مضامین کی فہرست


مئی ۲۰۰۱

قدرت کا قانون ہے کہ جب تاریکی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے‘ تو روشنی اس کا سینہ چیرتی ہوئی رونما ہوجاتی ہے۔ ظلمتیں چھٹ جاتی ہیں اور فضا نور سے بھر جاتی ہے۔ تاریخ انسانی میں روشنی اور نور کا سب سے بڑا سیلاب ۲۷ رمضان المبارک‘ ۱۳ قبل ہجرت میں رونما ہوا۔

خشکی‘ تری اور بحروبر پر تاریکی کا غلبہ تھا ‘ ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم ۳۰:۴۱)۔ ظلم اور فساد سے خدا کی زمین بھر گئی تھی۔ انسان اپنے حقیقی معبود کو چھوڑ کر جھوٹے خدائوں کی بندگی کر رہے تھے۔

ارض و سما کے مالک نے اپنے انبیا علیہم السلام کے ذریعے جو ہدایت اور رہنمائی بھیجی تھی‘ انسان نے اس کو گم کردیا تھا۔ نتیجے کے طور پر گمراہی اور ضلالت کا دور دورہ تھا۔ انسان آگ‘ درخت‘ پتھر‘ پانی اور جانوروں تک کی پوجا کر رہے تھے۔ زندگی کے اجتماعی معاملات میں کچھ انسان دوسرے انسانوں کے خدا اور رب بن بیٹھے تھے‘ اور اپنی من مانی کر رہے تھے۔ نیکیاں معدوم ہو رہی تھیں اور برائیاں فروغ پا رہی تھیں۔ نسل‘ قوم اور قبیلے کے بتوں کی پوجا ہو رہی تھی۔ حق‘ انصاف‘ آزادی‘ مساوات اور بندگی رب کو انسانیت ترس رہی تھی۔

یہ تھی وہ دنیا ‘ جس میں خدا کے ایک برگزیدہ بندے‘ انسانیت کے گل سرسبد اور دنیا کے سب سے نیک انسان‘ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے آنکھیں کھولیں۔ وہ ظلم کے اس راج اور بدی کے اس غلبے پر حیران و سرگرداں تھا‘ وَوَجَدَکَ ضَآلاًّ فَھَدٰی (الضحیٰ ۹۳:۷)۔ وہ جھوٹے خدائوں کا باغی اور ایک حقیقی خدا کی بندگی کا جویا تھا۔ دست فطرت نے ۴۰ سال اس کی تربیت فرمائی۔ پھر زمین و آسمان کے مالک نے ایک شب اسے انسانیت کی رہنمائی کے لیے اپنے آخری نبیؐ کی حیثیت سے مامور فرما دیا۔ وہ غارحرا میں عبادت میں مشغول تھا کہ خدا کا فرشتہ‘ اس کا امین‘ اور پیام بر رونما ہوا۔ بندگی میں مشغول بندے کو سینے سے لگایا‘ اسے خوب بھینچا اور رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض کی طرف سے پہلی وحی اس پر نازل کی:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَo خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ o  (العلق ۹۶:۱-۵) ’’پڑھو (اے نبیؐ)‘ اپنے رب کے نام سے جس نے (ساری چیزوں) کو پیدا کیا۔ اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے بنایا۔ پڑھو‘ اور تمہارا رب بڑا کریم ہے‘ جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا‘ اس نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں‘ جو اس کو معلوم نہ تھیں‘‘۔

تاریکیوں کے لیے پیغام موت آگیا۔ طاغوت کے غلبے کا دور ختم ہو گیا۔ رب کی آخری ہدایت کا دور شروع ہو گیا۔ یہ سلسلہ ۲۳ سال تک چلتا رہا۔ حتیٰ کہ ہدایت مکمل ہوگئی اور انسانیت کو نور کا وہ خزانہ مل گیا‘ جس کی روشنی تاقیامت قائم رہے گی جس کے ذریعے وہ ہمیشہ رہنمائی اور ہدایت حاصل کرتی رہے گی:

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ ۵  :۳) ’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے‘ اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے‘‘۔

آج اس نزول وحی کے آغاز اور بعثت نبوی ؐ کو ۱۴ سو سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے۔ ساری دنیا میں محمدؐ کے نام لیوا اس واقعے کی یاد تازہ کرتے ہیں‘ جو ماضی اور حال کی تاریخ کے درمیان حدفاصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس سے انسانیت کی تاریخ میں قرآن اور محمدؐ کے دور کا آغاز ہوا۔

خدا کی اس زمین پر انسان کی بنیادی ضرورتیں دو قسم کی ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق اس کی جسمانی اور مادی زندگی سے ہے‘ اور دوسری وہ جو اس کی روحانی‘ اخلاقی اور سماجی زندگی سے متعلق ہیں۔ خدا کی ربوبیت کاملہ کا تقاضا تھا کہ انسان کی یہ دونوں ضرورتیں پوری کی جائیں‘ تاکہ وہ زندگی کی آسایشیں بھی حاصل کر سکے اور ان کو صحیح مقاصد کے لیے صحیح طریقوں سے استعمال بھی کر سکے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کی ان دونوں ضرورتوں کو بہ حسن و کمال پورا کیا ہے۔ مادی اور جسمانی ضروریات کی تسکین کے لیے زمین و آسمان میں بے شمار قوتیں ودیعت کر دی ہیں‘ جن کی دریافت اور ان کے مناسب استعمال سے انسان کی تمام ضرورتیں پوری ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح انسان کی روحانی‘ اخلاقی اور سماجی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت نازل فرمائی‘ اور اپنے انبیا علیہم السلام کے ذریعے نہ صرف یہ کہ اس ہدایت کو انسانوں تک پہنچایا‘ بلکہ ان کی زندگیوں میں اسے متشکل کر کے بھی دکھا دیا۔ اس طرح انسانیت نے اپنا سفر تاریکی میں نہیں‘ روشنی میں شروع کیا‘ اور ہر دور میں خدا کی ہدایت اس کے لیے مشعل راہ بنی رہی۔ اس دنیا میں پہلا انسان (آدم علیہ السلام) پہلا نبی بھی تھا۔ خدا کی یہ ہدایت اپنی آخری اور مکمل ترین شکل میں حضرت محمدؐپر نازل کی گئی۔ یہی ہدایت قرآن کی شکل میں موجود ہے اور قیامت تک انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی۔

قرآن کا اساسی تصور

قرآن جس تصور کو پیش کرتا ہے‘ وہ مختصراً یہ ہے:

۱- یہ دنیا بے خدا نہیں ہے۔ اس کا ایک پیدا کرنے والا ہے جو اس کا مالک‘ آقا‘ رب اور حاکم ہے۔ ہر شے پر اس کی حکومت ہے اور وہی اس کا حقیقی فرماں روا ہے۔ ساری نعمتیں اسی کا عطیہ ہیں۔ اس کا اختیار‘ کلی اور ہمہ گیر ہے۔ جس طرح وہ دنیا کی ہر چیز کا خالق اور مالک ہے‘ اسی طرح وہ انسان کا بھی خالق ‘ مالک اور حاکم ہے۔ اس مالک حقیقی نے انسان کو‘ ایک خاص حد تک اختیار اور آزادی دے کر‘ اس زمین پر اپنا نائب اور خلیفہ بنایا ہے اور باقی تمام مخلوقات کو اس کے تابع فرمان کیا ہے۔

۲-  انسان کو خلافت کی ذمہ داریوں کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کے لائق بنانے کے لیے مالک حقیقی نے اسے اپنی ہدایت سے نوازا ہے اور اس کی رہنمائی صراط مستقیم کی طرف کی ہے۔ اسے بتایا گیا ہے کہ پورا جہان اس کے لیے ہے اور اس کے تابع ہے لیکن وہ خود خدا کے لیے ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ خدا کی بندگی اختیار کرے‘ اور اپنی پوری زندگی کو رب کی اطاعت میں دے دے۔ اس زندگی کی حیثیت ایک امتحان اور آزمایش کی سی ہے۔ اس میں انسان کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اپنے ارادے کو مالک کی مرضی کے تابع کر دے اور اس کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لیے اپنا سب کچھ لگا دے۔ جس نے اس راستے کو اختیار کیا‘ وہ کامیاب و کامران ہے اور اس عارضی زندگی کے بعد ابدی راحت‘ اور چین اس کے لیے ہے۔ جس نے اس راہ سے انحراف کیا‘ وہ ناکام و نامراد ہے اور آنے والی ابدی زندگی میں جہنم اس کا ٹھکانا ہو گا۔

۳- یہ باتیں انسان کو ازل میں سمجھا دی گئیں۔ ان کا شعور اور احساس اس کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا۔ ان کی تذکیر اور بندگی رب کے راستے کی تشریح و توضیح کے لیے‘ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک‘ اللہ تعالیٰ انبیا علیہم السلام کو مبعوث کرتا رہا۔ ایک طرف انسان کو عقل اور سمجھ دی گئی کہ وہ حق کو پہچانے اور اس کے مطابق زندگی کے معاملات کی صورت گری کرے اور دوسری طرف خدا کے ان برگزیدہ بندوں (انبیا علیہم السلام) نے بڑی سے بڑی قربانی دے کر انسانیت کو سیدھی راہ پر لگانے کا کام انجام دیا۔ ہر ملک اور ہر قوم میں انبیا مبعوث ہوئے اور اس سنہری سلسلے کی آخری کڑی محمد عربیؐ ہیں۔

آپ ؐ ساری دنیا کے لیے بھیجے گئے اور سارے زمانوں کے لیے مبعوث ہوئے۔ آپؐ نے اللہ کا وہی دین‘ یعنی اسلام لوگوں کے سامنے پیش کیا‘ جو اس سے پہلے پیش ہوتا رہا تھا۔ جن لوگوں نے آپ کی دعوت قبول کر لی اور اسلا م کو زندگی کے دین اور راستے کی حیثیت سے اختیار کر لیا‘ وہ ایک امت بن گئے۔ اب یہ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود اپنی زندگی کا نظام اس ہدایت کے مطابق تشکیل دے‘ جو اللہ کی طرف سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے اور جس کا نمونہ آپؐ نے اپنی مبارک زندگی میں پیش فرمایا۔ اور تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کی دعوت دیتے رہے۔ قرآن وہ کتاب ہے جس میں پوری دعوت موجود ہے‘ جس میں اللہ کا دین اپنی مکمل اور آخری شکل میں ملتا ہے‘ جس میں وہ ہدایت ہے جو خالق کائنات نے اتاری ہے اور جو تمام انسانوں کی دائمی خیروفلاح کی ضامن ہے۔

قرآن کی حیثیت اور مقصد

(الف)  ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ ج فِیْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo (البقرہ ۲: ۱۲) ’’یہ اللہ کی کتاب ہے ‘ اس میں کوئی شک نہیں۔ پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے‘‘۔

(ب) اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِی لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ (بنی اسرائیل ۱۷:۹) ’’حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے‘‘۔

یہ رہنمائی تمام انسانوں کے لیے ہے:

الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ (البقرہ ۲: ۱۸۵) ’’قرآن انسانوں کے لیے ہدایت ہے‘‘۔

(ج)  یہ ہدایت کا ایسا مرقع ہے‘ جس میں ازل سے نازل ہونے والی ہدایت جمع کر دی گئی ہے اور یہ پورے خیر کا مجموعہ ہے:

وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَمُھَیْمِنًا عَلَیْہِ (المائدہ ۵:۴۸) ’’پھر اے نبیؐ ‘ہم نے تمھاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے‘ اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے‘‘۔

(د) یہ ہدایت ہر لحاظ سے محفوظ بھی ہے اور تاقیامت محفوظ رہے گی:

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ o (الحجر ۱۵:۹) ’’بلاشبہ ہم نے اس کو نازل کیا ہے اور ہم خود ہی اس کو محفوظ رکھنے والے ہیں‘‘۔

انسانیت کے دکھوں کا واحد علاج یہی ہدایت ہے:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَا ٓئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ لا وَھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ o (یونس ۱۰:۵۷) ’’لوگو! تمھارے پروردگار کی جانب سے تمھارے پاس ایک نصیحت آگئی ہے۔ یہ دل کے تمام امراض کے لیے شفا ہے اور ہدایت اور رحمت ہے ان تمام لوگوں کے لیے جو اسے مانیں‘‘۔

(ر)  اور یہی ہدایت ہے جو حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والی اور حق کا حقیقی معیار ہے۔ اس لیے اس کو  مھیمن (نگہبان) کہا گیا ہے اور اسی لیے اس کا نام  فرقان (حق و باطل میں تمیز کرنے والی) رکھا گیا ہے۔

قرآن کی اس نوعیت کو سمجھ لینے کے بعد اس کی حقیقت اور اس کے مقصد کی وضاحت آسان ہو جاتی ہے۔ اس لیے ہم مختصراً یوں بیان کر سکتے ہیں:

٭ قرآن کاموضوع انسان ہے کہ انسان کی فلاح اور اس کا خسران کس چیز میں ہے۔

٭ قرآن کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ظاہربینی یا قیاس آرائی یا خواہش کی غلامی کے باعث انسان نے  خدا‘ نظام کائنات‘ اپنی ہستی اور اپنی دنیوی زندگی کے متعلق جو نظریات قائم کیے ہیں‘ اور ان نظریات کی بنا پر جو رویے اختیار کر لیے ہیں‘ وہ سب حقیقت کے لحاظ سے غلط اور نتیجے کے اعتبار سے خود انسان ہی کے لیے تباہ کن ہیں۔ حقیقت وہ ہے‘ جو انسان کو خلیفہ بناتے وقت خدا نے خود بتا دی تھی۔ اس حقیقت کے لحاظ سے وہی رویہ درست اور خوش انجام ہے‘ جو خدا کو اپنا واحد حاکم اور معبود تسلیم کرے۔ اور پھر انسان اس دنیا میں اپنی پوری زندگی اسی خدا کی ہدایت کے مطابق گزارے۔

٭ قرآن کا مدعا انسان کو اس صحیح رویے کی طرف دعوت دینا اور اللہ کی اس ہدایت کو واضح طور پر پیش کرنا ہے‘ جسے انسان اپنی غفلت سے گم اور شرارت سے مسخ کرتا رہا ہے (ملاحظہ ہو‘  تفہیم القرآن‘ جلد اول‘ مقدمہ از سید ابوالاعلیٰ مودودی)۔

اس بات کو شاہ ولی اللہؒ محدث دہلوی نے اس طرح بیان فرمایا ہے‘ کہ قرآن مجید کے نزول کا اصل مقصد انسانوں کی تہذیب اور ان کے باطل عقائد اور گم کردہ راہ اعمال کی اصلاح اور درستی ہے  (الفوز الکبیر)۔

قرآن تمام انسانوں کو ابدی سعادت کی طرف بلاتا ہے‘ اور انسان کے ظاہر و باطن کی ایسی تعمیر کرتا ہے‘ کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔ دنیا اور آخرت کی زندگیوں میں حقیقی چین اور راحت نصیب ہو۔ یہ راستہ رب کی بندگی کا راستہ ہے۔

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِo (الذاریت ۵۱:۵۶) ’’میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں‘‘۔

یہ بندگی انسان کی پوری زندگی پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا ہر سانس احساس عبدیت سے معمور ہونا چاہیے اور اس کا ہر عمل مالک کی اطاعت کا مظہر ہونا چاہیے۔

قرآن کا انقلابی تصورِ حیات

یہی وہ مقام ہے جہاں سے قرآن کا انقلابی تصورِ حیات ہمارے سامنے آتا ہے۔

قرآن انسانی زندگی کو مختلف گوشوں اور شعبوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ وہ پوری زندگی کو بندگی رب میں لانا چاہتا ہے۔ انسان کے فکروخیال اور عقیدہ و رجحان سے لے کر اس کی اجتماعی زندگی کے ہر پہلو پر اللہ تعالیٰ کی حکمرانی قائم کرنا چاہتا ہے--- اس کا مطالبہ خود مسلمانوں سے یہ ہے کہ:

اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃ ً ص(البقرہ ۲:۲۰۸) ’’داخل ہو جائو خدا کے دین میں پورے کے پورے‘‘۔

یعنی اسلام کے راستے کو اختیار کرنے کے بعد زندگی کے کسی شعبے کو خدا کی ہدایت سے آزاد رکھنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پھر انسان کی انفرادی زندگی اور اس کی اجتماعی زندگی‘ خدا کے قانون کی پابند اور اس کی رضا کو تلاش کرنے والی ہوگی۔ پھر تمدن کے پورے نظام یعنی معاشرت‘ سیاست‘ معیشت‘ قانون و عدالت‘ انتظام و انصرام‘ ملکی اور بین الاقوامی تعلقات‘ سب پر خدا کی حکمرانی قائم ہونی چاہیے۔ صرف اپنے اوپر ہی اس قانون کو جاری و ساری نہیں کرنا‘ بلکہ پوری انسانیت کو اپنے قول اور عمل سے اس راستے کی طرف دعوت دینی ہے۔ انسانیت کو حق کی طرف بلانا ہے‘ اور ہر اس رکاوٹ کو ہٹانے کی جدوجہد کرنی ہے‘ جو بندے اور اس کے رب کے درمیان اس تعلق کے قیام کی راہ میں مزاحم ہے۔ اسی کا نام دعوت حق ہے‘ جو اسلام میں جہاد ہی کا ایک شعبہ ہے۔ یہی وہ دعوت ہے جس کی طرف یہ کتاب بلاتی ہے۔

قرآن کی تعلیمات اس نقطۂ نظر کی حمایت نہیں کرتیں‘ جس میں انسان کی اصل دل چسپی صرف اور صرف اپنی ذات کی اصلاح اور اپنی روح کے لیے قرب الٰہی کا حصول ہے۔ بلاشبہ قرآن انسان کے ظاہر و باطن کی اصلاح چاہتا ہے اور بندے کے تعلق باللہ کو مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ یہ کام اسے زندگی کی کش مکش سے کاٹ کر کرنے کی دعوت نہیں دیتا‘ بلکہ دنیاوی زندگی کے ان ہزاروں‘ لاکھوں تعلقات کو خدا کی ہدایت کا پابند بناکر‘ یہ مرحلہ طے کرانا چاہتا ہے۔

علامہ اقبال ؒ قرآن کے اس مخصوص مزاج کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں:

’’محمد عربیؐ برفلک الافلاک رفت و باز آمد واللہ اگر من رفتمے ہرگز باز نیا مدمے

]محمد عربیؐ (معراج کے موقع پر) آسمانوں پر گئے اور واپس آگئے۔ اللہ کی قسم‘ اگر میں جاتا تو ہرگز واپس نہ آتا[

یہ مشہور صوفی بزرگ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی ؒ کے الفاظ ہیں‘ جن کی نظیر تصوف کے سارے ذخیرئہ ادب میں مشکل ہی سے ملے گی۔ شیخ موصوف کے اس ایک جملے سے ہم اس فرق کا ادراک نہایت خوبی سے کر لیتے ہیں‘ جو شعور ولایت اور شعور نبوت میں پایا جاتا ہے۔ صوفی نہیں چاہتا کہ اس واردات اتحاد میں اسے جو لذت اور سکون حاصل ہوتا ہے‘ اسے چھوڑ کر واپس آئے‘ لیکن اگر آئے بھی‘ جیسا کہ اس کا آنا ضروری ہے‘ تو اس سے نوع انسانی کے لیے کوئی خاص نتیجہ مرتب نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس‘ نبی کی باز آمد تخلیقی ہوتی ہے۔ وہ اس واردات سے واپس آتا ہے‘ تو اس لیے کہ زمانے کی رَو میں داخل ہو جائے۔ اور پھر ان قوتوں کے غلبے و تصرف سے‘جو عالم تاریخ کی صورت گر ہیں‘ مقاصد کی ایک نئی دنیا پیدا کرے۔ صوفی کے لیے تو لذت اتحاد ہی آخری چیز ہے‘ لیکن انبیا علیہم السلام کے لیے اس کا مطلب ہے‘ ان کی اپنی ذات کے اندر کچھ اس قسم کی نفسیاتی قوتوں کی بیداری‘ جو دنیا کو زیروزبر کر سکتی ہیں‘ اور جن سے کام لیا جائے تو جہان انسانی دگرگوں ہو جاتا ہے۔ لہٰذا انبیا کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس واردات کو ایک زندہ اور عالم گیر قوت میں بدل دیں--- لہٰذا انبیا کے مذہبی مشاہدات اور واردات کی قدر وقیمت کا فیصلہ ہم یہ دیکھ کر بھی کر سکتے ہیں کہ‘ ان کے زیراثر کس قسم کے انسان پیدا ہوئے‘‘۔ (تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘ علامہ محمد اقبال  ؒ ‘ترجمہ سید نذیر نیازی‘ بزم اقبال‘ لاہور‘ ص ۱۸۸-۱۹۰)

مطلب یہ کہ بزرگ صوفی کا یہ قول زندگی کے محدود تصور کا غماز ہے۔ اس تصور میں اصل اہمیت عرفان ذات کی ہے اور وہ اس سے اونچے کسی مقام کا تصور نہیں کر سکتی ہے‘ کہ بندے کے قدم وہاں پہنچ جائیں‘ جہاں فرشتوں کے پَر جلتے ہیں۔ پھر اس کے اس دنیا کی طرف واپس آنے کا کیا سوال؟ لیکن محمدؐ جس دین کے علم بردار ہیں‘ یہ وہ دین ہے جس کا نبیؐ اُس بلندی پر پہنچ کر اِس دنیاے رنگ و بو میں لوٹتا ہے‘ تاریخ کے منجدھار میں قدم رکھتا ہے‘ اور اس نور سے جو اسے حاصل ہوا ہے‘ تنگ و تاریک دنیا کو منور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

وہ صرف اپنے اس سینے کو گنجینہ انوار نہیں بناتا‘ بلکہ پورے عالم کو روشن کرنے کی جدوجہد کرتا ہے۔ایک نیا انسان بنانے‘ ایک نیا معاشرہ تعمیر کرنے‘ ایک نئی ریاست قائم کرنے اور تاریخ کو ایک نئے دور سے ہم کنار کرنے میں مصروف جہاد ہو جاتا ہے۔

قرآن اسی دعوت انقلاب کو پیش کرتا ہے۔ وہ زمانے کے چلن کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایک نیا نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس کا مقصد ایک انقلاب برپا کرنا ہے۔ دلوں کی دنیا میں بھی انقلاب --- اور انسانی معاشرے میں بھی انقلاب--- وہ صالح انقلاب جس کے نتیجے میں خدا سے بغاوت ختم ہو اور اس کی بندگی کا دور دورہ ہو۔ برائیاں سرنگوں ہو جائیں اور نیکیوں کو غلبہ حاصل ہو۔ خدا کے منکر اور اس سے غافل‘ قیادت کی مسند سے ہٹا دیے جائیں اور اس کے مطیع اور فرماں بردار بندے زمانے کی باگ ڈور سنبھال لیں۔

یہ ہے نزول قرآن کا مقصد اور یہی ہے انسانیت کی نجات کا راستہ۔

امت مسلمہ کے لیے لمحہ فکریہ

ہم امت مسلمہ کو جس بات کی دعوت دیتے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ اس امت کا ہر فرد اس موقع پر اور بھی سنجیدگی کے ساتھ قرآن کی اصل حقیقت کو سمجھے۔اس کے مقصد کا حقیقی شعور پیدا کرے۔ اس کے پیغام پر کان دھرے اور اس کے مشن کو پورا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہو جائے۔

قرآن نے انسانیت کو ایک نیا راستہ دکھایا ہے۔ اس نے قبیلے‘ نسل‘ رنگ‘ خاک و خون اور جغرافیائی تشخص کے بتوں کو پاش پاش کیا ہے۔ اس نے یہ اعلان کیا ہے کہ پوری انسانیت ایک گروہ ہے اور اس میں جمع تفریق اور نظام اجتماعی کی تشکیل کے لیے صرف ایک ہی اصول صحیح ہے‘ یعنی عقیدہ اور مسلک۔ اسی اصول کے ذریعے اس نے ایک نئی امت بنائی اور اس امت کو انسانیت کی اصلاح اور تشکیل نو کے عظیم کام پر مامور کر دیا۔

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔

قرآن نے اس امت کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بھی صورت گری کی ہے‘ اور اسے باقی انسانیت کے لیے خیر و صلاح کا علم بردار بھی بنایا ہے۔ یہی وہ چیز تھی جس نے چھٹی صدی عیسوی کی ظلم اور تاریکی سے بھری ہوئی دنیا کو تاریخ کے ایک نئے دور سے روشناس کرایا۔ جس نے عرب کے اونٹ چرانے والوں کو انسانیت کا حدی خواں بنا دیا۔ جس نے ریگستان کے بدوئوں کو تہذیب و تمدن کا معمار بنا  دیا۔ جس نے مفلسوں اور فاقہ کشوں میں سے وہ لوگ اٹھائے‘ جو انسانیت کے رہبر بنے۔ جنھوں نے وہ نظام قائم کیا‘ جس نے طاغوت کی ہر قوت سے ٹکر لی اور اسے مغلوب کر ڈالا۔

قرآن طاقت کا ایک خزانہ ہے۔اس نے جس طرح آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے انسانوں کی اصلیت بدل کر رکھ دی تھی اور ان کے ہاتھ سے ایک نئی دنیا تعمیر کرائی تھی‘ اسی طرح آج بھی فساد سے بھری ہوئی دنیا کو تباہی سے بچا سکتا ہے۔ اپنے ماننے والوں کو‘ بشرطیکہ وہ اس کا حق ادا کر سکیں ‘ انسانیت کا رہنما اور تاریخ کا معمار بنا سکتا ہے۔

خوب کہا امام احمد بن حنبلؒ نے:

لا یصلح اخر ھذہ الامہ الا بما صلح اولھا ‘ ’’اس امت کے بعد کے حصے کی اصلاح بھی اسی چیز سے ہوگی‘ جس سے اس کے اوّل حصے کی اصلاح ہوئی تھی‘‘۔

اور یہ چیز قرآن ہے۔

قرآن سے تعلق کی صحیح بنیادیں

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن نے پہلے بنجر اور شورزمین سے ایک نیا جہاں پیدا کر دیا تھا‘ تو آج وہ یہ کارنامہ کیوں سرانجام نہیں دے رہا؟

اگر وہ کل شفا و رحمت تھا‘ تو وہ آج یہ وظیفہ سرانجام دیتا ہوا کیوں نظر نہیں آتا؟

اگر ہم کل اس کی وجہ سے طاقت ور تھے‘ تو آج اس کے باوجود ہم کمزور کیوں ہیں؟

اگر کل اس کے ذریعے ہم دنیا پر غالب تھے‘ تو آج اس کے ہوتے ہوئے ہم مغلوب کیوں ہیں؟

اگر غور کیا جائے تو اس کی دو ہی وجوہ ہو سکتی ہیں--- ایک‘ یہ کہ ہم نے عملاً اس کتاب ہدایت کو

اپنا حقیقی رہنما باقی نہ رکھا ہو۔ اس سے ہمارا تعلق‘ غفلت و سرد مہری و بے التفاتی اور بے توجہی کا ہو گیا ہو۔ دوسرے‘ یہ کہ ہم بظاہر تو اس کا احترام اور تقدیس کر رہے ہوں لیکن اس کو سمجھنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے صحیح راستہ اور صحیح طریقہ اختیار نہ کر رہے ہوں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاملے میں یہ دونوں ہی باتیں

صحیح ہیں۔

برف کی طرح پگھلتی اور ہر آن قطرہ قطرہ ختم ہوتی اس زندگی میں یہ بڑا ہی سنہری موقع ہے کہ ہم لمحہ بھر رک کر سوچیں کہ خدا کی اس کتاب سے ہمارا تعلق کیا ہونا چاہیے؟ اور ہمیں اس سے کیا معاملہ کرنا چاہیے تاکہ یہ اپنے اثرات دکھا سکے اور اس کی روشنی دنیا کے گوشے گوشے کو نور سے بھر دے۔

(۱) اس سلسلے میں سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ اپنے اس سوئے ہوئے ایمان کو بیدار کیا جائے جو قرآن پر لایاتو ضرور گیا ہے‘ مگر اس کا یقین اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جذبے اور شوق سے عاری ہے۔ یاد رکھیے‘ کہ یہ ایمان اس کے‘ خدا کی کتاب ہونے پر‘ اس کے مکمل طور پر محفوظ ہونے پر‘ اس کے ہر لفظ کے حق و صداقت ہونے پر‘ اس کے بتائے ہوئے طریقے کے درست اور مفید ہونے پر‘ اس کے بتائے ہوئے علاج کے اصل ضامن شفا ہونے پر ہے--- یہ ہے نقطہ آغاز:

اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَلاَ تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآئَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ o وَمَآ اَنْتَ بِھٰدِی الْعُمْیِ عَنْ ضَلٰلَتِھِمْ ط اِنْ تُسْمِعُ اِلاَّ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَھُمْ مُّسْلِمُوْنَo  (النمل ۲۷:۸۰-۸۱) ’’بے شک تم مُردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو اپنی دعوت سنا سکتے ہو۔ جب وہ اعتراض کرتے ہوئے منہ پھیر لیں‘ اور نہ تم اندھوں کو ان کی گمراہی سے نکال سکتے ہو۔ تم تو صرف انھی کو سنا سکتے ہو جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں‘‘۔

وَمَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۲۱) ’’اور جو لوگ اس کا انکار کریں گے‘ وہ نقصان اٹھانے والے ہیں‘‘۔

(۲) پھر یہ بھی ضروری ہے کہ دل قرآن حکیم کی عظمت اور بلندی‘ اس کے ایک اعلیٰ اور برتر کلام ہونے کے احساس سے معمور ہو۔یہ وہ کلام ہے جو اگر پہاڑوں پر نازل ہوتا تو وہ شق ہو جاتے۔ اس پُرعظمت کلام کے مقابلے میں اپنی عاجزی کا احساس اور دل کا اس کے لیے موم ہو جانا بہت ضروری ہے:

