مضامین کی فہرست


مئی ۲۰۰۲

جنرل پرویز مشرف نے بالآخر وہی کیا جس کا خطرہ تھا۔ بے لوثی‘ پاک دامنی‘ اقتدار طلبی سے      بے اعتنائی‘ جنرل ایوب‘ جنرل یحییٰ اور جنرل ضیا الحق کے راستے سے اجتناب اور سابقہ سیاست دانوں کی روش سے نفرت کے تمام دعووں کے باوجود‘ اپنے ذاتی اقتدار کو مستحکم اور مستقل کرنے کے لیے وہ بھی وہی کچھ کر رہے ہیں جو ہر خودپسند اور جاہ طلب کرتا رہا ہے۔

پہلے رفیق تارڑ صاحب کو بیک بینی و دوگوش منصب صدارت سے فارغ کر کے ’’قومی مفاد‘‘ میں اس پر قبضہ کیا‘ بحیثیت سربراہ افواج اپنی مدت ملازمت میں خود ہی غیر محدود توسیع کی‘ اور پھر اپنے ہی بتائے ہوئے بحالیِجمہوریت کے نقشۂ کار سے یوٹرن (U-turn)کر کے ۵ اپریل ۲۰۰۲ء کو ریفرنڈم کا اعلان کر دیا۔ جنرل ضیا الحق کا مذاق اڑایا اور ان کے ۱۹۸۴ء کے ریفرنڈم کے سوالات اور ان کے پردے میں پانچ سالہ صدارت پر قبضے کو احمقانہ اور مضحکہ خیز قرار دیا اور پھر انھی کا اتباع کرتے ہوئے پانچ سوالوں کے شانوں پر اپنی مزید پانچ سالہ صدارت کی مسند بچھانے کا اہتمام کر ڈالا ۔

انھوں نے زعم کے ساتھ اعلان کر دیا ہے کہ ریفرنڈم ہونے سے پہلے ہی وہ ریفرنڈم جیت چکے ہیں۔ ان کو عوام کی آنکھوں میں اپنے لیے پیار اور ’’ہم خیالی‘‘ کے تالاب نظر آنے لگے ہیں جن کی پہلی قطار بھی ڈائس سے ۱۰۰ گز کے فاصلے پر رکھی جاتی ہے۔ پھر صرف یہی زعم نہیں ہے بلکہ یہ واشگاف اعلان بھی کر دیا ہے کہ اگر ریفرنڈم کا نتیجہ ان کے حق میں نہ ہوا تب بھی ان کا کرسی صدارت چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ گویا جو بات وہ پہلے فرما چکے ہیں کہ ان کا تقرر تو بلاواسطہ حکم الٰہی کا درجہ رکھتا ہے اور جس کے لیے وتعز من تشاء کے ارشاد الٰہی تک کا سہارا لینے کی جسارت وہ کر چکے ہیں‘ ریفرنڈم اسی ڈرامے کا تازہ ترین منظر ہے--- اس کے بعد یہ توقع کہ پاکستان ان کے ہاتھوں ’’مشرف بہ جمہوریت‘‘ ہو سکے گا اگر دم نہ توڑ دے تو اور کیا ہو۔ لیکن وتعز من تشاء کے ساتھ وتذل من تشاء کا قرآنی ارشاد ہر برخود غلط حکمران اور اقتدار پر قابض ہونے والے کے لیے ایک انتباہ اور کمزور انسانوں کے لیے اُمید کا پیغام ہے۔ عزت اور ذلت محض اقتدار پر براجمان ہونے اور وہاں سے ہٹا دیے جانے سے عبارت نہیں۔ مسنداقتدار پر تو اس ملک میں جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ بھی جلوہ افروز ہوئے تھے اور وہ ہی نہیں دنیا میں کون کون نہیں رہا۔ ہٹلر‘ مسولینی اور اسٹالن سے لے کرنوری السعید‘ شاہ ایران‘ حفیظ اللہ امین اور ڈاکٹر نجیب تک سب ہی اپنے اپنے وقت میں تخت حکومت پر جلوہ افروز رہے ہیں اور اسے اپنے اپنے انداز میں خود کو ’’تعز من تشاء‘‘ ہی کا مصداق سمجھتے رہے ہیں لیکن عزت اور ذلت وہ دیرپا حقیقتیں ہیں جو بالآخر اللہ کے قانون کے تحت انسانوں کو نصیب ہوتی ہیں‘ جن کی کچھ جھلکیاں تو دُنیا میں نظر آجاتی ہیں مگر ان کا اصل اظہار آخرت ہی میں ممکن ہے۔

ریفرنڈم کے دستوری جواز کا مسئلہ سپریم کورٹ میں زیرغور ہے اور عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے‘ ریفرنڈم ہوتا ہے یا نہیں‘ اور اگر ہوتا ہے تو کس سوال پر اور کس شکل میں‘ اور اگر ہو جاتا ہے تو اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے‘ ان سطور کی اشاعت تک یہ سب باتیں سامنے آچکی ہوں گی‘ اس لیے ان کے بارے میں اندازے قائم کرنے کو ہم سعی لاحاصل سمجھتے ہیں۔ اس وقت جنرل پرویز مشرف‘ عدالت عالیہ اور پاکستان کی قوم ‘سب ہی وقت کی کسوٹی پر پرکھے جا رہے ہیں اور ان کے بارے میں بالآخر تاریخ کا قاضی جس کا محاکمہ بڑا سچا‘ بڑا بے لاگ اور بڑا محکم ہوتا ہے اپنا فیصلہ اسی طرح ضرور دے گا جس طرح ماضی میں دیتا رہا ہے اور جس کی ایک ادنیٰ مثال پہلی دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کے مسئلے پر مولوی تمیز الدین خاں کے مقدمے میں جسٹس محمد منیر کا فیصلہ تھا جسے قوم کے ضمیر اور تاریخ نے رد کر دیا اور بالآخر خود جسٹس محمد منیر کے مجرم ضمیر کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ وہ فیصلہ دستور‘ قانون اور اصولِ عدل پر مبنی نہ تھا بلکہ ایک سیاسی فیصلہ تھا اور جس کی سزا پوری پاکستانی قوم گذشتہ ۴۸برسوں سے بھگت رہی ہے۔ اس مقدمے میں مولوی تمیزالدین خاں کے وکیل نے عدالت کو خطاب کرتے ہوئے ایک تاریخی جملہ ادا کیا تھا کہ ’’آج ۱۹۳۵ء کے قانون کی تعبیر کرتے ہوئے آپ جو فیصلہ بھی کریں گے اس کے اثرات صرف اس مقدمے تک محدود نہیں ہوںگے بلکہ آنے والی نسلیں اس سے متاثر ہوں گی‘‘۔

اس فیصلے سے ’’نظریہ ضرورت‘‘ کا جن بوتل سے نکلا جس نے پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ اور ۱۹۵۶ء‘ ۱۹۶۲ اور ۱۹۷۳ء کے دساتیر کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ جمہوریت کے ارتقا کے سارے عمل کو درہم برہم کر دیا‘ قوم کو بانٹ کر رکھ دیا اور ریاست کے بنیادی اداروں مقننہ‘ انتظامیہ‘ عدلیہ‘ اورفوج کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر دیا اور جسٹس محمد منیر کو پاکستان کی عدالتی تاریخ کا ایک مجرم کردار بنا کر رکھ دیا--- آج بھی قوم ایک ایسے ہی نازک مقام پر کھڑی ہے۔ اس لیے ہم اپنی بحث کا مرکز ان بنیادی سوالات کو بنانا چاہتے ہیں جن پر ملک اور قوم کے مستقبل کا انحصار ہے--- اور جن کے صحیح یاغلط جواب پر کارفرما شخصیات کے لیے عزت اور ذلت کا فیصلہ تاریخ کا قاضی ایک دن ضرور دے گا۔

حکمرانوں کی غلط فہمی

بظاہر ریفرنڈم کا انعقاد ’’پالیسیوں کے تسلسل‘‘ کے نام پر کیا جا رہا ہے اور اس کے لیے جنرل پرویز مشرف اپنی صدارت کو ناگزیر ضرورت کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ہماری نگاہ میں خرابی کی اصل جڑ یہی ذہنیت ہے۔ تسلسل ایک اچھی چیز صرف اس وقت ہے جب وہ خیر‘ حق اور انصاف کا تسلسل ہو۔ یہ تسلسل بھی افراد پر منحصر نہیں ہوتا بلکہ اداروں‘ نظامِ کار اور جان دار عمل (process)کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنت اور بدعت کی کش مکش میں سنت مبنی بر خیر ہونے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی میں تواترکے ذریعے جاری و ساری رہتی ہے اور بدعت کا مقابلہ اور قلع قمع کرتی رہتی ہے۔ جمہوریت اور آمریت میں یہی فرق ہے کہ جمہوریت میں دستور‘ قانون اور اداروں کے ذریعے تسلسل کو دوام بخشا جاتا ہے۔ افراد بھی جماعت اور اداروں کے ذریعے اس تسلسل کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ اقتدار کے اعلیٰ مقامات پر کارفرما ہونے والے افراد کے لیے تومدت کی تحدید بھی کر دی جاتی ہے تاکہ افراد بدلتے رہیں لیکن تسلسل منقطع نہ ہو۔ آمریت میں استحکام کا انحصار ایک فرد پر ہوتاہے اور یہی صورت بادشاہت کے نظام میں ہوتی ہے۔ لیکن جمہوریت میں سیاسی قیادت ہی نہیں بلکہ اعلیٰ انتظامی اور عسکری مقامات کے لیے بھی افرادِ کار کے لیے متعین مدت (tenure)مقرر کر کے تسلسل کو افراد نہیں ادارے اورپروسیس کا رہین منت بنایا گیا ہے۔ فرانس کے اس وزیراعظم سے جس کی قیادت میں پہلی جنگ عظیم میں فرانس کو فتح ہوئی تھی جب یہ کہا گیا کہ آپ فرانس کے لیے ناگزیر ہیں تواس نے فوراً یہ کہہ کر کہ ’’قبرستان بہت سے ناگزیر افراد سے بھرا پڑا ہے‘‘ جمہوریت کی روح‘ اور تاریخ کے اہم سبق کی نشان دہی کر دی تھی۔ پاکستان کا المیہ ہی یہ ہے کہ یہاں ہر اس شخص نے جسے فوجی قوت یا عوامی تائید سے اقتدار نصیب ہوا‘ پالیسی کے تسلسل اوراستحکام کو اپنی ذات سے وابستہ کرنے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہاں ادارے مضبوط نہ ہو سکے اور فرد کے ہٹتے ہی اس کے بنائے ہوئے سارے بظاہر مضبوط قلعے زمین بوس ہوگئے۔

اگر کسی پالیسی کو تسلسل حاصل ہو سکتا ہے تو وہ مبنی برحق ہونے کی بنیاد پر‘ اور پالیسی اور پالیسی سازوں کی سندِ جواز اور اداراتی استحکام سے حاصل ہو سکتا ہے‘ محض کسی بھی حکمران یا اس کے حواریوں کے برخود غلط زعم کی بنیاد پر کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ لیکن اقتدار ایک ایسا دھوکا اور طلسم ہے کہ اس کے زیراثر اکثر لوگ ان حقائق کو بھول جاتے ہیں۔ ہفت روزہ اکانومسٹ نے جنرل مشرف کے ریفرنڈم کے راستے کو اختیار کرنے پر جو انتباہ کیا ہے وہ ایک آئینہ ہے جس میں جنرل صاحب اور ان کے رفقا کو اپنا حال اور مستقبل دیکھ لینا چاہیے۔ چند اقتباسات:

کسی کو بھی پاکستانی کابینہ کے اس متفقہ فیصلے پر حیرت نہیں ہوئی کہ ریفرنڈم کا انعقاد کیا جائے اور اس کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کی آیندہ پانچ سال کے لیے صدارت کے اُس منصب پر توثیق ہو جس پر انھوں نے خود ہی گذشتہ جون میں اپنا تقررکیا تھا۔

اس حقیقت نے کہ پاکستان کے دستور کے تحت صدر کو قومی اور چار صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے حلقے سے منتخب ہونا چاہیے‘ نہ کہ ہاں یا نہ والے ریفرنڈم کے راستے سے‘ جنرل اور اس کی اپنی چنی ہوئی کابینہ کو کسی تردد میں نہیں ڈالا۔ ایک آمر مطلق کی حیثیت سے اس نے ماضی میں بھی دستوری ترامیم کیں اور اگر ضرورت ہوئی تو یقینا آیندہ بھی کرے گا۔

جنرل اپنی فتح کو یقینی سمجھتا ہے۔ تاریخ سے ایک یاد دہانی مفید مطلب ہے۔ ۱۹۸۴ء میں ایک دوسرے فوجی غاصب جنرل ضیا الحق نے اپنے کو صدر کے عہدے پر فائز کرنے کے لیے ریفرنڈم کا راستہ اختیار کیا تھا۔

جنرل مشرف نے اپنے حربے خود تیار کیے ہیں۔ ان کاارادہ ہے کہ اس سوال کی ایک تمہید تیار کریں کہ ووٹر ان کو پانچ سال کے لیے صدر رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اس میں حکومت کے اب تک کے کارناموں کی فہرست شامل ہوگی‘ بشمول ان کے اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کا پروگرام جس کے تحت حال ہی میں بلدیاتی حکومت کی مختلف سطحوں کے ۲ لاکھ ناظموں کا جوش و خروش سے انتخاب کیا گیا ہے۔ اب وہ دکھاوے کے جواز کے ساتھ صدر ہو سکتے ہیں اور پھر پارلیمانی انتخابات سے پہلے دستور میں ترمیم کر سکتے ہیں تاکہ آیندہ پارلیمنٹ اور منتخب وزیراعظم کے اوپر بالادست رہ سکیں۔

یہ ہوشیاری سے تیار کردہ ایک منصوبہ ہے مگر ایسے ہی منصوبے ۱۹۶۰ء میں جنرل ایوب خان اور ۱۹۸۴ء میں جنرل ضیا کے تھے۔ دونوں نے امریکہ کی منظوری سے ایک عشرے سے زیادہ حکومت کی لیکن کسی نے بھی عوام کی نظروں میں حقیقی جواز حاصل نہیں کیا اور دونوں کو رخصت ہونے کے بعد حقارت آمیز نگاہوں سے دیکھا گیا۔ انھوں نے پاکستان پر بغیر کسی دستوری استحقاق کے فریب دہی سے جو سیاسی نظام مسلط کیے تھے وہ ان کے جانے کے بعد باقی نہ رہے ۔ (اکانومسٹ‘ ۶اپریل ۲۰۰۲ء‘ ص ۶۱-۶۶)

تسلسل کی دلیل سے زیادہ بودی دلیل ممکن نہیں۔ یہ محض ایک دکھاوا اور بہروپ ہے جس کی آڑ میں ذاتی اقتدار اور ارتکازِ قوت کا کھیل کھیلا جا رہا ہے لیکن آج کے کھلاڑیوں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ جس طرح ماضی میں ایسے نقاب کبھی حقیقت کو چھپا نہیں سکے اسی طرح آج بھی نہ چھپا سکیں گے۔ جنرل صاحب کا ایک مداح اور ان کے سیکولر اور موڈرن وژن کا ان سے بھی بڑا علم بردار ہفت روزہ دی فرائی ڈے ٹائمز ان کے اس شاہکار میں ان کی کیا تصویر دیکھ رہا ہے:

مسئلہ ان کے ریفرنڈم کے منصوبوں سے شروع ہوا۔ یہ اس وقت مزید بگڑ گیا جب پریس نے ان کے جلسوں میں ہجوم کو کرائے پر لانے کے لیے سرکاری وسائل کے استعمال پر تنقید کی۔ یہ قدرتی نتیجہ تھا ان کے ایک صاف اور سچے سپاہی سے موقع پرست سیاست دان میں تبدیل ہونے کا‘ جس کے نتیجے میں ان کا صاف ستھرا دامن گندے سیاست دانوں سے لازماً آلودہ ہوگا جنھیں انھوں نے حال ہی میں گلے لگایا ہے۔ (دی فرائیڈے ٹائمز‘بحوالہ ایشین ایج‘ لندن‘ ۲۲ اپریل ۲۰۰۲ء)

دوست اور مخالف‘ ملکی اور غیر ملکی پریس‘ تجزیہ نگار اور کالم نویس سب جنرل صاحب کے اس نئے روپ اور کاروبارِ ریفرنڈم پر ششدر ہیں۔ ایک بزرگ اور قابل احترام صحافی‘ جو جنرل صاحب کو پانچ نہیں ۱۰سال ’’عشرہ مشرف‘‘ کے نام پر دینے کو تیار تھے‘ ریفرنڈم کے کرتبوں (antics) پر نوحہ کناں ہیںکہ ’’حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں‘‘ (جنگ‘ ۱۱ اپریل ۲۰۰۲ء)

غیر جمہوری کلچر کا فروغ

اندرون خانہ تیاریاں خواہ جو بھی ہوں جنرل پرویز مشرف کا اقتدار ایک اتفاقی حادثے کا مرہون منّت ہے۔ان کا اپنا بیان ہے کہ اگر نواز شریف صاحب نے ان کی برطرفی کا بھونڈا اور فوج اور ملک کے لیے ہتک آمیز اقدام نہ کیا ہوتا تو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کا انتقالِ اقتدار کا واقعہ رونما نہ ہوتا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعدانھوں نے ایک ایجنڈا تصنیف فرما ڈالا اور اس طرح وہ سات نکاتی پروگرام وجود میں آیا جسے انھوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کیا۔ لیکن قوم نے ان کے اقتدار کو صرف اسی خاص پس منظر کی وجہ سے عارضی طور پر قبول کیا تھا اور فوری احتساب اور انتخاب کا مطالبہ پہلے دن ہی سے کیا تھا۔ یہی وہ پس منظر تھا جس میں سپریم کورٹ نے ان کو تین سال کی محدود اور متعین مہلت دی اور گند صاف کرنے اور نیا انتخاب کرانے کا مینڈیٹ دیا جس نے ان کے اقتدار کو مشروط قانونی جواز (legitimacy) دیا۔

انھوں نے صدر تارڑ کو ہٹا کر اس مینڈیٹ کی پہلی بڑی خلاف ورزی کی اور جو تھوڑا بہت جواز ان کو حاصل تھا اسے تباہ کرنے کا عمل شروع کر دیا۔ پھر اپنے عہدے کی توثیق اور انتخابات کا ایک شیڈول دینے کے بعد (جس میں ریفرنڈم کا کوئی ذکر نہ تھا) اب ریفرنڈم اور اس کے ذریعے اپنے لیے پانچ سال کی مہلت حاصل کرنے کا راستہ اختیار کر کے ملک کے سیاسی نظام کو تہ و بالا کرنے کا ایک خطرناک کھیل شروع کردیا ہے۔ اس کے لیے ان کو حوصلہ ایک دوسرے اتفاقی حادثے سے حاصل ہوا جو ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کو رونما ہوا اور جس کے بعد امریکہ کی دھمکی پر اس کے دامن سے اپنے کو وابستہ کر کے اور اس کے عالمی کھیل میں شریک اور معاون بن کرخود اپنے ملک اور اپنی قوم کی ’’اصلاح‘‘ کا نیا سودا ان کے سر میں سما گیا ہے۔ وہ جو ان کے ساتھ فوٹو کھچوانے کے سزاوار نہ تھے‘ ان کو فوجی ڈکٹیٹر اور اقتدار پر ناجائز قابض (usurper)قرار دیتے تھے ان کو بہترین دوست اور وفادار ساتھی قرار دینے لگے تو جنرل صاحب نے بھی نئے ایجنڈے اور ملک کے سیاسی نظام کی تشکیل نو (restructuring)کی باتیںشروع کر دیں۔

ان کو صاف نظر آ رہا تھا کہ یہ مقصد سیدھے سیدھے انتخابات اور بحالیِجمہوریت کے ذریعے ممکن نہیں‘ اس لیے ریفرنڈم کا جال بچھانے کا کھیل شروع کیا جس کا پہلا شکار ملک کا دستور اور قانون ہے۔ اس ریفرنڈم کے بڑے دُور رس اثرات پورے نظام حکومت پر مترتب ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس اقدام کے تمام مضمرات کا صحیح شعور اور ادراک بھی پیدا کیا جائے اور اس کا توڑ کرنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔ آج اصل مسئلہ ملک کی آزادی‘ حاکمیت‘ دستور‘ جمہوریت‘ قومی وقار اور غیرت اور اسلامی مستقبل کے تحفظ کا مسئلہ ہے جو سب اس خطرناک کھیل کی زد میں ہیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ اصل ایشو کسی قومی مسئلے پر عوام کی رائے معلوم کرنے کا نہیں بلکہ اس نظامِ کار کو تبدیل اور مسخ کرنے کا ہے جس پر ہماری آزادی‘ حاکمیت‘ جمہوریت اور اسلامیت کا انحصار ہے۔ اصل ایشو یہ ہے کہ:

__ کیا کسی فرد واحد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ بزعم خود دستور‘ قانون اور نظامِ مملکت کو تبدیل کر دے؟

__ کیا کوئی قوم یہ برداشت کر سکتی ہے کہ جس کو ملک کی حفاظت کا کام سونپا گیا تھا وہ ملک کا مالک بن جائے؟

__ کیا ایک فرد یا گروہ کی کسی ایسی کارروائی کو جو ملک کے دستور اور مملکت کے تاریخی کردار کے منافی ہو‘ اس لیے گوارا کیا جا سکتا ہے کہ وہ اس وقت اقتدار پر قابض ہے اور اپنے اپنے مفادات کی خاطر کچھ بیرونی قوتیں خصوصیت سے واحد سوپر پاور اسے اپناحلیف بنائے ہوئے ہے؟

جنرل پرویز مشرف کا اصل پاور بیس اس وقت فوج کی سربراہی اور امریکہ کی پشت پناہی ہے۔ سپریم کورٹ نے جو مینڈیٹ ان کو دیا تھا اس میں کسی نئے نظام کو لانے‘ دستور کی بنیادی  ہیئت (structure) سے کھل کھیلنے اور ملک پر اپنی آمریت قائم کرنے کی کوئی گنجایش نہیں تھی۔ صاف اور شفاف بحالیِ جمہوریت میں انھیں اپنے ان عزائم کی تکمیل کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اکانومسٹ نے ان کے کھیل کے اس پہلو کو بھی بہت صاف لفظوں میں بیان کیا ہے جسے ریکارڈ پر لانا مفید اور ضروری ہے:

کم سے کم جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے وہ بیرونی طاقتوں کی حمایت کے حوالے سے یقینا صحیح بات کہہ رہے ہیں۔ عالمی دہشت کے خلاف جنگ میں ایک وفادار حلیف کی جنرل کی حیثیت اس ہفتے پاکستان میں ابوزبیدہ کی گرفتاری سے مزید مضبوط ہوئی جسے القاعدہ گروپ کا تیسرا بڑا آدمی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستانی اہل کاروں نے یہ گرفتاری ایف بی آئی کے ایجنٹوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے کی‘ جنھیں پاکستان میں کام کرنے کے لیے قابل لحاظ آزادی دی گئی ہے۔ یہ خصوصی طور پر اس لیے خوش آیند ہے کہ اس کے علاوہ القاعدہ کی قیادت ہاتھ نہیں آ رہی ۔

مگر امریکی جو بھی سوچیں‘ جنرل کی تازہ ترین چال بازی پر پاکستان میں کافی تنقید ہو رہی ہے۔ وہ لوگ جو ریفرنڈم کے حامی نہیں ہیں اور اس کی مخالفت کرنے یا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں ان میں دو بڑی پارٹیاں (بے نظیر کی قیادت میں پیپلز پارٹی اور نوازشریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ‘ دونوں سابق وزراے اعظم ہیں)‘ ملک کی نمایاں مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کا چھ کا گروپ اور طلبا اور وکلا کی تمام نمایاں تنظیمیں شامل ہیں۔ پھر آخر کس طرح جنرل کو جیتنے کی اُمید ہے؟(How on earth does the General hope to win it?)  (اکانومسٹ‘ ۶ اپریل ۲۰۰۲ء)

ریفرنڈم جیتنے کا ایک ہی راستہ ہے--- جبر اور عیاری کی قوتوں کا بے روک ٹوک استعمال! نہ ووٹروں کی کوئی فہرست ہو‘ نہ مقابل میں کوئی امیدوار ہو‘ نہ سیاسی جماعتوں کو راے عامہ ہموار کرنے کا کوئی موقع دیا جائے‘ عدالتوں پر اثر ڈالا جائے‘ سرکاری مشینری اور وسائل کا بے محابا استعمال ہو‘ پریس اور سیاسی کارکنوں    پر لاٹھیاں چلائی جائیں‘ الیکٹرانک میڈیا کو گوبلز کے اصولوں پر استعمال کیا جائے‘ اور ان تمام عناصر کو      اعوان و انصار بنایا جائے جو اپنے اپنے مفادات کے تحفظ یا حصول کے لیے وفاداریاں بدلنے اور نوکریاں حاصل کرنے کے لیے تیار ہوں اور اس وقت یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔ اس پر غور کرنے کی کس کو ضرورت ہے کہ اس طرح کون سے سیاسی کلچر کو فروغ دیا جارہا ہے ؟

چند غور طلب پہلو

چند پہلو غور طلب ہیں اور سب لوگوں کو ٹھنڈے دل سے ان پر غور کرنا چاہیے‘ خواہ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت یا نقطہء نظر سے ہو اور وہ زندگی کے کسی بھی سول یا عسکری شعبے سے متعلق ہوں۔

ریفرنڈم کا جواز: سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس اقدام کی کیا ضرورت ہے؟ اگر ہدف ملک میں جمہوریت کی بحالی اور نئی قیادت کو زمامِ کار سونپنا ہے تو اس کا واحد دستوری اور قابل عمل ذریعہ شفاف اور آزاد انتخابات ہیں‘ جن کا حکم سپریم کورٹ نے دیا ہے اور جن کا طریق کار دستور میں واضح طور پر مرقوم ہے۔ جسے بھی سیاست میں کوئی کردار ادا کرنا ہے اس کے لیے دستور کے مطابق اس عمل میں شریک ہونے کا حق اور موقع ہے۔ اس کے لیے دستور سے ہٹ کر‘ بلکہ اس کے منافی کوئی بھی راستہ اختیار کرنا جمہوریت کے قتل کے مترادف ہے اور کسی ایسے عمل کو کبھی بھی سندِجواز حاصل نہیں ہو سکتی۔ انتخابات کے لیے اکتوبر کی تاریخیں طے ہیں۔ انتخابات سے چند ماہ پہلے صدارت پرشب خون مارنے کے لیے چور دروازے اختیار کرنا بددیانتی اور قوم کے ساتھ ظلم ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ صدارت کے انتخاب کے لیے دستور میں ایک واضح طریقہ دفعہ ۴۱ میں طے ہے جس میں انتخابی حلقہ‘ طریق انتخاب اور انتخاب کے لیے میدان میں آنے والے افراد کی صفات بالکل واضح طور پر موجود ہیں۔ ریفرنڈم کی دفعہ کا تعلق صدر کے انتخاب سے نہیں‘ ملک کے مسائل کے بارے میں عوامی رائے معلوم کرنے سے ہے۔ اسی لیے اس کا ذکر دفعہ ۴۸ میں ہے جو صدر کے اختیارات کے بارے میں ہے اور جسے دستور کے تحت کسی بھی طرح انتخاب کا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا۔

سابق نظیر کا حوالہ: کہا جاتا ہے کہ اس کی نظیر موجود ہے اور جنرل ضیا الحق نے ۱۹۸۴ء میں ریفرنڈم کو انتخاب کا ذریعہ بنایا تھا یا ذوالفقار علی بھٹو نے ۱۹۷۷ء میں وزیراعظم کے انتخاب کے لیے ریفرنڈم کا راستہ اختیار کرنے کا منصوبہ بنایا تھا مگر یہ دونوں نظائر غلط اور غیر متعلق ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ جنرل ضیا الحق نے ایک شعبدہ کیا تھا مگر انھوں نے اور ۱۹۸۹ء میں قائم ہونے والی پارلیمنٹ‘ دونوں نے بالآخر اس بات کو تسلیم کیا کہ محض ریفرنڈم سے وہ صدر نہیں بن سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ دستور کی دفعہ ۴۱ میں شق (۷) کا اضافہ صرف جنرل ضیا الحق کی صدارت کو دستوری اور قانونی شکل دینے کے لیے کیا گیا جو اس امر کا اعتراف ہے کہ دفعہ ۴۸ (۶) کے تحت ریفرنڈم انتخاب کا ذریعہ نہیں ہو سکتا اور اگر اسے استعمال کیا گیا تھا تووہ غلط تھا جو ۴۱ (۷) کے بغیر غیرموثر اور باطل تھا۔ رہا بھٹو کا معاملہ تو وہاں بھی مسئلہ انتخاب کا نہیں تھا بلکہ اس وقت کے وزیراعظم کے لیے ایک قسم کے اعتماد کے ووٹ کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے دستوری دفعہ۹۶-اے کے طور پر دستور کی ساتویں ترمیم کی شکل میں لایا گیا تھا۔ ۹۵-۹۶ وزیراعظم پر عدم اعتماد کے اظہار سے متعلق ہیں اور دستور کی ساتویں ترمیم  پی این اے کی تحریک کے خاص پس منظر میں صرف چار ماہ کے لیے صرف ایک بار اختیار کرنے کے ارادے سے لائی گئی تھی جسے حزب اختلاف نے قبول نہیں کیا اور اس پر عمل نہ ہو سکا۔ وہ چار ماہ گزرنے پر آپ سے آپ ختم ہو گئی۔ البتہ اس ترمیم میں بھی یہ صراحت موجود تھی کہ یہ اعتماد کا ووٹ فہرست رائے دہندگان پرحاصل کیا جائے گا اور اگر اکثریت نے خلاف فیصلہ دیا تو وزیراعظم کو معزول کر دیا جائے گا۔ جنرل مشرف جو ریفرنڈم کرا رہے ہیں وہ غیر دستوری‘ غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہی نہیں اس میں تو فہرست رائے دہندگان کا تکلف بھی نہیں کیا گیا اور شکست کی صورت میں بھی معزولی کا کوئی تصور نہیں۔

پاکستان کے دستور میں صدر کے انتخاب کے لیے ریفرنڈم کی کوئی گنجایش نہیں۔ ریفرنڈم کسی سیاسی یا دستوری مسئلے پر تو ہو سکتا ہے لیکن کسی فرد کے انتخاب کے لیے صرف وہی طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے جو دستور میں اس کے انتخاب کے لیے طے کیا گیا ہے۔ اشتراکی ممالک نے انتخاب کے لیے واحد نمایندے کا طریقہ اختیار کیا تھا اور ہاں یا نہیں میں ووٹ دیا جاتا تھا اور اس کی روشنی میں چند دوسرے ممالک نے جہاں آمریت کا نظام ہے (مثلاً مصر) یہی راستہ اختیار کیا۔۔۔۔ کسی جمہوری ملک میں یہ طریقہ نہ کبھی اختیار کیا گیا ہے اور نہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ جن ممالک میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا وہاں کے دستور اور انتخابی قانون میں وہی راستہ طے تھا۔ اس لیے غیر جمہوری ہونے کے باوجود ان کے دستور کے مطابق تھا‘ جب کہ ہمارے دستور میں اس کی کوئی گنجایش نہیں۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کچھ وہ جماعتیں جو اِس وقت ریفرنڈم کی مخالفت کر رہی ہیں انھوں نے جنرل ضیاالحق کے ریفرنڈم کی مخالفت نہیں کی تھی اس لیے ان کا رویہ تضاد پر مبنی ہے۔ یہ بات بڑی سطحی اور غیر معقول ہے اس لیے کہ دونوں کے حالات میں بڑا فرق ہے۔ جنرل ضیا الحق کے وقت مسئلہ صدر کے انتخاب کا نہیں ملک کو مارشل لا سے نجات دلانے کا تھا تاکہ کسی طرح جمہوری عمل شروع ہو سکے۔ آج یہ صورت نہیں۔ ملک میں مارشل لا نہیں‘ دستوری حکومت ہے جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق دستور اور عدالتی جائزے (judical review) کے نظام کے اندر کام کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں تین سال میں انتخابات کرانے کا حکم ہے۔ انتخابات سے پارلیمنٹ‘ صوبائی اسمبلیوں اور صدر کا انتخاب‘ سب مراد ہیں۔ اس لیے دونوں صورتوں میں جوہری فرق ہے۔ دوسری بات یہ بھی سامنے رہے کہ گو جنرل ضیا الحق نے ریفرنڈم کرایا مگر دستور کی بحالی کے بعد ان کی صدارت کا انحصار ریفرنڈم پر نہیں دستور کی دفعہ ۴۱ (۶) پر تھا جس نے ریفرنڈم کے غلط اقدام کی غلطی واضح کی اور اس غلطی کی تصحیح کی۔ دوسرے الفاظ میں اس ترمیم کی وجہ سے اب یہ اصول بھی مسلّم ہوگیا کہ ریفرنڈم انتخاب کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ تیسری بات یہ ہے کہ اگر ایک غلطی کسی انسان یا جماعت سے کسی وقت ہوگئی تو وہ آیندہ کے لیے نظیر نہیں بن سکتی۔ غلطی کے غلط ثابت ہو جانے کے بعد اس کا اعادہ کرنا پہلی غلطی سے بڑی غلطی بلکہ بددیانتی ہے۔

سیاسی نظام کی من مانی صورت گری: جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم میں ایک اور بڑا خطرناک پہلو پوشیدہ ہے ۔ وہ اپنی پالیسیوں کے تسلسل کے نام پر ایک ایسا اختیار حاصل کرنے کی کوشش ہے جسے وہ سیاسی تشکیلِ نوکے نام پر سیاسی نظام کی من مانی صورت گری کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ وہ پارلیمانی نظام کو تبدیل کر کے ایک نیا سہ فریقی نظام (triarchy)قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں اقتدار صدر‘ وزیراعظم اور بری فوج کے سربراہ میں تقسیم ہو۔ اس کے بڑے خطرناک اوردُور رس اثرات ہوں گے۔

