عوام کی مرضی ان شاء اللہ بالآخر بالاتر قوت ثابت ہوگی اور انا ولاغیری جسے آج کی سیاسی اصطلاح میں "I Syndrom" بھی کہا جا سکتا ہے‘ کی تاریک رات جلد ختم ہوگی۔ اسے آخرکار ختم ہونا ہے!
البتہ سوال یہ ہے کہ اس تاریخی جدوجہد میں کون کس کیمپ میں ہے اور کون جمہوریت‘ دستوریت اور قانون کی بالادستی کے تاروپود بکھیرنے اور ملک کی سلامتی کو دائو پر لگانے میں معاون رہا ہے‘ اور کون دستور کے دفاع‘ قانون کی حکمرانی کے قیام‘ جمہوریت کے فروغ اور اقتدار کو عوام کی مرضی کے تابع کرنے کی جدوجہد میں مثبت کردار ادا کر رہا ہے؟ تاریخ کا قاضی بڑا بے لاگ فیصلہ دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر ہماری جواب دہی اپنے رب کے سامنے ہے جس کی گرفت سے کوئی مفرنہیں۔
آیئے وہ راستہ اختیار کریں جو ملک و قوم کو تباہی سے بچانے اور خیروفلاح اور جمہوریت اور انصاف کے فروغ کا ذریعہ بنے‘ اور آخرکار ہمیں اپنے رب کے سامنے سرخرو ہونے کی سعادت بخشے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد قوموں کے درمیان تنازعات طے کرنے کے لیے جنگ کے بجاے مذاکرات کے رجحان کو تقویت ملی۔ اقوامِ متحدہ کا کام ہی یہ ٹھیرا کہ کہیں جنگ ہوجائے تو وہ جنگ بندی کے مذاکرات کا ڈول ڈال دے یا ڈلوا دے۔ جب بھارت کشمیر کا مسئلہ اقوامِ متحدہ لے گیا تو جنگ بندی ہوئی اور اس کے بعد مذاکرات کے وعدے ہوتے رہے۔
ایک طویل تاریخ کو مختصر کرتے ہوئے‘ کشمیر کا مسئلہ مختلف مراحل سے گزرتا ہوا آج اسی جگہ قائم ہے۔ لیکن گذشتہ چند برسوں سے ہماری حکومت کی طرف سے بڑے پُراعتماد اعلانات ہونے لگے کہ مسئلہ حل ہونے ہی والا ہے اور آیندہ سال مسئلہ کشمیر کے حل ہونے کا سال ہے۔ آگرہ مذاکرات میں تو جیسے مسئلہ حل ہونے ہی والا تھا کہ رکاوٹ پیش آگئی۔ پھر۱۱/۹ پیش آگیا اور حکومتِ پاکستان نے یوٹرن لیا‘ افغانستان پر حملے کے لیے امریکا کو کندھے ہی نہیں اپنا سب کچھ پیش کر دیا۔ اس وقت یہ توقع دلائی گئی کہ جیسے اس ’کارخیر‘ کے نتیجے میں امریکا بھارت پر کچھ دبائو ڈال کر کشمیر کا کچھ ایسا تصفیہ کروا دے گا جس سے کچھ اشک شوئی ہوجائے اور حکومت اسے عوام سے قبول کروا سکے۔ اس مقصد کے لیے ہماری طرف سے صبح وشام کسی بھی جگہ کسی بھی وقت مذاکرات کی بھیک مسلسل اورتواتر سے مانگی گئی۔ اس نے قومی عزت و وقار کو جو بٹہ لگایا سو لگایا لیکن ہم مذاکرات کی رٹ لگانے سے باز نہ آئے تاآنکہ واجپائی صاحب سارک کانفرنس میں ہمارے بے حد اصرار پر تشریف لائے اور ایسا معلوم ہوا جیسے کہ ہم نے کوئی معرکہ مار لیا ہے‘ اور اب جب مذاکرات شروع ہوں گے تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
کشمیر کے مسئلے پر بھارت اور پاکستان کے موقف میں بنیادی فرق یہ ہے کہ پاکستان کشمیر کومرکزی اور بنیادی مسئلہ قرار دیتا ہے کہ باقی تمام مسائل اس کے بعد طے ہونا شروع ہوں گے‘ جب کہ بھارت کا موقف ہے کہ اعتماد کی بحالی ہو‘ تو پھر کشمیر کے مسئلے کو دیکھا جائے گا اور اعتماد کی بحالی کے لیے اقدامات کی ایک فہرست اعتماد سازی کے اقدامات کے نام سے پیش کر دی جاتی ہے۔
یہ اس پس منظر میں تھا کہ کشمیر میں جہادی سرگرمیاں جاری تھیں لیکن ۱۱/۹ کے بعد جب ہم نے ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف جنگ میں امریکا کا ’’اتحادی‘‘ بننے کا اعلان کیا تو بھارت نے امریکا کی پشت پناہی سے جہاد کشمیر کو دہشت گردی قرار دلوانے کی کوشش کی۔ ہم زبان سے کچھ بھی کہیں‘ ہماری حکومت نے کشمیر کے جہاد کو بھی دہشت گردی تسلیم کر لیا ہے۔ تربیتی کیمپ بند کرنے کے وعدے ہی نہیں کیے‘ بلکہ عملاً بند کروا بھی دیے اور امریکا جانے سے پہلے ۱۸ ستمبر کو واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو میں ہمارے باوردی صدر نے ایک بار پھر اس ’کارنامے‘ کا اعادہ کیا ہے۔ دراندازی روکنے کی ذمہ داری بھی ہم ہی نے لی اور بڑی حد تک اسے پورا بھی کیا۔ دوسری طرف اعتماد کی بحالی کے لیے ثقافتی طائفوں کا آنا جانا‘ کرکٹ میچ کے موقع پر خصوصی آمدورفت کی سہولتیں‘ باہمی تجارت کے لیے راستے کھولنا‘ تعلیمی و دیگر روابط استوار کرنا شامل ہیں۔ اس ضمن میں پاک بھارت دوستی کی فضا کو بہتر بنانے کے لیے تعلیمی نصاب میں بھی تبدیلیاں کی گئیں خاص طور پر نظریۂ پاکستان کے تصور کو مسخ کرنے اور ایسے تمام مضامین کو نصاب سے نکالنے کی قصداً کوشش کی گئی جس سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات اور دوستی پر زد پڑتی ہو۔ گویا اساس پاکستان کو ہی دائو پر لگا دیا۔ اس سب پر پیش قدمی بہت خلوص سے جاری ہے۔
خاص طور پر دو باتیں قابلِ غور ہیں۔ ایک یہ کہ ہم نے یک طرفہ طور پر اپنی طرف سے جنگ بندی کر دی‘ گویا تسلیم کرلیا کہ ہم ہی گولہ باری کرتے تھے اور بھارت کو پورا تحفظ فراہم کر دیا۔ دوسرے یہ کہ ہماری آشیرباد سے بھارت نے کنٹرول لائن کے پار باڑ لگا دی ہے جس کو صرف دراندازی بند کرنے کی تدبیر نہیں بلکہ صحیح طور پر مستقبل کی بین الاقوامی سرحد بنانے کا عندیہ سمجھا جا رہا ہے۔
بھارت سے حال ہی میں ۴ تا ۶ ستمبر دہلی میں وزراے خارجہ کی سطح پر جو مذاکرات ہوئے ہیں‘ اس میں بھی بھارت کی طرف سے یہ بات بالکل واضح کر دی گئی ہے کہ وہ کشمیر پر کسی قسم کی بات چیت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے حالانکہ بات چیت بھی مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ بھٹو سورن سنگھ مذاکرات اس کی مثال ہے۔ ہماری طرف سے ٹائم فریم مانگا جاتا ہے ادھر سے صاف انکار ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں جب تک دراندازی کا بالکل خاتمہ نہیں ہوجاتا کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ اِدھر امریکا بھی ہم ہی سے کہتا ہے کہ دراندازی کو روکو۔ اسلام آباد آکر ان کے نمایندے بھی ہم پر ہی دبائو ڈالتے ہیں‘ جیسے اصل قصوروار ہم ہی ہیں۔
بھارت نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ بھارت ظلم و جبر سے حکومت کر رہا ہے‘ روزانہ آٹھ دس کشمیریوں کو شہید کر رہا ہے‘ جیلیں اور عقوبت خانے نوجوانوں سے بھرے ہوئے ہیں‘ خواتین کی عزتیں پامال کی جا رہی ہیں‘ لیکن ہم کسی موہوم کامیابی کی آس میںبھارت کا مکروہ چہرہ بھی دنیا کو دکھانے سے احتراز کرتے ہیں۔
اپنے حکمرانوں کی بے بصیرت اور طفلانہ حرکتوں کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ شاید ملت پاکستان کے اجتماعی گناہوں کی پاداش میں یہ مسلط کیے گئے ہیں۔ خدشہ ہے کہیں حکمران اس ملک کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑدینے کا سبب نہ بن جائیں۔ کشمیریوں نے جہاد کے ذریعے جو کچھ حاصل کیا تھا‘ وہ ہم مذاکرات کی میز پر گنوانے کے لیے بے چین ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ بھارت کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ہماری ہر طرح کی شرائط کو ماننے پر آمادگی کے باوجود ہاتھ نہیں بڑھاتا۔ شاید ہمارے حکمران باعزت قوم کی طرح سوچنے کی صلاحیت سے بھی عاری ہوگئے ہیں۔
دہشت گردی کی جنگ کے نام پر ہم نے جس طرح اپنا ایمان اور اپنی عزت نیلام کی ہے‘ اس کے بعد ہم سے اہلِ کشمیر کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم اپنے حکمرانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ باعزت طریقہ اپنائیں۔ بھارت جو کچھ کشمیر میں کر رہا ہے اس کی تصویر ساری دنیا کو دکھائیں‘ اس کی ناراضی کی پروا نہ کریں۔ دہشت گردی اور جہاد میں تمیز کریں اور جہاد کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کریں۔ جب تک بھارت کشمیر پر کشمیریوں کو ان کا حق دینے پر آمادگی کا اظہار نہیں کرتا‘ اس وقت تک اس سے ہمارا دوستانہ طرزعمل کمزوری کی علامت ہے۔
امریکا ساری دنیا کو مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کا سبق پڑھاتا ہے مگرخود پیش بندی کے طور پر حملے کو بھی جائز اور روا سمجھتا ہے۔ یہی سبق اب روس اور آسٹریلیا نے بھی پڑھ لیا ہے‘ اور کوئی وجہ نہیں کہ بھارت جسے بعید نہیں کہ شاید ہم بھی سلامتی کونسل کا ممبر بنانے کے حامی ہوجائیں‘ یہ سبق نہ پڑھ لے اور جن تربیتی کیمپوںکی تصاویر امریکا ہمیں دکھاتا ہے ان کو ختم کرنے کے لیے خود چڑھ دوڑے۔ اس وقت شاید ہماری فوج دشمن کے خلاف صف آرا ہوجائے‘ فی الحال تو اسے دوستوں کے خلاف صف آرا ہونے سے فرصت نہیں۔
قوم کے دردمندوں کو میزان لگانا چاہیے کہ ۱۱/۹ کے بعد جو یوٹرن لیا گیا اس کے نتیجے میں بحیثیت قوم ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا‘ اسی میزان کا ایک باب کشمیر ہے۔ دیکھا جائے کہ ہم اس باب میں کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں۔ بھارت نے کتنی پیش قدمی کرلی ہے اور ہماری پسپائی کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔ ہم نے کچھ بھی حاصل کیے بغیر بہت کچھ کھو دیا ہے۔ بھارت نے کوئی لچک نہیں دکھائی ہے بلکہ اس کے مؤقف میں سختی آگئی ہے۔ ادھر ہم ہیں جو نہ صرف لچک پر لچک دکھا رہے ہیں‘ بلکہ مزید کے اشارے اور وعدے بھی کر رہے ہیں۔ سرپیٹ لینے کو دل چاہتا ہے جب پی ٹی وی کے تجزیہ نگار اسے شعور کی پختگی قرار دیتے ہیں۔ اب بیک ڈور ڈپلومیسی کا آسرا لیا جا رہا ہے کہ شاید ۲۴ستمبر کو مشرف من موہن ملاقات میں کوئی بریک تھرو ہوجائے۔ کاش کہ ہمارے حکمران سمجھیں کہ باغیرت قوموں کے معاملات اس طرح نہیں چلائے جاتے!
حضرت عرباض بن ساریہؓ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (فتح کے بعد) خیبر میں پڑائو کیا (خیبر کا آدھا حصہ جنگ اور آدھا حصہ سمجھوتے کے ساتھ فتح ہوا تھا)۔ خیبر کے سردار بڑے منہ زور اور سخت مذہبی قسم کے آدمی تھے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے محمدؐ! کیا آپؐ کے لیے جائز ہے کہ ہمارے گدھوں کو ذبح کریں‘ ہمارے پھلوں کو کھائیں‘ ہماری عورتوں کو ماریں؟ یہ سوال پیش بندی کے طور پر کیا گیا تھا (واقعہ صرف گدھوں کو ذبح کر کے ان کے گوشت کے پکانے کا پیش آیا تھا‘ باقی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔ صرف اس کے کچھ آثار نظر آئے تھے۔ گدھوں کے گوشت کی حرمت اس کے بعد آگئی۔ چنانچہ پکا ہوا گوشت ضائع کر دیا گیا)۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس صورت حال کا سن کر ناراض ہوئے۔ آپؐ نے فوری طور پر مسلمانوں کو جمع کرنے کے لیے حضرت ابن عوفؓ کو بلایا اور فرمایا: اپنے گھوڑے پر سوار ہوجائو اور اعلان کرو: جنت میں داخلہ حلال نہیں مگر مومن کے لیے‘ اور اعلان کرو کہ لوگ نماز کے لیے جمع ہوجائیں۔ چنانچہ لوگ نماز کے لیے جمع ہوگئے۔
آپؐ نے نماز پڑھائی۔ پھر کھڑے ہوکر خطاب فرمایا: کیا تم میں سے ایک شخص اپنے تخت پر بیٹھے یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ نے نہیں حرام کیا مگر اس چیز کو جسے قرآن میں حرام کیا گیا ہے (گدھے کے گوشت کی حرمت کا ذکر قرآن پاک میں نہیں ہے)۔ سنو! میں نے وعظ بھی کیے ہیں اور احکام بھی دیے ہیں اور بہت سی چیزوں سے روکا ہے۔ وہ بھی قرآنی احکام کے مانند یا اس سے بھی زیادہ تاکید کی حامل ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے حلال نہیں کیا کہ اہلِ کتاب کے گھروں میں بلااجازت داخل ہوجائو‘ ان کی عورتوں کو مارو‘ اور ان کے پھلوں کو کھانے کی اجازت نہیں دی‘ جب کہ وہ اس سمجھوتے کا پاس بھی کریں جو انھوں نے تمھارے ساتھ کیا ہے۔ (ابوداؤد)
ظلم و زیادتی کو روکنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہییں تاکہ اس کو واقع ہونے سے روکا جا سکے۔ مستعد‘فعال اور عدل کے لیے فکرمند قیادت ایسا ہی کرتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہنگامی بنیادوں پر صحابہ کرامؓ کو جمع کر کے لرزہ طاری کر دینے والا خطاب فرمایا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہ آیا۔ آج کی مہذب دنیا میں لاکھوں انسانوں کو بموںاور میزائلوں کا نشانہ بناکر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ بعد میں جب واضح ہو جاتا ہے کہ یہ سب کچھ بلاجواز اور غلط اطلاعات کی بنیاد پر تھا تو اس پر صرف اتنا کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’ہمیں اس پر افسوس ہے!‘‘ کیا یہ انصاف ہے؟
دوسری بات یہ سامنے آئی کہ یہ سمجھنا کہ جو قرآن نے حرام کیا ہے‘ بس صرف وہی حرام ہے‘ غلط ہے۔ رسول اکرمؐ کی شارع کی حیثیت ہے اور آپؐ نے بھی احکامات دیے ہیں۔
کیا تم اس بات سے عاجز ہو کہ ابوضمضم کی طرح ہوجائو؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ ابوضمضم کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے گزری ہوئی اُمتوں میں سے ایک شخص تھا۔ جب صبح ہوتی تھی تو کہتا: ’’اے اللہ! میں نے اپنی عزت کی پامالی اس آدمی کو معاف کر دی ہے جو مجھے گالی دے‘‘۔(ابوداؤد)
جب کسی کو گالی دی جائے تو وہ آپے سے باہر ہوجاتا ہے اور جواب در جواب کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اگر پہلے ہی قدم پر معاف کر دیا جائے تو بناے فساد ہی نہ پڑے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی ایک شخص کے طریقے کو بطور نمونہ پیش فرمایا۔ ہم میں سے ہر شخص‘ دل کو اتنا بڑا کر لے کہ صبح ہوتے ہی اس دن کی زیادتیاں پیشگی معاف کر دے تو زندگی امن و سکون کا گہوارہ ہو جائے۔ بدلہ لینے کے جذبے پر قابو پانا اصل بات ہے۔
حضرت جابر بن سلیمؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ ایک شخصیت تشریف فرما ہیں‘ لوگ ان کے پاس آتے ہیں‘ ان کی بات سنتے ہیں‘ مانتے ہیں اور عملی جامہ پہنانے کے جذبے سے واپس چلے جاتے ہیں۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یہ معلوم کرکے میں بھی حاضر ہوا۔ میں نے عرض کیا: علیک السلام یارسول اللّٰہ۔ آپؐ نے فرمایا: یوں نہ کہو یہ تو مُردوں کو سلام ہے۔ اس کی بجاے السلام علیک کہو۔ میں نے پوچھا: آپ اللہ کے رسولؐ ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: میں اس اللہ کا رسول ہوں کہ جب تجھ پر کوئی مصیبت آتی ہے تو تم اس کو پکارتے ہو اور وہ تمھاری مصیبت کو دُور کرتا ہے‘ جب تم پر قحط پڑے تو تم اسے پکارتے ہو تو وہ زمین کو سرسبزی اور شادابی عطا فرماتا ہے‘ اور اگر تم جنگل و بیاباں میں ہو اور تمھاری اونٹنی گم ہوجائے تو تم اسے پکارتے ہو اور وہ تمھیں اونٹنی لوٹا دیتا ہے۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے نصیحت کیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: کسی کو گالی نہ دو۔ کہتے ہیں کہ میں نے اس کے بعد کسی آزاد‘ کسی غلام‘ کسی اونٹ اور کسی بکری کو گالی نہ دی۔
یہ عام رواج سا ہے کہ کسی بزرگ سے ملاقات کرتے ہیں تو رخصت ہوتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ: مجھے کوئی نصیحت کریں۔ اس موقع پر سننے والا متوجہ ہوتا ہے اور اس کا امکان ہوتا ہے کہ جو نصیحت کی جائے گی‘ اس پر عمل کیا جائے گا۔ اس لیے ضرور کوئی مفید بات کہنا چاہیے۔ شخص کے حالات سے واقف ہوں تو اس کی مناسبت سے کوئی کام کی بات یا کوئی عمومی نصیحت کر دی جائے۔ کوئی ایسی نظری بات نہ کہی جائے جو قابلِ عمل نہ ہو۔ مثال کے طور پر آپ کسی دکان دار کو کہہ سکتے ہیں کہ قسمیں نہ کھایا کرو۔ جس طرح رسولؐ اللہ نے محض یہ بات کہی کہ کسی کو گالی نہ دینا۔ یقینا اس بات کا کوئی پس منظر ہوگا۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں: میری والدہ دین شرک پر قائم تھیں‘ میں انھیں اسلام کی طرف دعوت دیتا رہتا تھا۔ ایک دن میں نے انھیں اسلام کی دعوت دی تو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسی باتیں کہیں جن سے مجھے کراہت ہوئی‘ مجھے دکھ ہوا۔ میں روتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کیا: یارسول اللہ! میں اپنی والدہ کو اسلام کی دعوت دیتا رہتا تھا‘ وہ انکار کرتی رہتی تھیں۔ آج میں نے انھیں دعوت دی تو انھوں نے مجھ سے آپؐ کے بارے ایسی باتیں کہیں جن سے مجھے کراہت آئی۔ آپؐ اللہ سے دعا کیجیے کہ ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت دے دے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا فرما‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سن کر میں خوش ہوگیا۔ گھر کی طرف واپس ہوا‘ قریب پہنچا تو دروازے کو بند پایا‘ لیکن والدہ نے میرے جوتوں کی آہٹ سن لی۔ انھوں نے مجھے آواز دی‘ ابوہریرہ‘ ٹھیرجائو! میں نے پانی گرنے کی آواز سنی‘ سمجھ گیا کہ والدہ غسل کر رہی ہیں۔ والدہ نے غسل کرلیا‘ کپڑے پہنے اور پھر اس قدر جلدی سے دروازے کی طرف بڑھیں کہ سر پر چادر نہ لے سکیں‘ دروازہ کھولتے ہی کہا: ابوہریرہ! اشھد ان لا الٰہ الا اللہ واشھد ان محمدًا عبدہ ورسولہ۔یہ سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش خبری سنانے کے لیے فوراً آپؐ کی طرف واپس ہوا اور مارے خوشی کے میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ حاضر ہوا تو عرض کیا: یارسول اللہ! خوش خبری قبول کیجیے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول کرلی ہے۔ ابوہریرہ کی ماں کو اس نے ہدایت دے دی ہے۔ آپؐ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور کلماتِ خیر سے نوازا۔ میں نے عرض کیا یارسول ؐاللہ! دعا کیجیے کہ اللہ مجھے اور میری والدہ کو اپنے مومن بندوں کا اور انھیں ہمارا محبوب بنا دے۔ رسولؐ اللہ نے دعا دیتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ! اپنے پیارے بندے ابوہریرہ اور اس کی ماں کو اپنے مومن بندوں کا اور مومنین کو ان کا محبوب بنا دے۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد جو مومن بھی میرے متعلق سنتا ہے یا مجھے دیکھتا ہے‘ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔(مسلم)
یہ روایت از دل خیزد بر دل‘ یعنی دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘ کی بہترین مثال ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی طرح دل میں ایسی آگ سلگ رہی ہو کہ بے قرار اور مضطرب کر دے‘ غم زدہ کر دے اور آنکھوں کو اشکبار اور دل کو تڑپا دے تو وہ رنگ لاتی ہے۔ بندے کے بس میں جو کچھ ہو‘ وہ کر گزرے تو پھر وہ ذات جس کے بس میں سب کچھ ہے‘ اپنے بندوں کی کوتاہیوں کو بھلاکر ان کو راضی کر دیتا ہے۔
ایمان کے لیے تڑپ کے بعد دوسری تڑپ اگر ہے تو وہ ایمان والوں کی محبت اور ان کی محبوبیت۔ ایمان کی توفیق ہوتو وہ ایمان والوں کی محبت کے لیے تڑپا دے گی اس کے حصول کے لیے آہ و زاری ہوگی اور دعائیں ہوں گی اور دوسروں سے کروائی بھی جائیں گی۔ مومنین کے ساتھ کھڑا ہونے پر خوشی ہوگی اور کفار کے ساتھ مل جانا ‘ناگوار ہوگا۔
قرآن حکیم کو غور سے پڑھیے تو وہ اصول و نکات بڑی آسانی کے ساتھ ہاتھ آجاتے ہیں جن کے مطابق اقامت ِ دین کی جدوجہد کی جانی چاہیے‘ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان اصولوں کی تفصیل سے پورا قرآن بھرا ہوا ہے اور یہ ایک ایسی بات ہے جو توقع کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ جب اس کے مباحث کا اصل مرکز یہی اقامت دین ہے تو قدرتی طور پر اس کی ساری تفصیلات بلاواسطہ یا بالواسطہ اسی کے اصول و ذرائع کی شرح و تفصیل ہی ہوں گی۔ لیکن چونکہ قرآن اپنے مدعا کو انسانی ذہن میں پوری طرح بٹھا دینے اور اچھی طرح محفوظ کر دینے کے لیے کوئی ضروری تدابیر اٹھا نہیں رکھتا اور جہاں تک اقامت دین کے مسئلے کا تعلق ہے وہ تو اس کا سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ تھا۔ اس لیے اس کے اصول و طریق کار کو اس نے جہاں سیکڑوں صفحات میں پھیلا کر بیان کیا ہے اور مختلف جگہوں میں اس کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے وہاں بعض مقامات پر اس نے انھیں اکٹھے سمیٹ کر بھی بیان کیا ہے تاکہ چند جملوں کے مختصر سے آئینے میں ان کی پوری تصویر بیک نظر بھی دیکھی جاسکے۔ اس طرح کے ’’جوامع الکلم‘‘ میں سب سے زیادہ جامع اور ساتھ ہی سب سے زیادہ واضح آیا ت یہ ہیں:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَo وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا ج… وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْم بَعْدِ مَا جَآئَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۲-۱۰۵)
