حج کی حقیقت کو تم ایک دفعہ پالو، اچھی طرح اور پوری طرح جان لو، اسی کے مطابق خود کو ڈھالو، اسی کی روشنی میں ہر قدم اٹھائو، تو ایک کے بعد ایک، حج کے فیوض و برکات اور انعامات و فتوحات کے دروازے تمھارے لیے کھلتے چلے جائیں گے۔
حج کیا ہے؟ اللہ سے محبت کرنا، ان کی محبت پانا۔ حج کا سفر محبت و وفا کا سفر ہے۔ اس کا مدعا اور حاصل، اللہ کے سواکچھ نہیں۔ اس کا ہر عمل محبت و وفا کا عمل ہے، اس کی ہر منزل محبت و وفا کی منزل ہے۔ یوں سمجھو کہ حج سارے کا سارا یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ ، اللہ اپنے ان پروانوں سے محبت کرتے ہیں اور یہ پروانے ان کی محبت میں سرشار ہیں، کی مجسم اور متحرک تصویر ہے۔
دیکھو، بات یہ ہے کہ اللہ تم سے، اپنے بندوں سے، بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ جیسا حضورپاکؐ نے ارشاد فرمایا: وہ ماں باپ سے بھی کہیں زیادہ محبت والے ہیں۔ وہ اپنی ذات میں بے انتہا رحمت اور محبت کرنے والے ہیں۔ اللہ کو پکارو یا الرحمٰن کو، ایک ہی بات ہے۔ گویا اللہ کے معنی ہی الرحمٰن ہیں۔ ساتھ ہی وہ سارے دنیا والوں پر اپنی بے پایاں رحمتوں کی مسلسل بارش کر رہے ہیں۔ دنیا میں مخلوقات کے درمیان تم جہاں بھی اور جتنی بھی رحمت دیکھتے ہو، وہ سب بھی ان ہی کی رحمت کا جلوہ ہے۔ مگر دنیا میں وہ جتنی رحمت کر رہے ہیں، وہ ان کی رحمت کے ایک سو میں سے ایک حصے کے برابر بھی نہیں،اگرچہ اس کا بھی احاطہ اور شمار ممکن نہیں۔ ۹۹ حصے انھوں نے آخرت میں عطا کرنے کے لیے رکھے ہوئے ہیں۔
یہ انھی کی رحمت اور محبت ہے کہ انھوں نے ہمیں قرآن عطا کیا، تاکہ ہم آخرت کی رحمتوں میں سے حصہ پاسکیں۔ رسول پاکؐ جو رحمۃ للعالمین اور رؤف و رحیم ہیں، ہمارے اُوپر اللہ کی رحمت و شفقت کا مظہر ہیں (لَقَدْ مَّنَ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ…الخ)۔ موت کے بعد زندگی بخشنا اور اعمال کی جزا دینا بھی ان کی رحمت کا تقاضا ہے (کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَہ ، لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَہ)۔ ہمیں دین اسلام عطاکرکے تو انھوں نے رحمت و انعام کی انتہا کردی، یہ ان کی نعمت کا اتمام ہے کہ یہی آخرت میں ان کی رحمت تک پہنچنے کا راستہ ہے (وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ)۔ یہ بھی ان کی ہمارے ساتھ محبت کا ثمر ہے، ان کا فضل اور نعمت ہے کہ انھوں نے اپنے اوپر ایمان، ہمارے دلوں میں ڈال دیا، اسے دلوں کی زینت بنا دیا، اسے ہمارے لیے محبوب بنادیا۔ ان کے ساتھ ہماری جتنی محبت ہے، ہوگی، وہ ان کی محبت (یُحِبُّھُمْ) اور ایمان کا ثمر ہے۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ، جو ایمان والے ہیں، وہ سب سے زیادہ شدت سے اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ ایمان کی ساری شیرینی، مزا اور رنگ ان کے ساتھ اسی محبت کے دم سے ہے۔
یہ بیانِ محبت ذرا طویل ہوگیا۔ لیکن محبت کے بیان کی لذت! دل چاہتا ہے کہ ختم ہی نہ ہو۔ محبت کے سفر کی لذت! دل چاہتا ہے کہ وقت سے پہلے شروع ہوجائے، ختم ہونے کا نام نہ لے۔ اس کی ہر زحمت میں لذت کی چاشنی ملتی ہے۔ حج کی حقیقت کو دل کی گہرائیوں میں پالینے کے لیے کم سے کم اتنا بیان لذیذ ہی نہیں، ضروری بھی تھا۔
دیکھو، ویسے تو اس دین کا ہر حکم، جو نعمت و محبت کا اتمام ہے، بندوں سے ان کی محبت کا مظہر ہے،اور ان کی محبت کے حصول کا راستہ، جو بندوں کی غایت ہے۔ ’’سجدہ کس لیے کرو؟‘‘ تاکہ ہم سے قریب ہوجائو۔ ’’مال کس لیے دو؟‘‘ علٰی حبہ،ان کی محبت میں، ان کی محبت و رضا کے لیے۔ احکام، حرام و حلال کے ہوں،اخلاق و معاملات کے، ہجرت و جہاد کے--- سب ہم پر ان کی شفقت و رحمت پر مبنی ہیں۔ مگر حج کی بات ہی دوسری ہے۔ یہ تم سے اللہ کی محبت کا، اور ان کی محبت کے اظہار کا بے مثال مظہر ہے، اور تمھارے لیے ان سے محبت کرنے کا،اپنی محبت کا اظہار کرنے کا اور ان کی محبت پانے کا انتہائی کامیاب و کارگر نسخہ۔ عبادات میں اس پہلو سے اس کی کوئی نظیر نہیں۔
ذرا غور کرو! اللہ تعالیٰ لامکان ہیں، وہ ہر جگہ موجود ہیں، وہ کسی مکان میں سما نہیں سکتے، ہرذرہ اور لمحہ ان کا ہے، اور ان کی جلوہ گاہ--- لیکن یہ، ان کی، ہم جیسے اسیر مکان و زماں بندوں سے، بے پناہ محبت نہیں تو اور کیا ہے کہ انھوں نے، ہمیںاپنی محبت دینے اور ان سے محبت کرنے کی نعمت بخشنے کی خاطر،مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں ایک بظاہر بالکل سادے اور معمولی گھر کو’اپنا گھر، بنالیا اور مشرق و مغرب میں تمام انسانوں کو اپنے اس گھر آنے کا بلاوا بھیجا، کہ آئو، سب کچھ چھوڑ کر، لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کہتے ہوئے آئو۔ پتھروں کے اس گھر آئو، اس گھر میں اپنے خداے لامکاں کی محبت اور قربت حاصل کرو۔ اس گھر میں، اس کے در و دیوار میں، اس کے گلی کوچوں میں، اس کی طرف سفر میں انھوں نے تمھارے جذبہ عشق و محبت کے لیے تسکین و سیرابی، شادکامی اور لذت و کیف کا وہ سارا سامان رکھ دیا جو ایک عاشق صادق اپنے محبوب کے کوچہ و دیار اور درودیوار سے پانے کی تمنا کرسکتا ہے۔
یہ بھی اللہ کی رحمت و محبت کا کرشمہ ہے کہ انھوں نے عشق و محبت کے اس مرکز میں، جو بظاہر حسن تعمیر اور جمال ماحول سے بالکل مبرا ہے، بڑی عجیب و غریب محبوبیت رکھ دی ہے! اس گھر کو انھوں نے اعلیٰ ترین شرف و کرامت سے نوازا ہے۔ اسے انھوں نے اپنی بے پناہ عظمت و جلال کا مظہر بنایا ہے۔ اس کے سینے سے انھوں نے رحمت و محبت، برکت و ہدایت اورانعام و اکرام کے لازوال چشمے جاری کیے ہیں۔ آیات بینات کا ایک اتھاہ خزانہ ہے جو اللہ نے اس گھر کی سادہ مگر محبت کے رنگ سے رنگین داستان کے ورق ورق پر رقم کردیا ہے۔ اللہ کے گھر کے حسن و جمال اور شانِ محبوبیت کا بیان اسی طرح الفاظ کے بس سے باہر ہے، جس طرح کسی حسین کے حسن کا اور کسی شے لذیذ کی لذت کا، جو تم دیکھنے اور چکھنے ہی سے پاسکتے ہو۔
دوسری طرف انھوں نے اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں اس گھر کی محبت ڈال دی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جو جا نہیں سکتے، وہ بھی جانے کی آرزو اور شوق میں سلگتے رہتے ہیں، اور کچھ نہیں تو روزانہ پانچ دفعہ، اس گھر کی طرف رخ کرکے، گھر کے مالک سے قرب اور ہم کلامی کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔ لیکن ایک طرف دیار محبوب کی شانِ محبوبیت اور دوسری طرف محبت کرنے والوں کی محبت، ازل سے عشاق بے تاب کا ایک ہجوم بے پناہ ہے جو ہروقت اور ہرجگہ سے کھنچ کھنچ کر اس گھر کے گرد جمع ہوتا چلا آرہا ہے۔ خاص طور پر حج کے وقت، جس کو رب البیت نے جلوہ و زیارت کے لیے مخصوص و متعین کیا ہے۔ آج تم بھی اسی ہجوم کا ایک حصہ ہو،اور میری تمنا ہے--- اور تمھاری بھی یہی تمنا ہونا چاہیے--- کہ محبت کی یہی چنگاری تمھارے دل میں سلگ رہی ہو، اور وہی تمھیں کشاں کشاں دیارِ محبوب کی طرف لیے جارہی ہو۔
اب ذرا حج کے اعمال و مناسک کو دیکھو جو تم بجا لائوگے۔ یہ تمام تر عشق و محبت کے اعمال ہیں۔ یہ بھی اللہ کی محبت ہے کہ انھوں نے محبت کی ان ادائوں کی تعلیم دی، ان کو اپنے گھر کی زیارت کا حصہ بنایا، اور ان پر محبت اور اجر کی بشارت دی۔ یہ سنت ابراہیم ؑ کا ورثہ ہیں۔ دیکھو شاہ عبدالعزیز ؒ صاحب ان اعمال کی حقیقت کی کتنی خوب صورت تصویر کھینچتے ہیں:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا [اور یہی حکم تمھارے لیے ہے] سال میں ایک دفعہ اپنے کو اللہ کی محبت میں سرگشتہ و شیدا بنائو، اس کے دیوانے ہوجائو، عشق بازوں کے طور طریقے اختیار کرو۔ محبوب کے گھر کے لیے--- ننگے پائوں، الجھے ہوئے بال، پریشان حال، گرد میں اَٹے ہوئے--- سرزمینِ حجاز میں پہنچو، اور وہاں پہنچ کر کبھی پہاڑ پر چڑھو، کبھی وادی میں دوڑو، کبھی محبوب کے گھر کی طرف رخ کر کے کھڑے ہوجائو--- اس خانہ تجلیات کے چاروں طرف دیوانہ وار چکرلگائو، اور اس کے در ودیوار کو چومو اور چاٹو۔
یہ ہے وہ حج جس کے لیے تم روانہ ہو رہے ہو۔ جتنا عشق و محبت کا یہ سبق ازبر کرو گے، دل پر اسے نقش کرو گے، اسے یاد رکھو گے، اللہ کو تم سے جو محبت ہے اس کی حرارت اور طمانیت اپنے اندر جذب کرو گے، اللہ سے ٹوٹ کر پورے دل سے محبت کرو گے اور اس کا اظہار کرو گے، حج کے ہر عمل کو زیادہ سے زیادہ اس محبت کے رنگ میں رنگو گے، اس سے اللہ کی محبت کی طلب اور جستجو کرو گے، انھی کی محبت اور قرب کی آرزو اور شوق میں جلو گے، اتنا ہی تم حج کی آغوش سے اس طرح گناہوں سے پاک و صاف ہوکر لوٹو گے جیسے ماں کے پیٹ کی آغوش سے نکلتے ہو، اور تمھارے حق میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت پوری ہوگی۔ (حاجی کے نام، منشورات، لاہور، ص ۸-۱۴)
حج کی عبادت اس پوری زندگی کے لیے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی میں دینے کا اپنی مخلوق سے مطالبہ کیا ہے، ایک بڑی اہم عبادت ہے۔ اس کو اسلام کے ارکان میں شمار کیا جاتا ہے اور ارکان کے معنی ہیں وہ ستون جن کے اوپر پوری عمارت قائم ہو۔ گویا ان ستونوں کے بغیر عمارت قائم نہیں رہ سکتی۔ ستون کے حوالے سے ایک دوسرا پہلو بھی ہے جو عام طور پر نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ وہ یہ کہ ستون کا نام عمارت نہیں ہے بلکہ ستون دراصل عمارت کی بنیاد اورسہارا ہوتا ہے۔ عمارت ستونوں کے علاوہ ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ یہی کُل دین ہے۔ درحقیقت یہ دین کے ارکان اورستون ہیں، دین کی اصل عمارت اپنی جگہ پر الگ ہے۔ پوری زندگی اللہ کی بندگی اور اس کی اطاعت میں گزرے، یہ دین ہے۔ اس کو سہارا دینے کا کام یہ ستون کرتے ہیں۔ یہ اپنی جگہ خود دین نہیں ہیں۔
ہر عبادت اپنی جگہ پر کوئی مقصد رکھتی ہے۔ چنانچہ نماز کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کی یاد زندگی میں جاری و ساری ہو۔ ہر وقت بندہ اللہ کو یاد رکھے۔ اسی لیے پانچ وقت نماز کے ذریعے اس بات کی مشق کروائی جاتی ہے کہ کاروبار زندگی چھوڑ کر اللہ کے حضور حاضرہو کے اس کو یاد کرو، زبان سے بھی یاد کرو، دل سے بھی اور ہاتھ پائوں سے بھی یاد کرو، نیز پیشانی اس کے سامنے ٹیک کر، ہاتھ پائوں باندھ کر، اس کے سامنے کھڑے ہو کر مکمل اطاعت اور بندگی کا نمونہ پیش کرو۔ گویاپوری زندگی اللہ کی یاد میں صرف ہو۔ قرآن مجید میں اہلِ ایمان کے بارے میں فرمایا گیاہے:
یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قَیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۱) جو اُٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں۔
ہمارا نماز میں بیٹھ کے، لیٹ کے، جھک کے ہر طریقے سے اللہ کو یاد کرنا وہی زندگی بنانے کے لیے ہے جس میں دل، دماغ، عمل ہر جگہ اللہ کی یاد ہمیشہ تازہ رہے۔
اس کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ کا حکم ہے اور زکوٰۃ کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی دیا ہے وہ اس کی مرضی کے مطابق اس کے بندوں کے اوپر خرچ ہونا چاہیے۔ گویا نماز اللہ کی یاد سے متعلق ہے اور زکوٰۃ اس احساس کا نام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مال دیا ہے، اس میں بندوں کے حقوق ادا کرو اور اللہ کو مال سے زیادہ محبوب رکھو۔ اہلِ ایمان کے بارے میں فرمایا گیا ہے: اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ (البقرہ۲:۱۷۷) ’’جو اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔‘‘
یوں گویا پوری زندگی، جان و مال ہی اسی لیے ہے کہ آدمی کو جو کچھ اللہ نے دیا ہے، جسمانی صلاحیتیں، قوت گفتار، تصنیف و تالیف کی صلاحیت، مال، وقت، محض اپنے لیے نہ ہو بلکہ دوسرے انسانوں کی فلاح و بہبود اور خدمت کے لیے بھی ہو۔
تیسرا ستون روزہ ہے جو اپنے نفس کے اوپر ضبط کی تربیت دیتا ہے اور چوتھا ستون حج ہے۔ یہ دراصل اللہ کی راہ میںنکلنا اور اللہ کی راہ میں اپنی محبوب ترین چیزیں قربان کرنا ہے، اور اللہ کے دین کو دنیا کے اندر قائم و دائم اور غالب کرنے کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرنے کے عزم اور جذبے سے سرشار ہونا ہے۔ یہ جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کے لیے ہے۔
حج ایسی عبادت نہیں ہے کہ ہر ایک پر فرض ہو۔ اس کے لیے مال بھی چاہیے، صحت بھی چاہیے اور سفر کی سہولت بھی۔ اس کے بغیر کوئی آدمی اس کو ادا نہیں کر سکتا۔ نماز دن میں پانچ دفعہ فرض ہے۔ زکوٰۃ سال میں ایک دفعہ فرض ہے۔ روزے سال میں ایک دفعہ ۳۰ دن کے لیے فرض ہوتے ہیں، جب کہ حج پوری زندگی میں صرف ایک دفعہ فرض ہے۔ اس کے بعد جو بھی حج ہے، وہ نفلی عبادت ہے۔
جب حج فرض ہوا اور حضوؐر نے مسجد نبویؐ میں اعلان فرمایا کہ تم پر ہر سال حج فرض کر دیا گیا ہے، تو ایک قبائلی سردار حضرت فرع بن حابسؓ کھڑے ہو گئے اور پوچھا کہ کیا یہ ہر سال فرض کیا گیا ہے؟ اس پر آپؐ خاموش رہے۔ انھوں نے دوسری بار پھر یہی سوال کیا۔ کیا ہر سال فرض کیا گیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ اگر میں ہاں کہہ دیتا تو پھر حج ہر سال فرض ہو جاتا اور پھر تم اس کو ادا نہیں کرسکتے تھے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ جو میں کہا کروں اس کو اسی پر چھوڑ دیا کرو ۔تم سے پہلے لوگوں نے ایسے ہی سوال کرکے دین کو بڑا مشکل بنا دیا تھا۔ پھر وہ اس پر چل نہیں سکے اور آپس میں اختلاف کیا۔ جو میں حکم دوں اس کو سنواور جتنا عمل کرسکتے ہو، اس پر عمل کرو۔ گویا نبی کریمؐ نے اس بات کو ناپسند فرمایا کہ بہت سارے سوال کرکے کام کو اپنے لیے مشکل بنایا جائے۔ لہٰذا حج پوری زندگی میں ایک ہی بار فرض ہے۔
حج دراصل محبت اور عشق کی عبادت ہے اور یہ ایمان کا بنیادی تقاضا ہے کہ ایمان لانے والوں کو اللہ تعالیٰ سے ہر چیز سے بڑھ کر محبت ہو۔
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ (البقرہ ۲:۱۶۵) ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔
اللہ سے محبت کوئی ایسا مقام نہیں ہے جو صرف صوفیاے کرام اور اولیاء اللہ کا مقام ہو، اور بڑے مقرب آدمی ہی کو اللہ سے محبت ہو سکتی ہو، بلکہ یہ تو ہر آدمی کو ہو سکتی ہے۔ ہر آدمی محبت سے واقف ہے اور ہر آدمی محبت کا مزہ چکھے ہوئے ہوتا ہے۔ جب کسی سے محبت ہو جاتی ہے تو آدمی اس کے لیے دیوانہ وار کام کرتا ہے اور اس کے لیے اپنی پسندیدہ چیزیں تک قربان کرتا ہے۔ ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ آدمی کو اللہ سے سب سے بڑھ کر محبت ہو۔ اسی بات کی ہدایت قرآن مجید میں کی گئی ہے کہ جو ایمان لائے ہیں وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ پھراللہ سے محبت کو مزید کھول کے بیان فرمایا گیا ہے کہ اگر تمھارے باپ، تمھارے بیٹے، تمھاری بیویاں، تمھارے رشتہ دار اور تمھارے مال جو تم نے سینت سینت کے جمع کر رکھے ہیں، اور تمھارے وہ کاروبار اور ملازمتیں جن سے تم کماتے ہو، اور تمھارے وہ مکانات جو تم کو بڑے پسند ہیں، کوئی چیز بھی اگر اللہ اور اس کے رسولؐ [اب اللہ کے ساتھ اس کے رسول کا بھی تذکرہ ساتھ ساتھ کیا گیا ہے] اور اللہ کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہے تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے۔
اللہ کی محبت اس طرح کی محبت نہیں ہے جس طرح کی محبت آدمی دُنیا میں کرتا ہے، بلکہ اس میں تو اللہ کے رسول کی محبت بھی شامل ہے اور اللہ کا رسول دراصل اللہ کا نمایندہ اور دوسروں کے لیے اس کی ذات میں بہترین نمونہ ہے۔ اس کی زندگی وہ زندگی ہے جو اللہ کو پسند اور محبوب ہے۔ اس کی اطاعت، اللہ کی اطاعت ہے۔ اس کا کہا ماننا دراصل اپنے محبوب کا کہا ماننا ہے۔ اس کے پیچھے چلنا، اپنے محبوب کے پیچھے چلنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ؐ کو خود حکم دیا:
قُل اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط (اٰل عمرٰن۳:۳۱) اے نبیؐ، لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔
لہٰذا حج اللہ سے محبت کی عبادت ہے، اور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے تیار کرنے کے لیے ہے۔
حج حضرت ابراہیم ؑ کی اللہ تعالیٰ سے محبت کی علامت ہے۔ عیدالاضحی کے موقع پر قربانی بھی اسی محبت کو تازہ کرنے کے لیے ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ کی محبت میں جس طرح اپنے باپ کو چھوڑا، اپنا گھر بار چھوڑا، رشتہ داروں کو چھوڑا، ایک بیابان جنگل میں اپنے بیوی بچے کو لا بسایا، وہاں پر پتھروں سے اللہ کا گھر بنایا، یہ سب محبت کی علامت ہے۔ وہ جس طرح آتے تھے، اس گھر کے گرد چکر کاٹتے تھے، اس کو چومتے تھے، اس کو پیار کرتے تھے، یہ بھی محبت کی علامت ہے۔
حج، دین کی تکمیل کا نام ہے۔ قرآن مجید کے نزول کا آغاز رمضان المبارک میں ہوا۔ قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے لیے اپنے نفس پر ضبط اور اس کے احکام کی اطاعت و پیروی ضروری ہے۔ اس قرآن کو لے کر کھڑے ہونا، اس کو دُنیا تک پہنچانا، اس کو غالب کرنا، دین کی تکمیل کے لیے ضروری ہے۔ دین کی تکمیل بھی حج کے موقع ہی پر ہوئی۔ حضوؐر حجِ وداع کے موقع پر عرفات کے میدان میںکھڑے تھے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرِضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المآئدہ ۵:۳) آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے، اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔
اس آیت کا حج کے موقع پر نازل ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ دین کی تکمیل کا رشتہ حج کے ساتھ وابستہ ہے۔ حضوؐر نے پوری زندگی میں صرف ایک بار حج کیا اور اس کے تین مہینے بعد آپؐکا وصال ہو گیا اور آپؐ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ آپؐ نے اپنے وصال سے پہلے حج کا فریضہ انجام دیا، اس کے سارے مناسک اور آداب اور مسائل لوگوں کو سکھائے اور یہ آپؐ ہی واضح کر سکتے تھے۔ اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر دین کی تکمیل بھی ہوگئی۔
دین کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب دین پوری زندگی میں غالب آ جائے اور پوری زندگی دین کے مطابق ہو۔ یہ مرحلہ اس وقت آیا جب لوگ دین میں فوج در فوج داخل ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت اور فتح عنایت فرمائی اور مکہ فتح ہوگیا اور بہ تدریج پورے عرب میں دین غالب آ گیا۔جب آپؐ مغلوب تھے، اس وقت آپؐ عمرے کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ حج کے لیے آپؐتب نکلے جب پورا مکہ، مدینہ اور سارا عرب آپؐ کے زیر نگیں آگیا۔ اسلام کی حکومت قائم ہوگئی، دین غالب آگیا، لوگ گروہ در گروہ دین میں داخل ہونے لگے۔ سورۂ نصر میں اسی مرحلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب لوگ گروہ در گروہ دین میں داخل ہونے لگے تھے۔
حج اس بات کی علامت ہے کہ محض ضبط نفس، نیکیاں کر لینا، نماز پڑھنا، زکوٰۃ دینا، اس سے دین مکمل نہیں ہوتا، بلکہ دین اس وقت مکمل ہوتا ہے جب آدمی اللہ کی راہ میں ان چیزوں کو چھوڑنے کے لیے تیار ہو جو اسے محبوب ہیں اور اس کے بغیر اللہ کی راہ میں جہاد نہیں ہو سکتا۔ قرآن مجید میں جہاں بھی جہاد فی سبیل اللہ کا لفظ آیا ہے، بعضوں نے اس کے معنی صرف اللہ کے لیے میدانِ جنگ میںجہاد کے لیے ہیں اور بعض نے اس میں حج کوبھی شامل کیا ہے۔ حج بھی جہاد سے ملتی جلتی عبادت ہے۔ حضوؐر نے فرمایا کہ میرے دین میں کوئی رہبانیت نہیں ہے۔ اگر رہبانیت دُنیا کا ترک ہے تو وہ حج میں اور جہاد فی سبیل اللہ میں ہے۔ آپؐ نے ان دونوں کا ایک ساتھ ذکر فرمایا۔ گویا دُنیا کو چھوڑنا یا ترکِ دنیا اگر ہے تو یہ حج اور جہاد فی سبیل اللہ کے اندر ہے۔ لیکن دُنیا کے دوسرے تمام کام اسی طرح ہوں گے جس طرح دوسرے لوگ کرتے ہیں لیکن اللہ کی مرضی کے لیے ہوں گے، اللہ کے حکم کے تحت ہوں گے۔ لہٰذا اسلام میں اگر کوئی رہبانیت ہے تو وہ حج اور جہاد فی سبیل اللہ کے علاوہ کچھ نہیں ۔
گوشوں اور خانقاہوں میں بیٹھنے اور راتوں کو بیٹھ کر لمبے لمبے ذکر کرنے کی تعلیم آپؐ نے نہیں دی۔آپؐ نے اس کو پسند نہیں فرمایا کہ کسی چیز کو لاکھوں بار پڑھا جائے۔ ہم سب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بڑے ثواب کا کام ہے، حضوؐرنے بڑا پسند کیا ہوگا کہ کسی کلمے کا لاکھ لاکھ ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ دفعہ ورد کیا جائے۔ ایسی کوئی حدیث نہیں ملتی کہ حضوؐر نے اس کثرت سے پڑھنے کی کوئی تعلیم دی ہو۔ آپؐ نے زیادہ سے زیادہ سو دفعہ، دس دفعہ، سات دفعہ، یاتین دفعہ پڑھنے کی تعلیم دی ہے۔
ایک بار حضوؐرکسی کام سے باہر نکلے۔ اس وقت حضرت جویریہؓ دانوں پر تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ جب آپؐ واپس آئے تو وہ اسی میں مشغول تھیں۔ آپؐ نے پوچھا کہ اتنی دیر میں کیا پڑھا؟ انھوں نے بتایا کہ میںتو تب سے یہ تسبیح پڑھ رہی ہوں اور آپ کاروبار میں مشغول تھے۔ آپؐ نے فرمایا: میں نے اس عرصے میں صرف چار کلمات کہے ہیں اوریہ تمھاری ساری تسبیحات پر بھاری ہیں۔
اسلام نے رہبانیت کی تعلیم نہیں دی۔ اسلام چاہتا ہے کہ آدمی دُنیا میںمشغول رہے مگرہروقت اللہ کی رضا کواپنے سامنے رکھے۔ چنانچہ بہت سے علما نے کہا ہے کہ اگر آدمی ہزاروں اشرفیوں میں کھیلتا ہے، جائز کماتا ہے اور جائز خرچ کرتا ہے مگر دل اشرفیوں میں نہیں اٹکتا تو وہ سچا مومن ہے اور اس کے مقابلے میں ایک آدمی جھونپڑی میں بیٹھا ہے، اس کے پاس چندپیسے ہیں، اس کا دل ان پیسوں میں اٹکا ہوا ہے، اللہ کے پا س نہیں ہے تو وہ بڑا دُنیا دار ہے۔ یہ حکم ہے دُنیا کے بارے میں ۔ یہ ہے رہبانیت دین کو مکمل کرنے کے لیے ، دین کو غالب کرنے کے لیے۔ اس کے لیے ہی حج کی عبادت فرض کی گئی ہے اور جہاد فی سبیل اللہ کا فریضہ عائد کیاگیا ہے۔
اللہ کی یاد، اللہ کی راہ میں خرچ کرنا، اپنے نفس کے اوپر ضبط کرنا اور اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے، اس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے، اس مشن کو پورا کرنے کے لیے جو اللہ نے اپنے رسولوں کے سپرد کیا، اس کے لیے گھر بار چھوڑنا، گھر سے نکلنا اور اپنے معمولاتِ زندگی چھوڑ دینا اور کہیں اور سفر کرکے جانا___ حج کے ذریعے ان سب پہلوئوں سے تربیت کی جاتی ہے۔
حج کی عبادت میں، کوئی چیز پڑھنا ضروری نہیں ہے جس طرح نماز اور دیگر عبادات میں ہے۔ حج کے فرائض صرف تین ہیں۔ ان میں کوئی بھی چیز پڑھنا ضروری نہیں ہے۔ سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ آدمی عرفات میں حاضر ہو جائے، یعنی گھر سے نکلے، سفر کرے، میقات پر احرام باندھے اور عرفات کے میدان میں پہنچ جائے۔ اور جو شخص عرفات کے میدان میں سورج نکلنے سے لے کر بعض کے نزدیک سورج غروب ہونے تک اور بعض کے نزدیک اگلے دن فجر تک پہنچ گیا، اس کا حج ہو گیا اور جو نہیں پہنچا، اس کو اگلے سال حج کے لیے دوبارہ آنا پڑے گا۔ ہر چیز کی قضا ہوسکتی ہے، ہر چیز کا مداوا ہے، ہر چیز کا علاج ہے، آدمی سے طواف چھوٹ گیا بعد میں کر لے، قربانی بعد میں دے دے لیکن عرفات کے میدان میں حاضری کی کوئی قضا نہیں ہے۔ اگلے سال لازماً پھر آنا پڑے گا۔ کسی قربانی سے اس کی تلافی نہیں ہو سکتی۔ گویا یہ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے کہ لوگ گھروں سے نکلیں، سفرکریں، بیوی بچوں کو چھوڑیں، کاروبار چھوڑیں، ملازمت چھوڑیں، اور اس کے دربار میں کھڑے ہوکے واپس چلے جائیں۔ صرف حاضری دیں اور کچھ نہ کریں۔ اگر آدمی میدانِ عرفات میں سے ایک منٹ بھی گزارے تو اس کا حج ہو جاتا ہے اور اگر کسی وجہ سے نہیں پہنچ پاتا تو اس کا حج نہیں ہوتا ہے۔
یہ حج کا پہلا اہم ترین فرض ہے۔ پھر اس کے ساتھ بہت ساری چیزیں اور مناسک ہیں لیکن حج کا رکنِ اعظم یہی ہے کہ آدمی گھر بار چھوڑ کر نکلے، مال بھی خرچ کرے، مشقت بھی اُٹھائے، سفر بھی کرے اور میدانِ عرفات میں حاضری دے کر واپس چلا جائے۔ دیگر فرائض بھی ہیں، قربانی ہے، طواف ہے لیکن پورے حج کا انحصار اسی پر ہے۔ گویا مسلمانوں کا ایک میدان میں جمع ہونا، اللہ کے دربار میں حاضری دینا، یہ اللہ کو اتنا محبوب ہے کہ یہ حج کا اہم ترین فرض ہے۔ ا س لیے کہ یہ اس کی محبت کی علامت ہے۔ یہ محبت ہی تو ہے کہ آدمی اپنے گھر سے نکلے، اپنا لباس اتار دے، دو چادروں میں ملبوس ہو جائے، سفر کرے، اپنے محبوب کے گھر پر پہنچ جائے، اس کے گھر کے گرد دیوانوں کی طرح گھومے، اسے بوسا دے، چومے اور لپٹ لپٹ جائے اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلیں۔
ہم سب اردو شاعری سے واقف ہیں۔ محبوب کی گلی میں جانا، اس کے در پر حاضر ہونا، اس کی گلی کے چکر کاٹنا، یہ سب محبت کے وہ محاورے ہیں جو ہمارے شعرا نے باندھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح اللہ کے گھر جانا، اس کے گھر کے درودیوار سے لپٹ کے دُعا کرنا، اس کے گھر کے پردے سے لپٹ جانا، اس کے در پر جا کے کھڑے ہو جانا، اس سے منہ لگانا، گال لگانا، پیار کرنا اور پتھر کو چومنا، بوسا دینا، سینے سے لگانا، یہ سب بھی اللہ تعالیٰ سے والہانہ محبت اور عشق کا اظہار اور اس کی علامات ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے، کسی ایک گھر میں نہیں بیٹھا ہوا ہے، کسی ایک پتھر سے وابستہ نہیں ہے۔ اس نے علامتیں مقرر اسی لیے کیں تاکہ آدمی اس سے محبت کا اظہار کر سکے، اس سے والہانہ عشق کر سکے۔ اسی لیے اس نے کہا کہ یہاں آئو، اسی گھر کے گرد چکر لگائو، اس کو چومو اور پیار کرو اور اس کے بعد پھر اپنے محبوب کے حکم کی تکمیل میں عرفات کے میدان میں پہنچ کر حاضری دو۔
حج کے موقع پر قربانی بھی دی جاتی ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اگر آدمی کواللہ کی راہ میں خون بہانا پڑے، اپنی جان دینی پڑے، اپنے محبوب بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا پڑے تووہ اس سے دریغ نہیں کرے گا اور سر کٹوانے کے لیے تیار ہوگا، اس لیے کہ یہ سر اس کا دیا ہوا ہے۔ سر محبوب کے قدموں پر نثار کر دے، قربان کر دے۔ جب بھی اس کی راہ میں قربانی دینا پڑے، مال کی، وقت کی، جذبات کی، محبتوں کی، وہ قربانی دی جائے۔ یہی اسوۂ ابراہیمی ؑ ہے اوریہی حج کا منشاو مقصود ہے۔ اسی لیے یہ ایسی عبادت ہے کہ اگر آدمی عمر میں صرف ایک دفعہ بھی کرلے تو بھی یہ اس کے لیے کافی ہے۔ یہ دوا کی اتنی بڑی خوراک ہے اورتربیت کا اتنا اہم ذریعہ ہے کہ اگر آدمی اس کو واقعی انجام دے لے، تو اس کی پوری زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل سکتی ہے۔
حج حضرت ابراہیم ؑ کی محبت و قربانی کی یاد گار ہے۔ حج کے جتنے مناسک ہیں، اسی کی یاد میں ہیں۔ صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر حضرت آدم ؑ نے کی۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اس کو پہلی عبادت گاہ قرار دیا ہے جو انسانوں کے لیے زمین پر تعمیر کی گئی۔
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰـرَکًا وَّہُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ فِیْہِ اٰیٰتٌم بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰھِیْمَ وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا ط (اٰل عمرٰن۳:۹۶-۹۷) بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر وبرکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیا تھا۔ اس میں کھلی نشانیاں ہیں، ابراہیم ؑ کا مقامِ عبادت ہے، اور اُس کا حال یہ ہے کہ جواس میں داخل ہوا، مامون ہوگیا۔
لہٰذا یہ پہلا گھر ہے جو اللہ کے لیے بنایا گیا ہے اور سارے انبیاؑ نے اس کا حج کیا ہے۔
جب حضوؐرآخری حج کے لیے جا رہے تھے، ایک جگہ رُک کر آپؐ نے پوچھا کہ یہ کون سی وادی ہے؟ صحابہ کرامؓ نے وادی کا نام لیا تو آپؐ نے کہا کہ میں گویا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ حضرت یونس ؑ جن کے گھنگریالے بال ہیں، سفید کپڑے پہنے ہوئے لبیک کہتے ہوئے جا رہے ہیں۔ حضرت یونس ؑ کا زمانہ توبہت پرانا تھا۔ آپؐ نے کہا کہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ جار ہے ہیں اور یہ صحیح بخاری کی حدیث ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ آپؐ نے ان انبیاے کرام کے نام بھی لیے جو بہت پہلے گزرے تھے کہ انھوں نے یہاں حج کیا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد کے لیے تو مرکز یہی تھا۔ اب تورات میں تحریف ہو گئی ہے اور قربانی کی جگہ کا نام مورولکھا ہوا ہے لیکن اصل مروہ ہے۔ مروہ کے مقام پر حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی دی گئی تھی۔ تورات میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے اکلوتے بیٹے حضرت اسحاقؑ کی قربانی دی گئی تھی حالانکہ حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی دی گئی تھی۔ قرآن مجید میں اس واقعے کا تذکرہ کیا گیا ہے اگرچہ قرآن ان بحثوں میں نہیں الجھتا کہ صحیح نام کیا ہے لیکن یہ واضح کیا ہے کہ حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کی گئی ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ نے اس کو اپنا گھر بنایا۔ مقامِ ابراہیم ؑ اور وہ پتھر آج بھی موجودہے جہاں کھڑے ہو کر آپ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی۔ آپ کی اہلیہ یہاں رہتی تھیں، آپ کا بچہ یہاں پر رہتا تھا اور جہاں آدمی کے بیوی بچے رہتے ہوں، وہ اس کا گھر بھی ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے خانہ کعبہ آپ کا گھر بھی تھا۔ مقامِ ابراہیم سے ایک مراد حضرت ابراہیم ؑ کے قیام کی جگہ بھی ہے، اور یہاں لا کر آپ نے اپنی اولاد کو بسایا تھا۔ لہٰذا تاریخی حوالے سے بھی یہ اللہ کا قدیم ترین گھر ہے، اور پھر قرآن مجید کی شہادت تو کسی روایت کی محتاج نہیں ہے۔ اس کے لیے کسی تاریخی حوالے کی ضرورت نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ یہ پہلا گھر ہے جو خدا کی بندگی کے لیے بنایا گیا ہے اور وہ مکے میں ہے۔ مکہ کا پہلا نام بکہ تھا اور تورات میں اور حضرت دائود ؑ کے نغموں میں اس کا نام بکہ ہی لکھا ہے۔ وادی بکہ، اس سے لگائو، اس کے عشق میں وہاں پر جائوں اور اس کی زیارت کروں اور خیموں میں ٹھہروں… یہ سارے گیت تورات کے اندر موجود ہیں۔ بکہ اور خانہ کعبہ سے متعلق بہت سے بیانات تورات انجیل میں ملتے ہیں، جن کو لوگ نہیں مانتے، تسلیم نہیں کرتے لیکن اس کا ذکر نام کے ساتھ موجود ہے۔ خدا کے پہلے گھر کو حضرت ابراہیم ؑ نے دوبارہ تعمیر کیا اور ان بنیادوں پر تعمیر کیا جن بنیادوں پر اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی۔ قرآن مجید نے اس تعمیر کا نقشہ کھینچا ہے:
وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوْاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ ط (البقرہ ۲:۱۲۷)اور یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے۔
اس پورے منظر کی تصویر کھینچ کر سامنے رکھ دی ہے کہ دونوں باپ بیٹے مزدور کی طرح لگے ہوئے ہیں، کام کر رہے ہیں، بیٹا پتھر لا لا کے دے رہا ہے اور باپ ایک ایک پتھر رکھتا جارہا ہے اور اس گھر کی تعمیر ہو رہی ہے جس کی مثال اور نظیر دُنیا کے کسی اور گھر کی نہیںہے۔
یہ گھر اس بات کی علامت ہے کہ یہ مرکزِ رشدو ہدایت ہے۔ نماز میں پانچ وقت [اسی طرف] رُخ کرنے کا حکم بھی اسی لیے ہے کہ یہ اللہ کا گھر ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی مثال کے ذریعے سے ا س بات کو بھی واضح کیا گیا ہے کہ جو اس گھر کے رب کو اپنا رب بنا لیتا ہے تو اللہ اس کو کیا مقام عطا کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مانا تو اللہ نے ان کو کتنا اونچا مقام دیا۔ سارے انسانوں کا امام بنا دیا۔ عیسائی، یہودی، مسلمان تینوں ان کو اپنا امام مانتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ برہمن کا لفظ بھی ابراہیم سے نکلا ہے۔ ابراہیم سے اس لیے کہ ’ب رھ م‘ یہ مادہ عربی زبان میں اور عبرانی زبان میں ایک ہی لفظ کا ہے۔ ہر مذہب کی جڑ جا کر انھی تک پہنچتی ہے۔ یوں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو ساری دُنیا کا امام بنا دیا۔
ایک عورت جس نے اللہ پربھروسا کیا، جو یکا و تنہا تھی، جس کا کوئی سہارا نہیں تھا، اس کا ایک بیٹا جو دودھ پیتا بچہ تھا، ان کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے جب انھیں یہاں پر چھوڑا تو حضرت ہاجرہ نے پوچھا کہ آپ ہمیں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں؟ انھوں نے پلٹ کے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر انھوں نے پوچھا کہ آپؐ کو اس کا حکم اللہ نے دیا ہے؟ کہنے لگے: ہاں، اللہ نے حکم دیا ہے۔ اس پر وہ مطمئن ہو گئیں اور مزید کوئی سوال نہیں کیا اور اللہ کی ذات پر بھروسا کر لیا۔ حضرت ابراہیم ؑبھی بالکل مطمئن واپس آ گئے۔ یہ اللہ پر بھروسے کا نتیجہ ہی تھا کہ اللہ نے لق ودق صحرا میں ان کی زندگی کا سامان کر دیا، زم زم جاری کر دیا اور پھر اپنی اس بندی کی اس محبت و اطاعت کو حج کا رکن بنا کر ہمیشہ کے لیے جاری وساری کر دیا۔
خدا پر بھروسا اور ا س کی اطاعت، یہی دراصل دین کی روح ہے۔ اسی لیے نماز میں جواطاعت کی مظہر ہے، ہم خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ سبق ذہن میں ہر وقت تازہ ہونا چاہیے کہ گھر سامنے موجود ہے۔ اگرچہ نگاہوں کے سامنے تونہیںہے لیکن تصور میںموجود رہنا چاہیے۔ یہ اتنا ضروری ہے کہ اگر قبلے کی طرف رخ نہ ہو تونماز نہیں ہوتی۔ قبلہ کی طرف رخ کرنا بنیادی شرائط نماز میں سے ہے۔ حکم ہے کہ اگر قبلہ نامعلوم ہو توآدمی اندازے سے رخ کا تعین کرے اور جب صحیح رخ معلوم ہو جائے توبغیر کسی توقف کے فوراً اپنا رخ درست کرلے۔ جب حضوؐر کو تحویل قبلہ کا حکم آیا تو آپؐ شمال کی طرف جدھر بیت المقدس تھا منہ کیے ہوئے تھے، جیسے ہی تحویل قبلہ کا حکم آیا تو آپؐ نے فوراً ۱۸۰ ڈگری پھیر کر مکہ کی طرف اپنا رخ کرلیا۔
قبلے کی طرف رخ کرنے کا حکم، پانچ وقت نماز میں رخ کرنا اور حج کے موقع پر حاجی کا اللہ کے گھر کی طرف جانا، یہ اللہ پر بھروسے، اس پر توکل، اس پر اعتماد اور حکم ملتے ہی بلا دھڑک اس کی اطاعت کرنے کا نام ہے۔ یہی حضرت ابراہیم ؑ کی محبت کی شان ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے:
اِذْا قَالَ لَہٗ رَبُّہٗٓ اَسْلِمْ لا قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (البقرہ ۲:۱۳۱) اس کا حال یہ تھا کہ جب اس کے رب نے اس سے کہا! مسلم ہو جا تو اس نے فوراً کہا: میں مالکِ کائنات کا ’مسلم ‘ہوگیا۔
اللہ کی اطاعت ایک مسلمان کی شانِ بندگی ہونی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ لبیک لبیک کہتے ہوئے، سفید لباس پہنے ہوئے، لاکھوں کی تعداد میں خانہ کعبہ جاتے ہیں لیکن اگر زندگی میںکوئی معاملہ اطاعت کا آ جائے تو منہ سے لبیک نہیں نکلتا، اور عمل سے تو بالکل ہی نہیں نکلتا ۔ وہ بڑے بڑے روساے حکومت جو احرام باندھ کر جاتے ہیں اور خانہ کعبہ میں گھس کر اپنی داد وصول کرتے ہیں اور مسجد نبویؐ کے اندر بھی روضہ مبارک کے اندر پہنچائے جاتے ہیں، کھلم کھلا احکامِ الٰہی کا انکار کرتے ہیں اور مسلمانوں پر ظلم ڈھاتے ہیں لیکن یہاں ان کے منہ سے لبیک نہیںنکلتا۔ دراصل اللہ تعالیٰ نے حج کا حکم اسی لیے دیا ہے کہ ادھر آئو اور اللہ سے اپنی محبت کو تازہ کرو۔ ماں باپ، بیوی بچے، رشتہ دار، تجارت، مال و دولت، مکان کوئی چیز بھی اللہ اور اس کے رسولؐ سے بڑھ کر محبوب نہیں ہونی چاہیے۔ نبی کریمؐ نے بھی اپنی محبت کے لیے ایسا ہی مطالبہ کیا ہے کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کو اس کے والدین، جان و مال اور ہر چیز سے بڑھ کر پیارا اور محبوب نہ ہوجائوں۔
عبادت بالخصوص حج دراصل اللہ کی محبت کی علامت ہے۔ یہ جہاد کے لیے تیاری کرنے کی علامت ہے۔ اس اُمت کے زوال کا اصل سبب بھی یہی ہے کہ اس نے اس مقصد کے لیے جہاد کو ترک کر دیا جس کے لیے اللہ نے اس کو پیدا کیا تھا۔ ایک حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ دُنیا اتنی محبوب ہو جائے اور موت سے آدمی ڈرنے لگے تو پھر کافر قومیں تم پر اس طرح ٹوٹیں گی جس طرح بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
لوگوں نے پوچھا کہ کیا ہم تعداد میں کم ہوں گے؟آپؐ نے کہا: نہیں تم درخت کے پتوں اور ریگستان کے ذروں کے برابر ہوگے۔ لیکن دیگرقوموں کے لیے ترنوالہ ہو گے۔ جو چاہے گا تم پر ظلم ڈھائے گا۔پھر لوگوں نے پوچھا: کہ یہ کیوں ہوگا؟آپؐ نے فرمایا: وَہن پیدا جائے گا۔ لوگوں نے پوچھا: وَہن کیا ہے؟آپؐ نے فرمایا: دُنیا کی محبت اور موت کا ڈر۔
یہ اس مقصد فراموشی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج مسلمان سوا ارب سے زیادہ کی تعداد میں ہیں کہ دُنیا کا ہر پانچواں شخص مسلمان ہے لیکن دشمن قومیں ہم پر بھوکوں کی طرح ٹوٹ پڑی ہیں۔ بوسنیا،چیچنیا، فلسطین، کشمیر [اور اب افغانستان، عراق، پاکستان] میں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ اس کے مداوے کی بھی اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے کہ وہن سے نجات حاصل کی جائے، خدا کی بے لاگ اطاعت ہو اور اس سے محبت و عشق کا والہانہ اظہار کیا جائے۔ حج کے ذریعے سے اسی پیغام کو تازہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
جب آدمی حج کے لیے جاتا ہے تو اسی محبت سے بے قرار ہو کے جاتا ہے۔ کوئی کام نہیں کرتا سواے اس کے کہ میدان میں پہنچ کر حاضری دے جس طرح میدانِ جنگ میں جا کر آدمی لڑتا ہے۔ یہ ویسی ہی مشق ہے جس طرح پریڈ میں آدمی کرتا ہے کہ بگل بجتے ہی آدمی ہر کونے سے دوڑا چلا آتا ہے۔ اس کا مقصد صرف حاضری دینا اور واپس چلے جانا ہوتا ہے اور کوئی کام نہیں ہوتا۔ اگر کوئی نہ آئے تو اس کا کورٹ مارشل ہو جاتا ہے، اس کو ملازمت سے نکال دیا جاتا ہے۔ اسی طرح حج کے موقع پر حاضری بھی اسی بات کی علامت ہے کہ جب پکارا جائے: ’’آجائو، اطاعت کرو‘‘، تو سب کچھ لا کے حاضر کردو۔ اس بات کی عملی تربیت حج کے ذریعے دی گئی ہے۔
حج اتنی عظیم عبادت ہے کہ محبت، عشق، قربانی اور حضرت ابراہیم ؑ کی طرح سب کچھ ترک کرنا، اسی پر بھروسا کرنا، اسی پر توکل کرنا، یہ سب صفات اس سے پیدا ہوتی ہیں۔
اب تو حج بڑی کثرت سے ہوتا ہے۔ لوگ ہر سال حج کے لیے بھی جاتے ہیں اور برابر عمرے کے لیے بھی جاتے ہیں لیکن حج کی عبادت کا اصل مقصد یہ ہے کہ اس بات کی تربیت ہو کہ جہاں آدمی ہو، وہ کام کرے جس کے لیے حضوؐر تشریف لائے تھے۔ اس کام کے مکمل ہونے کی داستان مکہ کے ایک ایک پتھر اور ایک ایک سنگریزے کے اوپر لکھی ہوئی ہے۔ جو وہاں پر جائے اس پوری داستان کو پڑھے۔ لیکن جو شخص طواف کرے اور واپس آ جائے اوراس کے دل میں کوئی شوق پیدا نہ ہو کہ میں بھی وہی کام کروں جو حضوؐرنے کیا ہے تو اس نے حج سے کچھ حاصل نہیں کیا۔
ایک آدمی ہر سال حج کے لیے جاتا ہے، عمرے کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ ایک لاکھ کا ثواب مجھے مل رہا ہے، تو یہ ثواب محض ترغیب کے لیے ہے۔ اگر صحابہؓ کو معلوم ہوتا کہ یہی اصل چیز ہے تو وہ مدینہ چھوڑ کر ہی نہ نکلتے کہ مسجد نبویؐ میں نماز ادا کرنے کے نتیجے میں ہمیںہر وقت پچاس ہزار نماز کا ثواب مل رہا ہے، یا مکہ میں جا کر بیٹھ جاتے کہ یہاں تو ایک لاکھ نماز کا ثواب ہے اور تواتر سے ہر سال عمرہ اور حج کرتے۔ مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ خود نبی کریمؐ جب حج کے لیے آئے، امام بخاریؒ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ آئے اور عمرہ کرکے واپس اپنی قیام گاہ میں چلے گئے جو مکہ کے بالائی حصے میں تھی۔ اس کے بعد جب تک آپؐ مکہ میں رہے، طواف اور نماز کے لیے حرم میں نہیں آئے۔ ۴ تاریخ کو آپؐ مکہ آئے تھے اور ۸ تاریخ کو آپؐ مکہ سے نکلے تھے۔ حج کے لیے منیٰ کی طرف گئے اور پھرآپؐ نے آکر طواف نہیں کیا اور حرم میں نماز نہیں پڑھی۔ آپؐ حجراسود کو چومنے کے لیے آگے بڑھے۔ آپؐ اپنی چھڑی سے اشارہ کرتے تھے اور اونٹنی پر سوار ہو کے آپؐ نے طواف کیا۔ یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ خواہ مخواہ کی بھاگ دوڑ ضروری نہیں ہے۔ آدمی جو کچھ سہولت سے کرسکتا ہو، وہی کرے۔ اصل تو حج کا سبق ہے، یعنی محبت کا، قربانی کا، عشق کا اور وہ کام کرنے کا جو حضوؐر نے انجام دیا ہے۔
آج لوگ فرائض چھوڑ کر نوافل کی طرف دوڑتے ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں کہ ایک کروڑ نفل بھی ادا کرلیے جائیں تو وہ ایک سنت ایک فرض کے برابر نہیں ہوسکتے۔ اس کا وہ مقام نہیں ہو سکے گا جو مقام فرض اور سنت کا ہے۔ اس لیے کہ وہ نفل ہے۔ سب سے بڑا فرض تو شریعت پر عمل اور اس کا نفاذ ہے۔ ایک سنت کو بھی اگر آدمی زندہ کرے اوراگر سنتیں مٹ گئی ہوں تو اس کا اتنا ثواب ہے کہ ایک کروڑ نفل ادا کر کے بھی نہیںمل سکتا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ لوگ ہر سال حج کو جاتے ہیں، عمرے کو جاتے ہیں، لیکن ایک پائی بھی دین کو قائم کرنے کے لیے اور فریضہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے جیب سے نہیں نکلتی۔
