مضامین کی فہرست


اکتوبر ۲۰۰۱

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء امریکہ کی تاریخ میں ایک سیاہ‘ المناک اور ناقابل فراموش دن کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ جس طرح ۷۲ برس پہلے‘ ۱۹۲۹ء میں امریکہ کی حصص مارکیٹ کے بتاشے کی طرح بیٹھ جانے (The Great Crash) سے اور پھر ۶۰ برس پہلے ۱۹۴۱ء میں پرل ہاربر  پر اچانک جاپانی حملے سے جس میں تقریباً ڈھائی ہزار امریکی ہلاک ہوئے تھے‘ امریکہ کی معیشت‘ سیاست اور عالمی رول کی قلب ماہیت ہوئی‘ بالکل اسی طرح ۱۱ ستمبرکے اس سانحے نے امریکہ ہی نہیں پوری مغربی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سرد جنگ کے بعد امریکہ اور سرمایہ داری کی عالمی اور بزعم خود ’’ابدی‘‘ بالادستی کا ڈھول پیٹا جا رہا تھا اور تاریخ تک کے اختتام (the end of history)کی نوید سنائی جا رہی تھی‘ وہ سارا قصہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے دونوں میناروں کے انہدام کے ساتھ ہی زمین بوس ہو گیا ہے اور خطرہ ہے کہ صدربش نے جسے اکیسویں صدی کی پہلی جنگ کہا ہے وہ ایک نئی گرم اور سرد جنگ کا آغاز نہ بن جائے اور اس سے بھی بڑھ کر خطرہ ہے کہ وہ مغربی دنیا اور عالم اسلام کے درمیان نئی صلیبی جنگ کی ابتدا نہ ثابت ہو۔

۱۱۰ منزلہ یہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر جو ۲۳ سال پہلے ایک ارب ڈالر کی لاگت سے ۱۶ ایکڑ اراضی پر تعمیر ہوا تھا‘ جس نے نیویارک کو اس کا نیا تشخص دیا تھا ‘جس میں آج ۵۰ ہزار لوگ کام کرتے تھے اور جس کا سالانہ کرایہ اب تین ارب ڈالر سے متجاوز تھا‘ وہ اس صدی کے لیے امریکہ کی معاشی اور مالیاتی قوت کا نشان اور عالمی سرمایہ داری کی شان و شوکت کی علامت ہی نہیں اس کا مالیاتی دارالحکومت بن گیا تھا۔ اسی طرح واشنگٹن میں وزارت دفاع (Pentagon) ایک قلعہ بند شہر کا منظر پیش کرتی تھی‘ اس میں ۲۴ ہزار افراد کام کرتے تھے اور یہ  امریکہ کی عالمی عسکری قوت کا مظہر تھی--- یہ دونوں عمارتیں ایک گھنٹے کے دورانیے میں تین ہائی جیک شدہ امریکی ہوائی جہازوں کی زد میں آکر تہ و بالا ہو گئیں۔ ان دو عمارتوں کی تباہی اور ہزاروں افراد کی ہلاکت ہی کچھ کم سانحہ نہ تھے کہ اس کی زد آج کی واحد سوپر پاور ‘ جو صرف اپنے دفاع پر پوری دنیا کے مجموعی دفاعی اخراجات کا ۳۶ فی صد خرچ کر رہی تھی‘ کے وقار اور ساکھ پر کچھ اس انداز میں پڑی کہ اس کے ناقابل تسخیر  (invincible)ہونے کا طلسم پادر ہوا ہو گیا۔ کچھ وقت کے لیے امریکہ کا پورا نظام دفاع و حکمرانی ’’ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بن گیا اور ۲۴ گھنٹے تک تو یہ عالمی قوت جو اب شیر کی طرح دھاڑ رہی ہے عملاً کسی سربراہ مملکت کے بغیر تھی ۔صدر‘ نائب صدر اور کانگریس کا اسپیکر سب کبھی ہوا کے دوش پر دنیا کے خطرات سے تحفظ کے متلاشی تھے ‘کبھی زیرزمین پناہ گاہوں میں عافیت کے طالب تھے۔اس کی نظیر اس صدی کی تاریخ میں نہیں۔ اس حادثے کے بعد امریکہ کی قیادت جن کیفیات سے گزری اور اس کے چہروں اور اعلانات پر جو رنگ دیکھا جا سکتا ہے اسے حیرت و صدمہ (shock)‘ استخفاف (humiliation)‘ غم و غصہ (anger) طیش و غضب ناکی(wrath and fury)  اور پھر انتقام (retaliation and revenge) اور جنون کی کیفیات و واردات کی شکل میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

تشویش ناک رویے

ان سطور کے ضبط تحریر میں لاتے وقت اس حادثہ فاجعہ کو ۱۱ دن گزر چکے ہیں مگر امریکہ بلکہ پوری مغربی دنیا پر ایک ہیجانی کیفیت طاری ہے‘ غیر یقینی کے سایے منڈلا رہے ہیں اور اس جذباتی فضا میں ’’کچھ کرگزرنے‘‘ کے آثار خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ بندر کی بلا طویلے کے سر کے مصداق عرب اور اسلامی دنیا کو ہدف بنایا جا رہا ہے‘ اسامہ بن لادن پر سارا نزلہ گر رہا ہے اور افغانستان پر فوج کشی کی تیاریاں ہیں۔ ہاتھی مچھر پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے اور سارا ملبہ فردواحد پر گرا کر اپنی ناکامیوں اور نفرت اور بے اعتمادی کے اصل اسباب و محرکات سے توجہ ہٹانے کی ناروا کوشش کی جا رہی ہے۔

یہ بڑی تشویش ناک صورت حال ہے کہ ٹھنڈے دل ودماغ سے حق و انصاف کے اصولوں کی روشنی میں حالات کا جائزہ اور تجزیہ نہ ہونے کے برابر ہے (چند کمزور آوازوں کے سوا) ۔ جن کے ہاتھوں میں قوت ہے اور جن پر عالمی قیادت کا بار ہے وہ ایک زخمی درندے کی طرح جس پر بھی شبہ ہو‘ اسے نیست و نابود کرنے کے عزائم کا اظہار کر رہے ہیں اور اس کے لیے پرتولے بیٹھے ہیں۔ صدر بش کہتے ہیں کہ یہ دہشت گردی نہیں اعلانِ جنگ ہے لیکن یہ نہیں بتا سکتے کہ اس جنگ میں فریق ثانی کون ہے‘ مقابلہ کس ریاست یا قوت سے ہے اور یہ جنگ کس سرزمین پر ہو رہی ہے۔ پرل ہاربر کے موقع پر حملہ آور بھی معلوم تھا اور اس کا ٹھکانہ بھی۔ آج نہ یہ ثابت ہے کہ کس نے اس دہشت گردی کا ارتکاب کیا ہے اور نہ یہ پتا ہے کہ خودکش حملے میں جاں بحق ہونے والوں کی پشت پر دراصل کون ہے اور وہ کہاں ہے؟ بات کو مزید اشتعال انگیزبنانے کے لیے اسے خود نفس تہذیب کے خلاف جنگ (war on civilization)کا نام دیا جا رہا ہے اور اس طرح دنیا کو دو حصوں میں بانٹنے کی مذموم کوشش ہو رہی ہے۔ گویا مغربی دنیا مہذب دنیا ہے اور باقی سب وحشت کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ صرف دہشت گردوں ہی کا قلع قمع نہ کیا جائے گا بلکہ ان ریاستوں کو بھی نابود کر دیا جائے گا جہاں ان کو پناہ حاصل ہے]اور یہ بھول گئے ہیں کہ آج تک خود امریکہ میں آئی آر اے (IRA)کے دہشت گردوں کو پناہ حاصل تھی اور کیوبا سے لے کر لاطینی امریکہ کے دسیوں ممالک اور عراق‘ لیبیا اور ایران وغیرہ میں دہشت گردی کرنے والے کتنے ہی مسلح گروہوں کے لیے امریکہ نہ صرف مامن تھا بلکہ  سی آئی اے اور مخصوص لابیاں کھلے بندوں ان کی تربیت اور ان کو مسلح کرنے کا انتظام کرتی رہی ہیں[۔ نائب صدر ڈک چینی اور سیکرٹری دفاع نے تو دو اور دو چار کی طرح کہہ دیا ہے کہ ہمارا ہدف ان ریاستوں ہی کو نیست و نابود کر دینا ہے جو دہشت گردی کو فروغ دیتی ہیں۔ دانش ور‘ اہل قلم اور میڈیا پر تبصرہ کرنے والوں کی ایک فوج ہے جو انتقام اور ریاستی تشدد کی تبلیغ کر رہی ہے۔ سابق سیکرٹری آف اسٹیٹ لارنس ایگل برگر فرماتے ہیں:

اس طرح کے لوگوں سے نبٹنے کی ابتدا کرنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے: آپ کو ان میں سے کچھ کو ہلاک کر دینا ہوگا خواہ وہ اس معاملے میں فوری طور پر براہ راست متعلق نہ ہوں۔

امریکی خارجہ پالیسی کے گرو اور ویت نام ‘ کمبوڈیا‘ چلی اور نہ معلوم کتنے ممالک میں لاکھوں انسانوں کی نسل کشی (genocide)کے ذمہ دار ہنری کسنجر کا ارشاد ہے کہ گو یہ پتا نہیں کہ اس اقدام کے پیچھے فی الحقیقت بن لادن کا ہاتھ تھا یا نہیں مگر فوری تادیبی اقدام ضروری ہے اور وہ بھی ناکافی ہے۔ اصل ہدف اس پورے نظام (network)اور ان ممالک کے خلاف کارروائی ہے جہاں اس نظام کے کچھ بھی کل پرزے پائے جاتے ہیں:

لیکن حکومت کو ایک منظم ردّعمل کی ذمہ داری لینا چاہیے۔ امید کرنا چاہیے کہ یہ اسی طرح اختتام کو پہنچے جس طرح پرل ہاربر کا حملہ اختتام کو پہنچا تھا‘ یعنی اس نظام کی تباہی جو اس کا ذمہ دار ہے (واشنگٹن پوسٹ‘ ۱۲ ستمبر ۲۰۰۱ء)

موصوف نے یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ اگر دوسرے ممالک اس میں امریکہ کا ساتھ نہ دیں تو امریکہ کو یہ اقدام تن تنہا ہی کر ڈالنا چاہیے اور کسی اتفاق راے (consensus)کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ یہ تو بڑے دانش ور اور ذمہ دار حضرات کا اندازبیان ہے۔ عمومی سطح پر جو انداز اختیار کیا جا رہا ہے اس کا اندازہ صرف ان تین مثالوں سے کیا جا سکتا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ میں رچ لوری ر قم طراز ہیں:

اگر ہم دمشق یا تہران یا جو کچھ بھی ہو‘ اس کا ایک حصہ ملیامیٹ کر دیں تو یہ بھی حل کا ایک جزو ہے۔ (۱۳ ستمبر ۲۰۰۱ء)

نیویارک پوسٹ میں اسٹیوڈیلوری لکھتے ہیں:

۲۱ ویں صدی کے اس پرل ہاربر کا جواب اتنا ہی سادہ ہونا چاہیے جتنا کہ تیز: بلاتاخیر حرامیوں کو قتل کر دو۔ آنکھوں کے درمیان گولی مار دو‘ ان کو ریزہ ریزہ کر دو‘ ضرورت پڑے تو زہر دے دو۔ اور وہ شہر اور ملک جو ان کیڑے مکوڑوں کی سرپرستی کرتے ہیں ان پر بم باری کر دو۔ (۱۲ ستمبر ۲۰۰۱ء)

نیویارک ڈیلی نیوز میں ایک محترمہ این کملٹر تو یہاں تک فرما رہی ہیں :

یہ اس کا وقت نہیں ہے کہ اس خاص دہشت گردی کے حملے میں براہ راست ملوث افراد کا ٹھیک ٹھیک احتیاط سے پتا چلایا جائے۔ ہمیں ان کے ممالک پر حملہ کر دینا چاہیے۔ ان کے لیڈروں کو قتل کر دینا چاہیے۔ ہم ہٹلر اور اس کے اعلیٰ افسروں کا پتا چلانے اور سزا دینے کے بارے میں رسمی ضوابط کے پابند نہیں تھے۔ ہم نے جرمن شہروں پر کارپٹ بم باری کی۔ ہم نے شہریوں کو ہلاک کیا۔ وہ جنگ تھی اور یہ بھی جنگ ہے۔ (۱۲ ستمبر ۲۰۰۱ء)

یہ وہ فضا ہے جو بنائی جا رہی ہے اور مسلمان اور عرب اس کا ہدف ہیں۔ صدر بش نے صلیبی جنگ کا لفظ استعمال کر کے جلتی پر تیل ڈالنے کی خدمت انجام دی ہے۔ اسلام کو ایک دہشت پسند مذہب اور مسلمانوں کو دہشت پسند گروہ کی حیثیت سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ان ۱۱ دنوں میں امریکہ اور برطانیہ میں سیکڑوں واقعات رونما ہوئے ہیں‘ جن میں مساجد‘ مدارس‘ مسلمان مراکز‘ گھرانے‘ حتیٰ کہ راہ چلتی باپردہ خواتین نشانہ بنی ہیں۔ صرف امریکہ میں ۳۰۰ انتقامی کارروائیاں ہو چکی ہیں اوریہ سلسلہ جاری ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ مسلمان تو مسلمان بیچارے سکھ بھی محض اپنی وضع قطع کے باعث مارے جا رہے ہیں--- کیا یہی وہ تہذیب اور اعلیٰ نظام زندگی ہے جس کے دہشت گردی سے معرض خطر میں ہونے کا واویلا ہے!

اسلامی تحریکوں کا موقف

امریکہ اور اہل مغرب کا رویہ خواہ کیسا بھی ہو اور اپنے جذبات کے اظہار کے لیے وہ کوئی بھی زبان استعمال کریں‘ بحیثیت مسلمان اور اُمت مسلمہ ہمارا رویہ حق‘ انصاف اور اعتدال پر مبنی ہونا چاہیے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے بجائے ہمیںدلیل کی زبان اور حق پرستی کا مسلک اختیار کرنا چاہیے اس لیے کہ قرآن کا ہمارے لیے یہی حکم ہے کہ جب بھی انسانوں کے درمیان کلام کریں انصاف کے مطابق کریں:

وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط(النساء ۴:۵۸) اور جب لوگوں کے  درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ ز وَلاَ یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز (المائدہ ۵:۸)  اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو ‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔

انسانی جان کا تحفظ اور احترام اسلام کی بنیادی تعلیم ہے اور اس میں مسلمان اور غیر مسلم‘ مرد اور عورت‘ دوست اور دشمن میں کوئی تمیز نہیں۔ سب کی جان برابر ہے اور بلاحق کسی کی بھی جان لینا  اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کے خلاف بغاوت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمْ‘ ہم نے تمام بنی آدم کو  محترم و مکرم بنایا ہے‘ محض مسلمانوں یا اہل کتاب کو نہیں۔ اسی طرح:

وَلاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحِقِّ ط (بنی اسرائیل ۱۷:۳۳) قتل نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ۔

مَنْ قَتَلَ نَفْسًا م بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاط وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ط (المائدہ ۵:۳۲) جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔

جس دین کی یہ تعلیم ہو‘ وہ بے گناہ انسانوں کی دہشت گردی کے ذریعے مظلومیت کی موت کو کیسے گوارا کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپ کے مسلمانوں ہی نے نہیں پوری دنیا کے مسلمانوں‘ ان کی دینی تحریکوں اور تمام ہی مسلمان حکومتوں نے ۱۱ ستمبر کی دہشت گردی اور اس کے نتیجے میں ہزاروں انسانوں کی موت پر خون کے آنسو بہائے ہیں۔ اس غم کو اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کیا ہے اور اس کی برملا مذمت کی ہے اور اصل مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہماری نگاہ میں یہ محض امریکہ کا نقصان نہیں پوری انسانیت کا نقصان ہے اور یہ غم تنہا کسی ایک قوم کے لوگوں کا غم نہیں پوری انسانی برادری کا غم ہے۔ اس نقصان اور اس غم کو ہمارے لیے جس چیز نے اور بھی اپنائیت کا روپ دے دیا ہے وہ یہ حقیقت ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں ہلاک ہونے والے ۵ ہزار سے زیادہ افراد میں‘جن کا تعلق ۶۳ ملکوں سے ہے اور جن میں سب مذاہب کے ماننے والے شامل ہیں‘ ایک ہزار سے زائد مسلمان تھے یعنی ہر پانچ میں ایک مسلمان تھا۔

دنیا کی اسلامی تحریکوں کے سو سے زیادہ قائدین اور عالم اسلام کے چوٹی کے علما اور مفکرین نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں ۱۲ ستمبر ہی کو اس قتل ناحق کی مذمت کی اور پھر ۱۸ ستمبر کو ایک اور بیان کے ذریعے اسلام اور اُمت مسلمہ کے موقف کو دو ٹوک انداز میں بیان کیا۔ انھوں نے جہاں قتل ناحق کی مذمت کی وہیں انتقام اور جوابی قتل ناحق کے خلاف بھی متنبہ کیا اور کمال حکمت اور پوری جراتٔ سے عدل و انصاف اور قانون کی حکمرانی کی بات کی۔ یہ بیان پوری اُمت کے جذبات کا ترجمان ہے:

ہم نیویارک اور واشنگٹن میں بزدلانہ دہشت گرد حملوں کی پرزور مذمت کر چکے ہیں جن کا نشانہ بننے والے تمام ممالک سے اور دنیا کے بڑے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔

اسلام انسانی جان کے تقدس کا علم بردار ہے۔قرآن کے مطابق ایک بے گناہ کو ہلاک کرنا ساری انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ ساری دنیا کے مسلمان اس جارحیت کے جانی نقصان پر غم زدہ ہیں کہ یہ امریکہ اور پوری دنیا کا مشترکہ نقصان ہے۔

ہم یہ اعلان بھی کرتے ہیں کہ دنیا کے تمام حصوں میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ایسی ہی ہمدردی اور تشویش کے مستحق ہیں۔ جو لوگ انسانوں کی مساوات کے علم بردار ہیں انھیں دنیا کے سب حصوں میں دہشت گردی کی مذمت کرنا چاہیے اور اس کے خلاف لڑنا چاہیے۔

ہم اس اصول کے حامی اور علم بردار ہیں کہ انسانوں کے خلاف دہشت گردی کے جو بھی ذمہ دار ہیں--- افراد‘ گروپ یا حکومت‘ ان کو کٹہرے میں لانا چاہیے اور کسی ہمدردی یا امتیاز کے بغیر اس کی سزا دینا چاہیے۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مشتبہ افراد کو کسی غیر جانب دار عدالتی طریقے سے ان کا جرم ثابت کیے بغیر‘ یک طرفہ طور پر سزا دینے کی کوشش بھی دہشت گردی ہی قرار پائے گی جس کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی گوارا کیا جا سکتا ہے۔

عدل وا نصاف اور فطری اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کا یہ کم سے کم تقاضا ہے کہ جرم کا غیر جانب دار واضح ثبوت ہو۔ اس لیے ہم دنیا کی تمام حکومتوں سے‘ خصوصاً امریکہ کی حکومت سے‘ اپیل کرتے ہیں کہ وہ صرف شبہے کی بنیاد پر طاقت کا یک طرفہ من مانا استعمال نہ کریں‘ اور مدعی‘ وکیل‘ جج اور جلاد سب کچھ خود ہی بننے کی کوشش نہ کریں۔ ہم‘ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور تمام عرب‘ مسلمان اور یورپی ممالک کے لیڈروں سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ دنیا کو بے جا خوں ریزی اور تشدد میں اضافے سے بچائیں جس سے اقوام عالم اور ریاستوں میں مزید جھگڑے اور تنازعات پیدا ہوں گے۔ دہشت گردی کا مقابلہ صرف ایسے ہی ذرائع سے کیا جاسکتا ہے جو منصفانہ اور عادلانہ ہوں‘ اور دنیا میں امن و سکون کا باعث بننے والے ہوں۔ ہمیں ایسے اقدامات میں فریق  یا خاموش تماشائی نہیں بننا چاہیے جن سے انتقام‘ رعونت اور بین الاقوامی دیوالیہ پن کی بو آتی ہو۔ آیئے سب لوگ انصاف کے لیے کھڑے ہو جائیں اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کے کارپردازوں کو قانون کے مطابق سزا دینے کے لیے اجتماعی کوشش کریں‘ اور دنیا میں دہشت گردی کی جڑمیں پائی جانے والی ناانصافیوں ‘ استحصالوں اور بالادستی کی پالیسیوں کو ختم کرنے کے لیے کوشش کریں!

یہ ہے اُمت مسلمہ کا اصولی اور حقیقی موقف ۔ تمام مسلمان حکومتوں اور تنظیموں کا فرض ہے کہ  اس نازک لمحے میں حکمت‘ دیانت اور جرأت کے ساتھ اپنے اس موقف پر ڈٹ جائیں ‘ محض قوت‘ دھونس اور جبر کے آگے ہتھیار نہ ڈالیں ‘اور نہ پروپیگنڈے کی یورش سے مغلوب ہوں اور نہ کسی ایسے جوابی ردّعمل کی راہ اختیار کریں جو حق وصواب سے دُور ہو۔

امریکی نظام کی شرم ناک ناکامی

جو سوال اس وقت سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا اور اس کے اصل ذمہ دار کون ہیں؟ بات محض شبہہ اور انتقام کی نہیں‘ بے لاگ جستجو‘ تحقیق و تفتیش‘ نقد و احتساب اور حقیقت کی کھوج کی ہے۔ بدقسمتی سے اس سے توجہ ہٹائی جا رہی ہے اور سارے معاملات ایک ہیجانی انداز میں نمٹانے کی خطرناک غلطی کی جا رہی ہے۔ تعجب ہے کہ کوئی نہیں جو ہمت اور جرأت سے کہے کہ بادشاہ کو پہلے اپنے جسم پر نگاہ ڈالنی چاہیے کہ کہیں وہ لباس سے عاری تو نہیں؟

یہ ابھی تحقیق طلب ہے کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والے کون تھے اور ان کے اصل مقاصد اور ان کے پشتی بان کون تھے۔ مگر پہلا سوال تو یہ ہے کہ امریکہ کے اپنے نظام حکومت اور خصوصیت سے اس کے قومی سلامتی ‘ جاسوسی اور پولیس کے نظاموں کی ناکامی اور اس ناکامی کے ذمہ داروں کے احتساب سے کلی اغماض کیوں برتا جا رہاہے؟ ایک ریل کا بھی حادثہ ہوتا ہے تو فوری اسباب کی تحقیق و تفتیش سے پہلے ادارے کے ذمہ داروں کا محاسبہ ہوتا ہے اور ان کو جواب دہی کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ امریکہ کا جاسوسی کا نظام دنیا کا عظیم ترین اور مہنگا ترین نظام ہے۔ صرف سی آئی اے کا سالانہ بجٹ ۳۰ ارب ڈالر ہے اور دنیا میں اس کے ایک لاکھ ہمہ وقتی کارکن ہیں۔ ایف بی آئی داخلی سلامتی کی ذمہ دار ہے ‘ اس کا سالانہ بجٹ ۳ ارب ڈالر ہے۔ اس کے امریکہ میں ۵۵ مراکز اور ۲۷ ہزار ۸ سو کارکن ہیں۔ اس کے نظام کار میں کل بجٹ کا پانچواں حصہ صرف معلومات جمع کرنے کے لیے مختص ہے اور یہ نگرانی (surveillance)کی جدید ترین ٹکنالوجی استعمال کر رہے ہیں۔ ایک اور ادارہ National Reconnaissance Office  ہے جو جاسوسی سیارچوں (Spy Satellites) کی مدد سے زندگی کے ہر پہلو کی ہمہ وقتی نگرانی کرتا ہے اور اس کا سالانہ بجٹ ۲.۶ ارب ڈالر ہے۔ ایک اور ادارہ National Security Authority  ہے جس میں ۲۱ ہزار افراد کام کرتے ہیں اور اس میں معلومات جمع کرنے کا دنیا کا اعلیٰ ترین انتظام ہے اور اس کے کارکن دنیا کی ہر اہم زبان کے ماہر ہیں۔ ان کے علاوہ نو مزید خفیہ معلومات حاصل کرنے والی ایجنسیاں ہیں جو فوج‘ وزارت خزانہ‘ وزارت مواصلات اوروزارت بجلی و پانی کے تحت کام کرتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا بجٹ ایک ارب ڈالر سالانہ ہے۔ ان سب کے علاوہ ایک National Imagery and Mapping Agency ہے جس کا بجٹ ۲.۱ ارب ڈالر سالانہ ہے اور اس کا کام صرف یہ ہے کہ امریکہ کی زمین پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کے نقشے محفوظ کرے۔ اس طرح صرف انٹیلی جنس اور نگرانی کے ادارے سالانہ ۵۰ ارب ڈالر کے بجٹ سے قومی سلامتی اور حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ ان کے علاوہ معلومات حاصل کرنے کی Non-Intelligence Agencies کا سالانہ بجٹ ۲۷ ارب ڈالر ہے۔ گویا صرف جاسوسی اور دوسری معلومات کے حصول کے لیے امریکہ سالانہ  ۷۷ ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے (ہفت روزہ گارجین ‘ ۲۰ تا ۲۶ ستمبر ‘ ص ۵)۔

اس کے باوجود اس پورے نظام کو ایک ایسے مربوط اور مختلف جہتی منصوبے کی کوئی سن گن تک نہیں لگی جس میں بقول امریکہ ۱۹ خودکش ہائی جیکر شامل تھے جنھوں نے دو مختلف ہوائی اڈوں سے کارروائی کا آغاز کیا‘ جس میں ان کے علاوہ کم از کم ۳۰ مزید افراد کے شامل ہونے کا اندازہ ہے‘ جو کئی مہینے سے اس اقدام کی منصوبہ بندی کر رہے تھے‘ بڑے شہروں میں رہ رہے تھے‘ کینیڈا اور جرمنی کے سفر کر رہے تھے‘ کلبوں میں شراب نوشی اور رقص و سرود کی محفلوں میں شریک تھے‘ جم خانوں میں تن سازی کر رہے تھے اور ہوائی پرواز کے اداروں کے باقاعدہ ممبر کی حیثیت سے ہوا پیمائی کی مشقیں کر رہے تھے۔ اگر اتنی خطیر رقم خرچ کر کے اور اتنے جدید اور ترقی یافتہ نظام کی موجودگی میں امریکہ کی قیادت کو ایسی سازشوں اور خوف ناک منصوبوں کی ہوا بھی نہیں لگتی تو پھر اس نظام کا احتساب نہ کرنا کس طرح قابل فہم ہو سکتا ہے۔ نہ سی آئی اے کے سربراہ نے استعفا دیا ہے‘ نہ ایف بی آئی کے سربراہ کو معطل کیا گیا ہے‘ نہ اٹارنی جنرل جو اس پورے نظام کا سربراہ ہے اس پر کوئی آنچ آئی ہے‘ بلکہ اٹارنی جنرل صاحب پوری دیدہ دلیری سے فرما رہے ہیں کہ اب سوال انصاف کا نہیں‘ جوابی کارروائی کا ہے! اصل ناکامی امریکہ کے اپنے نظام کی ہے--- محض اسامہ بن لادن اور افغانستان پر ملبہ گرانے سے امریکہ کے اپنے نظام کی ناکامی پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔

یہ ناکامی اور بھی شرم ناک ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ دہشت گردی کے امکانات اور خطرات کے بارے میں بحث و گفتگو کا سلسلہ برابر جاری تھا۔ فروری ۱۹۹۳ء میں اسی ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں بم کا دھماکا ہو چکا تھا جس میں چھے افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اپریل ۱۹۹۵ء میں اوکلاہاما کا واقعہ ہوا تھا جو ایک امریکی دہشت گرد ٹموتھی لیکون کا کارنامہ تھا اور جس میں ۱۶۸ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ابھی دو ماہ پہلے لیکون کو رحم کی ملکی اور عالمی اپیلوں کے علی الرغم پھانسی دی گئی تھی اور اس گروہ کی طرف سے انتقامی کارروائی کا خطرہ موجود تھا۔ اگست ۱۹۹۸ء میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں میں ہونے والی دہشت گردی میں ۲۲۴ افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس کا مقدمہ چل رہا تھا۔ اکتوبر ۲۰۰۰ء میں امریکی بحری جہازUSS Cole کا واقعہ ہواجس میں ۱۷ افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس کا مقدمہ بھی زیرسماعت تھا۔ اسی سال مارچ میں سینیٹ کے انٹیلی جنس کمیشن نے متوقع دہشت گردی سے متنبہ کیا تھا اور یہ رپورٹ حال ہی میں شائع ہو چکی تھی۔ ابھی تین ہفتے پہلے سی آئی اے نے ان دو افراد کے بارے میں تصویر شائع کر کے متوجہ کیا تھا جن کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ ۱۱ ستمبر کی ہائی جیکنگ میں شریک تھے۔۷ستمبر کو ایک اور وارننگ موصول ہوئی تھی--- ان سب کی موجودگی میں تمام خفیہ اور برسرزمین ایجنسیوں کی ناکامی اصل لمحہ فکریہ ہے--- لیکن اس کا کوئی ذکر نہ امریکی صدر کے بیانات میں ہے اور نہ میڈیا کی لفظی جنگ میں۔

اسامہ بن لادن؟

سارا زور ایک فرد اسامہ بن لادن پر ہے ‘ جو ۱۰ سال سے جلاوطنی اور خانہ بدوشی کی زندگی گزار رہا ہے  اورجس کے پاس نہ ٹیلی فون ہے اور نہ باہر کی دنیا سے رابطے کا کوئی اور ذریعہ ہے۔ وہ ایک ایسے ملک میں ہے جس پر برسوں سے شدید ترین نگرانی ہو رہی ہے‘ جس کے پاس نہ جدید ٹکنالوجی ہے اور نہ سفارتی یا ابلاغی سہولتیں‘ جس کے پاس کوئی عالمی میڈیا تو کیا انگریزی میں دنیا تک اپنی بات پہنچانے کی سہولت تک میسر نہیں‘ جس کے خلاف برسوں سے پابندیاں لگی ہوئی ہیں‘ مواصلات کا نظام غیر موثر ہے اورجس کے بنک بیرونی دنیا سے کوئی مالی معاملہ نہیں کر سکتے۔ پھر بھی یہی یقین دلایا جا رہا ہے کہ وہ افغانستان کے ایک غار سے یہ سب تماشے کر رہا ہے۔ اسامہ کی دولت کا بھی بڑا شور ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جن ۳۰ کروڑ ڈالر کا ذکر کیا جاتا ہے (اگر درست بھی ہو تو خود امریکہ کے صرف جاسوسی کے ۷۷ ارب ڈالر اور دفاعی بجٹ کے ۳۵۰ ارب ڈالر کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتے ہیں) ان کی بھی حقیقت یہ ہے کہ ۱۲ سال پہلے اسامہ بن لادن کو اپنے والد کی میراث میں ۳۰۰ نہیں‘ ۸ کروڑ ڈالر ملے تھے۔ ان میں سے جو کچھ اس کے پاس تھے اسے ۱۹۹۶ء میں سعودی شہریت ختم ہونے پر ساری دنیا میں منجمد کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ نہ کوئی سرمایہ کاری کر سکتا ہے ‘ نہ کسی بنک میں حساب رکھ سکتا ہے اور نہ کسی کاروبار میں عملاً شرکت ممکن ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر چند کروڑ ڈالر اس کے پاس تھے بھی‘ تو ان سے کیا کچھ اور کب تک کیا جا سکتا ہے۔ اکانومسٹ نے اپنے ادارتی مضامین میں اعتراف کیا ہے کہ بن لادن کی دولت کی بات میں بڑا مبالغہ ہے (۲۲ستمبر ‘ ص ۱۷)۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بن لادن اور اس کے رفقا سخت مالی مشکلات میں مبتلا ہیں:

مشرقی افریقہ کے بم بازوں کے مقدمے میں ایک حالیہ گواہی سے بہرحال ایک شبہہ پیدا ہوتا ہے۔ بن لادن کے سابق رفقا نے بتایا ہے کہ وہ سرمائے کی کمی کا شکار ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اس کے آدمی پریشانی کا شکار ہیں اور ان کے درمیان مسلسل جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے ایک سابق اکائونٹنٹ کو‘ جو امریکہ کا سب سے بڑا گواہ ہے‘ جب قرض دینے سے انکار کیا گیا تو وہ القاعدہ سے باہر آگیا۔ (اکانومسٹ‘ ۱۵ ستمبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۱۹)

اگرمالی وسائل کے بارے میں حقائق یہ ہیں تو پھر اسامہ کے خلاف ساری مہم سخن سازی نہیں تو اور کیا ہے۔ خود امریکی عدالت میں سفارت خانوں پر حملے کا جو مقدمہ چل رہا ہے اس میں اسامہ کے خلاف کوئی بات ثابت نہیں ہو سکی۔  اکانومسٹ اپنے اس مضمون میں اعتراف کرتا ہے کہ:

بہرحال سرکاری وکیل یہ ثابت نہیں کر سکے کہ مسٹر بن لادن نے حملوں کا حکم دیا۔

حملے کس نے کیے؟

اگر اسامہ بن لادن اور افغانستان کے لیے اس نوعیت کی منظم‘ ہمہ جہتی اور اعلیٰ منصوبہ بندی والی کارروائی ممکن نہیں اور نہ ہی اس کی توقع کسی اور عرب تنظیم سے کی جا سکتی ہے (اور بن لادن کے سوا کسی دوسرے گروہ کی طرف امریکی اور مغربی میڈیا اور حکومتیں کوئی اشارہ تک نہیں دے رہی ہیں) تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ہولناک کارروائی کا مرتکب کون ہو سکتاہے۔ ہم صرف تاریخی شواہد اور حالیہ قرائن کی بنیاد پرچند مفروضوں کی طرف متوجہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

پہلا امکان یہ ہے کہ یہ کارروائی کسی منظم امریکی گروہ کی طرف سے ہوئی جو معاشرہ کا باغی اور نظام حکمرانی سے برگشتہ ہو۔ حالیہ تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں سامنے آئی ہیں جو ان خدشات کو تقویت پہنچاتی ہیں۔ ملک میں جرائم کی توکبھی کمی نہیں تھی لیکن پچھلے دنوں اسکول کے بچوں کو منظم انداز میں ہلاک کرنے کے کئی واقعات رونما ہوئے جن میں کیلی فورنیا میں ایک ہی ہلّے میں اسکول کے ۱۲ طلبا کی ہلاکت کی یادیں تازہ ہیں۔ ٹموتھی میکوی نے اوکلاھاما میں ۲۶۸ افراد کو ہلاک کیا اور اس سے زیادہ کو ہلاک کرنے کی خواہش کا عدالت میں اظہار کیا۔ یہ واقعہ ٹموتھی کو پھانسی دینے کے دو ماہ کے اندر واقع ہوا ہے اور یہ دہشت گردی بھی ٹموتھی کے گروہ کا کارنامہ ہو سکتا ہے۔ ایک اور امریکی دہشت پرست گروہ صدر بش کی ریاست ٹکساس کا Jaco نامی منظم گروہ ہے جس نے ایک پورے قصبے کو آگ لگا کر تباہ کیا۔ڈیوڈ کوریش اور اس کے پیروکار بھی ایک باغی گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی طرف سے تخریب کاری کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

سوچنے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس سوال پر غور کیا جائے کہ اس کارروائی کا فائدہ کس کو ہو سکتا ہے۔ خود امریکہ میں ایسے عناصر ہیں جو ریاست کے اداروں پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور جو آزادی اظہار وعمل پر مختلف قسم کی پابندیوں کے خواہاں ہیں۔ وہ ایسی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ جمہوری آزادیوں کو لگام دی جا سکے اور ان غالب اور مفاد پرست طبقات کی گرفت ملک پر مضبوط ہو سکے۔ وہ ادارے بھی ہیں جو مزید سرکاری وسائل کے طلب گار ہیں جن میں سیکورٹی ایجنسیاں بھی ہیں۔ ملک کی عسکری صنعتی لابی کا بھی ایک کردار ہو سکتا ہے۔

