مضامین کی فہرست


دسمبر ۲۰۰۱

اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام بندوں کو اور خصوصیت سے اہل ایمان کو جن نعمتوں سے نوازا ہے ان کا شمار ممکن نہیں۔ ان نعمتوں میں سے ایک خاص نعمت رمضان المبارک ہے جس میں ایک مہینہ مسلسل روزے کے ذریعے بندہ اپنے رب سے اپنے تعلق کو مضبوط تر کرتاہے۔ بھوک‘ پیاس‘ بے آرامی اور ضبط نفس کے ذریعے وہ روحانی اور اخلاقی قوت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اسے بہتر انسان اور اپنے مالک کا  تابع فرمان بندہ بننے کے قابل بناتی ہے‘ دوسروں کے غم اور دکھ جاننے کے لائق ہی نہیں بناتی بلکہ اس کا تجربہ کراتی ہے‘ جو ہر فرد میں اُمت کا حصہ ہونے کا احساس بیدار اور مستحکم کرتی ہے اور اللہ کی ہدایت اور رہنمائی سے اسے جوڑنے اور اس کی روشنی سے زندگی کو روشن کرنے کے لائق بناتی ہے۔

روزے کی برکتوں اور نعمتوں کی کوئی انتہا نہیں لیکن اس کے پانچ پہلو ایسے ہیں جو اس عبادت اور اللہ کی اس عنایت کو ایک منفرد حیثیت بنا دیتے ہیں:

  •  رجوع الی اللہ‘ کہ روزہ بندے کو رب سے جوڑتا ہے اور صرف رب کی رضا اور اس کے حکم کے آگے مکمل سپردگی کی تربیت دیتا ہے۔
  •  نفس اور اس کی تحریکات پر قابو۔ انسان کی دو ہی بنیادی خواہشات ہیں--- جسم کی پرورش کے لیے خوردونوش اور آرام و آسایش اور نسل کی حفاظت کے لیے جنس اور رشتہ ازدواج۔ روزہ ان دونوں کو رب کی مرضی کے تابع کرنے اور اس طرح انسان کو نفس کا بندہ بن جانے سے روکنے اور نفس کو رب کی مرضی سے پابند کرنے کی تربیت دیتاہے کہ یہی اصل تقویٰ ہے۔
  •  روزہ انسان کو دوسروں کی بھوک اور پیاس کے تجربے کا احساس دلاتا ہے اور انسانوں کے درمیان اجتماعیت‘ اور تکافل باہمی کا رشتہ استوار کرتا ہے ۔ اس میں اگر ایک طرف مساوات کے احساسات بیدار کرتا ہے تو دوسری طرف اخوت‘ ایثار‘ اشتراک اور وسائل حیات میں ایک دوسرے کے حق کی ادایگی کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
  •  روزہ ایک انتہائی خفیہ اور نجی عبادت ہونے کے باوجود پوری اُمت مسلمہ میں ایک وحدت اور یک رنگی پیدا کرتا ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک ہی چاند دیکھ کر روزے کا آغاز کرتے ہیں‘ اور ایک ہی چاند دیکھ کر عید کا اہتمام کرتے ہیں۔ پورے مسلم معاشرے میں اس مبارک مہینے میں ایک خاص فضا قائم ہوتی ہے اور اُمت کی وحدت اور انفرادی اور اجتماعی عبادات کے ذریعے وَاِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاِحدَۃً (الانبیاء ۹۲:۲۱‘  المومنون۲۳:۵۲) کی جیتی جاگتی تصویر بن جاتی ہے ۔
  •  روزہ فرد اور جماعت دونوں میں ایمان کے ساتھ احتساب کے عمل کو موثر اور متحرک کرتا ہے کہ اس عبادت کی روح ہی یہ ہے کہ غیر شعوری انداز میں فاقہ اور تراویح کی مشق نہ ہو بلکہ عبادت سے لے کر کھانے پینے اور سونے اور جاگنے کے معمولات سے لے کر زندگی کے تمام معاملات کو اس طرح انجام دیا جائے کہ زندگی شعور اور آگہی سے بھر جائے اور بندہ ہر کام ایمان اور خود احتسابی کی شان کے ساتھ انجام دے۔

رمضان اور خود احتسابی

رمضان تو ہر سال انھی احساسات و جذبات کی آبیاری اور اُمت مسلمہ کو اس کی منزل اور مشن کے شعور کی تجدید اور ان کے حصول کے لیے جدوجہد کی تحریک دینے کے لیے آتا ہے تاکہ سونے والوں کو بیدار کرے اور سرگرم عمل لوگوں کو تیز تر سرگرمی کے لیے مہمیز دے۔ لیکن اس سال جس فضا اور جن حالات میں اُمت مسلمہ رمضان سے بہرہ ور ہو رہی ہے وہ بہت غیر معمولی ہیں اور رجوع الی اللہ‘ ذاتی تربیت و تزکیہ اور اجتماعی صف بندی کی فکرمندی کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی زندگی کی خود احتسابی کے لیے ایک نادر موقع فراہم کر رہے ہیں۔ آج ہم عالمی پس منظر میں اس خود احتسابی کے ان چند پہلوئوں پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں جن کی طرف اس مبارک مہینے کی عبادات کے دوران توجہ نہ کرنا ایک خسارے کا سودا ہو سکتا ہے کہ روزہ تو ہے ہی اس لیے کہ ہر مسلمان مرد اور عورت اور بحیثیت مجموعی اُمت مسلمہ انفرادی اور اجتماعی تقویٰ حاصل کرے جو ہماری قوت کا اصل منبع ہے اور یہ سب اس لیے کہ اللہ کا کلمہ بلند و بالا ہو سکے۔

وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (البقرہ ۲:۱۸۵) اور جس ہدایت سے اللہ نے تمھیںسرفراز کیا ہے‘ اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار اعتراف کرو اور شکرگزار بنو۔

ہدایت‘ فرقان اور تقویٰ کے اس منظر میں اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعلان اُمت کو جس کام کے انجام دینے کے لیے اُبھار رہا ہے وہ اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے‘ اس کے دین کو قائم کرنے اور حق کو باطل پر غالب کرنے کی جدوجہد ہے۔

روزہ‘ تقویٰ اور جہاد اللہ کے کلمے کی بلندی اور بالادستی کے قیام کا راستہ ہیں اور نماز‘ روزے ‘ حج اور زکوٰۃ کا رشتہ ایمان اور احتساب سے کٹ جانا یا کمزور ہو جانا ہی اُمت مسلمہ کی کمزوری‘ بے بسی اور محکومی کا باعث ہے جیسا کہ حدیث نبویؐ میں انتباہ کیا گیا ہے:

جس طرح کھانے والے ایک دوسرے کو دسترخوان کی طرف دعوت دیتے ہیں اس طرح عنقریب ایسا ہوگا کہ (دشمن) حکومتیں (لقمہ تر سمجھ کر) تم پر ٹوٹ پڑیں گی۔ ایک شخص نے سوال کیا: کیا ایسا ہماری قلت تعداد کی بنا پر ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا: ’’نہیں‘ بلکہ تم اس وقت تعداد میں بہت زیادہ ہو گے لیکن تمھاری حیثیت خس و خاشاک سے زیادہ نہ ہوگی۔ دشمنوں کے دلوں سے تمھارا رعب اٹھ جائے گا اور تمھارے اندر ’’وھن‘‘ کی بیماری پیدا ہو جائے گی۔ آپؐ سے سوال کیا گیا ’’وھن‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’دنیا کی محبت اور موت سے نفرت‘‘۔ (انتخاب حدیث ‘مولانا عبدالغفارحسن‘ص ۳۱۰)

آج ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکہ اور اس کے حواری افغانستان پر حملہ آور ہیں اور رمضان کے مقدس مہینے میں معصوم انسانوں کا خون بہا رہے ہیں اور دوسری طرف عالم یہ ہے کہ پوری اسلامی دنیا پر ایک سکتہ طاری ہے‘ کچھ سہمے ہوئے ہیں‘ کچھ منقار زیر ہیں‘ کچھ کانپ رہے ہیں‘ کچھ ہاتھ جوڑ کر دشمنوں کو کندھا فراہم کر رہے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو آگے بڑھ کر ظالموں کے دست و بازو بن رہے ہیں اور مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ بھی رنگ رہے ہیں اور مظلوموں کی لاشوں پر اپنے لیے تخت سجانے کے خواب دیکھ رہے ہیں--- تو کیا خود احتسابی کے لیے اس سے بھی زیادہ کسی سنگین لمحے کا انتظار کیا جا سکتا ہے؟

خود احتسابی ‘ ایک ذمہ داری

خود احتسابی کا آغاز اہل پاکستان کوخود اپنی ذات سے کرنا چاہیے۔افغانستان اور اُمت مسلمہ کے وسیع تر پس منظر میںخود احتسابی ہماری ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ عالمی سطح پر بھی خود احتسابی وقت کی ضرورت ہے۔ ان تینوں سطح پر خود احتسابی ہی سے وہ راہیں سامنے آ سکتی ہیں جن پر چل کر موجودہ بحران سے نکلا جا سکتا ہے اور ایک بہتر مستقبل کے لیے جدوجہد ممکن ہو سکتی ہے۔

پاکستانی قیادت نے امریکہ میں ہونے والے ۱۱ ستمبر کے اندوہناک واقعے کے بعد ایک سوپر پاور کی دھمکی اور دبائو کے تحت حق و انصاف‘ عالمی قانون و روایات(conventions)‘ اسلامی وحدت اور ملّی حقوق و فرائض کے احکام و آداب اور خود ملک کے حقیقی اور دیرپا مفادات سے صرفِ نظر ہی نہیں کیا ان کی خلاف ورزی کی اور ان سے بے وفائی کا ارتکاب کرتے ہوئے گھٹنے ٹیکے اور چشم زدن میں خارجہ پالیسی میں ایسی قلابازی (U-turn)کھائی کہ دوست دشمن بن گئے اور جن کی دوستی کبھی قابل بھروسا نہ تھی اور جن سے بار بار ملک چرکے کھا چکا تھا ایک بار پھر انھی کے دامن کو تھامنے‘ اسی ’’کوئے ملامت‘‘ کے طواف کی ذلت قبول کرنے‘ انھی ٹھکرانے والوں سے کچھ ڈالروں کی بھیک مانگنے اور ان کی چاکری میں اپنے ستم زدہ مسلمان بھائیوں اور ہمسایہ ملک پر آگ اور خون کی بارش کرنے کے لیے راستے کھولنے اور فضائیں ہموار کرنے کا ’’جرأت مندانہ‘‘ اور ’’مبنی برحکمت‘‘ کارنامہ انجام دیا۔

کسی بھی صاحب ایمان‘ خوددار اور باعزت فرد یا قوم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ محض دبائو میں آکر‘ حقائق کا صحیح تعین اور تجزیہ کیے بغیر اور خود اپنی قوم اور اپنے دوست ممالک کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی بھی بڑا فیصلہ کرے‘ چہ جائے کہ ایک ایسا فیصلہ جس کے بڑے دُور رس اثرات پوری قوم‘ ہمسایہ دوست ممالک‘ اُمت مسلمہ اور پوری انسانیت کے مستقبل پر مرتب ہونے والے ہوں۔ نیتوں کا علم تو اللہ تعالی ہی کو ہے لیکن قومی معاملات کے فیصلے رات کی تنہائیوںمیں بیرونی دھمکیوں کے تحت نہیں کیے جاتے۔ جنرل مشرف اور ان کے ساتھیوں نے ۱۴ ستمبر ۲۰۰۱ء کی رات کو جو اقدام کیا اور جس کے کچھ نتائج ان دس ہفتوں میں بھی سب کے سامنے آگئے ہیں اور نہ معلوم ابھی کیسے کیسے نتائج رونما ہونے والے ہیں اس کا بے لاگ احتساب ضروری ہے۔ سرکاری ذرائع اور درباری اہل قلم اس اقدام کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوڑی کا زور لگائے ہوئے ہیں لیکن حقائق اپنا لوہا منوا کر رہتے ہیں اور محض پروپیگنڈے کے گردوغبار سے تلخ حقیقتوں پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔

انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی‘ صحیح فیصلے وہی ہوتے ہیں جو آزاد فضا میں‘ بے لاگ غوروخوض ‘نفع و نقصان کے حقیقت پسندانہ ادراک‘ باہمی مشورے اور قوم کو اعتماد میں لے کر کیے جاتے ہیں کوئی فرد واحد عقل کل نہیں ہے اور چند افراد محض ’’ہم پر اعتماد کرو‘‘ کی بنیاد پر قوم کی قسمت سے نہیں کھیل سکتے۔ یہ تاریخ کا فیصلہ ہے اور خود ہمارا تجربہ۔ جب بھی بڑے بڑے فیصلے من مانے انداز میں ہوںگے‘ وہ بالآخر نقصان دہ اور تباہ کن ہوں گے۔ ۱۹۵۴ء کا امریکی حلقہ دفاع میں شرکت کا فیصلہ ہو یا ۱۹۶۶ء کا تاشقند کا معاہدہ‘ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کامشرقی پاکستان میں فوجی اقدام کا فیصلہ ہو یا ۱۶ دسمبر کا ہتھیار ڈالنے کا معاملہ‘ فروری ۱۹۹۹ کا اعلان لاہور ہو ‘ ۴ جولائی کا کارگل سے پسپائی کا فیصلہ اور ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو چیف آف اسٹاف کی برطرفی کا اعلان سب قوم کے لیے نشاناتِ عبرت ہیں۔

حکومتی فیصلے کا جائزہ

۱-  دباؤ کے تحت: یہ فیصلہ آزاد فضا میں اور مسئلے کے حسن و قبح کی بنیاد پر نہیں ہوا بلکہ ایک سوپر پاور کی دھمکی اور دبائو میں ہواہے۔ ہم کیسی ہی تاویلیں کریں لیکن اب سارے حقائق دو اور دو چار کی طرح کھل کر سامنے آگئے ہیں کہ ۱۱ ستمبر کے واقعے کے بعد امریکہ کے اصل مقتدر طبقے  (establishment) نے طے کر لیا تھا کہ اس موقع کو اپنے اسٹرے ٹیجک مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنا ہے اور اس کا آغاز اسامہ بن لادن‘ القاعدہ‘ افغانستان اور بالآخر اسلامی احیا کی تحریک کو (جسے کبھی سیاسی اسلام (political Islam)کہا جاتا ہے‘ کبھی اسلامی بنیاد پرستی (Islamic fundamentalism)اور کبھی عسکری اسلام (militant Islam)اور کبھی جہادی تحریک) دبانے اور اس کے لیے مقابلے کی قوتوں کو اُبھارنے سے کیا جانا ہے۔

اصل واقعے کی آج تک کوئی معروضی تحقیق نہیں ہوئی ہے اور نہ کرنے کا کوئی منصوبہ ہے۔ عدل و انصاف اور قانون کے مطابق مجرموں کے تعین اور سزا کی کوئی کوشش کی گئی ہے اور نہ اس کا کوئی ارادہ ہے۔ نیویارک کے عالمی تجارتی مرکز کے انہدام کے آدھ گھنٹے کے اندر اسامہ بن لادن کو گردن زدنی قرار دے دیا گیا اور پھر پروپیگنڈے اور جبروقوت کے ذریعے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کی ایک فضا بنا ڈالی گئی۔ کولن پاول نے اب صاف اعلان کر دیا ہے کہ ’’ہم نے ۱۳ ستمبر کو پاکستان کو الٹی میٹم دے دیا تھا کہ یا ہمارا ساتھ دو ورنہ تم کو بھی دہشت گرد ملک قرار دے کر تمھارے خلاف صف آرا ہو جائیں گے‘‘۔ جنرل پرویز نے ۲۴ گھنٹے کی مہلت مانگی مگر اس کے ختم ہونے سے پہلے ہی ۱۴ ستمبر کی رات ‘ صدر بش نے جنرل پرویز کو نیند سے بیدار کر کے الٹی میٹم کا جواب مانگا اور جنرل صاحب نے ’’تحویل قبلہ‘‘ کا کارنامہ معکوس انجام دیتے ہوئے ہتھیار ڈال دیے۔ اگر دہشت گردی کی تعریف (definition) کا کوئی متفق علیہ حصہ ہے تو وہ ’’سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے قوت یا قوت کے استعمال کی دھمکی‘‘ سے عبارت ہے اور اس تعریف پر صدر بش کی جنرل مشرف کو دھمکی اور ان سے اپنی مطلب براری مکمل طور پر صادق آتی ہے۔

کہا گیا کہ ’’یاتم ہمارا ساتھ دو ورنہ تم دہشت گردوں کی صفوں میں شمار کیے جائو گے‘‘۔ ساری دنیا کو من مانے انداز میں سفید اور سیاہ کے دو طبقوں میں بانٹ دیا گیا اور کہا گیا کہ ’’۲۱ وی صدی میں زندہ رہنا چاہتے ہو یا پتھروں کے عہد کی طرف لوٹنے اور کھنڈرات میں بدلنے کے لیے تیار رہو‘‘۔ ایسا نہیں ہے کہ سب نے اس دھمکی کے آگے سپر ڈال دی۔ دنیا کے ۱۸۹ ملکوں میں سے اکثریت نے صرف ان دو راستوں (options) آپشنز کو ماننے سے انکار کر دیا اور جن ممالک نے دہشت گردی کے خلاف محاذ میں شرکت پر آمادگی کا اظہار بھی کیا ان میں سے بھی بیش تر نے غیر مشروط تعاون کی حامی نہیں بھری۔ بلجیم کے وزیراعظم نے دھونس میں آنے سے انکار کر دیا اور اسے سیاسی دبائو (bullying)قرار دیا۔ برطانیہ کے پارلیمنٹ کے متعدد ارکان نے کھل کر بغاوت کی۔انڈونیشیا‘ ملائشیا‘ مصر‘ شام‘ ایران اور حتیٰ کہ سعودی عرب نے بھی اپنی زمین اور فضائی حدود استعمال کرنے سے انکار کر دیا اور ساری دھونس اور دبائو کے باوجود بمشکل ۴۵ ممالک نے امریکہ کے ساتھ مکمل یا جزوی طور پر اتحاد میں شرکت کی حامی بھری۔ان میں سے بھی اکثر کو اپنے اپنے ملکوں میں سخت مزاحمت سے سابقہ پیش آیا۔ آسٹریلیا اور جاپان کو دستور و قانون میں تبدیلی کرنا پڑی اور جرمنی حکومت کو اپنے وجود کے لالے پڑ گئے‘اعتماد کے ووٹ کا ڈراما رچانا پڑا اور حکومت چند ووٹوں سے ختم ہوتے ہوتے رہ گئی۔

ہمارے سامنے بھی صرف یہ دو ہی راستے نہیں تھے لیکن ہم نے ہر مشورے سے قبل اور کسی بھی نوعیت کی معلومات اور شہادتوں کے بغیر ۱۴ ستمبر کو امریکہ کے آگے سپر ڈال دی۔ نام نہاد مشاورت کا آغاز اس کے بعد ہوا ہے اور جنرل مشرف آن ریکارڈ ہیں کہ اس وقت تک کوئی معلومات اور شہادتیں ان کو نہیں دکھائی گئی تھیں۔بہ ظاہر جو بھی معلومات دی گئی ہیں (جو ناکافی اور حقائق سے زیادہ مفروضوں اور شبہات پر مبنی ہیں) وہ بھی خانہ پری کے لیے بعد میں دی گئی ہیں اور ہم نے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا رویہ اختیار کیا ہے۔ جنرل مشرف کی ۱۹ ستمبر کی تقریر کا ویڈیو موجود ہے۔ اگر جنرل صاحب خود بھی اس کو ایک بار دیکھ لیں تو ان کے چہرے کا رنگ بتا رہا ہے کہ ان کا فیصلہ دبائواور دھمکی کے تحت ہے ‘آزادانہ نہیں۔

۲-  قوم کی مرضی کے خلاف: یہ فیصلہ قوم کی مرضی کے بغیر ہوا اور اسے ہرگز قوم کی تائید حاصل نہیں۔ ان کا یہ دعویٰ کہ صرف ۱۰‘۱۵ فی صد عوام اس کے خلاف ہیں‘ حقائق پر مبنی نہیں۔ ۲۷ ستمبر کے نام نہاد یوم یک جہتی پر پوری سرکاری مشینری کی عوام کو اپنی تائید میں نکالنے کی بھرپور کوشش کے باوجود اسکول کے بچوں اور سرکاری ملازمین کے سوا کسی کو اپنی تائید میں میدان میں نہ لایا جا سکا۔ اس کے برعکس عوامی ہڑتالوں‘ ریلیوں‘ جلسوںاور جلوسوں کے ذریعے عوام کی بہت بڑی اکثریت نے پرُامن رہتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار ان کے اقدام کے خلاف کیا ہے ۔ افغانستان پر امریکہ کے ہوائی حملے کے بعد ۱۵ اکتوبر کے گیلپ سروے کے مطابق ۸۳ فی صد عوام نے طالبان سے یگانگت اور حملوں کی مذمت کی رائے کا اظہار کیا ۔یہی کیفیت ساری دنیا میں رائے عامہ کے جائزوں کی ہے حتیٰ کہ برطانیہ میں بھی مسلمانوں کی آرا کا تقریباً یہی تناسب ہے۔ ترکی‘ انڈونیشیا‘ ملایشیا‘ تھائی لینڈ بلکہ بھارت تک کے مسلمانوں کا یہی ردعمل ہے۔ اگر پاکستان میں بھی اس مسئلے پر عوامی ریفرنڈم ہو تو ۸۰ فی صد سے زیادہ لوگ امریکہ کے خلاف اور اس معاملے میں جنرل مشرف کے اس سے تعاون پر ناراض‘ نادم اور برافروختہ نکلیں گے۔

بلاشبہ یہ پالیسی عوامی تائید سے محروم ہے اور جن سیاسی لیڈروں نے مختلف وجوہ سے حکومت کی تائید کی ہے‘ ان کے اپنے پیروکاروں کی بڑی تعداد بھی اس مسئلے پر ان کے ساتھ نہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ یہ فیصلہ قوم کے اجتماعی ضمیر اور ملت اسلامیہ کی تاریخی روایات اور ایمانی کیفیات کے خلاف ہے۔ پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ جن حکومتوں نے اس معاملے میں بہ خوشی یا بہ جبر امریکہ کا ساتھ دیا ہے ان کے عوام کھلے بندوں ان کی اس روش سے برگشتہ ہیں اور برأت کا اعلان کر رہے ہیں۔ مجھے حال ہی میں (۹ تا ۱۱ نومبر ۲۰۰۱ء) آکسفورڈ میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا جس میں امریکہ کے دو سابق سفیر اور انڈر سیکریٹری آف اسٹیٹ (نائب وزراے خارجہ) شریک تھے۔ دونوں نے باقی شرکا کے اس احساس کا اعتراف کیا کہ خواہ قاہرہ ہو یا اسلام آباد‘ حکومتوں کا موقف ایک تھا اور گلی کوچوں (street opinion) میں گونجنے والی رائے بالکل دوسری تھی۔ یہ کیفیت مسلم ممالک کی قیادتوں اور مسلم عوام کے جذبات و احساسات میں مکمل عدم مطابقت کی یہ ایک واضح مثال اور ان قیادتوں کے اپنے عوام سے دُور ہونے کا کھلا ثبوت ہے۔

۳- ظلم اور دہشت گردی سے تعاون: ہم نے ایک ایسا موقف اختیار کیا جو حق و انصاف کے خلاف ہے اور کھلے کھلے ظلم اور سامراجی دہشت گردی کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ ۱۱ ستمبر کو امریکہ مظلوم تھا اور ساری دنیا نے اس سے ہمدردی کا اظہار کیا اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون پر خودکش حملے کی بھرپور مذمت کی۔ لیکن امریکہ نے اصل دہشت گردوں کے تعین اور ان کے احتساب اور گرفت کے لیے دستور‘ قانون‘ اخلاق‘ بین الاقوامی روایات کے فریم ورک میں اقدام کرنے کے بجائے ایک نئی عالمی جنگ کا بلاجواز اعلان کر دیا اور بین الاقوامی دہشت گردی کے ذریعے ایک نئے سامراجی دَور کا آغاز کر دیا اور اس طرح ایک بار پھر ایک ظالم اور سامراجی طاقت کا کردار ادا کیا۔ ہم اس سے پہلے دلائل اور شواہد سے (ملاحظہ ہو ترجمان القرآن‘ نومبر ۲۰۰۱ء) یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ دہشت گردی سے جنگ کے نام پر امریکہ جو کچھ کر رہا ہے وہ صریح ظلم‘ کھلی کھلی غنڈا گردی اور بدترین دہشت گردی ہے جس کا ارتکاب وہ خود اپنے دستور‘ قانون‘ اقوام متحدہ کے چارٹر‘ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے اور بین الاقوامی قانون‘ روایات اور اخلاق کوپارہ پارہ کر کے پوری ڈھٹائی سے انجام دے رہا ہے۔ اس نئی جنگ کا مقصد اس کے اپنے سیاسی مفادات اور مقاصد کا حصول ہے۔ وہ ۱۱ ستمبر کے واقعات کے نام پر دنیا کے غریب اور کمزور ممالک پر اپنے قبضے کو مستحکم کرنا اور ان کے مزید وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔

اس خونی کھیل پر سے ہر روز پردے اُٹھ رہے ہیں اور امریکہ اور یورپ میں اہل فکرونظر‘ حق و انصاف کے اس طرح خون بہانے اور ظلم اور جارحیت کا نیا باب رقم کرنے پر سراپا احتجاج بن رہے ہیں۔ بات صرف مسلمانوں کی نہیں ‘امریکہ میں کم لیکن یورپ اور باقی تمام دنیا میں بشمول اسلامی دنیا اس کے خلاف بے زاری کی لہر اٹھ رہی ہے۔ ابھی ۱۸ نومبر کو لندن میں جنگ کے خلاف ایک تاریخی مظاہرہ ہواجس میں شدید سردی میں ایک لاکھ افراد نے شرکت کی اور اس جنگ کو محض مفادات کی جنگ قرار دیا۔ برطانیہ کے سابق وزیر ٹونی بین (Tony Ben)برطانوی پارلیمنٹ کے متعدد ارکان‘ اخبارات کے مدیر‘ کالم نگار اور ملائشیا کے ڈاکٹر چندرا مظفر اور سیکڑوں عمائدین نے اس میں شرکت کی اور امریکی عزائم کا پردہ چاک کیا۔ اہل علم و صحافت اور سیاسی شخصیات کی بڑی تعداد‘ حتیٰ کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر میںہلاک ہونے والوں کے اعزہ بھی پکار اٹھے ہیںکہ افغانستان کے غریب عوام پر ہولناک بم باری ایک ظلم ہے اور اس انتقامی کارروائی اور جنگ زرگری کے ذریعے ہمارے مرنے والوں کے خون کا سودا نہ کیا جائے۔ ٹونی بین نے اس عالمی احساس کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

ان کارروائیوں کو آغاز میں صلیبی جنگ قرار دیا گیا۔ اب ہم کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ اسلام کے خلاف کوئی مقدس جنگ نہیں ہے۔ اگرچہ آرچ بشپ آف کنٹربری نے اپنے مشرق وسطیٰ کے حالیہ دورے میں اس کو منصفانہ جنگ قرار دیا ہے جس کی حمایت اچھے عیسائیوں کو کرناچاہیے۔

اسامہ بن لادن کو نیویارک کے واقعات کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے لیکن اس پر مقدمہ چلائے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔اس لیے کہ امریکہ کسی ایسے جنگی جرائم کے ٹربیونل کا مخالف ہے جس کو امریکی شہری پر مقدمہ چلانے کا اختیار ہو۔ بہرحال سابق صدر کلنٹن اور صدر بش پہلے ہی یہ احکامات جاری کر چکے ہیں کہ اسامہ بن لادن کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ امریکہ بن لادن کو عدالت میں کیوں نہیں لانا چاہتا۔ یقینا وہ اپنے دفاع میں بتائے گا کہ  افغانستان پر حملہ کے بعد روسیوں کو نکالنے کے لیے خود سی آئی اے نے اسے ایک حریت پسند (یا دہشت گرد) کی حیثیت سے اسلحہ اور رقم فراہم کی تھی۔

دہشت گردی کی مذمت میں سلامتی کونسل کی قرارداد سے قطع نظر‘ یو این چارٹر میں امن کو درپیش خطرات سے نمنٹنے کے لیے جو طریقۂ کار بیان کیا گیا ہے‘ اسے ترک کر دیا گیا ہے۔ نیٹو نے دفعہ ۵ کو متحرک کر کے اپنے کو ان ذمہ داریوں سے بری نہیں کر لیا ہے جو معاہدہ نیٹو میں یو این چارٹر کی پابندی کرنے کے حوالے سے اس پر عائد ہوتی ہیں--- موسم سرما کے قریب آنے پر ہزاروں لاکھوں افراد کے فاقوں اور سردی سے مرنے کے امکانات پیدا ہو رہے ہیںاور ہمیں یہ یقین دلایا جا رہا ہے کہ یہ منصفانہ جنگ ہے جو ہم جیت سکتے ہیں اور جیتنا چاہیے۔

شاید ہمیں اپنے آپ سے یہ پوچھنا چاہیے کہ کیا ہم اپنی خاموشی سے انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب میں شریک ہو رہے ہیںکیوں کہ وہ لوگ جو پہلے ہی بہت تکلیف اٹھا چکے ہیں اب پھر اپنی سرزمین پر تکلیف اٹھا رہے ہیں صرف اس لیے کہ کیسپین کا تیل امریکہ کی مارکیٹ میں لانے کے لیے ان کی زمین کی فوری ضرورت ہے۔ (دی ارجین لندن‘ ۱۲ نومبر ۲۰۰۱ء)

سر جان پلجر(Sir John Pilger) کئی کتابوں کا مصنف ہے اور بی بی سی ٹی وی اور روزنامہ مرر کا چیف بین الاقوامی نامہ نگار رہا ہے۔ وہ لکھتا ہے:

دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک کھلا دھوکاہے۔ افغانستان میں تین ہفتے کی بم باری کے بعد بھی امریکہ میں حملوں میں ملوث کوئی ایک دہشت گرد نہ گرفتار ہوا اور نہ ہلاک۔اس کے بجائے دنیا کی غریب ترین اقوام میںسے ایک اور سب سے زیادہ مصیبت زدہ قوم کو دنیا کی طاقت ور ترین قوم کے ذریعے دہشت گردی کا اس حد تک نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ کہ امریکی پائلٹوں کے لیے ’’غیر یقینی‘‘ فوجی اہداف ختم ہوگئے‘ اور اب وہ کچے گھروں‘ہسپتالوں‘ ریڈکراس کے گوداموں اور مہاجرین کو لے جانے والی بسوں کو تباہ کر رہے ہیں۔

۱۱ ستمبر کے سانحے میں جو افراد براہ راست ملوث ہیں‘ ان میں سے کوئی بھی افغانی نہیںہے۔ بیش تر سعودی ہیں جنھوں نے منصوبہ بندی اور تربیت بہ ظاہر جرمنی اور امریکہ میں حاصل کی۔ وہ کیمپ جن کے استعمال کی طالبان نے بن لادن کو اجازت دی تھی ایک ہفتہ قبل خالی ہو چکے تھے۔ طالبان خود امریکہ اور برطانیہ کے پرداختہ ہیں۔ ۱۹۹۰ء میں وہ قبائلی فوج جس نے انھیں تیار کیا اسے سی آئی اے نے فنڈ فراہم کیے اور ایس اے ایس نے انھیں روس سے لڑنے کے لیے تربیت دی۔

منافقت صرف یہیں تک نہ نہیں۔ جب طالبان نے ۱۹۹۶ء میں کابل پر قبضہ کیا تو واشنگٹن نے کوئی تبصرہ نہ کیا۔ کیوں؟ کیونکہ طالبان کے لیڈروں کو جلد ہائوسٹن‘ (ٹیکساس) میںان سے معاملہ کرنا تھا جہاں تیل کی کمپنی یونی کول کے اعلیٰ افسران کو ان کا استقبال کرنا تھا۔ امریکی حکومت کی خفیہ منظوری سے کمپنی نے انھیں تیل اور گیس کی فراہمی میں وافر منافع دینے کی پیش کش کی جو امریکہ سوویت وسطی ایشیا سے افغانستان تک پائپ لائن کی تعمیر کے ذریعے چاہتا تھا۔

ایک امریکی سفارت کار نے کہا: طالبان غالباً سعودیوں کی طرح ترقی کے راستے پر چل پڑیںگے۔ اس نے واضح کیا کہ افغانستان تیل کی ایک امریکی کالونی بن جائے گا‘ اس میں مغرب کے لیے بہت منافع ہوں گے۔ کوئی جمہوریت نہ ہو اور نہ خواتین کی کوئی قانونی حیثیت‘ ہم اس صورت حال میں گزارا کر سکتے ہیں۔

اگرچہ سودا ناکام رہا ‘ تاہم یہ جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ کی اہم ترین ترجیح رہی جو تیل کی صنعت میں ڈوبا ہوا ہے۔ بش کا خفیہ ایجنڈا کیسپین کی تہ میں تیل اور گیس کے ذخائر کا استحصال کرنا ہے جو دنیا کے محفوظ ذخائر میں سے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق امریکہ کی توانائی  کی بہت زیادہ بڑھی ہوئی ضروریات کے لیے آیندہ ایک نسل کے لیے کافی ہوں گے۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے اگر پائپ لائن افغانستان سے گزرے اور امریکہ کی امید بر آئے۔

عراقیوں اور فلسطینیوں اور افغانیوں کا المیہ ایک حقیقت ہے جو مغرب کے اکثر میڈیا میں ان کے خاکے کے برعکس ہے۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے مسلمان عالمی دہشت گرد تو کیا ہوتے‘ ان کی عظیم اکثریت خود اس کا شکار ہے۔ یہ اپنے ممالک یا قریبی علاقوں کے قیمتی قدرتی وسائل کے سبب مغرب کے استحصال کا شکار ہیں۔

یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف نہیں ہے۔اگر ایسا ہوتا تو رائل میرینز اور ایس اے ایس فلوریڈا کے ساحلوں پر حملہ آور ہوتے جہاں سی آئی اے کے پروردہ دہشت گردوں اور لاطینی امریکہ کے سابق آمروں اور سفاکوں کو دنیا کے کسی اور خطے کے مقابلے میں زیادہ پناہ دی جاتی ہے۔

تاہم بے طاقتوں کے خلاف طاقت ور کی جنگ نئے بہانوں‘ نئے خفیہ ایجنڈوں اور نئے جھوٹوں کے ساتھ جاری ہے۔ اس سے پہلے کہ کوئی اور بچہ تشدد سے یا فاقہ کشی کی وجہ سے خاموشی سے ہلاک ہو جائے‘ اس سے پہلے کہ مشرق ومغرب دونوں جگہ نئے جنونیوں کی تخلیق کی جائے‘ یہ وقت ہے کہ برطانیہ کے عوام اپنی بات کو بھرپور طریقے سے منوائیں اوراس پرفریب جنگ کو بند کروائیں۔ (دی مرر‘ ۲۹ اکتوبر ۲۰۰۱ء)

مغرب کے درجنوں دانشور اس ظالمانہ جنگ کو صریح ظلم اور سامراجی دہشت گردی قرار دی ہے۔ جگہ کی قلت کے باعث ہم صرف ان دو اقتباسات پر اکتفا کرتے ہیں۔ البتہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں ہلاک ہونے والے ایک سابق فوجی افسر کی بیوی امبرایمنڈسن کا خط ضرور پیش کرنا چاہتے ہیں جو ۷ اکتوبر کی بم باری کے بعد شائع ہوا ہے اور دکھی انسانیت کے دل کی آواز ہے۔وہ انسان خواہ مشرق میں ہو یا مغرب میں‘ افغانستان میں یا امریکہ میں۔ لیکن اس کی آواز نہ صدربش کے دل میں اتر رہی ہے اور نہ جنرل مشرف کے ضمیر کو جھنجھوڑ پا رہی ہے!

