پروفیسر خورشید احمد


بسم اللہ الرحمن الرحیم

پاکستان کی ۵۷ سالہ تاریخ کا ایک عجوبہ یہ بھی ہے کہ یہاں ہر سربراہ ریاست یا رئیس مملکت کا ہر بیرونی دورہ ہمیشہ ’کامیاب‘ یا پھر ’بہت کامیاب‘ ہی رہا ہے اور اس کے نتائج اور ثمرات خواہ کچھ بھی ہوں‘ نہ اس کی کامیابی پر کبھی کوئی حرف آیا اور نہ تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسانے والوں میں کوئی کمی ہوئی۔ اس تاریخی پس منظر میں جنرل پرویز مشرف کا امریکا کا ان کے چھے سالہ دوراقتدار کا نواں دورہ ‘جو ۱۳ سے ۱۸ ستمبر ۲۰۰۵ء تک رہا‘ اپنی ساری تندوتیز جولانیوں‘ صحافتی مقابلوں اور کہہ مکرنیوں‘ سیاسی رہنمائوں سے مذاکرات اور ’عدو‘ سے اتفاقی ملاقات‘ روشن خیال خواتین اور   دل پسند این جی اوز کے نمایندوں سے لفظی مچیٹوں اور پاکستانی خواتین کی مظلومیت اور ’کاروباریت‘ کو طشت ازبام کرنے کی خدمات اور دوسری بے شمار جرأت مندانہ پسپائیوں کے باوجود نہ صرف ’کامیاب‘ بلکہ ’بہت ہی کامیاب‘ ہی قرار دیا جائے گا۔ سرکاری میڈیا اور لبرل دانش ور اور قلم کار    جو بھی کہیں اور لکھیں‘ آج کی دنیا میں حقیقت کو پردوں میں چھپانا ممکن نہیں رہا۔ امریکا کی     قیادت سے ان کی دوستی اور اشتراکِ مفاد اور یہودی لابی سے نیا نیا عشق اپنی جگہ‘ لیکن جمہوری معاشرے اور آزادیِ صحافت کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ حقائق سامنے آکر رہتے ہیں اور معاملہ خواہ نکسن کے واٹرگیٹ کا ہو یا کلنٹن کے مونیکا سے معاشقے کا___ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوکر رہتا ہے۔

دورے کے اھداف

جنرل پرویز مشرف کے دورے کی تمام تقاریر‘ بیانات اور ملاقاتوں کا جائزہ لیا جائے تو کلیدی موضوع پانچ ہی نکلتے ہیں:

۱-            دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کا کردار بحیثیت حلیف اور  تابع مہمل۔ ہر تقریر اور ہر ملاقات میں یہ موضوع سرفہرست رہا حالانکہ یہ نہ ہمارا مسئلہ ہے اور نہ ہمیں اب اس سے کوئی فائدہ ہو رہا ہے‘ بلکہ اسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔

۲-            پاکستان اور امریکا کے تعلقات۔ خصوصیت سے بھارت سے امریکا کے بڑھتے ہوئے اسٹرے ٹیجک شراکت (partnership) کے پس منظر میں یہ تعلق پاکستان کے لیے اب ایک فیصلہ کن مرحلے (moment of truth) میں داخل ہوگیا ہے۔ پاکستانی وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ اب صاف معلوم ہوجانا چاہیے کہ پاکستان سے امریکا کے تعلقات کا موجودہ مرحلہ حقیقی دوستی اور رفاقت کا ہے یا محض وقتی ضرورت کی آشنائی کا۔ جنرل مشرف کا ٹائم میگزین کو حالیہ انٹرویو (نوائے وقت/ ڈان‘ ۲۶ ستمبر ۲۰۰۵ئ) بھی امریکا کی سردمہری کا اعتراف ہے۔

۳-            کشمیرکے سلسلے میں کسی حقیقی پیش رفت کی کوشش۔ صدر بش کی مداخلت اور بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے نیویارک کی ملاقات اس سلسلے میں ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتی تھی۔

۴-            پاکستان کے اسرائیل سے روابط استوار کرنے کے سلسلے کو آگے بڑھانا۔ اس میں اسرائیلی وزیراعظم شارون سے طے شدہ پروگرام کے تحت ’اتفاقی ملاقات‘، ’ورلڈ جیوش کانگرس‘ سے خطاب اور امریکا کی یہودی لابیز سے راہ و رسم پیدا کرنا اور اس سلسلے میں مسئلہ فلسطین کے بارے میں پاکستان کے اصولی اور تاریخی مؤقف سے انحراف اور کسی طرح اس کا جواز پیش کرنا شامل ہے۔

۵-            پاکستان کے امیج کو درست کرنے کی کوشش اور اس سلسلے میں خصوصیت سے پاکستان میں عورتوں کے ساتھ زیادتی کے باب میں جو پروپیگنڈا ہو رہا ہے‘ اس کا توڑ کرنا۔

یہ تھے پانچ اہداف۔ ان میں سے کسی ایک کے سلسلے میں کوئی حقیقی تو کیا‘ رسمی پیش رفت بھی نہیں ہوسکی۔ بھارت کے وزیراعظم کے ساتھ ساڑھے چار گھنٹے کی ملاقات میں بھی بھارت اپنی پوزیشن سے ٹس سے مس نہیں ہوا اور صدر بش نے ہر معاملے میں سرخ جھنڈی دکھا دی۔ اسرائیلی کی یہودی لابی نے خوب خوب فائدہ اٹھایا اور مکھن لگانے کا نیا ریکارڈ قائم کیا۔ لیکن عالمِ عرب اور   عالمِ اسلام میں رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا‘ البتہ اس دورے کا نقصانِ عظیم وہ ہے جو پاکستان کے امیج کوپہنچا ہے اور اس کے ساتھ نائن الیون کی پسپائی کے بعد پہلی بار پاکستان کے ساتھ خود جنرل پرویز مشرف کے امیج پر وہ چوٹیں لگی ہیں کہ  ع

پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی!

اس سلسلے میں واشنگٹن پوسٹ کا انٹرویو‘ اس کی زبان اور گندے الزامات‘ پھر اس بیان کا انکار‘ پھر اخبار کی طرف سے اصل بیان کی اشاعت اور جنرل صاحب کی آواز میں ۹ منٹ کے اس حصے کو انٹرنیٹ پر ڈال دینا‘ جس میں وہ ساری باتیں موجود ہیں جن کا وہ انکار کر رہے تھے اور یہاںتک کہہ رہے تھے کہ:

’’مجھے پورے خلوص کے ساتھ یہ کہنے دیجیے کہ میں نے ایسا کبھی نہیں کہا‘ اور یہ غلط منسوب کیا گیا ہے۔ مشرف نے خواتین کے گروپ سے کہا ’’یہ میرے الفاظ نہیں ہیںاور میں یہ بھی کہوں گا کہ میں اس قدر احمق اور بیوقوف نہیں ہوں کہ اس قسم کا تبصرہ کروں‘‘۔

جنرل صاحب کے امیج پر یہ چاند ماری جاری تھی کہ روز ولٹ ہوٹل میں خواتین کے اجتماع میں ان کی برہمی اور خواتین کو دعوت مبارزت نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ بس چند جھلکیاں:

بی بی سی اُردو سروس اپنی ۱۸ ستمبر کی رپورٹ میں یوں تفصیل بیان کرتی ہے:

انھوں نے کچھ غیرسرکاری تنظیموں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ جو خواتین کے مسائل ملک سے باہر اٹھاتے ہیں‘ ان کے اپنے ایجنڈے ہوتے ہیں اور وہ ایسے لوگوں کو دیکھ لیں گے۔ انھوں نے غیر سرکاری تنظیموں کو تنبیہہ کی کہ ’میں ایک سپاہی ہوں اور مجھے لڑنا آتا ہے۔ میں آپ سے لڑوں گا اور اگر آپ چیخیں گی تو میں آپ سے زیادہ چیخ سکتا ہوں‘۔

صدر مشرف کے خطاب کے بعد سوال جواب کے دوران جب ایک خاتون نے کہا کہ وہ خواتین جو امریکا میں پاکستانی خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں‘ بے حد مخلص ہیں اور پاکستانی صدر کو ایسی بات نہیں کہنی چاہیے‘ تو اس بات پر جنرل مشرف برہم ہوگئے اور انھوں نے کہا کہ ’آپ جیسے لوگ قومی مفاد کے خلاف ہیں‘ [انگریزی پریس نے جو الفاظ دیے ہیں‘ وہ یہ ہیں: you are against me and against Pakistan]۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے لوگوں کے اپنے معاشی یا سیاسی مفاد ہوتے ہیں جس کی خاطر وہ ان واقعات پر خاص روشنی ڈالنا چاہتے ہیں جس سے پاکستان کے وقار کو ٹھیس پہنچے۔ اس موقع پر امریکا میں پاکستان کے سفیر جہانگیر کرامت نے اٹھ کر صدر کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور مائیک خود سنبھال لیا۔

اس تقریب میں شریک ڈاکٹر اسماء چودھری نے صدر کے خطاب پر کہا کہ ’میں شدید غصے میںہوں‘ صدر صاحب غنڈوں کی طرح باتیں کر رہے ہیں‘۔

ہمارے لیے ممکن نہیں کہ ان دونوں واقعات (واشنگٹن پوسٹ کا انٹرویو اور روز ولٹ ہوٹل میں خواتین کی کانفرنس) کے ردعمل میں عالمی میڈیا میں جو رسوائی پاکستان کی ہوئی‘ اس کا احاطہ کرسکیں۔ اس ہفتے میں جو نقصان پاکستان کو پہنچا اور جس طرح اس کا امیج مجروح ہوا وہ ہماری تاریخ کا سانحہ اور قدرت کی طرف سے جنرل صاحب کے کیے دھرے کا جواب ہے‘ جو انھی کے ہاتھوں انھیں ملا جن کی خاطر وہ پاکستان‘ اسلام‘ فلسطین‘ کشمیر ہر ایشو پر مغرب کی استعماری قوتوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔

اس ردعمل کا ایک نمونہ ہم پیش کرتے ہیں جو ان کے ایک بڑے مداح اور روشن خیال اعتدال پسندی کے عاشق ولیم می لام (Wiliam Milam)کا ہے جو پاکستان میں امریکا کے سفیر رہے ہیں اور آج کل ووڈرو ولسن سینٹر کے فیلو ہیں۔ اپنے تبصرے کا آغاز اس طرح کرتے ہیں کہ آج کل پاکستان امریکا میں اپنے امیج کو درست کرنے کے لیے مناسب مشیر (consultant) کی تلاش میں ہے جس کا اشتہار بھی دیا جا رہا ہے لیکن ضرورت پاکستان کے امیج سے کہیں زیادہ خود صدرصاحب کو صحیح مشورہ دینے کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ صدر مشرف نے اپنے کارناموں پر جن کو   وہ پہلے بھی بیان کرتے رہے ہیں‘ اپنے آپ کو خوب شاباش دی۔ لیکن مشیر کی اصل ضرورت تو مختاراں مائی جیسے مسئلے پر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ ان تنظیموں کے ہاتھ آگیا جو پاکستان کا امیج تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ امریکا میں مشرف کی اوّلین ترجیح خواتین کے مسائل تھی‘ لیکن انھوں  نے جو کچھ کہا اس نے معاملات کو مزید خراب کر دیا۔ سب‘ صرف خواتین ہی نہیں‘ پاکستان کے اندر اور باہر ناراض ہوئے۔

سابق امریکی سفیر پاکستانی اخبار ڈیلی ٹائمز سے پاکستان میںصرف ایک دن میں ہونے والے واقعات اور بلدیاتی انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں اور جمہوری عمل کو مسخ کرنے (subversion) کے شواہد کا حوالہ دینے کے بعد لکھتا ہے:

روشن خیال اعتدال پسندی یا بیرونی دنیا میں ایک بہتر امیج محض لفاظی سے اور وہ بھی   بے نقط لفاظی سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے حکومت کو زمینی حقائق کو درست کرنا چاہیے‘ انسانی حقوق کا بہتر تحفظ ہونا چاہیے‘ ایک مختلف نصاب کے تحت بہتر تعلیم ہونی چاہیے‘ دہشت گردی اور عورتوں اور بچوں کے خلاف مظالم کے لیے بہتر نفاذ قانون ہونا چاہیے۔

یہ ایک چھوٹا سا آئینہ ہے جس میں پاکستان اور جنرل صاحب کے امیج کے کچھ نقوش دیکھے جاسکتے ہیں۔ جنرل صاحب گئے تو تھے پاکستان کا وقار بڑھانے اور بلند کرنے(image building) کے لیے اور اقوام متحدہ میں اس تاریخی موقع پر پاکستان اور اُمت مسلمہ کا مقدمہ پیش کرنے کے دعوے کے ساتھ‘ مگر حاصل کیا ہوا؟

ع   بات تو سچ ہے‘ مگر بات ہے رسوائی کی

پاکستان اپنے اہداف میں سے کسی ایک کی طرف بھی ایک انچ پیش رفت نہیں کرسکا۔ اُمت مسلمہ کے تصورات اہم ترین مسائل ناگفتنی ہی رہے اور اس کا سب سے بڑا مسئلہ‘ یعنی   مسئلہ فلسطین مزید کنفیوژن‘ انتشار اور بے وقعتی کا شکارہوگیا۔ اقوام متحدہ کی تشکیل نو اور اس میں ملت اسلامیہ کے کردار کا خواب‘ خواب گراں ہی رہا اور ان سب پر مستزاد پاکستانی عورت کی جس طرح سربراہِ مملکت کے ہاتھوں برسرِعام تذلیل ہوئی‘ اس کی مثال تاریخ میں نظر نہیں آتی۔ کونڈولیزارائس جنرل صاحب کو جتنابھی ’غیرمعمولی انسان‘ (extraordinary person) قرار دیتی رہیں اور یہودی لابی انھیں ’ناگزیر انسان‘(indispensible) کہہ کر کتنا ہی مکھن لگائے‘ حقائق کی زبان پکار پکار کرکہتی ہے کہ معاملہ چاہے وردی کا ہو یا سچائی کا‘ سیاسی تدبر کا ہو یا تحمل اور بردباری کا‘ جوش کا ہو یا ہوش کا‘ پاکستان کا امیج تو اس دورے میں بری طرح مجروح ہوا ہی ہے لیکن خود جنرل صاحب کی شخصیت‘ جس کو اب تک پاکستان سے الگ کر کے تعریف و توصیف کا سزاوار سمجھا جاتا تھا‘وہ بھی بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ہے اور بقول میردرد     ؎

تہمتیں چند اپنے ذمے لے چلے

جس لیے آئے تھے سو ہم کرچلے

ہم نے تاریخ اور عمرانی علوم کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے‘ اس کی روشنی میں یہ کہنے کی جسارت کرتے ہیں کہ جنرل صاحب امریکا گئے تو اس توقع پر کہ ۲۰۰۷ء کے بعد بھی اپنے دو’تاجوں‘ کو مزید مہلت دلوالیں گے مگر ان سات دنوں میں جو کچھ خود انھوں نے اپنے ساتھ کیا‘ اس سے جس عمل کا آغاز ہوگیا ہے اسے چرچل کے الفاظ میں: ’اختتام کا آغاز‘ (beginning of the end) ہی کہا جا سکتا ہے۔ کسی فرد اور ملک کے قابلِ اعتماد ہونے اور اس کی ساکھ قائم ہونے کا انحصار اس کی بات کے سچ ہونے پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر اس معاشرے میں جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور جسے مہذب معاشرہ شمار کیا جاتا ہے قیادت کی طرف سے جھوٹ اور غلط بیانی ناقابلِ معافی جرم ہے۔ بڑی سے بڑی غلطی سے درگزر ممکن ہے مگر دروغ حلفی (perjury) ناقابلِ معافی ہے۔ امریکا میں تو اس جرم پر صدرمملکت کا مواخذہ (impeachment) کیا جاسکتا ہے اور ہوا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے جنرل صاحب کے ۱۳ ستمبر والے انٹرویو کو ان کی اپنی آواز میں انٹرنیٹ پر ڈال کر ہماری رسوائی کا جو سامان کیا ہے‘ اس کی ذمہ داری جنرل صاحب اور ان کی جرأت کے سوا کسی پر نہیں۔ ان کے  سیاسی ترجمان (spin-doctors) جو کچھ بھی کہیں‘ پاکستان کے حقیقی بہی خواہ اس صورت حال پر جتنا بھی افسوس کریں کم ہے۔

اُمت کی نمایندگی

مسلمان ملکوں کی قیادت سے یہ توقع تھی کہ اقوام متحدہ کے اس ۶۰سالہ سربراہی اجلاس کے موقع پر اُمت کے تصورات‘ عزائم اور مسائل کی مؤثر اور مدلل نمایندگی کریں گے۔ لیکن افسوس ہے کہ ایرانی صدر احمدی نژاد کے سوا کسی ایک نے بھی ایمان اور جرأت کے ساتھ ان مسائل اور امور کا کوئی ذکر نہیں کیا جو اُمت کی اصل ترجیح ہیں۔ بش سے لے کر مشرف تک کی تقاریر کو کھنگال ڈالیے‘ معلوم ہوتا ہے کہ ’دہشت گردی‘ ہی آج کی دنیا کا اصل مسئلہ ہے حالانکہ یہ امریکا کا ایجنڈا ہے۔  عالمِ اسلام یا انسانیت کا مسئلہ نہیں۔ اقوام متحدہ میں کی جانے والی تقاریر اور اس کی آخری قرارداد میں ’دہشت گردی‘ اور اس پر اُکسانے (incitment)کو وقت کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر پیش کیا گیا ہے حالانکہ دنیا دیکھ رہی ہے اور اہلِ نظر اس کا اب کھل کر اعتراف کر رہے ہیں کہ امریکا نے   دہشت گردی کو دنیا پر اپنی بالادستی (hegemony) اور تحکم قائم کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس کو بہانہ بناکر افغانستان اور عراق پر قبضہ کیا ہے اور وہاں کے وسائل کو اپنے تصرف میں لا رہا ہے‘ نیز پوری دنیا کو زیادہ غیرمحفوظ بنا دیا ہے۔۱؎

آج تک کسی نے دہشت گردی کی کوئی متفق علیہ تعریف نہیں کی۔ اس موقع پر بھی اقوام متحدہ سابقہ ۵۰ سالوں کی طرح کوئی تعریف کرنے سے قاصر رہی ہے اور اگلے سال اس کے لیے کانفرنس کا اعلان کیا ہے مگر اس بے نام (nameless) غیرمرئی (faceless) اور ناقابلِ گرفت (elusive) دشمن کے خلاف جنگ کو ہر مسئلے پر فوقیت دی ہے اور جو ممالک عملاً دنیا میں سب سے زیادہ ظلم اور دہشت گردی پھیلا رہے ہیں‘ یعنی امریکا‘ اسرائیل‘ بھارت اور روس وہ ہرمواخذے سے بالا ہیں۔ ہمارے جرنیل صاحب نے بھی دہشت گردی کے اسباب کے بارے میں تو بڑے ادب کے ساتھ چند جملے کہے ہیں لیکن سارا زور دہشت گردی اور انتہاپسندی کو قوت سے ختم کرنے پر ہے حالانکہ یہ حکمت عملی بری طرح ناکام رہی ہے۔ دنیا بھر کے عوام اس کے خلاف صداے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ اس ہفتے انگلستان میں لاکھوں افراد نے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مخالفت میں فقید المثال مظاہرے کیے ہیں۔ عالمی راے عامہ کے سارے جائزے ہواکا یہ رخ بتا رہے ہیں دنیا کے عوام کی ۷۰ سے ۹۰ فی صد آبادی اس کے خلاف ہے۔ خود امریکا میں اب ۶۱ فی صد افراد اس جنگ کو لاحاصل قرار دے رہے ہیں اور اس جنگ کے خلاف احتجاجی تحریک روز بروز مؤثر ہو رہی ہے۔

صدربش کے حامی مشہور کالم نگار تھامس فریڈمین (Thomes Freedman) نے نیویارک ٹائمزمیں ستمبر کے پہلے ہفتے میں اپنے کالم میں لکھا ہے:

موقع ایک ہی دفعہ ملتا ہے۔ اگر جناب بش کترینا سے سبق سیکھنا چاہیں تو ان کے لیے موقع ہے کہ اپنے نائن الیون کے مینڈیٹ کو کسی نئے اور بامعنی مینڈیٹ سے بدل لیں۔ اگر یہ ہوجائے تو کہا جا سکے گا کہ کترینا نے نیو آرلینز تباہ کردیا لیکن امریکا کو بحال کرنے میں مدد دی۔ اگر جناب بش اپنی سیاست حسبِ معمول جاری رکھیں تو ہر موڑ پر انھیں مخالفت کا سامنا ہوگا۔ گویا کہ کترینا نے ایک شہر اور ایک صدر کو تباہ کر دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ بش اور اس کی دہشت گردی کے خلاف جنگ دم توڑ رہی ہے لیکن جنرل پرویز مشرف اسی جرأت کے ساتھ بش کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں جس جرأت سے ۱۳ستمبر ۲۰۰۱ء کو سجدہ ریز ہوئے تھے۔

دنیا کی اب سوچ کیا ہے؟ اس کا اندازہ انگلستان کے اخبار دی گارڈین کے اس اداریے سے کیا جاسکتا ہے جو ۱۱ستمبر کی مناسبت سے چار سال کا جائزہ لیتے ہوئے جنگوں کے نتائج (Consequences of Wars ) کے عنوان سے لکھا گیا ہے:

نائن الیون کے چار سال بعد امریکا اور اس کے اتحادی دہشت گردی کے خلاف کیا کسی حقیقی کامیابی کا ایمان داری سے دعویٰ کر سکتے ہیں؟ جواب ہے: کوئی خاص نہیں۔     نہ صرف یہ کہ دہشت گردی موجود ہے بلکہ یہ بڑھ رہی ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال دنیا بھر میں دہشت گردی کے ۶۵۱ نمایاں حملے ہوئے جو ۲۰۰۳ء کی تعداد کا تین گنا ہیں۔ یہ تعداد ان دو عشروں میں سب سے زیادہ ہے جب سے واشنگٹن نے یہ اعداد و شمار جمع کرنے شروع کیے ہیں۔

اس کا نتیجہ ہے کہ:

دہشت گردی کے خلاف جنگ کا انحصار اس بات پر تھا کہ مشرق وسطیٰ میں جمہوری انقلاب کا نسخہ بروے کار آئے۔ اصل تعجب کی بات امریکی عسکری طاقت کی ناکامی ہے۔ اس نے قبضہ تو کیا ہے لیکن تعمیرنو کی صلاحیت نظر نہیں آتی۔ سخت مزاحمت کی بناپر زمینی حقائق اور مطلوبہ اہداف کی وسیع خلیج نے امریکی راے عامہ کو متزلزل کر دیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر اصل الزام یہ ہے کہ یہ جن قوتوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کرتی ہے‘ انھی کے لیے بھرتی کے اسباب فراہم کرتی ہے۔ (خلاصہ)

گارڈین کا اداریہ بھی نیویارک ٹائمز کے مقالہ نگار مارک ڈینر (Mark Danner)کی تائید کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ دنیا بھر میں "Al-Qaidaism" کا عنصر رونما ہوگیا ہے اور اس کے آسانی سے ختم ہونے کے کوئی امکانات نہیں۔ اداریے کا خاتمہ اس انتباہ پر ہے کہ:

اگر موجودہ نسل امریکی طاقت کے مقابلے میں نائن الیون واقع کر سکتی ہے تو عراق سے واپسی سے ظاہر ہونے والی امریکی کمزوری کے مقابلے پر اگلی نسل کیا کچھ کرے گی۔ ۲۰۰۱ء کے بعد بن لادن کی تنظیم کو نقصان پہنچا ہے‘ وہ منتشر ہوا ہے اور بہت سی جگہ اس کا کام غیر پیشہ ور نوآموزوں کے ہاتھوں میں ہے۔ لیکن اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ جڑواں ٹاوروں پر حملے کے چار سال بعد دنیا اس کے مقاصد کے لیے اتنی سازگار نظر آئے گی۔

گارڈین کا یہ تجزیہ منفرد نہیں۔ دنیا بھر کے اہل فکرودانش اپنے اپنے انداز میں یہی بات کہہ رہے ہیں لیکن اگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی تو وہ صدر بش‘ ٹونی بلیر اور خود ہمارے جنرل پرویز مشرف ہیں جو ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں۔ یہ سب ایک ہاری ہوئی جنگ میں اپنے اپنے ملکوں کو جھونکے ہوئے ہیں۔ جرنیل صاحب نے اُمت مسلمہ ہی نہیں‘ پوری دنیا کے عوام کو چھوڑ کر جنگ کی آگ بھڑکانے والے بش اور بلیر کا ساتھ اختیار کیا ہے اور پاکستان اور اس کی افواج کو بھی اس جنگ میں زخم خوردہ کر رہے ہیں۔ امریکا سے ہم کو نہ کچھ حاصل ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ لیکن ہم اس جنگ کی آگ میں آگے ہی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔

افغانستان جس سے ہمارے بہترین تعلقات تھے‘ آج اس میں ہمارے خلاف ہر سطح پر لاوا پک رہا ہے۔ ہماری سرحدیں غیرمحفوظ ہوگئی ہیں اور ہم جھنجھلا کر باڑ لگانے کی باتیں کر رہے ہیں___ وہ راستہ جو اسرائیل نے فلسطین میں اور بھارت نے کشمیر میں اختیار کیا ہے اور ناکام ہیں۔ ہماری فوجیں وزیرستان میں اپنے ہی بھائیوں سے لڑ رہی ہیں اور گذشتہ سال کے آپریشن میں ۲۸۰ سے زیادہ ہمارے فوجی جان دے چکے ہیں اور ۶۰۰ زخمی ہیں‘ جب کہ مقابلہ کرنے والوں میں سے بھی ۴۰۰ کے قریب ہلاک ہوئے ہیں اور امن اب بھی عنقا ہے بلکہ کور کمانڈر اور گورنر بھانت بھانت کی بولی بول رہے ہیں۔

بنیادی بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف یہ نام نہاد جنگ ایک مبنی برظلم کارروائی ہے‘ یہ صرف امریکی استعمار کا کھیل ہے جس میں ہم اپنے‘ اُمت مسلمہ کے اور پوری دنیا کے عوام سے کٹ کر صرف امریکی نیوکون (new-con)‘ وہاں کے صہیونیوں اور ان کے مقاصد کو پورا کرنے والی موجودہ امریکی قیادت کا دم چھلّا بن گئے ہیں۔ افسوس ہم کو خود امریکی عوام کے جذبات اور احساسات کا بھی ادراک نہیں جو بش کی اس جنگ گردی کے خلاف نوحہ کناں ہیں۔ امریکی عوام کے جذبات کا اندازہ کرنے کے لیے امریکا کی نامور شاعرہ شارون اولڈز (Sharon Olds) کا وہ خط پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے جو اس نے واشنگٹن کے مشہور زمانہ National Book Festival میں‘ جو ۲۴ ستمبر ۲۰۰۵ء کو واشنگٹن میں منعقد ہوا تھا‘ شرکت نہ کرنے کے اسباب بیان کرتے ہوئے لیڈی لارابش اور صدر بش کو لکھا ہے اور جس کا متن امریکی جریدہ The Nationنے شائع کیا ہے۔

شارون اولڈز کو اس اہم تقریب میں خطاب کرنا تھا اور فرسٹ لیڈی کی دعوت پر عشائیے میں شرکت کرنی تھی لیکن اس نے اس بنا پر انکار کر دیا کہ اسے ان ہاتھوں سے مصافحہ کرنا ہوگا جو عراق کے خلاف جنگ میں ہلاک ہونے والے معصوم انسانوں کے خون سے آلودہ ہیں۔ وہی ہاتھ جنھیں چومنے کے لیے ہمارے حکمران بے چین ہیں۔

امریکا کی ایک معزز شاعرہ اور ادیبہ وہ بات کہہ رہی ہے جو مسلمان حکمرانوں اور دانش وروں کو کہنی چاہیے تھی اور اقوام متحدہ کے ایوانوں کو اس کی گونج سے بھر جانا چاہیے تھا۔ لیکن مسلم ممالک پر قابض حکمران صدر بش سے مصافحہ کرنے کو سعادت سمجھتے ہیں اور خود اپنے لوگوں کے خلاف اس نام نہاد جنگ میں ان کے سپاہی بننے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہماری نگاہ میں جنرل پرویز مشرف کے دورۂ امریکا کا سب سے افسوس ناک پہلو اس نام نہاد دہشت کی جنگ کے دلدل میں پاکستان کو پھنسانا اور مزید پھنسانے کے لیے آمادگی کا اظہار ہے۔ حالانکہ یہ موقع اس جنگ کا پردہ چاک کرنے اور اس کے خلاف عالمی راے عامہ اور مسلم ممالک اور آزادی پسند اقوام کی قیادتوں کو گومنظم اور متحرک کرنا تھا۔ اگر ہم نے یہ کردار ادا کیا ہوتا تو اقوام متحدہ کا نقشہ بدلنے لگتا اور عالمی حالات کسی دوسرے ہی رخ پر مڑنے لگتے لیکن ہم تو دوسروں کے بنائے ہوئے جال میں اس بری طرح پھنس گئے ہیں کہ   ع

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

اس وقت دنیا میں ایک خاص منصوبے کے تحت اسلام اور مسلمانوں کو‘ اور ان کے بنیادی عقائد کو بالعموم اور جہاد‘ اسلامی ریاست اور اصول حکمرانی کو خصوصیت سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نیز اسلامی تعلیم اور مسلمانوں کا تاریخی اور روایتی تعلیمی نظام خصوصی ہدف ہیں۔ ضرورت تھی کہ اس اسلام فوبیا کا بھرپور رد کیا جاتا اور اس کے خلاف مؤثر اور منظم آواز اٹھائی جاتی لیکن کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی بلکہ روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر خود اسلام کی تراش خراش اور ایک معذرت خواہانہ اندازِ گفتگو اختیار کیا گیا اور ایک تاریخی موقع کو ضائع کر دیا گیا۔

امریکی استعمار کی نئی رو

عالمِ انسانی کے لیے اس وقت دو مسئلے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک امریکی استعمار کی نئی رو جو سیاسی‘ عسکری‘ معاشی‘ تہذیبی اور نظریاتی طور پر دنیا پر امریکی اور مغربی نظریات‘ تصورات اور سیاسی اور عسکری بالادستی مسلط کرنے سے عبارت ہے اور جس کے بارے میں کوئی پردہ بھی نہیں رکھا جا رہا۔ امریکی صدر نے صاف کہا ہے کہ ان کی لڑائی اپنی اقدار اور مغربی جمہوریت اور سرمایہ داری کو دنیا میں پھیلانے کے لیے ہے۔ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر نے ایک جملے میں پوری بات یوں   ادا کی ہے جسے سائمن جنکس (Simon Jenkus)نے دی گارڈین میں (بحوالہ دی نیوز ۲۲ستمبر ۲۰۰۵ئ) میں نقل کیا ہے:

لیکن ٹونی بلیر ہمیں بتاتا ہے کہ بندوق کی نالی کے ذریعے پیش کی گئی مغربی اقدار ہی  بے چارے مسلمان کو اس کے اپنے بدترین دشمن‘ یعنی خود اپنے آپ سے بچا سکتی ہیں۔

ٹونی بلیر کے اپنے الفاظ یہ ہیں:

fighting not for territory but for values

اور ہنری کسنجر نے صاف لفظوں میں صدربش کو مشورہ دیا ہے کہ نائن الیون ایک تاریخی موقع ہے جس کے تحت امریکا کو دنیا پر اپنا اقتدار اس طرح مستحکم کرلینا چاہیے کہ اسے مستقبل قریب میں کوئی خطرہ نہ رہے۔ یہی وہ ہدف ہے جس کے حصول کے لیے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ پیشگی حملے‘ حکومتوں کی تبدیلی کے نظریے پیش کیے گئے اور اب تازہ ترین نئے نیوکلیر ڈاکٹرائن ہے جس کے مطابق ہر اس ملک کے نیوکلیر اثاثہ جات تباہ کیے جاسکتے ہیں جن کے بارے میں امریکا کو یہ واہمہ ہے کہ وہ اس کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں یا وہ اس کے زعم میں کسی دہشت گرد گروہ کے ہاتھوں میں آسکتے ہیں۔

اس وقت امریکا کا یہ سامراجی ایجنڈا دنیا کے امن اور تمام اقوام کی آزادی اور حاکمیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ان حالات میں اُمت مسلمہ کی قیادت کا فرض تھا کہ اس خطرے کو مؤثر انداز میں‘ دلیل کی قوت کے ساتھ بے نقاب کرے‘ اس کے خلاف اقوام عالم کو منظم کرے اور  حکومتی اور عوامی محاذ پر وہ حالات پیدا کرے کہ اس نئے سامراج کامقابلہ کیا جا سکے اور اس کے مقابلے میں عالمی امن کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے اقوام متحدہ کو مضبوط کرے‘ اس پر پانچ ملکوں کی اجارہ داری کا خاتمہ کرانے کی تحریک کو تقویت بخشے‘ بین الاقوامی قانون کی بالادستی کے لیے تحریک چلانے اور دنیا میں ایک حقیقی تکثیری نظام (pluralistic order) کے قیام کی سعی کرے جس میں تمام ممالک‘ تمام تہذیبیں‘ تمام مذاہب‘ اور تمام اقوام عزت اور آزادی کے ساتھ باہمی تعاون اور اشتراک سے زندگی گزار سکیں۔ ایران کے صدر نے اس طرف ہلکا سا اشارہ کیا لیکن جنرل پرویز مشرف اور دوسرے مسلمان حکمرانوں کو ادنیٰ سی توفیق بھی نہیں ہوئی کہ وہ اس بنیادی عالمی مسئلے کی طرف اقوام عالم کی توجہ دلانے اور عالمی راے عامہ کو مسخر کرنے کی کوشش کریں۔

انصاف کا فقدان

عالم انسانیت کا دوسرا بڑا مسئلہ عالمی سطح پر انصاف کا فقدان اور دولت اور اقتدار کی ایسی ناہمواریاں ہیں جن کے نتیجے میں دنیا کی آبادی کا تین چوتھائی عزت کی زندگی سے محروم ہے۔ امریکا کی آبادی دنیا کی آبادی کے ۶ فی صد سے بھی کم ہے مگر دولت کا ۲۵ فی صد اور توانائی کا ۳۰ فی صد اس کے قبضے میں ہے۔ امیرملکوں میں قائم ۵۰۰ ملٹی نیشنل کارپوریشنیں‘ دنیا کی تجارت کے ۷۰ فی صد پر قابض ہیں اور ان میں ایسی کمپنیاں بھی ہیں جن میں سے ایک ایک کی دولت دنیا کے ۴۰/۵۰ ملکوں کی دولت سے زیادہ ہے۔ افریقہ کے ممالک کا حال یہ ہے کہ آج ان کی فی کس آمدنی اس سے بھی کم ہے جو ۱۹۷۰ء میں تھی‘ جب نئے معاشی عالمی نظام کی آواز بلند ہوئی۔ ان ۴۰ برسوں میں وہ ۱۹۷۰ء سے بھی خراب حالات میں ہیں۔ دنیا کے امیر ملکوں نے بین الاقوامی تجارت پر ایسے بند باندھ رکھے ہیں کہ امریکا اور یورپ کی منڈیوں تک غریب ممالک کی برآمدات کی رسائی ممکن نہیں‘ جب کہ ان کی اپنی منڈیاں ان ممالک کی چراگاہ بنی ہوئی ہیں۔

ستم ہے کہ آج دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ اسی غربت کا شکار ہے کہ اس کے رہنے والوں کو ایک ڈالر یومیہ بھی میسر نہیں ‘ جب کہ یورپ میں ہر گائے کے لیے سرکاری خزانہ سے دو ڈالر یومیہ کی سبسڈی دی جاتی ہے اور اس لیے دی جاتی ہے کہ دوسرے ممالک سے سستا دودھ‘ مکھن‘ گھی نہ منگوانا پڑے۔ امیر ممالک بیرونی امداد کے نام پر سالانہ ۵۰ ارب ڈالر دیتے ہیں‘ جب کہ اپنے ملکوں کی زراعت کو ترقی پذیر ملکوں کی زرعی مصنوعات سے بچانے کے لیے ۳۶۰ ارب ڈالر سالانہ سبسڈی دیتے ہیں اور غریب ملکوں سے آنے والی زرعی مصنوعات کا راستہ روکتے ہیں۔ دنیا میں جنگ کے کاروبار کو گرم رکھنے کے لیے سالانہ خرچ اب ایک ہزار ارب ڈالر کو چھو رہا ہے اور اس میں سے امریکا کا حصہ ۴۰فی صد سے زیادہ ہے لیکن غربت کو ختم کرنے‘ روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور زندگی کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے وسائل فراہم کرنے کی کوئی فکر نہیں۔ جس نام نہاد دوسرے ہزاریے (millenium) کے ترقیاتی پروگرام کا آغاز پانچ سال پہلے ہوا تھا اس کا حشر یہ ہے کہ اس کے اہداف کا ایک چوتھائی بھی پورا نہیں ہوسکا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر خود امریکا نے آج تک لفظی حد تک بھی اپنی اس ذمہ داری کو قبول نہیں کیا ہے کہ اپنی قومی دولت کا ۷ئ۰ فی صد ہر سال ترقی پذیر ملکوں کی معاشی ترقی کے لیے فراہم کرے گا۔

یہ ہیں وہ بنیادی مسائل جن کی طرف اقوام متحدہ کے اس ۶۱ویں اجلاس میں غور ہونا تھا مگر اسے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ ان کے ساتھ مسلم دنیا کے سلگتے ہوئے مسائل میں فلسطینیوں کا مسئلہ ہے جس کے بارے میں نہ صرف یہ کہ کوئی مؤثر آواز نہیں اٹھائی گئی بلکہ اُلٹا اسرائیل اور شارون کو غزہ کی پٹی سے انخلا کے ڈرامے کی بنیاد پر شاباش دی جارہی ہے۔ ہم اس سے تعلقات بحال کرنے کے لیے بے چین ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ یہودی لابی کے قدموں میں گرنے سے ہمیں کوئی مراعات حاصل ہوجائیں گی۔

کشمیر کا مسئلہ اُمت مسلمہ کا دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن اس کو بھی جس کمزور انداز میں اٹھایا گیا اور جہاد آزادی کو دہشت گردی قرار دینے کی بھارتی کوشش کا کوئی مؤثر جواب تک نہیں دیا گیا بلکہ ہر طرح کی دہشت گردی ختم کرنے کا وعدہ کر ڈالا گیا جو تحریکِ مزاحمت کی کمر توڑنے کے مترادف ہے۔ بھارت کے وزیراعظم سے ملاقات کی بڑی دھوم تھی مگر چار گھنٹے کی ملاقات میں کیا حاصل ہو۱___  وہی ڈھاک کے تین پات! وہی سرحدوں میں تبدیلی نہ کرنے کا اعلان! وہی سرحدپار دہشت گردی کی رٹ! وہی مزید مذاکرات کی نوید!

