پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں پاکستانی قوم اور ملّتِ اسلامیہ پر جو ظلم توڑے گئے ہیں اور جو زخم لگائے گئے ہیں، ان میں فلسطین اور القدس سے غداری، اسرائیل سے دوستی، اُمت مسلمہ کے دشمنوں سے پینگیں بڑھانا اور بھارت کے ساتھ دوستی کے نام پر جموںو کشمیر کے مسلمانوں سے بے وفائی اور پاکستان کی اصولی اور تاریخی کشمیر پالیسی کو یک طرفہ طور پر تبدیل کردینا سرفہرست ہیں۔ آج جب قوم نے تبدیلی کے راستے کو منتخب کیاہے، اس بات کی ضرورت ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر بھی مشرف کی پسپائی اور منافقت کی پالیسی کو یک سر ترک کر کے اس پالیسی کا اعادہ کیا جائے جس کی بنیاد قائداعظم نے رکھی تھی، اور جس پر یہ قوم ہر خطرے کو انگیز کرتے ہوئے پہلے دن سے یکسو تھی۔ واضح رہے کہ کشمیر کا مسئلہ نیا نہیں، تقسیمِ ہند کے نامکمل ایجنڈے کا ایک اہم حصہ ہے اور جب تک یہ مسئلہ حق و انصاف اور بین الاقوامی عہدوپیمان کے مطابق حل نہیں ہوتا، پاکستان اور ہندستان میں تعلقات کے معمول پر آنے کا (normalization ) کا کوئی امکان نہیں۔ پھر یہ مسئلہ کسی خطۂ زمین پر تنازع نہیں، یہ ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے حقِخود ارادیت کا مسئلہ ہے۔ انسانی حقوق بھی اس مسئلے کا حصہ ہیں لیکن اصل ایشو جموں و کشمیر کے مسلمانوں کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ اپنی آزاد مرضی سے کریں۔ پرویز مشرف نے اس مرکزی مسئلے (core issue) کا سارا فوکس تبدیل کردیا اور اسے محض پاک بھارت تعلقات کا ایک پہلو بنا کر تحریکِ پاکستان کے مقاصد سے غداری اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں سے بے وفائی کا ارتکاب کیا ہے جسے پاکستانی قوم کبھی معاف نہیں کرے گی۔
بھارت نے اپنی روایتی مکاری کے مطابق پرویز مشرف کی تمام پسپائیوں اور یک طرفہ رعایتوں (concessions) کے باوجود کسی ایک پہلو سے بھی مسئلے کے حل کی طرف کوئی قدم نہیں بڑھایا، بلکہ سیاچن اور سرکریک جیسے مسائل کے بارے میں بھی جو باتیں ۲۰ سال پہلے طے کر لی تھیں ان پر بھی عمل نہیں کیا اور ساری توجہ کشمیر کی تحریک آزادی کو کچلنے، عوام پر ظلم و ستم کی حکمرانی کو بڑھانے اور پاکستان کے لیے کشمیر سے آنے والی پانی کی راہیں روکنے کے لیے ڈیم سازی پر مرکوز کی۔ ظلم ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے خلاف بھارت ۳۰ سے زیادہ ڈیموں پر کام شروع کرچکا ہے اور کچھ پر مکمل کرچکا ہے اور پرویز مشرف اور ان کے حواری پاکستان کو بنجر بنانے کے لیے اس بھارتی منصوبے تک کا توڑ کرنے سے مجرمانہ غفلت برتے رہے ہیں۔
پرویز مشرف کی پالیسیوں کا سب سے بڑا نقصان پاکستان کو یہ ہوا ہے کہ ملک اور عالمی سطح پر ہماری اصولی پوزیشن بری طرح مجروح ہوئی ہے اور ہماری آواز میں کوئی وزن نہیں رہا ہے۔ نیز کشمیر میں جو عظیم تحریکِ مزاحمت جاری ہے اور جس میں اب تک ۶ لاکھ افراد اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں، جن میں سے ایک لاکھ تحریک کے حالیہ مرحلے میں شہید ہوئے ہیں، اس تحریک کو پرویز مشرف کی قلابازیوں نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان پر جو اعتماد جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو تھا، اس کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ کی تحریک پر ضرب لگی ہے اور جموں و کشمیر کے عوام بھارت کے ساتھ رہنے کو تو نہ پہلے تیار تھے اور نہ اب تیار ہیں، لیکن پاکستان سے جو ان کی اُمیدیں تھیں اور جس طرح وہ پاکستان کو اپنی منزل مراد سمجھتے تھے، اس کیفیت اور اس اعتماد پر ضرب کاری لگی ہے۔ اب بھی وہ پاکستان کی قوم سے اچھی توقعات رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں جو کچھ ہوا وہ پرویز مشرف کی غلط پالیسی کا نتیجہ ہے جس کی اب پاکستانی قوم اصلاح کرے گی۔ گو زخم لگ چکا ہے اور شیشے پر بال آگیا ہے لیکن ابھی اصلاح کا امکان ہے۔ نئی حکومت کو پاکستان کی تمام بڑی پارٹیوں کے منشور کے مطابق قوم کی متفقہ کشمیر پالیسی کا پوری قوت سے اعادہ کرنا چاہیے کہ اصل مسئلہ حق خود ارادیت کا ہے۔ کشمیر ایک متنازع ایشو ہے اور بھارت اور پاکستان کے درمیان یہی اصل مرکزی مسئلہ ہے۔ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی تحریک ہراعتبار سے تحریکِ آزادی ہے جو ان کا حق ہے اور جس کی تائید ہمارا فرض ہے۔ اس سلسلے میں کسی لاگ لپیٹ کے بغیر پاکستان کی پارلیمنٹ اور حکومت کو واضح اعلان کرنا چاہیے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار جلد از جلد دیا جائے اور ان سے بھارت کے غاصبانہ قبضے کی تاریک رات کو جلد از جلد ختم کیا جائے، نیز تحریک حریت کی بھرپور تائید کی جائے اور عالمی سطح پر ان کے مسئلے کو اٹھایا جائے۔ اگر مشرقی تیمور اور کوسووا کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے اور اگر آئرلینڈ کے مستقبل کی صورت گری کو وہاں کے لوگوں کی مرضی کے مطابق کرنے کا اصول تسلیم کیا جاتا ہے تو جموں و کشمیر کے مسلمان اس حق سے کیوں محروم ہیں؟
بھارت کے ظالمانہ دورِاقتدار کو ختم ہونا ہے۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ کوئی قوم کسی دوسری قوم کو اس کی مرضی کے بغیر ہمیشہ کے لیے زیردست نہیں رکھ سکتی۔ کشمیر کے مسلمانوں نے اپنی تاریخی اور جرأت مندانہ جدوجہد سے ثابت کردیا ہے کہ وہ بھارت کی غلامی میں رہنے کو تیار نہیں اور بھارت کے ظلم و ستم کی کوئی انتہا نہیں۔ حال ہی میں جو اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں، ان میں ہزاروں ان جوانوں کو قتل کر کے دفن کیا گیا جو بلاجواز اٹھا لیے گئے تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان قبروں پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اور اسے ایک بین الاقوامی ایشو کے طور پر اٹھایا ہے، مگر پاکستان کی حکومت اس سلسلے میں اپنا فرض ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ بلاشبہہ اس وقت حکومت بڑے مشکل حالات میں گھری ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود کشمیر کے مسئلے پر ہر محاذ پر ضروری اقدام وقت کی ضرورت ہے۔ اعتماد سازی کے اقدامات (CBMS) کے دھوکوں کا وقت گزر چکا ہے۔ اب ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ جموں و کشمیر کے عوام کو ان کا حق خود ارادیت دیا جائے اور وہ اپنے مستقبل کے بارے میں جو فیصلہ کریں، اسے خوش دلی سے قبول کرلیا جائے۔ پرویز مشرف کی کشمیر پالیسی میں جو حماقتیں اور بے وفائیاں کی گئی ہیں اور اس سے جو دکھ اور نقصان تحریک آزادیِ کشمیر کو ہوا ہے، اس کا اعتراف کر کے تلافی کا سامان کیا جائے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر آج بھی پاکستان کی حکومت اور پارلیمنٹ عوام کے دلی جذبات کے مطابق اپنے اصولی اور تاریخی پالیسی کا بھرپور اعادہ کرے اور اس پر عمل درآمد کے لیے ہمہ جہتی پروگرام بناکر مؤثر کام کرے تو کشمیری عوام سابقہ قیادت کی غلطیوں سے درگزر کریں گے، اور اس جوش اور جذبے سے پاکستان سے یگانگت اور یک جہتی کا اظہار کریں گے جو ان کی ۶۰ سالہ تحریکِ آزادی کا طرۂ امتیاز ہے۔
قائدِحریت سید علی شاہ گیلانی اور کے ایل ایف کے قائد یٰسین ملک کا ایک پلیٹ فارم سے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو جاری رکھنے کا عزم اور بھارت کے تحت انتخابات کا بائیکاٹ یہ امید دلاتا ہے کہ تحریک حریت سے وابستہ تمام قوتیں مل کر اپنے مشترک مقصد کے لیے ایک بار پھر میدان میں اُتر رہی ہیں۔ سیاسی اور جہادی سب قوتوں کو مل کر کشمیر کی بھارت سے آزادی کی جدوجہد کو اپنے آخری نتیجے تک پہنچانا ہے اور پاکستان کی قوم اور قیادت اس جدوجہد میں اپنا قرار واقعی کردار ادا کرے گی۔ پارلیمنٹ کو اس سلسلے میں پوری یکسوئی اور جرأت کے ساتھ ملت اسلامیہ پاکستان کی کشمیر پالیسی کا اعلان کرنا چاہیے اور اس پر عمل کے لیے مؤثر پروگرام وضع کرنا چاہیے۔ یہ وقت جموں و کشمیر کے عوام اور ان کی تحریک آزادی کے ساتھ مکمل یک جہتی کے اظہار اور ان کی تقویت کے لیے ہرممکن ذرائع کے استعمال کا ہے۔
برسوں کے مطالعے اور سیکڑوں کتابوں کا حاصل
اُردو میں اپنے موضوعات پر بے مثال تحقیقی اور معلوماتی کتب
جتنا کام لوگ پوری زندگی میں نہیں کرپاتے، ایک استاد نے ریٹائرمنٹ کے بعد کردیا
میاں محمد اشرف
ہندو معاشرہ / امریکا/ اشتراکیت/ افریقہ/ یورپ اور اسلام میں غلامی پر علیحدہ علیحدہ
اس کے علاوہ ۱۲ دوسرے موضوعات مثلاً :آبادی، نسل پرستی، مہاجرین وغیرہ پر اسی پایے کی کتابیں
رعایت۲۰ فی صد ، ڈاک خرچ بذمہ ادارہ
آج ہی آرڈر دیجیے
فروغِ علم اکیڈمی: -1179 ماڈل ٹائون ہمک، اسلام آباد۔ فون: 051-4490380 موبائل:0334-5503848
website: www.farogheilm.com, email: ashraf@farogheilm.com
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ویسے تو زندگی کا ہر لمحہ لمحۂ امتحان ہے اور زندگی اور موت کا پورا سلسلہ انسان کی آزمایش کے لیے ہے (الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ط جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوںکو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ الملک۶۷:۲)، لیکن افراد اور قوموں کی زندگی میں کچھ مواقع ایسے آتے ہیں جنھیں بجا طور پر تاریخی اور سنہری موقع قرار دیا جاسکتا ہے اور جن پر صحیح اقدام تاریخ کے رخ کو موڑنے کا ذریعہ بن سکتاہے۔ آج پاکستانی قوم کو ایک ایسا ہی سنہری موقع حاصل ہے۔ ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے نتیجے میں جو قومی اسمبلی وجود میں آئی، اس نے ۱۷ مارچ سے اپنی زندگی کا آغاز اور ۲۴ مارچ کو قائد ایوان کا انتخاب کر کے مخلوط حکومت کے قیام کی راہ کھول دی ہے۔ توقع ہے مارچ کے آخر تک نئی حکومت اپنی ذمہ داری سنبھال لے گی۔
ہم پیپلزپارٹی کے نامزد وزیراعظم مخدوم یوسف رضا گیلانی کی مخلوط حکومت کا کھلے دل سے خیرمقدم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ملک و قوم کو اس دلدل سے نکالیں جس میں پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں (خصوصاً مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم) نے پھنسا دیا ہے۔ ہم پورے اخلاص اور دردمندی کے ساتھ ان کی توجہ ملک کو درپیش اصل چیلنج کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں اور ان مسائل اور ترجیحات کی نشان دہی کر رہے ہیں جو ان کا فوری ہدف ہونا چاہییں۔ آج پاکستان کی آزادی، حاکمیت، دستور اور نظامِ زندگی کے تحفظ کے لیے حقیقی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ہم صحیح معنوں میں عرصۂ محشر میں ہیں اور یہ وقت ذاتی یا سیاسی مفادات کے حصول کا نہیں بلکہ ملک و قوم کو بچانے اور زندگی اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کا ہے۔
پہلا اور سب سے اہم مسئلہ گاڑی کو پٹڑی پر ڈالنے کا ہے۔ گاڑی اپنا مطلوب سفر اسی وقت شروع کر سکے گی جب وہ پٹڑی پر ہو۔اس لیے پٹڑی پر ڈالے بغیر تیزرفتاری کی باتیں کرنا اپنے کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ اس غرض کے لیے مندرجہ ذیل اقدام ضروری ہیں:
۱- نظامِ عدل کی بحالی کہ عدل کی فراہمی کے مؤثر انتظام کے بغیر کوئی قوم اور ملک زندہ نہیں رہ سکتا۔ کفر کی نائو چل سکتی ہے مگر ظلم کی حکمرانی اور عدل سے محرومی تباہی کا راستہ ہے۔
۲- دستور اور قانون کی حکمرانی کہ مہذب معاشرے کا وجود دستوری نظام کی بالادستی اور قانون کی اطاعت پر منحصر ہے۔ جب اور جہاں دستور، قانون اور نظامِ زندگی فردِواحد کا تابع مہمل بن جائے، وہاں تباہی کے سوا کوئی اور نتیجہ رونما نہیں ہوسکتا۔ استحکام فرد سے نہیں اداروں، قانون اور ضابطے کی عمل داری سے حاصل ہوتا ہے۔ صحیح پالیسیاں مشورے اور افہام و تفہیم سے وجود میں آتی ہیں اور انصاف، استحکام و ترقی اور توازنِ قوت(balance of power) کا مرہونِ منت ہے، ارتکازِ قوت (concentration of power) کا نہیں۔ اس لیے اختیارات کی تقسیم اور تعین اور ہر ایک کا اپنے اپنے دائرۂ اختیار کا احترام ہی امن کے قیام اور ترقی کے مواقع کی فراہمی کا ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طرزِ حکمرانی، پالیسی سازی کے اسلوب اور طور طریقوں کی اصلاح اور نظامِ احتساب کو مضبوط کیے بغیر کوئی ملک ترقی اور استحکام کی منزلیں طے نہیں کرسکتا۔
یہ دو وہ بنیادی چیزیں ہیں جن کی اصلاح کے بغیر ہماری گاڑی اپنی پٹڑی پر نہیں آسکتی لیکن اس کے ساتھ ایک تیسری چیز بھی ازبس ضروری ہے اور وہ یہ کہ ٹرین کا ڈرائیور ہمارا اپنا ہو اور اس کی باگ ڈور کسی بیرونی قوت کے ہاتھوں میں نہ ہو۔ جب تک یہ تینوں چیزیں ٹھیک نہ ہوجائیں ملک اور قوم اپنی منزل کی طرف سفر نہیں کرسکتے۔ اس لیے نومنتخب اسمبلی اور مخلوط حکومت کو اولین ترجیح ان تینوں امور کو دینا چاہیے۔ بلاشبہہ معاشی معاملات بھی بے حد اہم ہیں اور اس وقت ہمارے معاشی مسائل بڑے گمبھیر اور پریشان کن ہیں ۔ امن و امان کا مسئلہ بھی اہم ہے لیکن ہم پوری دردمندی سے عرض کریں گے کہ الاول فالاول کے اصول پر فوری طور پر اولین ضرورتوں کو پورا کیا جائے اور اس کے ساتھ باقی تمام مسائل کے حل کے لیے مؤثر اقدامات کا اہتمام ہو۔
سب سے پہلی ضرورت اس بگاڑ اور فساد کی اصلاح ہے جس کا آغاز ۹مارچ ۲۰۰۷ء کو ہوا اور جو ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے خلافِ دستور اقدام کے نتیجے میں اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ اس کے کم از کم تین پہلو ایسے ہیں جن کو سمجھنا اور ان کی اصلاح اور آیندہ کے لیے ملک و ملت کو ایسے حالات سے بچانے کے لیے مؤثر تدابیر کرنا وقت کی اولین ضرورت ہے۔
اولاً، فردِ واحد کی طرف سے دستور، قانون، اسلامی اقدار اور مہذب معاشرے کی روایات کے خلاف پہلے صرف چیف جسٹس کو اور پھر عملاً عدالت عالیہ کے ۶۳ ججوں کو برطرف کر دینا، ان کے ساتھ ناروا سلوک اختیار کرنا، اپنی مرضی کے ججوں کا تعین اور اپنے مفیدمطلب فیصلے حاصل کرنے کے لیے آزادعدلیہ کا قتل۔
ثانیاً، فردِ واحد کا یہ دعویٰ کہ بندوق کی قوت سے وہ جب چاہے دستور کو معطل کرسکتا ہے، اس میں من مانی ترامیم کرسکتا ہے، ایمرجنسی نافذ کرسکتا اور اٹھا سکتا ہے، اور ملک کے پورے نظامِ حکمرانی کو موم کی ناک کی طرح جدھر چاہے موڑ سکتا ہے۔
ثالثاً، نام نہاد عدلیہ کا فردِ واحد کو درج بالا دونوں ’حقوق‘ دے دینا، اس کے حکم پر نیا حلف لے لینا، اس کے غیرقانونی اقدام کو جائز قرار دینا اور اسے دستوری ترمیم کا وہ حق بھی دے دینا جو صرف پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کو حاصل ہے، خود سپریم کورٹ کو بھی حاصل نہیں۔
یہ تینوں جرم پوری ڈھٹائی سے کھلے بندوں ۹ مارچ اور ۳ نومبر کو ہوئے، اور پرویز مشرف کی خودساختہ عدالت عالیہ نے ان پر مہرتصدیق ثبت کرکے پرویز مشرف کے جرم میں برابر کی شریک ہونے کی سعادت حاصل کرلی۔ بلاشبہہ ماضی میں بھی یہ کھیل کھیلا گیا ہے اور غلام محمد اور اس کے شریک کار جسٹس منیر سے لے کر پرویز مشرف اور موجودہ عدالت عالیہ نے ایک ہی جرم کا بار بار ارتکاب کیا ہے، اور پارلیمنٹ نے بھی مصالح کا شکار ہوکر دفعہ ۲۷۰، ۲۷۰ اے اور ۲۷۰ اے اے کی شکل میں اس سیاسی جرم کو دستور کا حصہ بنانے کی غلطی کی ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمدچودھری اور ۶۳ دوسرے ججوں نے اس کی مزاحمت کی، پوری وکلا برادری، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں نے ایک سال تک اس اقدام کے خلاف علَم بغاوت بلندکیا بالآخر فروری ۲۰۰۸ء میں عوام نے اس پورے کھیل کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا حتمی فیصلہ دے دیا۔ اب اسمبلی اور نئی حکومت کی اولیں ذمہ داری ہے کہ اس بنیادی خرابی کا ہمیشہ کے لیے ازالہ کردے۔اس کی مناسب ترین شکل یہ ہے:
۱- ایک واضح قرارداد کے ذریعے ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو غیردستوری، غیر قانونی، غیراخلاقی اور بدنیتی پر مبنی (malafide) قراردیا جائے اور اسے اس کے نفاذ کے وقت سے کالعدم قرار دیا جائے جس کا واضح نتیجہ یہ ہوگا کہ
ا - چیف جسٹس اور تمام جج اسی حالت میں بحال ہوجائیں گے جس میں وہ ۳نومبر کی صبح تک تھے اور سات ججوں کا وہ فیصلہ جس نے ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو غیر دستوری قرار دیا تھا، بحال ہوجائے گا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے قانون کی گرفت میں آجائیں گے۔
ب- ۳ نومبر کے بعد کے تمام اقدامات بشمول دستوری ترامیم اور انتظامی احکامات اصلاً غیرقانونی قرار پائیں گے، اِلا .ّیہ کہ پارلیمنٹ حقیقی ضرورت کے تحت ان میں سے کسی یا کچھ کو دفعِ فساد کی بنیاد پر محدود زندگی دے دے۔
اوّل: ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کی نفی اوراس کے تحت کیے ہوئے تمام اقدامات کو قانونی جواز سے محروم کرنا۔
دوم: سابقہ صورتِ حال (status quo) کی بحالی۔
سوم: اس اصول کا برملا اعلان و تصدیق کہ دستور میں ترمیم کا اختیار نہ چیف آف اسٹاف کو ہے، نہ صدر کو اور نہ سپریم کورٹ کو، بلکہ دستور میں ترمیم کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ دفعہ ۲۳۸- ۲۳۹ میں لکھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ اس لیے پی سی او کے تحت حلف لینے والی سپریم کورٹ کے ۳ نومبر والے اقدام کو جواز دینے کی نفی، اور آیندہ کے لیے تنبیہہ کہ کوئی عدالت اس نوعیت کا اقدام کرنے کی مجاز نہیں۔
۱- جو جج پہلے سے عدلیہ میں موجود تھے، وہ بھی معزول کردہ ججوں کی طرح اپنے ماضی کے مقام پر بحال رہیں گے۔ اصولی طور پر جو نئے جج مقرر کیے گئے ہیں، وہ دستور کی دفعہ ۲۰۹ کی میزان پر احتساب کے سزاوار ہوسکتے ہیں۔ ان کو عہدوں سے فارغ کر دیے جانے کے بعد سپریم کورٹ دستور اور الجہاد ٹرسٹ کے ججوں کے فیصلے کے مطابق فوری کارروائی کر کے اور خالص میرٹ کی بنیاد پر دستور اور ضابطے کی روشنی میں عدلیہ کی بحالی کے ایک ماہ کے اندر اندر فیصلے کرکے نافذ کردے۔
۲- ۳ نومبر والی ایمرجنسی کے تحت حاصل کردہ اختیارات کے تحت جو بھی اقدام ہوئے ہیں وہ سب قرارداد کے منظور ہونے کے تین ماہ کے اندر کالعدم ہوجائیں، بجز ان کے جن کے جاری رکھنے کا فیصلہ ایک پارلیمانی کمیٹی ان تین ماہ کے اندر کرے۔ اگر یہ کمیٹی فیصلہ نہیں کرتی تو وہ اقدام آیندہ کے لیے ختم ہوجائیں گے، خواہ اس کے اثرات کچھ بھی ہوں، البتہ جن چیزوں پر عمل ہوچکا ہے، ان کو کم تر برائی کے اصول پر گوارا (condone)کیا جاسکتا ہے۔
۳- اس قرارداد کے آخر میں یہ بھی واضح کردیا جائے کہ نظریۂ ضرورت کے تحت عدالتوں کا جواز دینا (validation )اور پھر پارلیمنٹ کا توثیق کرنا (ratification) ایک غلط سلسلہ ہے جسے ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاتا ہے۔ یہ بھی مفید ہوگا کہ پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی دستور میں دفعہ ۲۷۰، ۲۷۰ اے، ۲۷۰ اے اے کے تحت ماضی میں جو جواز مہیا (validate) کیے گئے ہیں ان کے بارے میں بھی طے کرے۔ یہ پارلیمانی کمیٹی تمام قوانین اور اقدامات کا جائزہ لے اور دوسال کے اندر ان قوانین، حکم ناموں اور اقدامات کا تعین کردے جن کو جواز حاصل رہے اور باقی سب کو منسوخ کردیا جائے گا تاکہ ماضی کے اس پشتارے کی بھی تطہیر ہوجائے۔
۴- اس قرارداد کے منظور ہوتے ہی اس پر عمل شروع کردیا جائے اور انتظامی حکم کے ذریعے تمام سابقہ ججوں کو بحال کرکے عدل وا نصاف کے دستوری عمل کو متحرک کردیا جائے۔ اس قرارداد کو ۲۷۰ اے اے اے کے طور پر دستور کا حصہ بنا دیا جائے تاکہ ماضی میں ۲۷۰ کے تحت جواز (validation) دینے کا جو دروازہ چوپٹ کھول دیا گیا تھا، وہ بھی آیندہ اس دفعہ کے ذریعے ہی بند کردیا جائے۔ اس طرح ہمیشہ کے لیے دستور میں قانونِ ضرورت کے دروازے کو بند کرنے کا کام بھی انجام دیا جاسکتا ہے۔
۵- اس کے ساتھ دستور کی دفعہ ۶ میں ترمیم کر کے یہ اضافہ کرنا بھی مفید ہوگا کہ دستور کو معطل کرنا یا غیرمؤثر (in abeyance) کرنا بھی دستور کی تخریب (subvert) کرنے کی طرح جرم ہے، اور ایسے اقدامات کو جوازفراہم کرنا بھی ایک مساوی جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔
۶- اگر ضروری محسوس کیا جائے تو ایک ترمیم دفعہ ۲۳۸/۲۳۹ میں بھی ہوسکتی ہے جو بطور وضاحت (explanation )آسکتی ہے کہ دستور میں ترمیم کا ان دفعات میں بیان شدہ طریقے کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ معتبر نہیںاور اس کی کوئی گنجایش نہیں کہ کسی ماوراے دستور (extra constitutional) طریقے سے کوئی بھی دستوری ترمیم کرے ،اور نہ کسی کو ایسی کوئی ترمیم کرنے کا اختیار کسی کو دینے کا حق ہے۔ اگر کوئی دستور میں اس طرح ترمیم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ دستور کی دفعہ ۶ کی زد میں آئے گا۔
’اعلانِ مری‘ کے تقاضے مندرجہ بالا اقدام کے ذریعے پورے ہوسکتے ہیں۔ ججوں کی رہائی ایک اچھا اقدام ہے لیکن اصل مسئلہ ججوں کی بحالی اور ۳نومبر کے اقدام کی مکمل نفی کرکے ملک کے دستور اور نظامِ عدل کو تحفظ دینا ہے۔یہ اصول تسلیم کیا جانا چاہیے کہ دستور کی دفعہ ۲۰۹ کے سوا کسی اور طریقے سے ججوں کی برطرفی غیرقانونی ہے، البتہ اس بات کا اظہار بھی ضروری ہے کہ جہاں ۶۳ججوں نے ایک روشن مثال قائم کی ہے اور کچھ دوسرے ججوں نے پی سی او کے تحت حلف لے کر اور اہلِ اقتدار سے تعاون کرکے بڑی بُری مثال قائم کی ہے، وہیں اس بات کی ضرورت ہے کہ نظامِ عدل کو دوبارہ معزز و محترم بنانے کے لیے سب اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ جہاں اصلاح کی ضرورت ہے، وہ ضرور کی جائے مگر صفوں کو پاٹ کر عدلیہ کی عزت اور کارفرمائی کی بحالی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ عدلیہ کے احتساب کے طریقے پر بھی ازسرنو غور کیا جائے اور عدلیہ اور انتظامیہ کے تعلقات خصوصیت سے ایک دوسرے سے ربط اور اثرانگیزی اور اثرپذیری کے نازک معاملات پر صدق دل سے غور کرکے نئے ضابطے اور قواعد بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عدلیہ حقیقت میں آزاد عدلیہ بن سکے اور اس سے انصاف کے چشمے پھوٹیں اور ہر کسی کو اس پر اعتماد ہو۔ قانونی اور انتظامی اصلاحات کے ساتھ اس پہلو کی فکر بھی ازبس ضروری ہے۔
ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ پارلیمنٹ ۳نومبر کے اقدام کی نفی کس قانونی ذریعے سے کرسکتی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک انتظامی حکم جو خودغیرقانونی تھااور قانون کی نگاہ میں اس کا آئینی (de Jure) وجود ہے ہی نہیں، صرف امرِواقع (de facto) ہے، ایک دوسرے انتظامی حکم نامے سے کالعدم کیوں نہیں جاسکتا۔ دنیا بھر کے ماہرین قانون نے اس اقدام کو دستور، قانون اور معروف جمہوری قواعد کے خلاف قرار دیا ہے۔ امریکی حکومت اپنے مفادات میں اندھی ہوکر خواہ کچھ بھی کہتی رہی ہو مگر امریکا کے ماہرین قانون نے اس اقدام کو غلط قرار دیا اور خود امریکی کانگرس نے تلافیِمافات کرتے ہوئے ۱۷ مارچ کی قرارداد کے ذریعے عدلیہ کی برخاستگی کو غلط اور بحالی کو اصل ضرورت قرار دیا ہے۔ نیویارک بار ایسوسی ایشن نے، جس کے ۲۲ ہزار ممبر ہیں، اسے غلط قرار دیا ہے اور خود ہمارے ملک کے چوٹی کے ماہرین قانون نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ اصل اقدام غلط اور غیرقانونی تھا۔ ۳ نومبر کو سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ نے ۳ نومبر کے ایمرجنسی کے اقدام کو غلط اور بدنیتی پر مبنی (malafide ) قرار دے دیا تھا اور عدالت عالیہ کا وہی حکم آج بھی لاگو ہے۔ ۳نومبر کے غیرقانونی اعلان کے تحت حلف لینے والی عدلیہ کاکوئی فیصلہ قانون کا مقام نہیں رکھتا۔ سابق چیف جسٹس صاحبان میں سے جسٹس اجمل میاں، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس سعید الزماں صدیقی نے کہا ہے کہ: ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کو نافذ کی جانے والی ایمرجنسی کے تحت ججوں کی معطلی غیر دستوری تھی اور ان کی بحالی کے لیے قومی اسمبلی سے منظور کردہ قرارداد ہی کافی ہوگی۔ یہی موقف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے ۳ درجن سے زائد ججوں کا ہے۔ اس کے بعد کسی اور قانونی موشگافی کے لیے کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی۔
عدلیہ کی بحالی کے ساتھ دوسرا بنیادی مسئلہ دستور کی بحالی، پارلیمنٹ کی بالادستی، دستوری اداروں کے درمیان تقسیم اختیارات اور پارلیمنٹ کی کارکردگی کو بہتر اور مؤثر بنانے کا ہے۔
دستور کی بحالی کے سلسلے میں ایک اصولی بات تو یہ کہی جاسکتی ہے کہ جلد از جلد ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کی صورت حال کو بحال کیا جائے۔ ’میثاقِ جمہوریت‘ اور ’اعلانِ لندن‘ میں اس مسئلے پر ایک موقف اختیار کیاگیا ہے، جزوی اختلاف کے ساتھ ہم نے بھی اس کی تائید کی ہے لیکن چند دوسری بڑی اہم ترمیمات دستور میں ہونی چاہییں تاکہ صرف ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء والی صورت حال ہی بحال نہ ہو بلکہ دستور کے اسلامی، پارلیمانی، وفاقی اور فلاحی کردار کے تمام تقاضے پورے ہوسکیں۔ اس کے لیے کم سے کم مندرجہ ذیل امور کے بارے میں مناسب دستوری ترامیم افہام و تفہیم اور مؤثر مشاورت کے ذریعے کرنے کی ضرورت ہے:
۱- پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف صدر کے ان اختیارات کو ختم کیا جائے جن کے نتیجے میں صدر اور پارلیمنٹ کے درمیان توازن ختم ہوگیا اور پارلیمانی نظام ایک قسم کا صدارتی نظام بن گیا ہے، بلکہ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ پر انتظامیہ کی بالادستی کو بھی لگام دی جائے اور پارلیمنٹ ہی اصل فیصلہ کن فورم ہو۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل ترامیم ضروری ہیں:
ا- ریاست کے رہنما اصول جو پالیسی سازی کی بنیاد ہونے چاہییں، ان کی روشنی میں تمام خارجی اور داخلی امور پر پارلیمنٹ میں بحث ہو اور بحث کے بعد پالیسی ہدایات (directives) کی شکل میں پارلیمنٹ کی ہدایات مرتب کی جائیں، اور ان کے نفاذ کی رپورٹ پارلیمنٹ میں آئے جس پر بحث ہو۔ ضروری ہے کہ اسے ایک دستوری ذمہ داری قرار دیا جائے۔
ب- بجٹ سازی کا طریقۂ کار یکسر تبدیل کیا جائے۔ بجٹ سے چار مہینے پہلے دونوں ایوانوں میں بجٹ گائیڈلائن پر بحث ہو جس کی روشنی میں بجٹ کی تجاویز مرتب کی جائیں جو ایک ماہ کے اندر دونوں ایوانوں کی متعلقہ کمیٹیوں میں زیربحث آئیں اور یہ کمیٹیاں اپنی تجاویز وزارتِ خزانہ کو دیں۔ اصل بجٹ سال کے اختتام سے تین ماہ پہلے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔ سینیٹ میں کم از کم تین ہفتے بحث کے لیے دیے جائیں اور اسمبلی میں آٹھ ہفتے۔ اس طرح دو ماہ میں پارلیمنٹ بجٹ منظور کرے۔ دفاع کا بجٹ بھی بجٹ کے حصے کے طور پر پارلیمنٹ میں زیربحث آئے اور منظوری لی جائے۔
ج- پارلیمنٹ کو غیرمؤثر بنا دینے والی چیزوں میں سے ایک آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی ہے۔ دنیا کے بیش تر جمہوری ممالک میں ایسی کوئی گنجایش موجود نہیں ہے اور جہاں عارضی قانون سازی (temporary legislation)کی گنجایش ہے وہاں بھی بڑی سخت تحدیدات ہیں جن میں ایک ہی قانون کے بار بار آرڈی ننس کے ذریعے نافذ کیے جانے کا دروازہ بند کیا جانا بھی ہے۔ اس طرح حقیقی ضرورت کو بھی واضح (define) کرنے بلکہ قانونی احتساب کے دائرۂ اختیار میں لانے کی ضرورت ہے۔ ہماری حکومت اور پارلیمنٹ کا ریکارڈ اس سلسلے میں بڑا پریشان کن ہے۔ موجودہ اسمبلی نے پانچ سال میں صرف ۵۰قوانین براے نام بحث کے بعد قبول کیے، جب کہ ان پانچ سالوں میں ۷۳ قوانین بذریعہ آرڈی ننس نافذ ہوئے، یعنی انتظامیہ نے پارلیمنٹ کے مشورے اور بحث کے بغیر ان کو نافذ کیا۔ دوسرے الفاظ میں عام قانون سازی کے مقابلے میں آرڈی ننس سے قانون سازی ۱۵۰ فی صد زیادہ تھی۔ بھارت میں بھی آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی کا دروازہ کھلا ہے مگر وہاں پانچ سال میں ’لوک سبھا‘ نے ۲۴۸ قوانین حقیقی بحث و گفتگو کے بعد منظور کیے، جب کہ صدارتی آرڈی ننسوں کی تعداد پانچ سال میں صرف ۳۴ تھی، یعنی پارلیمنٹ میں پاس ہونے والے قوانین کا صرف ۱۴فی صد۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بڑے اہم بل پاکستان کی اسمبلی اور سینیٹ میں زیرغور رہے مگر ان پر بحث اور منظوری کی نوبت نہیں آسکی۔
حقیقت یہ ہے کہ آرڈی ننس سے قانون سازی کا دروازہ بند ہونا چاہیے۔ لیکن اگر اسے ضروری تصور ہی کیا جائے تو یہ شرط ہونی چاہیے کہ اسمبلی کے انعقاد سے ۱۵ دن پہلے اور اس کے التوا کے ۱۵ روز بعد تک کوئی آرڈی ننس جاری نہیں ہوسکتا۔ دو اجلاسوں کے دوران اگر غیرمعمولی حالات میں آرڈی ننس جاری کرنا پڑے تو اس کی وجوہ بھی آنی چاہییں۔ محض یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ ایسی وجوہ پائی جاتی ہیں۔ ان کو متعین کرنا ضروری ہے تاکہ پارلیمنٹ اور اگر ضرورت ہو تو خود عدالت اس کا جائزہ لے سکے۔ پھر یہ واضح ہونا چاہیے کہ ایک آرڈی ننس لفظی ترمیم کے بعد بار بار نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ انتظامیہ جان بوجھ کر پارلیمنٹ کو نظرانداز (by pass) کرنا چاہتی ہے۔ نیز یہ بھی طے ہونا چاہیے کہ سال میں ایک خاص تعداد سے زیادہ آرڈی ننس جاری نہیں کیے جاسکتے، مثلاً ایک سال میں پانچ سے زیادہ آرڈی ننس جاری نہ ہوں۔ اس طرح پارلیمنٹ میں قانون سازی اور پالیسی سازی بڑھ سکے گی۔
د- پارلیمنٹ کو نظرانداز کرنے اور اس کے کردار کو غیر مؤثر بنانے میں مزید دو عوامل بھی اہم ہیں۔ ایک بین الاقوامی معاہدات کا پارلیمنٹ سے بالا ہی بالا منظور ہوجانا۔ برطانوی دور سے یہ کام کابینہ کر رہی ہے جو جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ سامراجی دور میں اس کا ’جواز‘ ہوگا، جمہوریت میں اس کی کوئی گنجایش نہیں۔ اس لیے تمام معاہدات کا پارلیمنٹ میں پیش ہونا اور ان میں سے اہم کا دونوں ایوانوں میں یا کم از کم سینیٹ میں توثیق (ratification ) ضروری ہونا چاہیے۔
دوسرا مسئلہ اہم تقرریوں (appointments )کا ہے۔ جو تقرریاں پبلک سروس کمیشن سے ہوتی ہیں، وہ ایک معقول طریقہ ہے لیکن جو سفارتی اور انتظامی تقرریاں انتظامیہ اپنی صواب دید پر کرتی ہے ان کی جواب دہی بھی ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹیوں یا دونوں ایوانوں کی مشترک کمیٹیوں کا کردار ہونا چاہیے۔ امریکا میں انتظامیہ کو حدود میں رکھنے اور اہم تقرریاں ذاتی رجحانات کے مقابلے میں اصول اور میرٹ پر کرانے کے لیے تقرری سے پہلے کمیٹی میں پیش ہونے کا طریقہ بڑا مؤثر ہے۔ اگر ہمارے ملک میں بھی اس سلسلے کو شروع کیا جائے تو یہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام کے لیے بڑا اہم اقدام ہوگا۔
ہ- اس سلسلے میں پارلیمنٹ کے ایامِ کار (working days) کا مسئلہ بھی اہم ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسمبلی کے لیے ۱۶۰ دن ایامِ کار قرار دیے گئے تھے جنھیں کم کر کے ۱۳۰ دن کر دیاگیا۔ پھر ایک تعبیر کے ذریعے اگر دو دن کی چھٹی درمیان میں آجائے تو وہ بھی ایامِ کار میں شمار ہونے لگی۔ بالعموم ہفتے میں تین دن اسمبلی یا سینیٹ کے سیشن ہوتے ہیں اور اسے سات دن شمار کیا جاتا ہے۔ پھر اوسطاً اڑھائی گھنٹے فی یوم کی کارکردگی رہی، جب کہ دنیا کے دوسرے ممالک میں پارلیمنٹ پورے سال سیشن میں رہتی ہے بجز دو یاتین چھٹی کے وقفوں کے۔ ہرروز بحث چھے سات گھنٹے ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کی کارکردگی کو مؤثر بنانے کے لیے اس کی بھی ضرورت ہے کہ ارکان اسمبلی و سینیٹ کو ضروری معلومات فراہم کی جائیں، ان کو مطالعے، تحقیق اور قانون سازی کے لیے معاونت ملے۔ عوام کو پارلیمنٹ کی کمیٹی میں پیش ہونے کا موقع دیا جائے۔ پارلیمانی کمیٹیوں کی کارروائی کھلی ہو،پارلیمنٹ کی کارکردگی بھی براہِ راست عوام تک پہنچے۔ وزرا کی شرکت لازمی ہو۔ وزیراعظم کم از کم ہفتے میں ایک بار نہ صرف پارلیمنٹ میں آئیں بلکہ ان کے لیے کم از کم نصف گھنٹہ سوالات کے جوابات دینے کے لیے مختص کیا جائے۔ یہ وہ اقدام ہیں جن سے پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہوگی اور کارکردگی میں اضافہ ہوسکے گا۔
۲- پارلیمنٹ کی بالادستی کے ساتھ دستور میں اور بھی ایسی ضروری ترامیم درکار ہیں جو گذشتہ ۳۵ سال کے تجربات کی روشنی میں دستور کے اسلامی، اور وفاقی کردار کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔ جب ہم دستوری ترامیم کے مسئلے پر غور کر رہے ہیں تو ان امور پر بحث اور تجاویز مرتب کرناضروری ہے جس کے لیے ایک کُل جماعتی پارلیمانی کمیٹی دونوں ایوانوں کے ان ارکان پر مشتمل قائم کی جائے جو قانون پر نگاہ رکھتے ہوں اور وقت کے تقاضے بھی جن کے سامنے ہوں۔
عدلیہ کی بحالی، دستوری نظام کی اصلاح اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام کے ساتھ ایک اور بنیادی مسئلہ سیاست میں فوج کے کردار اور خود پرویز مشرف کے مستقبل کا ہے، جو اس ناٹک کے اصل ایکٹر رہے ہیں۔ اصولی طور پر فوج کے چیف آف اسٹاف کا یہ اعلان لائق تحسین اور صحیح سمت میں قدم ہے کہ فوج صرف ایک دستوری اور دفاعی کردار ادا کرے اور سول انتظامیہ اور معاشی میدان میں جو کردار اس نے اختیار کر لیا ہے، وہ ختم کیا جائے۔
مخلوط حکومت کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ اپنے معاملات کو درست کرنے کے ساتھ ساتھ پرویز مشرف کے مستقبل کے معاملے کو بھی دو ٹوک انداز میں طے کرے۔ پرویز مشرف نے دستور کا تیاپانچا کیا، پارلیمنٹ کو غیرمؤثر بنایا، فوج کو سیاست اور انتظامیہ میں ملوث کیا۔ پرویز مشرف اور دستوری اور جمہوری نظام ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ انھوں نے باعزت رخصت ہونے کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ اب اس کے سواکوئی راستہ نہیں کہ دستوری ترامیم کے بعد ان کے مواخذے کی تیاری کی جائے۔ ان کے تاریک دور کا دروازہ اس وقت تک بند نہیں ہوگا جب تک خود ان کا مؤثر احتساب نہ ہو، تاکہ قوم اور دنیا کے سامنے یہ حقیقت آسکے کہ جو فرد بھی دستور کا خون کرے گا اور اختیارات کا غلط استعمال کرے گا، اس کا احتساب ہوگا اور ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا نظام نہیں چل سکتا۔
انتخابات سے پہلے امریکا کی من پسند قیادت کو بروے کار لانے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے گئے۔ کیسے کیسے مفاہمت کے ڈرامے اسٹیج کیے گئے۔ اس کھیل میں پرویز مشرف اور ایم کیو ایم کا بڑا کلیدی کردار ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ قوم کو اس سلسلے میں ایک بالکل واضح راستہ اختیار کرنا ہے۔
جس طرح پرویز مشرف کا صدارت پر قابض رہنا ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ ہے، اسی طرح ایم کیو ایم کا کردار بہت مخدوش ہے جس کی حیثیت پرویز مشرف کے ایک مسلّح بازو (armed wing) کی ہے اور جس کے ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء کے خونی کھیل کو انھوں نے اسلام آباد میں مسلم لیگ (ق) کے ایک مظاہرے میں اپنا کارنامہ اور اپنی طاقت کا مظہر قرار دیا تھا۔ پانچ سال پرویز مشرف اور ایم کیو ایم کا گٹھ جوڑ رہا ہے اور اس کے باوجود رہا ہے کہ اقتدار میں آکر انھوں نے اسلام آباد میں چند چوٹی کے صحافیوں کی موجودگی میں الطاف حسین کے بارے میں کہا تھا کہ: He is a traitor, period ، وہ ایک غدار ہے___ اور بس!
