۱۸ جنوری بھی اب تحریکی زندگی کی یادوں میں ایک گراں لمحہ بن گیا ہے۔ لیجیے محترم بھائی سید فضل معبود بھی رخصت ہوئے! انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔
یہ خبر بجلی کی کوند کی طرح دل پر پڑی اور میں ایک لمحے کے لیے سکتے میں آگیا۔ جانتا ہوں کہ موت سب سے بڑی حقیقت ہے۔ بلاشبہہ ہر انسان فانی ہے اور ہم سب اس قافلے کے شریک ہیں۔ منزل تو وہی ہے‘ دنیا تو بس ایک درمیانی مرحلہ ہے لیکن اس سب سے بڑی حقیقت اور تقدیر سے اس ناگزیر ملاقات کو ہم بھولے رہتے ہیں۔ برادر محترم مولانا سید فضل معبود کے لیے فوری دعاے مغفرت کے بعد جو خیال دل و دماغ پر چھایا رہا وہ رفیق اعلیٰ سے ملاقات کے بارے میں اپنی غفلت کا احساس تھا۔ نہ معلوم کیوں ان کے انتقال کی خبر غیرمتوقع لگی اور اس کو اپنی بھول جان کر دل بے چین ہوگیا۔
فضل معبودصاحب سے میری پہلی ملاقات اسلامی جمعیت طلبہ کی نظامت اعلیٰ کے زمانے میں ہوئی۔ سرحد کے دورے پر آیا تو وہ پشاور کی جماعت کے امیر تھے اور جس محبت‘ شفقت اور بے تکلفی سے ملے وہ آج تک دل پر نقش ہے۔ میں نے جن استاد سے قرآن پاک پڑھا ان کا تعلق بھی صوبہ سرحد سے تھا۔ پھر سرحد کے متعدد افراد سے مختلف حیثیتوں سے ملاقات رہی اور تعلقات استوار ہوتے رہے۔ لیکن میں اپنے حقیقی احساسات کے اظہار میں بخل کا مرتکب ہوں گا اگر یہ نہ کہوں کہ وہ پہلے پشتون تھے جن کے بارے میں مجھے یہ احساس ہوا کہ وہ پشتون تہذیب اور روایت کا نمونہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر یوپی اور دلّی کی ثقافت کے بھی بہت سے پہلو لیے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر خورشیدالاسلام کا ایک معرکہ آرا مقالہ شبلی نعمانی پر ہے جس کا پہلا جملہ ہے:شبلی وہ پہلے یونانی ہیں جو ہندستان میں پیدا ہوئے۔ میں کوئی ایسی بات کہنے کی جسارت تو نہیں کرسکتا لیکن اپنے اس احساس کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ سید فضل معبود پشتون اور گنگاجمنا کی ثقافت کا سنگم تھے۔ زبان و بیان اور اظہار و ادا میں وہ دونوں ثقافتوں کا مرقع تھے اور کبھی ان کی زبان سے شین قاف اور تذکیر و تانیث میں کوئی لغزش محسوس نہیں کی۔ گفتگو میں نرمی اور مٹھاس‘ اُردو زبان کے اسرار و رموز کا ادراک‘ نکھرا ادبی ذوق‘ علمی بالیدگی اور ان سب کے ساتھ خلوص اور سادگی۔ فضل معبود کی شخصیت میں بلا کی کشش تھی۔ چھوٹوں کے ساتھ برابری کا معاملہ کرنا اور ان کوعزت دینا کوئی ان سے سیکھے۔
مولانا فضل معبود یکم اپریل ۱۹۱۸ء کو ضلع مردان کے قریب ایک دیہات تہامت پور میں پیدا ہوئے۔ ایم اے تک تعلیم حاصل کی۔ اُردو سے خصوصی شغف تھا اور اس زبان میں ایم اے کیا۔ ترجمان القرآن کے ذریعے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ سے واقفیت ہوئی اور یہ رشتہ ۱۹۳۸ء میں قائم ہوا۔ ۱۹۴۵ء میں جماعت اسلامی کے دوسرے کل .ُ ہند اجتماع میں جو پٹھان کوٹ میں منعقد ہوا‘ شرکت کی اور اپریل ۱۹۴۵ء میں جماعت کی رکنیت اختیار کی۔ جو عہد اپنے رب سے تجدید ایمان کے ساتھ کیا اسے آخری لمحے تک نبھایا اور ۱۸ جنوری ۲۰۰۷ء کو جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔
جماعت اسلامی میں مختلف ذمہ داریوں پر رہے۔۱۹۴۶ء سے ۱۹۶۷ء تک پشاور شہر کے امیر رہے۔ ۱۹۵۰ء میں مرکزی شوریٰ کے رکن بنے اور ۲۰۰۰ء تک شوریٰ میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ کچھ عرصہ ریلوے کے محکمے میں ملازمت کی۔ ۱۹۵۸ء سے ۱۹۶۴ء تک روزنامہ انجام پشاور کے سب ایڈیٹر رہے۔ تین بار سنت یوسفی پر عمل کرتے ہوئے تحریکِ اسلامی کی خدمت کے صلے میں قیدوبند کی صعوبتیں ہنسی خوشی برداشت کیں۔ اس طرح دو سال سے زیادہ مدت جیل میں گزاری۔ کچھ عرصے مرکزی اُردو سائنس بورڈ کے ڈائرکٹر رہے۔بی ڈی ممبر بھی بنے اور الخدمت کے محاذ سے مریضوں کی دیکھ بھال کی۔ ریڈیو پاکستان سے پشتو اور اُردو میں دینی اور سماجی موضوعات پر تقاریر کا سلسلہ بھی ۱۹۶۰ء سے ۲۰۰۱ء تک جاری رہا۔ غرض اجتماعی زندگی کے ہر شعبے اور میدان میں کچھ نہ کچھ کردار ادا کیا۔
الحمدللہ آج صوبہ سرحد تحریک اسلامی کا بڑا گہوارا ہے اور صوبے کے طول و عرض میں دعوتی ساتھیوں کی فصل بہار ہے۔ لیکن ایک مدت تک میرے لیے صوبہ سرحد نام تھا محترم خان سردار علی خان کا‘ محترم تاج الملوک کا اور سید فضل معبود کا۔ ہر ایک کا اپنا اپنا مقام اور اندازِکار۔ گویا ع
ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است
علمی اور ادبی ذوق‘ تحریکی اخوت اور ہمہ جہت ثقافتی دل چسپی کے اعتبار سے میرا سب سے زیادہ قرب برادرم فضل معبود ہی سے رہا۔ چراغِ راہ کی وجہ سے ایک خصوصی تعلق قائم ہوگیا۔ پھر شوراؤں میں ہمیں مل بیٹھنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے اور باہمی استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ ۱۹۶۴ء میں لاہور کی جیل میں ایک ہی بیرک میں ہم ساتھ رہے۔ میرے بزرگ ہونے کے باوجود انھوں نے کبھی مجھ سے خوردوں والا معاملہ نہیں کیا۔ محبت کے ساتھ جو احترام انھوں نے دیا‘ اس نے مجھے ان کا گرویدہ کر دیا۔ اسلام سے وفاداری‘ مولانا مودودی سے محبت‘ تحریک کے منہج کے باب میں مکمل یک سوئی‘ دعوت اور تنظیم دونوں میں سلیقہ‘ طبیعت میں بلا کی نفاست‘ معاملات میں کھرا ہونا اور تعلقات میں خلوص کے ساتھ مٹھاس‘ ان کی شخصیت کے ناقابلِ فراموش پہلو تھے۔ تحریک کے سچے مزاج شناس تھے اور ۱۹۵۷ء کے ماچھی گوٹ کے معرکے میں ان کی یک سوئی اور پھر کوٹ لکھپت میں دستور جماعت کی تدوین میں ان کی معاونت‘ مَیں کبھی بھول نہیں سکتا۔
مولانا سید فضل معبود کو رسائل کے پورے پورے ریکارڈ رکھنے کا شوق تھا۔ مجھے ان کی ذاتی لائبریری دیکھنے کا موقع نہیں ملا لیکن مجھے یقین ہے کہ ان کے پاس کتب و رسائل کا بڑا قیمتی ذخیرہ ہوگا۔ فضل معبود صاحب کا حافظہ بھی بہت اچھا تھا اور جب بھی ہمیں وقت ساتھ گزارنے کا موقع ملا ہے احساس ہوا کہ انھیں چھوٹی چھوٹی باتیں بھی خوب یاد رہتی تھیں۔صحت کی خرابی کے باعث آخری زمانے میں مجھے ان سے ملنے کا موقع نہیں ملا جس کا افسوس رہے گا۔
الحمدللہ انھوں نے بھرپور تحریکی زندگی گزاری اور اس پورے عرصے میں پاے استقامت میں کوئی کمزوری نہیں آئی۔ نئے لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی کی اور اپنے رب اور تحریکی ساتھیوں سے وفاداری کا معاملہ کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں اور خدمات کو قبول فرمائے‘ بشری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرمائے اور انھیں جنت کے اعلیٰ مقامات پر جگہ دے ع
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
پاکستان اور اس کے اسٹرے ٹیجک اثاثوں پر جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں روشن خیالی‘ لبرلزم‘ لچک‘ ضرورت حتیٰ کہ ’جرأت‘ کے نام پر بجلیاں گر رہی ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا قیمتی اثاثہ‘ مفاد اور اصول اس فائرنگ کی زد (’in the line of fire‘) میں آکر مجروح ہو رہا ہے یا جان ہی سے ہاتھ دھو رہا ہے۔ لیکن اب جیسے جیسے ۲۰۰۷ء کا انتخابی معرکہ قریب آرہا ہے اور ملک ایک فیصلہ کن لمحے کی طرف بڑھ رہا ہے‘ جنرل صاحب کی جراحت کاریاں بھی تیز تر ہوتی جارہی ہیں۔ گذشتہ چند ہفتوں میں تین اہم ترین محاذوں پر انھوں نے جو حملے کیے ہیں‘ ان سے سیاسی نقشۂ جنگ بالکل کھل کر سامنے آگیا ہے۔ اب قوم اس تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے جہاں پاکستان کے نظریاتی‘ سیاسی اور جغرافیائی وجود کے تحفظ اور اصل منزل کی طرف پیش رفت یا خدانخواستہ تحریکِ پاکستان اور اس کے ذریعے حاصل کردہ سرمایۂ حیات سے محرومی اور محکومی کے نئے دور کے آغاز میں سے ایک ہمارا مقدر ہوگا:
۱- نظریاتی اعتبار سے دو قومی نظریہ‘ پاکستان کی اسلامی شناخت‘ شریعت کی بالادستی اور حدود اللہ کی پاس داری‘ اسلامی تہذیب و ثقافت کی حفاظت و فروغ اور تعلیم میں اسلامی اقدار اور اہداف کا واضح کردار سب سے اہم اور مرکزی ایشو بن گیا ہے۔ ان پر روشن خیالی اور لبرلزم کے نام پر کھل کر حملہ کیا جا رہا ہے۔
۲- اب جملہ داخلی و خارجی امور کا فیصلہ دستورکے تحت ادارے اور عوام کے منتخب نمایندے نہیں کر رہے‘ بلکہ یونٹی آف کمانڈ کے نام پر ایک فردِواحد تمام اصولی‘ تاریخی اور قومی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اورجواب دہی سے بالا ہوکر اپنے ذوق‘ خواہشات اور مخصوص مفادات کی روشنی میں کر رہا ہے اور کرنے کے استحقاق کا دعویٰ بھی کر رہا ہے۔ یہ پورے سیاسی نظام اور ملت اسلامیہ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر خط تنسیخ پھیرنے کے مترادف اور قوم کی آزادی اور عزت دونوں پر شدید ترین حملہ ہے۔
۳- نظریاتی اور سیاسی انقلابِ معکوس (counter-revolution) کے ساتھ تیسرا خطرہ اب پاکستان کے جغرافیائی وجود کو لاحق ہے۔ اس کے بڑے بڑے مظاہر یہ ہیں: (۱)مرکز اور صوبوں میں بُعد‘ جو اب تصادم کی حدوں کو چھو رہا ہے (۲) بلوچستان میں فوج کشی (۳)سندھ میں ایک لسانی مافیا کی سرپرستی (اسے کھلی چھوٹ جو لاقانونیت اور بھتہ خوری سے بڑھ کر اب پھر مہاجر‘ پختون‘ پنجابی ٹکرائو اور خون خرابے کی طرف بڑھ رہا ہے) (۴) شمالی اور جنوبی وزیرستان اور باجوڑ میں قوت کا بے محابا استعمال (۵) ایجنسیوں کے ذریعے ملک کے مختلف حصوں میں مذہبی‘ لسانی اور علاقائی عصبیتوں کا فروغ اور اسے تصادم اور خون ریزی تک لے جانے کی مساعی‘ اور اب (۶) ریاست جموں و کشمیر کے سلسلے میں جنرل صاحب‘ ان کے وزیرخارجہ اور وزارتِ خارجہ کی سرکاری ترجمانی کے ذریعے دست برداری کے اعلان کی شکل میں وہ ضرب کاری جس کے نتیجے میں خدانخواستہ برعظیم کا نقشہ ہی بدل سکتا ہے۔
بھارتی ٹی وی نیٹ ورک کو جنرل صاحب کا ۵ دسمبر۲۰۰۶ء کا انٹرویو دراصل اس پورے عمل کا ایک اہم حصہ ہے۔ اگر قوم اب بھی اس خطرناک اور تباہ کن کھیل کا راستہ نہیں روکتی تو ہمیں خطرہ ہے کہ معاملات اس کے ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہیں۔
اس انٹرویو میں بہت کچھ کہا گیا ہے مگر دو چیزیں زیادہ اہم ہیں:
اوّل: جنرل صاحب کے سارے کھیل کا انحصار ’یونٹی آف کمانڈ‘ پر ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی خاطر وہ فوج کی سربراہی چھوڑنے کو تیار نہیں۔ انھوں نے صاف کہا ہے کہ جو کچھ میں کر رہا ہوں اس کے لیے تین قوتوں کی تائید حاصل ہے اور اس لیے حاصل ہے کہ وہ خود ان کی سربراہی کررہے ہیں‘ یعنی فوج‘ اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی۔
بات بہت صاف ہے۔ عوام‘ عوامی نمایندوں اور منتخب اداروں‘ پارلیمنٹ حتیٰ کہ کابینہ تک کا اس میں کوئی ذکر نہیں اور ذکر کی ضرورت بھی نہیں کہ وہ کسی شمار قطار میں نہیں۔ یہ سیدھے سیدھے قوت کا کھیل ہے اور اس طرح ایک نوعیت کا نوآبادیاتی (colonial) نظام ہے اور اس کی بقا اور استحکام جنرل صاحب کا مقصد اور ہدف ہے۔
دوم: کشمیر کے معاملے میں پاکستان کے اصولی‘ تاریخی اور خود پاکستان کی بقا و ترقی کے لیے ناگزیر موقف سے مکمل طور پر انحراف‘ جسے یو ٹرن اور سمت کی تبدیلی (paradigm shift) کے علاوہ کسی دوسرے لفظ سے تعبیر نہیں کیاجاسکتا۔ یہ بھارت کے موقف کو کھل کر قبول کرنے کے مترادف ہے۔ اب صاف لفظوں میں یہ تک کہہ دیا گیا ہے کہ بھارت سے کشمیر کی آزادی ہمارا مقصد نہیں۔ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ اصل ایشو نہیں۔ کشمیر بنے گا پاکستان‘ کشمیریوں کا نعرہ تھا‘ پاکستان کا ہدف نہیں۔ جموں وکشمیر پر پاکستان کا کوئی حق نہیں۔ گویا ۵۹سال تک جو کچھ پاکستان کرتا رہا وہ جھک مارنے سے زیادہ نہیں تھا۔ جو قربانیاں جموں و کشمیر اورپاکستان کے مسلمانوں نے آج تک دیں اور جن میں ۶لاکھ افراد کی شہادت‘ ہزاروں خواتین کی عصمت دری‘ اربوں کی املاک کا اتلاف‘ ہزاروں نوجوانوں کی گرفتاریاں‘ تعذیب اور مستقل معذوری‘ اور بھارت سے پاکستان کی چار جنگیں اور اس پس منظر میں فوج پر کھربوں روپے کا صرف___ سب ایک ڈھونگ‘ ایک سیاسی کھیل‘ ایک خسارے کا سودا تھا۔
اب فردِواحد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ریاست جموں و کشمیر پر بھارت کے قبضے کو سندِجواز عطا کردے‘ استصوابِ راے اور حقِخود ارادیت سے دست بردار ہوجائے‘اقوام متحدہ کی قراردادوں کو دفن کردے اور وہاں سے مسئلے کو واپس لینے تک کا اعلان کردے‘ آزادی اور تحریکِ آزادی سے برأت کا اظہار کر دے اور جو نظام جواہرلعل نہرو نے ۱۹۵۱ء میں دے کر ۱۹۵۳ء میں درہم برہم کردیا تھا اور جس خودمختاری کی خیرات دینے کا اعلان نرسمہارائو نے ۱۹۹۵ء اور ۱۹۹۶ء میں بار بار کیا تھا‘ اس سے بھی کم پر کشمیریوں کا سودا کرنے کے لیے آمادگی کا اظہار کیا جائے۔ اس سے بھی بڑھ کر خود آزاد کشمیر پر بھی مشترک کنٹرول (joint control )اور مشترک انتظام (joint management) کی باتیں کی جائیں۔ سید علی شاہ گیلانی اور تحریکِ آزادیِ کشمیر کے تمام ہی مخلص اور بھارت شناس قائدین نے اسے تحریک پاکستان‘ جموں و کشمیر کے مسلمانوں اور پاکستانی قوم سے غداری قرار دیا ہے‘ اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ بھارت کی قیادت اور جنرل پرویز مشرف کے اس کھیل کو ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
بات بہت صاف ہے۔ جموں و کشمیر کی ریاست کی قسمت کا فیصلہ وہاں کے عوام کو تقسیم ہند کی اسکیم کے ایک عمل کے طور پر کرنا ہے۔ کشمیر کا قضیہ (dispute) زمین کی تقسیم یا سرحدات کی حدود میں تبدیلی کا مسئلہ نہیں۔ یہ ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے حق خودارادیت کا مسئلہ ہے جس پر ماہ و سال کے گزرنے سے فرق نہیں پڑتا۔ آزادی اور حقوق کی جنگ امروز و فردا کی حدود کی پابند نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے عوام دو صدیوں سے زیادہ عرصے سے یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ برطانیہ‘ سکھ‘ ڈوگرہ‘ بھارتی حکمران‘ ان سب کے خلاف یہ جنگ لڑرہے ہیں اور ہم اس جنگ میں ان کے حلیف اور شریک ہیں۔ اس لیے کہ وہ دینی‘ تہذیبی‘ معاشی‘ سیاسی‘ جغرافیائی ہر اعتبار سے ہمارا حصہ ہیں۔ پاکستان کی جدوجہد میں جموں و کشمیر کے مسلمان برابر کے شریک تھے اور ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کے اجتماع میں انھوں نے قائم ہونے والے پاکستان کے حصے کے طور پر شرکت کی تھی‘ اور ۱۹جولائی ۱۹۴۷ء کو پاکستان کے قیام سے قبل انھوں نے اور ان کے منتخب نمایندوں نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کردیا تھا‘ اور اس اعلان کے تحت انھوں نے لڑکر جموں و کشمیر کا ایک حصہ عملاً آزاد کروایا جو آج آزادکشمیر اور شمالی علاقہ جات کی شکل میں پاکستان سے متعلق ہے جسے ہم آزاد کشمیر کی حکومت کہتے ہیں۔ یہ محض ان علاقوں کی حکومت نہیں جو بھارت کے چنگل سے ۴۹-۱۹۴۷ء میں آزاد کرا لیے گئے تھے‘ بلکہ دراصل پورے جموں و کشمیر کی آزاد حکومت ہے جس کے تصور سے اب جنرل صاحب اور ان کے حواری توبہ کر رہے ہیں اور بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کبھی نہیں کہا۔ یہ کہ اٹوٹ انگ ایک بھارتی واہمہ ہے اور ہم نے بھارت کے قبضے کو ہرسطح پر چیلنج کیا ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس بنیاد پر؟ کیا یہ بنیاد اس کے سوا کوئی اور تھی کہ ہندستان کی تقسیم کے فارمولے کے مطابق مسلم اکثریتی خطہ ہونے کی بنا پر جموں و کشمیر پاکستان کا حق ہے۔ پاکستان کے الفاظ تک میں ’ک‘ کا تعلق کشمیر سے ہے‘ قرارداد پاکستان میں کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ الحاق پاکستان کی قرارداد سے پاکستان اور کشمیر ایک جسم بن چکے ہیںاور قائداعظمؒ نے اسی بنیاد پر اسے پاکستان کی شہ رگ کہا۔ اسی بنیاد پر جہادِ آزادی کا آغاز ڈوگرہ راج کے خلاف ہوا جو آج تک جاری ہے۔ جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے کبھی اپنے کو پاکستان سے جدا تصور نہیں کیا۔
ان کی گھڑیاں پاکستان کی گھڑیوں کے مطابق وقت بتاتی ہیں‘ پاکستان کی ہرخوشی پر وہ خوش‘ ہر کامیابی پر وہ نازاں اور ہرمشکل پر وہ دل گرفتہ ہیں۔ انھوں نے بھارت کے تسلط کو کبھی قبول نہیں کیا اور بڑی سے بڑی قربانی دے کر اس کے استبداد کا مقابلہ کیا۔ ۱۴ اگست کو وہ یومِ آزادی مناتے ہیں اور ۱۵ اگست کو یومِ سیاہ۔ بلاشبہہ تکمیل پاکستان کی اس جدوجہد کے لیے ہم نے بین الاقوامی قانون کی پاس داری کرتے ہوئے استصواب راے کے قانونی عمل کی بات کی‘ اور جو بھی حق پسند ہوگا وہ اس کا اعتراف کرے گا جیساکہ امریکا کی قیادت کی وقتی مفادات پر مبنی قلابازیوں کے باوجود امریکا کی سابق سیکرٹری آف اسٹیٹ میڈیلین آل برائٹ نے ۱۳ دسمبر ۲۰۰۳ء کو خود دہلی کی سرزمین پر برملا کہا تھا کہ: ’’کشمیری عوام کی خواہشات معلوم کرنے کا واحد راستہ استصواب راے عامہ ہے‘‘۔
ستم یہ ہے کہ آج وہ جرنیل جن کا فرض منصبی ہی یہ ہے کہ ایک ایک انچ زمین کی حفاظت کے لیے جان دے دیں‘ جموں و کشمیر کی جنت نشان زمین ہی نہیں‘ ایک کروڑ انسانوں کی مقبوضہ ریاست کو تحفتاً بھارت کی غاصب قیادت کو پیش کرنے اور اُمت مسلمہ کے ایک حصے کا سودا کرنے کو تیار ہیں۔
بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کیوں نہ خوش ہو۔ سابق وزیراعظم گجرال کس مسرت سے کشمیر پر جنرل صاحب اور وزارتِ خارجہ کی ترجمان کے بیان کو سنگِ میل قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ: ’’کشمیر پر پاکستان کا دعویٰ ختم ہونے کے بعد مسئلے کا حل جلد نکل آئے گا‘‘۔
یہ مسئلے کا حل نہیں‘ یہ پاکستان کی شہ رگ کو ہمیشہ کے لیے دشمنوں کے پنجے میں دینے اور ایک کروڑ انسانوں کو غلامی کی جہنم میں دھکیل دینے کی جسارت ہے۔ یہ آزادکشمیر اور شمالی علاقہ جات کو بھارت کی افواج اور سیاسی دراندازیوں کے لیے کھولنے کی غداری ہے۔ یہ پاکستان کے تصور‘ اور قائداعظم اور تحریکِ پاکستان کے نقشۂ پاکستان کو درہم برہم کرنے کی سازش ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ کامیاب ہوتی ہے تو ہمیں ڈر ہے کہ اس کے نتیجے میں پاکستان کا نظریاتی ہی نہیں‘ جغرافیائی وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔
یہ خطرات اب صرف نظری امکان کی حد سے بڑھ کر حقیقی تبدیلی کے دروازے تک پہنچ چکے ہیں اور جس طرح برعظیم کے مسلمانوں نے قائداعظم کی قیادت میں وقت کے حقیقی خطرات کا صحیح ادراک کرکے ۱۹۴۰ء میں برطانیہ اور کانگرس کے گٹھ جوڑ کا مقابلہ کرنے کے لیے قیامِ پاکستان کی جدوجہد کا آغاز کیا اسی طرح آج امریکا اور بھارت کے عزائم اور ان کا آلہ کار بننے والے طبقات اور قیادتوں کے مقابلے کا عزم اور پروگرام وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
آج ملت پاکستان کی جدوجہد کا ہدف تحفظِ پاکستان اور تحفظِ کشمیر ہے۔ کشمیر اور پاکستان کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔ جن کی نظر تاریخ کے حقائق پر ہے‘ وہ جانتے ہیں کہ کشمیر سے پسپائی دراصل پاکستان کے انتشار اور بربادی کا راستہ اور برعظیم کے نقشے کوایک بار پھر تبدیل کرنے اور اکھنڈ بھارت کے خواب میں رنگ بھرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ ملتِ اسلامیۂ پاکستان نے پہلے بھی اپنے نظریاتی‘ تہذیبی اور جغرافیائی تحفظ کی جنگ ساری بے سروسامانی کے باوجود لڑی ہے اور ان شاء اللہ اب بھی لڑے گی۔ وسائل کے اعتبار سے آج ہم ۱۹۴۰ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ ضرورت بیرونی سہاروں پر بھروسا کرنے کے بجاے اللہ کے بھروسے پر حق و انصاف کے موقف پر ڈٹ جانے اور ہر قربانی کے لیے آمادہ ہونے کی ہے۔
وہ قیادت جو قومی مقاصد کو ترک کرچکی ہے‘ اب قوم پر ایک بوجھ (liability) ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ملک کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ (security risk)۔ ایسی قیادت سے نجات اور ایک ایسی متبادل قیادت کو زمامِ کار سونپنا وقت کی اہم ضرورت ہے جو ذاتی‘ گروہی اور عالمی طاقتوں کے مفادات کی اسیر نہ ہو‘ بلکہ ان پر ضرب لگانے کا داعیہ اور صلاحیت رکھتی ہو‘ جس سے دین اور قوم کے مفاد پر کسی سمجھوتے اور پسپائی کا خطرہ نہ ہو‘ جو خدا کی رضا اور ملتِ اسلامیۂ پاکستان کے حقوق اور مفادات کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے کا عزم رکھتی ہو‘ جو اپنی تاریخ اور دنیا کی سامراجی قوتوں‘ خصوصیت سے امریکا٭ اور بھارت کے عزائم کاشعور رکھتی ہو اور جو قوم کو قربانیوں اور جدوجہد کے راستے پر متحرک کرنے اور اس راہ میں اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھ کر ان کی قیادت کرنے کی مثال قائم کرسکتی ہو۔
آج پاکستانی قوم کے سامنے اصل سوال صرف ایک ہے___ کیا اب یہ قوم بیرونی ایجنڈے اور مفاد کی خاطر اصولوں کی قربانی دینے والی قیادت سے نجات کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کے لیے تیار ہے؟ اگر ہمیں اپنا دین‘ اپنی آزادی‘ ملتِ اسلامیۂ پاکستان کی قربانیاں‘ اور پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ عزیز ہے تو جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی سازش کا بھرپور مقابلہ کریں۔ پاکستان اور نظریۂ پاکستان کی جنگ آج کشمیر کے محاذ پر لڑی جارہی ہے اور وہاں پسپائی کے معنی دراصل مظفرآباد‘ اسلام آباد‘ پشاور‘ کوئٹہ اور کراچی کو نشانے پر (’in the line of fire‘) لانے کے سواکچھ نہیں ع
تیرے نشتر کی زد شریانِ قیسِ ناتواں تک ہے
پروفیسر خورشیداحمد کے شذرے ’اسلامی نظریاتی کونسل کی غیر نظریاتی بیداری‘ (نومبر۲۰۰۶ء) پر اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود صاحب نے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔ یہ اور مدیر ترجمان کا استدراک دونوں ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں۔ (ادارہ)
محترم پروفیسر خورشیداحمد صاحب کا ایک شذرہ ’اسلامی نظریاتی کونسل کی غیر نظریاتی بیداری‘ کے عنوان سے ترجمان القرآن اور بعض اخبارات میں شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے اس بات پر مسرت کا اظہار کیاہے کہ ’’اس دستوری ادارے کو شاید اپنی تاریخ میں پہلی بار اپنے مقام و کردار اور استحقاق کا احساس ہوا‘‘۔ پروفیسر صاحب نے ادارے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے: ’’ہم خود اسلامی نظریاتی کونسل کو بااختیار دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے کردار کو زیادہ مؤثر بنانے کے حق میں ہیں‘‘۔ محترم پروفیسر صاحب اسلامی نظریاتی کونسل کے پرانے کرم فرما اور بہی خواہ ہیں۔ ان کے ارشادات کی ہم بے حد قدر کرتے ہیں‘ تاہم اس شذرے میں چند حقائق بیان کرنے میں پروفیسر صاحب سے کسی قدر فروگزاشت ہوئی ہے۔ اس لیے ہم بصدادب چند معروضات پیش کرنا چاہتے ہیں:
۱- پروفیسر صاحب نے فرمایا کہ کونسل نے قوانین پر نظرثانی کے لیے ایک جامع رپورٹ مرتب کرنا تھی جو آج تک مرتب نہیں ہوئی اور یوں کونسل نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی‘ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ کونسل نے یہ آئینی ذمہ داری مکمل کرتے ہوئے جامع رپورٹ مرتب کرکے دسمبر ۱۹۹۶ء میں شائع کردی تھی۔ پروفیسر صاحب کی خواہش ہو تو وہ کونسل کے دفتر سے طلب کرسکتے ہیں۔ ماضی میں کونسل کی رپورٹیں صیغۂ راز میں رکھی جاتی تھیں۔ موجودہ کونسل کے فیصلے کے تحت اب یہ پبلک کے لیے دستیاب ہیں۔
یہ فائنل رپورٹ ۵۲۷ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس رپورٹ میں ۱۸۳۶ء سے ۱۸۸۱ء تک کے تمام قوانین کا جائزہ پیش کردیا گیا ہے۔ اس فائنل اور جامع رپورٹ کے علاوہ کونسل سالانہ اور خصوصی رپورٹیں بھی شائع کرتی رہی ہے جو کونسل کی لائبریری میں موجود ہیں۔
۲- کونسل اس بات پر مسرت و اطمینان کا اظہار کرتی ہے کہ موجودہ حکومت نے مختلف قوانین پر ذرائع ابلاغ اور پارلیمنٹ میں بحث کا آغاز کیا ہے۔ اب تک پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذ عام طور پر آرڈی ننسوں کے ذریعے ہوتا رہا ہے اور اس مرتبہ ان قوانین پر ذرائع ابلاغ پر بے لاگ گفتگو ہورہی ہے اور اُمید ہے کہ اسمبلی میں بھی اس پر سنجیدہ بحث ہوگی۔ اس سلسلے میں جو اندیشے‘ تحفظات اور جھنجھلاہٹیں سامنے آرہی ہیں وہ فطری امر ہے‘ لیکن خوش آیند بات یہ ہے کہ قانون سازی عوام کے منتخب نمایندوں کے ہاتھوں ہورہی ہے۔
۳- پروفیسر صاحب کو شکایت ہے کہ ’’اسلامی نظریاتی کونسل کو ایک دستوری ادارہ ہوتے ہوئے بھی عملاً ایک عضو معطل ہی کا مقام دے دیا گیا‘‘ اور یہ کہ ’’کونسل ۵۰ سے زیادہ رپورٹیں تیار کرچکی ہے لیکن ان میں سے کسی ایک پر بھی پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہوئی‘‘۔ بقول ان کے ’’حیرت کا مقام ہے کہ کونسل یا اس کے ارکان کو اس بے توقیری پر کبھی احتجاج کی توفیق نہیں ہوئی‘‘۔ ان رپورٹوں پر بحث پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی دستوری ذمہ داری ہے تاہم انھوں نے کونسل کو مطعون کیا ہے کہ ’’ہمیں علم نہیں کہ اس سلسلے میں کونسل نے کبھی حکومت کو اپنی دستوری ذمہ داریاں ادا کرنے پر متوجہ کرنے کی زحمت فرمائی ہو‘‘۔ پروفیسر صاحب سینیٹ کے اہم رکن ہیں‘ وہ بہتر جانتے ہیں کہ ان رپورٹوں پر کیوں بحث نہیں ہوئی۔ وہ اپنی کوتاہی کے لیے کونسل کو ذمہ دار کیوں ٹھیراتے ہیں۔ کونسل کے نزدیک رپورٹ پیش کرنے پر کونسل کی ذمہ داری پوری ہوجاتی ہے۔ کونسل کو ’ولایتِ فقیہ‘ کا اختیار حاصل نہیں اور نہ ہی وہ کسی ایسے اختیار کی قائل ہے کیونکہ اس سے پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح ہوتا ہے۔
۴- پروفیسر صاحب نے یہ نکتہ بھی اٹھایا ہے کہ حسبہ بل اور حدود آرڈی ننس کے اصل مسودات اسلامی نظریاتی کونسل ہی نے تیار کیے تھے‘ انھیں غالباً اس بات پر اعتراض ہے کہ کونسل اپنے ہی تیار کردہ مسودات کی تائید کیوں نہیں کر رہی یا ان پر نظرثانی کی بات کیوں کرتی ہے۔ میں پروفیسر صاحب کو یقین دلاتا ہوں کہ کونسل‘ زیرغور ہرمسئلے پر کونسل کے ماضی کے فیصلوں اور سفارشات کو مدنظر رکھتی ہے بلکہ موجودہ کونسل نے یہ طریقۂ کار طے کیا ہے کہ کونسل کے ماضی کے فیصلوں کو بھی موجودہ کونسل کی توثیق کے بعد ہی نقل‘ شائع یا جاری کیا جائے گا۔
۵- پروفیسر صاحب کو حسبہ بل کے بارے میں کونسل کی راے پر بھی اعتراض ہے۔ کونسل کی راے کے جس حصے کو انھوں نے ’دستوری بقراطیت‘ کا نام دیا ہے اس کی آئینی حیثیت پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے‘ اس لیے مجھے اس پر مزید [کچھ] کہنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ کونسل نے جن شرعی تحفظات کا اظہار کیا تھا وہ پروفیسر صاحب کی توجہ کے لائق ہیں اور یہ تحفظات اس ماحول کو پیش نظر رکھ کر کیے گئے تھے جس میں پاکستان میں اقامت دین کے نام پر دین میں سیاست کوٹ کوٹ کر بھردی گئی ہے۔ اور اندیشہ ہے کہ حسبہ کا سیاسی استعمال شریعت اور دین کومتنازع بنادے گا۔ فرقہ واریت اور مذہبی جماعتوں کے حالیہ باہمی اختلافات سے اس اندیشے کو مزید تقویت ملی ہے۔
۶- ’تحفظ حقوقِ نسواں‘کے بل پر پارلیمنٹ میں بحث کے آغاز سے پہلے ہی بعض حلقوں کی طرف سے حدود آرڈی ننس کی مکمل تنسیخ یا اس کو بعینہٖ باقی رکھنے پر جس طرح اصرار کیا جا رہا ہے اور اس پر پارلیمنٹ میں غوروخوض اور ترمیم کا راستہ روکنے کے لیے جس طرح زور ڈالا جا رہا ہے اس پر افسوس ہوتا ہے کہ بعض لوگ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بات تو کرتے ہیں لیکن قانون سازی کے لیے غیرجمہوری اور غیرپارلیمانی طرزِعمل پر مصر ہیں۔ پروفیسرصاحب سے درخواست ہے کہ اس غیرجمہوری اور غیرپارلیمانی طرزِفکر کی حوصلہ شکنی کی طرف بھی توجہ فرمائیں۔
ترجمان القرآن (نومبر۲۰۰۶ء) میں شائع شدہ شذرے پر اسلامی نظریاتی کونسل کے فاضل اور محترم صدر ڈاکٹر محمد خالد مسعود کا ایک طویل مراسلہ موصول ہوا ہے جسے شائع کیا جا رہا ہے۔ شذرے کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ کیا کسی مسئلے پر پارلیمنٹ یا پارلیمانی پارٹیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ ایک دینی مسئلے پر کونسل کے علاوہ دوسرے علماے کرام‘ یا کسی مجلس یا ادارے سے قانون سازی کے دوران راے لیں اور اگر پارلیمنٹ کی پارٹیاں ایسا کرتی ہیں تو کیا اس سے اسلامی نظریاتی کونسل جیسے دستوری لیکن سفارشی ادارے کا استحقاق مجروح ہوتا ہے؟ سوال کونسل کے ایک یا ایک سے زیادہ ارکان کے اس موقف پر پیدا ہوا تھا جنھوں نے اس عمل پر برافروختہ ہوکر استعفا پیش کیا جو اخبارات میں شائع ہوا اور اب بھی کونسل کی ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے:
… نے ۲۰ ستمبر ۲۰۰۶ء کو اسلامی نظریاتی کونسل سے استعفا یہ کہتے ہوئے دے دیا کہ حکومت نے تحفظ نسواں بل میں دستوری ادارے کو نظرانداز کیا ہے۔ اس لیے کہ حکومتی جماعت کے لیڈر چودھری شجاعت حسین نے بل کا جائزہ لینے کے لیے علما کی الگ کمیٹی تشکیل دی جس کا بیان کردہ مقصد یہ تھا کہ یہ یقینی بنائے کہ یہ بل اسلامی احکامات کے مطابق ہے۔ … نے کہا کہ یہ نظریاتی کونسل کے دائرۂ کار کی خلاف ورزی ہے… نے بہرحال جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ممبران کونسل کی ۳۰نومبر کی ملاقات میں شرکت کی۔
اصل مقصد اس طرف متوجہ کرنا تھا کہ کیا فی الحقیقت دستور کے تحت کونسل کو یہ حیثیت حاصل ہے کہ اس کے علاوہ کسی سے مشورہ کرنا اس کے استحقاق کو مجروح کرتا ہے اور کرنے والے کونسل کے دائرۂ اختیار کی خلاف وزی (breach of jurisdiction) کے مرتکب ہوتے ہیں۔ کونسل کے محترم صدر نے ’ولایت فقیہ‘ سے برأت کا اظہار کیا ہے اور درست کیا ہے لیکن دائرۂ اختیار کی خلاف ورزی کے تصور کے ڈانڈے کہیں ایسے ہی کسی تصور سے تو نہیں مل جاتے؟
ہماری دوسری تمام معروضات ضمنی تھیں اور مقصود کونسل پر تنقید سے کہیں زیادہ اس نظام کے احتساب کے لیے تھیں جو کونسل جیسے وقیع ادارے کے قیمتی کام کا استخفاف کر رہا ہے۔ اشارتاً اس طرف بھی متوجہ کیا گیا تھا کہ اگر احتجاج کی ضرورت تھی تو کونسل کے کام سے اس بے توجہی بلکہ بے توقیری پر تھی‘ کونسل کے باہر کے اصحابِ علم سے مشورہ کرلینے پر نہیں۔ اس پس منظر میں یہ کہنے کی جرأت تو نہیں کرسکتا کہ ع
شعر مرا بہ مدرسہ کہ برد
البتہ اپنے عجز بیان کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہوئے یہ دعا ضرور کروں گا کہ ع
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زبان اور
میں فاضل چیئرمین کونسل کا ممنون ہوں کہ دسمبر ۱۹۹۶ء میں شائع کی جانے والی جامع رپورٹ کے بارے میں انھوں نے مطلع کیا ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ یہ رپورٹ میرے علم میں نہیں تھی‘ ان شاء اللہ میں اسے حاصل کر کے اس سے استفادہ کروں گا۔ میرے سامنے مئی ۱۹۸۴ء میں شائع کی جانے والی ’احکام اسلام‘ نامی رپورٹ تھی جسے دستور پاکستان کے آرٹیکل ۲۳۰ (۱) (د) کے تحت پیش کیا گیا تھا اور جس سے میری تشفی نہیں ہو سکی۔ اس طرح کے مجموعے تو پہلے سے موجود تھے‘ ضرورت اس امر کی تھی کہ قرآن و سنت کے جن احکام کو قانونی شکل دینا ضروری ہے ان کو اس انداز میں پیش کیا جائے جس سے نئی قانون سازی ہوسکے۔ آیات و احادیث کو جمع کر دینا بھی ایک خدمت ضرور ہے مگر اس سے دفعہ ۲۳۰ (۱) (د) کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ غالباً ۱۹۹۶ء کی رپورٹ دفعہ ۲۳۰ (۱) (ج) کے تحت ہے اور اس میں متعلقہ قوانین کو اسلام کے احکام سے ہم آہنگ کرنے کے لیے متعین تبدیلیوں کی نشان دہی کی گئی ہوگی جس سے میں ضرور استفادہ کروں گا۔ اس معلومات کے لیے میں ڈاکٹر صاحب کا ممنون ہوں۔
ڈاکٹر صاحب نے درست لکھا ہے کہ قانون سازی پارلیمنٹ میں اور قومی سطح پر بحث و گفتگو کے ذریعے ہونی چاہیے اور آرڈی ننسوں کے ذریعے قانون سازی دستور اور جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔ ہم دن رات اسی کا رونا رو رہے ہیں۔ جب پارلیمنٹ کا وجود نہ ہو‘ اس وقت تو کوئی مجبوری ہوسکتی ہے جیسی کہ ۱۹۷۹ء میں تھی‘ جب حدود آرڈی ننس نافذ ہوئے۔ لیکن اس وقت بھی اگر ڈاکٹر صاحب اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹوں پر نظر ڈالیں اور اس زمانے کے اخبارات کا مطالعہ فرمائیں تو صاف نظر آئے گا کہ حدود قوانین پر کھل کر بحث ہوئی ہے۔ علما اور مفکرین کے کنونشن ہوئے ہیں اور اس وقت کی کابینہ نے اسلامی نظریاتی کونسل کی تجویز پر ان قوانین کی منظوری دی تھی۔ کلہیا میں گڑ نہیں پھوڑا گیا تھا‘ البتہ یہ شرف موجودہ حکمرانوں کو حاصل ہے کہ پارلیمنٹ کی موجودگی میں گذشتہ چارسال میں اگر کوئی ۲۰قوانین پارلیمنٹ میں نہایت رواروی میں اور بالعموم مفصل بحث کے بغیر بنائے گئے ہیں تو اس کے پانچ گنا زیادہ‘ یعنی تقریباً ۹۵ آرڈی ننسوں کے ذریعے نافذ کیے جن میں سے ایک چوتھائی ایسے ہیں جو پارلیمنٹ کے اجلاس سے ایک دو دن قبل یا ایک دو دن بعد قوم پر مسلط کیے گئے ہیں۔ نیز دو درجن کے قریب آرڈی ننس وہ ہیں جو سپریم کورٹ کے واضح انتباہ (strictures) کے باوجودتین تین اور چار چار بار بطور آرڈی ننس ہی نافذ ہوئے ہیں۔ یہ سارے قوانین اب تک صرف صدارتی فرمان کی بنیاد پر چل رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں ان پر کبھی بحث نہیں ہوئی ہے اور غضب یہ ہے کہ ان کو آج تک باقاعدہ منظور نہیں کرایا گیا۔
ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ اب تک پاکستان میں اسلامی قانون کا نفاذ عام طور پر آرڈی ننسوں کے ذریعے ہوتا رہا ہے‘ لیکن یہ بات اسلامی قانون سازی سے مخصوص نہیں تمام ہی قوانین کے بارے میں ہے۔ اسلامی قوانین تو آئے ہی کتنے ہیں؟ ضمناً یہ بھی عرض کر دوں کہ سینیٹ میں جو شریعت بل ۱۹۸۶ء میں متعارف کیا گیا تھا اس پر پورے دوسال بحث ہوئی‘ اسے پبلک کی راے کے لیے بھی مشتہر کیا گیا اور سینیٹ کی باقاعدہ قرارداد کے ذریعے یہ کام کیا گیا۔ غالباً ۱۹۸۵ء سے آج تک یہ واحد قانون ہے جس میں سینیٹ میں ہفتوں بحث ہوئی اور تین ماہ اسے پبلک میں مشتہرکیا گیا جس کے نتیجے میں سینیٹ کو ۱۴ ہزار سے زیادہ آرا موصول ہوئیں اور ۹۹ فی صد اس کے حق میں تھیں۔ تحفظ نسواں کے نام نہاد قانون پر پارلیمنٹ میں اور قومی سطح پر بحث کا جو credit موجودہ حکومت کو دیا جا رہا ہے اس پر ان کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے‘ کم ہے۔ البتہ یہ نہ بھولیں کہ ارکان اسمبلی و سینیٹ سے جس دبائو کے تحت بازو مروڑ کر (arm twisting) یہ بل منظور کرایا گیا اور جس طرح خود سرکاری پارٹی کے ۴۶ ارکان نے اسمبلی میں راے شماری میں شرکت نہ کرکے اپنی مجبوری کا اظہار کیا وہ بھی اسی حکومت کا طرۂ امتیاز ہے!
ڈاکٹر صاحب کی یہ شکایت بے محل ہے کہ پارلیمنٹ کے بحث نہ کرنے کا الزام کونسل کو دیا جارہا ہے۔ کم از کم میری تحریر میں اس طرف کوئی اشارہ بھی نہیں۔ کونسل نے بلاشبہہ اپنا فرض‘ رپورٹ پیش کر کے ادا کردیا اور میری تنقید کا ہدف پارلیمنٹ اور وہ تمام حکومتیں ہیں جنھوں نے اپنے فرض کی انجام دہی سے کوتاہی کی ہے۔ یہ سوال خود میں نے سینیٹ میں ایک درجن سے زیادہ مواقع پر اٹھایا ہے۔ ایک بار اس پر تحریکِ استحقاق تک پیش کی ہے اور میری تحریک پر سینیٹ میں کونسل کی کم از کم‘ دو رپورٹوں (معیشت اور تعلیم) پر قائمہ کمیٹی نے سینیٹر محمد علی خاں ہوتی کی صدارت میں غور کیا اور اپنی مطبوعہ رپورٹ سرکاری طور پر سینیٹ میں پیش کی لیکن یہ اُونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ تمام حکومتیں اس کوتاہی کی ذمہ دار ہیں بشمول موجودہ حکومت‘ البتہ میرا اشارہ اس طرف تھا کہ اگرکونسل کے ارکان کو کسی معاملے پر اپنے اضطراب کااظہارکرنا چاہیے تھا وہ ان کے کام کے دستوری تقاضوں کو پورا نہ کرنا ہے‘ نہ کہ ایک ایسے معاملے پر خفگی کا اظہار جو پارلیمانی مشاورت کے آداب کے مطابق ہے اور اس سے کونسل کا کوئی استحقاق مجروح نہیںہوتا۔ جہاں تک میرے رویے کا تعلق ہے تو موجودہ کونسل کی تشکیل کے بارے میں متعدد پارلیمانی پارٹیوں کے تحفظات کے باوجود‘ میں نے اور میرے ساتھیوں نے سینیٹ میں تحفظ نسواں بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کی تجویز دی تھی جسے حکومتی پارٹی نے رد کردیا۔ اسے کونسل کے فاضل ارکان ان پر حکومت کے اعتماد کا اظہار سمجھتے ہیں یا بے اعتمادی کا‘ یہ صرف ان کا استحقاق ہے!