اس خدشے کو ان معلومات سے تقویت مل رہی ہے جو اب حادثے سے قبل اسٹاک ایکسچینج کی غیرمعمولی سرگرمی کے بارے میں چونکا دینے والے اعداد و شمار سے حاصل ہو رہی ہیں۔ لندن کے روزنامہ انڈی پنڈنٹ کا تجارتی نمایندہ راوی ہے کہ۶ ستمبر کو (واضح رہے کہ ۸ اور ۹ ستمبر کو ہفتہ اور اتوار کی چھٹی تھی) امریکہ کی ان دونوں ہوائی کمپنیوںکے حصص کی فروخت میں غیر معمولی سرگرمی نظر آئی جن کے جہاز اس حادثے میں استعمال ہوئے ہیں اور جن کے حصص کی قیمت حادثے کے بعد ایک دم گر گئی ہے۔ اس وقت تو اسے نظرانداز کردیا گیا مگر اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟ ایک دن میں یونائٹیڈ ایرلائن کے دوہزار معاہدے ہوئے جو اس کے قبل کے یومیہ کاروبار کے اوسط سے ۲۸۵ گنا زیادہ تھا۔ اس دن ایک حصہ کی قیمت ۳۰ ڈالر تھی جو حادثے کے بعد گر کر ۱۸ڈالر رہ گئی۔ امریکن ایئرلائن کے حصص کی فروخت حادثے سے قبل دو تین دن میں اوسط سے ۶۰گنا زیادہ تھی۔ اسی طرح ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں کام کرنے والی دو اہم بین الاقوامی مالیاتی کمپنیوں یعنی Morgan Stanley  اور Marsh and McLennan کے حصص ان دنوں اوسط کے مقابلے میں ۲۵گنا اور ۱۰۰ گنا زیادہ فروخت ہوئے۔ سرمایہ کاری کے رجحانات کا ایک ماہر جون ناجارین (Jon Nagarian) ان غیر معمولی سودوں پر اپنے استعجاب کا اظہار یوں کرتا ہے:

جب ہم اتنے غیر معمولی سودے دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ (انڈی پنڈنٹ‘  ۲۰ ستمبر ۲۰۰۱ء)

صاف معلوم ہوتا ہے کہ کچھ عناصرکو علم تھا کہ کچھ ہونے والا ہے اور انھوں نے اس سے کروڑوں ڈالر کمائے۔

لیکن اس ہولناک واقعے سے سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہوا جس نے اسے فلسطینیوں کو امریکہ کے غم و غصے کا نشانہ بنانے‘ اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے اور نام نہاد امن کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے استعمال کیا۔ حادثے کے آدھے گھنٹے کے اندر ہنری کسنجر نے اسامہ بن لادن کا نام لیا اور پورے نیٹ ورک کو ختم کرنے کی بات کی۔ اسرائیل کے وزیراعظم شیرون نے حادثے کے فوراً بعد کہا کہ ’’عرفات ہمارا بھی لادن ہے‘‘ اور عرفات سے اپنی طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی۔ انڈی پنڈنٹ کا نمایندہ یروشلم سے لکھتا  ہے:

اسرائیل‘ امریکہ کے اس المیے کو فلسطینیوں سے اپنے تنازعے میں سیاسی فائدے حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ شیرون اور ان کے ساتھی عرفات کا اسامہ بن لادن سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ امریکی حملوں نے فلسطینیوں کو تنہا کر دیا ہے اور مغرب میں ان کے لیے جو بچی کھچی ہمدردی تھی‘ اسے بہا لے گئے ہیں۔ (۱۶ ستمبر‘ ۲۰۰۱ء)

یہ بھی ایک عجوبہ ہے کہ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں جن ۴۶ ممالک کے لوگوں کی ہلاکت کی خبر دی ہے ان میں اسرائیل کا کوئی ایک بھی شہری شامل نہیں ہے۔ نیویارک میں بہت زیادہ یہودیوں  کی رہایش ہے اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں ۴ ہزار سے زیادہ یہودی کام کرتے تھے مگر مرنے والوں کے بارے میں جو معلومات اب تک شائع ہوئی ہیں ان میں یہودیوں کا کوئی ذکر نہیں۔ ایک اطلاع ۵ ‘۶ اسرائیلیوں کی گرفتاری اور تفتیش کی شائع ہوئی تھی مگر اسے فوراً دبا دیا گیا۔ کینیڈا سے Stern Intel کی خبر ہے کہ امریکہ کے فوجی جاسوسی ذرائع کے مطابق اس میں اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کا ہاتھ ہے۔ ایران کے رہبر خامنائی نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ:

اس کا ثبوت موجود ہے کہ امریکہ کے بڑے شہروں میں حالیہ حملوں میں صیہونی ملوث تھے (تہران ٹائمز‘ ۱۹ ستمبر ۲۰۰۱ء)

اگر اسرائیل اور صیہونی تحریک کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو موساد کے کردارکے خدشے کو تقویت ملتی ہے۔دوسری عالمی جنگ کے دوران صیہونی دہشت گردوں نے خود یہودی تارکان وطن سے بھرے ہوئے ایک جہاز کو اس لیے ڈبو دیا تھا کہ برطانوی حکومت نے ان غیر قانونی یہودیوں کو فلسطین میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی تھی ۔ اس طرح انھوں نے عالمی رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لیے خونی ڈراما رچایا۔ بیت المقدس میں پرنس ایڈورڈ ہوٹل کی تباہی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ۱۹۶۷ء کی جنگ سے قبل خود امریکہ کی نیوی کے ایک جہاز USS Liberty کو اسرائیل نے میزائل مار کر ڈبو دیا تھا اس لیے کہ اس نے اسرائیل کے مصر پر اچانک حملے کی تیاریوں کو مانٹیر کر لیا تھا۔ اس پس منظر میں اور ان سیاسی فوائد کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے جو اسرائیل حاصل کر رہا ہے اور عربوں کو پوری مغربی دنیا میں نفرت اور انتقام کا نشانہ بنوا رہا ہے یہ شبہ کافی تقویت حاصل کرلیتا ہے کہ اس حادثے کے پیچھے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ ہے جو اس نوعیت کے آپریشن کی صلاحیت اور مہارت رکھتی ہے۔ ایسا ہی ڈراما روس میں شیشان کے خلاف حالیہ کارروائی سے پہلے ماسکو اور  ولگاڈونسک میں (۱۳ ستمبر ۱۹۹۹ء) میں دو آٹھ منزلہ عمارتوں میں بم کے دھماکوں کی شکل میں کیا گیا تھا جن میں ۳۰۰ افراد کی ہلاکت واقع ہوئی اور جسے بنیاد بنا کر شیشان پر نئی فوج کشی ہوئی تھی۔

انڈی پنڈنٹ کا مضمون نگار پیٹرک کوک برن نیویارک اور واشنگٹن کی حالیہ دہشت گردی کے پس منظر میں ماسکو سے اس واقعے کے بارے میں وہاں کی رائے عامہ کے حالیہ احساس کو یوں بیان کرتا ہے:

۱۰ میں سے صرف ایک کو یقین تھا کہ یہ چیچن کا کام ہے۔ صرف آغاز میں ہمارا یہ خیال رہا کہ یہ چیچن نے کیا ہے۔ اب ہم سمجھتے ہیں کہ کریملن کے لوگوں نے اقتدار میں رہنے کے لیے یہ کیا۔

یہ ہیں میکاولی سیاست کے طریق واردات۔ نیویارک اور واشنگٹن میں جو کچھ ہوا اس راز کا پردہ بھی ایک دن ضرور کھلے گا لیکن آثار تو اب بھی نظر آ رہے ہیں کہ ’’کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں!‘‘

جن افراد پر ہوائی جہازوں کو اغوا کرنے کا الزام ہے ان کے بارے میں جو متضاد باتیں سامنے آ رہی ہیں وہ سارے معاملے کو مخدوش بنا دیتی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ القاعدہ کے مجاہد تھے اور ساتھ ہی ان کی شراب نوشی‘ رقص و سرود اور گرل فرینڈز کے ساتھ رنگ رلیوں کی داستانیں بیان کی جاتی ہیں--- ایک طرف جہاد اور حوروں کی باتیں ہیں اور دوسری طرف یہ طرز زندگی‘ ان میں کیا مطابقت ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ اس سخن سازی کے ذمہ داروں کو اسلامی آداب جہاد اور شہادت کی الف بے سے بھی واقفیت نہیں۔ جن ۱۹ افراد کے نام آئے ہیں ان میں کم از کم ایک عیسائی ہے‘ کیا عیسائی بھی جہاد اور شہادت کا طلب گار تھا۔ ان میں سے کم از کم پانچ افراد کے بارے میں تو یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ وہ زندہ ہیں‘ سعودی عرب اور مراکش میں موجود ہیں اور ان کا کوئی تعلق ہوائی جہازوں کے اغوا سے نہیں۔ بلکہ ان میں سے تین نے تو کہا ہے کہ وہ امریکہ کے ابلاغ عامہ کے اداروںکے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ کریں گے۔ صاف ظاہر ہے کہ جو نام دیے جا رہے ہیں وہ  جھوٹے ہیں اور اصل مجرموں کا کسی کو پتا نہیں۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اوکلاہاما کے حادثے کے موقع پر بھی عربوں کومتہم کیا گیا تھا اور ان کے خلاف ملک گیر مہم شروع ہو گئی تھی۔ وہ تو اتفاقاً ٹموتھی میکوی گرفت میں آگیا اور معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ ایک امریکی دہشت گرد کا کیا دھرا تھا۔ مقدمے کے دوران یہ حقائق بھی سامنے آئے کہ اس کے گروہ میں ۵۰۰ تک افراد ہو سکتے ہیں لیکن گروہ اتنا منظم ہے کہ ٹموتھی کے ساتھ جو دو افراد گرفتار ہوئے تھے ان پر بھی ٹموتھی نے کوئی حرف نہ آنے دیا اور تمام قرائن (circumstantial evidence)کے باوجود ان کو بری کر دیا گیا۔ عدالت کے سامنے ٹموتھی کے بیانات بڑے اہم ہیں۔ اس نے اس دہشت گردی کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اسے حق بجانب قرار دیا اور صاف الفاظ میں کہا کہ میں امریکہ کو متنبہ کرنا چاہتا تھا اور زیادہ سے زیادہ افراد کو ہلاک کرنا میرا مقصد تھا۔ اس نے آخری وقت تک معافی نہیں مانگی بلکہ اپنی موت کے وقت جو نظم پڑھی اس میں اپنے کارنامے پر فخر کا اظہار کیا گیا ہے۔ ٹموتھی تنہا نہیں‘ اس کے اپنے گروہ میں سیکڑوں افراد ہیں اور اس جیسے دسیوں دہشت پرست گروپ امریکہ میں سرگرم عمل ہیں۔

۱۱ ستمبر کی تباہی جس منظم انداز میں‘ جس اعلیٰ صلاحیت کے ساتھ‘ اور جتنے باہمی ارتباط (coordination) کے ساتھ کی گئی وہ کسی بیرونی گروہ کا کام ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ تو اسی وقت ممکن ہے کہ جب اس میں امریکہ کے بہت ہی تربیت یافتہ‘ باصلاحیت‘ well-connected اور پورے نظام کے راز آشنا شریک ہوں۔ انھوں نے عربوں کے ناموں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا ہے اور حکومت اور میڈیا‘ اسامہ اور افغانستان کو قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کر کے اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے اور اصل مجرموں تک رسائی سے آنکھیں بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔یہ ایک مجرمانہ فعل اور عالم اسلام کے خلاف کھلی جارحیت کے مترادف ہے۔

ایک اصولی مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی ملزم پر جرم ثابت ہونے سے پہلے محض شبہہ کی بنیاد پر کوئی کارروائی صریح ظلم اور فتنہ و فساد کی جڑ ہے۔ آج امریکہ طاقت کے نشے میں مست ہو کر محض شبہہ کی بنیاد پر افراد ہی نہیں اقوام اور ملک کو تباہ کرنے‘ انھیں پتھر کے دور کی طرف لوٹانے‘ اور نیست و نابود کرنے کی بات کر رہا ہے اور قانون کی حکمرانی ‘ عالمی انصاف اور ہوش و خرد کی بات کرنے والوں کو سّب و شتم کا نشانہ بنا رہا ہے۔ یہ فطرت کے خلاف اور انسانیت کے لیے قطعاً ناقابل قبول ہے    ؎

وہی قاتل‘ وہی شاہد‘ وہی منصف ٹھہرا

اقربا میرے کریں خون کا دعویٰ کس پر

دہشت گردی کے اسباب

امریکہ اور مغربی ممالک کی قیادت کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جسے وہ دہشت گردی کہہ رہے ہیں اور اس کا قلع قمع کرنے کے لیے اکیسویں صدی کی سب سے لمبی اور ہمہ گیر جنگ کے لیے لنگرلنگوٹ کس رہے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے اور اس نوعیت کے مسائل و معاملات سے کس طرح نمٹا جا سکتا ہے۔

دہشت گردی کا جو پہلو ناقابل دفاع اور لائق مذمت و مزاحمت ہے وہ سیاسی اور مبنی برحق مقاصد کے حصول کے لیے ایسے طریقے اور راستے اختیار کرنا ہے جس کے نتیجے میں معصوم انسانوں کی جانیں ضائع ہوں۔ یہ ناقابل معافی جرم ہے اور اس سے لوگوں کو باز رکھنا انسانیت کی خدمت اور خود ان نادان انسانوں سے خیرخواہی ہے جو جان بوجھ کر یا محض حالات کی رَو میں ایسے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ لیکن جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ اگر معاملات کی اصلاح کے جائز اور معقول راستے بند کر دیے جائیں گے ‘ اگر محض قوت اور ہٹ دھرمی‘ مفاد پرستی ‘ تعصب ‘ غرور ‘ مادی اور عسکری برتری اور علاقائی یا عالمی بالادستی کے مذموم مقاصد کے لیے دوسرے انسانوں کو ان کے حق سے محروم رکھا جائے گا اور اصلاح احوال کے امکانات کو معدوم کر دیا جائے گا تو اس کا فطری ردعمل رونما ہوتا ہے اور وہ صحیح کے ساتھ غلط راستے بھی اختیار کر لیتا ہے۔ اس لیے تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ظلم اور ناانصافی کی موجودگی میں اور ان کی سرپرستی کے ساتھ اور ان اسباب سے صرف نظر کر کے جو افراد‘ گروہوں اور اقوام کو تشدد پر مبنی جدوجہد کی راہ پر ڈالتے ہیں‘ اس سے حالات کی اصلاح ممکن نہیں۔ امریکہ اور عالمی سرمایہ داری کے خلاف جو نفرت اور بے زاری ہے وہ عالمی حقائق ہیں اور محض عسکری اقدامات سے دہشت گردی کا خاتمہ ناممکن ہے۔ برطانوی ممبر پارلیمنٹ جارج گیلرے نے پارلیمنٹ میں اپنے خطاب میں صحیح کہا ہے کہ اگر آپ ایک بن لادن کو ماردیں گے تو ایک ہزار بن لادن پیدا ہو جائیں گے۔

اصل مسئلہ ان اسباب کی کھوج اور ان کی اصلاح ہے جن کے نتیجے میں دنیا کے بیشتر علاقوں میں بشمول امریکہ اور یورپ بغاوت اور بے چینی کی لہریں اٹھ رہی ہیں اور مظلوم انسان اپنی جان پر کھیل جانے کے لیے مجبور ہو رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ بموں‘ میزائلوں اور انسانی بستیوں پر آگ برسانے سے نہیں لڑی جا سکتی۔ یہ جنگ تو اسی نوعیت کی جنگ ہے جو غربت‘ افلاس‘ بیماری اور جہالت جیسے فتنوں کے خلاف لڑی جاتی ہے۔ یہ غصہ اور طاقت سے نہیں‘ حکمت اور تدبیر سے لڑی جا سکتی ہے۔ انسانی مسائل کی گرہ کشائی کا راستہ ترک کر کے محض عسکری قوت سے جب بھی انسانوں کو دبانے کی کوشش ہوئی ہے وہ ناکام رہی ہے۔ تشدد کو بڑھانے اور ظلم میں اضافہ کرنے کا اس سے زیادہ موثر کوئی اور طریقہ نہیں کہ انتقام کی آگ میں جل کر عوامی تحریکوں کو قوت سے کچلنے کی کوشش کی جائے۔

عالمی استعمار نے ۲۰۰ سال یہ جنگ لڑی اور بالآخر آزادی کی تحریکات سے معاملہ کرنا پڑا اور کل کے دہشت گرد آج کے سیاسی قائد اور حکمران بن گئے۔ امریکہ اس کا تجربہ ویت نام‘ چلی اور کمبوڈیا میں کر چکا ہے۔ روس نے افغانستان میں یہی کھیل کھیلا اور پھر بھی سبق نہ سیکھا اور آج شیشان میں پھر اسی حماقت اور ظلم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ برطانیہ نے ساری دنیا میں شکست کھانے کے بعد بالآخر شمالی آئرلینڈ میں ۲۰ سال کی عسکری جنگ کے بعد اسی شین فین سے معاملات طے کیے جس کا نام لینا اور جس کی قیادت کی آواز اور تصویر بھی ریڈیو اور ٹی وی پر ممنوع تھی۔ اسرائیل فلسطین میں یہی کھیل کھیل رہا ہے اور بھارت جموں و کشمیر اور ۱۶دوسرے علاقوں میں سیاسی مسائل کے عسکری حل کی ناکام کوشش میں گرفتار ہے۔ مسئلے کے حل کا کوئی راستہ اس کے سوا نہیں کہ ٹھنڈے دل سے امن و آشتی کو تہ و بالا کرنے والے عناصر اور اسباب پر غور ہو اور دہشت گردی کی طرف لے جانے والے عوامل سے نجات پائی جائے۔

خود احتسابی کی ضرورت

مغرب میں بھی جن کی نگاہ زندگی کے حقائق اور تاریخ کے پیغام پر ہے وہ یہی بات کہہ رہے ہیں۔ روزنامہ انڈی پنڈنٹ کا مشہور سیاسی تبصرہ نگار روبرٹ فسک (Robert Fisk)حالیہ سانحے پر مشرق وسطیٰ کے المیے کے تناظر میں جن خیالات کا اظہار کرتا ہے وہ امریکی قیادت ہی نہیں‘ دنیا کے سب حکمرانوں کے لیے بڑا چشم کشا ہے:

اب بات یہاں تک آگئی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی مکمل جدید تاریخ‘ سلطنت عثمانیہ کا زوال‘ اعلان بالفور‘ لارنس آف عریبیہ کی کذب بیانیاں‘ عرب بغاوت‘ ریاست اسرائیل کا قیام‘ عربوں اور اسرائیل کے درمیان چار جنگیں اور عربوں کی سرزمین پر اسرائیل کے وحشیانہ قبضے کے ۳۴ سال… سب کچھ چند گھنٹوں میں مٹ گیا جب پسے ہوئے اور ذلیل کیے گئے لوگوں کی نمایندگی کا دعویٰ کرنے والوں نے ایسی مرعوب کن بے رحمی اور چالاکی سے پلٹ کر حملہ کیا جو وہی لوگ کرتے ہیں جو یقینی تباہی سے دوچار ہوں۔ کیا یہ مناسب اور اخلاقی رویہ ہوگاکہ اس کے بارے میں اس قدر جلدی لکھ دیا جائے جب کہ کوئی ثبوت نہیں‘ گواہی میں معمولی سی بات موجود نہیں‘ اور بربریت کا آخری واقعہ جو اوکلاہاما میں ہوا تھا وہ اپنے ہی گھر کے پروردہ امریکیوں کا کیا دھرا تھا؟ میرا خدشہ ہے کہ ایسا (اب بھی) ہے۔ امریکہ حالت جنگ میں ہے اور اگر میں فاش غلطی نہیں کر رہا تو مشرق وسطیٰ میں کئی ہزار لوگ مزید مارے جائیں گے اور شاید امریکہ میں بھی۔ ہم میں سے کچھ لوگ ’’آنے والی تباہ کاری‘‘ سے خبردار کرتے رہے لیکن ہم نے اس ڈرائونے خواب کا سوچا بھی نہ تھا۔

مگر یہ جمہوریت اور دہشت گردی کی جنگ نہیں ہے جس کا یقین آیندہ گھنٹوں اور دنوں میں دنیا کو دلایاجائے گا۔ یہ ان امریکی میزائلوں کے بارے میں بھی ہے‘ جو فلسطینیوں کے گھروں پر گرتے ہیں۔ ان واقعات کے بارے میں بھی ہے جب امریکی ہیلی کاپٹروں نے ۱۹۹۶ء میں لبنانی ایمبولینس پر میزائلوں سے حملہ کیا تھا اور اس کے چند دن بعد ’قانا‘ نامی گائوں میں امریکہ نے گولے داغے تھے‘ امریکہ کے اتحادی‘ اسرائیل کی پروردہ لبنانی ملیشیا نے مہاجر بستیوں میں قتل و غارت‘ لوٹ مار اور عصمت دری کا بازار گرم کیا تھا۔ نہیں‘ کوئی شبہ نہیں کہ امریکہ میں جو کچھ ہوا ہے وہ ناقابل بیان شر ہے۔ ۲۰ ہزار یا ۳۵ ہزار معصوم لوگوں کی ہلاکت کے سانحے پر فلسطینیوں کا جشن منانا صرف اُن کی مایوسی کا مظہر نہیں ہے بلکہ سیاسی عدم بلوغ کا بھی ہے اس لیے کہ وہ اپنے دشمن اسرائیل پر اسی قسم کے الزامات عائد کرتے رہتے ہیں یعنی غیرمتناسب کارروائی۔

مگر ہمیں متنبہ کر دیا گیا تھا: زوردار تقریروں کے کئی سال‘ امریکہ کے قلب پر حملے کرنے کے عہد‘ ’’امریکی سانپ‘‘ کا سر کچلنے کے اعلان۔ ہم انھیں خالی خولی دھمکیاں سمجھتے رہے۔ قدامت پسند‘ غیر ترقی یافتہ‘ غیر جمہوری اور بدعنوان حکمرانوں کے گروہ اور چھوٹی سی اشتعال انگیز تنظیمیں اسی طرح کے بے بنیاد دعوے کس طرح پورے کر سکتے ہیں! اب ہم جان چکے ہیں۔ گذشتہ روز کی تباہی و بربادی کے چند گھنٹوں کے بعد‘ میں امریکہ اور اُس کے اتحادیوں پر ہونے والے اُن بڑے اور غیرمعمولی حملوں کا سوچنے لگا‘ جو گذشتہ روز کے واقعے کے بعد بہت ہی ہیچ اور معمولی محسوس ہونے لگے ہیں۔ ۲۳ اکتوبر ۱۹۸۳ء کو خودکش بم بازوں نے ۲۴۱ امریکی ملازمین اور ۱۰۰ فرانسیسی چھاتہ برداروں کو ہلاک کر دیا تھا‘ اُس وقت تک ایسے حملوں کی کوئی نظیر موجود نہ تھی۔ بحریہ پر حملے اور فرانسیسیوں کی تباہی کے درمیان سات سیکنڈ کا وقفہ ہوا تھا۔ اس کے بعد سعودی عرب میں قائم امریکی اڈوں پر حملے ہوئے تھے اور پچھلے برس عدن میں امریکی بحری جہاز کو ڈبونے کی کوشش تقریباً کامیاب ہو گئی تھی۔ ہم مشرق وسطیٰ کے نئے ہتھیار: مایوس لیکن جان پر کھیل جانے والے خودکش بم باز کو پہچاننے میں بالکل ناکام رہے جس کی برابری امریکی یا دوسرے یورپی نہیں کرسکتے۔ عرب کہیں گے کہ امریکہ کی ساری طاقت‘ دولت اور گھمنڈ بھی آج تک کی دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا اس تباہی سے دفاع نہ کر سکے۔

اب لازمی اور فطری طور پر‘ بالکل غیر اخلاقی طرز اختیار کرتے ہوئے گذشتہ ایام کی تاریخی غلطیوں‘ ناانصافیوں اور خون ریزیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی جو کل کے اس المیے کی پشت پر ہیں۔ ہمیں بتایا جائے گا کہ یہ بے مغز (mindless) ’’دہشت گردی‘‘ ہے۔ ’’بے مغز‘‘ قرار دینا بہت ضروری ہے۔ اگر ہم اس حقیقت کو سمجھنے کے قابل نہیں ہیں کہ تین عظیم مذاہب کی سرزمین میں امریکہ سے کس قدر نفرت کی جاتی ہے تو بے مغز کہنا ضروری ہے۔ ایک عرب سے معلوم کریں کہ وہ ۲۰‘ ۳۰ ہزار معصوم افراد کی موت کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وہ عرب مرد یا عورت‘ مہذب اور باشعور شہریوں کی طرح اسے ایک ناقابل برداشت جرم قرار دے گا لیکن وہ یہ ضرور جاننا چاہیں گے کہ آخر ہم نے یہ الفاظ اُس وقت کیوں استعمال نہیں کیے جب پابندیوں کے باعث عراق میں ۵ لاکھ بچے ہلاک ہو گئے۔ جب لبنان میں‘ ۱۹۸۲ء میں اسرائیل نے ۱۷ ہزار ۵ سو شہری حملہ کر کے ہلاک کر دیے۔ ہم نے مشرق وسطیٰ میں ایک قوم کو یہ حق کیوں دیا کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو نظرانداز کر دے اور اُن تمام ممالک پر پابندیاں عائد کر دیں جنھوں نے انھیں نظرانداز کیا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ گذشتہ ستمبر میں مشرق وسطیٰ میں جو شعلے بھڑک اُٹھے اُس کی کیا وجوہات تھیں۔ عرب علاقوں پر اسرائیل کا تسلط ‘ فلسطینیوں کی علاقہ بدری‘ اسرائیل کے ٹارچر‘ ریاست کے کرائے گئے قتل‘ ان سب معاملات کو چھپانا چاہیے کہ کوئی واقعہ بھی گذشتہ دن کی اجتماعی تباہ کاری کے لیے وجہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اسرائیل پر کوئی الزام عائد نہیں کیا جا سکتا--- ہم یقین کر سکتے ہیں کہ صدام حسین جیسے احمق آمر اس کا دعویٰ کریں گے لیکن تاریخ کے برے اثرات اور اس میں ہمارا کردار‘ کٹہرے میں خودکش بم بازوں کے شانہ بشانہ کھڑا کیا جائے۔ ہمارے اپنے وعدوں سے انحراف‘ یہاں تک کہ سلطنت عثمانیہ کی تباہی‘ اس المیے پر منتج ہوئی۔ اسرائیل کے جنگی اخراجات اتنے طویل عرصے سے امریکہ کی جانب سے ادا ہو رہے ہیں کہ وہ اسے مفت ہی سمجھتا ہے۔آیندہ یہ سلسلہ نہیں چلے گا۔ یہ اقدام غیر معمولی حوصلہ مندی اور دانش کا مظہر ہوگا اگر امریکہ ایک لمحے کے لیے ٹھہر کر دنیا میں اپنے کردار پر‘ عربوں کی تکالیف پر امریکی حکومت کی بے حسی‘ اور اپنے موجودہ صدر کی بے عملی پر غور کرے۔

بے شک امریکہ یہ چاہتا ہے کہ وہ ’’عالمی دہشت گردی‘‘ کے خلاف جوابی کارروائی کرے‘ اُنھیں کون الزام دے سکتا ہے؟ ’’دہشت گردی‘‘ کے اشتعال انگیز اور کبھی کبھار نسل پرستی والے لفظ کے استعمال پر کون ہے جو امریکہ پر انگلی اٹھا سکتا ہے۔ لوگ مل جائیں گے جو ہر اُس تجویز کو فوراً ردّ کر دیں گے جس میں عالم گیر پیمانے پر ہونے والی اس دہشت گردی کے عمل کی حقیقی تاریخی وجوہات تلاش کرنے پر زور دیا گیا ہو۔ لیکن اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہم ایسے زبردست بحران کا شکار ہو جائیں گے جو ہم نے ہٹلر کی موت اور جاپان کی شکست کے بعد نہیں دیکھا ہے۔ کوریا اور ویت نام کی اہمیت تو اب مقابلتاً کچھ بھی نہیں رہی ہے۔

آٹھ سال قبل‘ میں نے ٹیلی وژن پر ایک سلسلہ وار پروگرام کیا تھا اور یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد مغرب سے نفرت کیوں کرتی ہے۔ گذشتہ رات‘ مجھے وہ مسلمان یاد آئے جن کے حالات ریکارڈ کیے گئے تھے۔ جن کے گھر امریکہ کے بنائے ہوئے بموں اور ہتھیاروں سے تباہ ہو گئے تھے‘ وہ کہہ رہے تھے کہ خدا کے سوا کوئی ہماری مدد کو نہ آئے گا۔ مذہب‘ ٹکنالوجی کے مدمقابل ہے۔ خودکش بم باز‘ جوہری طاقت سے نبرد آزما ہے۔

واشنگٹن پوسٹ میں ایک امریکی پروفیسر رابرٹ جی کیویان (Robert G. Kavian) نے بھی بڑے واشگاف انداز میں خود احتسابی کی دعوت دی ہے۔ یہ تبصرہ جسے ہفت روزہ   گارجین (۲۰-۲۶ستمبر ۲۰۰۱ء ‘ ص ۳۰)نے اپنی تازہ ترین اشاعت میں شائع کیا ہے ‘ سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے:

ہمارے سیاسی رہنمائوں میں سے کسی نے بھی ان اہم سوالات سے بحث نہیں کی ہے جو ہماری نئی حیثیت سے اٹھے ہیں۔ ملک اپنی خوش حالی میں مگن اور مطمئن ہے۔ باہر کی دنیا سے یا کہیں اور سے ناخوش گوار خبروں کو ہم نظرانداز کرتے رہے۔ مگر ہماری طاقت کی حد اور حیثیت کیا ہے؟ اس کا ادراک ہمیں گذشتہ ہفتے ہوا‘ اگرچہ خاصی تکلیف اٹھا کر--- ہم دنیا کی رہنما عالمی طاقت ہیں لیکن ہم بہت کم دنیا کی رہنمائی کرتے ہیں۔ جب ہم کرتے ہیں تو یہ عسکری صورت حال میں ہوتا ہے‘ جیسے خلیج کی جنگ یا کوسووا۔ حالیہ تاریخ میں کون سا سنگین مسئلہ ہے جو امریکہ کی پہل کاری کی وجہ سے حل ہوا ہو۔ دنیا کے مفلس ترین لوگوں کی مدد کے لیے ہم دوسرے صنعتی ملکوں کے مقابلے میں فی کس بہت کم دیتے ہیں۔ بہت سے ایسے مسائل پر جس پر دوسرے سمجھتے ہیں کہ اجتماعی اقدام ضروری ہے‘ ہم الگ کھڑے ہوتے ہیں‘ مثلاً بارودی سرنگوں پر پابندی اور جوہری تجربات کی آزمایش سے لے کر ماحول میں گرین ہائوس گیسوں کے اخراج تک۔

--- بڑی طاقتوں کو جس معاشرتی ماحول میں وہ کام کرتی ہیں اس کی بھی فکر کرنا چاہیے۔ ایک دشمن معاشرتی ماحول ایک باوسائل دشمن کی طرح کسی بڑی طاقت کے نیچے سے موثرانداز سے زمین سرکا سکتا ہے۔ امریکیوں کونوٹس لینا چاہیے کہ ان کے لیے ماحول بگڑ رہا ہے۔ مثال کے طور پر  ہمیں احساس ہے کہ غربت سے پیدا ہونے والی بیماریاں جو تقریباً ختم ہو گئی تھیں‘ مثلاً تپ دق خود ہمارے اپنے ملک میں انتقامی انداز میں پھر حملہ آور ہو رہی ہیں۔ ایڈز کی وبا بھی ایک مصیبت کی علامت ہے۔ ہم اس سے بھی واقف ہیں کہ دنیا کے محروم لوگ مال دار ممالک میں دولت کمانے کے لیے غیر قانونی داخلے کے لیے کیا کچھ خطرات مول لیتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ منشیات کی تجارت کو روکنے کے لیے ہم نے جو بھی رکاوٹیں عائد کیں‘ انھیں عبور کر لیا گیا۔

نئے عالمی نظام کا ایک پہلو فاصلے کا ختم ہونا ہے۔ اب زمین پر کوئی بھی جگہ دُور نہیں رہ گئی ہے۔ عالمی گائوں میں غریب جانتے ہیں کہ وہ کتنے غریب ہیں‘ اور امیر کتنے بہتر حال میں ہیں۔ وسائل رکھنے والے غریب اپنی حیثیت کو خاموشی سے قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ اسے تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں سے لاکھوں ان مقاصد کے حصول کے لیے امریکہ میں گھس آئے ہیں‘ جیسا کہ گذشتہ ہفتے کے حملہ آور۔ یقینا یہ ایک مختلف زمرے سے تعلق رکھتے ہیں: ایسے مظلوم جو اپنے پر ظلم کو ہضم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ ( ہفت روزہ گارجین‘ ۲۰-۲۶ ستمبر ۲۰۰۱ء)

یہ دو طویل اقتباس خود مغربی دنیا کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کی فکرکی عکاسی کرتے ہیں۔

حقائق تسلیم کرنے کی ضرورت

امریکی اور یورپی قیادت جب تک مندرجہ ذیل حقائق کو تسلیم نہیں کرتی‘ فساد اور تباہی سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں۔

(الف) دہشت گردی صرف ایک علامت اور مظہر ہے‘ جب تک اس کے اسباب تک رسائی نہ حاصل کی جائے اور ان عوامل کا سدباب نہ کیا جائے جو اس کی طرف لے جانے والے ہیں‘ حالات درست نہیں ہو سکتے۔

(ب) دہشت گردی محض ایک جگہ اور ایک واقعے سے عبارت نہیں۔ ظلم جہاں بھی ہو‘ انسانیت کے لیے ایک خطرہ ہے۔ محض نیویارک اور واشنگٹن ہی میں مظلوموں کا خون نہیں بہا‘ یہ خون ساری دنیا میں بہہ رہا ہے‘ اور اس باب میں انسانوں کے درمیان تمیز و تفریق (discrimination) خود دہشت گردی کے فروغ کا ایک سبب ہے۔

(ج) دہشت گردی اپنی ہر شکل میں قابل مذمت ہے۔ خواہ اس کے مرتکب افراد ہوں‘ یا گروہ یا حکومتیں۔

(د) بڑی طاقتوں اور حکمرانوں کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔ وہ دہشت گردی کا شکار نہیں‘  اس کے اصل مرتکب ہیں۔جب تک وہ اپنا رویہ اور پالیسی تبدیل نہیں کرتے حالات کی اصلاح ممکن نہیں۔

(ھ) تشدد کا جواب تشدد نہیں اور نہ دلیل کی جگہ لفاظی (rhetoric)  لے سکتی ہے۔ اصلاح کا راستہ مشکل بھی ہے اور جاں گسل بھی۔ مگر اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔

(و)  حالات کی اصلاح کے لیے سب کو تیار ہونا چاہیے‘ وہ بھی جو اصحاب اقتدار ہیں اور قوت و سطوت کے مالک ہیں اور وہ بھی جو مظلوم ‘ مجبور اور محکوم ہیں مگر اپنے حق کے حاصل کرنے کے لیے سینہ سپر ہیں۔ لیکن اصلاح کا دارومدار حکمران عناصر اور بڑی طاقتوں پر زیادہ ہے۔ ان کو سمجھنا چاہیے کہ:

جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوامشکل ہے

 

سورہ کہف کا گہرا تعلق فتنہ دجال سے ہے۔ مستند احادیث سے ثابت ہے کہ جو شخص جمعہ کے روز  سورہ کہف پڑھے گا وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔ بعض میں شروع کی ۱۰ آیات کی تلاوت اور بعض میں آخری ۱۰ آیات کی تلاوت کا ذکر ہے۔