الطاف حسین نے خود بھارت کی سرزمین پر بار بار کہا ہے کہ پاکستان کا قیام ایک غلطی تھا اور برطانیہ کی شہریت لے کر تاجِ برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھایا ہے جو ریکارڈ پر موجود ہے۔ ایم کیو ایم نے قوت کے استعمال سے جس طرح کراچی اور حیدرآباد پر قبضہ کر رکھا ہے اور جس طرح اس کے سزایافتہ کارکنوں کو شریکِ اقتدار کیا گیا ہے اور اس کی خاطر قومی مفاہمتی آرڈی ننس (NRO ) میں ۱۹۸۶ء سے جرائم کرنے والوں کو بری کیا گیا، وہ کھلی کتاب ہے۔ ایم کیو ایم کو امریکا اور برطانیہ کی تائید حاصل ہے اور وہ پرویز مشرف کے ٹروجن ہارس کی حیثیت رکھتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا موقف بالکل درست ہے کہ اس ریکارڈ کی موجودگی کے باوجود ان کے ساتھ اقتدار میں شرکت پرویز مشرف کو تقویت دینے اور مشرف اور امریکا کے کھیل کی سرپرستی کے مترادف ہوگی۔
اس لیے اسمبلی اور نئی حکومت کو،جن بنیادی امور کو طے کرنا ہے ان میں سے ایک پرویز مشرف کے قانونی جوازسے محروم صدارتی تسلط سے نجات بھی ہے تاکہ اس کی دہشت گردی کی جنگ سے بھی ہم نکل سکیں اور اپنے معاملات کو اپنے مفادات کی روشنی میں اور اپنے طریقے سے حل کرسکیں۔
ملک اور قوم کو پٹڑی پر لانے کے لیے چوتھا بڑا مسئلہ پاکستان کی پالیسیوں اور معاملات میںامریکا کی مداخلت کو لگام دینا ہے، جسے امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دے کر پوری دنیا میں خوف کی فضا قائم کر کے مسلمان ملکوں خصوصیت سے افغانستان، عراق، لبنان، ایران اور خود پاکستان کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہا ہے، وہ مسلمان اُمت اور پاکستانی قوم کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ پاکستانی قوم اسے اسلام، مسلمانوں اور خود پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک کے خلاف جنگ تصور کرتی ہے اور پرویز مشرف نے امریکا کے اس خطرناک کھیل میں پاکستان اور اس کی افواج کو جھونک کر جو ظلم کیا ہے اور جس کے نتیجے میں پاکستان دہشت گردی اور خودکش حملوں کی زد میں آگیا ہے، اس صورت حال کو ہرگز برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا نے پاکستان کی فضائی اور جغرافیائی حدود کی کھلے عام خلاف ورزی کی ہے، اور کر رہا ہے۔ اس کے جہاز ہماری بستیوں میں بم باری کر رہے ہیں اور بغیر پائلٹ کے جہاز لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ امریکا کے حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ سب کچھ پرویز مشرف سے کسی معاہدے کے تحت کر رہے ہیں۔ امریکی ترجمان بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کو یہ حق حاصل ہے اور پاکستان کی افواج اور حکومت، امریکا کے ان تمام جارحانہ اقدامات پر نہ صرف خاموش ہے، بلکہ غیرت کا جنازہ نکال کر اس کے ترجمان یہاں تک کہنے کی جسارت کرچکے ہیں کہ کچھ حملے امریکا نے نہیں خود ہم نے کیے ہیں۔ اب ان حملوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ گذشتہ چھے ماہ میں امریکا نے سیکڑوں افراد کو ہلاک کردیا ہے اور پاکستانی ترجمان اپنا نام چھپا کر یہ کہنے لگے ہیں کہ حملے امریکا اور ناٹو کی طرف سے ہو رہے ہیں۔ امریکا ہم پر اپنی پالیسیاں اس حد تک مسلّط کر رہا ہے کہ علاقے میں مصالحت کی ہرکوشش کو وہ مسترد (ویٹو ) کردیتا ہے۔ صرف فوجی حل مسلط کر رہا ہے اور ہمیں مسلط کرنے پر مجبور کر رہا ہے اور ہماری فوج کی ٹریننگ اور نیوکلیر اثاثوں کی حفاظت کے نام پر ہمارے دفاعی نظام میں گھسنے اور اسے اندر سے سبوتاژ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ بات اب اس سے بھی آگے بڑھ گئی ہے اور کھل کر مطالبے کیے جارہے ہیں کہ جس طرح ۲۰۰۱ء میں ہمارے سات مطالبات مانے تھے، اب گیارہ نکات تسلیم کرو۔ ان مطالبات کی فہرست دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا کسی آزاد اور خودمختار مملکت سے اس نوعیت کے شرم ناک مطالبات بھی کیے جاسکتے ہیں (۷ مارچ ۲۰۰۸ئ)۔ اس کے ساتھ کوشش ہے کہ ملک کی حکومت سازی میں بھی کردار ادا کرے اور اپنی پسند کے لوگوں کو برسرِاقتدار لانے کا کھیل کھیلے اور یہ سب کچھ ’اعتدال پسند‘ اور لبرل قوتوں کی فتح کے نام پر ہو۔
ہمیں احساس ہے کہ ان چار امور کے علاوہ بھی بڑے مسائل ہیں جن میں معاشی مسائل، کرپشن، امن و امان کا مسئلہ، بے روزگاری، بجلی اور پانی کا بحران، ہوش ربا مہنگائی اور بلوچستان اور وزیرستان میں فوج کشی سرفہرست ہیں۔ ان میںسے ہر مسئلہ حل کا تقاضا کررہا ہے اور حکومت کو اس کی طرف توجہ دینا ہوگی، البتہ گاڑی کو پٹڑی پر لانا ترجیح اول ہونا چاہیے۔
___ جہاں تک وزیرستان اور بلوچستان کا تعلق ہے، حکومت کو فوج کشی ترک کر کے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ ہمیں یقین ہے کہ تمام معاملات سیاسی طریقۂ کار سے بحسن و خوبی حل ہوجائیں گے۔ امریکا سے صاف کہنے کی ضرورت ہے کہ بہت ہوچکی (enough is enough)۔ موجودہ قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ امریکا کو ہماری ضرورت ہے، ہمیں امریکا کی اتنی ضرورت نہیں۔ اس لیے نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
اس کی بنیادی وجہ غزہ کی آبادی اور وہاں کی قیادت اور متمول افراد کا یہ کردار ہے کہ جو کچھ ان کے پاس ہے اس میں تمام شہریوں کو شامل کر رہے ہیں، مسجدوں میں اجتماعی کھانے کا اہتمام ہوتا ہے اور جو جس کے پاس ہے، لے آتا ہے اور سب اس میں شریک ہوجاتے ہیں۔ غربت ہے مگر عزائم بلند ہیں اور اجتماعی کفالت کی بنیاد پر اسرائیل جیسے طاقت ور دشمن کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اگر غزہ کے مسلمان یہ مثال قائم کرسکتے ہیں تو ہم پاکستانی اس سمت میں کیوں پیش قدمی نہیں کرسکتے؟ معاشی مسائل اور مشکلات حقیقی ہیں لیکن ان کا حل ممکن ہے بشرطیکہ ہم خود غرض، نفس پرست اور ہوس کے پجاری نہ بنیں، بلکہ اسلام کی دی ہوئی ہدایات کی روشنی میں اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔
نومنتخب اسمبلی اور مخلوط حکومت تاریخی دوراہے پر ہے۔ صحیح فیصلہ اور صحیح اقدام کرکے وہ ملک کو ایک تابناک مستقبل کی طرف لے جاسکتی ہے۔ کیا مخلوط حکومت اس چیلنج کا مقابلہ ایمان، غیرت اور حکمت سے کرنے کا عزم اور صلاحیت رکھتی ہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابی نتائج پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ملک کی قیادت، خصوصیت سے نومنتخب قیادت، عوام کی واضح راے اور ان کے جذبات، احساسات اور توقعات کے مطابق اپنا کردار ادا کرتی ہے اور ملک کو اس دلدل سے نکالنے کی مؤثر کوشش کرتی ہے، جس میں شخصِ واحد کی حکمرانی کے آٹھ برسوں نے اسے پھنسا دیا ہے تو یہ دن ایک تاریخی موڑ ثابت ہوسکتا ہے۔
اس لیے سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ عوام کی راے اور سوچ دراصل ہے کیا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان کی سوچ اور رجحان کا صحیح صحیح تعین کیا جائے اور ان انتخائی نتائج کا گہری نظر سے تجزیہ کرکے اس پیغام کا ٹھیک ٹھیک ادراک کیا جائے جو عوام نے دیا ہے۔ ایک اور پہلو آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے، اور وہ یہ کہ انسانی معاملات میں مشیت الٰہی کے بنیادی قوانین کی کارفرمائی ہے۔ انسان اپنی سی کوشش کرتا ہے مگر: ’’اللہ تعالیٰ کی اپنی تدبیر ہوتی ہے اور بالآخر اللہ کی تدبیر ہی غالب رہتی ہے‘‘ (اٰل عمرٰن ۳:۵۴)۔ حکمرانوں اور ان کے بیرونی آقائوں نے کیا نقشہ بنایا تھا اور اللہ تعالیٰ نے کس طرح اس نقشے کو درہم برہم کردیا اور ایک دوسرا ہی نقشہ سب کے سامنے آگیا___ اگر اب بھی یہ قوم اور اس کی قیادت غیبی اشاروں کی روشنی میں نئے مواقع سے فائدہ نہیں اٹھاتی، ماضی کی غلطیوں کی اصلاح نہیں کرتی اور واضح امکانات کے حصول میں کوتاہی کرتی ہے تو یہ ناقابلِ معافی جرم ہوگا۔
اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ پورا انتخابی عمل (process) پہلے دن سے خاص نتائج حاصل کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا اور اس کا اعتراف اور ادراک بھی بڑے پیمانے پر ہوچلا تھا۔ عالمی مبصرین ہوں یا حقوقِ انسانی کی ملکی اور غیرملکی تنظیمیں، سب نے اعتراف کیا ہے کہ عدلیہ کی برخاستگی، میڈیا پر پابندیاں، الیکشن کمیشن کا جانب دارانہ کردار، من پسند عبوری حکومت کی تشکیل، ووٹوں کی فہرستوں میں گڑبڑ، انتظامی عملے کا تعین اور تبادلے، مقامی حکومتوں کی کارگزاریاں، غرض ہرپہلو سے کچھ خاص نتائج حاصل کرنے کے لیے سارے انتظامات کیے گئے تھے۔ الیکشن کے دن بڑے پیمانے پر کُھل کھیلنے کا پورا پورا اہتمام تھا، مگر مختلف وجوہ سے اس کھیل کے آخری مرحلے میں بازی پلٹ گئی اور چند مقامات (خصوصیت سے کراچی اور بلوچستان وغیرہ میں مخصوص نشستیں) کے سوا نقشہ بدل گیا اور عوام نے اس انداز میں اپنی راے کا اظہار کیا کہ ’سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا‘ والی کیفیت پیدا ہوگئی۔ لیکن ناسپاسی ہوگی اگر ریکارڈ کی خاطر ان اسباب اور عوامل کا تذکرہ نہ کیا جائے جو کھیل کو اُلٹ پلٹ کرنے کا ذریعہ بنے۔
ا- کُل جماعتی جمہوری اتحاد نے جس اصولی موقف کو اختیار کیا اور انتخابی عمل کے ناقابلِ قبول ہونے کی وجہ سے انتخابات کا بائیکاٹ کیا، اس کی وجہ سے انتخابات میں دھاندلی کا ایشو مرکزی حیثیت اختیار کرگیا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے بھی اس مسئلے کو اس حد تک اٹھایا کہ دھاندلی کی صورت میں ۱۹فروری سے احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔ اس دبائو کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔
ب- بیرونی مبصرین اور صحافیوں کی موجودگی اور میڈیا کا فوکس جس میں یہ دبائو روز بہ روز بڑھتا رہا کہ انتخابات کے دن بڑے پیمانے پر دھاندلی ناقابلِ برداشت ہوگی۔ حکومتی، صحافتی اور عوامی سطح پر اس عالمی دبائو نے بھی اپنا اثر ڈالا۔
ج- فوج کے چیف آف اسٹاف کا یہ اعلان کہ انتخابات میں فوج کا کوئی کردار نہیں اور فوج صرف امن و امان میں مدد کے لیے موجود رہے گی۔
د- قواعد میں یہ تبدیلی کہ انتخابی نتائج ریٹرنگ افسر سیاسی نمایندوں کی موجودگی میں مرتب کریں گے اور ان کی تصدیق شدہ کاپی پولنگ اسٹیشن پر ہی امیدوار کے نمایندوں کو دے دی جائے گی، تاکہ انتخابی نتائج کو تبدیل نہ کیا جاسکے۔
ان چاروں عوامل کا مجموعی اثر یہ ہوا کہ ’انتخابی انجینیری‘ (engineering)اور ’قبل از انتخاب دھاندلی‘ کے باب میں جو کچھ ہونا تھا وہ تو ہوگیا، لیکن انتخابات کے روز دھاندلی میں بیش تر مقامات پر نمایاں فرق پڑا۔
دوسرا بنیادی اور اہم سوال یہ ہے کہ عوام نے جس راے کا اظہار کیا ہے اور جس شدت سے کیا ہے، وہ کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں، اس پر ہم ذرا تفصیل سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
ملک اور ملک سے باہر اس امر کا اعتراف توسب کر رہے ہیں کہ یہ انتخاب عملاً پرویز مشرف، ان کی حکومت (اعوان و انصار) اور ان کی پالیسیوں کے خلاف ایک ریفرنڈم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ملک کے تمام ہی اخبارات اور نیوز چینلوں نے بالاتفاق اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ قوم کی جس راے کا اظہار گذشتہ ایک سال سے راے عامہ کے جائزوں کی صورت میں ہورہا تھا، انتخابات کے ذریعے عوام نے اس پر مہرتصدیق ثبت کردی اور ثابت ہوگیا کہ ملک کے ۸۲ فی صد عوام نے پرویز مشرف کی صدارت اور ان کا ساتھ دینے والی پارٹیوں کو رد کردیا ہے اور تمام بے قاعدگیوں، سرکاری سرپرستی اور جزوی دھاندلیوں کے باوجود صرف ۱۸ فی صد آبادی نے ان لوگوں کی تائید کی ہے جو مشرف صاحب کے ساتھ تھے۔ نیز صدرمشرف کی کابینہ کے ۲۳ وزرا اورمسلم لیگ (ق) کے صدر سمیت سب کے تاج زمیں بوس کردیے۔ یہ وہ کیفیت ہے جسے حتمی طور پر مسترد کرنا کہتے ہیں۔
یہی وہ کیفیت ہے جس کا اعتراف نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے الیکشن کے بعد اپنے نمایندوں کی رپورٹوں کے علاوہ اپنے ادارتی کالموں میں بھی کیا ہے کہ یہ عوام کا فیصلہ (verdict )ہے اور مشرف کو نوشتۂ دیوار کو پڑھنے کامشورہ دیا ہے کہ پاکستانی عوام نے ان کے صدارتی مینڈیٹ کو غیرآئینی (illegitmate) قرار دیا ہے: ’’انھوں نے سابق جرنیل کو بھاری اکثریت سے مسترد کرنے کا پیغام دیا ہے‘‘۔
یہی بات انگلستان کے اخبارات خصوصیت سے دی ٹائمز، دی گارجین اور دی انڈی پنڈنٹ نے لکھی۔ ان سب کا پیغام ایک ہی ہے، جسے دی انڈی پنڈنٹ نے ۲۱فروری کے اداریے کے الفاظ میں بیان کیا ہے:
پاکستان کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ کثیرجماعتی جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی طرف واپسی ہے۔ پاکستان کے گذشتہ عشرے نے اگر کوئی سبق سکھایا ہے تو وہ یہ ہے کہ آمریت انتہاپسندی کو ختم نہیں کرتی بلکہ اس کونشوونما دیتی ہے۔ فوجی حکومت استحکام کا صرف ایک فریب فراہم کرتی ہے۔ ہمارے مفاد میں ہے کہ یہ پاکستان میں واپس نہ آئے۔ (دی انڈی پنڈنٹ، ۲۱ فروری ۲۰۰۸ئ)
پاکستان میں ووٹرز نے اس ہفتے صدر پرویز مشرف کو ایک سراسیمہ کردینے والی شکست سے دوچار کردیا، اور اس طرح اس خطرناک ملک میں جمہوری حکومت کو بحال کرنا ممکن بنا دیا ہے۔ درحقیقت پیر کے پاکستان کے انتخابات میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے صدر جارج بش تھے۔ (نیوزڈے، ۲۲فروری ۲۰۰۸ئ)
امریکا اور یورپ کے اخبارات اور سیاسی مبصرین نے اپنے اپنے نقطۂ نظر سے بات کی ہے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے نئی چالیں تجویز کی ہیں جو اس تحریر میں زیربحث نہیں، البتہ جو بات ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ الیکشن کے نتائج کو ملک اور ملک سے باہر پرویزمشرف، ان کے سیاسی طرف داروں اور ان کے بین الاقوامی پشتی بانوں اور ان کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں سے پاکستانی عوام کی عظیم اکثریت کی طرف سے مکمل برأت کا اظہار سمجھا گیا ہے۔ اس نوشتۂ دیوار کے سوا کوئی اور نتیجہ نکالنا عقل و انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ چودھری شجاعت حسین، مشاہد حسین سید، چودھری امیرحسین، شیخ رشیداحمد، اعجازالحق بھی کھلے بندوں کہہ رہے ہیں کہ ہمیں پرویزمشرف کی پالیسیاں خصوصیت سے لال مسجد کا خونی المیہ، امریکا کی اندھی اطاعت، بلوچستان اور وزیرستان کی فوج کشی، آٹے، چینی اور بجلی کا بحران لے ڈوبے۔
پرویز مشرف حقائق کو تسلیم نہ کرنے کی روش پر قائم ہیں اور جس نفسیاتی کیفیت کا مظاہرہ کررہے ہیں،وہ انتہائی خطرناک ہے۔ شاید یہ ان کی شخصیت کا خاصّہ ہے اس لیے کہ اپنی خودنوشت میں اپنے بچپن کا جو نقشہ خود انھوں نے کھینچا ہے، اس میں وہ ایک ’داداگیر‘ کے روپ میں نظر آتے ہیں۔ انھیں قوت کے جا وبے جا استعمال کا شوق ہے اور اس کھیل کو وہ اپنی حکمت عملی سمجھتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے دوسروں کی تحقیر و تضحیک میں ان کو لطف آتا ہے۔ ان کے اس ذہن کی عکاسی اس انٹرویو تک میں دیکھی جاسکتی ہے جو الیکشن سے صرف تین دن پہلے انھوں نے جمائما خان کو دیا ہے اور جنرل (ر) پرویز مشرف کی اصل شخصیت کو سمجھنے میں مددگار ہے۔ اس انٹرویو میں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ جن سیاسی لیڈروں کو وہ کرپٹ اور قوم کو لوٹنے والا کہتے تھے اور جن پر گرفت اور ان کو کیفرکردار تک پہنچانے کا دعویٰ کرکے وہ اقتدار پر قابض ہوئے تھے، ان کو معافی دینے، ان سے سمجھوتہ کرنے اور ان کے ساتھ اشتراکِ اقتدار کے لیے وہ آمادہ ہوئے تھے اور یہ صرف انھوں نے امریکا اور برطانیہ کے دبائو میں اور صرف اپنی کرسی کو بچانے کے لیے کیا ہے۔
اس انٹرویو میں انھوں نے مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کے بارے میں اس اعتماد کا اظہار کیا تھا کہ اگلی حکومت وہ بنائیں گے اور ساتھ ہی انھوں نے راے عامہ کے سارے جائزوں کا مذاق اڑایا تھا اور پورے میڈیا کی راے پر عدمِ اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ یہ بھی فرمایا کہ یہ سب میرے مخالف ہیں۔ اگر کوئی ان کا دوست ہے اور ان کے خلاف نہیں وہ مغربی اقوام کے لیڈر ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے، جمائما لکھتی ہیں:
درحقیقت ان کے مطابق جو لوگ ان کے مخالف نہیں ہیں، وہ صرف مغربی لیڈر ہیں جو مکمل طور پر ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
یہ بات بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ انتخابی نتائج کے سامنے آنے کے بعد بھی پرویزمشرف کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں اور نہ انھیں اپنی ناکامی کا کوئی احساس ہے۔ اب بھی وہ امریکا کی بیساکھیوں کی تلاش میں ہیں، جس کا بین ثبوت وہ مضمون ہے جو موصوف نے امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا ہے۔ اس مختصر مضمون کو پڑھ کر سرپیٹ لینے کو جی چاہتا ہے کہ اس مظلوم ملک کے حکمرانوں کی سوچ کی سطح کس قدر پست ہے۔
مضمون کا عنوان ہے: A Milestone on The Road to Democracy لیکن اس مضمون میں انتخابات کا جو پیغام خود حضرت کے لیے ہے اس کا کوئی شعور اور احساس ہی نہیں بلکہ اس ہٹ دھرمی کا اظہار ہے کہ وہ صدر رہیں گے اور اپنے تین مقاصد، یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگ، جمہوریت کے استحکام اورمعاشی ترقی کے تحفظ کا پھر اعادہ کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
میں ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے نئی منتخب حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔
اس مضمون کا اصل مقصد امریکا کی تائید حاصل کرنا اور اپنے اور امریکا کے مقاصد کی ہم آہنگی کا اظہار ہے:’’لیکن ہماری کامیابی کے لیے ضروری ہوگا کہ امریکا کی مسلسل حمایت حاصل رہے‘‘۔
نہ کوئی خود احتسابی ہے، نہ عوام کے فیصلے کا کوئی احساس یا شعور ہے، نہ اپنی ناکامیوں کا کوئی ادراک ہے اور جس بیرونی مداخلت، قومی حاکمیت اور غیرت کی قربانی کے خلاف قوم اُٹھ کھڑی ہوئی اسی غلامی کو مستحکم کرنے اور اس میں امریکا کی مدد حاصل کرنے کی بھیک اس مضمون میں مانگی گئی ہے۔ خود فوج کے بارے میں ایک جملہ ایسا ہے جو ان کے ذہن کا غماض ہے:
ہماری مسلح افواج پُرعزم ہیں، پیشہ ور ہیں اور ملک میں امن و امان قائم رکھنے اور سیاسی نظام کو برقرار رکھنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔
افواجِ پاکستان کی ذمہ داری، وطن کا دفاع اور امن عامہ کے قیام میں اس وقت معاونت ہے کہ جب دستور کے تحت سیاسی قیادت اس کو طلب کرے۔ سیاسی نظام کا تحفظ نہ فوج کی ذمہ داری ہے اور نہ فوج اس کی اہل ہے، بلکہ وہ تو سیاست میں کسی صورت میں مداخلت نہ کرنے کا عہد کرتی ہے، اس کی محافظ کیسے ہوسکتی ہے لیکن پرویز مشرف آج بھی اسے سیاسی نظام کا ضامن قرار دے رہے ہیں۔
اس مضمون کا مرکزی موضوع بھی وہی ہے جو امریکی صدر بش کا پسندیدہ مضمون ہے، یعنی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ۔ حالانکہ پاکستان کا اصل مسئلہ فوج کی بے جا مداخلت، شخصی حکمرانی کا عفریت، انصاف کا فقدان، عدالت پر جرنیلی یلغار، معاشی ناانصافی، غربت، بے روزگاری اور مہنگائی ہے۔ علاقائی ناہمواریاں اور مرکز اور صوبوں میں تصادم کی کیفیت اور فوجی قوت کا اپنی ہی آبادی کے خلاف استعمال ہے۔ الیکشن کا اصل ایشو اور حاصل مشرف بش کے ایجنڈے کو مسترد کرنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نیوزڈے نے ادارتی کالم میں اعتراف کیا ہے کہ ۱۸فروری کے انتخابات میں صدر پرویز مشرف ہی نہیں جارج بش بھی شکست کھا گئے ہیں۔
اس پوری بحث کا حاصل یہ ہے اور انتخابات کے نتائج کا تقاضا ہے کہ پرویز مشرف اپنی شکست تسلیم کریں اور سیدھے سیدھے استعفا دیں۔ نیز ان کی جن پالیسیوں کے خلاف عوام نے اپنے فیصلے کا اظہار کر دیا ہے ان پر بھی بنیادی طور پر نظرثانی ہو، جس میں اہم ترین یہ ہیں:
۱- پاکستانی عوام شخصی آمریت اور سیاست میں فوج کی مداخلت کے خلاف ہیں اور وہ حقیقی جمہوری نظام کے قیام کے داعی اور طرف دار ہیں۔ پرویز مشرف نے جو طرزِ حکمرانی اختیار کیا وہ ناقابلِ قبول ہے۔ مشرف کے ساتھ ان کا دیا ہوا نظام، پالیسیاں اور ان کا اندازِ کار عوام نے رد کردیا ہے۔آئی آر آئی اور گیلپ دونوں کے سروے بھی عوام کے اس رجحان کے عکاس ہیں، یعنی ۶۹ فی صد نے کہا کہ سیاست میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے اور ۷۵ فی صد نے کہا کہ مشرف استعفا دے دیں۔
۲- الیکشن میں بنیادی ایشو چیف جسٹس اور عدالت عالیہ کی بحالی اور نظامِ عدل کو اس کی اصل دستوری بنیادوں پر مرتب اور مستحکم کرنا ہے۔ یہ تحریک ۹مارچ ۲۰۰۷ء کو شروع ہوئی ہے اور ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کو قوم نے اس تحریک کی تائید کرکے اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ ہمیں یہ بات کہنے میں ذرا بھی باک نہیں کہ جن جماعتوں کو عوام نے جتنا بھی مینڈیٹ دیا ہے، وہ بنیادی طور پر عدلیہ کی آزادی اور بحالی کے حق میں اور پرویز مشرف کے خلاف ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے حق میں تائیدی لہر کی اصل کارساز قوت یہی ہے ___ ایک مغربی صحافی نے درست لکھا ہے کہ: ’’اصل ووٹنگ تو دو ناموں پر ہوئی ہے، حالانکہ وہ بیلٹ پیپر پر لکھے ہوئے نہیں تھے۔ لیکن اصل انتخاب انھی کے درمیان تھا، یعنی ’چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری‘ اور ’صدر پرویز مشرف‘۔ عوام کی بھاری اکثریت نے جسٹس افتخارمحمد چودھری کی تائید کی اور پرویزمشرف کا پتا. ّ کاٹ دیا‘‘۔ یوں عدالت کی بحالی اور آزادی ہی اس بحث کا اصل عنوان ہے اور دستور کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی اس کا اصل مقصد اور محور ہے۔
۳- تیسرا بنیادی ایشو جو ان انتخابات میں زیربحث آیا ہے اس کا تعلق اس شرمناک صورتِ حال سے ہے جو امریکا کی بالادستی اور ملک پر کھلی اور خفی مداخلت سے پیدا ہوئی ہے اور جس کی وجہ سے اب ہماری آزادی اور حاکمیت ہی خطرے میں ہے۔ چند بلین ڈالروں کے عوض پاکستانی افواج کو عملاً امریکا کے لیے کرائے کا لشکر (mercenary) بنانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی نام نہاد جنگ میں ہم نے اپنے کو آلودہ کرلیا ہے اور اس کے نتیجے میں ہمارے اپنے ملک میں دہشت گردی کو فروغ مل رہا ہے حالانکہ اس جنگ میں شرکت سے پہلے یہ کوئی مسئلہ نہ تھا۔ راے عامہ کے ایک عالمی ادارے کے جائزے کی رو سے عوام کی نگاہ میں اہم ترین مسئلہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔ ۵۵ فی صد افراد مہنگائی کو اور ۱۵ فی صد بے روزگاری کو اصل مسئلہ قرار دیتے ہیں، جب کہ تمام زوردار پروپیگنڈے کے باوجود دہشت گردی کو صرف ۱۲ فی صد نے اہم ترین مسئلہ قرار دیا ہے۔
تفصیل میں جائے بغیر ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اب امریکا کا عمل دخل ہماری پالیسی سازی، ہماری سرحدوں کی بے حرمتی، ہماری سرزمین کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے اور پاکستان کی قیادت کی تلاش اور سیاسی جوڑ توڑ کی سرگرمیوں تک میں ہے۔ ان انتخابی نتائج نے پرویز مشرف کے اس غلامانہ رویے، خوف اور دبائو کے تحت رونما ہونے والے دروبست کو تبدیل کرنے اور پوری خارجہ پالیسی کو درست سمت دینے کا پیغام دیا ہے۔ اس انتخاب کے ذریعے عوام نے پوری قوت کے ساتھ پاکستانی قوم کے امریکی جنگ کا حصہ بننے سے اپنی براء ت کا اعلان کردیا ہے۔ پاکستانی عوام یہ چاہتے ہیں کہ اپنے مسائل کو اپنی اقدار اور روایات کے مطابق حل کریں اور دوسروں کی جنگ میں حرام موت مرنے کا راستہ اختیار نہ کریں۔
۴- قوم پرویز مشرف اور ان کی معاشی ٹیم کی مسلط کردہ معاشی پالیسیوں سے بھی نالاں ہے۔ نمایشی ترقی اور اس کے ڈھول پیٹنے سے کچھ عرصے تک تو عوام کو دھوکا دیا جاسکتا ہے، لیکن جب مغرب کے سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کے تصورات اور مفادات پر مبنی پالیسیوں کے تلخ نتائج لوگوں کے سامنے آتے ہیں تو پھر پروپیگنڈے کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے۔ توانائی کا میدان ہو یا زرعی پیداوار کا، صنعت و حرفت کا مسئلہ ہو یا تجارتی اور ادایگی کے توازن کا، ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کا مسئلہ ہو یا اشیاے ضرورت کی قیمتوں کا، قرضوں کا بوجھ ہو یا افراطِ زر کے مسائل، دولت کی عدمِ مساوات کی بات ہو یا صوبوں اور علاقوں کے درمیان تفاوت کی کش مکش___ غرض ہر پہلو سے عام آدمی کی معاشی مشکلات بڑھ گئی ہیں، کم نہیں ہوئیں اور جن ’کارناموں‘ کا شور تھا وہ سب ایک ایک کر کے پادر ہوا ہو رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اب ملک پر بیرونی اور اندرونی قرضوں کا بار ۱۹۹۹ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ مہنگائی کئی گنا بڑھ گئی ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور غربت کم ہونے کو نہیں آرہی۔ تجارتی خسارہ اب ۱۸ ارب ڈالر سالانہ کی حدوں کو چھو رہا ہے اور جن بیرونی ذخائر کی دھوم تھی اب ان کے لالے پڑگئے ہیں۔
۵- بھارت کے تعلقات کا ڈھول تو بہت پیٹا گیا مگر حاصل کچھ نہیں ہوا، البتہ قیمت بہت بڑی ادا کی گئی ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر اصولی موقف کی تبدیلی کے نتیجے میں کشمیری عوام مایوس ہوئے ہیں اور تحریکِ مزاحمت کمزور پڑگئی ہے۔ مشرف کی افغانستان کی پالیسی بھی بری طرح ناکام رہی ہے۔ اسرائیل سے دوستی کے اشارے اور اُمت مسلمہ کے مسائل سے بے توجہی اس دور کا شعار رہی ہے۔ جس طرح امریکا سے تعلقات کے مسئلے اور خارجہ پالیسی پر قوم نے نظرثانی اور بنیادی تبدیلیوں کی خواہش کا اظہار کیا ہے اسی طرح خارجہ سیاست کے دوسرے پہلو بھی نظرثانی کا تقاضا کرتے ہیں۔ اُمت مسلمہ کی وحدت ہی پاکستان اور تمام مسلم ممالک کی قوت ہے۔
۶- نام نہاد روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر ایک طرف قوم میں نظریاتی کش مکش اور تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو دوسری طرف دینی احکام، اقدار اور آداب سے روگردانی، سیکولرزم کے فروغ کی کوشش اور مغربی تہذیب و ثقافت اور ہندوکلچر کو عام کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے، جس سے معاشرے میں تہذیبی انتشار رونما ہوا ہے۔
۷- صوبائی حقوق کی پامالی، صوبوں کو ان وسائل سے محروم رکھنا جو ان کا حق اور ان میں پائے جانے والے معاشی ذخائر کا حاصل ہیں، نیز علاقائی، لسانی اور فرقہ وارانہ جماعتوں اور گروہوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے جن کا سب سے بڑا نقصان ملک میں مرکز اور صوبوں کے درمیان فاصلوں کا بڑھنا ہے۔
یہ وہ سات بڑے بڑے پالیسی ایشوز ہیں، جن پر انتخابات میں قوم نے اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کیا ہے اور اب سیاسی قیادت کے سامنے اصل سوال یہ ہے کہ پرویز مشرف کی دی ہوئی پالیسیوں کو کس طرح تبدیل کریں، تاکہ ملک و قوم ان مقاصد کی طرف پیش رفت کرسکیں جن کے قیام کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا۔
انتخابی نتائج کا بنیادی پیغام تو یہی ہے البتہ ان بنیادی پہلوئوں کے ساتھ ایک اور پہلو بھی قابلِ غور ہے اور وہ یہ کہ جہاں عوام نے پرویزمشرف، ان کے ساتھیوں، ان کے بیرونی سرپرستوں اور ان کی ملکی پالیسیوں کو رد کیا ہے ، وہاں انھوں نے کسی ایک سیاسی جماعت کو حکمرانی کا مکمل اختیار (مینڈیٹ) نہیں دیا، بلکہ دو بڑی جماعتوں کو اس طرح کامیاب کیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کے بغیر مستحکم سیاسی دروبست قائم نہیں کرسکتیں۔ ہماری نگاہ میں اس کی حکمت یہ ہے کہ عوام نے ان جماعتوں کے منشور کی اس طرح تائید نہیں کی جس طرح عام سیاسی ماحول میں کسی ایک رخ کو متعین کیا جاتا ہے۔ اس منقسم اختیار (split mandate) کا تقاضا یہ ہے کہ تمام جماعتیں مل کر پہلے اس بگاڑ کی اصلاح کریں، جو پچھلے آٹھ برسوں میں واقع ہوا ہے۔اس کے ساتھ منشوروں کے مشترک نکات پر کام ہو، تاکہ بنیادی آئینی اصلاحات کے بعد پھر قوم کی طرف رجوع ممکن ہو تاکہ وہ سیاسی پارٹیوں کو ان کی پالیسیوں کی روشنی میں حکمرانی کا نیا مینڈیٹ دے سکیں۔
یہ ایک عبوری دور ہے، اور اس دور میں زیادہ سے زیادہ قومی مفاہمت پیدا کرنے اور مشترکات کے حصول کو اصل ہدف بنانے کی کوشش کی جائے۔ اس منقسم حق حکمرانی سے عوام کی راے کا یہی رخ ظاہر ہوتا ہے۔ مشرف دور کی بدانتظامی، بے اعتدالی اور لاقانونیت کی اصلاح اور مستقبل میں منصفانہ اور غیرجانب دارانہ انتخابات کے نظام کا قیام اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ اسی طرح دستور کی روشنی میں فوج کے صرف دفاعی کردار کو مستحکم بنانا اور خارجہ پالیسی کی ملّی اُمنگوں کے مطابق تشکیل نو ہے۔اس ایجنڈے پر عمل کرنے میں نئی اسمبلیوں اور سیاسی قیادت کا اصل امتحان ہے۔ ہماری توقع اور دعا ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے دونوں بڑی پارٹیاں اصل توجہ ان ترجیحات پر دیں گی جو عوام کے اس مینڈیٹ کا حاصل ہیں۔ خود ان کو بھی اس کا کچھ ادراک ہے جس کا اظہار میثاقِ جمہوریت کی متعدد دفعات سے ہوتا ہے۔ نئی قیادت کی اصل ذمہ داری ملک میں عدلیہ کی بحالی، دستوری نظام کے قیام، آزادیوں کے تحفظ اور فیصلہ سازی میں پارلیمنٹ اور عوام کی شرکت کو یقینی بنانا ہے۔ اسی میں ان کا امتحان ہے اور جو وقت ان کو حاصل ہے وہ بھی کم ہے۔
ان انتخابی نتائج کے حصول میں عوام، تمام سیاسی جماعتوں اور میڈیا نے جو کردار ادا کیا ہے اس کا اعتراف اور ادراک ضروری ہے۔ اس سلسلے میں کُل جماعتی جمہوری اتحاد (APDM) نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان جماعتوں نے اصولی بنیادوں پر انتخابات کا بائیکاٹ کرکے اور اسمبلیوں میں اپنی نشستوں کی قربانی دے کر جو قومی خدمت انجام دی ہے اس کا اظہار اور اعتراف ضروری ہے۔
ہم نے جو طرز فغاں کی تھی قفس میں ایجاد
فیض، گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھیری ہے
ملک کی سیاست میں اصولوں کی بنیاد پر سیاسی جدوجہد اور اشتراکِ عمل کی یہ ایک زریں مثال قائم ہوئی ہے، جس سے ہماری سیاست پر مستقل اور دُور رس اثرات مرتب ہوںگے۔
یہاں ہم ایک مسئلے پر مزید کلام کرنا چاہتے ہیں، جس کا تعلق اس سطحی بحث سے ہے جو ملک کے نام نہاد، لبرل اہلِ قلم اور خصوصیت سے بیرون ملک صحافی اور تھنک ٹینک کر رہے ہیں، اور وہ یہ کہ: ’’ان انتخابات میں دینی قوتوں کو شکست ہوئی ہے اور لبرل اور سیکولر جماعتیں نئی طاقت کے ساتھ اُبھری ہیں‘‘۔ یہ ساری بحث ایک خاص سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی جارہی ہے اور زمینی حقائق کو یکسرنظرانداز کرکے مفیدمطلب نتائج نکالے جارہے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی جماعت نے سیکولرزم کواپنے منشور میں بطور ہدف کے پیش نہیں کیا۔ سب نے پاکستان کے دستور پر حلف لیا ہے اور اس دستور کی بالادستی قائم کرنے کو اپنا اولین ہدف قرار دیا ہے اور یہ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور ہے۔ قرارداد مقاصد اس کا دیباچہ ہی نہیں، ایک قابلِ نفاذ (operational ) حصہ ہے۔ دستور میں اس ریاست کا ہدف قرآن وسنت کی بالادستی اور اسلام کے دیے ہوئے احکام و اقدار کے مطابق نظامِ حکومت کو چلانا قرار دیا گیا ہے اور یہی ریاست کے بنیادی اصولِ حکمرانی قرار پائے ہیں۔ بلاشبہہ ہرجماعت کا حق ہے کہ اس اسلامی فریم ورک میں اپنی سوچ کے مطابق اپنی ترجیحات اوران کے حصول کے لیے پروگرام کا اعلان کرے۔ لیکن اسے سیکولرزم اور لبرلزم اور اسلام کے درمیان انتخاب کی شکل دینا صرف خلط مبحث ہے۔ پیپلزپارٹی کے منشور کا بھی پہلا نکتہ یہی ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی اسلامی نظریۂ حیات ہی کو اپنا مقصد قرار دیا ہے۔ پھر یہ کہنا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو ووٹ ملنے سے محض لبرلزم اور سیکولرزم کی فتح اور دینی قوتوں کی شکست ہے، کیسے درست ہوسکتا ہے۔
دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ اگر کوئی چیز مسترد ہوئی ہے تو وہ پرویز مشرف اور ان کی جماعت مسلم لیگ (ق) ہے، جو روشن خیالی اور نام نہاد ’جدیدیت‘ کی خودساختہ علَم بردار تھی۔ یہ عجیب دعویٰ ہے کہ پرویزمشرف کو تو قوم نے ردکردیا مگر ان کے لبرلزم اور روشن خیالی کو رد نہیں کیا، یہ تضاد نہیں تو کیا ہے؟
تیسری بات یہ ہے کہ دین اور دنیا اور مذہب اور سیاست کے رشتے کے اسلامی تصور اور مغربی تصور کو گڈمڈ کیا جا رہا ہے۔ مغرب کے لبرلزم میں الہامی ہدایت اور مذہبی اقدار واحکام کا تعلق فرد کی ذاتی زندگی سے ہے اور اجتماعی زندگی میں اس کا کوئی رول نہیں، جب کہ اسلام انسان کی پوری زندگی کو الہامی ہدایت کی روشنی سے منور کرتا ہے۔ شریعت کے معنی محض مغربی اصطلاح میں قانون کے نہیں، جس کے نفاذ کا انحصار ریاست کی قوت قاہرہ پر ہوتا ہے، بلکہ وہ پوری زندگی کے لیے ہدایت پر مشتمل ہے۔ وہ شریعت جو عقیدہ اور عبادات کے ساتھ انفرادی، خاندانی، اجتماعی، سیاسی، معاشی اور بین الاقوامی زندگی کے لیے بھی رہنمائی دیتی ہے۔ اس رہنمائی کے بڑے حصے پر عمل فرد اور معاشرہ کسی ریاستی قوت کے استعمال کے بغیر کرتا ہے، تاہم اس شریعت کا ایک حصہ وہ بھی ہے جس کے لیے ریاستی قوت اور عدالت کا نظام کام کرتا ہے۔ مسلمان پوری دنیا میں اپنے مذہب اور دین کو زندگی میں مرکزی اہمیت دیتے ہیں اور اپنی اجتماعی زندگی کو بھی شریعت کے نور سے منور کرنا چاہتے ہیں۔
راے عامہ کے وہی جائزے جو سیاسی پسند و ناپسند کے بارے میں ہوا کے رخ کو ظاہر کرتے ہیں، وہی زندگی کے اس پہلو پر بھی روشنی ڈالتے ہیں جن کا خلاصہ حال ہی میں شائع ہونے والی ایک کتاب Voice of the People 2006 میں دیا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں میں ۸۴ فی صد اپنے کو مذہبی قرار دیتے ہیں۔ گیلپ ہی نے اپنے ایک دوسرے سروے میں Gallup World Poll: Special Report on Muslim World کی سیریز میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ان کے سروے کے مطابق آبادی کے ۴۱ فی صد نے یہ کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ شریعت ملکی قانون کا واحد سرچشمہ(only source) ہو، جب کہ مزید ۲۷فی صد نے کہا ہے کہ شریعت کو ایک سرچشمہ (one of the sources) ہونا چاہیے، اور شریعت کو قانونی ماخذ کے طور پر ضروری نہ سمجھنے والوں کی تعداد صرف ۶فی صد ہے۔ سروے کے مصنف لکھتے ہیں:
ہمارے مطالعے سے ظاہر ہونے والا ایک سب سے زیادہ واضح امر وہ غیرمعمولی اہمیت ہے جو مسلمان اپنے دین کو دیتے ہیں۔ اپنی ذاتی رہنمائی کے لیے بھی اور بحیثیت مجموعی معاشرے کی ترقی کے لیے بھی۔ اس سے بھی زیادہ (ہمارے لیے تعجب انگیز بات یہ تھی کہ) مسلمان خواتین اس بات سے متفق نظرآتی ہیں کہ پبلک پالیسی اسلامی اصولوں کی رہنمائی میں طے ہونا چاہیے۔
یہ ہیں اصل زمینی حقائق___ اور اس بات کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ مذہبی ووٹ اور مذہبی جماعتوں کا ووٹ ایک چیز نہیں۔ مسلمانوں کی عظیم اکثریت زندگی کے اجتماعی معاملات بشمول قانون، دین کی رہنمائی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اس حقیقت پر انتخابی نتائج کی سیاسی تقسیم سے پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔
چوتھی بنیادی بات یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کے ووٹ کے بارے میں بھی جو دعوے کیے جاتے ہیں، وہ مناسب تحقیق کے بغیر اور تمام ضروری معلومات کو حاصل کیے بغیر کیے جاتے ہیں۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ ماضی میں دینی جماعتوں کو ۲ سے ۵ فی صد تک ووٹ ملتا تھا حالانکہ یہ صریحاً غلط بیانی ہے۔ مثلاً ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں تین دینی جماعتوں کو ملنے والے ووٹ کُل ووٹوں کا تقریباً ۱۵ فی صد تھے۔ کراچی میں ۱۹۷۰ء میں مذہبی جماعتوں کا کُل ووٹ ۴۵ فی صد تھا۔ صوبہ سرحد میں دینی جماعتوں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب ۱۹۷۰ء میں ۳۳ فی صد تھا۔ ۱۹۸۸ء ۱۹۹۰ء میں صرف جمعیت علماے اسلام نے شرکت کی تھی، جب کہ جماعت اسلامی آئی جے آئی کا حصہ تھے۔ تب صرف جمعیت علماے اسلام کے ووٹ ۱۹۸۸ء میں ۱۱ فی صد اور ۱۹۹۰ء میں ۲۰ فی صد تھے۔ ۱۹۹۳ء میں کُل ووٹ جو دینی جماعتوں نے حاصل کیے ۲۴ فی صد تھے، جو ۲۰۰۲ء میں متحدہ مجلس عمل کی صورت میں کُل صوبے کے ووٹوں کا ۴۵ فی صد تھا۔ (ملاحظہ ہو، گیلپ پاکستان کی رپورٹ، The Story of 8 Elections and the Calculus of Electoral Politics in Pakistan During 1970-2008)
کُل پاکستانی سطح پر یہ تناسب نکالنے میں مختلف دقتیں ہیں، جن میں سے ایک کا تعلق اس حقیقت سے بھی ہے، کہ دوسری بڑی جماعتیں پاکستان کی بیش تر نشستوں پر امیدوار کھڑے کرتی ہیں، جب کہ دینی جماعتوںنے بالعموم ایک محدود تعداد میں امیدوار کھڑے کیے ہیں اور اس طرح پورے ملک میں ان کا ووٹ اس انتخابی گنتی میں شامل نہیں ہوپاتا۔
پانچویں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل نے شرکت نہیں کی۔ اس لیے یہ کہنا بے بنیاد ہے کہ عوام نے اس کو ووٹ نہیں دیے۔ عملاً متحدہ مجلس عمل کی صرف ایک جماعت، یعنی جمعیت علماے اسلام (ف)نے حصہ لیا، اور بلاشبہہ اسے ۲۰۰۲ء بلکہ اس سے پہلے کے ادوار کے مقابلے میں بھی کم ووٹ ملے۔ مگر اس کی بڑی وجہ من جملہ دوسری وجوہ کے یہ ہے کہ راے دہندگان نے جے یو آئی (ف) کو مشرف انتظامیہ سے منسلک سمجھا اور اسے مشرف کے بلوچستان آپریشن اور اکبربگٹی کے قتل پر اس کی طرف سے کسی بڑے عملی اقدام سے احتراز، نیز اسمبلیوں سے استعفے، سرحداسمبلی کے تحلیل کرنے میں تاخیر، بلوچستان میں ق لیگ کے ساتھ شرکت اقتدار وغیرہ کی وجہ سے پرویز مشرف سے قرب کی قیمت اداکرنا پڑی۔ بلاشبہہ اس نے بائیکاٹ میں شرکت نہ کرکے یہ نقصان اٹھایا، اور اس کی الیکشن میں شرکت کا رشتہ برسرِاقتدار قوتوں (establishment) سے اس کے تعلق سے جوڑا گیا۔ حقیقت جو بھی ہو لیکن عملاً دوسری وجوہ کے ساتھ اسے زیادہ نقصان اس مسخ شدہ تصور کے باعث ہوا۔ تمام اہم سیاسی تجزیہ نگار اس پہلو کا کھلے بندوں اظہار کر رہے ہیں۔ مثلاً معروف تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی، ایم ایم اے کی حکومت کی ناکامی کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
ایم ایم اے کی صفوں میں غیرمعمولی انتشار کی وجہ سے بھی بہت سے لوگوں میں مایوسی کی کیفیت تھی۔ راے دہندگان صدر جنرل مشرف کے تمام اتحادیوں کو سزا دینا چاہتے تھے اور ایم ایم اے کو بھی کچھ سبق سکھایا، کیونکہ انھوں نے ان دستوری ترامیم کو آسان بنانے میں کردار ادا کیا جن سے فوجی آمر کو نجات ملی اور اس کے تمام افعال کو تحفظ ملا۔ اس کے ایک حصے جماعت اسلامی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ (دی نیوز ، ’نیوفرنٹیئر‘ رحیم اللہ یوسف زئی، ۲۴ فروری ۲۰۰۸ئ، اسپیشل رپورٹ، ص ۳۳)
رحیم اللہ یوسف زئی دی نیوز میں اپنے ایک دوسرے مضمون میں اس بات کا دوٹوک انداز میں یوں اظہار کرتے ہیں:
ایم ایم اے جو درحقیقت جماعت اسلامی کے انتخابات سے بائیکاٹ کے بعد صرف مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی (ف) ہوکر رہ گئی تھی، اسے مشرف کا ساتھ دینے اور اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں وعدوں کو پورا نہ کرنے پر سزا دی گئی ہے۔ (دی نیوز، ۲۳ فروری ۲۰۰۸ئ)
جے یو آئی (ف) کو مشرف کی بالواسطہ تائید کی وجہ سے عوامی راے دہندگان کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا فضل الرحمن کے متنازع کردار اور صدارتی انتخاب سے پہلے ۶اکتوبر ۲۰۰۷ء کو سرحداسمبلی کی تحلیل کے مسئلے کی وجہ سے اسے ووٹوں اور عوام میں اپنے مقام کے حوالے سے مہنگی قیمت ادا کرنا پڑی۔ (ڈان، ۲۴ فروری ۲۰۰۸ئ)
یہ صرف چند تبصرہ نگاروں کی راے نہیں، عام تاثر اور ووٹروں کی بڑی تعداد کا یہی احساس تھا اور لفظی تاویلوں اورقانونی موشگافیوں سے اسے فرو نہیں کیا جاسکتا۔
ان حالات میں جے یو آئی (ف) کے ووٹوں اور سیٹوں کی کمی کو دینی جماعتوں سے نااُمیدی، اور ان کے صفایا کے دعوے کرنا، حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ویسے بھی انتخابی سیاست میں مختلف انتخابات میں ووٹوں میں زیادتی اور کمی سے ہرجماعت کو گزرنا پڑتا ہے اور کسی ایک انتخاب کی بنیاد پر ایسا فتویٰ دینے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں ہے کہ خود پی پی پی اور اس کے اتحادیوں کا ووٹ بنک ۱۹۷۰ء میں ۳۹ فی صد تھا جو ۱۹۹۷ء میں ۲۲ فی صد رہ گیا تھا۔ اسی طرح تمام مسلم لیگوں کا مجموعی ووٹ بنک ۱۹۷۰ء میں صرف ۲۳ فی صد تھا جو ۱۹۹۷ء میں ۴۶ فی صد تک پہنچ گیا تھا۔ اے این پی ہر انتخاب میں ایسے ہی نشیب و فراز کا تجربہ کرتی رہی ہے۔دنیا کے دوسرے ممالک کے تجربات بھی اس سے مختلف نہیں۔ اس لیے کسی ایک انتخاب کی بنیاد پر اس طرح کے فتوے دینا علمی اعتبار سے بہت کمزور بات ہے۔
بات صرف جے یو آئی (ف) کے اس امیج اور اس کے نقصانات ہی کی نہیں۔ جہاں بھی ووٹرز نے عدلیہ کے معاملے میں اور پرویز مشرف کے لیے نرم گوشے کا احساس پایا ہے ضرور سزا دی ہے۔ مشہور قانون دان بابر ستار دی نیوز میں اپنے ایک مضمون میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ وکلا کے بائیکاٹ کا احترام نہ کرنے والے وکلا کا کیا انجام ہوا،لکھتے ہیں کہ جب خود پی پی پی کے ایم این اے زمردخاں نے جو چیف جسٹس کی تحریک میں پیش پیش تھے اور اعتزاز احسن کے ساتھ چیف جسٹس کی گاڑی کے ڈرائیور تک کی خدمت انجام دے رہے تھے وکلا کے فیصلے کے خلاف انتخاب میں شرکت کی تو وہ قومی اسمبلی پر اپنی سیٹ باقی نہ رکھ سکے (دی نیوز، ۲۳ فروری ۲۰۰۸ئ)۔ اس عوامی رو کو جو نہ سمجھ سکا اسے اس کی قیمت ادا کرنا پڑی۔
آخر میں ہم یہ صاف لفظوں میں کہنا چاہتے ہیں کہ اس وقت ملک کی پوری سیاسی قیادت کا امتحان ہے اور اے پی ڈی ایم کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح اس نے قربانی دے کر ملک کی سیاست کو صحیح ایشوز سے روشناس کرایا ہے، اسی طرح نئے حالات میں ان اہداف و مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مناسب حکمت عملی اختیار کرے۔ اگر نومنتخب جماعتیں ان مقاصد کے لیے کام کرنے کی نیت اور جذبہ دکھاتی ہیں تو تمام دینی اور سیاسی قوتوں کو ان سے تعاون اور ان مقاصد کے حصول کو آسان بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اگر مناسب موقع دینے کے بعد بھی یہ اس سلسلے میں پس و پیش دکھاتی ہیں تو پھر ان کی ذمہ داری ہے کہ پُرامن جمہوری اور عوامی دبائو کے ذریعے انھیں عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرنے پر مجبور کریں۔ ججوں، وکلا، سول سوسائٹی اور سیاسی کارکن سب کا ہدف اور منزل ایک ہے اور وہ حقیقی جمہوریت کا قیام ہے جس کے مقاصد یہ ہونے چاہییں:
۱۸ فروری کے انتخابات میں قوم نے ایک لڑائی میں فتح پائی ہے، مگر یہ جدوجہد ابھی جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک جمہوریت کی مکمل بحالی اور دستور کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے مؤثر پیش رفت نہیں ہوتی۔ ۱۸فروری کے نتائج نے ایک نئی صبح کے طلوع کے امکانات کو روشن کردیا ہے لیکن یہ صبح اسی وقت ہماری قومی زندگی کو روشن کرسکے گی جب اس کے استقبال کے لیے قوم اس طرح کوشش نہ کرے جس طرح ۹مارچ ۲۰۰۷ء سے رات کی تاریکی کو ختم کرنے کے لیے کرر ہی ہے۔ ابھی منزل کی طرف صرف ایک قدم اٹھایا گیا ہے۔ منزل ابھی دُور ہے اور مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کی دعوت دے رہی ہے۔ فرد ہو یا قوم جدوجہد اور سعی مسلسل کے بغیر وہ اپنی منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکتے۔
وَاَنْ لَّـیْسَ لِلْاِِنْسَانِ اِِلَّا مَـا سَعٰیo وَاَنَّ سَـعْیَہُ سَوْفَ یُـرٰیo (النجم ۵۳: ۳۹-۴۰) اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اُس نے سعی کی ہے، اور یہ کہ اُس کی سعی عنقریب دیکھی جائے گی۔
مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں بہتر ہوگا کہ دونوںنظاموں کے درمیان بعض بنیادی اختلافات کا تعین کر لیا جائے اور ایسے مشترکہ امور کی بھی نشان دہی کر لی جائے جن میں ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
اسلام کی حکمت عملی بے مثال ہے۔ اسلام انسان کو، اس کے روحانی اور اخلاقی وجود اورشخصیت کو مرکز بناتا ہے۔ ہر فرد کی، روحانی بالیدگی، اخلاقی ترقی اور سعادت کی زندگی ہی اسلامی نظام کا اصل مقصد ہے۔ تبدیلی کا عمل کسی فرد کے اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی داخلی سطح پر شروع ہوتا ہے۔ اس کا آغاز ایک فرد میں اخلاقی حس بیدار ہونے سے ہوتا ہے جو ایک باکردار اور منصفانہ معاشرے کے قیام میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ مسلم اُمّہ ایک عالم گیر برادری ہے۔ اسی وسیع تر اُمّہ میں چھوٹے گروپ، بستیاں اور ریاستیں بھی ہو سکتی ہیں۔ اس کے باوجود وہ سب ایک ہی تسبیح کے دانے ہیں۔ اسلام ایک ایسے مہذب معاشرے کی تعمیر کرتا ہے، جو صحت مند اور فعّال اداروں سے عبارت ہوتا ہے۔ ریاست انھی اداروں میں سے ایک ہے۔ یہ نہایت اہم اور کئی اعتبار سے دوسرے سب اداروں سے بلند تر ہے لیکن یہ واضح رہے کہ اسلام میں سب سے بالا ادارہ اُمت مسلمہ کا ہے، اورباقی سب ادارے ہر ہر مسلمان (فرد) کی تقویت کے ساتھ اُمت مسلمہ کے استحکام کے ستون ہیں۔
اسلامی معاشرے کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی اصولوں میں مکمل ہم آہنگی ہوتی ہے اور یہ سب مل کر ایک ایسے معاشرے کی تخلیق کرتے ہیں جو نظریاتی سطح پر توحید و ایمان، اتباعِ سنت، فکری یگانگت اور عدل و احسان کے حسین امتزاج کا مظہر ہوتا ہے۔ یہ معاشرہ انسانی مساوات، اخوت، باہمی تعاون، سماجی ذمہ داری، انصاف اور سب کے لیے مساوی مواقع کی روایات کے خمیر سے تعمیر کیا جاتا ہے۔ یہ قانون کا پابند معاشرہ ہوتا ہے جس میں ہررکن کے حقوق اور فرائض کا احترام کیا جاتا ہے جن میں اقلیتوں کے حقوق بھی شامل ہوتے ہیں۔ ریاست کا مقصد معاشرے کے ہر رکن کی خدمت اور انسانوں کے درمیان عدل کا قیام ہے۔ اسلامی معاشرے میں آمریت اور استبدادی مطلق العنان حکومت کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
اسلامی ریاست سیکولر جمہوریت سے بالکل مختلف ہوتی ہے، کیونکہ اسلامی ریاست عوام کے اقتدارِ اعلیٰ کا نظریہ تسلیم نہیں کرتی۔ مسلم ریاست میں اللہ تعالیٰ ہی قانون ساز ہے اور شریعت ہی ریاست کا قانون ہے۔ جو بھی نئے نئے مسائل درپیش ہوں، ان سے نمٹنے کے لیے شریعت کے دائرۂ کار کے اندر رہتے ہوئے حل دریافت کیے جاتے ہیں۔ یہ بات سیکولر جمہوریت اور مسلم ریاست کے درمیان سب سے بڑا اختلاف ہے۔
جہاں تک قانون کی حکمرانی کے اصول، بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ، عدلیہ کی آزادی، اقلیتوں کے حقوق، ریاست کی پالیسیوں اور حکمرانوں کے عوام کی خواہش کے مطابق انتخاب کا تعلق ہے، اسلام اپنے دائرۂ کار کے اندر رہتے ہوئے ان سب امور کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ ان میں سے بعض امور کے متعلق اسلام اور مغربی جمہوریت کے درمیان بعض مشترک بنیادیں موجود ہیں اور ان تمام میدانوں میں مسلمان اپنے معاصر مغربی ممالک کے تجربات سے استفادہ کر سکتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی مسلمانوں کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن دونوںنظاموں کے قوانین کے منابع اور فطرت میں چونکہ بنیادی اختلاف ہے، لہٰذا ان اساسی امور میں دونوں نظام ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں اور اپنا جداگانہ تشخص اور مزاج رکھتے ہیں۔