۱۱ ستمبر کو جب دنیا بے یقینی اور خوف کے عالم میں نظارہ کر رہی تھی‘ میرا شوہر کریگ اسکاٹ ایمنڈسن جو امریکہ کا فوجی افسرتھا پینٹاگون میں اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اپنے ۲۸ سالہ شوہر اور دو نوجوان بچوں کے باپ کو کھونا ایک تکلیف دہ اور الم ناک تجربہ ہے۔ اس کی موت عظیم قومی نقصان کا ایک حصہ ہے اور مجھے یہ جان کر سکون ہوتا ہے کہ اتنے بہت سے دوسرے میرے غم میں شریک ہیں۔ میں نے اس تاریخی المیے کے ایک حصے کے طور پر کریگ کو کھو دیا ہے‘لیکن میرا غم اس خوف سے بڑھ جاتا ہے کہ اس کی موت کو دوسرے معصوم مظلوموں کے خلاف تشدد کرنے کا جواز فراہم کرنے میں استعمال کیا جائے گا۔ میں نے قومی رہنمائوں سمیت کچھ امریکیوں کی غصے میں بپھری لفاظی سنی ہے۔ وہ رہنما جو مسئلے کے حل کے لیے بہت زیادہ انتقام اور سزا کا مشورہ دے رہے ہیں‘ میں ان رہنمائوں پر واضح کرنا چاہتی ہوں کہ مجھے اور میرے خاندان کو غم و غصے کے ان الفاظ سے کوئی سکون نہیں ملتا۔ اگر وہ اس ناقابل فہم سفاکی کا جواب دوسرے معصوم انسانوں کے خلاف تشدد برت کر دینا چاہتے ہیں تو انھیں میرے شوہر کے لیے انصاف کے نام پر ایسا نہیںکرنا چاہیے۔ ایسی لفاظی اور انتقام کے فوری اقدامات میرے خاندان کی تکلیف کو صرف بڑھا سکتے ہیں‘ اور ہم کو اپنے پیاروں کو اس طرح یاد رکھنے میں جو ان کے لیے قابل فخر ہو‘ محروم کر سکتے ہیں اور امریکہ کے ایک امن ساز قوت کی حیثیت کا تمسخر اڑاتے ہیں۔

کریگ اپنی موت کے انتقام کے لیے پرتشدد ردعمل ہرگز نہ چاہتا‘ اور میں نہیں سمجھ سکتی کہ اس سے کوئی خیر کیسے برآمد ہو سکتا ہے۔ ہم تشدد کا مسئلہ تشدد سے حل نہیں کر سکتے۔ انتقام ایک خود بخود چلنے والا چکر ہے۔ میں قوم کے رہنمائوں سے کہتی ہوں کہ ایسا راستہ اختیار نہ کریں جو زیادہ وسیع نفرتوں کی طرف لے جائے‘ جو میرے شوہر کی موت کو قتل و غارت کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کی وجہ بنا دے۔میں ان سے اپیل کرتی ہوں کہ اس ناقابل فہم المیے کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ حوصلہ لائیں جس سے تشدد کا یہ چکر توڑا جا سکے۔ میں ان سے کہتی ہوںکہ وہ اپنی توجہات دنیا میں امن و انصاف کے لیے کام کرنے پر مرکوز کریں۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘۱۳ اکتوبر ۲۰۰۱ء)

یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ یہ جنگ صریح ظلم پر مبنی ہے اور گذشتہ ۷ ہفتوں میں افغانستان میں جو کچھ ہوا ہے اس نے ثابت کر دیا ہے کہ اصل مقصد افغان عوام کی کمر توڑنا‘طالبان کے اقتدار کو ختم کرنا اور دنیا کے تمام ممالک اور اقوام کو دہشت زدہ کرنا ہے کہ یا ہمارے ساتھ رہو ورنہ تمھارا حشر بھی ایسا ہی کر دیا جائے گا۔ افغانستان پر اس وقت تک ۵ ہزار سے زیادہ ہوائی حملے ہو چکے ہیں جن میں ۵ لاکھ سے زیادہ بم گرائے جا چکے ہیں اور اس میں چپے چپے پر بم باری (Carpet bombing)کے علاوہ امریکی جنگی خزانے کا ایٹم بم کا برادر نسبتی Daisy Cutterبے دردی سے استعمال کیا گیا ہے جو ۱۵ ہزار پونڈ المونیم اور دوسرے کیمیاوی مواد کو زمین سے ۳ فٹ بلندی پر ۱۰ ہزار درجہ فارن ہائٹ گرمی پر ایک آتشیں ہیولے کی شکل میںجنم دیتا ہے اور یہ آگ کا بادل ایک میل تک اس کی زد میں آنے والی ہر شے کو بھسم کر دیتا ہے۔ جو انسان یا اشیا اس کی گرفت میں نہیںآتیں لیکن تپش کی زد میںہوتی ہیں وہ جگر کے سرطان یا سماعت سے محرومی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ یہ  تہذیب کے وہ تحفے ہیں جو امریکہ نے افغانستان کے عوام کو دیے ہیں ۔ اس جنگ میں ہم نے نہ صرف ان کی تائید کی ہے بلکہ ان کو فضائی حدود ہی نہیں زمینی سہولت بھی فراہم کی ہے اور مغربی اخبارات نے تفصیل سے بار بار لکھا ہے کہ کس طرح جنگی ہیلی کوپٹروں نے ہمارے فراہم کردہ ہوائی اڈوں سے پرواز کی ہے اور پاکستان کی زمین کو اپنی چھائونی کے طور پر استعمال کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ میں ہماری شرکت اثم و عدوان اور ظلم و بربریت میں تعاون کے مترادف ہے۔

۲۱ اور ۲۲ نومبر کے برطانیہ کے اخبارات نے اطلاع دی ہے کہ اب تک لاتعداد شہریوں کے علاوہ ۵سے ۱۰ ہزار طالبان شہید کیے جا چکے ہیں‘ جن میں ایک ہزار کے قریب پاکستانی‘ عرب اور دوسرے رضاکار بھی شامل ہیں اور مزار شریف ‘ کابل اور دوسرے مفتوحہ علاقوں میں شمالی اتحاد کے جنگ جو‘ جو ۴ سال تک ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہ کر سکے تھے اب امریکی بم باری اور امریکی فوجی مشیروں کی رہنمائی میں نصف سے زیادہ افغانستان پر قبضہ کر چکے ہیں اور ہر جگہ انتقام کی آگ بھڑکا رہے ہیں اور ہزاروں انسانوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔ ان کی لاشوں کا مثلہ کر رہے ہیں اور اپنے ان مسلمان اہل وطن کو بے گوروکفن سڑکوں اور کھلیان میں بے آبرو کر رہے ہیں۔ قندوز کے محاذ پر شمالی اتحاد کی قیادت ہی نہیں امریکی وزیر دفاع بھی کہہ رہے ہیں یا ہتھیار ڈالو ورنہ موت کے لیے تیار ہو جائو۔ ہتھیار ڈالنے پر بھی جان کی امان نہیں اور جنگی قیدی بھی بنانے کے لیے ہم تیار نہیں۔ اسلام توبہت اعلیٰ تعلیمات کا دین ہے۔ یہ تو مغرب کے جنگی قانون اور جنیوا کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے‘ یہ ظلم اور آتش انتقام کا وہ مقام ہے۔ جس پر جنرل پرویز بھی چیخ اٹھے ہیں اور اپنے کیے پر نادم ہوں نہ ہوں‘ اب ٹونی بلیر اور کولن پاول سے درخواستیں کر رہے ہیں کہ رحم کرو اور کم از کم باعزت انخلاء کا راستہ دو۔

۴-  قومی مفادات یا امریکی مفادات: جنرل پرویز نے اپنی اس پالیسی کے لیے ’’قومی مفاد‘‘ کے گھسے پٹے نعرے کا بھی سہارا لیا ہے اور یہ وہ مظلوم سہارا ہے جو برسرِاقتدار ہر گروہ اپنے ہر جائز و ناجائز اقدام کے لیے ہمیشہ کرتا چلا آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ’’قومی مفاد‘‘ کا تعین کون کرے گا اور خود قوم کا بھی اس میںکوئی دخل ہے یا جس کا دائو چل جائے بس اس کو قومی مفاد کے نام پر اپنا کھیل کھیلنے کا حق ہے؟

کہا گیا ہے کہ ہم نے اپنی ایٹمی تنصیبات کی حفاظت‘ کشمیر کی جدوجہد کی بقا اور مکمل تباہی سے بچنے کے لیے یہ اقدام کیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا فی الحقیقت کوئی ایسا خطرہ تھا کہ امریکہ پاکستان پر حملہ کر دیتا؟ حقیقت یہ ہے کہ محض ایک دھمکی اور خوف کا منظر پیدا کر کے امریکہ نے اپنا مقصد حاصل کر لیا۔ ورنہ کیوبا جو امریکہ سے دو قدم پر ہے اس کو بھی بار بار دھمکیاں دی گئیں مگر اس کا بال بھی بیکا نہ کیا جا سکا۔ پاکستان پر حملہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ بھارت کو استعمال کیا جا سکتا تھا مگر نہ ہم اتنے کمزور اور بے یارومددگار ہیں اور نہ بھارت اتنا احمق اور عاقبت نااندیش ہے کہ اس آسانی سے خودکشی پر تیار ہو جاتا۔ بین الاقوامی سطح پر تنہائی کی دہائی بھی دی گئی ہے مگر یہاں بھی دنیا کے ممالک کی اکثریت نے امریکہ کا ساتھ نہیں دیا ہے اور دنیا کے ہر ملک میں امریکہ کی اس جارحیت کے خلاف تحریک اٹھ رہی ہے۔ ہم نے حق و انصاف کی بنیاد پر دنیا کی رائے اور ہم خیال ممالک کو متحرک کرنے کا سوچا بھی نہیں۔ پوری عرب دنیا اور تیسری دنیا کے تمام ممالک حتیٰ کہ یورپ کے کئی ممالک اس امریکی دہشت گردی اور محاذ آرائی کی پالیسی کے مخالف ہیں۔ مسلم عوام اور دنیا کے عام امن پسندانسان اس کے خلاف ہیں۔ ہم نے خود کو ان سب سے حتیٰ کہ اپنے عوام اور افغانستان میں اپنے دوستوں سے اپنے کو کاٹ کر تنہا کر لیااور خوش ہیں کہ ہمیں جرأت مندی کے تمغے دیے جا رہے ہیں اور وہ جو کل تک آپ کو گالیاں دے رہے تھے‘ آپ کے ساتھ فوٹو کھنچوانے تک کو تیار نہ تھے اور آپ کو دولت مشترکہ ہی نہیں مہذب برادری سے آپ کو‘ آپ کی وردی کی وجہ سے نکالنے کے لیے پر تول رہے تھے‘ وہ آج اپنے مفاد کی خاطر اب آپ کے ساتھ شیروشکر ہیں اور آپ کی پیٹھ تھپک رہے ہیں۔ یہ مفاد کا کھیل ہے‘ محبت نہیں۔ اب بھی ان کا رویہ یہ ہے کہ بقول آپ کے آپ کو یقین دہانی کرائی گئی کہ جنگ مختصر ہوگی لیکن دوسرے ہی دن آپ کی تردید کر دی گئی کہ کس نے یقین دہانی کرائی ہے؟ اور آپ بھی ’’جب تک ضرورت ہو‘‘ کا سجدہ سہو کرنے لگے۔ ایک بات شہری آبادی کی حفاظت اور محدود نشانوں کی بھی کہی گئی لیکن سب نے دیکھ لیا کہ نشانہ کون کون تھا--- شہری آبادی‘ ہسپتال‘ مسجدیں‘ مدرسے‘ ریڈ کراس کے گودام‘ اقوام متحدہ کے دفاتر‘ الجزیرہ ٹی وی کا مرکز :

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں

ایک اور بات بڑے طمطراق سے یہ بھی ہوئی تھی کہ ہمیںضمانت دی گئی ہے کہ افغانستان میں ایسی وسیع البنیاد حکومت وجود میں آئے گی جس میں سب کی نمایندگی ہو اور یہ کہ شمالی اتحاد کو‘جو کھلے کھلے پاکستان کا مخالف اور روس کا حلیف ہے‘ فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ لیکن ہوا وہی جس کا خطرہ تھا۔ ۱۰نومبر کو صدر بش اور جنرل مشرف مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کر رہے تھے کہ شمالی اتحاد کو کابل میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا مگر ۶نومبر کو شمالی اتحاد کو پیش قدمی کے لیے سبز جھنڈی دکھائی جا چکی تھی اور امریکی طیاروں کی چھائوں میں اور امریکی فوجی مشیروں کی رہنمائی میں وہ یہ بازی سر کر رہے تھے۔

یہ ایک ناخوش گوار حقیقت ہے کہ پاکستان نے جو کچھ۲۲سال کی قربانیوں سے حاصل کیا تھااسے ۲۲ گھنٹے میں امریکہ کے آگے جھک جانے کی ہمالہ سے بڑی غلطی نے پادر ہوا کر دیا۔ روس جو مقصد ۱۹۲۰ء سے ۱۹۸۹ء تک کی سیاسی اور عسکری کارروائیوں سے حاصل نہ کر سکا تھاوہ امریکہ کی ۷ اکتوبر کی فوجی یلغار کے باوجود حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اب افغانستان کی سیاست میں روس کا کردار غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوگا۔ یہ خطرات افق پر منڈلا رہے ہیں کہ خدانخواستہ اب افغانستان میں ایک نہیں کئی بیرونی طاقتوں کے حلقہ اثر (areas of influence)وجود میںآئیں گے‘ کچھ حصے پر روس کا اثر غالب ہوگا‘ کچھ پرایران کا اور کچھ پر امریکہ کا۔ پاکستان جس strategic depth کے خواب دیکھ رہا تھا وہ قصہ پارینہ بن جائیں گے اور جس مغربی محاذ کی طرف سے مطمئن تھا وہ ایک بار پھر پریشانی کا باعث ہو سکتا ہے۔ اور پاکستان کی آیندہ کی سلامتی پالیسی کو مشرقی اور مغربی دونوں محاذوں کی فکر کرنا ہوگی۔ جس طوائف الملوکی کی طرف افغانستان جا رہا ہے‘ اس کے اثرات سے خود پاکستان کو محفوظ رکھنا ایک نیا دردسر بن جائے گا۔

ایک بات ماضی کی غلطیوں اور محرومیوں کی تلافی کی بھی ہوئی تھی مگر ایف-۱۶ کی بات کر کے دیکھ لیا گیا کہ کس طرح پاکستان کے منہ پر طمانچہ مارا گیا کہ ایف-۱۶ کی بات کرنے والے کون ہوتے ہو؟ معاشی امداد اور قرضوں کی معافی کے بھی بہت خواب دیکھے گئے اور پلائو پکائے گئے مگر حاصل کیا ہوا--- چند ملین ڈالر کی امداد‘ایک ارب کے پیکج کی نوید‘ اور ورلڈ بنک کا بیان کہ ہم سے ۵.۲ ارب کے ریلیف کی توقع نہ رکھو--- اور اس کے ساتھ ملک میں قیمتوں کا بڑھنا‘ بے روزگاری میں اضافے‘ سرمایہ کاری میں جمود‘ بلکہ جو برآمدات ہو رہی تھیں ان میں بھی تعطل اور زیرتکمیل آرڈ تک کا اتلاف جس کے نتیجے میں معیشت کو دو ڈھائی ارب ڈالر کے خسارے کا اندیشہ ہے۔ بجٹ کا خسارہ بھی بڑھ رہا ہے اور توازن ادایگی کا بھی--- خدا نہ کرے مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’’سو جوتے اور سو پیاز‘‘ دونوں ہی اس ’’جرأت مند‘‘ قیادت کے نتیجے میں قوم کی قسمت میں لکھے ہیں۔

ایٹمی تنصیبات کی بھی بات ہوئی ہے لیکن اگر امریکی اخبارات اور خصوصیت سے نیویارکر میں مشہور صحافی ہیسٹ (Heist)کی رپورٹ صحیح ہے تو ہماری ایٹمی تنصیبات تک رسائی اور حفاظت کے نام پر سارے انتظامات ان پر گرفت کے لیے کیے جا چکے ہیں اور جو فوجیں اس وقت افغانستان میں مصروف ہیںا ن کا کام وہاں تک محدود نہیں--- تیرے نشتر کی زد شریان قیس ناتواں تک ہے!

کشمیر کے بارے میںبہت کچھ کہا گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے حکم پر بعض جہادی تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی اور ان کے حسابات کو منجمد کر دیا گیا ہے جب کہ لبنان تک نے امریکہ کے سارے دبائو کے باوجود حزب اللہ پر پابندی یا حسابات کی بندش سے صاف انکار کر دیا۔ امریکی وزیردفاع‘ قومی سلامتی کی مشیراور برطانوی وزیر دفاع تینوں نے بھارت کے خلاف دہشت گردی کے عنوان سے ایسی مبہم باتیں کی ہیں جو کان کھڑے کرنے والی ہیں۔ کشمیر میں بھارت کا ظلم اور دہشت گردی اس زمانے میں کئی گنا بڑھ گئے ہیں اور معصوم انسانوں اور مجاہدین کی شہادت اور آبادیوں کی تباہی میں اضافہ ہوا ہے۔سارے آثار یہ ہیں کہ فلسطین ہو یا کشمیر‘ باہر سے کسی حل کو مسلط کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ کیا یہی اسٹرٹیجک معاملات کاوہ تحفظ ہے جسے قومی مفاد کا نام دیا گیا ہے؟

طالبان کی خوبیاں اور کمزوریاں اپنی جگہ--- ہم طالبان سے کمزور تو کسی اعتبار سے بھی نہ تھے‘ مگر انھوں نے اپنی عزت اور اپنی روایات کے پاس میں جان کی بازی لگا دی اور کسی دبائو میں آنے سے انکار کر دیا۔ بجا‘ ان کو بڑے نقصانات اٹھانے پڑے اور واحد سوپر پاور کی یلغار کا ۳۷ دن مقابلہ کرنے کے بعد بہت سے علاقوں سے پسپا ہونا پڑا اور پتا نہیں کہ جن ۴‘ ۵ صوبوں پر ان کا قبضہ ہے اسے باقی رکھ سکیںگے یا نہیں اور کیا گوریلا جنگ ہوگی یا اس کا امکان نہ ہوگا‘ لیکن اتنی بات واضح ہے کہ انھوں نے جان اور مال پر عزت اور ایمان کو فوقیت دی۔ ان کے لیے خطرات ہم سے کہیں زیادہ تھے اور ان کی مشکلات اور مجبوریاں بھی ہم سے بہت بڑھ چڑھ کر تھیں مگر انھوں نے مقابلے کا‘ خواہ وہ محدود مقابلہ ہی کیوں نہ ہو‘ راستہ اختیار کیا‘ لیکن ظلم اور ظالم کا چہرہ سب کے سامنے بے نقاب کر دیا:

سودا قمار عشق میں خسرو سے کوہ کن
بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو دے سکا
کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز
اے روسیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا


اسلامی تعلیمات کی تضحیک

اس پوری بحث میں بے چارے اسلام کی بھی اچھی خاصی گت بن گئی ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ ہم نے یہ فیصلہ عین اسلامی ہدایات اور تاریخی روایات کے مطابق کیا ہے ۔کچھ دلائل تو وہی گھسے پٹے ہیں جن میں مظلوم صلح حدیبیہ پر طبع آزمائی کی جاتی ہے اور بیچارے میثاق مدینہ کی گوشمالی کی جاتی ہے‘ لیکن کچھ دور کی کوڑیاں نئی لائی گئی ہیں جن میں حکمت اور چھوٹی برائی قابل ذکر ہیں۔ یہ اسلام اور مسلم اُمت پر ایک ظلم ہوگا کہ اس ظالمانہ کارروائی کے لیے اسلام کے نام پر جواز فراہم کرنے کی اس جسارت کو چیلنج نہ کیا جائے اور اس کے پاے چوبین کو بے نقاب نہ کیا جائے۔

۱- اُمت مسلمہ‘ حق کی گواہ : اسلام نے اس اُمت کو حق کا شاہد اور گواہ بنایا ہے اور اس کا فرض منصبی ہے کہ عدل و انصاف قائم کرے اور کسی حال میں بھی عدل وا نصاف کا دامن نہ چھوڑے‘ خواہ معاملہ اپنوں کا ہو یا حتیٰ کہ دشمن کا۔ قرآن کا حکم ہے: وَاِذَا حَکَمْتُمْْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط (النساء ۴: ۵۸) ’’جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘۔

ہم نے اس معاملے میں کھلے طور پر انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا‘ ظلم اور زیادتی کرنے والوں کا ساتھ دیا اور اپنے دوستوں کو چھوڑ کر ان پر حملہ کرنے والوں کی صف میں شامل ہو کر اللہ کے عذاب کو دعوت دی ہے۔

۲- قومی ریاست کا مقام: اسلام نے فرد یا ملک کے لیے مختلف شناختوں (identities) کی نفی نہیں کی بلکہ کچھ حدود میں ان کو نہ صرف باقی رکھا بلکہ معتبر قرار دیا ہے البتہ سب کو ایک بالاتر شناخت کے‘ جو ایمان اور تقویٰ سے عبارت ہے‘ تابع کیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہَ اَتْقٰکُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ o (الحجرات ۴۹:۱۳) لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار رہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔

آج کی قومی ریاست ایک جدید سیاسی اکائی ہے لیکن حبّ وطن اپنی اخلاقی اور نظریاتی حدود میں ایک اسلامی قدر ہے۔ اگر اُمت مختلف ملکوں میں بٹی ہوئی ہے تو ملک اور ملت دونوں کے حقوق میں ہم آہنگی اور پاس داری اسلامی اصولوں کے مطابق ممکن بھی ہے اور ضروری بھی۔ اس لیے کہ اس نئی اکائی کے باوجود اُمت کا ایک نظریاتی وجود ہے اور مسلمان عوام کا اجتماعی ضمیر اور ان کے قلوب کی دھڑکن کی مماثلت اس گئے گزرے دَور میں بھی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ قرآن نے صاف کہا ہے کہ وَاِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاِحدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِ o (المومنون ۲۳:۵۲) اور یہ اُمت ایک ہی اُمت ہے اور میں تمھارا رب ہوں پس مجھ سے ڈرو۔

یہی وجہ ہے کہ جہاد کے مسائل میں تمام ہی فقہی مکاتیب کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کسی ایک اسلامی حصے پر غیر مسلم حملہ کریں تو دوسرے حصوں کے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ ان کی یاوری اور اعانت کے لیے اس طرح اٹھ کھڑے ہوں جس طرح خود اپنی آبادیوں کی حفاظت کے لیے اٹھتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے موطا کی شرح میں لکھا ہے کہ اگر ایسی حالت پیدا ہو جائے کہ غیر مسلموں نے اسلامی ملکوں کا قصد کیا اور مسلمانوں اور کافروں میں لڑائی شروع ہوگئی تو جہاد فرض ہوگیا اور جب دشمنوں کی طاقت ان ممالک کے مسلمانوں سے زیادہ قوی ہوئی اور ان کی شکست کا خوف ہو تو یکے بعد دیگرے تمام مسلمانان عالم پر جہاد فرض ہو گیا‘ خواہ کوئی پکارے یا نہ پکارے ‘‘۔ (بحوالہ  مسئلہ خلافت از مولانا ابوالکلام آزاد)

قرآن و سنت کے ان تمام احکام کو بدقسمتی سے پاکستان کی قیادت نے یکسرنظرانداز کر دیا بلکہ ان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے کو امریکی حملہ آوروں کی صف میں شامل کر لیا۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!

۳- میثاق مدینہ کی مثال : امریکیوں سے احتلاف (coalition)کے لیے میثاق مدینہ کی مثال دی گئی ہے۔ جنرل مشرف نے اپنی ۱۹ ستمبر والی تقریر میں مدینہ کے پہلے ۶سال کی تاریخ یاد دلائی ہے لیکن کاش انھوں نے میثاق مدینہ کامطالعہ کر لیا ہوتا اور مدنی زندگی کے پہلے ۶ سالوں کی تاریخ پر سرسری نظر بھی ڈال لی ہوتی تو ایسی فاش غلط بیانی کے مرتکب نہ ہوتے۔ میثاق مدینہ دراصل مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست کے دستور کا خاکہ ہے جس کا نصف مسلمان قبائل نصف یہودی قبائل کے بارے میں ہے۔ اس میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ریاست کا حاکم اور تمام فیصلوں کے لیے آخری سند تسلیم کیا گیا ہے۔ کیا امریکہ سے ہمارے عہد و پیمان اور صدر بش کی بنائی ہوئی کولیشن کی یہی حیثیت ہے؟ اصل حکم اور فیصلہ کرنے والا کون ہے؟ ہمارا شمار تو مصاحبین میں اور صرف حکم برداری کرنے والوں میں ہے۔ کیا میثاق مدینہ میں مسلمانوں کی یہی حیثیت تھی؟ کہا جا سکتا ہے کہ میثاق کا اصل مقصد قریش کے مقابلے کے لیے حفاظت اور مہلت کا حصول تھا۔ اگر محض دلیل کے لیے بھی یہ بات مان لی جائے تو سوال یہ ہے کہ ہم کس کے مقابلے کے لیے کمرہمت کس رہے ہیں۔ بھارت اس کولیشن کا رکن رکین ہے اور کشمیر میں مسلمانوں کے سینے پر مونگ دلنے میں مصروف ہے۔ کیا میثاق مدینہ میںکوئی ایسا بھی شریک تھا؟ کیا افغانستان کی حیثیت قریش والی ہے جن کے مقابلے کے لیے ہم امریکہ کے حلیف بن رہے ہیں؟

۶ سال کی تاریخ کا بار بار ذکر کیا گیا ہے لیکن کیا جنرل صاحب اور ان کے دینی مشیروں کو اس کا علم نہیں کہ ان ۶ سالوں میں میثاق مدینہ پر دستخط کرنے والے یہودیوں کا کردار کیا تھا۔ کیا شوال ۲ ہجری ہی میں غزوہ بنی قینقاع واقعہ نہیں ہوا جس میں معرکہ بدر کے فوراً بعد بنوقینقاع کے یہودیوں نے اعلان جنگ کیا‘ ۱۵ دن تک محاصرہ رہا اور بالآخر بنوقینقاع کے یہودی خود اپنے حلیف عبداللہ ابن ابی کی سفارش پر جلاوطن نہیں کیے گئے۔ پھر کیا ۳ ہجری میں بنونضیر کی طرف سے کش مکش کا آغاز نہیں ہوا جو ۴ہجری میں غزوہ بنونضیر پر منتج ہوا اور بالآخر بنونضیر بھی مدینہ چھوڑ گئے۔ پھر انھی ۶ برسوں میں تیسرے بڑے یہودی قبیلے بنوقریظہ نے بھی بدعہدی کی‘ معرکہ آرائی ہوئی اور بالآخر تلوار کو ان کا بھی فیصلہ کرنا پڑا۔ تاریخ کا آنا کانا مطالعہ ایک خطرناک جسارت ہے جس کے جنرل صاحب مرتکب ہوئے ہیں۔

۴- صلح حدیبیہ سے استدلال : صلح حدیبیہ بھی ہماری تاریخ کے ان مظلوم واقعات میں سے ایک ہے جسے ہر پسپائی اختیار کرنے والا اپنی بزدلی اور بے تدبیری کے لیے ڈھال بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ معاہدہ تاشقند ہو یا کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو کا معاہدہ‘ کارگل ہو یا ۱۴ ستمبر کی پسپائی‘ سب ہی صلح حدیبیہ کا سہارا لیتے ہیں حالانکہ یہ صلح وہ ہے جسے قرآن نے فتح مبین کا پیش خیمہ قرار دیا ہے اور فی الواقع بھی وہ فتح کی باب کشا ثابت ہوئی۔ اس صلح کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جان نثاروںکے ساتھ بیت اللہ کے عمرہ کے لیے تشریف لائے تھے اور آپؐ نے رکاوٹ کو تلوار سے دُور کرنے کے بجائے اللہ کے حکم سے ایک سال کے بعد معاہدے کے ذریعے اس سعادت کو حاصل کرنے کی بات طے فرمائی--- اس فریم ورک کا امریکہ کے جال میں پھنسنے اور ایک مسلمان ملک کے خلاف ایسے الزامات کی تائید میں جوحقائق اور اصول انصاف کے مطابق ثابت نہیں ہوئے‘ فوج کشی کے لیے کندھا دے دینے کا کیا تعلق ہے؟ پھر سب سے بڑھ کر حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ وہ یہ معاہدہ اللہ کے حکم سے کر رہے ہیں۔ آج کس پر یہ وحی نازل ہوئی ہے اور کس دلیل کی بنیاد پر اسے اسلام کے لیے کسی فتح اور پاکستان کے لیے کسی کامیابی اور حصول عظمت کا زینہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

بلاشبہ حکمت دین کا بڑا اہم اصول اور پالیسی سازی کے لیے رہنما اصول ہے۔ لیکن حکمت اور حماقت اور حکمت اور بزدلی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ حکمت عبارت ہے ایمان و فراست‘ صبرواستقامت‘ جرأت و قوت اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے یکسوئی اور مسلسل جدوجہد سے۔ ہم نے ۱۴ ستمبر کے بعد حکمت کے نام پر ان میدانوں میں کون سا تیر مارا ہے۔ ہماری حکمت کا تو یہ حال ہے کہ قدم قدم پر ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور جس جس بات کو ضمانت سمجھ رہے ہیں وہ ہمارے منہ پر ماری جا رہی ہے اور ہم ’’اسی تنخواہ پر کام کرنے‘‘ کی رضامندی کا اعادہ کیے جا رہے ہیں۔ اس کا نام حکمت نہیں اور نہ اس کا کوئی تعلق قومی غیرت اور آزادی و سلامتی سے ہے۔ اسے حکمت کا نام دینا حکمت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔

۵- چھوٹی بڑی برائی کی منطق: آخری دلیل وہی چھوٹی اور بڑی برائی والی ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ یا تو ان ساری ترک تازیوں کو حکمت ‘ میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کے ہم پلہ قرار دیا جا رہا تھا اور کہاں پھسل کر چھوٹی برائی کا وعظ شروع ہو گیا۔ اگریہ حکمت اور قومی مفاد کا تقاضا تھا تو پھر چھوٹی برائی کیسی؟ اور اگر یہ چھوٹی برائی ہے تو پھر ان ارفع اصولوں کی مٹی کیوں پلید کی جا رہی ہے ؟ دوسروں کو جذباتی کہنا آسان ہے لیکن عقل کی بات کرنا بھی کوئی ایسا آسان نہیں!

