۱- اگرچہ دستور کو معرض التوا میں ڈال دیا گیا ہے لیکن دراصل ملک کا نظام ۱۹۷۳ء کے دستور کے مطابق ہی چلنا چاہیے اور موجودہ فوجی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ نظامِ حکومت کو چلانے کے سلسلے میں دستور سے صرف ناگزیر حد تک انحراف کرے اور عملاً تمام معاملات کو دستور کے مطابق یا اس سے قریب ترین انداز میں طے کرے۔ نیز شخصی آزادی‘ بنیادی حقوق اور عدالتوں کی بالادستی پر کوئی آنچ نہ آنے دے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومت کے تمام اقدام و احکام عدالتی محاسبے (judicial review)کی گرفت میں ہوں گے۔
۲- دستور کے تحت کام کرتے ہوئے اگر کہیں کوئی حقیقی مشکل پیش آئے تو اس مشکل کو رفع کرنے کی حد تک چیف ایگزیکٹو کو دستور میں ترمیم کا اختیار ہوگا‘ مگر وہ کوئی ایسی ترمیم کرنے کا مجاز نہیں ہوگا جو دستور کے بنیادی ڈھانچے کو متاثرکرے جس میں پارلیمانی نظام‘ فیڈرل نظامِ حکمرانی‘ عدلیہ کی آزادی‘ بنیادی حقوق کا تحفظ اور ریاست کا اسلامی کیریکٹر شامل ہیں۔
۳- ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء سے تین سال کے اندر اندر نئے انتخابات کے انعقاد کے ذریعے فوج اپنی بارکوں میں واپس چلی جائے گی اور اقتدار عوام کے منتخب نمایندوں کو منتقل کر دیا جائے گا تاکہ سول حکومت نظامِ حکومت کی ذمہ داری سنبھالے اور دستور کے مطابق کاروبارِ سلطنت چلایا جاسکے۔
اس فیصلے کی اصل روح یہ تھی کہ اقتدار منتخب سول حکومت کو منتقل کر دیا جائے اور فوج کا اصل کام صرف دفاع وطن کی ذمہ داری ہو۔
جنرل پرویز مشرف نے اس فیصلے کو دستور میں من مانی تبدیلیوں کے جواز کے لیے تو بڑی بے دردی اور بے باکی سے استعمال کیاہے مگر فی الحقیقت اس فیصلے کو دل سے قبول نہیں کیا اور انتقالِ اقتدار(transfer of power) کے اصول کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے صرف محدود اشتراکِ اقتدار (power sharing) کا ایک بندوبست وضع کرنے کے لیے استعمال کیا۔ یہ عمل فیصلے کے الفاظ اور روح دونوں کے منافی ہے۔ جنرل صاحب کی ساری کوشش یہ رہی ہے کہ اصل قوت اور اختیار حسب سابق انھی کے پاس رہے۔ سول نظام کی بحالی ایک ظاہری اور نمایشی عمل سے زیادہ نہ ہو اور قوت اورفیصلوں کا مرکز ان کی ذات اور ان کے معتمد علیہ افراد رہیں۔ اس کے لیے دستور کے ڈھانچے میں لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) کے ذریعے ایسی تبدیلیاں کر دی گئیں کہ طاقت کی کنجی صرف ان کے ہاتھ میں ہو‘ پھر ایل ایف او کو بھی پارلیمنٹ میں لائے بغیر دستور پر مسلط کر دیا گیا۔اس نے دستوری نظام کا حلیہ ہی بگاڑدیا ہے۔ وہ اپنے لائے ہوئے ایل ایف او سے بھی بڑھ کر عملاً اس طرح پورے نظام پر چھائے ہوئے ہیں کہ قومی سلامتی‘ خارجہ پالیسی‘ معاشی پالیسی‘ انتظامی مشینری سب ان کے تابع مہمل ہے۔ دستور‘ قانون‘ روایات‘ سب کو بالاے طاق رکھ کر یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے اور صرف دھونس‘ ہوس اقتدار اور فوجی قوت کے بل بوتے پر نظام چلایا جا رہا ہے جسے ’’خاکی جمہوریت‘‘ کے سوا کسی دوسرے نام سے موسوم نہیں کیا جا سکتا۔
جنرل صاحب نے بارہا یہ کہا ہے کہ ۱۹۹۹ء سے پہلے ملک ’جعلی جمہوریت‘ (sham democracy) کے دور میں تھا اور اب میں ’حقیقی جمہوریت‘لانا چاہتا ہوں جسے کبھی انھوں نے real democracy (حقیقی جمہوریت)کہا اور کبھی substance of democracy (جوہرجمہوریت)لیکن فی الحقیقت جو کچھ انھوں نے قوم کو دیا وہ ’جعلی جمہوریت‘ کی ہی بدترین صورت ہے۔خود ان کے مجرم ضمیر نے ایک آدھ بار ان سے اس کا اس طرح اعتراف کرا لیا ہے کہ:
حقیقت یہ ہے کہ مئی ۲۰۰۲ء کے ریفرنڈم کے تماشے سے شروع ہونے اور اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابات کے ذریعے صورت پذیر ہونے والے سول نظام کو صرف فوجی حکمرانی کی ایک شکل ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری قوتیں مجبور ہیں کہ بحالیِ جمہوریت اور دستور کی بالادستی کی جدوجہد کو اولیں اہمیت دیں۔ اس لیے کہ جمہوریت کی بحالی کا خواب اسی وقت شرمندئہ تعبیر ہو سکتا ہے جب دستور مکمل طور پر اور اپنی اصل شکل میں بحال ہو‘ پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہو‘ وزیراعظم اور کابینہ پارلیمنٹ کی منتخب کردہ اور اس کے سامنے جواب دہ ہو‘ عدالتیں خودمختار ہوں اور سیاست میں فوج کا عمل دخل عملاً ختم ہو‘ وہ سول نظام کے ماتحت ہوکر ان حدود کے اندر اپنی ذمہ داریاں پوری کرے جو دستور نے اس کے لیے مقرر کی ہیں۔ الیکشن اور پارلیمنٹ کے وجود میں آجانے کے ایک سال بعد بھی جمہوریت کی بحالی کی راہ میں لیگل فریم ورک آرڈر اور جنرل پرویز مشرف کی ضد اصل رکاوٹ ہیں‘ جس نے ملک کے پورے نظام کی چولیں ہلا دی ہیں۔
جب تک لیگل فریم ورک آرڈر پارلیمنٹ میں زیربحث نہیں آتا اور پارلیمنٹ اسے ضروری ترمیم کے بعد منظور نہیں کرتی‘ ملک دستوری بحران کی گرفت میں رہے گا‘ سارے دستوری ادارے غیر موثر رہیں گے اور پاکستان جمہوریت اور ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہو سکے گا۔
اس پس منظر میں ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی عاقبت نااندیشی‘ ظفراللہ جمالی کی مخلوط حکومت کی کمزوری اور پارلیمنٹ کی بے عملی کے نتیجے میں ملک و قوم کا ایک قیمتی سال ضائع کر دیا گیا ہے اور مورخ اسے پاکستان کی تاریخ کا ایک ضائع شدہ سال ہی شمار کرے گا۔ اکتوبر ۲۰۰۳ء کے انتخابات اورمنتخب پارلیمنٹ کے وجود میں آنے سے بس اتنا فرق پڑا ہے کہ ملک کھلی فوجی حکومت کی جگہ ایک ’خاکی جمہوریت‘ کے چنگل میں آگیا ہے اور اپنے ہوں یا غیرکوئی بھی اسے جمہوریت تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتیں مجبور ہوئی ہیں کہ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کریں اور ایک سال میں تقریباً پچاس مرتبہ انھیں اسمبلی اور سینیٹ سے واک آئوٹ کرنا اور پریس کے ذریعے اپنا نقطۂ نظر قوم کے سامنے پیش کرنا پڑا ہے۔ یورپی یونین نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ نہ صرف انتخابات خامیوں سے پُر تھے بلکہ ایل ایف او کی وجہ سے پارلیمنٹ با اختیار حیثیت سے محروم ہے۔ دولت مشترکہ نے جمہوریت کی بحالی کے عمل کو مکمل تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور خود جنرل صاحب کے پشت پناہ اور مداح خواں صدر بش بھی پاکستان کو اس فہرست میں شامل نہیں کرتے جو انھوں نے مسلم ممالک میں جمہوری حکومتوں کے بارے میں اپنی نومبر ۲۰۰۳ء کی بدنامِ زمانہ تقریر میں پیش کی ہے۔
بات بہت واضح ہے کسی بھی ملک میں بیک وقت جمہوریت اور فوجی قیادت کی حکمرانی (یعنی مارشل لا) ممکن نہیں۔ کاروبارِ حکومت میں فوج کو بالادستی جمہوریت اور دستوریت (constitutionalism) کی نفی ہے۔فوج کو سول نظام کے تابع ہونا ہوگا اور ملک میں دستور کی بالادستی اور پارلیمنٹ کی بالاتر اتھارٹی قائم کرنا ہوگی‘ جو جمہوریت کی روح کو بحال کرنے کی شرط ہے۔ اس پر مہر تصدیق سپریم کورٹ کے فل بنچ کے اس فیصلے نے لگا دی ہے جو اس نے نومبر ۲۰۰۳ء میں ایک سرکاری ملازم کے سیاست میں حصہ لینے کے بارے میں دیا ہے اور صاف الفاظ میں کہا ہے کہ جمہوری نظام میں دستور اور قواعد و ضوابط کے تحت کسی سرکاری ملازم کو‘ سول یا فوجی‘ سیاست میں حصہ لینے کا اختیار نہیں۔
اس وقت ملک جس کش مکش میں مبتلا ہے اس کی جڑ ’’خاکی جمہوریت‘‘ کا وہ باطل تصور ہے جو کبھی عبوری دور اور کبھی تسلسل کے نام سے ملک پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کے ارکان کی ایک تعداد نے ایک بار پھر وہی غلطی کی ہے جو ماضی میں سیاست دان فوجی اقتدار کے لیے دست و بازو بن کر کرتے رہے ہیں حالانکہ پارلیمنٹ کا اصل فرض اور عوام کے منتخب نمایندے ہونے کی حیثیت سے ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ دستور کی بحالی اور سول نظامِ حکمرانی کے قیام کو اولیت دیں۔ سال رواں میں پارلیمنٹ اور خصوصیت سے حکمران الائنس کی اصل ناکامی یہ ہے کہ اس نے اکتوبر ۲۰۰۳ء کے انتخابات کے تقاضوں کو پورا کرنے میں مجرمانہ غفلت سے کام لیا ہے اور محض اقتدار کا مزہ لوٹنے کے لیے ایک ایسے مخلوط سیاسی نظام (political hybrid) کو ملک پر مسلط کر دیا ہے جو فوجی حکمرانی کی ایک قبیح شکل ہے اور جس کے نتیجے میں اوپر سے نیچے تک سارا نظامِ حکومت شترگربگی کا شکار ہے۔
مشرف جمالی حکومت کے ایک سال پر نظر ڈالی جائے تو اس کا سب سے زیادہ پریشان کن‘ بلکہ اندوہناک پہلو اداروں کی تباہی (structural deformity) ہے جس سے ملک دوچار کر دیا گیا ہے۔ اور نتیجہ ظاہر ہے کہ پورا نظام ٹھٹھرا ہوا ہے‘ کسی سمت میں کوئی پیش قدمی نہیں ہو رہی‘ پارلیمنٹ بالاتر قوتوں کی یرغمال بن گئی ہے اور جنرل مشرف سے لے کر وزیراعظم جمالی تک اس کی کارکردگی سے مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے اسمبلیوں کی برطرفی اور نظام کی بساط لپیٹ دیے جانے کے خطرات ہر وقت سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک پارلیمنٹ اور سول حکومت اپنی بالادستی دستوری اور عملی ہر دو پہلو سے نہیں منوا لیتی۔ حزبِ اختلاف کی جدوجہد اقتدار میں شرکت کے لیے نہیں(اقتدار تو اسے بار بار پیش کیا گیا) بلکہ یہ جدوجہد نظام کو پٹڑی پر لانے کے لیے ہے جس کے بغیر حالات کے بہتر ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ ملک میں اس وقت جو بھی مخدوش حالات ہیں وہ اسی بنیادی خرابی کا شاخسانہ ہیں۔
جنرل پرویز مشرف اور جمالی صاحب اور ان کے رفقاے کار نے ملک کو جس بحران میں مبتلا کر رکھا ہے اس کا ایک بہت ہی اہم اور تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ملک کا نظامِ حکمرانی سندِجواز (legitimacy) سے محروم ہوگیا ہے۔ یہی واضح نہیں کہ کس دستور کے تحت نظامِ حکومت چلایا جارہا ہے۔ ۱۹۷۳ء کا دستور کتنا بحال ہوا ہے‘ ایل ایف او جسے جنرل صاحب اپنے اقتدار کا اصل ستون قرار دے رہے ہیں وہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر دستور کا حصہ کیسے بن گیا؟ اور اگر وہ دستور کا حصہ نہیں ہے تو پھر وہ دستور پر بالاتر دستور (supra constitution) کیسے بن سکتا ہے؟ عدلیہ کس دستور کے تحت کام کر رہی ہے؟
حزبِ اختلاف کی تمام جماعتیں اسے دستور کا حصہ تسلیم نہیں کرتیں۔ پوری وکلا برادری اس دھاندلی کے خلاف صف آرا ہے۔ اس باب میں حکومت اور حزبِ اختلاف میں کوئی قدر مشترک نہیں۔ عدلیہ اور قانون دان اور وکلاء ایک دوسرے سے نبردآزما ہیں۔ مرکز‘ صوبے اور لوکل باڈیز کا نظام سبھی دستوری تحفظ سے محروم ہیں۔ پارلیمنٹ‘ حکمران اور عدلیہ کس دستور کے پابند ہیں اور ان کے دستوری حلف کی کیا حیثیت ہے؟ عدلیہ کے ججوں کی ایک بڑی تعداد نے عبوری آئین کے تحت حلف لیا تھا اب اس کی کیا حیثیت ہے؟ اگر ملک کا سیاسی اور قانونی نظام ہی جواز سے محروم ہو اور قوت اور اختیارات کا پورا دروبست ہی مشکوک ہو تو وہ نظام کیسے چل سکتا ہے؟
یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی ملک دستوری انحراف کے دور سے دستور کی بحالی کے دور میں داخل ہوتا ہے تو دورِ انحراف کے اقدامات کو قانونی جواز (indemnity)پارلیمنٹ کے فیصلے کے ذریعے دیا جاتا ہے۔ یہی ۱۹۷۳ء کے دستور میں اس کی دفعات ۲۷۰-۲۶۹ کی شکل میں کیا گیا اور یہی جنرل ضیا الحق مرحوم کے مارشل لاکے بعد ۱۹۸۵ء میں جمہوریت کے احیا کے وقت آٹھویں ترمیم کی شکل میں کیا گیا اور دستور کی دفعہ ۲۷۱ اس کا واضح ثبوت ہے۔ لیکن جنرل پرویز مشرف اس معاہدے کے باوجود جو ایم ایم اے سے جمالی صاحب کی ٹیم (ایس ایم ظفرکمیٹی) نے کیا اس صاف اور سیدھی بات سے پہلو بچا رہے ہیں اور ملک کے پورے دستوری‘ سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کو مخدوش بنائے ہوئے ہیں۔ اس سال کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ یہ بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوا‘ بدستور حل طلب ہے۔ جب تک یہ حل نہیں ہوتا کسی مثبت پیش رفت کی توقع عبث ہے۔
دوسری بنیادی چیز کا تعلق تقسیمِ اختیارات (checks & balances) سے ہے جس کا جنرل صاب موقع بہ موقع ذکر کرتے رہتے ہیں۔پارلیمنٹ کے وجود میں آنے کے بعد پورے ایک سال کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ قوتِ اختیار اور فیصلوں کا مرکز جنرل صاحب کی ذات ہی ہے اور انھوں نے پورا نظام اس طرح وضع کیا ہے کہ اصل قوت انھیں حاصل رہے‘ باقی سب نمایشی ہے۔ نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعے انھوں نے صدر بننے کا دعویٰ کیا جب کہ دستور میں ریفرنڈم کے ذریعے صدر کے انتخاب کی کوئی گنجایش نہیں۔ وہ منتخب صدر نہیں اور عملاً ملک ایک خود مسلط کردہ غیر آئینی صدر کے تحت کام کر رہا ہے۔ پھر انتخابات کو متاثر کرنے اور اس سے بھی پہلے ایک کنگز پارٹی بنانے اور اسے اکثریت دلانے کی کوشش کی گئی۔ جب وہ کوشش ناکام ہوگئی اور انتخاب میں بھی عوام کے تین چوتھائی ووٹ انھی جماعتوں کو حاصل ہوئے جو جنرل صاحب کے ساتھ نہ تھیں اور سرکاری جماعت کو سادہ اکثریت بھی میسر نہ آئی تو دھونس اور دھاندلی کے ساتھ وفاداریوں کی تبدیلی‘ ضمیر کی خریدوفروخت‘ نیب (NAB) کے بے محابا استعمال کے ذریعے زیرتفتیش ارکان اسمبلیوں کو جن میں سے کچھ پر باہر جانے پر پابندی بھی تھی‘ شامل حکومت کرکے مصنوعی اکثریت حاصل کی گئی۔ پیپلز پارٹی کو توڑ کر پیٹریاٹس کا ڈھونگ رچایا گیا اور اس میں ٹوٹنے والے دس ارکان میں سے چھے کو وزارت سے نواز دیا گیا۔ ایم کیو ایم کو بھی طہارت کا اشنان دے کر شریکِ اقتدار کر لیا گیا اور اس طرح ایک ایسی سیاسی حکومت بنائی گئی جس میں وزیراعظم کو ووٹ اسمبلی میں دیے گئے مگر ان کا انتخاب کسی اور نے کیا۔
وزیراعظم کی کابینہ کا انتخاب بھی وزیراعظم یا پارلیمنٹ نے نہیں کیا بلکہ یہ سب کام ان کے لیے کسی اور نے کیا بشمول وزارتوں کی تقسیم۔ یہی وجہ ہے کہ کابینہ تو وزیراعظم کی ہے مگر وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ بہت سے وزیر ان کی بات نہیں سنتے‘ اس کی سنتے ہیں جس نے ان کو وزارت سے نوازا ہے۔ وزیراعظم صاحب کو بھی کہنا پڑتا ہے کہ ان کا ’باس‘ کوئی اور ہے حالانکہ پارلیمانی نظام کی روح ہی یہ ہے کہ کابینہ وزیراعظم بناتا ہے جو اس کے اور پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے۔ صدر وزیراعظم کی ایڈوائس کا پابند ہوتا ہے لیکن یہاں معاملہ بالکل الٹا ہے۔ قومی سلامتی کے امور ہوں یا خارجہ سیاست کے‘ معاشی و مالی معاملات ہوں یا انتظامی‘ گورنروں کا تقرر ہو یا سول انتظامیہ اور پولیس افسران کا‘ بین الاقوامی معاہدات کا معاملہ ہو یا لوکل گورنمنٹ کے اختیارت اور تنازعات کا‘ سب کا مرجع و مرکزجنرل صاحب کی ذات ہے۔ وہ بیرونِ پاکستان دورے اور معاہدات اس شان سے کرتے ہیں کہ وزیرخارجہ تک ان کے ساتھ نہیں ہوتے۔ صدربش سے ملنے جاتے ہیں تو اپنے معتمد وزیرخزانہ اور دستوری امور کے مشیر شریف الدین پیرزادہ صاحب کو لے کرجاتے ہیں۔ وہ وزیراعظم اور بیرونی سفرا سے فوجی وردی میں ملتے ہیں‘ حتیٰ کہ بیرونی سفروں سے ان کے پروانہ تقرری کی وصولی کی تقریب میں بھی فوجی وردی میں شریک ہوتے ہیں۔ اس اندازِ حکمرانی کو کون جمہوری قرار دے سکتا ہے جہاں حکمرانی کا منبع فوجی صدارت ہے نہ کہ پارلیمنٹ اور اس کا منتخب کردہ وزیراعظم اور کابینہ۔
ہمیں معاف رکھا جائے اگر یہ کہیں کہ جو انتظامِ حکمرانی جنرل صاحب نے مرتب کیا ہے اور جس کے مطابق وہ عمل کر رہے ہیں اس میں وزیراعظم ایک بھاری بھرکم show piece (محض دکھاوے کی چیز) سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ جمالی صاحب پر بہادر شاہ ظفر کا شبہ ہوتا ہے جو زبانِ حال سے گویا ہے کہ
یا مجھے افسر شاہانہ بنایا ہوتا
یا مرا تاج گدایانہ بنایا ہوتا
اس نظام میں تقسیمِ اختیارات کا کوئی تصور نہیں۔ سب کے لیے صرف تحدیدات (checks) ہیں۔ اقتدار کا سارا سرمایہ صرف ایک فرد کے کھاتے میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ پورے سال سے ایک تماشائی بنی کھڑی ہے‘ قومی اور عوامی امور پر کوئی بحث‘ کوئی قانون سازی‘ کوئی پالیسی سازی اس کے دامن میں نظر نہیں آتی۔
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ساتھ کس طرح معاملہ کیا گیا ہے اس کا کچھ اندازہ اس سے کیجیے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس انتخابات کے ۴۰ دن کے بعد بلایا گیا تاکہ سرکاری پارٹی کے لیے اکثریت (خواہ وہ ایک ووٹ کی ہو اور وہ ووٹ بھی غالباً اس شخص کا جس کی جماعت کو خلافِ قانون قرار دیا گیا تھا اور خود بھی بصدِافسوس تشدد کا نشانہ بن گیا) وضع کرلی جائے۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی کا اجلاس تو اسی مصلحت کی خاطر ۶۳ دن کے بعد بلایا گیا۔ قومی اسمبلی کو دستوری طور پر سال میں ۱۳۰ دن اجلاس کرنا ہوتا ہے لیکن پہلے ۹ مہینے میں صرف ۵۷ دن اجلاس ہوئے اور آخری تین مہینے میں جیسے تیسے ۸۳ دن بھگتا دیے گئے اور وہ بھی اس طرح کہ ہفتہ میں ۳ دن ایک ایک گھنٹے کا اجلاس ہوتا تھا اور ۴ دن کی چھٹی کو بھی اجلاس کے ایامِ کار میں شمار کرلیا جاتا تھا۔ سینیٹ کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ مارچ میں پہلا سیشن ہوا ہے اور اب ۸مہینے گزر گئے ہیں لیکن سینیٹ صرف ۲۸ دن کے لیے اجلاس میں رہا ہے جن میں عملاً صرف ۱۸ دن کام ہوا ہے اور ۱۸میں ۶دن حزبِ اختلاف کے طلب کرنے پر (requisition) منعقد ہونے تھے اور ایک دن حلف برداری کے لیے تھا۔ گویا حکومت کی طرف سے صرف ۱۱ دن کارروائی ہوئی ہے‘ جب کہ سینیٹ کے لیے بھی دستوری طور پر سال میں ۹۰ دن ملنا ضروری ہے۔
اسمبلی نے پورے سال میں صرف دو بل منظور کیے ہیں جن میں سے ایک فائی نانس بل تھا جسے صرف ۵ دن میں کسی بحث کے بغیر نمٹا دیا گیا جب کہ ماضی میں بجٹ پر معمولاً ۴ ہفتے بحث ہوتی تھی۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جسے ہر سال کے شروع میں ہونا چاہیے‘ جس سے صدر خطاب کرتا ہے اور جسے پارلیمانی سال کا آغاز شمار کیا جاتا ہے آج تک نہیں ہوا۔ دستور کے مطابق پارلیمنٹ کے وجود میںآنے کے بعد قومی مالیاتی کمیشن‘ مشترکہ مفادات کی کونسل اور قومی اقتصادی کونسل کوقائم ہونا چاہیے۔ مالیاتی کمیشن ایک سال کے بعد قائم ہوا ہے اور باقی دونوں دستوری ادارے آج تک نہیں قائم کیے گئے۔ اسمبلی کی مجالس قائمہ کا تقرر (نامکمل اور مشتبہ شکل میں) بارھویں مہینے ہوا ہے اور سینیٹ میں تومجالس قائمہ آج تک قائم ہی نہیں ہوئیں حتیٰ کہ سینیٹ کی مالیاتی کمیٹی جو سارے مالی معاملات کی ذمہ دار ہوتی ہے وہ تک نہیں بنی ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی جو سب سے طاقتور اور محاسبے کے لیے سب سے اہم کمیٹی ہے‘ اس نے آج تک کام شروع ہی نہیں کیا ہے۔
ارکان اسمبلی نے ۱۶۰ استحقاق کی قراردادیں داخل کرا رکھی ہیں جن کا تعلق ذاتی معاملات سے ہے۔ ماضی میں ہر سال پارلیمنٹ نے اوسطاً ۲۸ بل منظور کیے ہیں لیکن موجودہ قومی اسمبلی نے عملاً کوئی قانون سازی نہیں کی بلکہ حکومت نے تو بل پیش کرنے کی بھی زحمت نہیں فرمائی۔ اگر اسمبلی اور سینیٹ کے order of the day کا مطالعہ کیا جائے تو حکومت کے پاس سرکاری دنوں میں کوئی ایجنڈا ہی نہیںہوتا تھا۔ سینیٹ میںارکان کے نجی بلوں کی تعداد سرکاری بلوں سے کہیں زیادہ ہے‘ گو ان پر بھی کوئی بحث اور فیصلے نہیں ہوسکے۔ قومی اسمبلی میں کورم بھی ایک مسئلہ رہا ہے اور کم از کم ایک درجن مواقع پر کورم نہ ہونے کے سبب اجلاس ملتوی کرنا پڑا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق ۱۰ ارکان ایسے ہیں جو پورے سال میں غائب رہے ہیں اور اس میں سرفہرست سرکاری پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کا نام آتا ہے۔
ایک طرف یہ افسوس ناک کارکردگی ہے‘ جس کے بارے میں حزبِ اختلاف کے بائیکاٹ کو الزام دیا جاتا ہے حالانکہ حزبِ اختلاف کے واک آئوٹ کے بعد‘ سرکاری پارٹی کو کام کی کھلی چھٹی تھی جس کا کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ دوسری طرف ارکان پارلیمنٹ نے بیرونی دوروں پر بڑا وقت صرف کیا۔ صرف گذشتہ دو مہینے میں ۳۲ ارکان نے امریکہ کا سفر کیا جس کاڈیڑھ کروڑ روپے سے زیادہ بوجھ قومی خزانے پر پڑا۔ سب سے زیادہ قابلِ اعتراض بلکہ مجرمانہ کارروائی سال کے آخری دن ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں ۱۱۷ فی صد اضافہ ہے اور وہ بھی اس غریب ملک میں جس میں آبادی کا ۳۳ سے ۴۰ فی صد خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہا ہے‘ جہاں خودکشی اور فاقہ کشی زندگی کا معمول بن رہے ہیں اور وہ بھی ایسے ارکان پارلیمنٹ کے لیے جن کے اثاثوں کا حال ہی میں جو ریکارڈ شائع ہوا ہے‘ اس کے مطابق ان میں سے ایک چوتھائی کروڑپتی ہیں اور بقیہ ۷۰فی صد لکھ پتی۔بمشکل ۵ فی صد ایسے ہیں جو سرکاری تنخواہ پر گزارا کرنے والے ہیں۔
پارلیمنٹ کی کارکردگی کا ریکارڈنہایت مایوس کن ہے اور اس کے دو پہلو ایسے ہیں جن کا نوٹس نہ لینا مجرمانہ چشم پوشی ہوگا۔ پہلا یہ کہ اس پارلیمنٹ نے خود اپنے مقام اور اختیارات سے غفلت برت کر اور ایل ایف او کو زیربحث نہ لا کر اپنی جو تصویر قوم کے سامنے پیش کی ہے وہ بے حد ناقابلِ رشک ہے۔ اس کے ارکان‘ خصوصیت سے سرکاری الائنس سے وابستہ ارکان نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اقتدار کی خاطر اصولی معاملات سے صرفِ نظر کیا۔ یہ جمہوریت کے مستقبل کے لیے نیک فال نہیں۔ دوسری قابلِ گرفت چیز پارلیمنٹ کے ارکان کی اپنی پارلیمانی ذمہ داریوں سے اغماض اور محض ذاتی استحقاق اور مالی مراعات میں دلچسپی ہے۔ اسلام میں تو سیاست ایک خدمت ہے لیکن مغربی جمہوریتوں میں بھی ارکانِ اسمبلی ملک و قوم اور اپنے حلقہ انتخاب کی خدمت کے لیے ان تھک کوشش کرتے ہیں‘ جب کہ ہمارے ملک میں پارلیمنٹ کے ارکان کی دل چسپی نہ قومی امور سے ہے اور نہ عوام کی خدمت سے بلکہ وہ مراعات میں دل چسپی رکھتے ہیں جو جمہوریت کے مستقبل کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ جنرل مشرف کی ’’خاکی جمہوریت‘‘ میں یہ خرابی دوچند ہو گئی ہے جو بہت تشویش ناک ہے۔
اس سال کے جائزے سے جو حیران کن اور تشویش ناک صورت حال سامنے آئی ہے اس میں صرف حکومت اور پارلیمنٹ کی عدم کارکردگی ہی نمایاں نہیں بلکہ صاف نظر آ رہا ہے کہ اگر حالات کو قابو میں نہ لایا گیا تو ملک میں اداروں کی تباہی (institutional breakdown) اور روایات کی پامالی اس مقام پر پہنچ سکتی ہے جس سے واپسی ممکن نہ ہو۔ جنرل صاحب نے اداروں کو مضبوط کرنے اور سیاست سے پاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا مگر ان کے چارسالہ دور کا حاصل یہ ہے کہ ہر ادارہ کمزور سے کمزور تر ہو رہا ہے اور سیاست اور سرکاری مداخلت بلکہ حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہر قانون اور ضابطے کی پامالی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عدلیہ کا وقار معرض خطر میں ہے۔ ایک طرف عدلیہ اور پارلیمنٹ میں کش مکش ہے تو دوسری طرف عدلیہ اور وکلا (Bench & Bar) دست و گریباں ہیں اور ان میں کشیدگی اتنی گمبھیر ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حد یہ کہ پاکستان بار کونسل نے جو بار کا اعلیٰ ترین سرکاری طور پر تسلیم شدہ ادارہ ہے‘ عدلیہ کے ’’کارناموں‘‘ کے بارے میں قرطاس ابیض شائع کیا ہے جس میں عدلیہ کی جو تصویر نظر آتی ہے وہ شرم ناک ہے۔ اس سے زیادہ نظامِ عدل کی زبوں حالی کا کیا تصور کیا جا سکتا ہے؟
سیاسی پارٹیوں کو نہ صرف ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے بلکہ پارٹیوں کو تقسیم در تقسیم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اور یہ بھی وفاداریوں کی خرید و فروخت کے ذریعے۔ اسی طرح مرکز اور صوبوں کے درمیان کش مکش ہے۔ مسئلہ پانی کا ہو‘ محصولات کی تقسیم کا ہو‘ سرکاری افسروںکے تقرر اور تبدیلی کا ہو‘ ہر معاملہ الجھا ہوا ہے اور دلوں کو پھاڑنے اور بھائی کو بھائی سے جدا کرنے کا ذریعہ بنا ہواہے۔ صوبائی اسمبلیاں اتفاق رائے سے ایسی قراردادیں بھی منظور کررہی ہیں جو مرکزی اقدامات اور اعلانات کو چیلنج کر رہی ہیں۔ اعلیٰ ترین سرکاری ادارے اتفاق رائے سے فیصلہ کرنے سے محروم ہیں۔ ضلعی نظام کو صوبائی حکومتوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ پولیس بے لگام ہو رہی ہے اور جگہ جگہ عوام اور پولیس کا تصادم روز مرہ کا معمول ہو رہا ہے۔ لاقانونیت کا عفریت بے قابو ہورہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق صوبہ سرحد کو چھوڑ کر ملک میں جرائم میں دوسو سے تین سو فی صد اضافہ ہوا ہے اور پولیس اور حکمران عناصر کا ایک حصہ بھی ان میں ملوث ہے۔ سول ججوں کو جیل خانے میںہلاک کیا جاتا ہے اور مجرم گرفت میں نہیں آتے۔ ڈاکے‘ قتل‘ اجتماعی زیادتیاں‘ تاوان کے لیے اغوا کی بھرمار ہے اور کوئی ظالموں اور قانون کا دامن تار تار کرنے والوں کو گرفت میں لانے والا نہیں۔مسجدیں اور امام بارگاہیں خون سے آلودہ ہیں اور مجرم قانون کی گرفت سے باہر۔ یہ صورت حال بہت ہی پریشان کن ہے اور اس میں بڑا دخل اس امر کا ہے کہ دستور اور قانون کی حکمرانی نہیں۔ اگر بڑے بڑے دستور توڑنے والے احتساب سے بالا ہیں تو پھرعام لوگ قانون شکنی میں پیچھے کیوں رہیں؟ اگر ملک کا نظام سندِجواز سے محروم ہے تو پھر عام آدمی اور افسر سے جائز (legitimate)عمل کی توقع کیسے کی جائے؟