اسلامی ریاست میں شریعت کو بالادستی حاصل ہے۔ اس کے باوجود یہ کوئی مذہبی حکومت نہیں ہوتی، جیسی کہ تاریخ میں مذکور فرعونوں، بابلیوں، یہودیوں، مسیحیوں، ہندوئوں یا بودھوں کی حکومتیں گزرچکی ہیں۔
ان مذہبی حکومتوں اور اسلامی حکومت میں بنیادی فرق ہے۔ یہ مذہبی حکومتیں اگرچہ ’خدائی حکومت‘ کی دعوے دار تھیں، لیکن وہ ’خدائی حکومت‘ ایک مخصوص مذہبی طبقے کی حکومت ہوتی تھی،جس کے حکمران کا ہر لفظ قانون تھا، جسے نہ تو کوئی چیلنج کر سکتا تھا اور نہ اس کے خلاف آواز بلند کر سکتا تھا۔ مگر اسلام میں ایسا کوئی حاکم مذہبی طبقہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی اقتدار اعلیٰ کا مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے اور جواس کی مرضی ہے، وہ قرآن و سنت کی صورت میں موجود ہے۔ شریعت کا سبھی کو علم ہے۔ یہ کوئی ایسا خدائی راز نہیں ہے جس کاعلم صرف پادریوں کی طرح صرف مفتی یا مذہبی رہنما کو ہو۔ اسلام میں ایساہرگز کوئی امکان نہیں کہ لوگوں کا کوئی گروہ دوسروں پر اپنی ذاتی مرضی ٹھونس سکے یا اللہ کے نام پر دوسروں پر اپنی ترجیحات کو نافذ کر سکے۔ اسلامی نظام میں قوانین کھلے بحث و مباحثے کے بعد ہی تشکیل دیے جاتے اور نافذ کیے جاتے ہیں۔ سب لوگ اس عمل میں شریک ہوتے ہیں۔
ا - شریعت جو اللہ تعالیٰ کی مرضی اوررضا کی حامل اور اس کا مظہر ہے، بالکل اصل صورت میں محفوظ اور موجود ہے۔ اس میں کسی نوع کی کوئی آمیزش نہیں ہوئی اور نہ بدلے ہوئے حالات میں کسی تبدیلی یا کسی کی مداخلت سے اس میں کوئی تبدیلی ممکن ہے۔
ب- اسلام میں مذہبی متوسلین کا کوئی طبقہ نہیں اور محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ترجمان ہے۔ اللہ کی رہنمائی مکمل ہو چکی، اب یہ اُمّہ کا کام ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کو سمجھے، اس کا ادراک کرے اور انسانی معاشرے کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اس پر عمل پیرا ہو۔
ج- فرد معاشرے کا بنیادی عنصر ہے۔ اسلام، فرد کی آزادی، قانون کی حکمرانی ، مخالفانہ آرا اور مخالفوں کی توقیر کی ضمانت خود دیتا ہے۔ اہل دانش اور عوام آزادی کے ساتھ اپنے مسائل پر بحث مباحثہ کر سکتے ہیں اور باہم مشاورت کے ذریعے ان کا حل نکال سکتے ہیں۔ پوری اسلامی فقہ ایک ایسے عمل کے ذریعے فروغ پذیر ہوئی ہے، جس کے دوران اُمّہ اور اس کے نمایندوں نے عام بحث مباحثے میں حصہ لیا۔ اسلامی ریاست اور معاشرے کا انسانوں کی طبیعی اور دنیاوی مشکلات و مسائل سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور وہ انصاف اور سماجی بہبود کے اصولوں کے مطابق ان مشکلات و مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔
بلاشبہہ جسے زندگی کا سیکولر (دنیاوی) حصہ کہا جاتا ہے اس سے اسلام اور مسلمانوں کا تعلق ہے لیکن اسلامی اور سیکولر رویوں میں ایک بنیادی فرق ہے۔ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ دنیا کی ساری زمین میرے لیے مسجد کی مانند ہے، چنانچہ دنیا کے تمام حصوں اور علاقوں سے اسلام کا گہرا تعلق ہے۔ اسلام نہ شرقی ہے اور نہ غربی، بلکہ صحیح معنوں میں ایک عالم گیر اور آفاقی نظام ہے۔ اسلامی نظام، انسانی زندگی کے تمام روحانی اور دنیاوی معاملات پر محیط ہے۔ اس حد تک اسلام کاسیکولرزم سے کوئی تنازع نہیں ہے۔ مغرب میں سیکولرزم کے غلبے کی وجہ مذہب کا سیکولر معاملات سے لاتعلق ہوجانا اور دنیاوی زندگی کو شیطانی قوتوں کے حوالے کر دینا تھا۔ یہ پوری تحریک دراصل ان مذہبی روایات کا رَدّعمل تھی جن کی رو سے سیکولر دنیا کو نظرانداز کیا گیا اور اپنے دائرۂ عمل کو صرف روحانی دنیا تک ہی محدود رکھا گیا تھا۔
اسی طرح سیکولرزم کی تحریک کو تقویت دینے والا ایک دوسرا سبب مذہبی عدم رواداری تھی جس میں جبر کے ذریعے ایک مذہب بلکہ ایک فرقے کے نظریات کو دوسرے تمام فرقوں پر مسلط کیا جاتا تھا اور ایک سے زیادہ نقطہ ہاے نظر کو کفر اور بغاوت قرار دیا جاتا تھا۔ اس کے برعکس اسلام تکثیر (pluralism) اور رواداری کے اصول کو تسلیم کرتا ہے۔ تمام انسانوں کو پیشے اور مذہب کے معاملے میں انتخاب کا حق دیتا ہے اور ثقافتی کثرت اورکسی بھی سماج کے اندازِ حیات کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ سب کچھ اسلام کی منشا کے مطابق ہے۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے: ’’دین میں کوئی جبر نہیں‘‘۔
سیکولرزم سے اسلام کا بنیادی اور جوہری اختلاف اس کے اس دعوے کے باعث ہے کہ سیکولرزم، مذہب سے کسی نوع کے تعلق، اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی اور مطلق اخلاقی اقدار کے بغیر تمام انسانی مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ یہ بات زندگی کے بارے میں اسلامی رویے کے بالکل برعکس ہے۔ انھی وجوہ کی بنا پر اسلام اور سیکولرزم، دو بالکل مختلف دنیائوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔
اگرچہ اب کمیونزم اور فاشزم کوئی غالب سیاسی نظریات نہیں رہے، لیکن ایسے لوگ آج بھی موجود ہیں جو ان دونوں نظریات کے مختلف پہلوئوں سے اتفاق رکھتے ہیں۔ یہ دونوں نظریات مغربی تہذیب و تمدن کے تناظر میں بعض تاریخی اور سماجی و سیاسی حالات کی پیداوار ہیں۔ ان کی تہ میں ریاست کی مطلق العنانیت کا تصور کارفرما رہا ہے۔ مگر یہ دونوں نظریات بھی مختلف النوع آمریت ہی کے نمایندے تھے اور ان کے تحت بھی مطلق العنان حکومت ہی قائم ہوتی رہی۔ اگرچہ ان دونوں نظاموں میں انتخابات اور پارلیمنٹ کے قیام کاڈھونگ بھی رچایا جاتا رہا۔
اسلام میں یک طرفہ یا مطلق العنان اقتدار کا کوئی تصور نہیں۔ اسلام میں ریاست تو اُمت ہی کا ایک ادارہ اور شعبہ ہوتا ہے۔ وہ فرد کی مرکزیت، اس کے حقوق اور سیاسی فیصلوں میں فرد کے کردار کی توثیق کرتا ہے۔ اسلامی ریاست، قانون کی تخلیق ہوتی ہے۔حکمران، ریاست کے دوسرے شہریوں کی طرح ہی قانون کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی ریاست اپنے عمّال اور کارپردازوں کو وہ خصوصی مراعات اور تحفظات بھی فراہم نہیں کرتی جو کئی مغربی ملکوں کے عمّال کو عام طور پر حاصل ہوتی ہیں۔
اسلام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض کردہ مقدس امانت ہیں۔ فرد کو معاشرے کی بنیادی اکائی اور ایک پاک باز مخلوق تصور کیا جاتا ہے، جو اپنے اعمال کے لیے آخرکار اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ ہر انسان ایک قابل احترام وجود ہے اور اخلاقی طور پر اپنے تمام اعمال اور پسند و ناپسند کے لیے دنیا اور آخرت میں بھی جواب دہ ہے۔ فرد کو معاشرے میں عقل و دانش اور سماجی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ اپنا رویہ متعین کرنا ہوتا ہے، لیکن وہ ریاست کی مشین کا کوئی بے جان پرزہ نہیں ہوتا۔ اس اعتبار سے اسلام کے سیاسی نظم اور ہمارے دور کے مطلق العنان اور آمرانہ نظاموں کے درمیان بے حد فرق ہے۔
اسی تقابلی تجزیے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اسلام کا سیاسی نظام ، دوسرے سیاسی نظریات کی بعض باتوں میں مماثلت اور مشابہت کے باوجود، بے مثال ہے۔ اسلام، اساسی اعتبار سے ایک مکمل نظام ہے۔ اس کا مقصد ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جس میں رہتے ہوئے ایک اچھے اور نیک انسان کو یہ محسوس نہ ہو کہ وہ تو کسی اجڈ معاشرے میں پھنس گیا ہے یا جانوروں کے کسی باڑے میں دھکیل کر بند کر دیا گیا ہے۔ اسلام تمام انسانوں کی ذہنی اور مادی نشوونما، ساتھ ساتھ، چاہتا ہے تاکہ انسان امن اور انصاف کے ساتھ زندگی گزارسکیں۔ زندگی کی اعلیٰ اقدار و نظریات کی پرورش کر سکیں، جن کے نتیجے میں وہ اس دنیا اور پھر آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور الوہی سعادت کے حق دار ٹھیرسکیں۔ اسلامی ریاست ایک نظریاتی، تعلیمی اور مشاورتی بنیادوں پر مبنی ریاست ہوتی ہے جو ایک ایسا سماجی و سیاسی ڈھانچا فراہم کرتی ہے جس میں حقیقی جمہوریت پھل پھول سکتی ہے۔ اس میں ایک طرف مستقل اقدار کا دائمی فریم ورک ہے جس میں پوری سیاسی اور اجتماعی زندگی مرتب ہوئی ہے تو دوسری طرف اجتہاد کے ذریعے وقت کی بدلتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کابھرپور سامان ہے۔
مجھے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کہ مسلمان اپنی تاریخ میں اس نظریے پر مکمل طور پر عمل کرسکے ہیں۔ بلاشبہہ خلافت راشدہ اس کا عملی نمونہ اور ایک مکمل مثالیے (paradigm )کا مظہر تھا مگر بعد کے ادوار میں اصل ماڈل سے انحراف اور انحراف کے بعد اصل کی طرف مراجعت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا ہے۔ البتہ اصل ماڈل ہی تمنائوں کا محورو مرکز رہا ہے اور آج بھی اسی آورش کی روشنی میں تعمیرنو کی جدوجہد مطلوب ہے۔
تاریخ میں پہلی بار معاصر مسلم دنیا کو ایک منفرد چیلنج کا سامنا ہے۔ مسلمانوں کو اقتدار اور بالادستی حاصل نہیں رہی اور پوری مسلم دنیا نوآبادیاتی حکمرانوں کے پائوں تلے دبی ہوئی ہے۔ نوآبادیاتی اور سامراجی غلبے کی اس طویل، اندھیری رات کے دوران، جو تقریباًدو صدیوں پر محیط ہے، مسلمانوں کو ذہنی، اخلاقی، معاشی اور ثقافتی طور پر بھی سخت نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ اس طویل ابتلا کا بدترین نقصان یہ ہوا کہ وہ اسلامی ادارے بتدریج ٹوٹ پھوٹ اور انحطاط کا شکار ہوگئے، جن کے باعث مسلم دنیا تقریباً ۱۲ صدیوں تک اپنے پائوں پر کھڑی رہی اور اندرونی و بیرونی چیلنجوں کاکامیابی سے مقابلہ کرتی رہی۔ سامراجی حکومتوں کے ادوار ہی میں مغرب سے درآمدشدہ کئی ادارے اسلامی مملکتوں میں رائج کیے گئے۔ اسے دوسروں کو نام نہاد تہذیب سکھانے کے مشن کاحصہ (white man's burden) قرار دیا گیا لیکن درحقیقت یہ سامراج کا بدترین استحصالی عمل تھا۔ چنانچہ اس استحصال کی وجہ سے قانون، عدلیہ، معیشت، تعلیم، انتظامیہ، زبان و ادب، فنون لطیفہ، فن تعمیر، غرض معاشرے کے تمام عناصر کو زبردستی مغربیت کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی گئی۔
نوآبادیاتی ، سامراجی نظام کے دوران مسلم معاشرے کے اندر سے ایک نئی قیادت پیدا کی گئی، جسے مورخ آرنلڈ ٹائن بی نے ’بابو کلاس‘کا نام دیا ہے۔ یہ لوگوں کا ایک ایسا طبقہ تھا جس کی جڑیں اپنے مذہب، ثقافت اور تاریخ میں نہیں تھیں اور جس نے نوآبادیاتی حکمرانوں کے سایے میں اپنا نیا تشخص بنانے کی کوشش کی۔ اس طبقے نے نہ صرف حکمرانوں کی اقدار اور اخلاقی طرزِ عمل اپنانے کی سعی کی، بلکہ مقامی اور بیرونی مفاد پرستوں سے مل کر حکمرانوں کے مفادات کا تحفظ بھی کیا۔ غیر ملکی غلامی سے نجات کے لیے عوامی تحریک بنیادی طور پر، آزادی کے تصور اور ایمان کی قوت سے عبارت تھی۔ مسلم دنیا میں نیشنلزم کی قوتوں نے بھی اسلامی تشخص قائم کر لیا تھا لیکن اس ’بابو طبقے‘ اور اس کے زیراثر حلقوں نے مغربی اقدار ہی کو حرزِ جاں بنائے رکھا اور شعوری یا غیرشعوری طور پر سامراجی قوتوں کے ایجنٹوں کا کردار ادا کیا۔(۲۱) آزادی کے بعد، ان ملکوں میں اقتدار بڑی حد تک اسی مغرب زدہ قیادت کے ہاتھ میں آیا یا لایا گیا جن کی سیاسی تربیت بھی سامراجی دور میں ہوئی تھی۔ اس قیادت کا تعلق مغرب کی ثقافت اور ان کے سیاسی عزائم ہی سے برقرار رہا۔ یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ عالم اسلام میں صرف سرحدوں کا تعین ہی غیر ملکی سامراجی آقائوں نے نہیں کیا تھا،بلکہ نئے ادارے اور نئی قیادت بھی سامراجی دور ہی کی پیداوار تھی۔ عالم اسلام میں اس وقت جو بحران اور بے اطمینانی محسوس کی جا رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہی صورت احوال ہے۔
احیاے اسلام اور سیاسی عمل میں عوامی شرکت اور ان کے ذریعے تبدیلی کا عمل جو جمہوریت کی روح ہے ایک ہی صورت حال کے دو پہلو ہیں۔ اقتدار میں موثر عوامی شرکت اور اسلامی تصورات کے مطابق معاشرہ، نیز مسلم سیاست کی تشکیلِ نو بھی اسی عمل کا حصہ ہیں۔ یہ کام صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ عوام اور حکمرانوں کے درمیان باہمی اعتماد، ہم آہنگی اور تعاون موجود ہو۔ لیکن جن حکمرانوں نے سامراجی آقائوں ہی سے اقتدار کی وراثت پائی ہے ان کی نظریاتی،اخلاقی اور سیاسی سوچ عوام سے مختلف ہے۔ حکمران معاشرے اور اس کے اداروں کو مغربی اقدار و نظریات اور مغرب کے نظریاتی نمونوں، سیکولرزم ، قوم پرستی، سرمایہ داری اور نوآبادیاتی نظم کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے ’زیرتسلط‘ ملکوں میں ایسے قوانین، ادارے اور پالیسیاں روبہ عمل لانا چاہتے ہیں جو مغربی نمونوں سے اخذ کی گئی ہیں مگر عوام یہ سب کچھ اپنے ایمان (عقائد)، اقدار اور امنگوں کے منافی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر حصولِ آزادی کے باوجود حکومتی نظام بعض استثنائوں کے ساتھ جابرانہ اور مطلق العنانیت پر مبنی رہا۔
تاریخ کا سبق تو بڑا ہی واضح ہے اور وہ یہ کہ: مسلمان ممالک کو سیکولر مملکت بنانا اور مغربی رنگ میں رنگنا، یک طرفہ اور جابرانہ قوت کے بغیر ممکن نہیں۔ اقتدار میں عوام کی شرکت حقیقی جمہوری نظام اور اسلام میں کوئی عدم مطابقت نہیں بلکہ عوام کی آزادی، بنیادی حقوق، اقتدار میں عوام کی شرکت پر مبنی جمہوریت اور اسلامی نظام فطری حلیف ہیں۔ اصل تصادم تو عوام کی اسلامی امنگوں اور حکمران طبقے کے سیکولر مغربی نظریات اور پالیسیوں کے درمیان ہے۔ چنانچہ مسلمانوں پر جابرانہ اور استبدادی قوت کے بغیر غیر اسلامی نظریات و تصورات اور قوانین مسلط نہیں کیے جا سکتے۔ اصل تضاد ان دونوں (اسلامی اور مغربی) تصورات میں ہے اور حقیقی جمہوریت مغربی سیکولر بلڈوزر کا پہلا شکار ہے۔ امریکا کے ایک ماہر عمرانیات فلمر ایس سی نارتھ روپ (F.C. Northrop) نے گہرے شعور کے ساتھ کہا ہے: ’’مجھے یقین ہے کہ یہی وجہ ہے جو اس قسم کے (مثلاً سیکولر) قوانین عام طور پر پہلے آمر حکمران ہی نافذ کرتا ہے۔ ایسے قوانین کسی عوامی تحریک کا نتیجہ تو ہو نہیں سکتے کیونکہ عوام تو پرانی روایات کے حامل ہوتے ہیں‘‘۔(۲۲)
پروفیسر ویلفرڈ کینٹ ول اسمتھ نے پاکستان کی صورت حال کے حوالے سے نہایت دل چسپ بات کہی ہے: ’’کوئی مملکت جب صحیح معنوں میں جمہوری مملکت بن جاتی ہے تو وہ اپنی فطرت کا اظہار کرتی ہے، چنانچہ ایک مشرقی ملک کی حیثیت میں وہ جتنی جمہوری ہو گی، اتنی ہی مغربی رنگ سے دُور ہوتی چلی جائے گی… یہاں تک کہ اگر پاکستان ایک حقیقی جمہوری ملک بن جائے توجس حد تک وہ جمہوری ہو گا اسی حد تک اسلامی بھی ہوگا‘‘۔(۲۳)
کینٹ ول اسمتھ نے تو بڑے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ اسلام کے بغیر جمہوریت محض ایک بے معنی نعرہ ہے جو کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ یوں جمہوریت اپنے اسلامی ہونے کے حوالے سے ان (مسلم اُمّہ) کی اسلامی ریاست کی تعریف کا حصہ بن جاتی ہے۔(۲۴)
ایسپوزیٹو اوروال بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ موجودہ دور کی مسلم ریاستوں میں دونوں رجحانات، یعنی احیاے اسلام اور جمہوریت ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور یہ ان ریاستوں کے کردار کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ وہ معاصر مسلمانوں کے ذہن کا مطالعہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
بہت سے مسلم (اسکالر) اسلامی جمہوریت کی وضاحت میں سرگرمی سے مصروف ہیں۔ ان کو یقین ہے کہ عالمی سطح پر مسلم ریاستوں میں مذہبی احیا اور جمہوری عمل ایک دوسرے کی تکمیل کر رہے ہیں۔(۲۵)
حال ہی میں دواسکالروں ڈیل ایکل مین اور جیمز پسکا ٹوری نے ’مسلم سیاست‘ کے حوالے سے ایک مطالعاتی رپورٹ میں تجویز کیا ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت جمہوریت کے بارے میں جو خیالات پائے جاتے ہیںاور جو ان کی اپنی اقدار اور امنگوں کے مطابق ہیں، ان پر نئے زاویوں سے غور کیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں میں، اسلامی ریاستوں پر مغربی طرز کی جمہوریت کا پیوند لگانے کے خلاف جو نفرت پائی جاتی ہے ، اسے بھی پیش نظر رکھا جانا ضروری ہے۔ ان دونوں اسکالروں نے اپنی بات اس طرح ختم کی ہے:
مسلم سیاست کا ازسرنو جائزہ لینے کے لیے ان چیلنجوں کو پیشِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے، جو مستقبل قریب میں پالیسی سازوں کو درپیش ہو سکتی ہیں۔ اس ضمن میں ضروری ہے کہ صرف مغرب زدہ اشرافیہ کی بات نہ سنی جائے بلکہ بہت سی دیگر مسلم آوازوں پر بھی توجہ دی جائے۔ اس جانب پہلا قدم، یہ معلوم کرنا ہے کہ مسلمانوں میں سندجواز اور عدل کے تہذیبی تصورات کیا ہیں؟ یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ مذہبی یا غیر مذہبی منصفانہ حکومت کا تصوربھی متعین نہیں ہے۔ مسلمانوں کے ان تصورات کی تفہیم بعض لوگوں کے اس ناروا تاَثر کو دُور کرنے میں ممد ثابت ہو گی کہ دوسری اقوام کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات اکثر معاندانہ ہوتے ہیں اور مسلمانوں کا طرزِ حکومت لازماً جابرانہ اور آمرانہ ہوتا ہے۔(۲۶)
اسلام اور مسلم اُمہ نے آمرانہ اور جابرانہ حکومت کو کبھی بھی پسند نہیں کیا۔ مسلمانوں میں جہاں کہیں بھی آمرانہ حکومتیں ہیں، وہ نوآبادیاتی سامراج اور مغرب زدگی کا نتیجہ ہیں۔ ان کا مسلمانوں کے تصورات، تاریخ یا اُن کی امنگوں اور آرزوئوں سے کوئی تعلق نہیں۔ مسلمان، مغرب کی سیکولر جمہوریت کو اپنے اصولوں، اقدار اور روایات سے بیگانہ تصور کرتے ہیں۔ لیکن جمہوریت کی ان شان دار روایات سے ہم آہنگی محسوس کرتے ہیں جس کا تعلق اقتدار میں عوام کی شرکت جس کے نتیجے میں انصاف کی حکمرانی، ہر سطح پر مشاورت کا عمل، فرد کے حقوق اور حق اختلاف کی ضمانت سے ہے ۔ وہ اس کو اشد ضروری سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی اور سیاسی ثقافت میں تکثیر کا تسلسل یقینی ہو، ان کے بارے میں ان کے اپنے تصورات اور تاریخی روایت ہے۔ چنانچہ اسلام اور جمہوریت کی اس حقیقی روح میں کوئی تصادم یا تضاد نہیں۔ بعض مسلم ممالک میں جو آمرانہ اور جابرانہ حکومتیں نظر آ رہی ہیں،وہ ان غیر ملکی اور اوپر سے بذریعہ طاقت ٹھونسی گئی روایات کا حصہ ہیں، جن کے خلاف جدوجہد میں احیاے اسلام کی قوتیں مصروف ہیں۔ اسلام اور حقیقی جمہوریت ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔ چنانچہ استبدادانہ اور جابرانہ حکومتیں خواہ شہری ہوں یا فوجی آمریت، نام نہاد جمہوری ہو یا موروثی، یہی جمہوریت کی نفی اور بنیادی انسانی حقوق غصب کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ ایسی حکومتیں مغربیت اور لادینیت کا ثمرہ ہیں، اسلام کا نہیں۔ اسی طرح عوامی جمہوریت سے انکار اور اسے دبا کر رکھنے کا عمل اسلام کا نہیں، لادینیت اور مغرب زدگی کا ایجنڈا ہے۔ اسلامی احکام اور مسلم عوام کی مرضی، خواہشات اور امنگیں تو ایک ہی ہیں۔ جمہوری عمل یقینا نفاذ اسلام میںناگزیر پیش رفت ہے۔ اسلامی امنگوں کی تکمیل جمہوری عمل کے آگے بڑھنے ہی سے ممکن ہے۔ نوآبادیاتی دور کے بعد کے عالم اسلام کی حالیہ تاریخ میں آمرانہ نظام، سیکولرزم یاسوشلزم ایک ساتھ آگے بڑھے ہیں، جب کہ احیاے اسلام، آزادیِ جمہور اور اقتدار میں عوام کی شرکت ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔
نوآبادیاتی طاقتوں کے تسلط سے آزادی کے لیے مسلم اُمہ آج بھی اپنے جمہوری حقوق، اپنے اندازِ سیاست، ، اپنے تصورات، امنگوں اور نظریات کی روشنی میں اپنے عوام کی اقتصادی حالت بہتر بنانے اور اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ مسلم اُمہ ایسے احکام، نظریاتی جبر اور ایسے جمہوری نمونوں کے تحت زندگی گزارنے سے انکاری ہے جو اس کے دین سے متصادم ہوں، اس کی اقدار کے منافی ہوں۔ اس کی تاریخ سے لگّا نہ کھاتے ہوں، اور اس کی روایات کے علی الرغم ہوں۔ اگر جمہوریت کا مطلب کسی قوم کا حق خود ارادیت اور اپنے بَل پر تکمیلِ خودی ہے، تو یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے اسلام اور مسلمان روزِ اوّل سے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ وہ نہ تو اس سے زیادہ کچھ چاہتے ہیں اور نہ اس سے کم پر راضی ہوںگے۔
۲۱- ایچ اے آر گب، Modern Trends in Islam میں لکھتے ہیں کہ ’’نیشنلزم … اپنی مغربی توضیح میں صرف ان دانش وروں تک محدود ہے جن کا مغربی افکار سے براہِ راست یا گہرا ربط ہے۔ مگر قوم پرستی کے اس نظریے کی جب عام ذہن تک رسائی ہوئی تو اس کی ہیئت میں تبدیلی واقع ہوئی اور اس تبدیلی سے قدیم جبلی محرکات اور مسلم عوام کی قوت محرکہ کے دبائو کی وجہ سے بچنا ممکن بھی نہ تھا‘‘ ( Modern Trends in Islam شکاگو، شکاگو یونی ورسٹی پریس، ۱۹۴۷ئ، ص ۱۱۹)۔ ولفرڈ سی اسمتھ Islam in Modern History میں لکھتے ہیں: ’’مسلمانوں میں کبھی قومیت کی سوچ نے ارتقا نہیں پایا جس کا مفہوم وفاداری یا کسی ایسی قوم کے لیے تشویش کا پایا جانا ہو، جو اسلام کی حدود کو پامال کر رہی ہو… ماضی میں صرف اسلام ہی نے لوگوں کے اندر اس قسم کا نظم و ضبط، تحریک اور قوت پیدا کی ہے‘‘۔ (Princeton N.J ۱۹۵۷ئ، ص ۷۷)۔
۲۲- فلمر ایس- سی نورتھروپ، Colloquium on Islamic Culture (پرنسٹن، ۱۹۵۳ئ) ، یونی ورسٹی پریس، ص ۱۰۹۔
۲۳- ولفرڈ- سی اسمتھ، Pakistan as an Islamic State (لاہور، ۱۹۵۴ئ) ، ص ۵۰۔
۲۴- ایضاً، ص ۴۵۔
۲۵- جان ایسپوزیٹو ، جان وول، op.cit ص ۲۱۔
بش اور مشرف کا بس چلے تو اقبال کو بھی دہشت گرد قرار دے کر اس کے سارے سرمایۂ فکرونظر کو اپنی جنگی کارگزاریوں کا ہدف بنا ڈالیں کہ شاعر مشرق نے یہ کیوں کہا کہ ؎
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
مشرف کی آٹھ سالہ معاشی ترقی کی ترک تازیوں کا حاصل یہ ہے کہ آج پاکستانی عوام خصوصیت سے غریب اور متوسط طبقے کی ۷۰، ۸۰ فی صد آبادی آٹے کے بحران میں گرفتار اور دو وقت کی روٹی کو ترس رہی ہے۔ پورے ملک کی شہری آبادی اور صوبہ سرحد کے تمام ہی باسی آٹے کی کمیابی اور قیمت کی گرانی دو طرفہ شکنجے کی گرفت میں ہیں۔ آٹا جو پچھلے سال تک ۱۵روپے کلو تھا، آج ۳۰ روپے کلو ہے اور پھر بھی نایاب۔ یوٹیلٹی اسٹوروں کی بڑی دھوم ہے لیکن وہ آبادی کے ۵ فی صد سے زیادہ کی ضرورت پوری نہیں کرسکتے اور اس میں امیرغریب کی کوئی تفریق نہیں بلکہ زیادہ تر یوٹیلٹی اسٹور غریبوں کی بستیوں اور شہروں کی کچی آبادیوں میں نہیں، متمول طبقات کے رہایشی علاقوں میں قائم ہیں۔ عوام اب احتجاج کرنے پر مجبور ہیں اور حکومت اپنی مسلسل ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوششوں کے بعد، اب اپنے نیم حکیموں کے پیش کردہ ایک نادر نسخے کا سہارا لے رہی ہے، یعنی ____ راشن کارڈ کا اجرا اور ان کے ذریعے یوٹیلٹی اسٹوروں سے غریب اور متوسط طبقات کو اشیاے ضرورت خصوصیت سے آٹے اور دالوں کی مناسب قیمت پر فراہمی۔ بظاہر یہ ایک دامِ تزویر (gimmick) سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کے باوجود چند ضروری پہلوؤں پر غوروفکر کی ضرورت ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آٹے کی یہ قلت کیوں رونما ہوئی اور اس کی اصل ذمہ داری کس پر ہے؟ بظاہر گندم کی پیداوار بہت اچھی تھی۔ حکومت کا دعویٰ تھا کہ اس سال ۳ئ۲۳ ملین ٹن پیداوار ہوئی ہے، جب کہ ملک میں کُل ضرورت ۲۱ ملین ٹن کی ہے جس کے معنی ہیں کہ دو سوا دو ملین ٹن پیداوار فاضل ہوگی۔ اس توقع پر فصل کے منڈی میں آنے سے پہلے ہی ۵لاکھ ٹن گندم سرکاری گوداموں سے بیرون ملک برآمد کرنے کا اقدام کر ڈالا گیا اور وہ بھی اس عجلت سے کہ گندم کی عالمی منڈیوں میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کو نظرانداز کر کے ۲۰۰ اور ۲۵۰ ڈالر ٹن کے حساب سے بیچ دیا گیا، جب کہ اب عالمی منڈیوں میں گندم کی قیمت ۴۰۰ اور ۴۵۰ ڈالر فی ٹن ہے اور اسی نرخ سے اس وقت ملک میں درآمد کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس اسیکنڈل کی ذمہ داری کس پر ہے؟ اور کس کس نے پہلے سستی برآمد اور پھر مہنگی درآمد سے فائدہ اٹھایا ہے؟ پالیسی بنانے والوں اور عملاً فائدہ اٹھانے والوں دونوں پر گرفت ضروری ہے۔ ورنہ یہ کھیل جس طرح ماضی میں کھیلا جاتا رہا ہے اسی طرح آیندہ بھی جاری رہے گا۔
اُوپر کے حلقوں میں کرپشن کو ختم کرنے کے دعوے داروں کا اپنا کردار کیا ہے، اب یہ مخفی نہیں اور نہ صرف یہ کہ اسے مخفی نہیں رہنا چاہیے بلکہ تمام ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس حکومت کے دو ستون ایک سابق مرکزی وزیر اور پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ ایک دوسرے پر کھلے عام الزام لگا رہے ہیں، جب کہ حقیقت غالباً یہ ہے کہ دونوں ہی ذمہ دار ہیں اورکچھ دوسرے ارباب اقتدار بھی۔
دوسرا بنیادی سوال ملک میں زرعی پالیسی سازی، اس کے صحیح وقت، اس کے مناسب انتظامات کے پورے نظام کے جائزے کا ہے کہ ملک بار بار مختلف اشیاے ضرورت کے باب میں بحران در بحران سے دوچار ہو رہا ہے اور پورے تسلسل سے انھی غلطیوں کا بار بار ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ شکر کے سلسلے میں پچھلے سال یہی ڈراما ہوا، اس سال گندم نے ناطقہ بند کردیا۔ روئی کے بارے میں بھی اطلاعات بہت مختلف نہیں۔ خوردنی تیل کی کہانی بھی اس سے بہت قریب قریب ہے۔ قوم ہے کہ ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسی جارہی ہے اور اقتدار میں مست حکمران ہیں کہ بانسری بجائے جارہے ہیں!
گندم کی پالیسی سازی میں جن عوامل پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ان میں ایک اہم چیز اعداد و شمار کی صحت اور معلومات کا صحیح طریقے سے جمع کرنا اور بروقت پالیسی ساز اداروں تک پہنچنا ہے۔ یہ پہلو بے حد کمزور ہے۔
دوسری چیز ضرورت کا صحیح صحیح تعین ہے۔ ضرورت کے تعین کے لیے ایک تخمینہ (rule of thumb )یہ ہے کہ ہر آبادی کے ہر فرد کی سالانہ ضرورت ۱۲۵ کلوگرام کی بنیاد پر مقرر کر لی جائے۔ مگر اس میں آبادی کے صحیح اعداد وشمار کے ساتھ ہربات ملحوظ نہیں رکھی جاتی کہ آمدنی کے اضافے سے بھی استعمال میں اضافہ ہوتا ہے۔ نیز بات صرف آبادی کی نہیں بلکہ ملک میں گلہ بانی (livestock) اور پولٹری کی ترقی کے نتیجے میں بھی چارے کی ضروریات کے لیے مانگ بڑھتی ہے۔ اس کے ساتھ علاقائی حالات اور اسمگلنگ کے حقائق کو بھی نظرانداز نہیں کیاجاسکتا، خصوصیت سے جب کہ افغانستان اور وسطی ایشیا میں گندم کی مانگ کہیں زیادہ اور وہاں کی قیمت پاکستان کی قیمتوں سے دگنی یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ پھر خود ملک میں ذخیرہ اندوزی کے مسائل ہیں اور ملوں کی اپنی ذخیرہ اندوزی، ملوں کے لیے صوبائی اور مرکزی اسٹاک سے ترسیل اور خود ملوں کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے کارکردگی، یہ اور دسیوں دوسرے معاملات ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور جب تک پالیسی سازی اور پالیسی مینجمنٹ میں ان تمام پہلوئوں کا احاطہ نہ کیا جائے اور ان کے باہمی ارتباط (linkage) کو ملحوظ نہ رکھا جائے، صحیح نتائج رونما نہیں ہوسکتے۔
یہ تو طلب کے پہلو ہیں، اسی طرح رسد کے بھی بے شمار پہلو ہیں جن کا احاطہ ضروری ہے۔ پانی، بجلی، بیج کی فراہمی، کھاد، قرض ہر ایک اپنی جگہ اہم ہے اور ان سب کی بروقت فراہمی اور صحیح قیمت پر فراہمی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ بین الاقوامی منڈیوں، خصوصیت سے پڑوسی ملکوں میں قیمت کا رخ اور ملک میں سرکاری قیمت خرید کا درست ہونا اور اس کا بروقت اعلان اور اس سے بڑھ کر منصفانہ تنفیذ۔ بدقسمتی سے ان سارے ہی پہلوئوں کو ایک جامع پالیسی کی شکل میں ملحوظ نہیں رکھا جا رہا اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک بار بار مختلف اشیاے ضرورت کے باب میں بحران کا شکار ہورہا ہے۔ جب تک ہرسطح پر ایک مربوط اور جامع انداز میں معاملات طے نہیں کیے جاتے، ملک بحران سے نہیں نکل سکتا۔
بحران سے نکلنے کا آسان نسخہ جو راشن کارڈ کی شکل میں تجویز کیا گیا ہے وہ بوکھلاہٹ اور بدحواسی کا مظہر تو ضرور ہے مگر مسئلے کے حل کی کوئی صورت نہیں بلکہ اس سے صورتِ حال اور ابتر ہونے کا خدشہ ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک عبوری حکومت جس کی عمر چند ہفتے ہے، اسے کس نے یہ اختیار دیاکہ ایک ایسی پالیسی کا آغاز کردے جو بڑی دیرپا ہو اور جس کے اثرات دُور رس ہوں گے۔ دوسری بات یہ ہے اور ہمارے موجودہ کارپردازانِ حکومت یہ معمولی بات بھی نہیں سمجھتے کہ راشن کا نظام صرف اس معیشت میں کارفرما ہوسکتا ہے جہاں ریاست ایک اہم معاشی عامل کی حیثیت سے مؤثر ہو، اور پوری معیشت نہ سہی اس کو ایک بڑے حصے خصوصیت سے تقسیم کے نظام کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔ جہاں آزاد منڈی کا رواج ہو وہاں راشن کا نظام کس طرح آبادی کے بڑے حصے کی ضرورت کو پورا کرسکتا ہے___ ایک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا!
راشن کے نظام کو بالعموم جنگ کے زمانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جب رسد لمبے عرصے کے لیے محدود ہوتی ہے اور طلب کو قابو میں کرنے کے سوا کوئی چارئہ کار نہیں ہوتا۔
غیرجنگی ادوار میں تابع حکومت معیشتوں (command economies) کے سوا کہیں اور یہ نظام کارفرما نہیں ہوسکا۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے نیم اشتراکی دور میں اس کا تجربہ کیا گیا جو بری طرح ناکام رہا، بالآخر اس نظام کو ختم کرنا پڑا۔ اس دور پر جو بھی تحقیقی کام ہوا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ سرکاری خزانے پر ناقابلِ برداشت بوجھ پڑا اور جو سبسڈی حکومت دے رہی تھی اس کا ۸۰ فی صد وزارتِ خوراک اور آڑھتیوں کی جیب گرم کرنے کا ذریعہ بنی اور عوام تک اس رقم کے بمشکل ۲۰ فی صد فوائد پہنچ سکے۔ ایسے ناکام تجربے کی روشنی میں عبوری حکومت کی طرف سے دو ہفتے کے اندر اندر راشن کارڈ کے نظام کے اجرا کا اعلان کسی بڑے اسکینڈل کا عنوان تو ہوسکتا ہے، کسی عوامی سہولت کی اسکیم کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ ہوسکتا ہے کہ مجوزہ راشن کارڈ کی طباعت تک ہی یہ عبوری حکومت اپنی مدت عمر پوری کرلے اور عوام تک کوئی خیرات پہنچ ہی نہ سکے۔
اعلان کیا گیا ہے کہ یوٹیلٹی اسٹور اس کا ذریعہ ہوں گے لیکن وہ تو پہلے سے یہ خدمت انجام دے رہے ہیں اور اس کا حشر سب کے سامنے ہے۔ بمشکل ۵ فی صد آبادی کی ضرورت وہ پوری کرسکتے ہیں اور اس کے لیے بھی جو لمبی لمبی قطاریں ہیں اور محرومیوں کی جو داستانیں ہیں وہ کیا امید دلا سکتی ہیں، جب کہ راشن کے اصل مستحق غریب عوام اور کچی آبادیوں کے لوگ ہیں جن کی ان تک رسائی نہیں۔
راشن کارڈ اور راشن ڈپو مسئلے کا حل نہیں۔ ویسے بھی یہ آغاز پر ہی ناکام ہوجانے والے (non-starters ) ہیں۔ اصل ضرورت صحیح زرعی پالیسی، اور ذخیرہ اندوزی اور نظامِ ترسیل کی اصلاح ہے۔ نیز حکومت کا جو اصل رول ہے یعنی پالیسی سازی، پالیسی مینجمنٹ اور مارکیٹ کا استحکام اور قواعد و ضوابط کا بے لاگ اطلاق، نیز جہاں منڈی کی ناکامی کے خطرات ہیں وہاں ایسا انتظام کہ منڈی کا عمل ٹھیک ٹھیک کام کرتارہے، بروقت حکومتی ایجنسیاں اشیا حاصل کرسکیں اور صحیح قیمت ادا کرسکیں اور ضرورت کے مطابق سرکاری ذخائر سے گندم ملوں اور مارکیٹ میں لانے کا اہتمام کیا جاسکے۔ اس کے ساتھ زرعی ضروری اشیا کی بروقت اور صحیح قیمت پر فراہمی کا اہتمام ضروری ہے۔ اگر حکومت اس باب میں اپنی ذمہ داری ادا کرے اور نفع خوری، ذخیرہ اندوزی، اسمگلنگ کرنے والوں کی سرپرستی نہیں سرکوبی کا راستہ اختیار کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ منڈی کے عمل کے ذریعے تمام انسانوں کی ضروریات انصاف کے ساتھ پوری نہ ہوسکیں۔ حکومت کی ذمہ داری راشن کی تقسیم نہیں، ایسا نظام قائم کرنا اور ایسے انتظامی اقدامات کرنا ہیں کہ غذائی قلت کا مسئلہ صرف وقتی بنیادوں پر نہیں مستقل طور پر حل ہوسکے۔
دنیا کی سیاسی لغت میں نائن الیون کی اصطلاح ایک منفرد اضافہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں اضافہ ایک لفظ کا نہیں، بلکہ اب تو ایک اصطلاح کا ہے جو ایک مخصوص عالمی جنگ یعنی وار آن ٹیرر (war on terror) کا عنوان بن گیا ہے۔ بلاشبہہ یہ وہ دن ہے جب نیویارک میں امریکا کے تجارتی مرکز ٹوئن ٹاورز اور واشنگٹن میںامریکی وزارت دفاع کے ہیڈکوارٹر پینٹاگان پر ہوائی حملہ ہوا اور چشمِ زدن میں بش کی قیادت میں امریکا کسی تحقیقات کا انتظار کیے بغیر دہشت گردی کے خلاف ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں کود پڑا۔ چھے سال گزرجانے کے بعد بھی یہ ایک معمّا ہے کہ۱۱ستمبر کو جو کچھ ہوا، وہ کیسے ہوا؟ کس نے کیا؟اور وہ اصل اہداف کیا تھے جن کے حصول کے لیے یہ خونی کھیل کھیلا گیا؟-- امریکا اس کا ہدف تھا یا خود امریکا اور اس کے ایک ساجھی ملک نے اپنے اپنے سیاسی عزائم کے حصول کے لیے ایسے ہولناک اقدام کا اہتمام کیا؟ یہ عجیب اتفاق ہے کہ ۲۰ویں صدی کی دوعظیم جنگوں کو کسی خاص تاریخ (date) سے نسبت نہیں دی جاتی لیکن اکیسویں صدی کی دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کا عنوان نائن الیون بن گیا ہے اور اب لغت میں باقاعدہ اس ایک نئے لفظ کااضافہ ہو گیا ہے۔
ایک نظریہ یہ ہے کہ اس واقعے کے پیچھے اسامہ بن لادن اورالقاعدہ کا ہاتھ ہے۔ جو نام نہاداسلامی شدت پسندی اور دہشت گردی کے سرخیل ہیں اور انھی کی سرکوبی کے لیے امریکا کی قیادت میں افغانستان ، عراق اور کسی نہ کسی شکل میں تمام دنیا میں جنگ کی جارہی ہے۔
ایک دوسرا نظریہ یہ ہے کہ نائن الیون کے پیچھے دراصل امریکا اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کا کردار ہے اور دونوں ممالک کی قیادت ہی اس کی beneficiaryہے یعنی اس سے فائدہ اٹھا رہی ہے اور اپنے اپنے عزائم کے حصول کے لیے اسے استعمال کر رہی ہے۔
بظاہر یہ دونوںنقطہ ہاے نظر ہی اپنے اپنے انداز میں سازشی نظریوں(conspiracy theories ) کی حیثیت رکھتے ہیں اور صرف پروپیگنڈے کی قوت ہے جس کے ذریعے ایک کو حقیقت اور دوسرے کو واہمہ اور سازش بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ مگر اصل حقیقت کیا ہے، اب تک ایک معمّا بنا ہوا ہے___ لیکن کیا یہ ہمیشہ معمّا ہی رہے گا اور اصل حقیقت کبھی بھی سامنے نہیں آئے گی--؟
نائن الیون کے بارے میں چبھتے ہوئے سوالات اور ٹھوس سائنسی حقائق اور اصولوں پر مبنی اشکالات تو تواتر کے ساتھ اٹھائے جاتے رہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی ایسا دھماکا نہیں ہوا تھا جو اُوپر کے حلقوں کو چونکا سکے۔ اہل علم وفکر کی ساری سرگوشیوں پر امریکا کی انتظامیہ اور میڈیا کا وِژن بری طرح چھایارہا ہے۔ بی بی سی کے پروگرام پنوراما کی چار قسطیں اور Michael More کی ڈاکومنٹری Fahrenheit 9/11 بھی ذہنوں میںسوال اٹھانے کے باوجود عالمی حلقوں میں کوئی بڑا ارتعاش پیدا نہ کرسکیں۔ اب تک بیسیوں کتابیں بڑی دیدہ ریزی کے ساتھ کی جانے والی تحقیق کی بنیاد پر شائع ہو چکی ہیں لیکن یہ بھی بس ساحل پر ہی کچھ جنبش پیدا کرسکی ہیں اور جس سنجیدگی سے اس معمّے کو سلجھانے کی کوشش اور امریکا کی فکری یلغار کے پوسٹ مارٹم کی ضرورت ہے اس کی طرف کوئی پیش قدمی نہیں ہوسکی۔ البتہ دسمبر ۲۰۰۷ء میں ایک بیان ایسا آیا ہے جس نے یورپ کے حلقوں میں ہلچل مچادی ہے اس کے باوجود کہ امریکا میں اسے بالکل ہی دَبا (kill کر) دیاگیا ہے اور مسلم دنیا میں بھی اسے قرار واقعی اہمیت نہیںملی، حالانکہ وہ بیان ایسا ہے جس سے اب تک کے علمی، سیاسی اور صحافتی حلقوںمیں امریکی اسرائیلی وِژن کو چیلنج کرنے والوں کے کام کو بڑی تقویت حاصل ہوئی ہے اور عالمی سطح پر ایک نئی بیداری کی ضرورت سامنے آئی ہے۔
یہ بیان اٹلی کے سابق صدر فرانسیسکو کوسی گا (Francesco Cossiga) کا ہے جو اس نے اٹلی کے سب سے مقبول اخبار Corriere della Sera کو دسمبر ۲۰۰۷ء کے پہلے ہفتے میں دیا ہے۔ اس بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ نائن الیون دراصل ایک خود کیا ہوا کام (Inside Job) تھا اور اس کی اصل ذمہ داری امریکی سی آئی اے اور اسرائیلی موساد پر آتی ہے اور اب یہ حقیقت ایک نہ ایک دن پوری دنیا کے سامنے آکر رہے گی۔ اٹلی کے سابق صدر کے بیان کے بنیادی نکات یہ ہیں:
[Bin Laden supposedly confessed] to the Qaeda September [attack] to the two towers in New York [claiming to be] the author of the attack of the 9/11, while all the [intelligence services] of America and Europe... now know well that the disastrous attack has been planned and realized from the CIA American and the Mosad with the aid of the Zionist world in order to put under accusation the Arabic Countries and in order to induce the western powers to take part .. in Iraq [and] Afghanistan.
بن لادن نے مفروضہ طور پر نیویارک کے دو ٹاوروں پر القاعدہ کے ستمبر حملے کااعتراف کیا، اور دعویٰ کیا کہ وہ نائن الیون کے حملے کا ذمہ دارہے، جب کہ امریکا اور یورپ کی تمام خفیہ ایجنسیاں اب یہ بات اچھی طرح جانتی ہیں کہ صہیونی دنیا کے تعاون سے امریکی سی آئی اے اور موساد نے اس تباہ کن حملے کی منصوبہ بندی کی اور اس پر عمل کیا تاکہ عرب ممالک پر الزام لگایا جاسکے اور مغربی دنیا کو عراق [اور] افغانستان پر حملے کے لیے آمادہ کیا جاسکے۔
کوسی گایورپ کے واقفانِ راز میں سے ہے۔ اسے ایک جرأت منداورسچ بولنے والے سیاست دان کی شہرت حاصل ہے۔ اس نے ۱۱/۹ کے واقعے کے فوراً بعد بھی مجملاً اپنے خدشات کا اظہار چند نظری مسلّمات کی بنیاد پر کیا تھا جس کا ذکر کئی مصنفین نے بشمول Webster Tarpley نے اپنی کتا ب میں کیا تھا کہ کوسی گاکے تجزیے کی روشنی میں :
The mastemind of the attack must have been a sophisticated mind, provided with ample means not only to recruit fanatic kamikazes, but also highly specialized personnel. I add one thing: it could not be accomplished without infiltrations in the radar and flight security personnel.
اس حملے کا ماسٹر مائنڈ ایک انتہائی منظم اور اعلیٰ درجے کا ذہن ہونا چاہیے جس کو جنونی فدائیوں بلکہ انتہائی خصوصی تربیت یافتہ عملے کے بھرتی کرنے کے وافر مواقع حاصل ہوں۔ میں ایک بات کا اضافہ کرتا ہوں کہ یہ حملے راڈار اور فضائی سلامتی کے ذمہ دار عملے میں سرایت کیے بغیر تکمیل کو نہیں پہنچ سکتے تھے۔
لیکن اب چھے سال بعد اس نے پورے یقین سے یورپ کے بیش تر خفیہ ایجنسیوں کے تجزیے کی بنیاد پر کہا ہے کہ یہ کارنامہ سی آئی اے اور موساد کے سوا کسی اور کا نہیں ہوسکتا۔
کوسی گانے یہ بھی کہا ہے کہ بحیثیت صدر اٹلی اس کو یہ علم تھا کہ یورپ، امریکا اوراسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں کس طرح ہر دور میں افراد اور ممالک کے خلاف دہشت گردی کے واقعات کا ارتکاب کرتی رہی ہیں، اور کس طرح ان کے ذریعے ان حکومتوں نے اپنے مخصوص سیاسی اہداف حاصل کیے ہیں۔ اس سلسلے میں اس نے خودنیٹو کے ایک بڑے کارنامے Operation Gladio کا ذکر کیا ہے جس کے بارے میں اٹلی کی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے سارے حقائق ۲۰۰۰ء میں آئے اور جس سے ثابت ہوا کہ یہ سارا آپریشن امریکی جاسوسی ایجنسی کی سرپرستی میںخود نیٹو کی ایجنسیوں نے انجام دیا تھا۔
واضح رہے کہ فرانسیسکو کوسی گا جولائی ۱۹۸۳ء میں اٹلی کے سینیٹ کا صدر منتخب ہوا تھا اور ۱۹۸۵ء میں اٹلی کا صدر منتخب ہوا اور اپریل ۱۹۹۲ء تک اٹلی کی صدر کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ کوسی گا کو یورپ کے صاحب نظر سیاسی اکابرین میں شمار کیا جاتا ہے۔
یہاں اس امرکا اعادہ بھی مفیدہوگا کہ امریکا کے لیے اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے صریح جھوٹ اور غلط بیانی کی بنیاد پر پالیسیاں بنانا اور اقدام کرنا کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بارے میں بعد کی تحقیقات نے ثابت کر دیا ہے کہ پرل ہاربر پر حملہ ردعمل تھا ایک جاپانی آب دوز کوہوائی کے پانیوں میں بلااشتعال نشانہ بنانے کا ۔ اسی طرح اب یہ حقیقت پوری دنیا کے سامنے ہے کہ عراق پر حملہ کے لیے وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں (WMD) کا ڈھونگ رچایا گیا اور بعد میں خود کولن پاول نے معذرت کی کہ اس کو صحیح معلومات نہیں دی گئیں۔ اس ہفتے امریکا کی دوممتاز صحافتی تنظیموں نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں ثابت کیا ہے کہ امریکی صدر بش اور ان کی انتظامیہ نے ۱۱/۹ کے بعد کے دوسالوں میں عراق میں وسیع پیمانے کی تباہی کے ہتھیاروں کی موجودگی کے سلسلے میں ۵۳۲بار جھوٹ پر مبنی اعلانات کیے اور عراق میں القاعدہ کی موجودگی اور عراق- القاعدہ تعاون کے سلسلے میں جھوٹ بولنے کا اسکور ۹۳۵ تک پہنچ جاتا ہے۔ جھوٹ، دھوکا اورغلط دعووں کی بنیاد پر پالیسی سازی مغربی اقوام کا وطیرہ ہے لیکن جھوٹ کی نائو ایک نہ ایک دن ڈوب کر رہتی ہے۔
امریکا اور یورپ میں بھی ۱۱/۹ پر اب نئی تحقیق اور تنقیدی کتب کا انبار لگتا جا رہا ہے لیکن افسوس ہے کہ مسلم ممالک میں عام آدمی کا احساس خواہ کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہولیکن علمی حلقوں اورپالیسی ساز اداروں کو اس کا کوئی احساس نہیں کہ پروپیگنڈے کے دھوئیں کو چھانٹ کر حقیقت کو جاننے کی کوشش کریں اور آنکھیں بندکرکے امریکا اوراسرائیل کے مفاد کی دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ کی حقیقت کو سمجھیں اور جس جنگ کا اصل ہدف اسلام اور مسلمان ہیں، اس میں آلۂ کار نہ بنیں۔
یہ بات امر واقع کے طور پر عرض کر رہا ہوں کہ مدیر ترجمان القرآن کو پہلے دن سے ۱۱/۹ کی امریکی توجیہہ کوتسلیم کرنے میں بڑا تردّد تھا جس کا بار بار اظہار ۹ستمبر کے بعد لکھے جانے والے اشارات میں کیا گیا ہے، جن کامجموعہ امریکا سے مسلم دنیا کی بے اطمینانی، ۹ستمبر سے پہلے اور اس کے بعد (۲۰۰۳ئ) انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ، اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔ اسی طرح اس حادثے کے صرف۷ ہفتے بعد برطانیہ میں مسلم تنظیموں کے ایک اہم اجتماع میں اظہار خیال کرتے ہوئے میں نے بڑے بنیادی سوال اٹھائے۔ یہ تقریر امریکا سے شائع ہونے والی ایک کتاب The Blackwell Companion to Contemporary Islamic Thought (مطبوعہ ۲۰۰۶ئ) میں شائع ہو چکی ہے۔۱ ؎
امریکا اور یورپ میں پہلے ایک دوسال تو اتنا ذہنی دبائو تھا کہ اختلافی آرا حلق سے باہر نہیں آرہی تھیں مگر آہستہ آہستہ بحث وگفتگو کا دروازہ کھلا اور ایک فرانسیسی تجزیہ نگار اور محقق Thierry Meyssan وہ پہلا معروف مصنف ہے جس نے اس موضوع پر کھل کر امریکی نظریے کو چیلنج کیا اور متبادل نظریہ پیش کیا۔ اس کی اہم ترین کتاب 9/11: The Big Lie پہلے فرانسیسی زبان میں اور پھر انگریزی میں ۲۰۰۲ء میں ہی شائع ہوئی تھی جسے نیویارک ٹائمزنے ایک چیلنج قرار دیا اور لکھا ہے کہ یہ کتاب: challanges the entire offical version of the Sept. 11 attacks۔
اسی مصنف کی دوسری کتاب Pentagate لندن سے ۲۰۰۲ء میں شائع ہوئی جس میں پینٹاگان پر جہازی حملے کا پول کھولا گیا ہے۔ مسلمان محققین میں سب سے قیمتی اور مدلل کتاب پروفیسر نفیس مصدق احمد کی ہے جو ۲۰۰۵ء میں شائع ہوئی ہے یعنی The War on Truth: 9/11, Disinformaton and the Anatomy of Terrorism"۔
موصوف کی ایک اور کتاب بھی بڑی قیمتی کاوش ہے گو اس کا مرکزی موضوع عراق کی امریکی جنگ ہے یعنی Behind the War on Terror: Western Strategy and the Struggle for Iraq
دواو ر کتابیں جو دونام ور صحافیوں کی محنت کا حاصل ہیں قابل ذکر ہیں۔ پہلی کتاب 9/11 Revealed ہے جو ۲۰۰۵ء میں لندن سے شائع ہوئی ہے اور اس کے لکھنے والے ایان ہینشال اور رونالڈ مارگن (Ian Henshall and Ronald Morgan)ہیں اور دوسری رونالڈ مارگن کی کتاب Flight 93 revealed ہے جو واشنگٹن میں پینٹاگان پر حملے کے پوسٹ مارٹم پر مشتمل ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اب تحقیقی کام میں کہیں اضافہ ہورہا ہے۔کئی ادارے نائن الیون کے بارے میں سچ کی تلاش کے مقصد سے تحقیق کا کام انجام دے رہے ہیں اور یورپ اور امریکا کے چند چوٹی کے مفکرین اور سائنس دانوں نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ اس سلسلے میں
1- Khurshid Ahmed: "The World Situation after September 11, 2001", in The Blackwell Companion to Contemporary Islamic Thought, edited by Ibrahim M.Abu-Rabi, Blackwell Publishing, USA, 2006, pp 408-422
نوم چومسکی کے بعد سب سے وقیع کام کلیرمونٹ گریجویٹ یونی ورسٹی کے فلسفہ و الٰہیات کے پروفیسر ڈیوڈ رے گریفین (David Ray Griffin) کا ہے جن کی دوکتابیں علمی حلقوں میں تہلکہ مچاچکی ہیں یعنی:The New Pearl Harbour: Disturbing Questions about the Bush Administration and 9/11 (2004) اورThe 9/11 Commission Report: Omissions and Distortions 2005
پروفیسرگریفین کی تازہ ترین کتاب جو ان کے اپنے متفرق مضامین کا مجموعہ ہے ۲۰۰۶ء میں شائع ہوئی ہے یعنی Christian Faith and the Truth about 9/11 اور ان کی تازہ ترین علمی کاوش ان کی مرتب کردہ کتاب 9/11 and American Empire: Intellectuals Speak Out ہے جو ۲۰۰۷ء میں شائع ہوئی ہے اور جس میں امریکا، کینیڈا اور یورپ کے ۱۱ مفکرین اور سائنس دانوں کے مضامین شائع کیے گئے ہیں جواپنے اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر ۱۱/۹ کے بارے میں امریکی وژن کی دھجیاں بکھیرتے ہیں۔
ایک اور اہم مجموعہ مضامین ہالینڈ سے شائع ہوا ہے جس کا مؤلف Paul Zarmenlke ہے جو The Hidden History of 9-11-2001 کے نام سے ایمسٹرڈم سے ۲۰۰۶ء میں شائع ہوئی ہے۔ نیز اس سے خاصا پہلے رسائل اور اخبارات میں شائع شدہ مضامین پر مشتمل ایک مجموعہ لندن سے شائع ہوا تھا Beyond September 11: An Anthology of Dissent (مرتبہ فل اسکریٹن) لیکن اس نے زیادہ تر اصولی مباحث اور استعماری عزائم پر گفتگو کی ہے اور نائن الیون کے واقعاتی پہلوئوں کو اس طرح چیلنج نہیںکیا جیسا حالیہ دنوں میں شائع ہونے والے لٹریچر میں کیا گیا۔ بہرحال اس مختصر مضمون میں سارے لٹریچر کا احاطہ تو ممکن نہیں، نہ فی الوقت یہ مقصود ہے، صرف ضروری مآخذ کی نشان دہی کی گئی ہے تاکہ یہ حقیقت سامنے آسکے کہ اب پردہ آہستہ آہستہ اٹھ رہا ہے اور امریکا اور اسرائیل کا اصل کردار کھل کر سامنے آنے لگاہے۔ ۲؎ بلّی آخر کب تک تھیلے میں رہ سکتی ہے؟ لیکن کیا مسلمان دنیا کے بصیرت سے محروم قائدین کی آنکھیں بھی کبھی کھلیں گی اور وہ دوسروں کے مفاد کی خدمت کرنے کی بجاے امت مسلمہ کے مفاد کے محافظ بن سکیں گے؟
۲- چند اہم ترین کتابوں کا پورا حوالہ دیا جارہا ہے تاکہ جو حضرات اس موضوع پر کام کرنا چاہتے ہوں، وہ ان مآخذ کی طرف رجوع کر سکیں:
1- 9/11: The Big Lie by Thierry Meyssan, Carnot Publishing, London, 2002.