اے ایمان والو! اللہ کا ٹھیک ٹھیک تقویٰ اختیار کرو اور دنیا سے نہ رخصت ہو مگر اس حال میں کہ تم ’’مسلم‘‘ ہو اور تم سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوط پکڑلو اور ٹولی ٹولی نہ ہوجائو۔ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو تم پر ہوا ہے جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمھارے دل باہم جوڑدیے۔ اور اس کے فضل و کرم سے بھائی بھائی ہوگئے… اور چاہیے کہ تم وہ گروہ بنو جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے‘ نیکی کا حکم دے اور بدی سے روکتا رہے‘ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘ اور (دیکھو) کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو واضح ہدایتیں پانے کے باوجود ٹولیوں میں بٹ گئے اور اختلاف میں مبتلا ہوگئے۔
یہ آیتیں مدینہ کی ابتدائی زندگی‘ یعنی ۲ھ میں نازل ہوئی تھیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جب اُمت مسلمہ کی اجتماعی اور سیاسی زندگی تاسیس و تعمیر کے ابتدائی مرحلوں سے گزر رہی تھی۔ عین اس زمانے میں یہ آیات کریمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اقامت دین اور نظامِ مومنین کا ایک مختصر مگر جامع ربانی پروگرام لے کر آئیں۔ جس میں اقامت دین کے طریق کار کے نہ صرف عملی اصول ہی بتا دیے گئے ہیں بلکہ یہ بھی واضح فرما دیا گیا ہے کہ ان اصولوں میں باہم ترتیب کار کیا ہونی چاہیے‘ نیز یہ بات بھی کہ اس نصب العین کی خاطر کی جانے والی جدوجہد کن تدریجی مرحلوں سے گزرتی ہوئی اپنی غایت مقصود تک پہنچا کرتی ہے۔ اس ربانی پروگرام پر غور کیجیے تو وہ تین اجزا یا اصولی نکات پر مشتمل دکھائی دے گا:
۱- تقویٰ کا التزام ۲- مضبوط و منظم اجتماعیت ۳- امربالمعروف ونہی عن المنکر۔
یہی تین نکات ہیں جو اقامت دین کے بنیادی اصول کار ہیں۔
اقامت دین کے لیے سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے اور جس کو اس راہ کی ’’شرط اول قدم‘‘ کہنا چاہیے وہ اِتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ--- کے فرمانِ خداوندی میں مذکور ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو اپنے کو ’’ایمان والا‘‘ سمجھتا ہو‘ اور جو اس ایمان کی عائد کی ہوئی ذمے داری سے عہدہ برآہونا چاہتا ہو‘ اس کے لیے لازم ہے کہ اللہ کا ’’تقویٰ‘‘ اختیار کرے اور اپنے آخری سانس تک ہر آن اور ہر لمحے ایک ’’مسلم‘‘ بن کر زندگی بسر کرے۔ تقویٰ کا پورا عملی مفہوم جو قرآن کی زبان سے بیان ہوا ہے اس سے شمہ برابر بھی کم نہیں کہ اللہ کے تمام حکموں کا ٹھیک ٹھیک اتباع کیا جائے۔ اس کے کسی امر کو چھوڑ دینے سے بھی ڈرا جائے اور اس کی کسی نہی کے کرگزرنے سے بھی خوف کھایا جائے۔ اسی طرح ’’مسلم‘‘ کے معنی بھی قرآنی بیانات کی روشنی میں سچے فرماں بردار اور مخلص اطاعت شعار کے ہیں‘ یعنی مسلم وہ شخص ہے جس نے احکامِ خداوندی کے سامنے اپنی گردن رضاکارانہ جھکا دی ہو۔
اس لیے ان دونوں اصطلاحوں کے مفہوموں کے پیشِ نظر اقامت دین کے پروگرام کا پہلا جز‘ یا اصول یہ ہوا کہ ہر مسلمان سب سے پہلے خود اپنے اُوپر اللہ کے دین کو قائم کرے۔ خوف و رجا کی ساری نیازمندیاں بس اسی ایک ذات کے لیے مخصوص کر دے۔ تعظیم و تذلل اور سرفگندی کے تمام جذبات اسی کی رضاجوئی کے لیے وقف کر دے۔ تمام اطاعتوں سے منہ موڑ کر بس اسی ایک آقا کی اطاعت کا حلقہ اپنی گردن میں ڈال لے۔ اپنے نفس کو ان تمام امور سے پاک کرے جو اس کی ناخوشی کا سبب بنتے ہیں‘ اور ان تمام صفات سے اسے آراستہ کرے جو اس کی رضا کے باعث ہوتے ہیں۔ اپنے کو اللہ تعالیٰ کا ہمہ وقتی غلام سمجھتا رہے اور اس کے کسی حکم کی بجاآوری میں نہ تو لیت و لعل کرے اور نہ دل تنگ ہو۔ اپنی نگاہ کو حق تعالیٰ کی رضاطلبی اور حکم برداری پر پوری طرح جمائے رہے‘ خواہ کتنی ہی مخالفتیں‘ مصیبتیں‘ ناسازگاریاں اور دل شکنیاں اس کی راہ میں کیوں نہ حائل ہوں۔ کیونکہ یہ چیزیں اگرچہ بظاہر مشکلات و مصائب ہی ہیں مگر فی الواقع یہ اتباع حق اور التزام تقویٰ کی ضروری آزمایشی منزلیں ہیں جن سے گزرے بغیر کسی مدعی ایمان کا ایمان اور تقویٰ خدا کے ہاں سنداعتبار اور شرفِ قبول نہیں حاصل کرتا۔ جیسا کہ قرآن کا فرمانا ہے:
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْ ئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِط وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ o (البقرہ ۲:۱۵۵)
ہم تم کو (یعنی تمھارے ادعاے ایمان کو) خطروں اور فاقوں اور تمھارے مال اور جان اور پیداوار کے نقصانوں کے ذریعے ضرور آزمائیں گے۔ اور اے نبیؐ ان لوگوں کو (کامرانی کا) مژدہ سنا دو جو (ان خطرات و نقصانات کو) صبروضبط کے ساتھ برداشت کرلیں۔ الخ
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ وَلَقَدْ
فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعُلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ
الْکَاذِبِیْنَ o (العنکبوت ۲۹: ۱)
کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہہ دینے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور انھیں پرکھا نہ جائے گا۔ حالانکہ (یہ پرکھنا) ہماری ہمیشہ کی سنت ہے اور ہم نے ان سے پہلے بھی لوگوں کو پرکھا ہے لہٰذا (تمھیں بھی) اللہ تعالیٰ یہ ضرور دیکھے گا کہ تم میں سے کون سچے (مومن) ہیں اور کون جھوٹے۔
اس لیے ان چیزوں سے گھبرانے اور کترانے کے بجاے ان کا صبر اور اطمینان کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہیے ورنہ یہ دل ایمان کا لذت شناس نہیں ہو سکتا۔ جو ان رکاوٹوں کے آگے سپرڈال دے اور نہ وہ سینہ تقویٰ کے نور سے بہرہ یاب ہو سکتا ہے جو اس آزمایش کی ہمت نہ رکھتا ہو‘ اپنے ایمان و اسلام کے متعلق بڑے دھوکے میں ہوگا وہ شخص جو حدود اللہ کی پاسداری اور احکام قرآنی کی پیروی میں اپنے نام نہاد جانی اور مالی‘ گروہی اور طبقاتی‘ قومی اور وطنی مفادات کا بچائو پہلے کرلینے کی فکر کرے‘ اور اتباع حق کو جان و مال کی کامل محفوظیت کے ساتھ مشروط رکھتا ہو۔ ایسے شخص کی زبان پر اسلام‘ اور اس کی شکل و صورت میں تقویٰ تو ہوسکتا ہے مگر اس کا باطن ان طائرانِ قدس کا آشیانہ نہیں ہوسکتا۔ غرض اہلِ ایمان کی آزمایش اللہ تعالیٰ کی ایک عام سنت ہے۔ اور اسی سنت کو پورا کرنے کے لیے اس نے اسلام اور ارتقا کا راستہ مشکلات اورمصائب کی چٹانوں سے بھر رکھا ہے اس لیے جو شخص اِتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہٖ --- کے فرمانِ الٰہی کی تعمیل کرنا چاہتا ہو اس کو ان چٹانوں سے ٹکرانا اور ان کی ٹھوکریں برداشت کرنا ناگزیر ہے۔
اس پروگرام کی دوسری دفعہ یا دوسرا نکتہ وَعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ اِن لفظوں میں جس چیز کا حکم دیا گیا ہے وہ دو باتوں پر مشتمل ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ تمام اہلِ ایمان‘ جو احکام الٰہی و حدودِ خداوندی کی پابندی میں سرگرم عمل اور اپنی انفرادی اصلاح و تزکیہ میں کوشاں ہوں‘ مل کر ایک مضبوط اور منظم جماعت بن جائیں۔ اور یہ پوری جماعت ایک ہی جسم کے اعضا کی طرح باہم جڑی ہوئی ہو۔ دوسری یہ کہ اسے اس طرح باہم جوڑ کر رکھنے والی چیز نہ تو کوئی نسلی رشتہ ہو نہ کوئی وطنی تعلق‘ نہ کوئی معاشی یا سیاسی مفاد ہو‘ نہ کوئی دنیوی اور مادی مقصد بلکہ صرف ’’اللہ کی رسی‘‘ یعنی اس کی بندگی کا وہ عہد ہو جو ہر مسلما ن نے کر رکھا ہے۔ وہ قرآن ہو جس کی پیروی ہی کسی شخص کو مومن بناتی ہے۔ وہ دین ہو جس کی اطاعت و اقامت ہی کے لیے اُمت مسلمہ وجود میں لائی گئی ہے۔ غرض جس طرح ملّت کا منظم اور متحد رہنا ایک ضروری چیز ہے‘ اسی طرح یہ بات بھی ضروری ہے کہ اس نظم و اتحاد کا شیرازہ صرف یہ ’’حبل اللہ‘‘ ہی ہو‘ بلکہ اگر ذرا گہری نظر سے دیکھا جائے تو بات اس سے بھی کہیں زیادہ اہم نظر آئے گی۔ اتنی زیادہ اہم کہ مجبوری کی بعض ایسی حالتیں تو ہوسکتی ہیں جن میں اتحاد وتنظیم ملت سے محروم ہو کر بھی مومن خدا کے حضور معذوری اور بری قرار دیا جائے گا۔ مگر جو چیز اس اتحاد و تنظیم کا شیرازہ ہے اسے کسی حالت میں بھی اگر چھوڑ دیا گیا تو اس کی بازپرس سے چھٹکارا ہرگز نہ ہوسکے گا۔ اس لیے یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ اسلام کے نزدیک نفس اتحاد ہی کوئی مطلوب و محبوب چیز ہے خواہ وہ کسی غرض کے لیے اور کسی مقصد پر مبنی کیوں نہ ہو۔ اس کے بخلاف حقیقت یہ ہے کہ اگر اتحاد کی بنیاد کسی فاسد مقصد پر رکھی گئی ہو تو نہ صرف یہ کہ وہ اسلام کا مطلوب نہیں‘ بلکہ اس کی نظروں میں حددرجہ مردود اور مبغوض ہے اور اس اتحاد سے بال برابر بھی مختلف نہیں جو چوروں اور ڈاکوئوں کے مابین ہوا کرتا ہے۔ اسلام کا مطالبہ صرف اس اتحاد کا ہے جس کا شیرازہ اتباعِ حق اور اقامتِ حق ہو۔
اقامتِ دین کا نکتہ‘ یعنی جماعتی اتحاد‘ اگر ذرا غور کیجیے تو پہلے نکتہ سے کوئی بالکل الگ اور بے تعلق شے نہیں ہے بلکہ اسی کا ایک فطری تقاضا ہے۔ ایک طالب علم کو اس کی اپنی طبیعت ہی مجبور کرتی ہے کہ اپنے ساتھی طلبہ سے بے تکلفی‘ دل بستگی اور الفت و محبت رکھے۔ ایک تعلیم یافتہ اور علم دوست کے مذاق اور مزاج ہی کا یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ ارباب علم و دانش کی ہم نشینی اختیار کرے۔ ایک رنگین طبع اپنے جیسے رنگین مزاجوں کی طرف خودبخود کھنچ اٹھنے سے رک نہیں سکتا--- اور اگر کسی طالب علم کو اپنے ساتھیوں سے ‘ کسی صاحبِ علم کو اہل علم و فضل سے‘ کسی رنگین مزاج کو اہلِ نشاط سے گہری وابستگی نہ ہو تو یقین کرنا چاہیے کہ وہ صحیح معنوں میں طالب اور صاحبِ علم اور رنگین طبع نہیں۔ ہم مشربی کی یہی وہ کشش ہے جس کو عام اصطلاح میں جاذبۂ جنسیت کہا جاتا ہے۔ اصولاً اس جاذبۂ جنسیت کو اہل تقویٰ کے درمیان بھی اپنا کام کرنا چاہیے‘ اور وہ کرتا بھی ہے۔ ایک وہ انسان جو خدا پرستی کے جذبات سے سرشار ہو‘ ان لوگوں کی طرف لازماً کھنچتا ہے جو اسی کی طرح اتباعِ حق اور تقویٰ کے لذت شناس ہوں۔ یہ ممکن نہیں کہ دو دلوں میں خدا کا حقیقی تقویٰ موجود ہو اور اس کے باوجود وہ آپس میں کٹے ہوئے یا ایک دوسرے سے بے تعلق ہوں۔ اس کے بخلاف ان میں جذب و انجذاب لازمی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو سمجھنا چاہیے کہ تقویٰ کی صورت میں اندر کوئی دوسری ہی روح پرورش پارہی ہے کیونکہ ایک ہی منزل اور ایک ہی راہ کے دو مسافر ایک دوسرے کے غیر بن کر نہیں رہ سکتے۔ یہی وجہ ہے جو آپ دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی تعریف اگر کہیں اِنَّمَا الْمُوْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ اور بَعْضُھُمْ اَوْلیَائُ بَعْضٍ کے الفاظ سے کی گئی ہے تو کہیں رُحَمَائُ بَیْنَھُمْ اور اَذِلَّۃِ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ ان کا نشانِ امتیاز ٹھیرایا گیا ہے۔ گویا اسلام کے پیروئوں کا باہم جڑ کر رہنا ان کے ایمان اور اتقا کی کسوٹی ہے۔
قرآن کی نگاہ میں اہلِ ایمان کے لیے اس وصف کا وجود کتنی اہمیت رکھتا ہے‘ اس چیز کا اندازہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی بعض ہدایات پر بھی نظرڈالی جائے جو اس معاملے کے منفی پہلو سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان میں سے ایک ہدایت یہ ہے:
یٰٓاَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَآئَ کُمْ وَاِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَائَ انِ
اسْتَحَبُّوْا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِط وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاُولٰئِکَ
ھُمُ الظَّالِمُوْنَ o (توبہ ۹:۲۳)
اے ایمان لانے والو! اگر تمھارے باپ اور بھائی ایمان کے مقابلے میںکفر کو ترجیح دیں تو ان کو اپنا ولی (قلبی رفیق) نہ بنائو۔ اور جو لوگ ان کو اپنا ولی بنائیں گے تو وہی ظالم ہوںگے۔
معلوم ہوا کہ جس طرح ایک سچا مومن اور متقی دوسرے مومنوں سے بے تعلق نہیں رہ سکتا خواہ نسلی اور قومی لحاظ سے وہ اس کے بیگانے ہی کیوں نہ ہو اسی طرح وہ فساق و فجار سے قلبی رابطہ بھی نہیں رکھ سکتا‘ خواہ وہ اس کے قریب ترین عزیز ہی کیوں نہ ہوں۔ قرآن اس کے امکان کو بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جیسا کہ اسی ضمن کی ایک اور آیت صراحت کرتی ہے:
لَاتَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَٓادُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ کَانُوْٓا اٰبَآئَ ھُمْ اَوْ اَبْنَآئَ ھُمْ اَوْ اِخْوَانَھُمْ اَوْ
عَشِیْرَتَھُمْ (مجادلہ ۵۸:۲۲)
تم کسی ایسے گروہ کو ‘ جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو‘ ان لوگوں سے الفت و مودت کا رشتہ رکھتا ہوا نہ پائو گے جو اللہ اور اس کے رسول کی عداوت اور مخالفت پر کمربستہ ہوں‘ خواہ وہ اس کے اپنے ہی باپ یا بیٹے یا بھائی یا اہلِ خاندان کیوں نہ ہوں۔
ان ارشادات سے یہ حقیقت پوری طرح روشن ہوجاتی ہے کہ ایمان کے رشتے کو انسانی تعلقات میں فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے۔ وہ ایک طرف تو مختلف نسلوں اور قوموں کے افراد کو باہم بھائی بھائی بناکر جوڑ دیتا ہے۔ دوسری طرف اس کی زبردست قوت تمام مادی رشتوں کو بے جان اور غیر مؤثر بنا کر رکھ دیتی ہے۔ گویا یہ ایک سورج ہے جس کے آگے تمام ستارے بے نور ہوکر رہ جاتے ہیں۔ پھر ایمان کا یہ منفی اثروعمل اس کے مثبت اثروعمل کو مزید طاقت بھی دے دیتا ہے اور اہلِ ایمان کے مابین قائم ہونے والے اتحاد کو اور زیادہ مستحکم بنا دیتا ہے۔
غرض ایک نصب العین کی علَم بردار اور ایک اصول کی پیرو دوسری جماعتیں جس حد تک اپنے ارکان کو ڈسپلن کی مضبوط بندشوں میں باندھ کر رکھتی ہیں‘ اللہ کا دین اپنے پیروئوں کو اس سے بھی زیادہ مضبوطی سے جڑ جانے کی زبردست ہدایت کرتا ہے۔ انتشار و اختلاف کو وہ انتہائی مذموم ٹھیراتا ہے اور دین حق کے مزاج کے اسے یکسر خلاف قرار دیتا ہے۔ حد یہ ہے کہ ایک پیغمبر (حضرت ہارون علیہ السلام) نے اپنی قوم کی اکثریت کو علانیہ بُت پرستی میں مبتلا ہوجاتے دیکھا مگر انھیں صرف سمجھانے بجھانے ہی پر اکتفا کیا اور ان کے خلاف کوئی فوری قدم اٹھانے سے محض اس لیے احتراز کر گئے کہ کہیں قوم کی جمعیت پراگندا نہ ہو جائے۔ اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سینا کی پہاڑی سے واپس آکر ان سے اس سلسلے میں سختی سے بازپرس کی تو انھوں نے عذر پیش کرتے ہوئے کہا کہ: خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ ’’میں اس بات سے ڈرا کہ آپ کہیں گے تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی‘‘۔
اقامت دین کے پروگرام کی تیسری بنیاد وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْن عَنِ الْمُنْکَرِ کے ارشاد میں واضح کی گئی ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ انفرادی حیثیت سے اپنی اپنی ذات کے اُوپر دین حق کا قائم کرلینا اور پھر ایسے تمام افراد کا باہم جڑ کر ایک جماعت بن جانا ہی کافی نہیں ہے‘ بلکہ ان دونوں باتوں کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اُس ’’خیراور معروف‘‘ کی طرف دوسروں کو بھی بلایا جائے جس کو خود قبول کیا گیا ہے اور اس ’’منکر‘‘ کو اپنے مقدور بھر مٹا ڈالنے کی مسلسل کوشش جاری رکھی جائے جس کو خود ترک کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ خدا کی زمین کے کسی گوشے میں اس کے دین کے سوا کسی اور دین کا اقتدار باقی نہ رہ جائے۔
جس طرح اقامت دین کے عملی پروگرام کی دوسری دفعہ (افراد اُمت کا منظم اتحاد پہلی دفعہ انفرادی صلاح و تقویٰ) کا لازمی تقاضا ہے‘ اسی طرح یہ تیسری دفعہ (امر بالمعروف ونہی عن المنکر) بھی اس کا فطری مقتضا ہے نہ کہ کوئی ایسا مستقل بالذات حکم جو اس سے کسی طرح کی مزاجی مناسبت رکھتا ہی نہ ہو۔ یہ بات کہ امربالمعروف کس طرح ایمان اور تقویٰ کی فطری طلب ہے ایمان اور تقویٰ کی حقیقتوں پر غور کرنے سے بآسانی واضح ہوجاتی ہے۔ ایمان اور تقویٰ کی حقیقی روح کیا ہے؟ صرف اللہ تعالیٰ کی محبت بھری تعظیم‘ کوئی محبت بھری تعظیم محبوب کی مرضیات کے بارے میں کیا چاہے گی؟ صرف یہ کہ گردوپیش انھی کی کارفرمائی ہو۔ ورنہ اس دل کو سوز محبت سے آشنا کون کہہ سکتا ہے جو محبوب کی مرضی کوپامال ہوتا ہوا دیکھ کر تڑپ نہ اٹھے؟ اس لیے خدا کی محبت اور حق کی جاذبیت ایک خدا پرست کو چین سے ہرگز بیٹھنے نہیں دے سکتی۔ جب تک کہ صفحۂ ارض پر اس کی نگاہوں میں چبھنے کے لیے ایک باطل اور کھٹکنے کے لیے ایک منکر بھی موجودہو۔ یہ بات اس کے اسلام اور ایمان کے یکسر منافی ہے کہ کسی شخص یا گروہ یا ملک کو وہ دین اللہ کے حلقۂ انقیاد سے آزاد اور طاغوت کا فرماں بردار دیکھے اور ٹھنڈے دل سے اسے برداشت کرلے۔ لہٰذا اقامتِ دین کا فریضہ ادا نہیں ہوسکتا‘ اگرپیروان اسلام کی جمعیت امربالمعروف سے غافل ہو۔ اور اِتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ کا حکم تشنۂ تعمیل ہی رہ جائے گا۔ اگر اہلِ ایمان بس اپنی ذات ہی تک احکامِ الٰہی کی پیروی کو کافی سمجھ لیں اور ان کو اس سے کوئی غرض نہ ہو کہ باقی دنیا کدھر جا رہی ہے۔
اس کے علاوہ امربالمعروف مومن اور مسلم اور متقی ہونے کے فطری تقاضوں میں ایک اور پہلو سے بھی داخل ہے‘ اور وہ ہے اللہ کے بندوں سے اخوت‘ محبت اور خیرخواہی کا پہلو۔ جو شخص اسلام کو جانتا ہے وہ یہ بات بھی جانتا ہوگا کہ خدا سے محبت کرنے کا حق اس وقت تک ہرگز ادا نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی مخلوق سے بھی محبت نہ رکھی جائے۔ اس مخلوق سے جسے اس کے رسول نے اس کی ’’عیال‘‘کہا ہے (الْخَلْقُ عَیَالُ اللّٰہِ) اور جس کی بہی خواہی کو ایمان کی نشانی ٹھیرایا ہے (لَا یُوْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتَّی یُحِبُّ لِاَخِیَہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ- مسلم) نوع انسانی کے ساتھ بہی خواہی کی شکلیں بہت سی ہیں مگر اس سے بڑی اس کی اور کوئی بہی خواہی نہیں کہ اسے ان راستوں سے بچایا جائے جو گمراہی اور ابدی ہلاکت کے راستے ہیں اورجن پر چل کر انسان کی دنیا بھی عذاب بن جاتی ہے ‘ اور آخرت بھی۔
اس لیے ایک مومن اگر اپنے دوسرے ابناے جنس کو ’’منکرات‘‘ سے روکنے اور خیرومعروف کی طرف لانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ دراصل کسی خارجی سبب کے تحت نہیں کرتا بلکہ اپنے اس جذبۂ خیرخواہی کے تحت کرتا ہے جو اس کے ایمان کا پیدا کیا ہوا ہوتا ہے۔ جس طرح اس کا ایمان اسے اس بات پر ابھارتا رہتا ہے کہ بھوکوں کو کھانا کھلاتے‘ ننگوں کو کپڑے پہنائے ‘ اور کمزوروں اور بیکسوں کی مدد کرے‘ اسی طرح‘ مگر اس سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ وہ اس بات کے لیے بھی بے چین رکھتا ہے کہ حق سے محروم بندگانِ خدا کو اس خزانۂ سعادت کی کنجیاں مہیا کردے جس کے پالینے کے بعد پھر کبھی وہ نہ بھوکے ہوں گے نہ ننگے (اَنْ لاَّ تَجُوْعَ فِیْھَا وَلَا تَعْرٰی) نہ انھیں اپنے مستقبل کا کوئی اندیشہ لاحق ہوگا‘ نہ اپنے ماضی اور حال کا کوئی غم (لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ)۔ اس کی ایمانی فکرونظر اسے بتاتی رہتی ہے کہ دوسرے انسانوں کے ساتھ اگر یہ بنیادی اور مقدم ترین خیرخواہی نہ کی گئی تو باقی ساری ہمدردیاں اورخیرخواہیاں بالکل ہیچ ہیں۔ اور ان سے خدا کے بندوں کے حقوق ہرگز ادا نہ ہوں گے اور خدا کے بندوں کے حقوق کا ادا نہ ہونا خود اس کے حقوق سے عہدہ برآ نہ ہونے کی دلیل ہے۔
ایمان‘ اسلام اور تقویٰ سے امربالمعروف کے یہ دو داخلی اور فطری تعلق تھے۔ ان کے علاوہ ان سے اس کا ایک خارجی اور مصلحتی تعلق بھی ہے جسے ہم دعوت اسلامی کا سیاسی مفاد کہہ سکتے ہیں‘ یعنی امربالمعروف اسلام و ایمان کا فطری مطالبہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی ایک سیاسی ضرورت بھی ہے‘ اور وہ یہ کہ دعوتِ اسلامی کا علمبردار گروہ امربالمعروف کا فریضہ بجالا کر ہی اپنے ایمانی جوہر کو پوری طرح برقرار رکھ سکتا اور اپنے مقصد کے حصول میں پوری طرح کامیاب ہو سکتا ہے۔ (انتخاب: فریضۂ اقامتِ دین‘ ص ۱۶۷-۱۸۲)