ہم مان لیتے ہیں کہ اہون البلیتین ایک فقہی اصول ہے اور کچھ حالات میں اسے اختیار کرنا پڑتا ہے لیکن یہ اس وقت لاگو ہوتا ہے جب کوئی تیسرا راستہ ممکن نہ ہو۔ ہم بتا چکے ہیں کہ ایک اور راستہ ممکن تھا اور ایک نہیں ایک سو سے زیادہ ملکوں نے اسے اختیار کیا بلکہ مصر‘ ایران اور سعودی عرب تک نے وہ راستہ اختیار نہیں کیا جو ہم نے کیا۔ بھارت کی دہائی بے موقع ہے۔ جغرافیائی اعتبارسے ہماری پوزیشن اسٹرٹیجک تھی اور ہے۔ بھارت کی کوئی سرحد افغانستان سے مشترک نہیں۔ وہ ساری اچھل کودکے باوجود کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا تھا اور اگر ہم سے چھیڑ چھاڑ کرتا تو نہ صرف منہ کی کھاتا بلکہ عالمی جنگ کا نقشہ بدل جاتا اور چین‘ یورپ اور اسلامی ممالک کا رویہ بالکل دوسرا ہوتا۔ ان زمینی حقائق کی روشنی میں صدر بش کے اس کلیے کو تسلیم کر لینا کہ راستے صرف دو ہیں اور ان میں سے پسپائی کے راستے کو چھوٹی برائی قرار دے کر اختیار کر لینا فقہی اصول کے اعتبار سے ناقابل قبول اور ماروںگھٹنا پھوٹے آنکھ کے مترادف ہے۔

اس بحث کو ختم کرنے سے پہلے میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کی بات کرنے والوں کو تاریخ میں غیر مسلم طاقتوں سے معاہدات کے انجام کی یاد دلانا بھی ضروری محسوس ہوتا ہے۔ دورِ رسالت مآبؐ سے لے کر آج تک‘ اور خصوصیت سے دور جدید کی مغربی اقوام نے استعماری غلبے سے لے کر اب تک‘ جو کچھ مسلمان ممالک بلکہ تمام غیر مغربی اقوام اور خصوصیت سے کمزور ممالک کے ساتھ کیا ہے اس سے صرف نظر کرنا اور ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جاتے رہنا کوئی حکمت کا شاہکار نہیں۔ امریکہ نے اپنے گذشتہ پچاس سال میں جس طرح ہم سے اور دوسروں سے اپنی دوستی نبھائی ہے اس سے آنکھیں بند کرنا خود فریبی ہی نہیں خودکشی کا راستہ ہو سکتا ہے۔ ان کا حال تو یہ ہے کہ:

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

نئی قیادت ‘ نئی حکمت عملی

ہم دنیا سے کٹنے اور کسی قسم کی بھی تنہائیت (isolationism)کے قائل نہیں اور اچھے اور برے دنیا میںہر جگہ موجود ہیں۔ افغانستان پرامریکہ کی دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں مسلمانوں کے ساتھ بہت سے غیر مسلم اور مشرق ہی نہیں مغرب کے اہل علم و دانش‘ سیاست کاراور عوام بھی شامل ہیںاور ہم اس کی قدر کرتے ہیں لیکن امریکہ کی قیادت جو سیاسی کھیل کھیل رہی ہے اور یہود‘ ہنود‘ اور نصاریٰ جو چالیںتاریخ میںچلتے رہے ہیں ان کو نگاہ میں نہ رکھنا اور بڑی معصومیت سے ہر ٹھوکر پر میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کی گردان کرنا بھی فراست اور دیانت کا راستہ نہیں۔ جس قرآن نے حکمت‘ دوستی‘ امن اور انسانیت کے لیے رحمت بننے کا درس دیا ہے اور اہل کتاب میں سے اچھے لوگوں کی قدر کی تعلیم دی ہے اسی میں یہ ابدی رہنمائی بھی موجود ہے کہ اپنی آنکھیں کھلی رکھو‘ اہل ایمان کے مقابلے میں کفار کو دوست نہ سمجھو‘ دوسروں کی چالوں کو ٹھیک ٹھیک سمجھو‘ اور حق و باطل کی کش مکش میں اپنا کردار اللہ کے دین کے مصالح کے مطابق ادا کرو۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ط (النساء ۴:۱۴۴)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق نہ بنائو۔

وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَلاَ النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَھُْمْ ط (البقرہ ۲:۱۲۰)

اور یہ یہود و نصاریٰ تم سے ہرگز خوش نہ ہوں گے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو۔

اللہ تعالیٰ نے اس اُمت اور اس کی قیادتوں کو قیامت تک کے لیے متنبہ کر دیا ہے کہ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں‘ صرف اللہ سے وفاداری کارشتہ استوار کریں‘ سب سے معاملہ کریں مگرخدا اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہدایت اور روشنی کے مطابق کریں۔ دوستی اور دشمنی‘ الحاق اور انحراف‘ صلح اور جنگ‘ تعاون اور عدم تعاون سب کا فیصلہ اللہ کے دین کے احکام اور اُمت مسلمہ کے مصالح کے مطابق کریں اور مخالفین کی چالوں اور فتنہ سامانیوں سے خبردار رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تاریکی میں نہیں چھوڑا ہے‘ سب حالات کے لیے ہمیں رہنمائی سے نوازا ہے ___ اگر ہم اس ہدایت کو نظرانداز کر تے ہیں اور اپنی خواہشات یادوسروں کی ترغیبات کا شکار ہو جاتے ہیں تو ذمہ داری ہماری ہے اور اس کے نتائج بھی ہمیں ہی بھگتنا ہوں گے۔

جنرل مشرف اور ان کے ساتھیوں نے ۱۴ ستمبر کو امریکہ کے آگے سپر ڈال کر ملک و ملت کو ایک بہت ہی خسارے کے راستے پر ڈال دیا ہے جس کی قیمت اس قوم کو برسوں ادا کرنا پڑے گی۔ جن اُمیدوں پر انھوں نے یہ بازی لگائی وہ حباب کی مانند ہیں اور بہت سے حباب تو ان چند ہفتوں ہی میں پادر ہوا ہو چکے ہیں ۔  جس دلدل میں انھوں نے قوم کو پھنسا دیا ہے وہ زیادہ ہی تباہ کن ہوتی جا رہی ہے۔ اگر اس راستے میں کچھ وقتی اور جزوی فوائد بھی ہوں تب بھی نقصانات اور مفاسد کا پلڑا اتنا بھاری اور ان کی نوعیت اتنی گھمبیر ہے کہ اسے پاکستان کی ۵۴ سالہ تاریخ کا سب سے افسوس ناک اور نقصان دہ اقدام قرار دینا ہوگا۔ ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کے بعد یہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین فیصلہ ہے۔ ۱۶ دسمبر والے سانحہ کے بعد تو پاکستان اور بنگلہ دیش میں دوستی اور تعاون کا ایک نیا دَور شروع ہو گیا لیکن اس اقدام کے جو اثرات ہمارے ایمان کے ساتھ ہماری آزادی‘ سلامتی‘ معیشت‘ ایٹمی صلاحیت‘ کشمیر کی تحریک آزادی و الحاق پاکستان اور علاقے کے ممالک سے تعلقات پر مترتب ہوں گے ان کے تصور سے روح کانپ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہوئے ان مہیب خطرات کے ادراک اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی حکمت عملی اورنئی قیادت کی دعا ہمارے دل کی آواز ہے۔ یہی وہ پکار ہے جس کی طرف ہم ملک کے عوام کو دعوت عمل دیتے ہیں۔

 

قرآن مجید بظاہر ایک عام سی کتاب ہے‘ انسانوں کی زبان میں لکھی ہوئی‘ کاغذ پر چھپی ہوئی‘ دو تختیوں کے درمیان مجلد۔ کسی اور کتاب سے بظاہر کوئی فرق بھی محسوس نہیںہوتا‘ لیکن یہ اپنی طرز کی منفرد کتاب ہے‘ اس کی کوئی مثال ہے‘ نہ نظیر!

قرآن مجیدکے ساتھ ہمارا تعلق کیا ہونا چاہیے؟ اس کو ہمیں کیسے پڑھنا چاہیے؟ اس کے لیے قرآن مجید نے ایک ہی لفظ استعمال کیا ہے اور وہ ہے تلاوت۔ ہم مطالعہ قرآن اور اس طرح کے بہت سے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ میں قرآن کے اتباع میں اسی اصطلاح کو استعمال کررہا ہوں‘ اگرچہ مطالعہ قرآن کے آداب و شرائط بھی عنوان بنا سکتا تھا۔

تلاوت کا مفہوم

تلاوت کے لفظ سے عام طور پر یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ آدمی سپارہ اٹھائے‘ قرآن اٹھائے اور پڑھے‘ یا نماز میں کھڑا ہو کر تلاوت کرے۔ لیکن تلاوت کا لفظ عربی زبان میں‘ جس مادے سے نکلا ہے‘ ت ل و سے ‘ اس کے معنی ہیں پیچھے آنا۔ پڑھنا تو ایک ثانوی عمل ہے۔ آپ غور کریںگے تو دیکھیںگے‘ پڑھنا تو ایسے ہے کہ ایک حرف کے بعد دوسرا حرف آئے‘ ایک لفظ کے بعد دوسرا لفظ آئے‘ ایک آواز کے بعد دوسری آواز آئے۔ اگر حروف کو اُلٹ پلٹ دیں‘ الفاظ کو اُلٹ پلٹ دیں‘ جملے اُلٹ پلٹ دیںتو کوئی بات سمجھ نہ آئے گی۔ ایک کے بعد دوسرے کا آنا بھی پڑھنے کا اور سمجھنے کا عمل ہے۔ لیکن اس کے معنی کے اندر بڑی وسعت ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ دل و دماغ اس کے پیچھے لگ جائیں‘ زندگی بھی اس کے پیچھے لگ جائے اور قدم بھی اس کے پیچھے اٹھیں۔ وہی امام ہو‘ وہی نور ہو‘ وہی ہدایت ہو‘ وہی راہ نما ہو۔آدمی  پڑھے تو اُس کا دل بھی اُس کے اندر جذب ہو جائے‘ آنکھیں بھی اس کے اندر جذب ہو جائیں۔ زندگی کا کوئی گوشہ‘ کوئی پہلو تلاوت کے اثر سے خالی نہ رہے۔ تلاوت کے اس عمل سے‘ جب زبان الفاظ پڑھے گی تو آنکھیں بہنے لگیں گی‘ جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے‘ دل بھی کانپ اٹھے گا‘ عمل بھی بدل جائے گا اور سوچ میں بھی انقلاب آ جائے گا۔ یہ سب کچھ جب اس کے پیچھے لگ جائیں ‘ تو یہ تلاوت کا عمل ہوگا ۔ اس تلاوت کے نتیجے میں تبدیلی آتی ہے۔

انسان تو ایک بہت نامعلوم سی چیز ہے‘ ایک زمانہ تھا کہ وہ ناقابل ذکر شے تھا۔ ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا o اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ ق نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًا o (الدھر ۷۶: ۱-۲) ’’کیا انسان پر لامتناہی زمانے کا ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا؟ ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اُسے سننے اور دیکھنے والا بنایا‘‘۔ اگر انسان اپنے آپ کو قرآن کی آغوش میں ڈال دے‘ سپرد کردے تو وہ اس کو بالکل بلندیوں پر پہنچا سکتا ہے۔ اسی چیز کو حدیث میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز بندے سے کہے گا کہ قرآن پڑھتا جا‘ اور اُوپر چڑھتا جا‘ سہولت کے ساتھ‘ آسانی کے ساتھ۔ لہٰذا اگر اپنے آپ کو قرآن مجید کے سپرد کر دیا جائے تو عظمت و سربلندی کی کوئی انتہا نہیں ہے۔

تلاوت کی شرائط

تلاوت کے حقیقی مفہوم تک پہنچنے کے لیے کچھ شرائط اور کچھ آداب ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ان کو مختصراً  آپ کے سامنے بیان کروں۔ یوں سمجھیے کہ یہ زاد سفر ہے۔

۱- اس میں پہلی چیز یہ ایمان ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ اللہ کا کلام ہونے پر ایمان تو سب مسلمانوں کا ہے‘ لیکن اس ایمان کے کچھ مزید عملی تقاضے بھی ہیں جن کے بغیر ایمان ادھورا اور نامکمل ہے۔ اس ایمان کے بغیر یہ کتاب ہدایت اور رہنمائی کا کام نہیں کرتی۔ یہ ایمان سب کے لیے ضروری ہے‘ رسول کے لیے بھی ایمان رکھنا ضروری ہے۔ اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ط (البقرہ ۲:۲۸۵) ’’رسول اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں‘ انھوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کیا ہے‘‘۔

اس تفصیل میں جانے کی یہاں ضرورت نہیں ہے کہ بغیر ایمان کے ہدایت کیوں حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ فلسفہ اور منطق کے مسائل ہیں جو اس وقت میرا موضوع نہیں۔ ان سب کا جواب بھی دیا جا سکتا ہے۔ بہرحال پہلی چیز ایمان ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اسی ایمان کے بعد ہی وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جس سے آدمی اس کتاب کے لیے محنت کرنے کو تیار ہوتا ہے‘ اور جو تعلق‘ شوق اور اضطراب ہونا چاہیے‘ جو بے چینی ہونی چاہیے‘ وہ حاصل ہوتی ہے۔ جس کو آدمی اپنا خالق سمجھتا ہو‘ جس کی رحمت کا اُس کو یقین ہو‘ جس کی محبت کے اندر وہ غرق ہو‘ یہی احساس کہ اُسی کا نامہ اور خط میرے پاس آیا ہے‘ وہ ساری کیفیات پیدا کرتا ہے‘ جو کہ اس کتاب کے ساتھ تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونی چاہییں۔

۲- دوسری چیز نیت کا اخلاص ہے۔ اس نیت کے علاوہ کہ اللہ سے ہی رہنمائی لینی ہے‘ اللہ سے قریب ہونا ہے‘ اللہ کی معرفت حاصل کرنا ہے‘ کوئی اور نیت قرآن کے بارے میں صحیح نہیں ہوسکتی۔کوئی اور نیت ہوگی تو وہ گمراہ بھی کر دے گی۔ یہ عجیب بات ہے کہ یہ کتابِ ہدایت گمراہ بھی کر دیتی ہے۔ فَیُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ یَّشَآئُ وَیَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ ط (ابراھیم ۱۴:۴) ’’اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے‘‘۔  یُضِلُّ بِہٖ کَثِیرًا لا وَّیَھْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا ط (البقرہ ۲:۲۶) ’’اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہِ راست دکھا دیتا ہے‘‘۔ تلاوت کے لیے شرائط تو اور بھی ہیں لیکن نیت کا خالص ہونا بنیادی شرط ہے۔

۳- تیسری چیز حمد اور شکر ہے۔ اس لیے کہ جو عظیم الشان خزانہ اور نعمت اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں میں تھمائی ہے ‘ ہمارے سپرد کی ہے‘اس پر ہمارا دل حمد اور شکر کے جذبات سے لبریز ہونا چاہیے۔

وَقَالُوْا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدٰنَا لِھٰذَا قف وَمَا کُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَوْلَآ اَنْ ھَدٰنَا اللّٰہُ ج (الاعراف ۷:۴۳)

اور وہ کہیں گے کہ ’’تعریف خدا ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں یہ راستہ دکھایا‘ ہم خود راہ نہ پا سکتے تھے اگر خدا ہماری رہنمائی نہ کرتا‘‘۔

حمد اور شکر سے ہی سارے دروازے کھلتے ہیں۔ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَ زِیْدَ نَّکُمْ (ابراہیم ۱۴:۷) ’’اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا‘‘۔ اور جس کو قدر ہی نہ ہو کہ کیا مل رہا ہے ‘ اس کے لیے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ دروازے اُسی کے لیے کھلیںگے‘ اُسی کو ملے گا جس کو قدر ہوگی‘جو شکر کرے گا۔ شکرکا حق ادا نہیں ہو سکتا بلکہ کسی بھی چیز کے شکر کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ لیکن جو نعمت سب سے بڑی نعمت ہو‘ جو اس عارضی اور فانی دنیا کو لافانی زندگی میںتبدیل کر سکتی ہو‘ اس کا شکر بجا لائیں تو کیسے بجا لائیں! اس فانی زندگی کی کسی ایک نعمت کا بھی شکر ادا کرنا محال ہے۔ کوئی آدمی اگر چاہے کہ ہاتھ پائوں کا حق ادا کر دے‘ حق ادا نہیں کر سکتا‘ اور جو کتاب اس ہاتھ پائوں کو ہمیشہ کے لیے قائم کر دے گی‘ اس کتاب کا شکر کیسے ادا کیا جا سکتا ہے ۔لیکن پھر بھی شکر ادا کرنا ضروری ہے۔

۴- چوتھی چیز یہ اعتماد ہے کہ جو چیز بھی اس کتاب میں ہے‘ صحیح ہے‘ وہی میرے لیے نافع ہے‘ اسی میں میری بھلائی ہے‘ اسی میں خیر ہے ۔ ریب (شک) اور تذبذب‘ یہ دو مرض کینسر کی طرح کتاب کے ساتھ تعلق کو تباہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی شک یا تذبذب میں مبتلا ہو‘ تو وہ اس کتاب سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ قرآن نے بار بار ایسے لوگوں کی نفی کی ہے‘ اور اسی لیے آغاز اس طرح کیا ہے کہ لاریب فیہ‘ اس بات میں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے‘ کوئی شک نہیں ہے۔ جس کو اس کے کلام الٰہی ہونے میں یا اس کی کسی بھی بات میں ذرا بھی شک ہو ‘ اس کے لیے یہ کتاب ہدایت نہیں ہے۔ جس میں تردد پیدا ہو گیا‘ وہ بھی اس کتاب سے ہدایت نہیں پا سکتا۔

۵- پانچویں چیز اطاعت ہے‘ یعنی انسان قرآن کے مطابق اپنے اندر تبدیلی اور تغیر لائے۔ لیکن آدمی جب اطاعت کرے گا تو اس سے گناہ بھی ہوںگے‘ نافرمانیاں بھی ہوںگی‘ آدمی پھسل بھی جائے گا‘ لیکن پہلے سے خود سپردگی کی کیفیت کہ جو یہ کتاب کہے گی‘ وہ میں کرنے کی کوشش کروں گا‘ آداب تلاوت میںسے ہے۔یہ کتاب نکتہ آفرینی یا ذہنی عیاشی کے لیے نہیں ہے۔ یہ کتاب تو شروع سے لے کر آخر تک عمل‘ کوشش اور محنت اور جدوجہد کے لیے آئی ہے۔ یہ کتاب تو آئی ہی اسی لیے ہے کہ انسان اس کے پیچھے چلیں‘ اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیں۔ یٰیَحْیٰی خُذِ الْکِتٰبِ بِقُوَّۃٍ ط (مریم ۱۹:۱۲) ’’اے یحییٰ‘ کتاب الٰہی کو مضبوط تھام لے‘‘۔ پھر اسی کا چرچا کریں‘ اسی کے پیچھے چلیں اور قرآن کے مطابق اپنے اندرتبدیلی اور تغیر لائیں۔ یہ اطاعت کا بنیادی تقاضا ہے۔

۶- چھٹی چیز یہ ہے کہ اس کتاب سے فائدہ اٹھانے میں جوخطرات لاحق ہوں ان سے بچنے کے لیے شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو۔ شیطا ن تو گھات لگا کر بیٹھے گا۔ اس نے کہا ہے کہ دائیں سے آئوںگا‘ بائیں سے آئوں گا‘ آگے سے آئوں گا‘ پیچھے سے آئوں گا‘ اور اس طریقے سے‘ جسے یہ کتاب لے کر آئی ہے‘ جو لوگ اس پر چلنا چاہیںگے اُن کو ہٹانے کی کوشش کروںگا۔ ایسے میں پھر کون پناہ دے سکتا ہے‘ کون سہارا دے سکتا ہے‘ کس کے پاس فصیل اور قلعہ ہے جس میں ہمیں پناہ مل سکتی ہے سوائے اس کے کہ جس نے اس کتاب کو اتارا ہے۔ اس لیے قرآن کہتا ہے کہ جب کتاب پڑھو تو پہلے اللہ کی پناہ مانگ لو۔

فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ o (النحل ۱۶:۹۸)

پھر جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو۔

قرآن پڑھنے کے لیے یہ حکم اسی بات کے پیش نظر آیا ہے۔ یہ زندگی کے لیے بڑی نازک اور اہم جستجو اور سفر ہے اور اس سفر میں بڑے خطرات ہیں۔ ان خطرات کا احساس‘ اُن کا ادراک اور شعور ضروری ہے اور اُن سے بچنے کے لیے تعوذ پڑھنا ناگزیر ہے۔

یہ چھ چیزیں بنیادی لوازمات کی حیثیت رکھتی ہیں‘ اور اس کتاب کے لیے زاد سفر ہیں اور ناگزیر ہیں۔ یہ ظاہری آداب تھے۔ اس کے بعد کچھ باطنی آداب ہیں۔

باطنی آداب

ہماری شخصیت کے دو حصے ہیں۔ ایک ظاہری ہے اور دوسرا باطنی۔ ایک جسم اور ہاتھ پائوں ہیں‘ اور دوسری اندرونی شخصیت ہے۔ یہ ہمارا دل اور قلب ہے۔ اس کو قرآن مجید نے قلب سے تعبیر کیا ہے۔ اس قلب کو تلاوت کے عمل میں شریک کیا جائے۔ یہ نہیں کہ آدمی زبان سے پڑھتا جائے اور دل کہیں اور گھوم رہا ہو۔ وہ کیا چیزیں ہیں جن سے دل بھی اس تلاوت کے عمل میں شریک ہو سکتا ہے؟ اب میں ان کا تذکرہ کروں گا۔

۱- خود اللہ تعالیٰ نے کلام پاک میں ذکر فرمایا ہے کہ اس کتاب کے پڑھنے والوں پر اس کے اثرات اور تجلیات مرتب ہوتی ہیں۔ اُن کو آپ ایک لحظے اور ایک لمحے کے لیے تازہ کر لیں۔ یہ تلاش کرنا آپ کے لیے مشکل نہیں ہے۔ اس حوالے سے قرآن کی بہت سی آیات ہیں۔

سورہ الانفال میں ہے کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو دل کانپ اٹھتے ہیں‘ اور جب کلام پڑھا جاتا ہے تو ایمان بڑھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سورہ المائدہ میں ہے کہ جب وہ کلام سنتے ہیں تو اُن کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ سورہ الزمر میں ہے کہ جب کتاب پڑھی جاتی ہے تو جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں‘ کھالیں نرم پڑ جاتی ہیں۔ سورہ بنی اسرائیل میں ہے کہ لوگ جب اس کو پڑھتے ہیں تو روتے ہوئے سجدوں میں گر جاتے ہیں‘ اور اُن کے خشوع میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ سورہ مریم میں بھی اس طرح کی آیات ہیں۔ جگہ جگہ اس طرح کے موضوعات ہیں۔ اگر تلاوت سے پہلے ان کو سامنے رکھا جائے اور ایک لمحے کے لیے آدمی یہ ذہن میں تازہ کر لے کہ قرآن کو پڑھنے والے ایسے تھے اور ان کی یہ کیفیت ہوتی تھی تو بہت مفید ہے۔ اگر ایسا نہ ہو سکے پھر بھی ان کیفیات کو اپنے اُوپر طاری کرنے کی کچھ کوشش کرنی چاہیے۔ یہ سوچنا چاہیے کہ اگر میں اس راستے پر آگے بڑھوں تو مجھے بھی ایسا کرنا چاہیے۔

۲- یہ سوچا جائے کہ اللہ میرے سامنے ہے‘ اُس کے سامنے بیٹھ کر میں قرآن پڑھ رہا ہوں اور یہ اُس کی کتاب ہے۔ قرآن مجید میں بار بار یہ حکم بھی آیا ہے کہ اُس کے سامنے کھڑے ہو کر بار بار تلاوت کرو۔ جس طرح بچہ اُستاد کے سامنے جو نگرانی کر رہا ہو‘ کھڑے ہو کر پڑھتا ہے تو اور ہی کیفیت ہوتی ہے‘ اور تنہائی میں پڑھتا ہے تو اور کیفیت ہوتی ہے۔ عبادت میں احسان کی منزل بھی یوں ہی حاصل ہوتی ہے کہ آدمی اس طرح بندگی کرے کہ گویا اللہ اس کے سامنے ہے اور وہ اسے دیکھ رہا ہے۔ لیکن یہ تو اللہ کی کتاب کا معاملہ ہے۔ یہ سب سے بڑی عبادت ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت نماز میں کی جائے۔ اس طرح کے بے شمار احکام قرآن میں دیے گئے ہیں‘ اور اللہ کا ذکر تو قرآن میں سب سے بڑھ کر ہے۔

یہ احساس کہ میں اللہ کے سامنے ہوں‘ مستحضر ہونا چاہیے۔ قرآن کی آیات گواہ ہیں کہ تم کہیں بھی ہو ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا  (الطور ۵۲:۴۸) ’’تم ہماری نگاہ میں ہو‘‘۔ میں ہر بات سن رہا ہوں۔ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ o (قٓ ۵۰:۱۶) ’’ہم اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں‘‘۔ اگر دو ہوتے ہیں تو میں تیسرا ہوتا ہوں۔ تین ہوتے ہیں تو میں چوتھا ہوتا ہوں‘ کم ہوں یا زیادہ میں ساتھ ہوتا ہوں۔ تنہائی میں بیٹھے ہوں یا مجلس میں ‘ یا درس ہو رہا ہو‘ میں موجود ہوتا ہوں۔ یہاںتک کہ کوئی بھی کام کرتے ہو‘ قرآن پڑھتے ہو‘ ہم وہاں موجود ہوتے ہیں۔ یہ چیز ذہن میں اسی طرح تازہ رہنی چاہیے۔

۳- ہم یہ سوچیں کہ ہم اس کلام کو اللہ سے سن رہے ہیں‘ چاہے یہ بہت اونچا درجہ اور مقام ہو۔

امام غزالی احیاء العلوم میں لکھتے ہیں کہ ایک بزرگ نے کہا کہ پہلے میں اس کتاب کو ایسے ہی پڑھتا تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ میں اس کو محمد رسولؐ اللہ سے سن رہا ہوں‘ تو میرے مزے اور کیفیت میں اضافہ ہوگیا۔ پھر میں نے سوچا کہ میں تو اس کو جبریل ؑ امین سے سن رہا ہوں‘ تو پھر یہ کیفیت اور دوبالا ہوگئی۔ اس کے بعد میں نے فرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے خود موجود ہوں‘ وہ میرے ساتھ ہی ہیں‘ وہی مجھے سنا رہے ہیں ‘ وہی اس کتاب کو نازل کر رہے ہیں‘ اس کے بعد میرا مزا اور لطف‘ میری کیفیت کا کوئی اندازہ نہ رہا۔ اس کیفیت کی جتنی بھی کوشش کریں کہ حاصل ہو جائے‘ کم ہے۔

۴- یہ احساس ہو کہ جو بھی کہا جا رہا ہے‘ اس کا ہر لفظ میرے لیے ہے۔ اگر اہل ایمان سے خطاب ہو رہا ہے تو بھی‘ اور اگر منافقین سے ہو رہا ہے یا کافروں سے ہو رہا ہے تو بھی ہمارے لیے ہے کہ ہم ایسے نہ بنیں۔ گویا ہر لفظ میرے لیے ہے۔ اگر ایک ایک حصے کو کاٹ کر الگ کرنا شروع کر دیا کہ یہ مہاجرین کے لیے ہے میں تو مہاجر نہیں ہوں‘ یہ انصار کے لیے ہے میں تو انصار نہیں ہوں‘ یہ یہودیوں کے لیے ہے میں تو یہودی نہیں ہوں‘ توساری کتاب کا ستیاناس ہو جائے گا۔ یہ سمجھنا چاہیے کتاب کا ہر لفظ میرے لیے ہے۔

۵- کتاب جب آدمی پڑھتاہے تو اللہ تعالیٰ سے گفتگو اور مکالمہ کرتا ہے۔ ایک حدیث میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: سورۃ الفاتحہ میرے اور بندے کے درمیان برابر تقسیم ہے۔ جب بندہ کہتا ہے کہ الحمدللّٰہ تو میں کہتا ہوں کہ بندے نے میری حمد بیان کی ہے۔ جب بندہ  الرحمن الرحیم کہتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ بندے نے میری ثنا کی ہے۔ جب بندہ کہتا ہے کہ مالک یوم الدین تو میں کہتا ہوں کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے۔ اس کے بعد جب وہ کہتا ہے کہ ایاک نعبد وایاک نستعین ‘ اب میرے اور بندے کے درمیان معاہدہ ہوگیا‘ جو کچھ بھی مانگے گا میں اُس کو دوں گا۔ اُس کے بعد بندہ کہتا ہے کہ اھدنا الصراط المستقیم ‘ اے اللہ تو ہمیں سیدھا راستہ دکھادے۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بندہ قرآن مجید پڑھتا ہے‘ تو وہ اللہ تعالیٰ سے کلام کرتا ہے‘ مکالمہ کرتا ہے‘ اور یہ گفتگو آدمی اور اللہ کے درمیان چلتی رہتی ہے۔

ظاہری آداب

یہ تو وہ چیزیں ہو گئیں جو اندرونی طور پر دل کو شریک کرنے کے لیے بہت مفید ہو سکتی ہیں۔ تھوڑا تھوڑا جس قدر بھی بس میں ہو‘ ہم عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے بعد کچھ ظاہری افعال بھی ہیں۔

جب کلام پڑھا جاتا ہے اور ہم سنتے ہیں کہ کوئی بات ہم سے کہی جا رہی ہے‘ کوئی ہم سے مکالمہ کررہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اے میرے بندے‘ اے میری بندی اس کو سنو۔ جب ہم سے کہا جا رہا ہے تو پھر اس بات کا جواب بھی دیا جانا چاہیے۔ کوئی گونگا یا بہرا ہوگا تو جواب نہ دے گا‘ یا اندھا ہوگا جسے دکھائی نہ دے گا۔ قرآن نے خود کہا ہے کہ یہ لوگ اندھوں اور بہروں کی طرح قرآن سے گزر جاتے ہیں‘ ان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لیکن گوشت پوست کے انسان سے اُس کا محبوب‘ اُس کا رب‘ اُس کا مالک کلام کر رہا ہو اور اُس کا کوئی جواب اُس کی طرف سے نہ ہو۔ یہ بڑی عجیب بات ہے۔

دل کا جواب یہ ہے کہ اس پر وہی کیفیت طاری ہوجائے‘ جو کیفیت اس کلام کے اندر موجود ہے۔ زبان کا جواب یہ ہے کہ آیات سننے کے بعد ان کا جواب دیا جائے۔ بہت ساری آیات پر تو نبی کریم ؐ نے خود تعلیم دی ہے کہ جب وہ آیات پڑھی جائیں تو ان کا جواب دیا جائے۔ اگر آیت پڑھی جائے: اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ o(التین ۹۵: ۸) ’’کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں؟‘‘ آدمی کہے:  بلٰی‘کیوں نہیں۔ فَبِاَیِّ اٰلاَ ٓئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ o (الرحمٰن ۵۵:۱۵)‘سنے تو بھی جواب دینے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس طرح کی اور بہت ساری آیات ہیں۔

یہ پہلو تو آیات کا جواب دینے کا ہے۔ لیکن جن صحابہؓ نے رات کی نماز میں نبی کریمؐ کے ساتھ شرکت کی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ آپؐ کی تلاوت قرآن کا انداز یہ تھا کہ اگر کہیں اللہ تعالیٰ کی صفات کا ذکر آتا تو آپؐ سبحان اللہ کہتے‘ کہیں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ذکر آتا تو الحمدللہ فرماتے‘ کہیں اُس کی نعمتوں کا ذکر آتا تو آپؐ رک کر اس کا سوال فرماتے‘ اور اُس کو مانگتے‘ اور کہیں اس کے عذاب کا ذکر آتا تو آپؐ اس پر پناہ مانگتے۔ آپؐ ہر چیز کا فوراً جواب زبان سے دیا کرتے۔

تلاوت آیات پر آنکھیں بھی جواب دیتی ہیں۔ اس کلام کی عظمت کا احساس ہو تو دل نرم پڑنے چاہییں‘ اور دل نرم پڑیں تو آنکھوں میں نمی آنی چاہیے۔ اس لیے حدیث ہے کہ قرآن پڑھو تو روئو‘ رو نہ سکو تو رونے کی کوشش کرو اور اگر ہو سکے تو اس کیفیت کو طاری کرو۔

قرآن کا ادب اور تعظیم ضروری ہے‘ اس میں قبلہ رو بیٹھنا‘ وضو کرنا‘ سر جھکا کر پڑھنا‘ یہ سب باتیں شامل ہیں۔ لیکن اس ادب کو اس حد تک نہ بڑھایا جائے کہ تلاوت کو ہی ترک کر دے‘ مثلاً یہ کہ وضو نہیںہے اور بغیر وضو کے تلاوت نہیں ہو سکتی۔

تلاوت کے بہت سارے مدارج ہیں۔ ایک درجہ ترتیل ہے جس کا قرآن نے خود حکم دیا ہے۔ وَرَتِّلِ الْقُرَآنَ تَرْتِیْلاً (المزمل ۷۳:۴) ’’اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھے‘ سمجھ کر پڑھے‘ جذب کرکے پڑھے‘ اچھی طرح پڑھے‘ لحن کے ساتھ پڑھے اور ذوق اور شوق کے ساتھ پڑھے۔ ترتیل کا اردو یا انگریزی میں ترجمہ نہیں ہوسکتا۔ ترتیل میں یہ سب مفہوم شامل ہیں۔

پاکیزگی بھی ضروری ہے۔ اس کے لیے ہمارے ہاں دینی لفظ طہارت ہے۔ طہارت کے ایک معنی ظاہری طہارت کے ہیں جو فقہ کے احکام سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کے دوسرے معنی باطنی طہارت کے ہیں۔ باطنی طہارت یہ ہے کہ دل ان چیزوں سے پاک ہو جو اللہ کو ناپسند ہیں۔ اخلاق ان چیزوں سے پاک ہوں جنھیں اللہ نے ناپسند فرمایا ہے۔ زبان اُن چیزوں سے پاک ہو جو اللہ کو ناپسند ہیں۔ مال ان چیزوں سے پاک ہو جن سے اللہ نے منع فرمایا اور حرام ٹھیرایا ہے۔ غذا اُس لقمے سے پاک ہو جو اللہ کے نزدیک ناپاک ہے۔ یہ بھی پاکیزگی کے معنی ہیں اور جب تک یہ نہ ہو قرآن اپنے دروازے نہیں کھولتا۔

اللہ سے تعلق بھی بہت ضروری ہے۔ سب کچھ اُس کے ہاتھ میں ہے‘ اور احادیث کے اندر

بے شمار دعائوںکی تعلیم دی گئی ہے۔ ان سب دعائوں کو آپ کتابوں سے حاصل کر سکتے ہیں۔ اُن کو یاد کر سکتے ہیں اور اُن کو پڑھنے کا اہتمام کر سکتے ہیں۔

قرآن کو سمجھنا بھی اہم ہے۔ یہ آپ نہ سمجھیں کہ سمجھے بغیر قرآن کا فائدہ حاصل نہ ہوگا۔ ہوگا توسہی لیکن پورا فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ لیکن صرف سمجھنا اور علم ہی کافی نہیں ہے اس لیے کہ بے شمار لوگ ہیں جو بغیر سمجھے بھی قرآن سے بہت کچھ حاصل کر لیتے ہیں‘ اور بہت سارے لوگ بہت کچھ سمجھنے اور علم حاصل کرنے کے باوجود اس سے کچھ حاصل نہیں کر پاتے۔

آپ نے شاید اپنے گھروں میں یا محلوں کے اندر دیکھا ہو کہ ایسے لوگ جو قرآن کا ایک بھی حرف اور معنی نہیں جانتے‘وہ کتاب کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور زار و قطار روتے ہیں اور پڑھتے ہیں اور پڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اور وہ جو اس کی لغت اور معانی اور تفسیر کے امام ہوتے ہیں‘ وہ عرب جو اس کی زبان سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں‘ وہ ملحد اور بے دین بھی ہوتے ہیں‘ اس لیے صرف زبان کا جاننااور سمجھ لینا کافی نہیں ہے۔ ظاہر ہے اس کے لیے ایمان اور بہت ساری چیزیں ضروری ہیں۔

میں نے تو اندھوں کو بھی دیکھا ہے کہ بے چارہ پڑھنا نہیں جانتا لیکن لائنوں پر انگلی پھیرتا جاتا ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں۔ یہ اللہ کا کلام ہے‘ دوسرے کلاموں کی طرح کا کلام نہیں ہے‘ اور نہ دوسری کتابوں کی طرح کی ہی کتاب ہے۔ البتہ سمجھنا بھی ضروری ہے۔ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ خود قرآن کو سمجھے اور معنی معلوم کرے‘ اور پھر اس سے آگے بڑھے۔

تلاوت کی مقدار

تلاوت پر گفتگو میں یہ پہلو بھی آتا ہے کہ کتنی کثرت کے ساتھ پڑھے۔

یہ بات تو معلوم ہے کہ قرآن سارے انسانوں کے لیے آیا ہے‘ کمزوروں کے لیے بھی‘ قوی اور ضعیف کے لیے بھی‘ بوڑھوں کے لیے بھی ‘مردوں اور عورتوں کے لیے بھی۔ سب کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ اگر قرآن کہہ دیتا کہ نہیں اتنا پڑھنا ضروری ہے‘ تو پھر بڑی مشکل ہو جاتی‘ لہٰذا جتنا قرآن پڑھنا ضروری اور فرض ہے اس کے لیے اُس نے نمازیں فرض کر دیں۔ پانچ نمازوں میں قرأت ہو جاتی ہے اور قرآن پڑھ لیا جاتا ہے۔ باقی اُس نے کہہ دیا ہے کہ فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ط (المزمل ۷۳: ۲۰) ’’اب جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو ‘ پڑھ لیا کرو‘‘۔