2- Pentںagate: by Thierry Meyssan, Carnot Publishing, London, 2002
3- Beyond September 11: An Anthology of Dissented. By Phil Scranton, Pluto Press, London, 2002.
4-9.11 Revealed: Challenging the Facts Behind the War on Terror, by Ian Henshall and Rowland Morgan, Constable and Robinson, London, 2005
5- Flight 93 Revealed: What Really Happened on the 9/11 'Let's Roll' Flight? By Rowland Morgan, Constable and Robinson, London, 2006.
6- Behind the War on Terror: Western Strategy and Struggle for Iraq, by Nafees Mossadiq Ahmad. New Society Publications, Gabriele, 2002
7- The War on Truth: 9/11, Disinformation and the Anatomy of Terrorism, by Nafez Mussadiq Ahmed, Olive Branch, Northampton, MA., 2005,
8.-The New Pearl Harbour: Disturbing Questions about the Bush Administration and 9/11, by David Ray Greffin, Olive Branch, Northampton, 2005,
9- The 9/11 Commission Report: Omissions and Distortions, by David Ray Griffin, Olive Branch Press, Northampton, 2005.
10-Christian Faith and the Truth Behind 9/11, by David Ray Griffin, Westminster, John Knox, Louisville, 2006.
11- Painful Questions: An Analysis of the September 11 Attack, by Erie Hufschmid, Endpoint Software, Golete C.A. 2002.
12- 9/11 Synthetic Terror: Made in USA, by Webster Griffin Tarpley, Progressive Press, Joshua Tree, 2005
13- 9/11 and American Empire: Intellectuals Speak Out. Ed. By David Ray Griffin and Peter Dale Scott, Arris Books, Glostanshire, 2007.
_________________
۲۱ویں ویں صدی کا آغاز ہو چکا اور عالم انسانیت تیسرے ہزاریے میں داخل ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی ہماری دنیا چونکا دینے والے نئے نئے دعووں، اضطراب انگیز وسوسوں اور خدشات کے طوفان کی زد میں آچکی ہے۔
ایک طرف تو کمیونزم کے انہدام اور سرد جنگ کے خاتمے کے دعوے کیے جا رہے ہیں، اور اس کے ساتھ مغرب کی آزاد روی (liberalism) ، معیشت اور سیاست کی آخری فتح کے نقارے بجا کر ’تاریخ کے خاتمے، کا اعلان کیا جا رہا ہے۔۱ لیکن دوسری جانب عالمی سطح پر مذہبی احیا اور ’بنیاد پرستی، کا شور برپا ہے ، جس میں ایک نئے دور کی آمد آمد کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے جو مختلف تہذیبوں کے درمیان تصادم سے عبارت ہوگا۔۲
چنانچہ وقت آگیا ہے کہ متوازن سوچ کے حامل دانش ور، خصوصاً وہ جو مسلم اُمّہ کی نمایندگی کرتے ہیں، ان افکار و مسائل کی طرف متوجہ ہوں جو: علم و دانش کی دنیا اور قوت و اقتدار کی غلام گردشوں میں زیربحث ہیں۔ ان چیلنجوں کے مقابلے کے لیے اسلام اور مسلم اُمّہ کی حکمت عملی پر ازسرنو غور کریں۔ آج کے چند بڑے مسائل، جن پر انسانیت کو تشویش لاحق ہے اور جو خصوصاً مسلم اُمّہ سے براہِ راست متعلق ہیں، ان میں: عالم گیریت(globalisation) ،زندگی کے ہر شعبے (مذہب سمیت) میں آزاد خیالی(liberlisation)جمہوریت، نج کاری (privatisation) اور لادینیت (secularisation) شامل ہیں۔ ان میں مذہبی احیا اور بین الاقوامی دہشت گردی کے آسیب بھی شامل ہیں۔
میں اس مقالے میں، جمہوریت کے حوالے سے جاری مباحث کا جائزہ لوں گا۔
اس مقالے کا استدلال یہ ہے کہ وہ جمہوریت ، جو مغربی تہذیب اور سیاست کی رُو سے فروغ پا چکی ہے، نہ تو مکمل طور پر کوئی یکساں نوعیت کا نظریہ ہے اور نہ ایسا نظریہ ہی ہے کہ جسے چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ، یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ جمہوریت تو ایک ایسا کثیر جہتی مظہر ہے جس کے نظریاتی اور عملی اعتبار سے کئی پہلو ہیں۔ چنانچہ یہ فرض کر لینا کہ: ’’جمہوریت کا کوئی مخصوص مغربی نمو نہ پوری انسانیت اور خاص طور پر مسلم اُمّہ کے لیے مثالی نظام سیاست کے طور پر تسلیم کر لیا جانا چاہیے‘‘۔علمی طور پر ناقابل قبول اور ثقافتی اعتبار سے ناقابل مدافعت ہے۔ مسلم اُمّہ کی تو اپنی الگ اخلاقی اور نظریاتی پہچان ہے، اور مسلمان تاریخی و ثقافتی اعتبار سے اپنا الگ تشخص رکھتے ہیں۔ ہاں، عالم گیریت اپنی موجودہ شکل میں تاریخ کے رواں دور کا ایک رجحان ضرور ہے، لیکن اسے نئی استعماریت کا پیش خیمہ بننے کی ہرگزاجازت نہیں دی جا سکتی جس کا بڑا خدشہ ہے۔
میرے نزدیک مغرب کی جمہوری فکراور تجربہ، اپنی افادیت اور تنوع کے باوجود، گہری سوچ بچار اور منطقی تجزیے کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتے بلکہ ان میں کئی نقائص ہیں اور وہ عملی تضادات، تصوراتی خامیوں اور ناکامیوں سے عبارت ہیں۔ ڈبلیو جی گیلی نے بجا طور پر مغربی جمہوریت کو ’’بنیادی طور پر قابل حجت تصور‘‘ قرار دیا ہے۔۳ عالم اسلام اور تیسری دنیا کے ممالک کو ، مغربی جمہوریت کی ’برآمد، (export) کوئی حقیقت پسندانہ طرزِ عمل نہیں۔چنانچہ امریکا اور دوسری مغربی طاقتوں کی خارجہ پالیسی کے واضح ہدف کے طور پر دبائو، دھاندلی، سازشوں یا براہِ راست قوت کے ذریعے کسی ملک میں مغربی سیکولر جمہوریت کو بلاامتیاز ٹھونسنے کی کوشش انتہائی نامناسب ہوگی۔
بہتر ہوگا کہ جمہوریت کی دو اہم جہتوں کے درمیان خط امتیاز کھینچ لیا جائے۔ پہلی جہت یہ کہ جمہوریت کی فلسفیانہ بنیاد: عوامی خود مختاری کا تصور اور اس کے نتیجے میں عوامی حمایت پر مبنی حکومت کے جواز کا اصول ۔ دوسری یہ کہ اس نظام کو چلانے کے طریقے، تاکہ کاروبار مملکت میں عوام کی شرکت یقینی بنائی جائے ، اور حکمرانوں کے انتخاب میں اور حکومتی پالیسیوں کی تشکیل اور منصوبوں میں عوام کی شمولیت ممکن ہو سکے ۔ میرا یہ موقف بھی ہے کہ اسلامی عقاید، ثقافت، تاریخ اور فی زمانہ تجربات کے حوالے سے ایسے رہنما خطوط موجود ہیں جو ایک واضح اور منفرد سیاسی ڈھانچے کی شکل متعین کرتے ہیں۔ جسے صحیح معنوں میں روح (spirit) اور عمل، دونوں لحاظ سے حقیقی عوامی شرکت کا حاصل قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کے مطابق ایک ایسا سیاسی نظام قائم کیا جاسکتا ہے، جو عدل و انصاف اور شوریٰ و مشاورت دونوں مقاصد کو پورا کرے۔ جو کسی بھی برسرِکار جمہوریت کی حقیقی روح ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ نقطۂ نظر مغربی سیکولر جمہوریت کے کئی دیگر تضادات، نزاعات اور ناکامیوں کے لیے بھی تریاق ثابت ہو سکتا ہے۔ خود یہ بات بڑی اہم ہے کہ مسلم اُمّہ پر سیکولر جمہوریت زبردستی ٹھونسنے کی کوشش صرف جابر حکومت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ حقیقی جمہوری عمل، جس میں عوام کو یہ آزادی حاصل ہو کہ وہ اپنے تصورات اور خواہشات کے مطابق اپنے معاملات چلا سکیں۔ بس دین و دنیا کی تفریق اور سیکولر جمہوریت کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہوسکتی۔ مسلم دنیا میں حقیقی جمہوری عمل جہاں اور جب بھی کارفرما ہوگا آخرکار یہ عمل اسلامی نظام ہی کی طرف رہنمائی کرے گا، کیونکہ اُمت مسلمہ کے کینوس پر اسلام اور جمہوریت ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔
اسلامی سیاسی نظام کی بنیاد نظریۂ توحید پر ہے اور یہ نظام عوامی خلافت کی صورت میں برگ و بار لاتا ہے ۔جس کے تحت منتخب حکمران (خلیفہ)، شوریٰ کے ذریعے امور حکمرانی بجا لاتا ہے، جو انسانوں میں مساوات کے اصول پر قائم ہوتی ہے۔ اسی نظام میں قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ، حکمرانوں کا احتساب، سیاسی عمل کا صاف شفاف ہونا اور نظام کے قانونی، سیاسی، سماجی، اقتصادی اور بین الاقوامی پہلوئوں میں عدل اور صرف عدل کی بالادستی ہی اوّلیں ترجیح ہوتی ہے۔ اسلامی شریعت ایک ایسا وسیع نظم ِریاست پیش کرتی ہے جس کے اندر رہتے ہوئے عوام، وحی الٰہی کی رہنمائی میں:ایک مہذب معاشرے اور اس کے معاشرتی ادارے، جن میں ریاست کے تمام شعبے (organs) بھی شامل ہوتے ہیں، تشکیل دیتے ہیں۔ اسلامی طرز حکومت کثیر جہتی اجتماعی اور سیاسی نظام قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چنانچہ ایسے معاشرے میں مختلف مذاہب اور نسلی اور لسانی گروپوں کے درمیان صحت مندانہ بقاے باہمی کا جذبہ پروان چڑھتا ہے اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کے درمیان باہمی تعامل کی فضا کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ اسلامی نظام کے تحت معاشرے میں ہر طرح کی ہم آہنگی اور اتحاد و اتفاق پیدا ہوتا ہے۔ جس کے باعث، موجودہ دور میں ، جب کہ پوری دنیا ایک عالمی شہر کی شکل اختیار کر چکی ہے، امن کے قیام اور تمام انسانوں کے لیے ایک منصفانہ سماجی و سیاسی نظام کے قیام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
جمہوریت (democracy)کا لفظ انگریزی زبان میں ۱۶ویں صدی میں فرانسیسی زبان کے لفظ democratie سے اخذ کیا گیا۔یہ لفظ اپنے اصل کے اعتبار سے یونانی ہے، جو یونانی زبان کے لفظ demokratie سے مشتق ہے۔اس لفظ کی اصل دو الفاظ demos یعنی ’عوام‘ اور krato ’حکمرانی‘ ہیں۔ گویا یہ لفظ دویونانی الفاظ کا مجموعہ ہے۔
جہاں تک مسلم لٹریچر کا تعلق ہے، ’جمہوریت‘ کی اصطلاح پہلی بار ۱۸ ویں صدی میں ترکی زبان میں استعمال کی گئی۔ یہ لفظ عربی کے لفظ ’جمہور‘ سے نسبت رکھتا ہے ،جس کے معانی عوام یا اسمبلی یا عوامی اجتماع ہیں۔یہ اصطلاح ’فرانسیسی جمہوریہ‘ کے حوالے سے استعمال کی گئی تھی۔۴
جمہوریت ایک ایسا طرز حکومت ہے، جس میں طبقۂ امرا، یا خواص کی حکومت، بادشاہت، آمریت یا استبدادی حکومت کے برعکس عوام ہی کو اقتدار کا حقیقی سرچشمہ تصور کیا جاتا ہے۔ حکومتی اصولوں اور طرزِ حکمرانی کا محور عوام تصورکیے جاتے ہیں، بلکہ تمام اقدار، تصورات اور پالیسیوں کا اصل منبع سمجھے جاتے ہیں۔ عوام ہی کو اقتدار اعلیٰ کا حامل تصور کیا جاتا ہے ۔جنھیں یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ ملک پر حکومت کریں اور ان کے حکمران بھی ان کے سامنے ہی جواب دہ تصور کیے جاتے ہیں۔
جمہوریت کی اصطلاح سے ان تصورات اور اصولوں کے علاوہ ایک سیاسی نظام بھی مراد ہے جس کے تحت حکمرانی کا نظم قائم ہوتا ہے اور ایک سیاسی و قانونی نظام معرض وجود میں آتا ہے۔ جمہوریت کا اصل امتحان تو ’جواز‘ (legitimacy)کا اصول ہے ،جس کے تحت یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ اقتدار صرف اور صرف اس وقت جائز ہوتا ہے جب یہ عوامی قوت سے حاصل کیا گیا ہو اور اس کی بنیاد عوام کی مرضی پر رکھی گئی ہو۔
یورپ کی تاریخ میں ’نشاتِ ثانیہ‘ (renaissance)کے بعد کے دور میں بادشاہوں کے حق حکمرانی کے ’مقدس دعووں، کو چیلنج کیا گیا۔ یورپ کی بادشاہتوں کے خلاف عوامی بغاوت برپا ہوئی۔ عوام، خواص کی حکمرانی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے کلیسا کی اتھارٹی کو بھی چیلنج کیا اور پادریوں کی حکمرانی (divine right to rule)کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ اسی تناظر میں عوام کی حکمرانی کا اصول وضع کیا گیا ہے، جس کے تحت مذہب اور بادشاہوں کی تقدس مآبی سے سیاست کا رشتہ منقطع کر دیا گیا، عوام کو سیاسی قوت کا اصل منبع اور اپنی قسمت کا حقیقی معمار تسلیم کیا گیا۔ تمام اقدار کی تشکیل اور اختیارات کے استعمال کا تاج ان کے سر پر سجا دیا گیا اور ہرنوع کی سیاسی جدوجہد کا اصل مقصد عوام کا اقتدار اور ان کی فلاح وبہبود قرار پایا۔
سیکولر جمہوریت کی فلسفیانہ جڑیں عوام کے اقتدارِ اعلیٰ کے نظریے میں پوشیدہ ہیں۔ جمہوریت ایک طرف تو دائمی مذہبی رہنمائی سے انکار، یا کم از کم ایسی رہنمائی سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے اور سیاسی حکمرانی میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کو بھی تسلیم نہیں کرتی، جب کہ دوسری طرف اس بات پر اصرار کرتی ہے کہ عوام اور عوام کی مرضی اور راے ہی کو ہر نوع کے اختیارات اور اقتدار کا حقیقی منبع تسلیم کیا جائے۔ مختصر یہ کہ جمہوریت کے تحت قانونی اور سیاسی اقتدار اعلیٰ، عوام کے پاس ہے، جس کے تحت جمہوری سیاست کی متعدد شکلیں سامنے آچکی ہیں۔ جن میں: براہِ راست، بذریعہ نمایندگی، پارلیمانی، متناسب نمایندگی،ری پبلکن، وفاقی اور پرولتاری جمہوریت وغیرہ شامل ہیں۔
رچرڈ جے کا دعویٰ ہے : ’’۱۹ویں صدی کے دوران جمہوری مطالبات کوآگے بڑھانے والا مرکزی اصول عوام کا اقتدار اعلیٰ ہی رہا‘‘۔۵ بہرحال ’حاکمیتِ عوام، کا نظریہ، عملی اور نظریاتی طور پر جتنا بھی مبہم اور غیر واضح ہو لیکن مغرب کی لادینی جمہوریت کی اساس یہی نظریہ ہے۔ اسلام کا تصورِ سیاست بنیادی طور پر اس سے مختلف ہے۔ حاکمیت زمین و آسمان کے مالک اور خالق کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ الہامی ہدایت اور قانونِ الٰہی کو بالادستی حاصل ہے، البتہ اس قانون کے عملی نفاذ کے لیے ذمہ دار انسان پر ہے جو ’عمومی خلافت‘ کے تصور سے عبارت ہے۔ فلسفیانہ اور فکری بنیادوں کے اعتبار سے مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت میں یہی جوہری فرق ہے۔
جمہوریت کے دوسرے رُخ کا تعلق عوامی حکومت کی مختلف اشکال اور سیاسی فیصلوں میں عوام کی شرکت، مثلاً ریاست کے معاملات کو چلانے کے لیے عوام کی مرضی معلوم کرنے کا سیاسی طریق کار طے کرنے اور اسے ترقی دینے سے ہے۔ جمہوریت کے عملی نمونوں کی بنیاد انسانی مساوات اور آزادی کے اصولوں، آئین و دستور کی پابندی، قانون کی حکمرانی، حکومت کے مختلف شعبوں، یعنی انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے درمیان تقسیم اختیارات، بنیادی انسانی حقوق جن میں اقلیتوں کے حقوق، مذہبی آزادی، اظہارِ راے کی آزادی، انجمن سازی کی آزادی، پریس اور ابلاغ کی آزادی پر ہے۔ جمہوریت کی حقیقی روح کا اظہار اس حکومت کے وِژن میں ہوتا ہے جسے لوگ منتخب کرتے ہیں، جو عوام کی خواہشات اور ترجیحات کے مطابق ان کی خدمت کرتی ہے اور ان کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے۔
مغربی جمہوریت کا نظام مذہب اورسیاست کے درمیان مکمل علیحدگی کے تصور پر مبنی ہے۔ چنانچہ اس کا تعلق لوگوں کی دنیاوی فلاح و بہبود تک محدود ہے۔ اس جمہوریت کے تحت قانون اور انسانی حقوق کے پورے نظام میں یہی جذبہ کارفرما ہے۔ اس امر سے انکار نہیں کہ مغربی ممالک نے حکومت میں عوام کی شرکت کا نظام وضع کرنے میں نہایت قیمتی تجربات کیے ہیں۔ کئی جماعتوں پر مشتمل نظام، ایک مخصوص مدت کے لیے سیاسی قیادت کا انتخاب، مختلف النوع انتخابی طریقے، انتظامیہ سے عدلیہ کی مکمل علیحدگی، قانون سازی کے لیے اداروں کا نظام جو یک ایوانی یا دو ایوانی ہوسکتا ہے، اس سیاسی نظام کے بڑے نمایاں پہلو ہیں۔
مغرب کے جمہوری تجربات کی برکتیں بغیر ملاوٹ کے نہیں تھیں۔ بعض تاریخی کامیابیاں ضرور حاصل کی گئیں لیکن مضبوط اخلاقی بنیادیں نہ ہونے کی وجہ سے ناکامیاں اور خرابیاں بھی ان جمہوریتوں کے حصے میں آئی ہیں۔ چونکہ اس نظام میں مطلق اقدار کا کوئی مقام نہیں ہے، لہٰذاکسی بات کے صحیح یا غلط ہونے کا معیار عوام کی ترنگ پر چھوڑ دیا گیا ہے، جنھوں نے اخلاقی اقدار میں بھی اسی طرح تبدیلی شروع کر دی جس طرح وہ اپنا لباس یا فیشن تبدیل کرتے ہیں۔ چنانچہ اسی طرزِعمل کے نتیجے میں بڑی بڑی غیر اخلاقی سرگرمیوں اور اخلاقی برائیوں کو گناہ یا جرم قرارنہ دینے کا چلن شروع ہو گیا، جس کے نتیجے میں انسانی معاشرہ اخلاقی پستی میں گرتا چلا گیا۔ اکثریت کی حکومت کے نظریے سے پیدا ہونے والے ذہنی اور اخلاقی رویے، نسلی، لسانی اور طبقاتی کشیدگی،اقتصادی چشمک، استحصال اور سب سے بڑھ کر ان بنیادی خوبیوں کا زوال ہے، جنھوں نے انسانی معاشرے کو باہم منضبط کر رکھاتھا۔ یہ اخلاقی بحران اور خانگی انتشار مغربی سیکولر جمہوریت کا ثمرہے۔
مغربی جمہوریت نے خوبی و معیار کی جگہ محض تعداد اور افراد کے بدلتے ہوئے رجحانات کو دے دی۔ خیر، سچ اور عدل کے مستقل معیار کے بجاے ہاتھوں کی گنتی کو شعار بنا لیا۔ تنگ دلی پر مبنی جماعتی نظام کی سیاست، جمہوری نظام کے انحطاط کا باعث بنی۔ بعض ممالک میں یک جماعتی نظام متعارف کرا دیا گیا جس کے نتیجے میں جمہوریت کے نام پرایک پارٹی کی آمریت وجود میں آگئی۔ جمہوریت کے بعض بنیادی اصولوں میں اس قدر ملاوٹ کر دی گئی کہ جمہوریت کا تصور ہی دھندلا گیا۔ جمہوری عمل اپنے بنیادی نظریات کی پٹڑی سے اُتر گیا اور ایک مذاق بن کر رہ گیا۔
کم از کم معیار کے مطابق بھی دیکھا جائے توتقریباً آدھی دنیا جمہوریت کے دائرہ عمل (realm) میں ہے۔ اوسط معیار کی رُو سے دنیا میں جمہوری ممالک کی تعداد میں کمی ہوئی ہے اور اعلیٰ معیار کے مطابق تو ایک درجن یا اس کے لگ بھگ ممالک ہی اطمینان بخش جمہوری معیار کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اس بات کا تصور کرنے کے لیے کچھ زیادہ تردد کی ضرورت نہیں کہ کسی بھی ملک پر سے جمہوریت کا لیبل کس قدر آسانی کے ساتھ ’غیر جمہوری‘ میںتبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے صرف ایک معیار سے دوسرے معیار میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ مغربی ممالک تو جمہوری طرزِ حکومت میں اتنا وقت گزار چکے ہیں کہ اب وہ جمہوری التباس سے گلو خلاصی کے مرحلے سے گزر رہے ہیں…ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ جمہوریت کیا ہے، ایک جمہوری اور غیرجمہوری نظام کی حدفاصل آج بھی بالکل واضح ہے ۔لیکن جونہی ہم لفظ جمہوریت کا اطلاق تیسری دنیا، خاص طورپر نام نہاد ترقی پذیر اقوام پر کرتے ہیں،تو جمہوری معیار اتنا گرا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ انسان حیرت سے سوچنے لگتا ہے کہ کیا لفظ ’جمہوریت‘ آج بھی اپنے اصل معانی کے ساتھ موجود ہے۔۶
معروف جریدہ فارن افیئرز کے ایک حالیہ شمارے میں تھامس کیروتھرز نے اس بات پر اظہارِ افسوس کیا ہے کہ ’’دنیا بھر میں برپا ہونے والا جمہوری انقلاب، اب ٹھنڈا پڑرہا ہے‘‘۔ تھامس نے لکھا ہے:
چند سال قبل جو بات بعض جوشیلے افراد کو متحد کر دینے والی ایک عظیم تحریک محسوس ہوتی تھی، وہ آیندہ چند عشروں میں مغربی دنیا (جس میں لاطینی امریکا، شمالی یورپ اور سابق سوویت یونین کے بعض علاقے شامل ہیں) اور غیر مغربی دنیا کے درمیان سیاسی تقسیم کو بڑھا سکتی ہے۔یہ تہذیبوں کے درمیان تصادم کی کوئی پیش گوئی نہیں بلکہ سہل پسندانہ آفاقیت (یونی ورسل ازم) کے خلاف ایک انتباہ ہے۔۷
سی بی میک فرسن نے’اژدہام کی قابل نفرت حکومت‘ سے اس وقت ’عالمی محبوب‘ کا درجہ حاصل کرنے تک کے جمہوریت کے سفر کا حال اس طرح بیان کیا ہے:
جمہوریت ایک بُرا لفظ سمجھا جاتا تھا۔ ہر کوئی، وہ کوئی بھی ہو، یہ جانتا تھا کہ: جمہوریت اپنے حقیقی معنوں میں، عوام کی اکثریت کی مرضی کے مطابق حکومت، ایک بُری بات ہوگی جو فرد کی انفرادی آزادی اور مہذب زندگانی کی تمام خوبیوں کے لیے زہرقاتل ہے۔ جمہوریت کے بارے میں یہ راے، ابتدائی تاریخی دَور سے کوئی ایک سو سال تک، ہر دانش مند فرد کی راے رہی ۔لیکن اس کے بعد صرف نصف صدی کے عرصے میں جمہوریت بہت اچھی چیز بن گئی۔۸
اگرچہ اب، خصوصاً اشتراکی روس کے انہدام کے بعد، جمہوریت بہت اچھی چیز قرار پا چکی ہے لیکن زیرک مبصر، جمہوری قراردیے جانے والے نظام حکومت کی خامیوں، تضادات، اصولوں سے انحراف اور دوسری خرابیوں سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے ،جو اب اس نظام کا خاصا بن چکی ہیں۔
تاریخ نگار ای ایچ کیر نے جمہوریت کے بارے میں ۵۰ کے عشرے میں جو کچھ کہا تھا، ۲۰ویں صدی کے آخری عشرے کے دوران بھی اس کی بازگشت سنائی دیتی رہی ۹ اور آج ۲۱ویں صدی میں قدم رکھتے وقت اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ ایک اور مبصر انتھونی اور بلاسٹر تو اس تکلیف دہ نتیجے پر پہنچا ہے کہ: ہر نوع کے بلند بانگ دعووں اور بعض کامیابیوں کے باوجودجمہوریت جدید سیاست کے ایجنڈے کی ایک نامکمل کارروائی ہے۔۱۰ ووٹ کا حق مل جانے کے باوجود خواتین اور مردوں کو اقتدار میں اپناصحیح حصہ نہیں مل سکا۔ ’بورژوا جمہوریت‘ بڑی حد تک ایک مصنوعی چہرہ ہے جس کے پیچھے رہ کر سرمایہ دار طبقہ معاشرے پر حکومت کر رہا ہے۱۱ اور اسی نے اپنی بالادستی قائم کر رکھی ہے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں خواتین کے حقوق کی تحریک کے احیا سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خواتین، مردوں کے مقابلے میں مساوی مقام اور اصناف کے درمیان مساوات کے حصول میں ناکام رہی ہیں بلکہ وہ ’جمہوری، معاشروں میں خواتین کے خلاف بدترین امتیازات کو ختم بھی نہیں کرسکیں۔۱۲یہی مصنف اس بات پر بھی افسوس کرتا ہے کہ ’’سیاسی اقتدار میں مساوات کا اصول جو ہرشہری کے ووٹ میں شامل ہے، سیاسی اقتدار کی تقسیم میں ناانصافی اور بدترین عدم مساوات کا شکار بن چکا ہے‘‘۔۱۳ چنانچہ اربلاسٹر بھی جمہوریت کے بارے میں اس نتیجے پر پہنچا ہے جو ای ایچ کیر نے اخذ کیا تھا۔ وہ کہتا ہے: ’’اس لیے ہمیں کم از کم یہ نتیجہ ضرور نکالنا چاہیے کہ عام شہری جس مقصد کے لیے سیاسی جمہوریت کے طالب تھے، یا ووٹ کا حق حاصل کرنا چاہتے تھے، وہ مقصد کسی بھی ذریعے سے پورا نہیں ہو رہا۔۱۴ اس نے بالکل صحیح طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’’یہ تصور کرنا نری حماقت ہوگی کہ مغربی جمہوریت کو ہی تمام متعلقہ بامقصد تجربات پر اجارہ داری حاصل رہے‘‘۔۱۵
میری راے میں مغربی سیکولر جمہوریت کااپنا مخصوص مزاج ہے۔ چنانچہ اس جمہوریت کی دنیا کے دوسرے خطوں کو بلاامتیاز ’برآمد‘ سے منصفانہ جمہوری اور مستحکم سیاسی نظام معرض وجود میں نہیں آسکتا۔ دنیا کے مختلف حصوں میں جو مختلف جمہوری تجربات کیے گئے ہیں، بلاشبہہ ان سے متعدد سبق سیکھے جا سکتے ہیں، لیکن مغرب کے سوا دنیا کے دیگر خطوں کے عوام، خصوصاً مسلم اُمّہ کو جمہوریت کے کسی بھی مغربی ماڈل کی اندھا دھند تقلید نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے بجاے انھیں خود اپنے نظریاتی اور تاریخی مآخذ کو کھنگالنا چاہیے اور ایسے ادارے قائم کرنے چاہییں جو ان کی دینی اقدار اور نظریات کے حامل ہوں۔ بنی نوع انسان نے جو تجربات حاصل کیے ہیں، ان سے سبق سیکھنے میں کوئی حرج نہیں اور مغربی دنیا سے بھی ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، لیکن صرف وہ نظام ، جس کی جڑیں ہماری تاریخ میں ہوں، جو ہمارے تجربات کا ماحصل ہوں، ہماری اقدار کے ڈھانچے کے اندر اور ہمارے قومی ثقافتی مزاج سے ہم آہنگ ہوں، ہمارے ممالک میں حقیقی معنوں میں کامیاب اور ثمرآور ہو سکتے ہیں۔
اسلام مغربی فلسفہ اور مذہبی لٹریچر میں استعمال ہونے والی مخصوص اصطلاح : مذہب کے محدود معانی کے مطابق مذہب نہیں ہے۔ ’اسلام، کے لفظی معانی ہی تسلیم و رضا ہیں۔ اسلامی عقیدے کے تحت بندہ خود کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دیتا ہے اور اس عہد کے نتیجے میں اللہ کی مرضی کے تابع ہو جاتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور ہدایت پر عمل کرنے کا پختہ ارادہ کرتا ہے۔ چنانچہ اوّلین اور بہترین بات یہ ہے:
یہ ایک عہد ہے کہ بندہ اس ہدایت پر عمل کرنے کا پابند ہے جو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے نازل کی ہے اور جس کا بہترین نمونہ اللہ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی حیات طیبہ کی صورت میں موجود ہے۔
مسلمان اللہ تعالیٰ کو ماننے والوں کی جماعت، یعنی اُمہ کا رکن ہے۔ وہ جماعت جو بنی نوع انسان کو سچائی کے راستے کی طرف بلانے کے لیے قائم ہوئی ہے، حق کا کلمہ بلند کرتی ہے اور غلط باتوں سے روکتی ہے۔
اسلام ایک مکمل ضابطۂ اخلاق ہے، یہ ایک جامع اور ہمہ گیر طرزِحیات ہے۔ یہ ایک ’دین، ہے جو انسانی وجود کے تمام انفرادی اور عوامی، اخلاقی اور دنیاوی، مادی اور روحانی، قانونی اور سماجی، معاشی اور تعلیمی، قومی اور بین الاقوامی پہلوئوں پر محیط ہے۔ دین ہی اس وفاداری اور تشخص کی بنیاد ہے اور شریعت وہ مقررہ راستہ ہے جو عبادت ، سماجی اور اقتصادی پالیسیوں تک زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلامی نظام سیاست کوئی آزاد رو نظم نہیں ہے، بلکہ یہ اسلامی طرز حیات کا ایک حصہ ہے اور اسے دین کے دوسرے پہلوئوں سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔
دین اسلام کے تحت زندگی ایک مکمل اکائی ہے، جب کہ ایمان ایک بیج اور نقطۂ آغاز ہے۔ اس بیج سے جو درخت پیدا ہوتا ہے اس کا سایہ انسانی وجود کے تمام پہلوئوں پر محیط ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحی جو قرآن و سنت کی شکل میں موجود ہے ، ازلی و ابدی، قطعی اور آفاقی ہے۔ یہ ایک ایسا نظم اور ڈھانچا فراہم کرتی ہے جس کے اندر زبردست قوت موجود ہے۔ یہ نظم اتنا وسیع و ہمہ گیر ہے کہ ہر زمانے کے درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ دین اسلام، انسانی نقطۂ نظر کو انتہائی وسعت بخشتا اور ایک تصور عطا کرتا ہے۔ ہمہ جہتی اقدار فراہم کرتا اور مختلف مقامات پر اور مختلف اوقات میں تفصیلات طے کرنے کے مواقع تفویض کرتا ہے۔ اسلام کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول اور آنے والی ابدی زندگی میں کامیابی کی تمنا ہے۔
دین اور معاشرہ (سوسائٹی) اور دین اور ریاست اسی طرح باہم جزولاینفک ہیں، جس طرح دین میں تقویٰ اور عبادت۔ توحید، دین کا عظیم ترین اصول ہے جس پر اسلامی زندگی کا دارومدار ہے۔ اس طرح زندگی کے ہر شعبے میں خواہ اس کا تعلق خاندان سے ہو، معاشرے سے ہو، معیشت سے ہو، سیاست سے ہو، یا بین الاقوامی تعلقات سے ہو، دین کی اصولی رہنمائی ہر شعبۂ زندگی کی رہنما اور صورت گر ہے۔ دین کی اصطلاح کا یہی جامع مفہوم ہے، جو مذہب کے محدود تصور سے یکسر مختلف ہے۔
۱- اقتدار اعلیٰ کا مالک صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ خالق، مالک، پالنے والا (رب)، قانون دینے والا اور رہنما ہے۔ انسان اس کی مخلوق، اس کا عبد اور خلیفہ ہے۔ زمین پر انسان کا مشن اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنا ہے، شریعت پرمبنی نظام قائم کرنا ہے جو انسان کی رہنمائی کے لیے بذریعہ وحی نازل کی گئی ہے، تاکہ انسان، اس کائنات میں اور اپنے خالق و مالک کی رہنمائی میں حسن و خوبی کے مطابق زندگی بسر کرے۔ ایساکرنے سے اس کو دنیا میں امن، انصاف، روحانی مسرت اور ترقی حاصل ہو گی اور آنے والی دنیا (آخرت) میں صحیح معنوں میں نجات ملے گی۔
۲- اللہ کے ہاںتمام انسان برابر ہیں اور اسی قانون کے تابع ہیں جو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ اسلامی نظام سیاست کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے اقتدار اعلیٰ اور شریعت کی بالادستی پر ہے۔ اس نظام کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی بندگی، اس سے وفاداری اور اس عزم و عہد سے عبارت ہے کہ شریعت کی پیروی کی جائے گی اور اس کو نافذ کیا جائے گا۔ قرآن حکیم کا اس بارے میں فرمان نہایت واضح اورغیر مبہم ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
خبردار رہو! اُسی کی خلق ہے اور اُسی کا امر ہے (الاعراف ۷: ۵۴)
فرماںروائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے ۔ اُس کا حکم ہے کہ خود اُس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے۔ (یوسف ۱۲: ۴۰)
اے نبیؐ، ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ جو راہِ راست اللہ نے تمھیں دکھائی ہے، اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو۔(النسائ۴: ۱۰۵)
جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں… اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں اور وہی فاسق ہیں۔(المائدہ ۵:۴۴-۴۵)
۳- انسان کا مرتبہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ کا ہے۔ یہ منصب ان سب لوگوں کو بخشا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کو ہی اپنا رب اور حاکم اعلیٰ تسلیم کرتے ہیں۔ ’خلافت‘ کا تصور عام نیابت کا تصور ہے اور اس میں سبھی مسلمان شامل ہیں، یعنی ہر مسلمان خدا کا نائب ہے۔ نیابت کا یہ بھی مطلب اور مقصد ہے کہ عوام کو محدود اتھارٹی تفویض کی گئی ہے تاکہ کاروبارِ حیات کو چلا سکیں۔ اللہ تعالیٰ کی یہ نیابت کسی مخصوص فرد کو تفویض نہیں کی جاتی اور نہ کسی خاندان، قبیلے یا گروہ کو اس کا سزاوار قرار دیا جاتا ہے، بلکہ یہ نیابت ہر مسلمان مرد و زن کو تفویض کی گئی ہے۔ چنانچہ انھی لوگوں (مسلمانوں )کویہ اختیار شوریٰ کے اسلامی اصول کے مطابق استعمال کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی آخری الہامی کتاب میں ارشاد فرماتا ہے:
اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے۔(النور۲۴:۵۵)
قرآن حکیم کے اسی حکم اور دوسرے احکامات کے مدّنظر ریاست کا جو نظریہ اُبھر کر سامنے آتا ہے، اس کے مطابق قرآن حکیم نے دو بنیادی اصول پیش کیے ہیں۔ پہلا اصول اللہ تعالیٰ کا اقتدار مطلق اور دوسرا مسلمانوں کی عوامی ’نیابت‘ (خلافت) ہے۔ چنانچہ اسلامی سیاسی نظام کی بنیاد اولاً: اللہ تعالیٰ کو قادر مطلق تسلیم کرنے اور اس کے قانون، شریعت کو بالاترین قانون تسلیم کرنے، اور ثانیاً: معاشرے پر حکومت عوام کی مرضی کے مطابق کرنے پر استوار ہے۔ جو لوگ برسرِاقتدار ہوں انھیں اُمّہ کی اور مسلمانوں کی حمایت اور تائید حاصل ہونی چاہیے کہ جو خلافت کے اصل امین ہیں۔ درج بالا قرآنی آیت سے ظاہر ہے کہ زمین پر حکومت کا وعدہ مسلمانوں کی پوری جماعت (اُمّہ) سے کیا گیا ہے،کسی خاص فرد، طبقے ، خاندان یا گروہ سے نہیں۔مسلمانوں کو جو خلافت بخشی گئی ہے، وہ عمومی نیابت کی طرح ہی ہے اور اسی کے تحت ہر مسلمان کو اور سب کو یہ فرض سونپا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُمّہ کے لیے فیصلے کرنے کے طریق کو ’شوریٰ‘ قرار دیا گیا ہے، یعنی مسلمانوں کے معاملات باہمی مشاورت سے چلائے جائیں گے۔ (امرھم شوریٰ بینھم) معاشرے کے ارکان کے طور پر تمام مسلمان برابر ہیں۔ ان کے معزز ہونے اور قیادت پر سرفراز ہونے کی کسوٹی ان کی اعتماد، تقویٰ اور اہلیت کی خوبیاں، یعنی اللہ پر مکمل ایمان، فرض شناسی اور احتساب کا شعور ہیں۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
اللہ تعالیٰ کے آخری رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: تم میں سے ہر ایک گلہ بان کی طرح ہے اور ہر شخص سے اس کی زیرنگرانی لوگوں کے بارے میں احتساب ہوگا۔
ذات پات ، رنگ و نسل اور قبائلی امتیازات ختم کر دیے گئے ہیں اور انسانوں کے درمیان حقیقی مساوات قائم کر دی گئی ہے (ہم نے اولاد آدم کو عزت بخشی ہے)۔
قرآنحکیم کے مطابق فضیلت کا انحصار تو پاک بازی اور نیکی پر ہے، جس میں علم، جسم (عمدہ صحت بدنی قوت) اور تقویٰ (خوفِ خدا اور پاک بازی)شامل ہیں۔
۴- اسلامی سیاسی نظام میں حقوق اور فرائض کے حوالے سے اطاعت کے دو نمایاں پہلو ہیں۔ اول: اللہ اور اس کے رسولؐ کی فرماں برداری اور دوم: عوام کا آزادیِ تقریر، بحث و مباحثہ، اختلافِ راے اور شرکت کا حق جس میں کسی امر میں اختلاف راے اور صاحبانِ اقتدار پر نقد و جرح کا حق شامل ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو ، اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ (النساء ۴: ۵۹)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: بہترین جہا د جابر حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے۔ نبی کریمؐ نے مزید فرمایا: اگر تم میں سے کوئی کسی برائی کو دیکھتا ہے تو ہاتھ سے اسے درست کرنا چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہ کر سکتا ہو تو اسے زبان سے بُرا کہے اور اگر وہ ایسا بھی نہ کر سکے تو وہ دل میں اس کی مذمت کرے۔ مگر آخری عمل ایمان کی کمزور ترین صورت ہے۔ (مسلم)
ان رہنما خطوط سے اسلامی نظام سیاست کی جو تصویر ابھرتی ہے وہ بالکل واضح ہے۔ مسلمانوں کے معاشرے کی بنیاد اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان سے عبارت ہے۔ اس کا سب سے بڑا ستون اللہ اور اس کے رسول پاکؐ سے وفاداری ہے۔ مسلم معاشرے میں فیصلے ان اقدار، اصولوں اور احکامِ الٰہی کے تحت ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رہنمائی اورشریعت کی صورت میں موجود ہیں۔ اس نظام میں کسی مراعات یافتہ طبقے یا پاپائیت کے لیے کوئی گنجایش نہیں۔ دنیاوی طاقت و اقتدار میں معاشرے کے تمام افراد شریک ہوتے ہیں، جو قانون کی نظر میں بالکل برابر ہوتے ہیں۔ ان سب کے حقوق اور ذمہ داریاں بھی مساوی ہیں۔ ہر فرد کے ذاتی، شہری، سیاسی، سماجی، ثقافتی اور اقتصادی حقوق کی الوہی قوانین کے تحت ضمانت دی جاتی ہے۔ حکمرانوں کو کوئی یک طرفہ استحقاق و اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ قانون کے سامنے سب یکساں ذمہ دار اور جواب دہ ہیں۔ درحقیقت حکمرانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ ان تمام حقوق کی فراہمی کی ضمانت دیں، خصوصاً معاشرے کے کمزور افراد کے حقوق کا خاص خیال رکھیں۔ شریعت میں بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے اور کسی کو ان حقوق سے صرفِ نظر کرنے یا انھیں نظرانداز کرنے کاہرگز کوئی اختیار نہیں ہے۔ آزادی اور مساوات اسلامی معاشرے کی روح رواں ہیں۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر اس کا زندگی بھر کا مشن ہیں۔ شوریٰ (مشاورت اور فیصلوں میں شرکت) اس معاشرے کا طرزِ عمل ہے، فیصلے کرنے کا عمل ہر سطح پر اور ہر معاملے میں جاری و ساری رہتا ہے، خواہ یہ فیصلے سماجی ہوں یا اقتصادی، سیاسی ہوں یاکسی بھی دوسرے امور کے بارے میں ہوں۔ حکمرانوں کو عوام کا اعتماد حاصل ہونا ضروری ہے اور وہ عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ سیاسی اقتدار و اختیار کی بنیاد شریعت کی بالادستی، عوام کی مرضی اور عوامی اعتماد پر ہے۔ حاکم صرف خدا کے سامنے ہی جواب دہ نہیں، بلکہ وہ قانون اور عوام کے سامنے بھی جواب دہ اور قابل احتساب ہے۔ کسی بھی نوع کے سیاسی انتظامات ممکن ہیں لیکن یہ شریعت کی قائم کردہ اقدار اور اصولوں کے اندر ہی ہوں گے۔ چونکہ اسلام کی رہنمائی مکمل، قطعی، آفاقی، عالم گیر اور الوہی ہے، چنانچہ اُمّہ کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنے معاشروں کی معاشرتی و تاریخی ضروریات کے مطابق مختلف ادارے اور نظام (مشینری) قائم کریں اور انھیں ترقی دیں۔ اسلام نے سیاسی نظام کا جو ڈھانچا فراہم کیا ہے، اس کے اندر رہتے ہوئے مختلف النوع انتظامات بالکل ممکن ہیں۔ بعض ایسے انتظامات کا ماضی میں تجربہ کیا جا چکا ہے۔ آج یا کل، نئے انتظامات اور نئے تجربات روبہ عمل لانا ممکن ہے کہ یہی اسلام کی خوبی اور آزادیِ عمل کی امتیازی شان ہے۔ مسلمانوں کے تاریخی تجربات کے یہی وہ روشن پہلو ہیں، جو ۱۴ صدیوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اپنی ذاتی زندگی میں بندے اور خداکے درمیان مضبوط روحانی رشتے کا قابلِ تقلید نمونہ پیش کیا ،بلکہ انھوں نے ایک ایسامعاشرہ، اور ایک ایسی ریاست بھی قائم کی، جو مسلمانوں کے سیاسی و تاریخی تجربات کے لیے ایک مثال اور نمونہ بنی رہی۔ بیعت عقبہ ثانی اور میثاق مدینہ نے وہ مضبوط بنیادیں فراہم کیں جن پر مدینہ کا معاشرہ اور ریاست کی تعمیر ہوئی۔ اُمّہ کی نظر میں، اسلامی سیاسی ماڈل حضور نبی کریمؐ اور ان کے بعدچاروں خلفاے راشدین کے ادوار میں بھی پیش کیا گیا۔ اس سیاسی نمونے کے بعض نمایاں پہلو یہ ہیں:
۱- قانون کی حکمرانی اور قانون کے سامنے مساوات ، جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے۔
۲- قرآن و سنت کی بالادستی اور جو معاملات ان دونوں مآخذ کی ذیل میں نہ آتے ہوں، ان کے بارے میںاجتہاد کرنا (نئے قانونی نکات اور مسائل کے حل کے لیے شریعت کے عمومی اصولوں کی روشنی میں فیصلہ کرنے کا نام اجتہادہے)۔
مسلم قوانین کا مجموعہ’فقہ‘ ایک عوامی، جمہوری اور شعوری عمل کے تحت تشکیل پایا ہوا ہے، جس کے دوران علما اور متعلقہ اصحاب نے علمی بحث و مباحثہ، عملی مسائل و مشکلات کے ادراک اور تجزیہ اور باہم افہام و تفہیم کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کیا۔ انفرادی فتووں اور قاضیوں کے فیصلوں کے ساتھ اجتماعی بحث ونظر کے ذریعے فقہ کا یہ سنہری اثاثہ وجود میں آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی تہذیب و تمدن کی تاریخ میں اسلامی قانون، مسلمانوں کا شاید سب سے بڑا تحفہ ہے۔ اُمت مسلمہ نے اس طرح جو قانون سازی کی، اسے رضاکارانہ طور پر تسلیم کرنے اور اس کا احترام کرنے ہی سے قانون کے مختلف مکاتبِ فکر وجود میں آئے۔ یہ تاریخ کا ایک عظیم اور منفرد پہلو ہے کہ مسلم معاشرے میں رواج اور نفاذ پانے والا قانون کبھی بھی حکمران کی مرضی سے نہیں بنایا گیا، جیسا کہ دوسرے معاصر غیر مسلم معاشروں اور ثقافتوں کا دستور رہا ہے۔ اسلام کا پورا نظام قانون، سیاسی قوت و اقتدار کی غلام گردشوں سے باہر ہی ارتقا پذیر ہوا۔ اہلِ علم و تقویٰ کے بنائے ہوئے اس قانون کے نفاذ کے بعد حکمران بھی ایک عام آدمی کی طرح اس قانون کے پابند بن گئے۔ حکمرانوں کے جابرانہ اختیارات پر اسلامی قانون ایک زبردست تحدید ثابت ہوا، اور اسی کی بنا پر مسلمان معاشروں میں ایسی سیاست روبہ عمل آئی، جس میں سب لوگ واقعی شریک تھے۔
جان ایل ایسپوزیٹو اور جان وول نے اپنی (مشترکہ) تصنیف اسلام اور جمہوریت میں لکھا ہے: ’’مشرق میں مطلق العنانی کا جو تصور عرصہ دراز سے موجود ہے، اس میں طاقت اور اقتدار کی تقسیم یا حکمران کے اختیارات پر قدغن کا کوئی تصور نہیں۔ لیکن قدیم مسلم معاشروں میں اس نوع کے غیر محدود اختیارات کا کوئی وجود نہیں ملتا۔ یہ صورت احوال سیاسی ڈھانچے کے بارے میں اسلامی قانون اور حقیقی تاریخی تجربات دونوں میں پوری طرح موجود ہے۔ اسلامی معاشرے میں کسی خلیفہ یا حکمران کے احکام یا قواعد سے نہیں، بلکہ مسلم علما کے درمیان اتفاقِ راے سے قوانین مرتب کیے جاتے تھے۔ کوئی حکمران، قانون سے بالاتر تصور نہیں کیا جاتا تھا اور تمام حکمرانوں کا احتساب بھی قانون کے مطابق کیا جاتا تھا‘‘۔ ۱۶
۳- ہرسطح پر سیاسی قیادت کے اسلامی قانون کے ارتقا اور نفاذ کے اس منفرد پہلو کا ذکر اور مختلف فیصلوں کے لیے شورائی نظام سے استفادہ کیا جاتا تھا۔ پہلے چاروں خلفاے راشدین کا انتخاب (مسلمانوں کی) جمعیت ہی نے کیا تھا، اگرچہ انتخاب کا طریق کار اور پھر اس کی توثیق کا طریقہ مختلف تھا۔ اس انتخاب میں مشترکہ اصول عوام کی منظوری اور ان کا اظہارِ اعتماد ہی تھا اور خلفا عوام کے سامنے جواب دہ تھے۔ جب عوام کے مشورے اور معاونت سے انتخاب کا طریقہ ترک کردیا گیا اور خاندانی حکومت کا طریقہ در آیا تو بھی بیعت (عوام کی طرف سے حکمران کی قبولیت)کا تصور موجود رہا۔ نصیحت، شوریٰ ، اختلافِ راے، امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور احتساب کے ادارے ہر دور میں، مختلف النوع طریقوں سے اہم کردار ادا کرتے رہے۔
۴- انسانی حقوق اور عوام سے کیے گئے وعدوں، خصوصاً اقلیتوں، ہمسایہ ممالک اور دوست جماعتوں، قبائل وغیرہ کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر پوری طرح عمل کیا گیا۔ یہ عمل مسلم سیاست کا مستقل عنوان رہا۔
۵- مسلمانوں کے حکومتی تجربے میں انتظامیہ سے عدلیہ کی علیحدگی، اور ہر سطح پر عدلیہ کی مکمل آزادی ایک نمایاں پہلو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قانون کی حکمرانی اور ایوانِ عدل تک ہر شخص کی آسانی کے ساتھ رسائی مسلم معاشروں کا جزو لاینفک رہی ہے۔ اسی وجہ سے ، بڑی حد تک، مسلم مملکتوں میں من مانی حکمرانی کے مظالم سے لوگ محفوظ رہے۔ اقتدار اور اختیارات کی علیحدگی کا اصول جو خلفاے راشدینؓ کے ادوار میں شروع ہوگیا تھا۔ بعد کے ادوار میں بھی قائم رہا اور اس نظام میں بعض خرابیاں دَر آنے کے باوجود قائم رہا۔ آئین، یعنی اسلامی شریعت کی بالادستی مسلمانوں کی حکمرانی کا ناگزیر حصہ رہی۔
پروفیسر ایسپوزیٹو اور پروفیسر وول نے اس کے ایک اہم پہلو کا سلطنت عثمانیہ کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔ شاہی نظام سے منسلک علما کا یہ حق تسلیم شدہ تھا کہ وہ سلطان کے کسی بھی ایسے حکم کو کالعدم قرار دے سکتے تھے جسے وہ اسلامی قانون کے مطابق درست تصور نہیں کرتے تھے۔ اگرچہ اس اختیار کا استعمال، سیاسی وجوہ کی بنا پر ، عام نہیں تھا۔ سلطنت میں علما کے نظام کا سربراہ، شیخ الاسلام، اسلا م کے بنیادی قوانین کی خلاف ورزی کے جرم میںسلطان کی معزولی کا حکم جاری کرسکتا تھا۔ اگرچہ یہ اختیار کم کم ہی استعمال کیا گیا، تاہم سلطان ابراہیم (۱۶۴۸ئ) سلطان محمود چہارم (۱۶۸۷ئ) سلطان احمد ثالث (۱۷۳۰ئ) اور سلطان سلیم ثالث (۱۸۰۷ئ) کو ان کے ادوار کے شیخ الاسلام نے معزول کیا تھا۔ ان رسمی کارروائیوں سے حکمران کے اختیارات کی تحدید اور یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ علما ہی اسلامی آئین کے نمایندہ تھے ۔ اس سے اسلامی ورثے میں اختیارات کی مکمل اور موثر علیحدگی کا بھی اظہار ہوتا ہے۔۱۷
۶- مسلم تجربے کا ایک اہم پہلو سماجی تحفظ سے تعلق رکھتا ہے ۔جس کی بنیاد زکوٰۃ ، صدقات، وقف، انفاق، وصیت، وراثت کے تحت ترکہ چھوڑنا اور ہبہ ہے۔ اس سے مسلم معاشرے میں انسانی مساوات پر مبنی سماجی و اقتصادی نظام روبہ عمل آیا ۔جس کے باعث معاشرے کے تمام افراد کے لیے باعزت زندگی گزارنے کی سبیل پیدا ہو گئی۔ معاشرے کا اقتصادی نظام ایسا تھا کہ مستضعفین اپنے پائوں پر کھڑے ہو گئے اور سیاسی و اقتصادی عمل میں حصہ لینے لگے۔
