خرم مراد


دعوت کے اس سال اور تذکار سیرتؐ کے اس مہینے میں ہم قرآن کی روشنی میں حیاتِ طیبہؐ میں دعوت کے مقام کی اہمیت پر محترم خرم مراد کا ایک منفرد مطالعہ پیش کر رہے ہیں۔ دعوتِ دین کا کام کرنے والے ہر فرد کے لیے اس میں عملی رہنمائی ہے۔ (ادارہ)

مقام دعوت سے آپؐ کے قلب و ذہن کا تعلق‘ اس کی عظمت اور ذمہ داری کا احساس‘ اس کے لیے آپؐ کی لگن‘ اس کے لیے اپنی علمی‘ روحانی‘ اخلاقی اور عملی تیاری اور اس راہ میں آپؐ کی نفسیاتی کیفیات کا ایک وسیع اور اہم موضوع ہے‘ جس پر قرآن مجید نے روشنی ڈالی ہے۔ ہم صرف چند موتی ہی چن سکتے ہیں۔

احساس عظمت اور دل کی لگن

دعوت الی اللہ‘ شہادت حق اور اقامت دین کا مقام اور کام‘ جو وحیِ الٰہی کی امانت کا لازمی نتیجہ ہے‘ بڑا نازک اور گراں بار کام ہے۔ ہر اس شخص کے لیے ہے‘ جس پر یہ ذمہ داری آتی ہو۔ لیکن جو سالار قافلہ ہو اس کے لیے اس عظیم ذمہ داری کے بوجھ کا کیا ٹھکانا۔

کوئی بھی اگر اس کو ایک مشغلے اور ایک پیشے کی طرح یا ماحول کے دبائو یا صرف اپنی اندرونی کیفیات کی تسکین کی خاطر اٹھائے تو اس کا صحیح حق ادا نہیں کر سکتا‘ جب تک وہ اس کو اپنے رب کی طرف سے عائد کردہ فرض نہ سمجھے۔ اس لیے کہ یہ راہ کٹھن ہے اور اس کے مطالبات نازک‘ اور سب سے زیادہ قائد کے لیے۔ اس کو‘ سب سے بڑھ کر‘ اس راہ میں مکمل بے نفسی‘ بے غرضی‘ خلوص اور للّٰہیت درکار ہے۔ اس کو انتہائی اعلٰی اخلاق کی ضرورت ہے۔ لازم ہے کہ وہ مخالفتوں کے طوفان میں صبر و ثبات پر قائم رہے۔ کامیابی کے مادی امکانات معدوم ہونے کے باوجود اپنے کام میں لگا رہے۔ برائی کا جواب بھلائی سے دے۔ گالیوں اور کانٹوں کے درمیان مسکراہٹ کے ساتھ گزر جائے‘ پتھر کھا کر ہدایت کی دعا دے۔ مخالفین تک کے ساتھ طنز و استہزا اور تذلیل و تحقیر کی روش اختیار نہ کرے۔ کمزور اور ناتواں ساتھیوں کو لے کر دشوار گزار مراحل سے گزرنے کا حوصلہ و ہمت رکھے۔ اپنوں کے ستم بھی خاموشی کے ساتھ سہہ لے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی ذمہ داری پر فائز ہونے کے احساسات کے ساتھ کبر اور پندارِ نفس اور تنگ نظری کے فتنوں سے بھی خود کو محفوظ رکھے۔ گویا اس کے اخلاق‘ مجسم قرآن ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی معراج پر پہنچے ہوئے تھے۔ طائف کی کٹھن وادی سے کامیابی کے ساتھ گزر جانے کے بعد ہی آپ کو آسمان کی بلندیوں پر لے جایا گیا۔ عرب و عجم آپؐ کے قدموں پر ڈال دیئے گئے۔

حضوؐر کو اس بات میں کیا شبہہ ہو سکتا تھا کہ آپؐ کو یہ کام اللہ کی طرف سے سپرد ہوا ہے اور جو کچھ آپؐ کر رہے ہیں وہ اللہ کا کام ہے۔ ایسا کوئی شبہہ آپؐ کو لاحق نہیں ہوا۔ اس معاملے میں آپؐ کے یقین کی کیفیت بالکل منفرد تھی‘ اور اس کا کوئی حصہ بھی‘ میرے خیال میں‘ کسی کو نصیب نہیں ہوسکتا‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ آپؐ سے کلام کرتا تھا۔ جبریل ؑ آپؐ کے پاس تشریف لاتے تھے اور وحی آپؐ کے قلب مبارک پر نازل ہوتی تھی۔ ہم امتیوں کا حصہ تو بس اتنا ہی ہے جو ہم قرآن کے ان الفاظ پر یقین کی کیفیت سے حاصل کریں اور یہ ہمارے لیے کافی ہے‘ اگر کماحقہ ہمیں حاصل ہو:

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ (البقرہ ۲: ۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ’اُمت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰہِ (الصف۶۱: ۱۴) اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کے مددگار بنو۔

مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَـہٗٓ (البقرہ ۲: ۲۴۵) تم میں کون ہے جو اللہ کو قرضِ حَسن دے‘ تا کہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے۔

قرآن میں جہاں حضوؐر کو مخاطب کر کے فَلَا تَکُن مِنَ الْمُمْتَرِیْن(شک کرنے والے نہ ہو جائو) کہا گیا‘ تو اوّل تو خطاب کے پردے میں عتاب کا رخ مخالفین کی طرف ہے۔ دوم یہ‘ کہ اس کیفیت کا اظہار ہے جو اس وقت طاری ہوتی ہے‘ جب کسی کو اپنی آنکھوں سے نظر آ رہا ہو کہ سورج نکلا ہوا ہے اور سارے دیدئہ بینا رکھنے والے اس کو جھٹلانے اور مذاق اڑانے میں مصروف ہوں اور‘ وہ سوچے کہ آخر ان کو کیا ہو گیا ہے!

اللّٰہ کا کام سمجہنے کی کیفیت

آپؐ نے سارا کام اسی احساس و یقین کے ساتھ سرانجام دیا کہ یہ اللہ کا کام ہے۔ قرآن جب اترتا تو اکثر اس یقین کو گہرا کرنے کے لیے وضاحت و صراحت سے کام لیتا: یہ رب العالمین کی طرف سے اتر رہا ہے‘ آپؐ حق پر ہیں‘ آپؐ صراط مستقیم پر ہیں‘ آپؐ مرسلین میں سے ہیں۔ اس طرح آپؐ کے ساتھ ساتھ‘ صحابہ کرامؓ کی کیفیت ِیقین میں بھی اضافہ ہوتا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس چیز کی یاد دہانی سے کسی لمحہ بھی نہ غفلت برتی جا سکتی ہے نہ فارغ ہوا جا سکتا ہے۔ اور اگر یہ احساس کمزور ہوتا تو خرابیاں سر اٹھاتیں۔ اور جب ایمان و احساس کمزور ہوتا ہے تو پھر خرابیاں ضرور سر اٹھاتی ہیں۔ اگر آپؐ کے کردار کو کسی ایک لفظ سے ظاہر کرنا مقصود ہو تو وہ ’صبر‘ کا لفظ ہو سکتا ہے‘ محدود معنوں میں نہیں بلکہ اپنے گوناگوں جامع معانی میں۔ اور آپؐ کا یہ سارا صبر اپنے رب کی خاطر تھا۔ اس لیے کہ کام بھی اسی کی خاطر تھا:

وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ o (المدثر۷۴:۷) اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو۔

مالک کی نگاھـوں میں

اس ضمن میں ایک اور اہم کیفیت تھی جو آپؐ پر طاری رہتی تھی۔ وہ یہ کہ آپؐ یہ سارا کام اس مالک کی نگاہوں کے سامنے کر رہے ہیں جس نے اس کام پر مامور کیا ہے۔ وہ ساتھ ہے سب کچھ سُن رہا ہے‘ دیکھ رہا ہے‘ وہ بھی جو مخالفین کہہ رہے ہیں یا کر رہے ہیں‘ اور وہ بھی جو ساتھیوں کی طرف سے ہے‘ اور وہ بھی جو میں کہہ رہا ہوں اور کر رہا ہوں:

وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْیُـنِنَا (الطور۵۲: ۴۸) اے نبیؐ، اپنے رب کا فیصلہ آنے تک صبر کرو‘ تم ہماری نگاہ میں ہو۔

اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰی o (طٰہٰ ۲۰: ۴۶) میں تمھارے ساتھ ہوں‘ سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔

وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ ط (الحدید۵۷: ۴) تم جہاں کہیں بھی ہو وہ تمھارے ساتھ ہے۔

وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْـدِo (ق ۵۰: ۱۶) اور ہم شاہ رگ سے زیادہ اس کے قریب ہیں۔

غرض‘ دو ہوں تو تیسرا وہ ہے (التوبہ ۹:۴۰)۔ تین ہوں تو چوتھا وہ ہے۔ کم ہوں یا زیادہ‘ تو بھی وہ ساتھ ہے (المجادلہ۵۸: ۷)۔ اس کیفیت میں دو خزانے مستور ہیں: ایک خزانہ توسکون‘ طمانیت‘ اعتماد‘ توکّل‘ جرأت‘ بے خوفی‘ ولولہ‘ جوش اور ہر لمحہ تازگی اور شادابی کا خزانہ ہے۔ غارِ ثور اس کی ایک مثال ہے۔ پوری سیرت طیبہ ان واقعات سے بھری ہوئی ہے جو ان کیفیات پر گواہ ہیں۔ ۲۳ سال میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا جب آپؐ پر تھکن‘ یعنی ذہنی و نفسیاتی تھکن طاری ہوئی ہو‘ جب اکتاہٹ طاری ہوئی ہو‘ جب جوش و ولولے میں کمی آئی ہو‘ یا جب حوصلے پست ہوئے ہوں۔

اور دوسرا خزانہ‘ ذمہ داری کی عظمت و نزاکت کے احساس کا خزانہ ہے۔ جس کا کام کررہے ہیں اور جس کو اپنا کام دکھانا ہے‘ جب وہ کام کرتے ہوئے دیکھ رہا ہو تو قلب و ذہن احساس ذمہ داری سے کس طرح خالی ہو سکتے ہیں۔ اور جتنا زیادہ اس کی عظمت و کبریائی کا احساس ہو گا‘ اتنا ہی زیادہ اس کے کام کی عظمت کا احساس ہو گا۔

عظمت اور ذمہ داری کا احساس

کام کی عظمت‘ منصب کی نزاکت اور ذمہ داری کی گراں باری سے آپؐ ہمیشہ معمور رہے۔ وحی آئی تو لرز گئے‘ کانپ گئے۔ یہ کپکپاہٹ اور لرزش دل پر بھی تھی اور جسم بھی اس میں شریک تھا۔ حضرت خدیجہؓ کے پاس آئے تو زَمِّلُوْنِیْ(مجھے چادر اوڑھا دو) کہتے ہوئے آئے۔ قرآن نے شروع میں ہی یاایھا المزمل اور یاایھا المدثر کہہ کر خطاب کیا تو اور دوسری کیفیات کے ساتھ اس کیفیت کی طرف بھی اشارہ کیا۔ ایک عظیم الشان کام درپیش ہے۔ اس کی ہیبت طاری ہے۔ گھٹاٹوپ اندھیرے میں نور کی ایک کرن ہے جس سے روشنی کا سامان کرنا ہے۔ ایک پکار ہے‘ الفاظ پر مشتمل‘ جس سے سارے سوتوں کو جگانا ہے۔ ایک چھوٹا سا بیج ہے جس کی آبیاری کر کے ایسے درخت میں تبدیل کرنا ہے جس کی جڑیں ثابت ہوں اور شاخیں آسمان کو چھورہی ہوں جو سدابہار ہو اور جس کے پھلوں اور سایے سے قافلے کے قافلے نفع اندوز ہوں۔ چنانچہ بے چینی کی جو کیفیت تھی‘ اضطراب کا جو عالم تھا‘ ذمہ داری کا جو پہاڑ نظر آ رہا تھا‘ اپنی چادر میں لپٹ جانے کی کیفیت سے قرآن نے ان سب کی عکاسی کر دی۔

ساتھ ہی آپؐ نے یہ بھی سمجھ لیا کہ دعوت حق کے معنی اور اس کی قیادت کی ذمہ داری کا مطلب یہ ہے کہ پائوں پھیلا کر سونے کا زمانہ گزر گیا۔ اپنی ذات تک سمٹ جانے کا دور گیا۔ اب تو کمربستہ ہو کر خود کو تیار کرنا ہے اور مسلسل کرتے رہنا ہے۔ اور کھڑے ہو کر‘ میدان کارزار میں کود کر‘ ساری دنیا کو آگاہ اور خبردار کر دینے اور رب کی کبریائی قائم کرنے کی جدوجہد میں لگ جانا ہے اور لگا رہنا ہے۔

قولِ ثقیل

اقراء کا پیغام آپؐ کے لیے علم کی لذتوں سے لطف اندوز ہونے کا پیغام نہ تھا‘ بلکہ ایک قولِ ثقیل تھا جو اپنے دامن میں سنانے‘ دعوت دینے‘ ہجرت و جہاد کے مراحل طے کرنے کی ساری کٹھن وادیاں سمیٹے ہوئے تھا۔ وحی صرف اس لیے نہ تھی کہ پڑھیں اور ثواب حاصل کریں‘ بلکہ ذمہ داری کا ایک بوجھ تھا‘ ایسا بوجھ جو صرف معنوی ہی نہ تھا‘ بلکہ جسمانی بھی تھا۔ جب وحی آتی تو پیشانی مبارک پر پسینے کے قطرے نمودار ہوتے اور اگر آپؐ سوار ہوتے تو اونٹنی بیٹھ جاتی:

اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًاo (المزمّل ۷۳: ۵) ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں۔

آپؐ کے لیے یہ کام ایک مشغلہ نہ تھا‘ بلکہ ایک ایسا مشن تھا‘ ساری زندگی کا‘ جو ایسا لگتا تھا کہ آپؐ کی کمر توڑ ڈالے گا۔ جس کا بار صرف رحمت الٰہی کی دست گیری سے ہی کم ہوتا رہا:

وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ o الَّذِیْٓ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ o (الم نشرح۹۴: ۲-۳) اور تم پر سے وہ بھاری بوجھ اتار دیا جو تمھاری کمر توڑے ڈال رہا تھا۔

شہادت حق کی ذمہ داری سے آپؐ کا قلب مبارک اتنا گراں بار تھا کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق: ایک مرتبہ حضورؐ نے ان سے تلاوت قرآن کی فرمایش کی۔ پہلے تو وہ ہچکچائے کہ میں اور مہبط وحی کو قرآن سنائوں۔ جب آپؐ نے اصرار کیا‘ تو انھوں نے سورۃ النساء کی چند آیات تلاوت کیں۔ جب وہ ان آیات پر پہنچے: فکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ وَّجِئْنَابِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآئِ شَھِیْدًاo (النساء ۴: ۴۱) ’’پھر سوچو کہ اس وقت یہ کیا کریں گے  جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمھیں (یعنی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے‘‘۔ تو آواز آئی: ’’عبداللہ بس کرو!‘‘ کہتے ہیں کہ میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔

دل کی لگن

کام کی عظمت اور ذمہ داری کے احساس کا نتیجہ یہ تھا کہ دعوت و تحریک کی حیثیت آپؐ کے لیے ایک لبادے کی نہ تھی جو اوپر سے اوڑھ لیا ہو بلکہ یہ دل کی لگن بن گئی تھی۔ اس نے نہاں خانہ روح میں جگہ بنا لی تھی۔ یہ گہرائیوں میں اتر گئی تھی۔ اس کی دُھن آپؐ پر ہر وقت سوار تھی۔ صبح شام یہی ذکر تھا‘ یہی فکر تھی‘ یہی مشغلہ تھا اور یہ کیفیت ہر اس چیز کے لیے تھی جو اس مقصد کا تقاضا ہو۔ لیکن سب سے بڑھ کر دعوت کے لیے تھی۔ دل میں ایک سوز تھا۔ ایک خیر خواہی کا چشمہ ابل رہا تھا کہ لوگ ہدایت پائیں‘ حق تک پہنچ جائیں‘ صحیح راہ سے لگ جائیں۔ آپؐ کی اس کیفیت‘ لگن اور اضطراب کی تصویر قرآن مجید نے یوں کھینچی ہے:

لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ o (الشعرا ۲۶: ۳) اے نبیؐ،شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔

اس دُھن اور سوز میں آپؐ اپنے آپ کو ہلاک کیے دے رہے تھے۔ ہدایت کے لیے اس نوعیت کی تڑپ کے بغیر کوئی دوسری اجتماعی تحریک چل سکتی ہو گی‘ مگر اسلامی تحریک کا چلنا بڑا مشکل ہے۔

آپؐ کی اسی حالت کے پیشِ نظر قرآن کو بار بار آپؐ کا دامن تھامنا پڑا۔ سمجھانا پڑا کہ آپؐ کے بس میں ہر ایک کو نعمتِ ایمان سے فیض یاب کرنا نہیں۔ آپؐ کو داروغہ‘ وکیل‘ فیلڈ مارشل بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ آپؐ کی بنیادی ذمہ داری‘ پہنچانا ہے۔ ماننا یا نہ ماننا‘ ہر انسان کا اپنا فعل ہے۔ اس کو راہِ زندگی منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

قرآن کی ہر اس نوعیت کی آیت دراصل آپؐ کی لگن کو بھی ظاہر کرتی ہے اور داعیِ حق کے مقام کو بھی واضح کرتی ہے اور معلم کو اس کی حدود بھی بتاتی ہے:

اَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ اَوْ تَھْدِی الْعُمْیَ وَمَنْ کَانَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo (الزخرف ۴۳: ۴۰ ) اب کیا اے نبیؐ‘ تم بہروں کو سنائو گے؟ یا اندھوں اور صریح گمراہی میں پڑے ہوئے لوگوں کو راہ دکھائو گے؟

اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَـآئُ ج (القصص ۲۸: ۵۶) اے نبیؐ ،تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتے‘ مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔

اِن تَحْرِصْ عَلٰی ھُدٰھُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِیْ مَنْ یُّضِلُّ (النحل۱۶: ۳۷) اے نبیؐ، تم چاہے ان کی ہدایت کے لیے کتنے ہی حریص ہو‘ مگر اللہ جس کو بھٹکا دیتا ہے پھر اسے ہدایت نہیں دیا کرتا۔

وَکَذَّبَ بِہٖ قَوْمُکَ وَھُوْ الْحَقُّ ط قُلْ لَّسْتُ عَلَیْکُمْ بِوَکِیْلٍo (الانعام۶: ۶۶)

تمھاری قوم اُس کا انکار کر رہی ہے۔ حالانکہ وہ حقیقت ہے۔ اِن سے کہہ دو کہ میں تم پر حوالہ دار نہیں بنایا گیا ہوں۔

اپنی تیاری

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں پہلے دن سے قرآن مجید کی تبلیغ اور دعوت و تحریک کا کام شروع کیا‘ اسی لمحے سے اپنی تیاری کا کام بھی شروع کیا۔ دل و نگاہ اور دامن کی پاکیزگی اور اخلاق کی بلندی یوں ہی حاصل نہیں ہوتیں--- طلب‘ محنت اور ریاضت کا تقاضا کرتی ہیں۔

قرآن سے تعلّق

قرآن اس ساری تیاری کا سرچشمہ تھا۔ وہ آپؐ ہی پر نازل ہو رہا تھا۔ آپؐ اس کو حاصل کرتے‘ اس پر تدبر کرتے‘ اس کا علم حاصل کرتے‘ اس کو نوکِ زبان کرتے اور حرزِ جاں بناتے‘ اس کو جذب کرتے اور اس کے سانچے میں ڈھل جاتے۔ ایک طرف تو آپؐ کی اپنی علمی‘ روحانی اور اخلاقی تیاری کے لیے یہ ناگزیر تھا‘ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا۔ دوسرے‘ آپؐ کی رسالت اور دعوت و تحریک کے فرائض کا مرکز و محور بھی یہی قرآن تھا: تلاوتِ آیات‘ تعلیمِ کتاب و حکمت‘ تزکیۂ نفس:

کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰـتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ o (البقرہ۲:۱۵۱) ہم نے تمھارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا‘ جو تمھیں ہماری آیات سناتا ہے‘ تمھاری زندگیوں کو سنوارتا ہے‘ تمھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘ اور تمھیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔

قرآن مجید کے ساتھ آپؐ کا تعلق مارے باندھے کا نہ تھا بلکہ شوق اور محبت کا تھا‘ اس لیے کہ اسی سے آپؐ کو اپنے لیے ساری غذا ملتی تھی۔ اس شوق کا عکس آپؐ کے انتظار اور عجلت میں دیکھا جا سکتا ہے:

لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ o (القیامۃ۷۵: ۱۶) اے نبیؐ، اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو۔

مولانا امین احسن اصلاحیؒ لکھتے ہیں: ’’اگرچہ شوق و محبت کا مضمون ادب کے پامال مضامین میں سے ہے لیکن اس محبت و بے قراری کی تعبیر کون کر سکتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت طاری ہوتی ہو گی جب ایک طویل وقفے کے انتظار کے بعد اور مخالفین کی ژاژخائیوں کے طوفان کے اندر حضرت جبریل امین اللہ تعالیٰ کے نامہ و پیام کے ساتھ نمودار ہوتے ہوں گے۔ ایک بچہ بھوکا ہو اور ماں اس کو چھاتی سے لگائے تو وہ چاہتا ہے کہ ماں کی چھاتی کا سارا دودھ ایک ہی سانس میں سڑپ لے۔ صحرا کا مسافر پیاس میں تڑپ رہا ہو اور طویل انتظار کے بعد اس کو پانی کا ڈول ہی مل جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ پورا ڈول ایک ہی دفعہ پیٹ میں انڈیل لینا چاہتا ہے۔ ایک فراق زدہ کو جدائی کی کٹھن گھڑیاں گزارنے کے بعد نامۂ محبوب مل جائے تو وہ چاہے گا کہ ایک ہی نظر میں اس کا ایک ایک حرف پڑھ ڈالے‘‘۔ (تدبر قرآن ‘ جلد ۸‘ ص ۵۸)

حصولِ علم کا شوق

زبان کی عجلت تو ہدایت الٰہی کے بعد ضبط کے پیرایے میں ڈھل گئی۔ لیکن دل کا شوق و اضطراب کہاں ختم ہوا۔ اس کے اظہار اور تکمیل کے لیے زبان پر علم میں افزایش کی التجا نمودار ہوئی:

وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا o (طٰہٰ۲۰: ۱۱۴) اور دعا کرو کہ اے پروردگار‘ مجھے مزید علم عطاکر۔

دعوتِ اسلامی کے سامنے جو منزل ہے‘ وہ مکتب ِوحی میں تحصیل علم کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہ کام خالی کھڑکھڑانے والے برتن سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے ذہن و فکر کی بے پناہ صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔ حکمت کا خزانہ درکار ہے۔ حضورؐ نے قرآن مجید سے ہی اس علم و حکمت کا حصول کیا‘ جس کی بنیاد پر آپؐ نے انسان کے لیے پورا نظامِ حیات مدوّن کر دیا۔ پھر نہ صرف آپؐ کے اندر علم کے لیے وہ شوق اور اضطراب تھا جو قائد کے لیے ضروری ہے‘ بلکہ اس معاملے میں رجوع‘ اللہ تعالیٰ کی طرف تھا‘ دعا اس سے تھی‘ بھروسا اور اعتماد صرف اسی پر تھا۔ اس لیے کہ علم کا سرچشمہ وہی ہے۔ پھر جیسے جیسے قرآن آپؐ کو ملتا گیا‘ آپؐ اس کو اپنے قلب و روح کی غذا بناتے گئے۔ اور قرآن کے تھوڑا تھوڑا نازل ہونے میں یہی حکمتِ الٰہی تھی۔ یہ زندگی میں ایک دفعہ کا تعلق نہ تھا۔ نہ یہ کہ جب موقع ملا تو ڈول اندر اتار لیا‘ خواہ جذب و ہضم کا کام ہو یا نہ ہو۔ غافل ہوئے تو مدتیں بیت گئیں۔

قیام لیل اور ترتیل قرآن

اس کا طریقہ کیا تھا؟

شروع میں حضوؐر بستر کا آرام چھوڑ کر رات کے بیش تر لمحات ہاتھ باندھ کر منزل قرآن کے سامنے کھڑے ہو جاتے‘ کبھی آدھی رات‘ کبھی اس سے زیادہ‘ کبھی اس سے کم‘ کبھی ایک تہائی‘ کبھی دو تہائی۔ اور قرآن کو آہستہ آہستہ‘ سوچ سمجھ کر‘ قلب و زبان کی ہم آہنگی کے ساتھ تلاوت فرماتے۔ قرآن کو جذب کرنے کا اس سے زیادہ موثر اور کوئی نسخہ نہیں ہے:

قُمِ اللَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا o نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا o اَوْزِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا o  ....اِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْمُ اَدْنٰی مِنْ ثُلُثَیِ اللَّیْلِ وَنِصْفَہٗ وَثُلُثَہٗ (المزمل۷۳: ۲-۴‘ ۲۰) رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم‘ آدھی رات‘ یا اس سے کچھ کم کر لو یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو‘ اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو۔ اے نبیؐ ،تمھارا رب جانتا ہے کہ تم کبھی دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات‘ اور کبھی ایک تہائی رات عبادت میں کھڑے رہتے ہو۔

اس طریقے کو آپؐ نے آخری عمر تک ترک نہیں کیا‘ یہاں تک کہ بڑھاپے میں آپؐ کے پائوں پر ورم آ جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی آپؐ قرآن کی تلاوت میں مصروف رہتے تھے۔ رمضان المبارک میں پورا قرآن دہراتے اور عمومًا نماز فجر میں طویل قرأت فرماتے:

اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ ط (العنکبوت۲۹: ۴۵) اے نبیؐ ،تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمھاری طرف وحی کے ذریعے سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو۔

اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ اللَّیْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِط اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْھُوْدًا o وَمِنَ الَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ق عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا o (الاسراء ۱۷: ۷۸-۷۹) نماز قائم کرو زوالِ آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو کیونکہ قرآن فجر مشہود ہوتا ہے۔ اور رات کو تہجد پڑھو‘ یہ تمھارے لیے نفل ہے۔ بعید نہیں کہ تمھارا رب تمھیں مقامِ محمود پر فائز کر دے۔

ذکر الٰھی کا نظام

قرآن کے ساتھ نماز کا ذکر آگیا۔ ان دونوں کا رشتہ لاینفک ہے۔ اسی لیے میں یہیں یہ بھی کہہ دوں کہ نماز ہی آپؐ کا سب سے بڑا سہارا تھی۔ آپؐ اس کے ذریعے ہی مدد حاصل کرتے تھے اور جب کوئی امر آپؐ کو پریشان کرتا تو آپؐ نماز پڑھا کرتے تھے۔

قرآن اور نماز کے علاوہ آپؐ نے کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر‘ اس کی وحدانیت کا اقرار‘ اس کی تکبیر‘ اس کی تسبیح‘ اس کی حمد‘ اس کے شکر کو اختیار کیا۔ صبح شام‘ رات دن‘ ہر لمحہ اور ہر کام کے موقعے پر‘ نہ صرف دل کو مشغول کیا‘ بلکہ چھوٹے چھوٹے کلمات کے ذریعے ان احساسات و کیفیات کو الفاظ کا جامہ پہنایا‘ تعداد مقرر کی‘ اوقات کا تعین کیا‘ خود اس نظام کا اہتمام کیا۔ اپنے رفقا کو   اس کی تاکید کی اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کا اظہار جماعت کی زندگی میں سمو دیا گیا۔

اسی طرح آپؐ نے ہر موقع اور ہر حالت اور ہر ضرورت کے لیے بڑی جامع‘ قلب و روح کے لیے نشاط انگیز‘ جذبات کے لیے پُرکشش دعائیں تجویز کیں اور ان کی تعلیم دی۔ خاص طور پر آپؐ نے استغفار کا اہتمام کیا‘ کہ اللہ کی عبادت اور اس سے دعا کے ساتھ ساتھ یہ بھی دعوت کا بنیادی جزو ہے۔ آپؐ خود کثرت سے استغفار کرتے تھے اور اس طرح کرتے تھے کہ ساتھی جانتے تھے کہ آپؐ استغفار کر رہے ہیں۔ ہر نشست کے خاتمے پر‘ ہر مجلس کے دوران اس کا اہتمام تھا۔ بعض اصحاب نے آپؐ کو ۷۰ مرتبہ سے زیادہ استغفار کرتے دیکھا۔ آپؐ کے طریقے کی پیروی آپؐ کی جماعت نے بھی کی۔

صبر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے ساتھ عبدیت‘ اخلاص‘ محبت‘ شکر اور توکل جیسی صفات کا کامل ترین نمونہ تھے۔ اسی طرح آپؐ اس کی اطاعت میں بھی سب سے آگے تھے اور اس کی راہ میں اپنا سب کچھ لگا دینے میں پیش پیش۔ یہاں ان سارے پہلوئوں کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اخلاق کا ایک عظیم خزانہ آپؐ کے پاس صبر کی صورت میں تھا۔ آپؐ کے سارے اخلاق تو ایک ایسا اتھاہ سمندر ہیں جن کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ صرف صبر کے ہی اتنے پہلو ہیں کہ ان کا شمار مشکل ہے۔ (مصنف کی کتاب: اسلامی قیادت: قرآن پاک کی روشنی میں سیرت پاک کا ایک منفرد مطالعہ کا ایک باب)

آج ___ جب کہ مغرب‘ مسلسل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف طبل جنگ بجا رہا ہے‘ اور دنیا کو مستقبل میں اسلام اور مغرب کے درمیان ایک زبردست تہذیبی معرکہ برپا ہونے کی خبر دے رہا ہے۔ ساتھ ہی وہ اپنی طرف سے اس جنگ کے لیے پوری تیاریاں بھی کر رہا ہے‘ اور جو کچھ  پیش قدمی اس وقت کرنا ممکن ہیں‘ وہ بھی کر رہا ہے___ مسلمانوں کے لیے یہ سمجھنا بڑا ضروری ہے کہ وہ اصل مسئلہ کیا ہے جس کے گرد یہ تہذیبی جنگ لڑی جارہی ہے؟ اور اس جنگ میں فیصلہ کن حیثیت کس ایشو اور کس مسئلے کو حاصل ہے؟

کش مکش کا محرک

شاید کم ہی لوگ ہوں گے جنھیں اس بات کا ادراک ہو‘ یا جو اسے آسانی سے تسلیم کرلیں‘ لیکن ہمیں اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ اصل اور فیصلہ کن ایشو اور مسئلہ رسالت محمدیؐ کی صداقت کا ایشواور مسئلہ ہے: ’’کیا محمدصلی اللہ علیہ وسلم‘ اللہ کے رسول ہیں؟‘‘

غارحرا میں پہلی وحی آنے کے بعد‘ روز اول سے یہی سوال نزاع و جدل کا اصل موضوع تھا‘ اور آج بھی یہی ہے۔ اس وقت بھی انسان اسی بات کے ماننے اور نہ ماننے پر دو کیمپوں میں تقسیم ہوگئے تھے‘ اور ان کے جواب نے قوموں کے مقدر اور تاریخ و تہذیب کے رخ کا فیصلہ کردیا تھا‘ آج بھی اسی سوال پر مستقبل کا مدار ہے۔ یہ کش مکش تو ازلی و ابدی ہے    ؎

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغ مصطفویؐ سے شرار بولہبی

مغرب کے معاشی ‘ سیاسی اور اسٹرے ٹیجک مفادات کا مسئلہ بھی یقینا اہم ہے‘ تیل کے چشمے بھی اہم ہیں۔ اسی لیے مغربی قیادت نے عالمِ اسلام کے قلب میں اسرائیل کا خنجر گھونپا ہے‘ مسلمان حکمرانوں کو اپنا باج گزار بنایا ہے اور شرق اوسط میں فوجی اڈوں کا جال بچھا لیا ہے۔ مسلمان ملکوں کو کمزور اور بے طاقت کر رہا ہے‘ یا جن سے سرتابی کا شبہہ ہے ان کے گلے میں پھندا کس رہا ہے۔ لیکن مفادات کے تنازعات تو امریکا‘ یورپ‘ جاپان‘ چین اور روس کے درمیان بھی ہیں‘ ان کی بنا پر ان کے درمیان مستقل دشمنی اور ایک دوسرے کی بربادی کے مشورے اور منصوبے نہیں۔ دراصل مسئلہ مفادات کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ مفادات ان لوگوں اور علاقوں میں واقع ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا ہیں‘ اور آپؐ کے دین کے لیے مرنے کو زندگی سے زیادہ محبوب رکھتے ہیں۔

تہذیبی ایشوز کا معاملہ بھی بہت اہم ہے۔ اسی لیے انسانی حقوق کی دہائی ہے‘ عورتوں کے مقام‘ ان کی خوداختیاری (empowerment) اور آزادی (liberation) پر اصرار ہے‘ اسلامی قوانین اور حدود کے خلاف دبائو ہے اور جمہوریت دشمن ہونے کا الزام ہے۔ لیکن دنیا میں بڑی بڑی آبادیاں اور بھی ہیں‘ جو مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ ان ساری مزعومہ تہذیبی اقدار کی خلاف ورزی کی مجرم ہیں اور ان ’تحائف‘ کی مستحق۔

ظاہر ہے کہ اصل لڑائی ان تہذیبی ایشوز پر بھی نہیں‘ بلکہ یہ ایشوز تو اس تہذیب کی بربادی کے لیے لاٹھی کا کام کر رہے ہیں‘ جس کی تشکیل و ترکیب اور ترتیب و تکوین‘ رسالت محمدیؐ کے      دم سے ہے۔

مغرب کو اچھی طرح معلوم ہے‘ مسلمان آج اتنے کمزور ہیں کہ سیاسی‘ معاشی اور فوجی لحاظ سے کسی طرح بھی وہ ان کا عشرعشیر بھی نہیں۔ اہل مغرب کو یہ بھی معلوم ہے کہ اگر مسلمان اپنے نظام معاشرت و سیاست اور جرم و سزا کی تشکیل اسلام کے مطابق کریں‘ حجاب اختیار کریں یا حدود نافذ کریں‘ تو بھی مغربی تہذیب کو کوئی گزند نہیں پہنچتا۔ لیکن وہ اس بات کی مسلسل رٹ لگائے جا رہا ہے: ’’اسلام کا احیا اور مسلمان___ (اس کے الفاظ میں فنڈامنٹلزم  یا بنیاد پرستی)___ دراصل مغرب کی تہذیب‘ اس کے طرززندگی‘ اس کی اقدار اور اس کی آج تک کی حاصل کردہ تہذیبی ترقی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے‘‘___ ایسا کیوں ہے؟ رسالت محمدیؐ کی وجہ سے!

جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں

بے یدبیضا ہے پیران حرم کی آستیں

عصرِحاضر کے تقاضائوں سے ہے لیکن یہ خوف

ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبرؐ کہیں

الحذر آئین پیغمبرؐ سے سو بار الحذر

حافظ ناموس زن‘ مرد آزما‘ مرد آفریں

عام مسلمان اگر تہذیبی جنگ کی اس حقیقت سے بے خبر ہیں‘ تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ جو احیاے اسلام کے علم بردار ہیں‘ وہ بھی اس حقیقت کا پورا ادراک اور احساس نہیں رکھتے۔ اسی لیے رسالت محمدیؐ کا ان کے ایجنڈے پر وہ مقام نہیں‘ جو ہونا چاہیے۔ حالاںکہ تہذیبی جنگ‘ دل اور زندگی جیتنے کی جنگ ہے۔ دل پہلے بھی خاتم الانبیا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے مجتمع اور توانا ہوئے تھے‘ آج بھی اسی محبت سے ایمان‘ اتحاد اور قوتِ عمل سرشار ہوں گے۔ اس کے باوجود رسالت محمدیؐ کے لیے انسانوں کے دل اور ان کی زندگیاں مسخر کرنے کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے‘ افسوس صد افسوس کہ وہ نہیں کیا جا رہا۔ یہی کچھ کرنے کا احساس اور جذبہ و فکر پیدا کرنا آج ملت اسلامیہ کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

اس تصادم کا تاریخی سفر

رسالت محمدیؐ کے خلاف یورپ کی یہ جنگ کوئی نئی جنگ نہیں ہے۔

جب سے اسلام اور عیسائیت کا آمنا سامنا ہوا ہے‘ اس وقت سے عیسائیت اور یورپ نے اسلام کے خلاف اپنی جنگ کا مرکز و ہدف ذات محمدیؐ اور رسالت محمدیؐ کو بنایا ہے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا اچانک صحراے عرب سے نمودار ہوئے‘ اور پلک جھپکتے میں انھوں نے شام‘ فلسطین‘ مصر‘ لیبیا‘ تیونس اور الجیریا ___ جو عیسائیت کے گڑھ تھے___ کی زمام کار سنبھال لی۔ نہ صرف انھیں اپنے انتظام میں لیا‘ بلکہ آبادیوں کی آبادیاںبہ رضا و رغبت‘ رسالت محمدیؐ کی تابع بن گئیں۔ یہی نہیں‘ ہزار سال تک اس کا سورج نصف النہار پر چمکتا رہا‘ اور مسیحی پادریوں کی ہزار بددعائوں‘ خواہشوں اور ان کے حکمرانوں کی عملی کوششوں کے باوجود‘ وہ ڈھلنے پر نہ آیا۔

وہ متحیر‘ شکست خوردہ اور غیظ و غضب کا شکار تھے۔ مزید غصے کی بات یہ تھی کہ ان کی کرسٹالوجی (سیدنا مسیح کی ابنیت/ولدیت اور مصلوبیت) اور شریعت کی عدم پابندی کے علاوہ دین اسلام میں کوئی چیز ان کی عیسائیت سے خاص مختلف نہ تھی‘ بلکہ دونوں میں بڑی یکسانیت تھی۔ وہ حیران و ششدر تھے کہ اس غیرمعمولی واقعے کی توجیہہ کیا اور کیسے کریں؟ اس کا مقابلہ کیسے کریں؟ عیسائیوں کو مسلمان بننے سے کیسے روکیں؟

ان کو یہی نظر آیا کہ اس سارے ’’فتنے (نعوذ باللہ) کی جڑ‘ اور ان کی ساری مصیبت کا سبب‘ محمدؐ کی رسالت ہے۔ مسلمانوں کی قوت و شکست کا راز حضوؐر پر ایمان و یقین اور آپؐ کی  ذات سے والہانہ محبت اور وابستگی ہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنا سارا زور یہ بات ثابت کرنے پر لگا دیا کہ: (نعوذ باللہ) حضوؐر کا دعواے رسالت درست نہیں تھا اور قرآن آپؐ کی تصنیف کردہ کتاب ہے‘     وہ بھی عیسائیوں اور یہودیوں سے مانگ تانگ کر اور مدد لے کر‘ اور اپنے مضامین و اسلوب اور  بے ربطی و تکرار کی وجہ سے کلام الٰہی کہلانے کی مستحق نہیں۔ یا کوئی سنجیدہ‘ علمی مہم بھی نہ تھی۔ مغرب کا دورِ ظلمت (dark ages) ہو یا ازمنۂ وسطیٰ (medieval ages) یا روشن خیالی (enlightenment)‘ ان کے ہاں اس مقصد کے لیے حضوؐر کے کردار پر انتہائی رکیک الزامات گھڑے گئے اور غلیظ الزامات لگائے گئے۔ آپؐ کی زندگی کے ہر واقعے کو بدترین معنی پہنائے گئے اور اسے مسخ کرکے پیش کیا گیا۔ یہ الزام لگایا گیا کہ تلوار‘ خون ریزی اور قتل و غارت کے ذریعے‘ اور لوٹ مار اور دنیاوی لذائذ سے لطف اندوزی کی کھلی چھوٹ کا لالچ دے کر‘ آپؐ نے اپنے گرد پیروکار جمع کیے‘ اور ان کے ذریعے دنیا کو فتح کیا۔ یہ سب کچھ کہنے اور لکھنے کے لیے اہلِ مغرب کی جانب سے زبان بھی انتہائی غلیظ استعمال کی گئی۔ اتنی غلیظ کہ اس کا نقل کرنا بھی ممکن نہیں۔ ہم نے اُوپر جو کچھ لکھا ہے‘ یا آگے نقل کریں گے ‘ وہ دل پر انتہائی جبر کر کے‘ اس لیے کہ نقلِ کفر کفر نہ باشد۔ انھیں نقل کرتے ہوئے ہمارا قلم کانپتا اور روح لرزہ براندام ہوتی ہے‘ مگر صرف اس لیے یہ جسارت کر رہے ہیں کہ مسئلے کو سمجھنا ممکن ہو اور خود قرآن نے بھی مخالفین کے الزامات نقل کیے ہیں۔

سینٹ جان آف دمشق [م: ۷۵۳ئ]‘ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ [م: ۷۲۰ئ] سے قبل اموی دربار میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھا اور اسلام سے ناواقف نہیں تھا۔ وہ الزام تراشی کرتے ہوئے لکھتا ہے:’’بنی اسماعیل کی اولاد میں‘ محمدؐ کے نام سے [معاذاللہ] جھوٹے نبی نمودار ہوئے۔ وہ تورات و انجیل سے واقف تھے۔ ایک عیسائی راہب سے بھی تعلیم حاصل کی۔ ان کچی پکی معلومات کے بل پر انھوں نے عیسائیت کی ایک تحریف کردہ شکل وضع کر کے پیش کردی اور لوگوں سے تسلیم کرالیا کہ وہ خدا ترس انسان ہیں۔ پھر یہ افواہ پھیلا دی کہ ان پر آسمان سے کتابِ مقدس نازل ہورہی ہے۔ عیسٰی ؑ اور موسٰی ؑکی طرح‘ وہ اپنی وحی کی صداقت پر کوئی گواہ پیش نہ کرسکے‘ نہ کوئی معجزہ۔۱؎

انھی خطوط پر‘ خلیفہ مامون کے ایک درباری [ابن اسحاق- م: ۸۷۰ئ] نے عبدالمسیح الکندی کا قلمی نام اختیار کر کے الرسالہ کے نام سے ایک فرضی مکالمہ لکھا‘ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا: ’محمد کس طرح سچے نبی ہوسکتے ہیں‘ جب کہ آپ نے خوں ریزی کی‘ اپنی نبوت کی تائید میں کوئی معجزات پیش نہ کیے۔ جہاں تک قرآن کا تعلق ہے تو وہ کتاب الٰہی کس طرح ہو سکتا ہے؟‘

سینٹ جان آف دمشق اور عبدالمسیح الکندی کے الرسالہنے‘بیسویں صدی کے آغاز تک‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اہلِ یورپ کے رویے اور فکر کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ بارہویں صدی میں الرسالہکالاطینی ترجمہ اسپین میں شائع ہوا‘ پندرہویں صدی میں سوئٹزرلینڈ میں‘ یہاں تک کہ انیسویں صدی میں سر ولیم میور [م: ۱۹۰۵ئ] نے اس کا انگریزی ترجمہ لندن سے شائع کرنا ضروری سمجھا۔ ایک ہزار سال کے اس طویل عرصے میں پادریوں اور یورپی دانش وروں نے رسالت محمدیؐ کے بارے میں جو کچھ کہا ہے‘ وہ بنیادی طور پر مسیح الکندی اور سینٹ جان آف دمشق ہی کی اس یاوہ گوئی کو دہراتے رہتے ہیں: ۱- قرآن‘ یہودیوں اور عیسائیوں سے سیکھ کر وضع کیا گیا‘ متضاد اور الجھی ہوئی باتوں کا مجموعہ ہے۔ ۲-اخلاقی الزامات ۳- سیاست دانوں اور حکمرانوں کی طرح موقع پرستی اور مکروفریب کی کارروائیاں‘ اعاذنا اللّٰہ من ذٰلک ونشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ۔

ان چیزوں کو نقل کرنا‘ اس لیے ضروری تھا تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ آج جب ایک طویل زمانہ گزر چکا ہے اور اب اہلِ مغرب کا مسلمانوں سے روز کا ربط ہے۔ اہلِ مغرب کے ہاں سائنٹی فک اندازفکر‘ علمیت اور غیر جانب داری کے نعرے بھی ہیں‘ بلکہ ہمدردانہ اور منصفانہ معاملے کے دعوے بھی___ لیکن اہلِ یورپ کی روش اور سوچ میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہاں تک کہ ان لوگوں میں پروفیسر منٹگمری واٹ‘ کینتھ کریگ اور ویٹی کن [اٹلی میں واقع رومن کیتھولک چرچ کا ہیڈکوارٹر‘ جسے ۱۹۲۹ء سے ریاست کا درجہ حاصل ہے] کی سوچ اور روش میں بھی‘ جو ڈائیلاگ‘ مکالمے‘ فیاضی اور مراعات کی روش کے دعوے دار ہیں‘ ان کے ہاں تال اور سُربدلے ہیں‘ مگر راگ وہی ہیں۔ بظاہر ان کے الفاظ ’مہذب‘ ہوگئے ہیں لیکن الزامات وہی ہیں‘ دشنام طرازی بھی وہی ہے‘ مگر ’تہذیب‘ کے جامے میں ہے۔ زبان اور تعبیرات وہ ہیں جو آج کے زمانے میں قابلِ قبول ہوں‘ مگر تہہ میں بات وہی ہے۔ چنانچہ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہیں۔

اب ان توجیہات کی جگہ ایسے نفسیاتی‘ سماجی‘ معاشی اور سیاسی عوامل نے لے لی ہے‘ جن سے جدید ذہن زیادہ آشنا ہے۔ مثلاً راڈنسن ‘ سگمنڈ فرائڈ [م: ۱۹۳۹ئ] کی رہنمائی میں‘ حضوؐر کی نفسیاتی تحلیل کرتا ہے۔ پروفیسرمنٹگمری واٹ‘ سوشیالوجی(سماجیات) کے اوزار سے لیس‘ اس سرچشمے کا سراغ عرب کی ریگستانی اور بدویانہ زندگی میں‘ جاہلیت کی خرابیوں میں‘ مکہ میں عیسائی اور یہودی تعلیمات و اثرات میں‘ اور اہل عرب کی سیاسی ضرورت میں پاتا ہے۔ کینتھ کریگ یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ’’رسالت نے کہاں جنم لیا؟‘‘ اور خود جواب دیتا ہے: ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس جستجو اور آرزو میں کہ عرب متحد ہوں‘ اور اس یقین میں‘ کہ ایک کتاب الٰہی ہی‘ ایک عربی قرآن ہی‘ ان کو اتحاد و تشخص دے سکتا ہے‘‘۔ یہ ایقان کیوں کر پیدا ہوا: ’’عیسائیوں اور یہودیوں کو دیکھ کر‘ کہ وہ بھی اہل کتاب تھے‘‘۔

پھر کوئی بھی ’’ہمدردانہ‘‘ تحریر ایسی نہیں‘ جو (نعوذ باللہ) وحی الٰہی میں خارجی مداخلت   ثابت کرنے کے لیے شیطانی ہفوات کے واقعے‘ سیاسی مفاد اور دنیاداری کے ثبوت کے لیے نخلہ کے واقعے [رجب ۲ھ]‘ خون آشامی کی شہادت کے طور پر بنوقریظہ کے قتل کے واقعے  [شوال ۵ ہجری] اور اخلاقی سطح کو زیربحث لانے کے لیے حضرت زینبؓ کے ساتھ نکاح کے واقعے سے خالی ہو۔

جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب تھے‘ وہ ان کے سخت دشمن اور رسالت کے منکر تھے۔ جو آپؐ کے خلاف ہجو کہتے پھرتے تھے‘ وہ بھی اخلاق سے اتنے عاری نہ تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی اخلاقی الزامات لگائیں۔ اگرچہ‘ جاہلیت عرب کا انکار‘ جاہلیت جدیدہ کے انکار رسالت سے کچھ بھی مختلف نہ تھا۔ وہی الزامات‘ وہی اعتراضات نعوذباللہ: شاعر ہیں‘ جن آگئے ہیں‘ جادوگر ہیں‘ خود کلام گھڑتے ہیں‘ اور اسے اللہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں وغیرہ۔ یہ کہ:

وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا ٓاِفْکُنِ  افْتَرٰئـہُ وَاَعَانَہٗ عَلَیْہِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَج فَقَدْ جَآئُ وْ ظُلْمًا وَّزُوْرًا o وَقَالُــوْٓا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اکْتَتَبَہَا فَھِیَ تُمْلٰی عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا o (الفرقان ۲۵:۴-۵) ایک جھوٹ ہے جو انھوں نے گھڑ لیا ہے‘ اور اس میں دوسرے لوگوں نے ان کی مدد کی ہے۔ یہ گزرے ہوئے لوگوں کے قصے ہیں جن کو انھوں نے لکھ لیا ہے‘ اور یہ ان کو صبح و شام لکھوائے جاتے ہیں۔

وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُہٗ بَشَرٌ ط لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْہِ اَعْجَمِیٌّ وَّھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ o (النحل ۱۶:۱۰۳) کہتے ہیں کہ ان کو تو یہ سب کچھ ایک آدمی سکھاتا ہے‘ لیکن یہ جس کی طرف اشارہ کرتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ عربی مبین ہے۔

یورپ کی ہزار سالہ مخالفت پر نظر ڈالیں تو بے اختیار نگاہوں کے سامنے یہ تصویر آتی ہے:

کَذٰلِکَ مَآ اَتَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ o اَتَوَاصَوْا بِہٖ ج بَلْ ھُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ o (الذاریات ۵۱:۵۲-۵۳) یوں ہی ہوتا رہا ہے‘ ان سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جسے انھوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون۔ کیا ان سب نے آپس میں اس پر کوئی سمجھوتہ کرلیا ہے؟ نہیں‘ بلکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں۔

اس بات کو نارمن ڈینیل (Norman Daniel) نے یوں لکھا ہے: ’’ہم انتہائی غیرجانب دار اسکالر کی تحریر بھی پڑھیں‘ تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ قدیم عیسائیت نے (اسلام  اور محمد) کے بارے میں کیا انداز فکروگفتگو اختیار کیا تھا۔ وہ انداز ہمیشہ ہر اس مغربی ذہن کا لازمی جزو رہا ہے‘ اور آج بھی ہے‘ جو اس موضوع پر سوچتا اور بات کرتا ہے۔۲؎

رسولؐ اللّٰہ سے دشمنی کے اسباب

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘ قرآن مجید اور رسالت کے خلاف عیسائیت اور اہلِ مغرب کی اس شدید دشمنی کے اسباب کیا ہیں؟

چند تاریخی‘ سیاسی اور نفسیاتی اسباب کی طرف ہم اشارہ کرچکے ہیں۔ ان کی نظر میں‘ ان پر اسلام کی صورت میں جو تباہ کن آفت نازل ہوئی تھی‘ اس کی حیرت انگیز قوت و شوکت اور غلبے کا راز رسالت محمدیؐ پر ایمان اور حضوؐر کی ذات سے محبت و وابستگی میں مضمر تھا۔ اس سے مقابلے کا راستہ اس کے علاوہ اور کچھ نہ تھا کہ قوت اور زندگی کے اس منبعے کو ختم کیا جائے۔ اس کو ختم کرنے کا طریقہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ حضوؐر کو نعوذ باللہ جھوٹا نبی‘ قرآن کو آپؐ کی خودساختہ تصنیف‘ اور آپؐ کے کردار کو غیرمعیاری ثابت کیا جائے‘ خواہ اس جھوٹ کے لیے تہذیب و معقولیت کی ہر حد پھلانگنا پڑے۔

آج یہ بات کھلم کھلا تو نہیں کہی جا رہی‘ لیکن اس کا واضح اعتراف موجود ہے۔  ہفت روزہ اکانومسٹ‘لندن نے لکھا ہے:

دنیا کی قیادت کے لیے مغربی تہذیب کا حریف ایک ہی ہو سکتا ہے: وہ ہے اسلام۔ اس سے مغرب کا تصادم ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ اسلام ایک آئیڈیا ہے‘ آج کی دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد آئیڈیا۔ یہ آئیڈیا انسانی تجربے اور مشاہدے سے ماورا حق کے وجود پر یقین کا مدعی ہے! اس کے نزدیک یہ‘ وہ حق ہے جو ۱۴ سو سال پہلے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوا‘ اور قرآن کی صورت میں محفوظ و موجود ہے۔ ایک تہذیب کی قوت اور غلبے کے لیے ایسے الحق پر یقین کی قوت کے برابر کوئی قوت نہیں۔ اسی لیے اہلِ یورپ اسلام اور مسلمانوں سے خائف ہیں۔ انھیں خطرہ ہے کہ ایک نئی سرد جنگ آرہی ہے‘ جو غالباً ’سرد‘ نہ رہے گی۔

اسی لیے آج بھی رسالت محمدیؐ، مغرب کے حملوں کا سب سے بڑا ہدف ہے۔ جہاں موقع ملے‘ ذات گرامیؐ پر بھی گندگی ڈالنے سے اجتناب نہیں‘ لیکن اب یہ کام بالعموم مسلمان گھرانوں میں پیدا ہونے والے گنتی کے چند سلمان رشدی [بھارتی نژاد شاتم رسول] اور تسلیمہ نسرین [بنگالی نژاد دریدہ دہن] قسم کے لوگوں کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ اپنا اسلوب بدل دیا گیا ہے۔ اب کچھ لوگ حضوؐر کو پیغمبر تسلیم کرنے کے دعوے دار ہیں‘ لیکن تورات کے اسرائیلی انبیا کی طرح کا پیغمبر۔ کچھ لوگ وحی کی حقیقت اور نوعیت ہی کو ___ مکالمہ ___ اور مفاہمت کے نام پر___ بدلنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ کچھ سینٹ پال [م: ۶۴ئ] کی طرح کے ’’مصلح‘‘ کے ورود [از قسم‘ مرزا غلام احمد قادیانی۔ م:۱۹۰۸ئ] کے متمنی ہیں جو اسلامی شریعت سے نجات دے۔

کچھ چاہتے ہیں کہ قرآن کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے: ایک حصہ‘ عقائد و اخلاق کی تعلیم پر مبنی‘ اس کو کلامِ الٰہی مان لیا جائے۔ دوسرا حصہ‘ زندگی بسر کرنے کے ضوابط پر مشتمل‘ ان کو حضوؐر کی تصنیف قرار دیا جائے‘ جو قابلِ تغیروتبدل ہے۔ اسی ذیل میں کچھ ’دُور اندیش‘ عناصر کسی دینی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے‘ لیکن وہ انسانی حقوق‘ عورت کے مقام اور جمہوریت کے نام پر وہ چیزیں دل ودماغ میں اتار رہے ہیں‘ اور اُمت محمدیؐ کی زندگی اور عمل کو ایسے سانچے میں ڈھال رہے ہیں‘ جو رسالت پر ایمان اور ناقابل تغیر و تبدل حق پر یقین کو خودبخود بے معنی اور غیر مؤثر کرکے رکھ دے۔

ہفت روزہ اکانومسٹ‘ لندن نے صحیح لفظوں میں اعتراف کیا: ’’آج رسالت محمدیؐ پر یقین و ایمان ہی مغربی تہذیب کے لیے واحد حریف اور سب سے بڑا خطرہ ہے‘ اور یہی ایمان مسلمانوں کے لیے بے پناہ قوت کا سرچشمہ‘‘۔

آیئے ‘ مختصراً دیکھیں کہ کس طرح؟

                ۱-            مغربی تہذیب اور جدیدیت (modernism) کی بنیاد یہ ہے‘ کہ انسان اب بالغ ہوچکا ہے۔ کسی ماوراے انسان وجود یا ذریعے سے علم اور رہنمائی لینے کا محتاج نہیں۔ وہ مستغنی ہے‘ خصوصاً خدا اور وحی جیسے ان ذرائع و تصورات سے‘ جن کو اس نے اپنے عہدطفولیت میں اپنے سہارے اور تسلی کے لیے گھڑ لیا تھا۔ رسالت محمدیؐ اس کے برعکس‘ یہ علم اور یقین بخشتی ہے کہ خالق کا وجود حقیقی ہے۔ وہ علوم کا رشتہ بھی اس کے نام سے جوڑتی ہے‘ زندگی کا بھی۔ وہی خالق حقیقی کھانا بھی کھلاتا ہے‘ شفا بھی بخشتا ہے‘ اختیار و قدرت بھی صرف اس کو حاصل ہے‘ زندگی بسر کرنے کا صحیح راستہ بھی وہی دکھاتا ہے۔ انسان ہر لحاظ سے اس کا محتاج‘ فقیر اور غلام و بندہ ہے۔

                ۲-            مغربی تہذیب کے فلسفہ علم (epistemology) کی بنیاد یہ ہے‘ کہ علم کا ذریعہ صرف: انسانی حواس اور عقل ہے‘ تجربہ و مشاہدہ ہے‘ سائنسی طریقہ ہے مگر یہ سارا علم بھی ظنی ہے جو آج صحیح ہے وہ کل غلط ہو سکتا ہے‘ بلکہ غلط ثابت ہونے کا امکان نہ ہو تو وہ علم ہے ہی نہیں‘ ایک عقیدہ ہے۔ قطعی اور یقینی علم کے نام کی کوئی چیز دنیا میں پائی ہی نہیں جاتی‘ جو معیار حق ہو‘ جس کے آگے لوگ سرتسلیم خم کریں‘ جس کے لیے کوئی کسی سے مطالبہ کرسکے کہ اس کو مانو اور اس پر چلو۔ اس کے برعکس‘ رسالت محمدیؐ اس شعور سے معمور کرتی ہے کہ علم یقینی کا وجود ہے اور اس کا سرچشمہ وحی الٰہی اور حضوؐر کی رسالت ہے۔ زبردستی کسی پر نہیں کی جا سکتی‘ لیکن جو مان لیں انھیں اس علم کے آگے سرتسلیم خم کرنا چاہیے‘ جہاں اختیار ہو‘ وہاں اس علم کے مطابق چلنا اور چلانا چاہیے۔ مغرب نے حق اور باطل کے الفاظ کو متروک بنا دیا ہے‘ اور ان کا استعمال تہذیب و فیشن کے خلاف۔ رسالت محمدیؐ کے ماننے والوں کے لیے یہ الفاظ آج بھی سچائی اور زندگی سے بھرپور ہیں‘ اور ہمیشہ رہیں گے۔

                ۳-            مغرب کے نزدیک اخلاق و اقدار ہوں یا قوانین و ضوابط‘ ہر چیز مفید ہے یا مضر‘ جیسا اپنا اپنا احساس اور نقطۂ نظر ہو۔ حقیقت کا انحصار دیکھنے والوں کی پوزیشن پر ہے۔ چنانچہ ہرچیز اضافی (relative) طور پر صحیح یا غلط ہوتی ہے‘ کوئی چیز فی نفسہٖ حق اور باطل نہیں ہو سکتی۔ رسالت محمدیؐ کے ماننے والوں کے نزدیک ان چیزوں کی جو حقیقت وحی نے طے کر دی ہے‘ اسے کسی کی راے‘ پسند و ناپسند یا تجربے و دلیل سے بدلا نہیں جا سکتا: لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ج [الانعام ۶:۳۴] ’’اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے‘‘۔

                ۴-            مغربی تہذیب کے نزدیک علوم غیبی ___ اللہ‘ فرشتے‘ وحی‘ زندگی بعد موت کے نام کی کوئی چیز کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ اس کے برعکس رسالت محمدیؐ کے ماننے والوں کے نزدیک‘ زندگی کے معنی و مقصد اور انسان کی حقیقت کا علم صرف علوم غیبی ہی سے ہوسکتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ حقائق___ جن کی تعلیم رسالت محمدیؐ نے دی ہے___ جیتے جاگتے حقائق ہیں: یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ[البقرہ ۲:۳] ’’وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں‘‘۔