آپ جانتے ہیں کہ پہلے رات کی نماز فرض تھی۔ آدھی رات کو‘ اُس سے کچھ زیادہ‘ اُس سے کچھ کم لوگ کھڑے رہا کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہاں‘ ہم کو معلوم ہے کہ تم میں مریض بھی ہوں گے‘ لوگ تلاش معاش میں بھی سرگرم عمل ہوں گے‘ اور بعض راہ حق میں جہاد کے لیے بھی مصروف ہوں گے‘ اس لیے ان سب کی وجہ سے کہہ دیا کہ اس میں سے جو بھی آسانی کے ساتھ پڑھ سکو پڑھو۔ نماز قائم کرو‘ زکوٰۃ دو‘ اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔

کتنا پڑھا جائے اس کا کوئی ایک معیار نہیں۔ اس لیے کہ مختلف لوگوں کے مختلف طریقے رہے ہیں۔بعض لوگ ایک ماہ میں ایک قرآن ختم کرتے تھے‘ اسی کے حساب سے پارے بنائے گئے۔ بعض لوگ ایک ہفتے میں قرآن ختم کرتے تھے‘ اسی کے حساب سے قرآن کی سات منازل ہیں۔ بعض لوگ صرف نمازوں میں پڑھتے تھے‘ اس لحاظ سے اس کے رکوع بن گئے۔ اس کی کوئی مقدار طے نہیں ہو سکتی کہ کتنا پڑھیں۔

کس وقت پڑھیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس وقت بھی ہو سکے پڑھیں‘ آنائَ لیل وآنائَ النھار‘ ’’رات کی گھڑیوں میں بھی‘ دن کی گھڑیوں میں بھی‘‘۔ جو وقت بھی میسر آجائے۔ کچھ لوگ اپنی جیب میں بھی قرآن کے مصحف رکھتے ہیں کہ جہاں موقع مل جائے پڑھ لیتے ہیں۔ اگر یاد ہو تو راستہ چلتے ہوئے بھی قرآن پڑھا جا سکتا ہے‘ سواری میں سوار ہو کربھی پڑھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سوتے ہوئے یا سونے کے بعد اُٹھ کر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ بہت سارے مواقع ہوتے ہیں‘ لیکن یہ بات قرآن نے خود کہی کہ اس کے لیے پڑھنے کا سب سے بہترین وقت سحر کا وقت ہے۔ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْھُوْدًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۷۸) ’’کیونکہ قرآن فجر مشہود ہوتا ہے‘‘۔ رات کو پڑھنے کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ اِنَّ  نَاشِئَۃَ الَّیْلِ ھِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّاَ قْوَمُ قِیْلاً o (المزمل ۷۳: ۶) ’’درحقیقت رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر اور قرآن ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے‘‘۔ اور ویسے بھی فرمایا گیا ہے کہ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْھُوْدًا ‘ قرآن فجر میں پڑھا جاتا ہے تو فرشتے اس میں حاضر ہوتے ہیں اور نبی کریمؐ سے روایت ہے کہ آپؐ فجر کی نماز میں طویل رکعتیں پڑھا کرتے تھے‘ کم سے کم ۵۰ آیات۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن خواہ کثرت کے ساتھ پڑھا جائے‘ یا کم پڑھا جائے لیکن کوئی دن ایسا نہ ہونا چاہیے جو تلاوت کے بغیر گزرے۔ قرآن سے مستقل تعلق قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ نماز کے باہر‘ بہت تھوڑا پڑھے لیکن باقاعدگی کے ساتھ پڑھے۔ تھوڑا عمل جو باقاعدگی کے ساتھ ہو‘ وہ اللہ کو زیادہ مرغوب اور پسند ہے۔

اللہ مجھے ‘ آپ کو‘ ہم سب کو صحیح معنوں میںقرآن کی تلاوت کرنے‘ اس پر عمل کرنے اور اس کی طرف دعوت دینے والا بنا دے۔ آمین! (کیسٹ سے تدوین :  امجدعباسی)

 

ہماری شخصیت دیگر افراد کے ساتھ معاملات میں پہچانی جاتی ہے۔ ہر انسان اپنے اپنے طور پر دوسرے کو پہچانتا ہے۔ دیگر افراد کے ساتھ جب ہم معاملہ کرتے ہیں تو چند صفات ایسی ہیں جن کی موجودگی ہماری شخصیت کو محکم اور موثر بناتی ہے۔ ان میں حسن خلق‘ سچائی‘ تواضع‘ حلم اور وفاے عہد شامل ہیں۔ ان صفات کے باعث آپ خود بھی مطمئن رہیں گے‘ لوگ بھی آپ سے خوش رہیں گے‘ اور آپ کے لیے بھی آگے بڑھنے میں آسانی ہوگی۔ ضروری نہیں ہے کہ ان صفات کو جب آپ اپنائیں تو دوسرے بھی انھی صفات کے ساتھ پیش آئیں۔ اس معاملے میں بعض اوقات مایوسی بھی ہوتی ہے مگر ہم اپنے عزم صمیم کے ذریعے ہی ان صفات پر قائم رہ سکتے ہیں۔

حسن خلق

یہ ایک نفسیاتی کیفیت کا نام ہے جو امورِ باطنہ سے تعلق رکھتی ہے۔ اس لیے کسی انسان میں اس فضیلت کا وجود اس کے آثار و ثمرات ہی کے ذریعے ہو سکتا ہے اور باطن کی اس روشنی کا عکس ظاہری علامات ہی سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ حسن خلق کی تعریف یوں کی گئی ہے:

  • مخلوق خدا کو خوشی اور مصیبت دونوں حالتوں میں راضی اور پسندیدہ خاطر رکھنا حسن خلق ہے۔ (ابوبکر واسطی)
  •  ہر حالت میں اللہ عزوجل کی رضاجوئی حسن خلق ہے۔ (ابوعثمان مغربی)
  •  حسن خلق کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان میں قوت برداشت ہو اوروہ انتقام کا کبھی درپے نہ ہو۔ دشمن پر بھی رحمت و شفقت کی نظر ہو اور اس کے ظلم پر خدا سے اس کی مغفرت کا طالب ہو۔ (سہل ابن  ابی عبداللہ استستری)
  •  حسن خلق کی علامات کی تین خصلتیں ہیں: محارم سے اجتناب‘ حلال کی طلب اور اہل و عیال کے ساتھ مالی‘ قولی‘ بلکہ ہر قسم کی وسعت و حوصلہ کا معاملہ۔ (حضرت علیؓ)
  •   چار چیزیں حسن خلق ہیں: سخاوت‘ الفت‘ خیرخواہی اور شفقت -(حضرت جنید بغدادیؒ)
  •  خلق عظیم جود‘ کرم‘ درگزر‘ عفو اور احسان کے مجموعہ کا نام ہے۔ (ابوسعید قریشی)
  •  حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کے لیے قیامت کے روز میزان عدل میں حسن خلق سے زیادہ وزنی دوسری کوئی چیز نہ ہوگی اور اللہ تعالیٰ بدگو‘ بدخلق کو سخت ناپسند کرتا ہے۔

سچائی ‘ صدق

  •  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: بلاشبہ سچائی بھلائی کی جانب رہنمائی کرتی ہے اور بھلائی جنت کی راہ دکھاتی ہے۔
  •  امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ عمل فضائل میںاس فضیلت کو ایک طرح کی بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس لیے کہ کائنات کی دینی و دنیوی فلاح و بہبود کے تمام امور کا انحصار اسی فضیلت پر ہے۔ ان کے نزدیک صدق کے چھ مراتب ہیں:
  •  انسان کی زبان ہر حال میں امرحق کے اظہار کی عادی ہو۔
  •  اس کی تمام حرکات و سکنات میں مرضات الٰہی کے علاوہ دوسری چیز پیش نظر نہ ہو۔
  •  عزم و ارادے میں قوت ہو اور جو کچھ کہتا ہو اس پر عمل میں تردد اور اضطراب کا قطعاً دخل نہ ہو۔
  •  جو کچھ قول و گفتار سے ادا کرتا ہو ‘ اس کو عملی جامہ پہنانے کا واقعی اور حتمی ارادہ ہو‘ اور جونہی اسباب مہیا ہو جائیں اس کو ثابت اور پورا کر دکھائے۔ کیونکہ گفتار کے وقت کسی شے کا ارادہ و عزم کوئی زیادہ کمال کی بات نہیں ہے۔ درحقیقت وہ انسان ہی نہیں جو ایک بات کہے اور جب اس کی وفا کے لیے اسباب مہیا ہو جائیں تو اس کو پورا کرنے میںاس کا عزم و ارادہ کمزور پڑ جائے۔
  •  انسان کے ظاہری اعمال اس کے باطن کے صحیح آئینہ دار ہوں‘ اور تمام دینی و دنیوی معاملات میں یہی صفات نمایاں ہوں۔
  •  اللہ تعالیٰ کے ساتھ رشتہ خوف و رجا‘ زہد و تقویٰ اور رضا و توکل جیسے فضائل میں حقیقت‘ صداقت کی روشنی پائی جاتی ہو۔ ریا و نمود اور تصنع و بناوٹ کا ان میں مطلق گزر نہ ہو۔

تواضع

انسان اگر خدا کی معرفت و رضا یا مخلوق پر رحم و کرم کی خاطر اپنے اصل درجے اور رتبے سے کم پر راضی ہو جائے ‘ یا خود کو پست کر دے‘ تو اس فضیلت کو تواضع کہیں گے۔ وضع (ذلت) اور تواضع میں بڑا فرق ہے۔ وضع (ذلت) ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں انسان اپنے حظ ِ نفس کی خاطر اپنی ذلت و رسوائی اور نفس کی اہانت پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ علامہ زبیدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تواضع‘ خدا کی ذات و صفات کی معرفت‘ اس کے جلال و جبروت اور محبت و علم اور اپنے نفس کے عیوب و نقائص کے علم سے پیدا ہوتی ہے جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی جناب میں انکسارِ قلب اور مخلوق کے حق میں رحم اور نیازمندی کے ساتھ جھک جانے کا نام ہے‘اور جو پستی اور اہانت حظوظ نفس کی خاطر‘ خودداری اور عزت نفس کو مٹا کر اختیار کی جاتی ہے اس کا نام ذلت ہے۔ پہلی صفت فضیلت اور دوسری رذلت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس شخص کے لیے بشارت ہے جو نفس کو ذلیل کیے بغیر تواضع کا حامل ہے۔

حلم

غیظ و غضب کے جوش کے وقت اور ایسے اسباب کے پیدا ہونے کے وقت جن سے غضب میں ہیجان پیدا ہو‘ اس پر قابو پانے کا نام ’’کظمِ غیظ‘‘ ہے‘ اور یہی صفت جب انسان میں فطرت بن جائے اور مستحکم ہو جائے تو اس صفت کو حلم کہا جا تا ہے۔ حلم ایسی فضیلت ہے جو انسان کے کمالِ عقل‘ غلبۂ فرزانگی اور قوتِ غضب کے مقہور و مغلوب ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ اس فضیلت کے ساتھ اگرچہ ہر فرد کو متصف ہونا چاہیے لیکن رہنما‘ قائد اور قوم کے ہادی‘ اہل منصب‘ ذمہ داران‘ کونسلر‘ سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں اوردفتر کے افسروں اور مینجر حضرات کے لیے اس صفت کا وجود ازبس ضروری ہے۔ اس لیے کہ ان حضرات کو قدم قدم پر ایسی آزمایشوں اور امتحانات سے دوچار ہونا پڑتا ہے جن میںغصہ‘ غضب اور غیظ کا جوش میں آجانا معمولی بات ہے۔ ایک بار غصہ کرنے کے بعد خود آپ کو بھی کام کرنے میں تکلیف ہو گی اور آپ دوسروں سے بھی کام نہیں لے سکیں گے اور پورا دن پشیمانی میں گزاریں گے‘ اور لوگ تضحیک کے ساتھ آپ کے غصے اور غیر ضروری غضب کا ذکر کریں گے۔

کہتے ہیں کہ غصہ حماقت سے شروع ہوتا ہے اور ندامت پر ختم ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس میں صفت حلم موجود ہے وہ سردار ہے اور جس میں سمجھ حاصل کرنے کا شوق ہے ‘ اس میں سمجھ بڑھنے کے لیے راہ کھل جاتی ہے۔

ادبا کا قول ہے جس شخص نے حلم کا درخت بویا اس نے سلامتی کا پھل پایا۔

وفاے عہد

وفاے عہد زبان و عمل کی یک رنگ سچائی کا نام ہے‘ اور غدر ان دونوں کی خلاف ورزی کا نام ہے۔ وفاے عہد ‘ انسانیت کے مخصوص فرائض میں بہت بڑا فرض ہے۔ اس لیے جو شخص وفاے عہد سے خالی ہے وہ درحقیقت شرفِ انسانیت سے محروم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایمان میں شمار کیا ہے اور لوگوں کی عملی زندگی کے لیے اس کو سربراہِ کار ٹھیرایا ہے۔ کیونکہ انسان ایک ایسی ہستی کا نام ہے جس کے لیے باہمی تعاون لازمی ہے‘ اور باہمی تعاون وعدے کی رعایت اور عہد کی وفا کے بغیر ناممکن ہے۔ اگر ان کو درمیان سے الگ کر دیا جائے تو تعاون کے بجائے دلوں میں نفرت و وحشت جاگزیں ہو جائے اور معیشت و زندگی ہر قسم کی تباہ کاریوں سے دوچار ہونے لگے۔

قرآن حکیم میں ہے : اچھے وہ ہیں جو اپنے بار امانت اور عہد کے محافظ ہیں۔ وعدہ وفائی کا معاملہ سیاسی رہنمائوں کو بھی سوچنا چاہیے‘ افسروں اور ماتحتوں کو بھی اور فیکٹری کے مالکان اور دکان داروں کو مال کی سپلائی کے سلسلے میں بھی سوچنا چاہیے۔

دیگر امور

ذیل میں تعمیرشخصیت کے حوالے سے چند اشارات پیش کیے جاتے ہیں:

امریکی دانش ور بنجمن فرینکلن نے اپنی خودنوشت سوانح عمری میں اخلاقی تکمیل کے سلسلے میں درج ذیل خوبیوں کا تذکرہ کیا ہے:

(۱)  اعتدال --- اتنا نہ کھائو کہ طبیعت کند ہو جائے‘ زیادہ نہ پیو۔

(۲)  خاموشی --- وہی بات زبان پر لائو جس سے تمھیں یا دوسروں کو فائدہ پہنچے۔ فضول گفتگو سے پرہیز کرو۔

(۳)  نظم و ترتیب --- تمام چیزیں ان کے مقامات پر رکھو۔ کاروبار کے ہر حصے کے لیے وقت مقرر کر لو۔

(۴)  عزم--- جو کچھ کرنا چاہیے اس کا پختہ ارادہ کر لو۔ جس کا ارادہ کر لو اسے پورا کیے بغیر کبھی نہ چھوڑو۔

(۵)  صرف زر--- خرچ نہ کرو مگر وہی جس سے دوسروں کو یا خود تمھیں فائدہ پہنچے‘ یعنی کوئی چیز ضائع نہ کرو۔

(۶)  محنت و مشقت --- کوئی وقت نہ گنوائو۔ ہر لحظہ کسی مفید کام میں مشغول رہو۔ غیر ضروری سرگرمیاں بالکل ختم کر دو۔

(۷) دیانت داری --- کسی نقصان رساں فریب سے کام نہ لو۔ منصفانہ اور معصومانہ سوچو۔ بولو تو اسی انداز میں بولو۔

(۸) انصاف--- دکھ پہنچا کر کسی کو رنجیدہ نہ کرو۔ ان خدمات سے احتراز نہ کرو جو تمھارے فرائض  میں داخل ہیں۔

۹- میانہ روی --- افراط و تفریط سے بچو۔ جن گزندوں سے غصہ پیدا ہو‘ انھیں اس حد تک برداشت کر لو جس حد تک ضروری ہے۔

۱۰- صفائی اور نظافت--- جسم‘ لباس یا جائے سکونت میں کسی قسم کی گندگی برداشت نہ کرو۔

۱۱- طمانیت --- چھوٹے چھوٹے واقعات یا عام اور ناگزیر حوادث پر پریشان نہ ہو۔

۱۲- پارسائی --- اپنے کردار کو بہتر بنائو‘ لالچ سے پرہیز کرو‘ ذاتی مفاد کے چکر سے بچو۔

۱۳- انکسار--- طبیعت میں انکسار اور اخلاص پیدا کرو۔ تکبر اور مفادپرستی سے پرہیز کرو‘ ورنہ یہ عادت نہ صرف انسان بلکہ پوری قوم کو تباہ کرنے کی وجہ بن سکتی ہے۔

ڈائری مرتب کیجیے

علامہ ابن جوزی ؒ اپنی کتاب منہاج القاصدین کے باب غوروفکر میں فرماتے ہیں:

ہر ایک مرید کے پاس ایک کتاب ہونی چاہیے جس میں وہ تمام صفات مہلکہ اور تمام صفات نافعہ‘ اور تمام معاصی و طاعات کو درج کرے اور ہر روز ان کا مطالعہ کیا کرے۔ ہمارے نزدیک ہلاک کرنے والی چیزوں میں سے ۱۰ چیزوں پر غور کر لینا کافی ہے۔ اگر ان سے بچ گیا تو دوسری چیزوں سے بھی بچ جائے گا۔ وہ یہ ہیں: (۱)  بخل (۲) کبر (۳) عجب (۴) ریا (۵) حسد (۶) شدت غضب (۷) کھانے کی حرص (۸)جماع کی حرص (۹) مال کی محبت (۱۰) جاہ کی محبت۔

اسی طرح نجات دلانے والی ۱۰ چیزوں پر غور کرے جو یہ ہیں: (۱) گناہوں پر ندامت (۲)مصیبت پر صبر (۳) تقدیر پر راضی رہنا (۴) نعمتوں پر شکر کرنا (۵) امید و خوف کا معتدل ہونا (۶) دنیا سے بے رغبتی (۷) اعمال میں اخلاص (۸) لوگوں کے ساتھ حسن سلوک (۹) اللہ کی محبت (۱۰) خشوع۔

جب بری خصلتوں میں سے ایک سے نجات پا لے تو اپنی کتاب میں اس پر لکیر کھینچ دے اور اب اس کے متعلق سوچنا چھوڑ دے اور اس کامیابی پر اللہ کا شکر ادا کرے۔ یہ سمجھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی مدد سے ہوا ہے۔ پھر باقی نو کی طرف توجہ کرے اور اس طرح کرتا جائے۔ یہاں تک کہ سب پرلکیر کھینچ دے۔ اس کے بعد اپنے نفس سے نجات دلانے والی صفات سے متصف ہونے کا مطالبہ کرے اور جب ایک کے ساتھ متصف ہو جائے تو اس پر خط کھینچ دے اور باقی میں مشغول ہو جائے۔

شخصیت کا منشور

حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپؐ کی سنت کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا:

  •  معرفت میرا راس المال ہے۔
  • عقل میرے دین کی اصل ہے۔
  • محبت میری بنیاد ہے۔ 
  • شوق میرا مرکب (سواری) ہے۔ 
  • ذکرالٰہی میرا انیس ہے۔ 
  • اعتماد میرا خزانہ ہے۔ 
  • غم میرا رفیق ہے۔ 
  • علم میرا ہتھیار ہے۔ 
  • صبر میرا لباس ہے۔ 
  • رضا میرا مالِ غنیمت ہے۔ 
  • عجز میرا فخر ہے۔ 
  • زہد میرا پیشہ ہے۔ 
  • یقین میری قوت ہے۔ 
  • صدقہ میرا حامی و سفارشی ہے۔
  • طاعت میری کفایت کرنے والی ہے۔
  • جہاد میرا خلق ہے۔ اور  
  • میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔

اب ہم محسن انسانیتؐ کی چند ان احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں جن کا تعلق شخصیت کی تعمیر کے اخلاقی عناصر سے ہے۔

الف- حضرت معاذ بن جبلؓ نے بیان فرمایا کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ۱۰ باتوں کی وصیت فرمائی:

۱-  اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنانا اگرچہ تو قتل کر دیا جائے اور تجھے جلا دیا جائے۔

۲-  اپنے ماں باپ کی نافرمانی ہرگز نہ کرنا اگرچہ تجھے حکم دیں کہ اپنے گھر والوں کو اور مال و دولت کو چھوڑ کر نکل جا۔

۳-  فرض نماز ہرگز قصداً نہ چھوڑنا کیونکہ جس نے قصداً فرض نماز چھوڑ دی اس سے اللہ کا ذمہ بری ہوگیا۔

۴-  شراب ہرگز مت پینا کیونکہ وہ بے حیائی کی جڑ ہے۔

۵-  گناہ سے بچنا کیونکہ گناہ کی وجہ سے اللہ کی ناراضی نازل ہوتی ہے۔

۶-  میدان جہاد سے مت بھاگنا اگرچہ (دوسرے) لوگ (تیرے ساتھی) جاں بحق ہو جائیں۔

۷-  جب لوگوں میں (وبائی) موت پھیل جائے اور تووہاں موجود ہو‘ تو وہاں جم کر رہنا (اس جگہ  کو چھوڑ کر مت جانا)۔

۸-  اور جن کا خرچہ تجھ پر لازم ہے (بیوی بچے وغیرہ) ان پر اچھا مال خرچ کرنا۔

۹- اور ان کو ادب سکھانے کے پیش نظر ان سے اپنی لاٹھی ہٹا کر مت رکھنا۔

۱۰-  ان کو (اللہ کے احکام و قوانین) کے بارے میں ڈراتے رہنا۔ (مشکوٰۃ المصابیح)

ب-  حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ہے جو مجھ سے‘ یہ باتیں (جو میں بتانا چاہتا ہوں) حاصل کرے۔ پھر ان پر خود عمل کرے یا کسی ایسے شخص کو بتا دے جو ان پر عمل کرے۔ میں نے عرض کیا: یارسول ؐاللہ! میں ایسا کروں گا۔ چنانچہ آپؐ نے میرا ہاتھ پکڑا اور پانچ باتیں (پانچوں انگلیوں پر) گنائیں:

۱- حرام چیز سے بچ‘ تو سب سے زیادہ عابد ہوگا۔ ۲- جو کچھ اللہ نے تجھے دیا ہے اس پر راضی رہ‘ تو سب سے زیادہ مال دار ہوگا۔ ۳- اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کر‘ تو مومن ہوگا۔ ۴- لوگوں کے لیے وہ پسند کر جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘ تو مسلم ہوگا۔ ۵- زیادہ نہ ہنس کیونکہ زیادہ ہنسی دل کو مردہ کر دیتی ہے۔

ج- حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایسے ڈھل مل ارادے والے نہ بنو کہ یوں کہا کرو کہ لوگ ہمارے ساتھ احسان کریں گے تو ہم بھی کریں گے‘ اور وہ ظلم کریں گے تو ہم بھی کریں گے (ایسا نہ کرو) بلکہ اپنے آپ کو اس چیز کی مشق کرائو کہ دوسرے احسان کریں تو تم بھی احسان کرو۔ اور اگر تمھارے ساتھ برا برتائو کریں تو بھی تم ظلم نہ کرو۔ (مشکوٰۃ المصابیح‘ ترمذی)

د- امام ابوداؤد ؒنے ۵ لاکھ احادیث لکھیں اور ان میں سے تقریباً ۵ ہزار احادیث کو منتخب کر کے سنن ابوداؤد میں درج کیا۔ ان کا قول ہے کہ اگر کوئی ان میں سے چار احادیث کو پکڑ لے تو وہ اس کے دینی فہم کے لیے کافی ہو جائے:

  •  عمل کا دارومدار نیت پر ہے۔  
  • بہتر اسلام یہ ہے کہ آدمی بے فائدہ بات بولنا چھوڑ دے۔  
  • کوئی مسلمان اس وقت تک مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
  • حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے‘ اور ان دونوں کے درمیان شبہے کی چیزیں ہیں۔ جو شبہات سے بچا اس نے اپنے دین کو بچا لیا۔

ہ-  امام شافعیؒ نے سورہ عصر کے بارے میں لکھا ہے کہ اگر لوگ اس سورہ پر غور کریں تو یہی ان کی ہدایت کے لیے کافی ہے۔ اس کے اندر مختصر الفاظ میں معنی کی ایک دنیا بھر دی گئی ہے۔ اصحاب رسولؐ میں سے جب دو آدمی ایک دوسرے سے ملتے تو اس وقت تک جدا نہ ہوتے جب تک ایک دوسرے کو سورہ عصر نہ سنا لیتے۔ (طبرانی)

وَالْعَصْرِ o اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o اِلاَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ۵ لا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ o (العصر ۱۰۳:۱-۳)

زمانے کی قسم‘ انسان درحقیقت خسارے میں ہے‘ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے‘ اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔

دولت کی فراوانی‘ وسائل پیداوارکی ترقی اور حیرت انگیز معاشی ارتقا کے باوجود انسانیت آج جس غربت و ناداری‘ بے کاری اور بے روزگاری‘ معاشی لوٹ کھسوٹ اور معاشرتی ظلم و ناانصافی سے دوچار ہے‘ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اگر فقروفاقہ کا علاج اور افلاس و ناداری کامداوا محض دولت کی فراوانی اور وسائل پیداوار کی ترقی سے ہو سکتا تو بلاشبہ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں کسی کو بھی غریب و مفلس اور بھوکا ننگا نہیں ہونا چاہیے‘ لیکن ایسانہیں ہے۔ معاشی ارتقا اور وسائل پیداوار کی محیرالعقول ترقی کے باوجودہر جگہ غربت و افلاس کا دور دورہ ہے‘ اور رات کو بھوکے سو رہنے والوں کی تعداد وقت گزرنے کے ساتھ گھٹ نہیں رہی ہے بلکہ بڑھ رہی ہے۔ یہ فطرت کی ظالمانہ تعزیر نہیں ہے بلکہ مروجہ معاشی نظام کاحصہ اور لازمی نتیجہ ہے۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس کے پاس تمام مسائل حیات کا شائستہ اور قابل قبول حل موجود ہے۔ وہ عالمِ انسانیت کے اقتصادی پہلو پر خصوصی توجہ دیتا ہے کہ اسی سے سلسلۂ حیات وابستہ ہے۔ اس نے اعلیٰ اخلاقی قدروں کے فروغ سے جہاں انسان کی ذہنی اور روحانی کائنات کو منور کیا‘ وہاں معاشی اعتبار سے بھی باوقار زندگی گزارنے کا لائحہ عمل پیش کیا ہے۔

اقتصادیات یا اکنامکس کا سب سے مشکل مسئلہ یہ ہے کہ افرادِ قوم میں بہ لحاظ فقرو غنا کیوں کر ایک تناسب و توازن قائم کیاجائے۔ عہد قدیم سے لے کر آج تک کوئی انسانی دماغ اس عقدہ کی گرہ کشائی نہ کر سکا۔ کسی نے یہ رائے دی کہ جملہ املاک پر افراد کا مساوی حق تصرف اور یکساں حق ملکیت تسلیم کیا جائے۔ دور جدید کے ماہرین معاشیات نے یہ حل پیش کیا کہ ملک کی تمام دولت پر حکمران پارٹی کا قبضہ ہو

اور وہ لوگوں کو قوت لایموت مہیا کرنے کی ذمہ داری قبول کرے‘ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ عوام انفرادی اور شخصی ملکیت سے دستبردار ہو جائیں۔

آج کل ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کروڑوں ڈالر اس بات پر صرف کر رہے ہیں کہ جو آ چکے سو آچکے‘ اب آنے والوں پر دنیا کا دروازہ بند کر دیا جائے۔ قرآن حکیم نے ایک نئی راہ متعین کی۔ اس نے کہا کہ مساوات کا یہ مصنوعی خیال محال اور خلاف فطرت انسانی ہے‘ اس لیے کہ وَاللّٰہُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ ج (النحل ۱۶:۷۱) ’’اور دیکھو اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت عطا کی ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے اس اہم انسانی مسئلے کو یوں حل فرمایا کہ غریبوں کی خاطر امیروں پر ایک طرح کا ٹیکس لگایا اور اس کا نام زکوٰۃ رکھا۔ اسے دین کا تیسرا رکن بنایا اور عبادت کادرجہ دیا۔ اس کی وصول یابی میں‘ اور اس کے خرچ کرنے کی جگہوں میں ایسے عدل پرور نظام کی بنیادیں قائم کیں کہ جن کی مثال موجودہ دَور کے کسی بھی مذہب اور فکر میں نہیں ملتی۔ زکوٰۃ اس قسم کا کوئی ٹیکس نہیں ہے جو آج کل حکومتیں اپنی رعایا سے وصول کرتی ہیں۔ اس قسم کے جتنے ٹیکس عوام سے وصول کیے جاتے ہیں وہ ان منافع اور فوائد کے معاوضے میں لیے جاتے ہیں جو عوام کو حکومت کی سرپرستی سے حاصل ہوتے ہیں‘ لیکن زکوٰۃ اس قسم کا ٹیکس ہے جو محض غیر مستطیع افراد کی مالی اعانت کے لیے وصول کیا جاتا ہے اور اس کے معاوضے میں محصول دہندگان کو کوئی دوسرا فائدہ کسی اور شکل میں نہیںہوتا۔

زکوٰۃ کی حکمت و مصالح: فرضیت زکوٰۃ میں اسلام نے کن مصالح کا لحاظ رکھا ہے؟ شاہ ولی اللہ دہلویؒ اس کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں: ’’تشریع زکوٰۃ میں بڑی بڑی دو مصلحتیں مضمر ہیں۔ ایک کا مآل تزکیہ نفس ہے ‘ وہ یہ کہ انسان کی اصل جبلت میںحرص اور بخل ودیعت کیے گئے ہیں (واحضرت الا نفس الشح میں اس کی تصریح ہے) اور تم جانتے ہو کہ بخل ایک قبیح ترین خلق ہے جس سے انسان معاد میں عذاب پاتا ہے۔ جس میں بخل نے جڑ پکڑ لی ہو وہ جب مرتا ہے تو اس کا دل مال و دولت کے ساتھ وابستہ اور اس کی طرف نگران رہتا ہے۔ یہی بات اس کے لیے عذاب کا موجب ہوتی ہے۔ جب آدمی زکوٰۃ دینے کا خوگر ہو جاتا ہے تو اس سے اس کا نفسِ رذیلہ بخل سے پاک ہو جاتا ہے۔ یہ بات انسان کے لیے آخرت میں نہایت مفید ثابت ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے سامنے ہر وقت جھکے رہنے کے بعد جس کو شرع کی زبان میں اخبات کہتے ہیں‘دوسرے درجے پر سماحت یا سخاوت نفس آخرت میں نافع ترین چیز ہے۔ جس طرح اخبات کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان میں تطلع الی لجبروت (بارگاہ اقدس کی طرف نگران رہنا) کی صفت پیدا ہو جاتی ہے‘ اسی طرح سخاوت نفس کا نتیجہ یہ ہے کہ آدمی عالم مادی کے خسیس علائق سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔ چونکہ سخاوت کی حقیقت یہ ہے کہ مَلکیت غالب ہو اور بہیمیت مقہور و مغلوب ہو کر رہ جائے‘ اس کا رنگ قبول کر لے اور اس کے احکام کی خوشی سے تعمیل کرے۔ اس ملکہ کو پرورش دینے اور تقویت پہنچانے کی تدبیر یہ ہے کہ ایسی حالت میں‘ جب کہ آدمی خود مال و دولت کا محتاج ہو اس کو مصارف خیر میں خرچ کرے‘ جو کوئی اس پر زیادتی کرے اس کو معاف کر دیا کرے‘ مکروہات دنیا اور شدائد کے پیش آنے پر صبر کو اپنا شیوہ بنا لے‘ خوشی سے ان تکالیف کو برداشت کرے اور آخرت پر یقین رکھنے کی وجہ سے عالم مادی کے واقعات اور حوادث کو پرکاہ کے برابر وقعت نہ دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے موقع بہ موقع ان سب باتوں کاحکم دیا اور ان امور میں جس کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے‘ یعنی مال و دولت کا خرچ کرنا‘ اس پر اسی نسبت سے بیش از بیش توجہ مبذول کی ہے۔ اس کے حدود وغیرہ بیان کیے ہیں اور اس کی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے کلام مجید اور احادیث نبویہؐ میں نماز کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ کا حکم دیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ قرآن کریم کی بعض آیات میں اس کا ذکر ایمان کے ساتھ آیا ہے۔ اہل نار سے جب کہا جائے گا کہ کس چیز نے تم کو آگ میںجھونکا؟ ان کا جواب یہ ہوگا کہ لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ  o  وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ o وَکُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآئِضِیْنَ o (المدثر ۷۴: ۴۳-۴۵) ’’ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے‘ اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے‘ اور حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے‘‘۔

دوسری مصلحت جس پر تشریع زکوٰۃ مبنی ہے اس کا مآل نظام مدنیت کا بہتر طریقہ پر قائم رکھنا ہے۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ مدنیت خواہ کتنے ہی چھوٹے پیمانے پر ہو‘ کمزور اور اپاہج اشخاص اور ارباب حاجت‘ غریبوں‘ مسکینوں پر مشتمل ہوتی ہے‘ نیز حوادث اور آفات سماوی و ارضی کا ہر ایک قوم کسی نہ کسی صورت میں نشانہ بنتی ہے۔ بنابرآں اگر اس بات کا التزام نہ ہو کہ غریبوں‘ مسکینوں اور ارباب حاجت کی دستگیری کی جائے تو اس کا نتیجہ قوم کی ہلاکت ہوگا۔ ایک اور بات بھی قابل غور ہے وہ یہ کہ تمدن کا نظام اس حیثیت سے بھی قوم کی مالی اعانت کا محتاج ہے کہ اس کو بہتر طریقے سے قائم رکھنے کے لیے مختلف قسم کے عہدے داروں اور مدبرین کی ضرورت ہے اور چونکہ ان لوگوں کی زندگی قوم کی فلاح و بہبود اور ان کی ضروریات کا انتظام کرنے کے لیے وقف ہوتی ہے‘ اس لیے یہ نہایت ضروری اور امر معقول ہے کہ ان کی وجہ کفاف اور ان کے روزینے کا بوجھ بیت المال پر ہو‘ جو زکوٰۃ اور صدقات ہی کے مجموعے کا نام ہے۔ اس قسم کے ٹیکس (اس سے ہماری مراد عشر اور زکوٰۃ ہے) جو قوم کی مشترکہ اغراض کے لیے ان پر عائد کیے جاتے ہیں‘چونکہ ان کا باقاعدہ ادا کرنا بعض کے لیے دشوار اور بعض کے لیے ناممکن ہوتا ہے‘ اس لیے یہ ضروری قرار پایا  اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنت قائم کی کہ ا ن کے وصول کرنے کا اہتمام حکومت کیا کرے چونکہ ان دونوں مذکورہ مصلحتوں کے حصول کا آسان ترین طریقہ یہی تھاکہ دونوںکو ایک دوسرے میں مدغم کر دیا جائے‘ لہٰذا شرع نے یہی طریقہ اختیار کیا۔