دجال کے موضوع پر بہت سی مستند احادیث ہیں۔ ان احادیث سے جو باتیں نمایاں ہو کر سامنے آتی ہیں‘ ان میں تین باتیں اہم ہیں۔ پہلی یہ ہے کہ وہ کفر اور خدا سے انکار کا علانیہ علم بردار ہوگا‘ اُسی کی طرف دعوت دے گا ‘ اور خدائی کا دعویٰ بھی کرے گا۔ دوسری بات جو ان احادیث سے ثابت ہوتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ اُس کو فطرت اور قدرت کی طاقتوں پربے پناہ قابو حاصل ہوگا۔ پہلی بات احادیث میں اس طرح بیان ہوئی ہے کہ اُس کی پیشانی پر ک‘ ف‘ ر  ’’کفر‘‘ صاف صاف لکھا ہوگا۔ دوسری بات احادیث میں مختلف انداز میں  اس طرح بیان ہوئی ہے کہ اُس کی آواز مشرق اور مغرب میں سنائی دے گی‘ وہ برسوں کی مسافت اور فاصلہ گھنٹوں اور منٹوں میں طے کرے گا‘ بارش بھی برسائے گا اور کھیتی بھی اُگائے گا‘ اور کھیتی اور زراعت کی مقدار بھی بے حد بڑھا دے گا۔ تیسری بات جو مختلف انداز میں بیان ہوئی ہے‘ وہ یہ ہے کہ اُس کا اثر بہت حیرت انگیز طور پر نفوذ کرے گا۔ اس کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ آدمی صبح مومن ہوگا تو شام کو کافر ہو جائے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اُس وقت ایمان کی راہ پر چلنا بڑا دشوار اور کفر کی راہ پر چلنا بڑا آسان ہوگا۔ اس کے ساتھ ایک جنت ہوگی‘ جس نے اُس کا ساتھ دیا‘ اُس کی زندگی جنت کی زندگی ہو گی‘ اور جس نے اُس کا ساتھ نہ دیا‘ اُس کی زندگی جہنم کی زندگی ہو گی۔

یہ ان خصوصیات کا خلاصہ ہے۔ ان احادیث کو دیکھ کر ہمارے دور کے بعض لوگوں نے یہ کہا کہ دجال کسی شخص کا نام نہیں ہے بلکہ دراصل ایک پوری تہذیب کا نام ہے ‘ اور مغربی تہذیب اپنی خصوصیات کے لحاظ سے اُن خصوصیات کی حامل ہے جن کا ذکر ان احادیث میں کیا گیا ہے۔ میرے خیال میں یہ رائے کم فہمی پر مبنی ہے۔ احادیث میں اور صریح احادیث میں وضاحت سے ایک شخص کا ذکر موجود ہے اور اُسی کے ساتھ ان ساری چیزوں کو وابستہ کیا گیا ہے۔ انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ قرآن اور احادیث کو اس طرح معنی پہنائے کہ وہ اُس کی عقل اور علم کے اوپر پورے اتر آئیں‘ بجائے اس کے کہ وہ قرآن کو سمجھنے کے لیے اپنی عقل اور علم کو استعمال کرے۔ ہمارا ایمان اور یقین ہے کہ قرآن مجید ہر دور کے لیے ہے‘ اور نبیؐ نے جن الفاظ میں دجال کے فتنے سے آگاہ کیا‘ وہ بڑے سخت ہیں۔ آپؐ نے کہا : ہر نبیؐ نے اپنی اُمت کو ایک فتنے سے آگاہ کیا اور میں بھی کرتا ہوں۔ ایک دعا میں جو آپؐ اکثر مانگتے تھے: واعوذ بک من فتنۃ المسیح الدجال ‘کے الفاظ بھی شامل ہیں۔

اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے میں ان دونوں کے بین بین راہ نکالتا ہوں۔ وہ یہ کہ وہ احادیث جن کا تعلق سورہ کہف میں دجال کے فتنے سے قائم کیا گیا ہے ‘ وہ بھی اپنی جگہ صحیح اور برحق ہیں۔ یہ ہر زمانے کے لیے رہنما ہیں۔ صرف آج ہی کے لیے‘ یا جب سے قرآن نازل ہوا ہے‘ یا آج سے ۱۵ سو سال بعدکے لیے ہی نہیں ہیں‘ بلکہ جب تک انسانیت رہے گی قرآن کا یہ حصہ اُسی طریقے سے روشنی اور ہدایت کا سرچشمہ ہو گا جس طرح واقعی اُس زمانے میں ہوگا‘ جب کہ دجال کی شخصیت ظہور پذیر ہو جائے گی۔ اس لحاظ سے میں دو چیزوں میں فرق کرتا ہوں: ایک‘ دجال کی شخصیت ‘ اور دوسرا اُس کے فتنے کی خصوصیات۔ میرے خیال میں دجال کے فتنے کی خصوصیات ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہیں‘ اور آج ہمارے دور میں بھی‘ اگر نظر ڈالیں‘ تو وہ موجود ہیں۔ آج بھی انسان خود اپنا خدا بنا ہوا ہے۔ اُس نے اس بات کا کھل کر برملا اعلان کیا ہے‘ کہ خدا کوانسان کے معاملات میں دخل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ انسان کا اختیار‘ فطرت کی طاقتوں پر روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے اور تیزی کے ساتھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اثرونفوذ کے جو ذرائع آج پیدا ہو گئے ہیں وہ فی الواقع انسان کے ذہن اور ایمان پر بڑی گہری اور حیرت انگیز طور پر جلدی تبدیلی لاتے ہیں‘ اور یہ کیفیت نظر آتی ہے کہ آدمی آج کچھ ہوتا ہے‘ اور کل کچھ ۔

اس لحاظ سے اگر ہم سورہ کہف کا مطالعہ کریں تو شروع سے لے کر آخر تک اس کی ہر آیت ہم کو اپنے دور میں ہدایت کا ایک خاص نور برساتی ہوئی نظر آئے گی۔ میں نے اس سورہ کے درمیان سے کچھ آیات منتخب کی ہیں‘ جن میں ایک جامع نسخہ پیش کیا گیا ہے۔ اگر اس کو آدمی پکڑ لے‘ تو وہ فتنے کی ان تمام خصوصیات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتا ہے‘ جن کا ذکر صحیح اور مستند احادیث میں کیا گیا ہے۔

وَاتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ ط لاَمُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ج وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًاo  وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ وَلاَ تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْھُمْ ج تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَلاَ تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوٰئہُ وَکَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا o وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ قف فَمَنْ شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ لا (الکہف ۱۸:۲۷-۲۹)

اور تلاوت کرو اس چیز کی جو وحی کی گئی ہے تمھاری طرف تمھارے ربّ کی طرف سے۔ اس اللہ کے کلمات کو بدلنے والی کوئی چیز نہیں ہے اور تم ہرگز کوئی پناہ گاہ نہ پائو گے اس کے علاوہ ۔اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے ربّ کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اسے پکارتے ہیں‘ اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم دنیا کی زینت کو پسند کرتے ہو؟ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو‘ جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔ صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمھارے ربّ کی طرف سے‘ اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے۔

اس سارے حصے کا خلاصہ اگر میں بیان کرنا چاہوں تو وہ ہے قرآن ‘ اخوت اور دعوت۔

اس حصے کے اندر یہ تین اصول بیان ہوئے ہیں جس نے ان تینوں کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیا‘ یعنی اللہ کی کتاب‘ مومن بندوں کے ساتھ اخوت کا تعلق‘ اور حق کی دعوت کا کام--- یہ دراصل وہ نسخہ ہے جو آدمی کو ہر دور میں اُن فتنوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے جو دجال کی طرح اُس کے ایمان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔

آیئے ہم ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ دیکھیں کہ قرآن ان کے بارے کیا کہہ رہا ہے‘ اور ان میں سے ہر ایک کی ہمارے لیے کیا اہمیت ہو سکتی ہے‘ اور کس طرح ہم ان کو مضبوطی کے ساتھ تھام کر اپنی تربیت اور شخصیت کی تعمیر کر سکتے ہیں۔

۱- قرآن سے تعلق

پہلا اصول قرآن سے صحیح تعلق ہے۔ فرمایا:

اور تلاوت کرو اس چیز کی جو وحی کی گئی ہے تمھاری طرف تمھارے ربّ کی طرف سے۔ (۱۸:۲۷)

یعنی تلاوت کرو‘ اُس چیز کی‘ جس کی وحی تمھاری طرف کی گئی ہے‘ کہ جو اس کتاب میں موجود ہے‘ جو تمھارے ربّ کی طرف سے آئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد قرآن ہے جو اس وقت ہمارے ہاتھوں میں ہے‘جو ہمارے گھروں کے اندر بھی موجود ہے‘ اور جس کے بارے میں ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔

تلاوت کے معنی صرف پڑھنے کے نہیں ہیں‘ اس کے لیے عربی میں ‘ قرأت کا لفظ آیا ہے۔ تلاوت کا لفظ اپنے اندر جامعیت رکھتا ہے۔ عربی زبان میں دراصل یہ لفظ ایک چیز کے پیچھے دوسری چیز کے چلنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ چونکہ قرأت میں الفاظ ایک کے بعد دوسرا آتا ہے‘ اس لیے تلاوت کا لفظ پڑھنے کے معنوں میں بھی استعمال ہونے لگا۔ لیکن قرآن مجید میں مختلف جگہ پر تلاوت کا لفظ جس انداز میں آیا ہے‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زبان سے پڑھنا‘ اِس کو سمجھنا‘ اس کو اپنے اندر جذب کرنا‘ اس کی اشاعت کرنا‘اس کے اوپر عمل کرنا‘ یہ سارے مفہوم اس کے اندر شامل ہیں۔ گویا ہماری شخصیت‘ ہمارے ذہن ‘ ہمارے قلب‘ ہماری روح اور ہمارے عمل کا ایک مضبوط رشتہ اور تعلق‘ اس کتاب کے ساتھ ہونا چاہیے جو اللہ کی طرف سے وحی کی گئی ہے۔ یہ سب سے پہلی چیز ہے۔ اس لیے کہ تاریکی کتنی ہی گہری کیوں نہ ہو‘ روشنی کا یہ سرچشمہ ہمیشہ موجود رہے گا‘اور اسی طرح رہے گا جیسا کہ آج سے ۱۴ سو سال پہلے تھا۔

اس کتاب کے ساتھ دل و دماغ اور ذہن کا رشتہ مضبوط باندھے بغیر ہم میں سے کوئی اس کا خواب نہیں دیکھ سکتا‘ نہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنی تربیت کر سکتا ہے‘ اپنے آپ کو بہتر بنا سکتا ہے‘ یا دعوت دین کا کام کر سکتا ہے۔ کوئی کام نہیں ہو سکتا‘ جب تک اللہ کی کتاب کے ساتھ تعلق مضبوط نہ ہو۔ یہ وہ کتاب ہے جس نے اپنے سامعین کو بدلا‘ اُن کے دل و دماغ کو بدلا ‘ اُن کی زندگی کو بدلا‘ اُن کے مقاصد اور عزائم کو بدلا‘ زندگی کا دھارا پلٹ دیا اور بالآخر اُن کو دنیا میں قائد اور امام بنا دیا۔ اس کتاب نے ان کا ایمان مضبوط کیا‘ اور اسے اُن کے دل کے اندر اُتارا‘ اور اُن کے باہمی رشتوں کو مضبوط کیا۔ ان کے اندر اطاعت اور وفاداری کی صفات پیدا کیں اور اُن کو ایک مضبوط گروہ بنا کر کھڑا کر دیا۔ آج بھی اگر کوئی یہ کام کر سکتا ہے تو صرف یہی کتاب ہے۔ باہر کی دنیا خواہ کتنا ہی ہم کو گھیرے میں لیے ہوئے ہو‘ اگر اس کتاب کے ساتھ ہمارا اپنا تلاوت کا تعلق مضبوط ہو‘ تو کوئی وجہ نہیں کہ تاریکی روشنی میں بدل نہ سکے۔

قرآن مجید کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ایسی کتاب ہے جس میں کوئی ردّ و بدل نہیں کر سکتا۔ اس میں آگے اور پیچھے سے کوئی باطل داخل نہیں ہو سکتا۔ دجال تو جب آئے گا‘ سو آئے گا لیکن دجال کے پیروکار اپنی طرف سے کتنی بھی کوشش کریں کہ ایمان کے قلعے کے اندر رخنہ پیدا کر دیں‘ اگر اس کتاب کے ذریعے حصار قائم کیا گیا ہو‘ تو اس میں رخنے کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی۔ اسی لیے فرمایا گیا ہے:

وَاِنَّہٗ لَکِتٰبٌ عَزِیْزٌ o لاَّ یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ م بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَ مِنْ خَلْفِہٖ ط تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ o  (حم السجدہ ۴۱: ۴۱-۴۲) حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک زبردست کتاب ہے‘ باطل نہ سامنے سے اس پر آسکتا ہے نہ پیچھے سے ‘ یہ ایک حکیم و حمید کی نازل کردہ چیز ہے۔

یہ کتاب سارے خزانوں سے بہتر خزانہ ہے۔دنیا کے اندر آدمی جو کچھ بھی سوچے کہ میں یہ جمع کروں گااور وہ حاصل کروں گا اور جتنے بھی اس کے عزائم ہوں اور جتنی بھی چیزوں کے ساتھ وہ قیمت کو اور قدر کو وابستہ کرتا ہو کہ یہ میرے لیے قیمتی ہے‘ اُن سب سے بہتر اگر کوئی چیز ہے تو اللہ کی کتاب ہے۔  ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ o (یونس ۱۰:۵۸) ’’یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنھیں لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘۔ یہ ان  سارے امراض کا علاج ہے جو آدمی کے دل کے اندر پائے جاتے ہیں۔ یہ شفا ہے‘ نسخۂ شفا ہے‘ اور اُن ساری بیماریوں کا علاج جو ہمارے دل کے اندرہیں۔  وَشِفَآ ئٌ لِّمَا  فِی الصُّدُوْرِ لا (یونس ۱۰:۵۷) ’’یہ  وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے‘‘۔اسی کے اندر وہ نوراور روشنی ہے جو آدمی کے دل کے اندر اور اُس کے باہر کی زندگی‘ دونوں کو منور کرتی ہے۔

اس کتاب کی بہت سی خصوصیات ‘ خود اس کتاب کے اندر بیان ہوئی ہیں۔البتہ یہ بات بالکل واضح طور پر بیان ہوئی ہے کہ جب تک آدمی اپنے آپ کو اِس کے سپرد نہ کرے‘ اس کے اُوپر ایمان نہ لائے‘ اپنے آپ کو اس کے آگے نہ ڈال دے‘ اور اس کے ساتھ اپنا مضبوط تعلق قائم نہ کرے‘ اُس وقت تک یہ کتاب اس کو نفع نہیں پہنچا سکتی۔

قرآن نے اپنے اُن پہلے قارئین کی کیفیات بھی بیان کی ہیں جنھوں نے خود قرآن مجید کو نبی کریمؐ سے سنا‘ اس کو جذب کیا‘ اس پر عمل کیا ‘اور اس کے تابع ہو گئے۔ وہ کیفیات ظاہر کرتی ہیں کہ ان کی شخصیت کا کتنا گہرا تعلق قرآن کے ساتھ تھا۔ اس کا نعرہ صرف زبان پر نہیں تھا بلکہ اس کی جگہ دل کے اندر تھی‘ اور کیفیت یہ تھی کہ جب قرآن کی آیات پڑھی جاتی تھیںتو اُن کو اپنا ایمان بڑھتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ ان کا دل پگھل جاتا تھا‘ آنکھوںسے آنسو بہنے لگتے تھے‘ کھال نرم پڑ جاتی تھی اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔

یہ قرآن کا خود اپنا بیان ہے‘ کسی باہر کے مورخ کی بیان کی ہوئی کہانیاں نہیں ہیں۔ قرآن نے خود بتایا ہے کہ اس کو پڑھنے اور سننے والوں پر کیا کیفیات مرتب ہوتی تھیں۔ یہ ساری کیفیات لفظ تلاوت کے اندر شامل ہیں‘ اگر اس کا مطالعہ اُسی طرح کیا جائے‘ جس طرح کرنا چاہیے!

اس اللہ کے کلمات کو بدلنے والی کوئی چیز نہیں ہے اور تم ہرگز کوئی پناہ گاہ نہ پائو گے اس کے علاوہ۔ (۱۸:۲۷)

جب ہر طرف سے باطل کی یورش ہو‘ باطل فتنے ‘ باطل فلسفے‘ باطل نظریات اور باطل خیالات آدمی پر ہجوم کیے ہوئے ہوں‘ اور مختلف ذرائع سے آدمی کے اندر گھسنے کی کوشش کر رہے ہوں‘ ایسے میں ایک ہی آغوش پناہ ہے اور وہ ہے قرآن! جس طرح بچہ ماں کی گود میں جاکر سر ڈال دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب وہ ہر خطرے سے محفوظ ہے ‘اسی طرح اگر آدمی اپنی شخصیت ‘ اپنے دل ‘ اور اپنی روح کوقرآن کی آغوش میں لا کر ڈال دے تو پھر وہ ان سب دشمنوں سے محفوظ ہو جاتا ہے جو چاروں طرف سے اُس کے ایمان اور دل پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔

یہاں ایک اور بات خاص طور پر کہی گئی ہے:  لاَمُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ‘ ’’اس اللہ کے کلمات کو بدلنے والی کوئی چیز نہیں ہے‘‘۔ اس کی اہمیت ہر زمانے میں قرآن کے پڑھنے والوں نے محسوس کی ہوگی۔ چونکہ آج ہم بیسویں صدی میں اس قرآن کو پڑھ رہے ہیں‘ اس لیے جب ہم اپنی عقل اور علم کے مطابق اس پر غورکرتے ہیں تو ہمیں اس کے اندر بڑا حیرت انگیز نقشہ نظر آتا ہے۔ یہ مطالعہ ہم ایک ایسی دنیا میں کر رہے ہیں جس میں کسی چیز کو قرار نہیں ہے‘ نہ آدمی کے خیالات کو قرار ہے‘ نہ اُس کے نظریات اور فلسفوں کو‘ نہ طریقۂ علاج کو جو وہ اپنے امراض کے لیے ڈھونڈتا پھرتا ہے‘ یہاں تک کہ اس کے کپڑوں کے فیشن تک کو قرار نہیں ہے جو صبح و شام بدلتے رہتے ہیں۔ گویا مسلسل ایک تبدیلی کا عمل ہے جو جاری ہے۔ مغربی مفکرین بار بار اس کا اقرار کرتے ہیںکہ گذشتہ ۵۰ سال میں جتنی سرعت سے یہ حیرت انگیز تبدیلیاں انسان کے خیالات اور نظریات میں آئی ہیں‘ اس کی کوئی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ حد یہ کہ سائنس کے وہ نظریات اور حقائق جن کو صدیوں انسان سچ جان کر ان پر یقین رکھتا رہا ‘ اور جن پر وہ اپنا دین و ایمان بھی قربان کرتا رہا‘ وہ خود اپنی جگہ بدل گئے اور برابر بدلتے چلے جا رہے ہیں۔ آج جس کی نظر دنیا کے فلسفوں‘ نظریات‘ سائنس اور آج کی پوری سوسائٹی پر ہے‘و ہ جانتا ہے کہ آج کی صدی کا ایک ہی امتیازی نشان ہے‘ اور وہ ہے اس کی رفتارِ تبدیلی جو مسلسل پیش آ رہی ہے۔ اسی لیے انسان کو قرار نہیں ہے۔ وہ آج اور کل کسی چیز پر جم کر نہیں بیٹھ سکتا۔ کسی پر اپنا لنگر نہیں ڈال سکتا۔

ان حالات میں یہ فرمایا گیا کہ یہ وہ کتاب ہے‘ جس کو بدلنے والی کوئی قوت اور طاقت نہیں ہے۔ زمانے کے اثر سے یا کسی تحقیق اور انکشاف سے اس کے اندر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی۔ اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے‘ اُس کی طرف سے آیا ہے‘ اُس نے اس کو وحی کیا ہے اور اُسی کی کتاب ہے۔ اُس نے انسانی مسائل کا وہ فطری اور پایدار حل پیش کیا ہے جس پر زمانے کی گردش اثرانداز ہو کر کسی تغیر و تبدیل کا باعث نہیں بن سکتی۔ فی الحقیقت یہی وہ کتاب ہے اگر آج آدمی اس چٹان پر اپنا لنگر ڈال دے تو اس کی کشتی ہر بھنور اور ہر طوفان سے محفوظ رہ سکتی ہے۔

قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ فتنے کے زمانے میں آدمی کو مضبوطی کے ساتھ قرآن کا دامن تھامنا چاہیے‘ قرآن کی تلاوت کرنا چاہیے‘ اور قرآن کو اُس طرح پڑھنا چاہیے جس طرح پڑھنے کا حق ہے۔ اس لیے کہ یہی وہ کتاب ہے جو زمانے کے سارے تغیرات کے باوجود‘ ثبات اور استقلال کا نمونہ ہے اور جس کی آغوش میں پناہ اور سکون مل سکتا ہے۔ صرف یہی کتاب ہے جو سارے فتنوں اور مصائب سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔

یہ وہ قیمتی ہدایات ہیں جن کو ہمیں پلّے باندھ کر اپنی زندگی میں سے کچھ وقت لازماً اس کتاب سے وابستہ رکھنا چاہیے۔ اس کو دل و دماغ کے اندر اتارنا چاہیے اور اسی کو اپنا رہنما اور جاے پناہ بنانا چاہیے۔

۲- اہل اللّٰہ کی صحبت

فتنوں سے بچنے کے لیے دوسرا اصول اخوت ہے۔ اس اصول میں دو باتیں ہیں۔ ایک یہ کہ کیسے لوگوں سے تعلق رکھا جائے ‘ اور دوسرا یہ کہ کن سے تعلق نہ رکھا جائے اور لاتعلقی برتی جائے۔ سب سے پہلے اہل اللہ کی صحبت اور ان سے تعلق کے لیے ہدایت دی گئی ہے۔ فرمایا:

باندھ لو اپنے آپ کو ان کے ساتھ جو پکارتے ہیں اپنے ربّ کو صبح اور شام‘ اور جو طالب ہیں اس کے چہرے کے۔ (۱۸:۲۸)

یہاں صبر کا لفظ استعمال ہوا ہے اور صبر کے معنی عربی زبان میں بنیادی طور پر باندھنے اور تھامنے کے ہیں۔ یہاں یہ لفظ خاص معنوں میں استعمال ہوا ہے جس کا بعد میں تذکرہ آئے گا۔ فی الحال میں یہاں  واصبر کے لیے تعلق کا لفظ استعمال کر رہا ہوں کہ اپنا تعلق تلاش کر کے‘ ڈھونڈ کے‘ ان لوگوں کے ساتھ قائم کرو جو اپنے ربّ کو صبح و شام پکارتے ہیں۔ ربّ کے ساتھ تعلق کے لیے قرآن نے دو لفظ استعمال کیے ہیں‘ ایک لفظ عبادت اور بندگی کا ہے:  یعبدون‘ دوسرا لفظ پکارنے اور بلانے کا ہے: یدعون۔ اکثر جگہ ان الفاظ کو ایک دوسرے کی جگہ بدل کر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ گویا عبادت اور دعا ایک دوسرے کے ہم معنی ہیں اور ان کے درمیان ایک گہرا تعلق ہے۔

عبادت تو یہ ہے کہ آدمی اپنی پوری شخصیت کے ساتھ‘ شیفتگی اور والہانہ پن کے ساتھ‘ اُس شخصیت کی پرستش کرے جس کو اپنا ربّ مانتا ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ آدمی عبادت کے اندر مصروف ہو‘ اور اُس کے باوجود اس کا اپنے ربّ کے ساتھ دعا کا تعلق قائم نہ ہو۔ بہت سارے لوگ آپ کو کہتے نظر آئیں گے کہ ہم اللہ کی محبت میں اتنے فنا ہیں کہ ہم کو اس سے کسی چیزکے مانگنے کی ضرورت نہیں ہے‘ نہ ہم کو دوزخ کی ضرورت ہے نہ جنت کی۔ دراصل وہ دعا کی اہمیت کو نہیں سمجھ پاتے۔ درحقیقت عبادت اور دعا کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ حدیث میں ہے کہ دعا عبادت کا مغز ہے‘ یہ فی الواقع اللہ کو پکارنا ہے۔ دعا کے لفظ کے اندرکیاایسی بات یا تعبیر مضمر ہے جس کی وجہ سے قرآن نے اس کو عبادت کا مغز قرار دیا ‘ یہ پہلو غور طلب ہے۔ قرآن و حدیث میں عبادت کے ساتھ ساتھ استعانت کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ o (الفاتحہ ۱:۴) ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘۔ لہٰذا عبادت کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا  یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ استعانت کا‘ مدد مانگنے کا‘ پکارنے کا تعلق قائم ہو۔

اس دور میں‘ جب کہ انسان اپنی سرکشی‘ خودسری اور قوت کے باعث اپنی طاقت‘ سائنس اور ٹکنالوجی پر نازاں ہے‘ ایسے میں ہدایت دی جا رہی ہے کہ اُن لوگوں کو تلاش کر کے‘ اُن کے ساتھ رشتہ قائم کر کے ایک سوسائٹی بنائو جو اپنے ربّ کو پکارتے اور اس کی طرف بلاتے ہیں۔

اگر آپ غور کریں تو بلانے اور پکارنے میں کئی چیزیں پوشیدہ ہیں۔

پہلی چیز یہ ہے کہ آدمی اُسی کو پکارتا اور بلاتا ہے جس کے بارے میں اسے یہ یقین ہو کہ اُس کے پاس وہ قوت اور طاقت ہے کہ میری مدد کر سکتا ہے۔ گویا جب تک اللہ کی قوت اور علم کا یقین نہ ہو‘ اُس وقت تک اللہ تعالیٰ کے ساتھ دعا کا تعلق قائم نہیں ہو سکتا۔

دوسری چیز یہ کہ وہ سنتا بھی ہے اور جواب بھی دیتا ہے‘ یعنی یہ تعلق کسی ایسی ہستی کے ساتھ نہیں ہے جو بہت اوپر آسمانوں پر بیٹھی ہوئی ہے جس کے آگے آدمی محض سجدہ ریز ہو جائے اور اس کی اطاعت کر لے۔ درحقیقت آدمی اسی کو پکارتا اور بلاتا ہے جس کے بارے میں اس کو قوی یقین اور احساس ہوتا ہے کہ وہ ہستی اُس کی پکار سن رہی ہے۔ جیسا کہ اس نے وعدہ کیا ہے: وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط (البقرہ ۲:۱۸۶) ’’اور اے نبیؐ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انھیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں‘‘۔  ادْعُوْنِیْ ٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط (المومن ۴۰:۶۰) ’’مجھے پکارو‘ میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا‘‘۔ گویا دعا کے اندر یہ عقیدہ اور یقین شامل ہے کہ وہ ذات رحمت کے ساتھ متوجہ ہوتی ہے‘ سنتی ہے اور دعا قبول کرتی ہے۔

اپنی بندگی اور اپنے فقر‘اپنی فقیری اور اپنی بے کسی و بے بسی کا احساس بھی اس کا ایک پہلو ہے۔ یہ بھی بلانے اور پکارنے کے اندر شامل ہے۔یہ سب چیزیں مل کر‘ احتیاج اور فقر اور بے بسی اور بندگی کا تعلق اُس ہستی کے ساتھ قائم کرتی ہیں جو قادر بھی ہے اور علیم بھی‘ رحیم بھی ہے اور سمیع و بصیر بھی۔ یہ بندے اور رب کے درمیان دعا کا جو تعلق ہے اس کے ایک خاص پہلو کو بڑی وضاحت کے ساتھ نمایاں کرتا ہے۔ پھر فرمایا:

جو اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں۔ (۱۸: ۲۸)

صبح و شام کے دو معنی ہیں۔ ایک تو وہ جو واقعی صبح اور شام ہوتی ہے۔ اگر ان معنوں میں ہم اس کو لیں گے تو اس کے معنی نماز کے ہو جائیں گے۔ اس لیے کہ نماز ہی وہ چیز ہے جس کے اندر آدمی صبح و شام وقت مقررہ پر اللہ کو پکارتا ہے۔ اس کے ایک دوسرے معنی بھی ہیں۔ جس طرح ہم محاورے میں استعمال کرتے ہیں‘ کہ وہ رات دن یہ کام کرتا ہے‘ یا صبح سے لے کر شام تک اِسی کے اندر مصروف رہتا ہے‘ یعنی اس میں ہمیشگی‘ دوام اور ہمیشہ ڈرنے کے معنی بھی شامل ہیں۔ گویا اُن لوگوں کو تلاش کرو جو ایک طرف تو ہر کام میں اللہ کو یاد کرتے ہیں‘ اور پھر جو کام اللہ نے خود عائد کر دیے ہیں‘ یعنی نماز پنجگانہ کے وقت صبح اور شام اللہ کو یاد کرتے اور پکارتے ہیں۔ نیز ان لوگوں کو بھی تلاش کیا جائے جن کا اپنے رب کے ساتھ تعلق اس طرح قائم ہوتا ہے کہ ہر لمحے اُن کو اس کی قدرت کا احساس‘ اور اُس کی نسبت اپنی فقیری اور محتاجی کا احساس رہتا ہے۔

جو طالب ہیں اس کے چہرے کے۔ (۱۸:۲۸)

یہاں پکارنے کا مقصد اور جو اصل مطلوب ہے اس کی نشان دہی کی گئی ہے۔ ویسے تو ہر چیز اللہ سے ہی سے مانگنا چاہیے اور مانگنے کا حکم ہے۔ یہاں تک کہ ایک حدیث میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ جوتے کا تسمہ بھی اگر چاہیے تو اللہ سے ہی مانگو۔ درحقیقت سب سے بڑی اور اہم چیز اُس کی نگاہِ توجہ اور اُسی کی رحمت ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے۔ نگاہ اور چہرہ‘ دراصل یہ الفاظ خوشنودی ‘ رحمت اور توجہ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ توجہ کا لفظ وجہ سے نکلا ہے‘ جس کے معنی ہیں چہرہ۔ گویا اللہ کے چہرے کی تلاش کے یہ معنی ہوئے کہ اس کی نگاہ رحمت‘ رضا اور خوشنودی مطلوب و مقصود ہو اور مسلسل اسی چیز پر نگاہ جمی رہے‘ اور پھر اللہ کی توجہ بھی شامل حال ہو۔

دراصل یہ ان کی خواہش ہوتی ہے ‘ لیکن یہاں پر لفظ یریدون استعمال ہوا ہے۔ یریدون کے معنی ارادہ کرنے کے ہیں۔ ارادے کا لفظ خواہش کے لفظ سے کچھ آگے کا ہے۔ چاہنا الگ چیز ہے‘ تلاش الگ‘ اور ارادہ الگ۔ ارادے کے معنی کے اندر عزم اور فیصلہ بھی شامل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سلسلۂ تصوف میںصوفیا اس شخص کے لیے جو اُن کے ساتھ چلنے یا اُن کی راہ پر چلنے کا ارادہ کرتا ہے‘ مرید کا لفظ استعمال کرتے ہیں‘ جو ارادے سے نکلا ہے ‘یعنی اُس نے اس بات کا فیصلہ کر لیا کہ وہ اِس راستے پر چلے گا۔ گویا ان کی زندگی کا مقصود اور اُن کی توجہات کا مرکز یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو تلاش کریں‘ اُس کی رضا تلاش کریں‘ اُس کو اپنی طرف متوجہ کریں اور صبح و شام ہر وقت اس کو یاد رکھیں۔ اُس کے ساتھ اپنی نسبت قائم کریں‘ جو اُن کا رب‘ مالک اور پرورش کرنے والا ہے۔

صبر کا مفہوم : قرآن نے ان آیات میں تعلق کے لیے جو لفظ استعمال کیاہے‘ وہ صبر ہے۔ یہ بڑا عجیب لفظ ہے ‘ اور بڑے عجیب سیاق و سباق کے اندر آیا ہے۔ عربی زبان میں ربط کا لفظ بھی مستعمل ہے‘ اور محبت کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے کہ محبت کرو‘ لیکن یہاں صبر کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ میرے خیال میں اس کے اندر بھی ایک خاص معانی پنہاں ہیں‘ اور وہ یہ ہیں کہ دراصل تعلق تو ہے ہی یہ کہ ایک انسان دوسرے انسان کا ہاتھ تھامے اور اپنے رب کی رضا کی تلاش کی راہ پر چلے۔ لیکن اس تعلق کے لیے عزم و استقلال کی ضرورت ہے۔ یہ ایسا تعلق ہے کہ جس کے نتیجے میں ایک فرد بہت سارے صدمات اور خطرات سے دوچار ہوتا ہے۔ اگر آدمی اس بات کے لیے تیار نہ ہو کہ صبر بھی کرے گا تو محبت اور اخوت کا تعلق قائم نہیں رہ سکتا۔ دو انسان جب مل کر ساتھ چلیں گے تو ایسی باتوں کا پیش آنا جو ناگوار خاطر ہوں لازمی ہے۔ اس لیے حدیث نبویؐ میں اس آدمی کی تعریف کی گئی ہے کہ جو لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے‘ اور اگر اس میں اُس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس پر صبر کرتا ہے۔ میری رائے میں قرآن نے یہاں پر صبر کا لفظ اس تعلق‘ اس تعلق کی مضبوطی اور استحکام اور اس راہ میں جو ناگوار چیزیں پیش آنے والی ہیں‘ اُن کے مقابلے میں صبر کے ساتھ قائم رہنا‘ ان سب معنوں میں استعمال کیا ہے۔

ایک طرف تو یہ فرمایا گیا کہ اپنا تعلق اخلاص کے ساتھ ایسے لوگوں کے ساتھ باندھو۔ یہ بات اس لیے ضروری ہے کہ آدمی اکیلا اس کا تصور نہیں کر سکتا کہ وہ فتنوں کے طوفان کے اندر راہ حق پر کھڑا رہ سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کو دوسرے انسانوں کی مدد اور حمایت حاصل ہو۔ یہ انسان کی فطرت کا خاصہ ہے کہ جب ایک سے ایک مل کر دو انسان ہو جاتے ہیں‘ تو مخالف قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اور اپنے کام کی ترقی اور نشوونما کے لیے بھی‘ اُن میں سے ہر ایک کی قوت کے اندر بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ اِسی کو بعض لوگوں نے یہاں تک کہا کہ انسان اجتماعی حیوان ہے‘وہ اکیلا زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ تو الگ الگ فلسفے ہیں‘ ہمیں ان میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے اور ہمارا تجربہ بھی ہے‘ اور اس پر فطرت بھی گواہ ہے کہ جب بھی انسان مل کر ایک راستے پر چلتے ہیں یا منزل کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں اور تعلق کو باندھتے ہیں‘ تو وہ مثبت طور پر بھی اور منفی طور پر بھی اپنے ارتقا‘ تربیت اور تزکیہ کے لیے بھی اور ان فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی‘ لازماً اُن کی قوت کے اندر بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے بعد فرمایا گیا ہے:

اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔(۱۸: ۲۸)

یعنی تمھاری آنکھیں اُن سے الگ ہٹ کر اِدھر اُدھر نہ دوڑیں۔ دراصل جب آدمی فتنے کے ماحول کے اندر گھرا ہوا ہو‘ جہاں راہ حق پر چلنے والے اور حق کے راہی بہت تھوڑے ہوں‘ وہاں ہر وہ آدمی بڑا قیمتی ہے جو ہاتھ میں ہاتھ دے کراس راہ پر آگے بڑھے‘ جو اپنے رب کی رضا تلاش کر رہا ہو‘ جو اس کو صبح و شام تلاش کرتا ہو۔ اس کی قدروقیمت کا احساس اتنا ہونا چاہیے کہ آدمی کی نگاہ نہ پھسلے‘ نہ بہکے‘ نہ اٹکے‘ بلکہ انھی افراد کے اندر رہے‘ خواہ ان کا حلیہ اور لباس کیسا ہی ہو‘ اُن کی معاشرت کیسی ہو‘ اور دنیاوی مرتبہ کیسا ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی نگاہیں ان پر جم جائیں کہ یہ میرے بھائی ہیں۔ یہ میرے رفیق‘ دوست اور ساتھی ہیں۔ یہ میرے مددگار ہیں‘ اور مجھے اپنے آپ کو انھی کے ساتھ باندھ کر رکھنا ہے۔ اکیلا آدمی تربیت ‘ دعوت حق اور جہاد کے معرکے کو اس کے بغیر سر نہیں کر سکتا۔