                ۵-            دنیا اور دنیا کی زندگی سے رسالت محمدیؐ کے ماننے والوں کو اتنی ہی گہری اور بھرپور     دل چسپی ہے جتنی اہلِ مغرب کو۔ لیکن مغرب کی دل چسپی کا ہدف یہیں دنیا میں انسان کی خوشی‘ راحت‘ لذت اور زندگی کی کیفیت و معیار ہے‘ کہ وہی مقصود ہیں۔ اس کے برعکس‘ رسالت محمدیؐ کے ماننے والوں کی دل چسپی دنیا میں اہلِ دنیا کی بھلائی اور آخرت میں اپنی بھلائی کے لیے ہے۔ اس کے نتیجے میں دو بالکل مختلف قسم کی شخصیتیں اور معاشرے وجود میں آتے ہیں: لاَ یَسْتَوِیْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّۃِط [الحشر ۵۹:۲۰] ’’دوزخ میں جانے والے اور جنت میں جانے والے کبھی یکساں نہیں ہوسکتے‘‘۔

رسالت پر ایمان کا ایجنڈا

آج کے تہذیبی معرکے میں رسالت محمدیؐ کے مسئلے کو جو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے‘ اس کا پورا ادراک ان سب کو ہونا چاہیے‘ جو دین سے محبت رکھتے ہیں‘ جو غلبۂ دین کی تمنا رکھتے ہیں یا اس کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس ادراک کی روشنی میں انھیں اپنی ترجیحات پر بھی نظر ڈالنا چاہیے‘ اور حکمت عملی پر بھی۔ اس لیے:

                ۱-            یہ سمجھنا ضروری ہے کہ‘ ہمارا یہ زمانہ اگرچہ عہد نبویؐ سے ۱۴ صدیوں کے فاصلے پر ہے‘ اور ہم جن تمدنی حالات میں اسلامی زندگی اور اس کے غلبے کے لیے کوشاں ہیں‘ وہ اس عہد سے بہت مختلف ہیں‘ لیکن یہ ہے اسی عہد نبویؐ کا حصہ اور تسلسل۔ کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی قوم کی طرف نہیں‘ ساری انسانیت کی طرف مبعوث فرمائے گئے ہیں‘ اور آپؐ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے‘ اس لیے آپؐ ہماری اکیسویں صدی کے لیے بھی اسی طرح رسول ہیں جس طرح چھٹی صدی کے لیے تھے‘ اور آج کے سارے انسان اسی طرح آپؐ کی ’’قوم‘‘ ہیں اور آپؐ کے مخاطب‘ جس طرح اس وقت کا اہلِ عرب اور ساری دنیا والے تھے۔ اس سیدھی سادی بات کے دُور رس مضمرات ہیں۔ چنانچہ آج کے زمانے اور لوگوں تک آپؐ کی رسالت کی دعوت اس طرح پہنچنا اور پہنچانا ان کا حق ہے جس طرح آپؐ نے پہنچائی۔

                ۲-            یہ سمجھنا ضروری ہے کہ‘ بہ حیثیت رسولؐ اللہ آپ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ کیوںکہ آپؐ کی لائی ہوئی کتاب موجود ہے‘ آپؐ کی سیرت اور اسوہ موجود ہے‘ آپؐ کا دین موجود ہے‘ اور ان امانتوں کی حامل‘ آپؐ کی اُمت موجود ہے۔ گویا اپنی رسالت کی طرف دعوت دینے کا جو مشن بہ حیثیت رسول آپؐ نے ادا کیا‘ اب اسے ادا کرنے کے لیے اُمت   ذمہ دار ہے۔

                ۳-            یہ سمجھنا ضروری ہے کہ‘ رسول کی موجودگی میں دعوت اور اسلام و جاہلیت کے درمیان جو تہذیبی کش مکش برپا ہوتی ہے‘ اس میں رسالت کی طرف دعوت کو اوّلین اور فیصلہ کن مقام حاصل ہوتا ہے۔ درجے کے لحاظ سے‘ ایمان باللہ‘ اسلامی زندگی کا مرکز اور روح ہے‘ اسے سب سے اعلیٰ مقام حاصل ہے‘ رسالت کا مدعا وہی ہے۔ لیکن ترتیب کے لحاظ سے ایمان بالرسالت کی حیثیت اولین اور فیصلہ کن ہے۔ انسان‘ محمد کو اللہ کا رسولؐ مانتا ہے‘ تب ہی وہ اللہ اور ہر دوسری چیز تک پہنچتا ہے۔ ایمان باللہ‘ وہی حق اور معتبر ہے جس کی تعلیم حضوؐر نے دی‘ اور اس لیے ہے کہ آپؐ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ قرآن اسی لیے بلاشک و شبہہ کلامِ الٰہی ہے کہ رسالت محمدیؐ ہر شک و شبہہ سے بالاتر ہے۔ حلال و حرام‘ واجبات و منہیات اور عذاب و ثواب کے لیے کوئی عقلی یا تجربی دلیل‘ سند ناطق نہیں سواے حکم نبویؐ کے۔ پھر عمل کے لحاظ سے تو ایمان و اتباع رسالت‘ عین اطاعتِ الٰہی اور قربِ الٰہی کے مترادف ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ [النسائ۴:۸۰۔جس نے  رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی۔] اور : قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِی یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ [اٰل عمرٰن ۳:۳۱۔ اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو‘ اللہ تم سے محبت کرے گا۔]

                ۴-            یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دعوت و جہاد میں رسالت کی طرف دعوت کو یہی مقام حاصل ہو۔ اس کے بغیر اللہ کا اقرار بھی کوئی معنی نہیں رکھتا‘ کجا کہ جمہوریت اور انسانی حقوق جیسی سماجی اقدار پر اتفاق و اقرار۔ ورنہ یہودی توحید الٰہی کا عقیدہ رکھتے تھے‘ عیسائیوں کو موحد ہونے کا دعویٰ تھا‘ اور ان کی عبادات و اخلاقی فضائل کی تعریف خود قرآن نے فرمائی ہے۔ مگر وہ مغضوب اور ضال ٹھیرے کہ ایمان بالرسالت سے انکاری تھے۔

                ۵-            یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ایمان بالرسالت اس معنی میں بھی فیصلہ کن ہے کہ اللہ کی طرف سے نصرت‘ نجات اور غلبے کا وعدہ‘ ان لوگوں سے ہے جو رسول مبعوث پر حقیقی معنوں میں ایمان لائیں‘ تن من دھن سے اس کے پیچھے چلیں‘ اور اس کے مددگار بنیں: وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ o اِنَّھُمْ لَھُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ o وَ اِنَّ جُنْدَنَا لَھُمُ الْغٰلِبُوْنَ o (الصافات ۳۷:۱۷۱-۱۷۳) ’’اپنے بھیجے ہوئے بندوں سے ہم پہلے ہی وعدہ کرچکے ہیں کہ یقینا ان کی مدد کی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب ہوکر رہے گا‘‘۔

                ۶-            یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ازل سے جو معرکہ چراغ مصطفویؐ اور شرار بولہبی کے درمیان برپا ہے‘ اور جو آج اسلام اور مغرب کے درمیان تہذیبی جنگ کی صورت اختیار کررہا ہے‘ وہ دراصل انسانوں کے دل اور زندگیاں جیتنے کا معرکہ ہے۔ دل فتح ہوں گے تو غلبۂ دین حاصل ہوگا۔ قوت سے زمین فتح ہوسکتی ہے‘ اموال فتح ہوسکتے ہیں‘ سیاسی اقتدار پر قبضہ ہوسکتا ہے‘ مگر زندگیاں فتح نہیں ہو سکتیں اور دلوں پر قبضہ نہیں ہوسکتا۔ دلیل سے موافقت اور حمایت حاصل ہو سکتی ہے‘ مگر یکسوئی‘ لگن اور جاں بازی اور سرفروشی نہیں۔ دل جیتنے کا راستہ صرف ایک ہے۔ لوگ رسالت محمدیؐ کی صداقت پر ایمان لے آئیں‘ آپؐ کے ہاتھ میں اپنے ہاتھ دے دیں‘ اپنے دل آپؐ کی محبت سے بھرلیں‘ آپؐ کے آستانے پر سر رکھ لیں‘ آپؐ کی اطاعت و محبت اور آپؐ پر اعتماد و یقین سے سرشار ہو کر آپؐ کے پیچھے پیچھے چل پڑیں۔ پہلے بھی لوگ اور دل اسی طرح فتح ہوئے تھے‘ تہذیبی جنگ اسی طرح جیتی گئی تھی‘ آج بھی اسی طرح فتح ہوگی‘ اور اسی طرح جنگ جیتی جا سکے گی۔

                ۷-            اس بات کو سمجھنا بڑا اہم ہے۔ یقینا ہمیں اسلام کی حقانیت اور برتری ثابت کرنا چاہیے‘ ہمیں بتانا چاہیے کہ سودی معیشت انسان کے لیے کتنی تباہ کن ہے‘ اسلام کے سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی و خاندانی نظام میں کیا محاسن ہیں‘ اسلام کی خوبیاں کیا ہیں؟ لیکن ہمیں یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ان سب کاموں کی حیثیت زمین کو نرم و ہموار اور فضا کو سازگار بنانے کی سی ہے۔ لوگ یہ سب کچھ مان بھی لیں‘ لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر ایمان نہ لائیں‘ تو تہذیبی جنگ میں کامیابی کی راہ ہموار نہ ہوگی۔ کتنے لوگ ہیں جو اسلام کی تعریف کرتے ہیں‘ اس کے آرٹ اور فنِ تعمیر کی داد دیتے ہیں‘ اس کی روحانیت اور تصوف کے ثناخواں ہیں‘ لیکن وہ محمد رسولؐ اللہ کو اللہ کا رسول مان کر آپؐ کا اتباع کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے وہ رسالت کے مشن کے اعوان و انصار نہیں بن سکتے۔

                ۸-            اسی طرح اگر ہم یہ ثابت بھی کر دیں اور ہمیں یہ ثابت ضرور کرنا چاہیے‘ لیکن اس مشق کے محدود نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے___ کہ اسلام میں بھی جمہوریت ہے۔ اسلام دوسروں سے بڑھ کر حقوقِ انسانی کی ضمانت دیتا ہے۔ اسلام نے عورتوں کو وہ مقام دیا ہے جو آج تک مغرب نے بھی نہیں دیا ہے۔ اسلامی حدود ظالمانہ نہیں بلکہ منصفانہ اور زیادہ رحم دلانہ ہیں‘ تو اس سے بھی دلوں کے جیتنے کے امکانات روشن نہ ہوں گے۔ اس کے لیے عقلی اتفاق سے زیادہ رسولؐ پر اعتماد و محبت درکار ہے۔

چنانچہ سب سے بڑا کام یہ ہے کہ ہم دعوت الی الرسالت کو اپنے ایجنڈے پر سرفہرست مقام دیں۔

رسالت کی دعوت کا طریقہ

ہمارا مطلب یہ نہیں کہ ہم غیرمسلموں کے سامنے بے ڈھنگے طریقے سے‘ صرف یہ کہنا اور لکھنا شروع کر دیں اور اسی کو اتمامِ حجت سمجھ بیٹھیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم سچے رسول تھے‘ حضوؐر پر ایمان لائو‘ یا کفر کے فتوے جاری کرنے شروع کر دیں۔ نہیں‘ بلکہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ:

  •  اوّل: ہم ہرممکن طریقے سے‘ تحریر و تقریر سے‘ جدید ذرائع ابلاغ سے‘ لوگوں کو آپؐ کی شخصیت کے بے مثال حسن‘ آپؐ کے خلقِ عظیم کے جمال‘ آپؐ کی رحمت و رافت و شفقت اور انسانیت کے عدیم المثال کردار سے آگاہ کریں‘ بار بار کریں‘ بہ کثرت کریں‘ نئے نئے اسلوب سے کریں‘ خصوصاً ان کے سامنے کریں‘ اور ان کی زبانوں میں کریں۔ وہ جو آپؐ کے سب سے بڑے دشمن تھے‘ اگر آپؐ سے چمٹ کر رہ گئے تو آپؐ کی نرمی اور محبت کی وجہ سے‘ دشمن آکر اگر آپؐ  کے بے دام غلام بن گئے تو آپؐ  کے اخلاق حسنہ کی وجہ سے۔
  •   دوم: ہم ___ وہ بھی جو داعیانِ حق ہیں‘ اور وہ بھی جو عام مسلمان ہیں___ اپنے برتائو‘ سلوک اور گفتگو کو جتنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و کردار کا نمونہ بنا سکیں‘ بنائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کے لیے صرف کتابیں‘ تقریریں اور ویڈیو نہ ہوں‘ بلکہ ہماری اپنی زندگیوں میں بھی لوگوں کو آپؐ کی کوئی نہ کوئی کرن اور جھلک نظر آسکے۔ ہمارے گھر‘ ہماری پبلک سرگرمیاں‘ ہماری مساجد‘ حضوؐر کی زندگی اور پیغام کا نور پھیلائیں‘ مسجدیں نہ ماننے والوں کا اسی طرح استقبال کریں جس طرح حضوؐر نے نجران اور ثقیف کے وفود کا خیرمقدم فرمایا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے‘ جب ہماری حالت کسی بھی درجے میں‘ اقبال [م: ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ئ] کے اس شعر کی مصداق بن جائے    ؎

نواے او بہ ہر دل سازگار است

کہ در ہر سینہ قاشے از دل اوست

یعنی اس کی آواز ہر دل کے لیے سازگار ہے۔ ہر سینے میں اس کے دل کا ایک ٹکڑا ہے۔

  •   سوم: پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات‘ اخلاق حسنہ اور اسوۂ حسنہ کو پیش کرنے کا ایسا اسلوب وضع کریں کہ دشمنوں نے آپ کے خلاف جو کچھ کہا ہے‘ بغیر مناظرہ بازی کے اس کا ازالہ ہوجائے۔ بات کرنے والا اچھی طرح جانتا ہو کہ فساد کی جڑ کیا ہے‘ اور کسی بحث و نزاع کے بغیر وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو اس طرح متعارف کرائے کہ اس فساد کی جڑ خود بخود کٹ جائے۔
  •   چہارم: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دین اور پیغام کو عمل کا جامہ پہنانے کی جدوجہد تو بہرحال اصل کام ہے۔

امام مسلم [م: ۸۷۰ئ] روایت درج کرتے ہیں کہ حضوؐر نے فرمایا: ’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے‘ اس اُمت میں سے جو میرے بارے میں سنے‘ یہودی ہو یا عیسائی‘ پھر وہ جو میں لایا ہوں اس پر ایمان لائے بغیر مرجائے‘ وہ آگ میں جائے گا‘___ امام محی الدین نوویؒ [م: ۶۷۶ھ] کہتے ہیںکہ اس اُمت سے مراد ایک داعی اُمت ہے‘ یعنی آپؐ کی رسالت سے لے کر قیامت تک تمام اہلِ زمین کے لیے۔ لیکن امام غزالیؒ [م: ۱۱۱۱ئ] بڑی  اہم بحث اٹھاتے ہیں: ’سننے‘ کا کیا مطلب ہے؟ کیا صرف کانوں سے نام سن لینا؟___ نہیں‘ وہ کہتے ہیں‘ اس سے حضوؐر کی زندگی اور پیغام کے بارے میں اس طرح سننا مراد ہے‘ جو دل و دماغ کے ماننے کے لیے ضروری ہے۔ ورنہ جن پر سنانے کی ذمہ داری ہے‘ وہ زیادہ آگ کے مستحق ہو سکتے ہیں۔ آج تو نہ ماننے والوں کی عظیم اکثریت نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہی سنا ہے‘ سنا ہے تو سرسری طور پر یا مخالفانہ انداز میں۔ جن لوگوں کو کماحقہٗ سنایا گیا ہے‘ وہ بھی براے نام ہیں۔ پھر اربوں انسانوں کے اپنے رسول اور آخری رسول پر ایمان نہ لانے کے لیے مسئول‘ ذمہ دار اور جواب دہ کون ہے؟ کیا ہم نہیں؟

جس طرح حضوؐر نے ایک ایک ملک میں اپنے ایلچی بھیجے تھے‘ آج ایک ارب سے زائدمسلمان دنیا کے گوشے گوشے میں آپؐ کے ایلچی ہیں۔ ان کے ہاتھ میں آپؐ کا خط ہے۔ جس کو بھی اپنی اس پوزیشن اور ذمہ داری کا احساس ہو‘ اسے تڑپ کر کھڑا ہوجانا چاہیے۔ سلیقے سے‘ حکمت سے‘ موعظۂ حسنہ سے‘ انسانوں کو حضوؐر سے قریب لانا چاہیے۔ جتنا زور ہم آپؐ کا دین پیش کرنے پر لگاتے ہیں‘ اتنا ہی اہتمام ہمیں آپؐ کی ذات‘ شخصیت‘ کردار‘ اسوئہ حسنہ اور زندگی کو پیش کرنے پر لگانا چاہیے۔ جو سراج منیر سے جتنا قریب آئے گا‘ اس کا دل کھلا ہوگا‘ وہ حضوؐر کی روشنی اور حرارت میں سے حصہ پائے گا۔ جتنے لوگ حضوؐر کی رسالت پر ایمان لاتے جائیں گے‘ آپؐ کے آستانے سے وابستہ ہوتے جائیں گے‘ اتنا ہی تہذیبی جنگ میں حضوؐر کے پیغام کی فتح کے امکانات بڑھتے جائیں گے۔

یہ ایک قرض ہے جو ہم سب پر ہے‘ اور ہم میں ہر ایک کو اسے ادا کرنے اور اپنا حصہ ڈالنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ [ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۹۶ئ]

(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۳ روپے (۲۰۰ روپے سیکڑہ)۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)


1- Encounters and Clashes: Islam and Christianity in History, Rome, 1990.

۲-            نارمن ڈینیل: Islam and The West: The Making of Image ‘ناشر: ایڈنبرگ یونی ورسٹی پریس‘ ۱۹۶۰ئ‘ ص ۳۰۱

حج کی حقیقت کو تم ایک دفعہ پالو‘ اچھی طرح اور پوری طرح جان لو‘ اسی کے مطابق خود کو ڈھالو‘ اسی کی روشنی میں ہر قدم اٹھائو‘ تو ایک کے بعد ایک‘ حج کے فیوض و برکات اور انعامات و فتوحات کے دروازے تمھارے لیے کھلتے چلے جائیں گے۔

حج کیا ہے؟ اللہ سے محبت کرنا‘ ان کی محبت پانا۔ حج کا سفر محبت و وفا کا سفر ہے۔ اس کا مدعا اور حاصل‘ اللہ کے سواکچھ نہیں۔ اس کا ہر عمل محبت و وفا کا عمل ہے‘ اس کی ہر منزل محبت و وفا کی منزل ہے۔ یوں سمجھو کہ حج سارے کا سارا یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ ، اللہ اپنے ان پروانوں سے محبت کرتے ہیں اور یہ پروانے ان کی محبت میں سرشار ہیں‘ کی مجسم اور متحرک تصویر ہے۔

دیکھو‘ بات یہ ہے کہ اللہ تم سے‘ اپنے بندوں سے‘ بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ جیسا حضورپاکؐ نے ارشاد فرمایا‘ وہ ماں باپ سے بھی کہیں زیادہ محبت والے ہیں۔ وہ اپنی ذات میں بے انتہا رحمت اور محبت کرنے والے ہیں۔ اللہ کو پکارو یا الرحمٰن کو‘ ایک ہی بات ہے۔ گویا اللہ کے معنی ہی الرحمٰن ہیں۔ ساتھ ہی وہ سارے دنیا والوں پر اپنی بے پایاں رحمتوں کی مسلسل بارش کر رہے ہیں۔ دنیا میں مخلوقات کے درمیان تم جہاں بھی اور جتنی بھی رحمت دیکھتے ہو‘ وہ سب بھی ان ہی کی رحمت کا جلوہ ہے۔ مگر دنیا میں وہ جتنی رحمت کر رہے ہیں‘ وہ ان کی رحمت کے ایک سو میں سے ایک حصے کے برابر بھی نہیں‘اگرچہ اس کا بھی احاطہ اور شمار ممکن نہیں۔ ۹۹ حصے انھوں نے آخرت میں عطا کرنے کے لیے رکھے ہوئے ہیں۔

یہ انھی کی رحمت اور محبت ہے کہ انھوں نے ہمیں قرآن عطا کیا‘ تاکہ ہم آخرت کی رحمتوں میں سے حصہ پاسکیں۔ رسول پاکؐ جو رحمۃ للعالمین اور رؤف و رحیم ہیں‘ ہمارے اُوپر اللہ کی رحمت و شفقت کا مظہر ہیں (لَقَدْ مَّنَ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ…الخ)۔ موت کے بعد زندگی بخشنا اور اعمال کی جزا دینا بھی ان کی رحمت کا تقاضا ہے (کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَہ ، لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَہ)۔ ہمیں دین اسلام عطاکرکے تو انھوں نے رحمت و انعام کی انتہا کردی‘ یہ ان کی نعمت کا اتمام ہے کہ یہی آخرت میں ان کی رحمت تک پہنچنے کا راستہ ہے (وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ)۔ یہ بھی ان کی ہمارے ساتھ محبت کا ثمر ہے‘ ان کا فضل اور نعمت ہے کہ انھوں نے اپنے اوپر ایمان‘ ہمارے دلوں میں ڈال دیا‘ اسے دلوں کی زینت بنا دیا‘ اسے ہمارے لیے محبوب بنادیا۔ ان کے ساتھ ہماری جتنی محبت ہے‘ ہوگی‘ وہ ان کی محبت (یُحِبُّھُمْ) اور ایمان کا ثمر ہے۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ، جو ایمان والے ہیں‘ وہ سب سے زیادہ شدت سے اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ ایمان کی ساری شیرینی‘ مزا اور رنگ ان کے ساتھ اسی محبت کے دم سے ہے۔

یہ بیانِ محبت ذرا طویل ہوگیا۔ لیکن محبت کے بیان کی لذت! دل چاہتا ہے کہ ختم ہی نہ ہو۔ محبت کے سفر کی لذت! دل چاہتا ہے کہ وقت سے پہلے شروع ہوجائے‘ ختم ہونے کا نام نہ لے۔ اس کی ہر زحمت میں لذت کی چاشنی ملتی ہے۔ حج کی حقیقت کو دل کی گہرائیوں میں پالینے کے لیے کم سے کم اتنا بیان لذیذ ہی نہیں‘ ضروری بھی تھا۔

دیکھو‘ ویسے تو اس دین کا ہر حکم‘ جو نعمت و محبت کا اتمام ہے‘ بندوں سے ان کی محبت کا مظہر ہے‘اور ان کی محبت کے حصول کا راستہ‘ جو بندوں کی غایت ہے۔ ’’سجدہ کس لیے کرو؟‘‘ تاکہ ہم سے قریب ہوجائو۔ ’’مال کس لیے دو؟‘‘ علٰی حبہ،ان کی محبت میں‘ ان کی محبت و رضا کے لیے۔ احکام‘ حرام و حلال کے ہوں‘اخلاق و معاملات کے‘ ہجرت و جہاد کے--- سب ہم پر ان کی شفقت و رحمت پر مبنی ہیں۔ مگر حج کی بات ہی دوسری ہے۔ یہ تم سے اللہ کی محبت کا‘ اور ان کی محبت کے اظہار کا بے مثال مظہر ہے‘ اور تمھارے لیے ان سے محبت کرنے کا‘اپنی محبت کا اظہار کرنے کا اور ان کی محبت پانے کا انتہائی کامیاب و کارگر نسخہ۔ عبادات میں اس پہلو سے اس کی کوئی نظیر نہیں۔

ذرا غور کرو! اللہ تعالیٰ لامکان ہیں‘ وہ ہر جگہ موجود ہیں‘ وہ کسی مکان میں سما نہیں سکتے‘ ہرذرہ اور لمحہ ان کا ہے‘ اور ان کی جلوہ گاہ--- لیکن یہ‘ ان کی‘ ہم جیسے اسیر مکان و زماں بندوں سے‘ بے پناہ محبت نہیں تو اور کیا ہے کہ انھوں نے‘ ہمیںاپنی محبت دینے اور ان سے محبت کرنے کی نعمت بخشنے کی خاطر‘مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں ایک بظاہر بالکل سادے اور معمولی گھر کو’اپنا گھر‘ بنالیا اور مشرق و مغرب میں تمام انسانوں کو اپنے اس گھر آنے کا بلاوا بھیجا‘ کہ آئو‘ سب کچھ چھوڑ کر‘  لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کہتے ہوئے آئو۔ پتھروں کے اس گھر آئو‘ اس گھر میں اپنے خداے لامکاں کی محبت اور قربت حاصل کرو۔ اس گھر میں‘ اس کے در و دیوار میں‘ اس کے گلی کوچوں میں‘ اس کی طرف سفر میں انھوں نے تمھارے جذبہ عشق و محبت کے لیے تسکین و سیرابی‘ شادکامی اور لذت و کیف کا وہ سارا سامان رکھ دیا جو ایک عاشق صادق اپنے محبوب کے کوچہ و دیار اور درودیوار سے پانے کی تمنا کرسکتا ہے۔

یہ بھی اللہ کی رحمت و محبت کا کرشمہ ہے کہ انھوں نے عشق و محبت کے اس مرکز میں‘ جو بظاہر حسن تعمیر اور جمال ماحول سے بالکل مبرا ہے‘ بڑی عجیب و غریب محبوبیت رکھ دی ہے! اس گھر کو انھوں نے اعلیٰ ترین شرف و کرامت سے نوازا ہے۔ اسے انھوں نے اپنی بے پناہ عظمت و جلال کا مظہر بنایا ہے۔ اس کے سینے سے انھوں نے رحمت و محبت‘ برکت و ہدایت اورانعام و اکرام کے لازوال چشمے جاری کیے ہیں۔ آیات بینات کا ایک اتھاہ خزانہ ہے جو اللہ نے اس گھر کی سادہ مگر محبت کے رنگ سے رنگین داستان کے ورق ورق پر رقم کردیا ہے۔ اللہ کے گھر کے حسن و جمال اور شانِ محبوبیت کا بیان اسی طرح الفاظ کے بس سے باہر ہے‘ جس طرح کسی حسین کے حسن کا اور کسی شے لذیذ کی لذت کا‘ جو تم دیکھنے اور چکھنے ہی سے پاسکتے ہو۔

دوسری طرف انھوں نے اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں اس گھر کی محبت ڈال دی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جو جا نہیں سکتے‘ وہ بھی جانے کی آرزو اور شوق میں سلگتے رہتے ہیں‘ اور کچھ نہیں تو روزانہ پانچ دفعہ‘ اس گھر کی طرف رخ کرکے‘ گھر کے مالک سے قرب اور ہم کلامی کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔ لیکن ایک طرف دیار محبوب کی شانِ محبوبیت اور دوسری طرف محبت کرنے والوں کی محبت‘ ازل سے عشاق بے تاب کا ایک ہجوم بے پناہ ہے جو ہروقت اور ہرجگہ سے کھنچ کھنچ کر اس گھر کے گرد جمع ہوتا چلا آرہا ہے۔ خاص طور پر حج کے وقت‘ جس کو رب البیت نے جلوہ و زیارت کے لیے مخصوص و متعین کیا ہے۔ آج تم بھی اسی ہجوم کا ایک حصہ ہو‘اور میری تمنا ہے--- اور تمھاری بھی یہی تمنا ہونا چاہیے--- کہ محبت کی یہی چنگاری تمھارے دل میں سلگ رہی ہو‘ اور وہی تمھیں کشاں کشاں دیارِ محبوب کی طرف لیے جارہی ہو۔

اب ذرا حج کے اعمال و مناسک کو دیکھو جو تم بجا لائوگے۔ یہ تمام تر عشق و محبت کے اعمال ہیں۔ یہ بھی اللہ کی محبت ہے کہ انھوں نے محبت کی ان ادائوں کی تعلیم دی‘ ان کو اپنے گھر کی زیارت کا حصہ بنایا‘ اور ان پر محبت اور اجر کی بشارت دی۔ یہ سنت ابراہیم ؑ کا ورثہ ہیں۔ دیکھو شاہ عبدالعزیز ؒ صاحب ان اعمال کی حقیقت کی کتنی خوب صورت تصویر کھینچتے ہیں:

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا [اور یہی حکم تمھارے لیے ہے] سال میں ایک دفعہ اپنے کو اللہ کی محبت میں سرگشتہ و شیدا بنائو‘ اس کے دیوانے ہوجائو‘ عشق بازوں کے طور طریقے اختیار کرو۔ محبوب کے گھر کے لیے--- ننگے پائوں‘ الجھے ہوئے بال‘ پریشان حال‘ گرد میں اَٹے ہوئے--- سرزمینِ حجاز میں پہنچو‘ اور وہاں پہنچ کر کبھی پہاڑ پر چڑھو‘ کبھی وادی میں دوڑو‘ کبھی محبوب کے گھر کی طرف رخ کر کے کھڑے ہوجائو--- اس خانہ تجلیات کے چاروں طرف دیوانہ وار چکرلگائو‘ اور اس کے در ودیوار کو چومو اور چاٹو۔

محبت کرنے اور محبت پانے کے یہ سب طریقے اللہ کی رحمت ہی نے تمھیں سکھائے ہیں۔

یہ ہے وہ حج جس کے لیے تم روانہ ہو رہے ہو۔ جتنا عشق و محبت کا یہ سبق ازبر کرو گے‘ دل پر اسے نقش کرو گے‘ اسے یاد رکھو گے‘ اللہ کو تم سے جو محبت ہے اس کی حرارت اور طمانیت اپنے اندر جذب کرو گے‘ اللہ سے ٹوٹ کر پورے دل سے محبت کرو گے اور اس کا اظہار کرو گے‘ حج کے ہر عمل کو زیادہ سے زیادہ اس محبت کے رنگ میں رنگو گے‘ اس سے اللہ کی محبت کی طلب اور جستجو کرو گے‘ انھی کی محبت اور قرب کی آرزو اور شوق میں جلو گے‘ اتنا ہی تم حج کی آغوش سے اس طرح گناہوں سے پاک و صاف ہوکر لوٹو گے جیسے ماں کے پیٹ کی آغوش سے نکلتے ہو‘ اور تمھارے حق میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت پوری ہوگی۔ (حاجی کے نام‘ منشورات‘ لاہور‘ ص ۸-۱۴)

چند روز پیش تر شرق اوسط میں جو عبرت ناک واقعات پیش آئے ہیں اور‘ اس کے نتیجے میں مسلمان جس ذلت اور رسوائی کا شکار ہوئے ہیں‘ اس کی مثال ہماری چودہ سو سالہ تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔٭

ذلت کا عذاب

اس جنگ کے دوران ہماری یہ رسوائی بھی ہوئی کہ چودہ عرب ریاستیں اپنے تمام وسائل و ذرائع کے ساتھ ایک حقیر سی ریاست سے شکست کھاگئیں‘ جب کہ ان کی پشت پر تمام مسلمان ممالک کی ہمدردیاں بھی تھیں۔ پھر ہم نے یہ ذلت بھی اٹھائی کہ جو جنگ اس بلند بانگ دعوے سے شروع ہوئی تھی کہ: ’’عالمِ اسلام کے سینہ کا خنجر چار دن میں نکال کر سمندر میں پھینک دیا جائے گا‘‘۔ وہ اس شرمناک انجام پر ختم ہوئی کہ یہ خنجر دو دن میں سینے سے اُوپر ہماری شہ رگ تک پہنچ گیا۔   خلیج عقبہ اور نہر سویز دونوں دشمن کی دست برد سے نہ بچ سکیں۔

سب سے بڑھ کر شرمناک بات یہ ہے کہ جس مقدس شہر (بیت المقدس) کی حفاظت ہمارے سپرد ہوئی تھی اس کو ہم نے نہ صرف یہ کہ ضائع کر دیا‘ بلکہ اس قوم نے ہم سے اسے چھینا جس کو ڈھائی ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے ذلیل و خوار کر کے وہاں سے نکال دیا تھا۔ ان سب پر مستزاد ہمارے نوجوانوں کا وہ گرم گرم خون اور ہمارے ترکش کے وہ تیر ہیں‘ جو بغیر کسی مقابلے کے دشمنوں کے قدموں پر ڈھیر ہوگئے۔

آج ہر مسلمان اپنی اس ذلت پر سوگوار ہے۔ وہ بے چین ہوہو کر پوچھ رہا ہے: ’’آخر یہ سب کیسے ہوگیا؟‘‘

حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم اب بھی جاگ جائیں اور اس سوال کا جواب پاکر اپنے حالات درست کرلیں تو یہ تازیانۂ عبرت ہمارے لیے سامانِ رحمت بن سکتا ہے۔ یہ ہمارا ایمان ہے کہ اس دنیا میں ایک حکیم اور مدبر ہستی کا راج ہے۔ یہ کوئی اندھیرنگری اور چوپٹ راج نہیں ہے کہ بلاسبب اور بلاقانون اتنے بڑے بڑے واقعات رونما ہوجائیں۔ جہاں ایک پتّہ بھی خدا کی مرضی کے بغیر نہ ہل سکتاہو وہاں اتنا بڑا زلزلہ اچانک کہیں خلا سے یوں ہی نمودار نہیں ہوگیا‘ بلکہ ہم نے خدا کے قانون کے تحت وہی فصل کاٹی ہے جس کے بیج ہم عرصے سے بو رہے تھے۔

اگر ہم نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں اور شکست کے اسباب اپنے اندر ڈھونڈنے کے بجاے اس کی ذمہ داری مغربی استعماری طاقتوں کی دخل اندازی‘ دشمن کی مکاری‘ نام نہاد دوستوں کی بے وفائی اور ٹکنالوجی میں اپنی کم تری جیسے عذرات لنگ کے سر منڈھتے رہے تو ہم کو مستقبل میں اس سے بھی بدتر ذلت کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔ اس لیے کہ قدرت بار بار سبق نہیں دیا کرتی۔

ذرا سوچیے___

کیا ہمارے حکمرانوں کو پہلے سے یہ معلوم نہ تھا کہ اسرائیل بڑی طاقتوں کا قائم کردہ اور پروردہ ملک ہے اور کسی بھی جنگ میں یہ طاقتیں اس کی پشت پناہی کریں گی۔ پھر دخل اندازی کا یہ گلہ کیوں؟

کیا ہمارے حکمران یہ سمجھتے تھے کہ دشمن ہم سے پوچھ کر حملہ کرے گا‘ کہ کب کریں اور کدھر سے آئیں اور اگر اس کی طاقت ہمارے اندازے سے زیادہ نکلی تو قصور کس کا ہے؟

اگر ’دوستوں‘ نے بے وفائی کی تو ہم اتنے نادان کیوں بن گئے تھے کہ یہ بھی نہ سوچ سکے کہ کفر خواہ واشنگٹن میں ہو یا ماسکو میں‘ پیرس میں ہو یا بیجنگ اور دہلی میں‘ کہیں بھی اسلام کا دوست نہیں بن سکتا۔ پھر شکایت کس لیے؟

اور جہاں تک سائنس اور ٹکنالوجی میں کم تری کا سوال ہے تو کیا ویت نام اور کیوبا اس لحاظ سے اپنے دشمن [امریکا] سے برتر ہیں کہ انھوں نے اس کے دانت کھٹے کر دیے؟

سوال یہ ہے کہ سائنس و ٹکنالوجی کی جتنی قوت پہلے سے ہمارے مسلم عرب حکمرانوں کے پاس تھی‘ کیا وہ ہمارے کام آئی۔ اگر ہمارے لڑاکا جنگی طیارے اُڑ نہ سکے‘ ہمارے میزائل فائر نہ ہوسکے اور ہمارے ٹینک آگے نہ بڑھ سکے تو اور مزید قوت حاصل کرلینے سے ہمارا کیا بھلا ہوجاتا؟ اگر جنگ کے فیصلے کا دارومدار اسلحے اور تعداد پر ہوتا تو آج اسلام دنیا میں کہیں نظر بھی نہ آتا۔

مسلمانوں کے لیے قانونِ الٰھی

دراصل اتنا بڑا المناک حادثہ جس قانونِ الٰہی کے تحت ہوا ہے۔ وہ اس لیے کہ جب اللہ کی طرف سے کتاب پانے والی قوم اس کتاب کو پیچھے ڈال کر اللہ کے مقابلے میں سر اٹھاتی ہے‘ اللہ کی کتاب کو غالب کرنے کا مشن بھول کر ہر گمراہی کے پیچھے دوڑتی ہے اور اس کے اپنے اندر جو لوگ اس کتاب پر عمل کی دعوت دیتے ہیں ان کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتی ہے‘ اور ان کا خون بہاتی ہے اور ٹکڑے ٹکڑے ہوکر دنیاوی طاقتوں کے آگے سجدہ ریز ہوجاتی ہے___ تو اللہ تعالیٰ اس پر دشمنوں کو مسلط کرکے اس کی عزت و آبرو کو ملیامیٹ کردیتا ہے۔ منکرین پر تو اس کا عذاب اکثر طوفان‘ کڑک اور زلزلہ کی صورت میں آکر ان کو مٹادیتا ہے‘ لیکن اپنے سے بے وفائی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ مٹانے کے بجاے ذلیل و خوار کر کے رہتی دنیا میں ایک سامانِ عبرت بناکر رکھ دیتا ہے:

اُولٰٓئِکَ جَزَآؤُھُمْ اَنَّ عَلَیْھِمْ لَعْنَۃَ اللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۸۷) ان کے ظلم کا صحیح بدلہ یہی ہے کہ ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی پھٹکار ہے۔

خدا کے اس قانون کی بہترین مثال خود بنی اسرائیل ہیں‘ جن کا ذکر قرآن نے شروع میں ہی اتنی تفصیل سے اسی لیے کیا ہے کہ مسلمان اس انجام سے ہوشیار رہیں‘ جو ان کے حصہ میں آیا ___وہ ہم مسلمانوںسے پہلے کتابِ الٰہی کے حامل تھے۔ پھر انھوں نے اپنے خدا سے بے وفائی کی تو اللہ نے ان کو اس لیے زندہ نہ رکھا کہ وہ زندہ رہنے کے مستحق تھے‘ بلکہ اس لیے کہ خدا سے  بے وفائی کی سزا یہی ہو سکتی تھی کہ وہ دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھریں۔ اس لیے بھی کہ اگر ان کے بعد آنے والی اُمت بھی خدا سے بے وفائی کرے تو اس پر انھی کو مسلط کیاجائے۔

سوچنے کی ضرورت ہے کہ بحیثیت مسلم اُمہ ہم نے وہ کون سے اعمال کیے ہیں کہ مشیت الٰہی نے یہ تک گوارا کرلیا کہ جس قوم کو وہ ذلیل کر کے دنیا میں تتربترکرچکی تھی‘ اسی کو وہ ہمارے اُوپر مسلط کرنے کے لیے دوبارہ کھڑا کر لائے۔ ظاہر بات ہے کہ جس درخت نے بنی اسرائیل کی جھولی کانٹوں سے بھر دی تھی اگر وہی درخت ہم بوئیں گے‘ تو ہماری جھولی میں پھول نہیں گریں گے بلکہ ویسے ہی کانٹے گریں گے۔ خدا کا قانون نہ بدل سکتا ہے اور نہ جانب داری برت سکتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اگر بنی اسرائیل کے راستے پر چل کر ہمارا انجام ان سے مختلف ہوتا تو خدا کے عدل پر سوال اٹھایا جاتا۔

ذرا تورات اُٹھا کر دیکھیے تو بنی اسرائیل کے اعمال اور ان کی سزا کے آئینے میں ہم کو اپنی تصویر نظر آئے گی۔ تورات کہتی ہے:

  •  تو نے اپنے جوئے کو توڑ ڈالا اور اپنے بندھنوں کے ٹکڑے کر ڈالے اور کہا کہ میں اپنے دین کے تابع نہ رہوں گا۔
  • یہ اپنی مخالف قوموں سے مل گئے اور ان کے سے کام سیکھ گئے۔ انھوں نے اپنی بیٹیوں کو شیاطین کے لیے قربان کیا اور معصوموں کا‘ یعنی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کا خون بہایا۔
  • تیرے سردار خونی اور چوروں کے ساتھی ہیں۔ ان میں ہر ایک رشوت دوست اور انعام کا طلب گار ہے۔ وہ یتیموں کو انصاف فراہم نہیں کرتے اور بیوائوں کی فریاد ان تک نہیں پہنچتی۔
  • تم اس کلامِ الٰہی کو حقیر جانتے ہو اور کج روی پر بھروسا کرتے ہو۔ اس لیے یہ بدکرداری تمھارے لیے ایسی ہوگی جیسے پھٹی ہوئی دیوار جو گرا چاہتی ہے۔ وہ اسے کمہار کے برتن کی طرح توڑ ڈالے گا اور بے دریغ چکنا چور کر دے گا۔
  • اسی لیے خداوند کا قہر اپنے لوگوں پر بھڑکا اور اسے اپنی قوم سے نفرت ہوگئی اور اس نے ان کو قوموں کے قبضہ میں دے دیا اور ان سے عداوت رکھنے والے ان پر حکمران بن گئے۔
  •  اے اسرائیل کے گھرانے‘ دیکھ میں ایک قوم کو دُور سے تجھ پر چڑھا لائوں گا‘ وہ تیرے مضبوط شہروں کو جس پر تیرا بھروسا ہے‘ تلوار سے ویران کر دیں گے۔
  •  انھوں نے میری طرف منہ نہ کیا بلکہ پیٹھ کی۔ پھر اپنی مصیبت کے وقت وہ کہیں گے کہ اللہ ہم کو بچا___ لیکن تیرے وہ سہارے کہاں ہیں جن کو تو نے اپنے لیے بنایا۔ اگر وہ تیری مصیبت کے وقت تجھ کو بچا سکتے ہیں تو اٹھیں کیونکہ اے یہوداہ! جتنے تیرے ملک ہیں اتنے ہی تیرے معبود ہیں۔

عرب قیادت کا کردار

ویسے تو پوری اُمت مسلمہ کسی نہ کسی طرح اسی تصویر کا ایک نمونہ ہے لیکن اس کا وہ حصہ جو اس جنگ میں اسرائیل سے برسرِپیکار تھا‘ اس کی قیادت تو ایسے عناصر کے ہاتھ میں تھی جو خدا سے بے وفائی‘ اسلام دشمنی اور مسلمانوں کا خون بہانے میں سب سے ہی آگے بڑھ گئے تھے۔

ان عناصر میں سب سے نمایاں مثال مصر کے آمرمطلق جمال عبدالناصر[م: ۱۹۷۰ئ] کی ہے۔ ہر مسلمان کو جاننا چاہیے کہ پچھلے چودہ سال سے وہ کس روش پر گامزن رہے ہیں۔ یہ جاننے سے اس سوال کا جواب ملے کہ یہ عبرت ناک حادثہ کیسے پیش آیا۔

خدا پرستی نھیں‘ قوم پرستی

خدا کے دیے ہوئے دین کے ساتھ ان کا سلوک یہ رہا ہے کہ اپنے ریاستی دستور سے کھلم کھلا اسلام کو خارج کر کے عرب سوشلزم (قوم پرستی+سوشلزم) کو سرکاری مذہب کے طور پر اختیار کیا۔ مسلمان ہونے کے بجاے عرب ہونے پر فخر کیا۔ عربوں میں سے بھی ان ممالک کو جو سوشلسٹ پارٹیوں کے زیرنگیں نہ تھے‘ انھیں مسلمان اور عرب ہونے کے باوجود دشمن اور گردن زدنی قرار دیا۔ اس عبرت ناک جنگ سے صرف تین ہفتے پہلے ناصرصاحب نے ایک ہی سانس میں‘ اسرائیل کے ساتھ ساتھ سعودی عرب‘ اُردن اور تیونس کو مغربی استعمار کا ایجنٹ قرار دیتے ہوئے مٹا دینے کی دھمکی دی۔

حد یہ ہے کہ اس پوری جنگ میں نہ عالمِ اسلام کو مدد کے لیے پکارا‘ اور نہ اپنی قوم کو اسلام کے لیے لڑنے کی دعوت دی۔ قوم کو اس کلمہ کی بنیاد پر لڑائی کے میدان میں نہیں اتارا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے‘ یعنی لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ، بلکہ وہ اس کلمہ پر میدانِ جنگ میں اترے جو عیسائی پادریوں نے سکھایا اور جو عربیت کا کلمہ ہے‘ یعنی اللّٰہ اکبر والعزۃ للعرب___ حالاں کہ مسلمان تو بنا ہی ایسے خمیر سے ہے کہ وہ صرف فی سبیل اللّٰہ ہی لڑنے اور مرنے کے لیے تیار ہوسکتا ہے۔ فی سبیل العرب [عرب کے لیے] مرجانے کا جذبہ وہ کہاں سے لاتا‘ جب کہ اس کو یہ معلوم تھا کہ جو وطن کے لیے مرا وہ جاہلیت کی موت مرا۔

قوم پرستی کا مذہب صدر ناصر کو اتنا عزیز ہوا کہ اس کی خاطر انھوں نے فرعونی تہذیب کو دوبارہ زندہ کیا۔ اس کی تصویریں نوٹوں اور ٹکٹوں پر چھاپیں‘ اس کے مجسّمے بازاروں میں لگائے اور اس بات پر فخر کیا: ’’ہم فرعون کی اولاد ہیں‘‘۔ حد یہ ہے کہ بوسمبل کے بتوں کے نیچے قرآن کے نسخے دفن کیے۔ اس جسارت کے بعد کیا مشیت ایزدی صرف اس لیے جدید فرعونیت کی تائید کرتی کہ بدقسمتی سے وہ اُمت محمدیہ میں پیدا ہوگئی ہے!

مصلحین کا خون

معصوموں کا خون بہانے میں وہ اس حد تک نکل گئے کہ اپنی قوم کے مصلحین اور مجاہدین تک کو بے دریغ پھانسی پر چڑھا دیا۔ اخوان المسلمون جس ظلم و ستم کا نشانہ بنائے گئے ہیں‘ اس ظلم کو زبان بیان نہیں کر سکتی اور آنکھ نم ہوئے بغیر سنا نہیں جاسکتا۔ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ قرآن کی طرف دعوت دے رہے تھے اور عرب قومیت اور سوشلزم کے بجائے اسلام پر چلنا چاہتے تھے حالانکہ یہ وہی اخوان تھے جنھوں نے ۱۹۴۸ء میں خاک و خون میں لوٹ کر اور اپنی جانیں قربان کرکے بغیرکسی حکومت کی پشت پناہی کے اسی اسرائیل کو اسی صحرائے سینا اور بیت المقدس میں آگے بڑھنے سے روک دیا تھا۔

مسلم مفادات کے دشمن

مسلمانوں کے مفادات کے حوالے سے تو عرب قوم پرستی کے علم بردار جمال عبدالناصر کی دردمندی کا یہ عالم ملاحظہ ہو:

  •  یمن میں اپنی فوجوں اور گیس بموں سے ایک لاکھ مسلمانوں کو شہید کر دیا‘ اور اپنی معیشت تباہ کر ڈالی۔ جس مسلمان حکمران سے مخالفت ہوگئی‘ اس کو قتل کر دینے کے لیے سازشیں شروع کر دیں۔
  •  سایپرس میں جب ترک مسلمان عورتوں اور بچوں کا قتلِ عام ہو رہا تھا تو جمال ناصر نے ترکی کے مقابلے میں عیسائیوں کی مدد پر اپنے وہی راکٹ برسانے کے وعدے کیے جو یہودیوں کے مقابلے میں فائر نہ ہوسکے۔
  • حبشہ [ایتھوپیا] میں حکمران [بادشاہ ہیل سلاسی۔ م: ۱۹۷۵ئ] نے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا خون بہایا اور ان کو جبراً عیسائی بنایا‘ اس سفاک حکمران سے جمال ناصر کی گہری دوستی [رہی] ہے۔
  • کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے خلاف ووٹ اشتراکی روس کے علاوہ مصر نے ہی دیا تھا۔ پھر جب [ستمبر ۱۹۶۵ئ] بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو ان کی زبان سے ایک لفظ بھارت کی مذمت میں نہ نکلا۔ حد یہ کہ کاسابلانکا (مراکش) میں منعقد ہونے والی عرب سربراہی کانفرنس کے دوران یہی صدر ناصر وہ واحد عرب سربراہ تھے‘ جنھوں نے پاکستان کی حمایت میں پیش کردہ قرارداد کی مخالفت کی۔ صدر ناصر کی نظر میں عرب سوشلسٹ ممالک کا اتحاد تو ہر صورت میں جائز تھا‘ لیکن مسلمان ممالک کا اتحاد بالکل ناجائز۔

خدا سے اپنے بندھن توڑ ڈالنے‘ خدا کی مخالف قوموں کے سے کام سیکھنے‘ معصوموں کا خون بہانے‘ (نعوذ باللہ) کلامِ الٰہی کو حقیر جاننے کے بعد‘ اگر یہ بدکرداری پہلے بنی اسرائیل پر دیوار کی طرح گری تھی تو اب ہمارے اُوپر کیوں نہ گرے ___ اگر ان پر خدا کا قہر بھڑکا اور ان کے دشمن ان پر حکمران ہوگئے تو ہمارے اُوپر قہرالٰہی کیوں نہ بھڑکے اور ہم پر ہمارے دشمن کیوں نہ مسلط ہوں۔

ہم نے مصر کا تذکرہ اس لیے تفصیل سے نہیں بیان کیا کہ ان جرائم کا ارتکاب صرف وہیں پر ہوا ہے۔ آپ کسی بھی مسلمان ملک کو اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ اس پیمانے پر نہ سہی لیکن کم و بیش یہی داستان ہر جگہ دہرائی جارہی ہے۔ ہر جگہ: پاکستان‘ تیونس‘ الجیریا‘ انڈونیشیا وغیرہ میں جنگِ آزادی اسلام کے نام پر لڑی گئی‘ مگر ہر جگہ آزادی کے بعد عوام کو اختیارات سے بے دخل کرکے اس بات کی کوشش کی گئی کہ اسلام سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ ہر جگہ اسلام کے احکام و حدود کو پامال کیا گیا۔ ہرجگہ اسلام کے علم برداروں کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا۔ ہر جگہ وطنیت اور قوم پرستی کو پروان چڑھایا گیا اور ملکی مفادات پر عالمِ اسلام کے مفادات کو قربان کیا گیا۔

مادی و قومی معبود

کیا یہ حقیقت نہیں کہ جتنی مسلم ریاستیں ہیں‘ بنی اسرائیل کی طرح اتنے ہی ان کے معبود ہیں۔ ممکن ہے یہ معبود پتھر کے بتوں کی صورت میں نہ موجود ہوں‘ لیکن ڈالر‘ روبل‘ اور پونڈ کی صورت میں بالضرور موجود ہیں۔ مسلم ممالک میں سے کسی کا قبلہ لندن‘ کسی کا واشنگٹن‘ کسی کا ماسکو اور کسی کا بیجنگ ہے‘ لیکن یہ بت نہ آج تک ہم کو مصیبت سے بچا سکے ہیں اور نہ آیندہ یہ ہمارے کسی کام آئیں گے۔ یہ سب جھوٹے سہارے ہیں اور کفر کا کوئی بھی ایڈیشن ہو‘ خو اہ وہ سرمایہ داری ہو‘ قوم پرستی ہو‘ یا سوشلزم‘ وہ اسلام کا اور مسلمان کا حقیقی دوست ہرگز نہیں بن سکتا۔ یہ ہماری انتہائی  سادہ لوحی اور بیوقوفی ہے کہ ہم پھر انھی جھوٹے سہاروں سے امیدیں باندھ رہے ہیں اور انھی کی طرف دوڑ دوڑ کر جارہے ہیں‘ حالانکہ مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا۔

عزت کا ایک ھی راستہ

سب راستے آزمانے کے بعد اور ہر طرف سے ٹھکرائے جانے کے بعد ہم کو اچھی طرح جان لینا چاہیے‘ کہ ہمارے لیے عزت و سربلندی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم خدا کے مخلص بندے بن جائیں۔

دنیا کی غالب قوموں اور گمراہ نظریات‘ یعنی سرمایہ داری‘ قوم پرستی اور سوشلزم کو چھوڑ کر اسلام کا راستہ اختیار کریں۔ دین حق کی نصرت کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ خدا سے بے وفائی چھوڑ کر اس کے وفادار بنیں اور اس کے ساتھ اپنا عہد پورا کریں۔ اس نے جس کام پر ہم کو مامور کیا ہے اور جو مشن ہمارے سپرد کیا ہے‘ یعنی اس کی اطاعت کی دعوت اور اس کے دین کا غلبہ‘ اس کو پورا کرنے کے لیے تن‘ من‘ دھن سے لگ جائیں۔

اگر ہم اللہ کی مدد کریں گے تو اللہ ہماری مدد کرے گا۔ اللہ ہماری مدد کرے گا تو دنیا کی کوئی طاقت ہمارے اُوپر غالب نہیں آسکتی۔ یہ اس کا وعدہ ہے جو خدا کی قسم‘ غلط نہیں ہو سکتا۔ اس نے اپنی قوم کو کہیں ذلیل نہیں کیا جب تک وہ اس کی رہی اور جب اس نے دوسروں سے آشنائی کی تو اس نے اسے کبھی معاف نہیں کیا۔

یہ بات ہم کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ جو قوم کسی ایک راستے کے لیے یکسو نہ ہو وہ ہمیشہ دوسروں کی جھولی بلکہ قدموں میں گری رہے گی اور دنیا میں اس کا اپنا کوئی مقام نہیں ہوگا۔ اب اس کو کیا کہیے کہ مسلمان قوم کا مزاج ہی ایسا ہے کہ ان کے حکمران چاہے لاکھ دماغ سوزی کریں‘ وہ قوم پرستی‘ سوشلزم اور دنیا پرستی کے لیے یکسو نہیں ہوسکتی۔ وہ صرف اپنے دین ہی کے لیے یکسو ہوکر بے نظیر کارنامے دکھا سکتی ہے۔

تاہم‘ یہ اسلام کے لیے یکسو نہ ہونے کا نتیجہ ہے کہ آج سارا عالمِ اسلام اتنی عظیم الشان آبادی اور اتنے وسیع وسائل و ذرائع کے باوجود پارہ پارہ ہے اوردوسروں کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہے۔ لیکن عالمِ اسلام کے اتحاد کی ہر دعوت صدا بہ صحرا ثابت ہوگی‘ جب تک ہر مسلمان ملک کی قیادت اخلاص سے اسلام کے راستے پر چلنا شروع نہ کر دے۔

اس معاملے میں بحیثیت پاکستانی ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جو کسی نسلی یا علاقائی قومیت کے بجاے اسلام کی بنیاد پر بنا ہے اور جس نے اپنے پروردگار سے علانیہ عہد کیا ہے کہ یہاں اسلامی حکومت قائم ہوگی۔ جب تک ہمارا یہ عہد بیان کی دنیا سے نکل کر عمل کی دنیا میں پورا نہ ہوگا‘ اس وقت تک ہمارا پروردگار ہم سے خوش نہ ہوگا۔

آج سارا عالمِ اسلام ہماری رہنمائی کا منتظر ہے اور اس کی نگاہیں ہماری طرف لگی ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہمارا ہر جوان‘ مرد‘ عورت‘ بوڑھا‘ بچہ اس کام میں لگ جائے کہ پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی مملکت بنایا جائے اور خدا کی ہر نافرمانی کو ترک کر کے اس کی اطاعت کو اختیار کیا جائے۔ اس کے بعد عالمِ اسلام بھی متحد ہوجائے گا۔ اس کے بعد ہم مشقت کی زندگی بسر کرکے اسلحہ کے کارخانے بھی بنائیں گے۔ پھر اگر ہماری تعداد کم بھی ہو اور ہمارے پاس اسلحہ نہ بھی ہو تو ہمارا ایک آدمی دس دشمنوں پر بھاری ہوگا۔

آیئے! اللہ سے تعلق جوڑیئے۔

آیئے! ہم میں سے ہر آدمی اس تازیانۂ عبرت سے سبق حاصل کر کے اپنے خدا سے   اپنا تعلق جوڑے‘ اس کی اطاعت کا عہد کرے اور اس کے دین کی سربلندی کے لیے میدان میں نکل کھڑا ہو۔

ترجمہ: مسلم سجاد

غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ البقرہ کو کچھ متعین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن کے اپنے موضوع ہیں لیکن ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ ان حصوں کو مزید ذیلی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ یہ تقسیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں بتائی گئی ہے‘ لیکن غوروفکر اور تفہیم کو بہت آسان کردیتی ہے۔ میری فہم کے مطابق سورت کے ایسے سات حصے ہیں:

حصہ اوّل: آیات ۱ تا ۳۹ (۳۹ آیات)۔ ہدایت کی بنیادیں۔

حصہ دوم: آیات ۴۰ تا ۱۲۳ (۸۴ آیات)۔ بنی اسرائیل‘ ایک مسلم اُمّت زوال کی کیفیت میں‘ عہدشکنی اور قلب و عمل کے امراض۔

حصہ سوم: آیات ۱۲۴ تا ۱۵۲ (۲۹ آیات)۔ پیغمبرانہ مشن اُمّت مُسلمہ کے سپرد کرنا۔

حصہ چہارم: آیات ۱۵۳ تا ۱۷۷ (۲۵ آیات)۔ کلیدی انفرادی خصائص‘ دین اور شریعت کے بنیادی اصول۔

حصہ پنجم: آیات ۱۷۸ تا ۲۴۲ (۶۵ آیات)۔ اجتماعی زندگی کے اصول‘ قوانین اور ادارے (عبادت‘ جان و مال اور خاندان کا تقدس)۔

حصہ ششم: آیات ۲۴۳ تا ۲۸۳ (۴۱ آیات)۔ مشن کی تکمیل کی کلید: جہاد اور انفاق۔

حصہ ہفتم: آیات ۲۸۴ تا ۲۸۶ (۳ آیات) ۔اخلاقی اور روحانی ذرائع۔

ھدایت کی بنیادیں (آیات:  ۱- ۳۹)

ان آیات میں ان لوگوں کی صفات بیان کی گئی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے فائدہ اٹھاتے ہیں‘ اور ان کی بھی جویہ فائدہ نہیں اٹھاتے۔

یہ بڑی اہم بات ہے کہ سورت کا آغاز اس اعلان سے ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اس کی سند کے ساتھ ہے۔ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ فِیْہِ ،یہ اللہ کی کتاب ہے اس میں کوئی شبہ نہیں (آیت: ۱)۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ اعلان پورے قرآن میں بہت سی سورتوں کے آغاز اور درمیان میں اکثر دہرایا گیا ہے۔ اس طرح قاری کامل احترام‘ ذوق طلب اور سمجھنے اور سرِتسلیم خم کرنے کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ کتاب کس مقصد سے نازل کی گئی ہے؟ ہدایت دینے کے لیے۔ کس کو ہدایت دینی ہے اور کس بات کی ہدایت دینی ہے؟ ہدایت ان کے لیے جو مُتّقین ہیں‘ جن میں نیکی ‘ خدا کا شعور‘ یعنی تقویٰ کی صفت پائی جاتی ہے‘ یا ان کے لیے ہدایت جو مُتّقین بننا چاہتے ہیں۔

مُتّقین کی صفات کچھ تفصیل سے بیان کی گئی ہیں (آیت ۲ تا ۵)۔ یہ ہم کو یہاں روک نہ لیں‘ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وہ بنیادیں ہیں جن پر آگے قرآن مُتّقین کا تفصیلی بیان تعمیر کرتا ہے۔