۷- مسلم تجربے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں انفرادی اور اجتماعی طور پر اختلاف اور مخالفت کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس عمل کو کوئی اجنبی چیز تصور نہیں کیا گیا۔ ہاں، اختلاف اور فتنے میں فرق ضرور روا رکھا گیا۔ یہ بات بے حد اہم ہے کہ اسلامی قانون کے بعض اہم مکاتب فکر میں، بعض مخصوص صورتوں یا مواقع پر، پہلے سے معروف شرائط کے تحت، اختلاف بلکہ مسلح بغاوت (خروج) تک کو بھی جواز بخشا گیا ہے۔ پروفیسر ایسپوزیٹو اور پروفیسر وول تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن و سنت کی حتمی اور مطلق اتھارٹی کے باعث پوری اسلامی تاریخ میں موجود حالات پر نقد و جرح کی بنیاد فراہم ہوئی۔ اسلامی بنیاد پر مخالفت کی تحریکوں، اصلاحات اور تجدید کے عمل کو اسی بنیاد پر جواز اور وجوب ملا۔ دورِحاضر میں یہی خوبیاں آئین و دستوریت کی بنیاد بن سکتی ہیں جوریاست کی تعریف اور حزب اختلاف کو تسلیم کیے جانے کا جواز پیش کرتی ہیں۔۱۸
یہ سات اصول اسلامی حکمرانی کی بے مثال روایات کا مظہر ہیں اور اس بات کی طرف بلیغ اشارہ کرتے ہیں کہ اسلام کے تحت جمہوری حکمرانی کا ایک جداگانہ اور عمدہ نمونہ وجود میں لایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ یہ رہنما اصول عصرِحاضر کی دنیا میں اسلامی جمہوری ماڈل وجود میں لانے کے لیے تحرک اور رہنمائی کا بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔(جاری)
۱- فرانسس یوکوہاما ، The End of History and the Last Man ،(نیویارک، ۱۹۹۳ئ)
۲- سیموئل پی ہن ٹنگٹن The Clash of Civilizations? ،جریدہ فارن افیرز، ج ۷۲، شمارہ ۳ (موسم گرما ، ۱۹۹۳ئ،ص ۲۲-۴۹)۔ اسی طرح ’تہذیبوں کے تصادم‘ پر مباحثے کے لیے دیکھیے: جریدہ فارن افیرز، ج ۷۲، شمارہ ۴ اور ۵۔ ہن ٹنگٹن کی کتاب The Clash of Civilization and the Remaking of World Order (نیویارک، ۱۹۹۶ئ)
۳- ڈبلیو بی گیلی Philosophy and the Historical Understanding (لندن، ۱۹۶۴ئ)، ص ۱۵۸۔
۴- انسائی کلوپیڈیا آف اسلام
۵- رچرڈ جے کامقالہ ’ڈیموکریسی‘ Political Ideologies: An Introduction مرتبہ: رابرٹ اکلیشل، (لندن ، ۱۹۹۴ئ)، ص ۱۲۴۔
۶- انسائی کلوپیڈیا آف سوشل سائنسز، ج ۳، (میک ملن) ، ص ۱۱۳-۱۱۸
۷- تھامس کیروتھرز ، Democracy without illusion مجلہ، فارن افیرز، (جنوری ۱۹۹۷ئ)، ص ۹۰۔
۸- سی بی میک فرسن ، The Real World of Democracy (اوکسفرڈ ، ۱۹۹۶ئ)
۹- ’’آج اگر جمہوریت کے تحفظ کی بات کی جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم ایک ایسی بات کا دفاع کر رہے ہیں جسے ہم جانتے ہیں اور جو اگرچہ عشروں اور صدیوں پر محیط ایک حقیقت ہے مگر ایک خود فریبی اور دھوکا ہے۔ اصول یا ضابطے کا تعین کیا جاناچاہیے۔محض روایتی اداروں کے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ اس بات کے پیش نظر کہ قوت کا منبع کہاں ہے اور کس طرح سے اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں جمہوریت ایک متنازع مسئلہ (matter of degree ) ہے۔اگر جمہوریت کے کسی اعلیٰ پیمانے پر پرکھا جائے تو آج کچھ ممالک دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ جمہوری ہیں لیکن کوئی بھی مثالی جمہوری نہیں ہے‘‘۔ (ای ایچ کار،The New Society لندن، میک ملن، ۱۹۵۱ئ،ص ۷۶)۔
۱۰- انتھونی اربلاسٹر Democracy (اوپن یونی ورسٹی، ۱۹۹۴ئ) ، ص ۹۶۔
۱۱- ایضاً، ص ۹۶۔
۱۲- ایضاً، ص ۹۷۔
۱۳- ایضاً، ص ۹۸۔
۱۴- ایضاً، ص ۹۸۔
۱۵- ایضاً، ص ۱۰۰
۱۶- جان ایسپوزیٹو، جان وول، Islam and Democracy (نیویارک، ۱۹۹۶ئ) اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ص ۴۱۔
۱۷- ایضاً ، ص ۴۸-۴۹۔
۱۸- ایضاً، ص ۴۱۔
مغربی جمھوریت اور اسلامی شوریٰ : ایک موازنہ
مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں بہتر ہوگا کہ دونوںنظاموں کے درمیان بعض بنیادی اختلاف اور فاصلوں کا تعین کر لیا جائے اور ایسے شعبوں اور مشترکہ امور کی بھی نشان دہی کر لی جائے جن میں ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
اسلام کی حکمت عملی بے مثال ہے۔ اسلام انسان کو، اس کے روحانی اور اخلاقی وجود اورشخصیت کو مرکز بناتا ہے۔ یہ ہر فرد کی ، مرد ہو یا عورت، روحانی بالیدگی، اخلاقی ترقی اور سعادت کی زندگی ہی اسلامی نظام کا اصل مقصد رہے۔ تبدیلی کا عمل فرد کے اپنے کو تبدیل کرنے سے داخلی سطح پر شروع ہوتا ہے۔ اس کا آغاز ایک فرد میں اخلاقی حس بیدار ہونے سے ہوتا ہے جو ایک باکردار اور منصفانہ معاشرے کے قیام میں اپنا کردار ادا کرتا یا کرتی ہے۔ مسلم اُمّہ ایک عالم گیر برادری ہے۔ اسی وسیع تر اُمّہ میں چھوٹے گروپ، بستیاں اور ریاستیں بھی ہو سکتی ہیں، اس کے باوجود وہ سب ایک ہی تسبیح کے دانے ہیں۔ اسلام ایک ایسے مہذب معاشرے کی تعمیر کرتا ہے، جو صحت مند اور فعال اداروں سے عبارت ہوتا ہے۔ ریاست انھی اداروں میں سے ایک ہے۔ یہ نہایت اہم اور کئی اعتبار سے دوسرے سب اداروں سے بلند تر ہے لیکن یہ واضح رہے کہ اسلام میں سب سے بالا ادارہ اُمت مسلمہ کا ہے اورباقی سب ادارے ہر ہر مسلمان (فرد) کی تقویت کے ساتھ اُمت مسلمہ کے استحکام کے ستون ہیں۔
اسلامی معاشرے کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی اصولوں میں مکمل ہم آہنگی ہوتی ہے اور یہ سب مل کر ایک ایسے معاشرے کی تخلیق کرتے ہیں جو نظریاتی سطح پر توحید و ایمان، اتباعِ سنت، فکری یگانگت اور عدل اور احسان کے حسین امتزاج کا مظہر ہوتا ہے۔ یہ معاشرہ انسانی مساوات، اخوت، باہمی تعاون، سماجی ذمہ داری، انصاف اور سب کے لیے مساوی مواقع کی روایات کے خیر سے تعمیر کیا جاتا ہے۔ یہ قانون کا پابند معاشرہ ہوتا ہے جس میں ہررکن کے حقوق اور فرائض، جن میں اقلیتوں کے حقوق بھی شامل ہوتے ہیں، کا احترام کیا جاتا ہے۔ ریاست کا مقصد معاشرے کے ہر رکن کی خدمت اور انسانوں کے درمیان عدل کا قیام ہے۔ اسلامی معاشرے میں آمریت، جوروجبر اور استبدادی مطلق العنان حکومت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔
اسلامی ریاست سیکولر جمہوریت سے بالکل مختلف ہوتی ہے، کیونکہ اسلامی ریاست عوام کے اقتدار اعلیٰ کے نظریہ تسلیم نہیں کرتی۔ مسلم ریاست میں اللہ تعالیٰ ہی قانون ساز ہے اور شریعت ہی ریاست کا قانون ہے۔ جو بھی نئے نئے مسائل درپیش ہوں، ان سے نمٹنے کے لیے شریعت کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے حل دریافت کیے جاتے ہیں۔ یہ بات سیکولر جمہوریت اور مسلم ریاست کے درمیان سب سے بڑا اختلاف ہے۔
جہاں تک قانون کی حکمرانی کے اصول، بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ، عدلیہ کی آزادی، اقلیتوں کے حقوق، ریاست کی پالیسیوں اور حکمرانوں کے عوام کی خواہش کے مطابق انتخاب کا تعلق ہے، اسلام اپنے دائرۂ کار کے اندر رہتے ہوئے ان سب امور کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ ان میں سے بعض امور کے متعلق اسلام اور مغربی جمہوریت کے درمیان بعض مشترکہ بنیادیں موجود ہیں اور ان تمام میدانوں میں مسلمان اپنے معاصر مغربی ممالک کے تجربات سے استفادہ کر سکتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی مسلمانوں کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن دونوںنظاموں کے قوانین کے منابع اور فطرت میں چونکہ بنیادی اختلاف ہے لہٰذا ان اساسی امور میں دونوں نظام ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں اور اپنا اپنا جداگانہ تشخص اور مزاج رکھتے ہیں۔
اسلامی ریاست میں شریعت کو بالادستی حاصل ہے۔ اس کے باوجود یہ کوئی مذہبی حکومت (تھیاکریسی) نہیں ہوتی، جیسی کہ تاریخ میں مذکور فرعونوں، بابلیوں، یہودیوں، مسیحیوں، ہندوئوں یا بودھوں کی حکومتیں گزرچکی ہیں۔
ان مذہبی حکومتوں اور اسلامی حکومت میں بنیادی فرق ہے۔ یہ مذہبی حکومتیں اگرچہ’خدائی حکومت‘ کی دعوے دار تھیں، لیکن وہ ’خدائی حکومت‘ ایک مخصوص مذہبی طبقے کی حکومت ہوتی تھی،جس کے حکمران کا ہر لفظ قانون تھا، جسے نہ تو کوئی چیلنج کر سکتا تھا اور نہ اس کے خلاف آواز بلند کر سکتا تھا۔ مگر اسلام میں ایسا کوئی حاکم مذہبی طبقہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی اقتدار اعلیٰ کا مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے اور جواس کی مرضی ہے، وہ قرآن و سنت کی صورت میں موجود ہے۔ شریعت کا سبھی کو علم ہے۔ یہ کوئی ایسا خدائی راز نہیں ہے جس کاعلم صرف پادریوں کی طرح صرف مفتی یا مذہبی رہنما کو ہو۔ اسلام میں ایساہرگز کوئی امکان نہیں کہ لوگوں کا کوئی گروہ دوسروں پر اپنی ذاتی مرضی ٹھونس سکے یا اللہ کے نام پر دوسروں پر اپنی ترجیحات کو نافذ کر سکے۔ اسلامی نظام میں قوانین کھلے بحث و مباحث کے بعد ہی تشکیل دیے جاتے اور نافذ کیے جاتے ہیں۔ سب لوگ اس عمل میں شریک ہوتے ہیں۔
ا - شریعت جو اللہ تعالیٰ کی مرضی اوررضا کی حامل اور اس کا مظہر ہے، بالکل اصل صورت میں محفوظ اور موجود ہے۔ اس میں کسی نوع کی کوئی آمیزش نہیں ہوئی اور نہ بدلے ہوئے حالات میں کسی تبدیلی یا کسی کی مداخلت سے اس میں کوئی تبدیلی ممکن ہے۔
ب- اسلام میں مذہبی متوسلین کا کوئی طبقہ نہیں اور محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ترجمان ہے۔ اللہ کی رہنمائی مکمل ہو چکی، اب یہ اُمّہ کا کام ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کو سمجھیں، اس کا ادراک کریںاور انسانی معاشرے کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اس پر عمل پیرا ہوں۔
ج- فرد معاشرے کا بنیادی عنصر ہے۔ اسلام، فرد کی آزادی، قانون کی حکمرانی ، مخالفانہ آرا اور مخالفوں کی توقیر کی ضمانت خود دیتا ہے۔ اہل دانش اور عوام آزادی کے ساتھ اپنے مسائل پر بحث مباحثہ کر سکتے ہیں اور باہم مشاورت کے ذریعے ان کا حل نکال سکتے ہیں۔ پوری اسلامی فقہ ایک ایسے عمل کے ذریعے فروغ پذیر ہوئی ہے، جس کے دوران اُمّہ اور اس کے نمایندوں نے عام بحث مباحثہ میں حصہ لیا۔ اسلامی ریاست اور معاشرے کا انسانوں کی طبیعی اور دنیاوی مشکلات و مسائل سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور وہ انصاف اور سماجی بہبود کے اصولوں کے مطابق ان مشکلات و مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔
بلاشبہہ جسے زندگی کا سیکولر (دنیاوی) حصہ کہا جاتا ہے اس سے اسلام اور مسلمانوں کا تعلق ہے لیکن اسلامی اور سیکولر رویوں میں ایک بنیادی فرق ہے۔ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ دنیا کی ساری زمین میرے لیے مسجد کی مانند ہے۔ چنانچہ اسلام کا دنیا کے تمام حصوں، علاقوں سے گہرا تعلق ہے۔ اسلام نہ شرقی ہے اور نہ غربی، بلکہ صحیح معنوں میں ایک عالم گیر اور آفاقی نظام ہے۔ اسلامی نظام انسانی زندگی کے تمام روحانی اور دنیاوی معاملات پر محیط ہے۔ اس حد تک اسلام کاسیکولرزم سے کوئی تنازع نہیں ہے۔ مغرب میں سیکولرزم کے غلبے کی وجہ مذہب کا سیکولر معاملات سے لاتعلق ہوجانا اور دنیاوی زندگی کو شیطانی قوتوں کے حوالے کر دینا تھا۔ یہ پوری تحریک دراصل ان مذہبی روایات کا رَدّعمل تھی جن کی رو سے سیکولر دنیا کو نظرانداز کیا گیا اور اپنا دائرہ عمل کو صرف روحانی دنیا تک ہی محدود رکھا گیا تھا۔
اسی طرح سیکولرزم کی تحریک کو تقویت دینے والا ایک دوسرا سبب مذہبی عدم رواداری تھی جس میں جبر کے ذریعے ایک مذہب بلکہ ایک فرقے کے نظریات کو دوسرے تمام فرقوں پر مسلط کیا جاتا تھا اور ایک سے زیادہ نقطہ ہاے نظر کو کفر اور بغاوت قرار دیا جاتا تھا۔ اس کے برعکس اسلام تکثیر (pluralism) اور رواداری کے اصول کو تسلیم کرتا ہے (قرآن حکیم کا ارشاد ہے: ’’دین میں کوئی جبر نہیں)۔ تمام انسانوں کو پیشہ اور مذہب کے معاملے میں انتخاب کا حق دیتا ہے۔ اسلام ثقافتی کثرت اورکسی بھی سماج کے اندازِ حیات کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ سب کچھ اسلام کے منشا کے مطابق ہے۔
سیکولرزم سے اسلام کا بنیادی اور جوہری اختلاف اس کے اس دعوے کے باعث ہے کہ سیکولرزم، مذہب سے کسی نوع کے تعلق، اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی اور مطلق اخلاقی اقدار کے بغیر تمام انسانی مسائل کا حل پیش کرتا ہے، یہ بات زندگی کے بارے میں اسلامی رویے کے بالکل برعکس ہے۔ انھی وجوہ کی بنا پر اسلام اور سیکولرازم، دو بالکل مختلف دنیائوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔
اگرچہ اب کمیونزم اور فاشزم کوئی غالب سیاسی نظریات نہیں رہے، لیکن ایسے لوگ آج بھی موجود ہیں جو ان دونوں نظریات کے مختلف پہلوئوں سے اتفاق رکھتے ہیں۔ یہ دونوں نظریات مغربی تہذیب و تمدن کے تناظر میں بعض تاریخی اور سماجی و سیاسی حالات کی پیداوار ہیں۔ ان کی تہ میں ریاست کی مطلق العنانیت کا تصور کارفرما رہا ہے۔ مگر یہ دونوں نظریات بھی مختلف النوع آمریت کے ہی نمایندہ تھے اور ان کے تحت بھی مطلق العنان حکومت ہی قائم ہوتی رہی۔ اگرچہ ان دونوں نظاموں میں انتخابات اور پارلیمنٹ کے قیام کاڈھونگ بھی رچایا جاتا رہا۔
اسلام میں یک طرفہ یا مطلق العنان اقتدار کا کوئی تصور نہیں۔ اسلام میں ریاست تو اُمت کا ہی ایک ادارہ اور شعبہ ہوتا ہے۔ وہ فرد کی مرکزیت، اس کے حقوق اور سیاسی فیصلوں میں فرد کے کردار کی توثیق کرتا ہے۔ اسلامی ریاست، قانون کی تخلیق ہوتی ہے۔حکمران، ریاست کے دوسرے شہریوں کی طرح ہی قانون کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی ریاست اپنے عمال اور کارپردازوں کو وہ خصوصی مراعات اور تحفظات بھی فراہم نہیں کرتی جو کئی مغربی ملکوں کے عمال کو عام طور پر حاصل ہوتی ہیں۔
اسلام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض کردہ مقدس امانت ہیں۔ فرد کو معاشرے کی بنیادی اکائی اور ایک پاک باز مخلوق تصور کیا جاتا ہے، جو اپنے اعمال کے لیے آخرکار اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ ہر انسان ایک قابل احترام وجود ہے اور اخلاقی طور پر اپنے تمام اعمال اور پسند و ناپسند کے لیے دنیا اور آخرت میں بھی جواب دہ ہے۔ فرد کو معاشرے میں عقل و دانش اور سماجی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ اپنا رویہ متعین کرنا ہوتا ہے، لیکن وہ ریاست کی مشین کا کوئی بے جان پرزہ نہیں ہوتا۔ اس اعتبار سے اسلام کے سیاسی نظم اور ہمارے دور کے مطلق العنان اور آمرانہ نظاموں کے درمیان بے حد فرق ہے۔
اسی تقابلی تجزیے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اسلام کا سیاسی نظام ، دوسرے سیاسی نظریات کی بعض باتوں میں مماثلت اور مشابہت کے باوجود، بے مثال ہے۔ اسلام، اساسی اعتبار سے ایک مکمل نظام ہے۔ اس کا مقصد ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جس میں رہتے ہوئے ایک اچھے اور نیک انسان کو یہ محسوس نہ ہو کہ وہ تو کسی اجڈ معاشرے میں پھنس گیا ہے یا انسانوں کو یہ احساس نہ ستائے کہ وہ تو جانوروں کے کسی باڑے میں دھکیل کر بند کر دیے گئے ہیں۔ اسلام تمام انسانوں کی ذہنی اور مادی نشوونما، ساتھ ساتھ، چاہتا ہے تاکہ انسان امن اور انصاف کے ساتھ زندگی گزارسکیں۔ زندگی کی اعلیٰ اقدار و نظریات کی پرورش کر سکیں، جن کے نتیجے میں وہ اس دنیا اور پھر آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور الوہی سعادت کے حق دار ٹھہرسکیں۔ اسلامی ریاست ایک نظریاتی، تعلیمی اور مشاورتی بنیادوں پر مبنی ریاست ہوتی ہے جو ایک ایسا سماجی و سیاسی ڈھانچہ فراہم کرتی ہے جس میں حقیقی جمہوریت پھل پھول سکتی ہے۔ اس میں ایک طرف مستقل اقدار کا دائمی فریم ورک ہے جس میں پوری سیاسی اور اجتماعی زندگی مرتب ہوئی ہے تو دوسری طرف اجتہاد کے ذریعے وقت کی بدلتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کابھرپور سامان ہے۔
مجھے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کہ مسلمان اپنی تاریخ میں اس نظریے پر مکمل طور پر عمل کرسکے ہیں۔ بلاشبہہ خلافت راشدہ اس کا عملی نمونہ اور ایک مکمل paradigm کا مظہر تھا مگر بعد کے ادوار میں اصل ماڈل سے انحراف اور انحراف کے بعد اصل کی طرف مراجعت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا ہے۔ البتہ اصل ماڈل ہی تمنائوں کا محورو مرکز رہا ہے اور آج بھی اسی آورش کی روشنی میں تعمیرنو کی جدوجہد مطلوب ہے۔
معاصر مسلم دنیا کو، تاریخ میں پہلی بار، ایک منفرد چیلنج کا سامنا ہے۔ مسلمانوں کو اقتدار اور بالادستی حاصل نہیں رہی اور پوری مسلم دنیا نوآبادیاتی حکمرانوں کے پائوں تلے دبے ہوئی ہے۔ نوآبادیاتی اور سامراجی غلبے کی اس طویل، اندھیری رات کے دوران، جو تقریباًدو صدیوں پر محیط ہے، مسلمانوں کو ذہنی، اخلاقی، معاشی اور ثقافتی طور پر بھی سخت نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ اس طویل ابتلا کا بدترین نقصان یہ ہوا کہ وہ اسلامی ادارے بتدریج ٹوٹ پھوٹ اور انحطاط کا شکار ہو گئے، جن کے باعث مسلم دنیا تقریباً ۱۲ صدیوں تک اپنے پائوں پر کھڑی رہی اور اندرونی و بیرونی چیلنجوں کاکامیابی سے مقابلہ کرتی رہی۔ سامراجی حکومتوں کے ادوار میں ہی مغرب سے درآمدشدہ کئی ادارے اسلامی مملکتوں میں رائج کیے گئے۔ اسے دوسروں کو نام نہاد تہذیب سکھانے کے مشن کاحصہ (white man's burden) قرار دیا گیا لیکن درحقیقت یہ سامراج کا بدترین استحصالی عمل تھا۔ چنانچہ اس استحصال کی وجہ سے قانون، عدلیہ، معیشت، تعلیم، انتظامیہ، زبان و ادب، فنون لطیفہ، فن تعمیر غرض معاشرے کے تمام عناصر کو زبردستی مغربیت کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی گئی۔
نوآبادیاتی ، سامراجی نظام کے دوران مسلم معاشرے کے اندر سے ایک نئی قیادت پیدا کی گئی، جسے مورخ آرنلڈ ٹائن بی نے ’بابو کلاس‘کا نام دیا ہے۔ یہ لوگوں کا ایک ایسا طبقہ تھا جس کی جڑیں اپنے مذہب، ثقافت اور تاریخ میں نہیں تھیں اور جس نے نوآبادیاتی حکمرانوں کے سائے میں اپنا نیا تشخص بنانے کی کوشش کی۔ اس طبقے نے نہ صرف حکمرانوں کی اقدار اور اخلاقی طرزِ عمل اپنانے کی سعی کی، بلکہ مقامی اور بیرونی مفاد پرستوں سے مل کر حکمرانوں کے مفادات کا تحفظ بھی کیا۔ غیر ملکی غلامی سے نجات کے لیے عوامی تحریک بنیادی طور پر، آزادی کے تصور اور ایمان کی قوت سے عبارت تھی۔ مسلم دنیا میں نیشنلزم کی قوتوں نے بھی اسلامی تشخص قائم کر لیا تھا لیکن اس ’بابو طبقہ‘ اور اس کے زیراثر حلقوں نے مغربی اقدار کو ہی حرزِ جاں بنائے رکھا اور شعوری یا غیر شعوری طور پر سامراجی قوتوں کے ایجنٹوں کا کردار ادا کیا(۲۱)۔ آزادی کے بعد، ان ملکوں میں قیادت بڑی حد تک اسی مغرب زدہ قیادت کے ہاتھ میں آئی یا لائی گئی جن کی سیاسی تربیت بھی سامراجی دور میں ہوئی تھی۔ اس قیادت کا تعلق مغرب کی ثقافت اور ان کے سیاسی عزائم سے ہی برقرار رہا۔ یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ عالم اسلام میں صرف سرحدوں کا تعین ہی غیر ملکی سامراجی آقائوں نے نہیں کیا تھابلکہ نئے ادارے اور نئی قیادت بھی سامراجی دور کی ہی پیداوار تھی۔عالم اسلام میں اس وقت جو بحران اور بے اطمینانی محسوس کی جا رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہی صورت احوال ہے۔
احیاے اسلام اور سیاسی عمل میں عوامی شرکت اور ان کے ذریعے تبدیلی کا عمل جو جمہوریت کی روح ہے ایک ہی صورت حال کے دو پہلو ہیں۔ اقتدار میں موثر عوامی شرکت اور اسلامی تصورات کے مطابق معاشرہ، نیز مسلم سیاست کی تشکیل نو بھی اسی عمل کا حصہ ہیں۔ یہ کام صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ عوام اور حکمرانوں کے درمیان باہمی اعتماد، ہم آہنگی اور تعاون موجود ہو۔ لیکن جن حکمرانوں نے سامراجی آقائوں سے ہی اقتدار کی وراثت پائی ہے ان کی اور عوام کی نظریاتی،اخلاقی اور سیاسی سوچ ایک جیسی نہیں ہے۔ حکمران معاشرے اور اس کے اداروں کو مغربی اقدار و نظریات اور مغرب کے نظریاتی نمونوں، سیکولرزم ، قوم پرستی، سرمایہ داری اور نوآبادیاتی نظم کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے ’زیرتسلط‘ ملکوں میں ایسے قوانین، ادارے اور پالیسیاں روبہ عمل لانا چاہتے ہیں جو مغربی نمونوں سے اخذ کی گئی ہیں مگر عوام یہ سب کچھ اپنے ایمان (معتقدات) اقدار اور امنگوں کے منافی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر حصولِ آزادی کے باوجود حکومتی نظام بعض استثنائوں کے ساتھ جابرانہ اور مطلق العنانیت پر مبنی رہا۔
تاریخ کا سبق تو بڑا ہی واضح ہے اور وہ یہ کہ: مسلمان ممالک کو سیکولر مملکت بنانا اور مغربی رنگ میں رنگنا، یک طرفہ اور جابرانہ قوت کے بغیر ممکن نہیں۔ اقتدار میں عوام کی شرکت اور حصے پر مبنی حقیقی جمہوری نظام اور اسلام میں کوئی عدم مطابقت نہیں۔ اس کے برعکس عوام کی آزادی، بنیادی حقوق، اقتدار میں عوام کی شرکت پر مبنی جمہوریت اور اسلامی نظام فطری حلیف ہیں۔ اصل تصادم تو عوام کی اسلامی امنگوں اور حکمران طبقے کے سیکولر مغربی نظریات اور پالیسیوں کے درمیان ہے۔ چنانچہ مسلمانوں پر جابرانہ اور استبدادی قوت کے بغیر غیر اسلامی نظریات و تصورات اور قوانین مسلط نہیں کیے جا سکتے۔ اصل تضاد ان دونوں (اسلامی اور مغربی) تصورات میں ہے اور حقیقی جمہوریت مغربی سیکولر بلڈوزر کا پہلا شکار ہے۔ امریکا کے ایک ماہر عمرانیات فلمر ایس سی نارتھ روپ (F.C. Northrop) نے گہرے شعور کے ساتھ کہا ہے: ’’مجھے یقین ہے کہ یہی وجہ ہے جو اس قسم کے (مثلاً سیکولر) قوانین عام طور پر پہلے آمر حکمران ہی نافذ کرتا ہے۔ ایسے قوانین کسی عوامی تحریک کا نتیجہ تو ہو نہیں سکتے کیونکہ عوام تو پرانی روایات کے حامل ہوتے ہیں‘‘(۲۲)۔
پروفیسر ویلفرڈ کینٹ ول اسمتھ نے پاکستان کی صورت حال کے حوالے سے نہایت دل چسپ بات کہی ہے: ’’ایک مشرقی ملک کی حیثیت میں کوئی مملکت جب صحیح معنوں میں جمہوری مملکت بن جاتی ہے تو وہ اپنی فطرت کا اظہار کرتی ہے، چنانچہ وہ جتنی جمہوری ہو گی، اتنی ہی مغربی رنگ سے دُور ہوتی چلی جائے گی… یہاں تک کہ اگر پاکستان ایک حقیقی جمہوری ملک ہو، محض دکھاوے کا نہیں، جس حد تک وہ جمہوری ہو گا اسی حد تک اسلامی بھی ہوگا، مغربی نہیں‘‘(۲۳)۔
کینٹ ول اسمتھ نے تو بڑے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ اسلام کے بغیر جمہوریت محض ایک بے معنی نعرہ ہے جو کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ یوں جمہوریت اپنے اسلامی ہونے کے حوالے سے ان (یعنی مسلم اُمہ) کی اسلامی ریاست کی تعریف کا حصہ بن جاتی ہے(۲۴)۔
ایسپوزیٹو اوروال بھی معاصر مسلم ریاستوں کے حوالے سے اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ موجودہ دور کی مسلم ریاستوں میں دونوں رجحانات، یعنی احیاے اسلام اور جمہوریت ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور یہ ان ریاستوں کے کردار کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ وہ معاصر مسلمانوں کے ذہن کا مطالعہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
بہت سے مسلم (اسکالر) اسلامی جمہوریت کو کھول کر بیان کرنے میں سرگرمی سے مصروف ہیں۔ ان کو یقین ہے کہ عالمی سطح پر مذہبی احیا اور جمہوری عمل، مسلم ریاستوں کے تناظر میں، ایک دوسرے کی تکمیل کر رہے ہیں۔(۲۵)
حال ہی میں دواسکالروں ڈیل ایکل مین اور جیمز پسکا ٹوری نے ’مسلم سیاست‘ کے حوالے سے ایک مطالعاتی رپورٹ میں تجویز کیا ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت جمہوریت کے بارے میں جو خیالات پائے جاتے ہیںاور جو ان کی اپنی اقدار اور امنگوں کے مطابق ہیں، ان پر نئے زاویوں سے غور کیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں میں، اسلامی ریاستوں پر مغربی طرز کی جمہوریت کا پیوند لگانے کے خلاف جو نفرت پائی جاتی ہے ، اسے بھی پیش نظر رکھا جانا ضروری ہے۔ ان دونوں اسکالروں نے اپنی بات اس طرح ختم کی ہے:
مسلم سیاست کے خصوصی تناظر میں طے شدہ مثالوں پر زور نہ دینے اور ان چیلنجوں کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے، جو مستقبل قریب میں پالیسی سازوں کو درپیش ہو سکتی ہیں۔ اس ضمن میں ضروری ہے کہ صرف مغرب زدہ اشرافیہ کی بات نہ سنی جائے بلکہ بہت سی دیگر مسلم آوازوں پر بھی توجہ دی جائے۔ اس جانب پہلا قدم، یہ معلوم کرنا ہے کہ مسلمانوں میں سندجواز اور عدل کے تہذیبی تصورات کیا ہیں؟ یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ مذہبی یا غیر مذہبی منصفانہ حکومت کا تصوربھی متعین نہیں ہے۔ مسلمانوں کے ان تصورات کی تفہیم بعض لوگوں کے اس ناروا تاثر کو دُور کرنے میں ممد ثابت ہو گی کہ دوسری اقوام کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات اکثر معاندانہ ہی ہوتے ہیں اور مسلمانوں کا طرزِ حکومت لازماً جابرانہ اور آمرانہ ہوتا ہے(۲۶)۔
اسلام اور مسلم اُمہ نے آمرانہ اور جابرانہ حکومت کو کبھی پسند کی نظر سے نہیں دیکھا۔ جہاں کہیں مسلمانوں میں آمرانہ یا استبدادانہ حکومتیں ہیں، وہ نوآبادیاتی سامراج اور مغرب زدگی کا نتیجہ ہیں۔ ان کا مسلمانوں کے تصورات، تاریخ یا مسلمانوں کی آج کی امنگوں اور آرزوئوں سے کوئی تعلق نہیں۔ مسلمان، مغرب کی سیکولر جمہوریت کو اپنے اصولوں، اقدار اور روایات سے بیگانہ تصور کرتے ہیں۔ لیکن جمہوریت کی ان شان دار روایات سے ہم آہنگی محسوس کرتے ہیں جس کا تعلق اقتدار میں عوام کی شرکت جس کے نتیجے میں انصاف کی حکمرانی، ہر سطح پر مشاورت کا عمل، فرد کے حقوق اور اختلاف کے حق کی ضمانت سے ہے ۔ وہ اس کو اشد ضروری سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی اور سیاسی ثقافت میں تکثیر کا تسلسل یقینی ہو، ان کے بارے میں ان کے اپنے تصورات اور تاریخی روایت ہے۔ چنانچہ اسلام اور جمہوریت کی اس حقیقی روح میں کوئی تصادم یا تضاد نہیں۔ بعض مسلم ممالک میں جو آمرانہ اور جابرانہ حکومتیں نظر آ رہی ہیں،وہ ان غیر ملکی اور اوپر سے بذریعہ طاقت ٹھونسی گئی روایات کا حصہ ہیں، جن کے خلاف جدوجہد میں احیاے اسلام کی قوتیں مصروف ہیں۔ اسلام اور حقیقی جمہوریت ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔ چنانچہ استبدادانہ اور جابرانہ حکومتوں کا قیام اور فروغ، ایسی حکومتیں خواہ شہری ہوں یا فوجی آمریت، منتخب شدہ ہوں یا وراثتی، یہی جمہوریت کی نفی اور بنیادی انسانی حقوق غصب کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ ایسی حکومتیں مغربیت اور لادینیت کا ثمرہ ہیں، اسلام کا نہیں۔ اسی طرح عوامی جمہوریت سے انکار اور اسے دبا کر رکھنے کا عمل اسلام کا نہیں، لادینیت اور مغرب زدگی کا ایجنڈا ہے۔ اسلامی احکام اور عوام کی مرضی، خواہشات اور امنگیں تو ایک ہی ہیں۔ جمہوری عمل یقینا نفاذ اسلام میںناگزیر پیش رفت ہے۔ اسلامی امنگوں کی تکمیل جمہوری عمل کو آگے بڑھنے سے ہی ممکن ہے۔ نوآبادیاتی دور کے بعد کے عالم اسلام کی حالیہ تاریخ میں آمرانہ نظام، سیکولرزم یاسوشلزم ایک ساتھ آگے بڑھے ہیں، جب کہ احیاے اسلام، آزادی جمہور اور اقتدار میں عوام کی شرکت ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔
نوآبادیاتی طاقتوں کے تسلط سے آزادی کے باوصف مسلم اُمہ آج بھی اپنے جمہوری حقوق، اپنی سیاست کو اپنے انداز میں آزادانہ طور پر ترقی دینے، اپنے تصورات، امنگوں اور نظریات کی روشنی میں اپنے عوام کی اقتصادی حالت بہتر بنانے اور اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے مصروف ِ جہد ہے۔ مسلم اُمہ ایسے احکام، نظریاتی جبر اور ایسے جمہوری نمونوں کے تحت زندگی گزارنے سے انکاری ہے جو اس کے دین سے متصادم ہوں، اس کی اقدار کے منافی ہوں۔ اس کی تاریخ سے لگا نہ کھاتے ہوں، اور اس کی روایات کے علی الرغم ہوں۔ اگر جمہوریت کا مطلب کسی قوم کا حق خود ارادیت اور اپنے بل پر تکمیل خودی ہے، تو یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے اسلام اور مسلمان روزِ اوّل سے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ وہ نہ تو اس سے زیادہ کچھ چاہتے ہیں اور نہ اس سے کم پر راضی ہوںگے۔
۲۱- ایچ اے آر گب، Modern Trends in Islam میں لکھتے ہیں کہ ’’نیشنلزم … اپنی مغربی توضیح میں صرف ان دانش وروں تک محدود ہے جن کا مغربی افکار سے براہِ راست یا گہرا ربط ہے۔ مگر قوم پرستی کے اس نظریے کی جب عام ذہن تک رسائی ہوئی تو اس کی ہیئت میں تبدیلی واقع ہوئی اور اس تبدیلی سے قدیم جبلی محرکات اور مسلم عوام کے قوت محرکہ کے دبائو کی وجہ سے بچنا ممکن بھی نہ تھا‘‘ ( Modern Trends in Islam شکاگو، شکاگو یونی ورسٹی پریس، ۱۹۴۷ئ، ص ۱۱۹)۔ ولفرڈ سی اسمتھ Islam in Modern History میں لکھتے ہیں: ’’مسلمانوں میں کبھی قومیت کی سوچ نے ارتقاء نہیں پایا جس کا مفہوم وفاداری یا کسی ایسی قوم کے لیے تشویش کا پایا جانا ہو، جو اسلام کی حدود کو پامال کر رہی ہو… ماضی میں صرف اسلام نے ہی لوگوں کے اندر اس قسم کے نظم و ضبط، تحریک اور قوت پیدا کی ہے‘‘۔ (Princeton N.J ۱۹۵۷ئ، ص ۷۷)۔
۲۲- فلمر ایس- سی نورتھروپ، Colloquium on Islamic Culture (پرنسٹن، ۱۹۵۳ئ) ، یونی ورسٹی پریس، ص ۱۰۹۔
۲۳- ولفرڈ- سی اسمتھ، Pakistan as an Islamic State (لاہور، ۱۹۵۴ئ) ، ص ۵۰۔
۲۴- ایضاً، ص ۴۵۔
۲۵- جان ایسپوزیٹو ، جان وول، op.cit ص ۲۱۔
یہ مضمون ہارٹ فورڈ سمینری امریکا کے مجلے The Muslim World (جنوری تا مارچ ۲۰۰۰ئ) میں شائع ہوا جس کا ترجمہ جناب نذیر حق نے بڑی محنت اور خوب صورتی سے کیا ہے جس کے لیے مقالہ نگار ممنون ہے۔ صاحبِ مضمون نے ترجمہ پر نظرثانی کرتے ہوئے چند اضافے کیے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دورِ جدید کی سیاسی تاریخ اور تجربات کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو جمہوریت اور آمریت کا بنیادی فرق سمجھنے میں ذرا بھی مشکل پیش نہیں آتی۔ تاہم اصطلاحات، الفاظ اور اداروں کی ظاہری شکل و صورت قدم قدم پر دھوکے اور الجھائو میں جکڑ لیتی ہے۔ اس کے باوصف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آمریت، بار بار جمہوری لبادے میں خود کو قابلِ قبول بنانے کے لیے طرح طرح کے کرتب دکھاتی رہتی ہے۔
اس سلسلے کی ایک اہم مثال تو خود انتخابات کا ادارہ ہے۔ بظاہر انتخاب کا عمل جمہوریت اور آمریت دونوں میں مشترک نظر آتا ہے۔ ہٹلر کے دور کا جرمنی ہو، یا مسولینی کی گرفت میں پھڑپھڑاتا اٹلی، اسٹالن کا روس ہو یا مارشل ٹیٹو کا یوگوسلاویہ، فرانکو کا اسپین ہو یا پنوشے کا چلی، حسنی مبارک کا مصر ہو یا موگابے کا زمبابوے___ انتخابات تو ان سب ممالک میں ہوتے رہے ہیں اور بڑے بلندبانگ دعووں اور زور و شور کے ساتھ ہوتے رہے ہیں۔ بلکہ ان ممالک میں راے دہی کا اوسط (turn-out) مغرب کے بہت سے جمہوری ممالک بشمول امریکا اور برطانیہ سے کہیں زیادہ رہا ہے مگر اس کے باوجود، ان انتخابات نے ان ممالک کو نہ جمہوری بنایا اور نہ ایسے انتخابات کو کسی نے بھی عوام کی آزادانہ مرضی کے اظہار کا ذریعہ تسلیم کیا۔
ا دستور اور قانون کو بالادستی حاصل ہوتی ہے اور کوئی بھی فرد نہ دستور اور قانون سے بالا ہوتا ہے، اور نہ اسے دستور اور قانون میں دراندازی اور ترمیم و تبدیلی یا تحریف کا کسی درجے میں بھی کوئی اختیار یا موقع حاصل ہوتا ہے۔
ب ملک میں اظہار راے، تنظیم سازی، اجتماع اور بحث و اختلاف کی آزادی ہوتی ہے، سیاسی جماعتیں برابری کی بنیاد پر سیاسی عمل میں حصہ لیتی ہیں اور عوام کے سامنے اپنا پروگرام اور اپنی کارکردگی کا میزانیہ پیش کرتی ہیں۔ ذرائع ابلاغ آزادی کے ساتھ تمام نقطہ ہاے نظر کااظہار کرتے ہیں اور قوم کے ضمیر کی حیثیت سے معلومات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ محتسب کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔
ج عدلیہ آزاد اور دستوری اختیارات سے مسلح ہوتی ہے، جو پوری مستعدی اور غیرجانب داری سے دستور کی حفاظت اور نفاذ کے ساتھ بنیادی حقوق کے باب میں ہرشہری اور ہرمظلوم انسان کی داد رسی کی ذمہ داری ادا کرتی ہے، جس کے نتیجے میں کسی کے لیے بھی فرعون بننے کا خطرہ باقی نہیں رہتا۔
د الیکشن کمیشن، انتظامیہ کی گرفت سے آزاد ہوتا ہے اور دستور کے تحت پوری آزادی اور غیر جانب داری کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتا ہے۔ الیکشن کے قواعد و ضوابط اور انتظامِ کار بھی شفاف اور ہر شک و شبہے سے بالا ہوتے ہیں اور یہ ادارہ اس کا پورا عمل برسرِاقتدار جماعت اور حزبِ اختلاف دونوں کی نگاہ میں معتبر ہوتا ہے۔
ہ جہاں اس بات کا خطرہ ہو کہ حکومت انتخابی عمل میں مداخلت کرسکتی ہے، وہاں انتخاب کے دوران غیر جانب دار عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔
اس پانچ نکاتی نقشۂ کار میں منعقد ہونے والے انتخابات کو ملک اور بیرون ملک اعتماد کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، سب اسے قابلِ بھروسہ اور قانونی و اخلاقی اعتبار سے درست تسلیم کرتے ہیں۔ اگر یہ نقشۂ کار موجود نہ ہو تو پھر انتخابات ایک ڈھونگ اور تماشے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور اس کے نتیجہ میں حکومتوں کے بننے اور بدلنے کے اس عمل میں عوام کا کردار محض ایک تماشائی کا سا بن کر رہ جاتا ہے اور خود بیلٹ بکس کا تقدس ختم اور سیاسی تبدیلی کے لیے اس کا کردار دم توڑ دیتا ہے۔
بلاشبہہ جمہوری نظام میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور پورا سیاسی عمل اسی محور کے گرد گھومتا ہے۔ نیز یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے انتقالِ اقتدار ہوتا ہے، اور عوام کی آزاد مرضی سے قیادت کا چنائو عمل میں آتاہے۔ متعین وقفوں پر ایسے ہی آزاد اور شفاف انتخابات جمہوری نظام کی پہچان ہیں۔
جماعت اسلامی پاکستان نے مارچ ۱۹۴۹ء میں دستورساز اسمبلی میں ’قرارداد مقاصد‘ کے منظور کیے جانے کے بعد سے سیاسی تبدیلی کے لیے جمہوری ذرائع اور انتخابی راستے کو اختیار کیا ہے اور وہ اس پر سختی سے قائم ہے لیکن جماعت اسلامی نے پہلے دن سے انتخابی عمل کے دستور اور قانون کے مطابق اور اس پورے عمل کو قواعد و ضوابط اور انتظامِ کار کے اعتبار سے غیر جانب دار اور شفاف ہونے کو ضروری قرار دیا ہے۔ پنجاب میں ۱۹۵۱ء سے صوبائی انتخابات سے لے کر آج تک انتخابات کی ضرورت بلکہ ان کے ناگزیر ہونے کے ساتھ ان کے صحیح ماحول میں اور صحیح طریقے سے انعقاد کو بھی لازمی قرار دیا ہے اور انتخابات کے یہ دونوں پہلوباہم مربوط اور ناقابل تفریق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں میں فرق وامتیاز اور انہیں ایک دوسرے سے بھی کاٹ دینے (de-link) کی بھرپور مزاحمت کی ہے۔
آج بھی قوم کو جو امتحان درپیش ہے، اس کا تعلق نفسِ انتخاب سے نہیں، انتخاب کے پورے نظام اور انتظامِ کار سے ہے، جس کی اصلاح کے بغیر انتخابات بے معنی ہوجاتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وقت کا آمر اور اس کے حواری انتخابی ڈھونگ رچا کر ایک فسطائی نظام کے لیے سندِجواز (legitimacy) حاصل کر لیتے ہیں، جو دستور کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے پیغامِ موت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسا عمل ملک اور قوم کو شخصی آمریت، سیاسی غلامی اور ننگے استبداد کے نظام کی جہنم میں جھونکنے کے مترادف ہوتا ہے۔ اس نظام کو چیلنج کیے بغیر اور دستوری، قانونی و انتظامی نقشۂ کار کی اصلاح کے بغیر انتخابات میں شرکت کا منطقی نتیجہ نہ صرف جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے اصول کی نفی ہے، بلکہ خود اپنے ہاتھوں سے آمریت کی زنجیروں کو مستحکم کرنا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس ناپاک اور خطرناک کھیل کا پردہ چاک کرنے کے لیے مؤثر احتجاج کی ضرورت ہے اور موجودہ حالات میں اس کا بہترین ذریعہ انتخابات میں شرکت نہیں بلکہ ان کا بائیکاٹ ہے___ واضح رہے کہ بائیکاٹ خود مطلوب نہیں، وہ احتجاج کا ایک ذریعہ ہے، تاکہ اقتدار پر قابض عناصر کے اصل عزائم کو بے نقاب کیا جاسکے اور قابل قبول انتخابات کا اہتمام ہوسکے۔
قانون کی مستند کتاب Black's Law Dictionary میں اصطلاح ’بائیکاٹ‘ کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
کسی خاص فرد یا کاروبار سے اتفاقِ راے سے معاملہ یا تجارت کرنے سے انکار تاکہ رعایتیں حاصل کی جائیں یا اُن اقدامات یا طرزِعمل سے اظہارِ ناپسندیدگی کیا جائے جو معاملات میں مستعمل ہوں۔ (ص ۱۸۹)
پینگوین کی شائع کردہ Dictionary of International Relations میں ’بائیکاٹ‘ کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے: ’’اس سے کسی ریاست یا ریاستوں کا سماجی، اقتصادی، سیاسی اور عسکری تعلقات سے منظم انکار ہے، تاکہ انہیں سزا دی جاسکے یارویے کو مطلوبہ صورت کی طرف لایا جاسکے‘‘، جب کہ اوکسفرڈ لغت براے علم سیاست اسے یوں بیان کرتی ہے: ’’ناپسندیدگی کے اظہار کے لیے وضع کردہ ایک طریقہ، مثلاً کسی اجلاس میں شریک نہ ہونا، یا کسی ملک یا کمپنی کی مصنوعات نہ خریدنا، تاکہ اُسے سزا دی جاسکے یا اُس پر پالیسی، موقف یا رویہ تبدیل کرنے کے لیے دبائو ڈالا جاسکے۔ (۱۹۹۶ئ،ص ۴۲)
تجارت ہو یا سیاست، بین الاقوامی تعلقات ہوں، یا سماجی روابط و معاملات، بائیکاٹ اظہارِ احتجاج اور مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے پُرامن ذرائع سے سیاسی قوت کے استعمال کا ایک معتبر راستہ ہے۔ نیز شدید نکتہ چینی (strictures)، پابندیاں اور بائیکاٹ سب ہی اس ترکش کے مختلف تیر ہیں۔ اسرائیل اور شمالی افریقہ کی نسل پرست اور غاصب حکومتوں کے خلاف برسوں اسے استعمال کیا گیا ہے اور اس کے قرارواقعی اثرات رونما ہوئے ہیں۔ ایران اور عراق کے خلاف بھی یہ ہتھیار استعمال ہواہے اور ہم بھی اس کا نشانہ بنے ہیں۔ خود برعظیم کی سیاسی جدوجہد میں برطانوی اقتدار کے خلاف بائیکاٹ کے ہتھیار کو بار بار استعمال کیا گیا ہے اور مکمل بائیکاٹ یا جزوی بائیکاٹ کی بحثوں میں پڑے بغیردونوں ہی شکلوں میں اس کا استعمال کیا گیا ہے، جس نے بالآخر سامراجی اقتدار کی چولیں ہلا دیں۔ اس عمل کا آغاز ۱۹۲۰ء میں ناگ پور کانگریس سے ہوا، اور اس حکمت عملی کے چار ستون تھے:
وکلا اور سیاسی جماعتیں، آج کے حالات میں ان سیاسی ہتھیاروں کو استعمال کر رہی ہیں، عدالتوں کے میدان میں بھی اور اب انتخابات کے میدان میں بھی۔ انھیں کسی اعتبار سے بھی جذباتی یا منفی اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ یہ اور دوسرے پُرامن سیاسی ہتھیار جب بھی ٹھیک طرح اور استقلال کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں، ان کے اثرات لازماً نکلے ہیں۔
البتہ جو بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے، وہ یہ ہے کہ بائیکاٹ فی نفسہٖ نہ کوئی سیاسی مقصد اور ہدف ہے اور نہ اسے مستقل حکمت عملی ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہ تو موجودہ آمرانہ نظام اور ایک غاصب گروہ کے ہاتھوں قوم کو بے دست و پا کرنے جیسے اقدامات کو قانونی تحفظ دلانے کے مذموم منصوبوں کے خلاف احتجاج کا ایک ذریعہ اور سیاسی دبائو کا وہ حربہ ہے، جس سے اس نظام کی خباثت اور اس کے ناقابلِ قبول ہونے کو ظاہر و باہر کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح ملک کو لاقانونیت، فردِ واحد کی حکمرانی اور من مانی سے نجات دلانے اور اس کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے آلۂ کار بننے کے بجاے، اس ایجنڈے کو تبدیل کر کے ایک حقیقی جمہوری اور دستوری نظام کی طرف ملک کو لانے کی کوشش ہے، تاکہ بالآخر صحیح معنوں میں آزاد، غیرجانب دار، منصفانہ اور شفاف انتخابات منعقد ہوسکیں اور ملک اور قوم جمہوریت کی طرف صحیح معنی میں پیش قدمی کرسکیں۔
ایک طرف ملک کے پورے نظامِ حکومت، دستوری انتظام، بنیادی قانون اور اداروں کو پامال کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف ستم یہ ہے کہ جمہوریت کے بڑے بڑے علَم بردار اور جمہوریت کی دعوے دار سیاسی جماعتیں صرف ’میدان دوسروں کے لیے نہ چھوڑنے‘ کا سہارا لے کر ایسے انتخابات میں شرکت کر رہی ہیں۔ یہ سب اسی ’نظریۂ ضرورت‘ کا ایک نیا اڈیشن ہے جس کی تباہ کاریاں ملک اور قوم ۱۹۵۴ء سے دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی دروبست کا حلیہ بگاڑنے کے اس عمل کا آغاز ۱۹۵۴ء میں پہلی دستورسازاسمبلی کی تحلیل اور پھر پہلے قومی انتخابات سے چند ماہ قبل اکتوبر ۱۹۵۸ء میں مارشل لا کے نفاذ سے شروع ہوا۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے نظریۂ ضرورت کے نام پر دستور کے توڑنے اور لاقانونیت کو قابل قبول قرار دے کر انہیں قانونی سندجواز دینے کے جرم کا ارتکاب کیا، اور سیاسی جماعتوں نے کمزوری دکھا کر مزاحمت کے بجاے مصالحت کا راستہ اختیار کیا۔ یہی وہ پہلی ٹیڑھی اینٹ تھی جس نے پورے قومی و قانونی ڈھانچے کو اس کی بنیادوں سے ہلاکر رکھ دیا اور پھر سیاسی نظام کی دیوار ٹیڑھی ہی اٹھتی چلی گئی۔
اسی نظریۂ ضرورت کی نئی شکل کو، پرویزی آمریت کے ایک ناقابلِ اعتبار الیکشن کمیشن اور ایک ناقابلِ قبول عبوری حکومت کے ذریعے انتخابات میں شرکت کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک قوم اس ’نظریۂ ضرورت‘ سے نجات نہیں پاتی، نہ وہ اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتی ہے اور نہ جمہوریت کی روشن صبح یہاں کبھی طلوع ہوسکے گی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کے اکھاڑے میں اترنے والے بڑے بڑے پہلوان ان انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہونے کا واویلا بھی کر رہے ہیں اور اس نظام کو چیلنج کرنے کے بجاے اس میں شریک بھی ہو رہے ہیں۔ آج ہم سب امتحان کی کسوٹی پر پرکھے جا رہے ہیں۔ وقتی، ذاتی اورجماعتی مصلحتیں ایک طرف ہیں۔ دوسری طرف اصول، دستور اور نظام کی اصلاح اور خرابی کے اس عمل کو ہمیشہ کے لیے روک دینے کی خواہش اور کوشش ہے۔
جنوری ۲۰۰۸ء کے انتخابات دراصل پرویزی آمریت کے آٹھ سالہ دور کو ایک نئی شکل میں، آیندہ پانچ سالوں کے لیے وسعت دینے کا ایک منصوبہ ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس نظام کے خدوخال کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے، تاکہ قوم اور تمام سوچنے سمجھنے والے اچھی طرح جان لیں کہ اس وقت ملک و قوم کے سامنے اصل ایشو کیا ہیں؟
۱- شخصی حکومت کو دوام: اس نظام کا سب سے نمایاں پہلو عملاً ایک فرد کی شخصی حکومت کو دوام بخشنا ہے، خواہ اس پر کیسا ہی لبادہ کیوں نہ اوڑھایا جائے اور وردی زیب تن ہویا شیروانی!