اولاً: اس سے پارلیمانی نظام ختم ہو جائے گا اور پارلیمنٹ پر ایک بالاتر نظام وجود میں آئے گا جس میں پارلیمنٹ کے منتخب وزیراعظم اور وزرا کے ساتھ صدر اور فوج کا سربراہ‘ جو دستور کے تحت وزیراعظم کا نامزد اور سول انتظامیہ کے ماتحت ہے (دستوری دفعہ ۲۴۳‘ ۲۴۴‘ ۲۴۵) شریک اقتدار ہوگا۔ اس میں یہ گنجایش بھی پیدا کی جا رہی ہے کہ صدر‘ دستور کے تحت فوج کا سپریم کمانڈر ہونے کے ساتھ عملاً چیف آف سٹاف بھی ہو اور اس کے علاوہ فوج کا ڈپٹی چیف آف اسٹاف بھی سیکورٹی کونسل کا رکن ہو۔ اس نظام میں وزیراعظم اور پارلیمنٹ کی حیثیت ثانوی بلکہ نمایشی ہو جائے گی اور ملک کا نظام ایک قسم کی ایسی جمہوریت کی شکل اختیار کر لے گا جو  مستقل فوجی کنٹرول میں ہو۔ یہ آمریت کی ایک شکل ہے جیساکہ کمیونسٹ نظام میں روس اورچین میں تھا اور انڈونیشیا اور برما میں بھی جس پر عمل ہوا۔ اس نظام کو جمہوری اور وہ بھی پارلیمانی جمہوری نظام کہنا خلاف واقعہ ہوگا۔ سپریم کورٹ نے بھی دستور کے بنیادی نظام اور ہیئت کی حفاظت کی جو بات کی ہے اور دستور کو ایک نامیاتی اکائی (organic whole) قرار دیا ہے اس میں اس نوعیت کی کسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔

ثانیاً: اس نظام کا خاصا یہ ہوگا کہ فوج سیاست میں مکمل طور پر ملوث ہو اور ایک مستقل فریق کی حیثیت اختیار کر لے گی۔ یہ فوج‘ ملک اور سیاسی نظام تینوں کے لیے خطرناک ہے۔ فوج کی تربیت کچھ متعین مقاصد کے لیے ہوتی ہے اور اس کے اعلیٰ ترین افسر بھی صرف پیشہ ورانہ کام کے لیے موزوں ہیں مگر نظامِ سیاست کو چلانے کے اہل نہیں ہوتے۔ ان کا مزاج‘ تربیت‘ تجربہ بالکل دوسری نوعیت کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں فوج نے سیاسی زمام کار سنبھالی ہو اور وہ ملک جمہوریت تودُور کی بات ہے‘ اچھی حکومت اور اچھی فوج ہی اسے نصیب ہوگئی ہو۔ لاطینی امریکہ اور افریقہ کے ممالک اس کی بدترین مثال ہیں۔ خود پاکستان اور ان مسلم اور عرب ممالک کے تجربے ایک عبرت ناک نمونہ پیش کرتے ہیں جہاں فوج نے سیاست میں مداخلت کی‘ نہ ملک ترقی کر سکا اور نہ فوج ہی اپنا پیشہ ورانہ کردار باقی رکھ سکی۔ اسرائیل کی چھوٹی سی   پیشہ ور فوج نے کئی عرب ممالک کی سیاست زدہ فوج کو بار بار عبرت ناک شکست دی ہے جو سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ جنرل ایوب سے لے کر جنرل ضیا الحق تک سب کا دور پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کے صحت مند ارتقا کی تاریخ میں تاریک باب اور ملک کے لیے کھوئے ہوئے سالوں (lost years)کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس سلسلے میں ترکی کی مثال دی جاتی ہے مگر وہ کسی حیثیت سے بھی ایک قابل تقلید نمونہ نہیں۔ اولاً ترکی کی تاریخ میں اور خصوصیت سے پہلی جنگ کے بعد ترکی کی جمہوریہ کے قیام میں جو کردار ترکی کی فوج نے ادا کیا وہ ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ کسی دوسرے مسلمان ملک میں فوج نے وہ کردار ادا نہیں کیا۔ چین کے انقلاب میں ماوزے تنگ اور ان کی لبریشن آرمی یا روس کے انقلاب میں کمیونسٹ پارٹی کے عسکری بازد (سوویت) کا خاص کردار رہاہے اور اسی مناسبت سے نئے نظام کا وہ حصہ بنے اور بالآخر ہر اس جگہ جہاں فوج کا اس نوعیت کا رول تھا فوجی آمریت پرمبنی نظام وجود میں آیا۔ پاکستان میں تحریک آزادی کی تاریخ اور پاکستان کے دستوری نظام دونوں میں اس کی کوئی گنجایش نہیں۔ پھر ترکی کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ فوج کا مستقل کردار وہاں بھی جمہوریت کے فروغ کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔ خصوصیت سے ایورین کے فوجی انقلاب کے بعد سے جو کردار فوج ادا کر رہی ہے وہ پیچیدگیاں پیدا کرنے کا باعث ہے اور ملک میں فوج کے کردار کے بارے میں نئی سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔ یورپین یونین میںترکی کے داخلے کی راہ میں ایک رکاوٹ وہاں کے نظام میں فوج کا مستقل کردار بھی ہے۔ ترکی میں بھی یہ گنجایش نہیں کہ فوج کا حاضر سروس سربراہ صدرمملکت بن سکے۔ اس کا نیشنل سیکورٹی کونسل کا تجربہ بھی ہر لحاظ سے مفید قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پاکستان کے حالات میں تو یہ اقتدار کی مساوات کو خراب کرنے اور فوجی آمریت کی راہ ہموار کرنے کا ہی ذریعہ بن سکتی ہے۔ لطف یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف یہ بھی کہتے ہیں کہ فوج کو سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہیے اور اس کے مستقل کردار کی بات بھی کرتے ہیں۔ یہ تضادِ فکر کا غماز ہے اور فوج کے لیے ایک ایسے مقام کے حصول کی کوشش ہے جو نہ فوج کے حق میں ہے اور نہ ملک کے حق میں۔ ایسے حالات میں کبھی بھی جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکتی۔

پھر اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس سیاسی نظام میں جس میں فوج ایک حصہ بن جائے اور بری افواج کے سربراہ کا ایک خاص رول ہو‘ وہ فوج کبھی بھی اچھی دفاعی قوت نہیں بن سکتی۔ سیاست میں ملوث ہونے کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ خود مخصوص مفادات کی حامل بن جاتی ہے جو اس کی پیشہ ورانہ صلاحیت کو شدت سے متاثر کرتا ہے اور دوسری طرف ایسی فوج کو پوری قوم کی تائید حاصل نہیں ہوتی۔ وہ سیاست میں بلکہ اس کے مختلف گروہی اور حزبی نظام میں ایک شریک بن جاتی ہے۔ فوج جس کی بنیادی خصوصیت یک جہتی اور یک رنگی ہونی چاہیے وہ باقی نہیں رہتی اور سیاسی اختلاف اور پارٹیوں کے نظام کی وجہ سے اس کی شناخت پوری قوم سے نہیں اس کے کچھ حصوں سے ہونے لگتی ہے۔ اس سے فوج کی دفاعی صلاحیت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ فوج کے لیے ضروری ہے کہ اسے پوری قوم کی تائید اور تعاون بلکہ محبت حاصل ہو اور وہ کسی اعتبار سے بھی متنازع نہ بنے۔ جو نظام تجویز کیا جا رہا ہے ملک کے دفاع کے نظام کو درہم برہم کر دے گا اور قوم کبھی بھی فوج پرنہ وہ اعتماد کر سکے گی جو اس کا حق ہے اور نہ پوری یکسوئی کے ساتھ اسے وہ وسائل فراہم کر سکے گی جو اس کے غیر متنازع ہونے کی صورت ہی میں اسے حاصل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان اپنی زندگی کے پہلے لمحے سے جن بیرونی خطرات سے دوچار ہے ان میں فوج کو سیاست میں شریکِ کار بنانا ملک کی سالمیت کے لیے ایک خطرہ اور بڑے خسارے کا سودا ہے۔

اصولوں کی پامالی: ان تمام وجوہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف جس سیاسی ایجنڈے اور جس تسلسل کی بات کر رہے ہیں وہ ملک کی سالمیت اور سیکورٹی کے لیے خطرے کا ایک پیغام ہے اور اس راہ میں ایک قدم بھی بڑھاناسخت نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

جنرل صاحب کے ریفرنڈم کا ایک اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ وہ قوم کو تقسیم کرنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ جارج بش نے جو آمرانہ رویہ اختیار کیا تھا کہ ’’یا تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے مخالف‘‘، جنرل پرویز مشرف کے اعلانات میں بھی اسی کی بازگشت سنی جا سکتی ہے۔ وہ قوم کو دو دھڑوں میں بانٹ رہے ہیں۔ زمین پر ایک لکیر کھینچ رہے ہیں اور اس بنیاد پر صف بندی فرما رہے ہیں۔ دیوار پر بیٹھنے والوں کو دعوت مبازرت دے رہے ہیں۔ ساتھ دینے والوں کو نہ صرف نواز رہے ہیں بلکہ آیندہ کے لیے بھی وعدے وعید کا بازار گرم فرما رہے ہیں۔ کھلے بندوں سرکاری افسروں‘اہل کاروں‘ اساتذہ‘ فوج اور پولیس کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ ریفرنڈم ایک دستوری عمل ہے۔ اگر دستور کے دائرے میں کسی کی ذات کے لیے تائید حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ ایک ایشو پر قوم کی رائے معلوم کرنے کے لیے ہو تو دستور کا تقاضا یہ ہے کہ پارلیمنٹ اس کے لیے ایک قانون بنائے جس کے تحت ریفرنڈم ہو۔ یہ الیکشن کمیشن کا کام نہیں۔ پارلیمنٹ نے ایسا کوئی قانون آج تک نہیں بنایا اوریہی وجہ ہے الیکشن کمیشن کو اس کام کے لیے غلط طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک شدید قسم کی بدعنوانی ہے جس نے جسٹس طارق محمود کو مجبور کیا کہ الیکشن کمیشن سے مستعفی ہوں اور پھر مجبور ہو کر جج کے عہدے سے بھی استعفا دے دیں۔ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھی جس قسم کی بدعنوانی کر رہے ہیں وہ ایک دستوری جرم ہے اور ان کا اس بارے میں پورا پورا احتساب ہونا چاہیے۔

اسی طرح سرکاری مشینری‘ ریاست کے وسائل اور میڈیا کو جس طرح استعمال کیا جا رہا ہے اور بلدیاتی اداروں کے نظام کا جس طرح اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استحصال کیا جا رہا ہے وہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ ماضی کے غلط کار سیاست دانوں نے جو جو بدعنوانی کی ہے اور جس کے نتیجے میں ملک میں جمہوری نظام کا ارتقا متاثر ہوا آج کے حکمران وہ سب کچھ کر رہے ہیں اور پوری دیدہ دلیری سے کر رہے ہیں۔ سیاست کو بدعنوانی سے پاک کرنے اور انتظامیہ کو سیاست میں ملوث ہونے سے روکنے کے سارے دعوے پادر ہوا ہوگئے ہیں۔ جنرل صاحب فرماتے ہیں کہ ناظمین اور کونسلروں نے غیر سیاسی ہونے کا عہد کیا ہے اور اگر کسی سیاسی جماعت کے کہنے پر وہ ریفرنڈم میں عدم تعاون کریں گے تو حلف کی خلاف ورزی ہوگی لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کو اپنے انتخاب کے لیے استعمال کر کے سب سے پہلے وہ ان کو اپنے حلف کو توڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اگر انتخاب سیاسی سرگرمی نہیں تو پھر کیا ہے؟ صدر کی پارٹی‘ بلکہ ان تمام پارٹیوں کا کارندہ بننا جو صدر کا ساتھ دے رہی ہیں سیاست نہیں تو پھر ریفرنڈم سے اجتناب ہی کو سیاست کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا لوکل باڈیز آرڈی ننس میں ریفرنڈم میں تعاون ان اداروں کی ذمہ داری ہے؟ ان کا دائرہ کار ان کے اپنے قانون کے تابع ہے اور اس کا کوئی تعلق ریفرنڈم سے نہیں چہ جائیکہ ایسے ریفرنڈم سے جسے صدارت کے انتخاب کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔

جنرل صاحب ناظمین کو تو حلف یاد دلا رہے ہیں لیکن کیا ان کو خود یاد ہے کہ ایک حلف انھوں نے بھی فوج کے افسر کی حیثیت سے اُٹھایا تھا جس کے الفاظ یہ ہیں:

میں ---------- صدق دل سے حلف اُٹھاتا ہوں کہ میں خلوص نیت سے پاکستان کا حامی اور وفادار رہوں گا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی حمایت کروں گا جو عوام کی خواہشات کا مظہر ہے ‘ اور یہ کہ میں اپنے آپ کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں مشغول نہیں کروں گا اور یہ کہ میں مقتضیات قانون کے مطابق اور اس کے تحت پاکستان کی بّری فوج (یا بحری یا فضائی فوج) میں پاکستان کی خدمت ایمان داری اور وفاداری کے ساتھ انجام دوں گا۔

اللہ تعالیٰ میری مدد اور رہنمائی فرمائے۔ (آمین)

ان کا دعویٰ ہے کہ وہ صاف اور سچے آدمی ہیں لیکن وہ دیکھیں کہ اس آئینے میں انھیں اپنی کیا تصویر نظر   آتی ہے۔

ریفرنڈم: جواز کی دستوری حیثیت

دستور جس ریفرنڈم کے لیے گنجایش فراہم کرتا ہے (دفعہ۴۸ (۶) ) اس کی دو خصوصیات ہیں۔ پہلی یہ کہ وہ قومی اہمیت کے کسی مسئلے کے بارے میں ہو‘ اور دوسری یہ کہ اس مسئلے کو ایسی شکل میں بیان کیا جا سکتا ہو کہ جس کا جواب سیدھے سادھے ہاں یا نہیں میں دیا جا سکتا ہو۔ ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ وہ سوال یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص ملک کا صدر ہو سکتا ہے یا نہیں یا بطور صدر مملکت وہ قبول ہے یا نہیں۔ اس لیے کہ صدر کے انتخاب کا ایک واضح اور متعین طریقہ دستور میں مرقوم ہے اور انتخاب صرف اسی طریقے سے ہو سکتا ہے۔ پھر اس انتخاب میں حصہ لینے والوں کی کچھ شرائط (qualifications) ہیں جن کو الیکشن کمیشن طے کرتا ہے کہ کسی شخص میں وہ پائی جاتی ہیں یا نہیں۔ یہ کام عوام کا نہیں۔ اسکریننگ کے بغیرکوئی شخص کسی بھی انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتا۔ صرف اسکریننگہی نہیں اس پر اعتراضات کا اہتمام بھی ضروری ہے تاکہ دوسرے افراد بھی ان شرائط پر کلام کر سکیں۔ تیسرے یہ کہ انتخاب میں ایک ہی شخص صرف اس وقت منتخب ہو سکتا ہے جب مقابلے پر کوئی دوسرا موجود نہ ہو‘ یعنی بلامقابلہ۔ لیکن انتخاب میں صرف ایک ہی فرد ہو اور کسی دوسرے کو مقابلے کا موقع ہی نہ ہو‘ یہ انتخاب کے دستوری تصور اور قانونی ضابطے کے صریح خلاف ہے۔ ریفرنڈم میں ان میں سے کوئی ایک صورت بھی ممکن نہیں۔ اس لیے ریفرنڈم کسی فرد کے صدر یا کسی بھی عہدے کے لیے انتخاب کا ذریعہ تو بن ہی نہیں سکتا۔ ورنہ کل وزیراعظم‘ چیف جسٹس‘ چیف آف آرمی اسٹاف سب ہی کا تقرر ریفرنڈم کے ذریعے ہونے لگے گا    جو مضحکہ خیز اور لغو ہے۔ اس لیے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ اگر ریفرنڈم کے پرچے میں کسی کے صدر بنائے جانے کے بارے میں رائے لی جائے تو وہ خلافِ دستور اور غیر قانونی ہوگی اور پورے ریفرنڈم کو غیر قانونی بنادینے کا ذریعہ ہوگی۔

جو بات پوچھی جا سکتی ہے وہ کسی مسئلے کے بارے میں موقف کا تعین ہے۔اس ریفرنڈم میں ایک اشکال یہ بھی ہے کہ پانچ سوال پوچھے جا رہے ہیں جن کا ایک ہی جواب ضروری نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص لوکل باڈیز کے مسئلے پر ایک رائے رکھتا ہو اور معاشی پروگرام کے بارے میں دوسری‘ نیز جسے فرقہ وارانہ انتہا پسندی کہا جا رہا ہے اس کے بارے میں اس کی رائے کچھ اور ہی ہو۔ ان میں سے ہر سوال میں شدید ابہام ہے۔ معاشی اصلاحات کی فہرست طویل ہے۔ ان میں کچھ چیزیں اچھی اورکچھ غلط ہو سکتی ہیں۔ معاشی اصلاحات اور حکومت کی تمام معاشی پالیسیاں ایک ہی بات نہیں ہیں۔ آج سیکڑوں معاشی معاملات کے بارے میں حکومت کی پالیسیاں جاری ہیں۔ سوال میں کون سی پالیسیاں مراد ہیں اور کون سی نہیں۔ ایسے مبہم‘ متعدد معنوں کی گنجایش والے معاملات پر ہاں اور نہیں میں جواب کیسے دیا جا سکتا ہے؟ کیا ایک سوال کا جواب ہاں اور دوسرے کا نہیں میں دیا جا سکتا ہے؟

اگر ایسا نہیں بلکہ سب کا ایک ہی جواب ہونا ہے تو یہ عقل کے خلاف ہی نہیں‘ دستور کی خلاف ورزی بھی ہے کہ دستور ایک متعین مسئلے پر ہاں یا نہیں کے جواب کی بات کر رہا ہے اور آپ پانچ سوالوں کے ایک جواب کی بات کر رہے ہیں اور جواب سے صدر کے انتخاب کا نتیجہ اسی طرح نکال رہے ہیں جس طرح مداری اپنی ٹوپی سے خرگوش نکال لیتا ہے:

ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے

آمریت کی طرف

ریفرنڈم کا سب سے زیادہ ہولناک پہلو وہ آمرانہ کلچر ہے جس میں یہ پوری مشق (exercise) روبہ عمل آ رہی ہے۔ جمہوریت کے روڈ میپ کو نظرانداز کر کے ۵ اپریل کو اچانک ریفرنڈم کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ سے رجوع کر کے پہلے معلوم نہیں کیا جاتا کہ یہ اقدام دستور کے مطابق ہے یا اس سے متصادم۔ پھر سرکاری خزانے سے اور سرکاری ملازموں کے ذریعے ایک ملک گیر مہم کا آغاز کیا جاتا ہے۔ مخالف آوازوں کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔ جلسے صرف آپ کر سکتے ہیں۔ آپ کے موقف کی مخالفت کرنے والوں کو منافق کہا جاتا ہے اور جلسے‘ جلوس ‘ میڈیا کسی بھی راستے کو ان کے لیے کھلا نہیں چھوڑا جاتا۔

صدر کا انتخاب ایک خالص سیاسی عمل ہے‘ کوئی دستوری مسئلہ نہیں۔ یہ عہدہ اپنے ساتھ تنخواہ اور مراعات رکھتا ہے۔ کسی کو حق نہیں کہ اپنے لیے عہدے کے حصول کے لیے سرکاری وسائل اور سرکاری مشینری استعمال کرے۔ کوئی مدمقابل نہ ہو اور پالیسی کے پہلوئوں پر بھی احتساب اور تنقید کی راہیں مسدود کی جائیں۔ تمام اہم سیاسی اور دینی جماعتیں مخالفت کررہی ہیں‘ تمام بار ایسوسی ایشین حتیٰ کہ بار کونسل اسے غیر دستوری قرار دے رہی ہے اور تمام ملک کے وکلا مجبور ہوئے ہیں کہ عدالت کا احتجاجاً بائیکاٹ کریں۔ اگر ایک معزز جج احتجاج کرتا ہے اور الیکشن کمیشن سے مستعفی ہو جاتا ہے تو اس پر بھی دبائو ڈالا جاتا ہے کہ بیان واپس لے حتیٰ کہ اعلیٰ عدالت کا جج اپنے عہدے تک سے استعفا دیتا ہے جسے جوشِ انتقام میں فوراً قبول کر لیا جاتا ہے۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس پر دبائو بھی استعمال ہوا اور محض کسی عمل کے دستوری ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ایک واضح رائے رکھنے اور اس کے اظہار پر ایک شخص کو آپ اعلیٰ عدالت تک سے فارغ کرنے پر تیار ہیں۔

پریس کو گالیاں دی جاتی ہیںبلکہ اس پر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں کہ حاضری کم بتا رہے ہیں۔ جس شہر میں جلسہ ہو وہاں کی بلکہ قریبی شہروں تک کی ساری سرکاری اور غیر سرکاری ٹرانسپورٹ پر زبردستی قبضہ کر لیا جاتا ہے اور جلسے کی رونق بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ سیاسی قائدین اور کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ سیاسی کاروان کے راستے روکے جا رہے ہیں‘ جلسوں پر لاٹھی چارج اور آنسوگیس کی بارش کی جا رہی ہے۔ اختلاف کے اظہار کے راستے بند کیے جا رہے ہیں مگر آزادی اور رواداری کے ڈھول بھی پیٹے جا رہے ہیں۔ مدمقابل کے ہاتھ پائوں باندھ کر دعوتِ مبارزت دینا کون سی شرافت‘ مردانگی اور شجاعت ہے؟ کیا یہی وہ بدعنوانی سے پاک نظام اور سیاسی کلچر ہے جسے آپ قائم کرنا چاہتے ہیں اور جس کے لیے آپ فوج اور سول انتظامیہ کو آلہ کار بنا رہے ہیں؟

جس نظام کا نام جمہوریت ہے اس میں تو جو شخص بلامقابلہ کامیاب ہونے کے لیے یہ سارے دھندے کرے وہ پہلے قدم پر ہی نااہل قرار دے دیا جاتا ہے۔

آپ ریفرنڈم جیتے نہیں ہیں پہلے ہی قدم پر شکست کھا گئے ہیں۔ پہلی شکست اس وقت ہوئی جب صدارت کے انتخاب کے دستوری طریقے کو اختیار کرنے کے لیے ایک غیر قانونی اور غیر اخلاقی چور دروازہ اختیار کیا گیا۔ پھر دوسری شکست اس وقت ہوئی جب آپ نے فہرست رائے دہندگان کی نفی کر دی اور اعلان عام فرما دیا کہ جو چاہے آئے ووٹ دے دے۔ پھر تیسری شکست اس وقت ہوئی جب آپ نے مخالف قوتوں کا منہ بند کیا اور ہاتھ پائوں باندھ دیے۔ یہ کیسا مقابلہ ہے کہ اکھاڑے میں صرف ایک پہلوان ہے۔ باقی سب کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے ہیں اور دعویٰ ہے کہ دنگل ہو رہا ہے۔ پُرامن احتجاج‘ سیاسی جلسہ اور جلوس‘ ریلی اور کاروان‘ اخبارات کی آزادی اور ریڈیو اور ٹی وی پر تمام نقطہ ہاے نظر کا اظہار‘ سرکاری ذرائع کی مکمل غیر جانب داری--- یہ وہ کم سے کم چیزیں ہیں جو کسی انتخاب اور استصواب کے لیے ضروری ہیں۔ اگران سب سے آپ قوم اور اختلافی رائے رکھنے والوں کو محروم کر دیتے ہیں اور پھر دعویٰ کرتے ہیں کہ جمہوری عمل کو فروغ دیا جا رہا ہے اور عوام سے اعتماد کا ووٹ لیا جا رہا ہے تو اس سے بڑا جھوٹ روے زمین پر اور کون سا ہو سکتا ہے؟ جو شخص یہ راستہ اختیار کرتا ہے وہ ریفرنڈم میں پہلے ہی قدم پر اپنی شکست کا اعتراف کرتا ہے۔ اس کا نام مقابلہ سے فرار ہے‘ مقابلہ اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی فتح نہیں۔

درحقیقت آپ تو ایک ایسے انوکھے مقابلے کا اہتمام کر رہے ہیں جس کے بارے میں یہ تک کہہ دیا گیا ہے کہ اگر نتیجہ نفی میں رہا تو بھی آپ کی صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ جنرل ضیا الحق نے کم از کم اتنا توکہا تھا کہ اگر ریفرنڈم میں میرے خلاف اکثریت کا ووٹ ہواتو میں استعفا دے دوں گا لیکن آپ کا ریفرنڈم تو ایسا نرالا ریفرنڈم ہے کہ اگر نتیجہ حق میں ہو تو فتح اور اگر خلاف ہو تو بھی فتح--- اسے ریفرنڈم نہیںڈھونگ کہا جاتا ہے۔ ایک ایسا ڈھونگ جس پر قوم کا کروڑوں روپیہ اورہزاروں لاکھوں انسانوں کا وقت ضائع کیا جا رہا ہو اسے کون قومی مفاد کا نام دے سکتاہے۔ لیکن افسوس کہ آج قومی مفاد کے نام پر قوم سے یہ سنگین مذاق کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس سے جمہوریت کے احیا کی راہ ہموار ہوگی۔

اگر نیم کے درخت سے آم برآمد ہونے لگیں تو شاید ریفرنڈم سے بھی یہ کرشمہ صادر ہو جائے!

 

خاتم الانبیا والمرسلین ہونے کے ناطے سیدنا محمد بن عبداللہ علیہ وعلیٰ آلہ الصلاۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ان بہت سی خصوصیات سے سرفراز فرمایا ہے جن کا ذکر قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر وارد ہوا ہے مگر وہ اکثر دوسری سورتوں کے سیاق میں ہے۔ جہاں تک سورۃ الفتح اور سورۃ النصر کا تعلق ہے تو وہ آپؐ کی فتح و نصرت اور اس کے اسباب کے لیے خاص ہیں تو وہیں سورۃ الکوثر میں آپؐ کوخیرکثیر--- ہرمعنیٰ میں‘ ہر وقت‘ دنیا اور آخرت میں خیرکثیر---عطا کیے جانے کی بشارت اس طرح دی کہ اس کے پہلو بہ پہلو آپؐ کے دشمن کی جڑ--- خواہ کوئی کیوں نہ ہو‘ مادی ہو کہ معنوی --- کٹنے کی خوش خبری سنائی۔

اس نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ سورۃ الضحیٰ اور سورہ الم نشرح صرف آپؐ کی ذات بابرکات‘ اس سے اللہ تعالیٰ کا ہر لمحے تعلق--- نبوت سے مشرف ہونے سے قبل اور بعد کے تعلق --- کا مختلف پہلوئوں اور زاویوں اور وجوہات کے سبب اور آپؐ پر نظر خاص اور عنایت خاص کا ذکر ان دو سورتوں میں آیا ہے۔

سورہ کا نظم

سورۃ الضحیٰ اللہ تعالیٰ کا ہر لمحے آپؐ کے ساتھ ہونے‘ ساتھ دینے‘ نظر کرم رکھنے اور آپؐ پر اپنی مہربانیوں اور کرم فرمائیوں کی مسلسل بارش برسائے جانے سے عبارت ہے۔ اب رہی سورہ الم نشرح ‘ تو وہ اگرچہ الضحیٰ کا تکملہ اور تتمہ ہے مگر اس میں آپؐ کی ذاتِ بابرکاتؐ کے نبوی پہلو پر توجہ فرما کر اس سلسلے میں اللہ نے اپنی مہربانیوں اور کرم فرمائیوں کا ذکر فرمایا اور ساتھ ہی ساتھ اس غیر محدود اور غیر منقطع اجر کا بیان بھی کیا جو آپؐ کو عطا کیا گیا ہے۔

اسی میں اس عطاے عظیم کے ایک حصہ و جز--- محض ایک چھوٹے سے حصے اور جز--- کا ذکر بھی ہے جس کا وعدہ الضحیٰ میں یہ کہہ کر فرمایا تھا کہ بہت جلد تیرا رب تجھے اتنا کچھ عطا فرمائے گا کہ تم خوش ہو کر اس عطا سے اور خود عطا کرنے والے رب سے راضی ہو جائو گے۔ (وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰیo الضحیٰ ۹۳:۵)

آگے چل کر سورۃ التین میں البلد الامین --- مکۃ المکرمہ --- کی قسم اس سرزمین طور سینا کے ساتھ کھا کر جس میں انجیر اور زیتون پیدا ہوتے ہیں‘ آپؐ کے شہر اور فلسطین مبارک کے اٹوٹ رشتے کی طرف اشارہ فرما کر یہ ثابت کیا کہ آپؐ  اسی شجرئہ طیبہ و مبارکہ کا ثمرہ طیبہ ہیں جس کا مبارک سایہ فلسطین کی مبارک سرزمین سے لے کر مکہ مکرمہ کے حرم تک پھیلا ہوا ہے اور جس کا بیج ڈالنے والے ابوالانبیا حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے۔

علاوہ ازیں البلدالامین میں لطیف اشارہ ہے‘ اس مبارک شخصیت کی طرف‘ جس کے باشندے آپؐ کو الصادق الامین کہہ کر یاد کیا کرتے تھے۔ یوں یہ شہر بھی امانت دار قرار پایا اور اس کا ایک باشندہ بھی امانت دار ہونے کی صفت سے متصف ہوا۔

یہ وہ امانت ہے جس کو خانۂ کعبہ اور سیدنا اسماعیل ؑ کی شکل میں سیدنا ابراہیم ؑ نے مکہ مکرمہ میں چھوڑا تھا اور جو اس شخص کے حوالے کی گئی جو ہر پہلو سے امانت دار ہونے کے ناطے اس کو اٹھانے‘ اس کی حفاظت کرنے اور اس کے حقوق ادا کرنے کا ہر طرح مستحق اور قابل تھا۔ یہ توحید اور عبودیت کی امانت ہے جس کو ایک لفظ ’’الاسلام‘‘ میں ادا کیا جاتا ہے اور جس کا پیغام لے کر آپؐ کو خاتم المرسلین ؐ کی حیثیت سے معبوث کیا گیا۔ اس پیغام کو اور اُس امانت کو جس کسی نے دل و جان سے قبول کیا اور اس کے حقوق حتی الامکان ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی تو وہ اسفل السافلین میں شمار کیے جانے سے بچ کر نہ ختم ہونے والے اجر کا مستحق قرار پایا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ عدل کے ساتھ فیصلہ کر کے اجر عطا کرنے والا ہے۔ (التین ۹۵:۵-۸)

معانی و مطالب

سورہ الم نشرح کا آغاز آپؐ پر اس بے مثال اور بے نظیر احسان سے ہو رہا ہے جس کو شرح صدر کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ انبیا کرام علیہم السلام میں سے صرف آپ ؐ کو اس خصوصیت سے کیوں خاص کیا گیا تو اس کا جواب ازخود سامنے آجائے گا۔

خاتم الانبیا  ؑوالمرسلین ہونے کی وجہ سے آپؐ  اس لمحے سے جب آپؐ پر غارحرا میں اقرا باسم ربک الذی خلق(پڑھ اپنے اس رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ العلق۹۶: ۱)نازل ہوئی‘ اس لمحے تک جب صوراسرافیل پھونکا جائے گا‘ آپؐ سارے ہی جن و انس کے نبیؐ اور رسولؐ بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ بالفاظ دیگر آپؐ ہزاروں سال پر پھیلے ہوئے زمینی فاصلے پر لاتعداد جن و انس کے لیے رسولؐ اور نبیؐ بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ یہ زمان و مکان اور وہ لامحدود تعداد جن و انس اور ان کی ہدایت اور نجات‘ فلاح و بہبود کے مسائل اور اس راہ میں شیطان اور اس کے چیلوں کی ریشہ دوانیاں اور ان سے پیدا ہونے والی رکاوٹیں‘ اور پھر بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ‘ ساری ہی دنیا میں‘ جو دُور رس اور پیچیدہ تبدیلیاں وقوع پذیر ہونے والی تھیں‘ اور ان سے جو فکری‘ مادی‘ اخلاقی اور دینی فتنے اور فساد پیدا ہو کر پھیلنے والے تھے‘ ان کو اپنے دل و دماغ اور روح اور جسم میں سمانے اور ان کا مقابلہ کرنے‘ اور ان سے نمٹنے کے لیے ایک اُمت وسط پیدا کرنے‘ اور اپنے پیغام کو آخری لمحۂ دنیا تک جاری و ساری رکھنے اور اس کے اس لامحدود اور نامعلوم عرصے تک برقرار رکھنے کے لیے ایک ایسے دل کی ضرورت تھی جس میں یہ نامعلوم‘ غیر محدود اور ان گنت امور اور مسائل سما سکیں۔