ھُدًی لِلمُتّقینکا مطلب عام طور یہ سمجھا جاتا ہے کہ صرف وہی لوگ جو تقویٰ اور اس سے پیدا ہونے والی صفات رکھتے ہیں قرآنی ہدایت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اگر اسے ایک لازمی پیشگی شرط سمجھا جائے تو ان صفات کو ان کے اصل لغوی مفہوم میں سمجھنا چاہیے نہ کہ مکمل قرآنی مفہوم میں۔ ورنہ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہدایت پانے کے لیے آدمی کو پہلے ہی ہدایت یافتہ ہونا چاہیے۔ ایک مفہوم میں یہ معانی بھی درست ہیں۔ اس لیے کہ تقویٰ اختیار کرنے کے امکانات لامحدود ہیں۔ ابتدا سے ترقی یافتہ اور اعلیٰ مراحل تک جانے کے لیے کسی نہ کسی درجے میں تقویٰ موجود ہونا چاہیے۔

وہ لوگ جنھوں نے ہدایت پائی ہے‘ اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے‘ اور انھیں ان کے حصے کا تقویٰ عنایت کرتا ہے۔ (محمد ۴۷:۱۷)

مگر ایک بامعنی اور بہتر مفہوم یہ ہے کہ قرآن کی ہدایت افراد اور افراد کے گروہوں یا قوموں کو مُتّقین بننے کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اسی طرح جیسے کہ ہم کہتے ہیں یہ ایم اے کا کورس ہے تو ہمارا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس کورس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایم اے ہونا پیشگی شرط ہے۔ ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ کورس ایک آدمی کو ایم اے تک پہنچا دے گا۔ پس ابتدائی آیات (۱-۵) بیان کرتی ہیں کہ قرآن کس طرح افراد اور قوموں کو مُتّقین بنانے کے لیے آیا ہے۔   صراطِ مستقیم بھی تقویٰ کی زندگی ہے۔ آگے ہم دیکھیں گے کہ تقویٰ کی زندگی اور اس دنیا میں اور آخرت میں اس کے خوش گوار نتائج قرآن کا مستقل موضوع ہیں۔

اصل لغوی مفہوم میں پیشگی شرط کے طور پر تقویٰ سے مراد صحیح اور غلط کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت‘ اور وہ باطنی طاقت ہے جس سے آدمی صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط تسلیم کرے اور جس بات کو غلط تسلیم کرے اس سے اپنے آپ کو بچانے پر قادر ہو۔

پھر ان لوگوںکا بیان ہے جو اللہ کی ہدایت سے ہرگز فیض یاب نہ ہوں گے۔

اس میں سب سے پہلے وہ لوگ ہیں جو اپنی مرضی سے قرآن کو اللہ کا کلام ماننے سے انکار کرنے پر مُصر ہیں۔ نتیجتاً ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے (آیات: ۶-۷)۔ پھر وہ لوگ ہیں جو بظاہر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں مگر درحقیقت ایمان نہیں رکھتے (آیات: ۸-۲۰)۔ ان کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک سرے پر وہ لوگ ہیں جو دشمن ہیں اور مذاق اڑاتے ہیں‘ فساد پھیلاتے ہیں اور انھوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی کا سودا کرلیا ہے (آیت:۱۶)۔ یہ اپنی مرضی سے منافق ہیں: اندھے بہرے اور گونگے‘ یہ لَوٹنے والے نہیں ہیں (آیت: ۱۸)۔ دوسرے سرے پر وہ لوگ ہیں جو ایمان تو رکھتے ہیں لیکن ایمان جب آزمایش اور قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے تو ثابت قدم نہیں رہتے۔ یہ ایمان اور ارادے کے ضعف کی وجہ سے منافق ہیں: جب روشنی ہوتی ہے تو چلتے ہیں اور جب ان کے گرد تاریکی چھا جاتی ہے تو وہ ٹھیر جاتے ہیں۔ (آیت: ۲۰)

اس کے بعد یہ سورت ساری انسانیت کو قران کے مرکزی پیغام کی طرف بلاتی ہے: صرف اللہ کی عبادت کرو‘ کسی کو اس کے برابر یا شریک نہ بنائو (آیات :۲۱-۲۲)۔ اس پیغام کو مستند بنانے کے لیے یہ قرآن کے من جانب اللہ ہونے کو اور اس طرح رسولؐ کی حقانیت کو ثابت کرتی ہے (آیات ۲۳-۲۵)۔ ان دونوں کا رشتہ زندگی کے مقصد اور معانی کے ساتھ جوڑنے کے لیے یہ زندگی بعد موت کی حقیقت کو واضح کرتی ہے (آیات: ۲۸-۲۹)۔ درمیان میں ان لوگوں کی فکر اور اخلاق کے امراض بیان کیے جاتے ہیں جو قرآن سننے کے باوجود گم کردہ راہ ہیں۔ وہ قرآن خصوصاً اس کی مثالوں پر سوال اٹھاتے ہیں‘ شبہ ظاہر کرتے ہیں اور جھگڑتے ہیں: وہ عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑتے ہیں‘ اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے ‘ اسے کاٹتے ہیں‘ اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ (آیت: ۲۷)

اس طرح ہم ان آیات (۲۱ تا ۲۹) میں قرآن کے مکمل پیغام کا رواں خلاصہ پاتے ہیں۔

آیات ۳۰ تا ۳۹ میں تخلیق انسانی کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ اس سے قرآن کا تصورِ جہاں‘ عالمی نظریہ(world view) اور فطرتِ انسانی کا اس کا تصور واضح ہوتا ہے۔ انسان کو علم اور ارادے کی آزادی دی گئی ہے۔ وہ زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے۔ اس لیے اس کو اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدود اور ہدایات کے اندر زندگی گزارنا چاہیے۔ ایسا کرنے کے لیے اسے خیر اور شر کے درمیان انتخاب کرنے کی مسلسل کش مکش کا سامنا ہے۔ وہ اخلاقی طور پر ذمہ دار اور ایک آزاد ہستی ہے‘ اس لیے اس سے اس کش مکش میں گناہ کرنے کا امکان ہے۔ خیروشر کی اس کش مکش کا مقابلہ کرنے کے لیے اور اپنے گناہوں پر قابو پانے کے لیے اس کو اللہ کی طرف سے دو نعمتیں دی گئی ہیں۔ اوّل: توبہ قبول کرنے کا وعدہ‘ یعنی جب بھی گناہ کرنے والا اس کی طرف پلٹ کر آئے اسے معاف کرنے کا وعدہ‘ جیسے اس نے حضرت آدم ؑکو معاف کیا (آیت: ۳۷)۔ دوم: اللہ کی طرف سے ہدایت بھیجنے کا وعدہ‘ جیساکہ اس نے حضرت آدم ؑکو بتایا تھا۔ (آیت: ۳۸)

ایک مسلم اُمّت کے زوال کی کیفیت (آیات: ۴۰ -۱۲۳)

ان لوگوں کے بیان کے فوراً بعد جو قرآن کی ہدایت سے فائدہ اٹھائیں یا نہ اٹھائیں‘ پوری انسانیت کو خالق و مالک‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دے کر اور پھر تخلیق انسانی کے واقعے کو بیان کرکے قرآنی تصورِ جہاں‘ انسانی نفسیات اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور معافی پر انسان کے مکمل انحصار (آیات: ۳۰-۳۹) کا ذکر کرتے ہوئے البقرہ کا رخ ۸۴ طویل آیات میں‘ جو ایک تہائی سورت کے برابر ہیں‘ اپنے وقت کی یہودی قوم‘ بنی اسرائیل کی طرف مڑجاتا ہے۔ وہ اُنھیں     اللہ تعالیٰ کے بے پایاں انعامات کی یاد دلاتا ہے اور ان کی ناشکری‘ احکامات سے اُن کی سرتابی اور ان کے قلب اور ایمان و عمل کے بڑے بڑے امراض کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ مختصراً‘ یہ اللہ تعالیٰ سے عہدشکنی کی ایک طویل داستان ہے۔ قرآن ایسا کیوں کرتا ہے؟ وہ بالکل آغاز ہی میں اتنے اہم موقع پر کیوں بنی اسرائیل سے اتنی تفصیل سے بحث کرتا ہے؟ سب سے پہلے ہم اس اہم سوال پر غور کرتے ہیں۔

کیا یہ مدینے میں یہودیوں کی موجودگی کی وجہ سے ہے؟ یقینا مدینے میں یہودی موجود تھے۔ انھیں اسلام کی طرف دعوت دی جانی تھی اور قرآن کو ان کی جہالت سے‘ اور رسولؐ اللہ اور ان کے پیغام کے ساتھ ان کا جو رویہ تھا‘ اس سے بحث کرنا تھی۔ اس لیے یقینا یہ ان آیات کی ایک وجہ یا شانِ نزول تھی۔ لیکن یہ اس حصے کے طول‘ اس کے موضوعات اور اُس کے سیاق کی توجیہہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔

کیا یہ جیساکہ بہت سے مستشرقین کا خیال ہے‘ رسولؐ اللہ کو تسلیم کرنے سے یہودیوں کے شدید انکار اور شدید مخالفت پر مایوسی اور غصے کی وجہ سے ہے؟ اس مؤقف کی تائید میں کوئی تاریخی گواہی یا روایت نہیں ملتی۔ قرآن اس طرح کا کلام نہیں ہے جس کا مقصد اپنے دشمنوں کے خلاف غصہ نکالنا ہواور پھر اس کو بالکل آغاز ہی میں رکھ دے‘ تاکہ آنے والے سب زمانوں میں اس کے تمام قارئین اس کا مشاہدہ کریں۔ یہاں اس طرح کا غصہ اور مذمت نہیں ہے جس طرح کا ہم بائبل میں پاتے ہیں۔ رسولؐ اللہ یہودیوں سے معاملہ کرنے میں بہت آگے تک گئے‘ اور پوری تاریخ میں مسلمانوں نے ان سے ہمیشہ بہت اچھا سلوک کیا۔

اس کا اصل مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے یہودیوں کی مذمت کرنا معلوم نہیں ہوتا‘ بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دراصل تمام زمانوں کے مسلمانوں کے لیے آئینہ فراہم کیا گیا ہے‘ تاکہ وہ اسے اپنے سامنے رکھ کر اپنے حالات اور تقدیر کا صحیح عکس دیکھ سکیں۔ قرآن کا بیان    بنی اسرائیل کی اپنے مشن کو پورا کرنے میں ناکامی کے بارے میں فیصلہ بھی صادر کرتا ہے اور اس طرح اللہ کے مشن کو جاری رکھنے کے لیے محمد رسولؐ اللہ کی قیادت میں ایک نئی مسلم اُمّت کو ان کی جگہ دینے کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔

قرآن میں تاریخ کا بیان تاریخ کی خاطر نہیں ہے۔ مخصوص اقوام کے نام دیے گئے ہیں لیکن یہ نام محض عنوانات ہیں۔ ان کے حالات کا تذکرہ دراصل یہ بتانے کے لیے ہے کہ ان اقوام کے ساتھ کیا گزری اور کیوں گزری۔ ان سے دوسرے لوگوں کو سبق سیکھنا چاہیے۔

مسلمان ایک نئی ظہور پذیر اُمّت تھے جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے امین اور انبیاے کرام‘ خصوصاً آخری نبی ؐ کے مشن کے علم بردار کی حیثیت سے مقرر کیے گئے تھے جیسا کہ اس سے پہلے   بنی اسرائیل تھے۔ ان کی تاریخ کو ابھی ظاہر ہونا تھا اور مستقبل کی تاریخ کے بارے میں کوئی پیش گوئی‘ مثال‘ سبق یا تنبیہ نہیں ہوسکتی تھی۔ عاد و ثمود کے لوگ مسلمان نہیں تھے لیکن بنی اسرائیل نے تو مسلمانوں کی طرح توحید کا پیغام قبول کیا تھا۔ وہ مسلمانوں کی طرح اس پیغام کی گواہی کے مشن پر سرفراز کیے گئے تھے۔ درحقیقت وہ اپنے وقت کی مسلم اُمّت تھے لیکن زوال کی حالت میں۔ اس لیے ان کی تاریخ اور رویّے مطالعے کے لیے بہترین موضوع تھے جو مسلمانوں کے سامنے شروع ہی میں رکھے جاتے۔ وہ اس آئینے میں وہ سب کچھ دیکھ سکتے تھے جو ان کے ساتھ پیش آسکتا تھا۔ مقصد یہودیوں کو موردالزام ٹھیرانا نہیں‘ بلکہ مسلمانوں کو تنبیہ کرنا ہے کہ ان کے نقشِ قدم پر نہ چلیں۔ یہ آئینہ مسلمانوں کو دکھاتا ہے کہ کیا‘ کہاں اور کیوں غلطی ہوسکتی ہے اور اس کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔ جیساکہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: تم بنی اسرائیل کے راستوں پر چلو گے‘ قدم بہ قدم۔ (مسلم)

اس لیے اگرچہ خطاب بنی اسرائیل سے ہے‘ اصل مخاطب مسلمان ہیں جو حامل قرآن اور اس کے امین ہیں۔ اس روشنی میں پڑھیے‘ کُل کی کُل ۸۴ آیات زندہ ہوکر سامنے آجاتی ہیں۔ وہ ابھی اور اسی وقت ہم مسلمانوں کے لیے پُرمعانی ہوجاتی ہیں۔ ہمیں نظرآتا ہے کہ اسرائیلی تاریخ کے مخصوص واقعات‘ مثلاً سنہرا بچھڑا ہمارے ماضی اور حال کے واقعات ہیں۔

اگر ہم اس حصے کا زیادہ غور سے مطالعہ کریں تو اسے باہم مربوط تین ذیلی حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ اس طرح تو ہم اسے بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔

پہلا ذیلی حصہ (آیات ۴۰- ۴۶) بنی اسرائیل سے ایک عام دعوتی خطاب ہے۔ یہ حصہ اس بارے میں نہایت قیمتی ہدایت فراہم کرتا ہے کہ ایک زوال پذیر مسلم اُمّت کے سامنے دعوت  کس طرح پیش کی جائے۔ یہ بتاتا ہے کہ موضوعات کیا ہوں‘ انداز کیا ہو‘ ترجیحات کیا ہوں‘ اور کن امور پر زور دیا جائے۔یہ ایسی اُمّت کے احیا کے طریقے اور پروگرام کے لیے نشاناتِ راہ بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ کھول کھول کر بتاتا ہے کہ دعوت و اصلاح کے کام میں کس حکمت کو اختیار کیا جائے۔ دیکھیے کہ بنی اسرائیل پر کسی بڑے حملے کے بغیر‘ ان کی بڑی بڑی کمزوریاں واضح ہو جاتی ہیں۔

قرآن سب سے پہلے اس نعمت کو یاد دلاتا ہے جو اللہ نے ہدایت کی صورت میں انھیں عطا کی اور انھیں اُبھارتا ہے کہ وہ اس کے لیے اللہ کے شکرگزار ہوں۔ پھر وہ انھیں پُرزور طریقے پر دعوت دیتا ہے کہ اس ہدایت کے حوالے سے اللہ سے اپنے عہد کو پورا کریں۔ ہماری اُمّت کے احیا کے لیے بھی اگر کوئی تحریک ہو تو یہ یاددہانی اور دعوت اس کا آغاز اور حقیقی بنیادی پتھرہونا چاہیے۔ پھر وہ ان کو دعوت دیتا ہے کہ اپنے مسلمان ہونے کے دعوے کی بنا پر ‘انھیں ایمان کا راستہ اختیار کرنے والوں کا ہراول دستہ ہونا چاہیے۔ یہ ایمان‘ آخری رسولؐ اور جو کتاب انھیں دی گئی ہے اسے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے پر مرکوز ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ ایمان کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو‘ نفاق کو بھی جڑ سے اُکھاڑ پھینکو‘ اس لیے کہ نفاق ایمان کے لیے سرطان کی طرح ہے۔ لیکن دیکھیے کہ منافقوں سے الزامی انداز :تم منافق ہو‘ کے بجاے کیا       تم …؟کا استفہامی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ آخر میں‘ عہد پورا کرنے کے عظیم کام کو انجام دینے کے لیے جس استقامت کی ضرورت ہے‘ اس کے راز کی طرف اشارہ کیا گیا ہے‘ یعنی صبر اور صلوٰۃ۔ دونوں صرف اس صورت میں حاصل کیے جا سکتے ہیں کہ اللہ سے روزِ قیامت ملاقات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے۔

زیادہ گہرا غوروفکر کیا جائے تو اس خطاب کی‘ اُس خطاب سے جو پوری سورۃ البقرہ میں  مسلم اُمّہ سے کیا گیا ہے‘ غیرمعمولی مماثلت نظرآئے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان سات آیات میں بعد کے تفصیلی بیان کا خلاصہ آگیا ہے۔

دوسرا ذیلی حصہ‘ جو ۴۷ تا ۷۴ آیات پر مشتمل ہے‘ بنی اسرائیل کو ان کی تاریخ کے اہم نشاناتِ منزل اور ان مواقع پر ان کے رویوںکو یاد دلاتا ہے۔ ہر واقعہ محض ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک اہم سبق ہے جو ان کی زندگی کے کسی اہم پہلو سے بحث کرتا ہے۔ غوروفکر کیا جائے تو ہر واقعہ اپنے سبق‘ اپنے قیمتی معانی‘ فکروعمل کے کسی اہم مرض یا کسی انحراف پر روشنی ڈالتا ہے جس کی وہ علامت ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ ان واقعات کو منتشر طور پر بیان نہیں کیا گیا ہے‘ بلکہ مربوط کر کے بامعنی ترتیب سے بیان کیا گیا ہے۔

مثال کے طور پر سنہرے بچھڑے کا واقعہ اس دنیا کی اشیا سے محبت کو پرستش کے لائق قرار دینے کی علامت ہے (آیت:۵۱)۔ یہ واقعہ فرعون سے بنی اسرائیل کے نجات پانے کی بہت بڑی نعمت کے معاً بعد پیش آیا۔ کتاب کا ملنا اور عہدوپیمان ابھی نہیں ہوئے تھے۔ یہ محبت جب اللہ سے محبت کے مقابلے پر آئے اور اس پر غالب ہوجائے تو زوال کی بنیادی وجہ ہوتی ہے۔ من و سلویٰ کا انکار‘ اللہ سے اپنے عہد کو پورا کرنے کے لیے جہاد کی زندگی سے انکار کی علامت تھا جس میں پُرآسایش‘ آرام دہ اور جمی جمائی زندگی کے بجاے سختیاں اور قربانیاں ہوتیں۔

ترکِ جہاد سے بالآخر ذلّت و مسکنت مسلّط ہو جاتی ہے (آیت: ۶۱)۔ اسی طرح اصحاب سبت نے اللہ کے ساتھ جو چالیں چلیں (آیت:۶۵)‘ اور گائے کی قربانی کے معاملے میں جس طرح بال کی کھال نکالنے کا اور حجت بازی کا مظاہرہ کیا‘ اس کو کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ یہ شریعت اور اطاعت کو ترک کرنے کے مترادف ہے۔ جب شریعت ایک بے وقعت چیز ہوجائے‘ جس کی پیروی کرنے کے بجاے اس سے کسی طرح بچنے کی فکر کی جائے‘ تو انسان کے اندر کا متحرک وجود جمود کا شکار ہوتا ہے اور دل پتھر سے زیادہ سخت ہوجاتے ہیں۔ (آیت:۷۴)

یہ دیکھنا بالکل مشکل نہ ہونا چاہیے کہ ہماری اُمّت کے شریعت اور جہاد کو اسی طرح ترک کرنے سے غیرملکی اقوام (خواہ وہ منگول ہوں یا مغرب) کی غلامی اور دلوں کے پتھر ہوجانے کی کیفیت سامنے آتی ہے۔

تیسرا ذیلی حصہ جو ۷۵ تا ۱۲۳ آیات پر مشتمل ہے‘ بنی اسرائیل کی تاریخ سے آگے بڑھ کر ان کے قلب و ذہن‘ ایمان و عمل اور طریقوں اور رویوں کی موجودہ کیفیت کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ خاص طور پر جو بات بیان کی گئی ہے وہ ان کا اللہ کے آخری رسولؐ کا انکار اور مخالفت ہے۔ مگر بتایا گیا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے‘ اسی طرح کے رویوں کی طویل تاریخ کا تسلسل ہے۔

اب آپ ہر الزام کو‘ چارج شیٹ کے ہر نکتے کو‘ الگ الگ لیں اوران پر غور کریں۔ آپ اُمّت مُسلمہ کے زوال وا حیا میں نہ صرف ان کا کلیدی کردار پائیں گے‘ بلکہ گذشتہ زمانوں میں مسلم اُمّت کی جو حالتیں رہی ہیں ان سے بہت زیادہ مشابہت بھی پائیں گے۔ بنی اسرائیل نے حق کو جاننے اور قبول کرنے سے جان بوجھ کر انکار کیا۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی کیا۔ یہود‘ خدا کی کتاب کے معانی اور پیغام سے مکمل طور پر انجان بن گئے اور اس کے بجاے خیالی دنیا میں رہنے لگے (آیت:۷۸)۔ یہی حال مسلمانوں کا ہوا۔ ان کے فاضل علما نے مقدس کتاب کے متن کو اس طرح توڑا مروڑا کہ مفیدِ مطلب معانی نکلیں اور انھیں اس دنیا کے انعام ملیں۔ مسلمان بھی ایسا ہی کرتے ہیں (آیت:۷۹)۔ ان کے اندر فرقہ پرستی خوب پھولی پھلی۔ ایمان اور عمل صالح کے بجائے انھوں نے مذہبی لیبلوں کو اہمیت دی۔ وہ کتاب کے بعض حصوں پر ایمان لاتے تھے اور جو اُن کے مفیدِمطلب نہ ہو اسے ایک طرف رکھ دیتے تھے۔ مسلمان بھی اس سے مختلف نہیں۔ ہم جتنا بھی آگے بڑھیں اور دیکھیں‘ہر پہلو سے اسی طرح کی مشابہت دیکھیں گے۔

یہ پورا بیان آخر میں ہمیں اس آخری فیصلے تک لاتا ہے:

جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے‘ وہ اسے اُس طرح پڑھتے ہیں جیساکہ پڑھنے کا حق ہے۔ وہ اس (قرآن) پر سچے دل سے ایمان لے آتے ہیں۔ اور جو اس کے ساتھ کفر کا رویہ کریں‘ وہی اصل میں نقصان اٹھانے والے ہیں۔ (آیت: ۱۲۱)

اُمّت مسلمہ کو پیغمبرانہ مشن سونپنا (آیات: ۱۲۴-۱۵۲)

مسلمانوں کو فریضہ رسالتؐ سپرد کرنے سے پہلے (آیت ۱۴۳) حضرت ابراہیم ؑ کی مقدس تاریخ اور اللہ کی مکمل اور خالص اطاعت میں گزاری ہوئی ان کی خدا پرستانہ زندگی بیان کی گئی (آیات: ۱۲۳- ۱۳۳)۔ حضرت ابراہیم ؑکو کعبۃ اللہ کا متولّی اور انسانیت کا امام اس لیے مقررکیا گیا کہ انھیں جس آزمایش سے بھی گزارا گیا وہ اس سے سرخ رُو نکلے۔ ان کو یہ اعزاز وراثت میں نہیں ملے اور نہ کسی کو ملیں گے۔ (آیات: ۱۲۴- ۱۲۵)

نئی اُمّت‘ حضرت ابراہیم ؑ کی اس دعا کی تکمیل ہے جو آپ نے بیت اللہ کی تعمیر کرتے ہوئے کی تھی: اے اللہ! ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا جو تیری مُسلم ہو (آیت:۱۲۸)۔ مسلمان‘ حضرت ابراہیم ؑکے ورثے اور مشن کے بھی وارث ہیں‘ جو توحید اور خدا پرستی کی بہترین روایات کا نمونہ ہے۔ یہ بات زور دے کر کہی گئی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ سے جو وعدہ کیا گیا تھا وہ کوئی ایسا لقب نہیں تھا جو نسل در نسل ورثے میںمنتقل ہوتا۔ اسرائیل نے اس ورثے پر اپنے حق کو ساقط کر دیا‘ اس لیے کہ انھوں نے حضرت ابراہیم ؑکے برخلاف اللہ سے بے وفائی کی‘ انھیں حضرت یعقوب ؑنے جو مشن اپنے بستر مرگ پر سونپا تھا وہ اسے پورا کرنے میں ناکام رہے۔ (آیت:۱۳۳)

اس اصول پر بہت زور دیا گیا ہے کہ مذہبی لیبل کسی مصرف کے نہ ہوں گے۔ اصل قدروقیمت ایمان‘ اللہ کے آگے اپنے آپ کو ڈال دینے اور صرف اسی سے پُرخلوص وابستگی کی ہوگی۔ ہر قوم کو اس کے ایمان اور اعمال کے مطابق جانچا جائے گا۔ یہ پورا بیان اس ذمہ داری کو بنی اسرائیل سے لے کر اُمّت مُسلمہ کو منتقل کرنے کے سیاق کو واضح کرتا ہے۔

نماز کی سمت‘ یعنی بیت المقدس سے کعبے کی طرف قبلے کی منتقلی (آیات: ۱۴۴-۱۵۰)  دراصل اُمّت مُسلمہ کی طرف فریضہ رسالتؐ کی منتقلی کی علامت ہے۔ جس طرح بنی اسرائیل کو اللہ کی ہدایت اور کتاب کی نعمت کو اللہ کے خاص عطیے کے طور پر یاد دلایا گیا تھا‘ اسی طرح اختتام پر مسلمانوں کو بھی یاد دلایا گیا ہے:

تم مجھے یاد رکھو‘ میں تمھیں یاد رکھوں گا‘ اور میرا شکر ادا کرو‘ کفرانِ نعمت نہ کرنا۔ (آیت:۱۵۲)

دیکھیے‘ بنی اسرائیل کو اسی طرح کی دعوت دی گئی تھی۔

کلیدی انفرادی خصائص اور دین کے بنیادی اصول (آیات: ۱۵۳ -۱۷۷)

۱۵۳ سے ۱۶۲ آیات ان کلیدی انفرادی صفات کی نشان دہی کرتی ہیں جو عہد پورا کرنے کے لیے مطلوب ہیں۔ یہ صرف اس مفہوم میں انفرادی ہیں کہ یہ ایک فرد کے باطنی وجود میں پیدا کی جاسکتی ہیں‘ لیکن عملاً یہ سب اجتماعی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور مؤثر انداز سے اجتماعیت پیدا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر نماز‘ جماعت کے ساتھ ہے۔ اسی طرح روزہ‘ حج اور جہاد۔

سب سے اہم صفت یہ ہے کہ آپ کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شعور رہے‘ گویا آپ اس کے حاضروناظر ہوتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں‘ آپ کو ہرچیز ایسے نظر آتی ہے جیسے اس کی طرف سے ہے اور اس کی وجہ سے ہے۔ آپ کو ہمیشہ یاد رہتا ہے کہ آپ فیصلے کے دن اس سے ملاقات کریں گے۔ مختصراً یہ کہ آپ ہر لمحے اور ہر موقعے پر جتنی کثرت سے اور جتنا زیادہ اسے یاد کرسکتے ہیں‘ کرتے رہیں۔ یہ بات آیت ۱۵۲ میں وضاحت سے بیان کر دی گئی ہے۔ یہ کیفیت حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے ذکر کو زندگی کا حصہ بنا لینا چاہیے۔ نماز اسی مقصد کے لیے فرض کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آیت ۱۵۲ کے بعد فوراً ہی یہ ہدایت دی گئی کہ صبر اور نماز سے مدد لو (آیت: ۱۵۳)۔

صبر کا ذکر پہلے کیا گیا ہے۔ یہ اس لیے کہ نماز‘ انفرادی ہو یا اجتماعی‘ صبر کے بغیر نہ ادا کی جاسکتی ہے نہ قائم کی جا سکتی ہے۔ یہ نماز ہی ہے جو عزم‘ استقلال اور تحمل‘ یعنی صبر کی صفت کو پیدا کرتی ہے‘ ترقی دیتی ہے‘ تقویت دیتی ہے اور برقرار رکھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ایک منطقی عمل میں باہم مربوط ہیں۔ دونوں (یعنی صبر اور نماز) فرد کو اور جماعت کو اللہ سے قریب تر لاتے ہیں۔ نماز‘ فرد اور جماعت دونوں ہی کی زندگیوں اور دلوں کو اللہ کے ذکر سے بھر دیتی ہے۔ اللہ ان لوگوں سے قریب ہے جو صبر کی صفت رکھتے ہیں جیسا کہ آیت ۱۵۳ میں وعدہ کیا گیا ہے: اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

دیکھیے کہ ایسی ہی ہدایت بنی اسرائیل کو دی گئی تھی۔ (آیت:۴۵)

صبر کی اہمیت اس حقیقت کا اظہار ہے کہ عہد پورا کرنے کے لیے قربانیاں مطلوب ہوں گی۔ ان قربانیوں کی کچھ تفصیل دی گئی ہے (آیت:۱۵۵)۔ آخری قربانی جو مطلوب ہے وہ جان کی قربانی ہے۔

آزمایشوں اور قربانیوں کے موقع پر ثابت قدم رہنے کے لیے صبر کی کلید اللہ کا ذکر ہے: یہ ایمان رکھنا کہ ہم کُل کے کُل اسی سے وابستہ ہیں‘۱ سی کی طرف پلٹ کر جائیں گے اور اُسی کو اپنے اعمال کا حساب دیں گے۔ نماز یہی احساسات پیدا کرتی اور پرورش کرتی ہے۔

صفا اور مروہ کے بارے میں آیت ۱۵۸ غیرمتعلق نہیں ہے‘ اگرچہ کہ ایسا محسوس ضرور ہوتا ہے۔ اسے یہاں اس لیے رکھا گیا ہے کہ کعبے کے قریب یہ دو پہاڑیاں صفا اور مروہ صبر‘ اُمید اور اللہ تعالیٰ پر اعتماد کی ایک عظیم اور جذبہ انگیز داستان کی علامت ہیں۔ یہ ایک بڑی قربانی کی کہانی بھی ہے‘ یعنی حضرت ہاجرہ اور اسماعیل کی کہانی۔ جب کوئی ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی کی طرف چلتا ہے تو اسے یاد آتا ہے کہ کس طرح تن تنہا ایک عورت نے ایک شیرخوار بچے کے ساتھ مکہ میں رہنا منظور کیا‘ کس طرح اس نے اُمید اور اعتماد کے ساتھ کوشش کی‘ اور کس طرح اللہ نے ایک ایسی وادی میں پانی کا چشمہ جاری کر دیا جہاں پانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔

آخر میں قرآن کے ساتھ عہد توڑنے کے سنگین نتائج بتائے گئے ہیں: اللہ کی طرف سے‘ اس کے فرشتوں کی طرف سے‘ اور تمام انسانوں کی طرف سے لعنت‘ اور آخرت میں دائمی عذاب (آیت: ۱۵۹-۱۶۲)۔ یہ کھری کھری تنبیہ پوری بات کو اپنے سیاق میں واضح کر دیتی ہے۔ اُمّت کو جو مشن سونپا گیا ہے اس کو پورا کرنے کے لیے اللہ کا ذکر‘ نماز‘ قربانی اور صبر سب ضروری ہیں۔ ہر شخص کو یہ مشن پورا کرنے کی اپنی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ (آیات: ۱۶۳-۱۷۷)

آیات ۱۶۳ تا ۱۷۷ میں دین اور شریعت کی اہم بنیادوں کا بیان ہے‘ یعنی اللہ پر ایمان جو ایک ہے‘ یعنی توحید۔ اس کے ساتھ ہی کائنات میں اس کی نشانیاں جو یہ ایمان پیدا کرتی اور اسے مضبوط کرتی ہیں (آیات: ۱۶۳-۱۶۴)۔ اللہ تعالیٰ سے مضبوطی سے جڑے رہنا دین اور صراط مستقیم پر رہنمائی کی اصل اور بنیاد (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۱)‘ جہاد کا کلیدی ذریعہ (الحج ۲۲:۷۸) ‘اور وہ حق ہے جس کی گواہی دینا ہے۔

توحید کے فوراً بعد قرآن‘ اللہ سے محبت کا ذکر کرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ تم اللہ سے اس سے زیادہ محبت کرو جتنا کسی بھی دوسری چیز سے کرتے ہو۔ اس طرح قرآن ذکر اور صبر کے بعد اللہ سے محبت کو سب سے اہم صفت کے طور پر بیان کرتا ہے‘ اس لیے کہ ایسی محبت ہی ایمان کو حقیقی اور بامعنی بناتی ہے (آیت: ۱۶۵)۔ محبت ہی ایمان کو شخصیت کا حصہ بناتی ہے اور اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے طاقت فراہم کرتی ہے۔

ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ تمام دوسرے رہنمائوں کے بجاے اللہ کے رسولؐ کی پیروی اور اطاعت کی جائے (آیت:۱۶۶-۱۶۷)۔ محبت بھی یہی تقاضاکرتی ہے کہ ’’محبوب‘‘ کے احکام کو بجا لایا جائے۔

اس کے بعد شریعت کے کچھ اہم اصول بیان کیے گئے ہیں۔ اوّل: دنیا کی تمام اچھی چیزیں مباح ہیں سوائے ان کے جو منع کی گئی ہیں (آیت:۱۶۸)۔ بنیادی طور پر یہ اہم اصول صرف کھانے پینے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام دائروں کی تمام باتوں کے لیے ہے۔دوم: اشیا کو ممنوع قرار دینے کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے‘ کسی اور کے پاس نہیں ہے (آیت:۱۶۹)۔ سوم: جو چیزیں ممنوع ہیں انھیں اللہ نے بیان کر دیا ہے‘ باقی سب جائز ہیں (آیت: ۱۷۳)۔ چہارم: سنگین انسانی ضرورت کے موقع پر ممنوعات میں گنجایش دی جاسکتی ہے (آیت: ۱۷۳)۔پنجم: اخلاقی پابندیاں زیادہ اہم ہیں۔ اگر وہ دوسرے انسانوں سے حقوق سے متعلق ہیں تو ان میں رعایت نہیں۔ مثال کے طور پر عہد توڑنے کا جرم کوئی حرام چیز کے کھانے کے مقابلے میں زیادہ بڑا گناہ ہے۔(آیت: ۱۷۴)

بہرحال زندگی میںہر طرح کی اطاعت کی بنیاد تقویٰ ہی ہے۔ آیت۱۷۷ تقویٰ کی جامع تعریف بیان کرتی ہے۔ یہ آیت ۲ تا ۵ کی توسیع ہے اور آنے والے حصے کی تمہید ہے۔ اس لیے تقویٰ‘ جیساکہ یہاں تعریف کی گئی ہے‘ جو کچھ آگے بیان کیا جا رہا ہے اس کی بنیاد اور محرّک ہے۔ یہاں ایمان اور انفاق‘ یعنی خرچ کرنے کی مزید تفصیل دی گئی ہے۔ وعدوں اور معاہدوں کی پابندی اور ہر طرح کے حالات میں صبر بنیادی صفات ہیں۔

اجتماعی زندگی: اصول اور ادارے (آیات: ۱۷۸- ۲۴۲)

اجتماعی زندگی‘ دو وجوہ سے بنیادی اہمیت رکھتی ہے‘ اوّل: انفرادی صفات کی مضبوطی اور نَمُو کے لیے مناسب زمین اور ماحول فراہم کرنے کے لیے۔ دوم: اُمّہ کے مشن کو پورا کرنے کے لیے اجتماعی طاقت فراہم کرنے کے لیے۔ قلوب کی طرح‘ اجتماعی زندگی بھی تقویٰ کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہونی چاہیے۔ اس لیے اس حصے میں قرآن ان قوانین‘ اصول اور تعلیمات کو بیان کرتاہے جن سے تقویٰ کو نشوونما ملتی ہے۔

معاشرے میں نظم و ضبط اور ہم آہنگی کے لیے جان و مال کا تحفظ جڑواں بنیادیں ہیں۔ آیات ۱۷۸ سے ۱۸۲ تک انھیں بیان کیا گیا ہے۔ ان کے فوراً بعد رمضان میں روزوں کے احکام دیے گئے ہیں تاکہ تقویٰ یا انفرادی ضبط نفس حاصل ہو اور اللہ نے ’دوسروں‘ کے ساتھ انسانی تعلقات کی جو حدود مقرر کی ہیں ان سے آگے بڑھنے‘ یا ان کو توڑنے سے آدمی اپنے آپ کو روکے (آیات: ۱۸۳-۱۸۷)۔ کھانے پینے اور جنسی تعلقات سے بچنا مقصد نہیں ہے‘ مقصود وہ باطنی قوت پیدا کرنا ہے جو انسان کو اس قابل بنائے کہ وہ دوسروں کی جان‘ مال یا آبرو پر ہاتھ نہ ڈالے۔ اسی لیے حکم ہے: ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھائو۔ (آیت: ۱۸۸)

حج کو جہاد سے جوڑا گیا ہے (آیات: ۱۹۶-۲۱۸)۔ دونوں کی نوعیت ایک ہے۔ دونوں تقاضا کرتے ہیں کہ ہم قربانیاں دیں‘ اپنے گھر‘ اعزہ اور چیزوں کو چھوڑیں‘ منزل تک پہنچنے کے لیے سفر کریں اور اپنا مال و دولت خرچ کریں۔ جہاد پر خرچ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ معاشرے کی زندگی‘ توانائی اور بقا کے لیے اور اپنے مشن کی تکمیل کے لیے جہاد کی کلیدی حیثیت ہے۔ اس لیے معاشرے کو تباہی اور زوال سے محفوظ رکھنے کے لیے جہاد پر خرچ کرنا ضروری ہے (آیت:۱۹۵)۔ یہاں لڑنے کی صرف اجازت دی گئی ہے‘ جب کہ جہاد کا مقصد آیات ۱۹۰ تا ۱۹۲ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے معاً بعد حج اور اس کے نمایاں پہلوئوں کے بارے میں اہم ہدایات دی جاتی ہیں۔ (آیات: ۱۹۶-۲۰۳)

اس کے ساتھ ہی جہاد کا مقصد زیادہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ انسانیت کو ان بدعنوان رہنمائوں سے بچانے کے لیے ضروری ہے جنھیں سیاسی طاقت حاصل ہے‘ جو ہٹ دھرم ہیں اور اپنی اصلاح کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ زمین میں فساد‘ بدعنوانی اور قتل و غارت پھیلاتے ہیں اور عوام کو پریشانی میں مبتلا کرتے ہیں۔ (آیات: ۲۰۴-۲۰۶)

جہاد کی ضرورت اور نوعیت اور اس کے تقاضے بیان کیے گئے ہیں۔ جہاد کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے آپ کو کُل کا کُل اللہ کے آگے پیش کر دیں (آیات:۲۰۷-۲۰۸)۔ جہاد بڑی سختی سے ہماری جانچ کرے گا اور غیرمعمولی قربانیوں کا تقاضا کرے گا۔ قربانیاں دیے بغیر‘ جیسی کہ اس سے پہلے مسلم اُمّتوں نے دیں‘ ہم ہرگز بھی جنت میں داخل نہیں ہوسکیں گے۔ (آیت: ۲۱۴)

خون بہانا یقینا ناپسندیدہ ہے‘ لیکن عقیدے اور ضمیر کے لیے جبر اس سے زیادہ بڑی برائی ہے (آیات:۲۱۶-۲۱۷)۔ اس کے بعد اس سورت میں شراب اور جوئے کا ذکر ہے (آیت: ۲۱۹)۔ شراب نوشی سے دنیاوی ذمہ داریوں اور محنت سے فرار کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ جوا لالچ اور بغیر محنت مال حاصل کرنے کی خواہش بڑھاتا ہے۔ دونوں بذات خود برائی ہیں‘ لیکن انھیں یہاں اس لیے بیان کیا گیا کہ یہ جہاد کے راستے کی رکاوٹ ہیں۔

اس کے بعد کلام کا رخ معاشرے کے مظلوم طبقات‘ بچوں اور خواتین کی طرف مڑجاتا ہے۔ عائلی زندگی کے بارے میں تعلیمات اور ضابطے بہت تفصیل سے دیے گئے ہیں (آیات: ۲۲۰-۲۴۲)۔ اس لیے کہ یہ معاشرے اور تمدن کی بنیادی اساس ہے۔ خاندان اجتماعی یک جہتی برقرار رکھتا ہے اور یہ یقینی بناتا ہے کہ مقاصد‘ اقدار اور روایات ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوں۔ مضبوطی سے جڑی ہوئی ایک منصفانہ عائلی زندگی معاشرے کو جہاد کے لیے تیار ہی نہیں کرتی‘ جہاد کے مقصد کو بھی پورا کرتی ہے‘ یعنی افراد کے درمیان انصاف کا قیام۔

جھاد اور انفاق۔ مشن کی تکمیل کے ذرائع (آیات: ۲۴۳-۲۸۳)

قوموں اور معاشروں کو کیا چیززندہ‘ مضبوط اور کامیاب بناتی ہے؟ آخری حصہ اس اہم سوال کے بارے میں تفصیل سے بحث کرتا ہے۔ یہ سوال سورت کے مرکزی موضوع‘ یعنی اُمّت کے مشن کے حوالے سے نہایت اہم ہے۔ آغاز میں‘ عمومی اصولوں پر بحث کی گئی ہے۔اوّل‘ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ کسی مقصد اور مشن کا ہونا ہی جہاد کی زندگی کا تقاضا کرتا ہے۔ مقصد اور مشن کے لیے جدوجہد اور سرگرم کوشش جہاد ہے۔ جہاد کا تقاضا ہے کہ قربانیاں دی جائیں۔ خاص طور پر مال اور جان اللہ کے راستے میں قربان کیے جائیں۔ یوں جہاد اور انفاق‘ اُمّت کے عروج و زوال اور زندگی اور موت میں کلیدی اور فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ دونوں کا تقاضا ہے کہ لوگ موت سے بے خوف ہوجائیں۔ حوصلے‘ صبر اور نظم و ضبط سے کام لیں اور دنیوی چیزوں خاص طور پر مال کی محبت پر قابو پائیں۔ ان موضوعات کو آیات ۲۴۳ سے ۲۸۳ تک مسحورکن تصورات اور جذبہ انگیز کلام کے ذریعے سامنے لایا گیا ہے۔

موت کا خوف اور اس دنیا کی چیزوں کی بہت زیادہ محبت کسی معاشرے کی توانائی کو چوس لیتی ہیں اور تباہ کر دیتی ہیں۔ اگر لوگ موت سے ڈرتے ہیں تو موت ہی ان کے معاشرے کا مقدر ہوجاتی ہے۔ جو موت سے نہیں ڈرتے‘ زندگی ان کی تقدیر بن جاتی ہے۔ اسی بات کو آیت ۲۴۳ میں بنی اسرائیل کی تاریخ کے واقعے کے حوالے سے واضح کیا گیا ہے۔ قرآن پکارتا ہے: اللہ کی راہ میں جہاد کرو اور جو کچھ دے سکتے ہو‘ دو۔ اللہ تعالیٰ تمھارے انفاق کو اپنے لیے قرض تصور کرے گا اور کئی گُنا بڑھا کر واپس کرے گا۔ (آیات: ۲۴۴-۲۴۵)

یہ امرِواقعہ کہ زوال اور بے حسی میں مبتلا معاشرے بھی زندہ ہو سکتے ہیں اور زندہ رکھے جاسکتے ہیں‘ تین واقعات کی مثالوں سے بتایا گیا ہے:

۱- دائود اور جالوت کا واقعہ (آیات: ۲۴۶-۲۵۱)۔ ۲- ایک مردہ بستی کا دوبارہ جی اٹھنا (آیت: ۲۵۹) ۳- اس بارے میں حضرت ابراہیم ؑکی پریشانی کے جواب کا واقعہ۔ (آیت:۲۶۰)

صبر اور نظم و ضبط کے ساتھ (روزے اور جہاد کا جو ذکر پہلے آیا ہے اسے بھی سامنے رکھیے)۔ وہ لوگ جو تعداد میں کم ہوں‘ اور وسائل اور طاقت بھی کم رکھتے ہوں بہت زیادہ طاقت اور وسائل رکھنے والوں پر فتح حاصل کرسکتے ہیں جس طرح بنی اسرائیل حضرت دائود ؑ کی قیادت میں جالوت کے خلاف کامیاب ہوئے۔ (آیات: ۲۴۶-۲۵۳)

انفاق‘ یعنی اپنے اموال‘ اشیا یا جس چیز کی بھی ضرورت ہو‘ اللہ کے لیے دے دینے کے مختلف پہلو آیت ۲۶۱ سے ۲۷۴ تک کے طویل حصے میں بیان کیے گئے ہیں۔ سود کی ممانعت اور مالی معاملات کو تنازعوں سے بچانے کے لیے اقدامات مال و دولت کے بارے میں عمومی رویّے سے متعلق ہیں۔ (آیات: ۲۷۴-۲۸۳)

ان کے درمیان آیت الکرسی رکھی گئی ہے‘ جیسے جواہر اور موتیوں کے نیکلس کے وسط میں جڑا نگینہ۔ اس آیت میں وہ سب کچھ ہے جو اللہ پر ایمان کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے اور جوجہاد اور انفاق دونوں کو طاقت بخشتی ہے۔ آپ کو نہ اپنے دشمنوں کی طاقت اور دولت سے خوف کھانے کی ضرورت ہے اور نہ زندگی کھونے یا غریب ہونے سے ڈرنے کی‘ اس لیے کہ اللہ حّی و قیوم ہے‘ ہمیشہ رہنے والا ہے‘ ہر زندگی کا سرچشمہ ہے‘ خود قائم ہے اور سب کو قائم رکھنے والا ہے۔ اس کا علم اور طاقت زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اس پر محیط ہے۔

آخری نتیجہ (آیات: ۲۸۴-۲۸۶)

وہ کون سے خصائص ہیں جو افراد اور گروہوں کو وہ ضروری قوت فراہم کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی کا بوجھ ہنسی خوشی اٹھائیں اور جو مشن اللہ نے ان کے سپرد کیا ہے اسے پورا کریں؟

آخری تین آیات ان کو اختصار سے بیان کرتی ہیں۔ یہاں وہ ضروری اخلاقی اور روحانی سرچشمے بتا دیے گئے ہیں جن کے بغیر یہ عظیم کام مکمل نہیں کیا جا سکتا۔ یہی سرچشمے ہمیں اس قابل بناتے ہیں کہ سورۃ البقرہ کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے جس باطنی قوت‘ وابستگی‘ عزم ‘ حوصلہ اور صبر کی ضرورت ہے وہ ہمارے اندر پیدا ہوں۔

سب سے اہم صفت اور دوسری تمام صفتوں کا سرچشمہ ایمان ہے۔ ایمان محض زبانی اقرار نہیں ہے‘ یہ اللہ کو زندگی کی تمام امیدوں اور اندیشوں کا مرکز بنانا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے خالق‘ مالک اور آقا ہونے کی حیثیت سے گہرا مضبوط اور ہمہ جہت تعلق رکھا جائے۔ اس تعلق کو مضبوط ر کھنے سے وہ طاقت اور ذرائع فراہم ہوتے ہیں جو صراط مستقیم پر چلنے کے لیے (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ‘نیز اس کی راہ میں جہاد کے لیے (الحج ۲۲:۷۸) ضروری ہیں۔

ان تین آیات میں ہمیں اس تعلق کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ یہ بہت خوب صورت اور جذبہ اُبھارنے والی ہیں۔ ان کو یاد کرنا اور لوح قلب پر کندہ کرنا آسان ہے۔ آیئے دیکھیں کہ یہ ہمیں کیا تعلیم دیتی ہیں۔

اوّل: یہ کہا گیا ہے کہ یہ بات یاد رکھو کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کا ہے۔ یہ چند الفاظ اگر پوری طرح جذب کر لیے جائیں تو یہ کائنات کی ہر چیز‘ حتیٰ کہ خود ہماری ذات کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات‘ رویوں اور نقطۂ نظر کو بالکل تبدیل کر دیتے ہیں۔ ہمیں اپنے اندر جس باطنی قوت کی ضرورت ہے اسے پیدا کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے یہ کافی ہیں۔ اس میں یہ مطالب پوشیدہ ہیں:

۱- ہم امین ہیں‘ مالک نہیں۔ اللہ ہر چیز کا مالک ہے۔ ہماری جانیں‘ ہمارے جسم‘ ہماری املاک اور تعلقات اس کے ہیں‘ ہمارے نہیں۔ یہ ذہن میں رکھیں تو ہمیں وہ طاقت مل جاتی ہے کہ ہم اس کے ہوجائیں اور ایسی زندگی گزاریں اور رویے اختیار کریں جیسے کہ ہم صرف اسی کے ہیں۔

۲- مالک نہ ہونے اور امین ہونے کی حیثیت سے ہمیں ہر چیز اس کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا چاہیے۔ اس سے ہمیں ہر معاملے میں اس کی اطاعت کی طاقت فراہم ہوتی ہے۔

۳- ہمیں زندگی میں جو کچھ ملتا ہے یا جو کچھ ہم کرپاتے ہیں‘ اس کی طرف سے ہے‘ اس کی وجہ سے ہے۔ یہ احساس ہو تو ہم ہمیشہ اس کے شکرگزار رہتے ہیں۔

۴- یہ احساس ہم کو تمام مخالفتوں اور آزمایشوں کا سامنا کرنے کے لیے صبر دیتا ہے۔

۵- یہ تمام اشیا اور معاملات ہماری امانت میں دیے گئے ہیں‘ امین ہونے کی حیثیت سے یقینا ہم سے ہمارے اچھے اور بُرے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ہم اپنے دل کے  عمیق ترین گوشے میں جو کچھ چھپائیں ہمیں اس کا بھی جواب دینا ہے۔ یہ احساس ہو تو ہماری نگاہیں ہمیشہ یومِ آخرت پر ہوتی ہیں اور ہم اس وقت کے لیے تیاری کرتے ہیں جب ہم اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے۔

۶- صرف وہی‘ کوئی اور نہیں‘ ہماری غلطیوں اور گناہوں کو معاف کرنے یا ان پر سزا دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہ احساس ہمیں اپنے جیسے انسانوں کے فیصلوں سے بے خوف کر دیتا ہے۔

۷- اگر ہماری آخری تقدیر کا فیصلہ اسی کے فیصلے سے ہونا ہے تو ہم اپنی تمام اُمیدیں اور خوف اللہ کے ساتھ وابستہ کر لیتے ہیں‘ اور جب ہم کسی امتحان میں ناکام ہوتے ہیں یا کسی گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں تو اسی کی طرف مغفرت کے لیے رجوع کرتے ہیں۔

یہ تمام باتیں آپ کو ان تین آیات میں ملیں گی۔

دوم: ایمان کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ جو کچھ وحی کیا گیا ہے اس پر‘ اللہ پر‘ اس کے فرشتوں پر‘ اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان۔

سوم: ایمان کو ٹھوس شکل دے دی گئی ہے۔ اب یہ ایک مابعد الطبیعیاتی معاملہ نہیں ہے۔ ایمان کا مطلب ایک عہد اور وعدہ ہے اللہ اور رسولؐ کی سننے اور اُن کی اطاعت کرنے کا۔

چہارم: اپنے عہد کے مطابق زندگی گزارنے کے عظیم کام کی ذمہ داری‘ اور دوسری طرف گناہ کی طرف انسان کے رجحان کی وجہ سے ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ اپنی ہر طرح کی غلطیوں اور کوتاہیوں کے لیے خاص طور پر‘ اور عموماً بھی‘ اللہ کی طرف پلٹتے رہیں اور اس سے بخشش مانگتے رہیں۔ اس سے ہمارے بوجھ ہلکے ہوجاتے ہیں اور ہم ذاتی اصلاح‘ ذاتی جائزے اور چوکنے رہنے کی کیفیت میں رہتے ہیں۔

تسلی‘ سکون اور حمایت و تائید کے مزید خزانے ہمیں آخری آیت (۲۸۶) میں دیے گئے ہیں:

۱-  نہایت اہم بیان‘ جو ایک وعدہ بھی ہے ‘ کہ شریعت کی پیروی کرنے میں جہاد کی کوشش میں یا قربانیاں دینے میں‘ اللہ تعالیٰ ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہیں ڈالے گا یا ہمیں ایسی آزمایش میں مبتلا نہیں کرے گا جو ہماری برداشت سے باہر ہو۔ اس طرح ہم ان تمام وسوسوں سے بَری ہوجاتے ہیں جو ہمارے دل کی گہرائیوں میں گزرتے ہیں‘ جب تک ہم خود ہی اپنے ارادے سے ان کو پیدا نہ کریں۔

۲- جو کچھ ہم ایک فرد کی حیثیت سے کریں گے اس پر‘ نہ کہ دوسروں کے کسی کام پر‘ ہمارا حساب اور فیصلہ ہوگا۔

۳- شریعت کے احکام‘ یا جن آزمایشوں سے ہمارا امتحان لیا جائے ایسی نہیں ہوں گی جن پر عمل کرنا ہماری طاقت سے باہر ہو۔

۴- ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ ہم اللہ کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے جو کچھ کریں ہمیشہ اس پر معافی‘ رحم اور بخشش کی درخواست کیا کریں۔ اللہ پر یہ بھروسا ذہن سے یہ خیال نکال دیتا ہے کہ ہم خود اپنے برتے پر کچھ کرتے ہیں۔

آخری بات یہ کہ ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ فتح کے لیے ہاتھ دراز کریں۔ اس سے اُمّت کو جو مشن سپرد کیا گیا ہے اُس میں جہاد کی مرکزیت کی طرف اشارہ ملتا ہے۔

یہ تمام تعلیمات ایک مختصر دعا کی شکل میں دی گئی ہیں۔ اللہ ہمیں جو کچھ مانگنے کی تعلیم دے رہا ہے یقینا وہ عطا بھی کرے گا۔ کسی شک و شبہے کے بغیر‘ یہ اللہ کے وعدے ہیں۔


(نوٹ: اس مطالعے کے کچھ صفحات ابھی باقی ہیں‘ تاہم اس کو مختصر کتاب کی شکل میں البقرہ کی کلید کے نام سے منشورات (منصورہ‘ لاہور) شائع کررہا ہے۔ شائقین مکمل مطالعے کے لیے اسے حاصل کرسکتے ہیں۔ ادارہ)

ترجمہ: مسلم سجاد

سورۂ بقرہ قرآن کی دوسری اور طویل ترین سورت ہے۔ اس میں ۲۸۶ آیات ہیں اور یہ تقریباً اڑھائی پاروں پر مشتمل ہے۔ البقرہ کو قرآن کے آغاز ہی میں رکھا گیا ہے۔ الفاتحہ کے فوراً بعد ہی ہم اس میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح شمار کیا جائے تو یہ دوسری سورت ہے لیکن کئی لحاظ سے یہ پہلی ہے۔ اگر ہم الفاتحہ کو قرآن کا مقدمہ سمجھیں تو البقرہ اس کا پہلا باب ہے۔ اگر الفاتحہ انسانی قلب کی گہرائیوں سے اپنے خالق کے سامنے نکلنے والی پکار ہے جو اس زمین پر درست زندگی گزارنے کی ہدایت کے لیے اپنی فوری ضرورت اور انحصار کا اظہار ہے___ جو کہ یہ ہے ___ تو البقرہ اس انسانی طلب کا اللہ کی جانب سے پہلا جواب‘ درست زندگی گزارنے کا پہلا سبق اور  صراطِ مستقیم پر پہلا قدم ہے۔ اگر الفاتحہ کی آیات مکمل قرآن کا بیج‘ بنیاد‘ کُل اوراصل ہیں___  جیسی کہ وہ ہیں___  تو البقرہ اس نئے بیج کا پہلا پھل ہے اور کیا ہی عمدہ پھل ہے! ایک پاک درخت جس کی جڑیں مضبوط ہیں‘ جس کی شاخیں آسمان تک پہنچتی ہیں‘ جو اپنے مالک کی اجازت سے اپنے پھل ہر موسم اور ہر زمانے میں دیتا ہے۔ (ابرٰھیم ۱۴: ۲۴-۲۵)

گو کہ اسے قرآن کے شروع ہی میں رکھا گیا ہے‘ لیکن زمانی اعتبار سے البقرہ کی آیات مدنی دور کے بعد کے زمانے میں مختلف موقعوں پر نازل ہوئیں‘ یہاں تک کہ الواحدی کی روایت کے مطابق آیت ۲۸۱ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجۃ الوداع کے موقع پر‘ یعنی اتنی تاخیر سے نازل ہوئی۔

البقرہ کا مقام

آخر البقرہ کو قرآن کے بالکل آغاز میں کیوں رکھا گیا ہے؟ خاص طور پر‘ جب کہ اس کے مضامین بنیادی عقائد کے بجاے‘ جو اوّلیت رکھتے ہیں اور اس لیے ابتدائی دور کی وحی میں بنیادی اور نمایاں اہمیت رکھتے ہیں‘ مسلم اُمّت کی برادری اور اس کی اجتماعی زندگی کے گرد گھومتے ہیں۔ آیئے سب سے پہلے اسی سوال پر غور کریں۔

اس کی کوئی وجہ ہونی چاہیے اور اس کے جواب کو ہمیں اس سورت کے معانی کو سمجھنے کے لیے اہم کلید فراہم کرنا چاہیے‘ اس لیے کہ قرآن میں کوئی بات بھی بغیر وجہ اور مقصد کے نہیں ہے۔ اس اصول کو قرآن فہمی کے لیے ہمارے انداز اور طریقۂ کار میں بنیادی باتوں میں سے ایک ہونا چاہیے۔ ہم ہر موقع پر سوال: ’’کیوں‘‘ کا جواب حاصل نہ کرسکیں‘ ہر بات میں پوشیدہ معنی معلوم نہ کرسکیں لیکن یہ ضروری ہے کہ ہر نکتے پر یہ سوال اٹھائیں۔لیکن ایسا کرتے ہوئے ہمیں دو باتیں یاد رکھنی چاہییں:

اوّل: جس مطلب تک بھی ہم پہنچیں‘ یہ بہت اہم ہے کہ ہم ہمیشہ اس کو ایک انسانی کوشش سمجھیں جس میں غلطی ہوسکتی ہے اور ہرگز اسے من جانب اللہ قرار نہ دیں۔

دوم: کوئی ایسا جواب قبول نہ کیا جائے جو اُمّت کے متواتر اجماع سے یا قرآن کے مجموعی مزاج سے ٹکراتا ہو۔

یہ دو تنبیہات ذہن میں ہوں تو قرآن سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے ہر ہر قدم پر سوال: ’’کیوں‘‘ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔

البقرہ کے بارے میں مذکورہ بالا سوال اس وسیع تر سوال کا حصہ ہے کہ قرآن کو نزولی ترتیب کے مطابق کیوں مرتب نہیں کیا گیا‘ موجودہ ترتیب کیوں ہے‘ جب کہ اس کا زمانی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ نیز موجودہ ترتیب کی کیا حیثیت ہے؟

بعض علما کے مطابق صحابہؓ نے سورتوں کو اپنے اجتہاد کے مطابق ترتیب دیا ہے۔ وہ اس سے بہتر ترتیب قائم نہ کر سکتے تھے کہ سب سے طویل کو شروع میں رکھیں اور بتدریج سب سے مختصر کو آخر میں۔ دوسروں کے مطابق‘ رسولؐ اللہ نے خود اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں یہ ترتیب دی‘ جسے توقیفی کہا جا سکتا ہے۔ یہ ترتیب موضوعاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ شواہد حتمی طور پر دوسری رائے کی تائید کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر مستند روایت کے مطابق جب کوئی نئی وحی آتی تھی تو رسولؐ اللہ کاتبین وحی کو بتاتے تھے کہ اسے کہاں رکھیں (سیوطی)۔ علاوہ ازیں سورتوں کو بھی ان کی موجودہ شکل رسولؐ اللہ کے اس دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے ہی دے دی گئی تھی اور یہ بھی زمانی نہیں ہے۔ وہ نمازوں میں ان کی تلاوت اور ان کی تعلیم اسی شکل اور ترتیب میں کرتے تھے جس میں وہ اب ہیں۔ یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ رسولؐ اللہ رمضان میں جبریل علیہ السلام کی موجودگی میں پورے قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے (سیوطی)۔ علاوہ ازیں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی سورتوںکے اختتام اگلی سورت سے واضح موضوعاتی ربط رکھتے ہیں۔