اداروں کی تباہی کا ایک نہایت خطرناک پہلو یہ ہے کہ اب فوج اور سول سوسائٹی میں کش مکش اور تصادم کی ایسی مثالیں سامنے آ رہی ہیں جو ملک کے مستقبل کے لیے بری فال ہیں۔ اوکاڑہ کے مزارعوں سے تصادم‘ جرنیل کی گاڑی کے شیشوں پر سپاہی کے اعتراض کا معاملہ۔ ہم بڑے دکھ سے کہنا چاہتے ہیں کہ فوج جسے پوری قوم کی معتمدعلیہ ہونا چاہیے اور جسے سب کی تائید حاصل ہونا چاہیے وہ بار بار کی سیاسی دراندازیوں اور فوجی حکمرانی کے دور میں سیاست‘معیشت اور انتظامی امور میں ملوث ہونے کی وجہ سے اب سیاسی اختلاف اور انتظامی بدعنوانیوں کا ہدف بن رہی ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں ڈھائی سو فوجی افسر انتظامی مشینری میں داخل کیے گئے تو جنرل مشرف کے دور میں یہ تعداد بڑھ کر ۱۰۲۷ ہوگئی ہے جو سول نظام کی بحالی اور شدید تنقید کی وجہ سے تبدیلیوں کے باوجود اس وقت ۷۰۰ سے زیادہ ہے‘ جب کہ سول انتظامیہ کے کئی سو افراد اوایس ڈی (’افسر بہ کار خاص‘)اور فارغ خطی کاشکار ہیں۔ فوجی ضرورتوں اور اعزازات کے نام پر زمینوں کے حصول‘ کنٹونمنٹ کے نظام کا سول انتظام سے بالا ہونا اور پھر سابق فوجیوں اور ان کے لیے قائم کیے گئے اداروں کا معاشی امپائر کی شکل اختیار کرلینا بھی تشویش اور کشیدگی کا باعث ہو رہا ہے۔ ایک گروہ کی نگاہ میں اس طرح فوج کی دفاع کی صلاحیت کمزور ہو رہی ہے اور اس کے کچھ عناصر ایک vested inteestکی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اس پس منظر میں چیف آف اسٹاف اور صدارت کے عہدوں کا ایک ہی شخص کے پاس ہونا‘ گورنری اور دوسرے اہم مقامات پر سابق فوجیوں کی موجودگی‘ سول انتظامیہ اور سفارتی عہدوں پر ان کا تقرر‘ صنعت‘ بنک کاری‘ تعلیم‘ غرض ہر میدان میں ان کے لیے ایک مخصوص مقام اور حیثیت کا انتظام اور انصرام سول نظام اور ملٹری کے معاملات کو متاثر کر رہا ہے اور ان میں جوہری تبدیلیوںکا ذریعہ بن رہا ہے جو فوج پر قومی اعتماد‘ اس کی غیرمتنازع حیثیت‘ اور اس کی دفاعی صلاحیت کو متاثر کر رہا ہے۔ فوجی قیادت اور سول انتظامیہ میں بھی بعد بلکہ ایک طرح کی رقابت (rivalry) کو جنم دے رہا ہے‘ فوج اور پولیس کے تعلقات میں کشیدگی رونما ہو رہی ہے اور سب سے بڑھ کر فوج اور عوام کے درمیان خلیج حائل ہو رہی ہے جو بہت خطرناک ہے۔ اگر جنرل مشرف اور فوج کی قیادت ان زمینی حقائق سے واقف نہیں تو یہ ایک سانحہ ہے اور اگر وہ اب بھی ان حالات کو سدھارنے کی فکر سے غافل ہیں تو یہ فوج اور ملک دونوں کے لیے اپنے دامن میں بڑے خطرات رکھتا ہے۔
ہم پوری دردمندی کے ساتھ فوجی قیادت اور سیاسی عناصر سے اپیل کرتے ہیں کہ ان معاملات کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور حالات کو سنبھالنے کی کوشش کریں۔ ملک پہلے ہی بیرونی خطرات اور اندرونی مشکلات میں مبتلا ہے۔ اداروں کے استحکام کے ذریعے ہی ہم ان خطرات اور مشکلات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ سول اور فوجی دونوں ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر ہی اس ملک کے استحکام اور مضبوطی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ پارلیمنٹ‘ عدلیہ‘ سیاسی جماعتیں‘ وکلا‘ صنعت کار‘ تاجر‘ اساتذہ‘ طلبا‘ غرض ہر ایک کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کی حق تلفی کے بغیر یہ کام انجام دینا چاہیے۔ اسی میں سب کے لیے خیر ہے۔
دستوری‘ اداراتی اور سیاسی خلفشار اور شتر گربگی کے ساتھ ملک کی معاشی صورت حال بھی دگرگوں نظرآتی ہے۔ اس میدان میں گذشتہ چار سال اور خصوصیت سے پچھلے سال کی کارکردگی مثبت اور منفی دونوں پہلو اپنے جلو میں لیے ہوئے ہے۔ عالمی منڈیوں میں روپے کی قیمت میں بحیثیت مجموعی استحکام رہا‘ زرمبادلہ کے ذخائر میں معتدبہ اضافہ ہوا جس نے عالمی منڈی میں پاکستان کی rating کو بہتر بنایا۔ یہ ذخیرہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ۱۱ بلین ڈالر سے متجاوز کرگیا جو تقریباً سال بھر کی درآمدات کے مساوی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس مثبت پہلو کا صرف جزوی کریڈٹ حکومت کی پالیسی کو جاتا ہے کیونکہ یہ اس کی میکرو اسٹابی لائی زیشن کا ایک نتیجہ ضرور ہے لیکن اس کے حصول میں بیرونی ترسیلات اور آزاد منڈی سے ڈالر کی خرید (kerb buying) کا بڑا حصہ ہے۔ زرمبادلہ کے ان ذخائر میں اضافہ ملکی پیداوار اور برآمدات میں نمایاں اضافے کا نتیجہ نہیں بلکہ اس میں بڑا دخل عالمی حالات اور مرکزی بنک کی زرمبادلہ کے managment کی کارگزاری کا ہے۔ اس کا جزوی طور پر جو کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے اور جس میں سالِ رواں میں تسلسل کی پالیسی کا بھی عمل دخل ہے‘ اس کے اعتراف میں ہمیں کوئی باک نہیں‘ لیکن جو پہلو بہت ہی تشویش ناک ہے وہ یہ ہے کہ اس کا کوئی حقیقی فائدہ عوام کو نہیں ملا۔
بیرونی قرضوں کے باب میں مرکزی حکومت کو ریلیف ضرور ملا مگر ملک میں غربت میں نہ صرف یہ کہ کمی نہیں ہوئی بلکہ واضح اضافہ ہوا ہے جس پر شماریات کی اُلٹ پھیر(jugglery) سے پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ اسٹیٹ بنک کی تازہ رپورٹ اس پر گواہ ہے۔ غربت جس کی گرفت میں ۱۵سال پہلے آبادی کا صرف ۲۰ فی صد تھا اب وہ ۳۳ فی صد ہوگیا ہے اور آزاد معاشی ماہرین کے اندازے کے مطابق یہ ۴۰ فی صد سے کم نہیں۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ۱۴ کروڑ آبادی میں ۵ سے ۶کروڑ انسان دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں۔ اقوام متحدہ کی سالانہ رپورٹ ۲۰۰۳ء جو ابھی شائع ہوئی ہے اس میں عالمی برادری میں ہماری غربت کی پوزیشن اور بھی نیچے چلی گئی ہے اور اب ہمارا مقام ۱۳۸ سے کم ہو کر ۱۴۴ پر آگیا ہے۔بے روزگاری میں بھی ۴۰ فی صد کے لگ بھگ اضافہ ہے جس کا نتیجہ ہے کہ فاقہ کشی کی نوبت ہے اور لوگ خودکشی کا الم ناک راستہ اختیار کر رہے ہیں۔
قیمتوں میں اضافے کا رجحان بھی برابر جاری ہے۔ اس ایک سال میں پیٹرول و تیل کی قیمتوں میں ۲۱ بار اضافہ اور صرف تین بار کمی ہوئی ہے اور مجموعی طور پر تیل کی قیمت میں ۳۰ فی صد کے لگ بھگ اضافہ ہوا ہے۔ یہی حال بجلی‘ پانی‘ گیس‘ ادویات اور دوسری ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں کا ہے۔ اس نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ اس پر مستزاد زندگی کے ہر شعبہ میں اور ہر سطح پر بدعنوانی اور کرپشن کا دور دورہ ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ۲۰۰۳ء کی رپورٹ کرپشن میں اضافے کی تصویر پیش کرتی ہے۔ حکومت کے سارے دعووں کے باوجود بیرونی اور اندرونی سرمایہ کاری میں خاطرخواہ اضافہ نہیں ہوا اور نہ ہی اضمحلال کے شکار معاشرتی اقتصادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے اور ترقی دینے کی کوئی موثر کوشش سامنے آئی ہے۔ خواہ نظری طور پرModis' rating میں اضافہ ہو گیا ہو مگر عملاً بلاواسطہ بیرونی سرمایہ کاری ۱۹۹۰ء کے عشرے کے مقابلے میں نہیں بلکہ خود۲۰۰۱-۲۰۰۲ء کے مقابلے میں بھی کم ہوئی ہے اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے تازہ ترین تبصرہ کی رو سے اس کی بڑی وجہ وہ سیاسی بحران اور بے یقینی ہے جس میں ملک مبتلا ہے:
غیریقینی قومی اور علاقائی صورت حال کی وجہ سے پاکستان کے لیے بیرونی قرضوں کی سطح کم رہی ہے۔ اس کا ایک عنصر غیریقینی سیاسی منظر ہے لیکن سرمایہ کاری کی عمومی فضا کے خراب معاشی اور ادارتی پہلوئوں نے بھی منفی اثر ڈالا ہے۔ (دی نیوز‘ ۱۵ نومبر۲۰۰۳ئ)
بنک کاری کا شعبہ مشکلات سے دوچار ہے۔ قومی بنکوں نے ۱۴۵۹ شاخیں بند کرنے اور عملے میں تقریباً ۴۰ فی صد کمی کے باوجود نہ اخراجات میں کمی کی ہے اور نہ non-performing قرضوں کی پوزیشن خطرے سے باہر ہوئی ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی نے کوئی کام شروع نہیں کیا لیکن وزارتِ خزانہ کی ایک رپورٹ جو ۲۰۰۱-۲۰۰۰ء سے متعلق ہے یہ خبردیتی ہے کہ سرکاری محکموں کے آڈٹ سے پتا چلتا ہے کہ ۱۰ کھرب ۴۷ ارب روپے کی رقوم میں سے ایک کھرب ۴۲ارب اور ۹۰ کروڑ روپے کی رقوم کا استعمال قواعد کے مطابق نہیں ہوا۔ یعنی ۱۰فی صد سے بھی زیادہ سرکاری اخراجات یا بلاجواز تھے یا ان کا ناجائز استعمال ہوا۔
اس صورتِ حال کو کسی پہلو سے بھی قابلِ رشک قرار نہیں دیا جا سکتا۔
خارجہ سیاست کے باب میں بھی کارکردگی مایوس کن ہے۔ ہم جس طرح امریکہ کے شکنجے میں کسے جاچکے ہیں وہ ملک کی آزادی اور حاکمیت کو مجروح کر رہا ہے۔ عالمی وقار میں کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ ہمارے روایتی دوست بھی پہلے جیسی گرمجوشی نہیں دکھا رہے جو بہت تشویش ناک ہے۔ امریکہ کی دوستی تو کبھی بھی قابلِ اعتماد نہ تھی۔ اس کا مسلسل رویہ یہ ہے کہ ہر خدمت اور چاکری کے بعد ھل من مزید کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور نیوکلیر پھیلائو اور دہشت گردی میں مطلوبہ سے کم تعاون پر ہاتھ مروڑنے اور بلیک میل کرنے کا وطیرہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ چین اور ایران سے تعلقات میں پہلی سی گرمی نہیں۔ بھارت کی ساری ناز برداریوں کے باوجود اس کا رویہ خطرناک حد تک معاندانہ اور ہمارا شرم ناک حد تک عاجزانہ ہے۔ افغانستان میں بھارت کا عمل دخل بڑھ رہا ہے اور ہمارے تعلقات کشیدہ ہیں‘ بلکہ اب تو بھارت تاجکستان میں فوجی اڈے بنارہا ہے اور ہمارا عالم ہے کہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم! قابلِ اعتماد دوستوں کا فقدان ہے۔ جو حقیقی دوست تھے اور ہمیں ان سے کبھی کوئی خطرہ نہ تھا‘ ان کو ہم نے دشمن قرار دے دیا ہے۔ عرب دنیا کے عوام میں ہماری عزت خاک میں مل چکی ہے۔ خود جنرل صاحب فرما رہے ہیں کہ ’’اگر کوئی مشکل وقت آیا تو کوئی ہمارا ساتھ دینے والا نہیں ہوگا‘‘۔اس سے زیادہ خارجہ سیاست کے افلاس کی کیا کیفیت ہوسکتی ہے ۔ یہ سب اس حالت میں ہے کہ قومی سلامتی اور خارجہ سیاست کی ساری باگ ڈور پارلیمنٹ یا وزارت خارجہ کے ہاتھ میں نہیں بلکہ بلاواسطہ ایوان صدارت کی گرفت میں ہے اور بش سے ساری ذاتی دوستی اور ’’جب چاہوں ٹیلی فون کر لوں‘‘ کی تعلیوں کے باوجود ہماری مقبولیت کا گراف نیچے گیا ہے اور آزادی اور خودانحصاری کی فصیل میں بڑے بڑے شگاف پڑگئے ہیں۔ داخلی اور خارجہ کارکردگی کا یہ جائزہ روشنی سے محروم اور تاریکیوں اور مسائل کے گمبھیر بادلوں سے فضا کی آلودگی کا منظرپیش کرتا ہے۔
اس سال کا ہمارا یہ جائزہ نامکمل رہے گا اگر ہم مرکزی اداروں اور قیادت کی مایوس کن کارکردگی کے مقابلہ میں صوبہ سرحد کی متحدہ مجلس عمل کی حکومت اور اسمبلی کی کارکردگی کے چند پہلوئوں کا ذکر نہ کریں جو امید کی ایک کرن کی حیثیت رکھتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں ایم ایم اے کی کامیابی ایک تاریخی امر ہے جس سے پاکستان کی سیاست میں جوہری تبدیلیوں کا آغاز ہوگیا ہے۔ ایم ایم اے کا قیام انتخابات سے صرف دو ماہ قبل ہوا اور اسے انتخابی مہم کے لیے بہت کم وقت ملا لیکن اس کے باوجود صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان ہی میں نہیں‘ بلکہ ملک کے اہم ترین سیاسی اور تجارتی شہروں یعنی کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد‘ راولپنڈی‘ حیدرآباد اور گوجرانوالہ میں اس کی کامیابی اور ملک کے مختلف علاقوں میں ایک معتدبہ تعداد میں اس کے نمایندوں کا دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کرنا ملک گیر پیمانے پر ایک نئے رجحان کا غماز ہے۔ عوام دینی قوتوں کے اتحاد میں اپنے لیے ایک روشن مستقبل کی جھلک دیکھتے ہیں۔ وہ روایتی سیاسی جماعتوں سے مایوس ہیں جو بااثر اور مخصوص طبقات کے مفادات کی محافظ بن کر رہ گئی ہیں اور جنھیں بار بار مواقع دینے کے باوجود عوام ان کی کارکردگی سے مایوس ہیں اور موجودہ پارلیمنٹ کی عدم کارکردگی نے بھی ان کے اس احساس کو اور بھی قوی کر دیا ہے کہ ان جماعتوں اور طبقوں کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں۔ ایم ایم اے کی پوری قیادت عوام میں سے ہے اور اس کا تعلق متوسط طبقے سے ہے جو عوام کے مسائل اور معاملات سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ ایم ایم اے نے ملکی اور بین الاقوامی ایشوز پر ایک واضح پالیسی اختیار کی ہے اور وہ ملک کی آزادی‘ معاشی خوش حالی اور دینی اخلاقی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت کی علم بردار ہے۔ وہ خودانحصاری کی داعی اور ملک کی امریکی حاشیہ برداری سے نجات کے لیے کوشاں ہے۔
اکتوبر کے انتخابات کے بعد صرف صوبہ سرحد سے اسے اکثریت حاصل تھی اس لیے اس نے اس صوبے میں اپنی حکومت قائم کی اور مرکز میںاپنے اصولی موقف کے مطابق حزبِ اختلاف کا کردار ادا کر رہی ہے۔ سرحد میں حکومت اور اسمبلی کی کارکردگی کے چند پہلو‘ ان تمام مشکلات اور تحدیدات کے باوجود جو مرکز کی طرف سے اسے پیش آئیں اور مرکز کے نمایندے کی گورنری کے منصب پر موجودگی اور اس کی سیاسی معاملات میں مداخلت نے جنھیں اور بھی گمبھیر کر دیا تھا‘ نوٹ کرنے کے لائق ہیں۔
پہلی چیزیہ ہے کہ سرحد میں ایک مختصر کابینہ بنائی گئی جس نے پورے سال بڑی محنت سے کام کیا اور سادگی‘ عوام کی خدمت گزاری اور ہر وقت ان کی پہنچ میں ہونے اور ان کے درمیان پہلے کی طرح زندگی کے شب و روز گزارنے کی اچھی مثال قائم کی۔ مراعات کی لوٹ کھسوٹ کے مقابلے میں خدمت کی ایک شاہراہ روشن کی۔ الحمدللہ اس کا اعتراف دوست دشمن سب کر رہے ہیں۔
دوسری چیز اسمبلی کی کارکردگی ہے۔ صوبائی اسمبلی قومی اور صوبائی معاملات پر بحث و مشورے کا محور اور مرکز رہی ہے۔ دستوری اعتبار سے سال میں صوبائی اسمبلی کا اجلاس ۷۰ دن ہونا ضروری ہے مگر سرحد اسمبلی نے ۹۹ دن کام کیا اور ان بارہ مہینوں میں ایک بار بھی کورم کا مسئلہ پیش نہ آیا۔ اس سال ۱۳ بل منظور کیے جن کا تعلق زندگی اور حکمرانی کے مختلف شعبوں سے تھا۔ خصوصیت سے شریعت بل‘ ہائیڈل پاور بل‘ غیرمنقولہ جایدادوں کا بل‘ ہیلتھ اور ہوسپٹل سروس بل وغیرہ۔ ان ۱۳ بلوں کے علاوہ بھی تین بل اسمبلی میں آئے جن میں ایک نامنظور ہوا اور دو ضروری تائید نہ ہونے کی وجہ سے پیش نہیں ہو سکے۔ اسمبلی میں ۶۶ قراردادیں متفقہ طور پر اور دس اکثریتی ووٹ سے منظور ہوئیں جن کا تعلق ملکی اور صوبائی مسائل سے تھا۔ ان میں عالمی امور پر صوبے کی اسمبلی کی رائے بھی شامل ہے۔ پانی‘ بجلی‘ تعلیم‘ صحت جیسے امور کے بارے میں قراردادیں بھی ہیں۔
سرحد اسمبلی کی کارکردگی کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ تمام امور پر کھل کر بحث ہوئی اور حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان نہ صرف یہ کہ بڑی خوش گوار فضا رہی بلکہ بیشتر معاملات میں حکومت اور حزبِ اختلاف نے مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کیا اور سرحد کی روایات کے مطابق جرگے کے طریقہ کو اختیار کیا۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ صوبہ سرحد کا بجٹ اور شریعت بل دونوں مکمل اتفاق رائے سے منظور ہوئے۔ صوبائی اسمبلی کے ارکان کے ذریعے جو ترقیاتی فنڈاستعمال ہوتے ہیں ان میں حکومتی جماعت اور حزبِ اختلاف کے ارکان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی گئی۔
سرحد اسمبلی نے اپنی ۲۹ مجالس قائمہ بھی پہلی فرصت میں قائم کر دیں جو اسمبلی کے ساتھ ساتھ اپنا کام انجام دے رہی ہیں۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی نے بڑی موثر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور متعدد بدمعاملگیوں کا سراغ لگایا ہے اور ان کا احتساب کیا ہے۔ تمام بلوں پر متعلقہ کمیٹیوں نے غور کیا ہے اور ہیلتھ کمیٹی نے ماضی میں (فوجی حکومت کے دور میں) اختیار کی جانے والی کئی پالیسیوں میں تبدیلی کی ہے اور کمیٹی کی رپورٹ کو سرحداسمبلی سے منظورکرا کے نافذ کرا دیا ہے۔
صوبہ میں تعلیم‘ صحت اور ڈویلپمنٹ کے میدانوں میں نئی پالیسیوں اور اقدامات کااہتمام کیا گیا ہے اور صوبے کے حقوق‘ خصوصیت سے پن بجلی کے سلسلے میں صوبے کی رائلٹی کے معاملے میں واضح پالیسی اختیار کی گئی ہے اور اسے بھی کل جماعتی بنیادوں پر آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ بجٹ میں بھی کئی اہم امور میں پہل قدمی کی گئی جن میں فلاحی بجٹ (welfare budget) ایک لازمی حصہ کے طور پر شامل کرنا اہمیت کا حامل ہے۔ عام ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے مگر کابینہ اور ارکانِ اسمبلی نے اپنے مشاہروں میں کوئی اضافہ نہیں کیا بلکہ وزیراعلیٰ اور سینیر وزیر نے اپنے اپنے مشاہرے میں علامتی کمی کا اعلان کیا ہے۔
صوبہ سرحد میں اسلامی بنک کاری کو متعارف کرانے کے الیکشن کے دعویٰ پر بھی پوری سنجیدگی سے کام ہوا ہے اور پہلے ہی سال اسٹیٹ بنک کی اجازت اور تعاون سے خیبربنک کی ایک شاخ نے مکمل اسلامی بنک کاری کا آغاز کر دیا ہے اور اس شاخ کا باقاعدہ افتتاح ۲۷رمضان المبارک کو عمل میں آ رہا ہے۔
صوبہ سرحد میں ایم ایم اے نے جو روشن مثال قائم کی ہے جو مستقبل کے لیے ایک نیک فال ہے ۔ ایم ایم اے کو تقسیم کرنے اور بدنام کرنے کی ساری کوششوں کے باوجود الحمدللہ ایم ایم اے نے نہ صرف یہ کہ اپنے اتحاد کو قائم رکھا ہے بلکہ حکمرانی‘ عوامی خدمت اور اسلامی شعائر کے مکمل احترام کی ایک روشن مثال قائم کی ہے۔ بلاشبہہ یہ صرف ایک آغاز ہے اور ابھی بہت کام کرنا ہے لیکن انگریزی محاورے کے مطابق: Well begun is half done ۔ اس سرسری موازنے سے قوم کے سامنے امید کی ایک نئی کرن آتی ہے اور اقبال کا ہم زباں ہو کر یہ کہا جا سکتا ہے ؎
کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی ایک تصویر دیکھ
صدربش بڑے باہمت لوگوں میں سے ہیں اور اگر ان کے ایک غبارے میں سے ہوا نکل جاتی ہے تو فوراً ہی دوسرا غبارہ فضا میں لے آتے ہیں۔ انتخاب سے پہلے انھوں نے قوم اور دنیا کو یہ امید دلائی تھی کہ امریکہ کے لیے صحیح رویہ انکساری اور غرور و تکبر سے پرہیز ہے لیکن صدر بننے کے بعد اور خصوصیت سے ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے واقعے کے بعد غرورو تکبر ان کی پہچان اور امریکی پالیسی کا مزاج بن گئے‘ اور جس فرعونیت کا انھوں نے مظاہرہ کیا ہے اس نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ پھر انصاف کے نام پر انتقام کی روش پر وہ گامزن ہو گئے اور افغانستان کو تہس نہس کر ڈالا۔ پھرعمومی تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں(WMD)کی تلاش ان کا ہدف بن گیا اور وہ ہاتھ دھو کر عراق اور صدام کے پیچھے پڑ گئے۔ اس زمانے میں کروسیڈز (صلیبی جنگیں)کا شوق بھی ان کو لاحق ہو گیا۔ عالمِ اسلام کی منفی رائے کی روشنی میں وہ اس لفظ کے استعمال کے باب میں محتاط ہو گئے لیکن عملاً وہ اور ان کے ساتھی امریکہ ہی نہیں پوری دنیا میں کروسیڈز میں مصروف ہیں اور ہدف مسلمان اور عرب ممالک ہیں۔ پھر بش ڈاکٹرائن(Bush Doctrine) نے جنم لیا اور اس میں پیش بندی کے طور پر حملے اور حکومتوں کی تبدیلی کے اہداف مرکزیت اختیار کر گئے۔ امریکہ نے ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود عراق پر فوج کشی کی اور اب ایک ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں جو امریکیوں کو ویت نام کے خوف ناک خواب (nightmare)کی یاد دلا رہی ہے۔
عراق میں گئے تھے اس دعوے کے ساتھ کہ تباہی کے ہتھیاروں کا پردہ چاک کر دیں گے لیکن پردہ ان کے دعویٰ کا چاک ہوا۔ نہ کوئی عمومی تباہی کے ہتھیار وہاں سے ملے اور نہ ان کو تیار کرنے کی صلاحیت کا کوئی ثبوت وہ پاسکے۔ پھر ان کا خیال تھا کہ عراقی عوام ان کو اپنا نجات دہندہ سمجھیں گے اور سر پر بٹھائیں گے لیکن عملاً عراقی عوام نے ان کے قبضے کو سامراجی قبضہ قرار دیا اور اس کے خلاف مزاحمت کی تحریک روز بروز طاقت پکڑ رہی ہے‘ اور امریکی عوام روزانہ اپنے فوجیوں کی لاشوں کے تحفے وصول کر رہے ہیں۔ اس نے ملک کے طول و عرض میں بے چینی اور اضطراب پیدا کردیا ہے اور بش مخالف رجحان کو تقویت دی ہے۔ ان حالات میں بش صاحب اپنی فوج کشی کے لیے ایک نئے جواز اور عالمی کروسیڈ کے لیے ایک نئے ہدف کی تلاش میں ہیں۔ قرعہ فال اس دفعہ ’’جمہوریت کے عالمی فروغ‘‘ کے نام نکلا ہے۔ ۶نومبر کو National Endowment for Democracy کے ایک اجتماع میں ایک اہم پالیسی خطاب میں صدربش نے کہا کہ امریکہ کی ۶۰سالہ پالیسی جس کے تحت سیاسی آزادیاں نہ دینے والی حکومتوں کی حمایت کی گئی ناکام ہوگئی ہے۔ اس پالیسی نے امریکہ کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا کیونکہ آزادی کی قیمت پر استحکام حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے خصوصیت سے پورے مشرق وسطیٰ کے لیے جمہوریت کی ضرورت پر زور دیا اور جمہوریت کی کمی کو تشدد اور دہشت گردی کا ایک اہم سبب قرار دیا اور آمریت اور تھیاکریسی (ملائیت) کو خصوصیت سے تنقید کا ہدف بھی بنایا۔ کچھ ممالک کو نام لے کر نشانہ بنایا اورکچھ کے بارے میں واضح اشارے دیے۔ اب اس تقریر کو عراق میں فوج کشی جاری رکھنے کے لیے وجہِ جواز بنایا جا رہا ہے اور آیندہ کی جولانیوں کے لیے فضا ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
آزادی اور جمہوریت دنیا کے تمام ممالک اور اقوام کو عزیز ہے لیکن اس لیے نہیں کہ امریکہ ان کے لیے جمہوریت کی کوئی شکل فراہم یا مسلط کرے۔ یہ ان کا داخلی معاملہ ہے اور اپنے سیاسی نظریات اور تہذیبی روایات کی روشنی میںوہ اپنے نظام کی اصلاح اپنی ذمہ داری سمجھتی ہیں۔ امریکہ جمہوریت کے بارے میں کتنا مخلص ہے اس کا اندازہ اس کے تاریخی کردار کے علاوہ آج کے سامراجی عزائم سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کی پالیسی منافقت اور دوغلے پن پر مبنی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ ان کے دعووں کو خود امریکی عوام اب تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ تازہ ترین عوامی جائزوں کے مطابق امریکی عوام کے ۵۰ فی صد سے زیادہ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی قیادت نے ان سے غلط بیانی کی اور عراق پر حملے کے لیے کوئی حقیقی جواز موجود نہیں تھا۔
حال ہی میں ٹائم یورپ نے ایک عالمی سروے کیا جس میں ۷ لاکھ افراد نے حصہ لیا۔ سوال یہ تھا کہ دنیا کو آج سب سے زیادہ خطرہ کس سے ہے؟ اس کے جواب میں ۸۷ فی صد نے کہا :امریکہ۔ شمالی کوریا کو خطرہ سمجھنے والے صرف ۷.۶ فی صد تھے اور ایران کو ۳.۶۔
صدر جارج بش نے امریکہ کے دستور اور جمہوری روایات کو بری طرح پامال کیا ہے۔ آج قانون کی حکمرانی کا اصول جو جمہوریت کی روح ہے‘ خود امریکہ میں ہزاروں انسانوں کے لیے توڑا جا رہا ہے۔ عدالتی حکم اور جرم کے ثبوت کے بغیر انسانوں کو آزادیوں سے محروم کرنا جمہوریت نہیں جنگل کا قانون ہے۔ امریکہ اس پر گامزن ہے۔ گوانٹاناموبے میں دو سال سے سیکڑوں افراد ہر قسم کی قانونی دادرسی سے محروم پڑے ہوئے ہیں اور امریکہ دنیا کو جمہوریت کا وعظ پلا رہا ہے۔ حب الوطنی کے نام پر شہریوں کے پرائیویسی کے حق کو پامال کیا جا رہا ہے۔ امیگریشن قوانین کو انسانوں کے درمیان بدترین امتیازکے لیے بے محابا استعمال کیا جا رہا ہے۔ میڈیا نئے قسم کے موثر thought control(سوچ پر پابندی) کا آلہ بن گیا ہے اور فکری آزادی کو زنجیریں پہنانے کے لیے امریکہ کے ایوانِ نمایندگان نے ۲۱ اکتوبر کو ایک ایسا قانون (HR 3077) عظیماکثریت سے منظور کر لیا ہے جس کی رو سے جامعات میں تعلیم اور تحقیق کی آزادی کو محدود کیا جا رہا ہے اور خصوصیت سے شرق اوسط کے بارے میں نصابات‘ اساتذہ اور تحقیق کو بیڑیاں پہنائی جا رہی ہیں۔
امریکہ نے خود اپنی سرزمین پر بسنے والے اصل باشندوں سے جنھیں ریڈ انڈین کہا جاتا ہے‘ کیا سلوک کیا۔ اپنی سیاہ فام آبادی جسے اب ایفرو امریکن کہا جاتا ہے اور جو آبادی کا پانچواں حصہ ہے‘ اس کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا اور زیادہ ’مہذب‘ (sophisticated) شکلوں میں آج بھی ہو رہا ہے۔ اسے اگر نظرانداز بھی کر دیا جائے اور صرف جارج بش کے دورِاقتدار کے جمہوریت کش اقدامات کا جائز ہ لیا جائے توجمہوریت اور آزادیوں کا حال صدر بش کے امریکہ میںدگرگوں ہے--- دنیا کو جمہوریت کا سبق سکھانے سے پہلے اگر وہ خود اپنے گھر کی کچھ فکر کرلیں تو امریکہ کے لیے بہتر ہوگا۔
صدربش کی تقریر سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اب جمہوریت کے عنوان کو وہ اپنے سامراجی عزائم کے فروغ کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کو اس میں بھی اسی طرح ناکامی ہوگی جس طرح افغانستان اور عراق میں ہوئی ہے۔ ہمیں خطرہ ہے کہ جس طرح دہشت گردی کے خلاف ان کی نام نہاد جنگ مزید دہشت گردی کو فروغ دینے کا ذریعہ بن رہی اسی طرح جمہوریت کے فروغ کی جنگ جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوگی ؎
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
جب ہر طرف سے بری خبریں آ رہی ہوں تو ایسے میں اگر کوئی اچھی خبر ملے تودل خوشی اور استعجاب کے جذبات سے معمور ہو جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک رپورٹ راونڈا سے حال ہی میں موصول ہوئی ہے جو تاریکیوں میں روشنی کی کرن ہی نہیں‘ اسلام کی ناقابلِ تسخیر صلاحیت کا ایک نیا مظہر بھی ہے۔
سب جانتے ہیں کہ راونڈا ان مظلوم ممالک میں سے ہے جو ۱۰ سال قبل کی خانہ جنگی کے باعث زبوں حال ہے اور وہاں کی دونوں بڑی قوموں ٹٹسی (Tutsi) اور ہوٹو (Hutu)کا قبرستان بن گیا ہے۔ اس خانہ جنگی میں ۱۰ لاکھ سے زیادہ افراد قبائلی آگ کا ایندھن بن گئے ہیں۔ ملک کی معیشت تباہ ہو گئی ہے‘ غربت و افلاس کا طوفان بپا ہے اور جہالت اور انتقام کی اس جنگ میں عالم اور عامی‘ حکمران اور عوام‘ فوج اور پولیس‘ حتیٰ کہ پادری اور عیسائی مذہبی سب ہی شریک ہوگئے اور ایک دوسرے کا سر قلم کرنے‘ مال و دولت لوٹنے اور عزت و عصمت کو تار تار کر دینے کے وحشیانہ کھیل میں شریک ہو گئے۔