حضرت شفیق بلخیؒ کے پاس ایک آدمی آیا۔ اس نے کہا میرے پاس پیسہ جمع ہے اورمیں حج کے لیے جانا چاہتا ہوں۔ آپ نے پوچھا کہ کیا پہلے حج کر چکے ہو؟ وہ کہنے لگا کہ ہاں کر چکا ہوں اور اب پھر جانا چاہتا ہوں۔ حضرت شفیق بلخیؒنے فرمایا کہ میں جو بات تمھیں بتائوں گا، تم اس کو نہیں مانو گے۔ وہ کہنے لگا:نہیں، آپ مجھے بتائیں، جو کچھ آپ بتائیں گے، میںوہی کروں گا۔ وہ کہنے لگے کے تمھارے محلے کے ایسے لوگ جو غریب ہیں، بھوکے ہیں اورضروریات زندگی سے محروم ہیں، یہ پیسہ جو تم نے حج کے لیے جمع کیا ہے، وہ انھیں دے دو۔ اس لیے کہ غریب کی مدد کرنا تو فرض ہے، اللہ کے دین کو قائم کرنا فرض ہے۔ وہ کہنے لگے تم حج کو نہ جائو۔ اس نے کہا: نہیں، میں تو حج کو ہی جائوں گا۔ میں نہیں مانوں گا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے پہلے ہی تم کو کہا تھاکہ میںجو مشورہ تم کو دوں گا، تم اس کو نہیں مانو گے۔ اس لیے آدمی سمجھتا ہے کہ نفلی حج کرنا ہی بڑی عبادت ہے۔
درحقیقت اصل عبادت یہ ہے کہ آدمی اپنے مقام پر ان فرائض کو ادا کرے جو اللہ نے فرض کیے ہیں۔ یہ فرائض حقوق میں بھی ہیں اور دین میں بھی۔ ان چیزوں سے بچا جائے جو اللہ نے حرام کی ہیں۔ نماز، روزہ اور حج، اسی ترغیب کے لیے ہیں۔
حج کے حوالے سے ایک پہلو ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو حج کے لیے نہیں جا سکتے۔ دل کی تمنا، شوق، تڑپ اور محبت تو ایسی چیز ہے کہ یہ جتنی وصال میں ہے، اس سے زیادہ ہجر میں ہوتی ہے۔ محبوب سے دُور رہنا، اس کی محبت میں آنسو بہانا، اس کی یاد میںتڑپنا، یہ اس سے زیادہ محبوب ہوگا کہ یہاں وہ تڑپتا رہے، اسی کی آرزو میں آنسو بہاتا رہے اور اپنا مال اور وقت اس کے دین کی سربلندی کے لیے خرچ کرتا رہے۔ یہ اس کے لیے سب سے بڑی محبوب چیزہوگی۔ لیکن اللہ نے محبت کے جو راستے بتائے ہیں، ہم ان کو چھوڑ کر ان راستوں کے پیچھے جاتے ہیں جو ہمارے دل پسند راستے ہیں کہ وہاں چلے جائیں، زیارت کرکے واپس آئیں اوراس طرح خدا کی محبت کا حق ادا ہو جائے گا۔ حج کے حوالے سے یہ پہلو بھی غور طلب ہے۔ اگر ہم اس پر غور کریں تو اللہ کا دین جو مٹ رہا ہے، اللہ کے بندے جو پریشان حال ہیں، یقیناان سب کے لیے وسائل کی ایک بڑی مقدار میسر آئے گی اور خدا کی محبت کا حق بھی بہتر طور پر ادا ہوسکے گا۔ (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)
۔
حالاتِ حاضرہ پر تحریر ۱۵ سال میں پرانی ہوجانا چاہیے، لیکن محترم خرم مراد کی یہ تحریر پڑھیں تو بالکل آج کی تحریر معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے نبض پر ہاتھ رکھ کر مرض کی تشخیص کی ہے اور نسخۂ شفا تجویز کیا ہے۔ لیکن شفا کے لیے شرط نسخے کے استعمال کی ہے۔ (ادارہ)
موجودہ پاکستان اور ہماری ذمہ داریوں کے حوالے سے اگر مختصراً جائزہ لیا جائے تو اس کے دو پہلو ہیں۔پہلے ایک نظر موجودہ پاکستان پر ڈالنا ضروری ہے، اور پھر اس کے حوالے سے ہم اور آپ کیا کر سکتے ہیں، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
موجودہ پاکستان اُس پاکستان سے بالکل مختلف ہے جو ۱۹۴۷ء میں معرض وجود میں آیا تھا، جغرافیائی طور پر بھی اور معنوی و روحانی طور پر بھی۔ یہ وہ پاکستان بھی نہیں ہے جس کا خواب دیکھ کر برعظیم کے مسلمانوں نے خاک وخون کے دریا سے گزر کر پاکستان کو وجود بخشا تھا۔ جغرافیائی طور پر اپنے وجود کے لحاظ سے جو پاکستان ۱۹۴۷ء میں تھا، وہ دو حصوں میں بٹ چکا ہے۔ اب اس کا آدھا حصہ ہے جو اس وقت پاکستان کے نام سے موجود ہے۔ اس کی آبادی کا ایک بڑا حصہ، بلکہ اکثریتی حصہ پاکستان سے الگ ہوچکاہے۔ جس دھڑکے دو حصے ہو جائیں وہ خود اپنی جگہ پر اس بات کی علامت ہے کہ وہ شدید انتشار اور مسائل سے دو چار ہے۔
معنوی اعتبار سے جب پاکستان وجود میں آیا تھا تو عزائم اور امیدوں کے خزانے لوگوں کے دلوں میںموج زن تھے۔ مگر منزل کی طرف پیش رفت کے لیے جو ہمتیں اور حوصلے اور جوجذبے اور آرزوئیں اُس وقت عوام کے دلوں میں موج زن تھیں، آج وہ ناپیدہیں۔ ان کی جگہ ایک مایوسی، قنوطیت، بے ہمتی اور بے حوصلگی کی کیفیت ہے۔
جب پاکستان وجود میں آیا تواس وقت عزائم بلند تھے، امنگیں توانا تھیںاور بازوئوں اور دلوں میں جذبہ اور قوت تھی۔ آج جدھر بھی چلے جائیں___ میں نے اس ملک کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کا حوالہ دیا ہے___ لوگ سنجیدگی سے پوچھتے ہیں اوران کو پوچھنے کا حق ہے___ اس لیے کہ ماضی ان کی نگاہوں کے سامنے ہے___ کیا پاکستان سلامت رہے گا؟ اندر اور باہر کے لوگ بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ اس پاکستان کا سلامت رہنا ناممکن نہیں تومشکل ضرور ہے۔
وہ پاکستان جس کا ہم نے خواب دیکھا تھا کہ یہ ملت اسلامیہ کی امنگوں کا ترجمان اور مظہر ہوگا، یہاں زندگی اس تہذیب و ثقافت، اس عقیدے اور ایمان اور اس نظام کے مطابق تشکیل پائے گی جو بحیثیت مسلمان ہمارا نظام ہے، مگر وہ منزل بظاہر آج قریب نہیں، بلکہ دور نظر آتی ہے۔
اگر ہم معنوی طور پر دیکھیں تو یہ کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ یہ ملک ہمارے لیے ایک کشتی کی حیثیت رکھتا ہے اور اس میں ہم سب کشتی کے مسافر کی طرح سوار ہیں۔ اس کو جو حادثہ پیش آئے گا اس میں ہم برابر کے شریک ہوں گے۔ یہ کشتی ایک ایسے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے کہ اس کا تختہ تختہ ہل رہا ہے۔ جو لوگ اخلاقی اور دینی حوالے سے اپنے آپ کو بلند اور اس کشتی کے پاکیزہ حصے سے متعلق سمجھتے ہیں، وہ دیکھ رہے ہیں کہ نچلے حصے کے لوگ، اور نچلے حصے سے مراد طبقاتی یا مادی یا علمی نچلا پن نہیں ہے بلکہ اخلاقی اور ایمانی لحاظ سے جو لوگ نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں وہ اس کشتی میں چھید کر رہے ہیں۔پانی اندر آرہا ہے، کشتی پانی سے بھر رہی ہے اور جوکشتی پانی سے بھر جائے، اس کی سلامتی مخدوش ہو جاتی ہے، بلکہ وہ تباہ و برباد ہو سکتی ہے اور سمندر کی نذر ہوسکتی ہے۔
یہی کیفیت ہمارے ملک کی ہے۔ یہ نچلا طبقہ جس میں ان مناصب پر بھی لوگ فائز ہیں جو پاکستان کے اعلیٰ ترین مناصب ہیں، اور اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو لائن مین ہوں یا میٹر ریڈر، سٹرک پر کھڑا ہوا کانسٹیبل ہو یا پٹواری جو زمین کی حدبندی کرتا ہے___ہر شخص اور ان کی بہت بڑی تعداد کشتی میں چھید کرنے میں مصروف ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ قانون نام کی چیز کتابوں میں پائی جاتی ہے لیکن قانون کی پابندی سے ہر ایک اپنے آپ کو بالاتر سمجھتا ہے۔ صدر ریاست بھی قانون توڑتے ہیں، کمانڈر انچیف بھی قانون توڑتے ہیں، وزیراعظم بھی قانون توڑتے ہیں، سول سرونٹ بھی قانون توڑتے ہیں، اور خود قانون کے محافظ، قانون کے نگراں، قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی قانون توڑتے ہیں۔ قانون شکنی اس ملک کا ایک عام رواج ہے اور قانون کی پابندی ایک استثنا ہے جو بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔
سیاسی طور پر یہ ملک اس قدر غیر مستحکم ہے کہ نصف صدی گزرنے کے باوجود بھی کسی حکومت کے بارے میں یہ اعتبار نہیں ہوتاکہ وہ قائم رہے گی، اور اپنے مقام پر اپنے فرائض انجام دے سکے گی۔ پچھلے چند انتخابات ہمارے سامنے ہیں اور وہ حکومتیں جو بظاہر بڑی مستحکم رہی ہیں جو قوت اور اسلحے کے بل پر قائم ہوئیں، وہ جب رخصت ہوئیں تو ملک کو مزید غیرمستحکم کرکے رخصت ہوئیں۔ سید مودودیؒ کے الفاظ میں: گویا کہ مین ہول یا گٹر پر ڈھکن رکھا ہوا تھا اور پانچ پانچ، دس دس سال کے اندر جو گندگی اور سٹراند جمع ہوتی رہی، وہ لوگ دیکھ نہیں سکے تھے لیکن جیسے ہی حکمران رخصت ہوئے، وہ منظر عام پر آگئی۔
پہلی ۱۰سالہ جبری حکومت رخصت ہوئی تو تحفے میں ملک کی تقسیم اور پیپلز پارٹی کی حکومت کا تحفہ دے کر گئی۔ ملک دو لخت ہو گیا اور پاکستان کی باگ ڈورپیپلز پارٹی کے ہاتھ میں آگئی۔
دوسری حکومت رخصت ہوئی تو مسلسل چھے سال تک زلزلے کا عالم ملک کے سیاسی نظام پر طاری رہا۔ معاشی گرانی اور بے روزگاری نے کمر توڑ کر رکھ دی اور عالمی امداد کی آڑ میں پاکستان کو بھکاری بنا کر رکھ دیا گیا۔
پہلے ہی دن سے گداگری کو پاکستان کا شیوہ بنا دیا گیا۔ بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ پاکستان بننے کے دو ماہ بعد پاکستان کے پہلے گورنرجنرل کا سفیر، واشنگٹن خیرات کی درخواست لے کر پہنچا اور اس زمانے میں دوہزار ارب ڈالر کی امداد دی گئی۔ یہ اتنی بڑی رقم تھی کہ اس کے ملنے کا خواب بھی آدمی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس کے بدلے میں یہ یقین دلایا گیا کہ اس علاقے میں امریکا کے مفادات کے ہم محافظ ہیں ، اور اس کے جو سامراجی بین الاقوامی عزائم ہیں، ان کی تکمیل کا ذریعہ بنیں گے۔ اس امداد کے لیے جن اشیا کی فہرست دی گئی تھی، اس کو دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ اس لیے کہ اسی میں سپاہیوں کی تنخواہیں بھی امداد کے طور پر امریکا سے طلب کی گئی تھیں۔ اس سے انکار نہیں ہے کہ پاکستان جس بے سروسامانی اور کس مپرسی کے عالم میں وجود میں آیا تھا، ان حالات میںشاید باہر سے امداد لینا ضروری ہوتا لیکن امداد لینے والوں اور خیرات لینے والوں نے امداد کے نام پر اس ملک کی آزادی کو آزاد ہوتے ہی بیرونی قوتوں کے ہاتھ میں گروی اور رہن رکھ دیا۔ سیاسی طور پر ان کا سفیر یہاں کا وائسراے کہلانے لگا، اورمعاشی طور پر امداد کے سنہرے جال میں ہمارا بال بال بندھ گیا۔ یہاں تک کہ آج جو کچھ بھی ہم بجٹ میں بھاری ٹیکس لگا کروصول کرتے ہیں اس کا بڑا حصہ قرضوں کی ادایگی میں ادا کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنے بجٹ کا یہ بڑا حصہ ابتدا ہی سے ترقیاتی کاموں پر لگاتے تو وہ رقم اس سے کہیں زیادہ ہوتی جو ہم نے امداد کے طور پر حاصل کی۔ پھر قرض کا یہ تناسب بڑھتاچلا جائے گا اور ایک وقت آئے گا کہ شاید پوری آمدنی دے کر بھی ہماری جان نہیں چھوٹے گی۔
دوسری طر ف اس الزام کے باوجود کہ ہم بجٹ کا۳۷ فی صد اسلحے اور فوج پر خرچ کرتے ہیں، یہ حقیقت تاریخ کے صفحات کے اندر موجود ہے کہ ہر سال اپنا پیٹ کاٹ کے تعلیم کو قربان کرکے، صحت کو قربان کرکے اور پائی پائی جوڑ کے ہم فوج کی صورت میں جو قوت پالتے رہے ہیں، وہ ہمارے ملک کو دو ٹکڑے ہونے سے نہیں بچا سکی۔ شروع سے لے کر آج تک کے کمانڈر انچیف واشنگٹن ’حج‘ پر جاتے ہیں اور وہاں کے ’باب ملتزم‘ سے چمٹ کر امداد کی درخواستیں کر کے، امداد لے کر واپس لوٹتے ہیں۔
ہماری نیوکلیئر پالیسی ہو یا کشمیر پالیسی یا افغان پالیسی، سب پر امریکا کی نظر ہے۔ ہمارے سر پر تلوار لٹکتی رہتی ہے کہ ابھی ہم نے تمھیں دہشت گرد قرار نہیں دیا لیکن اس تمام تر صورت حال پر ہم گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہر دو ہفتے یا ایک ماہ بعد یہ خبر آتی ہے کہ اب ملک کو دہشت گرد قرار دیا جانے والا ہے۔ اس پر ہم اور ہمارے حکمران کانپ اٹھتے ہیں، اور پھر اطمینان دلایا جاتا ہے کہ نہیں ابھی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ مسلسل خوف میں رکھنا ٹارچر اور تعذیب کا ایک بڑا معروف طریقہ ہے۔ اپنی مرضی کے کام کرانے کے لیے ہلاک کرنے سے اتنا فائدہ نہیں ہوتا جتنا مسلسل خوف اور ڈر کے اندر مبتلا رکھنے سے ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد آدمی زیادہ فائدہ دیتا ہے،اور وہ سب کام کرتا ہے جو کہ کرانے والا چاہتا ہے۔
ہمارے ملک کے اندر خوںریزی اور قتل و غارت کا جو بازار گرم ہے، یہ نبی کریمؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اس امت کوجو نصیحتیں فرمائی تھی کہ تمھارے مال، تمھارے خون اور تمھاری عزتیں ایک دوسرے کے اوپر اس طرح حرام ہیں جس طرح آج کے دن کی ، اس شہر کی اور اس مہینے کی حرمت ہے، اور دیکھو، میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو، کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ پنجابی ہو یا بنگالی ،عرب ہو یا ترک، یمن ہو یا مصر، شام ہو یا عراق… کبھی حجاج بن یوسف جیسے حکمرانوں کے ہاتھوں اور کبھی آپس میں نسلی اور لسانی تفرقوں کے ہاتھوں، جب کہ یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ کسی عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر، کالے کو گورے پر یا گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے، مگر زبان ، نسل اور رنگ کی خاطر کلمہ پڑھنے والے ایک دوسرے کا خون بہانے میں مصروف ہیں۔ اس میں ریاستی ادارے، فوج اور پولیس،ڈکٹیٹر اور حکمران اور عام آدمی، سب ہی شامل ہیں۔ فرقہ واریت کی خاطر خون بہانا بالکل ایک عام رواج بن گیا ہے۔
الَّذِیْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَo وَاِذَا کَالُوْھُمْ اَوْ وَّزَنُوْھُمْ یُخْسِرُوْنَo (المطففین ۸۳:۲-۳) جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں، اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو انھیں گھاٹا دیتے ہیں۔
ان سب امراض سے بچنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس لیے بھی کہ انھی امراض نے پہلی قوموں اور امتوں کو ہلاک کر دیا تھا۔اسی وجہ سے انھوں نے اللہ نے جو حرمتیں قائم کر دی ہیں، یعنی جان و مال اور عزت و آبرو کی حرمت ، ان کو حلال کر دیا۔
یہ مرض تو رگ رگ اور ریشے ریشے میں پھیل چکا ہے۔ مغربی تہذیب دنیا کی محبت اور زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنے کی فکر کا نام ہے۔ اسی لیے مغرب دجّال کی یہی جنت لے کر آیا کہ اگر انکار کرو گے تو پستی ، پسماندگی اور افلاس کی جہنم میں جلو گے اور ایمان لائو گے، تو ہماری ترقی کے نظارے دیکھو گے۔ یہ موٹروے، یہ کارخانے، یہ ٹیلی ویژن اور بے شمار سائنسی ایجادات اسی ترقی کا نتیجہ ہیں۔ گویا معاشی ترقی ہی سب کچھ ہے۔ اسی طرح یہ کہا جاتا ہے کہ اول جماعت سے انگریزی پڑھو گے تو ترقی نصیب ہوگی، کارخانے بنائو گے تو معاشی بہبود نصیب ہوگی۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ۴۰سال کی معاشی ترقی کے بعد بھی لوگ ویسے ہی غریب، پسماندہ اور جاہل ہیں۔ انگریزی پڑھ کے نہ ہم نے وہ سائنس دان پیدا کیے اورنہ وہ علما، نہ وہ فلاسفر پیدا کیے اور نہ وہ مفکر ین جو مغرب پیدا کر رہا ہے۔ گویا تعلیم میں بھی افلاس سے دوچارہیں اور معاشی طور پر بھی افلاس اور بدحالی میں مبتلاہیں۔
مغرب نے معاشی ترقی کو دیوی بنا کر اس کی پرستش کی ہے۔ یہ وہ سونے کا بچھڑا تھا جومغرب کے سامری نے گھڑ کے ہمارے سامنے رکھ دیا اور مسلمان ملت ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک اس کی پرستش میں مصروف ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ شاید یہ امت بنی ہی اس لیے تھی کہ کارخانے بنائے، اور مال و دولت جمع کرے۔
جب مال بنانے کی حرص وہوس اور دینے میں بخل اور کنجوسی اور اغراض رگ رگ میں پھیل جائے تو پھر یہ باہمی افتراق و انتشار اور پستی و بدحالی کا سبب بنتے ہیں۔ جب معاشی ترقی ہی حاصل ٹھیری تو پھر ذاتی اغراض اور مفاد ہی مقدم ہوتے ہیں۔ پھر شاید میرے محلے، میری نسل اور میری قوم کی بات بہت دور جا کرآخر میںکہیں آتی ہے۔ آج جو خوں ریزی پائی جاتی ہے اس کی جڑ بھی اسی میں موجود ہے۔
مختصراً میں نے آپ کے سامنے موجودہ پاکستان کا نقشہ کھینچا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ؎
تن ہمہ داغ داغ شد
پنبہ کجا کجا نہم
گویا پورا جسم زخموں سے چور ہے، آدمی مرہم کہاںکہاں رکھے، کس کس طرف آدمی انگلی اٹھائے کہ یہ اور یہ جرائم ہیں۔
بظاہر جو پڑھا لکھا اور تعلیم یافتہ طبقہ ہے، جس سے ہم اور آپ بھی متعلق ہیں،وہ چند ایک شعبوں میں کامیابی سے ہم کنار ہونے کے بعدسمجھتا ہے کہ ہماری ذمہ داری ادا ہوگئی۔لیکن یہ رویہ انبیاؑ کی روش نہیں تھی۔ ان کی قومیں جس جاہلیت کے اندر مبتلا تھیں، وہ اس سے کہیں زیادہ تھی۔ بسااوقات ایک بھی صاحب ِخیر مشکل سے نظر آتا تھا۔ اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ o (ھود ۱۱: ۷۸) کی صدا وہ بلند کرتے تھے لیکن ایک بھی آدمی نہیںملتا تھا جو صحیح بات کہنے والا ہو۔ حتیٰ کہ ایک ہزار سال کی دعوت اور جدوجہد کے بعد بھی وَمَآ اٰمَنَ مَعَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلٌo (ھود ۱۱: ۴۰) کا منظر ہوا کرتا تھا۔ اس سب کے باوجود وہ مایوس نہ ہوئے بلکہ اپنی قوم کے درد اور سوز میں تڑپتے تھے، مضطرب رہتے تھے کہ کسی طرح قوم صحیح راستے پر آجائے۔ بُرا بھلا کہہ کر مرثیہ پڑھ کر بیٹھ نہیںجایا کرتے تھے،بلکہ ان کی روش تو یہ تھی:
فَکَیْفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیْنَo (اعراف ۷:۹۳) اب میں اُس قوم پر کیسے افسوس کروں جو قبولِ حق سے انکار کرتی ہے۔
یہاں تک کہ جب عذاب کی آخری گھڑی بھی آجاتی تو کہتے تھے کہ ہم نے تو نصیحت کی کوشش کی اور روتے ہوئے رخصت ہوا کرتے تھے کہ قوم کا یہ انجام ہوا۔ لہٰذا قوم کو برا بھلا کہنے یا مرثیہ پڑھنے سے ہماری اور آپ کی ذمہ داری ادا نہیں ہوتی۔ ماضی کے جائزے اور مسائل کے تذکرے کا بنیادی مقصد اس بات کا احساس دلانا ہوتاہے کہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ نبی کریمؐکے ارشاد کے مطابق: کلکم راعٍ و کلکم مسُٔول عن رعَیْـتِہٖ، تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
اس لیے وہ لوگ جن کے پاس دین کافہم اور دین کا علم ہے اور جنھوں نے دین کے لیے حلف اٹھایا اور عہد کر رکھا ہے، ان سے بڑھ کر کون راعی ہوگا، اور ان سے بڑھ کر کس کو اپنی رعیت کا سوز اور درد و غم ہونا چاہیے۔ ان کو تو گھلنا چاہیے یہاں تک کہ گلا گھٹنے لگے جیسا کہ نبی کریمؐ کی حزن کی کیفیت تھی۔
فَلَا یَحْزُنْکَ قُوْلُھُمْ اِنَّا نَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَo (یٰسٓ ۳۶:۷۶) اچھا ،جو باتیںیہ بنا رہے ہیں وہ تمھیں رنجیدہ نہ کریں، ان کی چُھپی اور کھلی سب باتوں کو ہم جانتے ہیں۔
یہ اس کیفیت کی عکاسی ہے جو حضوؐرکے اوپر طاری تھی۔آپؐ جانتے تھے کہ جب میری قوم نے میرا انکار کر دیا اور مجھے نکال باہر کیا تو پھر اس کا مقدر ہلاکت اور تباہی ہو گا۔ ہم تو اس مقام پر بھی نہیں ہیں۔ یہ تو انبیا کی خصوصیت ہے کہ جب ان کی قوم رد کر دے تو قوم ہلاکت و تباہی میں مبتلا ہو جاتی ہے۔
ہم تو یہ بھی نہیںکہہ سکتے ہیں کہ ہم نے پہنچانے کا حق اور ذمہ داری ادا کر دی ہے۔ لیکن یہ ہماری اور آپ کی ذمہ داری ہے۔ اللہ نے جن کو دین کا علم اور دین کا فہم دیا ہے، سب سے پہلے ان سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ہم سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اس کی فکر ہونی چاہیے اس لیے کہ لوگ اس بنیاد پر ہماری گردن پکڑ سکتے ہیں۔ قرآن مجید نے وہ جن کے پاس علم ہو اور جواس کو دوسروں تک نہ پہنچائیں اور اس کا حق ادا نہ کریں جیسا کہ اس نے سب سے عہد لیا ہے کہ اسے لوگوں تک پہنچائیں اور اس کو بیان کریں، ان کے بارے میں بڑی وضاحت سے فرمایا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَامِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْھُدٰی مِنْم بَعْدِ مَا بَیَّـنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتٰبِ لا اُولٰٓئِکَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰہُ وَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰعِنُوْنَo اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَ بَیَّنُوْا فَاُولٰٓئِکَ اَتُوْبُ عَلَیْھِمْ ج وَاَنَاالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُo اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَھُمْ کُفَّارٌ اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَo خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ج لَا یُخَفَّفُ عَنْھُمُ الْعَذَابُ وَلَاھُمْ یُنْظَرُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۹-۱۶۲) جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، درآں حالیکہ ہم انھیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں، یقین جانوکہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔ البتہ جو اس روش سے باز آجائیں اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں اور جو کچھ چھپاتے تھے، اسے بیان کرنے لگیں، ان کو معاف کر دوں گا اور میں بڑا درگزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں۔ جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا اور کفر کی حالت ہی میں جان دی، ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ اسی لعنت زدگی کی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کو سزا میں تخفیف ہو گی اور نہ انھیں پھر کوئی دوسری مہلت دی جائے گی۔
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ (البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’’امتِ وسط‘‘بنایا ہے، تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو۔
اور اس کی تعبیر بھی سامنے رکھ دی ہے۔ اب سب سے بڑھ کر یہ ہمارے پاس امانت ہے، اورہمارا اور آپ کا فرض ہے کہ یہ قوم جو تباہی کے کنارے لگ چکی ہے، وہ کشتی جس کا تختہ تختہ اس طوفان نے ہلا کر رکھ دیا ہے، اس کی سلامتی کے لیے ہم اٹھ کھڑے ہوں اور اپنا حق اور فرض اداکریں۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اگر ہم ایک ایک زخم کے اوپر مرہم رکھتے جائیں گے، اورایک ایک پھوڑے کا علاج کریں گے تودوسرا نکل آئے گا، اور گذشتہ ۴۵سال سے ہم یہی منظر دیکھ رہے ہیں۔ حالات کو بہتر کرنے کے لیے اور قوم کی قسمت سنوارنے کے لیے مدعی آتے ہیں اور اپنی اپنی جگہ کوشش کرتے ہیں مگر جب جاتے ہیں تو قوم کی قسمت مزید بگڑی ہوئی ہوتی ہے، حالات مزید خراب ہو چکے ہوتے ہیں۔
فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ (البقرہ ۲:۱۰) ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے۔
فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِیْ الصُّدُوْرِo (الحج ۲۲:۴۶) حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میںہیں۔
وہ سب قوتیں اور عناصر جو اس ملک کو بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں، جو اس دھرتی کے سینے میں چھید کرنے میںلگے ہوئے ہیں، جو ملکی وسائل اور خزانے کو لوٹنے میں لگے ہوئے ہیں، جو ملک کی سلامتی کو دائو پر لگائے ہوئے ہیں، ان کی آنکھیں خوب دیکھ رہی ہیں، ان کی آنکھیں اندھی نہیں ہیں، ان کو خوب معلوم ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیںلیکن ان کے دل اندھے ہو گئے ہیں۔
یہ دلوں کا اندھا پن زیادہ سے زیادہ سمیٹنے کی ہوس اور نہ دینا، روکے رکھنا، جمع کرنا، گن گن کے رکھنا اور حق نہ ادا کرنے کا نتیجہ ہے۔ سیاست میں کسی دوسرے کو جگہ نہ دینا ،ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنا، روا داری کا مظاہرہ نہ کرنا،اس کی بنیادی وجہ دل کی تنگی ، بخل اور کنجوسی ہے۔ جب دل کھلتا ہے تو مال و دولت بھی آدمی دونوں ہاتھوں سے دیتا ہے۔ پھرغصے، نفرت اور انتقام کے طوفان بھی دل کے اندر سما جاتے ہیں اور تھم جاتے ہیں۔ اہلِ ایمان کی حقیقت تو یہ بتائی گئی ہے:
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ط ( اٰل عمرٰن ۳:۱۳۴) جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں، خواہ بدحال ہوں یا خوش حال، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں۔
یہ دونوں صفات ساتھ ساتھ اور پہلو بہ پہلو ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ آدمی سخی ہو اور دل کا تنگ بھی ہو، معاف کرے اور انتقام بھی لے۔ لیکن یہاں تو دونوں طرح کی کنجوسی اور بخل چھایا ہواہے۔ اس کی چربی دل کی آنکھوں پر چڑھ گئی ہے۔ اس نے دلوں کو اندھا کر دیا ہے۔
ہمارا کام تو یہ ہے کہ ہم دلوں کو جگائیں، دلوں کو بیدار کریں، دلوں کی بستی کو آباد کریں۔ ان میں خدا کی محبت پیدا کریں اور دنیا سے بے نیازی پیدا کریں۔ اس کے بغیر اس قوم کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ ہم چاہیں کہ اوپر سے کوئی لیپ پوت کرکے یہ قوم صحیح راہ پہ آ جائے، تو ایسا نہیں ہوسکتا۔ دلوں کے اوپر جوتالے پڑے ہوئے ہیں، ہم اگر ان کو ایمان اور خدا کی محبت کی کنجی سے نہیں کھولیں گے تو قوم کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر اس قوم میں بے پناہ قوت کے خزانے پوشیدہ ہیں۔ یہ کام ہے جو ہمارے آپ کے کرنے کا ہے۔
ہزار وعظ کیے جائیں کہ یہ غلط ہے اور وہ صحیح، یہ کرواور وہ نہ کرو،مگر جن کے دل پتھر کی طرح سخت ہو چکے ہوں، ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا پتھروں سے بھی چشمے پھوٹ پڑتے ہیں اور پانی رسنے لگتا ہے، اورخدا کی خشیت اور خوف سے بھی پتھر گر پڑتے ہیں، اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیںمگر جو دل پتھر سے زیادہ سخت ہوں ان پر کلام نرم و نازک بے اثر ہو جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ قرآن کہتا ہے:ـ
فَبِمَا نَقْضِھِمْ مِّیْثَاقَھُمْ لَعَنّٰھُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَھُمْ قٰسِیَۃً (المائدہ ۵:۱۳) پھر یہ ان کا اپنے عہد کو توڑ ڈالنا تھا جس کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دور پھینک دیا اور ان کے دل سخت کر دیے۔
قرآن نے اس کی وجہ صاف بیان کر دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وعظ بھی ہوتے ہیں، درس بھی ہوتے ہیں، قرآن بھی پڑھے جاتے ہیں، دعائیں بھی مانگی جاتی ہیں لیکن اثر نہیں ہوتا، پتھروں سے پانی نہیں بہتا، اس لیے کہ دل تو پتھر کی طرح سخت ہیں۔
یہی ایک نسخہ ہے جس سے پوری قوم کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ جب کسی قوم اور افراد کے سامنے کوئی مقصد ہو اور کسی چیز سے محبت ہو تو اس کے بعد ہی اصلاح ممکن ہوتی ہے اور کسی کو عمل پر ابھارا جا سکتا ہے۔ اگر ہم چاہیں کہ ایسا محض وعظ و نصیحت اور علم و شعورسے ہو جائے تو ایسا ممکن نہیں۔ اس لیے کہ علم تو شیطان کے پاس بھی بہت تھا۔ علم تو مستشرقینِ اسلام کا بھی بہت ہے۔ علم کی ضرورت و اہمیت اپنی جگہ ،لیکن علم کے ساتھ دل کی بیداری بھی ضروری ہے۔ علم کی امانت ہمارے پاس ہے مگر علم خود فی نفسہٖ کامیابی کی ضمانت نہیں ہے۔ بڑے بڑے علما گزر گئے مگر جن کے دل سخت تھے ان کا کچھ نہیں کر سکے، اپنی قوم کو کچھ نہیں دے سکے۔یہی وہ بات ہے جس کو اقبال نے یوں بیان کیا ہے ؎
زندگانی را بقا از مدعاست
کاروانش را درا از مدعاست
کارواں کے لیے منزل و مقصد کا استحضار، بانگِ درا کی حیثیت رکھتا ہے جو قافلے کے متحرک رہنے کی علامت ہے۔گویا قوموں کی زندگی اگر باقی رہتی ہے تو مقصد سے وابستگی، مقصدسے محبت اور لگن سے باقی رہتی ہے۔
جب ہم قوم کو اُس مقصد کے لیے بیدار کر دیں، اُس راہ پر لگا دیں اور اُس مقصد سے وہ چمٹ جائے، جو مقصد اللہ کے عہد کے حوالے سے ہمارے اوپر عائد ہوتا ہے، تو اس کی زندگی کو بقا مل سکتی ہے۔ یہ عہد اور مقصد ایک لنگر اور پتوار ہے جس سے طوفان میں ڈوبتی کشتی بچ سکتی ہے، اس کا تختہ تختہ ہلنا بند ہوجائے گا، اور پھر اس کے بعد یہ اپنی منزل کی طرف بڑھے گی۔
ہم اگر اور کچھ نہ کرسکیں توکم از کم یہ آرزو اپنے دلوں کے اندر زندہ رکھیں اور دوسروں کے دلوں کے اندر بیدارکردیں اور اس کی جستجو اور سعی میں لگے رہیں ؎
زندگی در جستجو پوشیدہ است
اصلِ او در آرزو پوشیدہ است
جستجو ہی زندگی کا راز ہے، زندگی تو اسی میں ہے کہ آدمی جستجو میں لگ جائے، یہ کام کرجائے، اس مقصد کے لیے تگ و دو کرے، اور اسی کی آرزو دل میں سلگتی رہے ؎
آرزو را در دِلِ خود زندہ دار
تانگردد مشتِ خاکِ تو مزار
لہٰذا اس آرزو کا چراغ کم از کم دل میں جلائے رکھو، اس آرزو کو دل میں سلگنے دو۔ اگر یہ بھی ختم ہو گئی تو پھر یہ مٹھی بھر مٹی کے پتلے چلتی پھرتی قبریں بن جائیں گے۔
حضرت مسیحؑ بنی اسرائیل سے مخاطب ہو کر کہا کرتے تھے کہ تمھاری مثال تو ان قبروں کی طرح ہے جن کے باہر تو سفیدی کر دی گئی ہے، اور اندر گندگی اور مردہ ہڈیاں اورخون اور پیپ جمع ہے۔ آج امیر طبقوں سے لے کر نچلے طبقوں تک وضع قطع، کلام، سب کچھ دیکھ لیں، ان کی کیفیت ایسی ہی ہے۔
موجودہ حالات میں بگاڑ کو روکنے اور اصلاحِ معاشرہ کے لیے دراصل یہی ایک راہ ہے اور یہی ہماری ذمہ داری ہے۔ میں نے آپ کے سامنے کوئی لمبی چوڑی فہرست نہیں پیش کی بلکہ اصلاحِ عمل کے لیے لوگوں میں خدا کی محبت جگانا اور دنیا سے بے نیازی پیدا کرنی ہے۔یہی کرنے کا کام ہے اور اسی میں آج کے پاکستان کی بقا اور نجات ہے۔ (کیسٹ سے تدوین: امجدعباسی)
(تقسیمِ عام کے لیے کتابچہ دستیاب ہے، ۴۰۰ روپے سیکڑہ، منشورات، منصورہ، لاہور)
آج سے ۱۴ سو سال پہلے چھٹی صدی عیسوی میں، تاریخ کا وہ حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا، جس کی مثال اور نظیر نہ انسان نے پہلے کبھی دیکھی تھی، اور نہ اُس کے بعد دیکھی۔ اس حیرت انگیز واقعے کو مؤرخین انفجار(explosion)کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس لیے کہ چند صحرا نشینوں نے جن کے پاس ایک مشن، دعوت اور پیغام تھا، صرف۳۰سال کے عرصے میں گردو پیش کی دنیا میں اس پیغام کو غالب اور سربلند کر دیا۔
سیدنا عثمان غنیؓ کے زمانے میں یہ پیغام کاشغر، ٹریپولی، لیبیا ، تیونس، شمالی افریقہ کے تمام علاقوں تک پہنچ چکا تھا، اور صرف۱۰۰ سال کے عرصے میں ایک طرف اسپین تک اور دوسری طرف دریاے سندھ کی وادی سے گزرتے ہوئے، ہندستان کے مشرقی ساحل کو چھوتے ہوئے چین کے ساحل تک اس کو ماننے والے، اپنی دعوت پہنچا چکے تھے۔ اتنی سرعت اور تیزی کے ساتھ، اتنی عظیم الشان توسیع کی کوئی مثال انسانی تاریخ پیش نہیں کر سکتی۔ ایک مستشرق کے الفاظ میں لاالہ الاللہ کے برقی نعرے نے عرب کے بدوئوں میں وہ قوت بھر دی، کہ۱۰۰ سال میں ایک یتیم بچے محمدؐ، کا نام صحرائوں، شہروں ، دیہاتوں، پہاڑوں، اور وادیوں میں، ہر جگہ گونج رہا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ایک اتفاقی حادثہ تھا؟ کیا اس کے پیچھے کوئی معاشی یاسیاسی عوامل تھے؟ کیا صحراے عرب سے نکلنے والے لوگوں کو فتح عالم کا شوق تھا؟ کیا اُن کی نگاہیں مال غنیمت کی تلاش میں تھیں؟ کیا وہ سکندر اور چنگیز کی طرح دنیا کو اپنا باج گزار بنانے، شہروں کو تاخت و تاراج کرنے اور سروں کے مینار کھڑے کرنے کے لیے نکلے تھے؟
شاید ہمارا اور آپ کا، ملت اسلامیہ اور پوری انسانیت کا، اور ساری دنیا کا مستقبل اسی سوال کے جواب پر منحصر ہے۔ اسی میں انسانیت کے لیے بھی بشارت ہے، اور اُمت مسلمہ کے لیے روشن اور تابناک مستقبل کی نوید بھی۔ اس لیے کہ آج کی دُنیا، چھٹی صدی عیسوی کی دُنیا کی طرح ایک زبردست اضطراب اور بحران کا شکار ہے۔ انسان نے جس پیمانے پر سائنس اور ٹکنالوجی کی دنیا میں ترقی کی ہے، اسی حساب سے یہ اضطراب اور بحران بھی سنگین تر ہے۔
چھٹی صدی عیسوی کی دنیا کے نقشے پراگر نگاہ ڈالیں تو بظاہر زندگی کا کوئی پہلو خالی نہیں تھا۔ حکومتوں کی جگہ حکومتیں تھیں، قانون کا نفاذ تھا، عدالتیں کام کر رہی تھیں، تجارتی قافلے ایک جگہ سے دوسری جگہ جایا کرتے تھے، محلات اپنی جگہ پر موجود تھے، درس گاہیں اور مدرسے بھی قائم تھے، اور خانقاہوں میں اللہ کے آگے گریہ و زاری کرنے والے راہب بھی تھے___ اس کے باوجود انسانیت موت کے کنارے پر کھڑی تھی۔
آج کا عالم بھی اسی طرح کے سنگین بحران اور ایسے ہی اضطراب سے دو چار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمِ پیر مر رہا ہے اور دنیا بڑی بے چینی کے ساتھ ایک جہاںِ نوکی منتظر ہے! اس سے کسی کو انکار نہیں ہے، کہ اس وقت دنیا کو ایک جہاںِ نو کی ضرورت ہے۔ اس سے اختلاف تو ہو سکتا ہے کہ کس طرح کا جہان نو، کس کا جہان نو اور وہ کس کے ہاتھوں برپا ہوگا، لیکن اس سے کسی کواختلاف نہیں ہے کہ عالم پیر موت سے ہم کنار ہے، اور دنیا کی نجات ایک جہانِ نو کی تعمیر میں مضمر ہے۔ یہاں تک کہ وہ بھی جو پچھلے ۳۰۰ سال سے اس عالَم کے حکمران اور امام ہیں، جنھوں نے اس عالم پیر کو جنم دیا ہے، اس کی تشکیل اور تعمیر کی ہے، اور ترقی کی اس منزل تک پہنچایا ہے، جن کے ہاتھوں میں آج بھی زمانے کی باگ ڈور اور زمام کار ہے، وہ بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ایک نیوورلڈ آرڈر ، نیا عالمی نظام ناگزیر ہے۔ اس اعتراف میں یہ حقیقت پوشیدہ ہے کہ اولڈ ورلڈ آرڈ، اب انسان کے کام کا نہیں رہا، اور اب اس کو ایک نئے عالمی نظام اور ایک جہانِ نو کی ضرورت ہے۔
یہ جہان نو اس لیے بھی ضروری ہے کہ پرانا عالمی نظام گذشتہ ۳۰۰ سال میں انسان کو اس مقام پر لے آیا ہے، جہاں اس کے مصائب و آلام، مسائل اور پریشانیاں اور رنج و الم انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ یہ تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے قومیں اٹھتی تھیں، ایک علاقے کو فتح کرتی تھیں اور قتل و غارت مچاتی تھیں، مگر یہ ایک حد تک ہوتا تھا۔ آج یہ صورت حال ہے کہ انسان، اس پوزیشن میں ہے، کہ وہ بٹن دبائے تو پوری دنیا، تہہ و بالا ہو جائے، اور اس بٹن پر انسان کا ہاتھ ہے۔
یہ صدی انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ خوں ریز صدی ہے، جتنا خون اس صدی میں بہا ہے انسانی تاریخ اس کی کوئی مثال پیش نہیں کر سکتی۔ انسان نے ایک ایٹم بم سے لاکھوں انسان فنا کے گھاٹ اُترتے دیکھے ہیں۔ جنگ عظیم میں ، ڈھائی کروڑ انسانوں کو مرتے، اور اپاہج ہوتے دیکھا ہے۔چند چھوٹے چھوٹے علاقوں پر مسلسل بمباری سے، لاکھوں انسانوں کو مرتے دیکھا ہے۔ انسان نے جبر کے جو نظام قائم کیے، ان کے ہاتھوں لاکھوں انسان بے گھر ہوئے، مصیبتیں اٹھائیںاور بہت سے اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ نسل اور رنگ کے بتوں پر بڑی تعداد میںانسانی جانیں بھینٹ چڑھائی گئیں۔واضح رہے کہ یہ جانیں مذہب اور خدا کے نام پر بھینٹ نہیں چڑھائی گئیں، جو خوں ریزی کے لیے بدنام ہیں۔ آج کے آزر نے اس دور کے لیے وطن اور قوم پرستی کا جو نیا بت تراشا ہے،اس نے انسانیت کو خون کے اندر نہلا دیاہے۔ آج ہر جگہ اسی وجہ سے خون بہہ رہا ہے، لوگ قتل ہو رہے ہیں، گھر سے بے گھر ہو رہے ہیں۔ یہ سب فساد اسی وجہ سے ہے۔
بظاہر معیشت ترقی کی معراج پر نظر آتی ہے، لیکن یہ پانی کے بلبلے کی طرح ہے۔ اگر آج سارے ممالک اپنا قرض دینے سے انکار کر دیں اور بنک میں روپیہ رکھنے والے سب لوگ بنک کے دروازے پر آجائیں کہ ہمارا روپیہ ہمیں دے دو، تو اس غبارے کی ہوانکل کر رہ جائے گی اور معاشی نظام تباہ ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ وہ سیاسی نظام بھی جو بڑی محنت اور مشقت کے ساتھ تیار کیا گیا ہے، اور جس میں خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی، آج لوگ اس سے بھی مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ انسان کی روح پیاسی ہے، اس آب حیات کے لیے جو اس کو اس درد و الم سے نجات دے، اور موت کی آغوش سے نکال کر زندگی سے ہم کنار کر دے۔
یہ جہانِ نو کس طرح پیدا ہو گا؟ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ اس عالم پیر کے معمار، سیاست دان، مدبر و مفکر اور اخبار نویس اور تجزیہ نگار پکار پکار کر کہہ رہے ہیں، کہ اگلا تصادم تہذیبوں کا تصادم ہو گا، اور یہ تصادم مغرب اور اسلام کا تصادم ہو گا۔ امریکا کے نائب صدر، امریکا کے سابق صدرنکسن،ناٹوکے کمانڈر،سب کی زبان پر ہے کہ پچھلے ایک ہزار سال بھی اسلام سے مقابلہ کرتے گزرے، اور شاید اگلے ہزار سال بھی اسی میںگزریں۔ کمیونزم کی موت کے بعد اب یہ کش مکش اسلام اور مغربی تہذیب کے درمیان ہے۔ ۱۴ سو سال سے جو کش مکش اور تصادم دونوں تہذیبوں کے درمیان ہے، اور جس میں اسلام کے ہزار سالہ غلبے کے بعد مغرب نے برتری حاصل کی، لیکن صرف ۳۰۰ سال میں وہ یہ محسوس کر رہے ہیں کہ اب پھر شاید وہی شیر بیدار ہو رہا ہے جس نے ۱۴سوسال پہلے نکل کر دنیا میں غلبہ حاصل کیا تھا، اور اس کی زمامِ کار اپنے ہاتھوں میں لے لی تھی۔
اُمت مسلمہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ ہر جگہ اِنھی طاقتوں کی دست نگر ہے جو اس کی گردن پر حکمران پیرتسمہ پا کی طرح مسلط ہیں اور مغربی تہذیب کی مقلد اور پیرو ہیں۔ وہ تو غلبۂ اسلام کاخواب بھی نہیں دیکھ سکتی۔ ہمارے پاس نہ ایٹم بم ہیں، نہ فوج، نہ بنک کا نظام ہے نہ سڑکیں، نہ موٹروے اور کارخانے ___ پھر ہم کیسے مغرب کے لیے خطرہ اور چیلنج ہیں؟ لیکن مغرب کے ہر آدمی کی زبان پر یہی الفاظ ہیں کہ آیندہ دور کی کش مکش اور تصادم ، اسلام اور مغرب کے درمیان ہے۔ اب یہ تصادم، نظریات (یعنی کمیونزم، فاشزم اور کپٹل ازم وغیرہ) کی بنیاد پر نہیں ہوگا،اور نہ رنگ اور نسل کا تصادم ہوگا، بلکہ یہ تصادم تہذیبوں کے درمیان ہوگا۔ تہذیبیں مذہب سے وجود میں آتی ہیں، اور دنیا کے اندر دو ہی مذہب ہیں جو عالم گیر مشن کے علم بردار ہیں: ایک اسلام، اور دوسرا عیسائیت۔ عیسائیت نے مغربی تہذیب کی بنیاد رکھی ہے، اور اسلام نے ملت اسلامیہ کی ، جب کہ آیندہ معرکہ ان دونوں کے درمیان ہونے والا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جومسلمان بھی حالات پر نظر رکھتے ہیں، جن کی نظر تاریخ پر ہے، جو تاریخ کی اندرونی کش مکش سے واقف ہیں، وہ بہت پہلے سے یہ بات دیکھ رہے ہیں، کہ یہ وہ واقعہ ہے جو ظہور پذیر ہونے والا ہے۔ وہ اس کا انجام بھی دیکھ رہے ہیں، کہ اب دنیا کا مستقبل اسلام ہے،یعنی وہ پیغام جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم آج سے ۱۴ سو سال پہلے عرب میں لے کر آئے تھے غالب آکر رہے گا۔ اقبال نے کہا تھا ع
جہان نو ہو رہا ہے پیدا، وہ عالم پیر مر رہا ہے،
اسے لطیفہ سمجھیے یا ایک دل چسپ بات کہ برطانیہ کے ایک موقر ہفت روزہ اکانومسٹ نے ایک مضمون شائع کیا۔ اس نے لکھا کہ اتفاق سے ایک تاریخ کی کتاب دست یاب ہوئی ہے، جو آج سے ہزار سال بعد کی لکھی ہوئی کوئی کتاب یا تورات ہے۔ اس میں لکھا تھا کہ کمیونزم کے زوال کے بعد جو موقع مغرب کے ہاتھ آیا تھا، وہ اس نے ضائع کر دیا، اور ۲۰۱۱ء میں ایک انقلاب سعودی عرب میں آیا جس کی وجہ سے وہاں ایک اسلامی جمہوری حکومت قائم گئی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ مسلمان ممالک جمع ہوگئے، خلافت قائم ہو گئی، اور خلافت کا چین کے ساتھ اتحاد ہو گیا، اور بالآخر پوری دنیا پر یہ خلافت غالب آگئی۔۲۱۰۰ء تک یہ واقعہ ظہور پذیر ہوگا۔ گویا مستقبل کے آئینے میں آج کے زمانے کے بارے میں پیش گوئی کی جا رہی ہے۔
یہ وہ حقیقت ہے جو بالکل عیاں ہے۔ یہ وہی بات ہے جس کی طرف ابتدا میں اشارہ کیا گیا تھا کہ نبوت کے زیر اثر، صحراے عرب میں اٹھنے والا یہ سیلاب ایک اتفاقی حادثہ تھا، یا یہ مشیت اور اس انقلاب کو برپا کرنے والی ہستی محمدؐکا ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا؟ کیا ان کے مشن میں یہ بات شامل تھی کہ وہ امامت عالم سنبھالیں گے، اور ایک عالم گیر انقلاب برپا کریں گے، یا ان کا کام محض تزکیۂ نفوس، اہل عرب کو پیغامِ حق سنانا تھا اور جس کو ماننا ہے مانے، اور جس کو نہیں ماننا نہ مانے۔
ہمارے سیرت نگار ولادت نبویؐ کا واقعہ بڑے دل آویز اور معنی خیز الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ جس رات حضوؐر اس دنیا میں تشریف لائے، کسریٰ کے محل کے مینارے گر گئے، آتش کدہ فارس بجھ گیا، اور دریاے ساوہ خشک ہو گیا۔ بعض کے نزدیک یہ استعارے کی زبان ہے اور بعض کے نزدیک یہ واقعات فی الواقع پیش آئے تھے۔ یہ حقیقت ہو یا استعارے کی زبان، بلکہ اگر استعارے کی زبان ہو تو اور بھی معنی خیز ہے، تاہم یہ واقعہ اس بات کی خبر دے رہا ہے کہ ولادت نبویؐ ہی اس بات کی علَم بردار اور پیش خیمہ تھی، کہ عالم میں انقلاب آئے، عالمی طاقتیں سرنگوں ہوجائیں، اور گمراہی اور جاہلیت کے آتش کدے بجھ جائیں، اور کسریٰ کی عظیم الشان سلطنت پارہ پارہ ہو جائے۔
خود نبی کریمؐکی یہ صحیح حدیث موجودہے، کہ میں اپنی ماں آمنہ کا خواب ہوں۔ حضرت آمنہ نے ایک خواب دیکھا تھا کہ میرے پیٹ سے ایک روشنی نکلی، جس سے پوری ارض شام روشن ہو گئی۔ ارض شام سے مراد محض ملک شام نہیں ہے۔ ارض شام تو سارے انبیا کی سرزمین ہے، اور اس وقت کی ارض شام آج کے شام کے برابر نہیں تھی۔ اس میں پورا شام، لبنان، اردن ، فلسطین اور عراق کا ایک حصہ شامل تھا، اور یہیں سے ساری دنیا کو ہدایت ملی۔ عیسائیت اگر آج دنیا کے ایک بڑے حصے میں پہنچ چکی ہے تو اس کا مولد ارض شام ہے۔ لہٰذا وہ روشنی جو بطن مادر ہی سے ارض شام کو روشن کر رہی تھی، وہ ایک عالم گیر ہدایت اور عالم گیر مشن کی علم بردار نہ تھی تو اور کیا تھی!