وَاِذَا سَمِعُوْا مَا اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ ج (المائدہ ۵:۸۳) ’’جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اترا ہے‘ تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے ان کی آنکھیں آنسوئوں سے تر ہو جاتی ہیں‘‘۔

یہ معرفت حق کا لازمی نتیجہ ہے۔

(۳) قرآن سے رہنمائی اور رہبری کے لیے رجوع کرنا‘ اس کے بارے میں غفلت کی روش کو ترک کر کے اسے سمجھنے کی کوشش کرنا۔ یہ دیکھنا کہ کس طرح وہ ہماری زندگی کا نقشہ بدلنا چاہتا ہے۔ اس کتاب کو مضبوطی سے تھامنا اور ہر معاملے میں اس سے ہدایت حاصل کرنا۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے اس کتاب کے اصل اسرار و رموز ہم پر منکشف ہو سکیں گے:

فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِیْٓ اُوْحِیَ اِلَیْکَ  ج اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ o وَاِنَّہٗ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ ج وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَ o (الزخرف ۴۳: ۴۳-۴۴) ’’اے پیغمبر‘ جو کچھ تمھاری طرف وحی کیا گیا ہے‘ اس کو خوب مضبوط پکڑے رہو۔ یقین رکھو کہ تم سیدھے راستے پر ہو اور یہ (قرآن ) تمھارے لیے اور تمھاری قوم کے لیے یقینا ایک نصیحت نامہ ہے اور آگے چل کر تم سب سے اس کی بابت بازپرس ہوگی۔

امام شاطبی ؒ نے بجا فرمایا ہے:

جو شخص دین کو جاننا چاہتا ہے‘ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن ہی کو اپنا مونس و ہمدم بنائے۔ شب و روز قرآن ہی سے تعلق رکھے۔یہ ربط و تعلق علمی اور عملی دونوں طریقوں سے ہونا چاہیے۔ ایک ہی پر اکتفا نہ کرے۔ جو شخص یہ کرے گا وہی شخص گوہر مقصود پائے گا ۔ (الموافقات ‘ ج ۳‘ ص۳۴۶)

(۴) قرآن کا مطالعہ کیا جائے اور اس طرح کیا جائے جو اس کا حق ہے:

اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ط (البقرہ ۲:۱۲۱) ’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے‘ وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے‘‘۔

اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ قرآن کی تلاوت کے ظاہری آداب پورے کیے جائیں‘ یعنی اسے پاک حالت میں چھوا جائے‘ ادب سے مطالعہ کیا جائے‘ ترتیل سے پڑھا جائے اور خوش الحانی سے پڑھا جائے وغیرہ۔ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اس کے معنی کو سمجھا جائے اور ان پر غوروفکر کیا جائے۔ قرآن کے الفاظ پر سے یوں ہی نہ گزر جایا جائے‘ بلکہ اس کی گہرائیوں میں اترنے اور اس کے مفہوم کو سمجھنے کی پوری کوشش کی جائے۔ یہی قرآن کا مطالبہ ہے:

کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَo (یونس ۱۰:۲۴) ’’غور کرنے والوں کے لیے ہم نے اس طرح آیات تفصیل سے بیان کی ہیں‘‘۔

لَقَدْ اَنْزَلْنَا ٓ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ ط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ o (الانبیا ۲۱:۱۰) ’’لوگو‘ ہم نے تمھاری طرف کتاب اتار دی ہے‘ جس میں تمھارا ذکر ہے‘ کیا تم غور نہیں کرتے!‘‘

کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْآ اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ o (ص ۳۸:۲۹) ’’اے پیغمبر‘ یہ قرآن برکت والی کتاب ہے‘ جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے‘ تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں۔ جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں‘ وہ اس سے نصیحت پکڑیں‘‘۔

یہی صحابہ کرام ؓ کا طریقہ تھا کہ وہ قرآن پاک کی آیات کو سمجھ سمجھ کر پڑھتے تھے اور ان پر غوروفکر کرتے تھے۔

(۵) قرآن پر عمل کیا جائے اور اس کے مطابق اپنے فکروعمل کو بدلا جائے۔ قرآن پر اس سے بڑا ظلم اور کوئی ہو نہیں سکتا‘ کہ قرآن کے احکام کے مطابق اپنے کو بدلنے کے بجائے اپنی بداعمالیوں کے لیے جواز پیش کرنے کے لیے قرآن کو (نعوذ باللہ) بدلنے کی کوشش کی جائے۔ اسی طرح یہ بھی قرآن کے حقوق کے منافی ہے کہ اس کے احکام کو تو پڑھا جائے‘ مگر ان پر عمل نہ کیا جائے۔ قرآن نازل ہی اس لیے کیا گیا ہے‘ کہ اس کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کے نقشے کو تعمیر کیا جائے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ قرآن کے مطابق عمل کی سعی کی جائے۔حضرت ابن مسعودؓ کا ارشاد ہے کہ ’’جب کوئی شخص ہم میں سے دس آیتیں سیکھ لیتا تھا‘ تو اس سے زیادہ نہ پڑھتا تھا‘ جب تک ان کے معنی نہ سمجھ لیتا اور ان پر عمل نہ کرتا‘‘ (ابن کثیر‘ جلد اول‘ ص ۵)۔

پھر قرآن کوسمجھنے اور اس پر عمل کے سلسلے میں رہنما اور نمونہ اس مبارک ہستی ؐ کو ماننا‘ جس پر یہ کتاب نازل ہوئی:

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ج (النساء ۴:۸۰) ’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی‘ اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘۔

اس سلسلے میں رسول ؐاللہ کے اسوئہ حسنہ سے سرموانحراف بھی قرآن سے دُور لے جانے والی چیز ہے۔

قرآن: ایک تحریک

اور آخری چیز یہ ہے کہ قرآن جس دعوت کو لے کر آیا ہے‘ اسے پھیلانے‘ اور اس کے نظام کو قائم کرنے کی عملی جدوجہد کی جائے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بہت سچ لکھا ہے کہ:

فہم قرآن کی ان ساری تدبیروں کے باوجود آدمی قرآن کی روح سے پوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا‘ جب تک کہ عملاً وہ کام نہ کرے‘ جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے‘ کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دنیا کے عام تصور مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میںاس کے سارے رموز حاصل کر لیے جائیں... یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشہ عزلت سے نکال کر خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اٹھوائی اور وقت کے علم برداران کفرو فسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ گھر گھر سے‘ ایک ایک سعید روح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعی حق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔ گوشے گوشے سے‘ ایک ایک فتنہ جُو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اٹھایا اور حامیان حق سے ان کی جنگ کرائی۔ ایک فرد واحد کی پکار سے کام شروع کر کے خلافت الٰہیہ کے قیام تک پورے ۳۰ سال میں یہ کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی اور حق و باطل کی اس طویل و جاں گسل کش مکش کے دوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اس نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے۔

--- اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاع کفر و دیں اور معرکہ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی منزل کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو‘ اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہو جائیں۔ اسے تو پوری طرح آپ اسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے‘ اس طرح قدم اٹھاتے چلے جائیں‘ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو نزول قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔ مکہ‘ حبشہ اور طائف کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بدر و احد سے لے کر حنین اور تبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابوجہل اور ابولہب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا۔ منافقین اور یہود بھی آپ کو ملیں گے اور سابقین اولین سے لے کر مولفتہ القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے آپ دیکھ بھی لیں گے اور برت بھی لیں گے۔ یہ ایک اور ہی قسم کا ’’سلوک‘‘ ہے‘ جس کو میں ’’سلوک قرآنی‘‘ کہتا ہوں۔اس سلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیں گے‘ قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خود سامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اس منزل میں اتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں۔ اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لغت اور نحو اور معانی اور بیان کے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھپے رہ جائیں‘ لیکن یہ ممکن نہیں کہ قرآن اپنی روح کواس کے سامنے بے نقاب کرنے سے بخل برت جائے۔

--- پھر اس کلیے کے مطابق قرآن کے احکام‘ اس کی اخلاقی تعلیمات‘ اس کی معاشی اور تمدنی ہدایات اور زندگی کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں اس کے بتائے ہوئے اصول و قوانین‘ آدمی کی سمجھ میں اس وقت تک آ ہی نہیں سکتے جب تک وہ ان کو برت کر نہ دیکھے۔ نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد رکھا ہو اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہو سکتی ہے‘ جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں (تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ مقدمہ‘ ص ۳۳-۳۴)۔

یہ ہیں قرآن سے تعلق کی صحیح بنیادیں اور اگر ان پر ٹھیک ٹھیک عمل کیا ہو تو پھر قرآن انفرادی زندگی کا نقشہ بھی بدل دیتا ہے اور اجتماعی زندگی کی شکل بھی تبدیل کرا لیتا ہے۔ انفرادی زندگی اس کی برکتوں سے بھر جاتی ہے اور اجتماعی زندگی نیکی اور خوشی کی بہار سے شادکام ہوتی ہے۔

قرآن کی طرف دعوت

قرآن پر ایمان اسی وقت مفید اور معنی خیز ہو سکتا ہے‘ جب ہم قرآن کے پیغام کوسمجھیں اور اس کی دعوت پر لبیک کہیں۔ قرآن کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے اور اس کی ہدایت کے ذریعے اپنے معاملات کو طے کرنے کی کوشش کریں۔ آج عالم اسلام جن مسائل اور مصائب سے دوچار ہے‘ ان سے نکلنے‘ ترقی اور عزت کی راہ پر پیش قدمی کرنے کا راستہ صرف یہی ہے اور صادق برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی تلقین کی تھی:

رسولؐ اللہ: خبردار عنقریب ایک بڑا فتنہ سر اٹھائے گا۔

حضرت علیؓ: اس سے نجات کیا چیز دلائے گی‘ یارسول ؐاللہ!

رسول ؐ اللہ: اللہ کی کتاب

__  اس میں تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے حالات ہیں

__  تم سے بعد ہونے والی باتوں کی خبر ہے

__  اور تمھارے آپس کے معاملات کا فیصلہ ہے

__  اور یہ ایک دو ٹوک بات ہے‘ کوئی ہنسی دل لگی کی بات نہیں

__  جو سرکش اسے چھوڑے گا‘ اللہ اس کی کمر کی ہڈی توڑ ڈالے گا

__  اور جو کوئی اسے چھوڑ کر کسی اور بات کو اپنی ہدایت کا ذریعہ بنائے گا‘ اللہ اسے گم راہ کر دے گا

__  خدا کی مضبوط رسی یہی ہے

__  ‘یہی حکمتوں سے بھری ہوئی یاد دہانی ہے

__  یہی بالکل سیدھی راہ ہے

__  اس کے ہوتے ہوئے خواہشیں گمراہ نہیں کرتیں

__  اور نہ زبانیں لڑکھڑاتی ہیں

__  اہل علم کا دل اس سے کبھی نہیں بھرتا

__  اسے کتنا ہی پڑھو طبیعت سیر نہیں ہوتی

__  اس کی باتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں

__  جس نے اس کی سند پر کہا‘ سچ کہا

__  جس نے اس پر عمل کیا‘ اجر پائے گا

__  جس نے اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا‘ اس نے انصاف کیا

__  جس نے اس کی دعوت دی‘ اس نے سیدھی راہ کی دعوت دی۔

یہی وہ سیدھی راہ ہے جس کی طرف قرآن ہم سب کو دعوت دے رہا ہے!


(کتابچہ دستیاب ہے‘ ۳۵۰ روپے سیکڑہ‘ منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے:

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوتے تھے‘ جب آپ ؐکھڑے ہوتے تو ہم بھی ساتھ کھڑے ہو جاتے تھے۔ چنانچہ ایک دن آپؐ کھڑے ہوئے تو ہم بھی ساتھ کھڑے ہو گئے۔ جب آپؐ مسجد کے درمیان میں پہنچے تو ایک دیہاتی آپؐ کے پاس آپہنچا‘ اور آپؐ کی چادر پکڑ کر کھینچی۔ آپؐ کی چادر سخت تھی‘ اس سے آپ ؐکی گردن سرخ ہو گئی۔ وہ بولا: محمدؐ! یہ میرے دو اونٹ ہیں۔ میرے اخراجات کے لیے ان دونوں پر سازوسامان باندھ دیں۔ آپ نہ اپنے مال سے دیں گے نہ اپنے والد کے مال سے دیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ مجھے معاف کرے! نہیں! اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک تو مجھے میری گردن کے کھینچنے کا قصاص نہ دے دے۔ دیہاتی نے کہا: اللہ کی قسم! میں آپ ؐ کو قصاص نہ دوں گا۔ ہم نے جب دیہاتی کی آواز سنی تو دوڑ کر آپؐ کے پاس آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم میں سے جو میری بات سن رہا ہے اس پر لازم ہے کہ اس وقت تک اپنی جگہ پر کھڑا رہے جب تک میں اسے آگے آنے کی اجازت نہ دوں۔اس پر ہم اپنی جگہ دم بخود کھڑے ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو فرمایا: اے فلاں آدمی! اِس کے ایک اونٹ پر جَو اور ایک پر کھجور کے بورے لاد دے۔ (نسائی‘ ۴۷۸۰)

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب ۳۳: ۱ ۲) ’’تمھارے لیے اللہ کے رسول کی سیرت میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔ کائنات کی سب سے بڑی ہستی‘ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘ اور علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں:

ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا

لیکن کوئی پروٹوکول نہیں‘ سب کے ساتھ‘ سب کے درمیان‘ کوئی سیکورٹی گارڈ نہیں۔ ہر وقت‘ ہر ایک آسانی سے مل سکتا ہے۔ جان نثاروں‘ جان و مال‘ ماں باپ اور اولاد سے زیادہ محبت کرنے والوں کے درمیان ہیں۔ اتنا ادب کرنے والوں کے درمیان‘ جو چہرئہ انور کی طرف نظریں جما کر بھی نہیں دیکھ سکتے۔ ضرورت اور انتہائی مجبوری کے بغیر کوئی سوال کرنے کی جرأت نہیں کرتے۔ ایسے میں ایک دیہاتی جو آداب سے عاری ہے‘ آتا ہے۔ اسے صرف اپنے پیٹ کی فکر ہے اور اسی بات پر نظر ہے کہ آپؐ بیت المال کے منتظم اور نگران ہیں۔ وہ بے ادبی اور گستاخی سے بلکہ تکلیف پہنچا کر مانگتا ہے۔ روے زمین والوں نے ایسا منظر کسی اور کا نہیں دیکھا ہوگا۔ تب کیا ہوا؟ کیا بے ادب‘ گستاخ‘تکلیف دینے والے کی تکہ بوٹی کی گئی؟ اسے جیل میں ڈالا گیا؟ اسے ماراپیٹا گیا؟اسے دھتکارا گیا؟ نہیں! پیار سے بات کی گئی‘ درشت بات سنی گئی‘ پھر جاں نثاروں‘ فداکاروں کے جذبات کی متلاطم موجیں اپنی جگہ رہ گئیں۔ دیہاتی  جَو اور کھجور سے لدے دونوں اونٹوں کو شاداں و فرحاں ہنکاتا ہوا‘ گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ تواضع‘ حلم‘ عفو و درگزر‘ جود و سخا اور رحمتہ للعالمینی کے کتنے نمونے ہیں جن کا نظارہ پوری کائنات نے کیا۔

اس سے بہتر اور بڑا نمونہ انسانیت کے لیے اور کیا ہو سکتا ہے!


حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوجہم ؓبن حذیفہ کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ ایک صاحب اپنی زکوٰۃ کے معاملے میں ان سے جھگڑ پڑے۔ حضرت ابوجہمؓ نے ان کی پٹائی کر دی۔ وہ لوگوں کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے اور قصاص مانگا۔ آپؐ نے انھیں قصاص کے بدلے میں مال کی پیش کش کی کہ اتنا مال لے کر قصاص چھوڑ دو۔ وہ نہ مانے۔ آپؐ نے مزید مال پیش کیا تب وہ راضی ہو گئے۔

آپؐ نے فرمایا: میں لوگوں کو اس سے باخبر کرنے کے لیے ان کو جمع کر کے ان سے خطاب کرتا ہوں اور انھیں تمھاری رضامندی سے آگاہ کرتا ہوں۔ انھوں نے کہا :ٹھیک ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے خطاب فرمایا کہ یہ لوگ میرے پاس قصاص کا مطالبہ لے کر آئے تھے۔ میں نے ان کے سامنے اتنے مالی معاوضے کی پیش کش کی جس پر یہ راضی ہو گئے (یہ سننے کے بعد وہ پھر منحرف ہو گئے)۔ کہنے لگے :نہیں‘ ہم راضی نہیں ہیں۔ اس پر مہاجرین نے انھیں مارنے کا ارادہ کیا لیکن آپ ؐنے انھیں حکم دیا کہ رک جائیں۔ تب وہ رک گئے۔ آپؐ نے انھیں پھر بلایا (علیحدگی میں) اور کہا :کیا تم راضی ہو؟ کہنے لگے: ہاں۔ آپ ؐنے فرمایا: میں لوگوں سے خطاب کرتا ہوں اور انھیں تمھاری رضامندی سے باخبر کرتا ہوں۔ انھوں نے کہا ٹھیک ہے۔ پھر آپ ؐنے خطاب فرمایا اورپوچھا: کیا تم راضی ہو؟ کہنے لگے: ہاں‘ ہم راضی ہیں۔ (نسائی‘ ۴۷۸۳)

حضرت ابوجہمؓ کو چاہیے تھا کہ جھگڑنے والے کو نہ مارتے لیکن ان کا بھی قصور تھا کہ جھگڑا کیا۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کے بجائے مالی معاوضے پر راضی کرنے کی کوشش فرمائی‘ جس پر وہ راضی ہو گئے۔ آپؐ نے ان کی رضامندی سے اس کا عوام میں اعلان کیا۔ آپؐ نے اعلان فرمایا تو انھوں نے گستاخی کا مظاہرہ کیا‘ کہنے لگے کہ ہم راضی نہیں ہیں‘ حالانکہ وہ راضی ہو گئے تھے۔ آپؐ مدعیوں سے دوبارہ بات کرتے ہیں اور انھیں راضی کرتے ہیں۔ کیسا بہترین فیصلہ ہے! عامل بے قصور نہ تھا اس لیے اس کی طرف سے مالی معاوضہ دیا گیا‘۔اور مدعی بے قصور نہ تھا کہ اس نے جھگڑا کیا اس لیے قصاص نہیں دلوایا۔

کیا حکومتی عہدے دار اپنی زیادتیوں کے جواب دہ نہیں ہیں؟ ان سے قصاص نہیں لیا جائے گا؟ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ذات اقدس کی طرف سے قصاص دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ حضرت ابوجہمؓ کے خلاف استغاثہ کرنے والوں کو کتنی پیشیاں دینی پڑیں؟ آج کے حکمران کتنے لوگوں کو لاٹھیوں کا نشانہ بناتے ہیں‘ بلاجواز قیدوبند میں ڈالتے ہیں‘ انھیں کوئی پوچھتا ہے؟ پھر اگر کوئی مقدمہ کیا جاتا ہے تو اس کے فیصلے میں کتنا عرصہ لگتا ہے؟ پھر بھی انصاف کہاں ملتا ہے! لیکن یہاں کیا ہے؟ فوری سماعت‘ فوری انصاف‘ گستاخی سے صرف نظر! اور سب سے بڑی چیز یہ کہ پبلک کے سامنے یہ آئے کہ انصاف ہوا ہے تاکہ آیندہ کے لیے کوئی عہدے دار ظلم کی جرأت نہ کر سکے ۔ عوام کو بھی معلوم ہو گیا کہ کوئی عہدے دار بے جا زیادتی کا حق نہیں رکھتا۔ اگر وہ ایسا کرے تو اسے روکا جائے گا‘ نہ رکے تو سزا کا مستحق ہوگا۔

 


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جب بندہ کھلے عام اچھی طرح نماز پڑھے اور چھپ کر بھی اچھی طرح نماز پڑھے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: یہ میرا سچا بندہ ہے۔ ( ابن ماجہ‘ مشکوٰۃ‘ باب الریا)

انسان کا مقصد وجود ہی ’’اچھا عمل‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس نے موت وحیات کو پیدا کیا تاکہ تمھارا امتحان لے کہ تم میں سے کون ہے جو اچھا عمل کرتا ہے‘‘۔ (الملک ۶۷:۲ )۔اچھا عمل وہ ہے جو اخلاص کے ساتھ ہو اور شریعت کے مطابق ہو۔ ہر شخص خود ہی اپنا بہترین منصف ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے نماز کے حوالے سے ایک بیرومیٹر ہاتھ میں تھما دیا ہے۔ انسان اپنی چھپی اور کھلی نمازوں کی کیفیت اور ظواہر کا جائزہ لے لے۔ جان لے گا کہ وہ اپنے اللہ کا کتنا سچا بندہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ریا سے محفوظ رکھے۔


حضرت ابوالدرداء ؓسے روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ آپؐ نے اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھائی۔ پھر فرمایا: یہ وہ وقت ہے (آنے والے وقت کی طرف اشارہ ہے) جس میں لوگوں سے علم چھین لیا جائے گا۔ یہاں تک کہ کسی بھی چیز پر قادر نہ ہوں گے ۔(یہ سن کر) حضرت زیاد بن عبیدانصاریؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہمارے پاس سے علم کیسے اٹھا لیا جائے گا؟ درآں حالیکہ ہم نے قرآن پڑھا ہے۔اللہ کی قسم! ہم اسے پڑھیں گے‘ اپنے بیٹوں اور بیویوں کو قرآن پڑھائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زیاد‘ تیری ماں تجھے گم کر دے! میں تو تجھے مدینہ کے سمجھ دار لوگوں میں شمار کرتا تھا۔ یہ تورات اور انجیل یہود کے پاس ہیں۔ یہ ان کو کیا فائدہ دیتی ہیں؟

جبیر کہتے ہیں کہ میں حضرت عبادہ ؓبن صامت سے ملا تو ان سے کہا‘ آپ نے نہیں سنا کہ آپ کے بھائی ابوالدرداءؓ کیاکہتے ہیں؟ پھر میں نے انھیں وہ بات بتلا دی جو حضرت ابوالدرداء ؓنے کہی تھی۔ انھوں نے کہا :ابوالدرداء ؓنے سچ فرمایا۔ اگر آپ چاہیں تو میں بتلا سکتا ہوں کہ علم کاسب سے پہلا حصہ کون سا ہے جو اٹھایا جائے گا۔ پہلا علم جو لوگوں سے اٹھایا جائے گا وہ خشوع ہے ۔عنقریب تم جامع مسجد میں داخل ہو گے تو اس میں ایسے آدمی کو نہیں پائو گے جو خشوع کرنے والا ہوگا۔ (ترمذی شریف)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ علم کے اٹھائے جانے سے مراد ’عمل‘ کا اٹھایا جانا ہے۔ اس کی وضاحت حضرت عبادہؓ بن صامت نے اس بات سے کی کہ سب سے پہلے ’خشوع ‘ اٹھایا جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ وہ علم جو محض کتابوں میں ہو‘ محض ذہن میں ہو‘ تقاریر اور تحریر کی شکل میں ہو‘ حقیقی علم نہیں ہے۔ حقیقی علم وہ ہے جو دل میں اترے اور عملی زندگی میں نظر آئے۔ اس وقت کتابی اور ذہنی علم کی کمی نہیں ہے۔ آج قرآن و سنت اپنی پوری تابانی سے موجود ہیں۔ فقہ اسلامی کے دفاتر بھی اَن گنت ہیں لیکن ان کا علم‘ عملی زندگی اور معاشرے سے اٹھا لیا گیا ہے۔ کتنا باقی ہے‘ اس کا اندازہ معاشرے کی دینی حالت کے تجزیے سے کیا جا سکتا ہے۔ علم کے اٹھائے جانے کا یہ پہلا مرحلہ ہے۔ دوسرا مرحلہ ذہنوں اور سینوں سے اٹھائے جانے کا ہے‘ تاآنکہ قیامت کے قریب علم وسیع پیمانے پر اٹھا لیا جائے گا۔ کتابوں کے صفحات اور انسانوں کے سینے ‘سب سے علم اٹھ جائے گا۔


حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ نے مال دار مسلمانوں پر ان کے مالوں میں اتنا مال فرض کیا ہے جتنا فقرا کی ضروریات کے لیے کافی ہو۔ فقرا جب بھوک اور ننگ کی تکلیف اٹھاتے ہیں تو اس کا سبب دولت مندوں کا فقرا سے مال کو روکنا ہے۔ سنو! اللہ تعالیٰ ان سے سخت حساب لیں گے اور دردناک عذاب دیں گے۔ (طبرانی فی الاوسط)

اللہ تعالیٰ نے مال دار اور فقیر دونوں کے لیے رزق کی تقسیم میں اس طرح آزمایش رکھی ہے کہ فقیر کا حصہ بھی مال دار کو دے دیا ہے۔ معاشرے میں جتنے بھی فقرا ہوں ان کی ضروریات پوری کرنا مال داروں کے ذمے ہے۔ فقرا کی ضروریات زکوٰۃ سے پوری نہ ہوں تو اللہ نے فقرا کو دینے کے لیے مزید مال بھی دولت مندوں کو دیا ہے۔

اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین بیت المال سے صرف اس قدر خرچ کرتے تھے جس قدر ادنیٰ درجے کے فقیر مسلمان کا خرچ ہوتا تھا۔ آج اگر اسی اصول کو اپنا لیا جائے تو حکمرانوں‘ اونچے گریڈ کے افسران اور سرمایہ داروں‘ جاگیرداروں اور عام لوگوں کے درمیان جو بہت بڑا مادی تفاوت ہے‘ وہ ختم ہو جائے اور معاشی ناہمواریاں اور غریبوں کا ننگ و بھوک اور بنیادی ضروریات پوری ہو جائیں۔

نومبر ۲۰۰۰ء کے آخری عشرے میں ہالینڈ کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں نے ’’رحم دلانہ قتل‘‘ (mercy killing) کے حق کو فرد کی رائے پر چھوڑنے کے لیے منظوری دی ہے اور اس طرح ایک پرانی بحث کو پھر سے چھیڑ دیا ہے۔ قانونی حق کے لیے تو انھوں نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے مگر اس مسئلے کی اخلاقی حیثیت ہی دراصل اس بات کا تعین کرے گی کہ ایک انتہائی مہلک مرض میں مبتلا شخص جس کے بظاہر دن گنے جا چکے ہوں اور طب کے ماہرین کے نزدیک بھی وہ لاعلاج ہو اور بدترین اذیت سے گزر رہا ہو‘ کیا اس کو یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ زہر کا انجکشن خود لگائے یا ڈاکٹر سے درخواست کرے کہ اس کو مرنے میں مدد دی جائے اور اس طرح اپنے آپ کو موت کے حوالے کر دے۔ کیا فرد کو یہ حق حاصل ہے؟ کیا ڈاکٹر اس کی مدد کر سکتا ہے؟ معاشرے کے دوسرے ادارے اس قسم کے حالات میں کیا کردار اپنائیں؟ وہ بنیادی اصول کون سے ہیں جن کوفرد بطور حق استعمال کر سکتا ہے؟ اس کے سیاسی‘معاشرتی‘ معاشی‘ قانونی اور اخلاقی پہلو کون سے ہیں جو غور طلب ہیں؟

بنیادی طور پر یہ موضوع ’’طب اور فقہ اسلامی‘‘ سے متعلق ہے۔ ہمیں پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ مسئلے کی نوعیت اس وقت کیا ہے؟ ہالینڈ کے ایوان زیریں کی رپورٹ کے حوالے سے  ہفت روزہ ٹائم نے لکھا ہے:

بہت پھیلی ہوئی عوامی تائید کی بنیاد پر ہالینڈ کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں نے اس امر کی تائید میں ووٹ دیا ہے کہ مرنے کے اس راستے کو قانونی طور پر تسلیم کیاجائے۔ ایمسٹرڈیم کے۵۵ سالہ ڈاکٹر ہینک مارٹن لین

نے ۲۰ مرتبہ افراد کے مرنے میںمدد کی ہے تاکہ فرد کی زندگی کو طویل کرنے کے بجائے اس کو موت سے ہم کنار

کیا جائے۔ اس کے لیے اس نے ’’مہربان موت‘‘ (mercy dying)کے الفاظ استعمال کیے۔ اس نے ’’رحم دلانہ قتل‘‘ (mercy killing)کے الفاظ کو پسند نہیں کیا۔ ڈچ پارلیمنٹ میں اکثریت کی طرف سے تائیدی ووٹ اس کے اطمینان کا باعث بنا اور اس نے کہا ہے کہ اب اہم بات یہ دیکھنا ہے کہ دنیا کیا فیصلہ کرتی ہے۔ ایک اچھے طریقے سے‘ پابندیوں سے آزاد یا پابندیوں کے ساتھ موت میں مدد کرنا‘ یا اس کے حصول کی قانونی طور پر کس طرح اجازت دی جائے؟ پارلیمنٹ کے ایوان بالا کو بھی منظوری دینا ہے۔ (۱۱ دسمبر ۲۰۰۰ء)

یہ قانون ایک ڈاکٹر کو اجازت دیتا ہے کہ وہ ایک ایسے مریض کی زندگی کو ختم کرنے میں مدد دے جو لاعلاج (terminally ill) ہو‘ شدید درد (unbearable pain) میں مبتلا ہو۔ مریض خودکشی میں مدد طلب کرنے کے بجائے ڈاکٹر سے خودکشی کے لیے مشورہ کرے اوراس مشورے میں ایک دوسرے ڈاکٹر کی رائے بھی شامل ہو۔مریض ۱۶ سال کا ہو اور اگر اس کی عمر ۱۲ اور ۱۶ کے درمیان ہو تو والدین کی رضامندی لی جائے۔