سجدے کے بارے جب انسان غور کرتا ہے تو پوری کائنات اپنی تواضع‘ انکساری اور نیاز مندی کے ساتھ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے حضور سجدہ ریز نظر آتی ہے۔اس کی ہیئت اوراس کی خود سپردگی اﷲ کے حکم کے موافق ہے اوراس میں اﷲ تعالیٰ کا حکم جاری و ساری ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُ لَہ‘ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَآبُّ وَ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِط وَکَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْہِ الْعَذَابُ (الحج۲۲:۱۸)
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اﷲ کے آگے سربسجود ہے وہ سب جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے ‘ سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں۔
پس غور کرو کہ پوری کائنات کی کوئی شے اﷲ تعالیٰ کے حضور سجدہ کرنے سے سرتابی کرنے والی نہیں ہے سوائے اس انسان کے کہ اس کی ایک نوع سجدے کرنے والی اور ایک اس سے انکار کرنے والی اور باقی کائنات سے ہٹ کر سجدہ کرنے سے سرتابی کرنے والی ہے۔ مگر وہ انسان جو اﷲ کا نافرمان اور ناشکرا ہے وہ پوری کائنات میں مختلف اور منفرد ہوتا ہے اور اس کی یہ انفرادیت اﷲ تعالیٰ کی عبادت سے بُعد اور تکبر ہے۔
لہٰذا بندے کو غور کرنا چاہیے کہ جب وہ اﷲ تعالیٰ کے لیے سجدہ کرتا ہے تو وہ اﷲ کی تسبیح و تحمید بیان کرنے والی اوراس کے آگے سجدہ ریز اس کائنات کا ایک جزو بن جاتا ہے۔ جیسا کہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے سورہ یٰسٓ میں فرمایا: وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّلَّھَاط ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ (۳۶:۳۸ )’’اور سورج وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جارہا ہے۔ یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے‘‘۔ اس آیت کے معنی میں ابن کثیرؒ نے کہا ہے کہ غروب کے وقت اور اپنے ہرغروب میں آفتاب اﷲ تعالیٰ کے عرش کے آگے سجدہ کرتا ہے‘ اور اس کی تائید حضرت ابوذر ؓ کی روایت کی ہوئی بخاری کی حدیث کرتی ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ سجدہ کیسے ہوتا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ وہ سجدہ زبان حال سے بھی ہے اور زبان قال سے بھی‘ یعنی علامتاً بھی اور فعلاً بھی ۔ اور اس میں کوئی تعجب ہے نہ تحیّر ‘ کیونکہ جو سجدہ بھی اﷲ تعالیٰ کو کیا جاتا ہے وہ اس کی ہیئت کو جانتا ہے‘ جب کہ ہم نہیں جانتے۔اﷲ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے : وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدٰنِ (الرحمٰن۵۵:۶) ’’اور تارے اور درخت سب سجدہ ریز ہیں‘‘۔اور اسی طرح سے اﷲ تعالیٰ سرتابی کرنے اور نافرمانوں کو اپنی ہدایت کی طرف توجہ دلاتا ہے اور ان پر حجت قائم فرماتا ہے ۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْھًا وَّظِلٰـلُھُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ (الرعد۱۳:۱۵) ’’وہ تو اﷲ ہی ہے جس کو زمین وآسمان کی ہر چیز طوعاًوکرھاً سجدہ کررہی ہے اور سب چیزوں کے سائے صبح و شام اس کے آگے جھکتے ہیں‘‘۔
اس آیت کے معنی یہ ہیںکہ اپنے اختیار سے سجدہ کرنے سے پہلوتہی کرنے والا شخص بھی اپنے سائے کے ساتھ اﷲ کی قدرت کے سامنے اپنی خلقت اور اپنی جبلت کے تحت بے اختیار اﷲ کی جناب میں سجدہ ریز ہوتا ہے۔ گویا پوری کی پوری کائنات اللہ کے آگے سجدہ ریز ہے۔ چنانچہ دانش مندی کا تقاضا یہی ہے کہ انسان بھی اپنے دل اور ہیئت کے ساتھ سجدہ کرنے والا ہو۔
یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان جب سجدے کے بارے میں غور کرتا ہے تو وہ اسے ایک نعمت عظمہ پاتا ہے۔ اس پر مستزاد آیات قرآنی‘ احادیث نبویؐ اور ارشادت اسلاف ہیں۔ سجدے کی یہی وہ اہمیت ہے جو اسے تدبر اور سنجیدگی سے غوروفکر کی دعوت دیتی ہے کہ وہ اس کی حقیقت کو پانے کی کوشش کرے‘ نیزاس کا ایمانی وقلبی فہم کتنا ضروری ہے اوراس کی ادایگی پرعمل کرنے کا کیا حکم ہے؟
سعید بن جبیرؒ، جب مسروقؒؒ سے ملے توانھوں نے ان سے کہا :’’اے ابوسعید! اپنے چہروں کو خاک آلود کرنے ( سجدے )کے سوا کسی چیز سے ہمیں رغبت نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس دنیا میں ان کی سب سے بڑی خواہش اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور میں سجدہ ریز ہونے‘ اور اگر ان کے لیے کوئی حلاوت و لذت تھی تو وہ اس کی جناب میں عاجزی و انکساری کے ساتھ اپنی جبینوں کو خاک آلود کرنے میں تھی۔
مسروق ؒ نے غایت دل چسپی کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا:’’واقعتا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہونے کے سوا کوئی ایسی چیز ہے جس کی اس دنیا میں فکر کی جائے‘‘ (نزھۃ الفضلاء تھذیب سیر اعلام النبلائ)۔ اسلاف امت کی یہ گفتگو واضح کرتی ہے کہ سجدہ کوئی معمولی عمل نہیں ہے۔ سجدہ محض انسانی اعضا کی حرکت اور زبانی دہراے جانے والے بے اثر کلمات کا نام نہیں ہے بلکہ یہ جسم و روح پر اثرانداز ہونے والے اس عمل کا نام ہے جس کی تکمیل حضوری قلب‘ عجزوانکسار اور عقل و شعور کے گہرے ادراک و فہم کے ساتھ ہوتی ہے۔ لہٰذا سجدے کا مسئلہ بہت وسیع اور عمیق ہے اور ہمارے لیے اس کا بطریق احسن فہم ناگزیر ہے۔
صحیح بخاری میں وارد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اس ذات کی قسم‘ جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے‘ ابن مریم ؑ تمھارے درمیان حاکم عادل بن کر ضرور نازل ہوں گے ، وہ صلیب کو توڑیں گے ،خنز یر کو قتل کریںگے،جنگ کاخاتمہ کریں گے اور مال پانی کی طرح بہے گا حتیٰ کہ اسے کوئی قبول نہ کرے گا۔ ( اس وقت) ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگا‘‘۔(کتاب احادیث الانبیائ)
حافظ ابن حجرؒ نے اس حدیث پر یہ تبصرہ کیا ہے:’’مال کی کثرت،برکات کے نزول، خیرات کی بارش، عدل گستری اور ظلم کے فقدان کی وجہ سے ہوگی۔اس وقت ز مین اپنے خزانے اگل دے گی، لوگوں میں قرب قیامت کے احساس سے مال کے حصول کی رغبت گھٹ جائے گی‘‘۔پھر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:یعنی لوگ اس وقت اﷲ کا قرب عبادت کے ساتھ حاصل کریں گے نہ کہ مال کے صدقے کے ساتھ۔ اور کہا جاتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ دنیا سے اپنی نظریں ہٹا لیں گے اورانھیں ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے محبوب تر ہوگا۔ پھرقرطبی ؒ کا قول نقل کیا ہے:’’حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت نماز صدقے سے افضل ہوگی‘ اس لیے کہ اس وقت مال کی کثرت ہوگی حتیٰ کہ اسے قبول کرنے والا کوئی نہ ہوگا‘‘۔ (فتح الباری ۶/۵۶۶)‘یعنی اس وقت ذرائع تقرب انفاق و صدقات نہ ہوں گے کہ انسان ان کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا قرب حاصل کرے بلکہ اس وقت اﷲ کے حضور میں سجدہ عظیم عبادت ہوگی اور کوئی دیگر عبادت اس کے برابر نہ ہوگی‘ حالانکہ حدیث کی رو سے صدقے سے اﷲ تعالیٰ کا غضب ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور آدمی بری موت سے بچتا ہے (سنن ترمذی کتاب الزکوٰۃ)۔چنانچہ جب یہ صدقہ منقطع ہوجائے گا تو تقرب الٰہی کا کوئی ذریعہ سجدے کے سوا باقی نہ رہے گا۔
اس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ سجدہ اپنی حقیقت میں عظیم ترہے اور وہ اﷲتعالیٰ کے قرب کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ لیکن مسلمان دیگر امور میں مشغولیت کے باعث اسے بھول جاتا ہے اور دنیا میں دل چسپی اسے آخرت بھلا دیتی ہے۔اسی طرح سجدہ دوسرے اعمال‘ اگرچہ وہ نیکی کے اعمال ہوں‘کے مقابلے میں بھی عظیم تر ہے ۔ اگر کسی مسلمان کو صدقہ اور محتاج کی اعانت جیسی دیگر عبادات کی استطاعت نہ ہو تو سجدے کا حصہ نفلی عبادات کی نسبت سے اپنی اہمیت و اولیت کی وجہ سے زیادہ بڑا ہے۔
شیخ عبدالرحمن الدوسریؒ نے اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے اس ارشاد : یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ(اٰل عمرٰن۳:۴۳) ’’اے مریم‘ اپنے رب کی تابع فرمان بن کر رہ‘ اس کے آگے سربسجود ہو ‘اور جو بندے اس کے حضور جھکنے والے ہیں ان کے ساتھ توبھی جھک جا‘‘کی توضیح سجدے کی عظمت کے زمرے میں کی ہے۔ انھوں نے کہا: اس قول کی بنیاد پر کہ ’القنوت‘ کے معنی عبادت کے ہیں‘ ملائکہ حضرت مریم ؑکواولاً ہر نوع کی عبادت پر مداومت کی عمومی وصیت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ پھر ملائکہ نے انھیں عبادات میں سے افضل و اشرف عبادت‘ یعنی نماز کی ہدایت کی اور اس کی شکلوں میں سے رکوع وسجود کو ان دونوں کے شرف اور اہمیت کی بنا پر مخصوص کیا ‘ پھر سجدے کو رکوع پر مقدم کیا ۔ ا س لیے کہ بندہ اﷲ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے ۔ لہٰذا ارکان نماز میں سے افضل رکن سجدہ ہے(صفوۃ الاثار۴/۱۲۴)۔ لہٰذا جب اس معنی کے ساتھ آیت کریمہ میں سجدے کی عظمت انتہائی حد تک ثابت ہوتی ہے ‘تب وہ مخصوص ترین عبادت ہے اور نماز جو جملہ عبادات پر مقدم ہے ‘ سجدہ اس میں مقدم و معظم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں سجدے کی یہ فضیلت اس کے عظیم مرتبے کی دلیل ہے۔
فیض القدیر میں المنادیؒ کہتے ہیں:’’ یہ اس لیے کہ بندہ سجدے میں اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور میں بہ تمام و کمال عجزوانکساری کی حالت میں ہوتا ہے ۔ اور جب وہ اپنی پستی اور اپنی انتہائی احتیاج کو جان لیتا ہے تواسے یہ معرفت حاصل ہو جاتی ہے کہ اس کا رب عظیم اپنے ارادے کو نافذ کرنے پر غالب ہے‘ اور صاحب کبریا وجبروت ہے۔اس احساس کے ساتھ سجدے کا قبول کیا جانا متوقع ہے‘‘۔ (فیض القدیر ۲/۶۸‘ رقم الحدیث :۱۳۴۸)
ہر عبادت کا حاصل یہ ہے کہ انسان مقام عبودیت کو پالے‘ اپنی ذات کی حقیقت کو جان لے‘ اﷲ تعالیٰ کی عظمت کو سمجھ لے اور باور کر لے کہ وہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور میں فقیر ہے۔ وہ اپنے نقص کو حق تعالیٰ کے کمال مطلق کے سامنے رکھے جیسا کہ کہا جاتا ہے:’’عاجزی اختیار کی جاتی ہے تاکہ اﷲ سبحانہ تعالیٰ کی کمالِ قوت کا نظارہ کیا جائے‘ اوراس کے حضور میں اپنے فقر کو پیش کیا جائے تاکہ اس کے کمال بے نیازی کو دیکھنا ملے‘ اوراس کی جناب میں ضعف کا اظہار کیا جائے تاکہ اس کی قوت کا کمال نظر آئے۔ چنانچہ جب سجدہ بندے کی پستی اور رب کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل ہے تو بندے کی طرف سے اپنے رب اور مولیٰ کے حضور میں اپنے فقر اور احتیاج کا اظہار بندے کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
سجدہ اﷲ تعالیٰ کے قرب کا ایک انداز ہے۔ اﷲتعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: کَلَّاط لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ (العلق ۹۶:۱۹)’’ہرگز نہیں ‘ اس (نماز سے منع کرنے والے) کی بات نہ مانو‘اور سجدہ کرواور( اپنے رب کا ) قرب حاصل کرو‘‘۔اس آیت کریمہ میں غور کرو‘وہ اپنے اندر قلیل اور مختصر الفاظ کے باوجود حیات دنیا کی حقیقت اور انسان کے حوالے سے روح بندگی کی طرف واضح اشارہ لیے ہوئے ہے‘جب کہ یہ آیت اس شخص کے ذکر کے بعدآ رہی ہے جو اہلِ ایمان کو اﷲ کی بندگی سے روکتا ہے: اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یَنْھٰیoلا عَبْدًا اِذَا صَلّٰی (العلق ۹۶:۹-۱۰) ’’تم نے دیکھا اس شخص کو جوبندے کو منع کرتا ہے جب کہ وہ نماز پڑھتا ہو؟‘‘۔ وہ حق و باطل کی کش مکش اور اہل باطل کا اہل خیر پر عرصہء حیات تنگ کرنے کا اظہار ہے۔ اس مرحلے پر فیصلہ کن حکم صادر ہوتا ہے کَلَّا لَا تُطِعْہُ، یعنی عبادت کی مداومت اور اس کی کثرت سے روکنے والے کی بات نہ مانیے‘ اس کی پیروی نہ کیجیے‘ جہاں کہیں نماز پڑھنا چاہیں ‘ پڑھیے‘اﷲ تعالیٰ تمھارا حافظ و ناصر ہے۔وہ تمھیں لوگوں سے بچائے گا۔
اس آیت میں دشمنی و ایذا کے زبردست طوفان کے سامنے اوراس کا مقابلہ کرنے کے لیے طاقت حاصل کرنے کی کیفیت بیان کی گئی ہے اور وہ ہے سجدے کے ذریعے عبادت واستعانت کے ساتھ مربوط ہونا اوراس پر جمے رہنا ‘ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاۃِ (البقرہ۲:۱۵۳) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘صبر اور نماز سے مدد لو‘‘۔اس آیت میں سجدے کو اس سرکشی اور باطل سے مدافعت اور اﷲ تعالیٰ کے حکم پر صبر و ثبات کا ایک وصف بنا دیا گیا ہے۔
امام مسلمؒ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ بندہ اپنے رب کے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدہ میں ہو ‘ لہٰذا (سجدے میں) خوب دعا کرو۔اور نبی کریمؐ کی ا س ہدایت پر بھی غور کرو جس میں آپؐ نے سجدے میں کیے جانے والے ذکر کی تعلیم دی ہے‘ ایسے موقع پر جب کہ آدمی کی پیشانی خاک آلود ہوتی ہے اور وہ پورے کا پورا ‘روح وجسم کے ساتھ اﷲ کے حضور میں جھکا ہوتا ہے‘ایسی حالت میں وہ کہتا ہے : سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی۔ جب وہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰیکہہ رہا ہوتا ہے تو اپنے آپ کو اﷲ کے قرب میں محسوس کرتا ہے۔اور یہ سجدے کی تفہیم کا بنیادی جزو ہے جو بندے کے عجز و انکسار اور رب کی عظمت اور بندے کا اپنے رب کے حضور قرب کا اہم ترین ذریعہ ہے۔
سوال یہ کہ ایسا کیوں ہے کہ سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب کے زیادہ قریب ہوتا ہے ؟
جب ہم نے یہ جان لیا کہ حیات دنیا میں صاحب ایمان انسان کے لیے اﷲ کی بندگی بلندترین درجہ ہے تو ہمارے لیے تقرب الٰہی کے لیے سجدے کے مختص ہونے کا راز آشکارا ہو گیا ۔ اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد میں غور کرو سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ َبارَکْنَا حَوْلَہ‘ (بنی اسرائیل ۱۷:۱)’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی‘‘۔ یہ وہ مقام ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی معراج میں زمین سے پہلے آسمان‘ پھر دوسرے‘ پھر تیسرے ‘ پھر چوتھے حتیٰ کہ ساتویں آسمان تک تشریف لے گئے‘ اوراس مقام بلند تک رسائی حاصل کی جس تک کوئی مقرب فرشتہ اور نہ کوئی نبی مرسل ؑ پہنچ پایا تھا۔ یہ اس لیے کہ آپ ؐنے اﷲ تعالیٰ کی جناب میں عاجزی وفروتنی اور عبودیت کے اعلیٰ مقامات تک رسائی حاصل کر لی تھی اور وہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ عبادت کرنے والے تھے‘ وہ سب سے زیادہ اﷲ کی عظمت کے عارف تھے اور اﷲ کے حضور میں سب سے زیادہ اپنے فقر و ضعف کا اظہا رکرنے والے تھے۔چنانچہ آپؐ عبودیت کے ان معانی کے ساتھ متصف تھے اور یہی وہ شرف و امتیاز تھا جس کے ساتھ آپؐ اس بلندی تک پہنچے اور اﷲ تعالیٰ کے ہاں معنوی اور حسی رفعت کو حاصل کیا۔ معنوی اس طور پرکہ اﷲ تعالیٰ نے آپؐ سے فرمایا: وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ(الم نشرح۹۴:۴) ’’اور تمھاری خاطر تمھارے ذکر کا آوازہ بلند کر دیا‘‘۔لہٰذا آپ ؐ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ مذکور ہیں۔اور حسی طور پر یوں کہ آپؐ معراج کے سفر میں اس مقام بلند تک پہنچے جس کا ذکر نبیؐ کی صحیح احادیث میں وارد ہے۔
اس مرحلے پر ایک دوسرے پہلو سے بھی عبودیت کا ذکر کیا گیا ہے‘وہ یہ کہ مبالغہ کرنے والے اور حد سے بڑھ جانے والے ‘ حدِ اعتدال سے آگے نہ بڑھیں تاکہ آنحضوؐر کی عظمت وشرف کے سبب سے آپ ؐ کو حد بشریت سے نکال کر دائرہ الوہیت و معبودیت میں داخل نہ کر دیں ‘ جیساکہ سابقہ امتوںنے اپنے نبیوں ؑکے بارے میںکیا۔اس لیے آپؐ کو (عبداً) بندہ کا نام دیا گیا ہے‘ تاکہ اس بات کی تاکید ہو جائے کہ آپؐ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے بندے ہیں اور آپ ؐکو یہ رتبۂ بلند اس مقام بندگی کی وجہ سے ملا:
ومما زادني شرفاً وتیھاً
وکدت بأخمصي أطأ الثریا
دخولي تحت قولک یا عبادي
وأن صیرت أحمد لي نبیاً
اے اﷲ تو نے مجھے اپنے قول یا عبادی میں داخل فرما کر اور احمدؐ کو میرے لیے نبی بنا کر جو بڑااعزاز مجھے بخشا ہے ‘ اس پر میں فخر سے جھوم اٹھا ہوں اورقریب ہوں کہ اپنے تلووں سے ثریا کو بھی روند ڈالوں ۔
چنانچہ عبودیت وہ شرف ہے جس کے ساتھ بندہ‘ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف ارتقائی منازل طے کرتا ہے اور جب سجدہ تواضع وانکساری کی بلیغ ترین صورت ہے جو عبودیت کی روح ہے تو وہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ سے قرب کا اعلیٰ مقام ہے۔
m غرور و سرکشی کی نفی: معنوی علامات کا دوسرانکتہ یہ ہے کہ زمین کے ساتھ اتصال بندے کو اپنی ابتدا وانتہا یاد دلاتا ہے کیوں کہ انسان اپنی جبین کو خاک آلود کرتا ہے توا سے یاد آتا ہے کہ یہ اس کی پیدایش کی اصل خاک ہے اور وہ اسی خاک میں لوٹنے والا ہے۔اﷲ تعالیٰ نے اسے ابتداً مٹی سے پیدا فرمایا اور قیامت کے دن اسے جزا و سزا کے لیے اسی مٹی سے اٹھائے گا۔ اور یہ معنی بلیغ ترین صور ت میں سجدے کی حالت میں اجاگر ہوتے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ نیند کی حالت میں انسان زمین کے ساتھ زیادہ جڑا ہوتا ہے‘ لیکن یہ اتصال اس ہوشمند اور عاقل شخص کا نہیں ہوتا جو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے ‘ اپنی عقل سے سمجھتا ہے اور اپنی زبان سے کلام کرتا ہے اور اس کیفیت میں ہوتا ہے جو مطلوب ہوتی ہے جس کا ذکر بعد میں آئے گا۔ جب یہ معنی سجدے میں ایک شکل اختیار کرلیتے ہیں توانسان کو اس کی اپنی اور اپنی نہایت کی حقیقت یاد دلادیتے ہیں۔ یہ کیفیت ایمان میں اضافے کا باعث بنتی ہے اور بندے کو آخرت اور اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہونے اور اپنے عاجز ہونے کی یاد دلاتی رہتی ہے‘جس سے وہ اﷲ تعالیٰ کے مقام ِقرب سے زیادہ قریب ہو جاتا ہے ۔ خاک جو بندے کی پیدایش کی اصل ہے‘ کے ذریعے تذکیر اس کے لیے تواضع اورانکساری کا باعث بنتی ہے۔
وہ جس کی چال متکبرانہ ہے اور زمین پر اکڑ اکڑ کر چلتا ہے‘ اسے چاہیے کہ پاؤں آہستہ رکھے کیونکہ وہ خود بھی مٹی سے بنا ہے کل مٹی ہو جائے گا اور قدموں سے پامال کیا جائے گا۔ انسان بندگی کی حقیقت سے پہلوتہی تب ہی کرتا ہے جب وہ اپنی ابتداو انتہا کی حقیقت سے غافل ہو جاتا ہے۔ اسی لیے مطرف بن الشخیرؒ متکبرین و متفخرین کے بارے میں فرمایا کرتے تھے: اے ابن آدم تو اپنی ابتدا میں پانی کا ایک ناپاک قطرہ ہی تھا اور اپنی انتہا پر ایک غلیظ مردہ ہوگا‘ اور اس دوران تو گناہوں کا بوجھ اٹھائے پھرتا ہے۔ (احیاء علوم الدین ۳/۳۴۰)
انسان تب ہی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہوتا ہے اور سرکشی کا راستہ اختیار کرتا ہے جب اس حقیقت سے غافل ہو جاتا ہے۔ اور سجدہ اس زمین اور اس خا ک میں مل جانے کی بڑی بلیغ یاددہانی ہے جو ان تمام معانی کی یاد دلاتا ہے اور ان تمام اثرات کو یقینی بناتا ہے۔
جب سجدہ کرنے والا اس ہیئت میں ہوتا ہے‘ جب کہ وہ اﷲ کی عبادت میں مشغول ہوتا ہے اور اپنے ربِّ اعلیٰ کے نام کی تسبیح کر رہا ہوتا ہے تواس کے ہاں یہ دونوں اُمور‘ دنیا کی زوال پذیری کی معرفت اور عبودیت کی عظمت کا ادراک جمع ہو جاتے ہیں اور وہ جان لیتا ہے کہ اس کے لیے مناسب نہیں کہ دنیا کی حیثیت کو اس حیثیت سے زیادہ بڑھائے جو اس نے سجدہ میں دیکھی ہے۔ اور اس وقت اس کا دل دنیا کی زیب و زینت کی طرف راغب نہیں ہوتا اور نہ اس کی چمک ہی ‘اس کی بصارت و بصیرت کو اچک لیتی ہے کہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی بندگی کی حقیقت سے منہ موڑ لے۔