پرویز مشرف کے پورے دور حکومت کا مرکزی نکتہ صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ قومی مفاد وہ ہے جسے پرویز مشرف ’قومی مفاد‘ کہیں۔ انھوں نے بار بار کہا ہے کہ نہ دستور اہم ہے اور نہ جمہوریت۔ جسے وہ ’پاکستان‘ اور ’سب سے پہلے پاکستان‘ کہتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ ’سب سے پہلے میں___ یعنی صرف پرویز مشرف! ‘
جمہوریت میں ’قومی مفاد‘ کا سب سے بڑا ترجمان قومی دستور ہوتا ہے جس پر پوری قوم کا اجماع (consensus) ہوتا ہے اور جسے بنیادی قانون کہا جاتا ہے۔ اس دستور کے فریم ورک میں قومی مفاد وہ ہے، جس کا اظہار خود قوم اپنے منتخب نمایندوںکے ذریعے کرے اور اس قومی مفاد کی کچھ لہریں عوامی جلسوں، سیاسی جماعتوں کے اظہارِ خیال، میڈیا کے ذریعے عوام کی ترجمانی اور پبلک کی راے عامہ کے دوسرے معتبر مظاہر ہیں۔ لیکن پرویز مشرف کا فلسفہ یہ ہے کہ قومی مفاد کا تعین کرنا صرف ان کا استحقاق (prerogative) ہے۔ ان کی راے اور ان کی ذات ہی دستور، قانون، ملک، جمہوریت، عدلیہ ہر چیز پر حاوی ہے۔ یہ وہی مطعون و مذموم فلسفہ ہے جس کا دعویٰ فرانس کے بادشاہ لوئی ہفتم نے کیا تھا: ’’میں قانون ہوں‘‘۔ہٹلر، مسولینی، اسٹالین، شاہ ایران، حسنی مبارک، صدام حسین سب کی ذہنیت یہی تھی۔ اور آج پرویز مشرف انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں جس کا ثبوت وہ کچھ ہے جو پرویز مشرف نے پہلے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء میں کیا اور پھر ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو جو اقدام کیا اور جس کا تازہ ترین اظہار۱۵دسمبر کے روز فردِواحد کے ہاتھوں دستور کا حلیہ بگاڑنے کے سارے عمل کو نہ صرف دستور کا حصہ قرار دے کر کیا گیا بلکہ اپنے ہی قلم سے اپنے ان تمام اقدامات کو نام نہاد ’قانونی تحفظ و جواز‘ بھی دے دیا جنھیں بین الاقوامی میڈیا کے سامنے ’غیرقانونی (illegal) اور ماوراے دستور (extra-constitutional) ہونے کا خود ہی اعتراف کیا تھا۔
گیلپ پاکستان نے ۵ اور ۶ نومبر ۲۰۰۷ء (ایمرجنسی کے لبادے میں مارشل لا ) کے دو اور تین دن بعد جو سروے کیا، وہ قوم کے جذبات کا حقیقی ترجمان ہے:
انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام کیے جانے والے راے عامہ کے جائزے کے مطابق، جو ۱۹سے ۲۸ نومبر ۲۰۰۷ء کے درمیان ہوا، یہ بتایا گیا ہے کہ بحیثیت مجموعی، ۶۶ فی صد سے لے کر ۷۵ فی صد تک آبادی مشرف ، ان کی پالیسیوں اور اقدامات کے مخالف ہے، جب کہ ان کی تائید آبادی کے صرف ایک چوتھائی تک سکڑ گئی ہے۔ ایمرجنسی کے نفاذ کے لیے مشرف کے موقف کو آبادی کے ۶۶ فی صد نے رد کیا ہے اور ان کا خیال ہے کہ یہ سارا اقدام عدلیہ کو اس خدشہ سے میدان سے ہٹانے کے لیے کیا گیا تھا کہ وہ پرویز مشرف کو صدارت کے لیے نااہل قرار دے دے گی۔ ہوا کے رخ کا اندازہ عوام کی اس راے سے کیا جاسکتا ہے جس میں انھوں نے ’ہاں‘ میں جواب دیا ہے:
’’اگرچہ اُنھوں نے باضابطہ طور پر اُس حالت کو ختم کردیا ہے جو اُنھوں نے ۶ہفتے قبل نافذ کی تھی، مگر اس کے باوجود پرویز مشرف پر تنقید کرنے کا مطلب جیل جانا ہے۔ عدالتی نظام وکلا کے بائیکاٹ کی وجہ سے مفلوج ہوچکا ہے کیونکہ مشرف نے سپریم کورٹ کے اُن ججوں کو بحال کرنے سے انکار کردیا ہے جن کو اُنھوں نے غیرقانونی طور پر برطرف کردیا تھا۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہ بارہا انتباہ کرچکے ہیں کہ صدر کا منصوبہ ہے کہ اگلے ماہ پارلیمانی انتخابات میں جعل سازی کی جائے تاکہ اُن کی اپنی پارٹی، جوبے انتہا غیرمقبول ہوچکی ہے، برسرِاقتدار رہے۔
حقیقت میں اُن کی واحد کامیابی یہ ہے کہ اُنھوں نے سپریم کورٹ کے ہاتھوں اپنی برخاستگی سے اپنے آپ کو بچایا ہے۔ اس کی قیمت یہ ادا کی گئی ہے کہ ملک کو مزید غیرمستحکم کردیا گیا ہے‘‘۔
کلدیپ نیر، مشرف صاحب کے مداح رہے ہیں، وہ اپنے مضمون میں واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے انٹرویو کی روشنی میں موصوف کی خودپسندی اور خودآرائی پر یوں اظہار کرتے ہیں:
بدقسمتی سے مارشل لا انتظامیہ کی طرف سے دستور میں بار بار ترامیم کی گئی ہیں، لیکن جس انداز سے مشرف نے اِسے مسخکیا ہے وہ سب پر بازی لے گئے ہیں۔ اُنھوں نے ایسے وقت میں عدلیہ کو برباد کردیا کہ جب اس کی آزادی کی طرف جمہوری ممالک بشمول بھارت میں رشک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا تھا۔ عدلیہ کے علاوہ مشرف نے میڈیا کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے باوجود بھی مشرف نڈر بنے ہوئے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو سے اُن کے مستقبل کے عزائم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جب اُن سے سوال کیا گیا کہ وہ وردی اُتار دینے کے بعد فرق محسوس کریں گے تو مشرف نے جواب دیا: ’’فوج کا انتظام چیف آف اسٹاف کے حوالے ہے جو اپنے کام سے انہماک رکھتا ہے اور میں پاکستان کا صدر بن جائوں گا۔ اگر دونوں ہم آہنگ رہیں تو صورت حال بہتر رہے گی‘‘۔ پھر ایک اور سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہا کہ ’’میں چیف آف اسٹاف کو مقرر کروں گا‘‘۔ اس میں وزیراعظم کا کوئی ذکر نہیں جو عوام کا منتخب نمایندہ ہے۔ ایمرجنسی کا نفاذ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ سپریم کورٹ سے اپنے آپ کو بچایا جاسکے۔ (ہندستان ایکسپریس، ۱۳ نومبر ۲۰۰۷ئ)
پاکستان میں نہ جمہوریت ہے اور نہ استحکام۔ جنرل پرویز مشرف کی یہ اُلٹی منطق ہے کہ: آرمی ڈکٹیٹر نے پاکستان کو جمہوریت عطا کی ہے اور مارشل لا کا سایہ بھی موجود ہے تاکہ دستور کی حفاظت کی جائے۔ عدلیہ پر اُنھوں نے جو تازہ ترین حملہ کیا ہے، وہ اُن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سپریم کورٹ کے انتہائی مؤثر ۱۷ میں سے ۱۲ ججوں کو یک قلم برخاست کرنا ہے۔ ان میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری گرفتار ہیں۔ ان کی جگہ فوج کے منتخب کردہ خوشامدی لگا دیے گئے ہیں۔ اسی وجہ سے جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ جمایا۔
یہ ہے شخصی حکمرانی کا وہ آہنگ، جو پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دورِ حکومت کا حاصل ہے۔ دستور مملکت جس کی پابندی کا حلف اس نے اٹھایا ہے، اس کوبار بار تارتار کرنے کا یہ انداز! مشرف صاحب جب چاہیں تلوار کی نوک سے دستور کے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالیں۔جس ادارے کو چاہیں تباہ و برباد کرڈالیں، جس کی آزادی چاہیں سلب کرلیں، بیرونی حکومتوں سے جو چاہیں عہدوپیماں کرلیں، اپنی ملازمت میں جب چاہیں اور جن مراعات کے ساتھ چاہیں توسیع کرلیں، عدالتِ عالیہ کے جس جج کو چاہیں گردن دبوچ کر باہر نکال دیں، میڈیا پر جب چاہیں من پسند قدغنیں عائد کردیں اور دستور کا حلیہ بگاڑ کر اپنے اقدامات کو خود ہی تحفظ بھی دے ڈالیں___ یہ ہے اس شخص کا طرزِ حکمرانی۔ کیا اس طرزِ حکمرانی میں جمہوریت، قانون کی بالادستی اور اداروں کے استحکام اور انتخابات کے ذریعے سیاسی قیادت کی تبدیلی کا کوئی تصور کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بالغ نظر سیاسی رہنما ہوں یا بار اور بنچ (Bar & Bench)کے سوچنے سمجھنے والے عناصر___ سب یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ پرویزمشرف کسی بھی صورت میں منظور نہیں، خواہ وردی میں ہو یا وردی کے بغیر۔ اور عدالتِ عالیہ کو اسی فیصلہ سے روکنے اور اپنی ذات کو ملک پر مسلط کرنے کے لیے ایمرجنسی اور عبوری دستور جو دراصل پرویزی دستور ی آرڈر (PCO) تھا، اس کا راستہ اختیار کیا گیا۔ اسی پی سی او کو اب پوری عیاری سے دستور کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور انتخابات کا ڈراما اسی کے تحت اسٹیج کیا جارہا ہے۔
۲- ملکی آزادی اور خودمختاری پر زد: پرویزی تلوار کی دوسری زد ملک کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری پر پڑی ہے۔ دوسرے ممالک، خصوصیت سے امریکا اور اس کے زیراثر ممالک، جس درجے میں اور جس نوعیت کی مداخلت کا نشانہ آج پاکستان کو بنا رہے ہیں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ قائداعظم نے تو لارڈ مائونٹ بیٹن تک کو عارضی طور پر گورنر جنرل ماننے سے انکار کردیا تھا۔ جب اس وقت کی پاکستانی فوج کے برطانوی کمانڈر نے سربراہ ِ مملکت کے احکام ماننے میں تردّد کا راستہ اختیار کیا تو ان سے بھی خلاصی حاصل کرلی گئی، لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ امریکا کے سفارت کار وائسراے کا سا مقام حاصل کرچکے ہیں۔ ان کے تیسرے درجے کا افسر بھی صدرِ مملکت، فوج کے سربراہ، آئی ایس آئی کے چیف اور جس سطح کے حکام سے چاہیں ملاقات کرتے ہیں اور احکام جاری کرتے ہیں۔ صدر بش سے لے جارج گیٹس تک کھلے الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ: ہم جب ضرورت سمجھیں گے پاکستان کی سرزمین پر اپنے اہداف کے حصول کے لیے بلاواسطہ فوجی کارروائی کریں گے___ اور وہ صرف یہ دعویٰ ہی نہیں کر رہے، بلکہ عملاً متعدد بار افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج پاکستان کی حدود میں کارروائیاں کرچکی ہیں اور پرویزمشرف کی حکومت کو احتجاج کی توفیق بھی نہیں ہوئی بلکہ چند مواقع پر تو غیرت و حمیت کو دفن کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا گیا:’’ وہ کارروائی امریکا نے نہیں خود ہم نے کی تھی‘‘۔
بات صرف دہشت گردی کے خلاف امریکا کی نام نہاد جنگ اور اس میں پاکستان کے کردار تک محدود نہیں، معاشی پالیسیوں سے لے کر تعلیمی پالیسی تک اور اس سے بھی بڑھ کر اب پاکستان کے لیے مستقبل کی قیادت کا اصل انتخاب اور ان کی ’رسم تاج پوشی‘ تک واشنگٹن کے دستِ شفقت کے ذریعہ ہو رہی ہے۔ پرویز مشرف کو کن کن کے ساتھ اشتراکِ اقتدار کرنا چاہیے اور امریکا کے چہیتوں کو ملک میں لانے اور اقتدار کے منصب تک پہنچانے کے لیے ان کے کن کن جرائم کو معاف کرنا اور قومی مصالحت کے نام پر کرپشن کے کن کن داغوں کو دھونے اور ملک اور ملک سے باہر مقدمات کو واپس لینا ہے؟ یہ بھی امریکا اور اس کے گماشتوں کے اشاروں پر طے ہو رہا ہے۔ امریکا ہی نہیں اب تو یورپ اور شرق اوسط کے سفرا بھی ملکی سیاست کے دروبست کو اپنے ڈھب میں ڈھالنے میں مصروف ہیں۔ امریکا نے ۲۰۰۷ء میں ایک نہیں بلکہ دو ایسے قوانین دونوں ایوانوں سے پاس کرالیے ہیں، جن کے تحت پاکستان کو دی جانے والی امداد کو صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ ہی نہیں، بلکہ ملک کی اندرونی سیاست، تعلیم اور سب سے بڑھ کر ملک میں سیکولرزم اور امریکا کی دل پسند ’روشن خیالی‘ کے فروغ سے مشروط کردیا گیا ہے۔ پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کی غیرت نے اس ظلم یا بہ الفاظ صحیح تر غلامی کو بھی گوارا کرلیا ہے اور اس لیے کرلیا ہے کہ تاکہ ہرسال چند سوملین ڈالر حاصل ہوتے رہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ بڑے ہی اہم امور پر اب ہماری خارجہ سیاست کی صورت گری امریکا اور بیرونی قرضے اور امداد دینے والے ادارے کر رہے ہیں۔ بھارت سے دوستی، کشمیر کے مسئلے پر یو ٹرن اور کشمیر کی تحریک مزاحمت سے بے وفائی، اسرائیل سے پینگیں بڑھانے کا خطرناک اور شرمناک کھیل بھی اسی قوم فروشی کے مظاہر اوراس میں پرویز مشرف اور خورشید محمود قصوری کے ساتھ بے نظیر بھٹو بھی اپنے اپنے انداز میں اور ’حسب توفیق‘ امریکا اور اسرائیل کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے شریک ہیں۔
یہ صرف پرویز مشرف کے دور میں ہوا ہے کہ پاکستان کے وزیرخارجہ نے اسرائیل کے وزیرخارجہ سے ملاقات کی ہے۔ پرویز مشرف نے امریکن جیوش کانگرس سے نہ صرف خطاب کیا ہے، بلکہ اسرائیل سے سلسلۂ کلام شروع کرنے اور اسرائیل اور فلسطینی قیادت کے درمیان کردار اداکرنے کی باتیں کی ہیں۔ پاکستان نے ۶۰سال میں پہلی بار اقوام متحدہ میں اسرائیل کے پیش کردہ ریزولیوشن کے حق میں ووٹ دیا ہے، جب کہ ان عرب ممالک نے بھی، جو ضمیر کا سودا کرکے اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں، اس راے شماری کے دوران غیرحاضر رہنے کو ترجیح دی ہے۔ پاکستانی اخبارات میں یہ خبر شائع ہونے نہیں دی گئی کہ نومبر ۲۰۰۷ء میں جان نیگروپونٹے کے دورۂ پاکستان اور پرویز مشرف سے ملاقات سے چند دن پہلے امریکی جیوش کانگرس کی ورلڈ جیوری کے چیئرمین جیک روزن نے خاموشی اور رازداری سے پاکستان کا سفر کیا اور وہ پرویز مشرف صاحب کے علاوہ اس وقت کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف جنرل کیانی اور کئی مرکزی وزرا اور اعلیٰ سرکاری حکام سے ملا۔ اس نے امریکا جاکر امریکی لابی کو پرویز مشرف کے حق میں متحرک کرنے کی کوشش کی۔ اس کی تفصیلی رپورٹ یہودی روزنامے Foreward میں شائع ہوئی ہے، جو ۲۱ نومبر ۲۰۰۷ء کے شمارے میں دیکھی جاسکتی ہے۔ (www.foreward.com/articles/12080)
بے نظیر صاحبہ بھی اسرائیلی صدر شیمون پیریس سے اور اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر سے بنفس نفیس ملی ہیں اور اقتدار میں آکر اسرائیل کوتسلیم کرنے کے اشارے بھی دے رہی ہے اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو ’ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی‘ (IAEA) کے حوالے کرنے کے عزائم کا بھی اظہار کر رہی ہیں۔
پرویز مشرف اور ان کے حالیہ اور مستقبل کے شریک اقتدار کس کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں اور امریکا کی خوش نودی کے لیے ملک کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری پرسمجھوتوں کو کہاں تک لے گئے ہیں، اس کا پورا اندازہ شاید ان کے اقتدار سے رخصت ہوجانے کے بعد ہی ہوسکے!
۳- نظریاتی اور دینی تشخص کا مجروح ھونا: پرویزی دور کا تیسرا تحفہ ملک کے نظریاتی، دینی اور اخلاقی تشخص کا بری طرح مجروح ہونا ہے۔ مغربی تہذیب و تمدن سے شیفتگی، تعلیم میں سیکولر ازم کا فروغ اور پوری اجتماعی زندگی میں عریانی اور فحاشی کی کھلی چھوٹ کی جو کیفیت آج ہے،پہلے کبھی نہ تھی۔ زندگی کے ہرشعبے کی سیکولر بنیادوں پر تشکیل کی جارہی ہے۔ رواداری اور معروضیت کے نام پر دینی تعلیمات، تہذیبی اقدار، اُمت کے جداگانہ تشخص، اپنے اخلاقی نظام اور رسم و رواج سب کو پامال کیا جا رہا ہے۔ جس قوم کی نئی نسلیں اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ سے واقف نہیں ہوںگی اور ان پر فخر نہیں کریں گی، وہ اپنی آزادی کو کیسے برقرار رکھ سکیں گی اور دنیا پر اپنا نقش کیسے قائم کرسکیں گی۔
بات صرف اس تہذیبی انتشار تک محدود نہیں۔ قوم جو پہلے ہی فرقوں میں بٹی ہوئی تھی، اس میں فرقہ واریت بلکہ فرقہ وارانہ تصادم کو فروغ دینے کا کھیل بھی کھیلا جا رہا ہے۔ اس میں بیرونی ممالک اور ان کے گماشتے (افراد اور این جی اوز) اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ تو قوم کی دینی بصیرت اور دینی جماعتوں اور خصوصیت سے متحدہ مجلس عمل کا کارنامہ ہے کہ فرقہ واریت کی آگ نہ پھیل سکی، ورنہ امریکی پالیسی سازوں اور ملکی ایجنسیوں نے اس آگ کو بھڑکانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی تھی۔
پرویز مشرف نے قوم کو انتہا پسندوں اور روشن خیالوں میں تقسیم کرکے اور ان کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے کی بھی بہت کوشش کی ہے، اور اس طرح ملک میں نظریاتی کش مکش کو فروغ دینے کی امریکی حکمت عملی کو آگے بڑھانے میں بڑا خطرناک کردار اداکیا ہے۔ اختلاف راے خواہ سیاسی ہو یا مذہبی اور نظریاتی، ہر معاشرے کا حصہ ہے اور افہام و تفہیم اور بحث و مذاکرے کے ذریعے ہی فکرانسانی کی ترویج ہوتی ہے۔ مہذب معاشرے کی بنیاد فکرونظر کے تنوع پر ہے اور اسی سے زندگی میں حُسن اور ترقی کے راستے پھوٹتے ہیں ؎
گل ہاے رنگ رنگ سے ہے زینتِ چمن
اے ذوق، اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
ہاں یہ ضروری ہے کہ اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش نہ ہو، تشدد اور قوت کا استعمال نہ کیا جائے ( لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن)۔ لیکن حدود کے اندر اختلاف اور تنوع کو انتہاپسندی اور روشن خیالی کانام دے کر، لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنا تباہی کا راستہ ہے۔ کسی کی نگاہ میں کیا انتہاپسندی ہے اور کیا روشن خیالی___ یہ حکمران طے نہیں کریںگے، قوم کا ضمیر ہی اس کا فیصلہ کرے گا۔ رواداری ضروری ہے مگر امریکا کے ایجنڈے کے مطابق مسلمان معاشرے اور قوم کو انتہاپسندی اور روشن خیالی کے نام پر تقسیم کرنا اور تصادم کی فضا بنانا، اپنی قوم کے ساتھ ظلم ہے اور یہ بھی پرویزی دور کا ایک تباہ کن تحفہ ہے اور خود انتہاپسندی اور جبر کی قوت سے اپنی بات دوسروں پر مسلط کرنے کی بدترین مثال ہے۔
۴- اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش: چوتھا کارنامہ اس دور کا یہ ہے کہ ایک ایک کر کے ملک کے تمام اداروں کو کمزور، مضمحل بلکہ تباہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اور صرف اپنی ذات کو استحکام کا ذریعہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا نشانہ دستور بنا، پھر سیاسی جماعتوں کی باری آئی۔ الیکشن کے نظام کو صدارتی ریفرنڈم اور پھر ۲۰۰۲ء کے قومی اور صوبائی انتخابات کے موقع پر من مانی اور ایجنسیوں کی دراندازی کی آماج گاہ بنا دیا گیا۔
ہم نے دل کڑا کر کے یہ صورت حال بیان کی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پرویزی دور میں ریاست کے تمام ہی ادارے مجروح اور متزلزل ہوچکے ہیں گویا ؎
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
۵- وفاق کا کمزور ھونا: اس دور کا پانچواں تحفہ فیڈریشن کی کمزوری ہے۔ اولین دومارشل لا، وہ تاریک ادوار ہیں، جب مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں بے اعتمادی اور مغائرت واقع ہوئی اور بالآخر بھارت نے اپنی پاکستان دشمنی میں اس کا فائدہ اٹھایا اور قائداعظم کا پاکستان دولخت ہوگیا۔ مشرف کے مارشل لا میں مرکز اور صوبوں کے درمیان بے اعتمادی اور دُوری کی نئی لہر اُبھری ہے اور خصوصیت سے بلوچستان اور سرحد کے صوبوں میں مرکز گریز رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ اکبربگٹی جو اپنی قوم کا سردار ہی نہیں تھا بلکہ بلوچستان میں فیڈریشن کا نمایندہ بھی تھا، فوج کے ہاتھوں قتل ہوکر مرکز کے خلاف نفرت کا عنوان بن گیا ہے۔ اصلاحِ احوال کی ہرکوشش کو حکمران ٹولے نے سبوتاژ کیا اور بلوچستان اور صوبائی مفاہمت کے لیے پارلیمانی کمیٹی نے جو محنت کی، وہ سب رائیگاں گئی۔ صوبوں کو ان کے وسائل پر اختیار حاصل نہیں ہے اور دستور کے مطابق جو رائلٹی اور ملازمتوں میں حصہ انہیں ملنا چاہیے، وہ نہیں مل رہا، اور سارے دعووں کے باوجود حالات میں سرِمو فرق واقع نہیں ہو رہا۔ مرکز کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ وزیراعظم اور صوبائی حکومت کے باہم اتفاق راے سے بجلی کے نفع میں صوبہ سرحد کے حق کے تعین کے لیے جو ثالثی ٹربیونل بنا تھا اور جس کا متفقہ اوارڈ آیا، اس تک پر عمل نہیں کیا گیا۔
۶- حقیقی معاشی ترقی سے محرومی: اس دور کا چھٹا تحفہ یہ ہے کہ معاشی اور مالیاتی وسائل کا جو سیلاب آیا اور کسی محنت اور پالیسی کے نتیجے کے بغیر ۶۵ ارب ڈالر کی جو مالی کشادگی حاصل ہوئی، اسے حقیقی معاشی ترقی اور عوام کی خوش حالی کے حصول کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔ معاشی ترقی کا سارا رخ آبادی کے ۱۰سے ۱۲فی صدطبقات کے لیے مخصوص کردیا گیا۔ باقی ملک کی عظیم اکثریت کے حصہ میں جو کچھ آیا ہے وہ بے روزگاری، افراطِ زر، اشیاے ضرورت کی کمیابی، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کا فقدان، زراعت کی ضرورتوں سے اغماض، تجارتی اور ادایگیوں کے عدم توازن میں ناقابلِ برداشت اضافہ، بیرونی دنیا پر انحصار کی محتاجی، ملکی اور بیرونی قرضوں میں بڑھوتری اور معیشت اور زندگی کی ہر سطح پر کرپشن میں محیرالعقول اضافہ___ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے اور ۸۰فی صد آبادی کے لیے حالات میں کوئی تغیر نہیں ہوا یا مزید خراب ہوگئے۔
پلاننگ کمیشن کا وہ سروے جس کی بنیاد پر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ غربت میں کمی ہوئی ہے اس میں یہ صورت حال سامنے آئی ہے کہ آبادی کے ۵۰ فی صد کا دعویٰ ہے کہ اس کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ ۲۸ فی صد آبادی کہتی ہے کہ ہمارے حالات بدتر ہوگئے ہیں اور جن کی حالت کسی درجے میں بہتر ہوئی ہے، وہ بمشکل ۲۰ سے ۲۳ فی صد ہے۔اس میں بھی اوپرکے ۱۰ فی صد ہی اصل فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ یہی بات عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کے سروے سے معلوم ہوتی ہے۔گویا معاشی ترقی کے سارے دعووں کے باوجود اس دور کا اصل تحفہ غریبوں کا غریب تر ہونا اور امیروں کا امیر تر بن جانا ہے۔
۷- فوجی مداخلت کا دائرہ اثر بڑہانا: پرویزی دور کا ساتواں تحفہ سیاست میں فوج کی مداخلت اور فوج کو سیاست، معیشت، انتظامیہ غرض ہر اہم شعبے میں ایک باقاعدہ رول اداکرنے کی کوشش ہے، جس نے دستور میں طے کردہ نظامِ کار کو درہم برہم کردیا ہے، اور فوج کے بارے میں جو تاثر عام ہے وہ سابق خارجہ سیکرٹری ڈاکٹر تنویراحمد خان کے ایک حالیہ مضمون میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:
مسلح افواج پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ۲۰ ارب ڈالر کے برابر اثاثوں اور ایک کروڑ ۲۰لاکھ ایکڑ اراضی کی مالک بن چکی ہے۔ چنانچہ وہ بدعنوانی کے معاملات میں سب سے زیادہ نمایاں ہوچکی ہے۔
اس جلتی پر تیل کا کام پرویزمشرف کے اس فلسفے نے کیا ہے کہ ملک میں اقتدار کے تین سرچشمے ہیں: صدارت، فوج کا سربراہ اور وزیراعظم جسے وہ Troika (تکونی حکمرانی) کہتے ہیں۔ وہ ان کے درمیان یک رنگی کو استحکام کی شرط قرار دیتے ہیں۔ اپنے اس فلسفے کا اظہار وہ بار بار کرتے رہے ہیں، لیکن اس کا تازہ ترین اعلان واشنگٹن پوسٹ اور بی بی سی کو انٹرویو میں کیا ہے۔ حالانکہ پارلیمانی جمہوریت میں اقتدار کا مرکز اور محور پارلیمنٹ اور ان کا منتخب کردہ وزیراعظم ہوتا ہے۔ دستور کے تحت صدر کو غیرمتنازع شخصیت کا حامل ہونا چاہیے اور وہ فیڈریشن کی علامت ہے کسی حکمرانی کی تکون کا حصہ نہیں۔
رہی فوج تو دستور کے تحت وہ سول حکومت کے ماتحت ہے، خود مرکز اقتدار نہیں۔ بلاشبہہ ’نگرانی اور توازن‘ (checks and balances )کا نظام دستوری حکومت کا خاصہ ہے، لیکن ’نگرانی اور توازن‘ کا یہ نظام مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات کے ذریعے کارفرما ہوتا ہے۔ اس میں صدر اور فوج کا کوئی آزادکردار نہیں۔ پرویز مشرف کے ’تکونی حکمرانی‘ کے تصور نے دستور کے طے کردہ نظام کو جس پر قوم کا اتفاق راے ہے اور جو ایک معاہدۂ عمرانی کی حیثیت رکھتا ہے، درہم برہم کردیا ہے اور دراصل انتشار کی یہی اصل وجہ ہے۔ پرویز مشرف کی موجودگی میں دستور اپنی اصل شان میں کارفرما ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لیے اصل مسئلہ دستور کی بحالی، عدلیہ کی ۲نومبر ۲۰۰۷ء کی حیثیت میں بحالی اور فوج کو دفاع تک محدود کرنا ہے جس کے لیے پرویز مشرف کے تصور حکمرانی کو مکمل طور پر رد کرنا اور جو بھی اس کا داعی ہو اس کو اقتدار سے فارغ کرنا ضروری ہے۔
ا- دستور میں ایسی تبدیلیاں، جن کے نتیجے میں یہ دستور پارلیمانی جمہوریت کے بجاے صدارتی اور شخصی حکمرانی کی راہ ہموار کرسکے اور کوئی ان پر گرفت کرنے والا نہ ہو۔ خصوصیت سے آزاد عدلیہ کو تباہ کرکے اپنے نامزد ججوں پر مشتمل ایسی عدلیہ کو وجود میں لانا، جو موم کی ناک ہو اور ان کے ہراقدام پر مہرتصدیق ثبت کرنے والی ہو۔
ب- عبوری حکومت اور تابع فرمان الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کے ذریعے ایسی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب جو ان کے احکام کے مطابق خدمت انجام دے سکیں۔آج خود پرویز مشرف کے اپنے سیاسی وجود کا انحصار ان کی مفید مطلب پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے وجود میں آنے پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گئی ہے۔
ج- امریکا اور مغربی اقوام سے اپنے لیے ’نئی زندگی اور ہنگامی غذا‘ کا حصول۔ اس سلسلے میں صدربش اور کونڈولیزارائس نے بالکل کھل کر تائید کردی ہے۔ بش نے ایک بار پھر پرویز مشرف کو جمہوریت پسندی کا سرٹیفیکیٹ جاری کیا ہے۔ امریکی نائب وزیرخارجہ بائوچر نے صاف کہا کہ انتخابات بے عیب نہیں ہوں گے، لیکن اس کے باوجود امریکا کے لیے قابلِ قبول ہوں گے (flawed but acceptable)۔ برطانوی ہائی کمشنر نے صراحت سے کہہ دیا ہے کہ عدلیہ کا مسئلہ پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے اور گویا عدلیہ کی آزادی اور عدلیہ کی ۲نومبر کی پوزیشن میں بحالی دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ دراصل مشرف صاحب کی شخصی آمریت کے جاری رہنے کی راہ میں سب سے بڑا خطرہ ایک تو عوامی غیظ و غضب ہے اور اس کے بعد عدلیہ کی اس شکل میں بحالی ہے جو ۲نومبر ۲۰۰۷ء کو وجود تھی اور جس عدلیہ نے دستور سے ماورا اقدامات پر احتساب کا عمل شروع کردیا تھا۔ نیز انتخابات میں دھاندلی (رگنگ) کے ذریعے من پسند (انجینیرڈ) نتائج حاصل کرنے کی راہ میں بھی سب سے بڑا خطرہ وہی عدلیہ تھی، جس نے اپنی آزادی کے مقام کو پہچان لیا تھا۔شخصی حاکمیت کے لیے دستور کی ایک محافظ عدلیہ ناقابلِ برداشت تھی، اور ہے۔ اس کا بڑا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے امریکا اور مغرب کے حکمران محض اپنے اپنے مفادات کے کھیل میں عدلیہ کی بحالی کے باب میں خاموش ہیں، اور ملک کی وہ تمام سیاسی قوتیں جو یا پرویز مشرف کے ساتھ شریکِ اقتدار رہی ہیں یا شرکت کی توقع رکھتی ہیں وہ بھی خاموش ہیں، یا کہہ مکرنیوں سے کام لے رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کا معاملہ اس سلسلے میں سب سے زیادہ مخدوش ہے ۔ ایک طرف بے نظیرصاحبہ سے ۷نومبر کو جب مشرف کی اہلیت اور نئے آرڈی ننس جیسے اہم مسائل کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’’میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ گرفتار شدہ عدلیہ اس مسئلے کا فیصلہ کرے اورجو فیصلہ بھی وہ کرے وہ اسے قبول کرلیں گی‘‘۔
پھر ۱۱نومبر کو بے نظیر صاحبہ ، سپریم کورٹ کے ججوں کے رہایشی علاقے میں گئیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے نہ مل سکیں، مگر برملا کہا:
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور وہ تمام جج حضرات جنھوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا ہے، ان کو بحال کردیا جائے اور اُن کی نظربندی کے احکامات واپس لیے جائیں۔
مگر پانچ چھے روز بعد ۱۶ نومبر ۲۰۰۷ء کو ایک سیاسی زلزلہ آیا۔ جان نیگرو پونٹے پاکستان پر نازل ہوئے۔ ۱۷ نومبر کو انھوں نے بے نظیر صاحبہ سے ٹیلی فون پر بات کی اور پھر عدلیہ کی بحالی پر ان کا موقف تبدیل ہوگیا، بلکہ چارٹر آف ڈیمانڈ کے لیے بھی سب سے اہم اختلافی نکتہ یہی بن گیا کہ پیپلزپارٹی عدلیہ کی آزادی کی بات تو کرتی ہے مگر بحالی کو قبول نہیں کرسکتی اور بالآخر ۱۳ دسمبر کو انھوں نے کراچی میں برملا کہہ دیا:
جج حضرات آتے جاتے رہتے ہیں___جسٹس سلیم الزمان صدیقی اور ناصراسلم زاہد کی طرح جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا۔ اگر کوئی جج سیاست کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی سیاسی جماعت بنا لے۔
یہ ہے وہ دل خراش داستان، جسے سمجھے بغیر انتخابات میں شرکت اور بائیکاٹ کے درمیان انتخاب کے فیصلہ کن رویہ کے بہت سے پہلو واضح نہیں ہوتے۔ پرویز مشرف کا ایجنڈا اور سیاسی جماعتوں میں سے کچھ کے بدلتے ہوئے موقف، اپنے اندر غوروفکر کے بہت سے گوشے رکھتے ہیں۔
پرویز مشرف کے اقتدار کے بچائو اور تسلسل کے عزائم کی تکمیل کا انحصار صرف ان تین چیزوں پر ہے، جس کا ہم بار بار ذکر کر رہے ہیں:
۱- عدلیہ ان کی تابع مہمل رہے، جو اسی وقت ممکن ہے جب ۲ نومبر کی عدلیہ بحال نہ ہو اور پرویز مشرف کے بنائے ہوئے دستوری عفریت (constitional monstocity)کو تحفظ حاصل رہے۔
۲- انتخابات کی منصوبہ بند دھاندلی (انجینیرڈ رگنگ) کے ذریعے ان کے مفیدمطلب پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں وجود میں آجائیں۔
۳- امریکا اور مغربی اقدام کی تائید انھیں حاصل رہے۔
اس تجزیے کا ناقابلِ انکار منطقی تقاضا یہ ہے کہ ایسے انتخابات کے جال میں نہ پھنسا جائے، جو اس ایجنڈے کی تکمیل میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اور ساری توجہ اس پر مرکوز کی جائے کہ:
۸ جنوری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے بارے میں ملک کی ہر جماعت ماسواے مشرف حکومت کے سابقہ شرکا برملا اظہار کر رہی ہے کہ انتخابات کے آزاد اور منصفانہ ہونے کا کوئی امکان دُور دُور تک نہیں۔ حد یہ ہے کہ پرویزی جماعتوں میں سے بھی کچھ چیخ اُٹھی ہیں، جیساکہ مسلم لیگ فنکشنل پنجاب کے صوبائی صدر احمدمحمود کا بیان ہے جس میں انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی اس وقت بھی عملاً وزیراعلیٰ کے طور پر کام کر رہے ہیں اور پوری انتظامی مشینری ان کے زیرتصرف ہے۔ اس پر دی نیشن نے اپنے ادارتی کالم میں یوں اظہار کیا ہے:’’احمد محمود کے بیان کا خصوصی وزن ہے کیونکہ اُن کی پارٹی صدر مشرف کی حمایت کر رہی ہے‘‘۔
تقریباً تمام عوامی سروے یہی صورت حال پیش کرتے ہیں، انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہوسکتے، اور بائیکاٹ ہی وہ راستہ ہے جس سے بالآخر انتخابات کو آزاد اور شفاف بنانے کا کوئی امکان ہوسکتا ہے۔
آئی آر آئی کے سروے کے مطابق ۶۶ فی صد عوام کی راے میں ایمرجنسی کے نظام تلے انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہوسکتے۔ گیلپ پول کے مطابق ۵۶ فی صد لوگ ۸ جنوری کے انتخابات کے بائیکاٹ کے حق میں ہیں، جب کہ ۴۱ فی صد کا خیال ہے کہ الیکشن میں حصہ لینا چاہیے۔ آئی آر آئی کے سروے کے مطابق ۶۲ فی صد افراد نے بائیکاٹ کے حق میں راے دی جب کہ ۳۷ فی صد نے اس کے خلاف راے دی۔ لطف کی بات ہے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ ن دونوں کے حامیوں میں بائیکاٹ کے حق میں راے دینے والوں کی تعداد ۷۴ فی صد تھی۔ آئی آر آئی کے سروے میں ۷۲ فی صد نے پرویز مشرف کے خلاف ووٹ دینے کا عندیہ ظاہر کیا ہے کہ ان میں سے بھی ۶۱ فی صد بہت سختی سے پرویز مشرف کے دوبارہ منتخب ہونے کی مخالف ہیں جبکہ ۶۷فی صد کی خواہش ہے کہ مشرف فوری طور پر مستعفی ہوجائیں۔ عوام پرویز مشرف اور بے نظیر صاحبہ کے اشتراک اقتدار کے بھی خلاف ہیں اور اس سروے میں۶۰ فی صد نے مشرف اور بے نظیر کی مفاہمت کی مخالفت کی ہے۔
جوں جوں ۸جنوری قریب آرہی ہے دھاندلی کے الزامات میں قوت آتی جارہی ہے۔ بدھ کے روز نیویارک میں قائم حقوق گروپ نے کہا کہ آزاد اور شفاف انتخابات ممکن نہیںہوں گے، کیونکہ حکومت نے ججوں اور وکیلوں پر کریک ڈائون کیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ایمرجنسی کے اُٹھا لیے جانے کے بعد کئی جج اور وکیل ابھی تک گرفتار ہیں۔ یہ تو ایک غیرملکی گروپ کے خیالات ہیں لیکن سیاسی جماعتیں بھی ہر روز اس خوف کا اظہار کر رہی ہیں کہ ۸جنوری کے انتخابات میں دھاندلی ہوگی۔(روزنامہ ڈان، ایڈیٹوریل ۲۱ دسمبر ۲۰۰۷ئ)
سیاسیات کے پروفیسر محمد وسیم نے لکھا: ’’اس پر کم و بیش اتفاق راے پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں ۸ جنوری ۲۰۰۸ء کو ہونے والے انتخابات اپنی نوعیت کے لحاظ سے ’مذاق‘ ہوں گے‘‘۔(روزنامہ ڈان، ۱۲ دسمبر ۲۰۰۷ئ)
واشنگٹن پوسٹ ۱۲ دسمبر ۲۰۰۷ء میں گریفے ود ھ(Griffe Withe) نے لکھا ہے کہ: ’’آزاد ماہرین کا خیال ہے کہ اس کے بہت کم امکانات ہیں کہ انتخابات آزادانہ یا منصفانہ ہوں، نیز یہ کہ انتخابی نتائج کو تبدیل بھی کیا جاسکے گا اور ان کو عدالتوں میں چیلنج بھی نہ کیا جاسکے گا‘‘۔
تمام اہم اخبارات و رسائل بشمول وال اسٹریٹ جرنل، دی گارڈین، بوسٹن گلوب، دی اکانومسٹ، فارن پالیسی بیک زبان انتخابات کے دھاندلی زدہ اور ناقابلِ اعتماد ہونے کی بات کر رہے ہیں اور یہی بات بے نظیر بھٹوصاحبہ اور نواز شریف صاحب بھی کہہ رہے ہیں۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی واضح بات کے باوجود انھوں نے اپنی ہی قائم کردہ کمیٹی کے مرتب کردہ چارٹر آف ڈیمانڈ کو کیوں نظرانداز کردیا جو انتخابات کو منصفانہ اور شفاف بنانے کے لیے تقریباً متفقہ طورپر تیار کیا گیاتھا ، اور آنکھیں بند کرکے انتخابات میں کود پڑے، اور اس تاریخی موقع کو ضائع کردیا جو بائیکاٹ کی شکل میں پرویز مشرف کے پورے کھیل کا پردہ چاک کرنے کا ان کو حاصل تھا۔
ہماری بحث کا حاصل یہ ہے کہ غلط نظام کے تحت دھاندلی زدہ انتخابات میں شرکت سے یا اس کے بعد بننے والی اسمبلی کے ذریعہ نظامِ کار کی درستی کا کوئی امکان نہیں، انتخابات کے بعد تبدیلی کا خیال محض ایک واہمہ ہے، کہ بار بار کے تجربوں کے بعد بھی ہماری سیاسی جماعتوں کی آنکھیں ابھی تک نہیں کھلیں، اور ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جانے کے لیے وہ بے چین ہیں۔ معیاری صورت صرف بائیکاٹ کی ہے، لیکن اس زریں موقع کو بیش تر سیاسی جماعتوں نے اقتدار میں شرکت کے خواب، یا اپنے جوشیلے کارکنوں کے دبائو میں ضائع کردیا۔ حالانکہ اے پی ڈی ایم،ججوں کی بڑی تعداد، پوری لیگل کمیونٹی اور سول سوسائٹی کے ذمہ داروں کے علاوہ آزاد سیاسی تجزیہ نگاروں نے بھی بروقت متنبہ کردیا تھا کہ یہ الیکشن دھوکہ ہوں گے اورصرف تماشے (fair) کے معنی میں فیئر ہوسکتے ہیں! اس لیے کہ اب آزاد عدلیہ کے بغیر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے منعقد ہونے یا انتخابی بے ضابطگیوں اور غلط کاریوں کے سدباب کی کوئی سبیل نہیں ہوسکتی۔
ہمیں اعتراف ہے کہ یہ بڑا نازک اور مشکل مرحلہ تھا اور بلاشبہہ دونوں طرف کچھ نہ کچھ دلائل اور سیاسی مصالح موجود ہیں۔ لیکن اس تاریخی لمحہ میں اصل انتخاب تو اصول اور مصلحت کے درمیان ہے۔ قوم کے سامنے مسئلہ ان دونوں میں سے کسی ایک راستے کو منتخب کرنے کا ہے۔، ہمیں خوشی ہے کہ اے پی ڈی ایم کی بیش تر جماعتوں نے اصول کی سیاست کو، مفاد کی سیاست پر ترجیح دے کر قوم کے سامنے ایک ایسی متبادل سیاست کی راہ کو روشن کردیاہے، جس کی تمنا تو ۶۰سال سے کی جارہی تھی، مگر اس طرف مؤثر اور قابلِ لحاظ قوت کے ساتھ پیش قدمی نہیں ہو پارہی تھی۔ نظریۂ ضرورت کی گرفت سے نکلنا آسان نہیں تھا اور انتخابی حلقے کے دبائو (pressure) سے بالا ہوکر ملک اور قوم کی قسمت اور مستقبل کے ایک اصولی نقشے کے مطابق تعمیر کے جاں گسل راستے کی طرف پیش رفت کا فیصلہ بھی آسان نہیں تھا ___ لیکن وقت کی اصل ضرورت یہی تھی کہ وقتی فوائد کے مقابلے میں قوم کو اس کام اور جدوجہد کے لیے تیار کیا جائے جس کے بغیر اصول، انصاف اور حق پرستی پر مبنی نظامِ سیاست وجود میں نہیں آسکتا یہ فیصلہ انشاء اللہ ملکی سیاست میںایک بالکل نئے باب کے اضافے کا موجب ہوگا۔
جن جماعتوں نے بائیکاٹ کا راستہ اختیار کیا ہے، ان کے عوام میں اثرات ہیں اور انھیں علم ہے کہ ان کے لیے ایک معتدبہ تعداد میں مرکزی اور صوبائی نشستیں جیتنا ممکن تھا، لیکن ان کی نظر صرف ۸ جنوری پر نہیں، بلکہ ملک کے مستقبل کے نظام اور عوام کے حقیقی مسائل اور ان کو حل کرنے والی قیادت اور جدوجہد پر ہے، فوری اقتدار یا اقتدار میں شرکت پر نہیں۔محض اقتدار مطلوب نہیں، اقتدار وہی مطلوب ہے اور وہی ذریعہ خیر بن سکتا ہے جو ایک حقیقی اسلامی، جمہوری، وفاقی اور فلاحی معاشرے اور ریاست کے قیام کو آسان اور ممکن بنائے۔ اس کے لیے صحیح ایشوز کا تعین، صحیح موقف کا اختیار، صحیح خطوط پر عوام کی تنظیم اور ان مقاصد کے حصول کے لیے مؤثر سیاسی جدوجہد برپا کرنا ضروری ہے۔ کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ جو لوگ نظریاتی کارکن ہیں اور برسوں سے دعوتی اور سیاسی میدان میں کام کر رہے ہیں اور جو بائیکاٹ کے باوجود عوام میں ہیں اور عوام کو اپنے ساتھ لے کر چل رہے ہیں، انھیں وقتی اور ہنگامی قوتیں میدان سے باہر کرسکتی ہیں۔ ایسی قوتیں خودرو پودوں کی طرح اُبھرتی ہیں اور مرجھا جاتی ہیں، لیکن نظریاتی بنیادوں پر کام کرنے والوں کے کام کو الحمدللہ دوام حاصل ہے، اور بالآخر وہی کامیاب ہوں گے۔
دوسری قوت پی پی پی، اے این پی، جمعیت علماے اسلام (ف) وغیرہم ہیں جو اپنے نظریاتی، سیاسی اور علاقائی اختلافات کے باوجود اشتراکِ اقتدارہی کی راہ پر گامزن ہیں۔ یہ ایک طرح پرویز مشرف کے ساتھ بھی ہیں اور اس کی مخالفت کا بھی دم بھر رہے ہیں۔مشرف کے دام سیاست میں داخل بھی ہوگئے ہیں اور اس کو توڑنے کی بھڑک کا بھی سہارا لے رہے ہیں۔ نیتوں کا حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، لیکن عملی سیاست کے نقطۂ نظر سے یہ مشرف ہی کے ایجنڈے پر اپنے اپنے انداز میں کام کررہے ہیں اور اسی کے دیے ہوئے نقشے میں اپنا مقام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان میں سے کچھ وہ بھی ہیں جو اپنی قیمت بڑھا کر اقتدار میں اپنا حصہ حاصل کرنے ہی کو اپنا اصل ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ یہ سارے تضادات ان کا اوڑھنا بچھونا ہیں۔یہ بظاہر ’اینٹی مشرف‘ ہیں لیکن فی الحقیقت ’پرو مشرف‘ کردار ادا کر رہے ہیں___ کل یہ مشرف کی ٹیم کا حصہ بھی بن سکتے ہیں اور اس سے الگ بھی راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔گویا ع
جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی
تیسرا گروہ وہ ہے جس کا مرکزی کردار مسلم لیگ (ن) ہے۔ اس نے اپنا اینٹی مشرف موقف برقرار رکھا ہے اور عدلیہ کی بحالی کو بھی اپنے ایجنڈے میں سرفہرست رکھا ہے۔ لیکن نظام باطل سے مزاحمت کے بجاے اس کے اندر جاکر تبدیلی کا راستہ چنا ہے، جس نے ان کو بھی تضادات کی دلدل میں جھونک دیا ہے اور ان کے لیے امکانات کی دنیا کو بھی محدود کردیا ہے۔ ان کا یہ رویہ فکری اور عملی یکسوئی سے بھی محرومی کا باعث ہے۔ لیکن اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ۸جنوری کے بعد یا شاید اس کے بھی پہلے یہ اپنے لیے ایک دوسرے کردار کی تلاش پر مجبور ہوجائیں ۔
رہا چوتھا گروہ تو وہ پوری یکسوئی کے ساتھ مشرف کے بنائے ہوئے نظام کو چیلنج کر رہا ہے اور دستور کی بحالی، عدلیہ کی آزادی اور ۲نومبر کی حیثیت میں عدلیہ کی بحالی اور غیرجانب دار قومی حکومت کے ذریعے نئے انتخابات اور سیاسی دروبست کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ کُل جماعتی جمہوری تحریک (اے پی ڈی ایم) اس سیاسی جدوجہد کی مرکزی قوت ہے، لیکن اس تحریک کی روحِ رواں طبقۂ وکلا، جج، طلباء صحافی اور سول سوسائٹی کے وہ تمام عناصر بھی ہیں جو ۹مارچ سے سرگرم عمل ہیں اور سب مل کر دستور کی بحالی اور حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے ایک اصولی اور تاریخی جنگ لڑرہے ہیں۔ یہ سب ایک ہی کارواں کا حصہ ہیں اور مشترکہ مقاصد کے لیے انھیں پوری ہمت اور حکمت سے اس جدوجہد کو اس وقت تک جاری رکھنا ہے، جب تک یہ مقاصد حاصل نہ ہوجائیں ۔ مجھے یقین ہے کہ کامیابی ان شاء اللہ اسی گروہ کا مقدر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم میں صحیح شعور اور بیداری پیدا کی جائے اور مسلسل جدوجہد کا اہتمام کیا جائے تاکہ عوام کو وقتی سیاسی مصالح اور مفادات کے مقابلے میں ملک کے اصل ایشوز کا ادراک حاصل ہو۔
اس کام کو انجام دینے کے لیے فوری جدوجہد کے ساتھ لمبے عرصے کی منصوبہ بندی، تنظیم اور ہمہ گیر تحریک کا لائحہ عمل تیار کرنے اور اپنی صفوں کو مضبوط رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ لوگوں، جماعتوں اور گروہوں کو شریکِ جدوجہد کرنا ضروری ہے۔ پرویز مشرف نے ۹ مارچ کو اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے جو اقدام کیا تھا، اللہ تعالیٰ کی مشیت نے اسی اقدام کو اس کے تنزل اور پسپائی کا نقشِ اوّل بنا دیا۔ پھر ۳نومبر کو جو کچھ کیا گیا، اس نے عالمی سطح پر پرویزمشرف کے پائوں تلے سے زمین کھسکا دی۔ اب ۸جنوری اور اس کے بعد جاری رہنے والی تحریک، مشرف سے نجات کے ساتھ ساتھ مفاد پرست سیاست سے بھی ملک اور قوم کی نجات کا ذریعہ بنے گی اور اصول پر مبنی سیاست کے دور کا آغاز ہو گا اوریہی وہ جوہری فرق ہے جو اشتراکِ اقتدار کے لیے کام کرنے والوں اور اصول اور نظامِ حیات کی اصلاح کے لیے جدوجہد کرنے اور قربانیاں دینے والوں میں ہے۔ بائیکاٹ اس منزل کی طرف لے جانے والا پہلا قدم ہے اور ہماری دعا ہے کہ جو قدم اس حیات بخش منزل کے حصول کے لیے اُٹھ گیا ہے، اب اپنی اسی منزل کی طرف اس کی پیش قدمی پوری مستعدی کے ساتھ جاری رہنی چاہیے اس لیے کہ جدوجہد اور قربانی کے ذریعہ ہی قومیں عزت کا مقام حاصل کرتی ہیں۔ آج کا پیغام صرف ایک ہے ___ رفتار تیز کرو اور مزید تیز کرو کہ منزل دُور نہیں! ع
تیز ترک گام زن منزل ما دُور نیست
(کتابچہ دستیاب ہے۔ منشورات، منصورہ، لاہور)
جموں و کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کااہلِ پاکستان پر جو حق ہے، وہ انسانیت، اسلام، اخلاق اور سیاسی، معاشی اور تہذیبی اوامر اور تقاضوں (imperatives) ہراعتبار سے محکم ہے۔ صدافسوس! ہماری موجودہ قیادت نے اس باب میں نہ صرف مجرمانہ غفلت برتی ہے، بلکہ عملاً فرار اور بے وفائی کی راہ اختیار کرلی ہے، جسے اللہ، ملت اسلامیہ پاکستان اور تاریخ کبھی معاف نہیں کریں گے___ لیکن سوال غلط کار حکمرانوں کو معاف کرنے یا ان کے احتساب سے کہیں زیادہ کا ہے۔ جب کوئی قوم اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کے بجاے دوسروں کے ہاتھ میں اپنی قسمت کا اختیار دے دیتی ہے تو اس کے مفادات، اس کی عزت، اس کی آزادی اور بالآخر اس کا وجود معرضِ خطر میں ہوتے ہیں۔ آج پاکستانی قوم کے سامنے ایک ایسا ہی چیلنج ہے___ ۲۱ دسمبر کو عیدالاضحی اور سنت ابراہیمی کی روشن مثال نے ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے اور اس سلسلے میں کشمیر کے قائد اور کشمیریوں کی آرزوئوں کے ترجمان سید علی شاہ گیلانی نے جو پیغام اہلِ پاکستان کو بھیجا ہے، اس پر دل کی گہرائیوں سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ پاکستانی قوم اپنی تاریخی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے ایک بار پھر کمربستہ ہوجائے اور حکمرانوں کے فرار، بے وفائی بلکہ غداری کی تلافی کا سامان کرسکے۔ سب سے پہلے اس مردِمجاہد کے بیان کا خلاصہ اس توجہ اور یکسوئی سے پڑھ لیجیے کہ ہرلفظ دل میں اُتر جائے۔ اس لیے کہ یہ پیغام جس داعیِ حق کا ہے، وہ آج اقبال کے اسی شعر کی زندہ تصویر بنا ہوا ہے ؎
ہوا ہے گو تُند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ
’’کشمیریوں کو نہ بھارت ظلم و ستم سے جھکا سکا ہے اور نہ پاکستان کے حکمرانوں کی بے وفائی ہمیں اپنی منزل سے مایوس کرسکے گی۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور افسوس اس قلعے کے محافظ مسلسل پسپائی کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ہم اول روز سے پاکستانی ہیں اور خون کے آخری قطرے تک پاکستان کی بقا، سالمیت اور تکمیل کی جنگ لڑتے رہیں گے۔ جب میرے یہ حروف آپ کی نظروں سے گزر رہے ہوں گے، تو یقینا مملکت خداداد پاکستان میں ہر جانب عید کی خوشیاں جلوہ گر ہوں گی۔ میں چشمِ تصور سے اپنے خوابوں کی سرزمین کو دیکھتا رہتا ہوں۔ قیامِ پاکستان سے قبل میں نے ابتدائی تعلیم لاہور سے حاصل کی تھی، اور ۶۰برس گزر جانے کے باوجود وہ مناظر، گلیاں، بازار اور کوچے دل و نگاہ میں بس رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم پاکستان سے جنون کی حد تک محبت کرتے ہیں اور یہ محبت کسی زمین، رنگ، نسل، زبان کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ وہ محبت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے رشتے سے ہمارے دلوں میں جاگزیں کیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ اگر اس وقت میں قومی اور ملّی اُمنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل ممکن نہیں تو اس مسئلے کا نامناسب حل مسلط کرنے کے بجاے مناسب وقت کا انتظار کیا جائے۔ ہم نہ تھکے ہیں اور نہ ہمت ہاری ہے۔ ہمارے جذبے ماند نہیں پڑے۔ ہمارے جوان، بوڑھے اور عفت مآب خواتین ہمت اور حوصلے کے ساتھ برسرِپیکار ہیں۔ عید کے موقع پر میں تمام اہلِ پاکستان کو حریت کانفرنس اور ریاست جموں و کشمیر کے وفاشعاروں کی طرف سے عیدمبارک کہتا ہوں‘‘۔
اقبال نے صرف یہ نوحہ ہی نہیں کہا تھا کہ ؎
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر
بلکہ یہ دعوت بھی دی تھی کہ ؎
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
۲۵دسمبر کو ہم نے قائداعظم کا یومِ پیدایش بھی منایا ہے، لیکن اصل ضرورت یہ ہے کہ آج ہم کشمیر کے بارے میں قائداعظم کے وِژن، عزائم اور پالیسی خطوط کار کو ایک بار پھرذہنوں میں تازہ کریں تاکہ قوم مسندِاقتدار پر براجمان ٹولے کی آزادی کش، بھارت نواز اور دینی اور ملّی تقاضوں کے شعور سے محروم پالیسیوں اور پسپائیوں کا راستہ ترک کر کے، اللہ پر بھروسے اور اپنی تاریخی ذمہ داریوں کے احساس کے ساتھ اصول اور حقیقی ملّی مفاد پر مبنی جرأت مندانہ پالیسیاں اختیار کرسکے۔
ہم کشمیر کے سلسلے میں قائداعظم کے چند بیانات، بلکہ احکام و ہدایات کو زمانی ترتیب کے ساتھ پیش کر رہے ہیں اور قوم کو یاد دلا رہے ہیں کہ قائداعظم نے وہی کہا تھا جو آج سید علی گیلانی کہہ رہے ہیں، اور کشمیر کے غیور مسلمان، جناب گیلانی اور حزب المجاہدین کی قیادت میں عملاً قائداعظم ہی کے احکام پر عمل پیرا ہیں، جب کہ قائد کا نام لینے اور ان کے مزار پر چادر چڑھانے اور گارڈز کی ڈیوٹیاں تبدیل کرانے والے حکمران ان احکام کی کھلی کھلی خلاف ورزی اور پاکستان اور مسلمانانِ جموں و کشمیر سے بے وفائی کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
میں کانگریس سے پوچھتا ہوں کہ وہ کشمیر میں کیا کر رہی ہے؟ آریہ سماجی، ہندو مہاسبھائی، کانگریسی قوم پرست اور کانگریسی اخبارات، یہ سب کشمیر کے معاملے میں کیوں چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ کیا اس وجہ سے کہ کشمیر ہندو ریاست ہے؟ یا اس وجہ سے کہ کشمیر کی آبادی میں مسلمانوں کی اکثریت ہے؟
افسوس کہ آج خود مسلمان حتیٰ کہ پاکستانی مسلمان اور خصوصیت سے وہ قیادت جس کا فرض کشمیر کی تحریک حریت کی پشتی بانی ہے، چپ سادھے بیٹھی ہے۔قائداعظم کی روح آج خود ہم سے، پاکستان کی موجودہ قیادت سے وہی سوال کر رہی ہے جو ہندوقیادت سے ۱۹۳۸ء میں کیا تھا!