اصل مشروعیت زکوٰۃ کے بعد اس بات کی ضرورت پیش آئی کہ اس کی مقدار کو معین کر دیا جائے۔ بصورت دیگر افراط و تفریط کے وقوع میں آنے کا احتمال غالب بلکہ یقینی تھا۔ تعیین مقدار کے لیے (جیسے کہ پہلے بھی اصول کلیہ کے ضمن میں اس کا بیان ہو چکا ہے) یہ ضروری ہے کہ نہ تو وہ مقدار اتنی تھوڑی ہو کہ اس کے ادا کرنے کا اس کو چنداں احساس نہ ہو‘ اور رذیلہ بخل کے ازالے میں وہ کچھ بھی موثر ثابت نہ ہو‘ اور نہ ہی وہ مقدار میںاس قدر زیادہ ہی ہو کہ اس کا ادا کرنا پہاڑ محسوس ہو۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اس کو بار بار ادا کرنے کا درمیانی وقفہ نہ تو بہت زیادہ ہو جس کی وجہ سے اداے زکوٰۃ کے اصل مقصد میں خلل واقع ہو‘ اور نہ بہت کم ہی ہو کہ لوگوں کو اس کا ادا کرنا بوجھ محسوس ہو۔

منصفانہ مالیاتی نظام: جن اصولوں پر اقالیم صالحہ کے انصاف پسند سلاطین نے مالیہ اور ٹیکس کا نظام مبنی کیا ہے اور جن کو معقول پسند طبائع نہایت مناسب اور معقول سمجھتے ہیں‘ وہ چار ہیں:

(۱)  یہ کہ مالیہ یا زکوٰۃ ان اموال سے وصول کیا جائے جن میں اضافہ ہوتا رہتا ہو۔ ان اموال کی حفاظت حکومت کا فرض ہے اور ان کی حفاظت ایک اہم فریضہ ہے جو اس کے ذمے عائد کیا گیا ہے۔ کیونکہ ان کی نشوونما بغیر اس کے متصور نہیں کہ ان کو شہر یا گائوں کے باہر لے جا کر چرایا جائے یا اگر وہ تجارت کا مال ہے تو اس کے لیے آدمی کو اکثر سفر کرنا پڑتا ہے (بہرحال ان کی حفاظت کی ضرورت پیش آتی ہے)‘ اور چونکہ ان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اس لیے ان کی زکوٰۃ ادا کرنا ان کے مالکوں کو نہایت آسان معلوم ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ایسا کرنا  الغرم مع الغنم کے اصول کے مطابق بالکل درست اور انصاف کی بات ہے (حکومت ملک میں امن قائم رکھ کر ان کی حفاظت کی ذمہ دار ہے اور اس کے عوض میں ان کو ایک خفیف سا ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جو درحقیقت اضافہ ہی کا ایک جزو قلیل ہوتا ہے۔ اب کہیے  اس میں کون سی بات عدل اور انصاف کے خلاف ہے)۔ ان اموال نامیہ کی تین قسمیں ہیں: (الف) چوپایہ جانور جو چراگاہوں میں چل پھر کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں اور ان کی نسل بڑھتی رہتی ہو۔ (ب) کھیت اور باغات (ج) مالِ تجارت۔

(۲)  جن لوگوں کے پاس خزانے ہوں اور وہ سونے چاندی میں لیٹتے ہوں‘ ان سے بھی حکومت کے اغراض کے لیے مناسب سالانہ رقم وصول کی جائے کیونکہ یہی لوگ ہیں جن کو حفاظت جان ومال کے لیے حکومت کی مدد کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ چوروں اور ڈاکوئوں کا انھی لوگوں کو ہر وقت خطرہ لگا رہتا ہے۔ ان لوگوں کے مصارف ویسے بھی کچھ کم نہیں ہوتے۔ اگرزکوٰۃ کی قلیل رقم ان پر اضافہ کی جائے تو ان کو اس کا کچھ بھی بوجھ محسوس نہ ہو۔

(۳) حکومت کو ٹیکس اور زکوٰۃ دینے کے مستحق وہ لوگ بھی ہیں جن کو بغیر کسی محنت کے کوئی دفینہ وغیرہ مل جائے یا کہیں سے جواہرات اور بیش قیمت معدنیات کا خزانہ ان کے ہاتھ لگ جائے۔ ان لوگوں کو بھی اپنے مال سے تھوڑا سا حصہ حکومت اور بیت المال کو دینا ناگوار نہیں گزرتا۔

(۴) پیشہ ور لوگ جو روز مرہ کچھ کماتے رہتے ہیں‘ ان پر خفیف سا ٹیکس عائد کیا جائے توچونکہ ان لوگوں کی تعداد قوم میں بہت زیادہ ہوتی ہے‘ اس لیے اس ذریعے سے ایک معقول رقم کے بیت المال میں داخل ہونے کا یقین کیا جا سکتا ہے۔

اب چونکہ تجارتی مال عموماً دُور دراز ملکوں سے لائے جاتے ہیں (اور کچھ عرصہ انتظار کرنے کے بعد وہ نفع پر فروخت ہوتے ہیں‘اور مد (الف) کی نسلی افزایش بھی سال بھر گزر جانے پر موقوف ہے‘ اسی طرح کھیت اور باغات جو اموال نامیہ میں سب سے بڑھ کر مالیہ اور زکوٰۃ کا مآخذ ہیں سال بھر کے بعد ان سے پیداوار حاصل کی جاتی ہے یا کم از کم مختلف فصلوں میں مختلف قسم کے اناج اور پھل پک کر اور کٹ کر سال تک جملہ پیداوار مکمل ہو جاتی ہے‘ اس لیے زکوٰۃ کی وصولی کے لیے سال کی میعاد مقرر کرنا عین صواب اور امر مناسب تھا۔

پھر یہ امر بھی قابل غور ہے کہ زکوٰۃ دہندہ اور وصول کنندہ دونوں کے لیے اسی میںآسانی ہے کہ ہر ایک جنس کی زکوٰۃ اسی کا کچھ حصہ ہو‘ مثلاً اونٹوں کے گلے میں سے ایک اونٹنی لیجائے‘ اور گائے بیل‘ یا بھیڑ بکریوں کے ریوڑ سے وہی جنس یعنی گائے یا بکری وصول کی جائے‘‘۔ (حجۃ اللّٰہ البالغہ‘ تحقیق السید سابق‘ الجزء الثانی‘ ص ۴۹۷ - ۵۰۰‘ باختصار ‘ دارالکتاب الحدیثۃ بالقاہرہ)

اسلام میں زکوٰۃ کا مقام : دنیا کے تمام سچے مذاہب اگرچہ ابناے جنس کی خدمت اور حاجت مندوں کی اعانت کی ترغیب و تعلیم دیتے ہیں لیکن یہ اسلام ہی کی خصوصیت ہے کہ اس نے محض تلقین و تعلیم ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی ایک قسم کے سالانہ ٹیکس کا طریقہ قائم کر دیا جو اس ضروریات کو پورا کرے ‘ اور اس کو اس درجہ اہم قرار دیا کہ نماز کے بعد اس کا درجہ رکھا گیا اور قرآن کریم میں دونوں کو ایک ہی فہرست میں گنا کر اس کو بھی ایمان کی علامت قرار دیا۔ ھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ o الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ (النمل ۲۷:۲-۳) ’’ہدایت اور بشارت ان ایمان لانے والوں کے لیے جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں‘‘۔

قرآن پاک کے مطابق اسلامی حکومت کے قیام کے بنیادی مقاصد میں اہم ترین اس نظام خیر کا رائج کیا جانا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

الَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ (الحج ۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیںتو وہ نماز قائم کریں گے ‘ زکوٰۃ دیں گے۔

ایک اور جگہ پر اس کو تقویٰ اور صداقت کی علامت قرار دیا گیا ہے:

وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ ج وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ج وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاسَآئِ وَالضَّرَّآئِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ ط اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۷۷) اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے ۔اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اسے وفا کریں‘ اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔

زکوٰۃ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے ادا کی جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہماری دنیاوی زندگی میں بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ چونکہ اسلام دین اور دنیا کے حسین امتزاج کاخواہاں ہے اس لیے وہ ایسے اعمال صالحہ کی طرف جن کا تعلق افراد کی زندگی اور معاشرے کی بہتری سے ہو‘ خصوصی توجہ دیتا ہے۔ چنانچہ معاشرتی ہم آہنگی اور بھائی چارے کے قیام کے حوالے سے زکوٰۃ کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:  فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِط (التوبہ ۹:۱۱) ’’پس اگر یہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو تمھارے دینی بھائی ہیں‘‘۔

قرآن پاک میں ایک مقام پر اس کو معیت الٰہی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے: وَقَالَ اللّٰہُ اِنِّیْ مَعَکُمْط لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ (المائدہ ۵: ۱۲) ’’اور ان سے کہا تھا کہ میں تمھارے ساتھ ہوں‘ اگر تم نے نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دی‘‘۔ اسی لیے مانعین زکوٰۃ کے بارے میں صحابہ کرامؓ کے عظیم الشان  مجمع میں حضرت صدیق اکبرؓ نے یہ فرمایا اور جمہور صحابہؓ نے اس پر صاد کیا: ’’بخدا میں نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق نہیں کروںگا اور ان لوگوں سے ضرور جہاد کروں گا جو ان کے درمیان فرق کر رہے ہیں‘‘ (الامام احمد بن حنبل‘ مسند ‘ المجلد الاول‘ ص ۱۱‘ المکتب الاسلامی‘ بیروت ۱۹۶۹ء)۔ نیز اس بارے میں اسلام کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس نے فرضیت زکوٰۃ کی عظمت کو ان صاف الفاظ میں بیان کیا:  کَیْ لاَ یَکُوْنَ دُوْلَۃًم بَیْنَ الْاَغْنِیَآئِ مِنْکُمْ ط (الحشر ۵۹: ۷) ’’تاکہ یہ نہ ہو کہ مال ودولت صرف تمھارے دولت مندوں کے گروہ ہی میں محدود ہو کر رہ جائے‘‘۔ اور بتایا کہ معاشی وسائل میں اس کا مقصد وحید یہ ہے کہ دولت سب میںتقسیم ہوتی رہے اور کسی ایک گروہ کی اجارہ داری میں ہو کر ہی نہ رہ جائے۔ چنانچہ نبی اکرم ؐنے اسی حقیقت کے پیش نظر حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کا والی بنا کر ارکان اسلام کی وصیت فرماتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا: تؤخذ من غنیھم فترد علی فقیرھم‘ ’’(زکوٰۃ کا مقصد یہ ہے کہ) ان کے مال داروں سے وصول کی جائے اور ان کے محتاجوں پر تقسیم کر دی جائے‘‘۔ (الامام ابن حجر العسقلانی ‘ فتح الباری بشرح البخاری‘ الجزء السامع عشر‘ ص ۱۱۵‘ مصطفی البابی الحلبی‘ بمصر ۱۹۵۹ء)

الغرض زکوٰۃ‘ اجتماعی معاشی نظام کا ایک خاص اور اہم مالی جز ہے ۔ اسی لیے اس کے وصول کرنے کا حقیقی اور اصولی طریقہ حکومت کے نظم و انتظام کے ساتھ وابستہ کیا گیا اور اس کی تحصیل کا معاملہ حکومت کے ہاتھ میں دیا گیا ہے۔ نظام زکوٰۃ سے جہاںا للہ کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے وہیں انسان کی خود غرضی اور بخل و حرص کا ازالہ بھی ہوتا ہے اور خلق خدا کی خدمت کا اور محبوبیت کا موقع بھی فراہم ہوتا ہے‘ اور غریب اور امیر‘ مزدور اور آجر‘ کسان اور زمیندار‘ فرد اور ریاست کے مابین تعاون کی فضا قائم ہوتی ہے۔

اجتماعی کفالت کا جدید اور منفرد نظام: زکوٰۃ اسلام کے اجتماعی نظام کفالت کا ایک حصہ ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر یوسف القرضاوی اپنی شہرہ آفاق کتاب  فقہ الزکوٰۃ میں لکھتے ہیں: ’’اس کفالت سے مغرب بہت ہی محدود دائرے میں متعارف ہے۔ وہ معیشت کے دائرے میں عاجز اور تنگدست لوگوں کی مدد کو اجتماعی کفالت کا نام دیتا ہے‘ جب کہ اسلام کی اجتماعی کفالت کا تصور اس سے کہیں زیادہ وسیع اور ہمہ گیر ہے‘ اور زندگی کے جملہ مادی اور معنوی پہلوئوں کو محیط ہے کہ اس اجتماعی کفالت میںا خلاقی‘ علمی‘ دفاعی‘ فنی‘ تہذیبی‘ سیاسی اور معاشی کفالت‘ غرض کفالت کے تمام پہلو اسلام کے نظام کفالت میں داخل ہیں۔ اسلام کا نظام کفالت صرف زکوٰۃ تک محدود نہیں ہے بلکہ زکوٰۃ اس اجتماعی کفالت کا ایک بڑا اور اہم شعبہ ہے۔

زکوٰۃ کو ہم جدید اصطلاح میں اجتماعی ضمانت کہہ سکتے ہیں‘ یعنی معاشرے کے اپنی آمدنی سے کوئی حصہ دیے بغیر ہی ریاست عام بجٹ سے افراد کی کفالت کی ضمانت دیتی ہے۔ اس لحاظ سے اسلام کا نظام زکوٰۃ‘ اجتماعی ضمانت کے سلسلے کا اولین قانون ہے‘ جو محض نفلی صدقات پر بھروسا نہیں کرتا بلکہ ہر ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کا حکومت کی سطح پر ایک نظام ہے تاکہ معاشرے کے ہر فرد کو لباس‘ غذا‘ رہایش اور ضروریات فراہم کی جا سکیں اور کوئی فرد اور اس کا خاندان‘ ضروریات زندگی سے محروم نہ رہے۔

اس طرح کی اجتماعی کفالت تک فکر مغرب کی رسائی بھی ابھی قریب کے عہد میں ہوئی ہے‘ اور اس جانب مغرب کو خدا ترسی اور کمزور کی ہمدردی نے متوجہ نہیں کیا ہے بلکہ خونی انقلابات اور اشتراکیت اور اشتمالیت کی طوفانی موجوں نے متوجہ کیا ہے مگر اس کے باوجود یورپ کی رسائی ابھی تک اس قدر جامع نظام کفالت کی جانب نہیں ہو سکی ہے جس کا تصور اسلام نے دیا ہے کہ ہر شہری اس کفالت میں شامل ہے‘ اور ہر شہری کی اور اس کے اہل خانہ کی بنیادی ضروریات کی تکمیل ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اور یہ کوئی انفرادی احسان اور خیرات کا سلسلہ نہیں ہے بلکہ زکوٰۃ اہل ضرورت کا ایک متعین حق ہے‘ جو دولت مندوں کے مال میں رکھاجاتا ہے‘ اور اسلامی حکومت اس حق کو وصول کرتی اور تقسیم کرتی ہے۔ یہ ایسا حق ہے جو کسی صورت ساقط نہیں ہوتا خواہ حکومت اس کی وصول یابی کی ذمہ داری نہ سنبھالے‘ یہ حق بدستور لازم رہتا ہے‘‘۔ (فقہ الزکوٰۃ‘ ج ۲‘ ص ۸۸۰-۸۸۳‘ باختصار مؤسسۃ الرسالۃ بیروت‘ ۱۹۹۱ء)

اسلامی معاشرے میں زکوٰۃ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ رقم طراز ہیں: ’’یہ مسلمانوں کی کواپریٹو سوسائٹی ہے۔ یہ ان کی انشورنس کمپنی ہے۔ یہ ان کا پراویڈنٹ فنڈ ہے یہ ان کے بے کاروں کا سرمایہ اعانت ہے۔ یہ ان کے معذوروں‘ اپاہجوں‘ بیماروں‘ یتیموں‘ بیوائوں کا ذریعہ معاش ہے اور ان سب سے بڑھ کر یہ وہ چیز ہے جو مسلمانوں کو فکر فردا سے بالکل بے نیاز کر دیتی ہے۔ اس کا سیدھا سادا اصول یہ ہے کہ آج تم مال دار ہو تو دوسروں کی مدد کرو‘ کل تم نادار ہو گئے تو دوسرے تمھاری مدد کریںگے۔ تمھیں یہ فکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ مفلس ہو گئے تو کیا بنے گا؟ مر گئے تو بیوی بچوں کا کیا حشر ہوگا؟ کوئی آفت ناگہانی آپڑی‘ بیمار ہو گئے‘گھر میں آگ لگ گئی‘ سیلاب آگیا‘ دیوالہ نکل گیا تو ان مصیبتوں سے مخلصی کی سبیل کیا ہوگی؟ سفر میں پیسہ پاس نہ ہو تو کیونکر بسر ہوگی؟ ان سب فکروں سے صرف زکوٰۃ تم کو ہمیشہ کے لیے بے فکر کر دیتی ہے۔ تمھارا کام بس اتنا ہے کہ اپنی پس انداز کی ہوئی دولت میں سے ڈھائی فی صد دے کر اللہ کی انشورنس کمپنی میں اپنا بیمہ کرا لو۔ اس وقت تم کو اس دولت کی ضرورت نہیں‘ یہ ان کے کام آئے گی جو اس کے ضرورت مند ہیں۔ کل جب تم ضرورت مند ہو گے یا تمھاری اولاد ضرورت مند ہوگی تو نہ صرف تمھارا اپنا دیا ہوا مال بلکہ اس سے بھی زیادہ تم کو واپس مل جائے گا۔

یہاں پھر سرمایہ داری اور اسلام کے اصول و مناہج میں کلی تضاد نظر آتا ہے۔ سرمایہ داری کا اقتضا یہ ہے کہ روپیہ جمع کیا جائے اور اس کو بڑھانے کے لیے سود لیا جائے‘ تاکہ ان نالیوں کے ذریعے سے آس پاس کے لوگوں کا روپیہ بھی سمٹ کر اس جھیل میں جمع ہو جائے۔ اسلام اس کے بالکل خلاف یہ حکم دیتا ہے کہ روپیہ اول تو جمع ہی نہ ہو‘ اور اگر جمع ہو بھی تو اس تالاب میں زکوٰۃ کی نہریں نکال دی جائیں‘ تاکہ جو کھیت سوکھے ہیں ان کو پانی پہنچے اور گردوپیش کی ساری زمین شاداب ہو جائے۔ سرمایہ داری کے نظام میں دولت کا مبادلہ مقید ہے‘ اور اسلام میں آزاد۔ سرمایہ داری کے تالاب سے پانی لینے کے لیے ناگزیر ہے کہ خاص آپ کا پانی پہلے سے وہاں موجود ہو‘ ورنہ آپ ایک قطرئہ آب بھی وہاں سے نہیں لے سکتے۔ اس کے مقابلے میںا سلام کے خزانۂ آب کا قاعدہ یہ ہے کہ جس کے پاس ضرورت سے زیادہ پانی ہو وہ اس میں لا کر ڈال دے اور جس کو پانی کی ضرورت ہو وہ اس میں سے لے لے۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں طریقے اپنی اصل اور طبیعت کے لحاظ سے ایک دوسرے کی پوری پوری ضد ہیں اور ایک ہی نظم معیشت میں دونوں جمع نہیں ہو سکتے‘‘۔ (اسلام اور جدید معاشی نظریات‘ ص ۸۶‘ ۸۷)

معاشی ترقی میں کردار: زکوٰۃ معاشی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ قرآن کریم نے علامتی اسلوب میںاس موضوع پر نہایت خوب صورت بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ: مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ط وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُ ط (البقرہ ۲:۲۶۱) ’’جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں‘ ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں اور ہر بال میں ۱۰۰ دانے ہوں۔ اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے‘ افزونی فرماتا ہے‘‘۔ چنانچہ معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ دولت اہل زر کے پاس منجمد ہو کر نہ پڑی رہے۔ چند اشخاص کے پاس دولت جمع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اکثریت بے وسیلہ ہوتی چلی جائے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مال دار اور نادار طبقات کے درمیان تضاد اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ ایک نہ ختم ہونے والی کشیدگی شروع ہوجاتی ہے جو بالآخر معیشت اور معاشرت دونوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔ زکوٰۃ کے خودکار نظام سے دولت کے ارتکاز میں کمی آتی ہے۔ اس کی مثال ایک ایسے پائپ سے دی جا سکتی ہے جس کے ذریعے ٹینکی کا ذخیرہ آب ایک حد تک پہنچتے ہی ازخود باہر آنے لگتا ہے اور پانی کی مقدار ایک خاص پیمایش سے زیادہ نہیں ہونے پاتی۔

جس طرح آبِ رواںصاف ستھرا ہوتا ہے‘ اسی طرح کسی خوش حال سوسائٹی کی پہچان یہ ہے کہ وہاں سرمایہ گردش میں رہے‘ اور وسائل حیات کی ہمہ وقت طلب و صرف کا سلسلہ جاری رہے۔ یہ کارِخیر نظام زکوٰۃ سے بخوبی سرانجام پاتا ہے۔ اس کے ذریعے اڑھائی فی صد دولت مال داروں کی آہنی تجوریوں سے مسلسل باہر آتی ہے۔ عوام کے ہاتھوں میں پہنچتی ہے تو ان کی قوت خرید میں اضافہ ہوتا ہے۔ یوں اشیا کی مانگ بڑھتی ہے جس کے سبب پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے‘ اور معیشت میں روز بروزترقی ہوتی ہے۔

نظام زکٰوۃ کی انفرادیت: بلاشبہ اسلام کا نظام زکوٰۃ تاریخ انسانیت میں جدید اور منفرد نظام ہے جس تک انسانی فکر کی کبھی رسائی نہیں ہوئی اور نہ کسی آسمانی شریعت نے اس قدر مفصل نظام وضع کیا۔

ڈاکٹر یوسف القرضاوی اپنی کتاب  فقہ الزکوٰۃ میں لکھتے ہیں: ’’اسلام کا نظام زکوٰۃاجتماعی‘ سیاسی‘ اخلاقی اور دینی پہلوئوں کا حامل بے مثال مالی اور اقتصادی نظام ہے۔ مالی اور اقتصادی نظام اس لیے ہے کہ یہ ایک قسم کا محدود مالی ٹیکس ہے جو رؤسا پر عائد ہوتا ہے‘ جیسے زکوٰۃ الفطر اور آمدنیوں اور اموال پر عائد ہوتاہے‘ جیسے عام زکوٰۃ۔

اجتماعی نظام اس لیے ہے کہ یہ درحقیقت معاشرے کے تمام افراد کے لیے ایک نظام تامین ہے جس سے ہر فرد معاشرہ کو مصائب وآفات سے تحفظ ملتا ہے‘ اور انسانی اخوت و یک جہتی وجود میں آتی ہے۔ زکوٰۃ کا سیاسی پہلو یہ ہے کہ ریاست زکوٰۃ کی تحصیل اور توزیع کے فرائض انجام دیتی ہے۔

چونکہ زکوٰۃ قلوب کی تطہیر کرتی ہے اور اغنیا کے نفوس کو بخل اور دنائت سے پاک کرتی ہے اور نارِحسد کو بجھا کر محبت و اخوت پیداکرتی ہے ‘اس لیے یہ ایک اخلاقی نظام بھی ہے۔

اس امر میں توکوئی شبہ ہی نہیں کہ زکوٰۃ ایک دینی نظام ہے۔ اس لیے کہ زکوٰۃ فریضہ اسلامی ہے‘ اور اس کا مقصد ہی ایمان کو تقویت دینا اور اللہ کی اطاعت کے لیے تیار ہونا ہے‘ اور اس لیے کہ زکوٰۃ دین اسلام کا ایک رکن ہے جس کی مقادیر اور مصارف دین ہی نے مقرر کیے ہیں‘ اس لیے بھی کہ اس کا ایک حصہ اعلاے کلمۃ اللہ اور دعوت دین میں صرف ہوتا ہے‘‘۔ (فقہ الزکوٰۃ‘ ج ۲‘ ص ۱۱۲۰-۱۱۲۱)

زکوٰۃ کی ایک نمایاں خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے سید ابوالحسن علی ندویؒ لکھتے ہیں: ’’زکوٰۃ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس اُمت کے ساتھ لطف و رحمت کا معاملہ اور نعمت نبوت کا ثمرہ اور نتیجہ ہے جس کا بار سب سے کم اور برکت سب سے زیادہ ہے۔ اس لیے کہ وہ اغنیا سے وصول کی جاتی ہے اور فقرا کو لوٹا دی جاتی ہے‘‘۔ (الارکان الاربعۃ‘ ص ۱۲۲‘ دارالفتح‘ بیروت ۱۹۶۸ء)

مزید لکھتے ہیں: ’’اس کے برعکس جو ٹیکس موجودہ حکومتوں میں لگائے جاتے ہیں وہ زکوٰۃ کی عین ضد ہیں۔ یہ ٹیکس (خواہ ظالمانہ ہوں یا عادلانہ‘ کم ہوں یا زیادہ) زیادہ تر متوسط طبقہ اور غربا سے وصول کیے جاتے ہیں اور اغنیا و امرا کی طرف لوٹا دیے جاتے ہیں‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۱۲۱)

زکٰوۃ اور ٹیکس میں فرق: زکوٰۃ اور ٹیکس کے فرق کو بھی سمجھ لینا چاہیے۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ رقم طراز ہیں: ’’زکوٰۃ کے متعلق پہلی بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ یہ ٹیکس نہیں ہے بلکہ ایک عبادت اور رکن اسلام ہے‘ جس طرح نماز‘ روزہ اور حج ارکانِ اسلام ہیں۔ جس شخص نے بھی کبھی قرآن مجید کو آنکھیں کھول کر پڑھا ہے وہ دیکھ سکتا ہے کہ قرآن بالعموم نماز اور زکوٰۃکا ایک ساتھ ذکر کرتا ہے اور اسے اُس دین کا ایک رُکن قرار دیتا ہے جو ہر زمانے میں انبیاے کرام کا دین رہا ہے۔ اس لیے اس کو ٹیکس سمجھنا اور ٹیکس کی طرح اس سے معاملہ کرنا پہلی بنیادی غلطی ہے۔ ایک اسلامی حکومت جس طرح اپنے ملازموں سے دفتری کام اور دوسری خدمات لے کر یہ نہیں کہہ سکتی کہ اب نماز کی ضرورت باقی نہیں کیونکہ انھوں نے سرکاری ڈیوٹی دے دی ہے‘  اسی طرح وہ لوگوں سے ٹیکس لے کر یہ نہیں کہہ سکتی کہ اب زکوٰۃ کی ضرورت باقی نہیں کیونکہ ٹیکس لے لیا گیا ہے۔ اسلامی حکومت کو اپنے نظام الاوقات لازماً اس طرح مقرر کرنے ہوںگے تاکہ اس کے ملازمین نماز وقت پر ادا کر سکیں۔ اسی طرح اس کو اپنے ٹیکسیشن کے نظام میں زکوٰۃ کی جگہ نکالنے کے لیے مناسب ترمیمات کرنی ہوگی۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ حکومت کے موجودہ ٹیکسوں میںکوئی ٹیکس اُن مقاصد کے لیے اُس طرح استعمال نہیں ہوتا ہے جن کے لیے قرآن میں زکوٰۃ فرض کی گئی ہے اور جس طرح اس کے تقسیم کرنے کا حکم ہے‘‘۔ (رسائل و مسائل‘ حصہ سوم‘ ص ۳۰۷-۳۰۸)

آج اگر ہم اپنی مادی مشکلات سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسلام کے اس آزمودہ نظام زکوٰۃ کی برکات سے استفادہ کرنا ہوگا جس کے چشمہء شفا پر عرصۂ دراز سے ہم نے اپنے ہاتھوں سے بھاری پتھر رکھ چھوڑا ہے۔

 

Covering Islam  ایران کے انقلاب کی خبرنگاری کے پس منظر میں ۱۹۸۱ء میں برطانیہ سے شائع ہوئی۔ بعد ازاں ایک تفصیلی مقدمے کے اضافے کے ساتھ اسے ۱۹۹۷ء میں شائع کیا گیا۔ مجموعی طور پر ان کی تصانیف کی تعداد ۱۲ ہے۔ اس کے مصنف ایڈورڈ ڈبلیو سعید فلسطینی النسل اور مسیحیت کے پیروکار ہیں۔ اُن کے مضامین تحقیقی مجلوں اور روزناموں میں باقاعدگی کے ساتھ شائع ہوتے ہیں۔ آج کل کولمبیا یونی ورسٹی میں‘ انگریزی اور تقابلی ادب کے پروفیسر ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے اُن کی آرا کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے‘ تاہم اسلام‘ عالم عرب اور ارض فلسطین کے بارے میں کلمۂ خیر کہنے کی وجہ سے امریکہ میں  قلم کاروں اور تجزیہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد انھیں متنازعہ شخصیت قرار دیتی ہے۔

فلسطین کے حوالے سے سعید کی متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ مغربی اور امریکی ذرائع ابلاغ کا تحقیقی اور ناقدانہ جائزہ مذکورہ کتاب کی خصوصیت ہے۔ اس کتاب کی مختصر تلخیص پیش کی جا رہی ہے۔ ۱۱ ستمبر کے بعد مغربی میڈیا کے رویے کے پس منظر میں اس کا مطالعہ دل چسپی کا باعث ہوگا۔


ایران میں امریکیوں کی یرغمالی سے خلیج کی جنگ اور عالمی تجارتی مرکز میں بم دھماکے تک‘ اور اب مغرب جس ہوّے کا شکار ہے اُس کا نام اسلام ہے۔ ذرائع ابلاغ‘ حکومتی ادارے‘ تعلیمی ماہرین اور فکرساز انجمنیں ایک ہی راگ الاپ رہی ہیں کہ اسلام دہشت گردی اور مذہبی مخبوط الحواسی (Hysteria)ہے‘  طرفہ تماشا یہ ہے کہ اسلامی ممالک کی جابرانہ حکومتیں‘ اپنی غیر نمایندہ حیثیت کا جواز فراہم کرنے کے لیے بھی ’اسلام‘ کا لیبل استعمال کرتی ہیں۔ ہم وہی کچھ دیکھتے ہیں جو ذرائع ابلاغ ہم کو دکھا رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ نے اسلام کے چہرے کو مسخ کرنے اور بدترین انداز میں پیش کرنے کی جو منصوبہ بندی کی ہے اس کتاب میں اُس کا سرسری جائزہ لیا گیا ہے۔

گذشتہ ۱۶ برس میں عراق‘ ایران‘ سوڈان‘ صومالیہ‘ افغانستان اور لیبیا میں ایسے حوادث پیش آئے‘ جن سے مسلم ممالک کے خلاف فضا بنتی چلی گئی۔ ۱۹۸۳ء میں بم دھماکے سے امریکہ کے ۲۴۰ فوجی لبنان میں ہلاک کر دیے گئے‘ ایک مسلم گروہ نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی۔ سوئٹزرلینڈ کے شہر لاکربی میں امریکن ایئرلائن کا طیارہ ۱۹۸۸ء میں تباہ کر دیا گیا اور اسلامی دہشت گرد اس کے مرتکب ٹھیرے‘ عالمی تجارتی مرکز ۱۹۹۳ء میں  حملہ کیا گیا اور اس کی منصوبہ بندی کا الزام نابینا شیخ عمر عبدالرحمن پر لگا دیا گیا‘ امام خمینی نے سلمان رشدی کو قتل کرنے والے کے لیے کروڑوں ڈالر انعام کا اعلان کر دیا۔ ۱۹۹۵ء میں اوکلاھاما شہر میں بم کا دھماکہ ہوا تو فوراً مسلم انتہاپسندوں کے بارے میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ چونکہ میں مسلمانوں کے بارے میں مضامین لکھتا ہوں‘ گمان کیا گیا کہ میں اوکلاھاما کے ملزموں کو ضرور جانتا ہوں۔ مارچ ۱۹۹۶ء میں امریکی صدر بل کلنٹن اور اسرائیلی وزیراعظم کی شرم الشیخ میں باضابطہ ملاقات ہوئی اور یہ اعلان کر دیا گیا کہ ہر دھماکے کے پیچھے حکومتِ ایران یا اسلام پسند ہوتے ہیں۔ ] ۱۱ ستمبر کے بم دھماکوں کے بعد یہ سہرا طالبان اور اُسامہ بن لادن کے سر بندھ رہا ہے۔[

میں عرصۂ دراز سے تعلیم و تدریس اور تجزیہ و تحقیق سے منسلک ہوں‘ میرا یہ خیال ہے کہ اسلام کے ایک ارب سے زائد پیروکار درجنوں ممالک ‘ زبانوں‘ تہذیبوں‘ معاشروں اور روایات میں بٹے ہوئے ہیں۔ کسی ایک واقعے یا چند واقعات کو مجموعی طور پر ’اسلام‘ کے حساب میں درج کر دینا نامعقول بات ہے۔ کیا دیگر مذاہب کے ساتھ بھی ہمارا یہی رویّہ ہوتا ہے؟ بنیاد پرستی کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ یہ اسلام کے برابر ہے اور ہمیں جس چیز کے خلاف بھی جنگ لڑنا ہے وہ بنیاد پرستی ہے۔ نیویارک ٹائمز نے ۲۱ جنوری ۱۹۹۶ء کو سرخی جمائی، ’’سرخ خطرہ ٹل گیا‘ لیکن اسلام کا خطرہ منڈلا رہا ہے‘‘۔

۱۹۹۱ء سے امریکن اکیڈمی براے آرٹس و سائنس‘ بنیاد پرستی پر اپنی تحقیقی رپورٹیں شائع کر رہی ہے۔  The New Republic  اور The Atlantic جیسے تحقیقی جریدے اسلام کے خلاف اور اسرائیل کے حق میں مسلسل آواز بلند کر رہے ہیں۔