سجدے کی ہیئت انسان کو یہ شعور دلاتی ہے کہ دنیا وہ نہیں ہے جس طرح کہ وہ چاہتا ہے اور نہ اُس طرح ہی ہے جس طرح شیطان اسے مزین کرکے دکھاتا ہے کہ اس میں ایسا اور ایسا سامان زیست ‘ عمدہ چیزیں ‘ لذتیں اور مرغوبات ہیں جو اس بات کی مستحق ہیں کہ انسان ان کے لیے اپنا وقت اور اپنی مساعی صرف کرے اور ان کی فکر میں گھلتا رہے۔ سجدہ اس زعم باطل کا ازالہ کر دیتا ہے اور جو کچھ اﷲ تعالیٰ کے پاس اعلیٰ علییّن میں ہے مسلمان کو اس کے ساتھ مربوط کر دیتا ہے۔ نتیجتاً وہ دنیا پرستی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اوراس سے اپنی نظروں کو ہٹا لیتا ہے ۔ جب بندۂ مومن اس حقیقت کو اپنے ذہن میں تازہ کرتا ہے تو وہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے زیادہ قریب ہو جاتا ہے۔
جب بندہ دنیا کے سحر اوراس کی محبت سے آزاد ہو گیا ‘ اور اس سے امید ‘ اس کے خوف اوراس کے نفع ونقصان سے بے نیاز ہو گیا تواس نے کمال بندگی حاصل کر لیا۔ اسے معلوم ہو گیا کہ اس کا انحصار صرف اﷲ پر ہے اور اسے یقین ہو گیا کہ وہ اﷲ سے بھاگ کر کہیں نہیں جا سکتا‘ اور وہی اس کی امیدوں کا مرکز ہے ‘ جیسا کہ اس کا فرمان ہے: فَفِرُّوْا اِلَی اﷲِ (الذّٰریٰت ۴۹:۵۰) ’’پس دوڑو اﷲ کی طرف‘‘۔ یہ توایک معروف حقیقت ہے کہ ہر چیز جس سے وہ خوفزدہ ہوتی ہے اس سے گریزاں رہتی ہے سوائے اﷲ تعالیٰ کی جانب کے کہ جب کوئی چیز ا س سے خوفزدہ ہوتی ہے تواسی کی طرف دوڑ کر جاتی ہے ‘اور یہی تعلیم نبی کریمؐ نے دی ہے۔ اـ ـسی لیے سجدہ قرب کا موقع ہوتا ہے کیوںکہ اس میں اﷲ کی طرف یکسوئی اپنے کمال پر ہوتی ہے۔
m عاجزی و فقیری:پانچواں نکتہ یہ کہ سجدے میں انسانی جسم کے بڑے بڑے اعضا شریک ہوتے ہیں۔ انسان جب وقوف یا رکوع میں ہوتا ہے توا پنے بعض اعضا سے کام لیتا ہے‘لیکن جب وہ سجدہ میں ہوتا ہے تو وہ اپنے دونوں ہاتھوں‘ دونوں پاؤں ‘ دونوں گھٹنوں ‘ ناک اور پیشانی کے ساتھ زمین پر ہوتا ہے۔یہ سب کچھ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ پورے کا پورا اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے ہے اور یہ بھی کہ اس کے سارے حواس اﷲ کی ہدایت کے مطابق استعمال ہورہے ہیں۔
پس اس کی آنکھیں‘ اس کے ہاتھ‘ اس کے پاؤں اور اس کی ہر چیز اسے یاد دلاتی ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کا عاجز اور فقیر بندہ ہے‘ لہٰذا مناسب نہیں کہ وہ اﷲ تعالیٰ کو سجدہ کرے اور پھر اپنی آنکھوں اور ہاتھوں سے اللہ کی نافرمانی کرے یا قدموں کے ساتھ منکرات کی طرف چل کر جائے۔اسی طرح اس کے لیے یہ بھی مناسب نہیں کہ شہوات اور لذات کے سامنے سرنگوں ہو جائے ۔ یہ معنی ہیں سجدے کے ‘ اس شخص کے لیے جو اسے سمجھنے کے لیے اس پر غوروفکر کرتا ہے اور یہ کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی بندگی و فرمانبرداری کا زیادہ سے زیادہ حریص ہو اوراس کی نافرمانی سے زیادہ سے زیادہ بچنے والا ہو۔ یہ بندے کے لیے اس کے رب اور مولا سے قرب کے اسباب ہیں۔
m معراجِ بندگی:چھٹا نکتہ یہ ہے کہ سجدہ انسان اور شیطان کے درمیان تفریق کرتا ہے ۔ وہ شیطان کے لیے محرومی اور دوری کا سبب ہے‘ اس لیے کہ اس کو سجدے کا حکم دیا گیا مگر اس نے انکار کر دیا ۔ چنانچہ وہ انکاراس پر تاقیام قیامت لعنت کا سبب بن گیا۔ پھر آخرت میں اس کے لیے عذاب ہے۔ لیکن جو جھکتا ہے اور اﷲ کے حکم کی تعمیل میں سجدہ کرتا ہے‘ وہ اپنی عبودیت کا ثبوت دیتا ہے اور شیطان سے دشمنی کا اعلان کرتا ہے۔ شیطان کو سجدے سے انکار پر دھتکارا گیا اور اﷲ کی رحمت سے دور کر دیا گیا۔ لیکن تیرا معاملہ اس کے برعکس ہے‘ تو سجدہ کرتا ہے تو اﷲ کے قرب اور اس کی رحمت کے سایے میں ہوتا ہے ۔
سجدے کے ساتھ جہاں انسان دنیا اور اس کے فتنے ‘ لوگوں کی طرف مائل ہونے اور ان پر بھروسا کرنے سے بے نیازہو جاتا ہے وہیں اس کے اعضا اور ان کے اعمال کو اﷲ کی رضا وخوشنودی کے خلاف استعمال ہونے سے آزادی مل جاتی ہے۔ وہ شیطان کی گمراہ کن راہوں اور اس کی دھوکا دہ چالوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس کے اور شیطان لعین کے مابین دوریاں اور فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔ اس نے اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے انکار کیا مگر یہ اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری کا اعلان کرتا ہے ۔ چنانچہ اس طرح اسے فلاح کے کتنے اسباب میسر ہو گئے اور ایمان میں اضافے اور اﷲ کی رضا کے کتنے ہی اسباب ہاتھ آگئے۔بے شک ہم نے اس حقیقت کو پالیا کہ سجدہ بندے کا سب سے اونچا مقام اور قرب الٰہی کی بلیغ ترین صورت ہے۔
m آخرت کی یاد: ساتواں نکتہ دنیا اورآخرت کے سجدے کی یاددہانی ہے اور وہ سجدے کرنے والے مومن اور انکار کرنے والے کافر کے درمیان فرق ہے۔ بندہء مومن کو دنیا میں سجدے کے لیے بلایا گیا تواس نے سجدہ کیا اور کافروں کو بلایا گیا تو انھوں نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔چنانچہ وہ قیامت کے دن سجدہ کرنے کی تمنا کریں گے مگر وہ اس سے روک دیے جائیں گے‘سجدہ کرنے کے ارادے اور اس کی رغبت کے باوجود ایسا نہ کر سکیں گے۔ ان کی پیٹھیں تختہ ہو جائیں گی اور ان میں سے ایک بھی اس قابل نہ ہوگا کہ اپنی کمر کو خم کرکے سجدہ کر لے۔مفسرین نے اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد سے یہی معنی لیے ہیں: یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّیُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ فَـلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ (القلم ۶۸:۴۲) ’’جس روز سخت وقت آپڑے گا اور لوگوں کو سجدہ کرنے کے لیے بلایا جائے گا تو یہ لوگ سجدہ نہ کر سکیں گے‘‘،یعنی ان کے اور ان کے ارادے کے مابین رکاوٹ پیدا کر دی جائے گی۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا رب حقیقت کو منکشف فرمائے گا تو سب مومن مرد اور عورتیں سجدے میں گرجائیں گے لیکن جو کہ دنیا میں دکھاوے اور شہرت کے لیے سجدہ کرتا تھا ‘ وہ باقی رہ جائے گا۔ وہ چاہے گاکہ سجدہ کرے مگر اس کی پیٹھ ایک ہی طبق بن جائے گی۔بندہ مومن کو جب اس مقام کا خیال آتا ہے تو سجدے کی طرف مسابقت اسے اُس سخت مقام اور ہولناک موقع سے نجات و خلاصی دکھائی دیتی ہے اور وہ اسے رب عظیم کے تقرب اور دردناک عذاب سے بچاؤ کی ایک صورت دکھائی دیتی ہے۔اس لیے سجدہ کرنے والا اﷲ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ سجدہ جو دنیا میں سب سے بڑی عبادت اور قرب ِالٰہی کا باعث ہے وہ ان لوگوں کے لیے‘ جنھوں نے دنیا میں سجدہ کرنے سے پہلوتہی کی ‘ بڑے بنے رہے‘ سجدہ نہیں کیا اور اﷲ کے حضور میں نہیں جھکے‘ قیامت کے روز حسرت وندامت کے ساتھ مصیبت زدہ ‘ جھکی ہوئی گردنوں اور ذلیل چہروں کے ساتھ ہوں گے اور یہ رسوائی کے ساتھ عذاب کی ایک بہت بڑی صورت ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے ابلیس اوراس کے ساتھیوں کے عذاب کی کیفیت کے سیاق میں ارشاد فرمایا: فَکُبْکِبُوْا فِیْھَا ھُمْ وَالْغَاو‘نَ (الشعرائ: ۲۶:۹۴) ’’پھر وہ معبود اور یہ بہکے ہوئے لوگ اور ابلیس کے لشکر سب کے سب اس(جہنم) میں اوپر تلے دھکیل دیے جائیں گے‘‘۔اور ایسا ہی اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا قول ہے: فَکُبَّتْ وَجُوْھُھُمْ فِی النَّارِ (النمل ۲۷:۹۰ )’’ایسے سب لوگ اوندھے منہ آگ میں پھینکے جائیں گے‘‘۔اور ایسا ہی حضرت ـمعاذؓ کی حدیث سے مترشح ہوتا ہے۔ جب نبیؐ نے ان سے کہا:یعنی اے معاذ ‘ تمھاری ماں تجھے گم کرے ‘کیا لوگ اپنی زبانوں کے غلط استعمال کے نتائج کے علاوہ بھی کسی وجہ سے جہنم میں اوندھے منہ گرائے جائیں گے؟(سنن الترمذی کتاب الایمان)
عذاب کی شدید ترین صورت مشقت اور اہانت کے لحاظ سے یہ ہے کہ منکر کو منہ کے بل آگ میں پھینکا جائے ‘ اس لیے کہ اس نے بندگی سے انکار کیا تھا۔ لیکن سجدہ کرنے والا جس نے دنیا کے اندر اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور میں اس کی عظمت کے اعتراف کے ساتھ ‘ اس سے خیر کا سوال کرتے ہوئے اوراس کے عذاب سے بچنے کے لیے عاجزی اور انکساری اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو منہ کے بل گرایا تھا وہ اس عذاب سے نجات پا جائے گا۔سجدے کی اس حقیقت کے استحضار کے ساتھ مسلمان کو یہ ادراک حاصل ہو جاتا ہے کہ سجدہ نجات اور بچاؤ کا سبب ہے اور بندے کے لیے رفعت اور اﷲ تعالیٰ سے قرب کا ذریعہ۔
لہٰذا سجدہ (جو مقام قرب ہے ) پر غور کرنے والے شخص کو چاہیے کہ اس حقیقت کو فراموش نہ کرے۔ ان جملہ معانی کو جب بندہ مومن اپنے دل میں اپنے رب کی تسبیح کے ساتھ تازہ رکھتا ہے تووہ خالص عبودیت کی معراج پر ہوتا ہے۔ بلاشبہہ وہ نماز کے دوران دعا کے لیے سب سے بڑا موقع ہوتا ہے کیوں کہ وہ مقام قرب ہے۔اور یہ تو ایک حقیقت ہے کہ جب تم سربسجود ہو کر اﷲ کے قریب ہوتے ہوتواس کے حضور میں عجز و انکساری کے ساتھ اپنا سوال پیش کرنے کے اہل ہوتے ہو۔ تم اپنے اوپراﷲ کے فضل کو یاد کر رہے ہوتے ہو اور تمھیں اپنی فنا اور انتہا یاد آ رہی ہوتی ہے‘ اس حال میں کہ دنیا تمھاری نظروں سے اوجھل ہوتی ہے اور تم لوگوں سے بے تعلق ہوتے ہو اور تمھارے اعضا و حواس صرف اﷲ کی بندگی کے لیے مخصوص ہوتے ہیں اور تمھارا راستہ شیطان کی راہ سے الگ ہوتا ہے۔ پھر تمھاری نظر اﷲ کی جزاوسزاکی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔
سجدے میں دعا کی کثرت مستحب ہے جیسا کہ ہم نے قرب کی حقیقت بیان کرتے ہوئے اس کا ذکرکیا ہے اور یہ کہ نبیؐ کی نماز میں دعا زیادہ تر سجدے کی حالت میں بیان ہوئی ہے۔ ابن قیم ؒ نے کہا ہے:’’نماز میں دعا کے سات مواقع ہیں اور ان میں سے اہم ترین سجدے کامقام ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی کثرت سجدے میں ہوتی۔(زاد المعاد ۱/۲۵۶)
سجدہ دعا کے لیے مختص ہے جس کے ساتھ وہ نماز میں دیگر مواقع اور شکلوں سے ممیز ہے اور اسی بارے میں صحیح حدیث میں وارد ہے :اے لوگو‘ مبشرات نبوت میں سے صرف سچا خواب باقی ہے جسے کوئی مسلمان دیکھے یا اس کے لیے دِکھایا جائے۔ سنو ‘ مجھے رکوع وسجود کی حالت میں قرآن پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔ رکوع میں اپنے رب تعالیٰ کی عظمت بیان کرو اور سجدے میں خوب دعا کرو او ر وہ اس لائق ہے کہ اسے قبول کیا جائے(مسلم)‘ یعنی سجدہ قبولیت دعا کا اہم ذریعہ ہے۔
سجدے میں گریہ وزاری‘ تاثر اور انفعال کی کمال صورتوں میں سے ہے۔ نماز میں مسلمان کا رونا زیادہ تر دو مقامات پر ہوتا ہے :قیام میں اور سجدے میں۔
قیام میں جب وہ قرآن کریم کی آیات پڑھتا یا سنتا ہے جس میں وعدہ ہوتا ہے‘وعید ہوتی ہے‘ جنت اور جہنم کا ذکر ہوتا ہے توا ﷲ کے جلال سے اس کا دل مرعوب ہو جاتا ہے اور اس کی آنکھیں آنسو بہانے لگتی ہیں اور سجدے کا موقع اسے یاد دلاتا ہے کہ وہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے حضور میں گرا پڑا ہے ‘ نیز وہ اسے اس کے ضعف اور رب ذوالجلال کی جناب میں اپنی تقصیر کو یاد دلاتا ہے۔ اسی لیے رونے کا ذکر سجدے کے ساتھ آیا ہے: اِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُکِیًّا (مریم۱۹:۵۸)’’ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمن کی آیات ان کو سنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے‘‘۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَیَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْکُوْنَ وَیَزِیْدُھُمْ خُشُوْعًا (بنی اسرائیل ۱۷:۱۰۹)’’ اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے‘‘۔
پھر ان کی زبان اﷲ کی عظمت اور اس کے وعدہ کی سچائی کے ساتھ ہلنے لگ جاتی ہیں۔ وہ پکار اٹھتے ہیں: سُبْحَانَ رَبِّنَآ اِنْ کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا’’پاک ہے ہمارا رب ‘ اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا‘‘ اوراس کے ساتھ ان کے سینوں میں جو جذبات ابھرتے ہیں الفاظ ان کی تصویرکشی کرنے سے قاصر ہیں۔ اور آنسواس ناقابل بیان مخفی تاثیر کی تعبیر بن کر ان کی آنکھوں سے ٹپکنے لگتے ہیں۔ پس سجدے میں خشوع کامل کی تعریف یہ ہے کہ اس میں اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور میں عجز و انکساری اور گریہ و زاری بتمام و کمال جمع ہو جاتی ہیں۔
کمال سجدہ کے لوازم میں سے ہے کہ بندہ خوف و رجا کے درمیان متغیر رہتا ہے جب وہ اﷲ کے حکم کی تعمیل میں سجدہ کرتا ہے اور ابلیس کی مشابہت کی مخالفت کرتا ہے جس نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا‘ اور وہ ان لوگوں میں سے نہیں ہوتا جو سجدہ کرنے سے مجتنب رہتے ہیں۔ لہٰذا وہ امید رکھتا ہے کہ اس کا سجدہ اﷲ کی رضا کے حصول اوراس کی دعا کی قبولیت کا باعث بن جائے گا۔ لیکن جس وقت اسے ابلیس کے لیے لعنت یاد آتی ہے اور اسے وہ موقع یاد آ جاتا ہے جب آخرت میں کافروں کو سجدہ کرنے کی قدرت حاصل نہ ہوگی۔ نیزاسے ابلیس اوراس کے پیروکار بلکہ اور بھی بعض گناہگاروں کے اوندھے منہ جہنم میں پھینکے جانے کا خیال آتا ہے تو وہ اپنے رب کے غضب سے کانپ اٹھتا ہے ا ور اس کے عذاب سے خوف زدہ ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ ہمیں آیات قرآنی میں سجدے اور امید و بیم کے درمیان یہ ربط نظر آتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِھَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَ ھُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ (السجدۃ۳۲:۱۵) ’’ہماری آیات پر تو وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جنھیں یہ آیات سنا کر جب نصیحت کی جاتی ہے تو سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ ایمان کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں‘ اپنے رب کو خوف اور طمع سے پکارتے ہیں‘اور رحمن کے بندوں کی تعریف ہی یہ کی گئی ہے کہ وہ اپنے رب کے حضورسجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں‘ جو دعائیں کرتے ہیں: اے ہمارے رب‘ جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے ‘ اس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے۔
یہ سب مفاہیم اہلِ ایمان کو اﷲ تعالیٰ کے پسندیدہ مقام تک رسائی دلاتے ہیں اور وہ اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی کے سزاوار ہو جاتے ہو۔اسی لیے تو اﷲ سبحانہ وتعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ اس کے بندے زیادہ سے زیادہ اس کی بندگی کریں‘اس کے حضور میں اپنی عاجزی‘ زاری و انکساری کا اظہار کریں‘ اپنی احتیاج کو پیش کریں اور اپنے دست سوال کو اس کے حضور میں پھیلائے رکھیں۔ یہی قربِ الٰہی ہے‘ یہی معراج بندگی ہے اور یہی حقیقتِ سجدہ ہے!
صوبہ سرحد کی مجلسِ عمل کی حکومت نے گذشتہ ڈیڑھ برس میں نفاذِ شریعت اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے کئی اہم اور بنیادی اقدامات اٹھائے ہیں۔ ان میں نفاذِ شریعت بل‘ سود سے پاک اسلامی بنک کاری‘ عوام کو انصاف کی فراہمی کے لیے حسبہ ایکٹ‘ پرائمری تک طلبہ و طالبات کو مفت کتب اور یونیفارم کی فراہمی‘ میٹرک تک مفت تعلیم‘ خواتین یونی ورسٹی کا قیام‘ پانچ مرلہ مکانات پر ٹیکس کا خاتمہ‘ فحاشی و بے حیائی سے پاک معاشرے کے لیے مختلف اقدامات‘ سادگی اور میرٹ کلچر کا فروغ‘ ہسپتالوں میں شام کی او پی ڈی کا آغاز جس سے محض پانچ روپے کی فیس پر ہرطرح کے علاج معالجے کی سہولت اور مفت ایمرجنسی خدمات کی فراہمی اور خیبر میڈیکل کالج کو یونی ورسٹی کا درجہ دینا اور طالبات کے لیے گرلز کیمپس کا قیام نمایاںہیں۔ یقینا یہ اقدامات اپنی جگہ بنیادی اہمیت کے حامل ہیں اور ان کے نتیجے میں اسلامائزیشن کے عمل کو آگے بڑھانے میں اور عوام کے مسائل حل کرنے میں بڑی مدد ملے گی اور سرحد کی سیاسی تاریخ میں یہ تاریخ ساز اقدامات گردانے جائیں گے۔ البتہ حال ہی میں نظامِ صلوٰۃ کا نفاذ نہایت اہمیت کا حامل اقدام ہے۔
مجلسِ عمل سرحد نے اپنے انتخابی منشور میں صوبہ سرحد کے عوام سے صوبے میں نفاذِ شریعت کا وعدہ کیا تھا اور بڑے پیمانے پر عوامی تائید کے حصول میں یہ ایک اہم پہلو تھا۔ چنانچہ سرحدحکومت نے اسی تناظر میں اور اپنے اس وعدے کی تکمیل اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے صوبے بھر میں نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ کا اعلان کیا ہے جس کے تحت پورے صوبے میں ایک ہی وقت پر اذان اور نماز ادا کی جائے گی اور نماز کے اوقات میں سرکاری دفاتر اور تمام کاروباری ادارے بند کر دیے جائیں گے۔ آیندہ ہرنجی و سرکاری عمارت میں مسجد کی تعمیر کے لیے جگہ مختص کی جائے گی‘ نیز خواتین کی سہولت کے پیشِ نظر تمام بس اڈوں اور دیگر پبلک مقامات پر وضوگاہ اور بیت الخلا کی تعمیر کو خصوصی ترجیح دی جائے گی۔ اس بات کو بھی واضح کیا گیا کہ نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ کے لیے قوت کے استعمال کے بجاے تلقین اور تبلیغ کو ترجیح دی جائے گی۔ مزید عملی اقدام اٹھاتے ہوئے سرحد حکومت نے علما و ائمہ کرام‘ خطبا حضرات اور تاجر برادری کو اعتماد میں لیتے ہوئے آزمایشی طور پر صوبائی دارالحکومت پشاور میں نمازِ جمعہ کے یکساں اوقات مقرر کر دیے ہیں جس کے تحت ایک بجے نمازِ جمعہ کی اذان ہوگی اور ڈیڑھ بجے نمازِ جمعہ ادا کی جائے گی‘ جب کہ ایک بجے سے لے کر دو بجے تک نمازِ جمعہ کے لیے وقفہ ہوگا جس کے دوران تمام دفاتر‘تجارتی ادارے‘ مارکیٹیں بند رہیں گے۔ اس تجربے کے بعد دیگر نمازوں کے اوقات کا تعین کیا جائے گا اور پھر اس عمل کو پورے صوبے تک بڑھا دیا جائے گا۔ اس حکم کے تحت پشاور میں نمازِ جمعہ خوش اسلوبی سے ادا کی جا رہی ہے اور تنفیذ صلوٰۃ کے عمل کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
اس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ جس سیاسی انقلاب کی جڑیں اجتماعی ذہنیت‘ اخلاق اور تمدن میں گہری جمی ہوئی نہ ہوں وہ نقش برآب کی طرح ہوتا ہے۔ کسی عارضی طاقت سے ایسا انقلاب واقع بھی ہوجائے‘ تو قائم نہیں رہ سکتا‘ اور جب مٹتا ہے تو اس طرح مٹتا ہے کہ اپنا کوئی اثر چھوڑ کر نہیں جاتا۔ (تجدید و احیاے دین‘ ص ۱۲۳)
صوبہ سرحد میں نفاذِ شریعت کے حوالے سے اسی تاریخی حقیقت کو شاہ اسماعیل شہیدؒ اور سیداحمد شہیدؒ کی برپا کردہ تجدید و احیاے دین کی تحریک سے سمجھا جاسکتا ہے۔ وہ اور ان کے ساتھی ایسی پاکباز نفوس اور ہستیاں تھیں جن کو دیکھ کر عہدِ رسالتؐ اور عہدِ صحابہؓ کی یاد تازہ ہوجاتی تھی لیکن انھوں نے عوام الناس کو ذہنی و اخلاقی طور پر نفاذِ شریعت کے لیے تیار کیے بغیر شریعت کو نافذ کردیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے اسے قبول نہ کیا اور تجدید و احیاے دین کی اتنی عظیم تحریک برگ و بار نہ لاسکی۔ ماضی قریب میں صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں سطحی انداز میں اور عوام کی ذہنی و اخلاقی تربیت کے بغیر نظامِ صلوٰۃ نافذ کرنے کی کوشش کی گئی جو نقش برآب ثابت ہوئی اور آج وہ ماضی کا حصہ ہے۔ لہٰذا مجلسِ عمل جو ایک بار پھر سرحد میں نفاذِ شریعت کے عمل کو آگے بڑھا رہی ہے‘ جو بہت خوش آیند و مبارک اقدام اور ہر مسلمان کے دل کی آواز ہے‘ اسے اس پہلو کو خاص طور پر اہمیت دینا چاہیے اور پیشِ نظر رکھنا چاہیے تاکہ نفاذِ شریعت کا یہ عمل خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل کو پہنچے اور دیرپا اثرات کا باعث ثابت ہو۔
اسلام اپنی معاشرت کی بنیاد خدا کی مکمل اطاعت و بندگی‘ خوفِ خدا‘ فکرِآخرت اور اس اصول پر رکھتا ہے کہ مسلمانوںکے معاشرے میں خیر اور بھلائی پھیلے اور شر اور بدی مٹ جائے۔ فرد کی اصلاح کے لیے اسلام نے جو نظامِ تربیت وضع کیا ہے وہ اسی فکر کو پروان چڑھاتا ہے اور اس میں اقامتِ صلوٰۃ اور نظامِ صلوٰۃ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نماز کو دین کا ستون قرار دیا گیا ہے اور نبی کریمؐ جیسی ہستی نے جو رحمۃ للعالمین ہیں‘ نماز قائم کرنے پر اس شدت سے زور دیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ اپنی جگہ کسی اور کو امام بنائوں اور ان لوگوں کے گھروں کو آگ لگا دوں جو اذان سننے کے بعد بھی گھروں میں پڑے سو رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز اسلام کا وہ شعار ہے اور وہ پیمانہ ہے جس سے فوری طور پر اندازہ ہوجاتا ہے کہ کتنے لوگ خدا کی عملاً اطاعت کے لیے تیار ہیں اور اسی بات سے معاشرتی بگاڑ کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ یہی بات منافقین کو بھی نماز ادا کرنے پر مجبور کرتی تھی۔