راونڈا میں مسلمان ایک معمولی اقلیت تھے بمشکل ۲.۱ فی صد۔ لیکن خانہ جنگی کے اس خونی دور میں ان کا کردار منفرد رہا۔ انھوں نے کسی قبیلے کا ساتھ نہ دیا‘ کسی ظلم میں شریک نہ ہوئے بلکہ اپنی ساری قوت اس آگ کو بجھانے اور مظلوم انسانوں کو پناہ دینے کے لیے وقف کر دی‘ بلالحاظ اس کے کہ ان کا تعلق کس نسل اور قبیلے سے ہے۔ چند سال کی اس کوشش کے حیران کن نتائج رونما ہوئے۔ ہزاروں افراد نے اسلام قبول کیا اور لاکھوں کا تصور اسلام کے بارے میں بالکل بدل گیا۔ مسلمان غریب ہیں اور تعلیم کے میدان میں پیچھے۔ لیکن اپنے اخلاق اور خدمت کے ذریعے انھوں نے اسلام کے لیے بند راستوں کو کھول دیا اور اب عزت و احترام کے ساتھ ان کو ایسے اعوان و انصار میسر آگئے ہیں جو زندگی کے ہر شعبے اور خصوصیت سے نئی فوج اور انتظامیہ میں اسلام کے دوستی اور اخوت کے پیغام کے علم بردار بن گئے ہیں۔ اس وقت اے ایف پی کے ایک جائزے (دی نیوز‘ ۱۱نومبر ۲۰۰۳ئ) کے مطابق مسلمانوں کی آبادی یدخلون فی دین اللّٰہ افواجا کے نتیجے میں ملک کی آبادی کا تقریباً ۱۰ فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ اے ایف پی کی اس رپورٹ کے چند اقتباسات پیش ہیں۔ Rawanda Patriotic Front کا ایک سپاہی جس کا اب اسلامی نام اسحق ہے‘ اپنے تاثرات یوں بتاتا ہے:
جب میری یونٹ کگالی میں آئی اور میں نے دیکھا کہ میرے کتنے ہی ساتھیوں کو مسلمانوں نے چھپایا اور اس طرح ان کی زندگی بچائی تو میں مسلمان ہوگیا۔
میں ایک مسلمان ادریس کے گھر کے پیچھے زیرزمین ٹینک میں چھپا ہوا تھا۔ صرف اسی کو معلوم تھا کہ میں کہاں ہوں۔ اگر وہ دھوکا دیتا تو میں قتل کر دیا جاتا لیکن اس نے مجھے دھوکا نہیں دیا۔
جن لوگوں نے مسجدوں میں پناہ لی وہ عام طور پر اس ملیشیا اور فوجیوں سے محفوظ رہے جو ٹٹسیوں کو تلاش کر کے قتل کر رہے تھے۔اس کے مقابلے میں کلیسائوں کا ریکارڈ افسوس ناک ہے۔
اس جائزے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ۱۹۹۴ء میں جب ۱۰۰ دن کے اندر ۱۰ لاکھ افراد ہلاک کر دیے گئے تھے اس کے فوراً بعد اسلام کی طرف رجوع بڑھ گیا اور ٹٹسی ہی نہیں خود ہوٹو کی بھی ایک تعداد نے اسلام قبول کیا۔ کچھ نے مسلمانوں کے انصاف پسند اور رحم دلانہ رویے سے متاثر ہو کر اور کچھ نے نئے حالات میں ٹٹسیوں کے انتقام سے بچنے کے لیے‘ جب کہ ٹٹسی بڑی تعداد میں حلقہ بگوش اسلام اس لیے ہوئے کہ مسلمانوں نے ان کو تحفظ فراہم کیا اور انسانی ہمدردی اور خدمت کی اعلیٰ مثال قائم کی۔
آج راونڈا میں مسلمانوں کی تعداد برابر بڑھ رہی ہے‘ ہر طبقہ ان کی عزت کرتا ہے۔ راونڈا کے طول و عرض میں مسجدوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے جس کے سبز گنبد اور سفید مینار آزادی اور انسانیت کی علامت بن گئے ہیں۔ راونڈا کے مسلمان غریب ہیں۔ مگر انھیں فخر ہے کہ وہ اپنے معاملات کسی بیرونی امداد کے بغیر اپنے ہی محدود وسائل سے چلا رہے ہیں بقول اے ایف پی: مسلمان کمیونٹی رواداری کا بہترین نمونہ پیش کرتی ہے اور تمام مذاہب اور قبائل سے ان کے تعلقات نہایت دوستانہ ہیں جو باہمی احترام اور عزت انسانی کی اچھی مثال پیش کرتے ہیں۔ کیا پاکستان اور دوسرے روایتی ’عظیم‘ مسلمان ممالک کے لیے راونڈا کے غریب مسلمانوں کے اسوے میں کوئی سبق ہے؟
اللہ کا دین اوّل تو یہ چاہتا ہے کہ لوگ بالکلیّہ بندۂ حق بن کر رہیں اور اُن کی گردن میں اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کا حلقہ نہ ہو۔ پھر وہ چاہتا ہے کہ اللہ ہی کا قانون لوگوں کی زندگی کا قانون بن کر رہے۔ پھر اس کا مطالبہ یہ ہے کہ زمین سے فساد مٹے‘ اُن منکرات کا استیصال کیا جائے جو اہل زمین پر اللہ کے غضب کے موجب ہوتے ہیں اور اُن خیرات و حسنات کو فروغ دیا جائے جو اللہ کو پسند ہیں۔ اِن تمام مقاصد میں سے کوئی مقصد بھی اِس طرح پورا نہیں ہو سکتا کہ نوعِ انسانی کی رہنمائی و قیادت اور معاملاتِ انسانی کی سربراہ کاری ائمۂ کفروضلال کے ہاتھوں میں ہو اور دین حق کے پیرو محض اُن کے ماتحت رہ کر اُن کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجایشوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یادِ خدا کرتے رہیں۔ یہ مقاصد تو لازمی طور پر اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام اہل خیروصلاح جو اللہ کی رضا کے طالب ہوں اجتماعی قوت پیدا کریں اور سردھڑ کی بازی لگا کر ایک ایسا نظامِ حق قائم کرنے کی سعی کریں جس میں امامت و رہنمائی اور قیادت و فرماں روائی کا منصب مومنین صالحین کے ہاتھوں میں ہو۔ اس چیز کے بغیر وہ مدّعا حاصل ہی نہیں ہوسکتا جو دین کا اصل مدّعا ہے۔
اسی لیے دین میں امامت ِ صالحہ کے قیام اور نظامِ حق کی اقامت کو مقصدی اہمیت حاصل ہے اور اس چیز سے غفلت برتنے کے بعد کوئی عمل ایسا نہیں ہو سکتا جس سے انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کو پہنچ سکے۔ غور کیجیے‘ آخر قرآن و حدیث میں التزامِ جماعت اور سمع و اطاعت پر اتنا زور کیوں دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص جماعت سے خرُوج اختیار کرے تو اس سے قتال واجب ہے خواہ وہ کلمۂ توحید کا قائل اور نماز روزے کا پابند ہی کیوں نہ ہو؟ کیا اس کی وجہ یہ اور صرف یہی نہیں ہے کہ امامت ِ صالحہ اور نظامِ حق کا قیام و بقا دین کا حقیقی مقصود ہے‘اور اس مقصد کا حصول اجتماعی طاقت پر موقوف ہے‘ لہٰذاجو شخص اجتماعی طاقت کو نقصان پہنچاتا ہے وہ اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرتا ہے جس کی تلافی نہ نماز سے ہو سکتی ہے اور نہ اقرارِ توحید سے؟ پھر دیکھیے کہ آخر اس دین میں جہاد کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی ہے کہ اس سے جی چرانے اور منہ موڑنے والوں پر قرآن مجید نفاق کا حکم لگاتاہے؟ جہاد‘ نظامِ حق کی سعی کا ہی تو دوسرا نام ہے۔ اور قرآن اسی جہاد کو وہ کسوٹی قرار دیتا ہے جس پر آدمی کا ایمان پرکھا جاتا ہے۔ بالفاظِ دیگر جس کے دل میں ایمان ہوگا وہ نہ تو نظامِ باطل کے تسلّط پر راضی ہو سکتا ہے اور نہ نظامِ حق کے قیام کی جدوجہد میں جان و مال سے دریغ کر سکتا ہے۔ اس معاملے میں جو شخص کمزوری دکھائے اس کا ایمان ہی مشتبہ ہے‘ پھر بھلا کوئی دوسرا عمل اسے کیا نفع پہنچا سکتا ہے؟…
اسلام کے نقطۂ نظر سے امامت ِ صالحہ کا قیام مرکزی اور مقصدی اہمیت رکھتا ہے۔ جو شخص اس دین پر ایمان لایا ہو‘ اُس کا کام صرف اتنے ہی پر ختم نہیں ہوجاتا کہ اپنی زندگی کو حتی الامکان اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے بلکہ عین اس کے ایمان ہی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی تمام سعی و جہد کو اِس ایک مقصد پر مرکوز کر دے کہ زمامِ کار کفار و فساق کے ہاتھ سے نکل کر صالحین کے ہاتھ میں آئے‘ اور وہ نظامِ حق قائم ہو جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق دنیا کے انتظام کو درست کرے اور درست رکھے۔ پھر چونکہ یہ مقصد ِاعلیٰ اجتماعی کوشش کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا اس لیے ایک ایسی جماعت صالحہ کا وجود ضروری ہے جو خود اصولِ حق کی پابند ہو اور نظامِ حق کو قائم کرنے‘ باقی رکھنے اور ٹھیک ٹھیک چلانے کے سوا دُنیا میں کوئی دوسری غرض پیشِ نظر نہ رکھے۔
رُوے زمین پر اگر صرف ایک ہی آدمی مومن ہو تب بھی اس کے لیے یہ درست نہیںہے کہ اپنے آپ کو اکیلا پاکر اور ذرائع مفقود دیکھ کر نظامِ باطل کے تسلّط پر راضی ہوجائے یا اہون البلیتین کے شرعی حیلے تلاش کر کے غلبۂ کفروفسق کے ماتحت کچھ آدھی پونی مذہبی زندگی کا سودا چکانا شروع کر دے‘ بلکہ اُس کے لیے سیدھا اور صاف راستہ صرف یہی ایک ہے کہ بندگانِ خدا کو اُس طریق زندگی کی طرف بلائے جو خدا کو پسند ہے۔ پھر اگر کوئی اس کی بات سُن کر نہ دے تو اُس کا ساری عمر صراطِ مستقیم پر کھڑے ہو کر لوگوں کو پکارتے رہنا اور پکارتے پکارتے مر جانا اِس سے لاکھ درجہ بہترہے کہ وہ اپنی زبان سے وہ صدائیں بلند کرنے لگے جو ضلالت میں بھٹکی ہوئی دُنیا کو مرغوب ہوں‘ اور اُن راہوں پر چل پڑے جن پر کفار کی امامت میں دنیا چل رہی ہو۔ اور اگر کچھ اللہ کے بندے اس کی بات سننے پر آمادہ ہو جائیں تو اس کے لیے لازم ہے کہ ان کے ساتھ مل کر ایک جتھا بنائے اور یہ جتھا اپنی تمام اجتماعی قوت اُس مقصد ِعظیم کے لیے جدوجہد کرنے میں صرف کردے جس کا میں ذکر کر رہا ہوں۔
حضرات! مجھے خدا نے دین کا جو تھوڑا بہت علم دیا ہے اور قرآن و حدیث کے مطالعے سے جو کچھ بصیرت مجھے حاصل ہوئی ہے‘ اس سے میں دین کا تقاضا یہی کچھ سمجھا ہوں۔ یہی میرے نزدیک کتابِ الٰہی کا مطالبہ ہے۔ یہی انبیا کی سنت ہے اور میں اپنی اس رائے سے ہٹ نہیں سکتا جب تک کوئی خدا کی کتاب اور رسولؐ کی سنت ہی سے مجھ پر ثابت نہ کر دے کہ دین کا یہ تقاضا نہیں ہے۔ (تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں‘ ص ۹-۱۳)
حضرت عثمانؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف ایک وفد بھیجنے کا ارادہ کیا۔ وفد کا امیرانھی میں سے ان کو نامزد فرمایا جو ان میں سب سے چھوٹے تھے۔ وفد کئی دن تک رکا رہا‘ روانہ نہ ہوا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان میں سے ایک آدمی سے ملاقات ہو گئی۔ آپؐ نے فرمایا: اے فلاں! آپ کو کیا ہوا‘ آپ گئے نہیں؟ اس نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہمارے امیر کے پائوں میں تکلیف ہوگئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور بسم اللّٰہ وباللّٰہ اعوذ باللّٰہ وقدرتہ من شر ما فیھا (اللہ کے نام سے‘ اللہ کی مدد سے میں اللہ اور اس کی قدرت کی پناہ میں دیتا ہوں‘ اس تکلیف سے جو اس پائوں میں ہے) پڑھ کر سات مرتبہ پھونکا۔ اس کے ساتھ ہی آدمی ٹھیک ہو گیا۔ ایک بوڑھے شخص نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ اسے ہم پر امیر بنا رہے ہیں حالانکہ یہ سب سے چھوٹے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: یہ قرآن پاک کے عالم ہیں۔ بوڑھے شخص نے کہا: مجھے ڈر نہ ہوتا کہ میں راتوں کو سویا رہ جائوں اور نوافل میں قرآن پاک کی تلاوت نہ کرسکوں تو میں بھی قرآن پاک حفظ کرلیتا۔ اس پر نبیؐ نے فرمایا: قرآن کی مثال اس مشکیزے کی ہے جس میں کستوری بھر کر رکھ دی ہو (وہ کھلا ہو تواس میں کستوری مہکتی ہے)۔ اسی طرح قرآن پاک کا معاملہ ہے جب آپ اسے پڑھیں اور وہ آپ کے سینے میں محفوظ ہو۔ (طبرانی‘ مجمع الزوائد‘ ج ۷‘ ص ۱۶۶)
یعنی قرآن پاک کا حافظ تلاوت نہ کرے تو اس کی مثال اس کستوری کی ہے جو مشکیزے میں بند ہو۔
قرآن پاک اُمت کا نظام ہے۔ اس کے ہر سطح کے نظم کو قرآن کے مطابق چلنا ہے۔ اس لیے کسی بھی سطح کے عہدے اور منصب کے لیے موزوں ترین وہ شخص ہو سکتا ہے جو قرآن پاک کا عالم ہو تاکہ اس نظم کو قرآن پاک کے مطابق چلائے۔ جب قاری قرآن پاک پڑھتا ہے تو وہ اپنی خوشبو دیتا ہے جس طرح مشکیزے میں خوشبو ہو اور مشکیزہ کھلا ہو تو وہ گردونواح کو معطر کردیتی ہے۔ قرآن کاعلم رسولؐ اللہ اور آپؐ کی اُمت کا تشخص ہے۔ اُمت کو اُمت مسلمہ کی حیثیت سے قائم رکھنا مقصود ہو تو پھر نظام قرآنی قائم کرنا ہوگا اور منتظم بھی ایسے لوگوں کو بنانا ہوگا جن کا قرآنی نظام پر ایمان ہو‘ وہ اس کا علم رکھتے ہوں اور اسے عملی جامہ پہنانا چاہتے ہوں۔
اشکال کا دلیل سے ازالہ کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اشکال پیدا ہونا ممکن ہے۔ لیکن نبی کی بات کا انکار یا اس پر اعتراض جائز نہیں ہے۔ بوڑھے صحابی نے اعتراض نہیں کیا بلکہ اشکال پیش کیا‘ جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دلیل سے جواب دے دیا۔ امرا کے لیے اس میں نمونہ ہے۔ انھیں اپنے ماتحتوں کے اشکال بلکہ اعتراض کا جواب دے کر انھیں مطمئن کرنا چاہیے کیونکہ امیر پر اعتراض ہوسکتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضوؐر اور آپؐ کے صحابہ مدینہ طیبہ ہجرت کر کے آئے تو صحابہ کرامؓ بخار کے تکلیف دہ مرض میں مبتلا ہو کر اس قدر کمزور ہو گئے کہ نماز بھی بیٹھ کر ہی پڑھنے لگے لیکن اللہ تعالیٰ نے نبیؐ سے اس بیماری کو پھیر دیا۔ آپؐ تشریف لائے تو دیکھا کہ صحابہ کرامؓ بیٹھ کر نمازیں پڑھ رہے ہیں۔آپؐ نے فرمایا: تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے کا ثواب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کے مقابلے میں آدھا ہے۔ تب مسلمان ثواب اور فضیلت حاصل کرنے کی خاطر ضعف اور بیماری کے باوجود کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی مشقت اٹھانے لگے۔ (احمد‘ طبرانی‘ البدایۃ والنہایہ)
کمزور اور بیمار شخص کو بھی جب اونچے گریڈ کی ملازمت‘ بڑا مقام یا کوئی بڑا منصب ملتا ہے تو وہ بیماری کے باوجود ڈیوٹی ادا کرتا ہے اور اس کی مشقت اور تکلیف کو سہتا ہے۔ نصف تنخواہ کون کٹواتا ہے! پوری تنخواہ کی خاطر تو بیمار بھی صحت مند اور بوڑھا بھی جوان ہو جاتا ہے۔ صحابہ کرامؓ پورے اجر کے لیے کمزوری اور بیماری کے باوجود کھڑے ہو کر نمازپڑھتے تھے۔ پورے اجر کے اس شوق کی وجہ سے انھوں نے بھوکے پیٹ اور کمزور جسم کے ساتھ راتوں کو قیام اور دن کو جہاد کیا اور اللہ کے دین کو غالب کر دکھلایا۔
حضرت عمرو بن تغلبؓ روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ نے بعض لوگوں کو عطیات دیے اور بعض کو چھوڑ دیا‘ جن کو چھوڑ دیا ان کے بارے میں محسوس کیا گیا کہ وہ ناراض ہوئے۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کچھ لوگوں کو ان کی بے صبری اور واویلے کو دیکھ کر دیتا ہوں اور کچھ لوگوں کو اُس بھلائی اور استغنا کے حوالے کردیتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رکھ دی ہے۔ ان میں عمرو بن تغلب بھی ہیں۔
حضرت عمرو بن تغلب کہتے ہیں کہ رسولؐ اللہ کے ان کلمات کے مقابلے میں مجھے سرخ اُونٹ بھی پسند نہیں۔ (بخاری)
بیت المال کا ایک حصہ وہ ہوتا ہے جو کسی خاص طبقے اور گروہ کے لیے مخصوص نہیں ہوتا۔ اسلامی حکومت کے سربراہ کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کے جن افراد کو دینا چاہے دے دے‘ جن علاقوں کو مقدم رکھنا چاہے مقدم رکھے۔ ایسی صورت میں جو لوگ بے صبری اور اضطراب کا شکار ہوں‘ ان کو مطمئن کرنا چاہیے اور دولت کی گردش سے ان کو فیض یاب کرنا چاہیے۔ صابروشاکر اور اللہ پر بھروسا کرنے والے وہ لوگ جن کے دل میں استغنا اور بے نیازی کی دولت ہے اگر ان کے صبروشکر کی وجہ سے اس بنا پر نظرانداز کردیے جائیں‘ کہ سب کے لیے گنجایش نہیں تواس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
دنیا کی بڑی سے بڑی دولت اور بڑے سے بڑا عطیہ دل کے استغنا کے مقابلے میں ہیچ ہے۔ وہ لوگ بہت عظیم ہیں جن کے دل غنی ہوں۔ اس لیے حضرت عمرو بن تغلبؓ اور دوسرے صحابہ جنھیں آپ ؐنے ایک موقع پر عطیات سے محروم رکھا‘ آپؐ کی اس وضاحت کے بعد نہ صرف راضی بلکہ مطمئن ہوگئے کہ دوسروں کو مال کی دولت ملی اور ان کو دل کا استغنا نصیب ہوا۔ آج دولت کی کمی نہیں بلکہ دلوں کے غنا کی کمی ہے اسی لیے معاشرے میں معاشی بے اطمینانی اور اضطراب ہے۔
جو کوئی مومن کو منافق کی بدزبانی سے بچائے گا‘ اللہ ایک فرشتہ اس کے لیے مقرر کر دے گا جو اس کے گوشت کو دوزخ کی آگ سے بچائے گا ‘اور جو مومن پر اس کی عزت کو داغ دار کرنے کی خاطر کوئی الزام لگائے ‘ قیامت کے روز جہنم کے پُلوں میں سے ایک پُل پر اسے روک دیا جائے گا۔ وہ اس پر محبوس رکھا جائے گا جب تک کہ وہ اس الزام کے گناہ کی سزا نہ پا لے۔ (ابوداؤد‘ کتاب الادب)
اگر ایمان والے اپنے بھائیوں پر جھوٹے الزامات‘ طعن و تشنیع اور ظلم و زیادتی ہوتے دیکھ کر خاموش تماشائی نہ بن جائیں بلکہ ان کا دفاع کریں‘ الزامات لگانے والوں کو روک دیں تو کسی کو ان کی عزت کو پامال کرنے کی جرأت نہ ہو۔ آج بھی منافقین اپنی زبانِ طعن‘ ایمان والوں پر دراز کرتے رہتے ہیں بلکہ طعنہ زنی کرنے والے منافقین عالمی سطح پر ایک جتھہ اور قوت بن کر میڈیا کے ذریعے دن رات انھیں نشانہ بناتے ہیں۔ انھیں دہشت گرد‘ انتہا پسند اور جنونی قرار دے کر گردن زدنی قرار دے رہے ہیں۔ ایسے میں مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے دفاع میں نکلیں‘ بڑی ریلیاں اور جلوس نکالیں‘ کالم اور فیچر لکھیں‘ ذرائع ابلاغ کے ذریعے طعن زنی کرنے والے منافقین کا تعاقب کریں اور ان کی زبانیں بند کردیں۔ ان کی کوششوں کو بے اثر کر دیں۔ ایسا کریں گے تو منافقین کو ناکام کریں گے اور روزِ آخرت حدیث کے مطابق جزا پائیں گے‘ ورنہ ان کا شمار بھی منافقین کے ساتھ ہونے کا اندیشہ ہے کہ اہل ایمان کے دفاع میں جو کچھ کر سکتے تھے وہ کیوں نہیں کیا۔
حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو قیامت کے روز تین چیزوں سے پاک ہو کر آیا سیدھا جنت میں داخل ہوگا: تکبر‘ سرکاری مال میں خیانت اور کسی شخص کے دین (قرض) سے۔ (ترمذی)
نبی کریمؐ نے جنت میں داخل ہونے کا راستہ بتا دیا ہے۔ ہے کوئی جو آگے بڑھ کر تکبر‘ خیانت اور قرض کی نادہندگی سے‘ اپنے آپ کو پاک کرے اورجنت میں داخل ہو جائے!
جلدی جلدی تازہ وضو کر کرا‘ جامہ احرام میں ملبوس‘ اپنے معلم کی رہنمائی میں حرم کو روانہ ہوئے۔ فاصلہ کچھ بہت زیادہ نہیں‘ کوئی تین فرلانگ کا ہوگا‘چند منٹ میں پہنچ گئے ہوں گے مگر نہ پوچھیے کہ یہ چند منٹ اس وقت کَے گھنٹے معلوم ہوئے!
زبان پر لبیّک لبیّک ہے‘ لیکن دل کہہ رہا ہے‘ کون سی تمنا ہے‘ جو اس وقت دل میں نہیں؟ تمنائوں کا ہجوم‘ آرزوئوں کی کش مکش اور پھر ہیبت ودہشت کہ کس دربار میں حاضری ہورہی ہے۔ دل ہے کہ ہر لحظہ اس کی دہشت بڑھتی جا رہی ہے اور قدم ہیں کہ ہر قدم پر بھاری ہوتے جا رہے ہیں۔ کہاں کسی سیہ کار کی جبین اور کہاں کسی بے مکان و بے نشان کا سنگ آستانہ‘ یہ ناپاک قدم کس پاک سرزمین کو روند رہے ہیں؟ آہ یہ گلیاں تو تیرے اس خلیل ؑکے قدموں کے لائق تھیں‘ جو تیرے نام پر دہکتی ہوئی آگ میں کودا تھا اور جو محض تیرا اشارہ پاکر اپنے پلے پلائے نورنظر کے حلقوم پر چھری پھیر چکا تھا! اسی کم سن لڑکے کے لائق تھیں جو محض تیری رضا کے لیے بے خطا وبے قصور اپنے ذبح کرانے کو حلق سامنے کرکے ہنسی خوشی لیٹ گیا تھا! تیرے اس حبیب اور محبوب بندے کے لائق تھیں جو تیرے نام اور تیرے پیغام کی منادی کرنے کے جرم میں انھی گلیوں میں سالہا سال ہر طرح کی ایذائیں سہتا اور اذیتیں برداشت کرتا رہا تھا۔
سنتے چلے آئے تھے اور کتابوں میں بھی بارہا پڑھا تھا کہ کعبہ تجلی گاہِ جلال ہے۔ یہاں تجلیات قہری کا زور ہے۔ روایتوں کا اثر دل میں بیٹھا ہوا تھا‘ ہیبت و دہشت کا غلبہ تھا‘ ہمت بار بار جواب دے رہی تھی‘ اور دل یہ کہہ رہا تھا کہ سامنا کیوں کر کیا جائے گا؟ ’’زمین‘‘ کی زبان سے یہ مصرع بارہا سنا تھا کہ ع
تو مرا خراب کر دی بہ ایں سجدہ ریائی!
اس دکھلاوے کے سجدے سے تو نے مجھے برباد کر دیا
دل کھٹک رہا ہے‘ ذرا کان لگا کر سننا کہیں یہ ندا اس وقت اسی مسجد حرم کی سرزمین سے تو نہیں آ رہی ہے؟ شاعری کی دنیا میں بارہا یہ آواز کانوں میں پڑ چکی تھی ؎
چوبطوف کعبہ رفتم بحرم رہم ندادند
تو برون درچہ کردی کہ درون خانہ آئی
جب میں کعبہ کے طواف کے لیے گیا تو مجھے حرم میں داخل نہ ہونے دیا گیا اور کہا گیا کہ تو نے حرم سے باہر اپنی زندگی میں اللہ کی نافرمانی کی‘ اب بیت اللہ میں کس منہ سے آتا ہے۔
کیا آج اور اس وقت یہ شاعری حقیقت بن کر رہے گی؟ یا اللہ اس پاک سرزمین پر اپنی ناپاک پیشانی کو کیوںکر رگڑا جائے گا؟ اس عظمت و جلالت والے مکان کے طواف پر کیسے قدرت ہوگی؟ جن گلیوں میں ہاجرہ صدیقہؓدوڑی تھیں‘ نبی کی ماں اور نبی کی بیوی دوڑی تھیں وہاں اس ننگ اُمت سے ’’سعی‘‘کیوںکر بن پڑے گی۔
لیجیے مسجد حرام کی چار دیواری شروع ہو گئی۔ کئی دروازے چھوڑتے ہوئے باب السلام سے اندر داخل ہوئے۔ کس کے اندر داخل ہوئے؟ اس ارض پاک کے اندر‘ اس بقعہ نور کے اندر‘ جہاں ایک ایک نماز ایک لاکھ یا کم از کم ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے! اندر داخل ہوتے ہی نگاہ اس سیاہ غلاف والی عمارت پر پڑی‘ جسے خشکی اور تری میں نہ سما سکنے والے نے‘ زمین و آسمان‘عرش و کرسی کی سمائی میں نہ آنے والے نے‘ وہم و خیال کی وسعت میں نہ گھرنے والے نے ’’اپنا گھر‘‘کہہ کر پکارا ہے۔ نگاہ پڑی اور پڑتے ہی‘ جہاں پڑی تھی‘ وہیں جم کر رہ گئی! اس گھڑی کی کیفیت کیا اور کن لفظوں میں بیان ہو۔ کہتے ہیں کہ موسیٰ کلیم اللہ کے ہوش و حواس کسی ایک تجلی کی تاب نہ لا سکے تھے۔ جب ’’تجلی بیت‘‘ کا یہ حال ہے کہ ہوش و حواس قائم رکھنے دشوار تو’’رب البیت‘‘ کی تجلی نے خدا معلوم کیا غضب ڈھایا ہوگا۔ جب ’’گھر‘‘ کی برق پاشیوں کا یہ عالم ہے تو ’’گھروالے‘‘کے انوار و تجلیات کی تاب کون بشری آنکھ اور انسانی بصیرت لا سکتی ہے؟ اللہ اللہ! کیا حسن و جمال‘ کیا رعنائی و زیبائی ‘ کیا خوبی و محبوبی‘ کیا دلکشی و دلبری ہے! جن لوگوں نے اسے قہروجلال کی تجلی گاہ بتایا ہے‘ خدا معلوم انھوں نے کیا اور کس عالم میں دیکھا۔ اپنا تو یہ حال تھا کہ سرتاپا مہروجمال ہی ٹپکتا نظر آتا تھا اور ہر چہار طرف سے رفق و الفت‘ شفقت و مرحمت کے کھلے ہوئے پھولوں کی خوشبوئیں لپکی اور دوڑی چلی آ رہی تھیں۔ ابراہیم ؑکی خُلّت‘ اسماعیل ؑکی فداکاری‘ ہاجرہؓ کی مسکینیت‘اللہ اکبر‘ جہاں تینوں‘ اکٹھا ہوں‘ انوار مہروجمال کی تجلیات اس ٹھکانے سے بڑھ کر اور کہاں ہوں گی! اب نہ قلب کو اضطراب ہے‘ نہ طبیعت میں انتشار‘ نہ خوف نہ دہشت‘ نہ رعب نہ ہیبت‘ سرتاسر سکون ہے اور انبساط و سرور ہے اور نشاط! وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا کی تفسیریں بہت سی پڑھی تھیں لیکن جو تفسیر اس گھڑی بغیر کسی کتاب و عبارت کے توسط کے لوح قلب پر القا ہو رہی تھی‘ وہ سب سے الگ‘ سب سے نرالی‘ سب سے عجیب تھی اور اگر فاش گوئی کی اجازت دی جائے تو اپنے حق میں سب منقول و مکتوب تفسیروں سے بڑھ کر صحیح بھی تھی‘ آہ ؎
در مصحف روے او نظر کن
اس کے چہرے کی زیبائی کو دیکھیے‘اے خسرو! شعروکتاب میں کب تک مشغول رہو گے۔
غزالی ؒ ، احیاء العلوم میں لکھتے ہیں کہ قیامت کے دن کعبہ کا حشربنائو سنگار کی ہوئی نئی دلہن کی شکل میں ہوگا‘ لیکن یہ قید اس روز کے لیے کیوں؟ اور اس کے مشاہدے کے لیے قیامت کے انتظار کی کیا ضرورت ہے؟ قسم ہے خانہ کعبہ کے رب کی کہ کعبہ آج بھی نئی دلہنوں ہی کی طرح حسن و جمال‘ رعنائی و زیبائی‘ دلکشی و دلبری کے پورے سازوسامان سے آراستہ ہے‘ اور اپنی خوبی و محبوبی میں بجز مدینہ کی مسجد نبویؐ کے نہ کوئی شریک رکھتا ہے نہ سہیم۔ اسے محبوبیت کے جامے میں حسن و جمال کی جملہ ادائوں کے ساتھ اس عالم ناسوت میں کس نے نہیں دیکھا؟ آنکھیں رکھنے والوں نے دیکھا اور انتہا یہ ہے کہ جو بصیرت سے محروم‘ اور بصارت سے ضعیف ہے‘ اس تک نے دیکھا! شاید امام غزالیؒ ہی نے یا کسی اور بزرگ نے فرمایا ہے کہ آج جن آنکھوں نے خانہ کعبہ کی زیارت کی ہے کل ان میں اتنی قوت و استعداد پیدا کر دی جائے گی کہ وہ ربِ کعبہ کا بھی دیدار کرسکیں۔ اس مرتبے اور اس اکرام کا کیا کہنا‘ لیکن اس مرتبے کی توقع تو وہ کرے جو خود ذی مرتبت ہو۔ ہم جیسے درماندوں اور زبوں ہمتوں کے لیے مکیں کو چھوڑ کر مکان ہی کا دیدار خود کیا کم ہے! روایات میںآتا ہے کہ خانہ کعبہ پر نظر کرنا ایک مستقل عبادت ہے اور شاید کسی حدیث میں یہ تصریح بھی آگئی ہے کہ کعبہ پر روزانہ ۱۲۰ رحمتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے جن میں سے ۶۰ ان کے لیے ہیں جو اس کے اندر نماز پڑھتے ہیں اور ۴۰ان کے لیے ہیں جو اس کا طواف کرتے ہیں اور ۲۰ ان کے لیے ہیں جو اس کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ لیکن اجر و عبادت سے قطع نظر کر کے اپنے ذوق و شوق اور ولولے کے لحاظ سے کون دل ایسا ہے جو اس کی ہوس دیدار سے خالی اور اس کی حرص نظارہ سے کورا ہوگا؟ جی بیتاب کہ دیکھیے اور پھر دیکھیے‘ ۱۰ بار دیکھیے‘ ہزار بار دیکھیے‘ دیکھتے رہیے ‘ اور دیکھے جایئے اور دیکھنے سے کبھی نہ تھکیے۔ ع
نظارہ ز جنبیدن مژگاں گلہ دارد
منظر اتنا خوب صورت ہے کہ آنکھ جھپکنے پر بھی نظارہ گلہ کرتا ہے کہ آنکھ جھپکنے کی مدت بھی منظر سے محروم کیوں ہوئی؟
بار معاصی و ذنوب سے دبا ہوا انسان! کیا تو گناہوں کے بوجھ کا مقابلہ اللہ کے عفوورحمت سے کرنا چاہتا ہے؟ تیرے گناہ خواہ کتنے ہی ہوں بہرحال گنے جاسکتے ہیں۔ پرخداے رحمن و رحیم کے کرم بے حساب کی پیمایش ساری دنیا جہاں کے مہندس مل کر بھی کرسکتے ہیں؟ پھر یہ کیسی نادانی ہے کہ محدود کو غیرمحدود کے مقابلے میں لایا جائے؟ کیا وہ جو اپنے بندوں کو محض انھیں نوازنے اور سرفراز کرنے کے لیے اپنے در پر حاضری کے لیے بلاتا ہے‘وہ صرف نیک کرداروں کو چن لے گا اور نالائقوں کو اپنے آستانے سے دھتکار دے گا؟ اپنے خوان کرم سے اُٹھا دے گا؟ یہ خیال کرنا بھی کتنی سخت گستاخی اور کیسی صریح نادانی ہے؟ اسی لیے فرمایا ہے اس بشارت دینے والے نے جس سے بڑھ کر کوئی بشیر اب تک پردۂ زمین پرپیدا نہیں ہوا کہ
اَعْظَمُ النَّاسِ ذَنْبًا مَنْ وَّقَفَ بِعَرَفَۃَ فَظَنَّ اَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَغْفِرْلَہٗ ، سب سے بڑا گنہگار وہ انسان ہے جو عرفات میں وقوف کرے اور یہ سمجھے کہ اس کی مغفرت نہیں ہوئی۔
اس پروانہ مغفرت کے بعد کیا کوئی دیوانہ ہے کہ جو اپنے سفرحج کو ضائع سمجھے؟ جو جو نعمتیں اس سہ ماہہ سفر میں نازل ہوئی ہیں‘ جو جو نوازشیں اس درمیان میں سرفراز کرتی رہیں‘ کس کی زبان میں طاقت ہے کہ ان کا شکریہ ادا کر سکے۔ بہرحال جو کچھ پیش آیا وہ اپنی اہلیت سے کہیں بڑھ کر اور اپنے ظرف سے کہیں زائد...
ہاں ‘ایک پیام لایا ہوں ہر مرد کے لیے‘ ہر عورت کے لیے‘ ہر چھوٹے کے لیے‘ ہر بڑے کے لیے ایک پیام ہے اور وہ ایک پیام ہے جو مسجدحرام سے‘ خانہ کعبہ سے‘ مسجد نبویؐ سے‘ حجرہ مطہرہ سے‘ محراب شریف سے‘ منبر مبارک سے ‘ منیٰ کی قربان گاہ سے‘ عرفات کے میدان سے‘ زمزم کے قطروں سے‘ خاک حرم کے ذروں سے‘ سب کہیں وہی ایک پیام ملا اور وہ پیام کونوا انصارَ اللّٰہِ کا ہے۔ وہ پیام دین کی نصرت کا ہے۔ ملائکہ رحمت نصرت دین کے مظاہروں کے اشتیاق میں ہیں خواہ وہ معرکہ بدر کی صورت میں ہوں یا واقعہ کربلا کی شکل میں!