جہاں تک میں سمجھا ہوں‘ قرآن کو زمانی کے بجاے موجودہ ترتیب دینے کی دو وجوہات ہیں:

اوّل: گو کہ قرآن کو زمان و مکان کے ایک خاص موقع پر‘ ایک خاص مقام پر اور کچھ خاص لوگوں میں نازل کیا گیا‘ مگر قرآن آنے والے تمام زمانوں کے لیے اور تمام لوگوں کے لیے اللہ کی طرف سے مستقل ہدایت ہے۔ اس کی تاریخی ترتیب کومکمل طور پر نظرانداز کرکے اور اس ترتیب کا پتا بھی نہ چلنے سے‘ جو بہت سے مستشرقین کے لیے مایوسی اور غصے کا سبب ہے‘ یہ زمان و مکان کے مخصوص تاریخی حوالے سے بلند کر دیا گیا ہے اور لا زمان (timeless) بنادیا گیا ہے۔ اس طرح یہ تمام مواقع کے لیے بامعنی اور قابلِ عمل ہوجاتا ہے۔ اگر اسے زمانی ترتیب دی گئی ہوتی تو یہ وقت اور مقام کے ساتھ قید ہوجاتا اور اس کی افادیت ختم ہوجاتی۔ پھر یہ محض ایک تاریخی واقعہ ہوتا‘     یہ زمانے سے ماورا نہ رہتا۔

وحی کا موقع‘ یعنی شان نزول موجود ہے۔ اس کی اپنی افادیت ہے۔ جہاں ضروری ہو‘ یہ کسی مخصوص وحی کا تاریخی پس منظر بتانے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ ہمیں اسے اپنے سیاق میں سمجھنے میں مدد دیتے ہیں‘ اس سے پہلے کہ ہم اس کو ایک عمومی مفہوم دیں یا اس کو ایک نئے سیاق میں  سمجھنے کی کوشش کریں‘ یہ قرآن کو اس کے وقت اور مقام کے ساتھ جوڑے بھی رکھتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں برعظیم کے مشہور عالم‘ شاہ ولی اللہ دہلویؒ (۱۷۰۲ئ-۱۷۶۳ئ) کی رائے جاننا چاہیے۔  تفسیر کے اصولوں پر اپنی اہم تصنیف میں وہ یہ رائے بیان کرتے ہیں کہ قرآن کے کسی بھی حصے کی ’شانِ نزول‘ ، ’انسانیت کو درست عقائد اور عمل کی طرف رہنمائی کرنا‘ ہے۔ ان کے مطابق جو شانِ نزول بیان کی جاتی ہیں‘ ان میں سے بیشتر قرآن کا مطلب سمجھنے کے لیے بالکل ضروری نہیں ہیں۔ ان میں بہت سوں کی سند بھی مشتبہ ہے۔ (الفوز الکبیر فی اصول التفسیر)

دوم: جس وقت قرآن نازل ہو رہا تھا تو اس کے پہلے مخاطب غیر مسلم اور وہ لوگ تھے جو اس کا انکار کرنے پر مصر تھے‘ یا وہ تھے جو ایمان لائے تھے اور مطلوبہ اُمّت مُسلمہ کی شکل میں تشکیل دیے جا رہے تھے۔ تکمیلِ وحی کے بعد‘ اور اُمّت مُسلمہ کی تشکیل کے بعد اور اُس وقت جو انکار    اور اختلاف تھا اس کے ختم ہونے کے بعد‘ آنے والے تمام وقتوں کے لیے اس کا پہلا مخاطب     اُمّت مُسلمہ کو ہونا تھا۔ اس لیے کہ یہ کتاب اُمّت مُسلمہ کی امانت میں دی گئی ہے اور اسے یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ اس کی حفاظت کرے‘ اس کو سمجھے‘ اس کی تعبیر کرے‘ اس کے مطابق زندگی گزارے اور دوسروں کو بھی دعوت دے کہ وہ اس کے مطابق زندگی گزاریں۔ اس لیے نزولِ وحی کے وقت بنیادی پیغام‘ عقائد اور قرآن کی جو مخالفت کی جارہی تھی‘ اسے اور ساتھ ہی مسلم شخصیت اور مسلم برادری کی تشکیل کے بہت بڑے کام کو اوّلیت دی جانی چاہیے تھی‘ مگر تکمیل کے بعد اُمّت مُسلمہ‘ اس کا مقصد‘ منزل‘ ضروریات اور اجتماعی معاملات کو اوّلیت دی جانی چاہیے۔ یہ اُمّت جو قرآن پر ایمان رکھتی ہے اور قرآن سے اپنی شناخت حاصل کرتی ہے‘ اسے آنے والے تمام زمانوں میں موجود رہنا اور اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں سب سے پہلے ہونا تھا۔

اگر ہم البقرہ کے مضامین کو اس روشنی میں دیکھیں‘ تو اسے قرآن کے آغاز میں رکھنے کی وجہ بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن البقرہ میں اُمّت مُسلمہ کا مشن بیان کرتا ہے‘ اس کو جذبہ اور تحرک دیتا ہے اور اپنے مشن کی تکمیل کے لیے اسے جن بنیادی وسائل اور اداروں کی ضرورت ہے وہ فراہم کرتا ہے۔

البقرہ کے فضائل

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے البقرہ کے فضائل اور خوبیوں کا بہت اچھی طرح ذکر کیا ہے۔ حضرت سہل ابن سعدؓ سے آپؐ نے فرمایا: ہر چیز کی ایک چوٹی ہوتی ہے اور قرآن کی چوٹی سورۃ البقرہ ہے۔ جو کوئی اپنے گھر میں دن میں اس کی تلاوت کرے گا‘ شیطان اس کے گھر میں دن کو داخل نہیں ہوگا‘ اور جو رات کو اس کی تلاوت کرے گا شیطان اس کے گھر میں تین راتیں داخل نہیں ہوگا ۔ (ابن کثیر‘ طبرانی)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنائو۔ شیطان اس گھر میں داخل نہیں ہوتا جس گھر میں البقرہ کی تلاوت ہوتی ہے۔ (مسلم‘ ابن کثیر)

حضرت ابوعمامہؓ الباہری روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: قرآن کی تلاوت کرو‘ یہ اپنے ساتھیوں کی شفاعت کرے گا۔ دو روشن سورتوں البقرہ اور آل عمران کی تلاوت کرو اس لیے کہ قیامت کے دن وہ دو بادلوں یا روشنی سے بھرے ہوئے دو شامیانوں یا پرندوں کے دو غولوں کی طرح آئیں گی اور اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارش کر رہی ہوں گی۔ البقرہ کی تلاوت کرو‘ اس لیے کہ اس کے سیکھنے میں برکت ہے اور اس کو نظرانداز کرنے میں بڑا پچھتاوا ہے۔ صرف کاہل اور تن آسان اس کی تلاوت نہیں کرتے۔ (مسلم‘ ابن کثیر)

حضرت ابی بن کعبؓ سے آپؐ نے فرمایا: جو اس کی تلاوت کرتا ہے اس پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں۔اس کو وہ مقام حاصل ہوگا جو اللہ کی راہ میں ایک سال تک استقامت کے ساتھ جہاد کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔مسلمانوں کو ہدایت کرو کہ وہ سورۃ البقرہ سیکھیں۔ (قرطبی)

البقرہ معانی کا سمندر ہے‘  جتنا کوئی اس کے اوپر سوچتا اور غور کرتا ہے اتنا ہی اس کو ہدایت‘ دانش اور روشنی کے بیش قیمت جواہر ملتے ہیں۔ اس میں موجود معانی کے سمندر کے بارے میں‘   ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کہا کہ انھیں صرف سورۃ البقرہ سیکھنے میں آٹھ برس سے زیادہ لگے۔ (سیوطی)

مرکزی موضوع

ہر سورت ایک وحدت ہے۔ بظاہر ایک نظر میں اس کے مضامین کتنے ہی منتشر لگیں‘ اس میں معانی اور پیغامات ایک مربوط اور مرتب انداز سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہر سورت کا ایک مرکزی موضوع ہوتا ہے جس کے گرد اس کے تمام مضامین بُنے ہوئے ہوتے ہیں۔ البقرہ کا مرکزی موضوع کیا ہے؟ میری رائے میں اس کا مرکزی موضوع اُمّت مُسلمہ کا مشن ہے: اس کی تعریف کرنا‘ اسے بیان کرنا‘ اُمّت کو اس کی تکمیل کے لیے آمادہ کرنا‘ اُبھارنا اور تیار کرنا‘ اور اس مشن کو ترک کرنے یا اس سے انحراف کرنے کے خلاف تنبیہ کرنا اور تحفظ فراہم کرنا۔ یہ موضوع آیت نمبر ۱۴۳ میں بیان کیا گیا ہے:

ہم نے تم کو اُمّت وَسَط بنایا ہے تاکہ تم انسانیت کے لیے گواہ ہو جائو جیسے کہ رسولؐ تمھارے اُوپر گواہ ہو۔

کس بات کے گواہ؟ ___اللہ کی دی ہوئی ہدایت اور حق کے گواہ‘ اس بات کے کہ اللہ ہی واحد الٰہ ہے (توحید)‘ قرآن اللہ کی کتاب ہے‘ آخری نبی سچے نبی ہیں‘ اس پیغام کے گواہ جو وہ لے کر آئے (رسالت)‘ اور آخرت کے گواہ۔

مسلمانوں کی برادری ایمان کی بنیاد پر وجود میں آتی ہے‘ اس لیے یہ عقیدے کی برادری ہے۔ ایمان کا مطلب ہے اللہ اور اس کے پیغام کے ساتھ ذاتی طور پر باعمل مکمل وابستگی۔ اس کا تقاضا ہے کہ اپنے آپ کو کُل کا کُل اللہ کو دے دیا جائے (آیت ۲۰۸)۔ اور جو قربانی وہ طلب کرے وہ دی جائے‘ حتیٰ کہ جان کی قربانی بھی۔ ایمان‘ اُمّت کی شناخت ہے۔ ایمان انفرادی اور اجتماعی طاقت کی بنیاد ہے۔ شھداء علٰی الناس کا منصب بھی اس لیے مرکزی اہمیت رکھتا ہے کہ یہ ایمان کا آخری تقاضا ہے۔ اس لیے‘ ایمان کی دعوت پوری سورت میں جابجا پھیلی ہوئی ہے۔

خطاب اجتماعی ہے: یاایھا الذین اٰمنوا۔حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی جگہ قرآن کسی شخص کو ذاتی حیثیت میں مخاطب نہیں کرتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کو اپنی حقیقت کے لحاظ سے ایک اجتماعی وجود پیدا کرنا چاہیے۔ پس‘ مخاطب اُمّت ہے۔ جہاں کسی طویل سلسلہ آیات (آیات: ۴۰ تا ۱۲۳) میں بنی اسرائیل سے خطاب کیا گیا ہے‘ وہاں بھی اصل مقصد یہ ہے کہ ایمان کی بنیاد پر وجود میں آنے والی نئی برادری کو بتایا جائے کہ ایسی برادری کہاں کہاں ٹھوکر کھا سکتی ہے۔ قلب و ذہن کے‘ اخلاق و آداب کے‘ معاملات اور رویوں کے کون کون سے امراض داخل ہوسکتے ہیں جو برادری کے ڈھانچے کو تباہ کرسکتے ہیں۔

موضوعاتی تقسیم

غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ البقرہ کو کچھ متعین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن کے اپنے موضوع ہیں لیکن ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ ان حصوں کو مزید ذیلی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ یہ تقسیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں بتائی گئی ہے‘ لیکن غوروفکر اور تفہیم کو بہت آسان کردیتی ہے۔ میری فہم کے مطابق سورت کے ایسے سات حصے ہیں:

حصہ اوّل: آیات ۱ تا ۳۹ (۳۹ آیات)۔ ہدایت کی بنیادیں۔

حصہ دوم: آیات ۴۰ تا ۱۲۳ (۸۴ آیات)۔ بنی اسرائیل‘ ایک مسلم اُمّت زوال کی کیفیت میں‘ عہدشکنی اور قلب و عمل کے امراض۔

حصہ سوم: آیات ۱۲۴ تا ۱۵۲ (۲۹ آیات)۔ پیغمبرانہ مشن اُمّت مُسلمہ کے سپرد کرنا۔

حصہ چہارم: آیات ۱۵۳ تا ۱۷۷ (۲۵ آیات)۔ کلیدی انفرادی خصائص‘ دین اور شریعت کے بنیادی اصول۔

حصہ پنجم: آیات ۱۷۸ تا ۲۴۲ (۶۵ آیات)۔ اجتماعی زندگی کے اصول‘ قوانین اور ادارے (عبادت‘ جان‘ مال اور خاندان کا تقدس)۔

حصہ ششم: آیات ۲۴۳ تا ۲۸۳ (۴۱ آیات)۔ مشن کی تکمیل کی کلید: جہاد اور انفاق۔

حصہ ہفتم: آیات ۲۸۴ تا ۲۸۶ (۳ آیات) ۔اخلاقی اور روحانی ذرائع۔  (جاری)

اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی زندگی کامیاب بنانے کے لیے جو ہدایت دی ہے اس کا ماحصل مختلف الفاظ اور مختلف انداز میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

ایک پہلو سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ: اپنے رب سے ملاقات کی تیاری کرو۔

اگر دیکھا جائے تو ایک لحاظ سے ہمارا ہر کام اسی مقصد کے لیے ہے۔ اللہ کی بندگی بھی اسی لیے کرنا ہے کہ اللہ سے ملنا ہے اور اپنی زندگی کے بارے میں جواب دینا ہے۔ اچھے اخلاق بھی اسی لیے اختیار کرنا ہیں‘ عبادات اور اللہ کی راہ میں جہاد اور اُس کے دین کے لیے ساری سرگرمیاں بھی اسی لیے ہیں۔ اگر موت کے بعد اللہ تعالیٰ سے ملاقات نہ کرنا ہوتی اور ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ زندگی موت پر ختم ہو جائے گی‘ تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم اللہ کی بندگی کرتے‘ نماز پڑھتے‘ سخت سردی میں وضو کرکے نماز ادا کرتے۔ کوئی وجہ نہیں کہ ہم سچ بولیں‘ وعدہ پورا کریں‘ دوسروں کے حقوق ادا کریں اور کسی پر ظلم نہ کریں۔ کوئی وجہ نہیں کہ ہم دین کی خدمت کے لیے‘ اللہ کی راہ میں وقت اور مال لگائیں‘ دعوت کا کام یا جہاد کریں۔ اللہ سے ملاقات نہ کرنا ہو تو یہ سارے کام فضول اور بے کار ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے ہر کام میں‘ حقیقی معنی اس یقین سے پیدا ہوتے ہیں کہ اللہ سے یقینا ملاقات کرنا ہے اور اپنی زندگی کے بارے میں جواب دینا ہے۔

آخرت کی یاد دھانی

اللہ سے ملاقات پر یقین اور اس کے لیے تیاری ہی وہ قوت اور وہ روشنی ہے جو اللہ کی راہ پر چلنے کے لیے طاقت بخشتی ہے‘ اور زندگی کی راہیں روشن کرتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو ہم پاور ہائوس کہہ سکتے ہیں‘ وہ پاور ہائوس جس کے بل پر اچھے اعمال‘ پاکیزہ اخلاق اور دینی جدوجہد کی گاڑی رواں دواں رہتی ہے۔

انبیاے کرام ؑ اور خود ہمارے نبی ؐ کو ‘جب اس کام کی ذمہ داری دی گئی کہ وہ اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلائیں تو انھوں نے سب سے پہلے‘ اللہ سے ملاقات کے لیے تیاری کرنے کی دعوت دی‘دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی دائمی زندگی کا یقین دلایا۔ جب حضوؐر کو عام لوگوں کے سامنے دعوت پیش کرنے کا حکم ہوا تو آپؐ سے پہلی بات یہی کہی گئی کہ:

قُمْ فَاَنْذِرْ o (المدثر ۷۴:۲)اٹھو اور خبردار کرو۔

پھر جب حکم آیا کہ اپنے رشتہ داروں کو دعوت دو تو تب بھی یہی حکم ہوا:

وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَo (الشعراء ۲۶:۲۱۴)جو تمھارے قریبی رشتہ دار ہیں ان کو ڈرائو‘ آگاہ کرو‘ ہوشیار کرو۔

جب وحی باقاعدہ نازل ہونا شروع ہوئی تو حضوؐر کے لیے‘ نبی اور رسول سے زیادہ مُنذر کا لفظ استعمال ہوا جس کے معنی ہیں ڈرانے والا‘ آگاہ کرنے والا‘ خبردار کرنے والا۔ اسی لیے نبی کریمؐ ،نبوت کے پہلے دن سے لے کر آخری لمحے تک‘اللہ سے ملاقات کی مسلسل تذکیر کرتے رہے‘ اور اس کے لیے تیاری کرنے کی تاکید فرماتے رہے۔

آپؐ اپنے ساتھیوں سے جو گفتگو بھی کرتے‘ جو تقریریں کرتے‘ جو خطبے دیتے‘ غلطیوں پر ٹوکتے اور اچھی باتوں کی تعریف کرتے‘ تو اِس دوران میں‘ موت کے بعد کی زندگی کی یاد دلاتے‘ جنت کی خوشخبری سناتے اور نارِجہنم سے ڈراتے۔

قرآن مجید میں وہ آیات بہت کثرت سے موجود ہیں جو آخرت کا ذکر کرتی ہیں‘ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی یاد دلاتی اور اس سے ملاقات کی تفصیلات بیان کرتی ہیں۔ حضوؐر اکثر ایسی ہی آیات نمازوں میں تلاوت فرمایا کرتے تھے۔

فجر کی نماز میں آپ زیادہ تر سورہ ق ٓ کی تلاوت کرتے۔ اس سورہ میں پورا بیان ہی آخرت کا ہے کہ موت حقیقت کو آشکارا کرتی ہوئی آگئی‘ صور پھونک دیا گیا‘ سب کے سب‘   اللہ کے سامنے پہنچ گئے‘ حساب و کتاب ہوگیا‘ کوئی اُس جہنم میں ڈالا گیا کہ جس کا پیٹ کسی طرح نہیں بھرتا اور کسی کے قریب وہ جنت لائی گئی کہ جس میں ہر خواہش پوری ہوتی ہے۔

اسی طرح سورۃ الواقعہ‘ حم السجدہ ‘ الدھر‘التکویر‘الانفطار‘ الغاشیہ وغیرہ کی تلاوت بھی آپؐ کثرت سے فرماتے۔آپؐ خطبہ دیتے تو اس میں بھی عموماً قرآن مجید کی وہ آیات بیان فرماتے جو آخرت اور موت کی تیاری سے متعلق ہوں۔مکہ میں قیام کے دوران میں معاشرتی معاملات کے سلسلے میں بہت کم احکام نازل ہوئے تھے۔ صرف دین کی بنیادی اور اہم تعلیمات‘ بہت مختصر اوربڑے سادہ الفاظ اور جملوں میں بیان ہوتیں۔ شریعت کی تفصیلات تو نہ تھیں لیکن ان جامع اور مختصر بنیادی تعلیمات ہی پر شریعت کی بنیادیں رکھی گئیں اور اس کا ڈھانچا بنایا اور اٹھایا گیا‘ مثلاً:

فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی o وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی o (الیل ۹۲:۵-۶) جس نے دیا اور اللہ سے ڈرا‘ اور اچھی بات کی تصدیق کی۔

ان تینوں جملوں میں پورا کردارِ مطلوب  بیان کر دیا گیا۔ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:

وَّاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی o فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰیo (النزٰعت ۷۹:۴۰-۴۱) جو شخص [حساب کتاب کے لیے] اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور اپنے نفس کو بے لگام خواہشات کے پیچھے جانے سے روک لیا‘ تو بس جنت اس کا ٹھکانہ ہے۔

ان مختصر تعلیمات کے ساتھ وہ طویل حصے نازل ہوئے جو آخرت کے تفصیلی بیان پر مشتمل ہیں‘ جو جنت کا شوق اور رب کے حضور کھڑا ہونے کا خوف پیدا کرتے ہیں۔

عمل کا محرک

مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کی تشکیل کے بعد‘ جب اسلامی معاشرہ وجود میں آگیا اور مزید تفصیلی احکام نازل ہونا شروع ہوئے تو ان احکام کے ساتھ ساتھ یہ تاکید بھی مسلسل کی گئی کہ اللہ سے ڈرو جس کے پاس تمھیں لوٹ کر جانا ہے‘ جس کا عذاب بہت سخت اور دردناک ہے‘جو ہر بات کو سنتا ہے‘ ہر ہر عمل کو دیکھتا ہے اور جانتا ہے اور وہ تم سے حساب لے گا۔ بعض روایات کے مطابق جو آخری آیت نازل ہوئی اور جس نے سورئہ بقرہ کے آخر میں جگہ پائی وہ یہ تھی:

وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ ق ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَo (البقرہ ۲:۲۸۱) اس دن سے ڈرو‘ جس دن تم اللہ کی طرف لوٹائے جائو گے۔ پھر ہر ایک کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا اور کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہوگی۔

گویا احکامات دیے تو ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے وہ پاور ہائوس بھی بتایا جو ان احکام پر عمل کرنے کی قوت فراہم کرتا ہے‘ خواہ یہ وراثت کے احکام ہوں یا نکاح و طلاق کے‘ جہاد کے ہوں یا ایمانیات کے۔

جہاد کا حکم دیا تو بتایا کہ یہ جنت کا سودا ہے۔ جنت کے لیے جہاد کرو اور اس کے علاوہ کوئی اور مقصد سامنے مت رکھو۔ ایمان کی حقیقت بیان کی تو کہا کہ: ہم نے ایمان لانے والوں کے جان و مال جنت کے بدلے میں خرید لیے ہیں۔ اسی طرح جب مسلمانوں میں کوئی خرابی رونما ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِط o (الجمعہ ۶۲:۱۱) بتا دیجیے   جو کچھ اللہ کے پاس آخرت میں ہے‘ وہ دنیا کی ساری دل چسپیوں اور نفعے سے زیادہ بہتر ہے۔

آخرت کے اجر پر یقین اور اس کی طلب پیدا ہوگی تو لوگ اجتماعی کام‘ بغیر کسی کے کہے بھی کریں گے۔ یقین نہیں ہوگا‘ تومارے باندھے بھی نہیں کریں گے۔ اسی طرح اگر جہاد پر جانے میں سستی دکھائی تو فرمایا:

اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ ج (التوبہ ۹:۳۸) کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کرلیا ہے۔

اس طرح سے قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی یاد اور اس کی تیاری کی فکر کے ذریعے‘ مسلمانوں کے روحانی امراض کا علاج کیا اور ان کو ایمان کے تقاضے ادا کرنے کے لیے تیار کیا۔ پھر کیفیت یہ ہوگئی کہ صحابہ کرامؓ کے لیے جنت اور دوزخ اتنے حقیقی بن گئے جتنی کہ دنیا تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ ان پر ہر وقت ایک جیسی کیفیت طاری رہتی تھی۔ وہ بھی انسان تھے اور ہر قسم کے حالات سے گزرتے تھے لیکن ان کو غیب پر ایمان حاصل تھا۔ غیب پر ایمان ہی ان کے تقوے کی بنیاد تھا۔

اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں متقین کی سب سے پہلی صفت ہی یہ بیان کی کہ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ‘ وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ غیب میں اللہ تعالیٰ کی ذات بھی شامل ہے‘ جنت بھی اور دوزخ بھی۔ ان پر ایمان کے بغیر تقویٰ پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ صحابہؓ کا حال یہ تھا کہ گویا جنت میں رہتے‘ جنت کی خوشبو سونگھتے اور جنت کی نعمتوں کا مزہ چکھتے ہوں۔ جنت مقصود و مطلوب تھی‘ تو وہی نگاہوں میں سمائی رہتی۔ ان کو دنیا میں بھی جنت کا مزہ آگیا تھا۔ وہ دوزخ سے اس طرح ڈرتے ‘ کانپتے اور لرزتے تھے کہ ان کے چہروں کے رنگ بدل جاتے‘ جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے‘ آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے‘ داڑھیاں بھیگ جاتیں‘ گویا کہ آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے ہوں۔

جنت کتنی قریب تھی اور کیسی حقیقت بن گئی تھی‘ اس کا اندازہ ایک واقعے سے کیجیے۔

ایک دفعہ نبی کریمؐ منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے۔ آپؐ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا‘ پھر واپس کھینچ لیا۔ لوگوں کو تعجب ہوا کہ یہ کیا ہوا۔ پوچھا تو آپؐ نے فرمایا: میرے سامنے جنت کا ایک خوشہ تھا‘ میں نے چاہا کہ اسے توڑ کر تمھیں دکھا دوں۔

جنت ‘نہ وعظ تھی‘ نہ افسانہ اور نہ کہانی‘ بلکہ جو کچھ ان کو پیش آتا تھا‘ جن حالات میں وہ چلتے پھرتے تھے‘ جنت ان کے سامنے رہتی تھی‘ عذاب اور دوزخ کا خطرہ انھیں لاحق رہتا تھا۔ وہ جنت کی خوشبو سونگھتے اور متوالے ہو کر جان قربان کردیتے۔ جنت کے باغ کا تصور ذہن میں لاتے تو اُس کی چاہت اور تڑپ میں دنیا کا بہترین باغ اللہ کی راہ میں دے دیتے۔ آندھی چلتی تو کانپ اٹھتے۔ کسی قبر پرکھڑے ہوتے تو زاروقطار روتے۔ اسی چیز نے ان میں بے مثال قربانی‘ اطاعت اور اللہ کے ساتھ تعلق پیدا کیا تھا۔

آج بھی اپنے رب سے ملاقات کی ایسی ہی یاد اور جنت کا ایسا یقین اور حصول کے لیے ایسی ہی تڑپ اورجہنم کی آگ کا ایسا ڈر‘ کسی نہ کسی درجے میں ہمیں حاصل کرنا چاہیے۔ یہ ناگزیر ہے۔ اگر ہم نے یہ نہ کیا تو اُن سارے کاموں کاہمیں کوئی فائدہ نہ ہوگا  جو ہم خدا کی راہ میں کررہے ہیں۔

اللہ کی اطاعت میں اتنی محنت کے بعد بھی‘ آخرت میں اجر نہ ملے تو اس ساری تگ و دو کاکیا فائدہ ؟ اس سے بہتر تو شاید یہ ہوگا کہ ہم دنیا ہی کے لیے بھاگ دوڑ کریں‘ یہیں کچھ کما لیں‘ یہیں کچھ بنالیں۔ ہم دین کے لیے کام کریں‘ دنیا کا نقصان بھی اٹھائیں اور یہ بھی سمجھتے رہیں کہ ہم بڑے اچھے اعمال کر رہے ہیں‘ لیکن آخرت کی آندھی سب کچھ اڑا کر لے جائے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں‘ تو یہ بڑے نقصان کا سودا ہوگا۔ خدا نہ کرے کہ ہم ایسے ہوں‘ اور مجھے امید ہے کہ ہم ایسے نہیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی اس تنبیہ کو یاد رکھنا ضروری ہے:

قُلْ ھَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًاo اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا o (الکھف ۱۸:۱۰۳-۱۰۴)

اے نبیؐ، ان سے کہو‘ کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔

یہ بات ہر وقت ذہن نشین رہنی چاہیے کہ جو کام محض دنیا کی خاطر ہوا وہ ضائع ہوگیا۔ کیونکہ جسم سے آخری سانس نکلتے ہی دنیا ہاتھ سے نکل جائے گی۔ دولت ہو‘ مکان ہو‘ کھیت ہوں‘ کاروبار ہوں‘غرض دنیا کی کوئی بھی چیز ساتھ جانے والی نہیں۔ قبر میں کوئی چیز ساتھ نہیں جاتی۔ دنیا میں جو کچھ کمایا‘ وہ پیچھے رہ گیا۔ صرف اعمال ساتھ ہوں گے۔اب اگر اعمال بھی‘ خواہ وہ کتنے ہی دینی کیوں نہ ہوں‘ خدا اور آخرت کے لیے نہ ہوئے تو وہ بھی ضائع جائیں گے۔ اگرچہ ہم اس خیال میں مگن ہوں کہ ہم تو بہت ہی اچھے کام کر رہے ہیں اور آخرت کے لیے ذخیرہ کر رہے ہیں۔ یہ تو بہت ہی نقصان کا سودا ہوگا کہ ہم اللہ کے دین کا کام بھی کریں اور آخرت میں اس کا بدلہ بھی نہ ملے۔

دعوت کا ایک اھم پھلو

فکرِآخرت‘ رب سے ملاقات کی یاد اور تیاری‘ جنت کے حصول کی تڑپ اور نارِجہنم کا خوف‘ صرف ہمارے ہی لیے ضروری نہیں‘ بلکہ ہماری دعوت کے مخاطبین کے لیے بھی ضروری ہے۔ اگر ہم نے کسی کو اجتماع میں شریک کرلیا‘ کسی سے اعانت لے لی‘ کسی کو کتاب پڑھوا دی‘ کسی سے ووٹ لے لیا‘ مگر اس سے اُس کو آخرت کا کوئی فائدہ نہ ہوا‘ تو ہم نے اس کی کوئی خیرخواہی نہیں کی‘ اس کے ساتھ کوئی بھلائی نہیں کی۔ دوسری پارٹیاں بھی لوگوں سے پیسے لے لیتی ہیں‘ انھیں جلسے جلوس میں لے جاتی ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمارے ان تمام کاموں کے نتیجے میں اس کو آخرت میں اجر ملنا چاہیے اور اس کی آخرت سنورنی چاہیے۔

نبی کریمؐ نے صرف اپنے ساتھیوں ہی سے نہیں کہا کہ فکرِآخرت اور اللہ سے ملاقات کی تیاری کرو‘ بلکہ آپؐ انتہائی کٹّر مخالف‘ مشرک‘ کافر‘ یہودی‘ عیسائی‘ منافق‘ ہر ایک کو بار بار آخرت کے عذاب سے ڈراتے رہے۔ آپؐ نے اپنے رشتے داروں کو کھانے پر جمع کیا تو یہی بات کہی۔ کوہ صفا پر کھڑے ہوئے تو آپؐ نے یہی کہا کہ اُس عذاب سے ڈرو جو تمھارے سروں پر اس طرح کھڑا ہے جس طرح اس پہاڑی کے پیچھے کوئی لشکر موجود ہو جو ابھی تمھیں دبوچ لے گا۔ اپنی اولاد کو‘ اپنے چچائوں اور پھوپھیوں کو‘ اپنے اعزہ و اقربا کو‘ ایک ایک کا نام لے لے کر‘ اُن کو اُس دن کی تیاری کرنے کی دعوت دی جس دن کوئی کسی کے کام نہ آئے گا۔

ہر نبی کو اللہ تعالیٰ نے یہی کہہ کر بھیجا کہ اَنْذِرْ قَوْمَکَ ، اپنی قوم کو خبردار کرو اور ڈرائو اس سے پہلے کہ عذاب آجائے۔

قرآن کا ایک بڑا حصہ آخرت کے بیان ہی پرمشتمل ہے۔ صرف یہ دعوت ہی نہیں دی کہ اپنے رب کی ملاقات کی تیاری کرو‘ بلکہ بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے کہ آخرت کیسی ہوگی‘ کس طرح قبر سے اٹھو گے‘ کس طرح اللہ کے سامنے جائو گے‘ حشر کا میدان کیسا ہوگا‘ وہاں کیا سماں ہوگا‘ اعمال کا وزن کیسے ہوگا‘ عذاب کس قسم کا ہوگا‘ کیسی ذلت ورسوائی اورحسرت و ندامت ہوگی‘ جہنم کی آگ کیسی ہوگی‘ آگ کے کوڑے ہوں گے‘ پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی ہوگا جس سے آنتیں کٹ جائیں گی‘ سر پر آگ کا سایہ ہوگا اور لیٹنے کے لیے آگ کا بستر--- گویا ایک ہولناک منظر ہے جس کی تصویر کشی کی گئی ہے۔

قرآن میں احکام کی اتنی تفصیل بیان نہیں ہوئی‘ لیکن آخرت کے حوالے سے ایک ایک چیز کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ یہ نہیں بیان کیا کہ ہر نماز کی کتنی رکعتیں ہیں‘ ان میں فرائض کیا ہیں اور سنن و مستحبات کیا ہیں‘ زکوٰۃ کا نصاب کیا ہے‘ لیکن آخرت کی ایک ایک بات بڑی تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔ ایک ایک عذاب کی تفصیل ہے‘ ایک ایک نعمت کا تذکرہ ہے۔ جنت کیسی ہوگی--- اس میں بالاخانے ہوں گے‘ محلات ہوں گے‘ خیمے ہوں گے‘ گھنے اور لمبے سائے ہوں گے‘ ہر قسم کے پھل اور میوے ہوں گے‘ انگور ہوں گے‘ انار ہوں گے۔کھجور ہوگی‘ کیلا ہوگا‘ بیری کے درخت ہوں گے۔ پانی ‘دودھ ‘ شہد ‘ غرض ہر قسم کے بہترین مشروبات کے چشمے بہہ رہے ہوں گے‘ حسین و جمیل رفاقتیں ہوں گی‘ حوریں ہوں گی اور یہ سب کچھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہوگا۔

قرآن ہی ہمارے لیے روشنی ہے‘ قرآن ہی ہمارا رہنما ہے‘ قرآن ہی کی طرف ہماری دعوت ہے‘ لیکن ہماری دعوت میں آخرت کا بیان کہاں ہے اور کتنا ہے؟ اگر ہم قرآن کی دعوت لے کر کھڑے ہوئے ہیں‘ قرآن کا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں‘ قرآن پر لوگوں کو جمع کرنا چاہتے ہیں تو ہماری دعوت کو بھی قرآن ہی کے انداز میں آخرت کی دعوت ہونا چاہیے۔ اپنے مخالفین کو‘ خواہ وہ کہیں بھی ہوں اور کیسی ہی استعداد رکھتے ہوں‘ قرآن کے اسی انداز میں آخرت کی تیاری کی دعوت دینا چاہیے۔

اگر غور کریں تو اس لحاظ سے ہم بہت پیچھے ہیں۔ جو تقریریں ہم کرتے ہیں ان کو دیکھیں‘ جو درس ہم دیتے ہیں ان پر نگاہ ڈالیں‘ تربیت گاہوں کے جو پروگرام ہوتے ہیں ان کا جائزہ لیں‘ ان سب میں رب سے ملاقات کی یاد اور جنت و دوزخ کے ذکر کا کتنا حصہ ہوتا ہے؟ کبھی ایک دم ہمیں خیال آتا ہے کہ فکرِآخرت کا پروگرام بھی ہونا چاہیے۔ ایک حدیث رکھ لو‘ ایک درس رکھ لو‘ ایک تقریر رکھ لو‘ مگر قرآن کے وہ حصے جہاں جنت اور جہنم کا بیان ہے وہ ہمارے درس کا موضوع نہیں بنتے۔ شاید یہ سب کچھ جدید دور کا بھی اثر ہے کہ ہم کو اب شاید کچھ غیرشعوری ہچکچاہٹ ہوتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ اس زمانے میں یہ حوروغِلمان کا ذکر کرتے ہیں اور محلات کا ذکر کرتے ہیں‘ جنت کا لالچ دیتے ہیں اور آگ سے ڈراتے ہیں۔

ہم سوچتے ہیں کہ آج کل اس طرح لوگ کہاں متاثر ہوں گے‘ کہاں مانیںگے۔ اب تو اسلامی نظام کی برتری ثابت کرنا چاہیے۔ دوسرے نظام ہاے حیات پر تنقید کرنی چاہیے‘ عالمی اور قومی سیاست کے حوالے سے بات ہونا چاہیے۔ یہ سب کچھ بھی ضرور ہونا چاہیے‘ لیکن صرف اس سے کام ہرگز نہیں چلے گا۔ ہمارے دروس میں‘ ہمارے پروگراموں میں آخرت کا‘ جنت کا‘ دوزخ کا وہ تناسب نہیں ہے جو تناسب قرآن مجید میں ہے‘ بلکہ قرآن مجید جس قدر آخرت‘ جنت اور دوزخ کے بیان سے بھرا ہوا ہے اس کا عشرعشیر بھی ہماری دعوت‘ گفتگوئوں‘ تقریروں اور درس میں نہیں ہوتا۔

ظاہر ہے کہ یہ ہونا چاہیے کیونکہ لوگوں کے ساتھ اصل بھلائی ہی یہ ہے کہ وہ آخرت میں کامیاب ہوسکیں۔ ہمارا سارا کام اسی لیے ہے کہ لوگ جنت کے طلب گار بن جائیں۔ پھر دین بھی قائم ہوگا اور دنیا میں بھی اسلامی نظام کی جنت بنے گی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ لوگ انھی جذبات سے اس دین کی طرف آئیں جن جذبات سے وہ قوم پرستی اور سوشلزم کی طرف جاتے ہیں تو اسلام کے لیے یہ نسخہ کارگر نہیں ہوسکتا‘ نہ ہو رہا ہے۔

جب لوگ جنت کے طلب گار بن جائیں گے جس طرح صحابہ کرامؓ تھے تو پھر وہ دنیا کو بھی جنت بنائیں گے اور دنیا میں عدل و قسط کا نظام بھی قائم ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسپین سے لے کر چین تک‘ ساری دنیا اُن کے قدموں میں ڈھیر ہوگئی جو جنت سماوی کے طلب گار تھے۔ اگر وہ دنیا کے طلب گار ہوتے توکیا دنیا اس طرح ان کے آگے ڈھیر ہوتی؟ ہمیں بھی یہ جاننا چاہیے کہ جب ہم آخرت کے طلب گار بن جائیں گے تو اللہ تعالیٰ دنیا کو ہمارے قدموں میں اُسی طرح ڈھیر کر دے گا جس طرح ان کے آگے دنیا بچھتی چلی گئی۔ لیکن اگر ہم نے صرف دنیا طلب کی تو آخرت بھی ہاتھ سے جائے گی اور دنیا بھی!

دنیا ہماری مطلوب کیوں ہو‘ جب کہ اس طرح اس کا ملنا غیر یقینی ہے اور جنت کا ہاتھ سے جانا یقینی۔ دنیا تو اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا دے گا‘ جس کو چاہے گا نہیں دے گا‘ لیکن آخرت کے حوالے سے اس کا وعدہ یقینی ہے کہ جس نے آخرت کا ارادہ کر لیا اور اس کے لیے کوشش کی جیساکہ کوشش کرنے کا حق ہے‘ اور اس کے دل میں ایمان ہے تو اس کی محنت کی لازماً قدردانی کی جائے گی۔

مَنْ اَرَادَ الْاٰخِـرَۃَ وَسَعٰی لَھَا سَعْیَـھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعْیُھُمْ مَّشْکُوْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۱۹) جو آخرت کا خواہش مند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے‘ اور ہو وہ مومن‘ تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہوگی۔

ہر آدمی دن رات محنت کرتا ہے۔ کسی کو چند ٹکے ملتے ہیں اور کسی کو لاکھوں مل جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت سے کسی کو بقدرِ ضرورت دیتا ہے اور کسی کو بلاحساب دیتا ہے‘ اس لیے کہ دنیا فنا ہونے والی ہے اور اس کی کوئی قیمت نہیں۔ اِس کی حقیقت تو بس اتنی ہے جیسے ایک مچھر کا پر‘ یا جیسے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈال کر کچھ پانی حاصل کرلے‘ یا جیسا کہ قرآن نے کہا: اگر یہ امکان نہ ہوتا کہ سارے کے سارے لوگ کافر ہوجائیں گے تو ہم رحمن کا انکار کرنے والوں کے گھروں کی چھت‘ زینے‘ دروازے‘ فرنیچر سب چاندی کا بنا دیتے‘ بلکہ سونے کا۔ پھر بھی ان کی قیمت اس سے زیادہ نہ ہوتی کہ جب تک سانس ہے آدمی اس سے کام لے لے‘یا لذت اندوز ہولے۔ جو چیز ختم ہونے والی ہو اس کی کیا حقیقت ہو سکتی ہے۔

حقیقی خسارہ

قرآن مجید میں بار بار اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ: اس دنیا کو مقصود نہ بنائو‘ منزل نہ بنائو‘ بلکہ اس دنیا کے ذریعے آخرت کا سامان کرو۔ یہی راہ پکڑو گے توکامیابی تمھارے قدم چومے گی۔ یہ بات ہرلمحے یاد رکھو کہ اپنے رب سے ملاقات کرنا ہے‘ اس ملاقات کی تیاری کرو۔ قیامت کے دن وہ یہی پوچھے گا کہ تم نے دنیا کی زندگی میں آج کے دن کی ہم سے ملاقات کو یاد رکھا تھا یا نہیں۔ اگر اِس دنیا میں یہ بات بھلا دی گئی کہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنا ہے تو تباہی و بربادی اور ناکامی و خسارہ مقدر ہوگا۔ دیکھیے کتنے دل دہلا دینے والے الفاظ ہیں:

وَقِیْلَ الْیَوْمَ نَنْسٰکُمْ کَمَا نَسِیْتُمْ لِقَآئَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا وَمَاْ وٰکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ o (الجاثیہ ۴۵:۳۴) اور ان سے کہہ دیا جائے گا کہ آج ہم بھی اُسی طرح تمھیں بھلائے دیتے ہیں جس طرح تم اِس دن کی ملاقات کو بھول گئے تھے۔تمھارا ٹھکانا اب دوزخ ہے اور کوئی تمھاری مدد کرنے والا نہیں ہے۔

مزید فرمایا:

فَذُوْقُوْا بِمَا نَسِیْتُمْ لِقَـآئَ یَوْمِکُمْ ھٰذَاج اِنَّا نَسِیْنٰکُمْ o (السجدہ ۳۲:۱۴)

پس اب چکھو مزا اپنی اس حرکت کا کہ تم نے اس دن کی ملاقات کو فراموش کر دیا‘ ہم نے بھی اب تمھیں فراموش کر دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق‘ محض بھولنے اور یاد رکھنے کا معاملہ نہیں ہے۔ جب وہ کہتا ہے کہ ہم بھلا دیں گے تو اس کے معنی دراصل یہ ہیں کہ ہم نظر اُٹھا کر بھی نہ دیکھیں گے‘ رحمت نہ کریں گے۔ جس دن کوئی سایہ نہیں ہوگا سوائے اس کے سائے کے‘ کوئی سہارا نہ ہوگا سوائے اس کے سہارے کے‘ کسی کی نظر کام نہ آئے گی سوائے اس کی نظرِکرم کے‘ کسی کی توجہ سے کام نہ بنے گا سوائے اس کی توجہ کے--- ذرا سو چیے کہ اگر اُس دن اُس نے ہمیں بھلا دیا تو ہمارا کیا بنے گا!

لہٰذا اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے اس دن کو برابر یاد رکھنا اور اس ملاقات کی تیاری کرنا‘ یہ وہ کام ہے جو اپنے لیے بھی ضروری ہے اور جو ہمارے مخاطب ہیں یا ساتھ چلنے والے ہیں‘ ان کے لیے بھی ضروری ہے۔ حضور اکرمؐ نے اپنی جو مثال بحیثیت داعی کے دی ہے‘ اسے دیکھیے۔ آپؐ نے فرمایا: میری مثال ایسی ہے جیسے کسی نے آگ جلائی۔ اب تم ہو کہ پروانوں کی طرح اس آگ میں گر رہے ہو اور میں ہوں کہ تمھاری کمریں پکڑپکڑ کر تمھیں روک رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں‘ لوگو! آگ سے بچو۔

بحیثیت داعی ہمارا کردار حضور اکرمؐ کی اس مثال کے مطابق ہونا چاہیے۔ اگر ہمارے گھر میں آگ لگ جائے تو ہم اپنی جان خطرے میں ڈال کر‘ اپنے بچوں کو اٹھا کر باہر بھاگیں گے‘ پانی لے کر آئیں گے اور آگ بجھائیں گے۔ اگر ہماری بیوی‘ بھائی‘ بہن‘ ماں باپ‘ دوست‘ رشتہ دار آگ میں جلنے کے خطرے کے قریب ہوں تو یقینا ہم بے چین ہوجائیں گے۔ اگر یہی لوگ جہنم کی آگ کے قریب جا رہے ہوں توکیا یہی جذبہ ہمارے اندر پیدا ہوتا ہے‘ کیا ہم اسی طرح کوشش کرتے ہیں کہ ان کو آگ سے بچالیں؟

آخرت کی یاد اور آخرت کے لیے تیاری‘ یہی وہ پاور ہائوس ہے جو ہمارے کام اور جدوجہد کو رواں دواں رکھے گا۔ سارے کاموں میں یہی یاد جاری و ساری رہنا چاہیے‘ خواہ وہ الیکشن کا کام ہو یا نعروں اور جلوس کا کام یا پوسٹر لگانے کا۔ جو کام بھی آپ کریں صرف اس لیے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہو‘ آپ کو اپنی جنت میں داخل کر دے۔ پھر دیکھیے اس کام میں کتنی اور بے انتہا برکت ہوتی ہے۔ اس کام کا بہت بڑا اجر آپ کو آخرت میں یقینا ملے گا‘ اگرچہ دنیا میں بظاہر کچھ نہ بھی ملے‘ یہاں آپ الیکشن نہ بھی جیتیں اور چاہے لوگ آپ کی بات سن کر نہ دیں۔ لیکن اگر آپ نے کام صرف اس لیے کیا کہ کسی نہ کسی طرح الیکشن جیت جائیں‘ الیکشن تو آپ ہار بھی سکتے ہیں‘ لیکن آخرت میں آپ کو اس کا کوئی بدلہ نہیں ملے گا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ صرف وہی کام قبول کرے گا جو خالص اس کے لیے ہو۔ بظاہر الیکشن تو دنیاوی کام ہے اور اگر کوئی شخص قرآن کا حافظ اور عالم ہو یا اللہ کی راہ میں شہید ہوجائے‘ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے والا ہو‘ لیکن یہ خالصتاً دینی کام بھی اگر صرف اللہ کے لیے نہ کیے گئے ہوں‘ تو یہ بھی اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرمائے گا‘ بلکہ ان کو جہنم میں ڈال دے گا۔ عمل تو وہی قبول ہوگا جو خالص صرف اسی کے لیے ہو‘ اسی سے اجر کے لیے ہو۔ آخرت کے مسافر اور بھی ہیں‘ فرق اتنا ہے کہ دوسرے لوگوں کے نزدیک آخرت گوشے میں بیٹھ کر ملتی ہے‘ مگر ہمارے نزدیک آخرت اللہ کے دین کی راہ میں جہاد کے ذریعے ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یقینی وعدہ کیا ہے:

وَلَا ُدْخِلَنَّھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ج (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۵) میں ان کو ضرور بالضرور جنتوں میں داخل کروں گا جہاں نہریں بہتی ہوں گی۔

یہ ہونی چاہیے ہماری دعوت‘ یعنی رب سے ملاقات اور جنت کی طلب۔ دوسروں کو بلانا ہے تو اس طرف ہی بلانا ہے کہ وہ جنت کے طلب گار بنیں اور اللہ کے دین کی راہ میں جہاد کے لیے کھڑے ہو جائیں۔ ہماری دعوت کا موضوع یہی بن جائے‘ یہی دعوت کی روح بن جائے کہ:

وَفِی الْاٰخِـرَۃِ عَـذَابٌ شَدِیْـدٌ وَّمَـغْفِـرَۃٌ مِّـنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانٌط (الحدید ۵۷:۲۰) آخرت میں ایک طرف عذاب شدید ہے‘ دوسری طرف اللہ کی مغفرت اور رضا۔

یہ دونوں ہمارے منتظر ہیں۔ ہمیں فیصلہ یہ کرنا ہے کہ ان میں سے کون سی چیز ہم اپنے لیے منتخب کرتے ہیں۔

گو یہ دونوں چیزیں آج ہمیں آنکھوں سے دکھائی نہیں دے رہیں۔ لیکن اگر ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے تو مغفرت و رضوان کے انعام کا اور عذاب شدید کا پورا نقشہ‘ ہم قرآن مجید میں دیکھ سکتے ہیں۔ آپ قرآن مجید کثرت سے پڑھیں‘ اس کو یاد کریں‘ اس کو نمازوں میں پڑھیں‘ چھوٹی چھوٹی آیتوں کے معنی یاد کرلیں۔ صبح و شام‘ اٹھتے بیٹھتے‘ موت کو یاد رکھیں۔ قرآن پڑھیں تو خود کو اس کا مخاطب بنائیں۔ اپنے مخاطبین کو دعوت دیں تو آخرت کے بیان اور آخرت کے لیے تیاری کو اس میں شامل کریں۔ اس طرح آپ کی زندگی صحیح راہ پر چلے گی اور آپ کی محنت کا بدلہ آپ کو لازماً ملے گا۔ بالآخر وہ وقت بھی آئے گا جب ہم اس کی جنت میں داخل ہونے کے مستحق ٹھیریں گے۔

آخرت کی یاد

ایک چھوٹا سا عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو یاد رکھنے میں کافی مدد ملتی ہے۔ اس کو اگر آپ اپنے اوپر لازم کرلیں تو آپ بھی اس کے ذریعے آخرت کاسفر بار بار کرسکتے ہیں۔

ایک دعا ہے جو نبی کریمؐ نے سکھائی ہے اور یہ کوئی بہت لمبی دعا نہیں ہے:

اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ -

اے اللہ مجھے آگ سے بچا لے۔

بہت چھوٹی‘ بہت سادہ‘ بہت آسان دعا ہے۔ اس کو عربی ہی میں یاد کرنا چاہیے‘ اور یہ کوئی ایسا مشکل کام بھی نہیں۔ اگر ہم اُن الفاظ میں یہ دعا مانگیں گے جو الفاظ حضور اکرمؐ نے سکھائے ہیں تو الفاظ سے بھی برکت کا چشمہ جاری ہوگا‘ لیکن اگر یہ الفاظ یاد نہ ہو سکیں تو اپنی زبان میں اس کا مفہوم ادا کیا جا سکتا ہے‘ یعنی اے اللہ مجھے آگ کے عذاب سے بچا لے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو آدمی مغرب کے بعد اور فجر کے بعد سات سات دفعہ یہ دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو آگ کے عذاب سے بچالے گا۔ دعا خود سے تو کام نہیں کرتی۔ دعا تو اس بات کا اظہار ہے کہ آپ کو اُس چیز کی طلب ہے‘ پیاس ہے جو آپ مانگ رہے ہیں۔ جب آپ پانی مانگتے ہیں تو آپ کو پیاس لگی ہوتی ہے‘ آپ کھانا مانگتے ہیں تو بھوک لگی ہوتی ہے۔ جتنی شدت سے بھوک پیاس ہوتی ہے‘ اتنی ہی بے چینی اور اضطراب اور لگن سے آپ پانی اور کھانا مانگتے ہیں اسی طرح آپ کو آگ سے بچنے کی فکر لگی ہو اور شدت سے لگی ہو‘ خوف‘ اندیشہ‘ بے چینی اور اضطراب سے دل بھرا ہوا ہو‘ اور پھر آپ کہیں اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ،    تو ان الفاظ کا اثر ہوگا۔ دل میں آگ لگی ہوگی تو الفاظ دل سے نکلیں گے‘ رنگ لائیں گے۔     یہ الفاظ آپ دل سے کہیں گے تو دل میں آگ سے بچنے کی فکر بھی پیدا ہوگی۔ مانگنے سے بھی بھوک پیاس محسوس  ہونے لگتی ہے۔ یہ گویا دو طرفہ عمل ہے۔اس لیے صبح و شام فجر اور مغرب کے بعد ضرور کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔

میں نے اس عمل میں تھوڑا سا اضافہ کیا ہے۔ میں جس طرح پڑھتا ہوں‘ آپ بھی چاہیں اور مفید سمجھیں تو اس طرح ہی پڑھیں۔ اس میں کوئی زیادہ وقت بھی نہیں صرف ہوتا۔ ہر بار جب میں یہ کہتا ہوں کہ اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ، تو آخرت کے سفر کی کسی ایک منزل کا نقشہ اپنے ذہن میں رکھتا ہوں۔ یہ سفر قرآن مجید میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ میں اس سفر کے کسی ایک مرحلے کی تصویر اپنے ذہن میں لاکر کہتا ہوں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔

  • پھلا مرحلہ: آپ پہلی دفعہ کہیں تو موت کا وقت یاد کریں۔ قرآن مجید میں موت کے وقت کا کثرت سے ذکر کیا گیا ہے۔ کسی ایک منظر کو اپنے ذہن میں تازہ کرلیں۔ ایک یہ ہے:

کَلَّا ٓاِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَ o وَقِیْلَ مَنْ رَاقٍ o وَّظَنَّ اَنَّہُ الْفِرَاقُ o وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ o اِلٰی رَبِّکَ یَوْمَئِذِ نِ الْمَسَاقُ o (القیامۃ ۷۵:۲۶-۳۰)

ہرگز نہیں‘ جب جان حلق تک پہنچ جائے گی‘ اور کہا جائے گا کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا‘ اور آدمی سمجھ لے گا کہ یہ دنیا سے جدائی کا وقت ہے‘ اور پنڈلی سے پنڈلی جڑ جائے گی‘  وہ دن ہوگا تیرے رب کی طرف روانگی کا۔

جب جان حلق تک پہنچ جائے گی‘ پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی۔ کوئی سہارا نظر نہ آئے گا جو موت سے بچائے اور کوئی جھاڑ پھونک کرکے بھی نہیں بچا سکے گا‘ تو یقین ہو جائے گا کہ بس اب تو دنیا کو چھوڑنا ہے۔ بھائی بہن‘ ماں باپ‘ رشتہ دار‘ مال و دولت‘ مکان سب کچھ چھوڑنا ہیں‘ جسم کی سب قوتیں ختم ہو جائیں گی۔ اب اللہ کی طرف جانا ہے اور سوائے اعمال کے کوئی سہارا نہیں۔ یا اس وقت کو یاد کریں جب فرشتے آئیں گے اور چہروں اور پیٹھوں پر آگ کے کوڑے ماریں گے‘ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَاَدْبَارَھُمْo (محمد ۴۷: ۲۷)

موت کے کسی منظر کو چند سیکنڈ کے لیے قرآن کے کسی حصے کے ذریعے‘ یا ذہن میں لاکر آپ موت کا وقت یاد کریں‘ اور اس کے بعد کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔ یہ پہلا مرحلہ ہوا۔

  • دوسرا مرحلہ: موت کے بعد قبر کی منزل ہے۔ دوسری بار کہنے لگیں تو قبر کا مرحلہ یاد کریں۔ اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ قبر ہی دراصل فیصلہ کر دے گی کہ آگے کیا ہوگا‘ یا تو یہ آگ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے یا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ۔

حضرت عثمانؓ کے بارے میں مذکور ہے کہ آپ جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اتنا زاروقطار روتے تھے کہ آپ کی داڑھی آنسوئوں سے بھیگ جایا کرتی تھی۔ حدیث میں آتا ہے کہ قبر کہتی ہے کہ میں تنہائی کا گھر ہوں‘ میں کیڑوں کا گھر ہوں۔ لہٰذا قبر کا عذاب‘ اُس کے مختلف مناظر اگر ذہن میں تازہ رکھیں‘ اور کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔ یہ دوسرا مرحلہ ہوا۔

  • تیسرا مرحلہ: قیامت کا ایک مرحلہ وہ ہوگا جب قبروں سے نکال کر اللہ کے سامنے کھڑا کر دیا جائے گا۔ لوگ دیوانہ وار اٹھ کر بھاگیں گے‘ ہوش اُڑے ہوںگے‘ نگاہیں اٹھ نہ رہی ہوں گی‘ چہروں پر ذلت کی سیاہی ہوگی‘ ننگے ہوں گے مگر دیکھنے کا ہوش نہ ہوگا۔ سورج قریب آجائے گا‘ پسینہ اس طرح بہے گا کہ لوگ کانوں تک غرق ہوںگے۔ ہلکے سے ہلکا عذاب یہ ہوگا کہ آدمی کو آگ کے جوتے پہنا دیے جائیں گے اور اس کا دماغ کھولنے لگے گا۔ اعمال نامے ہاتھ میں ہوں گے اور سب لوگ خدا کے حضور کھڑے ہوں گے۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قسمت کا فیصلہ ہو رہا ہوگا۔ جس کے نیک اعمال بھاری ہوں گے تو وہ دل پسند زندگی پائے گا‘اور جس کے بداعمال بھاری ہوں گے تو اس کا تو ٹھکانہ آگ کا گڑھا ہوگا۔

یہ تیسری منزل ہے حشر کی۔ کسی بھی منظر کو ذہن میں تازہ کرلیں اور کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔

  • چوتہا مرحلہ: چوتھی منزل پُل صراط کی ہے۔ آپ سوچیں کہ ہر شخص جہنم پر سے گزرے گا۔ نبی کریمؐ نے فرمایا ہے کہ بعض لوگ ہوا کی رفتار سے گزر جائیں گے‘ اور بعض اس سے آہستہ‘ اور بعض لڑکھڑاتے ہوئے گزریں گے‘ اور بعض وہیں جہنم کے اندر گر پڑیں گے۔ اس وقت تو اعمال ہی سواری ہوں گے‘ کوئی اور سواری نہ ہوگی۔ آپ اس منظر کو ذہن میں لائیں اور چوتھی بار کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔
  • پانچواں مرحلہ: پانچویں دفعہ اس آگ کو دیکھیں جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس کثرت اور تفصیل سے کیا ہے۔ اس آگ کے جسمانی عذاب کا تصور کریں۔ وہاں پر آگ کا بستر ہے‘ آگ کی چھت ہے‘ پیپ کا پانی ہے‘ کانٹوں کا کھانا ہے‘ لوہے کے ہتھوڑے ہیں‘ سرپر کھولتا ہوا پانی ڈالا جا رہا ہے‘ ان میں کسی ایک کا تصور اپنے ذہن میں رکھیں اور پھر کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔
  • چہٹا مرحلہ: پھر وہاں ایک عذاب اور بھی ہے۔ یہ رسوائی اور حسرت و ندامت کا عذاب ہے۔ یہ نفسیاتی اور روحانی عذاب ہے۔ چھٹی بار اس کا تصور کریں۔ یہ حشر سے شروع ہوگا‘مثلاً جب وہاں آپ کے سارے اعمال براڈ کاسٹ کردیے جائیں گے‘ وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ (۸۱:۱۰) ‘کیا آپ اس گھڑی کا سامنا کرسکتے ہیں؟ میں بھی اپنے آپ کو جانتا ہوں ‘اور آپ بھی اپنے آپ کو جانتے ہیں۔ کیا کوئی یہ رسوائی مول لے سکتا ہے کہ اس کے سارے اعمال لائوڈاسپیکر پر بیان ہونا شروع ہو جائیں۔ کتنی رسوائی‘ کتنی ذلّت ہمارے حصے میں آئے گی؟ پھر وہاں زبردست ندامت و حسرت یہ ہوگی کہ ہماری اتنی مختصر سی عمر تھی‘ اس کو ہم نے کیوں ضائع کردیا۔ پھرجہنم سے نکلنا چاہیں گے تو کوئی نجات کی صورت نظر نہ آئے گی۔ جن کا مذاق اڑاتے تھے ان کو ہی عیش و آرام میں دیکھیں گے۔ آپ ذلّت کا‘ رسوائی کا‘ حسرت کا‘ یہ عذاب یاد کریں اور چھٹی بار کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔
  • ساتواں مرحلہ: آخر میں آپ یہ سوچیں کہ جو کچھ کل پیش آنے والا ہے‘ یہ سب آج کی کمائی ہے‘ یعنی کل کے جتنے بھی مرحلے پیش آنے والے ہیں‘ یہ آسان ہوں گے تو صرف آج کے نیک اعمال سے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آج مجھے ان اعمال سے بچا لے کہ جو کل آگ کی طرف لے جانے والے ہیں۔ پھر آپ کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔

اس طرح آپ دنیا سے چلنا شروع کریں‘ موت کے وقت سے جہنم تک پہنچیں‘ پھر واپس لوٹ کر آج کی دنیا میں آجائیں۔ یہ سفر مکمل ہوجائے گا۔

یہ دعا سات دفعہ اگر آپ صبح و شام اس طرح پڑھ لیں تو مشکل سے دو تین منٹ صرف ہوں گے۔ آپ مزید کچھ وقت بیٹھنا چاہیں تو بیٹھ سکتے ہیں۔ لیکن میں آپ کو کسی طویل مراقبے کی تعلیم نہیں دے رہا ہوں۔

اس طرح آپ موت کو یاد رکھنے والوں میں شامل ہو جائیں گے۔ اس کے بعد بھی اگر آپ اللہ سے ملاقات کو بھولیں گے ‘کوئی بات نہیں‘ انسان بھولنے والا ہے‘ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا ہے۔ صحابہ کرامؓ بھی ہمیشہ ایک ہی حالت میں نہیں رہتے تھے۔ ان کی حالت بدلتی رہتی تھی۔ حضوؐر کی محفل میں ہوتے تو گویا جنت و دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے‘ گھروں کو جاتے تو یہ کیفیت بہت مدھم ہو جاتی۔

اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ آپ آخرت کو کبھی نہیں بھولیں گے۔بھول تو آدمی کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آخرت کو یاد رکھنے کی کوشش کرتے رہیں‘ اور اگر بھولیں تو فوراً یاد کرلیں۔ پھر پوری امید رکھیں کہ اللہ آپ کی برائیوں کو نظرانداز کر دے گا‘ آپ کے گناہوں کو بخش دے گا۔ اس کا بھی امکان ہے کہ آپ گناہ کم اور نیکیاں زیادہ کرنے لگیں۔ بس آپ کی اپنی طرف سے کوشش ضروری ہے۔ اس کوشش کے لیے یہ ایک عملی نسخہ ہے۔ اس کو آپ اختیار کرلیں تو ان شاء اللہ آپ کو بہت فائدہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو ‘ سب کو‘ اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! (کیسٹ سے تدوین: عبدالجبار بہٹی)


(کتابچہ دستیاب ہے۔ فی عدد ۵ روپے۔ سیکڑے پر رعایت۔ منشورات‘ منصور‘ہ لاہور-۵۴۷۹۰)

تربیت کا عمل انسان کے پیدا ہوتے ہی شروع ہوجاتا ہے ۔ کچھ تربیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے جوخود بخود ہوجاتی ہے‘ جب کہ کچھ تربیت انسان اپنی کوشش سے کرتا ہے۔ تربیت کے معنی کسی چیز کو نشو و نما دینا‘ بڑھانا اور تقویت دینا ہے ۔ تربیت سے ملتا جلتا ایک اور لفظ بھی استعمال ہوتا ہے‘ وہ ہے تزکیہ ۔ اس میں پاکیزہ کرنا اور نشو ونما دینا ‘ دونوں معنی شامل ہیں ۔ انسان کے پیدا ہوتے ہی اس کی تربیت کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور آہستہ آہستہ اُس کا جسم بڑھنا شروع کرتاہے ۔ آیندہ زندگی میں درپیش مراحل کے لیے مختلف صلاحیتیں اور استعداد بتدریج پیداہوتی چلی جاتی ہے۔

کچھ کام انسان دوسروں کو دیکھ کر اور ان سے سیکھ کر اختیار کرتا ہے ‘ جیسے چلنا پھرنا ‘کھانا پینا‘ کپڑے پہننا وغیرہ ۔ یہ سب کام آدمی سیکھتا ہے ‘ یعنی ان کی تربیت حاصل کرتا ہے ۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ نہیں جانتا کہ نوالہ کیسے بناناہے ‘ کپڑے کیسے پہننے ہیں‘ یہ سب کچھ وہ دوسروں کو   دیکھ کر یا کسی کے سکھانے سے سیکھتا ہے ۔ زبان بڑی اہم چیز ہے ۔یہ اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ تربیت کا معجزہ ہے کہ بچہ تین چار سال کی عمر تک ایک زبان سیکھ لیتاہے اور اس طرح سیکھتا ہے کہ اس کی گرامر بھی صحیح ہوتی ہے ‘ لغت بھی اور محاورہ بھی۔ اگرچہ اس نے گرامر کی کوئی کتاب نہیں پڑھی ہوتی‘ کوئی لغت نہیں دیکھی ہوتی‘ کسی اسکول میں داخلہ نہیں لیا ہوتا‘ وہ کوئی کتابیں نہیں پڑھتا‘ مگر پھر بھی زبان سیکھ جاتا ہے۔ اگرچہ کسی زبان کو بڑی عمر میں بھی سیکھنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ تربیت کے لیے قدرت کے انتظامات ہیں۔

قدرتی تربیت کے ساتھ ساتھ بعض چیزیں اورمہارتیں بھی ضروری ہیں۔ البتہ ہمیں وہ تربیت مطلوب ہے جو ہماری سوچ ‘ عمل ‘ اخلاق اور کردار کو اس سانچے میں ڈھال دے جس کے ذریعے ہم اللہ کی رضا حاصل کرسکیں ۔ ہم سب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے بڑھ کر جوچیز محبوب ہے وہ اس کی راہ میں جہاد اور اس کے دین کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد ہے ۔ اس نے اپنی محبت اور اپنے رسولؐ کی محبت کو اپنی راہ میں جہاد کے ساتھ منسلک کیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ دین میں چوٹی کا عمل‘ جہاد ہے ۔ اس بات کی اہمیت کے پیش نظر ہی ہم سب ایک تنظیم میں شامل ہوئے ہیں اورایک جماعتی اور اجتماعی زندگی اختیار کی ہے ۔ اس اجتماعیت کا تقاضا ہے کہ تربیت کے عمل میں ہمارے پیش نظر سب سے بڑھ کر یہی امر ہونا چاہیے کہ ہم دین کو قائم کرنے کے لیے جہاد کے اہل بنیں۔

تربیت کی بنیاد: ارادہ و عزم

انسان کی تربیت قدرتی بھی ہوتی ہے اور گردوپیش کے حالات و مشاہدات سے بھی‘  دوسروں سے سیکھ کر بھی اور لکھ پڑھ کر بھی۔ لیکن تربیت کی اصل ذمہ داری ایک فرد کی اپنی ہی ہے۔ تربیت کے عمل میں یہ سب سے پہلا اور بنیادی سبق ہے جو ہمیشہ پیشِ نظر رہنا چاہیے۔

ہم جیسا بھی بننا چاہیں‘ وہ اپنی کوشش سے اور اپنے عمل سے بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو بہت واضح اور صاف طورپر بیان فرمایا دیا ہے کہ آدمی کے حصے میں وہی کچھ آتا ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے ۔

وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِ نْسَانِ اِلَّا مَاسَعٰیo (النجم ۵۳:۳۹)

اوریہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی ہے۔

جو آدمی خود کچھ نہ بننا چاہے‘ وہ دوسروں کے بنانے سے نہیں بن سکتا۔ آدمی اپنی محنت اور کوشش سے ہی اپنے آپ کو وہی کچھ بناتا ہے جو وہ بننا چاہتا ہے ۔ لہٰذا تربیت کے ضمن میں بنیادی بات اپنی اِس ذمہ داری کوسمجھنا ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰیo (الاعلٰی ۸۷:۱۴)

فلاح پاگیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی۔

تَزَکّٰی کا لفظ عربی زبان میں جس وزن پر اور جن معنوں میں آیا ہے ‘ اس میں انسان کا اپنے اوپر محنت سے کسی کام کو کرنے کا مفہوم بھی شامل ہے ۔ اسی وزن پر تدبر اور تذکر ہیں۔ تدبر آدمی خود کرتا ہے ‘ کوئی دوسرا زبردستی نہیں کرواسکتا ۔ تذکر کے معنی کسی چیز کو یاد کرنے اور یاد رکھنے کے ہیں ۔ یہ بھی آدمی خود کرتا ہے ‘ کوئی دوسرا نہیں کروا سکتا۔ چنانچہ تَزَکّٰی سے مراد اہتمام کے ساتھ اپنی کوشش سے اپنا تزکیہ کرنا ‘ اپنے آپ کو برائیوں سے پاک کرنا اور اپنی نشوونما اور ارتقا کی کوشش کرنا ہے جو دراصل آدمی کی اپنی ذمہ داری ہے۔ اسی لیے جہاں تَزَکّٰیٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں یہ بھی فرمایا گیا:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o (الشمس ۹۱:۹)

یقینا فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا۔

تزکیہ کسی کام کو بتدریج کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ گویا اس کے معنی یہ ہیں کہ نفس کو پاک صاف کرنے کا کام مسلسل کرنے کی ضرورت  ہے ۔اس کے علاوہ جتنے بیرونی محرکات اور تربیت کے ذرائع ہیں ‘ وہ اللہ کی وحی ہو یا اس کی کتاب ‘ یا اس کے رسول علیہم السلام جو اس دنیا میں رہنمائی کے لیے آتے رہے ہیں ‘ یا صالح صحبت جو آدمی کو نصیب ہوتی ہے ‘ یا کتابیں اور لٹریچر ہو ‘ یادرس قرآن اور اجتماعات ہوں‘ ان سب کی حیثیت معاون و مددگار کی ہے ۔ اگر زمین بنجر ہے اور اس میں بیج موجود نہیں ہے تو باہر سے خواہ کتنا ہی پانی دیا جائے‘ کتنی ہی کھاد ڈالی جائے‘ کتنی ہی محنت کی جائے‘ فصل نہیں اگے گی۔ فصل تو اسی وقت اگے گی جب زمین میں فصل اگانے کی صلاحیت موجود ہو اور بیج موجود ہو جو پودے اور درخت کی شکل اختیار کرسکے ۔

یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے ایسے لوگ جونبی کریمؐ کی صحبت میں بیٹھتے تھے ‘ آپؐ کا کلام سنتے تھے ‘ آپؐ کے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے‘ یا آپؐ سے واقف تھے‘ وہ کافر اور منافق ہی رہے۔ انھیں سچا ایمان لانے کی توفیق نصیب نہیںہوئی۔ اگر محض کسی اچھی بات کا سن لینا اور کسی اچھی صحبت میں بیٹھ جانا ہی کافی ہوتا ‘ تو ان میں سے ہر ایک کو ایمان کی دولت نصیب ہوجاتی‘ لیکن جنھوں نے خود صحیح بات کو نہ ماننا چاہا اور صحیح راستے پر نہ چلنا چاہا ‘ ان کے لیے ان میں سے کوئی چیز بھی مدد گار ثابت نہ ہوئی اور نہ ہوسکتی ہے ۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نبی کریمؐ کو مخاطب کرکے فرمایا:

اِنَّکَ لَاتَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ (القصص ۲۸:۵۶)

اے نبیؐ! تم جسے چاہو اُسے ہدایت نہیں دے سکتے ۔

یہ اللہ کا قانون ہے اور اس کے تحت ہی وہ لوگوں کو توفیق بخشتا ہے‘ اور توفیق کا انحصار آدمی کے اپنے ارادے اور خواہش پر ہوتا ہے ۔ اسی بنا پر آدمی سیدھا راستہ اختیار کرتاہے ۔

انسان مجبور محض نہیں ہے بلکہ وہ ایک بااختیار ہستی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو انسان پر ایسا کوئی اختیار نہیں دیا ہے کہ وہ اس سے زبردستی کوئی کام کرواسکے ۔ اس کو زیادہ سے زیادہ جو اختیار حاصل ہے ‘ وہ یہ ہے کہ وہ برائی کا خیال دل میں ڈال دے ‘ برائی کو اچھا کرکے دکھائے ‘ اس کی ترغیب دے اور آدمی سے کہے کہ یہ برائی کرو۔ لیکن وہ زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ کر‘ یااس کی زبان سے کوئی برا کام نہیں کرواسکتا۔ اگر آدمی جھوٹ نہ بولنا چاہے تو وہ اس سے جھوٹ نہیں بلوا سکتا۔ اگر آدمی انتقام اور غصے سے مغلوب ہوکر کسی کی غیبت کرنا یا حسد کی بنا پر کسی کو برا بھلا نہ کہنا چاہے‘ تو شیطان اس سے یہ کام زبردستی نہیں کرواسکتا۔ اسے صرف وسوسے ڈالنے کا اختیار حاصل ہے ۔ وہ دل میں خیال ڈال سکتا ہے ‘ برائی کی ترغیب دے سکتا ہے۔ لیکن اپنے ہاتھ ‘ پائوں یا زبان سے کسی برائی کا ارتکاب کرنا‘ یہ انسان کا ذاتی فعل ہے ۔ وہ اپنی آزاد مرضی سے کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے ۔ اگر وہ کوئی کام نہ کرنا چاہے تو کوئی اس سے زبردستی نہیں کرواسکتا ۔

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ محض لٹریچر کے مطالعے سے انسان کی تربیت ہوجائے گی اور وہ اچھا انسان بن جائے گا تو یہ بات درست نہیں ‘ اگرچہ لڑیچر کا مطالعہ بھی ضروری ہے ۔ لیکن تربیت کے لیے صرف لٹریچر کامطالعہ کافی نہ ہوگا ‘ جب تک آدمی اُس پر عمل کرنے کی خود کوشش نہ کرے ۔ اسی طرح موثر تقاریر اور تربیت گاہیں اور قرآن مجید کاپڑھنا بھی کافی نہ ہوگا ۔ یورپ کے بعض مفکرین نے قرآن کو پڑھنے‘ عربی جاننے اور تفسیریں پڑھنے میں عمر کھپا دی ‘بڑی شان دار کتابیں بھی لکھیں‘ لیکن ان کو ایمان کی دولت نصیب نہیں ہوئی اور نہ عمل کی توفیق ہی ملی۔ لہٰذا تربیت کے لیے جو چیز اہم ترین ہے وہ دراصل آدمی کا اپنا ارادہ اور کوشش ہے ۔

اگر اپنی اصلاح کا ارادہ ہی نہ ہوتو تربیت گاہیں ‘ دروسِ قرآن‘ یا لٹریچر ‘ کوئی بھی چیز فائدہ نہیں دے گی ۔ اگر ارادہ ہوگا اور اصلاح کی کوشش بھی ہوگی تو قرآن میں سے ہر چیز اسی طرح فائدہ دے گی جس طرح بیج اور زمین کو مناسب پانی ملے ‘ مناسب کھاد اور ادویات میسر آئیں اور مناسب دیکھ بھال ہو تو فصل لہلہا اٹھتی ہے اور کئی گنا زیادہ ہوجاتی ہے۔ البتہ زمین کی زرخیزی و تیاری اور بیج کی فراہمی کسان کااپنا کا م ہے۔ اگر کوئی کسان اپنے کھیت سے غافل ہو اوروہ یہ چاہے کہ محض بارش برس جائے اور اس کی فصل تیار ہوجائے‘ یا کھاد ڈالنے سے ہی پیداوار حاصل ہوجائے تو یہ ناممکن ہے ۔ اسی طرح یہ سوچنا کہ محض درس و تقریر سننے اورلڑیچر کے مطالعے سے تربیت ہو جائے گی تو یہ بھی خام خیالی ہے ۔

لوگ شکایت کرتے ہیں کہ تربیت کی کمی ہے‘ انحطاط ہے ‘ معیار گر گیا ہے ‘ لٹریچر نہیں پڑھا جاتا ‘ لوگوں کے اندر عملی کمزوریاں ہیں‘ لہٰذا تربیتی پروگرام زیاہ ہونے چاہییں‘ تاکہ معیاری افراد تیار ہوسکیں اور صحیح نہج پرتربیت ہو۔ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ لٹریچر پڑھنا ضروری ہے ‘ قرآن مجید کا مطالعہ بھی ضروری ہے اورتربیت گاہیں بھی ضروری ہیں ‘ لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی مسئلے کااصل حل نہیں ہے ۔ تربیت کی بنیاد تو ایک فرد کی اپنی محنت ہے‘ اپنا ارداہ ہے اور اپنی کوشش ہے۔  یہی اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے ۔ اسی لیے نبی کریمؐنے فرمایا : کُلُّکُمْ رَاعٍ وَّکُلُّکُمْ مَّسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ، تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پرس ہوگی۔

جو جس کا نگہبان ہے وہ اس کے بارے میں جواب دہ ہے ۔ سب سے بڑھ کر تو انسان کا اپنا نفس اور اس کی زندگی ہے جس کے لیے وہ جواب دہ ہے۔ اس وقت کی جواب دہی ہے جو تیزی سے گزرتا چلا جارہا ہے ۔ زندگی ایک نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے اور جو برف کی طرح پگھل رہی ہے اور ہاتھ سے نکلی چلی جارہی ہے ۔ اس کے لیے انسان‘ خدا کے ہاں جواب دہ ہے ۔ سورۃ العصر میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

وَالْعَصْرِ o اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o (العصر ۱۰۳:۲۱)

زمانے کی قسم‘ انسان درحقیقت خسارے میں ہے۔

وقت کس قدر تیزی سے گزر رہا ہے ‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر گزرنے والا لمحہ انسان کی عمر گھٹارہا ہے ۔ ہم رات کو سوتے ہیں اور صبح کو اٹھتے ہیں‘ لیکن ہماری زندگی کا ایک دن کم ہوچکا ہوتا ہے اور وہ کبھی دوبارہ لوٹ کر نہیں آئے گا ۔ لہذا کامیاب وہ ہے جو زندگی کی قدر جانے اور آنے والے کل کے لیے آج سامان کرلے ۔ یہ قدر اسی کو ہوگی جسے جواب دہی کا احساس ہو ‘ جو اپنا تزکیہ کرے ‘ برائیوں کو دبائے اور بھلائیوں کو نشوونما دے‘ البتہ اس عمل کی بنیاد انسان کا اپنا ارادہ اور کوشش ہے ۔

وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَاسَعٰی (النجم ۵۳:۳۹)

اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی ہے۔

انسان کی زندگی ‘ اس کی کھیتی ‘ اس کا کاروبار‘ اس کوبنانااور سنوارنا‘ اس میں نیک اعمال کے بیج بونا اور نیک اعمال کی کھیتی اگانا‘ یہ اس کے اپنے ہاتھ میں ہے ۔ کسی دوسرے کے کرنے سے یہ نہیں ہوسکتا ۔ اگر کوئی نماز نہ پڑھے تو کوئی دوسرا اس کی جگہ نہ نماز پڑھ سکتا ہے اورنہ زبردستی اُسے نماز پڑھوا سکتا ہے ۔ اگر نماز میں اللہ کے حضور حاضری اور خشوع و خضوع سے گفتگو کا تصور آدمی خود نہ پیدا کرے تو کسی تقریر اور درس قرآن سے یہ پیدا نہیں ہوگا۔ یہ توممکن ہے کہ نماز بہتر بنانے پر کوئی تقریر سن کر ایک آدھ نماز بہتر پڑھ لی جائے لیکن اس کے بعد پھر توجہ بٹ جاتی ہے‘  بھول ہوجاتی ہے ۔ اس لیے کہ ارادے کی کمزوری ‘ غفلت اور بھول انسان کے مزاج کا حصہ اور فطری امر ہیں ۔ البتہ اگر یہ مرض ہے تو اس کی دوا بھی موجود ہے ۔ آدمی اس پر قابو پاسکتا ہے لیکن دوا تو استعمال کرنے سے ہی فائدہ دیتی ہے ۔ اگر دوا شیشی میں بھر کر اپنے پاس رکھ لی جائے اوریہ وعظ سنا اور کہا جائے کہ یہ دوا بڑی فائدہ مند ہے‘ تو اس سے مرض دور نہیں ہوگا‘ بلکہ اس کے لیے دوا استعمال کرنا ہوگی۔ اسی طرح اللہ کی یاد سے غفلت کا علاج ہوجاتا ہے‘ لیکن اگر اللہ کو یاد ہی نہ کیا جائے تو غفلت کیسے دور ہوسکتی ہے ؟ لہٰذا جو کچھ بھی تربیت ہوگی وہ اپنی کوشش سے ‘ اپنی محنت اور اپنے ارادے سے ہوگی نہ کہ محض وعظ و نصیحت یا تربیت گاہ میں شرکت سے ۔

ایک فرد کے نزدیک جس چیز کی جتنی قدروقیمت ہو تی ہے‘ وہ اس کے لیے اتنی ہی تگ و دو‘ کوشش اور محنت کرتا ہے۔ وہ اگر کوئی دکاندار ہے تو وہ یہ نہیں سوچتا کہ میں گھر بیٹھا رہوں‘ یا دعا کرتا رہوں‘ یا کسی بزرگ کی برکت ہوگی‘ یا میں تجارت کے فضائل پر اور دکان میں مال رکھنے کی اہمیت پر کوئی تقریر کروں گا تو اس سے مال فروخت ہوگا۔ دکان تو تب چلے گی جب سودا لایا جائے ‘ دکان میں رکھا جائے ‘ گاہک آئیں اور سودا بیچا جائے‘ تب نفع ہوگا ۔ دکان چلانے اور نفع کمانے کا اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے ۔ زندگی بھی ایک دکان اور تجارت کی طرح ہے ۔ یہ جنت کو کمانے کی تجارت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا  ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍo  (الصف ۶۱:۱۰)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمھیں عذابِ الیم سے بچا دے؟

یہ تجارت ‘زندگی کو اللہ کی راہ میں کھپانے ‘جنت کمانے اور جہنم سے بچنے کی ہے۔ اگر کوئی یہ سوچے کہ یہ تجارت محض خواہش‘تمنا اور آرزو سے ہوجائے گی اور نفع حاصل ہو جائے گا‘ یا محض تقریر یا درس سننے سے ہوجائے گی تو ایسا نہیں ہوگا ‘ بلکہ فصل حاصل کرنے کے لیے جس طرح کھاد اور پانی ضروری ہے ‘اسی طرح تربیت کے لیے تقریر اور درس قرآن بھی اہم اور ضروری چیزیں ہیں ‘ لیکن اصل کام اپنا ارادہ اور کوشش ہے ۔

لہٰذا تربیت کے عمل میں سب سے پہلے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ یہ عمر‘ یہ زندگی‘ یہ جسم ‘ یہ جان ‘ اگر میں تاجر ہوں تو میر ی یہ دکان اور کاروبار اور اگر میں کسان ہوں تو میری یہ کھیتی‘ اس میں جو کچھ پیدا ہوگا ‘ جو فصل اُگے گی ‘ وہ میرے ارادے اور کوشش سے ہی اُگے گی۔

قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ :

وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَسَعٰی لَھَا سَعَیْھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰئِکَ کَانَ سَعْیُھُمْ مَشْکُوْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۱۹)

اور جو آخرت کا خواہش مند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے‘ اور ہو وہ مومن‘ تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہو گی۔

گویا جس نے یہ ارادہ کرلیا کہ مجھے آخرت کمانا ہے اور اس کے لیے محنت کی جیسا کہ محنت کرنی چاہیے اور ایمان کا بیج موجود ہو‘ اور عمل ہو تو اس کی کوشش کی پوری قدر دانی کی جائے گی۔

کون کیااعمال کرے گا‘ یاکتنے گناہ اس سے سرزد ہوں گے‘ یہ کوئی نہیں جانتا۔ آدمی سے گناہ بھی ہوں گے اور بہت سے نیک کام وہ نہیں کر پائے گا ۔ بہت سے درجات تک وہ نہیں پہنچ پائے گا اوربہت سے کام کرنا چاہے لیکن نہیں ہوپائیں گے ‘ لیکن جو نیک کام بھی وہ کرناچاہے گا اس کا اجر اسے مل کر رہے گا ۔

اللہ کو تو بس یہی مطلوب ہے کہ آدمی ارادہ کرے ‘ عزم کرے اور فیصلہ کرے کہ اسے آخرت کمانا ہے ‘ اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے ‘ وہ اعمال اور وہ محنت کرنی ہے جس سے اسے یہ چیز حاصل ہوسکے اور پھر اپنی حد تک کوشش کرے جتنی اللہ نے اسے ہمت اور قوت دی ہے ۔ اس سے زیادہ کسی سے مطالبہ نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ یہ بات کہ اپنا کام خود کرنا ‘ اپنی ذمہ داری کو خود سنبھالنا‘ اپنی کھیتی اور اپنی دکان کی خود فکر کرنا‘ اس کو تیار کرنے اور چلانے کے لیے پوری محنت اور کوشش کرنا‘ ہر فرد کی اپنی ذمہ داری ہے۔ کوئی دوسرا یہ ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا۔ اگر اُس نے اِس راز کو پالیا‘ تو تربیت کا راستہ اس کے لیے کھل گیا ۔

جب تک آدمی اس انتظار میں رہے کہ کچھ بیساکھیاں مل جائیں جن کے سہارے وہ چل سکے ‘ تو ایسا شخص دوسروں کو مورد الزام ہی ٹھیراتا رہے گا کہ یہ نہیں ہورہا ‘ وہ نہیں ہورہا ‘ یا دوسرے ایسا نہیں کر رہے‘ وہ پروگرام نہیں ہورہا وغیرہ۔ اس لیے مجھ میں خامی ہے۔ ان میں سے کوئی عذر بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔

قرآن میں ہے کہ لوگ روزِ قیامت‘ اللہ تعالیٰ کے سامنے عذر تراشیں گے کہ یہ تو ہمارے بڑوں سے ‘ آباو اجداد سے ہوتا چلا آرہا تھا‘ ہم نے تو ان کی پیروی کی‘ لیکن اللہ تعالیٰ اس عذر کو بھی قبول نہیں کریں گے ۔ لوگ کہیں گے کہ یہ ہمارے سردار تھے ‘ پیشواتھے ‘ علما تھے ‘ لیڈر تھے ‘ ہم تو ان کی وجہ سے گمراہ ہوئے تھے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ اس عذر کو بھی قبول نہیں فرمائیں گے اور ان کو معاف نہیں کیا جائے گا ۔ دراصل ہر آدمی اپنے اعمال کے لیے خود ہی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔ قیامت کے روز شیطان بھی کھڑا ہوجائے گا اور کہے گا کہ اپنی برائی کے تم خود ذمہ دار ہو۔ میراکوئی قصور نہیں ۔ میر اتم پر کوئی زور نہیں تھا ۔ میں نے تو تمھیں محض ترغیب دی تھی‘ للچایا تھا‘ برائی کی طرف دعوت دی تھی اور تم نے میری دعوت خود قبول کی تھی۔

اِلاَّ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْا اَنْفُسَکُمْط (ابراھیم ۱۴:۲۲)

میراتم پر کوئی زور تو تھا نہیں ‘ میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تم کو دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا۔ اب مجھے ملامت نہ کرو‘ اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔

گویا اگر تم بگڑ گئے‘ خرابی کا شکار ہوئے‘ اچھے انسان نہیں بنے‘ گناہ گار ٹھیرے تو دوسروں کو موردِ الزام مت ٹھیرائو‘ اس کے تم خود ہی ذمہ دار ہو۔

دراصل بنیادی ذمہ داری تو ہر شخص کی اپنی ہی ہے۔ ہر آدمی اللہ کے سامنے اکیلا حاضر ہوگا‘ اور وہ اکیلا ہی اپنے عمل کی جواب دہی کرے گا۔ اگر کوئی مجبو ر ہوگا‘ یا معقول عذر ہوگا تو   اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے گا۔ البتہ کسی دوسرے پر الزام لگا کر اپنی ذمہ داری سے بر ی نہیں ہوا جاسکتا۔ یہ بات بالکل واضح ہے اور جو آدمی اس بنیادی اصول سے ہی واقف نہ ہو‘ وہ صحیح معنوں میں اپنی تربیت نہیں کرسکتا۔

تربیت اپنے بس میں ھے!

دوسرا اصول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی انسان کو اس سے زیادہ مکلف نہیں بنایا‘ یا ذمہ دار نہیں ٹھیرایا جتنی اس کی استطاعت ہو ۔ اس نے انسان پرایسا کوئی بوجھ نہیںڈالا جو وہ نہ اٹھا سکتا ہو۔

لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَا لَھَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَا اَکْتَسَبَتْ (البقرہ ۲: ۲۸۶)

اللہ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔

ہر ایک کے لیے اُس کے اچھے اور بُرے عمل کے مطابق ہی بدلہ ہے۔ گویا اگر ایک طرف خوشخبری ہے تو دوسری طرف بڑی سخت گرفت اور پکڑ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ نے مجھے کچھ کرنے کا جو موقع دیا ہے ‘ اس کا میں خود ذمہ دار ہوں‘ اور جس برائی کا میں مرتکب ہوا‘ اس کا بھی میں خود ہی ذمہ دار ہوں گا کوئی دوسرا ذمہ دار نہیں ہے ۔

جب یہ آیت نازل ہوئی :

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۲)

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ‘ اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔

اس پر صحابہ کرامؓ کانپ اٹھے اور لرز کر رہ گئے کہ کون ہے جو اللہ سے ویسا ہی تقویٰ اختیار کرے جیسا کہ اس کا حق ہے۔ اللہ سے تقویٰ کرنے کا تو کوئی حق ادا نہیں کرسکتا ۔ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی:

فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ (التغابن ۶۴:۱۶)

جہاں تک تمھارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو۔

یعنی جتنی تمھاری استطاعت ہے اتنا اللہ سے تقویٰ اختیار کرو تو انھیں اطمینان ہو ا اور ان کی جان میں جان آئی۔ لہٰذا کون کیا کرسکتا ہے ‘ یا اسے کیا کرنا چاہیے ‘ اس حوالے سے بہت زیادہ سوچنے یا کسی ذہنی الجھن کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں‘ بلکہ آدمی جس قدر بھرپور محنت کر سکتا ہے وہ کرنی چاہیے۔ اگر غلطی ہوجائے یا گناہ سرزد ہوجائے تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کرناچاہیے اور پھر اس کی اطاعت و فرماں برداری کی راہ پر لگ جانا چاہیے۔ اسلام میں مایوسی کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ کسی پر اُس کی ہمت و استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ۔ اگر کوئی شخص کوئی کام نہیں کرسکے گا تو اس پر اللہ تعالیٰ کوئی مواخذہ نہیں کرے گا لیکن یہ بات خوب سوچ سمجھ کر کہنی چاہیے کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا ‘ یا اس ذمہ داری کو نہیں اٹھا سکتا ۔ اس لیے کہ یہ بات ‘ یا یہ عذر کسی ناظم‘ امیر‘ ذمہ دار‘ دوست یا محض اجتماع میں نہیں رکھنا ہے‘ بلکہ اس کے سامنے پیش کرنا ہے جو انسان کے اندر اور باہر سے خوب واقف ہے۔ لہٰذا اس موقع پر محض یہ نہ خیال کیا جائے کہ میں اپنے جیسے انسانوں کو مطمئن کررہا ہوں‘ بلکہ یہ سوچا جائے کہ ہم اس ذات کو جواب دہ ہیں جو دلوں کا حال جانتا ہے‘ جو سب سے واقف ہے‘ جو بخوبی جانتا ہے کہ کون کیا کرسکتا ہے اورکیا نہیں کرسکتا۔ لہٰذا محض یہ کہنا کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا‘ یا وقت نہیں ملتا‘ یہ عذر بھی قابل قبول نہیں ہے۔

اللہ نے ہر ایک پر وہی ذمہ داری ڈالی ہے جو وہ اٹھا سکتا ہے ۔ اس لیے اس نے ہر مسلمان پر جو فرائض عائد کیے ہیں ‘ وہ کسی انسان کے بس سے باہر نہیں۔ اگر کوئی معاملہ اس کے بس میں نہ ہو تو شریعت میں اس کے لیے چھوٹ موجود ہے ۔ اگر کوئی آدمی بے ہوش ہوجائے تو نماز کا کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ کوئی بیمار ہو جائے تو کھڑے ہو کر پڑھنے کی کوئی ذمہ داری اس پر نہیں ہے ‘ اگر پانی نہ ملے تو تیمم کر کے پڑھے ۔ اگر کوئی پاگل ہے تو اس سے کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ غرض جہاں بھی کوئی کام کسی کے بس میں نہ ہو توشریعت اس کے لیے راستہ کھول دیتی ہے‘ اور جو ممکن ہے‘ اختیار سے باہر نہیں‘ اس کے لیے کوئی عذر قابلِ قبول نہیں۔

ہر آدمی نماز پڑھ سکتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ فجر میں میری آنکھ نہیں کھلتی تو یہ بھی کوئی معقول عذر نہیں۔ ہر آدمی اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر کوئی مجبوری آن پڑے یا  ہوائی جہاز یا ٹرین میں سفر کرنا ہو تو آنکھ ضرور کھل جاتی ہے ۔ اگر کوئی حادثہ پیش آجائے‘ یا بچہ بیمار ہو جائے تو رات بھر آنکھ نہیں لگتی۔ لہٰذا اللہ کے ہاں توکوئی ایسا عذر پیش نہیں کیا جاسکتا جو معقول نہ ہو ۔ اصل بات یہ جان لینا ہے کہ جو کام بھی اللہ نے مجھے کرنے کو کہا ہے‘ یہ بالکل میرے بس میں ہے‘ میرے اختیار میں ہے‘ اور جو کام میرے اختیار میں نہیں ہیں‘ ان کے لیے کوئی مطالبہ بھی نہیں ہے۔

نماز پڑھنا آدمی کے اختیار میں ہے‘ اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کہ تم نے نماز کیوں نہیں پڑھی۔ نماز کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ نماز کے اندر خشوع ہو‘ اور اس کے لیے کوشش کرنا بندے کے اختیار میں ہے۔ لہٰذا وہ یہ پوچھے گا کہ تم نے نماز میںخشوع پیدا کرنے اور اس کو بہتر بنانے کے لیے کیا کوشش کی‘ لیکن نماز میں کتنا خشوع پیدا ہوگایہ بندے کے بس میں نہیں ہے ۔ آدمی کا دل کبھی اس کے اختیار میں ہوتا ہے اور کبھی نہیں ۔ کئی قسم کے خیالات اور وسوسے دل کو غافل کر دیتے ہیں۔ دل پر انسان کو مکمل اختیار نہیں دیا گیا ۔ اپنے آپ کو متوجہ رکھنا تو انسان کے اختیار میں ہے لیکن دل کی کیفیت ایک سی رہے‘ یہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔ لہٰذا جو کام آدمی کے بس میں ہو‘ وہ کام کرنا اس کی ذمہ داری ہے‘ اور وہ اس کا مکلف ہے۔

اسی طرح ایک داعی کی حیثیت سے دوسروں تک بات پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے اور اس کے لیے حتی المقدور کوشش کرنا‘ ذرائع و وسائل اختیار کرنا ہمارا فرض ہے۔ لیکن یہ بات سوچنا کہ اس سب کے باوجود لوگ لازماً ہماری بات مان لیں تو اس کے ہم ذمہ دار نہیں ٹھیرائے گئے۔ البتہ اپنی بیوی بچوں کو نیکی کی تلقین کرنا اورترغیب دینا ‘ اپنے دوستوں کو نیکی کی دعوت دینا ‘یہ تو ہمارے اختیار میں ہے اور اس کے لیے ہم سے پرسش ہوگی‘ مواخذہ ہوگا۔ اس کے بعد اگر کوئی بات نہ مانے اور لوگ نہ سنیں‘ یا سنی ان سنی کردیں تو اس پر کوئی جواب دہی نہیں ہے ۔ اگر کوئی ہماری بات نہ مانے تو اس پر ہمارے اجر میں کوئی کمی نہ ہوگی اور نہ کوئی مواخذہ ہوگا ۔ اصل بات جو ہمارے اختیار اور ہمارے بس میں ہے ‘ وہ ہے کام کرنا‘یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ دوسرا بڑا اہم اصول ہے جو تربیت کے ضمن میں ہمیشہ سامنے رہنا چاہیے ۔

 تربیت‘ عمل سے

تیسرا اصول یہ ہے کہ تربیت عمل سے ہوتی ہے ۔

کوئی کام خواہ کتنا ہی چھوٹا یا معمولی ہو‘ وہ کرنا چاہیے ‘ چاہے تھوڑا ہی کیا جائے۔ اگر ہمارے عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آتی‘ کوئی نیا عمل نہیں شروع کیا‘ کسی پرانے عمل کو بہتر نہیں بنایا‘ کسی برائی کونہیں چھوڑا‘ تو اس سے ایک فرد کی تربیت میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔

عمل خواہ تھوڑا کیا جائے لیکن باقاعدگی سے کیا جائے ‘ یہی تربیت کی بنیادہے ۔ ضروری ہے کہ کچھ وقت نکال کر ہم اپنا جائزہ لیں۔ اپنی پوری زندگی پر ایک نظر ڈالیں۔ آپ ۱۵ سال کے ہوں یا ۶۰ سال کے‘ آپ کے سامنے اپنی پوری زندگی موجود ہے۔

بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌo (القیمۃ ۷۵:۱۴)

انسان خود ہی اپنے آپ کو خوب جانتا ہے۔

یعنی ہر انسان خود اپنے آپ سے بخوبی واقف ہے۔ کسی کو باہر سے وعظ و نصیحت کی ضرورت نہیں ہے۔

پھر یہ دیکھیے کہ اللہ کے حقوق و معاملات اور اللہ کے بندوں کے معاملات میں آپ نے کیا کیا خرابیاں کی ہیں۔ اس کے بعد استغفار کیجیے اور گناہوں سے توبہ کیجیے‘ اور کوشش کرکے   غلط باتوں کو ترک کردیجیے اوراچھی باتوں کو اپنا لیجیے۔

اگر آپ فجر کی نماز مسجد میں جا کر باجماعت اور باقاعدگی سے نہیں پڑھتے تو آپ یہ فیصلہ کریں کہ میں کل سے یہ کام کروں گا۔ ممکن ہے کئی دن ایسے آئیں کہ آپ یہ کام نہ کرسکیں۔ لیکن جس دن نہ کرسکیں ‘ اسی دن پھر استغفار کریں اورنئے سرے سے عزم کریں کہ اب کروں گا۔ اگر سوبار بھی یہ نوبت آجائے تو کوئی پروا نہیں ۔ آپ پیچھے پڑے رہیں کہ مجھے اس کام کو کر کے ہی چھوڑنا ہے‘ تو یہ کام ہوجائے گا۔

نماز میں آپ نیت باندھتے ہیں اور نیت باندھ کر خیالوں ہی خیالوں میں کہیں اور چلے جاتے ہیں اور یہ خیال ہی نہیں آتا کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہوں ‘ اور کس سے بات کررہا ہوں ‘ اور نماز کی صورت میں اللہ نے مجھے جو کچھ عطا کیا ہے وہ کیا ہے۔ حالانکہ اللہ نے آپ کی تربیت کے لیے‘ پانچ وقت کی نماز کی صورت میں‘ ایک ایسا نسخہ آپ کے ہاتھ میں تھما دیا ہے‘ اگر آپ واقعی اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوجائیں اور وہ ساری چیزیں آپ دوبارہ تازہ کرلیں جو آپ نماز میں پڑھتے اور کہتے ہیں‘ تو یہی تربیت کے لیے کافی ہے۔ حدیث میں ہے کہ اگر کسی آدمی کے دروازے پر نہر بہ رہی ہو اور وہ پانچ وقت اس میں غسل کرے تو کیا اس کے جسم پر کوئی میل کچیل باقی رہے گا؟ کیا وہ پاک صاف نہیں ہوجائے گا؟ لیکن ہم جیسے اس نہر میں جاتے ہیں ویسے ہی اس سے واپس آجاتے ہیں۔ وہ ساری گندگیاں جو دل و دماغ کو یا روح اور اخلاق کو آلودہ کیے ہوئے ہیں‘ ویسی کی ویسی ہی واپس آجاتی ہیں۔

نماز اس طرح پڑھیے گویا اللہ تعالیٰ سے بات چیت ہو رہی ہو اور یہ آخری نماز ہو۔ یہ بھی طے کر لیجیے کہ نماز میں جو کچھ پڑھوں گا‘ سمجھ کر پڑھوں گا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور دل میں ترجمہ بھی کرتا رہوں گا۔ اگر آپ اس کی مشق کریں اور عادت ڈالیں کہ جو کلمات عربی میں زبان سے نکلیں‘ دل ہی دل میں اور جی ہی جی میں اس کا ترجمہ کرلیں‘ یعنی زبان سے تو کہیے الحمدللہ    رب العالمین‘ لیکن دل میں کہیے کہ ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ اس سے آپ کی توجہ اِدھر اُدھر نہ بھٹکے گی۔ اس میں بھی شیطان نقب لگائے گا‘ چوری کرے گا‘  ڈاکا ڈالے گا‘ ذہن میں بار بار مختلف خیال لائے گا‘ ہر بھُولی بسری چیز یاد دلائے گا۔ آپ توجہ سے اس مشق اور کوشش میں لگے رہیں گے تو بالآخر کامیاب ہوں گے ۔ خشوع و خضوع کی کیفیت بڑھے گی اور شیطان پسپائی پر مجبور ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر جھوٹ بولا اور وعدہ خلافی کی ہے‘ یا کسی کا حق مارا ہوا ہے‘ تو ان سب کی اصلاح کی کوشش کریں۔ غرض آپ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں‘ اس کا آغاز کردیں‘ اس لیے کہ عمل سے ہی تربیت ہوتی ہے۔

اگر آپ پہلوان بننا چاہتے ہیں تو آپ کو آہستہ آہستہ ورزش کرنا پڑتی ہے ۔ جسم ورزش کا عادی ہوجاتا ہے ۔ ریاضت اورمجاہدہ اسی کا نام ہے ۔ کوئی چیز آپ سیکھنا چاہتے ہیں یا تقریر کرنا چاہتے ہیں تو آپ آہستہ آہستہ بولنا شروع کریں گے تو تقریر کرنا آئے گی۔ اگر آپ لکھنا چاہتے ہیں تو لکھنا شروع کریں گے تو تھوڑا بہت لکھنا آئے گا ۔ اچانک نہیں لکھنا شروع کردیں گے۔ یہی معاملہ ایمان اور روح کی تربیت اور تزکیے کا ہے ۔ آہستہ آہستہ آپ سیکھنا شروع کریں گے‘ عمل شروع کریں گے‘ عادت پڑے گی‘ مشق ہوگی اور اس طرح تربیت ہوتی چلی جائے گی ۔

ماحول سے سیکہنا

تربیت کا ایک ذریعہ اپنے ماحول سے سیکھنا‘ ایک دوسرے سے سیکھنا اور ایک دوسرے کی تربیت کرنا ہے۔ یہ بھی ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے ۔

انسان جس ماحول میں رہتا ہے وہاں بعض باتیں اچھی لگتی ہیں ‘ دل کو بھاتی اور موہ لیتی ہیں اوربعض باتیں ناگوار اور باعث اذیت ۔ ایسے لوگ ملتے ہیں جو اچھے ہوتے ہیں اور ایسے لوگ بھی دیکھنے میں آتے ہیں جو اچھے نہیں ہوتے ۔ ان میں سے کسی سے دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ آپ درگزر کریں اور معافی کارویہ اختیار کریں ۔ کسی کی خرابی دیکھیں‘ اگر ممکن ہو تو اس کو خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ بتا دیں ‘ توجہ دلائیں اور اس کی اصلاح کی کوشش کریں ۔ اس کو پھیلاتے نہ پھریں ۔ کسی ایک فرد کے اندر خرابی دیکھ کر مجموعی رائے نہ بنا لیں اور یہ فتویٰ صادر نہ کردیں کہ یہاں تو سب لوگ ایسے ہی ہیں۔

ہر جگہ ‘ ہر بستی میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور برے بھی ۔ کوئی انسان کسی پہلو سے مثالی نہیں ہوتا۔ انسان خیروشر کا پتلا ہے۔ کسی انسان کی زندگی اس پہلو سے خالی نہیں ہوتی ۔ اگر ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو اس میں اچھائیاں بھی ہیں اور برائیاں بھی۔ ہرانسانی بستی ایسی ہی ہوتی ہے‘ اچھی باتیں بھی ہوتی ہیں اور بری باتیں بھی۔ ہمیں اچھی باتوں سے اثر قبول کرناچاہیے اور بری باتوں کو نظر انداز کردینا چاہیے ۔ جو باتیں آپ کو بری لگتی ہیں کم از کم خود ان کا ارتکاب نہ کریں۔ یہ بھی تربیت کا ذریعہ ہے ۔ آپ دیکھیں گے کہ ماحول اور گرد ونواح میں پائے جانے والے لوگ کس طرح آپ کی تربیت کرتے چلے جاتے ہیں۔

یہ چند بنیادی اصول ہیں اس کے علاوہ مزید دو اہم باتیں تربیت میں اپنی جگہ بہت اہمیت کی حامل ہیں۔

عمل کی بنیاد اخلاص

اعمال تو بہت سارے ہو سکتے ہیں لیکن جتنا آپ کرسکیں‘ اس کو غنیمت سمجھیے۔ اللہ نے جتنی توفیق دی ہے ‘ اس پر اس کا شکر ادا کیجیے۔ آپ کو سب سے بڑھ کر فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ جو عمل بھی کریں‘ صرف اللہ کے لیے ہو۔ اصل میں یہ اخلاص ہی ہے جس سے اعمال میں اللہ کا رنگ پیدا ہوتا ہے‘ وزن پیدا ہوتا ہے اور اعمال کا زندگی پر اثر پڑتا ہے۔

وَمَا اُمِرُوْا اِلاَّ لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَائَ (البینۃ ۹۸:۵)

یعنی اللہ نے جس چیز کا حکم دیا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی بندگی کریں ‘اس کے لیے دین کو خالص کر کے اور اس کے لیے یکسو ہو کر۔

گویا اپنا قبلہ‘ اپنا محبوب اورمطلوب صرف اللہ کو بنایا جائے۔ ہر عمل ا س کے لیے ہو۔ اگر ہم نماز پڑھیں تو اس کے لیے ‘ تجارت یا نوکری کریں تو اس کے لیے‘ اجتماع کریں تو اس کے لیے‘ دعوت کا کام کریں تو صرف اس کے لیے۔ جتنا آپ اس پہلو کو سامنے رکھیں گے‘ اور اس میں اخلاص پیداکریں گے‘ اتنا ہی آپ کے اعمال ‘اللہ کے ہاں وزنی قرار پائیں گے اور قبول ہوں گے‘ اورجتنا آپ اس کے بغیر عمل کریں گے اُسی قدر ہی اعمال بے وزن اور خیروبرکت سے محروم ہوں گے۔ عمل اگر اللہ کے لیے خالص نہیں ہے تو خواہ نماز ہو یا تعلیم قرآن یا انفاق‘ حتیٰ کہ آدمی جان بھی قربان کر دے‘ لیکن یہ اعمال اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوں گے۔ لہٰذا جو اعمال لوگ دکھاوے کے لیے کرتے ہیں وہ قبول نہیں ہوتے۔ اللہ کے ہاں صرف وہی عمل قبول ہوگا جو خالص اُسی کے لیے ہو۔

بظاہر یہ معمولی سی بات ہے کہ ہر کام کو کرتے ہوئے ‘اپنے ذہن میں اس بات کو تازہ کر لیا جائے کہ میں یہ کام اللہ کے لیے کررہاہوں لیکن اس سے اخلاصِ نیت مستحضر ہوجاتا ہے۔ کسی سے نیکی کریں یا احسان‘ کسی کو ہدیہ کریں‘ بیوی کے ساتھ اچھی بات کریں یا بچوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں ‘ ان کی تربیت کریں‘ غرض جو کام بھی کریں اس میں اس پہلو کو‘ اگر پیش نظر رکھیں گے تو وہ آپ کے لیے باعث اجرو ثواب ہوگا۔ حدیث میں آتا ہے کہ آدمی جو لقمہ اپنے منہ میں رکھتا ہے وہ بھی صدقہ ہے اور جو اپنی بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے وہ بھی صدقہ ہے‘ اور آدمی اپنی بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کرتا ہے اس پر بھی اجر ملے گا۔ صحابہؓ کو اس پر تعجب ہوا کہ یہ کیسے ہوگا کہ ایسا دنیاوی کام اور اس پر بھی اجر ملے گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص غلط طریقے سے اپنی جنسی خواہش پوری کرے گا تو کیا اس کو عذاب نہیں ہوگا؟ صحابہؓ نے کہا کہ ہاں ہوگا۔ آپؐ نے فرمایا اور اگر وہ صحیح طریقے سے اس خواہش کی تکمیل کرے توکیا اسے اجر نہیں ملنا چاہیے؟

اس طرح ہم جو بھی کام کریں ‘ اللہ کو خوش کرنے کے لیے کریں تو پوری زندگی عبادت بن جائے گی اور ہر کام نیکی تصور ہوگا ۔ یہ سب خلوص نیت اور اخلاص کا نتیجہ ہوگا۔

حقوق اورمعاملات پر نظر

دوسری بات حقوق العباد سے متعلق ہے ۔

اسلام میںبندوں کے حقوق اوربندوں کے معاملات کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اللہ نے ہر انسان کی جان ‘ اس کا مال اور اس کی عزت‘ تینوں کو حرام قرار دیا ہے۔ ہم میں سے شاید ہی کوئی ہوگا جو کسی کی جان لینا چاہے گا‘ لیکن مال کے معاملے میں لوگ بڑے بے احتیاط ہوتے ہیں۔ کسی کی مرضی کے بغیر اس کا مال لینا‘ حرام ہے ۔ کسی کا حق مار لینا یہ اس سے بھی بڑا حرام کام ہے اوریہ ایسا جرم ہے جس کی کوئی تلافی نہیں ہے‘ الایہ کہ اس کا بدلہ دیا جائے۔ شراب پی‘ تو یہ ایسا گناہ ہے کہ اللہ‘ استغفار سے شاید معاف کردے لیکن اگر کسی کا حق مارلیا‘ کسی کا مال ناجائز طور پر کھا لیا‘ تو جب تک اس کا بدلہ نہ دے دیا جائے‘ اس کو معاف نہ کروائیں ‘ کوئی معافی نہیں ہے ۔ ہم لوگ سور کا گوشت نہیں کھاتے کہ حرام ہے ۔ حالانکہ سور کا گوشت اگر کھالیں تو شاید اللہ تعالیٰ استغفار سے معاف فرمادے۔ اس لیے کہ آپ نے صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچایا ہے اور اللہ کے حکم کی نافرمانی کی ہے۔ لیکن اگر آپ نے کسی کی عزت پر حملہ کیا‘ کسی کی غیبت کی‘ کسی کو گالی دی‘ کسی کا تمسخر اڑایا ‘ کسی کو قتل کر دیا‘ تو یہ اس سے بڑے گناہ ہیں جتنا کہ سور کا گوشت کھانا ۔ یہ وہ حرام کام ہیں کہ جن میں اگر آپ ملوث ہوں ‘ تو جب تک آپ متاثرہ فریق سے معاف نہ کروالیں‘ یا آپ اللہ کو اس قدر محبوب ہوں کہ وہ آپ کی طرف سے کچھ دے دلا کر اس بندے کو راضی کر لے ‘ تو وہ الگ معاملہ ہے ( کیا اتنے نیک ہیں ہم!)ورنہ قاعدہ اور اصول تو یہی ہے کہ یا تو آپ اس کومعاف کروائیں یا پھر قصاص دیں ‘ اس کا بدلہ دیں۔

بندوں کے حقوق اورمعاملات کی جب اس قدر اہمیت ہے توپھر اس کا ناگزیر تقاضا ہے کہ ہم کسی کو ایذا نہ پہنچائیں ‘ تکلیف نہ دیں ۔ بیوی بچے ہوں یا دوست احباب ‘ یا کوئی اور شخص جو ساتھ آکر بیٹھ جائے‘ ہماری کوشش ہو نی چاہیے کہ کسی کو بھی ہم سے تکلیف نہ پہنچے۔ ایک پڑوسی تو وہ ہے جس کا دروازہ ہمارے گھر کے دروازے کے ساتھ ملا ہوا ہے‘ ایک پڑوسی وہ ہے جو ہمارا رشتے دار بھی ہے‘ لیکن ایک پڑوسی وہ ہے جو پہلو میں آکر چند لمحوں کے لیے بیٹھ جائے۔ ہر پڑوسی کا ہم پر حق ہے۔ جو ساتھ بیٹھا ہوا ہے اس کابھی حق ہے‘ جو کمرے میں ساتھ رہتا ہے اس کابھی آپ پر حق ہے ‘ اور ان سب حقوق کا قرآن مجید میں ذکر موجود ہے۔ بیوی بچے بھی پڑوسی ہیں ‘ ایک لحاظ سے ان کا بھی حق ہے ۔ لہٰذا بندوں کے یہ حقوق کہ ہم کسی کو ایذا نہ پہنچائیں‘ کسی کا حق نہ ماریں ‘ کسی کی عزت پر حملہ نہ کریں‘ زبان کو پاک صاف رکھیں‘ بُرے انداز میں کسی کا ذکر نہ کریں‘ کسی کا مذاق نہ اڑائیں ‘کو ئی ایسی بات نہ کریں جس سے کسی کو تکلیف پہنچے‘ دل آزاری ہو‘ جذبات کو ٹھیس پہنچے وغیرہ وغیرہ‘ ہماری خصوصی توجہ چاہتے ہیں۔

یہ دو بڑی اہم باتیں ہیں کہ اللہ کی مرضی و خوشنودی کے لیے کام کرنا ‘ اور بندوں کا حق نہ مارنا اور ان کو تکلیف نہ پہنچانا۔ انھی دو اصولوں کی بنیاد پر آپ عمل کرتے جائیں تو ان شاء اللہ آپ کو اپنی تربیت کے لیے بڑی مدد ملے گی۔

تربیت کے ضمن میں یہ چند بنیادی باتیں ہیں۔ ہم انھیں یاد رکھیں اور یہ اہم ترین اصول ہمیشہ پیش نظر رہے کہ ہر فرد اپنی تربیت کا خود ہی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔ درس قرآن‘ تقاریر‘ تربیت گاہیں‘ دوست احباب‘ مطالعہ لٹریچر‘ گردونواح کا ماحول اور افراد تب ہی معاون و مددگار اور مؤثر ہوں گے جب ہم ارادہ اور عزم مصمم کرلیں کہ ہمیں اپنی تربیت آپ کرنا ہے‘ اور پھر اس کے لیے عمل شروع کردیں خواہ وہ کتنا ہی معمولی ہو لیکن ہو مسلسل۔ یہی تربیت کی بنیاد ہے۔

(کیسٹ سے تدوین : امجد عباسی)

اللہ کی بندگی کی روح یہ ہے کہ ہم صرف اسی کے محتاج اور فقیر بن جائیں۔ محتاجی اور فقر کے سوا انسانی زندگی کی کوئی اور تعبیرممکن نہیں ہے۔ جتنا محتاج‘ جتنا فقیر‘ جتنا بے بس‘ جتنا لاچار اور بے کس انسان ہے‘ اتنی شاید ہی کوئی دوسری مخلوق ہو۔

ایک بچے کے آنکھ کھولتے ہی اگر دو انسان اس کی خبرگیری کے لیے‘ اللہ تعالیٰ نے متعین نہ کر دیے ہوں‘ تو انسان کا بچہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ قدم قدم پر‘ لمحے لمحے پر‘ ہر جگہ انسان‘ کائنات کی قوتوں کے آگے‘ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے۔ اگر زلزلہ آجائے‘ آتش فشاں پھٹ جائے‘ سیلاب آجائے‘ آندھی اور طوفان آجائے‘ وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ جسم کے اندر اگر ایک خلیے کا مزاج بگڑ جائے تو کینسر کا مرض موت کا پروانہ لے کر آجاتا ہے‘ اورکوئی علاج کارگر نہیں ہوتا۔ معمولی زکام بھی ہوجائے تو اس کی دوا ابھی تک انسان کے پاس نہیں ہے۔ وہ اپنے نزلے‘ زکام کا علاج نہیں کر سکتا ہے۔ اگردل دھڑکنا بند ہو جائے تو وہ اس کی دھڑکن دوبارہ واپس نہیں لاسکتا۔ انسانی زندگی کو وہ اگر لوٹانا بھی چاہے تو نہیں لوٹا سکتا۔ اُس کا اِس پر بس نہیں چلتا۔

گویا ہر طرف انسان کی حاجت مندی‘ محتاجی اور فقیری ہے جو اس کی زندگی میں رچی بسی ہے۔ اسی محتاجی اور فقیری کا نتیجہ ہے کہ انسانی زندگی میں سب سے غالب اور نمایاں پہلو اگر کوئی ہے تو وہ یہ کہ وہ اپنے آپ کو نقصان سے بچائے۔ اس وجہ سے جس سے بھی نقصان پہنچتا ہے اور جس سے بھی فائدہ ملنے کی امید ہوتی ہے‘ وہ اس سے نسبت اور تعلق قائم کرلیتا ہے۔ انسانی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہی پہلو غالب نظر آئے گا۔ کہیں وہ کسی غیرمعمولی طاقت اور قوت کے خوف‘ ڈر اور ہیبت سے اس کے آگے جھک جاتا ہے‘ ماتھا ٹیک دیتا ہے اور اس کو خدائی کا درجہ دے کر بندگی کرتا ہے اور پناہ مانگتا ہے۔ وہ اپنی حاجات ‘ ضروریات‘ امیدوں اور تمنائوں کے برآنے کے لیے ہر ایسی ہستی اور قوت کے آگے ہاتھ پھیلا دیتا ہے‘ اُس کے در پہ جھک جاتا ہے‘ سجدے میں گرجاتا ہے‘ گڑگڑاتا اور دعائیں مانگتا ہے جس سے اسے حاجت روائی‘ مشکل کشائی‘ مرادوں کے برآنے اور دعائوں کی قبولیت اور امن و تحفظ کی امید و توقع ہوتی ہے۔ اس سب کے پیچھے بنیادی سوچ یہی ہوتی ہے۔ پوجا و پرستش اور عبادت و بندگی‘ اور محتاجی وفقر‘ اور مذاہب و ادیان کی تشکیل میں بھی یہی فلسفہ و فکر کارفرما ہے۔

بندگی کی روح اور حقیقت

اللہ کی بندگی کی روح اور حقیقت یہ ہے کہ فقر‘ حاجت روی اور محتاجی کا یہ تعلق صرف ایک ذات سے‘ یعنی اللہ سے ہو۔ انسان صرف اُسی کی بندگی کرے نہ کہ کسی اور کی۔ زمین کے زلزلے سے گھبرا کر وہ زمین کی بندگی نہ کرے‘ نہ سورج‘ چاند‘ ستاروں کی پرستش کرے‘ نہ ہوائوں اور بارش کی اور نہ اپنی یا اپنے جیسے کسی انسان کی پوجا کرے‘ بلکہ وہ یہ سمجھے کہ جو کچھ بھی مل سکتا ہے صرف اللہ ہی سے مل سکتا ہے اور سارے اختیارات صرف اُسی کے پاس ہیں۔ ہر چیز اس کے خزانے میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ کسی کے پاس ذرہ برابر بھی اختیار نہیں ہے‘ نہ کچھ دینے کے لیے اور نہ کچھ چھیننے کے لیے۔ زندگی و موت‘ نفع و نقصان اور خیروشر‘ سب اس کے اختیار اور قبضۂ قدرت میں ہے۔جس نے اس بات کو سمجھ لیا اوراس پر یقین کر لیا‘ اور پھر اس پر اپنی زندگی کی تعمیرکی‘ صرف اُسی کی بندگی مکمل ہوگی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہم کو دعا کے انداز میں اپنے ساتھ تعلق رکھنے کی تعلیم دی اور اس تعلیم کو بار بار دہرانے کی بھی ہدایت کی اور حکم دیا کہ یوں کہو: اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo (الفاتحہ ۱:۴) ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘۔ دراصل یہی بندگی کی روح اور بندگی کی معراج ہے۔