مسلمان جغرافیائی حدود کے قائل نہیں ہیں۔ اس لیے اسلامی برادری کے نام پر ہندستان کے مسلمان آپ کی مدد کے لیے کمربستہ ہیں۔ اگر آپ پر ظلم ہوا یا آپ سے بدسلوکی کی گئی تو ہم بے کار تماشائی کی صورت میں نہیں رہ سکتے۔ ایسی صورت میں برطانوی ہند کے مسلمان آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوجائیں گے۔ کیونکہ بحیثیت مسلمان ہم آپ کی مدد کے پابند ہیں۔
آج ہمارے حکمران ’جہاد‘ کے لفظ سے خائف اور اس پر شرمندہ ہی نہیں ہیں، بلکہ اپنی آزادی کی جنگ لڑنے والوں اور ان کی مدد کرنے والوں کو ’دہشت گرد‘ تک قرار دے رہے ہیں۔ لیکن دیکھیے جب اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کے لیے قبائلی مسلمان، وہی قبائلی مسلمان جن پر آج امریکا کی خوش نودی کے حصول یا اس کے حکم کے تحت پاکستانی فوج کو بم باری اور آگ اور خون کی ہولی کھیلنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، ان قبائلی مسلمانوں نے کشمیر کے جہاد میں شرکت کی اور اس پر جب بھارتی گورنر جنرل نے ان کے خلاف اقدام کا مطالبہ کیا تو قائداعظم نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیا فرمایا:
’’ہم اس کی ذمہ داری لینے پر تیار نہیں اور نہ ہم قبائلیوں پر دبائو ڈال سکتے ہیں کہ وہ کشمیر کو خالی کر دیں۔ مسلمانانِ کشمیر نے ڈوگرہ آمریت سے تنگ آکر ہری سنگھ کی گورنمنٹ کو فتح کرنے کے لیے جہاد شروع کر رکھا ہے اور قبائلیوں نے مجاہدین کا ہم مذہب ہونے کی مناسبت سے ان کی امداد کی ہے۔ لہٰذا ہم اس معاملے میں کسی قسم کا دخل دینے کو تیار نہیں ہیں۔ کیونکہ مجاہدین کی یہ جنگِ آزادی ہے اور کوئی آزادی پسند ملک آزادی کی خاطر لڑنے والوں کے مخالفین کے ہاتھ مضبوط نہیں کرسکتا۔ اس لیے جن قبائلیوں کو برطانوی حکومت نہ دبا سکی، ہم انھیں کیسے روک سکتے ہیں۔ وہ ایک نصب العین کے لیے نبرد آزما ہیں‘‘۔
(۳ نومبر ۱۹۴۷ء کو قائداعظم اور مائونٹ بیٹن کے مابین ایک کانفرنس کی روداد ملاحظہ ہو: رشحات قائد، مرتبہ نجمہ منصور، العبد پبلی کیشنز، سرگودھا، ۱۹۹۲ئ، ص ۱۶۷-۱۶۸)۔
عوام نے متعدد بار راجا سے اپیل کی کہ وہ پاکستان میں شامل ہوجائیں، لیکن راجا پر اس مسئلے کا اُلٹا اثر ہوا، اور اس نے عوام کی آواز کو طاقت کے بل پر دبانے کی کوششیں کیں۔ اس پر عوام نے بھی طاقت کا جواب طاقت سے دینا شروع کردیا۔ جب راجا ان کی چوٹ برداشت نہ کرسکا تو اپنا اقتدار ختم ہوتے دیکھ کر اسے ہندستان میں شامل ہونے کی سوجھی۔ دراصل کشمیر ہندستان میں شامل نہیں ہوا، بلکہ ہری سنگھ شامل ہوا ہے۔ جب ہندستان میں ہری سنگھ کی شمولیت کے خلاف کشمیری عوام ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوگئے تو ان سے یہ راے طلب کرنے کی تجویز کہ وہ ہندستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا پاکستان میں، نہ صرف فریب بلکہ مضحکہ خیز بھی ہے۔
کسی قسم کی لگی لپٹی رکھے بغیر قائداعظم نے مائونٹ بیٹن سے یہ بھی کہا: ’’کشمیر جہاں اقتصادی اور معاشی لحاظ سے پاکستان کا ایک جز ہے۔ وہاں سیاسی اعتبار سے بھی اس کا پاکستان میں شامل ہونا ضروری ہے‘‘۔(رشحاتِ قائد، مذکورہ بالا)
’’کشمیر، سیاسی اور فوجی حیثیت سے پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کوئی خوددار ملک اور قوم اسے برداشت نہیں کرسکتی کہ وہ اپنی شہ رگ دشمن کی تلوار کے آگے کردے۔ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ ایک ایسا حصہ ہے جسے پاکستان سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ کشمیر کا مسئلہ نہایت نازک مسئلہ ہے۔ لیکن اس حقیقت کو کوئی انصاف پسند قوم اور ملک نظرانداز نہیں کرسکتا کہ کشمیر تمدنی، ثقافتی، مذہبی، جغرافیائی، معاشرتی اور سیاسی طور پر پاکستان کا ایک حصہ ہے اور جب بھی اور جس زاویے سے بھی نقشے پر نظرڈالی جائے، یہ حقیقت بھی اتنی ہی واضح ہوتی چلی جائے گی‘‘۔ (قائداعظم کے آخری ایام)
یہی پاکستان کی وہ کشمیر پالیسی ہے کہ جس پر پوری قوم کو مکمل یکسوئی رہی ہے۔ تاریخی تسلسل کے ساتھ ہم اس پر قائم رہے ہیں اور اس کے حصول کے ۱۹۴۷ء سے جموں و کشمیر کے مسلمان جدوجہد کر رہے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں نے اس پالیسی سے انحراف اور بے وفائی کی ہے اور کشمیری مسلمانوں کو مایوس کیا ہے، لیکن الحمدللہ جموں وکشمیر کے مسلمانوں کی ہمتیں اب بھی جوان ہیں___ کیا پاکستانی قوم قرآن کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنے مظلوم بھائیوں کا ساتھ نہیں دے گی؟
آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا دیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔ (النساء ۴:۷۵)
اسلام مساواتِ مرد و زن کا علَم بردار ہے ،مگر اس کا یہ تصور اس الٰہی قانون پر مبنی ہے، جس کی رُو سے خالق کائنات نے تمام انسانوں کو بحیثیت انسان ایک ہی فطرت پر پیدا کیا ہے۔ ان کے درمیان فطری صلاحیتوں اور سماجی اور تہذیبی ذمہ داریوں کے باب میں تو فرق اور تنوع ہوسکتا ہے مگر قانونی اور اخلاقی حیثیت کے اعتبار سے نہ مردوزن میں فرق ہے اور نہ کالے اور گورے اور امیر اور غریب میں۔ لقد کرمّنا بنی اٰدم کے الٰہی حکم نے سب کو مساوی عزت کا مقام دیا ہے اور اس پہلو سے کسی بھی امتیازی یا ترجیحی سلوک کی کوئی گنجایش نہیں چھوڑی۔
پاکستان کا شہریت کا قانون مجریہ ۱۹۵۱ (Pakistan Citizenship Act) اینگلو سیکسن لا کی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔ اس میں یہ سقم تھا کہ اگر ایک پاکستانی مرد کی کسی غیرپاکستانی عورت سے شادی ہو تو شادی کے بعد پاکستانی شوہر کی غیرپاکستانی بیوی کو شہریت کا حق حاصل ہوجاتا تھا۔ لیکن اس کے برعکس اگر ایک پاکستانی خاتون کی کسی غیرپاکستانی مرد سے شادی ہو تو پھر اس شوہر کو شہریت کا یہ حق حاصل نہیں تھا۔ یہ ایک ایسا امتیازی اور غیرمنصفانہ قانون تھاکہ جس کا نہ اخلاقی اعتبار سے کوئی جواز تھا، اور نہ الٰہی قانون کی رو سے ایسے امتیاز کے لیے کوئی گنجایش تھی۔ لیکن حقوقِ نسواں کے علَم بردار اس مسئلے کے بارے میں خاموش تھے۔ حالانکہ ۲۰۰۰ء میں قائم ہونے والے ایک اعلیٰ اختیاراتی ادارہ یعنی ’نیشنل کمیشن اَون دی اسٹیٹس آف ویمن‘ نے بھی اپنی رپورٹ میں اس امتیازی سلوک کی نشان دہی کی تھی اور اس سلسلے میں ضروری قانون سازی کی طرف متوجہ کیا تھا۔ نیز پاکستان، اقوام متحدہ کے Convention on Elimination of All Forms of Discrimination Against Women پر دستخط کرکے بھی عورتوں کے اس حق کو تسلیم کرچکا ہے، مگر پھر بھی اس کنونش کا اطلاق پاکستانی خاتون کے غیرپاکستانی شوہر پر نہیں کیا گیا۔
پچھلے دنوں اخبارات میں خبر آئی کہ اس قانونی سقم کی وجہ سے بہت سی پاکستانی خواتین اپنے شوہروں کو پاکستان کی شہریت نہ دلوانے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں، اور متاثرہ شوہروں کے پاکستان میں قیام کے باب میں انھیں شدید پریشانیاں درپیش ہیں۔ ’روشن خیالی‘ کے اس پرویزی دور میں نہ ’روشن خیال‘ حکومت کو اس مسئلے کا شعور تھا اور نہ ’روشن خیال‘ این جی اوز ہی کی نگاہ میں اس کی کوئی اہمیت تھی اور اس کا بڑا سبب یہ بھی تھا کہ اس قانونی سقم سے متاثر خواتین کا تعلق غالباً اُونچے طبقات سے نہیں تھا۔
وفاقی شرعی عدالت نے اس امتیازی سلوک کا ازخود (Suo Moto) نوٹس لیا اور دسمبر ۲۰۰۷ء کے دوسرے ہفتے میں شرعی عدالت کے فل بنچ نے قانون کے اس حصے کو اسلام کے قانون اور اقدار سے متصادم قرار دیا ہے اور حکومت کو ہدایت کی ہے کہ ۶ ماہ کے اندر اندر شہریت کے قانون میں ضروری ترامیم کر کے شادی شدہ پاکستانی عورت کو بھی وہی حقوق دے، جو شادی شدہ پاکستانی مرد کو حاصل ہیں۔
عدالت کا یہ فیصلہ کئی اعتبار سے اہم ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ مرد و زن کے حقیقی حقوق کا مسئلہ مغرب کا مسئلہ نہیں، ہمارا اپنا مسئلہ ہے اور ایسے تمام مسائل کو اسلام کے قانونی ڈھانچے اور اس کی روح کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔
دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ حکومت اپنے تمام دعووں کے باوجود نہ عورتوں کے حقوق کے بارے میں اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہے، اور نہ مردوں اور خصوصیت سے کمزور انسانوں اور طبقات کے حقوق کا تحفظ کرنے کو تیار ہے۔ عام عدالتیں بھی اس باب میں خاموش ہی رہی ہیں۔یہ توفیق وفاقی شرعی عدالت کو حاصل ہوئی ہے۔ جس نے اس سقم کا نوٹس لیا اور اس کی اصلاح کے لیے قانونی کارروائی کی۔ دیکھیں اب بھی حکومت اس پر کہاں تک عمل کرتی ہے۔ ہمارے علم میں وفاقی شرعی عدالت کے کئی ایسے فیصلے ہیں جن میں وہ وقت کے تعین کے ساتھ قانون میں شرعی بنیادوں پر تبدیلی کا حکم دے چکی ہے، مگر حکومت یا تو اپیل میں چلی گئی یا ان فیصلوں کو نظرانداز کردیا گیا۔ مثلاً ’زنا‘ کے قانون کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کا کم از کم ایک فیصلہ ایسا ہے، جس میں قانون کی تبدیلی کے لیے وقت کے تعین کے ساتھ ہدایات دی گئی تھیں، مگر انھیں نظرانداز کر دیا گیا۔ یہی معاملہ فیملی آرڈی ننس کے بارے میں عدالت کے احکام کے ساتھ ہوا ہے___ یہ ہے ہمارے لبرل طبقے کی مساواتِ مرد و زن اور حقوقِ نسواں کے باب میں سنجیدگی کا حال۔
تیسرا قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ مشرف حکومت جو عورتوں کی ’خود اختیاریت‘ کا بہت واویلا کرتی ہے اور اسی کے نام پر اسمبلیوں میں خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہے، لیکن ان سب کی طرف اس ضمن میں کوئی پیش قدمی نہیں کی گئی اور اگر کسی نے پہل کی بھی تو وہ وفاقی شرعی عدالت ہے۔ وہ شریعت کورٹ جسے عورتوں کے حوالے سے لبرل طبقے نے مطعون کرنے کی مذموم کوشش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
ایک چوتھا پہلو یہ بھی ہے کہ آج کل عدالتِ عالیہ کو اس طرح سے ازخود امور کو زیرغور لانے اور حقوق انسانی کے باب میں مداخلت کرنے اور اصلاح کرانے پر بڑی لے دے کی جارہی ہے، بلکہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور ان کے ساتھیوں کو تواس کی سزا دی جارہی ہے۔ حالانکہ جیساکہ حالیہ مثال سے ظاہر ہوتا ہے، عدالت اپنے ازخود سماعت کے دستوری اختیارات سے عوام کے لیے دادرسی کی مفید خدمات انجام دے سکتی ہیں اور اس طرح انتظامیہ کی غفلت کا کچھ علاج بھی ہوسکتا ہے۔
ویسے تو ہمارا لبرل اور روشن خیال طبقہ مساواتِ مرد و زن کے شب و روز نعرے لگانے کا مرغوب شغل اپنائے ہوئے ہے، لیکن تعجب ہے وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کو لبرل پریس (صرف ایک انگریزی روزنامے The News کی استثناء کے ساتھ) نے چھاپنے تک کی زحمت گوارا نہیں کی۔
اگر یہی فیصلہ کوئی لبرل کورٹ کرتی تو شادیانے بجائے جاتے۔ لیکن چونکہ یہ خدمت وفاقی شرعی عدالت نے انجام دی ہے، اس لیے ان کے لیے یہ ایک ناقابلِ ذکر اور ناقابلِ التفات قدم ہے یا کہیں ایسا تو نہیں کہ بُغض اب اس مقام تک پہنچ گیا ہے کہ ؎
واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
اقبال کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے
آج پاکستانی قوم سوگوار ہے اور ایک گونہ سکتے کے سے عالم میں ہے___ کراچی میں ۱۲مئی کے بعد ۱۸ اکتوبر کا کشت و خون‘ بلوچستان اور وزیرستان میں گذشتہ تین سال سے فوج کشی اور اس کے نتیجے میں ہزاروں افراد کی ہلاکت‘ جولائی میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا خونیں حادثہ اور معصوم بچوں‘ بچیوں‘ اساتذہ اور طالبان علم کے خون کی ارزانی‘ ۲۷ رمضان المبارک کو لیلۃ القدر کے موقع پر ڈھائی تین سو کلمہ گوؤں کا قتل اور وہ بھی ’ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ‘ کا موٹو رکھنے والی فوج اور جہاد کا علَم بلند کرنے والے قبائل کے باہم تصادم کے نتیجے میں ___ یہ سب کیا ہے؟
سوچتے سوچتے ذہن ماؤف ہونے لگتا ہے۔یہ قوم کن خطرناک وادیوں میں گم ہوگئی ہے؟ جن کے ہاتھوں میں ملک کی زمامِ کار ہے وہ ہمیں کہاں لیے جارہے ہیں اور کس کا کھیل کھیل رہے ہیں؟ انتہاپسند کون ہے؟دہشت گردی کا مرتکب کون ہو رہا ہے؟ جمہوریت کی بحالی کے نام پر جو ڈراما رچایا جا رہا ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟___ اور حقیقی جمہوریت کی طرف یہ قوم کیسے گامزن ہوسکتی ہے۔ یہ سوالات محض نظری اور علمی موضوع نہیں۔ پاکستانی قوم کے لیے زندگی اور موت کا ایشو بن چکے ہیں جسے انتہاپسندی اور اعتدال پسند روشن خیالی کی کش مکش بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ جنرل مشرف نے قوم کو تصادم‘ تشدد اور تباہی کی جنگ میں جھونک دیا ہے۔ اس کا اصل مقصد آمریت اور اپنے شخصی اقتدار کا تحفظ ہے اور عالمِ اسلام پر مسلط کی جانے والی امریکا اور مغربی اقوام کی دم توڑتی ہوئی جنگ کو سہارا دینا ہے۔ پاکستان ایک امانت ہے اور اس کے اصل امین پاکستان کے ۱۶ کروڑ عوام ہیں۔ ہر ادارہ خواہ اس کا تعلق پارلیمنٹ سے ہو یا عدالت سے‘ فوج سے ہو یا سول نظام سے‘ سیاسی جماعتیں ہوں یا دینی ادارے اور قوتیں___ ان سب کی اس وقت اصل ذمہ داری یہ ہے کہ پاکستان کو اس تباہی سے بچائیں جس کی آگ میں عالمی ایجنڈے کے تحت اسے جھونکا جارہا ہے___ پاکستان کی آزادی اور حاکمیت‘ اس کی سلامتی اور استحکام‘ اس کا تشخص اور وجود ہرچیز دائو پر لگی ہوئی ہے۔ اگلے چند مہینے بڑے فیصلہ کن ہیں اور اگر عوام اور تمام سیاسی‘ دینی اور اداراتی قوتوں نے جن میں فوج‘ عدلیہ اور میڈیا مرکزی اہمیت کی حامل ہیں‘ نے اپنا اپنا فرض ادا نہ کیا تو ہمیں ڈر ہے کہ ایک لحظہ کی غفلت صدیوں کی منزلوں کو کھوٹا کرسکتی ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے اور ملک کے ہر ادارے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے جس خطرناک کھیل کا آغاز ۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو چیف جسٹس آف پاکستان کی برطرفی (دراصل عدالت عالیہ پر حملہ) سے کیا تھا‘ ۱۲ مئی کا خونیں ڈراما‘ ۲۹ستمبر کا شاہراہِ دستور پر پولیس ایکشن‘ ۵ اکتوبر اور پھر ۱۸ اکتوبر کو ایک اور سابق وزیراعظم کی بش-مشرف ’مفاہمت‘ کی چھتری تلے ملک میں آمد‘ ملک بھر سے ایک سیاسی جماعت کو استقبال کے لیے ہر موقع اور سہولت کی فراہمی۔ پھر اس استقبالی ریلی میں دہشت گردی کے ایک ایسے واقعہ کا ظہور جس سے سیاست کا نقشہ اور انتخابات کے طریق واردات ہی کو تبدیل کیا جاسکے، یہ سب ایک ہی سنگین کھیل کی کڑیاں اور ایک ہی ڈرامے کے مختلف ایکٹ معلوم ہوتے ہیں جو تمام سیاسی قوتوں کو بشمول پیپلزپارٹی حالات کا ازسرنو جائزہ لینے کی دعوت دے رہے ہیں۔ ہم قومی زندگی کے اس فیصلہ کن اور نازک ترین موقع پر پوری دل سوزی کے ساتھ تمام اہلِ وطن کو چند بنیادی امور کی طرف متوجہ کرنا اپنا دینی اور قومی فرض سمجھتے ہیں اور زمین و آسمان کے مالک سے اس دعا کے ساتھ یہ گزارشات پیش کررہے ہیں کہ اگر یہ حق ہیں تو سب کے دل ان کے لیے کھول دے۔
سب سے پہلے ہم اس اصولی بات کا اعلان اور اعادہ کرنا چاہتے ہیں کہ اجتماعی معاملات کے حل کا اصل راستہ صرف ایک ہے اور وہ ہے شوریٰ اور دلیل کے ذریعے سیاسی مسائل اور اختلافات کا حل۔ انسانی زندگی اور سیاسی نظام میں قوت کے استعمال کا ایک متعین مقام ہے اوروہ ملکی دفاع‘ شر اور فساد سے معاشرے کو پاک کرنے‘ قانون کی بالادستی اور انصاف کے قیام کے لیے ہے اور قانون اور ضابطے کے مطابق ہے۔ کسی کو یہ اختیار نہیں کہ قانون اپنے ہاتھ میں لے یا سیاسی مسائل و معاملات کو قوت‘ جبر اور گولی کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرے۔ ریاست‘ حکومت‘ جماعتیں‘ گروہ‘افراد سب قانون اور ضابطے کے تابع ہیں اور شریعت نے ظلم کی تعریف بھی یہ کی ہے کہ وَضْعُ شَیْ ئِ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ ___ یعنی جہاد اور دہشت گردی میں فرق ہی یہ ہے کہ جہاد ایک واضح مقابلے اور قانون کا پابند ہے جب کہ دہشت گردی قوت کے ناحق اور غلط استعمال سے وجود میں آتی ہے۔ بقول اقبال ؎
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضامیں
کرگس کا جہاں اور ہے‘ شاہیں کا جہاں اور
اس اصولی بات کی روشنی میں ہم یہ بات بالکل صاف الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں کہ ۱۸اکتوبر کو جو کچھ کراچی میں ہوا‘ جس میں ۱۴۰ جانیں تلف ہوئیں اور کئی سو زخمی ہوئے‘ دہشت گردی کی بدترین مثال ہے۔ یہ انسانیت‘ سیاست اور شرافت اور تہذیب پر حملہ تھا اور اسلام اور مہذب معاشرے کی ہر قدر کی نفی ہے‘ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ سیاسی سرگرمی ایک جمہوری معاشرے کی جان ہے اور تہذیبی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ اختلاف راے اور سیاسی اور دینی مسالک کا تنوع انسانی معاشرے کے لیے رحمت ہے‘ اور سیاسی یا مذہبی اختلاف کو قوت اور تشدد کے ذریعے سے مٹانے کی کوشش فساد اور فتنے کا راستہ کھولنے کے مترادف ہے جو شوریٰ کی ضد اور لَااِکراہَ فِی الدّین کے قرآنی حکم سے بغاوت اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت کی توہین ہے کہ میری امت میں اختلاف راے ایک رحمت ہے۔
جہاں ہم ۱۸ اکتوبر کی دہشت گردی کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور تمام ہی جاں بحق ہونے والوں کے لیے دعاے مغفرت کرتے ہیں‘ زخمیوں کے لیے صحت و زندگی کی دعاگو ہیں اور تمام ہی متاثرین اور خصوصیت سے پیپلزپارٹی کی قیادت اور کارکنوں سے تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں‘ وہیں اس امر کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اس واقعے کی آخری ذمہ داری جنرل پرویز مشرف کی حکومت اور ان کی سیاسی پالیسیوں اور حکمت عملی پر عائد ہوتی ہے جس کی پوری پوری جواب دہی ایک نہ ایک دن انھیں قوم کے سامنے کرنی ہوگی۔ تمام واقعات کی اعلیٰ ترین سطح پر آزاد اور غیرجانب دار تحقیقات ضروری ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کے قتل پر پردہ ڈالنے سے جو روایت شروع ہوئی ہے‘ وہ آج تک جاری ہے اور جنرل پرویز مشرف کے دورمیں تو ڈھٹائی کا عالم یہ ہوگیا ہے کہ ۱۲ مئی کی کھلی کھلی دہشت گردی اور ۴۰ سے زیادہ جانوں کے اتلاف کے بارے میں نہ صرف آزاد تحقیقات سے صاف انکار کیا گیا بلکہ اسے اپنی قوت کے اظہار تک کا نام دیا گیا۔ جولائی کے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے کربلاے ثانی کے بارے میں بھی یہی رویہ اختیار کیا گیا۔ بلوچستان اور وزیرستان میں خون آشامی کے باب میں بھی کسی آزاد تحقیق تو کیا آزاد رپورٹنگ تک کا راستہ بند کیا ہوا ہے۔ اور اب کراچی کے واقعے کی بھی آزاد تحقیق کے مطالبات کو پوری رعونت کے ساتھ نظرانداز کیا جا رہا ہے‘ حالانکہ خود پیپلزپارٹی کی قیادت نے اس کا مطالبہ کیا ہے اور پولیس کی تفتیشی ٹیم پر عدمِ اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ملکی اور غیرملکی میڈیانے بڑے سنگین سوال اٹھائے ہیں کہ ۲۰ہزار پولیس اور رینجرز کی موجودگی میں جن کے بارے میں دعویٰ تھا کہ سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کر لیے گئے ہیں‘ اتنا بڑا حادثہ کیسے ہوگیا؟ سڑکوں کی بجلیاں کیوں بند ہوگئیں؟ ’خودکش حملے‘ کے مجرب نسخے کا پروپیگنڈا پہلے ہی لمحے سے کیوں کیا جانے لگا جب کہ ابھی تک کوئی واضح ثبوت اس کا نہیں ملا ہے بلکہ عینی شاہدوں اور ملکی اور بین الاقوامی صحافیوں کے مطابق پہلا دھماکا ایک شعلے کی شکل میں دیکھا گیا‘ دو گاڑیوں سے آگ نکلی‘ اور جو ایک سر ملا ہے اس کے بارے میں بی بی سی نے اپنی ۲۳ اکتوبر کے سیربین پروگرام میں پولیس ذرائع سے اس شبہہ کا اظہار کیا ہے کہ یہ سر ایک پولیس اہل کار کا ہے اور ایسا ہی ایک واقعہ کراچی ہی میں اس سے پہلے سندھ مدرسے میں بھی ہوچکا ہے کہ جسے خودکش حملہ کہا گیا تھا وہاںسر پولیس اہل کار کا نکلا۔ اس صورت حال کو اس سے تقویت ملتی ہے کہ خود پیپلزپارٹی کی قیادت نے خصوصیت سے محترمہ بے نظیرصاحبہ اور ان سے زیادہ ان کے شوہر جناب آصف زرداری نے صاف کہا ہے کہ ہمارا شبہہ طالبان یا کسی جہادی گروپ پر نہیں بلکہ حکومت میں شامل کچھ عناصر پر ہے۔
ایک اور بڑا سنگین سوال وہ ہے جو خود محترمہ نے اٹھایا ہے اور جسے عالمی پریس نے نمایاں شائع کیا ہے حالانکہ پاکستان میں اسے دبا دیا گیا ہے۔ لندن کے اخبار دی انڈی پنڈنٹ نے اپنے رپورٹر Andrew Buneombeکے حوالے سے جو محترمہ کے ساتھ تھا‘ لکھا ہے کہ:
انھوں نے یہ بھی کہا کہ حملے کے دوران ان کی گاڑی پر کئی گولیاں چلائی گئیں‘ جب کہ ایک آدمی جو پستول سے مسلح تھا اور دوسرا جس نے خودکش بیلٹ باندھ رکھی تھی‘ اس سے پہلے گرفتار کیے گئے تھے۔
سوال یہ ہے کہ ان دونوں افراد سے کیا معلومات ملیں‘ یہ کہاں ہیں اور ان کا تعلق کس سے تھا؟ اس سلسلے میں یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ اصل واقعہ کے چند گھنٹے کے اندر موقع واردات سے تمام شہادتوں کو ختم کردیا گیا اور راستہ کھول دیا گیا حالانکہ دنیابھر میں یہ ایک مسلّمہ اصول مانا جاتا ہے کہ موقع واردات کو تحقیقات مکمل ہونے تک محفوظ رکھا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں تو جہاں ایسا حادثہ ہو اسے فوری طور پر گھیر دیا جاتا ہے اور کئی دن تحقیق کرنے والوں کے سوا کسی کو ان مقامات کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا جاتا۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اتنے بڑے حادثے کے سارے آثار و کوائف کو چند گھنٹے میں رفع دفع کردیا گیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح کراچی اسٹاک ایکسچینج کے ۲۰۰۵ء کے اسیکنڈل کے سارے کوائف حتیٰ کہ کمپیوٹر ریکارڈ تک تلف کردیے گئے اور دیگر کے لیے تمام شہادتوں کو تباہ کرنے کے بعد ایک امریکی کمیشن کو بلایا گیا جس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ شہادتوں کے تلف ہوجانے کے بعد ہم اسباب کی نشان دہی نہیں کرسکتے۔ نیویارک کے جڑواں ٹاوروں کے سلسلے میں بھی یہی حکمت عملی اختیار کی گئی جس پر آزاد تحقیق کرنے والے آج تک واویلا کر رہے ہیں۔
اس پورے معاملے میں انٹیلی جنس کی ناکامی کے پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور خصوصیت سے اس پس منظر میں کہ ایک طرف بڑے یقین کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ اتنے خودکش بمبار بھیجے گئے ہیں اور دوسری طرف ایک نہیں‘ سیکورٹی کے تین تین حصاروں کے باوجود یہ واقعہ ہوجاتا ہے۔ حالانکہ بتایا گیا تھا کہ پہلا حصار پیپلزپارٹی کے ۲ سے ۵ ہزار جاں نثاروں کا ہے۔ اس کے بعد ۱۰سے ۲۰ہزار پولیس اور رینجرز کا ہے۔ پولیس کی گاڑیاں ہر چارسمت میں موجود ہیں جو اعلیٰ ترین ٹکنالوجی سے لیس ہیں۔
حکومت اور خصوصیت سے سیکولر اور امریکی لابی کے سرخیل آنکھیں بند کرکے الزام جہادی تنظیموں اور طالبان پر تھوپ رہے ہیں۔ اس کے لیے ۱۸ اکتوبر سے قبل ہی ایک فضا بنائی جارہی تھی اور طرح طرح کی جھوٹی گمراہ کن اطلاعات (dis-information) سے ذہنوں کو آلودہ کیا جا رہا تھا‘ حالانکہ طالبان کے ذرائع اس کی بار بار تردید کرچکے ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ ان کو اس میں ملوث کیا جائے‘ البتہ امریکا اور یورپ حتیٰ کہ آسٹریلیا کے سرکاری حلقوں نے بھی اس واقعے کے فوراً بعد حسبِ عادت طالبان کو اس کا ذمہ دار ٹھیرانے میں بڑی مستعدی دکھائی ہے۔ پاکستان میں امریکی اور سیکولر لابی کے سرخیل ڈیلی ٹائمز نے پوری تحدی کے ساتھ ادارتی کالم میں فتویٰ صادر کردیا تھا کہ:
القاعدہ نے کراچی میں ۱۳۸ معصوم لوگوں کو قتل کیا ہے اور ۵۰۰ سے زیادہ کو زخمی کیا ہے۔ (ڈیلی ٹائمز‘ ۲۰ اکتوبر ۲۰۰۷ء)
اداریہ نویس کو شکایت ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت کیوں اس سلسلے میں پس و پیش کا مظاہرہ کر رہی ہے اور وزارتِ داخلہ کے سیکرٹری نے یہ کیوں کہہ دیا کہ اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کے کیمپ پر حملے کا ہدف پیپلزپارٹی نہیں‘ پولیس تھی۔ اسے یہ بھی دکھ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کو امریکی جنگ اور اس میں معاونت سے کیوں مربوط کیا جا رہا ہے اور اس پورے معاملے کو جمہوریت کے فقدان کا نتیجہ کیوں قرار دیا جا رہا ہے۔ اصل مسئلہ جمہوریت نہیں‘ مذہبی دہشت گردی ہے۔ امریکی سیکولرلابی کے ذہن اور عزائم کو سمجھنا بے حد ضروری ہے اور یہی مشرف کی تباہ کن پالیسیوں کی مدافعت کرنے والے عناصر ہیں۔
حزبِ اختلاف یہ نتیجہ نکالتی رہی ہے کہ حکومت ایک دفعہ امریکی ڈیزائن ترک کرنے کا اعلان کردے تو ساری دہشت گردی فی الفور ختم ہوجائے گی۔ یہ بھی کہنا چاہیے کہ پیپلزپارٹی کے بعض رہنما بھی سینیٹ میںاپنے امریکا دشمن جذبے میں یہی بات کہتے رہے ہیں… پاکستان میں یہ فرض کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں مقابلہ اور مزاحمت جمہوریت کی خدمت ہے جس کی غیرموجودگی کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ غلط ہے‘ غلط ہے‘ غلط ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ جمہوریت نہیں‘ بلکہ دہشت گردی اور ریاست کی داخلی خودمختاری کا ختم ہوجانا‘ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
یہ ہے وہ سیکولر ذہن جو اپنے سوچے سمجھے کھیل کے مطابق حالات کو ایک خاص رخ دینا چاہتا ہے۔ اسی اداریے کے آخری جملے کو غور سے پڑھیے کہ کس طرح خود پیپلزپارٹی کو سبق پڑھایا جارہا ہے___ ہم محترمہ کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن پیپلزپارٹی کی قیادت کے ان افراد کو جو آزاد سوچ رکھتے ہیں اور اس کے کارکنوں اور ہمدردوں کو اس اقتباس پر غوروفکر کی خصوصی دعوت دیتے ہیں:
آخری بات یہ کہ پیپلزپارٹی نے ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے ’بدمعاش (rogue) عناصر‘ پر مسزبھٹو کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا ہے اور آئی بی کے ڈی جی کی معطلی کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ غلط موقع پر متعین بات کہنا ہے۔ ان اداروں کی ماضی کی بدمعاشی کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے ریاستی اداروں میں بدمعاش عناصر کی موجودگی کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن آئی بی کے ڈی جی کو نشانہ بنانا‘ ایک واہیات بات ہے۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے خود جنرل مشرف پر الزام لگایا جائے۔ آئی بی کے ڈی جی پر جو بھروسا اور اعتماد مشرف رکھتے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے اور اس بات کے پیش نظر کہ وہ ان کے ایک اچھے ذاتی دوست بھی ہیں‘ زیادہ مناسب ہوتا اگر صاف صاف القاعدہ کے عناصر کوالزام دیا جاتا جنھوں نے کھلے عام جنرل مشرف اور مسزبھٹو دونوں کو ختم کر دینے کا اعلان کیا ہے۔ آخری بات جو جنرل مشرف اور مسزبھٹو چاہ سکتے ہیں وہ اُن لوگوں کے ہاتھوں میں کھیل جانا ہے جو ان دونوں کے درمیان خلیج پیدا کردینا چاہتے ہیں اور جو لبرل جمہوری اتحاد زیرتشکیل ہے‘ اس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
ہم نے کراچی کے سانحے کے ان پہلوؤں کی طرف اس لیے قدرے تفصیل سے توجہ دلائی ہے کہ قوم‘ ملک کی سیاسی اور دینی جماعتیں اور خود فوج‘ انتظامیہ اور میڈیا کے سوچنے سمجھنے والے عناصر اس حقیقت کو جان لیں کہ اصل مسئلہ وہ نہیں ہے جسے سیکولر اورامریکی لابی اور آمریت اور سیاست میں فوجی مداخلت کے ہم نوا پیش کر رہے ہیں یعنی اصل مسئلہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کا ہے۔ جمہوریت‘ دستور کی بحالی‘ قانون کی حکمرانی‘ فوج کے سیاسی کردار کی مکمل نفی اور سیاسی مسائل کا سیاسی عمل کے ذریعے حل کا نہیں۔ انتہاپسندی اور دہشت گردی دونوں اپنی اپنی جگہ ناپسندیدہ ہیں اور اسلام اور ہرمہذب معاشرے کو ان سے پاک ہونا چاہیے لیکن استعماری تسلط اور سامراجی ثقافت‘ تہذیب اور مداخلت پر گرفت اور تنقید کو انتہاپسندی قرار دینا اور بیرونی قبضے اور تسلط کے خلاف مزاحمت کو دہشت گردی قرار دے کر استعماری عزائم کو تحفظ بلکہ تقویت دینا ایک مجرمانہ فعل ہے۔ ہمارے سارے سیاسی خلفشار کی جڑ ہے اور جب تک ان اسباب کا سدباب نہیں ہوتا اور ان پالیسیوں کو قوت اور جبر کے ذریعے بیرونی ایجنڈے کو قوم پر مسلط کرنے کا کھیل ختم نہیں ہوتا‘ حالات کی اصلاح ممکن نہیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب تمام سیاسی اور دینی قوتیں اور ریاست کے تمام اداروں کے ذمہ دار افراد ٹھنڈے دل سے حالات کا تجزیہ کرکے آمریت اور ملک پر بیرونی عناصر کی گرفت کے مقابلے کے لیے سینہ سپر نہیں ہوتے‘ ملک تباہی سے نہ بچ سکے گا۔
دنیا کے وہ اہلِ نظر اور اصحابِ تحقیق جنھوں نے امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بے لاگ تجزیہ کیا ہے‘ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جسے انتہاپسندی اور دہشت گردی کہاجارہا ہے‘ وہ نتیجہ ہے امریکا اور مغربی اقوام کی سامراجی‘ ظالمانہ اور نوآبادیاتی پالیسیوں اور تیسری دنیا کے خودساختہ اور امریکا کے پروردہ حکمرانوں کا‘ جو ان ممالک میں امریکی ایجنڈے پر عمل درآمد کرکے ان کے آلۂ کار کا کردار ادا کر رہے ہیں‘ پاکستان کی اس کیفیت کی منظرکشی ایک سابق سفیر شمشاداحمد نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں اس طرح کیا ہے:
ایک فوجی حکومت کے لیے اس وقت مقابلے کے لیے کھڑے ہونا آخری بات تھی جو وہ کرسکتی تھی۔ نائن الیون کے بعد پاکستان کی پالیسی میں تیزی سے آنے والی تبدیلی نے اسے دہشت گردی کے خلاف امریکا کی عالمی جنگ میں اہم کھلاڑی بنادیا اور اسے عالمی برادری میں اہمیت دے دی جس نے فوجی حکومت کو اپنے جواز کی تلاش میں مدد دی۔ جنرل مشرف کے لیے یہ ایک فرد کا اسٹرے ٹیجک اتحاد تھا لیکن پاکستان کے لیے یہ اس کی تلاطم خیز تاریخ کا ایک نیا تکلیف دہ باب تھا۔ پلک جھپکتے میں پاکستان نے اپنی آزادی اور خودمختاری چھوڑ دی۔ ایک پراکسی وار میں ایک تابع دار فریق بن گیا جس میںاس کا فیصلہ سازی میں کوئی کردار نہ تھا۔ اس نے اپنے آپ کو ایک کرایے کی (mercenary) ریاست کے طور پر بھرتی ہونے کی اجازت دی جس کی ہم نے خوشی خوشی قیمت قبول کی۔ لیکن اب پاکستان کے عوام اس اسٹرے ٹیجک تعلق کی بڑی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ ہم امریکا کی افغانستان کی طالبان کے خلاف جنگ کو پاکستان میں لے آئے ہیں۔ وزیرخارجہ قصوری نے کھلے عام قبول کیا کہ ہم یہ جنگ امریکی قیادت میں ۳۷ رکنی طالبان دشمن اتحاد کی طرف سے افغانستان میں لڑ رہے ہیں۔ ان کا مطلب یہ تھاکہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے پھر بھی ہم اپنے لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ اس جاری مہم میں بہت بڑے پیمانے پر ضمنی نقصان کے طور پر ہمارے شہری اورفوجی ہلاک ہو رہے ہیں۔ سب سے بڑا نقصان پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کا خاتمہ ہے۔
اس پالیسی کا نتیجہ کیا ہے؟ آج ہم ہر طرف سے معتوب ہیں اور جنرل پرویز مشرف ان لوگوں کو شریکِ اقتدار کرنے کے لیے مجبور کردیے گئے ہیں جن کو کل تک وہ خود چور‘ ڈاکو‘ خزانہ لوٹنے والے اور سیکورٹی رسک قرار دے رہے تھے۔ رہی بین الاقوامی اہمیت تو اس کا حال سابق سفیر شمشاد احمد کے الفاظ میں یہ ہے:
ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان نے اس پراکسی وار میں سب کچھ دائو پر لگادیا ہے اور اپنے ہزاروں افراد کو قتل کردیا ہے‘ اور پھر بھی اس پر الزام لگ رہا ہے کہ اس نے کافی نہیں کیا۔ قوم کو یہ صدمہ بھی ہے کہ خطے میں اپنے کردار اور اہمیت کے حوالے سے اب ہم بھارت نہیں بلکہ افغانستان کے ساتھ بریکٹ کیے جاتے ہیں۔ اکتوبر ۹۹ء سے پہلے ایسا ہرگز نہ تھا جب ایک سویلین قیادت کے تحت پاکستان بھارت کے برابر ایک ایٹمی طاقت بن گیا اور ایک ذمہ دار علاقائی اور عالمی طاقت کے طور پر آگے بڑھ رہا تھا۔ اب ہم کو ایک ذمہ دار علاقائی طاقت نہیں سمجھا جاتا۔ جنرل مشرف کو پاکستان کے مسائل اور چیلنجوں کے بہت زیادہ ہونے کا ادراک ہونا چاہیے اور غور کرنا چاہیے کہ یہ حالات لانے میں خود ان کا کردار کیا ہے۔ آٹھ سال قبل انتہاپسندی‘ تشدد‘ جرائم اور کرپشن اس پیمانے کی اتنی سنگین ہرگز نہ تھی۔ آج دنیا پاکستان کو صرف امریکا کی دہشت گردی کی جنگ کا گرائونڈ زیرو اور مذہبی انتہاپسندی اور تشدد کا واحد مقام سمجھتی ہے جہاں یہ پرورش پاتی ہے___ یہ کس کا ورثہ ہے!