(سفرِحجاز‘ ص ۱۸۴-۱۸۶‘ ۱۷-۱۸)
دنیا میں انسان کے پیشِ نظر بیسیوں مقاصد ہوتے ہیں جنھیں حاصل کرنے کے لیے اسے متواتر جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اس تگ و دو اور کش مکش کے دوران اسے قدم قدم پر اپنی کمزوریوں کا احساس ہوتا ہے جو اسے کسی بڑی قوت کا سہارا لینے پر مجبور کرتا ہے۔ ایسی قوت جو ہر مشکل مرحلے پر اس کی دستگیری کرے‘ اس کی راہ کے خطرات کو دُور کر دے اور سفرِ زندگی کی گہری تاریکیوں میں تاحدِّنگاہ اُجالا کر دے۔
وہ قوت بس ایک ہی قوت ہے: عقیدہ و ایمان کی قوت۔ اس قوت کی بدولت بندئہ مومن اتنا طاقت ور ہو جاتا ہے کہ کسی چیز کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اللہ کے فضل کی اسے امید ہوتی ہے۔ اللہ کے عذاب سے وہ ڈرتا ہے۔ وہ نہتا ہو کر بھی بڑا قوی ہوتا ہے کیونکہ اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ مفلس و تہی دست ہونے کے باوجود غنی ہوتا ہے۔ تن تنہا رہ کر بھی اپنے آپ کو غالب و توانا محسوس کرتا ہے۔ جب سفینۂ حیات کسی گرداب میں پھنس جاتا ہے تو وہ کسی اضطراب کا شکار نہیں ہوتا بلکہ پہاڑ کی سی مضبوطی و استقامت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان باللہ کی حیرت انگیز طاقت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: لوعرفتم اللّٰہ حق معرفتہ لزالت بدعائکم الجبال‘ اگر تم اللہ کی معرفت کماحقہٗ حاصل کرلو تو تمھاری دعا سے پہاڑ ٹل جائیں۔
فرد کے اندر قوت کا یہ خزانہ دراصل معاشرے کی قوت کا مصدر و ماخذ ہے۔ وہ معاشرہ کتنا سعادت مند ہے جس کے افراد قوت و رسوخ کے اس درجے پر فائز ہوں۔ اس کے برعکس قوتِ ایمان سے محروم‘کمزور‘ ودوں ہمت اور درماندہ لوگوں کا معاشرہ کتنا شقی و بدبخت معاشرہ ہے جس میں کوئی اپنے دوست کی مدد نہیں کرتا اور نہ اپنے دشمن کو ڈرا دھمکا سکتا ہے۔
اللہ قوی و قدیر اور علی و کبیر ہے۔ جو اس پہ ایمان لے آئے‘ اس پر بھروسا کرے اور اس کے حاضر و ناظر ہونے کا پختہ اعتقاد رکھے‘ اللہ کبھی اسے بے یارومددگار نہیں چھوڑتا۔ وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِیْنَo (یونس ۱۰:۱۰۳) اور ایمان داروں کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے‘‘۔ اور جس کی اللہ مدد کرے اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا‘ اِنْ یَّنْصُرْکُمْ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمْج (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۰)۔
مومن کی قوت کا دوسرا بڑا ماخذ اس کا حق و صداقت پر ایمان ہے۔ وہ خواہشِ نفس کے زیرِاثر کوئی کام نہیں کرتا۔ نہ ذاتی منفعت نہ جاہلی عصبیت اور نہ ظلم و زیادتی اُس کے اعمال کی محرک ہوتی ہے بلکہ وہ اُس حق کے لیے سب کچھ کرتا ہے جس پر سمٰوات والارض قائم ہیں۔ جہاں حق ہوگا وہاں کوئی دوسری چیز ٹھہر نہیں سکتی۔ وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) ۔
قادسیہ کی لڑائی میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے سفیر ربعی بن عامر جب ایرانیوں کے سپہ سالار رستم کے پاس گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس کے خدم و حشم اور اس کے لشکری سونے چاندی میں لدے پھدے اس کے اردگرد دست بستہ کھڑے ہیں۔ مگر جنابِ ربعی بن عامر کسی چیز کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آگے بڑھتے گئے اور اپنے کوتاہ قامت گھوڑے ‘ اپنی موٹی جھوٹی ڈھال اور اپنے معمولی لباس کے ساتھ رستم کے پاس جاپہنچے۔ اس نے سوال کیا: تم کون ہو؟ اللہ کے اس بندے نے پوری قوت سے کہا: ہم ایک ایسی قوم ہیں جسے اللہ نے اس مقصد کے لیے مبعوث کیا ہے کہ ہم اس کی مخلوق کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ وحدہ لاشریک کی غلامی میں دے دیں‘ اور دنیا کی تنگی سے نکال کر کشایش سے ہمکنار کریں اور باطل ادیان اور طاغوتی قوتوں کے ظلم و جور سے بچا کر اسلام کے سایۂ رحمت میں لے آئیں۔ کشور کشائی ہمارا مقصد نہیں۔ ربعی بن عامر کے اندر یہ کیا چیز بول رہی تھی؟ رستمِ ایران کے سامنے اُن کا یہ بے باکانہ طرزِ تخاطب کس بنا پر تھا؟ صرف اس بنا پر کہ وہ حق و صداقت کے نمایندہ اور علمبردار تھے اور قوتِ حق و صداقت نے ان کے اندر یہ شجاعت اور بے باکی پیدا کر دی تھی۔
انسان کے اندرجو مختلف چیزیں جبن وضعف اور انحطاط پیدا کر دیتی ہیں ان میں سے ایک اُس کا یہ احساس بھی ہے کہ وہ فانی مخلوق ہے کہیں فنا نہ ہو جائے۔ اُس کا کوئی اقدام اُس کی موت کا باعث نہ بن جائے لیکن مومن زندگی کو اِسی دنیا کی زندگی تک محدود نہیں سمجھتا بلکہ وہ ازروے یقین و ایمان اس کا سلسلہ ناقابلِ تصور حد تک آگے پھیلا ہوا دیکھتا ہے۔ موت اس کی نظر میں ایک پردہ ہے جس کے پیچھے زندگی اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موت کا احساس اسے بزدل نہیں بناتا۔ اس کے برعکس وہ آگے بڑھ کر موت کو گلے لگا لیتا ہے کیونکہ موت آجانے سے وہ ابدی زندگی اور اُس کی نعمتوں کو پالیتا ہے۔
حضرت عمیرؓبن الحمام انصاری غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔ کسی موقع پر ایک طرف کھڑے کھجوریں کھا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ کلمات سنے: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے جو آدمی بھی آج اِن (مشرکین) سے لڑے اور نتیجتاً قتل ہو جائے اِس حال میں کہ وہ صابر ہو‘ ثواب کی نیت سے لڑائی میں حصہ لے رہا ہو‘ پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے بڑھنے والا ہو‘ اللہ اسے جنت میں داخل کر دیں گے‘‘۔ اور حضرت عمیرؓ کے منہ سے بے اختیار نکلا: بخٍ بخٍ (کلمۂ تعجب ہے)۔ رسولؐ پاک نے فرمایا: اے ابن الحمام‘ کس بات پر تعجب کرتے ہو؟ انھوں نے عرض کی: تو کیا‘یارسولؐ اللہ! میرے اور جنت کے درمیان صرف موت ہی حائل ہے‘یعنی آگے بڑھ کر لڑائی کروں اور مارا جائوں۔ رسولؐ پاک نے فرمایا: تو اور کیا۔ یہ سنتے ہی حضرت عمیرؓنے ہاتھ میں جو کھجوریں تھیں پھینک دیں اور کہنے لگے کہ کھجوریںختم ہونے کا انتظار کون کرے۔ اسی وقت دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور بے جگری سے لڑنے لگے۔ ان کی زبان پر یہ رجز تھا:
رکضًا الی اللّٰہ بغیر زادٍ
الا التقی وعمل العادٖ
والصبر فی اللّٰہ علی الجھاد
وکل زادٍ عرضۃ النفادٖ
غیر التقی والبر والرشاد
اللہ کی جانب بغیر زادِ راہ کے رواں دواں ہوں۔ اپنا زادِ راہ تقویٰ اور آخرت میں اجر پانے کی نیت سے کیا جانے والا عمل ہے۔ راہِ خدا میں جہاد کے لیے اپنے آپ کو وقف کر چکا ہوں اور تقوی‘ نیکی اور بھلائی کے علاوہ ہر دوسرا زادِ راہ ختم ہو جانے والا ہے۔
چوتھی چیز جو ایک مومن کے لیے قوت کا باعث ہے وہ اس کا تقدیر پر محکم ایمان ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جو مصیبت بھی اسے پہنچتی ہے اللہ کے اذن سے پہنچتی ہے۔ تمام انسان‘ جنّ اور دوسری جملہ مخلوقات مل کر بھی اگر کسی کو کوئی فائدہ پہنچانا چاہیں تو نہیں پہنچا سکتیں‘ الا یہ کہ اللہ کی مشیت بھی یہی ہو۔ قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلاَّ مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ھُوَ مَوْلٰـنَا وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَo (التوبہ ۹:۵۱) مومن اس بات کا پختہ یقین رکھتا ہے کہ اس کے رزق کی تقسیم ہو چکی ہے اور اُس کی موت کا وقت مقرر ہے۔ اس عقیدے کے نتیجے میں اس کے اندر ایسی زبردست قوت پیدا ہو جاتی ہے جو تمام خطرات و وساوس کا قلع قمع کر دیتی ہے اور وہ بے خوف ہوکر میدانِ جہاد میں کود جاتا ہے۔ کوئی پوچھے کہ بیوی بچوں کا کیا کرچلے ہو تو اُس کا جواب یہ ہوتا ہے: علینا ان نطیعَہٗ تعالٰی کما امرنا وعلیہ ان یرزقنا کما وعدنا۔ ’’ہمارا فرض ہے کہ ہر حال میں اللہ کی اطاعت کریں جیساکہ اُس نے ہمیں حکم دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ہمیں رزق دے جس کا اس نے ہمارے ساتھ وعدہ کر رکھا ہے‘‘۔اِسی طرح اگر کوئی محرومِ ایمان جاکر اُس مردِ مجاہد کی بیوی کے کان بھرے کہ دیکھو تمھیں بھوکا مرنے کے لیے پیچھے چھوڑے جا رہا ہے تو وہ مومنہ خاوند کا دامن پکڑنے کے بجاے پورے اعتماد کے ساتھ کہتی ہے: ’’میں اپنے خاوند کو کھانے والے کی حیثیت سے جانتی ہوں‘ رازق کی حیثیت سے نہیں۔ اگر کھانے والا چلا گیا تو کیا ہوا۔ رزق دینے والا تو موجود ہے‘‘۔
پس ثابت ہوا کہ قضا و قدر پر ایمان‘ انسان کو جرأت و اقدام کی صفت سے متصف کرتا ہے‘ اس کے اندر شجاعت و بسالت پیدا کر دیتا ہے‘ اسے عظیم کارنامے انجام دینے اور خطرات میں کود جانے کی تاب و تواں بخشتا ہے اور اُس کی طبیعت میں ثبات و استقامت‘ حلم و تحمل اور صبرورضا کے اوصافِ حمیدہ کو پروان چڑھاتا ہے۔
آخری چیزجس سے اہلِ ایمان کو احساسِ تقویت ہوتا ہے وہ دوسرے صاحب ِ ایمان بھائیوں کا وجود ہے‘ وہ بھائی کہ جو اس کی خدمت و خیرخواہی کے لیے وقف ہوتے ہیں‘ اِس کی موجودگی میں ہر طرح اس کے مددگار ہوتے ہیں اور اس کی غیرحاضری میں اس کے حقوق کے محافظ۔ جو دکھ تکلیف میں اس کے غم گسار‘ دل سوز فدائی اور وحشت و خوف میں اس کے لیے سامانِ انس اور بوقت ِ لغزش اُس کے دستگیر ہوتے ہیں۔ جب اس کے قویٰ جواب دے جائیں تو وہ اسے سہارا بہم پہنچاتے ہیں۔ جب کوئی کام کرنے لگے تو وہ اس کے شریکِ کار بنتے ہیں اور جب وہ میدانِ جہاد و قتال میں مصروفِ حرب و ضرب ہوتا ہے تو دوسرے اہل ایمان اس کے دوش بدوش لڑتے ہیں۔ ایک ہزار صاحب ایمان جب کسی دشمن کی جمعیت پر حملہ آور ہوتے ہیں تو ان میں کوئی بھی خود کو تنہا محسوس نہیں کرتا بلکہ ہر ایک اپنے آپ کو ہزار‘ ہزار افراد کی قوت سے سرشار پاتا ہے یا بالفاظِ دیگر وہ ہزار افراد تنِ واحد کی صورت اختیار کرجاتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا ایک لشکر دشمن کی فوج کے سامنے صف آرا تھا اور درمیان میں ایک دریا حائل تھا۔ سپہ سالار نے حکم دیا کہ دریا میں چھلانگیں لگا دو اور اسے پار کر کے دشمن پر حملہ آور ہوجائو۔چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے سارا لشکرِ اسلام دریا میں تھا۔ دوسری طرف دشمن حیران تھا کہ یہ انسان ہیں یا کوئی دوسری مخلوق۔ وسطِ دریا میں جب یہ لشکر پہنچا تو سب نے غوطہ لگایا اور دشمن نے خیال کیا کہ غرق ہوگئے مگر لشکرِاسلام اچانک پھر نمودار ہوگیا۔ دشمنانِ اسلام ایک دوسرے سے استفسار کرنے لگے۔ یہ ماجرا کیا ہے؟ آخر انھیں پتا چلا کہ کسی سپاہی کا پیالہ دریا میں گر گیا تھا۔ وہ چیخا: ’’میرا پیالہ‘ میرا پیالہ‘‘۔ یہ سننا تھا کہ سب سپاہی اپنے بھائی کا پیالہ تلاش کرنے کی غرض سے پانی میں نیچے چلے گئے۔ اِس ہمدردی و خیرخواہی کا نتیجہ یہ نکلا کہ دشمن کی فوج سوچنے لگی: ایک پیالہ دریا میں گر جانے سے یہ لوگ تعاون و ایثار کا اتنا بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں۔ اگر ہم نے خود اِن میں سے کسی کو قتل کر دیا تو نہ معلوم یہ ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں۔ اِسی احساس نے ان کی کمر ہمت توڑ دی‘ اُن کے حوصلے پست کر دیے اور مسلمانوں کے جذبۂ اخوت کے سامنے دشمن گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا۔
مندرجہ بالا سطور میں عرض کیا جا چکا ہے کہ اللہ پر ایمان‘ حق و صداقت پر ایمان‘ خلودِحیات پر ایمان اور قضا و قدر اور اخوت پر ایمان ہی درحقیقت ایک انسان کے مصادرِ قوت ہیں۔ اب یہ بات بھی ذہن نشین کر لیجیے کہ مذکورہ بالا حقائق پر جتنا کسی کا ایمان پختہ ہوتا ہے اتنا ہی وہ خود کو قوی محسوس کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو حوصلہ شکن حالات پیدا ہوگئے اور اُن میں جس طرح سیدنا ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُمت کو سنبھالا دیا‘ اسے دیکھتے ہوئے جنابِ فاروق کو اعتراف کرنا پڑا: بخدا اگر ابوبکرؓ کا ایمان ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور پوری اُمت مسلمہ کا ایمان ترازو کے دوسرے پلڑے میں تو ابوبکرؓ کا پلڑا ہی جھکے گا۔ رسولؐ پاک کی وفات کے صدمے سے بڑے بڑے صحابہؓ کے اوسان خطا ہوگئے تھے خود عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وقتی طور پر اپنے حواس کھو بیٹھے ۔ اس موقع پر جنابِ صدیقؓ کا یہ اعلان ان کی زبردست قوتِ ایمانی کا کھلا ہوا ثبوت ہے: جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کرتا تھا وہ سن لے کہ محمدؐ وفات پا چکے ہیں اور جو خداے واحد کا پرستار ہے (اس کے لیے خوف اور گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں کیونکہ) اللہ تعالیٰ زندہ ہے اُسے موت اور فنا نہیں‘‘۔
جیشِ اسامہؓ جسے شام کی طرف بھیجنے کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات سے قبل فرما چکے تھے‘ حضوؐر کی وفات کے بعد عام اصحابِ رسولؐ اس کی روانگی کو اس احساس کے تحت مؤخر کر دینا چاہتے تھے کہ آپؐ کی وفات کی خبرقبائلِ عرب میں نہ معلوم کیا ردِعمل پیدا کرے‘ لہٰذا اس امر کے متحقق ہونے تک وہ اسلامی حکومت کا ساتھ بھی دیتے ہیں یا نہیں‘ جیش روانہ نہ کیا جائے۔ مگر حضرت ابوبکرؓ جناب رسالت مآبؐ کا یہ فیصلہ ہر قیمت پر نافذ کر دینا چاہتے تھے۔ ان کا موقف یہ تھا کہ اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں ابوبکر کی جان ہے‘ اگر میرا گمان یہ ہوتا کہ درندے میری بوٹیاں نوچ لیں گے پھر بھی میں جیشِ اسامہؓ کو روانہ کرکے رہتا جیسا کہ رسول پاکؐ نے اس کی روانگی کا حکم صادر فرمایا ہے اور اگر لشکر بھیجنے کے بعد میں کہیں تن تنہا رہ جائوں پھر بھی آپؐ کے فیصلے کو نافذ کر کے رہوں گا۔
غور فرمائیں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ یہ باتیں کس برتے پر کر رہے تھے؟ انھیں کس قوت و طاقت کا سہارا تھا؟ وہ تنہا تھے پھر بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے تھے۔ یہ سب کچھ محض قوتِ ایمانی کا نتیجہ تھا۔ اس طرح مرتدین مانعین زکوٰۃ کا معاملہ جب پیش آیا تو بعض لوگوں نے مشورہ دیا: ’’اے رسولؐ اللہ کے جانشین! آپ میں سارے عرب کے ساتھ لڑائی کرنے کی طاقت نہیں‘ لہٰذا دروازے بند کر کے اپنے گھر بیٹھ رہیے اور اپنے پروردگار کی عبادت کیجیے تاآنکہ موت آجائے‘‘۔
اسی قسم کی رائے جب حضرت عمرؓ کی طرف سے بھی آئی تو آپ نے نہایت سختی سے اس کا نوٹس لیا اور انھیں مخاطب کرکے فرمایا: خطاب کے بیٹے! جاہلیت میں تم بڑے دلیر تھے‘ اسلام قبول کرکے بزدل ہوگئے ہو۔ یاد رکھو‘ وحی مکمل ہوچکی ہے اور زکوٰۃ کا نصاب مقرر ہے۔ میرے جیتے جی اس میں کمی نہیں ہو سکتی۔ خدا کی قسم! اگر مانعینِ زکوٰۃ نے مجھے اُونٹ باندھنے کی رسی بھی دینے سے انکار کیا جسے وہ رسولؐ اللہ کے زمانے میں اداکرتے تھے تو میں ان سے جنگ کروں گا۔
خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہدِخلافت کے یہ چند واقعات اس لیے نقل کیے گئے ہیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ مضبوط ایمان کے حامل لوگ کتنی غیرمعمولی طاقت کے مالک ہوتے ہیں۔ کس طرح تن تنہا وہ بڑی بڑی جمعیتوں سے ٹکراجاتے ہیں اور اپنے عزمِ محکم کی بنا پر ایک دنیا کی دنیا کے خیالات و نظریات تبدیل کر کے اسے اپنا ہمنوا بنا لیتے ہیں۔
یہ ایمانِ محکم انھیں ہر حال میں عدل و انصاف پر قائم رکھتا اور حق و صداقت کا ترجمان بنا دیتا ہے۔ مادی سہاروں کی کوئی اہمیت ان کی نظرمیں باقی نہیں رہتی۔ قوی و طاقت ور ایمان ان کے قول و عمل میں اخلاص پیدا کر دیتا ہے۔ خوف و حرص ان کے قریب نہیں پھٹکتا اور اپنے وقت کے جابر و مستبد حکمرانوں کو وہ پرکاہ کے برابر بھی نہیں سمجھتے۔ یہ سب باتیں محض زبانی باتیں ہی نہیں بلکہ تاریخ کے صفحات ان حقائق سے بھرے پڑے ہیں۔ (ترجمان القرآن‘ اپریل ۱۹۷۴ئ)
موجودہ نظامِ معیشت میں سرمایہ دار اپنے سرمایے اور اس سے حاصل ہونے والے کثیرمنافع کی وجہ سے اپنے کاروبار کو وسعت دیتے جاتے ہیں اور دولت چاروں سمت سے سمٹ سمٹ کر سرمایہ دار طبقے کی تجوریوں میں جمع ہوتی رہتی ہے‘ یوں دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہو رہتا ہے۔ اس کے بالمقابل طبقۂ غربا‘ متوسط طبقہ اور معینہ آمدنی والے لوگ دن بدن مالی پریشانیوں کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ کیفیت نہ صرف پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں موجود ہے بلکہ ہر وہ معاشرہ جو سرمایہ دارانہ نظام یا مخلوط معاشی نظام اپنائے ہوئے ہے اس میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس کے بے شمار معاشی‘ سماجی‘ اخلاقی اور تمدنی نقصانات معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔
اس بنا پر اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ انسان جائز ذرائع سے حاصل کردہ مال کو اپنی ذاتی ضروریات خریدنے پر صرف کرے‘ یا کسی جائز کاروبار میں لگائے‘ یا دوسرے ضرورت مند افراد کو بغرض ضرورت قرض یا فی سبیل اللہ صدقہ کر دے۔ اسی لیے قرآن پاک کا حکم ہے: کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃًم بَیْنَ الْاَغْنِیَآئِ مِنْکُمْط (الحشر ۵۹:۷) ’’یہ حکم اس لیے دیا گیا ہے) کہ یہ مال تمھارے مال داروں کے درمیان گردش نہ کرتا رہے‘‘۔
وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِلا فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ o یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْھَا فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُھُم وَجُنُوْبُھُمْ وَظُھُوْرُھُمْط ھٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ o (التوبہ ۹:۳۴-۳۵)
اور (اے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم) جو لوگ سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انھیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو ایسے لوگوں کو عذابِ دردناک کی خوش خبری سنا دو۔ (وہ عذاب) جس دن (واقع ہوگا)‘ جب کہ اس (سونے چاندی) کو دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا۔ پھر اس سے ان کی پیشانیاں‘ ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی۔ (اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ) یہ ہے جو تم نے (دنیا میں) اپنے لیے جمع کیا تھا‘ تو جو کچھ تم جمع کرتے رہے (آج) اس کا مزہ چکھو۔
اسی لیے اسلام نے اس بات کا انتظام کیا ہے کہ مختلف معاشرتی‘ اداراتی‘ قانونی اور اخلاقی تدابیر سے دولت کی تقسیم زیادہ سے زیادہ منصفانہ ہو اور یہ دولت پورے معاشرے میں گردش کرتی رہے۔ اس ضمن میںسب سے پہلے تو دولت کے حصول کے تمام طریقوں کے لیے ضوابط مقرر کیے ہیں۔ ہر قسم کے غلط طریقوں کی نشان دہی کر کے ان کے ذریعے دولت کے حصول کو ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ باہمی لین دین میں سود‘ قمار‘ سٹہ بازی‘ حرام اشیا کی خرید و فروخت‘ ملاوٹ‘ کم معیار کی اشیا کی تیاری اور خرید و فروخت‘ احتکار‘ یعنی ذخیرہ اندوزی‘ عیب دار مال کی فروخت‘ اجارہ داریوں کے قیام اور غیرمعمولی منافع کے حصول‘ جھوٹی قسموں‘ دھوکا دہی پر مبنی خرید و فروخت وغیرہ کو ممنوع قرار دے دیا اور خرید و فروخت اور لین دین کے لیے اخلاقی اقدار پر مبنی ایک ضابطۂ اخلاق مہیا فرما دیا۔
اسی طرح معاشی میدان میں کام کرنے والے افراد‘ پیدایش کے شعبے میں کام کرنے والے عاملین پیدایش کے معاوضوں کی بنیاد تقویٰ‘ عدل‘ احسان‘ اخوت‘ مساوات اور تعاون کے سنہری اصولوں پر رکھنے کا حکم دیا تاکہ استحصال کی ساری صورتوں کا استیصال ہو اور کوئی فریق دوسرے فریق پر ظلم نہ کر سکے (اسلامی معاشیات‘ ص ۱۹۹-۲۲۴)۔ گویا مزدور کی مزدوری‘ زمین کا لگان‘ سرمایہ اور کاروباری ناظم کا منافع‘ ان کی بنیاد ان اصولوں پر رکھ دی جس کے نتیجے میں اول تو دولت کی تقسیم منصفانہ بنیادوں پر ہوگی اور اگر پھر بھی ایک انسان تمام دینی تقاضوں کو پیشِ نظر رکھ کر معاشی معاملہ کرتا رہا‘اس کے باوجود اس کے پاس دولت جمع ہوتی رہی تو اس کے لیے اسلام نے ایک تفصیلی ضابطہ مقرر کر دیا اور کچھ ایسے اقدامات تجویز کر دیے کہ جن کے نتیجے میں جمع شدہ دولت کی وسیع پیمانے پر تقسیم کا انتظام ہوگیا۔ ان اقدامات میں سے کچھ تو ایسے ہیں جن کو فرض اور لازمی قرار دے دیا گیا۔ مثلاً زکوٰۃ فرض قرار دے دی گئی۔ اسی طرح کچھ اقدامات کو نفلی حیثیت دی گئی لیکن ان پر بہت زور دیا گیا۔ حتیٰ کہ ان کو اللہ کے ذمے قرض قرار دیا۔ ان میں نفلی صدقہ‘ ضرورت مندوں کے لیے قرضِ حسنہ کی فراہمی‘ وقف اور اوقاف کا نظام۔ اس کے علاوہ بعض مواقع پر کچھ چیزوں کی لازمی ادایگی‘ مثلاً عیدالاضحی پر قربانی‘ حج کے موقع پر قربانی‘ عیدالفطر پر صدقہ فطرکی ادایگی۔ بعض معاملات میں کفارہ ادا کرنے کا حکم‘ مثلاً روزہ توڑنے‘ قسم توڑنے وغیرہ کی صورت میں کفارہ کی ادایگی۔ انھی اقدامات میں سے ایک لازمی امر تقسیمِ میراث کا ہے۔
اسلامی نظام تمدن و معاشرت میں تقسیمِ میراث کو قانون کا درجہ دیا گیا ہے اور اس قانون کی پابندی کو ہر مسلمان کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے۔ اس قانون کا منشا یہ ہے کہ جو شخص مال چھوڑ کر مر جائے‘ خواہ وہ زیادہ ہو یا کم‘ اس کو تقسیم کے عمل سے گزار کر دُور و نزدیک کے رشتے داروں میں ایک ضابطے کے تحت درجہ بدرجہ پھیلا دیا جائے ‘اور اگر کسی کا کوئی وارث نہ ہو یا نہ ملے تو بجاے اس کے کہ اسے متبنیٰ بناکر دولت کے ارتکاز کو برقرار رکھنے کا موقع دیا جائے‘ اس کے مال کو بیت المال میں داخل کر کے قومی ملکیت قرار دیا گیا ہے تاکہ اس سے معاشرے کے تمام افراد استفادہ کر سکیں۔ اس تحریر میں کچھ اصطلاحات کی وضاحت اور اسلامی قانونِ وراثت کے نمایاں خدوخال کا احاطہ کیا جاتا ہے۔
وراثت ایک غیر اختیاری انتقالِ ملکیت ہے جس کے ذریعے ایک متوفی کا ترکہ اس کے ورثا کے حق میں بطریق خلافت (جانشینی) منتقل ہو جاتا ہے۔(ایضاً)
(الف) مورث : یعنی وہ شخص جو وفات پا گیا۔
(ب) وارث: وہ افراد جو کہ شرعی طور پر مرنے والے کے ترکے میں حق دار ہیں۔
(ج) ترکہ: کسی شخص کی وفات کے وقت اس کی تمام جایداد‘ منقولہ و غیرمنقولہ‘ نقد و جنس‘ جو شرعاً اس کی ملکیت میں ہو‘ خواہ وہ اس کے قبضے میں ہو‘ یا دوسروں کے ذمے واجب الادا ہو‘ اس میت کا ترکہ کہلائے گی۔
وراثت کے بنیادی اصول دو ہیں جو کہ آیت کے ذیل کے حصے سے اخذ کیے جاسکتے ہیں: … مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ (النساء ۴:۷) ’’ماں باپ اور رشتہ داروں کے ترکے میں خواہ تھوڑا ہو یا بہت‘ لڑکوں کا حصہ ہے اور اسی طرح ماں باپ اور رشتہ داروں کے ترکے میں لڑکیوں کا حصہ ہے اور یہ حصہ ہمارا ٹھیرایا ہوا ہے‘‘۔
دوسرا اصول: عام رشتہ داری بحوالہ ’’والاقربون‘‘۔ اس میں والدین کے علاوہ تمام خاندانی رشتے اور ازدواجی تعلق کی وجہ سے پیدا ہونے والے رشتے شامل ہیں اور اس میں ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ رشتے قربت کے رشتے ہوں‘ مثلاً اولاد‘ ماں باپ‘ بیوی شوہر وغیرہ۔
۱- وراثت کی تقسیم افراد کی ضروریات‘ ذمہ داریوں یا کسی اور بنیاد پر نہیں بلکہ قرابت کی بنیاد پر ہوگی۔ اسی لیے بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے کو میراث نہ ملے گی خواہ اس کا باپ مرگیا ہو یا زندہ ہو (اس ضمن میں اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کا فتویٰ پیش نظر رہے کہ مرنے والے کو ایک تہائی مال کی وصیت کا حق حاصل ہے۔ اس لیے یتیم پوتے/ پوتیوں کے حق میں وصیت کر دی جائے)۔
۲- مالِ میراث تھوڑا ہو یا بہت‘ اس میں ہر وارث کا حق ہے اور ہر ایک چیز تقسیم کے عمل سے گزرے۔ بحوالہ قرآن کے الفاظ: مِمَّا قَلَّ مِنْـہُ اَوْ کَـثُرَ ۔
۳- والدین‘ اولاد‘ بیوی‘ شوہر‘ بہن وغیرہ کے حصے قرآن پاک نے خود مقرر کر دیے ہیں۔ ان حصوں میں تبدیلی کا اختیار کسی حکومت‘ عالم یا مفتی کو حاصل نہیں ہے۔
۴- وراثت کی تقسیم ایک جبری عمل اور حق ہے۔ اس کے لیے مالک کی رضامندی کی شرط شامل نہیں ہے۔ بحوالہ قرآن کے الفاظ: مفروضًا۔
۵- ایسے مسکین یا یتیم رشتے دار جو کہ وراثت کی تقسیم کے موقع پر موجود ہوں اور ان کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں بنتا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی کچھ دینے کا حکم دیا ہے جو کہ صدقہ ہے نہ کہ حصہ میراث۔ بحوالہ وَاِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ اُولُوا الْقُرْبٰی… (النساء ۴:۸)
۶- میراث کے حصے قرآن پاک نے متعین کر دیے ہیں۔ اس لیے کسی وارث کو محروم کر دینے (عاق کر دینے) یا اس کے حق سے زیادہ سے حصہ دینے کا حق بھی کسی فرد کو حاصل نہیں۔
۷- اسی ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ورثا کے حق میں وصیت کرنے سے منع فرمایا ہے: بحوالہ لاوصیۃ للوارث۔
۸- اسی طرح کسی ایسے طریقے کو اختیار کرنے‘ کہ جس کے نتیجے میں ورثا کو ان کے حصے سے کم ملنے کا امکان ہو‘ منع کیا گیا ہے۔ بحوالہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو اپنا پورا یا آدھا مال صدقہ کر دینے سے روک دیا ہو اور صرف ایک تہائی (۳/۱) مال صدقہ کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ (مشکٰوۃ، باب الوصایا‘ ص ۲۶۵)
۹- اسلام سے پہلے ضعیف لوگ خصوصاً یتیم‘ بچے اور عورتیں وغیرہ وراثت میں حق سے محروم تھے۔ لیکن قرآنِ پاک نے نہ صرف ان کے حصے مقرر فرمائے بلکہ یتیم بچوں کو ان کے حق سے محروم کرنے پر سخت وعید سنائی۔ بحوالہ اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا… (النساء ۴:۱۰)
۱۰- یتیموں کے سرپرستوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ یتامیٰ کے مالوں کی حفاظت کریں اور سنِ بلوغت کو پہنچنے پر ان کو پورا پورا مال دینے کا اہتمام کریں (بحوالہ النسائ۴:۶)
۱۱- وراثت کی تقسیم درج ذیل اصول پر ہوگی (بحوالہ النساء ۴:۱۱-۱۲)
(ا) کفن و دفن: ترکہ میں سب سے پہلے میت کی تجہیز و تکفین (کفن دفن) کے اخراجات پورے کیے جائیں لیکن ان اخراجات کو حدِّاعتدال میں رہنا چاہیے۔
(ب) قرض کی ادایگی: بقیہ ترکہ میں قرض کی ادایگی سب سے پہلے کی جائے گی۔ قرض دو اقسام کے ہوں گے۔ ایک وہ جن کا اقرار متوفی نے بحالت ِ صحت کیا ہو‘ وہ پہلے ادا کیے جائیں گے۔ دوسری قسم کا قرض وہ ہے جس کا اقرار مرنے والے نے مرض الموت کی حالت میں کیا ہو۔ وہ بعد میں ادا کیے جائیں گے۔ اگر قرض مالِ وراثت کے برابر ہوں یا زیادہ ہوں تو نہ تو کسی کو وراثت میں حصہ ملے گا اور نہ اگر متوفی نے وصیت کی ہو تو وہ نافذ ہوگی۔
(ج) وصیت کو پورا کرنا: کفن دفن اور قرض کی ادایگی کے بعد جو کچھ ترکہ میں سے بچے‘ اس سے میت کی وصیت پوری کی جائے۔ بشرطیکہ:
۱- وصیت کل مال کے ایک تہائی (۳/۱) سے زیادہ نہ ہو۔
۲- وصیت کسی ایسے وارث کے حق میں نہ ہو جسے ازروے قرآن و حدیث حصہ ملنے والا ہے۔
۳- وصیت کسی حرام کام کے لیے نہ ہو۔
(ا) ذوی الفروض: وہ رشتے دار جن کے حصے شریعت نے مقرر کر دیے ہیں۔ یہ ۱۲قسم کے رشتہ دار ہیں‘ جن میں چار قسم کے مرد اور آٹھ قسم کی عورتیں شامل ہیں۔ مردوں میں میت کا باپ‘ دادا‘ ماں شریک بھائی اور خاوند شامل ہیں‘جب کہ عورتوں میںبیوی‘ ماں‘ بیٹی‘پوتی‘ سگی بہن‘ سوتیلی بہن‘ (باپ شریک)‘ ماں شریک بہن‘ جدہ (دادی‘ نانی) شامل ہیں۔ ذوی الفروض کے بارے میں احکامات واضح طور پر قرآن و حدیث میں دیے گئے ہیں۔
(ب) عصبات: یہ وہ رشتے دار ہیں جن کو وارث تو ٹھیرایا گیا ہے لیکن قرآن و حدیث میں ان کے حصے مقرر نہیں کیے گئے۔ حکم یہ ہے کہ ذوی الفروض کو دینے کے بعد جو بچے عصبات میں تقسیم کر دینا چاہیے (تقسیم میراث‘ سید شوکت علی‘ ص ۱۷)۔ ان کے متعلق احکام سورۂ النساء میں ہیں اور بخاری کی ایک حدیث ہے: ’’یعنی ذوی الفروض سے جو بچ رہے مرد رشتہ داروں کا حق ہے جو قریبی ہوں‘‘۔ (بخاری)
۱- عصبی نسبی: میت کے ددھیالی رشتے دار (والد کی طرف سے)۔ اس میں بیٹی‘ پوتی‘ سگی اور سوتیلی بہن کے علاوہ بیٹا‘ باپ‘ دادا‘ بھائی‘ بھتیجا اور چچا وغیرہ شامل ہیں۔ (ایضاً‘ص ۲۰)
۲- عصبہ سببی: جنگی قیدی جو کہ اسلامی ریاست نے مسلمانوں میںتقسیم کردیے ہوں یعنی غلام عصبہ سببی میں شامل ہیں۔
(ج) ذوی الارحام: ان میں وہ ددھیالی اور ننھیالی رشتے دار شامل ہیں جو ذوی الفروض یا عصبہ نہ ہوں‘ مثلاً نانا‘ نواسا‘ نواسی‘ماموں‘ خالہ‘ پھوپھی۔ ان کے بارے میں ایک آیت سورۂ نساء میں‘ ایک سورۂ انفال میں اور بخاری کی ایک حدیث ہے: ’’جس کا کوئی وارث نہ ہو اس کا وارث ماموں ہے اور بھانجا بھی اس قوم میں شمار ہوتا ہے‘‘۔
۱۳- غیر وارث رشتے یہ ہیں: سوتیلی ماں‘ سوتیلا باپ‘ سوتیلی اولاد‘ سسرالی رشتے دار یعنی ساس‘ سسر‘بیوی کے بھائی بہن‘ داماد‘ بہو‘ بھاوج‘ چچی‘ خالو‘ بہنوئی وغیرہ۔ یہ اس لیے وراثت میں حصہ نہیں پاتے کہ ان کا نسبی تعلق دوسرے خاندان سے ہوتا ہے اور یہ اپنے خاندان میں وارث ہوتے ہیں۔(ایضاً‘ ص ۲۲)
(ا) وراثت کی تقسیم الاقرب فالاقرب (یعنی پہلے قریبی پھر اس کے بعد کے رشتہ دار) کے اصول پر کی جائے گی۔ اسی بنا پر اولاد اور والدین ہرصورت میں وراثت میں حصہ پائیں گے۔ ہر ایک کا حصہ مقرر ہے۔ اولاد میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں۔ اگر اولاد میں بیٹوں کے علاوہ بیٹیاں بھی ہوں تو ہر لڑکے کو لڑکی کے مقابلے میں دوگنا حصہ ملے گا۔ (بحوالہ النساء ۴:۱۱)
(ب) قرآن پاک نے لڑکیوں کو حصہ دلانے کا اس قدر اہتمام کیاہے کہ لڑکیوں کے حصے کو اصل قرار دے کر اس کے اعتبار سے لڑکوں کا حصہ مقرر کیا ہے ۔ اس میں بہنوں اور بیٹیوں کو لازماً حصہ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ حصہ نہ دینا سخت گناہ ہے اور بیٹی یا بہن نابالغ ہوں تو گناہ بھی دوگنا ہو جاتا ہے۔ ایک میراث نہ دینے کا اور دوسرے یتیم کے مال کو کھانے کا۔ (معارف القرآن‘ مفتی محمد شفیع)