اس لیے آپؐ کے شرح صدر‘ خواہ وہ مادی ہو یامعنوی یا مادی اور معنوی دونوں ہی سے عبارت ہو‘ کی ضرورت تھی۔ اس کے بغیر یہ غیر محدود ذمہ داریاں جو نامعلوم زمان ومکان تک پھیلی ہوئی تھیں اٹھائی ہی نہیں جا سکتی تھیں۔ اس لیے آپؐ کے قلب مبارک میں وسعت پیدا کی گئی کیونکہ معمولی انسانی دل میں یہ امور سما ہی نہیں سکتے تھے اور نہ آج اور تاحیات سما سکتے ہیں۔ اگر بالجبر ان کو کسی معمولی انسانی دل میں سمونے کی کوشش کی بھی گئی تو وہ دل ہی پھٹ پڑے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام انسانی دل ان لامحدود امور‘ مسائل اور ذمہ داریوں کو سہارنے کے لیے بنا ہی نہیں ہے۔ یہ اس کے بس کا روگ ہی نہیں ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ حضورؐ ان امور کی وسعتوں‘ گہرائیوں اور لامحدودیتوں کی وجہ سے اندر ہی اندر گھلے جا رہے تھے۔ یہ سوچ سوتے جاگتے‘ کھاتے پیتے‘ اٹھتے بیٹھتے‘ چلتے پھرتے ہمہ وقت آپؐ  کا پیچھا کرتی رہتی تھی‘ جب کہ عالم یہ تھاکہ آپؐ معمول کی نبوی اور انسانی ذمہ داریاں پوری کرنے میں دل و جان سے جتے ہوئے تھے۔ اس ناقابل برداشت بوجھ تلے آپؐ کی کمر بیٹھی جا رہی تھی۔ عین ممکن تھا کہ آپؐ  سخت بیمار ہو جاتے یا کسی لاعلاج مرض کا شکار ہو جاتے۔ اس لیے لطف ربانی نے آپؐ  پر‘ آپؐ  کی اُمت مرحومہ پر اور ساری ہی انسانیت پر تاقیامت مع عالم جن‘ رحم کی بارش کی اور آپؐ کے دل کو اتنی لامحدود زمانی و مکانی‘ وسعتوں سے روشناس فرمایا کہ ختم نبوتؐ کا کارہاے ناممکن آپؐ کے لیے بہت ہی آسان ہو گیا۔ آپؐ کے دل و دماغ سے یہ بوجھ اور دبائو ہٹ گیا اور اس کرم ربانی کی وجہ سے آپؐ ان امور کو قابل عمل اور قابل حصول سمجھنے لگے۔ آپؐ  کی ہمت اور حوصلہ بڑھا اور آپؐ اپنے مشن کو کامیاب بنانے کے لیے مزید دل و جان اور روح و جسم کے ساتھ لگ گئے۔

ان حقائق کی طرف ہمیں قرآن مجید میں واضح اشارات ملتے ہیں:

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ o (الحجر ۱۵:۹) رہا یہ ذکر‘ تو اس کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا o (البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’’اُمت وسط‘‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔

وَیَاْبَی اللّٰہُ اِلاَّ ٓ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (التوبہ ۹:۳۲) اور اللہ اس امر پر پوری طرح جما ہوا ہے کہ وہ اپنے نور (ہدایت) کو ہر سُو پھیلاکر ہی رہے گا خواہ یہ بات کافروں کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔

اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان تین آیتوں میں ان راہوں کی نشان دہی کی گئی ہے جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل و دماغ کو سکون سے آشنا فرمایا۔ آپؐ کو اس کی تاکید یوں کی کہ اے محمدؐ! تمھاری وفات کے بعد اور تمھاری زندگی میں بھی ہم اس قرآن عظیم‘ اس کے معانی اور اس کے پیغام کی حفاظت کریں گے۔ تم اس معاملے سے بالکل ہی بے فکر ہو جائو اور اس پر غوروفکر اور اپنے آپؐ  کو پریشان کرنا بالکل ہی ترک کر دو۔ وہ اس لیے کہ ہم نے تمھارے مبارک ہاتھوں اور تمھاری مبارک نگرانی میں ایک ایسی اُمت پیدا کرنے‘ اس کو جاری رکھنے اور اس کی آبیاری کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جو اس پیغام اور اس کی ذمہ داری کو جس سے ہمارا قرآن عبارت ہے‘ بحسن و خوبی تمھارے بعد نبھائے گی۔ یہ پیغام اب ایک فرد ہی کا پیغام نہیں رہا ہے بلکہ اس کے لیے ایک اُمت کھڑی ہونے والی ہے جو اس کے لیے مرمٹنے والی ہوگی۔ یہ اس کے تمھارے بعد تاقیامت جاری و ساری رہنے کی بہترین ضمانت ہے۔

یہ بات بیان فرما کر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مزید اطمینان دلایا کہ ہم‘ خالق کائنات‘ خالق بشر اور خالق جن نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنا نور‘ جس کو قرآن کی شکل میں ہم نے تم پر نازل کیا ہے‘ قیامت تک دنیا میں ہرسُو پھیلاتے ہی رہیںگے۔ اس کے لیے ہر قسم کے اسباب مہیا کریں گے اور تمھاری اُمت کو وقت بوقت کمک پہنچاتے ہی رہیں گے تاکہ ہمارا نور ہر جن و انس تک پھیل سکے اور پہنچ سکے۔ تم تو جانتے ہی ہو اے محمدؐ! کہ ہم اس کائنات کے جن و انس کے‘ یکہ و تنہا خالق اور مالک ہیں۔ اس لیے ہمارے اس ارادے میں کوئی بھی حائل ہو کر کھڑا نہیں ہوسکتا خواہ وہ کفار جن و انس اور شیاطین کی ان گنت فوجیں ہی کیوں نہ ہوں۔ ہم ان کو تن تنہا شکست دینے پر قادر ہیں۔ اس لیے یہ امر ہر طرح سے مضبوط و محکم ہے۔ اس کے سارے انتظامات بذاتِ خود ہم نے کیے ہیں۔ لہٰذا اب تم اطمینان و سکون اختیار کرو اور اپنے کام میں مزید دلجوئی سے لگ جائو۔

رفع ذکر

آپؐ کا اجر و ثواب ‘ اس دنیا اور آخرت میں‘ اُن لامحدود ذہنی‘ فکری‘ روحانی اور جسمانی مصیبتوں اور تکلیفوں کے مقابلے میں جو آپؐ نے روزِ اوّل سے نور حق کو پھیلانے کے لیے اٹھائیں وہ بھی‘ رب کریم کی طرف سے‘ لامحدود اور ان گنت ہے۔ اس کو بھی شمار کرنا اور گنتی میں لانا ناممکن ہے کیونکہ اس اجر و ثواب کو شمار کرنے کی کوئی ایسی صورت نہیں کہ اس کا صحیح اندازہ لگایا جا سکے۔ اس کا احاطہ انسان کی محدود قدرت سے باہر ہے۔ اس کی وجہ آپؐ کا رفع ذکرہے۔ اس کی وہ شکلیں‘ جو اس خاکسار کے نوک قلم پر اس وقت آسکی ہیں وہ یہ ہیں:

  •  رفع ذکر کے معنیٰ ذکر کو اُونچا اور بلند کرنا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ موثر اور واضح شکل اس کلمۂ طیبہ میں ظاہر ہوتی ہے جو کسی شخص کے مسلمان ہونے یا اسلام قبول کرنے کے وقت زبان سے ادا کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے:  اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدًا عبدہ ورسولہ (میں اس امر کی گواہی دیتا ہوںکہ اللہ کے علاوہ کوئی اور الٰہ نہیں ہے اور اس بات کی (بھی) شہادت دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسولؐ  اور بندے ہیں۔ اس کو کلمہء شہادت بھی کہتے ہیں۔

اس میں‘ رفع ذکر کا یہ پہلو ہے کہ اللہ جل جلالہ کے نام پاک کے ساتھ اور پہلو بہ پہلو اس کے محبوب ترین بندے کا نام بولا اور لکھا جاتا ہے۔ یہاں عبودیت (عبد/بندہ) الوہیت کے پہلو بہ پہلو جگمگا رہی ہے۔ سبحان اللہ وتبارک اللہ۔ اس سے بڑھ کر اور کس طرح ذکر کو بلند کیا جا سکتا ہے!

اس کلمہء شہادت کا ایک پہلو یہ ہے کہ یہ اسلام میں داخل ہونے کا دروازہ ہے۔ یہ دروازہ صرف اس شخص پر کھلتا ہے جو نہ صرف الوہیت الٰہی کا اعلان کرے اور اس کی شہادت دے بلکہ اس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ ہونے کا اقرار‘ اعلان کرنا اور اس کی شہادت بھی دینا پڑتی ہے۔ اگر وہ صرف الوہیت الٰہی کا اعلان کرنے پر اکتفا کرے اور رسالت محمدیؐ سے انکار کرے‘ پہلوتہی کرے‘ یا چشم پوشی کرے‘ تو پھر وہ مسلم نہیں ہو سکتا ہے۔ گویا الوہیت الٰہی اور رسالت محمدیؐ دونوں ہی کی شہادت لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتی اور دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی شرط اول ہے۔

  •  اس اعلان شہادت کے کچھ ہی دیر بعد اذان کا وقت آپہنچتا ہے اور اس میں اشھدان محمدًا رسول اللّٰہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں) ایک بار نہیں دو بار کہا جاتا ہے۔اگر وہ تنہا ہوگا تب بھی اذان میں دو بار رسالت محمدیؐ کی شہادت کا پوری قوت کے ساتھ اعلان کرے گا اور اگر وہ موذن کی آواز سن رہا ہوگا تو اس کو اذان کے باقی اجزا کے ساتھ دو بار دہرائے گا۔ اذان کے بعد وہ اپنے رب سے یہ دعا کرے گا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو الوسیلۃ اور الفضیلۃ عطا فرمائے اور آپؐ کو مقام محمود پر فائز کردے جس کا آپ نے ان سے وعدہ کیا ہے۔

یہ دعا پوری محبت‘ منت و سماجت اور لجاجت سے ہر مومن اور مسلم ہر اذان کے بعد کرتا ہے۔ کیونکہ فرمایا کہ اس دعا سے قیامت کے ہولناک دن آپؐ کی شفاعت اس کے حق میں واجب ہو جاتی ہے۔ اس شفاعت کے مستحق ہونے کے لیے اور اس ہولناک دن کی ناقابل تصور اورناقابل برداشت ہولناکیوں‘ تکلیفوں اور پریشانیوں سے نجات پانے کے لیے ہر شخص دل و جان سے یہ دعا کرکے آپؐ کا نام دل و جان سے لیتا ہے۔

  •  نماز کے لیے وضو ضروری ہے اور وضو کے بعد قبلہ رو کھڑے رہ کر کلمۂ شہادت ادا کرنا بڑے ثواب کا کام ہے۔ اس لیے ہر مومن وضوکے بعد ‘ دن اور رات میں کم از کم پانچ بار آپؐ کا نامِ نامی اور اسمِ گرامی کلمے میں دہراتا رہتا ہے۔
  •  نماز میں تشہد ناگزیر ہے جس میں السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ ہر نمازی--- مرد‘ عورت‘ بچہ اور بچی--- پڑھتے ہیں‘ آپؐ پر سلامتی بھیجتے ہیں اور پھر کلمۂ شہادت میں آپؐ کا نام لے کر یہ کہتے ہیں کہ میں اس امر کی گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔

یہ فرائض میں نو بار اور سنتوں میں بے شمار بار ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فرائض اور سنتوں میں درودِ ابراہیمی میں دو بار آپؐ پر آپؐ کی آل پر صلاۃ اور برکت کی دعا مانگی جاتی ہے۔ اس کے بعد نماز کے خاتمے پر جو دعا کی جاتی ہے اس کو بھی آپؐ  پر سلام اور صلاۃ پر تمام کرنا ایک امر ضروری ہے۔

آپ ان پانچوں وقتوں‘ مقاموں اور موقعوں پر ۲۴ گھنٹوں میں آپؐ کے نام کے وارد ہونے اور آپؐ پر درود و سلام بھیجے جانے اور آپؐ کے اور آپؐ کی آل کے لیے دعا کیے جانے کا شمار کریں۔ کیا آپ ایسا کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ یہ ان گنت گنتی ہے جو شمار میں نہیں آ سکتی ہے۔

  •   اس پر سونے پر سہاگہ وہ حکم ربانی ہے جس کا آغاز اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ فرما کر کیا کہ اے مومنو! اللہ اور اس کے ملائکہ نبیؐ پر صلاۃ بھیجتے ہیں اور تم کو بھی میں حکم دیتا ہوں کہ تم بھی اپنے پیارے نبیؐ اور رسولؐ پر صلاۃ و سلام بھیجو۔ اس صلاۃ و سلام کا نہ تو کوئی وقت ہی مقرر ہے اور نہ کوئی جگہ ہی متعین ہے اور نہ کوئی موقع محل تحدد ہے۔ انسان جب اور جہاں چاہے اللہ سے یہ دعا کر سکتا ہے خصوصاً اس وجہ سے بھی کہ آپؐنے فرمایا کہ جس کسی نے میرا نام سن کر مجھ پر صلاۃ و سلام بھیجا تو اللہ اس پر ایک بار کے بدلے ۱۰ بار صلاۃ و سلام بھیجتا ہے اور اس کا ذکر اس سے بہتر مجلس‘ یعنی ملائکہ کے درمیان کرتا ہے۔

خدارا اب آپ ہی بتایئے کہ کون نہیں چاہے گا کہ اس پیارے نبی و رسولؐ کا ایک بار نام لے کر اپنا ذکر--- اور وہ بھی اپنے خالق کی زبانی--- ملائکہ کے درمیان ہونا پسند نہ کرے ؟ یہ تو خیر ہی خیر اور نفع ہی نفع ہوا۔ اس لیے ہر مومن چلتے پھرتے‘ سوتے جاگتے‘ کھاتے پیتے اور کاروبار سرانجام دیتے ہوئے اپنے پیارے نبی اور رسولؐ پر درود و سلام بھیج کر اپنا ذکر اپنے رب کی محفل میں کروا لیتا ہے۔ صلاۃ و سلام ہو اس پیارے نبیؐ اور رسولؐ پر جس پر صلاۃ و سلام بھیجنے سے گناہ گاربندوں کا ایک بار کے بدلے ۱۰ بار ذکر دربار الٰہی میں ہوتا ہے۔

آپ دیکھیں کہ ثواب کے خواہاں لوگ ہمیشہ ہی صلاۃ و سلام نبی و رسول میں لگے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ بات بالکل صحیح اور سچ دکھائی دیتی ہے: اللّٰہ اللّٰہ خیرماصلّٰی (اللہ اللہ یہ کتنی خیر کی بات ہے کہ نبیؐ پر صلاۃو سلام بھیجا جائے)۔ یقینا یہ بہترین عمل ہے اور خوش بخت اور خوش قسمت ہونے کی علامت ہے۔

  •   لاتعداد مسلمان محض خیروبرکت اور خوش بختی کی خاطر اپنے بچوں کا نام ’’محمد‘‘ (صلی اللہ علیہ وسلم) رکھتے ہیں۔ فطری طور پر لوگ اس بچے کو پیدایش سے لے کر موت اور موت کے بعد بھی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہی کے نام پکارتے‘ بلاتے اور لکھتے ہیں۔ آپ تصور کریں کہ دن و رات کے ۲۴ گھنٹوں میں سارے عالم میں آپؐ کی اُمت کے افراد کے ذریعے سے کتنی بار یہ نام مبارک بولا اور لکھا جاتا ہے۔ کیا آپؐ تصور کر سکتے ہیں اور گن سکتے ہیں؟ یقینا نہیں۔
  •   پیدا ہوتے ہی مسلمان لڑکے اور لڑکی کے کان میں اذان دے کر اللہ خالق تبارک و تعالیٰ کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ ہونے کی آواز گزاری جاتی ہے۔ گویا یہ نقشِ اول ہے جو بٹھایا جا رہا ہے۔ یہی وہ بات ہے جس کی تمنا ہر مومن مرد اور مومنہ عورت کرتی ہے کہ اس کی موت اور اس کا آخری کلام: لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہو۔

غور کیجیے کہ مشرق سے مغرب تک دن رات میں کتنے بچے اور بچیاں پیدا ہو کرآپؐ کا نام موذن کی زبان سے نکلواتے ہیں اور پھر ان کو اپنے اپنے کانوں میں بٹھا لیتے ہیں تاکہ موت کے وقت بھی وہ ان کے کانوں میں بیٹھا رہے اور زبان سے صادر ہو۔

اللہ اللہ یہ کیا رفع ذکر ہے! کیا اس کی کثرت اور بلندی ہے‘ اور کیا اس کے لیے محبت بھری سبقت ہے! جو نطق کلمہ اور پیدایش سے شروع ہو کر موت اور موت کے بعد تک بھی ہر فرد‘ مومن مرد اور عورت کے ساتھ  لگی رہتی ہے اور اس کو اور اس کی زندگی اور موت اورمابعد الموت تک اس کوخیر و برکت اور خوشی اور مسرت اور خوش بختی اور خوش قسمتی سے ہم کنار کرتی اور ہم کنار رکھتی ہے۔

اطمینان قلب اور تقویت ایمان

فرمایا کہ اے محمدؐ! تم آج دشمنوں کی کثرت‘ قوت و طاقت اور اپنے ساتھیوں کی قلت اور کمزوری دیکھ کر دل شکستہ اور پریشان نہ ہو۔ یہ بہت جلد پلٹا کھا کر ختم ہو جانے والا ہے۔ کیونکہ ہم نے اس دنیا میں ایک  محکم سنت یہ جاری کر رکھی ہے کہ ہر قلت کے بعد کثرت‘ ہر تکلیف کے بعد راحت اور ہر تنگی کے بعد فراخی اور  ہر شدت کے بعد آسانی اور ہر رات کے بعد اُجالا آئے گا۔ اس لیے عالم اسباب کے تقاضے پورے کرتے ہوئے تم اور تمھارے ساتھی اس نورکو پھیلانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دو‘ دن رات ایک کر دو‘ اور اپنی جانوں پر کھیل جائو اور ان کو دائو پر لگا دو۔ اس کا انجام کیا ہوگا؟ تم دیکھو گے کہ بہت جلد اہل عرب جوق در جوق اور فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہوںگے اور تمھاری اطاعت کو قبول کریں گے۔ پرچم توحید سربلند ہو کر لہرائے گا اور پرچم کفر و شرک سرنگوں ہوگا۔ تمھاری تگ و دو بالآخر اپنا رنگ دکھائے گی اور تمھاری محنت و مشقت ثمرآور اور بارآور ہوگی۔

اس حقیقت کو دہرا کر‘ یعنی دو آیتوں میں بیان کر کے اور وہ بھی صیغہ اسمیہ کی صورت میں بیان کر کے اس کی حتمیت کی طرف اشارہ فرمایا۔  (فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا  o اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o  (الم نشرح ۹۴:۶-۷)

مزید فرمایا کہ اس جدوجہد کے لمبے اور جاں گسل سفر کا اگر کوئی کارآمد زادِ راہ ہے تو وہ ہے اپنے رب کی عبادت میں‘ جب بھی فرصت ملے اور موقع ملے‘ دل لگانا جس کی بہترین شکل پوری رغبت اور محبت اور خشوع و خضوع کے ساتھ نمازپڑھنا ہے۔ اس لیے رکوع و سجود کرتے رہو اور نئی نئی طاقت و قوت حاصل کرتے رہو اور اپنی عبودیت کا اظہار کرتے ہوئے میری الوہیت کا ڈنکا بجاتے رہو۔

یہ دو آخری نصیحتیں عام طور پر ہر اُمتی کے لیے دائمی اور ابدی ہدایات ہیں مگر وہ ان لوگوں کے لیے سرمدی ہدایات اور ارشادات ہیں جو اپنی زندگیوں کو نور حق ہرسُو پھیلانے کے لیے وقف کر دینا چاہتے ہیں اور انسان کو انسانوں کی غلامی سے آزاد کرا کر اللہ تعالیٰ کی بندگی میں داخل کرنا چاہتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے محبوب بندے محمد بن عبداللہ علیہ الصلاۃ والسلام کی راہ ہدایت پر چلنے اور دوسروں کو راہ حق پر چلنے کی دعوت دینے کی ہمت اور طاقت عطا فرمائے‘ اور آپ کی اُمت کو سربلند کرے اور کامیابیوں سے سرفراز فرمائے‘ اور آپؐ کے اورآپؐ کی دعوتِ حق کے دشمنوں کا سرنیچا کرے۔ آمین!

 

حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے اس حال میں تشریف لے گئے کہ خوش و خرم اور ہشاش بشاش تھے‘ واپس تشریف لائے تو غم زدہ تھے۔ میں نے پوچھا: یارسول اللہ! آپؐ میرے پاس سے گئے تھے تو خوش تھے‘ واپس تشریف لائے ہیں تو غمگین ہیں۔ کیا چیز اس کا سبب بن گئی؟ آپؐ نے فرمایا: میں کعبہ کے اندر داخل ہو گیا۔ بعد میں مجھے خیال آیا کاش میں داخل نہ ہوا ہوتا۔ مجھے ڈر ہے کہ میں نے داخل ہو کر اپنے بعد اُمت کو مشقت میں ڈال دیا۔ (ابن ماجہ‘ باب دخول الکعبہ‘ کتاب الحج‘ ص۲۲۶)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عمل بھی کیااُمت کے لیے اس میں زبردست کشش ہے۔ اُمتی وہ کام کر کے رہتے ہیں۔ آپؐ کعبہ میں داخل ہوئے تو سب مسلمان کعبہ میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے جو ان کے لیے تکلیف کا موجب بن جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت کو مشقت سے بچانے کی کتنی فکر تھی کہ ایک فعل کر لیا‘ پھر خیال آیا کہ اس سے اُمت مشقت میں پڑ جائے گی‘ لوگ ایک دوسرے پر ہجوم کریں گے۔ اتنی بات سے آپؐ غمگین ہو گئے۔ ابھی ہجوم ہوا نہیں تھا ‘کوئی کچلا نہیں گیا تھا محض اس کا خطرہ اور اس کا احساس آپؐ کو دامن گیر ہوگیا۔ وہ اُمت جس کے لیے اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فکرمندی‘ بے چینی اور بے قراری کا یہ حال ہے‘ وہ آج کس حال میں ہے اور اس کی خود اُمت کو کیا فکر ہے؟ اس کا جواب ہر کلمہ گو کو دینا ہے۔ کیا اس اُمت کے حصے بخرے کیے جا سکتے ہیں؟ اُمت کے کسی ایک حصے کے متعلق یہ امتیاز ہو سکتا ہے کہ پہلے اس کی فکر کرو پھر دوسروں کی‘ یا اپنے آپ کو دوسروںپر مقدم کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور کشمیر کی فکر کرو‘ افغانستان اور فلسطین کو چھوڑ دو۔ کیا ایسا ہو سکتاہے؟ آج مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے۔ کسی کو اس کا دکھ درد اور غم ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی سی بات پر اتنے غم زدہ ہو گئے‘ نبی کے اُمتی کس مقام پر کھڑے ہیں۔ ایمانی جذبات‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت‘ اُمت سے لگائو‘ بھائیوں کے لیے ایثار و قربانی‘ سب چیزیں کہاں چلی گئیں؟ ہم کب بیدار اور کب زندہ ہوں گے؟ کب مسلمانوں کی تکلیف بسترِ استراحت کو چھوڑ کر ان کے دکھ درد میں شرکت کرنے پر آمادہ کرے گی؟


حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان پر گزر ہوا ‘جب کہ وہ زمین میں کچھ پودے لگا رہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: ابوہریرہ! کیا لگا رہے ہو؟ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کچھ پودے لگا رہا ہوں۔ اس پر رسولؐ اللہ نے فرمایا: میں تجھے ان پودوں سے بہتر پودے نہ بتلائوں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! آپؐ نے فرمایا: سبحان اللہ‘ والحمدللہ‘ لا الٰہ الا اللہ ‘ واللہ اکبر کہو‘ ہر ایک کے بدلے میں اللہ تعالیٰ جنت میں تمھارے لیے ایک درخت لگا دیں گے۔ (ابن ماجہ‘ باب فضل التسبیح‘ ص ۲۷۸)

دنیا کو آباد کرنا اس کے لیے شجرکاری ‘ کاشت کاری ‘ خرید و فروخت ‘ صنعت و حرفت‘ زمین کے خزانے نکالنا اور ان سے استفادہ کرنا‘سائنس و ٹکنالوجی کے ذریعے ترقی کے سازوسامان تیار کرنا‘ سہولتیں اورآسایشیں فراہم کرنا سب اپنی جگہ بجا لیکن یہ سب کام اسی وقت ٹھیک ہیں‘ جب کہ اصل جگہ کے لیے بھی جہاں ہمیشہ رہنا ہے‘ فکر کی جائے۔ آخرت کے لیے شجرکاری‘ تجارت‘ صنعت و حرفت‘ راحت کا سازوسامان پیدا کرنا‘ تو اصل کام ہے۔ کوئی ترک دنیا کا درس دیتا ہے اور کوئی دارآخرت سے غفلت میں مبتلا کرتا ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم انسان کی دنیا اور آخرت دونوں کو سنوارنے‘ بنانے ‘ راحت کا سامان کرنے اوریوں انسان کی ہر حال میں بھلائی کے لیے فکرمند ہیں۔ ادنیٰ کے لیے اعلیٰ‘ دنیا کی خاطر آخرت کو نظرانداز کرنے کو گوارا نہیں فرماتے۔ بہتر پودے‘ بہتر کاروبار‘ بہتر صنعت و حرفت اور بہتر سہولتیں آخرت کی ہیں۔ آج کتنے ہیں جو بہتر سے غافل اور ادنیٰ میں اندھادھند مگن ہیں۔ ذکر وتسبیح تو آخرت کے سامان ہیں۔ دنیا کے کام شریعت کو ملحوظ رکھ کر ‘ اطاعت رب کی نیت سے ہوں‘ تو یہ بھی آخرت کا سامان ہے۔ ۲۴گھنٹے جاگتے سوتے اللہ کی عبادت ہو سکتی ہے بشرطیکہ کوئی عبادت کرنا چاہے اور آخرت کے لیے فکرمند ہو۔


حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو بھی حرام کیا ہے اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ تم میں سے کوئی نہ کوئی اس کا مرتکب ہوگا۔ سنو! میں تمھیں تمھاری کمروں سے پکڑ پکڑ کر آگ میں گرنے سے روکتا ہوں۔ تم اسی طرح آگ میں دوڑ دوڑ کر گرتے ہو جس طرح پروانے اور مکھیاں آگ میں گرا کرتی ہیں۔ (الفتح الربانی‘ باب ماجاء فی المفردات من المناہی‘ ج۱۹‘۲۰)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین اور ایمان والوںکے لیے رئوف و رحیم ہیں۔ ایمان والوں کے ساتھ ہمدردی‘ محبت اور تعلق کا تقاضا کیا ہے‘ انھیں دوزخ میں گرنے سے بچانا۔ اس کے لیے دوڑ دھوپ کرنا اور اپنا آرام ترک کرنا پڑتا ہے۔ لوگ تو آگ میں چھلانگیں لگا رہے ہیں۔ کوئی ہانک پکار پر کان نہیں دھرتا۔ شیطان کو راضی کرنے کے لیے دوزخ کی آگ اور کفار کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ بے قصورلوگوں کو تہ تیغ کرنے‘ گرفتار کرنے‘ بوڑھوں‘ بچوں‘عورتوں اور نوجوانوں کو ظلم و جور کا نشانہ بنانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نبی کا اسوہ اور تعلیم زبانی نہیں بلکہ عملاً لوگوں کو دوزخ میں گرنے‘ ظلم و جور اور قتل و غارت گری سے روکنے کی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ تو یہ ہے‘ تب کتنے ہیں جو اپنے گھروں سے باہر نکل کر ظالموں کو دوزخ کی آگ میں گرنے سے عملاً روک رہے ہوں۔ کون ہے لوگوں کو کمروں سے پکڑنے والا‘ ان کو ہاتھ سے روکنے والا‘ اپنے آرام و راحت کو قربان کرنے والا‘ اپنے آپ کو آزمایش اور تکلیف کے لیے پیش کرنے والا بنے۔ نبیؐ کے راستے پر چلے بغیر‘ معرکہ خیروشر میں کودے بغیر‘ لوگوں کو کمر سے پکڑ پکڑ کر بچائے بغیر کیسے اتباع کا حق ادا کیا جا سکتا ہے۔ آیئے‘ آخرت کی کمائی کا بازار کھلا ہے۔ جس نے کمائی کرنی ہو‘ نبیؐ کے اسوہ حسنہ کو اختیار کر لے اور نیکیاں کماتا چلا جائے۔


حضرت ابوبکرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ظلم اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ اس بات کا سزاوار نہیں کہ اس کا عذاب دنیا میں جلدی دے دیا جائے اور آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہو۔ (الفتح الربانی الترہیب‘ من قطع صلۃ الرحم‘ ج ۱۹‘۲۰‘ ص ۲۱۷)

تاریخ گواہ ہے کہ ظالموں کو اس دنیا میں عبرت ناک سزا ملتی ہے۔ ساری دنیا اپنی آنکھوں سے ان کے انجام کو دیکھتی ہے۔ بنی اسرائیل کی نسل کُشی کرنے والے فرعون کے دریاے نیل میں غرق ہونے سے لے کر آج تک ہر ظالم کی ہلاکت کے مناظر زمانے کے صفحات پر ثبت ہیں۔ لیکن ہر نئے دور کے ظالم ان سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے اپنے پیش روئوں کی تقلید کرتے ہوئے ظلم میں آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں تاآنکہ اپنے انجام بد سے دوچار ہوجاتے ہیں‘ اور ارشاد رسولؐ کی صداقت سامنے آجاتی ہے۔


حضرت یزید بن الھادؓ حضرت محمد بن عبداللہ بن عمرؓ بن خطاب سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی کچھ لوگوں سے ملاقات ہوئی جو مروان سے مل کر آئے تھے۔ پوچھا: کہاں سے آئے؟ جواب دیا: امیرمروان سے مل کر آئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے پوچھا: جو حق بات تم نے دیکھی اس کی تائید اور جو منکر نظر آیا اس کی تردید کی؟ جواب دیا: نہیں‘ اللہ تعالیٰ کی قسم‘ نہیں‘ بلکہ اس نے بعض منکر باتیں بھی کیں جن کے بارے میں ہم نے کہا اللہ آپ کو ٹھیک رکھے‘ آپ نے اچھا کیا۔ جب ہم اس کے پاس سے باہر نکلے تو ہم نے کہا اللہ اس کو ہلاک کرے‘ کتنا ظالم اور کتنا بدکار ہے۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کہا: ’’رسولؐ اللہ کے زمانے میں ہم اس طرح کے طرزعمل کو نفاق قرار دیتے تھے‘‘۔ (الفتح الربانی الترہیب‘ من النفاق‘ ج ۱۹‘ ۲۰‘ ص ۲۳۰)

اس وقت تو چند ایسے لوگ تھے جو حکمرانوں کے سامنے ان کی تائید اور باہر نکل کر تردید کرتے تھے‘ یہ نفاق ہے۔ آج یہ نفاق اس قدر بڑھ گیا ہے کہ جب حکمران برسراقتدار ہوتا ہے تو وہ محبوب اور قائد ہوتا ہے اور جب اقتدار سے رخصت ہو جاتا ہے تو مبغوض اور لعنتی شمار ہوتا ہے۔ انسانوں کے بڑے بڑے ریوڑ حکمران کے دوراقتدار میں ساری دنیا کے سامنے اس کے مداح‘ اور اقتدار سے اُترنے کے بعد ساری دنیا کے سامنے‘ اس دنیا کے سامنے جس کے سامنے مدح کرتے تھے‘ مذمت کرتے ہیں اور گردن زدنی قرار دیتے ہیں۔ ریوڑوں کے ریوڑ بڑی بڑی پارٹیاں اور لیڈر‘ راہنما اور راہبر اس بیماری کا شکار ہیں‘ نعوذ باللہ۔


حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضرت جمیلہؓ بنت سلول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں۔ عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں ثابت بن قیس سے اس کے دین اور اخلاق کی بنا پر ناراض نہیں لیکن میں مسلمان ہوتے ہوئے ناپسند کرتی ہوں کہ (شوہر کی) ناشکری اور ناقدری کروں۔ (میں اسے اس کی شکل و صورت کی وجہ سے) طبعاً ناپسند کرتی ہوں اور اس لیے اسے برداشت نہیں کرسکتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس کا باغ واپس کرنے کے لیے تیار ہو؟ اس نے عرض کیا: ہاں۔ رسولؐ اللہ نے حضرت ثابت بن قیسؓ کو فرمایا: اس سے باغ لے لو اور (طلاق دے دو) اس سے مزید کچھ نہ لو۔ (ابن ماجہ‘ کتاب الطلاق‘ ص ۱۴۹)

نکاح کے بندھن میں آنے سے پہلے دیکھنا چاہیے کہ شوہر کیسا ہے‘ شکل و صورت کے لحاظ سے قابل قبول ہے کہ نہیں۔ اسی طرح سے بیوی کے بارے میں بھی پہلے سے فیصلہ کرنا چاہیے۔ نکاح کے بعد قانون میں اس کی گنجایش نہیں لیکن اگر کسی وجہ سے پہلے اس کا اہتمام نہ ہو سکا ہو تو پھر کیا ہو؟ کیا میاں بیوی کو اسی طرح قانون کی لاٹھی سے ہانکا جائے گا اور وہ ایک دوسرے کو نہ چاہتے ہوئے بھی نکاح کے بندھن میں بندھے رہیں گے؟ اگر ایسا کیا جائے تو گھرانے میں سکون و چین کیسے ہوگا؟ کیا میاں بیوی اسی طرح ایک دوسرے سے روٹھے‘ پیٹھ پھیرے‘ گھٹے گھٹے زندگی بسر کریں گے؟ کیا ایک دوسرے کے انسانی اور اسلامی حقوق کو پامال کرتے ہوئے ازدواجی زندگی بسر کریں گے؟ اس کا جواب اس حدیث میں ہے۔ ایسی صورت میں اخلاق اور مصالح کو پیش نظر رکھا جائے گا اور قانون کے بجائے مثالی اسلامی معاشرے کے آداب کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جائے گی۔بیوی شوہر کو ناپسند کرتی ہو تو شوہر کو سمجھایا جائے گا کہ اپنے گھر کو بے چینی اور بے اطمینانی کا گھر بنانے کی بجائے سکون اور راحت کا گھر بنائے۔ ایسی بیوی کو طلاق دے دو اور شادی پر جو ضروری اخراجات آئے ہیں‘ جو مہر دیا ہے وہ واپس لے لو اور اس سے دوسرا گھر بسائو۔