سورۃ الفاتحہ کی اس آیت کی تشریح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اَلدُّعَائُ ھُوَ العِبَادَۃُ ،’’مانگنا ہی تو بندگی ہے‘‘۔ آپؐ نے مزید فرمایا: اَلدُّعَائُ مُخُّ العِبَادَۃِ،یعنی مانگنا عبادت کا مغز‘ اس کی روح اور اس کا جوہر ہے۔ لہٰذا جو اللہ کا نام لے‘ اس کا جھنڈا اٹھائے اور طلب کی نسبت اللہ کے علاوہ دوسروں سے بھی رکھے تووہ توحید کے راستے میں نقص‘ کمزوری اور ضعف کا شکار ہے۔ توحید کے مطابق اللہ کی بندگی کامل اس کی ہے جو خوف اور طمع کی نسبت صرف اللہ سے رکھے۔ ڈرے تو صرف اُسی سے ڈرے‘ اور اگر کوئی امید ہو تو صرف اسی سے ہو۔

یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا (السجدہ ۱۶:۳۲)

اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں۔

گویا وہ خوف اور ڈر سے‘ لالچ اور طمع سے اور امید و حاجت روی سے اگر مانگتے ہیں یا پکارتے ہیں تو صرف اپنے رب کو پکارتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے وہ سارے انعامات ہیں جو نہ انسان نے دیکھے‘ نہ سنے اور نہ وہ تصور کرسکتا ہے۔ اسلام میں بندگی ومحتاجی اور فقر کی یہی روح اور حقیقت ہے۔

اللہ کی بندگی کی روح یہی ہے کہ ہم اُس کے آگے ہاتھ پھیلائیں‘ اسی کے در پر بھکاری بن کر جائیں‘ اسی سے مانگیں‘ اور یہ سمجھیں کہ جو کچھ مل سکتا ہے صرف اُسی سے مل سکتا ہے‘ اور اگر کوئی چھین سکتا ہے تو صرف وہی چھین سکتا ہے۔

ایک طویل حدیث قدسی میں جو حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت کی گئی ہے‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: تم سب بھوکے ہو‘ بھوکے رہو گے سوائے اس کے جس کو میں کھانا کھلائوں۔ تم سب بے لباس رہو گے سوائے اس کے جس کو میں کپڑا پہنائوں۔ تم سب گمراہ رہو گے سوائے اس کے جس کو میں ہدایت دوں۔ تم دن رات گناہ کرتے ہو‘ اور مجھ سے معافی مانگتے ہو تو میں معاف کر دیتا ہوں۔پھر فرمایا کہ تم مجھ سے ہدایت مانگو۔

گویا محتاجی صرف دنیا کی چیزوں کے لیے نہیں ہے‘ بلکہ محتاجی ہر چیزکے لیے ہے۔ زندگی کیسے بسر کریں؟ سیاست کیسے ہو؟ معیشت کیسی ہو؟ یہ بھی محتاجی میں شامل ہے۔ یہ سمجھنا کہ یہ رہنمائی کہیں اور سے مل سکتی ہے‘ یہ بھی خلافِ توحید ہے۔ اس لیے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ: تم مجھ سے ہدایت مانگو میں تمھیں ہدایت دوں گا‘مجھ سے کھانا مانگو میں تمھیں کھلائوں گا‘ مجھ سے کپڑا مانگو میں تمھیں پہنائوں گا‘ مجھ سے معافی مانگو میں تمھیں معاف کر دوں گا۔

پھر فرمایا:اس سے میری کوئی غرض نہیں ہے۔ ’’سارے انسان‘ تمھارے پہلے ‘ اور بعد میں آنے والے جِن اور مخلوق سب مل کر انتہائی متقی ہوجائیں تو میری خدائی میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ اور اگر سب کے سب مل کربدترین نافرمان ہوجائیں‘ تب بھی میری خدائی میں کوئی کمی نہیں آئے گی‘ اور سب کے سب کسی میدان میں جمع ہو کے جو مانگنا ہے وہ مانگ لیں‘ جو دل میں آئے مانگ لیں‘ اور میں وہ سب دے دوں تو میرے خزانوں میں اس سے زیادہ کمی نہیں ہوگی کہ سوئی سمندر میں ڈال کر نکال لی جائے (تو اس کے سرے پر جو پانی لگا رہ جاتا ہے‘ اس کے برابر) اے میرے بندو! تم مجھ کو چھوڑ کر کس کے پاس جاتے ہو! (مشکوٰۃ المصابیح‘ باب الاستغفار والتوبہ)

وہ ہمیں بلاتا ہے‘ پکارتا ہے۔ غرض تو ہماری ہے‘ محتاج توہم ہیں وہ توغنی ہے‘ ہم فقیر ہیں۔ اگر اسے خدا کی شان میں گستاخی نہ سمجھا جائے تو وہ ہم کو ایسے پکارتا ہے اوربار بار پکارتا ہے کہ آئو‘ مجھ سے مانگو‘ نعوذ باللہ گویا وہ محتاج اور فقیر ہو اور ہم غنی ہوں اور ہمیں کوئی پروا نہ ہو۔ ہم رات سے صبح‘ صبح سے رات کریں اور بھول کر بھی نہ سوچیں کہ اس سے ملنا ہے‘ اس سے مانگنا ہے۔ مگر وہ ہے کہ جو بار بار پکارتا ہے کہ  آئو اپنے گناہوں کی معافی مانگو‘تاکہ میں تم کو معاف کر دوں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ: جو اللہ سے سوال نہیں کرتا ہے‘ اللہ اس سے ناراض ہو جاتا ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوتا ہے‘ غصہ کرتا ہے جو اس سے سوال نہیں کرتا اور مانگتا نہیں ہے۔ بندگی‘ محتاجی اور فقر یہی توہے کہ اس نے ہم کو پیدا کیا ہے‘وہ ہمارا خالق اور ہم اس کی مخلوق ہیں‘ اور مخلوق ہونے کے ناطے ہم اپنے ارادے سے اس کے در پر جائیں‘ اسی کے بھکاری بن کر جائیں اور اسی سے مانگیں۔

بندے اور رب کا تعلق

اگر آپ غورکریں تو مانگنے میں‘ ایک تو مانگنے والا ہے جو ہم ہیں‘ اور ایک وہ ہے جس سے مانگا جائے۔ ہماری کیفیت یہ ہے کہ ہم فقیر ہیں‘ محتاج ہیں‘ کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتے‘ نہ اپنی آنکھ پر‘ نہ اپنے کان پر اور نہ اپنے جسم پر۔ ہمارا اختیار تو جسم کے اندر ایک چھوٹے سے خلیے پر بھی نہیں۔ اگر اس میں فساد پیدا ہو جائے تو ہم چند دن میں گل سڑ کر مرجاتے ہیں اور کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ ہمیں اپنے جسم پر اتنا بھی اختیار نہیں ہے۔ اس قدر لاچار اور بے بس ہیں ہم۔ مگر آدمی اپنے آپ کو نہ جانے کیا سمجھتا ہے۔

دوسری طرف ایک وہ ہے کہ جس سے مانگا جائے‘ یعنی اللہ رب العزت۔ اس کا حال یہ ہے کہ ہماری کسی نیکی سے‘ دعا سے اس کی خدائی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا لیکن ہم جو مانگیں‘ وہ ہم کو دے دیتا ہے اور اس کے ہاں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ وہ خود پکارتا ہے کہ آئو مجھ سے ہدایت مانگو میں تمھیں ہدایت دوں گا‘ کھانا مانگو‘ کھانا کھلائوں گا‘ پانی مانگو پانی دوں گا‘ شفا مانگو شفا دوں گا ۔ یہی رب سے وہ حقیقی تعلق ہے جس کو توحید کے امام عالی مقام حضرت ابراہیم ؑ نے یوں ادا کیا کہ تمام جھوٹے معبود میرے دشمن ہیں‘ سواے ایک رب العالمین کے:

فَاِنَّھُمْ عَدُوٌّ لِّیْٓ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَo الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَھُوَ یَھْدِیْنِo  وَالَّذِیْ ھُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِo وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَیَشْفِیْنِo وَالَّذِیْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحْیِیِنِo وَالَّذِیْٓ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَلِیْ خَطِیْٓئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِo (الشعرائ۲۶: ۷۷-۸۲)

میرے تو یہ سب دشمن ہیں‘ بجز ایک رب العالمین کے‘ جس نے مجھے پیدا کیا‘ پھر وہی میری رہنمائی فرماتا ہے۔ جو مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے اور جب بیمار ہوجاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ جو مجھے موت دے گا اور پھر دوبارہ مجھ کو زندگی بخشے گا اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ روزِ جزا میں وہ میری خطا معاف فرما دے گا۔

مانگنے والا اور جس سے مانگا جائے‘ ان دونوں کے علاوہ ایک تیسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ کیا مانگا جائے؟ آدمی کیا مانگتا ہے‘ وہ جس کی طلب دل کے اندر ہوتی ہے۔ پیاسا پانی مانگتا ہے‘ بھوکا کھانا مانگتا ہے‘ بے لباس کپڑا مانگتا ہے‘ تو گویا جس کی واقعی حاجت ہوتی ہے‘ واقعی طلب ہوتی ہے‘ اسی کے لیے آدمی ہاتھ پھیلاتا ہے۔ چھوٹا سا کام درپیش ہو تو آدمی ایم این اے وغیرہ کے گھر کے دس چکر لگاتا ہے کہ کسی طرح میرا کام ہوجائے۔ اگر کہیں اس سے اُوپر تعلق پیدا ہوجائے‘ وزیراعظم کے ہاں جانے کا موقع مل جائے‘ تو آدمی بے چین ہو کے دوڑا دوڑا جا کے کام کروائے گا۔

پس جس چیز کی طلب ہوتی ہے ‘ حرص ہوتی ہے‘ اس کے لیے دل کی گہرائیوں سے آواز اٹھتی ہے اور انسان اس کے لیے پکار اٹھتا ہے۔ اگر دل میں طلب‘ حرص و لالچ نہ ہو‘ کوئی پیاس اور بھوک نہ ہو‘ کوئی تڑپ اور بے قراری نہ ہو‘ تو اس کیفیت میں مانگنے پر ملنا مشکل ہے‘ اور دعا کا قبول ہونا بھی مشکل ہے۔

تزکیہ و تربیت کا اہم ذریعہ

دعائوں کے ذریعے اللہ سے اور صرف اللہ سے خوف اور لالچ کا تعلق قائم ہوتا ہے۔ یہ تعلق بندگی اور عبادت کی روح ہے۔

دعاکا ایک اور پیرایہ یہ ہے کہ دعا تعلیم و تربیت اور تزکیے کا ذریعہ ہے۔ ہم منطق چھانٹیں‘ دلائل دیں‘ بڑی لمبی چوڑی تقریر بھی کریں مگر اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کے چار الفاظ میں جو تعلیم دی گئی ہے‘ وہ ہم نہیں سمیٹ سکیں گے۔جو کچھ ] اور جیسا[ ہم کو ہونا چاہیے‘ اس کو دعا بنا کر‘ طلب اور خواہش کی طرح ہماری زبان پر جاری کر دیا گیا ہے۔ گویا جو کچھ ہم مانگ رہے ہیں اس کی طلب‘ اس کا لالچ‘اس کی حرص بھی دل کے اندر ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ دل میں اگر اس چیز کی پیاس نہ ہو‘ یہ معلوم ہی نہ ہو کہ ہم کو کیا چاہیے یا کیا مانگنا ہے؟ تو پھر اس کی قبولیت بھی مشکل ہے۔ لہٰذا دعا کرنا یا مانگنا صرف اتنا ہی نہیں کہ اللہ کے آگے گڑگڑایا جائے اور التجا کی جائے‘ بلکہ جو کچھ ہم مانگ رہے ہیں اور جیسا بننا چاہ رہے ہیں‘ اس کے حصول اور ویسا بننے کی کوشش بھی لازم آجاتی ہے۔ یہی تزکیہ و تربیت کا وہ عمل ہے جو دعا کے مانگنے کے ساتھ فطری انداز میں جاری و ساری ہوجاتا ہے۔ دعا اللہ تعالیٰ سے ہمارا تعلق ہی نہیں جوڑتی‘ بلکہ وہ ہم کو یہ بھی بتاتی ہے کہ ہم کو کیسا بننا چاہیے‘ کیسا ہونا چاہیے اور دل میں خواہش‘ لالچ‘ تڑپ اور طلب کس چیز کی ہونی چاہیے۔

دعائیں قرآن مجید میں بھی مذکور ہیں‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ آپؐ کی دعا ہے۔ ایسے ایسے الفاظ میں‘ایسے ایسے مضامین کی‘ ایسے خوب صورت اور مؤثر پیراے میں دعائوں کی یہ تعلیم دی گئی ہے کہ دل بے اختیار ہوجاتاہے ‘روح وجد میں آجاتی ہے اور بندہ اپنے رب ہی کا بن کے رہ جاتا ہے۔ اگر ہم ان دعائوں کو دیکھیں‘ ان کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ ہم کو کیا مانگنا چاہیے‘ اور کیسا بننا چاہیے اور اللہ سے ہمارا تعلق کیسا ہونا چاہیے۔

دعا اللہ کو یاد کرنے کی بھی ایک بڑی عمدہ‘ نادر اور نفیس صورت ہے۔ قرآن مجید میں  اللہ تعالیٰ ہم سے ہم کلام ہوتا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں: ’’اللہ اکبر، لا الٰہ الا اللہ، سبحان اللہ، الحمدللہ‘‘۔ تو ہم اللہ کو یاد کرتے ہیں‘ لیکن جب ہم اس سے دعا مانگتے ہیں تو ہم صرف اس کو یاد ہی نہیں کرتے‘ بلکہ ہم اس سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ اس سے بات چیت کرتے ہیں۔ اگر کسی کو اللہ سے بات چیت کرنے کا موقع مل جائے تو یہ بہت بڑی نعمت اور بہت بڑی سعادت ہے۔ صبح و شام انسان کو حاجات پیش آتی ہیں‘ ضروریات آن پڑتی ہیں‘ اگر آدمی صبح و شام‘ رات دن‘ ہر موقع پر اللہ سے مانگتا رہے تو پھر یہ کیفیت ہوتی ہے:  اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّ قُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ(ٰاٰل عمرٰن۳:۱۹۱)، ’’جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے‘ ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں‘‘۔ یہ کیفیت ہماری بھی بن سکتی ہے۔

چند مسنون دعائیں

قرآن مجید نے بہت ساری دعائوں کی تعلیم دی ہے۔

سورۃ الفاتحہ خود ایک دعا ہے اور دعا ہی کی صورت میں پورے دین کی تعلیمات کو بیان کر دیا گیا ہے۔

حضرت نوح علیہ السلام‘ اللہ تعالیٰ کے بڑے محبوب نبی اور رسول تھے اور اس کی راہ میں انھوں نے بڑی محنت اور جدوجہد کی ہے۔ ساڑھے نوسو سال تک رات دن‘ کھلے چھپے اپنی قوم کو پکارا‘ مگر سواے انکار اور مایوسی کے‘کچھ ہاتھ نہ آیا۔ ان کی قوم نے مان کر نہ دیا اور ایک نہ سنی بلکہ انھیں جھٹلا دیا۔ اس حالت میں ان کی زبان سے ایک دعا نکلی جوبہت مختصر سی دعا ہے:

اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ o (القمر۵۴:۱۰)

میں مغلوب ہوچکا‘ اب تو ان سے انتقام لے۔

یہ تین الفاظ کی دعا ہے‘ لیکن اس کی پشت پر ساڑھے نو سو سال رات دن کی محنت تھی۔ اس دعا نے زمین و آسمان کو ہلا کر رکھ دیا اور اس طرح قبول ہوئی :

فَفَتَحْنَـآ اَبْوَابَ السَّمَآئِ بِمَآئٍ مُّنْھَمِرٍط وَّفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَآئُ عَلٰٓی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ o (القمر ۵۴:۱۱-۱۲)

تب ہم نے موسلادھار بارش سے آسمان کے دروازے کھول دیے اور زمین کو پھاڑ کر چشموں میں تبدیل کر دیا‘ اور یہ سارا پانی اس کام کو پورا کرنے کے لیے مل گیا جو مقدر ہوچکا تھا۔

بظاہریہ چھوٹی سی دعا تھی۔ لیکن ایک ایسے بندے کے دل و زبان سے نکلی تھی جو رات دن اسی مغلوبیت کے میدان سے گزر رہا تھا۔

حضرت موسٰی علیہ السلام‘ معرکہ فرعون و کلیم میں جب مصائب و مشکلات کے ہاتھوں پریشان ہوئے تو اپنے رب کی طرف لپکے‘ مدد مانگی اور پکار اٹھے:

رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ (القصص ۲۸:۲۴)

پروردگار!جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے میں اُس کا محتاج ہوں۔

اس پکار کے نتیجے میں ان کے لیے بھی راستے کھل گئے‘ پناہ بھی ملی‘ مغفرت بھی ملی‘ دشمن بھی تباہ و برباد ہوا اور مقامِ عبرت بن گیا‘ نیز غلبہ بھی ملا‘ سب کچھ ان کے حصے میں آیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن دعائوں کی تعلیم دی ہے‘ ان دعائوں میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسے تعلق کا جس سے سب کچھ مل سکتا ہے‘ ایک ایک لفظ سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔

یہ دعا‘ عرفات کے میدان کی دعا ہے۔ لیکن کسی وقت بھی مانگی جاسکتی ہے۔ کوئی بھی بندہ رات کی تنہائی میں بھی مانگ سکتا ہے اور دن میں بھی :

اِلٰھِیْ عَبْدُکَ بِبَابِکَ فَقِیْرُکَ بِبَابِکَ مِسْکِیْنُکَ بِبَابِکَ سَائِلُکَ بِبَابِکَ ذَلِیْلُکَ بِبَابِکَ ضَعِیْفُکَ بِبَابِکَ  ضَیْفُکَ بِبَابِکَ  یَارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ٭

میرے معبود‘ تیرا بندہ تیرے در پر ہے‘ تیرا فقیر تیرے در پر ہے‘ تیرا مسکین تیرے در پر ہے‘ تیرا سائل تیرے در پر ہے‘ تیرا ذلیل بندہ تیرے در پر ہے‘ تیرا کمزور و ناتواں بندہ تیرے در پر ہے‘ تیرا مہمان تیرے در پر ہے‘ اے رب العالمین!

اس دعا میں بندگی‘ عجز وانکسار اور خدا سے استعانت و مدد کی کتنی دل کش تصویر پیش کی گئی۔ بندہ پکارتا ہے: اے اللہ، تیرا بندہ تیرے دروازے پر حاضر ہے‘ تیرے در پر بھکاری بن کر کھڑا ہے۔ تیرا محتاج و فقیرہے‘ مسکین و بے بس ہے۔ اے اللہ‘ تیرا بندہ اسی لیے تیرے در پر کھڑا ہے اور تیرا مہمان ہے کہ تونے بلایا ہے۔ بن بلائے بھی نہیں آیا ہے‘ بلایا ہوا آیا ہے۔ میں تیرا بندہ ہوں‘ کمزور اور ضعیف‘ فقیر اور محتاج‘ تیرے در پر سوالی بن کر کھڑا ہوں‘اور تیرے سوا کون ہے جس کے در پر ہم اپنی جھولی پھیلا سکیں۔

اس طرح ایک اور دعا ہے:

اَللّٰھُمَّ اَنْتَ تَسْمَعُ کَلَامِیْ وَتَـرٰی مَکَانِیْ وَتَعْلَمُ سِرِّیْ وَعَلَانِیَتِیْ لَایَخْفٰی عَلَیْکَ شَیْ ئٌ مِّنْ اَمْرِیْ، اَنَا الْبَآئِسُ الْفَقِیْرُ، الْمُسْتَغِیْثُ الْمُسْتَجِیْرُ الْوَجِلُ الْمُشْفِقُ الْمُقِرُّ الْمُعْتَرِفُ بِذَنْبِیْ اِلَیْکَ، اَسْئَلُکَ مَسْئَلَۃَ الْمِسْکِیْنِ وَاَبْتَھِلُ اِلَیْکَ ابْتِھَالَ الْمُذْنِبِ الذَّلِیْلِ، وَاَدْعُوْکَ دُعَائَ الْخَائِفِ الضَّرِیْرِ، دُعَائَ مَنْ خَضَعَتْ لَکَ رَقَبَتُہٗ وَفَاضَتْ لَکَ عَبْرَتُہٗ وَذَلَّ لَکَ جِسْمُہٗ وَرَغِمَ لَکَ اَنْفُہٗ اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْنِیْ بِدُعَآئِکَ شَقِیًّا وَکُنْ بِیْ رَؤُوْفًا رَّحِیْمًا یَاخَیْرَ الْمَسْئُوْلِیْنَ وَیَاخَیْرَ الْمُعْطِیْنَ (کنزالاعمال‘ طبرانی‘ عن ابن عباسؓ، عبدابن جعفرؓ)

میرے اللہ‘ تو میری بات کو سن رہا ہے‘ اور تو میرا مقام اور حالت دیکھ رہا ہے اور میرے چھپے اور کھلے سب کو جانتا ہے‘ تجھ سے میری کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں۔ میں مصیبت زدہ ہوں‘ محتاج ہوں‘ فریادی ہوں‘ پناہ کا طلب گار ہوں‘ ڈرنے والا‘ ہراساں ہوں‘ اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں‘ اعتراف کرتا ہوں میں تجھ سے مانگتا ہوں‘ جیسے بے کس مانگتا ہے اور میں تیرے آگے گڑگڑاتا ہوں جیسے گناہ گار اور ذلیل و خوار گڑگڑاتا ہے‘ اور میں تجھ کو پکارتا ہوں جیسے خوف زدہ‘ آفت رسیدہ پکارتا ہے‘ ایسے شخص کی پکار جس کی گردن تیرے سامنے جھکی ہوئی ہے اور جس کے آنسو تیرے سامنے بہہ رہے ہیں‘ جس کا تن بدن تیرے آگے بچھا ہوا ہے اور جو اپنی ناک تیرے سامنے رگڑ رہاہے‘ اے اللہ! تو ایسا نہ کر کہ تجھ سے مانگوں اور پھر بھی محروم رہوں‘ تو میرے حق میں بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا بن جا‘ اے ان سب سے بہتر جن سے مانگا جائے‘ اے سب دینے والوں سے بہتر۔

دیکھیے‘ ایک ایک لفظ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور بندگی کی تڑپ جھلک رہی ہے۔ پوری زندگی کے گناہوں کا بھی اعتراف ہے‘ اپنی کیفیت بھی ہے‘ جسم بھی جھکا ہوا ہے‘ ناک بھی زمین پہ رکھی ہوئی ہے‘ پیشانی بھی زمین پہ ٹکی ہے‘ آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہیں اور اس حالت میں گڑگڑا رہے ہیں‘ سارے گناہوں کا گنہگار کی طرح اعتراف ہے۔ یہی وہ چیزہے کہ جو اللہ تعالیٰ سے بندگی کا تعلق قائم کرا دیتی ہے۔

اس دعا کے اندر خوف اور محبت کے چشمے‘ دل کے اندر پھوٹتے ہیں۔ خدا کے بارے میں ایک تصور یہ ہے کہ اس نے پیدا کر دیا اور اس کے بعد لاتعلق ہوگیا‘ اب اس کا انسان کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ یوں سمجھیے کہ جیسے شاہجہان نے تاج محل بنایا‘ مر گیا اور ختم ہوگیا۔ ایک دوسرا تصور خدا یہ ہے کہ ہماری زندگی رات دن اس کی مٹھی میں ہے۔ جو سانس آتا ہے اسی کے حکم سے آتا ہے اور جو سانس جاتا ہے وہی لے جاتا ہے‘ اور جو لقمہ منہ میں آتا ہے‘ وہی لا کر ڈالتا ہے اور جو پانی کا گھونٹ پیتے ہیں اُسی کا دیا ہوا پیتے ہیں۔ دعا ایک ایسے ہی زندہ و جاویدہستی اور جیتے جاگتے خدا سے بندے کا براہ راست تعلق جوڑ دیتی ہے۔

اللّٰہ سے قرب کے لیے

اللہ سے محبت اور حلاوتِ ایمان ایک عظیم نعمت ہے۔ ہر ایک کی طلب‘ خواہش اور آرزو ہونی چاہیے کہ اللہ کی محبت پیدا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس محبت کی دعائیں بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہیں اور یہ دعائیں جن الفاظ میں اور جس اسلوب میں ہیں‘ آدمی ان کو سن کر اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکتا ہے۔ ایک مختصر دعا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر کیا کرتے تھے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَالْعَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَّفْسِیْ وَمَالِیْ وَاَھْلِیْ وَمِنَ الْمَائِ الْبَارِدِ (مشکوٰۃ‘ترمذی‘کتاب الدعوات‘ ۵؍۱۸۴)، یااللہ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اس کی محبت جو تجھ سے محبت کرے اور اس عمل کی توفیق مانگتا ہوں جو تیری محبت کا باعث ہے۔ یااللہ! اپنی محبت کو میرے لیے میری جان‘ میرے مال اور میرے اہل وعیال اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ عزیز بنا دے۔

ایک اور دعا جو اس سے بھی زیادہ جامع ہے :

اَللّٰھُمَّ اَجْعَلْ حُبَّک اَحَبَّ الْاَشْیَائِ اِلَیَّ وَاجْعَلْ خَشْیَتَکَ اَخْوَفَ الْاَشْیَائِ عِنْدِیْ وَاقْطَعْ عَنِّیْ حَاجَاتِ الدُّنْیَا بِالشَّوْقِ اِلٰی لِقَائِکَ وَاِذَا اَقْرَرْتَ اَعْیُنَ اَھْلِ الدُّنْیَا مِنْ دُنْیَاھُمْ فَاَقْرِرْعَیْنِیْ بِعِبَادَتِکَ (کنزالعمال‘ عن ابی  بن مالکؒ)

اے اللہ‘ اپنی محبت میرے نزدیک تمام چیزوں سے زیادہ محبوب بنا دے اور اپنے ڈر کو تمام چیزوںکے ڈر سے زیادہ کر دے۔ اور مجھے اپنے ساتھ ملاقات کا ایسا شوق دے کہ میری دنیا کی محتاجیاں ختم ہوجائیں‘ اور جہاں تو نے دنیا والوں کی لذت ان کی دنیا میں رکھی ہے‘ میری لذت اپنی عبادت میں رکھ دے۔

آپؐ نے ذیل کی مختصر دعا کی بھی تعلیم دی ہے:

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ اُحِبُّکَ بِقَلْبِیْ کُلِّہٖ وَاُرْضِیْکَ بِجَھْدِیْ کُلِّہٖ

اے اللہ‘ مجھے ایسا بنا دے کہ میں اپنے سارے دل کے ساتھ تجھ سے محبت کروں اور اپنی پوری کوشش تجھے راضی کرنے میںلگا دوں۔

کیسا والہانہ انداز محبت ہے! بندہ دل کی گہرائیوں سے اظہارِ تمنا کر رہا ہے کہ مجھے ایسا بنا دے کہ پورے دل کے ساتھ تجھ سے محبت کروں‘ دل کے اندر کوئی خانہ خالی نہ رہے اور تجھ سے ٹوٹ کے بے پناہ محبت کروں‘ نیز میری جدوجہد اور ساری کوشش اسی لیے ہو کہ تجھ کو راضی کر لوں۔

اس کے بعد پھر خوف کی بھی تعلیم دی:

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ اَخْشَاکَ کَاَنِّیْ اَرَاکَ یَوْمَ اَلْقَاکَ وَاَسْعِدْنِیْ بِتَقْوَاکَ

اے اللہ‘ مجھے ایسا بنا دے کہ میں تجھ سے اس طرح ڈروں گویا میں تجھے تیرے ساتھ ملاقات کے وقت دیکھ رہا ہوں اور مجھے اپنے تقویٰ سے سعادت بخش۔

دیکھیے کہ اس چھوٹی سی دعا کے اندر وہ ساری چیزیں آگئی ہیں جو ہم کو یہ بتاتی ہیں کہ کن چیزوں کی پیاس ہو‘ کن چیزوں کی طلب ہو‘کیا چیزیں مانگیں‘ کیسا بننا چاہیے۔ یہ صرف دعائیں نہیں ہیں‘ بلکہ بڑی قیمتی تعلیمات ہیںجو ان دعائوں کے اندر سمیٹ کے بیان کر دی گئی ہیں۔

ایک اور طویل دعا کا مختصر حصہ ہے:

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ ذَکَّارًا لَکَ شَکَّارًا لَکَ رَھَّابًا لَکَ مِطْوَاعًا لَکَ مُطِیْعًا اِلَیْکَ مُخْبِتًا اِلَیْکَ اَوَّاھًا مُّنِیْبًا (ترمذی‘ عن ابن عباسؓ)

میرے رب‘ مجھے ایسا بنا دے کہ میں تجھے بہت یاد کروں‘ تیرا بہت شکر کروں‘ تجھ سے بہت ڈرا کروں‘ تیری بہت فرماں برداری کیا کروں‘ تیرا بہت مطیع رہوں‘ تیرے آگے جھکا رہوں‘ اور آہ آہ کرتا ہوا تیری ہی طرف لوٹ آیا کروں۔

یہ ایک بڑی خوب صورت اور بڑی جامع دعا ہے۔ اس میں ایک ایک چیز بڑی ترتیب سے آئی ہے ‘اور ایک ایک چیز دین کی بہت ہی قیمتی بنیادوں میں سے ہے۔ ذَکَّار اور شَکَّار ‘ یہ فَعَّالٌ کے ہم وزن عربی زبان کے الفاظ ہیںجن کا مفہوم ہوتا ہے بہت زیادہ یا کثرت کے ساتھ کرنے والا۔ ذَکَّارًا، یعنی مجھے ایسا کر دے کہ بہت زیادہ تجھے یاد کرنے والا بنوں۔ لَکَ شَکَّارًا، اور تیرا بہت زیادہ شکر کرنے والا بنوں۔ ان دونوں کا آپس میں باہمی تعلق بھی ہے۔ اس لیے کہ جو آدمی شکر کرے گا وہی اللہ کو یاد کرے گا۔ جب آدمی کثرت کے ساتھ شکر کرے گا تو وہ خدا کی ایک ایک نعمت کے لیے شکر ادا کرے گا۔ وہ اپنے ایک ایک عضو کے لیے شکر ادا کرے گا‘ زبان کے لیے‘ آنکھ کے لیے‘ کان کے لیے‘ اس دل کے لیے جو دھڑکتا ہے‘ حتیٰ کہ ہرآنے جانے والی سانس کے لیے جو اس کے حکم سے آتی اور جاتی ہے۔ غرض زمین و آسمان کی بے شمار نعمتوں کے لیے وہ ہر دم شکرگزار ہوگا۔ اس طرح کون سا لمحہ ہوگا جو اللہ کے ذکر سے خالی رہ جائے گا۔

جہاں شکر کا ذکر ہے وہاں خوف کا بھی ذکر ہے۔خوف کا بھی ذکر کسی انتقام کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ ہمیں جو اتنی نعمتیں ملی ہیں‘ یہ کہیں چھن نہ جائیں۔ اگر ہم اتنے نااہل و ناکارہ ہوئے کہ یہ نعمتیں چھن جائیں تو اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی۔ بچہ باپ سے کس لیے ڈرتا ہے؟ نفرت کی وجہ سے یا ڈنڈے کی وجہ سے نہیں‘ بلکہ محبت کی وجہ سے ڈرتا ہے کہ اگر یہ محبت مجھ سے چھن گئی تو کیا ہوگا؟

یہاں مِطْوَاعًا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مطیع نہیں کہا گیا۔ مطیع کے معنی ہیں حکم ماننے والا‘ جب کہ مِطْوَاعًا کے معنی ہیں جو اپنی مرضی سے اپنے مالک کو خوش کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ اس سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کو یاد کرے‘ اللہ کا شکر کرے‘ اسے اللہ کا خوف لاحق ہو‘ اس کے بعد جہاں اسے رب کو راضی کرنے کا موقع مل جائے تو اس طرح نہیں کہ ڈیوٹی سمجھ کے انجام دے یا جیسے کوئی بوجھ اتار دیا‘ بلکہ جو اپنی مرضی سے‘ اپنی خواہش سے‘ اپنی طلب سے اللہ کی اطاعت کرے۔ پھر فرمایا: لَکَ مُطِیْعًا اِلَیْکَ مُخْبِتًا ،’’تیرا بہت مطیع رہوں‘ تیرے آگے جھکا رہوں‘‘۔

اب آخری بات آپ دیکھیے: اِلَیْکَ اَوَّاھًا مُنِیْبًا۔، ’’اور آہ آہ کرتا ہوا تیری ہی طرف لوٹ آیا کروں‘‘۔ اُردو میں ایک لفظ آہ ہے۔ آپ کہتے ہیں آہ کرنا۔ تو اَوَّاہَ کا لفظ بھی عربی زبان میں آہ سے نکلا ہے۔ آہ کا لفظ بھی عربی زبان کا ہے۔ اَوَّاہَ کے معنی ہیں جو بہت ہائے ہائے کرنے والا ہو‘ بہت آہ آہ کرنے والا ہو‘ گناہوں پر رونے والا ہو۔ لہٰذا فرمایا گیا:  اَوَّاھًا مُنِیْبًا، ’’میں ہائے ہائے کرکے‘ ہمیشہ تیرے ہی در پہ لوٹ آئوں۔ اب یہ چھوٹے چھوٹے الفاظ ہیں‘ چھوٹے چھوٹے جملے ہیں۔ جو آدمی رات دن مانگے اور سوچ سمجھ کر مانگے تو پھر ویسا ہی بنتا بھی جائے گا۔ اس کی کوشش ہوگی کہ کچھ نہ کچھ تو اپنے آپ کو ویسا ہی بنائے جیسا کہ اس دعا کے اندر بیان ہوا ہے۔

توبہ و استغفار کے لیے

دعا کا ایک اہم موضوع توبہ‘ یعنی اللہ کی طرف پلٹنا اور استغفار بھی ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم گناہ کرتے ہیں‘ اورمعافی مانگتے ہیں‘ پھر گناہ کرتے ہیں اور معافی مانگتے ہیں۔ لیکن پھر دنیا ہمیں گھیرلیتی ہے‘ ہم بہک جاتے اور پھسل جاتے ہیں۔ نگاہ بھی پھسلتی ہے‘ ہاتھ بھی غلط کاری میں ملوث ہوجاتے ہیں‘ حرام بھی کما لیتے ہیں اور جیب میں رکھ لیتے ہیں۔ گویا گناہوں سے مفر نہیں ہے۔ گناہوں سے مفر اس لیے نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا ہی اس لیے کی ہے کہ وہ گناہ کرنے کے لیے آزاد ہو۔ اسے گناہ کرنے یا نہ کرنے کا اختیار حاصل ہو‘ اور جو آزاد ہوگا‘ جسے اختیار حاصل ہوگا ‘وہ گناہ ضرور کرے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے توبہ و استغفار کا دروازہ کھول رکھا ہے‘ اس نے استغفار کے لیے دعوت دی ہے‘ وہ تو پکارتا ہے:

یَدْعُوْکُمْ لِیَغْفِرَلَکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ وَیُؤَخِّرَکُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّیط

وہ تمھیں بلا رہا ہے تاکہ تمھارے قصورمعاف کرے اور تم کو ایک مدتِ مقرر تک مہلت دے۔ (ابراھیم ۱۴:۱۰)

انبیا علیہم السلام کو اسی لیے بھیجا گیا کہ لوگوں کے لیے گناہوں کی بخشش کا دروازہ کھل جائے۔حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس لوگوں کو رب کی بندگی کی دعوت دی تو یہ بھی فرمایا: فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ، یعنی میں نے تو قوم سے یہی کہا کہ اپنے گناہوں کی معافی مانگو‘ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو۔ وہ بخشنے والا ہے۔

ایک شخص مسجد نبویؐ میں آیا اور کہنے لگا: ہائے میرے گناہ‘ ہائے میرے گناہ‘ ہائے میرے گناہ۔ وہ اپنے گناہوں کے سبب رو رہا تھا‘ دھاڑ رہا تھا‘ چیخ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا‘ بیٹھ جائو اور یہ کہو: اَللّٰھُمَّ اِنَّ مَغْفِرَتَکَ اَوْسَعُ مِنْ ذَنُوْبِیْ وَرَحَمَتَکَ اَرْجٰی عِنْدِیْ مِنْ اَمْرِیْ، ’’اے اللہ تیری مغفرت میرے گناہوں سے بہت زیادہ وسیع ہے اور اپنے معاملے میں بہت زیادہ امیدوار ہوں‘‘۔ اس کے بعد آپؐ نے اس شخص کے لیے دعاے مغفرت بھی کی۔ پھر آپؐ نے فرمایا: عُدْ، یعنی ایک دفعہ اور کہو۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: جائو تمھارے گناہ بخش دیے گئے۔

سَیِّد الاسْتِغْفَار

آپؐ نے سیدالاستغفار کی بھی تعلیم دی ہے اور فرمایا کہ یہ سارے استغفاروں کا سردار ہے۔ حضرت شداد بن اوسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص استغفار کو صبح و شام پڑھے اور اس کے معنی و مفہوم کو سمجھ کر اس پر پورا یقین رکھے‘ اگر اُس کا اُسی دن شام سے پہلے یا اُسی رات صبح سے پہلے انتقال ہوجائے تو وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔

اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَاَنَا عَبْدُکَ،  وَاَنَا عَلٰی عَھْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ، اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ ، اَبُوْئُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلیَّ وَاَبُوْئُ بِذَنْبِیْ، فَاغْفِرْلِیْ فَاِنَّہٗ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّآ اَنْتَ (بخاری‘ کتاب الدعوات)

اے اللہ ! تو میرا پروردگار ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں‘ تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں‘ اور جتنی مجھ میں استطاعت ہے میں تیرے عہدوپیمان (اقرارِ اطاعت) پر قائم ہوں‘ اور جو کچھ بھی میں نے کیا‘ اس کے برے انجام سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ جن نعمتوں سے تو نے مجھے نوازا ہے‘ ان کا اعتراف کرتا ہوں۔ اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں تو مجھے بخش دے کہ تیرے سوا گناہوں کو کوئی نہیں بخش سکتا۔

امام ابن قیمؒ اپنی کتاب کتاب الاذکار میں ‘ جو ذکر پر بہت ہی جامع کتاب ہے لکھتے ہیں کہ ایک بدو آیا۔ اس نے خانہ کعبہ کا پردہ پکڑا اور اللہ تعالیٰ سے دعا شروع کی کہ ’’اے اللہ! تو نے استغفار کا جو وعدہ کیا ہے‘ اور تیرا جو کرم ہے‘ اس کے بعد بھی میں گناہوں پر اصرار کرتا رہوں تو یہ میرا کمینہ پن ہے‘‘۔ جب اللہ تعالیٰ نے استغفار کا دروازہ کھول دیا ہو اور اس کے بعد بھی بندہ اگر اپنے گناہوں پر اصرار کرے تو وہ بہت کمینہ بندہ ہے ۔ آگے چل کر وہ کہتا ہے‘ عجیب بات ہے‘ تُو تو مجھ سے بے نیاز ہے‘ اس کے باوجود تو بار بار نعمتیں دے کر اپنی محبت کا اظہار کرتاہے‘ اور میں تیرا محتاج ہوں اور میں تجھ سے بھاگ بھاگ کے گناہ کرتا رہتا ہوں۔ اَدْخِلْ عَظِیْمَ جَرْمِیْ اَدْخِلْ عَظِیْمَ عَفْوِکَ، اے اللہ تُومیرے عظیم جرائم کو اس سے زیادہ عظیم عفو کے اندر داخل کردے۔

یہ استغفار ہیں۔ ان کی حضورؐ نے تعلیم دی ہے۔ محبت مانگنے کی تعلیم دی ہے‘ بلکہ دنیا کی چھوٹی بڑی ہر چیز کو اُسی سے مانگنے کی تعلیم دی ہے۔

قبولیت دعا: چند تقاضے

دعائوں کا ایک نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہے جتنا بھی چاہیں اس کو پھیلا لیں۔ ایک ایک دعا کو‘ اس کے الفاظ کو آپ دیکھیں‘ ان میں جن چیزوں کو مانگا گیا ہے اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ بندے کو کیا ہونا چاہیے‘ کیسا بننا چاہیے۔ اس کے لیے کوئی لمبی چوڑی تقریر نہیں کی گئی‘ کوئی لمبی چوڑی کتاب نہیں لکھی گئی‘ بلکہ چند مختصرجملوں میں دعا کے انداز میں اس کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس کی ایک خوب صورت مثال: اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ہے۔ چار الفاظ کے ایک مختصر جملے میں بندگی کی پوری تعلیم دعا کے انداز میں دے دی گئی ہے۔ دعا آدمی کو یاد ہوجاتی ہے اور وہ مانگتا رہتا ہے‘ اُس کے ذریعے طلب کرتا رہتا ہے‘ سیکھتا رہتا ہے‘ ویسا بنتا رہتا ہے‘ اس طرح سے عبد‘ یعنی اس کا حقیقی و سچا بندہ بنتا چلا جاتا ہے۔ یہ ساری دعائیں دراصل حرص بھی ہیں‘ طلب بھی ہیں اور یہ ہماری تعلیم و تربیت اور تزکیے کا ذریعہ ہیں۔

یہ وہ صفات ہیں جو دین میں مطلوب ہیں۔ اللہ کی خشیت‘ اللہ کی محبت‘ اللہ سے اپنے گناہوں پر استغفار‘ اللہ پر بھروسا کہ جو کچھ ملنا ہے اسی سے ملنا ہے‘ جو کچھ چھن جانے والا ہے وہی چھیننے والا ہے۔ جب یہ سوچ اور یہ کردار ہوگا تو دنیا میں بھی سب کچھ ملے گا‘ آخرت میں بھی جنت ملے گی اور دنیا کے اندر غلبہ بھی حاصل ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: یَعْبُدُوْانَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا  صرف میری ہی بندگی کریں اور ذرہ برابر بھی کسی کو میرے ساتھ شریک نہ کریں۔ اللہ نے زمین میں اپنی خلافت کا‘ زمین میں غلبے کا وعدہ انھی سے کیا ہے جنھوں نے بندگی کی نسبت اس کے ساتھ قائم کرلی‘ جو اس کے محتاج بن گئے‘ اس کے فقیر بن گئے اور صرف اسی کے دَر پر آکر کھڑے ہوگئے اور یہ سمجھ لیا کہ جو کچھ ملے گا صرف اللہ ہی سے ملے گا۔

اصل چیز دل ہے۔ دل کے اندر اگر یہ ساری چیزیں جمع ہوجائیں تو زندگی سدھر جائے گی‘ نہ ہوں تو نہیں سدھرے گی۔دل کا معاملہ بھی اس نے اپنے ساتھ متعلق کرلیا ہے۔ حضوؐر کی ایک بہت پیاری دعا ہے۔میں اپنی دعا کا آغاز اکثر اسی دعا سے کرتا ہوں:

اَللّٰھُمَّ اِنَّ قُلُوْبَنَا وَنَوَاصِیَنَا وَجَوَارِحَنَا بِیَدِکَ وَلَمْ تُمَلِّکْنَا مِنْھَا شَیْئًا فَاِذَا فَعَلْتَ ذٰلِکَ بِنَافَکُنْ اَنْتَ وَلِیَّنَا وَاھْدِنَا اِلٰی سَوَآئِ السَّبِیْلِ - (ترمذی‘ عن ابی ہریرہ)

اے اللہ! ہمارے دل بھی تیرے ہاتھ میں ہیں‘ اعضا اور جوارح بھی تیرے ہاتھ میں ہیں۔ پوری شخصیت بھی تیرے ہاتھ میں ہے۔ تو نے ہمیں کسی چیز پر ذرہ برابر بھی اختیار نہیں دیا ہے۔ جب تو نے ہمارے ساتھ یہ معاملہ کیا تو تو ہی ہمارا ولی بن جا‘ دوست بن جا‘ ہمارا رفیق بن جا‘ ہمارا مددگار بن جا۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔

دیکھیے‘ کس طرح دل کا معاملہ بھی اللہ کے سپرد کر دیا گیا!

دعا کے لیے زبان کی کوئی قید نہیں۔ دعا مانگنے کا‘ اگر ذوق و شوق ہو‘ توجہ و یکسوئی اور پورے یقین کے ساتھ دعا مانگی جائے خواہ اُردو میں ہو یا پنجابی میں‘ خواہ پشتو میں ہو یا کسی بھی زبان میں‘ دل کی یہ پکار‘ زبان پہ آئے یہ کلمے بارگاہِ الٰہی تک پہنچتے ہیں اور اپنا اثر رکھتے ہیں۔  شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ‘ بندگی کا‘ حاجت کا‘ فقر کا تعلق قائم ہونا چاہیے۔ یہ یقین ہونا چاہیے کہ وہ بے نیاز ہے‘ ہم فقیر ومحتاج ہیں‘ اس کے در کے بھکاری ہیں۔ جو کچھ بھی چاہیے‘ خواہ جوتے کا تسمہ ہی ہو‘ اسی سے مانگنا چاہیے۔ ہدایت و غلبہ بھی اُسی سے مانگنا ہے۔ فتح و نصرت بھی اسی سے ملنا ہے۔ یہ وہ چیزہے جو اللہ کی یاد کو‘ اللہ کے ساتھ تعلق کو دل کے اندر راسخ کر دیتی ہے۔ ہم دعوت یا اپنے ذاتی یا دنیاوی کام کے لیے نکلیں‘ گھر سے نکلیں‘ کھانے کے لیے بیٹھیں اٹھیں۔ ہر موقع پر اللہ کو یاد کریں اور صرف اسی سے مانگیں۔ جیسے جیسے یہ اخلاص پیدا ہوتا جائے گا کہ جو کچھ ملے گا اللہ ہی سے ملے گا کہیں اور سے کچھ نہیں ملے گا‘ نہ بندوں سے ملے گا‘ نہ اپنی کوششوں سے اور نہ عوامی تائید سے ‘ بلکہ جو کچھ بھی ملے گا وہ اللہ ہی سے ملے گا۔ جتنا زیادہ اخلاص پیدا ہوگا اتنا ہی اور ملے گا۔ جتنی نسبتیں دوسروں سے قائم ہوں گی‘ اتنا ہی کم ملے گا اور اتنی ہی مایوسیاں ہوں گی۔ اللہ ہی سے ملنے کا‘ اللہ ہی سے پانے کا‘ اللہ ہی سے طلب کرنے کا یہ انداز‘ دعا ہمیں سکھاتی ہے۔

دعا عبادت کا مغز ہے‘ خدا کی بندگی ہے‘ اور یہی روحِ عبادت ہے۔ اسی لیے قرآن یَدْعُوْنَ وَیَعْبُدُوْنَ ان دونوں الفاظ کو بدل بدل کے ایک دوسرے کی جگہ استعمال کرتا ہے اور آخر میں کہتا ہے: اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط (المومن ۴۰:۶۰)‘ مجھ سے مانگو‘ مجھے پکارو‘ میں تمھیں دوں گا اور تمھاری پکار کو قبول کروں گا۔ مزید فرمایا: اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادِتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِیْنَo (۴۰: ۶۰) ’’جو لوگ گھمنڈ میںآکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں‘ ضرور وہ ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘۔ اب یہاں فوراً اسی آیت کے اندر دعا کی جگہ عبادت کا لفظ آگیا کہ جو لوگ میری عبادت سے اپنے آپ کو بالاتر سمجھتے ہیں وہی تکبر کرنے والے ہیں اور جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔ یہاں دعا کے لفظ کو عبادت کے لفظ سے بدل دیا گیا‘ یہ بتانے کے لیے کہ اصل میں یہ دونوں ایک ہی ہیں‘ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

حدیث کی ہر کتاب میں دعا کا ایک باب ہوتا ہے۔دعائوں کی بے شمار کتابیں ملتی ہیں۔ چھوٹے بڑے بہت سے مجموعے دیکھنے میں آتے ہیں۔ امام نووی کی کتاب الاذکار ہے۔ اس کا اردو ترجمہ بھی ملتا ہے‘ عربی زبان میں بھی دستیاب ہے۔ حصن حصین کے نام سے دعا کی مشہور کتاب ہے۔ اس میں سات منازل کے اندر اذکار اور دعائیں جمع کر دی گئی ہیں۔ یہ بھی بآسانی دستیاب ہے۔ اسی طرح امام نسائی کی کتاب ہے جس میں رات دن کی ساری دعائیں جمع کر دی گئی ہیں۔ اس کا اردو ترجمہ بھی بازار میں ملتا ہے اور عربی میں بھی موجود ہے۔ چھوٹے چھوٹے مجموعے تو بے شمار ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ کی مناجات مقبولبہت ہی عمدہ کتاب ہے۔ اس میں بیش تر مسنون دعائیں اور ان کا ترجمہ بھی بہت اچھا ہے۔ شیخ حسن البنا کی ماثورات مسنون اذکار اور دعائوں کا بہت عمدہ مجموعہ ہے۔ ابن تیمیہؒ کی الکلمۃ الطیّبمیں بھی عمدہ دعائیں ہیں۔ یہ بھی ایک مختصر‘ مگر عمدہ مجموعۂ دعا ہے۔ حدیث کی ہر کتاب میں اور مشکٰوۃ میں بھی دعائوں کا الگ باب ہے۔ اگر شوق اور طلب ہو تو ان کا مطالعہ مفید رہے گا۔

ان گزارشات کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ بغیر اللہ سے مانگے‘ اللہ کا محتاج بنے‘ اللہ کے دربار میں فقیر بنے کچھ بھی حصے میں نہیں آئے گا۔ اسی کے نتیجے میں خدا کا قرب حاصل ہوگا‘ حاجات پوری ہوں گی‘ خدا کی رضا اور خوشنودی‘ جنت کا حصول ممکن ہوگا۔ دنیا میں بھی سب کچھ ملے گا اور آخرت میں بھی۔ نیز زمین پر غلبے اور خلافت کا وعدہ بھی اسی تعلق کے نتیجے میں پورا ہوگا۔ (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)


کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۵ روپے۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور

ترجمہ:  قاضی محمد اقبال /مسلم سجاد

(آخری قسط)

تبدیلی مذہب کی ذمہ داری

کسی نبی کا کبھی یہ مقصد نہیں رہا کہ وہ دوسروں کو جبر کے ذریعے اپنے ساتھ لائے۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ وہی اور صرف وہی حق پر ہیں‘ پھر بھی انھوں نے اپنے مخاطبین کو کبھی اپنا پیغام قبول کرنے پر مجبور کرنے کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ ان کی ذمہ داری ابلاغ تھی‘ پیغام پھیلانا‘ بات پہنچانا۔ ابلاغ کے مفہوم میں بات کرنا‘مکالمہ‘ آزادیِ تقریر اور آزادیِ انتخاب شامل ہے۔ قرآن‘ انبیا اور ان کے مخاطبین کے مکالموں سے بھرا پڑا ہے۔ ہدایت کے راستے کا انتخاب یا گمراہ رہنا‘ رسول کے دائرہ اختیار سے باہر‘ انسان اور اس کے خداکے درمیان ایک انفرادی معاملہ تھا۔ آنحضرتؐ کو اکثر بتایا گیا: ’’(اے نبیؐ) نصیحت کیے جائو۔ تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہو‘ کچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو‘‘(الغاشیہ ۸۸:۲۱-۲۲)۔ اے نبیؐ، ’’تم جسے چاہو ہدایت نہیں دے سکتے‘ مگر اللہ جسے چاہتا ہے‘ہدایت دیتا ہے اور وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت پانے والے ہیں‘‘ (القصص ۲۸:۵۶)۔ ہدایت کے راستے پر لے آنا یا فیصلہ کرنا رسول کی ذمہ داری نہیں ہے۔ نجات‘ مغفرت و بخشش یا سزا کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے آخری فیصلے میں رسول کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ’’فیصلے کے اختیارات میں تمھارا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اللہ کواختیار ہے‘ چاہے انھیں معاف کرے‘ چاہے سزا دے کیونکہ وہ ظالم ہیں‘‘۔ (اٰل عمرٰن ۳:۱۲۸)

اسلام میں نبوت کے چند اہم پہلوئوں کا یہ انتہائی مختصر جائزہ کسی معاشرے میں مختلف بلکہ متضاد سچائیوں کے دعوئوں کے باوجود مل جل کر رہنے کے لیے‘ وسیع مضمرات کی نشان دہی کرتا ہے۔

تمام بڑے مذاہب کا الہامی سرچشمہ ایک ہی ہے۔ بعض اختلافات جو بنیادی طور پر اتنے اہم نہیں ہیں اصلی الہامات کا حصہ تھے‘ بعض مختلف تہذیبوں اور انسانی فکر کے دھاروں سے ان کے باہمی تعامل سے وجود میں آئے۔ اختلافات کا یہ دوسرا دائرہ مذاہب کو سختی سے ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ پھر بھی ان میں بہت سی بنیادی صداقتیں مشترک ہیں۔کوئی ایک طرف یہودیت‘ عیسائیت اور اسلام کے مابین اختلافات اور دوسری طرف ہندومت اور بدھ مت کے مابین اختلافات کی طرف اشارہ کرسکتا ہے جن کی میرے خیال میں بالترتیب پیغمبرانہ اور صوفیانہ حیثیتوں سے غلط طور پر درجہ بندی کی گئی ہے۔ لیکن اگر آج یہ سوالات کھڑے ہوئے ہیں کہ کیا حضرت عیسٰی علیہ السلام اپنے آپ کو وہی کچھ سمجھتے تھے اوروہی کچھ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے جو بعد کی نسلوں نے انھیں سمجھا‘ تو کیا یہی سوالات رام‘ کرشن اور بدھا کے بارے میں نہیں کھڑے ہوسکتے؟

یہ ایک اہم نکتہ ہے کہ اسلام نظریۂ نبوت کو صرف انھی تک محدود نہیں کرتا جن کا قرآن میں تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس اصول کے بیان کے بعد کہ انبیا ؑہرقوم کی طرف مبعوث کیے گئے‘ آگے چل کر کہا گیا ہے: ’’اے نبی، تم سے پہلے ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے حالات ہم نے تم کو بتائے ہیں اور بعض کے نہیں بتائے‘‘۔ (المومن ۴۰:۷۸)

یہ بات کہ مسلمانوں نے اس اصول کو ان مذہبوں پر خوشی خوشی منطبق کیا جن سے انھیں واسطہ پڑا ہے‘ یعنی زرتشتی اور ہندو مذاہب‘ اس کے مذہبی اور معاشرتی مضمرات ہیں‘ انھیں آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

یہ نظریہ کہ تمام دوسرے مذاہب اپنے موجودہ پیروکاروں کے خیال کے مطابق اپنے صحیح اور اصل راستے سے دور ہوچکے ہیں‘ کسی بین المذہبی رشتے اور اسلام کے مکمل سچائی کا حامل ہونے کے دعویٰ میں ایک بڑی رکاوٹ دکھائی دے سکتا ہے۔ لیکن پہلی بات تو یہ ہے کہ میرے خیال میں بعد کی نسلوں کے اسلام کے وژن کے بارے میں اسلام بھی وہی بات کہے گا‘ یعنی یہ کہ یہ اصل حقیقی اسلام سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اگر اسلام دوسرے عقائد کے پیروکاروں کو ایسی زندگی بسر کرتے دیکھتا ہے جو ان کی بانیوں کی تعلیمات کے خلاف ہیں تو وہ یہی بات مسلمانوں کی غالب اکثریت کے بارے میں بھی کہے گا۔ دوسرے یہ کہ شاید کوئی عقیدہ مضبوط‘ مؤثر اور زندہ نہیں رہ سکتا اگر اسے اس خود اعتمادی سے محروم کر دیا جائے کہ صرف وہی مکمل سچائی کا حامل ہے۔

اسلام دوسرے مذاہب کے نظام عقائد سے کلی طور پر متفق نہیں ہے تب بھی وہ غیرمبہم طور پر تسلیم کرتا ہے کہ ’’وہ سب اللہ کا نام لیتے ہیں‘‘۔ اس طرح عبادت کے تمام مقامات صاف طور پر اللہ کی عبادت کے مقامات تسلیم کیے گئے ہیں۔ ’’اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں‘ جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے‘ سب مسمار کر ڈالی جائیں‘‘۔ (الحج ۲۲:۴۰)

کیا اسلامی نظریۂ نبوت کتابوں میں ایک عقیدے اور تصور ہی کی حیثیت سے محفوظ رہا یا مثبت رویوں اور اعمال سے اس کا اظہار بھی ہوا؟ اس میں سے کچھ رویوں کا قرآن پاک میں تذکرہ کیا گیا ہے‘ مثلاًیہ کہ ایک مسلمان مسلمان نہیں رہے گا اگر وہ پہلے تمام انبیاؑ پر ایمان نہ لائے---اسی طرح قرآن پاک کا عقائد کے اختلافات کے باوجود دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ خوردونوش اور شادی بیاہ کی اجازت انسانیت کی بنیاد پر معاشرے کی تخلیق کے لیے انقلابی مضمرات رکھتا ہے۔

تاریخ میں مسلمانوں کا طرزِعمل اور پالیسیاں کئی لحاظ سے قابلِ اطمینان نہیں کہی جاسکتیں۔ مسلمان انسان ہی تھے اور اسی لیے خام تھے۔ لیکن ان میں جو اچھائی اور خیر کا عنصر دکھائی دیتا ہے اس کی وجہ نبوت کے متعلق وہی خاص اسلامی نظریہ ہے۔ اس میں اچھائی یا خیر کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ ہرچند کہ ہمارے موجودہ معیارات (عمل کتنا ہوتا ہے؟) کی رو سے اسے مثالی نہ کہاجاسکے‘ مثلاً عبادت کی آزادی اور مذہبی خودمختاری جو مسلم علاقوں میں بڑے وسیع پیمانے پر موجود تھی۔۱؎ لباس پر پابندی‘ عبادت گاہوں کی جگہوں کی تخصیص‘ دفاعی خدمات کے بجاے خصوصی ٹیکس یعنی جزیہ‘ امتیازی درآمدی محاصل جیسی کچھ اِکا دکا مثالیں کم تر حیثیت کے ثبوت کے طور پر پیش کی جاتی ہیں‘ لیکن آج کل کے بعض جدید اور مہذب معاشروں میں بھی پائی جانی مشکل نہ ہوں گی۔

قرآنی احکامات جاننے کے دو تناظر

بعض قرآنی احکامات کی سختی اور اسلام کے ابتدائی دور میں دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف بعض اقدامات اکثر لوگوں کو پریشان کرتے ہیں لیکن یہ مقام ان کے تنقیدی جائزے کا نہیں۔ ان کا تفصیلی جائزہ یہ ثابت کرسکتا ہے کہ جو کچھ بہت عرصے تک امرواقعہ سمجھا جاتا رہا ہے وہ دراصل سچ نہیں تھا۔۲؎ لیکن انھیں سمجھنے کے لیے دو تناظر خاصے مددگار ثابت ہوں گے۔