(ج) نرینہ اولاد نہ ہونے کی صورت: اگر مرنے والے شخص کا کوئی بیٹا نہ ہو اور ایک سے زائد بیٹیاں ہی ہوں تو ان کو ترکہ میں سے دو تہائی (۳/۲) ملے گا۔ اور تمام بیٹیاں اس میں برابر کی شریک ہوں گی۔ باقی ایک تہائی (۳/۱) دیگر ورثا‘ مثلاً والدین‘ بیوی یا شوہر وغیرہ میں تقسیم کیا جائے گا (دو یا دو سے زائد بیٹیوں کا بھی یہی حکم ہے)۔
(د) اولادِ نرینہ نہ ہو اور وارث صرف ایک لڑکی ہو‘ تو اس صورت میں اس کو والد یا والدہ کے ترکہ میں سے نصف (۲/۱) ملے گا۔ باقی دوسرے ورثا کو ملے گا۔
۱- والدین (دونوں) زندہ ہوں اورمتوفی کی اولاد بھی ہو۔ اس صورت میں باپ اور ماں دونوں کو چھٹا (۶/۱) حصہ ملے گا اور باقی اولاد اور بیوی (یا شوہر) کو ملے گا۔
۲- والدین (دونوں) زندہ ہوں اور متوفی کی اولاد اور بہن بھائی نہ ہوں اور شوہر اور بیوی بھی نہ ہو۔ اس صورت میں والد کو ۳/۲ حصہ اور والدہ کو ۳/۱ حصہ ملے گا‘ لیکن اگر شوہر (یا بیوی) زندہ ہو تو پہلے ان کا حصہ نکال کر بقیہ درج بالا شرح سے تقسیم ہوگا۔
۳- مرنے والے کی اولاد نہ ہو البتہ بہن بھائی موجود ہوں: اگر بہن یا بھائی یا دونوں کی تعداد دو ہو تو اس صورت میں ماں کو ۶/۱ حصہ اور اگر کوئی وارث نہ ہو تو والد کو ۶/۵ حصہ ملے گا اور والدہ کو ۶/۱ حصہ ملے گا۔
(ا) مرنے والی خاتون کے ہاں اگر اولاد نہ تھی تو اس صورت میں مرحومہ کے کل ورثہ میں سے شوہر کو نصف (۲/۱) ملے گا‘ جب کہ باقی ترکہ دیگر رشتے داروں کو حسب ِضابطہ ملے گا۔
(ب) مرحومہ کی اولاد (لڑکا یا لڑکی) ہونے کی صورت میں شوہر کو ایک چوتھائی (۴/۱) ملے گا اور بقیہ تین چوتھائی (۴/۳) دوسرے عزیزوں کو ملے گا۔
(ا) متوفی شوہر بے اولاد ہو تو بیوی کو ایک چوتھائی (۴/۱) حصہ ملے گا اور دیگر رشتے داروں میں بقیہ ترکہ تقسیم ہوگا۔
(ب) متوفی شوہر کی اولاد ہو تو اس صورت میں بیوی کو آٹھواں (۸/۱) حصہ ملے گا۔
(ج) اگر متوفی کی بیویاں ایک سے زائد ہوں تو ۴/۱ یا ۸/۱ میں سب بیویاں برابر کی شریک ہوں گی‘ جب کہ بقیہ ترکہ دیگر رشتے داروں میں تقسیم کیا جائے گا۔
(د) اگر بیوی/ بیویوں کا مہر واجب الادا ہو تو یہ قرض تصور کیا جائے گا اور ترکہ کی تقسیم سے پہلے بطورِ قرض ادا کیا جائے گا۔
(ا) اسلام دولت کی تقسیم اور اسے وسیع دائرے میں پھیلانے کا داعی ہے۔ اس ضمن میں زیادہ بڑے پیمانے پر تقسیم کے لیے متوفی کے ترکہ کو بیت المال میں جمع کروانے کا حکم دیا جا سکتا تھا‘ جس کے نتیجے میں عامۃ الناس کوفائدہ پہنچتا‘ لیکن اس کے بجاے اسلام نے ترکہ قریبی عزیزوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے۔
(ب) عورتوں کو وراثت میں لازماً حصہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(ج) نہ متوفی اور نہ کوئی اور شخص ہی ورثا کو ان کے حق سے محروم کرسکتا ہے اور نہ ان کے حصوں میں تبدیلی کرنے کا حق ہی رکھتا ہے۔
(د) تقسیم میراث میں نہ تو عمروں کا تفاوت پیشِ نظر ہے (جیسا کہ یورپ میں بڑا بیٹا جایداد کا وارث سمجھا جاتا تھا) اور نہ ورثا ہی میں سے کسی فرد کی ضروریات۔ اگر کسی کی ایسی سوچ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خدائی حکمت پر اپنی سوچ کو ترجیح دینا چاہتا ہے۔
(ھ) وصیت کل مال کے ایک تہائی سے زائد میں جائز نہیں اور ورثا کے حق میں بھی نہیں کی جا سکتی۔
(و) متوفی کو متبنٰی بنانے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اگر اس کا کوئی وارث نہیں ہے تو ترکہ بیت المال میں داخل کیا جائے گا‘ تاکہ اُمت مسلمہ کی بھلائی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
(ا) مفکرِ اسلام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’اس معاملے (قانونِ وراثت) میں قرآن نے جو اصول اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ جو مال ایک شخص کی زندگی میں یکجا مرتکز ہوگیا ہو‘وہ اس کے مرنے کے بعد مرتکز نہ رہنے دیا جائے‘ بلکہ اس کے قرابت داروں میں پھیلا دیا جائے۔ یہ اصول ’’توریث اکبر‘‘ (یعنی یورپی نظامِ وراثت Primogeniture) اور ’’مشترکہ خاندانی جایداد‘‘ (Joint Family System) اور ایسے ہی دوسرے طریقوں کے برعکس ہے جن کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مرتکز شدہ دولت مرنے کے بعد بھی مرتکزہی رہے‘‘۔ (معاشیات اسلام‘ ص ۱۰۸)
(ب) مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ کے الفاظ میں: ’’اسلامی قانونِ وراثت میں تقسیمِ دولت کاجو طریقہ ہے وہ ایسا معتدل اور مدبرانہ ہے کہ اگر صحیح طور پر اس کو اختیار کیا جائے اور سوسائٹی میں اس کا رواج عام ہو جائے‘ تو نہ تو اس سے سرمایہ دارانہ دولت پیدا ہونے کا امکان باقی رہتا ہے‘ کہ جس سے بڑی بڑی زمینداریاں بنتی ہیں اور نہ افراد و اشخاص کے درمیان افلاس و فاقہ مستی کو فروغ ہوسکتا ہے‘ کیونکہ یہ ایک ایسا نظام ہے جس سے دولت کا سامان ہر وقت گردش میں بتا رہے اور ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پہنچتے رہنے کی وجہ سے کم و بیش ہر فرد کو فائدہ بخشتا رہتا ہے۔
اسلامی قانونِ وراثت پوری معیشت پر بڑے دور رس اثرات کا حامل ہے۔ یہ اثرات انفرادی سطح (micro level) پر بھی مرتب ہوتے ہیں اور اجتماعی سطح (macro level) پر بھی۔ ان اثرات کا مختصر احاطہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔
(ا) ارتکازِ دولت کا خاتمہ:ارتکازِ دولت فی زمانہ عالمی سطح پر بھی اور ملکی سطح پر بھی بڑا گمبھیر مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے اقوامِ متحدہ سے لے کر حکومتوں کی سطح تک بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں۔ حکومتیں اپنی مالیاتی پالیسیوں (Fiscal Policies) میں اسے بڑی اہمیت دینے کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن مسئلہ روز بروز خراب ہوتا جا رہا ہے‘ غربت بڑھ رہی ہے‘ امیر و غریب کے درمیان حائل خلیج میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسلام نے زکوٰۃ و صدقات کے نظام کے نفاذ کے باوجود ایک شخص کے مرنے پر دولت کے ارتکاز کی صورت میں فوری طور پر اس کی گردش کا اہتمام کر دیا ہے۔ ذوی الفروض‘ عصبات اور ذوی الارحام کے دائرے میں اس کی تقسیم کا حکم یوں دیا گیا ہے کہ کوئی بھی قریبی عزیز محروم نہ رہ جائے۔ یوں دولت پشت در پشت تقسیم کے عمل سے گزرتی جاتی ہے اور ارتکاز میں خاتمے کا سبب بنتی ہے۔
(ب) معیشت میں پھیلاؤ: ارتکازِ دولت کے خاتمے کے نتیجے میں جمع شدہ دولت کئی ہاتھوں میں تقسیم کے عمل سے گزرتی ہے۔ اس کے نتیجے میں معیشت میں مجموعی صرف (aggregate consumption) میں اضافہ ہوجاتا ہے‘ جس کو پورا کرنے کے لیے اشیا و خدمات کی پیداوار میں اضافہ ناگزیر ہوجاتا ہے۔ یوں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور پوری معیشت میں پھیلائو اور اضافہ ہو جاتا ہے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتا ہے۔
(ج) جاگیرداری نظام کا خاتمہ: بڑی بڑی جاگیروں کے قائم ہونے اور پھلنے پھولنے کی بنیادی وجہ مشترکہ خاندانی نظام اور بڑے بیٹے کی وراثت کا حق (Primogeniture) ہے۔ اسلامی قانونِ وراثت میں یہ دونوں طریقے ممنوع ہیں اور مال و جایداد میں وراثت کا حق مختلف افرادِ خاندان کو دے دیا گیا ہے۔ اس طرح جاگیریں بھی تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرتے ہوئے چھوٹی اکائیوں میں تقسیم ہوتی جاتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں نظامِ جاگیرداری اپنی پوری تباہ کاریوں کے ساتھ اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔
(د) زرعی پیداوار میں اضافہ: نظامِ جاگیرداری کی موجودگی میں زمین کے مختلف اور بڑے پیمانے پر پھیلے ہوئے قطعاتِ اراضی پر انفرادی توجہ ناممکن ہو جاتی ہے اور اس سے بھی بڑی خرابی غیرحاضر زمینداری کی صورت میں ظاہرہوتی ہے اور یوں زمین سے بھرپور پیداوار حاصل کرنا ممکن نہیں رہتا‘ جب کہ زمین کے نسبتاً چھوٹے ٹکڑوں پر نئے مالکان زیادہ محنت اور توجہ سے بہتر پیداوار حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں زرعی پیداوار میں اضافہ‘ اس سے مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ اور معاشی ترقی کی رفتار میں اضافہ اور مزید لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔
(ھ) منصفانہ تقسیمِ دولت: نظامِ زکوٰۃ کے عملی نفاذ اور قانون تقسیمِ دولت کے اطلاق کے نتیجے میں دولت کی تقسیم منصفانہ بنیادوں پر ہوتی چلی جائے گی اور اس کے نتیجے میں امیروغریب کے درمیان پائی جانے والی خلیج کو کم کیا جا سکے گا اور معاشرہ بہتر صورتِ حال کی طرف گامزن ہوگا۔
(و) ورثاء کی معاشی حالت کی بہتری: متوفی کی دولت کے جمع رہنے یا بڑے بیٹے کو ملنے سے دیگر ورثا محروم رہ جائیں گے۔ اس صورت میں خصوصاً بچے‘ خواتین اور بوڑھے والدین دوسروں کے رحم و کرم پر ہوں گے اور دوسروںکے محتاجِ محض بن کر رہ جائیں گے‘ جب کہ اسلامی قانونِ وراثت ان کی معاشی حالت کو بہتر بنا کردوسروں کا دست ِ نگر بننے سے بچاتا ہے۔ (اسلامی معاشیات‘ از پروفیسر عبدالحمید ڈار‘ پروفیسرمحمد عطمت‘ پروفیسرمیاں محمد اکرم‘ ص ۲۴۱-۲۴۲)
نبی آخر الزماں حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: ’’اے لوگو! علم الفرائض خود بھی سیکھو اور دوسروں کو بھی سکھائو کہ وہ نصف علم ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’سب سے پہلے جو علم میری اُمت سے اُٹھا لیا جائے گا وہ علم الفرائض ہے‘‘۔(تقسیمِ میراث‘ سید شوکت علی‘ ص ۳-۴)
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس علم کو پھیلایا جائے اور مومنوں کو بھولا سبق یاد دلایا جائے اور انھیں اس قانون پر عمل کرنے پر اُنھیں ابھارا جائے۔
وزیرستان قبا ئلی علاقہ جات کاسب سے جنوبی علاقہ ہے۔ یہاں وزیر‘ مسعود اور داوڑ قبائل آباد ہیں جن کی کل آبادی ۸لاکھ ہے۔ انتظامی لحاظ سے اس کو شمالی اورجنوبی وزیرستان کی ایجنسیوں میں تقسیم کیا گیاہے۔ میران شاہ‘ شمالی وزیرستان اور وانا‘ جنوبی وزیرستان کا صدر مقام ہے۔ چونکہ یہ علاقہ وفاق کے زیرانتظام ہے اس لیے امن وامان اور ترقیاتی منصوبوں کی ذمہ داری گورنرصوبہ سرحد کی ہے۔وزیرستان کی سرحد ۲۶۰کلومیٹر تک افغانستان سے ملتی ہے۔ سرحدکے مغرب میں افغانستان کا صوبہ پکتیکاواقع ہے جو انتہائی دشوارگزار پہاڑی علاقہ ہے۔یہاں امریکی افواج کے خلاف زبردست مزاحمت جاری ہے۔اب تک خوست‘ اُرزگان‘شکین اور سروبی کے مقامات پر افغان مجاہدین کا مکمل قبضہ ہے۔
وزیرستان کے قبائل حریت پسند ہیں۔وزیر اور مسعود قبائل۱۸۵۰ء سے ۱۹۴۷ء تک انگریزی راج کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔۱۸۵۲ء میں میجر نکلسن‘ ۱۸۶۰ء میں بریگیڈیر جنرل چیمبرلین‘۱۸۷۸ء میں کرنل بویس راگن‘ ۱۸۸۱ء میں بریگیڈیرکینڈی کے زیر کمان قبائل کو دبانے کے لیے فوج کشی کی گئی لیکن ناکام رہی۔۱۸۹۷ء میںمُلا پاوندھ نے انگریز کی فارورڈ پالیسی کے خلاف جہاد کا علم بلند کیا اور ایک طویل عرصے تک انگریزوں سے برسر پیکاررہے۔ مُلاپاوندھ کی وفات کے بعدمُلا فضل دین اور مُلا عبدالحکیم نے انگریزوں کے خلاف جہاد جاری رکھا۔اس جہاد میں فقیر ایپی نے بھی نمایاں کردار ادا کیا جو ۱۹۴۷ء تک تحریک جہاد کے قائداور روح رواں رہے۔ انگریزی افواج جتنا عرصہ وزیرستان میں رہیں جہادی قوتوں نے ان کو آرام واطمینان سے رہنے نہیں دیا۔وزیرستان پر مستقل قبضہ جمانے اور قبائل پر قابو پانے کی غرض سے انگریزوں نے یہاں بڑی تعداد میں چھائونیاں قائم کیں‘ جن میں دو ڈویژن فوج ہر وقت قیام پذیر رہتی تھی۔ اسی طرح میران شاہ اور رزمک میں ایرفورس کے بڑے اڈے تعمیر کیے گئے جن میں ایک ایک اسکوارڈن ایرفورس متعین رہتی تھی۔ غیرمنقسم ہندستان میں وزیر ستان کمانڈ برطانوی دفاعی سسٹم کا ایک بہت اہم حصہ تھا جس پر کل ہندستان کے دفاعی بجٹ کا کثیر حصہ خرچ ہوتا تھا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آزادی سے پہلے پاکستان کے کئی ایک اعلیٰ فوجی جرنیل بشمول ایوب خان اور یحییٰ خان وزیرستان کمانڈ میں تحریک مجاہدین کے خلاف آپریشن میں شریک رہے ہیں۔اِن’’نوآبادِیاتی خدمات‘‘کے عوض ان کو’’تمغہ وزیرستان‘‘ (Waziristan Medal) سے بھی نوازاگیا۔
تحریک آزادی میں سرحد کے قبائل نے جو خدمات سر انجام دی تھیں‘ ان کے اعتراف میں قائداعظمؒ نے قبائلی علاقہ جات سے فوج کو واپس بلایا۔اُس وقت سے یہاںپر مکمل امن وامان رہاہے۔ مقامی آبادی نے امن وامان اور ترقیاتی کاموں میں حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کیا ہے۔ ایسے وقت میں‘ جب کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہت کشیدہ تھے اور وزیرستان کی سرحد پر افغانی فوج کی دراندازی روزمرہ کا معمول تھا ‘قبائلی عوام خود ان سرحدات کی حفاظت کرتے رہے اورپاکستانی فوج کو کبھی بھی مداخلت کی ضرورت پیش نہیں آئی ۔
افغانستان پر روسی حملے کے نتیجے میں افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد غزنی اور پکتیکا کے علاقے سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئی جو گذشتہ۲۰ سال سے امن وامان کی زندگی گزار رہی ہے۔ یہ زیادہ تر خانہ بدوش ہیںاور گلہ بانی کا کام کرتے ہیں۔ اپنی بھیڑ بکریوں کو چرانے کے لیے یہ افراد سردی کے موسم میںٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے میدانی علاقے میں چلے جاتے ہیں۔ گرمیوں میں وزیرستان کی پہاڑی چراگاہوں میںآ جاتے ہیں۔افغان مہاجرگلہ بانی کے علاوہ محنت مزدوری اور تجارتی کاروبار بھی کرتے ہیں۔
۹ اکتوبر۲۰۰۳ء کو جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا سے ۵۰کلومیٹر دور انگور اڈا کے قریب ایک بہت ہی افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ انگور اڈا سے چارکلومیٹر کے فاصلے پر چند گھروں پر مشتمل باغر گائوں کی آبادی ہے۔ اس میں تین چار گھروں میں ۲۰ سال سے زیادہ عرصے سے سلیمان زئی قبیلے کے افغان مہاجر آباد ہیں۔ مردجنگل کی کٹائی کا کام کرتے ہیں اورعورتیں اور بچے چیڑ کے درختوں سے چلغوزے اکٹھا کرتے ہیں۔ علی الصباح اس بستی کو مسلح افواج نے اپنے گھیرے میں لے لیا۔ سارے راستوں میں رُکاوٹیںکھڑی کر دی گئیں۔صرف خواتین اوربچے گھروں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔اس کے بعد ان پر پاکستانی فوج کے کمانڈوز‘ سکائوٹ ملیشیا‘ خاصہ داروں اور ایف بی آئی کے کمانڈوزنے حملہ کیا۔ اس فوجی کشی کو ۱۶ہیلی کاپٹروں کی معاونت بھی حاصل تھی۔ پورے دن ان گھروں پر شدید گولہ باری کی گئی۔ جس کے نتیجے میں گھر مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔شام کے وقت تک یہ ہنستے خوشحال گھرملبے کا ڈھیر تھے۔ ان سے ۱۸مکینوں کی لاشیں نکالی گئیں‘ جب کہ۲۲افراد زندہ نکالے گئے۔ ان میں ۱۴شدید زخمی تھے‘جن کو طبی امداد فراہم کرنے کے بجاے ہتھکڑیاں پہنائی گئیںاور نامعلوم مقام پر منتقل کر دیے گئے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ مکینوں نے گھروں کے اندر نہ باہر کوئی مورچہ بندی کی تھی اور نہ ان کے پاس اپنے دفاع یا جوابی حملے کے لیے کوئی بھاری اسلحہ تھا۔ صرف روایتی بندوق اور کارتوس تھے جو کہ ہر ایک قبائلی اپنے گھر میں ذاتی حفاظت کے لیے رکھتاہے۔
اس کارروائی میں جو افراد جاںبحق ہوئے فوجی ترجمان کے مطابق یہ’’القاعدہ کے مشتبہ ارکان‘‘تھے۔یہ افسوس کی بات ہے کہ بے حد اصرار کے باوجودان کے رشتے داروں کو مقتولین کی نماز جنازہ ادا کرنے اور دفنانے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ لاشوں کو ہیلی کاپٹروں سے نامعلوم مقام لے جایا گیا۔مقامی باشندوں کا خیال ہے کہ یہ اس لیے کیا گیا کہ اگر مقتولین رشتے داروں کے ہاتھوں دفن ہوتے تو معلوم ہوجاتا کہ یہ غیر ملکی جنگجو افراد نہیں ‘ بلکہ اپنی بستی کے مہاجر بھائی ہیں۔ فوجی ترجمان‘ جنرل شوکت سلطان نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ’’دہشت گردوں کے بارے میں فوری طور پر نہیں بتایا جا سکتا کہ یہ کون ہیں‘‘۔اس خونی ڈرامے کو جس انداز سے کھیلا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا مقصد صرف بیرونی آقائوں کوخوش کرنا اور اپنی وفاداری کا مظاہرہ کرنا تھا‘ ورنہ اگر کسی دہشت گرد کو گرفتار کرنا پیش نظر تھا تو اس کو رائج قبائلی قوانین کے تحت آسانی سے اور بغیر کسی مزاحمت اور خون خرابے کے قابو کیا جا سکتا تھا۔
اس بے جا قتل وغارت کے بعد حکومت نے مطالبہ کیا کہ جن قبائل نے افغان مہاجرین کوکرایے پرمکانات دیے ہیں ان کے ۱۲افراد کو حکومت کے حوالے کیاجائے۔اس کے نتیجے میں یارگل خیل‘ کارے خیل اور ڈسی خیل قبائل کی ہزاروں دوکانوںاوربے شمارپیٹرول پمپوں کو سیل کیاگیا۔ ان کی درجنوں گاڑیاں بھی قبضے میں لے لی گئیں۔ آپریشن کا دائرہ وسیع کر کے ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان تک بڑھا دِیا گیا جو سراسر خلاف قانون تھا‘ اس لیے کہ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کا دائرہ اختیار صرف قبائلی علاقے تک محدود ہے۔ پکڑ دھکڑ کی یہ کارروائی تین ہفتے تک جاری رہی جس کے دوران بے شماربے گناہ افراد کو گرفتار کیا گیا اوران کی تجارت کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔
یہ آپریشن ایسے وقت میں کیا گیاجب قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا۔ لہٰذا اُصولی طورپراس کے لیے قومی اسمبلی کی منظوری لینا چاہیے تھی۔ متحدہ مجلس عمل کے اراکین پارلیمنٹ نے اس آپریشن کو غیر قانونی اور قومی وحدت کے منافی قرار دیااور سرکاری ترجمان نے آپریشن کے متعلق جو حقائق پیش کیے تھے ان کو غیر تسلی بخش قرار دیا ۔ حقائق معلوم کرنے کے لیے ایک پارلیمانی وفد تشکیل دیا گیا ‘جو وزیرستان جاکر موقع پر اس افسوسناک آپریشن کے متعلق حقائق معلوم کرتا لیکن جب یہ وفد۱۵ اکتوبر ۲۰۰۳ء کو وزیر ستان کی جنڈولہ چیک پوسٹ پہنچا تواِسے ایجنسی کے حکام نے آگے جانے سے روک دِیا ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نہیں چاہتی کہ فوجی یلغار سے متعلق اصل حقائق منظر عام پر لائے جائیں۔
یہ بات وزیرستان میںہر شخص کی زبان پر ہے کہ یہ آپریشن غیر ملکی اشارے پر کیا گیا ہے جس میں پاکستانی فوج اوردیگر ایجنسیوں کو امریکی مقاصد کے لیے برے طریقے سے استعمال کیا گیا ہے۔ اس آپریشن کے شمال مغربی سرحد کی دفاعی صورتِ حال پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ وزیرستان کے قبائل کے اعتمادکو جو ٹھیس پہنچی ہے اور ان کو جو مالی نقصان ہوا ہے اس کی تلافی کیسے ہوگی؟ وزیر ستان میں اگرریگولر آرمی کی تعیناتی کی ضرورت پڑی توملک کی سالمیت پر اس کے کیا اثرات پڑیں گے اور ملکی خزانے پراس کا کتنا بوجھ پڑے گا؟یہ وہ سوالات ہیں جن پر سنجیدگی سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔صاف بات ہے کہ پاکستانی فوج اور قبائل کے تصادم سے جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور نفرت کی جو فضا جنم لے رہی ہے‘ امریکی حکومت کواس سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ یہ اس کا مسئلہ نہیں۔ لیکن ہمارا تو ہونا چاہیے۔ امریکہ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ وقتی طور پر جومعمولی فوجی سازوسامان پاکستان کومہیا کیا گیا ہے اُس کو القاعدہ اور طالبان کی گرفتاری میں استعمال کیا جائے اورجلد از جلد کوئی ٹھوس کارکردگی دکھائی جائے۔
ایک عرصے سے بھارت کی یہ خواہش رہی ہے کہ کشمیرمیں کنٹرول لائن پر دبائو کم کرنے کے لیے شمال مغربی سرحد پر پاکستانی فوج کے لیے ایک نیا فرنٹ کھولا جائے ۔ کوششِ بسیار کے باوجود وہ اس میں کامیاب نہیں ہوا تھا۔اس وقت امریکی دبائو کے نتیجے میں تقریباً ۶۰ ہزار پاکستانی فوج‘پاک افغان سرحد کو سیل کرنے کے لیے تعینات کی گئی ہے۔ اس طرح افغانستان اور امریکہ کے تعاون سے بھارت کا یہ دیرینہ خواب بالآخرشرمندہ تعبیرہو رہا ہے۔اس وقت وزیرستان آپریشن نے ملک کو ایک نئی اور سنگین دفاعی صورت حال سے دو چار کر دیا ہے جس سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی اشد ضرورت ہے ۔اس کے لیے لازم ہے کہ قبائلی علاقہ جات میں امریکہ کی ایما پر گھر گھر تلاشی اورہر قسم کے فوجی آپریشن کو فوراً بند کیا جائے اورکوشش کی جائے کہ تنازعات نوآبادیاتی دور کے’’گولہ بارود‘‘اور’’پکڑ دھکڑ‘‘کی پالیسی کے بجاے افہام وتفہیم سے طے کیے جائیں۔ قبائل علاقہ جات میں محب وطن افراد کی کمی نہیں ہے۔ ان کو اعتماد میں لے کر بہت سے مسائل پرامن طریقے سے حل کیے جا سکتے ہیں۔
ملک میں خواتین پر بڑھتے ہوئے گھریلو تشدد کے انسداد کے پیشِ نظر پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے لیے ’’مسودہ قانون انسداد گھریلو تشدد پنجاب مصدرہ ۲۰۰۳ئ‘‘ پیش کیا گیا ہے تاکہ شادی کے تقدس اور عورتوں اور بچوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے اور متاثرہ فرد کے لیے کوئی کارگر قانونی دادرسی کی صورت نکل سکے۔
ہمارے معاشرے میں خواتین پر تشدد ایک حقیقت ہے۔ آئے دن اخبارات میں اس حوالے سے خبریں دیکھنے میں آتی ہیں۔ معمولی معمولی باتوں پر جھگڑا‘ گالم گلوچ‘ تضحیک‘ مارپیٹ‘ روز مرہ استعمال کی ضروریات کو پورا نہ کرنا یا ہاتھ تنگ رکھنا ‘ مرضی کے بغیر یا کم عمری میںشادی کرنا‘دولت اور جایداد کے لیے بڑی عمر کے مرد سے نکاح‘ غیرت کے نام پر قتل‘ کاروکاری‘ قرآن سے شادی‘ وراثت سے محروم رکھنا--- ایک طویل فہرست بنائی جاسکتی ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا ایک کرب ناک پہلو ہے‘ اس پر جتنا بھی دکھ کا اظہار کیا جائے کم ہے۔ خواتین پر روا رکھا جانے والا یہ تشدد اسلام کی تعلیمات کے بھی صریحاً خلاف ہے۔ اس کا کوئی جواز نہیں۔ گھریلو تشدد کے انسداد کے بل کا بنیادی محرک بھی غالباً یہی جذبہ ہے کہ اس ظالمانہ اور غیر اخلاقی رویے کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ گھریلو تشدد کا ایک پہلو خواتین کے ہاتھوں مردوں کو مختلف قسم کے معاشی و ذہنی دبائو کا سامنا بھی ہے جو ان کی زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے۔ البتہ یہ بات غور طلب ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے جو طریق کار وضع کیا جا رہا ہے وہ کس حد تک قابلِ عمل ہے اور آیا اس کے نتیجے میں گھریلو تشدد کا خاتمہ ہو سکے گا اور گھریلو اور ازدواجی زندگی سکون کا باعث بن سکے گی‘ یا ایک مسئلے کا حل نکالتے نکالتے کوئی نیا بگاڑ یا انتشار پیدا ہوجائے گا۔
یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ محض قانون سازی سے اگر معاشرتی فساد کا خاتمہ ہو سکتا تو جدید تہذیب کے حامل ترقی یافتہ ممالک یورپ اور امریکہ میں خواتین پر تشدد کا خاتمہ ہو جانا چاہیے تھا جہاں خواندگی کی شرح تقریباً۱۰۰ فی صد اور قانون کی بالادستی معاشرے کا شعار ہے۔ عملاً صورت حال کیا ہے؟ اس کا اندازہ امریکہ کے محکمہ سراغ رسانی کی اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ میں ہر تیسری بیوی شوہر سے مار کھاتی ہے۔یہاں تک کہ حاملہ بیوی کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ ہر دوسری حاملہ عورت پٹتی ہے اور ایک تہائی بچے مار کا اثر لیے پیدا ہوتے ہیں (نواے وقت‘ ۱۲ نومبر ۲۰۰۳ئ)۔ یہ وہ ملک ہے جہاں ایک ٹیلی فون کال پر پولیس گھرپہنچ کر خاوند کو گرفتار کرکے لے جاتی ہے‘ جیل میں بند کر دیا جاتا ہے اور قید یا جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔
پنجاب اسمبلی میں پیش کیا جانے والا انسداد گھریلو تشدد بل بھی کچھ اسی نوعیت کی قانون سازی چاہتا ہے۔ اس بل کے تحت تجویز کیا گیا ہے کہ ہر تھانے کی سطح پر پروٹیکشن افسر کی تعیناتی کی جائے جس کا عہدہ پولیس انسپکٹر یا گزٹیڈ افسر کے برابر ہو۔ دیہی اور شہری علاقوں کے لیے فیملی مصالحتی کونسل تشکیل دی جائے گی جو پانچ ممبران پر مشتمل ہوگی جن میں سے ایک ممبرخاتون ہوگی۔ گھریلو تشدد کی اطلاع ملنے پر یا ازخود پروٹیکشن افسر فوری طور پر موقع پر پہنچے گا۔ اسے اختیار حاصل ہوگا کہ متاثرہ فرد کو کسی ’’محفوظ جگہ‘‘ (رشتے دار‘ فیملی فرینڈ یا خدمات فراہم کنندہ کی طرف سے تیار کردہ محفوظ مقام یا دارالامان) منتقل کر دے۔ خیال رہے کہ ازخود اقدام کا اختیار تو مغرب میں بھی نہیں دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں نجی زندگی کا تصور بری طرح مجروح ہوجائے گا۔
مصالحتی کونسل مصالحت کے لیے اقدام کرے گی اور معاملہ جوڈیشل مجسٹریٹ درجہ اول کے سپرد کرسکتی ہے۔ مجسٹریٹ دیگر اقدامات کے علاوہ‘ مجوزہ بل کی شق ۶-ii اور ۶-iii کے تحت اگر وہ گھریلوتشدد کا محض شائبہ پائے تو ضمانت طلب کر سکتا ہے اور پروٹیکشن آرڈر کے ذریعے مجرم کو اپنی ہی رہایش گاہ یا کسی دیگر حصے میں داخل ہونے سے منع کر سکتا ہے اور متاثرہ فرد کو گھر اور گھریلو اشیا کے استعمال کا حق دلوائے گا۔ اس قسم کے ’’محفوظ مقام‘‘ کا تعین اور اس پر عمل درآمد کی نوعیت‘ جھگڑے کے تصفیے کے دوران اہلِ خانہ کی ضروریات پورا کرنا یا بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات وغیرہ جیسے پہلو بھی بہت اہم ہیں۔ یہ اقدامات بجاے بہتری کے گھرکے انتشار کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ یہ بل اسلام کے قانون ازدواج اور اس کی روح مودت و رحمت سے بھی کئی حوالوں سے متصادم ہے۔ اس کی شرعی حیثیت کا تعین بھی ایک اہم پہلو ہے۔البتہ بظاہر یہ تشدد سے بچائو کے لیے ایک اچھا اقدام لگتا ہے لیکن اس کے دُور رس اثرات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔
دُور جانے کی ضرورت نہیں خود مغرب کا تجربہ اس کا کھلا ثبوت ہے۔ مغرب نے اپنے تمدن کی بنیاد مرد و عورت کی مساوات‘ عورت کے معاشی استقلال‘ مردوزن کا آزادانہ اختلاط اور عورت کے قانونی تحفظ پر رکھی۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گھر جو تمدن کی بنیاد ہے بکھر کر رہ گیا ہے اور خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اگرچہ عورت کو قانونی تحفظ حاصل ہے مگر اس کے باوجود خواتین کا مردوں کے ہاتھوں پٹنا‘ طلاق کی کثرت‘ جنسی تشدد‘ فواحش کی کثرت‘ شہوانیت اور بے حیائی کا فروغ‘ سرے سے نکاح کرنے سے اجتناب اور بلانکاح ساتھ رہنے کا رجحان‘ نسل کشی اور تحدید آبادی‘ بچوں اور نئی نسل کی بے راہ روی‘ جسمانی قوتوں کا انحطاط‘ ذہنی و نفسیاتی امراض کا اضافہ جیسے مسائل کا مغرب کو سامنا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ مرد اور عورت کے باہمی تعلق یا قانون ازدواج کی بے اعتدالی ہے۔ ہمارے ہاں بھی مادیت کے اثرات اور دیگر عوامل کی بنا پر رشتۂ ازدواج متاثر ہو رہا ہے۔ اس کا اندازہ فیملی کورٹس میں طلاق‘ خلع اور بچوں کے مسائل کے حوالے سے پیش ہونے والے مقدمات میں روز افزوں اضافے سے لگایا جا سکتاہے۔ انسدادِ گھریلوتشدد کے اس بل کے حوالے سے معاشرتی انتشار کا یہ پہلو خاص طور پر غورطلب ہے۔
معاشرے کی پایدار بنیادوں پر اصلاح کے لیے ایک ٹھوس اساس و بنیاد اور متوازن و معتدل نظریۂ حیات اور لائحہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر اس کو معاشرے کا چلن بننا چاہیے اور ان اصول و ضوابط سے انحراف کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ امیروغریب سب کے لیے اصول ایک ہو‘ خلاف ورزی تادیب کی مستحق ٹھیرے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہمارے لیے نمونہ ہے۔ آپ ؐ نے جب اصلاح معاشرہ کی تحریک کا آغاز کیا تو قانون سازی کو بنیاد نہیں بنایا تھا بلکہ ایک کلمے کے اقرار کو بنیاد بنایا تھا جو اس بات کا اعلان تھا کہ ایک خدا کے سوا ہم کسی کی اطاعت نہ کریں گے۔ پسند وناپسند کا معیار اور کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی بنیاد خدا کی ذات اور رسولؐ اللہ کا طریقہ ہوگا۔ یہ محض ایک اعلان نہیں تھا بلکہ ایک عہد وپیمان تھا کہ اگر کوئی معیار یا اصول ہے تو وہ قرآن و سنت ہیں۔ یہ وہ اصول اور ضابطہ تھا جس پر آپؐ نے معاشرے کی اصلاح کی بنیاد رکھی‘ اور اسلام کی متوازن اور ابدی تعلیمات وہ لائحہ عمل تھا جس پر عمل کرنا ایمان‘ حبِ رسولؐ اور قانون ٹھیرا۔
اس کے نتیجے میں وہ معاشرہ قائم ہوا جہاں گھر کی بنیاد مودت و رحمت تھی نہ کہ ظلم و تشدد اور جبر۔ اچھا خاوند وہ شمار ہوتا جو اہل خانہ کے ساتھ بہتر رویہ رکھتا ہو‘ ان کے جذبات کا احترام کرتا ہو اور ان کی ضروریات کو اپنا فرض جان کر پورا کرتا ہو۔خاوند اپنے فرائض خوشدلی سے ادا کرے اور بیوی خاوند کے حقوق۔ اگر کسی کو فکر تھی تو یہ کہ کسی کوتاہی کے مرتکب ہوکر خدا کے ہاں پکڑ نہ ہو جائے۔ میاں بیوی کے تنازعات کے حل کے لیے ایک منصفانہ اورمعتدل قانون ازدواج تھا۔ زوجین ہزار کوشش کے باوجود ساتھ نہ رہ سکیں اور حدود اللہ ٹوٹنے کا خدشہ ہوتا تو خوشدلی سے الگ ہو جاتے اور عدالتی چارہ جوئی کے لیے مواقع یکساں تھے۔ فرائض کی ادایگی اور جواب دہی کا احساس ہی وہ محرک تھا جو لوگوں کو حدود کا پابند بناتا تھا نہ کہ محض پولیس مداخلت یا قانون سازی۔
لہٰذا اصلاحِ معاشرہ کے لیے اور گھریلو تشدد کے انسداد کے لیے ہمارے لیے بھی بنیاد اسی اصول کو بننا چاہیے‘ یعنی خدا کی اطاعت‘ فرائض کی ادایگی اور جواب دہی کا احساس!