نگاہ اپنے ساتھیوں سے کیوں ہٹتی ہے‘ اور کیوں آدمی اِدھر اُدھردوستیاں اور رشتے تلاش کرتا پھرتا ہے؟ اس کو بھی اس آیت کے اندر واضح اور صاف طور پر بیان کر دیا گیا ہے:

کیا تم دنیا کی زینت کو پسند کرتے ہو؟ (۱۸:۲۸)

یہ حقیقت ہے کہ دنیا کی زینت اور دنیا کی رونق کی تلاش میں ہی انسان کے تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔ اگر آپ اس کو آج کی زبان میں ادا کرنا چاہیں‘ تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ معیارِ زندگی کو اونچے سے اونچا کرنے کی دھن سوار ہونا۔ جب کوئی شخص دنیا طلبی کے پیچھے پڑتا ہے‘ اور دنیا طلبی کے اندر صرف مال و دولت ہی شامل نہیں ہے بلکہ عزت اور جاہ‘ مقام اور تعریف جس کو سوشیالوجی کی زبان میں اسٹیٹس کہا جا سکتا ہے--- یہ ساری چیزیں اس کے اندر شامل ہیں‘ تو اپنے ساتھ چلنے والے ساتھی کی وقعت نگاہوں میں کم ہو جاتی ہے۔ وہ اُن کو نظرانداز کرنا شروع کر دیتا ہے۔ نگاہیں اُن سے ہٹ کر کہیں اور پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں۔

ہر آدمی کی فطرت ہے کہ وہ پیروی اور اتباع کے لیے نمونے اور ماڈل تلاش کرتا ہے۔ اگر آپ اپنے بچپن کی زندگی سے لے کر اب تک غور کریں‘ اور اپنی نفسیات اور احساسات کا کبھی جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ جو افراد آپ کے سامنے مختلف انداز میں چلتے پھرتے آئے‘ کوئی آپ کو پسند آیا اور کوئی ناپسند‘ اور جو پسند آیا‘ آپ کے دل میں ہمیشہ یہ خواہش پیدا ہوئی کہ بڑا ہو کر اُسی طرح کا ہو جائوں۔ بڑا ہو کر بھی آدمی کے دل میں خواہش ہوتی ہے کہ کسی کے پاس اگر رولس رائس دکھائی دی تو دل چاہا کہ میرے پاس بھی ہوتی‘کوئی بڑا اچھا سوٹ پہن کر آیا‘ بڑی اچھی بات کرتا ہے‘ دل چاہا کہ ہم بھی ایسے ہوں۔ کوئی نظر آیا اور احساس ہوا کہ ہم ایسے نہ ہوں۔ اس طرح مختلف ماڈل اخذ کر کے آدمی اپنے ذہن میں جمع کرتا رہتا ہے۔ بعض ماڈل اپیل کرتے ہیں وہ اُن کے پیچھے چلتا ہے‘ اور بعض کو وہ ردّ کرتا ہے کہ میں ان کے پیچھے نہ جائوں۔ قرآن نے بھی یہاں ہدایت دی کہ تمھاری نگاہ دنیا کی زینت ہی میں اٹک کر نہ رہ جائے۔ جن کی زندگیاں‘ معیار زندگی بلند کرنے کے محور پر گھوم رہی ہوں‘ ان کو اپنا ماڈل نہ بنائو اور اُن کے پیچھے اپنے ان ساتھیوں کو نہ چھوڑو کہ جو خستہ حال ہوں‘ مالی طور پر ‘ معاشی طور پر‘  بول چال میں‘ مختلف چیزوں میں‘ اسٹیٹس میں کم ہوں بلکہ اپنے آپ کو ان کے ساتھ جما کر رکھو۔ تمھاری اپنی تربیت‘ دعوت‘ جہاد‘ دنیا میں غلبے کی ساری راہیں‘  سب اُسی جماعت کی قوت میں پوشیدہ ہیں جو جماعت اس طرح آپس میں جڑ کر ایک دوسرے کے ساتھ وجود میں آتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے یہاں تین چیزوں کا ذکر کیا ہے جو اس ماڈل کی خصوصیات کو نمایاں کرتی ہیں جو دنیا کو مطلوب بنا کر اس کے پیچھے دوڑنے والوں کا ہوتا ہے۔ آج بھی اگر آپ دیکھیں گے تو دنیا کا فتنہ موجود ہے‘ اور ہمیشہ ہی رہا ہوگا۔ قرآن نے بھی شروع ہی سے اس کا ذکر کیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ آج کے ساتھ مخصوص ہے۔ چونکہ میری نگاہ میں آج کی دنیا ہے‘ اس لیے میں اس کو اِس زمانے میں پاتا ہوں کہ انسان کی ساری بھاگ دوڑ کا محور صرف دنیا ہو کر رہ گئی ہے۔ خاص طور پر مغربی تہذیب میں اس کو بڑی بری طرح انسان کے ذہن میں بٹھایا گیا ہے کہ افراد کے لیے ‘قوموں کے لیے‘ اگر دنیا میں کوئی منزل ہے تو وہ مادی ترقی اور معیار زندگی ہے۔ وہ جی این پی کے اندر بڑھنا ہے‘ فیکٹریوں اور کارخانوں کا قائم کرنا ہے‘و ہ انسان کے لیے زندگی کے بہتر سے بہتر معیارات ہیں۔ مکان بہتر ہو‘ کار اور لباس بہتر ہو‘ --- یہ وہ چیزیں ہیں جن پر انسان کی ترقی اور ارتقا کا پورا نمونہ قائم ہوتا ہے۔ ہم میں سے کوئی اپنے آپ کو کتنا ہی بچائے‘ یہ خیالات مختلف انداز اور پیرائے میں ہمارے اندر بھی گھستے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو اپنے چاروں طرف دیکھ سکتے ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ آدمی اس جماعت سے جڑا رہے جو بہتر نمونے کے حامل افراد اور ہر کام میں اللہ کو یاد رکھنے والی‘ اس کا ذکر کرنے والی‘ اور اُس کی رضا و خوشنودی پر نگاہ جمائے رکھنے والی ہو۔ یہ سب باتیں بھی صبر کے جامع مفہوم میں شامل ہیں۔

خدا سے غافل لوگوں سے قطع تعلق: اخوت کے اصول کے تحت دوسری ہدایت یہ دی گئی ہے کہ کن لوگوں سے قطع تعلق کیا جائے۔ کس قسم کے لوگ ہیں کہ جن کا کہنا نہ مانو‘ جن کے پیچھے نہ چلو‘ جن کے ساتھ تعلق قائم نہ کرو‘ جن کو رشک بھری نگاہوں سے نہ دیکھو کہ ہم ان جیسے ہو جائیں۔ ایسے لوگوں کی اللہ نے تین صفات بیان کی ہیں۔ فرمایا:

کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو‘ جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے‘ اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے‘ اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔(۱۸:۲۸)

ایک طرف کہا :واصبر‘ اپنے آپ کو ایسے لوگوں کے ساتھ باندھو‘ اس کے بعد کہا گیا:  ولاتطع‘ اور اُن کی اطاعت نہ کرو۔ یہاں اطاعت نہ کرنے سے صرف یہی مراد نہیں کہ کوئی ہم سے کہے کہ یہ کرو اور ہم نہ کریں‘ بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ اُن کے پیچھے نہ دوڑو‘ اُن کے پیچھے نہ چلو‘ اُن کے انداز کو اختیار نہ کرو‘ انھی کو یہ نہ سمجھو کہ بس ہم کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔ یہ سب چیزیں اطاعت کے اندر شامل ہیں۔

یہاں تین خصوصیات بیان ہوئی ہیںکہ جو لوگ دنیا کو اپنا مقصود بنا لیں‘ اُن کے اندر یہ پیدا ہوتی ہیں۔ افراد کی زندگی‘ قوموں کی زندگی اور اجتماعی فلسفوں کا جائزہ لیں تو یہ تین باتیں ان سب کے اوپر پوری طرح چسپاں ہوں گی۔

پہلی یہ کہ اُس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا‘ اور وہ اپنی خواہشات نفس کو پورا کرنے میں اور ان کی تکمیل کے پیچھے پڑ گیا۔ ایسے فرد کا ہر کام حد اعتدال سے گزر جائے گا۔

قرآن دل کا لفظ صرف گوشت کے لوتھڑے کے معنوں میں جو جسم کے اندر خون پمپ کرتا ہے استعمال نہیں کرتا بلکہ اُس دل کے مفہوم میں استعمال کرتا ہے جو انسان کی شخصیت کا مرکز ہے‘ جہاں اُس کے ارادے‘ اُس کی خواہشات‘ تمنائیں‘ آرزوئیں اور عزائم پرورش پاتے ہیں‘ یا وہ محرکات پائے جاتے ہیں جن کے تحت وہ عمل کرتا اورزندگی بسر کرتا ہے۔ جو قلب خدا کی یاد سے غافل ہوتا ہے‘ اُس میں کہیں خدا کے وجود کی گنجایش نہیں ہوتی۔ ہو سکتا ہے کہ آدمی پانچ وقت مسجد میں چلا جائے‘ چرچ چلا جائے‘ سیناگاگ چلا جائے‘ تحریر میں‘ تقریر میں‘ خدا کا نام لے لے لیکن وہ چیز کہ جو شخصیت کا مرکز ہے جہاں سے ساری امنگیں جنم لیتی ہیں‘ تمام عزائم و ارادے جڑ پکڑتے ہیں‘ وہ قلب اللہ کی یاد سے خالی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عن ذکرنا فرما کر نسبت اپنی طرف کی ہے‘ یعنی اللہ سے ان کا دل غافل ہو جاتا ہے۔ یہ نتیجہ اور انجام ہے دنیا کے پیچھے پڑنے کا!

اس لیے پہلی ہدایت یہ دی کہ دیکھو ایسے لوگوں کے پیچھے کبھی نہ جانا‘ جن کے بارے میں تم کو یہ محسوس ہو کہ ان کی شخصیت ‘ ان کے قلب ‘ ان کے دل و دماغ اور روح میں کہیں اللہ کی یاد نہیں ہے۔ جو یہ نہیں سوچتے کہ اللہ کی رضا کیا ہے‘ اللہ کی مرضی اور خوشنودی یا اس کی پسند و ناپسند کیا ہے۔ وہ ساری زندگی کی منصوبہ بندی اُس سے بے نیاز ہو کر کرتے ہیں۔ صبح سے شام تک خدا سے بے نیاز ہو کر منصوبے بناتے ہیں‘ خواہ گھر کے اندر ہوں یا باہر‘ یا کہیں بھی۔ ان کا چلنا پھرنا‘ خریدنا‘ بیچنا‘ ہر چیز اس بات سے خالی ہوتی ہے کہ اس کے اندر اللہ کی مرضی کیا ہے‘ اُس کی رضا کس چیز میں ہے اوراُس کی پسند و ناپسند کیا ہے۔

یہ اللہ سے انکار کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ یہ بات خاص طور پر قابل غور ہے کہ اللہ کا انکار تو بالکل دوسری اور بڑی دور کی اور بہت بڑی چیز ہے۔ اللہ کا انکار بہت تھوڑے لوگ کرتے ہیں۔ پہلے بھی یہی رہا ہے اور اب بھی یہی حال ہے۔ البتہ یہ سوچ ضرور پائی جاتی ہے کہ خدا کی ضرورت نہیںہے۔ خدا بے مصرف ہے۔ اس کا زندگی کے اندر کوئی مقام نہیں ہے۔ دنیا کا پیدا کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ خدا کے لیے دل میں‘ روح میں ‘ عقل میں‘ فلسفے میں‘ نظام میں کوئی جگہ نہیں ہے (نعوذ باللہ)۔ یہ ہے نتیجہ اس بات کا کہ دل اللہ کی یاد سے غافل ہو!

یادِ خدا سے غافل دل کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اُس کی ساری زندگی کی بھاگ دوڑ اُن چیزوں کے حصول میں صرف ہوتی ہے‘ جن کا تقاضا اُس کا دل اور نفس کرتا ہے۔ اس کے علاوہ زندگی میں کوئی اور اعلیٰ مقاصد اور اعلیٰ نصب العین ایسے لوگوں کے پیش نظر یا دل چسپی کا باعث نہیں ہوتا۔ یہ وہ دوسرا ماڈل اور نمونہ ہے جس سے آدمی کو بچنا چاہیے۔

تیسری بات یہ ہے کہ اگر کسی کی ساری بھاگ دوڑ‘ صبح و شام صرف اسی چیز کے پیچھے ہو کہ اپنی خواہشات کیسے پوری کرے‘ تو اس کا مطلب ہے کہ وہ غلط راہ پر جا رہا ہے۔ وہ اعتدال کی حد سے نکل جاتا ہے۔ اس کی دوستی ہو یا دشمنی‘ پسند ہو یا ناپسند‘ ہر چیز اعتدال سے باہر ہوتی ہے۔ جس چیز کو بھی اختیار کیا اُس میں اعتدال سے گزر گئے۔ اجتماعی زندگی میں انسان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی ایک حل نکالا‘ تو حد سے بڑھ گئے‘ یا کوئی دوسرا حل نکالا تو اس میں حد سے بڑھ گئے۔ اس رویے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان خودسر اور منہ زور ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو خدا سے بے نیاز سمجھنے لگتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی نے اللہ کی کتاب سے تعلق توڑ لیا ہے اور اللہ کے سامنے اپنی محتاجی اور فقیری کے احساس سے بے نیاز ہو گیا ہے۔ اس نے دنیا کی زندگی کو ہی اپنا معیار بنا لیا ہے اور اُس کے پیچھے دوڑ پڑا۔

یہ تین ایسی صفات ہیں جن کے بارے میں کہا گیا کہ دیکھو جس شخص کے اندر ‘ یا جن اشخاص کے اندر‘ یا جس معاشرے یا تہذیب کے اندر یہ موجود ہوں‘ اُس کو اپنا ماڈل‘ اپنا مطاع‘ اپنا پیشوا‘ اپنا امام یا لیڈر نہ بنائو۔ اُن کے پیچھے نہ جائو بلکہ اپنا تعلق ان لوگوں یا اُس معاشرے کے ساتھ قائم کرو‘ جس کی صبح و شام کی یاد کا محور اللہ اور اُس کی رضا اور خوشنودی کی تلاش ہو۔

۳- دعوت الی اللّٰہ

انسان کو درپیش بہت سے فتنے جو اندر اور باہر سے‘ اس کے ایمان اور اس کے عمل کو غارت اور برباد کرنے کے لیے اس کے پیچھے پڑے رہتے ہیں‘ ان سے بچنے کے لیے اس قرآنی نسخے میں تیسرا اصول یہ بیان کیا گیا ہے کہ حق کی طرف دعوت دی جائے اور دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دیا جائے۔ فرمایا:

صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمھارے رب کی طرف سے‘ اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے (۱۸: ۲۹)

یعنی حق تو وہی ہو سکتا ہے جو رب نے دیا ہے۔ اس میں کسی شک و شبے کی گنجایش نہیں۔ اس پر ہدایت یہ دی جا رہی ہے کہ اس حق کو پیش کرو اور لوگوں سے کہہ دو کہ حق کو تسلیم کریں۔ پھر اس بات کی پروا مت کرو کہ کون مانتا ہے اور کون نہیں مانتا۔ یہ کام تو کرنا ہی ہے‘ خواہ لوگ اس کو مانیں یا نہ مانیں۔ ماننا نہ ماننا‘ ہر آدمی کا اپنا کام ہے۔ اس لیے کہ اللہ نے ہر ایک کو اختیار دیا ہے‘ آزادی دی ہے کہ وہ جو چاہے کرے۔ دنیا میں یہی انسان کا امتحان ہے۔ چنانچہ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس بات کی پروا کیے بغیر کہ لوگ مانتے ہیں یا نہیں مانتے‘ اپنا کام کرتے چلے جائیے۔ لوگوں کا قبول یا ردّ کرنا‘ ان کی اپنی کامیابی یا ناکامی ہے۔ آپ اس کے مکلف نہیں ہیں۔ اس طرح سے مایوسی کا دروازہ بھی بند ہو جاتا ہے اور اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنے اور اس کی رضا کے حصول کے لیے ایک نیا ولولہ اور جذبہ ملتا ہے جواطمینان اور سکینت کا باعث ہوتا ہے۔

قرآن مجید کی یہ آیات ہمارے لیے بہت قیمتی سبق رکھتی ہیں۔ آج مغربی تہذیب کی یلغار بھی ہے اور ہر طرف دنیا کی پرستش بھی۔ گھروں میں ٹی وی چلتا ہے‘ کیبل اور ڈش انٹینا لگے ہوتے ہیں‘ گھر بھی محفوظ نہیں اور گھروں میں ایمان بھی محفوظ نہیں۔ ان حالات میں وہ کون سا طریقہ ہے جس سے ایمان محفوظ ہو سکتا ہے؟ وہ کون سا طریقہ ہے جس سے ہم اللہ کے راستے پر قائم رہ سکتے ہیں اور چل سکتے ہیں؟ ان آیات میں اسی مسئلے کا حل پیش کیا گیا ہے۔ اگر آپ یہ تین باتیں یاد رکھیں: اللہ کی کتاب کی تلاوت‘ اچھے لوگوں کی صحبت ‘اور اللہ نے جو پیغام دیا ہے اسے دوسروں تک پہنچانا‘ تو ایمان بچایا جا سکتا ہے۔

اس نسخہء شفا کے یہ تین اجزا ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ دنیا میں‘ فتنے کے زمانے میں‘ دنیا پرستی کے زمانے میں‘ ہمیں ایمان کے راستے پر قائم رکھ سکتا ہے‘ اگر ہم اس پر چلنا چاہیں۔

اگر آدمی شروع سے آخر تک پوری سورہ کہف پڑھے‘ اصحاب کہف کے واقعے سے لے کر حضرت موسٰی ؑ اور ذوالقرنین کے واقعے تک‘ ہر ایک میں وہ اشارے موجود ہیں جن کو اگر آدمی پڑھ کر‘ ان پر عمل پیرا ہو جائے تو آج کے دور کے بہت سارے فتنوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمیں ان آیات کو سمجھنے کی اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)

دور جدید میں احیاے اسلام کی کوشش‘ یا زیادہ جامع الفاظ میں اسلامی زندگی کو عقیدہ و مسلک‘ اجتماعی رویہ‘ قانون ملکی اور دستور مملکت کی حیثیت سے بہ تمام و کمال برپا کرنے کی کوشش کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تجدید ایمان کا مسئلہ ہے۔ آج پوری دنیا میں اللہ پر ایمان زائل یا ازحد ضعیف ہو چکا ہے‘ اور اس کی ہدایت کی طرف رجوع مفقود یا محض رسمی ہو کر رہ گیا ہے۔ دور جدید کا انسان رسمی طور پر خدا کا اقرار کرنے کے باوجود اپنا نظام زندگی خود وضع کرنے پر مصر ہے۔ اگرچہ ایسا کرنے کے نتائج اچھے نہیں رہے ہیں۔ انسانی ذہن کی نارسائی‘ کوتاہ بینی اور عدم استقرار نے جدید انسان کو اضطراب و حیرانی میں مبتلا کر رکھا ہے مگر ابھی وہ خدا کی طرف رجوع پر آمادہ نہیں۔

تحریک اسلامی کو‘ جو صرف مسلمانوں کی اصلاح کو مقصود نہیں بناتی ہے بلکہ تمام بندگانِ خدا کو خدا کی ہدایت کی طرف بلاتی ہے‘ ایک ایسی فکر سامنے لانا ہے‘ جو انسانیت کو دوبارہ خدا پر سچا ایمان عطا کرنے اور اس کی ہدایت کی طرف واپس لانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ دنیا میں گذشتہ دو سو سال سے جو تہذیب چھائی ہوئی ہے اس نے ایمان بالغیب کی جڑیں ہلا دی ہیں اور یقین کو صرف اسی علم تک محدود کر دیا ہے جو حواس کی مدد سے حاصل کیا جا سکے۔ اس تہذیب نے انسان کا منتہاے نظر دنیوی ترقی اور مادی اقتدار تک محدود کر دیا ہے۔ زندگی کے روحانی تقاضوں کو پس پشت ڈال دیا ہے‘ اور اخلاق کو ان مادی مقاصد کا تابع بنا دیا ہے۔ یہی مرض اس تضاد کی بھی توجیہ کرتا ہے کہ دنیا میں ایک ارب سے زیادہ مسلمان ہیں جن کی اکثریت ۵۰ سے زیادہ ملکوں میں رہتی ہے لیکن کسی جگہ بھی اسلامی نظام زندگی قائم نہیںہے۔ ان مسلمانوں میں ایمان کی کمزوری خدا کے وجود یا محمدصلی اللہ علیہ وسلمکی رسالت سے انکار کی صورت شاذو نادر ہی اختیار کرتی ہے مگر ان کی ۹۹ فی صد اکثریت انسانیت کے مذکورہ بالا مشترکہ مرض میں مبتلا ہونے کے سبب اس پختہ یقین‘ تعلق باللہ اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت و رہنمائی پر اس کامل اعتماد سے محروم ہے جو اللہ ہی کو زندگی کے تمام امور میں حکمراں بنانے کے لیے درکار ہے۔

مسلم دانش وروں کی فکری جہت :  مسلمانوں کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ پریس اور دوسرے ذرائع سے تہذیب حاضر کی مسلسل تربیت میں رہتا ہے اور معاشی اعتبار سے ان قدروں کا زیادہ واضح شعور رکھتا ہے جو تہذیب حاضر نے انسان کو دی ہیں۔ یہی طبقہ مسلمان قوموں میں سیاسی برتری کا مالک ہے۔ یہ آزاد مسلم ممالک میں حکومت کرتا اور نظام تعلیم‘ پریس‘ ریڈیو‘ ٹیلی ویژن اور سینما کے ذریعے عوام کی تربیت کرتا ہے‘ اور دوسرے ممالک میں مسلمان اقلیتوں کا سیاسی اور ثقافتی رہنما ہے۔ یہ طبقہ ایمان کے غیر معمولی ضعف کا شکار ہے۔ مسلمان دانش وروں میںایک معتدبہ تعداد خدا کے وجود‘ رسالتؐ اور آخرت پر یقین سے محروم یا کم از کم ایسے شک و ریب میں مبتلا ہے جو ان کے ایمان کو بے اثر بنا دینے کے لیے کافی ہے۔

مسلم دانش وروں کی ایک بڑی تعداد ان بنیادی امور پر ایمان رکھنے کے باوجود یہ سمجھتی ہے کہ اسلام کا دائرہ بھی دوسرے مذاہب کی طرح نجی زندگی میں بندہ و خدا کے تعلّق تک محدود ہے۔ ان کا خیال ہے کہ قرآن کی تعلیمات اور رسولؐ کی ہدایات‘ عبادات و اخلاق اور عام انسانی تعلّقات میں ہماری رہنمائی کر سکتی ہیں‘ مگر قرآن و سنت کے احکام و قوانین یعنی ’’شریعت‘‘ اپنے زمانے کے لیے تھی‘ ہمارے زمانے کے لیے نہیں۔ یہ لوگ عام دنیوی امور میں شریعت کی پابندی کے قائل نہیں۔ ان کے علاوہ ایک بڑی تعداد ان کی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ان امور میں ہم اسلامی تعلیمات کی روح کو سامنے رکھیں گے مگر سود کی حرمت‘ قانون وراثت اور فوجداری قوانین جیسے متعین احکام کی پابندی اس زمانہ میں ممکن نہیں۔ مؤخرالذکر دونوں طبقوں کے رجحانات متعین کرنے میں اگر ایک طرف مغرب کی دی ہوئی فکر اور اس کا نظام اقدار اثرانداز ہوا ہے‘ تو دوسری طرف یہ بات بھی فیصلہ کن رہی ہے کہ ان دانش وروں کو مذکورہ بالا متعین قوانین‘ اور ان جیسے دوسرے قوانین کو آج کی دنیا میں نافذ کرنا عملاً محال نظر آتا ہے۔ جدید زندگی کے احوال وظروف اور جدید انسان کے مزاج کو جیسا کچھ انھوں نے سمجھا ہے اس کی روشنی میں وہ یہ رائے رکھتے ہیں کہ سود کے بغیر معیشت نہیں چل سکتی‘ وراثت‘ گواہی‘ طلاق یا زندگی کے کسی مسئلے میں عورت کے ساتھ مرد سے مختلف سلوک نہیں کیا جا سکتا۔ حدود شرعیہ کا نفاذ دورِ جدید کے انسان کا مزاج نہیں قبول کر سکتا‘ ایک جدید مملکت میں قانون سازی اور انتظام ملکی میں غیرمسلموں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جا سکتا‘ وغیرہ وغیرہ۔

جب تک مسلمان معاشروں میں قیادت و سربراہی کے مالک دانش وروں کی ایمانی اور فکری حالت یہ ہے‘ ظاہر ہے کہ ان کے اندر اسلامی انقلاب کی توقع نہیں کی جا سکتی‘ اگرچہ مسلمان عوام میں مذہب کا اثر زیادہ ہے۔ تعلیم کی کمی اور معلوم معاشی پست حالی کے سبب ابھی تہذیب جدید کی فکر اور نظام اقدار ان پر پوری طرح اثرانداز نہیں ہو سکا ہے۔ معاشی ترقی اور جدید تعلیم کے عام ہونے کے ساتھ مذہب کا اثر بھی گھٹتا جا رہا ہے۔ جو اثر ہے وہ زیادہ تر عبادات اور ثقافتی امور تک محدود ہے۔ البتہ زندگی کے مقاصد‘منظور نظر قدریں اور دنیوی زندگی میں خوب و ناخوب کے پیمانے وہی ہیں جو دانش وروں نے اختیار کر رکھے ہیں۔ اپنے لیڈروں کی مذہب سے دُوری پر افسوس کرنے کے باوجود دنیوی امور سے شریعت کی بے دخلی کے معاملے میں مسلمان عوام کی غالب اکثریت اپنے لیڈروں ہی کے پیچھے چل رہی ہے۔

علما و مشائخ کا عمومی رویہ:  ہر مسلمان معاشرے میں ایک طبقہ علما و مشائخ کا بھی ہے جس سے مسلمان عوام خاصا تعلّق رکھتے ہیں۔ ان کے اندر شعائر اسلام کے احترام اور ثقافتی امور میں اسلامی آداب کی پابندی زیادہ تر انھی علما و مشائخ کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہے۔ لیکن ان علما و مشائخ کو مسلمان عوام سیاسی اور عام دنیوی امور میں اپنا رہنما نہیں بناتے اور نہ خود علما ومشائخ میں اتنی خود اعتمادی اور اس بات کا حوصلہ ہے کہ وہ ان کی مکمل رہنمائی کریں۔ وہ جدید تہذیب اور مسلمان دانش وروں پر اس کے گہرے اثرات سے بالعموم ناواقف ہیں۔ اگر وہ مرض کی بعض علامتیں دیکھتے بھی ہیں تو اس کے اسباب تک پہنچنے سے قاصر رہتے ہیں۔ وہ تہذیب جدید اور اس کے تمدن کی مادی بلندی سے مرعوب ہیں اور اس کو جڑو بنیاد سے بدل کر اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کا کوئی داعیہ اپنے اندر نہیں پاتے۔ مسلمان دانش وروں کی بے دینی پر بظاہر تنقید کرنے کے باوجود امور دنیا میں یہ انھی کی قیادت مان رہے ہیں اور وقت پڑنے پر مسلمان عوام کو انھی کی قیادت پر مجتمع کرنے اور ان کی تائید پر کمربستہ کرنے کی خدمت انجام دیتے رہتے ہیں۔

یہ منظر بڑا عبرت انگیزہے کہ جہاں بھی احیاے اسلام کی طاقت ور تحریکیں اٹھیں علما و مشائخ کے ایک طبقے نے ان کی زبردست مخالفت کی اور بڑی حد تک اپنا وزن اس لادینی قیادت کے حق میں استعمال کیا جو ان تحریکوں کو پامال کرنا چاہتی ہے۔ ہمارے نزدیک اس کا سبب صرف گروہی عصبیت اور عوام کی قیادت چھن جانے کا خوف نہیں‘ بلکہ اس مخالفت کی تہہ میں اسلام کے بارے میں ان علما و مشائخ کی فکر کی محدودیت اور احیاے اسلام کے حوصلے کا فقدان ہے۔ ان کا یہ تاریخی وجدان ہے کہ جو کام قرونِ اولیٰ کے بعد پھر ممکن نہ ہوسکا وہ آج کی دنیا میں یکسر ناممکن ہے‘ اور انھیں یہ اندیشہ ہے کہ مکمل اسلامی نظام کے قیام کی کوشش کہیں محدود دائرے میں بھی اسلام کے باقی نہ رہنے کا سبب نہ بن جائے!

اسلامی تحریکیں اور مسلم معاشرے: ایمانی حالت کے اس سرسری جائزے کی روشنی میں احیاے اسلام کی ان کوششوں پر نظر ڈالی جائے‘ جو بیسویں صدی سے دنیاے اسلام کے مختلف علاقوں میں کی جاتی رہی ہیں تو یہ معلوم ہوگا کہ بڑی حد تک اصل مرض کو پہچانا گیا ہے‘ اور اس کا علاج کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہاں ان کوششوں کا جائزہ لینا ممکن نہیں ہے۔ صرف اس حقیقت پر زور دینا چاہتے ہیں کہ ابھی یہ کوششیں ناتمام ہیں۔ اسلامی تحریکوں نے عام انسانوں کو مخاطب بنا کر انھیں کفر و شرک اور حیرانی و اضطراب سے ایمان کی طرف لانے کی کوشش بھی کم کی ہے۔ ان کی بیش تر توجہات مسلمان معاشروں پر مرکوز رہی ہیں۔ لیکن اب بھی مسلمان دانش وروں اور ان کے عوام کا حال وہ ہے جو اُوپر بیان کیا گیا ہے۔ ابھی دنیا میں کہیں بھی ان کوششوں کی ]بظاہر[کامیابی کے آثار نہیں نظر آتے‘ گو گذشتہ نصف صدی کی کوششوں کے نتیجے میں صورت حال بلاشبہ بہتر ہوئی ہے۔

آج مسلمان دانش وروں میں ایک معتدبہ عنصر موجود ہے جو پورے اسلام کو اختیار کرنے کا عزم رکھتا ہے‘ اور شریعت کو نہ صرف واجب العمل سمجھتا ہے بلکہ قابل عمل سمجھتا ہے‘ اور دَورِ جدید میں اسے نافذ کرنے کا عزم بھی رکھتا ہے۔ یہ عنصر متحرک اور فعال ہے اور متعدد مسلمان معاشروں میں اس نے عوام کے ایک بڑے طبقے کا اعتماد حاصل کر کے ان کی قیادت شک و ریب میں مبتلا یا کمزور ایمان رکھنے والے اور دین و دنیا کے درمیان تفریق کرنے والے دانش وروں سے بڑی حد تک چھین بھی لی ہے۔ لیکن ابھی عوام کی غالب اکثریت کی اس نئی اسلامی قیادت کے ساتھ وابستگی زیادہ تر جذباتی ہے جس کے سبب وہ غیر اسلامی قیادت کے تسلط کے خلاف کوئی عملی اقدام کرنے اور اس راہ میں قربانیاں دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ابھی نہ عوام کا نظام اقدار بدلا ہے‘ نہ اس بگڑے ہوئے ’’مذہبی مزاج‘‘ کی اصلاح ہوئی ہے جو اسلام کے نام پر لوگوں کو علما اور اسلامی قیادت کے پیچھے لاکھڑا کرتا ہے‘ مگر معاشی ترقی‘ سیاسی استحکام اور امور مملکت کے نظم و انصرام کے سلسلے میں فیصلہ کن طاقت کا حق دار سیکولر قیادت ہی کو سمجھتا ہے۔

اپنے دانش ور طبقے میں ایمان کی بحالی اور اپنے عوام کو پوری طرح ساتھ لینے کے لیے ابھی اسلامی تحریکوں کو بہت کچھ اور کرنا ہے۔ انھیں عوام میں اسلام کا علم پھیلانے‘ ان کی اصلاحی اور دینی اصلاح اور ایمانی تربیت کے لیے اپنے پروگراموں کو زیادہ جامع بنانا ہے‘ اور ان پر زیادہ مستعدی کے ساتھ عمل کرنا ہے۔ اصلاح صرف قول سے نہیں ہوا کرتی ہے‘ اس سے زیادہ اہمیت کردار کی ہے۔ تحریک اسلامی کے کارکنوں کو نہ صرف عبادات و اخلاق میں بلکہ معاملات دنیا بالخصوص معاشی وسائل اور سیاسی طاقت کے برتنے میں‘ نیز اپنی معاشرتی زندگی میں للہیت‘ ترجیح آخرت اور اخوت‘ مواساۃ و مرحمت‘ شورائیت اور مساوات کی اسلامی قدروں کے مطابق اعلیٰ اسلامی کردار کا نمونہ پیش کرنا ہے تاکہ مسلمان عوام ان قدروں کو جذب کر سکیں اور اسلامی نظام کے قیام کی راہ ہموار ہو سکے۔ انھیں اپنے عوام کے اندر وہ بنیادی انسانی صفات اُجاگر کرنی ہیں جن کے بغیر کوئی انسانی گروہ زوال سے عروج اور ضعف سے قوت کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔ ہماری مراد محنت‘ نظم و ضبط‘ کسی اعلیٰ مقصد کے لیے ایثار و قربانی کے جذبے‘ اور اس مقصد کے لیے ذریعے کے طور پر علوم و فنون میں مہارت کے ذریعے تسخیر کائنات کے حوصلہ سے ہے۔ صرف وعظ و ارشاد کے ذریعے مسلمان عوام سے کاہلی اور جہالت‘ اختلاف اور فرقہ بندی‘ بخل اور کم ظرفی اور پست حوصلگی کی مہلک بیماریاں نہیں دُور کی جا سکتیں۔ ان کے علاج کے لیے وسیع پیمانے پر مسلسل منظم کوششیں درکار ہیں۔

مسلمان دانش وروں کی ایمانی حالت درست کرنے‘ ان کے نظام اقدار میں تبدیلی اور کتاب و سنت کے ساتھ ان کی وفاداری بحال کرنے میں مذکورہ بالا کوششوں کو بھی دخل ہوگا مگر ان کی نسبت سے تحریک اسلامی کو کچھ علمی اور فکری کام بھی کرنے ہیں۔ یہ علمی اور فکری کام عام انسانوں کو دعوت اسلامی کا مخاطب بنانے کے ضمن میں اہمیت کے حامل ہیں‘ اور اس تعلیمی اور تربیتی پروگرام کے لیے بھی اہم بنیادیں فراہم کرتے ہیں جس کا ذکر اُوپر عوام کی اصلاح کے ضمن میں کیا گیا ہے۔

غوروفکر کی جہتیں: یہ مقالہ مخصوص طور پر تحریک اسلامی کے ہمہ جہتی کام کے علمی اور فکری پہلو سے بحث کرتا ہے۔ اس کا مقصد ایسے موضوعات ومسائل کی نشان دہی ہے جن پر کیا جانے والا کام اتنا تشفی بخش نہیں کہ جدید ذہن کو پوری طرح مطمئن کر سکے‘ یا جن کے بارے میں معاصر اسلامی مفکرین کے درمیان پائے جانے والے اختلافات نے مزید بحث و تحقیق کو ناگزیر بنا دیا ہے‘ یا جن کی طرف گذشتہ کئی عشروں میں بہت کم توجہ کی جا سکی ہے۔