جبر و اکراہ کے ساتھ گھروں کو بسانے کی بجائے رضامندی سے معاملات طے کیے جائیں۔ شادی کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ شوہر بیوی پر شفقت کرے گا‘ خوش اخلاقی سے پیش آئے گا اور بیوی اس کی اطاعت اور شکرگزاری کرسکے گی۔ دونوں مل کر اپنے گھر کو مثالی اسلامی گھرانہ بنا سکیں گے۔ بعد میں اگر اختلاف پیدا ہو جائے تو اس کا حل بھی یہی ہے۔ مصالحت نہ ہو سکتی ہو تو زبردستی کی بجائے احسن طریقے سے جدائی کا راستہ اختیارکیا جائے۔ آج کتنے گھرانے ہیں جو اس طرح کی صورت حال سے دوچار ہیں۔ معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ باہمی عداوت کو بڑھانے کے بجائے اسلامی بھائی چارے کی بنیاد پر باہمی مشاورت سے مسائل کو حل کیا جائے۔ عدالتوںکے چکر سے بھی بچا جائے جو اسلامی احکام سے ناواقفیت کی بنا پر جاہلانہ فیصلے صادر کرتی ہیں۔

 

سیرت نبوی ؐ کا ایک اہم باب اور عنوان ’’ وفود عرب کی بارگاہ رسالتؐ میں آمد ہے‘‘۔ قدیم مآخذ سیرت میں عمومافتح مکہ کے بعد اشاعت اسلام کے ضمن میں و فود عرب کا تذکرہ ہوا ہے۔ ۹ھ اور ۱۰ھ میں یہ وفود اس کثرت سے آئے کہ مؤرخین اور سیرت نگاروں نے اس سنہ کو ’’ عام الوفود ‘‘ یعنی وفود کا سال قرار دیا۔ متعدد مورخوں اور سیرت نگاروں نے ان وفود کی تفصیلات قلم بند کی ہیں۔ مختلف روایات کے مطابق وفود کی تعداد ۱۴۰ کے قریب تھی۔ اردو ادب سیرت میں صرف انھی وفود کا تذکرہ ملتا ہے جن سے سیرت نبویؐ کے کسی خاص پہلو پر روشنی پڑتی ہے۔

ان وفود کے مطالعے سے جہاں سیرت طیبہؐ کے کئی نمایاں پہلو اجاگر ہوتے ہیں وہاں قبائل عرب کے جغرافیائی حالات ، ان کے معتقدات، میلانات و رجحانات اور بدوی مزاج کا بھی پتا چلتا ہے۔ یہ وفود پورے جزیرہ نما عرب کے مختلف حصوں سے حاضر خدمت ہوئے تھے۔ جو قبائل اپنے نمایندے یاترجمان کی حیثیت سے بارگاہ نبویؐ میں حاضر ہوئے، ان کے ارکان کی تعداد بعض اوقات ۴۰۰ یا اس سے زائد ہوتی تھی۔ بعض وفود اسلام قبول کرنے کے لیے آتے اور بعض تعلیم وتربیت کے لیے حاضر خدمت ہوتے اور بعض امن و صلح کے لیے بھی آئے۔ رسولؐ اللہ ہر قبیلے کے سردار یا قائد کو عموماً ذمہ دار بناتے کہ وہ اپنے قبیلے میں دعوت کا فریضہ سرانجام دے۔ اس طرح یہ وفود بذات خود دعوت و تبلیغ کا اہم اور مؤثر ترین ذریعہ تھے۔ (مولانا جلال الدین عمری،’’عرب کے وفود دربارِ رسالت میں‘‘ سہ ماہی  تحقیقات اسلامی (علی گڑھ)‘ جلد ۷‘ شمارہ ۱‘  ۱۹۸۸ء‘ ص ۵-۱۶)

قبائل عرب اپنے وفود کی روانگی کے لیے بڑا اہتمام کرتے تھے۔ اس کے لیے شیوخ و سردار، اعیان و اشراف ، شعرا و خطبا اور باشعور افراد کا انتخاب ہوتا تھا۔ ان سب کے نام لکھے جاتے تھے اور ارکان وفد اپنے روایتی اور قبائلی لباس وہیئت میں سج دھج کر مدینہ منورہ میں حاضر ہوتے تھے۔ (تفصیل کے لیے: وفد وائل بن حجر‘ ابن کثیر‘ البدایۃ ۵/۲۹)

یہاں ان کی حیثیت کے مطابق قیام و طعام کا انتظام کیا جاتا تھا۔ آپؐ ان کی نفسیات و رجحانات کے مطابق معاملہ فرماتے ان کی تعلیم وتربیت کا بندوبست کرتے اور ان کے مسائل کو حل فرماتے۔

ذیل میں ان وفود کے ساتھ آپؐ کے طریق دعوت و تربیت کی چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں۔

دعوت دین کا نفسیا تی پہلو

رسولؐ اللہ کے پاس آنے والے ان وفود کا تعلق عرب کے مختلف قبائل سے تھا۔ان میں چند مشترکہ محاسن و معائب تھے۔بعض قبائل اپنی انفرادی شان وشوکت رکھتے تھے اور بعض کی وجہ شہرت بہادری اور بعض سخاوت و مہمان نوازی میں مشہور تھے۔ ہر قبیلہ عرب میں اپنا مخصوص مقام رکھتا تھا۔ ان دعوتی وفودمیںبعض عمدہ خصلت وسیرت کے مالک ہوتے اور بعض سخت مزاج۔ ان میں سردار اور قائد بھی تھے اور قبیلے کے عام افراد بھی‘ غرض یہ کہ ہر مزاج اور فکر کے افراد ہوتے تھے۔

رسولؐ اللہ نے دعوت قرآنی کے اصولوں کے مطابق دعوتِ حق کو پیش فرمایا۔ قبائلی اور علاقائی نفسیات کا لحاظ فرمایا۔ اسی کا اثر تھا کہ ان وفود میںسے اکثریت دولت ایمان سے مشر ف ہو ئی اور آپؐ کے حسن اخلاق اور حسن معاملہ کی بدولت جو وفود بظاہر صلح و امن کی غرض سے حاضر خدمت ہوئے وہ بھی مشرف بہ اسلام ہوئے ۔

عزت و احترام

آپؐ وفد کے پہنچتے ہی دعوت دینی شروع نہیں کر دیتے تھے بلکہ دعوت کے لیے مناسب ماحول پیدا فرماتے تھے۔ دعوت سے قبل مدعو کی مہمان دار ی ، تکریم و تحریم کا مکمل اہتمام فرماتے تھے۔اس حوالے سے چند قابل ذکر پہلو یہ ہیں:

  •  جب رسولؐ اللہ کو وفود کی آمد کی اطلاع دی جاتی تو آپؐ خوب صورت لباس زیب تن کرتے اور صحابہ کرام کو بھی اس کا حکم دیتے ۔ (سبل الھدیٰ والرشاد ، ج ۶، ص ۲۵۹)
  •  وفود کے استقبال کے لیے بعض دفعہ مکان سے باہر تشریف لے جاتے اور حسب حالات اگر قبیلے کا سردار ہوتا تو بعض دفعہ اس کے لیے اپنی رداے مبارک بچھاتے۔ ( ابن سعد۲/۵۲)

                ان وفود کی رہایش کا اہتمام ایک صحابیہ رملہؓ بنت الحارث کے گھر کیا جاتا ، اس کے علاوہ کبھی کبھی یہ و فود کسی صحابی جو اسی قبیلے کا ہوتا اس کے ہاں ٹھہرتے، اور بعض کو آپؐ مسجدنبویؐ میں ٹھہرانے کا حکم دیتے۔

  •  حضرت بلالؓاورحضرت خالدؓ بن سعید بن العاص ؓ کو ان وفود کی خاطر و تواضع کے لیے مقرر کیا گیااوربعض اوقات آپؐ بہ نفس نفیس ان دعوتی وفود کی خاطر مدارت کرتے  اور ان کے حسب حاجت وظائف اور سفر کے مصارف ادا فرمادیتے تھے۔ (کتانی الفاسی الترتیب الادرایۃ، رباط ، ۱۳۴۶ھ، ۱/۴۵۱)
  •  آپؐ آنے والے وفود سے ان کے قبیلے اور اراکین وفد کا نام پوچھتے اور اگر یہ نام شریعت کے مزاج کے خلاف ہوتے تو تبدیل فرما دیتے اور عمدہ نام تجویز فرماتے۔ (ابن سعد۱/۳۰۸)
  •  مدینہ منورہ آنے والے ہر وفد کے ساتھ آپ ؐ عزت و احترام کا برتاؤ کرتے تھے‘اور اس قدر رواداری کا مظاہر ہ فرماتے کہ ان کی بہت سی نازیبا اور ناقابل ِبرداشت حرکتوں کو صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کرلیتے۔
  •  واپسی پر رسولؐ اللہ وفد کے ہر رکن کو تحفہ و ہدیہ عنایت فرماتے۔وفد کے قائد یا قبیلے کے سربراہ کو دیگر اراکین سے زائد دیا جاتا‘اور تمام وفود کے لیے یہ حکم دیا: أجزھم کما تجیزالوفود( ابن سعد‘ الطبقات الکبری ، ۱/۲۱۸)۔ یہی نہیں بلکہ وصال کے وقت آپؐ نے جو آخری وصیت فرمائی ان میں ایک یہ بھی تھی:  اجیزواالوفود بنحو ما کنت اجیزھم  (جس طرح میں وفو دکو تحائف اور عطیات دیا کرتا ہو ں تم بھی اسی طرح دیا کرو)۔ (البخاری ، کتاب الجہاد ، ۱/۴۴۹و ابوداؤد‘ کتاب الخراج والفے ۲/۴۲۱)

مخاطب کی ذہنی و نفسیاتی سطح کا خیال

جہاں تک نفس دعوت و تبلیغ کا تعلق ہے تویہاں بھی آپ ؐنے مخاطب کی ذہنی نزاکتوں کا پورا پورا خیال رکھا۔ واقعہ یہ ہے کہ آدمی کی ذہنیت کو تبدیل کرنا اور اس کے نقطہء نظر یا نصب العین کو تبدیل کرنا آسان کام نہیں۔اس کے لیے غیر معمولی ذہانت‘حکمت و تدبر اور سب سے بڑھ کر ایسے استدلال سے کام لینا پڑتا ہے جو مخاطب کو ذہنی طورپرہموار کر کے نئی بات قبول کرنے پر آمادہ کر سکے۔جس طرح ایک بیج کی نشوونما کے لیے فقط بیج کی صلاحیتوں پر ہی نظر نہیں رکھنی پڑتی بلکہ زمین کی آمادگی و مستعدی اور فصل وموسم کی سازگاری و موافقت کا بھی لحاظ رکھنا پڑتا ہے ،اسی طرح ایک داعی کو بھی لازماً تخم ایمان کی آبیاری کے لیے قلوب و اذہان کی آمادگی و موافقت کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے اور یہ آمادگی اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب کہ استدلال مستحکم اور پایدار ہو۔

یہی وجہ ہے کہ رسولؐ اللہ نے عقائد اور تعلیمات دین کو دلوں میں اتارنے کے لیے ایک طرف توایسے دلائل وبراہین سے کام لیا جس کا ادراک ایک ادنیٰ سے ادنیٰ عقل رکھنے والا آدمی بھی کر سکتا ہے‘نیز ان دلائل و آثار میں تنوع کا خیال بھی رکھاتاکہ تفہیم و ابلاغ کا حق ادا ہو سکے ،اور دوسری طرف رسول اللہ ؐ نے اہل عرب کی تمام خوبیوں اور خرابیوں ‘ ان کی انفرادی و قومی روایات اور ان کے عادات وخصائل کی رعایت رکھتے ہوئے کشت ِایمان کی آبیاری کی۔آفاق کے قوانین و ضوابط ‘فطرت کے یقینیات ‘تاریخ کے مسلمات، اور بنیادی اخلاقیات میں سے بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں مشرق و مغرب اور عرب وعجم سب ایک ہی نقطہء نظر رکھتے ہیں ۔رسول ؐاللہ نے اپنے اور مخاطب کے درمیان اسی قدر ِمشترک کو تلاش کیااور اس کو بناے استدلال بنایا۔ وفود کے مطالعے سے اس کی چند ایک مثالیں سامنے آتی ہیں ۔

اخلاقی اوصاف اور صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی

بعض افراد سلیم الفطرت ہوتے ہیں۔ان میں اعلیٰ اخلاقی صفات بااتم موجود ہوتی ہیںاور اگر کوئی ان کی تعریف وتحسین کر دے اور ان کے اس حسن سیرت و صورت کی نشان دہی کرے تو ان میں مزید بہتری کی تحریک پیدا ہو جاتی ہے‘اور اس تحرک (motivation)کی بدولت ان میں استحکام نصیب ہوتاہے اور وہ ہر آن بداخلاقی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔رسول ؐاللہ کے پاس آنے والے وفود میں بعض افراد باجود جاہلی تعصبات و خرافات کے عمدہ اخلاق و سیرت کے مالک ہوتے ۔چنانچہ رسولؐ اللہ ایسے وفود کے اراکین سے ان کے اخلاقی اوصاف کو مدنظر رکھتے اور دعوت پیش کرتے وقت، وفد کے اراکین یا قائد کی ان صفات عالیہ کا تذکرہ ضرورفرماتے جس سے وہ متصف ہوتے تاکہ آغاز کلام میں ہی ان کے اندر اس پیغامِ حق کے لیے قبولیت کا جذبہ پیدا کر دیا جائے جس کی دعوت دی جا رہی ہے کہ یہ پیغام بھی اس خاصیت اور صفات کا داعی ہے جس سے وہ متصف ہیں ۔اس طرح ابتدا سے ہی مدعو سے بے تکلف تعارف او ر کلمات داد وتحسین سے مدعو پر نفسیاتی اثر ہوتا اور وہ دین حق کو قبول کرنے پر آمادہ ہو جاتا۔اس طرز فکر کی چند ایک مثالیں بھی وفود کے مطالعے سے ظاہر ہوتی ہیں۔

خوش کلامی کی حوصلہ افزائی

۱- وفد ازد کی وضع قطع او رخوش کلامی آپ ؐ کو بہت پسند آئی۔آپؐ نے دعوت پیش کرنے سے پہلے ان سے پوچھا کہ تم کون لوگ ہو ؟انھوں نے عرض کیا ہم مومن ہیں ۔آپؐ مسکرائے ۔آپؐ نے فرمایا: ہر بات کی ایک حقیقت ہوتی ہے۔ بتاؤ تمھارے قول اور ایمان کی کیاحقیقت ہے؟انھوں نے عرض کیاکہ ہم میں ۱۵خصلتیں ہیں۔ان میں پانچ تو ایسی ہیں جن کے متعلق آپؐ کے قاصدوں یعنی(مبلغین یا داعیان اسلام)نے ہمیں دعوت دی ہے اور پانچ ایسی ہیں ‘جن کے متعلق ہدایت کی ہے کہ ان پر عمل کریں ‘اور پانچ وہ ہیں ‘ جن کا ہم زمانۂ جاہلیت سے پابند ہیںاور اب تک ان پر قائم ہیں۔

حضورؐنے پوچھا کہ وہ پانچ باتیں کون سی ہیں جن پرتم کو ایمان رکھنے کاحکم دیاگیا ہے؟ انھوں نے عرض کیا:  ۱- اللہ پر ایمان  ۲- اس کے فرشتوں پر ایمان ۳- اس کی کتابوں پر ایمان ۴- اس کے رسولوں پر ایمان ۵-  مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر ایمان۔

رسول اللہ ؐ نے فرمایا: وہ پانچ باتیں کیا ہیں جن پر تمھیںعمل کرنے کی ہدایت کی گئی ؟ انھوں نے عرض کیا: ۱-  ہم اقرار کریں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ۲- نماز کی پابندی کریں  ۳- زکوٰۃ ادا کریں  ۴- رمضان کے روزے رکھیں ۵- اگر استطاعت ہو بیت اللہ کا حج کریں ۔

آپؐ نے فرمایا:اچھا! اب وہ پانچ باتیں بتاؤ جن پر تم زمانۂ جاہلیت سے کار بند ہو؟ انھوں نے کہا: ۱- خوشحالی کے وقت شکر کرنا  ۲- مصیبت پر صبر کرنا  ۳- راضی برضاے الٰہی رہنا  ۴- آزمایش کے وقت راست بازی پر قائم رہنا ۵- دشمنوں کی مصیبت پر ہنسی نہ اڑانا۔

جب آپؐنے ان کی حکمت اور دانائی کی باتیں سنیں تو تعریف فرمائی اور ان پر دوام کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: ’’تم لوگ تو بڑے حکیم اور عالم نکلے ‘تمھاری حکمت ودانش گویا انبیا کی حکمت ودانش ہے‘‘۔

اس طرح ان کے اندر مزید بھلائی او رنیکی کی تحریک پیداہوئی اور جب دیکھا کہ اس طرح کے اقوال اور نصیحت کو یہ لوگ اختیار کرتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں،تو آپؐ نے ان کو مزید پانچ اور نصیحتیں فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا:

                ۱۔  ضرورت سے زیادہ مکانات نہ بناؤ(یا وہ مکان نہ بناؤ جس میں تمھیں بسنا نہ ہو)

                 ۲۔ ضرورت سے زیادہ اشیاے خوردونوش جمع (ذخیرہ )نہ کرو۔

                 ۳۔ جس چیز کو چھوڑ کر کل تمھیں چلا جانا ہے ا س میں ایک دوسرے کی حرص نہ کرو۔

                 ۴۔ اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ ڈرتے رہو جس کی طرف پھر تمھیں لوٹنا ہے اور اس کے حضور جواب دہ ہوناہے۔

                 ۵۔ ان چیزوں سے رغبت رکھو جو آخرت میں تمھارے کام آئیں گی جہاں تمھیں ہمیشہ رہنا ہے۔(زرقانی‘ المواھب اللدنیۃ بالمنح  المحمدیۃ، بیروت ۱۹۹۶ء‘ ج ۵، ص ۲۲۶)

اہل وفد نے رسولؐ اللہ کے ان ارشادت کو قبول کیا اور وطن واپس جا کر ہمیشہ ان پرعمل کیا۔اس طریقۂ دعوت میں آپؐ نے منطقی وتدریجی اسلوب اختیار کرتے ہوئے پہلے ان کے خیالات و افکار کو جانا اور ان کی عمدہ باتوں کی تعریف وتوثیق فرمائی اور اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے مزید پانچ خصلتوں کی نصیحت فرمائی جن کا مضمو ن سابقہ باتوں سے مختلف تھا ۔جب آپؐ نے جان لیا کہ یہ افراد ایمان وعبادات پر یقین رکھتے اور عمل کرتے ہیںاور اخلاق عالیہ سے بھی مزین ہیں تو آپ ؐ نے پانچ ایسی عادات و معمولات کا تذکرہ فرمایاجس سے ان کے سابقہ اعمال میں پختگی آئے اور عبادات میں اخلاص و محبت پیدا ہو۔چنانچہ آپؐ نے جن پانچ باتوں کی تلقین فرمائی ان میں آخرت کا مضمون بیان ہوا اور احتساب و ذمہ داری پر زیادہ زور دیا گیا۔شاید اسی کی کمی آپؐ نے ان کے اندر محسوس کی ہو‘اوراس کے مطابق ان معمولات کواختیار کرنے کی دعوت دی ہو۔

شجاعت اور بہادری کو سراہنا

قبیلہ بنی حارث بن کعب ‘سارے عرب میں شجاعت اوربہادری میں مشہور تھا۔فتح مکہ کے بعد بھی یہ لوگ کفر وضلالت پر قائم رہے۔۱۰ہجری میں رسول اللہ ؐ نے حضرت خالدؓ بن ولید کو دعوت اسلام کے لیے ان کی طرف بھیجا ۔حضرت خالدؓ کی دعوت پر سارا قبیلہ ایمان لے آیااور انھوں نے ایک وفد حضورؐ کے پاس تعلیم و تربیت کے لیے بھیجا۔وفد کے اراکین بارگاہ رسالتؐ میں پہنچتے ہیں تو رسولؐ اللہ ان سے پوچھتے ہیں کہ :  ’’زمانۂ جاہلیت میں جو تم سے لڑا وہ ہمیشہ مغلوب رہا ۔اس کا کیا سبب ہے‘‘؟ انھوں نے عرض کیا کہ: یا رسولؐ اللہ اس کے تین سبب تھے: ۱- ہم اپنی طرف سے کسی پر ظلم یا زیادتی نہیں کرتے تھے۔ ۲- ہم خود کسی پر چڑھ کر نہیں جاتے تھے اور نہ لڑائی میں پہل کرتے تھے۔ ۳-جب ہم پر کوئی لڑائی تھوپ دیتاتو میدان جنگ میں ہم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے اور کبھی منتشر نہ ہوتے تھے۔

حضورؐ نے فرمایا: تم سچ کہتے ہو۔جو فوج یا جماعت ان اصولوں کے مطابق لڑے گی ہمیشہ غالب رہے گی۔(ابن سعد ، الطبقات الکبریٰ ، ج۱‘ ص۳۳۹، وابن ہشام ج ۴، ص ۲۶۴)

رسولؐ اللہ وفد کے ایمان ویقین سے واقف تھے اور آپ ؐ کو یہ بھی معلوم تھا کہ قبیلہ بنی حارث بن کعب شجاعت و بہادری میں کمال رکھتا ہے اور یہی ان کی عظمت و فضیلت ہے۔چنانچہ آپ ؐ نے ان کی نفسیا ت و حالات کو جانتے ہوئے ان کے اس مخصوص شعبے میں مہارت کا ذکر فرمایاکہ جس کے سبب وہ ہمیشہ غالب رہے اور ظاہر ہے جب کسی کی خاص صفت یا بھلائی و عظمت اس کی وجہ شہرت ہو یا ا س کی پہچان کا سبب ہو‘اس کاتذکرہ کیا جائے تو یہ بات اس کو دنیا و مافیھا سے بہتر لگتی ہے۔ آپؐ نے اسی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے ان سے دریافت فرمایا کہ کس سبب سے وہ ہمیشہ غالب رہے ۔جب انھوں نے تین اسباب کا ذکر کیا جو کہ تعلمیات محمدی ؐ کے بھی عین مطابق تھے تو آپ ؐ نے نہ صرف ان کی تعریف و توثیق فرمائی بلکہ یہ بھی فرمایا کہ یقینا جو کوئی ان اصولوں کے مطابق لڑے گا وہ ہمیشہ غالب رہے گا۔اس طرح وفد کے اراکین آپ ؐ کی تعلیمات سے مطمئن ہوئے اور آپ ؐ کی صحبت سے مزید اکتساب  فیض کے لیے چند دن ٹھہرے۔

خوبیوں پر نظر رکھنا

عبدالقیس کا وفد ،عبداللہ بن عوف الاشج کی قیادت میں بارگاہ رسالتؐ میں حاضر ہوا۔آپؐ کو بتایا گیا کہ یہ عبدالقیس کا وفد ہے۔آپؐ  نے ان کو مرحبا کہااور فرمایا: عبدالقیس بھی کیسی اچھی قوم ہے۔ان لوگوں نے آپؐ کو سلام کیا ۔ آپؐ نے ان کو دعوت اسلام دی اور وہ مشرف باسلام ہوئے۔ رسولؐ اللہ نے دریافت فرمایا کہ تم میں عبداللہ الاشج کون ہے؟۔عبداللہ ؓ نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ میں حاضر ہوں (وہ کریہ منظر بد شکل تھے)۔ رسولؐ اللہ نے ان کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ انسان کی کھال کی مشک نہیں بنائی جاتی البتہ آدمی کی دو سب سے چھوٹی چیزوں کی حاجت ہوتی ہے ،ایک ا س کی زبان اور دوسرا اس کا دل۔

رسولؐ اللہ نے فرمایا: اے عبداللہؓ تم میں دو خصلتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے۔ حضرت  عبد اللہ ؓنے عرض کیاکہ وہ کون سی؟ حضورؐ نے فرمایا:حلم اور وقار ۔ انھوں نے عرض کیا کہ یہ چیز پیدا ہو گئی ہے یا میری خلقت اسی پر ہوئی ہے۔آپؐ نے فرمایا کہ تمھاری خلقت اسی پر ہوئی ہے۔

اس تبلیغی وفد کی آمد اور ان کے ساتھ آپؐ کے دعوتی اسلوب او رانسانی نفسیات کے لحاظ کی چند باتیں اخذ کی جا سکتی ہیں۔

 ۱- سب سے پہلے قبیلہ عبدالقیس کے وفد کی آمد پر خوش آمدید کہا۔

 ۲- اس وفد اور اس کے رئیس کی مدح و توصیف فرمائی۔

 ۳- اس کے رئیس و قائد حضرت عبداللہؓ بن عوف الاشج ،جو بظاہر بدشکل ہیں ان کی ظاہری شکل و صورت کے برعکس ان کی داخلی صفات اور خوبیوں کا ان سب اراکین وفد کے سامنے ذکر فرمایا کہ حقیقت میں اصل خوب صورتی اور حسن ،رنگ ونسل کا نہیں بلکہ وہ اخلاق حمیدہ ہیں جن سے انسان متصف ہوتا ہے‘ اور حضرت عبداللہؓ الاشج میںجو دو خصلتیں اورخوبیاں(حلم اور وقار) ہیں یہی ان کی خوب صورتی اور حسن ہے۔اس طرح آپ ؐ نے ان کی صفات حمیدہ کا ذکر کر کے ان کے (inferiority complex)کو ختم کیا۔

   ۴- تمام اہل وفود کو انعامات و عطیات سے نوازا اور حضرت عبداللہؓ الاشج کو جو کہ وفد کے رئیس تھے سب سے زیادہ انعام دلایا۔(بخاری ‘ مسلم‘ طبقات ابن سعد۱/ ۳۱۵، رزقانی ، ۵/۱۳۳)

کوتاہی پر مواخذہ

بعض دفعہ اہل وفد یا وفد کے کسی خاص فرد میں کوئی عیب ،برائی یا جاہلیت کا مظاہرہ دیکھتے تو حکمت اور نفسیات انسانی کالحاظ رکھتے ہوئے اس کی طرف اشارہ فرمادیتے تاکہ اہل وفد عموماً اور وہ فرد خصوصاً اس سے اجتناب کرے۔

وفد بلہجیم میں ابو جری جابر بن سلیم جو کہ وفد کے قائد تھے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ ایک قطری تہبند باندھے ہوئے تھے ۔اس کے کنارے قدموں تک تھے جس سے تکبروغرور ظاہرہوتا ہے۔انھوں نے عرض کیا کہ مجھے نصیحت فرمائیں جو مجھے نفع دے تو آپ ؐ نے فرمایا: تم کسی کو گالی نہ دینا۔کسی نیکی کو حقیر نہ سمجھنا گو اسی قدر ہو کہ تم اپنے ڈول سے کسی پیاسے کے برتن میں پانی ڈال دو یا اپنے بھائی سے شگفتہ روئی سے بات چیت کرو۔اپنا تہبند (یا ازار) پنڈلیوں تک اونچا رکھو اور تہبند کو زیادہ نیچا لٹکانے سے پرہیز کرو کیونکہ یہ تکبر کی علامت ہے اوراللہ تعالیٰ کو تکبر پسند نہیں ۔ (ابوداؤد، کتاب اللباس ، باب ما جاء فی اسبال الازار، رقم حدیث ۳۵۶۲)

یہاں بھی آپ ؐ نے براہ راست اور آغاز گفتگو ہی میں مدعو کے تکبرانہ لباس پر تنقید نہیں کی بلکہ جب خود ہی مدعو نے نصیحت کا مطالبہ کیا ،جو اس کے لیے نفع بخش ہو تو آپؐ نے دیگر مواعظ کے علاوہ تہبند لٹکانے سے پرہیز کی نصیحت کی جس سے مدعو پر نفسیاتی اثرہوا۔

وفد جعفی کے دوافراد حاضر خدمت ہوئے اور اسلام قبول کیا۔آپ ؐ نے ان سے فرمایاکہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم دل نہیں کھاتے۔انھوں نے عرض کیا آپ ؐکی اطلاع درست ہے۔واقعی ہم دل نہیں کھاتے۔آپؐ نے فرمایا: ’’تمھارا اسلام دل کھانے سے مکمل ہو گا۔‘‘ پھر آپ ؐنے ان دونوں کے لیے دل منگوایا اور اسے بھونا پھر آپ ؐنے ان کو کھانے کے لیے دیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ رسولؐ اللہ ان کو یہ تعلیم دینا چاہتے تھے کہ کسی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام نہیں کر لینا چاہیے۔ (طبقات ابن سعد ‘۱/۳۶۴)

عقلی توجیہ کو پسند فرمانا

اہل وفد میں سے کوئی رکن عقلی توجیہ وتوضیح کرتا تو آپؐ اس کو پسندیدگی کی نگاہ  سے دیکھتے او ر اس کی تعریف فرماتے۔

وفد بنی قشیر بن کعب کے سردار قرۃ بن ہبیرہ حاضر خدمت ہوئے ایمان لائے اور پھر کہنے لگے: یا رسولؐ اللہ ہم نے زمانۂ جاہلیت میں اللہ کے سوا کچھ اورخدابنا رکھے تھے۔ان میں سے کچھ مذکر (بت)تھے اور کچھ مؤنث(مورتیاں)۔ہم ان کو پکارا کرتے تھے مگر وہ جواب نہ دیتے تھے ۔ہم ان سے سوال کرتے تھے مگر وہ ہمارا سوال پورا نہ کرتے تھے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا تو ہم ان کو چھوڑ کر آپؐ کے پاس آئے اور آپؐ کی دعوت قبول کر لی۔ رسول اللہ ؐ ان کی بات سنتے رہے اور اس کو پسند فرمایا ۔پھر حجۃ الوداع کے موقع پر یہ اپنے قبیلے کے ساتھ آئے اور ایک پست اونٹنی پر سوار تھے۔حضورؐ نے ان کو دیکھ لیا اور ان کو پکارا۔جب وہ قریب آئے تو آپؐ نے ان سے پوچھا ،جب تم وفد کے ساتھ میرے پاس آئے تھے تو تم نے کیا کہاتھا؟انھوں نے اپنی مذکورہ بالا باتیں دہرائیں ۔جب جانے لگے تو آپ ؐنے فرمایا: ’’جس کو عقل دی گئی وہ کامیاب ہو گیا‘‘۔(ابن الاثیر ، اسد الغابۃ ، ۴/۴۰۲ بذیل قُرہ بن ھبیرۃ)

گویا اب بھی تم ان بتوں کے بارے میں یہی رائے رکھتے ہو ۔تم نے عقل و شعور سے ان     معبودانِ باطل کی تردید کی جو نہ کوئی نفع دے سکتے ہیں اور نہ نقصان ہی پہنچا سکتے ہیں۔ عقل و شعور بہت بڑی نعمت ہے اور جس نے اس سے کام لیا یقینا و ہ کامیاب و کامران ہوا۔اس طرح رسولؐ اللہ نے ایک تو مجمع عام میں صحابی محترمؓ کے کلمات دہرانے سے توحید کی اہمیت واضح فرما دی‘ اور پھر یہ بھی بتایا کہ نہ صرف ان کی شخصیت کو آپ ؐ اچھی طرح جانتے ہیں بلکہ ان کلمات اور باتوں کو بھی آپ ؐ جانتے ہیں جو انھوں نے آپؐ کے سامنے کی تھیں۔

ذہنی کیفیت کو جاننا

بعض وفود میں سے کوئی رکن یا فرد حاضر خدمت ہوتا تو آپ ؐ سے سوال کرتا  اور آپ ؐ فوراً اس کا جواب نہ دیتے بلکہ اسی سے اس کے سوال کا جواب طلب فرماتے تاکہ وہ اس کی خود ساختہ وضاحت کر دے جو اس کے ذہن میں ہے۔اس طرح اگر وہ جواب مزاج شریعت کے مطابق ہوتا تو آپؐ اس کی تصدیق فرما دیتے اور اس کی مزید تائید فرماتے۔اس طرح کے ناصحانہ طریقے سے دی جانے والی دعوت اتنی موثر ہوتی کہ اس کی نظیر نہیں۔مدعو جب اپنی فکر وآرا کی تصدیق پا لیتا ہے‘ یا اس کے اپنے ذہن و فکر کے زاویے کی توثیق ہوجاتی ہے تو اس کا دل خوشی و مسرت سے جھومنے لگتا ہے اور وہ مزید اشتیاق و استقامت سے راہ مستقیم پرچلنا شروع کر دیتا ہے۔ چنانچہ ان دعوتی وفود کی آمد اور آپؐ سے ان کے مکالمات کا اس نقطہء نظر سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ آپؐنے اس نفسیاتی اسلوب کے مطابق دعوت دی ۔اس کی چند ایک مثالیں درج ذیل ہیں۔

بنی طے کے رئیس‘زیدا لخیل حاضر خدمت ہوئے ،اسلام قبول کیا اور عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! نودن کی دشوار گذار مسافت طے کر کے آیا ہوں ۔صرف دو باتیں دریافت کرنا ہیں۔آپؐ نے فرمایا:جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھو؟