پہلی ضرورت شعور کی بیداری ہے کہ ہم خدا کے بندے ہیں اور ایک مسلمان مرد اور عورت کے یہ یہ فرائض اور ذمہ داریاں ہیں جنھیں ادا کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے ذرائع ابلاغ کے ذریعے وسیع پیمانے پر ’’اصلاح اخلاق‘‘ کی مہم چلائی جانی چاہیے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا‘ رسائل و جرائد‘ سماجی تنظیمیں‘ سب کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اُبھارا جانا چاہیے۔ نظامِ تعلیم اسی فکر کو پروان چڑھانے اور تربیت کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ اس کے لیے حکومت اقدامات اٹھائے۔ معاملات کی بنیاد ذاتی پسند ناپسند نہیں بلکہ قرآن و سنت اور دین کی تعلیمات کو ٹھیرایا جانا چاہیے۔ یہ بہت مضبوط بنیاد ہے۔
اسلام چاہتا ہے کہ گھریلو تنازعات گھر کی سطح پر ہی حل ہوں۔ اس لیے خاندان کے بزرگوں اور بڑے بوڑھوں کو اپنا کردار خوش اسلوبی سے نبھانا چاہیے۔ اس کا احساس اُجاگر کرنے‘ نیز بزرگوں کے احترام کی معاشرتی قدر کو بھی مضبوط بنانے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
محلے کی سطح پر کمیٹی یا معززین کی پنچایت کے ذریعے محلے اور علاقے کے تنازعات کوحل کرنا پہلی ترجیح ہونا چاہیے۔ بلدیاتی سطح پر مصالحتی عدالت ایک منتخب فورم ہونے اور اہلِ علاقہ کے معاملات سے باخبر ہونے کے لحاظ سے زیادہ موثر کردار ادا کر سکتی ہے اور پولیس تھانے میں جانے سے پہلے مصالحت کی بنا پر معاملات بخوبی نمٹائے جا سکتے ہیں۔ مقامی سطح پر کیے جانے والے فیصلوں کو قانونی حیثیت دی جانی چاہیے اور عدالت ان کو تسلیم کرے تو عدلیہ پر بڑھتا ہوا دبائو بھی کم ہو سکتا ہے۔ مصالحتی عدالت کے ہوتے ہوئے مجوزہ بل کے تحت ’’فیملی مصالحتی کونسل‘‘ کا قیام اضافی امرہے۔
سب سے اہم پہلو جو توجہ چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ بے حسی ختم ہونا چاہیے۔ اگر کہیں بھی کسی کی حق تلفی ہو‘ کسی قسم کی زیادتی کی جائے ‘ تو اس پر خاموش تماشائی نہ بنا جائے۔ گھر کے افراد‘ خاندان کے بزرگ‘ برادری‘ ہمسایہ‘ اہلِ محلہ و علاقہ‘ معززین علاقہ‘ منتخب کونسلر‘ سماجی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران‘ سب سماجی و اخلاقی دبائو کے تحت زیادتی کرنے والے کا آگے بڑھ کر ہاتھ روکیں اور اس کو اخلاقی ذمہ داری اور فرائض سے کوتاہی کی طرف توجہ دلا کر اصلاح کی بھرپور کوشش کریں۔ ماضی کی طرح آج بھی یہ سماجی دبائو بہت سی اخلاقی خرابیوں کے سدّباب کے لیے موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔ اسلام برائی کو دیکھ کر اسے برداشت کرنے کی نہیں بلکہ حسب ِ استطاعت قوت کے ذریعے مٹانے پر زور دیتا ہے۔ اس سب کے باوجود اگر گھریلو تشدد کا راستہ نہ رکے تو پھر قانون ازدواج کے تحت عدالت کا دروازہ بھی کھلا ہے۔
جس معاشرے میں خرابی اور بگاڑکا سدّباب نہ ہو اور بہتری کی کوشش ساتھ ساتھ جاری نہ رہے تو بگاڑ بالآخر انحطاط اور اجتماعی خودکشی پر منتج ہوتا ہے۔ لہٰذا معاشرے کی اصلاح اور گھریلو تشدد کے انسداد کے لیے جہاں قانونی اقدامات کو موثر بنانے کی ضرورت ہے‘وہاں عوامی سطح پر شعور کی بیداری اور اخلاقی خرابیوں کے سدّباب کے لیے اپنا فرض ادا کرنے کی فکر اور تڑپ کے چلن کو عام کرنا بھی ناگزیرہے۔ حکومت کو اپنی اس ذمہ داری کو بھی محسوس کرنا چاہیے۔
آباد صاحب بیمار تو ایک عرصے سے تھے اور اسی سال فروری میں ان کی اہلیہ کے انتقال نے ان کی صحت اور ہمت دونوں ہی کو متاثر کیا تھا لیکن سارے مصائب کے باوجود وہ مرد درویش اس مقصد کی خدمت کے لیے بے چین تھا جس کے عشق نے اس کی جوانی اور بڑھاپے کے شب و روز اپنا لیے تھے۔ تحریک اسلامی کا یہ بوڑھا سپاہی جماعت اسلامی کی تاریخ اور مولانا مودودی کی سوانح لکھنے کے لیے بے چین تھا اور اپنا یہ کام اُدھورا چھوڑ کر ۲۹ ستمبر ۲۰۰۳ء کو رفیقِ اعلیٰ سے جاملا۔اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!
آباد شاہ پوری صاحب سے میرا پہلا تعارف اس زمانے میں ہوا جب وہ اُردوڈائجسٹ سے وابستہ تھے (۱۹۶۴ئ-۱۹۸۰ئ)۔ اس سے پہلے وہ کوثراور تسنیم سے بھی وابستہ رہے لیکن اس دور میں میرا ان سے کوئی ربط نہ تھا۔ اُردو ڈائجسٹ میں ان کے مضامین نے چونکا دیا--- خصوصیت سے تاریخ‘ سیرت اور شخصیت نگاری کے میدان میں ان کی تحریریں بڑی دل نشیں‘ ایمان افروز اور آرزو کو بیدار کرنے والی تھیں۔ ان کی کتابوں میں مجھے سب سے زیادہ عزیز سید بادشاہ کا قافلہ ، پہاڑی کے چراغ اور اسلامی زندگی کی کہکشاں تھیں۔ تحریکی ادب میں آباد شاہ پوری کی یہ اہم خدمت ہے کہ انھوں نے دماغ کے ساتھ دل کی غذا کا بندوبست کیا اور نوجوانوں کو ولولۂ تازہ دینے کا کام انجام دیا۔
آباد شاہ پوری مرحوم کا اصل نام محمد خورشید الزماں تھا اور وہ تحصیل و ضلع خوشاب میں ۴جون ۱۹۲۳ء کو پیدا ہوئے۔ پہلے منشی فاضل‘ پھر پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے اُردو کی سند حاصل کی۔ اُردو‘ عربی‘ فارسی اور انگریزی پر عبور تھا اور صحافت‘ شعروادب‘ تاریخ و سوانح اور تحقیق و تصنیف کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ عالمِ اسلام کے مسائل اور مسلمانوں کے حالات سے خصوصی دل چسپی تھی اور ان کی تحریر کے جس پہلو نے مجھے متاثر کیا‘ وہ تاریخی شعور کی روشنی‘ ادب کی چاشنی اور سب سے بڑھ کر امید اور جذبۂ کار کو بیدار کرنے والا ولولہ تھا۔ اس میں زندگی ہی زندگی اور جدوجہد ہی جدوجہد کا سماں نظر آتا تھا۔ آباد شاہ پوری زبان کی صحت کا بڑا خیال رکھتے تھے اور مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی باک نہیں کہ ان کی زبان اُردوے معلی کا بہترین نمونہ تھی۔ الحمدللہ وہ کسی لسانی تعصب میں مبتلا نہیں تھے لیکن میں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ وہ پنجاب کے اُردو کے ان خادموں میں سے ایک تھے جنھوں نے اپنی تحریر پر مقامی محاورے کا کوئی سایہ نہیں پڑنے دیا اور ان کی نگارشات کے مطالعے سے یہ پتا لگانا مشکل ہے کہ صاحب ِ نگارش کا تعلق کس خطے سے ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کے لیے پطرس کا ایک قول بطور جملۂ معترضہ کے لکھ دوں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اہل زبان میں بحث ہو رہی تھی کہ ’’مجھے پشاور جانا ہے‘‘ اور ’’میں نے پشاور جانا ہے‘‘ دونوںمیں سے صحیح یا یوں کہہ لیجیے کہ فصیح کیا ہے تو پطرس نے کہا: فصیح تو ’’مجھے پشاور جانا ہے‘‘ ہی ہے مگر ’’میں نے پشاور جانا ہے‘‘ لکھنے والے کے بارے میں یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ آکہاں سے رہا ہے۔
مجھے آباد صاحب سے ۱۹۸۰ء کے بعد بہت قریب سے معاملہ کرنے کا موقع ملا۔ وہ ایک عرصہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سے وابستہ رہے اور اس کے بعد بھی اگرچہ ادارہ معارف اسلامی لاہور سے وابستہ تھے مگر واسطہ انسٹی ٹیوٹ ہی تھا۔ میں نے ان کو ایک بلند پایہ محقق‘ ایک بے لاگ نقاد‘ ایک روشن خیال ادیب‘ ایک مخلص ساتھی اور سب سے بڑھ کر ایک اچھا انسان پایا۔ دنیاطلبی کی کوئی جھلک ان کی زندگی میں نہ تھی اور آخری ایام میں جب وہ کام کرنے سے اپنے کو معذور پا رہے تھے تو یہ کہہ کر اعزازیہ لینے سے انکار کر دیا کہ میں کام نہیں کر پا رہا ہوں ؎
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
آباد صاحب نے اپنی زندگی کے آخری ۲۰ سال جماعت اسلامی پاکستان کی تاریخ اور مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی سوانح حیات لکھنے کے لیے وقف کر دیے تھے۔ انھوں نے تحقیق کا حق ادا کیا اور لاکھوں صفحات کھنگال کر نوٹس تیار کیے۔ جماعت کی تاریخ کی وہ صرف دو جلدیں مرتب کرسکے۔ افسوس کہ پوری تیاری کے باوجود مولانا کی سوانح وہ ضبط ِ تحریر میں نہ لا سکے اور اپنی ساری تخلیق کا حاصل اپنے ساتھ ہی لے گئے جو اہلِ علم کے لیے بڑی محرومی ہے۔ اگر انھیں مولانا کی سوانح لکھنے کی مہلت مل جاتی تو یہ تحریکی ادب میں ایک بیش قیمت اضافہ ہوتا۔ لیکن امرربی کے آگے کسی کو کیا مجال!
آباد صاحب شاعر بھی تھے لیکن میں اس راز سے ان کے انتقال کے بعد ہی واقف ہوسکا۔ ان کی جو چند نظمیں اب دیکھی ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اگر وہ اس میدان میں آگے بڑھتے تو خاصے کی چیزیں پیش کر سکتے تھے۔
آباد شاہ پوری ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے جس چیز کو مقصدِ زندگی کے طور پر اختیار کیا‘ اس کے لیے پوری زندگی وقف کر دی اور آخری لمحے تک وفاداری کے ساتھ اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔ ان کی زندگی بہت سادہ‘ ان کی مصروفیات بہت متعین اور محدود‘ ان کے تعلقات وسیع مگر ان کے معمولات وقت گزاری اور یارباشی سے پاک۔ خاندانی اور تحریکی معاملات میں‘ مَیں نے ان کو بہت معاملہ فہم پایا اور انسانی تعلقات کے باب میں تو وہ اس پہلو سے منفرد تھے کہ اپنے اور پرائے ان سے مشورہ کرتے اور تنازعات میں ان کو ثالث بناتے اور وہ ہمیشہ حق و انصاف اور ہمدردی کے ساتھ معاملات کو نمٹاتے۔ کم گو تو وہ شاید ہمیشہ ہی سے تھے لیکن آخری عمر میں کچھ زیادہ ہی اپنے کاموں میں مگن ہوگئے تھے لیکن انسانی تعلقات اور حقوق کی ادایگی سے کبھی غافل نہ رہے۔ یہ وہ روایت ہے جو اب اٹھتی جا رہی ہے حالانکہ آج کے انسان کو اس کی ہمیشہ سے زیادہ ضرورت ہے۔ آباد صاحب برعظیم کی جس علمی‘ صحافتی اور ادبی روایت کا نمونہ تھے‘ وہ اب عنقا ہوتی جا رہی ہے۔ ان کے اٹھ جانے سے ایک خلا محسوس کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کوقبول فرمائے اور انھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ آمین!
؎ جو بادہ کش تھے پرانے‘ وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقاے دوام لے ساقی
بلقان کی سرزمین پر اسلام کا علَم بلند کرنے اور بوسنیا ہرذی گووینا کی آزادی برقرار رکھنے میں مجاہدانہ کردار ادا کرنے والے علی عزت بیگووچ ۱۹ اکتوبر۲۰۰۳ء کو اس دارِفانی سے رخصت ہوگئے۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون! اُن کی وفات سے بوسنیا ایک اعلیٰ پائے کے دانش ور‘ تجربہ کار قانون دان اور اصولوں کی جنگ لڑنے والے سیاست دان سے محروم ہو گیا ہے۔ مسلم دنیا عمومی طور پر اور اسلامی تحریکات خصوصی طور پر اُن کی جدائی پر ملول ہیں اور ربِ کریم کے حضور اُن کی سرخروئی کے لیے دُعاگو بھی۔
علی عزت بیگووچ ۸ اگست ۱۹۲۵ء کو پیدا ہوئے۔ اِن کے اجداد بلغراد شہر کے رہنے والے تھے۔ علی کی پیدایش سراجیوو کے نواح میں ہوئی۔ جب ان کی عمر دو سال تھی تو اِن کا خاندان مستقلاً سراجیوو شہر میں مقیم ہوگیا۔ علی کے دادا فوجی تھے اور ان کی دادی ترکی سے تعلق رکھتی تھیں۔ علی کے والد ایک چھوٹی کمپنی میں ملازم تھے۔ علی پر اپنی والدہ کے بے انتہا اثرات تھے جوایک دین دار خاتون تھیں۔ انھوں نے اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد گراد کاک شہر کا رُخ کیا تاکہ فوج کی جبری بھرتی سے بچ سکیں۔
اُس زمانے میں یوگوسلاویہ پر کمیونسٹ حکمران تھے۔ مذہب سے برگشتہ کرنے والا لٹریچر اسکول میں لازماً پڑھایا جاتا تھا لیکن ماں کی تربیت کے سبب خدا مخالف‘ مذہب دشمن خیالات ان کے لیے اجنبی ہی رہے۔ ان کو مطالعے کا شوق تھا اور گریجوایشن سے پہلے وہ برگسان‘ کانٹ اور سپینگلر کی تحریروں کا مطالعہ کر چکے تھے۔ ۱۹۴۳ء میں گریجوایشن کا امتحان پاس کیا۔ وہ قانون کو پیشے کے طور پر اختیار کرنا چاہتے تھے لیکن کاتب تقدیر نے اُن کے لیے قوم کی قیادت لکھ دی تھی۔ اُنھوں نے فوج میں بادلِ ناخواستہ شمولیت اختیار کی اور پھر اس کو خیرباد بھی کہہ دیا۔ قرآن‘ حدیث‘ فقہ‘ تاریخِ اسلام‘فکرِاقبال اور عیسائیت کا گہرا مطالعہ انھوں نے اپنے شوق سے کیا۔ پھر ان کا تعلق یوگوسلاویہ کے نوجوانوں کی تنظیم ’’ینگ مسلمز‘‘ کے ساتھ ہوگیا۔ زغرب‘ بلغراد اور سراجیوو یونی ورسٹی کے طلبہ اس کے رُوحِ رواں تھے۔ ۲۲برس کی عمر میں اُنھوں نے رسالہ مجاھدکی ادارت سنبھالی۔کمیونسٹوںنے یکے بعد دیگرے نمایاں طلبہ کو گرفتار کرلیا اور کئی نوجوانوں کو تختۂ دار تک پہنچا دیا۔ علی کو مختلف الزامات کی بنا پر گرفتار کر لیا گیا اور تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ قید کے دوران علی لکڑیاں کاٹتے رہے اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ اس قید نے تخلیقی ذہن کے مالک اور شعروادب سے دل چسپی رکھنے والے علی کو جفاکش بنا دیا اور بعد میں وہ بڑی سے بڑی آزمایش کو مسکرا کر جھیلتے رہے۔ مذکورہ تنظیم باضابطہ طور پر رجسٹر نہ ہو سکی لیکن اس کی سرگرمیاں طویل عرصہ جاری و ساری رہیں۔
کمیونسٹوں کے ہاتھوںنوجوان طلبہ کی گرفتاریوں اور سزائوں کا دُوسرا دور ۱۹۴۹ء میں شروع ہوا۔ علی کا کہنا ہے کہ ہمارے ساتھیوں کو جس قدر سزائیں سنائی گئیں‘ اگر اُنھیں یک جا کردیا جائے تو کئی ہزار سال بن جاتے ہیں۔ علی نے قانون کی اعلیٰ ڈگری ۱۹۵۶ء میں حاصل کی۔ ۱۰برس تک وہ ایک تعمیراتی کمپنی سے بھی منسلک رہے اور اخبارات میں ان کے مضامین بھی شائع ہوتے رہے۔
علی کے مُدلل مضامین مختلف جرائد میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے۔ وہ ’اسلامی ڈیکلریشن ‘کے نام سے یکجا کر دیے گئے اور کتابی صورت میں شائع ہوئے لیکن اِن کی اشاعت کے ۲۰ برس بعد حکومت ِ یوگوسلاویہ نے اِن مضامین کی بنا پر علی عزت اور ان کے ۱۳ ساتھیوں کو گرفتار کرلیا۔ اِن مضامین میں کہا گیا تھا کہ اپنے دین کی طرف پلٹنے اور رجوع کرنے سے مسلمان سُرخرو ہو سکتے ہیں۔ بغاوت کے زیرعنوان ۱۰۰ روز تک جاری رہنے والے اس مقدمے نے ’مقدمہ سرائیوو‘ کے نام سے غیرمعمولی شہرت حاصل کی۔ علی کے خیالات کو بنیاد پرستی کی دعوت قرار دیا گیا۔ ۲۳ مارچ ۱۹۸۳ء کو ۱۹ سال کا ریکارڈ مرتب کرکے عدالت میں پیش کیا گیا کہ علی عزت اور بہمن عمرکتابوں کے ذریعے زیرزمین سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور موجودہ حکومت کا تختہ اُلٹ کر اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ علی کو ۱۴ سال قید کی سزا سنائی گئی۔
علی عزت بوسنیا کے مسلم عوام کی حالت ِ زار پر پہلے بھی فکرمند رہتے تھے۔ قیدخانے میں پہنچ کر اُنھیں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر ہونے والے ظلم و ستم کا اندازہ بھی ہوگیا۔ جیل کے اندر ہی اُنھوں نے سیاسی جدوجہد کا تفصیلی خاکہ مرتب کرلیا۔ اس سے ۲۰‘۲۵ برس قبل علی عزت نے اسلام‘ عیسائیت‘دورِ جدید اور آیندہ لائحہ عمل کے زیرِعنوان چند مضامین لکھے تھے۔ دوسری بار قید ہونے کے بعد اُنھیں موقع مل گیا کہ اِن مضامین کو ازسرنو تحریر کریں۔ یہ مضامین کتابی شکل میں امریکہ سے Islam between East & West کے نام سے شائع ہوئے۔ امریکہ میں اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور اس کے کئی زبانوں میں ترجمے بھی شائع ہوئے جس سے علی عزت کی شہرت سمندرپار پہنچ گئی۔ مذکورہ کتاب کا اُردو ترجمہ ادارہ معارفِ اسلامی لاہور اسلام اور مشرق و مغرب کی تہذیبی کش مکش کے نام سے شائع کرچکا ہے۔
چھ برس بعد علی عزت کو قید سے رہائی ملی۔ اُس وقت رُوس کے زوال کے بعدیوگوسلاویہ کی کمیونسٹ پارٹی شکست و ریخت کا شکار ہو رہی تھی۔ علی عزت نے اپنے ۴۰دوستوں کے ہمراہ پارٹی فار ڈیموکریٹک ایکشن (SDA) قائم کی۔۲۷ مارچ ۱۹۹۰ء کو اس کا منشور منظرِعام پر آیا‘ انسانی و جمہوری اقدار کی بالادستی کی جدوجہد اس کا مطمح نظر ٹھیرا۔ اسی سال قومی انتخابات ہوئے تو بھرپور مہم چلائی گئی’’اپنی سرزمین اپنا نظریہ‘‘ اِن کا نعرہ تھا۔ اُس وقت یوگوسلاویہ کے صوبہ بوسنیا ہرذی گووینا میں رجسٹرڈ مسلمانوں کی تعداد ۲۲ لاکھ ۸۹ ہزار تھی۔ اسمبلی کی ۲۴۰ نشستوں میں سے ۸۶ پر علی عزت کے ساتھی کامیاب ہوئے اور یہ پارٹی قوت بن کر اُبھری۔
روس کے بعد یوگوسلاویہ میں ٹوٹ پھوٹ کا آغاز ہوا تو مقدونیہ‘ مانٹی نیگرو‘ کروشیا اور سلووینیا نے اسمبلی میں قراردادیں پاس کر کے آزادی کا اعلان کر دیا اور ان کے اعلانِ آزادی کا خیرمقدم کیا گیا۔ ان حالات میں بوسنیا کی اسمبلی نے بھی آزادی کی قرارداد پاس کرلی۔ ۲۲ مئی ۱۹۹۲ء کو یورپین یونین نے بوسنیا کی آزادی کو تسلیم کر کے ممبرشپ دے دی۔ بوسنیا کے لیے جو جھنڈا منتخب کیا گیا وہ ہسپانیہ کے مسلمانوں کا تھا جو وہ اپنے دورِ عروج میں استعمال کرتے رہے تھے۔ لیکن بوسنیا کی آزادی نے بلقان کے علاقے میں آگ اور خون کے ایک شرمناک سلسلے کا آغاز کر دیا۔ آرتھوڈوکس سربوں اور کروٹوں نے بوسنیا کے اعلان کو تسلیم نہ کیا۔ ۱۹۹۵ء تک بوسنیا دنیا کے اخبارات کی نمایاں ترین سرخیوں کا عنوان بنا رہا۔ ۲۲ لاکھ آبادی میں سے ۲ لاکھ مسلمان (جو ۵۱ ہزار مربع میل رقبے پر پھیلے ہوئے تھے) شہید کر دیے گئے۔ مسلمانوں کو تعذیب خانوں (Concentration Camps)میں رکھا گیا‘اُن کی عورتوں کی جبری اجتماعی آبروریزی جنگی تدبیر (war tactic)کے طور پر کی جاتی رہی‘ مسلمانوںکے دلوں میں خوف بٹھانے کے لیے حلقوم پھاڑ کر تڑپانے اور ہلاک کرنے (throat slitting)کا طریقہ متعارف کرایا گیا۔ یوگوسلاویہ کے جانشین سربیا کے صدر سلوبودان میلاسووچ اور رادوان کرادزچ نے ساری دنیا اور اس کے عالمی اداروں کو پسِ پُشت ڈال کر مسلمانوں کے شہر تباہ کر دیے‘ مسجدیں شہیدکر دیں‘ کوچہ و بازار خاک کر دیے۔ عالمی اداروں‘ مثلاً اقوامِ متحدہ کی امن فوج‘ یورپین یونین کمیشن اور دیگر فلاحی و رفاہی تنظیموں کو زچ کرکے رکھ دیا۔ مذاکرات کی میز پر بھی نئے نئے دائوپیچ آزمائے گئے‘ تبادلۂ آبادی‘ محفوظ مقامات (Safe Havens)‘ وسیع تر آزادی‘ وفاقی حکومت‘ چھ صوبے اور کتنی ہی تدابیر کے ذریعے بوسنیا کو آزادی سے دستبردار کرنے کی کوشش کی گئی۔ سراجیوو کا کئی سال محاصرہ رہا۔ موستار‘ بنجالوکا‘ اور دیگر شہروں اور چھوٹے بڑے قصبوں پر ٹینک چڑھا دیے گئے۔ حقیقی معنوں میں بلڈوزر پھیر دیے گئے۔ شمالی اوقیانوس معاہدہ عظیم (NATO) اور کئی مؤثرادارے اس نسل کشی پر خاموش تماشائی بنے رہے کیونکہ خون یورپین کا نہیں یورپین مسلمان کا بہہ رہا تھا۔
پانچ برسوں میں نجانے کتنے مواقع آئے کہ جب یہ حکومت ختم ہو جاتی اور بوسنیا‘ سربیا کی گودمیں چلا جاتا لیکن ایک شخص تھا جس نے ہمت نہ ہاری اور وہ شخص بوسنیا کا صدر علی عزت بیگووچ تھا‘ جو ڈٹا رہا‘ سفارتی جنگ بھی لڑی‘ دیگر ممالک سے امداد و تعاون کے لیے درخواستیں بھی کرتا رہا‘ عالمی اداروں کے دروازے بھی کھٹکھٹاتا رہا‘ امن اور انصاف کی دُہائیاں دیتا رہا‘ اپنے عوام کے لاشوں کو دفناتا بھی رہا‘ بچ رہنے والوں کو پُرسہ دیتا رہا‘ فوج کی تنظیمِ نو کرتا رہا اور بالآخربوسنیا کو اس صدی کے المناک طوفانِ حوادث سے نکال کر آزادی کی شاہراہ پر گامزن کردیا۔ بوسنیا کے عوام پر کیا گزری‘ کون کون سے معاہدے ہوتے رہے‘ کہاں کہاں کانفرنسیں ہوتی رہیں‘ عالمی چودھریوں اور شاطروں کا کیا کردار رہا‘ اس کی تفصیلات محمد الیاس انصاری نے اپنی کتابوں مقدمۂ بوسنیا اور سانحۂ بوسنیا میں فراہم کر دی ہیں۔
بوسنیا کے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے علی عزت بیگووچ ایران‘ ترکی‘ اٹلی‘ فرانس‘ جرمنی‘ برطانیہ‘ امریکہ اور ہر اُس جگہ گئے کہ جہاں انصاف مل سکتا تھا یا داد رسی ہو سکتی تھی۔ اپنی خودنوشت سوانح عمری Inescapable Questions میںانھوں نے اس دور کی تفصیلات فراہم کی ہیں۔ امیرجماعت ِ اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد جنگِ بلقان کے دوران ان سے جاکر دو بار ملے اور اُمت ِ مسلمہ کی طرف سے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ مذکورہ کتاب میں جو اسلامک فائونڈیشن لسٹر نے شائع کی ہے‘ علی عزت نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ دُنیا بھر کے مسلمانوں نے بوسنیا کے مسلمانوں کی اخلاقی پشت پناہی کی۔ جو ممالک سرکاری طور پر اُن کے لیے آواز بلند کرتے رہے اُن کی تفصیلات بھی درج ہیں۔
علی عزت بیگووچ نے ۱۴ دسمبر ۱۹۹۵ء کو Dayton کے مقام پر ہونے والے معاہدے پر دستخط کر دیے جس کے بعد بلقان میں جنگ کا خاتمہ ہو گیا اور موجودہ بوسنیا وفاق وجود میں آیا۔ اس میں ایک صوبہ بوسنیائی سربوں پر مشتمل ہے‘ جب کہ دوسرے صوبے میں مسلمانوں اور کروٹوں کی فیڈریشن ہے۔ اُن پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اصل مطلوب رقبے سے کم پر رضامندی کا اظہار کررہے ہیں لیکن اُن کے حالات ایسے ہی تھے جن کا قائداعظم محمدعلی جناح کو قیامِ پاکستان کے موقع پر سامنا تھا۔ بوسنیا کے مسلمانوں نے جو لازوال قربانیاں دی ہیں اُس کا اندازہ برعظیم سے ہجرت کرکے آنے اور خاندان کٹوانے والے بہتر سمجھ سکتے ہیں ۔ ۱۹۹۶ء میں بوسنیا کی صدارت کے لیے تین ممبران پر مبنی صدارتی کونسل میں علی عزت بھی شامل تھے۔ بعدازاں سال ۲۰۰۰ء میں اُنھوں نے مسلسل خرابیِصحت کی بنا پر استعفا دے دیا۔بوسنیا کے لوگ اُنھیں محبت کے ساتھ ’’باباجان‘‘ کہتے ہیں۔
علی عزت بیگووچ پر الزام تھا کہ وہ انتظامی مشینری پر قابو نہیں پا سکے ہیں اور ملک میں بدعنوانی اپنے عروج پر ہے۔ عالمی اداروں کی طرف سے بحالی کے لیے ملنے والی بڑی بڑی رقوم سرکاری مشینری اور افسرہضم کر رہے ہیں۔ اُن کے مخالفین یہ بھی کہتے تھے کہ وہ اپنے بیٹے بقربیگووچ کو بوسنیا کا صدر بنانا چاہتے ہیں۔ علی عزت نے ان الزامات کی تردید کی اور اُمید ظاہر کی کہ بوسنیا کو جو اندرونی مسائل درپیش ہیں اُن میں جلد کمی آجائے گی۔
بوسنیا کی آزادی کی جنگ کے دوران علی عزت کو کئی سربراہانِ مملکت سے بار بار ملنے اور اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کا موقع ملا۔ انھیں امریکہ و یورپ کی یونی ورسٹیوں نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی۔ اسلام کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں فیصل ایوارڈ بھی دیا گیا۔ طویل عرصے تک بیمار رہنے کے بعد علی عزت بیگووچ ہم سے رخصت ہوچکے ہیں اُن کی وفات کے بعد اُن کی پارٹی کے تین دھڑوں میں تقسیم ہونے کے واضح امکانات موجود ہیں ‘تاہم آج بھی دُنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے وہ ہمت وجرأت کا مینارئہ نور ہیں ع
خدا رحمت کُند ایں عاشقانِ پاک طینت را
علی عزت بیگووچ ایک جملہ بار بار کہا کرتے تھے اوروہ ہمارے لیے بھی غوروفکر کی راہیں وا کرتا ہے کہ ’جب زندگی کا کوئی متعین مقصد نہ رہے تو زندہ رہنا بے معنی ہو جاتا ہے‘۔
مہاتیرمحمد اقتدار سے دستبردار ہوگئے ہیں۔ عبداللہ احمد بداوی وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھاچکے ہیں۔ دنیا بھر میں خیرمقدم کیا جا رہا ہے کہ مہاتیرمحمد اپنی رضامندی سے اقتدار سے الگ ہوئے۔ اسلامی ممالک کی کانفرنس میں ان کی تقریر کو اُمت مسلمہ کے نقطۂ نظر سے بہت سراہا گیا ہے۔
ملائیشیا میں مسلمان ۶۰ فی صد اور دیگر مذاہب کے پیروکار۴۰ فی صد ہیں۔ ڈاکٹر مہاتیرمحمد ۲۲ برس تک وزیراعظم رہے۔ اُنھوں نے نظامِ تعلیم اور معیارِ تعلیم کی بہتری کو اولین ترجیح بنایا‘ دنیا بھر سے لائق اساتذہ کو اپنے ملک میں اکٹھا کیا اور ملک کے معماروں کی تعمیر کا مستحکم نظام قائم کیا۔ ملایشیا کی موجودہ فی کس آمدن ۳ ہزار ۶سو امریکی ڈالر ہے۔ اُن کے دورِ اقتدار میں یہ ربڑ کی برآمد کرنے والے غیرترقی یافتہ ملک سے درمیانے درجے کے صنعتی ملک میں تبدیل ہوچکا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں جو اقتصادی بحران ۱۹۹۷ء میں آیا اُس سے صرف ملائیشیا ہی محفوظ رہ سکا۔ اس وقت ملائیشیا کی برآمدات ۸۸ ارب امریکی ڈالر سے متجاوز ہیں‘ جب کہ حکومت کے محفوظ ذخائر کا اندازہ ۳۳ ارب امریکی ڈالر ہے۔
مہاتیرمحمد کی پالیسیوںکا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اُنھوں نے جاپان اور مغربی ممالک کے لیے سرکاری طور پر اس قدر سہولتیں فراہم کیں کہ وہاں کے صنعت کار ملائیشیا میں بلاروک ٹوک سرمایہ کاری کرنے لگے۔ سرکاری تحویل سے بیشتر کاروبار نجی شعبے کو منتقل کر دیا گیا۔ سرمائے کی گردش کی حدود واضح کی گئیں‘ اور سکّے کے بجاے سونے یا اسلامی دینار کو مسلم دنیا میں کرنسی بنانے کا نظریہ پیش کیا گیا تاکہ ڈالر کی بالادستی کو توڑا جا سکے۔ داخلی طور پر اُنھوں نے پوری قوم کو محنت کرنے اور آگے بڑھنے کا سبق دیا۔ اُن کا کہنا تھا جس طرح کمپنی کا ہر کارکن کام کرتا ہے اس طرح ہر شہری اپنا فرض ادا کرے۔ ڈاکٹر مہاتیر نے بوسنیا کی جنگ کے دوران‘ بوسنیا کے لیے ببانگ دہل آواز بلند کی‘ فلسطینیوں کے بارے میں بھی اُن کے بیانات شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اُنھوں نے اقتدار سے دستبردار ہوکر اُن درجنوں مسلم سربراہوں کے لیے ایک مثال قائم کر دی ہے کہ جو کہتے ہیں کہ ہمارا ملک ہمارے دم سے یا ہماری اولاد کے دم قدم سے شاد آباد رہے گا‘ ہم چلے جائیں گے تو ملک تباہ ہو جائے گا۔
مہاتیرمحمدنے اسلامی ایشوز کے ترجمان کی حیثیت سے اپنی شناخت تسلیم کروائی‘ اور دوسری طرف معاشی خوشحالی کے لیے بھرپور کوشش کی۔ اُن کا نظریہ یہ تھا کہ اسلام‘ اقتصادی ترقی کے راستے میں رکاوٹ نہیں ہے اور اس پر وہ اور اُن کے ساتھی عمل پیرا رہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فراموش نہ کرنا چاہیے کہ مہاتیراور اُن کی جماعت United Malay National Organization (UMNO) میں اس طویل عرصے میں حزبِ اختلاف کو برداشت کرنے کا حوصلہ کم ہی رہا۔ اُنھوں نے پریس کی آزادی پر کافی حد تک پابندی عاید کیے رکھی۔ حزبِ اختلاف کی اسلامی پارٹی ملایشیا،’پاس‘(PAS) اور دیگر جماعتوں کے ساتھ اُن کا رویہ سخت رہا۔ سابق قائد حزبِ اختلاف فاضل نور کی تقاریر سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے مخالفین کی کردارکُشی کی پالیسی اختیار کی۔ مخالفین کے لیے انٹرنل سیکورٹی ایکٹ (ISA) اور (OSA) جیسے قوانین ابھی تک روبہ عمل ہیں۔ اس کے تحت مقدمہ چلائے بغیر کسی بھی شخص کو غیرمعینہ مدت کے لیے پابند ِ سلاسل رکھا جا سکتا ہے۔ کلنتان اور ترنگانو کی ’پاس‘ کی حکومتوں کے لیے ہر اُس مرحلے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں جہاں قانون سازی پر عمل درآمدکے لیے وفاقی حکومت کی منظوری درکار ہو۔ اَناکی جنگ لڑتے لڑتے مہاتیرنے انور ابراہیم جیسے نائب اور باصلاحیت قائد کو جیل خانے تک پہنچا دیا۔