ہمارے نزدیک اس طرح کافکری کام‘ جس کے بعض گوشوں کی ذیل میں نشان دہی کی جا ئے گی‘ عصرحاضر میں اسلامی نظام کے قیام کی شرط لازم بن چکا ہے--- جو لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ اسلامی مفکرین فکری کام کا حق ادا کر چکے ہیں اور مسلم دانش وروں کو اسلام کے پوری طرح اختیار کرنے سے روکنے والی چیز صرف ان کی دنیا پرستی ہے‘ یا مسلم عوام اسلامی تحریکوں کی قیادت اور ان کے پروگراموں سے پوری طرح مطمئن ہیں‘ صرف فوجی آمریتیں ان کے اجتماعی ارادے کے عملی اظہار میں مانع ہیں--- ان کے تجزیے کو ہم غیر تشفی بخش سمجھتے ہیں اور اس سے اختلاف رکھتے ہیں۔

ہم اس غلط فہمی کا شکار نہیں کہ جن فکری کاموں کی نشان دہی کی جا رہی ہے‘ وہ انجام پا جائیں تو دَورحاضر کا انسان اسلام کی طرف دوڑ پڑے گا‘ یا مسلمان دانش ور فوج در فوج تحریک اسلامی کی صفوں میں شامل ہونے لگیں گے‘ اور مسلمان عوام کی موجودہ دو رُخی اور ان کا تذبذب دُور ہو جائے گا۔ جیسا کہ ہم نے اُوپر اشارہ کیا‘مسئلے کے دوسرے پہلو بھی اہمیت رکھتے ہیں مگر ہم یہ رائے ضرور رکھتے ہیں کہ جب تک فکری کام آگے نہیں بڑھتا دوسرے کاموں کے باوجود اسلامی تحریکیں اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔

ہمارے نزدیک انسانی دنیا میں فیصلہ کن طاقت افکار و تصورات کی طاقت ہے اور جو چیز دَورحاضر میں اسلام کو اس کا اصل مقام دوبارہ دلوانے والی ہے وہ اسلامی افکار و تصورات کی صالحیت اور دوسرے تمام افکار و تصورات کے مقابلے میں اسلام کے نظریۂ حیات و کائنات کا زیادہ معقول و برتر ہونا ہے۔ شرط یہ ہے کہ باطل افکار و تصورات پر گہری تنقید کے ساتھ اسلامی افکار و تصورات کو ایسے استدلال کے ساتھ پیش کیا جائے جس کو عصرحاضر کا انسان سمجھ سکے۔ کسی صالح تر نظریے کو محض جبرو تشدد سے زیادہ عرصہ نہیں دبایا جا سکتا۔ آج بعض مسلم ممالک میں طاقت ور اسلامی تحریکوں کو جبر کی حکمرانی نے جس طرح دبا رکھا ہے‘ اس سے بہت سے ذہنوں میں یہ سوال اُبھر رہا ہے کہ ایسے حالات میں نظام کی تبدیلی کے لیے اشاعت افکار‘ تعمیر کردار اور اصلاح معاشرہ کے پروگرام کس طرح مقصد براری کر سکتے ہیں؟ طاقت کے جواب میں طاقت کی ضرورت ہے۔

اس طرح سوچنے والوں کو مذکورہ بالا تاریخی حقیقت پر غور کرکے یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ انھیں وقت کے چھائے ہوئے نظام کے مقابلے میں جس طرح کی طاقت کی ضرورت ہے وہ عوام و خواص کے ذہنوں میں صالح فکر کے رسوخ اور ان کے انفرادی اجتماعی کردار پر اس کے گہرے اثر کے نتیجے میں ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ انسانی فطرت جبر کی حکمرانی سے نفرت کرتی ہے‘ مگر اس کی بے پناہ قوتوں کو جبر کے خلاف منظم کوشش پر آمادہ کرنے کے لیے صالح نظریہ اور اس پر گہرا یقین درکار ہوتا ہے۔ ساتھ ہی یہ حقیقت بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ کسی ملک میں بھی اسلام کی راہ کا روڑا صرف اس ملک کا مغرب زدہ طبقہ یا اس کی حکمران قوتیں نہیں بلکہ پوری لادینی تہذیب‘ سرمایہ دارانہ مغرب‘ صلیبیت اور صیہونیت اپنے عالمی پریس‘ اپنے لٹریچر‘ اپنے سفارت خانوں اور برآمد کردہ ماہرین‘ اپنی فوجی اور اقتصادی امداد‘ غرض اپنے جملہ مادی اور ذہنی وسائل کے ساتھ اسلامی نظام کے احیا کی راہ روکنے پر تلے ہوئے ہیں۔

احیاے اسلام کے لیے جہاد کا میدان کوئی ایک ملک نہیں‘ پوری دنیا ہے۔ آج تحریک اسلامی جس مرحلے میں ہے اس میں یہ لڑائی محض مادی قوت کے ذریعے نہیں جیتی جا سکتی ہے۔ ہماری اصل قوت ہمارا صالح نظریۂ حیات ہے‘ جس کی صحیح اور موثر ترجمانی اورعصرحاضر کے ذہن و مزاج کو پوری طرح سمجھ کر کی جانے والی تفہیم --- ایسی ترجمانی اور تفہیم جس کے پیچھے داعی گروہ کے اعلیٰ اسلامی کردار کی سند موجود ہو--- جغرافیائی‘ قومی اور نسلی حدود سے بے نیاز ہو کر انسانوں کے دل و دماغ بدل سکتی ہے۔ یہی کام ہماری اپنی صفوں کو درست کرنے اور مخالف قوتوں کا شیرازہ منتشر کر کے انسانوں کو ان کی قیادت سے اپنی قیادت کی طرف لانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ہمیں اپنی توجہات اسی پر مرکوز کر دینی چاہییں۔

ایمان وعقیدہ

۱- شان الوہیت: فکری کاموں میں سرفہرست اللہ تعالیٰ کے وجود‘ اس کی صفات‘ اور شان الوہیت کی تفہیم کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے پر اب تک ایسا لٹریچر نہیں پیش کیا جا سکا ہے جس میں دَورحاضر کے منکرین خدا‘ متشککین (skeptics) اور لاادریین (agnostics)کے خیالات کو پوری طرح سامنے رکھا گیا ہو۔ غالباً اس کی ایک وجہ ہے کہ ہمارے مفکرین مغرب کے انسان کو اپنا مخاطب بنانے کا حوصلہ نہیں رکھتے تھے‘ اور انھوں نے اپنے عوام کے ایمان باللہ کو ایک مسلّم حقیقت اور اپنے دانش وروں کے شک و ریب کو محض مغرب سے مرعوبیت کا نتیجہ سمجھا۔ افسوس کہ ہمارا مرض زیادہ گہرا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ عصرحاضر کے ائمۂ فکر کے اعتراضات و شبہات کا جائزہ لیتے ہوئے اس موضوع پر کام کیا جائے۔ اس کام میں ایسے مسائل سے بھی تعرض ناگزیر ہوگا جن کا تعلق خدا کے وجود سے نہیں بلکہ اس کی صفات اور ان صفات کے درمیان ہم آہنگی سے ہے۔ مثلاً برٹرنڈرسل اور ٹائن بی جیسے چوٹی کے لاادریین کائنات میں شر(evil) کے وجودکے پیش نظر خداکی صفت رحمت و قدرت کو تسلیم کرنے‘ اور پھر اس بنا پر خود خدا کا وجود تسلیم کرنے کو دشوار پاتے ہیں۔ معاصر اسلامی لٹریچر اس مخصوص مسئلے سے بہت سرسری گزر گیا ہے۔

صفات خداوندی کی قرآن کی روشنی میں تفہیم کی اہمیت ایک مثال سے سمجھی جا سکتی ہے۔ خدا علیم و خیبر ہے اور وہی غیب کا علم رکھتا ہے مگر علم کے باب میں دَورحاضر کا انسان کسی حد کا قائل نہیں اور وہ اس علم و خبر کا بھی مدعی ہے جو ضابطہء حیات وضع کرنے کے لیے درکار ہے۔ اس انانیت میں اعتدال پیدا کرنا شان الوہیت اور مقام عبودیت کے صحیح فہم اور متعلقہ صفات خداوندی کے قرآنی تصور پر اطمینان حاصل کیے بغیر ممکن نہیں۔

اسی طرح شان الوہیت کی ایسی تفہیم درکار ہے جو انسانوں میں عموماً اور مسلمان دانش وروں اور ان کے عوام میں خصوصاً اللہ کی حاکمیت کا تصور بھی اسی طرح راسخ کر دے‘ جس طرح اس کے مسجود و معبود ہونے کا تصور راسخ ہے۔ اسلامی تصورتوحید کی وضاحت میں وحدت الوجودجیسے تصورات کا نوٹس لینا بھی ضروری ہے تاکہ یہ صاف اور سلجھا ہوا حرکی (dynamic)تصور فلسفیانہ الجھائوں سے پاک رہ کر انسانی زندگی پراپنے گہرے اثرات مرتب کر سکے۔ انسان کی روحانی اور نفسیاتی‘ علمی اور فکری‘ اخلاقی اور عملی‘ نیز سیاسی‘ معاشی اور سماجی زندگی کے لیے عقیدہ توحید کے تقاضوں کی وضاحت ہر دور میں ازسرنو ضروری ہوتی ہے۔ دَورحاضر کے احوال و ظروف‘ اس کی ذہنی فضا اور مزاجی کیفیت کی مناسبت سے ایسی وضاحت درکار ہے‘ جو مادی تہذیب کے اثرات سے زندگی کے تمام پہلوئوں کو پاک کر کے انھیں اسلامی اقدار کے مطابق ڈھال سکے۔ عملی زندگی میں توحید کے تقاضوں کی تووضاحت کی گئی ہے‘ مگرعلم و فکر‘ آرٹ اور ادب‘ فنون لطیفہ اور جمالیات کی نسبت سے کم سوچا گیا ہے۔

تمام تہذیبی مظاہر کی آبیاری بالآخر کسی ایک سرچشمہ سے ہوتی ہے جو ان کا مزاج متعین کرتا ہے۔ اسلامی تہذیب کا سرچشمہ تصور توحید ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ کائنات کے مشاہدے و مطالعے میں‘ قوانین فطرت کے اکتشاف اور ان کی تشریح میں یا نفس انسانی‘ سماج اور اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوئوں کے تجزیہ و تحلیل میں اس سرچشمہ سے بے نیازی برت کر اسلامی تہذیب کی تشکیل جدید کی امید کی جا سکے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ وہ دائرے ہیں جو علما دین کی دسترس سے باہر رہے ہیں اور ان کے ماہرین نے شعوری یا لاشعوری طور پر ان دائروں میں خدا کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا ہے جو مغربی تہذیب نے اختیار کیا ہے۔ اس موقف پر نظرثانی کی اور ان دائروں میں توحیدی بصیرت کے ساتھ نئے کام کی ضرورت ہے تاکہ ایک طرف تو یہ واضح ہو سکے کہ کائنات کی سب سے بڑی حقیقت یعنی خدا کے بغیر حقائق کا صحیح فہم اور ان کی تعبیر و توجیہ دشوار ہے‘ دوسری طرف یہ ثابت ہو جائے کہ اس حقیقت کی رہنمائی میں مختلف حقائق کے درمیان ربط قائم کرنا اور ان سے متوازن اور ہم آہنگ استفادہ کرنا ممکن ہے۔

۲- منصب رسالت : الوہیت کے بعد وحی و رسالت کی اہمیت ہے۔ مستشرقین نے وحی کے اسلامی تصور کو مجروح کرنے اور رسالت کے حدود (scope)کو محدود کرنے کی کوشش کی ہے‘ جس کا بعض مسلمان دانش وروں نے خاصا اثر لیا ہے۔

وحی و رسالت کے باب میں ہندو ذہن اور عیسائی ذہن اسلامی ذہن سے یکسرمختلف تصور رکھتا ہے۔ ان مخصوص اجنبی تصورات کا نوٹس لینا بھی ضروری ہے۔ وحی و رسالت کے قرآنی تصور کی وضاحت میں عقل انسانی‘ سائنس اور تاریخ کی رہنمائی کی رسائی کو بھی زیربحث لانا ہوگا۔ نیز فی الجملہ غیب اور ایمان بالغیب کے موضوع پر سیرحاصل بحث کرنی ہوگی جیسا کہ اُوپر اشارہ کیا جا چکا ہے۔ عصرحاضر کا انسان‘ غیب سے کتراتا ہے اور کسی ایسے علم کو جاننے سے پہلو بچاتا ہے جسے عقل و تجربہ کی سند نہ حاصل ہو۔ بیسویں صدی کے متعدد سائنس دانوں اور ماہرین نفسیات نے اس سطحیت اور کوتاہ نظری کے خلاف احتجاج کیا ہے‘ اور معلوم کے بالمقابل مجہول کی وسعتوں پر زور دیا ہے‘ مگر مزاج عصر نے اس کا اثر کم قبول کیا ہے۔ ان کی تحریروں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسئلے کی مکمل تنقیح ضروری ہے۔

وحی اور رسالت کی ماہیت اور ان کی وسعتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے اس ذہن کو بھی سامنے رکھنا ہوگا جو دین وشریعت کے درمیان تفریق کرتا ہے اور سیاست و معیشت‘ خاندانی زندگی اور جرم و سزا جیسے سیکولر امور میں قانون سازی کے لیے انسانی عقل و تجربہ کو کافی سمجھتا ہے۔ کیا انسان کی نفسیاتی‘ سماجی اور معاشی و سیاسی زندگی کے جملہ امور و متعلقات دائرہ غیب سے باہر اور انسانی علم کی مکمل رسائی میں ہیں؟ اس سوال کا واضح جواب قرآن کی روشنی میں تلاش کرنا ہوگا۔ احکام شریعت کی دائمی حیثیت کی وضاحت اوروکالت کے ضمن میں زمان و مکان کی نسبت سے بعثت محمدیؐ کی حیثیت کا جائزہ لینا ہوگا۔ اس سلسلے میں ختم نبوت کی بھی مزید تفہیم درکار ہے۔ کیوں کہ بعض ذہنوں کے لیے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ جب عقل و حواس کی نارسائی انسان کی مستقل کمزوری ہے جس کی تلافی کے لیے وحی الٰہی کی رہنمائی درکار ہے تو تاریخ انسانی کے کسی مرحلہ پر اس رہنمائی کا سلسلہ کیوں ختم کر دیا گیا؟ اس سوال اور مذکورہ بالا دوسرے مسائل کا تعلق بالآخر فلسفہ‘ تاریخ‘ مزاج شریعت اور تجدید و اجتہاد کے تاریخی کردار سے جڑ جاتا ہے۔

۳- قرآن اور سائنس :  مقام وحی و رسالت کے ضمن میں مذہب اور سائنس‘ یا زیادہ صحیح الفاظ میں قرآن اور سائنس کے موضوع پر بھی نئے کام کی ضرورت ہے۔ اس موضوع پر اردو اور عربی میں جو لٹریچر موجود ہے اس پر زیادہ تر انیسویں صدی کی سائنس کی فکر کی چھاپ پڑی ہے اور وہ الا ماشاء اللہ افراط و تفریط کا شکار ہے۔

اس کی ایک مثال حیاتیاتی ارتقا (evolution)کا مسئلہ ہے۔ سائنس کا طالب علم اسے حقیقت مانتا ہے مگر قرآن کا مفسّر یا تو قرآن کی طرف اس کی قطعی تردید منسوب کرتا ہے یا آیات قرآنی سے حیاتیاتی ارتقا کا اثبات کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم بتا چکے ہیںمطالعہ فطرت میں وحی الٰہی سے بے نیازی برتنے یا قرآن اور سائنس کو دو بالکل علیحدہ خانوں میں رکھنے کا رویہ صحیح نہیں ہو سکتا۔مگر یہ بھی ممکن نہیں کہ ایک دائمی کتاب ہدایت سے تمام سائنٹفک حقائق اخذ کیے جا سکیں یا اس کے بیانات کی تفسیر میں بدلتے رہنے والے نظریات کو فیصلہ کن اہمیت دی جائے۔ مسئلے کے ان نازک پہلوئوں کی پوری رعایت ملحوظ رکھتے ہوئے مسئلہ ارتقا اور اس جیسے دوسرے مسائل کی نسبت سے قرآن کے موقف و منہاج کی ازسرنو وضاحت ضروری ہے۔ عصرحاضر کے لیے اس کام کی ضرورت بہت زیادہ ہے کیوں کہ بعض اوقات ایمان باللہ کے باوجود کسی ایک مسئلے میں شک و ریب یا یہ گمان کہ معلوم و مشہود حقیقت وحی و رسالت کے بیان سے ٹکراتی ہے‘ پوری زندگی کو ایمان کے دُور رس اثرات سے محروم کر دیتا ہے اور انسانی ذہن کو مجبور کرتا ہے کہ وہ مذہب کے سلسلے میں ایک غیر عقلی تقلیدی موقف اختیار کرے جس کا لازمی نتیجہ عام انسانی زندگی سے مذہب کی بے دخلی ہے۔

۴- سنت: منصب رسالت کی تفہیم کے لیے دوسرا اہم کام سنت کی تنقیح کا ہے۔سنت اسلامی قانون کا مآخذ اور قرآن کے پہلوبہ پہلو اسلامی تعلیمات کا منبع ہے۔ کسی زیرغورمسئلے میں سنت کی رہنمائی معلوم کرنے کے لیے ہمیں اب جو ذریعہ میسّر ہے وہ احادیث کا ذخیرہ ہے‘ جو صدیوں کی چھان بین اور بحث و تحقیق کے نتائج کے ساتھ ہم تک منتقل ہوا ہے۔ اصولی طور پر اس ذخیرہ سے استفادے میں ماضی کی بحث و تحقیق کو حرف آخرسمجھنے کے بجائے مزید تحقیق و تدبیر کی ضرورت ہمیشہ باقی رہے گی۔ یہ بات روایت و درایت یا تاریخی تحقیق اور قرآن کریم کی رہنمائی میں عقلی جانچ پرکھ دونوں کے بارے میں صحیح ہے۔چند مجموعوں میں درج ہر روایت کو لفظاً و معناً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے اور مستشرقین کی اتباع میں احادیث کے پورے ذخیرہ کی صحت کو مشکوک سمجھنے کے دو انتہا پسندانہ رویوں کے درمیان یہی وہ مسلک اعتدال ہے جو تحریک اسلامی کے رہنمائوں نے اختیار کیا ہے۔ اصل مسئلہ زیرغور مسائل میں اس موقف کو عملاً برت کر دکھانے اور انتہا پسندانہ موقفوں پر علمی تنقید کا ہے۔ یہ کام بھی ازحد تشنہ ہے۔

روایت و درایت کے اعتبار سے احادیث کی ازسرنو تحقیق اور جدید مسائل کی نسبت سے سنت کی تنقیح کی سب سے زیادہ اہمیت ان دستوری‘ سیاسی‘ معاشی اور سماجی مسائل میں ہے‘ جن میں دَور جدید میں اسلامی موقف کی ازسرنو تعیین اس لیے ضروری ہو گئی ہے کہ متعلقہ احوال و ظروف یکسر بدل گئے ہیں۔ اس دائرہ میں متعدد مسائل کے ضمن میں یہ سوال بہت اہم ہو گیا ہے‘ کہ سنت ان مقاصد و مصالح کے اعتبار سے اور ان کے حصول کے لیے مزاج شریعت سے مناسبت رکھنے والے طریقے اختیار کرنے کا نام ہے‘ جن کااعتبار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کی دستوری سیاسی‘ معاشی اور سماجی زندگی کی تطہیر و تنظیم میں کیا تھا‘ یا خود ان متعین قواعد و ضوابط کا نام ہے جو آپؐ نے وضع کیے تھے۔

۵- اسلامی تاریخ: دَور جدید میں احیاے اسلام کی جدوجہد کے سیاق میں تاریخ اسلام کا ازسرِنو مطالعہ اور کتاب و سنت کے دیے ہوئے اسلامی معیاروں پر اس تاریخ کے مختلف اَدوار کی قدروقیمت کا تعیّن (evaluation) نیز ان مختلف انقلابات اور تبدیلیوں کی تعبیر و توجیہ جن سے یہ تاریخ گزری ہے‘ بہت اہم کام ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اس تاریخ کے بعض اہم اَدوار کا مطالعہ خاصا اختلافی رہا ہے۔ اس کی ایک مثال حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا دورِ حکومت ہے‘ جس پر گذشتہ چند برسوں میں خاصی بحث رہی ہے۔ اس کام کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ جدید سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی مسائل پر بحث و مذاکرے کے دوران وسیع پیمانے پر تاریخی نظائر پیش کیے جاتے ہیں مگر کسی مستند evaluationکا فقدان اس طرح کے نظائر کا وزن مشکوک بنا دیتا ہے۔

۶- فقہ: معاصر اسلامی مفکرین کے درمیان دورِ جدید کی اسلامی قانون سازی میں حجت ہونے یا رہنما بنانے کے لحاظ سے اس فقہی ذخیرے کے مقام کے بارے میں مختلف رائیں پائی جاتی ہیں‘ جو شروع کی چند صدیوں میں مرتب ہوا تھا۔

اصولی طور پر اللہ نے ہمیں صرف کتاب و سنت کی پابندی کا مکلف بنایا ہے۔ جدید اسلامی قانون سازی میں ہمیں ماضی کے فقہی ذخیرہ سے پورا استفادہ کرنا چاہیے۔ لیکن یہ مخصوص زمان ومکان میں انسانی ذہن کی پیداوار ہے‘ جس کی پابندی کی نہ کوئی شرعی اور عقلی دلیل ہے‘ نہ یہ پابندی عملاً مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ مگر علما کا ایک بڑا طبقہ یہ رجحان رکھتا ہے کہ نئی قانون سازی میں کوئی ایسی راہ نہیں اختیار کی جانی چاہیے‘ جو فقہ کے معروف اسکولوں میں سے کسی اسکول نے نہ اختیار کی ہو۔ تحریک اسلامی کے رہنما عام طور پر صحیح اصولی موقف کے حامل ہیں۔ مگر جب کسی عملی مسئلے پر بحث چھڑ جاتی ہے تو ان کے طرزِفکر پر علما کے غالب رجحان کا گہرا اثر بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس رجحان کے ردّعمل میں احوال و ظروف اور مزاج عصر کی بیش از بیش رعایت رکھنے والے دانش وروں میں شبہ پیدا ہوتا ہے کہ علما کتاب و سنت کے ساتھ سلف صالح کے اجتہادات کو بھی شریعت کا درجہ دینا چاہتے ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ یہ دونوں طبقے ایک دوسرے کو اپنا موقف سمجھانے کی کوشش کریں اور باہمی تبادلۂ خیال اور بحث و تمحیص کے بعد کسی اعتدال پر مجتمع ہوں۔ بدقسمتی سے ان دونوں طبقوں کے درمیان خوش مزاجی اور انکسار طبع کے ساتھ تبادلہ آرا کا رواج نہیں پڑ سکا اور جو بحثیں ہوتی ہیں ان کامواد اور لہجہ کسی صحت مند نتیجے تک پہنچانے کے لیے سازگار نہیں ہوتا۔

ہمارے ماضی کے ورثے میں مرتب شدہ فقہ کے ساتھ دینی فکر کے دوسرے اہم اجزا بالخصوص تشریح عقائد‘ علم الکلام اور صوفیانہ لٹریچر اور تصوف کی روایات کی بڑی اہمیت ہے۔ مسلمان معاشرہ آج جیسا ہے اس کی تشکیل میں اس لٹریچر نے‘ ان علما و مشائخ کے توسط سے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے‘ فیصلہ کن حصہ لیا ہے۔ ہمارے نزدیک دینی فکر کے ان دوسرے عناصر کے سلسلے میں تحریک اسلامی کے رہنمائوں کا موقف زیادہ واضح اور صاف رہاہے‘ یعنی انھوں نے اسے بحیثیت مجموعی‘ مخصوص احوال و ظروف اور زمان و مکان کے مخصوص تقاضوں کے تحت قرآن و سنت کے انسانی فہم کا اظہار سمجھا ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ اسے دورِ جدید کے انسان کے لیے حجت نہیں قرار دیتے‘ بلکہ اکثروبیشتر اسے غیر موزوں اور جدید اسلامی ذہن و مزاج کی تشکیل کے لیے مضر سمجھتے ہوئے تمام متعلقہ مسائل پر کتاب و سنت کی روشنی میں‘ آج کے احوال و ظروف اور موجودہ زمان ومکان کے تقاضوں کے پیش نظر ازسرِنو فکر کی دعوت دیتے ہیں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عام علما اور مشائخ نے ان کے اس موقف کو قبول نہیں کیا ہے‘ اور آج بھی مسلمان عوام کے دینی افکاراور ان کے مجموعی مزاج کی تشکیل انھی غیر موزوں اثرات کے تحت ہوتی ہے۔ یہ چیز ایک طرف تو عوام کی مطلوبہ اصلاح میں زبردست رکاوٹ بنتی ہے اور دوسری طرف پورے مسلم معاشرے میں اس حرکی اقدامی کیفیت کے پیدا ہونے میں مانع ہے جو دورِ جدید میں اسلام کی نشات ثانیہ کے لیے ضروری ہے۔ اس صورت حال کا تقاضا واضح ہے: علما و مشائخ کے غلط موقف پر تنقید‘ نئی دینی فکر کی جامع ترتیب‘ اور مسلمان عوام کی نئی فکری تربیت جو انھیں قدیم کلام اور تصوف کے غیر اسلامی اثرات سے پاک کر کے مطلوبہ مثبت مزاج عطا کر سکے۔ اس تقاضے کی تکمیل اہم اسباب کی بنا پر ابھی نہیں ہوسکی ہے۔

ہر ملک میں اسلامی تحریکوں کو سیکولر دانش وروں کے مقابلے میں اور مسلمان عوام میں نفوذ کے لیے علما و مشائخ کی اہمیت محسوس کر کے ان پر تنقید کا لہجہ نرم کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات سیکولرقیادتوں سے سیاسی کش مکش میں عوامی تائید کی ضرورت نے ان کو اس فکری اصلاح کو نظرانداز یا کم از کم ملتوی کرنے پر مجبور کیا ہے۔ وقتی طور پر یہ طریقہ اختیار کرنا کتنا ہی ناگزیر کیوں نہ نظر آتا ہو ہمارے نزدیک اس اہم کام کے بغیر خود اس مقصد کا حصول دشوار ہے جس کی خاطر اس کام کو پس پشت ڈالا گیا ہے۔ (جاری)

تمدّن کا حسن دو پہلو رکھتا ہے۔ ایک‘ اس کی خوش رنگی اور دوسرے ‘اس کی خوش اطواری۔ خوش رنگی دل کشی کا اور خوش اطواری سکون قلبی کا سامان ہوتی ہے۔ تمدّن میں یہ دونوں پہلو باہم دگر کامل ہم آہنگی کے ساتھ ایک دوسرے میں پیوست نہ ہوں تو کلچر میں حسن باقی نہیں رہتا۔ تہذیب کا حسن ہی اصل میں ترقی کا صحیح مترادف ہے۔

تمدّن کی ظاہری چمک دمک ہی کو ترقی قرار دے دینا پرلے درجے کی ناسمجھی ہے۔ پھول کو لیجیے‘ اس کی خوش رنگی چند لمحوں کے لیے بہار دکھاتی اور پھر مرجھانے کے بعد بظاہر اپنی اہمیت کھو دیتی ہے۔ ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ لینے والے کے لیے تو اس کی اہمیت قطعی باقی نہیں رہتی لیکن دانش مند اہل فن اس کا عطر کشید کر کے مستقبل کو معطر رکھنے کا سامان کر لیتے ہیں۔ وہ اسی پر بس نہیں کرتے‘خوشبوکو دائمی بنانے کی خاطر عطر کشید کرنے کی ٹکنالوجی آیندہ نسلوں کو منتقل کرجاتے ہیں۔

پھول کی خوشبو ‘پھول کی روح ہے جس سے اس کے ظاہری حسن اور خوش رنگی کی یاد تسلسل اختیار کر کے دوام کا انداز اپنا لیتی ہے۔ اس طرح گویا پھول کا ظاہر جو اس کے مادّی وجود اور خوش رنگی سے عبارت ہے‘ اپنی اصل کے اعتبار سے اس کے باطنی اور روحانی وجود ہی کا پرتو ہے۔ پھول کا مادّی وجود تو مٹ جاتا ہے لیکن خوشبوکے تحفظ کی صورت میں اس کا معنوی وجود دوام اختیار کر لیتا ہے۔ پھول کی حقیقی افادیت یہی ہے۔

بعینہٖ یہی مثال انسانی معاشرے کی ہے‘ تہذیبی رنگوں کا تنوع اورمادّی سہولیات کی فراوانی اس کا ظاہر ہے‘ جو خوب سے خوب تر کی متلاشی انسانی فطرت کے پیش نظر نئے سے نیا رنگ بدلتا اور نئے سے نیا چولا پہنتا ہے۔ اس کے ظاہری رنگوں کے بارے میں دوام کی سوچنا‘ اس پر جمود طاری کرنے اور اسے آگے بڑھانے سے انکار کا ہم معنی ہے۔ سو ہم دیکھتے ہیں کہ رسل و رسائل میں وسائل سفر کا جو ماڈل کل تھا‘ وہ آج نہیں ہے اور جو آج ہے وہ کل نہیں ہوگا۔زندگی کا مزاج تحرک اور آگے بڑھنا ہے‘ چنانچہ وقت کے ساتھ ساتھ ضروریات اور ان کے پورا کرنے کے انداز میں بھی حسین تر کی جستجو انسان کو آگے بڑھاتی رہتی ہے اور یوں مظاہرتہذیب میں جدّت کی شدت ہی ترقی کا معنیٰ ہے۔ یہ ترقی کا مادّی پہلو ہے۔

پھول کی خوشبو کی طرح اس کا بھی ایک روحانی اور باطنی پہلو ہے جو اس کی افادیت کے دوام سے وابستہ ہے۔ انسانی فطرت محض خوب سے خوب تر کی تلاش ہی کا نام نہیں‘ اس کی کچھ کمزوریاں بھی اس کی فطرت اور مزاج کا حصہ ہیں۔ انسانی معاشرے کا تہذیبی مظہر جو مادّی وجود رکھتا ہے اور جو اس کی کسی نہ کسی قسم کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے‘ خود انسان ہی کی تخلیق ہوتا ہے‘ ایک وقت میں‘ دو میں سے ایک حال سے‘ کبھی خالی نہیں ہوتا‘ یعنی یا یہ اس کو فائدہ پہنچاتا ہے یا نقصان۔ انسان فطری طور پر نقصان سے نفور اور فائدوں سے محبت کا رویّہ رکھتا ہے۔ اس کی یہ بھی فطری کمزوری ہے کہ وہ کثرت کا اس حد تک خواہش مند ہوتا ہے کہ سب کچھ خود لے اڑنا چاہتا ہے۔ اکثروبیشتر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ہی مادّی تخلیقات کے استعمال میں خود غرضانہ رویّہ اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے یہ خود غرضانہ رویے کیا نتائج مرتب کرتے ہیں‘ تاریخ نے بار بار انھیں عبرت ناک مناظر کی صورت میں پیش کیا ہے لیکن انسان ہے کہ غلط تصورات اور جھوٹے اِدعا سے باز نہیںآتا۔ کثرت کی خواہش اکثر اس کے لیے ہلاکت کا سامان بنتی ہے۔

وقت‘ وسائل اور توانائی‘ مظاہر زندگی کے تخلیق کار ہیں‘ بالقوہ بھی اور بالفعل بھی۔ اگر انسان خود غرضانہ فیصلوں کا عادی ہو اور وقت‘ وسائل اور توانائی سے مثبت فائدہ اٹھانے کا شعور نہ رکھتا ہو‘ تو کثرت کی خواہش کے سبب لوٹ مچانے کے لیے اپنی ہی نوع کے افراد و اقوام کو تاراج کرنے کے ارادے سے چڑھ دوڑتا ہے۔ کمزوروں کا خون بہانا اور ان کا مال ڈکار جانا اس کا وتیرہ بن جاتا ہے۔ نتیجتاً سفاک جنگیں‘ معاشرتی بے سکونی‘ عدم اطمینان اور مسلسل روحانی کرب اس کے محبوب مظاہر حیات کے ساتھ ساتھ‘ خود اس کے اپنے وجود کو بھی ہڑپ کر جاتے ہیں--- فکرونظر کا یہ ایک زاویہ ہے---دوسرے پہلو سے دیکھیے تو وقت‘وسائل اور توانائی‘ تینوں کے تینوں‘ خود انسانی محنت کے نتیجے میں ثمرآور ہوتے ہیں۔ چنانچہ جو فرد یا قوم‘ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے زیادہ محنت کرے گی‘ زیادہ اور بہتر پھل پائے گی۔ مادّی پیمانہ ہی اگر ترقی کا حتمی پیمانہ  (perfect criterion)ہو تو وہ فرد یا قوم جس کے پاس پیداوار کی فراوانی ہے‘ وہ ترقی یافتہ ٹھیرے گی اور جس کے پاس مال و دولت اور پیداوار میں کثرت کا فقدان ہوگا وہ غیر ترقی یافتہ شمار ہوگی‘ کیا یہ نقطۂ نظر صحیح ہے؟

وقت ‘ وسائل اور توانائی کے حوالے سے ایک اور زاویہ نظر سے بھی معاملے کو دیکھیے۔ ترقی کا پیمانہ اگر سراسر مادّی ہی تسلیم کر لیا جائے تو اس کا بہترین تقاضا یہ ٹھیرتا ہے کہ انھیں استعمال کرنے والا فرد اپنی انفرادی حیثیت میں اور انھیں کام میں لانے والی قوم بحیثیت مجموعی‘ ان تینوں ذرائع پیداوار کی اہمیت سے کماحقہ آگاہ ہو  تاکہ ان تینوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکے اور ان کے شمہ بھر ضیاع سے بھی بچا جا سکے۔

اب دیکھیے وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بالخصوص‘ اور ملّت اسلامیہ کے دیگر اعضا میں بالعموم‘ عملاً کیا ہو رہا ہے۔ سیاسی سطح پر غلط فیصلوں کے نتیجے میں---انسان--- جو پیداوار کا سب سے بڑا عامل ہے اور خود پیداوار جس کے لیے مطلوب ہے‘ بری طرح بگاڑا اور ضائع کیا جا رہا ہے۔ آیندہ نسلیں‘ جنھیںمستحکم اور قوی افرادی قوت کی حیثیت سے پرورش کیا جانا چاہیے‘ بری طرح برباد کی جا رہی ہیں۔ وقت کے ضیاع کی تربیت‘ پوری قوت سے برسرِعمل ہے۔ وسائل کی اہمیت ان کی نگاہ میں پرکاہ کے برابر بھی نہیں رہنے دی گئی اور توانائی کے ضیاع کا یہ عالم ہے کہ اس کے پیداواری استعمال کا موقع ہی نہیں آنے دیا جا رہا۔ موجودہ سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی پیش منظر کے بارے میں یہ مایوسی بلاسبب نہیں۔

انسان جو پیداوار کا سب سے بڑا عامل ہے‘ کامل اور ہمہ جہت نشوونما کا طالب ہے۔ وہ حیوانی وجود رکھتا ہے جو سراسر زمینی مادّوں سے تعمیر ہوتا ہے۔ اس کے اپنے تقاضے ہیں۔ انھیں پورا ہونا چاہیے اور کماحقہ پورا ہونا چاہیے۔ وہ ایک نفسیاتی وجود بھی ہے اور حق یہ ہے کہ یہی اصل انسان ہے‘ نظر نہ آنے والی عقل و اخلاق اس کا ہیولیٰ تیار کرتے ہیں۔ اس روحانی وجود کے اپنے تقاضے‘ اپنی خواہشات اور اپنی تمنائیں اور معیارات ہیں۔ انھیں بھی پورا ہونا چاہیے اور کماحقہ‘ پورا ہونا چاہیے۔ حیوانی یا نفسیاتی وجود میں سے کون برتر ہے اور کس کی اہمیت بنیادی اور کس کی ثانوی ہے‘اس کا بھی واضح شعور ہونا چاہیے۔ اصل انسان‘ اس کا نفسیاتی وجود ہے جو حیوانی وجودکو اپنے اظہار کا وسیلہ بناتا ہے‘ حیوانی وجود محض آلہ ہے ‘ خادم ہے روحانی وجود کا۔ اس کی اہمیت بلاشبہ ثانوی ہے‘ جب کہ روحانی وجود کی اہمیت اصل انسان ہونے کی بنا پر اولین اور بنیادی ہے۔ نفس انسانی کے دونوں لاینفک اور باہم دگر پوری طرح ہم آہنگ اجزا کی اہمیت کی ترتیب بدل جائے تو ترقی کا تصور بھی بدل جاتا ہے۔ اس بدلے ہوئے تصور کے مطابق اقدار کا پیمانہ بھی معکوس ہو جاتا ہے‘ صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح تصور کر لیا جاتا ہے۔ معروف‘ معروف نہیں رہتا‘ منکر سمجھ لیا جاتا ہے اور منکر کو معروف کی حیثیت دے دی جاتی ہے۔ نیکی اپنی اہمیت کھو بیٹھتی اور بدی ہی کو نیکی جان کر اپنا لیا جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ حقیقی فائدہ اور حقیقی نقصان کے مفاہیم و معیارات اُلٹ جاتے ہیں۔ اب جس قوم کے ہاں اچھائی اور برائی کا پیمانہ یوں معکوس ہو جائے تو اس کا تو بس اللہ ہی حافظ ہے۔ انفرادی گناہوں کے لیے تو بخشش اور معافی کی گنجایش نکل سکتی ہے لیکن

اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے اخلاقی قانون میں ایسی قوموں کو بے جا مُہلت نہیں ملا کرتی    ؎

فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف

وطن عزیز پاکستان کو یہی درد انگیز حادثہ جناب قائد ؒکی وفات کے ساتھ ہی پیش آنا شروع ہوا اور بدقسمتی سے پورے تسلسل اور پوری شدت کے ساتھ اب تک جاری ہے۔سیاسی سطح پر ترقی کا نام لے کر یہاں ہر وہ قدم اٹھایا گیا جو ترقی کے اصل عامل---انسان--- کو ضائع کر دے۔ انسان کا ضائع کرنا یہ ہے کہ اس کو فضائلِ اخلاق سے عاری کر دیا جائے اور رذائلِ اخلاق کی بنیاد پر اس کی سیرت کو نشوونما دی جائے۔ جب گاڑی کو اس طرح سے مسلسل اُلٹے رخ پر چلایا جاتا رہے گا تو امریکی سفیر کے برسرِعام انکشاف کے مطابق پاکستان کے پیسے کا وہ ۱۰۰ ارب ڈالر جسے اس ملک کی تعمیروتزئین --- تعمیروتزئین ہی حقیقی ترقی ہے--- میں صَرف ہونا چاہیے‘ مغربی دُنیا کے بنکوں کی پرورش میں لگا دیا گیا‘ گویا باڑ ہی فصل کو اُجاڑنے میں فعّال ہوگئی۔

جس طرح نفسِ انسانی ایک ہی مربوط اکائی ہے اور اس کے حیوانی اور نفسیاتی وجود کو ایک دوسرے سے کاٹ کر اور ایک دوسرے سے الگ کر کے نشوونما نہیں دی جا سکتی‘ بالکل اسی طرح انسان کے اجتماعی معاشرتی وجود کو بھی الگ الگ اور ایک دوسرے سے غیر مربوط خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ زندگی وجودِ انسانی ہی کی طرح ایک ہی مربوط کل‘ ایک ہی متحدہ یونٹ اور ایک ہی مربوط وحدہ ہے۔ اس کے سیاسی‘ مذہبی‘ معاشرتی‘ معاشی اور اخلاقی پہلوئوں کو ایک دوسرے سے کاٹ کر‘ ایک دوسرے سے الگ کر کے ترقی نہیں دی جا سکتی۔ زندگی کے تمام ہی شعبے متناسب‘ متوازن اور ہم آہنگ نشوونما پائیں تو صرف ایسی ہی نشوونما صحیح معنوں میں ترقی کہلائے گی‘ بصورتِ دیگر خود ترقی ہی کا راستہ کٹ جائے گا۔ محض مادّی سہولتوں کی فراوانی اور وہ بھی محض چند افراد یا گنے چنے چند مخصوص طبقات ہی کے ہاں سہولتوں کے توافر کو قومی ترقی نہیں مانا جا سکتا۔ عام شہری کی خوش حالی اور تسکین و اطمینان‘ اجتماعی ترقی کی شرط اوّل ہے۔ مگر بدقسمتی سے وطن عزیز پاکستان میں ترقی کا غلط مفہوم غالب آ گیا ہے۔ سو نتیجتاً یہاں گمراہی کا نام سیاست ہے اور حرام کاری اور حرام خوری کا نام معیشت‘ بداخلاقی اور کرپشن یہاں کا اجتماعی چلن ہے جس نے ملّی تشخص اور قومی وقار کو قطعی گم کر دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ارضی کائنات‘ مسخر کر کے اور خَلَقَ لَکُمْ مَا فِیْ الْاَرْضِ جَمِیْعًا کہہ کر انسان کے حوالے کر دی ہے‘ یعنی یہ کہ زمین میں جوکچھ بھی ہے وہ سارے کا سارا تمھارے لیے ہے۔ اس سے فطرت کا تقاضا تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ زمین اور اس کی پیداوار کو متناسب اور متوازن انداز میں تمام انسانوں میں تقسیم کیا جائے‘ نہ یہ کہ چند افراد یا چند مخصوص طبقات اس کے اجارہ دار ہو جائیں اور اس طرح یہی مخصوص طبقات ہرچیز کے مالک ہوں اور باقی سب لوگ زمین کی مادّی پیداوار ہی کی مانند ان کے مملوک‘ یہ آقا ہوںاور باقی سب ان کے غلام۔ جن قوموں کے ہاں ایسے طبقات اور ایسے معیارات مستحکم ہو جائیں‘ ان کی تو زندگی ہی کا تسلسل قائم نہیں رہا کرتا چہ جائیکہ وہ ترقی کریں    ؎

سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂِ مومن کا بے زری سے نہیں

ترقی کے لیے تو امن و سکینت چاہیے‘ محبت کی فضا چاہیے‘ عدل و اعتدال چاہیے‘ لیکن طبقاتی کش مکش میں یہ چیزیں کبھی ممکن نہیں ہوتیں۔ ظالم اور مظلوم میں ہم آہنگی عنقا رہتی ہے تاآنکہ ظلم عدل کے لیے تخت ِ سلطانی کو خالی کر دے۔ عدل اللہ تعالیٰ کی سنت ہے اور وہ کائنات کا حکمران ہے۔ انسانی زندگی جب تک اس کے رنگ میں نہیں رنگی جاتی‘ ترقی ممکن ہی نہیں۔

انسان کی کمزوری ہے کہ اسے پروپیگنڈے سے متاثر کیا جا سکتا ہے‘ چنانچہ پروپیگنڈے کے زور پر کچھ وقت کے لیے اس کی نگاہ میں زوال کو عین ترقی باور کرایا جا سکتا ہے لیکن یہ بڑے ہی گھاٹے کا سودا ہے۔ زوال سے محفوظ رہنے اور پروپیگنڈے کے دھوکے سے بچنے کے لیے لازم ہے کہ ترقی کا صحیح مفہوم متعین نکات کی صورت میں ذہنوں میں مرتسم کر لیا جائے۔

ترقی کا مفہوم :

ہماری نگاہ میں ترقی کا صحیح مفہوم ان معانی پر مشتمل ہوگا:

    الف- انسان کے لیے من حیث الانسان‘ مادّی پیداوار کی کثرت اور مادّی سہولتوں کی انسانی ضروریات کے عین مطابق فراوانی‘ یہاں تک کہ معاشرے کا کوئی شخص بھی بھوکا ننگا اور بغیر چھت کے نہ رہے۔

    ب- سہولتوں کی تقسیم میں بلند اخلاقی معیارات یعنی حق پسندی‘ عدل و توازن‘ کمزوروں اور ناداروں کے لیے رحمت و رافت‘ جود و سخا کا عمومی چلن اور انسانی وقار کو لازماً اور مستقلاً ملحوظ رکھنے کا شعور و اہتمام۔

    ج- دلوں میں جواب دہی کے احساس کی ہر دم بیداری اور تازگی۔

     د- سائنس اور ٹکنالوجی کو فی نفسہٖ مطلوب و مقصود ماننے کے بجائے انھیں انسانی معاشرے کا اجتماعی خادم سمجھنا اور معیاری اور مقداری حوالے سے انھیں مسلسل آگے بڑھاتے رہنا۔

ترقی کے تقاضے

    ۱- اپنے انفرادی اور اجتماعی تشخص کی دریافت (ہمارا تشخص بغیر کسی ادنیٰ شائبے کے‘ اسلام اور صرف اسلام ہے۔ ہم جب تک اپنی اس اصل حیثیت کو نہیں پہچانیں گے‘ دُنیا میں اعتبار و اعتماد قائم نہیں کرسکیں گے)۔

    ۲-  غیر کی ذہنی مرعوبیت سے نجات اور تقلیدِ جامد کو کلیتاً مسترد کر دینا۔

    ۳-  اپنا اور خالصتاً اپنا‘ علمی و فنی ماحول تشکیل دینا اور خالصتاً اپنی ہی اخلاقی فضا تعمیر کرنا۔

    ۴-  زندگی کے ہر شعبے میں اداے فرض کے حوالے سے اخلاصِ نیت‘ کام کی سچّی لگن‘ دیانت و محنت اور جفاکشی کے ذریعے دُنیا اور اہل دُنیا کے لیے اعتماد کی فضا تعمیر کرنا۔

    ۵-  معروف (فضائلِ اخلاق اور نیکیوں) کو اس درجہ اپنانا اور منکرات (رذائلِ اخلاق اور برائیوں)سے اس درجہ بچنا کہ نصرتِ الٰہی ازخود ملّت اور افرادِ ملّت کی پشتیبانی کے لیے آکھڑی ہو۔

    ۶- ’’بہترین کا انتخاب‘‘ انسان کی فطرت ہے۔ سو مادّی تخلیقات میں سائنس اور ٹکنالوجی کی مدد سے بہترین پیداوار پیش کرنا تاکہ عالمی منڈیوں میں مسلمان کا مال چھا جائے۔

    ۷-  مادّی پیداوار کی فراوانی اور بہترین تخلیقات کے حصول کے لیے بے لوث‘ بے عیب‘ موثر‘ جامع اور مخلصانہ منصوبہ بندی جس میں صرف ضروری کی اہمیت ہو اور غیر ضروری کو کلیتاً مسترد کر دیا جائے۔ مسلمان کی حیثیت سے یہ بات ہمیشہ یاد رہنی چاہیے کہ منصوبہ بندی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے اور اللہ کے منصوبوں میں کہیں کوئی رخنہ ‘ کوئی کمی‘ کوئی خامی اور کوئی کجی نہیں ہوتی۔ ہم اللہ کا رنگ جتنا زیادہ اور جتنا گہرا اختیار کرتے جائیں گے اتنا ہی دُنیا پر غالب ہوتے جائیں گے۔

    ۸- اپنے ماہرین کی تخلیق و تعمیر اور غیر ملکی مشیروں سے نجات۔ کمیشن مافیا لاکھ پردہ ڈالے‘ یہ غیر ملکی مشیر اپنے معاشروں کے عام قسم کے افراد ہوتے ہیں اور قرض دہندہ قومیں‘ مقروض قوموں کو مزید نالائق بنانے کے لیے ایسے ہی افراد کو ماہرین کی حیثیت سے ان پر مسلط کردیتی ہیں۔

    ۹- ملکی اور غیر ملکی قرضوں سے مکمل نجات۔ کیونکہ قرضوں کی معیشت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ پیداوار کے اصل عامل--- انسان---کو محنت اور دیانت‘ دونوں سے دُور پھینک دیتی ہے۔ یہ وہ اخلاقی عوامل ہیں جو کارکن کو اندر سے متحرک کرتے اور متحرک رکھتے ہیں۔ پیداوار کا اصل عامل درحقیقت یہی تحرک ہے۔ قرضوںکی معیشت اس تحریک ہی کی تو قاتل ہے۔ خودانحصاری کی اہمیت کو تو ذہنوں میں یہ اُبھرنے ہی نہیں دیتی۔ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ قرضے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت کا احساس تک مٹا دیتے ہیں۔

    ۱۰-  پیداوار کے معیار کا اصل عامل‘ انسان ہے۔ پیداوار کے اس سب سے بڑے عامل میں جہاں دیانت و امانت اور اخلاصِ عمل کے بلند اوصاف کی ضرورت ہے وہاں اس کی جسمانی قوت و صحت کا صالح ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ جسمانی قوت و صحت کو قائم نہیں رکھا جا سکتا‘ اگراسے محنت کا پورا اور پروقار صلہ نہیں دیا جاتا اور بروقت نہیں دیا جاتا۔

    ۱۱- ملکی اور قومی ترقی کے لیے دیانت و امانت کی ضرورت اجیر (کارکن) ہی کو نہیں‘ آجر (کاروبار کے مالک اور صنعت کار)کو بھی ہے بلکہ بنظرِ غائر دیکھا جائے تو آجر کے لیے اس کی ضرورت اجیر کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

اس پوری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اسلامی اخلاقیات کے تابع ہو کر‘ جب تک ہم مستحکم سیاسی نظام کی طرف نہیں لوٹیں گے ‘ مخلصانہ اور طویل المیعاد جامع منصوبہ بندی کو مستقل وتیرہ نہیں بنائیں گے اور نظری اور فنی علوم تک عام شہری کی رسائی آسانی سے ممکن نہیں بنائیں گے‘ اس وقت تک ترقی کا خواب‘ خواب ہی رہے گا ‘ تعبیر عمل میں نہ آسکے گی۔

پروفیسر فتح محمد ملک کے کالموں کا پہلا مجموعہ‘  کشمیر کی کہانی :عالمی ضمیر سے چند سوالات کے نام سے حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ کتاب دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے’’کشمیر تیمور نہیں‘‘ اور ’’مشرقی تیمور کشمیر نہیں‘‘۔ ۳۸ شذرات کا یہ مرقع بہ ظاہر کشمیر میں جدوجہد آزادی اور حق خود ارادیت کے مسلمہ اصول کے بارے میں مغربی اقوام اور خصوصیت سے امریکہ کی دوغلی پالیسی کے مختلف پہلوئوں پر کلام کرتاہے لیکن فی الحقیقت یہ دورحاضر میں اسلامی احیا کی جدوجہد‘ تحریک پاکستان کی روح اور اہداف‘ اسلام مخالف قوتوں کے اصل عزائم اور ریشہ دوانیوں اور سب سے بڑھ کر خود ملّت اسلامیہ پاکستان کے مختلف کرداروں کے رول کا‘ ایک سچے مسلمان اور ایک پکے پاکستانی کی نگاہ سے بے لاگ اور بصیرت افروز محاکمہ ہے۔ ان میں حقائق کا صحیح ادراک‘ واقعات کا نظرافروز تجزیہ‘ عالمی سازشوں کی حقیقت پسندانہ عکاسی‘ پاکستانی قیادت اور ہر سطح کے نام نہاد ترقی پسندوں کے کارناموں کا محاسبہ ہے جو بڑے جچے تلے‘معقول اور معتدل انداز میں دردمندی‘ اصلاح اور اُمت کو بیدار کرنے کے جذبے کے ساتھ کیا گیا ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ مشکل کام اس خلوص اور دیانت سے انجام دیا گیا ہے کہ دل گواہی دیتا ہے کہ تبصرہ نگار سخن فہم ہے‘ غالب کا طرف دار نہیں!

جہاد کشمیر کے اسلامی تشخص اور ۱۹۳۱ء کی تحریک کشمیر سے لے کر آج کی جدوجہد تک کے نظریاتی نقوش کتاب کے ہر صفحے پر نمایاں ہیں۔ ان مختصر تحریروں کے آئینے میں اس تاریخی اور نظریاتی کش مکش کی صحیح تصویر دیکھی جا سکتی ہے جسے سمجھے بغیر نہ تو تحریک پاکستان کو سمجھا جا سکتا ہے نہ جہاد حریت کشمیر کو‘ اور نہ پاک بھارت کش مکش کے اصل اسباب کو‘اور نہ امریکہ بھارت دوستی کے حقیقی محرکات کو۔ یہ مسلمانان پاکستان کے لیے ایک دعوت فکر وعمل ہے کہ وہ اس خواب سے بیدار ہوں جس میں مغرب کے جادوگروں اور لادینیت اور ترقی پسندی کے متوالوں نے خواب آور گولیاں کھلا کر ان کو بستر نشین کر دیا ہے۔ جہاد کی پکار اور اقبال کے بیداری کے پیغام کا اعادہ بڑے دل نشین انداز میں کیا گیا ہے اور آج کے تناظر میں اس طرح کیا گیا ہے کہ ماضی کی یہ قم باذن اللّٰہ کی پکار آج کے پاکستانی کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا پیغام بن گئی ہے۔ یہ کتاب محض نوحہ غم نہیں‘ جہاد کی پکار ہے جو علمی متانت اور ادبی حسن کے ساتھ دی گئی ہے۔ یہ کتاب ایک پیغام ہے جو گذشتہ تین سال کے اہم واقعات کے پس منظر میں تحلیل و تجزیے کے ساتھ اہل وطن کو دعوت دیتی ہے کہ اپنے ملک‘ اس کے اسلامی تشخص اور مجاہدین کشمیر کی سرفروشانہ جدوجہد کو اس کی کامیابی تک پہنچانے کے لیے سرگرم عمل ہو جائیں‘ امریکہ کے اصل عزائم اور کھیل کو سمجھیں۔ خود پاکستان میں امریکہ کے آلہ کار جو کردار ادا کر رہے ہیں ‘ اسے ناکام بنانے اور اپنی اصل منزل کی طرف بڑھنے کی فکر کریں۔ اس میں ایوب خان اور محمد شعیب سے لے کر بے نظیر اور نواز شریف تک سب کی اصل تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔ تاشقند سے شملہ‘ شملہ سے لاہور‘ لاہور سے کارگل اور کارگل سے واشنگٹن پسپائی اور غداری کے سارے منظر آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے‘ انڈونیشیا کو کیسے پارہ پارہ کیا جا رہا ہے‘ چین کے بارے میں کیا عزائم ہیں‘ امریکہ اور بھارت گٹھ جوڑ کی حقیقی شکل و صورت کیا ہے--- ہلکے پھلکے انداز میںلیکن صداقت اور حقیقت پسندی کے ساتھ پورانقشہ جنگ سامنے آجاتا ہے۔ کل ’’پان اسلامزم‘‘ کا ہّوا کھڑا کیا تھا آج اسلامی بنیاد پرستی اور تشدد کا راگ الاپا جا رہا ہے۔ مقصد ایک ہی ہے : مسلمان کے دل سے ’’روح محمدؐ   ‘‘ کو نکالنا اور امریکہ اور مغرب کی ذہنی‘ تہذیبی‘ معاشی اور سیاسی غلامی میں جکڑ دینا--- خواہ اس کی شکل کیسی ہی ریشمی اور پرکار ہو!

نواز شریف اور بے نظیر نے جس طرح امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیکے‘ بھارت سے معاملہ کرنے کی کوشش کی‘ کشمیر کے جہاد سے بے وفائی کی‘ ان کا بے لاگ احتساب‘ اور جہاد کشمیر کی تائید و معاونت اور طالبان سے آزمایش کی اس گھڑی میں یگانگت و ہم آہنگی کا اظہار جس سلیقے سے کیا گیا ہے وہ ملک صاحب کی سیاسی بصیرت اور قوت ایمانی کا مظہر ہے۔ بے نظیر کی امریکہ نوازی اور ذوالفقار علی بھٹو کی امریکہ بے زاری کا جس طرح موازنہ کیا ہے وہ چشم کشا اور خود پیپلز پارٹی اور لبرل عناصر کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ملک صاحب کا بھٹو کے لیے نرم گوشہ کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں جس کا اظہار بار بار اس کتاب میں بھی ہوتا ہے۔ میری رائے میں یہ ہر صاحب الرائے شخص کا حق ہے لیکن اس کے ساتھ جس دیانت اور ملی غیرت سے انھوں نے بے نظیر اور ترقی پسندوں کے پورے ہی طبقہ زہاد پر گرفت کی ہے وہ ان کے اخلاص‘ غیر جانب داری اور اصابت رائے کا  ثبوت ہے۔

ملک صاحب لکھتے ہیں:

یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے دانش ور‘ ہماری افسر شاہی اور ہمارے سیاست دانوں میں ایسے عناصر کی کمی نہیں جو امریکی خوشنودی اور بھارت دوستی کی خاطر اپنا نظریاتی وجود مٹا دینے کو ترقی پسندی‘ روشن خیالی‘ اور امن دوستی کی علامت سمجھتے ہیں۔ میں ایسے عناصر کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کا جغرافیائی وجود پاکستان کے نظریاتی وجود سے برآمد ہوا تھا اور اگر آج ہم اپنے نظریاتی وجود کو بھارت سے دوستی کی بھیک وصول کرنے اور امریکہ سے روشن خیالی کی سند پانے کی خاطر مٹا دیں گے تو پھر کل ہمارا جغرافیائی وجود بھی قائم نہیں رہ سکے گا۔ (ص ۴۲)

کشمیر کی تحریک آزادی کے نظریاتی تشخص کے خلاف بھارت اور امریکہ کا رویہ تو جارحانہ ہے ہی‘  بے نظیر اور نواز شریف جیسے لوگ بھی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کر کے مغرب سے اپنی روشن خیالی کا سرٹیفیکیٹ لینا چاہتے ہیں ۔لیکن ملک صاحب صاف لکھتے ہیں:

اس طرزفکر کی بنیادی خامی یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کی غالب اکثریت کے علاقوں میں عوام اپنے دینی عقائد پر قائم رہتے ہوئے اپنی کلچرل روایات کے مطابق زندہ رہنے کا عوامی‘ جمہوری‘ انسانی حق مانگتے ہیں تو اس میں خرابی کی کیا بات ہے؟ (ص ۹۶)

پھر مغرب اور اس کے مسلمان حواریوں کے بارے میں لکھتے ہیں:

مغربی ذرائع ابلاغ پوری دنیا میں ایک موثر کردار کے حامل ہیں۔ خود مسلمان ملکوں کے اہل علم و دانش ان ذرائع سے پھیلائے جانے والے طرزفکر و احساس کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ چنانچہ پاکستانی دانش ور بھی ان ہی مغربی مفروضوں کی جگالی کرتے پائے جاتے ہیں۔ وہ ترقی پسند اور سابق انقلابی دانش ور بھی جو لاطینی امریکہ کے گوریلا مجاہدچی گویرا کے مقلد ہونے پر نازاں رہتے ہیں‘ کشمیر میں مسلمانوں کی گوریلا جنگ کو ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کی گالی دیتے ہیں۔ اپنے اس رویے کو روشن خیالی کا ثبوت بنا کر پیش کرتے پھرتے ہیں۔ یہ کتنا بڑا ستم ہے کہ خود مسلمان دانش ور اپنی اسلامی شناخت پر معذرت خواہ ہیں۔ (ص ۹۷)

اسی طرح مغرب کے رویے کے بارے میں اپنے استعجاب کا اظہار یوں کرتے ہیں:

حیرت تو یورپ کے اور امریکہ کے ارباب فکر و دانش پر اور ارباب بست و کشاد پر ہے جو اس وقت تک مسلمانوں کو انسانی حقوق دینے پر آمادہ نہیں ہوتے جب تک مسلمان اپنی اسلامی شناخت سے دست بردار ہونے پر تیار نہ ہوں۔ کشمیری مسلمان اپنی اسلامی شناخت روز بروز نمایاں سے نمایاں تر کرتے چلے آرہے ہیں‘ اس لیے دنیاے مغرب ان پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والی فاشسٹ قوت کی عملی دست گیری اور نظریاتی حمایت سے حقوق انسانی کی پامالی میں مصروف ہے۔ (ص ۹۷)

یہ تو امریکہ اور یورپ کا تاریخی کردار ہے‘اس لیے ہمیں اگر حیرت ہے تو ملک صاحب کی اس حیرت پر ہے!

بھارت کی ثقافتی یلغار پر بھی ملک صاحب نے بھرپور گرفت کی ہے۔ بسنت کے موقع پر بھارتی وفد کی سربراہ وکرم ساہنی کے اس ارشادکا کہ:’’ پاکستان اور بھارت کا کلچر اور مٹی ایک ہے‘‘ ملک صاحب نے بہ ایں الفاظ تعاقب کیا ہے:

تحریک پاکستان کے دوران بھی متحدہ ہندستانی قومیت کے علم برداروں نے برعظیم کے مخلوط کلچر کی آواز بہت زور شور کے ساتھ اٹھائی تھی اور ’’ایک کلچر ایک ملک‘‘ کی سیاست چمکائی تھی مگر اس زمانے میں اقبال کی فکر ہماری رہنما تھی‘ اور ہم مخلوط ہندستانی کلچر کے بجائے جداگانہ مسلمان کلچر کے علم بردار بن کر ایک جداگانہ مسلمان مملکت کے قیام کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ چنانچہ ’’ایک کلچر ایک مٹی‘‘ کی سی باتیں ہمیں ایک سامراجی جال معلوم دیتی تھیں۔ نتیجہ یہ کہ ہم اس جال سے بچ کر چلے اور قیام پاکستان کی منزل تک پہنچنے میں کامران ہوئے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ آزادی کے ۵۰سال بعد نئے شکاری وہی پرانے جال لے کر ہمارے حکمران طبقے کی میزبانی کے لطف اٹھا رہے ہیں اور حکمران طبقہ پلٹ کر یہ نہیں کہتا کہ دوستی اپنی جگہ مگر کلچر جداگانہ مسلمانی شناخت رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ منفرد مسلمان کلچر اسلام کے تصور کائنات سے پھوٹا ہے۔ ہمارا یہ جداگانہ کلچر اکھنڈ بھارت میں خطرات کی زد میں آنے والا تھا‘ اس لیے اس کی بقا اورتحفظ و ترقی کی خاطر ہم نے عوامی جمہوری جدوجہد سے اپنی جداگانہ مملکت پاکستان حاصل کی۔ (ص ۱۵)

ملک صاحب نے صحیح انتباہ کیا ہے کہ:

ہمارے ارباب اختیار کو یہ حقیقت کبھی فراموش نہ کرنی چاہیے کہ ہندو ذہن کے مطابق تاریخ کی سب سے بڑی غلطی پاکستان کا قیام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ بس کے بجائے ٹینک پر بیٹھ کر پاکستان جائیں۔ اس ضمن میں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کے نزدیک برعظیم میں مسلمانوں کا وجود بھی ایک تاریخی غلطی ہے۔ چنانچہ یہ ایجنڈا پاکستان کی تباہی پر ہی بس نہیں کرے گا بلکہ میری‘ آپ کی اور ہم سب کی فنا پر تمام ہوگا۔ اس لیے ابھی وقت ہے کہ ہم بھارت سے کہیں کہ بس بھئی بس! (ص ۱۶)

نواز شریف کے دور میں ’’جنگ سلسلہ اخبارات‘‘ کے توسط سے سرکاری پلان اور اخراجات پر منعقد ہونے والی کانفرنس پر‘جو ’’انڈوامریکن لابی‘‘ کا کارنامہ تھی‘ تبصرہ کرتے ہوئے ملک صاحب نے پورے پاک بھارت اور کشمیری تناظرکو جس طرح بیان کیا ہے وہ ایک سچے پاکستانی اور مسلمان کے دل کی آواز ہے:

بھارتی سیاست دانوں اور صحافیوں نے پاکستان کی سرزمین پر پاکستان کی نظریاتی بنیادوں پر اوچھے وار کیے۔ پاکستان کے حکمران مسکراتے رہے۔ اس تجربے سے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے موجدوں اور سرمایہ داروں نے سوچا کہ اب اعلان لاہور کی گھڑی آپہنچی۔ چنانچہ اعلان لاہور داغ دیا گیا کہ بھائی ڈرو نہیں ہم پہلے انسان ہیں اور بعد میں مسلمان۔ وہ جو اوّل مسلمان ہیں اور آخر مسلمان--- ظاہر بھی مسلمان ہیں اور باطن بھی مسلمان۔انھوں نے اعلان لاہور پر وہ کہرام مچایا کہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ واجپائی کو لاہور کی سڑکوں پر قدم دھرنے کی اجازت نہ دینے والوں میں سے جو لوگ جیلوں میں ڈالے گئے وہ ابھی جیلوں سے رہا بھی نہ ہوئے تھے کہ ان کے جنون پسند ساتھیوں نے کارگل کی چوٹیوں سے بانگ انا الحق بلند کر دی۔ (ص ۴۴)

جہادی تنظیموں کے خلاف امریکی اور بھارتی یلغار کا پردہ ملک صاحب نے بار بار چاک کیا ہے اور اقبال کے پیغام جہاد میں آزادی‘ ایمان اور عزت کی تلاش کی یاد دہانی کرائی ہے۔ نیز مولانا ابوالکلام آزاد کا ایک طویل اقتباس بھی دیا ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ:

یہی وہ اسلام ہے جس کو قرآن جہاد فی سبیل اللہ سے تعبیر کرتا ہے اور کبھی اسلام کی جگہ جہاد اور جہاد کی جگہ اسلام‘ کبھی مسلم کی جگہ مجاہد اور کبھی مجاہد کی جگہ مسلم بولتا ہے… میں جہاد کو صرف ایک رکن اسلامی‘ ایک فرض دینی‘ ایک حکم شرعی بتلاتا ہوں حالانکہ میں تو صاف صاف کہتا ہوں کہ اسلام کی حقیقت ہی جہاد ہے‘ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اسلام سے اگر جہاد کو الگ کر لیا جائے تو وہ ایک ایسا لفظ ہوگا جس میں معنی نہ ہوں ‘ ایک اسم ہوگا‘ جس کا مسمّٰی نہ ہو۔

کشمیر کی کہانی میں بلاشبہ عالمی ضمیر کے لیے بہت سے چبھتے ہوئے سوال ہیں لیکن خود مسلمانوں کے ارباب بست و کشاد اور لبرلزم اور ترقی پسندی کے دعوے دار دانش وروں‘ صحافیوں اور سیاست دانوں کے لیے ان سے بھی زیادہ تیکھے سوال ہیں۔ کاش کہ وہ ان کا جواب اس ضمیر میں تلاش کرنے کی کوشش کریں جسے افیون پر افیون دے کر مردہ کیا جا رہا ہے۔ ملک صاحب کی اس کتاب کی آخری سطریں ایک انتباہ بھی ہیں اور امید کی ایک کرن بھی۔

افغانستان میں طالبان حکومت کو ختم کرنے اور کشمیر میں جہادی تحریکوں کو ناکام بنانے کی خاطر ابلیس کے سیاسی فرزندوں کی سیاسی دست گیری کرنے والے اہل سیاست و دانش کی حکمت اور حکمت عملی کو اقبال کی نظم ]اشارہ ہے ’’روح محمدؐ  ‘‘ اور ملا کو کوہ و دمن سے نکالنے والی نظم[ کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ساتھ ساتھ اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا بھی لازم ہے کہ بقول اقبال:

بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردان حُر کی آنکھ ہے بینا

کشمیر کی کہانی حسن طباعت کے اعتبار سے بھی ایک کامیاب پیش کش ہے۔ زبان و بیان کی نزاکتیں میرا میدان نہیں لیکن monsterکا ترجمہ ’’جن‘‘ (ص ۶۳) کچھ کھٹکا۔ عفریت‘ بھوت یا دیو شاید بہتر رہتا۔ انگریزی الفاظ کے اسپیلنگ اور ترتیب مسئلہ بنی رہتی ہیں‘ یہاں بھی صحت کے غیر معمولی اہتمام کے باوجود غلطیاں موجود ہیں (مثلاً صفحہ ۹۱ پر proxy)۔

محترمہ بے نظیر صاحبہ نے جس طرح امریکہ کی آواز میں آواز ملائی ہے اور جس طرح وہ بھارت نوازی میں نواز شریف سے بھی بڑھ کر پیش پیش ہیں‘ اس پر ملک صاحب نے بجاطور پر بھرپور گرفت کی ہے اور بے نظیر اور ذوالفقار بھٹو کے بیانات کو جس طرح آمنے سامنے کھڑا کر دیا ہے‘ وہ خاصے کی چیز ہے۔ باپ بیٹی اور پی پی پی کے دو سربراہوں کے متضاد موقف ایک طرح سے پاکستانی سیاست پر جان دار تبصرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ البتہ امریکہ‘ بھارت اور جمہوریت کے بارے میں ذوالفقار بھٹو کے تضادات کی کوئی جھلک نہیں آسکی‘ بلکہ بین السطور بھٹو صاحب کے سلسلے میں ایک خفی رومانیت کا  شبہ ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب کی چین پالیسی‘ خارجہ امور پر گہری نظر اور معیشت میں بنیادی صنعتوں کو اہمیت دینے کا میں بھی قائل ہوں لیکن امریکہ اور بھارت کے بارے میں جو قلابازیاں اوروں نے کھائی ہیں بھٹو صاحب کا دامن بھی اس سے پاک نہیں۔ تاشقند کے راز فاش کرنے کے سلسلے میں تو ملک صاحب کی توقعات بھی نامراد ہی رہیں۔

مصنف نے جہاں بجاطور پر سیاسی قائدین پر گرفت کی ہے کہ وہ امریکہ سے اپنے جواز کی سند لانے کے لیے لین ڈوری لگاتے رہے ہیں‘ وہاں اس قافلہ عاشقاں میں قاضی حسین احمد کا ذکر مبنی برانصاف نہیں۔ جس نے بھی لاہور اور اسلام آباد اور واشنگٹن اور نیویارک میں قاضی صاحب کے بیانات کا کسی تعصب کے بغیر مطالعہ کیا ہے وہ گواہی دے گا کہ ہر جگہ انھوں نے امریکہ اور اس کی قیادت کی آنکھوں سے آنکھیں ملا کر بات کی ہے‘ انھوں نے ہمیشہ پاکستان ‘فلسطین اور عالم اسلام کے بارے میں امریکہ کے رویے پر بھرپور گرفت کی ہے۔ باعزت تعاون کی راہیں تو ضرور کھلی رکھی ہیں لیکن اپنے رویّے میں مداہنت یا التفات طلبی کا کوئی شائبہ بھی نہیں آنے دیا    ؎

پروازہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور

] کشمیر کی کہانی: عالمی ضمیر سے چند سوالات‘ از پروفیسر فتح محمد ملک۔ دوست پبلی کیشنز‘    اسلام آباد۔ صفحات: ۱۶۴‘ قیمت: ۱۲۰ روپے۔[

 

برطانیہ کے وقیع ماہنامے امپیکٹ انٹرنیشنل نے Technology of Deception کے عنوان سے ایک روسی صحافی ولادی میرکرائی لووسکی کی تحریر کا ترجمہ شائع کیا ہے جس میں اس نے بتایا ہے کہ چیچنیا پر روس کے دوسرے حملے کے لیے فضا سازگار بنانے کی خاطر روسی ذرائع ابلاغ نے جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے روسی عوام کی کس طرح برین واشنگ کی۔ روسی عوام جو پہلی جنگ (۱۹۹۳ء-۱۹۹۶ء) میں ناکامی اور صلح کے بعد اب نئی مہم جوئی کے لیے تیار نہ تھے‘ کس طرح آمادہ کیے گئے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ دو ہفتوں میں ’’دہشت گردوں‘‘ کا قلع قمع کرنے کے جو دعوے تھے وہ سب خواب ہو گئے‘ چیچن مجاہدین نے حسب سابق‘ ہر طرح کے ناقابل بیان ظلم سہنے اور کوئی نسبت نہ ہونے کے باوجود انتہائی ظالم روسی افواج کے دانت کھٹے کردیے ہیں (صدآفرین!) اور اب روس کے صدر پوٹن مذاکرات کی بات کر رہے ہیں! موجودہ عالمی حالات کے پس منظر میں یہ مطالعہ چشم کشا ہے اور بتاتا ہے کہ ۲۰ ویں صدی کی ان عالمی طاقتوں کا سارا کاروبار جھوٹ اور دھوکے پر چلتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ موجودہ ڈراما ہماری آنکھوں کے سامنے کھیلا جارہا ہے‘ جب کہ سابقہ ہماری نگاہوں سے دُور تھا۔

اگست ۱۹۹۹ء میں چیچنیا کے علاقے سے داغستان پر حملہ کیا گیا (یعنی کروایا گیا)۔ مداخلت کا اس سے اچھا اور کیا جواز ہو سکتا تھا۔ اس کے بعد سے روسی میڈیا نے اپنے عوام کو جھوٹ کے انبار تلے دبا دیا۔ روسی جنرل میڈیا پر آکر ضمانتیں دینے لگے کہ ہم چیچن دہشت گردوں کا چند دن میں قلع قمع کر دیں گے۔ ہر خبرنامے میں بار بار دہرایا گیا کہ وفاقی افواج کا کوئی جانی نقصان نہیں ہو رہا ہے۔ روسی حکومت کو بڑی فکر تھی کہ اس کے عوام کو حقیقت حال معلوم نہ ہو۔ چیچن صدر ارسلان مسخادوف بتا رہے تھے کہ روس کی سیکرٹرٹ سروس کیا کر رہی ہے لیکن روسی حکومت نے اس کا اہتمام کیا تھا کہ ان کی کوئی بات روسی عوام تک نہ پہنچ سکے۔ چیچن ’’دہشت گردوں‘‘ کے حوالے سے جھوٹی خبروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ٹی وی اسکرین کو مخاطب کر کے چیخ کر کہنے کو دل چاہتا تھا: ’’عوام سے جھوٹ بولنا بند کرو!‘‘۔ عوام کے ذہنوں میں ایک دشمن --- چیچن دشمن --- کا نقش بٹھانے کا کام کیا جاتا رہا۔ ایک مبصر نے کہا: چیچنیا پر کارپٹ بم باری کی جائے۔ روسی عوام کو بتایا جاتا تھا کہ وہ اس وقت تک چین کی نیند نہیں سو سکتے جب تک کہ چیچن سانپ کو کچل نہ دیا جائے۔

کیا روسی عوام ۱۹۹۹ء میں کسی نئی چیچن جنگ کے لیے تیار ہو سکتے تھے اگر ہمارے شہروں میں دھماکوں کا سلسلہ شروع نہ ہو جاتا۔ ہرگز نہیں۔ اس کا کوئی امکان نہ تھا۔ انھیں جنگ کے لیے آمادہ کرنے کے لیے ضروری تھا کہ انھیں ہر لمحے اپنی جان کی طرف سے خوف زدہ ہونے کے لیے مجبور کر دیا جائے۔ انھیں ایک دھوکے باز‘ ظالم اور دکھائی نہ دینے والے ("shadows!") دشمن کے سامنے غیر محفوظ ہونے کا احساس دلایا جائے۔ ماسکو کے پشکن اسکوائر میں دھماکوں کے بعد‘ ملک بھر کی یہی فضا تھی۔ ملبے میں سیکڑوں افراد کے زندہ دفن ہو جانے کی خبروں کے ساتھ ہی حکومتی میڈیا سے پروپیگنڈے کا آغاز ہو گیا۔ زخمیوں کی چیخ و پکار اور دہشت گردوں سے شدید نفرت کے پس منظر میں دیکھیں‘ کس کی مقبولیت ایک دم آسمان پر پہنچ گئی جسے چیچنیا کے ساتھ دوسری جنگ کا رخ دے دیا گیا۔

اس جنگ کا فائدہ کسے ہوا؟ چیچنیا کو اس سے کیا ملا ؟ کیا جنگ ان کی ضرورت تھی؟ انھیں جنگ سے کچھ حاصل نہ ہو سکتا تھا۔ یہ اصل قابل غور نکتہ ہے۔ لیکن کہا گیا کہ وہ دھماکوں کے ذریعے پوٹن کے بیانات کا بدلہ اتار رہے ہیں! اگر انھیں بدلہ اتارنا ہی تھا تو ان کے ہدف اس سے مختلف ہوتے۔ نہیں‘ اس بات پر کوئی بھی یقین نہیں کرے گا۔

اس سے پہلے کہ تحقیقات کا آغاز ہوتا‘ حکومت اور خود ولادی میرپوٹن نے اعلان کر دیا کہ ان جرائم کا سرا چیچنیا میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ انسانوں کے ایک پورے گروہ کی بے گناہی کو نظرانداز کر دیا گیا۔ حکومتی میڈیا کو ‘ چیچن ’’انگلیوں کے نشانات‘‘ ملنے لگے۔ ویسے ہی بم‘ ویسے ہی ٹائمر‘ ماسکو میں مختلف عمارات میں خفیہ پولیس کو ملنے لگے۔ پھر پولیس نے ایک گروپ کو اسی طرح کے بارود اور ٹائمر کے ساتھ گرفتار کیا۔ ایک دم خبریں شائع ہو گئیں لیکن گرفتار شدگان ایف ایس بی (سابقہ کے جی بی) کے اہلکار نکلے۔ ان کے ڈائرکٹر نے بیان دیا کہ یہ صرف ایک مشق تھی‘ عوام کو چوکس رکھنے کے لیے!