انھوںنے عرض کیا،جو شخص اللہ تعالیٰ کو چاہتا ہے اس کی کیا علامت ہے او ر جو اللہ کو نہیں چاہتا اس کی کیا علامت ہے(بروایت دیگر جسے اللہ چاہتا ہے او رجسے نہیں چاہتا اس کی کیا علامت ہے؟)حضورؐ نے فرمایا: ’’تم زندگی کے شب وروز کیسے گزارتے تھے؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: ’’میں نیکی اور نیکی کرنے والوں اور اس پرعمل کرنے والوں کو پسند کرتا تھا۔اگر میں اس پر عمل کرتا تھا تو اس سے طمانیت ہوتی تھی اور جب یہ عمل چھوٹ جاتا تھا تو غمگین ہو جاتاتھا۔‘‘ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جو اللہ کو چاہتا ہے اور جو نہیںچاہتا اس کی یہی علامت ہے‘‘۔(سبل الھدیٰ والرشاد ،۶/۳۵۸ وابو نعیم ، الحلیۃ الاولیاء، ۴/۱۰۹،  الھیثمی ، مجمع الزوائد ، ۷/۱۹۷)

جب وہ اس بات سے مطمئن ہوئے تو آپؐ سے رخصت لی۔آپؐ نے ان کو بارہ اوقیہ چاندی اور عمدہ خوشبو عنایت فرمائی اور ان کے بارے میں فرمایا: ’’عرب کے جس شخص کی بھی فضیلت بیان کی گئی پھر و ہ میرے پاس آیا تو جو کچھ اس کے بارے میں کہا گیا تھا، میں نے اسے اس سے کم تر پایا سوائے زید کے۔(ابن سعد ، الطبقات الکبریٰ ۔ ۱/۳۲۱)

مقام و مرتبے کا لحاظ

رسولؐ اللہ کی ساری سیرت اس  بات کی دلیل ہے کہ آپؐ نے د عوت و تبلیغ میں بھی ہمیشہ مدارج کا لحاظ رکھاہے۔مخلص اور منافق،متقی اور غیر متقی کے ساتھ آپ ؐ ایک طرح کا سلوک نہیں کرتے تھے‘نہ ا س کو پسند کرتے تھے۔یہ وفود قبائل کی طرف سے اسلام قبول کرنے کے لیے آتے تھے مگر ان کے ساتھ سلوک ان کے مدارج اور خلوص کے اعتبار سے ہوتا تھا۔

حضر موت سے حضرت وائلؓ بن حجر کی قیادت میں ایک وفد بارگاہ رسالتؐ میں حاضر ہوا۔ حضرت وائل ؓبن حجر اپنے علاقے کے سر برآوردہ رئیسوں میں شمار ہوتے تھے۔ان کے وُرودِمدینہ سے پہلے ہی حضورؐ نے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا: ’’وائل بن حجر نے‘ جو ملوک حضر موت کی یاد گار ہیں ‘ اللہ اور رسول کی اطاعت قبول کر لی ہے اور وہ دور دراز کی مسافت طے کر کے مدینہ آرہے ہیں۔

جب وہ مدینہ منورہ پہنچے تو حضورؐ نے ان کا پرتپاک خیر مقدم کیا او ر اپنی رداے مبارک ان کے لیے بچھا دی ۔جب وہ ذوق وشوق سے اسلام قبول کر چکے تو اس موقع پر آپؐ نے اپنا دست ِاقدس ان کے چہرے پر پھیرا اور ان کے لیے دعا فرمائی۔الٰہی وائل ،ان کی اولاد اور اولاد کی اولاد پر برکت نازل فرما اور ان کو حضرموت کے سرداروں کا حاکم بنا۔ (تفصیل کے لیے: سبل الھدیٰ والرشاد ۶/۴۳۱)

آپؐ کی خدمت میں قبیلہ تجیب کے ۱۳ آدمی حاضر ہوئے اور اپنے ساتھ اپنے مویشی اور اموال میں سے صدقات جو ان پر فرض تھے وہ خود لے کر آئے اور عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! ہمارے اموال میں جو اللہ کا حق تھا وہ ہم آپ ؐ کے پاس لے آئے ہیں۔حضورؐ بہت خوش ہوئے اور فرمایاکہ اس کو واپس لے جاؤ او راپنے ہی یہاں کے فقرا پر تقسیم کرو۔انھوں نے کہا کہ یا رسولؐ اللہ! ہم آپؐ کے پاس وہی مال لائے ہیں جو وہاں کے فقراء پر تقسیم کرنے کے بعد بچا ہے۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے جب ان کا یہ جواب سنا تو فرمایا کہ یا رسولؐ اللہ! عرب کا کوئی وفد ایسا نہیں آیا جیسا اس قبیلہ تجیب کا وفد۔ حضورؐ نے فر مایا: ہدایت خدا کے اختیا ر میں ہے جس کے لیے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اس کے قلب میں ایمان کے لیے انشراح پیدا کر دیتا ہے۔

اس کے بعد انھوں نے رسولؐ اللہ سے کچھ باتیں پوچھیں جو حضورؐ نے ان کے لیے لکھ دیں۔ اس کے بعد پھر انھوں نے قرآن اور سنت کے متعلق کچھ سوالات کیے۔اس سے اور بھی ان کے ساتھ رسولؐ اللہ کو رغبت پیدا ہوئی اور آپؐ نے حضرت بلال ؓ کو حکم دیا کہ ان کی ضیافت بہت اچھی طرح کریں۔ حضرت بلال ؓ نے رسولؐ اللہ کے حکم سے ان کو بدلہ اور زاد ِراہ اس سے زیادہ دیا جتنا عموماً وفود کو دیا کرتے تھے۔ (سبل الھدیٰ والرشاد، ۴/۲۱۵ ، ابن سعد ۱/۳۲۳)

حسن اخلاق کا مظاہرہ

اخلاق ایک طاقت ہے بلکہ سب سے بڑی طاقت ہے۔ اچھا سلوک دشمن کو دوست بنا سکتا ہے۔ایک میٹھا بول ایک سرکش آدمی سے اس کی سرکشی چھین سکتا ہے۔ایک ہمدردانہ برتاؤ ایک ایسے جھگڑے کو ختم کر سکتا ہے جس کو ختم کرنے کے لیے لاٹھی او رگولی کی طاقت ناکام ہو چکی ہو۔یہی وہ بات ہے جس کو قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے:

وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ  فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ o (حم السجدہ ۴۱:۳۴)

اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔

وفود کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس چیز نے ان کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ آپؐ کا حسن سلوک اور اخلاق حسنہ تھا ۔جو بھی آپؐ کے قریب رہتا آپؐ سے محبت کرنے لگتا ۔حلم ووقار ،رافت و رحمت‘ برداشت وسچائی،حسنِ سلوک آپ ؐ کے اندر کا مل درجے میں پایا جاتا تھا ۔آپؐ انسانی بلندی کی اعلیٰ ترین مثال تھے جسے نفسیات کی اصطلاح میں متوازن شخصیت  (balanced personality)کہا جاتا ہے۔

۱- بعض وفود خصوصاً آپؐ کے حسن سلوک سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ایمان لے آئے۔حالانکہ  وہ صلح وامن امان کے لیے آپؐ کے پاس حاضر ہوئے تھے ۔انھی میں سے ایک وفد قبیلۂ اشجع کا تھا جو ۵ھ میں بارگاہِ رسالتؐ میںآیا۔

ایک سو یا اس سے زیادہ آدمیوں پر مشتمل یہ وفد مدینہ منورہ آیا۔ آپؐ کو ان کی آمد کی اطلاع ملی تو آپؐ نے اس بات کا انتظار نہ فرمایا کہ وہ خود بارگارہ نبویؐ میں حاضرہوں بلکہ آپؐ خود ان کے پاس تشریف لے گئے۔ خیرو عافیت پوچھی اور بڑی دیر تک کمال اخلاق اور محبت کے ساتھ ان سے گفتگو فرماتے رہے ،پھر صحابہ کرام ؓ سے فرمایا کہ اپنے مہمانوں کی کھجوروں سے تواضع کر و ۔وہ لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو آپؐ نے انہیں بڑی نرمی کے ساتھ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ انھوں نے جواب دیا ۔محمدؐ! ہم اسلام قبول کرنے کے لیے نہیں آئے ۔ہماری آمد کی غرض و غایت یہ ہے کہ آپؐ سے امن اور صلح کا معاہدہ کریں کیونکہ آپؐ کی اور آپؐ کی قوم کی آئے دن کی لڑائیوں نے ہمیں سخت پریشان کر رکھا ہے۔

رحمت عالمؐ نے خندہ پیشانی سے فرمایا:’’جو تم کہتے ہو وہ ہمیں منظور ہے ‘‘  چنانچہ امن کا ایک معاہد ہ لکھا گیا ۔ جس کو فریقین نے منظور کر لیا ۔اس دوران میں اہل وفد حضورؐ کے اخلاقِ کریمانہ سے اتنے متاثر ہوچکے تھے کہ معاہدہ صلح معرض ِتحریرمیں آنے کے معاًبعدوہ سب پکار اٹھے:

اے محمد ؐ!’’آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور آپؐ کا دین برحق ہے‘‘ ۔(ابن سعد۱/۳۰۶، بلاذری، انساب الاشراف ۱/۵۳۱، سبل الھدیٰ والرشاد ۶/۲۷۳)

آپ کے حسن معاملہ اور اخلاق عالیہ نے انھیں تسخیر کر لیااور سب کے سب دولتِ اسلام سے    بہرہ یاب ہو کر اپنے گھروں کو لوٹے اور پیغام بر ہو گئے۔

بنی سعد بن بکر کی طرف سے حضرت ضمامؓ بن ثعلبہ آپؐکی خدمت میں حاضر ہوئے ۔وہ اپنے قبیلے کے سربراہ اور نہایت دانا آدمیوں میں شمارہوتے تھے ۔اس لیے دربار رسالت میں اہل قبیلہ نے اپنی وکالت کے لیے صرف انھیں ہی بھیجنا کافی سمجھا۔وہ بدوی سادگی کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچے اور اپنی ناقہ کی مہار تھامے بلا تکلف مسجد بنویؐ میں داخل ہوگئے۔حضورؐ اس وقت صحابہ کرام ؓ کے حلقے میں تشریف فرماتھے۔حضرت ضمامؓ نے اونٹنی کو ایک کونے میں بٹھایا اور مجلس کے سامنے کھڑے ہوکر سلام کلا م کے بغیر یوں گویا ہوئے: تم میں سے کون ابن عبدالمطلب ہے (ایکم ابن عبدالمطلب )آپؐ نے فرمایا: میں ابن عبدالمطلب ہوں ۔حضرت ضمام ؓنے کہا: اے ابن عبدالمطلب آپؐ کا داعی ہمارے پاس آیا تھا۔اس نے چند باتیں آپؐ کی طرف سے ہمیں بتائی ہیں۔میں ان کی آپؐ سے تصدیق کرنا چاہتا ہوں ۔میرا لہجہ سخت اور درشت ہے۔میں سختی سے بات کروں گا۔آپؐمیرے لہجے کی درشتی سے دل میں غبار نہ لائیے گا۔ حضور ؐ نے فرمایا: تم جو کچھ پوچھنا چاہتے ہو بلا تکلف پوچھو۔ پھر وہ سوال کرتے ہیں اور حضورؐ نہایت ہی اطمینان سے ان کے ہر سوال کا جواب مرحمت فرماتے ہیں حالانکہ پورے مکالمے میں سائل کا لہجہ درشت رہتا ہے۔تعلیم وتحمل کا یہ طریقہ اس طرح کاریگر ثابت ہوتا ہے کہ وہ شخص بے ساختہ پکار اٹھتا ہے:

اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو صادق نبی بنایا،میں آپؐ کی بتائی ہوئی باتوں میں کمی بیشی نہ کروں گا۔ میں آپؐ کا دین قبول کر چکا ہوں ،میں اپنی قوم کا قاصد ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے۔(بخاری)

آپ کے حسن اخلاق‘ حسن معاملہ اور قبائل عرب کے ساتھ حکمت بھری دعوت کا فوری اثر یہ ہوا کہ اسلام کی دعوت پورے جزیرہ نماے عرب کے گوشے گوشے میں پھیل گئی۔ جب یہ وفود تعلیم نبویؐ اور تربیت نبویؐ سے مزین ہو کر اپنے اپنے علاقے اورقبیلے میں واپس جاتے تو اسوئہ نبویؐ کے مطابق ہی دعوت دیتے۔ اپنے اہل خانہ ‘ بچوں اور پھر پورے قبیلے کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کراتے۔

ان دعوتی و تبلیغی وفود کے مطالعے سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ دعوت و تبلیغ کا تعلق صورت حال سے بھی گہرا ہوتا ہے۔ وقت‘ حالات اور مخاطب کے رجحانات و میلانات کو بھی مدنظر رکھنا کس قدر ضروری ہے تاکہ اس اصل فریضہ کی ادایگی موثر طریقے سے کی جا سکے؟ اور مخاطب کے احوال و حالات کی آگاہی کے ساتھ ساتھ اس کے ساتھ ہمدردی و تعاون‘ اور اُس کی ضروریات کا لحاظ رکھنا بھی کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ بلاشبہہ وفود عرب کے ساتھ آپؐ کا طریقۂ دعوت جہاں ہمارے لیے دعوتی و تربیتی سرگرمیوں میں اسوہ حسنہ ہے وہاں اس سے تنظیم دعوت ‘ حکمت دعوت کی اہمیت بھی اُجاگر ہوتی ہے۔

 

ترجمہ: ابوسعد

ملت اسلامیہ پر آج ایسا مرحلہ آیا ہے کہ وہ اغیار کے رحم و کرم پر زندہ ہے‘ وہ جس طرح چاہیں اس سے معاملہ کریں اور اس کے معاملات میں دخل اندازی کرتے رہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس اُمت کے مزاج اور اس کی اصل کو بدل ڈالیں‘ اس کے تشخص اور تمدن میں وہ تبدیلیاں لائیں جو ان کے لیے قابل قبول ہوں۔ اغیار ہم سے ہرگز راضی نہیں ہو سکتے جب تک کہ ہم ان کی مرضی کے مطابق نہ چلیں۔

وہ چاہتے ہیں کہ ملت اسلامیہ اپنی دینی تعلیم میں بنیادی تبدیلی لائے۔ ریاست ہاے متحدہ امریکہ نے ایک سے زائد اسلامی ممالک سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے ہاں رائج دینی تعلیم کے نظام پر نظرثانی کریں۔ دینی تعلیم سے کیا مراد ہے؟ کیا وہ دینی تعلیم جو عام مدارس کے نصاب میں داخل ہے جس کے ذریعے طلبہ اپنے عقیدے‘ شریعت‘ تہذیب اور اخلاق سے واقفیت حاصل کرتے ہیں‘ یا اس سے وہ تعلیم مراد ہے جو بعض     یونی ورسٹیوں میں اسلامی ثقافت کے حوالے سے ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے‘ یا اس دینی تعلیم سے مراد وہ خاص منہج تعلیم ہے جو مختلف اسلامی ممالک کے دینی مدارس‘ شرعی مراکز اوراسلامی یونی ورسٹیوں‘ مثلاً مصر میں الازھر‘ تونس میں الزیتونہ اور بلاد مغرب میں قروین‘ سعودی عرب میں الجامعہ الاسلامیہ اور جامعہ الامام محمد بن سعود اور جامعہ ام القریٰ‘ بھارت میں مدرسہ دیوبند‘ ندوۃ العلما‘ پاکستان کی معروف دینی درس گاہوں اور ملایشیا میں کوالالمپور کے دینی مدارس میں دی جاتی ہے؟ غالب امکان یہ ہے کہ یہ مطالبہ مذکورہ تمام طرز کی دینی تعلیم کے لیے ہے‘ اور مطلوب یہ ہے کہ دینی تعلیم کو اس رنگ میں رنگا جائے جو امریکہ چاہتا ہے۔

یہ ایک عجیب و غریب مطالبہ ہے۔

کیا ہم عرب اور مسلمانوں پر وہ پابندیاں لگا دی جائیں گی جو دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان اور جرمنی پر لگا دی گئی تھیں؟ جرمنی اور جاپان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اپنے دستور‘ تعلیم اور ثقافت کو تبدیل کریں کیونکہ وہ امریکہ اور اس کے حلیفوں کے دشمن تھے اور اس جنگ میںکود پڑے تھے جس میں لاکھوں انسانوں کی جانیں تلف ہوئیں۔ حالانکہ ہم ان کے دشمن نہیں ہیں۔ جن اسلامی ممالک سے دینی تعلیم میں تبدیلی کا مطالبہ ہو رہا ہے وہ امریکہ کے دوست ملک سمجھے جاتے رہے ہیں۔ ان کے درمیان معاہدات ہیں‘ سمجھوتے ہیں‘ سفارتی تعلقات ہیں۔ ہم حالت جنگ میں نہیں ہیں‘ پھر بھی ہم سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ آخر ہم سے وہ سلوک کیوں کیاجا رہا ہے جو شکست خوردہ جنگی فریق سے کیا جاتا ہے؟ ہم نے جنگ نہیں چھیڑی مگریہ ایک طاقت ور کی کمزور پر گرفت ہے‘ ایک غالب کا مغلوب سے برتائو ہے‘ بھیڑیاآگیا بکریاں اپنی خیرمنائیں--- یہی کچھ ان دنوں ہو رہا ہے۔

کیا دہشت گردی دینی تعلیم کا نتیجہ ہے؟

امریکہ کیا چاہتا ہے؟ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ ہماری دینی تعلیم کو بدل ڈالے۔ حالانکہ یہاں نہ دہشت گردی سکھائی جاتی ہے اور نہ اس کے نتیجے میںدہشت گردی ہی پروان چڑھتی ہے۔ یہ کس نے کہہ دیا کہ دہشت گردی دینی تعلیم سے پھلتی پھولتی ہے؟ کیا اسامہ بن لادن‘ ایمن الظواہری‘ عبدالسلام فرج اور خالد الاسلامبولی اور وہ جن پر دہشت گردی کے الزامات لگائے گئے ہیں‘ کیا ان میں سے کوئی ہے جس نے جامعہ الازھر سے یا کسی معروف دینی درس گاہ سے تعلیم حاصل کی ہو؟ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس نے کسی معروف دینی درس گاہ سے تعلیم حاصل کی ہو۔ ہاں‘ یہ صحیح ہے کہ طالبان ضرور دینی مدارس کے فارغ ہیں لیکن وہ دہشت گرد نہیں ہیں۔ طالبان پر کچھ بھی الزامات لگائے جائیں‘ مگر دہشت گردی کا الزام ان پر صادق نہیں آتا۔ امریکہ بھی یہ کہتا رہا ہے کہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ دہشت گرد ہیں‘ ہم ان سے اور جو انھیں پناہ دیتے ہیں‘ ان سے بھی لڑیں گے۔ طالبان کو دہشت گرد نہیں‘ بلکہ ان کو پناہ دینے والے قرار دیا گیا تھا۔ یہ کتنی کم ظرفی کی بات ہے کہ اب کہتے ہیں کہ طالبان دہشت گرد ہیں۔

طالبان نے جو کچھ کیا وہ صرف یہ کہ بن لادن کو اپنے ملک میں پناہ دی۔ حقیقت یہ ہے کہ بن لادن اور القاعدہ افغانستان میں اس وقت سے تھے جب سرخ سامراج (سابق سوویت یونین) کے خلاف افغانستان میں جہاد جاری تھا اور جنھیں برسوں امریکہ اور عرب و اسلامی ممالک کی سرپرستی حاصل رہی تھی۔ پھر یہی مجاہدین‘ مجرم قرار دیے جانے لگے ‘ ان کے راستے مسدود کر دیے گئے‘ ان سے اسباب چھین لیے گئے اور وہ اس قابل بھی نہیں رہے کہ اپنے ملکوں کو واپس جا سکیں کیونکہ وہاں ان کی آمد پر دارورسن ان کا مستقبل تھا۔ اس لیے وہ افغانستان ہی میں رہے اور افغانیوں نے ان کے ساتھ اپنے روایتی اخلاق کا برتائو اختیار کیا کہ جس نے ان سے پناہ طلب کی اس کو ہرگز بے یارومددگار نہیں چھوڑا۔ یہ حسن سلوک ہے دہشت گردی نہیں ہے۔

اس دنیا میں دہشت گردی مختلف رنگوں میں نظر آتی ہے جس کا کوئی تعلق دین سے یا دینی تعلیم سے ہرگز نہیں۔ یہ خود امریکہ میں ‘ برطانیہ میں‘ جاپان میں موجود ہے۔ بھارت اور اسرائیل میں بھی موجود ہے۔ ہر جگہ کے واقعات ریکارڈ پر ہیں۔ پھر کیوں صرف اسلامی دینی تعلیم ہی پر دہشت گردی کا الزام لگایا جاتا ہے؟

امریکی دل چسپی کا سبب

آخر امریکہ اسلامی دینی تعلیم میں تبدیلی کے مطالبے سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟ کیا وہ یہ چاہتا ہے کہ اس تعلیم کا اثر زائل کر دے تاکہ حیات مسلم پر اس کا کوئی اثر باقی نہ رہے؟ اگر یہی بات ہے تو یہ تبدیلی دہشت گردی کو ختم کرنے میں ممد ثابت نہ ہوگی بلکہ یہ اُمت کے اخلاق کو بری طرح متاثر کرے گی اور اُمت اپنے بنیادی اصولوں سے عاری ہو جائے گی۔ یہ اُمت بے راہ رو اُمت بن جائے گی۔

اخلاق کی بنیاد دین ہے اور دین زندگی کا جوہر اور اس کا راز ہے‘ اور اگر یہ زندگی سے گم ہو جائے تو زندگی‘ زندگی نہ رہے۔ دین ایک قوت سے عبارت ہے جوخیر کی محافظ ہے اور شر کولگام دیتی ہے۔ دین انسان کے لیے ضابطہء حیات متعین کرتا ہے۔ اگر دین کا کردار ختم کر دیا جائے تو اس کے معنی ہوں گے کہ شر پھیلنے لگے‘ جرائم بڑھنے لگیں‘ فساد پھیلے‘ بے حیائی عام ہو اور ضمیر کے سودے سرعام ہونے لگیں۔ اگر دین کو زندگی سے نکال باہر کردیا گیا تو یہی کچھ ہو کر رہے گا۔

مسلم ممالک کے سیکولر حکمران چاہتے ہیں کہ ترکی کی سیکولر اور متشدد حکومت کی طرح دین کو عام مسلمانوں کی زندگی سے خارج کر دیں۔ ترکی مدارس میں دین نہیں سکھایا جاتا۔ ترک عوام نے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اپنے وسائل سے ہزاروں قرآنی مدارس کا آغاز کیا جس میں بچوں کو قرآن ناظرہ پڑھایا جاتا ہے۔ وہاں وہ قرآن پڑھتے ہیں مگر اس کے معنی نہیں جانتے۔ کیا یہ تعلیم بھی کہیں دہشت گردی پھیلا سکتی ہے؟ مگر اس کے باوجود سیکولر ترکی حکومت نے ان مدارس پر پابندی لگا دی اور مدارس بند کر دیے گئے۔ کیا یہ ایسا ہی چاہتے ہیں؟ کیا یہ چاہتے ہیں کہ دینی تعلیم ان بنیادی مقاصد سے عاری ہو جائے جو ایک کامل مسلمان اور مرد مومن کی نشوونما کے ضامن ہیں۔ وہ مرد مومن جو حق پر ایمان رکھتا ہے اور اس کے راستے میں جہاد کرتا ہے۔ خیر کی طرف بلاتا ہے‘ بھلائیوں کا حکم دیتا ہے اور منکرات سے روکتا ہے اور باطل کا مقابلہ کرتا ہے اور حق کو مضبوطی سے تھامے رہتا ہے۔ وہ اس کی پروا نہیں کرتا کہ اس راستے میں کیسی اذیتیں اور پریشانیاں اسے لاحق ہیں۔ ایک ایسی شخصیت جو اللہ کے راستے میں اپنا سر ہتھیلی پر رکھ لیتی ہے‘ جو اس کی راہ میں شہید ہو جاتے ہیں جس طرح ہمارے بھائی حماس اور جہاد اسلامی و دیگر جہادی تنظیموں میں شہید ہو رہے ہیں‘ کیا وہ چاہتے ہیں کہ جہاد کا یہ تصور دین سے حذف کر دیں؟ ہو سکتا ہے کہ وہ یہی چاہتے ہوں۔ کچھ سیکولرعرب ممالک نے یہ کام کر دیا ہے۔ خصوصاً ان ممالک نے جو سیکولرازم اور تشدد کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔

اہل مغرب کا کہنا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے کہ دین داروں سے جنگ کرو‘ انھیں قیدخانوں میں ڈال دو اور ان پر تسلط حاصل کرلو اور انھیں مالی و نفسیاتی سزا دو۔ دین داروں کے خلاف محاذ اسی وقت جیتا جا سکتا ہے جب ان چشموں کو خشک کر دیا جائے جہاں سے دین کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ اس کو منبع آب خشک کرنے کا نام دیا گیا ہے۔ یقینا امریکہ دینی تعلیم میں تغیر کے اپنے مطالبے سے یہی کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے جو اسے اصلاح اور تجدید کے حوالے سے پیش کر رہا ہے۔ یہ اصلاح اور تجدید نہیں‘ بلکہ فساد اور گمراہی ہے۔

کیا امریکہ یہ چاہتا ہے کہ دینی تعلیم کے منہج میں کچھ تبدیلی آئے تاکہ اسلامی فکر اور رواداری پروان چڑھے؟ حالانکہ اسلام ایک ایسی فکر کا حامل ہے جو دوسروں کے ساتھ گفت و شنید کے لیے ہر وقت تیار‘ اور مخالفین کے ساتھ عفو و درگزر اور دشمنوں کے ساتھ احسان کا رویہ پیش کرتی ہے‘ اور انسان کو بحیثیت بشر ایک برادری اور خاندان کے افراد سمجھتی ہے جو ایک باپ آدم ؑ کی اولاد اور ایک رب اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے۔ اگر امریکہ یہ چاہتا ہے تو ہم اس مطالبے میں امریکہ سے آگے ہیں۔

دین کو ہم الاسلام کہتے ہیں جو ایک کھلا اور روادار دین ہے۔ ہم مسلمانوں کے متشدد اور تنگ نظر اور متعصب عناصر کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ تعصب‘ تنگ نظری اور جمود سے رواداری اور حرکت کی طرف‘دشواری اور منافرت سے آسانی اور خوش خبری کے ماحول کی طرف‘ غلو اور بے اعتدالی سے انصاف اور اعتدال کی راہ پر آئیں۔ حسداور بغض کے بجائے ہمدردی اور رحمت کو اپنائیں۔ ہم مسلمانوں کو اس طرف بلاتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ امریکہ ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے بلکہ اس لیے کہ ہمارے دین نے اس کا حکم دیا ہے۔ یہ خود ہماری دعوت ہے۔ اس کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ یہ امریکہ اور اس کے حلیف کی طرف سے دبائو کے ذریعے کرائی جائے۔ ہم اسی دینی تعلیم کے منہج کے دعوے دار ہیں جس سے صحابہ اور تابعین نے استفادہ کیا اور وہ لوگ اسلام کا بہتر  فہم رکھنے والے‘ اس کی روح سے اچھی طرح واقف‘ اس کے مقاصد سے آشنا‘ اس سے زیادہ تعلق رکھنے والے‘ اس کے ارکان و آداب پر اچھی طرح عمل کرنے والے لوگ تھے۔ ہم اُس اسلام کی طرف دعوت دیتے ہیں جو کہ صحابہ کرامؓ کی اولین جماعت نے سمجھا جن کی تربیت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے خود کی تھی اور جن کے ذریعے سے اس اُمت کی تشکیل کی گئی۔ ہم اس کی طرف بلاتے ہیں اور ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے کہ اغیار ہمیں دین سکھائیں۔

اسلام ہی ہدف کیوں؟

سوال یہ ہے کہ صرف اسلام اور مسلمان ہی دہشت گردی کا ہدف کیوں؟ دوسری تمام اقوام سے  صرفِ نظر کر کے صرف مسلمانوں سے ہی مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے کہ وہ دینی تعلیم میں تبدیلی لائیں؟ آخر اسرائیلیوں سے یہ مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا‘ جب کہ اسرائیل وہ قوم ہے جس نے خوں ریزی اور غارت گری کو جائزٹھہرا لیا ہے۔ جن کے ہاں خون بہانا‘ عزت نفس سے کھیلنا اور انسانی رشتوں کا لحاظ نہ کرنا کوئی گناہ نہیں‘ ان کی اپنی اسی دینی تعلیم کی بنیاد پر جو تورات میں دی گئی ہے۔ تورات میں موسیٰ علیہ السلام سے یہ کہا گیا ہے کہ اگر تم کسی قوم پر فتح حاصل کرلو اور کسی ملک میں داخل ہو جائو تو وہاں کے باشندوں کو مارو۔ مرد اور عورت دونوں پر تلوار چلائو اور ان کے گائے‘ بھیڑبکریاں‘ گدھوں اور دیگر جانوروں کو قتل کر دو‘ یعنی ہر طرح کی غارت گری روا رکھو۔ یہ وہ سبق ہے جو انھیں تورات سکھاتی ہے۔ جہاں تک تلمود کا تعلق ہے وہ اس سے زیادہ شدید‘ زہریلی اور قساوت سے پُر ہے کیونکہ وہ تمام غیر اسرائیلیوں کو مذموم ٹھہراتی ہے۔ تمام غیر اقوام کو وہ جانوروں کی طرح سمجھتی ہے اور وہ بھی کتوں سے بدتر‘ اور یہ کہ دیگر انسان خدا کی محبوب قوم بنی اسرائیل کے مملوک اور غلام ہیں۔ یہ اور اس طرح کی باتیں تلمود کہتی ہے اور جس کے تعلق سے قرآن بھی گواہی دیتا ہے جب وہ اشارہ کرتا ہے کہ ’’وہ کہتے ہیں کہ ہمارا امیین (غیر اسرائیلیوں) سے کوئی عہد نہیں ہے اور یہ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں جانتے بوجھتے ہوئے‘‘۔ اسرائیلیوں کے نزدیک کسی غیر اسرائیلی کی نہ کوئی حرمت ہے اور نہ کوئی منزلت اور وقعت ہی۔ یہی ان کی دینی قدریں ہیں۔

یہ سب جاننے کے باوجود امریکہ اسرائیل سے کیوں مطالبہ نہیں کرتا کہ وہ اپنی دینی تعلیم بدل ڈالے۔ وہ اسرائیل کی دینی جماعتوں‘ حزب شاش جیسے متشدد گروہوں پر کیوں دبائو نہیں ڈالتا حالانکہ یہی لوگ ہیں جو عربوں کا قتل عام روا رکھتے ہیں اور جنھیں ان کا نام و نشان باقی رکھنا گوارا نہیں ہے۔ اسرائیل کے لیے سب حلال ہے اور مسلمانوں اور عربوں کے لیے سب حرام ہے۔

امریکہ کا یہ مطالبہ امریکہ میں موجود ان بنیاد پرست مسیحی گروہوں سے کیوں نہیں ہے جوکھلے عام یہودی اور صہیونی سازشوں میں تعاون کرتے ہیں اور اس کو وہ دینی تقاضا سمجھتے ہیں جن کی تعلیم نے کروڑوں پر اثر ڈالا۔ بشمول امریکی صدر‘ جمی کارٹر ہوں یا بش (باپ)‘ ریگن ہوں یا کلنٹن اور موجودہ صدر بش (بیٹا)۔ یہ تمام اسی مسیحی فکر سے متاثر ہیں جس کو اصولی مسیحیت یا صہیونی مسیحیت کہا جاتا ہے۔ شاید اوکلاہاما سٹی کے دھماکوں میں جو ملوث تھے وہ بھی اسی ذہن کے پرداختہ تھے اور ان کے علاوہ درجنوں اور تنظیمیں اور گروہ امریکہ میں موجود ہیں جو اس زمرے میں آتی ہیں۔ آخر ان کا نام کیوں نہیں لیا جاتا؟ اسی طرح آئرلینڈ کے کیتھولک مسلح گروہ جو برطانیہ میں پروٹسٹنٹ طبقے سے برسرپیکار ہیں‘ ان کو کیوں ملزم نہیں سمجھا جاتا؟

حد یہ ہے کہ ہمارے رفاہی اور خدمات عامہ کے ادارے بھی ان کی زد میں ہیں۔ حال ہی میں امریکی وفود نے خلیج کا دورہ کیا تاکہ ان اداروں کی جانچ پڑتال اور نگرانی کی جائے اور ان کا کسی بھی طرح کا تعاون بقول ان کے دہشت گردوں کو نہ ملنے پائے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ان سے کوئی تعاون فلسطین نہ جائے۔ حماس‘ الجہاد تنظیم اور حزب اللہ اور دیگر تمام اسلامی جماعتیں جو اپنے دین و وطن کی مدافعت کر رہی ہیں ان سے کٹی رہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ خلیج میں موجودہ رفاہی اور خدمت خلق کے اداروں پر پابندی لگائیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ہر معاملے میں اپنی رائے ٹھونسیں۔ یہ جدید استعمار ہے۔ نیا استعمار نئے نام اور نئے انداز سے آرہا ہے۔ یہ اشد ضروری ہے کہ خلیج اور دیگر عرب و اسلامی ممالک اس طرح کی دخل اندازی کو مسترد کر دیں۔ ہم کسی کے غلام نہیں ہیں۔ ہم صرف اللہ وحدہ لاشریک کے غلام ہیں: کہہ دو کہ میری نماز‘ میری قربانی‘ میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا حکم مجھے دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مطیع و فرماں بردار ہوں۔