اسلام کے خلاف جو تہذیبی جنگ لڑی جا رہی ہے اُس میں ایک نمایاں ذکر نام ور برطانوی مستشرق برنارڈ لیوس کا ہے جس نے اب امریکہ میں سکونت اختیار کر لی ہے۔ پالیسی سازی کے وقیع جریدوں میں اُس کے مضامین شائع ہوتے ہیں۔ اُس کی سوچ کا حاصل ہے کہ عالم اسلام مجموعی طور پر مغرب کی ترقی اور ’’جدیدیت‘‘ کا مخالف ہے۔ مسلمان چونکہ مغربی نہیں ہو سکتے‘ اس لیے اچھے بھی نہیں ہو سکتے۔ یہی خیالات اسرائیل نواز دانش وروں مثلاً ڈینیل پائپس ‘مارٹن کریمر‘ ولیم ہنٹنگٹن اور پیری ملر کے ہیں۔ ان حضرات نے اسلام اور مغرب کے درمیان اجنبیت اور مخاصمت کی چٹانیں کھڑی کی ہیں۔ پیری ملر کے بارے میں عرض کرتا چلوں کہ وہ مشرق وسطیٰ اور اسلامی دنیا کے امور پر ربع صدی سے مضامین لکھ رہی ہے اور اپنے آپ کو ’’سند‘‘ کہلوانا پسند کرتی ہے جب کہ عربی اور فارسی زبان کی ابجد سے بھی اُسے آگاہی نہیں ہے‘ اس سے یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ اصل بات علمی تحقیقی تجزیہ نہیں بلکہ مخاصمت اور رگوں میں دوڑتی ہوئی اسلام دشمنی ہے۔

اتنی شدت‘ قوت اور اصرار کے ساتھ کسی بھی دُوسرے مذہب کے بارے میں یہ بات نہیں کی گئی جو اسلام کے بارے میں کی گئی ہے کہ یہ مغربی تہذیب کا دشمن ہے۔ نیوزی لینڈ کے معروف پروفیسر جے بی کیلی کا خیال ہے کہ جب تک مسلمان علاقے مغرب کے زیرنگیں رہے‘ مغرب کو‘ اس کی روایات کو‘ اس کے روشن اور لبرل طرزعمل کو کوئی خطرہ لاحق نہ تھا۔ لیکن اب مسلمان ممالک کی آزادی سے ’ماڈرن ورلڈ‘ کو خطرہ لاحق ہے‘ اس لیے نوآبادکاری کی جو پالیسی چار سو برس پہلے اختیار کی گئی تھی اُس کی اب بھی ضرورت ہے۔ میں عرصہ دراز سے مسلم دنیا کے اہل حرف و دانش کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرا رہا ہوں کہ وہ اسلام اور اسلامی دنیا کے بارے میں مغربی اور امریکی دانش وروں اور قلم کاروں کی رائے سے سرسری نہ گزر جایا کریں۔ عالم عرب کی طرف سے تیل کی فراہمی معطل ہونے‘ امریکی سفارت خانے کے عملے کے ۴۴۴ دن یرغمال بننے اور خلیج میں جنگ چھڑنے کے موقع پر جو ’ابلاغی جنگ‘ لڑی گئی وہ کسی بھی نئے عنوان سے بھرپور طریقے سے امریکہ اور مغرب دوبارہ لڑ سکتا ہے۔ بلاشک و شبہ یہ جنگ بے حد موثر ہتھیار’ ذرائع ابلاغ ‘ہی سے لڑی جا سکتی ہے ]جس کا مظاہرہ آج کل اسامہ بن لادن کے نام سے ہو رہا ہے[۔

ذہن کس طرح تیار کیے جاتے ہیں‘ اس کی وضاحت اس مثال سے ہو جائے گی۔ کنسالیڈیٹڈ ایڈیسن آف نیویارک (کان ایڈ) نے نیویارک ٹیلی ویژن پر ایک اشتہار چلانا شروع کیا۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم ’اوپیک‘ کے سیکرٹری جنرل یمانی ‘ قذافی‘ عرب قبائیں پہنے اور سروں پر پگڑیاں رکھے بہت سے لوگ‘ جن کے چہرے دُور سے پہچانے نہ جاتے تھے‘ نہ ہی اُن کے نام تحریر تھے لیکن تھوڑی سی دقت کے بعد یہ سمجھنا آسان تھا کہ یہ عرب چہرے خمینی‘ عرفات‘ حافظ الاسد اور تیل پیدا کرنے والے اسلام کے پیروکاروں کے تھے۔ ان تصاویر کے پس منظر سے صرف یہ آواز سنائی دیتی تھی کہ ’’امریکہ کا تیل ان کے قبضے میں ہے‘‘۔ ان کی تصاویر اس طرح دکھائی جاتی تھیں کہ یہ ہیں وہ Villain جنھوں نے امریکیوں کو رنج‘ دکھ اور اُداسی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس مختصر اشتہار نے عربوں کے خلاف ایک فضا تیار کر دی کہ تیل کے ذخائر ان کے پاس رہنا‘ امریکہ کے لیے نقصان دہ ہے۔ اُس سے بھی زیادہ خوف ناک بات یہ تھی کہ تیل پیدا کرنے والے یہ ’اُجڈلوگ‘ اسلام کے پیروکار ہیں۔ ایران میں امام خمینی کے برپا کردہ انقلاب کے بعد مستشرقین نے ماضی کی علمی بحثوں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات پر اعتراضات کے بجائے مسلمانوں کی تنگ نظری‘ رجعت پسندی اور ماضی کی طرف سفر کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ۱۹۸۰ء تک دہشت گردی کا جامع اور کارگر لفظ دریافت ہو چکا تھا جب کہ بیسویں صدی کے آخری عشرے میں بنیاد پرست کی اصطلاح نے ماضی اور حال کی تمام ضروریات کو پورا کر دیا۔ میڈیا نے اس لفظ کو اس قدر اُچھالا کہ تمام حقائق پس منظر میں چلے گئے اور تمام دلائل دریا برد ہو گئے۔ مستشرقین نے جو سفر صدیوں میں طے کیا تھا‘ ذرائع ابلاغ نے‘ ٹی وی چینلوں نے‘ براہِ راست رپورٹوں نے‘ صحافیوں کے دوروں نے‘ تلاش حقیقت اسفار (fact finding travels)‘ اور مجالس دانش (think tanks) نے دس بیس برس میں وہ سفر طے کر لیا۔

اس حقیقت کو فراموش کر دیا گیا ہے کہ ایک ارب سے زائد مسلمان‘ سیکڑوں لسانی گروہوں اور درجنوں ممالک میں منقسم ہیں۔ اب صرف ایک ہی بات ببانگ دہل کہی جا رہی ہے کہ اہل اسلام کی دہشت گردی اور بنیاد پرستی امن عالم کے لیے خطرہ ہے‘ مسلمان کم از کم جہاد کے نام سے شہروں اور آبادیوں کو سبوتاژ کرنا چھوڑ دیں۔ ۲۶ جنوری ۱۹۹۱ء کو لاس اینجلس ٹائمز کی رپورٹر اور ’ماہر اسلام‘ روبن رائٹ نے تحریر کیا کہ امریکہ اورمغربی حکومتوں کے افسران ایک مشترکہ حکمت عملی طے کر رہے ہیں تاکہ ’اسلامی چیلنج‘ کا بھرپور مقابلہ کیا جا سکے۔ بش انتظامیہ کے ایک بڑے افسر نے کہا: ’’تیس چالیس سال پہلے ہم نے کمیونزم کا جس طرح مقابلہ کیا تھا‘ آج اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے اُس سے کہیں زیادہ مستعدی (smartness)کا مظاہرہ کرنا ہوگا‘‘۔

یورپ کے برعکس‘ امریکہ میں اسلام کے بارے میں غیر متعصب تحقیقی ریسرچ کرنے والے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تازہ ترین خبر کے عنصر نے پِتّا مار کام کی صلاحیت ختم کر دی ہے۔ ایک حادثے یا اقدام کی خبر آتی ہے اور خبر رساں ایجنسیاں اپنے ٹینکوں اور اسلحہ کے ساتھ اُمت مسلمہ پر چڑھ دوڑتی ہیں۔ اسرائیل ایک مذہبی ریاست ہے ‘ وہ مذہب کی بنا پر وجود میں آئی ہے‘ اس کے اندر مذہبی جنون کسی بھی دوسری قوم سے زیادہ ہے لیکن ذرائع ابلاغ کی بدولت‘ اسرائیل کے مذہبی خبط اور فلسطینیوں کے قتل عام کی خبریں‘ رنگ آمیزی کے ساتھ ہی ملتی ہیں۔ فلسطینی اگر قتل بھی ہوتے ہیں تو اُس کی خبر یوں شائع ہوتی ہے کہ شرپسند فلسطینیوں کا ہنگامہ‘ چار ہلاک ہوگئے۔

امریکہ کا میڈیا ‘ برطانوی اور فرانسیسی میڈیا سے مختلف ہے۔ اس کی وجہ مختلف معاشرے‘ مختلف قارئین و ناظرین ‘ مختلف ادارے اور مختلف مفادات ہیں۔ ہر امریکی رپورٹر کو یہ احساس رہتا ہے کہ میرا ملک دُنیا کی واحد عالم گیر قوت ہے اور ہمارے ملک کے جو مفادات ہیں وہ دوسرے ممالک کے نہیں ہیں‘ اور پریس کی آزادی ایک اچھی چیز ہے تاہم امریکی مفاد اُس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اُن صحافیوں کا تو تذکرہ چھوڑ دیجیے کہ جو امریکہ کے خفیہ تحقیقاتی ادارے سی آئی اے کے باضابطہ ملازم ہیں‘ دیگر صحافیوں کی غالب اکثریت بھی ایک طے شدہ فریم ورک پر یقین رکھتی ہے اور اُس کے خدوخال بہرحال واشنگٹن سے وضع کیے جاتے ہیں۔ جو بھی امریکی دیگر ممالک کے حالات کی رپورٹنگ کرتے ہیں اُس میں سے ’’ہم‘‘ کا عنصر کبھی بھی خارج نہیں ہوتا‘ اس سلسلے میں سیکڑوں افراد اور درجنوں رسائل و جرائد کا نام لیا جا سکتا ہے‘ یہ کوئی راز بھی نہیں۔

ایک برطانوی فلم ساز اینتھونی تھامس نے ’شہزادی کی موت‘ کے نام سے فلم بنائی جس میں دکھایا گیا کہ ایک برطانوی شہری‘ ایک سعودی شہزادی کے عشق میں مبتلا ہو گیا‘ بعدازاں وہ شہری غائب ہو گیا۔ ایک صحافی نے اس جوڑے کے بارے میں جاننے کے لیے فلسطین‘ لبنان اور سعودی عرب کا سفر کیا‘ سیکڑوں لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور باتوں ہی باتوں میں اُن سب سے یہ کہلوا لیا کہ وہ سب کس ظلم‘ زیادتی‘ جکڑبندی‘ حکومتی گرفت‘ خبررساں اداروں کی تفتیش کا شکار ہیں اور غیر انسانی زندگی گزار رہے ہیں۔ بلاشک وشبہ فلم کا مقصد بھی یہی تھا۔ حکومت سعودی عرب نے اس فلم پر پابندی لگانے کی بات اُٹھائی تو اخبارات و جرائد نے اور ٹیلی ویژن چینلوں نے ہفتوں تک اس فلم کو موضوع بحث بنائے رکھا اور اپنے عوام کو بہرطور یہ دکھایا کہ مسلم عوام جبرکی زندگی گزار رہے ہیں۔

اس کے پندرہ برس بعد ’امریکہ میں جہاد‘ کے نام سے ایک دستاویزی فلم ۱۹۹۵ء میں جاری کی گئی جس میں دکھایا گیا کہ اسلام کے نام پر دہشت گردی‘ قتل و غارت‘ لوٹ مار اور ہیبت و دہشت پھیلانے والے سیکڑوں درندے امریکہ میں پناہ گزیں ہو چکے ہیں۔ ضروری ہے کہ عوام اور حکومت مل کر اس عفریت کا سدّباب کریں۔ بعدازاں یہ معلوم ہوا کہ سی آئی اے کے دماغ ان فلموں کی تیاری اور مقبولیت میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

امریکہ کے ابلاغی و اطلاعاتی ادارے مسلم دنیا سے کیا سلوک کر رہے ہیں یا آیندہ کیا سلوک کر سکتے ہیں۔ اس کی بھرپور اور موثر ریہرسل وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کر چکے ہیں۔ ۴ نومبر ۱۹۷۹ء کو ایرانی طلبہ نے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کر لیا اور سفارت خانے کے عملے کو یرغمال بنا لیا۔ امریکن براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (ABC) کئی ماہ تک شام کا خصوصی بلیٹن ’امریکہ زیر حراست‘ کے نام سے نشر کرتا رہا۔ PBS کی طرف سے مسلسل تجزیے جاری کیے جاتے رہے۔ والٹر کرون کائیٹ روزانہ ایک پروگرام دیتا رہا‘ جس کا عنوان تھا: ’حراست کا کون سا دن‘۔ ابوالحسن بنی صدر‘ صادق قطب زادے‘ زیرحراست لوگوں کے والدین کے انٹرویو‘ ایران میں مظاہرے کی روزانہ رپورٹ‘ تاریخ اسلام پر تین منٹ کا پروگرام‘ معزول شاہ کا ہسپتال سے براہ راست مکالمہ‘ سوویت اقدامات‘ آیندہ کے امکانات جیسے درجنوں موضوعات مختلف مکاتب ہاے فکرکی نمایاں شخصیات کی آرا اور اُن کے تبصروں کو اس تسلسل کے ساتھ نشر کیا گیا کہ گویا امریکی سفارت خانے کے ۵۰ افراد کی اہمیت شاید ۵۰ ریاستوں سے بھی زائد ہے اور گستاخی کرنے والی اسلامی حکومت‘ ناقابل معافی۔

سینٹ لوئیس ڈسپیچ نے ۷ نومبر کو ایک مذاکرہ منعقد کیا جس کی بحث کا خاتمہ اس جملے پر ہوا‘ ’’اسلام، امریکہ کے مفادات کے لیے نقصان دہ اور اس کا دائمی دشمن ہے‘‘۔ وال سٹریٹ جرنل نے اداریہ میں لکھا: ’’یہ مغربی تہذیب کی ناکامی ہے کہ دُنیا کی غالب آبادی بشمول مسلمان‘ مہذب خیالات سے محروم ہیں‘‘۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کولمبیا یونی ورسٹی کے پروفیسر جے سی ہیوروز نے کہا کہ ’’مسلم (شیعہ) ہونے کا مطلب ہی امریکہ مخالف ہونا ہے‘‘۔

۶ جنوری ۱۹۸۰ء کو نیویارک ٹائمز نے لکھا: ’’جہاں کہیں بھی جنگ‘ قتل‘ تنازعہ‘ خوف ہوگا وہاں اسلام کا کردار ضرور ہوگا‘‘۔

جملۂ معترضہ کے طور پر عرض کروں گا کہ بہت سے اہم امریکی اور یورپی نامہ نگاروں کی سرتوڑ کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح ایک ’سٹوری‘ فائل کر دی جائے۔ جس علاقے میں اُن کو تعینات کیا گیا ہوتا ہے وہ اس کی زبان نہیں جانتے۔ اُس علاقے کی روایات اور تاریخ سے واقف نہیں ہوتے۔ بغیر کسی تربیت کے وہ ایران یا ترکی یا مصرکی رپورٹنگ شروع کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے پھر متضاد اور متصادم خبریں ہی موصول ہوتی ہیں جو اخبارات کے قارئین کی پیاس کو مصنوعی طور پر بجھاتی رہتی ہیں۔

اس کا میں ایک اور پہلو سے بھی جائزہ لینا چاہتا ہوں کہ آخر اسلام کے خلاف اتنی آوازیں بلند کیوں ہو رہی ہیں۔ اگرچہ میں امریکہ کا جائزہ پیش کر رہا ہوں لیکن یورپ کی کیفیت بھی اس کے قریب قریب ہے۔ امریکہ میں جتنے لوگ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرتے ہیں اُن میں سے ایک فی صد کا موضوع مشرق وسطیٰ ہوتا ہے۔ ایک ہی سال میں مشرق وسطیٰ گریجویٹ کورسز میں داخلہ لینے والوں کی تعداد ۶۴۰۰ اور انڈرگریجویٹ کورسز میں داخلہ لینے والوں کی تعداد ۲۲۳۰۰ رہی ہے۔ جو چیز مدتوں سے سکھائی جا رہی ہے اور پڑھائی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام قرونِ وسطیٰ سے تعلق رکھتا ہے‘ یہ تباہ کن ہے‘ اور اسلام ہمارے کلچر اور ماحول کا دشمن ہے۔

میں پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ مغرب میں جو کچھ کہا جا رہا ہے ’’اسلام‘‘ وہ نہیں ہے۔ جتنی معلومات بھی دی جا رہی ہیں وہ معلومات نہیں تشریحات ہیں۔ عربی زبان جانے بغیر آپ مراکش کے حالات کی اصل تصویر سے کس طرح آگاہ ہو سکتے ہیں اور اگر آگاہ ہو بھی جائیں تب بھی یقین سے یہ کہنا کہاں درست ہوگا کہ اہل مراکش کے جو خیالات ہیں وہی اسلام کا اصل منشا اور مقصود ہیں۔ واقعات کی نامہ نگاری کرنے والے کے ساتھ پیش آنے والے حادثات‘ اُس کی پسند ناپسند اور اُس کی کمزوریاں بھی تو مختلف منظر پیش کریں گی‘ لہٰذا ضروری ہے کہ اسلام کا علمی سطح پر مطالعہ کیا جائے۔ اسلامی ممالک کی نامہ نگاری‘ جذباتیت‘ تعصب‘ بند ذہن اور خودسری سے ہٹ کر کی جائے۔

اہل اسلام پر مسلسل اینٹیں برسا کر ردّعمل کو آپ شدید کر سکتے ہیں‘ ڈیڑھ ہزار سال کی خلیج کو پاٹ نہیں سکتے‘ صرف نئے دشمن پیدا کر سکتے ہیں۔

Covering Islam) ‘ ایڈورڈ سعید‘ ناشر: Vintage ‘ برطانیہ۔ صفحات: ۲۰۲۔ قیمت: ۹۹.۷ پائونڈ سٹرلنگ)

 

ترجمہ:  محمد ظہیر الدین بھٹی

عصرِحاضر میں ذرائع ابلاغ کی اہمیت‘ ضرورت اور افادیت سے انکار نہیں کیاجا سکتا۔ افغانستان پر ہونے والی امریکی جارحیت کو اگر الجزیرہ چینل نمایاں طور پر پیش نہ کرتا تو دنیا اس بھیانک تباہی سے آگاہ نہ ہو سکتی جو امریکہ نے برپا کی‘ نہ افغانوں کی ترجمانی ہی ہو سکتی۔ ایک عرب قاری نے ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے نام ایک کھلا خط لکھا ہے جس میں فلم سازی کے اسلامی ادارے کے قیام پر زور دیا ہے۔ دراصل اس کا خطاب احیاے اسلام کے لیے کام کرنے والی سب تحریکوں سے ہے۔ ہم ہفت روزہ  المجتمع کے شکریے کے ساتھ اس کا اردو ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)

آپ نے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں کہا ہے کہ آپ دو ادارے قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں: ۱- عالم اسلام کے نمایاں طلبہ کی قائدانہ تربیت کے لیے ادارہ --- یہ چند ماہ قبل‘ آپ کے دورئہ دبئی کے موقع پر عملاً قائم ہو چکا ہے۔ ۲-مسلم علما کا ایسا ادارہ جو تمام مسلمانوں کے لیے علمی مرجع ہو۔

وقت کا تقاضا ہے کہ ایک اور ادارہ قائم کیا جائے جس کی اُمت کو سخت ضرورت ہے‘ اوروہ ہے ’’فلم سازی کے لیے اسلامی ادارہ ‘‘۔ یہ ادارہ تمام بصری ابلاغیات کی تدوین و تشکیل کا ذمہ دار ہو‘ جیسے فلمیں‘سلسلہ وار ڈرامے‘ پروگرام‘ متحرک تصاویری فلمیں‘ باتصویر نغمے اور ویڈیو فلمیں وغیرہ۔

اس ادارے کے قیام کی اہمیت اس لیے ہے کہ اس میں جیتی جاگتی زندگی کی عکاسی کی جاتی ہے جس کا ناظرین پر فعال اور بھرپور اثر پڑتا ہے۔ سینما اور ٹیلی وژن کے فروغ کے بعد اخبارات اور مجلات کے اثرات نے ثانوی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ مصنوعی سیاروں کے ذریعے سیٹلائٹ چینلز نے اس پر سونے پہ سہاگے کا کام کیا ہے۔ ڈاکٹر اسماعیل الشطی نے کس قدر برمحل کہا ہے: ’’ابلاغیات محض اخبار یا رسالہ نکال لینے کا نام نہیں ہے۔ ابلاغیات تو ٹیلی وژن کا قسط وار ڈراما‘ فکری و ثقافتی پروگرام‘ اسلامی تھیٹر اور ڈرامے پیش کرنا ہے جن سے عوام کو سرور اور تفریح بھی ملے اور فکری و اخلاقی راہنمائی بھی‘‘۔

عالمی پروڈیوسر مصطفی العقادمسلم اقوام کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’آپ لوگ مجھے ایک جنگی طیارے کی رقم دیں تو میں اسلام کے بارے میں‘ آپ کو‘ پوری دنیا کی رائے تبدیل کر کے دوںگا‘‘۔ العقاد کی اس سے مراد فلم سازی ہے۔ انھوں نے عرب ممالک کے کئی ذمہ داروں سے مل کر اپنی خدمات ’’اسلامی ہالی وڈ‘‘ کے قیام کی خاطر پیش کی تھیں مگر کسی نے توجہ نہ دی۔ انسانی عقل کی تشکیل میں فلم سازی کے اہم کردار کے پیش نظر‘ عہدِحاضر کو فلم سازی کا دور کہا جاتا ہے۔ فلم کے اثرات معاشرے کے ثقافتی‘ اخلاقی‘ سماجی اور نفسیاتی پہلوئوں پر پڑتے ہیں۔ سابق سوویت یونین کا صدر خروشیف‘ امریکی میزائلوںسے اتنا نہیں ڈرتا تھا جتنا ہالی وڈ سے ڈرتا تھا۔

اس ادارے کے قیام میں پہلے قدم کے طور پر ‘ کسی معروف اسلامی شخصیت کی سرپرستی کی ضرورت ہے تاکہ اُمت اس ادارے پر اعتماد کر سکے۔ آں جناب (ڈاکٹر یوسف القرضاوی) اس کے موزوں سرپرست ہو سکتے ہیں۔ آپ اہل ثروت کو اس ادارے کے قیام میں‘ حصہ لینے پر آمادہ بھی کرسکتے ہیں۔

اس قسم کے ادارے کے لیے سب سے پہلے ایک مضبوط بنیادی زیریں ڈھانچہ کھڑا کرنا ہوتا ہے جس میں قابل و ماہر پروڈیوسروں‘ اداکاروں‘ کیمرہ مینوں اور کہانی لکھنے والوں کی ایک ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ شاید پوچھا جائے کہ ایسے ماہرین کہاں ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے لیے سچے عزم و ہمت کی ضرورت ہے۔ عالم اسلام اور دنیاے عرب میں زیریں ڈھانچہ پہلے سے ہی موجود ہے۔ فلم سازی کی صنعت اور پروڈکشن کے میدان میں کافی تجربہ بھی ہے۔ مجوزہ منصوبے پر کام شروع کرتے وقت ان تمام تجربات اور مہارتوں سے فائدہ اٹھانا ممکن ہے۔ اداکاری کے لیے ان ذمہ دار نوجوانوں کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں جو دوران تعلیم کامیاب ڈرامے کر کے اپنی قابلیت کا لوہا منوا چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اگر پیشہ ور سابقہ فن کاروں کو جو فلمی زندگی سے تائب ہو چکے ہیں--- اس ادارے میں کام پر آمادہ کیا جا سکتا ہے‘ جیسے حسن یوسف‘ محمد العربی وغیرہ تاکہ وہ باصلاحیت نوجوانوں کو اداکاری کی تربیت دیں۔ کافی مالی وسائل مہیا ہونے کے بعد متعلقہ ماہرین کی فراہمی مشکل نہ ہوگی۔ ادبی تخلیق کے لیے پیشہ ورکہانی نویسوں کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے تاکہ وہ اسلامی ادب کی عالمی تنظیم (رابطۃ الادب الاسلامی العالمیۃ) کی راہنمائی میں کہانیاں لکھیں۔ اس کے لیے عصری اور تاریخی واقعات کو سینمائی تشکیل دی جائے۔ مارکیٹ میں اس وافر لوازمہ سے ادبی تخلیق کے لیے استفادہ کیا جائے جو اسلامی تصورات کے منافی نہ ہو۔

مجھے اعتراف ہے کہ ان تیار کردہ فلموں اور ڈراموں کی مارکیٹنگ میں کئی رکاوٹیں ہوںگی مگر نئے اداروں کی پیش کش کو عوامی مقبولیت حاصل ہونے کے بعد یہ ساری رکاوٹیں دُور ہو جائیں گی۔ مختلف سیٹلائٹ چینلز کا وجود‘ مارکیٹنگ کے مسئلے کی شدت کم کر دے گا۔ بہت سے ایسے چینلز ہیں جو ایسے پروگراموں کو ترجیح دیتے ہیں جو بیک وقت سنجیدہ بھی ہوں اور تفریحی بھی۔

مجھے امید ہے کہ عالم اسلام میں اس وقت فلم کے شائقین ہی اس ادارے کی فلموں کے ناظرین بنیںگے‘ خصوصاً جب وہ دیکھیںگے کہ تائب اداکار کام کررہے ہیں۔ سنجیدگی اور اعلیٰ فنی ذوق کی موجودگی ان شائقین کو اس ادارے کی پروڈکشن دیکھنے پر آمادہ کرے گی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں‘ اردن یونی ورسٹی کے شریعت کالج کے ہال میں ’’الہجرۃ‘‘ ڈراما دیکھنے گیا جس میں کچھ ذمہ دار نوجوان کام کر رہے تھے۔ ان میں ابو راتب گلوکار بھی شامل تھا۔ داخلہ مفت نہ تھا مگر ہال کے گیٹ پر بہت زیادہ رش تھا۔ یہ ڈراما بہت مقبول تھا اور رش آخر تک جوں کا توں تھا۔

اس ادارے کے لیے مناسب مرکز کا انتخاب مشکل نہیں ہے۔ اس کے لیے موزوں ملک مصر ہے جہاںتائب فنکار موجود ہیں جو اس ادارے کی کامیابی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مجوزہ ادارہ مسلمانوں کے مختلف مسائل پر اسلامی تصور کے مطابق فلمیں بنائے‘ جن میں تفریح کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور فکری رہنمائی بھی ہو مگر اسلامی چھاپ نمایاں ہو۔ اس وقت عالمی سینما  زیادہ تر یہودی گرفت میں ہے۔ یہودی غلبے کے خاتمے کے لیے فلم سازی کو اسلامی رنگ میں ڈھالنا ہوگا مگر اس کے لیے وعظ اور براہ راست تعلیمی طریقے سے بچنا ہوگا تاکہ ناظرین اُکتا نہ جائیں۔ ایسے موضوعات سے بھی اجتناب کرنا ہوگا جن سے مسلمانوں میں اختلافات اُبھریں یا حکومتوں سے تصادم ہو بلکہ سیاست سے بھی دُور رہنا ہوگا تاکہ یہ ادارہ اپنی بقا اور تسلسل کی حفاظت کر سکے۔

اس ادارے کی تشکیل میں ایک اہم عنصر مال ہے۔ اس مقصد کے لیے کسی بھی تجارتی کمپنی کے حصص کے طریقے پر مال جمع کیا جائے۔ ’’اسلامی بنک‘‘ کا نظریہ کامیاب رہا ہے اور دنیا کے کئی ممالک میں یہ بنک قائم ہیں۔اسی طرح فلم سازی کا یہ ادارہ بھی کامیاب ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ مسلمان پہلے سے زیادہ فلم کی اہمیت محسوس کریںگے۔

حالیہ ایرانی فلموںنے عالمی سینما میں نہایت اہم مقام پا لیا ہے۔ اس نے عالمی میلوں میں متعدد انعامات جیتے ہیں۔ حالانکہ وہ جنس اور تشدد سے مکمل طور پر پاک ہے‘ جب کہ یہ دونوں چیزیں امریکی سینما کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ امید ہے کہ مجوزہ ادارہ عالمی سینما کے مقابلے میں جلد موزوںمقام حاصل کرلے گا۔

اس خط کا مخاطب آپ کو بنانے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ پیش کردہ امور میں ایک فقیہہ کی سخت ضرورت ہوگی تاکہ وہ شرعی رہنمائی کر سکے۔ آپ یہ فریضہ بہتر طور پر سرانجام دے سکتے ہیں۔

فلم ناظرین کی عقل کی تشکیل و راہنمائی کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے۔ دنیا پر اثرانداز ہونے میں ہالی وڈ‘ وہائٹ ہائوس سے ذرا بھی کم نہیں۔ اگر وہائٹ ہائوس سیاسی اور عسکری راہنمائی کرتا ہے تو ہالی وڈ اخلاقی‘ سماجی‘ ثقافتی بلکہ سیاسی راہبری بھی کرتا ہے۔

ہم مسلمان جو دنیا کی سب سے بڑی تہذیب کے خالق ہیں‘ کیا ہم اپنے گھروں میں‘ ذہنی غسل دینے والی فلموں اور ڈراموں کی خوف ناک یلغار کا مقابلہ کرنے اور ان کا متبادل پیش کرنے سے قاصرہیں؟

 

تیرھویں صدی عیسوی میں ‘ عرب مسلمان تاجروں کے ذریعے جزائر شرق الہند ]انڈونیشیا[ میں اسلام کی روشنی پہنچی۔ گذشتہ ۲۰۰ برس کے دوران مغربی استعمار میں سب سے پہلے پرتگالی ‘ ان کے بعد ہسپانوی اور آخر میں ولندیزی فوجوں نے انڈونیشیا کے جزائر پر قبضہ جمایا۔ ولندیزیوں نے یہاں کے کلچر کو مغربی اور عیسائی رنگ میں رنگنے کے لیے فوج اور پادریوں سے مدد لی۔ ۳ہزار سے زیادہ جزائر پر مشتمل‘ دنیا کا یہ سب سے بڑا مسلم ملک ۱۹۴۹ء میں آزاد ہوا۔

پوری مسلم دنیا میں ‘ انڈونیشیا ایک ایسا خطہ ہے ‘ جہاں پر مسلمان عورتوں میں دینی تبلیغ اور دینی تعلیم کا ایک بڑا وسیع اور مربوط نظام قائم ہے۔ اس نظام میں ’’مبلغہ‘‘ کا رول نہ صرف ایک دینی معلمہ کا سا ہے ‘ بلکہ وہ معاشرے کے باہمی تعلقات کی مضبوطی میں بھی ایک اہم عنصر ہے۔ دینی مبلغہ اسلام کا پیغام عام کرنے کے ساتھ معاشی‘ خانگی‘ طبی‘ سیاسی اور سماجی پہلوئوں پر بھی اپنی سامع خواتین کو رہنمائی دیتی ہے۔

انڈونیشیا میں دو طرح کے تعلیمی ادارے ہیں: ایک کو پینرنتران (pesantran)کہتے ہیں جہاں عام طور پر وہی تعلیم دی جاتی ہے‘ جیسی ہمارے ہاں عام اسکولوں میں رائج ہے‘ تاہم اس کے ساتھ بچے بچیوں کے لیے دینی تعلیم کا بھی خصوصی طور پر انتظام کیا جاتا ہے۔ دوسرے تعلیمی ادارے ’’مدارس‘‘ کہلاتے ہیں۔ یہ ہمارے دینی مدارس سے ملتے جلتے ہیں‘ مگر اپنے نصاب اور نظام کار میں ان سے زیادہ جدید ہیں۔ اس نظام میں خواتین ’’مبلغات‘‘ کا کردار بڑا منفرد ہے۔

انڈونیشی مسلم ’’مبلغات‘‘ کی دو قسمیں ہیں: پہلی کسی دینی معلم ’’کیائے‘‘ (kyai) کی بیوی ’’نیائے‘‘ (nyai) کہلاتی ہے‘ اور دوسری کو ’’استاذہ‘‘ کہتے ہیں۔ استاذہ دراصل معلمۂ قرآن ہوتی ہے۔ ’’نیائے معلمہ‘‘ اپنے شوہر یا والد کے سماجی اثرات کے پھیلائو کی بنیاد پر دینی تعلیم کا کام شروع کرتی ہے۔ اس کی مقبولیت میں بڑا حصہ اس کے شوہر کی معلمانہ قابلیت اور سماجی قبولیت کا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس  ’’استاذہ‘‘ خانگی دائرہ اثر سے بالا محض اپنی صلاحیت اور محنت کے بل پر دینی تعلیم پھیلاتی ہے۔

’’استاذہ‘‘ بچوں کو قرآن پڑھنا سکھاتی ہے ‘اور دین کے بنیادی موضوعات پر تعلیم دیتی ہے۔ اس کی کامیابی اور مقبولیت کا راز اس کی تقریری صلاحیت اور ’’مجلس تعلیم‘‘ کو منظم کرنے کی مہارت پر منحصر ہوتا ہے۔ ایسی مقبول اساتذہ میں سے بعض کو اپنے خانگی پس منظر کے باعث کام کی سہولت حاصل ہوتی ہے‘ لیکن بیش تر خاتون اساتذہ‘ اپنی بے پناہ محنت‘ لگن اور علمی قابلیت کے بل پر معاشرے میں توجہ اور احترام کا مقام حاصل کرتی ہیں۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ان مبلغات میں ایک قابل ذکر تعداد نومسلم خواتین کی ہے۔ نومسلم مبلغات میں اکثریت کا تعلق چینی نسل سے ہے۔ نومسلم مبلغات کی شہرت اور خواتین میں مقبولیت کا ایک سبب ان کا نومسلم ہونا بھی ہوتا ہے کہ: ’’انھوں نے سچے دل سے اسلام قبول کیا ہے اور اب دین اسلام کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے ہوئے ہیں‘‘۔

صدر سہارتو کے زمانے میں ان دینی مبلغات کی سرگرمیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا‘ کیونکہ حکومت کا خیال تھا کہ ’’مبلغہ خواتین کی تعلیم‘ تربیت‘ تہذیب اور ترقی کے لیے رضاکارانہ طور پر جو خدمت انجام دیتی ہے‘ وہ سرکاری اداروں اور ذرائع ابلاغ سے بھی ممکن نہیں‘‘۔ انڈونیشیا کی جدید تاریخ پر نظر رکھنے والے ماہرین کی رائے ہے کہ بہت سی مبلغات نے واقعتا اپنے اثرانگیز اسلوب بیان کے ذریعے خواتین کی نہ صرف تعلیمی ترقی کا گراں قدر کام کیا‘ بلکہ ان پر کسی بھی سیاسی یا مذہبی رہنما سے زیادہ گہرے اثرات مرتب کیے۔