یہاں اگر یہ بات بھی ریکارڈ پر لے آئی جائے تو بے محل نہیں ہوگا کہ یہ بل جس کے بارے میں ملک کے علماے کرام کی عظیم اکثریت اور اہم قومی جماعتیں اس کی متعدد شقوں کے خلافِ اسلام ہونے پر یقین رکھتی ہیں‘ ہمارے علم کی حد تک آج تک باقاعدہ کونسل کو نہ غور کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے اور نہ کونسل نے اس پر باقاعدہ بحث کے بعد کوئی راے دی ہے۔ اس کی تصدیق صدر کونسل کے اس اخباری بیان سے بھی ہوتی ہے جو بل کے منظور ہونے کے بعد انھوں نے دیا تھا اور اس استعفا سے بھی جو ایک فاضل رکن نے دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود جنرل پرویز مشرف نے بار بار اعلان کیا ہے کہ کونسل نے اس کو اسلام کے مطابق قرار دیا ہے اور ۲۰ رکنی کونسل جس میں اس وقت استعفا دینے والے ارکان سمیت صرف ۱۲ رکن ہیں‘ کے غالباً چھے سات ارکان بشمول ایک استعفا دینے والے رکن نے صدر سے مل کر اس تاثر کو کچھ وزن دینے کی خدمت بھی انجام دی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہی ہے کہ اب تک باقاعدہ کونسل نے اس کے بارے میں کوئی راے نہیں دی بلکہ کونسل کی ویب سائٹ کے مطابق دو ارکان نے ۲۲ نومبر ۲۰۰۶ء کو کونسل کی رکنیت سے استعفا دے دیا ہے اوراس کی وجہ ویب پر یہ درج ہے:
ہم نے اسلامی نظریاتی کونسل کو بطور احتجاج چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے کیونکہ وزیراعظم شوکت عزیز اور مسلم لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا ہے اور تحفظ نسواں بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجے بغیر منظور کرلیا ہے۔
کیا کونسل کے چند ارکان نے جنرل صاحب کو کمک پہنچا کر اور کونسل کے اجلاس میں کسی فیصلے کے بغیر محض ذاتی آرا کی شکل میں کونسل کی راے کا تاثردے کر کونسل کی عزت میں اضافہ کیا ہے یا شعوری یا غیرشعوری طور پر وہ بھی اسی سیاست میں شریک ہوگئے ہیں جس کا حسبہ بل کے بارے میں وہ اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں اور اس طرح خود کونسل کے ان ارکان نے جو صدارتی دربار میں حاضری کے اعزاز سے نوازے گئے ’’دین کے نام پر دین میں سیاست کوٹ کوٹ کر‘‘ بھرے جانے کا ایک حقیقی نمونہ تو کہیں پیش نہیں کردیا؟
حسبہ بل کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے‘ اس کا انھیں حق ہے لیکن میرا سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ جس ’ماڈل بل‘ کی بنیاد پر سرحد کی اسمبلی نے اپنا بل بنایا تھا وہ اسلامی نظریاتی کونسل ہی کا تیار کردہ تھا۔ بعد کی کونسل اس پر نظرثانی کرسکتی ہے مگر دلیل کے ساتھ کہ پہلے جو مسودہ تجویز کیا گیا تھا وہ کیوں درست نہیں تھا اور اس کے لیے شرعی دلائل کیا ہیں؟ دستوری اعتراضات اس کے دائرۂ اختیار میں نہیں اور سپریم کورٹ نے جو راے دی تھی اسے بھی عدالت کا فیصلہ قرار نہیں دیا جاسکتا اور اس پر دستوری ماہرین کلام کرسکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔
دستور کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ دستور کے تحت ہر ادارے (مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ) کا دائرۂ کار مقرر ہے اور ہر ایک کے لیے ضروری ہے کہ اپنے متعین دائرہ اختیار کی حدود میں کام کرے۔ قانون سازی مقننہ کا کام ہے اور عدلیہ کا کام قانون بننے کے بعد شروع ہوتا ہے اور وہ اس کے نفاذ اور دستور سے اس کی ہم آہنگی یا تصادم کے بارے میں حتمی راے دے سکتی ہے۔ لیکن قانون سازی کے عمل میں عدلیہ کا کوئی کردار نہیں۔ اگر دستور کی دفعہ ۱۸۶ کے تحت صدر اس سے کوئی راے لے تو وہ مشاورتی عمل ہوگا۔ عدلیہ کوئی قانونی حکم جاری نہیں کرسکتی۔ نیز عدالتی اور دستوری روایات اس کی گواہ ہیں کہ عدالت قانون سازی کے عمل میں بلاواسطہ یا بالواسطہ مداخلت سے اجتناب کرتی ہے۔ سابق چیف جسٹس اجمل میاں نے اپنی خودنوشت میں نوازشریف صاحب کے دور کے ایک واقعے کے پس منظر میں اس اصول کو ان الفاظ میں واضح کیا ہے جو ہمارے علم کی حد تک ساری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے:
ہمارا دستور‘ مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ کے سہ گونہ اختیارات پر مبنی ہے۔ یہ ہر ایک کی حدود واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ عدلیہ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ مقننہ اور انتظامیہ کے افعال کا فیصلہ دے کہ یہ اسلامی دستور کے مطابق ہیں یا نہیں۔ اگر مقننہ کوئی ایسا قانون منظور کرتی ہے‘ یا صدر کوئی ایسا آرڈی ننس جاری کرتا ہے‘ جو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہو تو عدلیہ اس کو دستور کے خلاف قراردے کر ختم کرسکتی ہے… عدلیہ کو یہ اختیار اور یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ چیف جسٹس کمیٹی کے ذریعے کسی مجوزہ قانون کی مخالفت میں کسی احتجاج کا آغاز کرے‘ یا کوئی اخباری بیان جاری کرے‘ یا کوئی قرارداد منظور کرے‘ اور اس طرح عوامی محاذآرائی پیدا کرے۔ عدلیہ سے توقع نہیں کی جاتی کہ وہ کسی ایسے تنازعے میں اُلجھے جو اس کے سامنے فیصلے کے لیے لایا گیاہو۔ (A Judge Speaks Out‘ اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس‘ ۲۰۰۴ء‘ ص ۲۱۶-۲۱۷)
رہا قوانین کے اور خود دینی احکام کے غلط استعمال کا مسئلہ‘ تو بہرصورت حق حق ہی رہے گا اور حکم اپنی جگہ قائم رہے گا محض غلط استعمال کی وجہ سے حق اور قانون تبدیل نہیں ہوتے۔ غلط استعمال کو روکا جانا چاہیے۔ ورنہ کوئی اصول باقی رہے گا‘ نہ قانون اور ضابطہ۔
ہمیں یہ تو جان کر خوشی ہوئی کہ کونسل کی سابقہ رپورٹیں اب افادہ عام کے لیے شائع اور فراہم کی جارہی ہیں البتہ یہ بات بڑی نادر اور عجوبہ روزگار نوعیت کی ہے کہ ’’موجودہ کونسل نے یہ طریقہ کار طے کیا ہے کہ کونسل کے ماضی کے فیصلوں کو بھی موجودہ کونسل کی توثیق کے بعد ہی نقل‘ شائع یا جاری کیا جائے گا‘‘۔ کیا اب کونسل نے فی الحقیقت اپنے لیے ایک نوعیت کی ’ولایت فقیہ‘ کا کردار اختیار کرلیا ہے۔ سوال پیداہوتا ہے کہ موجودہ کونسل ماضی کی تمام کونسلوں پر حَکم بن کر ان کے فیصلوں اور تجاویز کی توثیق کی ذمہ داری کس دستوری یا شرعی استحقاق کی بنا پر اپنے لیے طے کر رہی ہے۔ ایک دور کے اہلِ علم کی آرا سے دوسرے دور کے علما اختلاف کرسکتے ہیں۔ عدالتوں میں فیصلوں میں اختلاف ہوتا ہے اور اعلیٰ عدالتیں ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کو تبدیل بھی کرتی ہیں حتیٰ کہ اپنے فیصلوں پر بھی نظرثانی کرسکتی ہیں لیکن یہ حق موجودہ کونسل کس بنیاد پر اپنے لیے حاصل کر رہی ہے کہ اس کی توثیق کے بغیر ماضی کی کونسلوں کے فیصلے نہ نقل کیے جاسکتے ہیں اور نہ شائع اور جاری کیے جاسکتے ہیں۔
آپ کو حق ہے کہ دوسروں پر ’دین کے نام پر سیاست‘ کی چوٹ جس فیاضی سے چاہیں کریں لیکن اپنی پیش رو کونسلوں کے فیصلوں اور سفارشات کی عصمت کو تو محفوظ رہنے دیں۔ ان کے فیصلوں اور سفارشات پر نظرثانی کا حق آپ کو کس نے دیا ہے۔ ان سے اختلاف آپ ضرور کریں لیکن ان کے فیصلے اور سفارشات قومی امانت اور دستوری سرمایہ ہیں۔ ان کو جیسی کہ وہ ہیں شائع ہونے دیں‘ پھر شوق سے جس پر چاہیں تنقید کریں اور جس پر چاہیں خط تنسیخ پھیر دیں لیکن نظرثانی کے بعد شائع کر کے جس سنسرشپ کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے‘ وہ کلیسا کی روایات کا حصہ تو ہوسکتا ہے اسلام کی روایت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ نیز آپ آزادی‘ جمہوریت اور ذرائع ابلاغ اور پارلیمنٹ میں بحث کے قدردانوں کے لیے جس طرح راے کے آزادانہ اظہار کے حق کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں دوسروں کی آرا کو ’نظرثانی‘ کے بغیر ’نقل‘ شائع اور ’جاری‘ کیے جانے کے حق کو تسلیم کرنا چاہیے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہر دور کی کونسلوں کو اہلِ علم اور عوام کی نگاہ میں قدر و منزلت کے اعتبار سے ایک ہی مقام حاصل نہیں رہا۔ ’روشن خیالی‘ کے اس دور میں کونسل کی آرا کو معروضی حقائق اور اُمت کے علمی سرمایے کی روشنی ہی میں پرکھا اور جانچا جائے گا اور اس سلسلے میں توقع ہے کہ خود کونسل اپنے دستوری مقام اور علمی دیانت کی امین اور محافظ ہوگی اور حکمرانوں کے اشارۂ چشم و ابرو کے مقابلے میں قرآن وسنت سے وفاداری کا تاریخی کردار ادا کرے گی۔ یہی ہماری دعا اور توقع ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۱۵ نومبر ۲۰۰۶ء پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ دن شمار کیا جائے گا۔ اس روزِ سیاہ ملک کی قومی اسمبلی نے اسلام اور شریعت اسلامی کے خلاف امریکی اور یورپی استعمار کی کھلی جنگ میں جنرل پرویز مشرف کے حکم اور دبائو کے تحت‘ ان کے ایک آلۂ کار کا کردار ادا کرتے ہوئے ’تحفظ نسواں‘ کے نام پر’انہدام حدود اللہ‘ کے ایک قانون کو پاکستانی عوام کے شدید احتجاج کے باوجود منظورکرلیا‘ اور اس طرح اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک میں کتابِ قانون سے ایک شرعی حد اور چند دوسرے اسلامی احکام کو خارج کرنے کا ’کارنامہ‘ انجام دے کر قرآن و سنت اور اُس دستورِ پاکستان کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی جس کا حلف اُٹھا کر یہ وجود میں آئی تھی۔ پھر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کھلے احکام کے خلاف اس بغاوت پر جنرل صاحب نے سارے دستوری‘ سیاسی اور اخلاقی آداب کو بالاے طاق رکھ کر اپنے ہم رکاب‘ آزادخیال‘ ترقی پسند اور اِباحیت پرست عناصر کو نہ صرف مبارک باد دی بلکہ ایک نئی صف بندی اور سیاسی جنگ کا اعلان بھی کردیا جس سے اس قانون کے اصل مقاصد اور اہداف کے بارے میں کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہا۔ یہ بل گویا نظریاتی اور تہذیبی جنگ کا عنوان ہے اور یہی وہ خاص پہلو ہے جسے ملک اور ملک کے باہر تمام آزاد خیال اور بش کے ہم نوا عناصر پیش کر رہے ہیں۔
معاشرے کے ترقی پسند اور اعتدال پسند عناصر کو‘ جو اکثریت میں ہیں‘ اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے اور اپنی حقیقی قوت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اعتدال پسند اور ترقی پسند قوتیں غالب آئیں گی۔ بہت نازک وقت ہے۔ آپ کو بنیادپرست اور انتہاپسند طاقتوں کو مسترد کر دینا چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ آپ ترقی پسند لوگوں کو منتخب کریں گے۔ (دی نیشن‘ ۱۶ نومبر ۲۰۰۶ئ)
بدھ کو پاکستان کے ایوان زیریں نے جو قانون منظور کیا ہے وہ حقوق نسواں اور سیکولر قانون کے غلبے‘ دونوں کے لیے پیش رفت ہے۔ پوری مسلم دنیا میں اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ پاکستان کی ترقی میں مسلم دنیا کے دوسرے ممالک کے لیے بشمول ایران اور سعودی عرب جہاں حدود آرڈی ننس جیسے قوانین ہیں‘ غیرمعمولی اہمیت کا سبق ہے۔ (اداریہ، ’پاکستان میں خواتین کے حقوق‘، ۱۷ نومبر ۲۰۰۶ئ)
ٹونی بلیر اور امریکا کے وائٹ ہائوس کے ترجمان‘ دونوں نے اس بل کا خیرمقدم کیا ہے اور اپنی ھل من مزید روایت پرقائم رہتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ یہ ناکافی ہے‘ اور آگے بڑھو اور تمام مبنی بردین قوانین سے نجات حاصل کرو!
جنرل صاحب کا سیکولر ایجنڈا تو پہلے دن سے سر اُٹھا رہا تھا مگر بار بار کی کوشش کے باوجود وہ اس سمت میں کوئی بڑا قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کر پارہے تھے جو مغرب کی ان سیکولر قوتوں کو خوش کرے جو شرعی قوانین خصوصیت سے حدود‘ تحفظ ناموسِ رسالتؐ، ختم نبوتؐ اور پھر دینی تعلیم‘دینی مدارس اور اسلام کے تصورِ جہاد کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ بش کی دہشت پسندی کے خلاف نام نہاد جنگ نے جنرل صاحب کو اپنے قدم جمانے اور بیرونی سہاروں پر اپنے باوردی اقتدار کو مستحکم کرنے کا موقع دیا اور پھر وہ فیصلہ کن گھڑی آگئی جب بش اور مغربی اقوام نے ان کی وفاداری کے ثبوت کے لیے ان سے مطالبہ کیا کہ خود اپنی قوم کے نوجوانوں کو قتل کریں‘ جہاد کی ہرشکل سے برأت کا اعلان کریں‘ خصوصیت سے کشمیر کی جدوجہد آزادی سے دست کش ہوں جسے پاکستانی عوام ہی نہیں پوری اُمت اسلامیہ ایک مبنی برحق جہاد سمجھتی ہے۔ اس سلسلے کا سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ حدود قوانین کو کتابِ قانون سے ساقط کر کے اپنی روشن خیالی، مگر بالفاظ صحیح تر ’بش خیالی‘ اور آزادروی کا ثبوت دیں___اور بالآخر ارکانِ پارلیمنٹ حتیٰ کہ ان کی اپنی پارٹی کی ایک معتدبہ تعداد (آخری راے شماری میں سرکاری پارٹی کے ۴۲ ارکان نے شرکت نہیں کی جن سے جواب طلبی کی جارہی ہے) کے عدمِ تعاون کے باوجود جنرل صاحب نے پیپلزپارٹی سے بے نظیرصاحبہ کے خصوصی حکم نامے کے تحت کمک حاصل کرکے صدربش کے ’اسلام کی اصلاح‘ (reforming Islam) کے کروسیڈ میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس کے نتیجے میں ملک کا سیاسی منظرنامہ بھی متاثر ہوا۔ حزبِ مخالف نہ صرف بٹ گئی بلکہ جیساکہ بی بی سی کے مبصر نے کہا: حدود بل مستقبل میں صدرمشرف اور پیپلز پارٹی کی ورکنگ ریلیشن شب کا سنگ بنیاد ثابت ہوگا‘‘، اور سیکولر دانش وروں اور صحافیوں کے گرو‘ امتیازعالم صاحب نے اسے اس طرح بیان کیا کہ:
درحقیقت اس بل نے سیاسی قوتوں کی نئی صف بندی کے امکانات کا راستہ کھول دیا ہے اور انتخابات سے پہلے آزاد رو بمقابلہ قدامت پسند قوتوں کی محاذآرائی کے لیے فضا تیار کردی ہے۔ اس [مشرف] کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوگا کہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ لبرل پلیٹ فارم سے ملاؤںکا مقابلہ کریں۔ (دی نیوز، ۲۱ نومبر ۲۰۰۶ئ)
حدود قوانین میں تبدیلی کے اقدام کا جائزہ خالص شرعی اور اعتقادی پہلوؤں کے ساتھ‘ آج کے اس ملکی اور بین الاقوامی سیاسی پس منظر میں لیا جانا ضروری ہے۔
عراق پر حملے اور حدود اللّٰہ پر حملے کے لیے
بش اور مشرف کی یکساں حکمت عملی
ا : یہ قوانین ایک فردِواحد کے مسلط کردہ ہیں اور انھیں کوئی سیاسی حمایت حاصل نہیں۔
ب: یہ خواتین کے خلاف امتیازی سلوک پر مبنی ہیں۔
ج: زنا بالجبر (rape) کا نشانہ بننے والی خواتین کے لیے عینی گواہ لانا ضروری ہے ورنہ ان کو زنا بالرضا کے جرم میں دھر لیا جاتا ہے‘ مرد چھوٹ جاتا ہے اور عورت محبوس کر دی جاتی ہے۔
غلط بیانیاں تو اور بھی ہیں مگر ان تین باتوں کو اس تسلسل اور تکرار سے پھیلایا گیا ہے اور اس سلسلے میں حقائق کو اس طرح مسخ کیا گیا ہے کہ بش کے تباہ کن ہتھیاروں والے بڑے جھوٹ (big lie) کے علاوہ اس کی کوئی دوسری نظیر حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ ہم ان تینوں کے بارے میں اصل حقائق پیش کریں گے تاکہ اس طائفے کی دیانت اور اس کے دعوئوں کے قابلِ اعتبار ہونے کی حقیقت سامنے آسکے۔ جس مقدمے کی بنیاد ہی جھوٹ اور غلط بیانی پر ہو‘ اس کا حشر بش کی عراقی مہم جوئی سے مختلف کیسے ہوسکتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ حدود کا حقیقی نفاذ تو آج تک ہوا ہی نہیں لیکن یہ بھی گوارا نہیں کہ حدود کتابِ قانون کا حصہ ہوں کہ کہیں کل ان کا مکمل نفاذ نہ ہوجائے۔ نیز حدود پر حملہ مسلم اُمت کی اس صلاحیت کو آزمانے ( test) کے لیے ہے کہ یہ قرآن و سنت کے احکام میں تبدیلی کو کس حد تک برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اگر ایک حد کو پامال کیا جائے گا اور اسے برداشت کرلیا جائے گا تو پھر کل ایک ایک کر کے دوسری تمام حدود کو بھی پامال کرنے کی طرف پیش قدمی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ایک معمولی اقدام نہیں بلکہ اس کے دُور رس اثرات ناگزیر ہیں۔ یہ ایک نظریاتی‘ اخلاقی اور تہذیبی کش مکش کا عنوان ہے اور یہی وجہ ہے کہ مغربی اقوام کے چوٹی کے ماہرین حکمت عملی (strategists ) بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلامی دنیا کو قابو میں کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ اسلام میں تبدیلی کی جائے۔ روشن خیال اور اعتدال پسند اسلام اور بنیاد پرست اور جہادی اسلام کی تفریق اس کا مظہر ہے۔ حدود قوانین پر تازہ حملہ عورتوں کے تحفظ کے لیے ایک اقدام نہیں‘ مسلم معاشرے اور اُمت مسلمہ کو شریعت اور اسلامی اقدار کی بنیاد پر اجتماعی زندگی کا نقشہ تعمیر کرنے کے عزائم سے روکنے کا پیش خیمہ ہے۔ یہ اسلام کی اصلاح بالفاظ دیگر مرمت کرنے (reforming Islam ) اور دنیا میں اسلام کو نئی شکل دینے (restructuring) کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔
حدود قوانین میں ترمیم کرنے کی کوششوں کو حکمراں پارٹی‘ مسلم لیگ (ق) اور ملاؤں کی طرف سے سخت مزاحمت پیش آئی ہے۔ صدرمشرف نے بازو مروڑ کر یہ ممکن بنایا کہ مسلم لیگ (ق) سیلیکٹ کمیٹی کے بل کو آگے بڑھائے۔ (’حدود کی سیاست‘، دی نیوز، ۲۱ نومبر ۲۰۰۶ئ)
یہ وہی حربے ہیں جن سے بش نے اپنا نام نہاد حلیفوں کا اتحاد بنایا۔ اسی طرح جنرل مشرف نے حدود کے خلاف جنگ میں حلیفوں کو ساتھ لیا اور ملک کو ایک نظریاتی جنگ میں جھونک دیا۔
حدود قوانین کے خلاف مقدمہ سراسر جھوٹ اور غلط بیانیوں پر مبنی ہے جو اس پوری جدوجہد کوبدنیتی پر مبنی (malafide) ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
ایک بات یہ کہی جارہی ہے کہ ہم قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کرنا چاہتے اور حدود قوانین اور حدود میں فرق کرنا ضروری ہے۔ پھر بڑے دھڑلے سے کہا جاتا ہے کہ حدود قوانین انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں اور وہ مقدس نہیں‘ انھیں بدلاجاسکتا ہے۔ ان قوانین میں بہتری پیدا کرنے‘ عملی مشکلات کو دُور کرنے اور قانون کو اس کی اسپرٹ کے مطابق نافذ کیے جانے کے عمل کو مؤثر بنانے کے بارے میں ہر سوچ بچار جائز بلکہ ضروری ہے اور اس پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عملاً اس سلسلے میں کئی کوششیں ہوئی ہیں جن کا کوئی ذکر اس بحث میں نہیں کیا جاتا۔ اگر اسلامی نظریاتی کونسل کی کارروائیوں اور رپورٹوں کا مطالعہ کیا جائے تو ایک درجن سے زیادہ مواقع پر کونسل نے ان قوانین کو مؤثر بنانے کے لیے تجاویز پیش کی ہیں اور وزارتِ قانون سے ردوکد کی ہے مگر سیکولر ذہن رکھنے والی انتظامیہ کے ہاں کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
حدِ زنا آرڈی ننس ۱۰ فروری ۱۹۷۹ء کو ملک میں جاری اور نافذ ہوا۔ اس قانون میں کم ازکم پانچ ترامیم گذشتہ ۲۷ برسوں میں ہوئی ہیں جواس کا ثبوت ہیں کہ حد میں نہیں البتہ حدود آرڈی ننس میں کسی اصلاح یا تبدیلی کی ضرورت ہے تو وہ کی گئی ہے اور کی جاسکتی ہے۔
اس سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ طریق کار کے (procedural) معاملات میں اصلاح کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور آیندہ بھی اس سلسلے میں تجربات کی روشنی میں تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں البتہ ضابطے کی اصلاحات کے نام پر حدود کی تبدیلی یا ان کو غیرمؤثر بنادینا قابلِ برداشت نہیں۔
یہاں ضمناً حکومت کے منفی رویے کی عکاسی کے لیے ایک اور مثال بھی ریکارڈ پر لانا ضروری ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے ۱۹۸۹ء میں‘ زنا بالجبر کے سلسلے میں اپنے ایک فیصلے میں‘ زنا آرڈی ننس کی دفعات ۸ اور ۹ (۴) میں تین ترامیم کا فیصلہ دیا اور صدرمملکت سے گزارش کی کہ یکم فروری ۱۹۹۰ء تک مذکورہ دفعات میںترمیم کردیں ورنہ دستور کے تحت ’’مذکورہ بالا دفعات قابلِ نفاذ نہ ہوں گی اور شرعی قوانین پر عمل ہوگا‘‘۔ لیکن حکومت نے ترمیم کرنے کے بجاے سپریم کورٹ کی شریعہ بنچ میں اپیل کردی جس کا آج تک فیصلہ نہیں ہوا ہے‘ یعنی ۱۶ سال سے یہ ترامیم معلق ہیں۔
حدود قوانین میں ترمیم‘ بشرطیکہ وہ شریعت کے مطابق اور ان قوانین کے مقاصد کے حصول کے لیے ہو‘کوئی رکاوٹ نہیں۔ مخالفت ان ترامیم کے باب میں ہے جو حدود کو ختم یا غیرمؤثر کرنے کے لیے کی جائیں‘ جیساکہ حالیہ تحفظ نسواں قانون کے ذریعے کی جارہی ہیں۔
دوسری صریح غلط بیانی کا تعلق دن رات کے اس دعوے سے ہے کہ حدود قوانین جنرل ضیاء الحق کا ذاتی اقدام تھا جو سعودی عرب کے دبائو میں کیا گیا۔ جہاں تک ان کے نفاذ کے لیے صدارتی آرڈی ننس کے طریقے کو اختیار کیے جانے کا سوال ہے‘ وہ ایک حقیقت ہے لیکن اسی طرح کی ایک حقیقت ہے جیسی دوسرے سیکڑوں آرڈی ننس قوانین کی شکل میں ملک کی کتابِ قانون میں موجود ہے۔ جنرل ایوب سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک ہر فوجی حکمران نے سیکڑوں قوانین صدارتی فرمان کے ذریعے نافذ کیے ہیں اور پارلیمنٹ کی موجودگی میں بھی ۹۰ فی صد قانون سازی آرڈی ننسوں کے ذریعے ہو رہی ہے۔ اس پر اصولی تحفظات اپنی جگہ‘ لیکن صرف اسی ایک آرڈی ننس کو مطعون کرنا قرین انصاف نہیں۔
جہاں تک حدود قوانین کا تعلق ہے‘ ان کی حیثیت بہت مختلف ہے۔ یہ قوانین کسی انسان کے بنائے ہوئے نہیں بلکہ قرآن وسنت کے طے کردہ ہیں اور ان پر اُمت مسلمہ کی پوری تاریخ میں عمل ہوتا رہا ہے۔ دوررسالت مآبؐ سے لے کر مغربی استعمار کے قبضے تک یہ مسلمان ممالک میں جاری وساری تھے۔ مولانا مناظراحسن گیلانی مسلمان بادشاہوں پر تنقید کے ساتھ اس حقیقت کو بھی نمایاں کرتے ہیں کہ:
حالانکہ اور کچھ ان بادشاہوں کے عہد میں تھا یا نہ تھا لیکن قانون جہاں تک میں جانتا ہوں‘ ہر زمانے میں‘ مسلمانوں کی کسی حکومت کا کسی ملک میں‘ کوئی قانون اسلام کے سوا نافذ نہ رہا… مسلمانوں کے ہاتھ میں دنیا کی سیاست کی باگ ڈور جب تک رہی‘ اسلامی قانون کے ساتھ اس کی وفاداری مسلسل رہی۔ (مناظراحسن گیلانی‘ مقالاتِ احسانی‘ ص ۶۲-۶۳)
مسلمان بادشاہوں کی یہ خصوصیت رہی کہ ان میں جو بادشاہ متقی اور پرہیزگار تھے‘ وہ تو خیر اسلامی شعائر و حدود کا احترام کرتے ہی تھے‘ ان کے علاوہ جو سلاطین عشرت پسند اور لذت کوش ہوتے (باستثنا معدودے چند) وہ بھی اسلامی احکام کا احترام ملحوظ رکھنے میں کسی سے کم نہ تھے‘ نیز عدالتوں کے فیصلے قرآن و حدیث کی روشنی میں ہوتے تھے۔ (سعیداحمد اکبرآبادی‘ مسلمانوں کا عروج و زوال‘ ص ۳۶۵)
ہندستان میں اسلام کا قانون فوجداری صدیوں نافذ رہا۔ یہ کوئی آج کا عجوبہ نہیں۔ہندو مؤرخ وی ڈی مہاجن لکھتا ہے:
جرائم کی تین قسمیں تھیں‘ یعنی خدا کے خلاف جرائم‘ ریاست کے خلاف جرائم اور افراد کے خلاف جرائم۔ سزائوں کی چار قسمیں یہ تھیں: حد‘ تعزیر‘ قصاص‘ تشہیر۔ قرآن وہ بنیاد تھی جس پر قوانین مبنی تھے۔ اکبر تک نے فوجداری جرائم کے معاملات میں مداخلت نہیں کی جو اسلامی قانون تھا۔ (دی مسلم رول اِن انڈیا، ص ۲۰۷)
اسلامی فوجداری قوانین اور سزائیں پورے مغل دور میں نافذ رہیں‘ حتیٰ کہ اکبر نے بھی فوجداری قانون میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں کی۔ (دی ہسٹری اینڈ کلچر آف دی انڈین پـیپل‘ دی مغل ایمپائر، ممبئی‘ ۱۹۷۴ئ‘ ص ۵۴۴)
حدود کے نفاذ کا قانون کسی خلا میں نہیں بنایا گیا۔٭ ایک طویل تاریخی روایت کا تسلسل ہے اور اس کی جمہوری اساس مسلمانوں کے عقیدے اور ایمان پر ہے‘ کسی ووٹ پر نہیں۔ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں اسلامی قانون کے نفاذ کا دعویٰ بار بار ہوا اور خود قائداعظمؒ نے نصف درجن سے زیادہ مواقع پر شریعت اور اسلامی قوانین کے نفاذ کا ذکر کیا ہے۔پھر تحریک نظام مصطفیؐ کا مرکزی مطالبہ اسلامی شریعت کا نفاذ تھا جس کا آغاز خود جناب ذوالفقار علی بھٹو نے امتناع شراب کے آرڈی ننس سے کیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے حدود قوانین اسی کا تسلسل تھے۔
یہ بھی کہنا غلط ہے کہ جنرل ضیا الحق نے سعودی قانون کا چربہ یہاں نافذ کیا۔ سعودی عرب میں اس سلسلے میں کوئی باضابطہ قانون (legislation) نہیں ہے۔ وہاں ججوں کے بنائے ہوئے قانون (Judge made law)کا نظام نافذ ہے جو قرآن و سنت سے براہِ راست استفادہ کرکے قانون نافذ کرتے ہیں۔ نیز جو قوانین جنرل ضیاء الحق کے دور میں مرتب ہوئے وہ اس وقت کی اسلامی نظریاتی کونسل کے تیارکردہ مسودے پر مبنی تھے۔ جس کونسل نے یہ مرتب کیے اس میں جسٹس محمد افضل چیمہ‘ جناب خالداسحاق‘ مولانا محمد یوسف بنوری‘ خواجہ فخرالدین سیالوی‘ مفتی سیاح الدین کاکاخیل‘ مفتی محمد حسین نعیمی‘ مولانا محمد تقی عثمانی‘ مولانا ظفراحمد انصاری‘ جناب جعفرحسین صاحب مجتہد‘ مولانا محمد حنیف ندوی اور ڈاکٹر ضیاء الدین احمد‘ علامہ سید محمد رضی‘ مولانا شمس الحق افغانی اور ڈاکٹرمسز خاور خان چشتی۔ (اسلامی نظریاتی کونسل‘ سید افضل حیدر‘ دوست پبلی کیشنز‘ اسلام آباد‘ ۲۰۰۶ئ‘ ص ۷۶۵)
اس قانون کی تسوید میں کسی سعودی عالم کا کوئی کردار نہیں تھا۔ جن تین عالمی شہرت کے ماہرین قانون نے مدد کی وہ ڈاکٹر معروف دوالیبی سابق وزیراعظم شام‘ ڈاکٹر مصطفی احمد زرقا‘ پروفیسر قانون جامعہ شام‘ اور ڈاکٹر حسن ترابی سابق اٹارنی جنرل سوڈان تھے۔ ڈاکٹر معروف اور ڈاکٹر حسن ترابی فرانس کی سوبورن یونی ورسٹی سے قانون میں پی ایچ ڈی کی سند رکھتے تھے اور یونی ورسٹی پروفیسر کی خدمات انجام دے چکے تھے۔ جس کابینہ نے اس کی سفارش کی اس میں جناب اے کے بروہی‘ جناب شریف الدین پیرزادہ‘ جناب غلام اسحاق خان‘ جناب محمدعلی خان ہوتی‘ جناب چودھری ظہورالٰہی‘ جناب خواجہ محمد صفدر‘ جناب محمد خاں جونیجو تھے اوراس قانون کو مسلم لیگ‘ جمعیت علماے پاکستان‘ جمعیت علماے اسلام‘ جماعت اسلامی اور نواب زادہ نصراللہ کی پی ڈی پی کی حمایت حاصل تھی۔ بلاشبہہ اس وقت پارلیمنٹ نہیں تھی مگر تین سیاسی جماعتوں کے سوا پوری قوم نے اس کی تائید کی تھی۔ انھیں محض ایک شخص کی اختراع کہنا حقائق کی صحیح ترجمانی نہیں۔
تیسری بڑی غلط بیانی یہ ہے کہ قانون کے بننے کے بعد عورتوں پر مظالم میں اضافہ ہوگیا ہے‘ ان کے خلاف امتیازی سلوک کیا جارہا ہے‘ جیلیں عورتوں سے بھردی گئی ہیں‘ زنابالجبر کے مقدمات میں شہادت نہ ہونے پر زنابالرضا میں عورتوں کو دھرلیا جاتا ہے‘ عورتوں کو بے دریغ سزائیں دی جارہی ہیں‘ اور یہ کہ زنا کے سلسلے میں عورت کی گواہی قبول نہیں کی جاتی وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایک ناخوش گوار حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں دوسرے مظلوم طبقات کی طرح عورت ہی ناروا سلوک اور ظلم کا شکار ہے اور اس کی بڑی وجہ جاگیردارانہ نظام‘ بااثر طبقات کا قانون سے بالاہونا‘ ہرسطح پر کرپشن‘ پولیس اور عدالت کے نظام کی خرابیاں اور قانون کے احترام کی روایت کا فقدان ہے۔ اس کا تعلق محض حدود قوانین سے نہیں اور ساری خرابیوں کو ان حدود قوانین سے جوڑ دینا صریح ناانصافی ہے۔
پھر جو دعوے حدود قوانین کے سلسلے میں پورے دھڑلے سے کیے جاتے ہیں‘ وہ ذہنی اختراع سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ ہم صرف چند کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ کہ ہزاروں خواتین ان قوانین کی وجہ سے جیلوں میں ہیں‘ حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ وومن ایڈ ٹرسٹ کے ایک جائزے کے مطابق جو ستمبر۲۰۰۳ء میں ملک کے تین جیلوں کے کوائف پر مبنی ہے‘ صورت حال یہ سامنے آتی ہے: اڈیالہ جیل راولپنڈی میں کل ۱۲۵ خواتین تھیں جن میں سے ۸ئ۲۴ فی صد حدود کے تحت تھیں۔ کوٹ لکھپت جیل لاہور میں یہ تناسب ۴۹ فی صد تھا جہاں کل تعداد ۹۷ تھی۔ کراچی سنٹرل جیل میں تعداد سب سے زیادہ تھی‘ یعنی ۲۸۰ اور حدود کے تحت مقدمات میں ماخوذ کا تناسب ۲۸ فی صد تھا۔ ان تین جیلوں میں حدود کے مقدمات میں ماخوذ خواتین کا تناسب اوسطاً ۳۱ فی صد تھا۔
حال ہی میں صدارتی آرڈی ننس کے تحت جن خواتین کو جیلوں سے رہا کیا گیا ہے ان کے جو اعدادوشمار اخبارات میں آئے‘ ان سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ حدود قوانین کے تحت محبوس خواتین کا تناسب ایک تہائی سے کم تھا۔
۱۹۹۱ئ ۱۹۹۵ئ اضافہ
ہندستان میں زنا بالجبر ۹۷۹۳ ۱۳۷۹۵ ۴ئ۴۰
پاکستان زنابالجبر+ بالرضا ۱۴۸۲ ۱۶۰۶ ۷ئ۷
(ملاحظہ ہو شہزاد اقبال شام کا مقالہ’ارتکاب زنا (نفاذ آرڈی ننس ۱۹۷۹ئ) نفاذ کے ۲۵ سال___ ایک مطالعہ‘۔ انھی کی مرتب کردہ کتاب پاکستان میں حدود قوانین‘ مطبوعہ شریعۃ اکیڈمی‘ اسلامی یونی ورسٹی‘ اسلام آباد‘ ص ۸۹)
پاکستان میں زنا اور زنا بالجبر کے واقعات میں جو اضافہ ہوا ہے‘ اگر آبادی میں اضافے کے تناظر میں دیکھا جائے تو کسی اعتبار سے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ حدود قوانین کے بعد جیلیں عورتوں سے بھر دی گئی ہیں۔ زنا بالجبرکے جو واقعات رپورٹ ہوئے‘ وہ ۱۹۴۹ء میں ۵۲۱ تھے‘ ۱۹۸۰ء میں ۷۳۹ ہوچکے تھے۔ ان قوانین کے نفاذ کے بعد ۱۹۸۱ء میں یہ تعداد ۱۱۰۱ تھی جو ۲۰۰۴ء میں ۲۳۶۵ ہوگئی۔ آبادی کے تناسب سے ایک لاکھ میں ۰ئ۱ اور ۶ئ۱ کے درمیان رہی۔ مسلم معاشرے میں یہ بھی بہت شرم ناک اور افسوس ناک ہے۔ سعودی عرب میں جہاں حدود قوانین کو ٹھیک ٹھیک نافذ کیا گیا ہے جرائم میں غیرمعمولی کمی واقع ہوئی اور آج بھی یونیسکو کی رپورٹوں کے مطابق سعودی عرب میں جرائم کا تناسب دنیا میں سب سے کم ہے‘ جب کہ بھارت اور مغربی ممالک میں جہاں کوئی حدود قوانین موجود نہیں‘ زنا بالجبر نے سوسائٹی کی چولیں ہلا رکھی ہیں۔ بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ کے مطابق جسے پارلیمنٹ میں جولائی ۲۰۰۶ء میں پیش کیا جانا تھا‘ ہرآدھے گھنٹے میں ایک عورت کی جبری عصمت دری کی جاتی ہے اور ہر ۷۵ منٹ پر ایک کو قتل کیا جاتا ہے۔ نیز صرف ۲۰۰۴ء میں ۲۰۰۳ء کے مقابلے میں ملک کے ۳۵ بڑے شہروں میں جبری عصمت دری میں ۳۰ فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ (رائٹر کی رپورٹ‘ یکم جون ۲۰۰۶ئ)
برطانیہ میں برٹش کرائم سروے کے مطابق ۰۵-۲۰۰۴ء میں ۱۶ سال کی عمر سے بڑی خواتین میں سے ۲۳ فی صد نے اعتراف کیا کہ ان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایک سال میں عورتوں کی کُل آبادی کے ۳ فی صد نے اعتراف کیا کہ اس سال ان کی عصمت دری کی گئی ہے۔ پاکستان میں جنسی جرائم کا تناسب ایک لاکھ کی آبادی میں ۶ئ۱ ہے‘ جب کہ انگلستان میں یہ ۳ فی صد‘ یعنی ایک لاکھ میں ۳۰۰۰ بنتا ہے۔ امریکا میں ۱۹۸۶ء سے ۲۰۰۵ء تک اوسطاً ہرسال ایک لاکھ خواتین جبری عصمت دری کا نشانہ بن رہی ہیں‘ جسے وہاں forceable rape کہا گیا ہے۔ (بحوالہ سرکاری رپورٹ Crime in the United States 2005)۔ یہ دعویٰ کہ حدود قوانین کی وجہ سے پاکستان میں جرائم میں اضافہ ہوا ہے اور جیلیں عورتوں سے بھردی گئی ہیں‘ سرتاسر اتہام اور غلط بیانی پر مبنی ہے۔
پھر یہ دعویٰ بھی ایک سفید جھوٹ ہے کہ کسی ایسی خاتون کو جو زنا بالجبر کا نشانہ بنی ہواور الزام ثابت نہ ہونے کی صورت میں اسے زنا بالرضا کے جرم میں سزا دی گئی ہے۔ شریعت کورٹ کے ججوں اور قانونی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ایسا ایک واقعہ بھی وجود پذیر نہیں ہوا۔ امریکی محقق پروفیسر چارلس کینیڈی نے پاکستان میں حدود قوانین کے نفاذ پر جو تحقیق کی ہے اس میں پانچ سال کے تمام واقعات اورمقدمات کا تجزیہ کرکے وہ جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے روشن خیال کذب فروشوں کے لیے ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ان کے جھوٹے دعوے کی حقیقت دیکھی جاسکتی ہے چارلس کینیڈی اپنے مضمون Implementation of the Hudood Ordinance میں‘ جو اولاً امریکی جریدے Asian Survey میں شائع ہوا تھا اور پھر اس کی کتاب Islamization of Laws and Economy (مطبوعہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ اسلام آباد‘ ۱۹۹۶ئ) میں‘ لکھتا ہے:
شاید حدود آرڈی ننس کا سب سے زیادہ اہم پہلو اس قانون کا خواتین کے حقوق پر مبینہ اثر ہے۔ کئی حالیہ مطالعوں میں یہ کہا گیا ہے کہ ضیاء کا نظامِ مصطفیؐ اور خاص طور پر حدود آرڈی ننس خواتین سے امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ اسلامیانے کے عمل کے خواتین کے مقام پر جو اثرات ہوئے ہیں‘ اس کا جائزہ لینا اس مضمون کے دائرے سے باہر ہے۔ ہماری تحقیق حتمی طور پر ثابت کرتی ہے کہ حدود آرڈی ننس کے نفاذ کے محدود دائرے میں عورتوں کے خلاف کوئی واضح امتیازی رجحان نہیں ہے (دیکھیے: جدول ۳)۔ حقیقت اگر کچھ ہے تو وہ مردوں ہی کے خلاف تھوڑا بہت جنسی امتیاز ہے۔ حدود آرڈی ننس کے تحت ڈسٹرکٹ اور سیشن عدالتوں میں جو مجرم قرار دیے گئے ان کے ۸۴ فی صد مرد ہیں‘ اور جن کی سزائیں وفاقی شرعی عدالت میں برقرار رہیں ان میں ۹۰ فی صد مرد ہیں۔ سب سے زیادہ کھل کر سامنے آنے والی حقیقت تو زنا کی تعزیر کے حوالے سے یہ ہے کہ یہ جرائم کرنے میں کوئی جنسی تفریق نہیں ہے لیکن ڈسٹرکٹ اور سیشن کورٹ سے مجرم قرار پانے والوں کے ۵۶ فی صد اور وفاقی شرعی عدالت سے سزا پانے والوں میں ۹۰ فی صد مرد ہیں۔ ثانی الذکر تحقیق ویز (Weiss) کے اس دعوے کی تردید کرتی ہے جسے عام طور سے مغربی اور پاکستانی پریس درست سمجھتا ہے کہ پاکستان میں زنا کی سزا مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو زیادہ دی جارہی ہے۔ کسی کو حدود آرڈی ننس کی تنفیذ کے خلاف جائز شکایت ہوسکتی ہے۔ لیکن عورتوں کے خلاف جنسی امتیاز ان میں سے ایک نہیں۔(کتاب مذکورہ بالا‘ ص ۶۱-۶۲)
چارلس کینیڈی نے پہلے پانچ سال (۸۴-۱۹۸۰ئ) کے تمام مقدمات کا جائزہ لے کر اعداد و شمار سے اسے ثابت کیا ہے۔ زنا بالرضا کی دفعہ ۱۰ (۲) کے تحت ڈسٹرکٹ کورٹ میں ۱۴۵مردوں اور ۱۱۴ خواتین کو ملزم قرار دیا گیا لیکن وفاقی شرعی عدالت نے ۷۱ مردوں اور صرف ۳۰خواتین کو سزا دی۔ گویا ۲۵۹ میں سے ۱۵۸ کو رہا کر دیا اور ۱۰۱ کی سزا برقرار رکھی‘ جب کہ زنا بالجبر دفعہ ۱۰ (۳) کے ۱۶۵مقدمات میں جن میں سیشن کورٹ نے ۱۶۳ مردوں (یعنی ۹۹ فی صد) اور صرف ۲ خواتین (یعنی صرف ایک فی صد) کو سزا دی تھی لیکن وفاقی شرعی عدالت نے ان ۱۶۵مقدمات میں صرف ۵۹ مردوں کی زنابالجبر کی سزا باقی رکھی۔ دونوں خواتین کو رہا کردیا اور ان مردوں کو بھی جن کے بارے میں شہادت محکم نہیں تھی۔ پانچ سال میں کل ۱۶۰ افراد کوان دونوں جرائم میں سزا ہوئی اور وہ بھی تعزیری۔ (ملاحظہ ہو‘ کتاب مذکورہ‘ جدول ایک‘ دو اور تین‘ صفحات ۵۹-۶۳)
بعد کے اعداد و شمار اس تفصیل سے موجود نہیں لیکن بین الاقوامی یونی ورسٹی سے شائع شدہ کتاب پاکستان میں حدود قوانین حدود قوانین کے نفاذ کے ۲۵ سالہ جائزے میں ۲۰۰۳ء تک کے جو اعداد و شمار دیے گئے ہیں‘ وہ اس رجحان کی تائید کرتے ہیں۔ چارلس کینیڈی کے تحقیقی مقالے میں درج شدہ حاصل تحقیق کا خلاصہ اس حقائق کو سمجھنے میں مددگار ہوگا۔ چارلس کینیڈی جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ یہ ہے:
۱- حدود آرڈی ننس کے نفاذ کے نو سال بعد سب سے بڑانتیجہ یہ ظاہر ہوتا ہے: حدود آرڈی ننس کے نفاذ کا پاکستان کے فوجداری قانونی نظام پر نہایت معمولی اثر ہوا ہے۔ پاکستان اور مغرب دونوں جگہ عام خیال تھا کہ حدود کا نفاذ‘ (قطع ید اور رجم) پاکستان میں عام ہوجائیں گے۔ فروری ۱۹۸۸ء تک ملک میں حد کی کوئی سزا نہیں دی گئی ہے۔ حد کی صرف دو سزائوں کو (دونوں چوری کی) وفاقی شرعی عدالت نے برقرار رکھا ہے۔ یہ دونوں سزائیں سپریم کورٹ نے بعد میں ختم کردیں۔
۲- اسی طرح حدود آرڈی ننس کے نفاذ سے پاکستان میں عورت کی حیثیت پر کوئی مضرت رساں اثر نہیں ہوا ہے‘ جیساکہ اکثر الزام لگایا جاتا ہے۔
۳- حدود کے تحت انصاف فراہم کرنے کے عمل نے‘ زیادہ تر اعلیٰ عدالتوں پر بہت زیادہ بوجھ کی وجہ سے سول لا کے تحت طریق کار کے مقابلے میں‘ بہت کم وقت لیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے قیام نے‘ جس کا فوجداری قانون کا نہایت محدود دائرہ ہے‘ طریق کار کو رواں کیا ہے۔
یہاں یہ اضافہ مفید ہوگا کہ چارلس کینیڈی کی تحقیق کے مطابق وفاقی شرعی عدالت میں ایک مقدمہ اوسطاً چار مہینے میں ہر مرحلہ طے کر کے فیصلے پر منتج ہوتا ہے‘ جب کہ عام عدالتوں میں یہ مدت ۱۸ ماہ سے کئی کئی سال اور کچھ مقدمات میں ۱۵ اور ۲۰ سال پر پھیلی ہوئی ہے۔
۴- یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے (گو کہ اس کے لیے شہادت لانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے) کہ حدود کی سزائوں کا اندیشہ‘ متعلقہ جرائم کے ارتکاب کرنے میں ایک روک (deterrant) ثابت ہواہے۔
ان چار مثبت اثرات کے ساتھ چارلس کینیڈی کے اس تحقیقی جائزے سے تین منفی نتائج بھی سامنے آتے ہیں جو غورطلب ہیں:
۵- اس قانون کے نفاذ نے عدالتی اور سیاسی اداروں کے تعلقات میں کوئی واضح تبدیلی نہیں کی ہے‘ نہ اس نے پاکستان میں عدالتی طریق کار کو نمایاں طور پر تبدیل کیا ہے۔
اس کی بنیادی وجہ‘ جسے ہم آخر میں بتائیں گے ‘وہ دوغلا نظام ہے جوملک پر مسلط ہے‘ یعنی ایک چھوٹے سے دائرے میں شرعی قوانین اور پورا نظام دورِ استعمار کے تیار کردہ قانونی نظام اور ضابطہ فوجداری اور سول قانون کی گرفت میں!