اُمت مسلمہ کی ذمہ داری

میں اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ ہمارے دینی اداروں میں بھی مختلف طرح کی خامیاں موجود ہیں۔ ہمارے ملکوں کے یہ تمام ادارے اصلاح کے محتاج ہیں اور اس کی ضرورت ہے کہ ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا رہے۔ زندہ قومیں اپنا احتساب خود کرتی ہیں۔ اپنے حال اور مستقبل پر مسلسل نظر رکھتی ہیں اور اس بات کا انتظارنہیں کرتیں کہ کوئی غیر انھیں اس کام کے لیے متوجہ کرے۔ خود امریکہ اپنے حالیہ نظام تعلیم کا جائزہ لے رہا ہے۔ انھوں نے ایک جاپانی وفد کو دعوت دی کہ امریکی نظام تعلیم کی اصلاح کے ضمن میںوہ اپنے مشورے پیش کرے لیکن یہ فیصلہ امریکہ نے خود کیا تھا کسی اور نے اس پر ٹھونسا نہیں تھا۔ ہم ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیںاور ہمارے مفکرین اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ نظام تعلیم کا احیا اور جائزہ مسلسل ہوتا رہنا چاہیے۔ یہ ایک فطری ضرورت ہے۔ اکثر لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہماری مروجہ دینی تعلیم جمود کا شکار ہے۔ وہ ماضی سے عبارت ہے اور عصرحاضر کے تقاضوں سے میل نہیں کھاتی‘ وہ عصرحاضر جس کا دائرہ بہت وسیع ہے‘ جس کی ثقافت متنوع ہے اور جس کے مسائل نئے نئے اور ان گنت ہیں۔ ہماری دینی تعلیم اس سے کوئی سروکار نہیں رکھتی۔

ہم اس بات کے خواہاں ہیں کہ ہم علم دین کی ترویج ماضی کے علمی ورثے اور جدید تقاضوں کے پیش نظر کریں۔ ہمارے ماضی میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ اہل دانش کو چاہیے کہ وہ اپنے زمانے سے واقف اور اپنی خودی کے نگہبان رہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ دینی تعلیم بند حصار سے باہر نکل آئے اور جمود سے چھٹکارا پائے اور علم کو وسیع تر آفاق پر محیط کرے۔ بعض دینی مدارس عصری علوم سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے۔ وہ جغرافیہ سے نابلد ہیں‘ نہ فزکس کی معرفت ہے‘ نہ کیمیا‘ نہ علوم حیاتیات کے ہی مبادیات سے واقف ہیں۔ انسان اگر ان اہم علوم کے مبادی سے ناواقف ہو تو اس دور میں کیسے جی سکتا ہے۔ جب ہم بعض مسائل پر گفتگو کرتے ہیں جن کا تعلق عصری علوم سے ہو تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں کے فارغ التحصیل صحیح صورت حال کو سمجھ نہیں پاتے۔ ہمارے علما یہ کہتے ہیں کہ مفتی کے لیے ضروری ہے کہ وہ نصوص دین کی طرح مسئلے کی حقیقی صورت حال سے بھی اچھی طرح آگاہ ہو۔ دین اور عصرحاضر کے علوم میں مہارت کے بغیر صحیح فتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔ رویت ہلال کے مسئلے سے آگاہی ممکن نہیں جب تک علم فلکیات سے واقفیت نہ ہو۔ جب ہم نہیں جانتے کہ فلکیات کیا ہے‘ چاند گرہن اور سورج گرہن کیا ہے اور شمس و قمر کی گردش کس حساب میں ہے تو پھر کیسے کوئی حتمی رائے قائم کر سکتے ہیں۔ اسی طرح سے توالد و تناسل کے جدید علم سے واقف ہوئے بغیر ہم کیسے کوئی شرعی رائے بیان کر سکتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل میں فلپائن کے دورے پر تھا۔ وہاں میں نے اسلامی اور عربی مدارس کا دورہ کیا۔ ہم نے اہل مدارس سے عرض کیا کہ آپ لوگ ماضی بعید میں رہتے ہیں جیسا کہ آج سے ۱۰۰ سال قبل الازھر تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ آخر آپ انگریزی زبان کیوں نہیں سیکھتے؟ عصری علوم کیوں نہیں پڑھتے؟ اپنے انداز تدریس کو سہل اور جدید کیوں نہیں بناتے؟ اور نئے سمعی و بصری وسائل تدریس سے استفادہ کیوں نہیں کرتے؟ تو انھوں نے کہا یہ سب چیزیں وافر وسائل سے ہی ممکن ہیں۔ ہم صرف متوکل اساتذہ کے تعاون سے یہ ادارے چلاتے ہیں۔ اگر وہ مشاہرہ لیتے بھی ہیں تو بہت قلیل سا۔ انگریزی‘ طبیعیات‘ کیمیا‘ جغرافیہ وغیرہ کے مدرسین کے لیے بڑی بڑی تنخواہیں چاہییں۔ یہ ہم کہاں سے مہیا کریں؟ یوں ایک اہم مسئلہ مالی وسائل کی کمی کا ہے۔

یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ مسلمان جو وافر وسائل اور کارخیر کا جذبہ بھی رکھتے ہیں‘ ان حالات میں بھی جب کارخیر کا سوچتے ہیں تو سوائے ایک کے کوئی اور کام ان کے خیال میں نہیں آتا‘ اور وہ ہے مسجد کی تعمیر۔ یقینا اس کی ضرورت مسلمانوں کو ہے۔ مگر مسلمانوںکو مدارس کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جیسے مسجد کی یا اس سے بھی کچھ زیادہ۔ مدرسے اور مساجد ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ ہمیں مساجد کی ضرورت ہے‘ مدرسوں کی ضرورت ہے‘ اسٹیڈیم کی ضرورت ہے‘ مختلف تربیتی‘ تعلیمی‘ ثقافتی اور ابلاغی اداروں کی ضرورت ہے جن سے ہمارے معاشرے کی ضرورتیں پوری ہوں‘ وہ اس کے ارتقا کے ضامن بن جائیں اور اپنا موثر اور بھرپور کردار ادا کر سکیں۔

یہی وہ تبدیلی ہے جو ہم دینی تعلیم میں دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ نشوونما پائے‘ ترقی کرتی رہے‘ اس کے منہج بہتر ہوتے رہیں‘ عصرحاضر میں زندہ رہے اور حیات انسانی کے ساتھ سفر کرتی رہے۔ یہاں تک کہ ہر لحظہ وہ اپنے رب کے اذن سے اپنے ثمرات عطا کرتی رہے۔ (خطبہ جمعہ ‘ ۱۸ جنوری ۲۰۰۲ء‘ مسجد عمر بن خطاب‘ دوحہ‘ قطر)

 

مغرب میں آج کل اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ اسی حوالے سے گذشتہ دنوں ہفت روزہ نیوزویک نے ’’۲۰۰۲ء کے مسائل‘‘ کے عنوان سے ایک خصوصی شمارہ (دسمبر ۲۰۰۱ء-فروری ۲۰۰۲ء) شائع کیا ہے جس میں مسلمانوں سے موجودہ کش مکش کے منظر کو موضوع بنایا گیا۔ ’’اختتام تاریخ‘‘ شہرت یافتہ امریکی مفکر فرانسس فوکویاما کا مضمون اسلامی احیائی تحریکات کے حوالے سے توجہ کا مستحق ہے۔

وہ پہلی بات یہ کہتا ہے کہ جدید سرمایہ دارانہ تہذیب کے اصل دشمن ’’اس دور کے فاشسٹ‘‘ ، ’’اسلامی انقلابی‘‘ (Radical Islamists) ہیں۔ یہ لوگ جدید لبرل جمہوریت اور سرمایہ داری کو‘ جو فوکویاما کے تصور میں انسانی تاریخ کی بہترین ممکنہ معاشرتی ارتقائی شکل پیش کرتی ہے‘ نفرت‘ حقارت اور دشمنی کی نگاہ سے اپنا مدمقابل سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کا واقعہ اسی کا مظہر تھا۔ ان کا وجود اس جدید تہذیب کی حیات اور بقا کے سلسلے میں بنیادی سوال بن کر اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اس مخالفانہ رویے کو اختیار کرتے وقت‘ اس کے خیال میں‘ مسلمان یہ بھول جاتے ہیں کہ امریکہ ہی نے صومالیہ‘ بوسنیا‘ کوسووا اور چیچنیا میں مسلمانوں پر ظلم کے خلاف آواز بلند کی تھی۔

فوکویاما کے یہ خیالات ایک قدم آگے بڑھ کر احیائی تحریکات کے حوالے سے ایک نئی اصطلاح استعمال کرتے ہیں‘ یعنی "Islamo Facists"۔ اس کے بقول:

"The Islamo fascist sea within which the terrorists swim constitutes an  Ideological challenge that is in some ways more basic than the one posed by communism" (p  58)

اسلامی فاشزم کا سمندر‘ جس میں دہشت گرد تیرتے ہیں‘ ایسا نظریاتی چیلنج ہے جو بعض اعتبار سے کمیونزم کے چیلنج سے زیادہ بنیادی ہے۔

فوکویاما کی نظر میں مسلمانوں کو یہ فیصلہ جلد کرنا ہوگا کہ کیا وہ ’’جدیدیت‘‘ (modernity) کے ساتھ ایک امن کا رشتہ قائم کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو انھیں سیکولر ریاست اور مذہبی رواداری کو اختیار کرنا ہوگا (ص۵۹)۔ موصوف کے یہ خدشات تو بڑی حد تک ہن ٹنگٹن کی فکر کا تکملہ نظر آتے ہیں‘ لیکن مغرب کی نمایندہ فکر ہونے کے سبب سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کا تقاضا بھی کرتے ہیں۔

ان تمام خدشات کی بنیاد چار غلط فہمیوں پر ہے۔

اولاً یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ تحریکات احیاے اسلام دراصل ماضی پرست تحریکات ہیں۔ حالانکہ اسلامی تحریکات دراصل اجتہادی تحریکات ہیں اور اسی بنا پر خود مسلم ممالک میں جو طبقات روایتی مذہب پرستی کے قائل ہیں وہ ان تحریکات کی مخالفت میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔ حقیقتاً ماضی پرست تو وہ ہیں جو اسلاف کی ہر عادت کو جامہ تقدس پہنا کر اپنے اُوپر فرض کر لیتے ہیں‘ جب کہ تحریکات اسلامی صرف قرآن و سنت کی بنیاد پر نئے حالات کی روشنی میں تجزیے اور عقل کی بنیاد پر ایک لائحہ عمل پیش کرتی ہیں جس میں اسلام محض عبادات تک محدود نہیں رہتا بلکہ جدید معاشی‘ سیاسی‘ معاشرتی اور بین الاقوامی مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ یہ تحریکات آج کے مسائل اور مستقبل کے امکانات کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتی ہیں اور کسی پہلو سے بھی قدامت پرست اور ماضی کی پرستار نہیں کہی جاسکتیں۔

دوسرا غلط مفروضہ یہ ہے کہ اسلامی تحریکات شدت پسند تحریکات ہیں اور مغرب سے اپنے غصے‘ نفرت اور دشمنی کے پیش نظر اسے تباہ و برباد کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ ایک مفکر کی حیثیت سے فوکویاما کو ایک انتہائی غلط اور بے بنیاد بات پر بھی یقین کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اگر تعصبات سے بلند ہو کر دیکھا جائے تو اسلامی احیائی تحریکات‘ مثلاً انڈونیشیا میں ماشومی‘ ترکی میں حزب رفاہ‘ سوڈان میں اخوان المسلمون‘ الجزائر میں فاس‘ پاکستان میں جماعت اسلامی اور اسی طرح بنگلہ دیش‘ ہندستان‘ سری لنکا‘ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی جماعت اسلامی‘ حتیٰ کہ شام‘ عراق‘ اور اُردن کی اخوان المسلمون نے کبھی تشدد‘ انتہا پسندی اور قوت کے استعمال کو نظری اور عملی حیثیت سے اختیار نہیں کیا۔ مصر میں صرف ایک محدود وقت کے لیے اخوان المسلمون نے خفیہ طریقہ اختیار کیا لیکن وہ بھی دوسرے مرشدعام حسن الہضیبی کے دورسے کھلے اور جمہوری ذرائع پر عامل تحریک بن گئی۔ علمی دیانت کا تقاضا ہے کہ جن مقامات پر تحریکاتِ حریت برپا ہیں‘ وہ فلسطین ہو یا مقبوضہ کشمیر‘ ان پر دیگر تحریکات کو قیاس نہ    کیا جائے۔

تیسری اہم بات یہ قابل غور ہے کہ تحریکات اسلامی جو اپنا تشخص دعوت و اصلاح کو قرار دیتی ہیں اور رنگ‘ نسل‘ زبان اور قومیت سے بلند ہو کر یورپ اور امریکہ کی اقوام کو اسلام کے پیغام امن کی دعوت دینے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرتی ہیں‘ کیا عقلی اور منطقی طور پر ان اقوام کو نفرت اور دشمنی کا نشانہ بنا سکتی ہیں؟ کیا اتنا بڑا تضاد ممکن ہے؟ فوکویاما اور اس قسم کے مفکرین اسلام کے بنیادی اخلاقی تصور کو نظرانداز کر جاتے ہیں‘ یعنی یہ کہ وہ جہالت‘ ظلم اور بغاوت و فتنہ و فساد کا دشمن ہے۔ اگر فرعون جیسا ظالم اور سرکش اسلام کی دعوت کو سوچ سمجھ کر قبول کر لے تو وہ ولی حمیم بن سکتا ہے۔ اسی لیے خود خالق کائنات نے اپنے رسول حضرت موسٰی ؑکو یہ حکم دیا کہ جائو اور وقت کے باغی کو انتہائی نرمی سے دعوت امن و فلاح دو۔ یہ انبیاء کی سنت رہی ہے۔ خود رسولؐ اللہ نے مکہ اور طائف میں اس سنت پر عمل کیا۔ آج بھی تحریکات اسلامی اس پر عامل ہیں۔ گویا تحریکات اسلامی کی دشمنی جہالت‘ فحاشی اور فتنہ و فساد سے ہے۔ جو لوگ ان برائیوں میں پڑے ہوں اگر وہ اخلاقی رویہ اختیار کر لیں تو وہی بہترین ساتھی بن جاتے ہیں۔ یہاں معاملہ کسی قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کا نہیں ہے اور نہ اس پر ناجائز قوت کا استعمال کرکے اپنی عظمت کا سکّہ منوانا ہے۔ فوکویاما کا ایک تبصرہ اس حوالے سے چونکا دینے والا ہے۔ وہ جرمن فاشزم کی مثال دے کر کہتا ہے:

"German Fascism did not collapse because of its internal moral contradiction; it died because  Germany was bombed to rubbles  and occupied by the Allied armies (p 58-59)

جرمن فاشزم اپنے اندرونی داخلی تضادات کی بنیاد پر منہدم نہیں ہوا۔ اس کی موت اس لیے واقع ہوئی کہ جرمنی کو بم باری کرکے ایک ڈھیر بنا دیا گیا اور اتحادی افواج نے اس پر قبضہ کر لیا۔

اس تبصرے میں ایک واضح پیغام "Islamo-fascists" کے ساتھ ساتھ ان ممالک کے لیے بھی موجود ہے جو ایسے ممالک اور افراد سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ امریکہ نے بیسویں صدی کی شدید ترین بم باری کے ذریعے افغانستان کو نشانہ بنا کر دوسروں تک یہ پیغام پہنچایا۔

جہاں تک سوال تشدد اور قوت کے استعمال کا ہے‘ اسلامی تحریکات اپنی ساخت‘ طریقہ کار اور لائحہ عمل کے لحاظ سے فاشزم سے کوئی مماثلت نہیں رکھتیں بلکہ تاریخی طور پر مکی دور سے آج تک فاشسٹ قوتوں کا نشانہ بنتی رہی ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جہاد جو اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے ایک صحیح الفہم مسلمان کو متحرک  توکرتا ہے‘ متشدد نہیں بناتا‘ اور نہ اس میں ’’مذہبی جنون‘‘ پیدا کرتا ہے۔

کاش مغربی مفکرین اسلامی تحریکات احیا کو معروضی طور پر مطالعہ کرنے کے بعد کوئی رائے قائم کرتے!

 

جہادِ اکبر اور جہادِ اصغر سے متعلق گفتگو میں‘ اکثر لوگ بحث کو غلط رخ دے دیتے ہیں۔ یہاں دو چیزوں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔

۱- اس گفتگو اور بحث کا مقصد‘ ہرگز یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم تزکیہ نفس کی اہمیت اور افادیت کا انکار کریں‘ اور نفس کے فتنوں کے بارے میں‘ چوکنا نہ رہیں اور نفس کے شر سے پناہ نہ مانگیں۔ البتہ یہ بات یاد رہے کہ قرآن مجید نے‘ جہاد نفس کے بجائے‘ تزکیہ نفس کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اصطلاحات کے بارے میں‘ ہمیں بہت محتاط رہنا چاہیے۔ یہ دلیل کافی نہیں ہے کہ    ؎

الفاظ کے پیچوں میں اُلجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے

قرآن مجید کی روشنی میں انسانی نفس سرکش ہو کر الٰہ بن سکتا ہے (الفرقان ۲۵:۴۳)۔ قرآن مجید نے ہمیں ان لوگوں کی (بالخصوص ایسے حکمرانوں کی) اطاعت سے روکا ہے‘ جن کا قلب غافل ہے‘ جو خواہشاتِ نفس کے غلام ہیں اور جن کے اوامر و احکامات‘ اعتدال کی راہ سے ہٹ کر افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ (الکہف۱۸:۲۸)

۲- کافروں سے جہاد ہی‘ جہادِ اکبر ہے۔ اس جہاد کو‘ جہادِ اصغر کہنا ایک عظیم فتنہ ہے۔ ۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد کے حالات میں‘ مغرب نے جس طرح‘ جہادِ اسلامی کے خلاف‘ اپنے الیکٹرونک میڈیا پر مہم شروع کر رکھی ہے اور مختلف مسلمان ممالک میں‘ اسلامی تحریکوں کا دائرہ تنگ کرنے کے لیے ہرقسم کی سازشیں روا رکھی جارہی ہیں‘ وہ کسی باخبر‘ غیرت مند مسلمان سے مخفی نہیں۔ ان حالات میں‘ ہمارے مسلمان حکمرانوں کو (حیرت ہے وہ بھی مسلمان فوجی حکمرانوں کو) ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو انھیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر‘ ضعیف اور موضوع مواد فراہم کرتے ہیں‘ تاکہ نصوصِ قطعیہ (قرآن و سنت صحیحہ) کی تخفیف اور تحقیر ہو سکے اور دین کے مسلمات اور مہمات اختلافی بن جائیں۔

اس موضوع پر‘ سب سے اچھی اور سیرحاصل بحث‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (المتوفی ۷۲۸ھ) نے کی ہے‘ جو ان کے فتاویٰ جلد ۱۱‘ صفحہ ۱۹۷ تا ۲۰۱ پر دیکھی جا سکتی ہے۔

امام ابن تیمیہؒ نے‘ دلائل نقل و عقل سے‘ ثابت کیا ہے کہ مندرجہ بالا روایت کی کوئی اصل نہیں ہے (لاَ اَصْلَ لَہٗ) اور اہل علم و دانش میں سے کسی نے بھی‘ اس کو حضورؐ کے اعمال و اقوال کے طور پر روایت نہیں کیا ہے۔ جہادِ کفار ہی‘ جہادِ اکبر ہے اور یہی اعظم اور افضل اعمال میں سے ہے۔

امام ابن تیمیہؒ کے دلائل حسب ذیل ہیں:

۱-  قرآن نے واضح طور پر‘ قاعدین پر مجاہدین کی فضیلت بیان کی ہے (النساء ۴: ۹۵)

۲-  جہاد‘ حاجیوں کو پانی پلانے اور خانہ کعبہ کی تعمیر سے بھی افضل ہے (التوبہ ۹:۱۹)

۳- امام صاحبؒ نے کئی احادیث نقل کی ہیں‘ جن سے جہاد کی افضلیت اور برتری ثابت ہوتی ہے۔ خوفِ طوالت سے انھیں درج نہیں کیا جا رہا ہے۔

عصرِحاضر کے عظیم محدث علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (المتوفی ۱۴۲۰ھ) نے اپنے مشہور سلسلے کی جلد ۵‘ حدیث نمبر ۲۴۶۰ میں اس کی تخریج کی ہے اور اس روایت کو منکر قرار دیا ہے۔ الفاظ کے جزوی اختلاف کے ساتھ‘ اس کی دو سندیں ہیں‘ جس کا ذکر ملا علی قاریؒ کے حوالے سے مارچ کے ترجمان القرآن(’’مدیر کے نام‘‘)میں پہلے ہو چکا ہے۔

۱- پہلی روایت کا ذکر‘ امام بیہقی  ؒاور امام شافعیؒ نے کیا ہے۔ اس کی سند کے تینوں راوی ضعیف ہیں (ابن حجر)۔ الف: عیسیٰ بن ابراہیم ؒ (البرکی)۔ یہ صدوق ہیں لیکن بسااوقات وہم کا شکار ہو جاتے ہیں‘ جو ان کے ضعف پر دلیل ہے‘  لَیْسَ بِجَیِّدٍ۔ ب:  لیث ابن ابی سلیم اختلاط کی بنیاد پر ضعیف ہیں۔ ج: یحییٰ بن یعلی (الاسلمی) بھی ضعیف ہیں۔ د: البتہ بقیہ راوی ٹھیک ہیں۔

۲- خطیب بغدادیؒ نے تاریخ میں‘ جو روایت نقل کی ہے‘ اس کی سندکے تین راویوں کے متعلق تفصیلات حسب ذیل ہیں:

الف: الحسن بن ہاشم کے بارے میں‘ البانی ؒکو تفصیلات نہیں ملیں۔ یہ گمنام ہیں۔ ب: یحییٰ بن ابی العلا سے مراد‘ شاید یحییٰ بن العلا الکذاب ہے (ظن غالب یہی ہے کہ یحییٰ بن ابی العلا ہی یحییٰ بن یعلی ضعیف ہیں‘ جن کا ذکر اُوپر کی سند میں ہوا ہے)۔ ج: لیث تو ضعیف ہیں ہی‘ جن کا ذکراُوپر ہو چکا ہے۔

عظیم مفکر‘ متکلم‘ مفسر اور الجہاد فی الاسلام جیسی بے مثال کتاب کے مصنف‘ حضرت مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے‘ الحمدللہ اس روایت کو‘ ضعیف ہی قرار دیا ہے‘ صحیح تو قرار نہیں دیا جیساکہ امام بیہقی ؒوغیرہ نے کہا ہے‘ اس میں کیا اشکال ہے؟ کیا مولانا مودودیؒ مرحوم نے‘ اس ضعیف روایت سے‘ (جس کو بعض علما نے باطل اور بعض علما نے منکر اور بعض علما نے لاَ اَصْلَ لَہٗ  کہا ہے) وہ مطلب نکالا ہے‘ جو آج ہمارے بعض فوجی حکمران‘ مغرب کی جنگی قوت اور طاغوتی بالادستی سے مرعوب ہو کر‘ نکال رہے ہیں؟

ایک ایسی ضعیف سند پر مشتمل روایت کی بنیاد پر‘ قرآن و سنت کے محکم نصوص و دلائل کو نظرانداز کر کے‘ افضل چیز کی تحقیر اور تخفیف کرنا‘ دین کے بنیادی مزاج میں تحریف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے اور مسلم حکمرانوں اور بالخصوص فوجی افسران کو‘ قرآن اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں‘ جہادکے صحیح تصور کو سمجھنے اور اس پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


عاصم نعمانی

اس حدیث کو مولانا مودودیؒ نے وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ط (الحج ۲۲:۷۸) کے تحت متن کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مولانا مفتی محمد شفیعؒ نے معارف القرآن میں اسی آیت کے تحت متن کے ساتھ حدیث بیان کی ہے اور امام بیہقی  ؒکا حوالہ دیا ہے‘ نیز یہ بھی لکھا ہے کہ امام بیہقی  ؒ نے فرمایا ہے کہ اس حدیث میں ضعف ہے۔کنز العمال میںمتذکرہ حدیث دو جگہ بیان ہوئی ہے: حدیث نمبر ۱۱۲۶۰ و نمبر ۱۱۷۷۹۔ خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ البغداد میں ۵۲۳‘ ۵۲۴‘ ج ۱۳ پر نقل کی ہے۔ امام جلال الدین عبدالرحمن سیوطی ؒنے الدرر المنتثرہ میں اسے درج فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ تفسیرکشاف زمخشریؒ، تفسیر الکبیر امام الفخر الرازی‘ اور تفسیر بیضاویمیں بھی اس حدیث کو درج کیا گیا ہے۔ اسے باطل قرار دینا مناسب نہیں۔


عتیق الرحمٰن صدیقی

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تفہیم القرآن‘ جلد سوم میں یہ حدیث یقینا نقل کی ہے مگر اس کے استنادی پہلو پر کچھ بھی نہیں کہا بلکہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد یہ لکھا ہے کہ’’ اس کے بعد جہاد کا وسیع تر میدان پوری دنیا ہے‘ جس میں کام کرنے والی تمام بغاوت کیش اور بغاوت آموز اور بغاوت انگیز طاقتوں کے خلاف دل اور دماغ اور جسم اور مال کی ساری قوتوں کے ساتھ سعی و جہد کرنا وہ حق جہاد ہے جسے ادا کرنے کا یہاں مطالبہ کیا جا رہا ہے‘‘ (ص ۲۵۴)۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے جس مفہوم میں اس حدیث کا ذکرکیا تھا مولانا مودودیؒ کی مذکورہ وضاحت اس فلسفے کی نفی کرتی ہے۔

 

صہیونی وزیراعظم آریل شارون نے ۱۹۵۶ء میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا ’’میں نے اس خطے میں پیدا ہونے والے ہرفلسطینی بچے کو جلا کر راکھ کر دینے کا عہد کیا ہے۔ یہ بچے اور عورتیں ہمارے لیے زیادہ خطرہ  ہیں کیونکہ ان کے باقی رہنے کا مطلب آیندہ فلسطینی نسلوں کا تسلسل ہے۔ فلسطین کرانیکل نامی رسالے نے اپنے تازہ شمارے میں ۴۵ سال پرانے جس انٹرویو کا اعادہ کیا ہے اس سے شارونی ذہنیت اور ارادوں کی تصویر واضح دکھائی دیتی ہے۔ اس نے مزید کہا تھا ’’خواہ مجھے ہر منصب کھونا پڑے اور میں ایک عام اسرائیلی شہری شمار کیا جانے لگوں‘ میرا یہ عہد ہے کہ اپنے سامنے آنے والے ہر فلسطینی کو کچل ڈالوں گا‘ اور اسے موت کی وادی میں جھونکنے سے پہلے اسے بدترین عذاب سہنے پر مجبور کروں گا۔ مجھے کسی عالمی قانون یا ضابطے کی پروا نہیں ہے۔ میں نے رفح میں ایک ہی حملے کے دوران ۷۵۰ فلسطینی قتل کیے تھے… میں چاہتا ہوں کہ اپنے فوجیوں کو فلسطینی خواتین کی عزت لوٹنے پر اُبھاروں کیونکہ وہ سب اسرائیل کے غلام ہیں۔ وہ ہم پر اپنی رائے اور اپنا ارادہ مسلط نہیں کر سکتے۔ حکم جاری کرنے کا حق صرف ہمیں حاصل ہے‘ باقی سب کو ہماری اطاعت کرنا ہے‘‘۔ ۴۵ سال کے بعد ایک بار پھر شارون قول و عمل سے اپنی اسی پالیسی کا اعلان کر رہا ہے۔ اس نے اپنے تازہ ترین بیان میں کہا ہے ’’اے اسرائیلی قوم! اسرائیل حالت جنگ میں ہے… دہشت گردی کے خلاف جنگ… ہمیں ان دہشت گردوں کے خلاف بے رحم جنگ لڑنا ہے تاکہ ان وحشی فلسطینیوںکا مکمل خاتمہ ہو جائے‘ ان کا بنیادی ڈھانچہ ختم ہو جائے… ان دہشت گردوں کے ساتھ کوئی درمیانی راستہ نہیں نکل سکتا‘‘۔

شارون نے فلسطینی شہروں‘ بستیوں اور مہاجر کیمپوں میں اپنی اس درندہ ذہنیت کا جس طرح عملی مظاہرہ کیا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ شہروں کے شہر ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں‘ لاشوں کے انبار کسی دفن کرنے والے کے انتظار میں گھلنا اور پگھلنا شروع ہو گئے ہیں‘ لاتعداد عمارتوں کے مکینوں کے لیے ان کی تباہ شدہ عمارتیں ہی قبریں بن گئی ہیں‘ کوئی انھیں ملبے کے نیچے سے نکالنے والاباقی نہیں بچا۔ تباہی اس انتہا کو پہنچی ہوئی ہے کہ دسیوں ورلڈ ٹریڈ سنٹر اس کے سامنے ہیچ ہیں‘ لیکن ۱۱ ستمبر کے بعد پوری دنیا کو اپنے ساتھ کھڑا دیکھنے یا اسے دہشت گرد قرار دینے والے صدر جارج بش اپنے باغیچے میں اپنے کتے کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے ہوئے بیان دیتے ہیں کہ ’’مجھے اسرائیل کی اپنے دفاع کے لیے کی جانے والی کارروائیوں کی اہمیت و ضرورت کا بخوبی ادراک ہے‘‘۔ پھر مزید کہا: ’’پوری دنیا کے رہنمائوں کو دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں ہمارا ساتھ دینا ہوگا۔ یہ بات یاسرعرفات پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب سے تین ہفتے پہلے یاسر عرفات کے لیے بہت کچھ کرنا ممکن تھا اور اب بھی بہت کچھ ممکن ہے۔ لیکن اس نے میری اُمیدوں کو خاک میں ملا دیا ہے۔ وہ دہشت گردی کو کچلنے کے لیے پوری طرح تیار نہیں‘‘۔

اقوام متحدہ کی تازہ ترین قرارداد ۱۴۰۲ میں صہیونی افواج سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ رملّہ سمیت تمام فلسطینی علاقوں سے نکل جائیں اور تشدد کی تمام کارروائیاں ختم کر دیں۔ چونکہ یہ قرارداد کویت و عراق سے متعلق نہیں تھی اس لیے امریکہ نے اسے بھی سابقہ قراردادوں کی طرح ردی کا ایک ٹکڑا سمجھا اوربیان دیا : ’’اسرائیل اپنے طے شدہ نظام الاوقات کے مطابق فلسطینی علاقوں سے نکلے گا اور اس نے اس ضمن میں ہمیں پوری طرح اعتماد میں لیا ہے‘‘۔ صہیونی وزیراعظم نے امریکہ کا شکریہ ادا کیے بغیر کہا: ’’امریکہ کو ہماری دفاعی ضروریات کا پورا ادراک ہے۔ البتہ ہم نے اسے یقین دلایا ہے کہ ہم یاسر عرفات کی جان کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے‘‘۔

یاسر عرفات جو گذشتہ تقریباً تین ہفتوں سے اپنے ہیڈ کوارٹرز میں محصور ہیں بالآخر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ’’یہ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں یا گرفتار کرنا چاہتے ہیں یا یہاں سے بھگا دینا چاہتے ہیں لیکن میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں شہید ہوں گا‘ شہید ہوںگا‘ شہید ہوں گا‘‘۔ پھر مزید کہا کہ ’’اسرائیل کبھی امن نہیں چاہے گا۔ شارون امن کو نہیں جانتا… ہم پر یہ بات پوری طرح واضح ہو جانی چاہیے‘‘۔ جناب یاسر عرفات کو اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنے میں تقریباً ۱۵ سال لگ گئے۔ گذشتہ ۱۵ برس سے وہ صہیونی انتظامیہ کے ساتھ امن معاہدوں کے سراب کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔ اوسلو معاہدے کے بعد بھی مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے۔ وائی ریور اور کیمپ ڈیوڈ ثانی سمیت کئی بار اسی بات کا اعادہ کیا گیا کہ ’’زمین کے بدلے امن‘‘ فارمولا موثر ثابت ہو رہا ہے۔ چیئرمین یاسر عرفات کو صدر یاسر عرفات کہا جانے لگا‘ انھیں امن کے نوبل انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا‘ دہشت گردی کو کچلنے کے لیے انھیں چکی کا دوسرا پاٹ کہا گیا‘ دنیا بھر میں امریکی صدر کو تعریف کے قابل کوئی شخصیت ملتی تو وہ یاسر عرفات تھے۔ لیکن انھیں کیسا یاسرعرفات مطلوب تھا؟ یاسر عرفات کے ایک مشیر نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتے تھے یا تو ہم اپنی فلسطینی قوم کو جلاد بن کر خود قتل کرنا شروع کر دیں‘یا جیلر بن کر انھیں جیل میں ڈال دیں۔ لیکن ہم نے یہ کردار قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

اگرچہ یاسر عرفات کے گرد بھڑکتی آگ کو وہی پتے ہوا دینے لگے ہیں جن پہ انھوں نے تکیہ کیا تھا۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ یاسر عرفات انتظامیہ نے امن کے سراب اور تعریفوں کے انبار کا شکار ہو کر اپنے ہی بھائی بند کو جیل اور گولی کا نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کیا۔ ان موجودہ حالات میں بھی عرفات انتظامیہ کے سیکورٹی انچارج جبریل الرجوب نے حماس کے چھ مجاہدین کو اپنی جیل میں بند رکھ کر انھیں صہیونی افواج کی گولیوں کا نشانہ بننے دیا۔ یہ چھ فرشتہ صفت مجاہد آخری لمحے تک رجوب سے یہ اپیل کرتے رہے کہ یا تو وہ انھیں رہا کر دے تاکہ وہ یاسر عرفات سمیت پوری فلسطینی قوم کو تہ تیغ کرنے پر آمادہ صہیونی افواج کا مقابلہ کرسکیں اور اگر نہیں تو قید ہی میں ان کے لیے کوئی ایسا انتظام کر دے کہ اگر وہاں اسرائیلی افواج حملہ آور ہوں تو وہ اپنا دفاع کر سکیں۔ رجوب نے دونوں مطالبات نہیں مانے اور مزید چھ شہدا کا خون اپنے سر لے لیا۔