تمام سیرت نگار بیان کرتے ہیں کہ ابتدا ہی سے آپؐ کی دعوت کا ایک اہم عنصر یہ تھا کہ توحید کی دعوت اگر قبول کروگے، یہ ایک کلمہ اگر تم مجھ سے قبول کر لو گے، تو عرب و عجم تمھارے سامنے سرنگوں ہو جائیں گے۔ ایک سیرت نگار لکھتے ہیں کہ یہ اس زمانے میں ایک سلوگن بن گیا تھا، اور لوگ مذاق اڑایا کرتے تھے کہ یہ مٹھی بھر لوگ، یہ غلام، یہ فاقہ مست جن کے پاس کوئی اسلحہ نہیں ہے، کوئی حکومت اور سلطنت نہیں ہے، عرب و عجم کے مالک بن جانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ لوگ اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ گویا یہ عالم گیر مشن نبوت کے پہلے ہی لمحے سے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔
سراقہ بن جعشم کو خبر ملتی ہے کہ قریش کے دو مفرور سردار قریب سے گزر رہے ہیں۔ وہ گھوڑے پر سوار ہوا، اور ۱۰۰ اونٹوںکے لالچ میں انھیں پکڑنے کے لیے پہنچ گیا۔ جب وہ قریب آیا تو آپؐ نے اللہ سے دعا کی۔ اس کے نتیجے میں اس کے گھوڑے کے پائوں زمین کے اندر دھنس گئے۔ سیرت نگاروں کے مطابق یہ واقعہ تین دفعہ پیش آیا۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ مقابلہ تو کسی اور ہستی سے ہے ، چنانچہ اس نے کہا کہ حضوؐر امان نامہ لکھ دیجیے۔ آپؐ نے امان نامہ لکھوایا اور پھر فرمایا کہ سراقہ میں وہ وقت دیکھ رہا ہوں کہ جب کسریٰ کے کنگن تمھارے ہاتھوں میں ہوں گے۔
ذرا تصور کیجیے، کس پریشانی کا عالم تھا، کیسی بے سروسامانی تھی، مستقبل کا کچھ اندازہ نہ تھا، بے یقینی کی کیفیت تھی مگر اس وقت بھی خوش خبری کسریٰ کے کنگن کی دی جا رہی ہے۔
خندق کی کھدائی کے دوران ایک چٹان اس قدر سخت تھی کہ کسی سے نہ ٹوٹی۔ حضوؐرپیٹ پر پتھر باندھے اپنے صحابہؓ کے ساتھ کھڑے تھے۔ آپؐ کو بلایا گیا۔ آپؐ نے ایک کدال ماری تو ایک روشنی بلند ہوئی۔ آپؐ نے فرمایا کہ مجھے شام کے خزانے دکھائے گئے ہیں اور یہ میرے لیے فتح کر دیے گئے ہیں۔ دشمن سر پہ کھڑا ہے، چاروں طرف سے ۲۴ ہزار کا لشکر گھیرے ہوئے ہے، اور ایک خندق کے علاوہ کوئی دفاع نہیں ہے، اس موقع پر بھی آپؐ فرماتے ہیں کہ مجھے شام کے خزانے دکھائے گئے ہیںجو میرے لیے فتح کر دیے گئے ہیں۔ دوسری کدال مارنے پرفرمایا کہ مجھے ایران کے خزانے دکھائے گئے ہیںجو میرے لیے فتح کر دیے گئے ہیں۔ تیسری دفعہ فرمایا کہ یمن کے خزانے دکھائے گئے ہیں جو میرے لیے فتح کر دیے گئے ہیں۔گویا چار دانگ عالم میں یہ سب نبوت کے لیے، مفتوح ہونے والے ہیں۔ یہ عزم و ارادہ اور یقین اس کیفیت میں تھا، جس کا نقشہ میں نے آپ کے سامنے کھینچا ہے۔
صلح حدیبیہ کے بعد بھی عرب سرنگوں نہیں ہوا تھا، مکہ فتح نہیں ہواتھا، اور مدینہ کی اسلامی ریاست مکمل نہ ہوئی تھی، لیکن آپؐ نے فوراً اپنے گردو پیش کی ہر عالمی طاقت کو دعوت نامہ بھیج دیا۔ ایک مہینے کے اندر ذوالحجہ کے مہینے میں، گردو پیش کی چھوٹی بڑی کوئی حکومت ایسی نہیں تھی جہاں آپؐ کی دعوت نہ پہنچی ہو۔ یہاں تک کہ قیصر کو بھی اس کا اعتراف کرنا پڑا کہ ہاں، یہ سچے نبی ؐ ہیں اور جس جگہ آج میرا تخت ہے، ایک دن اس جگہ ان کا پیغام پہنچے گا۔
یہ محض بشارتیں اور پیش گوئیاں نہیں تھیں بلکہ اگر غور کریں تو یہ ایک مشن تھا اور ایک ذمہ داری تھی۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو تمام انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا تھا، اور کہا تھا کہ اعلان کردو: یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ (الاعراف۷:۱۵۸)‘اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ پھر فرمایا کہ یہ قرآن اللہ نے اس لیے اتارا ہے کہ قرآن لانے والا (رسولؐ اللہ) سارے جہانوں کے لیے آگاہ کرنے والا، نذیر بن کر آئے (الفرقان ۲۵:۱)۔ اسی طرح فرمایا کہ ہم نے تم کو رحمتہ للعالمینؐ بنا کر بھیجا ہے۔ تم خاتم النبیینؐ ہو، تمھارے بعد اب کوئی اور نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ تمھاری نبوت ابد تک کے لیے ہے۔ یہ نبوت نہ صرف عرب کے لیے ہے، بلکہ سارے عالم کے لیے ہے۔ ہر قوم، ہر زبان ، ہر رنگ، ہر نسل کے لیے یہی نبوت ہے، اور اسی کا پیغام ہے۔ تمھارا جسد خاکی تو زمین میںدفن ہوگا لیکن تمھارا پیغام، تمھاری نبوت ہمیشہ زندہ رہے گی۔ اس کے لیے موت نہیں ہے۔ اس لیے کہ نبوت اور رسالت کا پیغام اگرمحفوظ نہ رہے تو نبیؐکی ضرورت پڑتی ہے۔ اسی لیے اس پیغام کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے اٹھا رکھا ہے۔
ہم خاتم النبیینؐ کے لیے نعرے بھی لگاتے ہیں، کانفرنسیں بھی کرتے ہیں، جو نہیں مانتے ان کو غیر مسلم بھی قرار دیتے ہیں، لیکن جو ماننے والے ہیں، ان کے لیے خاتم النبیین میں معانی کا جو ایک جہان پوشیدہ ہے، اس سے ہم واقف نہیں ہیں۔ اگر کوئی خاتم النبیینؐ آچکا ہو اور اب کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، مگر ہم نہیں جانتے کہ اب نبوت کی ذمہ داری کس کے اوپر ہے اور اس نے نبوت کے عالم گیر مشن کی دعوت کس کے سپرد کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًاط (البقرہ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت ِوسط‘ بنایا ہے، تاکہ تم دُنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عالم گیر فتوحات، یہ ۱۰۰ سال کے عرصے میں اسپین سے لے کر چین تک محمد رسولؐ اللہ کے نام کا پکارا جانا، یہ دنیا کے گوشے گوشے میں اسلام کا پہنچ جانا، یہ تاریخ کا سب سے حیرت انگیز انفجار یا کوئی حادثہ نہیں۔ یہ عرب سے نکلنے والے بدوئوں کا شوق جہانگیری نہیں تھا، جس کے نتیجے میں تاریخ کا یہ عظیم الشان واقعہ پیش آیا، یہ تو نبوت کی فطرت کا تقاضا تھا، کہ یہ واقعہ ظہور پذیر ہو۔ وہ نبوت جو عالمی نبوت تھی، وہ نبوت جو خاتمِ نبوت تھی، اس کی فطرت کے اندر یہ پنہاں تھا، کہ یہ ساری دنیا کے اوپر چھائے، اور اس پیغام کو ساری دنیا تک پہنچائے۔
مولانا عبدالقدوس گنگوہی ہندستان کے ایک مشہور صوفی تھے۔انھوں نے کہا کہ محمدعربیؐ تو آسمان پر چلے گئے اور حق کے پاس پہنچ کر واپس آ گئے۔ اگر میں جاتا تو واپس نہ آتا۔ اس پراقبالؒکہتے ہیں کہ یہی فرق ہے مزاج نبوت اور مزاجِ تصوف میں۔ تصوف کی منزل حق ہے۔ وہ حق کے پاس پہنچ کر فنا ہو جاتا ہے۔ نبوت کی منزل حق نہیں، وہ حق سے حق لے کر لوٹتا ہے۔ پھر وہ اپنے آپ کو زمانے کی رو میں جھونک دیتا ہے، اور تاریخ ساز قوتوں کو اپنی مٹھی میں لے کر اپنے تصورات اور عقائد کی ایک نئی دنیا تعمیر کرتا ہے۔ یہ نبوت کا مزاج ہے اور یہ اس امت کا مزاج بھی ہونا چاہیے، جو اس مشن کی علم بردار ہے جو مشن نبی کریمؐ نے مکمل فرمایا، اور اس امت کے سپرد کر دیا۔
آج انسان کو جن مصائب اور مشکلات کا سامنا ہے، جس الم ، درد اور کرب سے وہ دوچار ہے، روز مرہ زندگی جس طرح پریشانی، عدم اطمینان اور بے چینی کا شکار ہے، جس کا اظہار چہروں سے بھی ہوتا ہے اور زندگیوں سے بھی، اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان نے اپنا حقیقی معبود کھو دیا ہے اور جھوٹے معبود جو دیوی دیوتائوں سے بھی بدتر ہیں، ان کا وہ پجاری بن گیا ہے۔ یہی دراصل اس کے مصائب اور آلام کی جڑ ہے۔ ان حالات میں حضوؐرکا پیغام ، کہ یہ ایک کلمہ ہے، اس کو مجھ سے لے لو تو عرب و عجم تمھارے زیر نگیں ہوںگے___ یہی دراصل وہ چیز ہے، جس سے انسانی زندگی کا قبلہ متعین ہوتا ہے، مقصد زندگی کا تعین ہوتا ہے، اور اسی سے انسانیت کی شیرازہ بندی ہوتی ہے۔
برطانیہ میں دو لڑکوںنے جن کی عمریں۱۰،۱۰ سال تھیں، ایک ڈھائی سال کے بچے کو اغوا کر لیا۔ اس کو خوب مارا، اس کا سر کچل ڈالا، ٹکڑے ٹکڑے کر تھیلی میں بند کیا اور ایک جگہ ڈال دیا۔ جب بچے کی لاش ملی تو شور مچ گیا،کہ ۱۰سال کے لڑکوں نے اس قدر ظلم، وحشت ، اور سفاکیت کے ساتھ اس جرم کا ارتکاب کیا ہے۔اس موقع پر برطانوی وزیر داخلہ نے کہا کہ دراصل ہماری کوئی سمت نہیں رہی، ہمارا کوئی قبلہ نہیں رہا، ہمارے سامنے کوئی مقصدنہیں جس کے لیے ہم جئیں۔
مغرب اس کرب سے دو چار ہے۔ ہر جگہ یہی نظر آتا ہے۔ خاندان بکھر رہے ہیں، single parentخاندان ہیں،جن میں ایک مرد یا ایک عورت اور عموماً بے چاری عورت ہی کو مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ مرد تو لطف اندوز ہو کر بھاگ جاتا ہے۔ بس عورت ہی ماں ہے ، اور وہی باپ۔ ایسے خاندانوں کی تعداد کثرت سے بڑھتی جا رہی ہے۔
اکانومسٹ نے کمیونزم کے زوال کے بعد دنیا کے مستقبل کے حوالے سے ایک تجزیہ کیا کہ تاریخ کے وہ کون سے واقعات ہیں جو فی الواقع تاریخ ساز واقعات ہیں؟ اس نے بہت سے واقعات کی فہرست گنوائی، اور اس میں ہجرت کا واقعہ بھی شامل کیا۔ اس کی اتنی انصاف پسندی تسلیم کریں کہ اس نے ہجرت کے واقعے کو بھی تاریخ ساز واقعات میں شمار کیا ہے۔ اس کے بعد کمیونزم کے زوال کا تذکرہ کرتا ہے کہ یہ تو چند سیاسی اور معاشی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے بلکہ ایک ہی تہذیب کے اندر الٹ پھیر ہے۔ کیا آیندہ تاریخ کوئی کروٹ بدلنے والی ہے، کوئی نیا موڑ مڑنے والی ہے، اور کسی انقلاب سے دو چار ہونے والی ہے اور کن مسائل کے گرد تاریخ کی یہ نئی تبدیلی آئے گی___ اس حوالے سے وہ لکھتا ہے کہ یہ وہ مسائل ہیں جن کا دعویٰ اسلامی بنیاد پرست بھی کر تے ہیں اور عیسائی بنیاد پرست بھی۔ اگر دنیا نے اب کوئی کروٹ بدلی ، تو یہ ان مسائل کے گرد ہوگی، جو بظاہر نگاہوں کے سامنے نہیں ہیں، ابھی پردہ غیب میں ہیں اور جو غیبی علوم ہیں (یعنی خدا، رسالت اور آخرت وغیرہ) ، ان کے گرد اَب تاریخ نئی کروٹ بدلنے والی ہے۔ مگر وہ اس بات پر مسرت کا اظہار کرتا ہے کہ نہ عیسائی بنیاد پرست اس کے اہل نظر آتے ہیں اور نہ مسلمان بنیاد پرست ہی اس کے اہل ہیں، کہ وہ تاریخ کا رخ موڑ دیں، نئی تاریخ رقم کریں اور انسانیت کی زمام کار سنبھال لیں، اور اس کو اس کے مستقبل سے ہم کنار کر دیں۔فی الواقع دنیا ایک جہانِ نو کی تعمیر کی منتظر ہے۔
اُمت محمدیؐ کے اس عالمی مشن اور عالمی پیغام کا دوسرا حصہ جو اس پیغام کا لازمی نتیجہ اور تقاضا تھا، وہ انسانی وحدت ہے، یعنی یہ کہ انسان ایک ہے۔انسانوں کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا، ان کو ناقابلِ عبور دیواروں اور فصیلوں میں نہیں بانٹا جا سکتا، اور اگر بانٹا جائے گا تو انسان ان جھوٹے خدائوں کے پھیر میں آکر سب کچھ کھو بیٹھے گا۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف نبی کریمؐ نے یوں اشارہ کیا کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے، اگر کسی کو بڑائی حاصل ہے تو وہ تقویٰ کی وجہ سے ہے۔ یہ خدا پرستی کا، لاالہ الا اللہ کا منطقی نتیجہ تھا، اور یہ اسلام کا سب سے بڑا contributionہے، سب سے بڑی خدمت ہے، جو اس نے انسانیت کی ہے۔
انسان کی وحدت کی بنیاد اگر مادی چیزوں ، رنگ، نسل، زبان اور خون پر ہو، تو یہ ایسی دیواریں ہیں جو کوئی ڈھا نہیں سکتا۔ کالا آدمی چاہے کہ گورا ہو جائے تو نہیں بن سکتا۔ اگر گورا چاہے کہ کالا ہوجائے تو رنگ نہیں بدل سکتا۔ جو آدمی ہندستان میں پیدا ہوا ہے اور چاہے کہ پاکستان میں پیدا ہو جائے، یہ ممکن نہیں۔ اگر کسی کی مادری زبان پنجابی ہے تو اردو نہیں بن سکتی، اردو ہے تو پنجابی نہیں بن سکتی۔ یہ ناقابل عبور چیزیں ہیں، لیکن عقیدہ آدمی کے اپنے اختیار میں ہے۔ جب چاہے بدل سکتا ہے، جب چاہے سرحد کے ادھر ادھر جا سکتا ہے، اور جب چاہے کسی عالم گیر قوت میں شامل ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے انسان کی وحدت کی بنیاد مادی اور زمینی چیزوں سے بالاتر ہوکر آفاقی چیزوں میں رکھی جودل و دماغ میں بستی ہیں اور انسان ان کو جب چاہے قبول کر لے اور نتیجتاً ایک انسانیت وجود میں آ سکتی ہے، اور فی الواقع آئی بھی۔
دنیا اس بات کی معترف ہے کہ گئے گزرے مسلمان جو اگرچہ آپس میں لڑتے ہیں، ایک دوسرے کا خون بہاتے ہیں ، قومی عصبیت برتتے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اب بھی مسلمانوں کے اندر جو یگانگت، وحدت اور قوت ہے، اس کی کوئی مثال دنیا کی کوئی دوسری قوم پیش نہیں کرسکتی۔ آدمی انڈونیشیا کی مسجد میں داخل ہو جائے، یا واشنگٹن میں، وہ ایک ہی زبان میں خطبہ سنے گا۔ وہ انڈونیشیا کے کسی گھر میںجا کر کھانا کھائے یا واشنگٹن میں، دستر خوان، شراب اور سؤر کے گوشت سے پاک ہو گا، اور لوگ داہنے ہاتھ سے اس لیے کھا رہے ہوں گے کہ محمدعربیؐنے ۱۴ سو سال پہلے یہی فرمایا تھا۔ کیا کسی شخص نے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد انسانوں کے اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے پر اتنا گہرا اثر ڈالا ہے، جتنا حضوؐر نے ڈالا ہے۔ یہ وحدت و یگانگت اسلام کا عطیہ ہے جو رنگ،نسل اور زبان، ان سب فصیلوں کو عبور کرکے، انسان کو انسان سے جوڑتی ہے اور ایک وحدت بناتی ہے۔ یہ محمد عربیؐ کے عالمی مشن اور پیغام کی دوسری نمایاں خصوصیت ہے۔
اُمت محمدیؐ کے عالمی مشن کی تیسری نمایاں صفت عدل و قسط کا قیام ہے۔ جب ہم شہادت کا لفظ بولتے ہیں تو اس کے ساتھ حق کا لفظ بولتے ہیں، یعنی شہادت حق۔ قرآن نے جہاں بھی شہادت کا ذکر کیا ہے، بعض جگہ اسی کی وضاحت نہیں کی کہ کس بات کی شہادت دو، مثلاً فرمایا:
تَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ(البقرہ۲:۱۴۳) تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جائو۔
کس چیز کے گواہ بن جائو، یہاں یہ بیان نہیں فرمایا، اور جہاں یہ بیان فرمایا تو اس کے لیے قسط کا لفظ استعمال فرمایا:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِز (المائدہ۵:۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید۵۷:۲۵) ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
اَلرَّحْمٰنُo عَلَّمَ الْقُرْاٰنَo خَلَقَ الْاِنْسَانَo عَلَّمَہُ الْبَیَانَo اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍo وَّالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدٰنِoوَالسَّمَآئَ رَفَعَھَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَo (الرحمٰن۵۵:۱-۷) نہایت مہربان (خدا) نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے۔ اُسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا۔ سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں اور تارے اور درخت سب سجدہ ریز ہیں۔ آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کر دی۔
جولوگ کہتے ہیں کہ حق اور انصاف کی بات کرنا، اسلام کا مزاج نہیں، وہ اسلام اور نبوت کے مزاج سے ناواقف ہیں۔ حق وہ بھی ہے جو مجموعی طور پر حق ہے، اور تواصوابالحق میں وہ حق بھی شامل ہے جو ایک انسان کا دوسرے انسان پر ہے۔ ایک موقع پر حضوؐرنے یہ فرمایا کہ اسلامی معاشرے میںعدل اور انصاف کا یہ عالم ہوگا کہ زیورات سے لدی ایک عورت تنہا سفر کرے گی اور اسے اللہ کے علاوہ کسی کا خوف نہ ہوگا۔یہ دراصل آپؐ نے اس معاشرے کا ذکر کیا ہے جہاں پر کوئی کسی کے حق پر ڈاکا نہیں ڈال سکتا۔ کوئی کسی کی جان، مال اور عزت و آبرو پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔یہی انسانی حقوق کا خلاصہ ہے۔
دراصل یہ وہ پیغام ہے جو آج بھی بڑی کشش رکھتا ہے۔ اس میں بڑی دل آویزی اور دل کشی ہے، اور لوگ اس کو قبول کرتے ہیں۔ یہ جو کش مکش ہونے والی ہے، جس کے لیے اسٹیج تیار ہو رہا ہے، جس کی پیش گوئی خود ارباب مغرب کر رہے ہیں، یہ کش مکش آج کا حقیقی چیلنج ہے۔ دنیا دیکھنا چاہتی ہے کہ کیا محمد عربی ؐکی نبوت کے ماننے والے یہ اہلیت رکھتے ہیں ، کہ ایک دفعہ پھر تاریخ کا دھارا موڑ دیں، زمانے کا رخ بدل دیں، اور انسانیت جو بتدریج ہلاکت و تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے، اس کو موت سے بچا سکیں اور ایک نئی زندگی سے ہم کنار کر سکیں۔ اگر کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، اور خاتم النبیینؐ تشریف لا چکے ہیں اور آپؐ کی نبوت زندہ ہے، تو کیا اس نبوت کا حیات بخش خطاب دنیا کو سنایا نہ جائے گا؟ کیا دنیا پھر اس سے ہم کنار نہ ہو سکے گی؟
ہندستان کے ایک اخبار میں ایک ہندو عورت کا بڑا درد ناک خط چھپا۔ اس عورت نے مسلمانوں کو مخاطب کیا ہے کہ تم نے ہمارے ہاں ۸۰۰ سال حکومت کی۔ مگر تم نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ قرآن میں کیا لکھا ہے، نہ اپنے عمل سے بتایا، نہ زبان سے بتایا کہ قرآن کا کیا پیغام ہے۔ اب میں قرآن پڑھ کر واقف ہو چکی ہوں کہ تمھارے اوپر اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری ڈالی تھی اور سپرد کی تھی کہ اس پیغام کو لوگوں تک پہنچائو۔ میں قیامت کے روز تمھاری گردن پکڑوں گی، اور کہوں گی کہ یہ وہ تیرے بندے ہیں جن کے پاس قرآن مجید بھی تھا اور نبوت کا پیغام بھی مگر انھوں نے ہمیںاس سے ناآشنا رکھا، اور ہم کو معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ اسلام کیا ہے۔
آج ہر جگہ یہ معرکہ برپا ہے۔ اب اسلام اور مغرب کے معرکے کی سرحدیں مغرب کے جغرافیائی خطے تک محدود نہیں رہیں۔ اَب مغرب کی سرحدیں ریاض اور جکارتہ میں بھی ملیں گی، اور کراچی اور قاہرہ میں بھی۔ اسی طرح اب اسلام کی سرحدیں واشنگٹن، لندن، پیرس اور یورپ کے اندر بھی نظر آئیں گی۔ مشیت الٰہی سے یہ حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں مسلمان یورپ میں موجود ہیں۔ مشیت الٰہی تو اسی طرح کام کرتی ہے، جہاں عقل کام نہیں کر سکتی۔
حضوؐرکی پیش گوئی ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان فلسطین کے مقام پر جنگ ہوگی۔ اس پر ایک محدث نے کہا کہ یہ ضعیف، موضوع اورگھڑی ہوئی روایت معلوم ہوتی ہے۔ فلسطین میں تو یہودی ہیں ہی نہیں، ان کی مسلمانوں کے ساتھ آخر جنگ کیسے ہوگی؟ جب آدمی عقل پر انحصار کرتا ہے، تو ایسے ہی نتائج نکالتا ہے۔ یہودی گذشتہ ۶۰سال میں دنیا کے گوشے گوشے سے کھینچ کھینچ کر اس علاقے میں پہنچائے جا رہے ہیں۔ روس سے آرہے ہیں، ایتھوپیا سے آ رہے ہیں، یورپ سے آ رہے ہیں، ہر جگہ سے ان کو جمع کیا جا رہا ہے۔
میری نظر میں، ۱۴ سو سال کی تاریخ میں یہ تیسرا موقع ہے کہ آج مغرب کے چپے چپے پر مسلمان موجود ہیں۔ وہ برطانیہ جہاں ۳۵سال پہلے صرف چار مسجدیں تھیں، اب وہاں پر ۵۰۰سے لے کر ہزار مساجد کااندازہ ہے۔ امریکا کے چھوٹے چھوٹے شہروں میں مساجد کے گنبد اور مینار نظر آتے ہیں۔ اب انگلستان کی سڑکوں پر اذان کی آواز بھی سنائی دیتی ہے، وہ آواز کہ جس کے بارے میں ونسٹن چرچل کا بیٹا یہ کہتا ہے کہ مجھے تو اس گھڑی سے خوف محسوس ہوتا ہے کہ جب ہماری سڑکوں پر اذان کی آواز سنائی دے گی، اورآج وہ سنی جا رہی ہے۔ پروپیگنڈا یہ ہے کہ اسلام سب سے بدتر مقام عورت کو دیتا ہے، حالانکہ مسلمان ہونے والوں میں دوتہائی عورتیں ہیں اور ایک تہائی مرد۔
ہر شخص جانتا ہے کہ یہ ہونا ہے۔ اس لیے یورپ کو ایک طرف اسلامی دنیا کا خطرہ ہے، اور دوسری طرف وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ہی گھر کو بھر رہے ہیں، جہاں جائیں مسلمان نظر آتے ہیں۔ چنانچہ وہ تعصب اور تنگ نظری کا وہ مظاہرہ کر رہے ہیں کہ جس کی مثال بھی مشکل سے ملے گی۔
بوسنیا تو ہے ہی ایک خونچکاں داستان، یورپ میںلڑکیاں چہرے پر نقاب نہیں لے سکتیں، سرپر اگر اسکارف باندھیں، تویہ بھی منع ہے۔ آزادیِ راے، حریتِ فکر اور جمہوری حقوق کے علَم بردار یہ برداشت کرنے کو تیار نہیں کہ لڑکیاں سر پر اسکارف باندھ لیں۔ وہ یہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں کہ لڑکیاں اسکرٹ کے بجاے شلوار پہن کر اسکولوں میں چلی جائیں۔ اسکولوں کے باہر مظاہر ے ہوئے، کہ ان لڑکیوں کو شلوار پہننے کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟ یہ پاکستان اور ایران کے کٹرملا نہیں تھے بلکہ یہ مغرب کے روشن خیال شہری تھے جو اس پر احتجاج کر رہے تھے کہ کسی کو اپنی مرضی سے لباس پہننے، اپنی مرضی سے سر ڈھانپنے کا حق کیسے دیں؟
اب وہ اسلام کو یہ دعوت دے رہے ہیں کہ کسی طریقے سے اسلام اور مغرب کے درمیان کچھ مفاہمت ہونی چاہیے۔ لیکن یہ مفاہمت کس شرط پر ہو؟
ایک لکھنے والا لکھتا ہے اور پہلے وہ پورے ۱۴ سو سال کا نقشہ کھینچتا ہے کہ کس طرح اسلام اور مغرب نجران کے عیسائیوں سے لے کر مسلسل تصادم سے دو چارہیں، اوراسلام نے وہ چرکے لگائے ہیں، وہ داغ دیے ہیں، وہ زخم لگائے ہیں کہ ہم بھول نہیں سکتے۔ مصر، شام، عراق،بیت المقدس جہاں حضرت مسیحؑ پیدا ہوئے لیبیا، الجزائر، تیونس، یہ عیسائیت کے بڑے مضبوط گڑھ تھے۔ عیسائیت کے بڑے بڑے زعما شمالی افریقہ میں پیدا ہوئے ہیں، یورپ میں نہیں۔ ابتدائی چوتھی پانچویں صدی کے ان کے سب بڑے علما اور فضلا لیبیا، تیونس اور الجزائریا میں پیدا ہوئے ہیں۔ اسلام ایسا آیا کہ ۳۰سال کے عرصے میں سب کو بے دخل کر دیا۔ یہ کش مکش تو جب سے چلی آ رہی ہے، اب تو انسانیت کے مستقبل کا انحصاراس کش مکش پر ہے۔
وہ مزید لکھتا ہے کہ دو بڑی تہذیبیں آپس میں مفاہمت کر لیں، اور مفاہمت اس وقت ہوسکتی ہے، جب مسلمان دو چیزوں کے بارے میں اپنی تعلیمات میں تبدیلی کرنے کو تیار ہوجائیں۔ ذرا سوچیے کہ وہ دو چیزیں کیا ہو سکتی ہیں؟ کیا توحید، آخرت یا رسالت کے بارے میں، نہیں، بلکہ وہ سزائوں کے بارے میں اور عورت کی حیثیت کے بارے میں ہیں۔ اگر ان دوچیزوں کے بارے میں مسلمان اپنی تعلیمات میںترمیم کرنے کو تیار ہو ں تو ہماری ان کی مفاہمت ہو سکتی ہے، اور اگر تیار نہ ہوں تومفاہمت نہیں ہو سکتی۔ آدمی حیران ہو تاہے کہ یہ کیا مطالبات ہیں، کہ ان کی بنیاد پر تہذیبوں کے درمیان انسانیت کے مستقبل کے لیے مفاہمت کی دعوت دی جا رہی ہے۔ آگے چل کر وہ کہتا ہے کہ اس کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ مسلمان اس قرآن کو دوحصوں میں تقسیم کرلیں۔ ایک وہ حصہ ہے جو مکہ میںنازل ہوا، جس میں توحیدو رسالت اور یتیموں اوربیوائوں کی امدادکی دعوت دی گئی ہے۔ یہ تو مشترک انسانی چیزیں ہیں ، وہ سر آنکھوںپر۔ ایک وہ حصہ ہے جو مدینہ میں نازل ہوا اور جس میں ریاست ’سیاست‘ قانون، خاندان، عورتوں اور سزائوں کے بارے میں احکام ہیں۔ یہ نعوذ باللہ حضوؐر نے بحیثیت ایک مدبر اور قانون دان کے خود کیا ہے، اسے بدلا جا سکتا ہے۔ گویا جس طرح عیسائیت میں شریعت کو ختم کیا گیا تھا، اسی طرح اسلام میں بھی شریعت کو ختم کر دیا جائے۔ یہ ہے وہ پوشیدہ حقیقت جو آج سامنے آ گئی ہے۔ علامہ اقبال نے بھی اسی طرف اشارہ کیا تھا کہ مغرب کا دل اسی سے لرزتا ہے کہ کہیں عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق شرع پیغمبری آشکارا نہ ہو جائے ع
ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں
دراصل یہ وہ دور ہے کہ جو شرع پیغمبریؐ کے نمو کا دور ہے۔ وہ شرعِ پیغمبر جو انسانیت کو اس آبِ حیات سے ہم کنار کرے گی،جسے قرآ ن نے شِفَـآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ ، (یونس ۱۰:۵۷) کہا ہے۔ وہ شفار ہے ان سارے امراض کے لیے، جن کا انسانیت آج شکار ہے۔ یہ کس کے ہاتھوں ہوگا، یہ میں نہیں کہہ سکتا، لیکن میرا بھی دل چاہتا ہے کہ یہ سعادت ہمارے حصے میں آئے، بشرطیکہ ہمیں اس کا ادراک اور احساس ہو۔
یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے جو ہم نے اپنے ذمے لیا ہے۔ مکہ میں مٹھی بھر آدمی تھے اور ایک کلمے کی دعوت تھی، مگر اس وقت بھی ان کی نگاہیں قیصر و کسریٰ کے خزانوں اور محلات پر تھیں۔ اس ادراک کے بغیر ان چھوٹے کاموں کے اندر وہ عظمت نہیںپیدا ہو سکتی، جو کہ ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ صدقے کی ایک سونے کی گٹھلی کو لیتا ہے اور اس کو اتنا بڑھاتا ہے کہ احد پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔ مگر اللہ نے ایک فرق بھی ملحوظ رکھا ہے، اس کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے:
لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ ط اُولٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْٓ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا ط وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی ط وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ o (الحدید۵۷:۱۰) تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے وہ کبھی اُن لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جنھوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے۔ ان کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے، اگرچہ اللہ نے دونوں ہی سے اچھے وعدے فرمائے ہیں۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔
لہٰذا جب فتح اور غلبے کی علامات نظر آنے لگیں، اس وقت کا ادراک اور احساس رکھنا اور شعور رکھنا اور تاریخ جو کچھ پیش کر رہی ہے اس کا فہم ضروری ہے۔ یہ اُمت محمدیؐ کے عالمی مشن کا ناگزیر تقاضا ہے۔ اس کے نتیجے میںآج بھی چھٹی صدی عیسوی کا یہ معجزہ ظہور پذیر ہو سکتا ہے۔
اگر ہم آگے بڑھ کر اس کام کو نہ اٹھائیں گے تو سیدنا مسیحؑ کی تمثیلی زبان میں کہ دولھا کے انتظار میںکنواریاں چراغ لیے انتظار کرتی رہیں۔ یہاں تک کہ دولہا آیا اور گھر میں داخل ہو گیا، کچھ سو گئی تھیں اور کچھ کا تیل ختم ہو گیا تھا اور وہ اس کے ساتھ اندر نہیں جا سکیں۔
جب تاریخ کا دولہا اسلام کی بارات لے کر آئے گا، تو کون ہوگا جس کے چراغ میں تیل جل رہا ہوگا، اور کون ہوگا کہ جو جاگ رہا ہوگااور کون ہوگا جو تاریخ کے اس لمحے پر اپنا کردار ادا کرے گا___ اس کا علم یا تو علام الغیوب کو ہے یا تاریخ اس کا فیصلہ کرے گی۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ اگر تم اس فرض کو ادا نہ کرو گے تو پھر وہ کیا کرتا ہے:
وَ اِنْ تَـتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ لا ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْo (محمد ۴۷:۳۸) اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمھاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔
یہ ہے وہ دعوت کہ جو آج اس امت کے سامنے موجود ہے۔ اس پکار پر لبیک کہنے میں اس اُمت کا مستقبل بھی ہے، اور انسانیت کا مستقبل بھی اسی سے وابستہ ہے۔ اللہ ہم سب کو اس کا شعور وادراک عطا کرے اور اس راہ پر چلنے کی توفیق دے،آمین! (کیسٹ سے تدوین: امجدعباسی)
کتابچہ دستیاب ہے، منشورات، منصورہ، لاہور۔ قیمت: ۷ روپے، سیکڑے پر خصوصی رعایت
عیدالاضحی کے موقع پر مسلمان سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرتے ہیں‘ اور اللہ کی راہ میں اپنی جان تک قربان کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ اس موقعے پر محترم خرم مراد کی ایک انگریزی مطبوعہ تقریر Sacrifice کا ایک حصہ پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
قربانی کا کیا مطلب ہے؟ ہمیں کس چیز کی قربانی دینا چاہیے؟ کون سی قربانیاں دینا زیادہ مشکل ہے؟ کن قربانیوں کو عظیم قرار دیا جانا چاہیے؟
قربانی کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ ہم جن چیزوں سے محبت کرتے ہیں‘ جن کی ہماری نظروں میں کچھ قدر ہے‘ وہ اِس وقت ہماری ہوں‘ یا ہم مستقبل میں انھیں حاصل کرنے کی تمنا اور امید کرتے ہوں‘انھیں چھوڑ دیں۔ یہ چیزیں محسوس اور مادی ہوسکتی ہیں‘ یا غیرمادی اور تصوراتی۔ مادی چیزوں میں وقت‘ مال‘ دنیاوی اشیا‘ جسمانی صلاحیتیں اور زندگی اہم ہیں۔ اہم تصوراتی اشیا میں ہماری محبت‘ خاص طور پر خاندان سے تعلقات‘ پسندوناپسند‘ ترجیحات و تعصبات‘ نقطۂ نظر اور راے‘ خواہشات اور تمنائیں‘آرام و آسایش‘مقام و منصب یا ہماری اَنا شامل ہیں۔
قربانی کا مفہوم صحیح طور پر سمجھنے کے لیے تین اصول پیش نظر رہنے چاہییں:
اوّل: کسی چیز کے چھوڑنے کو اسی وقت قربانی کہا جاسکتا ہے‘ جب کہ ہم اس سے محبت کرتے ہوں اور اس کے قدرداں ہوں۔ اس لیے مادی اور غیرمادی اشیا کے درمیان امتیاز کی لکیر کھینچنا مشکل ہے۔ آخری تجزیے میں ہر قربانی‘ محبت اور قیمتی چیز کی قربانی ہے۔ جب ہم مال‘ یا زندگی‘ یا کوئی تعلق اللہ کی خاطر قربان کرتے ہیں تو جو شے ہم درحقیقت قربان کرتے ہیں جو اسے ایک قربانی بناتاہے‘ وہ مال‘ زندگی یا رشتے دار کے لیے ہماری محبت ہے‘ نہ کہ اصل شے۔
دوم: مادی کے مقابلے میں غیر مادی اشیا کو قربان کرنا زیادہ مشکل لیکن زیادہ ضروری ہے۔
سوم: ہم کسی ایسی چیز کو جس سے ہم محبت کرتے ہیں اور جس کی قدر کرتے ہیں‘ کسی ایسی چیز کے لیے ہی قربان کرسکتے ہیں جس سے ہم اس سے زیادہ محبت کرتے ہوں اور اس سے زیادہ قدر کرتے ہوں۔
ٹھوس اشیا کی قربانیوں کی ضرورت اور اہمیت ہم جانتے پہچانتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں خواہ بعض وقت یہ قربانیاں نہ دے سکیں‘ یا دینے میں بہت مشکل محسوس کریں۔ لیکن جب ہم ایک دفعہ کسی مقصد سے وابستہ ہوجائیں تو اپنے وقت اور مقام پر ان میں سے ہر ایک کی قربانی دینا ہوتی ہے۔ اسی لیے ہمیں ذرا ٹھیر کر ان کی اہم خصوصیات پر غور کرنا چاہیے۔
وقت ہماری سب سے قیمتی شے ہے۔ ہم زندگی میں جس چیز کی بھی خواہش کریں‘ اسے وقت لگائے بغیر حاصل نہیں کرسکتے۔ ہم اپنا وقت‘ مسرت حاصل کرنے میں‘پیسہ کمانے میں‘ دنیاوی اشیا حاصل کرنے میں‘ کام کرنے میں‘ مزے اٹھانے میں یا محض کاہلی میں کچھ نہ کر کے بھی گزار سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سے جس چیز کا سب سے پہلے مطالبہ کرتا ہے‘ وہ وقت ہے۔ اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنے کے لیے وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ نماز پڑھنے میں وقت لگتا ہے۔ دعوت کا کام کرنے میں وقت خرچ ہوتا ہے۔ قرآن پڑھنے میں وقت صرف ہوتاہے۔ مریض کی عیادت کرنے کے لیے بھی وقت چاہیے ہوتا ہے۔ ہمیں اپنا ہرلمحہ اللہ کی رضا کے حصول میں‘ جو اس سے عہد کیا ہے اسے پورا کرنے میں صرف کرنا چاہیے۔
لیکن اگر آپ ذرا گہرائی میں جاکر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ آپ سے دراصل جس چیز کی قربانی مانگی جارہی ہے‘ وہ وقت نہیں بلکہ وہ اشیا ہیں جن کے حصول میں آپ کا وقت خرچ ہوتا ہے۔ وہ اشیا جو آپ کی زندگی کے مقاصد کے خلاف ہوں‘ بے معنی‘ غیراہم‘ یا اللہ کی خاطر کیے جانے والے کاموں سے کم اہم۔ اس لیے اسلام کے لیے وقت دینے کے لیے‘ آپ کو سب سے پہلے وہ بہت سی اشیا قربان کرنے کے لیے تیار ہونا چاہیے جن پر آپ کا وقت لگتا ہے۔
آپ اپنے آپ کو ان چیزوں کی قربانی کے لیے اور اپنا وقت اللہ کے لیے دینے پر کس طرح آمادہ کریں؟
یاد رکھیے کہ وقت ایک ایسی چیز ہے جس کو آپ ایک لحظہ بھی نہیں ٹھیرا سکتے۔ جس طرح بھی چاہیں آپ اسے صرف کریں‘ یہ مسلسل آپ کے ہاتھ سے پھسلتا رہے گا۔ آپ کے لیے اس کی قیمت وہی ہے جو آپ اس سے حاصل کریں۔ وقت پگھل جائے گا‘ جو آپ اس سے حاصل کریں گے‘ وہ آپ کے ساتھ رہے گا۔
ہرلمحے اس امر کو پیش نظر رکھیے کہ وقت کا ہرلمحہ ہمیشہ کی مسرت یا نہ ختم ہونے والی تکلیف میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ اسے کس طرح صرف کرنا پسند کرتے ہیں۔ اس امر کا استحضار وقت کی قربانی دینے میں آپ کو سب سے زیادہ طاقت فراہم کرے گا۔ وہ لمحات جن کو آپ آج اپنی گرفت میں نہیں رکھ سکتے‘ کل آپ کو اس طرح ملیں گے کہ کبھی جدا نہ ہوں گے۔ پھر آپ ایسی چیزوں کا حصول کیوں نہ قربان کردیں جو نہ ختم ہونے والی تکلیف اور پچھتاوے میں تبدیل ہوجائیں گی۔
جب وقت گزر رہا ہو تو آپ غور کیجیے: آپ کیا پا رہے ہیں___ کوئی عارضی یا مستقل چیز؟ مسرت یا پچھتاوا؟ آپ کے وقت میں اسلام کو کتنی ترجیح حاصل ہے؟ وقت کس تناسب سے اللہ کی راہ میں لگتا ہے؟ ’’اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے‘‘۔(الحشر ۵۹:۱۸)
اللہ کی راہ میں وقت کی قربانی اسلام کا جوہر ہے۔ جب بھی طلب کیا جائے‘ آپ کو حاضر ہونا چاہیے۔ اس لیے‘ آپ کو اپنے آپ کو مسلسل تربیت دینا چاہیے کہ اللہ کی راہ میں وقت دے کر‘ ہر چیز کی قربانی دے سکیں۔ یہ صفت آپ کے کردار پر ‘ دن میں پانچ دفعہ نقش کی جاتی ہے۔ جمعہ کے دن آپ کو اس طرح بیدار کیا ہے:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن‘ تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خریدو فروخت چھوڑ دو‘ یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو۔ (الجمعہ ۶۲:۹)
آپ کا بیش تر وقت مال کے یا مال کے ذریعے حاصل ہونے والی دنیاوی اشیا کے حصول کی کوشش میں صرف ہوجاتا ہے: ’’لوگوں کے لیے مرغوباتِ نفس : عورتیں ، اولاد ، سونے چاندی کے ڈھیر ، چیدہ گھوڑے ، مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوش آیند بنادی گئی ہیں‘‘۔(اٰل عمرٰن۳:۱۴)
یاد رکھیے کہ دنیاوی اشیا کی یہ محبت اور خواہش نہ قابلِ مذمت ہے‘ نہ بری ہے۔ قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ یہ دنیا اپنی اصل میں شر‘ یا خرابی نہیں ہے۔ دولت اور مال کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ اسے خیر (اچھا) کہتے ہیں جو ایک بالکل درست بات ہے۔ اس لیے کہ اللہ اور دوسری دنیا کی نعمتوں اور برکتوں کی طرف جانے والا راستہ اس دنیا سے گزر کر جاتا ہے۔ اگر ہم اس دنیا کو ترک کردیں‘ تو ہمارے پاس ان نعمتوں اور بیش بہا خزانوں کو حاصل کرنے کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ بلاشبہہ اللہ کی رضا اور اس دنیا کے حصول کا واحد ذریعہ اور بنیاد یہی ہے۔
جو چیز اس دنیا کو شر‘ یا برائی بناتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اس دنیا کے عارضی دورانیے کے لیے یہ سب کچھ ہمیں اُس دنیا کے حقیقی اور مستقل مقاصد لیے دیا گیا ہے‘ جو ہر اس چیز سے بہتر ہے جو یہ دنیا دے سکتی ہے۔ جب ذرائع مقاصد بن جائیں‘ تو حقیقی قدروقیمت کی اشیا کے بجاے ہمارے حصے میں دنیاوی تکالیف آتی ہیں۔ قرآن آگے کہتا ہے:
مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے ، وہ تو اللہ کے پاس ہے۔کہو : میں تمھیں بتائوں کہ ان سے زیادہ اچھی چیز کیا ہے؟ جو لوگ تقویٰ کی روش اختیار کریں ، ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغ ہیں ، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، وہاں انھیں ہمیشگی کی زندگی حاصل ہو گی ، پاکیزہ بیویاں ان کی رفیق ہوں گی اور اللہ کی رضا سے وہ سر فراز ہوں گے۔ (اٰل عمرٰن ۳:۱۴-۱۵)
اللہ کی راہ میں دنیاوی اشیا کی قربانی دینا آسان نہیں ہے۔ جب انتخاب کا واقعی موقع آئے تو بہت سے لڑکھڑاجاتے ہیں اور ناکام رہتے ہیں۔ کچھ باتوں کا یاد رکھنا‘ ان مشکل قربانیوں کو دینے میں آسانی پیدا کرے گا۔
اوّل: کوئی چیز بھی آپ کی نہیں ہے‘ ہر چیز اللہ کی ہے۔ جب آپ کوئی چیز اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں تو دراصل اسے اس کے اصل مالک کی طرف لوٹا رہے ہوتے ہیں: ’’آسمانوںاور زمین میں ہر چیز اللہ ہی کی ہے‘‘۔
دوم: دنیاوی چیزوں کو آپ کتنا ہی زیادہ قدروقیمت کا حامل کیوں نہ سمجھیں‘ آخری سانس کے ساتھ ہی سب کچھ ختم ہوجائے گا۔
جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ خرچ ہو جانے والا ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے ، اور ہم ضرور صبر سے کام لینے والوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے۔(النحل ۱۶:۹۶)
اور اے نبیؐ ! انھیں حیاتِ دنیا کی حقیقت اس مثال سے سمجھائو کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسا دیا تو زمین کی پودخوب گھنی ہو گئی، اور کل وہی نباتات بھُس بن کر رہ گئی ، جسے ہوائیں اڑائے لیے پھرتی ہیں۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔یہ مال اور یہ اولاد محض دنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرایش (زینت) ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور اُنھی سے اچھی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔(الکہف ۱۸:۴۵-۴۶)
سوم: صرف اللہ کی راہ میں دینے سے آپ اسے کئی گنا زیادہ واپس پاسکتے ہیں۔
اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو ۔ جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے‘ اسے اللہ کے ہاں موجود پائو گے ، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے۔اللہ سے مغفرت مانگتے رہو ، بے شک اللہ بڑا غفور و رحیم ہے۔(المزمل ۷۳:۲۰)
جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں ، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں۔ اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے ‘ افزونی عطا فرماتا ہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔(البقرہ ۲:۲۶۱)
ایک لمحے کے لیے سوچیے!