ڈاکٹر لین کہتے ہیں کہ اس کے بوڑھے مریض اور ایڈز (aids)میں مبتلا مریض جب اس سے یہ بات کہتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ میری دانست میں ’’میں ایک اچھا کام کرتا ہوں‘‘۔ بقول ڈاکٹر لین :کسی کا قتل اگرچہ ایک غیر فطری اور غیر قدرتی امر ہے اور جس دن میں یہ کام کرتا ہوں  وہ بہت بوجھل اور مشکل دن ہوتا ہے۔ مگر دوسرے دن جب میں مرنے والے کے خاندان کے لوگوں کے پاس جاتا ہوںاور دیکھتا ہوں کہ وہ بوجھ سے آزاد ہیں‘ بہت ہلکا محسوس کرتے ہیں اور مطمئن ہیں تو میری تشویش ختم ہو جاتی ہے۔

آرا کے جائزے سے پتا چلتا ہے کہ ملک کے ۹۲ فی صد افراد نے اس قانون کے حق میں اپنی رائے دی۔ ڈاکٹر پیٹر ہیلڈرنگ جو مخالف ڈاکٹروں کی تنظیم کے چیئرمین ہیں‘ کہتے ہیں کہ ’’ضروری ہے کہ ناقابل برداشت درد کے لفظ کے قانونی معنی متعین کیے جائیں۔ طب کی دنیا میں اس لفظ کی تشریح میں بہت اختلاف ہے۔ ہمارے نزدیک سب سے اہم مریض نہیں بلکہ وہ ڈاکٹر ہے جس سے یہ کہا جائے گا کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ مریض کو زندہ رہنا چاہیے یا مر جانا چاہیے۔ جب کہ ڈاکٹر لین کہتے ہیں کہ نیدرلینڈ میں ’’موت کی طلب‘‘ پچھلے ۱۰ سالوں میں کم ہوئی ہے کیونکہ ایڈز کے علاج میں بہتری آئی ہے۔ ان کی رائے میں ’’ناقابل برداشت درد‘‘ کافیصلہ مریض کر سکتا ہے‘ ڈاکٹر نہیں۔

فیلکو فرنیڈ ہوف کا بھائی سینڈرجو پانچ سال سے ایڈز کی بیماری میں مبتلا تھا‘ اس کی موت سے پہلے سارے رشتے دار اکٹھے ہوئے‘ سینڈر سے ملے اور اس کے بعد جب سب چلے گئے تو فیلکو ڈاکٹر لین کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا اور اس کے بھائی کو زہر کا انجکشن لگا دیا گیا۔ فیلکو کہتا ہے کہ غم تو بہت ہوا مگر اس کے ساتھ یہ آرام ملا کہ تکالیف کا خاتمہ ہو گیا۔ اس کے برعکس ایک مریض (جس برٹ) جو ایڈزکے مرض میں مبتلا تھا‘ تین سال بعد اس وقت فوت ہوا جب صرف اس کی والدہ اس کے ساتھ موجود تھیں۔ فیلکو کہتا ہے کہ میرے لیے یہ احساس بڑا تکلیف دہ تھا کہ جس برٹ اپنی زندگی کے آخری مرحلوں میں بہت زیادہ تنہا تھا۔ ان دو مریضوں کے حالات سے ہر فرد ان دو طرح کی موت کا فرق محسوس کر سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں اس قابل ہونا چاہیے کہ ’’ناممکن بقا‘‘ کا مسئلہ درپیش ہو تو خود فیصلہ کر سکیں۔ (ٹائمز انٹرنیشنل‘ ۱۱ دسمبر ۲۰۰۰ء)

موت کے حق (euthanasia) کے سلسلے میں آسٹریلیا نے جولائی ۱۹۹۶ء میں دنیا کی پہلی مملکت کی حیثیت سے ’’رضاکارانہ مہربان موت‘‘ یا قتل کو قانونی طور پر جائز قرار دیا۔ ذہنی طور پر بیدار فرد جو مرض الموت میں مبتلا ہو‘ کسی ڈاکٹر سے زندگی کو ختم کرنے کے لیے امداد طلب کر سکتا ہے‘ بمطابق Right of Terminally ill Act --- عملی طور پر اس قانون کے خلاف مارچ ۱۹۹۷ء میں اپیل کی گئی۔ چار افراد نے قانون کے تحت اپنی زندگیوں کا خاتمہ کیا۔ پروسٹیٹ (prostate)کے سرطان میںمبتلا ۶۶ سالہ باب پہلا آدمی تھا جس نے قانونی طور پر آسٹریلیا میں زندگی کا خاتمہ چاہا--- سوئٹزرلینڈ میں یہ غیر قانونی ہے مگر کسی کی مدد کرنے پر کوئی سزا نہیں۔ وہاں ’’انسانی موت کی سوسائٹی‘‘ کے نام سے تنظیم قائم ہے جو اس معاملے میں قانونی مدد فراہم کرتی ہے۔ عملی طور پر سالانہ ۱۰۰ سے ۱۲۰ کی تعداد میں افراد اس طرح مدد لے کر موت کو اختیار کرتے ہیں۔ (ایضاً)

ریاست کولمبیا میں ۱۹۹۷ء میں عدالت نے فیصلہ کیا ہے کہ اس فردکو فوجداری مجرم قرار دے کر گرفتار نہیں کیا جائے گا جو انتہائی بیمار شخص کی موت میں مددگار بنے۔ ایسی اموات کی شرح کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

ریاست ہاے متحدہ امریکہ کی سپریم کورٹ نے ۱۹۹۷ء میں فیصلہ کیا کہ کسی کی خودکشی میں مدد کرنے والے ڈاکٹر کا فعل دستوری مسئلہ ہے۔ اس لیے ۴۳ ریاستوں نے اس فعل کو غیر قانونی قرار دیا۔ چھ ریاستوں میں کوئی قانون سرے سے نہیں ہے۔ سوائے اوریگان کے جہاں اسے قانونی جوازدیا گیا ہے۔ Death with Dignity Act 1997 کے مطابق اس بات کی اجازت ہے کہ مریض انتہائی درجے سے متعلق ہو اور زہر کا انجکشن وہ خود اپنے آپ کو لگائے گا۔ ۲۷ افراد نے ۱۹۹۹ء میں خود کو قانونی راستے سے موت کے حوالے کیا۔ (ایضاً)

اس موضوع سے متعلق دوسرے پہلو بھی ہیں کہ ایسے بے ہوش مریض کے بارے میں کیسے فیصلہ کیا جائے جس کی دماغی موت (brain death)واقع ہو گئی ہو مگر آلات کے ذریعے اس کا تنفس برقرار رکھا گیا ہو اور وہ زندہ ہو؟ یا ایسے مریض کا کیا کیا جائے جس کے لیے ڈاکٹر متفقہ طور پر اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ دوا‘ خون دے کر یا آپریشن کرکے اس کی زندگی بچائی جا سکتی ہے مگروہ مریض اس بات کی اجازت نہ دیتا ہو؟ کیا مریض کی مرضی کے خلاف علاج کر کے اس کی زندگی بچانے کی کوشش کی جانی چاہیے؟ اس کی قانونی حیثیت کیا ہوگی؟ یہ اور اسی طرح کے مختلف سوالات ہیں جن کا حل تلاش کرنا ضروری ہے۔

ایک فرد جو سمجھتا بوجھتا ہو اور ناقابل برداشت درد میں اور ایسی بیماری سے ہم کنار ہو جو لاعلاج ہو اور آخری مرحلوں کی بیماری ہو‘ کیا اس کو اپنی زندگی کا خاتمہ کر دینا چاہیے؟ اور کیا اس کو یہ قانونی اجازت ملنی چاہیے کہ وہ خود کو موت کے گھاٹ اتار دے؟ کیا کسی ڈاکٹر یا رشتے دار یا معاشرے کے کسی ادارے کو یہ اجازت حاصل ہو کہ مرنے میں وہ اس کی مدد کرے؟ یہ سوال کی ایک صورت ہے جس پر گفتگو کی ضرورت ہے۔ اگر ڈاکٹر اس سلسلے میں مدد نہ کرے تو اس کے انکار کی قانونی حیثیت کیا ہونی چاہیے؟ اور اس انکار کی صورت میں وہ دوسرے ڈاکٹر کی طرف اس مریض کو کس طرح بھیجے گا؟ مریض کی عمر کتنی ہو جب اس کی مرضی کے مطابق اس کی موت میں مدد کی جائے؟ بصورت دیگر وہ کون سے رشتے دار ہیں جو اس کی مدد کر سکتے ہیں؟ ناقابل برداشت درد کا مطلب کیا ہے؟ اسے کون متعین کرے گا اور ناقابل علاج مرض سے کیا مراد ہوگی؟

ایسے سوالات پر ان غیر مسلم ممالک میں زور و شور سے بحث ہو رہی ہے جن کے سامنے اس بات کی بنیادی طور پر کوئی اہمیت نہیں کہ انسان‘ کائنات اور اللہ تعالیٰ کا باہمی تعلق کیا ہے اور ان کے حقوق کیا ہیں اور اس ضمن میں انسانی جان کی اہمیت کیا ہے؟ اس کے بارے میں کسی انسان کوکوئی فیصلہ کرنے کی کتنی حیثیت اور اختیار حاصل ہے؟ فی الواقع اس کو کوئی اختیار حاصل بھی ہونا چاہیے یا نہیں۔ اور اگر ہو تو کیوں؟ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور موجودہ دور میں انسان کو اگر کسی وجہ سے بھی اپنی زندگی کے ختم ہونے کا ادراک حاصل ہوجائے‘ جو ممکن نہیں‘ تب بھی کیا اس کو فطرت کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے یا اپنی مرضی سے اس کرب ناک زندگی سے نجات حاصل کرنے کے لیے براہِ راست خود یا کسی کی مدد حاصل کر کے اپنے آپ کو موت کے حوالے کر دینا چاہیے؟ اس طرح کے بہت سے سوالات کو میں نے چند حصوں میں تقسیم کیا ہے اور ان میں سے یہاں صرف ایک پہلو سے بحث کی جا رہی ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ ایک فرد جو ہوش و حواس میں ہے (fully oriented)‘ ناقابل علاج مرض میں مبتلا ہے (terminally ill)‘ ناقابل برداشت درد (un bearable pain) میں ایک کرب ناک صورت حال سے دوچار ہے اور اس کے رشتے دار ‘ تیماردار بھی سخت قسم کے مستقل اعصابی کھچائو میں مبتلا ہیں---

(۱) کیا وہ خود اپنی زندگی کا خاتمہ کر سکتا ہے؟

(۲) کیا اس کے رشتے دار اس کی زندگی کے خاتمے کے لیے درخواست کر سکتے ہیں جس میں اس کی مرضی بھی شامل ہو؟

(۳) کیا کوئی ڈاکٹر اس سلسلے میں اس کی موت میں مدد کر سکتا ہے؟

اس ضمن میں مغربی ممالک میں ہونے والی بحث اور ان کے سوالات اور قوانین کو میں نے اختصار سے ابتدا میں بیان کر دیا ہے۔

کلیسا کا جواب

اس مسئلے پر کلیسا نے کیا رویہ اختیار کیا؟ اس بارے میں Pope Pius XII  کی ۱۹۵۷ء کی ایک تقریر ہے جس میں انھوں نے زندگی کے بچائو اور اس کو طویل کرنے والے ’’معمولی‘‘ اور ’’غیر معمولی‘‘ ذرائع کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے کہا:

When inevitable death is imminent in spirit of the means used, it is permitted in Conseience to take the decision to refuse forms of treatment that would only secure a precarious and

burden some prolongation of life.

جب ایک موت واقع ہو رہی ہو اور یقینی ہو اور تمام ذرائع علاج کے استعمال کے باوجود یہ صورت ہو تو ضمیر اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اس علاج سے انکار کر دیا جائے جو صرف کرب ناک اور بوجھ والی زندگی کی طوالت کا باعث ہو ۔ (Biomedical ethical issues ‘ ص ۷۸)

اس بات سے کیتھولک چرچ کے افراد نے اختلاف کیا ہے اور ان کی رائے اس کے برعکس ہے۔ اخلاقی اور مذہبی راہبری براے کیتھولک ذرائع صحت (۱۹۷۱ء) کی ایک رپورٹ میں وہ لکھتے ہیں:

Directly intended termination of any patient's life, even at his

 own request is always morally wrong.

براہِ راست نیت کر کے کسی مریض کی زندگی کا خاتمہ خواہ مریض خود درخواست کرے ہمیشہ اخلاقی طور پر غلط رہا ہے۔  (Biomedical ethical issue, 1984 ‘ ص ۷۹)

اس مسئلے پر کہ کسی مریض کی زندگی کا خاتمہ اس کی درخواست پر کیا جائے ‘ مسئلے کا ایک پہلو ہے جس پر دو مختلف آرا سامنے آتی ہیں‘ اور اس ضمن میں پوپ کی بات سے ایک دوسرا سوال اُبھرتا ہے کہ کیا مریض علاج روک دے‘ کیا وہ علاج کو روک سکتا ہے؟ کیا وہ اس علاج کرنے سے ہاتھ کھینچ لے جو اس کی تکلیف میں تو کمی نہیں کرتا مگر اس کی زندگی میں اضافہ کا باعث ہے؟

اسلام کا جواب

ایک مریض جو ہوش و حواس میں ہو اور ناقابل علاج مرض میں مبتلا ہو اور ناقابل برداشت درد سے ہم کنار ہو‘ کیا اس کو اپنی زندگی ختم کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے یا نہیں؟ یا کوئی ڈاکٹر اس کی مدد کرسکتا ہے یا نہیں؟ اس ضمن میں اسلام کا جواب نفی میں ہے اور اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:

۱- زندگی کا بچانا فرض ہے:  وَلَقَدْ کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا م بِغَیْرٍ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ط وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ط (المائدہ ۵:۳۲) ’’ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا تھا (کتب بمعنی فرض کرنے کے ہیں) کہ اگر کسی کو قتل کیا‘ بغیر کسی قتل نفس کے جرم کے یا زمین میں فساد کے جرم کے‘ پس وہ ایسا ہے جیسے سارے انسانوں کو قتل کر دے اور جس کسی نے کسی کی زندگی بچائی وہ ایسا ہے جیسے سارے انسانوں کی زندگی بچا لے‘‘۔ زندگی کی اہمیت کا اندازہ خود اس بیان سے ہوتا ہے کہ انسان کی زندگی کی کیا اہمیت ہے۔ پھر اس کو بچانے کی کیا اہمیت ہے اور دوسرے کی زندگی کو بچانا جب اس قدر ضروری ہے تو پھر اپنی زندگی کی قیمت کا اندازہ کیجیے۔

۲- زندگی بچانے کے لیے اضطرار میں حرام کا استعمال:  زندگی بچانے کے لیے چار حرام کردہ چیزوں کو یعنی ۱- المیتۃ(مردار)‘ ۲- دم مسفوحًا (بہتا ہوا خون)‘ ۳- لحم الخنزیر (سؤر کا گوشت) ‘ ۴- وما اھل بہ لغیراللّٰہ (غیراللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو)‘ جنھیں اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے کھانے کی اجازت دی گئی ہے مگر ایک شرط کے ساتھ۔ وہ شرط یہ ہے:  فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ (البقرہ ۲:۱۷۳) ’’ہاں‘ جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ ان میں سے کوئی چیز کھالے بغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو یا ضرورت کی حد سے تجاوز کرے‘ تو اس پر کچھ گناہ نہیں‘‘۔ گویا یہ مضطرکے لیے جائز ہے بلکہ ایسے موقع پر حرام کا نہ کھانا خودکشی کے مترادف ہے جو حرام سے شدیدتر ہے۔  (تفسیر کبیر‘ قرطبی‘ روح المعانی‘ البحرالمحیط۔ ‘تفسیر ماجدی‘ تفسیر زیر آیت ‘ سورہ البقرہ ۲: ۱۷۳)

جان جانے کی مختلف صورتیں ہیں: ۱- مرض‘ ۲- بھوک‘ ۳- حرام کھانے پر کوئی مجبور کر رہا ہو اور جان جانے کا خطرہ ہو۔ مجبوری کے ختم ہونے تک اس کی اجازت ہے۔ ’’اضطر اضطراراً‘‘ ضرورت سے مشتق ہے اور اس کے باب افتعال سے مطلب یہ ہے کہ شدید ضرورت کے وقت ان حرام غذائوں کو بھی بہ قدرکفایت کھایا جا سکتا ہے (ایضاً) ۔بھوک کی شدت‘ ناداری اور افلاس کے باعث‘ مرض کی بنا پر وہ حرام نہ کھائے تو یقینی طور پر مارا جائے گا۔ ان صورتوںمیں حرام کھانا واجب ہے۔ یعنی اگر نہ کھا ئے اور مر جائے تو حرام موت مرے گا۔ اس لیے کہ حفظ نفس اوّلین فرض میں سے ہے  (حدائق بخشش (کامل)‘ مرتبہ: شمس بریلوی‘ ۱۹۷۶ء‘ مدینہ پبلشنگ کمپنی‘ ایم اے جناح روڈ‘ کراچی)۔ اضطرار سے مراد اضطرار حقیقی ہے نہ کہ تاویلی۔

۳- جان بچانے کے لیے کلمہ کفر کہنے کی رخصت: اس کا ذکر قرآن میں ہے:  مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلاَّ مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّ م بِالْاِیْمَانِ وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ  ج وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ o (النحل ۱۶:۱۰۶) ’’جو اپنے ایمان لانے کے بعد کفر کرے گا بجز اس کے جس پر جبر کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو‘ لیکن جو کفر کے لیے سینہ کھول دے گا تو ان پر اللہ کا غضب اور ان کے لیے عذاب عظیم ہے‘‘--- فرمایا کہ جو لوگ اعداے حق کے شکنجے میں ہیں ان کے لیے اس بات کی تو گنجایش ہے کہ وہ قلباً ایمان پر جمے رہتے ہوئے محض زبان سے کوئی کلمہ ایسا نکال دیں جس سے ان کی جان کے اس مصیبت سے چھوٹ جانے کی توقع ہو۔ (تدبر قرآن‘ مولانا امین احسن اصلاحی‘ ج ۳‘ تفسیر سورہ نحل‘ آیت ۱۰۶)

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اسی آیت کی تشریح میں عزیمت کے زمرے میں حضرت بلال حبشیؓ ‘ حضرت حبیب بن زیدؓبن عاصم کا ذکر کرنے کے بعد رخصت کا پہلو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

دوسری طرف عمار بن یاسرؓ ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے والد اوران کی والدہ کو سخت عذاب دے دے کر شہید کر دیا گیا‘ پھر ان کو اتنی ناقابل برداشت اذیت دی گئی کہ آخرکار انھوں نے جان بچانے کے لیے وہ سب کچھ کہہ دیا جو کفار ان سے کہلوانا چاہتے تھے۔ پھر وہ روتے ہوئے نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:  یارسول اللّٰہ ما ترکت حتی سببتک وذکرت الھتھم بخیر ’’یارسول اللہ‘ مجھے نہ چھوڑا گیا جب تک کہ میں نے آپؐ کو برا اوران کے معبودوں کواچھا نہ کہہ دیا‘‘۔ حضورؐ نے پوچھا: کیف تجد قلبک ’’اپنے دل کا کیا حال پاتے ہو؟‘‘ عرض کیا: مطمئنا بالایمان ’’ایمان پر پوری طرح مطمئن‘‘۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا:

ان عادوا فعد ’’اگر وہ پھر اس طرح کا ظلم کریں تو تم پھر یہی باتیں کہہ دینا‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۲‘ ص ۵۷۵)

۴- موت کی آرزو کی ممانعت: حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’مرنے کی آرزو نہ کرو‘ جان کنی کا خوف سخت ہے۔ بے شک نیک نیتی یہ ہے کہ بندے کی عمر لمبی ہو اور اللہ تعالیٰ ا س کو اپنی اطاعت نصیب فرمائے‘‘ ۔ (بخاری‘ مسلم)

حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی موت کی خواہش نہ کرے۔ اگر وہ نیک ہے تو امید ہے جب تک زندہ رہے گا اس کی نیکیوں میں اضافہ ہوگا‘ اور اگر اس کے اعمال خراب ہیں تو ہو سکتا ہے کہ آیندہ زندگی میں وہ توبہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو راضی کر لے‘‘۔ (بخاری)

۵- اپنے ہاتھوں ہلاکت میں ڈالنے کی ممانعت:  ارشاد باری تعالیٰ ہے:  وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلاَ تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ (البقرہ ۲:۱۹۵) ’’اللہ کی راہ میں خرچ کرو اوراپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘۔

امام راغب اصفہانی ’’تھلکہ‘‘ کا مطلب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ما یودی الٰی الھلاک‘ وہ چیز جو انسان کو ہلاکت کی طرف لے جائے۔ (مفردات امام راغب‘ ص ۵۴۵)

آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم خدا کے دین کو سربلند کرنے کے لیے اپنا مال خرچ نہ کرو گے اور اس کے مقابلے میں اپنے ذاتی مفاد کو عزیز رکھو گے ‘ تو یہ تمھارے لیے دنیا میں بھی موجب ہلاکت ہوگا اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں تم کفار سے مغلوب اور ذلیل ہو کر رہو گے اور آخرت میں تم سے سخت بازپرس ہوگی۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ص ۱۵۳)

اسباب موت سے فرار کے احکام کے زمرے میں مفتی محمد شفیع ؒ صاحب لکھتے ہیں:

جو چیزیں عادتاً موت کا سبب ہوتی ہیں‘ ان سے فرار مقتضاے عقل بھی ہے‘ مقتضاے شرع بھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جھکی ہوئی دیوار کے نیچے سے گزرے تو تیزی کے ساتھ نکل گئے۔ اس طرح اگر کہیں آگ لگ جائے وہاں سے نہ بھاگنا‘ عقل و شرع دونوں کے خلاف ہے۔ (معارف القرآن‘ ج ۸‘ ص ۴۳۸)

باقی رہا طاعون یا وبا جس بستی میں آجائے اس سے بھاگنا‘ یہ ایک مستقل مسئلہ ہے جس کی تفصیلات فقہ و حدیث میں مذکور ہیں‘ وہاں دیکھی جا سکتی ہیں۔

جدید طب نے وبا کے بارے میں حدیث میں بیان شدہ تدابیر کو ہی اختیار کیا ہے کہ جہاں وبا ہو ‘ وہاں داخل نہ ہونا چاہیے اور جو وہاں موجود ہو اس کو وہاں سے نہ نکلنا چاہیے(الحدیث)۔ قرنطینیہ کے اصول بھی اسی طرح متعین کیے گئے۔ حضرت عمرؓ نے پہاڑوں میں بکھرنے کی اجازت دی تھی (یہ ان کا اجتہاد تھا)۔ انھوں نے فرمایا تھا کہ ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف ہی دوڑتے ہیں۔

۶- خودکشی حرام ہے:  (الف) حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے پہاڑ سے گرا کر اپنے آپ کو ہلاک کر لیا تو وہ دوزخ میں بھی اسی طرح اپنے آپ کو گراتا رہے گا اور جس کسی نے تیز دھار ہتھیار سے خودکشی کی تو دوزخ میں بھی خود اپنے ہاتھ سے اپنے پیٹ پر وار کرتا رہے گا۔

(ب) حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص کسی مصیبت کی وجہ سے جو اس کو پہنچی ہو ہرگز موت کی آرزو نہ کرے‘ اور اگر کسی وجہ سے ایسا کرنا چاہتا ہو تو اس کو ایسے دعا کرنی چاہیے کہ اے خدا مجھ کو اس وقت تک زندہ رکھ جب تک میری زندگی میرے لیے مفید ہے اور مجھے موت دے اگر میری موت میرے لیے مفید ہے۔

نسائی کی روایت میں جو قیس بن ابوحازم سے مروی ہے اس طرح مذکو ر ہے کہ جناب کے پاس گیا تو ان کے پیٹ پر سات داغ دیے گئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ اے کاش رسولؐ نے ہم کو موت مانگنے سے منع نہ فرمایا ہوتا تو میں ضرور موت مانگتا۔ (النسائی‘ مجموعہ الصحاح‘ (عربی اردو)‘ کتاب تمنی الموت‘ ص ۳۵۲‘ مکہ پبلشنگ کمپنی‘ لاہور)

(ج) حضرت جندب بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: تم سے پہلے قوموں میں ایک شخص کو زخم تھا۔ وہ شدت تکلیف سے گھبرا گیا۔ پھر چھری لی اور اس سے اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے اپنی ذات کے معاملے میں میرے فیصلے پر سبقت کی کوشش کی (الحدیث)۔

مفتی محمد شفیعؒ لکھتے ہیں کہ حدیث میں موت کی تمنا کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کسی شخص کو دنیا میں یہ یقین کرنے کا حق نہیں ہے کہ وہ مرتے ہی جنت میں ضرور جائے گا اور کسی قسم کے عذاب کا اس کو خطرہ نہیں‘ تو ایسی حالت میں موت کی تمنا کرنا اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی بہادری جتانے کے مترادف ہے۔ (معارف القرآن‘ ج ۸‘ ص ۴۳۸)

۷- علاج لازمی ہے:  اس ضمن میں گذشتہ صفحات میں دلیل نمبر ۲ میں تفاصیل مذکور ہیں۔حکم ہے کہ بیماریوں کا علاج کرائو‘ اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے کے سوا سب بیماریوں کا علاج پیدا کیا ہے۔ فرمایا: لکل داء دواء (الحدیث)۔ اس ضمن میں علاج میں ہر حرام شے بھی حلال ہو جاتی ہے اگر جان بچ سکے۔ ملاحظہ فرمائیں دلیل نمبر ۲۔

۸- اذیت اور تکالیف گناہوں کی بخشش کا ذریعہ:  وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْ ئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ o الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ لا قَالُوْآ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo  اُولٰئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ قف وَاُولٰئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۵۵-۱۵۷) ’’اور ہم ضرور تمھیں کچھ خوف و خطر‘ فاقہ کشی‘ جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے‘ تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘ ، انھیں خوش خبری دے دو۔ اُن پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی‘ اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں‘‘۔ یعنی انتہائی درجے کی تکالیف کا ذکر ہے۔

حضرت ابوسعید خدریؓ کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کو جو بھی مصیبت ‘جو بھی بیماری ‘ جو بھی پریشانی‘ جو بھی کڑھن‘ جو بھی رنج‘ جو بھی اذیت اور جو بھی غم و اندوہ پہنچتا ہے یہاں تک کہ کانٹا چبھتا ہے تو خدا اس کے سبب اس کے گناہ مٹا دیتا ہے ۔ (بخاری‘ مسلم)

۹- حضرت ایوب ؑ کا اسوہ:  حضرت ایوب ؑ کا اسوہ انھیں جسمانی بیماری کے انتہائی درجے میں مبتلا کر کے صبر کے حوالے سے مثال بنایا گیا ہے۔ اس لیے کہ لاعلاج ہونا اور بے انتہا درد کا ہونا بھی انسان کے لیے آزمایش ہے۔ لہٰذا دیکھا جائے کہ وہ اللہ کی طرف سے موت کی مقررہ گھڑی کا انتظار کرتا ہے یا اپنی مرضی کی طرف بڑھتا ہے اور خود کو ہلاک کر دیتا ہے ۔یہی اصل آزمایش ہے۔ لہٰذا مایوسی کفر ہے۔ قرآن فرماتا ہے:

وَاذْکُرْ عَبْدَنَآ اَیُّوْبَ م اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍo (ص ۳۸:۴۱) ’’اور ہمارے بندے ایوب ؑ کا ذکر کرو‘ جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ شیطان نے مجھے سخت تکلیف اور عذاب میں ڈال دیا ہے‘‘۔

یہ مطلب نہیں ہے کہ شیطان نے مجھے بیماری میں مبتلا کر دیا ہے اور میرے اوپر مصائب نازل کر دیے ہیں‘ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ بیماری کی شدت‘ مال و دولت کا ضیاع‘ اور اعزہ و اقربا کے منہ موڑ لینے سے میں جس تکلیف اور عذاب میں مبتلا ہوں‘ اُس سے بڑھ کر تکلیف اور عذاب میرے لیے یہ ہے کہ شیطان اپنے وسوسوں سے مجھے تنگ کر رہا ہے‘ وہ ان حالات میں مجھے اپنے رب سے مایوس کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ مجھے اپنے رب کا ناشکرا بنانا چاہتا ہے‘ اور اس بات کے درپے ہے کہ میں دامن صبر ہاتھ سے چھوڑ بیٹھوں۔ حضرت ایوب ؑ کی فریاد کا یہ مطلب ہمارے نزدیک دو وجوہ سے قابل ترجیح ہے۔ ایک یہ کہ قرآن مجید کی رو سے اللہ تعالیٰ نے شیطان کو صرف وسوسہ اندازی ہی کی طاقت عطا فرمائی ہے‘ یہ اختیارات اس کو نہیں دیے ہیں کہ اللہ کی بندگی کرنے والوں کو بیمار کردے اور انھیں جسمانی اذیتیں دے کر بندگی کی راہ سے ہٹنے پر مجبور کرے۔ دوسرے یہ کہ سورہ انبیا  میں جہاں حضرت ایوب ؑ اپنی بیماری کی شکایت اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں‘ وہاں شیطان کا کوئی ذکر نہیں کرتے بلکہ صرف یہ عرض کرتے ہیں کہ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ’’مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۳۴۰)

۱۰- مایوس نہ ہونا اور زندہ رہنے کی کوشش‘ ایمان کی علامت:

قَالُوْا بَشَّرْنٰکَ بِالْحَقِّ فَلاَتَکُنْ مِّنَ الْقٰنِطِیْنَ o  قَالَ وَمَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلاَّ الضَّآلُّوْنَ o (الحجر ۱۵: ۵۵-۵۶) ’’انھوں ]فرشتوں [نے جواب دیا، ’’ہم تمھیں برحق بشارت دے رہے ہیں‘ تم مایوس نہ ہو‘‘۔ ابراہیم ؑ نے کہا’’اپنے رب کی رحمت سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں‘‘۔

لاَتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط (الزمر ۳۹:۵۳) ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائو‘‘۔

وَلاَ تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ ط اِنَّہٗ لاَ یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلاَّ الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَo  (یوسف ۱۲:۸۷) ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘ اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں‘‘۔

وَاِذَآ اَنْعَمْنَا عَلَی الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِہٖ ج وَاِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ کَانَ یَئُوْسًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۸۳) ’’انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اس کو نعمت عطا کرتے ہیں تووہ اینٹھتا اور پیٹھ موڑ لیتا ہے‘ اور جب ذرا مصیبت سے دوچار ہوتا ہے تو مایوس ہونے لگتا ہے‘‘۔

مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلاَ فِیْٓ  اَنْفُسِکُمْ اِلاَّ فِیْ کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَھَا ط اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ o  لِّکَیْلاَ تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلاَ تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰکُمْ ط وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِ  (الحدید۵۷:۲۲-۲۳) ’’کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں تمھارے نفس پر نازل ہوتی ہو اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب (یعنی نوشتۂ تقدیر) میں لکھ نہ رکھا ہو۔ ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان کام ہے۔ (یہ سب کچھ اس لیے ہے) تاکہ جو کچھ بھی نقصان تمھیں ہو ‘ اس پر تم دل شکستہ نہ ہو اور جو کچھ اللہ تمھیں عطا فرمائے اس پر پھول نہ جائو۔ اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور فخر جتاتے ہیں‘‘۔

صاحب تفہیم القرآن فرماتے ہیں:

تم پر کوئی مصیبت بھی معاذ اللہ تمھارے رب کی بے خبری میں نازل نہیںہو گئی ہے۔ جو کچھ پیش آرہا ہے‘ یہ سب اللہ کی طے شدہ اسکیم کے مطابق ہے جو پہلے سے اس کے دفتر میں لکھی ہوئی موجود ہے۔ اور ان حالات سے تمھیں اس لیے گزارا جا رہا ہے کہ تمھاری تربیت پیش نظر ہے۔ جو کارعظیم اللہ تعالیٰ تم سے لینا چاہتا ہے اس کے لیے یہ تربیت ضروری ہے۔ اس سے گزارے بغیر تمھیں کامیابی کی منزل پر پہنچا دیا جائے تو تمھاری سیرت میں وہ خامیاں باقی رہ جائیں گی جن کی بدولت نہ تم عظمت و اقتدار کی ثقیل خوراک ہضم کر سکو گے اور نہ باطل کی طوفان خیز موجوں کے تھپیڑے سہہ سکو گے۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۵‘ص ۳۲۰)

علامہ مفتی محمد شفیع ؒ صاحب نے لکھا ہے:

کیونکہ اس کو علم غیب حاصل ہے اور ہم نے یہ بات اس واسطے بتلا دی ہے تاکہ جو چیزتم سے جاتی رہے (تندرستی یا اولاد یا مال) تم اس پر (اتنا) رنج نہ کرو (جو حق تعالیٰ کی مرضی کے طلب کرنے اور آخرت کے امور میں مشغول ہونے میں رکاوٹ ہو جائے اور طبعی تکلیف کا مضائقہ نہیں)۔ (معارف القرآن‘ ج ۸‘ص ۳۱۷-۳۱۸)

تفسیر روح المعانی میں ہے:

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ ہر انسان طبعی طور پر بعض چیزوں سے خوش ہوتا ہے اور بعض سے غمگین۔ لیکن ہونا یہ چاہیے کہ جس کو کوئی مصیبت پیش آئے وہ اس پرصبر کر کے آخرت کا اجروثواب کمائے‘ اور جس کو کوئی راحت و خوشی پیش آئے وہ اس پر شکرگزار ہو کر اجروثواب حاصل کرے۔ (ایضاً‘ ص ۳۱۹)

۱۱- اللّٰہ کے حق میں تعارض نہ کیا جائے:  زندگی دینے کا فیصلہ جس نے کیا ہے اس کو یہ حق حاصل ہے کہ زندگی کے خاتمے کا فیصلہ کرے۔ یہ حق خالق کا ہے اور اس کے حق میں تعارض (جھگڑنا) اور اس کے فیصلے کے بجائے اپنی مرضی کی پیروی فکری اعتبار سے بہت بڑا جرم ہے اور کائنات کے منصوبہ شدہ نظام سے بغاوت ہے اور منصوبہ بندی کرنے والے کو رب نہ ماننا ہے۔ اس لیے موت کی تمنا‘ اس کو حاصل کرنے کے حق کا مطالبہ کرنا‘ اور موت کے لیے کسی سے مددکرنے کے لیے کہنا‘ یا موت سے کسی بیمار کو ہم کنار کرنا‘ علاج سے پرہیز کر کے موت کی طرف بڑھنا‘ یا کسی کو موت سے بچانے کی آخری کوششوں کو ترک کرنا‘ یہ تمام حرکات اور فیصلے بنیادی طور پر کافرانہ اور ملحدانہ ذہنیت کی پیداوار ہیں۔ اس لیے جو افراد یا قومیں اپنی موت کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں تو اس قسم کے کسی فرد یا قوم کے بارے میںکسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے جو پہلے ہی کائنات کے کسی خالق کو نہیں مانتے اور نہ ہی کسی ایسے مقصد کے قائل ہیں جس کے لیے انسان کو زندگی دی گئی ہے اور موت کے بعد کسی زندگی کا وہ تصور ہی نہیں رکھتے۔

اس کے برعکس جو غائبانہ طور پر ربِّ کائنات کو تسلیم کرتے ہیں‘ ایسے ہی لوگوں کے لیے ارشاد قرآنی ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ کَبِیْرٌ o (الملک ۶۷:۱۲) ’’جو لوگ بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں‘ یقینا ان کے لیے مغفرت ہے اور بڑا اجر‘‘۔

اور پھر ان کے نزدیک زندگی اور موت کی تخلیق کا مقصد ہے کہ:

الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً ط (الملک ۶۷:۲) ’’جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ لوگوں کو آزما کردیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے‘‘۔

وہ  الدنیا مزرعۃ الاخرۃ کے پیش نظر دنیا کو آخرت کی کھیتی سمجھتے ہوئے اخروی زندگی کو حقیقی زندگی تصور کرتے ہیں۔ دنیا داروں کی روش پر قرآن یوں تبصرہ کرتا ہے:

بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَالدُّنْیَا o وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی (الاعلیٰ ۸۷:۱۶-۱۷) ’’مگرتم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو‘ حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے‘‘۔

ایسے افراد اور مملکتوں کے بارے میں یہ تصور ہی نہیں کیا جا سکتا کہ رحم دلانہ موت یا قتل جیسی فضول باتوں پر کسی پہلو سے غور کریں۔ جو فرد بھی اپنی اور کائنات کی تخلیق‘ مقصد اور انجام کی حقیقت سے آگاہ ہو اوران رشتوں اور حقوق کو پہچان گیا ہو جو خالق اور مخلوق‘ اللہ اور بندے کے درمیان پیدا کیے گئے ہیں وہ خالق کے حق میںتعارض سے ہی کانپ اٹھتا ہے۔

۱۲- ایمان کا تقاضا راضی بہ رضا ہونا ہے: اللہ کے فیصلوں پر راضی رہنا‘ اس کی آزمایشوں پر صبر کرنا‘ اور اس کی نعمتوں پر شکر کرنا‘ بس یہی تین کیفیات ہیں جو دنیاوی زندگی میں جس نے طاری کر لیں وہ کامیاب رہا۔ حدیث قدسی میں آتا ہے:

وَمَنْ لَمْ یَرضٰی بِقَضَائِیْ وَلَمْ یَصْبِرْ عَلَی الْبَلاَئِیْ وَلَمْ یَشْکُرْ عَلَی النِّعْمَائِیْ فَقُلْ اُخْرُجْ مِنْ تَحْتِ السَّمَائِیْ وَادْعُوْا رَبًّا سَوَائِیْ- جو میری مرضی پر راضی نہ ہوا‘ جس نے میری آزمایشوں پر صبر نہ کیا‘ جس نے میری نعمتوں کا شکر نہ کیا‘ آپؐ کہہ دیجیے ‘میرے آسمان کے نیچے سے نکل جائے اور میرے علاوہ کسی اور رب کو پکارے۔

سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا گیا ہے:  وَقَضٰی رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلاَّ ٓاِیَّاہُ (۱۷:۲۳) ’’تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت (غلامی‘ بندگی‘ اطاعت) نہ کرو مگر صرف اس کی‘‘۔ غلامی اور بندگی اور عبادت ایک ہی معنی رکھتے ہیں۔ عملی طور پر پرستش‘ وفاداری اور اطاعت کا سزاوار وہی ہے۔ اس کے ساتھ فکری طور پر موت اور زندگی کے بارے میں اس کے فیصلے کا انتظار اور اس کی رضا کی طرف دیکھنا ہی عبادت ہے۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرمؐ کا یہ معمول تھا کہ ہم میں سے جب بھی کوئی شخص بیمار پڑتا تو آپؐ اپنا داہنا ہاتھ اس کے جسم پر پھیرتے اور دعا فرماتے:

اَذْھِبِ الْبَاْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ اَنْتَ الشَّافِیْ لاَ شِفَائَ اِلاَّ شِفَائُ کَ شِفَائً لاَ یُغَادِرُ سَقَمًا (بخاری‘ مسلم) اے انسانوں کے پروردگار‘ اس مریض کا دکھ دور فرما دے اور اس کو شفا عطا فرما۔ تو ہی شفا دینے والا ہے۔ شفا دینا تو تیرا ہی کام ہے‘ ایسی کامل شفا عطا فرما کہ بیماری کا نام و نشان نہ رہے۔

یہ دعا prolongation of life  کے لیے ہی تو ہے۔ اللہ سے زندگی مانگنا دراصل اس کو اپنے سارے معاملات کا ملجا اور ماویٰ تصور کرنا ہے۔ یہی توحید ہے‘ یہی عبادت ہے۔

وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِیْنَo (المؤمن ۴۰:۶۰) ’’تمھارا رب کہتا ہے‘ ’’مجھے پکارو‘ میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا‘ جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں‘ ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘۔ یعنی جو اللہ سے دعا نہیں مانگتے وہ جہنم کے مستحق ٹھیریں گے۔ گویادعا مانگنا عین عبادت ہے۔

حضرت ابوسعید خدریؓ کا بیان ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: جب تم مریض کی عیادت کو جائو تو اس کی مہلت عمل کے بارے میں اس کا غم غلط کرو اور تسلی تشفی کی باتیں کرو‘ اگرچہ تمھاری ان باتوں سے قضا تو نہیں ٹل سکتی لیکن مریض خوشی ضرور محسوس کرے گا۔ (ترمذی‘ ابن ماجہ)

ان ۱۲ دلائل کی روشنی میں زیربحث مسئلے کا تشفی بخش جواب سامنے آتا ہے کہ کسی قسم کا لاعلاج مرض (terminally ill) یا انتہائی درجے کا درد (unbearable pain) ہو اور مریض کے ہوش و حواس قائم ہوں‘ یہ جائز نہیں بلکہ حرام ہے کہ وہ خود اپنی موت کی کوشش کرے‘ یا کسی سے موت کے حصول کے لیے مدد کی درخواست کرے‘ اور یہی حکم اس کے رشتے داروں کے لیے بھی ہے۔ اسی طرح کسی معاشرے اور حکومت کے لیے بھی جائز نہیںکہ وہ اس امر کی حمایت میں کوئی قانون سازی کرے۔

اس بحث کے تسلسل میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ مریض بے ہوش ہو اوراس کا فیصلہ نہ جانا جا سکتا ہو تو کس حد تک انتظار کیا جائے؟ مصنوعی دوا یا خوراک کو کب تک جاری رکھا جائے؟

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مریض کی دماغی موت واقع ہو چکی ہو۔ موت کیا ہے؟ اس کے معلوم کرنے کے طریقے کیا ہیں؟ اور اس کا حتمی فیصلہ کیسے کیا جائے؟ اس کی جسمانی زندگی برقرار رکھنے والا علاج جس میں خوراک‘ دوا اور تنفس کو برقرار رکھنے اور نہ رکھنے کا فیصلہ کس طرح کیا جائے‘ یہ سب امور قابل بحث ہیں۔

 

تمثیلات خلیل جبران میں ہے کہ ’’تالاب میں پتھر گرا‘ پانی میں لہریں اٹھیں اور دُور چاروں طرف کناروں سے ملنے لگیں۔ ساتھ ہی ایک درخت تھا‘ اسے بھی جوش آیا‘ اس نے بھی تالاب میں ایک پتا گرا دیا۔ لیکن نہ شور ہوا اور نہ تالاب میں لہریں پیدا ہوئیں۔ میں اسے دیکھ رہا تھا۔ میں نے کہا: اے بے وقوف! دنیا میں وہی ہلچل مچا سکتے ہیں جو اپنے اندر وزن رکھتے ہیں‘‘۔

یہ ایک تمثیل ہے مگر ایک حقیقت بھی۔ تالاب میں مزید پتے گرا کے بھی اتنی ہلچل پیدا نہیں ہو سکتی تھی جتنی ایک پتھر کے گرنے سے پیدا ہوئی تھی۔ بس یہی حال ہمارے اداروں کا بھی ہے۔ بعض اوقات افراد کے آنے کے ساتھ ہی تنظیم اور طریق کار میں اتنی قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ انتظام صحیح چل رہا ہے اور کامیابی حاصل ہو رہی ہے‘ جب کہ دوسری طرف افراد ہی کے باعث ادارے غیر موثر ہو جاتے ہیں اوران کی تباہی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ وہ صاحب منصب افراد پتوں کی طرح تنظیم کی سطح پر تیرتے رہتے ہیں مگر شخصیت میں وزن اور کردار میں پختگی نہ ہونے کے باعث اپنے وجود کا کوئی فائدہ تنظیم‘ ادارے‘ افراد اور اپنی ذات کونہیں پہنچا سکتے۔

کامیاب شخص

آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ ایک ہی دفتر یا ادارے میں ایک ہی وقت میں دو افراد وابستہ ہوتے ہیں۔ انھیں اہداف (targets)‘ افراد اور اختیارات دے دیے جاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک فرد اپنے متعلقہ شعبے میں ہر دلعزیز بن جاتا ہے‘ افراد اس کے لیے وقت دیتے ہیں اور اس کے کام بھی ہو جاتے ہیں۔ وہ شخص دفتر میں اتنا وقت بھی نکال لیتا ہے کہ افراد اور ساتھیوں سے ذاتی اور ترقیاتی

معاملات پر گفتگو کر سکے ‘ اور اپنے فیصلوں میں ان کی مشاورت بھی لے سکے۔ پھر آپ دیکھتے ہیں کہ رفتہ رفتہ وہاں ایک موثر ٹیم بن جاتی ہے جو ادارے کے مسائل اور وسائل کو اپنے ہی مسائل و وسائل محسوس کرتی ہے اور پھر اجتماعی جدوجہد سے ادارہ اور اس کے متعلقہ امور اور کاروباری معاملات میں ترقی ہوتی رہتی ہے۔ وہ فرد سپروائزر‘ پھر مینیجر‘ اس کے بعد مینیجر سے ایگزیکٹو اور پھر لیڈر بن جاتا ہے اور لوگ اسے دل سے چاہتے ہیں۔ کامیابی اس فرد کو تلاش کرتی ہے۔ وہ مصروف ترین فرد ہونے کے باوجود مختلف کاموں کے لیے وقت نکال لیتا ہے۔

وہ فرد اور اس کی ٹیم ہر مشکل کو کامیابی کا موقع سمجھتے ہیں۔ وسعتیں ان کے قریب آجاتی ہیں اور وہ اپنی ذات ‘ اپنی ٹیم‘ اپنے ادارے اور مجموعی طور پر ملک و قوم کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اور حدیث کے الفاظ میں  خیر الناس من ینفع الناس (تم میں بہتر وہ ہیں جو لوگوں کے لیے بہتر ہوں) بن جاتے ہیں۔ اس فرد کے ساتھی افراد جو قانوناً ماتحت ہوتے ہیں‘ ٹیم بن کر کام کرتے ہیں۔ انھیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ ادارے کے فرد ہیں اور پھر کسی بھی صورت میں ادارے کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے۔

ناکام شخص

اسی مشاہدے کے دوران آپ نے دیکھا ہوگا کہ دوسرا شخص اپنے متعلقہ شعبے میں اپنے ماتحت افراد کے مذاق کا شکار ہو جاتا ہے‘ نہ خود کوئی کام کر سکتا ہے نہ لوگوں سے کوئی کام لے سکتا ہے۔ وہ ہدایت اور حکم دیتا ہے اور لوگ اسے انجانے بن کر ٹال دیتے ہیں۔ اس کے ماتحت افراد کام نہ کرنے کے سیکڑوں بہانے تلاش کر لیتے ہیں۔ اس شعبے میں ہر فرد دوسرے کو اور بالآخر اپنے متعلقہ شعبے کے ذمہ دار کو بے وقوف بنانے کا فن سیکھتا ہے۔ بالآخر وہ شخص بھی‘ اس کا شعبہ بھی‘ اور اس کے متعلقین بھی ناکامی کا شکار ہوتے ہیں‘ بدنام ہوتے ہیں اور شعبے میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں۔ چند افراد کا اخراج ہوتا ہے ‘ دوسرے افراد اپنا راستہ خود تلاش کرتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اس شعبے کی بنیادیں ہل جاتی ہیں اور ایک بہت بڑے آپریشن کلین اپ کی ضرورت پڑتی ہے۔

موثر شخصیت اور شخصی کردار - کلید

کاروبار ہو یا دفتری زندگی‘ آپ منتظم ہوں یا ماتحت‘ غرض آپ جس حیثیت میں ہوں اور زندگی کے کسی بھی میدان عمل میں ہوں‘ کامیابی کے لیے موثر شخصیت اور شخصی کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک اندازے کے مطابق تکنیکی صلاحیت صرف ۱۵ فی صد کردار ادا کرتی ہے‘ جب کہ فرد کی شخصی خصوصیات کا کردار ۸۵ فی صد ہوتا ہے۔

ایسا شخص افراد کی تربیت کا کام کرتا ہے‘ اور کل کے لیے لوگوں کو آج سے تیار کر لیتا ہے جس کے باعث لوگوں میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ اس شخصی کردار کے مثبت ہونے اور مقبول ہونے کے باعث فرد نہ صرف خود خوش رہتا ہے بلکہ اس کے افسران‘ اس کے ماتحت اور اس کے ساتھ کام کرنے والے افراد بھی خوش ہوتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کے مقاصد اور اہداف بڑی آسانی کے ساتھ حاصل کر لیتا ہے۔ اسے عموماً کام کرنے والے لوگ اور ساتھ دینے والے ساتھی بھی مل جاتے ہیں۔ وہ اپنے محبوب اور مقبول کردار کے باعث اپنے لیے ایک مخلص ٹیم بنا لیتا ہے۔ وہ ٹیم کی کامیابی‘ اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔ وہ ٹیم اس پر جان نثار کرتی ہے اور اسے پرندوں کی طرح طوفان اور بارش کا پتا بھی دیتی ہے‘ اور خطرے کے وقت ایک مضبوط قوت مدافعت بن جاتی ہے۔ آخرکار نتائج سامنے آنے لگتے ہیں اور بہت جلد آتے ہیں۔ اداروں کی کارکردگی اور کامیابی میں توقع سے زیادہ پیش رفت ہوتی ہے۔ کارکردگی بڑھنے کے باعث پیداوار بڑھتی ہے اور اس کے نتیجے میں منافع میں اضافہ ہوتا ہے جس کے باعث مجموعی قومی پیداوار اور آمدنی میں خوش آیند اضافہ ہوتا ہے۔

بحرانی شخصیت

فرد اگر صحیح نہ ہو‘ یا اس کی شخصیت میں خامیاں ہوں‘ یا اس کا شخصی کردار غیر معروف اور غیر مقبول ہو تو  ادارے میں عموماً بحران کی کیفیت ہوتی ہے۔ کام عموماً افراتفری کے عالم میں ہوتے ہیں۔ افراد کو عموماً دفتر کے اوقات کے بعد بھی بیٹھنا ہوتا ہے۔ ذہنی کیفیت اور انتشار کا عالم یہ ہے کہ ۱۰ ہزار روپے کے اضافی منافع کے لیے ۳۰ ہزار روپے کی اضافی لاگت آجاتی ہے۔ نفع‘ نقصان کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے۔ ذمہ داری کوئی قبول نہیں کرتا‘ انگلیاں دوسروں کی طرف اٹھتی ہیں۔ دوسروں کی طرف ایک انگلی اٹھتی ہے لیکن درحقیقت اس کے ساتھ ساتھ اپنی طرف تین انگلیاںاٹھتی ہیں مگر یہ کوئی نہیں دیکھتا اور بحران بڑھتا رہتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس کا ذمہ دار وہ فرد ہے جس پر ہم گفتگو کر رہے ہیں۔

تصویر ٹھیک کیجیے ‘ نقشہ ٹھیک ہو جائے گا

وہ مثال بار بار ذہن میں آتی ہے کہ ایک صاحب اپنے گھر میں مطالعہ کررہے تھے۔ ان کا بچہ --- چھوٹا سا بچہ--- بار بار ان کے مطالعے میں مخل ہو رہا تھا۔ ان صاحب نے بچے کو بہت سمجھایا‘ کھلونے دیے مگر اس نے سمجھ کر نہ دیا۔ بالآخر ان صاحب کو ایک ترکیب سوجھی کہ بچے کو بلایا اور اسے دنیا کا ایک نقشہ دکھایا اوراس میں بچے کو مختلف مقامات کی نشان دہی کی کہ یہ پاکستان‘ یہ ہمالیہ‘ یہ امریکہ‘ یہ سعودی عرب وغیرہ وغیرہ۔ پھر اس نقشے کے ٹکڑے کیے اور بچے کو دے دیے کہ بیٹا پھر سے اسے بنا کر لائیں۔ ابا جان سوچ رہے تھے کہ تین چار گھنٹے کے لیے فراغت ہوئی مگر بچہ تو آدھے گھنٹے ہی میں آگیا اور کہنے لگا: ابو‘ ابو! دنیا کا نقشہ بن گیا۔ ابا جان نے دیکھا سب مقامات اپنی اپنی جگہ پر صحیح ہیں۔ بچے کی طرف دیکھا‘ ذہانت پر تعجب ہوا۔ پوچھا ’’بیٹے یہ کارنامہ تم نے کیسے انجام دیا؟‘‘ بیٹے نے جواب دیا: ’’ابو! جب آپ نقشے کے ٹکڑے کر رہے تھے تو اس وقت میں نے دیکھا کہ اس کے پیچھے آدمی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ بس میں نے اس تصویر کو ٹھیک کر لیا۔ دنیا کا نقشہ خود بخود ٹھیک ہو گیا‘‘۔

ہم اپنے اداروں اور دفاتر‘ کاروبار اور گھر کی کارکردگی بہتر بنانا چاہتے ہیں اور ان کا نقشہ ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں بھی اس بچے کی طرح تصویر ٹھیک کرنی پڑے گی۔ ممکن ہے یہ تصویر ہماری اپنی ہی ہو۔ ہمیں اس تصویر کو اپنے ذہن میں نقش کرنا ہے‘ اسے سمجھنا ہے‘ اس کے ٹکڑوں کو منظم کرنا ہے اور اسے بہت جلد صحیح کرنا ہے تاکہ ہمارے معاشرے اور اجتماعی نظام میں خاطر خواہ تبدیلیاں آجائیں۔

شخصیت کی تعمیر کے مقاصد

اب ہم شخصیت کے موضوع پر گفتگو کریں گے کہ کس انداز سے ہم دفاتر‘ اداروں‘ کاروبار‘ گھر اور معاشرے میں کام کریں کہ:

  •   جو کام کرنا چاہتے ہیں ‘ وہی کریں۔
  •  جو کام کرنا ہے‘ اسے بہتر طریقے سے اور مستعدی کے ساتھ کریں۔
  •   افراد اور معاشرے کے دیگر عناصر کی اس انداز سے تربیت کریں کہ ادارے صرف ہمارے وجود کے محتاج نہ رہیں بلکہ ایک نظام کے تحت چلتے رہیں۔
  •   اس انداز سے ترتیب‘ تنظیم اور تربیت کریں کہ نتائج بہت جلد اور بہتر انداز سے سامنے آئیں۔
  •   آپ اتنے کامیاب ہوں کہ اپنی زندگی اور کیریئر کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کی تعمیر‘ ترقی اور خوش حالی پر بھی توجہ دے سکیں اور انھیں جہنم کی آگ سے بچا سکیں۔
  •   اگر آپ افسر ہیں تو ماتحت آپ سے خوش ہوں‘ اور ماتحت ہیں تو آپ کے ساتھی اور افسر دونوں خوش ہو سکیں۔
  •   آپ کے معاملات اتنے صاف ہوں کہ آپ اضطراب کا شکار نہ ہوں اور ذہنی دبائو سے متعلق بیماریاں آپ کے راستے میں نہ آئیں۔
  •   آپ نہ صرف اپنی اور دوسروں کی دنیا بنائیں بلکہ اپنی اور دوسروں کی آخرت بھی سنواریں اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ ساتھ ساتھ ادا ہوتا رہے۔

اب ہم شخصیت کی تعریف اور تصورات پر بات کریں گے۔ اس کے بعد شخصیت کے حوالے سے مختلف موضوعات اور متعلقہ عناصر پر گفتگو کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایسی شخصیت کی تشکیل ہو جو کہ ملک و قوم کے اجتماعی مفادات کے لیے اہم کردار ادا کر سکے۔ بات کمر باندھنے کی ہے۔ عربی مقولے کا ترجمہ ہے:

’’جو شخص دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور کوشش بھی کرتا ہے‘ وہ داخل ہو ہی جاتا ہے‘‘۔

شخصیت اور اوصاف کی تعریف

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انسان سونے چاندی کی کانوں کی طرح ہے۔ جو تم میں زمانہ جاہلیت میں بہترین اوصاف کے مالک تھے وہ اسلام میں بھی بہتر ہیں۔ یہ اچھے اوصاف انسان کا قیمتی سرمایہ ہیں اور یہی ان کی کامیابی کا راز اور ذریعہ بھی۔

مختلف ماہرین نے شخصیت کی جو تعریفیں پیش کی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:

  •   انسانی ’’وجود‘‘ کے علاوہ شخصیت چلتی پھرتی عادتوں کے مجموعے کا نام ہے۔ زندگی میں اس کی شخصیت کی تقویم و تعین ان ہی عادات کی وجہ سے آشکارا ہوتی ہے۔ اس میں لباس میں پاکیزگی‘ گفتار میں نرمی‘ کھانے پینے کے آداب ‘جسمانی ضرورت کے سلسلے میں روزانہ ورزش و غسل کی جانب توجہ اور عقل کی تہذیب و تربیت کی جانب توجہ‘ حالات و ضروریات کے مطابق مطلوبہ صلاحیت اور سبقت کے تقاضے پورے کرنے کی آگہی‘ شعور‘ اہلیت اور قوت عمل شامل ہیں۔
  •    تمام ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ انسانی شخصیت‘ نفسیاتی اور بدنی دونوں حصوں سے مرکب ہے۔
  •    شخصیت ایک نفسیاتی اور بدنی وحدت ہے جہاں جذباتی اور بدنی سطحات کے واقعات مختلف طریقوں سے ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
  •    جو کچھ ایک فرد ہے اور جو کچھ وہ تجربہ کرتا ہے اگر سب کو وحدت سمجھا جائے تو یہی اس کی شخصیت ہے۔
  •    شخصیت ایک ایسی اصطلاح ہے جو انفرادیت سے کہیں وسیع تر ہے کیونکہ اس میں فرد سے متعلق تمام نفسیاتی اعمال اور کیفیات کا ترتیب شدہ مجموعہ شامل ہے۔

اب ہم درج ذیل موضوعات اور عناصر پر گفتگو کریں گے:

  •  شخصیت کے تخلیقی عناصر
  • شخصیت کے ذہنی‘ تصوراتی و تخیلی عناصر‘
  • شخصیت کے اخلاقی عناصر‘ 
  • شخصیت کے معاشرتی‘ معاملاتی اور استحکامی عناصر‘ 
  • شخصیت کے انتظامی عناصر‘
  • شخصیت کے ارتقائی عناصر‘
  • شخصیت کے منفی و تخریبی عناصر‘
  • شخصیت‘دین و دنیا اور آخرت۔  (جاری)

۱۹۷۹ء میں ایران کا اسلامی انقلاب کئی پہلوئوں سے امت مسلمہ اور خصوصاً اسلام کی تحریکی فکر رکھنے والے افراد کے لیے نفاذِ اسلام کی ایک نوید بن کر اُبھرا۔تاریخی نقطہ نظر سے علاماتی (symbolic)خلافت عثمانیہ کے زوال سے جو دَور شروع ہوا‘ اس میں امت مسلمہ اپنے مستقبل اور اختیار و قوت کے دوبارہ حصول کے لیے مسلسل سرگرداں رہی۔ چالیس کی دہائی سے مسلم ممالک میں سیاسی آزادی کا دَور شروع ہوا اور یہ امید بندھی کہ پاکستان‘ انڈونیشیااورشرق ا وسط کے بہت سے ممالک‘ سیاسی آزادی کے ساتھ ثقافتی اور نظریاتی آزادی بھی حاصل کر لیں گے‘ لیکن یہ امیدیں بڑی حد تک ناتمام رہیں۔ اس پس منظر میں ایرانی انقلاب اسلامی قوتوں کے لیے غیر معمولی طور پر اپنی جدوجہد پر اعتماد میں اضافہ کا باعث بنا۔ تحریکات اسلامی کے قائدین نے نہ صرف ذاتی بلکہ اجتماعی طور پر ایران میں طاغوتی ملوکیت کے خاتمہ اور اسلامی نظام کے قیام کے عزم کو خوش آمدید کہتے ہوئے نمایندہ افراد کے وفد کی شکل میں تہران جا کر امام خمینی کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ یورپ اور امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ وہ ایک غیر اسلامی معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں‘ اسلامی انقلاب کی کھل کر حمایت کی۔