پہلا یہ کہ یہ سیاسی دائرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ محض اس لیے کہ کوئی ایک خاص عقیدے کے پیروکار ہے۔ اس کے خلاف کوئی اعلانات نہیں کیے گئے‘ کوئی کارروائیاں نہیں کی گئیں‘ کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ بے شک مذہبی جبر کو بدترین ظلم اور کبیرہ گناہ (فتنہ) قرار دیا گیا ہے۔ سیاسی بنیاد اس وقت واضح طور پر ظاہر ہوتی ہے جب کوئی قرآن کی مسلمانوں کو کفار تک سے اس وقت تک صلہ رحمی کرنے کی ہدایت دیکھتا ہے جب تک وہ مسلمانوں کے خلاف آمادہ شروفساد نہ ہوجائیں۔ ’’بعید نہیں کہ اللہ تمھارے اور ان لوگوں کے درمیان محبت ڈال دے جن سے آج تم نے دشمنی مول لی ہے۔ اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے۔ وہ غفور و رحیم ہے۔ ’’اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا… اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔ ’’وہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم ان لوگوں سے دوستی کرو جنھوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے‘ اور تمھارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ ان سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں‘‘۔ (الممتحنہ ۶۰:۷-۹)

دوسرے یہ کہ ہر پیغمبر معاشرے کا ایک پرجوش ناقد ہوتا ہے‘ ہم عصر یہودو نصاریٰ بھی اسی معاشرتی ماحول کا حصہ تھے۔ اس لحاظ سے قرآنی احکامات سابقہ پیغمبروں کی تعلیمات کی نسبت زیادہ نرم تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جو کہا وہ یہ ہے:

تم کتنے ظالم ہو! اے فریسیو! اے قانون سکھانے والو! اے ریاکار لوگو! تم سفیدی کیے گئے مقبروں کی طرح ہو جو بظاہر بہت خوش نما دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کے اندر ہڈیاں اور لاشیں گل سڑ رہی ہیں… پس تم عملاً اعتراف کرتے ہو کہ تم ان کی اولاد ہو جنھوں نے انبیاؑ کو قتل کیا۔ اے سانپو! اے سانپوں کے بچو! تم کیونکر توقع رکھتے ہو کہ تم دوزخ کی آگ سے بچ سکو گے۔

پس میں تمھیں بتاتا ہوں کہ میں تمھارے پاس پیغمبر اور اہل دانش اور تعلیم دینے والے بھیجوں گا۔ تم ان میں سے بعض کو قتل کرو گے‘ بعض کو مصلوب کرو گے‘ اور بعض کو اپنے معبدوں میں کوڑے مارو گے اور شہر بہ شہر ان کا تعاقب کرو گے۔

یروشلم! یروشلم! تو انبیاؑ کو قتل کر دیتا ہے! اور اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں کو سنگسار کر دیتا ہے۔ (متی ۲۳:۳۷-۲۷)

یہاں عہدنامہ عتیق سے بھی چند سطریں دی جاتی ہیں:

مجھے ان خوشبوئوں سے جو تم جلاتے ہو‘ سخت گھن اور کراہت محسوس ہوتی ہے۔ ان میں تمھارے گناہوں کی بدبو رچی ہوتی ہے۔

تمھارے ہاتھ خون سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ وہ شہر جو کبھی وفاکیش ہوا کرتا تھا‘ اب کسی بیسوا کا رنگ ڈھنگ اختیار کر گیا ہے۔ تمھارے راہنما باغی اورچوروں کے دوست ہیں۔ وہ ہر دم تحفے اور رشوتیں وصول کرتے رہتے ہیں۔ (یسیلیا: ۱-۱۳-۲۳)

یہاں قرآن پاک کی چند آیات بھی درج کی جا رہی ہیں:

جب کبھی کوئی رسول تمھاری خواہشاتِ نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمھارے پاس آیا تو تم نے اس کے مقابلے میں سرکشی ہی اختیار کی۔ کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کرڈالا۔ (البقرہ ۲:۸۷)

آخرکار ان کی عہدشکنی کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ انھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا اور متعدد پیغمبروں کو ناحق قتل کیا… ان کے اس ظالمانہ رویے کی بنا پر… اور اس بنا پر کہ یہ بکثرت اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور سود لیتے ہیں جس سے انھیں منع کیا گیا تھا اور لوگوں کے مال ناجائزطریقوں سے کھاتے ہیں (النساء ۴:۶۱)

نظریۂ نجات

شاید کسی بھی مذہب کے اہم مسائل میں سے ایک نجات کا مسئلہ ہے۔ یہ جانچنا دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اس حوالے سے مسلم عقائد‘ تصورات اور رویوں کی تشکیل میں اسلامی نظریۂ نبوت کا کیا کردار ہے۔

اس لحاظ سے میرا خیال ہے کہ نجات کے اسلامی نظریے کا تعین بیش تر اس کے نظریۂ نبوت سے ہوتا ہے۔ پہلے یہ کہ اسلام بہت واضح طور پر ایک معروف مذہب سے منسلک ہونے‘ اور سچا ایمان رکھنے اور عملِ صالح کے درمیان امتیاز کرتا ہے۔ یا جسے ہم دوسری قرآنی اصطلاح میں سچائی (الحق یا الدّین  یا آیات اللہ جو مطالب میں ایک ہیں) تلاش کرنے‘ پانے‘ قبول کرنے‘ تصدیق کرنے اوراس کے مطابق زندگی گزارنے سے تعبیرکرسکتے ہیں۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے‘قرآن نے ان کے لیے نزول کے وقت بھی (الذین اٰمنوا) کے الفاظ استعمال کیے۔ اس کے دو مفہوم تھے۔ ایک وہ جو اُمت مسلمہ سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسرے وہ جو واقعی ایمان رکھتے ہیں‘ (البقرہ ۲:۶۲‘۴: ۱۳۶‘ ۵:۶۹) ۔چنانچہ نجات کا انحصار محض اُمت مسلمہ سے تعلق رکھنے پر نہیں۔

دوسرے یہ کہ نجات کا راستہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے وسیلے یا تعلق پر منحصر نہیں۔ وہ بہت سے انبیاؑ میں سے ایک تھے گو کہ آخری پیغمبر تھے۔ اس کے کچھ ایسے اہم مضمرات ہیں جن کو ہم نظرانداز نہیں کر سکتے۔

کیا ضروری ہے کہ نجات کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نبی تسلیم کیا جائے؟ میرا خیال ہے کہ اس سوال کے تمام پہلو اور اس پر مسلمانوں کے مختلف موقفوں پر تحقیق ابھی ہونا ہے۔ البتہ یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ وہ لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا سچا نبی ہونا پہچان چکے ہیں (یعرفون) انھیں اپنی نجات کے لیے انھیں سچا نبی تسلیم کرنا چاہیے۔ دوسرا لفظ جو اس سلسلے میں استعمال ہوتا ہے وہ سَمِعُوْا ہے‘یعنی وہ جو انؐ کی باتیں سنتے ہیں۔ لیکن لفظ سَمَعَ (سننا) قرآن پاک میں سننے کے طبعی فعل کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔ یقینا اس کی تعریف کرنے کی ضرورت ہے اور شاید قرآن سماعت میں قبولیت پر آمادگی کے لیے علم بھی شامل کرتا ہے۔

بہرکیف یہ دونوں الفاظ ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کو شامل نہیں کرتے جنھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کبھی نہیں سنا۔ ظاہر ہے کہ نجات کا کوئی دعویٰ مطلق نہیں ہے۔ شاید اسی لیے الغزالی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و کرم بہت سے عیسائیوں اور ترکوں کے لیے بھی ہے۔ جن لوگوں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی نہیں پہنچا‘ ان کے پاس ایک جائز عذر ہے۔۳؎میرے خیال میں انھی باتوں کا اطلاق اسلام اور قرآن کے آخری وحی خداوندی ہونے پر کیا جا سکتا ہے۔

تیسرے یہ کہ جو بات بڑی اہم ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کے پیش نظر تمام نوع انسانی کو خداے واحد کی حاکمیت کے تحت لانا ہے۔ لیکن یہ اسے اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتا کہ کسی خاص فرد یا جماعت کو اپنے خداے واحد کے تصور اور طریقۂ عبادت کی طرف لے آئے۔ اس کا کوئی ایسا الوہی منصوبہ نہیں ہے کہ تمام نوع انسانی کو لازماً اسلام کی طرف پھیر لائے یا مذہبی اقلیتوں کو اپنے علاقے سے نکال دے یا ان کا نام و نشان مٹا دے۔ شاید یروشلم میں صلیبیوں اور مسلمانوں کے داخلے کے وقت ان دونوں کے رویوں اور اقلیتوں کے مسائل کے مسلمانوں کے حل اور دوسروں کے حل میں فرق کی وجہ یہی ہے۔

چوتھی اور اہم بات یہ ہے کہ میری نظر میں اسلامی رویوں میں ان انسانی فیصلوں کا کہ کون سا شخص جنت میں جائے گا اور کون ہمیشہ کے جہنم میں‘ کوئی مقام نہیں ہے۔ درحقیقت سختی سے منع کیا گیا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کے بارے میں پہلے ہی کوئی رائے قائم کرے۔ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ تمام مذہبی تنازعات کا فیصلہ کرے گا۔ ایک مسلمان خود اپنے بارے میں بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ آیا اسے نجات حاصل ہوگی یا نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا تھا: ’’ایمان بیم و رجا کے بین بین ہے‘‘۔

ایک دوسری اہم روایت میں آپ ؐ نے ایک ایسے گناہ گار شخص کا قصہ سنایا تھا جس نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اپنے جسم کو جلا دینے اور اپنی راکھ کو بکھیردینے کی وصیت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی راکھ اکٹھی کی‘ اسے دوبارہ زندہ کیا اور اس سے پوچھا: تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے جواب دیا: صرف تیرے خوف کی وجہ سے۔ اور وہ بخش دیا گیا۔

اس سلسلے میں حضرت عمرؓ کا یادگار قول خصوصی اہمیت کا حامل ہے: اگر روز قیامت میں یہ اعلان سنوں کہ سوائے ایک کے سب لوگ جنت میں جائیں گے تو مجھے یہ خوف ہوگا کہ یہ وہ شخص میں ہی نہ ہوں‘ اور اگر یہ اعلان سنوں کہ سوائے ایک کے سب لوگ دوزخ میں جائیں گے تو میں یہ امید کروں گا کہ وہ ایک شخص میں ہی ہوں گا۔ مسلم رویے کی اس سے بہتر اور دلکش نمایندگی نہیں کی جا سکتی۔

ہر مذہب کے اپنے اصولوں کی حقانیت پر قائم رہتے ہوئے‘ کیا اسلام میں نبوت کا تصور مختلف مذاہب کے لوگوں کے ساتھ رہنے کے لیے کسی ایک اہم راستے کی نشاندہی کرتا ہے؟ مجھے امید ہے کہ بین المذہبی اجتماعات میں اس سوال کی طرف زیادہ توجہ دی جائے گی۔

نبی کریمؐ کی حیثیت کا تعین

ایک اور اہم اور متعلق سوال جسے ہماری گفتگو کے دائرے سے طویل عرصے کے لیے باہر نہ ہونا چاہیے یہ ہے کہ کیا آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ کے سچے نبی تھے۔ وہ ان میں سے ایک تھے جن سے اللہ ہمکلام ہوا‘ اور جو انسانیت کے سامنے درست طور پر دعویٰ کرسکتے ہیں کہ اللہ نے یہ کہا۔ اس سوال کو مناسب الفاظ میں اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے: ’’کیا قرآن اللہ کا کلام ہے؟‘‘ یہ کہنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر واقعی اللہ کی وحی آتی تھی‘ مسلم نقطۂ نظر کا بیان ہے۔۴؎

کسی بین المذہبی نشست میں آسانی سے قرار دیا جا سکتا ہے کہ یہ پہلے ہی سے معلوم شدہ اور مسترد شدہ بات کا دعویٰ کرنے یا دہرانے سے زیادہ کی کوشش نہیں ہے‘ یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کسی کے اپنے عقیدے کی سچائی کی گواہی دینا اور تبلیغ کرنا ہے جس کا نتیجہ یا مذہب کی تبدیلی ہوگی یا اختلافات کی شدت میں اضافہ‘ بعض دفعہ اول الذکر‘ اور اکثر ثانی الذکر۔۵؎

مسلمانوں کے ساتھ ایک عشرے سے زائد کے مکالمے میں اس مسئلے (issue) کی گہرائی میں اترنے کی بجاے اس سے پہلو کیوں بچایا جاتا رہا ہے؟ عموماً بحث اس مثبت مسئلے کے اندر اترنے کے بجاے اس کے قریب ہی سے گزر جاتی رہی۔ اس طرح‘مکالمے کے لیے تیار کیے جانے والے تمام بیانات‘ قراردادوں اور رہنما خطوط میں اس کا جگہ نہ پانا قابلِ توجہ ہے۔ وٹیکن II کا ناسٹرا ایٹیٹ(Nastre etate) میں محمدؐ کا حتیٰ کہ اسلام تک کا تذکرہ نہیں ملتا۔ یا تو مذہبی مضمرات اس موضوع پر بحث میں مانع ہیں‘ یا اس راستے کو مختلف مذاہب کے افراد کے مابین دوستی کے لیے خطرات سے بھرپور سمجھا گیا‘ یا اس کے متوقع نتائج کی قدروقیمت اتنی مشکوک تھی کہ اس کے لیے کوشش نہ کی گئی۔

اگر ہم مذہبی افراد کی حیثیت سے بین المذہبی تعلقات کے لیے ایک ایسا فریم ورک تشکیل دینے کے لیے اپنے درمیان اتفاق و اختلاف کے دائروں کو تلاش کریں جو ہمیں ’’ایک عالم گیر دنیا‘‘ میں رہنے کے قابل بنا دیں تو ایسی صورت میں کیا ہمیں اس مسئلے سے زیادہ عرصے تک صرفِ نظر کرنا چاہیے؟اور کیا ہم ایسا کرسکتے ہیں؟ یہ مستقبل کے کسی مذہبی مباحثے کے لیے جس میں مسلمان بھی شامل ہوں‘ ایک اہم سوال ہے۔ اگر شرکا خوف اور بے اعتمادی سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے اور سنجیدگی سے غوروفکر نہیں کر سکتے اور کم سے کم یہ کوشش نہیں کرتے کہ ان اختلافات کو دُور کریں یا ان کے ساتھ زندہ رہنے کی کوشش کریں جنھوں نے ان کو پُرتشدد طور پر جدا کر رکھا ہے تو وہ بھلا ’’ایک عالم گیر دنیا‘‘… ایک مشترکہ انسانیت کے محبوب آدرش کی طرف پیش قدمی کی امید کیونکر کرسکتے ہیں؟ اگر مکالمہ اپنی بقا کے لیے ہے تو ان بنیادی مسائل پر مشترکہ گفتگو کے علاوہ کوئی راستہ نہیں جو ناقابلِ عبور دکھائی دیتے ہیں۔

مکالمے کی بنیاد

اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم یہ امید کرلیں کہ کل صبح یا مستقبل قریب کی کسی صبح‘ اس مسئلے کا کوئی حل مل جائے گا۔ بے شک ہماری زندگی میں کوئی حل نہ ملے لیکن کیا ہمیں کبھی نہ کبھی ان مسائل پر کھلی بحث کی کوشش کا آغاز نہیں کرنا چاہیے جو ہمارے باہمی جھگڑے اور فساد کی اصل جڑ ہیں۔ اگر ایسا ہونا ہے‘ تو آج ہی کیوں نہ ہوجائے؟ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ اس طرح شاید یہ مسئلہ حل نہ ہو۔ لیکن یہ کم از کم زیادہ سننے‘ زیادہ جاننے‘ زیادہ سمجھنے‘ زیادہ اعتماد و بھروسا‘ زیادہ دوستی اور شاید زیادہ قرب کی جانب رہنمائی کرے گا۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ دُوری کی خلیج کو کم اہمیت دی جا رہی ہے۔ کوئی بھی چیز اسلام کو دوسرے مذاہب بالخصوص یہودیت و عیسائیت سے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور قرآن کے بارے میں اس کے دعویٰ سے زیادہ جدا نہیں کرتی۔ ایک طرف اس کے مضمرات دینی ہیں۔ سادہ طور پر بیان کیے جائیں‘ تو بے لچک دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی عیسائی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ کچھ سمجھے جو مسلمان سمجھتے ہیں تو وہ عیسائی نہ رہے گا۔ یہی بات یہودیوں کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے‘ اور اگر کوئی مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ سمجھنا چھوڑ دے جو وہ سمجھتا ہے تو وہ مسلمان نہیں رہتا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قطع نظر اسلام میں یہودیت اور عیسائیت سے اتنی بہت سی باتیں کم سے کم ظاہری طور پر مشترک ہیں کہ اسے بلاہچکچاہٹ یہودیت سے ماخوذ یا عیسائیت میں جڑیں رکھنے والا مذہب کہہ سکتے ہیں۔ بلاشبہہ بعض مغربی تحریروں میں یہودیت اور عیسائیت اس بارے میں مقابلہ کرتی نظرآتی ہیں کہ ان میں کون ولدیت میں زیادہ حصہ رکھتا ہے۔ اگر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ نبوت کا کانٹوں بھرا مسئلہ نہ ہو تو ان میں سے کوئی بھی اس بچے کو گود لے سکتا ہے۔ دوسری طرف یہ مضمرات معاشرے کے لیے اور ایک لادین شخص کے لیے جو صرف انسانی صورت حال ہی سے دل چسپی رکھتا ہے کچھ کم اہمیت نہیں رکھتے۔ اس لیے کہ جدید دور میں بھی مسلمان اپنی زندگیاں قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کے متمنی ہیں جن کی دائمی صداقت پر وہ ایمان رکھتے ہیں اور اس کے لیے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ مزیدبرآں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب میں اسلام کے تصور کی تشکیل میں انتہائی نمایاں۶؎،انتہائی مرکزی اور انتہائی اہم مقام ہمیشہ حاصل رہا ہے اور آج بھی ہے۔ مسئلہ کتنا ہی گمبھیر کیوں نہ ہو‘ قریب آنے میں مشکلات بلکہ ناممکنات کی نوعیت اور وسعت کیسی ہی ہو‘ ہم اس کام کو چاہے نتیجہ خیز نہ پائیں‘ روحانی‘ دینی اور عملی طور پر مفید اور تحرک خیز پائیں ضرور گے۔

مذہبی لحاظ سے ایک مسلمان کی حیثیت صاف اور واضح‘ حتمی اور غیرتغیر پذیرہے۔ میں اس حقیقت کو محض بیان کرنا نہیں چاہتا بلکہ ایک قدم آگے جانا پسند کروں گا۔ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے مسئلے پر مختلف نقطہ ہاے نظر تلاش کرنے اور متعین کرنے میں جو سوال اٹھیں ان کو متعین کرنے کی کوشش کروں گا خواہ میرے پاس کوئی قابلِ قبول جواب نہ بھی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ مسلمان اور دوسرے مذاہب کے پیروکار جو ایک دوسرے سے کھلے دل سے ملنے کے لیے تیار ہیں‘ ان مسائل کا سامنا کریں گے اور اپنے محدود دائرے کے اندر لکھنے اور بولنے کی بجاے مختلف نظریات اور سوالات پر آمنے سامنے گفتگو کریں گے اور ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سنیں گے۔ ذرائع اور حدود کار صرف وہ ہونے چاہییں جن پر ہم متفق ہیں۔ ان میں مغربی علمی روایت کے پروردہ زمرے‘ معیار اور ذرائع لازماً شامل یا باہر نہ ہونے چاہییں۔ بعض اوقات میں دیکھتا ہوں کہ قرآن پر ہی نہیں‘ بائیبل کے لوازمے پر بھی بعض مغربی طریقوں کا اطلاق خصوصاً ’انسان اورخدا‘ اور’خدا اور تاریخ‘ کے باہمی تعلق کے بارے میں پہلے سے طے شدہ تصورات پر مبنی قیاس آرائی سے زیادہ نہیں۔

نبوت کے تصور کا جائزہ

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے مسئلے کا جائزہ لینے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں:

اولاً: نبوت کا تصور ہی سائنسی طریقے کے خلاف ہے۔ کوئی خدا نہیں ہے اور اگر ہے تو اسے انسانی تاریخ میں مداخلت کی کوئی ضرورت یا حق نہیں۔ مغرب کا ایک عام فرد انسانی زندگی کے ہر پہلو کو حسی مشاہدات و معلومات‘ تاریخ‘ عمرانی اقتصادی‘ ثقافتی پس منظر اورماحول کی بنیاد پر وضاحت کرنا چاہے گا۔ ایسے اندازنظر سے ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے مسئلے سے زیادہ وسیع اور گہرے ہیں۔

ثانیاً: اللہ انسان سے ہم کلام ہوتا ہے لیکن اللہ کی انسان سے ہمکلامی کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ یہ ہم بہت کم جانتے ہیں۔ اس زاویے کی جو تعبیر اسلام پیش کرتا ہے اور جیسا کہ یہودیت اور عیسائیت میں بھی سمجھا جاتا ہے (جسے گب ازمنہ وسطیٰ کی ترجمانی کہتا ہے) جدید سائنسی تصورِ جہاں کی روشنی میں قابلِ مدافعت نہیں ہے۔ اس کا یقینا یہ مطلب نہیں کہ انسان جو وصول کرتا ہے  وہ واقعتا اللہ ہی کے الفاظ ہیں۔ وہ کسی صورت میں ابدی نہیں ہیں۔ جو بھی تجربہ یا جذبہ ہو‘ وصول کنندہ کی اپنی شخصیت‘ معاشرتی حیثیت اور اس کے نظریۂ کائنات کے سانچے میں ڈھلتا ہے۔ مثال کے طور پر عہدنامہ عتیق کے پیغمبر مسلمانوں کے عقیدہ وحی کے مطابق اللہ کا کلام وصول نہیں کرتے تھے۔ یہ طرزِفکر اگرچہ عام نہیں‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک پیغمبر تسلیم کرسکتی ہے‘ لیکن پیغمبر کے اپنے تصور کے مطابق‘ نہ کہ اس طرح جس طرح مسلمان سمجھتے ہیں۔

ثالثاً: ہرچند کہ اللہ انسان سے ہمکلام ہوتا ہے‘اور تاریخ میں بھی اپنی ذات کی حد تک بھی مداخلت کرتا ہے‘ لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک پیغمبر نہیں تھے۔ یہاں سے یہ طرزفکر دو راستوں میں بٹ جاتا ہے۔ اول: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جسے اللہ کا کلام سمجھا وہ ان کی اپنی اندرونی آواز تھی‘ جو ان کے اپنے معاشرے کے تجربات‘ اپنے معاشرتی ماحول پر غوروتفکر اور اللہ کے بارے میں انہماک اور اس سوچ و بچار کے نتیجے میں کہ عرب کیا چاہتے تھے‘ ان کے اندر سے اُٹھی تھی۔ وہ ایک مخلص لیکن خودفریبی میں مبتلا انسان تھے۔ دوم: وہ (نعوذباللہ) ایک جعلی شخصیت تھے۔ وہ اپنی تحریر کے مصنف تھے‘ جسے انھوں نے اپنے گردوپیش کے مختلف ذرائع سے حاصل کیا تھا اور اسے کلامِ الٰہی کہہ کر پیش کیا تھا۔

اس نظریے کی کہ وہؐ ایک مخلص انسان تھے اگرچہ پیغمبر نہیں تھے‘ دوسری ترجمانی جومیر (Jomier) نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مسیحی نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے نسبتاً زیادہ قابلِ قبول اصطلاحات میں کی ہے۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک عظیم مذہبی راہنما قرار دیتا ہے جنھوں نے‘ جیسا کہ اس نے تصور کی وضاحت کی ہے، ’’زوال پذیر مذہب میں بہت سے مثبت اضافے کیے… وسیع منصوبۂ نجات میں کچھ اصلاحات کیں‘… انھیں ایک تاریخی مشن تفویض کیا گیا… (اور اپنے آپ کو) اور عیسائیوں کو مخاطب کیا‘ مؤخر الذکر کو اپنی اقدار اور تشخص کے کھو ڈالنے کے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے‘‘۔۷؎

یہ تمام نقطۂ ہاے نظر کچھ سوال اٹھاتے ہیں جن پر ہم پھر کسی وقت بحث کریں گے‘ ان میں سے چند پر یہاں گفتگو کی جاتی ہے۔

آخر ایسا کیوں ہے کہ جو لوگ نبوت کی شکل میں وحی الٰہی پر یقین رکھتے ہیں وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا پیغمبر نہیں پاتے؟ ظاہر ہے‘ اس لیے نہیں کہ وہ اس تصور کو خلافِ عقل اور غیر سائنٹفک سمجھتے ہیں‘ بلکہ اس لیے کہ ان کا خیال ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس معیار پر پورے اترنے میں ناکام رہے ہیں جس پر کسی کو ایک سچے پیغمبر کی حیثیت سے قبول کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے یہ مناسب رہے گا اگر تحقیق و جستجو کو اس طور پر آگے بڑھایا جائے‘ معیارات کا تعین قطعیت سے کیا جائے‘ زیادہ تنقیدی نگاہ سے جائزہ لیا جائے‘ خصوصاً نبوت سے متعلق ان نظریات کی روشنی میں جو دو طرفہ طور پر قابلِ قبول ہوں خواہ وہ انجیل میں آئے ہوں یا قرآن میں۔اس کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور تعلیمات کو اس معیار پر پرکھا جاسکے گا۔ اس کا جواب اگرچہ نتیجہ خیز نہ ہوگا لیکن تحقیق مکمل طور پر بے فائدہ بھی نہ ہوگی۔

مزیدبرآں یہ نظریہ کہ ہرچند کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دعوے میں سچے نہیں تھے اور جو کچھ انھوں نے کہا ہمیشہ سچ نہیں تھا‘ پھر بھی وہ انتہائی اخلاص کے ساتھ اپنی باتوں کے کلام الٰہی ہونے پر یقین رکھتے تھے‘ کیا اس بیان سے کہ وہ ایک مدعی کاذب تھے‘ زیادہ مضبوط ہے؟ ایک اندازنظرمصالحانہ اور مہذب ہے اور دوسرا مخالفانہ اور کھردرا۔ لیکن کیا ان کا آخری نتیجہ یکساں نہیں ہے: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ سچا نہیں تھا۔ اس پر جو کچھ سوچا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ باتیں ان کی حیات میں ان کے سامنے پیش کی گئیں اور قرآن نے بہت صاف طور پر وضاحت اور قطعیت سے انھیں مسترد کیا۔ یہ الزام کہ وہ جو کچھ اللہ سے منسوب کرتے تھے اللہ کی طرف سے نہیں تھا‘ اسے نہ صرف جھٹلایا گیا ہے‘ بلکہ قرآن کے ہرصفحے پر جھٹلایا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ مثبت بات کہ یہ من جانب اللہ ہے اسے بھی کم نہیں دہرایا گیا ہے۔ بیشتر قرآنی سورتوں کا آغاز ہی اسی واضح بیان کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ یقین کرنا زیادہ مشکل نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ۲۳ سال کی طویل مدت تک اپنے رسول ہونے پر اصرار کرتے رہے اور اس کے برعکس بات کی تردید ان الفاظ میں کرتے رہے جو وہ خدا کی طرف منسوب کر رہے تھے اور پھر بھی وہ ایک مخلص انسان تھے۔ جس وقت وہ اپنی زبان میں وہ کچھ تحریر کرنے میں مصروف تھے جس کی ہدایت ان کی اندرونی آواز دے رہی تھی یا وہ بیرونی ذرائع سے جانتے بوجھتے یہ مواد اکٹھا کررہے تھے‘ اس وقت اسی مسئلے پر دلائل میں مصروف تھے۔ تو کیا کوئی مخلص شخص ایسے تیزوتند تنازعات میں مصروف ہو سکتا ہے‘ جب کہ وہ اسی وقت اپنے آپ کو وہ کچھ ظاہر کر رہا تھا جو وہ حقیقتاً نہیںتھا۔ کیا وہ اپنے پیروکاروں کو ناقابلِ تسخیر ایمان سے مالا مال کر سکتا ہے اوران کی زندگیاں اپنے تصورات کے سانچے میں ڈھال سکتا ہے‘ جب کہ وہ تمام عرصہ غلط شناخت کا شکار رہے؟ یقینا غلط شناخت قرآن میں ایک تیزوتند استدلال کا سبب نہیں ہوسکتی۔ صرف ایک مدعی کاذب ہی اتنی ثابت قدمی کے ساتھ قطعی باتیں کرسکتا ہے۔

نبی کریمؐ کا زمانۂ نبوت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بھی بعض مسائل اٹھاتا ہے جن کا ہم جائزہ لے سکتے ہیں:

آپؐ ان تمام پیغمبروں کے آخر میں‘ جن پر یہود و نصاریٰ اور مسلمان ایمان رکھتے ہیں‘ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھی بعد تشریف لائے۔ یہ مذہبی نظریہ نہیں بلکہ تاریخی حقیقت ہے۔ لیکن آپؐ نے کبھی تمام پیغمبروں سے بہتر اور اعلیٰ پیغمبر ہونے کا یا کسی تاریخی عمل کا نقطۂ عروج ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ یہ قرآن اور حدیث سے ثابت ہے‘ خواہ مسلمان انھیں ایسا مقام دیتے ہوں۔ قرآن مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ کہیں: ’’لانفرق بین احد من رسولہ‘‘۔ ایک مرتبہ کسی صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان الفاظ میں مخاطب کیا: ’’یااشرف المخلوقات!‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’وہ ابراہیم ؑ تھے… خلیل اللہ‘‘۔ ایک موقع پر آپؐ سے پوچھا گیا: ’’کس پیغمبر کا خاندان سب سے معزز و محترم ہے؟‘‘ آپؐ نے جواب دیا: ’’یوسف ؑکا خاندان۔ جو اس پیغمبر کے بیٹے تھے جس کا باپ بھی پیغمبر تھا‘ اور اس کے باپ ابراہیم ؑ خلیل اللہ تھے‘‘۔ ایک مرتبہ ایک مسلمان اور ایک یہودی میں اس بات پر جھگڑا ہوگیا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور موسٰی ؑ میں کون بہتر وبرتر ہے۔ یہ معاملہ آپؐ کے سامنے پیش کیا گیا۔ آپؐ نے سختی سے مسلمان کی سرزنش کی اور مسلمانوں سے کہا کہ وہ موسٰی ؑ اور دوسرے انبیاؑ کے مقابلے میں انؐ کی ستایش اور مدح سرائی نہ کیا کریں۔ رچرڈبیل (Bell) جیسے لوگ اسے یہودیوں کی خوشنودی حاصل کرنے اور انھیں پرچانے کے لیے پریشان حال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی تدبیر سے تعبیر کریں گے لیکن کیا مسلمانوں کا دوسرے انبیا علیہم السلام کے بارے میں رویہ ان تعلیمات کے سانچے میں ڈھلا ہوا نہیں دکھائی دیتا؟

ولفریڈ اسمتھ کا خیال ہے کہ یہ ایک انتہائی اہم بات ہے کہ کوئی مذہب زمانے کے لحاظ سے کسی دوسرے مذہب سے پہلے یا بعد آیا ہے۔ جو کسی کے بعد آئے وہ پہلے والے کے ساتھ سرپرستانہ رویہ رکھتا ہے۔ اس لیے عیسائیوں نے یہودیوںکی تمام کتب مقدسہ کو اپنی انجیل میں جمع کر لیا ہے۔۸؎ یہ تاریخی نقطۂ نظر مسلم رویے کے ایک پہلو کی توجیہہ کرسکتا ہے لیکن وسیع تر پہلو کی گنجایش چھوڑتا ہے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بنیادی تعلیمات‘زندگی اور مشن کے ساتھ عہدنامہ عتیق کے زمانے اور فضا میں پہنچا دیے جائیں تو وہ کیا ایک سچے پیغمبر سے بڑھ کر بھی کچھ ہوسکتے تھے؟

جدید اور قدیم کی بحث

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی نوعیت کا اسلامی نقطۂ نظر ‘ نہ کہ ان کی سچائی ہرچند کہ دونوں باہم دگر متعلق ہیں‘ ہماری توجہ ایک دوسرے اہم مسئلے کی طرف مبذول کرتے ہیں۔ وہ ہے اسلام کا سائنس اور ٹکنالوجی کے چیلنج پر ردعمل اور جدیدیت کے پیدا کردہ مسائل سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان جدیدیت کے مسئلے سے بہت قریبی طور پر منسلک ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان دوسرے مذاہب کے افراد سے ملاقاتیں کرنے اور ان چیلنجوں کو معلوم کرنے اور ان کے ممکنہ جواب دینے کے قابل نہ ہوں۔ جو چیز اس کام کو سہل بنائے گی وہ یہ ہے کہ جواب کو جدیدیت کی پہلے ہی سے دی گئی شرائط کی بنیاد پر نہیں دیا جانا چاہیے‘ جنھیں اس لیے قبول کیا جائے کہ یہ فی نفسہ درست ہیں۔ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے--- مجھے امید ہے کہ میں غلطی پر ہوں--- مذہبی اجتماعوں کے شرکا‘ ایسے طرزِعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں جسے کسی نے کھردرے اور ناشایستہ لیکن صاف اور واضح الفاظ میں یوں بیان کیا ہے: ’’اسلام اور مغرب کے مابین کوئی مکالمہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا‘ نہ ہوگا جب تک کہ اسلام عورت اور سزا کے بارے میں اپنی پوزیشن میں تبدیلی یا ترمیم پر آمادہ نہیں ہو جاتا‘‘۔ شاید استدلال اور تفہیم سے‘ بیان کرنے اور سننے سے مغرب اور اسلام ایک دوسرے سے زیادہ سیکھ سکیں گے۔

ایک ممکنہ جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پہلے ہی سے طے شدہ سائنسی نظریے کے زیراثر اسلام اس حد تک باقی رہ سکتا ہے جس حد تک عیسائیت مغرب میں باقی رہی ہے۔ کیا انسانیت کے وسیع تر مفاد میں ہمیں اس امکان کو خوش آمدید کہنا چاہیے؟ کیا یہ نسلِ انسانی کے لیے بہتر ہوگا کہ اگر اسلام بھی اتنا کچھ کھودے جتنا کہ عیسائیت نے کھویا ہے اور صرف اتنا بچائے جتنا اس نے بچایا ہے؟ کیا یہ بدقسمتی نہ ہوگی کہ دوسرے مذاہب خود اپنے مختلف ردعمل دینے میں ناکام رہیں؟ ہم زیادہ بہتر صورت حال میں (richer) ہوں گے اگر ہر مذہب اپنا الگ ردعمل ظاہر کرے اور بالکل اس طرح کا ردعمل نہ دے جس طرح کا عیسائیت نے سائنس اور عقل پرستی‘ اثباتیت اور انسان دوستی کے نظریات کے پہلے حملے کے خلاف ظاہر کیا تھا۔ کیا یہ کوئی اچھی بات ہوگی کہ ہم تمام مذاہب کو محض ہر آن بدلتے رہنے والے تجربی علوم کی روشنی میں معتبر رہنے کے لیے بڑی بڑی تبدیلیوں سے گزرنے پر مجبور کریں؟ یہ انسانی زندگی میں مذہب کے کردار اور اصل مقصد کو ہی ختم کر دے گا۔

یہ تعین کہ ’قرون وسطیٰ ‘ کیا ہے اور ’جدید کیا ہے؟‘ ،’قرون وسطیٰ کا انسان کیا ہے‘ اور ’جدید انسان کیا ہے‘ اور ’جدید ذہنیت کیا ہے؟‘ یہ سمجھنے میں بہت مددگار ثابت ہوگا کہ مغربی نظریات کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے دوسرے مذاہب کو اپنے جوابی اقدام کس طرح تشکیل دینا چاہییں۔ ظاہر ہے کہ قدیم اور جدید کے تصورات مغربی فکر کے پیدا کردہ ہیں جن کا ماخذ وہ خاص راستہ ہے جس پر مغربی تہذیب نے ترقی کی ہے۔ اگر جدیدیت حصولِ علم کے واحد ذریعے کے طور پر سائنٹفک اسلوب پیش کرتی ہے‘ اور اگر جدیدیت کا آغاز بقول ٹوئن بی اس طرح ہوا تھا کہ ’’مغربی انسان نے اللہ کا نہیں بلکہ خود اپنا شکر ادا کیا تھا‘‘ تب واقعتا قدیم ذہنیت سے جس کا اعلان تھا: الحمدللّٰہِ رب العلمین (تمام حمدوثناء اللہ کے لیے ہے)‘ جدیدیت تک روحانی سفر کرنا آسان نہ ہوگا‘ نہ ’ایک عالم گیر دنیا‘ کے مستقبل کے لیے ہی فائدہ مند ہوگا۔ اس میں شک نہیں کہ سائنس اور ٹکنالوجی نے مذہبی عقائد کے لیے بہت سے سنجیدہ چیلنج پیش کیے ہیں لیکن انسانیت کی بقا کے لیے ان کا چیلنج بہت زیادہ سنگین ہے۔ بلاشبہہ مذاہب کو اپنے نظامِ عقائد‘ وحی اور نبوت کے بارے میں اپنے نظریات‘ اپنی آسمانی کتابوں اور مذہبی لٹریچر‘ اپنے اخلاقی ضوابط اور انسانی زندگی کو منضبط کرنے کے اپنے دعوئوں کے بارے میں اٹھائے گئے سوالات کے مناسب اور قابلِ قبول جواب دینے کی عظیم ذمہ داری کا سامنا ہے۔ لیکن ٹھیک اسی وقت اس قبر سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش بھی‘ جوانسانیت کے وجود کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے‘ ان کی کچھ کم ذمہ داری نہیں ہے۔

درپیش سنگین چیلنج

صرف سائنس اور ٹکنالوجی کو ہر اس مصیبت کی جڑ قرار دینا جس میں آج کل کا انسان مبتلا ہے مشکل ہی سے منصفانہ مؤقف قرار دیا جا سکتا ہے‘  لیکن شاید بغیر کسی خاص اختلاف کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سائنسی نقطۂ نظر سے پیدا ہونے والے نظریۂ ہاے حیات اور اخلاقی بندشوں سے آزاد ترقی کی اندھا دھند دوڑ نے اسے مکمل تباہی کی دہلیز تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسے ہلاکت عظمیٰ کی خبر دینے والوں کی مایوسانہ باتیں کہا جا سکتا ہے لیکن انسانوں کی غالب اکثریت کو درپیش حد درجہ غربت اور افلاس‘ امیر اور غریب کے مابین گہری اور وسیع ہوتی خلیج‘ سلگتے ہوئے سیاسی قضیے‘ بڑھتے ہوئے بین الاقوامی قرضے‘ ان میں سے کوئی بھی یکایک پھٹ کر ہمیں ایک ناقابلِ تصور تباہی کے ’ہولوکاسٹ‘ کی طرف لے جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک انتہائی سنگین نوعیت کا چیلنج ہے جس کا سامنا اہل مذہب کو کرنا چاہیے۔ ان کے مذہب مختلف ہوسکتے ہیں لیکن خطرہ ان سب کے لیے مشترک ہے۔ مذہب پر قابو پانے کے لیے ایٹم بم آسانی سے بنایا جا سکتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اگر ایک مرتبہ اس کی تباہ کاریوں کے دائرے کو پھیلنے دیا گیا تو یہ اپنا شکار ہونے والوں میں ان کے مذہب کی بنیاد پر تفریق نہ کرے گا۔

اس چیلنج کا واحد جواب‘ انتہائی اختصار کے ساتھ یہ ہے کہ ہر زمانے میں دیے جانے والے اللہ کے پیغام کو سنا جائے:

میں نے ابراہیم کو منتخب کیا کہ وہ اپنے بیٹوں اور اپنی نسلوں کو میری اطاعت کی ہدایت دے اور حق و انصاف کی راہ دکھائے۔ (پیدایش ۱۸:۱۹)

سوائے میرے کسی خدا کی عبادت نہ کرو۔ اپنے لیے آسمانوں اورزمین پر اور زیرزمین پانی میں کسی چیز کے عکس پیدا نہ کرو۔ (متی ۵:۷-۸)

خلوصِ دل سے‘ اپنی روح اور ذہن کی پوری گہرائیوں کے ساتھ‘ اپنے مالک اللہ سے محبت رکھو۔ یہ اس کا سب سے بڑا اور اہم ترین حکم ہے۔ دوسرا سب سے بڑا اہم حکم یہ ہے کہ اپنے ہمسائے سے بھی ویسی ہی محبت رکھو جیسی کہ تم اپنے آپ سے رکھتے ہو۔ (متی ۲۲:۳۷-۳۹)

یہ مت سوچو کہ میںموسیٰ کے قانون اور دوسرے پیغمبروں کی تعلیمات منسوخ کرنے آیا ہوں۔ میں انھیں منسوخ کرنے نہیں آیا بلکہ ان کی تصدیق اور حقانیت واضح کرنے آیا ہوں۔ (متی :۵-۱۷)

آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے۔ (آلِ عمران ۳: ۶۴)

شاید ہم ایسے مسائل کا کوئی حل تلاش نہ کر سکیں جنھوں نے ہمیں تقسیم کر رکھا ہے۔ یہ ان پر گفتگو سے احتراز کا کوئی معقول عذر نہیں لیکن ہم کافی مشترکہ ماخذ دریافت کر سکتے ہیں تاکہ انھیں یکجا کریں۔ اس سلسلے میں ایک انتہائی چبھتا ہوا سوال ہمیشہ باقی رہے گا: کیا ہم مذہب تسلیم کرنے والوں کی حیثیت سے مل رہے ہیں‘ اور کیا ہمارا یہ ملنا اللہ کے ہماری زندگی کے لیے بنائے گئے منصوبے کے مطابق‘ جیسا کہ ہم اسے سمجھتے ہیں‘ زندگی گزارنے میں ہمارا معاون ثابت ہوگا۔


حواشی

۱- مثال کے طور پر دیکھیے مذکورہ بالا نوٹ (۵) اور برکت احمد Muhammad and Jews: A Reexamination نئی دہلی‘ ۱۹۷۹ئ)

۲-  ابوحامد الغزالی‘ فیصل ا لتفرقہ بین الاسلام والزندق (مرتب)‘ (سلیمان Dunya ‘قاہرہ‘ ۱۳۸۱ھ/۱۹۶۱ئ‘ ص ۲۰۶)

۳-  جان ہِک‘ God Has Many Names (دی مک ملن پریس‘ لندن ۱۹۸۰ئ)‘ ص ۸۵)

۴-  جان ہِک‘ Truth and Dialogue (شیلڈن پریس‘ لندن ۱۹۷۵ئ)‘ ص ۱۵۴۔

۵-  دیکھیے نارمین ڈینیل کی کتاب: Islam and the West: Making of an Image (ایڈن برگ یونی ورسٹی پریس‘ ایڈن برگ‘ ۱۹۶۰ئ)

۶- God Has Many Names حوالہ بالا‘ ص ۹۳۔

۷-  On Understanding Islamحوالہ بالا‘ ص ۲۹۳۔

۸-  (احمد وان ڈینیفر‘ Muhammad A Prophet or a Great Religious Leader?" ‘ امپیکٹ انٹرنیشنل‘لندن‘ ج ۱۰‘ شمارہ ۱۳‘ ۱۱-۲۴ جولائی ۱۹۸۰ئ)‘ ص ۲۔

ایک اسلامی تناظر

ترجمہ:  قاضی محمد اقبال /مسلم سجاد

خلاصہ: آج کی ’ایک عالم گیردنیا‘ جدید ٹکنالوجی کا ایک ایسا تحفہ ہے جس میں طرح طرح کی سہولتیں تو ہیں‘ لیکن اس نے مل جل کر رہنے کا کام سہل نہیں بنایا۔ گو‘ باہمی رابطہ پہلے کے مقابلے میں تیز تر ہوگیا ہے لیکن خود ہمسایوں کے درمیان میل ملاپ مشکل تر ہوگیا ہے۔ کیا مذہب ایک خدا کے کنبے کو متحد کر سکتا ہے؟ حق یا نجات کی حقیقت کیا ہے؟ اس مقالے میں‘ اسلام کے تصورِ نبوت کی روشنی میں انھی سوالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

اسلام کا استدلال ہے کہ مذاہب کے سرچشمے الوہی ہیں۔ لہٰذا‘ ہدایت من جانب اللہ پر کسی خاص گروہ‘ نسل یا مذہب کی اجارہ داری نہیں ہے۔ اسلام اس کا مدعی نہیں کہ تمام انبیا ؑ، اسلام کی وہی  شکل (version) لائے تھے جو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کی۔ یہ مقالہ ہدایت  من جانب اللہ اور ایک انسانی وسیلے کی حیثیت سے نبوت کے تصور پر بحث کرتا ہے‘ اور نبوت کی تاریخ اور اس کی عالم گیریت اور تبدیلی مذہب کی ذمہ داری کی وضاحت کرتا ہے۔

تضادات سے بھرپور اس دنیا میں مل جل کر رہنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ تاہم‘ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ان نہایت مفید کاموں میں سے ایک ہے‘ جو پیچیدگیوں سے بھرپور اور ہلاکت خیز حد تک خطرناک سہی‘ لیکن اس میں انسان اپنی تخلیق کے روزِ اول ہی سے سرگرم عمل ہے۔     ان کوششوں کا دائرہ طبعی لحاظ سے نہیں ہے کہ اس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتے‘ اور نہ معاشرتی اعتبار سے ہے‘ کیونکہ معاشرتی روابط کے بغیرانسانی زندگی کا تانا بانا نہیں بُناجاسکتا۔ یہ قلب و ذہن کا دائرہ ہے: میل ملاپ‘ افہام و تفہیم‘ باہمی تعاون اور اس دنیا میں مل جل کر امن و امان اور محبت کو عام کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ اندیشوں اور ناکامیوں کے باوجود اس عظیم کام میں آدم و حوا کے   بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے ناقابلِ مزاحمت کشش موجود رہی ہے۔ مل جل کر رہنے کی مشکلات نے انسانی خواہشات اور جدوجہد کو اکثر حیرانی اور مایوسی سے دوچار کیا ہے‘ لیکن اس کے لیے کوشش کو کبھی ترک نہیں کیا گیا‘ اگرچہ یہ حقیقت سے زیادہ ایک خواب‘ اور کارنامے کے بجاے ایک تمنا   رہی ہے۔

تخلیق کے ہر اظہار میں تنوع لازماً ہوتا ہے لیکن وحدانیت اس کا منبع اور جوہر ہے۔ اگر اسی تنوع سے آدمی یہ سیکھنے کے لیے آمادہ ہو کہ وہ کس راستے پر چل کر اپنے خالق کو تلاش کرے اور اس تک پہنچے‘ تو اس جستجو میں مایوس ہونے کا کوئی جواز نہیں:

اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں۔ شاید کہ تم اس سے سبق لو (کہ خدا ایک ہے)۔ پس دوڑو‘ اللہ کی طرف۔ (الذاریات ۵۱:۴۹-۵۰)

اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدایش اور تمھاری زبانوں اور تمھارے رنگوں کا اختلاف ہے۔ یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں دانش مند لوگوں کے لیے۔(الروم ۳۰:۲۲)

کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے۔ پھر اس کے ذریعے سے ہم طرح طرح کے پھل نکال لاتے ہیں‘ جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ پہاڑوں میں بھی سفید‘ سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں‘ جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں‘ اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں۔ (فاطر ۳۵:۲۷-۲۸)

باہم مل جل کر رہنے میں جو بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں‘ ان میں مذہب‘ خصوصاً زیادہ مانے جانے والے مذاہب اور عقائد کے اختلاف کو عرصۂ دراز سے اہم ترین قرار دیا جاتا ہے۔ یہ بات ایک حد تک درست ہے۔ ان عقائد کو تشدد اور تنازعات پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے‘ تاہم مغرب میں ’روشن خیالی‘ کے دور نے اس تصور کی نشوونما میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ عقلی و ذہنی ارتقا سے قطع نظر بعض تاریخی وجوہ نے بھی مغربی فکر میں مذہب کے اس تصور کو نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دنیا کا کوئی خطہ بھی اس سے مبرا نہیں کہاجاسکتا‘ لیکن یورپ خصوصی طور پر مذہب کے نام پر شدید تشدد کا منظرنامہ پیش کرتا رہا ہے۔ ایک ایسے وقت جب مختلف عقائد کی حامل مختلف اقوام مختلف علاقوں میں مل جل کر رہ رہی تھیں‘ یورپ مذہبی بنیادوں پر جنگوں اور مذہبی اقلیتوں پر’ہسپانوی حل‘ ] مذہبی تطہیر[ مسلط کرنے میں مصروف تھا۔ یہاں تک کہ ۱۹۹۰ء میں بھی اس کے نزدیک مذہبی اختلافی مسئلے کا حل اقلیتوں کا صفایا یا مکمل جلاوطنی ہی قرار پایا ہے] جیساکہ بوسنیا میں مظاہرہ کیا گیا[۔ یہی سب سے بڑا سبب ہوسکتا ہے کہ مذہبی تکثیریت (pluralism) کی حقیقت اور اس کے مطالبات سے ہم آہنگی کی ضرورت‘ جو صدیوں سے بہت سے لوگوں کے نزدیک زندگی کی ایک حقیقت کے طور پر چلی آرہی ہے‘ مغرب پر اب اتنی دیر بعد منکشف ہوئی ہے۔

اتحاد انسانی میں مذہب کا کردار

سوال یہ ہے کہ بنی نوع انسان کو متحد کرنے میں آج مذہب کیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے؟

اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مذہبی شخصیتوں کے باہمی مکالمے کی ضرورت ایک بڑا چیلنج ہے‘ خواہ اس مکالمے کی ابتدا مغرب کی طرف سے ہو۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ تمام مذاہب کو ایک سائنسی نقطۂ نظر کی سطح پر لانے کا خبط بھی مغرب ہی کی پیداوار ہے‘ بجاے اس کے کہ ایک ایسا خاکہ تیار کیا جائے جو الہامی مذاہب کی حیثیت سے ان کے الگ وجود کو تسلیم کرے۔

اس حقیقت کو واضح طور پر تسلیم کرنا چاہیے کہ مذہبی عقائد نے بنی نوع انسان کو تقسیم کرنے میں کوئی بڑا یا فیصلہ کن کردار ادا نہیں کیا۔ دراصل دوسرے عقائد (لادینیت‘ قوم پرستی وغیرہ) نسلِ انسانی کی بقا کے لیے بڑے خطرے بن گئے ہیں۔ یہ عقائد کسی آسمانی خدا کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ انسان کی خدائی میں روبہ عمل ہیں۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ ’روشن خیالی‘ کے جڑواں بچوں‘ یعنی لادینیت اور قوم پرستی کے پیدا کردہ تشدد کے سامنے مذہب کے جرائم ماند پڑ جاتے ہیں۔ ذرا دیکھیں کہ دونوں عظیم جنگوں کے دوران‘ ہیروشیما اور ناگاساکی پر‘ اس کے بعد کوریا اور ویت نام‘ ہنگری اور چیکوسلوواکیہ پر اور اب سابق یوگوسلاویہ ]اور افغانستان اور عراق[ پر کیا گزر رہی ہے؟ قوم پرستی یا نسل پرستی کی قربان گاہوں پر‘ ترقی اور توسیع پسندی کی ناقابلِ تسکین پیاس اور نام نہاد انسان پرستی اور سائنسی طریقۂ کار کی کوکھ سے پیدا ہونے والے نظریات کے لیے جو خون بہایا گیا ہے وہ اتنا زیادہ ہے کہ اس کا کوئی حساب نہیں لگایا جا سکتا۔

’ایک عالم گیر دنیا‘ کے ظہور نے‘ جو ٹکنالوجی کی متنوع برکات کا تحفہ ہے‘ مل جل کر رہنے کے کام کو آسان نہیں بنایا۔ اس سے قبل مشکلات اور خطرات ایسے مشکل اور گمبھیر نہ تھے جیسے کہ اب ہیں۔ فاصلوں کے سمٹ جانے کے عمل نے لوگوں کو ایک دوسرے سے قریب نہیں کیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ آواز کی رفتار سے ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ سکتے ہیں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ خیالات‘ تصورات اور اطلاعات کو ایک لاکھ ۸۶ ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے کرئہ ارض کے پار پہنچایا جاسکتا ہے۔ پھر بھی صدیاں گزرنے کے باوجود باہمی محبت‘ فہم و ادراک اور خیرخواہی کے جذبات ایک پڑوسی سے دوسرے پڑوسی تک نہیں پہنچے ہیں۔ امرواقعہ یہ ہے کہ میں‘ ولفریڈ کانٹ ویل سمتھ کی رجائیت پسندی اور خوشی میں شریک ہونا مشکل سمجھتا ہوں۔ جب وہ یہ کہتا ہے کہ   ’فی الحال کم سے کم تشدد‘ باہمی چپقلش اور نفرت سے چھٹکارا پا لیا گیا ہے یا پایا جا سکتا ہے‘ اور تنہاپسندی اور جہالت جلدی ختم ہونے والی ہیں۔ ماضی میں تہذیبیں ایک دوسرے سے بے نیاز رہیں‘ اب ایسا نہیں ہے۔ ہم تفصیلی طور پر ایک دوسرے سے آگاہ ہوچکے ہیں اور مذہبی اور  ثقافتی سطح پر بھی تدریجاً آگاہی حاصل کر رہے ہیں۔۱؎

آیئے! لوگوں میں پائے جانے والے سیاسی‘ ثقافتی اور نسلی فاصلوں کو ایک لمحے کے لیے نظرانداز کر دیں اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں پر نگاہ ڈالیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ واقعتاً یا استعارۃً قریب کے پڑوسی ہوں اور ایک دوسرے کے بارے میں مکمل معلومات کتابوں کی الماری میں موجود ہوں‘ لیکن عدمِ واقفیت پہلے ہی کی طرح غیرمعمولی ہے۔ آگاہی پہلے ہی کی طرح بہت کم ہے‘ اور حقیقی علم تاحال ایک دور کا خواب معلوم ہوتا ہے۔ میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کسی غیرمسلم کی‘ خواہ وہ کتنا ہی عالم و فاضل کیوں نہ ہو‘ جو بھی تحریر اٹھاتا ہوں‘ اسے پہلے سے تشکیل شدہ تصورات‘ مضحکہ خیز خاکوں‘ لاعلمی حتیٰ کہ تعصبات سے بھرپور پاتا ہوں۔ غیرمسلم جب کسی مسلمان کی تحریر پڑھتے ہوں گے تو ان کے بھی اسی طرح کے تاثرات ہوتے ہوں گے۔ کیا ہم سب اپنے آپ کو اور دوسروں کو رنگ دار شیشوں سے دیکھتے ہیں؟ معلوم ہوتا ہے کہ اب‘ جب فاصلے سکڑرہے ہیں‘ ذہنوں‘ دلوں اور رویوں کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ تناسب بالمعکوس ہوں۔

یقینا مذہب بنی نوع انسان میں تفرقات پیدا کرنے اور خون بہانے کا اصل ذمہ دار نہیں۔ بلکہ اگر مناسب طریقہ اختیار کیا جائے تو اب بھی یہ واقعی ’ایک عالم گیر دنیا‘ کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے‘ یعنی ایک ایسے عالم گیر معاشرے کا قیام جو ایک ’خدا کے کنبے‘ کی طرح زندگی گزارے۔ کیا مذہب اس دعوے کو کچھ قریب لا سکتا ہے؟ بنی نوع انسان کی بقا کو جو چیلنج درپیش ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ اسے یہ کوشش ضرور کرنی چاہیے۔

بین المذاہب مکالمہ

اس حوالے سے مذہبی شخصیتوں کے لیے اپنے ماضی‘ حال اور مستقبل پر بحث و مباحثے کے لیے ایک اجلاس کا انعقاد بہت ضروری ہے۔ ایسے اجلاس یا مکالمے کا مفید اور معنی خیز ہونا شرکا پر منحصر ہوگا لیکن اس کی اصل اہمیت یہ ہوگی کہ مختلف مذاہب کے ماننے والے اکٹھے ہوکر‘ کھل کر اپنے مماثلات اور تضادات‘ اپنے تاریخی اور حالیہ تعلقات کی حرکیات اور ان خاکوں‘ مثالیوں اور مفروضوں پر غور کریں جو ان کے باہمی رشتوں سے تعلق رکھتے ہوں اور جو اُس الہامی دانش کے خزانے سے اخذ کردہ ہوں‘ جو ان سب کے پاس ہے۔

اس کا مقصد ایک عالمی مذہب‘ یا کلی یکسانیت یا ہمہ گیر ہم آہنگی نہیں جیسا کہ اس سے قبل بیشتر لوگوں نے اپنے مکالمات میں بیان کیا ہے۔ میری رائے میں اس کا لازماً یہ مطلب بھی نہیں کہ مذہباً تبدیل ہوا جائے لیکن اس کا یہ مطلب ضرور ہے کہ ایک دوسرے کے ورثے کے بارے میں ایک بہتر نگاہ حاصل کرلی جائے‘ اور باہم اختلافات کو تسلیم کرتے ہوئے مشترکہ بنیادوں کو تلاش کیا جائے‘ نیز یہ معلوم کیا جائے کہ کیا کچھ بجا طور پر خود ہمارے ورثے کا جزو ہے۔

تاہم‘ اگر ہم بہت واضح اور مشترک باتوں کے علاوہ دیگر امور کو اس خوف سے تسلیم کرنے سے انکار کر دیں کہ اس کا مطلب تبدیلیِ مذہب ہوگا‘ اورہم اپنے اختلافات کی اصل نوعیت کا کھوج لگانے اور اس پر بحث کرنے سے اس خوف سے ہچکچائیں کہ اس سے ہماری دوستیاں اور رفاقتیں متاثر ہوں گی اور اپنی مذہبی صداقتوں کے بارے میں ہمارے بیانات کو وعظ سمجھ لیا جائے گا‘ تو اس طرح ہمارے بین المذاہب مکالمے کا ایک اہم مقصد پسِ پشت چلا جائے گا۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ اگر ہم مشترکہ مقاصد کے لیے بعض امور پر متفق ہوکر جدوجہد کریں تاکہ باہمی تعلقات اور عام انسانی حالت میں بہتری پیدا ہو‘ تو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ اگر اس طرف توجہ نہ کی گئی تو سیاسی اور لادینی تنازعات جو آج ہمارے درمیان پُرتشدد تفریق پیدا کر رہے ہیں‘ وہ مذہبی اختلاف سے بھی زیادہ سنگین ہوسکتے ہیں۔ یہ عموماً مذہبی اجلاسوں کے ایجنڈے میں جگہ نہیں پاتے۔ ایس جے سمارتھا کہتی ہیں: مذہبی شخصیات کے اجلاس کا اہم ترین مقصد یہ ہوگا کہ وہ ہمارے مخصوص ورثوں کے ماخذ کا تعین کرے اور ان کی ایسی تعبیر کرے جو ہمیں ساتھ رہنے میں مدد دے، ۲؎کیونکہ ہم ایک مشترک مستقبل میں حصہ دار ہیں۔ ساتھ رہنے کے لیے اتنا ہی‘ یا اس سے بھی زیادہ اہم‘ ان ماخذ کا تعین ہو سکتا ہے جن میں ہم حصہ دار ہیں‘ جو ہمارے لیے مخصوص نہیں ہیں لیکن یہ ہمارا مشترکہ ورثہ بن گئے ہیں۔ بڑے اور سنگین قسم کے اختلافات اور بے شمار تنازعات کے باوجود ایسے ماخذ قلیل نہ ہوں گے‘ اور آج بین المذاہب تعلقات قائم کرنے کے لیے ان کی تلاش‘ ہو سکتا ہے کہ‘ بہ نسبت کسی اور چیز کے‘ زیادہ ثمرآور ثابت ہو۔