اسلام سے وابستگی کے آپ کے دعووں کی کیا وقعت ہے اگر آپ کھانے پینے اور سگریٹ نوشی پر اپنے مقصد سے زیادہ خرچ کریں۔ اللہ کے وعدوں پر آپ کے یقین کی کیا حقیقت ہے اگر دنیا میں نفع کی ذرا سی بھی اُمید آپ کو اپنی کُل رقم کسی بزنس میں لگانے کے لیے آمادہ کرتی ہے‘ جب کہ ۷۰۰ گنا رقم کا وعدہ___ جو کبھی واپس نہ لی جائے گی‘ آپ کا بٹوا نہیں کھلوا سکتا۔ آپ اپنی زندگی میں اسلام کے مقام کا تعین یہ جائزہ لے کر کرسکتے ہیں کہ آپ اپنی دولت کس تناسب سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔
مال کی قربانی کبھی آسان نہیں رہی۔ لیکن ہمارا دور تو ایسا دور ہے کہ جس میں صرف بہتر معیارِ زندگی‘ مزہ اور مسرت‘ صارفیت اور مادی اشیا ہی زندگی کے مقصد بن چکے ہیں۔ اس لیے آپ دیکھ بھال کر جائزہ لیں کہ کہیں آپ اس لحاظ سے ناکام نہ ہوجائیں۔
ایک وقت آسکتا ہے جب آپ سے اللہ کی راہ میں جان کی قربانی طلب کی جائے۔ اس طرح جان دینا‘ شہادت کی اعلیٰ ترین قسم ہے۔ اس کے بعد آپ شہید کہلانے کا حق رکھتے ہیں۔ آپ کی زندگی‘ آپ کی قیمتی ترین متاع ہے۔ اس کی قربانی کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی زندگی جو کچھ دیتی ہے‘ یا دے سکتی ہے‘ تمام مادی اور غیرمادی اشیا جن کا پہلے ذکر ہوا ہے‘ آپ سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار رہیں۔
جب یہ احساس ہوجائے کہ زندگی آپ کی نہیں‘ اللہ کی ملکیت ہے اور جو اس کا ہے‘ وہ آپ کو اسے دینا چاہیے تو آپ اللہ کی راہ میں جان دینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ موت سے نہ تو آپ بچ سکتے ہیں‘ نہ فرار اختیار کرسکتے ہیں۔ یہ ہمیشہ مقررہ وقت پر‘ طے شدہ مقام پر‘ طے شدہ طریقے سے آئے گی (اٰل عمرٰن ۳:۱۸۵، ۱۴۴-۱۴۵۔ النساء۴ : ۱۷۸)۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جو اللہ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں‘ وہ اپنی موت سے ماورا‘ اپنے لیے‘ اپنی برادری کے لیے‘ اپنے مشن کے لیے ہمیشہ کی زندگی حاصل کرلیتے ہیں۔
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں‘ اُنھیں مردہ نہ کہو ، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں ، مگر تمھیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا ۔(البقرہ ۲:۱۵۴)
اس دنیا کی زندگی سے محبت نہ ہونا چاہیے‘ موت کا خوف نہ ہونا چاہیے‘ تب ہی آپ وہ طاقت حاصل کریں گے جو اپنی جان قربان کرنے کے لیے چاہیے۔ یہ صرف موت کے لیے آمادہ ہونا ہے جس سے آپ دشمن طاقتوں پر غلبہ پاسکتے ہیں۔ تب ہی کامیابی کے دروازے کھلیں گے۔ آپ مر کر زندگی حاصل کرتے ہیں‘ اپنے لیے‘ اور اپنی برادری کے لیے۔ اگر آپ مرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ تو آپ کو زندہ رہنے کا حق نہیں رہتا‘ کم سے کم ایک برادری کے طور پر۔
ہم میں سے ہر ایک سے جان کی قربانی کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا‘ لیکن اس کی تمنا ہر دل میں ہونی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص جو نہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے‘ نہ جہاد کے بارے میں سوچتا ہے‘ منافق کی موت مرے گا (مسلم)۔ انھوں نے یہ بھی کہا: اس ہستی کی قسم! جس کے قبضے میں‘ میری جان ہے‘ مجھے یہ پسند ہے کہ میں اللہ کی راہ میں مارا جائوں‘ پھر زندہ کیا جائوں‘ پھر مارا جائوں‘ پھر زندہ کیا جائوں تاکہ ایک دفعہ پھر اللہ کی راہ میں جان دے سکوں(بخاری، مسلم)۔ (ترجمہ: مسلم سجاد)
’مستقبل‘ کا لفظ اپنے اندر بڑی کشش اور دل فریبی رکھتا ہے۔ مستقبل بنانے کے لیے ہم ساری زندگی تگ و دو کرتے ہیں‘ اور اپنی زندگی کے بہترین سال اپنے مستقبل کی تعمیر میں صرف کرتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں اُس چیز کی محبت رکھ دی ہے جو فوری ملنے والی ہو‘ جو نفعِ عاجل ہو‘ اور یہ محبت اس امتحان کے لیے ضروری تھی جس میں اس کو ڈالا گیا ہے‘ وہاں اس نے اس کی فطرت میں مستقبل کی آرزوئوں‘ تمنائوں اور خوابوں کے لیے جدوجہد‘ کوشش اور قربانی کا جذبہ بھی رکھ دیا ہے۔ یہ دونوں چیزیں مل کر انسانی وجود کی تخلیق کو تکمیل کا درجہ عطا کرتی ہیں۔
حال اور مستقبل‘ آج اور کل کے لحاظ سے اگر ہم انسانوں کو اور انسانی گروہوں کو تقسیم کرنا چاہیں تو دو قسم کے گروہ نظر آئیں گے۔ ایک وہ لوگ ہیں جو حال مست ہیں‘جن کی نظر آج کے نفع پر ہوتی ہے‘ جو آج کا کام آج کر کے لمبی تان کر سوتے ہیں اور جن کے نصیب میں آج کی روٹی آئے تو وہ اس کو اپنے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اپنی نگاہ مستقبل پر مرکوز کردیتے ہیں۔ آج کے ہرلمحے اور اپنی ہرکوشش کا نتیجہ وہ مستقبل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ تقسیم بہت واضح اور صاف طور پر دیکھی جاسکتی ہے اور اس میں کسی شک و شبہے کی گنجایش نہیں ہے۔
اگر ہم مختصر الفاظ میں اسلام اور مسلمان کی تعریف کرنا چاہیں تو یہ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتی کہ اسلام مسلمان کو مستقبل کے لیے جینے کی دعوت دیتا ہے۔ وہ مستقبل جس کا وجود موت کی سرحد سے بھی ماورا ہے‘ اور جو اتنا عظیم الشان ہے کہ زمین و آسمان بھی اس کے وسعت میں سماجائیں۔ قرآن مجید کی ساری دعوت ہی یہ ہے کہ دوڑو‘ بھاگو ‘سعی اور کوشش کرو اور ایک دوسرے سے سبقت لے جائو اور آگے بڑھو۔ حرکت خود مستقبل کی طرف لے جاتی ہے۔ گویا مسلمان وہ ہے کہ جو اپنے حال کے ہرلمحے پر اس طرح سے نگاہ ڈالتا ہے کہ کل اس کا کیا نتیجہ نکلنے والاہے۔
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ج (الحشر ۵۹:۱۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ سے ڈرو‘ اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے۔
قرآن کی دعوت یہ ہے کہ اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزاری جائے۔ ہرانسان یہ دیکھے کہ اس نے آج‘ کل کے لیے کیا سامان کیا ہے۔ یہ کل وہ ہے جو زندگی کی سرحد سے ماورا اپنا وجود رکھتی ہے اور جو زندگی کی سرحد کے اس پار پائی جاتی ہے۔ لہٰذا جس کی فطرت ہی میں ایک واضح مستقبل کی تعمیر ہو‘ وہ صرف آج کے نفع‘ آج کی سعی اور جدوجہد پر قانع نہیں ہوسکتا‘ اس کی نگاہ ہمیشہ کل پر رہے گی۔
یہ بھی واضح رہے کہ اسلام کے معنی تحریک کے ہیں‘ جب کہ تحریک کے معنی حرکت اور جدوجہد کے ہیں۔ حرکت کے معنی ایک زمانے سے دوسرے زمانے کی طرف سفر کے بھی ہیں‘ یعنی حال سے مستقبل کی طرف سفر۔ تحریک وہ ہے جو مستقبل کی طرف سفر جاری رکھے۔ اگر وہ حال پر قانع ہوکر رہ جائے اور حال ہی کی کارکردگی پر مطمئن رہے تو یہ تحریک نہیں بلکہ جمود ہے۔ تحریک کی نگاہ ہمیشہ آنے والے کل پہ ہوگی۔ آنے والا کل‘ آج کی اس کی جدوجہد کو بارآور کرے اور نتیجہ خیز بنائے‘ یہی اس کا مقصود ہوگا۔
اگر زمانے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو رات اور دن کی گردش ایک ایساعمل ہے جو مسلسل حال کے لمحات کو ماضی میں بدلتا ہے‘ مستقبل کو حال بنا دیتا ہے‘ اور مستقبل کا اگلا لمحہ آپ کے دروازے پر دستک دینے لگتا ہے۔ آج تک وقت کی حقیقت اور ماہیت کو کوئی نہیں سمجھ سکا۔ یہ وقت کا وہ پھیر ہے جس سے ہم سب واقف ہیں کہ گھڑی ٹک نہیں کرتی کہ حال ماضی بن جاتا ہے‘ مستقبل حال‘ اور مستقبل کا نیا لمحہ سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔ مستقبل کا یہ لمحہ ایک سیکنڈ کے برابر بھی ہوسکتا ہے‘ ایک برس کے برابر بھی ہوسکتا ہے اور یہ صدیوں پر بھی محیط ہوسکتا ہے۔ اس سب کے باوجود ہر آن وقت کے ماضی‘ حال اور مستقبل میں بدلنے سے مفر کی کوئی صورت نہیں۔ انھی لمحات میں سے بعض لمحات ایسے آتے ہیں کہ ایک لمحے میں ہزاروں مہینوں کا کام ہوجایا کرتا ہے اور ایک بالکل نئے مستقبل کی بنیاد پڑجاتی ہے۔ اس طرح بعض لمحات ایسے آتے ہیں کہ ایک لمحے کی غفلت مستقبل کی منزل کو صدیوں دُور کر دیا کرتی ہے۔
وہ انسان جنھوں نے اپنا دامن اسلام کے ساتھ وابستہ کیا ہو‘ اپنے وقت‘ اپنی کوششوں اور اپنی مساعی کی اس قدروقیمت سے کبھی غافل نہیں ہوسکتے۔ آج دنیا تاریخ کے جس موڑ پرکھڑی ہے‘ وہ کچھ ایسا ہی لمحہ ہے۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہے کہ جب لمحے بھر کی غفلت انسان کوا پنے مستقبل سے صدیوں دُور پھینک سکتی ہے‘ اور ایک لمحے کی محنت اور توجہ انسان کواپنی منزل سے قریب بھی کرسکتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا زیر و زبر ہورہی ہے اور ہر طرف تغیر وتبدل کا عمل جاری ہے۔ ایسی کیفیت میں اسلامی تحریک کے لیے‘ جو عالمی انقلاب کا خواب دیکھ کر وجود میں آئی اور جس نے امامت عالم پر اپنی نگاہیں جمائیں‘ اور جس نے دنیا کو نئی تہذیب و تمدن سے آشنا کرنے کے لیے انسانوں کی ایک نئی ٹیم بنانے کا کام اپنے ذمے لیا‘ سوچنے کا لمحہ ہے کہ وہ کہاں کھڑی ہے‘ اور اسے کیا کرنا چاہیے کہ وہ تاریخ کے اس چیلنج کا جواب دے سکے‘ جواُسے اس کی منزل سے قریب کردے۔
تاریخ کے اس چیلنج کو بہت مختصراً سمجھنے کے لیے ذرا ذہن میں اس تصویر کو تازہ کیجیے کہ جب چھٹی صدی عیسوی کے ایک دن‘ صبح صادق سے چند لمحے پہلے‘ اللہ تعالیٰ نے غارِحرا میں اپنی ہدایت کی پہلی چند کرنیں اپنے محبوبؐ کے قلبِ مبارک میں داخل کیں تو دراصل انسانیت کا مستقبل ایک روشن صبح کے اندر تبدیل ہوگیا۔ یہ صبح ایک ہزار سال تک رہی۔ اگرچہ اس میں تاریکی کے دور بھی آئے لیکن ایک ہزار برس تک اسی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین دنیا کے امام اور قائد بنے رہے۔ یہ ابھی تین چار سو سال پہلے کی بات ہے کہ وہ امامت کے اس منصب سے دست بردار ہونے لگے اور اس سے دست کش ہوتے چلے گئے۔ وہ مغرب کہ جہاں وہ کبھی ایک دفعہ شمال سے آئے اور فرانس کے وسط تک پہنچے‘ اور ایک دفعہ مغرب سے آئے اور جرمنی کی سرحدوں تک دستک دی‘ وہی مغرب کھڑا ہوااور اس نے ان کو ایک ایک کر کے انھی علاقوں میں مغلوب کرنا شروع کردیا جہاں وہ غالب اور حکمران تھے۔ انڈونیشیا‘ ملایشیا‘ ہندستان‘ مصر‘ عراق‘ شام‘ فلسطین‘ تیونس‘ الجزائر‘ مراکش‘ نائیجیریا‘ سینیگال‘ افریقہ‘ ایشیا‘ یورپ‘ غرض کوئی جگہ باقی نہ رہی جہاں پر اُمت مسلمہ کو امامت کے منصب سے بے دخل نہ کردیا گیا ہو۔
جتنا حیرت انگیز انقلاب چھٹی صدی عیسوی کا تھا جس کو ایک مستشرق یوں بیان کرتا ہے کہ لا الٰہ الا اللہ کی صدا نے عرب کے بسنے والے بدوؤں اور گلہ بانوں کو اس جذبے سے سرشار کیا کہ ۱۰۰سال کے عرصے میں اسپین کے مرغزاروں سے لے کر چین کے ساحل تک مکہ کے یتیم بچے محمد بن عبداللہ کا نام پکارا جانے لگا اور آوازہ بلند ہونے لگا۔ ایسا معجزہ تاریخ نے کبھی نہیں دیکھا۔
تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ وہی محمد رسولؐ اللہ کے پیرو اور متبعین ایک ایک کر کے ایک ایک علاقے سے اپنی امامت اور حکومت سے بے دخل کردیے گئے۔ ایک لکھنے والے کے الفاظ میں‘ ۱۹۲۰ء میں‘ یہ عالم تھا کہ اگر نگاہ دوڑائی جائے تو ساری دنیا میں صرف چار مسلم ممالک براے نام آزاد تھے جو اس وقت بڑے غیراہم ملک تھے‘ اور وہ تھے سعودی عرب‘ یمن‘ افغانستان اور ترکی۔ ان ملکوں کے حکمرانوں کے بارے میں بھی آج یہ کہاجاتا ہے کہ یہ مغربی طاقتوں کے بعض صورتوں میں آلۂ کار تھے اور بعض صورتوں میں تنخواہ دار تھے۔ یہ حال تھا اس صدی کی ابتدا میں مسلم دنیا کا۔
تحریک اسلامی جو امامتِ عالم کے منصب پر اپنی نگاہیں جمائے ہوئے ہے‘ جو عالمی انقلاب کا علَم ہاتھ میں تھام کر آگے بڑھی ہے‘ آج وہ خواہ کتنے ہی مسائل میں گھری ہوئی ہو‘ اس بات سے آنکھیں نہیں چرا سکتی کہ بالآخر اس کا مقابلہ مغرب کی اسی غالب تہذیب سے‘ قوت اور عسکری طاقت سے‘ علم و فن اور ترقی سے ہے جو اب مغرب کے جغرافیائی حدود کے اندر محدود نہیں ہے بلکہ جکارتہ‘ ریاض‘ قاہرہ اور کراچی میں بھی اپنا وجود اور غلبہ رکھتی ہے۔ اس کی زبان بولی جاتی ہے۔ اس کے ادارے قائم ہیں۔ دستور اور پارلیمنٹ‘ عدالت اور بنک اور کاروبار اور تجارت‘ سب پر اسی کی چھاپ‘ اسی کی مہر اور اسی کا غلبہ ہے۔
اسلامی تحریک کے وہ داعی جو اسلام کو ایک مکمل نظامِ حیات سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو آج کے مسائل میں بری طرح گھرا ہوا اور محصور سمجھتے ہیں‘ اگر وہ اپنے ماضی کے اس نعرے اور اس دعوت کو اپنے ذہن میں تازہ رکھیں کہ ہم دنیا کی امامت اور ساری دنیا میں انقلاب لانے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں‘ تو وہ سمجھ سکتے ہیں کہ کتنا بڑا چیلنج ہے جو ان کو درپیش ہے۔ میں آپ سے کہتا ہوں کہ مستقبل آپ کے دروازے پر دستک دے رہا ہے‘ وہ ملت اسلامیہ کا منتظر ہے‘ لیکن مستقبل کی حیثیت من و سلویٰ کی نہیں ہے کہ وہ خودبخود آپ کی گود میں آن گرے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی فرد‘ کسی قوم‘ اورکسی تہذیب کے لیے کوئی ایسا مستقبل نوشتۂ تقدیر نہیں کیا ہے کہ جواس کو خودبخود حاصل ہوجائے۔ مستقبل اسی کا ہے جو اس کے لیے جدوجہد کرے‘ اس کے لیے محنت اور بھرپور کوشش کرے۔
وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی o وَاَنَّ سَعْیَہُ سَوْفَ یُرٰی o (النجم ۵۳: ۳۹-۴۰) اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی ہے‘ اور یہ کہ اس کی سعی عن قریب دیکھی جائے گی۔
گویا انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے وہ جدوجہد کرتا ہے۔ پھر جیسے جیسے گردش لیل و نہار حال کے لمحات کو ماضی اور مستقبل کو حال بناتی چلی جائے گی‘ اس جدوجہد کے نتائج و ثمرات سامنے آتے چلے جائیں گے‘ اور سواے اپنے کیے اور کمائی کے کوئی چیز سامنے نہیں آئے گی۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جس کو علامہ اقبال نے آج سے نصف صدی سے بھی پہلے بڑے واضح الفاظ میں شیطان کی زبان سے ادا کروایا تھا ؎
جانتا ہے ، جس پہ روشن باطنِ ایام ہے
مزدکیت فتنۂ فردا نہیں ، اسلام ہے
یہ اس زمانے کی بات ہے جب کوئی کمیونزم کے زوال کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن شاعر کی نگاہ دیکھ رہی تھی کہ ابلیسیت کے نظام کے لیے اگر کوئی فتنہ ہے تو وہ اسلام اور ملّت اسلامیہ ہے کہ جو اس کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ مگر مغرب کے کتنے ہی مرثیے پڑھے جائیں‘ اس کی خرابیوں کو کتنا ہی کھول کھول کر بیان کیا جائے اور اس پر کتنے ہی تبرے کیوں نہ بھیجے جائیں اوراس کے خلاف کتنے ہی نعرے کیوں نہ بلند کیے جائیں‘ لیکن یہ بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ مغرب کبھی خودبخود زوال پذیر نہیں ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے اسلام اورمسلمانوں کے لیے جو مستقبل لکھ دیا ہے‘ وہ صرف محنت‘ بلندنظری‘ قوتِ اجتہاد اور جہادو قربانی سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔اس کے علاوہ اس کی اور کوئی صورت نہیں ہے۔ تحریکِ اسلامی جو امامتِ عالم پر نگاہ رکھتی ہے اور وہ انقلاب لانا چاہتی ہے جو ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے‘ جو تہذیب و تمدن کے ایک نئے دور کا آغاز کرنے کے لیے اٹھی ہے‘ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ اس کا ادراک رکھے اور فہم حاصل کرے کہ دراصل کرنے کا کام کیاہے؟
اگر ہم نبی کریمؐ کی زندگی پر غور کریں یا سید مودودیؒ کے افکار کا جائزہ لیں تو اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام ساری انسانیت کے لیے اورسارے عالم کے لیے نجات کا علَم بردار ہے۔ اسی طرح جس تحریک کا اسلامی تحریک ہونے کا دعویٰ ہو‘ اس کی نگاہ بھی تنگ دائروں کے اندر محصور ہوکر نہیں رہ سکتی۔ جس کی نگاہ آخرت میں اس جنت کے اُوپر ہو جس کی وسعت میں زمین و آسمان سما جائیں‘ اس کی نظر‘ اس کی فکر‘ اس کی جدوجہد اور اس کی سرگرمیاں دنیا میں تنگ نظری کا شکار نہیں ہوسکتی ہیں۔
آج دنیا عرصۂ محشر میں ہے اور اُمت بھی عرصۂ محشر میں ہے۔ یہ دورجدید جس سے ہم گزر رہے ہیں‘ اس کی چند خصوصیات کا بھی مختصراً آپ کے سامنے ذکر کرتا چلوں۔
آج کے دور میں جس تیزی سے تغیرات برپا ہو رہے ہیں‘ اس کا کوئی تصور آج سے ۱۰۰سال پہلے نہیں کیا جاسکتا تھا۔ بات کسی محدود خطے کی ہو یا ذرائع ابلاغ کی وسعت کی‘انسانی آبادی کی ہو یا انسانی وسائل کے استعمال کی‘ سائنسی ترقی کی ہو یا قدرت کے رازوں کے انکشاف کی‘ تغیرو تبدل کی جو رفتار اس صدی میں ہے ‘ وہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ ایک اندازے کے مطابق پہلے جو کام ایک سال میں ہوا کرتا تھاوہ اب ایک ایک گھنٹے میں ہوجاتا ہے۔ اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جنھیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
اسی کے نتیجے میں جو دوسری تبدیلی آئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کرئہ ارض جو بہت سے براعظموں پر مشتمل ہے‘ ایک چھوٹا سا گائوں بن کر رہ گیا ہے۔ دنیا کے کسی خطے میں کوئی واقعہ رونما ہوجائے‘ چند لمحوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بات پہنچ جاتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ مسلمان قائد بحراوقیانوس کے ساحل پر کھڑے ہوکر کہتا تھا کہ اے خدا! اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ سمندر کے پار بھی زمین ہے‘اور وہ امریکا کی زمین تھی‘ تو میں اپنے گھوڑے سمندر میںڈال دیتا اور اس سرزمین تک جاپہنچتا۔ اس وقت دنیا اس قدر بٹی ہوئی اور اتنے فاصلوں پر تھی۔ لوگ ایک دوسرے سے ناواقف تھے۔ مگر آج کی دنیا میں‘ کسی ملک‘ کسی گوشے اور افریقہ کے کسی تاریک ترین جنگل میں ہونے والا واقعہ بھی پوری دنیا کی آنکھوں سے چھپا نہیں رہ سکتا۔ یہ وہ دو چیزیں ہیں کہ جو بالکل واضح اور صاف طور پر ہمارے سامنے ہیں۔
مستقبل کی یہ منزل ہمارے افکار اور ہماری تحریک میں اس لیے نہیں آگئی ہے کہ ہمارے لٹریچر میں موجود ہے بلکہ پوری کی پوری سیرت رسولؐ اسی بات پر گواہ اور شاہد ہے۔
ہمارے سیرت نگار جس واقعے کو انتہائی مبالغے کی زبان میں یوں اداکرتے ہیں کہ جب حضوؐر اس دنیا میں تشریف لائے تو فارس کے آتش کدے بجھ گئے اور کسریٰ کے مینار گرگئے مگر استعارے کی یہ زبان چند برسوں میں ایک حقیقت بن گئی۔
مکہ میں جو چند مٹھی بھر آدمی کوڑوںاور پتھروں کی زد میںتھے ان کو یہ خوشخبری سنائی جاتی تھی کہ پورا عرب تمھارے قدموں میںہوگا اور عجم تمھارے زیرنگیں ہوگا۔ خانہ کعبہ کی دیوارسے ٹیک لگائے جب حضوؐر سے صحابہ کرامؓ آکر شکایت کرتے کہ اب تو مظالم کی حد ہوگئی ہے‘ دعا کیجیے تو ان کو یہ خواب دکھایا جاتا کہ ایک وقت آئے گا کہ ایک تنہا عورت عرب کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سفر کرے گی اور کوئی اس کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہیں کرسکے گا۔
جب دو آدمی مدینے کا سفر کر رہے تھے جو ہماری زبان میں ہجرت کا سفر تھا‘ اور ہمارے دشمنوں کی زبان میں دو آدمی اپنی جان بچا کر دشمنوں سے بھاگ رہے تھے اوراس وقت جب سراقہ نے ان کو دیکھ لیا تو یہ خواب بھی دکھایاگیا کہ سراقہ کے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے۔
غزوئہ خندق کے موقع پر سارا عرب اُمنڈ آیا تھا اور مدینہ پر چڑھ دوڑا تھا اور مدینہ کے مٹھی بھرانسان اس وقت ہلاکت کی زد میں تھے‘ جب کہ چند گز کی خندق تھی جوان کو ہلاکت سے بچائے ہوئے تھی۔ اس وقت بھی خندق کی کھدائی کے دوران جب ایک سخت چٹان پر کدال کی ضرب لگنے پر چنگاریاں نکلتی ہیں تو ارشاد ہوتا ہے کہ مجھے قیصر کے خزانے دکھائے گئے ہیں۔ دوسری ضرب پڑتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ مجھے کسریٰ کے خزانے دکھائے گئے ہیں۔ غرض مٹھی بھر جماعت بھی اس سے غافل نہیں تھی کہ یہ کام محض مکہ اور مدینہ کا نہیں ہے‘ یا محض عالمِ عرب کا نہیں ہے بلکہ یہ کام تو پورے عالم میں انقلاب برپا کرنے کا ہے۔
جو تحریک اور جماعت حال میں گم ہوکر رہ جائے‘ وہ بالآخر ماضی کے اوراق کا ایک نقش بن کر رہ جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں جو تحریک اور جماعت مستقبل کے لیے کمربستہ ہوکر جدوجہد کرے اوروہ صفات اپنے اندر پیدا کرے جس سے مستقبل کے چیلنج کا مقابلہ ہوسکتا ہے‘ بالآخر اللہ کی مشیت اس کے لیے مستقبل کو مقدر کر دیتی ہے۔
عصرحاضر میں‘ اُمت مسلمہ کو درپیش آج کے چیلنج میں اصل حیثیت مغرب کی ہے۔ مغرب سے میری مراد وہ جغرافیائی خطہ نہیں ہے جس کو ہم یورپ کے نام سے پکارتے ہیں‘بلکہ مغرب کی وہ تہذیب ہے جو جکارتہ سے لے کر رباط تک ہر مسلمان ملک میں سرایت کرچکی ہے‘ اس کے قلب میں داخل ہوچکی ہے‘ اس کے گھروں میں داخل ہورہی ہے‘ اس کی عورتیں اور بچے اس کی زد میں ہیں۔
ایک امریکی پروفیسر کے الفاظ میں: آپ کہتے ہیں کہ ہماری تہذیب و تمدن آپ کے ہاں سے رخصت ہوچکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کہیں چلے جائیں آپ کو جین اور کوکاکولا دونوں چیزیں نظر آئیںگی۔ ہماری تہذیب سے اگر کوئی بچا ہو تو وہ کوکاکولا کی کشش سے اپنے آپ کو نہیں بچاسکتا‘اور کوئی نوجوان ہو تو وہ جین پہننے سے باز نہیں رہ سکتا۔
مغرب کو بھی اسلام سے ایک ہزار سال تک اسی چیلنج سے سابقہ رہا ہے۔ مغرب کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ ایک ہزار سال تک مغرب کے سوچنے والے‘ مغرب کے سیاست دان اور حکمران‘ سب کو اسی بات کی فکر تھی کہ اسلام اور مسلمانوں سے کیسے بچا جاسکے۔ ایک زمانہ تھا کہ یورپ میں مائیں اپنے بچوں کو یہ کہہ کر ڈرایا کرتی تھیں کہ ذرا ٹھیک رہوورنہ ترک آجائیں گے۔ ایک وہ زمانہ تھا جب اسپین میں تہذیب کی شمعیں اور جنوب میں عثمانیوں کی تلوار‘ دونوں ایک پیغام تھے اور مغرب اس سے لرزہ براندام تھا۔ پھر ۱۸ویں صدی میں وہ لمحہ بھی آیا کہ مغربی مفکرین نے کہا کہ اب وہ خطرہ ٹل چکا ہے۔ وہ وحشی‘ وہ بدو‘وہ بکریاںچرانے والے‘ وہ کھجوروں کے کاشت کار جوعرب سے نکل کر آئے تھے اور جنھوں نے ایک ہزار سال تک سسلی‘ اسپین‘ ہنگری‘ یوگوسلاویہ‘ بلغاریہ اور مشرق وسطیٰ میں حکومت کی‘ اور بیت المقدس پر قبضہ کیا اور فلسطین کو ہم سے چھین لیا___ اب ہمیں ان سے کوئی خطرہ نہیں۔
ابھی ۲۰ویں صدی ختم ہونے کو نہیں آئی تھی کہ مغرب کو اس بات کا احساس ہوا کہ چھٹی صدی میں جو تہذیب‘ جوتمدن‘ جو عقیدہ اور جو نظام دنیا کے سامنے آیا تھا وہ آج بھی اپنے اندر اتنی قوت رکھتا ہے کہ قوموں کی قوموں کو کھڑا کرسکتا ہے۔ انقلابِ ایران سے خواہ ہمیں اختلاف ہو یا اتفاق اور اس انقلاب کی خرابیاںاپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس انقلاب کے بعد مغرب اور اسلام کا تعلق اب وہ نہیں ہوسکتا جو ۱۰۰سال سے تھا۔ اس لیے کہ مغرب نے اس بات کو بخوبی جان لیا ہے کہ اسلام میں اتنی قوت ہے کہ وہ ایک پوری قوم کو اُٹھا کرکھڑا کرسکتا ہے جو ان کے مہرے کو اٹھاکر پھینک دے اور ان کے نظام کو درہم برہم کردے۔ ۱۹۷۸ء کے بعد سے کتابوں کا ڈھیر لگ گیا۔ مفکرین‘ مدبرین‘ سیاست دانوں کے بیانات کا طومار بندھ گیا کہ اب اگر خطرہ ہے تو اسلام اور مسلمانوں سے ہے۔
اسلام اور مغرب کے حوالے سے درپیش اس چیلنج کے چند پہلو بہت اہم ہیں جو ہمارے سامنے رہنے چاہییں۔ یہ ہماری گفتگو کے تین حصوں، یعنی ’مستقبل، چیلنج اور ہم‘ میں سے تیسرے لفظ ’ہم‘ جو میری نظر میں اس گفتگو کا سب سے اہم حصہ ہے‘ کی وضاحت پر بھی مبنی ہوگا۔
مستقبل کے چیلنج کا سامنا بھی وہی لوگ کرسکتے ہیں جواس کاادراک اور اس کا شعور رکھیں۔ اگر اس بات کو پوری طرح سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم اس کا خواب دیکھیں کہ کل ہمارا ہوگا۔ جو لوگ اُونچے اُونچے خواب نہیں دیکھ سکتے وہ دنیا میں بڑے بڑے کام بھی نہیں کرسکتے۔ میںنے آپ کو وہ خواب دکھائے جو غارِحرا سے لے کر غزوۂ خندق تک دیکھے جاتے رہے اور دکھائے جاتے رہے۔ اگر ایک حوالے سے ان خوابوں کو دیکھا جائے تو جنون کی حد تک وہ پاگل پن دکھائی دیں گے اور لوگ کہتے تھے کہ یہ مجنون ہے‘ پاگل ہے (نعوذباللہ)‘ ایسی باتیں کرتا ہے کہ سارا عرب و عجم‘ قیصروکسریٰ کے سارے خزانے ہمارے زیرنگیں ہوں گے‘ اور کسریٰ کے کنگن سراقہ کے ہاتھوں میں ہوں گے۔ یہ خواب کون دیکھ سکتا تھا اور کہاں پورا ہوسکتے تھے لیکن اس خواب کو عام خواب کے معنوں میں نہ لینا چاہیے‘ اس لیے کہ نبی کے خواب بھی سچے ہواکرتے ہیں۔
آج بھی وہی اسلامی تحریک مستقبل کی تعمیر کرسکتی ہے جو اپنے نبی کی طرح یہ خواب دیکھے کہ لندن‘ واشنگٹن‘ ماسکو‘سب ہمارے ہیں‘ہمارے بن سکتے ہیں اور یہ ہمارا مقدر ہیں۔ لیکن یہ ہم کو اس وقت ملیں گے جب ہم اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کریں گے۔
مستحق کا لفظ آیا تو اس سے پہلے کہ میں آگے بڑھوں اور آپ کے سامنے یہ چیز رکھوں کہ وہ کون سے ضروری پہلو ہیں کہ جن کے بغیر ہم مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کامیابی کے ساتھ نہیں کرسکتے اور یہ مستقبل ہمارا نہیں بن سکتا۔ میں مشہور برطانوی ہفت روزہ اکانومسٹ کے ایک تجزیے کا تذکرہ کروں گا۔ جب کمیونزم کا زوال ہوا تو اس نے ایک مختصر مگر جامع تجزیہ پیش کیا کہ تاریخِ عالم میں وہ کون سے بڑے بڑے واقعات ہوئے کہ جنھوں نے تاریخ کا رخ پلٹ دیا اور انسان کو ایک نئی زندگی اور نئے مستقبل سے روشناس کیا۔ اس نے اس میں ہجرت کے واقعے کا بھی حوالہ دیا کہ یہ واقعہ بھی ایسا تھا کہ جس نے تاریخ کا رخ پلٹ دیا اور بدل کر رکھ دیا۔
اس تجزیے کے مطابق کمیونزم کا زوال کوئی ایسا واقعہ نہیں کہ جس سے انسان کی قسمت یا تقدیر بدل جائے۔ پھر وہ لکھتا ہے کہ وہ کون سے مسائل ہیں کہ جن کے گرد آنے والی دنیا میں انقلاب برپا ہوگا اور انسانیت کے لیے نیا مستقبل نئے سرے سے تعمیر ہوگا۔ وہ کہتاہے کہ یہ وہ مسائل ہیں جو غیب کی دھند میں پوشیدہ ہیں جن کی طرف مسلمان بنیاد پرست اور عیسائی بنیاد پرست دونوں اشارہ کر رہے ہیں۔ ان مسائل کا تعلق سیاست اور معیشت سے نہیں ہے بلکہ ان کا تعلق عالمِ غیب ‘ یعنی خدا‘ آخرت اور رسالت وغیرہ سے ہے۔ مذہبی حوالے سے بظاہر یہ بات بڑی خوش آیند ہے لیکن آگے چل کر وہ لکھتا ہے کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ مسلمان بنیاد پرست اور نہ عیسائی بنیاد پرست اس کے اہل دکھائی دیتے ہیں کہ وہ انسانیت اور دنیا کو اس نئے مستقبل سے روشناس کروا سکیں جس کی کلید ان کے ہاتھوں میں ہے اور جس کے گرد دنیا میں انقلاب برپا ہونے والا ہے۔ ان میں وہ بصیرت اور قوت نظر نہیں آتی‘و ہ قوت اجتہاد نہیں پائی جاتی کہ وہ دنیا کے تہذیب و تمدن کے امام بن کر دنیا کو ایک نئے مستقبل سے روشناس کروا سکیں۔
میں نے اس تجزیے کا تذکرہ اس لیے بھی کیا کہ یہ پہلو بھی نگاہوں کے سامنے رہے کہ اہلِ مغرب مسلمانوں کے بارے میں اور دنیا کے مستقبل کے حوالے سے کیا سوچ رہے ہیں۔
جس کو ساری انسانیت کا امام بننا ہو‘ اس کو ہر لحاظ سے اپنے اندر وسعت پیدا کرنا ہوگی اور ایک دنیا کو اپنے اندر سمونا ہوگا اور ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اسے اپنے دل کے اندر وسعت پیدا کرنا ہوگی‘ وہ وسعت کہ جس میں سارے لوگ سماجائیں‘ دماغ کی وسعت کہ جو سارے افکار کامقابلہ کرسکے‘ عمل کی وسعت کہ جوسارے انسانوں کو اپنے اندر سمیٹ سکے۔ جس کا دل تنگ ہو‘ جس کی نظر تنگ ہو‘ جس کا دماغ محدود ہو‘ جو اپنے ناک سے آگے نہ دیکھ سکتا ہو‘وہ ساری دنیا کا امام نہیں بن سکتا۔ صحابہ کرامؓ قیصروکسریٰ کے دربار میں کھڑے ہوکر کہا کرتے تھے کہ ہم تو اس لیے آئے ہیں کہ تم کو دنیا کی تنگیوں سے نکال کر آخرت کی وسعت تک پہنچا دیں۔
جو اس جنت کا طلب گار ہو جس کی وسعت میں زمین وآسمان سما جائیں‘ نہ اس کا دل تنگ ہوسکتا ہے نہ نگاہ‘ نہ اس کا دماغ تنگ ہوسکتا ہے نہ فکر سطحی اور نہ اس کی نظر محدود ہوسکتی ہے۔ جس طرح ایک پرندہ سب انڈوں کو اپنے پروں کے نیچے چھپالیتا ہے‘ اسی طرح وہ سارے انسانوں کواپنے ساتھ لے کرچل سکتا ہے۔ اس کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ہرقسم کے حالات اور ماحول میں اپنے مشن کے اوپر‘ اپنے موقف کے اوپر تمام انسانوں کو جمع کرسکے۔ لہٰذا امامتِ عالم کے لیے مقاصد میں‘ دل میں‘ فکر میں‘ نظر میں اور رویوں میں تنگی کے بجاے وسعت ناگزیر ہے۔ اسی لیے یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ دین تو ہے ہی اس لیے کہ اس کے اندر سب لوگوں کو سمیٹ لیا جائے۔ یہ لوگوں کو بھگانے یا کاٹ پھینکنے کے لیے نہیں آیا۔یہ تو آیا ہی اس لیے ہے کہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لے۔ اسی بات کے پیش نظر نبی کریمؐ نے بشروا ولا تنفروا کی ہدایت کی‘ یعنی خوش خبری کی شیرینی سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچو اور متنفر مت کرو۔ اس لیے کہ مسلمانوں کو تو ساری دنیا کا امام بننا ہے۔ لہٰذا وہ معمولی معمولی بحثوں اور مسائل اور تنگ نظری کے اندر مبتلا نہیں ہوسکتے۔
اگر مسلمانوں کی ۴۰۰ سال کی تاریخ کو اٹھا کر دیکھا جائے تو جب مسلمان ایک کے بعد ایک ملک فتح کرتے ہوئے دنیا کے امام بنتے چلے جارہے تھے‘ ان کے درمیان اختلافات بھی تھے (سقیفہ بنی ساعدہ سے اختلافات شروع ہوگئے تھے)‘ جو سیاسی بھی تھے اور فقہی بھی‘ مگر ان سب کے باوجود وہ ایک تھے۔ چار امام اور بہت سے سیاسی اختلافات ہونے کے باوجود ان کے اندر وسعت تھی کہ وہ لوگوں کو اپنے اندر سمیٹ سکیں۔ اگر چند سو آدمی پورے اسپین پر غلبہ حاصل کرسکتے تھے اور چند سو آدمی پورے ہندستان پر غلبہ پاسکتے تھے‘ اورچند تاجر جاکر ہندستان کے ساحل‘ ملایشیا اور انڈونیشیا‘ ہرجگہ اسلام پھیلا سکتے تھے تو اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ ان کے دل و نگاہ میں وسعت تھی۔ وہ لوگوں کو اپنے اندر سمیٹ سکتے تھے‘ اپنے اندر جذب کرسکتے تھے۔ ہررنگ‘ ہر مسلک اور ہرقسم کے انسانوں کو اپنے ساتھ لے کر چل سکتے تھے۔ اس لیے کہ جس کو امامتِ عالم کا منصب سنبھالنا ہو‘ اس کا ناگزیر تقاضا وسعت قلبی اور اختلافات کے باوجود لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔
امامتِ عالم کے منصب کے حصول کے لیے اس سے کوئی مفر نہیںکہ اسلامی تحریک دعوتِ عام کے میدان میں اُتر جائے۔ سید مودودیؒ نے پاکستان بننے کے فوراً بعد ہی یہ کہا تھا کہ اب ہماری تحریک دعوتِ عام اور توسیع کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ اب ہماری منزل اپنی دعوت کو بڑے پیمانے پر پھیلانا ہے‘ جلد سے جلد پھیلانا ہے‘ لوگوں تک پہنچنا ہے اور اپنے آپ کو وسیع سے وسیع تر کرنا ہے۔ اب یہی ہماری منزل ہے۔ انھوں نے تحریک اسلامی اوراس کا آیندہ لائحہ عمل میں یہ بات کھول کر بیان کی ہے۔
جماعت اسلامی کے قیام کے ایک ہی سال کے بعد سید مودودیؒ نے اس بات کو واضح انداز میں بیان فرما دیا تھا کہ جس طرح تعمیری کاموں کے بغیر کوئی اسلامی انقلاب رونما نہیں ہوسکتا‘ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ عامۃ الناس میں اسلام پھیلائے بغیر کوئی انقلاب برپا ہوسکے۔ اربوں انسانوں کو ہماری دعوت اور پیغام سے واقف ہونا چاہیے۔ کروڑوں انسانوں کو اس حد تک اس سے متاثر ہونا چاہیے کہ وہ اس کو حق مانیں اور اس کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ اس کے بغیر نہ اس ملک میں انقلاب آسکتا ہے اور نہ دنیا میں انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ چنانچہ دعوتِ عام ملک میں اور ملک سے باہر‘ اس کا خواب انھوںنے جماعت اسلامی کے قیام کے بالکل ابتدائی دور میں بھی دکھایا تھا اور اس کے بعدبھی دکھایا۔ یہ وہ مرحلہ ہے کہ جس کو طے کیے بغیر اس کا کوئی امکان نہیں کہ امامتِ عالم کا منصب اور آج کے دور کے چیلنج کا ہم مقابلہ کرسکیں۔
انبیاے کرام ؑکا اسوہ کیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ میری مثال ایسی ہے کہ کہیں آگ جل رہی ہو اور تم لوگ ہو کہ پروانوں کی طرح دوڑ دوڑ کر اس آگ میں گر رہے ہو‘ اور میں ہوں کہ کمر سے پکڑپکڑ کر تمھیں اس آگ سے بچانے کی کوشش کر رہا ہوں۔
جو لوگ انبیا ؑکے اس مقام سے واقف ہوں اور جو نبیؐ کی دی ہوئی اس تمثیل کو ذہن میں رکھتے ہوں اور یہ جانتے ہوں کہ وہ آگ بھڑک رہی ہے جس میں دنیا کی قومیں سر کے بل گر رہی ہیں کہ جن کو کمر سے پکڑ پکڑ کر بچانا ہماری ذمہ داری ہے‘ وہ آخر اس جذبے سے کیسے خالی ہوسکتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو ہمیں لوگوں کو اس آگ میں گرنے سے بچانا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کہا ہے‘جسے لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے۔ یہی وہ تعریف ہے جو ہم اپنے لٹریچر میں‘ اپنی تقریروں میں اور اس آیت میں سنتے ہیں:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
شاید ان دو لفظوں کے اندر جو وسعت اور گہرائی ہے اس پر ہم نے پوری طرح غور نہیں کیا ہے۔ یہ اُمت تو برپا ہی ساری انسانیت کے لیے کی گئی ہے۔ یہ محض اپنے لیے برپا نہیں کی گئی ہے‘ یہ صرف پاکستانیوں کے لیے نہیں کی گئی ہے‘ بلکہ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ہے‘ یہ سارے انسانوں کے لیے برپا کی گئی ہے۔ لہٰذا اس کی دعوت سارے انسانوں کے لیے عام ہونی چاہیے۔
وہ لوگ جنھیں ایک معاشرے کو بدل کر ایک نئے معاشرے کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینا ہو‘ ایک نئے معاشرے کی قیادت کو سنبھالنا ہو‘ ان کے لیے بھی‘ اور جسے سارے عالم کی قیادت سنبھالنا ہو‘ اس کے لیے بھی یہ مسئلہ ہے کہ سارے کے سارے انسان کبھی ایک جیسے نہیں ہوسکتے‘ ایک معیار کے نہیں ہوسکتے۔ اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس بات کو ایک مثال سے یوں سمجھیے کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ ساری کی ساری بھیڑیں یا تو سفیدہوں یا کالی۔ عملاً صورت حال تو یہ ہوگی کہ کالی اورسفید بھیڑوں کے درمیان ۹۹ فی صد بھیڑیں وہ ہوں گی ‘ جن کی سفید اور کالی کھالوں کے اوپر سیاہ اور سفید دھبے موجود ہوں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال انسانی معاشرے کی بھی ہے۔
انسانی معاشرے کو اس صورت حال سے کوئی مفر نہیں۔ مدینے کے معاشرے میں عبداللہ بن ابی جیسے رئیس المنافقین بھی تھے اور ضعیف الایمان لوگ بھی تھے۔ وہ لوگ بھی تھے جو میدانِ جہاد میں نبی کریمؐ کو تنہاچھوڑکر پلٹ آیا کرتے تھے‘ اور وہ لوگ بھی تھے کہ حضوؐرمنبر پر کھڑے ہوکر خطبہ دے رہے ہیں اور وہ آپؐ کو چھوڑ کر مالِ تجارت کے لیے دوڑ پڑتے تھے۔ ان سارے لوگوں کی مثالیں قرآن مجید کے اندر موجود ہیں۔
یہ کبھی ممکن نہیں ہے کہ پورے کا پورا معاشرہ ایک رنگ میں‘ ایک معیار پر قائم ہوجائے۔ لہٰذا جن کو معاشروں کو لے کر چلنا ہو‘ جن کو پوری کی پوری ریاستوں کو لے کر چلنا ہواور جن کو سارے کے سارے عالم کو اپنے ساتھ لے کرچلنا ہو‘ ان کو اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرنا ہوگی کہ وہ ہرقسم کے انسانوں کو اپنے ساتھ لے کر چل سکیں۔ گناہ گار بھی آئیں تو شفقت پائیں اور گناہ سے مغفرت اور نجات پائیں۔
یہ ایک عملی دشواری ہے کہ ایک بگڑے ہوئے معاشرے کو بدلناہے اوراس بگڑے ہوئے معاشرے کے انسانوں کی اصلاح کے ذریعے انھیں ایک قوت میں ڈھالنا ہے۔ بظاہر یہ ایک متضاد بات ہے۔ اسی لیے بعض دفعہ لوگ مایوس ہوجاتے ہیں کہ عوام ایسے ہیں‘ جاہل ہیں‘ کالانعام ہیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ان کے ذریعے یہاں پر اسلامی انقلاب برپا ہوجائے۔ تحریک اسلامی کو تو ابھی اسی ملک کے عوام سے واسطہ درپیش ہے۔ اگر ہم عالمی چیلنج کا سوچیں تو افریقہ کے جنگلات میں‘ نیویارک اور واشنگٹن میں اور ٹوکیو میں‘ ساری دنیا میں بسنے والے انسانوں سے ہمیں معاملہ کرنا ہے۔ ان سب تک ہمیں محمدرسولؐ اللہ کا پیغام پہنچانا ہے۔ انھیں کس طرح سے ایک قوت میں ڈھالنا ہے‘ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جو اُمت مسلمہ کو درپیش ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: دو ہی طریقوں سے کامیابی حاصل ہوسکتی ہے:
ھُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُوْمِنِیْنَ o (انفال ۸:۶۲)
وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے تمھاری تائید کی۔
مومنین کی یہ جماعت انسانوں ہی کے ذریعے بن سکتی ہے۔ حضوؐر کی روش ہمارے سامنے ہے۔ ہرطرح کے لوگ آتے تھے اور آپؐ سے فیض پاتے تھے۔ کمزور بھی آتے تھے اور گناہ گار بھی اور مضبوط ایمان والے بھی‘ سب مل کر آپؐ کے ساتھ کام کرتے تھے جو آپؐ کے پیش نظر تھا۔
سیدقطبؒ اپنی تفسیر فی ظلال القرآن میں‘ آخری پارے میں ایک واقعے کا تذکرہ کرتے ہیںاور اس سے آپ کے سامنے پورا منظر آسکتا ہے کہ کس طرح معاشروں کو چلایا جاسکتا ہے اور معاشروں پر غالب آیا جاسکتا ہے۔
ایک شخص حضوؐر کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی ضرورت کا اظہار کیا اور کہا کہ میری کچھ مدد کیجیے۔ آپؐ نے اس کی کچھ مدد کی مگر وہ اس کی نظر میں کم اور ناکافی تھی۔ اس پر اس نے کہا: آپؐ اچھے آدمی نہیں ہیں‘ آپؐ کا قبیلہ بھی اچھا نہیں ہے‘ آپؐ فیاض نہیں ہیں اور آپؐ کے آباواجداد بھی فیاض نہیں تھے۔ اس نے بہت کچھ کہہ ڈالا۔ یہ سن کر صحابہ کرامؓ کے چہرے غصے سے سرخ ہوگئے اور ہونے بھی چاہییں تھے۔ وہ اس کو مارنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے مگر آپؐ نے ان کو روک دیا۔
یہ کہہ کرآپؐ اپنے حجرے میں چلے گئے۔ پھر اس آدمی کو بھی اندر بلایا اور اس کو مزید کچھ دیا اور کہا کہ اب تو خوش ہو۔ اس نے کہا کہ آپؐ بڑے اچھے آدمی ہیں‘ بڑے فیاض ہیں‘ بڑے اچھے خاندان کے ہیںاور آپؐ سے بہتر کوئی آدمی نہیں۔ حضوؐر نے فرمایا: اچھا‘ ابھی باہر جو بات تم نے کہی تھی‘ میرے ساتھی اس سے بہت ناراض ہیں۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ کل تم پھر آئو اور جو بات تم نے ابھی کہی ہے ان سب کے سامنے بھی دہرائو۔ اس نے کہا کہ مجھے کیا تامل ہے‘ میں آجائوں گا۔
اگلے دن آپؐ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ وہ آدمی پھر آیا۔ آپؐ نے پورا واقعہ صحابہ کرامؓ کے سامنے بیان کیا کہ کل یہ شخص آیا تھااوراس نے جو بات کہی تھی اس سے تمھیں رنج ہوا تھا۔ اب یہ کچھ اور بات کہتا ہے وہ بھی تم سن لو۔ جب اس نے کل والی بات دہرائی اورحضوؐر کی فیاضی بیان کی تو صحابہؓ بہت خوش ہوئے۔
اس پر آپؐ صحابہ کرامؓ سے مخاطب ہوئے اور یہ بات ہم سب کے لیے بہت اہم اور بہت غور طلب ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ میری اور تمھاری مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی اُونٹنی کا مالک ہو اوروہ اس اُونٹنی پر سوار ہوا تو وہ بے قابو ہوگئی‘ اور اس کے ساتھی ڈنڈے لے کر اس اُونٹنی کو قابو میں کرنے کے لیے اس کے پیچھے دوڑ پڑے۔ مگر وہ انھیں دیکھ کر مزید بدک گئی۔ اس پر مالک نے ان سے کہا کہ ٹھیرجائو۔ اس اُونٹنی کا معاملہ تم میرے اُوپر چھوڑ دو‘ میںاس کو سدھار لوں گا۔ اس کے بعد اس اُونٹنی کے مالک نے اپنے ہاتھ میں کچھ چارہ لیا اور وہ اس اُونٹنی کو دکھایا۔ جب اُونٹنی نے دُور سے چارہ دیکھا تو وہ پلٹ آئی اور آہستہ آہستہ قریب آتی گئی۔ جب وہ مالک کے بالکل قریب آگئی تو مالک نے چارہ اس کے سامنے ڈال دیا۔ جب وہ چارہ کھانے میں مصروف ہوگئی تو اس نے اس کے اُوپر کجاوہ کسا‘ اس پر بیٹھا اور اپنی منزل کی طرف چل پڑا۔
ان الفاظ کے اندر جوحکمت پوشیدہ ہے ان پر غور کیجیے۔ ان معاشروں پر کجاوہ کس کر سواری کرنے کے لیے اور ان پر بیٹھ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہونے کے لیے‘اور ان کی قیادت سنبھالنے کے لیے‘ ان کی باگ ڈور اپنے ہاتھ لینے کے لیے ہمیں اُونٹنی کے اس مالک کی طرح بننا پڑے گا جس کی مثال سیرت کے اس واقعے کے اندر موجود ہے۔
ایک اور پہلو جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ سب سے اچھا دین وہ ہے جو ’حنیفیت‘ اور ’سہل‘ پر مبنی ہو۔ حنیفیت یہ ہے کہ آدمی صرف اللہ کاہوجائے اور ’سہل‘ کا مطلب آسانی ہے۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہرشخص پر اس کی استطاعت کے مطابق بوجھ ڈالا جائے۔ کسی پر اس کی استعداد سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔ اس پہلو کو بھی ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔
جب کثرت سے لوگ اسلام میں داخل ہو رہے تھے‘ اور یدخلون فی دین اللّٰہ افواجا کا منظر تھا تو ایک وفد حضوؐر کے پاس آیا۔ ایک شخص نے حضوؐر سے پوچھا کہ آپؐ کا قاصد ہمارے پاس آیا اوراس کا یہ کہنا ہے کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول بناکر بھیجا ہے۔ کیا وہ سچ کہتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں‘ وہ سچ کہتا ہے۔ اس نے آپؐ کو قسمیں دے دے کر پوچھا کہ کیا واقعی آپؐ کو اللہ نے رسول بنایا ہے؟ پھر وہ کہتا ہے کہ کیا نماز پڑھنے کا حکم واقعی اللہ نے آپؐ کو دیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔ پھر وہ روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھتا ہے کہ کیا واقعی آپؐ کو اللہ نے حکم دیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔ اس طرح اس نے حج اور دوسری چیزوں کا ذکر کیا اور کہا کہ اگر یہی آپؐ کو اللہ نے حکم دیا ہے تو میں ان پانچ ارکان میں نہ کمی کروں گا نہ زیادتی۔ اس کے بعدوہ چلا گیا۔ جب وہ چلا گیا تو حضوؐر نے فرمایا کہ اگر تمھیں کسی ایسے آدمی کو دیکھنا ہو جو اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا تو اس شخص کو دیکھ لو۔ مگر سب سے یہی مطالبہ نہیں تھا۔ بعض لوگوں سے یہ مطالبہ تھا کہ تم کسی سے کچھ نہ مانگو گے‘ یہاں تک کہ اگر گھوڑے کا کوڑابھی نیچے گرجاتا تو وہ دوسروں سے نہیں کہتے تھے کہ اٹھا کر ہمیں دے دو بلکہ خود نیچے اُتر کر اٹھا لیتے تھے۔ بہت سوںسے جان ومال کی بیعت اور عہد لیا جاتا تھا۔