شیشان کا مسئلہ بھی کسی طرح کم اہم نہیں۔ اسی طرح فلپائن اور تھائی لینڈ کے مسلمانوں کے مسائل ہیں‘ لیکن کسی مسلمان حکمران کو ان مسائل کو اٹھانے اور ان علاقوں پر بیرونی قبضے‘ حکومتی ظلم و تشدد‘ حق خود ارادیت کی تحریکات کو کچلنے اور انسانی حقوق کو بے دردی سے پامال کرنے کے خلاف آواز اٹھانے کی توفیق نہیں ہوئی۔

صدر بش سے تین توقعات

جنرل پرویز مشرف نے دعویٰ تو کیا تھا مسلمان اُمت کے مقدمہ کو پیش کرنے کا لیکن وہ صرف صدر بش کے ایجنڈے پر عمل کرتے رہے اور ان کی ساری توقعات صدر بش کے ذریعے  کچھ حاصل کرنے کی تھیں مگر عملاً صدربش نے سفید جھنڈی دکھا دی جو امریکا کا پرانا وطیرہ ہے۔ جنرل صاحب اور ان کی پوری ٹیم نے صدربش سے تین توقعات کا اظہار کیا تھا‘ یعنی:

۱-            بھارت کو جو اسلحہ فراہم کیا جا رہا ہے اور خصوصیت سے ایٹمی ٹکنالوجی کے میدان میں جو معاہدہ کیا گیا ہے اور جو تازہ ترین ٹکنالوجی نئے معاہدے کے تحت دی جارہی ہے‘ پاکستان کو بھی   کم ازکم وہی سہولت دی جائے اور مساوی معاملہ کیا جائے۔ امریکا نے صاف انکار کردیا ہے کہ بھارت کا معاملہ خاص ہے‘ پاکستان کو اشک شوئی کے لیے کچھ پرانا اسلحہ دیا جاسکتا ہے مگر جو تعاون نیوکلیئر ٹکنالوجی کے سلسلے میں کیا جا تا رہا ہے اس کو پاکستان کو دینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

۲-            دوسری درخواست صدر بش سے یہ کی گئی تھی کہ کشمیر کے معاملے میں کچھ پیش رفت کرانے میں مدد دیں اور خاص طور پر بھارتی فوج میں کچھ کمی اور کم از کم دو چھوٹے سے علاقوں سے فوج کی واپسی کے لیے کچھ دبائو بھارت پر ڈالا جائے۔ لیکن بھارت نے صاف انکار کر دیا اور اس کے برعکس من موہن سنگھ نے صدر بش سے کہا کہ پاکستان سے اب بھی سرحدی دراندازیاں ہو رہی ہیں اور ان کو رکوایا جائے اور ہمارے جرنیل صاحب بغلیں بجاتے رہ گئے۔

۳-            تیسری درخواست فلسطین کے پیش پا افتادہ روڈمیپ کی بحالی کے بارے میں تھی۔ لیکن یہاں بھی صدربش نے کوئی گھاس نہ ڈالی بلکہ محض غزہ کی پٹی سے فوجوں کی جزوی اور نام نہاد واپسی ہی کو بہت بڑا کارنامہ قرار دیا اور سارا زور غزہ اور غرب اُردن کے علاقے میں حماس کا زور توڑنے کے مطالبات پر صرف کر ڈالا۔

یہ ہیں ہماری خارجہ پالیسی کی فتوحات! سب سے بڑھ کر ذلت اور فوجی غیرت کے منافی جنرل صاحب کا آخری دورہ تھا جس میں تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سربراہ مملکت فلوریڈا میں امریکی فوج کے ایک علاقائی نظام سنٹرل کمانڈ (Centcom ) کے دفتر میں بہ نفس نفیس اس کے کمانڈر ابوزید کے دربار میں حاضری دینے کے لیے گیا۔ جنرل پرویز مشرف چیف آف اسٹاف کی حیثیت سے بھی سنٹرل کمانڈر کے کمانڈر سے اونچا درجہ رکھتے ہیں چہ جائیکہ صدرمملکت کی حیثیت سے لیکن قومی وقار اور ہر protocol کے تمام آداب کو بالاے طاق رکھ کر جرنیل صاحب سنٹرل کمانڈ کے کمانڈر سے ملنے نیویارک سے فلوریڈا گئے اور دربار میں حاضری دینے کو اپنے لیے وجہِ عزت و افتخار قرار دیا۔ اس سے زیادہ قومی عزت کی پامالی کا کیا تصور کیا جا سکتا ہے۔

جنرل پرویز مشرف کا امریکا کا یہ دورہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ خدا کرے کہ یہ اس سلسلے کا آخری باب ہو۔

قومی احتساب کی ضرورت

بات ختم کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس امر کی نشان دہی بھی کر دی جائے کہ یہ ساری ناکامیاں‘ رسوائیاں اور ہزیمتیں اس لیے ہمارا مقدر ہوگئی ہیں کہ ہمارے ملک میں فیصلہ کرنے کا سارا اختیار فردِ واحد کے ہاتھوں میں مرکوز ہے۔ سارے ادارے عملاً معطل ہیں اور مشاورت اور اجتماعی فیصلہ سازی کا کوئی نظام موجود نہیں اور ایک شخص قرونِ وسطیٰ کے بادشاہوں کی طرح I am the state کے فلسفے پر عمل پیرا ہے۔ کابینہ‘ پارلیمنٹ‘ سیاسی جماعتیں‘ عوام سب غیرمتعلق ہوگئے ہیں۔ قومی احتساب کا کوئی نظام موجود نہیں۔ حالات اس وقت تک تبدیل نہیں ہوسکتے جب تک اس بنیادی مسئلے کا فوری اور مؤثر حل نہیں کیا جاتا۔ یہ وقت کی اوّلین ضرورت ہے اور اصلاح احوال کے لیے پہلی شرط کی حیثیت رکھتی ہے۔ تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو ہر دوسرے معاملے (consideration) سے بلند ہوکر اس مسئلے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہ افراد جو آج حکومتی پارٹی سے منسلک ہیں‘ ان کو بھی غور کرنا چاہیے کہ وہ ملک کو کس سمت میں دھکیل رہے ہیں اور خود اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کو کس عذاب میں مبتلا کرنے میں شریک ہیں۔ ہم سب کو ایک دن اللہ کو جواب دینا ہے کہ اس نے جو امانت پاکستان کی شکل میں ہمارے سپرد کی تھی ‘ہم نے اس سے کیا معاملہ کیا۔ تاریخ تو اپنا فیصلہ دے گی ہی‘ مگر ہم میں سے ہر ایک کو اپنی آخرت کے نقطۂ نظر سے بھی اپنا احتساب کرنا چاہیے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانِ برحق پر سنجیدگی سے عمل کرنا چاہیے کہ حاسبوا قبل ان تحاسبوا ، ’’خود اپنا احتساب کر لو قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے‘‘۔

صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے ڈھائی سال کے صبرآزما مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے اپنے اسلامی اصلاحی پروگرام کو نافذ کرنے کی مساعی کے باب میں مرکزی حکومت کے معاندانہ رویے اور اپوزیشن جماعتوں کے عدمِ تعاون سے تنگ آکر ۱۱جولائی ۲۰۰۵ء کو اسمبلی میں جیسے ہی حِسبہ بل پیش کیا‘ یوں محسوس ہوا  جیسے پورے ملک میں ایک بھونچال سا آگیا اور ایسا معلوم ہوا کہ بھڑوں کے چھتے سے سارے سورما نکل کر بیک وقت حملہ آور ہوگئے ہیں۔

مرکزی حکومت کے کارپردازوں سے لے کر صوبے کے گورنر تک‘ جن کا عہدہ ان کو پارٹی وفاداری سے بلند ہوکر صرف دستوری گورنر کا کردار ادا کرنے کا پابند کرتا ہے‘ حِسبہ بل کی مذمت میں یک زبان و یک جان ہوگئے ہیں۔ سرکاری اہل کار اور لبرل سیکولر نظام کے علم بردار سب بڑی دیدہ دلیری سے اسے دستور کے خلاف‘ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات سے متصادم‘ حقوقِ انسانی پر ضرب کاری‘ متوازی نظام کے قیام کا ذریعہ اور فسطائیت اور طالبانائیزیشن کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ملک کے سرکاری میڈیا سے لے کر تمام نام نہاد لبرل اور سیکولر قوتیں بشمول انسانی حقوق کے دفاع کی دعوے دار این جی اوز‘ اس کے خلاف صف آرا ہوگئی ہیں اور عالمی میڈیا بھی انھی کی لَے میں لَے ملا رہا ہے۔

الحمدللہ صوبہ سرحد کے عوام اور ان کی منتخب مجلس عمل کی حکومت نے اس ہمہ جہتی مخالفانہ یلغار کا سینہ سپر ہوکر مقابلہ کیا اور اپنے دستوری حق اور دینی ذمہ داری کو جرأت اور حکمت کے ساتھ ادا کیا۔ اسمبلی نے چار دن کی طویل بحث کے بعد ۱۴ جولائی کو ۳۴ کے مقابلے میں ۶۸ووٹوں کی دوتہائی اکثریت سے حِسبہ بل کو منظورکرلیا ہے اور دستور کے مطابق گورنر کو توثیق کے لیے بھیج دیا ہے جو پابند ہیں کہ ۳۰دن کے اندر اندر اس کی توثیق کر دیں یا اپنے اعتراضات کے ساتھ اسمبلی کو واپس کر دیں۔ اسمبلی مجاز ہے کہ بل پر دوبارہ غور کرنے کے بعد جس شکل میں چاہے اسے منظور کرکے دوبارہ گورنر کو بھجوا دے اور اس صورت میں گورنر کو بل پر اپنے دستخط ثبت کرنا ہوں گے۔

مرکزی حکومت کے نمایندوں نے اسمبلی کو تحلیل کرنے اور صوبے کی حکومت کو برطرف کرنے کی دھمکیاں دے کر سمجھا تھا کہ مجلس عمل کی حکومت خوفزدہ ہوجائے گی لیکن مجلس عمل نے بجاطور پر مرکزی وزرا اور گورنر کی گیدڑ بھبھکیوں کو کوئی وقعت نہ دی اور اپوزیشن جماعتوں کو اپنے نقطۂ نظر کے بیان کا پورا موقع دے کر بل کو خالص جمہوری انداز میں منظور کیا‘ جو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومت کے سرکاری بلوں کو بل ڈوز کرنے کی روش سے بڑی مختلف مثال تھی۔ صوبائی حکومت نے بل کو دستور کے مطابق منظور کر کے بال کو مرکزی حکومت اور اس کے نمایندہ گورنر کی کورٹ میں پھینک دیا۔ اب مرکزی حکومت نے نہایت عجلت کے ساتھ ۲۴ گھنٹے کے غوروفکر کی زحمت بھی گوارا کیے بغیر دستور کی دفعہ ۱۸۶ کے تحت سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے کہ اس ’’قانونی مسئلہ‘‘ پر اپنی رائے دے۔ اس بارے میں اس نے آٹھ سوال اٹھائے ہیں۔ دستور کے تحت صدر کا یہ حق ہے کہ کسی بھی قانونی سوال کو عدالت عالیہ کے مشورے کے لیے بھیج دے لیکن اس کی حیثیت مجوزہ قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے کے مترادف نہیں اس لیے کہ ابھی یہ بل اسمبلی نے صرف منظور کیا ہے اور اسے قانون کا درجہ حاصل نہیں ہوا۔

حِسبہ بل پر جو اعتراضات اٹھائے گئے ہیں ان کے مضمرات بڑے سنگین ہیں۔ ان میں سے کچھ کی طرف ہم اس مضمون میں اشارہ کریں گے۔

اس وقت مرکزی حکومت اور کچھ اپوزیشن جماعتوں نے اس بل پر جس طرح حملہ کیا ہے اور جن بحثوں کو وہ آگے بڑھا رہے ہیں‘ ان سے جو مرکزی نقطۂ نظر سامنے آتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ اصل ہدف حِسبہ بل نہیں‘ اسلام اور شریعت اسلامی کا نفاذ ہے۔ اسلامی نظام کے قیام کے خالی خولی اعلانات تو بار بار ہوئے ہیں لیکن حِسبہ بل ایک ایسے حقیقی تنفیذی ادارے کے قیام کی کوشش ہے جس کے ذریعے کم از کم ایک صوبے میں نفاذ شریعت کے عمل کا آغاز ہوسکتا ہے۔ ہماری نگاہ میں تو یہ بل اسی منزل کی طرف ایک ابتدائی لیکن عملی اہمیت کا حامل اقدام ہے اور یہی وجہ ہے کہ مخالفین کی    نگاہ میں یہ بڑی خطرناک پہلکاری (initiative) ہے کیوں کہ اگر مجلس عمل کی حکومت نفاذ شریعت کی طرف مؤثر انداز میں عملی پیش قدمی شروع کردیتی ہے تو ان کی ’’روشن خیال اعتدال پسندی‘‘ کا سارا قلعہ دھڑام سے زمین پر آگرے گا۔ اب تو یہ بات مغربی پریس نے برملا کہہ دی ہے کہ enlightened moderation (روشن خیال اعتدال پسندی) کی اصطلاح امریکا کے سابق وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے جنرل پرویز مشرف کے کان میں پھونکی تھی اور مقصد مسلمانوں کو اعتدال پسند اور انتہا پسند اور لبرل اور بنیاد پرست گروہوں میں بانٹنا تھا۔ اسلام اور سیکولرزم کے درمیان جنگ اب کھل کر سامنے آگئی ہے اور ساری سیکولر قوتیں یک جان و یک زبان ہوگئی ہیں۔ اب ہرجماعت اور ہرفرد اپنے اصل رنگ میں قوم کے سامنے آگیا ہے۔

حِسبہ بل کی حقیقت اور اس پر اعتراضات کی قدروقیمت پر کسی گفتگو سے قبل چند حقائق کا مختصر اعادہ ضروری ہے۔

مرکزی حکومت کا غیر جمھوری رویہ

سب سے پہلی قابلِ توجہ بات مرکزی حکومت کا صوبہ سرحد کی حکومت اور صوبے کے اصلاحی پروگراموں کے بارے میں معاندانہ رویہ ہے جو روز بروز مزید نمایاں ہوتا جارہا ہے۔ صوبے کے معاملات میں مرکز کی مداخلت صوبائی خودمختاری کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے اور مرکز اور صوبے کے درمیان خوش گوار تعلقات اور ہم آہنگی پر بھی ضرب کاری کی حیثیت رکھتی ہے۔ مرکز‘ صوبے کے گورنر کے ادارے کو صوبے کی حکومت کو ہراساں کرنے کے لیے بڑی عاقبت نااندیشی کے ساتھ استعمال کر رہا ہے۔ مرکزی حکومت حساس قبائلی علاقوں میں امریکا کی خوش نودی اور حکم برآوری کے لیے فوج کشی میں مصروف ہے جس میں علاقے کے کورکمانڈر کے اعتراف کے مطابق ۲۵۱ فوجی کام آچکے ہیں اور ۵۵۰ زخمی ہوئے ہیں۔ صوبے کی انتظامی مشینری پر مرکز اپنی گرفت مضبوط کیے ہوئے ہے اور اس کا ثبوت صوبائی چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کا صوبے کی حکومت کے مشورے کے بغیر تبادلہ اور نئی ٹیم کا تقرر ہے۔ این ایف سی ایوارڈ نہ دے کر‘ صوبے کی مالیاتی ناکہ بندی بھی کی ہوئی ہے۔ بجلی کی رائلٹی سے لے کر طوفانی بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں تک کے موقع پر صوبے کو امدادی کارروائیوں کے لیے اس کے مبنی برحق وسائل سے محروم رکھنا بھی اس میں شامل ہے۔

مرکز کا یہ معاندانہ رویہ دستور کی کھلی خلاف ورزی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی اعتبار سے فضا کو مکدر کرنے کا ذریعہ ہے اور صوبے کی حکومت اپنے محدود وسائل اور دستوری‘ قانونی اور انتظامی تحدیدات کے باوجود اپنے نظریاتی‘ معاشی‘ اخلاقی اور اصلاحی پروگرام پر جو عمل کرنا چاہتی ہے‘ اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ کش مکش حِسبہ بل کے سلسلے میں اس مقام پرآگئی ہے جس کے بڑے دُوررس نتائج ہوسکتے ہیں۔ صوبے کی جو اپوزیشن جماعتیں اپنے مخصوص سیاسی یا جذباتی تعصبات کی وجہ سے مرکز میں برسرِاقتدار عناصر کے اس کھیل کو نہیں سمجھ رہی ہیں اور ان کے جال میں پھنس گئی ہیں‘وہ بڑی بھیانک غلطی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔

صوبائی حکومت کا معقول رویہ

دوسری طرف صوبے کی حکومت پورے معاملے کو بہت صبروتحمل اور بردباری کے ساتھ لے کر چل رہی ہے۔ صوبے کی شریعت کونسل نے جس میں تمام مکاتب فکر (بشمول اہل تشیع) کے علما اوردانش ور شریک تھے‘ نفاذ شریعت کے لیے جو نقشۂ راہ مرتب کیا تھا‘ اس میں شریعت بل‘ حِسبہ بل‘ تعلیمی اصلاحات‘ معاشی اصلاحات اور سماجی اور معاشرتی اصلاحات کا ایک جامع پروگرام تھا۔ یہ کام صوبے کی شریعت کونسل نے حکومت کے قیام کے پہلے سال کے اندر اندر کرلیا تھا۔ شریعت بل اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کرلیا تھا اور بجٹ سازی‘ تعلیمی پالیسی‘ بنک کاری کے نظام کی تبدیلی اور چند دوسرے دائروں میں ضروری اصلاحات کے ساتھ حِسبہ بل جو دراصل عام آدمی کے لیے انصاف کے حصول اور سیاسی‘ معاشی‘ انتظامی اور دوسرے میدانوں میں رائج ظلم و استحصال کے تدارک کی ایک جامع کوشش ہے‘ متحدہ مجلس عمل کے پروگرام کا اہم حصہ تھا۔ حکومت کی کوشش تھی کہ اس پر زیادہ سے زیادہ اتفاق راے پیدا کیا جائے اور اس وجہ سے اس پر ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصے تک مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے متفق علیہ راہ نکالنے کی کوشش کرتی رہی لیکن جب یہ واضح ہوگیا کہ دوسری طرف سے تعاون کی راہوں کو مسدود کر دیا گیا ہے تو پھر اس نے سارے خطرات اور مشکلات کو جانتے بوجھتے ہوئے‘ محض اللہ اور عوام سے اپنے عہد کو ایفا کرنے کے لیے اسمبلی کے ذریعے اس قانون کو بنانے اور اس کے مطابق عمل کرنے کا تہیہ کرلیا۔

حِسبہ بل کا مسودہ ابتدا ہی میں گورنر کو اس لیے بھیجا گیا تھا کہ اس پر افہام و تفہیم کا عمل شروع ہو۔ گورنر نے بات چیت کرنے کے بجاے اسے نو تشکیل شدہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیج دیا جسے خاص سیاسی مقاصدکے لیے تشکیل دیا گیا تھا اور جس پر اس کے قیام کے وقت ہی تمام اہم دینی عناصر نے شدید عدم اطمینان کا اظہار کر دیا تھا۔ کونسل دستور کی دفعہ (۲) ۲۳۰ کے تحت پابند ہے کہ اگر صدر‘ گورنر‘ مرکزی یا صوبائی اسمبلی اسے کوئی مسئلہ اظہار راے کے لیے بھیجتی ہے تو وہ ۱۵ دن کے اندر اندر اس پر اپنی رائے دے۔ گورنر سرحد نے کونسل کو حِسبہ بل ۱۴ اکتوبر ۲۰۰۳ء کو بھیجا ہے اور کونسل نے ۱۱ مہینے کے بعد ۴ستمبر ۲۰۰۴ء کو گورنر سرحد اور وزیراعلیٰ سرحد کو اپنی رائے بھیجی‘ اور جیساکہ ہم ثابت کریں گے کہ اس میں ایک نکتہ بھی ان terms of reference کے مطابق نہیں تھا جو دستور کے تحت اس کونسل کے لیے مقرر کیا گیا ہے بلکہ ایک سابق جج صاحب نے اپنی ساری قانونی مہارت کے ذریعے اِدھر اُدھر کی باتوں کو نمبروار داخل دفترکرنے کا کارنامہ سرانجام دیا اور کونسل نے اسے کسی تبدیلی کے بغیر آگے بڑھا دیا۔

صوبہ سرحد کی حکومت نے مرکز میں برسرِاقتدار جماعت کے ذمہ داروں سے بات چیت کی اور ۵جولائی کی نشست میں اس کی تین اہم ترین شخصیات تک نے جن میں حکمران پاکستان مسلم لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین اور سیکرٹری جنرل سید مشاہد حسین شامل تھے‘ اپنے اس استعجاب کا اظہار کیا کہ اس مجوزہ بل کی اتنی مخالفت کیوں ہو رہی ہے حالانکہ اس میں دو چار چھوٹی چھوٹی باتوں کے علاوہ کوئی بات قابلِ گرفت نظر نہیں آتی۔ بلکہ ایک صاحب نے تو یہاں تک کہا کہ خرابی آپ کے بل میں نہیں‘ آپ کے انداز اظہار (failure to communicate) میں ہے۔ اسی طرح صوبائی حکومت نے صوبے کی اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو اعتماد میں لیا اور کہا کہ اگر کوئی معقول تجویز ہے تو آیئے‘ اس پر بیٹھ کر بات کرلیں لیکن دونوں محاذوں پر بالآخر مایوسی ہوئی اور غالباً اس کی وجہ دلیل کی بنیاد پر اختلاف نہیں بلکہ وہ خوف ہے جو امریکا اور مغربی اقوام کے اسلام کو ہوّا اور اصل خطرہ بناکر پیش کرنے کی مہم کا اثر ہے اور جس کا مظہر یہ مضحکہ خیز واویلا ہے کہ صوبہ سرحد ’’طالبانائیزیشن‘‘ کی زد میں ہے۔ حالانکہ جیساکہ ہم ثابت کریں گے اس بل کا کوئی تعلق افغانستان کے تجربات سے نہیں بلکہ اس کا حرف حرف دستور کے مطابق اور مسلمانوں کی ۱۴۰۰ سالہ تاریخ سے ہم آہنگ ہے اور پاکستان کے دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کمیٹی کی سفارشات‘ دستور ۱۹۷۳ء کے ریاست کے لیے رہنما اصول اور خود اسلامی نظریاتی کونسل کی اس مکمل رپورٹ کی سفارشات کے مطابق ہے جو ۱۹۹۶ء میں اس نے پیش کی تھی۔ آج جن باتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ان میں سے ہر ایک ملک کے قانونی نظام کا حصہ ہے اور ایک نہیں دسیوں قوانین میں وہی تمام دفعات من و عن موجود ہیں‘ مگر بھلا ہو تعصب کا کہ    ؎

تمھاری زلف میں پہنچی تو حُسن کہلائی

وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی

حِسبہ کی فکری اھمیت اور تاریخی روایت

آیئے سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ حِسبہ کا یہ ادارہ ہے کیا؟

ہر قوم کے لیے زندگی کا اجتماعی نظام کسی نہ کسی اصول اور نظریے پر مبنی ہوتا ہے۔ ایک تصور یہ ہے کہ مذہب ایک افیون ہے اور انسان کی زندگی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی اخلاقی ضابطے‘ کسی الہامی ہدایت اور ابدی اقدار کے کسی نظام کی ضرورت نہیں۔ اور اگر کچھ لوگ بضد ہیں کہ مذہب سے رشتہ باقی رہنا چاہیے تو پھر مذہب کا دائرہ صرف فرد کی ذاتی اور نجی زندگی اور زیادہ سے زیادہ مسجد اور گھر تک محدود ہونا چاہیے۔ اجتماعی زندگی کا نظام و نقشہ دنیوی علوم اور تجربات‘ ذاتی خواہشات اور مفادات اور قومی روایات اور تصورات کے مطابق بننا چاہیے۔ اگر ہمارا نظریۂ حیات یہی ہے تو پھر اس میں حِسبہ کے اس تصور کی کوئی گنجایش نہیں جو اسلام نے پیش کیا ہے اور جو مسلمانوں کی تاریخ کا تابندہ ادارہ اور روایت رہا ہے۔ لیکن اگر ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کے معنی ہی یہ ہیں کہ فرد اور جماعت‘ ہر کوئی ذاتی اور اجتماعی‘ ہر اعتبار سے اللہ کی بندگی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ مبارکہ کی پیروی میں اپنی دنیوی اور اُخروی نجات دیکھتا ہے تو پھر ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ان حدود کا پابند اور ان اقدار کا حامل ہونا چاہیے جو اسلامی زندگی کا طرۂ امتیاز ہیں۔ پھر انسان کی زندگی کا ہر لمحہ اس فکر میں گزرتا ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت اور حقوق العباد ادا کرنے کی راہ میں گامزن ہے یا ان سے غفلت برت کر اطاعت الٰہی سے انحراف اور بغاوت کا مرتکب ہورہا ہے۔ پھر ہرلمحہ وہ اپنا احتساب کرتا ہے اور ہر قدم شعور اور منزلِ مطلوب کی طرف پیش قدمی کے جذبے سے اٹھاتا ہے۔ پھر وہ خود بھی نیکیوں کے حصول اور برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے گردونواح میں بھی معروف کے فروغ اور منکرسے نجات کے لیے سرگرم ہوجاتا ہے۔ حِسبہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسی احساس کو مرتب اور منظم کرکے اداراتی حیثیت دینے کا نام ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز اور روزے کو بھی احتساب کے ساتھ ادا کرنے کی تلقین کی ہے اور پوری زندگی کھلی آنکھوں اور جائزہ نفس کے ساتھ گزارنے کا حکم دیا ہے (حاسبوا قبل ان تحاسبوا) ۔ گویااپنا جائزہ خود لے لو‘ اپنا حساب کتاب خود ہرلمحہ کرتے رہو قبل اس کے کہ تمھارا حساب لیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہرمسلمان مرد اور عورت اور مسلمانوں کے اجتماعی نظام___ اُمت بحیثیت مجموعی اور اسلامی ریاست جو مسلمانوں کی اجتماعی قوت اور امامت کی مظہر ہے‘ دونوں کی ذمہ داری ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنی زندگی کا شعار بنائیں۔ اہلِ ایمان اور کفار‘ منافقین اور فساق میں فرق ہی معروف اور منکر کے بارے میں ان کے رویے کا ہے۔ قرآن دونوں راستوں کو بالکل دو اور دو چار کی طرح واضح کر دیتا ہے:

اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُہُمْ مِّنْم بَعْضٍم یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَیَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَہُمْط نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَہُمْ ط اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (التوبۃ ۹:۶۷)

منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے کے ہم رنگ ہیں۔ برائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ خیر سے روکے رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے بھی انھیں بھلا دیا۔ یقینا یہ منافق ہی فاسق ہیں۔

اور اہلِ ایمان کا حال یہ ہے کہ:

وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍم  یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَیُطِیْعُوْنَ

اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ ط اُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّٰہُ ط اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ o  (التوبۃ ۹:۷۱)

مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں‘ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی۔ یقینا اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔

اور یہ ذمہ داری جس طرح ہر فرد___ مسلمان مرد اور عورت کی ہے اسی طرح یہ ذمہ داری پوری اُمت اور جب اہلِ ایمان کو زمین پر اقتدار حاصل ہو تو حکومت اور اس کی اجتماعی قوت کی ہے۔

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰)

اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

اسی سرگرمی‘ کش مکش اور جدوجہد کی طرف ہمیں پکارا گیا ہے:

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌیَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۴)

تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں‘ بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں‘ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔

اور جب انھیں اقتدار اور قوت میسر آتی ہے تو پھر وہ منظم اور ریاستی آہنگ کے ساتھ یہی خدمت انجام دیتے ہیں:

اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِo (حج ۲۲:۴۱)

یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میںاقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے‘ زکوٰۃ دیں گے‘ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

نظام حِسبہ اسی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کو ادا کرنے کی ایک منظم کوشش کا نام ہے۔ یہ انتظام دور رسالت مآبؐ سے شروع ہو کر اسلامی تاریخ کے ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس فرض کو انجام دیا اور اُمت کو مختلف انداز میں اور اپنے نمایندوں کو مختلف میدانوں میں اسی کام کو انجام دینے کے لیے مامور فرمایا۔ دور خلافت راشدہ میں ہرخلیفہ نے اسے انجام دیا‘ ہر ولایت کا گورنر اس پر مامور تھا اور پھر جیسے جیسے زندگی کے کاروبار نے وسعت اور تنوع اختیار کیا تو مختلف دائرہ کار کے افراد اور اداروں کا قیام عمل میں آیا۔

پہلی ہی صدی میں بازاروں میںنگراں (عمال السوق) مقرر ہوئے۔ قاضی اور کوتوال (شرطیٰ) کے ادارے وجود میں آئے اور پھر باقاعدہ حِسبہ کا نظام قائم ہوا جو ۱۳۰۰سال تک پوری اسلامی قلمرو میں مختلف شکلوں میں اور مختلف ناموں سے کارفرما رہا۔ امام غزالیؒ نے احیاء العلوم میں اس کے اخلاقی‘ معاشرتی اور معاشی ہر پہلو پر کلام کیا ہے۔ الماوردی نے الاحکام السلطانیہ میں ایک پورا باب اس نظام پر قائم کیا ہے اور سیاسی‘ معاشی اور انتظامی پہلوئوں کو اجاگر کیا ہے۔  ابن خلدون نے مقدمے میں اسے ایک بنیادی اجتماعی ادارے کے طور پر پیش کیا ہے۔ ابن تیمیہ  نے الرسالہ فی الحسبۃ مرتب کیا جس میں اس کا تصوراتی ہیولہ (conceptual framework) مرتب کیا ہے۔ ابن حزم نے الفصل فی الملل میں اس پر مبسوط بحث کی ہے۔ غرض ہر دور میں اور ہر علاقے میں عملاً اس ادارے کی کارفرمائی دیکھی جاسکتی ہے اور اہلِ علم نے اپنے اپنے حالات کے مطابق اس پر بحثیں کی ہیں۔ بنواُمیہ‘ بنوعباس‘ دولت عثمانیہ‘ صفوی دور‘ تغلق سلطنت اور خصوصیت سے مغلیہ دور میں اورنگ زیب عالم گیر کی حکومت میں‘ حِسبہ کا ادارہ موجود رہا ہے۔ مصر‘ شام‘ ایران‘ بلادِ غرب‘ ماوراء النہر کے علاقے‘ ہر جگہ یہ ادارہ کسی نہ کسی شکل میں اور ناموں کی کچھ تبدیلی کے ساتھ تھا___ آج یہ متحدہ مجلس عمل کی اختراع نہیں۔ یہ ہمارے فکری نظام اور ہماری تاریخی روایت کا حصہ ہے اور اپنے حالات کے مطابق ہم اس نظام اور ادارے کے احیا کی ایک حقیر کوشش کر رہے ہیں۔

اعتراضات کا جائزہ

آیئے اب ان اعتراضات کا جائزہ لیں جو اس توقع اور یقین کے ساتھ شب و روز دھواں دھار انداز میں پیش کیے جا رہے ہیں کہ غلط سے غلط بات اگر بار بار کہی جائے تو لوگ اسے سچ سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ ہٹلر کے وزیر گوئبلز کی حکمت عملی ہے جس پر حِسبہ بل کے معترضین عمل پیرا ہیں۔

  • دستور کی خلاف ورزی:پہلی بات یہ کہی جارہی ہے کہ یہ دستور کے خلاف ہے۔ اس سے بڑا جھوٹ شاید کوئی اور نہ ہوسکے۔ دستور کا دیباچہ جو قرارداد مقاصد پر مشتمل ہے اور جو اب دستور کی دفعہ ۲(الف) کا درجہ بھی رکھتا ہے‘ صاف لفظوں میں ریاست کی یہ ذمہ داری قرار دیتا ہے کہ:

جس میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حلقہ ہاے عمل میں اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق‘جس طرح قرآن پاک اور سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے‘ ترتیب دے سکیں۔

اسی بات کا اعادہ مزید وضاحت کے ساتھ دستور کی دفعہ ۳۱ میں کیا گیا ہے۔ دفعہ ۳۷ (جی) میں اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں کے سدباب کا ہدف دیا گیا ہے اور دفعہ ۳۸ (ایف) میں ربا کے جتنی جلد ممکن ہو مکمل خاتمے (elimination) کو پالیسی کا مقصد قرار دیا گیا ہے۔

دفعہ ۲۲۷ سے ۲۳۰ تک (اسلامی دفعات )بھی اجتماعی زندگی کو مکمل طور پر قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کی دعوت دے رہی ہیں۔ حِسبہ بل دستور کے انھی اہداف کو حاصل کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔

کہا گیا ہے کہ یہ بنیادی حقوق سے متصادم ہے اور دستور کی دفعہ ۱۹ اور ۲۰ کا ذکر کیا گیا ہے۔ مگر ان دونوں دفعات میں جہاں بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی وہیں یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ:

اسلام کی عظمت یا پاکستان یا اس کے کسی حصہ کی سالمیت‘ سلامتی یا دفاع‘ غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات‘ امن عامہ‘ تہذیب یا اخلاق کے مفاد سے مشروط ہے۔

حِسبہ بل میں انھی اقدار کا تحفظ کیا گیا ہے جن کا ذکر دستور کی اس دفعہ میں ہے۔ اسی طرح دفعہ ۲۰ میںبھی: قانون‘ امن عامہ اور اخلاقیات سے مشروط ہونے کی وضاحت موجود ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے جواب (ستمبر۲۰۰۴ء )میں ایک دور کی کوڑی یہ بھی لائی گئی ہے کہ یہ دستور کی دفعہ ۱۷۵ (سی)سے متصادم ہے حالانکہ اس دفعہ میں عدلیہ کے انتظامیہ سے الگ ہونے کی بات کی گئی ہے (جس پر آج تک عمل نہیں ہوا)۔ حِسبہ کا نظام بنیادی طور پر ایک انتظامی ادارہ ہے‘ جو پوری انتظامی مشینری بشمول عدلیہ کے تعاون سے کام کرے گا اور عدلیہ کا پورا نظام اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہوگا دفعہ ۲ (۳)۔

  • طریق کار پر اعتراضات: حِسبہ کے ادارے کے طریق کار کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں۔ حِسبہ بل کے تحت یہ ادارہ چار طریقوں سے کام کرے گا:

۱- تعلیم و تلقین

۲- انتظامی اعتبار سے نگرانی اور حکومت کی مشینری کے ذریعے بشمول پولیس اور انتظامی محکمے متعلقہ قوانین کے تحت اور متعلقہ اداروں کے ذریعے اقدام کرنا۔

۳- لوگوں کی شکایت پر یا ازخود تفتیش اور اس کے نتیجے میں خرابی کے تعین اور اس کی اصلاح کی کوشش ___ بذریعہ قانون۔

۴- عدلیہ اور صوبائی اسمبلی کے سوا حکومتی مشینری پر نگاہ‘ اور اختیارات کے غلط استعمال یا حق دار کو حق نہ ملنے کی صورت میں حق دار کی داد رسی ___ جس کا طریقہ متعلقہ مجاز ادارے کو اس کی غلطی پر متنبہ کرنا ہے۔ یہ خود نافذ نہیں کرسکتا بلکہ قوم کے اجتماعی ضمیر کی حیثیت سے خرابیوں پر گرفت اور اصلاح کا کام ملکی قوانین کے مطابق انجام دے گا یا انجام دیے جانے کی ہدایات جاری کرے گا‘ جو دنیا بھر میں محتسب یا انتظامی ٹریبونلوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ صوبائی حِسبہ کا نظام دستور کے تحت خصوصی طور پر صرف (exclusively) صوبائی اسمبلی کی ذمہ داری ہے۔ دستور کی فیڈرل لسٹ میں صرف  وفاقی محتسب کا ذکر ہے۔ مشترک لسٹ (concurrent list)میں محتسب کے ادارے کا ذکر موجود نہیں۔ اس لیے یہ صوبے کا خصوصی دائرہ اختیار (exclusive jurisdiction) ہے اور اس میں مرکز کی مداخلت صوبائی خودمختاری پر ایک ضرب کاری ہے جس کے بڑے دُوررس اثرات ہوسکتے ہیں۔

  • نجی زندگی میں مداخلت: یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ افراد کی نجی زندگی (privacy ) میں مداخلت ہوگی۔ لیکن حِسبہ بل کا مطالعہ کرلیجیے تمام امور کا تعلق اجتماعی زندگی اور حقوق الناس سے ہے۔ اسلام نے افراد کی نجی زندگی اور خاندان اور گھر کے تقدس کا حکم دیا ہے اور یہ بنیادی اسلامی اقدار میں سے ہے۔ حِسبہ کا نظام اس نجی زندگی اور تقدس کا محافظ ہوگا‘ اسے مجروح کرنے والا نہیں۔ بلاشبہہ اجتماعی برائیوں کی اصلاح اور اچھی اخلاقی اقدار کی ترویج اس کی ذمہ داری ہوگی لیکن اس بل کا اصل پیغام یہ ہے کہ بنیادی حقوق کی حفاظت ہو‘ مظلوموں کو ان کا حق مل سکے‘ عورتوں اور بچوں پر زیادتی نہ ہو اور سب سے بڑھ کر ہر انسان کو جہاں وہ ہے‘ وہیں بہ سہولت اور جلد انصاف مل سکے۔ اسی لیے ضلع اور تحصیل کی سطح پر خرابیوں کے ازالے کا انتظام کیا جا رہا ہے اور مقدمہ بازی کی جگہ مصالحت اور جرگے کے طریقے کو فوقیت دی جارہی ہے۔ محتسب کی خصوصی ذمہ داریوں میں یہ امور شامل ہیں:

                ۱-            پبلک مقامات پر اسلام کی اخلاقی اقدار کی پابندی کروانا۔

                ۲-            تبذیر یا اسراف کی حوصلہ شکنی‘ خصوصاً شادیوں اور اس طرح کی دیگر خاندانی تقریبات کے موقع پر۔

                ۳-            جہیز دینے میں اسلامی حدود کی پابندی کروانا۔

                ۴-            گداگری کی حوصلہ شکنی کرنا۔

                ۵-            افطار اور تراویح کے وقت اسلامی شعائر کے احترام اور ادب وآداب کی پابندی کروانا۔

                ۶-            عیدین کی نمازوں کے وقت عیدگاہوں یا ایسی مساجد کے آس پاس جہاں عیدین اور جمعہ کی نماز ہو رہی ہو‘ کھیل تماشے اور تجارتی لین دین کی حوصلہ شکنی کرنا۔

                ۷-            جمعہ اور عیدین کی نمازوں کی ادایگی اور انتظام میں غفلت کا سدباب کروانا۔

                ۸-            کم عمر بچوں کو ملازم رکھنے کی حوصلہ شکنی کرنا۔

                ۹-            غیرمتنازعہ حقوق کی ادایگی میں تاخیر کو روکنا اور مناسب داد رسی کرنا۔

                ۱۰-         جانوروں پر ظلم روکنا۔

                ۱۱-         مساجد کی دیکھ بھال میں غفلت کا سدباب کروانا۔

                ۱۲-         اذان‘ فرض نمازوں کے اوقات اور اسلامی شعائر کے احترام و آداب کی پابندی کروانا۔

                ۱۳-         لائوڈ اسپیکر کے غلط استعمال اور مساجد میں فرقہ ورانہ تقاریر سے روکنا۔

                ۱۴-         غیر اسلامی معاشرتی رسم و رواج کی حوصلہ شکنی کرنا۔

                ۱۵-         غیرشرعی تعویذ نویسی‘ گنڈے‘ دست شناسی اور جادوگری کا سدباب کرنا۔

                ۱۶-         اقلیتی حقوق کا تحفظ خصوصاً ان کے مذہبی مقامات کا اور ان مقامات کا جہاں مذہبی رسومات ادا کی جا رہی ہوں‘ تقدس ملحوظ رکھنا۔

                ۱۷-         غیر اسلامی رسومات جن سے خواتین کے حقوق متاثر ہوں خصوصاً غیرت کے نام پر قتل کے خلاف اقدام اٹھانا‘ میراث میں خواتین کو محروم رکھنے کا سدباب‘ رسم سورہ کا تدارک کرنا اور خواتین کے شرعی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا۔

                ۱۸-         ناپ تول کی نگرانی اور ملاوٹ کا تدارک کرنا۔

                ۱۹-         مصنوعی گرانی کا سدباب کرنا۔

                ۲۰-         سرکاری محکمہ جات میں رشوت ستانی کا تدارک کرنا۔

اگر ان اصلاحات پر قومی سطح پر عمل شروع ہو جائے تو اس سے انسانی حقوق کی حفاظت ہوگی یا ان کی پامالی___ اور معاشرے میں ظلم اور فساد میں کمی ہوگی یا اضافہ؟

  • طالبانائزیشن کا خدشہ: ایک اعتراض یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ یہ کوئی طالبانائزیشن نوعیت کی چیز ہے۔ یہاں طالبان کے دور کے حسن و قبح پر بحث مقصود نہیں۔ ہم صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ طالبان کے دور سے بہت پہلے کی تجاویز ہیں۔ ۱۹۴۹ء کی قرارداد مقاصد کا ہم نے ذکر کیا۔ اس کے بعد ۱۹۵۳ء میں پیش کردہ ناظم الدین کمیٹی کی رپورٹ کا مطالعہ کیجیے۔ وہ ۱۹۵۳ء میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے ادارے کے قیام کی سفارش کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں   باب دوم ریاست کے رہنما اصولوں کے بارے میں ہے۔ اس میں کہا گیا ہے:

۲- ریاستی پالیسی کے راہنما اصول درج ذیل ہوں گے:

(۱) ریاست اپنی سرگرمیوں اور پالیسیوں میں قرارداد مقاصد میں بیان کردہ اصولوں سے رہنمائی لے گی۔

(۲) حکومتی سرگرمیوں کے مختلف دائروں میں اقدامات خصوصاً وہ جو ذیل میں درج کیے  گئے ہیں‘ کیے جائیں گے تاکہ مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنی زندگیاں انفرادی اور اجتماعی طور پر قرآن پاک اور سنت کے مطابق مرتب کرسکیں۔

(ا) ان کے لیے سہولتیں فراہم کی جائیں گی تاکہ وہ سمجھیں کہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا کیا مطلب ہے‘ اور مسلمانوں کے لیے قرآن پاک کی تدریس کو لازمی کیا جائے گا۔

(ب) شراب نوشی‘ جوے اور قحبہ گری کی ان کی تمام مختلف شکلوں میں ممانعت کی جائے گی۔

(ج) ربا کا خاتمہ ‘ جتنی جلدی اس کا کیا جانا ممکن ہو۔

(د)  اسلام کے اخلاقی معیارات کو فروغ دینا اور برقرار رکھنا۔

(ح) زکوٰۃ ‘ اوقاف اور مساجد کا مناسب نظم۔

(۳) عوام کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرنے کے لیے اور امربالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے ایک تنظیم قائم کی جائے گی۔

(ماخذ: Constitutional Foundations of Pakistan ‘ڈاکٹر صفدر محمود‘ ص ۲۴)

اسلامی نظریاتی کونسل کے ۲۰۰۴ء کے تبصرے کا بار بار ذکر ہے۔ ہم اس پر گفتگو ذرا بعد میں کریں گے‘ پہلے یہ دیکھ لیجیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے دسمبر ۱۹۹۶ء میں اپنی مکمل سفارشات جو پارلیمنٹ کو دی تھیں ان میں حِسبہ کے قانون اور ادارے کی سفارش ہے اور مرکز ہی نہیں‘ صوبے کی سطح کے لیے ہے اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے ہے جس کے بارے میں اب وہ یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ معروف اور منکر کی وضاحت نہیں ہے اور اس سے قرآن و سنت کی تشریح مزید خلفشار کا باعث ہوگی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے:

ادارہ حِسبہ کے فرائض

اس حقیقت کے پیش نظر کہ ادارہ حِسبہ کا بنیادی مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے متعلق اُمت‘ نیز ریاست کی اجتماعی اور مشترکہ ذمہ داری پوری کرنا ہے اور اس کردار کو سامنے رکھتے ہوئے جو حِسبہ کے ادارے نے اسلامی ادوار میں ادا کیا ہے‘ ضروری ہوگا کہ پاکستان میں اگر موجودہ دور میں یہ ادارہ قائم کیا جائے تو اس کے مندرجہ ذیل فرائض متعین کیے جائیں:

                ۱-            ایسی برائیوں اور بدکاریوں کی روک تھام جو عام تعزیری قانون اور فوجداری ضابطے کے تحت قابلِ دست اندازی نہ ہوں۔

                ۲-            تاجروں اور بازاروں‘ مارکیٹوں میں تجارتی سرگرمیوں میں مشغول افراد سے اسلامی ضابطہ اخلاق کی پابندی کروانا۔

                ۳-            ایسی عبادتوں کی ادایگی کی نگرانی جو اجتماعی طور پر ادا کی جاتی ہیں‘ جیسے عید اور جمعہ کی نمازیں۔