اسلام میں عبادت کا تصور محض چند مراسم عبادت کی ادایگی کا نام نہیں بلکہ انفرادی سطح سے اجتماعی سطح تک ہر معاملے اور ہر شعبۂ زندگی میں خدا کی اطاعت و فرماں برداری اور خدا کے قانون کی بالادستی کا نام ہے۔ لہٰذا محض نماز کی ادایگی مقصود نہیں بلکہ روحِ نماز پیشِ نظر رکھنا مطلوب ہے۔ چنانچہ اس کے لیے ضروری ہے کہ بڑے پیمانے پر ذہنی و اخلاقی تربیت اور راے عامہ ہموار کی جائے۔
فریضہ اقامت دین کے تین بنیادی اور ناگزیر تقاضوں میں خدا کی اطاعت و بندگی‘ صالح افراد کی تنظیم اور امربالمعروف ونہی عن المنکر(یعنی خیر اور بھلائی پھیلے اورشروفساد اور بگاڑ مٹے) شامل ہیں۔ نبی کریمؐ کے اسوہ سے بھی یہی رہنمائی ملتی ہے۔ آپؐ نے بھی انھی بنیادوں اور خطوط پر اسلامی معاشرے کی تشکیل و تعمیر فرمائی تھی۔ آپؐ نے لا الٰہ الا اللہ کی بنیاد پر جس تحریکِ اصلاح کی بنیاد رکھی تھی‘ اس کا مطلب خدا کی مکمل اطاعت و بندگی اور غلبۂ دین تھا (مزید مطالعے کے لیے: فریضہ اقامت دین‘ مولانا صدر الدین اصلاحی)۔ لہٰذا نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ میں ان تینوں پہلوئوں اور عبادت اور نماز کی روح کو پیشِ نظر رکھنا لازم ہے۔
نظامِ صلوٰۃ کے کامیابی سے نفاذ کے لیے پہلی ضرورت بڑے پیمانے پر اس کے حق میں راے عامہ کی ہمواری اور تیاری ہے۔ اس کے لیے معاشرے اور معاشرتی صورت حال کا بغور جائزہ لینا ضروری ہے۔ اگرچہ لوگ مسلمان ہیں لیکن ان کی عملی زندگی جدید نظریات‘ مغربی تہذیب یا روایتی مذہب پسندی میں بٹی ہوئی ہے۔
جدید ذہن مغرب سے متاثر ہے اور اس کے نزدیک مذہب ذاتی مسئلہ ہے اور اس کا چند مراسم عبادت سے زیادہ عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں‘یعنی لادینیت یا سیکولر ذہنیت کا شکار ہے۔ مذہب پسند ایک بڑا طبقہ تقلید کا شکار ہے۔ وہ نماز‘ روزہ‘ رسوم و رواج اور اپنے مسلک تک محدود ہے اور اس سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے علاوہ جدید ذرائع ابلاغ اور دوسری قوتیں بھی معاشرتی بگاڑ میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ بحیثیت مجموعی شر اور بگاڑ کا پہلو غالب نظرآتا ہے۔ اب معاشرے کا صرف وہ صالح عنصر یا اہلِ خیر ہی رہ جاتے ہیں جن کے دل میں اسلام کے لیے محبت ہے اور وہ دل و جان سے خدا کی اطاعت اور اسلام کی سربلندی کے لیے خواہاں ہیں۔ یہی امید کی کرن ہیں اور یہی وہ قوت ہے جس کے ذریعے نفاذِ شریعت اور نظامِ صلوٰۃ کا نفاذ اور اسلامی نظام کا قیام عملاً ممکن ہے۔
معاشرہ خدا کی اطاعت کے لیے کس حد تک تیار ہے۔ اس کا ایک اندازہ نماز پڑھنے کے رجحان سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کتنی تعداد میں لوگ نماز ادا کرتے ہیں جومقابلتاً بہت تھوڑی تعداد ہے۔ وہ لوگ جو نماز کے دیگر تقاضے پورے کرتے ہیں ان کی تعداد تو اور بھی کم ہے‘ تاہم صوبہ سرحد میں بحیثیت مجموعی ادایگی نماز کا رجحان مقابلتاً بہترہے۔ اس معاشرتی صورت حال کو سامنے رکھنا بھی ناگزیر ہے۔
ان حالات میں فطری طور پر پہلی ترجیح وہ افراد یا گروہ یا عنصر ہونا چاہیے جو خود اسلام پر عمل پیرا ہے‘ اسلامی نظام کے نفاذ کا خواہاں ہے اور اس کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔ اس صالح عنصر کو منظم کرنے اور ایک مؤثر قوت میں تبدیل کرنے کے لیے ایک عملی شکل صلوٰۃ کمیٹیوں کا قیام ہے۔ گلی‘ محلے اور بستی کی سطح پر صلوٰۃ کمیٹیاں قائم کی جا سکتی ہیں۔ ان کمیٹیوں کے ارکان وہ لوگ ہونے چاہییں جو نمازی ہوں‘ نیک اور صالح ہوں‘ صاحبِ کردار ہوں اور خلقِ خدا کی اصلاح و بہتری کے لیے فکرمند ہوں اور دل دردمند رکھتے ہوں‘ نیز انھیں لوگوں کی تائید وحمایت حاصل ہو۔
کمیٹی کا بنیادی مقصد لوگوں کو خدا کی بندگی و اطاعت‘ آخرت کی فکر اور مقصدِ زندگی اور حقوق و فرائض کے حوالے سے توجہ دلانا اور نماز جو خدا کی اطاعت کی عملی مشق ہے‘ اس کے لیے تیار کرنا ہونا چاہیے۔ دین کے علم کے بغیر دین کی اطاعت ممکن نہیں ہوسکتی اور ہر آن بھٹکنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ لہٰذا کمیٹی کا یہ بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔ حکومتی سرپرستی سے کمیٹی زیادہ مؤثر انداز میں کام کرسکے گی اور بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ ارکان کمیٹی کے پاس اسلام کی بنیادی تعلیمات اور نماز سے متعلق عام فہم زبان میں کتابچے اور لٹریچر بھی موجود ہونا چاہیے جو ملاقات اور گفتگو کے بعد لوگوں کو مطالعے کے لیے دیے جاسکیں۔ اس کے لیے تحریک اسلامی کا بنیادی لٹریچر: خطبات‘ دینیات‘ شہادتِ حق‘ سلامتی کا راستہ وغیرہ مفید رہے گا۔ مزید غور کے بعد ایک دعوتی سیٹ تیار کیاجاسکتا ہے جو ممبران صلوٰۃ کمیٹیوں کو فراہم کیا جائے۔ ہر صلوٰۃ کمیٹی کو ایک مختصر دارالمطالعہ یا لائبریری بھی قائم کرنی چاہیے جہاں سے مطالعے اور عام لوگوں کے مطالعے کے لیے کتب فراہم کی جاسکیں۔ دارالمطالعوں کے قیام اور تقسیم لٹریچر سے عوام میں مطالعے کے ذوق اور فہمِ دین کے حصول کے لیے ایک تحریک پیدا ہوسکے گی جو راے عامہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرے گی۔
کمیٹی ہفتہ وار اجلاس منعقد کرے جس میں علاقے کی صورت حال کا جائزہ‘ نمازیوں کی کیفیت اور کام کو مزید بہتر بنانے کے لیے تجاویز اور لائحہ عمل پر غور کیا جائے۔ اس کے علاوہ ہفتہ وار درس قرآن یا دعوتی اجتماع منعقد کیا جاسکتا ہے جس میں دینی شعور کی آبیاری کی کوشش کی جائے اور لوگوں کی بھرپور شرکت کو ممکن بنایا جائے۔ کمیٹی کا ایک خصوصی ہدف فرقہ واریت کا خاتمہ‘ مذہبی جھگڑوں کو روکنا‘ باہمی تعاون اور اتفاق و یک جہتی کی فضا قائم کرنا اور لوگوں کو اس کش مکش کے نقصانات کا احساس دلانا ہونا چاہیے۔
صلوٰۃ کمیٹی کا فطری دفتر تو مسجد ہی ہے۔ اسلام میں مسجد بستی کا مرکز ہوا کرتی ہے۔ فکری رہنمائی‘ تزکیہ و تربیت‘ تعلیم وتدریس‘ معاشرتی مسائل کا حل‘ عدل و انصاف کی فراہمی‘ مالی معاونت‘ دارالمطالعہ‘ مسافروں کے لیے قیام گاہ‘ شفاخانہ‘ ثقافتی مرکز (کمیونٹی سنٹر) وغیرہ--- یہ تمام امور مسجد میں ادا کیے جاتے رہے ہیں اور کیے جانے چاہییں۔ تاہم‘ اب مسجد کو وہ مقام حاصل نہیں رہا جو ماضی میں اسے حاصل تھا (مزید مطالعے کے لیے: تعمیرمعاشرہ میں مسجد کا کردار‘ مولانا امیرالدین مہر‘ دعوہ اکیڈمی‘ اسلام آباد)۔ لہٰذا صلوٰۃ کمیٹی کا ایک اہم مقصد مسجد کے اس مقام و مرتبے اور حیثیت کی بحالی کی کوشش ہونا چاہیے۔ اگر کسی جگہ مسجد میں کمیٹی کے دفتر کا قیام ممکن نہ ہو وہاں صلوٰۃ کمیٹی کا دفتر الگ سے قائم کیا جانا چاہیے تاکہ کام مربوط و منظم انداز میں آگے بڑھ سکے اور مطلوبہ مقاصد کا حصول ممکن بنایا جاسکے۔
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِط (العنکبوت ۲۹:۴۵)
یقینا نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔
لہٰذا صلوٰۃ کمیٹی کا ایک اہم مقصد فواحش کی روک تھام اور ان کے خلاف عوامی ضمیر اور احساسِ شرافت کو بیدار کرنا ہونا چاہیے۔ اسلام میں فواحش و منکرات کا تصور کوئی محدود معنوں میں نہیں ہے۔ اس لیے فواحش کے سلسلے میں کسی ایک ہی پہلو پر نظرنہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کے تمام سرچشموں پر نگاہ رہنی چاہیے۔
فواحش کا دائرہ: قحبہ خانے‘ شراب خانے‘ سینما کی پبلسٹی‘ دکان پر عریاں تصاویر اور سائن بورڈ‘ ٹورنگ اور تھیٹریکل کمپنیاں‘سرکس‘ مخلوط تعلیم‘ اخبارت و رسائل میں فحش اشتہارات و تصاویر اور فلمی مضامین‘ ریڈیو پر فحش گانوں کے پروگرام‘ دکانوں اور مکانوں پر فحش گانوں کی ریکارڈنگ‘ ٹیلی ویژن پر فحش و بے ہودہ موسیقی کے پروگرام اور ڈرامے‘ فحش فلمیں‘ قماربازی کے اڈے‘ رقص کی مجالس‘ فحش لٹریچر اور عریاں تصاویر‘ جنسی رسائل‘ آرٹ اور کلچر کے نام سے بے حیائی پھیلانے والی سرگرمیاں‘ مینابازار‘ عورتوں میں روز افزوں بے پردگی کی وبا وغیرہ پر محیط ہے۔ (تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل‘ ص ۲۲-۲۳)
گویا فحش و منکر سے مراد تمام بیہودہ اور شرمناک افعال اور ہر وہ برائی ہے جسے انسان بالعموم برا جانتے ہیں‘ ہمیشہ سے برا کہتے رہے ہیں‘ اور تمام شرائع الٰہیہ نے جس سے منع کیا ہے (تفہیم القرآن‘ ج ۲‘ ص ۵۶۶)۔ یہ تمام پہلو بھی سامنے رہنے چاہییں۔
نظامِ صلوٰۃ کے قیام کا یہ فطری تقاضا ہے کہ معاشرے میں ہر قسم کے فواحش و منکرات کا استیصال و خاتمہ ہو۔ لہٰذا صلوٰۃ کمیٹی کی ایک اہم ذمہ داری فواحش و منکرات کے خاتمے کی کوشش ہونا چاہیے۔ اس کے لیے لوگوں میں ان کی اخلاقی ذمہ داریوں کا احساس اجاگر کرکے انھیں معاشرتی بگاڑ کو روکنے اور فواحش و منکرات کے خاتمے کے لیے مل جل کر اجتماعی جدوجہد کے لیے تیار کیا جانا چاہیے۔ لوگوں میں اس کا احساس بھی موجود ہے لیکن منظم نہ ہونے کی وجہ سے غیر مؤثر ہیں۔ اگر لوگوں کو ان معاشرتی خرابیوں کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے اور منظم انداز میں لے کر چلا جائے تو اس کے نتیجے میں یہ فضا قائم ہوسکتی ہے کہ جہاں کوئی غلط اقدام ہو فوری طور پر لوگ ایک دوسرے کو توجہ دلا کر اس کا سدباب کر دیں۔ اسلامی معاشرے کی یہ ایک نمایاں خصوصیت ہے کہ جہاں شریا منکر سر اٹھائے وہیں اسے دبا دیا جائے۔ اُمت مسلمہ کا مقصدِ وجود بھی یہی ہے۔ کمیٹی کے اس اقدام سے فطری انداز میں شروفساد اور بدی کے پھیلائو کا راستہ رک جائے گا اور لوگ عملاً برائی سے روکنے کے فریضے کو ادا کرنے لگیں گے۔ نتیجتاً معاشرہ اخلاقی لحاظ سے بہت بلند سطح پر لے جایا جا سکے گا اور نماز کا ایک اہم مقصد فحش و منکر کا خاتمہ بھی پوراہوسکے گا۔
نفسانفسی‘ خودغرضی‘ مفاد پرستی‘ دوسروں سے لاتعلقی اور صرف اپنی ذات تک محدود رہنا‘ مادیت کے شاخسانے ہیں۔ یہ اسلامی معاشرت کے لیے سم قاتل ہیں۔ اسلام اجتماعیت کو فروغ دیتا ہے۔ اُمت کا تصور‘ جسدواحد کا تصور‘ مسلمان کا مسلمان کا بھائی ہونا‘ اخوت و محبت‘ ہمدردی و خیرخواہی‘ یہ سب تصورات اسی سوچ کو آگے بڑھانے کے لیے ہیں۔ نماز فطری انداز میں اسلامی معاشرت کے اس پہلو کے فروغ کا ذریعہ ہے۔
مسلمان نماز کی ادایگی کے لیے جب اکٹھے ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کے احوال سے آگہی ہوتی ہے۔ کوئی پریشان حال ہے‘ کوئی فاقہ زدہ ہے‘ کوئی بیمار ہے‘ کوئی بے بس و لاچار ہے‘ کوئی کسی مصیبت میں پھنسا ہوا ہے‘ کوئی مالی مشکلات کا شکار ہے‘ کوئی کسی صدمے سے دوچار ہے‘ کسی عزیز کا انتقال ہوگیا ہے‘ غرض یہ سب باتیں ایک دوسرے کو قریب کرنے والی‘ ایک دوسرے سے محبت اور تعلق بڑھانے والی‘ جذبہ ہمدردی و خیرخواہی کو فروغ دینے اور ایک دوسرے کا مددگار بنانے والی ہیں۔ معاشرے کی عمومی صورت حال تو جو ہے‘ سو ہے‘ خود نمازی حضرات جو ایک عرصے سے اکٹھے نماز ادا کرتے ہیں‘اس پہلو سے غفلت برتتے ہیں۔ (مزید مطالعے کے لیے: اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر‘ مولانا مودودیؒ)
صلوٰۃ کمیٹی کو نماز کی اس روح کو بیدار کرنے‘ اجتماعیت کے فروغ‘ جذبۂ ہمدردی و خیرخواہی کے احیا کے لیے خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ اس غرض کے لیے نہ صرف لوگوں کو توجہ دلائی جائے اور اخلاقی تلقین کی جائے بلکہ آگے بڑھ کر اہلِ علاقہ کے مسائل میں بھی دل چسپی لی جائے ۔ ان کے حل کے لیے شریف وصالح عناصر کو منظم کرکے اجتماعی جدوجہد کی جانی چاہیے۔
۱- غنڈہ گردی کا انسداد ۲- ہر قسم کے فواحش کا تدارک ۳- رشوت و خیانت (کرپشن) کی روک تھام۔
۱- سرکاری محکموں اور اداروں سے عام لوگوں کی شکایات رفع کرانا اور داد رسی حاصل کرنے کے معاملے میں جس حد تک ممکن ہو ان کی مدد کرنا۔
۲- اپنی مدد آپ کا جذبہ بیدار کرنا تاکہ لوگ خود ہی مل جل کر بستیوں کی صفائی‘ راستوں کی درستی اور حفظانِ صحت کا انتظام کرلیں۔
۳- توخذ من اغنیاء ھم فترد علٰی فقراء ھم کے شرعی اصول پر بستیوں کے غریبوں‘ محتاجوں اور معذوروں کی باقاعدہ اعانت کا انتظام اور اس کے لیے انھی بستیوں کے ذی استطاعت لوگوں سے مدد لینا۔ اس غرض کے لیے زکوٰۃ‘ عشر اور صدقات کی رقوم کی تنظیم اور بیت المال کے ذریعے ان کی تحصیل اور تقسیم کا انتظام کرنا۔ (تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل سے ماخوذ)
صلوٰۃ کمیٹی کے ان اقدامات کے نتیجے میں جذبہ خیرخواہی و ہمدردی کو فروغ ملے گا۔ لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے رجوع کریں گے۔ معاشرتی انتشار و ابتری میں کمی واقع ہوگی۔ وہ لوگ جو اپنے مسائل کے ہاتھوں پریشان ہوکر اور کسی پُرسانِ حال کے نہ ہونے کی وجہ سے مایوسی کے مارے خودکشی پر مجبور ہو رہے ہیں‘ انھیں ایک نیا حوصلہ‘ امید کی کرن اور زندگی کی اُمنگ ملے گی۔ حکومتی سرپرستی کے علاوہ بہت سے ہاتھ ایک دوسرے کو سنبھالنے کے لیے میسرآئیں گے۔
چھوٹے چھوٹے جھگڑے ابتدا ہی میں گلی محلے کی سطح پر اگر حل کر لیے جائیں تو بڑے جھگڑوں کی بنیاد نہیں بنتی۔ ان مسائل پر توجہ دینے سے صلوٰۃ کمیٹی کے ذریعے پنچایت کے انداز میں فراہمی انصاف کی سبیل بھی پیدا ہو سکے گی اور مسجد جو کبھی عدل و انصاف کی فراہمی کا ذریعہ تھی‘ ایک بار پھر اس کا یہ مقام بھی بحال ہوسکے گا۔ اس طرح حکومتی سرپرستی سے بآسانی لوگوں کے مسائل گھر کی دہلیز پر حل ہوسکیں گے اور عدل و انصاف کی فراہمی میں بہتری اور آسانی پیدا ہوگی۔
اسلام حصولِ علم پر بہت زور دیتا ہے۔ قرآن مجید سے رہنمائی اور نماز سے صحیح استفادے کے لیے نماز کا مفہوم سمجھنا اور قرآنی و دینی تعلیمات کا جاننا بھی ضروری ہے۔ لہٰذا تعلیم کا فروغ نظامِ صلوٰۃ کا فطری تقاضا ہے۔ اسلام کی تاریخ میں سب سے پہلے مدرسہ صفّہ کے نام سے مسجدنبویؐ میں نبی کریمؐ کے ہاتھوں قائم ہوا تھا۔ مسجد ہمیشہ سے تعلیم و تدریس کا مرکز اور فروغِ دین کا ذریعہ رہی ہے۔ آج بھی بڑی تعداد میں مدارس موجود ہیں۔ لوگوں میں تعلیم کے فروغ‘ شرح خواندگی میں اضافہ‘ ذہنی شعور کی آبیاری‘ اسلامی تعلیمات سے آگہی کے لیے مسجد کو بطورِ مکتب و مدرسہ بآسانی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی یہ ناگزیر ہے۔
صلوٰۃ کمیٹی مساجد کے ذریعے مسجد مکتب اسکیم کو آگے بڑھا سکتی ہے۔ ایک مدرس کی بنیاد پر محدود پیمانے پر اسکول قائم کیا جا سکتاہے۔ حکومت سرحد تعلیم کے فروغ اور بے روزگاری کے مسئلے کے حل کے لیے ۲۰ہزار مراکزتعلیمِ بالغاں قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ مراکز بھی مساجد کی بنیاد پر بآسانی قائم کیے جا سکتے ہیں۔مساجد میں کوچنگ سنٹر قائم کر کے طلبہ کو بلامعاوضہ ٹیوشن کی سہولت فراہم کی جا سکتی ہے۔ جہاں سرکاری نصاب پڑھانے کے ساتھ دینی تعلیم و تربیت کا بھی انتظام ہو۔ اسی طرح مسجد میں دارالمطالعہ قائم کیا جا سکتا ہے جو ذوق مطالعہ کے فروغ اور تسکین کا باعث بن سکتاہے۔ تعلیم کے فروغ کے لیے یہ اقدامات صلوٰۃ کمیٹی کے ذریعے اٹھائے جانے چاہییں۔ اسی طرح شعور‘ آگہی اور تعلیم کے میدان میں بتدریج انقلاب برپا کیا جاسکتاہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔ اسلام میں صفائی اور حفظانِ صحت کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ صحت مند مسلمان (قوی مسلمان) کو کمزور مسلمان سے بہتر کہا گیا ہے۔ نماز کی ادایگی کے لیے لباس کی صفائی اور ذوقِ جمال کا اہتمام‘ وضو اور غسل کے احکامات‘ خوشبو کا استعمال وغیرہ اسی حکمت کے غماز ہیں۔ لہٰذا نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ کا تقاضا یہ بھی ہے کہ لوگوں کو صفائی ستھرائی‘ ماحول کی بہتری اور حفظانِ صحت کے اصولوں سے آگاہ کیا جائے۔ ماحولیاتی آلودگی‘ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر‘ صاف پانی کا میسر نہ ہونا‘ کھلے ہوئے مین ہول اور گندے پانی کا بہنا‘ راستے کی مختلف رکاوٹیں‘ اسٹریٹ لائٹ کا روشن نہ ہونا‘ یا نصب نہ ہونا‘ گلی اور سڑک کے اطراف میں درختوں کے سائے کی کمی وغیرہ--- اس نوعیت کے اور بہت سے مسائل ہیں جن کا عوام کو سامنا ہے اور جو ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا باعث ہیں۔یہ حفظانِ صحت کے اصولوں کے منافی ہیں اور اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہیں۔
جس طرح مسجد کی تزئین و آرایش اور صفائی کا خیال رکھا جاتا ہے اسی طرح اگر گلی محلوں کی صفائی اور ماحول کی بہتری پر بھی توجہ رہے اور حفظانِ صحت کے اصولوں سے بھی آگہی ہو تو بہت سی بیماریوں‘ وبائوں اور تکالیف سے بھی نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ خاص طور پر علاج معالجے پر اٹھنے والے اخراجات سے معمولی تدابیر پر عمل کر کے بچا جا سکتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ڈھائی لاکھ بچے ہیضے کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ یہ شرح صحیح طرح ہاتھ دھونے اور دیگر حفظانِ صحت کے اصولوں کو اپنانے سے ۵۰ فی صد تک بآسانی کم کی جاسکتی ہے۔ حالانکہ کھانے سے قبل ہاتھ دھونا سنت ہے۔اگر مسجد کے ساتھ ایک مختصر شفاخانہ یا ڈسپنسری بھی قائم کر لی جائے تو عوام کو علاج معالجے کی سہولت بھی میسرآسکتی ہے جہاں حفظانِ صحت کے اصولوں کے علاوہ ابتدائی طبی امداد وغیرہ کے اصول بھی سکھائے جاسکتے ہیں۔
اگر صلوٰۃ کمیٹی اس پہلو پر بھی توجہ دے اور اسلامی تعلیمات کے پیشِ نظر لوگوں کو توجہ دلائے اور ان کی اصلاح و تربیت کرے‘ اور اپنی مدد آپ کے جذبے کے تحت ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے تو اس کے نتیجے میں تھوڑے ہی عرصے میں ان مسائل کو حل کیا جا سکے گا‘ ماحول کو بہتر بنایا جا سکے گا اور ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔
خواتین ہماری آبادی کے کم و بیش نصف پر مشتمل ہیں۔ معاشرے کی تعمیر میں خواتین کا بنیادی کردار ہے اور اسے فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اگرچہ خواتین پر نماز باجماعت کی پابندی تو عائد نہیں کی‘ تاہم نمازِ جمعہ اور عیدین کے اجتماع میں خواتین کی شرکت کی تاکیداس بات کا ثبوت ہے کہ یہ خواتین کی تربیت کے لیے ناگزیر ہے اور اس کا اہتمام بھی ہونا چاہیے۔ مجلسِ عمل کی حکومت نے اس پہلو کو بھی نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ کے وقت پیشِ نظر رکھا ہے اور خواتین کے لیے الگ وضوگاہوں اور نماز کے لیے الگ جگہ کا تعین و اہتمام اس کا ثبوت ہے۔
اسلامی تعلیمات کے فروغ و اشاعت اور تعمیر و تطہیرافکار کے لیے جس طرح مردوں پر مشتمل صلوٰۃ کمیٹیوں کے ذریعے ہفتہ وار درس قرآن اور تربیتی اجتماعات کا اہتمام کیا جانا چاہیے‘ اسی طرح خواتین کی سطح پر خواتین کی کمیٹیاں بھی قائم کی جا سکتی ہیں۔ ان کمیٹیوں کا بنیادی مقصد خواتین میں اسلامی تعلیمات کا فروغ اور جمعہ اور عیدین کی نمازوں کا اہتمام ہونا چاہیے۔ اس غرض کے لیے گلی محلے کی سطح پر ہفتہ وار درس کے حلقے بھی قائم کیے جا سکتے ہیں۔ شرکا خواتین میں لٹریچر تقسیم کیا جا سکتا ہے اور دارالمطالعوں سے کتب کے حصول اور استفادے کی کوئی سبیل نکالی جاسکتی ہے۔ طالبات میں تعلیم کے فروغ کے لیے بچیوں کے لیے مسجد مکتب اسکول قائم کیے جاسکتے ہیں اور دستکاری اور ووکیشنل تعلیم بھی دی جاسکتی ہے۔
خواتین کا نماز اور دیگر مواقع پر جمع ہونے سے ایک دوسرے کے دکھ درد میں شرکت‘ مسائل میں دل چسپی‘ مالی معاونت (صلوٰۃ کمیٹی کے تحت جمع زکوٰۃ و صدقات کی مدد سے) جذبۂ محبت و خیرخواہی کے فروغ کا باعث بھی ہوگا جو اسلامی معاشرت کا ایک اہم تقاضا ہے۔
خواتین کی ان سرگرمیوں کا مرکز بھی مسجد کو ہونا چاہیے۔ اس طرح خطبات جمعہ‘ ہفتہ وار درس قرآن کے حلقوں‘ تقسیم لٹریچر‘ مطالعہ کتب‘ دارالمطالعوں سے استفادے اور باہمی محبت و خیرخواہی کے نتیجے میں خواتین کے لیے فہم دین‘ تعلیم و تربیت اور اخوت و محبت کا ایک مربوط‘ منظم اور ہمہ گیر نظام فطری انداز میں آگے بڑھنے لگے گا۔ یہ بھی نماز اور نظامِ صلوٰۃ کی برکتوں سے ممکن ہوسکے گا۔