گویا آپؐ ہر ایک سے اس کی صلاحیت اور استعداد کے مطابق معاملہ فرماتے۔ لہٰذا سب کو ایک سانچے میں فٹ نہیں کیا جاسکتا بلکہ مختلف انسانوں کی مختلف سوچ‘ مزاج‘ صلاحیت اور استعداد کی بنا پر الگ الگ معاملہ کیا جانا چاہیے۔ ایک ہی ڈنڈے سے سب کو ہانکنا خلافِ حکمت ہے۔
دین کی حنیفیت اور اس کے یسر ہونے میں ایک نہایت اہم بات ہے جو ہمیشہ نظروں کے سامنے رہنی چاہیے۔ وہ یہ کہ ہم بار بار یہ بات کہتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ دین کا کوئی گوشہ اسلام کے دائرے سے باہر نہیں۔ کھانا کھانا بھی ثواب تھااور پانی پینا بھی۔ شعروشاعری بھی حج کے راستے میں ہوا کرتی تھی اور حج پر جاتے ہوئے پوری پوری رات شعر سنتے گزرجایا کرتی تھی۔ یہ خلفاے راشدین کا واقعہ ہے۔ یہاں تک کہ میاں بیوی کے تعلق کے بارے میں بھی آپؐ نے فرمایا کہ یہ بھی اجروثواب کا باعث ہے۔ گویا کوئی بھی چیز دین سے باہر نہیں۔ یہاں تک کہ آپؐ نے جب دو تہوار مقرر فرمائے تو آپؐ نے فرمایا: کھیل کود‘ کھاناپینا اور تفریح بھی دین میں شامل ہے۔
زندگی کو دو حصوں میں نہیں بانٹا جاسکتا کہ دین پر عمل کرنا ہو تو تحریک میں آئو اور اگر باقی دنیوی کام کرنے ہوں تو تحریکی دائرے سے باہر جاکر کرو۔ کوئی تحریک اس طرح پورے کے پورے انسانوں کو لے کر نہیں چل سکتی۔ پھر اس کا حشر یہ ہوتا ہے کہ لوگ بٹ جاتے ہیں۔ ان کی زندگی کا ایک حصہ تو اقربا‘ رشتہ داروں‘ شادی بیاہ کی مجلسوںاور دیگر گھریلو ذمہ داریوں کے لیے ہوتا ہے جہاں وہ دین کی ہدایت اور احکام کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں‘ جب کہ دوسرا دائرہ دعوت دین اور تنظیم اور اس کی سرگرمیوں پر مبنی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنی زندگی کے ایک دور میں‘ نوجوانی کے عالم میں‘ تحریک کے کارکن بن جاتے ہیں‘ ۲۴ گھنٹے اسی کام میں لگاتے ہیں۔ دوسری طرف جیسے ہی عملی زندگی کے دائرے میں داخل ہوتے ہیں تو اکثریت ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہوجاتی ہے۔ پھروہ پوری زندگی کو دین کے دائرے میں رہتے ہوئے نباہ نہیں پاتے اور دینی و دنیاوی تقسیم کا شکار ہوجاتے ہیں۔ میں محض کارکنوں کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم عام انسانوں کو ساتھ لیے بغیر انقلاب نہیں لاسکتے۔ جب بھی انقلاب لانا ہوگا تو عام انسانوں کی پوری زندگی کو دین کے ماتحت لانا ہوگا یہ دینی و دنیاوی تقسیم کو لازماً ختم کرنا ہوگا۔
اللہ اور اس کے رسولؐ نے اس بات کو واضح فرما دیا ہے کہ دین میں کچھ چیزیں ہیں کہ جو فرائض کا درجہ رکھتی ہیں اور کچھ نوافل کا۔ دونوں کا مقام و مرتبہ ایک جیسا نہیں ہے۔ اس بات کو ایک حدیث میں بھی واضح کیا گیا ہے جو امام نوویؒ نے اربعین نووی میں درج کی ہے کہ کچھ چیزیں ہیں جو فرائض کے طور پر آئی ہیں‘ ان فرائض کو کبھی ضائع مت کرنا۔ کچھ چیزیں ہیں کہ اللہ نے ان کو حرام قرار دیا ہے‘ ان حرام چیزوں میں کبھی نہ پڑنا۔ اللہ نے کچھ حدود عائد کردی ہیں‘ ان حدود سے باہر نہ نکلنا۔ ممکن ہے کہ حدود کی بات پوری طرح سمجھ میں نہ آئے۔ اس بات کو ایک مثال سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ سڑک پر ٹریفک کے لیے لائن بنی ہوتی ہے۔ گاڑی کو اس لائن میں چلانا ہوتا ہے اور ٹریفک سگنل کی پابندی کرنا ہوتی ہے۔ اب کوئی تیزچلے یا آہستہ یا رُک جائے‘ اسے ٹریفک قوانین کی پابندی کرنا ہوتی ہے اور اس کی حدود میں رہتے ہوئے گاڑی چلانا ہوتی ہے۔
اسی طرح زندگی میں اسلام نے کچھ حدود مقرر کردی ہیں‘ لہٰذا ان کی پابندی کرنا ہوگی۔ ایک بڑے دائرے میں اللہ تعالیٰ خاموش رہا ہے۔ حضوؐر نے فرمایا کہ یہ اس لیے نہیں ہے کہ اللہ سے کوئی غلطی ہوگئی‘ یا یہ کہ وہ بھول گیا ہے‘ بلکہ یہ تمھارے لیے باعثِ رحمت ہے۔ لہٰذا زندگی کے معاملات میں ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا۔
اسلام کے پیغام سے پوری انسانیت کو روشناس کرانے کے لیے اور ایک عالمی انقلاب برپا کرنے کے لیے اجتہاد بھی ناگزیر ہے۔ سیدمودودیؒ کے الفاظ میں: تہذیب و تمدن کے وہ معمار جن کے اندر اجتہاد کی یہ صلاحیت ہوکہ وہ ہرمسئلے کو اسلام کی روشنی میں حل کرسکیں‘ جو نت نئے مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں ڈھونڈ سکیں‘ وہی دنیا کے امام بن سکیں گے۔ لہٰذا دورِ جدید میں جہاں تغیر، تبدل کی رفتاراتنی تیزہے وہاں اجتہاد بھی ناگزیر ہے۔
سید مودودیؒ نے ایک موقع پر فرمایا تھا اور روداد جماعت اسلامی حصہ اول میں ان کے یہ الفاظ موجود ہیں کہ کسی ایک ملک میں اسلامی انقلاب نہیں آسکتا جب تک کہ بین الاقوامی سطح پر اسلام کے حق میں راے عامہ ہموار نہیں کی جاتی ہے۔ انھوں نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب ڈش انٹینا اور ٹیلی ویژن نہیں تھا۔ جب جٹ ہوائی جہاز نہیں تھااور پلک جھپکنے میں ایک خبردنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک نہیں پہنچتی تھی۔ یہ اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا جب انھوںنے خداداد بصیرت کے تحت یہ فرمایا تھا: مسقبل کے چیلنج اور عالمی اسلامی انقلاب کے پیش نظر عالمی راے عامہ کی تشکیل کی اہمیت آج کل سے زیادہ ہے بلکہ ناگزیر ہے۔
آخری بات جو میں سمجھتا ہوں کہ ضروری ہے اور جو ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے اور جس کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا‘ وہ ہے: لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں پوری کوشش کرنی ہے لیکن قوت صرف اللہ کے پاس ہے اور اس کی مدد کے بغیر کوئی معرکہ سر نہیں ہوسکتا۔ لوگوں کے دل اس کے ہاتھ میں اس طرح ہیں کہ جس طرح دو انگلیوں کے درمیان ہوں۔ وہ چاہے تو پلک جھپکنے میں لوگوں کے دل پلٹ سکتا ہے۔ لیکن ہمیں اپنے حصے کی پوری محنت کرنا ہے۔
فَلَمْ تَقْتُلُوْھُمْ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَھُمْص وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰیج (الانفال ۸:۱۷) پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انھیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اوراے نبیؐ،تو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا۔
درحقیقت کام کرنے والی ذات وہی ہے‘ ہم تو صرف بہانہ ہیں۔ لیکن اس بہانے کو اپنی پوری قربانی‘ جدوجہد‘ اجتہاد‘ جہاد‘وسعتِ نظر‘ وسعتِ قلب اور اس شعور اور ادراک سے کرنا ہے کہ یہ ہمارا خواب ہے اور اس خواب کی تعبیر ہم ہیں۔ اگر عرب کے بدو اور چرواہے دنیا کے امام بن سکتے ہیں توکوئی وجہ نہیں ہے کہ آج ہزاروں لاکھوں لوگ جو اسلام کی پکار پر جمع ہوچکے ہیں وہ دنیا کے امام نہ بن سکیں۔ یہ دروازہ کھلا ہوا ہے اور منتظر ہے کہ کب ہم اس میں داخل ہوں۔میری نظر میں یہ وہ صفات ہیں جن کے بغیر اس عظیم الشان چیلنج کا جواب نہیں دیا جاسکتا جو آج ہمارے دروازے پردستک دے رہا ہے۔(کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)
رخصت وعزیمت خاصا مشکل موضوع ہے۔ اس لیے کہ رخصت و عزیمت کا معاملہ اس طرح واضح اور متعین نہیں ہے جس طرح کہ حلال و حرام واضح اور متعین ہیں، بلکہ یہ ان دونوں کے درمیان ایک وسیع میدان ہے جس کا تعین ترجیحات کی بنیاد پر ہوتاہے۔
اگر رخصت کا پہلو لیا جائے تو کئی باتیں سامنے آتی ہیں:یہ کہ یہ دور دین پر چلنے کے لیے ایسا دور ہے، جس کے بارے میں وہ حدیث نبویؐصادق آتی ہے کہ جب کسی ایک حکم پر عمل کرنا، اپنے ہاتھ میں آگ کا انگارہ پکڑنے کے مترادف ہوگا۔ دوسری طرف وہ بہت ساری احادیث ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ، آسانی پیدا کرو، سختی نہ کرو (یسر وا ولا تعسّروْا)‘یا یہ فرمایا گیاہے کہ دین آسان ہے، (الدین یسر)۔ اسی طرح قرآن کی وہ آیات بھی ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو زینتیں انسان کے لیے اتاری ہیں، ان کو حرام کرنے والا کون ہے۔ اب ،جب کہ اللہ کے دین پر چلنا ایسا ہے جیسا کہ کانٹوں پر چلنا‘ اور اس کے احکام پر عمل کرنا اس طرح ہے جیساکہ اپنے ہاتھ میں انگارہ پکڑ لینا، اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ساری واضح ہدایات موجود ہیں، جن میں کہا گیا کہ دین آسان ہے اور آسانی پیدا کرو، توخیال آتا ہے کہ کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ لوگوں کو اس راستے کی طرف بلایا جائے جو کہ آسانی کا راستہ ہو، اور جس پر چل کر آسانی کے ساتھ اللہ کے دین کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔
دوسری طرف اگر عزیمت کا پہلو لیا جائے تو خیال آتا ہے کہ ہمارا گروہ تو ایک ایسا گروہ ہے، جو وہ کام کرنے چلا ہے جو کام انبیاے کرام ؑ نے انجام دیا تھا۔ اس کی خاطر انھوں نے ہر قسم کی قربانی دی۔ وہ آگ میں ڈالے گئے، آروں سے چیرے گئے، ان کی راہ میں کانٹے بچھائے گئے، پتھر برسائے گئے، ان پر طرح طرح سے تشدد کیا گیا، جسموں کو داغا گیا، طعنے دیے گئے، تمسخر کا نشانہ بنایا گیا، تذلیل کی گئی، گھر سے بے گھر کر دیا گیا‘ مال و اسباب سے محروم کر دیا گیا لیکن وہ اپنے مقام پر ثابت قدم رہے۔
پھر خیال آتا ہے کہ ہماراگروہ تو وہ گروہ ہے، جو یہ عزم لے کر اٹھا ہے کہ ساری دنیا کو ایک اللہ کی بندگی کی طرف لے کر آنا ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ کام شیروں کے کرنے کا کام ہے۔ اگرچہ بظاہر ہمارے دلوں میں کتنے ہی امراض کیوں نہ پیدا ہو چکے ہوں اور ہماری زندگیوں میں کتنی ہی خامیاں کیوں نہ ہوں، ہمیں یہ کام کرنا ہے۔ چنانچہ میں نے یہ سوچا کہ آپ کو عزیمت کی دعوت دوں، اس لیے کہ یہی راستہ شیروں کا راستہ ہے۔ ان لوگوں کا راستہ ہے جو دنیا کو بدلنے کا عزم لے کر کھڑے ہوتے ہیں، اور دنیا کو بدل ڈالتے ہیں۔تاہم‘ جب میں نے بحیثیت مجموعی تحریک کا جائزہ لیا اور عزیمت کی کسوٹی پر پرکھا تو مجھے بڑی شرم آئی کہ میں اس مقام پر کھڑے ہو کر، یہ کہوں کہ آپ سب لوگ رخصت کی راہ چھوڑ کر عزیمت کا راستہ اختیارکریں۔
ہم دنیا اور خاص طور پر مسلم دنیا میں دین حق کا یہ حال دیکھتے ہیں کہ مسلمان ایک ارب سے زائد ہونے کے باوجود عزت سے محروم اور ذلت سے ہم کنار ہیں اور خون مسلم پانی کی طرح ارزاں ہے۔ برسوں سے دنیا کے مختلف حصوں میں، بے شمار افراد اس عزم کا اعلان کر رہے ہیں کہ اللہ کے دین کی سر بلندی ان کا مقصد زندگی ہے، یہ ان کی ساری تگ ودو کا نصب العین ہے اور اس کے باوجود کہ ان کے قدم آگے بڑھے ہیں، مگر وہ ابھی تک کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکے ہیں۔ اسلام موجود ہے، اس کے نام لینے والے موجود ہیں، اس کے لیے تقریریں کرنے والے بہت ہیں‘ اس پر کتابوں کی نکاسی بھی کم نہیں ہے، لیکن ہر طرف اپنوں کی چیرہ دستی، اور غیروں کی ریشہ دوانیوں سے پورا جسد مسلم زار زار اور فگار فگار ہے۔ ایسے میں، میں نے یہ محسوس کیا کہ وہ گروہ، مختصر اور مٹھی بھر گروہ جوان حالات میں اس عزم کے ساتھ کھڑا ہوا ہے کہ اللہ کے دین کو زمین پر دوبارہ غلبہ اور عزت حاصل ہو، اور مسلمان قوم ایک بار پھر غلامی کے بجاے ہادی اور امام بن کر کھڑی ہوجائے، یہ وقت کا تقاضا بھی ہے اور عزیمت کی راہ بھی، لہٰذااس کے لیے سواے عزیمت اور عظمت کی راہ کے اور کوئی راہ نہیں ہے۔
جب میں نے اس بات کا فیصلہ کر لیا کہ رخصت کی بات کرنا آپ جیسے گروہ کے مناسبِ حال نہ ہوگا تو پھرمیں نے یہ سوچا کہ عزیمت کی بات کس انداز اور کس پیرایے میں کروں؟ اس لیے کہ زمانہ بڑا نازک ہے، اور ہرطرف انسان اپنے آپ کو مشکلات کے اندر گھرا ہوا محسوس کرتا ہے، مصالحت اور مفاہمت کا دور دورہ ہے، قدم قدم پر ایسی پرکشش چیزیں ہیں جو نگاہ کو کھینچتی ہیں، جہاں قدم پھسلنے لگتے ہیں اور آدمی کا دل چاہتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہیں بیٹھ جائے۔
سوال یہ ہے کہ رخصت اور عزیمت کیا ہے؟
اگر ایسا ہوتا کہ ہربات بڑی وضاحت کے ساتھ معلوم ہو جاتی کہ یہ کرنا صحیح ہے اور یہ کرنا غلط‘ توشاید زندگی بڑی آسان ہو جاتی۔ مثال کے طور پر روز مرہ زندگی کے حوالے سے یہ معلوم ہوجاتاکہ ٹیلی ویژن گھر میں رکھناچاہیے یا نہیں رکھنا چاہیے، گھر میںقالین بچھانا صحیح ہے یا غلط، دبئی یا سعودی عرب کا رخ کرنا جائز ہے یا ناجائز، تو ترجیحات کے تعین میں بہت سارے لوگوں کے لیے فیصلہ آسان ہو تا۔پھر یا تو وہ جان بوجھ کرایک ناجائز کام میں پڑتے ، یا سوچ سمجھ کر اپنا نقصان گوارا کرتے، اورناجائز کام سے پرہیز کرتے۔
مشکل یہ ہے کہ زندگی اس قدر آسان نہیں ہے۔ زندگی ایک امتحان ہے‘ اور اس میں رخصت و عزیمت‘ یعنی ترجیحات کا تعین ایک کڑا مرحلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امتحان کو اس عظیم الشان امتحان کو‘ جس میں کامیابی کے اجرکو اس نے مخصوص کر رکھا ہے، اور جس کے بارے میں اس نے کہا ہے کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا، نہ جس کا خیال بھی انسان کے دل میں گزرا، اس کو اس نے اس طریقے سے دو الگ الگ راستے کر کے واضح نہیں کیا ہے، بلکہ حرام و حلال کے درمیان ایک وسیع میدان چھوڑدیا ہے جس میں آدمی چاہے تو ادھر سے اُدھر نکل جائے، اور یہی محسوس کرتا رہے کہ وہ سیدھے راستے پر ہے اور اس کو خیال بھی نہ آئے کہ وہ غلط راستے پر چل پڑا ہے اور حرام کا مرتکب ہو رہا ہے۔ یہ وہ بیچ کا دائرہ ہے جہاں رخصت اور عزیمت کا سوال پیدا ہوتاہے۔ رخصت و عزیمت میں اصل مسئلہ ترجیحات کے تعین کا ہی ہے۔
حلال ، واضح طورپر حلال ہے اور جس کا واضح طور پر کرنے کاحکم دیا گیا ہے۔اسی طرح حرام‘ واضح طور پر حرام ہے اور جس سے واضح طورپر روک دیا گیا ہے۔ اس حلال اور حرام کے درمیان بہت سے ایسے معاملات ہیں جن سے روزمرہ زندگی میں ہمیں واسطہ پڑتا ہے لیکن ان میں دو ٹوک اور واضح ہدایات نہیں دی گئی ہیں‘بلکہ ترجیحات کی بنا پر ان کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہوتاہے۔ ہم اس طرح کے بے شمار فیصلے کرتے ہیں کہ کیاکمائیں اور کہاں خرچ کریں، کہاں سچ بولیں اور کہاں جھوٹ‘ کہاں ہم رشوت دیں اور کہاں نہ دیں، کہاں حق کے لیے اپنا مال قربان کریں، اور کس چیز کو کس چیز پر ترجیح دیں۔ یہ وہ پورا دائرہ کار ہے، جہاں پر حلال اور حرام کی بحث ختم ہو جاتی ہے، جہاں صحیح اور غلط کی راے واضح کشادہ اور نمایاں نہیںرہتی، بلکہ ہم کو ترجیحات کا تعین کرنا پڑتا ہے اور یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ کسے اختیار کریں اور کسے نہ کریں۔ یہ وہ نازک مقام ہے جہاں فیصلہ دشوار بھی ہوتا ہے، اور مشکل بھی۔
اللہ کے راستے پر چلنے کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی میں سیدھی سیدھی اللہ کی اطاعت کرنے کی کوشش کرے، اور مسلمان بن کر رہنے کے لیے اپنے آپ کو تیارکرے۔ بعض لوگوں کی نظر میں اتنا ہی ہو جائے تو کافی ہے۔
ایک بدو نبی کریمؐکے پاس آیا اور آپؐ سے پوچھا کہ میرے فرائض کیا ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: کلمہ شہادت، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج۔ اس نے کہا کہ بس۔ آپؐ نے فرمایا: بس۔ اس پر اس نے کہا کہ یہ میرے لیے کافی ہے اور وہ چلا گیا۔ اس کے لیے اتنا ہی اسلام کافی تھا۔
ایک اور شخص نبی کریمؐکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے قرآن کریم کی تعلیم دیں۔ آپؐ نے اسے سورئہ زلزال پڑھنے کا حکم دیا۔ اس نے پوری سورہ پڑھی اور کہا کہ میں اس میں کوئی کمی بیشی نہ کروں گا اور یہ میرے لیے کافی ہے۔ یہ کہہ کروہ چلاگیا۔
بعض لوگوں کے نزدیک یہ سیدھا سادا نسخہ بڑا آسان ہے، اور یہ بالکل ہمارے لیے کافی ہے۔ اس لیے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ، نماز، روزہ، زکوٰۃ اورحج پر عمل درآمد کوئی ایسا مشکل کام نہیں ہے۔یہ ایک صاف اور واضح راستہ ہے جس پر ہم بآسانی چل سکتے ہیں۔
یہیں سے رخصت اور عزیمت کا ایک اورپہلو سامنے آتا ہے، اور وہ یہ کہ اس کا کوئی حتمی معیار نہیں ہے۔ اس کے لیے دو اور دوچار کی طرح کوئی اصول نہیں ہیںبلکہ ہر ایک کے لیے اس کا معیار الگ ہوگا۔ ہر ایک کو اپنا انفرادی فیصلہ کرنا ہو گا، کہ وہ کس راہ پر چلنا چاہتاہے۔ ہر ایک سے مطالبہ بھی الگ ہو گا، اور ہر ایک کا حساب بھی الگ ہوگا اور جزا وسزا بھی الگ الگ ہو گی۔
دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے لیے صرف اتنا کافی نہیں کہ آدمی نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃاور حج کا اہتمام کرے بلکہ اس کا تقاضا دعوت اورجہاد بھی ہے۔ اس کا تقاضا وہ کام بھی ہے جو انبیاے کرام ؑنے سر انجام دیا۔ اس کے نتیجے میں ہم وہ سارے کام کرتے ہیں جن کی دعوت ہم اقامت دین، شہادت حق اور اسلامی نظام کے قیام کے الفاظ سے دیتے ہیں۔ اب، جب کہ ہمارا تعلق اس گروہ سے ہے جو اگرچہ تعداد میں کم ہے، تاہم اس نے اپنے آپ کو اس مقصد کے لیے وقف کر دیا ہے، اور اس بات کا اعلان کیا ہے کہ وہ اللہ کے دین کو اللہ کی زمین پر غالب کرنے کے لیے کھڑا ہواہے‘ لہٰذا اس کے لیے جو حدود ہوں گی، وہ شاید اس بدو سے مختلف ہوں جس کے لیے نماز، روزہ ،زکوٰۃ اور حج پر قناعت کرنا کافی قرار دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کا قانون بتا دیا ہے کہ جو شخص دین کا عَلم لے کر کھڑا ہو، دین کا جھنڈا اٹھائے، شہادت حق کا نعرہ بلند کرے، اور اقامت دین کا دعویٰ کرے، اس کو ٹھنڈے پیٹوں اس راہ سے گزرنے نہیں دیا جائے گا۔ اس کی آزمایش بڑی سخت ہوگی۔ اس کے سامنے صبح سے شام تک بے شمار انتخاب کے مواقع آئیں گے۔ لمحہ لمحہ اس کا امتحان ہو گا۔ اس کو جان ایک دفعہ نہیں دینا پڑے گی بلکہ روز جینا اور روز مرنا ہوگا۔ ایک دفعہ مرنا تو شاید آسان ہو لیکن روز روز مرنا بڑا مشکل ہوتاہے۔ موت صرف جسم سے جان کے نکل جانے کا نام نہیں ہے، بلکہ اپنی خواہش‘ اپنی آرزو اور اپنی تمنا کو مارنا بھی موت کی ایک صورت ہے۔ آخرانسان عبارت کس چیز سے ہے، ہڈیوں اور گوشت سے نہیں بلکہ ان آرزوئوں اور تمنائوں سے، جو اس کے دل و دماغ کے اندر بستی ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جس کے بغیر راہ حق، دعوت اور جہاد کی منزل طے نہیں ہو سکتی۔
اس بات کو واضح طور پر کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ فرمایا:
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَo (العنکبوت۲۹:۲) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟
ذرا انداز بیان پر غور کیجیے۔ ذکر ان کا ہو رہا ہے جو مٹھی بھر لوگ مکے میں ایک اللہ کے اوپر ایمان لے کر آئے ہیں، جو خدا سے محبت کرتے ہیں اور خدا ان سے محبت کرتاہے، لیکن لہجے میں بڑی اجنبیت ہے اور بڑی غیریت ہے کہ کیالوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ایمان لانے کے بعد انھیں آزمایا نہ جائے گا۔ حالانکہ یہ کوئی عام لوگ نہیںہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے جسم وجان کا سودا کرکے اپنا ہاتھ رسولؐ اللہ کے ہاتھ میں دے دیا تھا۔ پھر بھی یہ نہیں کہا کہ میرے بندے یہ سمجھ بیٹھے ہیں، بلکہ یوں کہا گیا ہے کہ لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ گویا ایمان لانے کے بعد ہر ایک کو آزمایش کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ ایک ایسا قانون ہے جس سے کسی کومفر نہیں۔
ایمان کا دعویٰ ہوگا تو آزمایا بھی ضرور جائے گا۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں جب تک کہ برے کو بھلے سے الگ نہ کر دیا جائے۔ ایک مقام پر قرآن مجید نے اس طرف یوں اشارہ کیاہے:
مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ حَتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِط (اٰل عمرٰن۳:۱۷۹)ا للہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم لوگ اس وقت پائے جاتے ہو۔ وہ پاک لوگوں کو نا پاک لوگوں سے الگ کر کے رہے گا۔
گویا اس وقت تک کامیابی سے ہم کنار ہونا ممکن نہیں ہے جب تک کہ برے اور بھلے کی تمیز نہ ہوجائے۔ یہ اس لیے کہ زبان سے دعویٰ کرنے والے تو بہت ہوتے ہیں، لوگ بہت سے لبادے اوڑھ لیتے ہیں‘ بظاہر شیر نظرآتے ہیں، لیکن کس کے سینے میں واقعی شیر کا دل ہے، اور کون اتنی ہمت اور جرأت رکھتا ہے کہ نہ صرف حلال وحرام کی پابندی کرے،بلکہ آگے بڑھ کر ان جائز اور حلال چیزوں کوبھی چھوڑ دے کہ جن کی قربانی راہ حق میں چلنے کے لیے ناگزیرہو۔ یہ وہ چیزیںہیں جن کی آزمایش ضروری ہے، جس کے لیے وہ ہلا ڈالے جائیں گے ، جس کے لیے انھیں جھنجھوڑا جائے گا، آروں سے چیرے جائیں گے، زندہ زمین کے اندر گاڑے جائیں گے اور ان کا گوشت لوہے کی کنگھیوں سے نوچا جائے گا۔ یہ سب کس لیے ہے، اس لیے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام یعنی عدل و انصاف کا نظام قائم ہو۔
حضرت خبابؓ بن ارت کے واقعے کو تازہ کیجیے۔ جوبات حضرت خبابؓسے نبی کریمؐنے ارشاد فرمایا تھا کہ تم دیکھنا کہ ایک روز یہ دین غالب آکر رہے گا۔ اس بات پر اگرغور کیا جائے تو اس میں بڑی گہری حکمت نظر آئے گی۔ آج ہم بھی اسی دین کو قائم کرنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ہمارے پیش نظر بھی نبی کریمؐ کا وہی مشن ہے جسے لے کر آپؐ آگے بڑھے۔ البتہ یہ کام صرف چند افراد کی تبدیلی کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ خدائی عدل کے قیام کا نام ہے۔
ایک انسان کے کردار اورکیرکٹر کے لیے اس سے بڑی کوئی آزمایش نہیں کہ وہ اختیار اور اقتدار کا مالک ہو۔ دوسری طرف انسان کا یہ حال ہے کہ اگر کہیںاس کو اختیار مل جائے، خواہ یہ اختیار گھر میں مل جائے یا کہیں اور‘ تووہ فوراً پھیلنے لگتا ہے،اور آپے سے باہر ہونے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے پیش نظر قیادت کے لیے اگر کوئی معیار ہے تو وہ بہترین صاحب کردار لوگ ہیں۔
اسلام کا نام لینے والے ہمیشہ بہت رہیں گے، لیکن اسلام کے نام لیوائوں اور اسلام کے مدعیوں کو اقتدار اس وقت تک نصیب نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ آزمایش کی بھٹی میں تپ کے، اور عزیمت کی راہ پر چل کر، کھرا سونا نہ بن جائیں، جن پر یہ اعتماد کیا جا سکے کہ جب ان کے ہاتھ میں اختیار اور اقتدار آئے گا، تو وہ اللہ کے بندوں کی خدمت کریںگے، نہ کہ انسانوں کے خدا بن جائیں گے۔ دراصل صبر، قربانی اور آزمایش کے فلسفے کی حقیقت یہی ہے۔
آپ سوچیں گے کہ عزیمت کی بات کرتے کرتے اچانک صبر کا لفظ کہاں سے آگیا، اورمیں نے اچانک قربانی کا لفظ کیوں بول دیا؟ اگر غور کیا جائے تو یہ تینوں چیزیں ایک ہی ہیں، اور تینوں کے معنی بھی ایک ہیں۔
صبر کے معنی بظاہر یہی ہیں کہ مصیبت پڑے تو برداشت کا مظاہرہ کیا جائے، لیکن یہ صبر کے منفی(negative) معنی ہیں۔ صبر کے مثبت (positive) معنی یہ ہیں کہ ہم آگے بڑھ کر وہ کام کریں، جس کے لیے ہم اپنی جان، اپنامال ، اپنا وقت اور احساسات و جذبات اور ترجیحات کی قربانی دے سکیں۔ جب اس قسم کا صبر پیدا ہو جائے، تب کہیں جا کر اللہ تعالیٰ کے وہ وعدے پورے ہوتے ہیں جو اس نے دنیا اور آخرت میں سربلندی کے لیے کر رکھے ہیں۔
آئیے ہم اس کا تفصیل سے جائزہ لیں، کہ یہ عزیمت کا راستہ کون سا راستہ ہے، اور اس میں کیا کیا چیزیں ہیں جو ہم کو پیش آسکتی ہیں، جن کے لیے ہمیں اپنے آپ کو تیار کرنا چاہیے۔
ایک حدیث میں‘جو کہ دجال کے بارے میںہے، کہا گیا ہے کہ اس کے ساتھ ایک جہنم ہوگی اور ایک جنت۔ جو دجال پر ایمان لائے گا وہ اس کی جنت میں داخل ہو گا، اورجو خدا پر ایمان لائے گا وہ اس کی جہنم میں داخل ہو گا۔ بات یہ ہے کہ ایک خدا پر ایمان لانا، آج کی دنیا میں جہنم میں داخل ہونے کے مترادف ہے، اور یہ بات سب سے زیادہ مال کمانے کے بارے میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مال کمانے کی اجازت دی ہے، اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات پورا کرنے کا بھی حکم ہے، لیکن جو آدمی دعوت حق کے کام کے لیے کھڑا ہو‘ آخر اس کو اس سے زیادہ مال سے دل چسپی کیوں ہو جو اس کی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے کافی ہو۔ جو لوگ مال کما رہے ہیں ان کی تعداد دنیا کے اندر ایک، دو نہیں، کروڑوں نہیں بلکہ اربوں میں ہے، جن کا صبح سے شام تک بس یہی کام ہے کہ مال کیسے کمائیں۔ وہ صرف یہ سوچتے ہیں کہ ہم کتنا کمائیں اور کہاں جمع کریں، کہاں لگائیں اور کہاں خرچ کریں، اور اس پر ہمیںکتنے فی صد نفع ہو گا۔
اس کے مقابلے میں ایک ارب ، ایک کروڑ یا ایک لاکھ نہیں، بلکہ صرف چند ہزار آدمی جو اللہ کی زمین پر اللہ کی بندگی کا عزم لے کر کھڑے ہوئے ہوں، اگر وہ بھی یہی سوچنا شروع کردیں کہ کیسے زیادہ سے زیادہ کمائیں، اور کیسے اس کو جمع کریں، اور کہاں اس کولگائیں کہ زیادہ سے زیادہ کما سکیں، جایداد اور بنک بیلنس بنانے کی فکر ان کے دامن گیر ہو جائے، تو ایسے لوگوں کو کیسے اللہ تعالیٰ اپنے دین کی کامیابیوں سے سرفراز کرے گا۔ یہ کام تو وہی لو گ کر سکتے ہیں جن کو جائز ذرائع سے مال کمانے میں صرف اس قدر دل چسپی ہو، جو ضروری اور ناگزیرہو، جس سے ان کی ضروریات زندگی پوری ہو جائیں۔
خرچ کرنے میں بھی صرف اسی پر اکتفا نہیں ہونا چاہیے، کہ آدمی زکوٰۃ ادا کر دے ‘ یا اپنی ساری ضروریات زندگی اور سارے شوق پورا کرنے کے بعد تحریک اسلامی کے بیت المال کے لیے ایک ماہوار رقم مقرر کرلے۔ اپنا فرض ادا کر نے کے لیے قرآن و حدیث سے اس سے بڑھ کر کوئی ذمہ داری ثابت نہیں کی جا سکتی۔ لیکن یہ معاملہ قرآن و حدیث کے احکامات کا نہیںہے، بلکہ قرآن و حدیث کے منشا اور اس کی روح کا ہے۔
عام مسلمانوں اور خدا کی بندگی کرنے والوں کے لیے، شاید یہ بات صحیح ہو کہ زکوٰۃ دے دیں اور راہ خدا میں ایک ماہوار رقم اپنی آمدنی سے باندھ لیں، اور اس رقم کے تناسب کا کوئی مقابلہ اس چیز سے نہ کریں، اس خرچ سے نہ کریں جو وہ اپنی ضروریات زندگی پر کرتے ہیں۔ بہر حال جب ایک مخصوص رقم ہر ماہ کے لیے باندھ لی اور یہ زندگی کا ایک شعبہ ہے جو ہم نے الگ کر دیا، اب اس کے علاوہ ہماری آمدنی ہماری اپنی ہے، وہ ہم چاہیں تو مہینے میں چار پانچ سو کاپان کھائیں، سگریٹ پییں، کہیں ہوٹل میں چلے جائیں اور دو چار سو خرچ کر ڈالیں، ہمیں اس کا کوئی دکھ نہ ہوگا۔ اگر کوئی مانگنے کے لیے آجائے تو کہیں کہ کل ہی تو چندہ لے کر گئے تھے، آج پھر آگئے ہو، آخر ہم کہاں تک دیتے رہیں۔ اگر آدمی ضرورت سے زیادہ نہ کمائے، اور ضرورت سے زیادہ کمانے کے لیے کوئی ناجائز کام نہ کرے، تو خرچ کرنے کا سوال پھر بھی پیدا ہوتا ہے اور خرچ کرنے میں دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ خرچ کرنے کے حوالے سے ہمارا ایمان اور یقین کس قدر مضبوط ہے۔
عزیمت کا راستہ تو یہ ہے کہ آدمی اپنا مال خدا کی راہ میں دونوں ہاتھوں سے لٹائے، اور اس کو یہ احساس ہو کہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر احسان ہے کہ اس نے مجھے توفیق بخشی، نہ کہ میں نے دین پر یا تحریک اسلامی اور جماعت پر کوئی احسان کیاہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ لوگ جو اللہ کے دین کو قائم کرنے کا عزم اور اعلان دن رات کرتے ہیں، جوصبح شام اس کا وظیفہ پڑھتے ہیں، اور بے چین ہو کر پوچھتے ہیں کہ وہ گھڑی کب آئے گی جب اسلامی نظام قائم ہوگا‘ اگر ان کی اکثریت کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان کی آمدنی کا بہت کم حصہ ایسا ہے جو راہ خدا یا تحریک کے لیے صَرف ہوتا ہے۔ خدامیری اس بد گمانی کو معاف فرمائے، لیکن جہاں تک میرا علم ہے، میں محسوس کرتا ہوں کہ اپنے مال کا بہت کم حصہ ہے جو ہم نے خدا کی راہ کے لیے مخصوص کر رکھا ہے، اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا حق ادا ہو گیا ہے۔
میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جو لوگ تحریک اسلامی کا عَلم بلند کیے ہوئے ہیں، اگر ان کو کہا جائے کہ ہم آپ کو ایسی جگہ پیسہ لگانے کی دعوت دیتے ہیں جس میں ایک کے سات سو گنا سے ایک ہزار گنا تک ہو جائیں گے، اور ایسے وقت آپ کوملے گا،جب کہ واقعی آپ کو اس کی ضرورت ہوگی، تو ان کی جیب مشکل سے کھلتی ہے۔ جب ہم ان سے کہیں کہ فلاں جگہ زمین بک رہی ہے، اس کو اگر آج خرید لیا جائے تو کل اس کے دگنے روپے ملیں گے تو وہ جانتے ہیں کہ نہ زمین ان کے ساتھ جائے گی اور نہ اس کی دوگنی آمدنی ساتھ جائے گی،آخر دوگز زمین ہی ان کو ملے گی، لیکن وہ دوڑ کر اس کے لیے پیسہ نکالتے ہیں۔ اگر تحریک کو مالی وسائل کی ضرورت ہو تو مشکل سے چند سو روپیہ نکلتا ہے، دوسری طرف گھر میں اگر قالین ڈالنا ہو یا عالی شان پردے لگانا ہوں، یاماربل کے مکان بنانے ہوں، توجیب ختم ہی نہیں ہوتی۔ لہٰذا عزیمت کا راستہ تو یہ ہے کہ ہم دل کھول کر راہ خدا اور تحریک پر خرچ کریں۔اگرچہ قرآن و سنت سے ایک مخصوص رقم صرف کرنے کو شاید کوئی حرام نہ کہہ سکے، لیکن یہ سوچنے کی بات ہے کہ کیا اس روش اور طرز عمل پر جو عموماً ہم نے اپنا رکھا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کامیابی کے انعام سے سرفراز کرنے والا ہے!
ایک مومن سے گناہ بھی سرزد ہو سکتے ہیں۔ ایک مومن زانی بھی ہو سکتاہے، چوری بھی کرسکتا ہے دوسرے بہت سے گناہ سرزد ہو سکتے ہیں‘ مگر ایک مومن اور منافق کے طرز عمل میں فرق ہوتا ہے۔ منافق کی نظر میں چونکہ معمولی گناہوں یا چھوٹی چھوٹی باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، اس لیے وہ خیال کرتا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر ایک مومن چوکس و چوکنا ہوتاہے۔اس کو معلوم ہوتاہے کہ اس راہ میں جگہ جگہ کھائیاں ہیں، جو بظاہر نظرنہیں آتیں، جگہ جگہ دشمن گھات لگائے بیٹھا ہوا ہے جو برابر کہیں نہ کہیں نقب لگائے گا، دائو مارے گا، کہیں پھندا پھینکے گا، اورمجھے گرا لے گا اور پھانسے گا، راستے سے ہٹادے گا اور تباہ و برباد کر دے گا۔ اس لیے وہ ہر وقت چوکنا رہتاہے، معمولی باتوں کو بھی اہمیت دیتا ہے اور انھیں نظر انداز نہیں کرتا۔ یہ وہ پہلو ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
چند مثالوں سے اس بات کو سمجھیے:
جن دنوں میں ڈھاکہ رہتا تھا، میرے پاس کوئی ٹیلی ویژن سیٹ نہیں تھا۔ اس کے بعد میں انگلینڈ پہنچا، وہاں کوئی گھرانا ٹی وی سے خالی نہیںہوتا۔ میرے اچھے اچھے مسلمان دوستوں نے کہا کہ اپنے بچوں کی انگریزی بہتر بنانے کے لیے ٹی وی خرید لو، اور کچھ نہیں تو کم از کم نیوز ہی سن لیا کریں گے۔ میں تین سال تک برابر اس حال میں رہا کہ میں نے اس سے انکار کیا۔ اس کے بعد ایران میں انقلاب آگیا۔ لوگوںنے کہنا شروع کیا کہ آج ٹی وی پر یہ آیا ، وہ آیا، یہ دکھایا گیا، انقلاب کی یہ لہر اٹھ رہی ہے، توسب گھر والوںنے جمع ہو کر یہ سوچا کہ اس انقلاب کو دیکھنے کے لیے تو کم از کم ٹی وی خرید لینا چاہیے۔ چنانچہ ہم نے سیکنڈ ہینڈ ٹی وی اپنے گھر کے لیے خرید لیا۔ مگرمجھے آج بھی اس پر شرمندگی ہے۔ پھرمیں نے محسوس کیا یہ راہ واقعی بڑی خطرناک ہے۔ اگرچہ میرے بچے سواے سپورٹس اور نیوز کے کچھ نہیں دیکھتے، مگر میرا ضمیرا س بوجھ سے آج تک آزاد نہیں ہو سکا۔
میں نے یہ مثال اس لیے دی ہے کہ یہ راہ بڑی خطرناک راہ ہے۔ شیطان پوری کوشش کرتا ہے کہ آدمی کسی طرح پھسل جائے۔میں یہ نہیں کہتا کہ ٹی وی کوئی غلط چیز ہے لیکن جن لوگوں نے عزیمت کی راہ پر چلنے کادعویٰ کیا ہو، اور اس راہ پر چل پڑے ہوں، ان کو آخر اس کے لیے وقت کہاں سے مل سکتاہے، کہ وہ بیٹھ کر ٹی وی دیکھیں اور اس میں اپنا وقت لگائیں۔
ایک ایک لمحے کا حساب اللہ کو دینا ہے، ایک ایک لمحہ دعوت کے کام میں صرف ہونا چاہیے۔ محلے کے ساتھی اور بیوی بچے قیامت کے روز گریبان پکڑ کر کھڑے ہو جائیں گے، اگر آپ نے ان تک اللہ کا پیغام نہ پہنچایا۔ وہ پوچھیں گے کہ ہم جہنم کی راہ پرسفر کرتے رہے اور تم ٹی وی دیکھتے رہے۔ اب بتائو ہمارے اس انجام کا ذمہ دار کون ہے، تم یا ہم؟ شاید ہم اس کا جواب نہیں دے سکیں۔
یہ کیا چیز تھی؟ ایک لمحے کے لیے آپ سوچیں۔ یہ ذمہ داری کا احساس تھا کہ اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر صرف اپنے اعمال کی جواب دہی ہی نہیں کرنا‘ بلکہ سارے انسانوں کی زندگی اور سارے انسانوں کے اعمال کی جواب دہی میرے ذمے ہے۔ یہ وہ احساس تھا جس سے نبی کریمؐ جنھوں نے اس شہادت کے فریضے کو سب سے بڑھ کر سرانجام دیا، ان کا قلب بھی پگھل کر رہ گیا اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ جس کے سامنے ذمہ داری کا یہ احساس ہو، وہ جائز اور ناجائز کی بحث میں کہاں پڑ سکتا ہے۔ اس کو تویہ سوچنا ہے کہ یہی واحدمقصد زندگی ہے۔ ایک ہی راہ ہے جس پر مجھے چلنا ہے، ایک ہی منزل ہے جو مجھے سر کرنا ہے۔ اس راہ میںجو چیز رکاوٹ ہو، خواہ اس کی اجازت ہو یا نہ ہو،خواہ جائز ہو یا ناجائز، مجھے اس سے دامن بچا کر آگے نکلنا ہے۔
اس سے بھی بڑھ کر جس عزیمت کی ضرورت ہے ، وہ یہ ہے کہ آدمی برائی کا جواب بھلائی سے دے سکے، گالیاں سن کر بھی دعا دے سکے، کانٹوں پر چل کر بھی پھول نچھاور کرسکے۔ قرآن نے اس طرز عمل اور روش کو اپنانے کا کہا ہے کہ اس کے نتیجے میں تمھارے کٹر دشمن بھی گہرے دوست بن جائیں گے، لیکن یہ کام معمولی کام نہیں ہے۔ یہ صفت ان کے حصے میں آتی ہے جو بڑے حوصلے والے ہیں، جو بڑے صبر کرنے والے ہیں، جن کے اندر عزیمت پوری طرح موجود ہو۔
میں نے عزیمت کے چند پہلو آپ کے سامنے گنوائے ہیں۔ اصل بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ عزیمت کا راستہ اسی وقت آسان ہو سکتا ہے جب کبھی آپ کچھ وقت نکال کر اور رات کی تنہائی میں ایک دفعہ بیٹھ کر اس کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ جسے آپ مقصد زندگی قرار دیتے ہیں، کیا وہ آپ کے دل کے اندر بھی وہی مقام رکھتا ہے؟ اس لیے کہ مقصد زندگی تو وہ ہوتاہے جس کی محبت آدمی کے دل کے اندر بیٹھ چکی ہو، جس کی خاطر وہ پوری زندگی وقف کرنے کے لیے تیارہو۔ پھر وہ یہ نہیں سوچتا کہ اس کی اجازت بھی ہے کہ نہیں۔ پھر تو وہ یہ سوچتا ہے کہ میرے وقت کا ہر لمحہ، میرے مال کا ہر پیسہ، میری تمام صلاحیتیں اور وسائل،میری ہر چیز اللہ کی راہ میں اور اس کی مرضی کے مطابق کھپنا چاہیے۔
ایک اوربات بھی غور کرنے کی ہے، وہ یہ کہ جب سختیاں ہوں، آزمایش ہو، مشکلات پیش آئیں تو آدمی کے لیے جم جانا اور ڈٹ جانا بہت آسان ہوتاہے، اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مخالفتوں کے طوفان کے آگے،لوگ پامردی کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف وہ راستے جن کا ابھی میں نے ذکر کیا، جو بظاہر بڑے صاف اور سیدھے نظر آتے ہیں، لیکن جن میں چھوٹے چھوٹے پیچ و خم ہوتے ہیں، جن میں جگہ جگہ قدم پھسلنے کا سامان ہوتاہے، وہ خطرناک راستے ہوتے ہیں۔
ایک خطر ناک راستہ وہ بھی ہوتا ہے، جہاں پر اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمانے لگتا ہے، جہاں سختی سے نہیں بلکہ نعمت سے آزمانے لگتا ہے۔ جیسا کہ امام احمد بن حنبلؒ کے بارے میں کہا گیاہے کہ ان کو اتنے کوڑے مارے گئے، کہ کوئی ہاتھی بھی ان کو برداشت نہ کرسکتا ، مگر وہ مسکراتے ہوئے اور جواں مردی سے، اس کا مقابلہ کرتے رہے۔ جب خلیفہ بدلا، اور اس نے ان کی خدمت میں دولت اور دینار کی تھیلیاں بھیجیں، تو وہ کانپ اٹھے، اور انھوں نے کہا کہ اب زیادہ کڑی آزمایش آگئی۔ انھوں نے فوراًسارا کا سارا مال واپس کر دیا۔
دراصل رخصت اور عزیمت کی یہ ساری بحث بڑی مختصر ہے۔ اگر آپ کوئی بڑا کام کرنے چلے ہیں اور آپ کے سامنے پوری دنیا کی نئی تعمیر کا ایک نقشہ ہے، اگر آپ پورے ملک کا نظام بدلنا چاہتے ہیں، تو یہ وہ کام ہے جو عزیمت کا راستہ اختیار کیے بغیر نہیں ہو سکتا۔ سر کے بل جانا پڑے گا، نقد جان بھی گنوانا پڑے گی، جیب بھی خالی کرنی پڑے گی، تن کے کپڑے بھی دینے پڑیں گے، تب جا کر کہیں شاید وہ منزل آئے کہ جب یہ ملک اسلامی انقلاب سے ہم کنار ہو۔ اگریہ کام صرف تبلیغی اور اصلاحی کام ہے، ایک گروہ کو منظم کرنا ہے، تھوڑے بہت نعرے لگانا ہیں، تو یہ کام ۴۰سال سے ہوتا آیا ہے، اور ۴۰سال اور بھی ہوتا رہے گا، مگر اس سے معاشرے کے مجموعی اقتدار کے سرچشموں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔اللہ تعالیٰ کو تو وہ لوگ چاہییں جن کے بارے کہا گیا ہے:
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌصَدَقُوْا مَاعَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ زصلے وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاo (الاحزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
یہ عہدصرف جائز سے فائدہ اٹھانے، اور حلال اور جائز کام کرنے اور حرام کاموںسے بچنے کا عہد نہیںتھا بلکہ یہ اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینے کا عہد تھا۔
اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ ط (التوبۃ ۹:۱۱۱)حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔
یہ سودا عزیمت کا سودا ہے، رخصت کا نہیں۔ اس راہ میںجان بھی کھپانا ہے اور مال بھی۔ جب آپ نے اس سودے کو سچ کر دکھایا، اس معاہدے میں جو آپ کا حصہ اور کردارہے پورا کردیا، تو سب سے زیادہ سچا وعدہ کرنے والا بھی اپنا وعدہ پورا کر دکھائے گا۔
(کیسٹ سے تدوین: امجدعباسی )
نبی کریمؐ کا ہر نقش ‘ہر قدم‘ ہر ادا‘ ہر بات ‘ ہر عمل ہمارے لیے بہترین اسوہ‘ قابل عمل نمونہ اور مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔قرآن مجید نے خود اس بات کو بیان فرمایا ہے کہ تمھارے لیے اللہ کے رسول کی ذات میںبہترین اسوہ ہے۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب ۳۳:۲۱)۔ یہ اس لیے بھی ہے کہ اللہ کا رسول آتا ہی اس لیے ہے کہ اس کی پیروی و اطاعت کی جائے۔ یہ اطاعت و پیروی ہی وہ واحد چیز ہے جس میں اللہ کے رسول کی اطاعت، اللہ کی اطاعت کے برابر ہے۔جس نے رسول کی اطاعت کی‘ دراصل اس نے خدا کی اطاعت کی۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ج (النسآء ۴:۸۰)
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْط(اٰل عمرٰن ۳:۳۱) اے نبیؐ، لوگوں سے کہہ دو کہ ’’ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔‘‘
یہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ آپؐاللہ کے رسول ہیں‘بلکہ اس لیے کہ آپؐ کا اسوہ کامل ترین اسوہ ہے۔ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ o (القلم ۶۸:۴)’’اور بے شک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو‘‘۔گویا آپؐکا کردار اور آپؐکی سیرت انسانوں کے لیے ہرلحاظ اور ہرپہلو سے بہترین اور کامل نمونہ ہے۔
رسالت اور اسوۂ کامل، یہ دونوں باتیں لازم وملزوم ہیں۔ اس لیے کہ جو اللہ کا رسول ہو گا وہ لازماً اسوۂ کامل کا حامل بھی ہوگا‘ اور جواسوۂ کامل کا حامل ہو گا اسی کو اللہ تعالیٰ اپنی رسالت کے لیے منتخب فرمائے گا۔ تاہم اس کا ایک اور پہلو بھی ہے وہ یہ کہ اللہ کے رسولؐ کی زندگی کے بہت سارے پہلو ہیں۔ آپؐسربراہ ریاست بھی تھے اور قانون ساز بھی‘ باپ بھی تھے اور شوہر بھی، دوست اور ساتھی بھی تھے اور فوج کے سپہ سالار بھی‘نیز معلم و مربی بھی‘ اور یہ ساری حیثیتیں آپؐکی رسالت کی حیثیت کے تابع تھیں۔ لیکن رسالت کا بنیادی فریضہ یہ تھا کہ اللہ کی بندگی کا پیغام انسانوں تک پہنچایا جائے۔ اس لحاظ سے قرآن مجید نے جب یہ کہا کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں تو جہاں یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ کے رسولؐہونے کی حیثیت سے آپؐکا اسوہ قابل اتباع ہے، وہاں یہ بات بھی عیاں ہوگئی کہ اللہ کے رسول ہونے کی حیثیت سے رسالت کا فریضہ ادا کرنے میں اور کارِ رسالت انجام دینے میں بھی آپؐکا طریقہ ، آپؐکی روش اور آپؐکا اسوہ ہی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔
کارِ رسالت کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاکو شاہد ، مبشر، نذیر اور داعی الی اللّٰہ بنا کر بھیجا۔اس حوالے سے انبیا کی جس صفت پر بھی غور کیا جائے،اس کا حاصل یہی ہے کہ اللہ کے بندوں تک اللہ کی ہدایت اور اس کا پیغام پہنچے۔ رسول کے لفظ کے اندریہ حقیقت پوشیدہ ہے کہ وہ پیغامبر ہوتاہے اور جو پیغام لے کر آتا ہے اسے دوسروں تک پہنچاتاہے۔ یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے کہ اللہ کے رسول کوئی اور کام کر پائیں یا نہ پائیں لیکن اُن سے اِن کی اس بنیادی ذمہ داری کے بارے میں لازماً سوال کیا جائے گا کہ تم نے اس کو کہاں تک ادا کیا۔ لوگ مانتے ہیں یا نہیں مانتے‘ پیچھے چلتے ہیں یا نہیں چلتے‘ پکار پر لبیک کہتے ہیں یا نہیں کہتے‘ اور اللہ کے رسول اس میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے کہ اللہ کے دین کو سارے دینوں پر غالب کردیں‘ لیکن یہ فریضہ ایسا ہے جو بنیادی طور پہ لازماً ان کے ذمے کیا گیا ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ (المائدۃ۵:۶۷) اے پیغمبر‘ جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو۔