مختلف مذاہب کی مشترک بنیاد

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ یہودیت‘ عیسائیت اور اسلام میں بہت سی باتیں مشترک ہیں اور اس لیے امید کی جا سکتی ہے کہ اس عمل کے نتیجے میں ایسے مزید ماخذ ملیں۔ لیکن عملاً صورت حال یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا ہیں اور رہے ہیں۔ شاید ہم اسی لیے محاذ آرا ہیں کہ ہم میں مشترکات بہت ہیں۔ یہ بذاتِ خود تحقیق کا ایک دل چسپ موضوع ہو سکتا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دوسرے بڑے مذاہب کے ساتھ مشترک ماخذ کی تلاش و جستجو کو بھی کچھ کم ثمرآور ثابت نہ ہونا چاہیے‘ اگر ہم صرف یہ کام کریں کہ تاریخ نے ان پر جو تہیں چڑھا دی ہیں ان کو اتار دیں‘ اور ان کی تہ میں پوشیدہ زبان اور علامات کے پس پردہ اصل مطالب نکال لیں۔ ہمیں ان تین مذاہب کے بارے میں بھی یہ جائزہ لینا ہوگا کہ ان میں کیا چیز مشترک ہے‘ تاکہ ان طریقوں کے بجاے جو خود انسانی ذہن نے اللہ تک رسائی کے لیے اختیار کیے ہیں۔ ان طریقوں کو معلوم کیا جائے جو اللہ نے انسانی ذہن کو اپنے تک رسائی حاصل کرنے کے لیے سکھائے ہیں  (یہ بجاے خود ایک بدیہی مفروضہ ہوگا جو دوسرے کے خلاف ہوگا)۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ایک بڑی دل چسپ مشق ثابت ہو۔

اگر ہم مذہب کے ماخذ کی تعریف اس کے صحیفے‘ اس کی روایات‘ اس کی تاریخ‘ اس کی ثقافت‘ اس کی موروثی دانش‘ اور اس اصول کی روشنی میں کی جائے جو اس نے دوسرے مذاہب کی اقوام سے اپنا رشتہ یا تعلق استوار کرنے کے لیے استعمال کیا ہے‘ تو مجھے یہ بات جرأت سے کہہ ڈالنی چاہیے کہ یہودیت‘ عیسائیت اور اسلام جو مشترکہ سرمایہ رکھتے ہیں‘ اس میں کوئی بات اتنی مشترک اور ان کے لیے ایسی لازمی اہمیت کی حامل نہیں ہے جتنی کہ نبوت کا ادارہ اور بعض انبیا علیہم السلام کی شخصیات۔ انبیا علیہم السلام بحیثیت ایسے انسان جن سے اللہ ہمکلام ہوا اور جنھیں اللہ نے انسانوں کو یہ سکھانے کے لیے مبعوث کیا کہ اللہ کی عبادت کیسے کی جائے‘ ہمارے مذاہب میں اتنا اہم اور نمایاں مقام رکھتے ہیں کہ شاید ’مشترکہ وسیلے‘ کے طور پر نبوت سے زیادہ کوئی چیز ہماری توجہ کی محتاج نہیں۔

یہ صحیح ہے کہ اس معاملے میں ہمارے درمیان بنیادی اور سنگین قسم کے اختلافات موجود ہیں۔ ایسے اختلافات جو غالباً دوسری چیزوں سے بڑھ کر ہمارے تنازعات کا باعث رہے ہیں۔ ایک طرف ہم نبوت کے استدراک میں اختلاف رکھتے ہیں‘ خصوصاً عیسائی فہم کے مطابق ’’یسوعؑ کی گواہی ہی نبوت کی روح ہے‘‘۔ مسلمان ایک محدود مفہوم اور اپنی تعبیر کے مطابق شاید اس نظریے سے کچھ ہمدردی رکھتے ہیں‘ مگر یہودی ہرگز اس پر راضی نہ ہوں گے۔ دوسری طرف ہم اس ضمن میں شدید اختلاف رکھتے ہیں کہ حقیقی اور سچا نبی کون ہے؟ جب بات حضرت عیسٰی ؑ اور آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اسلامی نقطۂ نظر تک پہنچتی ہے‘ تو ہم دو مختلف کناروں پر پہنچ جاتے ہیں۔ عیسائی اور یہودی دونوں اسلامی نقطۂ نظر سے ہرگز اتفاق نہیں کر سکتے۔ یہ اختلافات ہمارے مذاہب میں کچھ کم اہمیت نہیں رکھتے۔ البتہ اگر ہم اعتماد اور بھروسے کے ساتھ مذہبی شخصیات کی حیثیت سے‘ مفید نتائج کے لیے میل جول جاری رکھنے کے متمنی ہوں تو ان ماخذ کی باہم جستجو کو‘ جن میں ہمارا مشترکہ حصہ ہے‘ خواہ یہ اشتراک اتفاق میں ہو یا اختلاف میں‘ زیادہ عرصے تک معرض التوا میں نہیں ڈالے رکھنا چاہیے۔

پہلے قدم کے طور پر کچھ دیر کے لیے ہمیں فی الحال اس سوال کو ایک طرف اٹھا رکھنا چاہیے کہ کون نبی تھا‘ اور اس ادارے کے بنیادی خدوخال پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو ہم سب اپنی روایات میں بھرپورطریقے سے موجود پاتے ہیں۔ کیا یہ سودمند نہ ہوگا کہ ایک ایسے موضوع کا مطالعہ کیا جائے جو کسی ایسے نمونے یا خاکے کی بنیاد فراہم کر سکے جس پر ہم ’ایک عالم گیر دنیا‘ کے مذاہب میں رشتوں کی تعمیر کر سکیں۔ اس امید پر کہ یہ ممکن ہے‘ میں اس مقالے کے بیشتر حصے میں ان موضوعات پر گفتگو کروں گا جو اسلام میں نبوت کے تصور کے مطالعے کے دوران واضح ہوتے ہیں۔

ایسا کرتے ہوئے میں خصوصی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پاک کی تعلیمات پر انحصار کروں گا۔ صرف اس لیے نہیں کہ میں ایک مسلمان ہوں‘ بلکہ اس لیے بھی کہ میرے خیال میں قرآن اس ادارے کے بنیادی خدوخال سے بہت جامع اور تفصیلی بحث کرتا ہے‘ اور اس طرح ہمیں اس قابل بناتا ہے کہ ہم ایک مربوط اور مکمل نظریہ تشکیل دے سکیں۔ جو کچھ انبیا علیہم السلام نے کہا یا کیا‘ جس کا انجیل میں بڑی تفصیل سے اور بڑے مؤثرانداز میں تذکرہ موجود ہے‘وہ بھی ایک قیمتی ماخذ ہوگا۔ میرا مقصد یہ ہے کہ اس اہم دائرے میں قرآنی بصیرت کو ایک بین المذہبی گروہ کے سامنے تنقیدی جائزے کے لیے پیش کروں۔

نبوت کے موضوع پر علماے یہود و نصاریٰ کے مطالعوں کی کمی نہیں ہے۔ مگر وہ زیادہ تر عہدنامہ عتیق تک محدود رہتے ہیں اور یہ قابلِ فہم بھی ہے۔ اپنی محدود تحقیق و جستجو کے دوران  نبوت کے قرآنی نقطۂ نظر کا کسی غیرمسلم کا تفصیلی مطالعہ میری نظروں سے نہیں گزرا‘ سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بحیثیت پیغمبر مطالعے کے‘ جو ہمیشہ ایک ہی حتمی نتیجے پر پہنچتا ہے۔ زیادہ تر لکھنے والے خدا سے گزر کر اسلام میں نبوتؐ کے موضوع کو چھیڑے بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر آجاتے ہیں‘ حالانکہ قرآن اس پر اتنا زیادہ زور دیتا ہے۔ اس صورت حال پر تعجب ہوتا ہے کیونکہ غیرمسلم اہلِ علم نے قرآن کے اٹھائے ہوئے اکثر چھوٹے اور معمولی اہمیت کے حامل معاملات پر بھی تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔

مغربی اہلِ علم کی طرف سے مطالعے کے اس میدان کی طرف اتنی کم توجہ کیوں دی گئی؟ اس سوال کا کوئی مکمل جواب نہیں ہو سکتا۔ شاید قرآنی نظریہ اس لیے مسترد کر دیا گیا کہ عقلی اور مذہبی لحاظ سے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یا اس لیے کہ اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے پیش کردہ ایک ایسی چیز کے طور پر دیکھا گیا ہے جس سے ان کے دعویٰ (نبوت) کو تائید مل جائے‘ اور ان کی پوزیشن کو اپنے مخالفین کے مقابلے میں سہارا مل جائے‘ یا شاید مغربی اہلِ علم قرآن میں عرب تاریخی تناظر کی کمی کی طرف زیادہ متوجہ رہے ہیں‘ اور اس حیرت میں مبتلا رہے ہیں کہ گذشتہ انبیاؑ کے ناموں کا مختلف جگہوں پر مختلف ترتیب کے ساتھ کیوں تذکرہ کیا گیا ہے‘ اور انھیں ایک صاف اور واضح تاریخی سلسلے کی صورت میں کیوں نہیں بیان کیا گیا‘ جیسا کہ ایک انسان سے بحیثیت مصنف کرنے کی امید کی جاتی ہے۔ اس طرح یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تدریجی اور قدیم تاریخی معلومات کو بائبل سے ماخوذ ثابت کرنا چاہتے تھے۔

قرآن کے ساتھ رویہ

قرآنی بیانات میں نہ صرف ہدایت ربانی اور نبوت کا ایک خاص نقطۂ نظر موجود ہے‘ بلکہ انسان کی ابتدا اور انسانی مذہبی تاریخ کا نظریہ بھی موجود ہے جو مغرب کے بیشتر اہلِ علم کے لیے خوف اور ناراضی کا باعث ہے۔ اپنے روایتی علم وفکر پر مضبوطی سے جمے ہونے کی وجہ سے یہ ان کے نزدیک اس حد تک ناپسندیدہ ہے کہ وہ اس پر دوسری نظر ڈالنا بھی پسند نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک یہ سب کچھ ساتویں صدی کے ایک اَن پڑھ عرب کی طبعی سائنسی علوم‘ تاریخ اور فلسفہ کے میدان میں‘ جو اب اتنی ترقی کرچکے ہیں‘ خلل اندازی ہے اور یہ بھی اس طرح کہ اس کے پیچھے کوئی حتمی یا فیصلہ کن یا غالب تجرباتی شہادت کا وزن نہیں ہے۔

مجھے یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ قرآن جو کچھ کہتا ہے اس کی تائید میں ابھی تک کوئی حتمی یا اغلب تجرباتی شہادت موجود نہیں ہے‘ لیکن کیا اس کے خلاف کوئی حتمی شہادت موجود ہے؟ کم از کم مجھے تو اب تک ایسی کوئی شہادت نہیں ملی اور نہ مجھے انسان کے آغاز کے حوالے سے ارتقا کے نظریے کے حق میں‘ یا مذہب کی تاریخ کے حوالے سے فطری مذہب سے لے کر نبوی مذہب تک‘ یا بہت سے خدائوں پر عقیدے سے لے کر ایک خدا پر ایمان تک کے حق میں‘ کسی قسم کی حتمی شہادت ملی ہے۔ اس امرسے قطع نظر کہ اگر کوئی حتمی شہادت کبھی میسر آ بھی جائے جس سے سائنسی طور پر کسی سچائی کو ثابت کر دیا جائے یا اگر سائنس حتمی صداقت تک پہنچانے کا دعویٰ کرتی ہے‘ پھر بھی یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ تاریخ کے کسی خاص مرحلے پر کیا دستیاب تاریخی شہادت کو حتمی طور پر قبول کر لیا جائے تاکہ علم کی ہر دوسری شاخ کو اس کے خاکے میں فٹ کر دیا جائے اور اسی کے مطابق اسے قبول یا رد کیا جائے؟ اگر قرآنی نظریے کے چند اہم عناصر کی تائید میں خاطرخواہ تجربی دلائل فراہم ہوجائیں تو میں جو تجویز پیش کرنا چاہوں گا وہ یہ ہوگی کہ یہ نظریہ اگرچہ میرے ایمان کی بنیاد ہے‘ پھر بھی اس کو تین سوالات کی روشنی میں ایک مفروضہ یا اندازہ سمجھا جائے۔ (الف) اسے غلط ثابت کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ (ب) کیا یہ قابلِ عمل ہے اور کسی معلوم شہادت کی توجیہہ کرتا ہے؟ (ج) کیا یہ ’ایک عالم گیر دنیا‘ میں بین المذہبی تعلق کے خاکے کو اجاگر کرنے کے لیے کارآمد ہے؟ تحقیق و جستجو کا ایک سائنسی راستہ یہ بھی ہے کہ ایک مفروضہ تیار کر لیا جائے اور دیکھا جائے کہ کیا موجودہ صورت حال میں اس کا اطلاق ہوسکتا ہے۔

قرآنی نظریے کو اسلام کا اس طرح کا سادہ لیکن شدید موقف قرار دے کر بہ نظر حقارت دیکھا جاتا ہے جو اپنی صداقت کے ثبوت اور آخری مذہب ہونے کی اپنی حیثیت کی بنیاد پر    نوع انسان کی کُل مذہبی تاریخ پر اپنی چھاپ چاہتا ہے۔ یہ ایک نقطۂ نظر ہوسکتا ہے‘ لیکن ایک دوسرا نقطۂ نظر بھی ہو سکتاہے۔ قرآن دعویٰ کرتا ہے کہ پہلا انسان نبی تھا‘ مسلم تھا‘ اس کا مذہب اسلام تھا‘ اور یہ کہ سب نبی مسلم تھے اور وہ اسلام ہی لے کر آئے تھے۔ اس دعوے سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ بعض ایسے اہم مذہبی مقدمات پیش کر رہا ہے جو نجات‘ انفرادیت اور عروج کی طرف رہنمائی کرنے کے بجاے ’ایک عالم گیر دنیا‘ میں مختلف مذاہب کے اکٹھے رہنے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔

اسلامی نظریہ: بنیادی نکات

اسلامی نظریہ جن نکات کی طرف اشارہ کرتا ہے وہ یہ ہیں:

ا-             تمام مذاہب کا ماخذ الہامی یا آسمانی ہے۔ لہٰذا الہامی رہنمائی پر کسی خاص گروہ‘ نسل یا مذہبی مسلک کی اجارہ داری نہیں ہے۔

ب-           مختلف ہونے کے باوجود تمام مذاہب کے کچھ عناصر مشترک ہونے چاہییں کیونکہ ان سب کا آغاز ایک ہی منبع سے ہوا ہے۔

اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ اسلام کا ہرگز یہ دعویٰ نہیں ہے کہ تمام انبیاؑ اسلام کی وہی صورت (version) لائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے۔ وہ ایک بہت سادہ پیغام لائے جو اسلام کا اصل جوہر ہے‘ یعنی:

ا-             اللہ ایک ہے۔ صرف اسی کی عبادت کرو اور صرف اسی سے ڈرو۔

ب-           میری پیروی کرتے ہوئے بھلائی کرو اور برائی سے بچو۔

اب ہم نبوت کے اسلامی تناظر پر ایک سرسری نظر ڈال سکتے ہیں۔ اس کی بنیاد اور حقیقت کیا ہے؟ اسلام اس کو انسان کی زندگی کے سارے منصوبے میں کیا مقام دیتا ہے؟ اس کے بڑے اور اہم خدوخال کیا ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ خداے واحد کی دنیا میں مذہبی تکثیریت کی قبولیت کے کس راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے؟ ہم یہاں آزادی فکر کے فلسفیانہ مضمرات پر زیادہ بحث نہیں کریں گے۔ ہم تو ایسی واضح اور قابلِ فہم اصطلاحات میں بات کریں گے جو ایک عام آدمی کی سمجھ بوجھ کے مطابق ہوں۔ مثال کے طور پر: ’اللہ کا وجود ہے‘ اس کے مخاطب فلسفی اور اہلِ علم نہیں بلکہ عام انسان ہیں جو مل جل کر رہنے کے مسائل سے نبردآزما ہیں۔ اہلِ علم کی اہمیت سے انکار نہیں‘ لیکن فی الحال وہ انتظارکرسکتے ہیں۔

ربانی رہنمائی

نبوت کے اسلامی نظریے کی ساری بنیاد اس پر ہے کہ خدا صرف ایک ہے۔ صرف وہی ہمیشہ کی زندگی کے بارے میں سوالات کے جوابات کی طرف ہماری رہنمائی کرسکتا ہے۔ انسانی زندگی کا مفہوم اور مقصد کیا ہے؟ اس کا آغاز کیسے ہوا؟ اور یہ ہم کو کہاں لے جاتی ہے؟ ان کے جوابات کی روشنی میں انسان اپنی زندگی کو کیسی شکل دے اور کس طرح گزارے؟ یا مذہبی زبان استعمال کی جائے تو: انسان خدا کی عبادت کس طرح کرے--- صرف خدا ہی خود بتا سکتا ہے۔ صرف اس کی ہدایت ہی علم اور مکمل سچائی ہے۔ باقی سب گمان ہی کیا جا سکتا ہے جو جزوی علم یا جزوی سچائی ہوگی۔

صاف کہہ دو کہ راستہ بس وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے۔ (البقرہ ۲:۱۲۰)

اور کہو کیا ان میں کوئی ہے جس کو تم خدا کے ساتھ شریک کرتے ہو‘ جو سچائی کی طرف تمھاری رہنمائی کرے۔ کہو ’’صرف اللہ ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ وہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو خود راہ نہیں پاتا الا یہ کہ اس کی رہنمائی کی جائے؟ آخر تمھیں کیا ہوگیا ہے؟ کیسے الٹے اُلٹے فیصلے کرتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ محض قیاس اور گمان کے پیچھے چلے جا رہے ہیں۔ حالانکہ گمان حق کی ضرورت کو کچھ بھی پورا نہیں کرتا‘‘۔ (یونس۱۰:۳۵-۳۶)

مزیدبرآں:

اس معاملے کا کوئی علم انھیں حاصل نہیں۔ وہ محض گمان کی پیروی کررہے ہیں۔ یہ گمان حق کی جگہ کچھ بھی کام نہیں دے سکتا۔ (النجم ۵۳:۲۸)

بہت سے لوگ مظاہر قدرت کے بارے میں سائنس‘ ٹکنالوجی اور تاریخ کے ذریعے تجرباتی اعداد و شمار پر مبنی کچھ معلومات ضرور حاصل کر لیتے ہیں‘ لیکن کائنات اور زندگی کے پوشیدہ اسرار کے بارے میں وہ آسمانی رہنمائی یا ہدایت کے بغیر صرف قیاس اور خیال آرائی ہی کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ خدا کی عبادت کرنے کے لیے رہنمائی من جانب اللہ ہے‘ بلکہ یہ ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور اگر میں یہ کہوں کہ یہ ایک ایسی ذمہ داری اور فرض ہے جو خدا نے خود اپنے اوپر عائد کیا ہوا ہے‘ تو غلط نہ ہوگا (میں جو زبان استعمال کرتا ہوں‘ ضروری نہیں کہ وہ تینوں مذاہب کی روایت کے حوالے سے موزوں و مناسب ہو۔ میں ایک عالم ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کرتا لیکن میں ہر صورت قرآنی زبان کے قریب ضرور رہتا ہوں)۔ ’’یقینا ہم پر ہدایت دینے کی ذمہ داری ہے‘‘(اللیل ۹۲:۱۲)۔ یہ وعدہ اس وقت کیا گیا جب انسان کو پہلی دفعہ پیدا کیا گیا۔ ’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے کسی خوف یا رنج کا موقع نہ ہوگا‘‘۔(البقرہ ۲:۳۸)

انسانی ذریعہ

اللہ تعالیٰ اپنا فرض اور وعدہ پورا کرنے کے لیے انسان کا ذریعہ کام میں لاتا ہے۔     بنی نوع انسان کے لیے ایسے انسانوں کے ذریعے اپنی ہدایت نازل کرتا ہے جنھیں وہ منتخب کرتا ہے‘ جن سے وہ ہمکلام ہوتا ہے اور جنھیں‘ اپنے فرمودات کا اعلان کرنے کی ذمہ داری سونپ دیتا ہے۔

پیغام کا آغاز‘ اس کے مضامین اور اس کے الفاظ‘ سب مکمل طور پر من جانب اللہ ہوتے ہیں اور یہ انسانوں کے لیے اس کی رحمت و محبت کا بے پایاں اظہار ہے:

ہم نے اسے نازل کیا… تیرے رب کی رحمت کے طور پر۔ (الدخان ۴۴:۳-۶)

اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی پیغامبری کا کام کس سے لے اور کس طرح لے۔ (الانعام ۶:۱۲۴)

حقیقت یہ ہے کہ اللہ (اپنے فرامین کی ترسیل کے لیے) ملائکہ میں سے بھی پیغام رساں منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔ (الحج ۲۲:۷۵)

نبوت خدا کا عطیہ ہے‘ اس لیے صلاحیتوں کو نشوونما دے کر‘ یا مراقبہ کر کے‘ غوروفکر کرکے اسے ازخود حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ وحی ایک نفسیاتی مغالطہ(جنون) نہیں۔ یہ شاعرانہ تخیل بھی نہیں۔ یہ ایک سیاسی بصیرت یا خواہش بھی نہیں اور نہ یہ ایک صوفیانہ تجربہ ہے۔ یہ کوئی فعل نہیں‘ ذاتی اور انسانی ردعمل نہیں۔ کوئی نبی خدا کی طرف جو الفاظ منسوب کرتا ہے‘ ان میں سے کوئی اس کا اپنا نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہو تووہ جھوٹا ہوگا اور سب سے بڑا گنہگار۔ نہ وہ یہ کر سکتا ہے کہ فریب خیال یا جنون کی حالت میں الفاظ کو اللہ کی طرف منسوب کر دے۔ایسی صورت میں وہ بڑی مشکل سے انبیاؑ کی طرح رہنمائی کر سکے گا‘ سختیاں جھیلے گا یا اپنے مخالفین کا سامنا کرے گا۔ پیغامِ الٰہی ہمیشہ صاف‘ واضح‘ روشن اور شکوک و شبہات سے پاک ہوتا ہے۔ ’’پھر بھلا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا‘ اس کے بعد ایک گواہ بھی پروردگار کی طرف سے (اس شہادت کی تائید میں) آگیا‘‘۔ (ھود۱۱:۱۷)

واسطہ انسانی ہے کیونکہ مخاطب انسان ہیں۔ لوگوں کے لیے یہ سمجھنا ہمیشہ مشکل رہا ہے کہ بھلا انھی جیسا ایک انسان کیونکر اللہ کا پیغام وصول کر سکتا ہے؟ ایک گوشت پوست کا عام انسان کیونکر اللہ سے ہم کلام ہو سکتا ہے؟ پہلے بھی ایسی ہی مذہبی الجھنیں اور مشکلات پیش آتی رہی ہیں اور آج بھی سائنسی بنیاد پر اعتراضات ہیں (پھر بھی جب کبھی ایسے انسان سامنے آئے تو ان کی دین دارانہ زندگی کا لوگوں پر ایسا اثر ہوا کہ ان کو الوہیت کے مقام تک پہنچا دیا گیا)۔ مگر   قرآن پاک انبیاؑ کے انسان ہونے پر بہت اصرار کرتا ہے۔ ’’اے محمدؐ ان سے کہو پاک ہے میرا پروردگار۔ کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں؟ لوگوں کے سامنے جب کبھی ہدایت آئی تو اس پر ایمان لانے سے ان کو کسی چیز نے نہیں روکا‘ مگر ان کے اس قول نے کہ: ’’کیا اللہ نے بشر کو پیغمبر بنا کر بھیج دیا؟‘‘ ان سے کہو‘ اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو ان کے لیے پیغمبر بناکر بھیجتے‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷: ۹۳-۹۵)۔ یہی وجہ تھی کہ ہدایت انسانوں کی زبان میں آئی۔ بولنا انسانی فعل ہے۔ وہ اس کے لیے ذمہ دار ہے اور اس کے لیے آزاد اور بااختیار ہے۔

حضرت آدم ؑ کو جو علم دیا گیا تھا وہ اسماء کا علم تھا (البقرہ ۲:۳۱)۔ زبان سے مافی الضمیر کو بیان کرنا‘رحمت الٰہی کا سب سے بڑا تحفہ اور انسانیت کا جوہر ہے۔ لہٰذا یہ وحی کے عطیے کی ظاہری صورت ہے۔ (الرحمٰن ۵۵:۱-۹)

گو کہ انبیاؑ انسان تھے‘ قرآن ان کی پاکیزہ زندگیوں کو‘ ان کے بے داغ کردار کو‘ نیک چلنی کو‘ اللہ اور اس کے مشن پر ان کے غیر متزلزل ایمان اور وفاداری کو‘ راہ حق میں جو تکالیف انھوں نے صبر سے برداشت کیں‘ ان سب کو نہایت نمایاں کرتا ہے۔ بلاشبہہ وہ انسانیت کی معراج تھے۔ اس لیے یہ بات اہم ہے کہ وہ اپنے دعوئوں اور مثالوں میں سچے ہوں‘ اور ان کی پیروی کی جا سکے۔ ’’پھر ہم نے ہر ایک کو راہ دکھائی۔ اس طرح نیکوکاروں کو ان کی نیکی کا بدلہ دیتے ہیں… بہتوں کو ہم نے نوازا۔ اپنی خدمت کے لیے چُن لیا اور سیدھے راستے کی طرف ان کی رہنمائی کی‘ یہ اللہ کی ہدایت ہے جس کے ساتھ وہ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہتا ہے رہنمائی کرتا ہے…‘‘۔ (الانعام ۸۴۶-۹۰)

نبوت اور وحی سے متعلق بیانات کا یہ مطلب نہیں کہ موجودہ سائنسی چیلنجوں کے باعث جو مشکلات ان کی راہ میں کھڑی کر دی گئی ہیں انھیں نظرانداز کر دیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے لیکن کسی دوسرے موقع پر۔

تاریخ اور عالم گیریت

اگر الہامی ہدایت پانے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی سے انسانی زندگی کے مقصد کی تکمیل اور اخروی نجات حاصل ہوتی ہے تو پھر اس کا ظہور تاریخ کے کسی خاص لمحے کا انتظار نہیں کر سکتا۔ ’اولین انسان‘ پر اللہ کی طرف سے جو بارگراں ڈالا گیا وہ اتنا ہی بڑا اور عظیم تھا جتنا کہ کسی اور انسان کے لیے زمان و مکان کے کسی مرحلے پر ہوسکتا تھا۔ اس لیے پہلا انسان ہی نبی تھا اور اسے وہ ضروری علم حاصل تھا جو آخری نبیؐ کو اور درمیان میں آنے والے تمام انبیاؑ کو حاصل تھا۔ اللہ کے نبی تمام زمانوں‘ علاقوں میں اور مختلف زبانیں بولنے والوں میں آئے۔

اور اللہ نے آدم ؑاور نوح ؑاور آل ابراہیم ؑاور آل عمران کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر اپنی رسالت کے لیے منتخب کیا تھا ۔(اٰل عمرٰن۳:۳۳)۔

اے محمدؐ، ہم نے تمھاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح ؑاور اس کے بعد کے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی… اور ان رسولوں پر بھی جن کا تم سے ذکر نہیں کیا۔ (النساء ۴:۶۴)۔

ہر شخص کے آگے پیچھے اس کے مقرر کیے ہوئے نگران لگے ہیں۔ (الرعد ۱۳:۷)

ہم نے ہر اُمت میں ایک رسول بھیج دیا۔(النحل ۱۶:۳۶)

پیــغام

تمام انبیاؑ ایک ہی ضروری پیغام لائے:

اللہ کی عبادت کرو اور میری پیروی کرو۔ اور ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو۔ (الانبیا ۲۱:۲۵)

اور اگر کوئی اور چیز ان کے پیغام کا مشترک حصہ تھی تو وہ یہ تھی:

نیکی کرو اور ہم نے ان کو امام بنا دیا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے انھیں وحی کے ذریعے نیک کاموں کی اور نماز قائم کرنے کی اور زکوٰۃ دینے کی ہدایت کی۔ وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔ (الانبیا ۲۱:۷۳)

اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جو ہدایات لائے وہ تمام جزئیات میں ایک سی تھیں۔ رسوم و آداب‘ قواعد و ضوابط‘ معاشرتی اور انفرادی برائیوں پر توجہ کے لحاظ سے‘ ایک نبی کی تعلیمات دوسرے نبی سے مختلف ہوتی تھیں:

ہر اُمت کے لیے ہم نے ایک طریق عبادت مقرر کیا ہے جس کی وہ پیروی کرتی ہے۔ پس اے محمدؐ، وہ اس معاملے میں تم سے جھگڑا نہ کریں۔ (الحج ۲۲:۶۷)

تاہم‘ یہ اختلاف ان مذاہب کے پیروکاروں کے لیے اپنی نجات کا خصوصی دعویٰ کرنے یا پھر ایک دوسرے کے خلاف تشدد پر آمادہ ہو جانے کی بنیاد نہیں بن سکتا۔

ہم اب ان مقدمات سے آگے بڑھ سکتے ہیں کہ تمام مذاہب میں بہت سی باتیں مشترک ہونی چاہییں۔ اس لیے نہیں کہ انھوں نے ایک دوسرے سے مستعار لیا ہوا ہے بلکہ اس لیے کہ ایک ہی خدا نے اپنا کلام تمام انبیاؑ تک پہنچایا ہے۔ یہ بات کہ ایک ہی بنیادی پیغام ہر مذہب کا سرچشمہ تھا اور یہ اب بھی ان کی میراث کا حصہ ہے‘ آنے والے تمام زمانوں کے لیے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے مابین باہمی تعاون اور امن کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

اس پیغام کے اجزا ایک سچے نبی کو ایک جھوٹے نبی سے ممیز کرنے کا ایک اہم معیار فراہم کرتے ہیں۔ دوسرا معیار اس نبی کی راست بازی اور پاکیزہ زندگی ہے جس نے ہمیشہ اپنے زمانے پر اور آیندہ نسلوں پر ایک گہرا نقش چھوڑا۔ (جاری)

(Encounter, Living Together in a World of Diverse Faiths: An Islamic Perspective ‘جلد ۵‘ شمارہ ۱‘ ۱۹۹۹‘ صفحات ۳-۲۹‘ اسلامک فائونڈیشن لسٹر‘برطانیہ)


حواشی

۱-            ولفرڈ کانٹ ویل سمتھ: On Understanding Islam (Selected Studies)  (مائونٹین پبلشرز‘ دی میگ‘ ۱۹۸۱ئ)‘ ص ۲۹۳۔

۲-            ایس جے سمارتھا (مدیر) Towards World Community (ورلڈ کونسل آف چرچز جنیوا ۱۹۷۵ئ) ص ۴۰۔

ہمارے مسلمان معاشرے میں امام مسجد کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ عام آدمی کی نظر میں وہ ایک عالمِ دین ہوتا ہے۔ یہ ایک بہت بلند مقام ہے۔ حدیث رسولؐ کے مطابق علما درحقیقت انبیا کے وارث ہیں۔ لہٰذا امامت کا فریضہ اپنے مرتبہ و مقام کے لحاظ سے خدا کی کسی بڑی نعمت سے کم نہیں‘ اور جسے وہ اپنی مشیت سے اس منصب کے لیے منتخب کرلے فی الواقع اسے ایک بڑی نعمت حاصل ہوگئی۔ اس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے‘ اس لیے کہ اس کے پاس وہ علم ہے جو انبیاے کرام لے کر آئے‘ وہ انبیا کا وارث ہے‘ اور اسے لوگوں کی امامت و رہنمائی اور تزکیہ و تربیت کا موقع حاصل ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے مسجد کی امامت ہمارے معاشرے میں ایک چلن بن کر رہ گیا ہے کہ گویا یہ صرف دو رکعت کی امامت ہے‘ لیکن حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔ عملاً ایک امام اس مصلے پر کھڑا ہوتا ہے جس پر سیدالانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے تھے۔ یوں تمام ائمہ آپؐ کے وارث اور نائب ہیں۔ اس لیے ائمہ کو آج پھر وہی فرائض انجام دینے ہیں جو آپؐ نے انجام دیے۔

یہ بھی ہماری بدنصیبی ہے کہ ہمارے معاشرے میں مسجد کو وہ مقام حاصل نہیں رہا جو مسجدنبویؐ کو حاصل تھا ‘اور نہ ائمہ ہی کو وہ مقام حاصل ہے جو انھیں حاصل ہونا چاہیے۔ مسجد محض ایک عبادت گاہ بن کر رہ گئی ہے جہاں نمازی حضرات رسماً عبادت کے لیے آتے ہیں۔ اب اس بات کا شعور نہیں رہا کہ مسجد صرف ایک عبادت گاہ نہیں ہے بلکہ اسلامی بستی کے مرکز کی حیثیت رکھتی ہے‘ اور امام محض امامِ مسجد نہیں ہے بلکہ فی الواقع وہ اس بستی کا قائد و فکری رہنما ہے۔ مسجد تو اُمت کی زندگی کا مرکز ہے۔ اذان و نماز کے ذریعے ایک مسلمان کے ایمان و عہدِ بندگی کو تازہ کرنے اور اطاعت کی مشق دن میں پانچ مرتبہ کروائی جاتی ہے۔ اخوت‘ مساوات اور ہمدردی و غم خواری کا سبق سکھایا جاتا ہے۔ وہ اپنے بھائیوں سے بے تعلق نہیں رہ سکتا کہ ان کے دکھ درد میں شریک نہ ہو اور ان کے دکھ نہ بانٹے۔

یہ مرکز دعوت و ارشاد ہے۔ اس لیے کہ یہاں احکامات الٰہی سے روشناس کروایا جاتا ہے۔ مسجد تعلیم و تربیت کا مرکز ہے‘ مدرسہ و اسکول ہے اور لائبریری و مطالعہ گاہ ہے۔ سیاسی مرکز ہے جہاں قائدین و عوام اپنے مسائل باہم مشاورت سے حل کرتے ہیں۔ بیت المال ہے کہ زکوٰۃ وغیرہ جمع اور تقسیم کی جاتی ہے‘ اور حاجت مندوں کی کفالت کی جاتی ہے۔ عدالت ہے کہ جھگڑے نبٹائے جاتے ہیں‘ اور فیصلے کیے جاتے ہیں۔ مسجد مرکز ثقافت (کمیونٹی سنٹر) ہے جہاں شادی بیاہ اور مختلف مواقع پر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ افسوس کہ آج نہ ہم مسجد کے مقام سے صحیح طرح آگاہ ہیں اور نہ امام ہی اپنے منصب و مقام اور تقاضوں کو جانتا ہے   ع

رہ گئی رسمِ اذاں روح بلالی نہ رہی

تاریخ انسانی میں تین واقعات ایسے ہیں جنھوں نے اُمت مسلمہ کی تعمیروتشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے:

۱-            غارحرامیں نزولِ وحی کا آغاز ہوا۔ انسانیت کو قرآن دیا گیا جس پر اُمت کی پوری زندگی کی بنیاد ہے۔ قرآن وہ سرچشمۂ حیات ہے جس نے انسان کے لیے خدائی ہدایت کی تکمیل کی اور انسانیت کے لیے دین کو ایک مکمل اور جامع نظامِ حیات کے طور پر پیش کیا۔ نبی کریمؐ نے ایک جاں گسل جدوجہد کے بعد قرآنی نظام کو دنیا میں نافذ کر کے ایک جیتی جاگتی اسلامی ریاست کا نمونہ پیش کر کے دکھا دیا کہ انسانیت کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اب دنیا میں قرآنی نظام کے علاوہ کسی اور نظام اور ازم کی گنجایش نہیں۔

۲-            ۱۱ سال بعد مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کا واقعہ پیش آیا۔ یہ اتنا اہم واقعہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے کیلنڈر کی بنیاد اس پر رکھتے ہیں۔ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت‘ اسلام کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن سفر تھا۔ اس سے ایک اسلامی ریاست کی بنیاد فراہم ہوئی۔ معرکہ حق و باطل کا یہ وہ تاریخ ساز لمحہ ہے جس نے یہ فیصلہ سنا دیا کہ حق حق ہے اور اسے بالآخر غالب آنا ہے‘ اور باطل باطل ہے‘ اسے ایک روز لازماً مٹ جانا ہے خواہ وہ کتنی ہی طاقت‘ کروفر اور جاہ و حشم کا مالک ہو۔ اس کا مقدر بہرحال ذلت‘ شکست اور مٹ جانا ہی ہے۔

۳-            ۸ ہجری میں فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا اور دنیا کو یہ پیغام ملا کہ مستقبل اسلام کا ہے۔ فتح مکہ نے عملاً یہ ثابت کر دیا کہ انسانیت کو اگر امن‘ انصاف اور مسائل زندگی کے حل کے لیے کوئی متوازن‘ معتدل اور پایدار نظامِ حیات چاہیے تو وہ اسلام ہی ہے‘ اور اگر کوئی قابلِ تقلید بہترین اسوہ کی کسی کو تلاش ہے تو وہ نبی اکرمؐ کی ذات میں ہے--- ایک فرد کی زندگی سے لے کر ایک انسانی ریاست کی تشکیل تک!

تعمیرِمعاشرہ میں مسجد کا کردار

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تشریف لانے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ مسجد کی تعمیر کی۔ اس بات سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام میں مسجد کا کیا مقام اور کتنی اہمیت ہے۔ اس مسجد کی تعمیر میں آپؐ خود شریک ہوئے اور اپنے ہاتھوں سے پتھر اٹھائے۔ اگرچہ مسجد نبویؐ اپنی عمارت اور زیبایش کے لحاظ سے ایک عام سی مسجد تھی لیکن یہ مسجد دراصل ان تمام عالی شان مساجد کے قیام کی بنیاد بنی جو بعد میں دہلی‘ قرطبہ‘ اصفہان‘تاشقند اور لاہور میں نظر آتی ہیں۔ مسجد کا تعلق اُمت کی زندگی سے اسی وقت قائم ہوگیا تھا۔ مسجد دعوت‘ عدالت اور سیاست کا مرکز بن چکی تھی۔ مقدمات کا فیصلہ یہاں کیا جاتا‘ جہاد کے لیے پکار کر لوگوں کو جمع یہاں کیا جاتا‘ لشکر کی روانگی بھی یہیں سے ہوا کرتی۔ مجلس شوریٰ کا اجلاس بھی یہاں ہی ہوا کرتا تھا۔ پنج وقتہ نماز مسجد میں ہوتی تھی حتیٰ کہ منافق بھی مسجد میں حاضر ہوتے تھے۔ یہ تصور نہیں تھا کہ کوئی فرد‘ اُمت کا ایک فرد ہو اور مسجد میں حاضر نہ ہو۔ فجر کی نماز کی خصوصیت سے اہمیت تھی۔ خلیفۂ وقت حضرت عمرؓ جب نماز فجر کے لیے مسجد جایا کرتے تھے تو لوگوں کو نماز کے لیے جگایا کرتے تھے۔ صفیں درست اور سیدھی رکھنے کا مکمل اہتمام کرتے تھے۔ گویا مسلمان معاشرے میں مسجد‘ اُمت کی پوری زندگی کا مرکز تھی۔ سیاست‘ عدالت اور اجتماعی زندگی کا مرکز بھی مسجد تھی اور تعلیم و تربیت کا مرکز بھی۔ اسلام کی تاریخ میں بڑے بڑے مدارس مساجد سے ملحق رہے۔ وہ مدارس ہماری بڑی جامعات تھیں‘ ملت مسلمہ کی کیمبرج اور آکسفورڈ تھیں۔ ان مساجد سے متصل طلبا کے قیام کے لیے حجرات تعمیر کیے گئے تھے۔ نظام تعلیم مساجد کے گرد قائم تھا۔

یہ ہمارا عروج کا دور تھا لیکن بعد میں‘ جیسے جیسے اُمت کا زوال زور پکڑتا گیا‘ اس کے ہاتھ سے دنیا کی قیادت نکلتی چلی گئی‘ اور ساتھ ہی مسجد کے ہاتھ سے اُمت کی قیادت بھی نکل گئی۔

ضروری ہے کہ مسجد کے ائمہ کو وہی مقام حاصل ہو جو مقام ان کا حق ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ مسجد کے ائمہ اپنے آپ کو اس منصب اور مقام کو سنبھالنے کا اہل بنائیں۔ اس کے بغیر اُمت کی اجتماعی زندگی کا احیا اور اس کو درپیش چیلنج کا مقابلہ ممکن نہیں۔

اس وقت اُمت کے اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود‘ ذلت و مسکنت ہمارا مقدر ہے۔ ہم پر غیراقوام کا غلبہ ہے۔ دنیا کی قومیں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑی ہیں۔ اس وقت مسلمان اپنی زندگی کے ایک انتہائی خطرناک دور سے گزر رہے ہیں۔ لیکن جہاں خطرات ہیں وہیں امکانات بھی موجود ہیں۔ آج اُمت کو اتنا بڑا خطرہ درپیش ہے کہ تاریخ میں کبھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ غالب تہذیب نے جس طرح مسلمانوں کو اپنا حریف اور نشانہ بنالیا ہے‘ اس کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف تقاریر‘ قراردادوں اور ان کی سازشوں کو بے نقاب کرنے سے بات نہیں بنے گی۔ ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ائمہ کرام کو اپنا حقیقی کردار ادا کرنا ہوگا۔ اپنا مقام و منصب پہچاننا ہوگا۔ یہ ناگزیر ہے کہ مسجد کے ائمہ اس بات کے اہل ہوں کہ وہ وہی مقام سنبھال سکیں‘ اُمت کی رہنمائی کر سکیں‘ اور مسجد کا اُمت کی زندگی میں وہی مقام ہو جو نبی اکرمؐ نے مسجد کو مدینہ کی اجتماعی زندگی میں دیا تھا۔

آج اُمت تاریخ کے انتہائی نازک موڑ پر کھڑی ہے اور اسے سنگین نوعیت کے خطرات لاحق ہیں‘ لیکن انھی خطرات میں روشن مستقبل پوشیدہ ہے۔ ہمارے لیے دنیا کی قیادت کے کھلے امکانات موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن ہمارے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ دنیا کی  ابلیسی تہذیب کے مستقبل کو اصل خطرہ مسلمان سے ہے۔ اس حقیقت کی نشان دہی علامہ اقبال نے ابلیس کی زبان سے کی تھی۔ مغرب کو نہ اشتراکیت سے خطرہ ہے نہ مزدکیت سے‘ اصل خطرہ اسلام سے ہے۔ اسلام ہی میں یہ قوت و صلاحیت پائی جاتی ہے کہ وہ اس کے مقابلے میں اٹھ کھڑا ہو اور اس کو چیلنج کرے۔

اُمت کی ہیئت ترکیبی کے اندر یہ خاصیت پوشیدہ ہے۔ رب العالمین کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے: اُخرجت للناس، یہ تمام انسانوں کے لیے برپا کی گئی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کے لیے نبی بناکر بھیجے گئے تھے اور اُمت کو قیامت تک یہی مشن سونپا گیا: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطاً لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ(البقرہ ۲:۱۴۳) ’’ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’امت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو‘‘۔ اُمت کا شعار یہ بتایا گیا: وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖط(الحج ۲۲:۷۸) ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے‘‘۔ قرآن نے رہنمائی کر دی ہے کہ یہ اُمت کس لیے وجود میں آئی ہے۔ یہ اُمت معاشی مفادات کے لیے‘ سیاست گری کے لیے یا دنیا میں محض ناموری کے لیے نہیں‘ بلکہ تمام انسانیت کو اللہ کی بندگی میں داخل کرنے کے لیے برپا کی گئی ہے۔ اس اُمت نے جب اپنے منصب کو پہچانا تو صرف ۳۰ سال کے اندر دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپا کرکے رکھ دیا۔

اُس وقت مسلمان بے سروسامان تھے لیکن ان کے پاس ایمان تھا‘ یقین تھا‘ وحدت تھی۔ صرف ۳۰ سال کے اندر‘ ایران و روم اور صرف ۱۰۰ سال کے اندر اندر وہ اسپین کے غاروں اور چین کے ساحل تک پہنچ گئے۔ دنیا ورفعنالک ذکرک کی عملی صورت اپنی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔

لیکن یہ سب کچھ خود بخود نہیں ہوگیا۔ اس کے کچھ تقاضے تھے جو پورے کیے گئے۔ آج درپیش چیلنجوں سے نمٹنے اور امکانات سے فائدہ اٹھانے کی بھی یہی صورت ہے کہ اُمت اپنے فرائض کو کماحقہ انجام دے اور اس کے لیے کمر کس لے۔

ائمہ کی ذمہ داریاں

اس کام میں مرکزی اہمیت ائمہ کرام کو حاصل ہے۔ آپ کو صرف نماز کا امام نہیں‘ بلکہ معاشرے کا امام و لیڈر بننا ہے اور معاشرے کو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے پر چلانا ہے    ؎

بمصطفیٰ ؐبرساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است

اس کے لیے آپ کو ‘ اپنے آپ کو تیار کرنا ہے۔ مسجد کو اُمت کی اجتماعی زندگی کی تعلیم گاہ بنانا ہے۔ اپنے اندر یہ اہلیت پیدا کرنا ہے کہ اس مقام پر بیٹھ کر اُمت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکیں۔

معاشرے میں اس وقت مسجد کے حقیقی مقام و مرتبے کی حیثیت بہت کمزور ہے‘ اور امام عملاً اس قدر بے بس ہے کہ اسے (متولی کی اجازت کے بغیر) نماز کا وقت متعین کرنے کا بھی اختیار نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ آپ ‘ائمہ کے اندر بے پناہ قوت ہے۔ اگر آپ کے پاس اہلیت اور صلاحیت ہو تو معاشرے میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے‘ مگر ہم ان صلاحیتوں اور امکانات سے آگاہ نہیں۔ عرب کے ریگستان میں پلنے والے لوگوں کے اندر یقین اور ایمان کی کیفیت پیدا ہوئی تو نتیجہ یہ نکلا کہ بہترین جرنیل پیدا ہوگئے۔ ان کو تاریخ کے چیلنجوں کا ادراک تھا۔ ان سے نبٹنے کی صلاحیتوں کا شعور تھا۔ انھوں نے دنیا میں عظیم فتوحات کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ایک بڑی دنیا نے ان کے پیغام کو قبول کیا اور تاریخ کا دھارا موڑ کر رکھ دیا۔

آپ کو اس کا ادراک کرنا ہے کہ آپ کا مقام کیا ہے؟ منصب کیا ہے؟ اگر مسجد کو مرکز بننا ہے‘ اور آپ کو اس مرکز میں دعوت و ارشاد اور قیادت کا وہ کام انجام دینا ہے‘ تو آپ کے سامنے ایک ہی روشنی کا مینارہ ہے اور وہ ہیں مسجد نبویؐ کے امام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم۔ آپؐ کا اخلاق‘ شہرت‘ کردار‘ اخلاص‘دلسوزی--- اس کے بغیریہ عظیم کام انجام نہیں پاسکتا ہے۔

آپ اپنے لیے کوئی لائحہ عمل بنائیں تو اس کے بنیادی نکات یہ ہونے چاہییں:

۱-            سب سے پہلی اور اہم ترین بات یہ ہے کہ آپ کو صحیح چیزوںکا علم ہو جائے۔ اللہ کی وحدانیت اور رسولؐ کی شہادت آپ کی زندگی کا جزو ہو جائے۔ اسلام کی پوری روح اور اس کی پوری عمارت توحید پر قائم ہے۔ مسجد میں آنے والوں میں اللہ کی محتاجی کی کیفیت پیدا کریں۔ زندگی کے ہر مسئلے میں ہم اللہ اور اس کے رسولؐ کے محتاج ہوں۔ شعوری طور پر اس کی کوشش کرنا ہوگی اور اس کے لیے تدابیر اختیار کرنا ہوں گی۔ اللہ کی محتاجی کی نسبت پیدا کرنا‘ اللہ کے ساتھ لوگوںکا تعلق قائم کرنا‘ یہ آپ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

۲-            آپ اپنے مقتدیوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اطاعت کا جذبہ پیدا کریں۔ ذات مصطفویؐ سے عشق پیدا کریں‘ اس سے ملت کے جسد میں قوت پیدا ہوگی۔   نبی اکرمؐ کی ذات گرامی سے محبت‘ قوت کا وہ سرچشمہ ہے جو صرف آپ کے پاس ہے‘ کسی اور اُمت کے پاس نہیں۔ صنعتی ترقی اور کارخانوں کی قوت اصل قوت نہیں۔ ان سے وہ کام نہیں بنے گا جو آپ کے پیشِ نظر ہے۔

۳-            اُمت کی زندگی میں دین و دنیا کی وحدت پیدا کرنا بھی آپ کا کام ہے۔

۴-            علم صرف احکام اور مسائل کو جاننے کا نام نہیں‘ بلکہ احکام و مسائل کے ساتھ ساتھ حکمت اور مصلحت کو جاننے کا نام ہے۔ نبی اکرم ؐکتاب کے ساتھ ساتھ حکمت کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ حکمت وہ چیز ہے جسے خیرکثیر کہا گیا ہے: وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط (البقرہ ۲:۲۶۹) ’’اور جس کو حکمت ملی‘ اُسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی‘‘۔

حکمت دین اور تدریج

اگر آدمی حکمت سے آشنا نہ ہو تو دین پر چلنا‘ دین پر چلانا‘ دین کو قوت بنانا ممکن نہیں۔ صرف احکام و مسائل کے بیان سے دین پر عمل نہیں ہوتا۔ ایسا صرف اس وقت ہوتا ہے جب لوگوں کو حکمت کے ساتھ دین کی راہ پر لایا جائے۔ لوگوں کو آمادہ کیا جائے کہ وہ دین کی ذمہ داریوں کے متحمل ہوسکیں‘ ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھاسکیں‘ یعنی ان میں اطاعت کی استعداد پیدا ہو۔ اس حکمت کے بہت سارے پہلو ہیں:

ایک حکمت‘ احکام کے درمیان مدارج کا فہم ہے۔ سارے احکام ایک جیسے نہیں۔ عمل کرنے والوں کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ احکام کے اندر مدارج ہیں۔

ایک دفعہ مسجد نبویؐ میں لوگ نماز میں فرض ادا کرنے کے بعد اسی مقام پر کھڑے ہوکر جہاں فرض ادا کیے تھے‘ سنتیں ادا کرنے لگے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: پہلی امتیں اسی وجہ سے تباہ ہوئیں۔ جب فرائض‘ سنن‘ مستحبات کے درمیان فرق ختم ہوجائے تو اُمت زوال کے راستے پر آجاتی ہے۔ پھر سارا زور مستحبات اور سنن پر ہوجاتا ہے اور فرائض کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔

قرآن کے اندر صرف سؤر کے گوشت اور شراب نوشی ہی کی ممانعت نہیں ہے بلکہ حسد کو اور غیبت کو بھی حرام کیا گیا ہے‘ نیز اللہ کی راہ میں جدوجہد اور جانفشانی کو بھی بڑی نیکیوں میں شمار کیا ہے۔

اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِط (التوبہ ۹:۱۹)

کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اُس شخص کے کام کے برابر ٹھیرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں؟

اللہ کے رسول ؐنے ان احکامات کو بھی اچھی طرح واضح فرمایا ہے اور عملی نمونہ پیش کیا ہے۔ گویا احکامات کے ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیمات اور راہ خدا میں جدوجہد کو بھی اتنی ہی اہمیت حاصل ہے۔ لہٰذا ایمان کے ساتھ ساتھ اخلاق اور کردار سازی اور دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کی طرف بھی توجہ رہنی چاہیے۔ اس کے نتیجے میں ایک مسلمان کا وہ اخلاق اور کردار تعمیر ہوسکے گا جو اصلاً مطلوب ہے اور غلبۂ دین کے لیے جدوجہد کے نتیجے میں ایک صحیح اسلامی معاشرت سامنے آسکے گی جو اسلام کا طرئہ امتیاز ہے۔ یوں معاشرہ اسلام کے مکمل نظامِ حیات کی حقیقی برکات سے مستفید ہو سکے گا۔

اس کے ساتھ ساتھ آپ کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ہر کام تدریج کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ پورا دین لوگوں پر ایک ہی دفعہ میں نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ طبیعت اور نفس کی استعداد کے ساتھ ساتھ تدریج کے ساتھ لوگوں کو چلایا جائے۔ سب سے پہلے دل کے اندر ایمان پیدا کیا جائے۔ یہی سلف کا طریق کار تھا۔ وہ تدریج کا اہتمام کرتے تھے۔ دین کے سارے مطالبات ایک ساتھ ہی سامنے نہیں رکھے دیتے تھے۔

سیرت پاکؐ کا مطالعہ کیا جائے تو نبی اکرمؐ کی کامیابی کا راز یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ محبت‘ رحمت اور شفقت کے پیکرِ مجسم تھے۔ قرآن گواہ ہے: فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَص (اٰل عمرٰن۳:۱۵۹) ’’(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے‘‘۔

آپؐ نرم دل تھے‘ تادیب وتعزیر میں نرمی کرتے تھے۔ ایک بدو مسجد نبویؐ کے صحن میں پیشاب کرنے لگا۔ صحابہ روکنے کے لیے اٹھے۔ آپؐ نے منع کر دیا۔بعد میں صحابہؓ سے فرمایا: اس کو دھو کر صاف کر دو۔ آپؐ کے اس طرزعمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ شخص ہمیشہ کے لیے مطیع و فرماں بردار ہوگیا۔

سید قطبؒ سورۃ الاعلیٰ کی تفسیر میں واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص رسولؐ اللہ کے پاس آیا۔ کچھ مانگا‘ آپ ؐنے عطا کیا۔ اس نے بے اطمینانی ظاہر کی۔ آپؐ نے اس کو اور دیا۔ پھر وہ خوش ہوکر گیا۔

آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میری اور تمھاری مثال ایسی ہے جیسے ایک اونٹنی ہو جو بدک گئی ہو‘ اور تم ڈنڈے لے کر اس کے پیچھے لگ جائو جس سے وہ اور زیادہ خوف زدہ ہو جائے اور بدک جائے۔لیکن مالک محبت و شفقت سے اس کو قابو کر لیتا ہے۔

آج ہمیں بھی اس قوم کے اوپر سواری کرنے کے لیے‘ اس کی صحیح سمت میں رہنمائی اور تربیت کے لیے‘ اسی نرمی اور محبت و شفقت کی ضرورت ہے۔ مسجد کے منبر سے دین کی تعلیم اس انداز سے ہو تو نتیجہ خیز ہوگی۔

مسجد‘ بستی کا مرکز

مسجد کا معاشرے سے تعلق قائم کرنے اور رکھنے میں بھی فیصلہ کن کردار امام کا ہی ہوگا۔ مسجد کو صاف رکھنا چاہیے۔ نظافت و طہارت کو دین میں بڑی اہمیت ہے۔ اس کا اہتمام مسجد میں نظرآنا چاہیے۔ مسجد محلے کے لوگوں کا مرکز ہو‘ لوگ وہاں بیٹھیں اور اپنے مسائل پر بات کریں۔

مسجد تو وہ جگہ ہے جہاں ہم سجدہ کرتے ہیں لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے خصائص نبوت میں سے یہ ہے کہ پوری زمین کو آپؐ کے لیے سجدہ گاہ بنا دیا گیا۔ مسلمان کسی بھی جگہ خاک پر سر رکھ کر سجدہ کر سکتا ہے۔

اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ مسلمان جہاں چاہے نماز پڑھ سکتا ہے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ پوری دنیا اللہ کی بندگی میں آجائے۔ نبی اکرمؐ نے مسجد کی تعمیر کے بعد ساری توجہ مسجد پر ہی نہیں دی۔ محض اس کی آرایش و زیبایش کو مرکز توجہ نہیں بنایا۔ آپؐ کی اصل توجہ اور سرگرمی دین کو غالب کرنے‘ دنیا کو دین پر چلانے پر رہی۔ آپؐ لوگوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اور دنیا کی تنگیوں سے نکال کر‘ ایک اللہ کی بندگی کی وسعت و کشادگی میں لائے۔ ائمہ مساجد کا اصل فریضہ یہی ہے اور اسے ترجیحِ اول ہونا چاہیے۔

آپ مسجد کو نور کا مینارہ بنایئے۔ امامت کی ذمہ داری دے کر آپ کو اعلیٰ مقام پر فائز کیا گیا ہے۔ اللہ نے آپ کو آزمایش میں ڈالا ہے۔ آپ پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عائد کی ہیں۔ آپ انھیں اپنی وسعت اور استعداد کے مطابق انجام دیں۔ اسوہ رسولؐ کی ہدایت‘ رہنمائی اور روشنی میں اپنی صلاحیتوں کو کام میں لائیں۔ اسوہ رسولؐ کا فہم حاصل کرنے کے لیے سیرت کا خوب مطالعہ کریں‘ خود بھی عمل کریں‘ نمازیوں کو بھی آمادہ کریں۔ اس سے امت میں وہ طاقت اور قوت پیدا ہوگی کہ وہ دنیا کی قیادت کر سکے گی۔

خطبۂ جمعہ اسلام کے نظامِ تعلیم و تربیت میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نمازجمعہ کو فرض قرار دیا گیا ہے اور کوئی شخص جماعت سے الگ انفرادی طور پر نماز جمعہ ادا نہیں کرسکتا۔ بستی کا مرکز ہونے کی وجہ سے ہر شخص کا مسجد پہنچنا لازم قرار دیا گیا ہے اور خطبۂ جمعہ کے ذریعے فکری رہنمائی اور تزکیہ و تربیت کا سامان کیا گیا ہے۔ اس طریقے سے ہر ہفتے اس عمل کو دہرایا جاتا ہے۔ لہٰذا خطبۂ جمعہ خصوصی اہمیت اور توجہ چاہتا ہے۔ اگر ائمہ حضرات گذشتہ نکات کی روشنی میں ترجیحات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے‘ ایمان‘ اخلاق اور تدریج اور عوام کے مسائل کو موضوع بناتے ہوئے خطبہ دیں تو جہاں یہ فریضہ بہ احسن ادا ہوسکے گا‘ وہاں عوام کی دل چسپی بھی بڑھے گی اور بتدریج مسجد بستی کے مرکز کا مقام حاصل کر لے گی۔ البتہ ایک بات کا خصوصی اہتمام کیا جائے کہ ائمہ جو خطبہ دیں‘ اس میں صرف وہ باتیں بیان کریں جو تمام علما کے ہاں مسلّمہ ہیں۔ اس سے فکری ہم آہنگی اور ملّی یک جہتی پیدا ہوگی اور اختلاف و انتشار کا خاتمہ بھی ہو سکے گا اور مسلمان جسدِواحد بن کر اُمت کا وہ مطلوبہ کردار بھی ادا کرسکیں گے جو وقت کا تقاضا اور ضرورت ہے۔

آج اُمت زوال کا شکار ہے۔  ایمان اور اعمال میں زوال اور کمزوری رونما ہوگئی ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ لوگوں کو دین کی صحیح صحیح تعلیم دی جائے۔ اس راہ میں مشکلات لازمی ہیں لیکن آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنا کام جاری رکھیں‘ مشکلات کو خاطر میں نہ لائیں اور اپنے  کام میں لگے رہیں۔ عزم‘ ارادہ اور کوشش--- اپنے اپنے دائرے میں اخلاص نیت کے ساتھ کام کریں۔ اس کے ثمرات ضرور نکلیں گے۔ اس دور میں رواداری اور وسعت نظر کی ضرورت ہے۔ اس کا اظہار آپ کے رویے سے‘ آپ کی باتوں سے ہونا چاہیے۔

یقین ہے کہ ان امور کا خیال رکھ کر اگر آپ منصبِ امامت کی ذمہ داری ادا کریں اور اس تحریک کو ائمہ مساجد میں عام کردیں‘ تو معاشرے پر جلد مثبت اثرات نظر آئیں گے۔


(کتابچہ دستیاب ہے۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)