سیاست دان ‘جنرل ‘ مبصر سب مسلسل دہراتے رہتے ہیں کہ فضائی حملے صرف متعین جنگی اہداف پر کیے جارہے ہیں (precision attacks)۔ لیکن عملاً شہری آبادیوں پر کھلے عام بم باری کی گئی۔ ارسلان مسخادوف نے پوپ پال کے نام اپیل ( اکتوبر ۱۹۹۹ء) میں بتایا کہ صرف ایک ماہ میں ۳ ہزار ۶ سو شہری ہلاک کیے گئے ہیں۔ لیکن روسی میڈیا اپنے عوام کو اپنی فضائیہ کے یہ کارنامے نہیں بتاتا کہ کس طرح پرامن دیہاتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ۲۰۰۰ء کے آغاز میں vacuum بم استعمال کیے گئے جنھوں نے زندگی کے سب آثار مٹا دیے‘ اور نہ یہ بتاتے ہیں کہ فضائیہ نے اعصابی گیس والے بم استعمال کیے۔

یہ چند مثالیں ہیں کہ کس طرح روسی عوام کو ان کا میڈیا دھوکا دے رہا ہے۔ میڈیا کے ذریعے دھوکا دہی کا فن سب ظالموں نے سیکھ لیا ہے۔ یہ مظلوم بن کر آتے ہیں اور ظلم کی نئی تاریخ رقم کر دیتے ہیں۔

بھارت میں مسلمانوں کی تعلیم

ضیاء الدین اصلاحی

مسلمانوں کی سماجی‘ معاشی اور تعلیمی پس ماندگی کا چرچا ہندستان کے تمام فرقے اور سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں۔ بی جے پی کو پہلے کانگریس اور دوسری سیاسی جماعتوں سے گلہ تھا کہ وہ مسلمانوں کی ناز برداری کرتی ہیں‘ لیکن اب وہ بھی اس کو تسلیم کر رہی ہے اور بظاہر اس کے ازالے کے لیے فکرمند بھی دکھائی دیتی ہے۔ مرکزی وزیرتعلیم ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی عربی مدارس میں جدت کاری لانے کا اعلان کر چکے ہیں اور اترپردیش کے وزیراعلیٰ راج ناتھ سنگھ مدرسہ پنچایت کر کے داد و دہش کا اعلان کر رہے ہیں۔ کانگریس سیکولر پارٹی سہی‘ مگر اس پر عرصے سے فرقہ پرست اور متعصب لیڈر حاوی ہو گئے ہیں جو نیشنلزم اور سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کی نسل کشی‘ ذہنی ارتداد اور انھیں پس ماندہ طبقے میں تبدیل کرنے کا بندوبست کر رہے ہیں۔ دوسری سیکولر جماعتوں کو بھی مسلمانوں کے طاقت ور ہونے اور اُبھرنے سے دل چسپی نہیں ہے۔ ان کی خواہش یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ مجبور‘ بے بس اور کمزور رہ کر ان کے محتاج اور دست نگر بنے رہیں۔ رہی بی جے پی‘تو مسلمانوں کے بارے میں اس کا رویہ کس کو معلوم نہیں۔ مسنداقتدار پر فائز ہونے کے بعد اس کی اصول پسندی‘ ایمان داری‘ بے خوف و خطر سماج اور صاف ستھری حکومت دینے کی حقیقت بھی عیاں ہو گئی ہے۔

آزادی کے بعد سے اب تک بے شمار فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جن میں مسلمانوں کو تباہ برباد کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی۔ خود امن و امان کے محافظوں نے فرقہ پرستوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو ظلم و تشدد اور لوٹ کھسوٹ کا نشانہ بنایا مگر مسلمانوں کی پس ماندگی پر جن لوگوں کو اتنا قلق ہے‘ انھوں نے کبھی جارحیت پر آمادہ لوگوں کے ہاتھ نہیں پکڑے‘ صوبائی اور مرکزی حکومتوں نے مجرموں کو سزا نہیں دی بلکہ اُلٹے مظلوموں ہی کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر معاشی حیثیت سے انھیں مفلوج کرنے کا سامان کیا۔ یہ بھی غور طلب ہے کہ منظم اور منصوبہ بند فسادات انھی جگہوں پر زیادہ ہوئے جہاں مسلمان قابل لحاظ تعداد میں اور کسی قدر خوش حال تھے۔ کیا اس کا مقصد ان کی تجارت و معیشت اور صنعت و حرفت کو برباد کر کے پس ماندہ اور مفلوک الحال بنانے کے علاوہ کچھ اور ہو سکتا ہے۔ کان پور کے فساد میں شرپسند عناصر‘ پولیس اور پی اے سی نے مسلمانوں کو تہ تیغ کرنے‘ ان کے گھروں اور دکانوں کو لوٹنے اور جلانے اور ذرائع معاش کو مسدود کرنے کا جو ’’کارنامہ‘‘ انجام دیا ہے وہ سب کے سامنے ہے لیکن مدارس پر انعام و بخشش فرمانے والے وزیر اعلیٰ اس کے بھی روادار نہیں ہوئے کہ فساد کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کرائیں۔ سرکاری ملازمتوں اور قومی و سیاسی زندگی کے مختلف شعبوں سے مسلمانوں کو بے دخل کر دینے کا مقصد بھی انھیں پسپا اور بدحال بنانا ہے۔ یہ پالیسی جس طرح کانگریسی حکومتوں اور لیڈروں کی رہی‘ اس سے کہیں بڑھ کر موجودہ حکومت کی ہے۔

مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی ان کی معاشی بدحالی سے وابستہ ہے۔ آزاد ہندستان میں خصوصاً ابتدائی تعلیم کا جو نظام و نصاب وضع کیا گیا اس پر ایک خاص مذہب اور مخصوص قوم کے کلچر کی گہری چھاپ ڈالی گئی ہے۔ اس رنگ کو بی جے پی حکومت نے اور چوکھا کر دیا۔ وہ تعلیم کو بھگوا رنگ میں رنگ کر مسلمانوں کو ان کے ایمان و عقیدے اور توحید و آخرت کے تصور سے بے گانہ ان کی تہذیب و روایات اور مادری زبان کو ختم کردینا چاہتی ہے۔ اترپردیش کی ابتدائی تعلیم کے وزیر نے جولائی سے ریاست کے تمام کانونیٹ اور پبلک اسکولوں میں پرائمری سطح پر ہندی کو لازمی اور اسے اترپردیش کی مادری زبان قرار دے کر اردو کو سراسر نظرانداز کر دیا ہے۔ اس طرح جو حالات پیدا کر دیے گئے ہیں ان میں اور اس نصاب تعلیم کی موجودگی میں مسلمان نہ صرف اپنی تہذیب اور مادری زبان سے ہاتھ دھو بیٹھیںگے بلکہ اپنے عقیدہ و مذہب سے بھی منحرف ہو جائیں گے۔ ظاہر ہے جن مسلمانوں میں دینی شعور ہے وہ اَن پڑھ رہنا گوارا کر سکتے ہیں مگر دیومالائی تصورات کے حامل نصاب تعلیم کے چکر میں پڑ کر اپنے دین و ایمان کو غارت کرنا پسند نہیں کریں گے۔

آئینی طور پر ہندستان کے ہر فرقہ و مذہب کو اپنے مدارس اور اسکول قائم کرنے کا حق ہے لیکن اولاً تو مسلمانوں کے لیے اپنی معاشی پس ماندگی کی بنا پر یہ آسان نہیں۔ ثانیاً تعصب اور تنگ نظری کی وجہ سے سرکاری یا برادرانِ وطن کے قائم کردہ اداروں میں ان کے داخلے کے دروازے تقریباً بند ہیں جس کی بنا پر ان کی خواندگی کی شرح کم تر ہوتی جا رہی ہے‘ تاہم کم مایگی اور بے بضاعتی کے باوجود ان کی توجہ گائوں گائوں میں مکاتب اور نئے اعلیٰ تعلیم کے ادارے قائم کرنے کی جانب بڑھ رہی ہے تاکہ وہ دینی تعلیم سے بہرہ ور ہوں۔ جدید اور عصری تعلیم کے اسکول اور کالج قائم کرنے سے بھی وہ غافل نہیں ہیں۔ ان کے جو اسکول‘ کالج اور دو ایک یونی ورسٹیاں پہلے سے قائم ہیں‘ ان میں بھی وہ اپنے بچوں کو اس لیے تعلیم دلا رہے ہیں کہ ان کا دین اور ان کا عقیدہ سلامت رہے اور ان کی تہذیب اور مادری زبان ان کے ہاتھ سے جانے نہ پائے۔

ایک طرف حکومت کو بظاہر مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی کا غم ہے۔ دوسری طرف وہ ان کے مکاتب و مدارس کو پریشان کرنے اور ان کے قائم کردہ اسکولوں‘ کالجوں اور یونی ورسٹی کا اقلیتی کردار ختم کرنے کے درپے ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیںگزرا کہ مرکزی وزیر داخلہ اور اترپردیش کے کئی وزرا مدارس کو آئی ایس آئی کا اڈا قرار دے چکے ہیں جس کے بعد ان پر شب خون مارنے اور ان کے ذمہ داروں اور وابستگان کو گرفتار کرنے‘ اذیت دینے اور فرضی مقدمات میں پھنسانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ حال میں وزارتی گروپ کی رپورٹ میں بھی مدارس کو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بتایا گیا ہے‘ حالانکہ انھی خطرناک مدارس کو مرکزی وزیرتعلیم نے ماڈرن بنانے اور ان میں عصری تعلیم اورکمپیوٹر کے لیے سہولتیں فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا اور وزیراعلیٰ ان کو مراعات دے رہے ہیں‘ اور دیسی زبان اردو کو اترپردیش سے جلاوطن کر کے بدیسی زبانوں عربی و فارسی کی تعلیم کے فروغ کے لیے حکومت کا خزانہ کھول رہے ہیں۔ پس ماندہ ذاتوں کو ضرور ریزرویشن دینا چاہیے۔ ہم اس کے مخالف نہیں ہیں مگر اقلیتی اداروں کو اس سے مستثنیٰ رکھنا ضروری ہے تاکہ ان کے جائز اور دستوری حقوق اور اقلیتی کردار کا تحفظ ہو سکے جو ایک جمہوری اور سیکولر حکومت کی ذمہ داری بھی ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی پس ماندگی دُور کرنے کے لیے قومی اور سرکاری درس گاہوں اور سول سروسز میں انھیں بھی ریزرویشن دیا جائے‘ نہ یہ کہ ان کو ان کے اپنے اداروں میں بھی دوسرے لوگوں کے لیے گنجایش نکالنے کے لیے مجبور کیا جائے۔ اگر اس کی زد علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی پر پڑی جو ہندستانی مسلمانوں کی واحد عصری درس گاہ اور ملک کے سیکولرازم کا نشان ہے‘ تو ملک کے سیکولرازم کا رہا سہا بھرم بھی جاتا رہے گا اور مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی پر تشویش و اضطراب ظاہر کرنے والوں کی اصل حقیقت بھی واضح ہو جائے گی۔ (بہ شکریہ ماہنامہ معارف‘ اعظم گڑھ‘ جولائی ۲۰۰۱ء)

 

صبروتحمل کی حدود

سوال:  میں گذشتہ ڈیڑھ سال سے عجیب ذہنی کش مکش میں مبتلا ہوں۔ میری ذاتی‘ سماجی‘ ازدواجی زندگی بے رونق اور بے روح ہو گئی ہے۔ شادی کو ۱۵ سال ہو گئے ہیں۔ چار بچے ہیں جن کی تعلیم و تربیت بہتر انداز سے کرنے کی دونوں نے کوشش کی۔ شادی سے پہلے میری بیوی ایک مستحکم ادارے میں کام کرتی تھی۔ انھوں نے دوبارہ بیوی کو اِسی شہر میں منتقل ہونے پر ملازمت کی پیش کش کی جو اُس نے قبول کر لی اور میں نے بھی اس میں کوئی حرج نہ سمجھا۔

نئے حالات نے مجھے ذہنی عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اپنی اہلیہ کے اپنے ادارے کے ساتھی مردوں سے ہنسی مذاق‘ گپ شپ‘ورکنگ ڈے کے علاوہ بھی ملاقاتیں‘ گھومنا پھرنا‘ ہاتھ ملانا‘ کندھے سے کندھا ملا کر بیٹھ جانا‘ تحفے تحائف کا تبادلہ‘ اپنی حد تک ہر ممکن طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی۔ جب بھی کوشش کرتا ہوں کہ وہ آیندہ کے لیے توبہ کر لے‘ ندامت و معذرت کا اظہار کر دے‘ اس بات کو خاطر میں نہیں لاتی۔ اب تک پیار سے‘ ناراضی سے‘ بزرگوں کے ذریعے سے بہت سمجھانے کی کوشش کی ہے مگر ہٹ دھرمی اور ضد میں کمی نہیں آتی۔ دوسری طرف گھر اور بچوں کے تمام فرائض بخوبی ادا کر رہی ہے اور اس کا یہی کہنا ہے کہ جب تمھاری اور بچوں کی ضروریات پوری کرتی ہوں تو تمھیں کیا تکلیف ہے؟

کیا آپ اندازہ کر سکتے ہیںکہ میں کس روحانی کرب سے گزر رہا ہوں؟ مجھے بتایئے کہ تقریباً دوسال اس اذیت میں گزارنے کے بعد کیا باقی ساری زندگی اسی کرب میں گزار دوں؟ طلاق دے دوں؟ پھر خیال آتا ہے کہ بچوں کا کیا ہوگا؟ شہر بدلوں تو مشکل سے کچھ کاروبار سیٹ کیا ہے‘ اُس کا کیا ہوگا؟ ملازمت تو پہلے ہی بیوی کے اصرار پہ چھوڑ چکا ہوں۔ نئی ملازمت آج کے دور میں کہاں سے ملے گی؟ دوسری شادی کے مسائل سے نبٹنا بھی ایک مسئلہ عظیم ہے۔ میں ان حالات میں کیا فیصلہ کروں؟

جواب:  آپ نے اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ ہمارے معاشرے کے مستقبل کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی خاتون کا ضرورت کے پیش نظر ملازمت کرنا بجائے خود جائز ہے لیکن اس کا ایسے ماحول میں کام کرنا جس میں اس کے دین‘ اس کی ساکھ اور عزت اور خاندان کے سکون و راحت کو خطرہ ہو‘ کسی بھی شرعی دلیل کی بنا پر جائز نہیں ہو سکتا۔ اسلامی خاندان میں بیوی کی ذمہ داری محض بچوں کے کھانے‘ کپڑے اور شوہر کی بعض مادی ضروریات پورا کر دینے سے پوری نہیں ہو جاتی‘ وہ شوہر کے ساتھ مساوی طور پر خاندان کے سکون‘ یک جہتی اور اسلامی ماحول کے قیام کی ذمہ دار ہے۔ حدیث شریف میں جہاں شوہر کی مسئولیت کا ذکر ہے وہاں یہ بات دو ٹوک الفاظ میں بیان کر دی گئی ہے کہ بیوی اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کے لیے جواب دہ ہے۔ یہ جواب دہی مجموعی اور کلی ہے‘ جزوی اور کھانے پینے تک محدود نہیں ہے۔

دوسری بات جو اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی خاندان میں رشتۂ نکاح کے بعد جو اجتماعیت پیدا ہوتی ہے اس میں نہ تو شوہر کے وہ ’’ذاتی‘‘ حقوق باقی رہتے ہیں جو ایک غیر شادی شدہ مرد کے تصور کیے جاتے ہیں‘ اور نہ بیوی محض ایک ’’فرد‘‘ رہتی ہے۔ عقد نکاح دونوں کو ایک رشتۂ حقوق و فرائض میں جوڑ دیتا ہے اور اب وہ ایک خاندان بن جاتے ہیں جس کی دو اکائیاں تو ہیں لیکن ان کے الگ الگ وجود اجتماعیت میں تحلیل ہو جاتے ہیں‘ اور وہ جسم اور لباس کی طرح ایک دوسرے سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔

جسم سے لباس کو الگ کر دیں تو وہ محض عریانیت بن جاتا ہے‘ اور لباس کو جسم سے جدا کر دیا جائے تو چند گز کپڑے کا ٹکڑا۔ گویا خاندان خود اپنی شخصیت رکھتا ہے جس میں شوہر اور بیوی دونوں کی شمولیت ہی سے یہ مشترکہ شخصیت بنتی ہے۔ اس کے برعکس مغربی لادینی تہذیب میں سالہا سال رشتہ ازدواج میں منسلک رہنے کے باوجود انفرادیت کے خدا کی پرستش کے نتیجے میں بیوی اور شوہر اپنے اپنے مشاغل‘ ترجیحات و تعلقات رکھنے کو اپنا ’’ذاتی‘‘ حق سمجھتے ہیں ‘ اور ایسا نہ ہو تو اسے ذاتی زندگی میں مداخلت قرار دیتے ہیں۔ اسلام کا تصور خاندان اس کو ردّ کرتا ہے ‘ اور ’’اسرہ‘‘ یا خاندان کی شخصیت‘ مفاد اور واجبات کو فرد کی ذات پر ترجیح دیتا ہے۔

اگر ایک شخص اپنی اولاد کو نیکی کا حکم نہیں دیتا‘ یا ایک بیوی شوہر کو معروف کی پیروی پر متوجہ نہیں کرتی تو دونوں احتساب کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ دین اسلام اپنی تعریف خود صاحب قرآن کے مبارک الفاظ میں یوں کرتا ہے کہ وہ نصیحت و خیرخواہی کا نام ہے (الدین نصیحۃ)۔ وہ یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ ایک بیٹا یا بیٹی‘ ماں یا باپ سے یہ کہے کہ اگر میں نے نماز نہیں پڑھی تو یہ میرا ذاتی معاملہ ہے‘ یا اگر وہ کسی دوست کے ساتھ وقت گزاری (dating)کرے تو یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے۔ دین تو نام ہی اُس خلوص کے تعلق کا ہے جس میں شوہر‘ بیوی اور بچے ایک دوسرے کو نصیحت کریں اور خاندان میں صرف اللہ اور رسولؐ کے احکام کو چلنے دیں۔ غیر اسلامی رسوم و رواج اور طریقوں کو خصوصاً غیر محرموں کے ساتھ بے تکلفی اختیار کرنے کو ترک کرانا ‘پورے خاندان پر فرض ہے۔

جہاں تک آپ کے آخری تین سوالوں کا تعلق ہے ‘ طلاق شریعت میں جائز کاموں میں سخت ناپسندیدہ فعل ہے جو اللہ تعالیٰ کو غضب ناک کرتا ہے۔ سکونت تبدیل کرنا‘ یا حکمت و محبت سے اہلیہ کو سمجھانا آپ کا فریضہ ہے اور محبت کا تقاضا ہے۔ جس طرح آپ اپنی اہلیہ سے اس دنیا میں محبت کرتے ہیں وہ بھی لازمًا یہ چاہیں گی کہ نہ صرف یہاں بلکہ اخروی زندگی میں بھی وہ آپ کے ساتھ رہیں۔ اگر ان کا طریقہ اسلام کی تعلیمات کے منافی ہو اور اسلام کی واضح تعلیمات کے باوجود وہ غیر محرموں کے ساتھ ہنسی مذاق اور دیگر سوشل تقریبات میں مصروف رہنا چاہتی ہیں تو یہ فعل اسلامی اخلاق اور اسلامی خاندانی نظام دونوں کے منافی ہے اور اخروی زندگی میں سخت احتساب کا باعث ہے۔ یہ احتساب شوہر اور بیوی دونوں کا ہے۔ شوہر کا بیوی کو اسلام کی خلاف ورزی پر متوجہ نہ کرنا اس کی گرفت کا باعث ہے‘ اور بیوی کا شوہر کے متوجہ کرنے کے باوجود اسلامی تعلیمات کو نظرانداز کرنا یکساں احتساب کا باعث ہے۔

ہاں‘ اگر تمام محبت‘ حکمت‘ نصیحت اور اصلاح کی کوششوں کے باوجود‘ ترک مکانی اور شہر چھوڑنے کے باوجود بھی کوئی اصلاح نہیں ہوتی تو آخری شکل میں طلاق پر غور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس آخری فیصلے میں آپ کو اپنی اہلیہ اور بچوں کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ سنجیدگی اور ٹھنڈے دل سے باہمی سوچ کے بعدکوئی فیصلہ کرنا چاہیے تاکہ آپ کے بچے بھی اس معاملے کی نوعیت سے پوری طرح آگاہ ہوں اور فیصلے میں برابر شریک ہوں‘ اور آپ کی اہلیہ کو بھی یہ احساس ہو کہ ان کی نام نہاد ’’انفرادیت‘‘ نہ صرف اسلامی تصور خاندان بلکہ خود ان کے ذاتی مفاد کے بھی منافی ہے اور قرآن و سنت کی واضح خلاف ورزی ہے۔

اللہ تعالیٰ آپ کے خاندان کے اتحاد کو باقی رکھے اور بغیر اس آخری حل کے آپ دونوں باہمی اعتماد کو بحال کر کے اسلامی اصولوں پر مبنی خاندان بن سکیں۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

چند متفرق معاشرتی مسائل

س :  میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے رسائل و مسائل کے چار حصوں کو پڑھ چکی ہوں۔آپ سے چند سوالات ہیں:

۱-  ایک لڑکی ہوتے ہوئے مجھے اسلام کے نقطۂ نظر سے کیا کرنا چاہیے؟ میری چھوٹی بہن اسلامی جمعیت طالبات سے تعلق رکھتی ہے ‘ جب کہ میرے ذاتی خیال میں کسی جماعت میں شمولیت کے بغیر بھی اسلام کے راستے پر چلا جا سکتا ہے۔ کیا ہر لڑکی کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی نہ کسی جماعت میں ضرور شامل ہو‘ یا پھر وہ ذاتی یا انفرادی سطح پر خود کو اسلام کے سانچے میں ڈھال لے۔ ایک لڑکی کے لیے تبلیغی کاموں کے لیے کیا ہدایات ہیں؟ کیا عورت کو اجازت ہے کہ وہ گھر والوں کی مرضی کے بغیر تبلیغ کے لیے گھر سے باہر نکلے؟ کیا جس طرح قرآن پاک کی رُو سے مرد پر دین کی اشاعت کی ذمہ داریاں ہیں اسی طرح ہم پر بھی ذمہ داریاں ہیں؟ اگر ہیں تو ان کی حدود کیا ہیں؟

۲- پرائیویٹ اسکول کے اندر ہم جو فیس وصول کرتے ہیں کیا وہ جائز ہے؟

۳- بچپن ہی سے میری منگنی میرے ماموں زاد بھائی سے طے کردی گئی تھی۔ پھر کچھ ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ وہ رشتہ میرے گھروالوں کی طرف سے توڑ دیا گیا لیکن اب پھر کچھ ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ دوبارہ اس رشتے کو بحال کر دیا گیا ہے۔ جس کزن سے میری نسبت طے ہے وہ اس وقت جنوبی افریقہ میں ہے۔میں کسی اور شخص کو بھی پسند نہیں کرتی۔ میری امی کی شدید خواہش تھی کہ یہ رشتہ قائم رہے۔میں نے حامی بھر لی ہے لیکن ایک مسئلہ یہ ہے کہ میرے ماموں نے ملازمت کے دوران رشوت کے ذریعے بہت سی دولت اکٹھی کر لی ہے۔ آج بھی ان کا روپیہ بنک میں جمع ہے جس سے سود لے کر وہ گھر چلاتے ہیں۔ ان حالات میں اگر میری شادی وہاں ہو جاتی ہے تو لامحالہ مجھے بھی وہی پیسے استعمال کرنا پڑیں گے۔ کیا وہ رقم میرے لیے حلال ہو جائے گی؟

۴- آج سے پہلے ہر شادی اور اسکول‘ کالج کے فنکشن میں‘ میں نے بہت سی تصاویر بنوائی ہوئی ہیں۔ تب بھی میں یہ بات جانتی تھی کہ اسلام میں تصویر بنوانا حرام ہے۔ لیکن میری ذہنی سوچ یہ تھی کہ ہم کون سی عبادت یا پوجا کے لیے تصاویر بنوا رہے ہیں۔ یہ تو صرف یادگار لمحے ہوتے ہیں جنھیں ہم محفوظ کرتے ہیں۔ میں آیندہ کے لیے تو اس چیز سے تائب ہوچکی ہوں۔ لیکن اس سے پہلے کی جو تصاویر میرے پاس ہیں کیا انھیں میں اپنے پاس رکھ سکتی ہوں یا ان کو تلف کر دینا چاہیے؟

۵- آپ نے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا تھا کہ منہ اور ہاتھ کے سوا اپنی زینت کی جگہوں کو ظاہر نہ کیا جائے۔ اس حد تک تو میں پردہ کرتی ہوں لیکن نقاب نہیں لیتی یا چہرے کا پردہ نہیں کرتی۔ اس سلسلے میں میری رہنمائی تفصیل سے فرمائیں۔

ج:  یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ نے محترم مولانا مودودیؒ کے رسائل و مسائلکی چاروں جلدیں مطالعہ کر لی ہیں۔ ہمارے دینی ادب میں رسائل و مسائل نے ایک نئے اسلوب کی بنیاد ڈالی اور اس کے ذریعے محض فقہی طور پر حلال و حرام کا حکم لگانے کے بجائے ایک مسئلے کا پس منظر‘ اور قرآن و سنت کی روشنی میں اس کے مضمرات تک پہنچنے کا عملی مظاہرہ کیا گیا۔ آپ کے سوالات متنوع ہیں‘ اختصار کے ساتھ اسی ترتیب سے جواب تحریر کیے جا رہے ہیں:

۱-  ایک لڑکی ہوتے ہوئے اسلام کے نقطۂ نظر سے آپ کو ہر وہ کام کرنا چاہیے جس کا حکم  قرآن و سنت دیتے ہیں‘ یعنی حصول علم ‘ تطبیق علم ‘ نشروابلاغ علم اور اس سب کے نتیجے میں خود اپنی زندگی میں وہ تبدیلی لانا جو اسلام کا مطلوب ہے۔ آپ ایم اے اور بی ایڈ کے بعد بھی مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہیں تو کر سکتی ہیں۔ اسلام نے اس سے کبھی منع نہیں کیا ہے۔ اسلام کا جو علم آپ نے حاصل کیا ہے اس امانت کو دوسروں تک پہنچانا ہر مسلمان لڑکی پر ویسے ہی فرض ہے جیسے ہر مسلمان لڑکے پر۔ اس لیے اگر آپ کی چھوٹی بہن نے طالبات کی کسی اچھی تنظیم میںجو اسلامی نظام کے قیام کی داعی ہے شمولیت اختیار کر لی ہے تو آپ کو بھی اپنے آپ کو کسی ایسی جماعت سے وابستہ کرنا چاہیے جو قرآن و سنت کی روشنی میں دعوت و اصلاح کا کام کر رہی ہو۔ حضور نبی کریمؐ نے اس شخص کی موت کو جاہلیت کی موت قرار دیا ہے جو جماعت کو چھوڑ کر محض ایک فرد بن جائے ۔اس لیے آپ جس کسی جماعت کے طریق کار‘ اخلاص ‘ اور دین کے تصور سے مطمئن ہوں اسے اختیار کرلیں اور اس کے ساتھ توسیع دعوت میں شریک ہوں۔ ایک مسلمان لڑکی اپنے گھر‘ اپنے سسرال اور رشتے داروں غرض جن جن سے اس کا رابطہ ہو‘ سب کو دعوتی نقطۂ نظر سے اسلامی تعلیمات سے متعارف کراسکتی ہے۔ ہاں‘ اگر ماں باپ آپ کے کسی دعوتی اور تربیتی اجتماع میں شرکت کرنے پر معترض ہوں تو آپ انھیں سمجھائیں اور ممکن ہو تو اپنی والدہ صاحبہ کو کسی ایسے اجتماع میں لے جا کر شرکت کرائیں تاکہ وہ مطمئن ہو جائیں کہ جو کام آپ کرنا چاہتی ہیں‘ درست ہے۔ اگر گھریلو ذمہ داریاں اتنی زیادہ ہوں کہ چند لمحات کا وقت بھی نہ دیتی ہوں تو اس مجبوری کی بنا پر تو ممکن ہے کہ ایک خاتون کا احتساب نہ ہو ‘ ورنہ وقت‘ دولت‘ صحت‘ علم اور صلاحیت ہونے کے باوجود اگر انھیں اللہ کی راہ میں استعمال نہ کیا جائے تو پھر احتساب سے بچنا بہت مشکل ہے۔

۲- اسکول کی فیس کا تعلق تعلیم کے لیے وسائل کی فراہمی سے ہے۔ اگر فیس نہیں لی جائے تو اسکول کی انتظامیہ‘ معلمین اور معلمات کی تنخواہیں‘ کلاس روم میں طلبہ و طالبات کی ضرورت کی اشیا کی فراہمی کا ذریعہ کیا ہوگا؟ ہاں‘ فیس میں توازن اور مستحق طلبہ و طالبات کے لیے وظیفے کا ہونا ضروری ہے۔ یہ شکل نہ ہو کہ اسکول محض معاشی مفاد کے حصول کا ذریعہ بن جائے۔

۳- اپنے ماموں زاد بھائی سے آپ کے رشتے کے حوالے سے اگر آپ کی اپنی کوئی ذاتی پسند نہیں ہے‘ جیسا کہ خط سے ظاہر ہے‘ تو والدہ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ایسا کرنا مناسب ہے۔ آپ اپنے ماموں کے ماضی کے لیے جواب دہ نہیں ہیں۔ آپ کے ہونے والے شوہر اگر جائز اور حلال طریقے سے روزی حاصل کر رہے ہیں تو آپ کو مطمئن رہنا چاہیے۔

۴- اگر بعض تصاویر آپ نے محض دستاویز یا یادداشت کے طور پر رکھی ہوئی ہیں اور ان کے ساتھ کسی احترام اور عقیدت کا تعلق نہیں ہے جس کی بنا پر تصویر سے منع کیا گیا ہے‘ تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ ہاں‘ ان کی نمایش نہیں ہونی چاہیے۔ اگر وہ کسی البم میں لگی ہیں اور نگاہوں کے سامنے نہیں ہیں تو اس سے عبادت میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ اگر وہ غیر ضروری ہوں تو تلف کر دیں۔

۵- بلاشبہ چہرے پر نقاب کا استعمال افضل ہے لیکن اگر کسی بنا پر یہ ممکن نہ ہو تو چہرے اور ہاتھ کو چھوڑ کر بقیہ تمام جسم کو مکمل طور پر چھپانا فرض ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو اسلامی احکام کی خلاف ورزی ہوگی۔  (ا - ا)

’’کچھ صلۂ رحمی کے بارے میں‘‘ --- ایک وضاحت

س :  ’’کچھ صلۂ رحمی کے بارے میں‘‘ (ستمبر ۲۰۰۱ء) میں صاف دکھائی دیتا ہے کہ زبردستی کی طلاق کے مفروضے پر کہانی مرتب کر کے جواب دیا گیا ہے‘ جب کہ طلاق مرضی سے دی گئی۔ اب دوبارہ ساتھ رہنا تو زنا کی تعریف میں آتا ہے۔ آپ صلح اور صلۂ رحمی کی بات کر رہے ہیں!