ملائیشیا میں انتخابات کا شیڈول اپریل ۲۰۰۴ء میں جاری ہو جائے گا اور امید ہے کہ اکتوبر تک انتخابات کا مرحلہ مکمل ہو جائے گا۔ ’امنو‘ کے نمایندے اور موجودہ وزیراعظم عبداللہ احمد بداوی کی پالیسی یہ ہے کہ چینی النسل باشندوں اور ہندوئوں کے ووٹ کی تعداد میں اضافہ ہو۔
آیندہ کے سیاسی منظرنامے کے بارے میں سنٹر فار ماڈرن اورینٹ اسٹڈیز‘ برلن‘ جرمنی کے سربراہ ڈاکٹر فارش اے نور لکھتے ہیں: ڈاکٹر مہاتیرمحمد کے جانشین داتو عبداللہ احمدبداوی کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے اور وہ چیلنج یہ ہے کہ ریاست کے انتظامی ادارے(bureau cratic institutions) ازسرِنو ترتیب دیے جائیں‘ سرکاری نوکریاں اور عہدے قابلیت پر ہی فراہم کیے جائیں‘ سیاسی اقربا پروری پر پابندی ہو‘ عدلیہ کو آزادی سے کام کرنے کی اجازت دی جائے‘ حکومت برداشت‘ جمہوریت‘ اجتماعیت اور بنیادی انسانی حقوق کی علم بردار ہو۔ ملک کے کئی خطے اور آبادی کے مجموعے اُس اجتماعی خوشحالی سے بہرحال محروم ہیں کہ جن کا بیرونِ ملک خوب چرچا ہوتا ہے۔ اُن کے لیے بھی راہِ عمل متعین کی جائے۔
ملائیشیا کی قیادت کو یہ فراموش نہ کرنا چاہیے کہ معاشی خوش حالی کی قیمت پر جمہوری روایات اور ثقافتی ادارے متاثر ہوئے ہیں۔ شہروں پر آبادی کا دبائوبہت بڑھ گیا ہے۔ امیر اور غریب طبقات کے درمیان فرق میں اضافہ ہوا ہے اور شہری زندگی کے مسائل میں فلک بوس عمارتوں کی طرح اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔ زراعت اور ماہی گیری کے شعبے پسِ منظر میں جا رہے ہیں۔ مہاتیر کے بعد زیادہ عوامی پالیسیاں اختیار کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔
وفاق میں حکومت بنانے کے لیے ’پاس‘ کو شدید محنت کی ضرورت ہے۔ وفاقی اسمبلی میں ’پاس‘ کے ۳۹ ممبران ہیں۔ قدامت پرستی‘ عورتوں سے امتیاز اور آرتھوڈوکس ہونے کے پروپیگنڈے کے توڑ کے لیے مضبوط سیاسی و انتخابی اتحاد کی ضرورت ہے۔
اسلامی پارٹی ملائیشیا جو گذشتہ ۱۲ برس سے برسرِاقتدار مخلوط حکومت کی منفی پالیسیوں پر تنقید کر رہی ہے‘ اور اس نے کلنتان اور ترنگانو صوبوں میں حکومت بنانے کے بعد وفاقی اسمبلی میں بھی اصول پرست مضبوط حزبِ اختلاف کا کردار ادا کیا ہے‘ اپنے کردار کے ذریعے ملائیشیا کی ۴۰ فی صد غیرمسلم (ہندو‘ سکھ‘ چینی) آبادی کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ہماری پارٹی برسرِاقتدار آنے کے بعد اُن کو تبدیلی مذہب پر مجبور کرنے کی احمقانہ کوشش نہ کرے گی‘ اور وفاق میں حکومت بنانے کے بعد اُن کے سیاسی‘ معاشرتی اور اقتصادی حقوق پر ہرگز آنچ نہ آئے گی۔ خواتین کو امتیازی سلوک کا سامنا نہ کرنا پڑے گا جن کا ملائیشیا کے اخبارات میں چرچا رہتا ہے۔
۱۷ رمضان المبارک (یومِ بدر) کے موقع پر اسلامی پارٹی کے سربراہ داتوسری حاجی عبدالہادی آوانگ نے اسلامی ریاست کے قیام کے لیے مجوزہ دستاویز اہالیانِ وطن کے سامنے پیش کی۔ اس کے اہم ترین نکات کا خلاصہ حسب ِ ذیل ہے:
۱- ریاست بلاتفریق مذہب و ملّت تمام شہریوں کے تمام حقوق کی مکمل ضمانت دے گی۔
۲- وفاقی دستور میں اُسی وقت تبدیلی کی جائے گی جب یہ انتہائی ناگزیر ہو۔
۳- تمام مذاہب کے پیروکار اپنی مذہبی روایات‘ ثقافتی رسومات پر عمل پیرا رہ سکیں گے۔
۴- کسی بھی شخص کو مجبور نہ کیا جائے گا کہ وہ دین اسلام کو قبول کرے۔
۵- عدلیہ اور مقننہ کا علیحدہ نظام برقرار رہے گا۔
۶- ملازمتیں میرٹ اور اصولوں کی بنیاد پر مہیا کی جائیں گی۔ مذہب‘ نسل اور جنس کی بنا پر امتیاز نہ برتا جائے گا۔
۷- شہریوں کے جمہوری حقوق کی پاسداری وفاقی دستور کے مطابق جاری رہے گی۔
۸- عدلیہ‘ انتظامیہ اور مقننہ میں کوئی بھی شخص منتخب ہو سکے گا۔ نسلی اور لسانی گروہ کی بنا پر پابندی عائد نہ کی جائے گی۔
۹- فروغِ تعلیم اور مادری زبان میں تعلیم کا حق‘ ریاست کو حاصل رہے گا۔
۱۰- عورتوں کے لیے تعلیم‘ ملازمت‘ تجارت‘ سفر کے تمام حقوق برقرار رہیں گے اور اُن کے ساتھ جنس‘ مذہب اور لسانی گروہ کی بنا پر کسی قسم کا امتیاز روا نہ رکھا جائے گا۔
گذشتہ پانچ برسوں میں یونی ورسٹیوں کے انتخاب میں اسلامی پارٹی کے نامزد اور ہم خیال طلبہ کامیاب ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ دونوں صوبوں کے خوش گوار تجربات کے اثرات بھی پھیل رہے ہیں۔ انتخابی مہم کے لیے تیاری جاری ہے۔ مہاتیر نے ایک ایسے وقت دست برداری کی ہے کہ اس کی پارٹی انتخابات جیت سکے۔ ’پاس‘ ایک سنجیدہ متبادل قیادت کے طور پر آگے بڑھ رہی ہے۔ اب ملائیشیا کے عوام کیا فیصلہ کرتے ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
جواب: اسلام ایک مکمل دین ہے جو انسان کی رہنمائی زندگی کے ہر موقع پر کرتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَامُ قف (اٰل عمرٰن ۳:۱۹)‘ وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْـہُج وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo (۳:۸۵)‘ یعنی زندگی گزارنے کا طریقہ تو اللہ کے ہاں صرف اسلام ہے‘ لہٰذا اگر کوئی شخص اسلام کے علاوہ کوئی اور راستہ ڈھونڈ نکالے گا تو اللہ تعالیٰ اسے ہرگز قبول نہیں کرے گا اور ایسا فرد آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔ شادی غمی بالخصوص نکاح کے لیے بھی اسلام نے اپنا ایک طریقہ اور نظام قائم کیا ہے اور وہ یہ کہ مرد گھر بسانے اور آباد کرنے کا مکمل ذمہ دار ہے۔ گھر والی کے جملہ اخراجات بھی شادی کے بعد مرد ہی ادا کرے گا‘ عورت کسی چیز کی ذمہ دار نہ ہوگی۔ البتہ عورت گھر کا انتظام سنبھالنے‘ بچوں کی اچھی تربیت کرنے اور شوہر کی تمام جائز ضروریات اپنی استطاعت کے مطابق پورا کرنے کی پابند ہوگی۔
اس طرح گھر کی آبادکاری اور جملہ ضروریات کو پورا کرنے کی ذمہ داری مرد پر آتی ہے۔ البتہ اگر لڑکی خود یا اس کے والدین اور سرپرست بچی کے ساتھ بطور جہیز کے کچھ سامان یا چیزیں دینا چاہیں تو ان کے دینے پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن یہ جہیز فراہم کرنا اپنے اوپر ہر حال میں لازمی کر لینا صحیح نہیں ہے۔ اگر کسی گھرانے کے مالی حالات جہیز دینے کی اجازت نہیں دیتے تو بالکل جہیز نہیں دینا چاہیے‘ بالخصوص ادھار اور قرض لے کر بچی کو بھاری بھرکم جہیز دینا نہ کوئی عقل مندی ہے اور نہ اسلام اس کی اجازت ہی دیتا ہے۔
لڑکے والوں کو بھی چاہیے کہ وہ لڑکی سے جہیز کا مطالبہ نہ کریں کیونکہ یہ سامان فراہم کرنا مرد کی اپنی ذمہ داری ہے اور دوسروں سے اس کی توقع رکھنا مردانگی کے خلاف ہے۔ رشتہ خاتون سے ہونا چاہیے نہ کہ جہیز کے سامان سے۔ حضوؐر پاک کی سنت بھی یہ ہے کہ حسب استطاعت بچی کو بطور تحفہ کچھ سامان جہیز میں دیا جائے۔ استطاعت نہ ہونے کی صورت میں جہیز دینا یا اس کی توقع رکھنا سنت نبویؐ کے خلاف ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ اسلام میں مرد اور عورت دونوں کے درمیان نکاح کے وقت مہر کے طور پر کوئی بھی رقم متعین کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ رقم کسی بھی صورت میں اتنی نہیں ہونی چاہیے جس کی ادایگی ہی ناممکن ہو اور خاندان پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہو۔ حضور پاکؐ نے کم مہر کو پسند فرمایا تاکہ شادی کا کلچر عام کیا جاسکے۔ سیدہ نساء اہل الجنۃ بی بی فاطمہؓ حضوؐر کی بڑی پیاری اور چہیتی صاحبزادی تھیں۔ آپؓ کا رشتہ حضرت علیؓ سے صرف ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی کے مہر سے طے پایا تھا جو ۵۰۰درہم کے برابر تھا یعنی تقریباً ۱۲‘۱۳ تولے چاندی جو آج کے مطابق تقریباً بارہ تیرہ ہزار روپے بنتے ہیں۔ مختصر یہ کہ مہر کی رقم دولہا کی مالی حیثیت کے مطابق ہونی چاہیے۔ اس کا متوازن ہونا ضروری ہے۔ نہ تو اتنا کم ہو‘ جیسے بعض علاقوں میں ۵۰اور ۴۹روپے رکھا جاتا ہے جو محض خانہ پُری ہے لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ مہرکا تعین لاکھوں میں کر دیا جائے جس کی ادایگی پھر مرد کے لیے ممکن نہ رہے۔
ہمارے معاشرے کی غلط رسوم و رواج میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک طرف تو شادی کے وقت نظر لڑکی کے جہیز پر ہوتی ہے کہ ساتھ کیا کچھ آتا ہے تو دوسری طرف مہر کا تعین اتنا زیادہ کر دیا جاتا ہے کہ بعد میں اس کا مہیا کرنا ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات انتہائی ناگفتہ بہ صورت حال میں بھی عورت کو فارغ اس لیے نہیں کیا جاتا کہ مہر کس طرح ادا کیا جائے گا۔ لہٰذا عورت کو درمیان میں لٹکا دیا جاتا ہے‘ نہ اس کو فارغ کیا جاتاہے اور نہ اس کو آباد ہی کیا جاتا ہے‘ جب کہ مطلوب یہ ہے کہ نکاح کے وقت ہی مہر ادا کر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وَاٰتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃًط (النساء ۴:۴)‘یعنی اپنی بیبیوں کے مہر خوشدلی سے ادا کیا کرو۔ اورحضوؐر پاک کا ارشاد ہے کہ ان اوفی الشروط ما استحللتم بہ الفروج‘ یعنی شادی کے وقت جو شرائط مہروغیرہ کی صورت میں تم متعین کرلو اس کو پورا کرنا زیادہ ضروری ہے۔
مختصر یہ کہ جہیز اور مہر دونوں کے بارے میں میاں بیوی اور ان کے خاندان والوں کو حقیقت پسند ہونا چاہیے کیونکہ اسلام تو نام ہی اس اصول کا ہے کہ لا ضرر ولا ضرار‘ یعنی نہ خود نقصان اٹھائو اور نہ اوروں کو نقصان پہنچائو۔ نہ کسی کے ہاں سے جہیزکی امید پر جیو‘ نہ قرض لے کر جہیز دو۔ نہ زیادہ مہرکا تقاضا کرو‘ نہ اتنا زیادہ مہر دینے کا وعدہ کرو جو تمھاری برداشت اور تحمل سے زیادہ ہو۔ اسی صورت میں دونوں خاندانوں کے باہم مربوط اور خوشحال رہنے کے زیادہ امکان ہوں گے‘ شادی کا کلچر عام ہوگا‘ بدکاری اور فحاشی پروان نہیں چڑھے گی اور معاشرہ صاف ستھرے ماحول میں پوری صداقت اور حقیقت پسندی کے ساتھ روبہ ترقی ہوگا۔ دنیا میں بھی سکون نصیب ہوگا اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہمارا مقدر ہوگی۔ (مولانا مصباح الرحمٰن یوسفی۔ بہ شکریہ دعوۃ‘ جولائی ۲۰۰۳ئ)
س: ادارے میں ٹائی پہننے کے حوالے سے شدید دبائو رہا ہے لیکن میں کسی نہ کسی حیلے بہانے سے اس معاملے کو ٹالتا رہا ہوں‘ اس لیے کہ علما نے ناجائز قرار دیا ہے۔ لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے لیے مزید ایسا کرنا شاید ممکن نہ رہے۔ میری رہنمائی فرما دیجیے۔
ج: اسلام نے لباس کے حوالے سے قرآن و سنت میں جو اصول ہمیں دیے ہیں ان میں جسم کا تحفظ‘ زینت اور سادگی کے ساتھ یہ بات بھی شامل ہے کہ نہ تو اس سے تکبر کا اظہار ہو اور نہ جان بوجھ کر لاپروائی اور غربت کا اظہار کیا جائے۔ گویا ایک شخص اپنی استطاعت اور ضرورت کی مناسبت سے لباس کی وضع قطع اور اس کے لیے مناسب کپڑے کا استعمال کرے۔ اسلامی تاریخ میں ہمیں ٹائی کے استعمال کی کوئی روایت نہیں ملتی‘ جب کہ مغربی لباس سے وابستہ روایت میں اس کا استعمال کثرت سے ملتا ہے۔ اس استعمال کے حوالے سے ایک دور تھا جب اہل ثروت ٹائی کا استعمال رسمی لباس کے حصے کے طور پر کرتے تھے۔ بعض عیسائی فرقوں میں ایک ڈوری کالر کے گرد باندھ دی جاتی تھی جو گلے میں لٹکتی رہتی تھی۔ کبھی اس میں کوئی پتھر یا موتی نما چیز اور کبھی صلیب بھی لٹکا لی جاتی تھی۔ یہ رواج آہستہ آہستہ متروک ہوگیا اور ٹائی کا استعمال وہ سب لوگ کرنے لگے جو مذہب کو اہمیت دیتے ہوں یا اس کے مخالف۔ گویا اس کی نسبت کسی خاص طبقے‘ فرقے یا مذہبی مسلک سے نہ رہی۔ فقہ کا ایک کلیہ یہ ہے کہ اگر ایک چیز کی حالت تبدیل ہو جائے تو حکم بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ایک لباس کسی خاص طبقے یا فرقے کی اجارہ داری یا پہچان نہ رہے تو اس کی کراہت بھی باقی نہیں رہے گی۔ یہی شکل کوٹ پتلون اور ان لباسوں کی ہے جو وقت کے ساتھ کسی خاص قوم‘ مذہب یا فرقے سے وابستہ نہیں رہے۔
جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ کوٹ پتلون یا کالر والی قمیص کس حد تک ساتر ہے۔ اس میں کوئی نفس کے فتنے کا سامان تو نہیں۔ گویا ٹائی ہو یا پتلون اور کوٹ‘ اس کے عمومیت اختیار کرلینے کے سبب اس پر وہ حکم نہیں لگے گا جو کسی قوم سے مشابہت کا ہے۔ اس کے حلال یا حرام ہونے سے قطع نظر اگر محض شریعت کے اس اصول پر غور کیا جائے جس میں شریعت ہمارے لیے آسانی چاہتی ہے تو عقل یہ کہتی ہے کہ ٹائی آسانی کی جگہ دقت پیدا کرنے والی چیز ہے۔ اگردو بھلے آدمیوں میں سے ایک کو ٹائی پہنا کر اور دوسرے کو بغیر ٹائی کے کھلے کالر کی قمیص کے ساتھ آپ کسی بند کمرے میں جہاں ہوا کا گزر نہ ہو بٹھا دیں تو ۱۵ منٹ کے بعد جس نے ٹائی کس کر باندھ رکھی ہے‘ ٹائی ڈھیلی کر کے یا مکمل طور پر گلے سے اُتار کر الگ رکھنے پر مجبور ہو جائے گا۔ یہی سبب ہے کہ جن دفاتر میں رسمی طور پر ٹائی استعمال کرائی جاتی ہے جیسے ہی کھانے کا وقفہ ہوتا ہے بھلے آدمی ٹائی کو کھول کر رسّی کی طرح گلے میں لٹکا لیتے ہیں یا اُتار کر اس کو رکھ دیتے ہیں اور پھر جب دوبارہ دفتر کی کرسی پر واپس جانے کا وقت آتا ہے تو گلے میں کس کر تیار ہو جاتے ہیں۔
آخر یہ کون سا حکیم لقمان کا نسخہ ہے کہ جب تک ٹائی نہ ہوگی اچھا sales person نہیں بن سکتا یا اچھا مینیجرنہیں بن سکتا۔ اس لیے دین کے سہولت پسند ہونے کی بنا پر اگر اسے استعمال نہ کیا جائے تو بہتر ہے۔ گو اسے حرام نہیں قرار دیا جا سکتا۔ کیونکہ حرام و حلال کا حق صرف شارع کو ہے‘ کسی انسان کو نہیں۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)
میرا خیال ہے کہ نفع اور نقصان کے اس کاروبار میں برابر کا امکان ہے اور بازارِ حصص (shares market) کا تجزیہ بذاتِ خود ایک مشقت طلب کام ہے جو اس کاروبار میں محنت کے عنصر کی موجودگی پر دلالت کرتا ہے۔
اس بات پر کہ چونکہ یہ کمپنیاں اپنے معاملات سودی نظام کے تحت طے کرتی ہیں‘ اس لیے ان کا حصے دار بننا جائز نہیں‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی بھی کاروبار یا ملازمت‘ چاہے وہ نجی نوعیت کا ہو یا سرکاری‘ بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی نہ کسی طرح موجودہ نظام کے تحت اُس کی کڑیاں سودی نظام ہی سے جا ملتی ہیں۔ اس صورت حال میں کس حد تک لچک کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے؟
ج: قرآن کریم نے بیع اور تجارت کو حلال (البقرہ ۲:۲۷۵) قرار دے کر چھوٹے اور بڑے کاروبار کرنے والوں کے لیے اخلاقی اور قانونی جواز فراہم کرنے کے ساتھ اہل ایمان کو ترغیب دی کہ وہ اللہ کا فضل تلاش کرنے کے لیے صرف جائز ذرائع کو استعمال کریں۔لیکن کاروبار میں سرمایے کی فراہمی ایک مستقل مسئلہ ہے اور اسے حل کرنے کی ایک شکل یہ پائی جاتی ہے کہ ایک سے زائد صارف مل کر ایک کاروبار میں سرمایہ لگائیں اور اپنے سرمایے کے تناسب سے نفع یا نقصان میں شریک ہوں۔ اس غرض سے بہت سی کمپنیاں حصص کی فروخت کا اعلان کرتی ہیں اور ان کمپنیوں کے منصوبے کے لحاظ سے عوام ان کے حصص خرید کر حصے دار بن جاتے ہیں۔ اس طرح جو نفع ایک حصے دار کو ملتا ہے وہ نہ سود کی تعریف میں آتا ہے نہ قمار اور جوئے کی تعریف میں آتا ہے۔ اس پورے عمل میں جوچیز بنیادی اہمیت رکھتی ہے وہ کمپنی کی سرگرمی ہے۔ اگر وہ کمپنی کسی ممنوعہ اور حرام کام میں رقم لگا رہی ہے تو یہ کاروبار اور اس کے شرکا‘ حرام کے مرتکب ہوتے ہیں اور اگرکمپنی کی سرگرمی حلال اور جائز نوعیت کی ہے تو اس سے ملنے والا نفع کم ہو یا زیادہ‘ حرام کی تعریف میں نہیں آتا۔
اس لیے کسی کمپنی کے حصص لیتے وقت یہ تحقیق کر لیجیے کہ وہ کس نوعیت کا کاروبار کرنے جا رہی ہے۔ اگر وہ کاروبار حلال ہے تو اس میں حصص لینے میں کوئی قباحت نہیں ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب! (ا- ا)
س: بنک کی ملازمت کے حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے بالخصوص ایسے بنک جن کا یہ دعویٰ ہے کہ اُن کے نظام کا بنیادی ڈھانچا اسلامی بنک کاری پر مبنی ہے؟
ج: اسلام انسان کی معاشی ضروریات کو ایک ضابطۂ اخلاق کے تحت حل کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ اکلِ حلال کے حصول میں ہدف اور ذرائع دونوں کو یکساں اہمیت دیتا ہے۔ ایک شخص نیک نیتی کے ساتھ چوری کرکے غربا و مساکین کی ضروریات پوری نہیں کرسکتا۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ بنک سود کی بنیاد پر کاروبار کرتے ہیں۔ یہ ایسی ہی واضح شکل ہے جیسے ایک ناچ گھر یا شراب خانے کا کاروبار کھلے طور پر حرام پر مبنی ہوتا ہے۔ فرض کیجیے کہ ایک شخص اپنے اور اپنے بچوں کو فاقے اور موت سے بچانے کے لیے جگہ جگہ ملازمت تلاش کرتا ہے لیکن کہیں کامیابی نہیں ہوتی اور آخرکار اسے ایک ناچ گھر پر چوکیداری کی ملازمت مل جاتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ وہاں پر حرام کا ارتکاب ہورہا ہے لیکن اس کے سامنے انتخاب یہ ہے کہ وہ یا تو فاقے سے مر جائے یا صبح سے رات تک چوکیداری کی مشقت کر کے اتنی رقم حاصل کرلے کہ بچے اور وہ خود فاقے سے نہ مریں۔ ایسی صورت حال میں شریعت اس کے لیے ایسی روزی کو اس وقت تک حلال قرار دیتی ہے جب تک اسے ایک حلال روزگار نہ مل جائے۔ انسانی جان بچانا شریعت کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے جو اصول دیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایسی مجبوری آپڑے جس میں بغیر کسی باغیانہ روش کے اضطراراً ایک ممنوعہ شے استعمال کرنی پڑے تو صرف ضرورت کی حد تک اس کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ رہا معاملہ ایسے بنکوں کا جو غیر سودی بنیاد پر کام کر رہے ہوں تو ان کی ملازمت اس زمرے میں نہیں آتی۔ وہاں پر کام کرنا ہر لحاظ سے جائز ہے۔ (ا- ا)
س: اسلام میں نکاح کا جو تصور ہے وہ یہ ہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں بہ رضا و رغبت آپس میں شادی پر راضی ہوں اور اس پر کم سے کم دو گواہ موجود ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر منگنی لڑکے اور لڑکی کی خوشی سے اور اُن دونوں کے والدین کی باہمی رضامندی سے طے پائی ہو تو کیا اس کو نکاح کی ایک صورت تصور کیا جا سکتا ہے؟
ج: ایک لڑکے اور لڑکی کے درمیان عقد نکاح دراصل ایک ایجاب و قبول کا معاہدہ اور اعلان ہے جس میں لڑکی کی طرف سے اس کے ولی یا وکیل کا گواہوں کے سامنے یہ اظہار کرنا کہ لڑکی بغیر کسی دبائو کے اپنی مرضی سے نکاح پر آمادہ ہے اور رشتے کو منظور کرتی ہے‘ اور لڑکے کا گواہوں کے سامنے اس بات کے اظہار کا نام ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو قبول کرتا ہے۔ اگر لڑکے اور لڑکی کے والدین نے آپس میں رضامندی کا اظہار کیا ہے لیکن لڑکے نے گواہوں کے سامنے قبولیت کا اعلان نہیں کیا تو اسے عقد نکاح تصور نہیں کیا جائے گا۔ہاں‘ اگر کسی مجبوری کی بناپر لڑکا خود قبولیت کا اعلان نہ کر سکتا ہو تو اس کا وکیل اس کی طرف سے ثبوت یا شہادت کی بنیاد پر قبولیت کا اعلان کر سکتا ہے۔ گو‘ اتنے اہم اور ذمہ داری کے معاملے میں خود لڑکے کا قبولیت کا اعلان کرنا لازماً افضل اور روح عقد کے مطابق ہے۔
رہا سوال منگنی کا‘ تو اس کا کوئی تعلق عقدنکاح سے نہیں ہے۔ یہ ایک مقامی رسم ہے جس کی کوئی سند قرآن و سنت سے نہیں ملتی اور یہ رشتے کو حلال نہیں کرسکتی۔ صرف عقدِنکاح ہی رشتے کو قائم و حلال کرتا ہے۔ (ا- ا)
نوآبادیاتی دور کے خاتمے پر اُمت مسلمہ ایک بار پھر اپنے ماضی کی روشن روایت اور دورِحاضر کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلامی معاشرے کی تشکیل و تعمیر میں مصروف ہے۔ اس مرحلے پر دورِ غلامی کے اثرات اورجدید ٹکنالوجی کی وجہ سے اور دنیا کے سمٹ جانے اور مغرب کی معاشی اور ابلاغی بالادستی کی وجہ سے جو عملی مسائل درپیش ہیں‘ ان میں شریعت کی رہنمائی معلوم کرنے کے لیے اسلاف کے کارناموں سے اکتساب نو ناگزیر ہے۔ ۵-۸ اکتوبر ۱۹۹۸ء کو اسلام آباد میں امام ابوحنیفہؒ کی حیات‘ فکر اور خدمات پر ادارہ تحقیقات اسلامی کی بین الاقوامی کانفرنس اس سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ زیرتبصرہ کتاب اس کانفرنس کے نو منتخب مقالات اور ایک نہایت قیمتی معلومات سے پُرچھ صفحاتی ’حرف اول‘ پر مشتمل ہے۔
اس وقت پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ ترکی‘ مصر‘ شام‘ فلسطین‘ اُردن‘ عراق‘ افغانستان‘ وسطی ایشیا‘ مشرقی یورپ اور کئی دوسرے ممالک میں مسلمانوں کی اکثریت حنفی المذاہب ہے۔ماضی میں سلطنت مغلیہ اور سلطنت عثمانیہ کا سرکاری مذہب بھی حنفی فقہ تھا۔ اس فقہ کی مقبولیت کا راز شرعی فرائض میں رفع حرج ومشقت‘ تکلیف بقدر استطاعت اور سہولت و آسانی کے اصولوں کا لحاظ ہے جو دوسرے مسالک میں نہیں ملتا۔ اسی طرح‘ عرف و عادت اور استحسان کے حنفی اصول اسلامی قانون کو ترقی دینے اور معاشرے کی بدلتی ہوئی ضروریات اور تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ فاضل مقالہ نگاروں کی تحریروں سے یہ تمام پہلو اُجاگر ہوگئے ہیں۔
تاریخی و نظری لحاظ سے مقالات بہت خوب ہیں‘ لیکن ایک ایسے مقالے کی ضرورت باقی رہ گئی جس میں دورِ حاضر کے بعض اہم متعین پانچ سات مسائل کے بارے میں فقہ حنفی کی رہنمائی پر بحث کی جاتی۔
امام ابوحنیفہؒ کی مجلس فقہ نے کوفہ میں ۱۵۰ھ میں ان کی رحلت تک ۳۰ برس کام کیا۔ یقینا اجتماعی مشاورت نے اس فقہ کو برکت عطا کی۔ امام اعظم نے ۵۵ حج کیے اور اس طرح مدینہ کے اہل علم و فضل سے بھی براہِ راست اکتسابِ فیض کیا۔
ادارہ تحقیقات اسلامی نے اشاعت کتب کے باب میں جو اعلیٰ معیار قائم کیا ہے‘ اس پر مبارک باد کا مستحق ہے۔ وسائل تو تمام سرکاری اداروں کو ملتے ہیں‘ لیکن ان کا بہترین‘ دل و نظر کو خوش کر دینے والا مقصدی استعمال ہر کسی کے نصیب میں نہیں۔ (مسلم سجاد)
ڈاکٹر محمد حمیدؒاللہ کی رحلت کو ایک سال ہوچلا ہے‘ اس عرصے میں ان کی شخصیت اور کارناموں پر بیسیوں مضامین اور متعدد کتابیں سامنے آئی ہیں۔ زیرنظر مجلے فکرونظر کی ضخیم خصوصی اشاعت ’’مطالعۂ حمیدیات‘‘ کے ضمن میں ان سب پر فائق حیثیت رکھتی ہے۔
مرحوم کو ادارۂ تحقیقات اسلامی سے خاص تعلق تھا۔ ادارے نے ان کی یاد تازہ کرنے کے لیے سب سے پہلے (۲۱ جنوری ۲۰۰۳ء کو) ایک سیمی نار منعقد کیا اور اب اپنے مجلے کا ایک نہایت وقیع اور قابلِ قدر ڈاکٹر محمد حمیداللہ نمبر شائع کیا ہے جو بلاشبہہ مرحوم کے لیے بہترین خراجِ تحسین کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ نمبر دو درجن سے زائد تقریباً سارے کے سارے نئے مضامین تحقیقی اور تاثراتی پر مشتمل ہے‘ جن میں ڈاکٹرمحمد حمیداللہ کی شخصیت اور ان کی علمی جہات کو‘ ان کے نیاز مندوں کے ذاتی مشاہدات‘ شخصی تعلقات اور مرحوم کے مکاتیب اور تحریروں کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹرظفر اسحاق انصاری نے مرحوم کے ساتھ برسوں (۱۹۴۸ء تا وفات) پر محیط یادوں کا احاطہ کیا ہے۔ ڈاکٹر نثاراحمد نے ’’المجلس العلمی‘‘ (سورت‘ گجرات‘ بھارت) کے ساتھ ڈاکٹر محمد حمیداللہ کے علمی تعاون اور رہنمائی کی تفصیل بیان کی ہے۔ عذرا نسیم فاروقی اور محمدعبداللہ نے خطباتِ بہاولپور کے پس منظر اور ان کی علمی حیثیت و اہمیت کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کیا ہے۔ مرحوم کی قرآنی مترجم‘ مفسر اور محقق کی حیثیت پر صلاح الدین ثانی نے‘ خدماتِ حدیث پر نثار احمد فاروقی نے‘ خدمات سیرت پر خالد علوی اور محمد اکرم رانا نے‘ فقہی افکارپر ظفرالاسلام اصلاحی نے‘ قانون بین الممالک اور بین الاقوامی اسلامی قانون پر محمد الیاس الاعظمی‘ محمد ضیاء الحق‘ محمد طاہر منصوری نے روشنی ڈالی ہے۔ خورشید رضوی اور احمد خان نے مرحوم کے خطوط کے حوالے سے ان کی شخصیت کو اور علمی نکات و معارف کو اجاگر کیا ہے۔ قاری محمد طاہرنے مرحوم کے چند تفردات اورمحمد ارشد نے مغرب میں دعوتِ اسلام کے سلسلے میں مرحوم کی خدمات کا دقت ِ نظر سے جائزہ لیا ہے۔ حافظ محمد سجاد نے معارف (اعظم گڑھ) سے مرحوم کی تاحیات وابستگی کی تفصیل پیش کی ہے۔ سارے ہی مضامین ایک علمی لگن سے لکھے گئے ہیں۔تقریباً ایک سو صفحات میں ڈاکٹر محمدحمیداللہ کے منتخب مقالات بھی دیے گئے ہیں۔ آخر میں مرحوم کی تصانیف اور ان کے مقالات کی ایک جامع فہرست (مرتبہ: اظہار اللہ+ طارق مجاہد) شامل ہے۔ ڈاکٹر محموداحمد غازی نے مرحوم کی علمی خدمات کا ایک عمومی لیکن جامع جائزہ لیا ہے۔
یہ خاص اشاعت بڑی محنت و کاوش اور ڈاکٹر محمدحمیداللہ سے محبت کے جذبے سے مرتب کی گئی ہے اور اپنے موضوع پر ایک یادگار دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ ادارئہ تحقیقات پر یہ مرحوم کا حق بھی تھا جسے ادا کرنے کی یہ سعی مستحسن اور قابلِ داد ہے۔ اگر ادارہ خطباتِ بہاولپور کے نمونے پر مرحوم کی دیگر تصانیف کو بھی خاطرخواہ تہذیب اور تحقیق و تدوین کے بعد شائع کرنے کا اہتمام کرے تو یہ ادارے کے لیے نیک نامی بلکہ فخرکا باعث ہوگا۔(رفیع الدین ہاشمی)
علامہ اقبال کی شاعری کا سب سے بڑا موضوع ملتِ اسلامیہ ہے۔ ان کے نزدیک ملّت کی ہیئت ترکیبی تاریخِ عالم میں قطعی منفرد ہے۔ خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی!