یہ انقلاب ان قوتوں کے لیے سخت تشویش کا باعث بنا جو ایران کو اپنی بین الاقوامی سیاست کا سب سے زیادہ مستحکم ستون سمجھتے تھے۔ یورپ و امریکہ کے بیشتر ممالک نے اسے لادینی جمہوریت‘ اباحیت اور مغرب زدگی کے لیے ایک’’بنیاد پرست‘‘ خطرہ قرار دیتے ہوئے پورے خطے کے لیے ایک نئی حکمت عملی وضع کرنی شروع کی۔ اسی دوران ایرانی طلبہ کی جانب سے (پاسدارانِ انقلاب کے تعاون سے) امریکی سفارت خانے کے عملے کو یرغمال بنانے کے واقعے نے ایران کے خلاف امریکی جذبات کو مشتعل کرنے اور ایران میں امریکہ

کے خلاف نفرت اور غصہ کو بھڑکانے میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔ممکن ہے کہ یہ واقعہ بعض قوتوں کے لیے ایک منطقی ضرورت ہو لیکن اس ایک واقعہ کے اثرات معاشی‘ سیاسی اور جذباتی سطح پر ایران کے حوالے سے پورے عالم اسلام پر پڑے۔ اس مفروضہ کو حقیقت مانتے ہوئے کہ اسلام اور مغربی سامراجی طاقتوں کے درمیان کوئی مکالمہ اور تبادلہ خیال‘ اظہار قوت کے علاوہ نہیں ہو سکتا‘ نہ صرف ایران بلکہ دیگر مسلم ممالک کے خلاف بھی معاشی اور سیاسی پابندیوں کا حربہ استعمال کیا گیا۔

اس حکمت عملی کا ردعمل واضح تھا۔ چنانچہ ہر دو جانب سے زبانی جنگ اور موقع ملنے پر ایک دوسرے کو زِک پہنچانے کی کوششیں ہوتی رہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس دوران میں نہ صرف مغربی سامراج بلکہ خود ایران میں زمینی حقائق کے پیش نظر ایک نئی حکمت عملی وضع کرنے پر بھی غور ہوتا رہا۔ داخلی حالات نے اس بات کی اجازت نہ دی کہ یہ عمل سرعت سے ہو‘ لیکن نئی صدی کے آغاز پر صدر خاتمی کی ایرانی قیادت نے غیر معمولی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھوٹے اور بڑے ’’شیاطین‘‘ کے ساتھ بھی مکالمہ کو ممکن قرار دیتے ہوئے اس کے آغاز کی طرف پیش قدمی کا اعلان کیا۔

مغربی سامراج اور اہل فکر نے بھی اس دوران اپنے موقف پر واضح نظرثانی کی کوشش کی۔ چنانچہ ایران کی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’ماضی کی تلخ یادوں کو دفن کیا جائے اور اگر ایران نئی صدی میں کوئی تعمیری کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو عالم گیریت (globalization)کی حقیقت کو مانتے ہوئے اپنے رویے میں تبدیلی کرے‘ نعروں کی نفسیات سے اپنے آپ کو آزاد کرے‘ اپنے تیل کے ذخائر پر بے جا اعتماد و فخر پر نظرثانی کرے‘ اپنے عوام کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مغرب کے ساتھ تجارتی تعاون پر غور کرے اور خاص طور پر خود پیدا کردہ اندرونی معاشی اضمحلال کو کسی بیرونی ’’شیطان‘‘ کے سرمنڈھنے کی کوشش ترک کرے‘‘۔

مغربی پالیسی سازوں کا کہنا یہ ہے کہ تیل فروخت کرنے والی اقوام کو تیل خریدنے والی اقوام کی خواہشات کا احترام کرنا ہوگا اور ]نام نہاد[ جدید معاشی نظام (N.E.O)میں اپنا مقام پیدا کرنے کے لیے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنائے بغیر بعض بنیادی سمجھوتے (adjustment)کرنے ہوں گے۔

ابھی حال ہی میں ایران کی وزارت خارجہ کے زیر اہتمام تہران میں منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے دوران میں نے محسوس کیا کہ ایران کے پالیسی ساز مغربی مفکرین کے ان خیالات کو تحمل اور صبر کے ساتھ سننے کے بعد ایک نسبتاً زیادہ عملی(pragmatic) حکمت عملی وضع کرنے پر آمادہ نظر آرہے ہیں۔ اسلامی فقہ کا ایک مستقل مضمون سیاست شرعیہ ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ بدلتے حالات میں شریعت کے ابدی‘ کلی اور جامع اصولوں کی مددسے کس طرح ایک نئی صورت حال کا حل تلاش کیا جائے۔ مصلحت عامہ کا اصول بھی (جسے مصالح مرسلہ بھی کہا جاتا ہے) وسیع تر حکمت کے پیش نظر‘ شریعت کی بالادستی قائم رکھتے ہوئے‘ ایک صورت حال کا حل تلاش کرنے میں مدد کرتا ہے۔

بہ ایں ہمہ اس طرح کی صورت حال میں چند بنیادی سوالات زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ اولاً ایک نظریاتی انقلاب کی مدعی جماعت کے لیے اصل اہمیت طویل المیعاد ہدف و حکمت عملی کی ہے یا قلیل المیعاد اور فوری حصول منفعت کی؟ اور کسی فوری اور قلیل المیعاد مقصد کے حصول کے لیے کس حد تک اصل ہدف کو وقتی طور پر نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟ ثانیاً عملیت پسندی (pragmatism) کی سرحدیں کہاں تک ہیں؟ ایک حدیث نبویؐ میں جہاں حلال اور حرام کے بیّن ہونے کے ساتھ ساتھ مشابہات سے اعراض کا حکم دیا گیا ہے‘ اس کی روشنی میں ’’اضطرار‘‘ اور ’’ضرورت‘‘ کی حدود کا تعین کس طرح کیا جائے؟ ثالثاً مادی طور پر ایک مستحکم فریق کے ساتھ مادی طور پر ایک غیر مستحکم فریق کے مکالمے اور احترام مفادات کی شکل کیا ہوگی؟

یہ امر بھی غوروفکر کا متقاضی ہے کہ عالم گیریت (globalization)اور یک قطبی (unipolar) قوت ہونے کی دعوے دار ریاست کے ساتھ معاشی تعلقات کا تانا بانا کیا صرف معیشت کے میدان تک محدود رہے گا یا غالب معاشی قوت کی ثقافت‘ اس کی اقدار حیات‘ اس کا طرزِ زندگی اور مقصد حیات‘ محسوس اور غیر محسوس اثرات بھی معاشی سرگرمی اور تعلقات کے ہمراہ سرحدیں پار کر کے کم ترقی یافتہ ممالک پر اثرانداز ہوں گے؟ حقیقت واقعی یوں ہے کہ ابلاغ عامہ کے انقلاب نے جغرافیائی سرحدوں کو اضافی بنا دیا ہے اور ثقافتی اثرات‘ ایسے مقامات پر بھی جن کے نظریاتی ثقل کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے‘ دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ ایک معمولی مشاہدہ جو میں نے خود کانفرنس کے دوران کیا ‘یہ تھا کہ بعض ایرانی خواتین روایتی ’’مانتو‘‘ (سیاہ چادر) تو لازماً استعمال کر رہی تھیں‘ جس سے وہ تمام شرعی تقاضے پورے ہو رہے تھے‘ جو ایک مسلمان خاتون کی پہچان کہے جا سکتے ہیں‘ لیکن گذشتہ دس سال کے عرصے میں اس چادر کی پیمائش میں قابل محسوس فرق واقع  ہوا ہے۔ انقلاب کے فوراً بعد یہ ٹخنوں بلکہ پائوں تک تھی جب کہ آج یہ نصف پنڈلی پر آگئی ہے جس کی بنا پرجینز جو پہلے مکمل طور پر چھپ جاتی تھی‘ غیر ثقافت کے اثرات کی چغلی کرتی نظر آتی ہے (یہاں صرف اس پہلو کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ وہ شدت جو بہرصورت دین کا جزو پہلے بھی نہ تھی اب وسعت میں تبدیل ہوتی نظر آتی ہے اور اس بنا پر ان طبقات کی پریشانی‘ جو دین کو غلو اور شدت ہی کے تناظر میں درست سمجھتے ہیں‘ کسی تعارف کی محتاج نہیں)۔

ایرانی طرزِ عمل اور طرزِفکر میں محسوس یا غیر محسوس طور پر سامنے آنے والی اس تبدیلی کے مثبت اور  منفی اثرات نہ صرف ایران بلکہ ان تمام افراد پر پڑیں گے جو ایران کے انقلاب کو ایک شیعی انقلاب کے تصور سے بلند ہو کر عالمی تناظر میں اسلام اور طاغوت کی کش مکش کا مظہر سمجھتے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ قدامت پسند لیکن بااختیار حلقوں میں ایسی کسی تبدیلی کی مضبوط مخالفت بھی موجود ہے۔ خود تحریکات اسلامی کے لیے بھی یہ صورت حال لمحہ فکریہ فراہم کرے گی کہ نظریے سے مکمل وفاداری اور اصولیت کے باوجود وہ کون سے دائرے ہیں جہاں ’’عملیت‘‘ اختیار کرنی ہوگی اور کس طرح ایک ایسی حکمت عملی وضع کی جائے گی جو تحریکات اسلامی کی نظریاتی اساس اور امتیاز کو تحلیل کیے بغیر ان کے دور رس اہداف کے حصول میں مددگار ہو سکے۔

اسلام کا مزاج اصلاً دعوتی اور اصلاحی ہے‘ اس لیے مکالمہ اس کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ حتیٰ کہ اسلام کے سخت ترین دشمن سے بھی مکالمے کے ذریعہ تعلق پیدا کرنا فرائض دعوت میں شامل ہے۔ اس کی واضح مثال اللہ تعالیٰ کا اپنے سچّے رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یہ کہنا ہے کہ جائو اور فرعون کو دعوت اسلام دو‘ وہ حد سے گزر گیا ہے‘ اور یہ بات بھی واضح فرما دی تھی کہ اس مکالمے کا مزاج اور انداز متشدد نہ ہو‘ بلکہ ’’قول لیّن‘‘ انتہائی مناسب اور نرم انداز گفتگو اختیار کیا جائے تاکہ وہ ہدایت کی طرف آ سکے۔ گویا شرک اور طاغوت سے نفرت تو کی جائے گی لیکن مشرک اور طاغی کو مسلسل مکالمے کے ذریعے حق کی دعوت دی جاتی رہے گی۔ یہاں نفرت شرک سے ہے ‘مشرک سے نہیں۔

مغرب سے جس مکالمہ کی طرف صدر خاتمی نے اپنی متعدد گفتگوئوں میں اشارہ کیا ہے ہمیں اس کی اخلاقیات کے تعین کے لیے بھرپور طور پر‘ قرآن و حدیث سے مدد لینی ہوگی اور واضح اصول اور نظریاتی بنیادوں پر اس کے خدوخال کا تعین کرنا ہوگا۔ اسلام کا دعوتی مزاج مطالبہ کرتا ہے کہ اسلامی فکروعقیدہ‘ ثقافت اور معاشرت کی ترویج و تحفظ پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا جائے‘ ہاں فکر وعقیدہ کی مکمل آزادی کے ساتھ دیگر اقوام اور تہذیبوں کے ساتھ پراعتماد طور پر مکالمہ اور تبادلہ خیالات اسلامی دعوت کے منشور کا لازمی جزو ہے۔ چنانچہ اہل کتاب کے حوالہ سے قرآنی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ آئو اے اہل کتاب ‘ہم کیوں نہ ایک مشترک بنیاد سے اس مکالمہ کا آغاز کریں اور دیکھیں کہ کن معاملات میں تعاون ہو سکتا ہے اور کن معاملات میں اختلاف کے باوجود ایک احترام کا تعلق قائم کیا جا سکتا ہے۔ اس مکالمہ کو نظری سطح سے آگے بڑھاتے ہوئے معاشرتی سطح پر قیامت تک کے لیے عملاً قائم کر دیا گیا اور نہ صرف اہل کتاب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کو‘ جو مکالمہ اور تبادلہ خیالات کا ایک موثر ذریعہ ہے‘ جائز قرار دیا گیا بلکہ ان کے ساتھ معاشرتی تعلق‘ جس میں سب سے زیادہ قریبی تعلق شوہر اور بیوی میں ہو سکتا ہے‘ ممکن قرار دیا گیا۔ چنانچہ مسلمان مرد کو کسی اہل کتاب خاتون سے نکاح کی اجازت اس جانب ایک مثبت اور عملی اقدام کی حیثیت رکھتی ہے۔ یاد رہے کہ اس کے ساتھ ساتھ اسلام کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اور عقیدہ کے تحفظ کے لیے ایک مومنہ کے کسی اہل کتاب مرد سے نکاح کی ممانعت بھی کر دی گئی ہے۔

ہمیں اپنے تجزیہ میں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میثاق مدینہ میں اس مکالمے کے لیے کون سے اصول طے فرمائے تھے۔ بالخصوص انسانی حقوق اور معاملات کے حوالے سے میثاق مدینہ یہ بات واضح کر دیتا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں انسانی جان اور عزت کا احترام ایک قدر مشترک ہوگا۔ نہ صرف یہ بلکہ بین الانسانی مساوات کے اصول کی بھی پیروی کی جائے گی۔ قرآن کریم  نے یہ بات بھی متعین کر دی ہے کہ مقامات عبادت خواہ وہ مسجد ہو‘ کلیسا ہو یا سیناگاگ اور ٹمپل‘ امت مسلمہ ان کے تحفظ اور آزادی کے لیے ہمیشہ اپنے وسائل کا استعمال کرے گی۔ اس عمومی پس منظر میں دوسری جانب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ عالم گیریت کے نام پر کس طرح مغربی سامراجی طاقتیں اپنی پسند کی معیشت‘ معاشرت اور ثقافت کو تمام انسانوں کے لیے معیار قرار دیتے ہوئے دوسروں پر مسلط کرنا چاہتی ہیں۔

مزید یہ کہ بادی النظر میں عالم گیریت کے نام پر جو تہذیب و ثقافت اور معاشرت دیگر ممالک پر برضا و رغبت یا بالجبر مسلط کی جا رہی ہے‘ کیا یہ انسانی حقوق پر ایک حملہ نہیں ہے؟ ایک بامعنی ثقافتی مکالمے کے آغاز سے پہلے ہمیں اس ثقافتی یلغار کی گرفت اور اس کے وسیع اثرات و مضمرات کا اندازہ کرنا ہوگا۔ یہ اور دیگر متعلقہ پہلو ہمیں مزید غوروفکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔

 

اسلام اور مغرب کے درمیان پہلی مڈبھیڑ اُن صلیبی جنگوں ہی سے شروع ہو گئی تھی‘ جو یورپ کے عیسائی حکمرانوں اور اہل کلیسا نے فلسطین میں اپنے مذہبی مقامات کو ’’آزاد کرانے‘‘ کے لیے شروع کیں‘ اور جن میں اقصاے مغرب سے لشکر کے لشکر سیلابوں کی صورت میں وسط ایشیا میں مقاماتِ مقدسہ کی بازیابی کے لیے حملہ آور ہوتے رہے۔ لیکن حال میں مغرب اور اسلام کا یہ ’’رابطہ‘‘ عہدِ نوآبادیات سے شروع ہوا‘ جب انگلستان‘ فرانس‘ ہالینڈ‘ جرمنی‘ اٹلی اور بعض دوسرے ملکوں کے مہم جو جہازرانوں ‘حوصلہ مند تجارتی خانوادوں اور تاجروں نے مشرق کی طرف رُخ کیا‘ اپنے مضبوط بحری بیڑوں‘ آہن و بارود اور منظم اداروں کی مدد سے افریقہ‘ سواحل عرب‘ شرق اوسط‘ برعظیم پاک و ہند اور موجودہ انڈونیشیا اور ملائیشیا تک چھاتے چلے گئے۔

دوسری جنگ عظیم (۴۵-۱۹۳۹ء) کے بعدان مغربی اقوام نے محسوس کیا کہ براہِ راست نوآبادیاتی طریق حکمرانی اب بے ثمر اور دافعِ منفعت (counter productive)ہوتا جا رہا ہے‘ اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ ان نوآبادیات کو مقامی باشندوں ہی کے حوالے کر دیا جائے۔ ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے براہِ راست لوٹ کھسوٹ کے علاوہ کئی طریقے اور بھی ہیں۔

بیسویں صدی کے وسط سے یہ دَور شروع ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی سابق محکومین اور مستغلبین یعنی سابق غلاموں اور ان کے آقائوں کے درمیان کچھ نئے رشتے بھی استوار ہوتے ہیں۔ اب بہت بڑی تعداد میں نوآبادیات کے حال اور مستقبل کے حکمران‘ اُن کے بچے اور لواحقین اور حوصلہ مند اور جرأت آزما نوجوان اُن ملکوں کی طرف رخ کرتے ہیں‘ جو پہلے ان کی سرزمین کے غاصب اور حکمران تھے۔ وجوہ :تعلیم و تربیت‘ روزگار کے بہتر مواقع‘ ملازمت‘ تجارت اور پھر صنعت وغیرہ میں سرمایہ کاری بھی (اپنے وطن کی لوٹی ہوئی

دولت کی اِن ’’آزاد‘‘ ملکوں میں تخم ریزی سے بہتر امکانات اور کہاں میسر آسکتے تھے!) ۔پھر یہ بھی ہوا کہ آقائوں نے ’’غائبانہ حکمرانی‘‘ کے لیے اپنی سابقہ نوآبادیات سے نوجوان منتخب کیے تاکہ انھیں تعلیم و تربیت دے کر واپس بھیجا جائے اور وہ ان کے لیے کارآمد ثابت ہوں۔ اس کے لیے وظائف اور سہولتیں فراہم کی گئیں۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ شمالی اور وسطی افریقہ‘ شام‘ عراق‘ عرب ریاستوں‘ ایران‘ پاکستان‘ بھارت‘ انڈونیشیا‘ ملائیشیا‘ فلپائن‘ تھائی لینڈ اور بلقان کی ریاستوں کے لاکھوں نوجوان ‘بچے‘ بوڑھے‘ مرد‘ عورت‘ یورپ اور شمالی امریکہ کا رخ کر رہے ہیں (شمالی  امریکہ--- ریاست ہاے متحدہ اور کینیڈا کی براہِ راست نوآبادیاں گو قابل ذکر نہ تھیں‘ لیکن ان ملکوں نے بھی محسوس کر لیا تھا کہ ایک نئے اور مختلف نوآبادیاتی نظام کا دَور شروع ہونے والا ہے‘ جس میں ’’بہت نفع‘‘ ہے)۔ مغرب کی طرف رخ کرنے والے ان افراد میں بعض عارضی اور وقتی ضروریات (تعلیم‘ تربیت‘ تفریح) کے لیے جا رہے تھے‘ اور بعض کی نیت مستقل قیام کی تھی۔ ان مظاہر نے ایک نئے موضوع کے مطالعہ کو جنم دیا ہے‘ اور وہ ہے ’’مطالعہء مغرب اور اسلام‘‘۔

چند سال پہلے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (اسلام آباد) نے اس مطالعے کی اہمیت و ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ایک نہایت معیاری مجلہ ’’مغرب اور اسلام‘‘ (سہ ماہی) کا اجرا کیا‘ جو بلاشبہ اس موضوع پر اُردو میں ایک منفرد اور نہایت مستحسن کوشش ہے۔ مجلے کے ایک حالیہ شمارے (جولائی‘ دسمبر ۲۰۰۰ء) میں ایک جرمن نومسلم ڈاکٹر مراد ولفرڈ ہوف مین کے چار خطبات شائع ہوئے ہیں۔ تین خطبات وہ ہیں‘ جو انھوں نے انسٹی ٹیوٹ کی دعوت پر ’’خرم مراد یادگاری خطبات‘‘ کے طور پر لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد میں دیے۔ ان خطبات کے موضوعات، ’’تہذیبوں کا تصادم--- اکیسویں صدی میں‘‘، ’’اسلام: مغرب کے اندیشے اور مسلم ردِّعمل‘‘ اور ’’اسلام اور دَورحاضر کا نظریاتی بحران‘‘ تھے۔ چوتھا خطبہ انھوں نے بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد میں دیا تھا‘ جس کا عنوان تھا: ’’تہذیب اسلامی کو درپیش علم و دانش کا چیلنج‘‘۔ ساتھ ہی اس مجلے میں پروفیسر خورشید احمد‘ چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے اختتامی کلمات‘ ڈاکٹر رفیق احمد‘ ڈاکٹر ظفراسحق انصاری اور شریف الدین پیرزادہ کے صدارتی خطاب‘ نیز تقاریر پر کچھ سوال و جواب بھی شامل اشاعت ہیں۔ اس طرح یہ مجلہ اسلام اور مغرب کے مابین روابط اور مکالمے کے بارے میں ایک نومسلم ’’مغربی مفکر‘‘ کے خیالات کو سمجھنے کے لیے ایک وقیع دستاویز بن گیا ہے‘ جو بقول پروفیسر خورشید ’’ان موضوعات اور ان کے مختلف پہلوئوں پر بات کرنے کے لیے بہت موزوں اور اہل دانش ور ہیں‘‘۔ (ص ۶)

پروفیسر خورشید نے موضوع کا تعارف کراتے ہوئے بجا ارشاد فرمایا ہے کہ ’’یہ محض اسلام اور مغرب کے درمیان ربط و تعامل اور کش مکش کا کوئی مسئلہ نہیں ہے‘ بلکہ دو تہذیبوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت کا ایسا سوال ہے ‘ جس سے پوری نوع انسانی کا مستقبل وابستہ ہے‘‘۔ (ص ۷)


مسئلے کی اہمیت اور مقرر کی اہلیت پران مختصر گزارشات کے بعد آیئے اُن کے خیالات کا ایک جائزہ لیتے ہیں‘ جن سے نہ صرف آج کی دنیا کے ایک اہم پہلو‘ بلکہ مسلمان اہل دانش کے ایک نمایندہ گروہ کے زاویۂ فکر کو سمجھنے میں بھی کچھ آسانی ہو سکتی ہے۔

اپنے پہلے خطبے ’’تہذیبوں کا تصادم--- اکیسویں صدی میں‘‘ کی ابتدا وہ فرانسس فوکویاما کے مضمون ’’تاریخ کا اختتام‘‘ (The End of History)  اور سیموئیل  ہنٹنگٹن کے ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ (The Clash of Civilizations) کے نظریے کے ایک جائزے سے کرتے ہیں۔ یہ دونوں نظریے ‘ نہ صرف مغربی دنیا میں مشہور ہو چکے ہیں‘ اور اُن پر بڑی بحث و تمحیص ہو چکی ہے‘ بلکہ تیسری دنیا کے بھی سبھی خواندہ حضرات ان سے واقف ہو چکے ہیں۔ فوکویاما کا کہنا تھا کہ انسانی تاریخ اپنے ارتقا کے سارے مراحل طے کر چکی۔ اس کا آخری ثمر‘ مغرب کا سیکولر جمہوری نظام اور منڈی کی معیشت ہے۔ اب کوئی نیا نظام نہیں آئے گا۔ جب کہ ہنٹنگٹن کا کہنا تھا کہ مغربی تہذیب‘ جو اس وقت غالب تہذیب ہے‘ اور ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر پوری دنیا کو یک رنگ بنانے کے چکر میں ہے‘ اس کا دوسری تہذیبوں سے تصادم ناگزیر ہے‘ بلکہ یہ تصادم شروع بھی ہو چکا ہے۔ دوسری تہذیبیں اپنا کلچر برقرار رکھتے ہوئے بھی پیداوار کے جدید  طریقے اختیار کر سکتی ہیں‘ اور اس جنگ میں انھیں‘ اور مغرب کے سارے نئے ہتھیاروں کو استعمال کر سکتی ہیں۔ ’’روایت اور جدیدیت‘ لازمی طور پر معاشرے اور کلچر کی متعارض صورتیں نہیں ہیں‘‘۔ (ص ۲۴)

ہوف مین --- اور ایک مسلمان --- کی دل چسپی بنیادی طور پر اس سوال سے ہے کہ کیا اسلامی تہذیب‘ دوسری تہذیبوں --- خصوصاً مغربی تہذیب ---سے مختلف کوئی شے ہے؟ اور اگر اس سوال کا جواب اثبات میں ہے‘ تو کیا یہ دونوں ایک ساتھ پرامن بقاے باہمی کے اصول کے ساتھ پروان چڑھ سکتی ہیں؟

میرے خیال میں ان دونوں سوالوں کے بارے میں ہمارے نومسلم دانش ور کا ذہن صاف نہیں‘ اور وہ اپنے تمام خطبات میں ’’تکثیریت‘‘ ]کثرتیت: [pluralism کی جو وکالت کرتے ہیں‘ اور بعض جگہ تہذیب کے فرق ہی کو ماننے سے انکار کرتے ہیں‘ وہ ان کے ذہنی الجھائو کی غمازی کرتا ہے۔ پھر اُن کے خیال میں تمام اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بشانہ ترقی ممکن ہے۔ اس طرح گویا ’’توافق للبقا‘‘ ہی مستحسن ہے۔ ساتھ ہی وہ ’’اسلامی تہذیب‘‘ کے کسی منفرد تشخص سے بھی انکار کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ’’ساری مسلم دنیا کے خصوصی مشترک خدوخال سے انکار‘‘ تو نہیں کرتا‘ تاہم ان کا خیال ہے کہ یہ تہذیب ایک ’’مفرد اور غیر مرکب‘‘ تہذیب نہیں ہے‘ بلکہ متنوع ہے۔ مختلف ملکوں میں ’’مسلم اقوام نے کس قدر کامیابی سے سابقہ تہذیبوں کا   بیشتر حصہ ]تاکید راقم الحروف کی [ اپنے اندر سمو لیا ہے‘ اور اس طرح ان کا اپنا اپنا اسلامی کلچروجود میں آیا ہے۔ ...یہی وہ حقیقت ہے کہ جس کی بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ اس اَمر کا امکان زیادہ ہے کہ تصادم ایک خاص اسلامی تہذیب سے ہوتوہو‘ بحیثیت مجموعی اسلامی تہذیب سے ہرگز نہیں ہو سکتا‘‘ (ص۲۵)۔ وہ ’’اس مفروضے کو سختی سے مسترد‘‘ کرتے ہیں کہ مسلم ثقافت جوہری اعتبار سے دوسری ثقافتوں سے مختلف ہے۔ (ص ۲۵)

اِن بیانات میں کئی فکری مغالطے پوشیدہ ہیں۔ اگر ہم اس بات کے قائل ہیں کہ ہر تہذیب اپنی ایک منفرد فکری اساس رکھتی ہے‘ اور کچھ بنیادی عقائد (ایمانیات) ہی پر اس کا ڈھانچا استوار ہوتا ہے‘ تو پھر یہ کوئی قابل بحث اَمر نہیں رہتا کہ اسلامی تہذیب مغربی تہذیب‘ ہندو تہذیب‘ قدیم یونانی تہذیب یا رُومی تہذیب سے مختلف کوئی تہذیب ہے یا نہیں۔ ایک قوم (گروہ‘ جماعت‘ اُمت) جو ایک ہمہ مقتدر‘ خالق و مالک اللہ‘ آخرت اور انسان کے لیے آخری حوالے کے طور پر الہامی ہدایت پر یقین رکھتی ہے‘ اپنی فکر اور عمل میں یقینا اس ’’امت‘‘ سے مختلف ہوگی‘ جس کے نزدیک ان کا کوئی وجود نہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام تہذیبوں کے اپنے اپنے منفرد ظہور ہیں‘ جن سے یہ پہچانی جا سکتی ہیں۔

ہوف مین کا دوسرا ذہنی اُلجھائو ’’تہذیب‘‘ اور ’’ثقافت‘‘ کے تصورات میں اُن کا التباس ہے۔ یہ بات تو درست ہے کہ ’’ارب پتی‘ بم دھماکے کرنے والے اور بیلے ڈانسر‘‘ نہ اسلامی تہذیب کی نمایندگی کرتے ہیں‘ نہ اس کی ثقافت کی‘ تاہم اُن کا یہ کہنا محل نظر ہے کہ اسلامی تہذیب ’’ایک مفرد اور غیر مرکب وجود کی حامل نہیں‘ بلکہ متنوع ہے۔ ہندستان‘ ملائیشیا‘ انڈونیشیا‘ مراکش‘ ترکی اور مصر میں یہ مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ مسلم اقوام نے کس طرح کامیابی سے سابقہ تہذیبوں کا بیشتر حصہ اپنے اندر سمو لیا ہے‘‘ (ص ۲۵)۔ اِس سلسلے میں وہ غذا‘ لباس‘ معاشرتی اقدار اور زبانوں کے تنوع کی طرف اشارہ کرتے ہیں (ص ۲۵)۔ ہمارا معروضہ یہ ہے کہ مسلم ملکوں میں لباس‘ غذا اور زبان کے اختلاف ان کی ثقافتوں کی رنگا رنگی اور تنوع کو ظاہر کرتے ہیں‘ نہ کہ ’’تہذیب‘‘ کے اختلاف کو۔ انھیں مسلمانوں کی تہذیب کا اختلاف یا ’’تکثیر‘‘ ]کثرتیت[ نہیں کہہ سکتے۔ مسلمان کی تہذیب‘ لباس میں ستر کی پابندی‘ غیر ضروری آرایش‘ نمایش‘ تکلف اور اسراف و تبذیر سے اجتناب‘ زبان کی پاکیزگی اور غذا میں حلال و حرام کی تمیز ہیں۔ یہ اسلامی تہذیب کا خاصہ ہیں‘ اور دوسری تہذیبیں (خصوصاً ’’مغربی تہذیب‘‘ جس کے ساتھ اسلامی تہذیب کے تصادم سے وہ بچنا چاہتے ہیں) اس طرح کے تصورات سے عاری ہیں۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ جس تہذیب یا جن ثقافتوں کو بالفعل ’’مسلمان‘‘ اپنائے ہوئے ہیں‘ ان سب کو ’’اسلامی تہذیب‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔ گانا بجانا‘ بھنگڑا ڈالنا‘ ترکی کے درویشوں کا رقص‘ نوٹنکی‘ قوالیاں‘ حشیش اور بادام کے آمیزے کے آدابِ شرب‘ حتیٰ کہ حقّہ اور کباب بھی ’’اسلامی تہذیب‘‘ کے نمونے نہیں۔ یہ جائز و ناجائز اعمال اور وظائف‘ سب کے سب‘ کیا اس لیے اسلامی تہذیب کے عنوان کے تحت جمع کر دیے جائیں گے کہ جن ملکوں میں یہ مروج ہیں/ پائے جاتے ہیں‘ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے؟