انڈونیشیا میں اسلام کی دعوت‘ تبلیغ‘ تنظیم اور اجتماعی جدوجہد کرنے والی دو بڑی تحریکیں محمدیہ اور نہضۃ العلما کے نام سے معروف ہیں۔ ان میں محمدیہ کو ’’جدیدیت کی علم بردار‘‘ (modernist) اور نہضۃ کو ’’روایتی‘‘ (traditional)دھارے میں شمار کیا جاتا ہے۔ دونوں نے خواتین اور طالبات میں کام کے لیے علیحدہ تنظیمیں قائم کی ہیں۔ نہضہ کی طالبات کی تنظیم  فتایۃ اور خواتین کی مسلمات ہے۔ اسی طرح ’’محمدیہ‘‘ کی طالبات کے لیے نصیحۃ اور خواتین کے لییعائشیۃ ہے۔

فتایۃ اور نصیحۃ‘ طالبات کی حد تک‘ دینی تعلیم‘ دنیاوی تعلیم اور سماجی بہبود کے کاموں میں فعال حصہ لیتی ہیں۔ خواتین کی تنظیمات مسلمات اور عائشیۃ کی سب سے بڑی سرگرمی پینگاژن (یعنی درس قرآن) اور مجلس تعلیم کا باقاعدگی سے انعقاد ہے۔ ان تنظیموں کی ترجیح اول یہ ہے کہ ان سے وابستہ خواتین‘ درس کی مجلسوں میں لازماً شرکت کریں‘ تاہم وہ عام خواتین کو بھی شرکت کے لیے باقاعدہ دعوت دیتی ہیں۔

ان مجلسوں کے نتیجے میں کئی اساتذہ‘ مقبول معلمات بن جاتی ہیں۔ بہت سی ’’نیائے‘‘ معلمات اور اساتذہ مذکورہ بالا تنظیموں سے تعلق رکھتی ہیں ‘ لیکن اس کے باوجود روایتی اور جدید دھارے سے متاثر ایک بڑی تعداد ایسی ’’نیائے معلمات‘‘ اور اساتذہ خواتین کی ہے‘ جو آزادانہ طور پر اپنا تدریسی و تعلیمی نظام کار منظم کرتی ہیں۔ ایسی مبلغات شہر کی پسماندہ ترین آبادیوں اور دُور دراز علاقوں میں اپنے کام کا آغاز کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ البتہ کچھ تدریسی حلقے شہر کی خوش حال آبادیوں میں بھی قائم کرتے ہیں۔ ان مبلغات کی درسی اور تبلیغی مصروفیات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے ‘ کہ ایک مبلغہ ہفتے کا پہلا روز گھریلو خواتین میں‘ دوسرا روز طالبات میں‘ تیسرا روز پڑھی لکھی خواتین کی محفل میں‘ چوتھا روز مختلف دفاتر میں ملازمت سے وابستہ خواتین میں درس دینے کے لیے مخصوص کرتی ہے۔ باقی دنوں میں بعض اوقات خوشی اور غمی کی مجلسوں میں شرکت کرتی ہے۔

ان درسی مجلسوں میں شرکت کرنے والی خواتین ایک بڑے کمرے میں نشست منعقد کرتی ہیں‘ جہاں پر ایمان و تقویٰ اور معاشی ‘ سماجی اور تعلیمی موضوعات پر درس کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اگرچہ مختلف عمروں اور مختلف سماجی و معاشی طبقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین ان درسوں میں شریک ہوتی ہیں‘ لیکن یہ سماجی اونچ نیچ ان کے باہم گھل مل جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں پیدا کرتی۔

خواتین کی مجلس تعلیم کا حال:  ایک غیر مسلم اسکالر خاتون لیزایم مارکوس نے انڈونیشی مسلم خواتین میں اس دینی سرگرمی کا جائزہ لینے کے لیے تحقیق کے دوران ایک ’’مجلس تعلیم‘‘ کا آنکھوں دیکھا حال لکھا‘ جو یہاں پیش کیا جا رہا ہے:

یہ صبح چھ بجے کا وقت ہے۔ شہر کے مضافات میں چاول کے کھیتوں کے بیچوں بیچ خواتین کا ایک گروپ آ رہا ہے۔ ان میں کچھ ادھیڑ عمر کی ‘ بعض نوجوان اور بقیہ درمیانی عمر کی عورتیں ہیں۔ زیادہ تر نے انڈونیشیا کا روایتی لباس پہن رکھا ہے ۔ کچھ نے پتلونیں پہنی ہوئی ہیں‘ لیکن اُوپرایسا ڈھیلا ڈھالا کرتا ہے جو گھٹنوں سے نیچے تک چلا گیا ہے۔ تمام عورتوں نے سر پر اسکارف اس طرح باندھ رکھا ہے کہ ان کے سر کا ایک بال بھی دکھائی نہیں دے رہا‘ جب کہ دوسرا اسکارف چادر کی طرح اپنے ارد گرد لپیٹ رکھا ہے۔ کچھ عورتوں نے سر پر اسکارف کے بجائے ٹوپیاں پہنی ہوئی ہیں۔ بعض نوجوان عورتوں نے اپنے کم سن بچوں کو بھی اٹھایا ہوا ہے۔ یہ سب عورتیں ’’مجلس تعلیم‘‘ میں شرکت کے لیے اجتماع گاہ آ رہی ہیں۔

اجتماع گاہ پہنچنے سے پہلے ہی ذرا بلند آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں۔ یہ آوازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کی ہیں۔ البتہ ان میں سب سے نمایاں ترین آواز نعت پڑھنے والی خاتون کی ہے۔ یہ وہ خواتین ہیں جو قدرے پہلے اجتماع گاہ میں پہنچ چکی ہیں۔ ایسی اجتماع گاہوں کے مختلف نام بھی ہوتے ہیں۔ اس اجتماع گاہ کا نام ’’نورالاحیا‘‘ ہے۔ یہاں پہنچنے والی تمام ہی عورتیں ایک دوسرے کو خوش اخلاقی سے سلام کہتی اور خیریت دریافت کرتی ہیں۔ البتہ نوجوان عورتیں‘ بڑی عمر کی خواتین کی تعظیم کرنے کے لیے ان ہاتھوں کی پشت کو بوسہ دیتیں اور دعائیں لیتی ہیں۔ اب ہال کھچا کھچ بھر چکا ہے۔ ایک عورت نعت پڑھ رہی ہے‘ تاہم کچھ عورتیں درود شریف پڑھ رہی ہیں‘ اور باقی عورتوں کو آپس میں گفتگو کرنے کا ایک اچھا موقع ملا ہے جس سے وہ استفادہ کر رہی ہیں۔

اسی دوران سفید لباس زیب تن کیے ہوئے ایک ’’کیائے‘‘ (دینی معلم‘ شوہر) اور ’’نیائے‘‘ (اس کی معلمہ بیوی) ہال میںداخل ہوتے ہیں‘ اور سب کو ’’السلام علیکم‘‘ کہہ کر ایک چوڑے بنچ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں قرآن اور عربی کی کتب ہیں۔ بغیر کسی تاخیر کے نیائے ]معلمہ[ سورۃ فاتحہ پڑھتی ہے‘ اور اس کے ساتھ تمام عورتیں کورس کی صورت میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت کرتی ہیں۔یہ سلسلہ صرف ایک بار پڑھنے سے رک نہیں جاتا بلکہ ’’نیائے‘‘ ]معلمہ[ کی رہنمائی میں وہ ۱۰ بار‘ سورہ فاتحہ پڑھتی ہیں ‘ ہر بار سورۃ مکمل کرنے کے بعد خدا کے حضور بخشش اور سلامتی کے لیے کسی ایک فرد کے لیے ایک جملے میں دعا کرتی ہیں‘ مثلاً حضرت آدم ؑ، حضرت ابراہیم ؑ، حضرت محمدؐ، حضرت خدیجہؓ، حضرت ابوبکر صدیق ؓ،حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز اور آخر میں خود مجلس تعلیم کی شرکا کے لیے دعا کرتی ہیں۔ جب فاتحہ کے ساتھ یہ دعائیہ عمل ختم ہوتا ہے تو ’’نیائے‘‘ ]معلمہ[ اپنے شوہر ’’کیائے ‘‘]معلم[ سے کہتی ہیں‘ وہ گذشتہ درس کا خلاصہ بیان کرے۔ جس کے بعد کیائے ]معلم[ قرآنی تفسیرجلالین سے عربی متن کی ایک ایک لائن پڑھتا ہے جس کا انڈونیشی میں ترجمہ اس کی بیوی‘ نیائے ]معلمہ[کرتی جاتی ہے۔ جونہی متن کا ترجمہ ختم ہوتا ہے تو پھر نیائے ]معلمہ[ اپنی علمی صلاحیت کی بنیاد پر اس متن کا موجودہ دینی‘ اخلاقی‘ سیاسی‘ ذہنی اور سماجی نوعیت کے روز مرہ مسائل سے تعلق جوڑتی ہے اور یہ عمل بڑا پرُتاثیر ہوتا ہے۔ ’’کیائے‘‘ ]معلم[ اگرچہ پورے درس میں زیادہ تر خاموش رہتا ہے‘ لیکن اپنی فاضل اہلیہ کے ساتھ اس کی موجودگی اس اعتبار سے اہم تصور کی جاتی ہے کہ وہ کسی دینی یا فقہی اُلجھن کو حل کرنے کے لیے اپنے فہم کے ساتھ‘ سامعین کو بروقت رہنمائی دے سکتا ہے۔

جب اس درس کے پہلے حصے کا اختتام ہوتا ہے تو ایک عورت پلاسٹک بیگ‘ اور دوسری لکڑی کا چھوٹا باکس اٹھا کر تمام عورتوںکے قریب سے گزرتی ہے۔ کم و بیش تمام ہی عورتیں اپنے پرس سے کچھ سکّے یا نوٹ نکال کر ان میں ڈالتی ہیں۔ پلاسٹک کا بیگ ان دونوں معلموں کے لیے اور لکڑی کا باکس اس اجتماع گاہ کی تعمیر و ترقی کے لیے ہوتا ہے۔ اس کے بعد درس کا دوسرا دَور شروع ہوتا ہے۔ اس مرتبہ پھر ’’کیائے‘‘ ]معلم[ امام غزالیؒ کی احیاء العلوم سے متن پڑھتا ہے اور ’’نیائے‘‘ ]معلمہ[ اس کا ترجمہ کر کے‘ مفصل تشریح کرتی ہے۔ اس تشریح کو بھی وہ موجودہ حالات سے جوڑتی ہے۔ تقریباً ساڑھے سات بجے یہ ’’مجلس تعلیم‘‘ اختتام کو پہنچتی ہے۔ جس کے بعد بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ سبھی کے لیے بخشش اور مغفرت کی دعا کی جاتی ہے۔ اس کے بعد عورتیں اُمڈ کر آتی ہیں اور نیائے ]معلمہ[ کے ہاتھوں کو بوسہ دیتی ہیں اور کیائے ]معلم[ کا شکریہ ادا کر کے ہال سے باہر نکلنا شروع کرتی ہیں۔

یہ ایک مضافاتی علاقے کی مجلس تعلیم کا حال ہے‘ جب کہ ۱۹۹۰ء میں انڈونیشیا کے صرف ایک جزیرے بوگر(Bogor) میں خواتین کے درس قرآن یا مجلس تعلیم کے ۱۹ ہزار ۸ سو ۵۱ حلقے تھے‘ جن میں اب تک کم از کم ۲۰‘۲۵ فی صد ضرور اضافہ ہوا ہوگا۔

مختلف سطحوں پر مجلس تعلیم یا درس قرآن کے ایسے سلسلے چل رہے ہیں‘ مثلاً ’’کام باپا‘‘ مردوں کے لیے‘ ’’پینگوژن ریماجا‘‘ نوجوانوں کے لیے ‘ ’’پینگوژن گابنگن‘‘ مخلوط مجلس کے لیے اور ’’پینگاژن‘‘ صرف عورتوں کے لیے ہیں۔ ان درسی سرگرمیوں کے نقطہ ء آغاز کا تعین ذرا مشکل ہے‘ تاہم یہی خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز روایتی دھارے کی تنظیم نہضۃ نے نہیں بلکہ جدید دھارے کی محمدیہ نے کیا تھا۔ کیونکہ وہ روایتی طرزعمل سے ہٹ کر کام کرنے والی تنظیم قرار دی جاتی ہے۔ محمدیہ ۱۹۱۲ء میں قائم ہوئی اور اس نے ۱۹۱۷ء میں عائشیۃ تشکیل دی۔ اس تنظیم نے مسلمان عورتوں میں دینی‘ تعلیمی‘ تربیتی اور اصلاحی امور کو اولیت دیتے ہوئے ۱۹۲۲ء میں پہلی ’’مسجد براے خواتین‘‘ (ضلع کائومن‘ یوگی آکارتا) میں قائم کی۔ یہ مسجد خواتین کو نماز اور عبادت کی سہولت فراہم کرنے کے ساتھ خواتین کی عمومی دینی تعلیم کا مرکز بھی قرار دی گئی۔ اس کا مکمل انتظام و انصرام عائشیۃ کی دو خواتین کے ہاتھ میں تھا۔ خواتین کی دوسری مسجد ۱۹۲۶ء میں ’’مسجد اسطری‘‘ (گورٹ‘ جنوبی جاوا) میں قائم کی گئی۔ اس طرح  محمدیہ نے عورتوں میں دینی تعلیم اور عبادت کے لیے علیحدہ مساجد قائم کرنے کی روایت متعارف کرائی۔

گھریلو خواتین کے درس یا مجلس تعلیم کے پروگرام زیادہ تر ان اوقات میں ہوتے ہیں جب انھیں گھر کے کاموں سے کچھ فرصت میسر ہوتی ہے‘ تاہم طالبات اور ملازمت پیشہ عورتوں کے لیے مغرب اور عشاء کے درمیان پروگرام کیے جاتے ہیں۔ مختلف اعداد و شمار کے مطابق جدید تعلیم یافتہ خواتین یا زیرتعلیم طالبات کی مقابلتاً بڑی تعداد ان پروگراموں میں شرکت کرتی ہے۔یہ پروگرام ۱۵روزہ یا ترجیحاً ہفت روزہ ہی کیے جاتے ہیں تاکہ دینی معلومات کی فراہمی کا تسلسل قائم رہے۔

خواتین کے پروگراموں میں آیات قرآنی اور ان کے ترجمے کو بار بار دہرانے پر زور دیا جاتا ہے‘ تاکہ آیات ‘ ان کا مفہوم اور ان میں پوشیدہ پیغام کی تاثیرشرکا کے ذہن نشین ہو جائے۔ اگرچہ اکثر درسی مجالس کسی موضوع یا موقع کے حوالے سے منسوب کی جاتی ہیں‘ لیکن ان مواقع پر خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے‘ مثلاً جشن نزول قرآن‘ استقبال رمضان‘ لیلۃ القدر‘ میلادالنبی‘ رجبان ‘ وغیرہ۔ دینی مدارس یا مستحق لوگوں کی مدد کے لیے ’’ایک گلاس چاول‘‘ جیسے سلسلے بھی ساتھ ہی ساتھ چلتے ہیں‘ تاکہ عام فرد کو بوجھ کا احساس بھی نہ ہو اور رضاکارانہ طور پر بڑے پیمانے پر خوراک جمع کر لی جائے۔ یہ مسئلہ صرف خوراک کی اشیا تک محدود نہیں بلکہ بہت سی عورتیں بہ یک مشت رقم دینے کے بجائے قسطوں میں عطیہ دے کر دینی تعلیم کے نظام کو ایک مستحکم معاشی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ خواتین کا یہ ایثاراور شوق اس درجے بڑھا ہوا ہے کہ مردوں اور نوجوانوں کے دینی سلسلہ ہاے درس کے بہت سے اخراجات انھی کے ذریعے پورے ہوتے ہیں‘ بلکہ بعض مدرسے یا مساجد تو صرف ایک ایک مبلغہ کی محنت سے جمع شدہ وسائل سے قائم ہوئی ہیں۔

دینی معلمات اس پہلو پر خصوصی توجہ دیتی ہیں کہ وہ جس علاقے یا جس طبقے میں خطاب کریں‘ ان کی اپنی زبان اور انھی کے محاورے میں کلام کریں تاکہ سامعین اپنائیت محسوس کریں۔ ان مجلسوں میں بعض  عورتیں روایتی طور پر بوتلوںمیں صاف پانی بھر لاتی ہیںکہ حاضرین کی دعا سے یہ پانی شفا کا باعث بن سکتا ہے۔ اس سے فائدہ ہوتا ہے یا نہیں‘ لیکن پانی بھری بوتلوں پر دم اور دعا کی مشق روز افزوں ہے کہ یہ پانی کے پینے سے شوہر توجہ دینے لگ جائے ‘ بچے پڑھائی میں دلچسپی لیں‘ بچوں کو نماز سے تعلق ہو جائے‘ زچگی کا زمانہ سہل رہے‘ کاروبار اور قرض کی الجھنیں دُور ہو جائیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ دینی معلمات اور مبلغات ‘ اپنی حاضرین کو توجہ دلاتی ہیں کہ: ’’اس محفل کو فرشتوں کا سایہ‘ خدا کی رحمت اور رسولؐ خدا کی خوشنودی حاصل ہے۔ آپ اپنی ان بہنوں کے لیے صراط مستقیم کی دعا کریں جو اس وقت ڈسکو ڈانس کلبوں‘ جمناسٹک کے اداروں‘ سینما ہالوں اور بازاروں‘ کلبوں میں اپنا حال اور اُخروی مستقبل خراب کر رہی ہیں‘‘۔ ان کلمات سے کلاس میں شریک عورتیں ایک خاص قسم کی قلبی طمانیت حاصل کرتی ہیں۔

انڈونیشی معاشرے میں معلمہ‘ مبلغہ یا استاذہ کا کردار مرکزیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ معلمہ اپنے شوہر کے ہمراہ دینی خدمت انجام دیتی ہیں۔ استاذہ آزادانہ طور پر خود اس میدان میں پیش رفت کرتی ہیں،  ’’نیائے‘‘ اور ’’استاذہ‘‘ کو معاشرے کا وہ طبقہ قرار دیا جاتا ہے جو خواتین میں تعلیم و تربیت کے ذریعے توازن پیدا کرتا ہے۔ ایک مبلغہ اس امر کا خصوصی اہتمام کرتی ہے کہ وہ بہترین عربی اور شان دار انگریزی بول سکے۔ اس مقصد کے لیے ریفریشر کورسز اور سمعی و بصری اعانات سے بھی استفادہ کرتی ہیں۔ ان کا شوق اور منصبی ذمہ داریاں انھیں محنت کے لیے اُبھارتی ہیں۔ بلاشبہ ان کی تعلیمی قابلیت اور تعلیمی اسناد بھی انھیں وقار دیتی ہیں۔ لیکن مشاہدہ ہے کہ یہ چیز ثانوی ہے۔ اصل چیزیں دوسری ہیں جو انھیں مقبولیت اور اثرانگیزی کا جوہر عطا کرتی ہیں ‘ وہ یہ ہیں:

    ۱- دین کا علم (چاہے اس کے لیے کوئی اعلیٰ درجے کی سند لی گئی ہے یا نہیں)

    ۲- اپنی تقریر میں قرآن کی آیات کا برمحل حوالہ دینا اور احادیث نبویؐ سے استدلال کرنا ۔

    ۳- سماجی زندگی اور سماجی مسائل سے واقفیت کا ثبوت دینا (یہ چیز ان کی تقریروں سے خود بخود ظاہر ہو جاتی ہے کہ وہ حالات حاضرہ اور قومی یا مقامی زندگی سے کس قدر واقف ہیں۔ اس کے لیے وہ جدید اخبارات و رسائل کا مطالعہ کرتی ہیں)۔

    ۴- گفتگو میں عربی اور انگریزی زبان میں مختلف تحریروں سے استفادے کا اظہار۔

    ۵- تقریر کے دوران کسی لطیفے اور ہلکی پھلکی بات سے سامعات کو اچانک ہنسا کر ماحول کو بوجھل بننے سے محفوظ رکھ سکیں اور تقریر سنتے سنتے عورتیں اچانک کھل کھلا کر ہنسنے پر مجبور ہو جائیں۔

پانچویں چیز کو چاروں خصوصیات کے ساتھ ایک اہم مقام حاصل ہے۔

بہت سی مقبول مبلغات کی تقریروں کے کیسٹ‘ بڑے بڑے پاپ میوزک سنٹروں پر دستیاب ہیں اور ان کی مانگ میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان مبلغات کا تعلق محمدیہ‘ نہضۃ اور آزاد حلقوں سے ہے۔ طریق کار اور اسلوب بیان ایک جیسا ہے۔ ان کی تقریروں کے مرکزی موضوعات میں: عبادت‘ تقویٰ‘ عورت کا مقام‘ سماجی بہبود اور سماجی انصاف شامل ہیں۔ خواتین میں ان مبلغات کی شہرت اور مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جس پر مغربی حلقے اور خاص طور پر عیسائی مشنری سخت پریشان ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عورتوں میں دین سے وابستگی کا یہ سلسلہ اُن ]مشنریوں[کے بہت سے منصوبوں پر پانی پھیر رہا ہے۔ اگرچہ مبلغات میں ایک طاقت ور غیر روایتی یا جدید لہر بھی کام کر رہی ہے‘ تاہم اپنی تمام تر جدیدیت کے باوجودیہ ویسی ’’جدید‘‘ بن نہیں سکتی کہ دین کے مصالح اور اہداف کی تعبیر کو اُلٹ پلٹ کر رکھ دے‘ بلکہ تجزیہ یہی بتاتا ہے کہ گاہے آزاد روی کا جذبہ رکھنے کے باوجود یہ معلمات جب قرآن کھول کر درس دیتی ہیں تو پھر ان میں اور روایتی طرزفکر رکھنے والی دینی معلمات میں کوئی خاص فرق رہ نہیں جاتا۔ خواتین میں دینی تعلیم‘ تبلیغ اور تربیت کا مسلم دنیا کا یہ غالباً سب سے موثر اور وسیع ادارہ ہے (ماخوذ :

The Muballighah: Religion in Indonesia by Lies M. Marcose  ‘ مجلہ Dossiers شمارہ ۷‘۸‘ پیرس)۔

 

بیوی کی کمائی میں شوہر کا حق

سوال: میں اور میرے شوہر دونوں ملازمت کرتے ہیں۔ میرے شوہر مجھ سے ایک ایک پیسے کا حساب لیتے ہیں۔ میں اپنی مرضی سے کچھ خرچ نہیں کر سکتی‘ نہ اپنے اوپر‘ نہ اپنے بچوں پر۔قرآن پاک میں جہاں ماں باپ کے حقوق کا ذکر ہے اس کے مطابق کیا مرد اور عورت دونوں پر فرض نہیں ہے کہ اپنے ماں باپ کی خدمت کریں؟ اگر ایسا ہے تو کیا ہمارا معاشرہ عورت کو اجازت دیتا ہے کہ وہ شادی کے بعد اپنے ماں باپ کی خدمت کر سکے یا بہ وقت ضرورت ان پر خرچ کر سکے‘ یا پھر ان کی خدمت کی غرض سے انھیں اپنے گھر میں رکھ سکے؟ میں ایک ملازمت پیشہ خاتون ہونے کے باوجود یہ سب نہیں کر سکتی اور اپنے بیمار‘ ہسپتال میں داخل باپ کی کسی قسم کی امداد نہیں کر سکتی‘ بالخصوص مالی امداد جس کی انھیں سخت ضرورت بھی ہے۔ میرے ماں باپ مجھ سے ناراض بھی ہیں‘ جب کہ انھیں یہ معلوم ہے کہ ہم دونوں کی تنخواہ سے ہر ماہ ایک معقول رقم بچ جاتی ہے۔ کیا والدین کی خدمت کا قرآنی حکم صرف مردوں کے لیے ہے ؟اگر عورت کمائے تو کیااس کی کمائی پر بھی سب سے پہلا حق ماں باپ کا نہیں ہے؟

میرے شوہر نمازی ہیں‘ درس قرآن میں بھی جاتے ہیں‘ اور ترجمان القرآن بھی باقاعدگی سے پڑھتے ہیں لیکن جہاںعورت کے حقوق کا ذکر آتا ہے‘ نظرانداز کر جاتے ہیں۔ اگر ان سب کا اثر میرے شوہر پر نہیں ہو رہا جو کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں تو آپ معاشرے کے کن مردوں کو باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عورت کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ جب مردوں کی ذہنیت کو بدلا نہیں جا سکتا تو عورت کو بھی اندھیرے ہی میں رہنے دیں۔ اگر وہ سب کچھ جاننے کے بعد اپنے حق میں آواز اٹھائے گی تو زبان دراز کہلائے گی۔ بارہا دینی کتابوں میں پڑھا ہے کہ ایسی عورت جنت کی خوشبو تک نہ پاسکے گی جس کا شوہر اس سے ناراض ہو‘ اور یہ بھی کہ اچھی عورت وہ ہے جو شوہر کا ہر حکم بجا لائے۔ کیا عورت شوہر کے ہر طرح کے جائز اور ناجائز مطالبات صرف اس ڈر سے مانتی چلی جائے کہ اگر وہ ناراض ہو گیا تو خدانخواستہ وہ جنت سے محروم نہ ہو جائے‘ اور ہر طرح کاظلم برداشت کرتی چلی جائے‘ جب کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھانا بھی گناہ ہے۔

مذہب کے بارے میں تفصیل سے پڑھنے اور اپنے حقوق جاننے کے بعد اور اپنے ساتھ ہونے والی مسلسل ناانصافیوں کو دیکھتے ہوئے میں ایک مسلسل ذہنی عذاب سے دوچار ہوں۔ کیا میںماں باپ کو ناراض رکھوں یا شوہر سے جھگڑا کر کے گناہ گار ہوں؟  میرے محدود علم کے مطابق تو میرے شوہرمیرے اور بچوں کی ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں

جب کہ وہ تو الٹا مجھ سے میرے پیسے بھی لے لیتے ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں میری رہنمائی کیجیے؟

جواب: آپ نے جو سوالات اٹھائے ہیں ان کا تعلق ہمارے معاشرے کے بعض بنیادی رجحانات سے ہے۔ ان رجحانات اور رویوں کا پایاجانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ صدیوں سے مسلمان چلے آنے کے باوجود ہم ابھی تک اسلام کو بحیثیت دین کامل ماننے پر آمادہ نہیں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی طرح عبادت اور چند مذہبی رسومات کی ادایگی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم اپنے فرائض سے سبک دوش ہوگئے۔ اسلام کو دین ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اسے عبادت کے ساتھ معاملات میں بھی رہنما بنایا جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ عبادات بھی معاملات کی ادایگی کی ایک شکل ہیں جنھیں ایک بندہ اپنے رب‘ خالق اور اللہ کے ساتھ اپنے معاملے کو مکمل عبدیت کی بنیاد پر ادا کرتا ہے۔ اسلام کی تعریف ہی یہ کی جاتی ہے کہ یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد پر مشتمل ہے۔ اس کا حق یہ ہے کہ صرف اور صرف اللہ کو عبادت‘ استعانت اور حاکمیت کا مستحق مانا جائے‘ اور بندوں کا حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی حدود کا خیال رکھتے ہوئے عباد اللہ کے حوالے سے جو ذمہ داری عائد ہوتی ہیں انھیں ادا کیا جائے۔

عباد الرحمن کے حوالے سے حقوق و فرائض میں سرفہرست والدین کا ذکر آتا ہے۔ قرآن پاک میں سورہ الاحقاف (۴۶:۱۵)‘ بنی اسرائیل (۱۷: ۲۳‘ ۲۴)‘ عنبکوت (۲۹: ۳-۸)‘ (البقرہ ۲:۲۱۵) اور لقمان (۳۱:۱۴‘ ۱۵) میں والدین کے حقوق ادا کرنے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔

قرآن کریم نے واضح کر دیا ہے کہ والدین پر خرچ کرنا اولاد کے فرائض میں شامل ہے ۔اسی بات کو بخاری اور مسلم میں حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ سے یوں روایت کیا گیا ہے ’’اس زمانے میں جب قریش اور مسلمانوں کے درمیان صلح ہوئی تھی (صلح حدیبیہ)‘ میری (رضاعی) ماں میرے پاس آئی اور وہ ابھی اسلام نہیں لائی تھی بلکہ شرک کی حالت پر تھی‘ تو میںنے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری ماں میرے پاس آئی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ میں اسے کچھ دوں تو کیا میںاسے دے سکتی ہوں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں‘ تم اس کے ساتھ مہربانی کا سلوک کرو‘‘۔

یہ ہدایت غیر معمولی توجہ کی مستحق ہے۔ قرآن میں والدین اور اقربا پر خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے‘ تو حدیث میں یہ بتایا گیا کہ اگر خونی یا رضاعی رشتہ کسی مشرک سے بھی ہو‘ جب بھی قرآنی حکم پر عمل ہوگا۔ پھر یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ محض شوہر یا مرد کے ماں باپ نہیں بلکہ عورت بھی اپنے رضاعی یا حقیقی ماں باپ پر خرچ کرنے کا شرعی حق رکھتی ہے۔

اس حدیث صحیح سے اسلام کے اصولِ تملیک کی تصدیق ہوتی ہے‘ یعنی عورت اپنی ملکیت پر تصرف کا پورا حق رکھتی ہے اور کسی کو اس سے حساب لینے یا پوچھنے کا حق نہیں کہ اس نے اپنی ملکیت کا کیا کیا۔ قبل اسلام کی جاہلی روایت کہ ایک عورت سے نکاح کے بعد عورت ہی نہیں اس کا تمام مال شوہر کی ملکیت بن گیا‘ اسلام کے بنیادی اصولوں سے ٹکراتی ہے۔ ایک کم پڑھا لکھا مسلمان بھی یہ جانتا ہے کہ ایمان کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب ایک مسلمان مرد اور عورت شہادت کے ساتھ ارکان دین کو قائم کریں۔ چنانچہ نماز کا قائم کرنا اور زکوٰۃ کا دینا‘ رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرنا معروف فرائض دین ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عورت کس مال میں سے زکوٰۃ دے کر ایمان مکمل کرے گی؟ کیا وہ شوہر کے مال پر زکوٰۃ دے گی یا جو اس نے کمایا یا کسی دوسرے ذریعے ‘ وراثت یا تجارت وغیرہ سے حاصل کیا ہے اس پر زکوٰۃ دے گی؟ جب تک عورت مال کی مالکہ نہ ہو اس پرزکوٰۃ بھی واجب نہ ہوگی‘ تو کیا زکوٰۃ کا حکم عورت کے لیے نہیں ہے!