اقبال کی عظیم الشان فکر کا بڑا حصہ اسی ’’ترکیب‘‘ کو سمجھنے سمجھانے اور اس کی توضیح و تفسیر بالفاظِ دیگر اس کے ملّی تشخص کی وضاحت پر مشتمل ہے۔ اس اعتبار سے پروفیسر ڈاکٹرخالد علوی نے اپنی علمی کاوش کے لیے اقبالیات کے ایک بنیادی موضوع کو منتخب کیا ہے۔ اُن کے بقول اُس مختصر کتاب میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ مسلم تشخص کی حفاظت کے اس سفر میں اقبال کی بیش قیمت رہنمائی کو بیان کیا جائے۔
غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اقبال کے بیشتر اہم تصوراتِ فکر (خودی‘ بے خودی‘ عشق‘ فقر‘ تصوف‘ مردِ مومن وغیرہ) ان کے تصورِ ملّت ہی سے مربوط ہیں۔ ملّتِ ختم رسل کا خاص امتیاز یہ ہے کہ وہ غیراسلامی تہذیبوں خصوصاً مغربی تہذیب اور اس سے پھوٹنے والے لادینی نظاموں اور طور طریقوں کو کسی طرح قبول نہیں کرتی۔ چنانچہ ڈاکٹر خالد علوی نے بتایا ہے کہ علامہ اقبال نے مغرب کی الحادی فکر اور نظاموں خصوصاً سرمایہ داری‘ اشتراکیت‘ مغربی جمہوریت اور سب سے بڑھ کر قوم پرستی (نیشنلزم) پر بھرپور تنقید کی ہے اور یوں اقبال کا پیش کردہ مسلم قومیت اور مسلم تشخص کا تصور واضح ہو کر سامنے آتا ہے۔بلاشبہہ علامہ اقبال کو برعظیم میں دو قومی نظریے کے ایک بڑے علمبردار کی حیثیت حاصل ہے۔ یہی دو قومی نظریہ تصورِ پاکستان کی بنیاد ثابت ہوا۔ ڈاکٹر خالد علوی نے اُمت مسلمہ خصوصاً برعظیم کے مسلمانوں کے سیاسی امور و مسائل کو اقبال کے نظریاتی فریم ورک سے مربوط کر کے‘ اُن کی بیش بہا سیاسی خدمات و رہنمائی کو اس طور اُجاگر کیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ ان کی سیاسی خدمات‘ روز مرہ کی سیاسی سرگرمیوں تک محدود نہ تھیں بلکہ ان سے آگے بڑھ کر‘ فکری و نظریاتی رہنمائی تک وسیع تھیں۔ دین و سیاست کی ہم آہنگی پر اقبال کے اصرار اور مخلوط انتخاب کی مخالفت نے بالآخر‘ مسلمانوں کے نظریاتی و ملّی تشخص کو پختہ کیا۔ انھیں پاکستان کی صورت میں اپنی منزل کے تعین میں اقبال کی شعری کاوشوں سے بہت مدد ملی بلکہ خطبۂ الٰہ آباد نے ان کی بیش بہا رہنمائی کی۔
فاضل مصنف نے اپنے مباحث و استدلال کی عمارت اقبال کے فارسی اور اُردو شعری کلیات اور ان کی اُردو اور انگریزی نثرکی بنیاد پر استوار کی ہے۔
ڈاکٹر خالد علوی کے بقول: برعظیم کے مسلمانوں پر اقبال کا احسان ہے کہ اس نے انھیں فکری کج روی سے محفوظ کیا‘ تاریخ کی قوتوں سے آگاہ کیا اور انھیں روشن مستقبل کی نوید سنائی‘‘--- زیرنظر کتاب‘ اقبال کے اس احسان کی نوعیت کو مختصرلیکن جامع اور خوب صورت انداز میں سامنے لاتی ہے۔ طباعت و اشاعت عمدہ اور قیمت بہت مناسب ہے۔ (ر-ہ)
اس کتاب کا موضوع انسان‘انسانی معاشرت اور خیرو شر کی کش مکش ہے--- شاہ نواز فاروقی اپنے مطالعے کی وسعت‘ مشاہدے کی گہرائی‘ تجزیے کی کاٹ‘ اور فلسفیانہ اپج سے‘ مشکل موضوعات کو رواں دواں مضمون کے پیکر میں ڈھالتے چلے گئے ہیں۔
ایسے موضوعات پر قلم اٹھانے والے عموماًتکلف کی دلدل اور دانش وری کے جھنجھٹ میں اُلجھ کر رہ جاتے ہیں لیکن شاہ نواز انقلابی جذبوں سے فیضیاب قلم کے ساتھ اس طرح اظہار و بیان کی دنیا میں خیال کو اُبھارتے ہیں کہ قاری کو سوالوں کا جواب دے کر عمل کا زادِ راہ فراہم کرتے ہیں۔
دیکھنے میں تو یہ اخبار جسارت میں چھپنے والے کالموں کا انتخاب ہے‘ لیکن پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتاہے کہ یہ اخباری کالم نہیں‘ بلکہ گہرے غوروفکر کی تصویریں ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’جھوٹ کی سب سے مکروہ بات یہی ہے کہ وہ سچ کی قیمت پر بولا جاتا ہے‘‘ (ص ۱۳)۔ ’’میں ایسے کئی مومن سرمایہ داروں کو جانتا ہوں جو روزے‘ نماز کے سلسلے میں جس تندہی کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ اسی تندہی سے اپنے کارخانوں میں مزدوروں کا خون چوستے اور انکم ٹیکس بچاتے ہیں۔ یہ ایک بدترین منافقت ہے‘‘ (ص ۲۰)۔ ’’بڑے بڑے مذہب پرستوں کے یہاں دولت وجہِ افتخار اور انسانوں کو ناپنے کا پیمانہ بنی ہوئی ہے‘ اور یہ رجحان آج کے اسلامی معاشرے کے لیے ہی نہیں بلکہ کل کے اسلامی معاشرے کے لیے بھی ایک خطرہ ہے… میری راے میں اسلامی انقلاب کے قائدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ مبہم اصطلاحوں کے بجاے صاف لفظوں میں لوگوں سے گفتگو کریں‘‘۔ (ص ۲۱)
شاہ نواز فاروقی اپنے ان مضامین میں الٰہیات‘ فلسفہ‘ نفسیات‘ تاریخ اور سماجیات کے زندہ موضوعات کو یوں پیش کرتے ہیں کہ ابلاغی سطح پر یہ نوجوان دانش ور بہت سوں سے آگے نکلتا نظر آتا ہے۔(سلیم منصورخالد)
ڈاکٹر جمیل واسطی کا تعلق لاہور کے ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد عبدالغنی اوردادا سید عبدالقادر دونوں ہی انگریزی ادب کے استاد تھے۔ خود سیدجمیل واسطی بھی انگریزی پڑھاتے رہے۔ انگریزی اور اُردو میں ان کی متعدد تصانیف ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب ان کے فکرانگیز مقالات کا مجموعہ ہے جو انھوں نے ۱۹۳۴ء سے ۱۹۳۹ء کے درمیان لکھے۔ یہ ان مقالات کا تیسرا ایڈیشن ہے۔ کتاب آٹھ مقالات پر مشتمل ہے۔ مقالہ اوّل عنوانات: علم وعمل‘ مسلمانوں پر مغربی تہذیب کا اثر‘ پردہ‘ تعدد ازدواج‘ خنزیر خوری‘ صنم پرستی‘ نسلی تعصب‘ تہذیب اسلامیہ کے کچھ اور پہلو‘ تین ضمیمے (مغرب میں عورت‘ ادب و فن کا ایک پہلو‘ عربی‘ سائنس اور یورپ کے نام)کتاب کے آخر میں شامل ہیں۔
ڈاکٹر واسطی نے ان تمام موضوعات پر ایک صحیح العقیدہ اور صحیح الفکر مسلمان عالم کی حیثیت سے روشنی ڈالی ہے اور کسی جگہ بھی معذرت خواہانہ اسلوب اختیار نہیں کیا۔ دلائل ایسے قوی اور مضبوط دیے ہیں کہ ایک متشکک انسان کے ذہن کی الجھنیں دُور کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ان تمام مقالات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب وسیع و عمیق اسلامیت کے حامل تھے جس کی نظیر اب شاید ہی دیکھنے کو ملے۔ ہمارا خیال ہے کہ کتاب تحریکِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے ہر اس ذمہ دار کو پڑھنی چاہیے جن کا واسطہ سوال‘ جواب کی فکری مجلسوں سے پڑتا رہتا ہے۔ (ملک نواز احمد اعوان)
جناب طالب ہاشمی ایک ممتاز اہلِ قلم اور دینی اسکالر ہیں۔ انھوں نے اسلامی نظریۂ حیات اور تہذیب اسلامی کے مختلف عناصر کی تشریح و توضیح‘ نیز نبی اکرمؐ، صحابہ کرامؓ اور بزرگانِ دین کے سوانح پر سیرحاصل مضامین اور نہایت وقیع کتابیں تالیف کی ہیں۔ کم و بیش ان کی ۵۰کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔متعدد کتابوں پر انھیں انعام مل چکا ہے۔ (اگرچہ وہ دنیاوی انعامات سے مستغنی ہیں۔)
زیرنظر کتاب ان کے ۵۴ مختصر مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان میں سے بعض ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر ہوئے اور چند ایک رسائل و جرائد میں شائع ہوئے۔ ان کی نوعیت خود مصنف نے بہت عمدگی سے بیان کی ہے۔ لکھتے ہیں: ’’یہ تمام مضامین متفرق دینی و معاشرتی موضوعات پر ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق اخلاق کے مختلف پہلوئوں‘ دین حق ‘ اسلام کے بعض خصائص اور اصلاح معاشرہ سے ہے۔ ان کو پڑھ کر معلوم ہوگا کہ ایک مومن کا مقصدِحیات کیا ہے‘ اسلامی تہذیب و تمدن کے خدوخال کیا ہیں‘ اولاد کی تعلیم و تربیت کے تقاضے کیا ہیں‘ مسرت اور شادمانی کا اسلامی تصور کیا ہے۔ عورتوں‘ پڑوسیوں اور گھریلو ملازموں (یا زیردست افراد) کے حقوق کیا ہیں۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر کیا حق ہے‘ اسلام میں عدل‘ اعتدال اور رواداری کی کیا اہمیت ہے وغیرہ وغیرہ… فی الحقیقت ان مضامین کا مقصود و منشا اخلاق کی اصلاح اور اپنے مسلمان بھائیوں کو ]قرآنی[ اوصاف اپنانے کی طرف راغب کرنا ہے‘‘۔
کتاب کے دیباچہ نگار ڈاکٹر خواجہ عابد نظامی نے بہت اچھی تجویز دی ہے کہ اگر ان مضامین کو مخیرحضرات کتابچوں کی شکل میں شائع کر کے تقسیم کریں تو یہ بہت بڑی معاشرتی خدمت ہوگی۔ (ر- ہ )
فاضل مرتب کی یہ بات کئی حوالوں سے غور طلب ہے کہ: ]وحید الدین[ خان صاحب اسلام‘ مسلمانوں اور ملت اسلامیہ کے کھلے مخالفینِ اسلام سے بھی بڑھ کر شدید ترین نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان پر حق کی رسائی کے دروازے کھول دے (ص ۶‘۷)۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ اب موصوف کے لیے دعائوں کا مرکز مساجد نہیں‘ گرجاگھر اور مندر ہوں گے‘ یا پیکران فسق و الحاد کی نشست گاہیں اور اجتماع گاہیں(ص ۵)۔ کتاب کے ابتدائی صفحات میں یہ کلمات کسی دل جلے کی آہوں کا دھواں نہیں‘ بلکہ اخلاص‘ حقائق‘ منطق اور مشاہدات کے امتزاج سے ترتیب دیا گیا مقدمہ ہے۔
جناب علی مطہرنے‘ کچھ عرصہ پہلے‘ مولانا عامرعثمانی کے علمی آثار کو ترتیب دینے کے بلندپایہ کام کا آغاز کیا تھا۔ وہ بڑے تسلسل کے ساتھ ایک کے بعد دوسری پیش کش سے ذخیرئہ علم و دانش میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ اسی سلسلہ سعادت میں یہ کتاب بھی منظرعام پر آئی۔ اس کتاب کا ماخذ‘ عامرمرحوم کا رفیع الشان ماہ نامہ تجلّی‘ رام پور ہے۔اس میں مولانا عامرکے پانچ اور دوسرے اہل علم حضرات (مولانا صدرالدین اصلاحی‘ مولانا محمد امام الدین رام نگری‘ مولانا سیف اللہ خالد‘ابواختراعظمی اور محمد نواز وغیرہ) کے سات مضامین شامل ہیں۔
ان مضامین کی بنیاد وحیدالدین خاں کی کتاب تعبیر کی غلطی بنی‘ جس میں انھوں نے فریضۂ اقامت دین کے لیے مولانا مودودی مرحوم کی تشریح اور جدوجہد کا ابطال کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ’فرد قرارداد جرم‘کا جواب فاضل مقالہ نگاروں نے کسی طعن و تشنیع کے بجاے دلائل و براہین سے دیا ہے‘ اور ان کے فکری واہمے کا حدود اربعہ پیش کیا ہے۔
سیف اللہ خالد کا کہنا ہے: ’’وحید الدین کی فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ بھارت سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کو‘ آزاد ہوں یا محکوم‘ اقلیت میں ہوں یا اکثریت میں‘ غیرمسلموں کے ہاتھوں مار کھاتے اور ذلیل ہوتے رہنا چاہیے اور]انھیں[ اف تک کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس طرح ان کے سارے مسائل آپ سے آپ حل ہو جائیں گے (ص ۱۳)۔ مسلمانوں کے ساتھ آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کے تنہا ذمہ دار مسلمان ہیں‘ غیر مسلموں کا اس میں کوئی حصہ اور قصور نہیں ہے(ص۱۱)۔ خان صاحب کے اس خود ملامتی مرض کے متعدد شاخسانے ان کی تحریروں میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ موصوف کی اپنی: ’’تعبیر کی غلطی اور کج فکری کی داستان بہت لمبی ہے۔ اس کی کچھ جھلکیاں اس کتاب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ اس فکر کو پاکستان میں بھی درآمد کیا اور فروغ دیا جا رہا ہے‘‘۔ (ص ۱۴) (س - م - خ)
پاکستان کے مشہور مؤرخ پروفیسر علی محسن صدیقی (پ: ۱۹۲۹ئ) کراچی یونی ورسٹی کے شعبہ اسلامی تاریخ سے وابستہ رہے ہیں۔ آپ نے ۱۱کتابوں کے علاوہ ۱۰۰کے قریب تحقیقی مقالات بھی تحریر کیے۔ زیرتبصرہ کتاب اسلامی تاریخ کے بنیادی‘ نہایت اہم اور پیچیدہ بحرانی دور سے تعلق رکھتی ہے۔ گو یہ سیدنا ابوبکرصدیقؓ کی مکمل و مستند سیرت سے متعلق ہے لیکن یہ داستان ایک عظیم بحران کی تاریخ بھی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کے آخری لمحات میں اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔ فتنۂ ارتداد اور انکار زکوٰۃ کی وجہ سے اسلام سمٹ کر دو تین شہروں تک محدود ہوگیا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس بحران پر برہان سے قابو پایا اور دوبارہ اسلام کی حکومت جزیرہ عرب پر قائم کردی جس کے بعد اسلام کی قوتِ بہائو کفر کی سلطنتوں کو بہا لے گئی۔ ان کی حکومت کا یہ مختصر زمانہ ہی ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ واقعی افضل الناس بعدالانبیا اور خلیفۃ الرسول بلافصل کہلانے کے حق دار تھے۔ ان کی فراست ایمانی اور قیادت برہانی نے اسلام کو دوبارہ متمکن کر دیا۔
کتاب جدید انداز میں لکھی گئی ہے جو ۱۳ ابواب پر مشتمل ہے۔ پروفیسر صدیقی صاحب نے سیرت صدیقؓ سے متعلقہ تمام مسائل پر بحث کی ہے اور اپنا تجزیہ اور قول فیصل بیان کیا ہے۔ مستشرقین کے اعتراضات کا بھی جواب دیا ہے۔ (ن-ا-ا)
حافظ محمد ادریس ایک مصنف ہی نہیں ‘عمدہ مقرر بھی ہیں اور مُربی اور منتظم بھی‘ اور اہم تر بات یہ کہ تحریک اسلامی کے رہنما ہیں۔ وہ دعوتِ اسلامی کے علم بردار ہیں اور مبلغ بھی اور ان کی یہ شناخت ان کی تحریروں اور تقریروں سے نمایاں ہے۔ سرسوں کے پھول اور ناقۂ بے زمام ان کے افسانوں کے مجموعے ہیں۔کشمیریوں کے کرب کو انھوں نے افسانوں کے مجموعے دخترکشمیر کے ذریعے اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ سربکف‘سربلند حافظ صاحب کے تازہ افسانوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں ۱۱ افسانے شامل ہیں۔ابتدا میں معروف استاد ادب اور ناقد آسی ضیائی کا تحریر کردہ تعارف شامل ہے۔ لکھتے ہیں: حافظ صاحب کے افسانوں میں ایک مسلم تحریکی ادیب کا وقار اور ایک عام افسانہ نگار کی پیدا کردہ دل چسپی یکساں دکھائی دیتی ہے اور قاری ان کا ہر افسانہ پورے شوق اور انہماک کے ساتھ پڑھتا چلا جاتا ہے۔
حافظ محمد ادریس کے کردار ہمارے ہی معاشرے اور ماحول کے کردار ہیں۔ چاہے ’’مامتا کی نعمت‘‘ کا سرفراز ہو،’’ فطرت کی تعزیریں‘‘ کا محمد حسین یا ’’فخرالنساء تیموریہ‘‘ کی منگول رانی ہو۔ اُمت مسلمہ کا درد مصنف کے قلم سے ٹپکا پڑتا ہے۔ یوں ’’بابری مسجد‘‘ اور فلسطین کے پس منظر میں’’غلیل‘‘ افسانے تشکیل پاتے نظر آتے ہیں۔ ’’جنازہ‘‘، ’’کالم نگار‘‘ تو ذہن کو چھونے والے تاثراتی افسانے ہیں اور باقی افسانے بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ افسانہ نگار کے بقول: ’’ان افسانوں میں جتنے کردار بھی آپ کو نظرآئیں گے‘ وہ کسی نہ کسی پہلو سے جدوجہد کررہے ہیں‘ کوئی مقصد حاصل کرنا‘ ان کے پیشِ نظر ہے ‘ اس کے لیے جو بھی وسائل ان کو میسر ہیں‘ انھیں استعمال کرتے ہیں‘ کٹھن اور مشکل حالات میں تھک بھی جاتے ہیں مگر ہمت کر کے پھر اٹھتے ہیں اور اپنے مقصد کی لگن سینے میں سجائے منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں‘‘۔
حافظ محمد ادریس کے افسانے جان دار‘ پُرمغز‘ بامقصد اور زندگی اور اُمت کے عملی مسائل کے عکاس ہیں۔ ان کا مشاہدہ گہرا اور بیان بہت عمدہ ہے۔ ان کے اسلوب میں جملے چھوٹے مگر پُرمغز اور معنونیت سے بھرپور ہوتے ہیں اور ان کے افسانوں کا اختتام بامعنی ہوتا ہے۔ ہر پڑھے لکھے شخص تک سربکف‘سربلند جیسا شاہکار ضرور پہنچنا چاہیے۔کتاب کا سرورق خوب صورت اور بامعنی ہے۔ طباعت اور قیمت مناسب ہے۔ (محمد ایوب منیر)
اس کتاب میں مختلف امراض کے ۱۷ اسپیشلسٹ ڈاکٹروں اوردیگر ڈاکٹر حضرات کے انٹرویو شامل ہیں جن میں مختلف امراض کے علاج اور ان امراض کے بارے میں ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالات کا جواب دیا گیا ہے۔ ان میں ذیابیطس‘ امراضِ قلب‘ امراضِ اطفال‘ جنرل فزیشن‘ جنرل سرجن‘ پتھالوجسٹ‘ اعصابی و نفسیاتی امراض‘ فیملی فزیشن‘ امراض ہاضمہ‘ کینسر‘ بچوں کے کینسر‘ امراض ناک کان‘ امراضِ چشم‘ امراضِ گردہ و مثانہ‘ امراضِ ہڈی جوڑ اورامراضِ جلد کے اسپیشلسٹ ڈاکٹر شامل ہیں۔ یہ مضامین پہلے ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوئے تھے‘ جنھیں یکجا کردیا گیا ہے۔اس میں طبی مفروضوں اور وہموں کا تدارک بھی ہے۔ (عبدالکریم عابد)
ایک موثر‘ دل چسپ ‘ معلومات افزا اور یادگار اشاعت۔ پڑھ کر تشنگی میں کمی نہیں ہوئی ‘ بلکہ پیاس اور زیادہ بڑھی۔
’’اشاعت ِ خاص‘‘مولانا مودودی کی زندگی ‘ سیرت و کردار‘ ان کے دین اسلام سے گہرے اخلاص و محبت‘ اسلام کے احیا کی عملی جدوجہد اور غلبۂ دین کی تمنائوں کی حسین تصاویر کا مرقع ہے--- تاہم ڈاکٹر جاوید اقبال نے قرآن پر اجتہاد کے دائرے اپنی مرضی تک وسعت دینے کی خواہش کا اظہار کرکے نہایت افسوس ناک جسارت کا ارتکاب کیا ہے۔ اگرچہ اُن کا یہ قول کفر‘ کفرنہ با شد کے ہم معنی ہے کہ وہی اپنے کہے کے ذمہ دار ہیں‘ تاہم ایسی بات پڑھ کر صدمہ ہوا۔
ترجمان کا خاص نمبر ملا۔ بہت عمدہ ہے۔ سلیقے سے مواد ترتیب دیا گیا ہے‘ حتیٰ کہ لفافے تک میں عمدگیِ ذوق کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے۔ خورشید صاحب کا مضمون کیا خوب ہے۔ رضوان ندوی صاحب کا مضمون اچھا ہے‘ نئی چیزیں بھی ہیں‘ مگر تشنہ ہے۔
خلیل الرحمن چشتی کا مضمون :’’تحریک احیاے دین کے قافلہ سالار‘‘ علمی اور تحقیقی ہے۔ موصوف نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔
اپنے ظاہری حسن اور ضخامت و وجاہت کے اعتبار سے تو یہ نمبر بہت بھاری بھرکم نظر آیا مگر میرا تاثر ہے کہ اس میں جس سطح کا علمی و فکری مواد ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہے۔
سید مودودی نمبر میں مضامین تو ابھی نہیں پڑھے‘ لیکن مولانا کی کتابوں کے اشتہارات نے دل خوش کر دیا۔ انھوں نے اشاعت کو ایک معنی اور پیغام دیا ہے۔ یہ’’ اشاعت خاص‘‘ پڑھنے والے کا تعلق مولانا کی شخصیت سے قائم کرتی ہے لیکن اس کی آبیاری ان کتابوں سے ہی ہوگی جس کی اطلاع ان اشتہارات سے ملتی ہے۔ ہم نے مولانا کو نہیں دیکھا‘ ہمارے لیے تو ان کا لٹریچر ہی سب کچھ ہے۔ بزرگوں سے یہی سنا ہے کہ کوئی مضمون پڑھا‘ اور پھر ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر سب کتابیں پڑھ ڈالیں۔ تفہیم القرآن کا مختصر اشتہار بھی خوب ہے۔
’’تحقیق میں جامعات کا کردار‘‘ (ستمبر ۲۰۰۳ئ) حقیقت پر مبنی ایک چشم کشا مطالعہ ہے۔ پاکستانی جامعات میں پی ایچ ڈی کا موضوع منظور کروانے اور داخلہ لینے میں کم از کم ایک سال ضائع ہو جاتا ہے۔ حالانکہ اتنے عرصے میں بیرونِ ملک یونی ورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر جمع بھی کروا دیا جاتاہے۔ ڈاکٹر حمیداللہ نے جرمنی سے نو ماہ میں پی ایچ ڈی مکمل کر لی تھی۔ اگر جامعات مالی امداد نہیں بھی کرسکتیں تو کم از کم بھاری فیسیں تو ختم کر سکتی ہیں۔
رمضان آتا ہے تو زکوٰۃ بھی موضوع بن جاتا ہے۔ پی ٹی وی نے ایک مذاکرہ زکوٰۃ کی کٹوتی اور اس کی تقسیم پر کیا جس میں بتایا گیا کہ زکوٰۃ تو وصول ہوتی ہے لیکن قانون کے تحت عشر کی وصولی صوبائی حکومتوں کے سپرد ہے اور نہ ہونے کے برابر اس پر عمل ہو رہا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس طرح غربا و مساکین کی انتہائی حق تلفی ہو رہی ہے اور ان کا استحقاق مجروح ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہم یہ سمجھیں کہ صوبائی حکومتیں جاگیرداروں کے دبائو میں آکر حکمِ الٰہی کو پس پشت ڈال رہی ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۰۱-۲۰۰۰ء میں نصف عشرکی رقم ۲۵ ارب روپے سے زائدہوجاتی ہے۔ یہ مستحقوں کا حق تھا جو وصول نہیں کیا گیا۔ ضرورت ہے کہ سرحد اور بلوچستان کی حکومتیں اس میں پیش قدمی کریں‘ اورغریبوں کے لیے اتنے کام کریں کہ دوسرے صوبوں کے لیے نمونہ ہو۔ آج کل ’’غربت مٹائو‘‘ ایک نعرہ ہے جس کے نام پر بیرونی ممالک سے امداد لی جاتی ہے لیکن جو نظام اسلام نے دیا ہے اسے بروے کار نہیں لایا جاتا۔
حسب ِ اعلان ۲۱‘ ۲۲ اکتوبر ۱۹۴۳ء کو مشرقی یوپی اور بہار کے ارکانِ جماعت کا اجتماع دربھنگہ میں منعقد ہوا جس میں حسب ِ ذیل ارکان شریک ہوئے۔ ]مولانا مودودی اور ۱۴[… ارکان کے علاوہ آٹھ دس ہمدردانِ جماعت بھی مختلف مقامات سے آگئے تھے۔
اجتماع کے لیے دربھنگہ کی آبادی سے ڈیڑھ دو میل دُور سرسبز کھیتوں کے درمیان ایک الگ تھلگ مقام تجویز کیا گیا تھا تاکہ سکون کے ساتھ کام کیا جا سکے۔ ۲۱ اکتوبر کی صبح کو پہلی نشست ہوئی۔ تلاوتِ قرآن مجید کے بعد سب سے پہلے ارکانِ جماعت کا ایک دوسرے سے تفصیلی تعارف ہوا۔ اس کے بعد مولانا مودودی صاحب نے ایک افتتاحی تقریر کی اور حسب ِ ذیل امور پر روشنی ڈالی:
ا- تحریک اس وقت کس مرحلے پر ہے؟
۲- ارکان اور جماعتوں کی حالت کیا ہے؟
۳- کس نوعیت کی مشکلات درپیش ہیں؟
۴- مالی حالات کیسے ہیں؟
۵- کام کو کس نقشے پر آگے بڑھانا مدنظرہے؟
۶- ہماری تحریک اور دوسری تحریکوں کی نوعیت میں فرق کیا ہے؟
۷- کس قسم کے کام اصل انقلابی حرکت سے پہلے کرنے ضروری ہیں؟
۸- بعض ارکانِ جماعت میں جو سرد مہری پائی جاتی ہے اس کے اصل وجوہ کیا ہیں؟
۹- کن غلط فہمیوں کے ماتحت محدود پروگراموں کا مطالبہ کیا جا رہا ہے؟ (’’رُودادِ اجتماع دربھنگہ‘‘، سید عبدالعزیز شرقی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۳‘ عدد ۵-۶‘ذوالقعدہ‘ ذوالحجہ ۱۳۶۲ھ‘ نومبر‘ دسمبر ۱۹۴۳ئ‘ ص ۲-۳)