ہوف مین یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ مستقبل میں عالمی تصادم قومی سرحدوں پر ہوں گے یا سیاسی سرحدوں پر۔ وہ کہتے ہیں کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ تصادم ثقافتی سرحدوں پر ہوں گے‘ مگر انھیں یہ ’’مفروضہ مشکوک لگتا ہے‘‘ (ص ۲۷)۔ کیوں کہ بقول اُن کے گلوبلائزیشن ہی مختلف ملکوںکی قومی اقتصادی پالیسیوں کو کنٹرول کرتی ہے‘ جن میں ’’مالیاتی پالیسی‘ شرح سود‘ ٹیکسوں‘ کم از کم معاوضوں‘‘ وغیرہ کو رکھا جا سکتا ہے (ص ۲۷)۔ اور چونکہ گلوبلائزیشن ایک ایسا عمل ہے جس سے مفر کی کوئی راہ نہیں‘ اس لیے جو مالیاتی بندوبست اور معاشی انتظام اس کے نتیجے میں ترقی یافتہ مغرب کی طرف سے آئے گا‘ تیسری دنیا اور ’’اسلامی دنیا‘‘ اُسے چار و ناچار تسلیم کرنے اور خود کو اس سے وابستہ اور ہم آہنگ کرنے پر مجبور ہو گی۔ کیا خوب! آپ نہ صرف یہ کہ سود لینے یا نہ لینے میں خودمختار نہیں‘ بلکہ اس کی شرح متعین کرنے میں بھی آزاد نہیں۔ اب غیر سودی مالیاتی نظام کس طرح قائم کیا جا سکتا ہے؟ اور اقتصاد کی گلوبلائزیشن کے باوصف ایک منفرد تہذیب کیوں کر باقی رکھی جا سکتی ہے؟ کیا اس فکر میں یہ ہدایت اور مخفی پیغام نہیں کہ نہ صرف مالیاتی انتظام میں ہمیں اسلام کے فرسودہ اصولوں کو تج دینا ہی ہوگا‘ بلکہ کسی ’’متصادم انفرادیت‘‘ سے بھی دست بردار ہونا ہوگا کہ ان کے ساتھ ہم اکیسویں صدی میں گزارا نہیں کر سکتے۔

لیکن اس کے فوراً بعد اگلے نکتے میں وہ کہتے ہیں کہ ’’تاریخ کے ہر دَور میں فوجی تصادم‘ تہذیبی امتیازات یا مختلف ثقافتوں کی باہم ٹکراتی اقدار کی بنیاد پر ہی پیش آئے۔ جنگ عظیم اوّل و دوم صرف برطانوی‘ فرانسیسی اور جرمن قوموں کے درمیان ہی نہ لڑی گئیں‘ بلکہ یہ برطانوی‘ فرانسیسی اور جرمن ثقافتوں کے درمیان بھی تھیں‘ جو آج کے مقابلے میں اُس وقت نمایاں طور پر ایک دوسرے سے مختلف تھیں‘‘۔ (ص ۲۷)

مگر یہ نکتہ چونکہ اُن کے اُس بنیادی مفروضے / دعوے (مختلف تہذیبیں بغیر تصادم کے ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکتی ہیں) کے خلاف پڑتا ہے‘ جو ان کے سارے خطبات میں بار بار مختلف زاویوں سے پیش کیا گیا ہے‘ اس لیے وہ پھر ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کے نظریے کو ’’چیلنج‘‘ کرتے ہیں (ص ۲۸)‘ اور ایک نسبتاً طویل اور غیر متعلق داستان‘ اسلام اور عیسائیت‘ مشرق اور مغرب کے درمیان مشارکت اور فیض رسانی کی چھیڑ دیتے ہیں کہ بارہویں / تیرہویں صدی میں عیسائی مشنری کس طرح مسلم دنیا میں تبلیغ کے لیے آئے‘ ایک اندلسی مسلمان پوپ کا مشیر بنا،’’کلیلہ ودمنہ‘‘ اور ’’الف لیلہ‘‘ کس طرح یورپ میں مقبول ہوئیں‘ دانتے کی ’’ڈیوائن کامیڈی‘‘ کس طرح واقعۂ معراج کی ایک تشکیل ہے‘ ابن طفیل کے فلسفیانہ ناول ’’حی الیقزان‘‘ ]’’حی بن الیقظان‘‘[ کی ’’رابنسن کروسو‘‘ کیسی نقل ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’موجودہ مغربی تہذیب‘ صرف یہود و نصاریٰ کی تہذیب ہرگز نہیں۔ یہ یہودیت‘ مسیحیت اور اسلام کا آمیزہ ہے‘‘۔ (ص ۲۹)

اس میں شک نہیں کہ مغرب (یورپ) نے مسلمانوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کا عقلی رویہ (جس کی بنیادیں یونانی فلسفے میں بھی ملتی ہیں ‘  اور ’’الحکمۃ ضالۃ المؤمن‘‘: حکمت‘ مومن کی اپنی متاع ہے‘ جہاں سے پائے لے لے‘ تو حدیث نبویؐ کے تحت مسلمانوں کے لیے حکم کا درجہ رکھتی ہے!)‘ مشاہدے اور تجربے کے ذریعے استقراء‘ روایت اور درایت کے اصول اور ضابطے‘ توہمّات اور اصنام پرستی کا استرداد اور تفکر اور تدبر پر زور--- لیکن یہ کہنا کہ موجودہ مغربی تہذیب یہودیت‘ مسیحیت اور اسلام کا ’’آمیزہ‘‘ ہے‘ میرے خیال میں زیادتی ہے۔ اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ مغرب اور مغربی تہذیب‘ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ’’بے خدا‘‘ تہذیب ہے۔ اس کی اصل جڑیں مشرک و ملحد (pagan) اور آزاد روش (لبرل) یونان اور ظالم و جابر روم میں پیوست ہیں۔ بقول اقبال:

شفق نہیں مغربی افق پر‘ یہ جوئے خوں ہے یہ جوئے خوں ہے

یہ سفّاک تہذیب‘ جس کے پاس ماورائے انساں‘ کوئی باز پرس کرنے والا نہیں ‘ ’’لا الٰہ‘‘ پر آکر رک جاتی ہے‘ جس کے ہاں نفی ہے‘ اثبات نہیں۔ اور اس کے مطابق چونکہ اس کائنات کا کوئی خالق و مالک نہیں اور نہ آخرت ہے اور نہ انسان (یا انسانی اداروں) کے ماسوا کسی کے آگے جواب دہی کا تصور‘ اس لیے انسان اپنے رویے متعین کرنے میں بالکل آزاد ہے۔ یہ بات تسلیم کرنا دشوار ہے کہ اس تہذیب کو اسلامی تہذیب کے ساتھ کس طرح بقائے باہمی اور پرامن پیش روی کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ ۱۳‘ ۱۴ سو سال میں مسلمانوں اور غیر مسلم اقوام میں جو آویزشیں ہوئیں‘ اُن کے بارے میں حتمیّت کے ساتھ یہ کہہ دینا کہ ’’اس سارے عرصے میں جو جنگیں اور تصادم ہوئے‘ اُن کا سبب مفادات کا ٹکرائو تھا یا معاشی اور علاقائی تنازعے‘‘ (ص ۳۰)‘ نیز یہ سوال کرنا کہ’’کیا اس دوران میں ثقافتی ]تہذیبی؟[ تصادم پیش آئے؟ سوال یہ ہے کہ تاریخ کے اس طویل دور میں مسیحی اور اسلامی تہذیبوں کا آپس میں تصادم کب ہوا؟‘‘ (ص ۳۰)--- قابل تعجبّ ہے۔ ایک مسلم (یا کسی بھی غیر مسلم) دانش ور کا یہ انکشاف واقعی حیرت انگیز ہے کہ اس طویل دور میں مسیحی اور اسلامی تہذیبوں کا آپس میں تصادم کب ہوا؟ مسلمانوں اور غیر مسلم اقوام کی ’’ساری جنگیں‘‘ اور مزاحمت‘ مفادات کے ٹکرائو کا نتیجہ تھیں۔ کیا یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ اسلام کو پھیلانے کی پہلی دوسری صدی کی تمام کوششیں‘ اٹھارویں‘ انیسویں اور بیسویں صدی میں مغربی استعمار کے خلاف مسلمانوں کی مزاحمت اور جدوجہد‘ برصغیر کی تقسیم‘ کشمیر‘ شیشان‘ کوسووا اور افغانستان میں ساری کشاکش‘ محض ’’معاشی اورعلاقائی تنازعے‘‘ ہیں؟ کیا ہم کہہ دیں کہ ابتدائی مسلم فتوحات /جہاد تو مفاد‘ معاش اور علاقائی تنازعوں کا نتیجہ تھے‘ لیکن دو عالم گیر جنگیں‘ مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کی مقدس آویزش کا نتیجہ تھیں؟

ہوف مین کہتے ہیں کہ اسلام کا دوسرے مذاہب (تہذیبوں) کے ساتھ تصادم اگرچہ فی الوقت ہوا نہیں ہے‘ مگر وہ دیکھ رہے ہیں کہ جس طرح ’’مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر مغربی یورپ اور امریکہ کی طرف نقل مکانی ہوئی‘‘ اور اس کے نتیجے میں ’’اسلام جو ہمیشہ سے عالم گیر آدرش رکھتا ہے‘ دنیا میں پہلی بار [!]بیسویں صدی میں فی الواقع عالم گیر بن گیا۔ اس وقت یورپ میں ۳ کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ لاس اینجلس‘ نیویارک‘ لندن‘ پیرس‘ برسلز‘ ویانا‘ روم اور زغرب جیسے مقامات پر بڑی بڑی مسجدیں تعمیر کی جا چکی ہیں‘ اور انٹرنیٹ پر اسلام پوری طرح موجود ہے‘ ]اس سے پتا چلتا ہے کہ[  ... ہنٹنگٹنکا یہ خدشہ درست ہے کہ مغرب میں اس ثقافتی دھچکے کا ناخوش گوار ردِّعمل ہوگا‘ اور اس لیے وہ مطالبہ کرتا ہے کہ مسلمانوں کی نقل مکانی کو محدود کیا جانا چاہیے‘‘۔ (ص ۳۲)

تاہم ہوف مین اس تجویز کے خلاف ہیں‘ اور پروفیسر رالف بریبانتی کے خیال سے متفق ہیں کہ ’’کیتھولک چرچ سمیت‘ مسیحی چرچوں اور اسلام کے درمیان یقینا مفاہمت اور قربت پیدا ہوگی… ایک مشترکہ مسیحی مسلم پلیٹ فارم… نہ صرف اختلافات کو حل کرنے کا ذریعہ بنے گا‘ بلکہ مغربی دنیا کا تحفظ بھی کرے گا‘‘ (تاکید راقم الحروف کی)۔ (ص ۳۳)

’’مغربی دنیا‘‘ کیا ہے؟ ایک فکر اور تہذیب کی تجسیم‘ اس کی عملی تفسیر‘ اُس کی چلتی پھرتی صورت۔ اب کیا کسی مفاہمت کے ذریعے اس کے تحفظ مطلوب ہے؟ کیا اس کے ترکش میں ’’مفاہمت‘‘ کے علاوہ دوسرے تیر نہیں بچے ہیں؟ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ جنھیں قند و نبات پیش کر کے فنا کے گھاٹ اُتارا جا سکتا ہو‘ اُن پر زہر ہلاہل کیوں آزمایا جائے؟

’’اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست (ساتھی‘ مددگار) نہ بنائو۔ یہ تو خود ایک دوسرے کے دوست (ساتھی‘ مددگار) ہیں۔ تم میں سے جو بھی اُن میں سے کسی کو دوست (ساتھی‘ مددگار) بنائے گا‘ تو بلاکسی شک کے وہ انھی میں سے ہوگا۔ ظالموں کو اللہ راہِ راست نہیں دکھاتا۔ آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے‘ وہ دوڑ دوڑ کر اُن میں گھسے جا رہے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہمیں خطرہ ہے‘ ایسا نہ ہو کہ ہم کسی گردش ]اور مصیبت[کا شکار ہو جائیں‘‘۔ (المائدہ ۵:۵۱-۵۲)

’ملے‘ قوم اسلام کا ایک توانا بازو ہے۔ اس قوم نے ۵۰۰ برس پہلے اسلام قبول کیا۔ ملایشیا‘ انڈونیشیا‘ فلپائن اور جنوبی تھائی لینڈ‘ ماضی قریب میں جزائر ملایا کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ۲۰ ویں صدی میں یہاں استعماری ممالک کا اقتدار تھا۔ انڈونیشیا ۱۹۴۵ء میں اور ملایشیا ۱۹۵۷ء میں آزاد ہوا۔ جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے موثر اسلامی تحریک Parti Islam Se Malaysia ہے۔ ’پاس‘ (PAS) اس کے نام کا مخفف ہے‘ تاہم عمومی طور پر اسے اسلامی پارٹی ملایشیا کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔

ملایشیا کا ایک تعارف بے انتہا اقتصادی ترقی بھی ہے اور انفرمیشن ٹکنالوجی کے میدان میں حیرت انگیز پیش رفت بھی۔ ۱۹۹۷ء کے اقتصادی بحران نے ایشین ٹائیگر کو ہلا کر رکھ دیا لیکن ملایشیا آزاد روی پر مبنی معیشت‘ نئے اقتصادی منصوبوں اور کھلی منڈی کی بدولت دیوالیہ ہونے سے بچ گیا۔

ملایشیا میں مستقبل کا نقشہ کیا ہوگا اور اسلامی پارٹی کیا کردار ادا کرے گی‘ یہی آج کا موضوع ہے۔

اس علاقے کی تاریخ میں متحدہ ملے قوم پرور تنظیم (United Malays Nationalist Organisation) کا قیام ایک اہم سنگ میل ہے۔ ۴۰ سے زائد وطن دوست اور قوم پرست تنظیموں نے ۱۹۴۶ء میں اس وفاقی تنظیم کی داغ بیل ڈالی اور عوام الناس کی اکثریت کو اپنی جانب راغب کر لیا۔ ’’امنو‘‘ (UMNO) ملایشیا میں طویل عرصے سے برسرِاقتدار ہے۔

آغاز ہی سے ’امنو‘ کا ایک علما کا شعبہ قائم تھا۔ انھوں نے ’امنو‘ کے اندر رہ کر اسے حقیقی دینی تنظیم بنانے کی کوشش کی۔ جب یہ اصلاحِ احوال سے مایوس ہو گئے تو شعبۂ علما کے تمام ممبران نے بہ یک وقت ’امنو‘ سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ علماے کرام کے مذکورہ گروہ نے ۲۴ نومبر ۱۹۵۱ء کوPersatuan Alim Ulama Malaya

کے نام سے اسلامی تنظیم قائم کی‘ ایک اور اسلامی تنظیم حزب المسلمین نے اپنے آپ کو نئی تنظیم میں ضم کر لیا۔ اس طرح اسلامی پارٹی ملایشیا وجود میں آگئی۔

’پاس‘ کے تجربات اخوان المسلمون مصر‘ جماعت اسلامی پاکستان‘ حزب النہضہ تاجکستان‘ الجبھۃ الاسلامیہ سوڈان‘ رفاہ پارٹی ترکی اور اسلامی نجات محاذ الجزائر سے مختلف ہیں۔ گذشتہ ۵۰ برسوں میں اس تحریک کی پانچ افراد نے قیادت کی اور ہر دَور میں اس کی شناخت ایک نئے انداز سے واضح ہوئی۔

احمد فواد حسن ’پاس‘ کے اولین سربراہ تھے۔ ۱۹۵۱ء سے ۱۹۵۳ء تک ’پاس‘ کے قائد رہے۔ ان کا مطمح نظر یہ تھا کہ ملے اپنے ہی وطن میں اقلیت نہ بن جائیں اور ملے قوم کی سربلندی کے لیے منظم ہو کر کام کیا جائے۔ ۱۹۵۳ء سے ۱۹۵۶ء تک ڈاکٹر الیاس عباس سربراہ رہے‘ قومی حقوق کے لیے جدوجہد ان کے پیش نظر تھی۔ اُس وقت تک ’پاس‘ کی شناخت ایک قوم پرست پارٹی کی تھی۔ ’پاس‘ کے تیسرے صدر ڈاکٹر برہان الدین الحلمی (۱۹۵۶ء سے ۱۹۶۹ء) نے تحریک کو خالصتاً اسلامی پہچان دی‘ اور ’پاس‘ کی قوم پرست شناخت کو اسلام کے احیا اور سربلندی کے لیے کام کرنے والی عالم گیر شناخت سے بدل دیا۔ ڈاکٹر حلمی کے وضع کردہ خطوط پر تحریک آگے بڑھتی تو اسلامی تحریک کا کوئی اور منظر ہوتا۔

ڈاکٹر حلمی کو داخلی خودمختاری کے قانون (ISA) کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ رہائی کے کچھ عرصے بعد اُن کا انتقال ہو گیا اور محمدعصری مودا نے ۱۹۷۰ء میں تحریک کی باگ دوڑ سنبھالی۔ عصری مودا شعلہ بیان مقرر تھے‘ تاہم انھوں نے غلبۂ اسلام کی جدوجہد کو ازسرنو قوم پرست تحریک میں تبدیل کرنے کی کوشش کی اور ’امنو‘ کے ساتھ تعاون کیا۔ برلن یونی ورسٹی کے پروفیسر اور ریسرچ اسکالر ڈاکٹر فارش اے نور کا خیال ہے کہ ترقی ء معکوس کے اس دَور میں تحریک کو تقریباً سمیٹ کر رکھ دیا گیا۔ اس دَور کو ’پاس‘ کے انتشار کا بدترین دَور بھی کہا جا سکتا ہے۔ آخرکار عصری مودا کو تحریک سے الگ کر دیا گیا اور تحریک کو اپنے اصل نظریے کے ساتھ مربوط کر کے کام کا آغاز کر دیا گیا۔ اسلامی پارٹی کے لوگ خود کہتے ہیں کہ ۱۹۷۰ء سے ۱۹۸۰ء تک ۱۰ سال ضائع ہو گئے۔

۱۹۷۹ء میں ایران میں برپا ہونے والے اسلامی انقلاب نے ’پاس‘ پر بھی اثرات مرتب کیے۔ ’پاس‘کے ذمہ داران نے یہ محسوس کیا کہ ’’اسلامی تبدیلی کے لیے علما کی قیادت ضروری ہے‘ مثلاً جس طرح ایران میں ہوا ہے‘‘۔ یہ ایک مشاہدہ تھا‘ دستوری اور آئینی فیصلہ نہ تھا۔ اسلامی تحریک ملایشیا کے مضبوط اور مستحکم دَور کا آغاز عملاً ۱۹۸۲ء سے ہوا۔

۱۹۸۲ء میں دینی تعلیم یافتہ علما نے تحریک کا نظم و نسق سنبھال لیا۔ تحریک کے لیے مرشد عام کا منصب تخلیق کیا گیا۔ یوسف راوا کو جو معروف عالم دین اور ۳۰ برس سے دعوت و جدوجہد کے میدان میں سرگرم عمل تھے‘ تحریک کا مرشدعام بنایا گیا۔ مرشدعام دستوری اور تنظیمی فیصلوں کے مراحل میں شریک نہیں ہوتا‘ تاہم اگر وہ چاہے تو تنظیم کے فیصلوں کو ردّ (veto)کر سکتا ہے ۔وہ مرکزی شوریٰ میں ۱۲ افراد کو نامزد کر سکتا ہے۔ حاجی فاضل محمد نور‘ گذشتہ دو دہائیوں سے تحریک کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ یونی ورسٹی میں تدریس کرتے رہے ہیں ‘ وفاقی اسمبلی میں پہلے بھی منتخب ہوئے اور ۱۹۹۹ء میں منتخب ہونے والی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا کردار سنبھال چکے ہیں۔ یوسف راوا کے اپنے منصب سے خود سبک دوش ہونے کے بعد نک عبدالعزیز کو مرشدعام بنایا گیا جوملایشیا کے دینی تعلیمی اداروں کے علاوہ دیوبند(بھارت)‘ اور مدرسہ قاسم العلوم شیرانوالہ گیٹ لاہور‘ (پاکستان) میں بھی زیرتعلیم رہے۔ حاجی فاضل محمد نور اور عبدالہادی آوانگ طلبہ کی اسلامی تحریک ’آبیم‘ (ABIM) میں بھی عرصۂ دراز سرگرم عمل رہے۔ نوجوانوں کی پرعزم‘ دعوتی و سماجی بھلائی کی اسلامی تنظیم کے طور پر ’آبیم‘ نے انتہائی موثر کردار ادا کیا ہے۔ اب اسلامی تحریک قدیم و جدید اور جدید تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل ہے۔ نک عبدالعزیز کی حکومت نے اعلان کر رکھا ہے کہ جس گھر میں پہلے کمپیوٹر نہ ہو اُسے ارزاں نرخ پر کمپیوٹر ملے گا۔

۱۹۸۲ء کے بعد سے تحریک کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا کہ ریاست بھی اسلام کے نفاذ کے متوازی پروگرام کا اعلان کرتی رہی‘ اسلامی بنک کاری نظام وجود میں آیا‘ اسلامی ادارہ ہاے فکرودانش

(think tanks) وجود میں آئے‘اسلامی تحقیقات کے ادارے قائم کیے گئے اور کوالالمپور میںاسلامی عالمی یونی ورسٹی قائم کی گئی۔جب اقتدار پر فائز لوگ اسلام کے علم بردار بن کر سامنے آتے ہیں تو نفاذ اسلام کے مراحل کو اپنے اقتدار کی طوالت کے ساتھ منسلک کر دیتے ہیں۔ ’آبیم‘ کے موجودہ صدر احمد عزام کا خیال ہے کہ مہاتیر محمد دنیا بھر کے مسلم حکمرانوں کے لیے ترقی پسند‘ اسلام دوست اور ملایشیا کے عوام کے لیے منتقم ڈکٹیٹر ہیں۔ ۱۹۹۰ء میں ’پاس‘ نے اپنے بے داغ کردار کی بدولت کلنتان  کی ریاست میں کامیابی حاصل کر لی۔ اسلامی قوانین کے نفاذ کا اعلان کیا‘ تو وفاقی حکومت کی طرف سے شدید اعتراضات اٹھائے گئے۔ غیر مسلموں کے انسانی حقوق پامال ہونے اور ریاست کے ماضی کی طرف سفر پر تنقید کی گئی‘ لیکن اس کے باوجود ’پاس‘ کلنتان میں تین بار

(۹۹ء‘ ۹۵ء‘ ۱۹۹۰ء) حکومت بنانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔

کلنتان کی ریاست وسائل کے لحاظ سے ملایشیا کی سب سے کمزور ریاست ہے لیکن اسلامک پارٹی کا یہاں کے عوام کے ساتھ گہرا رابطہ ہے۔ ’پاس‘ کے پہلے مرشدعام یوسف راوا تھے اور دوسرے مرشدعام

نک عبدالعزیز ہیں‘ جو کلنتان کی ریاست کے سربراہ بھی ہیں۔ نک عبدالعزیز عالم دین ہیں اور امامت و خطابت سے منسلک ہیں۔ وزیراعلیٰ بننے کے بعد انھوں نے سرکاری رہایش گاہ نہ لی۔ ۲۰‘ ۲۵ برس سے جس فلیٹ میں رہ رہے ہیں‘ اُسی کو وزیراعلیٰ کا دفتر قرار دے دیا۔ جمعہ کا خطبہ دیتے ہیں‘ پروٹوکول اور عوام سے دُور رکھنے والی دیگر علّتوں سے دُور ہیں۔ وزیراعلیٰ بننے کے بعد انھوں نے اعلان کر دیا کہ چور کا ہاتھ کاٹنے کی شرعی سزا پر ہم عمل درآمد کرنا چاہتے ہیں لیکن ہندو اور چینی اقلیت کو خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ مکمل معاشرتی انصاف کے بغیر

اس سزا پر فی الحال عمل درآمد نہیں ہوگا‘ تاہم شراب کی تیاری اور فروخت اور سودی معیشت کے ذریعے اشیا

کی قیمتوں میں بے حد و حساب اضافے پر حکومتی کنٹرول رہے گا۔ ناچ گھر اور نائٹ کلبوں کے لیے آیندہ اجازت نامے بند کر دیے گئے۔ حکومت نے رہن کا نظام متعارف کرایا ہے‘ اس نظام کی بدولت غریب عوام اپنی کسی قیمتی چیز (زمین‘ جائداد‘ زیورات) کو رہن رکھوا کربلاسود قرض حاصل کر سکتے ہیں۔

مجموعی طور پر کلنتان میں امن و امان کی صورت حال کافی بہتر ہوئی ہے۔ شراب اور جوئے کا کاروبار کرنے والے غیر مسلموں نے آہستہ آہستہ دوسرے کاروبار اختیار کرنے شروع کر دیے ہیں۔  فار ایسٹرن اکنامک ریویو کے ایک گذشتہ شمارے میں کلنتان کے بارے میںشائع ہونے والے ایک مضمون میں ایک ہندو ٹیکسی ڈرائیور کی رائے لی گئی تو اس نے کہا کہ میں وزیراعلیٰ نک عبدالعزیز کے مذہب کو تسلیم نہیں کرتا لیکن میں اسے پسند کرتا ہوں کیونکہ اُس کا گھر بھی عام لوگوں جیسا ہے‘ اور وہ سڑکوں پر چلتا پھرتا بھی دکھائی دیتاہے۔ ایسے ہی لوگ ملایشیا کو حقیقی ترقی دے سکتے ہیں۔

ملایشیا کے بارے میں ایشیا ویک کے ایک شمارے میں نک عبدالعزیز کی مسجد کی تصویر شائع ہوئی کہ اُن کا خطاب سننے کے لیے مسجد بے انتہا بھری رہتی ہے۔ عرصۂ دراز سے خواتین اسکارف کے ساتھ عملی زندگی میں شریک ہیں اور اسلامی تحریک کی قوت کا باعث ہیں۔

ترنگانو دوسری ریاست ہے جہاں ’پاس‘ نے حکومت بنائی ہے۔ عبدالہادی اوانگ اس کے وزیراعلیٰ ہیں۔ اخبارات اُن کی یہ تصویر پیش کرتے ہیں کہ وہ اپنی توانا فکر‘ غیر لچک دار موقف اور مستقبل بینی کے باعث مستقبل کے وزیراعظم ہیں۔ ترنگانو‘ گیس اور تیل کے لحاظ سے امیر ترین ریاست ہے۔ مگر وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کے حزب اختلاف میں سے ہونے کی وجہ سے فنڈ روک رکھے ہیں اور حکومت اور حزب اختلاف میں شدید قانونی جنگ جاری رہتی ہے۔ تحریک کے ترجمان سہ روزہ حرکہ کی اشاعت ۴ لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔حکومت بہ ضد ہے کہ سہ روزہ اخبار کو پندرہ روزہ کیا جائے۔ وفاقی پارلیمان کے اندر بھی ’پاس‘ نے ۱۹۹۹ء کے انتخابات میں ۲۹نشستیں حاصل کی ہیں۔ ’پاس‘ نے موجودہ حکومت مخالف اتحاد میں شمولیت اختیار کر رکھی ہے۔ عبدالہادی اوانگ کا مشہور جملہ ہے کہ حکومت فلک بوس عمارات تعمیر نہ کرے‘ بس اسٹاپ قائم کرے‘ یہ ہماری ضرورت ہیں۔

عبدالہادی آوانگ کی سیاسی آرا کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔ ہانگ کانگ سے شائع ہونے والے کئی جریدے اُن کی آرا شائع کر تے ہیں۔عبدالہادی آوانگ مغربی تعلیم یافتہ ہیں‘ دُنیا کے کئی ممالک میں اُن کے دوست موجود ہیں‘ کئی خطوں کا دَورہ کر چکے ہیں‘ ملایشیا کو جو مسائل درپیش ہیں اُن میں سے اکثر کے بارے میں اُن کے ذہن میں واضح تجزیہ اور عملی حل موجود ہے۔ گلوبلائزیشن کی اُس تعریف کے وہ شدید ناقد ہیں کہ سرحدوں کے بغیر معیشت (borderless economy) ہونی چاہیے۔ ملایشیا کے دوست تجارتی حلقوں کے درمیان عدم تناسب کے شاکی ہیں‘ چاہتے ہیں کہ ملایشیا امریکانائزیشن سے نجات حاصل کرے اور مسلم ممالک سے قریبی تجارتی روابط بنائے۔