                ۴-            ایسے اعمال و اقدامات کی روک تھام جو ایسی بدکاریوں اور برائیوں کی نشوونما کا سبب بنیں جن کی شریعت نے حوصلہ شکنی کی ہے۔

                ۵-            کاروباری معاملات میں روزانہ وقو ع پذیر ہونے والے افعال بد مثلاً ملاوٹ‘ دھوکادہی اور فریب کاری کے واقعات کی روک تھام۔

                ۶-            لوگوں کو اس امر سے روکنا کہ وہ اپنے زیرولایت افراد‘ ملازموں‘ جانوروں اور دیگر کمزوروں کے ساتھ ظالمانہ برتائو کریں۔

پاکستان میں حِسبہ کا ادارہ

کام میں پیچیدگی اور بے فائدہ تکرار سے بچنے کے لیے تجویز کیا گیا ہے کہ محتسب (ombudsman) اور ان کے سیکرٹریٹ کا موجودہ اُردو نام فی الوقت برقرار رکھا جائے اور حِسبہ کا ایک خودمختار اور الگ ادارہ قائم کیا جائے تاکہ وہ ایسے امور یا معمولی جرائم کی نگرانی کرسکے جن کی طرف اب تک کوئی توجہ نہیں کی گئی۔

قومی سطح پر جناب صدرمملکت کی جانب سے ایک وفاقی حِسبہ اتھارٹی قائم کی جانی چاہیے تاکہ وہ پاکستان میں حِسبہ کے کام کی نگرانی اور اس میں مطابقت و ہم آہنگی پیدا کرنے کے عمل کی  ذمہ داری پوری کر سکے۔ اس اتھارٹی کی سربراہی کسی ایسے ممتاز اور مستند عالم دین کو جو سپریم کورٹ کے شریعہ بنچ کا رکن بننے کی اہلیت کا حامل ہو یا کسی سینیرجج کے سپرد کی جانی چاہیے اور اس میں ممتاز علما نیز وفاقی حکومت کے سینیرافسران شامل ہونے چاہییں۔

صوبائی حِسبہ بورڈ

صوبائی سطح پر گورنر ہر صوبے میں وفاقی حِسبہ اتھارٹی کے مشورے سے ایک ’’حِسبہ بورڈ‘‘ قائم کرے گا تاکہ صوبے میں حِسبہ کے فرائض کی نگرانی اور ان میں تطبیق و ہم آہنگی کا عمل بروے کار لایا جاسکے‘ نیز صوبائی حکومت اور اس کی مختلف ایجنسیوں سے رابطہ استوار رکھا جاسکے۔

صوبائی بورڈ کی سربراہی کسی ایسے مستند عالم دین کے سپرد کی جائے جو وفاقی شرعی عدالت کا جج بننے کا اہل ہو اور اس میں سینیرعلما شامل کیے جائیں۔ اس طرح ہر ضلع میں ایک حِسبہ کونسل قائم کی جائے جس کے سربراہ ایک ممتاز شہری ہوں۔ انھیں ’’مہتمم حِسبہ‘‘ کہاجائے گا۔ حِسبہ کونسل ضلعی سطح پر اسلام کے معاشرتی اور اخلاقی ضابطے کے پیروکاروں کے اعمال کی نگرانی کرے گی اور گاہ بگاہ ’’معروف‘‘ کی اطاعت اور ’’منکر‘‘ کی روک تھام سے متعلق صورت حال کا جائزہ لیتی رہے گی۔ اسی طرح یہ ’’تحصیل حِسبہ کمیٹی‘‘ قائم کرسکے گی۔ صوبائی حکومت ضلعی حِسبہ کونسل کے مشورے سے ایک علاقے یا آبادی میں مناسب تعداد میں ’’ناظر حِسبہ‘‘ مقرر کرے گی۔ ناظرحِسبہ کی مدد کے لیے ضروری عملہ مقرر کیا جائے گا جس میں کچھ مسلح افراد بھی شامل ہوں گے جنھیں ’’حِسبہ فورس‘‘ کہاجائے گا۔ ناظر حِسبہ اور اس کے عملے کو ’’پبلک آفیسرز‘‘ تصور کیا جائے گا۔ ناظرحِسبہ مجسٹریٹ درجہ سوم کے اختیارات استعمال کرے گا۔ ناظرحِسبہ پاکستان کے کسی شہری کی شکایت پر کسی پبلک عہدہ دار کی اطلاع یا اپنے علم کی بنا پر دیگر چیزوں کے علاوہ مندرجہ ذیل معاملات کی نسبت اپنے قانونی اختیارات استعمال کرسکے گا۔

نظریاتی کونسل ۲۰۰۵ء کے اعتراضات

اسلامی نظریاتی کونسل کے اس ماڈل کا موازنہ حِسبہ بل سے کرلیجیے۔ جن باتوں پر آج وہ اعتراض کر رہے ہیں‘ کل انھی کا وہ حکم دے رہے تھے۔ اب آیئے ان کے تازہ اعتراضات کا جائزہ لیں:

پہلا اعتراض یہ ہے کہ مجوزہ صورت میں ادارہ حِسبہ کا قیام مقاصد شریعت کی تکمیل کے بجاے امربالمعروف ونہی عن المنکر کے بارے میں قرآن و سنت کے احکام کو متنازعہ بنانے کا باعث بن سکتا ہے اور مسائل کو حل کرنے کے بجاے مفاسد کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ اس کے لیے کوئی شرعی یا عقلی دلیل نہیں دی گئی۔ دستور کی دفعہ ۲۲۷ (۱) کی تشریح میں واضح کر دیا گیا ہے کہ ہر مکتب فکر کے لیے قرآن و سنت کے بارے میں وہی تعبیر معتبر ہوگی جو اس کی نگاہ میں معتبر ہے۔ اس کے بعد معروف اور منکر کے متنازعہ بن جانے کاکیا خطرہ ہے۔

واضح رہے کہ حِسبہ بل میں خصوصیت سے ’’غیرمتنازعہ حقوق‘‘ کی تنفیذ کی بات کی گئی ہے۔ رہا مسئلہ سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کا‘ تو اس کی واضح ترین مثال اسلامی نظریاتی کونسل کا حِسبہ بل پر موجودہ تبصرہ ہے جس میں وہ کسی دلیل کے بغیرکونسل کے ۱۹۹۶ء کے مؤقف کی تردید کررہے ہیں ___ اور اس طرح اگر موجودہ حکومت کی آواز سے ان کی آواز مل جاتی ہے تو اسے ’’توارد‘‘ ہی سمجھا جانا چاہیے جس پر سیاست کا کوئی سایہ نہیں پڑا۔

دوسرا اعتراض کونسل کے خیال میں امورحِسبہ میں ایسے امور کا اضافہ ہے جو معروف نہیں ہیں۔ لیکن کوئی نشان دہی نہیں کی گئی کہ وہ کون سی چیزیں ہیں اور کس شرعی دلیل کی بناپر وہ اس دائرے سے باہر رہنی چاہییں۔

ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ دوسرے قوانین موجود ہیں‘ ان سے فائدہ اٹھایا جائے اور نیا ادارہ نہ قائم کیا جائے۔ یہ محض ایک انتظامی مشورہ ہے جس کا شریعت سے ہم آہنگی اور تصادم سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا کام ان اداراتی یا انتظامی امور پر راے زنی نہیں‘ اس کا کام صرف یہ ہے کہ کسی قانون یا تجویز کے بارے میں یہ بتائے کہ آیا وہ شریعت سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں؟ ان کے تمام اعتراضات میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس میں شریعت کے کس حکم یا نص کی ادنیٰ سی خلاف ورزی کی بھی نشان دہی کی گئی ہو۔ جج صاحب نے اپنے زعم میں تمام امور پر عالمانہ رائے دی تھی لیکن اگر کوئی بات اس تبصرے میں نہیں ہے تو وہ شریعت سے مطابقت یا  عدمِ مطابقت کے بارے میں کوئی مبنی بر دلیل بات ہے۔ یہاں ہم یہ بھی وضاحت کردیں کہ ۱۹۹۶ء کی تجاویز میں اسلامی نظریاتی کونسل نے مرکز اور صوبوں دونوں مقام پر موجود محتسب کے ادارے کے ساتھ حِسبہ کے ادارے کا مشورہ دیا تھا۔ جہاں تک صوبہ سرحد کا تعلق ہے وہاں پہلے سے محتسب بھی موجود نہیں اور وہ حِسبہ کی شکل میں ایک جامع ادارہ قائم کرنا چاہ رہے ہیں۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ کونسل اور اس کی سفارشات مرتب کرنے والے جج صاحب کے مبلغ علم کی کیا داددیں جب وہ فرماتے ہیں کہ فقہ جعفریہ میں حِسبہ کے احکام موجود نہیں ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی ۱۹۹۶ء کی سفارشات سنّی اور شیعہ علما نے مرتب کی تھیں۔ صفوی اور اسماعیلی دور میں حِسبہ کا ادارہ اُسی طرح قائم تھا جس طرح دولت عثمانیہ اور تغلق بادشاہوں کے دور میں تھا۔ ایران اور یمن میں بھی یہ اسی طرح موجود تھا جس طرح شام‘ عراق‘ ترکیہ اور ماوراء النہر میں۔ بلادمغرب اور مصر کے ہر دور میں موجود تھا۔ جس طرح امام غزالی اور امام ابن تیمیہ نے حِسبہ کا دفاع کیا ہے اسی طرح نظام الملک طوسی نے سیاست نامہ میں کیا ہے۔ نظریاتی کونسل اس دعوے کے لیے کیا دلیل اور تاریخی شواہد اپنے پاس رکھتی ہے؟صوبہ سرحد کی شریعت کونسل میں سنی علما کے ساتھ اہلِ تشیع کے نمایندے بھی شریک تھے جنھوں نے حِسبہ بل کا مسودہ مرتب کیا ہے۔ فاعتبروا یااُولی الابصار۔

کونسل کا ایک اور اعتراض محتسب کے تقرر کے لیے گورنر کو وزیراعلیٰ کے مشورے کا پابند بنانے پر ہے جسے قرارداد مقاصد اور دستور کی دفعہ ۱۷۵ (۳)سے متصادم قرار دیا گیا ہے۔ اس سے زیادہ مضحکہ خیز اعتراض کا اور وہ بھی ایک جج کی طرف سے جسے نظریاتی کونسل کی تائید حاصل ہے‘ تصور کرنا محال ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ دستور کی دفعہ ۱۰۵ کے تحت گورنر اپنے صواب دیدی معاملات کو چھوڑ کر وزیراعلیٰ کے مشورے کا پابند ہے جو پارلیمانی نظام کا بنیادی اصول ہے۔ اگر حِسبہ بل میں یہ لکھا ہوا نہ ہو تب بھی تودفعہ ۱۰۵ کے تحت گورنر وزیراعلیٰ کے مشورے کا پابند ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان تینوں صوبوں میں جہاں محتسب کا قانون موجود ہے‘ گورنر تقرر کرتا ہے مگر دفعہ ۱۰۵ کے تحت وزیراعلیٰ کے مشورے کا پابند ہے۔ اگر وہ عدلیہ کی انتظامیہ سے علیحدگی کو متاثر نہیں کرتا تو یہاں کیسے کرے گا؟ پھر جج صاحب بھول جاتے ہیں کہ عدلیہ کے تمام ججوں کا تقرر کسی آزاد عدالتی طریقے سے نہیں ہوتا بلکہ دستور کے تحت صدر‘ وزیراعظم کے مشورے سے کرتا ہے۔ چیف جسٹس کا تقرر صدر کرتا ہے اور اس تقرری میں وہ سینیارٹی کا پابند نہیں۔ دوسرے ججوں کے تقرر میںچیف جسٹس کا مشورہ ضرور شامل ہے مگر سب کو علم ہے کہ ججوں کا تقرر کس طرح ہوا ہے۔ امریکا میں ججوں کا تقرر صدر کی تجویز پر ہوتا ہے اور سینیٹ جو خود ایک سیاسی ادارہ ہے اس کی توثیق کرتا ہے۔ اگر یہ سب عدلیہ کو انتظامیہ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتے تو پھر حِسبہ بل میں وزیراعلیٰ کا مشورہ ہی کیوں سیاسی دراندازی قرار پاتا ہے___؟

کونسل کے بیشتر اعتراضات انتظامی نوعیت کے ہیں۔ ان میں سے چند سے حِسبہ بل پر نظرثانی کے موقع پر فائدہ اٹھایا بھی گیا ہے اور مزید استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ محتسب کی برطرفی اور میعاد ملازمت میں توسیع کے بارے میں کونسل کے مشوروں پر غور ہونا چاہیے لیکن ہم پورے ادب سے عرض کریں گے کہ یہ سب سفارشات انتظامی نوعیت کی ہیں‘ جب کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا کام دستور کی دفعہ ۲۲۹ (بی) اور ۲۳۰ کے تحت صرف اتنا ہے کہ یہ مشورہ دے کہ:

ایک مجوزہ قانون اسلامی احکامات کے خلاف ہے یا نہیں؟

اور یہ رائے بھی محض کسی ضمنی تبصرے (obitor dicta) کے انداز میں نہیں دی جاسکتی۔ ہر دعوے یا اعتراض کے حق میں قرآن وسنت سے دلائل و شواہد لانا ہوں گے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ۱۱نکات پر مشتمل اس رائے میں قرآن و سنت سے ایک بھی دلیل نہیں دی گئی ہے‘ نہ صراحتاً اور نہ اشارتاً۔ کونسل کے اس رویے کو علمی کہا جائے‘ شرعی کہا جائے یا سیاسی؟ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔

اخلاقی اقدار اور احتساب

حقوق انسانی کے نام نہاد علم بردار بھی اس جنگ میں بڑے طمطراق سے کود گئے ہیں اور چلّا چلّا کر کہہ رہے ہیں کہ فرد کی آزادی خطرے میں ہے اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کے نام پر لوگوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالا جا رہا ہے۔ ہم اس سے پہلے دستور کی دفعات کے حوالے سے بتاچکے ہیں کہ بنیادی حقوق کے تمام امور اخلاق‘ شائستگی اور ملک کی سلامتی سے مشروط ہیں۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حقوقِ انسانی کی ساری دُہائی ظالموں اور مجرموں کے حقوق ہی کے لیے کیوں دی جاتی ہے۔ کیا اس مظلوم انسان کے کچھ حقوق نہیں جو چوروں‘ ڈاکوئوں اور زانیوں کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بن رہا ہے۔ حِسبہ بل کمزوروں کو طاقت وروں کی گرفت سے نکالنے کے لیے ہے اور اُن تک انصاف پہنچانے کے لیے ہے جو نہ انصاف کو خرید سکتے ہیں اور نہ ان کی رسائی اُونچے ایوانوں تک ہے۔ آج بعداز خرابیِ بسیار اخلاقی‘ سماجی اور معاشرتی امور کو قانون کی دسترس میں لانے کی کوشش ساری دنیا میں کی جا رہی ہے۔ امریکا کی کانگریس میں جہاں اور بہت سی کمیٹیاں ہیں جو اپنے اپنے دائرہ کار میں احتساب کا کام انجام دیتی ہیں‘ وہیں ایک اخلاقیات کمیٹی (Ethics Committee) بھی ہے جو ممبران کے اخلاقی رویے پر نگاہ رکھتی ہے۔ آج کرپشن ایک عالمی مسئلہ بن گیا ہے‘ اس کے نتیجے میں اخلاقی امور کو احتساب کے باب میں مرکزی حیثیت دی جا رہی ہے۔ بڑی بڑی کمپنیاں جس طرح بدعنوانی کا مظاہرہ کررہی ہیں‘ اس کے نتیجے میں تجارتی اخلاقیات (business ethics) اب تعلیم اور قانون دونوں کے سلسلے میں ایک متعلقہ موضوع بن گئی ہے۔ اور اب تو اکائونٹنٹس اور آڈیٹرز کے لیے بھی نئے اخلاقی ضابطوں اور قوانین کی باتیں ہورہی ہیں۔

آج دنیا کے ۱۲۰ ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں محتسب (Ombudsman) کا ادارہ کام کر رہا ہے۔ یہ صرف انتظامی زیادتیوں کے تدارک ہی کے لیے مصروف عمل نہیں بلکہ سماجی اور اخلاقی امور بھی اس کے دائرے میں آرہے ہیں مثلاً کینیڈا میں Federal Correctional Investigator کا قیام بحیثیت محتسب ہوا ہے جس کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں Federal Students Aid Ombudsman قائم کیا گیا ہے۔ اسی طرح تعلیم‘ صحت‘ بچوں کے تحفظ‘ کمیونٹی کے مسائل اور فیملی کے معاملات تک کے بارے میں محتسب کے مخصوص ادارے قائم کیے جارہے ہیں۔ بلاشبہہ اجتماعی خرابیوں کے تدارک کے لیے وہ راستہ اختیار نہیں کیا جانا چاہیے جو فرد کی آزادی‘ عزتِ نفس‘ چادر اور چاردیواری کی حرمت کو پامال کرنے والا ہو۔ بے جا تجسس اور عیب جوئی (witch-hunting ) ایک دوسری برائی اور انتہا ہوگی۔ توازن کا راستہ ہی معقولیت کا راستہ ہے لیکن محض یہ بات کہ اسلامی اخلاقی اقدار کا تحفظ بھی محتسب کے دائرے میں آتا ہے‘ فرد کی آزادی کے لیے خطرہ سمجھ لینا صحیح نہیں۔ آزادی کے ساتھ ذمہ داری لازم و ملزوم ہیں۔ نہ ایک انتہا درست ہے اور نہ دوسری۔ محتسب کا نظام بھی اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب وہ ان تمام نزاکتوں کو پوری طرح ملحوظ رکھے‘ اور کوئی وجہ نہیں کہ اسلامی اقدار کی حفاظت اور ترویج کے لیے جو نظام قائم کیا جائے‘ وہ ان حدود کا خیال نہ رکھے۔

محتسب کے اختیارات

ایک حلقے کی طرف سے حِسبہ بل کی ان دفعات کو نشانۂ تنقید بنایا جا رہا ہے جن میں محتسب کو   توہینِ عدالت (contempt of court) کے سلسلے میں وہی اختیارات دیے گئے ہیں جو عدالتوں کو حاصل ہیں۔ خود اپنے لیے قواعد و ضوابط بنانے پر بھی تیوریوں پر بل پڑ رہے ہیں۔ تضادات دُور کرنے کے حق پر بھی انگشت نمائی ہے۔ محتسب کے احتساب سے بالا ہونے کا دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے۔ راقم خود توہینِ عدالت کے پورے تصور کے سلسلے میں متفکر رہا ہے لیکن جو بات مضحکہ خیز ہے‘ وہ یہ ہے کہ جس نظام قانون کے تحت ہم زندگی گزار رہے ہیں یہ تمام چیزیں اس کا جانا بوجھا حصہ ہیں۔ اگر تمام مقامات پر نظرثانی کی جائے تو ایک قابلِ فہم بات ہے لیکن ایک حق ایک جگہ آپ دے رہے ہیں اور اس سے فسطائیت رونما نہیں ہوتی اور استبداد کا کوئی خدشہ وہاں نظر نہیں آتا لیکن اگر اسی نوعیت کا کوئی انتظام حِسبہ بل میں موجود ہے تو اس میں سارے کیڑے نکالے جا رہے ہیں‘ مثلاً وفاقی محتسب کے قانون مجریہ ۱۹۸۳ء کو لے لیجیے۔ اس میں دفعہ ۱۴ میں وہ تمام اختیارات ہیں جن کا تعلق معلومات حاصل کرنے اور گواہوں کی طلب اور جرح کے بارے میں ہے۔ دفعہ ۱۵  مکان کی تلاش (search of premises) کے بارے میں اور دفعہ ۱۶ توہین پر سزا کا اختیار (power to punish for contempt) سے متعلق ہے۔ دفعہ ۲۹ میں دائرہ اختیار پر پابندی (Bar of Jurisdiction) ہے جس کی رو سے کسی عدالت یا مجاز ادارے کو یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ حکم نامہ کے تحت محتسب کے کیے گئے کسی اقدام کے خلاف حکم امتناعی (stay order) جاری کرے یا کوئی اقدام کرے۔

دفعہ ۳۷ میں order to override other laws کی شق موجود ہے۔ The Punjab Office Ombudsman ۱۹۹۷ء میں بھی یہی ساری  شقیں (۱۵‘ ۱۶‘ ۱۷‘ ۱۸‘ ۲۹‘ ۳۷‘ ۳۸) موجود ہیں۔

بلوچستان اور سندھ کے قوانین بھی اس سے مختلف نہیں۔ یہ تو محتسب کا معاملہ ہے۔ ملکی قوانین میں تو بنک کاری ٹریبونل اور لیبر ٹریبونل تک میں یہ ساری دفعات کم و بیش انھی الفاظ میں موجود ہیں۔ پارلیمنٹ ہی کو نہیں اس کی کمیٹیوں کو بھی توہین پر سزا کے اختیارات حاصل ہیں۔ دسیوں قوانین ہر سال منظور کیے جارہے ہیں جن میں عدالتوں کے دائرہ اختیار سے استثنا (Exclusion of Jurisdiction of Courts) یا دائرہ اختیار کو نظرانداز کرنے (Overriding Jurisdiction) کی دفعات موجود ہیں حتیٰ کہ صدر کے لیے دو عہدوں کا جو غیرقانونی بل منظور کیا گیا ہے‘ اس تک میں موجود ہے کہ وہ دو عہدے رکھ سکتے ہیں اور دستور‘ قانون اور عدالت کے کسی فیصلے کا اس پر اطلاق نہیں ہوگا (Act No. VII of 2004)۔ دستور کی دفعہ ۲۷۰ اے اے میں صدر اپنے تمام احکامات کو اس طرح عدالتوں سے محفوظ کرتے ہیں کہ اسے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ان درجنوں نہیں سیکڑوں قوانین سے فسطائیت نہیں آتی اور استبداد کے دروازے نہیں کھلتے تو ایک حِسبہ بل ہی کے ذریعے یہ قیامت کیسے ٹوٹ پڑے گی؟

ہم نے حِسبہ بل پر کیے جانے والے اعتراضات کا جو جائزہ لیا ہے اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ یہ مخالفت دلائل کی قوت سے محروم ہے‘ نیز ملک کے دستور‘ قانونی نظام اور دوسرے متعلقہ اداروں کے بارے میں پائے والے قوانین اور ضابطوں میں اور اس قانون میں کوئی تناقض نہیں۔ بلاشبہہ اسے بہتر بنایا جا سکتا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ صوبہ سرحد کی حکومت اور اسمبلی اس سے غافل نہیں ہوگی لیکن یک طرفہ طور پر اور سارے حقائق اور شواہد کو نظرانداز کر کے صرف اس بل کو نشانۂ تنقید بنانا حق و انصاف کے منافی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ سیکولر لابی اور مرکزی حکومت حِسبہ بل کے نام پر اسلامی اصلاحی پروگرام کی طرف پیش رفت کو روکنا چاہتے ہیں۔ نیز مرکزی حکومت صوبہ سرحد میں اپنے چہیتے افراد اور جماعتوں کی شکست کا بدلہ لینا چاہتی ہے۔ ہم صاف الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں کہ دستور اور قانون سے یہ کھیل کھیلنا ان حضرات کو ان شاء اللہ بہت مہنگا پڑے گا اور متحدہ مجلس عمل اپنے اصولوں پر ہرگز سمجھوتا نہیں کرے گی اور اس قانونی جنگ اور سیاسی یلغار کا بھرپور مقابلہ کرے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ اسے کامیابی ہوگی اس لیے کہ حق اس کے ساتھ ہے ۔

چیلنج اور اس کے تقاضے

ہم اس موقع پر خود متحدہ مجلس عمل کی قیادت اور کارکنوں سے بھی یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ حِسبہ بل پر بحث کے باعث ایک بنیادی سیاسی کش مکش صوبہ سرحد ہی نہیں‘ پورے ملک میں مرکزی اہمیت اختیار کرچکی ہے جو پاکستان کی شناخت‘ اس کے حقیقی نظریاتی وجود اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی اور اسلام کی اقدار اور نظامِ حیات کو قائم کرنے میں ریاست کے کردار سے متعلق ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے مؤقف کو دلیل کی قوت سے ثابت کریں اور جو افراد کنفیوژن کا شکار ہورہے ہیں‘ ان کو اپنے مؤقف کی صداقت کا قائل کریں۔ یہ دعوتی چیلنج ہمارے اور اس ملک کے مستقبل کے لیے بڑا فیصلہ کن ہے۔

ابھی حِسبہ بل کو نہ معلوم کتنے مرحلوں سے گزرنا ہوگا اور یہ جنگ نہ معلوم کیا کیا رخ اختیار کرتی ہے‘ ہمیں اس کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ یہ جنگ علمی اور فکری جنگ بھی ہے‘ اور عملی اور سیاسی بھی___ اور صاف نظر آرہا ہے کہ دستوری اور قانونی بھی۔ ہر میدان میں اور ہر محاذ پر ہمیں اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔

دوسری بات جو ہماری نگاہ میں پہلی سے بھی زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ اگر اللہ کی مدد اور عوام کی تائید سے ہم حِسبہ بل کو کتابِ قانون کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں‘ اور ان شاء اللہ ہم ضرور ہوں گے ‘تو پھر ہماری اصل آزمایش کا دور شروع ہوگا۔ اس بل کے قانون بن جانے کے بعد اس ادارے کاصحیح خطوط پر وجود میں آنا اور اس کے نتیجے میں صوبہ سرحد کے عوام کی زندگی میں مثبت تبدیلی کا نظر آنا بے حد ضروری ہے۔ یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم مندرجہ ذیل اہداف کے حصول کے لیے پوری دیانت سے کام کریں۔

۱-  اس کام کے لیے صوبائی‘ ضلعی اور تحصیل کی سطح پرعلمی‘ اخلاقی اور عوامی شہرت کے اعتبار سے بہترین افراد کا انتخاب صرف میرٹ کی بنیاد پر ہو‘ جو ایمان‘ علم ‘تقویٰ اور خدمتِ خلق کے جذبے سے اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے سرگرم ہوجائیں۔ صحیح افراد کا انتخاب ہمارا پہلا بڑا چیلنج ہوگا اور دراصل ہمارا امتحان بھی۔

۲-  پوری محنت کے ساتھ صوبائی‘ ضلعی اور بالآخرتحصیل کی سطح تک کام کرنے کے لیے مفصل قواعد و ضوابط (Rules of Business)کی تیاری۔ یہ اس ادارے کے صحیح خطوط پر وجود میں لانے اور عوام کو اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لائق بنانے کے لیے ضروری ہے۔

۳-  ایک  چیز جس کا تجربہ حالیہ بحث کے دوران بھی ہوا ہے‘ وہ یہ ہے کہ ہمارے اپنے کام میں پیشہ ور انداز کے اضافے کی ضرورت ہے۔ خلوص اولین ضرورت ہے لیکن خلوص کے ساتھ زمینی حقائق اور حالات کا ادراک اور انسانی زندگی کی پیچیدگیوں کو سامنے رکھتے ہوئے تجربات کی روشنی میں قابلِ عمل حل تلاش کرنے ہی سے حالات بدل سکتے ہیں۔ اس کام میں اعتماد کے ساتھ مشورہ اور جماعتی سوچ سے بالا ہوکر اور پوری قوم کو ساتھ لے کر چلنے کے جذبے کے ساتھ ہی کام صحیح معنی میں ثمرآور ہوسکتا ہے۔ یہ سارا کام دیانت اور للہیت کے ساتھ قاعدے اور قانون کے مطابق اور بہترین معیار کی مہارت کے ساتھ انجام دینا ہماری اولین ذمہ داری ہے۔

۴-  حِسبہ کے اصل اسلامی تصور کو اس کی تفصیلات کے ساتھ اور اس کی اصل روح کے ساتھ سمجھنا اور اس سے بھی بڑھ کر دوسروں کو سمجھانا نہایت ضروری ہے۔ ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم اپنے اچھے اچھے منصوبوں کو بھی مناسب انداز میں اور بروقت ٹھیک طور پر نمایاں نہیں کرپائے۔ اگر تجارت کی زبان استعمال کی جائے تو مارکیٹ میں کامیابی کے لیے مال کا اچھا ہونا ہی کافی نہیں‘ برانڈ‘ پیکنگ‘ مارکیٹنگ اور تشہیر و ابلاغ سب اہم ہیں اور کسی ایک کا غیرمعیاری ہونا یا اس میں کوئی کسر رہ جانا‘ باقی سب کو متاثر کرتا ہے۔

ضروری ہے کہ ہمارے کارکن اور قائدین‘ سب ان تمام امور کا خیال رکھیں۔ اسلام نے جو تعلیم ہمیں دی ہے‘ اس میں اللہ سے وفاداری کے ساتھ انسانوں کے ساتھ انصاف اور مجبوروں اور کمزوروں کا ہم دم اور ہم ساز بننا مطلوب ہے۔ ایک مسلمان کی بنیادی حیثیت اللہ کے خلیفہ اور اسلام کے داعی کی ہے۔ اور داعی ایک ڈاکٹر کے مانند ہوتا ہے جس کی ساری لڑائی مرض سے    ہوتی ہے تاکہ مریض کو بچاسکے۔ ہمارا رویہ اپنے مخالفین کے ساتھ بھی داعیانہ ہونا چاہیے اور ان کو بھی  جیتنا ہمارا اصل ہدف ہے۔ اس لیے ہمیں انصاف کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور جس کا جو حق ہے‘ خواہ اس کا تعلق کسی بھی گروہ اور جماعت سے ہو‘ اسے اس تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ حِسبہ کی ذمہ داری خود احتسابی اور اجتماعی احتساب دونوں کے بغیر ٹھیک ٹھیک ادا نہیں ہوسکتی۔ ہم نے اس میدان میں قدم رکھ کر بہت بڑی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ اب ہم سب کا امتحان ہے۔

آیئے‘ اللہ پر بھروسا کرکے‘ خلوص‘ محنت اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے اس امتحان میں کامیابی کے لیے جدوجہد کریں کہ ہماری اصل منزل تو عوام کی خدمت اور انسانوں کے درمیان انصاف کے قیام کے ذریعے اپنے رب کی رضا کا حصول اور آخرت کی کامیابی ہے۔ اگر ہماری نگاہ اپنی اصل منزل پر ٹھیک ٹھیک جمی رہے تو ان شاء اللہ اس امتحان میں بھی ہم کامیاب ہوں گے۔وماتوفیقی الا باللّٰہ۔


نوٹ:  حِسبہ کے نظری‘ عملی‘ تاریخی اور انتظامی پہلوئوں پر درجنوں کتابیں موجود ہیں۔ لیڈن‘ ہالینڈ سے شائع ہونے والی مستشرقین کی انسائیکلوپیڈیا آف اسلام ‘ پنجاب یونی ورسٹی سے شائع ہونے والی اُردو دائرہ معارف اسلامیہاور ترکی سے شائع ہونے والی تازہ ترین انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں اس موضوع پر مبسوط مقالے دیکھے جاسکتے ہیں۔

اس ادارے کی تاریخ اور تصور کی وسعت کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل کتب کا مطالعہ مفید ہوگا۔

۱- احیاء العلوم ، غزالی‘ جلد دوم

۲- الفصل فی الملل، ابن حزم‘ جلدچہارم

۳- الرسالہ فی الحسبہ‘ ابن تیمیہ

۴- الحسبۃ والمحتسب فی الاسلام از زیادۃ‘ مطبوعہ مصر‘ ۱۹۶۳ء

۵- اسلامی ریاست میں محتسب کا کردار از ڈاکٹر ایم ایس ناز‘ ادارہ تحقیقات اسلامی‘ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی‘ اسلام آباد‘ ۱۹۹۹ء

6. The Financial and Administration Organization and Development in Othman Egypt, 1517-1798 by Stanford J. Shaw, 1962.

7. The Social Structure of Islam by R. Levy, Cambridge, 1957.

8. The Administration of Justice in Medieval India by M.B. Ahmad, 1941.

9. Administration of Justice in Delhi Sultanate  by M.B. Hew.

(کتابچہ دستیاب ہے‘ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور۔ قیمت: ۶ روپے)

بھارت اور امریکا کی عالمی اور علاقائی سطح پر اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کو مستحکم کرنے کے لیے گذشتہ دس سال سے جاری تجارتی تعاون کے بعد انفارمیشن ٹکنالوجی کے میدان میں بڑے پیمانے پر بھارت امریکا تعاون‘ اور پھر امریکا میں بھارت کی ہم نوا سیاسی لابی کا شب وروز کام بالآخر اس پر منتج ہوا کہ اکیسویں صدی میں امریکا کے عالمی قیادت کے قیام اور استحکام کے لیے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل‘ اور ایشیا میں بھارت کو مرکزی اہمیت حاصل ہو گی۔ جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے اس کے قیام ہی سے امریکا نہ صرف اسے باقی رکھنے اور مضبوط ترکرنے کے لیے اپنی ساری مالی‘ فوجی اور سیاسی قوت استعمال کر رہا ہے بلکہ مشرق وسطیٰ کو مستقلاً اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے اسرائیل کو اہم ترین آلۂ کار بنایا ہے۔ اسی پس منظر میں اسرائیل کو نیوکلیئر پاور بنایا گیا اور علاقے میں کسی دوسرے ملک کو اس کا توڑ کرنے کے لائق نہ بننے دیا گیا۔ عراق کے نیوکلیئر پروگرام پر اسرائیلی حملہ اور بالآخر عراق کو ایک فوجی قوت کی حیثیت سے ختم کر دینا اسی پالیسی کا حصہ تھا۔ ایران پر موجودہ دبائو بھی اس کا حصہ ہے اور پاکستان کی نیوکلیئر صلاحیت کو درپیش خطرات بھی اسی پس منظر میں سمجھے جا سکتے ہیں۔

یہ کھلا کھلا تضاد ہے کہ ۱۹۷۴ء میں بھارت کے پہلے ایٹمی تجربے اور پھر ۱۹۹۸ء میں بھارت کے ایٹمی دھماکے امریکا اور مغربی اقوام کے لیے کوئی خطرہ نہ سمجھے گئے اور بڑا ہی نرم ردعمل سامنے آیا لیکن جیسے ہی پاکستان نے اپنے دفاع کو مستحکم کرنے کے لیے جوابی دھماکے کیے تو امریکا اور ساری مغربی دنیا اس کے خلاف صف آرا ہوگئی۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں بھارت امریکا گٹھ جوڑ نے گذشتہ تین سالوں میں جو شکل اختیار کی ہے اس کا سمجھنا غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا تعلق پاکستان کے دفاع، سلامتی اور علاقائی کردار سے ہے۔ نیز اس کا بڑا گہرا تعلق ایشیا اور عالمی افق پر چین کے کردار سے ہے ۔یہ مسئلہ صرف پاکستان اور چین کا ہی نہیں بلکہ پورے شرق اوسط اور مسلم امہ کے مستقبل سے متعلق ہے۔ اس لیے اس کی حقیقت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

اس نئی صف بندی اور گٹھ جوڑ کے نقش و نگار کو جن عناصر نے موجودہ شکل دی ہے ان میں بھارت میں امریکا کے سابق سفیر (جو اس وقت نیشنل سیکورٹی کونسل میں اہم ذمہ داری ادا کر رہے ہیں) اسرائیل کی حکومت ‘ امریکا میں اسرائیلی لابی، امریکا میں پائے جانے والے مرکزی اہمیت کے تھنک ٹینکس اور امریکا میں بھارت کے دانشوروں اور تارکین وطن کی وہ تنظیمیں ہیں جو پالیسی سازی کو متاثر کرنے کا کام کر رہی ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان‘ مسلم ممالک کی حکومتیں اور وہ پاکستانی اور مسلمان جو امریکا میں ہیں وقت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی مؤثر کارروائی نہیں کرسکے۔

گذشتہ تین سالوں میں‘ خصوصیت سے ۱۱/۹ کے بعد‘ بھارت اور اسرائیل‘ اور بھارت اور امریکا کا تعاون معاشی میدان سے بڑھ کر فوجی اور آئندہ کے لیے دفاعی اہمیت رکھنے والے سازوسامان کی مشترک پیداوار سے متعلق ہوگیا ہے۔ نیز اس میں سب سے زیادہ اہم چیز ہائی ٹیک (Hi-tech) میدان میں ٹکنالوجی کی منتقلی اور مشترک پیداوار کے منصوبے ہیں جن کا کوئی وجود  پچھلے پچاس سال میں نہیں تھا۔ اس میدان میں نہایت ہی حساس چیزوں کے بارے میں بھی تعاون شروع ہو گیا ہے جن کا تعلق ہائی ٹیک کمپیوٹر‘ نیوکلیئر ٹکنالوجی اور میزائیل ٹکنالوجی سے ہے جن میں PAC-II اور PAC-III سب سے زیادہ اہم ہیں۔ اس عمل کا ایک متعین شکل میں آغاز بھارت کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور میں ہوگیا تھا لیکن سب سے زیادہ ٹھوس اور دُوررس پیش رفت گذشتہ ایک سال میں ہوئی ہے۔ امریکا اور بھارت کے اس نئے گٹھ جوڑ کے نمایاں پہلو یہ ہیں:

۱- بھارت کو امریکا ایک علاقائی طاقت ہی نہیں بلکہ ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ اسے اس کردار کو ادا کرنے کے لائق بنانے میں اس کا مضبوط ترین ممد اور معاون ہو گا۔ اس میں خاص طور پر یہ پہلو سامنے رہے کہ امریکا یہ چاہتا ہے کہ چین کے عالمی کردار کو  محدود (contain) کرنے کے لیے اس علاقے میں بھارت کلیدی کردار ادا کرے۔اس کے لیے امریکا اس کی پشتی بانی کرے اور اسے اس لائق بنائے کہ وہ چین کاراستہ روک سکے۔

۲۔ اس مقصد کے لیے جو معاہدہ بھارت کے وزیر دفاع اور امریکا کے ڈیفنس سیکرٹری کے درمیان ۲۸ جون ۲۰۰۵ء کو ہوا ہے جسے ۱۰ سال کا دفاعی معاہدہ قرار دیا گیا ہے وہ بڑا اہم ہے۔ اس میں تین امور میں زیادہ توجہ کے لائق ہیں۔

۱- امریکا کی طرف سے بھارت کو فوجی سازوسامان کی فراہمی جس میں امریکا کا جدید اسلحہ اور سازوسامان بھی شامل ہے۔ پاکستان کو تو اب متروک  ایف-۱۶ دینے کی بات ہو رہی ہے لیکن بھارت کو ایف-۱۶ ہی نہیں بلکہ  ایف-۱۸  اور پٹریاٹ میزائل کی بھی اعلیٰ ترین شکل دی جارہی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کی نیوکلیئر سدجارحیت غیر مؤثر کی جا سکتی ہے۔

۲- دوسرا پہلو یہ ہے کہ صرف اعلیٰ ترین اور تباہ کن ترین فوجی سازوسامان ہی بھارت کو نہیں دیا جا رہا ہے بلکہ بھارت کے ساتھ اس کی مشترک پیداوار کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے جس کے معنیٰ یہ ہوں گے ٹکنالوجی عملاً منتقل ہوگی اور بھارت اس پوزیشن میں آجائے گا کہ آیندہ یہ اور اس نوعیت کا اسلحہ اور فوجی سازوسامان خود تیار کر سکے اور اس طرح اس کا امریکا پر انحصار باقی نہ رہے۔ یہ سبق بھارت نے پاکستان کے اس تلخ تجربے سے سیکھا ہے جو ایف-۱۶ لینے کے بعد امریکا کی پابندیاں لگنے کے نتیجے میں پاکستان کو بھگتنا پڑیں اور آج پاکستان وہی غلطی کرنے پر تلا ہوا ہے۔

۳- تیسرا اور نہایت اہم پہلو یہ ہے کہ بھارت نے اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس معاہدے کے ذریعے یہ تسلیم کیا ہے کہ بھارتی فوجیں امریکی کمانڈ میں دنیا کے کسی بھی حصے میں ’’مشترک مفاد‘‘ کے لیے کام کرنے کو تیار ہوں گی۔ یہ ایک طرف اقوام متحدہ کے نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے کہ ایک خودمختار ملک کے لیے جائز صورت یہی تصور کی جاتی ہے کہ وہ ایسی بین الاقوامی فوجی مہم جوئی میں شرکت کرے جو اقوام متحدہ کی کمانڈ میں ہوں۔

۴- نیوکلیئر میدان میںبھارت اور امریکا کے کھلے کھلے تعاون کو ۱۰ سالہ معاہدے میں ایک شق کے طور پر درج کیا گیا ہے اور اب بش من موہن ملاقات کے اعلامیے میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس کے صاف معنی ہیں کہ امریکا نے بھارت کو این پی ٹی پر دستخط کیے بغیر ہی نیوکلیئر طاقت تسلیم کرلیا ہے اور اس سلسلے میں ہر طرح سے بھارت سے تعاون کر رہا ہے‘ جب کہ پاکستان کو نان ناٹو حلیف قرار دیا گیا ہے اور اپناگندا کام (dirty work) پاکستان سے کروایا جا رہا ہے اور اس کے باوجود اسے نیوکلیئر بلیک میل کا نشانہ بنایاجا رہا ہے۔ پاکستان کی موجودہ قیادت اس واضح اور بیّن فرق کو سمجھنے اور اس پر مؤثر ردعمل اختیار کرنے سے اجتناب کرتی ہے تو پاکستان کی سلامتی کے لیے اس سے بڑا خطرہ اور کوئی نہیں۔

امریکا اس اصول سے مسلسل انحراف کر رہا ہے اور عراق پر حالیہ حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکا اقوام متحدہ اور عالمی قانون کو نظرانداز کرکے پہلکاری کرتے ہوئے خود فوجی کارروائی کرسکتا ہے۔ بھارت اور امریکا کے اس معاہدے کی رو سے اقوام متحدہ کی قیادت اور اجازت کے بغیر بھارت اور امریکا جس چیز کو اپنا مشترک مفاد سمجھیں اس کے لیے امریکی کمانڈ میں بھارتی فوجیں سرگرم عمل ہو سکتی ہیں۔ یہ بھارت کی خارجہ پالیسی میں بڑی جوہری تبدیلی ہے۔