منفی لحاظ سے دیکھا جائے تو حدود آرڈی ننس کے نفاذ نے خاندانی اور سماجی تنازعات میں ایک اضافی راستہ فراہم کیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت میں اپیل کیے جانے والے مقدمات کے ۵۰ فی صد کا تبدیل ہونا یہ حقیقت سامنے لاتا ہے کہ عدالتوں میں بہت سے مقدمات اس لیے لائے جاتے ہیں کہ سوشل کنٹرول کو روبہ عمل لایا جاسکے۔ والدین‘ شوہروں اور سرپرستوں کو معمول کے مطابق سوشل کنٹرول کے جو طریقے مہیا ہیں‘ حدود آرڈی ننس کے آنے سے ان کو اضافی طور پر یہ اختیارات حاصل ہوئے ہیں کہ اپنے بچوں یا بیویوں کو حقیقی یا مخفی دھمکیاں دے سکیں۔
آخری نکتہ بھی پاکستان کے سماج اور سیاسی اور معاشرتی نظام اور مجموعی طور پر جو طبقاتی گروہی اور اشرافیہ کے اقتدار کا نظام ہے‘ اس کو سمجھنے اور اس کی اصلاح کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے‘ یعنی:
آخری بات یہ ہے کہ حدود آرڈی ننس کی زد میں غیرمتناسب طور پر پاکستان میں معاشی طور پر کم حیثیت طبقہ رہا ہے۔ متوسط طبقے یا اعلیٰ طبقے کے پاکستانی بہت کم اس کے تحت ملزم قرار دیے گئے ہیں۔ نہ یہ عدالتوں کا قصور ہے‘ نہ قانون کا بلکہ یہ پاکستانی معاشرے کی ساخت میں موجود عدم مساوات کا عکاس ہے۔
۱- اس سماجی‘ معاشی اور قانونی نظام میں ہے جو دور استعمار کے ورثے میں ہم پر مسلط ہے۔
۲- ان بااثر طبقات کے ظلم وستم اور قانون کے غلط استعمال میں ہے جو عوام پر غلبہ پائے ہوئے ہیں۔
۳- پولیس‘ زیریں عدالتوں اور مقدمے کے طریق کار کی خرابیوں کی وجہ سے ہے جن کی اصلاح کی طرف سے غفلت برتی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ مقدمے کے طریق کار کا سارا قانون (procedural law) وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے دستوری قدغن کے ذریعے باہر کردیا گیا ہے اور اس باب میں وہ ’ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بن کر رہ گئی ہے۔
ایک اور غلط بیانی جو بڑے دھڑلے سے کی جارہی ہے‘ عورت کی گواہی کے بارے میں ہے‘ خصوصیت سے زنا بالجبر کے سلسلے میں۔ بلاشبہہ شریعت نے اس زنا کے سلسلے میں حد کے نفاذ کے لیے قابلِ اعتماد مرد گواہوں کی شرط رکھی ہے اور اس کی بڑی مصلحتیں ہیں۔ لیکن جرمِ زنا‘ اقدامِ زنا‘ تشدد‘ اغوا براے زنا و قحبہ گری ان سب کے سلسلے میں تعزیر کے لیے عورت کی گواہی نہ صرف معتبر ہے بلکہ کچھ حالات میں جیساکہ علامہ ابن قیم نے لکھا ہے ضروری ہے اورمعتبر ترین ہے۔ یہی بات وفاقی شرعی عدالت نے اپنے واضح فیصلوں میں کہی ہے اور اس پر عمل کیا ہے۔ اس پر بھی بڑا واویلا ہے کہ زنا بالجبر کی نشانہ بننے والی عورت سے گواہوں کا مطالبہ ظلم ہے حالانکہ زنابالجبر ہی وہ صورت حال ہے جس میں عورت پر زیادتی کی صورت میں فطری طور پر وہ چیخ و پکار کرے گی اور اس طرح لوگ اس کی مدد کو آسکتے ہیں جو گواہ بن سکتے ہیں۔ لیکن یہ بات صریح جھوٹ ہے کہ مظلوم عورت کی اپنی گواہی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ عورت کی گواہی اس جرم کی صورت میں بڑی اہم اور مرکزی حیثیت کی حامل ہے اور اس کے ساتھ قرائنی شہادت مجرم کے جرم کے ثبوت کا ذریعہ بنتی ہے۔ دورِ رسالت مآبؐ اور دورِ خلافت راشدہ میں اس جرم کا نشانہ بننے والی خواتین کی گواہی پر سزا ہوئی ہے اور خود پاکستان میں وفاقی شرعی عدالت عورت کی گواہی پر زنابالجبر کے مجرموں کو سزا دی ہے۔
آج تک کسی خاتون کو کسی بھی عدالت میں محض اس بنا پر گواہی دینے سے نہیں روکا گیا کہ وہ عورت ہے۔ حدِ زنا کے ہر مقدمے میں لیڈی ڈاکٹر بطور گواہ عدالتوں میں پیش ہوتی ہیں اور ان کی گواہی کی بنا پر سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔ ایسے مقدمات کی تعداد بے شمار ہے جن میں محض عورت کی اکیلی گواہی ہی پر سزائیں دی گئیں۔ اس کی صرف چند مثالیں ذیل میں پیش کی جارہی ہیں:
وفاقی شرعی عدالت نے اسی موضوع کو زیربحث لاتے ہوئے ایک مقدمہ ’رشیدہ پٹیل بنام وفاق پاکستان‘ میں درج ذیل خیالات کا اظہار کیا ہے:
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام اپنے منفرد معاشرتی نظام میں خواتین کو بار شہادت سے حتی الوسع بری الذمہ رکھنا چاہتا ہے… تاہم خصوصی حالات میں اگر کوئی واقعہ (بشمول حدود و قصاص) صرف ان کی موجودگی ہی میں درپیش ہو اور کوئی مرد موجود نہ ہو‘ یا ان کی تعداد ان کے بغیر مطلوبہ نصاب شہادت کے مطابق نہ ہو‘ یا وہ واقعہ اندرون خانہ ہی وقوع پذیر ہوا ہو‘ تو ایسی صورتوں میں ان کو شہادت سے روکنا‘ ان کی گواہی کو ناجائز سمجھتے رہنے پر اصرار کرنا اور ایسے مقدمات میں سرے سے ان کو ساقط الاعتبار ٹھیرانا قرآن مجید کے عمومی احکام سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ اس کے مثالی نظام عدل سے‘ اور نہ اسوۂ حسنہ اور عہد خلافت راشدہ سے اس کی تائید کی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر ان اداروں میں جہاں صرف خواتین کام کرتی ہیں یا رہایش پذیر ہوتی ہیں (مثلاً گرلز ہوسٹل‘ نرسنگ ہوم‘ویمن سنٹر وغیرہ)‘ یا ان اوقات میں جب ان کے مرد گھروں میں موجود نہ ہوں‘ اگر اس قسم کے جرائم کا ارتکاب ہو تو ایسی صورت میں اثباتِ جرم کا کیا طریقہ ہوگا؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ ایسے مقامات جہاںصرف خواتین ہی گواہ ہوں یا صرف غیرمسلم موجود ہوں‘ اس جرم کے ارتکاب کی شہادت دینے کون آئے؟ بہرحال ہمارے نزدیک مخصوص حالات میں خواتین کی گواہی حدود و قصاص سمیت سب معاملات میں لی جاسکتی ہے‘ البتہ ایسی شہادتوں پر حد کی سزا نہیں دی جائے گی اور صرف تعزیری سزا کے لیے انھیں قبول کیا جائے گا۔
ہمیں اس سے انکار نہیں کہ دوسرے تمام قوانین کی طرح حدود قوانین کو بھی پولیس اور مفادپرست طبقات نے‘ حتیٰ کہ کچھ حالات میں ظالم رشتہ داروں یا سابق شوہروں نے غلط استعمال کیا ہے‘ اور اس کی سب سے شرم ناک مثال حدود آرڈی ننس کی دفعہ ۱۶ کا غلط استعمال ہے جس میں عورت ملزم ہو ہی نہیں سکتی لیکن اس کے باوجود سیکڑوں خواتین کو اس دفعہ کے تحت گرفتار کیاگیا ہے‘ لیکن ان تمام زیادتیوں کا ازالہ حدود قوانین کو تبدیل کرنے سے نہیں‘ نظام کی اصلاح سے ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے بار بار اس طرف متوجہ کیا ہے مگر حکومت اور پارلیمنٹ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ہم وفاقی شرعی عدالت کے ایک فیصلے کا ایک حصہ نقل کرتے ہیں جس سے اندازہ ہوگا کہ خرابی کہاں ہے۔ غلام نبی کاٹھیو بنام سرکار ایک عبرت ناک منظر پیش کرتا ہے۔
ایک مقدمے میں ایک شخص نے حسن جونیجو ولد محرم جونیجو کے خلاف مقدمہ درج کروایا کہ اس نے اس کی بیٹی مسماۃ بے نظیر کے ساتھ زنا بالجبر کا ارتکاب کیا ہے۔ لیکن متعلقہ پولیس افسر نے مقامی زمیندار کے کہنے پر اصل ملزم کو گرفتارکرنے کے بجاے مقامی زمیندار کے ایک مخالف غلام نبی کاٹھیو ولد مہرو کاٹھیو کو نہ صرف گرفتار کیا بلکہ پورا مقدمہ اسی کے خلاف قائم کیا جس کے نتیجے میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے اسے ۱۰سال قید بامشقت اور ۲۵ ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ عدالت عالیہ نے اس مقدمے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ پولیس کا رویہ حیران کن اور متعلقہ جج کا رویہ اس سے بھی زیادہ حیران کن ہے۔ ایک سینئر جج جو سیشن جج کے مرتبے پر فائز ہے اور پورے حیدرآباد ڈویژن کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کا جج ہے ‘اس سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی جو اس نے کیا۔ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فاضل جج جناب عبدالغفور حسین نے چالان کے مندرجات کو پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی‘ ورنہ اس پر صورت حال واضح ہوجاتی۔ ملزم چونکہ غریب آدمی تھا اور وکیل کرنے کی استطاعت نہ رکھتا تھا‘ لہٰذا اس کے مقدمے کی سماعت بغیر وکیل کے ہوئی۔ وہ چونکہ غیرتعلیم یافتہ اور اَن پڑھ آدمی تھا‘ لہٰذا اپنا دفاع کرنے کے قابل نہ تھا۔ لہٰذا یہ عدالت کی ذمہ داری تھی کہ ایک ایسے شخص کو انصاف فراہم کرتی جو پولیس اور مقامی زمیندار کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہوا تھا۔
پولیس افسر سے جب اس بات کی وضاحت طلب کی گئی کہ اس نے حسن کے بجاے غلام نبی کو کیوں گرفتار کیا۔ اس نے کہا کہ حسن اصل میں غلام نبی کا بھائی تھا اور مدعی مقدمہ نے غلطی سے غلام نبی کے بجاے اس کے بھائی حسن کا نام لکھوا دیا۔ لیکن وہ یہ محسوس نہ کرسکا کہ جس فرد کا نام ایف آئی آر میں ہے وہ غلام نبی کا بھائی نہیں ہوسکتا کیونکہ حسن محرم کا بیٹا ہے اور اس کی ذات جونیجو ہے‘ جب کہ غلام نبی مہرو کا بیٹا ہے اور اس کی ذات کاٹھیو ہے۔ مختلف ذات اور مختلف ولدیت کے افراد آپس میں بھائی کیسے ہوسکتے ہیں۔ فیصلہ مکمل کرنے سے پہلے ہم کچھ سوالات اٹھانا چاہیں گے:
۱- آخر کب تک پولیس اور زمینداروں کے ہاتھوں اس ملک میں غریب اور معصوم ظلم کا شکار ہوتے رہیں گے؟
۲- آخر کب تک اصل مجرموں کو چھوڑا جاتا رہے گا اور بے گناہ لوگوں کو مقدمات کا سامنا کرناپڑے گا؟
۳- آخر کب تک یہ ناانصافیاں جاری رہیں گی اور قانونی طریق کار کو غلط طور پر استعمال کیا جاتا رہے گا؟
۴- آخر کب تک معصوم شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی واضح پامالی ہوتی رہے گی؟
۵- آخر کب تک اس ملک کے معصوم‘ اَن پڑھ اور غریب شہری جوکہ اسی طرح انسان ہیں جس طرح دولت مند نام نہاد طاقت ور اور بڑے شہری ہیں‘ ان افراد اور حکام کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہوتے رہیں گے جن کی ذمہ داری ہے کہ ان کی زندگی آزادی‘ عزت‘ جایداد اور عقائد کی حفاظت کریں۔
عدلیہ‘ انتظامیہ‘ پولیس اور تمام متعلقہ لوگوں پر ان سوالوں کا جواب قرض ہے۔
ہمارے اس جائزے سے یہ حقیقت ثابت ہوجاتی ہے کہ اصل حدود قوانین پر تنقید سرتاسر غلط اور بے محل ہے بلکہ یہ کذب‘ غلط بیانی اور بددیانتی پر مبنی ہے۔ البتہ جہاں اصلاح کی ضرورت ہے وہ حدود قوانین اور تمام قوانین کے نفاذ کے نظام: پولیس‘ انتظامی اور عدالتی مشینری‘ عوام اور سرکاری کارپردازوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے نظامِ احتساب (accountablity) میں ہے۔ تحفظ نسواں کے نام پر ان اصل خرابیوں کی طرف توجہ دیے بغیر حدود قوانین میں ایسی تبدیلیاں کرنے کی شرم ناک جسارت کی جارہی ہے جو شریعت کے مسلمہ احکام کے خلاف ہیں اور قرآن و سنت کے نصوص اور ان کی اسپرٹ سے متصادم ہیں۔ ہم برادر عزیز و محترم مولانا محمد تقی عثمانی کا مقالہ اس شمارے میں شائع کر رہے ہیں جو اس کے مختلف پہلوؤں کو مسکت دلائل کے ساتھ واضح کردیتا ہے۔ ہم صرف اختصار کے ساتھ اتمامِ حجت کے لیے اس قانون کے ذریعے قرآن و سنت کے خلاف کی جانے والی ترامیم کا ذکر کر دیتے ہیں:
۱- قرآن و سنت اور اجماع کی رُو سے زنا بالرضا کی طرح زنا بالجبر بھی حد ہے لیکن اس قانون کے ذریعے حدود قوانین کی دفعہ ۶ اور ۷ کو منسوخ کرکے زنا بالجبر کی حد کو ختم کیا جارہا ہے۔ حدود قوانین کی دفعہ ۴ اور ۵ جنھیں باقی رکھا گیا ہے‘ ان کا تعلق صرف زنابالرضا سے ہے اور زنا بالجبر ان کے دائرے سے باہر ہے۔ اور نئی دفعہ جو زنا بالجبر (rape) کے بارے میں ضابطہ فوجداری میں شامل کی جارہی ہے‘ اس میں حد کی سزا نہیں ہے بلکہ دریدہ دہنی کی انتہا ہے کہ اس قانون کے مقاصد کی تشریح کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے: ’’زنابالجبر کے جرم کے لیے حد نہیں ہے‘ اس کے لیے تعزیر ہے‘‘۔ یہ قرآن و سنت کے خلاف اتہام اور ایک جرمِ عظیم ہے اور اللہ سے بغاوت کے مترادف ہے۔
۲- زنا بالرضا کو ضابطوں کی تبدیلی کے ذریعے ریاست اور معاشرے کے خلاف جرم (crime against state and society) کی جگہ جو اسلام کے تصورِ قانون کا حصہ ہے‘ صرف فرد کے خلاف جرم کی سطح پر لے آیا گیا ہے جو اسلام کے فلسفۂ قانون کی نفی ہے۔
۳- حدود قوانین کی دفعہ ۳ کو منسوخ کر کے شرعی قوانین اور احکام کی دوسرے قوانین پر بالادستی کو ختم کردیا گیا ہے جو اسلام کے پورے نظامِ قانون پر ایک ضرب اور اس کی بے وقعتی کے مترادف ہے۔
۴- اسلامی قانون میں حدوداور تعزیرات ایک جامع نظام کا حصہ ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ حدود قوانین میں متعلقہ تعزیری احکام بھی شامل کیے گئے تھے۔ ان تمام احکام کو حدود قوانین سے نکالنا اسلام کے نظامِ قانون پر ضرب اور اسلام سے انحراف ہے اور قانون کے دوغلے نظام (dual system)کو جو ویسے بھی غلط ہے‘ ان جرائم پر بھی مسلط کرنا ہے جو حدود کے دائرے میں آتے ہیں۔ اس کے دو بڑے اہم نتائج ہوں گے: ایک یہ کہ یہ تمام جرائم وفاقی شرعی عدالت کے دائرے سے باہر ہوجائیں گے اور ہر کارروائی عام عدالتوں میں ہوگی اور دوسرے یہ کہ عام سیکولر قوانین‘ خصوصیت سے عائلی قوانین‘ جن کا گہرا تعلق ان حالات سے ہے‘ ان کو اپنے اپنے دائرے میں بالادستی حاصل ہوجائے گی اور شرعی قوانین کی ان پر بالادستی ختم ہوجائے گی۔ دستور کی دفعہ ۲۲۷ اس سلسلے میں بے کار ہے اس لیے کہ اس کے نتیجے میں کسی سیکولر قانون پر شرعی قانون کی بالادستی نافذ نہیں کی جاسکتی۔
۵- حد کے معاملے میں کسی حکومت حتیٰ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تخفیف یا معافی کا اختیار نہیں۔ اس نئے قانون کے نتیجے میں صوبائی اور مرکزی حکومت کو سزا میں تخفیف یا معافی کا اختیار مل جاتاہے جو قرآن و سنت کے احکام کے خلاف ہے۔
۶- قذف کے قانون میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں‘ وہ بھی قرآن و سنت کے احکام کے خلاف ہیں۔
۷- لعان کے بارے میں بھی شریعت کے احکام کو نظرانداز کردیا گیا ہے اور اسے صرف طلاق کا ایک سبب بنا دیا ہے‘ جب کہ شریعت کے مطابق قسم نہ کھانے کی صورت میں سزا اور اعتراف کی صورت میں حد کا اطلاق ہوتا ہے۔
یہ سات چیزیں مجوزہ قانون میں صراحتاً قرآن و سنت کے خلاف ہیں اور اگر ان کو پارلیمنٹ ملکی قانون کا درجہ دیتی ہے تو یہ قرآن وسنت سے بغاوت کے مترادف ہے۔
کہا جارہا ہے کہ کیا یہ اتنا اہم مسئلہ ہے کہ اس پر ملک گیر احتجاج کیاجائے اور اسمبلی سے مستعفی ہوجایا جائے۔ اللہ کی ایک حد کو قائم کرنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ۴۰سالوں کی بارشوں سے بہتر ہے اور ایک حد کو جانتے بوجھتے پامال کرنا تمام حدود سے بغاوت کے مترادف ہے۔ قرآن پاک کی ایک آیت یا ایک حکم کا انکار پورے قرآن کے انکار کے مترادف ہے اور انسان کو اگر وہ جانتے بوجھتے اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو کفر اور ارتداد کی طرف لے جاتا ہے۔ اور اس بارے میں مداہنت پورے دین سے مداہنت قرار پائے گی۔ نیز یہ جرم اور بھی سنگین ہوجاتا ہے کہ اگر کسی ملک میں شرعی حدود کتابِ قانون کا حصہ نہیں ہیں تو یہ ایک کوتاہی اور نافرمانی ہے لیکن ایک مرتبہ کتابِ قانون کا حصہ بنانے کے بعد اسے خارج کرنا صریح انکار‘ بغاوت اوراحکام الٰہی پر ضرب لگانے کے مترادف ہے۔
ایک معمولی مثال سے اسے یوں سمجھیے کہ روزہ نہ رکھنا ایک گناہ اور کوتاہی ہے‘ مگر روزہ رکھ کر توڑ دینا ایک جرم ہے‘ اور اس کا کفارہ ہے (اور کفارہ بھی بہت سخت کہ مسلسل ۶۰ دن تک روزے رکھے جائیں) اور روزہ کو حکم الٰہی ماننے سے انکار کفر کا درجہ رکھتا ہے اور انسان کو ارتداد کی سرحدوں پر لے جاتا ہے۔ جنرل مشرف اور ان کے حواری اس قانون کے ذریعے جو کام کر رہے ہیں وہ اللہ کے غضب کو دعوت دینے والا عمل ہے اور اُمت مسلمہ کے لیے کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ اور اگر اس پر بھرپور احتجاج نہ کیا جائے‘ اس اقدام کو روکنے کے لیے مؤثر جدوجہد نہ کی جائے اور اگر یہ مسلط کردیا گیا ہے تو اسے بدلنے کے لیے ہرممکن اقدام نہ کیا جائے تو یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بے وفائی ہوگی جو اپنی دنیا اور آخرت خراب کرنے کا راستہ ہے ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے‘ تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل‘ کوئی اگر دفتر میں ہے
(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۶ روپے‘ سیکڑے پر رعایت۔ منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آزادی اور محکومی میں بنیادی فرق کسی خاص ہیئت اور نظام سے بھی کہیں زیادہ فیصلہ سازی کے اختیار اور اسلوب کا ہے۔ معاملہ فرد کا ہو یا قوم کا___ اگر بنیادی فیصلے اور پالیسیاں خوف‘ دبائو‘ بیرونی مداخلت یا بلیک میلنگ کے زیراثر مرتب کی جارہی ہوں تو ظاہری ملمع سازی جو بھی کی جائے‘ حقیقت میں یہ سب محکومی کی شکلیں ہیں اور فرد یا قوم کی آزادی پر خط تنسیخ پھیرنے کے مترادف ہیں۔ علامہ اقبال نے اسی حقیقت کو یوں بیان کیا تھا کہ ؎
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے‘ نہ من تیرا نہ تن
جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے حادثے کے بعد جو قلابازیاں کھائی گئی ہیں‘ ان کے نتیجے میں ہماری خارجہ‘ عسکری اور داخلہ پالیسیاں امریکا کے اشارۂ چشم و ابرو کے مطابق تشکیل پا رہی ہیں اور یہ سلسلہ عالمی حالات میں جوہری تبدیلیوں کے باوجود ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر آج بھی جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ آزادی جو ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو قائداعظم کی قیادت میں لڑی جانے والی سیاسی اور جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان کی آزاد اسلامی ریاست کے قیام کی صورت میں ملت اسلامیہ پاک و ہند نے حاصل کی تھی‘ وہ نئی محکومی کے سیاہ سایوں کی زد میں ہے۔ پاکستان ایک ایسی دلدل میں دھنس گیا ہے جس سے نکلنے کی کوئی راہ موجودہ قیادت کے ہوتے ہوئے‘ نظر نہیں آرہی۔
خود کو دھوکا دینے کے لیے جو بھی خوش بیانیاں کی جائیں‘ حقیقت یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی گردن اب امریکا اور مغربی اقوام کی گرفت میں اس طرح پھنسی ہوئی ہے کہ ہاتھ پائوں مارنے کے باوجود وہ فیصلہ کرنے کی آزادی سے محروم ہوچکے ہیں___ اور اس وقت ملک کو جو سب سے بڑا خطرہ درپیش ہے‘ اس کی زد ہماری آزادی‘ قومی عزت و وقار اور اپنے حقیقی ملّی مفادات کے تحفظ کے اختیار اور صلاحیت پر ہے۔ قوم اب اس فیصلہ کن دوراہے پر کھڑی ہے جہاں ایک طرف آزادی کی بازیافت کا ہدف ہے تو دوسری طرف خوف اور بیرونی دبائو کے تحت امریکا کے نئے سامراجی جال میں امان (survival) کے نام پر دائمی محکومی کی ذلت کی زندگی۔ قوم کے سامنے ایک تاریخی لمحہ انتخاب ہے جسے انگریزی محاورے میں moment of truthکہتے ہیں۔ موجودہ قیادت تحریکِ پاکستان کے مقاصد اور اہداف سے بے وفائی کی راہ اختیار کرچکی ہے خواہ یہ کسی نام نہاد مجبوری کی بناپر ہو یا مفادات اور مخصوص اغراض کے حصول کے لیے___ بات جو بھی ہو‘ قوم کے لیے اب اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ اصل خطرات کا احساس کرے اور اپنی آزادی‘ ایمان اور عزت کے تحفظ کے لیے ایک فیصلہ کن جدوجہد کرے۔ حقائق پر اب کسی طرح ملمع سازی کارگر نہیں ہوسکتی۔
۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو حالات جیسے بھی تھے اور فوجی ڈرامے کے پیچھے جو عوامل اور جو کردار کارفرما تھے اس کی تفصیل سے قطع نظر (گو ایک دن اصلیت سے پردہ اُٹھے گا) ملک و قوم کی آزادی اور عزت و وقار کو سب سے بڑا دھچکا ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے سانحہ نیویارک و واشنگٹن کے بعد جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کے امریکا کے آگے سرتسلیم خم کرنے اور پاکستان کو ان کی چراگاہ بنا دینے کے اقدام سے لگا۔ اس واقعے کو اب پانچ سال گزر چکے ہیں اور اس زمانے میں وہ ایجنڈا‘ پروگرام اور اہداف کھل کر سامنے آگئے ہیں جن پر یہ قیادت عمل پیرا ہے۔ اس دور کے سب سے اہم پہلو تین ہیں:
اوّلاً، قوم کی قسمت کا فیصلہ ایک فردِواحد کے ہاتھوں میں ہے جو کسی ادارے‘ کسی نظام اور کسی دستوری قانون کا پابند نہیں۔ محض فوج کے ادارے کی سربراہی کے بل بوتے پر اور فوجی ڈسپلن کا فائدہ اُٹھا کر بنیادی فیصلے اپنی ذاتی مرضی‘ خواہشات اور مجبوریوں کے تحت کر رہا ہے‘ اور عملاً قیامِ پاکستان کے مقاصد اور ملت پاکستان کی تاریخی‘ نظریاتی‘ سیاسی اور تہذیبی عزائم کے برعکس اپنی خواہشات اور ترجیحات اور امریکا کے حکمرانوں کے احکام اور خواہشات کے مطابق کر رہا ہے۔ جب پارلیمنٹ نہیں تھی اس وقت بھی اور اب بھی جب بظاہر ایک پارلیمنٹ اور کابینہ ہے‘ فیصلہ سازی کا اختیار ایک فرد کو حاصل ہے۔ وہ کوئی لاگ لپیٹ رکھے بغیر برملا اعلان بھی کر رہا ہے کہ میں ہی اصل حکمران (man in command) ہوں اور باقی سب میری مرضی کے تابع ہیں۔ یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے جس نے ملک و قوم کی آزادی کو معرضِ خطر میں ڈال دیا ہے۔
دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ گو جنرل پرویز مشرف کی طاقت کا اصل منبع فوج اور اس کا ڈسپلن ہے‘ اور یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ اس عرصے میں انھوں نے خود فوج کے اعلیٰ کمانڈ اسٹرکچر کو بھی اپنی ذاتی جاگیر (feifdom) کی شکل میں ڈھال لیا ہے جس کا اعتراف خود فوج کے وہ سابق جرنیل بھی کر رہے ہیں جو جنرل صاحب کے حامی رہے ہیں جس کی سب سے اہم مثال جنرل طلعت مسعود کا وہ بیان ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ فوج کی بالائی سطح پر جنرل صاحب نے اپنے یار دوستوں کو بھر لیا ہے اور وہ خود ایک father figure(باپ)کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ خود جنرل پرویز مشرف ناین الیون سے لے کر آج تک جو بھی فیصلے کر رہے ہیں وہ حقائق‘ معروضی دلائل اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کے مفادات سے ہٹ کر خوف اور امریکی دبائو کے تحت کر رہے ہیں۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ناین الیون کے بعد جو یوٹرن پاکستان کی پالیسیوں میں آیا اور جس نے وہ خشتِ اوّل ٹیڑھی رکھی جس کے نتیجے میں ’تا ثریا می رود دیوار کج‘ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے‘ وہ امریکی دھمکی کہ ’تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے مخالف ہو‘ اور ہمارے ساتھ کے معنی ہمارے حکم کے تابع ہو ورنہ باغی اور دہشت گرد شمار کیے جائو گے اور ’پتھرکے دور کی طرف لوٹائے جائو گے‘ کا نتیجہ تھی۔ کسی خیالی وار گیمز (war games)کا جو بھی فسانہ جنرل صاحب نے اپنی خودنوشت میں کیوں نہ تراشا ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ فیصلہ پاکستانی قوم کا آزاد فیصلہ نہ تھا بلکہ ایک خوف زدہ حکمران کا واحد سوپرپاور کی دھمکی کے تحت ایک محکومانہ تعمیل ارشاد کا منظر تھا جس نے جارج بش‘ کولن پاول ہی نہیں‘ پاکستان میں امریکی سفیر نینسی پاول تک کو ششدر کر ڈالا تھا‘ اور جو کچھ نہ کچھ مزاحمت کی توقع رکھتے تھے کہ شاید سات میں سے تین چار شرائط کو پاکستان تسلیم کرے مگر باقی پر ردوکد کرے گا۔ وہ حیرت میں پڑ گئے کہ ایک ہی سانس میں ساتوں شرائط تسلیم کر کے جنرل صاحب نے طوقِ غلامی خوشی خوشی زیب تن کرلیا اور قوم کو خوش خبری سنائی کہ ’پاکستان بچ گیا‘ لیکن اس ’بچنے‘ کی کیا شکل بنی اس کا مختصر نقشہ ہم ابھی پیش کریں گے۔ اس وقت جس بنیادی بات تک گفتگو کو محدود رکھ رہے ہیں وہ آزادانہ فیصلے کا فقدان‘ اور خوف‘ دبائو اور بیرونی مداخلت کے خطرے کے تحت پالیسی کی بنیادی تبدیلی ہے۔
تیسری بنیادی چیز یہ ہے کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ دراصل امریکا کی نئی سامراجی حکمت عملی کا عنوان ہے اور اس کا مقصد نام نہاد دہشت گردی کا تعاقب نہیں‘ نئی سامراجی ملک گیری‘ عالمی سیکورٹی زونز کا قیام‘ شرق اوسط اور وسطی ایشیا کے معاشی وسائل پر تسلط اور گرفت‘ دنیا بھر کی مزاحم قوتوں اور ممالک کو اپنے قابو میں کرنا‘ خواہ تبدیلی قیادت کے ذریعے‘ یا جمہوریت کے فروغ کے نام پر سیاسی تبدیلیوںکے سہارے اور خواہ پیشگی حملے (pre-emptive strike) پر عمل پیرا ہوتے ہوئے فوج کشی کے ذریعے۔ بہانہ جو بھی ہو یہ جوع الارض‘ سیاسی غلبہ و تسلط کے قیام‘ معاشی وسائل پر گرفت اور اپنی تہذیب کو دوسروں پر مسلط کرنے کی عالم گیر جدوجہد ہے اور عملاًجنرل پرویز مشرف ناین الیون کے بعد امریکا کے اس پورے سامراجی عالمی پروگرام میں آلہ کار بن گئے ہیں‘ اور ان کی تازہ خودنوشت In The Line of Fire اس کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ امریکا کے اس پورے ایجنڈے میں اس کے شریک اور پاکستان اور مسلم دنیا میں اس امریکی نقشے میں رنگ بھرنے والے ایک کلیدی کردار ہیں۔ اس کتاب کے ذریعے انھوں نے امریکا کو یقین دلایاہے کہ میں ہی تمھارے اس پروگرام کو آگے بڑھا سکتا ہوں۔ لیکن اس کے معنی صاف لفظوں میں یہ ہیں کہ اقبال اور قائداعظم کے تصورِ پاکستان کو بھول جائو اور اُمت مسلمہ پاک و ہند نے جن مقاصد اور عزائم کے لیے جدوجہد کی تھی‘ وہ اب قصۂ پارینہ ہے‘ اب اصل منزل بش کے تصور کا محکوم اور تابع دار پاکستان ہے جسے جنرل صاحب اب ’روشن خیال میانہ روی‘ کا لبادہ پہنے قوم کے لیے قابلِ قبول بنانے کا کھیل کھیل رہے ہیں۔
فیصلے کی آزادی کی قربانی اور خودی اور بیرونی دبائو کے تحت پالیسی سازی کا آغاز ناین الیون کے بعد ہوا اور یہ عمل آج تک جاری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر ہم یہ فیصلہ نہ کرتے تو ملک تباہ ہوجاتا اور اس کے تمام اسٹرے ٹیجک مفادات قربان ہوجاتے۔ یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ ہم نے امریکا سے جنگ کے خطرے کو سامنے رکھ کر war gamesکا پورا نقشہ بنایا اور اس کے بعد امریکا کی فوجی قوت اور عزائم اور اپنے وسائل کا جائزہ لے کر امریکی شرائط تسلیم کیں۔ یقین نہیں آتا کہ ایک جرنیل کو امریکا کی فوجی قوت اور تباہ کاریوں کا اندازہ کرنے کے لیے کسی خیالی وار گیمز کی ضرورت تھی۔ عام سوجھ بوجھ کا ہرشخص اس حقیقت سے واقف ہے کہ دونوں میں کیا فرق ہے۔ مسئلہ وارگیمز کے ذریعے اپنی بے بضاعتی کی دریافت کا نہیں بلکہ اسٹرے ٹیجک حقائق کا جائزہ اور حق اور ناحق اور اپنی آزادی‘ عزت اور ایمان کے مطابق کسی موقف کے تعین اور ایک خونخوار سامراجی قوت کے عالمی عزائم‘ خصوصیت سے اپنے ہمسایہ مسلمان ممالک کے بارے میں اس کے ناجائز اور استعماری مقاصد میں آلہ کار بن جانے یا انھیں لگام دینے کی پالیسی یا کم از کم اس میں خود ذریعہ نہ بننے کا تھا۔
وسائل اور قوت کا فرق تو واضح تھا اور اس کے لیے کسی وار گیمز کی ضرورت نہ تھی۔ جنگی اور سیاسی حکمت عملی کا تعلق اس فرق کی روشنی میں جائز اور مبنی بر حق موقف کے تعین کا تھا اور یہ کام خوف کے تحت نہیں ہوش و حواس کے ساتھ مقاصد اور وسائل کی روشنی میں کرنے کا تھا۔ بلاشبہہ امریکا ایک زخمی شیر کی مانند تھا مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ بظاہر اپنی کھال بچانے کے لیے ہم اپنی آزادی‘ اپنی عزت‘ اپنے ایمان کی قربانی دے دیں۔ آخر ایران‘ ترکی حتیٰ کہ لبنان تک نے اپنے قومی مقاصد اور وقار و عزت کے مطابق ردعمل کا اظہار کیا۔ آخر ساری دشمنی کے باوجود امریکا نے ایران کو دھمکی دینے کا راستہ کیوں اختیار نہ کیا حالانکہ افغانستان تک رسائی کے لیے ایران‘ پاکستان اور وسطی ایشیا کے ممالک تینوں راستے تھے۔ امریکا پاکستان کے عدمِ تعاون کی شکل میں اس کی مرضی کے برعکس اس کی فضائی حدود (air space) کی خلاف ورزی کرسکتا تھا جیساکہ ۱۹۹۸ء میں افغانستان میں کچھ ٹھکانوں پر حملے کے لیے کرچکا تھا۔ ترکی نے اپنی پارلیمنٹ میں معاملہ رکھا اور پارلیمنٹ کے فیصلے پر قائم ہوگیا۔ امریکا جزبز ہونے کے سوا کچھ نہ کرسکا۔ امریکا نے لبنان سے مطالبہ کیا کہ حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دو اور لبنان کی حکومت نے صاف انکار کردیا۔
اوّل: یہ کہ سربراہ حکومت پوری قوم کو اعتماد میں لیتے‘ فوج کو مکمل طور پر تیاری کا حکم دیتے‘ اور جس طرح ۱۹۶۵ء میں لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے کلمے کی بنیاد پر بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے قوم کو تیار کیا تھا اسی طرح امکانی حملے کے لیے پوری قوم کو متحد کرکے مستعدومتحرک (mobilize) کیا جاتا۔ ہمیں یقین ہے کہ امریکا کے لیے یہ ایک مؤثر رکاوٹ ہوتا اور اگر افغانستان پر وہ فوج کشی کرتا بھی تو پاکستان پر فوج کشی کی جرأت نہ کرتا۔
دوم: اگر اس انقلابی فیصلے کی جرأت اور وژن نہیں تھا تو کم از کم یہ تو کیا جا سکتا تھا کہ ہم آنکھیں بند کرکے تمام شرائط ماننے کے لیے تیار نہیں البتہ بات چیت کے ذریعے کوئی قابلِ قبول صورت پیدا کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے عالمی راے عامہ کو بھی mobilizeکیا جاسکتا تھا۔ اسے No, Butکی حکمت عملی کہی جاسکتی ہے۔
سوم: اس سے بھی کم تر ایک تیسری صورت ہوسکتی تھی‘ یعنی Yes, Butکہ ہم تعاون کے لیے تیار ہیں لیکن کچھ شرائط کے ساتھ۔
چہارم: جنرل صاحب کے وارگیمز کا حاصل یہ تھا:Yes, Yes, Yes۔ انھوں نے چوتھا راستہ اختیار کیایہ کہ ہم یہ کام پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے کر رہے ہیں مگر نتیجہ برعکس نکلا۔ پاکستان کے ایک ایک مفاد پر شدید ضرب پڑی‘ یعنی ہماری آزادی‘ ہماری کشمیر پالیسی‘ استعماری جنگ کے خلاف تحریکِ مزاحمت اور دہشت گردی کا فرق‘ پاکستان کی نیوکلیر صلاحیت کی حفاظت اور ترقی اور نیوکلیر میدان میں بھارت سے برابری کا مقام۔ اور جو معاشی نقصانات ملک کو برداشت کرنے پڑے‘ ان کا اندازہ خود امریکی نارتھ کمانڈ کے اعلان کے مطابق جو خود ان کی ویب پر آیا تھا‘ صرف پہلے دو سال میں یہ نقصان ۱۲ ارب ڈالر تھا۔ جو نام نہاد معاشی امداد امریکا نے دی ہے‘ وہ اس کا ایک چوتھائی بھی نہیں۔
خوف اور بے اعتمادی کے تحت جو بھی فیصلے ہوتے ہیں‘ ان کا یہی حشر ہوتا ہے۔ آج افغانستان اور عراق دونوں جگہ امریکا کی ننگی جارحیت کی ناکامی اور دہشت گردی کی عالمی رو میں چنددرچند اضافے کے باوجود ہماری تابع داری کی پالیسی کا وہی حال ہے جس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ جو دھمکی ناین الیون کے وقت امریکی نائب وزیرخارجہ جارج آرمیٹج نے دی تھی‘ اسی نوعیت کی دھمکیاں مختلف انداز میں آج تک دی جارہی ہیں۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ پاکستان کے کان نہیں مروڑے جاتے کہ طالبان کی درپردہ مدد کر رہے ہو۔ صدربش سے لے کر ڈک چینی‘ رمزفیلڈ‘ کونڈولیزارائس‘ جنرل ابی زائد اور نکولس برنر تک ہرموقعے پر مطالبہ کرتے ہیں: do more۔ جو کہتے ہو‘ وہ کرکے دکھائو۔ جنرل صاحب کے سارے اعلانات کہ ہم نے سب سے زیادہ القاعدہ کے ارکان پکڑے ہیں‘ ان کی صفائی کے لیے کافی نہیں سمجھے جاتے‘ حتیٰ کہ اب افغانستان کے صدر حامد کرزئی صاحب بھی منہ در منہ جنرل صاحب پر دہشت گردی کی پناہ اور سرپرستی کا الزام لگارہے ہیں۔ اور صدربش کو وائٹ ہائوس کے ڈنر کے سلسلے میں کھلے بندوں کہنا پڑا کہ میں دونوں کی زبانِ حال (body language) پر نگاہ رکھوں گا۔ اس سے پہلے صدربش اسلام آباد آئے تھے تو اس موقع پر یہ طمانچا رسید کیا تھا کہ میں یہاں اس لیے آیا ہوں کہ دیکھوں جنرل مشرف جو کہتے ہیں وہ کر رہے ہیں یا نہیں؟ دوسری طرف جس دن جنرل صاحب اپنے حالیہ دورۂ امریکا سے واپسی پر لندن نازل ہوتے ہیں‘ اسی دن برطانوی فوج کی ایک نیم سرکاری رپورٹ میں آئی ایس آئی کے خلاف چارج شیٹ پیش کی جاتی ہے اور آئی ایس آئی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
اس شرم ناک یلغار کا تازہ ترین مظہر وہ رپورٹ ہے جو لندن کے اخبارات ڈیلی ٹیلی گراف اور سنڈے ٹائمز نے اکتوبر ۲۰۰۶ء کے شروع میں شائع کی ہے اور جس کا حاصل یہ ہے کہ افغانستان میں ناٹو کے کمانڈر نے ان پانچ ممالک کی حکومتوں سے جن کی فوجیں افغانستان کی ناٹو فوج کا بڑا حصہ ہیں‘ کہا ہے کہ ایک بار پھر پاکستان کو اس نوعیت کا پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ ’ہمارے ساتھ ہو یا پھر ہمارے دشمن ہو‘۔
ناٹو کے کمانڈر کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان کو پاکستان میں تربیت دی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ انھیں کسی تربیت کی ضرورت ہے؟ دراصل یہ ایک احمقانہ سوال ہے کہ وہ افغان مجاہد جو روس کے خلاف برسرپیکار رہے‘ جو خوں ریز خانہ جنگی میں ۲۰ سال سے مصروف ہیں اور جن کے رگ و پے میں عسکریت صدیوں سے جاری و ساری ہے‘ ان کو پاکستان میں کسی تربیت کی ضرورت ہے۔ اصل مسئلہ ان کی تربیت کا نہیں پاکستان کی گوشمالی اور بے عزتی کا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کی اس پالیسی کا حاصل یہ ہے کہ سب کچھ کرنے کے باوجود وہ معتبر نہیں اور امریکا‘ برطانیہ اور ناٹو کمانڈر ہی نہیں‘ بھارت کی قیادت اور افغانستان کے نمایشی حکمران تک پاکستان کے خلاف شب و روز زبان طعن دراز کر رہے ہیں۔ بھارت آج افغانستان میں معتبر اور بااثر ہی نہیں‘ وہاں سے پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے‘ اور پاکستان جس نے گذشتہ ۲۶‘ ۲۷ سال افغانستان کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دی ہیں‘ تائید و معاونت کی ہے اور آج بھی جس کی سرزمین پر ۳۰ لاکھ افغان مہاجر موجود ہیں وہ سب سے زیادہ ناقابلِ اعتماد بلکہ گردن زدنی شمار ہو رہا ہے اور جن کی خاطر جنرل پرویز مشرف دوستوں کو دشمن بنانے کی خدمت انجام دے رہے ہیں وہ ان کو ذاتی دوستی اور ان کی فوجی وردی کے تحفظ کے باب میں جو بھی کہیں لیکن سربراہ مملکت اور پاکستان کے کردار کے بارے میں بداعتمادی‘ طعنہ زنی اور تحقیر اور تذلیل کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ صدر بش نے اسلام آباد میں جنرل پرویز مشرف کے منہ پر کہا کہ نیوکلیر معاملے میں بھارت اور پاکستان برابر نہیں اور دونوں کی تاریخ اور ضرورتیں الگ الگ ہیں۔ بھارت کے لیے نیوکلیر تعاون کے دروازے کھول دیے ہیں اور پاکستان کے لیے نہ صرف ہردروازہ بند ہے بلکہ اس کی نیوکلیر صلاحیت آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے‘ اور عملاً اتنا دبائو ہے کہ نیوکلیر صلاحیت ٹھٹھر کر رہ گئی ہے اور حرکی سدّجارحیت (dynamic deterrance) کے لیے جس سرگرمی کی ضرورت ہے وہ خود جنرل صاحب کی خودپسندی اور کوتاہ اندیشی کے ہاتھوں معرضِ خطر میں ہے۔
پاکستان امریکا کی نگاہ میں کتنا ناقابلِ اعتماد ہے اس کا اندازہ اس سودے سے کیا جاسکتا ہے جو ایف-۱۶ کے سلسلے میں ہوا ہے۔ پہلے تو امریکا نے سودا کر کے رقم وصول کرنے کے باوجود ایف-۱۶ دینے سے انکار کردیا۔ پھر اب ہزار منت سماجت کے بعد جو معاملہ طے کیا ہے وہ اتنا شرم ناک اور ہماری آزادی اور وقار کے اتنا منافی ہے کہ اسے قبول کرنے کا تصور بھی گراں گزرتا ہے۔ جس حالت میں یہ جہاز ملیںگے‘ اگر ملے بھی تو‘ وہ مقابلے کی حقیقی دفاعی صلاحیت پیدا کرسکیں گے اور نہ پوری طرح ہمارے اپنے قبضہ قدرت میں ہوں گے۔ امریکی کانگریس کمیٹی میں ۲۰ جولائی ۲۰۰۶ء کو نائب وزیرخارجہ جان ہلر نے جو شرائط بیان کی ہیں اور ان کے بعد یہ اطلاع آئی ہے کہ ۳۰ستمبر کو پاکستان نے اس سودے کے بارے قبولیت کی دستاویز پر دستخط کردیے ہیں‘ انھیں پڑھ کر انسان حیرت میں رہ جاتا ہے کہ اس ملک کے فوجی حکمران‘ ملک کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہے ہیں۔ ملاحظہ ہوں وہ شرائط۔ اخباری اطلاعات کاخلاصہ یہ ہے:
ان شرائط پر بھی جب کمیٹی کے ممبران کی تسلی نہ ہوئی تو نائب وزیرخارجہ نے بتایا کہ اور بھی کچھ امور ہیں جو بند کمرے کے اجلاس میں بتائیں گے۔
یہ ہیں وہ کبوتر جو قوم کے گاڑھے پسینے کی کمائی کے ۵بلین ڈالر امریکا کو دے کر حاصل کیے جارہے ہیں۔ یہ فیصلہ کرنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ ان سے ہمارے دفاع‘ خصوصیت سے بھارت کے مقابلے کے لیے دفاعی صلاحیت میں کتنا اضافہ ہوگا اور امریکا کی فوجی سازوسامان کی صنعت کی کتنی سرپرستی ہوگی؟
جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں خود ملک کا دفاع بھی خطرات سے دوچار ہوگیا ہے۔ اس سے صرف انحراف ممکن نہیں۔ ان کی خودنوشت کا تجزیہ اس وقت ہمارا موضوع نہیں لیکن اس میں ان کی شخصیت کی جو تصویر اُبھر کر سامنے آتی ہے وہ ان کے اپنے الفاظ میں ایک ’داداگیر‘ کی ہے۔ صفحہ ۲۶ اور ۲۷ پر جو اپنی تصویر اُنھوں نے پیش کی ہے اور جو ان کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے کلید کی حیثیت رکھتی ہے انھی کے الفاظ میں یہ ہے:
ایک لڑکے کو اپنی بقا کے لیے گلی یا محلے میں نمایاں ہونا پڑتا ہے۔ لازمی طور پر میرے محلے میں بھی ایسے گینگ تھے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ میں ان میں سے ایک میں شامل ہوگیا۔ اور یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں کہ میں سخت جان (tough) لڑکوںمیں سے ایک تھا… پھر بغیر سوچے میں نے اپنی گرفت میں آئے لڑکے کو مار لگائی۔ لڑائی شروع ہوگئی اور میں نے مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیا۔ اس کے بعد لوگوں نے مجھ کو ایک باکسر قسم کا آدمی سمجھ لیا اور میری شہرت داداگیر کی ہوگئی۔ اس لفظ کا ترجمہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا مطلب ہے‘ ایک ایسا ’ٹف‘ لڑکا جس سے آپ نہیں اُلجھتے۔ (اِن دی لائن آف فائر)
بات صرف بچپن کی نہیں‘ خودنوشت کی تحلیل نفس کا حاصل اس کے سوا نہیں کہ یہ ان کی شخصیت کا طرۂ امتیاز ہے۔ البتہ وہ یہ بتانا بھول گئے کہ داداگیر اپنے سے کم تر پر‘ پریشر ہوتا ہے مگر اپنے سے قوی تر کے آگے بھیگی بلی بن جاتا ہے۔ چونکہ بش اور امریکا زیادہ بڑے داداگیر ہیں اس لیے جنرل صاحب اس کے ٹولے (gang) کے ایک چھوٹے ساتھی بن جاتے ہیں اور خود اپنے ماتحتوں اور ملک کے کمزور عوام کے لیے bully کا کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن کیا مہذب معاشرے اور اچھی حکمرانی میں بھی اس کی کوئی گنجایش ہوسکتی ہے؟
جنرل صاحب نے ناین الیون کے ضمن میں جن وار گیمز کا ذکر کیا ہے (ص ۲۰۱-۲۰۲)‘ وہ خودفریبی کا شاہکار ہے۔ اگر آزادی‘ ایمان‘ عزت اور بین الاقوامی عہدوپیمان کے دفاع کا یہی معیاری طریقہ ہے تو پھر انسانی تاریخ ازسرنو لکھنے (re-write) کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ قرونِ اولیٰ کی بات چھوڑ دیجیے‘ صرف اپنے قریبی زمانے پر نگاہ ڈالیے۔ دوسری جنگ شروع ہونے سے قبل جرمنی کی طاقت کا موازنہ اگر خود برطانیہ کے حکمران اپنی قوت سے کرتے تو جرمنی کو چیلنج کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ چیمبرلین جرمنی کی عسکری قوت سے اتنا مرعوب تھا کہ مقابلے کی جگہ اطمینان دلانے کا راستہ اختیار کرلیتا مگر چرچل نے ہارتی ہوئی بازی کو پلٹ کر رکھ دیا اور بیسویں صدی کی تاریخ نے نئی کروٹ لی۔ اگر دولت عثمانیہ کی زبوں حالی کے پیش نظر اور اس وقت کی یورپ کی تین سوپر پاورز کی ترکیہ پر یورش کے موقع پر جنرل پرویز مشرف کا ہیرو کمال اتاترک کسی ایسی ہی وارگیمز کا اسیر ہوجاتا تو آج ترکی کا کوئی وجود دنیا کے سیاسی نقشے پر نہ ہوتا لیکن قوت کے عدم توازن کے باوجود مقابلے کی حکمت عملی کامیاب رہی اور دولت عثمانیہ نہ رہی مگر ایک آزاد مسلمان ملک کی حیثیت سے ترکی نے اپنا سربلند رکھا۔ اگر فرانس کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہونے والے الجزائری مجاہدین کسی جرنیل کے وارگیمز کے اسیر ہوتے تو ڈی گال کی افواج کا مقابلہ کرنے کا تصور بھی نہ کرتے۔ اگرہوچی من کا مشیر کوئی جرنیل ایسے ہی وارگیمز کا طلسم بکھیرتا تو ویت نام کےتن آسان امریکا جیسی سوپرپاور کا مقابلہ کرنے کی حماقت نہ کرتے اور امریکا ویت نام کی فوجی شکست اور سیاسی ہزیمت سے بچ جاتا۔ اگر ماوزے تنگ کی کسانوں کی فوج چیانگ کائی شیک اور امریکا کی مشترک قوت کا حساب کتاب کسی وارگیمز سے کرتے تو چین کی تاریخ بڑی مختلف ہوتی۔
دُور کیوں جایئے اگر افغانستان اور عراق میں وہاں کے عوام کو کوئی ایسا جرنیل میسر ہوتا جو وارگیمز کی روشنی میں معاملات طے کرتا تو امریکہ چین ہی چین میں بنسری بجا رہا ہوتا اور پانچ سال کے قبضے کے باوجود افغانستان سے فوجی واپس بلانے کے لیے برطانوی فوج کے سربراہ جنرل سررچرڈ ڈرینٹ کو ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۶ء کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ ہمیں افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کی فکر کرنی چاہیے‘ اور ساڑھے تین سال کی جنگ گیری کے بعد امریکا کی ۱۶ انٹیلی جنس ایجنسیز کی یہ مشترک رپورٹ سامنے نہ آتی کہ مزاحمت روز بروز بڑھ رہی ہے اور ہمارے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ فوجی قوت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو‘ عوامی قوت کے سامنے نہیں ٹھیرسکتی۔ اور خدا بھلاکرے حزب اللہ کا کہ ان کے پاس کوئی ایسا جرنیل نہیں تھا جو وارگیمز کی مشق کرکے بتادیتا کہ دس بارہ ہزار مجاہدین کا اسرائیل کی پوری فوجی حکومت سے مقابلہ حماقت ہے اور اس طرح اسرائیل ۳۴ دن کی خوں ریزی کے بعد سیزفائر اور فوجوں کی واپسی کی زحمت سے بچ جاتا۔ باقی سب کو بھول جایئے‘ ۱۹۷۹ء کے اس دن کو یاد کرلیجیے جب روس کی سوپر پاور نے افغانستان پر کھلی فوج کشی کی تھی اور روسی سفیر نے جنرل ضیاء الحق سے‘ اس پاکستانی فوج کے ایک اور سربراہ سے‘ کہا تھا کہ اگر روس کو چیلنج کیا تو تمھاری خیر نہیں اور امریکا جیسی سوپر پاور نے بھی بس اتنا کیا تھا کہ ماسکو میں ہونے والے اولمپک میں اپنے کھلاڑی بھیجے سے انکار کردیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دفترخارجہ نے بھی شاید کسی وارگیمز کی مشق کرکے کہا تھا کہ اپنی انگلیاں نہ جلائو۔ لیکن ضیاء الحق نے مقابلے کی قوت کی فکر کیے بغیر ایک تاریخی فیصلہ کیا اور پھر خود امریکا کے صدر کے ایک نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر زبگینو برزنسکی نے افغان جہاد کی متوقع کامیابی کو بھانپ کر ۱۹۸۶ء ہی میں لندن ٹائمز میں اپنے ایک مضمون میں اعتراف کیا کہ:
افغانستان میں روس کی سیاسی اور عسکری شکست کے واحد معمار جنرل ضیاء الحق تھے۔ (لندن ٹائمز‘ ۱۸ اپریل ۱۹۸۶ء بحوالہ روزنامہ نواے وقت‘ یکم اکتوبر ۲۰۰۶ئ)
تاریخ ایسی داستانوں سے بھری پڑی ہے مگر اس کے لیے قیادت میں ایمان‘ عزم‘ بصیرت اور شجاعت کے ساتھ اللہ اور اپنے عوام کی تائید ضروری ہے۔ جہاں فیصلے خوف اور دبائو کے تحت ہوتے ہوں وہاں آزادی اور مزاحمت کی جگہ محکومی اور پسپائی لے لیتے ہیں۔
قرآن کا اپنا اسلوبِ ہدایت ہے۔ سورۂ بقرہ میں خوف کو بھی جہاد اور شہادت کے پس منظر میں آزمایش کی ایک صورت قرار دیا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی اللہ سے تعلق اور اس کی طرف واپسی کی حقیقت کی تلقین کے ساتھ جہاد‘ شہادت اور صبروصلوٰۃ کا راستہ بتایا گیا ہے۔ (البقرہ ۲:۱۵۳-۱۵۶)
اگر بہ فرض محال یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ۲۰۰۱ء میں کوئی اور چارۂ کار نہیں تھا‘ پھر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج ۲۰۰۶ء میں کیا مجبوری ہے کہ ہم صدربش کا اسی طرح دم چھلّا بنے ہوئے ہیں حالانکہ زمینی حقائق یکسر بدل چکے ہیں۔ افغانستان میں امریکا پھنس گیا ہے اور سارے عسکری کرّوفر کے باوجود نہ افغانستان کو اپنے زیرحکم لاسکا ہے اور نہ اسامہ بن لادن اور ملاعمر کو گرفتار کرسکا ہے۔ طالبان ایک ملک گیر قوت کی حیثیت سے اُبھر رہے ہیں اور ناٹو کے کمانڈر اور بین الاقوامی صحافی اور سفارت کار اعتراف کر رہے ہیں کہ کرزئی حکومت کی ناکامی‘ وارلارڈز کی زیادتیوں‘ معاشی زبوں حالی اور قابض فوجیوں کے خلاف نفرت اور بے زاری کے نتیجے میں طالبان کی قوت بڑھ رہی ہے۔ کئی صوبوں میں عملاً ان کی حکومت ہے‘ ایک صوبہ میں برطانوی افواج نے طالبان کے ساتھ معاہدہ امن تک کیا ہے اور ہرطرف سے طالبان سے معاملہ کرنے اور ان کو شریکِ اقتدار کرنے کے مشورے دیے جارہے ہیں۔
اسی طرح عراق میں امریکی فوجیں بری طرح پھنسی ہوئی ہیں۔ تشدد اور مزاحمت روزافزوں ہے۔ عراق کی تقسیم کے خطرات حقیقت کا روپ ڈھالتے نظرآرہے ہیں اور وہ سول وار کے چنگل میں ہے۔ دنیا میں دہشت گردی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ عراق کے بارے میں مشہور رسالے Lancetکے تازہ (اکتوبر ۲۰۰۶ئ) شمارے میں جو اعداد وشمار آئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ساڑھے ۶لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جو آبادی کا ڈھائی فی صد ہے اور جنگ کی آگ بجھنے کے کوئی آثار نہیں۔ اس وقت امریکا میں اس کی ۵۰ فی صد سے زیادہ آبادی جنگ کی مخالفت کر رہی ہے۔ یورپ میں یہ مخالفت ۷۰ اور ۸۰ فی صد کے درمیان ہے‘ جب کہ مسلم اور عرب دنیا میں ۹۰ فی صد سے زیادہ افراد اس جنگ کے خلاف ہیں‘ حتیٰ کہ عراق میں کیے جانے والے تازہ ترین سروے کے مطابق عراق کی ۹۳ فی صدسنی آبادی اور ۶۵ فی صد شیعہ آبادی امریکی فوجوں کی فوری واپسی کے حق میں ہے۔
امریکا میں بش مخالف تحریک تقویت پکڑ رہی ہے۔ برطانیہ میں ٹونی بلیر کی پالیسی کے خلاف کھلی کھلی بغاوت ہے۔ برطانوی فوج کے ذمہ دار افراد فوجوں کی واپسی کی بات کر رہے ہیں۔ اسپین اپنی افواج عراق سے واپس بلاچکا ہے اور اس کے بعد سے وہاں امن ہے۔ اٹلی‘ جاپان وغیرہ تخفیف کی بات کر رہے ہیں۔ یہ ہے ہوا کا رخ___ لیکن جنرل پرویز مشرف اب بھی بش کے دست راست اور پاکستان اور اس کی سیکورٹی افواج کو بش کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہراول دستہ بنائے رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔ خود اپنے وزیرستان کے تجربات سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں اور قبائلی علاقے کے طالبان اور دینی قوتوں سے معاہدہ کرنے کے باوجود اس پر طرح طرح کی ملمع سازی میں مصروف ہیں۔
امریکا کے جو بھی مقاصد تھے وہ ہمارے مقاصد اور اہداف ہرگز نہیں ہوسکتے اور اب تو امریکا خود ان مقاصد کے بارے میں شدید انتشار کا شکار ہے اور نکلنے کے راستوں کی تلاش میں ہے‘ جب کہ جنرل صاحب ’مدعی سُست گواہ چست‘ کے مصداق گرم جوشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اپنی قدروقیمت کو بڑھاچڑھا کر پیش کرنے میں مشغول ہیں۔
پاکستانی قوم کے لیے فیصلے کی گھڑی آپہنچی ہے۔ اس وقت ہماری آزادی‘ ہمارا ایمان‘ ہماری عزت اور ہمارا مستقبل سب دائو پر ہیں۔ امریکا سے اچھے تعلقات‘ اصولی اور خودمختارانہ مساوات کی بنیاد پر زیربحث نہیں۔ یہ تعلقات ہمیں ہرملک سے رکھنے چاہییں اور امریکا کے ساتھ جہاں جہاں مشترک مفادات کا معاملہ ہے‘ وہاں ہماری خارجہ پالیسی کے لیے اس کا ادراک ضروری ہے‘ البتہ صدربش کی تاریخی غلطی ___یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہونا غلط تھا اور اگر کسی بھی مجبوری کے تحت شریک ہوگئے تھے تو اس شرکت کو جاری رکھنا ملک و ملّت کے مفاد سے متصادم ہے۔ جتنی جلد ممکن ہو‘ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ موجودہ خارجہ پالیسی کو تبدیل کیا جائے اور تبدیلی کے ایک واضح راستے پر گامزن ہوکر اپنی آزادی اور عزت و وقار کو بحال کیا جائے۔ اور یہ کام اسی وقت ہوسکتا ہے جب قوم موجودہ حکمران ٹولے سے نجات پائے کہ اس کی موجودگی میں آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے کا کوئی امکان نہیں۔
اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ فیصلہ سازی کو ایک فردِ واحد کی گرفت سے آزاد کیا جائے اور قومی امور کے بارے میں سارے فیصلے جمہوری انداز میں بااختیار پارلیمنٹ کے ذریعے انجام دیے جائیں اور پارلیمنٹ اور حکومت حقیقی معنی میں عوام کے سامنے جواب دہ ہو۔ قومی بحث و مباحثے اور ہرسطح پر مشاورت کے ذریعے پالیسی سازی انجام پائے۔ اس کے لیے بھی جمہوری عمل کی مکمل بحالی اور اداروں کا استحکام اور بالادستی ضروری ہے۔
جہاں فوری مسئلہ آزادی کے تحفظ اور جمہوری عمل کی بحالی کا ہے‘ وہیں یہ بات بھی ضروری ہے کہ امریکا کا ایجنڈا صرف سیاسی اور عسکری بالادستی تک محدود نہیں۔ اس کا ہدف ایک نئے عالمی سامراج کا غلبہ ہے جس میں سیاسی اور عسکری بالادستی کے ساتھ معاشی وسائل پر امریکا اور مغربی اقوام کا تصرف اور تہذیبی‘ تعلیمی اور ثقافتی میدان میں مغربی تہذیب کا غلبہ اور حکمرانی ہے۔ آخری تجزیے میں یہ جنگ تہذیبوں اور اقدار کی جنگ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ امریکا اسلام کے اس تصور کو کہ یہ ایک مکمل دین اور نظام تہذیب و حکومت ہے اپنا اصل حریف سمجھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ جب تک مسلمانوں کے دل و دماغ سے آزادی‘ اسلامی تشخص اور اسلام کے ایک مکمل ضابطۂ حیات و تہذیب ہونے کے تصورات کو خارج نہ کردیا جائے‘ امریکا کی بالادستی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر روز نت نئے مسائل کو اٹھایا جا رہا ہے جن کا اصل ہدف اسلام کی تعلیمات اور اقدار پر ضرب اور مسلمانوں کو ان کے جداگانہ تشخص سے محروم کرنا ہے۔ تہذیبوں اور مذاہب کے تکاثر (plurality) کی جگہ مغربی تہذیب کی بالادستی اور دوسری تہذیبوں‘ مذاہب اور اقوام کے اس کے نظامِ اقدار میں تحلیل کیے جانے کا ہدف ہے۔ اس کے لیے ایک حربہ مسلمانوں کو روشن خیال اور قدامت پسند‘ لبرل اور انتہاپسندوں میں تقسیم کر کے اُمت کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا اور مسلمانوں کو آپس میں ٹکرانے اور تقسیم کرنے کی پالیسی پر عمل ہے۔ یہ ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کا تازہ اڈیشن ہے۔ اس میں بش‘ بلیر اور مشرف ایک ہی کردار ادا کر رہے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کی سرپرستی میں اور چودھری شجاعت حسین کی سربراہی میں ایک مذہبی محاذ تصوف کے فروغ کے لیے قائم کیا گیا ہے اور مقصد یہ ہے کہ اسلام کو اگر امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے پاک کردیا جائے‘ جہاد کے تصورات کو مجہول کردیا جائے‘ خیروشر اور کفرواسلام کی کش مکش کی بات ختم کردی جائے‘ تو پھر اسلام کا ایک ایسا اڈیشن تیار کیا جاسکتا ہے جس سے باطل کی قوتوں اور ظلم کے کارندوں کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ غضب ہے کہ اس کے لیے اقبال اور قائداعظم کا نام استعمال کیا جارہا ہے حالانکہ اقبال کے پورے پیغام کا حاصل حق و باطل کی کش مکش اور اس میں مسلمان کا جہادی کردار ہے۔ اقبال اور قائداعظم دونوں کو ہندو قیادت ہی نے نہیں انگریزی حکمرانوں اور ان کے قلمی معاونین نے انتہاپسند (extremist) اور فرقہ پرست (communalist) کہا تھا اور دونوں نے فخرسے کہا تھا کہ ہاں‘ ہم اپنے اصولوں پر قائم اور ان پر فخر کرتے ہیں اور اصولوں سے بے وفائی اور غداری کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ قائداعظم نے باربار کہا کہ میں تمام مسلمانوں کو متحد کرنے میں مصروف ہوں اور ان کو گروہوں میں بانٹنے والوں کو ان کا دشمن سمجھتا ہوں۔ ایک موقعے پر انھوں نے لاہور میں طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ ’’تمھاری تاریخ جہاد کی تاریخ ہے اور مسلمان کے لیے شہادت سے بڑا کوئی رتبہ نہیں‘‘۔ اقبال نے جہاد کو اسلام کے غلبے اور مسلمانوں کی قوت اور سطوت کو اپنی ساری جدوجہد کا ہدف قرار دیا اور ہر اس فتنے پر ضرب لگائی جو جہاد کے راستے سے فرار کی راہیں سمجھاتا ہے۔
آج محکومی کے جو تاریک سائے اُمت پر منڈلا رہے ہیں وہ خوف‘ دبائو اور غیروں کی کاسہ لیسی اور دراندازی کا ثمرہ ہیں اور ملّت اسلامیہ پاکستان کی آزادی‘ ایمان اور عزت اس کی زد میں ہیں۔ تحریکِ پاکستان ایسے ہی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے برپا کی گئی تھی‘ اور ملّت اسلامیہ پاک و ہند کی بیش بہا قربانیوں کے نتیجے میں پاکستان ایک آزاد اسلامی ملک کی حیثیت سے نقشے پر اُبھرا۔ ان نقوش کو مٹانے کی جو عالم گیر سازشیں ہو رہی ہیں اور جس طرح اسے کچھ آلہ کار اپنی ہی قوم سے میسر آگئے ہیں‘ اس کا مقابلہ تحفظ پاکستان کے لیے ایسی ہی ہمہ گیر تحریک سے کیا جاسکتا ہے جس تحریک کے نتیجے میں پاکستان قائم ہوا۔ آج ہم ایک بار پھر اپنی آزادی‘ اپنے ایمان‘ اپنی شناخت‘ اپنی تہذیب اور اپنی عزت کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں اور ہماری زندگی اور ہماری آنے والی نسلوں کی زندگی کا انحصار اس جدوجہد اور اس کی کامیابی پر ہے ۔
مشہور مقولہ ہے: ’’خدا شرے بر انگیز کہ خیرے مادر آں باشد‘‘ (کبھی شر سے بھی خیر رونما ہوتا ہے)۔ ایسا ہی ایک خیر حدود آرڈی ننس میں ’تحفظ نسواں‘ کے نام پر ترمیمی بل کے سلسلے کی بحث اور پارلیمانی پارٹیوں کے قائدین کی تحریک پر ایک علما کمیٹی کے قیام کی شکل میں رونما ہوا ہے۔ اس ضمن میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک فاضل رکن نے استعفا دے دیا اور پھر خبر آئی کہ کونسل کے کے صدر‘ جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کر کے پوری کونسل کی طرف سے اجتماعی استعفے کا اقدام کرنے والے ہیں۔ مستعفی ہونے والے رکن نے اپنے استعفے کے خط میں لکھا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل ایک دستوری ادارہ ہے اور اسے نظرانداز کرکے بالا ہی بالا ایک علما کمیٹی کے قیام اور اس کے مشورے سے کونسل کا استحقاق مجروح ہوا ہے اور اس طرح گویا اس کی بے توقیری کا پیغام دیا گیا ہے۔ تقریباً یہی موقف کونسل کے صدر اور باقی ارکان کا سامنے آرہا ہے اور ملک کے انگریزی کے سیکولر اور لبرل پریس نے اس کو خوب خوب اُچھالا ہے اور کونسل کو بانس پرچڑھا کر اس کے اس اقدام کو حدود آرڈی ننس کے خلاف کام کرنے والی سیکولر اور غیرملکی این جی اوز کی لابی کی مہم میں کامیابی کے چند پروں کے اضافے کا رنگ دیا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں غوروفکر کے چند ضروری نکات پر گفتگو کی جائے۔
نظریاتی کونسل کے جن ارکان نے اس موقع پر اپنی غیرت ایمانی اور ذاتی اور علمی عزوشرف پر ہونے والی دراندازی پر جن جذبات کا اظہار کیا ہے وہ اس پہلو سے تو بڑے قیمتی ہیں کہ اس دستوری ادارے کو شاید اپنی تاریخ میں پہلی بار اپنے مقام‘ کردار اور استحقاق کا احساس ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ اس وقت اس کی آواز جن دوسری آوازوں میں مل گئی ہے وہ اسلامی قوانین کے خلاف مہم چلانے والی سیکولر اور عالمی استعماری گروہ (lobbies) ہیں۔ اگر اس سے صرفِ نظربھی کرلیا جائے تو اسے قابلِ قدر ہی کہا جائے گا کہ اس ادارے اور اس کے ارکان کو اب یہ ہوش تو آیا کہ ان کا دستور اور قانون سازی کے نظام میں بھی ایک کردار ہے اور اگر ان کے اس کردار پر کوئی حرف آتا ہے تو اس پر احتجاج کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو ایک دستوری ادارہ ہوتے ہوئے بھی عملاً ایک عضو معطل ہی کا مقام دے دیا گیاہے‘ یااس نے یہ مقام اپنے لیے قبول کرلیا ہے۔دستور کی دفعہ ۲۲۸کونسل کی تشکیل ‘ دفعہ ۲۲۹ صدر‘ گورنر‘ پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کی طرف سے مشورہ کے لیے بھیجے جانے والے ریفرنس کے بارے میں ہیں‘ اور دفعہ ۲۳۰ میں اس کونسل کے وظائف اور ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں۔ کونسل کی رپورٹوں کا پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں پیش کیا جانا اور ان پر بحث ایک دستوری ذمہ داری ہے لیکن ہمارے علم کی حد تک‘ گو ۱۹۷۳ء کے دستور کے تحت قائم کیے جانے کے بعد سے اب تک‘ کونسل ۵۰ سے زیادہ رپورٹیں تیار کرچکی ہے لیکن ان میں سے کسی ایک پر بھی پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہوئی اور نہ ان کی روشنی میں کوئی قانون سازی یا پالیسی سازی ہوئی ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ کونسل یا اس کے ارکان کو اس بے توقیری پر کبھی احتجاج کی توفیق نہیں ہوئی۔
اس پورے عرصے میں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں نے دسیوں ایسے قانون بنائے ہیں جن کا بلاواسطہ یا بالواسطہ شریعت کے احکام سے تعلق ہے۔ چند قوانین تو شریعت کے نام پر بنائے گئے ہیں‘ مثلاً نوازشریف صاحب کے پہلے دورِحکومت میں منظور کیا جانے والا قانون نفاذ شریعت۔ نیز ان کے دوسرے دور حکومت میں دستور کا پندرھواں ترمیمی بل جسے قومی اسمبلی نے منظور بھی کرلیا تھا مگر وہ سینیٹ سے منظور نہ ہوسکا اور اس میں شریعت اورامربالمعروف اور نہی عن المنکر کے نام پر وزیراعظم کے لیے غیرمعمولی اختیارات حاصل کیے گئے تھے۔ ہمیں یاد نہیں کہ ان دونوں اور دوسرے متعلقہ قوانین کے باب میں کونسل کی رگ حمیت کبھی پھڑکی ہو اور اسے اپنا دستوری کردار یاد آیا ہو۔
دستور کی دفعہ (1-d) ۲۳۰ کی رو سے یہ کونسل کی ذمہ داری تھی کہ ملک کے تمام قوانین کو اسلامی احکام سے ہم آہنگ کرنے اور مزید قانون سازی کے لیے شریعت کے متعلقہ احکام و ہدایات کو ایک جامع رپورٹ کی شکل میں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو پیش کرے گی اور یہ کام اپنے قیام کے سات سال کے اندر اندر مکمل کرے گی۔ ہماری اطلاع کی حد تک تمام قوانین کے بارے میں جامع رپورٹ آج تک مرتب نہیں ہوئی ہے۔ جسٹس تنزیل الرحمن کی صدارت کے دوران اسی سلسلے میں کئی سو قوانین کے بارے میں شق وار تبصرہ تیار ہواتھا مگر یہ کام مکمل نہیں ہوا‘ اور ملک کے۴ہزار سے زیادہ انگریز کے زمانے میں نافذ ہونے والے اور گذشتہ ۶۰ سال میں کتابِ قانون کا حصہ بننے والے چند سو قوانین کا مکمل جائزہ اور شریعت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے متعین ترامیم کی تیاری کا کام ہنوز کونسل کی توجہ کا منتظر ہے۔ اسلامی احکام کے مجموعے پر مرتب ایک رپورٹ ضرور تیار کی گئی ہے لیکن آج تک اس پر بھی مرکزی یا صوبائی اسمبلی اور سینیٹ میں کوئی بحث نہیں ہوئی۔ ہمیں علم نہیں کہ اس سلسلے میں کونسل نے کبھی حکومت کو اپنی دستوری ذمہ داریاں ادا کرنے پر متوجہ کرنے کی زحمت فرمائی ہو۔
دستور کی متعلقہ دفعات کے مطالعے سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ اسلامی احکام کے بارے میں مشورہ حاصل کرنے کے پارلیمان کے حق کو اسلامی نظریاتی کونسل کے ساتھ محصور اور محدود کیا گیا ہے۔ بلاشبہہ کونسل کے قیام کا مقصد ہی قوانین اور پالیسیوں کو اسلام سے ہم آہنگ کرکے اس سے استفادہ کرنا ہے۔ لیکن ریفرنس کا اختیار صدر‘ گورنر‘ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو حاصل ہے۔ کونسل کو suo motto کوئی اختیار حاصل نہیں‘جیساکہ سپریم کورٹ یا وفاقی شرعی عدالت کو حاصل ہے۔ اسی طرح کوئی قدغن پارلیمنٹ کے اختیارات پر نہیں کہ وہ کونسل کے علاوہ کسی اور فرد‘ ادارے یا مشکل میں اپنی رہنمائی اور اعانت کے لیے کوئی اقدام نہیں کرسکتی۔ پارلیمنٹ کو تو یہ بھی اختیار حاصل ہے کہ کونسل کو کسی معاملے کو ریفر کرنے کے باوجود قانون سازی کرلے اور کونسل کی سفارشات پر بعد میں غور کرے (دفعہ (۳) ۲۳۰)۔ ہمیں علم نہیں کہ دستور یا خود اس کے اپنے رولز آف بزنس کی کون سی دفعہ کے تحت کونسل کو یہ اختیار یا استحقاق حاصل ہے کہ پارلیمنٹ‘ صدر‘ گورنر‘ پارلیمانی پارٹیوں کے قائدین کونسل کے علاوہ کسی اور سے نہ مشورہ کرسکتے ہیں اور نہ کوئی اور مشاورتی نظام بنانے کا اختیار رکھتے ہیں۔ اگر کونسل کے فاضل ارکان اس سلسلے میں دستور یا ضوابط کار کے متعلقہ اندراجات کی وضاحت کردیتے تو معاملے کو سمجھنے میں سہولت ہوتی۔
ہم خود اسلامی نظریاتی کونسل کو بااختیار دیکھناچاہتے ہیں اور اس کے کردار کو زیادہ مؤثر بنانے کے حق میں ہیں لیکن کونسل کو بھی قوم کو یہ اعتماد دینا ہوگا کہ وہ شریعت کے احکام کی محافظ اور امین ہے اور محض بااثر گروہوں کے ایجنڈے کی شعوری یا غیرشعوری تکمیل کے راستے پر گامزن نہیں۔ سرحداسمبلی میں حسبہ بل کے باب میں جو کردار اس کونسل نے ادا کیا وہ اس کی عزت کو بڑھانے والا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کونسل کے فاضل ارکان کو علم ہوگا کہ حسبہ بل کا اصل مسودہ خود اسلامی نظریاتی کونسل نے ۲۰‘ ۲۵ سال پہلے بنایا تھا۔ اسی مسودے کی روشنی میں صوبائی اسمبلی نے ایک بل تیار کیا۔ اسی پر سیکولر لابی آتش زیرپا تھی۔ اس بل پر جو تبصرہ کونسل نے کیا‘ وہ نہ شریعت کے ساتھ انصاف تھا اور نہ کونسل کے حدودِکار کے ساتھ۔ دستوری بقراطیت کا جو مظاہرہ اس میں کیا گیا‘ اسے کونسل کے دائرہ کار سے متعلق قرار دینے کے لیے خاصی ذہنی عیاشی کی ضرورت ہے۔
موجودہ کونسل کی تشکیل جس طرح کی گئی‘ اس سے اس کے وقار اورکردار کے بارے میں بہت سے حلقوں کو تشویش ہے اور کونسل کی اب تک کی کارکردگی نے ان خدشات کو دُور کرنے میں کوئی خدمت انجام نہیں دی۔ حدود آرڈی ننس کے سلسلے کی بحث میں جس طرح کونسل ُکودی ہے‘ اس نے ان خدشات کو مزید تقویت دی ہے۔ شاید کونسل کے موجودہ ارکان یہ بھول گئے کہ اصل حدود آرڈی ننس جسٹس افضل چیمہ صاحب کی صدارت میں قائم اسلامی نظریاتی کونسل کے تیار کردہ مسودے ہی پر مبنی ہے‘ اور جن امور میں اس میں اس کی تجاویز سے انحراف کیا گیا تھا ان کے بارے میں جسٹس تنزیل الرحمن کے دورِ صدارت میں قائم کونسل نے کئی بار متوجہ کیا تھا جو ریکارڈ کا حصہ ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ کونسل کے موجودہ ارکان اسی کونسل کے ماضی کے فیصلوں اور سفارشات سے واقف ہوں گے۔ بلاشبہہ ایک قانونی ادارے کو اپنی یا اپنے سابقین کی آرا پر نظرثانی کا حق ہے جس طرح عدالتی ادارے کرتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ کام ایک ضابطے اور طریقے کے مطابق ہوتا ہے اور آرا سے اگر رجوع بھی کیا جائے تو ماقبل کی آرا پر بحث و تنقید اور نئے دلائل کی بنیاد پر کسی نئے موقف کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ہمارے علم میں نہیں کہ کونسل نے ایسی کوئی مشق (exercise) کی ہے یا نہیں اور اگر کی ہے تو اس کا حاصل کیا ہے۔
حدود آرڈی ننس میں ترمیم کی بحث کے موقع پر اسلامی نظریاتی کونسل نے جس سرگرمی (activism ) کا اظہار کیا ہے‘ اس میں judical activismکے رویے سے کچھ مماثلت ضرور ہے لیکن اس میں ان آداب اورتقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھا گیا جو اس activismکا حصہ ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ کونسل نے اپنے استحقاق اور کردار کے بارے میں جس بیداری کا اظہار کیا ہے وہ اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی بھی فکر کرے گی۔
۱۱ ستمبر کی ستم کاریوں کی کوئی انتہانہیں ہے‘ اور امریکا کی موجودہ قیادت اقتدار اور قوت کے نشے میں عالمی قانون اور روایات‘ اور اخلاق اور تہذیب کے تمام مسلّمہ ضابطوں کو پارہ پارہ کرکے دنیا میں ظلم‘ تشدد اور دہشت گردی کا ایک طوفان برپاکر رہی ہے لیکن اس کا ایک نہایت مکروہ اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دہشت گردی کی کسی متعین تعریف سے مکمل صرف نظر کرکے دنیا کو ایک نہ ختم ہونے والے تصادم، بے یقینی اور قتل وغارت گری کی جہنم میں دھکیل دیا گیا ہے اورہر اختلاف، اور ظلم، ناانصافی اور سامراجی تسلط کے خلاف احتجاج، آزادی اور حقوق کی ہر جدوجہد پر دہشت گردی کا لیبل لگانے کا گھنائونا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
وہ کارروائیاں جنھیں دہشت گردی کی معروف تعریف کے تحت دہشت گردی قرار دیا جاسکے وہ ہر اعتبار سے قابل مذمت ہیں اور ان کے لیے جواز تلاش کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی کی تاریخ پیدایش ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء نہیں اور اس بات کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کی اصطلاح کے غلط استعمال کی مذمت کے ساتھ اس امر کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ یہ کوئی نیا عمل نہیں ہے۔
ایک افسوس ناک حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تاریخ کے تمام ادوار میں اور عملاً دنیا کے تقریباً تمام حصوں میں دہشت گردی یا ایسی ارادی اور مبنی برتشدد کارروائیاں جن کو دہشت گردی کے زمرے میں شامل کیا جاسکتا ہے ہمیشہ سے ہوتی رہی ہیں۔ دہشت گردی کا یہ عمل کسی معاشرے‘ تہذیب‘ مذہب‘ یا سیاسی امتیاز‘اور یا پھرکسی قدیم تاریخی‘ وسطی یا جدید عہد کے ساتھ بطور خاص وابستہ نہیں ہے اور نہ دہشت گردی کے فعل کی کوئی واحد‘ متعین اور یکساں صورت و شکل ہی ہے بلکہ دہشت گردی کے اظہار کے متعدد طریقے اوراسالیب ہیں۔ اسی طرح خودکش اقدام بھی کوئی نئی ایجاد نہیں ہے۔ بہرحال‘ یہی وجہ ہے کہ میری نگاہ میں دہشت گردی (Terrorism) واحد صیغے میں نہیں بلکہ جمع کے صیغے میں یعنی بہ الفاظ صحیح تر ’دہشت گردانہ کارروائیاں‘ (Terrorisms) کا استعمال ضروری ہے۔
ایسی ٹھوس تاریخی شہادتیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا یہ عمل اور فعل ایک امر واقعہ کے طور پر ایک حقیقت رہا ہے اور پھر اس کی مختلف اشکال اور احوال بھی موجود رہے ہیں۔ یہ حقیقت بھی الم نشرح کرنا ضروری ہے کہ دہشت گردی اور دہشت گرد گروہوں کی تاریخی حیثیت و اہمیت کم از کم یورپ میں قرون وسطیٰ کی ہولی رومن ایمپائر کی ابتدا سے منسلک ہے۔۱؎
لہٰذا ‘ محض القاعدہ کو دہشت گردی کی علامت کے طورپر پیش کرنا اور دہشت گردی کی پوری تاریخ اور اس کے تمام انواع و اقسام کو نظرانداز کرنا تاریخ کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ اس بات کا اعتراف ضروری ہے کہ دہشت گردی کی اصطلاح‘ ایک وسیع تر سیاسی حقیقت ہے جس کی موجودگی تمام ادوار اور تمام ممالک میں دیکھی جا سکتی ہے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر دہشت گردی کو کسی ایک ہی مرتکب کے بارے میں ہمہ وقت سوچا اور استعمال کیا جائے تو ہرقسم کے تصور‘ تجزیہ‘ تشخیص اور علاج کی پوری تصویر ہی مغالطہ آمیز ہوجاتی ہے۔ اگر ہم محض اپنی پسند کے امیدوار کے بارے میں نہیں‘ بلکہ دہشت گردی کے پیچیدہ اور مختلف الجہت عمل کے متعلق واقعی کچھ جاننے کے خواہاں ہیں تو پھر ضروری ہے کہ اس کے وسیع پس منظر کو زیرغور لا کر اس کے مفہوم اور تقاضوں کا صحیح ادراک کیا جاسکے۔
۲- اگرچہ دہشت گردی‘ ایک خوفناک حقیقت ہے لیکن مجموعی طور پر اس کا تصور نہایت ہی مبہم اور دھندلا ہے۔ Dictionary of International Affairs پینگوئن ۱۹۹۸ء (’لغت براے بین الاقوامی معاملات‘) میں اس صورت حال کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
’دہشت گردی کی روک تھام کے لیے کوئی معاہدہ اس لیے طے نہیں پاسکا کہ سیاسی ترجیحات کے باعث اس کی تعریف مسائل کا شکار رہی۔ اگر ایک نقطہ نگاہ کے مطابق ایک شخص ’دہشت گرد‘ ہے تو دوسرے نقطۂ نگاہ کے مطابق یہ شخص ’آزادی کی خاطر لڑنے والا‘ ہے، اور یہی وجہ ہے بین الاقوامی قانون کے مطابق اس عمل کا احاطہ نہیں کیا جاسکا ہے۔
شمڈ نے اس اصطلاح کی ایک سو سے زائد مختلف تعریفیں بیان کی ہیں۔۲؎
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ابھی تک اس اصطلاح کی کوئی متفقہ تعریف متعین نہیں کرسکی۔ ایک عمومی متفقہ رائے کے مطابق: ’’مخصوص سیاسی مقاصد اور مفادات کے حصول کی خاطر بے گناہ اور معصوم شہریوں اور دیگر غیرمتعلقہ افراد کے خلاف دانستہ پُرتشدد کارروائی ’دہشت گردی‘ کہلاتی ہے‘‘۔
جب سیاسی تنازعات کا پُرامن حل سامنے نہیں آتا اور لوگوں کو ظلم و ستم‘ غاصبانہ تسلط یا جارحیت کے خلاف جدوجہد پر مجبور کر دیا جاتا ہے تو ان حالات میں مزاحمتی تحریک پُرتشدد کارروائیوں کی طرف جانے پر مجبور ہوتی ہے اور اس جہت کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیرملکی تسلط کے خلاف محکوم عوام کی جدوجہد‘ خواہ اس میں تشدد کا عنصر شامل ہو‘ کو کسی بھی متفقہ دستاویز کے ذریعے‘ دہشت گردی سے منسلک نہیں کیا جا سکا بلکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کثرت رائے سے اور غیر جانبدار تحریک کے اعلانات میں متفقہ طور پر یہ استثنیٰ کھلے الفاظ میںبیان کیا گیا ہے۔
’ریاستی دہشت گردی‘ کا معاملہ بھی ابھی تک بظاہر وجۂ تنازع ہے۔ یہ امر ناقابلِ فہم ہے کہ اس دہشت گردی کو صرف انفرادی اور گروہی رویوں اور اقدامات تک ہی محدود کردیا جائے اور دیگر اقوام اور حکومتوں کے اپنے ہی ملک کے عوام کے خلاف ریاست کی مطلق العنان طاقت کا استعمال اس میں شامل نہ کیا جائے۔اس مسلمّہ اصول کا اعادہ ضروری ہے کہ ریاست کی طرف سے طاقت کے استعمال کا اختیار ان کارروائیوں کی قانونی حیثیت سے مشروط ہے‘ لہٰذا فطری طور پر‘ ریاستی دہشت گردی کو ’دہشت گردی‘ کے کسی بھی ممکنہ تصور سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔ جب ایک غیرملکی طاقت کسی ملک پر غاصبانہ تسلط جما لیتی ہے تو ان حالات میں محکوم افراد کی حق خود ارادیت اور حق آزادی کی خاطر کی جانے والی جدوجہد کی قانونی حیثیت کو کسی بھی صورت میں سیاسی تشدد کی دیگر اقسام کے مترادف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان حالات میں ریاستی حکام کی طرف سے مسلح افواج کا استعمال دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اسی طرح ریاست کی جانب سے اس کے اپنے عوام کے خلاف ’جنگی جرائم‘ یا ’نسل کشی کے اقدامات‘ اور یا پھر شہروں اور دیہاتوں پر بم باری‘ا جتماعی سزا اور مخصوص شخصیات کی ہلاکت اور قاتلانہ حملوں پر مشتمل ‘ شہریوں پر بلاامتیاز تشدد کو کسی طرح بھی ریاستی طاقت کا جائز اور قانونی استعمال قرار نہیں دیا جاسکتا اور نتیجتاً اس ریاستی دہشت گردی کو دہشت گردی سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔
اسی طرح ایک ملک یا قوم کا دیگر ممالک اور اقوام کے خلاف جارحیت (وہ اقدامات جو اقوام متحدہ کے منشورکے مطابق نہیں ہیں) کو بھی دہشت گرد کارروائیوں کے زمرے میں لازمی طور پر شامل کرنا چاہیے۔ نیور مبرگ ٹرائلز (Nuremberg Trials) کے وضع کردہ اصول اور اقوام متحدہ کے منشور کے احترام کے ذریعے ہی ریاست کے قانونی اور جائز رویے کا ثبوت ملتاہے۔ اقوام متحدہ کے ایک پینل نے ۲۰۰۴ء میں اقوام متحدہ کے منشور کی شق نمبر ۵۱ کی غیرضروری مزید تشریح کے خلاف اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
شق ۵۱ کے طویل عرصے سے سمجھے جانے والے مفہوم میں نہ کسی توسیع کی ضرورت ہے‘ نہ کسی تحدید کی … جس پر وہ قائم ہے‘ یک طرفہ من مانے اقدامات کی‘ اجتماعی طور پر اٹھائے جانے والے جائز اور متفقہ اقدامات کے مقابلے میں‘ قانونی حیثیت تسلیم کی جائے۔تو اس دنیا میں‘ جو ممکنہ خطرات سے ہر وقت گھری ہوئی ہے‘ عالمی نظام اور اصول عدمِ مداخلت کو خدشات لاحق ہو جائیں گے۔ کسی ایک فرد یا افراد کو اس قسم کے فعل کی اجازت دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہر کسی کو ان کاموں کی کھلی چھٹی حاصل ہو گی۔
ایک انتہائی وسیع پیمانے پر کیا جانے والا عالم گیر جرم، ’جنگی جرم‘ سے اس بنا پر مختلف ہے کہ اس میں بدی کی تمام قوتوں کی مشترکہ خواہش شامل ہوتی ہے۔
کسی معاہدے کی خلاف ورزی جرم ہے‘ اور یہ فعل ہر حال میں ’جرم‘ ہی کہلائے گا خواہ اس کا مرتکب امریکا ہو یا جرمنی۔ ہم دوسروں کے لیے مجرمانہ طرزِعمل کے لیے کوئی اصول طے کرنے کے لیے تیار نہیں جس کا نفاذ ہم خود اپنے لیے پسند نہیں کرتے۔ ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جس پس منظر کی بنیاد پر ہم مدعا علیہان کے خلاف فیصلہ دیتے ہیں‘ اسی پس منظر کی بنیاد پر تاریخ کل ہمارے متعلق فیصلہ کرے گی۔ اگر ہم ان مدعاعلیہان کو زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کریں گے تو پھر کسی وقت ہمیں بھی اس زہر کے پیالے سے ایک گھونٹ پینا ہی پڑے گا۔۳؎
نیورمبرگ ٹریبونل کے متعین کردہ اصولوں کے مطابق ریاستی حکام کے لیے یہ انتہائی لازمی اور ضروری ہے کہ وہ انسانیت کے خلاف جرائم‘ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور دیگر ممالک کے خلاف جارحیت سے گریز اور اجتناب کریں۔ یہ وہ اصول ہیں جن کی اہمیت و افادیت اور ان پر عمل درآمد کی ضرورت‘ وسط بیسویں صدی کی نسبت‘ آج بہت زیادہ ہے۔ دہشت گردی کے عمل کو کسی ایک فرد یا گروہ کی کارروائیوں تک محدود نہیں کیا جاسکتا‘ بلکہ ریاستی دہشت گردی کی کارروائیوں کو بھی اسی معیار پر پرکھنا چاہیے۔
۳- تاریخ سے یہ سبق حاصل کرنا بھی مشکل نہیں ہے کہ دہشت گردی کا عمل محدود مدت کے لیے ہوتا ہے۔ تمام ادوار اور تمام علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں لیکن یہ عمل حالات کے بدلنے اور تصادم کے اسباب کے ختم ہوجانے کے بعد آپ سے آپ ختم ہو جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا عمل محدود بھی رکھا جا سکتا ہے اوراس کی روک تھام بھی کی جاسکتی ہے لیکن یہ محض قوت کے بے محابا استعمال سے ممکن نہیں، بلکہ دہشت گردی کی ہر مختلف نوعیت کو اس کے سماجی اور تاریخی پس منظر میں دیکھنا چاہیے اور اس کو محدود کرنے‘ اس کی روک تھام کرنے یا اس کو ختم کرنے کے لیے مناسب اور بہتر تدابیر اختیار کرنی چاہییں۔ اکثروبیش تر‘ جب معاشرے میں بحرانوں کو دُور کرنے اور تنازعات حل کرنے کے سیاسی اور افہام و تفہیم کے عمل میں ناکامی ہوتی ہے تو بالآخر دہشت گردی کسی نہ کسی شکل میں سامنے آتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ انتقامی رویہ اور محض قوت کے ذریعے اسے ختم کرنے کی حکمت عملی زیادہ کارگر نہیں ہوسکتی ‘ بلکہ حقیقتاً ‘ اس کے نقصانات کہیں زیادہ ہیں۔ اپنی تمام تر پیچیدگیوں کے باوجود‘ دہشت گردی کا یہ مسئلہ صرف اور صرف مؤثر‘ سیاسی اور کم سے کم نقصانات کی حامل تدابیر کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے، جس میں اصل اہمیت تشدد کے اسباب کو دور کرنے کو دی جائے۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے انتقامی جذبے قتل و غارت‘ طاقت کے غرور اور یک طرفہ طرزعمل پر مبنی طریقوں کے ذریعے ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ بلکہ بعض اوقات تویہ اقدام معکوس نتائج دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دانش ور‘ تجزیہ نگار اور منصوبہ ساز ادارے امریکا کی طرف سے شروع کی گئی موجودہ عالم گیر ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں‘ جو ۱۱ ستمبر کے حادثے کے بعد شروع کی گئی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حساب لگایا جائے کہ اس حکمت عملی کے ذریعے کیا کچھ حاصل ہوا اور اس کے لیے امریکا اور دنیا کی دیگر اقوام کو کیا قیمت اداکرنی پڑی۔ اگر اس جنگ کے پانچ سال ہو جانے پر یہ جو تبصرے عالمی پریس میں آتے ہیں ان کا جائزہ لیا جائے تو ۹۰ فی صدی تجزیوں کا حاصل یہ ہے کہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ کے نتیجے کے طورپر دنیا کے لیے زیادہ غیر محفوظ، تشدد کے استعمال میں غیرمعمولی اضافہ اور انسانی جان اور مال کے زیاں میں محیرالعقول اضافہ ہوا ہے یعنی ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے حادثے میں جان بحق ہونے والے ۳ہزار افرادکے مقابلے میں ان پانچ سالوں میں ردعمل میں کی جانے والی جنگ میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ انسان موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں اور ابھی اس تباہی کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں۔
ایک فرانسیسی دانش ور ایمینیول ٹاڈ (Emmanuel Todd)کے دل چسپ تبصرے پر سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے جو ۲۰۰۴ء میں میڈرڈ سانحے کے بعد اسپین کی پالیسی میں تبدیلی کے تناظر میں کیا گیا: ’’میں اپنی بات ایک خوش گوار نکتے پر ختم کروں گا۔ اسپینی افواج کا عراق سے انخلا امید کا پیغام ہے۔ بش کی جنگی مہم کا نتیجہ یہ نکل سکتا تھا‘ یا یہ نکلنا مقصود تھا کہ تشدد کا مسلسل بڑھتا ہوا اور پھیلتا ہوا منحوس چکر شروع ہوجائے۔ اگر اسپینی‘ اطالوی‘ جاپانی‘ برطانوی اور دیگر اقوام پر ایک بار بھی حملہ ہو‘ تو ان کی آبادیاں نہ ختم ہونے والی جنگ کی منطق کے آگے شکست تسلیم کرلیں گی۔ جب حملہ آوروں نے ۱۱مارچ ۲۰۰۴ء کو میڈرڈ پر حملہ کیا تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ اسپینی عوام کا ردعمل کیا ہوگا۔ اسپینی عوام عظیم جھوٹ کو تسلیم کرسکتے تھے‘ یعنی یہ تصور کہ عراق پر حملے کا مقصد دراصل دہشت گردی کے خطرے کو کم کرنا تھا۔ اسپین کا دہشت گردی کے خلاف ردعمل نسلی تعصب پر مبنی نفرت کی ایک لہر اور امریکا کے ساتھ زیادہ قریبی تعلقات بھی ہوسکتا تھا۔ جنگ کے ابتدائی سبب کو بھول جانا (خاص طور پر‘ سبب نہ ہونے کی موجودہ صورت میں)‘ اور قدیم جنگوں کی طرح کے منحوس چکر میں پھنس جانا بہت آسان ہوتا ہے۔ غالباً پہلی جنگ عظیم اس کی بہترین مثال ہے۔ یہ قومی مفادات کے حصول کے لیے معقول کوشش سے آگے بڑھی لیکن جلد ہی یہ ایک بے مقصد خونی غسل میں تبدیل ہوگئی۔ مغربی اقوام سب کچھ کھونے کے بعد بھی برسوں جنگ لڑتی رہیں۔ اسپین میں اس کے برعکس ہوا۔ اسپینی ووٹرز نے اپنے وزیراعظم ازنار (Aznar) سے نجات حاصل کی۔ زیپٹیرو (Zapatero) نے عراق سے اسپینی افواج واپس بلالیں۔ بڑھتا ہوا تشدد‘جس کی بہت سے لوگوں کو توقع تھی‘ اور کچھ اس کی امید لگائے بیٹھے تھے‘ اس کا چکر توڑنے کے لیے اسپین کا یہ قدم شاید کافی ہو‘ اور غالباً ہم اسپین کے عوام کے اس سے زیادہ رہینِ منت ہیں جتنا کہ ہم سمجھتے ہیں‘ بش کے الفاظ استعمال کیے جائیں تو ان کا ووٹ‘ ان کا فیصلہ یقینا نیکی کی بدی پر فتح ہے‘‘۔ (After the Empire: The Breakdown of the American Order, Emmanuel Todd, Constable and Robinson, U.K., 2004, p 210-211))
۴- یہ حقیقت تو سب کو معلوم ہونی چاہیے کہ عام مسلمان شہریوں نے بالعموم اور سرکردہ مسلم علما اور اسلامی تحریکوں کے قائدین نے بالخصوص ابتدا ہی سے ایک آواز ہوکر‘ ۱۱ ستمبر کے اندوہناک واقعے سمیت‘ انسانیت کے خلاف حقیقی دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کی مذمت کی ہے لیکن مسلمانوں کے علاوہ بھی اس دنیا میں بسنے والے دیگر افراد کو بشمول امریکی اور یورپی شہریوں کے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر کھیلے جانے والے ڈرامے کے متعلق شدید خدشات لاحق ہیں۔ ان کے نزدیک امریکا اور اس کے اتحادیوں کی یہ تمام کارروائی بھی کسی مجرمانہ فعل سے کم نہیں ہے اس لیے کہ اس کی بدولت لاکھوں معصوم اور بے گناہ مرد و زن موت کی نیند سو چکے ہیں۔ وہ سرعام یہ پوچھتے ہیں کہ کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ اس طرح لڑی جاتی ہے جس طرح امریکا کی موجودہ قیادت لڑ رہی ہے؟ کیا دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بہت ہی مختلف اور کثیرالجہتی حکمت عملی کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا دہشت گردی کا واضح پس منظر اور وجوہات جانے بغیر اس کے خلاف اقدامات درست ہیں؟ یقینا‘ یہ حقیقت تو کسی سے پوشیدہ نہیں کہ مقصد کے واضح تعین کے بغیر‘ دہشت گردی کے خلاف اقدامات نہیں اٹھائے جاسکتے ہیں‘ بصورت دیگر‘ یہ تمام عمل‘ یہ تمام اقدامات‘ یہ جنگ ہوا میں تلوارچلانے اور سایوں کا تعاقب کرنے کے مترادف ہے‘ جس کے باعث فکری تنازعات کے علاوہ سیاسی ابتری اور اندھے کشت و خون میں بھی اضافہ ہوتا ہے‘ اور پھر بالآخر عدمِ استحکام، سیاسی انتقام اور فساد فی الارض میں اضافے کے مناظر سامنے آجاتے ہیں۔
اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ دہشت گردی اور افراد کی جانب سے طاقت کے استعمال مثلاً بین الاقوامی قانون کے مطابق جنگ یا آزادی کے لیے حقیقی جدوجہد کے مابین تفریق کی جائے۔ ان کارروائیوں کو بلاامتیاز‘ دہشت گردی قرار دینے کا عمل‘ جیساکہ فلسطینی تحریک مزاحمت (بطور ایک مثال کے) کے سلسلے میں کیا جا رہا ہے‘ وہ نہایت ہی غلط بلکہ ضرررساں ہے۔ درحقیقت‘ آزادی کی ایسی ہی تحریکوں کو اگر ’دہشت گردی قرار دینے کی اجازت دے دی جائے تو پھر تاریخ کو ازسرنو تحریر کرنا پڑے گا جس کے مطابق جارج واشنگٹن اور نیلسن منڈیلا جیسے انسانیت کے محسن بھی دہشت گردقرار پائیں گے۔
اسی طرح‘ دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کو یکساں قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ کارروائیاں‘ اپنی نوعیت‘ پس منظر‘ مقاصد اور محرکات کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں۔ ان حالات کو ٹھیک کیے بغیر جن کی وجہ سے دہشت گردی کا ظہور ہوا ہے‘ ان اسباب کو دُور کیے بغیر جو ان کو مخصوص آہنگ دیتے ہیں‘ اور ناانصافیوں اور ظلم و ستم کو ختم کیے بغیر جس نے کمزوروں کو اٹھ کھڑے ہونے پر آمادہ کیا ہے‘ دہشت گردی کو نشانہ بنانا فاش غلطی ہوگی۔ طاقت کی عدم مساوات اور تنازعات کے تصفیے کے لیے معقول طریقے کا انکار وہ حقائق ہیں جن کو نظرانداز کرنا ہمارے اور یورپی دنیا کے لیے خطرے سے خالی نہیں۔ اس المیے، کہ اس کے باعث لوگ بغاوت پر آمادہ ہوجاتے ہیں‘ کی نوعیت اور حدود کے متعلق آگہی اور سیاسی مقاصد کے لیے پُرتشدد ذرائع استعمال کرنے کے رجحان کی وجوہات اور حقائق کی چھان بین‘ لازمی ہے۔
یہ حقیقت تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ’دہشت گردی‘ ایک پیچیدہ عمل ہے اور اس کے حل کے لیے کسی یک رخی حکمت عملی کے لیے ناکامی مقدر ہے۔ اس سے صورت حال مزید سنگین ہوسکتی ہے جیسا کہ ہماری موجودہ صورت حال بتا رہی ہے۔
۵- دہشت گردی کسی مسئلے کے حل کی ضامن نہیںہے بلکہ اس مسئلے کے حل کے لیے ایک تدبیر اور سیاسی عمل کی طرف رجوع ضروری ہے، خود دہشت گردی کو اگر ایک نظریے کی حیثیت دے دی جائے جیساکہ بعض حلقوں میں کہا جا رہا ہے‘ تو پھر یہ معاملہ انتہائی خطرناک حد تک الجھ جاتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دہشت گردانہ کارروائیوں کو منصفانہ قرار دینے کے دلائل خود مغرب کی فلسفیانہ سیاسی اور حتیٰ کہ اخلاقی اور مذہبی پس منظر کی پیداوار ہیں۔
سائسرو (Cicero) سے لے کر جس نے کہا تھا: ’’قتل کرنا ایک نیکی ہے‘‘، یورپ میں ابتری پھیلانے والوں‘ روس میں بائیں بازو کے انقلابیوں (John Most's Revolutionary War Science, 1885)‘ مقدس مائیکل برے کے A Time to Kill (USA, 1980) تک‘اس نوعیت کے لٹریچر کی کوئی کمی نہیں۔ گو حتمی تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے دفاع میں یہ لٹریچر بھی اسے فی الحقیقت ایک تدبیر سے زیادہ مقام نہیں دیتا۔ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ ان سارے علمی اور فلسفیانہ مباحث کا حاصل بھی اس سے مختلف نہیں۔ دہشت گردی بہ نفس نفیس نہ کسی مسئلے کا حتمی حل ہے اور نہ یہ کوئی مستقل نظریہ ہے۔
دہشت گردی کی تشریح کے ضمن میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے مرتکب افراد اس کوشش میں ہیں کہ دہشت گردی کو محض ایک تدبیر کے بجاے ایک نظریے یا اصول کے طور پر پیش کرکے اس مسئلے کو الجھا دیا جائے تاکہ دنیا کے سامنے اس کا کوئی واضح تصور نہ پیش کیا جاسکے۔ وہ دہشت گردی کی جڑیں مسخ شدہ مذہبی رجحانات میں تلاش کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں کیونکہ اس کے سبب دہشت گردی کی حقیقی وجوہات اور اس کے وقوع اور بڑھاوے کا باعث بننے والے فیصلہ کُن پالیسی امور کے بجاے اس کا رُخ اقدار کے مابین تنازعہ اور تہذیبوں کے ٹکرائو کے خیالی تصورات کی طرف موڑا جا سکتا ہے۔۴؎ اس سلسلہ میں امریکا کے نوقدامت پسند (Neo-cons) ازخود صدر بش جو گل افشانیاں کر رہے ہیں وہ بڑی خطرناک اور دنیا کو نہ ختم ہونے والے تصادم اور تباہی کی طرف لے جانے والی ہیں۔ اس سلسلے میں بش اور بلیر کی "evil ideology" اور Islamo-fascism کی لن ترانی بڑے خطرناک نتائج کی حامل ہوسکتی ہے۔
شکاگو یونی ورسٹی کے ایک پروفیسر رابرٹ اے پیپ (Robert A Pape) نے اپنے ایک تحقیقی جائزے میں دہشت گردی کی ایک ذیلی صِنف ’خودکش بم دھماکوں پر انتہائی چشم کشا تحقیقی و تجزیاتی روشنی ڈالی ہے۔ اس تحقیقی جائزے کا عنوان Dying to Win (موت کے ذریعے جیت) ہے اوراس کا لوازمہ ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۳ء تک ہونے والے ’خودکش حملوں‘ کے متعلق معلومات و اعداد و شمار پر مشتمل ہے جسے کتابی شکل میں حال ہی میں خود امریکا سے شائع کیا گیا ہے۔ مصنف کہتا ہے کہ: ’خودکش حملوں کے ذریعے دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی کے مابین قائم کیے جانے والا فرضی تعلق گمراہ کن ہے۔ پروفیسر رابرٹ پیپ کے مطابق:
معلوماتی مواد اور اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ خودکش حملوں کے ذریعے دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی‘ یا کسی دیگر مذہب کے مابین براے نام تعلق ہے۔ درحقیقت‘ خودکش حملوں کے بانی سری لنکا کے تامل ٹائیگرز ہیں۔ یہ گروپ مارکس اور لینن کے افکار کا پیرو ہے اور گو اس کے ارکان کا تعلق ہندو گھرانوں سے ہے لیکن یہ لوگ مذہب کے سخت مخالف ہیں۔ یہ گروپ خودکش حملوں کے مجموعی ۳۱۵ واقعات میں سے ۷۶واقعات میں ملوث ہے‘ جب کہ حماس کا نام اس فہرست میں بہت نیچے ہے… البتہ ان تمام خودکش حملوں میں جو عنصر مشترک نظر آتا ہے‘ وہ مخصوص غیرمذہبی اور سیاسی اہدافی مقاصد ہیں‘ تاکہ جدید جمہوری حکومتوں کو اپنے علاقوں سے مسلح فوج واپس بلانے پر مجبور کیا جائے جو بقول ان کے‘ ان کا وطن ہے۔ اگرچہ دہشت گرد تنظیمیں اپنے وسیع مقاصد و اہداف حاصل کرنے کے لیے‘ مذہب کو اکثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں‘ لیکن مذہب‘ خودکش حملوں کی بنیادی وجہ نہیں ہے۔۵؎
ایک طرف دہشت گردی کے اس عمل کے نفسیاتی پہلو‘ حتیٰ کہ اس کے انفرادی کرداروں کے ممکنہ ذہنی رجحانات سمیت‘ تمام پہلوئوں کا تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ نہایت مفید ہے‘ تو دوسری طرف اس کے سیاسی‘ ترکیبی اور پس پردہ منظرنامے کو مدنظر نہ رکھا جائے تو یہ غیرحقیقت پسندانہ ہوگا۔ یہ تو درست ہے کہ تحریکی اور بنیادی عناصر کا لازمی طور پر مطالعہ اور تجزیہ کیا جانا چاہیے لیکن ہرچیز کو چھوڑ کر‘ صرف اس کی ’ہیئت ترکیبی‘ اور ’سیاسی‘ صورت حال ہی کو پیش نظر رکھنا‘ ایک غلط‘ فریب کن اور غیرمفید رجحان ہے۔ تشدد پر اُبھارنے والی بنیادی اوراہم وجوہات سے اگر صرفِ نظر کیا جائے تو یہ رویہ دہشت گردی کے تصور سے حقیقی آگہی اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب اور بہتر حکمتِ عملی اختیار کرنے میں سدِّراہ ہوگا۔
ہمیں حقیقی مسائل کا سامنا کرنا چاہیے۔ یہ مسائل سیاسی ناانصافیوں اور ان رویوں اور پالیسیوں سے تعلق رکھتے ہیں کہ جن کے باعث عوام اتنے غضب ناک ہوجاتے ہیں کہ وہ بے بسی‘ رسوائی اور مظلومیت کی زندگی پر موت کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ جب تک ظلم کی یہ صورت نہیں بدلتی اور طاقت ور عناصر و اقوام کا یہ غلط رویہ اور رجحان تبدیل نہیں ہوتا‘ حالات تو یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ’دہشت گردانہ کارروائیاں‘ اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا عمل متوازی طور پر جاری رہے گا اور امن و سکون کا حصول محال ہوگا۔
جہاد کے متعلق مختلف نظریات اور پھر تصور شہادت‘اور اس کے ساتھ ساتھ مساجد اور مدرسے بطور اداروںکے‘ ہمیشہ ہی سے موجود ہیں۔ ’انتہا پسند‘ اور ’مسخ شدہ‘ تعبیرات تاریخ میںنادر نہیں ہیں۔ ہر مذہب‘ ہر نظریاتی جماعت اور ہر سیاسی و سماجی نظام میں یہ سر اٹھاتی رہی ہیں۔ آج جن مقدس آیات اور اداروں پر دہشت گردی کا الزام لگایا جاتا ہے‘ ان کی موجودگی کے باوجود‘ کرۂ ارض پر ایک عرصے سے امن و امان اور باہمی ہم آہنگی کی فضا قائم رہی ہے‘ اس لیے دہشت گردی کی تنظیم اور قوت میں جو اضافہ ہو رہا ہے‘ اس کی وجوہ لازمی طور پر کہیں اور موجود ہیں اور وقت کا تقاضا ہے کہ ان کو تلاش کیا جائے اور منظرعام پر لایا جائے اور کسی خاص مذہب یا چند مذہبی تصورات میں ان کا سراغ لگانے کی غیر حقیقت پسندانہ اور شرانگیز مساعی سے اجتناب کیا جائے۔
۶- اس وقت امریکا کی طرف سے جاری ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے باعث ہونے والے تصوراتی/ ادراکی‘ سیاسی اور انسانی نقصانات کے متعلق غوروفکر اور ان کا تجزیہ‘ نہایت ہی اہم ہے۔ کتنے بے گناہ شہری ان دہشت گردانہ کارروائیوں کا شکار ہوئے ہیں اور ’دہشت گردی کے خلاف اس جنگ‘ کے باعث کتنے افراد ہلاک ہوئے ہیں؟ کیا یہ جنگ ’دہشت گردوں کو ختم کرنے میں کامیاب رہی ہے؟ یا اس جنگ کے باعث ’دہشت گردوں‘ کی تعداد پہلے سے بہت زیادہ بڑھ چکی ہے؟ امریکا ان ممالک میں کن نظروں سے دیکھا جاتا ہے جن کو بزعم خود فائدہ پہنچانے کے لیے اس نے ان ممالک پر حملے کیے تاکہ ملزم دہشت گردوں کو تباہ و ہلاک کیا جاسکے اور پھر عوام کو ’حکومت کی تبدیلی‘ اور’قومی تعمیر‘ کا تحفہ پیش کیا جائے؟ کیا امریکا نے دنیا کے عوام کی نظروں میں اعتماد‘ محبت اور عزت حاصل کی؟ یا امریکا نے اپنے انسانیت دشمن اقدامات کے باعث نہایت تیزی سے تمام دنیا کے افراد کی نفرت و عداوت سمیٹ لی ہے؟ اور دنیا کو ایک ایسی خون آشام حالت کی طرف دھکیل دیا ہے جہاں سلامتی اور تحفظ کے ساتھ زندگی بسر کرنا ممکن ہی نہیں رہا؟ اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ دنیا کے وسیع خطے جو اس ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے پہلے سیاسی طور پر نہایت پُرامن تھے‘ اب وہی خطے دہشت گردی اور مسلسل تصادم، خون ریزی اور جنگ و جدل کی خونی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ جو بے اطمینانی چند علاقوں تک محدود تھی‘ اس نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور جس ایک اسامہ بن لادن کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے عالمی یورش کی گئی تھی اس کے نتیجے میں ہزاروں اسامہ وجود میں آگئے ہیں اور دہشت کسی ایک علاقے تک محدود رہنے کے بجاے زمین کے طول وعرض میں پھیلتی جارہی ہے۔
۷- متذکرہ بالا مسائل و معاملات کے علاوہ دیگر کچھ ایسے بنیادی معاملات و مسائل ہیں جو تمام دنیا کے عوام‘ خصوصاً امریکی عوام کو دعوتِ فکر دے رہے ہیں۔ وسیع پیمانے پر بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں‘ خاص طور پر تخلیہ کا حق‘ قانونی عمل کے بغیر گرفتاری سے آزادی کا حق‘ جب تک مجرم ثابت نہ ہو‘ بے گناہ تصور کیے جانے کا حق‘ مدعا علیہان کا اپنی پسندکے مطابق وکیل کے ذریعے اپنی صفائی پیش کرنے کا حق‘ ان حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں ہوش اُڑا دینے والی ہیں۔ ۱۱ستمبرکے بعد سے بہت سے افراد کو کسی مقدمے کے بغیر ہی گرفتار کرکے قیدوبند میں ڈال دیا گیا ہے۔ کسی بھی قانونی عدالت سے سزا پانے والے افراد کی شرح‘ بُش انتظامیہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے ایک اوردھچکا ہے۔ ۳ ہزار سے زیادہ صرف شبہے کی بنیاد پر گرفتار ہونے والوں میں سے صرف چند ایک کو رسمی طور پر ہی فردِ جرم سنائی گئی ہے۔ ان حقوق کی خلاف ورزی کے ذریعے قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور کئی ممالک بشمول امریکا میں آئین کی بالادستی ایک حد تک عملاً ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ امریکا اور اس کے ’اتحادی‘ ممالک میں ’حب وطن‘ اور ’قومی تحفظ‘ کی آڑ میں عام مرد و زن کی شہری آزادیوں کے ساتھ بالعموم اور مخصوص مذہبی شخصیات اور اقلیتی جماعتوں کے ساتھ بالخصوص‘ کس قسم کا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟ انسانی عظمت کی اقدار‘ تمام بنی نوع انسان کے برابر حقوق‘ مہذب رویے کو اپناتے ہوئے ہر ایک کے ساتھ ایک قانون کے مطابق سلوک اختیار کرنے کا حق‘ یہ سب حقوق نئے نئے خطرات کی زد میں آچکے ہیں اور مسلسل پامال ہو رہے ہیں۔اور کیا صرف گوانتاناموبے‘ ابوغریب اور بگرام ہی رستے ہوئے ناسور ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ’مجرموں‘ کی حوالگی اور ’زبردستی تفتیش‘ جیسے غیرمہذب افعال نے اس مہذب دنیا کے کئی ممالک کو آلودہ کردیا ہے؟Huxley's Brave, Orwell's 1984, New World اورSolzhenitsyn's Gulagکے روح فرسا واقعات ’آزاد دنیا‘کی جنت کے خوش کن تصور کو ہوا میں تحلیل کر رہے ہیں۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں کی ہوس ملک گیری اور معصوم و بے گناہ انسانوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے باعث‘ اس کرۂ ارض پر صدیوں سے مروج بین الاقوامی قانون اور پھر جنگ اور امن کے ادوار میں مہذب اخلاقیات کا نظام‘ اب خطرناک حد تک اپنی موت کی طرف رواں دواں ہے۔
بین الاقوامی قانون اور جنگ اور امن میں مہذب رویے کے بارے میں جو کچھ اتفاق راے صدیوں میں حاصل ہوا تھا‘ وہ سب خطرے میں ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی قوانین کے نت نئے اور ناتراشیدہ تصورات کا یک طرفہ اور من مانے طور پر تعین بھی کیا جا رہا ہے اور عملاً انھیں لاگو بھی کردیا گیا ہے۔ طاقت ور ممالک، دوسرے ممالک اور اقوام کو اپنی دھونس کے ذریعے صرف اس لیے کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کمزور ہیں۔ ایک بار پھر اس کرئہ ارض کے اُفق پر سامراجی اور غاصبانہ تسلط اور بالادستی کے منحوس سائے لہرا رہے ہیں۔ قومی خودمختاری کا تقدس ختم ہونے کو ہے اور بین الاقوامی حدود کی پابندی اب گئے وقتوں کی بات ہے۔ اقوام متحدہ روز بروز بے معنی ہوتی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ میں متعین امریکی نمایندے مسٹر بولٹن نے یہ کہنے کی جسارت کی ہے کہ اقوام متحدہ اجازت دے نہ دے‘ امریکا ایران پر حملہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ دیگر ممالک میں یک طرفہ مداخلتیں اور زبردستی حکومتی تبدیلی‘ جائز قرار دے دی گئی ہے۔ طاقت ور اقوام کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے ’اپنے دفاع‘ (self defence) کے تصور کو نئے معنی پہنائے جا رہے ہیں۔ امن اور بین الاقوامی طاقتی توازن کے لیے خطرہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اور زیادہ سے زیادہ پُرتشدد تنازعات کے امکانات روزافزوں ہیں۔
ان تمام حالات کا اثر مختلف ممالک کے اندر بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں عوام اور مختلف گروہ حکومتی ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو کئی ایک ممالک اپنے ہی عوام کو کچلنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ بلاشک و شبہہ‘ اس ’جنگ‘ کے ’ضمنی‘ (collateral) نقصانات خوفناک تناسب سے بڑھتے ہی جارہے ہیں اور اب انہیں محض ضمنی سمجھنا خوفناک غیر حقیقت پسندی ہو گی!!