۱۹۹۷ء کے اقتصادی بحران کا سبب اُن کے نزدیک ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کی آزادانہ نقل و حرکت ہے۔ موجودہ برسرِاقتدار گروہ کی مغرب دوستی بلکہ مغرب پرستی کے وہ ناقد ہیں‘ اُن کی تجویز ہے کہ ہر شخص پر ٹیکسوں کی بھرمار کی جائے۔ بڑی بڑی فلک بوس عمارتیں تعمیر کرنے‘ میلوں پر پھیلے تجارتی مراکز چلانے اور انفرمیشن ٹکنالوجی کے بے مہار سوداگروں پر معقول ٹیکس عائد کیا جائے‘ ملے اور چائینز آبادیوں میں منافرت کم کی جائے‘ ہندو‘ اور چینی تہذیب کو غالب قومی تہذیب نہ بنایا جائے۔

اگرچہ ملایشیا کی تاریخ میں ۱۹۹۷ء کا سال اِس لحاظ سے سب سے خراب سال رہا کہ جنوب ایشیائی ممالک کی اقتصادی ساکھ زوال پذیر ہونا شروع ہوئی۔ امپیکٹ‘ لندن کی رپورٹ کے مطابق جنوب ایشیائی ممالک کی کرنسیوں کی قدر ۴۰ سے ۲۰ فی صد رہ گئی۔ ملایشیا کے سکے رِنگٹ کی قدر میں ۶۰ فی صد کمی ہوئی‘ تاہم ملایشیا کے اندر نئی اقتصادی پالیسیوں کے سبب ملایشیا مزید زوال سے بچ گیا۔ اقتصادی بحران آتے اور جاتے رہے ہیں لیکن ڈیڑھ لاکھ ملایشیائی نوجوان اعلیٰ ترین تعلیم کے لیے اب بھی بیرون ملک ہر سال جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو بھی فراموش نہ کرنا چاہیے کہ ڈاکٹر مہاتیر محمد مغرب پر تنقید کرنے کے باوجود لبرل اکانومی اور کیپٹلزم کے مغربی اصولوںکو نافذکیے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر انور ابراہیم اور مہاتیر محمد کے درمیان ہونے والے اختلافات کے بے انتہا اثرات مرتب ہوئے ہیں اور ان اختلافات نے ملایشیا کی تاریخ کا رخ موڑ کے رکھ دیا ہے۔ انورابراہیم نے طالب علم لیڈر کی حیثیت سے شہرت پائی۔ طلبہ کی اسلامی تحریک’آبیم‘ کی طویل عرصے تک قیادت کی۔ طلبہ کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کی، ’آبیم‘ کو سیاسی جماعتوں کی آلہ کار کے بجائے خودمختار تنظیم بنایا۔ عالمی اسلامی تحریکات میں بھرم قائم کیا۔ انور ابراہیم کی حیثیت ’’مستقبل ساز‘‘ کی ہے۔ ہزاروں افراد کو بیرون ملک روانہ کیا تاکہ وہ جدید علوم اور خصوصاً انفرمیشن ٹکنالوجی میں مہارت حاصل کریں اور واپس آکر وطن کی ترقی کے لیے کام کریں۔ ۱۵‘ ۲۰ سال میں لاکھوں لوگوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کر لی اور دو کروڑ کی آبادی والا ملک‘ اقتصادی خوش حالی کی بدولت ایشیائی ممالک کے قائد کی حیثیت اختیار کرنے لگا۔ڈاکٹر انور ابراہیم بے انتہا صلاحیتوں کے مالک ہیں‘ ملے نوجوانوں میں بے انتہا مقبول ہیں۔ برسرِاقتدار ’امنو‘ پارٹی نے اُن کے اثر و رسوخ سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے انھیں پارٹی کا ممبر بنایا‘ وزیرخزانہ بنایا اور قلیل مدت میں وہ نائب وزیراعظم اور مہاتیرمحمد کے دست راست کے طور پر پہچانے جانے لگے۔ یہ بات بھی کی جاتی ہے کہ حکمران پارٹی میں شامل کر کے مہاتیر محمد نے انور ابراہیم کو اُس کی اسلامی شناخت سے الگ تھلگ کر دیا۔ حکومت کے ساتھ تعاون کے عمل کو ’پاس‘ نے اچھی نگاہ سے نہ دیکھا اور اسے نفاذ اسلام کی راہ روکنے کے مترادف قرار دیا۔

ڈاکٹر مہاتیر محمد کی عمر ۷۵ برس ہے ‘وہ میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور نسلی طور پر خالص ملے نہیں ہیں۔ اُن کے اجداد نے برعظیم سے ہجرت کی تھی اور انھیں خدمت اسلام کا سعودی حکومت کی طرف سے اعلیٰ ترین اعزاز بھی مل چکا ہے۔ لیکن وہ شخصی اقتدار پر کسی بھی صورت میں آنچ نہیں آنے دینا چاہتے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت انور ابراہیم کے خلاف سازش‘ گرفتاری اور طے شدہ سزا ہے۔ ملایشیا کے عوام مطمئن تھے کہ مہاتیر کے ساتھ کسی حادثے کی صورت میں ڈاکٹر انور ابراہیم عنانِ اقتدار سنبھالیں گے۔ انور ابراہیم نے کوشش کی کہ وہ ’امنو‘ کے صدر بن جائیں۔ یہ بات ڈاکٹر مہاتیر کو پسند نہ آئی۔ ۱۹۹۸ء میں بے جا الزامات عائد کر کے انور کو گرفتار کر لیا گیا۔ بعدازاں سزا بھی سنا دی گئی۔ انور ابراہیم کے واقعے کے بعد ’امنو‘ کے ہزاروں لوگ پارٹی سے الگ ہو گئے۔ کم از کم تین لاکھ افراد نے اسلامی پارٹی کی رکنیت اختیار کر لی۔ انور ابراہیم کے واقعے نے نہ صرف مہاتیر کا تصور گدلا کیا بلکہ ان کے حامیان اسلام کے دوست ہونے کی قلعی بھی کھل گئی۔ ان کا موجودہ جانشین عبداللہ بیضاوی‘ کسی طور انورابراہیم کی ٹکر کا نہیں ہے۔

انور ابراہیم کی بیگم نے کادلان (انصاف) پارٹی قائم کی‘ انتخاب میں حصہ لیا اور ۷ نشستیں جیت لیں۔ انور کا خیال ہے کہ مہاتیر اور اس کے خاندان کی بدعنوانیاں ظاہر کرنے کی اسے سزا مل رہی ہے۔ ہفت روزہ اکانومسٹ‘ لندن انور کے خلاف اقدامات کو مہاتیر محمد کی عظیم ترین غلطی قرار دیتا ہے۔

اسلامی پارٹی ملایشیا کے راستے میں دو بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ملایشیا میں ملے نسل آبادی کا ۶۰ فی صد ہے‘ جب کہ چینی النسل باشندے اور ہندو بھی ملایشیا کے قانونی شہری اور ملک کی تعمیروترقی میں برابر کے شریک ہیں۔ ’پاس‘ اگر غیر ملے آبادی کے اندر اثر و رسوخ قائم کر لے اور قومی مفاہمت کے ذریعے اسلام کے نظام عدل کے اندر انھیں سمیٹ لے تو بالکل ممکن ہے کہ آیندہ وہ اسمبلی کی سب سے بڑی قوت بن کر اُبھرے۔

’پاس‘ کے لیے دوسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس کے بارے میں ابھی تک یہ تصور ہے کہ یہ غریب غربا پارٹی ہے یا کسانوں کی پارٹی ہے‘ یا مولوی حضرات کی پارٹی۔ اگرچہ عبدالہادی اوانگ‘ حاجی فاضل نور اور مصطفی علی  اور ازمان سید احمد نے پارٹی کو اسلام کے اصولوں پر عمل پیرا ‘روشن خیال‘ کاروبارِ مملکت احسن انداز میں چلا سکنے والی باعمل پارٹی کے طور پر متعارف کرایا ہے‘ تاہم بہت سا کام ابھی باقی ہے۔اس پارٹی کے پاس سیکڑوں

آئی ٹی ماہرین موجود ہیں۔ تعلیم‘ میڈیا اور بنک کاری کے میدان میں ماہرین اور منتظمین کی کھیپ تیار ہو رہی ہے۔ ’پاس‘ کے تجربے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اکثریت سے رابطہ رکھ کر اور اصولوں پر مبنی پالیسیاں اختیار کر کے

 عوام الناس کی اکثریت کو ہم نوا بنایا جا سکتا ہے اور کلمۃ اللّٰہ ھی العلیا کی منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔

’پاس‘ نے اپنے قائدین کی تحریروں پر مبنی لٹریچر کی وسیع پیمانے پر اشاعت شروع کر رکھی ہے۔ تحریک کے آغاز کے دنوں میں جس جماعت کے پاس ٹائپ رائٹر بھی نہ ہوتا تھا‘ اب اُن کے کروڑوں کے اثاثے ہیں۔ جب سہ روزہ حرکۃ پر پابندی لگی تو انٹرنیٹ کے ذریعے ’پاس‘ کے بارے میں معلومات ہر لمحے فراہم کی جاتی رہیں۔ ’پاس‘ کے باضابطہ ممبران کی تعداد ۴۵ لاکھ ہے اور ہر سطح کے نظم میں خواتین بھی شامل ہیں۔ آیندہ دور میں نہ صرف ملایشیا بلکہ پورے علاقے کی سیاسی صورت حال پر ’پاس‘ فیصلہ کن اثرات مرتب کر سکتی ہے۔

کادلان پارٹی‘ چائینز پارٹی اور ’پاس‘ نے ایک اتحاد تشکیل دے رکھا ہے اور اُس کا یک نکاتی ایجنڈا reformasi (اصلاحات)ہے۔اس کا مقصدیہ ہے کہ برسرِاقتدار ’امنو‘ پارٹی نظام حکومت میں ایسی اصلاحات کرے کہ سیاسی رواداری پروان چڑھے اور مخالفین کو تشدد کے بعد جیل خانوں میں نہ ڈال دیا جائے۔ علاوہ ازیں ملے اور غیر ملے قومیتیں جو ملایشیا میں موجود ہیں وہ اپنے طریق زندگی کے مطابق زندگی گزاریں‘ لیکن ملایشیا کی اسلامی حیثیت کو متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ حزب اختلاف کی حکومت ہونے کے سبب ترنگانو صوبے کی گیس اور تیل کی رائلٹی جو کروڑوں ڈالر تک پہنچ رہی ہے روکے رکھنا نہ جمہوریت ہے نہ انصاف!

مہاتیر محمد کے بعد ’امنو‘ کے اندر کوئی ایسا باصلاحیت لیڈر موجود نہیں ہے کہ جو معاشی ترقی کی رفتار اور ملک کے اندر جاری و ساری داخلی جبر کو یکساں برقرار رکھ سکے۔ چند ماہ قبل  ’ملے اتحاد‘ کے نام سے برسرِاقتدار پارٹی نے ایک پانسہ پھینکا اور ’پاس‘ کو ہم نوا بنانے کی کوشش کی لیکن ’پاس‘ اس سازش کا شکار نہ ہوئی۔ ’امنو‘ کے وزرا کرام کے سوٹ کیسوں سے بدعنوانی کے کروڑوں ڈالر برآمد ہوئے لیکن مہاتیر نے اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ اس صورت حال میں ’امنو‘ کے محفوظ مستقبل کی کون پیش گوئی کر سکتا ہے! ’پاس‘ اپنے کارکنان کی لگن اور پایدار پالیسیوں اور دیگر اقوام ملایشیا کے ساتھ مفاہمت کے رویے کے ساتھ آگے بڑھتی ہے تو چند برسوں بعد ملایشیا ’پاس ‘کے زیر اقتدار ہوگا!

کیا زکوٰۃ ایک ٹیکس ہے؟

سوال :  کیا زکوٰۃ ایک طرح کا انکم ٹیکس نہیں ہے؟ کیا ہم زکوٰۃ کو فلاح عامہ کے کاموں مثال کے طور پر مدرسوں اور ہسپتالوں کے لیے استعمال نہیں کر سکتے؟

جواب :  زکوٰۃ کو ٹیکس قرار دینا سرے سے ہی غلط ہے۔ وہ تو اسی طرح ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے‘ جس طرح نماز ایک رکن ہے‘ حج ایک رکن ہے‘ روزہ ایک رکن ہے۔ زکوٰۃ انھی عبادتوں کی طرح ایک عبادت ہے‘ اور اس عبادت کو مقرر کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اس کے مصارف بھی متعین کر دیے ہیں‘ جن کے سوا کسی اور مصرف میں اسے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

آپ جتنے ٹیکس دیتے ہیں‘ خواہ وہ انکم ٹیکس ہو یا کسی اور قسم کا ٹیکس‘ ہر ایک کا نفع آپ کی طرف پلٹ کر آتا ہے۔ لیکن زکوٰۃ ایک ایسی چیز ہے‘ جس کا نفع آپ کی طرف آخرت میں پلٹ کر آئے گا۔ اس دنیا میں کسی طور پر بھی اس کی منفعت حاصل ہونے کی امید پر آپ زکوٰۃ دیں گے تو اسے ضائع کر دیں گے۔ اس دنیا میں آپ بس خدا کے بتائے ہوئے حق داروں کو زکوٰۃ دے دیجیے اور سمجھ لیجیے کہ یہ نیکی خدا کے دفتر میں درج ہو گئی۔

اگر آپ زکوٰۃ سے سڑکیں بنائیں گے‘ ریلیں بنائیں گے‘ یا مدرسے اور ہسپتال بنائیں گے تو ان سے امیر اور غریب سب فائدہ اٹھائیں گے۔ درآں حالیکہ زکوٰۃ غریبوں کے لیے ہے‘ امیروں کے لیے نہیں ہے۔ ان چیزوں سے آپ خود بھی فائدہ اٹھائیں گے درآں حالیکہ زکوٰۃ سے آپ کو خود فائدہ اٹھانے کا حق نہیں پہنچتا۔ اس لیے زکوٰۃ کو صرف عبادت سمجھ کر ادا کیجیے‘ اس کو رکن اسلام سمجھیے‘ انکم ٹیکس نہ سمجھیے۔

ٹیکس کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ خواہ کتنے ہی انصاف کے ساتھ لگایاجائے‘ کتنی ہی ایمان داری سے وصول اور خرچ کیا جائے‘ بہرحال جن لوگوں پر اس کا بار پڑتا ہے وہ کبھی اس کو خوش دلی سے نہیں دیتے‘ بلکہ اس سے بچنے کی بے شمار راہیں تلاش کرتے ہیں۔ اب کیا خدا کی فرض کی ہوئی ایک عبادت کو بھی ٹیکس سمجھ کر اس کے ساتھ آپ یہی سلوک کرنا چاہتے ہیں؟--- یہ طرزِعمل آپ زکوٰۃ کے ساتھ اختیار کریں گے تو اپنے مال کے ساتھ اپنے ایمان کو بھی کھو دیں گے۔

یہ تو وہ چیز ہے جو خوش دلی سے دینی چاہیے‘ خدا کی خاطر دینی چاہیے‘ جتنی آپ پر واجب ہو اس سے بھی کچھ بڑھ کر دینا چاہیے‘ تاکہ خداکی خوشنودی اور زیادہ حاصل ہو سکے۔ (سیدابوالاعلٰی مودودی‘ ۵-اگست ۱۹۷۴ء‘ ٹورنٹو‘ کینیڈا)

جادو سے قتل

س:  چار مہینے پہلے میری چھوٹی بہن وفات پا گئی جو دسویں جماعت کی طالبہ تھی۔ کوئی خاص بیماری نہ تھی جس کا میں یہاں ذکر کروں کیونکہ ڈاکٹروں کا یہی کہنا تھا کہ کمزور ہے اس کی خوراک کا خیال رکھیں۔ باوجود اچھی خوراک کے وہ دن بدن کمزور ہوتی چلی گئی۔ وفات سے اڑھائی مہینے پہلے ٹانگوں میں ورم آگیا جس سے چلنے پھرنے سے معذور ہو گئی۔ ٹانگوں میںشدید درد کی وجہ سے اس نے بہت تکلیف اٹھائی۔کچھ شواہد اور ڈاکٹروں کی رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ ماننے پر تیار ہو گئے کہ یہ کالا جادو ہوا ہے۔ جو بھی دوا دی جاتی وہ اس سے اور زیادہ بیمار ہوتی۔ پی اے ایف ہسپتال سرگودھا میں معائنہ کروایا لیکن انھیں بھی بیماری کی کوئی خاص وجہ سمجھ میں نہ آئی۔

اب ہمارے گھر میں سب اس بات کا یقین کر رہے ہیں کہ اسے جادو کے ذریعے مروایا گیا ہے۔ ایک محترم پروفیسرصاحب کے سامنے یہ مسئلہ رکھا تو انھوں نے قرآن و سنت کے حوالے سے اسے سچ ثابت کیا اور کہا کہ امام شافعی ؒ اور امام حنبلؒ جادو کے ذریعے قتل کرنے والے کو واجب القتل قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں بتایئے کہ اس چیز پر یقین ہونا چاہیے یا نہیں؟ کیا جادو سے انسان مر سکتا ہے؟ جو جادوکرے یا کروائے اس کے ساتھ کیا معاملہ ہونا چاہیے؟ ہم کیسے پہچان کریں کہ جادو کا عمل ہوا ہے؟ ایسے معاملات کی شرعی اور قانونی حیثیت کیا ہے؟ کیا قانون ایسے معاملے کی گرفت کرتا ہے؟

ج : آپ کی چھوٹی بہن کی بیماری اور وفات کا سن کر صدمہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت  فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل اور اجرِجزیل سے نوازے۔ اللھم اغفرلھا وارحمھا وادخلھا الجنۃ الفردوس۔ آمین!

جادو ایک حقیقت ہے اور اس کے اثر سے ایک آدمی بیمار اور فوت ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ بات کہ فلاں شخص جادو سے فوت ہوا ہے اور فلاں نے اس پر جادو کیا ہے‘ اسی طرح ثابت ہوگا جس طرح قتل ثابت ہوتا ہے۔ یعنی دو عادل گواہ گواہی دیں گے کہ اس آدمی کو ہم نے فلاں آدمی پر جادو کرتے ہوئے دیکھا ہے‘ یا جادوگر اقرار کرے کہ میں نے جادو کیا اور اس سے یہ شخص قتل ہوا ہے۔

۱- ایسے شخص پر عدالت میں دعویٰ کیا جاتا ہے اور عدالت میں مذکورہ طریقے سے ثابت کیا جاتا ہے۔ جب عدالت مطمئن ہو جائے کہ جادوگر نے جادو کے ذریعے قتل کیا ہے تو اسے قتل کیا جائے گا۔

۲- امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک اگر جادوگر پکڑا جائے اور وہ اعتراف کرے کہ وہ جادوگر ہے تو اسے عدالت میں اقرار کرنے یا گواہوں سے جادوگر ثابت کر دینے کی صورت میں قتل کرنے کی سزا دی جائے گی۔ کیونکہ جادوگر ایسے شرکیہ اعمال کرتے ہیں جو اسے مرتد بنا دیتے ہیں ‘ اگرچہ اس نے جادو کے ذریعے کسی کو قتل نہ کیا ہو۔ حدیث میں آیا ہے: حد الساحر ضربہ بالسیف ’’جادوگر کی حد یہ ہے کہ اسے تلوار سے قتل کر دیا جائے‘‘۔

۳- آپ اپنی بہن کے بارے میں بلاوجہ کسی وہم میں مبتلا نہ ہوں۔ صبرسے کام لیں۔ ہمارے معاشرے میں ’’جادو‘‘ بہت کم ہے۔ اس لیے کہ جادو میں شیطان کی پوجا و پرستش کرنا پڑتی ہے‘ اس کے نام کی نذر و نیاز دینا پڑتی ہے‘ گندگی میں ملوث رہنا پڑتا ہے۔ نماز‘ روزہ اور عبادات ترک کرنا پڑتی ہیں اور غیراللہ کی پرستش کرنا پڑتی ہے۔ ایک کلمہ گو جو دین کی سمجھ رکھتا ہو جادوگر نہیں ہو سکتا۔ لوگ دکان داری کے طور پر اپنے آپ کو جادوگر ظاہر کرتے ہیں اور کمائی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو تعزیری سزا دی جائے گی اور دکان داری سے روکا جائے گا۔ یہ حقیقت میں جادوگر نہیں ہوتے۔ اس لیے ان پر مقدمہ چلا کر جادوگر کی سزا نہیں دی جائے گی بلکہ شاطرانہ چالوں کے ذریعے برائی کو پھیلانے اور ناجائز کمائی کا دھندا کرنے کی سزا دی جائے گی۔ (احکام القرآن للجصاص‘ معارف القرآن‘ مفتی محمد شفیعؒ‘ تفسیر آیت سحر‘ پارہ اول)۔ (مولانا عبدالمالک)

مجبوری کی بنا پر جمع بین الصلاتین

س :  ۱- ایک شخص رات کھانے سے پیشتر اعصاب کو سکون بخشنے والی ادویات استعمال کرتا ہے  جس سے اس پر نماز عشاء سے قبل ہی نیند کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ اور دوسرا شخص وہ ہے جواپنی مصروفیات یا ذمہ داریوں میں ایسا الجھا ہوا ہے کہ نماز عشاء بروقت ادا کرنے کے قابل نہ ہو اور نماز قضا ہونے کا احتمال ہو۔ کیا ایسے دونوں اشخاص کا نماز مغرب کے ساتھ نماز عشاء کا ملا کر پڑھنا (یعنی نماز مغرب ادا کر کے تسبیح و تہلیل کے بعد نماز عشاء ادا کرنا) جائز ہے؟

۲- ایک شخص مسجد کے پڑوس میں کاروبار کرتا ہے۔ کاروبار اس نے قرض لے کر شروع کیا ہے اور اس کے ساتھ کوئی دوسرا شخص دکان پر موجود نہیں ہوتا۔ نماز کے اوقات میں دکان بند کرنے سے نقصان کا اندیشہ ہے اور سرمایہ ڈوبنے کا ڈر ہے۔ کیا ایسا شخص دکان پر نماز ادا کر سکتا ہے؟

ج : ۱- رات کے کھانے سے پہلے خواب آور ادویات کا استعمال یا دنیاوی کاروبار میں منہمک ہو جانا ایسے عذرنہیں ہیں کہ ان کے سبب نماز عشاء مقررہ وقت پر ادا نہ کی جائے۔ شدید مجبوری کی بنا پر جمع بین الصلاتین صرف درمیانی وقت میں کی جا سکتی ہے جو نماز مغرب کے پون گھنٹہ بعد شروع ہوتا ہے۔ آپ یہ طریقہ اختیار کر سکتے ہیں کہ نماز مغرب کے پون گھنٹے بعد نماز عشاء پڑھ کر دوائیں اور کھانا کھالیں۔ اس طرح شریعت کی پابندی اور عذر کی رعایت بھی ہو جائے گی۔ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک شام کے بعد اُفق پر سرخی کے بعد جو سفیدی آتی ہے وہ جمع بین الصلاتین کا وقت ہے جو غروب آفتاب کے تقریباً پون گھنٹہ بعد شروع ہو جاتا ہے۔

دنیاوی کاروبار میں مشغولیت کی وجہ سے نماز عشاء کی تقدیم درست نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے  سورہ جمعہ میں ایسے کاروبار اور تجارت سے منع فرمایا ہے جو یاد الٰہی اور نماز سے غافل کرنے والی ہو۔ فرمایا گیا: وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَ نِ ا انْفَضُّوْآ  اِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًا ط قُلْ مَا عِنْدَاللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ ط وَاللّٰہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ o  (الجمعہ ۶۲:۱۱) ’’اور جب انھوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اُس کی طرف لپک گئے اور تمھیں کھڑا چھوڑ دیا۔ اِن سے کہو‘ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے۔ اور اللہ سب سے بہتررزق دینے والا ہے‘‘۔

اسی طرح جو لوگ اپنے کاروبار زندگی کے دوران نماز اور دیگر عبادات میں خلل نہیں آنے دیتے‘ ان کی تحسین اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کی ہے:  رِجَالٌ لا لاَّ تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلاَ بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصّٰلٰوۃِ وَاِیْتَآئِ الزَّکوٰۃِ ص (النور ۲۴:۳۷) ’’اُن میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں جنھیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامت نماز و اداے زکوٰۃ سے غافل نہیں کر دیتی‘‘۔

اس لیے کاروبار میں اُلجھ کر رہ جانا یا خواب آور ادویات کے استعمال سے نماز کو اپنے مخصوص اوقات سے مقدم یا موخر کرنا درست نہیں ہے۔

۲- نفع و نقصان کا خدشہ ہر وقت موجود ہے۔ جو کچھ اللہ نے کسی کے مقدر میں لکھ دیا ہے وہ اس کو مل کر رہے گا۔ محض چند خدشات کی وجہ سے نماز کو گھر یا دکان میں پڑھنا درست نہیں۔ (ع ۔ م)

شطرنج کھیلنا

س :  ہمارے گھر میں کبھی کبھار شطرنج بغیر کسی شرط اور کسی قابل اعتراض بات کے صرف تفریح کے لیے کھیلی جاتی ہے‘ وہ بھی مخصوص حدود کے اندر کہ وقت کی بربادی اور ضیاع کا باعث نہ بنے۔ میری نظر سے چند احادیث گزری ہیں جن میں اس کو لغو اور بے ہودہ کھیل فرمایا گیا ہے۔ میں جاننا چاہتی ہوں کہ آیا ان احادیث میں شطرنج سے مراد وہی شطرنج ہے جو ہم کھیلتے ہیں؟

ج :  مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت اور بندگی کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ انسان کا مقصد وجود اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔ انسانی زندگی میں کھیل تماشا اور دیگر تفریحات جو اس مقصد سے اسے دُور کرنے والی ہوں‘ ان سے پرہیز کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسلام مفید کھیلوں پر قدغن نہیں لگاتا۔ اس میں تفریحات کا تصور بھی موجود ہے۔ لیکن ایسی تفریح جو دینی یا دنیاوی طور پر سودمند نہ ہو‘ محض وقت کا ضیاع ہو‘ یا ایسے کھیل جن میں جسمانی اور ذہنی صلاحیتیں اجاگر نہ ہوں اور ان سے ذہنی تسکین نہ ملتی ہو‘ مسلمان کے شایان شان نہیں ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے سورہ المومنون میں اہل ایمان کی ایک اہم صفت یہ بتائی ہے کہ وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ o  (۲۳: ۳)‘ یعنی اہل ایمان لغو سے احتراز کرنے والے ہیں۔ مفسرین کے نزدیک لغوسے مراد  مالایعنیہ ہے،’’ یعنی جس کا کوئی فائدہ نہ ہو‘‘۔ شطرنج اور اس طرح کے دیگر کھیل بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ پھر اگر ان میں جوا بھی شامل ہوجائے تو یہ حرام اور ناجائز ہو جاتے ہیںاور اس بارے

میں قرآن و حدیث میں سخت وعید ہے۔آپ نے شطرنج کی ممانعت میں جو احادیث لکھی ہیں ان سے مراد

مروجہ شطرنج اور اس سے ملتے جلتے کھیل ہیں۔ ان میں جوا ہو تو حرام ہے‘ اگر جوا نہ ہو تب بھی مکروہ ہیں۔اس لیے کہ غفلت عبادت سے دُوری اور تضیع اوقات کا باعث بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو امتحان گاہ بنایا ہے۔ یہ پہلا اور آخری موقع ہے۔ اس لیے وقت کی قدر و منزلت کا خیال رکھتے ہوئے لغویات سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس میں دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔ ایسے کھیلوں کا عادی نہیں ہونا چاہیے جو غفلت کا موجب

ہوں۔ (ع -م)

علم القرآن ]۳۰ پارے[‘ مدیر: سید قاسم محمود۔ ناشر: الفیصل‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۳۹۱+۱۵۹۔ ہدیہ: درج نہیں۔

سید قاسم محمود اردو کے معروف ادیب‘ مصنّف‘ مولف‘ مترجم اور منصوبہ سازناشر ہیں۔ گذشتہ تین چار دہائیوںمیں انھوں نے جو مختلف النوع علمی منصوبے تیار کیے‘ کتابیں تصنیف و تالیف اورشائع کیں‘ اور جو رسالے جاری کیے‘ ان کا سرسری جائزہ لینا بھی آسان نہیں ہے۔ حال ہی میں انھوں نے  علم القرآن کے عنوان سے قرآن حکیم کے ۳۰ پارے ‘انگریزی اور اردو ترجمے اور مختصر تفسیری حواشی کے ساتھ مرتب کر کے شائع کیے ہیں۔ اسے انھوں نے ’’اردو کی بہترین تفاسیر کا انتخاب‘‘ کا نام دیا۔ پہلا کالم: اردو ترجمہ‘ مولانا فتح محمد جالندھری‘ دوسرا کالم: انگریزی ترجمہ‘ عبداللہ یوسف علی‘ تیسرا کالم: ترجمانی یا ترجمہ‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی۔

سرورق پر ۲۳ مفسّرین کی فہرست دی گئی ہے۔ لیکن تفسیری حواشی میں خاصا اختصار ہے (یہ مناسب بھی ہے ورنہ ضخامت بڑھ جاتی)۔ پارہ نمبر ۵ تک حواشی ‘ علم القرآن کے عنوان سے ہر پارے کے آخر میں سورت اور آیت کا حوالہ دے کر عنوان وار دیے گئے ہیں۔ مگر پارہ نمبر ۶ سے تفسیری حواشی کو حسب موقع‘ آیات کے تراجم کے ساتھ ہی منسلک کر دیا گیا ہے۔ بعض موضوعات پر مستقل اور مفصّل مضامین‘ پاروں کے آغاز و اختتام پر شامل کیے گئے ہیں‘ جیسے:’’تاریخ حدیث‘‘ اور ’’تاریخ فقہ‘‘ از ڈاکٹر محمد حمیداللہ (جو دراصل ان کے خطبات بہاول پور ہیں)۔ ’’قرآن کا طرزِ استدلال‘‘ از حمیدالدین فراہی۔ ’’قرآن مجید کے حروف مقطّعات‘‘ از الطاف علی قریشی۔ جنگ بدر اور جنگ تبوک پر مصباح الدین شکیل کے مفصل مضامین (مگر جنگ خندق پر صرف ۷سطریں؟)۔ ’’انسانی پیدایش کے چھ مراحل‘‘ ابوالکلام آزاد۔ ختم نبوت کے اہم موضوع پرایک گونہ تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔

زیرنظر کتاب میں‘ مدیر کے بقول: ’’اردو کی بہترین اور دستیاب تفاسیر کا انتخاب و خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ مفسّرین کے ناموں سے زیادہ ان کی تفسیروں پر توجہ مرکوز رہی ہے۔ طریقہ یہ رہا ہے کہ مختلف تفاسیر سے جملے اُٹھا کر انھیں اس طرح باہم شیروشکر کر دیا گیا ہے کہ یہ معلوم ہونا دشوار ہو گیا ہے کہ کون سا جملہ کس

مکتب فکر کے مفسّرکا ہے۔ گویا تمام مفسّرین ایک مجلس میں یک جا ہو کر محو کلام ہیں‘‘۔ (پارہ ۱‘ ص ۱۱)

سرورق پر ۲۳ مفسّرینکے نام درج ہیں‘ مگر قاسم محمود صاحب کہتے ہیں کہ ’’یہ فہرست تو محض علامت ہے‘ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جتنی بھی تفاسیر دستیاب ہیں‘ وہ میرے زیرمطالعہ ہیں‘‘ (دیباچہ ‘ پارہ ۲)۔ ابتدا میں مفسّرین کی فہرست میں محمد علی لاہوری کا نام بھی شامل تھا‘ اس پر اعتراض ہوا تو انھوں نے لکھا: ’’جن مفسّرین کی تصانیف میرے زیرمطالعہ رہتی ہیں‘ ان میں بہت سے غیر مسلم ہیں‘ یہود بھی‘ نصاریٰ بھی‘ ہنود بھی---‘‘ (دیباچہ‘ پارہ ۶)۔ سرورق پر موجودہ فہرست میں‘ مفسّرینکی فہرست میں ’’جناب غلام احمد پرویزؒ‘‘ ]کذا [کا

نامِ نامی بھی شامل ہے۔ اس پر بھی ایک صاحب نے اعتراض کیا تو قاسم محمود صاحب نے جواب میں میر تقی میر کے ایک شعر کا سہارا لے کر‘ اپنی ’’وسیع المشربی‘‘ کا حوالہ دیا--- ’’وسیع المشربی‘‘ بلاشبہ اچھی بات ہے‘ مگر اس صورت میں انھیں ان تمام یہود و ہنود اور نصاریٰ ]نیزقادیانی ‘ منکرین حدیث‘ بلکہ بہائی [مفسّروں کے نام بھی سرورق پر درج کرنے کی جرأت کرنی چاہیے تھی‘ جن کی تفسیریں اُن کے ’’زیرمطالعہ‘‘ رہیں--- ظاہر ہے کہ ایسا کرنا‘ ان کے لیے ممکن نہیں تو پھر محض لفظی طور پر وسیع المشربی کا ’’قشقہ‘‘ کھینچنے کا فائدہ؟ ہمارا خیال ہے کہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ میں’’متفق علیہ بات ہی درج کروں گا‘‘ (دیباچہ‘ پارہ ۶)‘ تو پھرتفاسیر یا مفسّرینکے ضمن میں بھی اسی اصول کو پیشِ نظر رکھناچاہیے تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو ’’متعّہ‘‘ اور اس طرح کے دیگر مسائل پر دیے گئے تفسیری حواشی پر بھی اعتراضات سے بچا جا سکتا تھا۔

مجموعی حیثیت سے علم القرآن ایک قابل قدر کاوش ہے‘ ہماری تجویز ہے کہ اول: سرورق پر مفسرین کی فہرست دینے کی ضرورت نہیں۔ دوم: زیرنظر پاروں کے شروع میں وہ اداریے جوں کے توں شامل ہو گئے ہیں جو ہر ماہ رسالے میں علوم القرآن کی اوّلیں اشاعت کے موقع پر تحریر کیے جاتے تھے‘ اب انھیں ترمیم و نظرثانی کے بعد ہی پاروں کے ساتھ شامل رکھنا چاہیے--- اس صورت میں‘ ہمارا خیال ہے کہ بعض اعتراضات بڑی حد تک دُور ہو جائیں گے۔

یہ امر خوش آیند ہے کہ قاسم محمود صاحب نے احادیث نبویؐ کا ایک انتخاب پیش کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے (دیباچہ‘ پارہ ۲۹)۔ دیکھیے‘ کب پورا ہوتا ہے! (رفیع الدین ہاشمی)


پاکستان میں فوجی حکومتیں‘ مرتضیٰ انجم۔ ناشر: دارالشعور‘ یوسف مارکیٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۵۴۱۔ قیمت: ۲۵۰ روپے (مجلد)۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو یوں نظر آتا ہے جیسے یہاں حکومت کا دوسرا نام

’’فوجی کنٹرول‘‘ ہے۔ اس لیے پاکستان کی سیاسی تاریخ لکھی جائے تو اس کا زیادہ تر حصہ فوجی حکومتوں کے جواز‘ عدم جواز اور تجربات و مضمرات ہی پر مشتمل ہوگا۔

پاکستان میں فوجی حکومتیں ایک اہم موضوع ہے مگر اس کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ عجلت پسندی کے ہاتھوں موضوع کا صحیح معنوں میں نہ احاطہ ہو سکا اور نہ اس کا صحیح تجزیہ ہی کیا جا سکا۔ کتاب میں زیربحث موضوع کے مختلف پہلوئوں کو سرسری بیانات کے ذریعے اور غیرمناسب انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ بعض جگہ اسلوب رپورتاژ کا ہے اور بعض مقامات پر افسانہ نگاری کا۔ چار ناکام فوجی سازشوں پر جوبات کی گئی ہے‘ وہ نہایت تشنہ اور ادھوری ہے۔ مثال کے طور پر پنڈی سازش (ص ۳۳-۳۸)‘ ۱۹۷۲ء سازش (ص ۲۷۸-۲۷۹)‘ جنرل تجمل سازش (ص ۳۳۵-۳۳۷)‘ بریگیڈیر عباسی سازش (ص ۳۸۱-۳۸۲)۔ قاری بجا طور پر جاننا چاہتا ہے کہ ان سازشیوں کا پروگرام کیا تھا؟ ان کے مقاصد کیا تھے ؟ ان کے اثرات کیا مرتب ہوئے؟ لیکن اس حوالے سے اس کتاب کے صفحات خاموش ہیں۔

مولف نے ثانوی بلکہ پروپیگنڈا لٹریچر پر زیادہ انحصار کیا ہے‘ اسی لیے وہ لکھ گئے ہیں: ’’لاہور کے گول باغ میں شیخ مجیب الرحمن کے جلسے ]۱۹۷۰ء[ میں جماعت اسلامی نے ہنگامہ کر دیا تھا اور وہ اسٹیج پر ڈٹے رہے تھے (ص ۲۳۹)۔ یہ بات سرے سے غلط اور گمراہ کن ہے۔ اگر فاضل مولف اس زمانے کے چار پانچ روزناموں کو دیکھ لیتے تو ایسی بے سروپا بات نہ لکھتے۔ اسی طرح وہ لکھتے ہیں: ’’جماعت اسلامی نے ]۱۹۷۰ء میں[ اپنے ]قومی اسمبلی کے[ ۱۰۱‘ امیدواروں کا اعلان کیا تو ان میں کوئی بھی امیدوار مشرقی پاکستان سے نہ تھا‘‘ (ص ۲۴۰)۔ حالانکہ ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے مغربی پاکستان میں قومی اسمبلی کی ۸۰ اور مشرقی پاکستان سے ۷۱ نشستوں پر انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں جماعت کے قومی اسمبلی کے امیدواروں نے ۱۰ لاکھ ۴۴ ہزار ۱۳۵ (۰۷.۶ فی صد)ووٹ لیے اور وہ عوامی لیگ کے بعد دوسرے نمبر پر رہے‘ جب کہ مشرقی پاکستان سے صوبائی اسمبلی کی ۱۷۴ نشستوں پر جماعت نے حصہ لیا‘ (دیکھیے: رپورٹ آف جنرل الیکشنز ۱۹۷۰ء‘ اسلام آباد)۔ اس نوعیت کی اور بھی کئی باتیں ہیں جو کتاب کی ثقاہت کو بری طرح مجروح کرتی ہیں۔ (سلیم منصور خالد)


شیخ محمد الغزالی‘ خود نوشت سوانح حیات‘ نظریات‘ تالیفات  ‘ ترجمہ و ترتیب: محمد ظہیر الدین بھٹی۔ ناشر: اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۸۷۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

شیخ محمد الغزالی ؒ(م: ۹ مارچ ۱۹۹۷ء) امام حسن البنا شہیدؒ کے اولین ساتھیوں میں سے تھے۔ تعلیم و تعلّم سے وابستہ رہے۔ اُم القریٰ یونی ورسٹی‘ مکہ مکرمہ میں تدریس کے فرائض سرانجام دیے۔ جامعہ الامیر عبدالقادر‘ الجزائر میں علمی مجلس کے صدر رہے۔ دُنیا کے کئی ممالک کا دورہ کیا اور پانچ درجن تصانیف یادگار چھوڑیں۔

محمد ظہیر الدین بھٹی نے شیخ کی خود نوشت سوانحِ حیات کا اردو ترجمہ پیش کیا ہے۔ ابتدا میں شیخ کی خدمات اور فکروفن پر بعض نام ور عرب تحریکی شخصیات کے مضامین بھی شامل ہیں۔ مترجم نے شیخ کی ذات اور دعوتی زندگی پر خود بھی ایک مختصر تعارفی مضمون سپردِ قلم کیا ہے۔

احیاے دین کی مبارک جدوجہد دنیا کے جس حصے میں بھی جاری و ساری ہو‘ اُس کے متعلقین بھی اور اُس کے قائدین بھی‘ اِس چیز کے مستحق ہیں کہ اُن کی ذاتی زندگی اور اجتماعی جدوجہد کو وسیع پیمانے پر نشر کیا جائے تاکہ نشات ثانیہ کے علم بردار ایک دوسرے سے توانائی حاصل کر سکیں اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکیں۔ محمد ظہیر الدین صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں کہ عالم عرب اور مسلم دنیا کے حوالے سے ان کا قلم رواں ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے نہ صرف شیخ کی ذاتی زندگی کے حوادث و حاصلات کا پتا چلتا ہے بلکہ اخوان المسلمون میں شرکت کے بعد جو جو تجربات دعوتی اور سیاسی جدوجہد کے میدان میں ہوئے اُن کا بھی کہیں اجمالی اور کہیں تفصیلی ذکر ملتا ہے۔ شیخ نے ۱۹۵۶ء میں اخوان سے علیحدگی کے باوجود اپنی جدوجہد تمام عمر جاری رکھی۔ حکومت نے انھیں اخوان کے خلاف استعمال کرنا چاہا۔ انھوں نے جیل جانا قبول کر لیا لیکن اخوان کے خلاف الزام تراشی اور بیان بازی سے احتراز کیا۔ سوانح نگاری ایک دلچسپ فن ہے اور سوانح حیات دل چسپی کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں‘ تاہم اس کتاب میں کہیں کہیں واقعات کی تکرار محسوس ہوتی ہے۔ اسلامی تحریک نشات‘ عالم عرب اور اخوان المسلمون کے موضوعات پر یہ ایک مفید کتاب ہے۔ (محمد ایوب منیر)


کشمیر اُداس ہے ‘ محمود ہاشمی۔ناشر: الفیصل‘ غزنی مارکیٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۶۶۔ قیمت:

۲۲۵ روپے۔

یہ مصنف ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کو سری نگر کے ایک کالج میں بطور لیکچرر کام کر رہے تھے۔ شیخ عبداللہ کو اقتدار ملا تو نیشنل کانفرنس کے ’’ہوم گارڈز‘‘ میں بطور کمانڈر ان کا تقرر ہو گیا اور اس حیثیت میں وہ جموں اور کشمیر کے مختلف علاقوں میں اپنے فرائض انجام دینے لگے۔ لیکن حالات سے بددل یا مایوس ہو کر بہت جلد (جنوری ۱۹۴۸ء میں) وہ اپنی ’’ہوم گارڈز کی کمانڈری والی بندوق سمیت‘‘ آزاد کشمیر چلے آئے (کچھ عرصہ حکومت آزاد کشمیر کی ملازمت میں رہے پھر برطانیہ چلے گئے اور وہیں کے ہو رہے)۔محمود ہاشمی نے کشمیر میں اپنے چند ماہ کے مشاہدات اور ان سے اُبھرنے والے تاثرات و احساسات کو ادبی پیرایے میں بیان کیا ہے۔ چار مضامین پر مشتمل یہ رپورتاژ پہلے پہل ۱۹۵۰ء میں شائع ہوا تھا۔ اب اسے ایک طویل اختتامیے کے اضافے کے ساتھ دوبارہ (بلکہ سہ بارہ) شائع کیا گیا ہے۔ نصف صدی پرانی یہ کتاب آج بھی اتنی ہی بامعنی اور تروتازہ ہے جتنی ۵۰ سال پہلے تھی‘ بلکہ کشمیر کی حالیہ تحریک آزادی کے حوالے سے شاید اس کی معنوی اور ادبی قدروقیمت اور زیادہ ہو گئی ہے۔

اردو کے چوٹی کے نقادوں نے محمود ہاشمی کے اس رپورتاژ کی تعریف کی ہے۔ درحقیقت اس رپورتاژ میں مولف نے اپنے مشاہدات اور تاثرات کے ساتھ تاریخ کے نشیب و فراز کو بھی آمیز کیا ہے۔ یہ کشمیر کی باقاعدہ تاریخ نہیں لیکن اس میں کشمیری جدوجہد آزادی کے سارے نشیب و فراز‘ موڑ اور اہم اور نازک لمحات اور بیشتر کردارآگئے ہیں۔ ۷۵ لاکھ میں جموں و کشمیر کی خریداری‘ ۱۹۳۰ء میںغلامی اور جبر کے خلاف اہل کشمیر کی پہلی باغیانہ آواز‘ مہاراجا کے انسانیت سوز مظالم‘ شیخ عبداللہ کا کردار (طریق کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی--- بقول مصنف: ’’تاریخ کے صفحات میں جہاں کلائیو اور امی چند ملے ہیں‘ انھیں کوئی نہ کوئی میرجعفر بھی ملا ہے‘‘ ص ۳۹۔ یہ تگڈم مائونٹ بیٹن‘ نہرو اور شیخ عبداللہ سے مکمل ہوتی ہے)۔ ہری سنگھ کا سری نگر سے فرار‘ نیشنل کانفرنس والوں کی لوٹ مار وغیرہ۔ رپورتاژ میں کہیں کہیں چھوٹی موٹی کہانیاں بھی ہیں مگر ان معمولی کہانیوں کے پس پردہ اہم حقائق صاف نظر آ رہے ہیں۔

مصنف نے کشمیری صحافی شمیم احمد شمیم کا یہ دل چسپ تجزیہ نقل کیا ہے: ’’شیخ عبداللہ ہماری امیدوں اور آرزوئوں کا مرکز بھی ہیں اور مدفن بھی۔ ان کی ذات سے ہماری تحریک کی صبح بھی عبارت ہے اور شام بھی۔ وہ ایک خوب صورت آغاز اور حسرت ناک انجام کی علامت ہے‘‘ (ص ۳۳۸)۔ شیخ عبداللہ نے اپنے بیٹے فاروق عبداللہ کو اپنی مسند پر بٹھایا۔ محمود ہاشمی نے (بھارت اور پاکستان کے سیاسی منظر کے حوالے سے) پتے کی بات کہی ہے کہ برسرِاقتدار والد یا والدہ صرف اپنے بیٹے بیٹی کو ہی اُس منصب کے لائق سمجھتے ہیں جو حالات نے انھیں عطا کیا ہو اور جمہوریت میں ملوکیت کا یہ پیوند سیاست کا اٹوٹ انگ بنتا جا رہا ہے ۔(ص ۳۴۰)

کشمیر اُداس ہے پرمغز ‘ دل چسپ اورقابل مطالعہ کتاب ہے۔ ایک ایسی خوب صورت ادبی تخلیق‘ جس کے پس پردہ مصنف کی دردمند شخصیت جھلکتی ہے۔ مصنف کا مشاہدہ گہرا اور بصیرت قابل داد ہے۔ ۵۰سال پہلے محمود ہاشمی نے جو تجزیہ کیا آج بھی وہ صحیح اور برمحل معلوم ہوتا ہے۔ مصنف کے ایک دوست  اور ہوم گارڈز میں ان کے ساتھی اپورب نے ایک بار جذباتی انداز میں ان سے پوچھا تھا: ’’وہ صبح جس کے ہم انتظار میں ہیں‘ جانے کب ہو؟‘‘ اس کا حتمی جواب کون دے سکتا ہے مگر اس میں شبہ نہیں کہ زیرنظر کتاب کی تحریر و تصنیف کے ۵۰ سال بعد آج بھی: ’’کشمیر اُداس ہے!‘‘۔ (ر - ہ )


ائمہ سلف اور اتباع سنت  ‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ ، ترجمہ و تفہیم: پروفیسر غلام احمد حریری۔ تقدیم و تخریج: محمد خالد یوسف۔ ناشر: طارق اکیڈمی‘ فیصل آباد۔ صفحات: ۱۲۷۔ قیمت: ۶۰ روپے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ (۲۶۱ھ) کے مشہور رسالے‘ رفع الملائم عن آئمۃ الاعلام کے سلیس اور باقاعدہ ترجمے (پروفیسر غلام احمد حریری) کو جناب محمد خالد سیف نے ایک بھرپور مقدمے اور تخریج کے ذریعے مزید مستند و محقق بنا دیا ہے۔فاضل مترجم نے اپنے مقدمے میں ائمہ اربعہ کے حالات زندگی اور اتباع کتاب و سنت کے حوالے سے اقوال نقل کیے ہیں۔ مقدمہ نگار نے سنت و حدیث کی حجیت پر عقلی و نقلی دلائل پیش کیے ہیں اور منکرین و مستشرقین کے اعتراضات کو مدنظر رکھ کر ان کا جواب دیا ہے۔

امام ابن تیمیہؒ نے اپنے اس رسالے میں اکابر علما خصوصاً ائمہ اربعہ کی جانب منسوب اس غلط فہمی کا ازالہ کیا ہے کہ انھوںنے دانستہ حدیث نبویہؐ کو نظراندازکر کے اپنے مقلدین کو اپنے اقوال و افکار کی پیروی کا حکم دیا۔ بقول امام ابن تیمیہؒ: ’’کسی امام نے بھی سنت رسولؐ سے کبھی انحراف نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کوامت کی جانب سے قبول عام کی سند حاصل ہوئی‘ البتہ جب کسی امام کا قول حدیث صحیح کے خلاف ہو تو اس حدیث کے ترک کرنے کی وجہ ان کے ہاں ضرور ہوگی۔ وہ عذر یہ ہیں کہ امام سمجھتا ہو گا کہ حضورؐ نے یہ حدیث سرے سے ارشادنہیں فرمائی۔ امام کے نزدیک اس کا مفہوم وہ نہ ہوگا جو قائل سمجھا‘ یا امام کے نزدیک حدیث منسوخ ہو گی۔ امام صاحب نے مذکورہ تینوں قسموں کے ۱۰ اسباب گنوائے ہیں اور فرمایا ہے کہ کتاب و سنت سے اخذ و استنباط میں اپنی اپنی مہارت اور اصول و ضوابط کے مطابق استخراجِ مسائل کی وجہ سے جو اختلاف پیدا ہوا وہ اجتہادی بصیرت کے ضمن میں آتا ہے۔ اس ضمن میں خطا یا صواب دونوں میں اجر و ثواب ملتا ہے۔

امام ابن تیمیہؒ نے حدیث و آثار اور اقوال صحابہ و تابعین سے بکثرت ایسی مثالیں پیش کی ہیں جن میں صحابہ کرامؓ  ‘ تابعین عظام اور ائمہ اربعہ کے مابین استنباط میں اختلاف ہوا مثلاً کسی کے ہاں وہ حدیث پہنچی ہی نہیں‘ کسی نے اس کو مخصوص جانا‘ کسی نے مقید‘ کسی نے اسے منسوخ قرار دیا۔ ایک امام بعض اوقات

ایک حدیث کو اس لیے نظرانداز کر دیتا ہے کہ وہ حدیث سند کے لحاظ سے اس کے ہاں صحیح نہیں ہوتی‘ علیٰ ہذا القیاس۔ پورا رسالہ اسی قسم کے اسباب و وجوہ پر مبنی ہے۔ البتہ ائمہ اربعہ کا موقف یہی ہے کہ اصل دین

کتاب و سنت کی پیروی کا نام ہے اور یہ آئمہ اربعہ کتاب و سنت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے۔

کتاب عمدہ انداز میں شائع ہوئی ہے۔ مضبوط جلد‘ عمدہ کمپوزنگ اور بہترین تدوین نے کتاب کے حسن کو مزید نکھار دیا ہے۔ (حافظ محمد سجاد تترالوی)

فیضان اللّٰہ خان ‘  لاہور

ایک قاری نے بیرون ملک کام کرنے والے مسلمان سائنس دانوں کے کارناموں کو قابل فخر قرار دینے (فروری ۲۰۰۱ء) پر اعتراض کیا ہے۔ سائنس دانوں کو تحقیقی کام کرنے کے لیے جس معیار کی سہولتیں درکار ہیں‘ ان کا پاکستان کے کسی تعلیمی یا تحقیقی ادارے (الا ماشاء اللہ) میں وجود نہیں ہے۔ اس لیے بہت سے سائنس دان بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے پاکستان واپس آکر اپنی صلاحیتیں ضائع کرنے کے بجائے وہیں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان سائنس دانوں کا دارالکفر میں رہ کر طاغوتی قوتوں کی ترقی میں معاونت کرنا ایک اجتماعی گناہ ہے‘ جس میں ہم سب کسی نہ کسی درجے میں شریک ہیں۔ اگرچہ ان سب سائنس دانوں سے

اعلیٰ درجے کے داعیانہ اور مجاہدانہ کردار کی توقع نہیں کی جا سکتی‘ تاہم اگر اسلامی ممالک سائنس کی اہمیت کو محسوس کریں اور مطلوبہ سہولتیں فراہم کریں تو امید ہے کہ ان میں سے زیادہ تر سائنس دان دارالکفر سے واپس دارالاسلام میں آجائیں گے۔ ان شاء اللہ!

خواجہ غفور علی ‘  مینگورہ

’’اکیسویں صدی اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ از علامہ یوسف القرضاوی (اپریل ۲۰۰۱ء) پڑھا۔ اس میں ایک نکتے کی کمی محسوس ہوئی‘ اور وہ ہے: جہاد۔ اُمت مسلمہ کو اگر اکیسویں صدی میں باعزت اور باوقار مقام حاصل کرنا ہے تو ان ۱۰ نکات کے ساتھ ساتھ بلکہ سرفہرست فلسفہ جہاد کو اُبھارنا‘ جہادی کلچر کو فروغ دینا‘ مجاہد بننا اور بنانے پر عمل اور فخر محسوس کرنا ہوگا۔ اور یہ جہاد اسلامی معاشرے کے اندر ہر برائی کے خلاف‘ بغیر کسی امتیاز کے جاری رکھنا ہوگا۔

میجر طارق محمود ‘  پشاور

’’یورپی مسلم خاندان‘‘ (اپریل ۲۰۰۱ء) میں محمد ظہیرالدین بھٹی صاحب نے یورپ میں روایتی مسلم ممالک سے آکر بسنے والے مسلمانوں کی مشکلات کا ذکر کیا۔ لیکن یورپی نومسلموں کے بارے میں نہیں لکھا۔ یہ خوش قسمت لوگ جو سوچ سمجھ کر کھلی آنکھوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہوئے ہیں ان کے مسائل پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔

چودھری شہزاد اکرم ‘  جوہر آباد

ایک طرف تو ’تہذیب یافتہ‘ یورپ نے افغانستان میں بتوں کو بچانے کے لیے دنیا سر پر اٹھا رکھی ہے اور پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ آہ و زاری کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف بے حسّی کا وہ منظرنامہ ہے بوسنیا: اجتماعی قبریں (مارچ ۲۰۰۱ء) کہ یورپ کے مرکز میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا‘ مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی۔ معصوم لوگوں کو اجتماعی طور پر قتل کر کے دبا دیا گیا لیکن کسی نے شور نہیں مچایا۔ کسی نے آواز بلند نہیں کی۔ تم بتوں کی بات کرتے ہو‘ یہ تو زندہ انسانیت کی بات تھی۔ یہ کیسا دہرا معیار ہے!

غلام مصطفٰی مغل‘ قصور

دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں اور ان کے قائدین کے بارے میں معلومات افزا مضامین ایک تواتر سے آتے رہیں تو یہ  ایک مفیدسلسلہ ہوگا۔

انارگل خان خٹک ‘  میانوالی

رسائل و مسائل کے سوالات کے جوابات طویل ہوتے ہیں‘ مختصر مگر جامع ہونے چاہییں۔ سائل کا نام بھی دیا جانا چاہیے‘ فرضی سوال کا تاثر اُبھرتا ہے۔

محرم کی اشاعت میں جماعت اسلامی کی تشکیل کا جو نقشہ پیش کیا گیا تھا اس کو دیکھ کر ہی بہت سے اللہ کے بندوں نے ایسی ایک جماعت میں شامل ہونے کا ارادہ ظاہر کر دیا تھا‘ بلکہ ہندستان کے مختلف حصوں سے مقامی جماعتیں بننے کی اطلاعیں بھی آنی شروع ہو گئی تھیں۔ پھر صفر کی اشاعت میں درخواست کی گئی کہ جو لوگ اس نقشے پر کام کرنا پسند کرتے ہیں وہ براہِ کرم ہم کو اطلاع دیں تاکہ ان کے درمیان ربط پیدا کرنے کی کوئی صورت نکالی جاسکے۔ اس کے جواب میں بہت سے وہ لوگ بھی گویا ہوئے جو دل میں ارادہ رکھتے تھے مگر اب تک خاموش تھے۔ اس طرح وسط ماہِ اگست تک تقریباً ۱۵۰‘ اصحاب کی فہرست تیار ہو گئی۔ پھر یہ مناسب سمجھا گیا کہ ۲۵ اگست ]۱۹۴۱ء[ کو لاہور میں ان اصحاب کا ایک اجتماع عام منعقد کر لیا جائے۔ چنانچہ اجتماع کی دعوت دے دی گئی۔ تاریخ مقررہ پر ۷۵‘ اصحاب تشریف لائے جن میں سے بعض اپنی مقامی جماعتوں کے نمایندئہ مختار تھے‘ اور بعض انفرادی حیثیت سے تشریف لائے تھے۔ چار روز تک مشاورت جاری رہی۔ جماعتی تشکیل کا جو ابتدائی خاکہ محرم کے پرچے میں شائع کیا گیا تھا اس پر غور کیا گیا اور باہمی مشورے سے بالاتفاق ایک دستور جماعت مرتب ہوا جو اِس اشاعت میں درج کیا جا رہا ہے۔ پھر تمام اصحاب نے دستور کے مطابق پورے احساس ذمہ داری کے ساتھ کلمۂ شہادت ادا کیا اور جماعتی نظم کے ساتھ اسلامی نصب العین کے لیے جدوجہد کرنے کا عہد کیا۔ پھر آیندہ کام کے متعلق ایک پروگرام بھی طے ہو گیا جس پر توکلاً علی اللّٰہ کام شروع کر دیا گیا ہے۔ یہ سب مراحل خدا کے فضل سے بخوبی طے ہوگئے۔ اب آیندہ مراحل کی کامیابی رفقا کے خلوص نیت اور اللہ کی توفیق پر منحصر ہے۔

...دستور]جماعت اسلامی[کی بنیادجس خیال پر رکھی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم اسلام کے کسی ایک جز کو‘ یا مسلمانوں کے دنیوی مقاصد میں سے کسی مقصد کو لے کر نہ اُٹھیں‘ بلکہ اصل اسلام اور پورے اسلام کو لے کر اٹھیں۔ جس مقصد کے لیے انبیا علیہم السلام دنیا میں تشریف لائے وہی ہمارا مقصد ہو۔ جس چیز کی طرف انھوں نے دعوت دی اُسی کی طرف ہم دعوت دیں‘ جس طرز پر وہ ایمان لانے والوں کی جماعت بناتے تھے اسی طرز پر ہم جماعت بنائیں‘ جو نظام جماعت اُن کا تھا وہی ہمارا ہو‘ جن ضوابط کو وہ اپنی جماعت میں نافذ کرتے تھے انھی کو ہم بلاکسی کمی و بیشی کے نافذ کریں‘ اور جس طریقے سے وہ اپنے نصب العین کے لیے جدوجہد کرتے تھے اسی طریقے سے ہم جدوجہد کریں۔ غرض یہ کہ ہماری یہ تحریک ذرہ برابر نہ اسلام سے کم کسی چیز پر مشتمل ہو اور نہ اُس سے زائد‘ بلکہ پورے کے پورے اسلام ہی کو ہم اپنی تحریک بنا لیں۔ اسی لیے ہم اُس جماعت کو جو اس دستور پر بنی ہے ’’جماعت اسلامی‘‘ کہتے ہیں کیونکہ اِس کا عقیدہ‘ نصب العین‘ نظام جماعت اور طریق کار بعینہٖ وہی ہے جو اسلامی جماعت کا رہا ہے۔ (’’اشارات‘‘، سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ ماہنامہ  ترجمان القرآن‘ جلد ۱۸‘ عدد ۳‘ ربیع الاول ۱۳۶۰ھ‘ مئی ۱۹۴۱ء ‘ص ۲-۳)