اس معاہدے اور اس کے مضمرات پر پاکستان ہی نہیں، چین اور تمام اسلامی ممالک میں بالخصوص اور دنیا کے ان تمام ممالک میں بالعموم جو دنیا کو امریکا کی بالادستی سے محفو ظ رکھنا چاہتے ہیں اور جن کا مقصد یہ ہے کہ عالمی امن ایک عالمی منصفانہ نظام کے تحت قائم ہو، گہرا غور وفکر ہونا چاہیے اور خارجہ پالیسی پر نظرثانی کے باب میں ضروری مشورے ہونے چاہییں۔ ان تمام ممالک کے لیے ضروری ہے کہ اپنی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیں اور ایسے متبادل انتظامات کی فکر کریں جن سے وہ اپنی آزادی، سلامتی اور حاکمیت کا مؤثر دفاع کر سکیں اور امریکا، بھارت اور اسرائیل کے اس گٹھ جوڑ سے جو خطرہ دنیا کی اقوام کو لاحق ہے اس کا مقابلہ کر سکیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ تاریخ سے سبق کم ہی لیا جاتا ہے اور ہر دور میں مغرور اور خودسر حکمران وہی غلطیاں دہراتے چلے جاتے ہیں‘ جن کے سبب ان کے پیش رو عبرت کا نشان بنے تھے۔ یہ مقولہ کہ ’’جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجانے میں مشغول تھا‘‘ضرور ضرب المثل بن گیا چنانچہ ہر دور کے نیرو اپنی اپنی دل چسپی کے شغل میں منہمک نظر آتے ہیں اور جلتے در و دیوار انھیں اپنے خوابِ غفلت سے بیدار کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ہماری اپنی خودپسند قیادت کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔

مشرقی پاکستان میں جب آئینی اداروں کے کردار کو تسلیم کرنے سے انکار کے نتیجے میں محرومی اور بے چینی کا لاوا پک رہا تھا‘ تو اس وقت کا فوجی حکمران اسے ’’چند شرپسندوں کی بغاوت‘‘ قرار دے کر اعلان کر رہا تھا کہ ’’میں ہتھیاروں کی زبان استعمال کرکے سب کو سرنگوں کر لوں گا‘‘۔ جن اہلِ دانش نے اس کو مشورہ دیا کہ ہتھیاروں کی زبان نہیں‘ دلیل کا ہتھیار استعمال کرو تو اس نے اسے کمزوری اور بزدلی قرار دے کر رد کر دیا اور پھر اسی سال ۱۶ دسمبر کو قائداعظم کے پاکستان کے دوٹکڑے ہوگئے۔ آج ایک دوسرا فوجی حکمران پھر طاقت کی زبان استعمال کرنے کی باتیں کر رہا ہے اور ’’شرپسندوں کو سخت کارروائی کا انتباہ‘‘ دے رہا ہے‘ اور جو سیاسی قیادت جو حالات کی نزاکت کو محسوس کرتی ہے اور مسئلے کا سیاسی حل نکالنا چاہتی ہے افسوس ہے کہ وہ کمزوری‘ غفلت اور وقت گزاری کی مرتکب ہو رہی ہے۔ پارلیمنٹ موجود ہے مگر اسے اس مسئلے پر بحث کرنے اور اس کا   حل نکالنے کی اجازت نہیں۔ ایک پارلیمانی کمیٹی نے تین چار مہینے کی تگ و دو اور تمام متعلقہ عناصر سے کامیاب مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل کی کچھ واضح راہیں تلاش کیں‘ مگر اس کا کام بھی معرضِ خطر میں ہے___ آخر اس دلدل سے نکلنے کی کیا راہ ہے؟مستقبل پر بات کرنے سے پہلے صحیح صورت حال‘ اصل مسائل اور ان کے حل کے نقشۂ راہ پر مختصر گفتگو ہوجائے تو پھر شاید سنگ ہاے راہ سے نجات کا راستہ بھی نکالا جا سکے۔

بلوچستان پاکستان کے رقبے کا ۴۵ فی صد اور آبادی کے تقریباً ۶ فی صد پر مشتمل ہے۔ تقریباً ۹۰۰ کلومیٹر کا ساحلی علاقہ اور ایران اور افغانستان سے سیکڑوں کلومیٹر کی مشترک سرحد ہے۔ تیل‘ گیس‘ کوئلے اور دوسری قیمتی معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود اس وقت یہ ملک کا غریب ترین صوبہ ہے۔ بلوچ اور پشتون‘ آبادی کا تقریباً ۸۸ فی صد ہیں اور آپس میں برابر برابر ہیں‘ جب کہ باقی ۱۲ فی صد وہ آبادکار (settlers) ہیں جو آہستہ آہستہ اس سرزمین کا حصہ بن چکے ہیں۔ قبائلی نظام اب بھی مضبوط ہے اور اس کی روایات معاشرے کی شناخت ہیں۔ معاشی ڈھانچا  نہ ہونے کے برابر ہے اور آبادی کے دُور دراز علاقوں تک پھیلے ہونے کی وجہ سے مواصلات اور سہولتوں کی فراہمی کا کام مشکل اور نسبتاً مہنگا ہے۔ جو سہولت دوسرے صوبوں میں مثال کے طور پر ایک کروڑ روپے کے خرچ سے میسر آسکتی ہے صوبہ بلوچستان میں تین سے چار گنا زیادہ اخراجات درکار ہیں۔ اس بنیادی حقیقت کو کسی حکومت نے محسوس نہیں کیا۔ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ وسائل کی فراہمی کا کام کبھی بھی اس صوبے کے لیے انصاف اور ضروریات کی بنیاد پر نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں‘ دیہی علاقے میں غربت پاکستان کی اوسط غربت سے تقریباً دگنی ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وہ گیس جو سوئی سے نکل کر کراچی سے پشاور تک روشنی اور حرارت فراہم کر رہی ہے خود سوئی کی ۹۹ فی صد آبادی اور بلوچستان کی ۹۵ فی صد آبادی اس کی روشنی اور تمازت سے محروم ہے۔

موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس صوبے کے لیے کئی بڑے منصوبے (mega projects) اور ڈھائی ہزار کے قریب دوسرے ترقیاتی منصوبے زیرتکمیل ہیں اور چھے سال میں ۱۲۰ارب روپے اس کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ میرانی ڈیم‘ گوادر پورٹ اور مکران ہائی وے پر کام اس کا کارنامہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود بلوچستان میں نفرت اور بے چینی کی لہریں کیوں اٹھ رہی ہیں؟ عالم یہ ہے کہ ۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۴ء کے دو سال میں ۱۵۲۹ راکٹ فائر کیے گئے ہیں‘ ۱۱۳ بم دھماکے ہوئے ہیں‘ تین چینی انجینیرہلاک ہوئے ہیں اور اس کے علاوہ ۱۰۰ سے زیادہ افراد اب تک جاں بحق ہوچکے ہیں اور کئی سو زخمی۔بگتی علاقے کا محاصرہ ہے‘ ڈاکٹر شازیہ کا المناک واقعہ رونما ہوا ہے اور جب سوئی گیس کی رسد متاثر ہوتی ہے‘ اور یہ بار بارہوئی ہے تو ملک کو روزانہ نقصان ۱۵ سے ۲۰ کروڑ روپے کا ہوتا ہے۔ انسانی جانوں کا ضیاع سب سے بڑا المیہ ہے جس کی کوئی قیمت نہیں ہوسکتی۔

یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ کیا یہ محض چند سرداروں کی سرکشی شرارت ہے جو اپنے ذاتی فائدے کی خاطر صوبے کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں؟ کیا اس میں بیرونی ہاتھ ہے کہ بھارت کے اپنے عزائم ہیں اور وہ گوادر بندرگاہ کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ امریکا کی اپنی سوچ ہے اور بلوچستان میں چین کے عمل دخل پر وہ مضطرب ہے۔ گوادر ہو یا سینڈک‘ ہر جگہ اسے چینیوں کا کردار نظرآتا ہے۔ ایران کے حوالے سے امریکا کے خفیہ اداروں کا کردار اور بلوچستان کی سرزمین سے خلق کے مجاہدین کے احیا کے اشارے مل رہے ہیں جن کو قوم پرست کہا جاتا ہے‘ ان کے اپنے اہداف ہیں اور ہوسکتے ہیں۔ ان سب نظریات اور تصورات میں کچھ نہ کچھ صداقت بھی ہوسکتی ہے لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ مخالف قوتیں حالات کو اسی وقت استعمال کر سکتی ہیں جب ان کے لیے حالات سازگار ہوں اور بگاڑ موجود ہو اور مسائل کو بروقت اور صحیح طریقے پر حل کرنے کی کوشش نہ کی جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ بس قوت کے ذریعے سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔

مجھے پچھلے سال بلوچستان کے حالات کا زیادہ گہرائی سے مطالعہ کرنے اور صوبے کے چند اہم مقامات کا تفصیلی دورہ کرنے‘ بچشم سر حالات کا مشاہدہ کرنے اور درجنوں ذمہ دار افراد سے حقائق کو جاننے اور مسائل کو سمجھنے کا موقع ملا۔ جہاں مجھے یقین ہے کہ آج بھی تمام معاملات سیاسی عمل اور افہام و تفہیم کے ذریعے حل ہوسکتے ہیں‘ وہیں میرا یہ احساس اور بھی قوی ہوگیا ہے کہ    کچھ برسرِاقتدار قوتیں مسائل کو حل کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتیں بلکہ انھیں مزید الجھانے  اور بگاڑنے کے درپے ہیں۔ اس کی نمایاں ترین مثال وہ پارلیمانی کمیٹی ہے جس کا اعلان   چودھری شجاعت حسین نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے مختصر دور میں کیا تھا اور جو اس حیثیت سے ایک منفرد کمیٹی تھی کہ اس میں پارلیمنٹ کی تمام سیاسی جماعتیں شریک تھیں بشمول قوم پرست جماعتیں‘ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس میں برسرِاقتدار جماعتیں اور اس کے حلیفوں کے نمایندوں کی تعداد ۱۶ تھی‘ جب کہ حزب اختلاف سے متعلق نمایندوں کی تعداد ۲۲ تھی۔ یہ کمیٹی ۷ اکتوبر ۲۰۰۴ء کو قائم ہوئی اور اسے ۹۰ دن میں اپنا کام مکمل کرلینا تھا۔

اِس پارلیمانی کمیٹی نے مزید دو کمیٹیاں قائم کیں: ایک سینیٹر وسیم سجاد کی سربراہی میں جس کا کام دستوری معاملات پر سفارشیں پیش کرنا تھا اور دوسری سینیٹر مشاہد حسین سید کی سربراہی میں جسے سیاسی اور معاشی معاملات پر سفارشات مرتب کرنا تھا۔ مجھے دوسری کمیٹی میں کام کرنے کا موقع ملا اور مجھے خوشی ہے کہ اس کمیٹی نے کھلے دل سے اور صرف ملک کے مفاد میں اپنی پوری کارروائی کی اور جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر‘ ملک کے مفاد اور انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر اپنی متفقہ سفارشات مرتب کیں جن کو ۵ جنوری ۲۰۰۵ء کو آخری شکل دے دی گئی لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ سفارشات آج تک پارلیمنٹ کے سامنے باضابطہ طور پر نہیں آسکی ہیں‘ ان پر عمل درآمد کی بات تو دُور کی چیز ہے۔ اس عرصے میں (مارچ ۲۰۰۵ئ) کے سنگین واقعات رونما ہوئے جن کے نتیجے میں حالات مزید بگڑ گئے اور اس وقت طوفان کچھ تھما ہوا ہے مگر لاوہ پک رہا ہے اور حکمران اپنی ’’راج ہٹ‘‘ پر نازاں اور کمیٹی کا ارکان اس تغافل پر نالاں ہیں۔

یہ کہنا محال ہے کہ کمیٹی اپنی رپورٹ کب اور کس طرح پیش کرپاتی ہے لیکن ہماری نگاہ میں وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری پر اس نقطۂ نظر اور ان سفارشات کے جوہر کو بیان کر دیں جو کمیٹی کی اکثریت کی سوچ کی نمایندگی کرتی ہیں اور جس کو ایک متعین شکل دینے میں دوسرے ارکان کے ساتھ راقم نے بھی ایک واضح کردار ادا کیا ہے۔ ہمیں اس بات کو بھی ریکارڈ پر لانے میں کوئی تردد نہیں کہ سینیٹر مشاہد حسین سید اور خود چودھری شجاعت حسین کا رویہ مثبت رہا‘ البتہ ہمارے بار بار کے اصرار کے باوجود‘ وہ معاملات کو آگے بڑھانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں‘ معلوم نہیں کیوں؟

ہماری نگاہ میں مسئلے کے حل کے لیے سب سے پہلے چند بنیادوں کا تعین اور چند حقائق کا ادراک ضروری ہے اور ہم نے یہی چیز کمیٹی سے تسلیم کروانے کی کوشش کی:

۱-            مسئلے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔ مسئلہ سیاسی ہے اور اس کا حل بھی سیاسی ہی ہوسکتا ہے۔

۲-            مسئلے کے حل کے لیے تمام متعلقہ عناصر کو افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور کوشش کرنا ہوگی کہ مکمل اتفاق راے اور بصورت دیگر اکثریت کے مشورے سے معاملات کو طے کیا جائے۔

۳- یہ اصول تسلیم کیا جانا چاہیے کہ محض ’’مضبوط مرکز‘‘ کا فلسفہ غلط اور انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔ ’’مضبوط مرکز‘‘ اسی وقت ممکن ہے جب صوبے مضبوط ہوں اور کامل ہم آہنگی سے ایک دوسرے کے لیے مضبوطی کا ذریعہ اور وسیلہ بنیں۔ اب توجہ کے اصل محور کو مرکز سے صوبوں کی مضبوطی سے اس انداز سے منتقل ہونا چاہیے کہ مضبوط صوبے مضبوط مرکز کی راہ ہموار کریں۔ مرکز اور صوبوں میں dichotomy کی جگہ مفاہمت‘ ہم آہنگی اور mutuality کا رشتہ ہونا چاہیے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور کا بھی یہی تقاضا تھا جسے پورا نہیں کیا گیا۔

۴-            چوتھا بنیادی اصول یہ ہے کہ جس طرح زنجیر کی مضبوطی کا انحصار اس کی کمزور ترین کڑی پر ہوتا ہے‘ اسی طرح ملک کی مضبوطی کے لیے بھی ضروری ہے کہ کمزور اور غریب طبقے کو اتنا مضبوط کیا جائے اور اس سطح پر لایا جائے کہ سب برابر کی مضبوطی اور خوش حالی کے مقام پرآجائیں۔ دوسرے الفاظ میں سب انصاف کے حصول کمزور کو مضبوط بنانے کی پالیسی پر عمل آرا ہوں۔ انصاف نام ہی توازن اور برابری کا ہے اور یہی چیز آج تک ہماری معاشی منصوبہ بندی اور سیاسی پالیسی میں مفقود رہی ہے۔

۵-            اس پورے عمل میں اصل اہمیت افراد‘ علاقے‘ صوبے اور پوری قوم کے حقوق کا تحفظ اور سیاسی اور معاشی عمل میں تمام عاملین کی بھرپور شرکت اور کارفرمائی کو حاصل ہے۔ فردِواحد کی حکومت یا محض ایک خاص گروہ اور مقتدر گروہ کے ہاتھوں میں قوت اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا ارتکاز خرابی کی جڑ ہے۔ مسئلہ معاشی ہے مگر اس سے بھی زیادہ صوبوں کے اپنے وسائل پر اختیار اور سیاسی اور معاشی فیصلوں میں شرکت اور ترجیحات کے تعین کی قدرت کا ہے۔ منہ بند کرنے کے لیے کچھ گرانٹس یا مراعات کے دے دینے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ ملکیت‘ اختیار اور اقتدار اور فیصلوں میں شرکت کے انتظام کو ازسرِنو مرتب کرنا اصل ضرورت ہے۔

۶-            اس سلسلے میں فوج کا کردار بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ فوج کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف اور صرف دفاع وطن کی ذمہ داری سول حکمرانی کے تحت انجام دے۔ ساری خرابیوں کی جڑ سیاسی اور اجتماعی معاملات فوج کی مداخلت اور ایک مقتدر سیاسی قوت بن جانا ہے۔ چھائونیوں کی ضرورت اگر ملک کے دفاع اور سلامتی کے لیے ہے تو وہ مسئلہ میرٹ پر طے ہونا چاہیے لیکن اگر لوگوں کو یہ خطرہ ہو کہ یہ چھائونیاں سول نظام کو اپنے قابو میں کرنے کے لیے ہیں تو پھر اس کے نتیجے میں سول عناصر اور فوجی قوت کے درمیان کش مکش ناگزیر ہوجاتی ہے۔ فوج کے سوچنے کا انداز (mind-set) سول نظام سے بہت مختلف ہے اور دونوں کا اپنے اپنے حدود میں رہ کر تعاون ہی ملک کے نظام کی صحت کی ضمانت ہوسکتا ہے۔ تحکمانہ انداز بگاڑ پیدا کرتا ہے‘ اس سے خیر رونما نہیں ہوسکتا‘ اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ کمیٹی فوجی چھائونیوں کے قیام کے بارے میں احتیاط کا مشورہ دے رہی ہے مگر فوج کے ترجمان کیا زبان استعمال کر رہے ہیں‘ جب کہ ۲۷ جنوری ۲۰۰۵ء کے  ڈان میں فوج کے ایک کرنل صاحب کا سوئی میں فوجی چھائونی کے بارے میں اس طرح کا اعلان اصلاح احوال کا ذریعہ کیسے  بن سکتا ہے؟

ہم یہاں آئے ہیں اور ہم نے پاکستان آرمی کو الاٹ شدہ ۴۰۰ ایکڑ زمین پر قبضہ حاصل (WE HAVE TAKEN OVER) کر لیا ہے۔ ہم یہاں جلد ہی ایک چھائونی تعمیر کریں گے جو اس علاقے کی ضرورت ہے۔ آج آپ کو یہاں صرف ریت کے ٹیلے نظر آئیں گے لیکن ایک بہت ہی مختصر مدت میں چھائونی کی تعمیر کی جائے گی اور ریت کے تودے سرسبز زمین میں تبدیل ہوجائیں گے۔

یہ وہی منطق ہے جس کا اظہار برطانوی سامراج کی افواج اور حکمران کیا کرتے تھے کہ ہم نے مقبوضہ علاقوں کو ترقی سے ہمکنار کر دیا ہے۔ ترقی بلاشبہہ مطلوب ہے مگر اس انداز میںکہ رشتہ ْحاکم اور محکوم کا نہ ہو بلکہ سب کے فیصلے سے اور سب کی شراکت سے معاملات طے ہوں۔ وسائل پر اختیار بھی آزادی کا لازمی حصہ ہے۔ محض سبزہ اُگانا اور روٹی دینا ترقی کا معیار نہیں۔

ان اصولوں کی روشنی میں کمیٹی کے ارکان کی اکثریت نے جو تجاویز دی ہیں‘ ان میں چند اہم یہ ہیں۔ اوّل: حقیقی صوبائی خودمختاری کے تقاضے پورا کرتے ہوئے دستور میں مرقوم مشترک فہرست (concurrent  list) کے ۴۶موضوعات میں سے ۲۹ کو فی الفور صوبوں کے سپرد کردیا جائے‘ باقی ۱۷ اگلے پانچ سال کے اندر اندر منتقل کر دیے جائیں۔ دستور کی مرکزی فہرست کے دوسرے حصے میں جو موضوعات ہیں وہ آیندہ کے لیے مشترک فہرست میں شامل کر دیے جائیں۔ نیز مشترک معاملات کی کونسل (Council of Common Interest) کو ایک مؤثر ادارہ بنایا جائے اور اس کی شش ماہی نشستوں کو دستوری طور پر لازم قرار دیا جائے۔ اس کا اپنا سیکرٹیریٹ ہو تاکہ یہ دوسروں کی مہربانی پر زندہ نہ رہے۔

دوم: سیاسی فضا کو خوش گوار بنانے کے لیے ہر طرح کے عسکری تشدد کا راستہ بند کیا جائے‘ مذاکرات سے معاملات طے کیے جائیں‘ اور جو سیاسی کارکن گرفتار ہیں‘ ریاستی اور سیاسی ان کی رہائی کا اہتمام کیا جائے۔

سوم: صوبے کو اپنے وسائل پر اختیار دیا جائے اور مرکز سے جو وسائل منتقل ہوتے ہیں‘ ان میں انصاف اور ضرورت کو ملحوظ رکھا جائے۔ اس سلسلے میں گیس اور معدنیات کی رائلٹی کو نئے فارمولے کی روشنی میں انصاف کے مطابق مقرر کیا جائے۔

چہارم: معاشی ترقی کے ثمرات کو علاقے کے عوام تک پہنچانے کا بندوبست ہو۔ اس کے لیے تجویز کیا گیا ہے کہ معدنی وسائل کو دریافت کرنے اور ترقی دینے والی کمپنیوں کے لیے لازم کیا جائے کہ وہ اپنی کل سرمایہ کاری (investment) کا کم ازکم پانچ فی صد علاقے کے لوگوں کی تعلیم‘ صحت اور دوسری سہولتوں کی فراہمی کے لیے استعمال کیا جائے‘ نیز معدنیات کی ترقی کے بعد ان کمپنیاں کے نفع کا ۱۵ فی صد اس علاقے کی ترقی کے لیے صرف کیا جائے۔

پنجم: نیز صوبے میں تعلیم‘ صحت‘ پانی کی فراہمی‘ بجلی اور گیس کی فراہمی وغیرہ کا خصوصی اہتمام کیا جائے اور ملازمتوں پر مقامی آبادی اور صوبے کے لوگوں کو ترجیح دی جائے‘ اور یہ سب کام میرٹ کی بنیاد پر انجام دینے کے لیے مقامی آبادی کی تعلیم‘ پیشہ ورانہ تربیت اور ہنر سکھانے کا انتظام  کیا جائے۔

ششم: فرنیٹر کور اور کوسٹل گارڈ کو صرف ساحلی علاقوں اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے مختص کیا جائے اور ان کا سول کردار ختم کیا جائے۔ نیز اسمگلنگ روکنے کے نام پر جو ۵۰۰سے زیادہ چوکیاں قائم کر دی گئی ہیں‘ ان کو ختم کیا جائے۔ اسمگلنگ روکنے کا کام فرنٹیرکانسٹیبلری اور کوسٹل گارڈ سے نہ لیا جائے بلکہ یہ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری ہو۔ اسی طرح فوجی چھائونیوں کا معاملہ  سیاسی بحث و مناقشے کا حصہ نہ ہو اور صرف دفاعی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر میرٹ پر فیصلہ کیا جائے۔  فی الحال ان کے قیام کو ملتوی کر دیا جائے تاکہ بہتر فضا میں صحیح فیصلے ہوسکیں۔

ہفتم: گوادر پورٹ کی اتھارٹی کو فوری طور پر کراچی سے گوادر میں منتقل کیا جائے۔ اس میںصوبے کو مناسب نمایندگی دی جائے‘ اس کی ترقی کے پورے پروگرام میں صوبے کی ضرورتوں کو ملحوظ رکھا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ علاقے کے لوگوں کو ان کا حق ملے‘ زمینوں پر باہر والے قبضہ کر کے علاقے کی شناخت کو تبدیل نہ کر دیں اور جو متاثرین ہیں ان کو قریب ترین علاقے میںآباد کیا جائے۔ نیز اراضی کے بڑے بڑے قطعے جس طرح فوج‘ نیوی اور دوسرے بااثر افراد اور اداروں نے ہتھیا لیے ہیں ان کو سختی سے روکا جائے اور انصاف پر مبنی شفاف انداز میں پورے علاقے کا ماسٹر پلان ازسرِنو تیار کیا جائے۔

ہشتم: بلوچستان میں بلوچوں اور پشتونوں کے درمیان توازن اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبے کے تمام علاقوں اور باسیوں کی منصفانہ اور متوازن ترقی کے تقاضے بہرصورت پورے ہونے چاہییں۔ خصوصیت سے خشک سالی کی بنا پر جو علاقے گذشتہ آٹھ برس سے متاثر ہیں ان کی ترقی اور تلافی کا اہتمام کیا جائے۔

نہم: بلوچستان میں نظم و نسق کے روایتی انتظام کو جس میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت مقامی لیوی کو حاصل ہے‘ برقرار رکھا جائے اور اس کی ترقی کا اہتمام کیا جائے نہ کہ اس کو ختم کرکے پولیس کے نظام کو ان پر مسلط کیا جائے جو اس علاقے میں بھی ناکام ہے جہاں اس وقت اسے قدرت حاصل ہے۔

ہمارا مقصد کمیٹی کی مکمل سوچ کا احاطہ اور اس کی تمام سفارشات کا بیان نہیں۔ ہم سوچ کے اس رخ کو سامنے لانا چاہتے ہیں جو پارلیمنٹ کی اس کمیٹی نے پیش کیا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے بلوچستان ہی نہیں‘ تمام صوبوں اور ملک کے سب علاقوں اور متاثرہ افراد کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ یہ سب صرف اسی وقت ممکن ہے جب اصل فیصلے پارلیمنٹ میں ہوں‘ عوام کے مشورے سے ہوں۔ مکالمے کے ذریعے سیاسی معاملات کو طے کیا جائے۔ مخصوص مفادات اور فوجی اور سول مقتدرہ (military - civil establishment) کی گرفت کو ختم کیا جائے‘ اور عوام اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جمہوری اداروں کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں۔

صوبائی قیادت کی بھی بڑی ذمہ داری ہے۔ بلوچستان کی صوبائی قیادتیں بھی حالات کے بگاڑ کے سلسلے میں ایک حد تک ذمہ دار رہی ہیں لیکن زیادہ ذمہ داری مرکزی قیادت اور خصوصیت سے حکمران طبقے پر عائد ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شاید یہی وہ طبقہ ہے جو پارلیمانی کمیٹی کے کام کے آگے بڑھنے کی راہ میں حائل ہے۔ مسئلے کا حل پارلیمنٹ‘ سیاسی جماعتوں اور عوام کے اپنے کردار کو مؤثر بنانے میں ہے‘ بقول اقبال    ؎

ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ

ُتو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے

 

برطانیہ کے ہفت روزہ اکانومسٹ نے کچھ عرصہ پہلے لکھا تھاکہ پاکستان ایک ایسا غریب ملک ہے جس میں امیروں کی ریل پیل ہے۔ فوجی حکومت کے چھے سالہ دورحکومت میں‘ اور خصوصیت سے گذشتہ دو سالوں میں‘ جہاں ملک میں غربت‘ بے روزگاری‘ افراط زر‘ بجٹ کے خسارے اور ملک کے تجارتی خسارے میں اضافہ ہوا ہے‘ وہیں امیروں کی تعداد میں بھی معتدبہ اضافہ واقع ہوا ہے۔ زمین کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے‘ اسٹاک ایکسچینج کے غبارے میں سٹہ کاری کے ذریعے ہوا بھرنے اور زندگی کے ہر شعبے میں کرپشن اور بدعنوانی کے فروغ کے نتیجے میں ایک مخصوص طبقہ امیر سے امیر تر ہو رہا ہے اور عام آدمی غریب سے غریب تر۔ اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسیاں دراصل گلوبلائزیشن اور عالمی مالیاتی اداروں کے زیراثر آزاد تجارت‘ نج کاری‘ سرمایہ پرستی‘ ڈی ریگولیشن اور کارپوریٹ کلچر کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ملک کی معیشت پر بے روک ٹوک چھا جانے کا موقع دینے سے عبارت ہیں۔

اس صورت حال کے نتیجے میں دولت کا ارتکاز خطرناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ملک میں ایک ایسی اشرافی معیشت (elitist economy) پروان چڑھ رہی ہے کہ بیرونی اور ملکی سرمایہ دار معیشت کے پورے دروبست پر قابض ہوتے جائیں اور عام انسان ایک نئی معاشی غلامی کے شکنجے میں کستے چلے جائیں۔ تازہ بجٹ (۲۰۰۶ئ-۲۰۰۵ئ) معیشت کے اس رخ کا پوری طرح عکاس ہے اور اگر اسے اسلام آباد کے ایئرکنڈیشنڈ ایوانوں میںتیار کردہ امیروں کا ایک ایسا بجٹ کہا جائے جو امیروں کو امیر تر بنانے کے لیے ہے تو بے جا نہ ہوگا یعنی:

a budget of the rich, by the rich and  for the rich.

امیروں کے لیے‘ امیروں کا بنایا ہوا امیروں کا بجٹ۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک کے عوام‘ پارلیمنٹ اور معیشت کے تمام کارفرما عناصر  (stake holders) کا اس کے بنانے میں کوئی دخل نہیں۔ اقتدار پر بیورو کریسی‘ فوجی قیادت اور مفاد پرست عناصر کا قبضہ ہے اور پالیسی سازی پر ان کی گرفت مکمل ہے۔ عوامی واویلا ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اہلِ علم غیرمتعلق ہیں اورخود پارلیمنٹ میں اٹھنے والی آوازیں خواہ ان کا تعلق حزب اختلاف سے ہو یا سرکاری حلقوں سے‘ کوئی اہمیت نہیں رکھتیں ___یہ بڑی دردناک صورت حال ہے اور اگر اس کی اصلاح کی فوری کوشش نہیں کی گئی تو ایک طرف معیشت تباہی کی طرف بڑھے گی تو دوسری طرف ملک کے عوام اور ان کے نمایندوں کا احساسِ بے بسی قوم کو تصادم اور انقلاب کی راہ پر ڈال سکتا ہے جس کے نتائج ضروری نہیں کہ خیر کی طرف ہوں۔

پاکستان کا المیہ ہی یہ ہے کہ پالیسی سازی پر عوام اور ان کے نمایندوں کی گرفت نہیں۔ ایک بااثر ٹولہ ہے جو ملک کو جدھر چاہتا ہے لیے جا رہا ہے۔ ۵۸ سال کے اس عرصے میں بیوروکریسی نے ۳۲ بجٹ بنائے اور فوجی قیادت کے بلاواسطہ انتظام و انصرام میں ۲۶ بجٹ بنائے گئے۔ ان میں سے کچھ کا تو صرف ریڈیوا ور ٹی وی پر اعلان ہوا اور جو کسی پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے تو صرف انگوٹھا لگوانے کے لیے۔ اس ۵۸ سالہ تاریخ میں صرف ایک بجٹ ایسا تھا جسے پارلیمنٹ نے پیش کیے جانے کے بعد رد کر دیا اور اسے دوبارہ مرتب کر کے اسمبلی میں پیش کیا گیا (یعنی جونیجو دور میں یٰسین وٹو کا بجٹ)۔ لیکن اس بجٹ کے پیش کیے جانے کے بعد مقتدر اور بااثر حلقے متحرک ہوگئے اور سال کے ختم ہونے سے پہلے اس حکومت ہی کا نہیں‘ اس اسمبلی کا بھی بوریا بستر لپیٹ دیا گیا۔

ہم بجٹ پر گفتگو کرنے سے پہلے تین بہت بنیادی امور کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں جن کا  تعلق ان اداراتی اصلاحات سے ہے جن کے بغیر ہماری نگاہ میں بجٹ سازی اور پالیسی سازی  اس یرغمالی نظام (hostage keeping) سے نکل نہیں سکتی جس کی گرفت میں وہ نصف صدی سے ہے۔

پارلیمنٹ کا اختیار؟

ہمارے ملک میں بجٹ سازی آج بھی انھی خطوط اور تحدیدات (limitations) کے شکنجے میں ہوتی ہے جو برطانوی سامراجی دور کا طرہ امتیاز تھا اور جسے ۱۹۳۵ء کے قانون کی شکل میں ملک پر مسلط کیا گیا تھا۔ بدقسمتی سے ہمارے دستور بنانے والوں نے اس شکنجے کو توڑنے اور مالیاتی امور میں پارلیمنٹ اور عوام کی حاکمیت کو دستور میں منوانے کی کوئی کوشش نہیں کی حالانکہ آزادی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا تقاضا تھا کہ ٹیکس لگانے اور تمام مصارف کی اجازت اور نگرانی کا مکمل اختیار پارلیمنٹ کو ہو۔ برطانوی استعمار کی روایت کو باقی رکھتے ہوئے اخراجات کا ایک حصہ جسے charged  اخراجات کہا جاتا ہے وہ انتظامیہ کا طے کردہ ہوتا ہے جسے پارلیمنٹ میں پیش تو کیا جاتا ہے مگر اسے اس میں نہ صرف یہ کہ کمی و بیشی کا اختیار نہیں وہ اس پر ووٹ دینے کی بھی مجاز نہیں۔ اسے من و عن قبول کرنا ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ کوئی معمولی رقم نہیں۔ موجودہ بجٹ کے جاری اخراجات (Revenue Expenditure) کے تقریباً ایک تہائی‘ یعنی ۰۹۵.۹۶۱ بلین کے اخراجات میں سے ۸۴۵.۳۱۳ بلین روپے charged  ہیں اور ترقیاتی اخراجات (Capital Expenditure) کا تقریباً ۹۶ فی صد‘ یعنی ۳۱۷.۲۲۷۱بلین میں سے ۲۱۲.۲۱۸۷ بلین charged ہے اور اس طرح Federal Consolidated Fund سے کل خرچ (authorized disbursement)‘ یعنی ۴۱۲.۳۲۳۲ بلین کا ۷۸ فی صد‘ یعنی ۰۵۷.۲۵۰۱ بلین روپے charged ہیں اور صرف ۳۵۵.۷۳۱ بلین روپے other than chargedہیں۔ (ملاحظہ ہو‘ Annual Budget Statement 2005-2006‘ ص ۱۹۰)

سرکاری خزانے کے مصارف کی اتنی بڑی رقم کے لیے پارلیمنٹ کے ووٹ کی بھی ضرورت نہیں    ؎

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

جو چاہے سو آپ کرے ہے‘ ہم کو عبث بدنام کیا

فوج کا بجٹ

دوسرا مسئلہ فوج کے بجٹ کا ہے۔ خواہ معاملہ جاری مصارف کا ہو یا ترقیاتی مصارف کا‘ بجٹ میں صرف ایک جملے میں مطالبہ زر آتا ہے اور پارلیمنٹ کو نہ اس کی تفصیلات فراہم کی جاتی ہیں اور نہ ان مصارف پر پارلیمنٹ کوئی احتساب کر سکتی ہے۔ یہ بھی اطلاع نہیں دی جاتی کہ اس میں سے کتنی رقم فوج کی تین بڑی مدات بری‘ فضائی اور بحری فوج پر خرچ کی جارہی ہے اور دفاع کی عمومی حکمت عملی اور فوجی اخراجات میں کیا مناسبت ہے۔

فوج کا بجٹ پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی دسترس سے بھی باہر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فوج کا اپنا نظامِ احتساب ہے لیکن یہ سب پارلیمنٹ کی دسترس سے باہر ہے حالانکہ دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں فوج کا مکمل بجٹ پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیوں کے سامنے آتا ہے اور چند حساس دائروں کو چھوڑ کر ہر خرچ پارلیمنٹ کی منظوری سے انجام پاتا ہے۔

ہمارے فوجی بجٹ کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ ڈیفنس سروس کے عنوان سے ایک بڑی رقم لی جاتی ہے جو آیندہ سال کے لیے ۵۰۱.۲۲۳ بلین روپے ہے۔ یہ رقم ۲۰۰۱ئ-۲۰۰۰ء کے بجٹ میں ۳۰۱.۱۳۳ بلین روپے تھی اور ۲۰۰۵ئ-۲۰۰۴ء کے بجٹ میں اسے بڑھا کر ۹۲۶.۱۹۳ بلین کیا گیا تھا اور اضافے کی بڑی وجہ بھارت سے ایک سال کے فوجی تصادم کی وجہ سے فوجی نقل و حرکت کو قرار دیا تھا۔ مگر فوجوں کی محاذ سے واپسی کے باوجود عملاً فوج کا خرچ مزید بڑھ گیا ہے۔ نظرثانی شدہ تخمینے میں اسے بڑھا کر ۲۵۸.۲۱۶ بلین کر دیا گیا ہے جو اب مزید بڑھا کر ۵۰۱.۲۲۳ بلین تجویز کیا گیا ہے۔ نیز فوجی عملے کو دی جانے والی پنشن جو تین سال پہلے تک فوجی بجٹ کا حصہ ہوتی تھی اسے سویلین بجٹ کی طرف منتقل کر دیا گیا ہے اور یہ رقم سال آیندہ کے لیے ۹۴۶.۳۶ بلین روپے ہے۔ اس کے علاوہ سول آرمڈ فورسز ہیں‘ جو عملاً فوج کے تحت ہیںلیکن ان کا خرچ سول بجٹ سے لیا جاتا ہے‘ یعنی فرنٹیر کانسٹیبلری (۵۳۱.۱ بلین روپے)‘ پاکستان رینجرز (۷۸۹.۳ بلین روپے) اور پاکستان کوسٹل گارڈ (۱۶۲.۳۵۹ ملین روپے)۔ کیڈٹ کالجوں پر خرچ اس کے سوا ہے جو خود ایک ارب روپے سے متجاوز ہے۔ اس میں اگر ان بیرونی قرضوں کی واپسی مع سود کی مد میں جو فوجی مقاصد کے لیے ‘ لیے گئے قرضے ہیں ان کو شامل کر لیا جائے تو بجٹ پر اس کا بوجھ تقریباً ۳۳۷.۱۶ بلین روپے کا ہے۔ اس میں اٹامک انرجی کمیشن کے اخراجات شامل نہیں ہیں جس کا ایک حصہ فوجی مقاصد کے لیے ہے اور ایک توانائی اور دوسرے پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ اگر فوج کے پورے سالانہ بجٹ کا احاطہ کیا جائے تو یہ ۲۸۰ اور ۳۰۰ بلین روپے پر محیط ہے۔

بلاشبہہ فوج کی ہر حقیقی ضرورت کو پورا کرنا ملک کی سلامتی اور تحفظ کے لیے ضروری ہے اور ہر قوم اپنے دفاع کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر ان ضرورتوں کو پورا کرتی ہے اور کرنا چاہیے۔ لیکن قوم اور اس کی پارلیمنٹ کا حق ہے کہ وہ دوسرے مصارف کی طرح ضروری احتیاط کے ساتھ ان اخراجات پر بھی نگاہ رکھے اور قومی حکمت عملی سے اسے ہم آہنگ ہی نہ کرے بلکہ وسائل کے  بہترین استعمال کو بھی یقینی بنائے۔

بجٹ سازی کا طریق کار

تیسرا مسئلہ بجٹ سازی کے طریق کار اور اس عمل میں صرف ہونے والے وقت اور قومی اداروں کی بجٹ سازی میں شرکت کا ہے۔ انٹرنیشنل پارلیمانی یونین نے دنیا کی ۸۰ جمہوری پارلیمنٹوں کا جو جائزہ شائع کیا ہے اس کے مطابق ان تمام ممالک میں بجٹ سازی کے لیے دو سے چھے ماہ کا وقت لیا جاتا ہے۔ بھارت میں یہ عمل ۷۵ دن میں پورا ہوتا ہے‘ جب کہ برطانیہ‘ کینیڈا‘ سویڈن‘ نیوزی لینڈ‘ برازیل‘ الجزائر‘ ارجنٹنا‘ ڈنمارک‘ بلجیم‘ فرانس‘ جرمنی‘ انڈونیشیا‘ اٹلی‘ جاپان‘ غرض بیشتر ممالک میں تین سے چار مہینے اس کے لیے وقف کیے جاتے ہیں۔ امریکا میں یہ عمل پورے سال جاری رہتا ہے۔ بجٹ پیش کرنے کے بعد پارلیمنٹ کے ساتھ پارلیمنٹ کی کمیٹیوں میں بحث ہوتی ہے اور یہ کمیٹیاں عوامی نمایندوں اور معیشت کے مختلف کارپردازوں کو اپنا اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کا موقع دیتی ہیں۔ انتظامیہ کے نمایندے پارلیمنٹ کی متعلقہ کمیٹیوں کے نمایندوں اور دوسرے عوامی اور تجارتی و صنعتی نمایندوں سے بحث و گفتگو اور کچھ لینے اور کچھ دینے کے ذریعے بجٹ کو آخری شکل دیتے ہیں۔ Ways and Means Committee ‘ تخمینہ کمیٹی یا فنانس کمیٹی پورے عمل میں شریک ہوتی ہے اور انتظامیہ کی طرف سے اخراجات کے تخمینوں اور آمدنی کے ذرائع پر کھل کر بحث کی جاتی ہے اور پھر بجٹ کو آخری شکل دی جاتی ہے۔ یہی جمہوریت کی روح ہے۔

اس کے مقابلے میں پاکستان میں بجٹ بنانے میں پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیوں کا عملاً کوئی حصہ نہیں۔ قومی اسمبلی میں بجٹ ایک طے شدہ شکل میں پیش کر دیا جاتا ہے اور بمشکل دو ڈھائی ہفتوں میں (۱۴ سے ۲۰ دن) اسے زبردستی منظور کرا دیا جاتا ہے۔ سینیٹ کا پہلے تو کوئی عمل دخل تھا ہی نہیں حالانکہ ہر وفاقی نظام میں ایوان بالا کا بجٹ سازی میں بڑا اہم کردار ہوتا ہے اور ۱۹۸۷ء سے پاکستان میں سینیٹ اپنا یہ حق تسلیم کرانے کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہا تھا۔ سترھویں ترمیم کے ذریعے سینیٹ کو تھوڑا سا رول میسرآیا ہے لیکن بس اتنا کہ سات دن کے اندر اپنی سفارشات قومی اسمبلی کو بھیج دے جسے رد و قبول کا مکمل اختیار قومی اسمبلی کو ہے اور قومی اسمبلی کا عملی رویہ یہ ہے کہ گذشتہ تین سال سے سینیٹ نے بڑی محنت سے جو سفارشات پیش کی ہیں نہ ان پر کھل کر بحث کی ہے اور نہ ان کی اہم سفارشات کو بجٹ کا حصہ بنایا ہے۔