خوش قسمتی سے رمضان المبارک کے مبارک ماہ کی بھی آمد آمد ہے۔ رمضان میں فطری انداز میں بحیثیت مجموعی ماحول پر اسلامی رنگ غالب ہوتا ہے۔ لوگوںمیں خدا کی اطاعت و بندگی‘ نیکی و پرہیزگاری‘ صلہ رحمی اور برائیوں سے بچنے کا جذبہ فزوں تر ہوتا ہے۔ نیکیوں کے اس موسمِ بہار میں نظامِ صلوٰۃ کو اس کی روح اور اس کے تمام تر تقاضوں کے پیشِ نظر نافذ کرنا سہل بھی ہوگا اور عوامی تائید اور تعاون بھی بآسانی حاصل ہوسکے گا۔ لہٰذا اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ترجیحاً اہمیت دی جائے اور خصوصی اہتمام کیا جائے۔
رمضان میں خاص طور پر فواحش اور منکرات کے خاتمے اور معاشرتی برائیوں کے انسداد کے لیے نظامِ صلوٰۃ کے ذریعے باقاعدہ ایک مہم چلائی جانی چاہیے۔ جس طرح لوگ روزے کے احترام میں برسرِعام خدا کے احکامات کی نافرمانی نہیں کرتے‘ اسی طرح نماز کی پابندی کے ساتھ ساتھ لڑائی جھگڑا‘ ظلم و زیادتی‘ رشوت ستانی‘ فحاشی کے ارتکاب‘ بے حیائی و بے پردگی وغیرہ کے خاتمے کے لیے بھی اجتماعی جدوجہد کریں۔ عوام الناس کے مسائل کے حل میں دل چسپی لیں بالخصوص ماحول کو آلودگی سے بچانے‘گلی محلے کی صفائی ستھرائی پر خصوصی توجہ دیں کہ یہ بھی نماز کا ایک اہم تقاضا ہے۔ یوں بحیثیت مجموعی نیکی فروغ پائے گی اور بدی مٹے گی‘ اور معروف کا چلن عام ہوگااور منکرات دبیں گے۔جہاں خرابی سر اٹھائے گی وہیں اس کی سرکوبی ہوسکے گی‘ اور صحیح اسلامی معاشرت کا نمونہ سامنے آئے گا جس کے اثرات رمضان کے بعد بھی قائم رہ سکیں گے۔
سرحد نے تو راستہ دکھایا ہے۔ پورے ملک میں‘ سرکاری سرپرستی کے بغیر بھی‘ اہل محلہ اس نظام کو قائم کرسکتے ہیں اور بلدیاتی سطح پر یونین کونسل اور ٹائون کا نظم اسے اختیار کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے حکومت رکاوٹ نہیں۔ سماجی تنظیمیں‘ اصلاح معاشرہ کی تحریکیں‘ سیاسی و دینی جماعتیں اپنی اپنی جگہ پر نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ کے لیے کوشش کریں تو ملک گیر اصلاح معاشرہ اور ملک و ملت کی تعمیر کی ایک تحریک برپا کی جا سکتی ہے۔
نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ کے حوالے سے اگر ان امور کو پیشِ نظر رکھا جائے اور محض مراسمِ عبادت سے آگے بڑھتے ہوئے روحِ نماز اور اس کے تقاضوں پر نظر رہے تو صرف نظامِ صلوٰۃ کی برکت سے ہی معاشرے کی صورت حال کافی حد تک بدل سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اسلامی نظام کے قیام کے لیے بڑے پیمانے پر تطہیروتعمیر افکار کا عمل آگے بڑھے گا‘ اسلامی تعلیمات سے آگہی کے نتیجے میں دینی شعور عام ہوگا۔ صلوٰۃ کمیٹیوں کے قیام کے ذریعے اسلام کے لیے مخلص اور تن من دھن سے قربانی دینے والے اور معاشرے کے صالح اور شریف عنصر کو منظم کرنے میں مدد ملے گی‘ نیز فواحش و منکرات‘ شراور بدی دبے گی اور نیکی‘ خیر اور معروف کو فروغ ملے گا۔ معاشرتی بگاڑ کے اضافے میں روک لگے گی۔ جذبہ ہمدردی و خیرخواہی کے فروغ پانے سے عوام الناس کی پریشانیوں اور مسائل میں کمی واقع ہوگی‘ اپنی مدد آپ کے تحت مسائل حل ہوں گے۔ بہت سے ہاتھ بیک وقت ایک دوسرے کو سنبھالنے اور دکھ درد بانٹنے اور سہارا بننے کے لیے موجود ہوں گے۔ مسجد مکتب‘ دارالمطالعوں اور درس کے حلقوں کے ذریعے تعلیم عام ہوگی اور شرح خواندگی اور ذہنی شعور میں اضافہ ہوگا۔ صحت و صفائی اور حفظانِ صحت کے اصولوں کو اپنانے کے نتیجے میں ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ حل ہوگا اور بیماریوں اور وبائوں سے نجات بھی ملے گی۔ ایک طرح سے راے عامہ کی ہمواری‘ معاشرے کی تنظیم‘ معاشرتی بگاڑ کا سدباب‘ جان و مال کے تحفظ‘ عدل و انصاف کی فراہمی‘ معاشی آسودگی‘ تعلیم و صحت کی سہولت جیسے بنیادی مسائل کے حل کی طرف پیش رفت ہوسکے گی جو ایک اسلامی ریاست کے بنیادی فرائض ہیں۔
نظامِ صلوٰۃ کو اگر اس کی پوری روح کے ساتھ نافذ کیا جائے تو اس کے نتیجے میں اسلامی نظام کے قیام ‘ فریضہ اقامت دین کے مراحل (خدا کی اطاعت و بندگی‘ تنظیم معاشرہ‘ امربالمعروف ونہی عن المنکر) کی تکمیل‘ اصلاح معاشرہ اور اصلاح حکومت کا عمل فطری انداز میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے جو بتدریج پایدار اور دیرپا اثرات کی حامل تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس طرح نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ کے ذریعے دراصل اصلاح معاشرہ اور اسلامائزیشن کی ایک تحریک ہے جو جاری و ساری ہوجاتی ہے۔
خدا کرے کہ یہ مبارک اقدام اسلامی انقلاب کی منزل کو قریب لانے کا باعث بنے اور بتدریج غلبۂ اسلام کا مرحلہ بھی آجائے۔ یقینا نظامِ صلوٰۃ کی اسی اہمیت کی وجہ سے قرآن پاک نے فرمایا ہے:
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط (الحج ۲۲:۴۱)
یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے‘ زکوٰۃ دیں گے‘ نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے۔
۱۱/۹ کے واقعات نہ ہوتے تو محترم قاضی حسین احمد کو دو سال پہلے ناروے آنا تھا۔ ۲۱ اگست سے شروع ہونے والے پانچ روزہ دورے سے واپس جاتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ اگر اُس وقت یہ دورہ ہوجاتا تو شاید حالیہ پروگرام کا عشرعشیر بھی نہ ہوتا۔ اسلامک کلچرل سنٹرکے ذمہ دار بتارہے تھے کہ آج تک کسی مسلمان رہنما کو اس بڑے پیمانے پر کوریج نہیں دی گئی۔ ۲۱ اگست کو اوسلو پہنچنے پر تمام ٹی وی چینلوں نے ایئرپورٹ سے براہ راست ان کا استقبال دکھایا اور پھر ناروے کے قیام کے دوران کا ہر لمحہ ریکارڈ ونشر کیا۔ تمام اخبارات نے صفحہ اول کی بڑی بڑی شہ سرخیوں سے قاضی صاحب کی آمدوگفتگو کا ذکر کیا اور پھر علیحدہ علیحدہ مفصل انٹرویو بھی مکمل دو دو صفحات پر نشرکیے۔
قاضی صاحب کی ناروے آمد کا اعلان ہوتے ہی ناروے کے سب سے بڑے اخبار آفتن پوستن نے بڑی تصویر کے ساتھ شہ سرخی جمائی: اسامہ بن لادن کا پشتیبان اوسلو آرہا ہے۔ پھر ہر اخبار‘ ٹی وی اور ریڈیو نے قاضی صاحب کو خطرناک ترین انسان قرار دینے میں کسر نہ چھوڑی۔ ان کے ناروے داخلے پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا اور حکومت یہ کہنے پر مجبور ہوگئی کہ ہم مکمل تحقیقات کرنے کے بعد ہی اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کریں گے۔
دورے کی مخالفت کرنے والوں کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ ناروے شینگن (Shengen) ریاستوں کا رکن ہے اور اس سے پہلے دو شینگن ریاستیں ہالینڈ اوربلجیم قاضی حسین احمد کے اپنے ہاں آنے پر پابندی لگا چکی ہیں‘ اس لیے اب وہ ناروے بھی نہیں آسکتے۔ ہم نے اپنے میزبانوں اسلامک کلچرل سنٹر کے ذریعے نارویجین میڈیا کو اور اسلام آباد میں نارویجین سفارت خانے جاکر ان کے قائم مقام سفیر ایلف را مسلیم کو بھی بتایا کہ بلجیم کے سفیر خود قاضی صاحب کے پاس جاکر اور ہالینڈ کے سفارت کار راقم سے تفصیلی ملاقات میں بتا چکے ہیں کہ انھیں قاضی حسین احمد یا ان کے دورے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ان کے بعض اندرونی مسائل یورپین پارلیمنٹ کے انتخابات اور ان کی میزبان تنظیم یورپین عرب لیگ کے کچھ معاملات ہیں جن کے باعث ہم چاہتے ہیں کہ آپ اس بار اپنا دورہ ملتوی کردیں‘ آیندہ آپ جب بھی جانا چاہیں گے ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا‘ بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ہم خود آپ کے میزبان ہوں۔
ہمیں ۲۱اگست کی صبح لاہور سے ناروے جانا تھا لیکن ۱۹اگست کی شام تک ناروے حکومت کا کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا تھا۔ قاضی صاحب البتہ یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ چونکہ ناروے پاکستان معاہدے کے مطابق دونوں ممالک کے سرکاری پاسپورٹ رکھنے والے افراد کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج اگر ایک مخصوص لابی کے پروپیگنڈے کے دبائو میں آکر دورہ منسوخ کر دیا جائے تو اس سے پورے یورپ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی اس مسلسل خطرے سے دوچار ہوسکتی ہے کہ جب بھی کوئی مخصوص لابی ان میں سے کسی کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردے اس کے خلاف کارروائی عمل میں آجائے۔ اس لیے وہ بہرصورت ناروے جائیں گے۔
اسلامک کلچرل سنٹر ناروے کے صدر میاں وقاص وحید مسلسل رابطے میں تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ذرائع ابلاغ روزانہ قاضی صاحب کے ایسے ایسے دوروں‘ انٹرویو اور بیانات کی جھلکیاں دکھا رہے تھے کہ جو اس سے قبل ہم نے نہیں دیکھی تھیں۔ لیکن الزامات اور صبح و شام چلنے والی مخالفانہ مہم کے باوجود ہمارے ساتھی خوفزدہ ہونے یا دبائو میں آنے کے بجاے مزید جوش و جذبے سے سرشار ہیں۔ خود کئی نارویجین ذمہ دار اور تنظیمیں قاضی صاحب کے ناروے آمد کے حق میں بیانات دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’’ایک جمہوری ملک میں اظہار راے پر پابندی کیوں کر لگائی جاسکتی ہے۔ ہمیں ان کی بات سننے کا موقع دیا جائے‘‘۔
۱۹ اگست کو بعد مغرب اسلام آباد سے ناروے کے سفیرکا فون آیا۔ وہ کہہ رہے تھے: ’’عزیز صاحب‘ مبارک ہو۔ ہماری وزیر مقامی حکومت نے ابھی کچھ دیر پہلے اوسلو میں ایک بھرپور پریس کانفرنس کی ہے۔ انھوں نے اعلان کیا ہے کہ ’’قاضی حسین احمد کے ناروے آنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اور یہ کہ میں خود بھی ان سے مل کر خواتین کے حقوق اور ناروے میں مقیم پاکستانی نژاد نارویجین کمیونٹی کے مسائل پر بات کروں گی‘‘۔
۲۱ اگست کی شام براستہ لندن اوسلو پہنچے تو پورا نارویجین میڈیا ایئرپورٹ پر موجود تھا۔ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان اور ناروے کے پرچم لیے کھڑی تھی جن میں سرفہرست برطانیہ سے اس پروگرام کے دوسرے مہمان خصوصی ہائوس آف لارڈز کے رکن لارڈ نذیراحمد اور معزز پاکستانی باشندے تھے۔ لارڈ نذیراحمد مغربی دنیا میں مسلمانوں کے بہت مؤثر وبلند بانگ ترجمان کے طور پر اُبھر رہے ہیں۔ جس پروگرام میں بھی جائیں‘ حاضرین کے دل موہ لیتے ہیں۔ لارڈ احمد برطانوی تاریخ کے وہ پہلے رکن پارلیمنٹ ہیں جنھوں نے اپنا حلف قرآن پاک پر اٹھایا ہے۔ اوسلو ایئرپورٹ پر ایک لاعلم صحافی کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ایک برطانوی لارڈ پاکستان سے آنے والے ایک خطرناک لیڈر کے استقبال کے لیے اپنے اہلِ وطن کے ہمراہ کھڑا ہے۔
قاضی صاحب نے استقبال کے لیے آنے والے تمام افراد سے فرداً فرداً مصافحہ کیااور پھر اپنی نشریات روک کر ایک ’’بنیاد پرست‘‘ لیڈر کی آمد کی خبر دینے والے ٹی وی کے نمایندوں اور صحافیوں سے مخاطب ہوئے: ’’میں پاکستان سے اپنے نارویجن دوستوں کے لیے امن‘ محبت اور دوستی کا پیغام لے کر آیا ہوں۔ اسلام صرف پاکستانیوں یا مسلمانوں کے لیے نہیں‘ پوری انسانیت کے لیے سلامتی کا پیغام رکھتا ہے۔ اہلِ مشرق اور اہلِ مغرب کے درمیان اختلاف رائے ہوسکتا ہے لیکن یہ اختلاف بھی انسانی معاشرے کی بہتری کا باعث بن سکتا ہے۔ میں چند روز کے لیے ناروے میں ہوں۔ اس دوران آپ سب سے تفصیلی ملاقات اور تبادلۂ خیال ہوگا۔ میرے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں‘ میں ان سب کی وضاحت کروں گا‘‘۔
اتوار کی شام تحفظ پاکستان کانفرنس تھی۔ آغاز سے پہلے ہی اوسلو کے قلب میں واقع بڑے آڈیٹوریم کی نشستیں اور راہداریاں تنگی داماں کا شکوہ کرنے لگیں۔ آغاز میں بچوں نے تلاوت‘ نعت اور ترانوں پر مشتمل پروگرام پیش کیا۔ لارڈ نذیراحمد نے اپنے گرم جوش خطاب میں امریکا اور مغربی ممالک کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی۔ اپنی گفتگو کے آغاز میں انھوں نے کئی سیاسی لطیفے بھی سنائے جن میں سے ایک یہ تھا کہ جہنم کے دروازے پر بہت سی گھڑیال لگے تھے۔ فرشتے سے پوچھا گیا کہ یہ گھڑیال کیا ہیں؟ اس نے کہا کہ یہ انسانوں کے جھوٹ کا پیمانہ ہے‘ جونہی کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے تو اس کے گھڑیال کی سوئیاں جھوٹ کے درجے کے مطابق چلنے لگتی ہیں۔ دریافت کیا گیا کہ صدر بش کا گھڑیال کہاںہے؟ فرشتے نے جواب دیا: وہ اتنا تیز چل رہا ہے کہ ہم اسے پنکھے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
لارڈ نذیر احمد نے یورپ میں مقیم مسلمانوں کی طرف سے کہا کہ یورپ میں بسنے والے مسلمان یہاں کے برابر کے شہری ہیں۔ انھیں ان کے حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا اور نہ انھیں دوسرے درجے کے شہری ہی قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ پاکستان کو زیادہ اہم مقام ملنا چاہیے کیونکہ انھوں نے یورپ کی تعمیروترقی کے لیے زیادہ محنت اور جدوجہد کی ہے۔
محترم قاضی حسین احمد نے انتہائی مصروف پانچ دن گزارے‘ تحفظ پاکستان کانفرنس میں کلیدی خطاب کیا‘دیگر متعدد خطابات کیے جن میں اوسلو یونی ورسٹی میں مسلم اسٹوڈنٹس سوسائٹی کے زیراہتمام ’مقصد زندگی‘ کے عنوان سے لیکچر‘ ناروے میں مقیم عرب کمیونٹی کے ادارے رابطہ اسلامی کے مرکز میں ’اسلام اور مغرب‘ کے عنوان سے خطاب اور پاکستانی چنیدہ افراد کی عشایئے اور سنٹر کے ارکان و کارکنان کے اجتماعات کے خطاب شامل تھے۔ ان میں اسلام‘ پاکستان جماعت اسلامی‘ متحدہ مجلس عمل اور عالمِ اسلام سے متعلق پائے جانے والے تمام اشکالات و سوالات کا جواب دیا۔ انھوں نے مقصد بعثت نبویؐ کا حقیقی مقصد قیامِ عدل و انصاف کو واضح کیا اور دورحاضر میں پائی جانے والی بے انصافیوں اور اس ضمن میں دُہرے معیاروں کا ذکر کیا کہ فلسطین اور کشمیر میں تو ہزاروں انسانوں کا قتل عام کرنے والوں کی مکمل پشت پناہی کی جاتی ہے لیکن الزامات عالمِ اسلام اور خاص طور پر اہلِ اسلام پر دھرے جاتے ہیں کہ یہ دہشت گرد ہیں۔ بات دنیا کو دہشت گردی سے پاک امن کا گہوارہ بنانے کی کی جاتی ہے لیکن کلچر اور تہذیب وہ عام کیا جا رہا ہے کہ لوگ دین سے دُور ہوں اور جرائم کی دلدل میں دھنستے چلے جائیں۔ ہزاروں چینل صرف عریانی اور جرائم پر مشتمل پروگرام دکھاتے ہیں۔
قاضی صاحب نے اس دور میں پائی جانے والی بے انصافیوں اور انسانیت کو درپیش خطرات کا بھی ذکر کیا کہ روح انسانی اضطراب کا شکار ہے۔ جرائم اور دہشت گردی میں اضافہ ہورہا ہے کیونکہ انسان نے خود کو خدا قرار دے لیا ہے۔ اللہ کے نظام کے بجاے خواہشات کا نظام مسلط کیا جا رہا ہے اور پوری دنیا پر قبضے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
سوالات بہت متنوع تھے لیکن لیکچر کے بعد کے سوالات ہوں یا پریس کانفرنس کے وزرا کی ملاقاتیں ہوں‘ یا ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ذمہ داران کی‘ سب کا محور وہی گھساپٹا پروپیگنڈا تھا جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ یونی ورسٹی لیکچر میں جنسی آوارگی اور فحاشی وبہیمیت کے علم بردار کچھ لوگ بہت تیاری سے آئے تھے۔ ہال کے مختلف کونوں میں بیٹھے ان مختلف العمر لوگوں نے ایک ہی جیسے سوالات کیے۔ قاضی صاحب نے ان سوالات کو ناشائستہ قرار دے کر ان کا جواب نہیں دیا لیکن ان سوالات نے پورے مغربی معاشرے کو ننگا کر دیا۔ دنیا کو نظام اور انسانی حقوق کا درس دینے والے اور اسلام کو دہشت گردی کے مترادف قرار دینے والے اس بات پر مصر ہیں کہ مردوں کو مردوں سے اور عورتوں کو عورتوں سے شادیاں کرنے کی آزادی ہی نہیں قانونی حق دیا جائے۔
مقامی حکومتوں کی وزیر ارنا سولبرگ سے ملاقات بہت مفید اور دل چسپ رہی۔ یہ خاتون وزیر نارویجی حکومت میں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ سفیر بتا رہے تھے کہ اگر آیندہ انتخابات میں ان کی پارٹی جیت گئی تو ہو سکتا ہے وہ وزیراعظم بن جائیں۔ انھوں نے کہا کہ جو پاکستانی بچے ناروے میں پیدا ہوئے‘ پلے بڑھے اور نارویجی شہری قرار پائے ان کے رہن سہن‘ کلچر اور مسائل کو پیشِ نظر رکھا جانا چاہیے۔ قاضی صاحب نے ان کی بات سے اصولی اتفاق کیا اور کہا کہ نارویجی معاشرے اور حکومت کو ان بچوں کے والدین کو بھی یہ حق دینا چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی اپنے دین اور مذہب کے مطابق تربیت دے سکیں۔ ناروے میں تو الحمدللہ ہماری بچیوں کو شکایت نہیں‘ لیکن اگر فرانس میں بچیوں کو سر پر اسکارف رکھنے اور حجاب کی اجازت نہیں دی جائے گی تو یہ دوسروں کی مذہبی آزادی سلب کرنا ہی قرار پائے گا۔
سابق وزیراعظم‘ سابق وزیرخارجہ اور پارلیمنٹ میں خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ سے تفصیلی ملاقات میں دہشت گردی کیا ہے‘ کیوں ہے‘ کشمیر‘فلسطین اور چیچنیا و عراق‘ افغانستان میں ریاستی دہشت گردی سے دنیا کو کیا کیا خطرات لاحق ہوگئے ہیں جیسے موضوعات پر بھی بات ہوئی۔
ناروے حقوق انسانی کے حوالے سے اس وقت دنیا میں پہلے نمبر پر آتا ہے‘ جہاں بے روزگار بھی بے روزگار نہیں ہوتا‘ حکومت وظیفہ دیتی ہے۔ انسان تو انسان حیوانات کے حقوق بھی طے ہیں۔ ایئرپورٹ جاتے ہوئے جمیل بھائی نے ایک پُل دکھاتے ہوئے کہا کہ مرکزی سڑک پر بنا یہ پُل انسانوں کے لیے نہیں ہے۔ دونوں طرف واقع جنگلات کے جانوروں کے لیے ہے۔ جنگلات سے درخت کاٹنا یا جانور شکار کرنا قطعاً ممنوع ہے۔ اگر کوئی درخت کاٹنا ناگزیر ہو تو اسی تعداد میں دوبارہ درخت لگانا پڑتے ہیں۔
تعلیم اور تعلیمی اداروں کی دیکھ بھال سب کی ترجیح اول ہے۔ ایک اسکول کے قریب سے گزرے تو سڑک ڈیڑھ کلومیٹر لمبی سرنگ میں بدل گئی۔ معلوم ہوا کہ اس اسکول کے بچوں نے ایک دن ہڑتال کرکے مطالبہ کیا کہ شور‘ آلودگی اور ٹریفک سے طلبہ متاثر ہوتے ہیں۔ حکومت نے مطالبہ فوراًتسلیم کرلیا اوریہاں سڑک کے بجاے ڈیڑھ کلومیٹر کی سرنگ بنا دی گئی۔ محترم قاضی صاحب فرمانے لگے یہاں یہ عالم ہے اور ادھر پنجاب یونی ورسٹی جیسے عظیم ادارے کے طلبہ و طالبات کے لیے موجود چند پُلوں کو بھی مسمار کر دیا گیا ہے تاکہ گاڑیاں تیز رفتاری سے گزر سکیں۔
ناروے کے نظام ‘ معاشرتی اقدار و روایات سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ امیرجماعت کے اس دورے سے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان روابط کی ایک مضبوط بنیاد رکھی گئی ہے۔
نومبر ۲۰۰۴ء امریکا میں صدارتی انتخابات کا ماہ ہے۔ ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی انتہائی منظم انداز میں انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ ۷۰لاکھ سے زائد مسلمان امریکا میں قیام پذیر ہیں۔ امریکی شہریت کے حامل اندازاً ۱۸ لاکھ مسلمان ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ مجموعی طور پر کل راے دہندگان کا یہ ۵ئ۱ فی صد بنتے ہیں۔ ان راے دہندگان میں سے ایک تہائی وہ لوگ ہیں جنھیں پہلی مرتبہ رائے استعمال کرنے کا موقع مل رہا ہے اور وہ اپنے سے ماقبل تارک وطن نسل سے زیادہ پُراعتماد‘ پُرجوش اور متحرک ہیں۔
فلوریڈا‘ مشِی گن‘ اوھائیو‘پنسلواینا‘ ٹیکساس اور منی سوٹا کی ریاستوں کے ووٹ عموماً غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اگرچہ ۱۱ستمبر کے واقعے کی گونج اب بھی سنائی دے رہی ہے‘ دہشت گردی کا تدارک بھی شہ سرخیوں کا موضوع ہے‘ تاہم ایک عام امریکی شہری متوازن بجٹ‘ اسلحہ کنٹرول‘ میڈیکل سہولیات‘ الکوحل‘ ٹیکس اصلاحات‘ نسلی امتیاز اورووٹر رجسٹریشن جیسے مسائل کے حل میں دل چسپی رکھتا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی امریکی فوج کے بیرونی کردار کو محدود کرنے‘ عظیم تر شہری آزادیوں اور اندرونِ ملک امور پر توجہ کے نعروں کو زیادہ متعارف کرا رہی ہے اور اس پارٹی کے امیدوار ’تہذیبی کش مکش‘ جیسے موضوع پر کم ہی اظہارخیال کرتے ہیں۔ بوسٹن میں ہونے والے ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں ۴۰ مسلمان نمایندے بھی شریک تھے۔ دوسری طرف ری پبلکن پارٹی ساری دنیا کو دہشت گردی سے پاک کرنے کی جدوجہد کا کریڈٹ لینا چاہتی ہے اور میڈیا و الیکشن منتظمین کے ذریعے اُس خطرناک صورت حال سے بچنا چاہتی ہے کہ جب پچھلی بار دونوں صدارتی اُمیدواروں کے ووٹ برابر برابر نکلے۔ تازہ ترین سروے نتائج کے مطابق جارج بش اکثریت حاصل کرسکتے ہیں۔