۸- ایک بنیادی سوال جس کا ہر پہلو سے جائزہ بہت ہی ضروری ہے‘ دہشت گردی کے خلاف مبینہ جنگ میں فوجی حکمت عملی کی حدود سے متعلق ہے۔ کیا صرف فوجی طاقت اور بندوق کے بل بوتے پرہی دہشت گردی کو ختم کیا جا سکتا ہے؟ کیااس ’ بے نام و نشان دشمن‘ سے صرف اسی طریقے سے نمٹاجاسکتا ہے؟کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ دہشت گردی کے اس عمل کے رونما ہونے کی وجوہات اور ذمہ دار عناصر کو سمجھنے اور ان کو دُور کرنے کے لیے متبادل طریقے استعمال کیے جائیں؟ ہم کب تک کسی مسئلے کی جڑوں تک پہنچنے کے بجاے اس کی شاخوں سے الجھتے رہیں گے؟ اصل مسئلہ تسلط‘ ظلم و ستم اور ناانصافی کے خلاف مزاحمت نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ تو بذاتِ خود تسلط‘ ظلم وستم اور ناانصافی ہے جس کے باعث مزاحمت پیدا ہوتی ہے۔ اگرہم مزاحمت کی وجوہ جانے بغیر اس کو نشانہ بناتے ہیں تو ہم کیوں کر کامیاب ہوسکتے ہیں؟ جب صرف مزاحمت اور مبنی برحق مزاحمت ہی کوختم کرنے پر کمر باندھ لی جائے اور اصل، حقیقی اور خوفناک حقائق کو نظرانداز کردیا جائے جن کے باعث آزادی اور انصاف کے حصول کے لیے کوشش میں اضافہ ہوجاتا ہے‘ تو یہ عمل بے سود ثابت ہونے کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ درحقیقت یہ تمام عمل‘ دہشت گردی اور نفرتوں کو مزید فروغ دینے کا مجرب نسخہ ہے ع
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے روایتی نقطۂ نظر کو تبدیل کیا جائے اور براے نام تبدیلیوں کے بجاے اصل مسائل کے حل کی طرف توجہ مرکوز کی جائے۔ کھوکھلے الفاظ کے بجاے ہماری حکمت عملیاں منطق اور استدلال پر مبنی ہونا چاہییں۔ صرف یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے یہ دنیا ہم سب کے لیے امن و امان کا گہوارہ بن سکتی ہے۔
۹- متذکرہ بالا تفصیلی تحقیق و تجزیے کے بعد ہمارے لیے اس بنیادی سوال کونظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے جس کا تعلق قانون کی حکمرانی اور ایسے عالمگیر نظام کے قیام سے ہے جس کے ذریعے ہر فرد، گروہ اور قوم کو انصاف اور یکساں مواقع حاصل ہوسکیں۔ تسلیم شدہ اور متفقہ بین الاقوامی طریقہ کار کے مطابق تنازعات کا پُرامن حل‘ عالمی امن اور ہم آہنگی کے لیے پیشگی شرط ہے۔ اس تناظر میں عالم گیریت کے پیدا کردہ اہم مسائل اور تہذیبوں کے تصادم کے نظریات اور کارروائیوں سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ عقائد و نظریات اور تہذیب و تمدن کا تعدّد (plurality) ایک حقیقت ہیں۔ یہ حقیقت اتنی ہی قدیم ہے جتنی تاریخ۔ باہمی بقا‘ تعاون اور خیالات‘ نظریات اور تہذیبوں کے درمیان مسابقت ایک قدرتی بلکہ صحت مند عمل ہے جس کی وجہ سے انسان کی ترقی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ جب حقیقی تکثیریت کو مسلّمہ حیثیت نہیں دی جاتی تو پھر یہ نااتفاقی‘ تنازعہ‘ ٹکرائو اور جنگ کا ذریعہ بن جاتی ہے پر ایک مخصوص اور یک طرفہ نظریہ اور عقیدہ یا سیاسی اور معاشی نظام دوسروں پر مسلط کیا جاتا ہے۔ اگر بزورِ طاقت‘ دیگر اقوام پر اقدار مسلط کردی جائیں‘ استحصال‘ قبضے یا مداخلت کے ذریعے ان کے وسائل ان سے چھین لیے جائیں تو پھر فساد‘ جھگڑا اورتلخی کا رونما ہونا ناگزیر ہے۔ جب بالادستی پر مبنی ایک نظام دیگر اقوام کے سر منڈھ دیا جاتا ہے اور ان ممالک اور عوام کو محکوم بنا لیا جاتاہے تو بغاوت کے جذبات کا پیدا ہونا فطری امر ہے‘ جس کی بدولت عدم تحفظ‘ عدم استحکام‘ تلخیاں اورجھگڑے‘ جنگ‘ لاتعداد دہشت گرد کارروائیاں اور انتقامی جذبات اُبل پڑتے ہیں۔
وسیع تر تناظر میں امن، سلامتی اور حق پرستی کا جذبہ رکھنے والے تمام افراد کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ عالم گیریت کے موجودہ مرحلے میں ایک دوسرے کا بے لوث احترام‘ مختلف اقوام کے نظام حیات‘ مذاہب اور ثقافت کی توقیر‘ اور پھر ہرقسم کے بالادستی اور نوآبادیاتی مہم جوئی سے تحفظ ہی کے ذریعے اس کرۂ ارض پر تحفظ و سلامتی اور امن قائم کیا جا سکتا ہے۔
اس بحث کے تناظر میں ’تہذیبوں کے تصادم‘ کے متعلق موجودہ بحث کا کریڈٹ سیموئیل ہن ٹنگٹن کو جاتا ہے۔ اس کی کتاب اس طرح کے تصادم کے لیے ایک دعوت کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ بہرحال‘ اس کتاب میں چند ایک واضح نکات ایسے بھی ہیں جن پر نہایت سنجیدگی سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔ وہ لکھتا ہے:
تاریخی لحاظ سے دہشت گردی کمزور (افراد /اقوام) کا ہتھیار ہے‘ یعنی وہ افراد یا اقوام جو روایتی مسلح طاقت سے محروم ہوتے ہیں۔۶؎
مطلب صاف ظاہر ہے‘ اگر طاقت ور قانون کی حکمرانی‘ انصاف اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کا راستہ اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں‘ تو پھر دہشت گردی کو اُبھرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
مغرب کا اصل مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی نہیں ہے بلکہ مغرب کے لیے اصل مسئلہ ’اسلام‘ ہے جس کے پیروکار اپنی تہذیب کی عظمت پر فخر کرتے ہیں اور طاقت کے لحاظ سے اپنی کم تری کے احساس کا شکار ہیں۔ اسی طرح سلام کے لیے سی آئی اے (CIA)یا امریکی محکمہ دفاع مسئلہ نہیں ہے بلکہ خود ’مغرب‘ اصل مسئلہ ہے، جہاں کی تہذیب مختلف ہے‘اور لوگ اپنی ثقافت کے عالم گیر ہونے پرنہ صرف یہ کہ یقین رکھتے ہیں بلکہ ان کا خیال یہ ہے کہ ان کی بالاتر طاقت‘ خواہ روبہ زوال ہی کیوں نہ ہو‘ ان پر یہ فرض عائد کرتی ہے کہ اپنی تہذیب و ثقافت کو تمام دنیا میں پھیلا دیں۔ یہ وہ بنیادی عناصر ہیں جو اسلام اور مغرب کے درمیان تنازعے کو ایندھن فراہم کرتے ہیں۔۷؎
ہن ٹنگٹن کے نظریے میں صرف ادھوری حقیقت بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بلاشبہہ اسلام اور مغرب دو مختلف تہذیبوں کی نمایندگی کرتے ہیں لیکن اس کی یہ بات انتہائی غلط اور گمراہ کن ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے اور ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے کے لیے آپس میں جنگ کرنی چاہیے۔ ایک دوسرے سے مختلف ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ایک دوسرے سے ضرور جنگ کی جائے۔ جھگڑا اور فساد تب پیدا ہوتا ہے جب زیادہ طاقت ور فرد یا قوم‘ اپنی بالادست قوت کے ذریعے دوسروں پر اپنی اقدار اور حکمرانی مسلط کرنے کا حق جتاتی ہے۔ یہ صرف ’اپنی ثقافت کو تمام دنیا میں پھیلانے کے اسی مبینہ فرض‘ کا شاخسانہ ہے جس کے باعث جھگڑا اور فساد پیدا ہوتا ہے ورنہ محض تنوع اور تکثیریت اس کا قطعاً باعث نہیں۔ اور یہ قوت کے ذریعے ایک ملک کی دوسروں پر بالادستی اور ایک تہذیب کے دوسری تہذیبوں پر غلبے کا فلسفہ اور پالیسی ہے جسے ہم’تہذیبی دہشت گردی‘ ہی کہہ سکتے ہیں جو موجودہ تصادم، بحران اورجھگڑے کی بنیاد ہے‘ جس کے باعث افراد و اقوام جنگ‘ دہشت گرد کارروائیوں اور قتل عام کی طرف دھکیلی جا رہی ہیں۔ اگر دیگر افراد واقوام کی روایات و عقائد کا احترام ایک اصول اور ضابطے کی شکل اختیار کرلے‘ تو پھر اقوام کے درمیان معاہدہ براے باہمی بقا‘ تعاون اور صحت مندانہ مسابقت پیدا ہوجائے گی اور انسانیت پھر دوبارہ سے زندہ ہوجائے گی۔ اگر اس نظریے پر عمل کیا جائے‘ یعنی دیگر افراد/ اقوام کے عقائد کا احترام نہ کہ بالادستی‘ تو پھر یہ دنیا یقینی طور پر امن و امان اور انصاف کی بستی بن سکتی ہے۔ پھر تہذیبوں کے مابین تصادم کے خدشات تحلیل ہوسکتے ہیں اور دہشت گردی کا پُراسرار خوف زمین میںدفن ہوسکتا ہے۔ صرف اسی صورت میں امن و امان‘ تحفظ وسلامتی اور خوش حالی کا راستہ بخوبی ہموار کیا جا سکتا ہے۔ کیا اب بھی وہ لمحہ اور وہ وقت نہیں آیا کہ جب دہشت گردی سے آگے کا سوچا اور اس کے لیے کوشش کی جائے؟ کیا انسان اس متبادل حل کو نظرانداز کرنے کا متحمل ہوسکتا ہے؟
آخر میں سوچنے کے لیے ایک مزید نکتہ کی طرف بھی اشارہ ضروری ہے۔ آج ’عالمی کمیونٹی‘ (World Community) کی اصطلاح بھی ’دہشت گردی‘ کی اصطلاح کی طرح بڑی بے دردی سے استعمال کی جارہی ہے اور یہ باور کرایا جارہا ہے کہ امریکا اور اس کے چند حواری عالمی کمیونٹی کے مترادف ہیں حالانکہ اصل عالمی کمیونٹی وہ ساڑھے چھے ارب عوام ہیں جو ان استعماری قوتوں کے ہاتھوں خوار و پریشان ہیں اور جو سڑکوں پر آکر احتجاج کر رہے ہیں۔ جب تک اس اصل عالمی کمیونٹی کی آواز اور اس کی تمنائوں اور خواہشوں کو اہمیت اور مرکزیت حاصل نہیں ہوتی جمہوریت اور انسانیت کی بالادستی ایک خواب پریشان ہی رہے گی۔
دہشت گردی کے ضمن میں بیسویں صدی کی بھی چند مثالیں ملاحظہ فرمایئے:
۱- آرمینیا کی آزادی ASALA یعنی Secret Army for the liberation of Armenia اور اس کا بہیمانہ تشدد اور قتلِ عام۔
۲- یہودیوں پر مشتمل اِرگون‘ سٹرن اور ہگانہ کے مسلح دہشت گرد دستے جو بعد میں اسرائیلی فوج کا حصہ بنے۔
۳- قبرص کے یونانیوں کی مسلح تنظیم EOKA یعنی Ethnic's Organization Kyprion Agoniston
۴- کینیا میں: مائومائو یا لینڈ اینڈ فریڈم آرمی۔
۵- جرمنی میں: (i) Bader Meinhof, (ii) Red Army Factors and (iii) the 2nd June Movement of Germany.
۶- اسپین میں: Euzkadi tes Akantasone (ETA)
۷- اٹلی میں: Strategy of Tension and Red Brigades
۸- برازیل میں: Marighda
۹- آئرلینڈ میں:(i) IRA and (ii) Protestant Volunter Force Ireland
۱۰- یونان کی مسلح تحریک:November 17
امریکا میں: (i) Ku Klux Klan (KKK), (ii) Free Speech Movement of Berkly
(iii) Christian Identity (Elohim City, Oklahoma
(iv) Anti Abortionists (Rev. Michael Bray)
۱۱- یوگنڈا میں: (i) Lord's Resistance Army (ii) Holy Spirit Mobile Force (HSMF)
۱۲- پیرو میں: Sendero Luminose
۱۳- کولمبیا میں: FARC
۱۴- سری لنکا میں: LTTE
۱۵- ترکی میں: PKK
۱۶- فلسطین میں جارج حباش کی (i) Popular Front for the Liberation of Palestine‘ (ii)پی ایل او (PLO)‘ (iii) Islamic Jehad of Palestineاور حماس
۱۷- ایران میں: (i)Fidayeen اور اشتراکی تنظیم جسے امریکا کی حمایت حاصل ہے مجاہدین خلق۔
۱۸- بھارت میں: Nexalities اور دیگر گروپ۔
یہ فہرست بطور مثال ہے ورنہ ایسی تنظیموں کی جنھوں نے سیاسی اہداف کے حصول کے لیے قوت کا استعمال کیا ہے بڑی لمبی ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:
(i) Terrorisn in Context, ed. by Martha Crenshow, Pensylvania State University Press, 1955
(ii) Origions of Terrorism: Psychologies, Ideologies, Theologies, States of Mind, ed by Walter Reich, Woodrow Wilson Centre, Washington, 1998.
(iii) Violences, Terrorism and Justice, ed. by R.G. Frey, Cambridge University Press, 1991.
(iv) Global Terrorism: The Complete References Guide, by Harry Henduson Checkmark Books, New York, 2001.
(v) The Terrorism Reader, ed. by David J. Whiterlu , Rutbdgi, London 2001.
۲- Political Terrorism: A reseach Guide to Concepts, Theories, data bases and Literature, by A.P. Schmid, North Holland Publishing, Amsterdam, 1983.
(اے پی شمڈ ‘ سیاسی دہشت گردی: تصورات‘ نظریات‘ معلوماتی مواد اور ادبیات پر ایک تحقیقی رہنما کتاب‘ نارتھ ہالینڈ پبلشنگ کمپنی‘ ایمسٹرڈم‘۱۹۸۳ئ)
۳- نوم چومسکی کے مضمون : A Just War? Hardly کا ایک اقتباس خلیج ٹائمز میں شائع ہوا اور دی ڈیلی ٹائمز (لاہور‘ ۱۰ مئی ‘ ۲۰۰۶ئ) میں دوبارہ شائع ہوا۔
۴- ملاحظہ فرمایئے جوزف ای بی لمبارڈ کی مرتب کردہ کتاب: Islam, Fundamentalism and the Betrayal of Tradition (Indiano: World Wisdom 2004)۔ باب ۶ میں اٹھائے گئے مسائل پر سنجیدہ بحث و مباحثہ‘ مضمون نگار ولید الانصری The Economics of Terrorism, How Bin Laden is Changing the Rules of the Game ‘ ص ۱۹۱- ۲۳۶ ضرور مطالعہ کیجیے۔
۵- رابرٹ اے پیپ (Robert A Pape) Dying to Win: The Stragic Logic of Suicide Terrorism, New York: Random House, p 4.
۶- سیموئیل ہن ٹنگٹن ‘ پی (۱۹۹۷ئ) The Clash of Civilization and The Remaking of World Order: Samuel and Schuster, London. ‘ ص ۱۸۷۔
۷- ایضاً ، ص ۲۱۷-۲۱۸
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے فوجی انقلاب سے جنرل پرویز مشرف کی حکمرانی کا جو دورشروع ہوا تھا وہ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے جمہوری ڈرامے اور سائن بورڈوں کی تبدیلی کے باوجود جاری ہے۔ ان سات برسوں میں جہاں دستور‘ سول نظام کی حکمرانی اور تمام ہی انتظامی ادارات کا حلیہ بگاڑدیا گیا ہے‘ وہیں اپنے نتائج کے اعتبار سے ملک وقوم کو اس کی تاریخ کے خطرناک ترین حالات سے دوچار کردیا گیا ہے۔ ریاست کا ہر ستون آج لرزہ براندام ہے اور ملک کی سالمیت‘ اس کی شناخت‘ بلکہ آزادی‘ خودمختاری اور وجود تک معرض خطر میں نظر آرہا ہے۔ حکمران آنکھیں بند کیے تباہی اور ایک نئی غلامی کے جال میں پھنستے چلے جارہے ہیں‘ اور قوم کے سامنے یہ تکلیف دہ سوال اُبھر کر سامنے آگیا ہے کہ کیا قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں ملت اسلامیہ پاک و ہند کی تابناک سیاسی جدوجہد اور بے مثال قربانیوںسے قائم ہونے والا پاکستان ایک بار پھر ۱۹۷۱ء کی طرح کے ایک دوسرے تباہ کن دھماکے کی طرف بڑھ رہا ہے؟ عالمی سامراج نے امریکا کی قیادت میں عالمِ اسلام کی ٹوٹ پھوٹ اور نئی نقشہ بندی کا جو خطرناک کھیل شروع کردیا ہے اور اس خطرناک نقشے میں رنگ بھرنے اور اسے حقیقت کا روپ دینے کے لیے آج کے میرجعفر اور میرقاسم جو کردار ادا کرنے کے لیے کمربستہ ہیں‘ ان کا راستہ کس طرح روکا جائے تاکہ اس سامراجی سیلاب کے آگے‘ قبل اس کے وہ ملت اسلامیہ کو کوئی بڑا نقصان پہنچائے‘ مؤثر بند باندھے جائیں۔
جنرل پرویز مشرف کا حالیہ دورہ ایک آئینہ ہے جس میں اس کھیل کے نقش و نگار کو دیکھا جاسکتا ہے۔ حالات جس رخ پر جارہے ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ملت اسلامیہ پاکستان کے پاس اب اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے اُٹھ کھڑی ہو اور ہرمصلحت کوبالاے طاق رکھ کر ملک کی آزادی‘ سالمیت اور اسلامی تشخص کی حفاظت کے لیے صف آرا ہوجائے۔ آج ہماری قومی زندگی کا اصل چیلنج یہی ہے کہ وہ اپنی آزادی اور اپنے سیاسی اور نظریاتی وجود اور تشخص کی حفاظت کی فیصلہ کن جدوجہد ایمان‘ عزم راسخ اور حکمت بالغہ کے ہتھیاروں سے لیس ہوکر انجام دے‘ اور ایک ایسی قیادت کو زمامِ کار سونپے جو اللہ کے اس عطیّے اور اقبال اور قائداعظم کی اس امانت کی جواں مردی کے ساتھ حفاظت کرسکے اور نام نہاد دنیاوی سوپر پاورز کے دوسرے اور تیسرے درجے کے سفارت کاروں کی دھمکیوں پر ملک کی آزادی‘ عزت اور حاکمیت کا سودا کرنے والی نہ ہو‘ بلکہ وقت کے بڑے سے بڑے فرعون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا دفاع کرسکے۔
جنرل پرویز مشرف کی حکومت صرف اصولی طور پر ہی غیردستوری اور غیرقانونی نہیں بلکہ اس کا سات سالہ ریکارڈ گواہ ہے کہ ہراعتبار سے یہ پاکستان کی تاریخ کی ناکام ترین حکومت ہے اوراب اس کی وجہ سے پاکستان کی آزادی‘ عزت اور وجود کوشدید خطرہ لاحق ہے۔ اس نے پاکستان کی آزادی اورحاکمیت کا سودا کیا ہے اور محض اپنے اقتدار کی خاطر پاکستان کے نظریاتی‘ تہذیبی‘ معاشی اور سیاسی مفادات کو پامال کیا ہے۔ اسے اللہ کی خوشنودی اور پاکستانی عوام کی عزت‘ ان کے سیاسی اورسماجی عزائم اور فلاح و بہبود کے مقابلے میں صدربش کی خوشنودی اور امریکا کے استعماری پروگرام میں معاونت عزیز ہے‘ اور اس گھنائونے کھیل میں اپنی خدمات کی داد لینے کے لیے ہر کچھ عرصے بعد واشنگٹن کی یاترااس کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے جہاں ’من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو‘ کا تماشا بار بار اسٹیج کیا جاتا ہے۔
آج پاکستان ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہواہے ___ ایک طرف روشن خیالی اور لبرلزم کے نام پر امریکا کی غلامی اور نئے سیاسی اور معاشی سامراجی نظام کی چاکری کا کردار ہے‘ اور دوسری طرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے ہوئے زندگی کے پروگرام کے مطابق تحریکِ پاکستان کے اصل مقاصد کے حصول کے لیے فوجی آمریت اور مغرب پرست طبقے سے نجات اور حقیقی اسلامی جمہوری انقلاب کی راہ ہموار کرنے کی ہمہ گیر جدوجہد اور عزت کی زندگی کی دعوت ہے۔
حکیم الامت نے دل اور شکم کے استعارے میں اُمت کو اس باب میں ایک دوٹوک فیصلے کی جو دعوت دی تھی وہ آج پہلے سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کرگئی ہے ؎
دل کی آزادی شہنشاہی ‘شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے‘ دل یا شکم؟
آگے بڑھنے سے پہلے ہم یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم نے موجودہ نظام کو فوجی حکومت نہیں جرنیلی آمریت کہا ہے اور یہ اس لیے کہ آج ملک کی فوج بھی ایک مخصوص باوردی اور بے وردی ٹولے کے ہاتھوں اسی طرح یرغمال بنی ہوئی ہے جس طرح ملک کا پورا سیاسی نظام۔ جنرل پرویز مشرف کے نظام کی دو ہی خصوصیات ہیں۔ ایک یہ کہ لیبل کچھ بھی ہو‘ یہ فردِ واحد کی آمریت ہے۔ دستور‘ پارلیمنٹ‘ سول انتظامیہ حتیٰ کہ فوج سب ایک شخص کے اشارہ چشم و ابرو پر گردش کر رہے ہیں اور خود وہ شخص امریکا اور صدربش کے بل بوتے پر ملک و قوم پر مسلط ہے۔ دوسرے‘ اس کی اُچھل کود کا انحصار امریکی پشتی بانی کے بعد اس وردی ہی پر ہے‘ اور یہ وہ حقیقت ہے جس کا وہ خود بار بار اعتراف کر رہا ہے۔ اکتوبر ۲۰۰۵ء کے زلزلے کے موقعے پر جنرل پرویز مشرف نے بڑے طمطراق سے اعلان کیا تھا کہ اگر میں وردی میں نہ ہوتا تو فوج اتنی سرعت سے (یعنی تباہی کے تین سے پانچ دن بعد جب کہ کشمیری مجاہد اور پاکستان کی دینی جماعتوں کے کارکن چند گھنٹوں میں محاذ پر موجود تھے) حرکت میں نہ آتی‘ اور اب امریکا میں دعویٰ فرمایا ہے کہ اگر میں وردی میں نہ ہوتا تو حدودآرڈی ننس میں ترمیمی بل لانے کی جرأت نہیں کی جاسکتی تھی۔ اسے بھول جایئے کہ یہ وردی جناب محترم نے آج نہیں پہنی ہے اور سات سال سے اس وردی کے باوجود انھیں حدود قوانین میں ترمیمی بل لانے کی جرأت نہیں ہوئی اور اب لائے ہیں تو جو حشر اس کا ہوا ہے اور جس طرح جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے وہ مضحکہ خیز ہی نہیں‘ عبرت ناک بھی ہے۔ اس سب کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ ان کی طاقت کا منبع نہ دستور ہے‘ نہ عوام ہیں اور نہ ہی سیاسی جماعتیں ہیں___ یہ ان کی فوج کی سربراہی اور فوج کا ڈسپلن ہے جس کا قطعی ناجائز استعمال کرکے وہ قوم کے سر پرمسلط ہیں اور رہنا چاہتے ہیں اور نتیجتاً ملک اور فوج دونوں کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اسے جرنیلی آمریت کہا ہے اور یہی اس نظام کی اصل شناخت ہے۔
اس جرنیلی آمریت کا پہلا جرم یہ ہے اس نے ملک کی آزدی‘ حاکمیت اور خودمختاری پر کاری ضرب لگائی ہے اور گذشتہ پانچ سال میں ملک امریکا کی ایک ذیلی ریاست (satellite state) بن کر رہ گیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے خود اپنے تازہ ترین انٹرویو میں جو سی این این کو ۲۱ستمبر ۲۰۰۶ء کو دیا گیا ہے‘ اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد امریکی نائب وزیرخارجہ نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ
be prepared to be bombed: be prepared to go back to the stone age.
اور ہمارے بہادر جرنیل نے جو ایٹمی صلاحیت رکھنے والی فوج کے سربراہ تھے اس مطالبے کو جسے وہ خود ناشائستہ (rude) قرار دے رہے ہیں اور جس کے ساتھ بقول ان کے بہت سے دوسرے مضحکہ خیز (ludicrous) مطالبات تھے یعنی اپنی فضائی حدود کو ہمارے لیے کھول دو‘ فوجی اڈے فی الفور مہیا کرو‘ امریکی فوجوں کو ایک برادر ملک پر حملہ کرنے کے لیے اپنی زمین فراہم کرو‘ اس وقت کی افغان حکومت سے تعلق توڑ لو حتیٰ کہ پاکستان میں امریکا کے خلاف اورافغانستان پر حملے کے خلاف بے چینی کی جو لہراور مزاحمت کی تحریک ہے اسے دبانے (suppress)کی کارروائی کرو___ سب مطالبات پر سرِتسلیم خم کردیا۔ ستم یہ ہے کہ جناب جرنیل صاحب امریکا کی اس ظالمانہ کارروائی میں نہ صرف اس تمام دبائو‘ خوف اور دھمکیوں کے تحت شریک ہوگئے بلکہ اسے اپنی جنگ بنا لیا اور پھر وہ ’کارنامے‘ انجام دیے کہ بش صاحب بھی جھوم جھوم گئے۔ غلامی کی زنجیر پہننا ہی کم ستم نہ تھا کہ اسے زیور سمجھ کر نازاں ہونے کی ایکٹنگ بھی کی جانے لگی۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ ہر ’خدمت‘ کے بعد ’مزید‘ کے مطالبات ہو رہے ہیں اور ذلت کے تمغوں میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے۔
ہم نے اپنی آزادی ہی کو دائو پر نہیں لگایا‘اپنی عزت اوراپنی روایات کو بھی خاک میں ملا دیا جس کی بدترین مثال ان ۶۰۰ سے زائد بے گناہ افراد کو امریکا کی تحویل میں دینا ہے جن میں سے کسی کے خلاف کوئی جرم آج تک ثابت نہیں ہوا لیکن ان کی جانوں اور عزتوں سے امریکا کے گھنائونے کھیل میں شریک ہوکر ہم خدا اور خلق کے سامنے مجرم بنے اور اسلام کی تعلیمات اور مسلمانوں کی روایات کو پامال کیا۔ اس سلسلے کی بدترین مثال پاکستان میں اس وقت کے افغانی سفیر عبدالسلام ضعیف کی ہے جن کو سفارتی تحفظ حاصل تھا لیکن اس جرنیلی قیادت نے بین الاقوامی قانون اور اسلامی احکام کی شرم ناک خلاف ورزی کرتے ہوئے جنوری ۲۰۰۲ء میں اس سفارتی تحفظ یافتہ فرشتہ صفت بھائی کو امریکا کی تحویل میں دے دیا جو انھیں بگرام اور گوانتاناموبے لے گیا‘ بدترین تعذیب کا نشانہ بنایا اور چار سال ٹارچر کرنے کے بعد بھی ان کا کوئی جرم ثابت نہ کرسکا اور بالآخر ۲۰۰۵ء میں انھیں رہا کرنے پر مجبور ہوا۔ عبدالسلام ضعیف نے اپنی روداد اسیری رقم کی ہے جس کا ایک ایک لفظ اس جرنیلی آمریت کے خلاف فردِ جرم ہے جسے پڑھ کر پوری پاکستانی قوم کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ دل اللہ کے غضب کے خطرے سے کانپ اٹھتا ہے اور بے تاب روح سے یہ صدا بلندہوتی ہے کہ خدایا! ایسے ظلم میں شریک ہونے اوراس کا آلہ کار رہنے والوں کا احتساب کب ہوگا؟ ہم دل کڑا کر کے ان کی آپ بیتی سے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں تاکہ جرنیلی آمریت کا اصل چہرہ قوم کے سامنے آسکے:
یہ ۲ جنوری ۲۰۰۲ء کی صبح تھی۔ پاکستان میں سالِ نو کی تقریبات اختتام پذیر ہوچکی تھیں۔ میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ معمول کی زندگی گزاررہاتھا اور ہر وقت افغانستان میں رہنے والے اپنے گم شدہ بھائیوں اور شہیدوں کی فکر میں مبتلا رہتا تھا۔ میں اُن کی قسمت پر کڑھتا تھا مگر اپنی تقدیرسے لاعلم تھا۔ تقریباً ۸ بجے کا وقت تھا۔ گھر کے محافظوں نے اطلاع دی کہ چند پاکستانی سرکاری اہلکار آپ سے ملنے آئے ہیں۔ مہمانوں کو ایک چھوٹے سے کمرے میں بٹھایا‘ یہ تین افراد تھے۔ ان میں ایک پختون اور باقی دو اُردو بولنے والے تھے۔ میں نے افغان روایات کے تحت مہمانوں کا خیرمقدم کیا۔ چائے بسکٹ سے تواضع کی۔ میں متجسس تھا کہ وہ کیا پیغام لے کر آئے ہیں۔ اُردوبولنے والے ایک سیاہ رنگ کے موٹے کلین شیو شخص نے جس کے چہرے سے نفرت اور تعصب ٹپکتا تھا اوروہ کسی دوزخی کا ایلچی لگتا تھا‘ بظاہر بڑے مؤدبانہ انداز میں بات شروع کی اور پہلا جملہ اداکیا: your excellency, you are no more excellency۔ پھر وہ بولا: آپ جانتے ہیں کہ امریکا بڑی طاقت ہے اور کوئی اس کے مقابلے کی ہمت نہیں رکھتا۔ نہ ہی کوئی اس کا حکم ماننے سے انکار کی جرأت رکھتا ہے۔ امریکا کو آپ کی ضرورت ہے‘ تاکہ آپ سے پوچھ گچھ کرسکے۔ ہم آپ کو امریکا کے حوالے کرنے آئے ہیں تاکہ اس کا مقصد پورا ہو اور پاکستان کو بہت بڑے خطرات سے بچایا جا سکے۔میں نے بحث شروع کر دی اور کہا کہ چلو مان لیا امریکا ایک سپرطاقت ہے لیکن دنیا کے کچھ قوانین اوراصول بھی تو ہیں جن کے تحت لوگ زندگی گزار رہے ہیں۔ میںحیران ہوں کہ آپ لوگ کن مروجہ یا غیر مروجہ یا اسلامی یا غیراسلامی قوانین کے تحت مجبور ہیں؟ آپ کا اخلاقی فرض ہے کہ مجھے میرے سوالوں کا جواب دیں اور مجھے اتنی مہلت دیں کہ میں آپ کا ملک پاکستان چھوڑ دوں۔
لگ بھگ ۱۲ بجے کا وقت تھا جب تین گاڑیاں آئیں اورمسلح اہلکاروں نے گھرکا محاصرہ کرکے راستے اور لوگوں کی آمدورفت بند کردی۔ مجھے باہر نکلنے کو کہا گیا۔ میں ایسے حال میں گھر سے نکلا جب میرے بیوی بچے چیخ و پکار کر رہے تھے۔ میں اپنے بچوں کی طرف مڑ کے نہیں دیکھ سکتا تھا کیونکہ میرے پاس ان کے لیے تسلی کا ایک لفظ تک نہ تھا۔ ’اسلام کے محافظ‘ پاکستانی حکام سے مجھے ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ مجھے چند پیسوں کی خاطر ’تحفتاً‘ امریکا کو پیش کردیا جائے گا۔ میں یہی سوچتا ہوا گھر سے نکلا کہ مجھ پر اتنا ظلم کیوں ہو رہا ہے؟ مقدس جہاد کی باتیں کرنے والوں کو کیا ہوگیا؟ مجھے ایک گاڑی میں درمیان میں بٹھا دیا گیا۔ گاڑی کے شیشے کالے تھے جن کے آرپار کچھ نہ دیکھا جا سکتا تھا۔ آگے سیکورٹی کی گاڑی تھی جب کہ تیسری گاڑی ہمارے پیچھے تھی جس میں مسلح اہلکار تھے۔
تیسری رات ۱۱ بجے کے لگ بھگ میں نے سونے کا ارادہ کیا کہ اچانک دروازہ کھلا اور شلوارقمیص میں ملبوس چھوٹی داڑھی والا ایک شخص اندرداخل ہوا۔ اس نے کہا ہم آپ کو ایک دوسری جگہ منتقل کر رہے ہیں۔ میں نے یہ نہ پوچھا کہ مجھے کہاں لے جایا جا رہا ہے کیونکہ مجھے سچ کی امید نہ تھی۔ مجھے واش روم استعمال کرنے کے لیے صرف پانچ منٹ دیے گئے۔ رفتہ رفتہ گاڑی ہیلی کاپٹر کے قریب ہوتی گئی اور اس کی آواز کانوں کے پردے پھاڑنے لگی۔ اس دوران مجھے ایک ضرب پڑی اور میری کلائی پر بندھی قیمتی گھڑی اس ضرب سے نیچے گرگئی یا مجھ سے لے لی گئی۔ مجھے دوافراد کی مدد سے گاڑی سے اُتارا گیا اور ہیلی کاپٹر سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑا کردیا گیا۔ چندلمحوں بعد میں نے خدا حافظ کے الفاظ سنے۔ پھر میں نے کچھ لوگوں کی آوازیں سنیں جو انگریزی میں باتیں کر رہے تھے۔ اچانک وہ ریچھوں کی طرح مجھ پہ پل پڑے اور لاتوں‘ گھونسوں اور مکوں کی بارش کرنے لگے۔ کبھی مجھے اوندھے منہ لٹا دیا جاتا‘ کبھی کھڑا کر کے دھکا دیا جاتا‘ میرے کپڑے چاقوؤں کی مدد سے پھاڑ دیے گئے۔ اسی دوران میری آنکھوں سے پٹی اُتر گئی۔ میں نے دیکھا کہ پاکستانی افسر قطار میں کھڑے تھے۔ ساتھ ہی افسروں کی گاڑیاں تھیں جن میں سے ایک پر جھنڈا لگا تھا۔ امریکیوں نے مجھے مارا پیٹا‘ بے لباس کردیا مگر اسلام کے محافظ میرے سابقہ دوست تماشا دیکھتے رہے۔ یہ بات میں قبر میں بھی نہ بھول سکوں گا۔ میں کوئی قاتل‘ چور‘ ڈاکو یا قانون کا مجرم نہ تھا۔ مجھے بغیر کسی جرم کے امریکا کے حوالے کیا جا رہا تھا۔ وہاں موجود افسر اتنا تو کہہ سکتے تھے کہ یہ ہمارا مہمان ہے۔ ہماری موجودگی میں اس کے ساتھ یہ سلوک نہ کرو۔ وحشی اور بے رحم امریکی فوجیوں نے ایسی حالت میں مجھے زمین پر پٹخ دیا کہ میرا جسم ننگا ہوگیا۔ پھر مجھے ہیلی کاپٹر میں دھکیل دیا گیا۔ میرے ہاتھ پائوں کس کر زنجیروں سے باندھ دیے گئے۔ آنکھوں پر پٹی پھر باندھ دی گئی۔ میرا چہرہ سیاہ تھیلے سے ڈھانپ دیا گیا۔ میرے جسم کے اردگرد سر سے پائوں تک رسی لپیٹ کر ہیلی کاپٹر کے وسط میں زنجیر سے باندھ دیا گیا۔ (روزنامہ نواے وقت‘ ۲۲ستمبر ۲۰۰۶ئ)
پوری داستان دل خراش اور آبدیدہ کردینے والی ہے۔ لیکن یہ سب وہ خدمات ہیں جو اس جرنیلی آمریت نے‘ امریکا کی خوشنودی کے لیے انجام دی ہیں اوراس طرح اپنی آزادی اور خودمختاری کو اپنے ہی ہاتھوں تارتار کیا ہے۔ امریکا پاکستان کے ہر شعبۂ زندگی میں مداخلت کر رہا ہے۔ فوجی مشقوں کے نام پر فوج کی قیادت کو دام اسیری میں لایا جا رہا ہے۔ تعلیم میں مداخلت ہے اور نصاب تعلیم تک میں تعلیمی اصلاحات کے نام پر یو ایس ایڈ کی دراندازیاں ہورہی ہیں اور قرآن کی وہ آیات تراش و خراش سے محفوظ نہیں جو جہادکے بارے میں ہیں۔ معیشت پر گرفت تو پہلے ہی کم نہ تھی مگر اب نج کاری اور بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے مزید مداخلت کی راہیں استوارہوگئی ہیں۔ دینی مدارس کو لگام دینے کی خدمت بھی امریکی منصوبے کے تحت کی جارہی ہے اور اب حدودقوانین‘ ناموس رسالتؐ کا قانون اور احمدیوں کو غیرمسلم اقلیت قراردیے جانے والی دستوری ترمیم سب نشانے پرہیں۔ جرنیل صاحب چاہتے تھے کہ امریکا کا دورہ کرنے سے پہلے اپنی وردی کے زعم پر حدود قوانین میں ترمیم کرا لیں لیکن اللہ کی شان ہے کہ وردی کے باوجود ترمیم دھری کی دھری رہ گئی___ ان تمام خدمات اور سپردگیوں (surrenders) کے باوجود بلکہ ان کے نتیجے میں امریکا اور بھی شیر ہوتا جارہا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دورے کے موقع پر اقوام متحدہ میں خطاب کے بعد صدر بش نے سی این این کے نمایندے وولف بلٹزر (Wolf Blitzer) کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا صدر بش خفیہ ایجنسیوں کی قابلِ اعتماد معلومات پر القاعدہ کے قائدین کو پکڑنے یا ہلاک کرنے کے لیے پاکستان کی سرزمین پر امریکی فوج کے ذریعے بلاواسطہ کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ صاف الفاظ میں کہا: absolutely (بالکل یقینا)۔
یہ ہے اس جرنیلی آمریت کے زیرسایہ اب ہماری آزادی‘ خودمختاری اور اقتدار اعلیٰ (sovereignty )کی اصل حقیقت۔
پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کی اس خطرناک حد تک تحلیل اور تخفیف (erosion) کے ساتھ دوسرا مسئلہ ہماری دفاعی صلاحیت کے بری طرح متاثر ہونے کا ہے۔ دفاعی صلاحیت میں سب سے اہم چیز قوت اور وسائل میں عدم مساوات کے باوجود مزاحمت‘مقابلے اور دفاع کے عزم اور قومی مقاصد‘ آزادی اور عزت کے دفاع کے لیے جان کی بازی لگادینے کا جذبہ ہے۔ لیکن جو فوجی قیادت ذہنی شکست کھاچکی ہو‘ مفادات کے چکر میں پڑجائے اور سمجھوتوں اور سہولتوں کو شعار بنالے وہ لڑنے اور جان دینے کے جذبے سے محروم ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس فوج کو سیاست کا چسکا لگ جائے وہ پھر دفاع کے لائق نہیں رہتی۔ جنرل پرویز مشرف کی پالیسی کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ان کے دور میں فوج کو سیاست ہی نہیں‘ معیشت‘ حکمرانی‘ انتظامیات غرض ہر اس کام میں لگا دیا گیا ہے جس کا کوئی تعلق دفاع سے نہیں۔ پھر فوج کو اپنے ہی عوام کو نشانۂ ستم بنانے اور انتظامی معاملات حتیٰ کہ انتخابات کے عمل میں اس بے دردی سے استعمال کیاجارہا ہے کہ اس کے نتیجے میں فوج متنازعہ بن گئی ہے اور عوام کی عزت‘ محبت اور توقیر کی جگہ نفرت اور دشمنی کا ہدف بن رہی ہے۔ اس سلسلے میں وزیرستان اور بلوچستان میں جس طرح فوج کو استعمال کیا گیا ہے اس نے صرف جرنیلی آمریت ہی کو نہیں‘ خود فوج کو ہدف تنقید و ملامت بنائے جانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ یہ ملک کی دفاعی صلاحیت کے لیے ایک ناقابلِ برداشت دھچکا ہے۔
جرنیلی آمریت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اور اس کے ذریعے سائنس دانوں کی پوری برادری کو جو پیغام دیا ہے‘ نیز ایٹمی صلاحیت کو مسلسل ترقی دینے کے لیے جن راہوں کو کھلا رکھنا ضروری تھا انھیں جس طرح بند کردیا گیا ہے اس نے ہماری ایٹمی سدجارحیت (nuclear deterrance)کی صلاحیت کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ قابلِ اعتماد ذرائع اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہماری نیوکلیر صلاحیت کو آہستہ آہستہ کمزور اور تحلیل کرنے اور اس پر امریکی اثر کے بڑھنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جو بظاہر غیرمحسوس ہے مگر فی الحقیقت خطرناک حد تک یقینی ہوتا جا رہا ہے۔ نیز امریکا پر دفاعی سازوسامان کے لیے محتاجی کا نیا دور شروع ہو رہا ہے حالانکہ اس باب میں امریکا کا قطعاً ناقابلِ اعتماد ہونا ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ ایف-۱۶ کے بارے میں تاریخی دھوکا کھانے کے بعد ملک اور فوج کو ایک بار پھر اسی چکر میں مبتلا کیا جا رہا ہے اور جہاز بھی وہ دینے کی بات کی جارہی ہے جو نہ صرف جدید ترین سے بہت فروتر ہیں بلکہ ان کے استعمال اور نقل و حرکت پر بھی امریکا کی نگاہ رہے گی۔ ایسے جہاز امریکا کی محتاجی کی زنجیر ہوں گے‘ یہ آزادی کے شاہیں نہیں ہوسکتے۔
جرنیلی آمریت جس طرح ملک کی آزادی اور حاکمیت کو مجروح کرنے کا ذریعہ بنی ہے اسی طرح خود فوج کی دفاعی صلاحیت اور ملک کی نیوکلیر استعداد کو کمزور کرنے کی ذمہ دار ہے۔
جرنیلی آمریت کی تباہ کاری کا تیسرا میدان چھوٹے صوبوں کو ناانصافیوں اور محرومیوں کی دلدل میں دھکیل دینا ہے جس کے نتیجے میں مرکز گریز رجحانات کو فروغ حاصل ہورہا ہے۔ سندھ میں ایک طرف ایک لسانی تنظیم کی اس طرح سرپرستی کی جارہی ہے کہ صوبہ امن و چین سے محروم ہوگیا ہے‘ ہر طرف بھتہ اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ دوسری طرف فرقہ واریت کو فروغ دیا جا رہا ہے اور روزافزوں خون خرابے کے باوجود اصل مجرم محفوظ و مامون بیٹھے ہیں۔
کالاباغ ڈیم کے مسئلے کو اس بھونڈے انداز میں اٹھایا گیا کہ تین صوبے مرکز کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ قومی مالیاتی ایوارڈ کے باب میں مرکز کا کردار نہایت غیرمنصفانہ اور غیرحقیقت پسندانہ رہا جس کے نتیجے میں صوبوں کی ترقی بری طرح متاثر ہوئی ہے اور آج تک صوبوں کو ان کا حق نہیں مل سکا۔ یہ سب مسائل اپنی جگہ لیکن سب سے بڑھ کر اس جرنیلی آمریت نے جس طرح بلوچستان کے مسئلے کو بگاڑا ہے وہ ایک قومی جرم سے کم نہیں۔
بلوچستان کے مسائل حقیقی اور گمبھیر ہیں اور اس صوبے میں محرومی کا احساس بے چینی سے بڑھ کر بغاوت کی حدوں کو چھو رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے ہر دور میں نہ صرف وہاں کے مسائل کو مجرمانہ طور پر نظرانداز کیا بلکہ سیاسی مسائل کو قوت کے ذریعے اور صوبے کی سیاسی قوتوں کو بانٹ کر اور اپنے حواریوں کو اقتدار سونپ کر صوبے کے وسائل کو صوبے اور اس کے عوام کے وسیع تر مفاد کے مقابلے میں مفادپرست عناصر کے کھل کھیلنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ تعلیم‘ روزگار‘ پیداوار‘ صحت‘ انفراسٹرکچر کی ترقی‘ صنعت غرض ہر میدان میں یہ صوبہ سب سے پیچھے ہے۔ قدرتی وسائل سے مالامال مگر ان وسائل کے ثمرات سے محروم۔ جب بھی وہاں کے عوام نے اپنے حقوق کی بات کی‘ اس کا جواب بندوق اور توپ سے دیا گیا۔ اس کی سب سے نمایاں مثال وہ پارلیمانی کمیٹی ہے جو خود چودھری شجاعت حسین صاحب کی سربراہی میں قائم ہوئی تھی اور جس کی ایک سب کمیٹی نے اپنی متفقہ رپورٹ بھی پارلیمنٹ کو پیش کر دی تھی مگر عین اس وقت جب معاملات سیاسی افہام و تفہیم سے طے ہونے کے مراحل میں تھے‘ فوج کشی کا راستہ اختیار کیا گیا اور سارے کیے دھرے پر پانی پھیر دیا گیا۔ اس کا تباہ کن انجام ۲۵ اگست کو فوجی آپریشن کے نتیجے میں ۸۰سالہ نواب بگٹی اور ان کے ساتھیوں کی ہلاکت اور اس کے بعد ان کی تجہیزوتدفین کے لیے وہ سفاکانہ اور ہتک آمیز راستہ ہے جس نے پورے صوبے ہی نہیں‘ پورے ملک میں غم و غصے کی آگ بھڑکا دی ہے۔ یہ سب کچھ محض ایک شخص کی انا کی تسکین کے لیے کیا گیا جس نے کہا تھا کہ یہ ۲۰۰۶ء ہے‘ ۱۹۷۴ء نہیں ہے اور اب ایسی سمت سے حملہ ہوگا جسے دیکھا بھی نہیں جاسکے گا اور جس نے نواب اکبرخاں بگٹی کی ہلاکت کے ظالمانہ اقدام پر فوج کو کامیاب آپریشن پر مبارک باد دی جس پر بعد میں دھول ڈالنے میں عافیت محسوس کی گئی۔
اس جرنیلی آمریت نے یہ سب کچھ ایک ایسے پس منظر میں کیا جب اس حسّاس علاقے کے بارے میں بین الاقوامی سازشوں اور شرارتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارت‘ ایران‘ افغانستان اور سب سے بڑھ کر امریکہ اپنا اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور مقامی عناصر میں سے کچھ اس میں آلۂ کار بن رہے ہیں۔ پاکستان کے نقشے کو تبدیل کرنے کے منصوبے نئے نہیں۔ سابقہ امریکی صدر کے ایک یہودی مشیر پروفیسر برنارڈ لیوس (Bernard Lewis)کئی سال پہلے شرق اوسط کے لیے نیا نقشہ پیش کرچکے ہیں اور اس میں بلوچستان کو ایک آزاد ملک کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ عین نواب بگٹی کی ہلاکت سے دو ماہ قبل کولن پاول کے ایک سابق اسسٹنٹ رالف پیٹر (Col (r) Ralph Peter ) نے امریکا کے نیم سرکاری مجلے Armed Forces Journal میں ایک زہرآلود مضمون لکھا ہے جس کا عنوان Blood Bordersہے اور اس دعوے کے ساتھ لکھا ہے کہ How a Better Middle East Would Look (ایک بہتر شرق اوسط کیسا نظر آئے گا)۔
اس میں پورے شرق اوسط کی تقسیم در تقسیم کا منصوبہ پیش کیا ہے جس سے امریکا اور اسرائیل کے مقاصد حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس وقت اس منصوبے کے تمام پہلوئوں پر کلام مقصود نہیں صرف پاکستان اور بلوچستان کے سلسلے میں اس شرانگیز تجویز پر توجہ مبذول کرانا پیش نظر ہے۔ موصوف پاکستان کو ایک غیرفطری ریاست (an unnatural state) قرار دیتے ہیں اور بلوچستان اور پشتونستان کو اس سے الگ کرتے ہیں اور اس دعوے کے ساتھ کہ یہ سب کچھ موصوف کے اپنے عزائم کے مطابق نقشے کی نئی صورت گری نہیں بلکہ وہاں کے لوگوں کی خواہش کا اظہار ہے:
یہ نقشے کو ہماری پسند کے مطابق بنانا نہیں ہے ‘ بلکہ جسے علاقے کے لوگ ترجیح دیتے ہیں‘ وہ ہے۔
ہرمعاملے میں‘ یہ نئی مفروضہ حدبندیاں نسلی تعلقات اور فرقہ بندی‘ بعض صورتوں میں دونوں کی عکاسی کرتی ہیں۔
ہم موصوف کا پیش کردہ نقشہ علاقے کے موجودہ نقشے کے ساتھ پیش کرتے ہیں تاکہ اس علاقے کے بارے میں سامراجی سیاست کاری کے کھیل کا کچھ ادراک ہوسکے۔
دونوں نقشوں پر نظر ڈالیے۔ جغرافیائی سرحدوں کی ساری تبدیلی مسلم ممالک کے لیے مخصوص ہے۔ اتنا بڑا بھارت اس نقشے پر موجود ہے‘جس میں درجنوں لسانی‘ مذہبی‘ ثقافتی اور نسلی آبادیاں موجود ہیں۔ ۱۶‘ ۱۷ آزادی کی تحریکیں سرگرم ہیں‘ وہاں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ہے ؎ برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر!