اس سال سینیٹ نے ۲۴۶ تجاویز پر غور کر کے ان میں سے ۵۸ کو متفقہ طور پر منظور کر کے قومی اسمبلی کو بھیجا۔ ان میں سے ۱۸ کا تعلق مالیاتی بل کی قانونی اور فنی خامیوں کی اصلاح سے تھا‘ تین کا تعلق قانون کو عدل وا نصاف کے مسلمہ اصولوں کے مطابق لانے کے لیے اساسی تجاویز سے تھا۔ ۱۷ تجاویز معاشی اور مالیاتی اعتبار سے بڑی بنیادی نوعیت کی تھیں جن کے بجٹ پر بڑے دُور رس اثرات مرتب ہونے تھے‘ یعنی روزگار کی فراہمی‘ غربت میں کمی‘ امیروں پر نئے ٹیکس‘ خصوصیت سے اسٹاک ایکسچینج اور زمینوں اور مکانوں کی فروخت پر cvt ‘بچتوں کی ترغیب کے لیے ٹیکس اصلاحات‘ بنکوں پر ٹیکس کی شرح میں کمی کی مخالفت‘ زرعی inputs پر درآمدی اور سیلز ٹیکس میں چھوٹ وغیرہ۔ نیز ۱۲ تجاویز معاشی پالیسی میں تبدیلی اور چھے کا تعلق مالیاتی اداروں‘ سرکاری انتظامی نظام اور دستور اور قانون میں ایسی تبدیلیوں سے تھا جو بجٹ سازی کو زیادہ نمایندہ بنا سکے اور     اعداد و شمار کے نظام کو بہتر اور قابلِ اعتماد بنا سکے۔ لیکن ان میں سے چند ضمنی اور صرف ٹیکنیکل سفارشات کو تو اس لیے لے لیا گیا کہ وہ فنانس بل کے بڑے موٹے موٹے سقم (loop holes) دُور کر رہی تھیں اور وزارت خزانہ اور وزارت قانون کی سنگین غلطیوں کا مداوا کر رہی تھیں۔ لیکن  نظام کی اصلاح اور بجٹ کو قومی ترجیحات سے ہم آہنگ کرنے والی تمام تجاویز کو بحث کے بغیر ہی  رد کردیا گیا جس نے سینیٹ کی تمام کوشش کو ایک خواہ مخواہ کی مشق بنا کر رکھ دیا۔

ان حالات میں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ دستور اور پارلیمنٹ کے ضوابط کار میں   درج ذیل بنیادی تبدیلیاں کی جائیں:

۱-            chargedاور other than charged کی تقسیم کو ختم کیا جائے اور تمام اخراجات اور تمام ٹیکس کے اقدامات بشمول ایس آر اوز جو عملاً ٹیکس لگانے کا ایک ذریعہ بن گئے ہیں پارلیمنٹ اور صرف پارلیمنٹ کے اختیار میں ہوں۔

۲-            سینیٹ کو بجٹ سازی میں مؤثر کردار دیا جائے اور جہاں سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اختلاف ہو وہاں ان اختلافات کو مصالحتی کمیٹیوں کے ذریعے حل کیا جائے۔

۳-            بجٹ سازی کا عمل سال کے ختم ہونے سے چار مہینے پہلے شروع ہو اور اس کی ترتیب یہ ہونی چاہیے:

ا- جنوری کے آخر یا فروری کے شروع میں وزیرخزانہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سامنے پچھلے سال کا معاشی جائزہ‘ معیشت اور مالیاتی اہداف اور ان کے حصول کا پروگرام پیش کریں اور آیندہ کے لیے اپنے اہداف‘ ترجیحات اور لائحہ عمل کے خدوخال رکھیں۔

ب- اس کے فوراً بعد دونوں ایوانوں میں بجٹ کے ان اہداف اور ملک کی ضروریات پر ایک ہفتہ عمومی بحث ہو۔

ج- اس بحث کی روشنی میں دونوں ایوانوں کی مالیاتی کمیٹیاں بجٹ کی تفصیلات پر غور کریں اور پارلیمنٹ کی مختلف وزارتوں سے متعلقہ کمیٹیوں کو موقع دیا جائے کہ دو سے تین ہفتوں میں اپنی سفارشات متعلقہ مالیاتی کمیٹیوں کو بھیج دیں۔

د- دونوں ایوانوں میں مالیاتی کمیٹیاں عوام کو اپنی سفارشات پیش کرنے کی دعوت دیں اور معیشت سے متعلق تمام کارفرما اداروں کو موقع دیا جائے کہ ان کمیٹیوں کے سامنے اپنے مسائل‘ ضروریات اورمشورے رکھیں۔

ھ- یہ کمیٹیاں وزارت خزانہ کے ساتھ الگ الگ یا مشترک اجلاس میں عوام کے مطالبات‘ ضروریات اور عوامی نمایندوں کی تجاویز اور مشوروں پر تبادلہ خیال کر کے اپنی تجاویز مرتب کریں۔

و- ان تجاویز کو حکومت کو مارچ کے آخیر یا اپریل کے شروع تک بھیج دیا جائے تاکہ ان کی روشنی میں وزارت خزانہ بجٹ کو آخری شکل دے‘ جو مئی کے وسط میں بجٹ کو آخری شکل میں دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کر دے۔

ز- سینیٹ دو ہفتے (کام کرنے کے ۱۴ دن) میں اپنی آخری سفارشات اسمبلی کو بھیج دے اور اسمبلی ان پر باقاعدہ بحث کر کے دلائل کے ساتھ قبول یا رد کرنے کا کام انجام دے۔

ک- اسمبلی میں مکمل بحث کے بعد جون کے تیسرے یا چوتھے ہفتے میں بجٹ منظور کیا جائے۔

۴-            پبلک اکائونٹس کمیٹی کو وسعت دی جائے ‘ اسے پارلیمنٹ کی مشترک کمیٹی بنایا جائے جس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کو برابر کی نمایندگی دی جائے۔

۵-            پبلک اکائونٹس کمیٹی سال بھر کام کرے۔ آڈیٹر جنرل کی ذمہ داری ہو کہ ہر تین مہینے بعد اپنی رپورٹ اس کمیٹی کو پیش کرے اور یہ کمیٹی کی ذمہ داری ہو کہ رپورٹ آنے کے تین مہینے کے اندر اندر اس پر غور کر کے اپنی رپورٹ دے دے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ سال کے ختم ہونے کے ایک سال کے اندر پارلیمنٹ کے سامنے آجائے۔ تین تین اور چار چار سال کے بعد رپورٹ کا آنا اسے بالکل بے معنی بنا دیتا ہے۔

نیشنل فنانس کمیشن کا ایوارڈ

دوسرا بنیادی مسئلہ نیشنل فنانس کمیشن کے ایوارڈ کا ہے جس کے بغیر بجٹ سازی کا پورا عمل غیر دستوری ہی نہیں ہوجاتا‘ عملی اعتبار سے مرکز اور صوبے دونوں کے لیے بجٹ سازی ایک مشکل بلکہ لاحاصل عمل بن جاتی ہے۔ دستور کی دفعہ ۱۶۰ کے تحت ہر پانچ سال بعد ایوارڈ کو لازمی قرار دیا گیا ہے اور اس کے بغیر مرکز اور صوبوں کو اپنے پورے مالی وسائل کا اندازہ ہی نہیں ہوسکتا جس کی عدم موجودگی میں وہ محض مفروضوں پر بجٹ بناتے ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان صوبوں کو ہوتا ہے جو بالکل اندھیرے میںبجٹ سازی کرنے پر مجبور ہیں۔

موجودہ حکومت جس ایوارڈ کی بنیاد پر مالی وسائل کی تقسیم کر رہی ہے‘ وہ ۲۰۰۲ء میں ختم ہوچکا ہے اور اس طرح اب یہ تیسرا سال ہے کہ صوبے اپنے حق سے محروم ہیں۔ واضح رہے کہ ۱۹۹۱ء سے پہلے صوبے اپنے بجٹ آزادی سے بناتے تھے اور بجٹ میں خسارے کا بھی ان کو اختیار تھا جسے مرکزی حکومت پورا کرتی تھی۔ ۱۹۹۱ء میں خسارے کے تصور کو ختم کیا گیا البتہ ترقیاتی منصوبے کی مالی ضرورتیں پوری کرنا مرکز کی ذمہ داری رہی۔ ۱۹۹۷ء کے ایوارڈ کی رو سے صوبوں کے لیے پبلک سیکٹر ترقیاتی پروگرام (PSDP) کی مرکزی ذمہ داری کو ختم کر دیا گیا اور صوبوں کو اس کے لیے خود ذمہ دار کیا گیا کہ اپنے وسائل سے یا قرض لے کر اسے پورا کریں۔ پہلے قابل تقسیم فنڈ میں کسٹم ڈیوٹی شامل نہیں تھی اور انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس ہی قابلِ تقسیم اجزا تھے جن میں مرکز ۲۰ فی صد رکھ کر ۸۰ فی صد صوبوں کو دے دیتا تھا۔ ۱۹۹۷ء میں کسٹم ڈیوٹی اس میں شامل کر لی گئی اور فنڈ میں تمام ٹیکس شامل ہوگئے‘ البتہ صوبوں کا حصہ کم کر دیا گیا۔ مرکز ۵.۶۲ فی صد اور صوبے ۵.۳۷ فی صد کے حق دار ٹھیرے۔ اس طرح عملاً مرکز نے صوبوں کے حصے کو محدود اور مقید کر دیا اور وسائل کا توازن مرکز کے حق میں اور صوبوں کے خلاف ہوگیا۔

سیلز ٹیکس آزادی کے وقت ایک صوبائی ٹیکس تھا اور دنیا کے ان تمام ممالک میں جہاں فیڈرل نظام ہے یہ ٹیکس صوبائی ہی ہوتا ہے مگر ۱۹۵۴ء میں مرکز نے عارضی طور پر صوبوں سے یہ ٹیکس لے لیا اور آج تک اسے مرکزی ٹیکس ہی بنائے ہوئے ہے جس کا نتیجہ ہے کہ صوبے مالیاتی اعتبار سے مرکز کے محتاج ہوگئے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ مرکز اور صوبوں میں وسائل کی تقسیم کے سلسلے میں ایک نئی اور مستقل افہام و تفہیم ہوجائے اور دستور میں ضروری ترمیم کے ذریعے اس مسئلے کا مستقل حل نکال لیا جائے‘ نیز مالیاتی ایوارڈ کے معاملے کو فوری طور پر طے کیا جائے۔ صرف ایک صوبے کے ایک خاص گروہ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پورا ملک نقصان اٹھا رہا ہے۔ سینیٹ نے بھی اپنی ۵۸سفارشات میں اس امر کو شامل کیا تھا کہ قومی مالیاتی ایوارڈ کا اعلان بجٹ کی منظوری سے پہلے کیا جائے لیکن بجٹ اسمبلی نے منظور کرلیا اور مالیاتی ایوارڈ کو ایک بار پھر تعویق میں ڈال دیا گیا ہے۔ یہی وہ رویہ ہے جو صوبوں میں بے چینی اور اضطراب کو بڑھا رہا ہے اور مرکز اور صوبوں میں     ہم آہنگی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گیا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اصول طے ہوجانا چاہیے کہ مرکز میں صرف وہ وزارتیں ہوں گی جو مرکزی نوعیت کی ہیں اور دستور کے مطابق تمام صوبائی امور مکمل طور پر صوبوں کے پاس ہوں۔ نیز مالی وسائل کے اعتبار سے صوبے اپنے قدرتی وسائل کے مالک ہوں اور صوبے اور ملک دونوں کے حقوق کے درمیان ایک توازن سے معاملات طے کیے جائیں۔ انصاف اور حقوق کی ادایگی ہی کے ذریعے ملکی سلامتی اور استحکام ممکن ہے اور مالی وسائل کی منتقلی کے بغیر اختیارات کی منتقلی ایک لایعنی عمل ہے۔ اس مسئلے کا فوری حل ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔

اعداد و شمار کی صحت

تیسرا بنیادی مسئلہ معاشی حالات اور کوائف کی صحت اور اعداد و شمار کے قابلِ اعتبار ہونے کا ہے۔ ملک کے سالانہ معاشی جائزے کا کام وزارتِ خزانہ کے بجاے ایک آزاد ادارے کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ نیز شماریات کی وزارت کا خودمختار ہونا ضروری ہے جو دستور یا کم از کم ملکی قانون کے تحت اپنا کام انجام دے۔ سی بی آر‘ وزارتِ تجارت‘ وزارتِ زراعت‘ اسٹیٹ بنک‘ غرض ہر ادارے کی ذمہ داری ہو کہ صحیح صحیح اعداد و شمار‘ مرکزی شماریاتی ادارے کو فراہم کرے اور یہ ادارہ خود اعداد و شمار کی صحت کے تعین اور ان کے حاصل کرنے اور ان کو مرتب کرنے کا کام انجام دے۔ اعداد و شمار اگر قابلِ اعتبار نہ ہوں تو یہ ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے اس لیے کہ صحیح منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کا انحصار صحیح اعداد و شمار پر ہی ہوتا ہے۔ اور اگر اعداد و شمار کو سیاسی مصالح اور ضرورتوں کے مطابق بددیانتی سے تبدیل کیا جائے تو یہ ایک ظلم عظیم سے کم نہیں۔

اس سلسلے میں موجودہ حکومت کا ریکارڈ کوئی زیادہ قابلِ فخر نہیں۔ بجٹ کی جو دستاویزات دی گئی ہیں ان میں بڑے بڑے سقم ہیں۔ بجٹ کی تقریر‘ بجٹ کا اختصار اور تفصیلی دستاویزات میں نمایاں فرق ہیں جن کی وجہ سے بجٹ کے خسارے کی کل رقم مشتبہ ہوجاتی ہے اور جن مالیاتی ماہرین نے ان دستاویزات کا مقابلہ اور موازنہ کیا ہے وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ مالیاتی خسارہ قومی پیداوار کے ۸.۳ فی صد سے کہیں زیادہ ہے۔

اگر مزید غوروخوض سے بجٹ کی دستاویزات کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی طرح اس حکومت نے بھی اپنی کارکردگی دکھانے اور صرف روشن پہلو پیش کرنے کی خاطر اعداد و شمار کے تقدس کو پامال کیا ہے۔ چند مثالیں بات کو سمجھنے میں مددگار ہوں گی۔

دنیا بھر میں قاعدہ ہے کہ ہر پانچ یا سات سال کے بعد معیشت میں تبدیل ہونے والی سرگرمیوں کا احاطہ کرنے کے لیے قومی آمدنی کی بنیادی معلومات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ یہ قومی آمدنی کی پیمایش (National Income Accounting) کا ایک خاص اصول ہے اور اس کے لیے بنیادی سال (base year )کو up gradeکیا جاتا ہے۔ مگر اس طرح کہ ماضی‘ حال اور مستقبل میں موازنہ متاثر نہ ہو۔ پاکستان میں ۸۱-۱۹۸۰ء کے بنیادی سال پر قومی پیداوار GDP کا حساب (calculation) ہورہا تھا‘ اب ۲۰ سال کے بعد ۲۰۰۰ئ-۱۹۹۹ء کو نیا بنیادی سال بنایا گیا۔اس تبدیلی کی وجہ سے کل قومی پیداوار تقریباً ۵.۱۹ فی صد زیادہ ہوجاتی ہے۔ قومی دولت میں تقریباً ۲۰ فی صد کا یہ اضافہ نظام کی تبدیلی کا مرہونِ منت ہے۔ اسے نئی پیداوار نہیں کہا جاسکتا بلکہ جو پیداوار موجود تھی اور حساب کا حصہ نہیں بن رہی تھی اسے صرف حساب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ یہ نئی پیداوار نہیں ہے۔ اگر اس ایک بنیادی حقیقت کو نمایاں نہ کیا جائے تو حکومت کی کارکردگی اور معیشت کی تبدیلیوں کی اصل حقیقت کو سمجھنا ممکن نہیں ہوگا۔

یہ تو فنی مسئلہ ہے۔ دوسری مثال غربت کی لیجیے۔ ۲۰۰۵ئ-۲۰۰۴ء کے بجٹ کے موقع پر ایک مختصر سروے کی بنیاد پر حکومت نے دعویٰ کیا کہ غربت میں ۴ فی صد کمی ہوئی ہے حالانکہ اس مختصر جائزے اور نارمل ہائوس ہولڈ سروے کے نتائج کا موازانہ فنی اعتبار سے صحیح نہیں تھا لیکن حکومت نے غربت کی کمی کے دعوے شروع کر دیے۔ حالانکہ حقیقی پیداوار‘ روزگار‘ افراط زر‘ قومی بچت‘     سرمایہ کاری اور حقیقی اُجرت کے تمام اعداد و شمار کو سامنے رکھا جائے تو غربت کے کم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ اس میں اضافے کا امکان زیادہ ہے۔ لیکن سچ کہا کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔ اس سال کا معاشی سروے مطالعہ فرما لیجیے۔ اس میں غربت اور تقسیمِ دولت کا باب تو   حسبِ سابق قائم کیا گیا ہے لیکن غربت کے بارے میں اعداد و شمار غائب ہیں۔ تقسیمِ دولت کا تو پورا باب ہی غائب ہے۔ جو وعدہ سال گذشتہ کے بجٹ میں کیا گیا تھا اور جن اعداد و شمار کا سہارا لیا گیا اب ان کا ذکر نہیں بلکہ مبہم سے انداز میں بالواسطہ اشاریوں کی روشنی میں نیا دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایک اور سروے کی روشنی میں ایک کمرے‘ دو کمرے‘ تین کمرے اور چار کمرے کے مکان میں رہنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے جس سے غربت کی کمی کا نتیجہ نکالا جا سکتا ہے۔ حالانکہ مئی ۲۰۰۵ء میں پلاننگ کمیشن نے جو پانچ سالہ وسط مدتی ترقیاتی فریم ورک (Medium Term Development Framework) شائع کیا ہے اس میں صاف اعتراف ہے کہ:

اس وقت ملک کی ایک تہائی آبادی غربت کی سطح سے نیچے رہ رہی ہے۔ غربت کم کرنے کا MTDF ہدف ۲۰۱۰ء تک ۲۱ فی صد اور ۲۰۱۵ء تک ۱۳ فی صد ہے۔

واضح رہے کہ دو سال قبل جنرل پرویز مشرف نے کہا تھا کہ ۲۰۰۶ء تک غربت کی سطح کو  ۲۰ فی صد پر لے آئیں گے۔ یہ سب اعداد و شمار کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔

اسی طرح بے روزگاری کے مسئلے پر بھی حکومت کے ذمہ دار حضرات بشمول وزیراعظم صاحب نے قوم کو صحیح حقائق سے آگاہ نہیں کیا۔ جب پرویز مشرف صاحب برسرِاقتدار آئے اور جناب شوکت عزیز نے وزارتِ خزانہ کی ذمہ داری سنبھالی تو ملک میں بے روزگاری کی شرح     ۵فی صد سے کم تھی۔ ۲۰۰۳ئ-۲۰۰۰ء کے درمیان اوسط بے روزگاری ۸ فی صد رہی۔ ۲۰۰۴ء میں ۵.۸فی صد تک پہنچ گئی۔ اس سال کے لیے دعویٰ کیا گیا ہے کہ بے روزگاری کم ہو کر ۸.۷ فی صد پر آگئی ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ دو سال میں ۸.۲ ملین افراد کو روزگار ملا ہے۔ لیکن اگر آپ اس لیبرسروے کا مطالعہ کریں جس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے تو معلوم ہوگا کہ ان ۲۸لاکھ روزگار پانے والے خوش نصیبوں میں سے ۱۱ لاکھ افراد وہ ہیں جن کو unpaid family helpers (بلامعاوضہ گھریلو معاون)قراردیا گیا ہے۔ روزگار فراہم کیے جانے والوں کی تعداد میں ان کی شمولیت پر خود اسٹیٹ بنک نے اپنی حالیہ سہ ماہی رپورٹ میں جو مئی میں پارلیمنٹ میں پیش کی گئی ہے‘ دبے لفظوں میں تعجب کا اظہار کیا ہے۔ یہ کیسا روزگار ہے جس میں روزگار پانے والے  بلامعاوضہ معاون ہیں۔ اگر اس تعداد کو کم کر دیں تو دو سال میں ۱۷ لاکھ افراد کو روزگار ملا ہے‘ جب کہ اس عرصے میں بے روزگاروں کی تعداد میں مزید ۲۰ لاکھ افراد کا اضافہ ہوگیا ہے اور قومی اسمبلی میں فراہم کردہ تازہ اعداد و شمار کی روشنی میں ان میں ۳ لاکھ سے زیادہ بی اے‘ ایم اے اور ایم بی اے ہیں۔

پھر اس پورے عرصے میں حقیقی اُجرت میں برابر کمی ہو رہی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ جو برسرِکار ہیں ان کی بھی قوتِ خرید برابر کم سے کم تر ہو رہی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ بے روزگاری کے طوفان اور اُجرتوں میں حقیقی کمی کا نتیجہ غربت میں اضافے کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ سوشل پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ سنٹر(Social Policy and Development Centre) کے ایک تازہ تحقیقی جائزے کے مطابق ۲۰۰۳ئ-۲۰۰۰ء کے چارسالوں میں حقیقی اُجرت میں ۱.۳ فی صد کمی واقع ہوئی ہے اور وسیع تر تناظر میں مزدوروں کے تلخ حالات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۱۹۸۱ء کے مقابلے میں ۲۰۰۳ء میں ایک عام محنت کش کی قوتِ خرید میں ۲۰ فی صد کی کمی ہوگئی ہے۔ (ملاحظہ ہو‘ متعلقہ رپورٹ‘ ص ۲۱-۲۳)

یہی معاملہ کشکول توڑنے‘ آئی ایم ایف سے نجات پانے اور قرضوں کے بوجھ میں کمی کے دعووں کا ہے۔ حقائق ان میں سے ہر دعوے کی تردید کر رہے ہیں۔ جولائی ۱۹۹۹ء سے دسمبر ۲۰۰۴ء تک بیرونی قرضوں میں ۵.۳ بلین ڈالر کا اور ملکی قرضوں میں ۶۴۱ بلین روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اکانومک سروے کے مطابق ۲۰۰۴ء میں کل بین الاقوامی بوجھ (liability) ۲۶.۳۵بلین ڈالر تھا جو ۲۰۰۵ء میں بڑھ کر ۶۲۵.۳۶ ملین ڈالر ہوگیا ہے‘ یعنی ۳۶.۱بلین ڈالر کا حقیقی اضافہ۔آئی ایم ایف کا بھی بڑا ذکر ہے۔ اسی سروے سے میں ۱۳۲ پر دیکھا جاسکتا ہے کہ ۲۰۰۴ء میں آئی ایم ایف کا قرض ۷۶۲.۱ بلین ڈالر تھا اور ۲۰۰۵ء میں یہ ۷۵۷.۱ بلین ڈالر ہے۔ گذشتہ چھے سال میں ۱۴ بلین ڈالر کی پاکستانیوں کی ترسیلات اور ۲بلین کے قرضوں کی معافی کے باوجود ۱۴ سے ۱۵ بلین ڈالر کے درمیان نئے قرضے لیے گئے ہیں۔ قرضوں اور سود کی ادایگی کے بوجھ میں کمی کی وجہ تقریباً ۱۵بلین ڈالر کے قرضوں کی ری شیڈولنگ ہے جو نائن الیون میں امریکا کی چاکری کے عوض حاصل ہوئی ہے۔ اس کا کوئی تعلق کشکول توڑنے سے نہیں۔

وزیراعظم صاحب دعویٰ کر رہے ہیں کہ پاکستان دنیا کے پانچ تیز رفتار ترقی کرنے والے ملکوں میں شامل ہوگیا ہے اور ان کے حاشیہ نشین یہاں تک کہنے لگے ہیں کہ چین کے بعد پاکستان سب سے تیز رفتار ترقی کرنے والا ملک ہے۔ لیکن حقائق کچھ دوسری ہی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ ابھی مئی ۲۰۰۵ء میں پاکستان ڈویلپمنٹ فورم کی کانفرنس ہوئی ہے جس میں یورپی کمیشن کے سفیر نے اور ورلڈ بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے نمایندوں نے صاف کہا ہے کہ غربت میں کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ اضافے کا امکان زیادہ ہے اور منہ پھاڑ کر انھوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ یہ بات پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے کہ غربت‘ بے روزگاری وغیرہ کے موضوعات پر بین الاقوامی معیاروں کے مطابق قابلِ اعتماد اعداد و شمار فراہم کرے۔

عالمی ادارے پاکستان کی معاشی زبوں حالی کا جو نقشہ پیش کر رہے ہیں‘ وہ اس تجربے سے صد فی صد مطابقت رکھتا ہے جو ہر شہری اور خصوصیت سے عام صارف صبح و شام محسوس کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی ۲۰۰۴ء کی سالانہ رپورٹ میں دنیا کے ۱۷۷ ممالک میں پاکستان کا نمبر ۱۴۲ ہے‘ یعنی ہمارا شمار دنیا کے غریب ترین ۴۰ ممالک میں ہوتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں ہمارا نمبر سب سے نیچے ہے‘ یعنی بھارت‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ مالدیپ اور نیپال سب ہم سے اوپر ہیں۔    فی کس آمدنی کے اشاریے میں ہمارا مقام ۱۷۷ میں ۱۳۴ واں ہے۔ غربت کے اشاریے میں جو صرف ۹۵ترقی پذیر ممالک پر مشتمل ہے ہمارا نمبر ۷۱ ہے۔

اسی طرح ورلڈ ڈویلپمنٹ فورم (جس کا مرکز Davos سوئٹزرلینڈ میں ہے) کے تازہ ترین جائزے کے مطابق دنیا کے ۱۰۴ ممالک کے معاشی ترقی میں مقابلے کے اشاریے (Growth Competetion Index) میں ہمارا نمبر ۹۱‘ جب کہ بھارت کا نمبر ۵۵ اور سری لنکا کا ۷۳ ہے۔ اور بھی افسوس ناک بات یہ ہے کہ ۲۰۰۳ء میں ہماری پوزیشن ۷۳ ویں تھی جو ۲۰۰۴ء میں گر کر ۹۱ویں ہوگئی ہے۔

ملک کے دستوری اور قانونی اداروں کا حال سب سے خراب ہے۔ سرکاری اداروں کے اشاریے (Public Institutions Index) کے مطابق ۱۰۴ ممالک میں ہمارا نمبر ۱۰۲ ہے‘یعنی دنیا کے سب سے بدحال ترین ممالک میں ہمارا شمار ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی تجارتی ادارے (UNCTAD) نے جو دنیا کے ممالک کی درجہ بدرجہ فہرست تیار کی ہے اس میں کارکردگی کے اشاریے میں پاکستان کا نمبر ۱۴۰ ممالک میں ۱۱۶ واں ہے اور مستقبل کے امکانات کے اشاریے میں ہم اور بھی نیچے آئے ہیں‘ یعنی ۱۴۰ میں ہمارا نمبر ۱۲۹ ہے۔

ماحولیات اور صحت کے قومی فورم (National Forum for Environment and Health )کا جائزہ ابھی جون ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کے آلودہ ترین ۱۵ ممالک میں ہے۔ کراچی کے بارے میں یہ رپورٹ اس ہولناک صورت حال کی تصویرکشی کرتی ہے کہ: کراچی کی سڑکوں پر چلنے والی ۱۶ لاکھ گاڑیوں میں سے ۳۰ فی صد (۴لاکھ ۸ ہزار) فٹنس کے معیار پر پوری نہیں اترتیں۔

اسی طرح آبی تحقیقات کی پاکستان کونسل (Pakistan Council of Water Research ) کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے جائزے کے مطابق پاکستان کے ۱۷بڑے بڑے شہروں میں عام شہری ایسا آلودہ پانی استعمال کر رہا ہے جو پینے کے لائق نہیں ہے۔ دیہات کی تو بات ہی کیا جہاں صاف پانی کی فراہمی کا کوئی نظام ہی موجود نہیں ہے۔

ان حالات کی موجودگی اور عالمی اداروں کے بے لاگ جائزوں کی اس فراوانی میں نوجوان وزیر مملکت براے خزانہ کا اپنی بجٹ تقریرمیں یہ دعویٰ کرنا کہ:

اللہ کے فضل و کرم سے بین الاقوامی برادری اور عالمی مالیاتی ادارے ہماری اقتصادی ترقی کے قائل ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ [پاکستان کے] اندر بعض دوستوں کو یہ خبر نہیں پہنچی۔ یا یہ کہ انھیں اپنی قوم کی صلاحیتوں پر یقین نہیں۔

جس ’’جراء ت‘‘ اور ’’دریدہ دہنی‘‘ کا مرہونِ منت ہے وہ جنرل مشرف کی ٹیم کے کسی فرد کو ہی نصیب ہو سکتی ہے۔

نئی معاشی حکمت عملی کی ضرورت

ملکی معیشت کی تعمیر نو خوش فہمیوں اور شماریاتی مغالطوں سے نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لیے حقائق کا سامنا کرنا ہوگا اور ایک بالکل نئی حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔ حکومت کو اعتراف کرنا چاہیے کہ اس کی اصل کامیابی محض ایک سال میں ۴.۸ فی صد کی شرح نمو ہے جس کی وجہ ۵.۷ فی صد زراعت کی ترقی ہے جس کی وجہ حکومت کی پالیسی نہیں‘ بروقت بارش کی صورت میں اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تھا۔ معیشت کے جن چند دائروں میں نسبتاً صورت حال بہتر رہی ہے اس کا انکار ناانصافی ہوگی۔ نیز چار سال تک macro stabilizationکا اسیر رہنے کے بعد معاشی ترقی (growth) کی طرف توجہ بھی ایک مثبت اقدام ہے۔

لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ چھے سال تک مکمل اختیارات رکھنے اور نائن الیون کے بعد غیرمعمولی بیرونی اسباب کی وجہ سے وسائل اور امکانات کے رونما ہوجانے کے باوجود حکومت کوئی مربوط اور حقیقت پسندانہ معاشی حکمت عملی اور پروگرام بنانے میں قطعاً ناکام رہی ہے۔ افراط زر کا عفریت آگ اُگل رہا ہے۔ توازن تجارت ایک بار پھر خطرناک حد تک ہمارے خلاف ہوگیا ہے اور ۲۰۰۵-۲۰۰۴ء میں بین الاقوامی تجارت کا خسارہ ۶ بلین ڈالر کی حد کو چھو رہا ہے۔ بجٹ کا خسارہ پھر ڈھائی سو اور تین سو بلین روپے کی حد میں آرہا ہے۔ انتظامی اخراجات پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے اور ان میں بجٹ میں فراہم کردہ رقم سے تقریباً ۲۰ فی صد اضافہ ہوا ہے‘ جب کہ ترقیاتی اخراجات میں پہلے نو ماہ میں فراہم کردہ رقم کا صرف ۴۹ فی صد خرچ ہوا ہے اور وہ بھی صرف زری (monetary) حد تک۔ اصل برسرِزمین حقیقی کارکردگی کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ دفاعی اخراجات میں برابر اضافہ ہو رہا ہے اور اس پر نگرانی کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں ہے۔ ملک میں مالیاتی (fiscal) پالیسی اور زری (monetary) پالیسی میں بروقت رابطے کی کمی ہے جس کے نتیجے میں افراط زر کو بروقت روکنے کا اہتمام نہیں کیا جا سکا اور اب تاخیر سے زری پالیسی کو متحرک کیا گیا ہے کہ اس کے اثرات سرمایہ کاری پر ہوں گے۔ ٹیکس اور قومی آمدنی کے تناسب میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے جو قومی آمدنی کے ۹ اور ۱۰ فی صد پر رکا ہوا ہے اور دنیا میں کم ترین شرح پر ہے‘ جب کہ ترقی پذیر ممالک میں یہ شرح ۱۵ سے ۲۰ فی صد تک ہے۔ اسی طرح ملک میں بچت کی شرح ترقی پذیر ممالک کی اوسط شرح سے بہت کم ہے اور یہی صورت سرمایہ کاری کی سطح کی ہے جو عملاً ۱۶فی صد سے   کم ہوکر ۱۵ فی صد پر آگئی ہے۔

غیرملکی پاکستانیوں کی ترسیلات ایک ارب ڈالر سالانہ سے بڑھ کر ۴ارب ڈالر ہوگئی ہیں اور گذشتہ چار سال میں ۱۴ ارب ڈالر سے زیادہ وصولی ہوئی ہے‘ ان کو پیداآوری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے کوئی پالیسی اور اداراتی انتظام نہیں کیا گیا جس کا نتیجہ ہے کہ یہ ترسیلات ملک میں افراطِ زر‘ تعیشات‘ بہت زیادہ صرف کے فروغ اور اسٹاک مارکیٹ اور زمین کی قیمتوں میں  ہوش ربا اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ معاشی ماہرین پکار رہے ہیں اور خود سینیٹ کی متفقہ سفارش بھی تھی کہ اسٹاک ایکسچینج پر جو ۰۱.۰فی صد ٹیکس لگایا گیا تھا اسے کم از کم ۰۵.۰ کیا جائے جس سے ۱۵سے ۲۰ ارب سالانہ آمدنی میں اضافہ ہوسکتا ہے اور اسٹاک ایکسچینج میں جو نفع خوری سٹّے کی بنیاد پر ہو رہی ہے اسے بھی لگام دی جا سکتی ہے‘ نیز زمین اور مکان کی فروخت پر cvt کم از کم ۰۵.۰ لگایا جائے تاکہ ان نودولتیوں کی دولت سے قوم کے غربا کا حق وصول کیا جاسکے۔ لیکن حکومت نے اس طرف کوئی پیش رفت نہیں کی بلکہ بنکوں کے نفع پر بین الاقوامی دبائو کے تحت انکم ٹیکس کی شرح پر ۳ فی صد کی کمی کر دی اور ۱۸۰۰ سی سی اور اس سے زیادہ کی کاروں کی درآمد پر بھی ڈیوٹی میں ۲۵ فی صد کمی کر دی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس بجٹ کو کار دوست (car-friendly)اور فوج دوست (fauj- friendly) قرار دیا جا رہا ہے۔ حکومت کی شاہ خرچیوں کا اندازہ کرنے کے لیے مشتے نمونہ از خروارے چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں:

ایوان صدر سے بات شروع کریں۔ ۲۰۰۰ئ-۱۹۹۹ء میں ایوان صدارت کا خرچہ ۹ کروڑ سالانہ تھا جو بڑھ کر ۰۵-۲۰۰۴ء کے بجٹ میں ۲.۲۱کروڑ ہوگیا‘ اب اسے مزید بڑھا کر اب ۱۶.۲۶کروڑ کر دیا گیا ہے۔ صدر کے بیرونی دوروں کے ۵.۳۰ کروڑ روپے اس کے علاوہ ہیں۔

وزیراعظم کے دفتر اور گھر کے اخراجات بھی چشم کشا ہیں۔ ۲۰۰۵ئ-۲۰۰۴ء کے بجٹ میں یہ رقم ۶۵.۲۲ کروڑ رکھی گئی تھی جو عملاً بڑھ کر ۶۱.۲۶ کروڑ ہوگئی اور اب اگلے سال کے لیے ۴۰.۲۳کروڑ رکھی گئی ہے۔ اس ۴ کروڑ کے اضافے کا کچھ پتا ضمنی گرانٹس کے مطالعہ سے چلتا ہے جہاں اس غریب ملک کے وزیراعظم کے لیے جو سہولتیں فراہم کی گئی ہیں ان کا ذکر اس طرح ہے:

ای سی جی مشین اور ایک کارڈیک ٹریڈ مل مشین (۲۷ لاکھ)‘ مرسڈیز کار کے فریٹ اخراجات (۹۵ لاکھ ۴ ہزار)‘ چارجز ۳ کروڑ ۳۲ لاکھ ۱۴ ہزار‘ رہایش ۱۸ لاکھ۔ سیکرٹریٹ کے لیے گاڑیوں کی خرید ۱۴ لاکھ ۵۰ ہزار)

(کیا یہ مشین ہمارے اچھے بھلے خوش حال وزیراعظم ذاتی جیب سے نہیں لے سکتے تھے؟ یقینا اگلے وزیراعظم کو اس کی ضرورت نہ ہوگی)

وزیراعظم صاحب کے غیرملکی دوروں کے لیے ۱۵ کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ (مطالبہ زر ۵۵)

اب ذرا صرف ضمنی مطالبات زر کے دوسرے صفحات پر سرسری نظر ڈال لیجیے کہ قومی خزانے کا بے دردانہ اسراف کس طرح ہو رہا ہے۔ واضح رہے کہ عام بجٹ میں تمام پہلے سے   طے شدہ اخراجات موجود تھے اور جو ہزاروں کاریں وزراے کرام اور سرکاری افسران کے استعمال میں ہیں وہ سب اس میں موجود نہیں۔ صرف ۲۰۰۵ئ-۲۰۰۴ء کے سال میں اضافی خریداری کے لیے خزانے پر کیا کیا بوجھ ڈالا گیا ہے اس کی ایک جھلک دیکھیے:

کیبنٹ ڈویژن کے پاس کاروں کا سب سے بڑا بیڑا ہے۔ اس کے لیے اضافی مطالبہ زر نمبر۲ کے ذریعے صرف ٹرانسپورٹ کی مد میں ایک ارب ۱۲ کروڑ اور ۴۷ لاکھ کی رقم لی گئی ہے۔ مزید گھر کرائے پر لینے کے لیے ۲۱لاکھ کی رقم اس پر مستزاد ہے۔

وزارتِ مواصلات کے وزیرمملکت کے لیے دفتر کے لیے ۷ لاکھ روپے‘ گھر کے لیے‘ ایک کروڑ ایک لاکھ روپے‘ گاڑی کے لیے ۱۳ لاکھ روپے اور صواب دیدی اخراجات کے لیے ۴ لاکھ روپے (مطالبہ زر ۱۷‘ ص ۲۰)۔ وزارتِ کلچر اور یوتھ کے لیے تین کاروں کی خرید پر ۳۳ لاکھ ۶۰ ہزار (مطالبہ زر ۲۰‘ ص ۲۲)۔ وزارتِ ایکونومک افیرز کے وزیرمملکت کے لیے کار کی خرید ۱۰ لاکھ ۵۰ہزار روپے‘ صوابدید اخراجات ۴ لاکھ روپے (مطالبہ زر ۲۸‘ ص ۳۳)۔ وزارتِ خزانہ کے لیے کرائے کی مد میں ۷۸ لاکھ ۳۷ ہزار روپے‘ وزیر مملکت کے لیے کار کی فراہمی کے لیے ۲۳ لاکھ ۷۸ ہزار روپے‘ کار کی دیکھ بھال کے لیے ایک لاکھ ر۳۵ ہزار روپے‘ صواب دیدی اخراجات کے لیے ۴لاکھ روپے اور خاطر مدارات اور تحائف کے لیے ۲۰لاکھ روپے مزید رکھے گئے (مطالبہ زر۳۷‘ ص ۴۱)۔ وزارتِ ہائوسنگ اور ورکس کے بھی مزید مطالبہ زر میں وزیرمملکت کے گھر کے لیے ۲۳ لاکھ ۸۶ ہزار‘ نئی کار کے لیے ۱۴ لاکھ روپے اور صواب دید اخراجات کے لیے ۳ لاکھ حاصل کیے گئے ہیں۔ (مطالبہ زر ۵۹‘ ص ۶۱)

یہ صرف چند وزارتوں کے اعداد و شمار ہم نے پیش کیے ہیں ورنہ بجٹ کی دستاویزات ان شاہ خرچیوں کے ذکر سے بھری پڑی ہیں اور کوئی نہیں جو اس غریب ملک کے امیر حکمرانوں کی ان مسرفانہ سرگرمیوں پر گرفت کرسکے۔ صدر‘ وزیراعظم‘ وزراے کرام‘ سینیٹ اور اسمبلی کے ارکان کی تنخواہوں اور مراعات میں گذشتہ تین سال میں ۱۰۰ فی صد سے زیادہ اضافہ کیا گیا ہے‘ جب کہ     عام شہری کی حقیقی قوتِ خرید میں کمی واقع ہوئی ہے اور آج عالم یہ ہے کہ ایک مسلمان ملک میں   ۳۰۰ سے زیادہ افراد ہر سال بھوک اور افلاس سے تنگ آکر ہر ماہ حرام موت تک مرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون

اھم معاشی مسائل اور بجٹ

اب ہم مختصراً یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اس وقت ملک کے سامنے معیشت کے میدان میں سب سے اہم مسائل کیا ہیں اور حکومت کی پالیسیوں اور بجٹ اور ترقیاتی پروگرام میں ان کا کہاں تک ادراک اور علاج موجود ہے۔

۱-            اضافے کی رفتار برقرار رکہنا:سب سے پہلا مسئلہ ملکی پیداوار میں اضافے کی رفتار کو برقرار رکھنے کا ہے۔۸فی صد سالانہ کی رفتار سے اضافہ ماضی میں بھی کم از کم چار بار ہوچکا ہے‘ لیکن کیا اسے برقرار رکھا جاسکا؟ یہی اصل مسئلہ ہے۔ بظاہر یہ نظر آرہا ہے کہ ۴.۸ فی صد اضافے میں خاصا دخل خارجی عوامل کا تھا۔ ملک میں سرمایہ کاری اور بچت دونوں کی رفتار     غیرتسلی بخش ہے اور اس کو بڑھائے بغیر قومی پیداوار میں اضافے کی رفتار کو باقی نہیں رکھا جا سکتا۔ الا یہ کہ بڑھتی ہوئی سرمایہ جاتی پیداوار کے تناسب (incremental capital output ratio) میں تبدیلی ہو جس کے لیے کوئی آثار نہیں۔ ماضی میں اضافے میں غیراستعمال شدہ گنجایش (unutilized capacity) کو استعمال کرنے کا بھی دخل ہے۔ اب مزید گنجایش بڑھائے اور پیداواریت میں اضافے کے بغیر ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنا مشکل ہے۔ بجٹ میں ان امور کا ادراک نہ ہونے کے برابر ہے۔