انتہاپسندی اور دہشت گردی کے بارے میں پاکستان اور امریکا کے ہم نوا مسلم ممالک ہی نہیں خود امریکا کی پالیسی حالات کے غلط تجزیے پر مبنی ہے اور اس پالیسی کی ناکامی کا اعتراف حکمران تو کھل کر نہیں کر رہے لیکن تمام عوامی جائزے خواہ وہ امریکا اور یورپ کے ممالک میں کیے جارہے ہوں یا پاکستان اور مسلم دنیا میں کھلے الفاظ میں کر رہے ہیں۔ امریکا میں اب ۷۹ فی صد آبادی بش کی پالیسیوں سے غیرمطمئن ہے۔ یورپ میں بھی بے اطمینانی کی یہ کیفیت ۷۰‘ ۸۰ فی صد آبادی کی ہے‘ جب کہ اسلامی دنیا میں یہ ۸۰ اور ۹۰ فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی ہے‘ یا مفادات کا کھیل کہ جنرل پرویز مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو ابھی تک یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ اصل مسئلہ انتہاپسندی اور دہشت گردی ہے‘ اور اصل کش مکش آمریت اور جمہوریت اور فوجی حکمرانی اور عوامی حکمرانی میں نہیں‘ انتہاپسندی اور روشن خیالی ہی ہے۔ ’خودکش حملے‘ انسانیت کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہیں‘ لیکن یہ اسی وقت ختم ہوسکتے ہیں جب ان حالات پر قابو پایا جائے جو ریاستی ظلم اور تشدد کے ستم زدہ انسانوں کو جان سے کھیل جانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ مغرب کے آزاد محقق اس بات کو محسوس کر رہے ہیں اور پکار پکار کر اپنی اندھی قیادتوں کو ان حقائق کو دیکھنے اور ان پر غور کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں اور سیاسی اور عسکری قیادت کو اس سے ہوش کے ناخن لینے چاہییں۔
دہشت گردی اور خودکش حملوں کے اسباب و عوامل کے بارے میں متعدد تحقیقی کتب گذشتہ چند برسوں میں شائع ہوئی ہیں۔ ان میں کرسٹوف ریوٹر کی کتاب My Life is a Weapon: A Modern History of Suicide Bombing ،پرنسٹن یونی ورسٹی‘ ۲۰۰۴ء بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس میں وہ لکھتا ہے:
مغربی میڈیا میں خودکش حملوں کی جو سادہ وجوہات بیان کی جاتی ہیں‘ ان سے نئے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ان حملوں کو انقلابی اسلام سے جوڑ دیا جائے تو پھر یہ پچھلے ۲۰سال ہی میں کیوں ہوئے ہیں؟ اگر غربت‘بدحالی ہی فیصلہ کن عوامل ہیں تو ہم اس حقیقت کی کیا توجیہہ کریں گے کہ ۱۱ستمبر کے تمام حملہ آور جہاں تک ہم جانتے ہیں پُرآسایش اور متوسط طبقے کے خاندانوں سے آئے‘ اور اگر مسلم حملہ آور اپنے آپ کو اس لیے اڑا دیتے ہیں کہ ۷۲دوشیزائیں ان کو جنت میں ملیں گی تو ہم اس کی کیا وجہ بتائیں گے کہ یہی اقدام غیرمسلم بھی کرتے ہیں‘ عورتیں بھی کرتی ہیں یا کوئی بھی جسے جنسی فوبیا ہو؟ یہ اسباب مخصوص حالات میں ان حملوں کی کثرت کی وجہ نہیں بتاپاتے۔ شاید سب سے پریشان کن سوال یہ ہے کہ ایک معاشرہ کس طرح ایک ایسے عمل کو برداشت کرسکتا ہے بلکہ مریضانہ حد تک بڑھا سکتا ہے جو بقا کی حِس کے مخالف ہو۔ ہم ان ماؤں اور باپوں کے بارے میں کیا کہیں گے جو اپنے اس بیٹے یا بیٹی پر فخر کرتے ہیں جس نے دوسروں کو مارنے کے لیے اپنے آپ کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ کس چیز نے ایک ایرانی ماں کو ۱۹۸۰ء کی ایران عراق جنگ کے ابتدائی دنوں میں یہ اعلان کرنے پر آمادہ کیا کہ وہ خوش ہے کہ اس کے پانچ بیٹے شہید ہوئے اور بس یہ افسوس ہے کہ اس کے پاس پیش کرنے کے لیے اور بیٹے نہیں ہیں۔ آج ۲۰سال بعد وہ کیا کہتی ہوگی۔(ص ۱۱)
دوسرا محقق جس کی کتاب نے امریکا اور یورپ میں تہلکہ مچا دیا ہے‘ وہ شکاگو یونی ورسٹی کے پروفیسر رابرٹ پاپ کی Dying To Winہے۔ مصنف کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ:
بہرکیف خودکش دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی کے درمیان مفروضہ تعلق گمراہ کن ہے‘ اور اس سے ان داخلی اور خارجی پالیسیوں کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے جو امریکا کے حالات خراب کر رہی ہیں اور خواہ مخواہ بہت سے مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔
رابرٹ پاپ اپنے طریق کار اور نتائج تحقیقی کو یوں بیان کرتا ہے:
میں نے ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۳ء تک پوری دنیا میں ہونے والے خودکش بمباریوں کے‘ جن کی تعداد ۳۱۵ ہے‘ ہر ایک کے اعدادو شمار جمع کیے ہیں۔ اس میں ہر وہ حملہ شامل ہے جس میں کسی مرد یا خاتون دہشت گرد نے دوسروں کو مارنے کی کوشش میں اپنے آپ کو مار لیا۔ اس میں وہ حملے شامل نہیں کیے گئے جن کی کسی قومی حکومت نے اجازت دی‘ مثلاً شمالی کوریا کے خلاف جنوبی کوریا کے۔ یہ ڈیٹابیس دنیا بھر میں خودکش حملوں کی پہلی مکمل تفصیل ہے جو میں نے جمع کی ہے اور تمام متعلقہ معلومات کی تصدیق کی ہے جو انگریزی‘ عربی‘ روسی یا تامل زبانوں میں بذریعہ انٹرنیٹ یا مطبوعہ ملتی ہیں۔ یہ معلومات خودکش دہشت گرد گروہوں سے حاصل کی گئی ہیں‘ یا ان بڑی تنظیموں سے جو متعلقہ ملک میں ایسی معلومات جمع کرتی ہیں‘ اور پوری دنیا کے نیوزمیڈیا سے۔ یہ ڈیٹابیس خودکش حملوں کا ایک فہرست سے زیادہ جامع ترین اور قابلِ اعتماد سروے ہے جو اس وقت دستیاب ہے۔ یہ ڈیٹا بتاتاہے کہ خودکش دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی یا دنیا کے کسی مذہب کے درمیان بہت کم تعلق ہے۔ خودکش حملوں کے سب سے بڑے ذمہ دار سری لنکا کے تامل ٹائیگر ہیں جو ایک مارکس نواز گروپ ہیں جس کے ارکان اگرچہ ہندو خاندانوں سے ہیں لیکن وہ مذہب کے سخت مخالف ہیں۔ اس گروپ نے ۳۱۵ میں سے ۷۶ حملے کیے‘ حماس سے بھی زیادہ۔ تقریباً تمام خودکش دہشت گرد حملوں میں جو چیز مشترک ہے وہ ایک مخصوص سیکولر اور اسٹرے ٹیجک ہدف ہے: جدید جمہوری طاقتوں کو مجبور کرنا کہ وہ اس علاقے سے اپنی افواج واپس بلائیں جن کو دہشت گرد اپنا وطن سمجھتے ہیں۔ مذہب شاذ ہی اصل وجہ ہوتا ہے‘ گو کہ اسے اکثر دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے بھرتی کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر اور وسیع تر اسٹرے ٹیجک مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ (ص ۳-۴)
رابرٹ پاپ کا کہنا ہے کہ ۱۹۸۰ء سے لے کر ۲۰۰۳ء تک جن حملوں کا انھوں نے مطالعہ کیا ہے‘ اس میں مسلمانوں کا تناسب ۵۰ فی صد ہے‘ یعنی یہ محض مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ تمام ہی مذاہب اور سیکولر عناصر اس میں کارفرما نظر آتے ہیں۔ نیز یہ کسی خاص تعلیمی پس منظر یا سماجی اور معاشی حالت کی پیداوار نہیں۔ ان کا کہنا ہے:
مسلمانوں میں بھی خودکش حملے ایک تہائی سیکولر گروپوں نے کیے ہیں۔ کردوں کی تنظیم ’پی کے کے‘ جس نے خودکش حملہ آوروں کو کرد خودمختاری حاصل کرنے کے لیے حکمت عملی کے ایک جزو کے طور پر استعمال کیا ہے‘ اسلام کے بجاے اپنے لیڈر عبداللہ ادکلان کے سیکولر مارکس لینن کے نظریے کو مانتی ہے۔ ان تنازعات میں بھی جن پر اسلامی بنیاد پرستی کی چھاپ ہے‘ خودکش حملوں کی ایک بڑی تعداد سیکولر نظریوں کے حامل گروپوں کی طرف سے ہوتے ہیں۔ فلسطین کی آزادی کے لیے پاپولرفرنٹ (مارکس لینن گروپ)‘ اور الاقصیٰ شہدا بریگیڈ جس کا تعلق یاسرعرفات کی سوشلسٹ الفتح موومنٹ سے ہے‘ دونوں مل کر اسرائیل کے خلاف کیے جانے والے ۹۲ حملوں میں سے ۳۱ کے ذمہ دار ہیں‘ جب کہ کمیونسٹ اور سوشلسٹ گروپ جیسے لبنانی قومی مزاحمتی فرنٹ‘ لبنانی کمیونسٹ پارٹی اور شام کی قومی سوشلسٹ پارٹی ۸۰ کے عشرے میں ہوئے ۳۶ حملوں میں سے ۲۷ کے ذمہ دار ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ نفسیاتی اسباب اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے کہ خودکش حملے صرف چند مخصوص معاشروں میں صرف مخصوص مواقع پر کیوں ہوتے ہیں۔ خودکش حملوں کی تعداد میں ایک معاشرے سے دوسرے معاشرے میں فرق ہوتا ہے لیکن یہ اتنا زیادہ نہیں ہوتا کہ یہ معلوم ہوسکے کہ کیوں معاشروں کی اکثریت میں___ حالانکہ ان میں سے بہت سے معاشرے سیاسی تشدد سے گزر رہے ہیں___ کسی خودکش دہشت گردی کا مظاہرہ نہیں ہوتا۔ لیکن معاشروں کی ایک تعداد میں‘ ہر ایک میں درجنوں ہوجاتے ہیں۔ اس سوال کا سیاسی یا عمرانی جواب چاہیے۔ اسی طرح خودکش حملے کرنے والے افراد کی فراہمی میں ایک خاص مدت میں کچھ فرق پڑسکتا ہے۔ اس کا کوئی نفسیاتی سبب نہیں معلوم ہوتا کہ کیوں خودکش حملوں کے ۹۵ فی صد منظم مہموں میں ہوتے ہیں جو ایک خاص وقت میں مرکوز ہوتے ہیں۔ پھر یہ کہ خودکش حملہ آوروں کی شخصیت خودکشی کرنے والوں کے ساتھ نہیں ملتی۔ ابھی تک خودکش حملہ آوروں کی نفسیاتی شخصیت کے بارے میں ماہرین کا کہنا تھا کہ غیرتعلیم یافتہ‘ بے روزگار‘ معاشرے میں تنہا‘ غیرشادی شدہ‘ ۱۷/ ۱۸ سے ۲۲/۲۳ برس کی عمر کے ہوتے ہیں۔ اس مطالعے میں خودکش حملہ آوروں کی شخصیت کے بارے میں جامع ڈیٹا جمع کیا گیا ہے (دیکھیے‘ باب ۱۰) جو بتاتا ہے کہ وہ کالج کے تعلیم یافتہ اور غیرتعلیم یافتہ‘ شادی شدہ غیرشادی شدہ‘ مرداور عورت‘ معاشرے سے تنہا اور معاشرے میں مربوط‘ ۱۵ سے ۵۲ برس کی عمر تک کے رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں‘ لائف اسٹائل کے ایک وسیع پس منظر سے آتے ہیں۔
اسی طرح موصوف ثابت کرتے ہیں کہ غربت اس کا اصل سبب نہیں جیساکہ کچھ حلقوں میں دعویٰ کیا جاتا ہے (ص ۱۸-۱۹)۔ پروفیسر پاپ کی تحقیق جس طرف اشارہ کرتی ہے وہ بڑی بنیادی حقیقت ہے یعنی سیاسی ظلم و استبداد اس کا اہم ترین سبب ہے:
خودکش دہشت گردی کی حکمت عملی کا مقصد سیاسی دبائو ہے۔ خودکش حملوں کی بڑی اکثریت چند جنونیوں کے اتفاقی یا غیرمربوط افعال نہیں ہے بلکہ ایک منظم گروہ کی طرف سے کسی مخصوص سیاسی ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ایک بڑی مہم کے حصے کے طور پر کئی کئی ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں خودکش دہشت گرد گروپوں کے بنیادی مقاصد عموعی طور پر اسی دنیا سے متعلق ہوتے ہیں۔ یہ مہمیں بنیادی طور پر قوم پرست ہوتی ہیں‘ مذہبی نہیں ہوتیں اور خاص طور پر نہ اسلامی ہی۔
گذشتہ دو عشروں میں‘ جس گروپ نے بھی خودکش مہم چلائی‘ لبنان میں حزب اللہ سے لے کر مغربی کنارے میں حماس تک‘ اور سری لنکا میں تامل ٹائیگرز تک‘ ہر ایک کا ایک مرکزی مقصد رہا ہے: ایک بیرونی ریاست کو مجبور کرنا کہ وہ اپنی فوجیں وہاں سے نکالیں جسے یہ گروپ اپنا وطن سمجھتے ہیں۔
پروفیسر پاپ امریکی پالیسی کے یک رخے پن کا نوحہ کرتا ہے‘ اور ایک ایسی حکمت عملی کی بات کرتا ہے جو محض عسکری قوت پر انحصار نہ کرے‘ بلکہ اصل اسباب اور پالیسی کے پہلوؤں کو توجہ کا مرکز بنائے۔
آخری نتیجہ یہ ہے کہ خودکش دہشت گردی دراصل غیرملکی قبضے کے خلاف ردعمل ہے۔ دیگر حالات میں متفرق واقعات ہوئے ہیں‘ مذہب کا بھی ایک کردار ہے لیکن جدید خودکش دہشت گردی کو قومی آزادی کے لیے ایک انتہاپسند حکمت عملی کے طور پر بہتر سمجھا جاسکتا ہے۔ قومی آزادی ان جمہوریتوں سے جن کی افواج ان علاقوں کے کنٹرول کے لیے ایک فوری خطرہ ہیں جن کو دہشت گرد اپنا وطن سمجھتے ہیں۔
خودکش دہشت گردی کے اسٹرے ٹیجک‘ سوشل اور انفرادی اسباب کو سمجھنے کے امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے اہم مضمرات ہیں۔ ہمارا پالیسی پر حالیہ بحث و مباحثہ صحیح سمت میں نہیں ہے۔ فوجی طاقت سے حملے اور محض رعایتیں طویل مدت تک کام نہ آئیں گی۔ (ص ۲۳)
اس لیے جس نئی حکمت عملی کی طرف وہ امریکی قیادت کو متوجہ کرتا ہے‘ وہ دوسرے ذرائع سے امریکا کے تیل کی ضرورت پر توجہ مرکوز کرنے سے عبارت ہے‘ نہ کہ قبضہ (occupation) اور عسکری قوت کے ذریعے مسلم دنیا کو اپنے زیرتسلط رکھنا۔
یہ سمجھنے کے کہ خودکش دہشت گردی اسلامی بنیاد پرستی کا نتیجہ نہیں بلکہ غیرملکی قبضے کا ردعمل ہے‘ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے اہم مضمرات ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کس طرح کریں کیونکہ خودکش دہشت گردی کا اصل سبب مسلمانوں میں بھی کسی نظریے میں نہیں ہے۔بحیرۂ فارس میں جمہوریت کو پھیلانا امرت دھارا ثابت نہیں ہوگا جب تک کہ غیرملکی افواج جزیرہ نما عرب میں موجود ہیں۔
خلیج فارس کے تیل میں دنیا کی دل چسپی کو ایک طرف رکھ دیں تو واضح حل‘ جیساکہ رونالڈ ریگن کے لیے تھا جب امریکا کو لبنان میں خودکش دہشت گردی کا سامنا تھا‘ یہ ہوسکتا ہے کہ علاقے کو بالکلیہ چھوڑ دیں۔ یہ بہرحال ممکن نہیں ہے‘ یقینا مستقبل قریب میں بھی نہیں۔ اس طرح اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم خودکش دہشت گردی کا کوئی ایسا مستقل حل تلاش کرسکتے ہیں جو ہمارے بنیادی مفاد‘ یعنی دنیا کے تیل پیدا کرنے والے بڑے علاقوں میں سے ایک پر ہماری رسائی کو متاثر نہ کرے۔ اس کا جواب ایک مشروط ہاں میں ہے۔ گو کہ اِکا دکا خودکش حملے ہوتے ہیں‘ امریکا اور اس کے اتحادی فتح کے لیے ایک ایسی حکمت عملی اختیار کرسکتے ہیں جو ہماری عالمی سلامتی کو قربان کیے بغیر خودکش دہشت گردی کی مہموں کو کم کردیں۔ یہ کرنے کے لیے ہمیں فوجی حملوں اور رعایتوں دونوں کی حدود کو پہچاننا ہوگا اور ساتھ ہی اپنے ملک میں سلامتی کی بڑھتی ہوئی کوششوں کی حدود کو بھی۔ ہمیں اپنی خلیج فارس میں آف شور بیلنسنگ (off shore balancing)کی روایتی پالیسی خوبیوں کو یاد کرنا چاہیے اور اسی حکمت عملی کی طرف واپس آنا چاہیے۔ یہی حکمت عملی دنیا کے تیل پیدا کرنے والے علاقوں میں دہشت گردی کو مزید اُبھارے بغیر ہمارے مفادات کے تحفظ کے لیے بہترین راستہ ہے۔(ص ۲۳۵-۲۳۶)
اسی ماہ پرنسٹن یونی ورسٹی کے عالمی شہرت کے ماہرمعاشیات پروفیسر ایلان کروٹیگر کی کتاب What Makes a Terroristشائع ہوئی ہے جس میں وہ برسوں کی تحقیق کے بعد یہ ثابت کرتا ہے کہ دہشت گردی کا تعلق نہ غربت سے ہے اور نہ مذہبی تعلیم یا تعلیم کی کمی سے اور صاف کہتا ہے کہ:
مجھے یقین ہے کہ مغرب کی غلطی یہ ہے کہ وہ یہ سمجھنے میں ناکام ہے کہ ہماری پالیسیاں منفی یا تشدد آمیز نتائج کی طرف لے جاسکتی ہیں۔ (ص ۵۱)
اسی طرح مذہب کے عنصر کو بھی اس نے غیر اہم قرار دیا ہے:
ہماری تحقیق کے نتائج نے دنیا کے بڑے مذاہب کے درمیان کوئی اہم فرق ظاہر نہیں کیا۔ ان نتائج کی میری تعبیر یہ ہے کہ مذہبی اختلافات ان بہت سے امکانی ذرائع میں سے ہیں جن سے دہشت گردی بڑھتی ہے۔ یہ اس طرح کی شکایات کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے‘ اور کسی ایک مذہب سے وابستہ نہیں ہے۔ اگرچہ آج کل دنیا کی توجہ اسلامی دہشت گرد تنظیموں کی طرف ہے‘ یہ کسی بھی طرح دہشت گردی کا منبع نہیں ہیں۔ دہشت گردی پر کسی مذہب کی اجارہ داری نہیں ہے۔
پروفیسر کروٹیگر نے انھی خطبات کے بعد سوال جواب کے موقع پر ایک بڑی عجیب بات کہی ہے جس سے جسے دہشت گردی کہا جاتا ہے اس کے عقلی جواز پر روشنی پڑتی ہے۔ سوال اور جواب ملاحظہ ہو:
سوال: آپ نے اپنے لیکچر کے آغاز میں کہا کہ دہشت گردی ایک حکمت عملی ہے‘ ایک مقصد حاصل کرنے کا ذریعہ۔ آپ نے اس بات پر اختتام کیا کہ دہشت گردی کے مقاصد حاصل نہیں ہوئے۔ کیا آپ ہمیں ذرائع اور مقاصد کی معاشی اصطلاحات میں دہشت گردی کے طریقے اور اس کے نتائج کا شروع سے آخر تک کا ایک قیمت اور نفع کا تجزیہ (cost benefit analysis) دے سکتے ہیں؟
جواب: میں آپ کو ایک مکمل طور پر معاشی تخمینہ نہیں دے سکتا لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں یقین رکھتا ہوں کہ اکثر دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے دہشت گردی ایک عقل میں آنے والا اقدام ہوتا ہے۔ قیمت اور نفع کے جو حساب وہ لگا رہے ہوتے ہیں غالباً درست ہوتے ہیں۔ یہ ہمیشہ ٹھیک نہیں ہوتا۔ اس لیے دہشت گردی بعض اوقات بے وقت اور مقاصد کے برعکس کام کرتی ہے۔ دہشت گرد تنظیموں کی اہلیت کو سامنے رکھا جائے تو میرے خیال میں وہ بہترین طریقے استعمال کرتے ہیں جو انھیں دستیاب ہوتے ہیں۔ میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ تنظیمیں جس انداز سے صنعتوں کو نشانہ بناتی ہیں یا دہشت گردوں کے کام سپرد کرتی ہیں وہ سوچا سمجھا ہوتا ہے۔ مجھے یہ بھی نظر آتا ہے کہ ان حملوں کے اوقات بھی اکثر سوچے سمجھے ہوتے ہیں اس لحاظ سے کہ یہ اپنے ہدف کو بہ نسبت اپنی قربانی کے بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔(ص ۱۶۱)
بات لمبی ہو رہی ہے لیکن دنیا میں جو آزاد تحقیق ہو رہی ہے‘ وہ بڑی اہمیت کی حامل ہے اور ہمارے یہاں جو بے سروپا دعوے کیے جا رہے ہیں اور جس طرح مذہبی جنونیت اور جہادی کلچر کی بات کر کے اصل مسائل کو الجھایا جا رہا ہے‘ وہ افسوس ناک تو ہے ہی مگر خطرناک‘ نتائج کے اعتبار سے مہلک اور اپنے مقصد کو آپ شکست دینے والا (self defeating) ہے۔ مشرف صاحب اور بے نظیر صاحبہ دونوں ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سلسلے میں ایک چوٹی کے مؤرخ اور محقق Eric Hobsbawm کی تازہ ترین کتاب Globalisation, Democracy and Terrorism جو ان کے مضامین کے انتخاب پر مشتمل ہے‘ بڑی دل چسپ رہنمائی کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ۲۱ویں صدی میں عالمی سطح پر قوت کے استعمال کو فروغ امریکا کی پالیسیوں کی وجہ سے ہوا ہے اور یہ کہ دہشت گردی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے والے پڑھے لکھے لوگ ہیں‘ مذہبی جنونی یا فاقہ زدہ عوام نہیں۔
تیسرے مرحلے میں جسے موجودہ صدی کے آغاز پر غلبہ حاصل ہے‘ سیاسی تشدد جارج بش کے تحت امریکا کی پالیسیوں اور اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے منظم طور پر عالمی ہوگیا ہے‘ ۱۹ویں صدی کی انارکیت کے بعد شاید پہلی مرتبہ۔
دو باتیں ان نئی تحریکوں کی خاصیت ہیں۔ یہ چھوٹی اقلیتوں پر مشتمل ہیں گو کہ ان اقلیتوں کو عام لوگوں کی خاموش ہمدردی حاصل ہے جن کی خاطر یہ عمل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کا مخصوص طریقۂ کار چھوٹے گروپ ایکشن کا طریقۂ کار ہے۔
پرویژنل آئی آر اے کی نام نہاد سرگرم یونٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک وقت میں اس میں دو یا تین سو سے زیادہ لوگ نہیں ہوتے تھے اور میرا خیال ہے کہ اٹلی کی ریڈبریگیڈ اور باسک ای ٹی اے میں بھی اس سے زیادہ نہیں تھے۔ عالمی دہشت گرد تنظیموں اور تحریکوں میں سب سے بڑی القاعدہ میں افغانستان کے دنوں میں بھی ۴ہزار سے زیادہ لوگ نہیں تھے۔ ان کی دوسری خاصیت یہ تھی کہ عام طور پر وہ بہ نسبت اپنی برادری کے دوسرے لوگوں کے زیادہ تعلیم یافتہ تھے‘ اور اعلیٰ سماجی پس منظر سے تعلق رکھتے تھے۔ افغانستان میں جن لوگوں نے القاعدہ سے تربیت حاصل کی وہ متوسط اور اعلیٰ طبقوں کے لوگ تھے جو مستحکم خاندانوں سے آئے تھے‘ زیادہ تر کالج کے تعلیم یافتہ تھے اور سائنس اور انجینیرنگ کے طالب علم تھے‘ جب کہ دینی مدارس سے بہت کم آئے تھے۔ فلسطین میں بھی خودکش حملہ آوروں میں سے ۵۷ فی صد ہائی اسکول سے زیادہ تعلیم یافتہ تھے‘ جب کہ آبادی میں یہ تناسب ۱۵ فی صد سے کم تھا۔ (ص ۱۳۲-۱۳۳)
Eric Hobsbawm جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ بہت اہم ہے اور اس میں ہمارے لیے بڑا سبق ہے:
ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی عالمیت اور ایک فوجی طاقت کی جانب سے مسلح بیرونی مداخلت کے احیا نے‘ جس نے ۲۰۰۲ء میں‘ بین الاقوامی تنازعات کے اب تک کے تسلیم شدہ ضوابط کو سرکاری طور پر مسترد کیا ہے‘ حالات کو بدتر کردیا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں مستحکم ریاستوں کی حکومتوں کو اور ایشیا میں بھی‘ نئی عالمی دہشت گرد تنظیموں کا حقیقی خطرہ ناقابلِ ذکر ہے۔ لندن یا میڈرڈ میں شہری ٹرانسپورٹ میں چند درجن یا چند سو زخمی بمشکل ایک بڑے شہر کی کارکردگی میں چند گھنٹوں کا تعطل ڈالتے ہیں۔ نائن الیون کا حادثہ کتنا ہی ہولناک سہی‘ یہ امریکا کی عالمی طاقت اور اس کے اندرونی نظام کے حوالے سے بالکل بے اثر رہا۔ اگر حالات بدتر ہوئے ہیں تو یہ دہشت گردوں کی کارروائی سے نہیں‘ بلکہ حکومتِ امریکا کی کارروائی سے ہوئے ہیں۔ (ص ۱۳۵)
ہماری معروضات کا حاصل یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں خاص طور پر اور عالمِ اسلام بلکہ پوری دنیا میں بالعموم انتشار‘ تصادم اور خون ریزی کا اصل سبب وہ ظلم و تشدد‘ وہ ریاستی جبر اور تسلط‘ اور حکمرانوں کا قانون اور انصاف سے بالا ہونا ہے جس کے نتیجے میں مزاحمت رونما ہوئی ہے اور مزاحمت کے سوا کوئی اور ردعمل نہیں ہوسکتا۔ اسے انتہاپسندی کا نام دینا غلط ہے‘ اور اسے دہشت گردی قرار دے کر عسکری قوت سے دبانا مسئلے کو بگاڑنے اور تشدد اور خون خرابے کو وسیع کرنے کا نسخہ ہے۔ عالمی صف بندی میں ایک طرف امریکا اور اس کے حلیف ہیں جو ظلم اور استبداد کے مرتکب ہیں‘ اور دوسری طرف عوام ہیں جو اپنے حقوق‘ اپنی آزادی اور اپنے تہذیبی تشخص کے لیے جمہوری جدوجہد کرنا چاہتے ہیں اور جب اس کے دروازے بند پاتے ہیں تو بم کا جواب پتھر سے دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ قوت کا بے محابا استعمال اس صورت حال کو اور بگاڑ رہا ہے اور اب دونوں ہی طرف سے کیے جانے والے اقدامات بگاڑ کو بڑھانے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔
پاکستان میں اصل مسئلہ جنرل پرویز مشرف کا آمرانہ نظام‘ فوج کی قیادت اور فوج کا سیاسی استعمال‘ جمہوری عمل اور دستور اور قانون کی بالادستی کو درہم برہم کرنا اور نظامِ حکومت کو ایک اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے غلط طور پر استعمال کرنا ہے‘ اور گرتی ہوئی دیوار کو سہارا دینے کے لیے امریکا اور برطانیہ کے تعاون سے ایک سیاسی پارٹی کو شریکِ اقتدار کرنا اور حزبِ اختلاف کو بانٹنے اور ان کے درمیان تفریق اور بے اعتمادی پیدا کرنا ہے اور ان ہتھکنڈوں کے استعمال میں اس حد تک چلے جانا ہے‘ وہ جو قتل‘ لُوٹ مار‘ قومی دولت کے خردبرد‘ بھتہ خوری اور کرپشن کے ذریعے جسے اپنے نام نہاد صدارتی انتخاب سے چند گھنٹے پہلے بڑی بول تول اور بیرونی قوتوں کی مداخلت کے بعد مرتب کیا گیا تھا‘ عام معافی تک دینے کے گھنائونے جرم تک کا کاروبار کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی۔ اصل مسئلہ یہ غاصب قیادت‘ اور ان کا بنایا ہوا یہ نظام اور سیاسی کھیل ہے جسے دوست دشمن سب دیکھ رہے ہیں‘ مگر مفاد کے پجاری ملک میں بھی اور باہر بھی اس کھیل کو جاری رکھنا اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اسے کامیاب بنانا چاہتے ہیں‘ حالانکہ مجرم ضمیر ’جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا‘ کے مصدق اپنی کوئی نہ کوئی جھلک دکھا دیتا ہے۔ نیویارک ٹائمز اور گارڈین دونوں نے جنرل مشرف اور محترمہ بے نظیربھٹو کی پیٹھ ٹھونکی ہے‘ مگر یہ کہے بغیر بھی نہیں رہ سکے کہ یہ کھیل کتنا گھنائونا ہے۔
نیویارک ٹائمز نے مشرف-بے نظیر معاہدے کو جسے امریکا نے ممکن بنایا dubious dealقرار دیا ہے اور لکھا ہے:
بے نظیر کی واپسی کو جمہوریت کی فتح سمجھنا مشکل ہے‘ خاص طورپر اس لیے کہ یہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ایک مشکوک ڈیل کا نتیجہ ہے جو اس کو مزید پانچ سال کے لیے صدارت دیتی ہے۔ نہ یہ قانون کی حکمرانی کے لیے کوئی بڑی فتح ہے کیونکہ جنرل کے ساتھ بال کھیلنے کے بدلے میں مسزبھٹو کو ایک مناسب معافی دی گئی ہے جو ان کی وزارتِ عظمیٰ کے دور کے سنگین کرپشن کے الزامات سے ان کو بری کردیتی ہے۔
جنرل صاحب کی عزت امریکا میں کیا ہے اور ہمارے داخلی معاملات اور اپنے مطلب کی سیاسی قیادت کو بروے کار لانے میں امریکا کیا کردار ادا کررہا ہے‘ وہ بھی نیویارک ٹائمز ہی کے الفاظ میں یہ ہے:
ایک طویل عرصے تک اس نے جنرل مشرف کو اس کی مفروضہ طور پر طالبان اور القاعدہ کے خلاف پالیسیوں کی وجہ سے اپنی تائید سے نوازا۔ لیکن اب حال ہی میں وہ پالیسیاں اس کے جمہوریت اور قانون قبول کرنے یا شفاف انتخابات کرانے کے اس کے ایک کھوکھلے وعدے سے زیادہ قابلِ اعتماد نہیں رہیں۔ تاخیر سے یہ احساس ہونے کے بعد کہ جنرل کی پالیسیاں خطرناک طور پر انتہاپسندقوتوں کو کمزور نہیں مضبوط کر رہی ہیں۔ واشنگٹن نے اس ڈیل کے ہونے میں مدد دی جس سے مسزبھٹو کی واپسی ممکن ہوئی۔ اس سے پاکستان اور اسے جمہوریت کی طرف واقعی پیش قدمی کرنے میں مدد ملنا چاہیے۔
گارڈین کا تبصرہ بھی قابلِ غور ہے۔ سارا کھیل مفادات کی سیاست کا ہے‘ ورنہ جنرل مشرف اور محترمہ بے نظیر دونوں کی پارسائی کا حال سب کو معلوم ہے:
مسزبھٹو نے نہ حکومت پر اور نہ جنرل پرویز مشرف پر کراچی کے سانحے میں جس میں ۱۴۰افراد ہلاک ہوگئے‘ ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ انھوں نے پاکستان کے سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق‘ جنھوں نے ان کے والد کی حکومت کو ختم کیا اور ان کے باپ کو پھانسی چڑھایا‘ ان کے حامیوں کی طرف اشارہ کیا۔
ان میں سے کوئی بات بھی اسے خارج از امکان نہیں کرتی کہ آئی ایس آئی کے اندر بدمعاش عناصر یا اس کے سابقہ ممبروں نے اسلامی عسکریت پسندوں کے فراہم کیے ہوئے خودکش حملہ آور مسزبھٹو سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرنے کے لیے استعمال کیے ہوں۔ اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ ایک حقیقی معنوں میں سویلین مقبول سیاسی رہنما پاکستان کے ارب پتی جنرلوں کی طاقت کے لیے خطرہ ہے۔ مسزبھٹو اور ان کے شوہر پر جو بھی کرپشن کے الزامات ہوں (انھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا) لیکن ان کی غیرحاضری میں سینیر آرمی جرنیلوں نے جو مال اور جایداد جمع کی ہے اس کے مقابلے میں وہ ایک ہلکا سا عکس ہے۔ وہ پاکستانی جو ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پرآئے بھٹوؤں کے سروں پر کرپشن کے چھائے ہوئے بادلوں سے آگاہ تھے لیکن حکومت کا آٹھ سالہ پروپیگنڈا اور متعدد عدالتی اقدامات سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ ان کی اپنی پارٹی میں ان کے مقام کو جو نقصان پہنچا ہے وہ مشرف سے آٹھ ہفتے کی پس پردہ ڈیلنگ سے ہوا ہے۔ اسی کے نتیجے میں واپسی ہوئی اور ان کی واپسی کا راستہ صاف ہوا۔ اس سے ہی معلوم ہوجانا چاہیے کہ عوام کی ہمدردیاں کہاں ہیں۔ ایک سیاسی لیڈر کی حیثیت سے جنرل مشرف کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ ان کے لیے اب واحد قابلِ عمل راستہ یہ ہے کہ وہ ایک براے نام صدر بن جائیں اور وزیراعظم اور فوج کے درمیان رابطہ کاری کریں۔ (گارڈین‘ ۲۰ اکتوبر ۲۰۰۷ء)
یہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ کچھ جرنیل اور سیاست دان اس ناپاک کھیل میں شریک ہیں اور ملک کو مزید تباہی کی طرف لے جارہے ہیں‘ لیکن یہ ملک ۱۶کروڑ عوام کا ہے‘ کسی جرنیل یا کسی خاندان کی جاگیر نہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اصل مسائل کو سمجھا جائے اور جو کچھ معرضِ خطر میں ہے‘ اس کے حقیقی ادراک کے ساتھ ملک کو بچانے اور اصل دستور کے مطابق حقیقی جمہوری نظام قائم کرنے کی جدوجہد کی جائے۔ اس سلسلے میں عدالت‘سیاسی اور دینی جماعتیں‘ عام فوجی‘ انتظامیہ‘ میڈیا‘ وکلا برادری‘ دانش ور اور عوام اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ نظریۂ ضرورت کو اس کی ہرشکل میں اور روح اور جسد دونوں کے ساتھ ہمیشہ کے لیے دفن کردیا جائے اور اتنا گہرا گاڑا جائے کہ پھر اس سے باہر آنے کا خطرہ باقی نہ رہے۔ ملک عزیز کو جتنا نقصان نظریۂ ضرورت نے پہنچایا ہے کسی اور نظریے‘ حکمت عملی یا پالیسی نے نہیں پہنچایا‘ اور اس میں ساری ذمہ داری کسی ایک ادارے پر نہیں۔ عدالتیں‘ سیاسی جماعتیں‘ پارلیمنٹ‘ میڈیا سب ہی کسی نہ کسی درجے میں اس ذمہ داری میں شریک رہے ہیں اور اس سے نجات کی جدوجہد میں بھی ہر ایک کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہم اپنی تاریخ کے اس نازک لمحے پر جب ایک طرف عدالت بہت ہی اہم دستوری‘ سیاسی اور اخلاقی امور پر غور کر رہی ہے اور ایسے فیصلے کرنے جارہی ہے جن کے دُوررس اثرات ہوںگے‘ اور دوسری طرف ملک نئے انتخابات کے دروازے پر کھڑا ہے اور ایک طرف یہ امکان ہے کہ عدالت‘ دستور اور قانون کی بالادستی کو اولیت دے اور عوام‘ سیاسی اور دینی جماعتیں اور میڈیا جمہوریت کی بحالی کے لیے سیاست میں فوج کی بلاواسطہ اور بالواسطہ مداخلت کا ہردروازہ بند کرنے اور آزاد‘ غیر جانب دار اور شفاف انتخابات کے ذریعے عوام کے حقیقی نمایندوں کو زمامِ کار سونپنے کی خدمت انجام دیں‘ اور دوسری طرف یہ خطرہ ہے کہ ایک بار پھر نظریۂ ضرورت کا سہارا لے کر خدانخواستہ غلام محمد ‘ جنرل ایوب خان‘ جسٹس منیر‘ جسٹس انوارالحق‘ ضیاء الحق اور جسٹس ارشاد کے دکھائے ہوئے تباہی کے راستے کی طرف رجعت قہقہری کا ارتکاب کیا جائے‘ یا ایمرجنسی اور مارشل لا کے جہنم میں ملک کو جھونکنے کی خودکشی کی راہ اختیار کی جائے۔
یہ سب تباہی کے راستے ہیںاور ہمیں یقین ہے کہ باربار دھوکا کھانے والے عوام اب اس سنگین مذاق کو گوارا نہیں کریں گے۔ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اب ملک کو نظریۂ ضرورت کے نام پر آمروں اور مفاد پرستوں کی گرفت سے نکالنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ آخر یہ ملک کب تک اس ظالمانہ تصور کی کسی نہ کسی شکل کی زنجیروں میں پابہ جولاں رہے گا۔ غاصبوں کو اس کے ذریعے تحفظ ملا ہے۔ بیرونی دبائو اور مداخلت کو اس کے نام پر قبول کیا گیاہے۔ نائن الیون کے بعد یو ٹرن کو اس نظریۂ ضرورت کے سہارے جواز فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وزیرستان میں فوج کشی کے لیے بھی یہی بھونڈا جواز دیا جا رہا ہے کہ اگر ہم نہیں کرتے تو امریکا خود کرڈالے گا۔ یہ سب نظریۂ ضرورت ہی کے مختلف مظاہر ہیں جن کے نتیجے میں ملک کا ہر ادارہ اور اب ملک کی آزادی خطرے میں ہے۔ نظریۂ ضرورت ہی کا ایک مظہر یہ دلیل ہے کہ اگر جنرل پرویز مشرف کو صدر نہیں بنایا جاتا تو ایمرجنسی یا مارشل لا آسکتا ہے۔ عارضی دور (transition) اور تدریجی عمل کے ذریعے فوج کے تسلط اور مداخلت سے نجات کا فلسفہ بھی اسی کا شاخسانہ ہے‘ اس لیے اب اسے پورے شرح صدر کے ساتھ ختم ہونا چاہیے۔
۱- ہمیں عدالت عالیہ سے توقع ہے کہ وہ دستور‘ قانون‘ انصاف اور میرٹ پر فیصلے کرے گی اور نظریۂ ضرورت کا کسی شکل میں سہارا نہیں لے گی۔
۲- فوج سے توقع ہے کہ وہ اپنے دستوری فرائض پر قانع ہوگی اور سول نظام کی بالادستی کو کھلے دل سے قبول کرے گی‘ اور کسی نظریۂ ضرورت کا سہارا لے کر کسی غیردستوری اور ماوراے دستور انتظام کا خواب نہیں دیکھے گی۔
۳- سیاسی جماعتیں سمجھوتے کے راستے کو ترک کریں گی اور ڈیل اور شراکت اقتدار کے گرداب سے نکلیں گی۔ نیز فوج کی مداخلت کو مکمل طور پر ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا راستہ اختیار کریں گی۔ ماضی میں خواہ آٹھویں ترمیم ہو یا سترھویں ترمیم‘ فوج کو راستہ دینے اور فوجی حکمرانوں کو جواب دہ کرنے کی کوششیں تھیں اور یہ حکمت عملی ناکام رہی ہے۔ اب دوٹوک انداز میں پوری قوم کو یک زبان ہوکر اعلان کردینا چاہیے کہ دستوری‘ پارلیمانی اور وفاقی نظام کی بحالی کے سوا کوئی راستہ نہیں اور اس کا نقطۂ آغاز ۱۹۷۳ء کا دستور ہے جیساکہ وہ ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء کو تھا۔ یہ عمل ضروری ہے اور اس کے تحت حقیقی آزاد‘ شفاف انتخاب ہی تبدیلی کا صحت مند راستہ ہیں۔ باقی سب نظریۂ ضرورت کے شاخسانے ہیں جن کے لیے اب کوئی گنجایش نہیں۔
اس لیے وقت کی سب سے اہم ضرورت نظریۂ ضرورت سے نجات ہے اور اس کے لیے عدالت‘ سیاسی جماعتوں‘ میڈیا اور خود فوج کو یک سو ہوجانا چاہیے‘ اور ان چاروں کو ایک ہی ہدف کے حصول کے لیے کارفرما ہونا چاہیے۔ نیز جنرل پرویز مشرف کے کسی بھی حیثیت سے صدر ہوتے ہوئے آزاد اور غیر جانب دار انتخاب ممکن نہیں‘ اس لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی قوتیں مل کر طے کریں کہ ایک غیرجانب دار اور حقیقی عبوری نظام قائم ہو جس کے تحت ایک آزاد‘ خودمختار اور باہم مشورے سے قائم کیا جانے والا الیکشن کمیشن جلداز جلد نئے انتخابات کا انعقاد کرے جس میں تمام سیاسی قوتوں اور شخصیات کو برابر کے مواقع حاصل ہوں۔
یہی وہ راستہ ہے جس سے ملک اس دلدل سے نکل سکتا ہے جس میں جرنیلی آمریت نے اسے پھنسا دیا ہے۔ یہ مقصد مؤثر سیاسی جدوجہد اور بنیادی نکات پر حقیقی قومی اتفاق راے پیدا کیے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ وقت کم ہے اور چیلنج بہت عظیم۔
زندہ قوموں کا شیوہ یہی ہے کہ وہ بڑے سے بڑے چیلنج کا مردانہ وار مقابلہ کرتی ہیں اور اپنی آزادی‘ اپنی حاکمیت‘ اپنی شناخت اور اپنی قسمت پر حرف نہیں آنے دیتیں۔ آج پھر ملّت پاکستان کو ایک ایسا ہی معرکہ درپیش ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس امانت کی حفاظت کی توفیق بخشے جو پاکستان کی شکل میں ہمارے پاس ہے۔
صدرجارج بش کا دعویٰ ہے کہ جن افراد اور اقوام کو وہ ’دہشت گرد‘ قرار دے کر افغانستان اور عراق میں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں اور پوری دنیا میں خوف و ہراس‘ قانون شکنی اور انصاف سے محرومی کی فضا قائم کیے ہوئے ہیں‘ وہ آزادی‘ حقوق انسانی‘ رواداری اور شرافت کی ان اقدار اور تصورات کے مخالف بلکہ دشمن ہیں جن کا امریکا علَم بردار ہے۔ اس دعوے کو اقوامِ عالم نے کبھی بھی درخورِاعتنا نہیں سمجھا اور دنیا بھر میں امریکا اور اس کی موجودہ قیادت کے خلاف غم و غصے بلکہ نفرت کا جو طوفان اُمڈ آیا ہے‘ وہ عوام الناس کے اصل جذبات اور احساسات کا ترجمان اور امریکا کے بارے میں ان کی بے لاگ راے کا مظہر ہے۔ گذشتہ چار ہفتوں میں عراق اور امریکا میں تین ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے امریکی قیادت کا اصل چہرہ اور دہرا کردار ایک بار پھر کھل کر سب کے سامنے آگیا ہے اور خود امریکی دانش ور اور باضمیر صحافی بھی ان پر چیخ اُٹھے ہیں۔
پہلا واقعہ ۱۶ستمبر ۲۰۰۷ء کو بغداد میں رونما ہوا جس میں عراق میں امریکا کی ایک نجی سیکورٹی کمپنی بلیک واٹر (Black Water) کے محافظوں نے ۱۷معصوم عراقی شہریوں کو چشم زدن میں بھون ڈالا جس پر عراقی عوام ہی نہیں‘ امریکا کی سرپرستی میں کام کرنے والی عراقی حکومت بھی چیخ اُٹھی اورساری دنیا میں ایک کہرام برپا ہوگیا۔واضح رہے کہ یہ کوئی منفرد واقعہ نہیں___ جب سے امریکا نے عراق پر فوج کشی (۲۰۰۳ء )کی ہے‘ وہاں امریکا اور اس کے اتحادیوںکے ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کے علاوہ امریکا کی نجی سیکورٹی کمپنیوں کے تقریباً ایک لاکھ محافظ تعینات ہیں جن کو عراق ہی کے نہیں‘ ہرملکی اور بین الاقوامی قانون اور ضابطے سے مستثنا اور بالا رکھا گیا ہے‘ اور عراق میں امریکا کے پہلے منتظم اعلیٰ (administrator) پال بریمر سوم نے باقاعدہ ایک حکم نامے (order 17 transitional administrative laws) کے ذریعے تمام امریکی فوجی اور نیم فوجی کارندوں کو ان کے تمام اعمال و اقدامات کے بارے میں مکمل تحفظ دیا تھا۔ یہ اس تحفظ کا کرشمہ ہے کہ یہ محافظ جس کو چاہتے ہیں‘ ہلاک کر دیتے ہیں‘ جس علاقے پر چاہیں گولہ باری کرسکتے ہیں‘ جس شخص کو چاہیں گرفتار کرسکتے ہیں___اور امریکی فوجیوں کے مقابلے میں‘ جن کے اپنے مظالم کچھ کم نہیں ہیں‘ یہ نجی سیکورٹی گارڈز کہیں زیادہ قتل و خون اور بہیمیت کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔
لندن کے مشہور ہفت روزے نیو اسٹیٹمین کے شہرۂ آفاق کالم نگار جان پائیلگر (John Pilger) نے جو کئی کتابوں کے مصنف اور اہم ٹی وی دستاویزی فلموں کے پروڈیوسر ہیں‘ بارہا لکھا ہے کہ عراق میں شیعہ سنی فسادات کو انگیخت کرنے اور دونوں فرقوں کے لوگوں کو نہ صرف مارنے بلکہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے میں ان کا کلیدی کردار ہے۔بلیک واٹر کی طرح کی درجنوں کمپنیاں عراق میں ظلم کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں اور ان کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔ یہ سب کچھ صدر بش‘ ان کے نائب صدر ڈک چینی‘ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور اس کی سربراہ کونڈولیزارائس کی ناک تلے ہو رہا ہے۔ عراق کے عوام چیخ رہے ہیں‘ عالمی میڈیا اب ان خبروں کو چھاپ رہا ہے مگر آزادی‘ عدل و انصاف‘ حقوقِ انسانی کی علَم برداری کے دعویٰ کرنے والی امریکی قیادت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور وہاں کی عدالتیں‘ جن کی انصاف پسندی کا بڑا غلغلہ ہے‘ اس کا کوئی نوٹس نہیں لیتیں۔
دوسرے واقعے کا تعلق امریکا کی سپریم کورٹ کی بے حسی یا بے بسی سے ہے۔ جس عدالت کا کام سب انسانوں کو انصاف فراہم کرنا ہے اور جس کا دعویٰ امریکا کے دستور کی پہلی ہی دفعہ میں تمام انسانوں کے مساوی مقام کے دعوے کی شکل میں کیاگیا ہے‘ عملاً وہ دہشت گردی کے خلاف قوانین کا سہارا لے کر بے شمار مظلوم اور معصوم انسانوں کو انصاف سے محروم رکھ رہی ہے اور دلیل وہی گھسی پٹی: ’قومی سلامتی ‘کا تحفظ ہے۔
اس واقعے کا مرکزی کردار ایک لبنانی ذی حیثیت مسلمان ہے جو جرمن شہریت حاصل کرچکا تھا اور ۲۰۰۳ء میں اپنے خاندان کے ساتھ مقدونیہ میں چھٹیاں گزار رہا تھا کہ دہشت گردی کے شبہے میں سی آئی اے نے اسے دھر لیا‘ پھر ایک سال تک وہ امریکی خفیہ ایجنسی کے ہاتھوں افغانستان اور البانیا میں خوار ہوتا رہا۔ تشدد اور تعذیب کا نشانہ بنایا گیا اور اس ظلم کے شکنجے میں کسا گیا جسے renditionکہا جاتاہے۔ المصری پر کوئی الزام تک نہیں لگایا جاسکا اور بالآخر اسے اپریل ۲۰۰۴ء میں البانیا سے رہا کردیا گیا۔ اس وقت سے وہ امریکا کی عدالتوں میں ٹھوکریں کھا رہا ہے اور انصاف تلاش کر رہا ہے۔ اکتوبر۲۰۰۷ء میں سپریم کورٹ تک نے اس کی بے گناہی کا اعتراف کیا‘ اس کے باوجود محض تکنیکی وجوہ کی بنا پر اسے کوئی ریلیف نہیں دیا۔ وجہ: ’قومی سیکورٹی‘ اور یہ کہ ریاستی رازوں کے افشا ہونے کے خطرات ہیں۔
انصاف کے اس خون پر انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون تک اپنے ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۷ء کے اداریے بعنوان: Supreme Disgrace میں چلّا اٹھا‘ اس نے لکھا:
امریکا کی سپریم کورٹ صرف اپنے فیصلوں سے نہیں بلکہ مقدمات کے انتخاب سے بھی نظامِ عدل کی رہنمائی کرتی ہے‘ یعنی جن کی وہ سماعت کرنا قبول کرے اور جن کی سماعت سے انکار کردے۔ منگل کو اس نے بالکل غلط رخ میں رہنمائی دی۔ عدالت وہ چار ووٹ نہیں لا سکی جن کی ایک بے گناہ لبنانی نژاد جرمن شہری خالدالمصری کے مقدمے پر نظرثانی کے لیے ضرورت تھی۔ جسے بش انتظامیہ کے اخلاقی‘ قانونی اور عملی طور پر غلط دہشت گردی کے پروگرام کے تحت اغوا کیا گیا‘ گرفتار کیا گیا‘ اور ایک خفیہ سمندرپار قیدخانے میں ٹارچر کیا گیا۔
مظلوم خالد المصری کو زیریں وفاقی عدالتوں سے بھی انصاف نہیں ملا جنھوں نے اس کے سول مقدمے کو‘ حکومت کے اس نہایت کمزور دعوے کے آگے جھکتے ہوئے کہ اس مقدمے کو آگے بڑھانے سے قومی سلامتی کے راز خطرے میں پڑجائیں گے‘ خارج کردیا۔
اداریے کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے:
مصری کی اپیل کو مسترد کر کے ہائی کورٹ نے ایک بے گناہ شخص کو اس کی غلط قید اور ٹارچر کے لیے کسی قسم کا مداوا فراہم نہیں کیا۔ اس نے دنیا میں امریکا کے مقام کو نقصان پہنچایا اور انتظامیہ کی اپنے افعال کی جواب دہی سے بچنے کی کوششوں میں عدالت کو اعلیٰ درجے کا مددگار بنا دیا۔ یہ ایسے کام نہیں جن پر فخر کیا جائے۔
تیسرے واقعے کا تعلق بھی اسی عدل کشی اور انسانیت کی تذلیل اور تعذیب سے ہے۔ امریکا کا دعویٰ ہے کہ اس نے ٹارچر کو خلافِ قانون قرار دے دیا ہے اور زیرحراست افراد پر تشدد اور تعذیب کے ذریعے اقبال جرم امریکی قانون اور اقدار کے خلاف ہے‘ لیکن عملاً امریکا‘ اس کی افواج‘ نجی محافظ اور سی آئی اے کے تفتیش کار نہ صرف تعذیب کے گھنائونے حربے دن رات استعمال کر رہے ہیں‘ بلکہ اس کارروائی کی باقاعدہ اجازت امریکی صدر نے نائب صدر اور اٹارنی جنرل کی سفارش پر دی ہے جسے ایک خفیہ دستاویز (secret memo) کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس شرمناک دستاویز کی رو سے امریکی تفتیش کاروں کو تعذیب کے وہ ذرائع استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے جو روس میں اسٹالن کے تاریک دور میں استعمال کیے جا رہے تھے۔ اس دستاویز کو کانگریس کی انٹیلی جنس کمیٹی تک سے خفیہ رکھا گیا۔ بھلا ہو نیویارک ٹائمز کا ‘جس نے اکتوبر ۲۰۰۷ء کے دوسرے ہفتے میں اس دستاویز کا راز فاش کردیا اور اس طرح امریکا کی قیادت کا اصل چہرہ خود امریکی صدر کی ہدایات کی مکروہ شکل میں دنیا کے سامنے آگیا۔ ری پبلکن سینیٹر آرلین سپیکٹر تک چیخ اٹھا کہ یہ وحشت ناک انکشاف ہے اور امریکا کے نام نہاد جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے ٹارچر کو سندِجواز فراہم کی ہے۔ دی بوسٹن گلوب اور انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کا مضمون نگار ایچ ڈی ایس گرین وے (H.D.S. Greenway) اپنے مضمون Undermining Americans Value میں اس صورت حال کا یوں اظہار و اعتراف کرتا ہے:
ساری دنیا سے نصف صدی تک خبریں بھیجنے کے دوران میرا یہ تاثر تھا کہ امریکا آزادی‘ انسانی حقوق اور انسان کے عزوشرف کا علَم بردار تھا۔ بش انتظامیہ نے ہم کو اس سنہری معیار سے ہٹا دیا ہے اور یہ عزت بڑی حد تک خاک میں ملا دی ہے۔ ابوغریب اور گوانتانامو کے واقعات نے امریکا کی ساکھ اور اخلاقی مقام کو ختم کردیا ہے جس سے ہمارے دوستوں کو دکھ ہوا ہے‘ اورہمارے دشمنوں کو طاقت ملی ہے۔
گرین وے بڑے دکھ سے کہتا ہے کہ:
سب سے زیادہ حوصلہ شکن انکشاف یہ تھا کہ جس وقت امریکا کے عوام سعودی عرب‘ مصر جیسے اپنے حلیفوں سے جمہوریت اور کھلے پن کا تقاضا کر رہے تھے‘ دوسرے امریکیوں کو___ انتظامیہ کی مرضی اور خوشی سے ___خفیہ کمروں میں بتایا جا رہا تھا کہ قیدیوں کو ’بہترین‘ ٹارچر کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ حتیٰ کہ سوویت یونین کے تفتیشی طریقے‘ جو اَب ترک کیے جاچکے ہیں‘ بھی زیرعمل لائے گئے۔
وہ لوگ جو تفتیش سے واقفیت رکھتے ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح کا تشدد بش انتظامیہ روا رکھ رہی ہے‘ وہ غیر ضروری ہے اور معکوس نتائج دیتا ہے۔ سوویت یونین کے طریقوں کی نقل کرنے میں مسئلہ یہ ہے کہ سوویت تفتیش کار اکثر مذہبی معلومات حاصل کرنا نہ چاہتے تھے۔ وہ صرف ان کاموں کے اعترافات چاہتے تھے جووہ جانتے تھے کہ قیدیوں نے نہیں کیے‘ خالص سیاسی وجوہات پر پھانسی دینے کے لیے…
ٹارچر پر قومی اور بین الاقوامی پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے میں بش انتظامیہ کو طویل مدتی مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہمیں اسلامی انتہاپسندی کے خلاف جدوجہد میں سخت نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دیتا ہے جس کی وجہ سے مغرب کے لیے مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو قائل کریں کہ ہم اسلام کے دشمن نہیں ہیں۔ یہ القاعدہ کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ ان اعتدال پسند مسلمانوں کو روکتا ہے جو بہ صورت دیگر ہمارے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہماری عالمی حیثیت اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ (ہیرالڈ ٹربیون‘ ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۷ء)
وہ اقوام جو مہذب ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں‘ ان کا المیہ ہی یہ ہے کہ ان کا پورا نظام سیاست و حکمرانی اخلاقی اقدار سے خالی ہے‘ اور اصل مقصد صرف مفادات کا حصول اور قوت کے ذریعے دوسروں کا استحصال ہے جسے آج ’میانہ روی‘ اور ’روشن خیالی‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ وہ ظلم و استحصال کے اس خونیں کھیل کا خوش نما عنوان ہے جس سے انسانیت کو دھوکا نہیں دیاجاسکتا۔ البتہ افسوس کا مقام ہے کہ خود مسلمان ممالک میں ایسے ارباب اقتدار اور اقتدار کے متلاشی بھی کم نہیں جو ایک شرمناک کھیل میں امریکی قیادت کے شریکِ جرم ہیں یا شرکت کے لیے بے چین!