یاسر عرفات اور ان کے ساتھیوں کو گویا اب بھی کوئی یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ صہیونی انتظامیہ اور اس کی سرپرست امریکی حکومت کے دل جیتنے کی کوشش ہی سے دوام و بقا حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت تو وہی ہے جسے یہ سب بھی جانتے ہیں اور جسے قرآن کریم میں بھی تاکید کے ساتھ کہہ دیا گیا: ’’یہ یہود و نصاریٰ ہرگز تم سے راضی نہ ہوں گے یہاں تک کہ تم ان کے دین کی پیروی کرنے لگو‘‘۔

حالیہ تباہی اور صہیونی درندگی نے اُمت مسلمہ کی عمومی صورت حال پر گہرا اثر مرتب کیا ہے۔ عوام تو عوام‘ خواص تک بھی اس قیامت پرتلملا اُٹھے ہیں۔ عوام میں بیداری تو اس حد تک جا پہنچی ہے کہ متعدد عرب حکومتوں کو اپنا اقتدار بچانے کے لیے مختلف ڈرامے رچانے پڑ رہے ہیں۔ فلسطین میں برپا یہ قیامت گزشتہ قیامتوں سے اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ گذشتہ ادوار میں آزاد عرب ابلاغیاتی ذرائع ناپید تھے لیکن اب الجزیرہ سمیت کئی عرب سیٹلائٹ چینل موجود ہیں جو فلسطین میں وقوع پذیر ہر واقعے اور حادثے کی ۲۴گھنٹے فوری رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ عرب سربراہی کانفرنس یا اس کی سفارشات و قراردادیں ہوں یا اس کے اگلے ہی دن اسرائیلی تازہ جارحیت کا آغاز ہو‘ لاشوں کے ڈھیر ہوں یا یاسر عرفات اور مسیحی کلیسوں تک سے پانی‘ بجلی‘ غذا کا منقطع ہو جانا اور وہاں ٹینکوں ‘ توپوں‘ راکٹوں اور دیگر امریکی ہتھیاروں کے انبار ہوں‘ ہر چیز اسی لمحے دنیا بھر کے سامنے ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ صہیونی درندگی‘ امریکی سرپرستی اور عرب حکمرانوں کی بے حسی پر اس ابلاغیاتی کارکردگی کا کوئی اثر نہیں ہوا‘ لیکن عرب عوام تڑپ اٹھے ہیں۔ وہ لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اگر آج بھی فلسطینیوں کی مدد نہیں کرنا تو اربوں ڈالر کے اخراجات سے بنائی گئی عرب افواج کس مرض کی دوا ہیں؟ لندن کے ایک مظاہرے میں شریک ایک نوجوان‘ ٹی وی نمایندے کو کہنے لگا ’’ہم اپنے حکمرانوں سے کسی چیز کا تقاضا نہیں کرتے سوائے اس کے کہ خدارا ہماری جان چھوڑ دو… دولت چاہتے ہو تو جتنی چاہتے ہو اپنے ساتھ لے جائو‘ لیکن اپنے دشمن سے نمٹنے کے لیے ہمیں آگے آنے دو‘‘۔ ایک اور شریک مظاہرہ کہنے لگا: ’’ہمیںہتھیار دے دو اور ہمارے سامنے سرحدیں کھول دو‘‘۔ اور تو اور لیبیا کا صدر قذافی کہنے لگا: ’’ہمارا اسلحہ زنگ آلود ہورہا ہے‘ اسے استعمال کرنے کی نوبت کب آئے گی‘‘۔ واضح رہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق صرف خلیجی ریاستوں کی امریکی اسلحے کی سالانہ خرید ۵۰ ارب ڈالر سے متجاوز ہے۔

اس عوامی ردعمل میں یہ مطالبہ بھی پوری شدت سے سامنے آیا کہ اسرائیلی جارحیت رکوانے کے لیے اس کے سرپرست امریکہ پر دبائو بڑھایا جائے۔ پٹرول کا ہتھیار آخر کب کام آئے گا۔ عراق نے تو اپنی مجبوری کے عالم میں ۳۰ روز کے لیے پٹرول کی ترسیل منقطع کر دی لیکن اس کی اصل افادیت اس صورت میں سامنے آتی کہ اہم عرب اور اسلامی ممالک اس ہتھیار کواستعمال کرتے‘ لیکن بدقسمتی سے انھوں نے کہا کہ ’’پٹرول کی ترسیل روکنے کا زیادہ نقصان خود ہمیں ہوگا‘کیونکہ پیسہ ملنا بند ہو جائے گا‘‘۔

اس مفروضے کو پٹرولیم کے معروف ماہر‘ شاہ فیصل اور دیگر سعودی فرماں روائوں کے ساتھ ربع صدی تک وزیر پٹرول کی حیثیت سے ذمہ داری انجام دینے والے احمد ذکی یمانی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں غلط ثابت کیا۔ انھوں نے کہا ’’پٹرول کے ہتھیار کو استعمال کرنے کا یہ آخری موقع ہے۔ ہم اگر آج بھی یہ نہ کر سکے تو یہ ہتھیار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کند ہو کر رہ جائے گا۔ اس وقت بھی دنیا کے پٹرولیم ذخائر کا تین چوتھائی حصہ خلیج میں ہے۔ امریکہ مجبور ہوگا کہ اس قوت کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے ہم سے بات کرے‘‘۔ انھوں نے ۱۹۷۳ء کے اختتام اور ۷۴ء کے اوائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب شاہ فیصل نے یہ ہتھیار استعمال کیا تو امریکہ اس وقت بھی مجبور تھا کہ تیل کی صنعت کے لیے ضروری آلات کی ترسیل جاری رکھے اور اس نے ایسا ہی کیا‘‘۔

صہیونی مظالم کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے احمد ذکی یمانی نے کہا ’’مجھے آج اپنے عرب ہونے پر شرم اور ذلت محسوس ہوتی ہے‘ میری راتوں کی نیند اُڑ گئی ہے‘ میں اپنی زندگی کے بدترین ایام گزار رہا ہوں‘ میں فلسطینی عوام پر توڑے جانے والے مظالم کے مناظر دیکھتا ہوں تو میرا رواں رواں تڑپ اٹھتا ہے: کیا ہم واقعی ان کے بھائی ہیں؟‘‘ عرب عوام میں بیداری اور اپنے حکمرانوں سے بیزاری کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’’میں عرب عوام کو غیظ و غضب سے کھولتا ہوا دیکھتا ہوں لیکن ساتھ ہی یہ دیکھتا ہوں کہ وہ ایک وادی میں ہیں اور ہمارے حکمران دوسری وادی میں ہیں۔ حالانکہ انھیں بخوبی معلوم ہے کہ امریکی کانگریس اسرائیلی پارلیمنٹ سے زیادہ اسرائیل کی وفادار اور امریکہ میں شارون امریکی صدر بش سے زیادہ طاقت ور ہے‘‘۔

آج حکومتوں کی بے حسی‘ امریکہ کی سرپرستی اور صہیونی درندگی کی بدترین تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ لیکن اس پورے تناظر میں فلسطینی نوجوانوں اور بچوں ہی نہیں‘ فلسطینی خواتین کا ایک کردار ایسا ہے کہ حالات جتنے بھی سنگین ہوتے چلے جائیں کامیاب اسی کردار کے رکھنے والوں کو ہونا ہے کہ ان سے ان کے رب کا یہ وعدہ ہے کہ اگر تم اللہ کی نصرت کرو گے تووہ تمھاری نصرت کرے گا۔ ان فلسطینی جانبازوں کا ذکر بہت طویل نہیں ہوسکتا ہے لیکن ایک شہید محمد عودہ کی وصیت کے یہ الفاظ ہمارے اس پورے مضمون کا عنوان ہیں: ’’جب تم میری شہادت کی خبر سنو تو فخر سے اپنے سربلند کر لینا… اتنے بلند کہ آسمان کی وسعتوں کو چھونے لگوکیونکہ تمھارے بیٹے نے اللہ سے ملاقات چاہی تھی اور اللہ نے اسے اس ملاقات کا شرف عطا کردیا‘‘۔ واضح رہے کہ محمد عودہ ۲۵ سالہ صہیونی افواج کی فہرست مطلوبین میں سرفہرست تھا اور اس کی اس استشہادی کارروائی کے نتیجے میں ۲۰ سے زائد یہودی فوجی جہنم رسید ہوئے۔

امریکہ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے عالمی تجارتی مرکز پر حملوں کی آڑ میں دنیا بھر میں رفاہی کام کرنے والی مسلم تنظیموں اور اداروں تک کو مفلوج کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ دہشت گردی کے نام پر القاعدہ قرار دے کر ہر کسی کو پکڑا جا رہا ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کے خدمت خلق اور رفاہی ادارے‘ جو پریشان حال مسلمانوں کوکسی نہ کسی طور پر سنبھالے ہوئے ہیں‘ ان کے دفاتر بند کرنے اور اثاثے منجمد کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور دفاتر سے وابستہ کارکنوں کو تفتیش کے ذریعے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر داڑھی والے اور عرب رہن سہن کے حامل افرادان کا نشانہ ہیں۔ اس کا ایک مقصد فعال مسلمانوں کا گھیرائو ہے اور دوسرا یہ کہ رفاہی اداروں کو بند کر کے ‘ وسائل کی فراہمی کو منقطع کر کے مسلمانوں کو بے یارومددگار اور بے بس و لاچار کردیا جائے‘ اور بڑی جدوجہد کے بعد مسلمانوں نے امداد باہمی اور فلاح و بہبود کا جو نظام وضع کیا ہے‘ اسے برباد کر دیا جائے۔ مزید برآں امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے دنیا بھر کے ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع بھی مل رہا ہے۔

پکڑ دھکڑ کا یہ عمل افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے دنیا بھر میں جاری ہے۔ امریکہ‘ یورپی ممالک‘ عرب ممالک‘ جنوبی ایشیا‘ وسطی ایشیا‘ فلپائن اور دیگر ممالک کے بارے میں ایسی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ امریکہ کے دبائو پر حال ہی میں پاکستان میں فیصل آباد اور لاہور میں بھی القاعدہ سے وابستہ افراد کے نام پر پکڑ دھکڑ میں بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ معصوم اور بے گناہ افراد کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ لاہورسے کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا کہ وہ عربی بول رہے تھے۔ بعد میں پتا چلا کہ ان کا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عدل و انصاف اور قانون اور ضابطے کی یوں سرعام پامالی کی جا رہی ہے۔ کچھ ایسا ہی منظر بلقان کی ریاستوں میں بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔

بلقان کے خطے میں ۱۱ ستمبر کے بعد ہی سے اسلام پسندوں اور فلاحی اداروں سے وابستہ ارکان کے خلاف امریکہ کے زیرنگرانی کریک ڈائون کا عمل جاری ہے۔ ۱۸ جنوری ۲۰۰۲ء کو اس ضمن میں ایک اہم واقعہ اس وقت پیش آیا جب بوسنیا کی حکومت نے امریکی حکام اور خفیہ اداروں کے کہنے پر چھ الجزائری باشندوں کو گرفتار کرلیا اور ان کے بارے میں اس شبہے کا اظہار کیا کہ ان کا تعلق القاعدہ سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق دو اسلامی مسلح گروپوں: الجزائر آرمڈ اسلامک گروپ اور مصر کے الجمعیہ الاسلامیہ کے ساتھ ہے۔ لیکن کھلا تضاد یہ ہے کہ انھیں امریکی حکام کے حوالے بوسنیا کی سپریم کورٹ کے فیصلے کے صرف ایک روز بعد ہی رہا کر دیا گیا جس میں انھیں کسی ثبوت کے نہ ہونے کی وجہ سے بے گناہ قرار دے کر رہا کر دیا گیا تھا۔ گمان ہے کہ ان چھ افراد کو بھی گنٹانامو میں دیگر افغان قیدیوں کے ساتھ منتقل کر دیا گیا ہے۔

اس سے قبل بھی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے تین عرب باشندوں کو کوسووا میں نیٹو کی سربراہی میں کے-فار (K-For) آپریشن کے تحت گرفتار کیا گیا۔ یہ گرفتاری گلوبل ریلیف فائونڈیشن کے دفتر کوسووا میں عمل میں آئی اور اسے ۱۴ دسمبر ۲۰۰۱ء کے آپریشن کے تحت گرفتاریوں کے تسلسل کا ایک حصہ قرار دیا گیا۔ کے-فار کے نمایندے کے بیان کے مطابق ایک مشترکہ سرچ آپریشن اقوام متحدہ کی پولیس کے تعاون سے پریسٹینا اور ڈی جیکوویکا میں گلوبل ریلیف فائونڈیشن کے دفاتر میں بھی کیا جا چکا ہے جس کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا اور بہت سی دستاویزات اورسامان بھی پکڑا گیا۔ گرفتار شدہ ان تین افراد کے نام تک نہیں بتائے جا رہے بلکہ صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ یہ عرب باشندے ہیں جن سے مشکوک مواد برآمد ہوا ہے۔ مقامی پریس کے مطابق تین میں دو عراقی ہیں‘ جب کہ تیسرا شخص کوئی عرب ہے۔

کے-فار کے مطابق ان کے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں کہ فائونڈیشن کے ملازمین عالمی دہشت گردی کی سرگرمیوں میں براہِ راست ملوث ہیں۔ ترجمان کے مطابق گلوبل ریلیف فائونڈیشن مبینہ طور پر امریکہ اور یورپ کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی میں بھی شامل ہے۔ البتہ کے-فار القاعدہ سے وابستگی یا کسی دوسری سرگرمی میں تنظیم کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت پیش کرنے کے لیے تیار نہیں۔انسانی حقوق کی علاقائی تنظیمیں اس اقدام کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کے مطابق اس بیان میں کوئی حقیقت نہیں۔

کوسووا میں ان اقدامات سے قبل ایف بی آئی نے شکاگو کے نزدیک گلوبل ریلیف اور بینوویلنس انٹرنیشنل کے مرکزی دفاتر پر چھاپہ مارا۔ دونوں اداروںنے جو ہر سال لاکھوں ڈالر جمع کر کے عالم اسلام میں مختلف فلاحی امور میں تقسیم کرتے ہیں‘ ان الزامات کو غلط قرار دیا اور اس بات کی قطعی تردید کی کہ ان کا القاعدہ یا کسی بھی دوسرے ایسے گروپ سے کوئی تعلق ہے۔ ربیح حدید کو جو لبنانی ہیں‘ گلوبل ریلیف کے صدر ہیں اور مشی گن میں رہایش پذیر ہیں‘ ۱۴ دسمبر کو ٹورسٹ ویزے کی مقررہ میعاد سے زیادہ قیام کرنے پر یوایس امیگریشن ڈیپارٹمنٹ نے گرفتار کرلیا۔

امریکی دبائو کے تحت بوسنیا کی حکومت نے بھی سرچ آپریشن کیا اور اس کے تحت دو فلاحی تنظیموں گلوبل ریلیف اور Talibah انٹرنیشنل کے دفاترپر سراجیوو میں چھاپہ مارا‘ اہم دستاویزات کو قبضے میں لے لیا اور سات ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی۔

بلقان کی دیگر حکومتوں کی طرح البانیہ نے بھی امریکہ کا’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ البانوی وزیرداخلہ Ilir Gjoni نے ۱۵ ستمبر کو ایک اعلامیے کے تحت پولیس کو حکم دیا کہ وہ ملک بھر میں مقیم عرب باشندوں پر کڑی نگاہ رکھے اور ملک میں داخل ہونے والے اسلام پسند دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کے لیے ہرممکن اقدام کرے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے البانوی پولیس ایف بی آئی کے ساتھ مکمل تعاون کر رہی ہے۔ اکتوبر میں ایک قانون کے تحت امریکی حکام کو دہشت گردوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ملک بھر میں اقدامات کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔ ۶ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو تِرانہ میں پانچ عرب باشندوں کو جن میں دو مصری‘ دو عراقی اور ایک اُردنی شامل ہے‘ ۱۱ ستمبر کے واقعے کی تحقیقات کے سلسلے میں گرفتار کر لیا گیا۔

۲۲ جنوری ۲۰۰۲ء کو البانوی حکومت نے یسین القادی کو جو ایک سعودی تاجر اور موافق فائونڈیشن کا سرپرست تھا‘ گرفتار کر لیا۔ ۱۳ البانوی بنکوں میں موجود لاکھوں ڈالر کے اس ادارے کے اثاثے منجمد کردیے۔ موافق ان رفاہی اداروں میں سے ایک ہے جس پر امریکہ نے الزام لگایا ہے کہ اس کا القاعدہ سے تعلق ہے۔ قادی اسلامک ڈویلپمنٹ بنک کے اشتراک سے بننے والی ایک تعمیراتی کمپنی کا پارٹنر ہے۔ البانیہ میں اس کے بہت سے تعمیراتی منصوبے جاری تھے۔

۱۱ ستمبر کے بعد امریکی حکام نے بوسنیا کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کی تحقیق کرے کہ ۱۹خودکش ہوا بازوں میں سے کس کا تعلق بوسنیا سے ہے۔عملاً ناکامی کے بعد مزید کچھ ناموں کی فہرست بھی دی گئی جن کا تعلق دہشت گردی سے جوڑا گیا تھا‘ البتہ نام ظاہر نہیں کیے گئے۔

مختصر اًیہ کہ بلقان کے خطے میں امریکی حکام نے مختلف بیانات اور اقدامات کے ذریعے مسلسل ایک خوف و ہراس کی فضا قائم کر رکھی ہے۔ کبھی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو بند کرنے کے احکام جاری کیے جاتے ہیں کہ دہشت گردی کا خدشہ ہے۔ Carla del Ponte نے جو کہ ہیگ میں بین الاقوامی   جنگی جرائم ٹریبونل کی وکیل ہیں‘ نے ایک بیان میں کہا کہ القاعدہ سے وابستہ گروپ پورے بلقان میں منظم ہیں اور ٹربیونل ان کی سرگرمیوں کی تفصیلات جمع کر رہا ہے لیکن وہ کسی قسم کی سرگرمی کی نشان دہی نہیں کر سکیں۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل‘ جارج رابرٹسن نے اعلان کیا کہ کوسووا میں القاعدہ کے سیل دریافت ہو چکے ہیں۔  سرب وزیر داخلہ نے ایک بیان میں کہا کہ کوسووا میں بن لادن سے وابستہ مسلمان مجاہدین کے بارے میں اس نے امریکہ کو معلومات فراہم کی ہیں جو کوسووا‘ بوسنیا اور البانیہ میں تربیتی کیمپ چلا رہے ہیں۔ سرب نائب وزیراعظم Nebojsa Covic نے کہا کہ کوسووا میں سیکڑوں بن لادن پائے جاتے ہیں مگر ابراہیم روگوا‘ صدر ڈیمو کریٹک الائنس آف کوسووا نے اسے محض سرب پروپیگنڈا قرار دیا۔

سرب اور مقدونیا میڈیا اس پروپیگنڈے کو خوب اُچھال رہا ہے۔ اس قسم کی رپورٹیں شائع کی جارہی ہیں کہ بلقان میں ۱۰ ہزار کے قریب عرب اور مسلمان مجاہدین موجود ہیں جو بن لادن کے حمایتی ہیں اور کچھ القاعدہ سے مالی امداد بھی وصول کرتے رہے ہیں۔ ان رپورٹوں میں اس بات کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ مسلمان مجاہدین اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے رفاہی اداروں کی آڑ لیے ہوئے ہیں۔

ان حالات کے پیش نظر ۱۱ ستمبر کے بعد بلقان کی ریاستوں کی صورت حال دنیا کے دیگر مسلمان ممالک سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آتی۔ امریکہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ’’دہشت گردی کے خاتمے‘‘کی آڑ میں مسلمانوں‘ اسلامی تحریکوں اور مسلم رفاہی اداروں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گیا ہے اور اس مقصد کے لیے اسے کسی بھی طرح کے اقدامات کرنے میں کوئی تامل نہیں ہے۔ اس کڑے وقت میں اُمت مسلمہ کو اپنے وجود اور زندگی کا ثبوت دینا چاہیے۔ دنیا میں صرف مسلمان ہی امن و انصاف کی یقینی ضمانت کے نظریے کے حامل ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکہ کی غیر منصفانہ اور غیر معتدل پالیسی کے مقابلے کے لیے حکمت عملی وضع کی جائے‘ رائے عامہ کو ہر سطح پر ہموار کیا جائے‘ امریکی پالیسی سے خائف مغربی ممالک سے رابطہ کیا جائے‘ سفارتی کوششیں تیز کی جائیں‘ انسانی حقوق کی تنظیموں کا تعاون حاصل کیا جائے اور ایک بھرپور‘ پرامن مہم چلائی جائے۔ ظلم کے خلاف اور امن و انصاف کے لیے جدوجہد کے نتیجے میں دنیا میں ایک نئی لہر دوڑائی جا سکتی ہے۔ (ماخوذ: کریسنٹ انٹرنیشنل‘ کینیڈا‘ ۲۸ فروری ۲۰۰۲ء)

 

قرب الٰہی حاصل کرنے کے لیے

سوال: میں ایک عام سی لڑکی ہوں البتہ اللہ سے قرب کی خواہش رکھتی ہوں۔ مجھے گناہ پر ندامت ہوتی ہے لیکن تقویٰ پر عمل کی کوشش کے باوجود نہ چاہتے ہوئے بھی مجھ سے گناہ یا خداکی نافرمانی ہو جاتی ہے‘ تاہم احساسِ ندامت پر پھر پلٹنے کی کوشش ضرور کرتی ہوں۔ مجھے اطمینان نہیں ہے اور راہ خدا میں استقامت سے محروم ہوں۔ مجھے خدشہ ہے کہ اللہ مجھ سے ناراض ہے۔ جو گر کر سنبھل جائے اس سے تو اللہ راضی ہو جاتا ہے لیکن جو بار بار گرے‘ اس کے لیے نجات کہاں ہے۔ البتہ میں بچنے اور سنبھلنے کی کوشش ضرور کرتی ہوں۔ کوئی ایسا شارٹ کٹ چاہتی ہوں کہ اللہ کے ہاں نجات کی ضمانت مل جائے۔ جہاد بالنفس مشکل امر ہے۔ آخر افغانستان یا کشمیر میں جہاد بالسیف کر کے شہید ہو کر میں رب کی یقینی رضا کیوں حاصل نہیں کر سکتی؟ صرف اس لیے کہ میرا قصور یہ ہے کہ میں ایک لڑکی ہوں۔ میں مایوسی کا شکار ہوتی جا رہی ہوں۔ مجھے کوئی ایسا آسان راستہ‘ طریقہ اور عمل بتایئے کہ میں اپنے رب کا قرب حاصل کر لوں۔ مجھے خدشہ ہے کہ میں تصوف یا رہبانیت کی راہ پر نہ چل نکلوں۔ میری رہنمائی کیجیے۔

جواب: آپ اگر یہاں سے سوچنا شروع کریں کہ اللہ سے قریب ہونے کا وہ راستہ کیا ہے جو خود اللہ نے بتایا ہے تو اُمید ہے کہ آپ کی اُلجھنیں دُور ہو سکیں گی اور اللہ تعالیٰ آپ کو اطمینان بخش دے گا۔ اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے وہ آپ سے کیا چاہتا ہے: اس سے قریب ہونے کی خواہش (اور ارادہ)‘ اور اس مقصد کے لیے بحد استطاعت و اختیار کوشش (اور عمل)۔ اس آرزو اورجستجو‘ خواہش اور کوشش کی نذر جو زندگی ہو جائے ‘ وہی اس کے نزدیک مقبول ہے‘ وہی اس کو مطلوب ہے۔

کیا کوشش اور عمل مطلوب ہے؟

اول‘ جب اس کا قرب مطلوب ہے تو ہر کام اسی کے لیے کرنا‘ اس کی رضا پر نگاہ جما کے رکھنا‘ اپنے ارادے اور اختیارسے کسی اور محبوب کو مقصود نہ بنانا۔ ارادے کے بغیر‘ اختیار سے باہر‘ وسوسوں کی وجہ سے‘ آمیزش ہو جائے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں‘ اگرچہ احساسِ ندامت ہونا چاہیے۔ ارادے اور اختیار سے ہوجائے‘ تو بھی استغفار سے ہر داغ دھل جاتا ہے۔ بس ندامت و خطاکاری کے آنسو ہوں‘ رحمت و مغفرت کی طمع ہو‘ پکڑ کا خوف ہو‘ آیندہ نہ کرنے کا شعوری عزم ہو۔ خواہ سو مرتبہ ہو‘ ہر مرتبہ اس کی آغوش رحمت کھلی ہو گی۔

دوسرے‘ جو اس نے کرنے کو کہا ہے وہ حسب استطاعت کرنے میں لگے رہنا‘ یعنی اطاعت اور عمل۔

تیسرے‘ جو نہ کرنا چاہیے وہ کر بیٹھو‘ جو کرنا چاہیے وہ نہ کرو‘ یعنی گناہ و خطا ہو جائے تو نادم و شرم سار ہو کر اسی کے در پر آکر ہاتھ پھیلا دینا‘ اور رو رو کے گڑگڑا کر معافی مانگنا‘ یعنی توبہ اور استغفار۔

چوتھے‘ اس سے اُمید کامل رکھنا کہ وہ ہاتھ پکڑ لے گا‘ جھاڑ پونچھ کر‘ اٹھا کر اپنی آغوش رحمت میں سمیٹ لے گا‘ راہ پر رکھے گا۔ یہ اس کا وعدہ ہے۔ وہ خود ہی تو پکارتا ہے کہ آئو‘ مجھ سے اپنے گناہ بخشوائو! ہے کوئی جو استغفار کرے اور میں اس کے گناہ بخش دوں!

دیکھو‘ کتنا آسان اور صاف سیدھا راستہ ہے! مشکلات اور الجھنیں اس لیے پیدا ہوتی ہیں کہ ہم خود مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ ہم اپنے خودساختہ طریقوں کو قرب حاصل کرنے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ جب خود اپنے معیارات پر پورے نہیں اُترتے تو ہم ہمت ہارنے لگتے ہیں‘ چلنا ناممکن نظر آنے لگتا ہے‘ زندگی بار بن جاتی ہے اور یاس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جو اس نے آسان بنایا تھا‘ اسے ہم مشکل بناتے ہیں۔ اس سے منع کیا گیا ہے۔ غلو اور تشدد میں نہ پڑیں‘ آپ تھک جائیں گی مگر اللہ نہ تھکے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سیدھا رکھو‘ کوشش میں لگے رہو‘ بس اتنا ہی مطلوب ہے۔ اس پر سب موعود ہے۔ مسلمان ہونا تو بہت آسان ہے۔

قرب کی راہ میں مایوسی اور پست ہمتی تو کینسر کی طرح کے مرض ہیں‘ لیکن قابل علاج۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ اُولٰٓئِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰہِ ط (اہل ایمان اللہ کی رحمت کی اُمید رکھتے ہیں۔ البقرہ۲:۲۱۸) اور وَلاَتَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِط (اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یوسف ۱۲:۸۷)‘ اور وَمَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلاَّ الضَّآلُّوْنَ o  (اپنے رب کی رحمت سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ الحجر ۱۵:۵۶)

قرب اور قرب کے راستے کے خودساختہ تصورات کیا ہیں جو پتھر بن کر سدّراہ ہو جاتے ہیں؟ قرب اس دنیا میں کسی کیفیت کا نام نہیں‘ کیفیت کی کوشش مطلوب ہے‘ خودکیفیت مطلوب نہیں۔ اس لیے کہ کیفیت آپ کے اختیار میں نہیں اور اللہ تعالیٰ نے کسی ایسی شے کو مطلوب قرار نہیں دیا جو انسان کے دائرۂ اختیار سے باہر ہو۔ کسی گناہ کا دوبارہ نہ ہونا بھی علامت قرب نہیں۔ اس طرح دوبارہ ہونا عدمِ استقامت اور ناراضی رب کی علامت نہیں ہے۔ جو صحیح راستے پر ہے‘ رخ صحیح ہے‘ کوشش میں لگا ہوا ہے‘ جو دن میں ہزارگناہ کرے لیکن ہر بار استغفار کی توفیق ملتی رہے‘ وہ قرب الٰہی کے راستے پر ہے۔

یہ خیال بھی صحیح نہیں کہ ایک دفعہ گرنے والا سنبھل سکتا ہے‘ ہزار بار گرنے والے کا سنبھلنا ناممکن ہے۔ اس غفور و رحیم کی شان میں یہ خیال کیسے کیا جا سکتا ہے‘ جو کہتا ہے کہ ’’وہ تم کو مغفرت کی طرف پکارتا ہے‘ وہ سارے گناہ معاف کردے گا‘ اس کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘ اگر آسمان تک اور زمین بھر گناہ لائو گے تو اس سے اونچی اور وسیع مغفرت تمھارے استقبال کے لیے تیار ہے!‘‘ ایسا سمجھنا تو خدا کی لامحدود رحمت و مغفرت کو ہزار بار گرنے والے کے گرنے سے عاجز ہو جانا تصور کرنا ہے۔ کیا اس کی رحمت و مغفرت اتنی بھی وسیع نہیں کہ ایک ہی گناہ انسان ہزار بار کرے اور ہر بار اسے تکلیف ہو اور وہ پلٹ کر آئے اور وہ اسے اپنے اندر نہ سمیٹ سکتی ہو۔ آپ کم سے کم مشکوٰۃ میں توبہ اور استغفار کا باب ضرور دیکھ لیں اور قرآن مجید میں مغفرت کے عنوان پر جو آیات ہیں ان پر غور کریں۔

گرتے پڑتے چلنے سے کس انسان کو مفر ہوسکتا ہے؟ اگراللہ تعالیٰ کو گناہوں سے پاک زندگی مطلوب ہوتی تو فرشتے پہلے ہی موجود تھے۔ اس کو تو وہ مخلوق مطلوب تھی جو ظلم و جہل میں پڑ سکتی ہو اور نہ پڑے ‘ اور اگر پڑجائے تو لوٹ آئے۔ اس کو بار بار آنے والے (اوّاب)‘ آہ آہ کرنے والے (اوّاہ)‘ لوٹنے والے (منیب) مطلوب ہیں۔ انھی سے جنت‘ رضا اور قرب کا وعدہ ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ تم گناہ نہ کرتے تو اللہ دوسری مخلوق پیدا کرتا جو گناہ کرنے کی استعداد رکھتی‘ گناہ کرتی‘ استغفارکرتی اور جنت کی مستحق بنتی۔ اگر گناہ گار اور منیب انسان نہ ہوتا تو جنت تو راہ تکتی رہ جاتی‘ خالی رہتی‘ اس لیے کہ وہ فرشتوں کے لیے نہیں بنائی گئی۔

کوشش کے بارے میں آپ کو یہ بات بھی جاننا چاہیے کہ جس کو اللہ نے جہاں رکھ دیاہے‘ جو کام سپرد کر دیا ہے‘ جو مواقع عنایت فرما دیے ہیں‘ انھی کو اخلاص و احسان کے ساتھ بجالاتے رہنا ہی جنت اور قرب کی راہ ہے۔ خود سے اپنے اوپر اعمال کا بوجھ لاد لینا‘ کسی خاص عمل پر نجات کو منحصرسمجھنا بھی صحیح نہیں۔ جنت اور قرب کا انحصار جب اعمال پر نہیں‘ بلکہ رحمت پرہے جس کو اعمال متوجہ کرتے ہیں‘ تو شہادت جیسے کسی عمل کو نجات کے لیے کافی سمجھ لینا کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔ کتنے غازی اور شہید ہیں جو عدم اخلاص کی وجہ سے ‘ عدم صبر کی وجہ سے (جیسے یہ کہ مصائب سے تنگ آکر خودکشی کرلی) جہنم میں چلے جائیں گے اورکتنے مجاہدین کی راہ میں آنکھیں بچھانے والے‘ صبح شام شہادت کی تمنا و دعا کرنے والے‘ مجاہدین کا سامان تیار کرنے والے‘ تیرانداز کے لیے تیر بنانے والے اور ہاتھ میں تھمانے والے جنت میں چلے جائیں گے۔ اگر جنت میں جانے کے لیے افغانستان اور فلسطین کے محاذ ہی درکار ہوتے تو سب انسان کیسے جنت میں جا سکتے تھے۔ جو محاذ اللہ تعالیٰ نے اس وقت آپ کے سپرد کر رکھا ہے اسی پر جان لگا کر کام پورا کریں۔ یہی جنت کی راہ ہے۔ پتا نہیں محاذ جنگ پر کیا پیش آئے ۔ اسی لیے ہمیں تو اس بات سے بھی منع کیا گیا ہے کہ یہ آرزو کریں کہ حضورؐ کے زمانے میں ہوتے۔ اس طرح کی سوچ اللہ کے فیصلے پر عدم رضا ہے۔ اُس زمانے میں تو ابولہب اور عبداللہ بن ابی بھی تھے‘ پتا نہیں ہم کہاں ہوتے۔

اطمینان بھی فی نفسہ مطلوب نہیں‘ ایمان اور عمل مطلوب ہیں۔ اپنے کسی عمل پر یہ اطمینان کہ اب ہم جنت میں چلے جائیں گے‘ بہت مہلک ہے۔ جو مطلوب حالت ہے وہ تو یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا (اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں۔ السجدہ ۳۲:۱۶)کی حالت ہے۔