۲-            عوامی مصائب: اصل مسئلہ معاشی ترقی کی رفتار اور پیداوار میں اضافے کے نتیجے میں عوام کے مصائب میں کمی‘ قوت خرید میں اضافہ‘ زندگی کی سہولتوں کی فراہمی ہے۔ مغرب کے دانش وروں کے جس آپ سے آپ نیچے آنے (trickle down effect) کے فلسفے پر ہمارے ہاں معاشی منصوبہ بندی ہو رہی ہے وہ دنیا میں ہرجگہ بشمول ہمارے اپنے ملک میں ناکام رہا ہے۔ لیکن ہم مکھی پر مکھی مارنے میں مصروف ہیں۔ جب تک روزگار کی فراہمی‘ صحیح نوعیت کی تعلیم اور ہنرمندیوں کو فروغ دینے کا مؤثر انتظام‘ صحت کی سہولتوں کو بہتر بنانا اور سب سے بڑھ کر دولت کی ناہمواریوں اور علاقائی عدمِ مساوات کو سختی سے کم کرنے کو معاشی پالیسی کے واضح اور قابلِ پیمایش (measurable) اہداف نہیں بنایا جاتا عوام معاشی ترقی کے ثمرات سے محروم رہیں گے۔    اس وقت عالم یہ ہے کہ قومی دولت میں ہر ایک روپے کا اضافہ ملک کے امیر ۲۰ فی صد کی آمدنی  میں ۴۸ پیسے کے اضافے کا ذریعہ بنتا ہے‘ جب کہ نچلی آمدنی والے ۲۰ فی صد کے حصہ میں صرف سات پیسے آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۰فی صد آبادی کا حصہ ملک کے کل صرفے (consumption) میں تین فی صد سے بھی کم ہے اور اس پورے عمل سے دولت میں جتنا اضافہ ہوتا ہے اتنا ہی معاشرے میں تقسیمِ دولت مزید غیرمنصفانہ ہوجاتی ہے۔ گذشتہ ۲۵سال میں Gini coefficientامیروں کے حق میں اور غریبوں کے خلاف سمت میں حالات کی تبدیلی کی خبر دے رہا ہے۔ Social Develpement in Pakistan کی رو سے ۱۹۸۸ء میں آبادی کے ۲۰ فی صد امیر ترین افراد کا دولت میں حصہ ۴۳ فی صد تھا جو ۲۰۰۲ء میں بڑھ کر ۶.۴۷ ہوگیا‘  جب کہ غریب ۲۰فی صد کا حصہ ۸.۸ فیصد سے کم ہو کر۷ فی صد اور غریب ترین ۱۰ فی صد کا  ۵۸.۳ فی صد سے کم ہوکر ۷.۲ فی صد رہ گیا۔

ان مسائل کا حل صرف اس وقت ممکن ہے جب غربت کم کرنے‘ روزگار میں تیزرفتار اضافہ‘ تقسیم دولت کی اصلاح اور افراطِ زر کو لگام دینے کو پالیسی کے اہداف بنایا جائے اور محض قومی پیداوار میں اضافے کو ترقی کی علامت نہ سمجھ لیا جائے۔ اس کے لیے زراعت اور چھوٹی صنعت اور کاروبار کو اولین اہمیت دینا ہوگی اور زندگی کی بنیادی سہولتوں کی سستی فراہمی‘ تعلیم اور صحت کے لیے وسائل کے استعمال اور پیداواری لاگت کو کم کرنے کی پالیسی اختیار کی جانا چاہیے۔ یہ کام معیشت کو محض مارکیٹ اکانومی کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے سے انجام نہیں دیا جاسکتا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ریاست معیشت میں ایک مثبت کردار ادا کرے اور انصاف کے حصول اور عوام کی خوش حالی کو معاشی پالیسی کا اصل ہدف بنائے۔ اس کے کوئی آثار اس بجٹ میں نظر نہیں آتے۔

۳-            افراطِ زر : اس وقت افراطِ زر جو اب ۱۱ فی صد سے زیادہ ہے‘ بے روزگاری جو ۱۰فی صد کی حد چھو رہی ہے اور تجارتی خسارہ جو ۶ ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے سب سے اہم چیلنج ہیں۔ بجٹ کے موجودہ فریم ورک میں ان گھمبیرمسائل کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ یہ پالیسی میں انقلابی تبدیلیوں اور معاشی ترقی کے مثالی نمونے (paradigm )کی مکمل تبدیلی کا تقاضا کرتا ہے جس کا کوئی نام و نشان موجودہ حکومت کی پالیسیوں میں نظر نہیں آتا بلکہ اس تبدیلی کے صحیح ادراک اور اسے بروے کار لانے کی صلاحیت کا بھی فقدان نظر آتا ہے۔ اس کی نگاہ میں ہر مسئلے کا حل ڈی ریگولیشن اور نج کاری ہے۔ نیز ملک کی منڈیوں کو بیرونی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے کھول دینا ہے جو ہماری نگاہ میں حالات کو بگاڑنے کا ذریعہ تو ہو سکتا ہے‘ اصلاح کا موجب نہیں۔

۴-            نج کاری:جس طرح نج کاری کی جا رہی ہے‘ وہ تشویش ناک ہے۔ ملک میں اب تک ۱۰۰ کے قریب صنعتوں کی نج کاری ہوچکی ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے ایک جائزے کے مطابق ان میں سے صرف ۲۲ ٹھیک کام کر رہی ہیں‘ ۳۰ سے زیادہ بند ہوچکی ہیں جو زمین بیچ کر اپنا کام کر گئیں اور باقی ۴۰‘ ۴۵ کی کارکردگی نج کاری کے دور ماقبل سے بدتر ہے۔ ضرورت ہے کہ   نج کاری کے پورے عمل کا آزادانہ جائزہ لیا جائے اور نجی شعبے کے ساتھ پبلک سیکٹر کو بھی باقی رکھا جائے‘ البتہ اسے سیاسی مداخلت اور محض بیوروکریسی کی گرفت سے بچایا جائے اور کارپوریٹ کلچر اور پیشہ ورانہ تقاضوں کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں پیشہ ور انتظامیہ کے ساتھ انجام دیا جائے اور ایک طرف ضروری ترغیبات فراہم ہوں تو دوسری طرف عوامی جواب دہی کے ایک مؤثر اور متحرک نظام کو قائم کیا جائے اور اس طرح ایک ساتھ نیا انتظام و انصرام مرتب کیا جائے۔ دنیا میں اس      کے کامیاب تجربات موجود ہیں۔ آخر ہم سرمایہ داری اور استعماری قوتوں کے بتائے ہوئے      عالم گیریت اور نج کاری کے نسخے پر آنکھیں بند کرکے کیوں عمل کیے جا رہے ہیں۔

۵-            وسائل کی تقسیم: مرکز اور صوبوں کے درمیان وسائل کی صحیح تقسیم اور ملک میں علاقائی ناہمواریوں کی خطرناک صورت حال بھی بنیادی معاشی مسئلے کا درجہ اختیار کرگئی ہے۔ اب بات صرف قومی مالیاتی ایوارڈ کی نہیں‘ بلکہ صوبوں کے اپنے وسائل پر حق ملکیت اور اپنے لیے ترقیاتی منصوبوں کو خود بنانے اور اپنے وسائل کو اپنے علاقے کی بہتری کے لیے استعمال کرنے کے مواقع کی فراہمی کا ہے۔ مالی اور اقتصادی اختیارات کی نچلی سطح پرمنتقلی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

کیا یہ ظلم نہیں کہ سوئی کی گیس سے پورا ملک فائدہ اٹھا رہا ہے لیکن سوئی اور بلوچستان کی آبادی کا بڑا حصہ اس سے محروم ہے۔ سرحد میں گرگری کے مقام پر جو گیس نکلی ہے‘ وہ پورے   صوبہ سرحد کی ضرورت پوری کر سکتی ہے۔ اس کے بعد پاکستان کے دوسرے حصوں کو بھی یہ گیس فراہم کی جاسکتی ہے لیکن صوبے کے جنوبی علاقے جن کا پہلا حق ہے وہ محروم ہیں اور گیس نیشنل گرٹ میں ڈالی جارہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اصول طے کرنا ہوگا اور یہ اسلام کا بنیادی اصول ہے کہ معدنی وسائل پر علاقے کے لوگوں کا پہلا حق ہے۔ ضروری ہے کہ کم از کم ۱۵ فی صد گیس اسی ڈسٹرکٹ کو فراہم کی جائے۔ مزید ۱۵ سے ۲۵ فی صد اسی صوبے کو دی جائے اور باقی ملک کے دوسرے حصوں کو فراہم کی جائے۔ اس وقت بلوچستان اور سرحد بحیثیت مجموعی اور سندھ اور پنجاب کے دیہات اور چند علاقے شدید غربت اور وسائل سے محرومی کا شکار ہیں۔ علاقائی عدل و مساوات بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی انسانوں کے درمیان باہمی عدل و مساوات۔

بجٹ اور حکومت کی معاشی پالیسیوں میں اس مسئلے کا بھی کوئی ادراک موجود نہیں۔

۶- کرپشن:ملک میں کرپشن اور وسائل کو ضائع کرنا مجرمانہ حدود تک پہنچ چکا ہے۔ تمام ملکی اور بین الاقوامی جائزے اس امر پر شاہد ہیں کہ کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے سروے یہی بتا رہے ہیں کہ ہر سطح پر کرپشن میں اضافہ ہوا ہے اور قومی صرفے کا‘ خصوصیت سے ترقیاتی اخراجات کا ۲۵ سے ۴۰ فی صد کرپشن کی نذر ہو رہا ہے۔ خود پلاننگ کمیشن کے ایم ٹی ڈی ایف میں جو مئی ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا ہے اعتراف ہے کہ ہر سال قومی دولت کا ۶۵۰ بلین روپیہ ضائع ہو رہا ہے۔اس کے الفاظ میں:

پاکستان زراعت‘ صنعت‘ آبی وسائل‘ تعلیم اور صحت سمیت معیشت کے تقریباً تمام دائروں میں کم سے کم ۶۵۰ ارب روپے سالانہ کا نقصان وسائل کے ضیاع کے باعث اٹھا رہا ہے۔ (ایم ٹی ڈی ایف ۲۰۰۵ئ‘ ۲۰۱۰ء پلاننگ کمیشن‘ ص xviii)

اس میں اگر حکومت کے اخراجات میں کرپشن‘ ضیاع اور اسراف کو شامل کرلیا جائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ رقم ۸۰۰ بلین پر نہ پہنچ جائے جو اس سال کے بجٹ کے ۸۰ فی صد کے برابر ہے۔ جس قوم کے اتنے وسائل ضائع ہو رہے ہوں‘ وہ پس ماندہ نہ ہو تو کیا ہو‘ اور اس میں عام آدمی کی غربت کے ساتھ امیروں کی ریل پیل نہ ہو تو کیا ہو؟

۷-            خودانحصاری: ایک اور بنیادی معاشی مسئلہ ملک کی خودانحصاری کا ہے۔ یہ ہمارے نظریۂ حیات‘ ہماری سیاسی آزادی‘ ہماری ثقافتی شناخت اور معاشی معاملات میں ہماری اپنی ترجیحات کے مطابق معیشت کی تعمیروتشکیل اور بجٹ سازی کے لیے ضروری ہے۔ اُمت مسلمہ کو شہداء علی الناس کا منصب دیا گیا ہے اور یہ غیرمسلم دنیا پر انحصار اور محتاجی کے ساتھ ممکن نہیں۔ اس لیے معاشی ترقی اور اقتصادی نظام کی تشکیل کا ایک اساسی مقصد خودانحصاری کا حصول ہے اور بدقسمتی سے گلوبلائزیشن اور آزاد روی (liberalisation) کے شوق میں ہم اپنی آزادی اور قومی شناخت ہی کو دائو پر لگائے جارہے ہیں۔ نئی معاشی پالیسی میں خودانحصاری کو بھی ایک مرکزی ہدف ہونا چاہیے اور اس کے لیے سودی معیشت سے نجات ضروری ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی گرفت سے نکلنا ہمارے قومی اہداف میں ہونا چاہیے۔ ہم عالمی تجارت اور انسانیت کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کو ضروری سمجھتے ہیں لیکن یہ سب اپنے قومی مقاصد اور ترجیحات کے فریم ورک میں ہونا چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے معاملات پر قوت و اختیار رکھتے ہوں اور بیرونی قوتوں کے غلط مطالبات پر ’نہیں‘ کہنے کی ہمت اور صلاحیت رکھتے ہوں۔ جس طرح ہماری معیشت کو عالمی طاقتوں کے ہاتھوں گروی رکھا جارہا ہے‘ وہ ہماری آزادی اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور قوم کو اس کا ادراک ہونا چاہیے۔

اس پہلو سے بھی موجودہ بجٹ مایوس کن ہے اور جس طرح دوسروں پر انحصار بڑھ رہا ہے بلکہ خود اپنی معیشت میں ان کے عمل دخل کو بڑھانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے‘ وہ بہت تشویش ناک ہے۔


ہم اس جائزے کو ختم کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے معاشی مقاصد اور اہداف وہ ہیں جو اقبالؒ اور قائداعظمؒ نے تحریکِ پاکستان کے دوران بیان کیے تھے اور جو آج قرارداد مقاصد اور دستور میں ریاستی پالیسی کے رہنما اصولوں کے نام سے بیان کیے گئے ہیں۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ:

پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور اس کا پہلا اور اولین ہدف اسلامی تشخص کی حفاظت اور ترقی اور ہدایت پر عمل پیرا ہونا اور دنیا کے سامنے اس کا گواہ بننا ہے جو قرآن و سنت کی شکل میں  اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے۔

دوسری بنیادی چیز اس ملک میں امن اور قانون کی حکمرانی‘ انصاف کی فراہمی‘ اور تمام انسانوں کو آزادی اور جدوجہد کے مواقع کی برابری کے ساتھ ساتھ بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے تاکہ انسان زمین پر اللہ کے خلیفہ کا کردار ادا کر سکے۔ اس کے لیے مکہ ہمارا ماڈل ہے جس کی قرآن نے یہ کیفیت بیان کی ہے کہ: اَطْعَمَھُمْ مِنْ جُوعٍ وَّاٰمَنَھُمْ مِن خَوْفٍ،بھوک اور خوف‘ جب تک معاشرہ  ان دونوں لعنتوں سے پاک نہیں ہوتا‘ نہ معاشی ترقی ہوسکتی ہے اور نہ مہذب معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔ اسلام نے عدل وا نصاف کو انسانی معاشرے کی سب سے بڑی ضرورت قرار دیا ہے اور انبیاے کرام کی بعثت کا مقصد جہاں اللہ کی ہدایت کو انسانوں تک پہنچانا (تعلیم کتاب و حکمت) اور ان کا تزکیہ کرنا ہے‘ وہیں انسانوں کے درمیان انصاف کا قیام (لِیَقُومَ النَّاسَ بِالْقِسْطِ) ان کی اولین ذمہ داری ہے۔

اس لیے ہماری معاشی پالیسی کے مقاصد بھی ہدایت‘ کفالت‘ حفاظت‘ عدالت‘ خدمت‘ وحدت اور خودانحصاری کے سوا کچھ نہیں ہو سکتے۔ اور جب تک معاشی اور ریاستی پالیسی اس نئے محور پر نہیں آتی‘ ظلم‘ غربت‘ ناانصافی اور بے چینی ہمارا مقدر رہے گی۔ وقت کی اصل ضرورت منزل کا صحیح تعین اور اس کی طرف پیش رفت کے لیے قابلِ عمل نقشہ راہ کی تیاری اور سب سے بڑھ کر اس سمت میں سفر اور تمام وسائل کا ایمان دارانہ استعمال ہے تاکہ اس ملک کا ہر شہری عزت کی زندگی گزار سکے‘ کسی کا محتاج نہ ہو‘ انسان انسان کے حقوق پبھی ادا کرے اور اللہ کے بھی کہ یہ ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں   ؎

کس نہ گردد در جہاں محتاجِ کس

نکتۂ شرع مبیں ایں است و بس


(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۵ روپے ، سیکڑے پر رعایت، منشورات‘ منصورہ‘ لاہور-۵۴۷۹۰)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قائداعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا تھا اور بھارت نے پاکستان کو بے دست و پا کرنے کے لیے آزادی کے فوراً بعد اس شہ رگ پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے سازش‘ دھوکے‘ فوج کشی‘ بدعہدی غرض ہر حربے اور ہتھکنڈے کا بے دریغ استعمال کیا اور بالآخر ریاست جموں و کشمیر کے دوتہائی حصے پر ناجائز اور غاصبانہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

بھارت کے اس ناجائز قبضے کو نہ صرف پاکستان اور کشمیری عوام نے کبھی تسلیم نہیں کیا بلکہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے بھی قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی‘ ہر اعتبار سے ریاست کی حیثیت (status ) کو متنازعہ قرار دیا اور جموں و کشمیر کے باشندوں کے اس حق کو تسلیم کیا کہ انھیں اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے جس کے عملی اظہار کا ان کو موقع ملنا چاہیے۔

برطانوی محقق الیسٹرلیمب (Alastair Lamb)نے تو دو اور دو چار کی طرح یہ ثابت کردیا ہے کہ قانونی طور پر بھارت سے ریاست جموں و کشمیر کا الحاق کبھی ہوا ہی نہیں تھا لیکن یہ بات بھی کچھ کم اہم نہیں ہے کہ جب بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنا مقدمہ اس بنیاد پر لے کر گیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر اس کا حصہ ہے جس پر پاکستان اور اس کے قبائل نے دراندازی کی ہے تو سلامتی کونسل نے ایک نہیں سات بار اس امر کا اظہار کیا کہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ اس کے عوام استصواب راے کے ذریعے کریں گے ___ اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی مسئلہ کشمیر    اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے اور اقوامِ متحدہ کے مبصرین لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب ڈیوٹی دے رہے ہیں۔تقسیمِ ہند سے لے کر آج تک پاکستانی قوم کا متفقہ مؤقف یہی رہا ہے کہ کشمیر‘ تقسیمِ ہند کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ تحریک پاکستان کے نظریاتی‘ سیاسی اور جغرافیائی ہر پہلو کا تقاضا ہے کہ وہ پاکستان کا حصہ ہو اور اسی حقیقت کا اظہار جموں و کشمیر کے معتبر نمایندوں نے جولائی ۱۹۴۷ء میں الحاقِ پاکستان کی قرارداد کی شکل میں کردیا تھا۔ جس کی باقاعدہ توثیق اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کے ذریعے کی جانی تھی جسے بھارت نے آج تک نہیں ہونے دیا۔

جھاد آزادی کی نازک صورت حال

جموں و کشمیر کے عوام اپنے اس حق کو استعمال کرنے کے لیے ۵۷ سال سے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس جہادِ حریت میں پانچ لاکھ سے زیادہ کلمہ گو جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ ہزاروں عصمتیں لٹ گئی ہیں‘ بستیوں کی بستیاں تباہ ہوچکی ہیں‘ ہزاروں افراد اس وقت بھی جیلوں میں محبوس ہیں۔ لیکن جموں و کشمیر سے مسلمانوں کی والہانہ وابستگی کے جذبے اور جدوجہد میں کوئی کمزوری نہیں آئی ہے‘ البتہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے بعد معاہدۂ تاشقند اور ۱۹۷۱ء کی جنگ کے بعد شملہ معاہدے کی شکل میں پاکستان نے اپنے اصولی مؤقف پر اصرار اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی پاسداری کے عہد کے ساتھ مسئلے کو دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کی راہ قبول کرنے کی جو غلطی کی اس کا فائدہ اٹھا کر بھارت نے مسئلے کو آج تک معلّق رکھا ہوا ہے اور اپنی گرفت کو مضبوط کرنے اور مقبوضہ جموں و کشمیر کو سیاسی‘ معاشی‘ عسکری ہر اعتبار سے بھارت میں ضم (integrate) کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے لیے اس نے ایک طرف جبر اور ظلم کے ہر ہتھکنڈے کا بے محابا استعمال کیا ہے تو دوسری طرف وہ پاکستان کو بار بار لایعنی مذاکرات کے جال میں پھنسانے اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ’’کامیاب سیاست‘‘ کے کرتب دکھاتا رہا ہے۔

انھی حالات سے مجبور ہوکر جموں و کشمیر کے غیور اور آزادی پسند مسلمانوں نے بھارت کے استبدادی تسلط کے خلاف سیاسی جدوجہد کو ایک نیا رخ دیا اور جہاد کا راستہ اختیار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ  ۱۹۸۹ء سے پوری ریاست عملاً حالتِ جنگ (state of war) میں ہے اور بھارتی اقتدار کی عملداری فوج کی بندوقوں کے سایے تک محدود ہوگئی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت کی سات لاکھ فوج کے جارحانہ اقدامات کے باوجود بھارت کی سامراجی حکومت اور اس کے شریکِ جرم مقامی کٹھ پتلی حکمران اپنے اقتدار کو مستحکم نہیں کر سکے۔ آزاد مبصرین کی نگاہ میں اس بارے میں آج بھی کوئی دو رائے نہیں کہ جموں و کشمیر کے مسلمان بھارت کی حکمرانی اور تسلط پر کسی شکل میں بھی راضی نہیں اور وہ دہلی کی حکومت سے مکمل طور پر بے تعلق (alienated) ہیں۔ یہ جموں و کشمیر کی سب سے بڑی زمینی حقیقت (ground reality) ہے جسے نظرانداز کرکے بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں کے درمیان کشمیر کے مستقبل کے بارے میں کسی معاملہ بندی (understanding) کا تصور ہمالہ سے بھی بڑی غلطی (Himalyan blunder) کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ بھارت کا مشہور صحافی اور سفارت کار کلدیپ نیر بھارت کی کشمیر پالیسی کا بڑا ہوشیار مؤید اور علم بردار ہے اور پاکستانی قیادت کو لچک کے وعظ دیتا رہتا ہے لیکن وہ بھی باربار یہ اعتراف کرچکا ہے کہ کشمیری عوام دہلی کی حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔ بھارت کے مشہور اخبار انڈین ایکسپریس میں دفاع اور سلامتی کے امور کا ایک تجزیہ نگار اجائے شکلا (Ajai Shukla)اپنے ۵ مئی ۲۰۰۵ء کو شائع ہونے والے مضمون میں اعتراف کرتا ہے:

کشمیری دل کی گہرائیوں سے آزادی چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا خواب ہے جسے سیاسی عزم نے اور جن لوگوں نے اس کے لیے جانیں دی ہیں‘ ان سے وفاداری کے احساسات نے پرورش کیا ہے۔

پاکستان کے جو لبرل اور روشن خیال صحافی چند ماہ قبل کشمیر کے دورے پر گئے تھے وہ سب اس بات پر متفق تھے کہ کشمیر کے عوام بھارت کے ساتھ رہنے کو کسی صورت تیار نہیں خواہ پاکستان سے الحاق کے بارے میں اختلاف ہی کیوں نہ ہو اور ان میں ایک تعداد پاکستان سے اس کی پالیسیوں کے انتشار اور ژولیدہ فکری کی بنیاد پر مایوس ہو۔ ایک اور لبرل صحافی خالد حسن (ڈیلی ٹائمز کے واشنگٹن کے نمایندے) ابھی کشمیر ہوکر آئے ہیں اور وہ فرائی ڈے ٹائمز (شمارہ ۶سے۱۲ مئی ۲۰۰۵ئ) میں لکھتے ہیں کہ:

بھارت سے علیحدگی کا احساس مکمل ہے۔ کوئی بھی کشمیری اپنے آپ کو بھارتی نہیں سمجھتا۔ جب میں کشمیری کہتا ہوں تو میری مراد وادی کے مسلمان ہوتے ہیں۔ نہ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں جیسا کہ کبھی پہلے چاہتے تھے۔ پاکستان نے کشمیریوں کی قیمت پر جو پالیسیاں اختیار کیں‘ اس سے لوگ دل برداشتہ ہیں۔ جس سے بھی بات کرو‘ ایک ہی جواب ملتا ہے: آزادی۔ آج کے کشمیر کی حقیقت شہدا کے وہ قبرستان ہیں جہاں تقریباً تمام قبریں ان نوجوانوں کی ہیں جن کی فصل جوانی کی پہلی بہار ہی میں کاٹ دی گئی۔ (دی فرائی ڈے ٹائمز‘ ۶-۱۲ مئی ۲۰۰۵ئ)

جنرل پرویز مشرف نے اپنی دلّی کی ملاقاتوں کے بعد جن توقعات کا اظہار کیا ہے اور پھر سفما(South Asian Free Media Association) کے زیراہتمام جنوبی ایشیا کی پارلیمانی کانفرنس کے آخری اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جس ’’سنہری لمحے‘‘ کی بات کی ہے اس کا زمینی حقائق سے دُور کا بھی تعلق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملّت اسلامیہ پاکستان اور اس کی حقیقی قیادت کے لیے سب سے بڑی ضرورت حالات کے بے لاگ جائزے اور صحیح حکمت عملی مرتب کرنے اور اس پر ڈٹ جانے کی ہے۔ موجودہ حکومت اپنی خوش فہمیوں کے خمار میں ایک ایسے راستے پر چل پڑی ہے جو ملک کے لیے تباہی کا راستہ ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم خدانخواستہ ہمیشہ کے لیے اپنی شہ رگ سے محروم ہوسکتے ہیں۔ اس وقت کشمیر پالیسی پر مسلسل قلابازیوں پر مبنی جنرل صاحب کے غیر ذمہ دارانہ بیانات جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گئے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ بھارت سے کچھ حاصل کرسکیں گے۔ یہ ایک تاریخی مغالطہ ہے۔ دراصل پاکستان کے اصولی مؤقف کی قربانی اور کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر یہ حکمران کشمیری عوام کی قربانیوں سے بے وفائی ہی کے مرتکب نہیں ہو رہے بلکہ اپنے سوا کروڑ بھائیوں اور بہنوں کو دھکے دے کر بھارت کے تسلط اور امریکا کی گرفت میں دینے میں معاونت کررہے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر پاکستان کی نظریاتی اساس پر ضرب کاری لگانے اور پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کو قربان کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ آج پاکستان کا نظریاتی تشخص‘ اس کی قومی سلامتی اور اس کے وسیع علاقوں کے لیے مناسب مقدار میں پانی کی فراہمی کے امکانات سب دائو پر لگ چکے ہیں۔

ضروری ہے کہ مسئلے کے تمام ضروری پہلوئوں پر کھل کر بات کی جائے اور قوم کو بیدار کیا جائے کہ اس کے ساتھ کیا ظلم ہو رہا ہے۔ اس وقت ملک کو ایک خطرناک راستے پر لے جانے کی کوشش ہو رہی ہے‘ اگر خدانخواستہ یہ کامیاب ہوجاتی ہے تو دراصل یہ اقبال اور قائداعظم کی قیادت میں برپا کی جانے والی تحریکِ پاکستان کی نفی اور اس جدوجہد کے نتیجے میں قائم ہونے والے پاکستان کو ایک انقلابِ معکوس (counter revolution) کے ذریعے دوبارہ جنوب ایشیا میں ضم کرنے پر منتج ہوسکتی ہے۔ نئے نقشہ جنگ کو سمجھنے کے لیے کشمیرپالیسی کی تبدیلی‘ پاک بھارت دوستی کے نئے آہنگ اور جنوبی ایشیا کی نئی شیرازہ بندی کا صحیح ادراک ضروری ہے۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ یہ ایک نیا سیاسی‘ معاشی اور نظریاتی منصوبہ ہے جس میں اس علاقے کے بارے میں امریکا کی نقشہ بندی‘ اس میں بھارت کا کردار اور اس منصوبے کو روبہ عمل لانے میں کشمیر کی جدوجہد آزادی کی تحلیل (liquidation) ‘ علاقے کی اسلامی قوتوں کی کمرشکنی اور پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنا شامل ہے تاکہ ایک ’’سیکولرپاکستان‘‘ کا فروغ ہو جو ’’سیکولرانڈیا‘‘ کے ساتھ مل کر جنوب ایشیا کا ایک پیادہ بن جائے اور بالآخر امریکا اور بھارت کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ (strategic partnership) کا ایک دم چھلّا بن کر رہ سکے۔ جنرل پرویز مشرف امریکا کے جس کھیل کا ایک کردار بن گئے ہیں اس میں بات کشمیر سے چل کر‘ بھارت دوستی اور جنوبی ایشیا کے نئے وژن تک پہنچتی ہے جو سب اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ آج کشمیر پالیسی کی تبدیلی کا تعلق کشمیر سے تو ہے ہی‘ مگر یہ کشمیر پر ختم نہیں ہوجاتی‘ بلکہ کشمیر کی تحریک آزادی کو قربانی کا بکرا بناکر پاکستان کے اس تصور اور کردار کو ختم کرنا بھی اس کا ہدف ہے جو اقبال اور قائداعظم کی قیادت میں ملّت اسلامیہ پاک و ہند کے مسلمانوں کا تصور تھا اور پاکستان کا قیام جس منزلِ مقصود کی طرف پہلا قدم تھا۔ اس لیے کشمیرپالیسی کی تبدیلیوں اور اس کے مضمرات پر بات کرنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ بھارت اور خود امریکا کا اصل ہدف سامنے رہے تاکہ جنرل صاحب کی کشمیر پالیسی کے خطرناک رخ کا صحیح صحیح ادراک ہوسکے۔

بہارتی حکمت عملی اور صدر مشرف

کلدیپ نیر نے دہلی مذاکرات اور پاکستان کی کشمیرپالیسی کی تبدیلی پر کھل کر جو کچھ لکھا ہے اسے قوم کے سامنے لانا بہت ضروری ہے۔ ڈان کے ۱۶ اپریل اور ۲۶ اپریل ۲۰۰۵ء کے شماروں میں کشمیر کے مسئلے پرموصوف کے دو مضامین بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور بین الاقوامی بساط پر کھیلے جانے والے کھیل کے خدوخال کو سمجھنے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ ۱۶ اپریل کو No Halfway Stop for Musharaf کے عنوان سے‘ چودھری شجاعت حسین کے جامع مسجد دہلی کے خطاب کے پس منظر میں‘ پاک بھارت دوستی کے اصل اہداف کو نمایاں کرتے ہوئے‘ موصوف کا ارشاد ہے کہ پاکستان کا اصل تصور ‘جو ان کی نگاہ میں قائداعظم کا تصور تھا___ اسلامی نظام نہیں سیکولرزم تھا۔

He wanted it to be a secular polity not mixing religion with politics. He died an unhappy man because during his lifetime he saw the country being mutilated and deformed in the name of Islam.

وہ چاہتے تھے کہ یہ ایک سیکولر معاشرہ ہو‘ جس میں مذہب کو سیاست سے نہ ملایا جائے۔ وہ اپنی موت کے وقت ایک ناخوش انسان تھے اس لیے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں اپنے ملک کو اسلام کے نام پر مسخ اور بدہیبت ہوتے دیکھا۔

شکر ہے کہ کلدیپ نیر صاحب اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام کے اس ’’تخریبی عمل‘‘ کا اظہار قائداعظم کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا ورنہ ہمارا لبرل طبقہ تو سارا الزام جنرل ضیاء الحق کے دور کو دیتا ہے۔

پھر ارشاد ہوتا ہے:

پاکستان میں کیوں ایسا جمہوری نظام قائم نہیں ہو سکتا جیسا کہ بھارت میں ہے۔

پھر کھل کر ارشاد ہوتا ہے کہ:

ان کو جان لینا چاہیے کہ وادی صرف اس لیے پاکستان کو نہیں مل سکتی کہ یہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ دو قومی نظریہ اب صرف تاریخ ہے۔ جناح‘ مذہب کو سیاست سے الگ کرنا چاہتے تھے۔ صدر مشرف وادی میں جناح کی منطق کا اطلاق نہ کر کے آدھے رستے میں رک گئے۔ درحقیقت اسلام آباد نے کشمیریوں کی مقامی جدوجہد کو اخلاقی و سفارتی حمایت کے نام پر اسلامی قرار دے کر‘ اس کو بہت نقصان پہنچایا۔

موصوف اس کے بعد اس بھارتی ضد کا اعادہ کرتے ہیں کہ کشمیر کو پاک بھارت دوستی کے مذاکرات میں اولیت کا مقام نہیں دیا جا سکتا۔

میں اب تک نہیں سمجھ سکا ہوں کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات کشمیر کا یرغمال کیوں ہوں؟ اگر کشمیر سے ان کا تعلق توڑ دیا جائے تو حل تک پہنچنا آسان ہوگا۔

جب ۱۰ سابق پاکستانی سفارت کاروں نے بھارت کا دورہ کیا اور بھارتی سفارت کاروں کے سامنے کشمیر کی مرکزیت پر اصرار کیا تو کلدیپ نیر صاحب اس پر برافروختہ ہوئے اور فتویٰ دے دیا کہ:

پاکستان کے سابق سفرا نے مجھے کبھی متاثر نہیں کیا کیونکہ انھیں کشمیر کا خبط تھا۔ وہ کہتے یہی تھے کہ سارے مسائل کا حل صرف کشمیر کے مسئلے کے حل پر مبنی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ سفارت کار پاکستان کے اصولی مؤقف کی مؤثر ترجمانی کر رہے تھے مگر کلدیپ نیر صاحب بھارت کے مؤقف پر انھیں لانا چاہتے تھے‘ اور سرحدوں کو غیرمؤثر بنانے کو مسئلے کا حل قرار دے رہے تھے۔ ارشاد ہوتا ہے:

اصل حل یہ ہے کہ سرحدوں کو نرم ہونا چاہیے تاکہ انھیں پار کرنا ایسا ہوجائے جیسے ایک گلی سے دوسری گلی میں جانا۔ ’’شجاعتوں‘‘ اور ’’مشاہدوں‘‘ کو اس مقصد کے لیے کام کرنا چاہیے‘ نہ کہ اس طرف یا اس طرف مسلمانوں کے علاقوں کے نقشے بنانا۔

دہلی میں مشرف موہن سنگھ مذاکرات کے بعد جو ’’روشنی‘‘ ان کو نظر آئی ہے اور جو پسپائی پاکستان کے مؤقف میںرونما ہوئی ہے ‘اس کا ادراک بھی کلدیپ نیر ہی کے الفاظ میں ضروری ہے جسے وہ عالمِ انبساط میں بالآخر ہری جھنڈی (Green Light Finally) کے عنوان سے ۱۶اپریل کی اشاعت میں پیش کرتے ہیں۔ وہ اپنے احساسات کا اظہار جس زبان میں کرتے ہیں اس میں ان کی خوشی ہی پھوٹی نہیں پڑتی بلکہ پاکستان کی بے بسی اور بے حسی دونوں کی تصویر بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

صدر مشرف کے دہلی کے دورے کے کئی دن گزرنے کے بعد بھی یہاں یہ بحث گرم ہے کہ کیا وہ تبدیل ہوگئے ہیں؟ اور ہوگئے ہیں تو کیوں۔

میں نے سابق وزیراعظم اِندر گجرال سے پوچھا کہ کیا مشرف بدل گیا ہے؟ گجرال نے جواب دیا: اس کے پاس کیا راستے ہیں؟ اس کے ملک کو اَن گنت مسائل کا سامنا ہے۔ اسے دِکھ رہا ہے کہ بھارت بڑے سے بڑا ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے امریکی دوستوں نے اسے بتا دیا ہے کہ کشتی کو نہ ڈبوئے۔ (وزیر خارجہ نٹورسنگھ نے‘ مشرف کی دہلی میں آمد سے دو روز قبل اپنے واشنگٹن کے دورے میں اس بات کو محسوس کرلیا تھا)۔

بھارتی ایڈیٹروں سے ملاقات میں مشرف نے پہلے تو ہنستے ہوئے کہا کہ وہ ایک نئے دل کے ساتھ آئے ہیں (مطلب تھا کہ آگرہ کی ناکام سربراہی کانفرنس کے بعد)۔ پھر انھوں نے سنجیدہ لہجے میں کہا کہ امریکا میں نائن الیون کے حملوں نے انھیں تبدیل کر دیا ہے۔ ظاہر تھا کہ امریکا نے اسے واضح الفاظ میں (in no uncertain terms) بتا دیا تھا کہ واشنگٹن سرحد پار دہشت گردی کو سنجیدگی سے لے گا (take serious note)۔

مشرف نے من موہن سنگھ کو جو یقین دہانی کروائی تھی‘ اسے دہرایا کہ دہشت گردوں کو امن کے عمل کو ناکام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ وہ جنگجوئوں کو پاکستان کا کوئی علاقہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ (کہا جاتا ہے کہ اسلام آباد نے اس بارے میں دہلی کو تحریر بھی دی ہے)

اس امر کی کافی شہادت ہے کہ دہلی کے بارے میں اسلام آباد کی پالیسی تبدیل ہوگئی ہے۔ کشمیر اعتماد سازی کے اقدامات میں سے ایک قدم ہوگیا ہے‘ نہ کہ مرکزی مسئلہ (core issue)‘ یا ایجنڈے کی پہلی شق۔ پاکستان نے بھارت کی اس یقین دہانی کو بھی تسلیم کرلیا ہے کہ وہ کسی مرحلے پر کشمیریوں کو بھی‘ یقینا آخری فیصلے سے قبل‘ مذاکرات میں شریک کرے گا۔

مشرف یقین رکھتا ہے کہ اگر سرحدیں اور لائن آف کنٹرول تبدیل نہیں کی جا سکتیں‘ تو سرحدوں کو نرم اور غیرمتعلق بنانا (جیساکہ وہ اسے کہتے ہیں) بہتر ہے۔

کلدیپ نیر کی یہ تحریر ہزار تقریروں اور بیانات پر بھاری ہے اور بھارت اور پاکستان دونوں کی کشمیر پالیسی کے بارے میں تازہ ترین صورت حال کی عکاس ہے۔

اقبال نے شاید کسی ایسی ہی صورت حال کے بارے میں کہا ہوگا کہ   ؎

دیکھ مسجد میں شکستِ رشتۂ تسبیحِ شیخ

بت کدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ

’مشرف ھمارا بھترین ساتہی‘

جنرل پرویز مشرف کی کشمیر پالیسی کی حالیہ تبدیلی‘ پاک بھارت دوستی اور بھارت کی ثقافتی یلغار اور سیکولر نظام کے فروغ کی باتوں میں کلدیپ نیر تنہا نہیں‘ ہر طرف سے یہی آواز اٹھ رہی ہے۔ عین اس زمانے میں‘ غالباً بھارت کی تاریخ میں پہلی بار‘ قائداعظم کی دریافتِ نو (rediscovery) کا ایک شرانگیز سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ قائداعظم پر ایک بھارتی دانش ور پروفیسرآسیانیندا (Asiananda) کی ایک کتاب Jinnah - A Corrective Reading of Indian History شائع ہوئی ہے۔ اس کی تقریب رونمائی اپریل ۲۰۰۵ء کے وسط میں جنرل پرویز مشرف کی دلّی یاترا   سے دو دن پہلے بھارت کے وزیردفاع پرناب مکرجی اور وزیر پٹرولیم مانی شنکرآرگر کی موجودگی    اور سرپرستی میں منعقد ہوئی تھی۔ کتاب کا مرکزی خیال ہے کہ محمد علی جناح اسی درجے کے ایک "great secular" لیڈر تھے جیسے پنڈت نہرو (دی ہندو‘ ۱۵اپریل ۲۰۰۵ئ)

بھارت کے ایک اور دانش ور رفیق دوسانی کی تازہ ترین کتاب: Prospects for Peace in South Asia حال ہی میں امریکا سے شائع ہوئی ہے اور یہ صرف انھی کی نہیں‘ بلکہ بھارت اور امریکا کے دانش وروں کی مشترک سوچ کا ماحصل ہے۔ دوسائی خود بھی امریکا کی مشہور اسٹینفورڈ یونی ورسٹی سے وابستہ ہیں اور اس کتاب میں ان کے علاوہ امریکا کے کلیدی ادارے  ووڈرو ولسن سنٹر کے ڈائرکٹر رابرٹ ہتاوے اور ایک دوسرے پالیسی ساز ادارے اسٹمسن سنٹر کے پروفیسرمائیکل کریپن سب کا تجزیہ شامل ہے۔ ان کی نگاہ میں مسئلہ کشمیر کی وجہ سے حسبِ ذیل رجحانات پروان چڑھے ہیں۔ m علاقے میں مذہب کے کردار کا فروغ(اسے وہ مذہبی انتہاپسندی کہتے ہیں)

  •  بھارت اور پاکستان کے نیوکلیر طاقت بننے کا عزم‘ داعیہ اور سانحہ
  • پاکستان کی آرمی کا سیاست میں کود جانا
  • قومی شناخت کی مرکزیت۔

اس کتاب میں بھارت کے عالمی عزائم اور اس کے لیے پاکستان سے کسی نہ کسی شکل میں معاملات طے کرنے کی ضرورت اور دوسری طرف پاکستان کی اس مجبوری کو بھی نمایاں کیا گیا ہے کہ بھارت کی بڑھتی ہوئی فوجی‘ سیاسی اور معاشی قوت کی وجہ سے بہرحال پاکستان کو بھی کہیں نہ کہیں سمجھوتا کرنا ہے اور ان کی نگاہ میں اس کے لیے سب سے مناسب وقت یہی ہے۔ لیکن اس کتاب کا بھی ٹیپ کا بند یہی ہے کہ جنرل مشرف اس کام کو انجام دینے کے لیے بہترین شخص ہیں اور یہ اس لیے کہ وہ اور جنرل جہانگیر کرامت دونوں ایک ’’سیکولر پاکستان‘‘ کے علم بردار ہیں۔

ہماری نگاہ میں اس منظرنامے کی سب سے مؤثر ترجمانی بھارت کے ایک اور دانش ور سوبا چندرن نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ مگر نہایت کھلے انداز میں کی ہے۔ موصوف بھی اس وقت امریکا کے علمی اور پالیسی ساز حلقوں ہی میں سرگرم ہیں اور دہلی کے Institute of Peace and Conflict سے وابستہ ہیں۔ان کے ارشادات بڑے گہرے غوروفکر کے متقاضی ہیں اور کشمیر کے بارے میں امریکا اور بھارت کی حکمت عملی کو سمجھنے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ واشنگٹن میں ان کا ارشاد ہے کہ اس وقت بھارت کے اصل اہداف یہ ہیں:

(ا) امن کی بات چیت کے عمل کو بہرصورت برقرار رکھا جائے۔

(ب) کشمیر کے بارے میں یہ سمجھوتا کہ سرحد پار دہشت گردی حد سے نیچے رہے‘ خواہ مکمل طور پر ختم نہ بھی ہو۔

(ج) مستحکم اور سیکولر پاکستان۔

موصوف کانٹے کی بات یوں کہتے ہیں:

اگر جنرل مشرف ان تین عنوانات سے بھارت کے مطالبے کو پوراکرسکیں‘ تو ان سے معاملہ کرنا بھارت کے مفاد میں ہوگا۔ بھارت کو جو مسئلہ طے کرنا ہے‘ وہ یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی اور فوجی صورت حال میں کیا وہ بہترین رفیق کار ہیں۔

اور ان کا مشورہ یہی ہے کہ:

ہوسکتا ہے کہ جنرل مشرف صحیح آدمی نہ ہوں‘ لیکن وہ پاکستان میں بھارت کے بہترین  ساجھی ہیں۔ وہ قابلِ اعتماد ہوں یا نہ ہوں‘ نتائج صرف وہی دے سکتے ہیں۔

پروفیسر سوبا چندرن ان وجوہ کی طرف بھی واضح اشارہ کر دیتا ہے جن کی وجہ سے وہ بھارت کے منصوبے کے لیے جنرل پرویز مشرف کو بہترین ساجھی سمجھتا ہے۔

بھارت نے آج تک کسی متبادل (option) کی بات نہیں کی۔ وہ اٹوٹ انگ اور ناقابلِ تغیر سرحد کی بات کرتا ہے مگر جنرل صاحب کا ذہن کیا ہے:

حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اتنے حل پیش کیے ہیں‘ کہ اب اس میں کوئی شک نہیں وہ کسی نہ کسی سمجھوتے پر آمادہ ہوجائیں گے۔

مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے مؤقف سے اتنا ہٹ گئے ہیں کہ مزید سمجھوتوں کی انھی سے توقع ہے۔ نیز جو بھارت کا اصل مقصد اور فوری ہدف ہے‘ یعنی کشمیر میں تحریکِ مزاحمت ختم ہوجائے‘ یا کمزور ہوجائے اور منقسم رہے وہ صرف اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے کہ جہادی تحریک دم توڑ دے۔ یہاں بھی موصوف کی نگاہ میں جنرل صاحب کا کردار ہی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ سوبا چندرن کہتے ہیں:

وہ واحد آدمی ہیں جو سرحد پار دہشت گردی کو کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں۔ یہ بھارت کے مفاد میں ہوگا کہ مسلح جدوجہد قابلِ برداشت حد سے نیچے رہے‘ تاکہ نئی دہلی اور سری نگر کے درمیان کسی عمل کا آغاز ہوسکے اور لائن آف کنٹرول پر باڑ لگانے کے کام کو مکمل کیا جاسکے۔

موصوف کی نگاہ میں جنرل پرویز مشرف ہی وہ شخصیت ہیں جو اس ہفت آسمان کو سر کیے جانے کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ غور کیجیے کہ اصل ہدف سری نگر اور مظفرآباد میں راہداری نہیں‘ لائن آف کنٹرول پر اپنی گرفت مضبوط کر کے سفر کو آسان بنانا ہے جیساکہ کلدیپ نیر نے کہا کہ ایک گلی سے دوسری گلی میں جاسکیں‘ لیکن اصل مقصد سری نگر اور دہلی کے رشتوں کو مضبوط کرنا ہے تاکہ کشمیر بدستور بھارت کے نقشے کے مطابق ہی رہے۔

پھر سب سے اہم اسٹرے ٹیجک ہدف یہ ہے کہ پاکستان کی فوج اس معاملے میں اس طرح ملوث ہو کہ بھارت کے اہداف حاصل ہوسکیں اور پاکستانی عوام بھی کوئی منفی تحریک نہ اٹھا سکیں اور جو بات یا جو حل بھی امریکا‘ بھارت اور جنرل صاحب طے کرلیں‘ اسے ملک کے عوام پر مسلط کیا جاسکے۔ سوباچندرن اپنے تجزیے میں صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ:

پاکستان میں سیاسی قیادت کمزور ہے اور مستقبل قریب میں بھی ایسی ہی رہے گی۔ دوطرفہ سطح پر جو کچھ طے کیا گیا ہے‘صرف مشرف وہ فرد ہیں‘ جو اسے نافذکرسکتے ہیں۔ ۱۹۹۷ء کے انتخابات میں بہت اکثریت حاصل کرنے کے باوجود نواز شریف لاہور پروسس کو آگے نہ بڑھا سکے۔ اگر یہ ایک حقیقت ہے‘ تو فوج سے براہِ راست معاملہ طے کرنا بھارت کے مفاد میں ہے۔ اگر مشرف آج اسے کنٹرول کرتے ہیں تو بھارت کو ان سے معاملہ کرنا چاہیے۔ جنرل میں اتنا حوصلہ تھا کہ اس نے تسلیم کیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں اب غیرمتعلق ہوگئی ہیں۔ اور ایک نرم سرحد کو عارضی حل سمجھا جاسکتا ہے۔

اور ٹیپ کا بند بھی ملاحظہ فرمالیجیے۔ جنرل صاحب خواہ ویسے بھارت کو پسند نہ ہوں لیکن اس لیے ضرور پسند ہیں کہ:

حقیقت یہ ہے کہ صرف جنرل مشرف ہی بھارت سے کیے گئے سمجھوتے کو پاکستان میں زبردستی نافذ (impose) کر سکتے ہیں۔

اس جملے کا ایک ایک لفظ اہم ہے۔ جنرل صاحب ایک ’’ناگزیر برائی‘‘ ہیں لیکن مطلب براری کے لیے ضروری ہیں۔ جو بات بھارت سے طے ہو وہ پاکستان کے عوام کے وژن تصورات‘ احساسات اور مفادات کے خلاف ہوگی اور اسے ملک پر مسلط (impose) کرنا ضروری ہوگا اور یہ جنرل صاحب اور فوج کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس لیے جنرل صاحب امریکا اور بھارت دونوں کے لیے بہترین مہرے ہیں یا کھل کر بات کی جائے تو ترپ کا پتہ ہیں! اور یہی وہ مجوزہ کردار ہے جس کے لیے ان کی وردی بھی ضروری ہے۔ امریکا اور بھارت کی جمہوریت نوازی اپنی جگہ‘ لیکن اس سیاسی نقشے میں رنگ بھرنے کے لیے جس کردار کی ضرورت ہے‘ اُسے فوجی لباس ہی میں ہونا چاہیے اور فوج کی قیادت بھی اسی کے پاس ضروری ہے‘ اور اسے اس روشن خیال اعتدال پسندی کا علم بردار ہونا چاہیے جو دراصل سیکولرزم کا دوسرا عنوان ہے اور جس کا اصل ہدف پاکستان کو اسلامی تشخص‘ اور جہاد فی سبیل اللہ سے محروم کرنا ہے۔

امریکا بہارت ملی بہگت

کشمیر کے سلسلے میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے‘ اسے اس علاقے کے بارے میں امریکا کے عزائم اور امریکا‘ بھارت اور اسرائیل کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ اور خود اقوام متحدہ کی ساختِ نو (restructuring ) کے پس منظر سے الگ کر کے نہیں سمجھا جاسکتا۔ اگر آپ امریکا کے سابق وزیرخارجہ سٹروب ٹالبوٹ کی کتاب Engaging India کا بغور مطالعہ کریں اور خصوصیت سے کارگل کے واقعے کے سلسلے میں‘ اور پھر اس کے نتیجے میں بھارت اورامریکا میں جو فکری اور سیاسی  ہم آہنگی ہی نہیں بلکہ اعتماد باہمی‘ اور مفادات کا اشتراک رونما ہوا‘ اس نے اس اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کی راہ ہموار کی‘ جو اَب جارج بش کے دور میں ایک حقیقت بن چکی ہے۔ جسونت سنگھ نے ٹالبوٹ اور کلنٹن کے کردار اور تعاون کا صرف اعتراف ہی نہیں کیا بلکہ امریکا کے اس کھیل پر مہرتصدیق ثبت کر دی جو وہ پاکستان اور بھارت کے تنازع کا فائدہ اٹھا کر بھارت سے دوستی اور نئی پارٹنرشپ کے حصول کے لیے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ جسونت سنگھ کا بیان غور کرنے کے لائق ہے:

ہمارے اور ہمارے پڑوسیوں کے درمیان گذشتہ چند مہینوں میں کچھ خوفناک باتیں ہوچکی ہیں۔ لیکن اس اختتام ہفتہ میرے اور آپ کے ممالک کے درمیان کچھ نئی اور بہت اچھی چیزیں واقع ہوئی ہیں جو بھروسے اور اعتماد سے تعلق رکھتی ہیں۔ میں اور میرے وزیراعظم اس کے لیے آپ کے صدر کے شکرگزار ہیں۔

اب یہی وہ اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ ہے جو مسئلہ کشمیر کو تحلیل (liquidate) کرنے‘ سرحدوں کو غیرمؤثر بنانے‘ تحریکِ جہاد کو ختم کرنے اور پاکستان اور بھارت کو نئے سیاسی‘ معاشی‘ ثقافتی رشتوں میں جکڑنے کے ایک نئے قسم کے ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے احیا کے لیے سرگرمِ عمل ہے اور اس کا اصل اور آخری ہدف اسلامی احیا کے راستے کو روکنا ہے۔ دیکھیے ہنری کسنجر کس چابک دستی سے اس مقصد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اپنے ایک تازہ مضمون Implementing Bush's Vision  میں وہ یوں رقم طراز ہے:

"Now India, in effect a strategic partner, not because of compatible domestic structures but because of parallel security interests in South East Asia and the Indian ocean and vis-a-vis the radical Islam" (The Nation May 17th, 2005).

اب بھارت اسٹرے ٹیجک پارٹنر ہے‘ ایک جیسے داخلی نظام کی بنا پر نہیں‘ بلکہ جنوبی مشرقی ایشیا اور بحرہند میں انقلابی اسلام کے مقابلے میں سلامتی کے متوازی مفادات کے حصول کے لیے۔

سیاست کا نقشہ اب بالکل واضح ہے۔ امریکا اور بھارت کے تعاون کا مقصد چین کے خلاف محاذ آرائی ہی نہیں‘ بلکہ بھارت کو ایک علاقائی قوت سے بڑھ کر ایک عالمی قوت بنانا ہے جس کے بارے میں گذشتہ ایک سال میں ایک درجن سے زائد امریکی رپورٹیں شائع ہوچکی ہیں اور تازہ ترین رپورٹ مئی کے دوسرے ہفتے میں شائع ہونے والی کارنیگی انڈوومنٹ کی رپورٹ ہے یعنی  South Asian Seesaw: A New US Policy on the Subcontinent جسے اس ادارے کے ایک سینیر اسکالر ایشلے جے ٹیلنگ نے مرتب کیا ہے اور جو اپنی رپورٹ کو امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزارائس کے افکار کا پرتو قرار دیتا ہے۔ اس رپورٹ میں اس بات کا بھی صاف اعتراف ہے کہ امریکا کی طرف سے پاکستان کو ایف-۱۶ طیّاروں کی پیش کش پر بھارت کی طرف سے جو بس واجبی سی تنقید کی گئی ہے‘ وہ اسکیم کا حصہ اور امریکی بھارت ملی بھگت ہے جو نئی امریکی حکمت عملی کا نتیجہ ہے:

علاقے کی تشکیل کے لیے امریکا کی غیرعلانیہ نئی حکمت عملی کا نتیجہ: ایک عالمی قوت (global power) کے طور پر بھارت کو آگے بڑھانا‘ جب کہ پاکستان کو بھی ایک کامیاب ریاست ہونے کے لیے مدد پہنچانا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے بھارت کی توانائی کی ضرورتوں کو پورا کرنا‘ اسے ایک عسکری قوت بنانا اور اسے ایک نیوکلیر قوت کی حیثیت سے عالمی نظام کا حصہ بنانا اس حکمت عملی کا حصہ ہے۔ گویا بھارت ایک عالمی طاقت ہوگا اور پاکستان اس کی ایک باج گزار اور طفیلی ریاست!

قومی کشمیر پالیسی سے انحراف

جنرل مشرف کہتے ہیں کہ وہ اہلِ کشمیر کے مفادات سے بے وفائی کے مرتکب نہیں ہوئے مگر صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کا یہ دعویٰ بالکل کھوکھلا اور خلافِ حقیقت ہے۔ جو کچھ وہ عملاً کررہے ہیں‘ وہ امریکا اور بھارت کی حکمت عملی کے فریم ورک کے بالکل مطابق ہے۔

ذرا ذہن میں تازہ کرلیں کہ انھوں نے اس سلسلے میں کیا کیا ہے:

۱-  روشن خیال اعتدال پسندی کے نام پر پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یہ کہا ہے کہ سیکولرزم اسلام سے متصادم نہیں اور پاکستان کو اپنے سیکولر امیج کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنا چاہیے۔

۲-  امریکا کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں اس طرح شرکت کی ہے کہ امریکا سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ امریکا کے جتنے سپاہی افغانستان میں ہلاک ہوئے ہیں ان سے زیادہ پاکستان کے فوجی‘ خود پاکستان کی سرزمین پر ایسے لوگوں کے تعاقب میں مارے گئے ہیں جو امریکا کو جتنے بھی مطلوب ہوں لیکن وہ پاکستان کے لیے کبھی خطرہ نہ تھے اور اگر آج وہ جنرل مشرف کے مخالف ہوگئے ہیں تو محض اس لیے کہ جنرل صاحب محض امریکا کی محبت میں ان کے خون کے پیاسے ہیں اور انھوں نے اپنی فوج کو ان کے خلاف اعلانِ جنگ کرکے انھیں آگ اور خون کی ہولی میں دھکیل دیا ہے۔ ناردرن ایریا کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل صفدر حسن کے بقول (دی ڈیلی ٹائمز‘ ۲۳ مئی ۲۰۰۵ئ) شمالی علاقہ جات میں ۷۰ ہزارپاکستانی فوجی ۶۶۹ چوکیوں پر سرگرم ہیں جو اب تک ۴۸ آپریشن کرچکے ہیں جن میں ۳۰۶ افراد مارے گئے ہیں بشمول ۱۵۰ غیرملکی‘ جب کہ خود پاکستانی فوج کے ۲۵۱ جوان اور افسر ہلاک ہوچکے ہیں اور ۵۵۰ زخمی ہوئے ہیں۔ یہ تعداد ساڑھے تین سال میں افغانستان میں مرنے اور زخمی ہونے والے امریکی فوجیوں سے زیادہ ہے۔ کیا ملک میں کوئی فرد یا ادارہ ایسا نہیں جو احتساب کرے اور پوچھے کہ کس کی جنگ کون لڑ رہا ہے اور کس قیمت پر؟

۳- کشمیر جس کے بارے میں فروری ۲۰۰۲ء تک کہا جا رہا تھا کہ یہ ہماری خارجہ پالیسی اور پاک بھارت تعلقات کے باب میں مرکزی ایشو (core issue) ہے اور اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کے عوام کی آزاد مرضی سے حل کیے بغیر‘ بھارت سے کوئی سیاسی یا تجارتی معاملہ نہیں کیا جاسکتا اور کشمیر کی تحریکِ جہاد‘ آزادی کی جنگ ہے جسے کسی اعتبار سے دہشت گردی قرار نہیں دیا جاسکتا‘ ایک ایک کر کے ان سب پر مؤقف کو تبدیل کرلیا گیا۔ بھارت کی cross-border infiltration اور cross-border terrorism کی زبان ہم بھی استعمال کرنے لگے ہیں۔ بھارت کے ساتھ دہشت گردی کے پروٹوکول پر دستخط کر دیے گئے اور پاک بھارت مذاکرات کو نہ صرف بھارتی مطالبے کے مطابق‘ اس نام نہاد دہشت گردی کے خاتمے سے مشروط کر دیا گیا ہے جس کا اعادہ بھارتی قیادت دن رات کر رہی ہے اور کشمیر کے اپنے اٹوٹ انگ ہونے کے دعوے کے ساتھ کر رہی ہے بلکہ بھارت کے دوستی کے عمل میں پیش رفت کو کشمیر کے مسئلے کے حل سے بے تعلق (delink) بھی کر دیا گیا۔ نیز اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی ہم نے اٹھا کر رکھ دیا۔ متبادل حل کے طور پر تقسیمِ کشمیر کی تجویز پر بھی غور ہونے لگا اور وہ بھی مشترک کنٹرول اور محدود خودمختاری کی باتوں کے ساتھ۔ اب اصل مسئلہ ہی بدل گیا ہے‘ بھارت کے ناجائز قبضے سے جموں و کشمیر کی نجات اور جموں و کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کا مطالبہ جو اوّل دن سے پاکستان کا اصول اور قومی مؤقف تھا اور ہے اور جسے دستور کی دفعہ ۲۵۷ میں ملک و قوم کا وہ مؤقف قرار    دیا گیا ہے جس پر کوئی فرد سمجھوتا کرنے کا مجاز نہیں‘ اب اس کا ذکر غائب ہے اور بات صرف     نرم سرحدوں (soft border) اور سرحدات کو غیرمتعلق بنانے (making borders irrelevant ) کی ہو رہی ہے جس کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ امریکا اور بھارت کے مجوزہ ’’حل‘‘ پر سمجھوتا کرلیا جائے جس کے اہم اجزا یہ ہیں:

(ا) کشمیر کی مستقل تقسیم

(ب) دونوں حصوں میں کسی خاص شکل کی ’’خودمختاری‘‘

(ج) بھارت کے عمل دخل اور دراندازی کے لیے مستقل گنجایش

(د) امریکا کے لیے علاقے میں داخلے کی کھڑکی کھولنا۔

اور یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب کشمیر کی تحریکِ آزادی کا گلا گھونٹ دیا جائے‘ یا وہاں کی قیادت کو اس نئے نظام کا حصہ بنا لیا جائے یا پھر ان کو بے یارومددگار چھوڑ کر بھارتی فوج کے ہاتھوں ختم ہوجانے‘ یا مجبوری کے عالم میں غلامی کی کسی نئی شکل پر آمادہ ہوجانے کا سامان کیا جائے۔

آپ سات متبادلات (seven options) کا جائزہ لیں‘ یا تیسرے حل (third option) کی بات کریں‘ یا امریکی اسٹڈی گروپ اور فاروق کٹھواری جیسے لوگوں کی پیش کردہ اسکیموں کو دیکھیں‘ سب کا مرکزی خیال یہی ہے اور اب جنرل صاحب جو نقطہ نظر پیش فرما رہے ہیں وہ اس امریکی بھارتی ایجنڈے سے مختلف کوئی چیز نہیں۔ بھارتی اخبار دی ہندو کے نائب مدیر  سدھارتھ وراداراجن نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں جنرل مشرف اور من موہن سنگھ کی دلّی ملاقات کے بعد حالات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ اس میں اپنے اصولی مؤقف سے پاکستان کی پسپائی اور بھارت کے اپنے ایجنڈے کے مطابق معاملات کو آگے بڑھانے کی پوری تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ (ملاحظہ ہو‘ Slaying the Demons of Distrust ‘نیوزلائن‘ مئی ۲۰۰۵ئ)

اور جس اعتماد (trust) پر اب سارا کاروبار مملکت چلانے اور بھارت سے کشمیر سمیت سارے معاملات طے کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں اس کا حاصل تو صرف یہ نظر آرہا ہے کہ مقصد اور ترجیح بھارت کا اعتماد حاصل کرنا ہے۔ پاکستان کے اہداف‘ مقاصد اور مفادات‘ پاکستانی عوام کی تمنائیں اور عزائم اور سب سے بڑھ کر انصاف اور عدل کے تقاضے‘ کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے حقوق اور ان کی آزادی سب ثانوی بلکہ غیرمتعلق ہوکر رہ گئے ہیں۔ دیکھیے بھارت کے اخبار انڈین ایکسپریس نے اپنی ایک تازہ اشاعت میں اس صورت حال کو کس طرح پیش کیا ہے:

"Now that the April Foreign Policy euphoria is over, the party poopers are out with full force. The question is again being asked : Can we trust Gen Musharraf?

اب‘ جب کہ خارجہ پالیسی کا اپریل کا سرخوشی کا عالم گزر چکا ہے‘ پارٹی کے ڈھنڈورچی پوری طاقت سے میدان میں آگئے ہیں‘ یہ سوال پھر پوچھا جا رہا ہے: کیا ہم جنرل مشرف پر بھروسا کرسکتے ہیں؟

یہ سوال اٹھانا ظاہر کرتا ہے کہ ہم نے واقعتا کوئی چیز دی ہے۔ لیکن سادہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قطعاً کوئی رعایت نہیں دی۔ سرحد کے ردوبدل‘ کشمیر میں سی بی ایم کی ترجیح‘ سب پر ہماری پوزیشن پہلے جیسی ہے۔ اس وقت تو ہم سے زیادہ پاکستان کو ایڈجسٹمنٹ کرنا ہے۔

اس کے بعد موصوف کہتے ہیں کہ بھارت کے لیے سلامتی اوّلین اہمیت کی حامل ہے اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔ نیز پاکستان پر امریکی دبائو شدید ہیں اور وہ پاکستان کو یہ بھی خوف دلاتے ہیں کہ زمینی حالات بدل گئے ہیں اور اب کشمیر میں پاکستان کی تائید بہت کم ہے‘ لکھتے ہیں:

کشمیر کے اندر پاکستان کی حمایت اپنی زیریں ترین سطح پر ہے۔ پاکستان پر امریکی دبائو بھی اپنی کاٹ دکھا رہا ہے اس لیے کہ ان کا دہشت گردی کے بارے میں تصور تبدیل ہوچکا ہے۔ (دی نیشن‘ ۱۷ مئی ۲۰۰۵ئ)

ان تمام امور کے ساتھ اس بات پر بھی غور کریں کہ جنرل صاحب نے تازہ ترین دعویٰ یہ بھی کر دیا ہے کہ:

میرا خیال ہے کہ حل موجود ہے۔ مجھے اس پر یقین ہے اور میں وہ حل جانتا ہوں کہ جو بھارت‘ پاکستان اور کشمیری عوام کے لیے قابلِ قبول ہونا چاہیے۔ (ڈان‘ ۲۱ مئی ۲۰۰۵ئ)

اس میں وہ بھارت کی ’’سیکولر حساسیت‘‘ (secular sensitivity) کے آگے بھی سپرڈالتے نظر آرہے ہیں اور دو قومی نظریہ‘ حق خود ارادیت اور حاکمیت کے تمام اصولوں کو ترک کرکے یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ:

اس لیے ضروری ہے کہ یہ عوام کی بنیاد پر‘ علاقے کی بنیاد پر ہو۔ علاقہ متعین کیا جائے لوگوں کو سیلف گورننس دی جائے‘ غیرفوجی علاقہ بنایا جائے اور کچھ ایسے کام کریں کہ سرحدوں کا سوال غیرمتعلق ہوجائے۔

اس پوری تقریر میں زیادہ سے زیادہ اپنی حکمرانی (maximum self governance) اور سرحدوں کو غیرمتعلق بنانا کلیدی تصورات ہیں جن کے صاف معنی یہ ہیں کہ اب آزادی اور حق خود ارادیت کا مسئلہ تو باقی ہی نہیں رہا۔ بھارت جوچاہتا تھا کہ جموں و کشمیر کے علاقے دونوں ملکوں کے زیراثر رہیں‘ ان کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دے دی جائے (جو خود بڑا دھندلا تصور ہے اور جس کا تجربہ مقبوضہ کشمیر میں شیخ عبداللہ کے زمانے میں ہوچکا ہے) اور یہ اضافہ کردیا جائے کشمیر کے تمام حصوں کے درمیان سرحد غیرمتعلق ہوجائے۔ سرحد محض ایک سرحدی لکیر کا نام نہیں‘ یہ کسی ملک یا علاقے کی حاکمیت کی علامت ہے۔ اور اگر یہی غیرمتعلق ہوجائے تو پھر سیاسی آزادی اور علاقائی سلامتی دونوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔

واضح رہے کہ من موہن سنگھ نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف لینے کے بعد جو پہلی بات کی‘ وہ نرم سرحدوں کی تھی۔ اسی بات کو اب جنرل صاحب دہرا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ دہلی میں ان کے اس ارشاد کو بھی شامل کر لیجیے کہ کشمیر کے مستقبل کے نظام میں حریت کانفرنس کی قیادت کے ساتھ عمرعبداللہ اور محبوبہ مفتی کا بھی کردار ہوگا۔ اور شاید اس نہلے پر دہلا لگاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ پانی کے مسائل کا حل یہ ہوسکتا ہے کہ بگلیہار اور کشن گنگا کے ڈیم وغیرہ کے سلسلے میں مشترک نگرانی کا نظام قائم کیاجائے۔

اس سارے معاملے  کا ایک اور تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ متبادل حلوں کے اس سارے کھیل نے خود کشمیری قیادت کو بانٹ دیا ہے اور ان کے درمیان شدید کنفیوژن کی کیفیت ہے۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس منقسم ہے اور اب ایک طرف میرواعظ عمر فاروق اور عمرعبداللہ (نیشنل کانفرنس) کے ساتھ ایک محاذ پر جمع ہونے کی باتیں کر رہے ہیں تو دوسری طرف سردار عبدالقیوم اپنی تاریخی پوزیشن تبدیل کرکے سات حلوں کے گن گانے لگے ہیں اور کشمیریوں کو ’’کسی بھی قسم کی خودمختاری‘‘ مل جانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ البتہ مجاہدین اور وہ کشمیری لیڈر جو اپنی اصولی پوزیشن پر مردانہ وار ثابت قدم ہے اور ہر خطرہ مول لینے کو تیار ہے‘ سید علی شاہ گیلانی ہے جو پاکستان کا سب سے مضبوط قلعہ ہے لیکن وہ اب یہ کہنے پر مجبورہوگیا ہے کہ ’’ہم نہ تھکے ہیں اور نہ دبے ہیں لیکن پاکستان کی قیادت غالباً تھک گئی ہے اور وہ اب کشمیر کی تحریکِ حریت کی وکالت ترک کر کے بھارت کے مؤقف کی وکالت پر اتر آئی ہے‘‘۔ وہ ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ کہتے ہیں:

آج کشمیر ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اب بگلیہار اور کشن گنگا ڈیم کے مسائل اہم ہوگئے ہیں۔ صحافیوں‘اداکاروں‘ گلوکاروں اور عوامی وفودکی آمدورفت شروع ہوگئی ہے۔ پاکستان اور بھارت باہم شیروشکر ہورہے ہیں اور یہ سب کچھ اس کے باوجود ہورہا ہے کہ کشمیر پر بھارت کا قبضہ برقرار ہے اور یہاں ظلم و ستم کا بازار اسی طرح گرم ہے‘ بلکہ فوجی مظالم میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

جہاں تک ہمارا تعلق ہے‘ ہم زنجیرغلامی کو کاٹنے کے لیے اپنا کام کرتے رہیں گے‘   بے وفائی کرنے والوں کی اپنی منزل تاریک ہے۔

ذھنی شکست خوردگی

جنرل پرویز مشرف اپنی خطرناک قلابازی (u-turn) کے باوجود قوم سے یہی کہہ رہے ہیں کہ ان پر بھروسا کیا جائے‘ وہ کشمیر کے کاز سے کبھی بے وفائی (betray) نہیں کریں گے۔ قوم ان کے اس اعلان پر کیسے بھروسا کرسکتی ہے؟ قوم یہ دیکھ رہی ہے کہ تین سال سے کشمیر کے مسئلے پر وہ مسلسل پسپائی اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں اور اس طرح وہ قول و قرار کے معاملے میں سخت ناقابلِ اعتبار ثابت ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ میں ایوب‘ یحییٰ اور ضیاء کی طرح نہیں ہوں کہ اپنے اقتدار کو دوام دینے کی کوشش کروں لیکن عملاً انھوں نے ایوب اور ضیاء ہی کے نقش قدم پر چلنا پسند کیا‘ ریفرنڈم کا ڈھونگ بھی رچایا اور جس طرح ضیاء الحق نے ۹۰ دن کا وعدہ کر کے وعدہ خلافی کی‘ اسی طرح جنرل پرویز مشرف نے بھی دسمبر ۲۰۰۴ء میں وردی اتارنے کا عہدوپیمان کرکے عہدشکنی کی۔ دستور کی حفاظت کا حلف لے کر دستور کو پامال کیا‘ سیاست میں فوج کی عدم مداخلت کا عہد کرکے فوج کو سیاست میں ملوث کیا اور اب اسے بدستور ملوث رکھنے پر مصر ہیں۔ اس ریکارڈ کی موجودگی میں ان کے عہدوپیمان پر کون بھروسا کرسکتا ہے۔ اور ان کے الفاظ اور حقیقت کے فرق کو کون نظرانداز کرسکتا ہے کہ موصوف نے کوئٹہ میں اسٹاف کالج میں خطاب کرتے ہوئے‘ یہاںتک کہہ دیا ہے کہ ملک میں جمہوریت قائم ہے‘ نظامِ حکومت وزیراعظم چلا رہے ہیں اور فوج کا سیاست میں کوئی دخل نہیں! کیا دن کو رات اور رات کو دن کہنے اور چوری اور سینہ زوری کی اس سے تابناک مثال بھی مل سکتی ہے؟

پھر وہ کہتے ہیں کہ میں کسی کے دبائو میں فیصلے نہیں کرتا حالانکہ جس طرح امریکا کے    دبائو میں وہ ۲۰۰۱ء سے مسلسل اقدامات کر رہے ہیں اور اب بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں (واضح رہے کہ ۶ جنوری ۲۰۰۱ء کے پاک بھارت اعلامیے کے بارے میں امریکا کے     سابق وزیرخارجہ کولن پاول کا یہ اعلان اب ریکارڈ کا حصہ ہے کہ اس کا مسودہ ان کا تیار کردہ تھا (ملاحظہ ہو‘ ڈان ۱۱ مئی ۲۰۰۵ء کے شمارے میں سابق خارجہ سیکرٹری شمشاد احمد کا مضمون CBMs:not a final solution) وہ بالکل واضح ہے۔ اور باب ووڈ ورڈ کی کتاب    Bush at War میں پاکستان کے جنرل پرویز مشرف کے ذلت آمیز طریقے سے ہتھیار ڈالنے (abject surrender) کی جو تفصیلات ملتی ہیں اس کی روشنی میں کون اس بات پر یقین کرے گا کہ جنرل پرویز مشرف کے بنیادی فیصلے واشنگٹن میں نہیں‘ اسلام آباد میں ہوتے ہیں۔ خود ان کے وزیر کہتے ہیں کہ اگر ہم نے بش کا ساتھ نہ دیا ہوتا تو ہمارا حشر بھی افغانستان اور عراق جیسا ہوتا۔ کیا اس کے بعد بھی کسی ثبوت کی ضرورت ہے کہ یہاں فیصلے بیرونی دبائو کے تحت ہو رہے ہیں یا ملکی حاکمیت اور قومی وقار اور مفادات کے مطابق۔

جنرل صاحب بار بار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ دنیا کے حالات بدل گئے ہیں‘ اورنائن الیون کے بعد اب قوت کے استعمال سے سیاسی فیصلے نہیں ہو سکتے‘ حالانکہ نائن الیون کا اگر کوئی سبق ہے تو صرف یہ کہ اس کے بعد صرف قوت ہی کے ذریعے فیصلے ہو رہے ہیں۔ جو کمزور ہے یا قوت کا استعمال کرنے کا عزم اور داعیہ نہیں رکھتا‘ اس کے مقدر میں محکومی کے سوا کچھ نہیں۔ نیز یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قوت کا جواب قوت ہی سے دیاجاسکتا ہے اور امریکا اپنی ساری عسکری اور ٹکنالوجیکل برتری کے باوجود‘ نہ پورے افغانستان پر اپنا اقتدار مسلط کرنے میں کامیاب ہے اور نہ عراق پر‘ بلکہ پوری دنیا نائن الیون کے بعد‘ پہلے سے زیادہ غیرمحفوظ ہوگئی ہے۔ دہشت گردی کو دہشت گردی سے ختم کرنے کی حکمت عملی یکسر ناکام ہوگئی ہے‘ نیز دہشت گردی کے اسباب دُور کرنے کے بارے میں زبانی جمع خرچ کے باوجود‘ اس سمت میں کوئی مؤثر اقدام دنیا میں کسی جگہ بھی‘ (بشمول فلسطین‘ کشمیر‘ شیشان‘ فلپائن‘ تھائی لینڈ) نہیں کیا گیا۔ بدقسمتی سے کشمیر میں امریکا اور بھارت کے دبائو میں جنرل پرویز مشرف نے تو تحریکِ آزادی سے براء ت کا اعلان کر دیا ہے اور اسے دہشت گردی کے خانے میں رکھ دیا ہے لیکن بھارت کی ریاستی دہشت گردی اسی طرح جاری ہے بلکہ روز افزوں ہے۔ دوسری طرف حق خودارادیت ہی سے دست برداری کا راستہ اختیار کر کے ’’زیادہ سے زیادہ خودمختاری‘‘ علاقائی تقسیم اور کھلی سرحدوں کی باتیں ہورہی ہیں جو تنازع کے اسباب دُور کرنے کے بجاے‘ ان کو دائمی شکل دینے اور نہ ختم ہونے والی پنجہ آزمائی کا سامان فراہم کرنے کے مترادف ہے۔

سیدھی اور واضح بات یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف ذہنی شکست قبول کرچکے ہیں اور اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کے لیے سیاسی ملمع آرائی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سیاسی‘ معاشی اور عسکری قوت میں عدمِ مساوات کوئی نئی بات نہیں اور دنیا میں سیاسی نقشے اس عدمِ مساوات کے باوجود بدلے ہیں اور بدلتے رہیں گے۔ کیا آج افغانستان میں امریکی افواج اور نہتے عوام کے درمیان قوت کی مساوات ہے؟ کیا عراق میں یہ مساوات ہے؟ کیا دنیا کے ۱۴۰ ممالک جو گذشتہ ۵۰سال میں عظیم اور طاقت ور استعماری قوتوں کے چنگل سے جنگِ آزادی لڑکر آزاد ہوئے ہیں عسکری مساوات کے ساتھ جدوجہد کر رہے تھے؟ کیا بھارت کو ۱۹۸۹ء کے بعد کشمیر میں جس مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ عسکری مساوات پر مبنی ہے؟ آج بھی جس جہادی تحریک سے بھارت پریشان ہے اور تلملا رہا ہے اس کے بارے میں اس کے اپنے چیف آف اسٹاف کا قول ہے کہ زیادہ سے زیادہ ۱۰ ہزار مجاہد (جنھیں وہ دہشت گرد کہتا ہے) میدان میں ہیں اور بھارت کی ۹ لاکھ فوج ان کو قابو نہیں کر پا رہی ہے۔بات مساوات کی نہیں‘ اصل مسئلہ ایمان‘ عزائم اور اپنے اہداف کے حصول کے لیے استقلال اور پامردی کا ہے۔ کارگل کے معرکے میں بھی اصل فاتح بھارتی فوج نہیں وہ شہید کرنل ہے جس نے تن تنہا بھارتی فوج کو خون کے آنسو رلا دیے اور جس کی شجاعت اور استقامت پر بھارتی فوج نے بھی رشک کیا!

پاکستان کوئی کاغذی مملکت (banana republic) نہیں۔ یہ ریاست الحمدللہ ایک نیوکلیر پاور اور ایک عظیم قوم کی روایات کی امین ہے جو اپنے ایمان‘ عزت اور آزادی کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے باب میں شاندار ریکارڈ رکھتی ہے۔ پاکستانی قوم نے گذشتہ ۵۷ برسوں میں اپنا پیٹ کاٹ کر فوج کو جو وسائل فراہم کیے ہیں اور جسے آپ خود ناقابلِ تسخیر دفاعی قوت کہتے ہیں وہ کس لیے ہے۔ کیا بین الاقوامی تعلقات کا یہ ایک مسلمہ اصول نہیں کہ جنگ خارجہ پالیسی کا ایک آلہ ہے (war is an instrument of foreign policy)۔ اگر جنگ امریکا‘ برطانیہ‘ روس‘ اسرائیل‘ بھارت کے لیے خارجہ سیاست کا ایک آلہ کار ہے تو دوسروں کے لیے کیوں ممنوع ہے۔ بلاشبہہ جنگ نہ مطلوب ہے  اور نہ محمود‘ لیکن اگر ضرورت پڑے تو آزادی اور  حاکمیت کی حفاظت کے لیے یہی مؤثر ترین راستہ ہوتا ہے۔ اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں اور پہلے سے اس دروازے کو بند کردینا دراصل اپنی آزادی اور حاکمیت کو دائو پر لگانے کے مترادف ہے۔ یہ مذہبِ گوسفنداں تو ہو سکتا ہے‘ اسے کیشِ مرداں قرار نہیں دیاجاسکتا۔

پھر ایک دعویٰ یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے بس یہ نادر موقع ہے جسے اگر ہم نے گرفت میں نہ لیا تو ہمیشہ کے لیے ضائع ہوجائے گا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت سے زیادہ ناسازگار وقت اس مسئلے کے حتمی حل کے لیے کبھی نہ تھا۔ اس وقت تو ضرورت اس کی ہے کہ تحریکِ آزادی کی حفاظت کی جائے‘ مناسب تیاری ___ عسکری اور معاشی اور سب سے بڑھ کر ملک میں قومی مفاہمت اور یک رنگی ___ جاری رکھی جائے اور صحیح وقت کا انتظار کیا جائے۔ بھارت کے لیے قبضے کی قیمت (cost of occupation) کو جتنا بڑھایا جا سکتا ہو‘ بڑھایا جائے‘ لیکن پورے تحمل اور حکمت و تدبیرکے ساتھ۔ یہ وقت دوستی کی پینگیں بڑھانے کا نہیں‘ مسئلے کو زندہ رکھتے ہوئے رکھ رکھائو کے ساتھ مناسب وقت کے انتظار کا ہے۔ نیز ہر اس اقدام سے مکمل اجتناب کیا جائے جو جموں و کشمیر کے عوام اور ان کی قومی تحریکِ مزاحمت کو کمزور کرنے والی یا ان کی توقعات پر اوس ڈالنے والی ہو۔ اور یہی رائے ان تمام افراد کی ہے جن کی نگاہ دنیا کے حالات‘ پاکستان کے لیے کشمیر کی اہمیت اور بھارت کے اپنے حالات پر ہے۔ جنرل صاحب کی یہ      بے قراری کہ ان کے عہدِحکومت اور من موہن سنگھ کے عہدحکومت میں مسئلے کا آخری حل نکل آئے‘ خودغرضی اور بے بصیرتی کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان کی خارجہ سیاست کے تمام اہم کردار متنبہ کر رہے ہیں کہ یہ وقت جلدبازی میں کوئی اقدام کرنے کا نہیں ہے۔

تجربہ کار سفارت کاروں کا اضطراب

آغا شاہی اور حمید گل تو بار بار کہہ چکے ہیں لیکن اب تو وہ لوگ بھی بولنے پر مجبور ہوگئے ہیں جو خاموش سفارت کاری سے آگے کبھی نہ بڑھتے تھے۔ مثلاً:

سابق خارجہ سیکرٹری شمشاد احمد جو کارگل کے وقت بھی اس عہدے پر فائز تھے ڈان میں اپنے مضمون: CBMs: Not a Final Solution (۱۱مئی ۲۰۰۵ئ) میں متنبہ کرتے ہیں کہ یہ وقت فیصلے کا نہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

ہر صورت میں‘ دونوں ملکوں کے تعلقات کی اشتعال انگیز تاریخ اور ماضی کے تجربات کے پیش نظر غیرحقیقی امیدیں قائم کرنے یا نتائج نکالنے میں محتاط ہونا چاہیے۔ دونوں طرف بداعتمادی اور اندیشوں کی گہری جڑیں ہیں‘ اور محض شعلوں پر پھونکیں مارنے یا نیک خواہشات کرنے سے یہ تحلیل نہ ہوجائیں گے۔ بھارت اور پاکستان دونوں کو اس کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے گہرائی میں جانا ہوگا۔

اعتماد سازی کے اقدامات بہتر ماحول پیدا کرنے کے لحاظ سے اس عمل میں معاون ہوسکتے ہیں لیکن یہ تنازعات حل کرنے کا متبادل نہیں ہیں۔ یہ حیرانی کی بات نہیں کہ لچک کی یک طرفہ پیش کشوں کے باوجود صدرمشرف متنبہ کرتے رہے ہیں کہ جب تک تہ میں پوشیدہ مسائل حل نہ پیش کیے جائیں گے‘ تنازعات پھر بھڑک اٹھیں گے۔ جو کام پیش نظر ہے‘ وہ آسان نہیں ہے۔ متعلقہ مسائل کی پیچیدگی کے بارے میں کوئی فریب نظر نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں ان کی مزید ضرورت ہے اور اسے برقرار رکھنا چاہیے لیکن جلدبازی میں ایسے فیصلوں کی طرف نہیں جانا چاہیے جو دونوں ممالک میں داخلی طور پر حکومت یا شخصیات کی تبدیلی کے بعد برقرار نہ رہ سکیں۔

ہمیں ضرورت ہے کہ پاکستان میں بھارت کے لیے اپنی تبدیل شدہ پالیسی کے بارے میں قومی اتفاق راے پیدا کریں۔ اس کے لیے شفافیت اور داخلی محاذ پر حقیقی قومی کوشش کے ذریعے اعتماد سازی کی ضرورت ہوگی‘ بحث اور اتفاق کے لیے ہوٹلوں کی لابیوں میں نہیں بلکہ پارلیمنٹری چیمبرز میں تمام متعلقہ سیاسی عناصر کے اشتراک کے ساتھ۔