ایک طرف یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے اور دوسری طرف جرنیلی آمریت بعینہٖ وہ فضا پیدا کررہی ہے جس میں کچھ عناصر حقیقی مسائل اور محرومیوں کے ساتھ نفرت کی آگ کی آمیزش کرکے حالات کو ایسا رخ دے سکیں جن کے جلو میں سامراجی مقاصد حاصل ہوسکیں۔
ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ بلوچستان کے مسائل کو جس طرح بگاڑا جا رہا ہے‘ وہ حددرجہ خطرناک ہے۔ صوبے کے حقیقی مسائل آج بھی آسانی سے حل ہوسکتے ہیں‘ اس کے لیے سیاسی عمل‘ افہام و تفہیم اور عدل و احسان کا راستہ ہی صحیح راستہ ہے۔ فوج کشی اور عزت سے کھیلنے سے مسائل لازماً بگڑیں گے اور حل سے دُور ہوتے جائیں گے۔ جرنیلی آمریت نے جو راستہ اختیا کیا ہے‘ وہ صرف تباہی کا راستہ ہے۔ حالات کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ حکمت عملی کو یکسر بدلا جائے۔ بلوچ قبائل اور عوام کا غم پاکستان کے ہر شہری کا غم ہے اور وہاں کے مسائل ہمارے مشترکہ مسائل ہیں۔ سب کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے اور جوانصاف سے جتنا محروم رہا ہے‘ اس کا اتنا ہی زیادہ حق ہے۔ سیاسی عمل کے ساتھ ساتھ ان دستوری‘ قانونی اور انتظامی اصلاحات کی بھی ضرورت ہے جو حقیقی صوبائی خودمختاری اور صوبے کے وسائل پر اہلِ صوبہ کے حق کو یقینی بناسکے بلکہ جن صوبوں اور علاقوں کی حالت زیادہ خراب ہے‘ ان کو ملکی اوسط کی سطح تک لانے کے لیے صرف اس صوبے کے نہیں بلکہ متمول صوبوں اور علاقوں کے وسائل کوبھی پس ماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے استعمال ہونا چاہییں تاکہ سب کے ساتھ انصاف ہوسکے۔ اس مقصد کا حصول حقیقی جمہوری عمل کے قیام اور انصاف اور حق کے اصولوں کی پاسداری کے بغیر ممکن نہیں۔
مسئلہ طاقت کے استعمال کا نہیں‘ عقل کے استعمال اور انصاف اور دردمندی کے ساتھ حقیقی مسائل اور مشکلات کودُور کرنے کاہے۔ یہ تصور کہ مرکز مضبوط ہوگا تو پاکستان مضبوط ہوگا ایک فاسد نظریہ ہے۔ پاکستان کی مضبوطی کے لیے صوبوں اور علاقوں کی مضبوطی ضروری ہے۔ دیوار اتنی ہی مضبوط ہوگی جتنی وہ اینٹیں مضبوط ہوں گی جس سے یہ دیوار بنی ہے۔ آمریت کا مزاج ہی مرکزیت کا مزاج ہے اور جب وہ آمریت جرنیلی آمریت ہو تو پھر اختیارات کے ارتکاز کا عالم اور بھی گمبھیر ہوجاتا ہے اور سیاسی عمل نام نہاد کمانڈ اسٹرکچر تلے دم توڑ دیتا ہے۔ آج بلوچستان کے مسائل شعلہ فشاں ہوگئے ہیں اور قومی سطح پر ان کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ نواب بگٹی کی ہلاکت سے جو بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اسے قومی سطح پر مؤثر سیاسی حکمت عملی بناکر اوراس پر سب کی شرکت سے عمل کر کے حالات کو قابو میں لایا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ مسائل اور محرومیاں بلوچستان تک محدود نہیں۔ دوسرے صوبوں اور خود پنجاب کے کچھ پس ماندہ علاقوں میں بھی مسائل سلگ رہے ہیں۔ ان کے شعلہ بننے سے پہلے ان کے حل کی ضرورت ہے جو جرنیلی آمریت کے بس کا روگ نہیں۔
جرنیلی آمریت کا چوتھا نشانہ کشمیر کامسئلہ ہے جسے جنرل پرویز مشرف نے کمال بے تدبیری کے ساتھ تحلیل کرنے (liquidate) کرنے کی ٹھان لی ہے۔ پہلے دن سے کشمیر کا مسئلہ ایک قومی مسئلہ تھا اور سب جماعتیں اس پر متفق تھیں کہ کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے‘ اس لیے کہ یہ تقسیم ملک کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ نیز یہ مسئلہ محض پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی تنازع نہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے جس سے بھارت نے انھیں محروم رکھا ہوا ہے جو صرف فوجی قوت اور سامراجی تسلط سے ریاست کے دوتہائی حصے پر قابض ہے اور وہاں شہریوں کو جبر اور ظلم کے ذریعے زیردست رکھے ہوئے ہے اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کر ریا ہے۔ پونے پانچ لاکھ افراد ان ۶۰برسوں میں اپنی آزادی کی جدوجہد کرتے ہوئے بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں جان کی قربانی دے چکے ہیں۔ پاکستان ان کا وکیل اور ان کے حق کے حصول کی جدوجہد کا پشتی بان ہے اوران کے اس حق کے حصول کے لیے ہر قربانی دینا اپنافرض سمجھتا ہے۔ پاکستان کی فوج اور دفاعی صلاحیت کا بھی گہرا تعلق بھارت سے آنے والے خطرات کے مقابلے کی استطاعت کے ساتھ کشمیر میں حق خود ارادیت کے حصول کو ممکن بنا لینے سے ہے۔ ورنہ اتنی بڑی فوج کی جس پر قومی وسائل کا ایک معتدبہ حصہ صرف ہو رہا ہے ضرورت نہیں تھی۔
اس سارے پس منظر میں لچک کے نام پر‘ لیکن درحقیقت شکست خوردہ ذہنیت کا اسیر ہونے کے باعث‘ جنرل پرویز مشرف عملاً کشمیر سے دست کش ہوگئے ہیں اور اس طرح پاکستان کے ایک قومی ہدف کو منہدم کرنے کا ذریعہ بنے ہیں۔ فروری ۲۰۰۲ء سے ان کی پسپائی کے سلسلے کا آغاز ہوا جو اب ہوانا میں من موہن سنگھ سے ملاقات کے وقت اپنی انتہا کوپہنچ گیا ہے۔ اس قومی ہدف پر پہلی ضرب انھوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ایک طرف رکھ دینے کے اعلان کی لگائی۔ پھر جنگ ِ آزادی اور جہادکشمیر کو عملاً دہشت گردی قرار دے کر اپنی ہی نہیں ساری محکوم اقوام کی آزادی کی جدوجہد پر کالک ملنے کا جرم کیا۔ اوّل اوّل پاکستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال کیے جانے سے احتراز کی بات کی گئی۔ پھر بھارت کو باڑ بندی کا موقع دیا‘ سیزفائر کیا۔ عملاً تحریک ِ مزاحمت کی معاونت سے ہاتھ اٹھا لیا اور اب پورے مسئلے ہی سے اس اعلان کے ساتھ دست بردار ہوگئے کہ ایسا حل نکالا جائے جو دونوں فریقوں کے لیے ناقابلِ قبول نہ ہو۔ اس سے زیادہ ناانصافی کیا ہوگی کہ اب کہا جارہا ہے مسئلہ آزادی اور حق خود ارادیت کا نہیں بلکہ کسی ایسی چیز کو قبول کرلینے کا ہے جوغاصب قوت کے لیے قابلِ قبول ہو۔ اس سے مسئلے کی نوعیت ہی بدل گئی۔
اصل مسئلہ بھارت کے غیرقانونی قبضے (illegal occupation)کا تھا اور اس کا حل جو انصاف اور حق پر مبنی ہو صرف حق خود ارادیت ہی کی شکل میں ہوسکتا ہے جس طرح سامراج سے نجات حاصل کرنے کے لیے دنیا کے گوشے گوشے میں ہوا۔ لیکن اب اس مسئلے ہی سے جنرل صاحب دست بردار ہوگئے ہیں اور حق خودارادیت کی جدوجہد دہشت گردی قرار پاگئی ہے جس کا قلع قمع کرنے کے لیے دونوں ملکوں میں مشترک اداراتی نظام قائم کیا جا رہا ہے۔ بھارت کی اس سے بڑی فتح کیا ہوگی کہ اس نے جنرل صاحب سے کہلوا لیا کہ اصل مسئلہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی آزادی اور حق خود ارادیت کا نہیں بلکہ سرحدی دراندازی اور نام نہاد دہشت گردی ہے۔ مسئلہ بھارت کا ناجائز قبضہ نہیں بلکہ ناجائز قبضے کے خلاف جائز جنگ ِ آزادی اور تحریکِ مزاحمت ہے۔ یہ موقف تحریک آزادی کشمیر کے سینے میں خنجر گھونپنے اور اپنے ہاتھوں پاکستان کی شہ رگ پر چھری چلانے کے مترادف ہے جسے مسئلہ کشمیر اور کشمیری مسلمانوں کی عظیم تحریک مزاحمت ہی سے نہیں‘ پاکستان سے غداری کے سواکچھ نہیں کہاجاسکتا۔ کس نے جنرل پرویز مشرف کو کشمیر کی تحریک ِ آزادی کو اس طرح تباہ کرنے کا اختیار دیا___کشمیر کے عوام اور پاکستان کے عوام اس بے وفائی کو کبھی تسلیم نہیں کرسکتے۔
جرنیلی آمریت کا ایک اور ہدف اسلام کا وہ انقلابی اور ہمہ گیر تصور ہے جس کے تحت انسان اپنی پوری زندگی کو اللہ کی بندگی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں دیتا ہے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کو شریعت کے تابع کرتا ہے۔ وہ اسلام کی سربلندی کو اپنی زندگی کا مقصد بناتا ہے اور اس کے لیے جہاد کواپنا شعار قرار دیتا ہے۔اس تصورِ حیات کے مقابلے میں جرنیلی آمریت نے ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ (enlightened moderation) کے نام پر اسلام کا ایک ایسا مسخ شدہ تصور وضع کرنے کی کوشش کی ہے جو مغربی تہذیب و تمدن کا چربہ ہو‘ جس میں حجاب‘ داڑھی اور حیا و شرم کی گنجایش نہ ہو۔ جس میں شراب‘ زنا اور مخلوط معاشرت کے دروازے کھلے ہوں‘ جس میں جہاد کا ذکر بھی ممنوع ہو‘ جہاں رقص وسرود اور عریانی زندگی کا معمول ہوں‘ جس میں عیدین تو بس رسمی طور پر منائی جائیں البتہ بسنت‘ نیوایرز ڈے‘ ویلنٹائن ڈے اور اس قسم کی خرافات ترقی کا مظہر قرار پائیں۔ فکری اور سماجی دونوں اعتبار سے اسی تحویل قبلہ کا نتیجہ ہے کہ اخبارات‘ الیکٹرانک میڈیا‘ سرکاری تقریبات حتیٰ کہ سرکاری پارٹیوں اور فائیوسٹار ہی نہیں ان سے بہت چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں اور ریستورانوں میں اب شراب کھلے بندوں دی جارہی ہے۔ پاکستانی سفارت خانوں میں بیش تر تقریبات میں شراب دی جاتی ہے اور اسلام آباد کے ایک انگریزی روزنامے نے تو حد ہی کردی کہ اپنے صفحہ اول پر ایک چوتھائی صفحہ کا جلی اشتہار ایک کلینک کی طرف سے اس عنوان کے ساتھ شائع کیا کہ شراب نوشی کوئی قباحت نہیں‘ صرف بلانوشی نامطلوب ہے اور اس کا بھی علاج ہم سے کرالیں …اناللہ وانا الیہ راجعون!
یہ جرنیلی آمریت پہلے دن سے بے تاب رہی ہے کہ کسی طرح حدود قوانین کو منسوخ کردے اور توہینِ رسالتؐ کے قانون کو کتابِ قانون سے خارج کردے مگر ہمت نہ ہوسکی۔ اب پھر وردی کے زعم پر حدود قوانین میں ترمیم کی کوششیں ہورہی ہیں اور طرح طرح کے ڈرامے رچائے جارہے ہیں۔ بلاشبہہ حدود قوانین کا نفاذ خلوص اوردیانت سے ملک میں نہیں ہوا اور ان کی برکات سے معاشرہ محروم ہے۔ مگر عورتوں پر ظلم کی وجہ یہ قوانین نہیں‘ مغربی تہذیب و ثقافت اور وہ سیکولر‘ اخلاق باختہ اور جاگیردارانہ سماج اور رویہ ہے جو اباحت پرست طبقے کا طرۂ امتیاز ہے۔ مختاراں مائی پر ظلم کسی حدود قوانین کی وجہ سے نہیں ہوا۔ روزانہ جو ہولناک واقعات رونما ہو رہے ہیں وہ ان قوانین کی وجہ سے نہیں بلکہ اسلام کے باغی عناصر کی ظالمانہ کارروائیوں اور بااثر افراد کی قانون پر بالادستی کی وجہ سے ہیں۔ اگر یہ قوانین ٹھیک ٹھیک نافذ کیے جائیں تو معاشرہ ان جرائم سے آج بھی پاک ہوسکتا ہے لیکن جرنیلی آمریت اور اس کے آزاد خیال ہم نوائوں کا مقصد معاشرے کو جرم سے پاک کرنا نہیں جرم کو معتبر بنا دینا ہے۔ ابھی امریکا کی جوسرکاری رپورٹ بنیادی حقوق کے نام پر اس ہفتے شائع ہوئی ہے اس میں پوری بے شرمی سے کہا گیا ہے کہ زنا بالرضا کو جرم بنانا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اسے criminalization of sex کا نام دیا گیا ہے۔ اگر حدود قوانین کے خلاف کی جانے والی کی بحث کا آپ بے لاگ تجزیہ کریں تویہی اصل مسئلہ سامنے آتا ہے کہ رضامندی کے ساتھ آزاد شہوت رانی کوئی جرم ہے ہی نہیں کہ اس پر سزا دی جائے۔ برطانوی دور کے ضابطہ فوجداری میں مغربی ممالک کی طرح زنا کا فعل جرم تھا ہی نہیں۔ جسے adultery قراردیا گیا وہ صرف شادی شدہ عورت سے خاوند کی مرضی کے بغیر جنسی تعلق تھا جس کی وجہ خاوند کی حق تلفی سمجھی جاتی تھی یا پھر rape جو عورت پر جبر کی وجہ سے جرم بنتا تھا اور وہ بھی صرف تین سال کی سزا یا جرمانہ کا مستوجب!
حدود قوانین میں اصل ’ظلم‘ کیا ہی یہ گیا ہے کہ ناجائز جنسی تعلق کو‘ خواہ وہ باہمی رضامندی سے ہویا جبر کی صورت میں‘ جرم قرار دیا گیاہے اوردونوں شکلوں میں اسے مستوجب سزا قرار دیا گیا ہے۔ اس سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں کہ زنا بالجبر کے سلسلے میں عورت کی گواہی قابلِ قبول نہیں۔ فیڈرل شریعت کورٹ کے کئی فیصلے موجود ہیں جن میں چند یا صرف ایک عورت کی گواہی پر بھی سزا دی گئی ہے۔ البتہ شریعت کا حد کے باب میں ہرہر جرم کے سلسلے میں اپنا شہادت کا معیار ہے اور وہ ایک کل نظام کا حصہ ہے۔ اصل مسئلہ اسلام اور مغرب کے جداگانہ تصور اخلاق‘ نظامِ معاشرت اور جرم و سزا کے تصورات کا ہے۔ ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کے نام پر جس دین کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے‘ وہ خالص مغربی معاشرت اور تمدن ہے۔ اس کا اسلام کے نظامِ اقدار‘ اخلاق اور معاشرت سے کوئی تعلق نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ جرنیلی آمریت بھی بش اور امریکا کے کروسیڈز کے ہم زبان ہوکر اسلامی شریعت کو اپنا مدمقابل سمجھتی ہے اوراب تو جنرل مشرف صاف کہنے لگے ہیں کہ القاعدہ سے بھی بڑاخطرہ طالبان ہیں اورطالبان صرف افغانستان کے لیے نہیں طالبانائی زیشن (talibanization) پاکستان کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور اس کے لیے انتہاپسند‘ ترقی کے مخالف اور نہ معلوم کون کون سی گالیاں وضع کرلی ہیں لیکن یہ سب دراصل اسوۂ محمدیؐ اور شریعت محمدیؐ سے فرار کی راہیں ہیں‘ اس کے سوا کچھ نہیں۔ اقبال نے سچ کہا تھا :
اے تہی از ذوق و شوق و سوز و درد
می شناسی عصر ما با ما چہ کرد
عصر ما مارا ز ما بے گانہ کرد
از جمال مصطفیؐ بے گانہ کرد
اے شوق و محبت اور سوز و گداز سے خالی شخص‘ تجھے خبر ہے کہ زمانے نے ہمارے ساتھ کیا (ظلم) کردیا ہے۔ زمانے نے ہمیں اپنے آپ سے بے گانہ کردیا ہے اور محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حُسنِ کردار سے بھی بے گانہ کردیا ہے۔
جہاد سے فرار اور خانقاہی نظام کے احیا کے عزائم راہِ محمدؐ سے اُمت کو ہٹانے کے شیطانی منصوبے کا حصہ ہے___ مذہب انفرادی عمل ہے۔ سیاست‘ ریاست اور تہذیب و ثقافت سے اس کا کیا رشتہ؟ ابلیس نے یہی تو کہا تھا:
ہر نفس ڈرتا ہوں اس اُمت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات
مست رکھو ذکرو فکر صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے
اور اس شیطانی حکمت عملی کے مقابلے میں اقبال نے وہی نسخہ تجویز کیا تھا جو روحِ اسلام کا مظہرہے ؎
نکل کر خانقاہوں سے ادا کررسمِ شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دلگیری
جرنیلی آمریت کا ’اسلام‘ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیںاور یہی وجہ ہے کہ محمدؐ کا اسلام جرنیلی آمریت‘ کیتھولک پوپ اور امریکی بش سب کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے ___ اور اس میں انھیں اپنے لیے خطرہ ہی خطرہ نظر آتا ہے۔
جرنیلی آمریت نے ہر میدان میں منہ کی کھائی ہے۔ گارڈین کے نمایندے کو انٹرویو دیتے ہوئے جنرل صاحب کو خود اعتراف کرنا پڑا کہ ان کی مقبولیت برابر کم ہورہی ہے۔ جب جنرل مشرف سے پوچھا گیا کہ کس میدان میں وہ اپنے کو سب سے زیادہ کامیاب پاتے ہیں تو ارشاد ہوا___ معاشی ترقی اور اقتصادی کارکردگی کے میدان میں۔ یہ تو خود ایک طرفہ تماشا ہے کہ جرنیل صاحب نہ دفاعی میدان میں کوئی کارنامہ دکھاسکے اور نہ ملک میں امن و امان کا قیام ان کے نامۂ اعمال میں کوئی مقام پاسکا اور خود انھوں نے جس میدان کو اپنے لیے کامیاب میدان قرار دیا وہ وہ تھا جس کے بارے میں خود انھوں نے اقتدار میں آنے کے بعد کہا تھا کہ میں اس سے بالکل نابلد ہوں۔
ہم صلاحیت اور استعداد کی بحث میں پڑے بغیر ان کے اس دعوے کا جائزہ لیں تو یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ چند نمایشی پہلوئوں کو چھوڑتے ہوئے معیشت کے میدان میں بھی جرنیلی آمریت اتنی ہی تہی دامن ہے جتنی دوسرے میدانوں میں۔ محبوب الحق ہیومن ڈویلپمنٹ سنٹر کی تازہ ترین رپورٹ ہیومن ڈویلپمنٹ ان ساؤتھ ایشیا ۲۰۰۶ء ابھی اسی مہینے (ستمبر ۲۰۰۶ئ) شائع ہوئی ہے اور اس کے مطابق اگر ایک ڈالر یومیہ کو آمدنی کا معیار قرار دیاجائے تو پاکستان میں غربت کی شرح ۳۰فی صد سے زیادہ اور اگر دو ڈالر یومیہ کو بنیاد بنایا جائے تو۷۰ فی صد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ دولت کی تقسیم میں عدمِ مساوات میں برابر اضافہ ہورہا ہے۔ علاقوں کے درمیان بھی عدمِ مساوات بڑھ رہی ہے یعنی امیر امیر تر ہو رہے ہیں اور غریب غریب تر۔ افراطِ زر اور مہنگائی نے عام انسانوں کی کمر توڑ دی ہے اور اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے افراطِ زر کا جو جائزہ ستمبر ۲۰۰۶ء میں شائع کیا ہے اس کی رُو سے پچھلے سال اشیاے خوردنی کی قیمتوں میں ۱ئ۱۱ فی صد کا اضافہ ہوا ہے اور مزدوروں کی حقیقی قوتِ خرید میں برابر کمی واقع ہورہی ہے۔ (ملاحظہ ہو ڈان اور دی نیوز ۲۲ستمبر ۲۰۰۶ئ)
وزیراعظم صاحب خوش حالی کے اشاریے کے طور پر کاروں کی فروخت کا بار بار ذکر کرتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں ۱۶ کروڑ کی آبادی میں کار استعمال کرنے والے کتنے ہیں۔ لیکن جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے‘ ان کے اپنے دست ِ راست جرنیلی آمریت کی لبرل امپورٹ پالیسی پر پریشان ہیں۔ تازہ ترین سرٹیفکیٹ ان کے اپنے وزیرمملکت نے دیا ہے:
وفاقی وزیر مملکت اور منصوبہ بندی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر اکرم شیخ نے حکومت کی گاڑیوں کی درآمد کی لبرل پالیسی پر سخت تنقید کی ہے اور اسے ملکی صنعت کاروں کے مفاد کے خلاف قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر اکرم شیخ نے کہا کہ غریبوں کو روٹی چاہیے‘ نہ کہ درآمد شدہ گاڑیاں۔ (دی نیوز‘ ۲۲ستمبر ۲۰۰۶ئ)
فوجی آمریت کی معاشی پالیسی کاحاصل ہی یہ ہے کہ ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر مہنگے پٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کی ریل پیل ہے مگر پبلک ٹرانسپورٹ تباہ ہے اور عوام روٹی سے محروم ہیں۔
معاشی لبرلزم کا بڑا چرچا ہے اور جنرل صاحب اور ان کی معاشی ٹیم معاشی آزاد روی (economic liberalisation) پالیسی پر نازاں ہیں لیکن عالمی جائزے بتا رہے ہیں کہ اس میدان میں بھی ان کی کارکردگی خوش فہمی سے زیادہ نہیں۔ اسی مہینے جو عالمی جائزہ (Economic Freedom of the World - 2006 Annual Report) شائع ہوا ہے اس کے مطابق دنیا کے ۱۲۷ ملکوں کے سروے میں پاکستان کا نمبر ۹۵ ہے‘ جب کہ بھارت کا نمبر ۵۳ اورسری لنکا کا ۸۳ ہے۔ ہانگ کانگ اورسنگاپور نمبر ایک اور نمبر۲ پر آتے ہیں۔
جنرل صاحب اس دعوے سے اقتدار میں آئے تھے کہ کرپشن ختم کردیں گے مگر ان کے اردگرد سب وہی ہیں جوکرپشن میں بڑا نام پیدا کرچکے ہیں۔ جنرل صاحب کے دور میں یہ منظر بھی دیکھا گیا کہ سندھ کے وزیراعلیٰ نے اپنے ہی وزیر کے خلاف جومسلم لیگ(ق) کے صوبائی سیکرٹری بھی تھے بدعنوانی کی چارج شیٹ لگائی تھی اور خود ان وزیرصاحب نے اپنے وزیراعلیٰ صاحب پر جوابی چارج شیٹ لگائی اور ماشاء اللہ دونوں کو جنرل صاحب نے خاموش رہنے کا مشورہ دیا تھا اور وہ برابر ان کی ٹیم کا حصہ ہیں۔ اب انھی وزیراعلیٰ نے باقاعدہ بیان دیا ہے کہ کرپشن ہر حد کو پار کرگئی ہے اور اینٹی کرپشن کا شعبہ کرپشن ختم کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ پھر اپنے افسروں سے ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر کرپشن کو ختم نہیں کرسکتے تو اس میں کچھ کمی توکرا دو۔ لیکن عالم یہ ہے کہ کرپشن برابر بڑھ رہی ہے اور جرنیلی آمریت کی سرپرستی میں اس میں دن دونی اور رات چوگنی ترقی ہورہی ہے۔ نج کاری میں کرپشن اداراتی سطح پر جہاں پہنچ گئی ہے‘ اس کا ایک ثبوت اسٹیل مل کی نج کاری پر سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔ اس طرح کی کوئی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی پاکستان پر تازہ ترین رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس دور میں کرپشن تمام پہلے ادوارسے بڑھ گئی ہے۔ اس جائزے کی رو سے کرپشن کی تصویر کچھ یوں بنتی ہے:
بے نظیر کا پہلا دور ۹۰-۱۹۸۹ء
۸ فی صد
نواز شریف کا پہلا دور ۹۳-۱۹۹۰ء
۱۰ فی صد
بے نظیر کا دوسرا دور ۹۶-۱۹۹۳ء
۴۸ فی صد
نواز شریف کادوسرا دورِ ۹۹-۱۹۹۶ء
۳۴فی صد
جنرل مشرف کا دور ۰۲-۱۹۹۹ء
۶۹ئ۳۲ فی صد
جنرل مشرف کا تازہ دور ۰۶-۲۰۰۲ء
۳۱ئ۶۷ فی صد
(قومی کرپشن کا جائزہ ۲۰۰۶ئ‘ ص ۳۰)
یہ ہے جرنیلی آمریت کی حقیقی کارکردگی… پڑھتا جا‘ شرماتاجا!
حالات کے معروضی اور بے لاگ جائزے سے یہ اصولی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ آمریت کبھی بھی صحیح نظام نہیں ہوسکتی۔ آمر اچھا انسان بھی ہوسکتا ہے اور برا بھی۔ پارسا بھی ہوسکتا ہے اور بدقماش بھی۔فوجی بھی ہوسکتا ہے اورسویلین بھی‘ لیکن آمریت کبھی خیر اور صلاح کا باعث نہیں ہوسکتی۔ یہ بلبلہ جب بھی پھٹتا ہے اس میںسے کثافت اور گندگی ہی نکلتی ہے۔ یہ تاریخ کا فیصلہ اور ہمارا اپنا تجربہ ہے۔ مسائل بے شمار ہیں اور ان میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ بلکہ جیساکہ ہم نے حقائق سے ثابت کیا ہے ملک جس خطرناک صورت حال سے آج دوچار ہے پہلے نہیں تھا___ لیکن ان سب مسائل کا حل صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ جرنیلی آمریت سے عوامی جدوجہد کے ذریعے نجات پائی جائے‘ اور یہ جدوجہد اس ہدف کو سامنے رکھ کر ہو کہ ایک جرنیل کی جگہ کوئی دوسرا جرنیل اور ایک آمر کی جگہ دوسرا آمر برداشت نہیں کیا جائے گا۔
جمہوریت اپنی تمام خرابیوں کے باوجود اپنے اندر اصلاح اور تبدیلی کا ایک راستہ رکھتی ہے اور عوام کے سامنے باربار جواب دہی کے لیے آنے کا نتیجہ بالآخر بہتری کی صورت میں نکلتا ہے۔ صبر اور تسلسل کے ساتھ اس عمل کو جاری رہنا چاہیے۔ اس سلسلے میں مختصر راستے (short cut) کے دھوکے سے نکلنا ضروری ہے۔ آمریت سے نجات خود اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کو آگے بڑھانے اور کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آمریت کا خاتمہ اس سلسلے میں فتح باب کا درجہ رکھتا ہے۔ آج کی جرنیلی آمریت اس راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور جب تک یہ رکاوٹ دُور نہ ہو اسلامی نظام کے قیام کا سلسلہ شروع نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستا ن کی بقا و استحکام اور خود اقامت دین کی جدوجہد کی کامیابی کے لیے دستوری عمل کی استواری‘ غیرجانب دارانہ عبوری حکومت کے تحت انتخابات‘ آزاد اور بااختیار الیکشن کمیشن کا قیام اور اس کے ذریعے انتخابات کا انعقاد‘ فوج کی سیاست سے مکمل اور دائمی بے دخلی___ یہ سب اس منزل کی طرف پیش قدمی کے لیے ضروری اقدام ہیں اوران کا حصول اس وقت پاکستان کوانتشار سے بچانے اور اس ملک کی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ اس وقت تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذیلی مسائل اور اختلافات کو اپنی حدود میں رکھتے ہوئے مشترک قومی مقاصد کے لیے متحد ہوکر مسلسل جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت تھوڑی سی غفلت بھی بہت مہنگی پڑسکتی ہے اس لیے کہ ع
لمحوں نے خطا کی ہے‘ صدیوں نے سزا پائی
آج بھی پاکستان ایک ایسے ہی فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے اور ہم بروقت فیصلے یا صحیح اقدام کے باب میں غفلت کے متحمل نہیں ہوسکتے اس لیے کہ ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے‘ تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
ہر جانے والا بہت سوںکو سوگوار چھوڑتا ہے لیکن ایسے کم ہی ہوتے ہیں جو پورے عالم کو سوگوار چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوں۔ ۳ستمبر ۲۰۰۶ء کو اُمت مسلمہ سے جداہونے والا مجاہد شیخ ابوبدرعبداللہ علی المطوع ایسے ہی چند نفوس میں سے تھا جس کے غم کو دنیاکے گوشے گوشے میںمحسوس کیا گیا‘ اور اُمت مسلمہ کا شاید ہی کوئی طبقہ یا گروہ ہو جس نے اس جدائی کو ذاتی غم کی طرح نہ محسوس کیا ہو۔ اس کی بنیادی وجہ شیخ ابوبدرؒ کی دعوت اسلامی اور خدمت خلق کی وہ مساعی ہیں جو ۶۰سال کے عرصے پر محیط ہیں اور جن کا مرکز و منبع خواہ کویت ہو مگر ان کی وسعت اور اثرانگیزی مشرق و مغرب اور شمال و جنوب‘ اس کرئہ ارض کے چپے چپے تک پھیلی ہوئی تھی۔ میرے علم میں نہیںکہ گذشتہ ۶۰ سالوں میں کسی ایک فرد کی مساعی اور اس کے ثمرات کو خصوصیت سے انفاق فی سبیل اللہ اور تعاونوا علی البر والتقوٰی کے میدان میں یہ وسعت حاصل ہوئی ہے۔ دنیاے اسلام میں جہاں کوئی کارخیر انجام دیا جا رہا ہے‘ اس میں ابوبدرؒ کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہے ع
یہ رتبۂ بلند ملا‘ جس کو مل گیا
الاخ ابوبدر ۱۹۲۶ء میں کویت کے ایک خوش حال اور نہایت دین دار گھرانے میں پیداہوئے۔ ابتدائی تعلیم ایک عام اسکول احمدیہ میںحاصل کی اور نوجوانی ہی میں اپنے والد محترم کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹانے کے لیے سرگرم ہوگئے۔ عنفوان شباب ہی میں حسن البناشہیدؒاور ان کی تحریک اخوان المسلمون سے نسبت کا رشتہ استوار ہوگیا۔ وہ اوران کے بڑے بھائی شیخ عبدالعزیز المطوع ‘امام شہیدؒ کی دعوت سے متاثر تھے اور حج بیت اللہ کے موقع پر غالباً دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد ان سے ملے اور پھر انھی کے ہوکر رہ گئے۔ کویت کے مخصوص حالات کی روشنی میں اخوان المسلمون کا باقاعدہ قیام تو عمل میں نہیں آسکا لیکن تحریک اخوان کا ایک مؤثر حلقہ وجود میں آگیا اور اسے ہر میدان میں روز افزوں ترقی حاصل ہوئی۔ اس کے قائد اور روح رواں الاخ ابوبدرؒ ہی تھے۔ اس حلقے نے اجتماعی تحریک کی شکل بھی اختیار کی مگر مقامی رنگ کے ساتھ۔ ۱۹۵۲ء میں جمعیۃ الارشاد کے نام سے کام کا آغاز کیا جس نے بالآخر ۱۹۶۳ء میں جمعیۃ الاصلاح الاجتماعی کی شکل اختیار کرلی اور یہ جمعیت کویت کی تحریک اسلامی کا گڑھ بن گئی۔ فکری‘ تربیتی‘ تعلیمی‘ دعوتی‘ سماجی‘ خدمتی اور بالآخر سیاسی جدوجہد کا مرکز و محوربنی اور کویت کی اجتماعی زندگی پر گہرے اثرات ڈالے۔ اس وقت کویت کی پارلیمنٹ میں سب سے بڑا منتخب گروپ اسی فکر کا علم بردار ہے۔
شیخ ابوبدر کی دل چسپی‘ تعلیم اور تبلیغ میں پہلے دن سے رہی۔تعلیمی اداروں کے قیام کے ساتھ انھوں نے دینی مجلوں کے اجرا کا بھی اہتمام کیا۔ سب سے پہلے الارشاد الاسلامیہ کا اجرا کیا۔ نوجوانوں کے لیے جمعیۃ کے نام سے ایک رسالہ نکالا لیکن ان کا سب سے اہم اور تاریخی کارنامہ ۱۹۷۰ء سے ہفت روزہ المجتمع کا اجرا ہے۔ یہ رسالہ کویت ہی نہیں پورے عالمِ عرب میں اسلامی دعوت اور فکر کا نقیب ہے اور وقت کے تمام مسائل پر اسلامی نقطۂ نظر کا مؤثر ترین ترجمان ہے۔ شیخ ابوبدرؒنے کوشش کی کہ اس کی ادارت قابل ترین ہاتھوں میں ہو۔ عالمِ اسلام کے تمام ہی چوٹی کے اہلِ قلم اس کے لکھنے والوں میں شامل ہیں۔
الاخ ابوبدر عالم اسلام کی اہم ترین تنظیموں میں مرکزی کردار ادا کرتے رہے اور ان کا شمار عالمی اسلامی تحریکوںکے ممتاز ترین قائدین میں ہوتا تھا۔ کویت کی جمعیۃ الاصلاح الاجتماعی کے وہ صدر تھے۔ رابطہ عالم اسلامی اور عالمی مساجدکونسل کے بانی ارکان میں سے تھے۔ کویت کی اہم ترین فلاحی تنظیم الہیئہ الخیریۃ الاسلامیۃ العالمیۃ کے بانی رکن اور اس کی مجلس منتظمہ کے رکن تھے۔ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے بانی رکن اور اس کے قیام اور ترقی میں ان کا نمایاں کردار ہے۔ اسلامی دنیا کا کوئی اہم دعوتی‘ رفاہی‘ خدمتی‘ تعلیمی منصوبہ ایسا نہیںجس کی مالی معاونت اور فکری سرپرستی میں ابوبدر کا حصہ نہ ہو۔ وہ کویت کے متمول ترین افرادمیں سے تھے لیکن انھوں نے اپنی دولت کو صرف اپنے اور اپنے خاندان کے لیے استعمال نہیں کیا بلکہ اس سے ساری دنیا کی دعوتی‘ رفاہی اور جہادی خدمات کی آبیاری کی۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں کویت ہی نہیںپورے عالمِ عرب میں بجاطور پرامام خیرالعمل کی حیثیت سے یادکیا جاتا ہے۔
الاخ ابوبدر سے میری پہلی ملاقات ۱۹۵۹ء میں ہوئی جب وہ پاکستان تشریف لائے اور محترم چودھری غلام احمد مرحوم کے ساتھ میرے غریب خانے پر کراچی جماعت کے قائدین کی ایک نشست میں شریک ہوئے۔ گذشتہ ۵۸سالوں میں مجھے ان سے دسیوں بار ملنے‘ ان کے ساتھ سفروحضر میں وقت گزارنے‘ سیمی ناروں‘ کانفرنسوں اور مخصوص نشستوں میں شریک ہونے کا موقع ملا اور اس پورے زمانے میںایک بھی موقع شکایت اور رنجش کا پیدا نہ ہوا۔ حتیٰ کہ ان پُرآشوب ایام میں بھی جب کویت ایران پر عراق کے حملے کی حمایت کر رہا تھا اور ہم ایران کی تائید اور صدام کی مذمت کر رہے تھے لیکن یہ ابوبدر کا ظرف اور حق پرستی تھی کہ ہمارے تعلقات اورتعاون پر کوئی حرف نہ آیا۔ جہاد افغانستان‘ بوسنیا کی جدوجہد آزادی‘ فلسطین کا جہاد‘ کشمیر کی اسلامی مزاحمتی تحریک‘ ہرہرجدوجہد میں وہ دل و جان سے شریک تھے۔ صرف مالی معاونت ہی نہیں بلکہ ہر سطح پر مشورے‘ شرکت اور رہنمائی میں وہ پیش پیش ہوا کرتے تھے۔
میں نے ابوبدر کو ایک بڑاعظیم انسان پایا۔ ان کے ظاہر و باطن میںکوئی فرق نہ تھا۔ ان کے سینے میں ایک دل دردمند‘ ان کا دماغ مشکل کشا‘اور ہمت ہمہ جوان تھی۔ دولت و ثروت نے ان کواور بھی انکساری کا نمونہ بنا دیا تھااور انھوںنے مال و دولت کو ایک خادم اورخیر کے فروغ کے لیے وسیلے کے طور پر استعمال کیا۔ سادگی‘ ملنساری‘خدمت اور ایک حدتک عرب بدوانہ درویشی ان کا شعار تھی۔ وہ بڑی محبت کرنے والے انسان تھے اور ان کی شخصیت میں وہ شیرینی تھی کہ وہ بہت جلد سب کی محبت کامرکزو محور بن جاتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑے کھرے انسان اوراصولوں کے معاملے میں سمجھوتہ نہ کرنے والے‘ اورحق بات کا پوری بے باکی سے اظہار کرنے والے تھے۔ دولت مند بالعموم بزدل ہوجاتے ہیں لیکن ابوبدر حق کے معاملے میں بڑے جری تھے اور بڑے سے بڑے حکمران کے سامنے حق بات کہنے میں ذرا بھی باک نہ محسوس کرتے تھے۔
پاکستان‘ مولانا مودودی ؒاورجماعت اسلامی سے ان کو بڑی محبت تھی‘ اور پاکستان پر آنے والی ہر آفت کادکھ انھوں نے ہمیشہ محسوس کیا جس طرح ایک محب وطن پاکستانی محسوس کرتا ہے۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک سے انھیں بے پناہ لگائوتھا‘ اور وہاں کے حالات‘ مسائل اور ضروریات میں وہ خود دل چسپی لیتے تھے۔
الاخ ابوبدر کی رسمی تعلیم زیادہ نہ تھی لیکن اپنے ذاتی ذوق اور خداداد صلاحیت سے انھوں نے علم و عمل‘ دونوں میدانوں میں ممتاز مقام حاصل کیا۔ سیاسی امور میں ان کی بصیرت کسی بڑے سے بڑے ماہر سے کم نہ تھی۔ حالات کا تجزیہ کرنے اور عالمی مسائل اور تحریکات پر ان کی نظر بڑی گہری تھی۔ میں نے مخصوص اجتماعات سے لے کر علمی مجالس اور کانفرنسوں میں ان کو بڑی سلجھی ہوئی مدلل بات کرتے ہوئے دیکھا‘ اور وہ ایک کامیاب تاجر ہی نہیں‘ ایک بالغ نظر سیاسی رہنما اور اسٹرے ٹیجک امور پر قادرالکلام مبصر بھی تھے۔
شیخ ابوبدر نے تجارت میں بھی نام پیدا کیا۔ وہ عرب دنیا کے چوٹی کے کامیاب تاجروں میں سے ایک تھے۔ لیکن ان کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ ایک طرف انھوں نے تجارت میں کبھی بددیانتی‘ اور کاروباری ہیرپھیر کا سہارا نہیںلیا اورحقیقی اسلامی اخلاق کا دامن نہیں چھوڑا‘ اور دوسری طرف ان کے کاروبار میں سود کی رتی بھر ملاوٹ نہ تھی۔ اس طرح انھوں نے یہ مثال قائم کر دی کہ سود کے بغیر بھی ایک تاجر اعلیٰ ترین مقام پر پہنچ سکتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جو کثیر دولت ان کو دی اس کا بڑا حصہ انھوں نے دین حق کے پھیلانے‘ غریبوں اورفلاحی اداروں کی معاونت اور اقامت ِ دین اور جہاد آزادی کی تحریکوں کی آبیاری کرنے میں صرف کی۔ یوں ہمارے اپنے دور میں سلف صالحین کے دور کی وہ مثال قائم کی جس کے بارے میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی تھی کہ سچا ایمان دار تاجر قیامت کے روز نبیوں‘ صدیقوں اور شہدا کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔
الاخ ابوبدر اللہ کے ان مخلص بندوں میں سے تھے جنھوں نے اپنے رب سے جو عہد ِ وفا کیا تھا‘ اسے عملاً نبھا دیا اور آنے والوں کے لیے ایک روشن مثال قائم کر دی۔
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَـہٗ وَمِـنْھُمْ مَّنْ یَّـنْتَظِرُ ز وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o (الاحزاب ۳۳ :۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوںنے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچاکر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میںکوئی تبدیلی نہیں کی۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ الاخ ابوبدر ان لوگوںمیں سے تھے جو اللہ کو اپنا رب مان لینے کے بعد اس پر جم گئے اور اللہ کی اطاعت‘ اس کے دین کی سربلندی اور اس کی مخلوق کی خدمت میںساری زندگی اور اپنے سارے وسائل صرف کردیے۔ مسلمانوں کا ہرمسئلہ ان کا اپنا مسئلہ تھا‘اور ہر غم ان کا اپنا غم تھا۔ ان کا عالم یہ تھاکہ ؎
خنجر چلے کسی پہ‘ تڑپتے ہیں ہم اسیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
میںنے کسی علاقائی عصبیت کا کوئی پرتو ان کے فکر اور ان کی زندگی میں نہیں دیکھا۔ اسلام اور اُمت مسلمہ ان کی زندگی کا مرکز اور محور تھے اورانھی کی خدمت میں وہ مالکِ حقیقی سے جاملے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں اور خدمات کو قبول فرمائے اورانھیں جنت کے اعلیٰ ترین درجات میں جگہ دے۔ ع
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسرائیل نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت‘ لبنان پر حملہ کر کے ۳۴ دن رات قوت کے بے محابا استعمال اور ظلم و تشدد کی ایک نئی داستان رقم کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے (جسے خود مغرب کی انسانی حقوق کی تنظیمیں انسانیت کے خلاف جرائم (crimes against humanity) قرار دے رہی ہیں) انھی ۳۴ شب وروز میں جدید ترین اور انتہائی تباہ کن اسلحے اور آلاتِ جنگ سے لیس دنیا کی چوتھی بڑی فوج کی ہمہ گیر جنگ (ہوائی‘ بحری اور بری) کے مقابلے میں حزب اللہ کے چند ہزار مجاہدوں کی سرفروشانہ مزاحمت ایک آئینہ ہے جس میں بہت سے چہرے اپنے تمام حسن و قبح کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں۔ یوں انسان کی آنکھ دنیا ہی میں یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ ج (اس روز کچھ لوگ سرخ رو ہوں گے اور کچھ لوگوں کا منہ کالا ہوگا۔ اٰل عمرٰن ۳:۱۰۶) کا چشم کشا اور ایمان افروز منظر دیکھ رہی ہے۔ مسئلہ کے تجزیے اور حالات کے مقابلے پر بات کرنے سے پہلے‘ عبرت اور موعظت کے ان مناظر پر ایک نظر ڈالنا مسائل کی حقیقت کو سمجھنے اور رزم گاہ کے تمام کرداروں کے چہروں کے اصل خدوخال اور نقش و نگار کو پہچاننے میں مددگار ہوگا۔
سب سے پہلا چہرہ اسرائیل کا ہے اور وہی اس خونی ڈرامے کا اصل کردار بھی ہے۔ اسرائیل کوئی عام ریاست نہیں‘ مغرب کے ملمع سازوں اور تماشا گروں نے تو اسے علاقے کی ’واحد جمہوری ریاست‘ کا امیج (image) دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن اسرائیل نے خود اپنے کردار اور قوت کے نشے میں مست ہوکر انسانی تباہی‘ وسیع پیمانے پر ہلاکت خیزی اور جنگی جرائم کی نہ ختم ہونے والی حرکات کے ذریعے دنیا کو اپنی جو تصویر دکھا دی ہے‘ وہ اب کسی مصنوعی لیپاپوتی یا میڈیا کی جعل سازی سے تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ جو باتیں بالکل واضح ہو کر سامنے آگئی ہیں وہ یہ ہیں:
۱- اسرائیل کا وجود اوراس کی بقا کا انحصار کسی اصول‘ حق یا عالمی ضابطے پر نہیں‘ قوت اور صرف قوت کے بے محابا استعمال پر ہے۔ اس کا قیام بھی تشدد اور قوت کی بنیاد پر ہوا اور علاقے میں اس کا وجود بھی صرف قوت کے سہارے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ اس کے لیے کوئی قانون ہے اورنہ کوئی ریاستی حدود۔ چنانچہ جس فلسفے پر وہ عامل ہے اور اس کے پشتی بان اسی تصور پر اپنی خارجہ پالیسی اورجنگی سیاست استوار کیے ہوئے ہیں کہ اسرائیل کی عسکری قوت کوناقابلِ مقابلہ (unchallengable) ہونا چاہیے اور صرف ایک یا دو پڑوسی ملکوں یا عالمِ عربی نہیں‘ بلکہ ایران اور پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کے مقابلے میں اسرائیل کے پاس اتنی قوت ہونی چاہیے کہ وہ اس قوت کو جب چاہے اور جس موقع پر بھی وہ بزعمِ خود اپنے لیے کوئی خطرہ محسوس کرے تو بلا روک ٹوک اور جس طرح چاہے استعمال کرے۔ امریکا اور یورپ کے سامراجی ذہن نے اسے ’دفاعی اقدام‘ کا نام دیا ہے۔ جب امریکا یہ محسوس کرتا ہے کہ اسرائیل کی جارحانہ بلکہ دہشت گردانہ قوت میں کوئی کمی آرہی ہے تو آنکھیں بند کر کے اس کی قوت کو بڑھانے کے لیے جنگی سازوسامان کی ریل پیل کردی جاتی ہے۔ اسی بنیاد پر اسے نیوکلیر پاور بنایا گیا تھا۔ اس وجہ سے اسے ہرقسم کے تباہ کن اسلحے اور آلاتِ جنگ سے لیس کیا گیا‘ اسی دلیل پر ۱۹۷۳ء میں جب جنگ کا پلڑا صرف دو دن تک اس کے خلاف تھا اس کی مدد کی گئی اور اسی شرانگیز فلسفے کی وجہ سے حالیہ لبنان پر فوج کشی کے دوران امریکا نے برطانیہ کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر کے تباہ کن بم ہی نہیں بلکہ ڈیزی کٹر اور زیرزمین مضبوط پناہ گاہیں تباہ کرنے والے بم (bunker buster) تک جہازوں میں لاد کر اسے پہنچائے۔
اسرائیل نے جو تباہی مچائی ہے اور جس پر ساری دنیا کے غیر جانب دار انسان چیخ اُٹھے ہیں۔ ٭وہ بھی اسرائیل کے اس فلسفۂ جنگ اور فلسفۂ وجود پر ایک معمولی سا دھبّا بھی نہیں لگاسکے اور اسرائیل اسی بنیاد پر قائم ہے۔
۲- اسرائیل بنیادی طور پر اس علاقے کی کوئی ریاست نہیں بلکہ اس کی حیثیت ایک استعماری قوت (colonial power)کی ہے جس نے فلسطین پر صرف قوت سے قبضہ ہی نہیں کیا بلکہ اسے آبادکاروں کی نوآبادی (settler colony) بھی بنا دیا‘ یعنی استعماری قوت کو دوام دینے کے لیے نقل آبادی اور زمینی حقائق کی تبدیلی تاکہ سرزمینِ فلسطین کے اصل باشندے یا دربدر کی ٹھوکریں کھائیں (آج ۴ ملین فلسطینی اپنے وطن سے باہر زندگی گزار رہے ہیں) یا پھر محکوم اور غلام بن کر رہیں اور یورپ اور امریکا سے کاکیش نسل کے یہودیوں کو اس سرزمین پر آباد کردیا جائے اور وہ بزور اس پر قابض رہیں۔ یہ دونوں پہلو یعنی اس کا نوآبادیاتی استعماری کردار اور آبادکاروں کی حیثیت اسرائیل کی اصل شناخت ہیں۔ لیکن اس میں ایک تیسرے پہلو کا اضافہ گذشتہ ۵۰سال میں اسرائیل اور امریکا کے سیاسی گٹھ جوڑ سے نمایاں ہوگیا ہے یعنی یہ کہ اب اسرائیل ان دونوں پہلوئوں کے ساتھ عرب دنیا میں امریکا کا ایک فوجی ٹھکانا بن گیا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ پورے علاقے کو امریکا کے سامراجی مقاصد کی خاطر استعمال کرنے کے لیے وہ چوکیدار کا کردار ادا کرے۔ اسے ایک غیرجانب دار مبصر نے یوں بیان کیا ہے:
اسرائیل ایک ملک نہیں ہے بلکہ مغربی ممالک کا فوجی اڈہ ہے تاکہ شرقِ اوسط اور مسلم ممالک کے تیل کے ذخائر پر کنٹرول رکھا جا سکے۔
اسرائیل کے تمام مظالم اور خلافِ انسانیت ہلاکت کاریاں اپنی جگہ‘ اس کے اصل چہرے کا سمجھنا ازبس ضروری ہے۔
اس آئینے میں دوسرا چہرہ امریکا کا صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ امریکا اور اسرائیل کے کردار میں کوئی فرق باقی نہیں رہا ہے اور من تو شدم تو من شدی کا منظر صاف نظر آرہا ہے۔ اس لیے کہ اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے وہ امریکا کی پشت پناہی میں‘ اس کی باقاعدہ اعانت اور شمولیت سے اور اس کے علاقائی عالمی عزائم اور اہداف کے حصول کے لیے کر رہا ہے۔ یہ باہمی تعاون ایک مدت سے واضح ہے لیکن ۳۴ دن میں توہرچیز بالکل برہنہ ہوگئی ہے۔ بش اور کونڈولیزارائس نے پہلے دن سے اسرائیل کے اقدامات کی تائید کی اور صاف کہا کہ اسے حزب اللہ کو ختم کرنے اور لبنان کو سبق سکھانے کا حق حاصل ہے۔ G-8 سے لے کر روم کانفرنس تک امریکا نے تمام دنیا کی چیخ پکار اور کوفی عنان کی آہ و بکا کے باوجود فوری جنگ بندی کی پوری ڈھٹائی اور بے شرمی سے مخالفت کی‘ یورپ تک کی کوششوں کو آگے نہ بڑھنے دیا اور صاف کہا کہ اس قصے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے اسرائیل کو تین ہفتے چاہییں اور وہ اسے ملنے چاہییں لیکن جب بازی اسرائیل کے خلاف پلٹنے لگی اور ایک ایک دن میں اسرائیل کے ۳۵ فوجی ہلاک ہونے لگے تو جنگ بندکرانے کے لیے امریکا بہادر تیار ہوگیا۔ اس زمانے میں ایران کو گالیاں دی جاتی رہیں کہ اس نے حزب اللہ کو اسلحہ دیا ہے اور خود جہاز پر جہاز اسرائیل کو روانہ کیے گئے اور اس جنگ میں ایک کھلا رفیق بن گیا جس کے نتیجے میں لبنان کے ۱۲۰۰ افراد شہید‘ ۵ہزار زخمی اور ۴۰ سے ۵۰ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ پھر اسے زخموں پر نمک پاشی ہی کہا جاسکتا ہے کہ انسانی جانوں کی اس ہلاکت اور اس ہمہ گیر تباہی پر آنسو بہانے کے لیے امریکا نے ۵۰بلین ڈالر کی خطیرامداد کا اعلان کیا ہے۔ تفو برتو اے چرخ گرداں تفو۔ لبنان کے لیے واحد عزت کا راستہ یہی ہے کہ اس ۵۰بلین کی بھیک کو لینے سے انکار کردے اور ’عطاے تو بہ لقاے تو‘ کے اصول پر امریکا ہی کے منہ پر دے مارے!
یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ امریکا لبنان کا بڑا دوست بنتا تھا۔ رفیق حریری کے قتل کے بعد جو ڈراما ہوا اس کا اصل ہدایت کار امریکا ہی تھا۔ ماشاء اللہ لبنان کے کئی وزیراعظم بھی ہمارے شوکت عزیز کی طرح امریکا کے سٹی بنک ہی کا تحفہ ہیں اور شام کو بے دخل کرنے اور حزب اللہ کو غیرمؤثر بنانے کے منصوبے میں اہم کردارادا کر رہے تھے لیکن اسرائیل کی تائید میں لبنان کی امریکا نواز حکومت کو بھی بے سہارا چھوڑ دیا گیا اور اسرائیل کی جارحیت کو لگام دینے کی کوئی ظاہری کوشش بھی نہ ہوئی۔ جس نے ایک بار پھر اس حقیقت کو لبنان ہی نہیں پوری دنیا کے سامنے واضح کردیا کہ امریکا سے زیادہ ناقابلِ اعتماد کوئی ’دوست‘ نہیں ہوسکتا اور لبنان کے وہ عیسائی اور لبرل امریکا نواز بھی پکار اُٹھے کہ آزمایش کی اس گھڑی میں حزب اللہ اور حسن نصراللہ نے ہماری مدد کی اور جن کے دامن کو ہم نے تھاما تھا وہ گھر کو آگ لگانے والوں کا ساتھ دیتے رہے۔
ایک تیسرا چہرہ اقوام متحدہ کا بھی ہے۔ اس ادارے کا مقصد جارحیت کا شکار ہونے والوں کی مدد کو پہنچنا اور جارح کا ہاتھ پکڑنا ہے۔ لیکن افغانستان اور عراق پر امریکی حملوں کے وقت اس نے جو شرم ناک کردار ادا کیا‘ اس کا اظہار اس موقع پر بھی ہوا۔ ۳۴ دن تک یہ بے بسی کی تصویر بنا رہا اور امریکا کی مرضی کے خلاف کوئی اقدام نہ کرسکا۔ جب امریکا اوراسرائیل کو اپنے مقاصد میں ناکامی ہوتی نظر آئی تو جنگ بندی کی قرارداد منظور کی گئی۔
ایک چوتھا چہرہ یورپی اقوام کا بھی سامنے آتا ہے جو ایک طرف اپنے معاشی مفادات کی خاطر عرب دنیا سے قربت کا مظاہرہ کرتی ہیں اور کبھی کبھی امریکا سے کچھ اختلاف کا اظہار بھی کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود جب آزمایش کی گھڑی آتی ہے تو عملاً ان کا وزن اسرائیل اور امریکا ہی کے ساتھ ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ امریکا کھلے بندوں دل و جان سے یہ ظلم کرتا ہے اور یورپی اقوام ذرا بے دلی اور ہمدردی کے ایک آدھ بول کے ساتھ وہی کام انجام دیتی ہیں۔ ان کی دوستی اور تعاون پر بھی اعتماد دانش مندی کا تقاضا نہیں۔
اس آئینے میں ایک پانچواں چہرہ بھارت کا بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اسرائیل کی جارحیت پر خاموشی‘ لبنان اور فلسطین کی مدد اور تائید کے باب میں بے التفاتی۔ جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ امریکا اور اسرائیل سے نئی نئی دوستی پر فلسطین اور عربوں سے ساری ہمدردی سے دست برداری‘ لیکن اس سے بڑھ کر اسرائیل کو خوش کرنے اور امریکا سے دفاعی معاہدے کومستحکم کرنے کے لیے بھارت کے تمام چینلوں اور ہوٹلوں تک پر عرب چینلوں خصوصیت سے الجزیرہ کی نمایش پر پابندی تاکہ بھارت کے عوام یا بھارت میں آنے والے عرب‘ اسرائیل کے مظالم کے تصویری عکس بھی نہ دیکھ سکیں۔ یہ ہے بھارت کی ’قابلِ اعتماد دوستی‘ اور بھارت اور پی ایل او اور یاسرعرفات کی پینگوں کا حاصل!
آئینے میں ایک چھٹا چہرہ ان عرب اور مسلمان حکمرانوں کا بھی نظر آتا ہے جنھوںنے اپنے مفادات کو امریکا سے وابستہ کرلیا ہے اور اس دبائو میں اسرائیل کے ساتھ دوستی سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ان حکمرانوں میں سے تین نے تو کھل کر پوری دریدہ دہنی کے ساتھ حزب اللہ اور حماس کو موردالزام ٹھیرایا اور انھیں سرزنش بھی کی۔ اس میں مصر کے صدر بہادر‘ اُردن کے بادشاہ سلامت اور سعودی عرب کے وزیرخارجہ سب سے پیش پیش تھے۔ لیکن بات صرف ان تین کی نہیں‘ عرب لیگ جنگ بندی کے ۳۴ دن تک کوئی متفقہ موقف اختیار نہ کرسکی۔ او آئی سی نے ۲۳ دن بعد اپنے ایک ۱۱ رکنی رابطہ گروپ کا اجلاس بلایا اور پھر خالی خولی زبانی احتجاج سے آگے نہ بڑھ سکی۔ بحیثیت مجموعی تمام ہی حکمران یا خاموش رہے یا بددلی اور بزدلی کے ساتھ چند بیانات سے آگے نہ بڑھے اور اس طرح ایک بار پھر یہ بات الم نشرح ہوگئی کہ یہ حکمران اُمت مسلمہ کے حقیقی ترجمان نہیں۔ یہ اپنے مفادات کے بندے ہیں یا امریکا اور مغربی سامراج کے کاسہ لیس‘ اس سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان کے دل اُمت مسلمہ کے ساتھ نہیں دھڑکتے۔ انھیں اُمت کے مفادات کا کوئی لحاظ نہیں اور یہ عیش و عشرت کی اس زندگی کے عادی ہوچکے ہیں جسے اختیار کرنے کے بعد عزت کی زندگی کے سارے امکانات ختم ہوجاتے ہیں۔
ان چھے چہروں کے علاوہ بھی کچھ چہرے ہیں جو اسی آئینے میں نظر آتے ہیں اور بڑے روشن اور تابندہ نظر آتے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں اور سب سے درخشاں چہرہ حزب اللہ اور حماس کا ہے۔ جس چڑیا کو مارنے کے لیے اسرائیل نے توپ چلائی تھی وہ اسی طرح چہچہاتی رہی اور اسرائیل اپنی توپ و تفنگ کے ساتھ‘ ۳۴ دن تک آگ اور خون کی بارش برسانے کے باوجود اس کابال بھی بیکا نہ کرسکا۔ چند ہزار مجاہدین نے ایک عظیم مجاہد لیڈر حسن نصراللہ کی قیادت میں اسرائیل کے دانت کھٹے کردیے اور اس کے سارے غرور کا طلسم توڑ کر رکھ دیا۔ انھوں نے اللہ کے بھروسے پر جان کی بازی لگا دی۔ لبنان تباہ ہوگیا مگر ان کے عزم و ہمت پر آنچ بھی نہ آئی۔ اسرائیل نے لبنانی سرحد سے دو میل کے فاصلے پر بنت جبیل کے قصبے پر تین بارقبضہ کیا اور تینوں بار اسے پسپا ہونا پڑا۔ یہ صرف ایک معرکے کی داستان نہیں‘ یہ ۳۴ دن کے خونیں معرکے کے شب و روز کی کہانی ہے ؎
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے
اللہ کے فضل سے حزب اللہ نے اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر (invincible) ہونے کے دعوے کی قلعی کھول دی ہے۔ بے سروسامانی اور وسائل اور تعداد کے نمایاںترین بلکہ محیرالعقول فرق کے باوجود‘ اسرائیل اپنے کسی ایک ہدف میں بھی کامیاب نہیں ہوسکا۔ وہ اپنے دو فوجی چھڑانے آیا تھا‘ مگر اس نے اپنے ۲۰۰ فوجی مروا دیے اور وہ دو فوجی بدستور حزب اللہ کی قید میں ہیں‘ وہ حزب اللہ کی کمر توڑنے اور اسے صفحۂ ہستی سے مٹانے کے زعم کے ساتھ آیا تھا اور اس کی فوج ۳۴ دن کی گولہ باری اور فضائی‘ بحری اور بری جنگ کے باوجود حزب اللہ کے مقابلے کی قوت کو کم نہ کرسکی اور آخری دن میں اس نے اسرائیل پر ۲۴۶راکٹ داغے اور پہلی مرتبہ اسرائیل کو ایسے جنگی نقصانات برداشت کرنے پڑے جن سے پچھلے ۶۰سال میں بھی اس کو سابقہ پیش نہ آیا تھا۔ وہ تو سمجھتا تھا کہ عرب لڑنا نہیں جانتے اور ۶ سے ۱۷ دن میں ان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتاہے۔ اس مرتبہ اسے جنگ سے نکلنے کے لیے راستے تلاش کرنا پڑے اور پہلی مرتبہ اسرائیل کے ۲۰۰ فوجی ہلاک‘ ۵۰۰ زخمی‘ اسرائیل کے اندر ۵ہزار راکٹوں کی بارش‘ ۴ لاکھ اسرائیلیوں کا حفاظتی بنکرز میں ایک مہینہ گزارنا اور ایک ملین کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ اسرائیل پر راکٹوں کے حملے کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا ابھی اندازہ کیا جا رہا ہے لیکن ابتدائی تخمینوں کے مطابق فوجی اور سول تنصیبات کے باب میں ۵ئ۱ ملین ڈالر اور معیشت کے میدان میں ۳ سے ۵ بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ یہ مزہ اسرائیل نے پہلی بار چکھا ہے اور دنیا نے یہ منظر دیکھ لیا کہ ایمان‘ عزت و آبرو اور مناسب تیاری کے ذریعے کس طرح آج بھی وسائل کی کمی کے باوجود مسلمان دشمن کے دانت کھٹے کرسکتے ہیں ؎
فضاے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
حزب اللہ اور جہادی عزم و مسلک نے اگر اسرائیل کی قوت پر ضرب کاری لگاکر اس کے ناقابلِ شکست ہونے کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے تو وہیں ایک طرف اس نے اُمت مسلمہ کا سر اللہ کے سامنے شکرکے جذبات سے جھکا دیا ہے اور دوسری طرف مادی وسائل اور عسکری قوت کی پجاری دنیا کے سامنے عزت سے بلند کردیا ہے‘ اوروہ جنھیں کمزور سمجھ کر اہلِ قوت پامال کرنے پر تلے ہوئے تھے‘ ان کو ایک نیا عزم‘ نئی ہمت‘ نیا ولولہ اور مقابلے کی نئی اُمنگ دی ہے۔ کونڈولیزا رائس اور جارج بش دونوں نے کہا تھاکہ لبنان کوسبق سکھانے کے اس جارحانہ اقدام کے بطن سے امریکا کے حسبِ خواہش ایک نیا شرق اوسط جنم لے گا___ لیکن ان شاء اللہ ایک نیا شرق اوسط تو ضرور جنم لے گا مگر وہ امریکا کا لے پالک نہیں ہوگا بلکہ اسلامی نشاتِ ثانیہ کا پیامبر ہوگا۔ حزب اللہ اب ایک تنظیم کا نام نہیں‘ ایک عالمی تحریک کا عنوان اور تبدیلی کے رخ کا مظہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُردن کے وہی حکمران شاہ عبداللہ جس نے چار ہفتے قبل ان پر حرف زنی کی تھی وہ اب یہ کہنے پر مجبور ہوا ہے کہ:
عرب عوام کی نظروں میں حزب اللہ ہیرو ہیں‘ اس لیے کہ یہ اسرائیل کی جارحیت کا مقابلہ کر رہی ہے۔ (دی نیشن‘ ۱۲ اگست ۲۰۰۶ئ)
اور حزب اللہ کا مخالف ولید جنبلات جو دروز کمیونٹی کا لیڈر ہے اورجسے اسرائیل نے ۱۹۸۰ء کی جنگ میں حلیف بنایا ہوا تھا اب کہہ رہا ہے کہ:
آج لبنان اپنی بقا کے لیے حزب اللہ اور حسن نصراللہ کا مرہونِ منت ہے جنھوں نے اسرائیل کو شکست دی ہے۔ یہ ایک یا دوسرے حصے کو حاصل کرنے یا کھونے کا مسئلہ نہیں‘ انھوں نے اسرائیل کو شکست دی ہے۔ (دی نیشن‘ ۲۱ اگست ۲۰۰۶ئ)
یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف ہر سطح پر اور ہر حلقے میں ہو رہا ہے بجز امریکی وائٹ ہائوس کے‘ لیکن تاریخ اسے پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ حزب اللہ کے اس تابناک چہرے کے ساتھ ان ہزاروں مصیبت زدہ انسانوں کا چہرہ بھی اسی آئینے میں نظر آرہا ہے جو اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنے ہیں‘ جن کے اعزہ ہمیشہ کی نیند سلا دیے گئے ہیں‘ جن کے گھر اور کاروبار تباہ کر دیے گئے ہیں‘ جن کے ملک کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے مگر ان کا ایمان تابندہ ہے‘ ان کا عزم جوان ہے‘ جو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ رہے ہیں کہ ہمارے گھر تباہ ہوگئے ہیں لیکن ہمارا سر بلند ہے۔ سیکڑوں انٹرویو دنیا بھر کے میڈیا میں بشمول بی بی سی اس پر گواہ ہیں کہ ایک ماں جس کے جوان بچے شہید ہوگئے ہیں لیکن وہ پورے سکون سے کہتی ہے کہ ان کا غم اپنی جگہ ‘ لیکن مجھے اپنی قربانی پر فخر ہے۔
بی بی سی کا نمایندہ ایک ملبے میں تبدیل ہوجانے والے مکان کے مالک سے پوچھتا ہے: ’’آپ کو تو بڑی قیمت ادا کرنی پڑی‘‘۔ تو اس کا جواب ہے: ’’تمھیں کیا پتا نہیں‘ ہمارے ہاں ناک کی کیا اہمیت ہے۔ ٹھیک ہے‘ کچھ نہیں رہا مگر ناک تو اُونچی ہے۔ ہم سب ہیرو ہیں۔ گھر کا کیا ہے‘ وہ تو پھر بھی بن جائے گا۔ (بی بی سی‘ سیربین‘ ۱۵اگست ۲۰۰۶ئ)
یہاں سے اب کہیں اور جانا شکست ماننا ہے۔ اسرائیل اس سے زیادہ اور کر بھی کیا سکتا ہے اور گھر تباہ کردے اور بچے مار دے لیکن کیا فرق پڑتاہے۔ جو زندہ ہیں وہ ایک دن بڑے تو ہوں گے اور پھر بندوق اٹھا لیں گے۔ (ایضاً)
جس قوم میں یہ جذبات اور یہ عزائم ہوں انھیں کوئی شکست نہیںدے سکتا۔ ضرورت صحیح لیڈرشپ‘ صحیح اہداف کے تعین اور صحیح تیاری اور نقشۂ کار کے مطابق کارکردگی کی ہے۔
جن جذبات کا اظہار لبنان کے عام مسلمان ہی نہیں‘ سب مذاہب‘ مسلکوں اور قومیتوں کے لوگ کر رہے ہیں‘ وہی جذبات اور احساسات پوری دنیا کے مسلمانوں اور انصاف پسند انسانوں کے ہیں۔ اس آئینے میں عوام و خواص اور اسٹریٹ و اسٹیٹ کے درمیان جو بعدعظیم آج پایا جاتا ہے‘ اس کے ہر نقش و نگار کودیکھا جاسکتا ہے۔ استنبول کی سڑکیں ہوں یا قاہرہ کی گلیاں‘ لاہور کی شاہ راہ ہو یا جدہ اور مدینہ کے راہ گزار‘ ہر جگہ عام آدمی کے جذبات و احساسات ایک ہیں۔ اور اس فرق کو کوئی نظرانداز نہیں کرسکتا جو آج حکمرانوں اور عوام کے درمیان پایاجاتا ہے۔
یہ آٹھ چہرے اس دور کی سب سے اہم آٹھ حقیقتوں کے مظہر ہیں اور مستقبل کے نقوش کو ان کی آنکھوں کی چمک اور چہرے کے رنگ میں دیکھا جاسکتا ہے۔
معرکۂ لبنان کے اس تناظر میں اب یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جولائی کی فوج کشی کے اصل مقاصد کیا تھے؟ ۱۴ اگست کی لرزتی کانپتی جنگ بندی کے بعد اسرائیل اور امریکا کے اہداف کیا ہیں اور معرکۂ لبنان کے نتیجے میں اور اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کے مطابق وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ ط وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔ الانفال ۸: ۳۰)‘ اُمت مسلمہ کے لیے نقشۂ راہ کیا ہے؟ ان تینوں بنیادی امور کے بارے میں ہم مختصراً اپنی معروضات پیش کرتے ہیں:
جہاں تک ۱۲ جولائی سے شروع ہونے والی چھٹی اسرائیلی جنگ کا تعلق ہے‘ اس کی وجہ کا رشتہ فلسطین میں ایک اور لبنان میں دو اسرائیلی قیدیوں سے جوڑنا محض دھوکا اور سیاسی شعبدہ گری کا حربہ ہے۔ سرحدی چھیڑچھاڑ‘ فائرنگ‘ میزائل کا استعمال‘ ہوائی حملے‘ اس علاقے میں زندگی کا معمول ہیں۔ اسرائیل کے قبضے میں فی الوقت ایک ہزار فلسطینی‘ ایک سو سے زائد لبنانی جن میں سے ۳۰ کا تعلق حزب اللہ کے کارکنوںسے ہے اور ۳۰ اُردن کے باشندے ہیں۔ ماضی میں کئی بار قیدیوں کا تبادلہ ہواہے اور یہ ایک معمول کی کارروائی ہے۔ اس کا کوئی تعلق جولائی کے حملے سے نہیں۔ اس حملے کی تیاری اسرائیل دو سال سے کر رہا تھا‘ گذشتہ سال باقاعدہ اس کے لیے مشقوں کا اہتمام بھی کیا جاچکا تھا اور گذشتہ دو مہینے میں صرف جنگی سازوسامان اور رسد کی ترسیل ہی نہیں‘ امریکا کے مکمل تعاون کے ساتھ جنگ کا پورا نقشہ تیار کرلیا گیا تھا اور پوری تیاری سے یہ حملہ فوجیوں کی گرفتاری کو بہانہ بناکر کیا گیا۔ اس سلسلے میں سارے حقائق امریکا میںاور اسرائیل میں سامنے آچکے ہیں۔
امریکی رسالے دی نیویارکر کے ۲۱ اگست کے شمارے میں مشہور امریکی صحافی اور مصنف سائمورہرش (Seymour Hersh)کا مفصل مضمون شائع ہواہے جس میں پورے منصوبے کی اور اس میں امریکا کے کردار کی تفصیلات شائع ہوگئی ہیں۔ یہ اسرائیلی حملہ امریکا کے ایما پر اور اس کی اس خواہش کی تکمیل میں انجام دیا گیا کہ حزب اللہ پر بطور پیش بندی کارروائی کی جائے۔ ہرش کے الفاظ ہیں: a preemptive blow against Hezbollah
اس کا ایک مقصد ایک اہم امریکی شریک راز کے الفاظ میں یہ تھا: ہم چاہتے تھے کہ حزب اللہ کو ختم کریں‘ اب ہم دوسرے سے یہ کروا رہے ہیں‘ یعنی اسرائیل نے امریکا کے پروگرام کے تحت یہ حملہ کیا۔
اس سلسلے میں ایک بڑا اہم مضمون سان فرانسسکو کرانیکل میں ۲۱ جولائی کو حملے کے ۹ دن کے بعد شائع ہوا تھا جس میں اس چار نکاتی پروگرام کی پوری تفصیل دی گئی تھی جس میں اسرائیل نے امریکی قیادت کوا پنے منصوبے سے آگاہ کیا اور اس کی تائید اور تعاون حاصل کیا۔ امریکا کی بار اِلان (Bar-Ilan) یونی ورسٹی کے شعبۂ سیاسیات کے پروفیسر جیرالڈ سٹین برگ نے اس پوری تیاری اور منصوبے کو اس طرح پیش کیا ہے:
۱۹۴۸ء کے بعد اسرائیل نے جتنی بھی جنگیں لڑی ہیں‘ یہ ان میں سے وہ تھی جس کے لیے اس نے سب سے زیادہ تیاری کی تھی۔ ایک طرح سے ۲۰۰۰ء میں اسرائیلی فوجوں کی واپسی کے بعد سے ہی یہ تیاری شروع ہوگئی تھی۔
اس لیے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ یہ طے شدہ منصوبے کے مطابق اسرائیل کی چھٹی جنگ تھی اور اس کے متعین اہداف تھے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت سے خاک میں مل گئے۔ مگر ان کا سمجھنا ضروری ہے‘ نیز یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اس ناکامی کے باوجود اہداف نہیں بدلے ہیں اورجنگ بندی صرف تیاری اور نئی جنگ کے لیے صف بندی کا ایک وقفہ ہے‘ چین کا سانس لینے کی مہلت نہیں۔
اس وقت اسرائیل اور امریکا کا پہلا ہدف حزب اللہ کا خاتمہ‘ حسن نصراللہ کی شہادت اور لبنان کو ایک ایسی ریاست میں تبدیل کرنا تھا جو اسرائیل کی معاون بنے اور وہاں اسلامی قوتوں کے لیے زمین تنگ کردی جائے۔
حزب اللہ کے خاتمے کے ساتھ ہدف یہ بھی تھا کہ حزب اللہ کے مؤیدین کی حیثیت سے ایران اور شام پر لشکرکشی کی جائے۔ ایران پر اس کی ایٹمی صلاحیت کو تباہ کرنے کے لیے اور شام پر فلسطین کی تحریکات مزاحمت خصوصیت سے حماس اور اسلامی جہاد کی قیادت کو پناہ گاہ فراہم کرنے اور ان تحریکوں کی سیاسی مدد کرنے کے جرم میں۔ مصر اور اُردن کو قابو کرنے‘ عراق کو تباہ کرنے اور سول وار کی آگ میں جھونک دینے اور سعودی عرب اور خلیج کے ممالک کو عملاً ایک تابع مہمل بنالینے کے بعد اب ایران اور شام آنکھوں میں کانٹوں کی طرح کھٹک رہے تھے اور ساتھ ہی پاکستان اس سلسلے کا آخری ہدف ہے کہ یہ افغانستان پر امریکی قبضے کے باوجود ان کے خیال میں دہشت گردوں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔
ایک ترتیب سے اور شاید اسی ترتیب سے___ یعنی لبنان‘ایران‘ شام اور پاکستان___ نئی جنگی حکمت کی نقشہ بندی کی گئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ پہلی ہی منزل پر اسرائیل کو منہ کی کھانی پڑی ہے اور امریکا کا پورا منصوبہ طشت ازبام ہوگیا ہے لیکن یہ سمجھنا کہ اسے ترک کردیا گیا ہے‘ ہمالہ سے بڑی غلطی ہوگی۔
جنگ بندی ایک عارضی عمل ہے اور اب بھی پوری کوشش کی جائے گی کہ حزب اللہ کو غیرمسلح کرنے اور لبنانی فوج جس کی اس وقت کیفیت یہ ہے کہ اس میں عیسائیوں اور دروزی عناصر کو اکثریت حاصل ہے اور مثبت پہلو صرف یہ ہے کہ اپنے اسلحے اور تربیت کے اعتبار سے وہ کوئی بڑی قوت نہیں‘ لیکن منصوبہ یہی ہے کہ اسے اور اقوام متحدہ کی نام نہاد امن فوج کو حزب اللہ کے خلاف استعمال کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس‘ جرمنی اور اٹلی تک شاکی ہیں کہ اصل کھیل کیا ہے۔ پاکستان کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اصل نقشے کو سمجھ کر اپنی پالیسی بنائے اور اس جال میں کسی قیمت پر اور کسی شکل میں نہ پھنسے۔
مستقبل کے لیے اس نقشے میںجو توسیع کی گئی ہیں ان کو دو نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ پہلے یہ خیال تھا کہ جن ممالک میں امریکی اسرائیلی منصوبے کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے وہاں حکمرانوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن اب اس پر اضافہ یہ ہے کہ محض حکمرانوں کی تبدیلی سے دیرپا مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے اس لیے علاقوں کی حیثیت میں تبدیلی (change of region) کیا جائے یعنی عرب اور مسلم دنیا (بشمول پاکستان) کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کیا جائے جن کی نکیل بآسانی اپنے ہاتھ میں رکھی جائے۔ اس طرح اس حکمت عملی کا پہلا ستون حکمرانوں اور علاقوں کی تبدیلی ہے۔
اس کا دوسرا اور اہم ترین ستون اسلام کی تعمیرنو ہے جس کے نتیجے میں جہاد کے تصور کو نکال دیا جائے‘ اور اسلام کے سیاسی کردار کو ختم کردیا جائے۔ روشن خیال اور اعتدال پسندی کے نام پر‘ صوفیانہ اسلام کا ایک ایسا اڈیشن تیار کیا جائے کہ ظلم اور استبداد کی قوتوں کے خلاف مزاحمت کی جو عالمی تحریک اسلام کے زیراثر رونما ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی‘ اس کا دروازہ بند کردیا جائے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔
معرکۂ لبنان کی اصل اہمیت یہ ہے کہ اس نے امریکی اسرائیلی منصوبے پر اس پہلے مرحلے ہی میں بند باندھ دیا ہے۔ منصوبہ بھی کھل کر سامنے آگیا ہے اور اس کے مقابلے کا راستہ بھی کسی ابہام کے بغیر اُمت کے سامنے ہے‘ اور دشمن کو بھی اس کا پورا ادراک ہے۔
پہلی ضرورت رجوع الی اللہ کی ہے۔ مسلمان کی طاقت کا منبع اللہ کی ذات‘ ایمان کی قوت اور اخلاق و کردار کا ہتھیار‘ جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت ہے۔
دوسری بنیادی چیز اپنے اہداف اور مقاصد کا صحیح شعور اور دشمن کے اہداف اور مقاصد کا پورا ادراک ہے۔ یہ مقابلہ حقائق کے میدان میں ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ رب سے رشتہ کے ساتھ دنیاوی اعتبار سے جو نقشۂ جنگ ہے اس کا پوراشعور اور لوہے کولوہے سے کاٹنے کی حکمت عملی پر عمل ہے۔
تیسری چیز یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مسلمانوں کی قوت کا ایک بڑا سرچشمہ ان کا اتحاد ہے اور دشمن کی چالوں میں سب سے شاطرانہ چال اُمت کو قومیتوں‘ فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کرکے فاسد بنیادوں پر انھیں ٹکڑے ٹکڑے کردینا ہے۔ معرکۂ لبنان میں جس طرح شیعہ سنی مسئلے کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی‘ عراق میں جس طرح یہی خونی کھیل کھیلا جارہا ہے‘ پاکستان اور افغانستان میں جس طرح اسی حربے کو استعمال کیا جا رہا ہے‘ وہ ایک کھلی کتاب ہے۔ لیکن معرکۂ لبنان ہی کا یہ درس بھی ہے کہ معرکہ اُمت مسلمہ اور اسرائیل کے درمیان ہے‘ شیعہ سنی مسئلہ نہیں۔ یہ سارا امریکی منصوبہ ہے کہ عرب دنیا کی سنی قیادتوں کو شیعہ ہوّا دکھا کر شیعہ سنی تنازع کو ہوا دی جائے‘ ایک جنگی چال ہے جسے اُمت اور اس کی قیادتوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔
چوتھی بنیادی چیز جذباتیت سے بالا ہوکر دشمن کے مقابلے کی مؤثر صلاحیت پیدا کرنے اور صحیح منصوبہ بندی اور مقابلے کی حکمت عملی کے تحت دشمن کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔ حزب اللہ نے صرف اللہ ہی سے رشتہ نہیں جوڑا‘ اپنے عوام سے بھی قریب ترین تعلق استوار کیا‘ ان کے اعتماد کو حاصل کیا اور انھیں یہ یقین دلایا کہ وہ ان کے خادم اور محافظ ہیں اور صادق اور امین ہیں۔ ساتھ ہی وسائل کی کمی اور شدید ترین عدمِ مساوات کے باوجود‘ اپنے وسائل کے دائرے میںایسی متبادل تیاری کی جو ایف-۱۶ اور جدید ترین ٹینکوں کے نہ ہونے کے باوجود دشمن پر کاری ضرب لگانے اور ان کی فنی ٹکنالوجی کی برتری کو غیرمؤثر کرنے کا ذریعہ بن سکی۔ حزب اللہ نے اسرائیل کے ہیلی کاپٹروں‘ ٹینکوں‘ بحری جنگی جہازوں کو ناکارہ بنا دیا‘ اور گوریلا جنگ کے ذریعے اسرائیل کی اعلیٰ جنگی مشینری کو غیرمؤثر بنا دیا۔ ٹکنالوجی ہمارے لیے بھی ضروری ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ مخالف کے پاس جو کچھ ہے‘ وہ ہمارے پاس بھی ہو۔ ہاں ہمارے پاس اس کا توڑ ضرور ہونا چاہیے۔ بس یہی وہ نکتہ ہے جو معرکۂ لبنان میں بہت کھل کر سامنے آگیا ہے اور قوت اور وسائل کے شدید عدمِ تفاوت کے باوجود دشمن کو زیر کرنے کا راستہ صاف نظر آرہا ہے۔
ان نکات کی روشنی میں سب سے اہم چیز اللہ سے رجوع کے ساتھ مقابلے کی تیاری اور اس کے لیے مسلم ممالک کے اندرونی نظام کی اصلاح کو اوّلیت دینا ضروری ہے تاکہ اُمت کے وسائل اُمت کے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال ہوسکیں اور ان پر وہ قابض نہ رہیں جن کے سامنے صرف اپنی ذات کا نفع اور اپنے وسائل کو دوسروں بلکہ دشمنوں کی خدمت میں دے دینا ہو۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ جس وقت لبنان کی تباہی اور بارہ سو جانوں کی ہلاکت کے ساتھ‘ جس کی کوئی قیمت نہیں ہوسکتی‘ مادی اعتبار سے ۴۰ سے ۵۰ بلین ڈالر کا اندازہ دیا جا رہا ہے سعودی عرب برطانیہ سے دسیوں ارب ڈالر کے عوض وہ جنگی جہاز (ہوائی) کا سودا کر رہا ہے جن کا کوئی تعلق عرب ملکوں یا اسلامی دنیا کے دفاع سے نہیں ہوگا جس طرح ماضی کی ایسی تمام خریداریوں کا رہا ہے۔ خود پاکستان ۵ ارب ڈالر کے عوض ایف-۱۶ حاصل کرنے کے لیے بے چین ہے جن کا کنٹرول امریکا کے ہاتھوں میں ہوگا اور امریکا کی اجازت کے بغیر ان کو پاکستان کی حدود میں بھی حرکت میں نہیں لایا جا سکے گا۔ ان حالات کا ایک ہی تقاضا ہے کہ مسلم دنیا کے سیاسی نظام کو اُمت کی بالادستی میں لایا جائے۔ ان حکمرانوںسے نجات پائی جائے جو استعماری قوتوں کے آلہ کار ہیں اور اُمت کے وسائل میں خیانت ہی نہیں کر رہے‘ انھیں دشمن کے مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اگر حزب اللہ کو لبنان کی سیاست میں وہ حیثیت حاصل نہ ہوتی جن کی بنا پر وہ اتنا کلیدی کردار ادا کر سکی ہے تو لبنان کا معرکہ بھی تباہی کی ایک اور داستان بن جاتا لیکن اللہ سے تعلق‘ جہاد سے وفاداری‘ عوام سے رشتہ‘ مناسب تیاری اور اس کے ساتھ مؤثر سیاسی حکمت عملی نے معرکۂ لبنان کو تاریکیوں میں روشنی کی ایک تابناک کرن بنا دیا ہے___ اور یہی وہ روشنی ہے جو ہمارے مستقبل کو تابناک کرسکتی ہے۔
عالمِ اسلام میں یہودیوں کو زندگی کی ہرآسایش اور ترقی کا ہر موقع تاریخ کے ہر دور میں حاصل رہا اور جب عیسائی دنیا میں ان کے لیے عزت سے زندہ رہنے کا ہر موقع معدوم کردیا گیا اور ظلم اور تعصب نے نسل کشی کی شکل اختیار کرلی تو مسلم ممالک اور خصوصیت سے عرب دنیا نے ان ستم زدہ یہودیوں کے لیے اپنے دروازے ہی نہیں‘ اپنے سینے بھی کھول دیے۔ لیکن خالص سیکولر اور استعماری مقاصد کے لیے قائم ہونے والی صہیونی (Zionist) تحریک نے اس تاریخی احسان کا بدلہ اس طرح دیا کہ سرزمینِ فلسطین پر جبر اور تشدد‘ دھوکا اور دغا‘ استعماری طاقتوں سے سازباز اور بالآخر ننگی دہشت گردی کا ہر حربہ استعمال کر کے قبضہ جمانا شروع کر دیا اور خصوصیت سے پہلی عالمی جنگ کے فوراً بعد‘ اعلان بالفور کے سایے تلے ۳۰ سالہ عملی جنگ کے ذریعے اپنا تسلط قائم کرلیا جسے اقوام متحدہ کی ۱۹۴۸ء کی ایک غیرقانونی قرارداد کے ذریعے ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔
اسرائیل نے اس پر بھی قناعت نہ کی اور بار بار کی فوج کشی کے ذریعے اپنے تسلط کے دائرے کو برابر وسیع کیا اور بالآخر ۱۹۶۷ء میں پوری ارض فلسطین اور شام کی گولان پہاڑیوں‘ لبنان کے چند جنوبی سرحدی علاقوں اور مصر کے وسیع و عریض صحراے سینا پر قبضہ کرلیا۔ ۱۹۷۳ء کی جنگِ رمضان کے بعد عرب ریاستوں نے مسئلہ فلسطین سے جان چھڑانے کی روش تیز کردی اور کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو معاہدے کے ذریعے اپنے اپنے مفادات کے حصول کی جدوجہد میں لگ گئے۔ ان حالات سے دل برداشتہ ہوکر فلسطین کے عوام نے اسرائیلی سامراجی قبضے کے خلاف اپنی آزادی کی جدوجہد شروع کی اور الفتح کے جھنڈے تلے اسرائیل کے قبضے کو چیلنج کیا لیکن جب الفتح نے جنگِ آزادی کو مذاکرات کی میز پر تحلیل کرنے کا عمل شروع کردیا‘ نیز اپنے سیاسی رخ کو سیکولرزم اور امریکا سے مفاہمت کے سانچوں میں ڈھال لیا توالقدس کے غیور مسلمانوں نے حماس اور اسلامی جہاد کی شکل میں اسلام کے پرچم تلے آزادی کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ عرب حکومتیں اپنی تمام مادی دولت اور عسکری وسائل کے باوجود جدوجہد میں شرکت ہی سے نہیں‘ اس کی تائید سے بھی عملاً دست کش ہوتی گئیں اور اسرائیل سے الگ الگ کھلے یا خفیہ معاہدات کرکے راہ و رسم استوار کرنے میں مشغول ہوگئیں لیکن حماس نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور بالآخر یہ ثابت کردیا کہ وسائل اور قوت کے شدید ترین عدمِ توازن کے باوجود اسرائیل اور اس کے پشتی بانوں کو نہ صرف چیلنج کیا جاسکتا ہے بلکہ پسپائی پر بھی مجبور کیاجاسکتا ہے۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں عسکری میدان میں اپنا لوہا منوانے کے بعد حماس نے سیاسی جمہوری عمل میں شرکت کر کے اپنی عوامی تائید اور اس تائید کی بنیاد پر سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ غزہ اور غرب اُردن کی ٹوٹی پھوٹی فلسطین اتھارٹی کے جنوری ۲۰۰۶ء کے انتخابات میں ان کی کامیابی نے سیاسی نقشے کو بدل کر رکھ دیا اور اسرائیل اور مغربی دنیا سے ان کی کش مکش ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔ امریکا اور یورپی اقوام نے جمہوریت کے احترام اور فروغ کے بارے میں اپنے تمام تر اعلانات کے باوجود فلسطینی عوام کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور سیاسی‘ معاشی‘ مالیاتی ہر حربہ استعمال کرڈالا کہ حماس مسندِاقتدار پر متمکن نہ ہوسکے اور جب اس میں کامیاب نہ ہوسکے تو پھر اس کی حکومت کو آغازِ کار (take off) کے ہرامکان سے محروم کرنے میں لگ گئے۔
اس پورے عرصے میں اسرائیل حماس‘ اسلامی جہاد‘ اور فلسطین کی ہر قابلِ ذکر قوت اور عام آبادی کو مسلسل فوج کشی‘ قتل و غارت گری‘ target killing ‘ اغوا‘ غیرقانونی اور غیرعدالتی گرفتاریوںکا نشانہ بناتا رہا۔ جو ٹیکس فلسطین کے باشندوں سے وصول کیا جاتا ہے‘ اس تک کی ادایگی کو روک دیا گیا۔ تمام بین الاقوامی امداد کو بند کردیا اور دنیابھر کے بنکوں حتیٰ کہ مسلمان اور عرب ممالک کے بنکوں تک پر پابندی لگادی کہ حماس اوراس کی حکومت کو کوئی مالی منتقلی (financial remittance) نہیں کرسکتے۔ اس طرح ایک پوری قوم کو صرف زیرحراست (under siege) ہی نہیں لایا گیا بلکہ عملاً اس کی نسل کشی (genocide) کا آغاز کردیا۔
حماس نے ان تمام حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا‘ طیش میں آکر جنگ کا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ تمام اسرائیلی دراندازیوں‘ حملوں‘ گرفتاریوں‘ میزائل کی بارشوں کے باوجود عملاً جنگ بندی کے ذریعے بہتر فضا پیدا کرنے کی کوشش کی اور دوسری جہادی قوتوں کو بھی صبر اور تحمل کی تلقین کی لیکن اسرائیل کی اشتعال انگیزیوں (provocations) میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور معصوم فلسطینیوں پر حملوں اور متعین افراد کے قتل ناحق کا سلسلہ جاری رہا۔ ان حالات میں ایک جہادی گروہ نے اسرائیلی فوج سے ایک جھڑپ میں دو اسرائیلیوں کو ہلاک اور ایک کو جنگی قیدی بنالیا۔ اس کو بہانہ بنا کر اسرائیل نے بڑے پیمانے پر فوج کشی اور تباہی پھیلانے کی کارروائیوں کا آغاز کردیا اور ۲۵ جون ۲۰۰۶ء سے ۲۰جولائی تک ۱۳۰ فلسطینیوں کو شہید کردیا جن میں عورتوں‘ بچوں کی تعداد ۷۰/۸۰ فی صد ہے۔ بجلی کے نظام‘ سڑکوں‘ پُلوں‘ اسکولوں‘ ہسپتالوں‘ اشیاے ضرورت کے ذخیروں‘ شہری علاقوں اور بازاروں کو تباہ کر کے غزہ کے پورے علاقے کے معاشی اور اجتماعی بنیادی ڈھانچے (infrastructure) کو تباہ کردیا۔
اہلِ فلسطین پر دبائو کو کم کرنے کے لیے لبنان کی حزب اللہ نے‘ جو ۱۹۸۲ء سے مختلف شکلوں میں اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنی ہوئی ہے اور ۲۰۰۰ء میں جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوج کے انخلا کے معاہدے کے باوجود مسلسل اشتعال انگیزی کا ہدف تھی‘ ایک فوجی کارروائی کے ذریعے چنداسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کرنے کے ساتھ دو کو جنگی قیدی بنانے کا کارنامہ سرانجام دیا۔ یہ معرکہ ۱۲جولائی ۲۰۰۶ء کو پیش آیا اور اس کے بعد سے تادمِ تحریر ۹دن میں لبنان پر کھلی فوج کشی کے ذریعے ۳۰۰ سے زیادہ لبنانی سول شہریوں کو شہید کیاجاچکا ہے جن میں ایک تہائی تعداد معصوم بچوں کی ہے اور غزہ کی طرح لبنان کے بھی پورے سول ڈھانچے کو تاراج کردیا ہے جس سے اربوں ڈالر کا نقصان ہواہے اور ۲۰سال میں لبنان نے جوکچھ بنایا تھا اسے خاک میں ملا دیا گیا ہے۔
اسرائیل حماس کی جنوری ۲۰۰۶ء کی کامیابی سے اب تک چھے ماہ میں جن جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرچکا ہے اور کررہاہے اس پر پوری مغربی دنیا بشمول اقوام متحدہ خاموش ہے‘ جب کہ امریکا اور برطانیہ کھلے طور پر اور جرمنی ذرا ڈھکے چھپے انداز میں اسرائیل کی تائید اور حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک معاملہ عرب دنیا اور مسلمان ممالک کا ہے کہ وہ ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنے ہوئے ہیں بلکہ مصر‘ سعودی عرب اور اُردن کی قیادتوں نے تو زخموں پر نمک پاشی سے بھی گریز نہیں کیا ہے اور مظلوم فلسطینی مجاہدین اور حزب اللہ کے جاں بازوں ہی کو مورد الزام ٹھیرانے سے بھی باز نہیں رہے ہیں۔ مسلمان عوام دل گرفتہ ہیں اور ان کے دل میں خوف نہیں وہ عملاً احتجاج کے لیے اُٹھ رہے ہیں لیکن حکمران بے حس اور امریکا اور اسرائیل سے اتنے خائف ہیں کہ اس ننگی جارحیت اور معصوم انسانوں کے خلاف ان کھلے کھلے جرائم پر زبان سے تنقیدکرنے کی بھی جرأت نہیں کر رہے اور اگر کسی نے کچھ کہا بھی ہے تو بھی بہت ہی دبے لفظوں میں اور ’اگر‘ اور ’مگر‘ کے ساتھ۔
وہ مغربی اقوام جو بالکل امریکا کی گود میں نہیں بیٹھی ہوئی ہیں یا جن کے مفادات مشرق وسطیٰ سے اس طرح وابستہ ہیں کہ ان ملکوں کے عوامی ردعمل کو خطرناک سمجھتی ہیں‘ وہ بھی بڑے معذرت خواہانہ انداز میں اسرائیل کو بڑے ادب کے ساتھ تحمل کا مشورہ دے رہی ہیں اور تنقید کا ہدف حماس اور حزب اللہ ہی کو بنا رہی ہیں۔ مغربی میڈیا پہلے ہی سے اسلام کے خلاف جنگ میں مصروف ہے اور ان کا رویہ بھی الا ماشا اللہ معاندانہ اور جارحانہ ہی ہے۔ طوطے کی طرح رٹ لگائی ہوئی ہے کہ تصادم کا آغاز حماس اور حزب اللہ کی طرف سے ہوا ہے اور اسرائیل اپنے دفاع میں ساری کارروائی کر رہا ہے گو یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ اسرائیل کا ردعمل متناسب (proportionality) کی حدود سے بڑھ گیا ہے۔ ان حالات میں اس بات کی ضرورت ہے کہ دلیل کے ساتھ مسئلے کی تنقیح کی جائے اور ان خطوط کی نشان دہی کی جائے جن پر اُمت مسلمہ اور دنیا کے حق پسند اور امن دوست انسانوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
پہلی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ فلسطین کے عوام اور کم از کم شام اور لبنان کے عوام (اور حکومتیں بھی اگر وہ اپنی ذمہ داری محسوس کریں) اسرائیل کے ساتھ اصلاً جنگ کے عمل میں ہیں۔ گو یہ سلسلہ ۱۹۴۸ء اور اس سے پہلے سے شروع ہوگیا تھا لیکن ۱۹۹۷ء کے بعد سے تو حالتِ جنگ کی اصل حقیقت میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے جسے عملاً جنگ بندی کہا جاتاہے‘ وہ بھی واجبی سی ہے اور قانونی اور اخلاقی ہر دواعتبار سے خاصی مشتبہ ہے۔ نیز اسرائیل خود اس پورے عرصے میں یک طرفہ طور پر فوجی دراندازیاں‘ گرفتاریاں اور سول تنصیبات کی تباہیاں پورے تسلسل اور تحدی کے ساتھ کرتا رہا ہے اس لیے فریق ثانی کو بھی ردعمل کا مساوی حق حاصل ہے۔
فلسطین کی انتظامیہ کو یاسرعرفات کے دور سے لے کر آج تک‘ اور خصوصیت سے حماس کی کامیابی کے بعد‘ جس رعونت اور ڈھٹائی سے تباہ کیا گیا ہے‘ وہ مسلسل اشتعال انگیزی اور یک طرفہ اعلان شدہ جنگ (declared war) کی حیثیت رکھتا ہے۔ کئی ہزار فلسطینی شہید کیے جاچکے ہیں اور حماس کی قیادت کو تو نشانہ بنا کر مارا گیا ہے۔ لندن کے اخبار گارڈین کے مطابق ۱۹۶۷ء سے اب تک ۶ لاکھ ۵۰ ہزار بار ارض فلسطین کو نشانہ بنایا جا چکا ہے اور اس وقت بھی اسرائیل کے عقوبت خانوں اور جیلوں میں ۹ہزار فلسطینی حراست میں ہیں‘ حتیٰ کہ حماس کی کابینہ کے ارکان اور پارلیمنٹ کے نومنتخب ارکان کی ایک بڑی تعداد تک اغوا اور حراست کا شکار ہے۔ اگر یہ سب اشتعال انگیزی نہیں تو کیا ہے؟ حالتِ جنگ میں کسی بھی جنگی آپریشن میں جنیوا کنونشن میں جنگی قیدیوں کی ایک پوری category ہے اور مشہور تیسری اور چوتھی کنونشنز کا تعلق ان ہی سے ہے۔ پھر اسرائیل کے ساتھ اس سے پہلے بھی فلسطین اور لبنان دونوں کے ساتھ جنگی قیدیوں اور زیرحراست افراد کے تبادلے کا عمل ہوچکا ہے۔ ان سب کی موجودگی میں محض تین سپاہیوں کے جنگی قیدی بنائے جانے کو ارضِ فلسطین اور لبنان کو اس طرح تباہ و برباد کرکے اور سیکڑوں سول شہریوں‘ عورتوں اور بچوں کو فضائی‘ زمینی اور بحری فوج کشی کے ذریعے قتل کرنے کے لیے وجہ جواز کیسے بنایا جاسکتا ہے۔