امریکا میں کام کرنے والے مختلف اداروں نے مسلم آبادی سے کئی سروے کیے‘ ان اداروں میں مسلمانوں کی اپنی تنظیمات بھی شامل ہیں۔ سروے کے نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ عرب آبادی جارج بش سے خصوصاً مشرقِ وسطیٰ پالیسی کی وجہ سے ناراض ہے۔ عرب آبادی میں ایک سروے سے معلوم ہوا کہ اسرائیل دوستی اور عرب دشمنی کی وجہ سے ۷۰ فی صد عرب ووٹر جارج بش کو ووٹ نہ دیں گے۔ اُنھوں نے واضح طور پر اعلان کر دیا ہے کہ جارج بش کی پالیسی سے اظہار نفرت کے طور پر وہ جان کیری کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کریں گے۔ برعظیم سے سابقہ تعلق رکھنے والے امریکی مسلمان بھی اپنے لائحہ عمل کا اعلان کرچکے ہیں کہ وہ جان کیری کے شہری آزادی‘ بنیادی حقوق اور امریکا کے داخلی جامع کردار کے موید ہیں اور انتخاب میں کیری کو کامیاب کرائیں گے۔ انتخابات سے عین پانچ ہفتے قبل تک جو سروے سامنے آرہے ہیں اُن میں جارج بش کا گراف مقامی امریکی آبادی میں بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے لیکن مسلمانوں نے ایسا کوئی مشترکہ اعلان نہیں کیا کہ وہ اپنی رائے میں تبدیلی کر رہے ہیں۔ افغانستان و عراق پر بم باری ایسے امور پر امریکیوں کی بہت بڑی تعداد بش سے نالاں ہے اور وہ کسی بھی صورت میں ناراضی کے اظہار سے نہ رُکیں گے‘ چاہے جان کیری صدارتی انتخابات میں ناکام ہوجائے۔
سکونت پذیر امریکی مسلمانوں کے دو گروہ سب سے نمایاں ہیں۔ ان میں سے ۳۵لاکھ عرب ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی درجنوں تنظیمیں اور سیاسی اختلافات ہیں اور مجموعی طور پر اتنی ہی تعداد برعظیم (پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش) سے تعلق رکھنے والوں کی ہے اور ان میں بھی غالب تر پاکستانی ہیں۔ ۱۹۸۰ء سے قبل امریکا میں آبائی وطن چھوڑ کر سکونت اختیار کرنے والے مسلمان ’’اچھا کھائو‘ اچھا پہنو‘‘کے جال میں مگن رہے۔ سیاسی‘ سماجی اور اقتصادی معاملات میں اُن کا کردار مغلوب رہا‘تاہم ۱۹۸۰ء کے بعد جو نسل امریکا میں پیدا ہوئی ہے‘ اُس کو امریکا کے ساتھ ساتھ فلسطین‘ کشمیر‘بوسنیا‘ الجزائر اور افغانستان سے بھی دل چسپی ایک حد تک ہے۔ وہ امریکا میں آئین و قانون کی پاسداری‘ نظامِ انتخابات اوربھرپور اظہارِ رائے کے ذریعے قومی امور میں شرکت کرنا چاہتے ہیں۔ مجموعی طور پر وہ USA Patriot Act سے نالاں ہیں جس کے ذریعے ایک ایک فرد کے خاندانی حالات اور ذرائع آمدن کی انتہائی باریک تفصیلات بھی حکومت طلب کرسکتی ہے۔ خصوصاً یہ کہ آپ اپنی آمدن کن ممالک یا اداروں کو دیتے ہیں‘ تاکہ ’’دہشت گردی‘‘ کے لیے معاشی وسائل کی فراہمی کا سدباب کیا جاسکے۔ ۱۱ستمبرکے واقعے کے بعد ۲۰۰۲ء میں ایک غیرسرکاری تنظیم کے سروے کے مطابق ۵۷ فی صد امریکی مسلمان ہراساں کیے گئے یا نسلی بنیادوں پر امتیازی سلوک کا شکار ہوئے۔ نئی نسل کی اسٹرے ٹیجی یہ ہے کہ تمام تر نسلی‘ لسانی‘ علاقائی اختلافات کے باوجود یک زبان ہوکر اپنی رائے کا اظہار کریں اور اپنے امریکا کو انصاف کا علم بردار ملک بنا دیں۔ یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ درست فیصلہ ہونے کی صورت میں بلدیاتی انتخابات اور سینیٹ و کانگرس میں نمایندگی کا مستحکم دروازہ کھل سکتا ہے۔
امریکن مسلم ٹاسک فورس آن سِوِل رائٹس اینڈ الیکشنز(AMT) کا قیام اس لحاظ سے خوش آیندہے کہ ایک مشترکہ پلیٹ فارم مسلم راے دہندگان کے لیے اصولی رہنمائی فراہم کر رہا ہے۔ اس فورم کے قیام کے پس منظر میں یہ نظریہ کارفرما ہے کہ مسلم آبادی کو قانونی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا پڑے گی‘ نیز ’’تنہائی‘‘ اور ’’لاتعلقی‘‘کو خیرباد کہنا ہوگا۔ اس مشترکہ پلیٹ فارم میں امریکن مسلم الائنس (AMA)‘ کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR)‘ پاکستانیوں کی معروف اور متحرک تنظیم اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا(ICNA)‘ مختلف ممالک کے مسلمانوں کا اتحاد اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا (ISNA)‘مسلم الائنس آف نارتھ امریکا (MANA)‘ مسلم امریکن سوسائٹی (MAS)‘ مسلم پبلک افیئرزکونسل (MPAC)‘ مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن- نیشنل (MSA-N)‘ اور پراجیکٹ اسلامک ہوپ (PIH) شامل ہیں۔
اس ٹاسک فورس کے قائم ہونے سے قبل عموماً یہ رائے پائی جاتی تھی کہ سینیٹ کے اُن امیدواروں کو ووٹ دیے جائیں جو علاقائی مسائل اور سیاسی قوانین کے بارے میں اُن کے لیے سودمند ثابت ہوں اور قانونی جنگ لڑسکتے ہوں‘ جتھہ بن کر کسی پارٹی کے ساتھ منسلک نہ ہوا جائے جس طرح ۲۰۰۰ء کے انتخابات میں کیا گیا تھا اور مسلم ووٹروں نے ۴۵ فی صد رائے جارج ڈبلیو بش کے پلڑے میں ڈال دی تھی۔ بعدازاں اُس نے عراق و افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بھی بجائی اور دادوتحسین کا طلب گار بھی ہوا۔ ال گور کیونکہ مسلم کمیونٹی کے بڑے استقبالیوں میں یہود دوستی کی وجہ سے شریک نہ ہوا‘ اس لیے مسلم کمیونٹی نے اُس سے بالکل بے اعتنائی برتی۔
امریکا ٹاسک فورس نے سات نکاتی ایجنڈا متعارف کرایا ہے اور اپنی اجتماعی مہم کا نام Civil Rights Plus رکھا ہے۔ اس کی وضاحت یہ کی جاتی ہے کہ ’’سب کے لیے شہری حقوق‘‘ ایک اہم نکتہ ہے لیکن واحد نکتہ نہیں۔ تعلیم‘ رہایش کی عدم فراہمی‘ اقتصادی بحالی‘ ماحولیاتی و ارضیاتی تحفظ‘ انتخابی اصلاحات‘ جرائم‘ امنِ عالم اور انصاف بھی توجہ کے بھرپور مستحق ہیں۔ فورس نے مسلمان آبادیوں سے گزارش کی ہے کہ اپنے اپنے علاقے میں مختلف جماعتوں کے نمایندوں کو شہری حقوق اور مذکورہ بالا امور پر سابقہ کارکردگی کی روشنی میں پرکھیں اور اِن کے بارے میں تفصیلی رائے طے شدہ پرفارمے ٹاسک فورس کو فراہم کریں۔ فورس کی تاسیس میں شریک انجمنوں‘ اداروں اور پریشر گروپس سے کہا گیا ہے کہ اپنے ممبران کو مکمل طور پر متحرک کریں‘ نیز راے عامہ کے سروے‘ سوالناموں اور پالیسی سیمی ناروں کے ذریعے ووٹروں کی تربیت بھی کریں۔ علاوہ ازیں اس چیز کو یقینی بنائیں کہ ووٹ کے حق دار ۱۸ لاکھ مسلمان اپنے ضروری کاغذات مکمل کرائیں اور کوئی شخص بھی ووٹ نہ دینے کے جرم کا مرتکب نہ ہو۔ علماے کرام نے امریکا کے مخصوص پس منظر میں فتویٰ بھی دے دیا ہے کہ ان حالات میں ووٹ نہ دینا کسی اور بڑے المیے کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا‘ بِلاواسطہ یہ پیغام بھی ہے۔ منتخب کوئی بھی ہو اُمت مسلمہ ‘فلسطین اور کشمیر کو فراموش نہ کیا جائے۔
گذشتہ ۲۰۰ برسوں میں یہودی آبادی نے اپنی کم تعداد اور بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ نہ صرف اسلحہ مارکیٹ‘ پٹرول مارکیٹ اور بنک کاری پر قبضہ جمائے رکھا بلکہ اسرائیل کی بھی سرپرستی جاری و ساری رکھی‘ نیز قوت کے حصول پر خصوصی ارتکاز رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم بھی ڈھا رہا ہے‘ ۶۵۰کلومیٹر طویل متنازعہ دیوار بھی تعمیر کررہا ہے اور عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کو بھی بآسانی رد کر رہا ہے۔ اگلے ماہ ہونے والے انتخابات میں یہ حقیقت واضح ہوجائے گی آیا امریکی مسلمانوں نے ہم عصر یہودیوں سے کوئی سبق بھی سیکھا ہے یا نہیں!
۱- علماے کرام بالعموم یہ کہتے ہیں کہ تراویح اول وقت میں (عشاء کی نماز کے بعد متصل) پڑھنا افضل ہے اور تراویح کی جماعت سنت موکدہ کفایہ ہے‘ یعنی اگر کسی محلے میں تراویح یا جماعت نہ ادا کی جائے تو اہلِ محلہ گنہگار ہوں گے اور دو آدمیوں نے بھی مل کر مسجد میں تراویح پڑھ لی تو سب کے ذمے سے ترکِ جماعت کا گناہ ساقط ہوجائے گا۔ کیا یہ صحیح ہے؟ اگر یہ صحیح ہے تو حضرت ابوبکرصدیقؓ کے زمانے میں کیوں‘ ایسا نہیں ہوا؟ اور اس زمانے کے مسلمانوں کے لیے کیا حکم ہوگا؟ کیا وہ سب تراویح باجماعت نہ پڑھنے کی وجہ سے گنہگار تھے؟
۲- کیا نمازِ تراویح اول وقت میں سونے سے پہلے پڑھنا ضروری ہے؟ کیا سحری کے وقت تراویح پڑھنے والا فضیلت و اولیت سے محروم ہوجائے گا؟ اگر محروم ہوجائے گا تو حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہے کہ التی تنامون عنھا افضل من التی تقومون؟
۳- کیا رمضان میں نمازِ تہجد سے تراویح افضل ہے؟ اگر ایک آدمی رمضان میں عشاء پڑھ کر سو رہے اور تراویح پڑھے بغیر رات کو تہجد پڑھے (جب کہ تہجد کے لیے خود قرآن مجید میں صراحتاً ترغیب دلائی گئی ہے اور تراویح کو یہ مقام حاصل نہیں) تو اس کے لیے کوئی گناہ تو لازم نہ آئے گا؟ واضح رہے کہ تراویح اور تہجد دونوں کو نبھانا مشکل ہے۔
۴- کیا تراویح کے بعد وتر بھی جماعت سے پڑھنے چاہییں؟ یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ تراویح سے پہلے وتر پڑھ لے اور رات کے آخری حصے میں تراویح ادا کرلے؟
۵- تراویح کی تعداد رکعت کیا ہے؟ کیا صحیح احادیث میں آٹھ‘ ۲۰‘ ۳۸ یا ۴۰ رکعتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں؟
۶- کیا کسی صحابی کو یہ حق حاصل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز کو یہ کہہ کر رد کردیں کہ ماذال بکم التی رایت من صنیعکم خشیت ان یکتب علیکم ولو کتب علیکم ماقتم بہ فصلوا ایھا الناس فی بیوتکم فان افضل صلوٰۃ الــمرء فی بیتہ الالصلٰوۃ المکتوبۃ تو وہ اسے پھر باقاعدہ جماعت کے ساتھ مساجد میں جاری کرے؟
۱- نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے زمانوں کی بہ نسبت رمضان کے زمانے میں قیامِ اللیل کے لیے زیادہ ترغیب دیا کرتے تھے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیز آپؐؐ کو بہت محبوب تھی۔
۲- صحیح روایات سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ رمضان المبارک میں تین رات نماز تراویح جماعت کے ساتھ پڑھائی اور پھر یہ فرما کر اسے چھوڑ دیا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ تم پر فرض نہ ہوجائے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ تراویح میں جماعت مسنون ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ تراویح فرض کے درجہ میں نہیں ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ لوگ ایک پسندیدہ سنت کے طور پر تراویح پڑھتے رہیں مگر بالکل فرض کی طرح لازم نہ سمجھ لیں۔
۳- تمام روایات کو جمع کرنے سے جو چیز حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے خود جماعت کے ساتھ رمضان میں جو نماز پڑھائی وہ اول وقت تھی نہ کہ آخر وقت میں۔ اور وہ آٹھ رکعتیں تھیں نہ کہ ۲۰(اگرچہ ایک روایت ۲۰ کی بھی ہے مگر وہ آٹھ والی روایت کی بہ نسبت ضعیف ہے)۔ اور یہ کہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے بعد واپس جاکر اپنے طور پر مزید کچھ رکعتیں بھی پڑھتے تھے۔ وہ مزید رکعتیں کتنی ہوتی تھیں؟ اس کے بارے میں کوئی واضح بات نہیں ملتی۔ لیکن بعد میں جو حضرت عمرؓ نے ۲۰ رکعتیں پڑھنے کا طریقہ رائج کیا اور تمام صحابہؓ نے اس سے اتفاق کیا‘ اس سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ وہ زائد رکعتیں ۱۲ ہوتی تھیں۔
۴- حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر حضرت عمرؓ کے ابتدائی زمانے تک باقاعدہ ایک جماعت میں سب لوگوں کے تراویح پڑھنے کا طریقہ رائج نہ تھا‘ بلکہ لوگ یا تو اپنے اپنے گھروں میں پڑھتے تھے یا مسجد میں متفرق طور پر چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی شکل میں پڑھا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے جو کچھ کیا وہ صرف یہ تھا کہ اسی تفرق کو دُور کر کے سب لوگوں کو ایک جماعت کی شکل میں نماز پڑھنے کا حکم دے دیا۔ اس کے لیے حضرت عمرؓ کے پاس یہ حجت موجود تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تین بار جماعت کے ساتھ تراویح پڑھائی تھی۔ اس لیے اس فعل کو بدعت نہیں کہا جا سکتا۔ اور چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے کو یہ فرما کر بند کیا تھا کہ کہیں یہ فرض نہ ہو جائے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گزر جانے کے بعد اس امر کا اندیشہ باقی نہ رہا تھا کہ کسی کے فعل سے یہ چیز فرض قرار پاسکے گی‘ اس لیے حضرت عمرؓ نے ایک سنت اور مندوب چیز کی حیثیت سے اس کو جاری کر دیا۔ یہ حضرت عمرؓ کے تفقہ کی بہترین مثالوں میں سے ایک ہے کہ انھوں نے شارع کے منشا کو ٹھیک ٹھیک سمجھا اور اُمت میں ایک صحیح طریقے کو رائج فرما دیا۔ صحابہ کرامؓ میں سے کسی کا اس پر اعتراض نہ کرنا‘ بلکہ بسروچشم اسے قبول کر لینا یہ ثابت کرتا ہے کہ شارع کے اس منشا کو بھی ٹھیک ٹھیک پورا کیا گیا کہ ’’اسے فرض کے درجہ میں نہ کر دیا جائے‘‘۔ چنانچہ کم از کم ایک بار تو ان کا خود تراویح میں شریک نہ ہونا ثابت ہے‘ جب کہ وہ عبدالرحمنؓ بن عبد کے ساتھ نکلے اور مسجد میں لوگوں کو تراویح پڑھتے دیکھ کر اظہار تحسین فرمایا۔
۵- حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب باقاعدہ جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا تو باتفاق صحابہ ۲۰رکعتیں پڑھی جاتی تھیں اور اسی کی پیروی حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے زمانے میں بھی ہوئی۔ تینوں خلفا کا اس پر اتفاق اور پھر صحابہؓ کا اس میں اختلاف نہ کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے لوگ تراویح کی ۲۰ ہی رکعتوں کے عادی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒاور امام احمدؒ تینوں ۲۰ ہی رکعت کے قائل ہیں‘ اور ایک قول امام مالکؒ کا بھی اسی کے حق میں ہے۔ دائود ظاہریؒ نے بھی اسی کو سنت ثابتہ تسلیم کیا ہے۔
۶- حضرت عمر بن عبدالعزیز اور حضرت ابان بن عثمان نے ۲۰ کے بجاے ۳۶ رکعتیں پڑھنے کا جو طریقہ شروع کیا اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ ان کی تحقیق خلفاے راشدین کی تحقیق کے خلاف تھی‘ بلکہ ان کے پیشِ نظر یہ تھا کہ مکہ سے باہر کے لوگ ثواب میں اہلِ مکہ کے برابر ہوجائیں۔ اہلِ مکہ کا قاعدہ یہ تھا کہ وہ تراویح کی ہر چار رکعتوں کے بعد کعبے کا طواف کرتے تھے۔ان دونوں بزرگوں نے ہر طواف کے بدلے چار رکعتیں پڑھنی شروع کر دیں۔ یہ طریقہ چونکہ اہلِ مدینہ میں رائج تھا اور امام مالکؒ اہلِ مدینہ کے عمل کو سند سمجھتے تھے‘ اس لیے انھوں نے بعد میں ۲۰کے بجاے ۳۶ کے حق میں فتویٰ دیا۔
۷- علما جس بنا پر یہ کہتے ہیں کہ جس بستی یا محلے میں سرے سے نماز تراویح باجماعت ادا ہی نہ کی جائے اس کے سب لوگ گناہ گار ہیں‘ وہ یہ ہے کہ تراویح ایک سنت الاسلام ہے جو عہدِخلافت راشدہ سے تمام اُمت میں جاری ہے۔ ایسے ایک اسلامی طریقے کو چھوڑ دینا اور بستی کے سارے ہی مسلمانوں کا مل کر چھوڑ دینا‘ دین سے ایک عام بے پروائی کی علامت ہے جس کو گوارا کرلیا جائے تو رفتہ رفتہ وہاں سے تمام اسلامی طریقوں کے مٹ جانے کا اندیشہ ہے۔ اس پر جو معارضہ آپ نے کیا ہے اس کا جواب اوپر نمبر۴ میں گزر چکا ہے۔
۸- اس امر میں اختلاف ہے کہ تراویح کے لیے افضل وقت کون سا ہے‘ عشاء کا وقت یا تہجد کا؟ دلائل دونوں کے حق میں ہیں‘ مگر زیادہ تر رجحان آخر وقت ہی کی طرف ہے۔ البتہ اول وقت کی ترجیح کے لیے یہ بات بہت وزنی ہے کہ مسلمان بحیثیت مجموعی اول وقت ہی کی تراویح پڑھ سکتے ہیں۔ آخر وقت اختیار کرنے کی صورت میں اُمت کے سواداعظم کا اس ثواب سے محروم رہ جانا ایک بڑا نقصان ہے۔ اور اگر چند صلحا آخر وقت کی فضیلت سے مستفید ہونے کی خاطر اول وقت کی جماعت میں شریک نہ ہوں تو اس سے یہ اندیشہ ہے کہ عوام الناس یا تو ان صلحا سے بدگمان ہوں‘ یا ان کی عدمِ شرکت کی وجہ سے خود ہی تراویح چھوڑ بیٹھیں۔ یا پھر ان صلحا کو اپنی تہجدخوانی کا ڈھنڈورا پیٹنے پر مجبور ہونا پڑے۔ ھذا ما عندی والعلم عنداللّٰہ وھو اعلم بالصواب۔ (مولانا مودودیؒ، رسائل ومسائل‘ ج ۲‘ ص ۱۶۵-۱۶۹)
س: ’’رسائل و مسائل‘‘ (اگست ۲۰۰۴ئ) میں ڈاکٹر انیس احمد صاحب نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے (ص ۹۵-۹۷) لکھا ہے کہ: ’’ایک وقت آئے گا جب مخلوط تعلیمی اداروں میں بھی طلبہ و طالبات کو اپنے ’’ایمان کی نشوونما‘‘ میں کوئی رکاوٹ نہ ہوگی اور مخلوط تعلیم کو حرام نہیں قرار دیا جا سکتا۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ اداروں میں professional ethics نافذ کیے جائیں۔ لیکن اگر ہم قرآن و سنت کی طرف رجوع کریں تو یہ بات صریحاً اور واضح طور پر ملتی ہے کہ نامحرم مرد اور نامحرم عورت اکٹھا نہیں ہو سکتے۔ اسلام میں عورت کو محرم کے بغیر گھر سے باہر نکلنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ ایسے میں کیا مخلوط تعلیم جہالت کی علامت نہیں ہے؟ مگر ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ اصل بات رویوں (attitudes)کی ہے۔ میں خود دو سال سے مخلوط تعلیم میں پڑھ رہا ہوں۔ کبھی بھی یہ ممکن نہیں کہ مخلوط تعلیم میں بھی وہ مرحلہ آئے کہ ’’ایمان کی نشوونما‘ ہوسکے اور ایک مثالی معاشرہ قائم ہوسکے۔
اگر مخلوط تعلیم حرام نہیں ہے تو کیا یہ مباح ہے یا مکروہ؟ براہِ مہربانی اس الجھن کی وضاحت کیجیے تاکہ ہم جو اِس مخلوط تعلیم کے سب سے بڑھ کر مخالف ہیں‘ اپنا ہدف قائم کرلیں کہ ہمیں مخلوط تعلیم ختم کرنی ہے یا پھر مخلوط اداروں میں ethics کو لاگو کرنا ہے؟
ج: آپ نے ’’معاشرتی بگاڑ اور خواتین کا حصول تعلیم‘‘(اگست ۲۰۰۴ئ) سے اختلاف کیا ہے جو ایک صحت مند روایت ہے۔ لیکن حوالہ دیتے وقت نہ سیاق و سباق کو پیشِ نظر رکھا ہے اور نہ ہی امانتِ تحریر کو سامنے رکھتے ہوئے الفاظ کو صحیح طور پر نقل کیا ہے۔ براہِ کرم دوبارہ جواب کا مطالعہ فرمائیں اور تلاش کریں کہ آپ نے جو الفاظ جواب سے منسوب کیے ہیں یعنی ’’ایک وقت آئے گا جب مخلوط تعلیمی اداروں میں بھی طلبہ و طالبات کو اپنے ایمان کی نشوونما میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی‘ یا ’’مخلوط تعلیم کو حرام قرار نہیں دیاجا سکتا‘‘جواب میں کس جگہ استعمال کیے گئے ہیں۔ الفاظ کو سیاق و سباق سے جدا کر کے آپ جو مفہوم نکالنا چاہتے ہوں‘ اس کے لیے آپ آزاد ہیں لیکن کسی دوسرے کو quoteکرنے کے آداب کا خیال ضرور رکھیں۔ ایسا نہ کرنا اسلامی رویے کے منافی ہے۔
جو بات جواب میں کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ عبوری دور میں جب آپ کے پاس الگ الگ تدریسی ادارے نہ ہوں کیا کیا جائے؟ کیا جب تک طالبات کے لیے الگ میڈیکل کالج نہ ہوں‘ ان کے لیے میڈیکل تعلیم کا حصول ممنوع کر دیا جائے؟ یا حتی الامکان یہ کوشش کی جائے‘ اس عبوری دور میں ان کے اخلاق و عمل کو اسلامی تعلیمات سے مزین کیا جائے اور اساتذہ اور طلبہ و طالبات کے رویے کو متاثر کیا جائے۔
اگر ایک فرد میں حق کی طلب ہو یا حق کی طلب پیدا کر دی جائے تو ایک مخلوط اور ناموافق ماحول میں بھی ہر لمحے ایمان میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ جو لوگ تندی بادمخالف سے گھبراتے ہیں اور بہتے ہوئے پانی کے ساتھ بہنے ہی میں اپنی سالمیت سمجھتے ہیں وہ کبھی بلندیوں کی طرف پرواز نہیں کر سکتے۔ بلاشبہہ تحریکاتِ اسلامی کے اہداف میں یہ بات شامل ہے اور انھیں اس پر فخر ہے کہ وہ مخلوط تعلیم کی جگہ جداگانہ تعلیم کے نظام کو رائج کرنا چاہتی ہیں اور ان سے وابستہ افراد جہاں بھی ہیں اس ہدف کے حصول کو مقصدِحیات سمجھتے ہیں لیکن جب تک ایسے ادارے وجود میں نہ آئیں‘ نامساعد حالات کے باوجود تعلیم کا سفر جاری رکھنا ہوگا۔ اگر کسی مقام پر مسجد نہ ہو تو کیا اہلِ ایمان نماز پڑھنا مؤخر کردیں گے یا مسجد کی تعمیر کی جدوجہد کرنے کے ساتھ ساتھ نماز بھی اداکرتے رہیں گے۔
مجھے آپ کی اس بات سے قطعاً اتفاق نہیں ہے کہ اسلامی اخلاقی تعلیمات‘ یعنی قرآن و سنت کی تعلیمات کا ایسے ماحول میں نافذ کرنا انتہائی مشکل ہے۔ اس ملک عزیز کی نصف صدی سے زیادہ عمرمیں ہمارے اکثر میڈیکل کالج مخلوط تعلیم پر چل رہے ہیں اور اسی ماحول میں اس ملک کی بیٹیوں نے اسلامی تعلیمات پر مکمل طور پر عمل کرتے ہوئے ایم بی بی ایس کیا ہے اور ایسے ہی بے شمار طلبہ نے اخلاق‘ جہاد اور پاکیزگی کے ساتھ اپنی تعلیم مکمل کی ہے۔ ایسے اساتذہ بھی آج زندہ موجود ہیں جو اسلامی اخلاق و آداب کے ساتھ میڈیکل کالجوں میں تدریس کے فرائض اداکررہے ہیں۔ راولپنڈی کے ایک معروف طبی کالج میں بعض معلمات حجاب کے ساتھ طب کی تعلیم دیتی ہیں‘ جب کہ طالبات کے لیے اسکارف کا استعمال لازمی ہے۔ اخلاقی ضابطے کے نفاذ کے لیے ایمان و یقین کے ساتھ عزم کی ضرورت ہے اور یہ ہر حال میں کیا جا سکتا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مطلوبہ منزل جداگانہ تعلیم ہی ہے اور رہے گی۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