اللہ جس راہ سے آپ کو جنت میں پہنچانا چاہتا ہے‘ اس سے غیر مطمئن ہو کر کوئی دوسری راہ کیوں تلاش کرتی ہیں؟ ہر معاملہ اس پر چھوڑنے میں اطمینان ہے۔ اس نے آپ پر اتنے خصوصی انعامات کیے ہیں کہ ان کاشکر ادا کرنا آپ کے بس میں نہیں۔ اس نے آپ کو اپنے قرب کی خواہش عطا کی ہے‘ یہ ایک ایسی بے بہا نعمت ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔ اس نے آپ کو اپنے قرب کے راستے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے‘ یہ خود کچھ کم قیمت نہیں‘مگر اس نے تو آپ کو اس راہ پر قدم بڑھانے کی توفیق بھی عنایت کی ہے۔ یہی نہیں‘ بلکہ جب آپ سے خطا ہو جائے تو اس پر تکلیف اور ندامت اور واپس پلٹنے کی دولت بھی دی ہے اور سب سے بڑھ کر ‘ جس کے آگے سب نادار‘ محتاج اور فقیر ہیں‘ اس کے آگے اعمال کے لحاظ سے اپنی کم مایگی اور ناداری کا احساس بھی دیا ہے۔ ان سب باتوں کا آپ نے خود اقرار کیا ہے۔ آپ کو تو خوشی سے بھر جانا چاہیے‘ نہ یہ کہ بے چینی اور اضطراب‘ مایوسی اور کم حوصلگی کا شکار ہوجائیں۔ ایسی زندگی جس میں آپ بار بار اپنے محبوب کی طرف پلٹ کر آئیں بڑی لذیذ ہونا چاہیے‘ نہ یہ کہ آپ کے لیے یہ بار بن جائے۔ جو شکر کریں وہی مزید پاتے ہیں۔ یہ سب پاکر آپ زندگی سے فرار کا کیوں سوچیں۔ جب ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو    طریق نبوت عطا کر دیا ہے‘ تو طریق تصوف اور رہبانیت پر کیوں جائیں۔

اُمید ہے کہ میری یہ چند باتیں آپ کے لیے کچھ مفید ثابت ہوں گی۔ (خرم مراد‘ ۱۹۹۲ء)

گھر یا بیوی کی نوکری کی ترجیح

س : شادی سے قبل میری بیوی ہسپتال میں نرس تھی۔ نکاح کے وقت یہ بات طے پائی تھی کہ شادی کے بعد نوکری کروانا یا نہ کروانا میری مرضی ہوگی۔ شادی کے بعد میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ میرا ڈپلومہ مکمل ہونے میں سات ماہ لگیںگے۔ آپ مجھے نوکری کرنے دیں پھر میں چھوڑ دوںگی۔ اسی دوران میری والدہ کا انتقال ہو گیا۔ کچھ عرصے کے بعد میری بیوی نے پھر نوکری کرنے کے لیے کہا تو میں نے سمجھایا کہ بوڑھے والد‘ چھوٹے بہن بھائیوں کو توجہ کی ضرورت ہے ‘ اس لیے نوکری کرنا مناسب نہیں۔ اس پر وہ ناراض ہو کر لاہور اپنے میکے چلی گئی اور ایک ہسپتال میں جا کر نوکری شروع کر دی۔

کچھ عرصے بعد میں نے سسرال والوں سے رابطہ کیا اورمسئلے کے حل کی کوشش کی لیکن انھوں نے کوئی تعاون نہ کیا۔ میں نے اپنی بیوی سے بات کی مگروہ بضد تھی کہ اسے نوکری کرنی ہے‘ چاہے میں اسے طلاق دے دوں۔

میرا ایک بیٹا بھی ہے۔ بوڑھے والد اور چھوٹے بہن بھائیوں کی بھی مجھ پر ذمہ داری ہے اور ان کے بھی حقوق ہیں۔ بیوی کو چھوڑتا ہوں تو بچے کا مستقبل اور گھر کے تباہ ہونے کا خیال آتا ہے لاہور جانا بھی محال ہے۔ میں اپنی بیوی کی تمام ضروریات بھی پوری کرتا رہا ہوں لیکن وہ نوکری چھوڑنے کے لیے کسی طرح بھی تیار نہیں۔ اس الجھن کا قرآن و سنت کی روشنی میں کوئی حل بتایئے تاکہ مسئلہ حل ہو سکے۔

ج: آپ کے خط سے اس توثیق میں مزید اضافہ ہوا کہ ہم ایک ایسے معاشرتی بحران کا شکار ہو چکے ہیں جس کا ہمیں اب بھی پوری طرح احساس نہیں ہے۔ گھر اور خاندان اسلام کا وہ امتیازی ادارہ ہے جو ایمان‘ عفت و عصمت‘اخلاق اور معاملات کی پہلی درس گاہ اور تجربہ گاہ ہے۔ اسی بنا پر شیطان کی ذریت جب اسے بتاتی ہے کہ انھوں نے کسی گھر میں تفرقہ ڈلوا دیا تو وہ اس کام کو تمام خرابیوں سے زیادہ اہم سمجھتے ہوئے اپنی ذریت کو شاباش دیتا ہے۔

آپ نے جو حالات لکھے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ نکاح سے قبل آپ نے اپنی اہلیہ کے گھر والوں سے ان کی ملازمت کے سلسلے میں واضح طور پر بات کر لی تھی اور ان کو اس کا پاس کرنا چاہیے۔ خود آپ کی اہلیہ کا بھی فرض ہے کہ وہ پروفیشن کو خاندان پر اہمیت نہ دیں۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے افراد نے یہ سمجھ لیا ہے کہ گھر میں اچھا ماحول کا پیداکرنا‘ اور اولاد کی صحیح تربیت کرنا ایک کم تر جہاد ہے‘ جب کہ کسی ہسپتال یا دفتر میں کام کرنا جہاد اکبر ہے۔ اس کی کوئی بنیاد دین میں نہیں ہے۔ اگر ایک خاتون‘ اپنی بنیادی ذمہ داری‘ یعنی تربیت و تعلیم اولاد کے ساتھ اتنا وقت نکال سکتی ہے کہ وہ کوئی رفاہی یا فنی کام کر سکے تو دین میں اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن بنیادی ذمہ داری کو نظرانداز کرکے محض حقوقِ نسواں کا جھنڈا ہاتھ میں لے کر اپنے گھر کو تباہ کر دینا انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ آپ کے سسرال والے اگر آپ سے تعاون پر آمادہ نہیں ہیں تو آپ خود اپنی اہلیہ کو محبت و نرمی سے سمجھائیں کہ جو کچھ وہ کر رہی ہیں‘ اس میں خاندان کی بربادی کے لیے کتنا خطرہ ہے۔

آپ کے بوڑھے والد اور چھوٹے بھائی بہنوں کا آپ پر اتنا ہی حق ہے جتنا آپ کی اہلیہ اور بچے کا۔ اس لیے دونوں میں توازن ضروری ہوگا۔ اگر گھر والوں کو چھوڑ کر لاہور جانے سے حالات بہتر ہونے کی زیادہ اُمید ہو تو آپ والد صاحب اور بھائی بہنوں کو اعتماد میں لے کر اور ان کی دیکھ بھال کا بندوبست کر کے‘ یا ان کے ہمراہ لاہور جانے پر بھی غور کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کی اہلیہ کام کرنے پر بہت زیادہ مصر ہوں تو وہ آپ کے شہر میں کسی اچھے ہسپتال میں بھی کام کر سکتی ہیں تاکہ بچے اور آپ کے قریب ہوں۔

دراصل یہ سارے معاملات باہمی افہام و تفہیم اور اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس کی خوشی کو سامنے رکھتے ہوئے باہمی تبادلۂ خیال سے طے کرنے کے ہیں‘ اس میں کوئی ایسا فقہی نسخہ میرے علم میں نہیں کہ اسے استعمال کرتے ہی تمام معاملات حل ہو جائیں۔ قرآن و سنت یہی بتاتے ہیں کہ اختلاف کی شکل میں خود عدل کے ساتھ معاملات پر غور کیا جائے‘ گھر کے بزرگ افراد کو حکم بنا کر مسئلے کا حل نکالا جائے‘ اور آخرکار قانونی امداد سے کوئی صورت نکالی جائے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

جماعت اسلامی کی دستوری جدوجہد ‘میاں طفیل محمد(مرتبہ: فیض احمد شہابی)۔ ناشر: ادارئہ معارف اسلامی‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۳۰۳۔ قیمت: ۱۳۵ روپے۔

زیرنظر کتاب میں دستور پاکستان کی تدوین کے سلسلے میں جماعت اسلامی کی جدوجہد کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ ہماری دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد کی منظوری (۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء) سے پارلیمنٹ میں آٹھویں ترمیم کی منظوری (۳۱ اکتوبر ۱۹۸۵ء) تک‘ دستورسازی کے مختلف مراحل اور مختلف دساتیر میں کی جانے والی ترمیمات کا احاطہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ دستورسازی کے ضمن میں ہونے والی ہمہ نوع کوششوں میں جماعت اسلامی سرگرم طریقے سے فعال رہی ہے۔

جماعت کی دستوری جدوجہد کی یہ تاریخ مربوط ہے اور مبسوط بھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مصنف ابتدا ہی سے جماعت سے وابستہ اور جماعت کے اہم عہدے دار رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سندیافتہ وکیل ہونے کی وجہ سے قانون اور اس کے مضمرات کا بھی بخوبی ادراک رکھتے ہیں۔ دستور کو اسلامی خطوط پر مدون کرانے کے لیے جماعت کی جدوجہد کی پوری تاریخ ان کے سامنے ہے‘ اور اس جدوجہد میں وہ خود بھی عملاً شریک رہے۔ چنانچہ ہم اس کتاب کے مندرجات کی ثقاہت پر بخوبی اعتبار کر سکتے ہیں۔

بتایا گیا ہے کہ دستور پاکستان کو قرآن و سنت کی بنیاد پر مدون کرانے کی جدوجہدکا آغاز جماعت اسلامی نے قیام پاکستان سے تین مہینے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ ابھی تقسیم ہند کے سلسلے میں لارڈ مائونٹ بیٹن کا اعلان نہیں ہوا تھا کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے‘ قیام پاکستان کے امکان کو اپنی چشم بصیرت سے دیکھا اور ۹مئی ۱۹۴۷ء کو جماعت کے مرکز دارالاسلام پٹھان کوٹ میں جماعت کے ایک اجتماع میں پاکستان کے لیے اپنے اس منصوبے کا اعلان کر دیا کہ ہم کوشش کریں گے کہ اس ریاست کے دستور کی بنیاد ان اصولوں پر رکھیں جسے ہم خدائی دستور کہتے ہیں (ص ۱۶)۔ پھر جب وطن عزیز وجود میں آگیا تو جماعت نے اپریل ۱۹۴۸ء میں چار نکاتی مطالبۂ نظام اسلامی پیش کر دیا۔ یہ کوشش اولاً قرارداد مقاصد کی شکل میں ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو بارآور ہوئی۔

جماعت اور اس کی ہم خیال دیگر دینی جماعتوں اور اسلام پسند شخصیات کی مسلسل جدوجہد کی وجہ سے  ۱۹۵۲ء کی دستوری سفارشات میں‘ ۱۹۵۴ء میں دستور ساز اسمبلی کے منظور کیے ہوئے آئین میں‘ ۱۹۵۶ء  اورکسی حد تک ۱۹۶۲ء اور ۱۹۷۳ء کے دساتیر میں‘ اور پھر ۱۹۸۵ء کی آٹھویں ترمیم میں اسلامی دفعات باقی رکھی گئیں جنھیں لادینیت پسند حکمران بھی خارج نہ کر سکے۔ لادینیت پسند حکمرانوں اور لادینی جماعتوں نے آئین کو سیکولر رنگ دینے کی جو سرتوڑ کوششیں کیں ان کا تذکرہ بھی اس میں موجود ہے بالخصوص راجا غضنفرعلی خاں‘ اسکندر مرزا‘ ایوب خاں‘ یحییٰ خاں‘ بھاشانی‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ یا کمیونسٹ و سوشلسٹ پارٹیاں وغیرہ۔ جن دوسری شخصیات نے اسلامی دستور کی تدوین میں جماعت کے علاوہ سرگرم حصہ لیا ان میں اس کتاب کے مطابق مولانا شبیراحمد عثمانی‘ مولانا ظفر احمد انصاری‘ مولوی تمیزالدین خاں‘ سردار عبدالرب نشتر‘ چودھری محمد علی‘ ۲۲ نکاتی سفارشات تیار کرنے والے ۳۱ علما‘ جمعیت علماے  اسلام‘جمعیت علماے پاکستان‘ مرکزی جماعت اہل حدیث اور شیعہ علما بھی شامل تھے۔

مگر اس وقیع کتاب میں یہ بات ناقابل فہم نظر آتی ہے کہ نفاذ اسلام کے لیے صدر ضیا الحق کی کوششوں کو قریب قریب نظرانداز کر دیا گیا ہے حالانکہ انھوں نے ایک دو نہیں بلکہ ۵۰سے زائد اقدامات کیے جن میں سے متعدد اقدامات آج تک باقی ہیں اور جیتی جاگتی حالت میں نظر آتے رہتے ہیں۔

کتاب اشاریے سے محروم ہے۔ امید ہے کہ آیندہ اشاعت میں ان دونوں کمیوں کو دُور کرنے کی طرف توجہ دی جائے گی۔ (ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن صدیقی)


مستشرقین اور قرآن حکیم‘ سہ ماہی مغرب اور اسلام (خصوصی اشاعت ‘جنوری- مارچ ۲۰۰۲ء)۔ مدیر: ڈاکٹر انیس احمد۔ معاون مدیر: سید راشد بخاری۔ ناشر:انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ مرکز ایف ۷‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۱۰۰۔ قیمت: ۴۰ روپے۔

ماہ و سال بدلتے ہیں‘ مگر زمانہ نہیں بدلتا کہ وہ اللہ کی نشانی اور ایک سچائی ہے۔ زمانۂ قدیم سے لے کر آج تک انسان میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی کو ماننے اور اس کی ربوبیت سے انکار کرنے کے رویے باہم برسرپیکار رہے ہیں‘ اور یہ عمل تاابد جاری رہے گا۔

نزول قرآن کے وقت‘ اہل کفارجو اعتراض کیا کرتے تھے‘ آج جیٹ‘ کمپیوٹر اور ایٹم کے زمانے میں بھی انھی اعتراضات کو دہرایا جاتا ہے۔ ان اعتراضات کا قرآن کریم نے اپنے نزول کے وقت جواب دے دیا تھا۔ آج پھر یہود و نصاریٰ اور ان کے ہم خیال دانش ور‘ قرآن کریم کی سچائی اور پیغام کی ابدیت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس حوالے سے وقتاً فوقتاً مختلف شوشے چھوڑے جاتے اور اعتراضات کا نیا طوفان برپا کیا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں اہل مغرب نے قرآن کریم کی استنادی حیثیت کو چیلنج کرنے کے لیے اپنی حد تک’’بھرپور حملہ‘‘ کیا۔

سہ ماہی  مغرب اور اسلام نے اس اعتراض کو من و عن پیش کر کے اس کے تضادات اور دلائل کے ہلکے پن کو بڑی وضاحت اور مفصل نظائر کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں ٹوبی لسٹر کے مضمون ’’قرآن کیا ہے‘‘ میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ قرآن کو ہدف بنانے کا مقصد کیا ہے؟ ہدف بنانے کی تاریخ اور طریقہ واردات کیا ہے؟ ڈاکٹر انیس احمد نے اپنے ادارتی مضمون میں‘ اہل ایمان کے لیے غوروفکر کے نکات اُبھارے ہیں‘ اس کے علاوہ ڈاکٹر محمد مصطفیٰ الاعظمی کے نہایت وقیع مقالے کا اُردو ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ ممتاز ماہر تعلیم اور پنجاب یونی ورسٹی اورینٹل کالج کے پرنسپل پروفیسر محمد اکرم چودھری نے قرآنی قرأت میں اختلاف کے مسئلے کی نوعیت کو بڑی محنت و کاوش سے متعین کیا ہے۔ علاوہ ازیں ڈاکٹرمونٹ گمری واٹ نے اپنے ہم قبیلہ مستشرقین کی وارداتوں کا اعتراف کیا ہے۔

اس وقت اسلام دشمن قوتیں‘ رسالت مآبؐ کی عفت‘ قرآن کریم کی مسلمہ حیثیت اور مسلمان عورت کے مقام و مرتبے کو ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ ان موضوعات پر یورپی زبانوں میں تحریروں اور کتابوں کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے۔ ہمارا دین دار طبقہ اپنی اپنی خانقاہوں اور آستانوں میں فکر جہاں سے بے نیاز ہوکر اپنی ہی دنیا میں مگن ہے اور اس سیل بلاخیز سے بالکل بے خبر ہے۔ کیا یہ بے خبری اور لاتعلقی آخرت میں نجات کا ذریعہ بن جائے گی؟ اس سوال پر غوروفکر‘ مشائخ عظام اور علماے کرام کے ذمے ہے۔

تاہم‘ جدید درس گاہوں سے نکلنے والے وہ اصحاب ایمان‘ جن کے دلوں میں ایمان اور غیرت دینی کی کچھ رمق باقی ہے‘وہ اپنی قوت مجتمع کر کے اپنی سی قلمی جنگ میں مصروف ہیں‘ اور دیکھنے والے جانتے ہیں کہ ان کا قلم: ایمان‘ غیرت اور حمیت کے اس میزان پر پورا اُترتا ہے۔

مغرب اور اسلام کا یہ تازہ شمارہ ’’مستشرقین اور قرآن‘‘ کے موضوع پر ایک خصوصی اشاعت پر مشتمل ہے‘ جس کے مضامین عام مسلمانوں اور خاص طور پر علماے کرام اور ابلاغیات و اسلامیات سے متعلق اہل دانش کے لیے سرمۂ بصیرت ہیں۔ اس اشاعت پر ڈاکٹر انیس احمد اور معاون مدیر سید راشد بخاری‘ اسلامیانِ عالم کے شکریے کے مستحق ہیں۔ (سلیم منصور خالد)


شوقِ حرم‘ عتیق الرحمن صدیقی۔ ناشر: نور اسلام اکیڈیمی‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۱۰۰۔ قیمت: ۴۵ روپے۔

حج کا سفر ہو یا عمرے کا ‘ حرمین شریفین کا ہر زائر ایک خاص کیفیت سے دوچار ہوتا ہے مگر سبھی زائرین کے محسوسات یکساں نہیں ہوتے۔ اپنے اپنے مزاج اور افتاد طبع کے باعث ہر زائر ایک جداگانہ تجربے سے گزرتاہے‘ زیارت حرمین کے سیکڑوں سفرنامے یا رودادِ مشاہدات انھی متنوع تجربات کے مرقع ہیں۔

عتیق الرحمن صدیقی حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔ اس مقدس سفر کی روداد لکھتے ہوئے‘ ذاتی محسوسات و تاثرات کے ساتھ‘ وہ حج کے ہر ہر مرحلے کا تاریخی اور دینی پس منظر کا بیان بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ بعض اوقات وہ اپنے جذبات کو علامہ اقبالؒ کے اشعار کی زبان دیتے ہیں‘ کبھی اوراقِ تاریخ کی شہادت پیش کرتے ہیں اور کبھی تاثرات حج لکھنے والوں کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ اس طرح اپنے احساسات کو انھوں نے ’’گفتہ آید در حدیث دیگراں‘‘ کے طریقے سے پیش کیا ہے۔انھوں نے کئی جگہ حجاج کی تربیت اور حج کے انتظامات کو بہتر بنانے کے لیے مفید تجاویز بھی دی ہیں۔ حافظ محمد ادریس صاحب نے مقدمے میں بجاطور پر کہا ہے کہ یہاں ’’جذب دروں بھی ہے‘ شوق زیارت بھی۔ مقاماتِ مقدسہ کے ساتھ عقیدت و محبت بھی ہرسطر سے جھلکی پڑتی ہے۔ اور اس کے ساتھ حدود و آداب و شریعت کو بھی مکمل احتیاط کے ساتھ ملحوظ رکھا گیا ہے۔ مصنف کی عمر معلمی میں گزری‘ سو جہاں افراتفری یا دھکم پیل کا روح فرسا منظر سامنے آتا ہے یا بعض حجاج ترش رو اور سنگ دل بن جاتے ہیں (ص ۲۸‘ ۲۹) صدیقی صاحب رنجیدہ و افسردہ ہو جاتے ہیں۔

اشاعت و طباعت معیاری ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)

]اسلام میں حزب اختلاف کا کردار [

The Role of Opposition in Islam

]آنحضورؐ کے اعلیٰ اخلاق[

Prophet Muhammad's High Manners

Keeping Promises and Repaying Debt in Islam

]اسلام میں ایفاے عہد اور قرض کی واپسی[

]اسلام میں یاوہ گوئی اور غیبت کی ممانعت[

Islam Bans Gossip And Backbiting


مصنف‘ اسدنمر بصول۔ ناشر: دی قرآن سوسائٹی‘ شکاگو۔ صفحات: علی الترتیب‘ ۱۵۷‘ ۱۹۸‘ ۱۰۱‘ ۱۵۹۔ قیمت: درج نہیں۔

یہ چاروں کتابیں ۱۹۹۸ء‘ ۱۹۹۹ء میں شائع ہوئی ہیں۔ ان کے موضوعات تبلیغی اور دعوتی ہیں۔ مصنف فلسطینی ہیں جنھوں نے تل ابیب کی ہبریو یونی ورسٹی سے اسلامی تاریخ اور عربی لٹریچر میں ایم اے کے بعد یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ اس وقت وہ امریکہ کے اسلامک کالج شکاگو میں پروفیسر ہیں۔ ان کی ۲۵ سے زائد کتب شائع ہو چکی ہیں۔

’’آنحضورؐ کے اعلیٰ اخلاق‘‘ میں ۲۱ عنوانات کے تحت آپؐ کی اخلاقی صفات کا تذکرہ ہے۔ مظلوموں کی مدد سے لے کر حس مزاح تک۔ ’’اسلام میں حزب اختلاف کا کردار‘‘ دراصل حضرت عمرؓ کے حالات زندگی کا مطالعہ ہے لیکن تقریباً نصف کتاب (۹۷ صفحات) میں مصنف نے اُمت مسلمہ کو یہ سمجھایا ہے کہ وہ کسی بادشاہ کی مملکت یا رعایا نہیں‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کی رعایا ہیں۔ رسولؐ اللہ کے زمانے سے بنواُمیہ کے دور تک کا جائزہ لیا ہے کہ کس طرح صحابہؓ کرام ہر منکر کے خلاف کھڑے ہوتے رہے۔ رسولؐ اور اصحاب کے دور میں سیاسی نظام میں مشورے پر کتنا عمل رہا۔ اسلام میں اس طرح کی حزب اختلاف نہیں کہ لازماً حکومت کی ہر پالیسی کی مخالفت کرے بلکہ انفرادی طور پر ہر غلط بات کے خلاف کھڑے ہونے کا طریقہ رہا ہے۔ پھر حضرت عمرؓ کے دور کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔

آخری دو کتابیں معاملات کے حوالے سے اہم موضوعات پر ہیں‘ یعنی غیبت و بہتان‘ وعدے کا ایفا اور قرض کی ادایگی۔ اس حوالے سے ہمارے معاشرے میں اتنا بگاڑ ہے کہ اس کی جتنی تذکیر کی جائے‘ کم ہے۔ مصنف کا انداز بیان سادہ ہے۔ عام آسان انگریزی ہے۔ آیات‘ احادیث‘ سیرت رسولؐ اور سیرت صحابہؓ سے واقعات لیے گئے ہیں۔ آیات و احادیث کے عربی متن اعراب کے ساتھ حوالوں کے ساتھ دیے گئے ہیں۔ قیمت درج نہیں۔ویسے بھی ڈالروں کے دیس کی ایسی تبلیغی کتاب روپوں میںتو فروخت نہیں کی جا سکتی۔ (مسلم سجاد)


اُردو ڈائجسٹ ‘ سیاحت پاکستان نمبر ‘ ناشر: الطاف حسن قریشی‘ سمن آباد‘ لاہور۔ صفحات: ۴۰۰۔ قیمت: ۵۰روپے۔

سیر وسیاحت اسلام کے آفاقی مزاج سے مناسبت رکھتی ہے۔ اسلام کی تہذیبی اور تمدنی تاریخ میں ہمیں مسلم سیاحوں کی کثیر تعداد ملتی ہے۔ مسلمان‘ دنیا میں جہاں بھی گئے انھوں نے اسی سرزمین کو اپنا وطن بنالیا۔ اطرافِ عالم میںاسلام کے پھیلائو کا ایک اہم سبب مسلمانوں کا یہی ہجرتی رویہ ہے‘ لیکن ہمارے ہاں سیروسیاحت بطور ایک رویے کے یا معمول حیات کے رواج نہیں پا سکی۔ کیا پابہ گل رہنے کا یہ رویہ ہندو تہذیب سے اثرپذیری کا نتیجہ ہے؟

اُردو ڈائجسٹ کا زیرنظر خاص نمبر ہمیں وطن عزیز کی اُن وادیوں‘ صحرائوں اور میدانوں اور مختلف علاقوں کی تاریخ‘ تمدن‘ عمارتوں اور شاہراہوں سے روشناس کراتا ہے جن سے ہم میں سے بیشتر لوگ بے خبر ہیں۔ اس میں بعض چھوٹے بڑے شہروں (لاہور‘ کراچی‘ کوئٹہ‘ ملتان‘ پشاور‘ بہاول پور‘ بھیرہ‘ چنیوٹ) کے ساتھ ساتھ بعض علاقوں (پوٹھوہار‘ تھر‘ آزاد کشمیر) اور بعض قدیم تہذیبوں کے مراکز (موہنجوڈرو ‘ ٹیکسلا‘ ہڑپہ) اور اس کے ساتھ شمالی علاقوں کی حسین و جمیل وادیوں‘ دریائوں‘ جھیلوں‘ پہاڑوں اور ان کی ڈھلانوں پر اُگے جنگلوں کا تذکرہ ہے۔ بعض مضامین تحقیقی اور معلوماتی ہیں۔ چند ایک سفرنامے ہیں اور کچھ تصاویر۔ یوں بڑے متنوع انداز و اسلوب میں کراچی اور گوادر کے ساحلوں سے لے کر اسکردو اور ہنزہ سے آگے برفانی چوٹیوں اور کاغان اور سوات کے دل فریب علاقوں اور وادیٔ کیلاش تک کی سیر کرائی گئی ہے۔

نئے پرانے مختصر اور طویل مضامین کا یہ مجموعہ ہمیں  سیروا فی الارض کی پُرزور دعوت دیتا ہے۔  خیال آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت خاص سے نوازتے ہوئے ہمیں ایک حسین و دل کش خطہء زمین عطا کیا ہے لیکن--- ذرا سوچیے تو--- ہم اس کی ناقدری کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟ (ر-ہ)

تعارف کتب

  •  ماہنامہ الحق‘ خاص اشاعت بہ عنوان: اکیسویں صدی کے چیلنجز اور عالم اسلام‘ مدیر: مولانا سمیع الحق۔ ناشر: جامعہ دارالعلوم اکوڑہ خٹک۔ صفحات: ۲۷۹۔ قیمت: ۸۰ روپے۔]ایک اہم موضوع پر تقریباً ۳۰ اہل قلم‘ علما‘ دانش وروں اور ماہرین تعلیم و سیاست کے مضامین۔ اکیسویں صدی میں پیش آمدہ خطرات اور مسائل کا ذکر اور ان سے عہدہ برا ہونے کے لیے تدابیر۔ اپنے موضوع پر ایک اچھی قابل قدر پیش کش۔[
  •  Reminders for People of Understanding ]سمجھ دار لوگوں کے لیے یاد دہانی[۔ امتیاز احمد: ناشر: الوحید پرنٹرز‘ پوسٹ بکس  ۹۴۲۱‘ مکہ مکرمہ۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: کچھ نہیں(مفت تقسیم کی گئی)۔ ]مختلف موضوعات پر منتخب قرآنی آیات‘ ترجمہ اور توضیحات۔ مسجد نبویؐ کے ادب آداب‘ عمارت کے مختلف حصوںکا ذکر اور تفصیل--- بلااجازت چھاپنے کی اجازت ہے۔[
  •  قائداعظم اور بلوچستان ٭ قائد‘ بلوچستان میں ٭ قائداعظم‘ علی گڑھ تحریک اور بلوچستان ٭قائداعظم‘ تحریک پاکستان اور صحافتی محاذ‘ پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق کوثر‘ ناشر: سیرت اکادمی بلوچستان ‘۲۷۲‘ اے او بلاک III‘ سیٹلائٹ ٹائون‘ کوئٹہ۔ صفحات: (علی الترتیب) ۸۸‘ ۵۵‘ ۹۰‘ ۱۱۱۔ قیمت: ۴۰‘ ۳۰‘ ۴۰‘ ۶۰ روپے۔ ]بلوچستان سے قائداعظم کے ہمہ پہلو تعلق‘ وہاں آمد‘ تقاریر‘ ملاقاتیں‘ علی گڑھ کے تعلیم یافتہ بلوچی حضرات کی یادداشتیں بہ سلسلہ تحریک پاکستان‘ بلوچستان کی صحافت میں ذکر قائد اور تحریک پاکستان کی تفصیل--- دلچسپ‘ لائق مطالعہ اور معلومات افزا کتاب ہے۔ مولف قابل قدر ملّی اور پاکستانی جذبے سے سرشار ہیں۔[
  •  خانوادئہ نبویؐ کے فضائل و مناقب‘ مصنف: ڈاکٹر عبدالمعطی امین قلعہ جی‘ ترجمہ: ڈاکٹر محمود الحسن عارف۔ ناشر: مطبع ادب اسلامی ‘ ۱۷/۲‘ رحمن پارک‘ گلشن راوی‘ لاہور۔ صفحات: ۲۶۴۔ قیمت: ۱۱۰ روپے۔]حضرت علیؓ، حضرت فاطمۃ الزہرا  ؓ‘ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے فضائل و مناقب احادیث نبویؐ کی روشنی میں۔[

صابر نظامی ‘ الٰہ آباد

’’مسلمان اور مغرب‘‘ (اپریل ۲۰۰۲ء) کتاب کے تعارف کے حوالے سے دو تہذیبوں کے تصادم کے سب پہلو سامنے آئے۔ جوں جوں دنیا اور عالمی طاقتیںاسلام کے سیاسی‘ معاشی اور عدالتی نظام سے متعارف ہو رہی ہیں‘ جدید تہذیب اور اسلام کا تصادم بڑھتا جا رہا ہے۔ اسلام اگر امور مملکت‘ قانون و اختیار اور عملی زندگی سے کنارہ کش ہو کر عیسائیت کی طرح ایک رسمی اور رواجی مذہب بن کر رہے تو باطل طاقتوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن اگر وہ اپنے نفاذ اور اجرا کے لیے حکومت کے حصول کو لازمی قرار دے تو پھر تصادم ناگزیر ہے۔ اب مسلم حکمرانوں کو بھی پوری طاقت سے مجبور کیا جائے گا کہ وہ اسلام کے غلبے کو روکیں لیکن یہی وہ حالات ہیں جب اسلام سیلاب بن کر مضبوط بندوں میں اپنا راستہ بناتا ہے۔ اب کامیابی دُور نہیں‘ بہت قریب ہے!!

سید ہاشم رضا   ‘ بابڑہ ‘ چارسدہ

ناصر قریشی صاحب کے مضمون ’’دعوت بذریعہ میڈیا‘‘ (مارچ ۲۰۰۲ء) میں ریڈیو کے حوالے سے جو بات کہی گئی ہے‘ واقعی دل کو لگتی ہے اور خاص طور پر مولانا مودودیؒ کے اس کے بارے میں تاثرات اور رائے۔ مگرجو بات دل کو کھٹکی اور جو بہرحال قابل توجہ ہے‘ وہ ہے اس طرح کی دعوت میں خواتین کا کردار!

موصوف نے انگریزی فلموں کا حوالہ دیا ہے اور مذہبی طرز کی دو فلموں کا نام بھی لکھا ہے اور پھر آگے چل کر یہ بات بھی کی ہے کہ اس میں خواتین کی شرکت بھی ایک مسئلہ ہے۔ اس ضمن میںیہ سوال اُٹھتا ہے کہ فلم میں کام کرنے کے لیے   مرد و زن کا اختلاط بہرحال لازمی ہے جو قرآنی حکم کی خلاف ورزی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ایک پورا خاندان دعوتی ہو اور اپنوں میں بیٹھ کر فلم بنائیں تو بھی وہ فلم دیکھنے والے اس خاندان کا حصہ نہیں ہوں گے۔ اس کا کیا ہوگا؟ تیسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی تاریخی فلم بنانا ہو‘ مثلاً فرعون کے دربار کے منظر کی عکاسی میں نیم عریاں لباس میں کنیزوں وغیرہ کا کردار کون ادا کرے گا؟ کیا یہ فحش پھیلانے کا ذریعہ نہ ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ قرآن و سنت کی رُو سے خاتون اس قسم کے کردار ادا نہیں کر سکتی اور نہ اس قسم کی فلمیں بن ہی سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں شریعت کے احکامات کے تحت جتنی گنجایش ہے ‘ اس کے مطابق ہی دعوت بذریعہ میڈیا دی جانی چاہیے۔

عامر شکیل   ‘  لاہور

فلم سازی اور اسلامی ادارے کے حوالے سے مضمون (دسمبر ۲۰۰۱ء) پڑھا۔ آج ہماری تہذیب پر مغربی یا ہندو تہذیب کے جو اثرات ہیں وہ نٹشے‘ ڈارون‘ کینزیا چانکیہ کے فلسفے پر مبنی کتب کے نہیں بلکہ ممبی اور ہالی وڈ میں بننے والی فلموں کا نتیجہ ہیں۔ دور حاضر فلم سازی اور ابلاغ کا دور ہے۔ اسے صرف غیر مسلموں تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے۔ ہالی وڈ نے عورت‘ جنس اور تشدد سے پاک ایسی فلمیں بھی بنائی ہیں جنھوں نے ریکارڈ بزنس کیا ہے۔ فلم سازی کے اس پہلو پر مزید غور کرنے اور اسے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