لبنان کے ساتھ بھی ۲۰۰۰ء کے معاہدہ انخلا کے باوجود لبنان کے متعدد سرحدی علاقے اور کھیت اسرائیل کے قبضے میں ہیں اور حزب اللہ کے متعدد رکن اور جنوبی لبنان کے شہری اسرائیل کی حراست میں ہیں۔ حزب اللہ فلسطین کے زیرحراست افراد کو بھی اپنی عرب برادری کا حصہ قرار دیتی ہے۔ جنگی فضا کے ان حالات میں جہاں روزانہ اسرائیل کی طرف کوئی نہ کوئی کارروائی ہو رہی ہو‘ فلسطین کے کسی جہادی گروپ یا حزب اللہ کی طرف سے اسرائیلی فوجیوں کے خلاف متعین کارروائی کو اس طرح اور اس پیمانے پرفلسطین اور لبنان کو تباہ کرنے کے لیے بہانہ بنانا ایک صریح دھوکا اور مغالطہ دینے کی کوشش ہے اور اپنے جنگی جرائم پر پردہ ڈالنے کی ناکام سعی ہے۔
بات صرف اتنی نہیں‘ اصل مسئلہ ارض فلسطین اور دوسری عرب اراضی پر اسرائیلی قبضہ ہے جو علاقے کی خودمختار ریاستوں (sovereign states) کا حصہ ہیں۔ مرکزی ایشو اسرائیلی قبضہ ہے اور جہاں قبضہ ہوگا وہاں مزاحمت (resistance) فطری ردعمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی قانون‘ اقوام متحدہ کا چارٹر اور غیر جانب دار تحریک کا چارٹر سب محکوم قوم کے جدوجہد آزادی کے حق کو تسلیم کرتے ہیں اور اس نوعیت کی مسلح مزاحمت کو بھی دہشت گردی کے زمرے میں شامل نہیں کرتے۔
اسرائیل اور امریکا کا سارا کھیل ہی یہ ہے کہ وہ قبضے کو اصل ایشو کے طور پر سامنے نہیں آنے دیتے اور مزاحمت کو مسئلہ بنا کر پیش کرتے ہیں‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اصل مجرم اسرائیل ہے اور جب تک ارضِ فلسطین پر اس کا ناجائز قبضہ ختم نہیں ہوتا اور علاقے کے اصل باشندوں کو اپنی زمین پر حقِ حکمرانی حاصل نہیں ہوتا کش مکش‘تصادم اور خون خرابہ ختم نہیں ہوسکتا۔
اس مرکزی نکتے کی روشنی میں دوسرا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کیا استعماری قبضے کے سلسلے میں محکوم انسانوں کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی‘ اپنے ایمان‘ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کریں اور اس جدوجہد میں جس قربانی کی ضرورت ہو‘ وہ پیش کریں یا سامراجی اقتدار کے آگے سپرڈال دیں اور محکومی‘ غلامی اور استبداد کے سامنے سپردگی (surrender) کا راستہ اختیار کرلیں۔ ہر حق پرست انسان یہ گواہی دے گا اور تاریخ کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ استبدادی اقتدار کچھ عرصے تو ضرور چل جاتا ہے لیکن بالآخر اس کے خلاف مزاحمت اُبھرتی ہے اور کامیاب ہو کر رہتی ہے۔ خود مغربی استعمار کی ۴۰۰ سالہ تاریخ اسی نشیب و فراز کی تاریخ ہے اور استعماری قوتوں کی بالآخر پسپائی کی تاریخ ہے۔ حال اور مستقبل کا نقشہ بھی اس سے مختلف نہیں ہو سکتا۔ ہر استعماری قوت نے اپنے کو ناقابلِ تسخیر سمجھا ہے اور اپنی سیاسی‘ معاشی اور عسکری قوت کے بل پر دوسروں کو محکوم رکھنے کی کوشش کی ہے مگر بالآخر اسے اپنے سامراج کو پسپا ہونا پڑا ہے اور سامراج کی یہ پسپائی صرف مزاحمت کے راستے ہی سے حاصل کی جا سکتی ہے‘ سپردگی کی حکمت عملی اختیار کرنے والے کبھی بھی آزادی اور عزت کا مقام حاصل نہیں کرسکتے۔
فلسطین اور لبنان میں جو جدوجہد آج حماس اور حزب اللہ کر رہے ہیں‘ اسے تاریخ کے اس منظر ہی میں سمجھاجا سکتاہے اور اس پہلو سے حماس کی گذشتہ ۲۰ سال پر پھیلی ہوئی جدوجہد اور خصوصیت سے جنوری کی انتخابی فتح کے بعد اس کی استقامت اور حکمت عملی اور حزب اللہ کی ۱۹۸۲ء سے اب تک کی جدوجہد اور خصوصیت سے ۲۰۰۰ء میں جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوجوں کی واپسی میں ان کاکردار اس بات پر شاہد ہے کہ اسرائیل کے غرور اور اس کی عسکری بالادستی کو نہ صرف چیلنج کیا جاسکتا ہے بلکہ اسے پسپائی پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ مسئلہ قوت کی مساوات کا نہیں‘ موقف کی حقانیت اور صداقت اور ظلم اور سامراجیت کے خلاف مزاحمت کے لیے عزم‘ ہمت‘ استقامت اور ناقابلِ تسخیر ارادے کا ہے۔ وسائل بلاشبہہ ضروری ہیں لیکن ارادہ ہو تو وسائل بھی حاصل کیے جاتے ہیں لیکن ارادہ ہی کمزور ہو یا موجود نہ ہو تو پھر دولت کے انبار اور اسلحے کی بھرمار بھی کسی کام نہیں آتے۔ جیساکہ شرق اوسط کی عرب حکومتوں کی بے بضاعتی کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک طرف اسرائیل کی فوجی قوت اور امریکا کی سیاسی‘ مالی‘ فنی اور اسلحے کی بے دریغ فراہمی کا عالم ہے اور دوسری طرف حماس کے مفلوک الحال اور حزب اللہ کے چند ہزار جاں بازوں کی وسائل سے محرومی۔ لیکن ۲۵جون اور ۱۲ جولائی کے واقعات اور ان کے جِلو میں ہونے والے سارے معرکے اور تباہ کاریاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل کوئی ناقابلِ تسخیر قوت نہیں‘ بے یارومددگار مجاہد بھی اس کا ناطقہ بند کرسکتے ہیں۔
الحمدللہ حزب اللہ نے اسرائیل کے غرور کو خاک میں ملا دیا ہے۔ حیفہ پر میزائل داغ کر انھوں نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ لڑائی اسرائیل کے گھر تک لے جائی جا سکتی ہے اور امریکا کے دیے ہوئے پیٹریٹ (patriot) جو اعلیٰ ترین میزائل شکن (anti-missile) اسلحہ سمجھے جاتے ہیں‘ دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ پھر اسرائیل کے ان ہوائی اور بحری جنگی جہازوں کی تباہی جو اعلیٰ ترین ٹکنالوجی سے لیس تھے اور جن پر امریکا اور اسرائیل دونوں کو فخر تھا اس بات کا ثبوت ہیں کہ دستی میزائل سے بھی ان اعلیٰ درجے کی جنگی مشینوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ جنوبی لبنان میں تین دن سے زمینی جنگ جاری ہے مگر ۲۴گھنٹے میں علاقے کو فتح کرکے‘ تاراج کرکے‘ واپس آجانے کا دعویٰ کرنے والی فوج چند کلومیٹر بھی آگے نہیں بڑھ سکی ہے اور اسرائیلی فوجی ہلاک اور ٹینک تباہ ہونے کی اطلاعات آرہی ہیں۔ اسرائیل کی عسکری قوت کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے غبارے سے ہوا نکل رہی ہے۔ یہ حماس اور حزب اللہ کا بہت بڑا کارنامہ ہے جس نے مجبور اور محکوم عوام کو مقابلے کا نیا جذبہ دیا ہے۔ لبنان کو تباہ کردیا گیا لیکن لبنان سے عام مسلمان ہی نہیں‘ عیسائی بھی حزب اللہ کی مزاحمت پر فخر کا اعلان کر رہے ہیں اور ایک عرب خاتون جس کا گھراسرائیل کی گولہ باری سے تباہ ہوگیا اور جسے گولوں کی بارش اور آگ کے شعلوں کی یورش میں درد زہ میں ہسپتال لایا گیا‘ اس نے ایک نئی جان کی ولادت کے بعد عرب قوم اور ملت اسلامیہ ہی کو نہیں اسرائیل کو بھی بڑا مؤثر پیغام دیا جب اس نے اپنے نومولود لڑکے کا نام حاتف رکھا جو اس میزائل کا نام ہے جس سے حزب اللہ نے حیفا کو نشانہ بنایا تھا۔ جس قوم میں یہ جذبہ اور عزم ہو‘ اسے صرف برتر ٹکنالوجی کی قوت سے محکوم نہیں رکھا جاسکتا۔ یہی حماس کا پیغام ہے‘ اور یہی پیغام عراق‘ افغانستان‘ کشمیر‘ شیشان کی تحریکاتِ مزاحمت کا بھی ہے۔
اسرائیل اور امریکا کا اصل کھیل یہ تھا کہ اسرائیل تیزرفتار اقدام (sharp action) کے ذریعے لبنان کو اتنا تباہ کردے کہ اہلِ لبنان تنگ آکر حزب اللہ سے جان چھڑانے کی کوشش کریں۔ حکومت کی تبدیلی اصل ہدف تھا۔ اس کے ساتھ یہ مقصد تھا کہ اس طرح اسرائیل کا شمالی محاذ خاموش کردیا جائے‘ جنوبی لبنان کو حزب اللہ سے پاک کرلیا جائے اور وہاں اقوام متحدہ کے مبصرین کو لاکھڑا کیا جائے اور پھر اسرائیل غزہ اور غرب اُردن کا جو تیاپانچا کرنا چاہتا ہے‘ وہ کسی بڑی مزاحمت کے خطرے کے بغیر کرڈالے۔ لیکن صاف نظر آرہا ہے کہ یہ منصوبہ پورا نہیں ہوگا۔ امریکا نے اسرائیل کو ایک سے دو ہفتے دیے تھے کہ جتنی تباہی چاہتے ہو مچا ڈالو‘ پھر ہم سفارتی عمل کے ذریعے تمھاری عسکری فتوحات کو مستقل سیاسی نقشہ کا حصہ بنا دیں گے لیکن ان شاء اللہ یہ مقاصد خاک میں مل کر رہیں گے۔
اب اسرائیل کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ عرب اور مسلم دنیا کے عوام اُٹھ رہے ہیں اور خود اپنے حکمرانوں کا احتساب کر رہے ہیں۔ ترکی میں‘ استنبول میں لاکھوں افراد کا احتجاجی جلوس نکلا ہے اور ایک ہزار ایک سو ۳۴ کلومیٹر کا جلوس ایک امریکی فوجی چھائونی سے لے کر استنبول تک زنجیر (chain rally) کی شکل میں ۱۷ جولائی ۲۰۰۶ء کو ہواہے جس نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ قاہرہ میں مظاہرے شروع ہوگئے ہیں اور لوگ کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ ایک قائد حسن نصراللہ ہے جس نے ۱۹۹۳ء میں اپنے بیٹے کی اسرائیل کے خلاف جہاد میں شہادت کا تمغا سینے پر آویزاں کیا ہے اور آج بھی اسرائیل کو چیلنج کر رہا ہے اور ایک حکمران مصر کا ہے جواپنے بیٹے کو اپنا جانشین بنانے کے لیے ہاتھ پائوں ما ررہا ہے۔ (ملاحظہ ہو‘انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ ۲۰جولائی ۲۰۰۶ء کی قاہرہ کی رپورٹ On the Streets, Prayer for Hezbullah)
اسرائیل کے مشہور اخبار Haaretz نے اپنے اداریے میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ اس طرح خون خرابا کر کے ہم کب تک اس علاقے میں رہ سکتے ہیں۔ آخر تو ہمیں ان لوگوں کے ساتھ ہی رہنا ہے۔ ہمیں اپنے رویے پر غور کرکے طویل عرصے کی حکمت عملی بنانی چاہیے۔ قیدیوں کے تبادلے کے مطالبے کو حقارت سے رد کرکے اسرائیلی وزیراعظم نے کہا تھا کہ ہم مخالف قوت کو نیست و نابود کردیں گے۔ اس کی کابینہ کے ایک وزیر نے کہا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت ہوسکتی ہے اور یروشلم سے انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے نمایندہ Steven Eslanger نے The Use of Force: Ruthless or Requiredکے عنوان سے اپنی رپورٹ کا خاتمہ اس جملے پر کیا ہے کہ:
Wars end with diplomacy, You can't win a war with F-16's alone. (July 19, 2006)
جنگوں کا اختتام سفارت کاری پر ہوتا ہے۔ آپ محض ایف-۱۶ سے کوئی جنگ نہیں جیت سکتے۔
ابھی اس جنگ کو اپنی موجودہ شکل میں ۹ دن ہی ہوئے ہیں اور اسرائیل کے ۳۰ افراد ہلاک اور ۱۵۰ زخمی ہوگئے ہیں۔ اگر عزم و ایمان ہو تو نامساوی قوت سے بھی بڑے بڑے معرکے سرکیے جاسکتے ہیں۔
اس معرکے کا ایک اور بڑا اہم اور غورطلب پہلو یہ ہے کہ اس وقت جب امریکا کی ساری عالمی سیاسی حکمت عملی اسلام کے خلاف جنگ میں سنی اور شیعہ فرقوں کو باہم دست و گریبان کرنا‘ تقسیم در تقسیم کرنا‘ ان کے درمیان سول وار کی کیفیت پیدا کرنا اور عالمِ اسلام میں شیعہ سنی محاذآرائی کو فروغ دے کر مبنی بر مسلک ریاستوں کو جنم دینا ہے‘ حماس کی سنی قوت اور حزب اللہ کی شیعہ جماعت القدس کی عصمت کی حفاظت کے لیے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ایک دوسرے کی تقویت کا ذریعہ اور مشترک دشمن پر ضرب کاری لگانے میں تعاون کا بہترین نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ یہ وہی نمونہ ہے جو متحدہ مجلس عمل اور اس سے پہلے ملّی یک جہتی کونسل کی شکل میں پاکستان میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فلسطین اور لبنان میں حماس اور حزب اللہ کا تعاون اور کامیابی ملت اسلامیہ کے اتحاد کا پیش خیمہ اور دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کا ذریعہ بن کر ایک نئے دور کے آغاز کے امکان کو روشن کرسکتا ہے۔
ایک اور پیغام اس معرکے کا یہ بھی ہے کہ مسلم ممالک اور عرب ممالک کی موجودہ قیادتیں ہراعتبار سے اُمت کے اعتماد سے محروم ہوچکی ہیں اور اُمت مسلمہ کے سیاسی‘ معاشی‘ عسکری اور تہذیبی احیا کی راہ میں رکاوٹ بن چکی ہیں۔ مسئلہ ان کی بے بسی کا نہیں‘ بے حسی کا اور اللہ اور اُمت دونوں سے وفاداری کے رشتے کو منقطع کرلینے کا ہے۔ اگر یہ قیادتیں اب بھی اپنے کو نہیں بدل سکتیں تو پھر ان کو بدلنے کے سوا زندگی اور ترقی کا کوئی راستہ نہیں۔ اُمت کے سواداعظم کو اپنا اصل مقام حاصل کرنے کے لیے خود اپنے گھر کی اصلاح اور قیادت اور قوم کے درمیان بُعد بلکہ تضاد پیدا ہوگیا ہے‘ اسے جلد از جلد دُور کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ہماری صلاحیتیں قوم اور قیادت میں تصادم میں ضائع ہو رہی ہیں۔ ہمیں ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو قوم کی اُمنگوں کی ترجمان ہو۔ عام مسلمان کے دل میں اب بھی ملّی جذبات موج زن ہیں‘ لیکن قوم کے دل اور قیادتوں کے دل ایک ساتھ حرکت نہیں کر رہے۔ اب ایک ایسی قیادت ہی حالات کو بدلنے کا ذریعہ بن سکتی ہے جو قوم کے دل کی ترجمان ہو اور اس رکاوٹ کو دُور کیے بغیر قومی اور عالمی سطح پر مسلم اُمت اپنا صحیح کردار ادا نہیں کرسکتی۔ فلسطین اور لبنان آج آگ کے شعلوں کی گرفت میں ہیں لیکن یہ آگ گلزار بن سکتی ہے اگر اسوۂ ابراہیمی ؑکو اختیار کیا جائے۔ القدس آج پوری اُمت مسلمہ کو اس جدوجہد کی طرف دعوت دے رہا ہے۔
بیسویں صدی میں اُمتِ اسلامیہ کے علمی اُفق کو جن روشن ستاروں نے تابناک کیا‘ ان میں جرمن نومسلم محمد اسد (لیوپولڈ ویز) کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اسد کی پیدایش ایک یہودی گھرانے میں ۱۹۰۰ء میں ہوئی۔ ۲۳ سال کی عمر میں ایک نوعمر صحافی کی حیثیت سے عرب دنیا میں تین سال گزارے اور اس تاریخی علاقے کے بدلتے ہوئے حالات کی عکاسی کے ذریعے بڑانام پایا لیکن اس سے بڑا انعام ایمان کی دولت کی بازیافت کی شکل میں اس کی زندگی کا حاصل بن گیا۔ ستمبر۱۹۲۶ء میں جرمنی میں مشہور خیری برادران میں سے بڑے بھائی عبدالجبار خیری کے دستِ شفقت پر قبولِ اسلام کی بیعت کی اور پھر آخری سانس تک اللہ سے وفا کا رشتہ نبھاتے ہوئے اسلامی فکر کی تشکیل اور دعوت میں ۶۶سال صرف کر کے بالآخر ۱۹۹۳ء میں رب حقیقی سے جاملے۔
محمداسد کی داستان محض ایک انسان کی داستان نہیں‘ ایک تاریخ ساز دور کی علامت اور عنوان ہے۔ ایک بے تاب روح‘ خطروں کو انگیز کرنے والا ایک نوجوان‘ ایک تہذیب سے ایک دوسری تہذیب کا مسافر‘ ایک محقق اور مفکر‘ ایک سیاسی تجزیہ نگار اور سفارت کار‘ اور سب سے بڑھ کر قرآن کا ایک مخلص خادم___ اسد کی چند آرا سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن فکری اور تہذیبی میدانوں میں ان کے مجتہدانہ اور مجاہدانہ کارناموں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
اسد نے مسلمانوں کی نئی نسلوں کے افکار کو متاثر کیا اور اسلامی دنیا میں اپنا مقام بنایا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ بیسویں صدی میں‘ مغربی دنیا سے دائرۂ اسلام میں داخل ہونے والے اشخاص میں سب سے نمایاں مقام محمداسد ہی کو حاصل ہے اور بجاطور پر زیرنظر کتاب میں اسے ’اسلام کے لیے یورپ کا تحفہ‘ قرار دیا گیا ہے۔ ان کے لیے یہ الفاظ ایک دوسرے جرمن نومسلم ولفریڈ ہوف مین (Wilfred Hoffman)نے استعمال کیے ہیں‘اور یہ بھی بڑا نادر توارد ہے کہ خود مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے بھی چودھری نیاز علی خاں صاحب کے نام اپنے ایک خط میں غالباً ۱۹۳۶ء میں محمداسد کے بارے میں یہ تاریخی جملہ لکھا تھا: ’’میرا خیال یہ ہے کہ دورِ جدید میں اسلام کو جتنے غنائم یورپ سے ملے ہیں‘ ان میں یہ سب سے زیادہ قیمتی ہیرا ہے‘‘۔
یہ تحقیقی کتاب اس ہیرے کی زندگی‘ خدمات اور نگارشات پرمشتمل ہے جسے محمد اکرام چغتائی صاحب نے بڑی محنت‘ محبت اور قابلیت سے مرتب کیا ہے اور اس سلسلے میں اُمتِ مسلمہ پر بالعموم اور ملتِ اسلامیہ پاکستان پر بالخصوص جو قرض تھا‘ اسے فراخ دلی سے اداکردیا ہے۔ یہ ایک فرضِ کفایہ تھا جو انھوں نے اور ٹروتھ سوسائٹی نے ادا کیا ہے اور ہم اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے بہترین اجر کی دعا کرتے ہیں۔
محمد اسد سے میرا بھی اولین تعارف‘ سیکڑوں بلکہ ہزاروں نوجوانوں اور طالبینِ حق کی طرح ان کی پہلی کتاب Islam at The Crossroadsکے ذریعے ہوا۔ میری اپنی زندگی میں قیامِ پاکستان کے بعد کے دو سال بڑے فیصلہ کن تھے اور ایک طرح میں بھی دوسرے نوجوانوں کی طرح ایک دوراہے پر کھڑا تھا___ ایک طرف مغربی تہذیب اور مغرب سے اٹھنے والی تحریکوں کی چمک دمک تھی‘ اور دوسری طرف تحریکِ پاکستان کا نظریاتی آدرش اور اسلام کے ایک عالمی پیغام اور تحریکِ انقلاب ہونے کا احساس۔ دونوں کی اپنی اپنی کشش تھی اور میرے جیسے نوجوانوں کا معمّا کہ ع
ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتاہے
اقبال کے ایمان افروز کلام اور مولانا مودودی کے دل و دماغ کو مسخر کرنے والے لٹریچر کے ساتھ جس کتاب نے خود مجھے اس دوراہے سے نجات دلائی اور شاہ راہِ اسلام کی طرف رواں دواں کردیا‘ وہ اسد کی یہی کتاب تھی۔ اس وقت سے اسد سے ایک گہرا ذہنی اور قلبی تعلق قائم ہوا اور پھر اس وارفتگی کے عالم میںتلاشِ بسیار کے بعد عرفات کے شمارے اور صحیح بخاری کے ترجمے کے پانچ ابواب حاصل کیے اور وردِجان کرلیے۔ اسٹوڈنٹس وائس (اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا انگریزی ترجمان) کے دورِادارت میں محمد اسد سے بھرپور استفادہ کیا اور ان سے ملنے کے لیے بے چین رہا۔ یہ خواہش ۱۹۵۴ء میں پوری ہوئی جب محمد اسد چند دن کے لیے پاکستان آئے۔ کراچی میں سندھ کلب میں میری اور ظفراسحاق انصاری اور خرم مراد کی ان سے ملاقات ہوئی اور جو تصویر ذہن میں بنائی تھی‘ اس کے مطابق پایا۔
اس زمانے میں اسد پاکستان کے اقوام متحدہ کے مشن سے فارغ ہوچکے تھے اور وزارتِ خارجہ کے افسران سے خاصے بددل تھے۔ انھوں نے یہ ذکر بھی کیا کہ Road to Mecca (شاہ راہِ مکہ)شائع ہو رہی ہے (بلکہ مجھے فخرہے کہ اس کا ایک نسخہ انھوں نے مجھے بھیجا جس پر اسٹوڈنٹس وائس میں تبصرہ میں نے ہی لکھا تھا)۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ اس کی دوسری جِلد لکھنا چاہتا ہوں جس میں پاکستان کی اس وقت کی قیادت پر تنقید بھی ہوگی۔ افسوس یہ جلد شائع نہ ہوسکی اور پتا نہیں اس کے نوٹس یا نامکمل مسودہ کہاں ہے۔ اس مجموعے میں بھی اس کاکوئی سراغ نہیں ملا۔ محمداسد نے میرے نام ایک خط میں بھی دو سال بعد اس کا ذکر کیا تھا۔
محمد اسد کی گم شدہ پونجی میں اس مذکورہ دوسری جِلدکا نامکمل مسودہ یا نوٹس‘ صحیح بخاری کے کچھ دوسرے ابواب کے بارے میں ان کے نوٹس‘ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمایندے کی حیثیت سے ان کی تقاریر میری نگاہ میں قابلِ ذکر ہیں اور اب بھی ان کی تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ کم از کم اقوام متحدہ کے ریکارڈ سے ان کی تقاریر کی نقول حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح جو خطوط اور رپورٹیں انھوںنے وزارتِ خارجہ کو اس زمانے میں لکھی تھیں‘ انھیں بھی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
محمد اسد سے میرے تعلق کی نوعیت ایک استاد اور شاگرد اور ایک ہیرو اور اس کے مشتاق (fan) کی ہے ‘اور جو تعلق ۱۹۴۹ء میں قائم ہوا تھا وہ ۱۹۹۲ء تک قائم رہا۔ پھران سے بارہا ملاقاتیں ہوئیں اور ان کی شفقت میں اضافہ ہی ہوا۔ ۱۹۷۶ء کی لندن کانفرنس میں برادرم سالم عزام کے ساتھ مجھے کانفرنس کے سیکرٹری جنرل کے فرائض انجام دینے کی سعادت حاصل ہے اور اس زمانے میں محمد اسد سے ہمہ وقت استفادے کا موقع ملا۔ فکری اعتبارسے میں نے ان کی اپروچ میں کوئی تبدیلی محسوس نہیں کی‘ البتہ اُمت کے حالات سے دل گرفتگی اور مسلمانوں کی قیادتوں سے مایوسی آخری ۳۰سال میں کچھ زیادہ ہی محسوس ہوئی۔
پہلی چیز مغربی تہذیب اور یہود عیسائی روایت (Judo-Christian Tradition) کے بارے میں ان کا واضح اور مبنی برحق تبصرہ و تجزیہ ہے۔ مغرب کی قابلِ قدر چیزوں کے کھلے دل سے اعتراف کے ساتھ مغربی تہذیب اور عیسائی تہذیبی روایت کی جو بنیادی خامی اور کمزوری ہے‘ اس کا نہایت واضح ادراک اور دوٹوک اظہار ان کا بڑا علمی کارنامہ ہے۔ زندگی کی روحانی اور مادی خانوں میں تقسیم برائی کی اصل جڑ ہے اور اس سلسلے میں عیسائی روایت اور مغربی تہذیب کا اسے اس کی انتہا تک پہنچا دینے کا انھیں مکمل ادراک تھا۔ اس حوالے سے اپنی زندگی کے کسی بھی دور میں وہ کسی شش و پنج یا الجھائو (confusion)کا شکار نہیں ہوئے۔ مغرب کے تصورِ کائنات‘ انسان‘ تاریخ اور معاشرے پر ان کی گہری نظر تھی اور اسلام سے اس کے تصادم کا انھیں پورا پورا شعور و ادراک تھا۔ وہ کسی تہذیبی تصادم کے قائل نہ تھے مگر تہذیبوں کے اساسی فرق کے بارے میں انھوں نے کبھی سمجھوتا نہ کیا۔ اسلام کے ایک مکمل دین ہونے اور اس دین کی بنیاد پر اس کی تہذیب کے منفرد اظہار کو یقینی بنانے اور دورِحاضر میں اسلام کی بنیاد پر صرف انفرادی کردار ہی نہیں‘ بلکہ اجتماعی نظام کی تشکیلِ نو کے وہ داعی تھے اور اپنے اس مؤقف کو دلیل اور یقین کے ساتھ پیش کرتے تھے۔ اسلام کا یہ جامع تصور ان کے فکر اور کارنامے کا دوسرا نمایاں پہلوہے۔
ان کا تیسرا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اُمت کے زوال کے اسباب کا گہری نظر سے مطالعہ کیا اور اس سلسلے میں جن بنیادی کمزوریوںکی نشان دہی کی‘ ان میں تصورِدین کے غبارآلود ہوجانے کے ساتھ‘ سیرت و کردار کے فقدان‘ دین و دنیا کی عملی تقسیم‘ اجتہاد سے غفلت اور رسم و رواج کی محکومی اور سب سے بڑھ کر قرآن وسنت سے بلاواسطہ تعلق اور استفادے کی جگہ ثانوی مآ خذ پر ضرورت سے زیادہ انحصار بلکہ ان کی اندھی تقلید شامل ہیں۔ فقہی مسالک سے وابستگی کے بارے میں ان کی پوزیشن ظاہری مکتب ِفکر سے قریب تھی۔ ان کی دعوت کا خلاصہ قرآن و سنت سے رجوع اور ان کی بنیاد پرمستقبل کی تعمیروتشکیل تھا۔ قرآن ان کی فکر کا محور رہا اورحدیث اور سنت کو وہ اسلامی نشاتِ ثانیہ کی اساس سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے تمام بڑے قیمتی مضامین کے باوصف جن کا موضوع اسلامی قانون‘ اسلامی ریاست اور مسلمانوں کی اصل ثقافتی شناخت تھا‘ ان کا اصل علمی کارنامہ قرآن پاک کا ترجمہ و تفسیر اور صحیح بخاری کے چند ابواب کا ترجمہ اور تشریح ہے جن کی حیثیت میری نگاہ میں اس دور میں کلاسک کی ہے۔ پھر روڈ ٹو مکہ ان کی وہ کتاب ہے جو علمی‘ ادبی‘ تہذیبی‘ ہر اعتبار سے ایک منفرد کارنامہ اور صدیوں زندہ رہنے والی سوغات ہے۔
محمد اسد کے کام کی اہمیت کا چوتھا پہلو‘ دورِ جدید میں اسلام کے اطلاق اور نفاذ کے سلسلے میں ان کی حکمت عملی‘ اور اسی سلسلے میں تحریکِ پاکستان سے ان کی وابستگی اور پاکستان کے بارے میں ان کا وِژن اور وہ عملی کوششیں ہیں جو عرفات‘ قومی تعمیرنو کے ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے ان کی نگارشات‘ ان کی تقاریر اور پھر ان کی دو کتابیں: Islam at The Crossroadsاور The Principles of State and Government in Islamہیں۔ عرفات کے زمانے کے یہ مضامین دورِحاضر میں نفاذِ اسلام کا وژن اور اس کے لیے واضح حکمت عملی پیش کرتے ہیں۔ چند امور پر اختلاف کے باوجود اس باب میں محمد اسد کے وژن اور فکر اور دورِجدید کی اسلامی تحریکات کے وِژن میں بڑی مناسبت اور یکسانی ہے حالانکہ وہ کبھی بھی ان تحریکوں سے عملاً وابستہ نہیں رہے۔ اس سلسلے میں ایک جرمن مبصر کارل گنٹرسائمن (Karl Gunter Simon) کے مضمون سے ایک اقتباس دل چسپی کا باعث ہوگا جو محمد اسد سے ایک اہم انٹرویو پر مبنی ہے اور جرمن پرچے‘ Frankfurter Allgemine Zeiting میں ۱۸ نومبر ۱۹۸۸ء کو ان کے انتقال سے چار سال قبل شائع ہواتھا:
’’احیاے اسلام کے لیے ہمیں باہر سے ماڈل تلاش نہیں کرنے چاہییں۔ ہمیں بس پرانے بھولے ہوئے اصولوں کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بیرونی تہذیبیں ہمیں نیا تحرک دے سکتی ہیں لیکن کوئی غیراسلامی چیز اسلام کے مکمل نمونے کا بدل نہیں بن سکتی‘ خواہ اس کا ماخذ مغرب ہو یا مشرق۔ اسلام کے روحانی اور اجتماعی ادارے (خود مکمل ہیں ان کو کسی بیرونی مدد سے) بہتر نہیں بنایا جاسکتا۔ اسلام کا زوال درحقیقت ہمارے قلوب کی موت یا دلوں کا خالی ہوجانا ہے…‘‘
کیا یہ اخوان المسلمون کا کوئی مناظرانہ موقف ہے؟ یا بنیاد پرستوں کا اعلان‘ خواہ وہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں ہوں؟ نہیں‘ قطعی نہیں۔ یہ جدید بیانات ایک پرانی کتاب میں پائے جاتے ہیں جو ۱۹۳۳ء میں لکھی گئی‘ یعنی Islam at The Crossroads۔ یہ محمد اسد کی پہلی کتاب تھی (حوالہ مذکورہ کتاب‘ ص ۲۴)
اقبال اس فکر کو ۱۱-۱۹۱۰ء سے پیش کر رہے تھے۔ حسن البناء نے ۱۹۲۸ء میں تحریک اخوان المسلمون کا آغاز اسی پیغام کے ساتھ کیا۔ سید مودودی نے ۱۹۳۳ء میں ترجمان القرآن اسی کلمے کی بنیاد پر اجتماعی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کے لیے نکالا‘ اور محمداسد نے ۱۹۳۳ء میں یہی بات اپنے دل نشین انداز میں کہی۔ دو کا تعلق برعظیم پاک و ہند سے تھا‘ ایک مصر کے گلزار کا پھول تھا اور ایک یورپ کے روحانی قبرستان کی زندہ آواز___ لیکن سب ایک ہی بات کہہ رہے تھے‘ اس لیے کہ ان سب کی رہنمائی کا سرچشمہ قرآن پاک اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھی۔ محمداسد بیسویں صدی میں اسلام کے نشاتِ ثانیہ کے معماروں میں سے ایک تھے اور انھوں نے مغرب اور مشرق کے فرق کو ختم کر کے اسلام کے عالمی پیغام کی صداقت کو الم نشرح کیا۔
محمد اسد کے یہاں پاکستان اور تحریکِ پاکستان کے اصل مقاصد اور اہداف کا بڑا واضح اِدراک ہے اور آج کی پاکستان کی نام نہاد قیادتوں کے لیے اسد کی تحریروں میں بڑا سبق ہے اور پاکستانی قوم کے لیے عبرت کا پیغام بھی۔ دیکھیے محمد اسد فروری ۱۹۴۷ء میں اپنے پرچے عرفات میں کس وضاحت‘ فکری سلاست اور علمی دیانت کے ساتھ پاکستان کے تصور کو بیان کرتے ہیں۔ ماضی میں اُبھرنے والی بہت سی اصلاحی تحریکوں کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
تحریکِ پاکستان اس طرح کی تمام صوفیانہ تحریکوں سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ یہ کسی روحانی رہنما پر لوگوں کے اعتقاد سے جذبہ و توانائی حاصل نہیں کرتی‘ بلکہ اس کا یہ ادراک___ جو بیش تر معاملات میں ہدایت دیتا ہے‘ اور علمی حلقوں میں صاف صاف سمجھا جاتا ہے___ کہ اسلام (پورے نظامِ زندگی کی تعمیرنو کی)ایک معقول تدبیر ہے‘ اور اس کی سماجی و اقتصادی اسکیم انسانیت کو درپیش تمام مسائل کا حل فراہم کرسکتی ہے‘ اور اس کا واضح تقاضا یہ ہے کہ اس کے اصولوں کی پیروی کی جائے۔ نظریۂ پاکستان کا یہ علمی پہلو اس کا سب سے اہم پہلو ہے۔ اس کی تاریخ کا ہم کھلی آنکھوں سے مطالعہ کریں تو ہم یہ پائیں گے کہ اپنے اوّلین دور میں اسلام کی فتح کی وجہ اس کی انسان کی فہم‘ دانش اور عقل عام سے اپیل ہے۔
تحریکِ پاکستان‘ جس کی کوئی نظیر جدید مسلم تاریخ میں موجود نہیں ہے‘ ایک نئے اسلامی ارتقا کا نقطۂ آغاز ہوسکتی ہے‘ اگر مسلمان یہ محسوس کریں‘ اور جب پاکستان حاصل ہوجائے تب بھی محسوس کرتے رہیں کہ اس تحریک کا حقیقی تاریخی جواز اس بات میں نہیں ہے کہ ہم اس ملک کے دوسرے باشندوں سے لباس‘ گفتگو یا سلام کرنے کے طریقے میں مختلف ہیں‘ یا دوسری آبادیوں سے جو ہماری شکایات ہیں‘ اس میں‘ یا ان لوگوں کے لیے جو محض عادتاً اپنے کو مسلمان کہتے ہیں‘ زیادہ معاشی مواقع اور ترقی کے امکانات حاصل کریں‘ بلکہ ایک سچا اسلامی معاشرہ قائم کرنے میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلام کے احکامات کو عملی زندگی میں نافذ کرنا۔ (ص ۸۶۳- ۸۶۵)
جہاں تک مسلمان عوام کا تعلق ہے‘ تحریکِ پاکستان ان کے اس وجدان کا حصہ ہے کہ وہ ایک نظریاتی برادری ہیں‘ اس لیے ایک خودمختار سیاسی وجود کا حق رکھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں‘ وہ محسوس کرتے ہیں اورجانتے ہیں کہ ان کی برادری کا وجود دوسری برادریوں کی طرح کسی نسلی وابستگی یا کچھ ثقافتی روایات کے اشتراک پر مبنی نہیں ہے‘ بلکہ صرف اور صرف اس حقیقت پر مبنی ہے کہ وہ اسلام کے نظریۂ حیات سے مشترک وابستگی رکھتے ہیں۔ اور یہ کہ انھیں اپنی برادری کے وجود کے لیے جوازایک سماجی و سیاسی نظام قائم کرکے فراہم کرنا چاہیے جس میں اس نظریۂ حیات‘ یعنی شریعت کا عملی نمونہ دیکھا جاسکے گا۔ (ص ۹۱۲)
پھر دیکھیے کہ کس فکری دیانت اور جذبۂ ایمانی کے ساتھ اپنے دل کو چیر کر ملّتِ اسلامیہ پاکستان اور اس کی قیادت کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ پہلے ان کو مغرب کے تجربات سے متنبہ کرتے ہیں کہ تمھیں آزادی ملنے والی ہے‘ مگر دیکھو محض غیرمسلموں کے اعتراضات اور نفع عاجلہ کے چکر میں نہ پڑجانا بلکہ اپنے اصل مقصد پر قائم رہنا۔ اس غلط فہمی میں بھی نہ رہنا کہ اسلام تو طویل عرصے کا ہدف ہے اور فوری طور پر وہ کرنے کے چکر میں پڑ جائو جو وقتی مصلحت کا تقاضا ہو۔ کہتے ہیں:
ہم یہ نہیں چاہتے۔ ہم پاکستان کے ذریعے اسلام کو صرف اپنی زندگیوں میں ایک حقیقت بنانا چاہتے ہیں۔ ہم اس لیے پاکستان چاہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک اس قابل ہو کہ لفظ کے وسیع ترین مفہوم میں ایک سچی اسلامی زندگی بسر کرسکے۔ اور یہ بالکل ناممکن ہے کہ کوئی شخص اللہ کے رسولؐ کی بتائی ہوئی اسکیم کے مطابق زندگی گزار سکے‘ جب تک کہ پورا معاشرہ شعوری طور پر اس کے مطابق نہ ہو اور اسلام کے قانون کو ملک کا قانون نہ بنائے۔ (ص ۹۱۸)
مسلمان عوام وجدانی طور پر پاکستان کی اسلامی اہمیت کو محسوس کرتے ہیں اور واقعی ایسے حالات کی خواہش رکھتے ہیں جن میں معاشرے کے ارتقا کا نقطۂ آغاز لا الٰہ الا اللہ ہو۔ (ص ۹۲۵)
افسوس کہ پاکستان کی سیاسی قیادتوں نے اس اصل منزل کو مفاد پرستی اور وقتی مصلحتوں کی تلاش میں گم کردیا۔ محمداسد کو اس کا بے پناہ قلق تھا۔
محمد اسد کی زندگی کے دو پہلو ایسے ہیں جن کا اعتراف نہ کرنا بڑا ظلم ہوگا اور ان میں سے کم از کم ایک میں‘ مجھے وہ دورِحاضر میں منفرد نظرآتے ہیں۔ میں نے سیکڑوں نومسلموں کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کیا ہے اور ایک بڑی تعداد سے ذاتی طور پر تعلقات رکھنے کی سعادت پائی ہے۔
نوجوانی میں ایک کتاب ابراہیم باوانی مرحوم کی دعوت پر Islam Our Choice کے عنوان سے مرتب بھی کی تھی اور اس کے لیے بھی بڑی تعداد میں قبولِ اسلام کی سچی داستانوں کو پڑھا تھا۔ ستاروں کی اس کہکشاں میں ایک سے ایک دل نواز شخصیت کی تصویرِ حیات دیکھی جاسکتی ہے اور ہرہرفرد اسلام کی کسی نہ کسی خوبی کافریفتہ ہوکر حلقۂ بگوش اسلام ہوا۔ زیادہ کا تعلق اسلام کی تعلیمات اور قرآن کے دل فریب پیغام سے ہے۔ لیکن محمد اسد کی ایک ذات ایسی ہے جو مسلمانوں سے مسحور ہوکر اسلام کی متلاشی اور پھر اس کی گرویدہ ہوئی۔
دل پر پہلی ہی چوٹ اس وقت لگی جب ۲۳سالہ جرمن نوجوان عرب دنیا میں ٹرین میں سفر کرتا ہے اور کھانے کے وقت اس کا عرب ہم سفر اس اجنبی کو جانے بغیر اسے کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ خودپسند اور اپنی ذات کے خول میں گم مغربی دنیا کے اس نوجوان کے لیے یہ بڑا عجیب تجربہ تھا۔ پھر جس سے بھی وہ ملتا ہے‘ جس بستی میں جاتا ہے‘ جس جگہ قیام کرتا ہے‘ اسے ایک دوسری ہی قسم کی مخلوق ملتی ہے جن کے باہمی تعلقات‘ بھائی چارے‘ محبت اور دکھ درد میں شرکت پر مبنی ہیں۔ عجیب معاشرہ ہے جو مسافر کی قدر کرتا ہے اور مہمان داری کو سعادت سمجھتا ہے۔ جو کھانا کھلا کر بل پیش نہیں کرتا۔
لیوپولڈ ویز کو یہ تجربہ بڑا عجیب لگتا ہے مگر اس کی روح اس دنیا میں بڑا سکون اور بڑی اپنائیت پاتی ہے۔ روح کی پیاس کے لیے یہاں سیرابی کا بڑا سامان ہے۔ یہ کلچر اسے اپنی طرف کھینچتا ہے اور وہ اس جستجو میں لگ جاتا ہے کہ انسانی معاشرے کے اس ماڈل کو بنانے والے عناصر کیا ہیں___ یہ اسے اسلام اور اس کے حیات بخش پیغام تک لے آتے ہیں۔ تین سال کی صحرانوردی میں وہ اس تہذیب سے دُور ہوتا جاتا ہے جہاں اس نے آنکھ کھولی تھی‘ اور اب اس کی آنکھوں کو وہ دنیا بھا جاتی ہے جس میں اب وہ زندگی گزار رہا ہے۔ پھر اسلام‘ جیساکہ اس نے ایک جگہ لکھا ہے‘ اس کے دل میں بس ایک چور کی طرح خاموشی سے داخل ہوجاتا اور پھر اس دل کو اپنا گھر بنالیتاہے۔ چورکی تمثیل یہاں ختم ہوجاتی ہے۔ چور چپکے چپکے داخل ہوتا ہے مگر کچھ لے کر چپکے چپکے نکل جاتا ہے۔ اسلام داخل تو چپکے چپکے ہی ہوتاہے لیکن کچھ لینے کے لیے نہیں‘ کچھ دینے کے لیے اورپھر ہمیشہ اسی گھر میں رہنے کے لیے۔
لیوپولڈ ویز ایک طلسمی عمل کے ذریعے اسی دنیا کا ہوجاتا ہے جس کی خبر دوسروں کو دینے کے لیے صحافی کے لباس میں وہ ان کے درمیان آیا تھا۔ اب یہاں اس نے نہ ختم ہونے والی دوستیاں استوار کرلی ہیں۔ اب یہاں اس نے اس معاشرے کی ان اقدار کو جو اس کے لیے پہلے بالکل نئی تھیں اپنی شخصیت کا حصہ بنالیا ہے۔ اب اس کے دل کی دنیا میں ایک انقلاب آگیا ہے اور بالآخر وہ چیز جو غیرشعوری طور پر اس کے روح و بدن میں داخل ہوگئی تھی‘ وہ اسے شعوری طور پر قبول کرلیتا ہے اور کلمۂ شہادت ادا کرکے اس کا پوری دنیا کے سامنے اعلان کر ڈالتا ہے۔ ہزاروں لاکھوں انسان اسلام کے راستے مسلمانوں میں داخل ہوئے۔محمد اسد مسلم دنیا کے بیسویں صدی کے گئے گزرے حال میں بھی مسلمانوں کے ذریعے اسلام تک پہنچا اور پھر اسلام کو اس نے اس طرح اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا کہ مسلمانوں ہی کی حالت کی اصلاح کے لیے دل گرفتہ اور سرگرم عمل ہوگیا۔ تبدیلی (conversion )یا رجوع (reversion) کی تاریخ کا یہ بڑا دل چسپ اور سبق آموز واقعہ ہے۔
محمد اسد کی زندگی کا دوسرا پہلو جس نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا‘ وہ یہ ہے کہ اسد نے صرف اسلام ہی کو قبول نہیں کیا بلکہ عملاً اس نے اسلامی دنیا ہی کو اپنا مسکن بنا لیا۔ اس نے مغرب سے دین کاناتا ہی نہیں توڑا بلکہ جغرافیائی سفر کر کے وہ پھر اس دنیا کا حصہ ہی بن گیا جس نے اسے مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچا۔ وہ امریکا اور یورپ میں بھی رہا لیکن اس کی روح کو سکون بدوؤں (bedoein) کی دنیا ہی میں ملتا ہے۔ اس کی آخری شریکِ حیات پولااسد نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اسد کی روح بدوی (bedoein) تھی اور صحرا کی دنیا میں وہ سب سے زیادہ اپنے گھر کی طرح ہوتا تھا۔ اس نے صحیح معنوں میں ہجرت کی اور اپنی اسلامی زندگی کے ۶۶سال عرب دنیا‘ ہندستان‘ پاکستان اور تیونس میں گزارے‘ اور آخری ایام میں اس کا قیام اسپین کے اس علاقے میں رہا جواندلس اور عرب دنیا کا روحانی اور ثقافتی حصہ تھا بلکہ آج بھی اس کی فضائیں باقی اسپین سے مختلف اور عرب دنیا کے ہم ساز ہیں۔
محمد اسد: یورپ کا اسلام کے لیے تحفہ‘ محمد اسد کی زندگی‘ اس کے افکار و نظریات‘ اس کے اثرات اور تاریخی خدمات کا ایک جامع مرقع ہے۔ پہلی جِلد میں اسد کی شخصیت‘ افکار اور علمی اور ثقافتی خدمات کے بارے میں ۲۸مضامین ہیں جن میں علمی اور تحقیقی مقالات کے ساتھ شخصی تاثرات‘ اور اسد کی کتابوں پر تنقیدی نگارشات شامل ہیں جو ان کی زندگی اور ان کے افکار کے ہرہرپہلو کے بارے میں سیرحاصل معلومات فراہم کرتے ہیںاور ان ایشوز کو زیربحث لاتے ہیں جن پر اسد نے کلام کیا ہے۔ دوسری جِلد کا بیش تر حصہ محمد اسد کے قیمتی مضامین اور رشحاتِ قلم کا مجموعہ ہے اور اس سارے علمی خزانے کو ایک جگہ جمع کرکے مرتب محترم نے بڑی قیمتی خدمت انجام دی ہے۔ اس طرح ان دو جلدوں میں محمداسد کی شخصیت اور ان کے افکار اور علمی خدمات کا بھرپور احاطہ کرلیا گیا ہے۔ محترم اکرام چغتائی صاحب نے یہ خدمت بڑی محنت اور دقّتِ نظر سے انجام دی ہے اور تلاش و جستجو اور تحقیق و تسوید کا بڑا اعلیٰ معیار قائم کیا ہے۔ طباعت کامعیار بھی نہایت نفیس ہے اور سارا کام بڑی خوش ذوقی سے انجام دیا گیا ہے۔ جیساکہ میں نے عرض کیا پوری اُمت کی طرف سے دی ٹروتھ سوسائٹی اور صاحبِ کتاب نے یہ فرضِ کفایہ ادا کیا ہے ‘اور اسی کتاب کے ایک مقالہ نگار مظفراقبال کا یہ گلہ کہ اسد ایک فراموش شدہ (forgotten)پاکستانی ہے‘ اب کسی نہ کسی حد تک دُور ہوگیا ہے۔ اس خدمت کے لیے چغتائی صاحب اور ان کے رفقاے کار مبارک باد کے مستحق ہیں۔