گویا اگر رسول نے پہنچانے کا کام سر انجام نہیں دیا تو فی الواقع اللہ نے جو پیغام دیاہے‘ اس کے پہنچانے کا حق ادا نہیں ہوا۔ یوں سمجھ لیں کہ رسالت کے سارے فرائض کا انحصار مخاطبین کے اُوپر ہے۔ وہ مانیں گے تو مومن وجود میں آئیں گے۔ وہ ساتھ دیں گے تو ساتھ چلنے والے ملیں گے لیکن ایسا بھی ہو سکتاہے ۹۰۰ برس رات دن پکارنے کے بعد بھی تھوڑے ہی لوگ ہوں جو ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں۔ وَمَآ اٰمَنَ مَعَہٗٓ اِلاَّ قَلِیْلٌ o (ھود ۱۱:۴۰)’’اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوحؑ کے ساتھ ایمان لائے تھے‘‘۔ اگر دعوت کے نتیجے میں تھوڑے لوگ ایمان لائیں یا لوگ دعوت رد کردیں تو اس پر رسول سے کوئی پرسش نہیں ہے۔ وہ اس کے لیے جواب دہ نہیں ہے۔ البتہ جس بات میں اس کی جواب دہی ہے وہ یہ ہے کہ اس نے دعوت پہنچانے کا کام اور لوگوں کو خدا کی طرف پکارنے کا کام کہاں تک انجام دیا۔ اگر اس نے اس کام کو مکمل کر دیا تو رسالت کا سب سے بنیادی فریضہ اور اس کی بنیادی ذمہ داری ادا ہوگئی۔
یہ جاننا ہمارے لیے اس لیے بھی ضروری ہے کہ اکثر دعوت دین اور اقامت دین کا کام کرتے ہوئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کام کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے جو دوسروں کے ماننے اور دوسروں کا ساتھ دینے اور اللہ کی خشیت اور حکمت پر منحصر ہے۔ جب وہ کام پورا نہیں ہوتا تو ہم مایوسی کا شکار ہو کر اس کام کو بھی چھوڑ دیتے ہیں جس کام سے کوئی مفر نہیں اور جس ذمہ داری کو کبھی ٹالا نہیں جا سکتا۔ وہ یہ کہ اللہ کے ایک ایک بندے تک اس کی ہدایت‘ اس کی زندگی کا پیغام‘ اللہ پر ایمان لانے کی دعوت‘ اس کی اطاعت کا مطالبہ اس کے سامنے پیش کیا جائے۔ یہی دراصل کارِرسالت کا ماحاصل ہے ۔ آج بھی جو اسلامی تحریک کا نام لیتاہے‘ اقامتِ دین کا دعوے دار ہے‘ وہ کوئی اور کام کر پائے یا نہ کر پائے لیکن اس کام کے لیے اس کی ذمہ داری اور اس کی جواب دہی ایسی ہے جس سے وہ چھوٹ نہیں سکتا جب تک کہ وہ اس کام کو کماحقہ، انجام نہ دے۔
اسوۂ رسالت کے تحت میں مختصراً دو چیزوں کا ذکر کروں گا اور یہ دونوں چیزیں بالکل لازمی اور ناگزیر ہیں۔دعوت کے ضمن میں اُن طریقوں کو صحیح طور پر استعمال کرنے کے لیے جو طریقے نبی کریمؐنے اختیار کیے ہیںایک خاص جذبہ، کیفیت اور روح درکار ہے۔ اس لیے کہ دعوت کا کام کوئی مجرد فنی مہارت کا کام نہیں ہے اور اس کو عام اصولوں کی طرح نہیں سیکھا جا سکتا۔ اس کام کے طریقے‘ اس کام کے راستے اسی وقت سیکھے جاسکتے ہیں اور ان پر عمل درآمد اسی وقت ہو سکتاہے جب ان کی پشت پر وہ کیفیت‘ وہ روح اور وہ جذبہ کار فرما ہو جو دعوت الیٰ اللہ کے لیے ضروری ہے‘ اور جس کی نمایاں مثال نبی کریمؐکی اپنی زندگی اور اپنا اسوۂ دعوت ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ دعوت کی ذمہ داری ایک بڑی بھاری ذمہ داری ہے جس کے احساس سے آپؐکا دل گراں بار تھا‘ جس کے بوجھ سے آپؐکو اپنی کمر ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی تھی‘ جس کو اللہ تعالیٰ نے خود قول ثقیل(بھاری بات)سے تعبیر کیا ہے۔ یہ اس لیے تھا کہ یہ ذمہ داری کس کی طرف سے تھی‘ نیابت کس کی ہو رہی تھی‘ بات کس کی تھی جو دوسروںتک پہنچانا تھی اور جواب دہی کس کے سامنے تھی___ یہ اللہ کی طرف سے تفویض کردہ ذمہ داری تھی اور اس کی جواب دہی خود اپنے سامنے اور ربِ کائنات کے سامنے تھی۔ یہ ذمہ داری نہ کسی اجتماع میں رپورٹ تک محدود تھی‘ نہ صرف دنیا کے اندر کچھ کامیابی حاصل کرنے کے لیے تھی‘ بلکہ اللہ کے رسول اس منصب پر اپنے رب کی طرف سے فائز کیے گیے تھے اور رب کا دیا ہو کام ایسا تھا جو ہرحال میں‘ ہر طرح انجام دینا تھا۔
مجرد یہ احساس اور شعور کہ یہ میرے رب کا کام ہے‘ میں نے رب کے بندوں کو حق کی طرف بلانا ہے‘ ان کو غلط راستوں پر بھٹکنے سے بچا کر صحیح راستے پر لگانا ہے‘ یہ اپنی جگہ اتنی زبردست ذمہ داری تھی کہ اقراْ کا پیغام سننے کے بعد ہی حضوؐرکا نپتیـ‘ لرزتے اپنے گھر واپس آئے اور اپنی اہلیہ محترمہ سے کہا کہ زمّلونی‘ زمّلونی ‘مجھے اڑھا دو، مجھے اڑھا دو۔ مجھے اپنے نفس کے بارے میں ڈر ہے۔ اتنا عظیم الشان کام اقراْ (پڑھنے اور سنانے) کاکام‘ رب کے نام سے دنیا کو پکارنے کا کام‘ اور دنیا کو یہ پیغام دینا کہ علم کا سرچشمہ صرف اللہ کی ذات ہے‘ اس سے ماورا بے نیاز ہو کر، جو علم کا دعوے دار ہے‘ وہ قطعی غلط ہے‘ نیز اللہ کی ذات سے اور اللہ کی ہدایت سے پوری انسانی زندگی کا رشتہ جوڑنا‘ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o (العلق ۹۶:۱)‘ میں یہ پوری ذمہ داری پوشیدہ تھی اور حضوؐر اسی لیے کانپتے اور لرزتے ہوئے واپس آئے تھے اور یہ فرمایا تھا کہ مجھے اپنے نفس کے بارے میں ڈر اور خوف محسوس ہوتاہے۔ یہ اس مقامِ دعوت کی عظمت اور اس کی گراں باری تھی جس نے قلبِ مبارک پر اس کیفیت کو طاری کر دیاتھا۔
اس کے ساتھ ساتھ جو چیز تھی وہ صرف یہ نہیں تھی کہ دنیاکے اندر اتنا عظیم الشان کام درپیش ہے بلکہ یہ کہ اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اگر اس کام کے اندر کوتاہی ہوئی توجو لوگ گمراہی کے راستے پہ جائیں گے‘ بھٹک جائیں گے اور غلط راہ پر پڑ جائیں گے‘ وہ جن کے سامنے حجت پوری نہیں ہوگی‘ اس کا ذمہ داروہ بھی ہوگا جس کے پاس پیغام حق ہو اور وہ اس کو پہنچانے سے قاصر رہے۔ اسی لیے جب آپؐ اس حوالے سے سوچتے تھے‘ آپؐ کے سامنے اس کا ذکر ہوتا تھا تو آپؐ لرزہ براندام ہو جاتے تھے، آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے تھے۔
ایک طرف تو جواب دہی کا یہ احساس تھا جس کے بوجھ سے آپؐکو اپنی کمر ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی تھی تو دوسری طرف خود وحی کے نزول کا مرحلہ بھی بہت کٹھن تھا۔ اس سے نہ صرف جسم کے اُوپر بوجھ پڑتا تھا بلکہ جب یہ کلام نازل ہوتا تھا تو اس کے بوجھ سے اونٹنی بھی بیٹھ جایا کرتی تھی اور آپؐکی پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہوا کرتے تھے۔ یہ تمام کیفیات کلامِ حق اور ہدایت الٰہی کو وصول کرکے پہنچانے کی ذمہ داری کا احساس کا نتیجہ تھیں۔
فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْھِمْ وَلَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَo (الاعراف۷:۶) پس یہ ضرور ہو کر رہنا ہے کہ ہم اُن لوگوں سے باز پرس کریں جن کی طرف ہم نے پیغمبر بھیجے ہیں، اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں( کہ انھوں نے پیغام رسانی کا فرض کہاں تک انجام دیا اور انھیں اس کا کیا جواب ملا)۔
یہ سوال صرف انھی سے نہیں ہو گا جو مخاطب تھے کہ تم نے یہ بات کیوں رد کردی‘ بلکہ مرسلین جن کو رسول بنا کر بھیجا گیا‘ ان سے بھی سوال کیا جائے گا کہ تم نے اپنی ذمہ داری کو کہاں تک ادا کیا۔ یہ کتنی بڑی ذمہ داری تھی‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسا بوجھ تھا جس سے کمر ٹوٹتی محسوس ہوتی اور بدن لرزتا اور کانپتا تھا‘ اور جواب دہی کا احساس دل و دماغ کے اُوپر چھایا رہتا تھا۔
یہ ذمہ داری رب کی طرف سے تھی کہ اللہ کے بندوں کو بھٹکنے سے بچا کر صحیح راستے پر لگایا جائے۔ ذرا تصور کیجیے کہ وہ دل اور وہ قلب جو انسانوں کی محبت سے سرشار ہو‘ جو ۴۰ سال سے دن رات انسانوں کی خدمت کے اندر لگا ہوا ہو‘ اس کو جب یہ معلوم ہو کہ یہ وہ پیغام ہے جس سے انسان آگ سے بچ کر اللہ کی جنت کی طرف جا سکتے ہیں تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس کی کیفیت کیا ہو گی۔ نبی کریمؐ نے اس بات کو یوں بیان فرمایا کہ میری مثال ایسی ہے جیسے کسی نے آگ جلائی، اور جب آگ روشن ہو گئی تو لوگ پروانوں کی طرح آگ میں گرنے لگے اور مجھ کو مغلوب کرکے آگ میں گرنے لگے‘ اور میں تمھاری کمر پکڑ کر تم کو بچا رہا ہوں اور تم ہو کہ آگ کے اندر گرے جا رہے ہو۔ اگر اپنا بچہ آگ کے قریب چلا ئے‘ یا کسی حادثے کا شکار ہوجائے‘ یا تباہی کے گڑھے پر کھڑا ہو تو قلب کی جو کیفیت ہو گی وہی نبی اور داعی کے قلب کی کیفیت ہوتی ہے اور ہونی چاہیے۔
ایک نبی کی حیثیت اپنی قوم کے لیے باپ کی سی ہوتی ہے۔ وہ کتنی ہی گمراہ کیوں نہ ہو‘ وہ اس کو نصیحت اور خیر خواہی سے آخر وقت تک بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ وہ اس کے اُوپر غصے و ناراضی اور مایوسی کا اظہار نہیں کرتا۔ اگر وہ پتھر بھی کھاتا ہے تو دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے اور صحیح راستے پر لگائے ۔ وہ اپنی ذات کے لیے نہ کچھ اجر مانگتا ہے اور نہ انتقام کا طالب ہوتاہے۔ اس کی ساری محبت اور دشمنی صرف اللہ کے لیے اور اس کے پیغام کے لیے ہوتی ہے۔ اسی کیفیت کی وجہ سے نبی کریمؐدن، رات اسی فکر کے اندر گھلا کرتے تھے اور ہر داعیِ حق کو بھی گھلنا چاہیے کہ کس طرح یہ پیغام عام ہو۔ دل کی یہ فکر عمل کے اندر ظاہر ہوتی تھی۔ گھر گھر جانا، گلیوں میں گھومنا‘ لوگوں کو دعوت دینا‘ اپنے گھر پر بلانا اور دعوت دینا‘ پہاڑی پہ چڑھ کے وعظ کہنا‘ حج کے موقع پر خیموں کے اندر جانا‘ ہر موقع سے فائدہ اٹھانا‘ ہر آنے جانے والے سے موقع نکال کر حکمت کے ساتھ اپنی بات کہنا‘یہ سب کس طرح ہو، اسی فکر میں آپؐدن رات گھلا کرتے تھے۔
آپؐکی اس کیفیت کو قرآن مجید نے مختلف الفاظ میں بیان کیا ہے۔ کہیں فرمایا کہ کیا اس فکر میں تم اپنا گلا گھونٹ ڈالو گے۔ کہیں اس کے لیے حرص کا لفظ استعمال ہوا۔ کہیں فرمایا: لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ (التوبۃ ۹:۱۲۸)’’دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمھارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمھاری فلاح کا وہ حریص ہے‘‘۔گویا بھلائی اور دعوت حق کی طرف بلانے کے لیے نبی کی فکر اور آرزو اور تمنا لالچ کی حدتک پہنچی ہوتی ہے۔جس طرح لالچی آدمی برابر سوچتا رہتا ہے کہ مطلوبہ چیز کو کس طرح حاصل کرے‘ اس کے پیچھے پڑا رہتاہے‘ اپنا سب کچھ اس کے لیے لگاتا ہے‘ وہی کیفیت نبی کریمؐکی تھی اور وہی کیفیت ہر داعیِ حق کی بھی ہونی چاہیے۔
اس میں نہ مایوسی کا گزر تھا اور نہ جھنجھلاہٹ کا‘ اور نہ اپنی قوم سے نفرت اور بے زاری کابلکہ شفقت و رحمت کے ساتھ مسلسل آپؐ اس کام کے اندر لگے رہے۔ یہاں تک کہ یہ تمنّاکہ جو دیکھنے والے نہیںہیں‘ کسی طرح ان کو دکھا دیں‘ جو سننے والے نہیں ہیں کسی طرح ان کو سنادیں‘ جو بھٹک رہے ہیں ان کو کسی طرح صحیح راستے پر لگا دیں۔ اس کی تصویر قرآن مجید نے یوں کھینچی کہ تم اندھوں کو راستہ نہیں دکھا سکتے‘ تم بہروں کو نہیں سناسکتے‘ یعنی جو جان بوجھ کر بھٹک گئے ہیںتم ان کو صحیح راستے پہ نہیں لگا سکتے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس ہدایت کے باوجود آپؐ کی یہ کیفیت کہ کسی نہ کسی طرح لوگ ہدایت پاجائیں‘بالکل آئینے کی طرح نمایاں ہوکر ہمارے سامنے آجاتی ہے۔
لوگوں کی ہدایت اور ان کو گمراہی سے بچانے کے لیے آپؐاس قدر بے قرار تھے کہ اگر لوگ نہیں مانتے تو کوئی ایسی نشانی آجائے جسے دیکھ کر لوگ ایمان لے آئیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ تم آسمان میں سیڑھی لگا کر چڑھ جائو‘ یا زمین کے اندر سرنگ کھود لو‘ یا اور کوئی نشانی لے آئو‘ یہ لوگ اس کے بعد بھی ماننے والے نہیںہیں۔ وہاں آپؐکی کیفیت یہ ہے کہ آسمان پرسیڑھی لگا کر یا زمین میں سرنگ لگا کر بھی اگر قبولِ اسلام کے لیے راہ ہموار ہوسکتی ہوتو ہوجائے۔ آسمان پہ سیڑھی لگا کے چڑھنا اور زمین میں سرنگ لگانا، یہ ہمارے ادب کے عام محاورے ہیں کہ اگر ضرورت پڑے تو کسی کام کو کرنے کے لیے انتہائی مشقت اور انتہائی کوشش کرنا‘ اور آپؐاس کے لیے بھی تیار رہتے تھے۔
یہ وہ چیز تھی جس کی وجہ سے داعی ہونا آپؐکی زندگی کا کوئی ایک پہلو نہیں تھا بلکہ آپؐ ہمہ وقت اور ہر دم داعی تھے اور اسی کو آپؐکے سارے کام میں بنیادی ترجیح حاصل تھی۔ جہاد اسی کے لیے تھا، تلوار اسی کے لیے اٹھائی گئی‘ خطوط اسی کے لیے لکھے گئے۔ ابتدا سے آخر تک سب سے بڑی فکر جو آپؐکے اُوپر غالب تھی وہ یہ تھی کہ اللہ کے بندوں تک یہ پیغام پہنچے اور آپؐسرخ رو ہو کر اپنے رب کے سامنے حاضر ہوں‘ اور لوگ گواہی دیں کہ ہاں‘ آپؐنے ہم تک پیغام پہنچا دیا‘ نصیحت کا حق ادا کر دیا، اور جو امانت آپؐکے سپرد ہوئی تھی وہ ہم تک پہنچ گئی۔ اس لیے آپؐدن رات اسی کام میں لگے رہتے تھے۔
مدینہ آمد پر آپؐنے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ایک چھوٹی سی مسجد بنائی ۔ اس مسجد کا فرش سنگ ریزوں‘ ستون کجھور کے درختوں کے اور فرش پر کجھور کی چھال بچھی تھی ۔ اس کے بعد ۱۳ برس تک آپؐنے اس طرف توجہ نہیں کی کہ یہ مسجد پختہ ہو جائے‘ عالی شان عمارت بن جائے بلکہ آپؐاسی کام کے اندر لگے رہے کہ خدا کا پیغام دلوں کے اندر راسخ ہو جائے۔ آپؐکی کوشش تھی کہ ظاہر میں یہ عمارت شان دار ہو یا نہ ہو لیکن دلوں کے اندر دعوتِ حق کی عمارت ضرور شان دار تعمیر ہوجائے۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپؐکے انتقال کے صرف ۱۰۰ برس کے اندر اندر اسپین سے لے کر ہندستان تک انتہائی عالی شان مسجدیں وجود میں آگئیں۔ اگر پہلے ہی دن آپؐکی توجہ دعوت سے ہٹ کر ان کاموں کے اندر لگ جاتی تو اس کا امکان کم تھا کہ وہ قوت وجود میں آتی جو اس دعوت کے جذبے سے سرشار ہو کر مدینہ سے نکلتی اور دنیا کے گوشے گوشے میں اس پیغام حق کو پہنچاتی۔ مقامِ دعوت کے سلسلے میں یہ آپؐ کا اسوہ اور ترجیح اول تھی جس کو سب سے پہلے سمجھنا ضروری ہے۔
دوسری بات جو جاننا ضروری ہے وہ یہ کہ وہ مضامین دعوت کیا تھے جس پر آپؐ شروع سے آخرتک اپنی توجہ مرکوز کیے رہے۔
مکی زندگی کے پہلے دن سے لے کر مدنی زندگی کے آخری دن تک آپؐ اس کام سے غافل نہیں ہوئے کہ اللہ کے بندوں کا تعلق اپنے رب کے ساتھ قائم ہو___یعنی بندگی کا تعلق، توکّل کا تعلق، خشیت کا تعلق، محبت کا تعلق اور اپنے آپ کو سپرد کردینے کا تعلق۔ اقراْ کے نام سے جو کام شروع ہوا تھا‘ وہ اپنے رب کی تسبیح ، حمد اور استغفار کے حکم تک جاری رہا۔ گویا نبی کریمؐکے مشن کی تکمیل تک جو کام جاری رہا وہ یہی تھا کہ اللہ کے بندے اللہ کے ساتھ جڑ جائیں۔جب تک وہ اللہ کے ساتھ نہیں جڑیں گے‘ ان کے اندر وہ قوت اور طاقت نہیں پیدا ہوگی جو اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔
اس دعوت کے اندر وہ کشش تھی کہ لوگ دوڑ کر آتے تھے او راسی کے ہو کر رہ جاتے تھے۔ اس لیے کہ خالقِ کائنات کی بندگی کے اندرجو لذت‘ جو نشہ اور جو کشش ہے، وہ کسی اورچیز کے اندر نہیں ہو سکتی۔ اس کی بندگی کی حدود، اس دنیا سے ماورا آخرت تک پھیلی ہوئی ہیں۔ جو اس کا ہوجاتا ہے پھر اس کے لیے دنیا کی کوئی قربانی، قربانی نہیں رہتی ۔جان‘ مال اور وقت‘ ہر چیز اس کے لیے حاضر ہوتی ہے۔ اس لیے کہ جس نے اس دعوت کی پکار پہ اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردیا، گویا اس نے اپنا سب کچھ اللہ کے سپرد کردیا۔ اگر دنیا کے چھوٹے چھوٹے مقاصد لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے رہتے تو ان کی زندگی کے اندر یہ انقلاب کبھی برپا نہ ہوتااور وہ اس طرح نہ بدلتے۔
بندگی کا یہ تعلق دنیا اور آخرت کے اُوپر محیط تھا۔ زمین و آسمان کی ساری وسعت سے زیادہ وسیع یہ تعلق تھا جو آپؐنے قائم کیا‘ اور اس کے نتیجے میں آخرت کا طلب گار بنا کر جنت کا خریدار بنادیا۔ فی الواقع یہ بہت بڑا انقلاب تھا جو نقطۂ نظر کے اندر ، فکر کے اندر، اور دل کے اندر پیدا ہوگیا۔ وہ دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا کے طلب گار نہیں تھے اور جنت کے خریدار بن چکے تھے۔
یہ وہ سیدھی سادھی دعوت تھی کہ جو ایک بدو، ایک تاجر، ایک اَن پڑھ ‘ایک چرواہے یا کسی عالم اور پڑھے لکھے کے لیے یکساں طورپر پُرکشش دعوت تھی کہ آدمی اپنے خالق کا ہو کر رہے‘ اس کے ساتھ جڑ جائے‘ آخرت کا طلب گار ہو اور جنت کی قیمت کے اُوپر اپنے آپ کو راضی کر لے۔
آپؐنے جنت کو ایک ایسی حقیقت بنا دیا تھا جس کی انھیں خوشبو بھی آنے لگی تھی۔ مشہور حدیث ہے کہ ایک دفعہ آپؐنے ہاتھ آگے بڑھایا اور پھر پیچھے ہٹا لیا۔ صحابہ کرامؓنے پوچھا کہ آپؐنے ایسا کیوں کیا۔ آپؐنے فرمایا کہ میرے سامنے جنت تھی ۔ اگر میں اس کا خوشہ توڑ کے تم کو دکھا دیتا اور تمھارے درمیان لے آتا تو رہتی دنیا تک کے انسانوں کی غذا کے لیے یہ کافی ہوتا۔
ان کے لیے جنت کوئی افسانہ نہیں تھی جس کو وہ قرآن میں پڑھتے تھے اور گزر جاتے تھے، بلکہ ان کے لیے وہ ایک جیتی جاگتی زندہ حقیقت تھی۔ جب وہ نبی کریمؐکو اٹھتے بیٹھتے یا منبر کے اُوپر کھڑا دیکھتے تو سمجھتے تھے کہ سامنے جنت موجود ہے لیکن وہ جنت جہاد کے اندر پوشیدہ تھی۔ بندگیِ رب اور آخرت کی طلب اور جنت کا تعلق جہاد کے ساتھ جوڑ کے انسانی زندگی کے اندر آپؐ نے اسے راسخ اور مربوط کر دیا تھا۔ اب یہ جنت کے طلب گار وہ نہیں تھے جو گوشوں میں بیٹھ کر صرف درس دیں، بلکہ اس کے نتیجے میں ایک ایسی جماعت تیار ہوئی جو دنیا بھر کو آخرت اور بندگیِ رب کی دعوت دینے کے لیے نکل کھڑی ہوئی۔ لوگوں کے دل فتح ہوگئے، نسلوں کی نسلیں، قوموں کی قومیںاس دعوت کے گرد جمع ہوگئیں۔
خالق و رب کے ساتھ تعلق‘ آخرت کی طلب اور دنیا کے اندر انسانوں کو ہدایت پہنچانا اور اس کے لیے کوشش اور جدوجہد‘ یہ دراصل دعوت کا اصل مضمون تھا جس کے لیے کسی لمبے چوڑے فلسفے‘ منطق اور کتابوں کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ وہ بات تھی کہ ہر آدمی اپنے اندر اس کی پیاس محسوس کرتا تھا۔ وہ بدو‘ وہ چرواہے اور وہ تاجر جنھوں نے جب اس پیغام کو سنا اور اپنے آپ کو اس دعوت کے حوالے کردیا تو کسی منطق اور فلسفے کے بغیر ہی وہ دنیا کے امام اور لیڈر بن گئے۔
آپؐکے اسوہ ٔدعوت کا چوتھا پہلو یہ ہے کہ آپؐنے دعوت کے لیے وہ کون سے طریقے اختیار کیے کہ اس دعوت نے قوم کے بڑے حصے کو ایک مختصر مدت میں آپؐ کے گرد جمع کر دیا۔
نبی کریمؐانسانیت کے کس قدر ہمدرد، خیر خواہ اور دوسروں کے کام آنے والے تھے‘ اس کی ایک گواہی حضرت خدیجہؓنے دی۔ خدا کا پیغام وصول کرکے جب آپؐغارِ حرا سے گھبرائے گھبرائے گھر لوٹے اور آتے ہی لیٹ گئے اور کہنے لگے کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو، اور فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ حضرت خدیجہ نے آپؐکو حوصلہ اور تسلی دی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپؐکو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ اس لیے کہ آپؐصلہ رحمی کرتے ہیں ، رشتہ داروں اور اقربا کے حقوق ادا کرتے ہیں۔ بات کرتے ہیں تو سچ بولتے ہیں، جو لوگ معاشرے کے اُوپر بوجھ بنے ہوئے ہیں ان کا بوجھ اٹھا تے ہیں،جن کے پاس وسائل نہیں،جو یتیم ، بیوہ، غریب، اپاہج اور معذور ہیں،جو کمانہیں سکتے‘ ان کے لیے کما کر ان کی خدمت کرتے ہیں۔ آپؐمہمانوں کا احترام کرتے ہیں اور جو لوگ مشکلات کا شکار ہوں‘ ان کی مدد کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہرگز آپؐ کو ضائع نہیں کرے گا۔
یہ نبی کریمؐکے اسوۂ دعوت کی ایک تصویر ہے۔ جو لوگ انسانوں کی تکالیف‘ مصائب‘ پریشانیوں اور ان کی خدمت سے غافل ہوں اور یہ چاہیں کہ محض درس و تقریر اور خطاب سے ہی لوگ دین کی طرف دوڑ پڑیں تو وہ یقینا سخت غلط فہمی کے اندر مبتلا ہیں۔ یہ دعوت اسی وقت عام آدمی کے دلوں کے اندر جگہ پیدا کرے گی جب اس کے داعی انسانوں کے ساتھ اپنے آپ کو اس طرح مربوط کریں کہ ان کے دلوں میں، آخرت میں آگ سے بچنے کی فکر بھی پیدا کریں اور ان کے دنیاوی مصائب و تکالیف کو بھی دور کرنے کی کوشش کریں۔ یہ دونوں چیزیں اس دعوت کے اندر سب سے نمایاں ہیں اور لازم و ملزوم بھی۔
آپؐکے اُوپر لوگوں کا اتنا اعتماد تھا کہ آپؐپہاڑی پر کھڑے ہو کر پوچھتے ہیں: اگر میں کہوں کہ اس پہاڑکے پیچھے سے ایک لشکر آ رہا ہے تو تم کیا کہوگے؟ لوگوں نے کہا کہ ہم تمھاری بات پر یقین کریں گے۔ لوگوں کا یہ وہ اعتماد تھاجو آپؐکو حاصل تھا۔ لوگ یہ سوچ نہیں سکتے تھے کہ یہ آدمی ہمارا بدخواہ بھی ہو سکتا ہے۔ اہلِ مکہ نے آپؐکی کتنی مخالفت کی‘ آپؐکے پیچھے پڑے رہے‘ آپؐکے اُوپر کتنا ظلم کیا‘ آپؐکا راستہ روکا‘ کانٹے بچھائے‘ پتھر مارے لیکن لوگوں کے ذہن میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ خدانخواستہ آپؐجھوٹے ہیں یا آپؐ ان کے بدخواہ ہیں۔ ابوجہل تک نے کہا کہ یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ آپؐ جھوٹے ہیں۔ مجھے تو یہ شکایت ہے کہ آپؐنے باپ کو بیٹے سے اور بھائی کو بھائی سے الگ کر کے قوم کو پھاڑ دیاہے۔ اس کے علاوہ آپؐکے خلاف اور کوئی شکایت نہیں ہے۔ لہٰذا اعتماد ہی وہ اصل ذریعہ ہے جس کے حصول کے بعد ہی اپنی دعوت آگے بڑھائی جا سکتی ہے۔
اس کی ایک عمدہ مثال عیسائیوں کے وفد سے نبی کریم ؐکا مکالمہ ہے۔ وہ لوگ جس طرح آئے اور مسجد نبوی ؐکے اندر ٹھیرے، وہاں ان کو اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی سہولت دی گئی اور ان کی خاطر مدارات ہوئی‘ اور پھر یہ دعوت پیش کی گئی کہ آئو اس چیز کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان مشترک ہے۔(اٰل عمرٰن ۳:۶۴)
دعوت حق اگر پیش کی جائے تو بڑی مشکل سے کوئی آدمی ملے گا جو پوری کی پوری دعوت کا مخالف ہو‘ اور پوری کی پوری دعوت کو رد کرنے کے لیے تیار ہو۔ کوئی نہ کوئی دعوت کا پہلو ایسا ہو گا جو اس کے اور داعی کے درمیان مشترک ہو گا جیسا کہ نبی کریمؐاور آپؐ کے مخاطبین کے درمیان مشترک تھا۔ دعوت کے اس بنیادی اصول پربات کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
اگر آپ کبھی سیرت میں ان واقعات کا جائزہ لیں جو لوگوں کے قبولِ اسلام اور قبولِ دعوتِ حق کے سلسلے میں بیان ہوئے ہیں تو آپ دیکھیں گے وہ لوگ جنھوں نے قرآن سنا اوران کے دل کی دنیا بدل گئی‘ ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے ، جب کہ وہ لوگ جنھوں نے نبی کریمؐ کو قریب سے دیکھا‘ آپؐکی نرمی‘ شفقت اور محبت کا مزا چکھا اور جنھوں نے صرف آپؐکا چہرہ ہی دیکھا وہ اس دعوت کے گرویدہ ہوگئے۔ جس طرح لوہا مقناطیس سے چپک جاتا ہے، اسی طرح وہ آکر آپؐکی ذات سے، آپؐکی دعوت سے‘ آپؐکی جماعت سے چپک گئے اور ان کی تعداد کثیر ہے۔
ایک واقعے سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ ہم کچھ لوگ اونٹ لے کر مدینہ پہنچے اور ہمارا خیال تھا کہ ہم اونٹ فروخت کرکے کجھوریں خریدیں گے۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ کیسے آئے ہو؟ ہم نے اپنا مقصد بیان کیا۔ ہم آپؐکو پہنچانتے نہیں تھے کہ کون ہیں۔ انھوں نے کہا: اچھا‘ میں نے تمھارا اونٹ خرید لیا۔ اس کی جو قیمت طے ہوئی ہے وہ تمھیں مل جائے گی۔ آپؐنے اونٹ کی نکیل تھامی اور چل دیے۔
جب آپؐنگاہوں سے اوجھل ہوگئے تو ہم نے سوچا کہ یہ ہم نے کیا کیا۔ نہ ہم ا س آدمی کو جانتے ہیں‘ نہ اس کا نام پتا معلوم ہے کہ کہاں رہتا ہے، اور نہ قیمت ہی وصول کی‘ اور جو مال بیچا تھا وہ بھی لے گیا ہے۔ پتا نہیں ملے گا یا نہیں؟ ہمارے سردار کی بیوی جو کہ اونٹ کے ہودج میں بیٹھی تھی‘ اس نے کہا کہ جس آدمی نے اس اونٹ کو خریدا ہے‘ اس کا چہرہ اتنا روشن تھا کہ یہ کسی جھوٹے آدمی کاچہرہ نہیں ہو سکتا۔ میں اس کی ضمانت دیتی ہوں۔ یہ قیمت تم کو لازماً پہنچ کررہے گی۔
چند لمحات گزرے تھے کہ ایک آدمی آیا اور پوچھنے لگا کہ کیا تم لوگوں نے اپنا اونٹ فروخت کیا ہے؟ ہم نے کہا : ہاں‘ ہم نے فروخت کیا ہے۔ اس نے کہا کہ یہ لو وہ قیمت جو تم نے طے کی تھی‘ اور یہ مزید تمھاری میزبانی اور مہمان داری کے لیے۔ اس طریقے سے یہ معاملہ طے ہوا۔
اسی طرح ایک اور قبیلے سے ایک عورت آئی اور واپس جا کر کہا کہ لوگو! محمدؐکے پیچھے چلو‘ اس لیے کہ ایسا سخی آدمی میں نے نہیں دیکھا۔ آپؐدونوں ہاتھوں سے بھر بھرکر لوگوں کو دیتے ہیں اور ان کی خدمت کرتے ہیں۔
آپؐکی سخاوت‘ آپؐ کی شجاعت‘ آپؐکی نرمی‘ یہ وہ چیز تھی جو لوگوں کو اس دعوت کے ساتھ ‘ اس پیغام کے ساتھ چپکائے ہوئے تھی۔ قرآن مجید نے بھی اس بات کو یوں بیان کیا ہے:
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ ج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ص (اٰل عمرٰن۳:۱۵۹) (اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تُند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گرد وپیش سے چَھٹ جاتے۔
یہ بات اس بات کے اُوپر گواہ ہے کہ مجرد پیغام کی سچائی کثیر لوگوں کو کسی بھی دعوت کے گرد جمع نہیں کر سکتی۔ جب تک اس دعوت کو پیش کرنے والے اس کردار سے بھی آراستہ نہ ہوں‘ جو کردار اُن لوگوں کے لیے باعث کشش ہو اور نرمی و محبت کاپیغام لے کر آتا ہو۔
آپؐنے دو صحابہ کرامؓکو کسی قبیلے میں دعوت کے لیے بھیجا تو کہا: دیکھو‘ نفرت نہ پیدا کرنا۔ بات اس طرح مت کہنا کہ لوگ اپنے رب سے نفرت کرنے لگیں۔ بات اس طرح کہنا کہ آسانی اور سہولت ہو اور لوگ رغبت کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوں۔ یہ آپؐ کی رحمت اور شفقت تھی جس نے لوگوں کو آپؐکے چاروں طرف جمع کر دیا۔
اس دعوت میں مقابلہ‘ لڑائی‘ کش مکش اور جدوجہد بھی تھی۔ لیکن کش مکش اور جدوجہد منتقمانہ ذہنیت کے ساتھ یا بدلہ لینے کی ذہنیت اور فکر کے ساتھ نہیں تھی، بلکہ اس پوری جدو جہد میں ہر وقت یہی فکر غالب تھی کہ یہ لوگ نادان ہیں‘ یہ جانتے نہیں ہیں، جذبات سے مغلوب ہوچکے ہیں اور جاہلیت کے پنجے کے اندر پھنسے ہوئے ہیں۔یہ اگر آج آکر حق کے مقابلے پر کھڑے ہوئے ہیں‘ اس کی وجہ باطنی خباثت نہیں بلکہ دھوکے اور فریب کے اندر مبتلا ہوناہے۔ پھر ان کے لیے دعاگو بھی رہے کہ اے اللہ! انھیں ہدایت دے۔
طائف کے اندرآپؐ کو پتھر بھی مارے گئے‘ آپؐکاخون بہایا گیا، اس کے باوجود کہ آپؐلوگوں سے بدلہ لے سکتے تھے اور ان کو دو پہاڑوں کے درمیاں پیس سکتے تھے، پہاڑوں کا فرشتہ بھی حاضر تھا کہ آپؐحکم دیں تو اس بستی کو پیس کر رکھ دوں‘ لیکن آپؐنے فرمایا: نہیں، میں اس بات سے مایوس نہیں ہوں کہ ان کی نسل میں سے ایسے لوگ اٹھیں جو ہدایت کے راستے پر آئیں۔
غزوۂ اُحدمیں آپؐزخمی ہوگئے، آپؐکے دندان مبارک شہید ہوگئے۔ اس کے باوجود آپؐکی زبان مبارک پر یہ الفاظ نہیں تھے کہ لوگو! اُٹھو اور اس کا بدلہ لو‘ بلکہ یہ الفاظ تھے:رب اھد قومی فانھم لایھدون، اے اللہ! میری قوم کو صحیح راستے پر لگا، اس لیے کہ یہ جانتے نہیں ہیں۔ ان کی یہ روش اس وجہ ہے کہ اس سے واقف نہیں ہیں۔
اسوۂ دعوت کے ضمن میں یہ چند بنیادی باتیں ہیں۔اگر ان باتوں کو آج داعیِ حق سمجھ لیں کہ جو کام ہم نے اپنے ذمے لیا ہے اور ہر مسلمان کو اپنے ذمے لینا چاہیے‘ یہ اس لیے ہے کہ یہ ہمارا بنیادی فرض ہے۔ یہ دراصل کارِ رسالتؐ ہے۔ کوئی اور کام اپنی منزل پر پہنچے یا نہ پہنچے‘ یہ وہ کام ہے جس کو ہر صورت میں انجام دیا جانا چاہیے۔یہ بات ہم میں سے ہر ایک کو اپنے سامنے ہمیشہ رکھنی چاہیے کہ میرے گردو پیش جتنے لوگ ہیں ان کو صحیح راستے پر لانے کے لیے میں جواب دہ ہوں۔ پھر مجھے اس پوزیشن میں ہونا چاہیے کہ زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ، میں ان سے کھڑے ہو کر پوچھوں‘ خواہ اپنی بیوی بچوں سے پوچھنا پڑے یا اپنے محلے والوں سے‘ یا کھیتوں میں کام کرنے والوں سے پوچھنا پڑے یا فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں سے‘ یا اپنے کاروبار یا ملازمت میں ساتھ کام کرنے والوں سے پوچھنا پڑے کہ کیا میں نے تم تک حق کا پیغام پہنچا دیا ہے، تو لوگ کہیں کہ ہاں، پہنچا دیاہے۔ ماننا یا نہ ماننا یہ لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ان کا اپنا فعل اور اپنا امتحان ہے۔ ہم کتنا ہی چاہیں‘ چاہے اس کے لیے اپنی جان ہی گھلا ڈالیں:
اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ ج (القصص ۲۸:۵۶) اے نبیؐ!تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتے، مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتاہے۔
گویا یہ تمھارے ہاتھ میں نہیں کہ تم صرف اپنے چاہنے اور خواہش سے لوگوں کو صحیح راستے پر لگاسکو۔ لوگوں کا اپنا ارادہ اس کے اندر بنیادی چیز ہے۔ توفیق بھی چاہنے پر ملتی ہے:
اَللّٰہُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَـآئُ وَیَھْدِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ o (الشورٰی۴۲:۱۳) اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کر لیتا ہے، اور اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف رجو ع کرے۔
دنیا کے اندر نظامِ حق قائم ہو یا نہ ہو‘ یہ بھی ہماری ذمہ داری نہیں۔ نظام حق کے لیے کام کرنا ہم پرفرض ہے لیکن اس کو قائم کر دینا یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ خدا کے بے شمار انبیا تھے جو دنیا سے رخصت ہوگئے‘ کئی برس کی جدوجہد کے بعد رخصت ہوگئے‘ مگر ان کی قوموں نے ان کی بات مان کر نہیں دی۔ وہ اپنی آنکھوں سے اس نظام کو قائم ہوتا نہیں دیکھ سکے۔قرآن مجید نے خود فرمایا:
وَ اِنْ مَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْنَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُo ( الرعد ۱۳:۴۰)اور اے نبیؐ، جس بُرے انجام کی دھمکی ہم ان لوگوں کو دے رہے ہیں اس کا کوئی حصہ خواہ ہم تمھارے جیتے جی دکھا دیں یا اس کے ظہور میں آنے سے پہلے ہم تمھیں اٹھالیں، بہر حال تمھارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔
گویا حساب لینااللہ تعالیٰ کی ذمہ داری ہے اور پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ پہنچانے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جس طرح چاہا پہنچا دیا اور فرض ادا ہوگیا، بلکہ اس سے مراد حکمت اور خوب صورتی کے ساتھ، دل کو موہ لینے والے طریقوں اور پورے سوز و درد کے ساتھ پہنچانا ہے۔ یہ وہ بنیادی ذمہ داری ہے جس سے ہم بچ نہیں سکتے‘ جس کی جواب دہی ہم کوکرنا پڑے گی۔ ہرمسلمان کو یہ جواب دہی عام انسانوں تک دعوت پہنچانے کے حوالے سے کرنا پڑے گی۔ یہ جواب دہی اس حوالے سے بھی ہے کہ جو لوگ اس نعمت‘ اس ہدایت اور اس ذمہ داری سے واقف نہیںتھے، آیا ہم نے ان کے سامنے اس کو پیش کیا یا نہیں ۔
وَمَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ ج اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (الشعرآء ۲۶:۱۰۹) میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں۔ میرا اجر تو رب العالمین کے ذمے ہے۔
میں اپنی بات کو اس حدیث کے اُوپر ختم کروں گا جس میں نبی کریمؐنے فرمایا ہے کہ قیامت کے روز ایک آدمی بارگاہِ رب میں حاضر ہوگا اور اس سے اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ میں بھوکا تھا، تم نے مجھے کھانا کیوں نہیں دیا ؟وہ کہے گا کہ پروردگارتو سارے جہانوں کا رب ہے تو بھلا کہاں بھوکا ہوتا اور تجھ کو کھانا کیسے دیتا؟ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرا فلاں بندہ بھوکا تھا اور تو نے اس کو کھانا نہیں دیا۔ اسی طریقے سے وہ اس سے بیمار اور پیاسے کے بارے میں سوال کرے گا۔ احادیث میں مختلف چیزیں مختلف روایات میں بیان ہوئی ہیں۔ لیکن وہ تمام انسانوں کی مادی ضروریات ہیں‘ یعنی کھانا، پانی، لباس، دوا کہ جن پر اس کی دنیا کی فلاح اور بھلائی کا انحصار ہے۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جہاں اللہ کے بندوں کی یہ ساری ضروریات پوری کرنے کے بارے میں سوال کیا جائے گا‘ تو کیا وہاں یہ سوال نہیں ہو گا کہ میرا فلاں بندہ گمراہ ہو کر جہنم کی راہ پر جارہا تھا اور تم نے اس کو کیوں نہیں بچایا؟ یہ سوال اگر کیا جائے گا تو اس سوال کا جواب ہمارے پاس تیار ہونا چاہیے۔
وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًاo اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلَا شُکُوْرًاo (الدھر۷۶:۸-۹) اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں(اور اُن سے کہتے ہیں کہ )، ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں‘ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔
اگر دعوت پر خلوص ہو اوراس کے پیچھے یہ روح اور جذبہ کارفرما ہو ،اس کی ہر وقت اورہر دم لگن ہو، اس کے ساتھ اپنے بھائی کے لیے سوز اور تڑپ ہو اور اس کا دکھ درد بانٹنے کی کوشش ہو، اور پھر یہ سب کسی اجر یا صلے کے لیے نہ ہو بلکہ اس لیے ہو کہ اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہو اورہماری اس کے سامنے حجت قائم ہو جائے۔ اس کیفیت اور جذبے کے ساتھ‘ اس پیغام کو لے کر اگر آپ ذمہ داری کے ساتھ‘ اپنے گائوں‘ محلے‘ تحصیل اور ضلع میں کھڑے ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ چند برسوں کے اندر اندر یہ پیغام عام نہ ہو، اور انسانوں کی کثیر آبادی کم سے کم اس سے واقف نہ ہوجائے۔ ماننا یا نہ ماننا اور دلوں کا موڑنا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)
روزمرہ زندگی میں انسان کو جو بھی رکاوٹیں پیش آسکتی ہیں ان کو ہم بنیادی طورپر دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک مادی رکاوٹیں‘ اور دوسری نفسیاتی رکاوٹیں ۔
مادی رکاوٹوں کے کئی پہلو ہیں۔ کوئی مشکل پڑ جائے‘ کوئی نقصان ہوجائے‘ کوئی بڑی خواہش پوری نہ ہو‘ اور کوئی لالچ بھی ہو سکتاہے۔ جب ہم رکاوٹ کا لفظ بولتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں کسی قسم کی مزاحمت ہوگی۔ کوئی بھی شے اپنی طرف کھینچ سکتی ہے۔ کسی بھی چیز کی کشش ہو سکتی ہے۔ یہ وہ مادی رکاوٹیں ہیں جن کا تعلق آدمی کے جسم وجان اور مال سے ہے۔
دوسری قسم کی رکاوٹیں نفسیاتی ہیں۔ ان کی جڑ آدمی کے اپنے اندر‘ اس کے نفس کے اندر اور اس کے دل و دماغ کے اندر ہوتی ہے۔ یہاں جو چیزیں اٹھتی ہیں وہ اس کو راستے سے ہٹاتی ہیں۔ اس کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں‘ اس کو ترغیب دیتی ہیں‘ اس کے اندر خواہشات پیداکرتی ہیں اور وسوسہ ڈالتی ہیں۔ یہ رکاوٹیں اس طرح کی ہوسکتی ہیں کہ: ایسا کرو گے تو یہ ہوجائے گا‘ جیب سے پیسہ نکالو گے تو تمھارے پاس کچھ نہیں بچے گا اور تم فقیر اور نادار ہو جائو گے‘ لہٰذا جیب مت کھولو۔ یہ سارے وسوسے جو اندر سے پیدا ہوتے ہیں‘ یہ نفسیاتی رکاوٹیں ہیں۔
اگر غور کیا جائے تو فی الواقع اصل چیز وہی ہے جو آدمی کے اندر پیدا ہوتی ہے‘ لہٰذا اصل رکاوٹیں نفسیاتی رکاوٹیں ہیں۔ مادی مصائب‘ مادی ترغیبات اور مادی رکاوٹوں کی بھی اصل جڑ آدمی کے نفس کے اندر ہوتی ہے۔ اگر کسی کوڈھیر سامال مل جائے‘ اس کی نظر میں اس مال کی قیمت پتھر کے چند ریزوں سے زیادہ نہیں ہوگی‘ اگر اس کا نقطۂ نظر صحیح ہو۔ اگر اس کو موت کے منہ میں جانا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ موت نہیں ہے بلکہ یہ تو جنت او راللہ تعالیٰ سے ملاقات کا نام ہے‘ تو موت کا خوف اس کے دل میں نہ رہے گا۔ بڑی سے بڑی چوٹ آدمی کو لگتی ہے مگر اپنے اندر کے حوصلے سے‘ اپنے اندر کی نفسیاتی کیفیات سے وہ اسے سہار جاتاہے۔ دوسری طرف ذرا سی مصیبت پڑتی ہے تو آدمی ہمت ہار دیتاہے اوررونا دھونا شروع کردیتاہے۔ اس کا تعلق مصیبت کی مقدار یا آزمایش کی نوعیت سے نہیں ہے کہ آدمی کو کس چیزکا مقابلہ کرنا ہے بلکہ اس کا تعلق اس کے ذہن سے ہے۔ دراصل طاقت کا سرچشمہ انسانی ذہن کے اندر پوشیدہ ہے۔
یہ انسانی سوچ اور جذبہ یا نفسیاتی کیفیت ہی ہے جو اسے دلیر‘ نڈر اور بے باک بنا دیتی ہے‘ یا خوف اور ڈر سے پست ہمت یا بزدل۔ ایک کیفیت کے تحت وہ بڑا طاقت ور بن جاتا ہے۔ ایک ایک سپاہی سو سو سپاہیوں کے مقابلے میں ڈٹ جاتا ہے‘ اگرچہ مادی و عسکری لحاظ سے وہ مقابلتاً کمزور ہوتاہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس کے پاس زیادہ مادی طاقت ہے بلکہ اس کی نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے جو اسے نڈر اور بے باک بنادیتی ہے۔ دوسری طرف یہ احساس کہ ہمارے اوپر مصیبت پڑسکتی ہے‘ یہ ایک دوسری نفسیاتی کیفیت ہے جو ایک فرد کی طاقت کو ختم کرکے رکھ دیتی ہے۔ وہ بہت سے وسائل رکھنے کے باوجود اور بہت کچھ کرگزرنے کی صلاحیت کا متحمل ہونے کے باوجود‘ حوصلہ و ہمت ہار دیتاہے اور عملاً ناکامی وشکست سے دو چار ہوکر رہتاہے۔
اگر غور کریں تو ہم ان تمام نفسیاتی کیفیات کا دو حوالوں سے جائزہ لے سکتے ہیں: ایک خوف اور دوسرا حزن۔
خوف کے معنی ہیں ڈر یا اندیشہ کہ کچھ ہو جائے گا‘ جو ملنے والا ہے وہ نہیں ملے گا‘ یا کوئی ایسی چیز مل جائے گی جو ناخوش گوار اور ناقابل برداشت ہو گی اور نقصان کا باعث ہوگی۔
حزن سے مراد اس بات کا غم کہ کچھ چھن گیا یا نقصان ہو گیا‘ کوئی ضرب پڑگئی‘ کوئی چیز ملنا چاہیے تھی نہ ملی اور جو چیز نہ ملنا چاہیے تھی وہ مل گئی۔ غم کی اس کیفیت کو حزن وملال کہا جاتاہے۔
دراصل نفس کے اندر کی یہ وہ کیفیات ہیں جن سے اصل رکاوٹیں پیداہوتی ہیں۔ اگر آدمی خوف اور اندیشوں پر پہلے سے قابو نہ پائے تو جن چیزوں کا خوف و اندیشہ اس کو لاحق رہتاہے وہ اس پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ خدشات کہ اگر میں نے ایسا کیا تو یہ ہوجائے گا‘ ایک چیز جو ہاتھ لگنے والی ہے اگر ہاتھ نہ لگی تو یہ بڑا نقصان ہو جائے گا‘ میری عزت کو‘ میری دولت کو‘ معاشرے میں میرے مقام ومرتبے کونقصان پہنچ سکتاہے ‘ سیاسی‘ مادی‘ مالی یا جو کچھ بھی حیثیت ہے‘ ہاتھ سے نکل جائے گی ___یہ خوف وخدشات جب آدمی کے اوپر طاری ہوتے ہیں‘ تو پھر بالآخر وہ ان کے ڈر سے ہتھیار ڈال دیتاہے۔
دوسرا پہلو غم اور حزن کا ہے‘ یعنی یہ کہ جو چیز حاصل تھی وہ ہاتھ سے نکل گئی‘ کوئی مرگیا یا مال کا نقصان ہوگیا‘ یاکسی نے عزت کے اوپر حملہ کردیا‘ گالی دے دی وغیرہ۔ جب کوئی نقصان ہوجاتاہے یا عزت تک ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو آدمی کو اس کا غم ہوتاہے۔ غم ہو تو پھر غصہ بھی آتاہے۔ غم وغصہ کا لفظ تو ہماری زبان میں‘ اردو ادب میں استعمال ہوتاہے۔ جہاں غم پیدا ہوتا ہے وہاں غصہ بھی لازماً آتاہے‘ کہ یہ چیز کیوں ہمارے ہاتھ سے نکل گئی‘ میری عزت پہ یہ حملہ کیوں ہو گیا‘ جو چیز مجھے ملنے والی تھی وہ کیوں کوئی چھین کے لے گیا۔ اس طرح ایک طرف تو غم ہوتاہے جو غصے کے اندر تبدیل ہو جاتاہے‘ اور پھر غصہ بالآخر اشتعال دلاتاہے اور اس اقدام پر مجبور کرتاہے جو صبر کے منافی ہو۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں نیک بندوں کا ذکر کیا گیا ہے وہاں ان کی اس صفت کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ نہ خوف اور اندیشے کا شکار ہوں گے اور نہ کسی غم کے اندر مبتلا ہوں گے۔ جنت کے بارے میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ فَلا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنَوْنَo (البقرۃ ۲:۳۸)‘ یعنی جنت کی زندگی کی بھی یہی خصوصیت ہے کہ وہاں نہ مستقبل کا اندیشہ ہو گا اور نہ کسی چیز کے چھننے کا خدشہ ہوگا۔ کوئی مصیبت پڑنے کا خوف بھی دل کے اوپر طاری نہیں ہوگا‘ اور نہ کوئی چیز ہاتھ سے نکل جانے کا غم وغصہ ہو گا بلکہ اطمینان ہوگا کہ صحیح زندگی گزار آئے اور صلہ پالیا۔ کوئی حسرت نہیں ہوگی کہ یہ کام کیوں نہیں کیا او راگر یہ کرتے تو یہ پیش نہ آتا۔ اگر غور کیا جائے تو دراصل یہی دو چیزیں ہیں جو صبر کے سرچشمے کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہیں‘ اور صبر کے راستے میں جو چیزیں رکاوٹ بنتی ہیں ان کا اظہار بھی انھی دو باتوں سے ہوتاہے‘ یعنی خوف اور حزن۔
اگر اس بات کو مزیدواضح کیا جائے تو یہ بات بھی سامنے آئے گی کہ جو نفسیاتی کیفیات انسان کے اوپر طاری ہوتی ہیں‘ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی طاری ہوا کرتی تھیں۔ یہ مسلمانوں کے اُوپر بھی طاری ہوا کرتی تھیں۔ ان کیفیات کو قرآن مجید نے کھول کر بیان کردیا ہے کہ اگر ہم ان میں سے ایک ایک چیز کو دیکھیں تو اس کے اندر ہمارے لیے سبق اور نصیحت کا بہت بڑا خزانہ پوشیدہ ہے۔ میں جسمانی و مادی مصائب کا ذکر نہیں کر رہا‘ یعنی جو مار پیٹ ہوئی‘ جو جانیں دینا پڑیں‘ جو محنت کرناپڑی‘ اور جان و مال کا جو نقصان ہوا‘ اس لیے کہ اس کی جڑ بھی نفسیاتی رکاوٹوں کے اندر ہے۔ دراصل آدمی اپنے اندر سے اٹھے والی کیفیات اور جذبات کا شکار ہو جاتاہے۔ نبی کریمؐجو دعوت لے کر آئے‘ جو پیغام آپؐنے اپنی قوم کے سامنے پیش کیا‘ یہ دعوت او ریہ پیغام آپؐ کے لیے اتنا کھلا‘ واضح اور روشن تھا کہ جیسے عام آدمی کے لیے دن میں آسمان پر چمکتا ہوا سورج ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ‘ آخرت‘ اور جنت و دوزخ‘ یہ ساری چیزیں ہماری نظروں سے محو ہیں لیکن نبیؐ کے لیے یہ ساری چیزیں غیب سے تعلق نہیں رکھتی تھیں۔