اسلام ابتدا ہی سے مستشرقین کے علمی حملوں کی زد میں رہا ہے۔ انھوں نے اسلام کو عیسائیت اور یہودیت کی ایک مسخ شدہ شکل ثابت کرنے کی بڑی کوششیں کی ہیں۔ ابھی تک تو بات حدیث کی صحت اور سند تک تھی‘ اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ قرآن کا متن بھی مستند نہیں ہے اور عہدنامہ قدیم و جدید کی طرح قرآن بھی بعد میں مرتب کیا گیا ہے۔ آرتھر جیفرے اور ایک پورے گروہ نے اپنی دانست میں بڑی ’علمی تحقیقات‘ کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن دوسری تیسری صدی کا ایک من گھڑت افسانہ (نعوذ باللہ) ہے۔
زیرتبصرہ کتاب اسی موضوع پر ایک ہندستانی اہلِ علم مصطفی الاعظمی کی تصنیف ہے۔ یہ دیوبند اور جامعہ ازہر کے فارغ التحصیل ہیں۔ انھیں شاہ فیصل ایوارڈ بھی ملا ہے (۱۹۸۰ئ)۔ ان کی یہ تصنیف گہری تحقیق پر مبنی ہے جس میں اب تک اسلام پر کیے گئے حملوں کا‘ دستاویزات کی بنیاد پر موثر دفاع کیا گیا ہے۔ مصنف کو کتاب کی تحریک ماہنامہ اٹلانٹک کے مشہور مضمون ’’قرآن کیا ہے؟‘‘ (۱۹۹۹ئ) سے ہوئی۔ مصنف نے اس کتاب میں مغرب کے تعصبات‘ دُہرے معیارات‘ دیدہ دلیری اور بعض اوقات صہیونی اثرات کے بارے میں اپنا مؤقف مضبوطی اور محنت و کاوش سے پیش کرنے کے بعد عہدنامۂ عتیق (ص ۲۱۱ تا ۲۶۱) اور عہدنامہ جدید (ص ۲۶۵ تا ۲۹۸) کے مختلف حصوں کے عکس بھی دیے ہیں اور ان کی تحریف کو ثابت کیا ہے۔ انھوں نے ۶۴صحابہ کرامؓ کی فہرست دی ہے جنھوں نے حضرت زید بن ثابتؓ کے علاوہ بطور کاتب کام کیا۔ وہ آنکھیں بند کر کے اس بات پر یقین نہیں کرتے کہ استنبول اور تاشقند کے نسخے وہی ہیں جنھیں حضرت عثمانؓ نے پھیلایا تھا۔
الاعظمی کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ بائبل کا بھی اسی معیار پر جائزہ لیا جائے تو حضرت موسٰی ؑ اور حضرت عیسٰی ؑکے وجود ہی سے انکار کرنا پڑے گا‘ اور یہ عہدنامے گم نام قصے کہانیاں معلوم ہوں گے۔ یہ مذاق کی بات نہیں کہ یہودیت اور عیسائیت کا تقابل قرآن کے اڑھائی لاکھ نسخوں اور عہدرسالتؐ کے لاکھوں حفاظِ کرام سے کیا جائے جو علاقائی لب و لہجے کے اختلاف کے علاوہ ایک ہی متن پڑھتے رہے۔ اس کا موازنہ اس حقیقت سے کیجیے کہ دوبارہ منظرعام پر آنے سے قبل تورات یہودی علمی تاریخ سے آٹھ صدیاں غائب رہی۔ اس کا کوئی مستند متن موجود نہیں اور یہ کہ عہدنامۂ عتیق کا عبرانی زبان میں جو مکمل مسودہ سامنے آیا وہ ۱۰۰۸ عیسوی کا ہے۔
مصنف کو بخوبی علم ہے کہ ہر طرح کے علمی شواہد کے باوجود‘ مستشرقین مسلمانوں کے عقائد کو ناقابلِ اعتبار سمجھتے رہیں گے اور وہ اپنے اس موہوم خیال کو حقیقت بنا کر پیش کرنا بند نہیں کریں گے کہ قرآن نبی کریمؐ کی وفات کے ۱۵ برس بعدیکجا کیا گیا اور لکھا گیا۔ ان کا یہی مؤقف رہے گا کہ قدیم عربی رسم الخط ناکافی تھا اور قرآن ۱۰۰سال تک زبانی روایت رہا۔
بہرحال الاعظمی کی یہ کتاب اہم ہے اور امید ہے کہ وہ تمام مسلمان کو جو دعوہ سے متعلق ہیں اور علم و تحقیق سے وابستہ ہیں‘ اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔ (مراد ہوف مَین‘ ترجمہ و تلخیص: عبداللّٰہ شاہ ہاشمی۔ مسلم ورلڈ بک ریویو ۲۰۰۴ء )
راجا عبداللہ نیاز (۱۸۹۵ئ-۱۹۷۱ئ) لیّہ کے رہنے والے تھے۔ ساری عمر درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ مطالعے کے رسیا اورشعروسخن کا عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ متعدد تصانیف نظم ونثر (خدااور اس کے رسول، یہ ہیں کارنامے رسولؐ خدا کے، صبحِ سخن) چھپ چکی ہیں مگر بہت سا تحریری کام غیرمطبوعہ ہے اور کچھ گم یا ضائع بھی ہوگیا۔ زیرنظر کتاب پروفیسر جعفربلوچ کی سعی و کاوش سے شائع ہوئی ہے۔
کتاب کے ایک حصے میں خوارق‘ انبیا بہ شمول اور رسول اکرمؐ کے بعض معجزوں‘ نیز انسانی مشاہدے میں آنے والے عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات‘ مثلاً: مُردے ہم کلام ہوتے ہیں‘ خوابوں میں سچی پیش گوئیوں اور ایسی باتوں کا تذکرہ ہے جن سے قوانینِ فطرت ٹوٹتے اور بدلتے محسوس ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں مصنف نے اخبارات‘ رسائل اور انگریزی کتابوں کے بکثرت حوالے دیے ہیں۔
ایک حصے میں قرآنِ حکیم کے معجزات کا ذکر ہے۔ (حفاظتِ قرآن‘ آیاتِ قرآنی میں شفا کی تاثیر‘ قرآن ایک بے مثال ادب پارہ‘ قرآنی نکات اور جدید سائنسی اکتشافات و ایجادات وغیرہ)۔ اس حصے میں مصنف نے قرآن اور فلسفۂ اخلاقیات‘ اسی طرح اسلامی عبادت کی انفرادیت اور پھر قرآنی پیش گوئیاں جیسے عنوانات کے تحت بھی دل چسپ واقعات بیان کیے ہیں۔
جناب احمد جاوید نے اپنے فاضلانہ دیباچے میں کہا ہے کہ کتاب کا بیشتر حصہ سائنس کے اور دینی مزعومات کے رد پر مشتمل ہے۔ مصنف نے معجزات‘ کرامات اور دیگر خوارق کی تسلیم شدہ مثالوں سے یہ ثابت کرنے کی سعیِ محمود کی ہے کہ کائنات‘ سائنس کے تصورِ اسباب و علل کی بنیاد پر نہیں بلکہ مشیتِ الٰہیہ پر چل رہی ہے۔
اگرچہ کتاب کی تدوین ٹھیک طرح سے نہیں ہو سکی لیکن جملہ مباحث بہت دل چسپ اور مصنف کی علمیت اور وسیع مطالعے کے آئینہ دار ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)
بقول مصنف ہمیں ’’ایسے فنِ تاریخ نگاری کی ضرورت ہے جو ہمیں اپنے آپ کو جاننے پہچاننے میں مدد دے‘‘۔ چنانچہ یہ کتاب ہمیں خود احتسابی کی دعوت دیتی ہے۔ اولین طور پر یہ اُردو زبان میں معرکۂ دین و سیاست کے نام سے ۱۹۶۳ء میں شائع ہوئی تھی۔
مصنف نے خلافتِ عباسیہ کاعمومی جائزہ لیا ہے۔ خلافت کی بادشاہت میں تبدیلی سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ انھوں نے بظاہر ’’خلفا‘‘ مگر اصل میں شاہانِ عباسیہ کے کردار پر سیرحاصل بحث کی ہے۔اس دور میں کیے گئے تشدد اورظلم و زیادتی پر مبنی اقدامات نہ اسلام کی نمایندگی کرتے ہیں نہ مسلمانوں کی‘ یہ بادشاہوں کے اپنے ذاتی فیصلے تھے۔ ’’فوج کی سیاسی مداخلت‘‘ ایک اہم باب ہے جسے پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ ہم نسلوں بعد بھی وہی غلطیاں دُہرا رہے ہیں۔ اسلامی خزانے میں ہونے والی خردبرد اور ایسے واقعات کی نشان دہی کی ہے جو اسلامی تاریخ و ثقافت کے چہرے پر دھبے ہیں۔ حکومت کا محکمہ قضا اور عدلیہ بھی دل چسپ واقعات سے پُر ہے۔ بتایا گیا ہے کہ نامور علما‘ صلحا اور قضات نے جبر اور لالچ کو خاطرمیں لائے بغیر ہمیشہ حق گوئی اور عدل وا نصاف کا علم تھامے رکھا۔ آخری باب میں امام ابوحنیفہؒ کے انقلابی تصورات اور کارناموں کے ضمن میں درباری علما کے فتنۂ خلقِ قرآن اور فتنۂ اعتزال پر بھی سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔
ڈاکٹر مقبول الٰہی نے ایک علمی کتاب کو انگریزی میں ڈھالنے میں بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے۔ مترجم خود بھی ایک فاضل شخصیت اور ادیب ہیں۔ چنانچہ انھوں نے نعیم صاحب کی شستہ اور ادیبانہ زبان اور شاعرانہ جملوں کا مفہوم کامیابی سے اردو میں منتقل کیا ہے۔
کتاب مجلد ہے اور اچھے کاغذ پر‘ خوب صورت سرورق کے ساتھ شائع کی گئی ہے۔ تاریخ‘ عدلیہ‘ آزادیِ راے اور اسلامی انقلاب کے لیے کام کرنے والوں کے لیے یہ ایک نادر تحفہ ہے۔ (محمد ایوب منیر)
اُمت مسلمہ مصائب و آلام اور مظلومیت کی زندگی گزار رہی ہے لیکن اپنے مسائل کی حقیقی نوعیت سے بے خبر ہے اور نہیں جانتی کہ ان کا حل کیسے نکل سکتا ہے۔ زیرنظرکتاب میں اُمت کے ایک بہت اہم اور سلگتے ہوئے مسئلے اور مشرقِ وسطیٰ کے ناسور فلسطین کی نوعیت‘ پس منظر اور پیش منظر کو واضح کیا گیا ہے۔
بقول عبدالرشید ترابی: پاکستان میں مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کے لیے ذاکر خان نے بہت بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ وہ دردِ دل رکھنے والے ایک نوجوان قلم کار ہیں۔ انھوں نے مسئلہ فلسطین کی نوعیت‘ حماس اور پی ایل او کی جدوجہد‘ انتفاضہ‘ جہاد فلسطین میں خواتین کے کردار‘ مہاجرکیمپوں اور اسرائیلی جیلوں میں بے گناہ فلسطینیوں پر بے پناہ مظالم اور ان کی حالت زار پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ انسانی حقوق اور معاہدات کے حوالے سے مغرب اور امریکا کا کردار کیا ہے اور عالمی صہیونی تحریک اور موساد‘ بھارت کی مدد سے مسلم ممالک کو ختم کرنے کے کیا منصوبے رکھتی ہے؟ کتاب اپنے موضوع پر جامع ہے اور مسئلہ فلسطین پورے سیاق و سباق کے ساتھ اُجاگر ہوجاتا ہے۔ (ع - ش - ہ )
ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا گذشتہ ۳۰ برس سے اسلامی معاشیات اور اسلامی بنک کاری پر گراں قدر کام سرانجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے عرصۂ دراز تک پاکستان کے مختلف اداروں کے علاوہ سعودی عریبین مانٹیری ایجنسی اور اسلامی ترقیاتی بنک کے ادارے اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں بطور مشیر خدمات سرانجام دی ہیں۔ اس دوران میں انھوں نے ۱۲ کتب اور ۸۱مقالے تحریر کیے۔
زیرتبصرہ کتاب مصنف کے تین انگریزی مقالوں کا مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے معاشی زندگی کے بعض سلگتے مسائل پر بحث کی ہے۔ ایک شعوری مسلمان ان سوالات کے مدلل جوابات کا طالب ہوتا ہے‘ مثلاً: کیا اسلام نے واقعی سود کو حرام قرار دیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کی کیا وجوہ ہیں؟ حرمت ِ سود کے پیچھے کیا حکمتِ کار فرما ہے؟ مزیدبرآں کیا سود کے بغیر بنک کاری کا نظام ممکن ہے؟
ڈاکٹر محمد عمرچھاپرا نے حرمتِ سود کی حکمتوں اور مصلحتوں پر نئے انداز سے تحقیق کے ذریعے مندرجہ بالا سوالات کے جوابات دیے ہیں۔ انھوں نے ربا اور سود کے درمیان لفظی خلطِ مبحث کی بنیاد پر بعض لوگوں کی طرف سے پیدا کیے گئے فرق کو قوی دلائل سے رد کیا ہے۔ اسی طرح ربا النسیہ اور ربا الفضل کے بارے میں پیدا کی گئی الجھنوں کا شافی جواب دیا ہے۔
غیر سودی بنک کاری کے بارے میں کچھ لوگ توسنجیدگی سے کچھ سوالات اٹھاتے ہیں مگر بعض لوگ بلاوجہ ہی اشتباہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اخلاقی انحطاط کی وجہ سے اسلامی بنک کاری ممکن نہ ہوگی؟ اس اہم سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے جدید بنک کاری کے تجربات کی بنیاد پر کئی عملی تجاویز دی ہیںجن کے ذریعے اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اسلامی بنک کاری کے ضمن میں ہونے والی کامیابیوں کا احوال بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی بنک کاری کی راہ میں حائل مشکلات کا حل بھی تجویز کیا گیا ہے۔ مزیدبرآں ہر باب کے اختتام پر حواشی اور مصادر دیے گئے ہیں۔
یہ کتاب اسلامی معاشیات اور اسلامی بنک کاری کے موضوع پر اردو زبان میں ایک خوب صورت اضافہ ہے۔ (پروفیسر میاں محمد اکرم)
سفرنامہ محبوبیہ بلاداسلامیہ (ترکی‘ شام‘مصر‘ لبنان‘ اردن‘ دبئی اور حجاز) کے اسفار پر مشتمل ہے۔ مصنف ایک راست فکر دانش ور‘ بلند پایہ انشاپرداز‘ عمدہ شاعر اور صاحبِ اسلوب قلم کار ہیں۔ ان کا مطالعہ وسیع ہے اور اپنے مشاہدات اور تجربات کی وسعت کے سبب ان کے ہاں ایسی بصیرت ملتی ہے جو دیگر سفرنگاروں میں کم کم پائی جاتی ہے۔
سفرنامے کے مصنف نے ۱۷‘ ۱۸ سال عرب امارات میں بسر کیے اور ان ممالک کے بیسیوں نہیں دو سو بار سفر کیے۔ گردوپیش اور وہاں کے ماحول اور معاشروں میں جذب ہوکر ان کا مطالعہ اور تجزیہ کیا‘ تاریخ کا نہ صرف مطالعہ کیا بلکہ تاریخ کو بنتے بگڑتے دیکھا۔ معاشرت کی جھلکیاں بار بار سامنے آتی ہیں۔ مصنف کا ماٹو ہے کہ سفر‘ علم و عمل اور عرفان و آگہی کی عملی درس گاہ ہے۔اس لیے ان کا یہ سفرنامہ فکرونظر کے نئے دریچے کھولتا ہے۔ نامور کالم نگار عرفان صدیقی کے بقول: ’’یہ بالکل ہی منفرد انداز و اسلوب کا سفرنامہ ہے جس میں مسافر یا سیاح محض گردوپیش کے مناظر‘ تہذیب و معاشرت کے رنگ ڈھنگ‘ افراد کے انداز و اطوار‘ قابلِ دید مقامات کی سج دھج… ذاتی تجربات و مشاہدات ہی کا تذکرہ نہیں کرتا بلکہ ٹھوس افکار اور سنجیدہ مباحث کا دبستان کھول دیتا ہے‘‘۔
پیش لفظ ڈاکٹرنگار سجاد ظہیر کے قلم سے ہے۔ کتابت و طباعت عمدہ ہے۔ تصاویر بھی شامل ہیں۔ ص ۳۳ کی پہلی تصویر ایاصوفیا کی ہے‘ نہ کہ مسجد سلیمانیہ کی۔ (ع - ش - ہ )
’’مغربی تہذیب کی یلغار‘‘ (ستمبر ۲۰۰۴ئ) میں مغرب کی اسلام کے خلاف سازشوں کو بخوبی بے نقاب کیا گیا ہے اور مقابلے کے لیے حکمت عملی اور لائحہ عمل بھی دیا گیا ہے جس کے دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
مضمون میں جہاں مسلمانوں کے لیے فکروتدبر کے کئی زاویے ہیں وہاں مغربی‘ خصوصاً امریکی عوام و خواص کے لیے غوروفکر کے متعدد نکات ہیں کہ اگر وہ انھیں سمجھ لیں تو بین الاقوامی تعلقات خصوصاً مسلم-مغرب تعلقات میں خوش گوار تبدیلی آسکتی ہے۔ اس مضمون کو انگریزی زبان میں منتقل کر کے وسیع پیمانے پر اشاعت کی ضرورت ہے۔
’’تعلیم کا استعماری ایجنڈا اور آغا خان بورڈ‘‘ (ستمبر ۲۰۰۴ئ) نہایت اہم اور فکرانگیز مضمون ہے۔ مستقبل سے بے نیاز حکمرانوں کو یقینا اس بارے میں سوچنا چاہیے۔ پارٹی تعصبات کو بالاے طاق رکھتے ہوئے تمام ارکانِ پارلیمنٹ کو اس مسئلے کے خلاف مثبت قدم اٹھانا چاہیے وگرنہ آیندہ نسلیں ایسے موقع پرست حکمرانوں اور سیاست دانوں کو کبھی معاف نہیں کریں گی۔
آغا خان امتحانی بورڈ کے اثرات اور نتائج پر بڑی بالغ نظری کے ساتھ خیالات کااظہار کیاگیا ہے لیکن آغا خان امتحانی بورڈ کی گاڑی اب اتنی دور جاچکی ہے کہ اُسے پیچھے ہٹانا اب شاید ممکن نہیں رہا۔
آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ کا آرڈی ننس نومبر ۲۰۰۲ء میں نافذ ہوا اور اسے ۱۷ویں آئینی ترمیم میں تحفظ بھی مل چکا۔ اس لیے یہ سب کچھ بعد ازمرگ واویلا کی بات ہے۔ نوازشریف کی حکومت میں منظور کی جانے والی ۱۹۹۸ء کی ایجوکیشن پالیسی کے تحت یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ آغا خان یونی ورسٹی نے امتحانی بورڈ کے لیے درخواست بھی ۱۹۹۹ء میں دی تھی۔ قومی سوچ رکھنے والی قوتوں نے اس طرف توجہ نہ دی اور اب‘ جب کہ بیج درخت کی شکل اختیار کرچکا ہے تو واویلا کرنے کا کیا فائدہ۔ اب تو جو کچھ ممکن ہے وہ یہ ہے کہ: ۱-آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ کو پابند کیا جائے کہ وہ قومی نصابِ تعلیم کے مطابق امتحان لے۔ ۲- آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ‘ انٹربورڈ کمیٹی آف چیئرمین (IBCC) جو وفاقی وزارتِ تعلیم کا سپروائزری ادارہ ہے کی چھتری کے تحت کام کرے اور انھی قوانین و ضوابط کی پابندی کرے جن کی تمام قومی امتحانی بورڈز پابندی کرتے ہیں۔ ۳-انٹربورڈ کمیٹی آف چیئرمین کا درجہ بڑھایا جائے اور اسے ریگولٹیری اتھارٹی کا درجہ دیا جائے اور اسے تمام قومی تعلیمی بورڈ بشمول آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار دیا جائے۔
’’ہرفرعونے را موسیٰ،ہرکمالے را زوال‘‘ (ستمبر ۲۰۰۴ئ) میں برطانیہ کے بادشاہ لُوئی چہاردہم کا ذکر کیا گیا ہے۔ مصنف سے سہوِ قلم ہوگیا ہے۔ برطانیہ کی پوری تاریخ میں نہ تو لُوئی نام کا کوئی بادشاہ گزرا ہے‘ اور نہ ان برطانوی بادشاہوں میں ایک ہی نام کے آٹھ سے زیادہ بادشاہ ہوئے ہیں۔ درحقیقت لوئی چہاردہم فرانس کا حکمراں تھا ‘ اور اسی کی طرف یہ جملہ منسوب ہے: I am the state
’’تصنیفی تربیت کا ایک تجربہ‘‘ (ستمبر۲۰۰۴ئ) پڑھ کر دلی خوشی ہوئی کہ چلو ۴۰ سال بعد سہی‘ ادارہ معارف اسلامی لاہور نے آخرکار کم از کم اپنا پہلا قدم تو اٹھا ہی لیا۔
ترجمان القرآن کی آیندہ پالیسی اور ہدف یہ ہونا چاہیے کہ پاکستان کو امریکی اثرونفوذ سے کیسے آزاد کرایا جائے؟ جمہوریت کو فوج اور ایجنسیوں کی مداخلت سے کیسے محفوظ رکھا جاسکتا ہے تاکہ حقیقی شورائیت کی بنیاد پرملک کو صحیح قیادت مل سکے؟ صاف اور شفاف انتخابات کے لیے قانونی اور انتظامی امور پر موجودہ نظام میں کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے؟
ان موضوعات پر مفکرین و محققین سے خصوصی طور پر مقالے لکھوائے جائیں‘ اسٹڈی سرکلز کا انعقاد ہو‘ مختلف جامعات کے اساتذہ کو بلاکر ورکشاپ ہو اور آیندہ کے لیے قلیل المدت اور طویل المدت منصوبۂ کار قوم کے سامنے پیش کیا جائے۔ اس وقت کسی حد تک تاثر ابھرتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وقتی ضرورتوں کے مطابق فیصلے ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں امریکی استعمار پاکستان میں مزید طاقتور ہو رہا ہے۔
ترجمان میں شائع ہونے والی تحریریں فطری اور علمی اعتبار سے بامعنی اور پُرافادیت ہوتی ہیں اور پرچے کا صوری حسن بھی اطمینان بخش اور لفظی و املائی صحت بھی قابلِ داد--- مگر ستمبر کے شمارے میں صحتِ املا سے غفلت نمایاں ہے‘ مثلا: ھدیہ (ہدیہ)‘ بھروسہ (بھروسا)‘ سائے (ساے)‘ چھ (چھے) وغیرہ--- یہ صحت املا کے اصولوں کی خلاف ورزی یا لاپروائی کیوں؟ ان اصولوں سے اشتہاروں کی عبارات کیوں مستثنیٰ ہیں؟
ہمارے ملک میں تعلیم یافتہ آدمیوں کی جتنی کمی ہے‘ اُس سے بہت زیادہ کمی تربیت یافتہ آدمیوں کی ہے۔ مجھے اکثر یہ چیز بڑے رنج کے ساتھ محسوس ہوتی ہے کہ ہمارے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی‘ خواہ وہ قدیم نظامِ تعلیم سے تعلق رکھتے ہوں یا جدید نظامِ تعلیم سے‘ بالعموم اخلاق و شایستگی اور مہذب عادات اور ضبط و نظم کی بالکل ابتدائی اور بنیادی تربیت سے بھی عاری ہوتے ہیں‘ اور اس کی وجہ سے کوئی اعلیٰ درجے کی جماعت جو کسی نصب العین کے لیے جدوجہد کرسکے‘ اس ملک میں بنانی نہایت مشکل ہوتی ہے۔ جن قوموں میں اجتماعی تربیت کا نظام مکمل موجود ہے ان کی حالت یہ ہے کہ ان میں بیشتر افراد مہذب اور منظم زندگی کی بنیادی تربیت حاصل کیے ہوتے ہیں‘ اور جو شخص کوئی خاص تحریک ان کے اندر جاری کرنا چاہتا ہو اسے ان بنے اور سنورے ہوئے آدمیوں میں صرف اپنی تحریک کے لحاظ سے مناسب اوصاف پیدا کرنے کی سعی کرنی پڑتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ بڑی دشواری ہے کہ انسانیت کی بنیادی تربیت ہی بڑی حد تک مفقود ہے‘ اور یہاں اگر کسی خاص نصب العین کے لیے جدوجہد کرنی مقصود ہو تو آدمی کو بالکل ناتراشیدہ مواد خام ملتا ہے جسے بالکل نئے سرے سے تراشنے اور سنوارنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے نظامِ تعلیم میں دماغی تربیت سے زیادہ اخلاقی تربیت کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمیں اپنی اس دعوت کے لیے صحیح قسم کے کارکن میسر آسکیں جن کی نایابی کی وجہ سے ہمارا یہ کام ہماری انتہائی کوششوں کے باوجود آگے نہیں بڑھ رہاہے۔
اس سلسلے میں ایک بات اور بھی ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ کہ اس وقت ہم کسی ملک کے انتظام کا چارج نہیں لے رہے ہیں کہ ہمیں اپنے نظامِ تعلیم میں ان تمام ضرورتوں کے لیے آدمی تیار کرنے ہوں جو ایک ملک کے تمدن کی پوری مشینری کو چلانے میں پیش آتی ہیں۔ ہمارے سامنے اِس وقت صرف ایک کام ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا میں اخلاقی‘ فکری اور عمرانی انقلاب برپا کرنے کے لیے موزوں لیڈر اور کارکن تیار کریں۔ اس کام کے لیے ڈاکٹری یا انجینیرنگ یا سائنس وغیرہ کے ماہرین کی ضرورت نہیں ہے‘ بلکہ صرف ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو دین اسلام اور علومِ اجتماعیہ (social sciences) میں اعلیٰ درجے کی بصیرت رکھتے ہوں۔ آگے چل کر جیسا جیسا ہماری کارروائیوں کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا اور ہمارے اوپر ذمہ داریوں کا جتنا جتنا بار بڑھتا جائے گا‘ اس کے لحاظ سے جن جن علمی شعبوں کے اضافے کی ضرورت ہوگی‘ ان کا اضافہ ہم کرتے جائیں گے۔ (’’روداد مجلس تعلیمی‘‘، میاں طفیل محمد‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۵‘ عدد ۱-۴‘ رجب تا شوال ۱۳۶۳ھ‘ جولائی تا اکتوبر ۱۹۴۴ئ‘ ص ۱۰۶-۱۰۷)