ان اصولوں اور بنیادی قرآنی تعلیمات کی روشنی میں آپ خود غور کریں کہ جب اللہ کا حکم ہے کہ والدین پر خرچ کرو اور شوہر کا حکم ہو کہ اپنی کمائی میں سے بھی‘ جو کسی بھی قانون کے تحت شوہر کی ملکیت قرار نہیں دی جا سکتی‘ اپنے والدین پر خرچ نہ کرو تو کس کا حکم ماننا مسلمان پر فرض ہے۔

جہاںتک سوال شوہر کے ناراض کیے جانے کا ہے تو بلاشبہ سربراہ خاندان کی حیثیت سے وہ جس عزت‘ محبت و احترام کامستحق ہے وہ اسے لازماً ملنی چاہیے لیکن بیوی پر اس کے مطالبات کو قرآن و حدیث نے واضح کر دیا ہے ۔ہمارے معاشرے میں حتیٰ کہ تحریکی خاندانوں میں بھی ابھی تک بہت سے جاہلی تصورات پر عمل کیا جا رہا ہے۔ فقہ حنفی کا معروف موقف ہے کہ ایک شوہر اپنی بیوی سے نہ تواچھے کھانے پکانے کا مطالبہ کر سکتا ہے‘ نہ گھر کی صفائی ستھرائی اور کپڑوں پر استری‘ اور بدبودار موزوں کی دھلائی پراصرار کر سکتاہے۔قرآن و سنت کی روشنی میں وہ صرف یہ مطالبہ کر سکتاہے کہ وہ جب گھر میں داخل ہو تو بیوی کواچھے حلیے میں دیکھ کر اس کی آنکھوں میں ٹھنڈک آجائے (قرۃ العین)۔ وہ جب اسے بستر پر بلائے تو بیوی بلا شرعی عذر انکار نہ کرے کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ اگر وہ انکار کرے گی تو رات سے صبح تک فرشتے اس پر لعنت بھیجیں گے۔ یہاں یہ بات سمجھ لیجیے کہ اس کا اصل سبب نفسی تسکین نہیں ہے بلکہ اصل سبب پاک بازی اور عصمت کا تحفظ ہے۔ اگر ایک بیوی شوہر کی اس خواہش کو ردّ کرے گی تو ممکن ہے وہ ایک فطری خواہش کی تکمیل کسی غلط طریقے سے کرے۔ اس لیے برائی کا راستہ بند کرنے کے لیے واضح حکم دیا گیا ہے۔

حدیث سے ثابت ہے کہ حضور نبی کریمؐ نے ایک بیوی کو یہ حق دیا ہے کہ وہ شوہر کی استطاعت کے پیش نظر اس سے ایک خادم کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ گویا گھر کے کام جو ہم نے بیوی سے کرانے ضروری قرار دیے ہیں اگر وہ واقعی فرائض ہوتے تو خدمت گار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قرآن تو یہاںتک کہتا ہے کہ اگر بیوی خود اپنی اولاد کو اپنا دودھ پلاتی ہے تو شوہر بیوی کے اس احسان کا احساس کرتے ہوئے اسے اس ’’خدمت‘‘ پر اچھا بدلہ تحائف یا رقم کی شکل میں دے۔

متعین طور پر یوں سمجھیے کہ ایک بیوی اپنی ذاتی کمائی یا اس رقم میں سے جو شوہر بطور جیب خرچ اسے دے‘ جب جہاں اور جتنا چاہے اپنی صواب دید سے خرچ کر سکتی ہے۔ اسے شوہر کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ وہ خود اس کی ملکیت ہے۔ ہاں‘ شوہر جورقم گھر کے خرچ کے لیے دے‘ اسے گھر پر ہی خرچ ہونا چاہیے۔ اس میں بھی اگر کوئی رقم بچتی ہے تو باہمی مشورے سے گھر کے لیے یا بچوں کے لیے اس سے کوئی بھی چیز لی جا سکتی ہے۔ ماں باپ کی خدمت کے حوالے سے مرد اور عورت دونوں پر یکساں ذمہ داری ہے۔ شوہر اگر کسی ناجائز بات کا حکم دے اور بیوی کے انکار پر ناراض ہو تو بیوی پر اس کا کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ شریعت کا اصول ہے لاطاعۃ المخلوق فی معصیۃ الخالق- ہاں‘ خاندان کے معاملات خاندان کے اندر ہی محبت‘ احترام اور نرمی سے طے ہونے چاہییں۔ اس میں جھگڑے کی شکل پیدا کرنا مناسب نہ ہوگا۔

اسلامی شریعت شوہر کو بیوی اور بچوں کی ضروریات پوری کرنے کا ذمہ دار قرار دیتی ہے‘ جب کہ بیوی صاحب ِ مال ہونے کے باوجود شوہر یا بچوں پر خرچ کرنے کی مکلف نہیں ہے۔ اگر وہ اپنی خواہش سے ان پر یا شوہر پر خرچ کرتی ہے تو یہ اس کی جانب سے ایک صدقہ ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک صحابیہؓ نے حضور نبی کریمؐ سے صدقہ دینے کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ اپنے شوہر کو دو کیونکہ وہ غریب ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ تمھارا جو مال ہے وہ خود بخود شوہر کا مال بن گیا۔ جو شوہر آخرت کی کامیابی چاہتے ہیں‘ انھیں اس دنیا میں اپنی بیویوں کے مال پر نہ تو قبضہ کرنا چاہیے اور نہ اپنی بیویوں کو اپنی ملکیت کو خرچ کرنے سے روکنا چاہیے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

رمضان اور عیدین کا چاند

س : صوبہ سرحد میں ضلع چارسدہ اور مردان میں رمضان المبارک اور عیدین ملک کے تمام حصوں سے مقدم اور اختلافی منائے جاتے ہیں۔ ان اضلاع میں دو ایسے مراکز ہیں جو عرصہ دراز سے ان فیصلوں کے لیے مشہور ہیں۔ یہ مراکز رویت ہلال کا فیصلہ کبھی رویت پر کرتے ہیںاور کبھی حساب پر۔ ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ صحیح طرزعمل کی طرف رہنمائی فرما دیں۔

ج : پاکستان کی مرکزی رویت ہلال کمیٹی علماے دین پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کا تقرر حکومت پاکستان کرتی ہے جو اگرچہ حکومت عادلہ کی شرائط پر پوری نہیں اترتی اور اسی وجہ سے مسلمانان پاکستان پر عادل حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد کرنا شرعاً لازم ہے۔ چونکہ یہ مسلمان حکومت ہے‘ اس لیے اس کے مقرر کردہ احکام اور قضاۃ کے فیصلے شرعاً نافذ ہوتے ہیں اور ان کی پابندی ضروری ہے بشرطیکہ وہ شرعی احکام و قواعد سے متصادم نہ ہوں۔

ساری دنیا کے مسلمانوںکے لیے ایام رمضان و عیدین کی وحدت ضروری نہیں ہے۔ جس طرح ان کی نمازوں کے اوقات میں فرق ہوتا ہے‘ اسی طرح ان کے ایام رمضان و عیدین میں بھی فرق ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی حدود میںرمضان و عیدین کی وحدت کے لیے شرعی و فقہی قواعد کے مطابق صحیح طریقہ یہی ہے کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کی پابندی کی جائے اور غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹیاں رمضان و عیدین کا اعلان نہ کریں اور انفرادی طور پر کوئی عالم بھی اعلان نہ کرے۔ حکومت کی مقرر کردہ علاقائی کمیٹیوں میںسے اگر کسی کمیٹی کے سامنے چاند دیکھنے کی شہادت ہو جائے‘ اور اس کمیٹی نے اس شہادت کو شرعی قواعد کے مطابق قبول کر لیاہو‘ تو وہ اپنے فیصلے سے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کو ٹیلی فون یا فیکس یا کسی دوسرے معتمد ذریعے سے مطلع کرے اور ازخود اعلان نہ کرے تاکہ مرکزی کمیٹی علاقائی کمیٹی کے فیصلے کو پورے ملک میں نافذ کرے بشرطیکہ علاقائی کمیٹی کا فیصلہ شرعی قواعد سے متصادم نہ ہو۔ جب پورے ملک کے علماے دین اور مراکز فتویٰ مرکزی کمیٹی کے فیصلے پر عمل کرتے ہیں توصوبہ سرحد کے علما کو بھی چاہیے کہ وہ اس کے فیصلے کی پابندی کریں اور انفرادی فیصلے نہ کریں۔ (مولانا گوہر رحمان)

 

علامہ اقبال کی سیاسی زندگی ‘ محمد سلیم۔ ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز‘ لوئرمال‘ لاہور۔ صفحات:۱۷۳۔ قیمت: ۱۵۰ روپے ۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم‘ پنجاب یونی ورسٹی میں شعبہ طبیعیات کے صدر‘ سائنس فیکلٹی کے ڈین اور متعدد دیگر ذمہ داریوں کے مناصب پر فائز رہ چکے ہیں۔ طبیعیات کے موضوع پر ان کے تحقیقی مقالات اور کتابیں برطانیہ اور امریکہ کے ممتاز جریدوں اور ناشرین نے شائع کی ہیں۔ پنجاب یونی ورسٹی سے سبک دوشی کے بعد‘ ان کی توجہ اردو میں تصنیف و تالیف کی طرف منعطف ہوئی۔ داراشکوہ احوال و افکار (تبصرہ: ترجمان نومبر ۱۹۹۶ء) اور قائداعظم محمد علی جناح:  سیاسی و تجزیاتی مطالعہ(مارچ ۱۹۹۹ء) کے بعد اب ان کی زیرنظر کتاب منصّہ شہود پر آئی ہے‘ جس کا مقصد اس عمومی غلط فہمی کو رفع کرنا ہے کہ علامہ اقبال محض ایک شاعر اور فلسفی تھے جو زندگی بھر عملی سیاست سے الگ تھلگ اور گوشہ نشین رہے۔

پروفیسر محمد سلیم کو شکوہ ہے کہ اس عظیم مسلم مفکر اور شاعر کو ایک عالم نے خراج تحسین پیش کیا مگر سیاست میں ان کے عملی کردار کو عام طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ علامہ نے یورپ سے واپسی  (۱۹۰۸ء) کے تقریباً چار سال بعد‘ عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا اور تادمِ وفات ‘ وہ اس میدان میں سرگرم عمل رہے۔ مصنف نے ۱۲-۱۹۱۱ء سے اقبال کی وفات تک ہندستانی سیاست کے اتار چڑھائو‘ مسلم لیگ اور کانگریس کی سرگرمیوں‘ تقسیم بنگال کی منسوخی‘ حادثہ کان پور ‘ تحریک خلافت اور تحریک عدم تعاون‘ پنجاب کونسل کے انتخابات‘ سائمن کمیشن‘ خطبہ الٰہ آباد‘ گول میز کانفرنس‘ تحریک کشمیر اور ۱۹۳۷ء کے انتخابات میں اقبال کی دلچسپیوں ‘ ان کے تحریری و تقریری ردعمل‘ اور موقع بہ موقع ان کی عملی شرکت کی تفصیل فراہم کی ہے۔

سیاست میں علامہ اقبال کی شرکت کا مقصد وحید‘ ہندی مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کی مجموعی فلاح و بہبود تھا۔ ۱۹۲۳ء میں ان کے احباب نے اصرار کیا کہ وہ پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیں مگر وہ آمادہ نہ ہوئے‘ لیکن تین سال بعد ۱۹۲۶ء میں یہ اصرار اتنا بڑھا کہ وہ رضامند ہو گئے۔ اس موقع پر ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’’میں نے مسلمانوں کو صحیح زندگی کے مفہوم سے آشنا کرنے‘ اسلاف کے نقش قدم پر چلنے اور ناامیدی ‘ بزدلی اور کم ہمتی سے باز رکھنے کے لیے نظم کا ذریعہ استعمال کیا۔ میں نے ۲۵ سال تک اپنے بھائیوں کی مقدور بھر ذہنی خدمت کی۔ اب ان کی عملی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کر رہا ہوں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں کبھی بھی اپنے مفاد کو قوم کے مقابلے میں ترجیح نہیں دوں گا‘‘۔

مصنف نے علامہ کی سیاسی زندگی کی جو تفصیل فراہم کی ہے اس کے مطابق علامہ نے پنجاب اسمبلی کی تین سالہ رکنیت کے دوران مسلمانوں کی نمایندگی کا حق ادا کر دیا۔ مسلم مفادات کو ہر چیز پر فوقیت دی۔ وہ پوری تیاری کے ساتھ اسمبلی کے اجلاسوں میں شریک ہوتے۔ ان کی تقریر عموماً گہری تحقیق‘ اعداد و شمار اور حقائق پر مبنی ہوتی تھی۔ اسی زمانے کا واقعہ ہے‘ ۳ مئی ۱۹۲۷ء کو کوچہ درزیاں لاہور میں ہندوئوں اور سکھوں نے نہتے مسلمانوں پر جو عشاء کی نماز پڑھ کر لوٹ رہے تھے‘ حملہ کر دیا اور تین مسلمان شہید کر دیے۔ علامہ اقبال نے یہ خبر سنی تو رات کے بارہ بج رہے تھے‘ مگر وہ موقع پر پہنچے اور صبح پانچ بجے تک اُس مکان میں بیٹھے رہے جہاں ابتدائی تفتیش ہو رہی تھی۔ دو گھنٹے کے وقفے کے بعد صبح سات بجے دوبارہ شیخ عبدالقادر کی معیت میں موقع واردات پر پہنچ گئے اور مسلمانوں کو اپنے آپ پر قابو رکھنے کی تلقین کرتے رہے۔ شام پانچ بجے تقریباً ۵۰ہزار مسلمانوں نے یونی ورسٹی گرائونڈ میں شہیدوں کی نماز جنازہ ادا کی۔ علامہ اقبال اور سر محمد شفیع لوگوں کو صبر و سکون سے کام لینے کی تاکید کرتے رہے۔ ۱۱ مئی ۱۹۲۷ء کوروزنامہ انقلاب لاہور نے لکھا کہ علامہ اقبال نے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے اپنی سعی سے مسلمانان لاہور کی نمایندگی کا حق ادا کر دیا ہے۔ (ص ۳۲)

علامہ کی زندگی میں‘ اس طرح کے بیسیوں واقعات ملتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے دکھ درد اور مسائل و مفادات کو اپنے آرام پر مقدم سمجھتے تھے۔ جب کوئی مسئلہ درپیش ہوتا‘ فوراً ‘جیسا بھی ممکن ہوتا‘ اقدام کرتے۔ اپنے شاعرانہ مزاج اور خرابی صحت کے باوجود‘ انھوں نے مسلمانوں کے مفادات کی خاطر ہمیشہ ایک مستعد‘ فعال‘ متحرک اور دردمند راہنما کا کردار ادا کیا۔ مسلم عوام بھی ان کے قدردان تھے۔

شاعر اور فلسفی ہونے کے باوجود وہ خداداد غیر معمولی سیاسی بصیرت رکھتے تھے۔ وہ انگریز حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ہندوئوں اور پنجاب کے برطانیہ نواز جاگیرداروں اور سکندرحیات کے عزائم کو بخوبی سمجھتے تھے۔ ان کی سیاست اصولی اور ملّی مفادات کے تابع تھی۔ مصنف نے ایک اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی ہے‘ لکھتے ہیں: ’’اقبال جداگانہ انتخاب کے اصول کو ہندستان میں مسلمانوں کے قومی تشخص کے لیے لازمی سمجھتے تھے اور کسی صورت میں بھی اس سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہ تھے۔ یہی نکتہ اُن کی تمام سیاسی فکر کا محور تھا۔ اس لیے وہ کانگریس سے لڑتے‘ محمد علی جناح سے جھگڑتے اور محمد علی جوہر سے الجھتے رہے مگر اس اصول پر مستقل مزاجی سے قائم رہے‘‘۔

مصنف کے نزدیک اقبال کی سیاسی جدوجہد اُن کے خلوص‘ وژن اور عملی سیاست میں ان کے شان دار کردار کی غماز ہے۔ ان کی تمام جدوجہد کا مقصد اسلامی شریعت کا نفاذ تھا جس کے لیے وہ آزاد مملکت کا قیام نہایت ضروری سمجھتے تھے (ص: ۱۶۴)۔ ان کے وژن کے سلسلے میں ایک دو اقتباسات غورطلب ہیں‘ فرمایا: ’’میری نصیحت ہے کہ آپ دل سے مسلمان بنیں‘‘--- ایک اور موقع پر کہا: ’’جب مسلمانوں کی تعداد صرف چند لاکھ تھی تو دنیا کی عظیم سلطنتیں ان کے قدم چومتی تھیں۔ آج جب وہ ۴۰کروڑ ہیں تو ہر جگہ کفار ان پر مسلط ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کو چھوڑ دیا ہے اور اُس کی روح سے کنارہ کش ہو گئے ہیں‘‘۔

اقبال کی سیاسی زندگی پر اس سے پہلے اُردو اور انگریزی میں متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں مگر پروفیسر محمد سلیم صاحب نے جس اختصار و جامعیت کے ساتھ اور علمی و سائنسی انداز میں اس موضوع کو پیش کیا ہے‘ ہماری نظر میں وہ اس سے پہلے کسی مصنف سے ممکن نہیں ہوا۔ ان کا اسلوب بے حد سادہ‘ صاف اور صریح ہے۔ آخر میں کتابیات اور اشاریہ شامل ہے۔ کتاب کا معیار طباعت اطمینان بخش ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


تفہیم المسائل‘ جلداول‘ پروفیسر منیب الرحمن۔ ناشر: مکتبہ نعیمیہ دارالعلوم نعیمیہ‘ بلاک نمبر ۱۵‘ فیڈرل بی ایریا‘ کراچی۔ صفحات: ۴۲۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے ۔

قبل ازیں  تفہیم المسائل ہی کے نام سے شیخ القرآن مولانا گوہر رحمن کے شہرہ آفاق فتاویٰ کی پانچ جلدیں منظرعام پر آچکی ہیں۔ اب اسی نام سے پروفیسر مفتی منیب الرحمن صاحب کے فتاویٰ سامنے آ رہے ہیں۔ مفتی صاحب قرآن و سنت اور فقہی ذخیرے پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ بیدار مغز ہیں اور انھوں نے مختلف مسائل پر جس طرح کلام کیا ہے‘ اس سے ان کے فتاویٰ کی افادیت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ ایک قیمتی علمی تحقیق ہے۔مصنف نے بعض مفتیان کرام کو ان کی غلطی اور لغزش پر فقہی دلائل اور حوالوں سے موثر تنبیہہ کی ہے۔

دعا بعد الاذان کے کلمات پر بحث کی ہے۔ احادیث سے کلمات دعا کو‘ اور اصولی دلائل سے اس دعا کی صحت کو ثابت کیا ہے۔ سورہ فاتحہ کے بعد سورہ قرآنیہ کی کتنی مقدار واجب ہے؟ اس پر فقہی فتاویٰ کے علاوہ معاصر مفتیان کرام کے فتاویٰ کے حوالوں سے تفصیلی بحث ملتی ہے۔ امام کاسُترہ تمام مقتدیوں کے لیے کافی ہے۔ جب امام کے آگے سُترہ ہو تو اگر کوئی مقتدیوں کی صف کے سامنے سے گزرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں ہے لیکن جس آدمی کی ایک یا دو یا زیادہ رکعت رہ جائیں تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد‘ جب وہ آدمی اپنی بقیہ نماز پڑھے گا تو کیاایسی صورت میں اس کے سامنے سے گزرنے والا گنہگار ہوگا یا نہیں‘ جب کہ امام کے فارغ ہو کر چلے جانے کے بعد امام کا سُترہ اپنی جگہ موجود ہو؟ اس مسئلے پر دارالافتا دارالعلوم زکریا کراچی کے مفتی محمد نصراللہ احمد پوری نے فتاویٰ شامی کے حوالے سے فتویٰ دیا کہ مذکورہ شخص کے آگے سے گزرنے والا گنہگار نہیں لیکن مفتی منیب الرحمن نے انھیں متنبہ کیا کہ شامی کی پوری عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ شخص کے لیے اب وہ حکم نہیں ہے جو امام کی اقتدا کی صورت میںتھا۔ اب وہ منفرد ہے۔ اب نہ امام ہے نہ اس کا سُترہ۔ یہ وقیع‘ علمی اور تحقیقی بحث ص ۵۶ سے لے کر ص ۱۱۳ تک پھیلی ہوئی ہے۔ مفتی صاحب نے اپنے مدعا کو ثابت کرنے کا حق ادا کر دیا ہے۔

بعض مسائل پر مفتی منیب الرحمن صاحب نے متعدد دیگر جیّد علما اور مفتیانِ عظام سے اختلاف کیا اور دلائل کے ساتھ انھیں توجہ دلائی تو انھوں نے اپنے فتاویٰ سے رجوع کر لیا۔ اسی طرح قضاء عمری ‘ بزرگان دین کے مزارات پر عقیدت‘ فیکٹری میں نماز جمعہ‘ حضرت خضر علیہ السلام کی نبوت‘ مفتی محمد یوسف لدھیانوی صاحب سے اختلاف اور دیگر مسائل پر سیرحاصل‘ سلیس اور عام فہم انداز میںقابل قدر بحث کی گئی ہے۔ اصحاب علم کے لیے یہ ایک مفید علمی مجموعہ ہے۔ طلبہ‘ اساتذہ‘ مفتیان کرام اور عوام سب کے لیے اس میں استفادے کا سامان ہے۔ (مولانا عبدالمالک)


رسول اکرم ؐ اور علم حیوانات ‘ پروفیسر شیریں زادہ۔ حرا پبلی کیشنز‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۳۰۔ قیمت:۲۰۰ روپے۔

عبدالماجد دریابادی کی حیوانات قرآنی کے بعد ‘ یہ ایک نئی کوشش ہے کہ احادیث میں جن حیوانات کا ذکر آیا ہے ‘ ان کا تذکرہ ایک جگہ جمع کر دیا جائے۔ مصنف نے اپنی کتاب قرآنی جانوروں کا انسائیکلوپیڈیا کا حوالہ دیا ہے جس کی وجہ سے وہ اس کتاب میں بعض جانوروں کی تفصیل میں نہیں گئے۔ (یہ کتاب تبصرہ نگار کی نظر سے نہیں گزری۔)

کتاب میں ۶۰ جانوروں کا تذکرہ ہے۔ ہر جانور کا عربی‘ پشتو‘ انگریزی اور اردو نام دیا گیا ہے۔ عام معلومات کے بعد‘ متعلقہ احادیث اور سیرت کے واقعات کا ذکر ہے (براق کے حوالے سے واقعہ معراج کی تفصیلات مل جاتی ہیں)۔ مطالعے کے بعد یہی تاثر ہوا کہ سیرت کی ایک کتاب پڑھی ہے۔جانوروں کے بارے میں متنوع اور دل چسپ معلومات ملتی ہیں۔ ہر باب کے آخرمیں حوالے دیے گئے ہیں۔ آغاز میں جانوروں سے حسن سلوک پر ایک مضمون ہے۔ (مسلم سجاد)


Lift Up Your Hearts‘ عبدالرشیدصدیقی‘ اسلامک فائونڈیشن‘ لسٹر‘ برطانیہ۔ ملنے کا پتا: بک ٹریڈرز‘ جناح سپرمارکیٹ‘اسلام آباد۔ صفحات:  ۱۷۵  قیمت:  درج نہیں۔

عبدالرشید صدیقی لسٹر یونی ورسٹی (برطانیہ) کی اسلامک سوسائٹی کے زیراہتمام مسلسل دو عشرے سے خطبہ جمعہ دیتے ہیں۔ انھوں نے ۳۰ موضوعات پر چار چار‘ پانچ پانچ صفحات کے یہ خطبے تحریر بھی کر دیے اور یوں ایک موثر پیش کش کے ذریعے ان سے استفادے کا دائرہ وسیع ہو گیا۔ ہر خطبے کا آغاز کسی قرآنی آیت سے ہوتا ہے۔ موضوع پر آیات و احادیث بھی پیش کی گئی ہیں۔ اندازِ بیان عام فہم‘ اور دلوں کو اٹھانے والا ہے۔ خطبہ اوّل اور ثانی کے عربی متن کے ساتھ‘ انگریزی ترجمہ بھی شامل ہے۔ علم پہلا موضوع ہے‘ اور اُمت آخری۔ عقائد‘ ارکان‘ ہجرت‘ دعوہ‘ جہاد‘ تزکیہ‘ سیرت‘ اخوت‘ استغفار سب ہی اہم موضوعات ہیں۔ ایک طرف تو عالم اسلام اور عالم مغرب میں ان انگریزی خطبوں کی افادیت ہے‘ دوسری طرف یہ پاکستان ‘ بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں انگریزی اخبارات و رسائل اور کالجوں کے مجلوں کے لیے مختصر مضامین کے طور پر بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ پروفیسر خورشیداحمد نے پیش لفظ میں جمعہ اور جمعے کے خطبے کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے اور تجویز دی ہے کہ ۲۲ مزید خطبے بھی تیار کیے جائیں تاکہ سال کے ۵۲ جمعوں کے لیے ہو جائیں۔ (م - س)

تعارف کتب

  •  مسلمانوں کے عروج کی کہانی‘ ڈاکٹر حفیظ الرحمن صدیقی۔ ناشر: صدیقی پبلی کیشنز‘ اے ۵۴‘ بلاک ۱۳‘ سی گلشن اقبال‘ کراچی۔ صفحات: ۴۱ (بڑی تقطیع)۔ قیمت: درج نہیں۔ ]ایک طرح سے ۱۴ سو سالہ مسلم تاریخ‘ آنحضورؐ اور خلافت راشدہ سے لے کر تاحال‘ مسلم خطوںاور علاقوں کے احوال و واقعات۔ اس بیان میں کہیں کہیں تہذیب و تمدن کے باب میں مسلمانوں کے کارناموں کا ذکر۔ مصنف نے تاریخ کو مثبت نقطہ نظر سے پیش کیا ہے۔ وہ آدھے خالی گلاس کے بجائے بھرے ہوئے آدھے گلاس کو دیکھتے ہیں۔ ہر صدی کے اہم واقعات کی فہرست میں منفی واقعات کو سرخ رنگ سے دیا ہے جو مشکل سے ۱۵ فی صد بنتے ہیں۔ اسلوب و انداز عام فہم اور آسان۔ چند ایک نقشے اور تصاویر۔[
  •  یادوں کی امانت ‘ السید عمر تلمسانی‘ ترجمہ: حافظ محمد ادریس۔ ناشر: مکتبہ احیاے دین‘ منصورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۴۴۶۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔]اخوان المسلمون مصر کے مرشدعام کی یادداشتیں بہ قول میاں طفیل محمد: یہ ایک ’’ایمان افروز تجربہ‘‘ ہے۔ دل چسپ واقعات‘ دعوتی و تحریکی اور تربیتی نقطہ نظر سے اہم دستاویز ۔زیرنظر جدید ایڈیشن بہتر ترتیب و تدوین کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔[
  •  What is Islam ‘ڈاکٹر کرنل (ر) محمد ایوب خان۔ ناشر: قرآن سوسائٹی ۔ ۲۹۴ توسیع کیولری گرائونڈ‘ لاہور کینٹ۔ صفحات: ۱۲۸۔ قیمت: ۶۰ روپے۔ ]قرآن حکیم کے حوالے سے اور آیاتِ قرآنی کی روشنی میں امور حیات و کائنات اور انسانی مسائل کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر ‘ جس سے اسلام بطور ضابطہ حیات کی اچھی تصویر سامنے آتی ہے۔ کاش اشاعتی معیار اور بہتر ہوتا۔[
  •  نور و حضور‘ رفیع الزمان زبیری۔ ناشر: ہمدرد فائونڈیشن‘ ہمدرد سنٹر‘ ناظم آباد‘ کراچی۔ صفحات: ۲۰۹۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔ ]حج اور عمروں کے لیے اپنے اہل خانہ کے ساتھ حرمین شریفین کے متعدد اسفار کی رودادیں۔ ایک جذبے اور عقیدت و چاہت کے ساتھ‘ سادہ بیانیہ اسلوب۔[
  •  قافلہ ادب اسلامی (مجلہ) مدیر اعلیٰ: ڈاکٹر ظہور احمد اظہر۔ ناشر: رابطہ ادب اسلامی عالمی‘ پاکستان شاخ: ۷- حق باہو ہائوسز‘ لالہ زار کالونی‘ رائے ونڈ روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۹۱۔ قیمت: ۱۰۰ روپے ۔ ]رابطے کا سہ ماہی ترجمان علمی مجلہ۔ عربی‘ اردو اور انگریزی میںتعارفی اور تحقیقی مضامین۔[
  •  تاریخ فرقہ بندی اور فرقۂ ناجیہ‘ توفیق احمد ناصر صدیقی۔ ناشر: اسلامی لائبریری جامع مسجد فاروق اعظم‘ دستگیر نمبر۷ فیڈرل بی ایریا‘ کراچی۔ صفحات: ۲۹۔ قیمت: درج نہیں۔]دورِ صحابہؓ سے مسلمانوں کے ہاں اختلاف رائے کی تاریخ‘فرقوں کی ابتدا ‘ تفرقہ‘ گروہ بندی‘ عقائد میں بگاڑ‘ ائمہ اربعہ‘ دیوبندی‘ بریلوی‘ اہل حدیث‘ وہابی اور شیعہ وغیرہ کا مختصر تعارف۔ اعتدال و توازن کے ساتھ۔ بقول مصنف: ’’لازم ہے کہ ہم قرآن و حدیث سے تعلق جوڑیں اور اپنی عاقبت کی فکر کریں‘‘۔ عام فہم ‘ ناصحانہ انداز‘ ایک مفید کتابچہ۔[
  • یا میں غازی یا میں شہید‘ پروفیسر عنایت علی خاں۔ پتا: ۶ علی ہومز‘ لطیف آباد نمبر ۹‘ حیدر آباد۔ صفحات: ۱۱۔ قیمت: ۱۰ روپے۔ ]جہاد کشمیر کے حوالے سے ایک ترانہ‘ ۹ جہادی تنظیمیں‘ جذبہ خیز اور ولولہ انگیز، ’’جو صاحب چاہیں‘ یہ نظمیں شائع کرا سکتے ہیں‘‘۔[
  •  روزہ‘ مولانا احمد علی محمودی۔ ناشر: مکتبہ علوم اسلامیہ ‘ ۹ صادق منزل‘ آرام باغ روڈ‘ کراچی۔ صفحات: ۱۶۔ قیمت: ۶روپے‘ فی سیکڑہ: ۴۰۰ روپے۔ ]روزے سے متعلق ضروری مسائل‘ آداب‘ قواعد‘ فوائد‘ فضیلت‘اہمیت وغیرہ۔[
  •  ہم نے آج تراویح میں کیا پڑھا ؟ ممتاز عمر۔ پتا: ۴۷۵ ٹی کورنگی ۲‘ کراچی ۷۴۹۰۰۔ صفحات: ۵۹۔ قیمت: درج نہیں۔ ]۲۷ دنوں کے لحاظ سے ہر روز تراویح میں پڑھے جانے والے حصہ قرآن پاک کے موضوعات کا مختصر ذکر۔[
  •  بیت المقدس کس کا حق ہے؟ مصنف: محمد تنزیل الصدیقی الحسینی۔ ناشر: اصلاح المسلمین پبلشرز‘ کراچی۔ صفحات: ۵۶۔ قیمت: درج نہیں۔ ]ارض یروشلم کی مختصر تاریخ ‘ بیت المقدس پر صرف متقی اور پرہیزگاروں کا حق ہے،’’جب مسلمان اللہ کی طرف رجوع کرلیںگے تو انھیںا ن کا حق بھی مل جائے گا‘‘۔[

محمد اسحاق منصوری‘ کراچی

’’معاصر اسلامی فکر: چند غور طلب پہلو‘‘ (اکتوبر‘ نومبر ۲۰۰۱ء) میں جن مسائل کی نشان دہی کی گئی ہے ان پر مختلف سطحوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سید مودودیؒ، جماعت اسلامی اور تجدید و احیاے دین کی بین الاقوامی سب تحریکوں نے دَور جدید کے تقاضوں کے مطابق اسلام کے عالمی و دائمی احکام و تصورات کی تفسیرو تعبیر کی ہے مگر ہنوزبہت کام باقی ہے۔ بقول ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی: ’’جب تک اسلامی انقلاب کی اس جیسی بنیادی فکری ضرورتوں کو پورا نہیں کیا جاتا عصرِحاضر کے مزاج کی اصلاح ناممکن ہوگی‘‘۔ (نومبر‘ ص ۵۹)

اس تحقیقی اور اجتہادی کام کی سب سے زیادہ ذمہ داری ان اساتذہ پر عائد ہوتی ہے جو مختلف ممالک کے مختلف اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے اداروں اور جامعات سے وابستہ ہیں اور جہاں غیر ضروری موضوعات پر تحقیقی مقالات لکھوا کر اُمت کے وسائل کو ضائع کیا جا رہا ہے۔ احیاے اسلام کی تحریکوں سے وابستہ تحقیقی اداروں کو ان ضروری مسائل پر تحقیقی اور اجتہادی کام کی منصوبہ بندی اولین ترجیح دے کر کرنا چاہیے۔ آئی پی ایس‘ ادارہ معارف اسلامی کراچی و منصورہ اور کئی ادارے مختلف محاذوں پر برسرپیکار ہیں لیکن اب بھی کئی محاذوں پر دشمن کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے!!

عبدالحق ‘ اسلام آباد

پروفیسر خورشید احمد صاحب نے اشارات (نومبر‘ ا۲۰۰ء) میں افغانستان کے مفلوک الحال اور مظلوم مسلمانوں کے مقدمے کی وکالت کا حق ادا کر دیا ہے‘ اور ثابت کیا ہے کہ امریکہ ماوراے عدالت افغانیوں کے قتل کا مجرم ہے‘ اور افغانستان پر بم باری ریاستی دہشت گردی کی ہولناک مثال ہے۔اللہ تعالیٰ پروفیسر صاحب کو اس کاوش کا اجرعظیم عطا فرمائے۔

عبدالغفار عزیز ‘  لاہور

القاعدہ تنظیم کو القائدہ (نومبر ۲۰۰۱ء) لکھا گیا۔ قاعدہ (بنیاد - Base) عربی کا معروف لفظ ہے۔ ایمن الظواھری القاعدہ کے معروف رہنما ہیں۔ انھیں ایمان الزہراوی لکھا گیا۔ قطر کے امیر کا نام حمد بن خلیفہ آل ثانی ہے انھیں محمدالثانی  لکھا گیا۔ خواہش ہوتی ہے کہ ترجمان میں ایسے سہو نہ ہوں۔ بہرحال ‘ اصل اہمیت قوم و ملک کی رہنمائی اور حقائق سامنے لانے کی ہے۔ الحمدللہ‘  ترجمان القرآن اس حوالے سے ’’امامِ مجلات‘‘ ہے۔

عبداللّٰہ گوہر‘ کراچی

مولانا عبدالمالک نے مطالعہ حدیث میں رمضان میں ۱۰ گنا اجر کے حوالے سے ۷۰۰ کے بجائے ۷ ہزار لکھا (نومبر ۲۰۰۱ء)‘ جب کہ اضافہ تو ۷۰ گنا ہوتا ہے اور یوں ۷۰۰ کا معاملہ ۴۹ ہزار تک پہنچتاہے۔ سچ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی کی کوئی نہایت نہیں ہے!

 

اس میں شک نہیں کہ قرآن کا تحقیقی مطالعہ کرنے‘ اور اسلام کے مزاج میںگہری بصیرت حاصل کرنے کے لیے قرآن کی ترتیب نزول سے واقف ہونا بہت کچھ مفید ہے‘ لیکن اس معاملے میں اتنا مبالغہ کرنا درست نہیں ہے کہ قرآن کی موجودہ ترتیب کو غلط یا ناقص کہا جائے‘ اور نزول ترتیب کے علم پرقرآن کے فہم کو موقوف سمجھا جائے‘ اور یہ گمان کیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے‘ بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کو ایک صحیح ترتیب کے ساتھ ہم تک پہنچانے میںکوتاہی برتی۔ اس قسم کی باتیں عموماً محض نئی نئی تحقیق کے خمار کا نتیجہ ہوتی ہیں ورنہ معمولی غوروفکر سے بھی آدمی یہ بات بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ قرآن صرف ریسرچ اسکالرز ہی کے لیے نازل نہیں ہوا ہے بلکہ عام لوگوں کی ہدایت بھی اس کے پیش نظر ہے‘ اور عام ہدایت کے لیے اس کی موجودہ ترتیب‘ نزولی ترتیب کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ بہتر ہے۔ اگر اسے ترتیب نزول کے مطابق مرتب کیا جاتا تو کم از کم ایک ہزار سورے بنتے‘ اور اس ترتیب کو سمجھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ناگزیر ہوتا کہ ہر شخض کو قرآن کے ایک ایک نسخے کے ساتھ اس وقت کی تاریخ کا بھی ایک ایک نسخہ دیا جاتا‘ اور اس تکلف کے باوجود قرآن کی تلاوت میں وہ روانی اور وہ تاثیر نہ ہوتی جو اب ہے‘ بلکہ بعد کی نسلوں کے لیے وہ محض ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے والوں کا سا ایک خشک تحقیقی مقالہ بن کر رہ جاتا۔

جناب مصنف کا گمان یہ ہے کہ قرآن کی موجودہ ترتیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابۂ کرام نے بطور خود دے لی ہے‘ اور صحابہؓ نے بھی اسے کسی سوچے سمجھے ہوئے نقشہ پر مرتب نہیں کیا‘ بلکہ جنگ اور بدامنی کی گھبراہٹ میں بس یوں ہی جلدی سے جمع کر ڈالا۔ حالانکہ اگر وہ روایات سے قطع نظر کر کے خود قرآن ہی کے مضامین پر غور کریںتو انھیں اندازہ ہو جائے کہ جو کلام اس طرح متفرق طور پر مختلف حالات میں تقریباً  ربع صدی تک نازل ہوتا رہا‘ اسے سمیٹ کر ایک مجموعہ بنا دینا خود متکلم کے سوا کسی کے بس کا کام تھا ہی نہیں۔ نفسِ قدوس دعوتِ اسلامی کے آغاز سے لے کر اس کی تکمیل تک ایک خاص نقشے پر اپنی آیات سے اِس دعوت کی رہنمائی کرتا رہا‘ وہی اور صرف وہی یہ جان سکتا تھا کہ اِن متفرق آیات کے اندر داخلی ربط کیا ہے اور انھیں ایک مستقل دائمی ہدایت کے لیے جوڑ کر ایک وحدت بنا دینے کی صحیح صورت کیا ہے.... زیادہ صحت کے ساتھ اگر کچھ کیا جا سکتا ہے تووہ صرف اتنا ہی ہے کہ دعوتِ اسلامی کے مختلف ادوار متعین کر کے ان کے مطابق سورتوں کے الگ الگ مجموعے بنا لیے جائیں ‘ اور یوں کہا جائے کہ فلاں مجموعہ فلاں دَور کا معلوم ہوتا ہے۔  (ترتیب نزول قرآن‘ از پروفیسر محمد اجمل خاں پر تبصرہ‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جلد ۱۹‘ عدد ۴‘۵‘ ۶‘ شوال‘ ذی القعدہ‘ ذی الحجہ ۱۳۶۰ھ‘ دسمبر ۱۹۴۱ء‘ جنوری فروری ۱۹۴۲ء‘ ص ۱۰۴-۱۰۵)