نبی کو تو اللہ تعالیٰ براہ راست علم دیتاہے۔ جس طرح دن کی روشنی میں ایک عام آدمی دیکھ سکتاہے کہ سورج نکلاہوا ہے اور یہ اس کے لیے ایک کھلی حقیقت ہوتی ہے‘ یہی کیفیت نبی کی اللہ اور آخرت کے بارے میں ہوتی ہے۔ اب اگر آدمی دن کے اجالے میں کھڑا ہو کریہ کہے کہ لوگو‘ سورج نکلا ہوا ہے لیکن لوگ اس کھلی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیں‘ اس کے برعکس اس کو ملامت کریں‘ طعنے دیں کہ تم اندھے ہوگئے ہو‘ تم پر جادو کر دیا گیا ہے‘ تم شاعری کر رہے ہو‘ تم پر جنون ہوگیا ہے‘ اسی لیے تمھیں رات کے وقت سورج نظر آرہا ہے‘ یا سورج نہیں نکلا ہوا اور تم کہہ رہے ہو کہ نکلا ہوا ہے۔ کسی نے تم کو چکمہ دے دیا ہے‘ یا باہر سے کوئی چیز تمھارے اوپر آگئی ہے‘ کوئی تمھارا استاد ہے جو تمھیں باتیں گھڑ گھڑ کر دیتا ہے وغیرہ۔ گویا نبی جو چیز اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے‘ دنیا اس کو جھٹلانے پر تلی ہوئی ہے۔ اس موقع پر انسان جن کیفیات سے دو چار ہوتاہے‘ یا گزرتاہے وہ نفسیاتی کیفیات کہلاتی ہیں۔
ایک نبی بھی اس نفسیاتی کیفیت سے دوچار ہوتاہے۔نبی کے لیے سب سے پہلی آزمایش یہی ہوتی ہے کہ جس حق کی دعوت لے کر وہ اٹھا ہے اس کو جھٹلایا جائے۔ یہ جھٹلانا معمولی جھٹلانا نہیںہوتا۔ جو آدمی جانتا ہو کہ یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں سچی اوربر حق ہے‘ مگر اسے جھٹلایا جاتاہے او رکہا جاتاہے کہ تم بے وقوف ہو‘ تم جھوٹے ہو‘ تم کو دھوکا ہوگیا ہے‘ تم پر کسی نے جادوکردیا ہے‘ اس وقت جو کیفیت ہوتی ہے وہ شدید غم اور حزن کی کیفیت ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا غم ہوتا تھا کہ لوگ سچی بات کیوں نہیں مانتے‘ اور نہ صرف یہ کہ کھلی حقیقت کو جھٹلاتے ہیں بلکہ مذاق بھی اڑاتے ہیں اور طرح طرح سے اذیتیں پہنچاتے ہیں۔قرآن مجید نے اس کیفیت کو اس طرح بیان کیا ہے : لَا یَحْزُنْکَ قَوْلُھُمْ (یونس ۱۰:۶۵)’’ اے نبیؐ، جو باتیں یہ لوگ تجھ پر بناتے ہیں وہ تجھے رنجیدہ نہ کریں‘‘۔
قرآن مجید میں کئی جگہ کہا گیا ہے: وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ (المزمل ۷۳:۱۰) ’’جوکچھ لوگ کہتے ہیں اس پر صبر کرو‘‘۔ اس لیے کہ سب سے بڑا فتنہ اور آزمایش تو لوگوں کی باتیں ہی ہوتی ہیں۔ یہ باتیں جو لوگوں کی زبان سے نکلتی ہیں‘ خواہ لوگ کان میں آکر کہیں‘ مجلس میں بیٹھ کر کہیں‘ کتابوں میں لکھ کر چھپوائیں یا اخبار میں شائع کریں‘ یہ بڑی سخت آزمایش ہوتی ہے۔ کوڑے کی مار‘ پتھرکی چوٹ اور ریت پر گھسیٹا جانا شاید اتنی سخت آزمایش نہ ہوتی ہوگی جتنی سخت آزمایش طنز‘ طعن و تشنیع اور مذاق و استہزا سے ہوتی ہے۔ یہ اندرونی چوٹ زخم کاری کی مانند ہوتی ہے۔ اس کی زد آدمی کی عزت نفس‘ اس کی سچائی‘ اس کے کردار اور مقام ومرتبے پر بھی پڑتی ہے۔یہ جسمانی چوٹ سے زیادہ گہری چوٹ ہوتی ہے ۔ اسی پر قرآن نے کہا:
وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ (المزمل ۷۳:۱۰) جوکچھ لوگ کہتے ہیں اس پر صبر کرو۔
اس غم اور حزن کو برداشت کرنا صبر ہے۔ اس سے آدمی مایوس بھی ہوتاہے۔ اس مایوسی کا ذکر قرآن مجید میں بھی کیا گیا ہے۔ جو آدمی بات نہ مانے‘ بار بار کہنے کے باوجود نہ مانے‘ ہر قسم کی دلیل سننے کے باوجود بھی نہ مانے‘ نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی تسلیم نہ کرے‘ او رپھر پہلی قوموں کا بھی ذکر ہوا ہے کہ برسوں دعوت کا کام ہو الیکن ان لوگوں نے مان کے نہیں دیا‘ تو پھر آدمی کے اوپر مایوسی طاری ہوتی ہے۔ مایوسی اندورنی کیفیت ہے اور غم کے نتیجے میں ظاہر ہوتی ہے اور آدمی کے اوپر طاری ہوجاتی ہے۔ جب لوگ نہیں مانتے اور سچی بات کو جھٹلاتے ہیں تو آدمی کو اس سے دکھ ہوتا ہے جو مایوسی کا باعث بنتاہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حزن کا لفظ کئی جگہ استعمال کیا ہے۔ اسی حزن سے مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ مایوسی کا قرآن پاک نے بار بار علاج کیا اور اس کے لیے مختلف طرح سے تسلی دی اور حوصلہ دیا کہ اگر یہ لوگ نہیں مانتے ہیں تو یہ ان کی اپنی غلطی اور اپنا قصور ہے۔ آپؐ کا کام تو بس اتنا ہے کہ آپؐ لو گوں تک خدا کا پیغام پہنچا دیں۔ زبردستی منوانا آپؐ کا کام نہیں ہے۔ ہم نے آپؐ کو داروغہ بنا کر نہیں بھیجا ہے اورنہ ان کے سرپر مسلط کیا ہے۔ ماننا یا نہ ماننا‘ ان کا اپنا اختیار ہے۔ آپ ؐ ان کے سامنے حق پیش کرتے رہیں‘ جو قبول کرے گا وہ اپنی آزاد مرضی سے قبول کرے گا اور جو انکار کرے گا وہ اپنی آزاد مرضی سے انکار کرے گا۔ ان کا فیصلہ ہم نے آپ ؐ کے ہاتھ میں نہیں دیا ہے۔ اگر انھیں زبردستی مسلمان بنانا ہوتا تو کیا اللہ تعالیٰ کے پاس خود کم طاقت تھی۔ وہ یہ سب کام کیوں کرتا کہ نبیؐ کو بھیجتا‘ دعوت کا کام کرواتا‘ کتاب اتارتا‘ اس کے لیے تو وہ ایک کلمہ کن کہتا اور سارے لوگ ایک ہی راستے پر آجاتے: وَلَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً (ھود۱۱:۱۱۸)’’ بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا‘‘۔سب اس کی بندگی کرتے‘ سب فرشتوں کی طرح ہو جاتے۔ لیکن فرشتے تو پہلے سے موجود تھے۔ انسان کو تو اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ اس کے اختیار کے استعمال کی آزمایش ہو۔ وہ اپنے ارادے سے اور اپنے فیصلے سے راہ حق پر آئے۔ اس کے لازمی معنی ہیں کہ جو آدمی چاہے گا مانے گا اور جونہیں چاہے گا نہیں مانے گا۔ لہٰذا تمھیں مایوسی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس طرح قرآن مجید نے اس حقیقت کو باور کیا کہ اگر ایک داعی اس بات کو بخوبی جانتا ہو کہ اس کا کام تو احسن انداز میں لوگوں تک پہنچانا ہے اور اس کا ماننا نہ ماننا‘ قبول کرنا یا رد کرنا‘ لوگوں کا اپنا اختیار ہے‘ اور وہ اس بات کا مکلف نہیں کہ لازماً لوگ حق بات کو تسلیم کریں‘ تو پھر مایوسی کی کوئی وجہ نہیں رہتی۔
ایک کیفیت آدمی پر یہ طاری ہوتی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ معاملہ جلدی سے نپٹ جائے‘ جب کہ یہ جدو جہد ایک طویل جدوجہد ہے۔ یہ تو یقین ہوتا ہے کہ اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا اور اس کا دین غالب آئے گا۔ یہ اللہ کا اپنے رسولؐ سے بالکل حتمی و یقینی وعدہ ہے کہ تمھارا کام ضرور مکمل ہو کر رہے گا‘ خواہ یہ تمھاری زندگی میں ہو یا موت کے بعد۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ اس دین کو ضرور غالب کرکے رہے گا۔ یہی وعدہ نبی کریمؐکے ساتھ تھا اور آپؐکی جانشین اُمت‘ مسلمانوں سے بھی ہے‘ لیکن آدمی کی طبیعت میں عجلت پسندی ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ ہر کام جلد سے جلد ہوجائے۔ کافروں کے بارے میں عذاب کی جو دھمکی ہے وہ بھی ذرا جلد آجائے‘ اور جس منزل کا وعدہ ہے کہ دین غالب ہوگا‘ وہ بھی جلدسر ہو جائے۔ بسا اوقات نبی کریمؐ بھی پریشان ہو کر اس طرح سوچنے لگتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جلدی مت کرو۔ فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ (القلم ۶۸:۴۸) ’’اپنے رب کا فیصلہ صادر ہونے تک صبر کرو او رمچھلی والے کی طرح نہ ہو جائو۔ ‘‘ یہاں حضرت یونسؑ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب ان کی قوم نے برسوں دعوت کے کام کے بعد مان کے نہیں دیا‘ تو وہ مایوس ہوگئے اور اسی جلد بازی کی وجہ سے بستی چھوڑ کر چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کی طرح نہ ہوجائو بلکہ اولوالعزم پیغمبروں کی طرح صبر کے ساتھ دعوت کا کام کیے چلے جائو۔ فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّھُمْ (الاحقاف۴۶:۳۵) ’’پس اے نبیؐ ، صبر کرو جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر کیاہے‘ اور ان کے معاملے میں جلدی نہ کرو‘‘۔
جلد بازی صبر کے منافی ہے۔ جلد بازی مایوسی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ حزن سے مایوسی پیدا ہوتی ہے اور پھر مایوسی سے جلد بازی ۔اگر آدمی کو امید بندھی رہے کہ میرا کام ہو جائے گا اور ہو کر رہے گا اور اس کاوقت مقرر ہے تو پھر وہ اتنی جلد بازی نہیں کرے گا۔ جلد بازی آدمی تب کرتا ہے جب اس کو خود پر یقین نہ ہواورمایوسی ہو۔ پھر یہ خیال آتا ہے کہ یہ کام اس طرح تو نہیں ہوگا‘ کچھ اور کرنا چاہیے یاکوئی اور راہ نکالنی چاہیے۔ اسی کے نتیجے میں عجلت پسندی یا جلد بازی پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: فَلاَ تَسْتَعْجِلُوْہُ ط (النحل ۱۶:۱) ’’ ان کے بارے میں جلد بازی نہ کرو‘‘۔ اس لیے کہ ہم نے معاملات کو اپنے ہاتھ میںرکھا ہے‘ تمھارے ہاتھ میں نہیں دیا۔
اسی حزن و غم کے نتیجے میں جو اگلی کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ یہ کہ وہ وعدے بھی مشکوک نظر آنے لگتے ہیںجو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے کیے ہیں۔ اللہ کے نبی تو اس کیفیت میں مبتلا نہیں ہو سکتے‘ لیکن یہ ضرور پکار اٹھتے ہیں: مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ (البقرۃ ۲:۲۱۴) ’’ اللہ کی مدد کب آئے گی‘‘؟ ان کو شک تو نہیں ہوتا لیکن اس بارے میں شبہہ ہو نے لگتا ہے کہ کبھی ہم منزل پر پہنچ بھی پائیں گے یا نہیں۔ اس بارے میں ہدایت یہ ہے فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ (الروم۳۰:۲۰)‘یعنی صبر کرو‘ راہ خدا پر جمے رہو‘ او راللہ نے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا ہو کر رہے گا۔ اس کا وعدہ باکل سچا ہے۔
انسان کے لیے آخری خطرہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی راہ کو چھوڑ کر دوسری راہ پر چلا جائے‘اور مخالفین کے ساتھ ملنے کی کوشش کرے کہ وہ چھائے ہوئے ہیں‘ غالب ہیں‘ اور انھی کا سکہ چل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو نبیؐ کے بارے میں یہ خدشہ تو نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ ایسا کریں گے‘ مگر نبیؐ کومخاطب کرکے نبیؐ کے ماننے والوں کو ہدایت دینا مقصود ہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے فرمایا: فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تُطِعْ مِنْھُمْ اٰثِماً اَوْ کَفُوْرًا o (الدھر۷۶:۲۴) ’’تم اپنے رب کے حکم پر صبر کرو‘ اور ان میں سے کسی بدعمل یا منکرحق کی بات نہ مانو‘‘۔ گویا اللہ کے فیصلے کا انتظار کرو اور اس کے لیے صبر کرو۔ یہاں انتظار کا لفظ استعمال نہیں ہوا‘ میں نے ترجمہ کیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ صبر کرو یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے۔ اس کام میں لگے رہو اور جو غلط کاروں کا گروہ ہے‘ ان کے ساتھ ملنے کا مت سوچو۔ یہ کسی بے صبری کا نتیجہ ہو سکتا ہے اور اس طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے کہ یہ چیز صبر کے منافی ہے۔
اگر غور کیا جائے تو یہ سب نفسیاتی کیفیات حزن سے پیدا ہو رہی ہیں۔ ایک چیز جو ہم چاہتے ہیں کہ وہ نہ ہو‘ مگر ہو جاتی ہے تو ہمیں اس کاغم ہوتاہے۔ اسی طرح جو چیز ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہو جائے اور نہ ہو تو ہمیں اس کا غم ہوتاہے۔ اس غم سے مایوسی‘ کم حوصلگی اورپست ہمتی اور بہت ساری کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ جلد بازی اور بے یقینی کی ساری کیفیات بھی اسی سے پیدا ہوتی ہیں۔ ہر ایک کے علاج کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے ‘ کہ اِصْبِرُوْا‘ اِصْبِرُوْا ، یعنی صبرکرو اور اپنے کام پر جمے رہو اور صبر سے مدد چاہو‘ اپنے آپ کو اس سے باندھ کر رکھو‘ اپنے آپ کو ایک مقام پر روکے رکھو۔ اس لیے کہ یہی ان چیزوں کا علاج ہے۔
دوسری کیفیت خوف کی ہے۔ اس بات کا خوف کہ کل نہ جانے کیا ہو جائے۔ اسی طرح جان کا خوف ہوتاہے‘ مال کے ضائع ہونے کا خوف ہوتاہے‘ اور دنیا کے اندر جو عزت اوروقار ہے اس کے چھن جانے کا خوف بھی ہو سکتاہے۔ یہ تمام خوف اور اندیشے انسان کے اوپر حاوی ہیں۔ زندگی آدھی تو حسرت کی نذر ہو جاتی ہے کہ کیا نہیں ہو سکا‘ اور آدھی خوف کی نذر ہوجاتی ہے کہ نہ جانے کیا ہو جائے گا۔ اس کا علاج بھی صبر ہے۔ چناں چہ جہاں اللہ تعالیٰ نے ابتلا و آزمایش کا ذکر کیا‘ وہاں سب سے پہلے خوف کا ذکر کیا ہے۔ وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیئٍ مِّنَ الْخَوْفِ (البقرۃ ۲:۱۵۵)۔ اسی طرح دشمن کے حملہ آور ہو جانے اور مسلط ہو جانے کا خوف ہوتاہے۔ دیگر ہزاروں اندیشے اور خطرات ہوتے ہیں جو آدمی پر طاری ہوتے ہیں۔ وہ لرزتا ہے‘ کانپتاہے اور ڈرتا رہتاہے کہ پتا نہیں کیا ہو جائے‘ رشتہ دار ساتھ چھوڑ دیں گے‘ دوست ساتھ نہ دیں گے‘ اور پتا نہیں کیا کیا نقصان ہو جائے۔ فرمایا کہ اس خوف سے ہم آزمائیں گے۔ اس خوف کا علاج بھی صبر ہے۔ خوف کے مقابلے میں جمے رہنا اور پیچھے نہ ہٹنا بھی صبر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے دین کے راستے پر جمنے اور ہر طرح کی قربانی دینے کی بھی ہدایت کی ہے۔ حضرت اسماعیل ؑ کو باپ کے ذریعے حکم ملا کہ تمھاری جان مطلوب ہے تو انھوں نے کہا کہ میں حاضر ہوں۔ قَالَ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ (الصّٰفّٰت ۳۷:۱۰۲) ’’اس نے کہا ‘ ابا جان ، جو کچھ آپ کو حکم دیاجار ہا ہے اسے کرڈالیے‘ آپ ان شا ء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘۔ یہ صبر عام قسم کا نہیں تھا بلکہ بڑے عزم اور حوصلے کا صبر تھا کہ میری جان حاضر ہے۔ اس کے لیے تیار ہوں۔ یہ اللہ پر توکل تھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے دین کے دوسرے احکام نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ‘ حج اور جہاد سب کے ساتھ صبر کا ذکر کیا ہے۔ کیوں کہ صبر کے بغیر اللہ تعالیٰ کے کسی حکم پر عمل نہیں ہو سکتا۔
دعوت کی راہ میں بہت سی مخالفتوں سے سابقہ پڑتاہے۔ جو چیزیں سہی اور برداشت کی جاتی ہیں‘ ان پر آدمی کو صدمہ اور غم ہوتاہے۔ اس میں مخالفین کے ساتھ روش کے حوالے سے بھی صبرکی تاکید ہے۔ صبر کے کچھ ایسے پہلو ہیں جو عموماً نگاہوں سے محو ہو جاتے ہیں۔ یہ کہا گیا ہے کہ اگر تم پر کوئی سختی کرے‘ کوئی نقصان پہنچائے‘ تو تمھیں بھی اس کی اجازت ہے کہ جتنا اور جس طرح تم کو نقصان پہنچایا گیاہے‘ تم بھی اس کو پہنچائو لیکن اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا:
وَلَئِنْ صَبَرْ تُمْ لَھُوَ خَیْرٌّ لِّلصّٰبِرِیْنَ o (النحل۱۶:۱۲۶)
لیکن اگر تم صبرکرو تو یقینا یہ صبر کرنے والوں ہی کے حق میں بہترہے۔
وَلَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ o (الشورٰی ۴۲:۴۳)
البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور در گزر کرے، تویہ بڑی اولوالعزمی کے کاموں میں سے ہے۔
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَالضَّرَّآئِ وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ط (اٰل عمرٰن۳:۱۳۴) جو ہرحال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بد حال ہوں یا خوش حال‘ جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں۔
خرچ کرنے کے لیے بھی حوصلے اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک پہلو ہے۔ پھر اس سے آگے بڑھ کر یہ خوبیاں ہیں کہ برائی کو بھلائی سے دفع کرو۔ برائی کا جواب بھلائی سے دو۔ ایک جگہ ان لوگوں کا جو اللہ کی جنت میں جائیں گے یوں ذکر کیا : وَالَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآئَ وَجْہِ ربِّھِمْ وَ اَقَامُوالصَّلٰوۃَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزقْنٰھُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً وََّیَدْرَئُ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ (الرعد۱۳:۲۲) ’’ان کا حال یہ ہوتاہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں‘‘۔ ایک دوسری جگہ فرمایا: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَ بَیْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌo وَمَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا ج وَمَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا ذُوحَظٍّ عَظِیْمٍo (حٓم السجدۃ ۴۱:۳۴-۳۵) ’’نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں‘ اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں‘‘۔گویا اخلاق کے اعلیٰ مقام تک وہی پہنچتے ہیں جو برائی کا جواب بھی بھلائی سے دیتے ہیں۔ برائی کو تو وہی چیز مٹاسکتی ہے جو بھلی اور اچھی ہو۔
یہ وہ مختلف نفسیاتی کیفیات ہیں جو صبر کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس کے بعد پھر جسمانی مصائب اور جسمانی تکالیف ہیں۔ اگر اس حوالے سے بھی آدمی کا تصور واضح ہو تو وہ ہر طرح کے ظلم و جبر کو برداشت کرسکتاہے‘ حتیٰ کہ جان بھی دینا پڑے تو بے خوف جان دے گا۔ جب یہ بات واضح ہے کہ موت کا وقت مقرر ہے‘ لہٰذا موت کوئی ڈرنے کی چیز نہیں ہے۔ اس چیز سے کیا ڈرنا جس کا نہ تو وقت معلوم ہو‘ نہ جسے روکا جا سکتا ہو‘ نہ اس سے بچا جا سکتاہو‘ نہ اس کو ٹالا جا سکتاہو اور نہ اس سے چھپ کر کہیں جایا جا سکتا ہو‘ اور نہ ایک گھڑی آگے کی جاسکتی ہو اور نہ پیچھے۔ بہت بے وقوفی ہے کہ آدمی اس سے ڈرے۔ ڈرنا تو اس چیز سے چاہیے کہ جو اس کے بعد پیش آنے والی ہے‘ جسے ٹالا جاسکتا ہے‘ جس سے بچا جا سکتاہے اور کچھ کرکے اس پر قابو پایا جا سکتاہے‘ یعنی آخرت۔ لہٰذا جس کو یہ معلوم ہو کہ موت کا وقت مقرر ہے تو پھر اس کو کبھی بھی موت کا خوف لاحق نہیں ہو سکتا۔
حضرت علیؓ کا مشہور قول ہے کہ دد دن ایسے ہیں کہ جب میں موت سے نہیں ڈرتا۔ ایک دن تو وہ ہے کہ جس روز موت کو نہیں آنا۔ اس دن موت سے ڈرنے کی کیا ضرورت‘ اس لیے کہ اس روز تو اس کو نہیں آنا۔ دوسرا دن وہ ہے جس دن موت کو آنا ہے۔ اس دن بھی موت سے کیا ڈرنا کہ اس دن ڈرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ انھوں نے بڑے خوب صورت انداز میں یہ بات کہی ہے کہ یا تو آج کے دن موت کو آنا ہے‘ یا آج کے دن موت کو نہیں آنا۔ اگر آج کے دن موت کو آنا ہے تو ٹل نہیں سکتی‘ لہٰذا ڈرنے سے کچھ حاصل نہیں۔ اگرموت کو اس روز نہیں آنا تو خواہ مخواہ آدمی کیوں ڈرے‘ ۔ یہ تصور موت سے بے خوف کردیتاہے اور آدمی کے اندر صبروہمت پیدا کردیتاہے۔ پھر وہ عزم اور حوصلے کے ساتھ جما رہتاہے۔
صبر کے بہت سے پہلو ہیں۔ میں نے ان میں سے صرف چند پہلو سامنے رکھے ہیں۔ قرآن مجید اسے کہیں صبر کے نام سے اور کہیں نام لیے بغیر صبرکے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کرتاہے۔ کہیں اپنے نبی ؐ سے خطاب کرتاہے تو اس میں کوئی نہ کوئی صبر کا سامان ہوتا ہے اور کسی نہ کسی خزانے کا منہ کھولتاہے‘ جہاں سے دعوت کا کام کرنے والا صبر کاخزانہ حاصل کرتاہے۔ کوئی چشمہ ایسا بہتا ہے کہ جہاں سے کوئی فیض ملے۔ نبی کریمؐ اور آپؐ کے ساتھی جس طرح اپنے مقام پر ‘ اپنے موقف پر‘ اپنے کام اور اپنے مقصد کے اوپر جمے رہے‘ وہ اسی صبر کا نتیجہ تھا اور بالآخر ساری دنیا کے وارث بن گئے۔ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے صرف فلسطین عطا کیا تھا‘ لیکن حضوؐر کی امت کو اللہ تعالیٰ نے مشرق سے لے کر مغرب تک‘ شمال سے لے کر جنوب تک پوری دنیا صبر کی وجہ سے عطا کردی۔ یہ صبر کا نتیجہ تھا اور وہ صبر کے مقابلے میں کسی چیز کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔
صبر کا سرچشمہ دراصل یہ احساس ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہر چیز قائم ہے‘ اور ہم ہر وقت اللہ کی نگاہوں کے سامنے ہیں۔اسی لیے قرآن مجید میں سورۂ مدثر میں سورۂ اقرأ کے بعد دوسری یا تیسری وحی میںیہی ہدایت فرمائی : وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ o (المدثر۷۴:۷) ’’اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو‘‘۔ گویا اپنے رب کی خاطر اور اپنے رب کے لیے جم جائو‘ اور یہ سمجھو کہ میں اپنے رب کے لیے کام کر رہا ہوں‘ رب کا کام کر رہا ہوں اور رب کی راہ میں ہوں۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ہوں۔ قرآن پاک نے اس طرح بار بار صبر کی تلقین کی ہے۔ ایک مقام پر فرمایا:
وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ حِیْنَ تَقُوْمُ o (الطور۵۲:۴۸) اے نبیؐ،اپنے رب کا فیصلہ آنے تک صبر کرو‘ تم ہماری نگاہ میں ہو۔ تم جب اٹھو تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔
حضرت موسٰی ؑ کو جب فرعون کے دربار میں بھیجا تو انھوں نے کہا کہ ہم فرعون کے دربار میں جائیں گے لیکن میرے اوپر خون کا دعویٰ بھی ہے اور مجھے ڈر اور خوف بھی ہے۔ اس پر فرمایا : اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰی (طٰہٰ ۲۰:۴۶) ’’ڈرو مت ‘ میں تمھارے ساتھ ہوں‘ سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہاہوں‘‘۔ گویا تم جس حال میں بھی ہوگے‘ میں سن بھی رہا ہوں گا اور دیکھ بھی رہا ہوں گا۔
دراصل اللہ تعالیٰ کی ذات صبر کا سرچشمہ ہے۔ جب آدمی کو یقین ہو جائے کہ جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے‘ کوئی چیز بھی میری اپنی نہیں ہے۔ یہ دین بھی میرا اپنا نہیں ہے۔ لوگوں کو دین کی راہ پر لانا‘ ان کے دلوں کو حق کی طرف موڑنا‘یہ میرے بس میں نہیں ہے۔ اگر وہ چاہے گا تو ہو گا‘ اور اگر نہیں چاہے گا تو نہیں ہوگا۔ سب کچھ اس کے ہاتھ میں ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ (البقرۃ۲:۱۵۶) ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘ ‘ میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ دراصل وہ چھوٹاسا کلمہ ہے جس کے اندر صبر کی ساری دنیا پنہاں ہے۔ اسی لیے حادثے اور صدمے پر اسی کو پڑھا کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اس کے اندر وہ سب کچھ موجود ہے جس سے آدمی صبر حاصل کرسکتاہے۔ گویا کوئی چیز میری اپنی نہیں ہے‘ اللہ کی ہے۔ سب چیزوں کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور اس کا انجام وہیں پر ہونا ہے۔
اسی طرح نماز کو صبر کے ساتھ اس لیے جوڑا گیا ہے کہ نماز میں بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ حضرت موسٰی ؑ کے الفاظ ہیں‘ وَاسْتَعِینُوْا بِاللّٰہِ ،’’اللہ سے مدد مانگو‘‘۔ اور وہی الفاظ پھر ہیں کہ یٰٓایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ کہ اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد مانگو۔ صبر کا لفظ انھوں نے خود کہا۔ اللہ کی مدد کے لیے صلوٰۃ کا لفظ آیا ہے۔ اس لیے کہ صلوٰۃ تو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا نام ہے۔ اللہ کے سامنے حاضر ہونے ‘ اللہ سے بات چیت اور اللہ سے قرب کا نام ہے۔ سجدہ کرتے وقت آدمی اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب ہوتاہے۔ جب اس کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوتاہے تو اس کے دربار میںحاضر ہوجاتاہے۔ اسی لیے تو نماز اللہ کی یاد اور اللہ کے قرب کا نام ہے‘ نیز نماز صبر کا سامان فراہم کرتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ کیا ہے:
اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرۃ ۲:۱۵۳) صبراور نماز سے مدد لو۔
فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغَرُوْبِ o وَمِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْہُ وَاَدْبَارَ السُّجُوْدِ o (قٓ۵۰:۳۹-۴۰) پس اے نبیؐ، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان پر صبر کرو اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو۔ طلوع آفتاب اورغروب آفتاب سے پہلے اور رات کے وقت پھر اس کی تسبیح کرو اور سجدہ ریزیوں سے فارغ ہونے کے بعد بھی۔
وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاًo وَمِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَہٗ وَسَبِّحْہُ لَیْلاً طَوِیْلاًo (الدھر ۷۶:۲۵-۲۶) اپنے رب کا نام صبح و شام یاد کرو‘ رات کو بھی اس کے حضور سجدہ ریز ہو‘ اور رات کے طویل اوقات میں اس کی تسبیح کرتے رہو۔
جہاں بھی صبر کا ذکر آئے گا وہاں سے کسی نہ کسی پہلو سے اللہ کا‘ اس کی حمد کا اور نماز کا ذکر آئے گا۔ اس لیے کہ صبر کی پوری استعداد اسی تعلق سے حاصل ہوتی ہے۔ جتنا یہ تعلق مضبوط ہوگا‘ یقین مضبوط ہوگا‘ اتنا ہی آدمی بے خوف اور اللہ سے ملاقات کا شائق ہوگا۔ کوئی چیز جو اللہ کی ہے اگر اس نے لے لی‘ تو اس پر کوئی گلہ نہیں ہوگا‘ کوئی صدمہ نہیں ہوگا۔ اللہ کی عزت اس کی عزت ہے‘اور اس کی عزت اللہ کی عزت ہے۔ اسی کی خاطر وہ جما رہے گا۔ لہٰذا اس کو کسی بات کا صدمہ نہیں ہوسکتا۔ بڑے سے بڑا صدمہ تو جان کے ضیاع کا ہوتاہے‘ اگر جان کا ضیاع بھی ہو جائے تو یہ ہمارے ہاں بہت معروف ہے اور کہا جاتا ہے: لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَلِلّٰہِ مَاعَطَا ‘ جو لے لیا وہ بھی اسی کا تھا‘ جو دیا ہے وہ بھی اللہ کا ہے۔ کوئی چیز ہماری نہیں ہے‘ سب کچھ اسی کا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ اس کی بھر پور عکاسی کرتاہے۔ گویا سب کچھ اسی کا دیا ہوا ہے‘ سب اسی کی ملکیت ہے‘ ہمارے پاس تو ایک امانت ہے۔
جب نماز سے اللہ تعالیٰ کی یاد تازہ ہوتی ہے‘ اللہ کی یاد دل میں بستی ہے‘ ڈیرے ڈالتی ہے‘ تو پھر صبر پیدا ہوتاہے۔ اللہ کا ذکر ساتھ ساتھ ہے۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ نماز کو خشوع کے ساتھ پڑھنے کے لیے بڑے صبر کی ضرورت ہے۔ اس لیے بھی دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ نماز ٹھیک ہو تو صبر پیدا ہوتاہے‘ اور نماز ٹھیک سے پڑھنے کے لیے صبر کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہزاروں خیالات آتے ہیں‘ ہزاروں وسوسے پریشان کرتے ہیں‘ ان کے اوپر قابو پانا اور ان کے مقابلے میں اللہ کو یاد رکھنا‘ اس کے لیے بڑے ضبط اور بڑے صبرکی ضرورت ہے۔ حصول صبر کے لیے ایک جامع نسخہ ذیل کی آیات میں بیان کیا گیاہے:
وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ o الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰـقُوْا رَبِّھِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo (البقرۃ ۲:۴۵-۴۶) صبر اور نماز سے مدد لو‘ بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے‘ مگر ان فرماں برداروں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخر کار انھیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔
گویا صبر اور نماز سے مدد مانگی جائے اور یہ مدد مانگنا بڑا مشکل ہے‘ سوائے ان کے جو خشوع کی کیفیت رکھتے ہیں‘ جن کے دل اللہ کے آگے پست ہیں‘ یا جن کے دل اللہ کے ذکر سے پگھل جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں‘ جن کو اس کا دھڑکا لگا رہتاہے‘ کہ اللہ سے ملاقات کرنی ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ، یعنی ہم اللہ کے ہیں اور ہمیں اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘ کے اندر پورے صبر کا نسخہ آگیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس اعلیٰ اخلاقی مقام پر پہنچائے‘ اور اس کو حاصل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)
ہم بچپن سے سنتے آئے ہیںکہ صبر کرو۔ اگر دین دارگھرانہ ہو تو اس پر جو بھی مشکل یا مصیبت آن پڑے‘ اس پر والدین کی طرف سے یہی نصیحت کانوں میں پڑتی ہے کہ صبر کرنا چاہیے۔ اگر کوئی عام گھرانہ ہو ‘ تب بھی جب کوئی بڑا حادثہ پیش آجائے‘ یاکوئی عزیز دنیا سے رخصت ہو جائے ‘ تو ہرآنے جانے والا شخص یہی کہتاہے کہ صبر کریں‘ اللہ کی مرضی کے آگے کوئی دم نہیں مار سکتا۔ یہ ہمارا صبر سے ابتدائی تعارف ہے جو بچپن ہی سے گھروں میں ہو جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آدمی دنیا میں کچھ بھی حاصل کرنا چاہے‘ اس کے لیے محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر آدمی جانتاہے کہ زندگی بسر کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ جس کو اللہ نے سب کچھ دے رکھا ہو‘ اس کی زندگی بھی ہزاروں اندیشوں اور پریشانیوں سے دو چار ہوتی ہے۔ ہر آدمی اس چیز کی طلب میں رہتاہے جو اس کے پاس نہیں ہوتی‘ اور ہر اس چیز کا رنج و غم کرتاہے جو اس کے ہاتھ نہیں آسکتی۔ یہ کیفیت اس کی بھی ہے جو دنیا میں بہت کچھ رکھتاہو اور اس کی بھی جس کے پاس کچھ نہ ہو۔ اسی طرح کوئی بھی مقصد زندگی اگر سامنے ہو‘ کوئی بھی خواہش پوری کرنی ہو تو ہم سب جانتے ہیں کہ اس کے لیے لگن سے کام اور محنت کرنی پڑتی ہے۔ راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنی پڑتی ہیں اور ان پر قابو پانا ہوتا ہے۔ اگر ترغیبات راستے سے ہٹانا چاہیں تو ان کا بھی مقابلہ کرنا پڑتاہے۔ مثال کے طورپر اگر کسی کو ڈاکٹر بننا ہے تو اس کے لیے اسے محنت کرنا پڑتی ہے‘ راتوں کی نیند قربان کرنا پڑتی ہے اور بہت سی خواہشات اور تمنائوں کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے‘ تب کہیں جا کر ڈاکٹر بنا جاتاہے۔
صبر کے کئی مفہوم ہیں‘مثلاً کسی کام کو جم کر کرنا‘ حوصلے سے کرنا‘ عقل کے ساتھ کرنا۔ کہیں پہنچنا ہو تو اس کے لیے اس استعداد کی ضرورت ہوتی ہے جس کو ہم صبر کے نام سے پکارتے ہیں۔
صبر کے لغوی معنی عربی زبان میں روکنے اور باندھنے کے‘ یا برداشت کرنے اور سہنے کے ہیں۔ کسی بھی چیز کے ساتھ اگر آدمی اپنے آپ کو باندھ لے اور اس کے اوپر جم جائے تو یہ صبر ہے۔ یہ بھی صبر ہے کہ انسان کے سامنے جو بھی مقصد ہو یامنزل سر کرنا ہو‘ چاہے یہ مقصد دنیاوی ہو یا اعلیٰ و ارفع کوئی اخلاقی مقصد‘ آدمی اپنے مقصد پر جم جائے اور یہ عزم کرلے کہ جوبھی رکاوٹیں ہوںگی انھیںخاطر میں نہیں لائے گا‘ خواہ وہ تکلیف کی صورت میں نمودار ہوں یا ترغیب کی صورت میں۔ یہ مشکلات اور رکاوٹیں باہر سے ہوں‘ یا اپنے اندر سے‘ یا کوئی راہ میںمسائل پیدا کردے‘ لیکن انسان اپنے مقصد پر جما رہے۔ کبھی حوصلہ پست ہونے لگے‘ یا مایوسی ہونے لگے‘ کبھی محنت سے دل گھبرانے لگے‘ مستقل کام کرتے ہوئے اُکتاہٹ ہونے لگے‘ اس کے باوجود کام کرتے رہنا‘ یہ بھی صبر ہے۔ گویا روکنے اور باندھنے اورسہارنے کے معنوں میں صبر کا لفظ استعمال ہوتاہے۔
اگر قرآن مجید کھول کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ تو ایک ایسی صفت ہے اور ایسی استعداد ہے جس کے ذکر سے قرآن مجید بھراہوا ہے۔ وہ جگہ جگہ اس کی ہدایت کرتاہے‘ اور اس کے مختلف پہلو بیان کرتاچلا جاتاہے۔ دنیا کے کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان جم کے کام کرے‘ رکاوٹوں کو خاطر میں نہ لائے اور ترغیبات کے اوپرقابو پائے۔ لالچ ہو یا خوف‘ خوشی ہو یا غم‘ مایوسی ہو یا کم ہمتی‘ سب کے اوپر قابو پائے۔ دنیا کے اندر اس کا کوئی کاروبار چلتاہے‘ کسی نوکری میں اونچا مقام ملتا ہے‘ تعلیم کے میدان میںکوئی کامیابی ملتی ہے‘ گھر کی بنیاد رکھی جائے یا تعمیر کیا جائے یا اور بہت سے کام ہوں‘ ان سب کے لیے صبر کی صفت ضروری ہے۔
قرآن مجید ایک ایسی منزل کی دعوت دینے کے لیے آیا ہے اور ایک ایسی نعمت عطاکرتاہے جو بالکل مختلف ہے۔ دنیا میں جتنی بھی منازل ہیں‘ جتنی بھی خواہشات ہیں‘ جتنی بھی چیزیں ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ وہ اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ اس لیے کہ وہ ایک ابدی نعمت‘ ہمیشہ کی نعمت‘ یعنی جنت اور رضاے الٰہی کی طرف پکارتا ہے۔ اس لحاظ سے سب سے بڑھ کر صبر کی ضرورت اسی راستے کے لیے ہے۔ جتنی اعلیٰ منزل ہوگی‘ اتنی ہی محنت کرنا پڑے گی اور اتنا ہی گرنے کا ڈر بھی ہوگا‘اور اتنی ہی زیادہ راہ میں رکاوٹیں بھی حائل ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح ترغیبات اور وسوسے بھی باربار سامنے آئیں گے کہ شاید پیچھے رہ جانے میں ہی فائدہ تھا‘ یاآگے بڑھنے کی محنت خواہ مخواہ مول لی وغیرہ۔
یہ وہ مختلف نفسیاتی کیفیات ہیں جو کسی بھی اعلیٰ مقام تک پہنچنے کے لیے ہمارے راستے میں حائل ہوتی ہیں۔ جب منزل وہ ہو جس کی وسعت میں آسمان اور زمین سماجائیں تو ظاہر ہے کہ اسی پیمانے سے مشکلیں‘ رکاوٹیں‘ مصائب اور ترغیبات سامنے آسکتی ہیں۔ وہ ساری نفسیاتی کیفیات اور جسمانی مصائب جو دوسرے مقاصد تک پہنچنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں وہ اس حیثیت میں کئی گنا زیادہ پیش آتے ہیں۔ اسی لیے جب قرآن مجید نازل ہوا تو شروع ہی میں جو بنیادی ہدایات اس نے اپنے لانے والے کو دیں‘وہ یہی تھیں کہ وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ (المدثر۷۴:۷) ’’ اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو۔‘‘ پھر چند دن کے بعد دوسری وحی نازل ہوئی: وَاصْبِرْعَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاھْجُُرْ ھُمْ ھَجْرًا جَمِیْلًا o (المزمل۷۳:۱۰) ’’اور جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں‘ ان پر صبر کرو اور شرافت کے ساتھ ان سے الگ ہو جائو‘‘،یعنی مخالفین جو بھی باتیں بنار ہے ہیں‘ تمھیں جھٹلا رہے ہیں‘ مذاق اڑا رہے ہیں‘ پروپیگنڈا کررہے ہیں‘ اس پر صبر کرو اور راہِ خدا میں جمے رہو۔ ان لوگوں کو چھوڑ دو اور چھوڑو بھی اچھے اور بھلے طریقے سے۔ یہ دوسری ہدایت سورۂ مزمل کی ہے اور پہلی سورۂ مدثر کی۔ یہ بالکل ابتدائی دنوں میں دی جانے والی ہدایات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کو دیں۔ اس کے بعد دین کی راہ پر آگے بڑھنے کے ہر ہر مرحلے میں یہ ہدایات بار بار دہرائی جاتی رہیں۔
مکی دور مظالم کا دور تھا۔ مخالفین پر ہاتھ اٹھائے بغیر سہنے اور برداشت کرنے کا دور تھا۔ جسمانی مصائب اور تکالیف اٹھانے کا دور تھا۔ جب مدنی دور آیا تو ہاتھ اٹھانے کا زمانہ آیا‘ اس میں جنگ کی نوبت آئی اور جہاد کا راستہ کھلا۔ اگرچہ اس دور میں ہاتھ اٹھانے اور مقابلہ کرنے کی اجازت تھی مگر اس میں بھی جان و مال کا خطرہ موجود تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جب جہاد کی اجازت دی تو ساتھ ہی یہ ہدایت بھی فرمائی:
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo (البقرۃ ۲:۱۵۵) اورہم ضرورتمھیں خوف و خطر‘ فاقہ کشی‘ جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمھاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریںان کے لیے بشارت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی ؑ اور دوسرے انبیا ؑ کو بھی صبر کی ہدایت کی۔ اس میں بھی یہ دو چیزیں موجود تھیںکہ راہ میں آنے والے مصائب پر صبر اور نمازکی روش‘ کامیابی کی روش ہے۔ اگرکوئی کنجیاں ہیں جو راستہ کھولتی چلی جائیں‘ جس سے راہ آسان ہوتی جائے‘ منزل قریب آئے‘ مشکلات کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور استعداد پیدا ہو‘ تووہ صبراور صلوٰۃ ہیں۔ سب انبیا ؑ نے اپنی اُمتوں کو انھی دوچیزوں کی نصیحت کی۔ قرآن مجید میں بھی تین جگہ پر مختلف انداز میں یہ بات دہرائی گئی ہے:وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِط (البقرۃ ۲:۴۵) ’’ صبر اور نماز سے مدد لو‘‘۔ گویاجو راستہ تمھارے سامنے ہے‘ اللہ کی بندگی اور اللہ کی رضا کے حصول کا راستہ‘ اللہ کی جنت تک پہنچنے کا راستہ‘ یہ راہ صبر اور نمازکے ذریعے ہی طے ہو سکتی ہے۔ نماز اور صبر کا کیا تعلق ہے‘ اس کا ذکر آگے آئے گا۔
قرآن مجید میں اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا اور آخرت کی ساری بھلائیاں صبر اور تقویٰ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ البتہ ایسا محسوس ہوتاہے کہ اس تقویٰ کو اختیار کرنے کے لیے نفس کے اندر جس صلاحیت‘ تربیت اور استعداد کی ضرورت ہے‘ اس کا نام صبر ہے۔ آدمی ان چیزوں سے رک جائے جو اللہ کو ناراض کرنے والی ہیں‘ ان تمام نفسیاتی کیفیات کے مقابلے میں ڈٹا رہے جو انسان کے نفس کے اندر سے پیدا ہوتی ہیں‘ ان ساری رکاوٹوں کے مقابلے میں بھی اللہ کی راہ پر جما رہے جو باہر سے آتی ہیں‘ اس تقویٰ کے حصول کے لیے قوت کا خزانہ اور سرچشمہ صبر ہے۔ اسی لیے تقویٰ کے ساتھ صبر کا ذکر لازماً اور بڑی کثرت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ایک مقام پر فرمایا گیا کہ مخالفین تمھارے خلاف جو تدبیریں اور ہتھکنڈے اختیار کررہے ہیں‘ ان کے مقابلے کے لیے صبر اور تقویٰ اختیار کرو۔
وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُ ھُمْ شَیْئًا ط(اٰل عمرٰن ۳:۱۲۰) ان کی کوئی تدبیر تمھارے خلاف کارگر نہیں ہو سکتی بشرطے کہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔
قرآن بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بھی زمین میں جن کو امامت عطا فرمائی‘ یہ وہی لوگ تھے جو صبر میں سچے اور کھرے ثابت ہوئے۔
حضرت ابراہیم ؑ کو دنیا کی امامت اس وقت ملی جب انھوں نے اپنے بیٹے کے گلے پر چھری رکھی۔ یہ مرحلہ بھی بڑے صبر کا متقاضی تھا۔ بیٹے نے بھی کمال سعادت مندی کے ساتھ کہا: یٰٓـاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ز سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَo (الصّٰفّٰت ۳۷:۱۰۲) ’’اباجان، جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کرڈالیے‘ آپ ان شاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘۔
بنی اسرائیل کا ذکر آیا کہ مستضعفین تھے‘ غلام تھے‘ فرعون کے شکنجے میں کسے ہوئے تھے‘ اس کے ظلم و جبر کے تحت پس رہے تھے لیکن ہم نے ان کو مشرق و مغرب کی زمینوں کا مالک بنادیا۔ بنی اسرائیل سے خلافت کا وعدہ اس لیے پورا ہوا کہ انھوں نے صبر کیا۔ جب وہ ان سارے مصائب کے مقابلے میں جمے رہے‘ جہاد کیا اور قربانیاں دیں‘ تو اللہ تعالیٰ نے مشرق ومغرب کی خلافت اور حکمرانی ان کے سپرد کردی۔ وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ لا بِمَا صَبَرُوْا o (اعراف ۷:۱۳۷) ’’اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدۂ خیر پورا ہوا کیونکہ انھوں نے صبر سے کام لیا تھا‘‘۔
اسی طرح جنت کے بارے میں قرآن واضح طور پر بیان کرتاہے کہ یہ ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو صبر کی روش اختیار کرتے ہیں۔ وجَزٰ ھُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّۃً وَّحَرِیْرًا o (الدھر ۷۶:۱۲) ’’اور ان کے صبر کے بدلے میں انھیں جنت اور ریشمی لباس عطاکرے گا‘‘۔ایک دوسری جگہ یہ بات مختلف انداز میں بیان کی گئی ہے: اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍo (الزمر ۳۹:۱۰)’’ صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ ہم نے تم سے پہلے بھی اہلِ کتاب کو اس کی ہدایت کی تھی اور تم کو بھی اسی کی ہدایت کی ہے کہ صبر کی روش اختیار کرو۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ برائی کے جواب میں جمے رہنا‘ اشتعال میں نہ آنا‘ مخالفتوں کے مقابلے میں اپنے آپ پر قابو رکھنا‘ ہمت نہ ہارنا‘ حوصلہ نہ چھوڑنا‘ مایوسی کا شکار نہ ہونا‘ اور اشتعال میں آئے بغیر برائی کے جواب میں بھلائی کے راستے پر چلنا‘ صبر کے بغیر ممکن نہیں۔ جب انسان نیکی کا حکم دے گا اور منکر سے روکے گا تو یہ اس کے کام آئے گا۔ یہی عزیمت ہے کہ آدمی حالات و مصائب کا جم کر مقابلہ کرے۔یہ حکم‘ یہ ہدایت‘ یہ تاکید‘ کہ صبر کرو‘ اس لیے بھی ہے کہ اس کے بغیر دین کا راستہ طے نہیں ہو سکتا۔ اس راستے میں اس کے بغیر قدم آگے نہیں بڑھ سکتے۔
صبر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگائیے کہ حضرت لقمان نے جب اپنے بیٹے کو نصیحت کی تو اس کو دوسری ہدایات کے ساتھ صبر کی بھی تلقین کی کہ یہ بڑے عزم وحوصلے کا کام ہے:
یٰـبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ ط اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِo (لقمٰن ۳۱:۱۷) بیٹا! نماز قائم کر‘ نیکی کا حکم دے‘ بدی سے منع کر‘ اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبرکر۔ یہ بڑے حوصلے کے کاموں میں سے ہے۔
آپ غور کریں کہ آیت کا آغاز نماز سے ہوا اور اختتام صبر پر۔ قرآن مجید میں نماز اور صبر دونوں کا ساتھ ساتھ ذکر آتاہے۔ اسی طرح جہاں بھی صبر کا ذکر آئے گا کسی نہ کسی طرح اللہ تعالیٰ کا نام بھی آئے گا‘ اللہ کا ذکر آئے گا‘ اللہ کی تسبیح کا حکم آئے گا اور اللہ کے قریب ہونے کا ذکر آئے گا۔ اس لیے کہ قرآن مجید کی تعلیم کی رو سے ایک مومن کے لیے اللہ پر ایمان اور اللہ کی ذات کے ساتھ تعلق صبر کا سرچشمہ ہے۔ اسی طرح قرآن میں جہاں بھی جہاد کا ذکر آیا ہے وہاں صبر کا ذکر بھی ساتھ آیا ہے کہ اللہ یہ آزما کر رہے گاکہ کون مجاہدہ کرتاہے اور کون اس کی راہ میں صبر کرتاہے۔
اگر صبرکے یہ معنی ہوں تو اس سے ایک بات بڑی صاف اور واضح ہو جاتی ہے کہ بچپن سے جو کچھ ہم سنتے چلے آئے ہیں وہ اس کا صرف ایک پہلو ہے۔ یہ کہ جب بے بس ہو جائیں‘ معاملہ ہاتھ سے نکل جائے‘ ڈاکٹر جواب دے دیں‘ موت کا فرشتہ آجائے اور جان نکال لے جائے‘ تب دم مارنے کی مجال نہیں ہے۔ ایسے موقع پر اس کے علاوہ کیا چارہ ہے کہ صبر کیا جائے۔ لیکن قرآن مجید میں صبر کا جوبیان ہے اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ بے بسی کی خاموشی یا بے کسی کا نام صبر نہیں ہے‘ یا قابو نہ ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کرپانا صبرنہیں ہے۔ کچھ کرنے اور کچھ کہنے کا حوصلہ بھی ہو‘ اس کے باوجود انسان اس سے رک جائے‘ یہ صبر ہے۔ کسی کام کے کرنے کی استعداد ہو‘ خواہش بھی موجود ہو لیکن آدمی اس کے مقابلے پر جم جائے۔ صبر بزدلوں یا کم حوصلہ لوگوں کا کام نہیں بلکہ صبر تو بڑی ہمت، بڑی جرأت، بڑی بہادری اور عزم وحوصلے کا مطالبہ کرتاہے۔ اسی لیے قرآن مجید نے بار بار کہا ہے کہ جو صبر کرتے ہیں اور قدرت رکھنے کے باوجود معاف کردیتے ہیں‘ اور برائی کا جواب بھلائی سے دیتے ہیںکہ یہ بڑے عزم وحوصلے کا کام ہے۔
وَلَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِo (الشورٰی ۴۲:۴۳) البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور درگزر کرے‘ تو یہ بڑی اولو العزمی کے کاموں میں سے ہے۔
ہم دیکھیں گے کہ صبر بے بسی کا نام نہیں ہے بلکہ صبربدلہ لینے کی استعداد اور ترغیب کا شکار ہو جانے کے باوجود اپنے مقام پر جمے رہنے کا نام ہے۔ مکی زندگی میں اگر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں تھی تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ہاتھ اٹھا نہیں سکتے تھے‘ بلکہ وہ سب لڑنا جانتے تھے اور مدینہ جاکر انھی لوگوں نے دکھایا بھی کہ وہ کس جواں مردی سے لڑنا جانتے ہیں۔ اس زمانے میں کوئی مسلح فوجیں نہیں تھیں۔ ہر ایک کے پاس تلوار ہواکرتی تھی اور ہر ایک لڑائی میں حصہ لیتا تھا۔ عرب معاشرے کے اندر اگر کوئی توہین و تذلیل کرے‘ بے عزتی کرے‘ قبیلے کے کسی آدمی کے اوپر ہاتھ ڈال دے یا کوئی خون ہو جائے‘ تو برسوں بلکہ ایک ایک سو سال تک خون در خون انتقام کا سلسلہ چلتا رہتاتھا۔ ان کے لیے یہ اجنبی بات نہیں تھی کہ آن بان اور عزت کی خاطرمرمٹیں اور اپنے قبیلے کے خون کا بدلہ لیں۔لہٰذا مکے میں جو کچھ کیا گیا وہ بے بسی کا صبر نہیں تھا بلکہ ایک سوچا سمجھا راستہ تھا۔ اس کی بنیاد میں بہت ساری چیزیں پوشیدہ تھیں‘ جن کی یہاں وضاحت کی ضرورت نہیں۔ البتہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ صبر بے بسی‘لاچاری یا بزدلی کی وجہ سے نہیں تھا۔
صبر کا حقیقی مقام یہ ہے کہ آدمی اپنے مقاصد کی خاطر جم جائے اور پورے عزم وحوصلے سے مال بھی قربان کرے اور جان بھی کھپائے اور ضرورت پڑنے پر جان دینے سے بھی دریغ نہ کرے۔
یہ شاید صبر کی بڑی مختصر تعریف ہے جو قرآن مجید میں موجود ہے اور جس کو میں نے بڑی تفصیل کے ساتھ بغیر کسی حوالے کے بیان کیا ہے۔ گویا کہ آدمی کے اپنے اندر سے جو ترغیبات اٹھتی ہیں‘جو خواہشات سراٹھاتی ہیں‘ جو نفسیاتی کیفیات ہوں اور جو باہر سے رکاوٹیں آئیں‘ ترغیبات ہوں‘ کوئی دولت کا لالچ دے یا جان کا خوف حائل ہو جائے‘ ان سب کے مقابلے میں اپنے مقام پر جمے رہنا‘ اپنے مقصد کے ساتھ وابستہ رہنا‘ اپنے مقصد کے حصول کے لیے کوشش جاری رکھنا---یہی دراصل صبر ہے۔
صبر ایک جامع اصطلاح ہے۔ اس کے مختلف پہلوہیں اور ان کو پیش نظر رکھنا چاہیے تاکہ یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجائے کہ قرآن مجید کن کن حوالوں سے صبر کا مطالبہ کرتاہے۔
روزمرہ زندگی میں انسان کو جو بھی رکاوٹیں پیش آسکتی ہیں ان کو ہم بنیادی طورپر دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک مادی رکاوٹیں‘ اور دوسری نفسیاتی رکاوٹیں ۔
مادی رکاوٹوں کے کئی پہلو ہیں۔ کوئی مشکل پڑ جائے‘ کوئی نقصان ہوجائے‘ کوئی بڑی خواہش پوری نہ ہو‘ اور کوئی لالچ بھی ہو سکتاہے۔ جب ہم رکاوٹ کا لفظ بولتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں کسی قسم کی مزاحمت ہوگی۔ کوئی بھی شے اپنی طرف کھینچ سکتی ہے۔ کسی بھی چیز کی کشش ہو سکتی ہے۔ یہ وہ مادی رکاوٹیں ہیں جن کا تعلق آدمی کے جسم وجان اور مال سے ہے۔
دوسری قسم کی رکاوٹیں نفسیاتی ہیں۔ ان کی جڑ آدمی کے اپنے اندر‘ اس کے نفس کے اندر اور اس کے دل و دماغ کے اندر ہوتی ہے۔ یہاں جو چیزیں اٹھتی ہیں وہ اس کو راستے سے ہٹاتی ہیں۔ اس کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں‘ اس کو ترغیب دیتی ہیں‘ اس کے اندر خواہشات پیداکرتی ہیں اور وسوسہ ڈالتی ہیں۔ یہ رکاوٹیں اس طرح کی ہوسکتی ہیں کہ: ایسا کرو گے تو یہ ہوجائے گا‘ جیب سے پیسہ نکالو گے تو تمھارے پاس کچھ نہیں بچے گا اور تم فقیر اور نادار ہو جائو گے‘ لہٰذا جیب مت کھولو۔ یہ سارے وسوسے جو اندر سے پیدا ہوتے ہیں‘ یہ نفسیاتی رکاوٹیں ہیں۔
اگر غور کیا جائے تو فی الواقع اصل چیز وہی ہے جو آدمی کے اندر پیدا ہوتی ہے‘ لہٰذا اصل رکاوٹیں نفسیاتی رکاوٹیں ہیں۔ مادی مصائب‘ مادی ترغیبات اور مادی رکاوٹوں کی بھی اصل جڑ آدمی کے نفس کے اندر ہوتی ہے۔ اگر ڈھیر سامال کسی کو مل جائے‘ اس کی نظر میں اس مال کی قیمت پتھر کے چند ریزوں سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اگر اس کا نقطۂ نظر صحیح ہو‘ اگر اس کو موت کے منہ میں جانا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ موت نہیں ہے بلکہ یہ تو جنت او راللہ تعالیٰ سے ملاقات کا نام ہے‘ تو موت کا خوف اس کے دل میں نہ رہے گا۔ بڑی سے بڑی چوٹ آدمی کو لگتی ہے مگر اپنے اندر کے حوصلے سے‘ اپنے اندر کی نفسیاتی کیفیات سے وہ اسے سہار جاتاہے۔ دوسری طرف ذرا سی مصیبت پڑتی ہے تو آدمی ہمت ہار دیتاہے اوررونا دھونا شروع کردیتاہے۔ اس کا تعلق مصیبت کی مقدار یا آزمایش کی نوعیت سے نہیں ہے کہ آدمی کو کس چیزکا مقابلہ کرنا ہے بلکہ اس کا تعلق اس کے ذہن سے ہے۔ دراصل طاقت کا سرچشمہ انسانی ذہن کے اندر پوشیدہ ہے۔
یہ انسانی سوچ اور جذبہ یا نفسیاتی کیفیت ہی ہے جو اسے دلیر‘ نڈر اور بے باک بنا دیتی ہے‘ یا خوف اور ڈر سے پست ہمت یا بزدل۔ ایک کیفیت کے تحت وہ بڑا طاقت ور بن جاتا ہے۔ ایک ایک سپاہی سو سو سپاہیوں کے مقابلے میں ڈٹ جاتا ہے‘ اگرچہ مادی و عسکری لحاظ سے وہ مقابلتاً کمزور ہوتاہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس کے پاس زیادہ مادی طاقت ہے بلکہ اس کی نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے جو اسے نڈر اور بے باک بنادیتی ہے۔ دوسری طرف یہ احساس کہ ہمارے اوپر مصیبت پڑسکتی ہے‘ یہ ایک دوسری نفسیاتی کیفیت ہے جو ایک فرد کی طاقت کو ختم کرکے رکھ دیتی ہے۔ وہ بہت سے وسائل رکھنے کے باوجود اور بہت کچھ کرگزرنے کی صلاحیت کا متحمل ہونے کے باوجود‘ حوصلہ و ہمت ہار دیتاہے اور عملاً ناکامی وشکست سے دو چار ہوکر رہتاہے۔(جاری)
اس ضمن میں پہلی بات یہ پیش نظر رہنی چاہیے کہ تحریک اسلامی کا یہ پورا نظام ایک اجتہادی نظام ہے ۔ اگر ہم قرآن و حدیث میںان اصطلاحات کو تلاش کرنا چاہیں تو وہاں نہیں ملتیں۔ وہاں مومن ‘ مسلم ‘ متقی‘ محسن ‘ یہ ساری اصطلاحات تو ملتی ہیں لیکن رکن ‘امیدوار ‘رفیق اورحامی کی اصطلاحات موجود نہیں ہیں‘ اور نہ کہیں یہ احکام ملتے ہیں کہ اس قسم کا نظام بنایا جائے۔ یہ بات میں نے شروع میں اس لیے کہی ہے کہ بنیادی طور پر دین کا کام کرتے ہوئے دو چیزوں کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھنا بڑا ضروری ہے۔ ایک وہ چیز ہے جو انسانوں نے اپنے فہم ‘ سمجھ بوجھ اور استنباط و اجتہاد سے وضع کی ہے‘ اور دوسری وہ چیز ہے جس کا حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر دیا ہے ۔ مثال کے طور پر پانچ وقت کی نماز اجتہاد نہیں ہے بلکہ منصوص ہے ۔ اسی طرح سود کی حرمت اجتہاد نہیں منصوص ہے ‘ جب کہ جو چیزیں اجتہادی ہیں وہ انسان کے اپنے فہم پر مبنی ہیں۔
اس لحاظ سے جب یہ نظامِ رکنیت بنایا گیا تو اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اقامت دین فرض ہے ۔ اس فریضے کو ادا کرنے کے لیے اجتماعیت ناگزیر ہے ‘ مردوں کے لیے بھی اور عورتوں کے لیے بھی۔ چنانچہ اس اجتماعیت کو وجود میں لانے یعنی اسے عملی شکل دینے کے لیے ہم نے اپنے زمانے اور حالات کے لحاظ سے اور اپنی سہولت کے مطابق جس نظام کو بہترین سمجھا‘ وضع کرلیا۔چونکہ مقصد شریعت کا منصوص ہے ‘ اس لیے رکنیت کی ایک دینی و شرعی حیثیت بھی ہو گئی۔
دوسری بات جو اس سلسلے میں ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ ایک اور بھی دینی مقصد منصوص ہے جس کے لیے یہ رکنیت کانظام اور تنظیم بنائی گئی ہے‘ اور وہ ہے اقامت دین کا فریضہ۔ اقامت دین کے فریضے کی ادایگی کے لیے اگر کوئی چیز ہر ایک پر فرض ہے تو وہ دعوت کا کام ہے۔ میں چاہوں گا کہ ان الفاظ پر آپ اچھی طرح غوروفکر کریں اورانھیں جذب کریں کیونکہ رکن بننے کے لیے جہاں جماعت اسلامی کا دستور چند بنیادی شرائط عاید کرتاہے ‘ اوررکن بننے کے بعد جو کچھ کرنا ہے اس کے لیے اپنے سیرت و کردار میں بتدریج کچھ تبدیلیوں کا تقاضا کرتا ہے‘ وہاں ہر رکن کے لیے وہ اس بات کو بھی لازم قرار دیتا ہے کہ وہ اپنے حلقۂ تعارف میں دعوت کا کام کرے‘ اور یہ کارِ دعوت اس کے لیے فرض ہے ۔ لہٰذا ہر رکن دائمی مبلغ ہے ‘ اور شعبہ دعوت و تبلیغ ایک ایسا شعبہ ہے کہ جس کا ہر رکن اورہر کارکن ممبر اور رکن ہے ۔
اگر یہ دو چیزیں جو میں نے آپ کے سامنے رکھی ہیں واضح ہیں ‘ تو پھر اس سے ہٹ کر کچھ اورچیزیں بھی ہیں جنھیں ہر رکن کو سوچ سمجھ کر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے۔
ہمارا رکنیت کا یہ نظام جو منصوص نہیں ہے‘ دراصل اس لیے بنایاگیا ہے کہ ہم جن حالات میں کام کررہے ہیں ‘ یہ وہ حالات نہیں ہیں جو اس وقت موجود تھے جب قرآن نازل ہو ا اور سنت کی تدوین ہوئی۔ اُس وقت ایک بگڑا ہوا مسلمان معاشرہ جو زوال پذیر ہو موجود نہیں تھا‘ بلکہ ایک طرف کفار تھے اور دوسری طرف مومن ‘نیز وحی الٰہی اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں براہِ راست خدا کی رہنمائی موجود تھی ۔ ہمارے پیش نظر ایک بگڑا ہوا اور زوال پذیر مسلمان معاشرہ ہے جس کی اصلاح درپیش ہے۔ ہمیں جہاں ایک طرف حقیقی فہم دین ‘ اہل علم اور علماے دین کی ضرورت تھی وہاں یہ بات بھی واضح ہے کہ ہم کو تہذیبی اور تمدنی معمار بھی بننا ہے ۔ یہ الفاظ بھی ہمارے ہاں استعمال ہوئے ہیں کہ رکن وہ ہیں جو تہذیبی اور تمدنی معمار ہوں‘ جو دنیا کے اندر ایک نئی تہذیب اور ایک نئے تمدّن کے تعمیر کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ ان کی سیرت و کردار بھی ایسا ہو‘ جو اُن کی اپنی اخروی نجات کے لیے بھی ضروری ہے اور اسی سیرت و کردار کے بل پر وہ عوام کے قائد بھی بن سکیں‘ ان کی رہنمائی کر سکیں اور ان کے ملجا بن سکیں‘ بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ عوام کے لیڈر بھی بنیں اور تہذیبی و تمدنی معمار بھی اور اپنے بلند کردار کی جاذبیت کی وجہ سے ایک ایک علاقے کے عوام کو سنبھال سکیں اور ان کی ذات عوام کا مرجع بن جائے۔ گویا وہ معاشرے سے الگ تھلگ اور کٹے ہوئے نہ رہیں‘ بلکہ لوگ خود ان کی طرف رجوع کریں کہ یہ ہیں وہ لوگ جن کے پاس ہم کو جانا چاہیے۔
یہ چند بنیادی پہلو ’رکنیت کیا اور کیوں‘ کے تصور کو اجاگر کرتے ہیں۔ ہر رکن کو انھیں سمجھنا اور جاننا چاہیے۔
فریضہ اقامت دین اور دعوت الی اللہ کی ادایگی کے لیے پہلی ضرورت انفرادی سیرت و کردار کی تعمیر ہے ۔ اگر پیش نظر تہذیبی و تمدنی معمار بننا ہو تو اس کے لیے سب سے بڑھ کر اپنی ذات کی تعمیر ضروری ہے ۔ اگرچہ اپنی ذات کی تعمیر کوئی ایسی ضروری چیز نہیں ہے کہ جس میں آدمی گم ہوجائے اور کھوجائے ‘ بلکہ رکنیت کا فارم بھر کے اور ضابطے کی کارروائی پوری کر کے ‘ کتابیں پڑھ کے اور کچھ اجتماعات میں حاضری دے کے جو رکنیت حاصل ہوتی ہے وہ رکنیت ہمارا مقصود نہیں ہے۔ مقصود تو رکنیت کا وہ تصور ہے کہ یہ ایک فریضہ ہے ‘ اوررکنیت کا یہ معیار مطلوب ہے کہ ارکان مثالی سیرت و کردار کے حامل ہوں تاکہ وہ تہذیبی و تمدنی معمار بن سکیں‘ اور انھیں عوام کی لیڈر شپ حاصل ہو سکے‘ یعنی اپنے اپنے دائرۂ اثر میں لوگوں کو اپنے پیچھے لے کر چل سکیں۔
اس سلسلے میں بھی چند بنیادی باتیں جاننے کی ضرورت ہے ۔
پہلی بات تویہ ہے کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہوں‘کہ ہماری ذات کی تعمیر صرف کسی اجتماعیت سے وابستہ ہو جانے سے ہو جائے گی تو میرا خیال ہے کہ یہ غلط فہمی ہوگی ۔ اگرچہ اپنی ذات کی تعمیر کے لیے اجتماعیت میں شمولیت بڑی ضروری اور ناگزیر ہے اور انسان کی ذات ایسی ہے کہ اجتماعیت کے سانچے میں آکر ہی اس کی تعمیر ممکن ہے‘ لیکن اجتماعیت ‘ وعظ و نصیحت ‘ درس و تقریراور کتاب اور لٹریچر‘ ان میں سے کوئی چیز بھی ذات کی تکمیل کے لیے کافی نہیں ہے ۔ یہ سب بھی موجود ہوں تو ذات کی تعمیر میں نقص اور کمی رہ سکتی ہے ۔ ذات کی تعمیر کے لیے سب سے بڑھ کراپنی کوشش اور عمل کی ضرورت ہے ۔ گویا کہ اپنے آپ کو خود سنبھالنا ہو گا۔
اللہ تعالیٰ نے ہر فرد کو بے پناہ قوتیں اور صلاحیتیں بخشی ہیں۔ ہر نفس کے اندر اس نے اپنی روح پھونکی ہے‘ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ(صٓ۳۸:۷۲) ۔ہر ایک کو سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کی صلاحیتوں سے آراستہ کیا ہے ۔ ہر شخص کی ذات میں ایک دنیا مخفی ہے۔ان سب صلاحیتوں سے کام لینا ‘ ان کی تنظیم و تربیت کرنا ‘ ان کو پروان چڑھانا‘ اپنی ذات کی تعمیر کے لیے ناگزیر ہے ۔ ملک کا انتظام اور دنیا کی امامت سنبھالنے سے پہلے ‘ اپنی ذات کی امامت سنبھالنا اور اپنی ذات پر قابو پانا اور اس پر اللہ کی حاکمیت قائم کرنا ضروری ہے۔
ہماری ذات ہمارا کردار اور شخصیت کیسی بھی ہو‘ ہمارا نام ارکان کی فہرست میں دیکھ کر فیصلہ نہیں ہوگا‘ بلکہ اعمال نامہ دیکھ کر فیصلہ ہوگا ۔ اسی طرح ناظم کا اور شوریٰ کا فیصلہ بھی اس کی ترازو میں کوئی وزن نہ رکھے گا بلکہ اعمال کی شہادت ہی فیصلے کی اصل بنیاد ہوگی۔ اس حقیقت اور روح کو اگر آپ نے سمجھ لیا اور پا لیا ‘ تب ہی صحیح معنوں میں اپنی ذات کی تعمیر ہو سکے گی۔
اپنی ذات کی تعمیر و تربیت میں اگر صرف دو چیزوں پر خاص طور پر توجہ مرکوز رہے ‘ تو اس کے اندر ساری چیزیں سمٹ آتی ہیں۔
پہلی چیز ’للہیت ‘ اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہے‘ یعنی جو کام کریں اللہ کے لیے کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ سب خرابیاں اخلاص کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اسی طرح اعمال میں جو وزن پیدا ہوتا ہے وہ اخلاص کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ‘ اور اللہ تعالیٰ نے اس زمین میں خلافت کا وعدہ بھی اخلاص کے ساتھ مشروط کیا ہے ۔ جہاں لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ (النور۲۴:۵۵۔ وہ انھیں زمین میں خلیفہ بنائے گا۔) کا وعدہ ہے وہاں یہ شرط بھی ہے: یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ(۲۴:۵۵- یعنی صرف میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کریں)۔ صرف اس صورت میں وہ ان کو زمین میں خلافت اور غلبۂ دین عطا کرے گا اور خوف کوامن سے بدل دے گا۔ یہ اللہ کے ساتھ تعلق اور اس کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگنے کا نتیجہ ہے۔ پھر بڑے بڑے عوامی ‘ سیاسی ‘ دعوتی اور تنظیمی کاموں میں بھی یہی رنگ آئے گا۔ صبغت اللّٰہ اللہ کا رنگ غالب آئے گا‘ اور ان میں سے ہر ایک تربیت کا ذریعہ بنے گا۔ دوسری صورت میں اجتماعات میں لوگ آئیں گے اوراٹھ کر چلے جائیں گے۔ خَرَجُوْا کَمَا دَخَلُوْا جس طرح داخل ہوئے تھے‘ اسی طرح نکل کے چلے جائیں گے۔ کوئی رنگ ان پہ نہیں چڑھے گا ‘ اور کوئی چیز ان کے دلوں میں نہیں اترے گی۔
دراصل للہیت اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور اخلاص کا نام ہے ۔ اس کے بغیر دین کا کوئی کام نہیں ہو سکتا اور اللہ کے ہاں قبول بھی نہیں ہوسکتا۔ مشہور حدیث ہے : اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ ،کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔ شہدا کی شہادت ‘ مال داروں کا انفاق اور قرآن کے عالموں کا درس‘ ان میں سے کوئی بھی چیز ان کو فائدہ نہیں دے گی اگراس کے ساتھ للہیت اوراخلاص نہ ہو۔ تحریک اسلامی سے وابستہ ہو کر جو کچھ بھی ہم کر رہے ہیں‘ اس سب کا ہماری ذات کے لیے آخرت میں اگر کوئی فائدہ ہے اور اگر دنیا میں بھی کوئی پھل ملے گا‘ تو وہ صرف للہیت اور اخلاص کی وجہ سے ملے گا‘ خواہ ہم رکن ہوں یا نہ ہوں۔
تعلّق باللّٰہ: اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق تو ایک الگ موضوع ہے۔ مختصراً میں اس کا بھی تذکرہ کرنا چاہوں گا ۔ اس ضمن میں چند چیزیں جو مختلف جگہوں پرمختلف طریقوں سے بیان ہوئی ہیں‘ ان میں سے صرف دو تین دعائیں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں تاکہ آپ کو یہ اندازہ ہو کہ کس قسم کا بندہ بننا مطلوب ہے۔ ایک دعا کے چند جملے ہیں:
رَبِّ اجْعَلْنِیْ لَکَ ذَکَّارًا ،میرے رب مجھے ایسا بنا دے کہ میں تجھے بہت یاد کروں۔
لَکَ شَکَّارًا ، اور بہت کثرت کے ساتھ اپنا شکر کرنے والا بنا دے۔
لَکَ رَھَّابًا ، تجھ سے بہت ڈرا کروں۔
لَکَ مِطْوَاعًا ، تیری بہت فرماں برداری کیا کروں۔
لَکَ مُخْبِتًا اِلَیْکَ اَوَّاھًا مُّنِیْبًا (ترمذی) تیرے آگے جھکا رہوں‘ اور آہ آہ کرتا ہوا تیری ہی طرف لوٹ آیا کروں۔
یہ ایک طویل دعا کا مختصر سا حصہ ہے ۔ اس میں آپ کے سامنے پوری تصویر کھینچ دی گئی ہے ‘ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیسا تعلق مطلوب و مقصود ہے۔
ایک اور بڑی جامع دعا ہے : اَللّٰھُمَّ طَھِّرْ قَلْبِیْ مِنَ النِّفَاقِ، اے اللہ تو میرے دل کو منافقت سے پاک کر دے‘ یعنی کہیں پر بھی دو رنگی نہ ہو ‘کہ زبان پر کچھ ہو‘ اورعمل کچھ اور ہو‘بلکہ یکسانیت ہو۔ وَعَمَلِیْ مِنَ الرِّیَا ، اورجو کام ہو اس کو ریا سے پاک کر دے‘ یعنی دکھاوے کے لیے نہ ہو۔ ہر کام میں صرف تیری رضا پر نظر ہو‘ اور صرف تیرے لیے کام کروں۔ وَلِسَانِیْ مِنَ الْکَذِبِ اور زبان کو جھوٹ سے پاک کر دے۔ وَعَیْنِیْ مِنَ الْخَیَانَہِ اور میری آنکھ کو خیانت سے پاک کر دے۔
ایک اور مختصر سی دعا ہے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ الرِّضَا بِالْقَضَائِ وَبَرْدَ الْعَیْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ ، (اے اللہ تو جو بھی فیصلہ کردے‘ اس پہ مجھے راضی رکھ ‘ اور موت کے بعد جو زندگی ہے اس زندگی کی لذت عطا کر)۔ گویا اصل مطلوب دنیا کی نعمتوں کی لذت نہیں بلکہ خدا کی رضا اورآخرت کی لذتیں ہیں۔ پھر فرمایا: وَلَذَّۃَ النَّظْرِ اِلٰی وَجْھِکَ الْکَرِیْمَ، (اور تیرے کریم چہرے کو دیکھنے کی لذت)۔ اس کے بھی دو معنی ہیں جو عام طور پر سمجھ میں نہیں آتے۔ ایک تو یہ ہے کہ آخرت میں تیرے چہرے پرنظر جمانے کی جو مجھے لذت ملنے والی ہے ‘ وہ مجھے عطا کر۔ لیکن آپ غور کریں تو اس کے ایک اورمعنی بھی ہیں‘ یعنی یہ کہ دنیا کے ہر کام میں ‘ تو اپنے چہرے پرنظر جما کے اپنی رضا طلب کرنے میں لذت پیدا کردے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی کام جبراً نہ ہو‘ مارے باندھے کا نہ ہو۔کوئی توجہ دلائے ‘کوئی ترغیب دے یا بالائی نظم کی طرف سے ہدایت یاسرکلر آئے تو کام ہو‘ بلکہ تیری رضا کی طلب میں ہو‘ یعنی یہ کہ جو ہو بس اسی کے لیے ہو جائے اور اس میں لذت پیدا کردے۔ وَالشَّوْقَ اِلٰی لِقَائِکَ، اور تیری ملاقات کا شوق۔
یہ تین دعائیں میں نے آپ کے سامنے رکھی ہیں۔ ویسے تو بہت سی دعائیں ہیں۔ میں نے دعائوں کو اس لیے وسیلہ بنا لیا‘ کہ دعا دراصل اپنی دل کی پیاس کا نام ہے ۔ انسان وہی چیز مانگتا ہے جس کی ضرورت کا اسے احساس ہوتا ہے ۔ ان چھوٹی سی تین دعائوں میں وہ تمام باتیں بیان ہوگئی ہیںجو للہیت اور تعلق باللہ کے لیے ضروری ہیں اور جن کی پیاس ہونی چاہیے‘ بھوک ہونی چاہیے‘ طلب ہونی چاہیے‘ جستجو ہونی چاہیے۔
میں دو چیزوں میں تعمیر کردار کو سمیٹنا چاہ رہا تھا۔ ایک چیز’’ للہیت‘‘ اللہ کے ساتھ تعلق ہے‘ اور دوسری چیز مخلوق کے ساتھ عدل اور احسان کا سلوک ۔
ہمارے ایک مشہور مصنف کا قول ہے کہ ’’مخلوق کو ایذا نہ پہنچانا‘یہ ساری شریعت کی بنیاد ہے‘‘۔ حکم ہے کہ اگر تین آدمی ایک جگہ اکٹھے ہوں تو دو آدمی الگ ہو کر بات نہ کریں۔ بغیر اجازت کسی کے گھر میں داخل ہونے کی ممانعت ہے۔ اسی طرح شادی‘ خاندان‘ تجارت‘ ریاست اور سیاست کے سارے اصول اسی بنیاد پر ہیں کہ کسی انسان کو کسی دوسرے انسان سے تکلیف نہ پہنچے ۔ حکم ہے کہ‘ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون ‘ مال اور اس کی عزت مکمل طور پر حرام ہے۔ ہمارے معاشرے میں خون بہانے کی نوبت تو بہت کم آتی ہے‘ اورشاید کچھ لوگ دوسروں کا مال بھی جائز ناجائز طریقے سے کھالیں لیکن کسی دوسرے کی عزت پر دست درازی بڑی عام ہے‘ جب کہ اسلام میں برائی کے ایک ایک رخنے کو بند کر کے مسلمان کی عزت کو بحال کیا گیا ہے ۔
ایک تیسری بات بھی قابل غور ہے کہ تربیت کے لیے مصنوعی ذرائع کے بجاے فطری ذرائع پر انحصار کر نا چاہیے۔ تربیت کے لیے بڑے بڑے نصابوں اور تربیت گاہوں سے گزرنا بالکل ضروری نہیں ہے ۔ اگرچہ ان سب سے تربیت میں بڑی مدد ملتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ ذرائع اہمیت کے حامل ہیں۔ تربیت کا فطری طریقہ یہ ہے کہ روز مرہ زندگی میں ان پہلوئوں پر توجہ مرکوز رہے ‘ یعنی کہیں کسی کو مجھ سے تکلیف نہ پہنچ جائے‘ کسی کا دل خوش کر دوں ‘ کسی سے مسکرا کے مل لوں‘ تو ان اعمال کی بنا پر بھی اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کر سکتا ہے ۔ کسی کے راستے سے کوئی تکلیف دہ چیز ہٹا دی جائے تو اس پر بھی جنت مل سکتی ہے ۔ کسی کی زندگی میں کوئی آسانی پیدا کر دی جائے تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا سکتی ہے اور اس کے قرب سے نواز سکتی ہے ۔ اسی طرح اس کے ذکر ‘ شکر اور خوف اور توبہ و استغفار کا معاملہ ہے۔ یہ سب چیزیں تربیت کا ذریعہ ہیں۔ اگرچہ روز مرہ کام ہی جاری رہیںگے‘ اورمعمول سے ہٹ کر کچھ نہ کرنا ہو گا‘ لیکن ان کے ذریعے سے ہر چیز میں وہ روح پیدا ہو جائے گی جو قلب کو آہستہ آہستہ صاف کرے گی‘ اس کو جلا بخشے گی اور کردار سازی کا ذریعہ ہوگی۔ ان سب باتوں کا تعلق ایک فرد کی ذات اورانفرادی تربیت سے ہے۔
تربیت کا دوسرا پہلو اجتماعیت سے متعلق ہے ‘ اور وہ یہ کہ ہماری اصل ذمہ داری ایک نئے تہذیب و تمدن کی تعمیر ہے۔ اسلامی تحریک اسی لیے وجود میں آئی ہے ۔ یہ سارے کام جن کا تذکرہ کیا گیا ہے یہ کسی خانقاہ میں بھی ہو سکتے ہیں‘ اور اس سے قبل ان کو کرنے والے خانقاہوں میں ہی پائے جاتے تھے۔ اسی طرح علمِ دین کسی مدرسے سے بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ لیکن اصل چیز جس کی وجہ سے ہم سب جمع ہوئے ہیں‘ اورجس نے ہمارا آپس میں تعلق قائم کیاہے ‘وہ اس کے علاوہ اورکیا ہے کہ ہم دنیا کے اندر اللہ کے دین کی بنیاد پرایک نئی تہذیب اور ایک نئے تمدن کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔ امامتِ عالَم پر ہماری نظر ہے‘ جیسا کہ مکہ اورمدینہ میں بالکل بے بس و بے کس اورمظلوم انسانوں کے ذہن میں یہ بات تھی کہ عرب و عجم اور قیصر و کسریٰ کے خزانے اور ساری دنیا ہمارے قدموں میںہے۔ اسی لیے جیسے ہی وہ مدینہ سے نکلے تو ان کے ہاں یہ بحث نہیں چھڑی تھی کہ ہم سیاست میں پڑ گئے ہیں یا ہم فتوحات اور مالِ غنیمت سمیٹنے میں لگ گئے ہیں‘ بلکہ اندلس کے ساحل تک پہنچ کر بھی یہی کہا گیا کہ اگر ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ اس کے آگے بھی کوئی اور زمین ہے تو ہم وہاں بھی اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے ضرور پہنچ جاتے ۔یہ تحریک بھی دراصل اسی لیے بنی ہے‘ اور اسی لیے آپ اس کا حصہ ہیں۔ اگر یہ مقصد ذہن سے محو ہو جائے تو پھر یہ تعلق باللہ اور یہ ساری چیزیں اگرچہ بڑی عمدہ اوربڑی اچھی ہیں اور ان شاء اللہ یہ نجات میں بھی مدد دیں گی‘ لیکن یہ مطلوب نہیں ہے۔ مطلوب تو دراصل غلبۂ دین اور ایک نئے تہذیب و تمدن کی تعمیر ہے۔
ہماری تحریک کا بنیادی مقصد اوراہم ترین کام تہذیب و تمدن کی تعمیر ہے۔ اسی لیے ہمارے لٹریچر میں بار بار کہا گیا ہے کہ ہمیں قیادت کا منصب سنبھالنا ہے۔ ایک ایک علاقے کے عوام کو سنبھالنا ہے۔ آپ کی ذات عوام کا مرجع بن جائے‘ آپ تعمیر اقدار کے ساتھ ساتھ اجتماعی قیادت بھی سنبھالیں۔ آپ عوام کے لیڈر ہی نہیں‘ تہذیب و تمدن کے معمار بھی ہوں ‘ اور بہترین سیرت کے حامل بھی ہوں۔ اس کے لیے اسی معاشرے سے ہم کو ہر اُس قوت کو جمع کر لینا اور اپنے ساتھ ملانا ہے جو معاشرے کی تبدیلی اور تہذیب و تمدن کی تعمیر میں ہمارا ہاتھ بٹاسکے۔
تحریک اسلامی سے وابستہ یہ گروہ اس لیے بھی نہیں ہے کہ اپنی ذات میں گم ہو جائے‘ اور اپنی تعداد سے مطمئن ہو جائے کہ ہم نے طے شدہ تنظیمی کام کر لیے ہیں اور یہ کافی ہیں۔ دراصل وہ تمام لوگ جن تک یہ دعوت نہیں پہنچی ‘ وہ سب اس بات کے منتظر ہیں کہ ان تک یہ دعوت پہنچائی جائے۔ وہ قیامت کے روز ہمارا دامن پکڑ سکتے ہیں‘ یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ تمھارے پاس تو حق پہنچاتھا‘ مگر تم نے ہم تک اسے نہیں پہنچایا ‘ تم نے ہم کو اپنے دامن میں نہیں سمیٹا ‘ اوراپنے ساتھ لے کر دین کی راہ پر نہیں چلایا۔ یہ وہ چیز ہے جو سب سے اہم ہے ‘ اورجس کے لیے یہ تحریک برپا ہوئی ہے اور جس کے بغیر ہمارا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا ۔
اس ضمن میں جو سب سے زیادہ کارگر چیز ہے وہ اخلاق حسنہ ہے ۔ کوئی اور چیز اتنی مؤثر نہیں ہو سکتی جتنا آپ کا اخلاق حسنہ ہوسکتا ہے ۔ جو کام اخلاق حسنہ کر سکتا ہے ‘ وہ کام نہ کتاب کر سکتی ہے ‘ نہ تقریر ‘ نہ وعظ اور نہ اجتماع ہی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ہفتے میں دو دن سے زیادہ وعظ کرنے کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ آپؐ کا جمعے کا خطبہ بڑا مختصر ہوا کرتا تھا‘ نیز آپؐ جگہ جگہ تقاریر بھی نہیں کیا کرتے تھے۔ اگر میری بات کو غلط نہ سمجھا جائے اور میں قرآن کی اہمیت کو کسی طرح بھی کم نہیں کر رہا‘ اگر سیرت النبی ؐ کا جائزہ لیا جائے ‘ واقعات کو دیکھا جائے‘ تو جو لوگ قرآن سن کر یا پڑھ کر ایمان لائے‘ ان کی تعداد انگلیوں پہ گنی جا سکتی ہے‘ جب کہ وہ لوگ جو حاملِ کتاب کا اخلاق اور چہرہ دیکھ کر ایمان لے آئے ‘ وہ فوج در فوج تھے۔ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلمکا روشن چہرہ دیکھ کر ایمان لے آیا ‘ کوئی آپؐ کا دل نواز حسنِ اخلاق دیکھ کر متاثر ہو گیا‘ کسی نے آپؐ کی فیاضی دیکھی ‘ اور کسی کے سینے پہ آپؐنے ہاتھ رکھ دیا اور اس کی ٹھنڈک محسوس کر کے وہ آپؐکا گرویدہ ہو گیا۔ اس طرح بڑی تعداد میں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ یہی وہ لوگ تھے جن سے وہ قوت بنی جس نے اسپین سے لے کر چین تک اسلام کو غالب کر دیا۔
اگر آپ یہ چاہیں کہ معاشرے سے الگ تھلگ ہوکر اپنے تنظیمی کام میں مصروف رہیں‘ اورایک بڑی تعداد میں عام لوگ ‘ نوجوان ‘ طلبہ و طالبات ‘ مرد و خواتین آپؐ کے اس اخلاق کی ایک جھلک نہ دیکھ پائیں کہ جونبی کریمؐ کے پاس تھا ‘ تو پھر دعوت کا کام وسیع پیمانے پر اور اس مؤثر انداز میں نہیں ہو سکتا جو اس کا فطری تقاضا ہے۔
دعوت دین ‘ شہادت حق اور فریضہ اقامت دین کی بہ احسن ادایگی کے مزید کچھ اور تقاضے بھی ہیں‘ ان کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے‘ مثلاً: معاشرے میں دعوت کو قبول کرنے کی استعداد۔
تہذیب و تمدن کی تعمیر‘ جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ معاشرے کے اندر ہوگی ‘ لہٰذا معاشرے کے اندر اس کی استعداد پیدا ہونا بھی ضروری ہے ۔ اس مقصد کے لیے دین کی بنیادی تعلیم ‘ اللہ سے محبت اور تعلق ‘ اور اللہ کے احکامات کی تعمیل کے لیے آمادگی ‘ یہ وہ چیزیں ہیں جو معاشرے کے اندر عام ہونی چاہییں۔ اس لیے ہمارا اوّلین فرض معاشرے کی تربیت کرنا ہے۔ عام انسانوں میں دین پھیلانا ہے ‘ ان کو تعلیم دینا ہے اور ان کی تربیت کرنا ہے۔
تعمیرمعاشرہ کے حوالے سے یہ بنیادی بات بھی ہمیشہ سامنے رہنی چاہیے کہ معاشرہ کبھی ایک سانچے میں نہیں ڈھل سکتا‘ تمام لوگوں میں کبھی ایک جیسی استعداد نہیں پیدا ہو سکتی ‘ اور کبھی بھی سب لوگ ایک معیار کے نہیں ہو سکتے۔ اگر ہم چاہیں بھی تو سب کو ایک جیسا نہیں بنا سکتے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو متنوع اور مختلف سوچ وکردار کا حامل بنایا ہے ۔ پھر انسانوں کو ضعیف پیدا کیا گیا ہے: وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا o (النساء ۴:۲۸) ، لہٰذا وہ ضعف اور کمزوری کا شکار ہوگا۔ انسان کو عجلت پسند بھی بنایا گیا ہے ۔ وہ عجلت پسندی کا مظاہرہ بھی کرے گا۔ غرض انسان کا بہت سی کمزوریوں کا شکار ہونا فطری امر ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ انھی انسانوں سے ہمیں وہ قوت فراہم کرنا ہے جس سے ہم معاشرے کی تعمیر کر سکیں اور ایک نئی تہذیب و تمدن کی بنیاد اٹھا سکیں۔ اس حقیقت کو اگر سامنے رکھا جائے تو پھر ہم ہر ایک سے کچھ نہ کچھ حاصل کرسکتے ہیں‘ اور ہر ایک کو کچھ نہ کچھ دے سکتے ہیں۔ اگر ہم ذروں کو جمع کر لیں تو پہاڑ بن جائے گا‘ اور قطرہ قطرہ دریا بن جائے گا۔ پھر یہی پہاڑ اور دریا بالآخر اس نظام کی حقانیت کو ثابت کردیں گے‘ اور اس سیلاب سے پوری دنیا کے اندر اس دین کو پھیلا دیں گے جس کو ہم نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بغیر یہ کام ممکن نہیں ہے۔ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ صرف ایک گروہ تیار کر لینے سے کام ہو جائے گا تو ایسا نہیں ہوگا۔
میرا یہ نقطۂ نظر قرآن و حدیث اورسیرت کے مطالعے‘ سوچ ‘ فہم اور تجربے کی بنا پر ہے ۔ ممکن ہے کہ آپ کو میری اس بات سے اتفاق نہ ہو ‘ لیکن مجھے اس لیے کامل یقین ہے کہ جب تک ہم یہ صلاحیت نہیں پیدا کر یں گے کہ ہر قسم کے لوگوں کو ہمارے دامن میں پناہ ملے ‘ گناہ گار بھی آئیں اور وہ بھی ہم سے نرمی اورمحبت پائیں‘ اور ہم ان کو توبہ و استغفار کی تلقین کرسکیں اور وہ بھی ہمارے ساتھی بن سکیں‘ بے کس اور نادار آئیں وہ بھی ہمارے ساتھی بن سکیں___ اس وقت تک کوئی بڑی تبدیلی لانا ممکن نہیں ۔
دراصل یہ وہ چیز ہے جس سے ہم وہ قوت فراہم کر سکتے ہیں جو اس کام کو نتیجہ خیز اور پایۂ تکمیل تک پہنچا نے کا ذریعہ بن سکتی ہے ۔ اس قوت کے حصول کے لیے بھی کچھ بنیادی اصول ہیں۔اس حوالے سے مختصراً دو تین چیزیں بیان کر دیتا ہوں۔
اس ضمن میںایک اہم اصول تیسیرِ دین کا ہے۔ تیسیر عربی کا لفظ ہے جس کے معنی آسان کرنا اور آسان بنانا کے ہیں۔ حضوؐر نے اس کی بہت نصیحت کی ہے۔ جہاں بھی لوگوں کو مبلغ اور داعی بنا کے بھیجا وہاں اور باتوں کے علاوہ یہ ضرور کہا کہ بَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا ، یعنی دین اس طرح پیش کرو کہ لوگوں کو بشارت دو‘ آسانی دو تاکہ لوگ اسے قبول کریں اور ان کو متنفرمت کرنا۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ایک جگہ بہت واضح طور پر فرمایا ہے کہ نیکیاں تو ہم وہی قائم کریں گے جن کا اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے‘ برائیاں بھی وہی جڑ سے مٹائیں گے جو اللہ اور رسولؐ نے بتائی ہیں‘ لیکن ہم اس میں تقدیم و تاخیر کرسکتے ہیں۔ البتہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کن نیکیوں کو ہم پہلے کریں گے اور کن کو بعد میں ‘کن برائیوں کو پہلے مٹائیں گے اورکن کو بعد میں ‘یہ فیصلہ ہم اپنے حالات اور اپنی قوم کی نفسیات کو دیکھ کر ہی کریں گے۔ اگر مریض کی نبض پر ہاتھ رکھے بغیر‘ اور نفسیات کو جانے بغیر ہر ایک کو ایک ہی دوا دی جائے تو وہ غیرمؤثر ہوجائے گی۔ اسی طرح لوگوں کے مزاج کو جانے بغیر اگر عمل کی ترغیب دی جائے تو وہ اس پر عمل پیرا نہ ہوں گے۔
تنظیم کے حوالے سے میں دو باتیں کہنا چاہوں گا۔ ایک یہ کہ جان دار تنظیم وہ نہیں ہے جہاں سارا کام سرکلروں اور بالائی نظم کے حکم پر چلتا ہو۔ روداد جماعت اسلامی حصہ اوّل میں سیدمودودیؒ کے یہ الفاظ بڑے غور طلب ہیں: ’’اصل میں تنظیم وہ ہے جو اُوپر کی ہدایات کے انتظار میں نہ ہو‘ بلکہ اصول و ضوابط معلوم ہوں‘ اور کوئی کہے یا نہ کہے لوگ خود صحیح فیصلے کر کے اپنا کام کریں‘‘۔ جب ہر جگہ اس کی ضرورت پڑے کہ کوئی توجہ دلائے اور آگے بڑھائے تو کام ہو ‘ تو یہ کوئی مؤثر تنظیم نہ ہوگی۔ اصل جان دار تنظیم تو وہی ہو گی کہ کسی بڑے سے بڑے معرکے میں اگر صرف ایک پلٹن بھی میدان جنگ میں ہو تو اس کو معلوم ہو کہ اسے کیا کرنا ہے ۔ اگر کسی کمانڈر انچیف سے اس کا رابطہ نہ بھی ہو ‘ تو پھر بھی وہ اپنی لڑائی لڑے ۔ اس کو یہ معلوم ہو کہ کس طرح لڑنا ہے ‘ کہاں سے آگے بڑھنا ہے ‘ اور کیا حکمت عملی اپنانی ہے۔ اس کے مقابلے میں جو پلٹن ہمیشہ اس بات کی منتظر رہے کہ وائرلس پر حکم آئے گا تو لڑیں گے ‘ وہ پلٹن کسی بڑی جنگ میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کر سکتی۔ اگر تنظیم سازی اور تربیت میں اس اصول کو پیش نظر رکھا جائے کہ لوگ از خود کام کریں‘ بغیر اس کے کہ اوپر سے کوئی کہے یا توجہ دلائے۔ نیز ان ضوابط کی حدود میں رہیں جو ضوابط کام کرنے کے لیے متعین ہیں‘ تو اس سے بہت فائدہ ہو گا۔ ایسی تنظیم ایک مؤثر تنظیم کی طرح آگے بڑھ سکتی ہے۔
یہ بات بھی ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے کہ تنظیم ازخود کوئی مقصد یا مطلوب نہیں ہے۔ اگر تحریک کے وسائل اور انسانوں کا بڑا حصہ تنظیم پر صَرف ہونے لگے ‘ تو اس کے معنی ہیں کہ کہیں کوئی نہ کوئی خرابی ہے ۔ اس لیے کہ اصل کام تو دعوت و تربیت ‘ عوام کو تیار کرنا‘ منظم کرنا اور ان تک بات پہنچانا ہے۔ تنظیم تو اس کا ایک ذریعہ ہے ۔ اگر ذریعہ ہی وسائل کا بڑا حصہ کھانا شروع کردے اور زیادہ تر وسائل اسی پر کھپنا شروع ہو جائیں تو یہ سرا سر خسارے کا سودا ہے ۔ اس بات کو یوں سمجھیے کہ اگر مسجد بنانے میں ہی سارا مال اور سب کچھ لگ جائے اورنماز پڑھنے کی فرصت ہی نہ ہو تو پھر مسجد بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ حالانکہ مسجد تو بڑی محترم و مقدس جگہ ہے ۔ لہٰذا یہ وہ پہلو ہے جو تنظیم کے بارے میں سامنے رکھنا بہت ضروری ہے کہ تنظیم دعوت کے کام اور اصل اہداف کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بنے ‘ وسائل کا بڑا حصہ اس حوالے سے صرف ہو‘ نہ کہ تنظیم کو برقرار رکھنے میں۔
ایک اور اہم بات جو کام کرتے وقت سامنے رکھنے کی ضرورت ہے‘ وہ یہ کہ تدبیر اور حکمت عملی ایک چیز ہے اور اصول ایک دوسری چیز ۔ اس اصول کو سامنے رکھیں کہ زمانے اورحالات کے ساتھ ‘ اگر تحریک میں اتنی اہلیت نہ ہو ‘ اتنی قوت اور دماغی صلاحیت نہ ہو کہ اپنی سوچ ‘حکمت عملی اور تدابیر کو حالات کے لحاظ سے بدل سکے تو پھر مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں اس کی مثال ایک ایسے عطار کی ہو گی جس کے پاس نسخوں کی ایک کتاب ہو اور وہ اس کتاب سے ہر ایک کو ایک ہی نسخہ بنا کر دے رہا ہو ‘ یہ جانے بغیر کہ مرض کیا ہے ‘ اس کی حالت کیا ہے ‘ کن مسائل کا اسے سامنا ہے ‘ کس مریض کو کس چیز سے پرہیز کرانا ہے‘ اورکس کو کس دوا سے فائدہ ہوگا‘ اگرچہ بظاہر مرض ایک ہی نظر آتا ہو۔ ایک ایسے عطار کی طرح جو حکمت سے خالی ہو اگر اسلامی تحریک بھی ہر قسم کے حالات میں ایک ہی حکمت عملی پر عمل پیرا رہے تو وہ دین کے کام کو آگے نہیں بڑھا سکتی۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: جماعت اسلامی ، حکمت عملی اور لائحہ عمل‘ ترتیب : خرم مراد‘ ترجمان القرآن‘ جنوری ۱۹۹۳ئ)
غور کیجیے کہ حکمت اور حُکم دونوں عربی زبان کے الفاظ ہیں‘ دونوں کا ایک ہی مادہ ہے ‘ یعنی ح ‘ ک ‘ م۔ حکمت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریمؐ نے جہاں کتاب کی تعلیم دی وہاں حکمت کی تعلیم بھی دی۔ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴) ’’وہ ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے ‘‘۔ میرے نزدیک یہاں کتاب کے معنی احکام کے ہیں‘ اور حکمت کے معنی دراصل ان احکام کو نافذ کرنے اور ان پر عمل کرنے کے لیے جس سمجھ بوجھ اورفہم کی ضرورت ہے اس کے ہیں۔ حکمت کے بغیر صرف احکام سے کام نہیں کیا جا سکتا ‘ حکمتِ دین کا فہم ناگزیر ہے۔ لہٰذا اپنی تدبیر اورحکمت عملی میں تغیر و تبدل کی قدرت اور استطاعت رکھنا‘ یہ وہ چیز ہے جس کی دعوت دین اوراقامت دین کے فریضے کی ادایگی کے لیے ہر لمحے ضرورت پڑتی ہے۔
اس کام کو کرتے ہوئے ایک بنیادی بات اضطراب اور بے چینی کا پیدا ہونا ہے کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں اس کو مزید بہتر انداز میں کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف جائزے میں لکھ دیا جائے کہ ہم کو کام بہتر سے بہتر انداز میں کرنا چاہیے‘ بلکہ واقعتاً ایک اضطراب اور بے چینی پائی جانی چاہیے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے بہتر ہونا چاہیے ۔ اگر یہ احساس نہیں پایا جاتا اور یہ سوچ پیدا ہوجائے کہ جو کچھ ہو رہا ہے‘ ٹھیک ہو رہاہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی منزل اور اپنے مقصد سے غافل ہیں اور ہمیں کوئی احساس نہیں ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ جو عظیم الشان مقصد ہمارے پیشِ نظر ہے اور اللہ نے اقامتِ دین کی جو ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر ڈالی ہے ‘ اس کو بخوبی نبھانے اور اس کا حق ادا کرنے کے لیے بہت کچھ سوچنے‘ مضطرب اور بے چین رہنے کی ضرورت ہے ۔ نبی کریمؐ کس قدر مضطرب رہتے تھے‘ اس کی عکاسی اس آیت قرآنی سے ہوتی ہے: فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا o (الکھف ۱۸:۶)‘ گویا آپؐ اپنا گلہ گھونٹ ڈالیں گے اس بات کے پیچھے کہ سب لوگ مومن ہو جائیں ‘ اور سب لوگ ہمارے ساتھ آجائیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے ۔ اس میں نہ کوئی ڈانٹ ہے اورنہ کوئی تنبیہہ ‘ بلکہ بڑی محبت اور شفقت کے ساتھ توجہ دلائی گئی ہے۔ حضوؐر کی بے پناہ خواہش تھی اور وہ چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح لوگ اسلام قبول کر لیں ۔ اس کے لیے آپؐ بڑی تگ و دو کرتے تھے‘ اور مضطرب رہتے تھے ۔ آپؐ کے اسی اضطراب کی بنا پر حضوؐرکو مخاطب ہوکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کہ تم چاہو تو سیڑھی لگا کے آسمان پہ چڑھ جائو‘ اور سرنگ کھود کے زمین میں گھس جائو‘ لیکن سب لوگ تمھاری بات ماننے والے نہیں ہیں‘‘۔ یہ بھی کوئی تنبیہہ نہیں ہے بلکہ حضوؐر کی جو قلبی کیفیت تھی‘ آپؐ کی جو نفسیات ‘ اور آپؐ میں جو اضطراب اور بے چینی تھی‘ دل کی گہرائیوں سے آپؐ کی جو تڑپ تھی کہ لوگ میری بات مان جائیں اور نجات پا لیں‘ یہ اس کی عکاسی ہے‘ اور بڑی خوب صورت عکاسی ہے۔ یہ ایک داعی کے اضطراب کی بہترین مثال ہے۔
اس راہ میں قناعت ایک کینسر کی مانند ہے ‘ جب کہ اضطراب اور بے چینی وہ اصل قوت ہے‘ جس سے کام آگے بڑھتا ہے۔ اسی لیے حضوؐر کو حمد کے ساتھ استغفار کرنے کا حکم دیا گیا ۔ لوگ جب فوج در فوج دین میں داخل ہو رہے تھے تو فرمایا: فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ ط (النصر ۱۱۰:۳) ’’پس آپ اپنے رب کی حمد کیجیے اور اس سے مغفرت مانگیے‘‘۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے رب کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں ہدایت دی ‘ حق کی راہ دکھائی ‘ اس راہ پر چلایا‘ اس کا شعور بخشا اور اس کے لیے اضطراب اور بے چینی سے نوازا۔ یہ کوئی کم نعمت نہیں بلکہ بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن جتنی بڑی نعمت ہے اس کا اتنا ہی بڑا حق ہے۔ اس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے اتنا ہی کم ہے۔ اسی طرح جہاں شکر کرنے کی ضرورت ہے وہاں استغفار بھی کیجیے کہ جو حق ہے وہ ادا نہیں ہورہا‘ اور اس راہ میں کوئی کمی کو تاہی ہو تو اسے اللہ معاف کر دے۔
اس کے ساتھ ساتھ اس کام کے کرنے پر کبھی اپنے اوپر یہ زعم نہ کیجیے کہ یہ کام ہمارے کرنے سے ہو گا۔ اس لیے کہ اللہ کو زعم بڑا نا پسند ہے۔ اس سے سارا کام غارت ہو جاتا ہے۔ اللہ کو تواضع اورانکساری پسند ہے ۔ کام تو اللہ کے کرنے سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزوۂ بدر کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے حضوؐر کو مخاطب کر کے فرمایا کہ غزوہ بدر میں تم نے انھیں نہیں قتل کیا بلکہ ان کو اللہ نے قتل کیا‘ اور تم نے وہ مٹھی بھر خاک نہیں پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی تھی۔ گویا جو کام بھی ہو گا وہ اللہ کے کرنے سے ہوگا۔ اسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔ ماشاء اللّٰہ ولا قوۃ الا باللّٰہ،جو وہ چاہتا ہے وہی ہو گا۔ قوت اس کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا ہماری یہ سوچ ہونی چاہیے کہ دعوت دینے سے کسی کادل نہیں بدلے گا ‘ ہمارے کام کرنے سے کام نہیں ہوگا‘ بلکہ جو کچھ ہو گا اللہ کے کرنے سے ہوگا۔ اگر اضطراب اور بے چینی بھی ہوگی کہ ہم زیادہ سے زیادہ اور اچھے سے اچھا کام کریں ‘ نئی سے نئی تدابیر اختیار کریں‘ اور ساتھ ہی اپنے اوپر زعم نہ ہو کہ یہ کام ہمارے کرنے سے ہو گا‘ تو اس کے نتیجے میں تواضع و انکساری اور عاجزی بھی پیدا ہوگی۔
تحریکِ اسلامی اور رکنیت اور اس کے تقاضوں سے متعلق یہ چند باتیں ہیں۔ ان سے اختلافِ راے بھی ہو سکتا ہے ‘ مگر جو باتیں اچھی لگیں‘ ان کو قبول کر لیں اور ان پر عمل کیا جا سکے تو ضرور کیجیے۔ خدا ہمیں عہد رکنیت اور اس کے تقاضوں کو بخوبی پورا کرنے اور فریضۂ اقامتِ دین کو احسن انداز میں ادا کرنے کی توفیق دے ۔ آمین! (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)
(کچھ حصے حذف کیے گئے ہیں۔ مکمل متن کتابچے میں دستیاب ہے۔ تحریک اور رکنیت‘ منشورات‘ منصورہ‘لاہور)