ج :  فقہی معاملات میں نصوص و اصول کی روشنی میں ایک سے زائد آرا کا امکان ہمیشہ رہتا ہے۔ البتہ جواب دینے والے کو کوشش کرنی چاہیے کہ خلوص نیت کے ساتھ ایک معاملے کے مختلف پہلوئوں پر غور اور تحقیق کرنے کے بعد اپنی رائے کا اظہار کرے۔ ہماری کوشش یہی ہوتی ہے۔ جو رائے دی گئی‘ اس میں کوئی ’’کہانی‘‘ مرتب کرنے کی کوشش نہیں کی گئی‘ گو آپ کو اپنی رائے رکھنے کا پورا حق ہے۔ (ا - ا)

 

Searching for Solace ]مفسرقرآن عبداللہ یوسف علی کی سوانح[‘ ایم اے شریف۔ ناشر:اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ فیصل مسجد‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۳۱۴ ۔ قیمت : درج نہیں۔

عبداللہ یوسف علی‘ برعظیم کے ان قابل قدر افراد میں سے تھے جنھوں نے اسلام کا پیغام پھیلانے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر کام کیا۔ ان کے کارنامۂ حیات سے آگاہی کے لیے یہ ایک قیمتی کتاب ہے جس میں فاضل محقق نے‘ عبداللہ یوسف علی کے لیے ہمدردانہ جذبات رکھنے کے باوجود‘ حقائق سے چشم پوشی یا بے جا تاویل و اِستدلال سے کام نہیں لیا۔

عبداللہ یوسف علی ۴ اپریل ۱۸۷۲ء کو سورت‘ (گجرات) کے داؤدی بوہرہ خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد‘ برطانوی پولیس کے سابق افسر تھے۔ عبداللہ یوسف علی نے انجمن اسلام‘ بمبئی کے اسکول کے بعد عیسائی مشنری ادارے ولسنز اسکول میں تعلیم پائی۔ پھر بمبئی یونی ورسٹی سے امتیازی پوزیشن کے ساتھ گریجوایشن کی‘ اور سینٹ جانز کالج ‘ کیمبرج کے لیے وظیفہ پایا۔ ۱۸۹۴ء میں انھوں نے انڈین سول سروس کا امتحان پاس کیا۔برطانوی سرکار کی یہ ملازمت ان کے علمی ذوق کی آبیاری میں رکاوٹ نہ بنی۔ انھوں نے تعلیم‘ تاریخ‘ ثقافت اور علوم دینیہ پر لکھنے کے لیے قلم اٹھایا اور بڑی کامیابی سے اپنے دائرئہ تحریر میں وسعت پیدا کی۔ اسی دوران برطانوی حکومت کے سفیر براے ثقافتی امور کی حیثیت سے ترکی اور عرب دُنیا کا دورہ کیا۔

عبداللہ یوسف علی کی شخصیت پہلودار اور عجیب و غریب تھی--- ایک طرف وہ تاجِ برطانیہ کے نہایت وفادار تھے اور دوسری طرف انھی کے اقتدار میں مسلمانوں کی بھلائی اور فلاح کا خواب دیکھنے والوں میں سے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ: ’’ترقی پسند اسلام‘ برطانوی استعمار کے قدم بہ قدم چل کر راستہ پا سکتا ہے ‘‘(ص ۸۳)۔ انھوں نے۱۹۲۴ء میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو (پنجاب) کی ’جمعیت تنظیم‘ سے وابستگی اختیار کی‘ جو تشددپسند ہندو تحریک سنگھٹن کی جارحانہ سرگرمیوں کا توڑ کرنے کے لیے وجود میں آئی تھی (ص ۷۷)۔ ایک مرحلے پر ریاست حیدرآباد‘ دکن میں وزارت کا قلم دان سنبھالا‘ پھر اچانک اسے بھی چھوڑ کر چل دیے۔ کتاب کے پانچویں باب ’’جنیوا سے لاہور تک‘‘ (ص ۸۹-۱۱۸) میں بڑی تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ عبداللہ یوسف علی کن عزائم کے ساتھ اسلامیہ کالج لاہور سے وابستہ ہوئے اور کن حالات اور ارباب کالج کے متضاد رویوں کے باعث لاہور سے واپس گئے۔

کتاب کے ۱۰ ابواب‘ عبداللہ یوسف علی کے مزاج‘ رجحان طبع‘ افکار‘ مہم جویانہ ذوق اور علمی پیش  رفت کی رنگا رنگ تصویریں پیش کرتے ہیں۔ فاضل ممدوح کا زندہ رہنے والا کارنامہ‘ قرآن عظیم کی انگریزی تفسیر و ترجمہ ہے۔ مصنف کے خیال میں وہ اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ سائنسی تحقیق و تفتیش‘ اپنی سچائی تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے‘ تاہم اس باب میں ان کا رویہ سرسید جیسے مجرد عقل پرست (crude  rationalist)فرد جیسا نہیں تھا(ص ۱۷۹-۱۸۰)۔

اس تفسیر میں قرآنی متن کی تشریح کے لیے کئی مقامات پر تاویل و اِستدلال کا جو انداز اختیار کیا گیا ہے‘ وہ مسلمہ اسلامی تعلیمات اور فکر سے ٹکراتا ہے (مثال کے طور پر: فرشتے‘ جنت‘ جِنّ‘ ڈارون کے نظریۂ ارتقا کی تائید وغیرہ) ۔عبداللہ یوسف علی کا اصل علمی ورثہ یہی تفسیر ہے‘ مگر زیرنظر کتاب میں اس پر سیرحاصل بحث نہیں کی گئی۔ اس وجہ سے ایک گونہ تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ ضمیمہ نمبر ۱ میں مصنف نے نشان دہی کی ہے کہ اس انگریزی تفسیر کے کس کس ایڈیشن میں اصلاحات کی گئی ہیں۔ اب صورت یہ ہے کہ یوسف علی کا جو ترجمہ و تفسیر مارکیٹ میں موجود ہے‘ وہ مصنف کی رحلت کے بعد سے اب تک مختلف اصحاب کی اصلاح و تصحیح‘ کانٹ چھانٹ اور ترمیم و اضافہ شدہ شکل ہے۔ مگر افسوس اور تعجب یہ ہے کہ ترمیم و اضافہ کرنے والے افراد کے ناموں کو واضح نہیں کیا گیا۔ اس صورت واقعہ پر معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر محمد حمیداللہ کا یہ اعتراض بڑا وزنی ہے کہ: ’’مصنف کی مرضی کے بغیر اس کے متن میں ترمیم و تغیر کا یہ عمل ایک خطرناک رجحان کو پروان چڑھائے گا۔ اس کے بجائے ہونا یہ چاہیے کہ مصنف کے متن کو جوں کا توں رہنے دیا جائے اور اتفاق و اختلاف کو فٹ نوٹ کے ذریعے واضح کیا جائے‘‘ (ص ۲۲۷)۔ بہرحال ۱۹۳۴ء کے بعد سے اصلاحات اور ترامیم کے مسلسل عمل سے گزرنے والی یہ انگریزی تفسیر مقبولیت میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ انگریزی زبان و ادب پر عبداللہ یوسف علی کی گرفت اور اسلوب بیان کی نیرنگی نے اسے کلاسیک کا درجہ دے دیا ہے۔

اس معروف اسکالر کی عائلی زندگی تلخیوں سے عبارت تھی۔ چنانچہ لمبے عرصے تک تنہائی کا دکھ اٹھانے کے بعدوہ نہایت بے بسی و بے کسی اور کس مپرسی کے عالم میں‘ سینٹ اسٹیفن ہسپتال (برطانیہ) میں ۸۱ برس کی عمر میں  ۱۰ دسمبر ۱۹۵۳ء کو انتقال کر گئے۔ ایم اے شریف کا پیرایۂ بیان بہت دل چسپ ہے اور انھوں نے اس تذکرے کو مصدقہ معلومات کے موتیوں سے سجایا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت پر ادارہ تحقیقات اسلامی کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری اور ان کے رفقا مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ایسی کتابوں کی اشاعت سے اسلامی علوم کے ورثے تک رسائی کی راہیںکشادہ ہوں گی ۔ (سلیم منصور خالد)


ترقی اور تعلیم‘  پروفیسر عمر قادری ۔ بیکن بکس‘گل گشت ‘ ملتان ۔ صفحات:  ۱۸۰۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

ہمارے ملک میں تعلیم کو آزادی کے بعدصحیح رخ نہیں دیا گیا۔ نظریہ حیات کے حوالے سے واضح تصورات رکھنے کے باوجود ہم نے زمانے کی ہواکے ساتھ چلنا گوارا کیا ۔ تعلیم میں حقیقی پیش رفت کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم اس دائرے میں بے منزل و بے مقصد کاررواں کی طرح ترقی کے ایک جھوٹے تصور کی خاطر ادھر ادھر ٹکریں مار رہے ہیں۔ پروفیسر عمر قادری نے اس کتاب میں ۱۰ عنوانات کے تحت‘ تعلیمی صورت حال کے پس منظر میں‘ اصلاح کے لیے صحیح خطوط اجاگر کیے ہیں۔ ذریعہ تعلیم اور یکساں نظام تعلیم کے ابواب میں انھوں نے اہم بنیادی امور کی نشان دہی کی ہے۔ اس وقت‘ جب کہ ایک منظم کوشش معاشرے کو خصوصاً تعلیم کو سیکولرائز کرنے کی ‘ کی جا رہی ہے‘ ان باتوں کی اہمیت دوچند ہے‘ لیکن ان کا لکھنا اور شائع کرنا کافی نہیں‘ انھیں پھیلانااور پہنچانا بھی ضروری ہے۔ (مسلم سجاد)


پاکستانی ادب‘ شناخت کی نصف صدی  ‘ غفور شاہ قاسم۔ ریز پبلی کیشنز‘ ۱۳‘۱۴/ اے ‘ سیکنڈ فلور‘ تاج محل پلازا‘ سکستھ روڈ‘ مری روڈ‘ راولپنڈی۔ صفحات: ۵۵۴۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

یہ ایک طرح سے ۵۰ سال کے پاکستانی ادب کا جائزہ ہے جسے مختلف اصناف ادب (غزل‘ نظم‘ نعت‘ ناول‘ افسانہ‘ سفرنامہ‘ خود نوشت ‘ انشائیہ‘ خاکہ نگاری‘ ڈراما‘ طنز و مزاح‘ اسلامی ادب‘ اقبال شناسی‘ مزاحمتی ادب‘ تنقید‘ تحقیق) کے تحت مرتب کیا گیا ہے۔ آخری حصے میں پنجابی ‘ سرائیکی‘ سندھی‘ پشتو ‘ بلوچی اوربراہوی ادبوں کا ذکر ہے۔ ۵۰ سالہ ادبی تاریخ کا اس طرح سے جائزہ لینا کہ تجزیہ و تبصرہ بھی ہو اور جائزہ و تنقید بھی اور مختلف رویوں اور رجحانات کی نشان دہی بھی کی جائے‘ آسان کام نہیں ہے۔ اس کے باوجود غفور شاہ قاسم نے‘ جو ایک نوجوان تحقیق کار اور نقاد ہیں‘ اپنے مطالعے میں وسعت اور جائزوں میں مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ ۵۰ سالوں کے اصناف وار جائزے کے لیے خاص وقت اور محنت کے ساتھ گہری تحقیق کی ضرورت ہے۔

یوں تو ہر صنفِ ادب الگ الگ مفصل تحقیقی کتاب کا تقاضا کرتی ہے لیکن مصنف کے لیے اس کا موقع تھا اور نہ وقت۔ چنانچہ انھوں نے اخذ و استفادے سے بھی کام لیا اور اسے اپنے مطالعے اور محنت سے آمیز کر کے یہ جائزہ پیش کر دیا۔ خوب تر کی گنجایش ہمیشہ باقی رہتی ہے‘ مثلاً: مزاحمتی ادب کے ذیل میں کشمیر اور افغانستان پر اعجاز فاروقی کے افسانوں یا فلسطین اور یروشلم پر نعیم صدیقی کی منظومات وغیرہ کا ذکر نہیں آسکا۔ تاہم ‘ جائزے میں اسلامی ادب کے تحت ایسی مفید معلومات آگئی ہیں جو عام ادبی تاریخوں میں نہیں ملتیں۔

اردو ادب و تحقیق کی دُنیا میں غفور شاہ قاسم کی اس کاوش کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ (ر-ہ)


انٹرنیٹ ڈائرکٹری  ‘ مرتبین: اعظم شیخ‘ محمد متین خالد۔ ناشر: فاتح پبلشرز ‘الکریم مارکیٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۸۰۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

انفرمیشن ٹکنالوجی نے عام آدمی کے لیے معلومات کا حصول اتنا آسان بنا دیا ہے کہ چند برس پہلے اس کاتصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا اور چند برس بعد کیا صورت ہوگی؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ انفرمیشن ٹکنالوجی کے ایک امریکی ماہر اور استاد کے بقول عین ممکن ہے کہ مستقبل میں آج کی کتابیں‘ اخبارات‘ ریڈیو اور ٹی وی وغیرہ عجائب گھر کی زینت بن چکے ہوں اور ان پر ’’زمانہ قدیم کے ذرائع معلومات‘‘ کا لیبل لگا ہوا ہو۔

انفرمیشن ٹکنالوجی کے برپا کردہ اس انقلاب میں انٹرنیٹ کا کردار سب سے اہم اور دُور رس ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے آدمی گھر بیٹھے ہر قسم کی معلومات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن اپنی مرضی اور پسند کی مخصوص معلومات حاصل کرنا بالعموم ایک طویل اور صبرآزما کام ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ ’’ورلڈ وائڈ ویب‘‘ پر اس قدر کثیر سائٹس موجود ہیں کہ ان کا شمار کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ایسے میں اگر انٹرنیٹ چالو کرنے سے پہلے آدمی کسی ایسی کتاب سے مدد لے لے جس میں مختلف موضوعات پر معلومات مہیا کرنے والی ویب سائٹس کی گروہ بندی کر دی گئی ہو‘ تو اس کا بہت سا وقت بچ سکتا ہے۔ زیرنظر انٹرنیٹ ڈائرکٹری کے مرتبین نے انٹرنیٹ کے صارفین کی اسی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کتاب مرتب کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے اس مقصد کے لیے اَن تھک محنت کی ہے جس کی بدولت یہ کتاب قارئین کے ایک وسیع حلقے کے لیے مفید اور کارآمد بن گئی ہے۔

اس کتاب میں مجموعی طور پر ۵۵ عنوانات کے تحت ایک ہزار سے زائد ویب سائٹس کی گروہ بندی کی گئی ہے۔ اہم موضوعات میں تعلیم‘ اسلام‘ ماحولیات‘ بنکنگ اور بزنس‘ پاکستان‘ افواج پاکستان‘ پاکستانی سپورٹس‘ رشتے‘ روزگار‘ سیاسیات‘ سائنس اور خلابازی‘ کھیل‘ سیروسیاحت‘ موسمیات اور گھرداری شامل ہیں۔ اہم ویب سائٹس کے بارے میں مختصر یاتفصیلی تعارف دے کر کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے موضوع پر عالمی اسلامی تحریکوں‘ خصوصاً جماعت اسلامی‘ حماس اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ وغیرہ کے علاوہ اسلامی معلومات فراہم کرنے والی کئی ویب سائٹس کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں انٹرنیٹ سے متعلق اصطلاحات کی ایک فرہنگ (glossary)دی گئی ہے جو ایک عمدہ اضافہ ہے‘ تاہم بعض ویب سائٹس کے پتوں (addresses)میں کچھ گڑبڑ معلوم ہوتی ہے‘ جس کی وجہ غالباً پروف ریڈنگ کا نقص ہے۔ چونکہ کمپیوٹر میں ’ایک شوشے کا فرق‘ بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اس لیے جس ویب سائٹ کے ایڈریس میں معمولی سا بھی تغیر ہو‘ اسے تلاش کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ پروف خوانی اور ایڈیٹنگ کی غلطیاں بقیہ متن میں بھی نظر آتی ہیں‘ اگرچہ بہت زیادہ نہیں۔

کتاب کا لَے آئوٹ خوب صورت ہے اور عمدہ سفید کاغذ کے ساتھ قیمت بھی مناسب ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس کتاب کے آیندہ ایڈیشن میں غلطیوں کی تعداد کو کم سے کم کیا جائے گا اور آئی ٹی کے میدان میں ہونے والی ہمہ وقت تبدیلیوں کے مطابق اصلاحات اور اضافے شامل کیے جائیں گے۔ (فیضان اللّٰہ خاں)

تعارف کتب

  •  لاریب فیہ ‘ ابو محمد منظور بن عبدالحمید آفاقی‘ مکتبہ آفاقیہ‘ نوتک محمید‘ ڈیرہ غازی خان ۳۳۴۰۱۔ صفحات: ۵۳۵۔ ہدیہ: ۲۳۰ روپے۔]ان تمام روایات کا جائزہ جن سے مخالفین نے ’’تحریف قرآن ‘‘ کا مضمون کشید کیا ہے۔ قرآن پاک کی حقانیت و صداقت سے متعلق مستشرقین کے اعتراضات‘ شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کا مدلّل جواب--- بائبل سے متعلق مباحث۔[
  • عالمی نظام سیاست و اقتصاد اور افغانستان کی طالبان تحریک‘  استاد خالد محمود۔ ناشر: گوشہ علم و تحقیق‘ المدینہ گارڈن‘ جمشید روڈ ۲ کراچی۔ صفحات: ۶۰۶۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔]ایک درجن سے زائد علما و دانش وروں کے تحسینی کلمات کے ساتھ‘ نظام سیاست و اقتصاد اور افغانستان پر ضروری و غیر ضروری معلومات‘ وہاں کی تاریخ اور دساتیر پر اصولی اور کتابی مگریہاں بے محل بحثیں‘ موجودہ عالمی استعماری طاقتوں کے اقتصادی منصوبوں اور حیلہ و فریب کاریوں کا بے ترتیب تذکرہ‘ اور بھی بہت کچھ رطب و یابس۔ روسی حملے کے دفاع میں افغان مجاہدوں میں صرف محمد بنی محمدی اور نصراللہ منصور کا ذکر‘ گویا اور کسی نے مزاحمت کی ہی نہیں‘ اور پاکستان سے صرف مفتی محمود نے مجاہدین کو گلے لگایا (ص ۱۹۷)۔ حکمت یار پر طنز و تعریض--- ایک غیر متوازن کتاب--- طالبان پر کم سے کم مواد--- تعجب ہے کہ ایک درجن سے زائد دانش وروں اور علما نے کتاب کی تحسین و تعریف میں مبالغہ آرائی کی ہے۔کیا طالبان کے حامیوں کو بطور مصنف و مولف اس قدر غیر معتدل‘ غیر متوازن اور یک رُخے ہونا چاہیے؟[
  •  لمحے کی روشنی‘ زاہد منیر عامر۔ ناشر: تناظر مطبوعات‘ ۵۹۶ نیلم بلاک‘ علامہ اقبال ٹائون‘ لاہور۔ صفحات: ۸۰۔قیمت: ۵۰ روپے۔ ]ایک معلم کے طالب علمانہ مطالعے و مشاہدے کے نتائج پر مبنی ہلکی پھلکی انشائیہ نما تحریریں‘ مسائل زندگی میںنوجوانوں کی رہنمائی اور ان کے فکر و شعور اور ذہن و احساس کو بیدار کرنے کے لیے حکمت سے لبریز باتیں‘ جو قاری کی سوچ کو مہمیز لگاتی ہیں۔ عنوانات: مرض کہن کا چارا‘ ارادہ ‘ فیصلہ‘ توجہ‘ اپنی نظر‘ لمحہ موجود وغیرہ۔ مثبت سوچ اور ادب و انشا کا عمدہ نمونہ۔[
  • مراٹھی نامہ‘ پروفیسر اکبر رحمانی‘ ناشر: ایجوکیشنل اکاڈمی اسلام پورہ‘ جلگائوں ۴۲۵۰۰۱ (مہاراشٹر) بھارت۔ صفحات: ۱۷۶۔ قیمت: ۲۵ روپے۔ ]مراٹھی اخبارات کے مضامین اور خبروں پر‘ بہ صورتِ کالم‘ آموز گار جلگائوں کے مدیر پروفیسر اکبر رحمانی کے تجزیاتی مطالعوں اور تبصروں کا مجموعہ (مطبوعہ روزنامہ انقلاب اور قومی آواز ‘ بمبئی۔ زمانہ: ۱۹۸۶ء تا ۱۹۹۳ء)۔ مسلم تعلیمی‘ معاشرتی اور معاشی مسائل پر بھارت کے بعض فرقہ پرست سیاست دانوں‘ تنگ نظر دانش وروں اور متعصب صحافیوں کے فکروذہن کی آئینہ دار تحریروں کا تجزیہ۔[
  • کاوش نظر‘ ڈاکٹر سید عبدالباری۔ ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس‘ ۳۱۰۸ گلی وکیل ‘ کوچہ پنڈت‘ لال کنواں‘ دہلی ۶۔ صفحات:۲۳۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔]ادبی تنقیدی مقالات کا مجموعہ۔ ادب اور فن کے مختلف موضوعات پر چند اہم اصولی بحثیں۔ بعض ممتاز اہل قلم (اقبال‘ سید سلیمان‘ مومن‘ جگر‘ ماہرالقادری‘ فراق ‘ پطرس وغیرہ) کی کاوشوں پر تنقید و تبصرہ۔ قطعیت سے چندمحکم و متوازن اصولوں کی روشنی میں‘ ’’خوداعتمادی کے ساتھ خوش گوار اسلوب میں کچھ کام کی باتیں‘‘۔[
  •  تعلیمی مباحث‘ پروفیسر عتیق الرحمن صدیقی۔ ناشر: ادارہ تعلیمی تحقیق‘ ۳ بہاول شیر روڈ‘ مزنگ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۴۰۔ قیمت: ۱۰۲روپے۔]مصنف کی طویل معلمانہ زندگی کے تجربات پر مبنی‘ تعلیمی مسائل کے مختلف پہلوئوں پر مختصر مضامین۔ تربیتی پہلو اور تدریسی حکمت عملی نمایاں۔ ایک تعمیری نقطۂ نظررکھنے والے نظریاتی استاد کے گراں قدر خیالات۔[

٭ کب رات بسر ہوگی؟ پروفیسر شیخ محمد اقبال۔ ناشر: آل پاکستان تھنکرز فورم‘ ۱۳۱- رحمت پارک‘ کالج روڈ‘ سرگودھا۔ صفحات: ۱۳۴۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔ ]استاد‘ شاعر اور نقاد اور نابینائوں کی انجمن کے صدر شیخ محمد اقبال کے فکر انگیز اور مثبت انداز فکر کے ترجمان مضامین کا مجموعہ۔ دراصل ماہنامہ سفید چھڑی کے اداریے: زندگی کے تضادات‘ توہمات اور غیرصحت مند تصورات و رجحانات پر تنقید بلکہ اُن کے خلاف ’’قلمی جہاد‘‘۔ بقول مصنف: ’’ہمیں قسمت اور تقدیر کی شکایت کرنے کے بجائے ان زمینی خدائوں کے خلاف صف آرا ہونا چاہیے ]اور[یہ ممکن ہی نہیں کہ برائی کی قوتیں ہمیشہ کے لیے اپنی عمل داری برقرار رکھ سکیں۔ بشرطیکہ درست سوچ رکھنے والے سپرانداز نہ ہوں‘‘۔[

  •  تصوف کی دنیا اور روحانی علاج‘ ڈاکٹر امیر فیاض۔ ناشر: فیڈرل ہومیوکلینک اینڈ سٹور‘ادھیانہ بازار‘ مینگورہ سوات۔ صفحات: ۴۳۰۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔]دورِ حاضر کے امراض کا روحانی علاج بذریعہ: صبر‘ نماز‘ ذکر‘ صدقہ‘ فقر‘ نصیحت‘ پیر اور مرید کا باہمی رشتہ۔ انبیاے کرام‘ صوفیا‘ صلحا کے اقوال--- استفادہ از مولانا اشرف علی تھانویؒ ، امام غزالی ؒ، ابن تیمیہؒ، محمد قطب وغیرہ--- ایک پرخلوص جذبے کے ساتھ متوازن نقطۂ نظر۔[
  • شہر رواں‘ مشتاق احمد بھٹی۔ پتا: طارق طالب پرنٹرز‘ ۵۴ میو ہسپتال‘ لاہور۔ صفحات: ۱۶۲۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔ ]محکمہ ٹیلی فون کی ۳۲ سالہ ملازمت کے ’’خوش گوار‘‘ عرصے میں مصنف نے دنیا کے ۲۶ ممالک کے ۵۲ شہر دیکھے۔یہ سفرنامہ ’’انھی شہروں کی یاد میں ہے‘‘۔ سفرکے واقعات و حالات اور تجربات و مشاہدات سادہ اور رواں نثر میں ۔سیکڑوں مقامات اور لوگوں اور جگہوںکا ذکر۔ بیسیوں تصاویر کے ساتھ ایک دلچسپ سفرنامہ۔ مصنف کا دین دارانہ ذہن اور مثبت اور صحت مند زاویۂ حیات۔[

حافظ محمد ادریس ‘  لاہور

’’کامیاب شخصیت کے فکری عناصر‘‘ (ستمبر ۲۰۰۱ء) بہت مفید اور موثر تحریر ہے۔ مصنف نے اپنے مخصوص انداز میں قرآن و سنت‘ اسلامی علوم اور جدید تقاضوں کے خوب صورت امتزاج سے شخصیت کی تعمیر کے لیے مفید رہنمائی فراہم کی ہے۔ چند توجہ طلب پہلو یہ ہیں: وھب بن منبہ کو وہاب بن منبہ (ص ۲۶) لکھا گیا جو درست نہیں۔ کفران (ناشکری) (ص ۲۷) کی تعریف کے لیے استعمال کیے گئے الفاظ دراصل ’’ظلم‘‘ کی تعریف ہے‘ ناشکری کی نہیں۔ عزم کی وضاحت کے لیے بچھو کے ڈسنے اور پھر اس پر ترس کھانے والی مثال مناسب نہیں۔ موذی جانور کو ہلاک کرنا چاہیے۔ یہ مثال اس کی بھی نفی کرتی ہے۔

عمر خضر ‘  کراچی

’’مسلم ممالک ‘ جمہوری روایت اور اسلام‘‘ (ستمبر ۲۰۰۱ء) میں ڈاکٹرانیس احمد صاحب نے مغربی مصنفین کے اسلام اور جمہوریت سے متعلق بنیادی تضاد اور ذہنی تحفظات کا مدلل انداز میں بخوبی تجزیہ کیا ہے اور مسلم ممالک کا جمہوریت سے متعلق نقطۂ نظر بھی اختصار اور جامعیت سے پیش کیا ہے۔ جمہوری طرز پر کام کرنے والی اسلامی تحریکوں کا تذکرہ کرتے ہوئے پاکستان‘ سوڈان‘ ترکی اور اردن کے ساتھ بنگلہ دیش‘ ملایشیا اور مصر کا ذکر بھی کرنا چاہیے تھا۔

سلیم منصور خالد ‘  گوجرانوالہ

’’نائیجیریا: اسلامی قوانین کا نفاذ‘‘ (ستمبر ۲۰۰۱ء) میں دو سال سے جاری نفاذ کے تجربے کے بارے میں نہ معلومات ہیں نہ تجزیہ۔ تاریخی پس منظر تو پہلے بھی آ چکا ہے۔ ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ پیش رفت کیا ہے؟ اندرون ملک اور بیرون ملک ردعمل کیا ہے؟ مستقبل کے کیا امکانات ہیں؟ اس حوالے سے تشنگی ہی تشنگی حصے میں آئی ہے۔ایروبا کو پروبا اور ایبو کوکبو لکھا گیا۔ مسلمانوں کے اہم قبیلے فلانی کا تذکرہ ہی نہیں کیا گیا۔ مضمون میں پروف خوانی کی فاش غلطیاں بھی ہیں: ۴۰۰ صد (ص ۶۳) اور موقف کے بجائے موقوف (ص ۶۵)۔

خالد محمود  ‘ منچن آباد

خرم مراد کا مضمون: ’’خدمت خلق‘‘ (اگست‘ ستمبر ۲۰۰۱ء) اپنے موضوع پر منفرد تحریر ہے۔ اس نوعیت کا اس سے بہتر مضمون آج تک نہیں پڑھا۔ ان کی تحریروں میں روحانی کشش ہے‘ دل اثر بھی قبول کرتا ہے اور عمل کی طرف آمادہ بھی ہوتا ہے۔

منصور اختر غوری  ‘ لاہور

’’خدمت خلق‘‘ (اگست‘ ستمبر ۲۰۰۱ء) پڑھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان بنیادوں پر اسلامی

تحریکوں کے کارکن اپنی ذات میں سراپا حسن خلق ہوں اور ہماری تحریکیں بھی معاشرے کی اصلاح کی بہتر حکمت عملی ترتیب دیں اور معاشرتی بنیادوں پر خدمت خلق کا بہترین نظام وضع کیاجائے۔ لوگوں کے عملی مسائل میں دل چسپی لی جائے‘ ناداروں کی امداد‘ مفلس بچیوں کی شادی کے لیے مالی اعانت‘ بے روزگاروں کو روزگار کی فراہمی کے لیے تعاون و مالی امداد بنیادی مسائل ہیں جنھیں ترجیح دینا چاہیے۔

عبدالربی بخمل‘ شارجہ

’’۱۴-اگست یوم تجدید عہد‘‘ کے عنوان سے آپ کا نہایت ہی معلوماتی اور پراثر مضمون (اگست ۲۰۰۱ء) پڑھا۔ قائداعظمؒ کی بعض تقاریر کے اقتباسات دیکھ کر بڑا تعجب ہوا‘ کیونکہ قائد کی زندگی کا یہ اسلامی رخ تو بہت کم کسی اخبار‘ رسالے یا کتاب میں پڑھنے کو ملتا ہے بلکہ اکثر لوگوں نے اُن کو کسی اور طرح سے مشہور کر دیا ہے۔ انھیں مغربی لبرلزم کے علم بردار کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔ آپ کے مضمون سے پاکستان بننے کا تاریخی پس منظر اور تحریک پاکستان میں بعض مقتدر مذہبی شخصیات کا کردار اچھی طرح واضح ہو گیا ہے۔

لحاظ علی‘چارسدہ

سید راشد بخاری کا مضمون ’’جدید انسان کا روحانی اور جذباتی اضطراب‘‘ (اگست ۲۰۰۱ء) عمدہ تحریر تھی‘ تاہم مغربی مفکرین کا ذکر کرتے ہوئے صاحب مضمون نے صرف سگمنڈ فرائیڈ کا تذکرہ کیا ہے۔ انیسویں صدی میں زیادہ تر لوگ روسو کے زیراثر رہے جس نے مذہب سے بیزاری کے اسباب پیدا کیے اور رہی سہی کسرچارلس ڈارون کے نظریے نے پوری کر دی۔ ابھی تک ہمارے ملک کے پڑھے لکھے لوگوں کا ایک مخصوص طبقہ ان مفکرین کے نظریات سے متاثر ہے اور ان کو فخر سے پیش کرتا ہے۔ مذکورہ مضمون میں ان مفکرین کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ اسی طرح مشرقی اکابر میں سے صرف ڈاکٹر محمد اجمل کا ذکر کیا گیا ہے۔ اگر دیگر مفکرین سے بھی استفادہ کیا جاتا تو مذکورہ مضمون میں مزید نکھار پیدا ہوتا۔

انشاء محمد  ‘کوہاٹ

میں عرصہ ۳۵ سال سے دبئی میں رہایش پذیر ہوں۔ پچھلے سال بچوں کو پاکستان منتقل کیا۔ میری بچی نے پی اے ایف اسکول کوہاٹ میں نویں کلاس میں داخلہ لیا تو اس کو لڑکوں کے ساتھ کلاس میں بٹھایا گیا۔ میں نے پرنسپل کے ساتھ بات کی کہ میری بچی کو لڑکیوں کی علیحدہ کلاس میں منتقل کر دیں‘ جب کہ لڑکیوں کی کلاس موجود ہے مگر انھوں نے انکار کر دیا۔ میں نے بیس کمانڈر سے ملنے کی کوشش کی مگر مسئلہ حل نہ ہوا۔ مجبوراً مجھے بچی کو اسکول سے اٹھانا پڑا۔

حکومت وقت بیرون ملک پاکستانیوں کو بہت سی مراعات دینے کے اعلان کرتی ہے مگر یہاں یہ حال ہے کہ ایک بچی کا سال ضائع ہو گیا مگر پرنسپل کی ضد ہے کہ جوان لڑکی کو جوان لڑکوں کے ساتھ بٹھائو جو کہ سراسر غیر اسلامی ہے اور غیر اخلاقی بھی۔ میں اپنی بچی کا ایک سال تو ضائع کر سکتا ہوں مگر اس کو غیر شرعی تعلیم نہیں دے سکتا۔ میں یہ بات حکام بالا کے علم میں لانا چاہتا ہوں۔ کیا اس طرح بیرون ملک پاکستانیوں کی ہمدردیاں حاصل کی جا سکتی ہیں؟ ان کے دل میں اس ملک کے لیے کیا قدر ہوگی جس میں ایک بچی اپنی مرضی سے جائز شرعی ماحول میں تعلیم بھی حاصل نہیں کر سکتی؟

 

آزاد اہل فکر میں یہ عام بیماری ہے کہ وہ اپنے رجحانات کو فطری حقائق کا پابند بنانے کے بجائے فطری حقائق کو اپنے رجحانات کا پابند بنانے کی کوشش کرتے ہیں‘ اور اس بنا پر جن پرانی خرابیوں کی اصلاح کرنے کے لیے اٹھتے ہیں اُن سے بدتر خرابیاں خود پیدا کر دیتے ہیں۔ اخلاقیات اور اجتماعیات میں ان لوگوں کی کوئی تحریرافسوس ہے کہ اِس عدم توازن سے خالی نہیں ہوتی۔ ]جان اسٹوارٹ [مل کی اس کتاب ] On Liberty : محکومیت نسواں [ کو پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا لکھنے والا نہ تو ایک سائنٹسٹ ہے جس نے اپنی رائے کو ثابت شدہ سائنٹفک حقائق کے تابع رکھا ہو‘ اور نہ ایک حکیم ہے جس نے انسانی تمدن کے بنیادی مسائل پر  بے لاگ اور حقیقت پسندانہ طریقہ سے غوروخوض کر کے ایک رائے قائم کی ہو۔ بخلاف اس کے وہ ہم کو صاف طورپر ایک وکیل نظر آتا ہے جو اپنے مقدمہ ]جملہ حیثیتوں سے مرد اور عورت کو برابر کر دیا جائے[کو ثابت کرنے کے لیے ہر قسم کی کھینچ تان کر رہا ہے‘ نہ مغالطہ دینے سے چوکتا ہے‘ نہ واقعات کو توڑ مروڑ کر اپنے منشاکے مطابق ڈھالنے سے باز رہتا ہے‘ اور نہ اپنے مخالف دلائل کو جج کے سامنے ہلکا بنا کر پیش کرنے میں دریغ کرتا ہے۔ اسی قسم کے خام کار مفکرین کی رہنمائی کا نتیجہ ہے کہ اٹھارھویں اور انیسویں صدی کے یورپ کی تمدنی خرابیوں کی اصلاح جن نئے طریقوں سے کی گئی وہ بیسویں صدی میں پہلے سے بدتر خرابیاں پیدا کرنے کے موجب ہوئے۔ اب یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ان لوگوں کے سقیم افکار ہماری پبلک کے سامنے بلاکسی تنقید کے پیش کیے جا رہے ہیں‘ حالانکہ ان افکار کے عملی نتائج بھی دیکھے جا چکے ہیں‘ اور ان نتائج کے خلاف خود یورپ ہی میں احتجاجی آوازیں بھی بلند ہونی شروع ہو گئی ہیں۔ (جان اسٹوارٹ مل کی کتاب: ’’محکومیت نسواں‘‘ ترجمہ: معین الدین خان پر تبصرہ‘ ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جلد ۱۹‘ عدد ۱‘۲‘۳‘ رجب‘ شعبان‘ رمضان ۱۳۶۰ھ‘ ستمبر‘اکتوبر‘ نومبر ۱۹۴۱ء‘ ص ۱۹۹-۲۰۰)