ایک سابق سفیر جاوید حسن ڈان (۱۸ مئی ۲۰۰۵ئ) میں Kashmir: The  Time Factor کے عنوان سے اپنے مضمون میں حالات کی سنگینی پر قوم اور قیادت کو متنبہ کرتے ہیں اور صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ یہ وقت آخری حل کے لیے سب سے زیادہ ناموزوں ہے۔ اس وقت بہترین حکمتِ عملی اس مسئلے پر holding on operation (برقرار رکھنے کا عمل) ہے نیز آخری فیصلے کے لیے تیاری کی جائے جو ان کے خیال میں اگلے ۲۵ سال میں ہوسکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

اگر ہم ربع صدی کے اس طویل وقفے کے بعد بھارت کے مقابلے میں مضبوط پوزیشن میں ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں داخلی سیاسی استحکام کو مضبوط کرنا چاہیے۔ قومی سطح پر ایک منظور شدہ سیاسی فریم ورک کے اندر جس میں نمایندہ اداروں کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے‘ افراد پر انحصار کے بجاے ادارے تعمیر کیے جائیں‘ قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنایا جائے اور میرٹ پر فیصلے کرنے کے اصول پر عمل کیا جائے۔

اس کے ساتھ ہی ہمیں ملک کی معاشی ترقی میں اضافہ کرنا چاہیے۔ اس کے لیے قومی وسائل کا زیادہ بڑا حصہ معاشی ترقی کے لیے مختص کر کے تعلیم‘ سائنس اور ٹکنالوجی کو اپنی معاشی منصوبہ بندی میں زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ اس کا تقاضا ہوگا کہ ہم اپنے دفاعی اخراجات پر سخت کنٹرول کریں اور ممکنہ کم ترین قیمت پر قابلِ لحاظ سدّجارحیت برقرار رکھیں۔

کشمیر کے تنازعے کے عاجلانہ آخری حل کی توقع یا تو موجودہ حقائق کے بارے میں شدید غلط فہمی پر مبنی ہے یا اس مفروضے پر مبنی ہے کہ پاکستان کا مستقبل اس کے ماضی سے بہتر نہیں ہوگا۔ یہ مفروضہ اتنا مایوس کن اور شکست خوردہ ہے کہ قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارا گذشتہ ایک دو سال کا تجربہ بتاتا ہے کہ بھارت کشمیر کے آخری حل کے لیے ہماری  بے صبری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم سے یک طرفہ رعایتیں حاصل کرے گا۔

سابق سفیر اور خارجہ سیکرٹری اقبال اخوند اپنے مضمونKashmir: denouement or sell out  ( ڈان ‘۲۹ اپریل ۲۰۰۵ء )  میںاپنے شدید اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے متنبہ کرتے ہیں کہ جلدی میں کوئی اقدام نہ کریں۔ وہ لکھتے ہیں:

کشمیر کے تنازعے کا معاملہ تو ایک طرف رہا‘ مشرف من موہن سنگھ معاہدہ ایسا ہے جو سیاچن یا بگلیہار یا تنازعے کے دوسرے ضمنی مسائل تک کے بارے میں کچھ نہیں کہتا۔ یہ سری نگر مظفرآباد بس سروس‘ ٹرکوں کے ذریعے تجارت کے اضافے اور منقسم ریاست کے دوسرے علاقوں اور شہروں کے درمیان بھی ایسی ہی سروس کے اجرا کی تجویز دیتا ہے۔ کیا لائن آف کنٹرول کی یہ نرمی (ایک طرح کا جواز فراہم نہ بھی کرے تب بھی) عملاً اس کو استحکام دینے کے مصداق نہیں ہے؟

اس طرح ہمارے آپشن کم ہوجاتے ہیں‘ (اور کافی عرصے سے کم ہیں) کہ اپنی پوزیشن پر کھڑے رہیں یا میدان جیسا بھی ہے‘ اس میں کھیلیں۔ لیکن جب کوئی کشمیر پر ہمارے اصولی مؤقف پر قائم رہنے کی بات کرتا ہے تو اس کے ٹھیک ٹھیک کیا معنی ہوتے ہیں؟مسئلہ کشمیر کا اساسی غیرمتبدل اصول (صرف اس لیے نہیں کہ یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں لکھا ہوا ہے) حق خود ارادیت کا اصول ہے اور یہ کشمیری عوام کو نظرانداز کر کے کنٹرول لائن پر سمجھوتے کو خارج از بحث قرار دیتا ہے۔ شروع ہی سے بھارت اس بات کے حق میں رہا ہے کہ ’’جس کو ملے وہی پائے‘‘ کے اصول پر تقسیم کرلی جائے لیکن اب اس ملک میں کچھ امن کے حامی ایسے ہیں جو آگے جانے کے لیے تیار ہیں۔ یقینا پاکستان کے پاس کشمیر پر بھارت کے قبضے کو قبول کرنے اور جائز قرار دینے کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز نہیں ہے‘ اور نہ کوئی عملی سیاسی دلیل ہے کہ وہ اپنا حصہ رکھنے کے تبادلے میں ایسا کرے۔

بلاشبہہ معاہدئہ دہلی پر خاصا شور شرابا ہے مگر یہ ماحول دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی اہمیت کے بغیر نہیں ہے جہاں کے عوام جذباتی ہنگامہ آرائی کی لہروں کے ساتھ ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف بہہ جانے کے عادی ہیں۔ کشمیر میں بس سروس اور تجارتی راستے کھولنے سے کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ یہ ایسا آغاز ہیں جن کے حتمی نتیجے کی کوئی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی۔ منقسم کشمیریوں کا باہم ملنا جلنا خود اپنی ایک حرکیات پیدا کرسکتا ہے۔ بھارت کو بھی زمینی حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا اور اس کے مضمرات کو تسلیم کرنا ہوگا۔ بھارت کا کشمیر کو ۵۰برس سے اپنا اٹوٹ انگ کہنے نے اس حقیقت کو تبدیل نہیں کیا ہے کہ بھارت کا کشمیر پر قبضہ ہمیشہ کی طرح غیریقینی رہے گا۔

کسی بھی صورت میں کشمیر پر پیش رفت خط مستقیم پر نہیں ہوگی۔ یہ تسلیم کرنا چاہیے بھارت سے مذاکرات میں پاکستان کسی ہموار میدان میں نہیں کھیل رہا۔

سفارتی میدان میں آپ کا کھیل کرکٹ نہیں ہوتا۔ آپ اس پر انحصار نہیں کرسکتے کہ کوئی انضمام نامی سفارت کار آخری گیند پر چوکا لگائے اور ٹرافی جیت لائے۔

قائداعظم یونی ورسٹی کے سابق ڈین پروفیسر اعجاز حسین کی بات بھی ریکارڈ پر لانے اور اس پر غوروفکر کی ضرورت ہے‘ وہ لکھتے ہیں:

مشترکہ اعلامیے میں جنگ بندی پر کوئی دفعہ نہیں ہے‘ وادی سے بھارتی افواج کو واپس بلانے پر کوئی وعدہ نہیں ہے اور بھارتی سکیورٹی فورسز کے ریاستی دہشت گردی کے اقدامات کو روکنے کا کوئی وعدہ نہیں ہے۔ اسی طرح اس میں سیاچن‘ سرکریک یا بگلیہار پر کسی پیش قدمی کا کوئی بیان نہیں ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر اُمیدوں سے بھی زیادہ کامیابی کے وعدے حیران کن ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ انھوں نے جو مبالغہ آمیز دعویٰ کیا ہے‘ اس کی کیا بنیاد ہے؟ انھوں نے اسے کشمیر کے تنازعے کو حل کرنے کی تلاش میں بھارتی قیادت کے خلوص کے حوالے سے بیان کیا۔ واہ‘ کیا سادگی ہے!

مشترکہ بیان کے مطابق امن کا عمل ناقابلِ واپسی ہے۔ یہ مشرف کے اس سابقہ دعوے سے بہت نیچے اترنا ہے کہ کشمیر کے تنازعے کو حل کرنے میں ناکامی امن کے عمل کو روک دے گا۔ اس پسپائی کے بعد ایک اور پسپائی آئی۔ صدر نے اپنی سابقہ پوزیشن کی جو گذشتہ سال کئی موقعوں پر بیان کی تھی کہ کشمیر کا تنازع حل کرنے کے لیے ایک حتمی تاریخ کا تعین کیا جائے‘ خود ہی تردید کردی۔ ان قلابازیوں پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ان کی بھارت پر عنایات کا تسلسل ہے۔ بشمول اقوام متحدہ کی قراردادوں سے دستبرداری‘ کشمیر کے حل کے لیے نارملائزیشن کی اہمیت اور کشمیر میں روا مسلح جدوجہد کو دہشت گردی قرار دینا۔ کہا جا سکتا ہے کہ امن کے عمل کو ناقابلِ واپسی قرار دے کر کشمیر پر یوٹرن کو مکمل کرلیا گیا۔

پس کشمیر کی پالیسی جس پر صدر عمل پیرا ہیں اور جس کی مغرب اور بھارت حمایت کر رہے ہیں‘ امن کے عمل کی کامیابی کے لیے خوش آیند نہیں۔ کشمیر پر کوئی امن دیرپا ہونا ممکن نہیں ہے جو کشمیر پر قومی اتفاق راے کی مضبوط بنیادوں پر نہ ہو۔ صدر کو یاد رکھنا چاہیے کہ کشمیر پاکستان کی کئی حکومتوں کا قبرستان بن چکا ہے۔

فیصلے کی گہڑی

یہ ہے پاکستانی تجربہ کار سفارت کاروں اور دانش وروں کی سوچ جو قوم کی اجتماعی سوچ کی نمایندگی کرتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف اسے یکسرنظرانداز کرکے جس ایجنڈے پر بگٹٹ رواں دواں ہیں‘ وہ صرف ہزیمت اور تباہی کا راستہ ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ان کو اس میں مزید پیش قدمی سے روکا جائے اور قوم اپنے تشخص‘ آزادی‘ اسٹرے ٹیجک مفادات اور اپنے ڈیڑھ کروڑ کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہو۔ جس مشکل مقام پر جنرل صاحب نے ہمیں پہنچا دیا ہے‘ اس کی بڑی وجہ ملک میں فردِ واحد کا اقتدار اور قومی اداروں کے ذریعے اور قوم کو اعتماد میں لے کر قومی امور پر فیصلے نہ کرنے کا رجحان ہے جو ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ یہی جمہوریت اور آمریت کا بنیادی فرق ہے۔ جمہوریت میں اگر ایک طرف دستور کی بالادستی ‘ قانون کی حکمرانی اور قومی احتساب اور جواب دہی کا نظام مؤثر ہوتا ہے تو دوسری طرف فیصلہ سازی کے لیے اداروں پر انحصار کیا جاتا ہے‘ اور بحث و مشاورت کے نتیجے میں قومی امور پر فیصلہ قومی اتفاق راے سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود کشمیر پالیسی کے صحیح خطوط پر مرتب ہونے اور چلائے جانے کا انحصار جمہوریت کی مکمل بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی میں ہے۔ جنرل صاحب جو کچھ کر رہے ہیں اس میں نہ انھوں نے کابینہ کو اعتماد میں لیا ہے‘ اور نہ پارلیمنٹ کو‘ حتیٰ کہ پارلیمنٹ کی کشمیرکمیٹی تک کو کسی معاملے میں شریکِ مشورہ نہیں کیا گیا۔ بس ایک شخص حالات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اس پالیسی سے انحراف کر رہا ہے جس پر پوری قوم کا اتفاق رہا ہے اور جو خود دستور میں مرتسم ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ایک بار پھر قوم کے تمام ذمہ دار عناصر پاکستان کی اصولی پالیسی کا اعادہ کریں اور قوم کو بیدار کریں تاکہ انحراف کرنے والے ہر قدم کو روک دیا جائے اور تحریکِ آزادی کشمیر کے شہیدوں کے خون سے بے وفائی نہ کرنے دی جائے ‘خواہ اس کے لیے جدوجہد کتنی ہی طویل اور صبرآزما کیوں نہ ہو۔

سب کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی سرحدی تنازع نہیں جیسا کہ چین اور بھارت کے درمیان ہے۔ ہمارے سامنے اصل ایشو ریاست جموں و کشمیر کے حق خود ارادیت کا ہے جس کی پشت پر انصاف کے مسلمہ اصول‘ بین الاقوامی قانون‘ اقوام متحدہ کی قراردادیں اور جمہوریت کی متفق علیہ روایات ہیں اور جن کا تقاضا ہے کہ ریاست کے ڈیڑھ کروڑ انسان اپنی آزاد مرضی سے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کریں۔ یہی وہ حق ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے وہ جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ جغرافیہ‘ تاریخ‘ عقیدہ‘ ثقافت‘ معیشت ہر اعتبار سے ان کی تقدیر پاکستان سے وابستہ ہے اور انھوں نے ہر ممکن طریقے سے اس کا اظہار بھی کردیا ہے خواہ اس کا تعلق گھڑی کے وقت سے ہو‘ یا قومی ترانے سے‘ کھیل سے ہو یا سیاست سے‘ تہواروں سے ہو یا رسوم و رواج سے___ ان کے قومی ہیرو پاکستان کے اکابر ہیں‘ بھارت کے نہیں___  لیکن اس حقیقت کے باوجود پاکستان اور خود اہلِ کشمیر کا مؤقف یہ ہے کہ ان کو اپنی رائے کے اظہار اور اپنے مستقبل کو طے کرنے کا باقاعدہ موقع ملنا چاہیے۔

پاکستان ان کے اس حق کا وکیل ہی نہیں‘ اس پورے معاملے میں ایک بنیادی فریق ہے۔ گوجھگڑا زمین کا نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے اور اس طرح زمین کا مسئلہ بھی ریاست کے باسیوں کے مسکن ہونے کی حیثیت سے متعلق ہے کہ مکین اور مکان لاینفک ہیں۔ لیکن واضح رہے کہ اصل ایشو بھارت کے ناجائز قبضے سے نجات اور اہلِ کشمیر کا اپنی آزاد مرضی سے تقسیمِ ہند کی اسکیم کے تحت اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا ہے‘ زمین کی بندربانٹ اصل ایشو نہیں۔

پھر یہ بھی ایک مغالطہ ہے کہ کشمیر کے لوگ آسانیاں مانگ رہے ہیں۔ وہ تو اپنی آزادی اور شناخت کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور روزانہ شہادتیں پیش کر کے اور ہر ہر شہید کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد کی صورت میں خراجِ تحسین پیش کر کے‘ اپنے عزم اور مستقبل پر اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ مسئلہ ریلیف نہیں بھارت کے تسلط سے آزادی ہے۔

پاک بھارت دوستی کی کوئی بھی کوشش اسی وقت مفید ہوسکتی ہے جب وہ عزت اور برابری کے مقام سے ہو اور وہ اسی وقت بارآور ہو سکتی ہے جب اس کا ہدف بنیادی تنازع کے حق وا نصاف کے مطابق طے کیا جانا ہو جو تمام بگاڑ اور تصادم کا باعث رہا ہے۔ جو کچھ اس وقت کیا جا رہا ہے‘ وہ سراب ہے اور دھوکا___  اس سے کبھی بھی حقیقی دوستی جنم نہیں لے سکتی اور نہ کشمیر کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ ہم یہ کہنا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ حق و انصاف سے ہٹ کر جو بھی عارضی حل تلاش کیا جائے گا‘ وہ مزید تصادم اور تفرق کو جنم دے گا۔ پاکستانی قوم کسی ایسے انتظام کو کبھی قبول نہیں کرے گی جو کشمیری عوام کی تحریک آزادی سے بے وفائی پر مبنی ہو اور محض وقتی مفادات کے حصول کو سب کچھ سمجھ کر کیا گیا ہو۔ نیز کشمیری عوام بھی اپنی جدوجہد کو بے ثمر ہوتا نہیں دیکھ سکتے اور نہ وہ اپنے شہیدوں کے لہو سے غداری کے لیے تیار ہیں۔ ان کی جدوجہد بہرحال جاری رہے گی۔ اس لیے پاکستانی حکمرانوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ سراب کی تلاش میں وقت ضائع نہ کریں اور اصل حقائق کی روشنی میں مسائل کے حل کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔ سب سے زیادہ اپنی قومی یک جہتی کی فکر کریں اور وسائل کے صحیح استعمال کے ذریعے وہ قوت حاصل کریں جس کے بغیر ہم نہ اپنی آزادی کو محفوظ رکھ سکتے ہیں اور نہ اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے حق و انصاف کے حصول کو ممکن بنا سکتے ہیں‘ اس لیے کہ ع

ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات


(کتابچہ دستیاب ہے‘ قیمت: ۵ روپے‘ سیکڑہ پر رعایت۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جمہوری ممالک میں چار سے پانچ سال ایک ایسی مدت ہے جس میں ایک حکومت یا قیادت کی کارکردگی‘ پالیسیوں کی صحت و عدمِ صحت اور قبولیت یا غیر مقبولیت کو جانچنے کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو پاکستان کا بلاشرکت غیرے حکمران بنے‘ اب ساڑھے پانچ سال سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ اگرچہ ان کی اور ان کے امریکی سرپرستوں کی نگاہیں ۲۰۰۷ء اور ۲۰۱۲ء پر لگی ہوئی ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کے پائوں کے نیچے سے زمین تیزی کے ساتھ سرک رہی ہے۔ جن بلند بانگ دعوئوں کے ساتھ وہ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو فوج کی طاقت استعمال کرتے ہوئے اقتدار پر قابض ہوئے تھے وہ ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ ہوا کے رخ کا اندازہ لاکھوں افراد کے چار مظاہروں اور ۲ اپریل کی ملک گیر ہڑتال سے کیا جا سکتا ہے جو ساری سرکاری مخالفت‘ میڈیا کے ہیجانی طوفان‘ ملک کے طول و عرض میں متحدہ مجلس عمل کے ہزاروں کارکنوں کی پیش از ہڑتال گرفتاری اور پیپلز پارٹی کی زبانی ہمدردی لیکن ہڑتال سے مکمل عدم تعاون کے باوجود ایک مکمل اور مؤثر ترین عوامی احتجاج اور مجلس عمل پر عوامی اعتماد کا اظہار تھی۔

یہ عوامی جدوجہد مجلس عمل کی قیادت میں قانون کی پابندی اور جمہوری روایات کے مطابق ملک کی سیاست میں ایک نئی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ اس میں مجلس عمل کے کارکنوں کے ساتھ عوام کی بڑھتی ہوئی شرکت زمینی حقائق کی صحیح تصویرکشی کرتے ہیں۔ مجلس عمل نے تمام سیاسی قوتوں کو بشمول مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی اس قومی احتجاج میں شرکت کی دعوت دی لیکن  عمران خان (تحریکِ انصاف) کے سوا کسی نے بھرپور شرکت نہیں کی۔ اس طرح مجلس عمل کو تن تنہا اپنی عوامی قوت اور تائید کا اندازہ کرنے اور اسے کامیابی کے ساتھ متحرک کرنے کا بھی ایک   تاریخی موقع حاصل ہوگیا جس کا اعتراف ان تمام سیاسی تجزیہ نگاروں اور کالم نویسوں نے کیا ہے جو مجلس عمل کے مؤید نہ ہوتے ہوئے بھی سیاسی حقائق کا اعتراف کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے اور جن کا کام بقول سیکرٹری جنرل مسلم لیگ (ق) صرف ’’سرکاری سچ‘‘ کی تشہیر نہیں۔ رہا مجلس عمل کے احتجاج کا پُرامن اور جمہوری کردار اور منظم انداز کار‘ تو اس کا اعتراف تو جنرل پرویز مشرف تک کو  رائٹر کے نمایندے کو دیے جانے والے ایک حالیہ انٹرویو میں کرنا پڑا:

ان اجتماعات میں نظم و ضبط کا خیال رکھا گیا۔ (دی نیوز انٹرنیشنل‘ لندن‘ ۵اپریل ۲۰۰۵ئ‘ ص ۳)

حقیقی جمہوریت کے احیا‘ پاکستان کی آزادی اور حاکمیت کے دفاع‘ اس کے اسلامی تہذیبی تشخص کی حفاظت اور عوام کے مسائل کے حل اور مصائب سے نجات کے لیے جو عوامی تحریک اب شروع ہوگئی ہے‘ وہ اگر ایک طرف پاکستان کے مستقبل کے رخ کو متعین کرنے میں تاریخی  سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے تو دوسری طرف اس کے ذریعے وہ ایشوز بھی کھل کر قوم کے سامنے آگئے ہیں جو حکومت اور اس کو چیلنج کرنے والی عوامی قوت (مجلس عمل ) کے درمیان باعث نزاع ہیں۔ چونکہ یہ تحریک اب عوامی احتجاج کے دور میں داخل ہوگئی ہے اور صرف سیاسی کارکن ہی نہیں بلکہ  عام شہری‘ تاجر‘ دانش ور‘ علما اور طلبہ‘ سب اس میں شریک ہو رہے ہیں اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس تحریک کے مثبت قومی اہداف کو بالکل وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا جائے اور حکومت کے ترجمان اور ان کے حواری قلم کار حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کر کے اور جھوٹی خبروں سے کنفیوژن پھیلانے کی جو مہم چلا رہے ہیں اس کا پردہ پوری طرح چاک کر دیا جائے ۔

کہا جا رہا ہے کہ وردی کوئی مسئلہ نہیں‘ اصل مسئلہ تو معاشرتی ترقی اور میگا پروجیکٹس کی تکمیل کا ہے اور گویا حزب اختلاف ان کی مخالف ہے‘ جب کہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھی معاشی ترقی‘ ہمسایوں سے دوستی اور عالمی برادری سے ہم آہنگی کے لیے ساری دوڑ دھوپ کر رہے ہیں۔

آیئے اس امر کا جائزہ لیں کہ اصل مسئلہ ہے کیا؟

اقبال اور قائد کا تصور پاکستان

سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر ہم نے انگریز اور ہندو قیادت دونوں کے خلاف جنگِ آزادی کن مقاصد کے لیے لڑی تھی؟ اگر مسئلہ صرف معاشی ترقی اور میگا پروجیکٹس ہی کا تھا اور عالمی قوتوں سے ہم آہنگی اصل منزل مراد تھی تو پھر برطانیہ سے‘ جو اس وقت کی سوپر پاور تھی‘ اور جس کے استعماری راج کا ہدف ہی ترقی اور مغرب کے نمونے پر ملک کی تعمیر تھا‘ لڑائی کس بات کی تھی؟ ریل کی پٹڑی اور سڑکوں کا جال تو انگریز کے دور میں بچھا دیا گیا تھا۔ صنعتی انقلاب بھی اس دور میں شروع ہوگیا تھا‘ نیا تعلیمی نظام بھی انھی کا مرہونِ منت تھا۔ ان کا دعویٰ تھا ہی یہ کہ ہم ساری دنیا میں ترقی اور تہذیبِ نو کے پرچارک ہیں۔ پھر مخالفت اور تصادم کس لیے تھا؟

حالات کا جتنا بھی تجزیہ کیا جائے‘ یہ بات بالکل نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ اصل لڑائی آزادی‘ حاکمیت‘ اپنے دین‘ اپنی اقدار‘ اپنی تاریخ اور اپنے قومی و ملّی تشخص کی حفاظت اور ترقی کی تھی۔ معاشی ترقی وہی معتبر ہے جو قوم و ملک کی آزادی اور اقدارِ حیات کے مطابق اور ان کو تقویت دینے والی ہو۔ عالمی قوتیں ہوں یا ہمسایہ ممالک‘ سب سے دوستی اور تعاون صرف اس فریم ورک میں مطلوب ہے جس میں ملک و ملّت کی آزادی اور نظریاتی و تہذیبی تشخص مضبوط اور محفوظ ہو۔ صرف معاشی اہداف تو برطانیہ کی حکمرانی میں بھی حاصل ہوسکتے تھے اور آزادی کی صورت میں ملک کی تقسیم کے بغیر بھی مشترک مقاصد کی حیثیت اختیار کر سکتے تھے۔ پاکستان کے قیام کا اصل جواز (raison de'tere) تو یہ صرف یہ تھا کہ نہ صرف ملک آزاد ہو بلکہ مسلمان بھی آزاد ہوں اور وہ اپنے دین و ایمان‘ اپنے اصول و اقدار اور اپنے تہذیبی تشخص کی مناسبت سے ترقی کی منزلیں طے کر سکیں۔

علامہ اقبال ؒ نے آخری زمانے (مارچ ۱۹۳۸ئ) میں واضح کر دیا تھا کہ انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے سے ہمارا مقصد یہی نہیں کہ ہم فقط آزاد ہو جائیں‘ بلکہ ہمارا اول مقصد یہ ہے کہ اس آزادی کا نتیجہ اسلام کی بنیاد پر ایک دارالسلام کی صورت میں ظاہر ہو اور مسلمان طاقت ور بن جائیں لیکن اگر یہ نتیجہ حاصل نہ ہو سکے تو پھر ایسی آزادی پر ہزار مرتبہ لعنت۔ (مقالاتِ اقبال، مرتبہ عبدالاحد معین‘ ص ۳۳۷-۳۳۸)

قائداعظمؒ نے قرارداد لاہور سے بھی پہلے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ:

وہ لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہوجائیں اور اپنے مطالبات پیش کرنے میں خوف و خطر کو پاس نہ پھٹکنے دیں۔ نیز اپنے ملّی‘ مذہبی‘ معاشرتی اور روایاتی حقوق کی حفاظت کے لیے نبردآزما رہیں۔ میں کانگریس سے یا ہندوئوں سے مساوات کے اصول پر آبرومندانہ مصالحت کرنے پر آمادہ ہوں لیکن میں مسلم قوم کو ہندوئوں یا کانگریس کا حاشیہ بردار نہیں بنا سکتا۔ (خطاب جبل پور‘ ۷ جنوری ۱۹۳۸ئ‘ بحوالہ گفتار قائداعظم‘ مرتبہ احمد سعید‘ قومی کمیشن براے تحقیق تاریخ و ثقافت‘ اسلام آباد‘ ص ۱۹۱)

علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے اقتصادی ترقی کے سراب کا پردہ چاک کرتے ہوئے بتایا کہ ہندو قیادت کا مقصد مسلمانوں کو دینی‘ اخلاقی اور تہذیبی اعتبار سے اپنا محکوم بنانا ہے۔ انھوں نے فرمایا:

وہ ہمیں بندے ماترم جیسے مشرکانہ اور ملحدانہ گیت گانے پر مجبور کر رہی ہے۔ مجھے بحیثیت مسلمان‘ دوسری اقوام کے تمدن‘ معاشرت اور تہذیب کا پورا احترام ہے لیکن مجھے اپنے اسلامی کلچر اور تہذیب سے بہت زیادہ محبت ہے۔ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ ہماری آنے والی نسلیں اسلامی تمدن اور فلسفے سے بالکل بے بہرہ ہوں۔ مسلمانوں کے لیے یہ امر قطعاً ناقابلِ قبول ہے اور ناقابلِ برداشت ہے کہ وہ اپنی حیات اور ممات‘ زبان‘ تہذیب و تمدن ایک ایسی اکثریت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں کہ جس کا مذہب‘ تہذیب اور تمدن اس سے قطعاً مختلف ہے اور جن کا موجودہ سلوک مسلمانوں کے ساتھ نہایت برا ہے بلکہ مذموم اور غیرمنصفانہ ہے۔ (گفتار قائداعظم‘ ص ۲۰۶)

میمن چیمبر آف کامرس اور میمن مرچنٹس ایسوسی ایشن کے ایک استقبالیے میں قائداعظمؒ نے وضاحت سے اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے فرمایا تھا:

مسلمانوں کے لیے پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے پاس تو تیرہ سو برس سے ایک مکمل پروگرام موجود ہے اور وہ قرآن پاک ہے۔ قرآن پاک ہی میں ہماری اقتصادی‘ تمدنی و معاشرتی اصلاح و ترقی کے علاوہ سیاسی پروگرام بھی موجود ہے۔ میرا اس قانونِ الٰہیہ پر ایمان ہے اور جو میں آزادی کا طالب ہوں وہ اسی کلامِ الٰہی کی تعمیل ہے۔ قرآن پاک ہمیں تین چیزوں کی ہدایت کرتا ہے: آزادی‘ مساوات اور اخوت۔ بحیثیت ایک مسلمان کے‘ میں بھی انھی تین چیزوں کے حصول کا مستحق ہوں۔ تعلیمِ قرآن میں ہی ہماری نجات ہے اور اس کے ذریعے سے ہم ترقی کے تمام مدارج طے کر سکتے ہیں۔ (ایضاً،ص ۲۱۶)

قراردادِ لاہور کے بعد ۲۱ دسمبر ۱۹۴۰ء کو احمدآباد میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے فرمایا:

دونوں قوموں کی آزادی کے لیے پاکستان بہترین ذریعہ ہے۔ مسلمانوں کو ہندو صوبوں میں پِس جانے کا خوف نہیں کرنا چاہیے۔ مسلم اقلیت والے صوبوں کے مسلمانوں کو اپنی تقدیر کا مقابلہ کرنا چاہیے لیکن مسلم اکثریت والے صوبوں کو آزادی دلانی چاہیے تاکہ وہ اسلامی شریعت کے مطابق اپنی زندگی بسر کر سکیں۔ (ایضاً،ص ۲۵۴)

حیدر آباد دکن میں راک لینڈ کے سرکاری مہمان خانے میں نوجوانوں کے اجتماع میں سوال جواب کی محفل میں پاکستان کے لیے اسلامی نظام کی بحث میں بڑے بنیادی نکات کی وضاحت کی:

سوال: مذہب اور مذہبی حکومت کے کیا لوازم ہیں؟

قائداعظم:جب میں انگریزی زبان میں مذہب کا لفظ سنتا ہوں تو اس زبان اور قوم کے محاورے کے مطابق میرا ذہن خدا اور بندے کی باہمی نسبتوں اور رابطے کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ میں بخوبی جانتا ہوں کہ اسلام اور مسلمانوں کے نزدیک مذہب کا یہ محدود اور مقید مفہوم یا تصور  نہیں ہے۔ میں نہ تو کوئی مولوی ہوں نہ مُلّا‘ نہ مجھے دینیات میں مہارت کا دعویٰ ہے‘ البتہ میں نے قرآن مجید اور اسلامی قوانین کے مطالعے کی اپنے تئیں کوشش کی ہے۔ اس عظیم الشان کتاب میں اسلامی زندگی سے متعلق ہدایات کے باب میں زندگی کے روحانی پہلو‘ معاشرت‘ سیاست‘ معیشت‘ غرض انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو قرآن مجید کی تعلیمات کے احاطے سے باہر ہو۔ قرآن کی اصولی ہدایات اور اس کا سیاسی طریقۂ کار نہ صرف مسلمانوں کے لیے بہترین ہے بلکہ اسلامی سلطنت میں غیرمسلموں کے لیے بھی سلوک اور آئینی تحفظ کا اس سے بہتر تصور ممکن نہیں۔

س: ترکی ایک سیکولر اسٹیٹ ہے۔ اسلامی حکومت اس سے مختلف ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے؟

قائداعظم: ترکی حکومت پر میری نظر میں سیکولر اسٹیٹ کی سیاسی اصطلاح اپنے پورے مفہوم میں منطبق نہیں ہوتی۔ اب اسلامی حکومت کے تصور کا یہ بنیادی امتیاز پیش نظر رہے کہ اطاعت اور وفاکیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے اس لیے تعمیل کا مرکز قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ کسی پارلیمان کی‘ نہ کسی شخص یا ادارے کی۔ قرآن کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کے حدود متعین کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول اور احکام کی حکمرانی ہے۔ آپ جس نوعیت کی بھی حکمرانی چاہیں‘ بہرحال آپ کو سلطنت اور علاقے کی ضرورت ہے۔

س: وہ سلطنت ہمیں ہند میں کیسے نصیب ہوسکتی ہے؟

قائداعظم: مسلم لیگ‘ اس کی تنظیم‘ اس کی جدوجہد‘ اس کا رخ اور اس کی راہ___ سب اسی سوال کے جواب ہیں۔ (ایضاً،ص ۲۶۱-۲۶۲)

ہم نے قدرے تفصیل سے قائداعظمؒ کے تصور پاکستان کے چند پہلو اس لیے بیان کیے ہیں کہ یہ بات واضح ہو جائے کہ بلاشبہہ ہمیں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے معاشی استحکام مطلوب ہے لیکن اصل ہدف مسلم اُمت کی آزادی‘ حاکمیت اور تہذیبی و دینی تشخص کی حفاظت اور ترقی ہے۔ معاشی ترقی اسی کُل کے ایک حصے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے آج بھی پاکستان کی بقا‘ ترقی اور استحکام کا انحصار صرف معاشی عوامل پر نہیں بلکہ سیاسی‘ تہذیبی اور معاشی ‘سب عوامل کے ہم آہنگ اور ہم رنگ ہونے پر ہے۔

جنرل پرویز مشرف کے خلاف جو تحریک آج ملک کے طول و عرض میں پروان چڑھ رہی ہے‘ اس کا تعلق محض ان کی ذات سے نہیں بلکہ اصل چیز وہ نظامِ حکومت‘ وہ طرزِ حکمرانی اور وہ ملکی اور بین الاقوامی پالیسیاں ہیں جن کا وہ عنوان بن گئے ہیں۔ ساڑھے پانچ سال میں ان کے عزائم  کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اگر ان کے اس نظامِ حکومت کو دو اور دو چار کی طرح واضح الفاظ میں بیان کیا جائے تو اس کے سات اجزا نمایاں ہو کرسامنے آتے ہیں۔ یہ نکات ان کے بیانات ہی نہیں‘ ان کی حکومتی پالیسیوں اور عملی اقدامات سے واضح ہوتے ہیں۔ عوامی احتجاجی تحریک ان ہی کے خلاف ہے۔

m فردِ واحد کی حکومت: ان کے نظامِ حکومت کی پہلی خاصیت فردِ واحد کی حکومت ہے۔ وہ دستور‘ قانون‘ ضابطوں اور روایات کسی کا بھی احترام نہیں کرنا جانتے اور خود اپنے بنائے دستور اور ضابطے کے بھی قائل نہیں۔ انھوں نے شخصی حکمرانی کا راستہ اختیار کیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دستور ایک غیرمتعلق کتاب اور پارلیمنٹ غیر مؤثر ادارہ بن کر رہ گئے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی  اپنی بنائی ہوئی حکومت بھی اس کھیل میں ایک بے بس تماشائی ہے۔ بظاہر وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہے لیکن اس کی عملی حیثیت چیف آبزور (معزز ترین تماشائی) اور من کہ ایک فدوی(most obedient servant) سے زیادہ نہیں۔ پالیسی کے معمولات ہوں‘ یا عالمی رہنمائوں سے مذاکرات اور معاہدات کے معاملات یا نظامِ حکومت کو چلانے کے لیے انتظامی اقدامات‘ حتیٰ کہ معمولی معمولی تقرریاں اور تبادلے___ سب کا انحصار ایک فردِ واحد پر ہے۔ ادارے مضمحل اور غیرمؤثر ہوکر رہ گئے ہیں اور قوانین اور ضابطے کاغذ پر بے جان‘ بے معنی اور بے توقیر الفاظ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ یہ جمہوریت اور اسلامی اصول حکمرانی کی ضد ہے اور موجودہ احتجاجی تحریک کا پہلا ہدف  اس شخصی حکمرانی کو چیلنج کر کے دستور‘ قانون اور اداروں کی بالادستی کا قیام ہے۔

  • فوج کی بالادستی: دوسرا نکتہ ملک کے نظامِ حکمرانی میں دستور کے مطابق سیاسی اور سول قوتوں کی بالادستی کا قیام ہے۔ وردی دراصل عنوان ہے ملک کے سیاسی نظام پر فوجی قیادت کے غیرقانونی تسلط کا۔ مخالفت وردی کی نہیں‘ وردی کے غلط استعمال کی ہے۔ فوج کی وردی فوج کی قیادت اور سپاہ کو زیب دیتی ہے۔ مملکت کی صدارت اور حکمرانی پر فائز تمام افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ دستور کے مطابق جمہوری ذرائع سے برسرِاقتدار آئیں اور ان اوصاف کے حامل ہوں جو دستور نے بیان کیے ہیں۔

دستور نے فوج کے تمام افسروں اورجوانوں کے لیے لازم کیا ہے کہ وہ سیاست میں ملوث نہ ہوں اور فوج پوری قوم کی معتمد علیہ اور صرف اور صرف دفاع وطن کے لیے مخصوص ہو۔ فوج کی قیادت کی تربیت اس خاصی قسم کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے ہوتی ہے اور وہ سیاست اور نظامِ حکمرانی کو چلانے کی اہلیت اور ذہنیت دونوں سے عاری ہوتے ہیں۔ پھر فوج کے سیاست میں آجانے سے وہ ایک متنازعہ قوت بن جاتی ہے جس سے اس کی دفاعی صلاحیت بری طرح مجروح ہوتی ہے۔ جنرل مشرف نے جو پالیسی اختیار کی ہے‘ اس کی وجہ سے فوج کا عمل دخل سیاست اور حکمرانی کے ہر شعبے میں اس طرح ہوگیا ہے کہ اب ان تمام میدانوں میں اسے حریف تصور کیا جانے لگا ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ خطرناک کیفیت پیدا ہو رہی ہے کہ عوام چند جرنیلوںہی کو ہدف تنقید و ملامت نہیں بنا رہے بلکہ فوج بحیثیت ایک ادارے کے اپنی عزت و احترام کھو رہی ہے اور اس کے خلاف بے اعتمادی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اب اس کی طرف نگاہیں قوم اور وطن کے محافظ کی حیثیت سے نہیں اٹھ رہیں۔ وہ بگاڑ اور لوٹ کھسوٹ میں شریک اداروں میں ایک   شریک کار کی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ یہ صورت حال دفاع وطن اور خود فوج کی عزت اور وقار کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ وردی پر اصرار کرکے جنرل پرویز مشرف نے اپنی ساکھ ہی کو خاک میں نہیں ملایا‘پوری فوج کے وقار اور عزت کو بھی پامال کیا ہے۔ جس طمطراق سے وہ دفاعی حصار میں منعقد کیے جانے والے سیاسی جلسوں میں فوجی وردی میں  شرکت کر رہے ہیں اور ایک مخصوص سیاسی ٹولے کے لیے مہم چلا رہے ہیں‘ اس نے فوج کو بحیثیت ادارہ‘ سیاست کی دلدل میں گھسیٹ لیا ہے اور یہ مقدس وردی اس بری طرح داغ دار کر دی گئی ہے کہ اسے محض فوجی وردی قرار دینا ایک  سنگین مذاق بن گیا ہے۔

جمہوری احتجاجی تحریک کا دوسرا ہدف فوج کو ایک بار پھر ایک مضبوط اور مؤثر دفاعی ادارہ بنانا‘ اسے سیاست کی آلایش سے پاک کرنا‘ اور پورے فوجی نظام کو دستور کے مطابق سول نظام کے تابع اور اس کا معاون بنانا ہے‘ حکمران رکھنا نہیں۔

  • قومی وقار کی پامالی: جنرل پرویز مشرف یہ کہتے ہوئے آئے تھے کہ قومی وقار اور عزت کو بحال کریں گے لیکن عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ ان ساڑھے پانچ سالوں میں اور خصوصیت سے نائن الیون کے بعد کے ان کے اقدامات اور پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان امریکا کا     تابع مہمل بن گیا ہے۔ دنیا بھر میں آج امریکا کی غیرمنصفانہ اور ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف نفرت کا لاوا پک رہا ہے۔ مغربی دنیا میں ۷۰سے ۸۰ فی صد عوام اور عالم اسلام میں ۹۰ سے ۹۵ فی صد آبادی اسے ایک سامراجی قوت‘ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نبردآزما ایک جارح فریق اور عالمی امن کو تہ و بالا کرنے اور انصاف اور انسانی حقوق کو پامال کرنے والی ایک استبدادی طاقت قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان کی حکومت ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکی جنگ میں اپنے کردار پر اتنا فخر کررہی ہے کہ اسے‘ خصوصیت سے جنرل پرویز مشرف کو امریکا کے سب سے تابع دار حلیف اور خدمت گزار کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے۔ پوری اُمت مسلمہ کی نگاہوں میں ہم نفرت اور حقارت کا ہدف بن گئے ہیں۔ دوسری طرف اس کے نتیجے میں ملک میں بدامنی اور بے چینی پھیل رہی ہے۔ تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد امریکی اور دوسرے اتحادی سفارت خانوں کو  معرضِ خطر میں دکھایا جاتا ہے اور پاکستان سفر کرنے والوں کے لیے تنبیہ جاری کی جاتی ہے۔

کبھی پاکستان کو عالم اسلام میں عزت اور وقار کا مقام حاصل تھا اور آج عالم اسلام کے عوام پاکستان کی قیادت کو صرف امریکا کا بغل بچہ سمجھ رہے ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی جتنی بے آبرو آج ہے‘ اتنی کبھی نہ تھی۔ اور اب تو صاف کہا جا رہا ہے کہ ہماری کوئی خارجہ پالیسی نہیں‘ ہم اپنے  قومی مفادات کی قیمت پر بھی امریکا کے مفادات بخوشی پورا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم اس کے کارندے کا کردار ادا کرنے میں کوئی تکلف نہیں۔ بھارت سے دوستی بھی امریکا کے زیرہدایت کی جارہی ہے‘ اور عوامی ردعمل جاننے کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنے تک کے محاسے (feeler) اس کے اشارے پر دیے جا رہے ہیں۔ ایران پر امریکی دبائو میں ہم بھی کردار ادا کررہے ہیں اور نوبت بہ اینجا رسید کہ یہ تک کہہ رہے کہ ایک ہمسایہ مسلمان ملک پر ایک صریح ظالمانہ حملے کی صورت میں ہم مظلوم کا ساتھ دینے والے نہیں بلکہ خاموش تماشائی ہوں گے جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب کل یہی کچھ ہمارے ساتھ ہو تو کوئی ہمارے حق میں آواز اٹھانے والا بھی نہ ہو۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!

اسلام کی ’روشن خیال‘ تعبیر

بات صرف سیاسی آزادی اور حاکمیت کے باب میں سمجھوتے تک محدود نہیں‘ اس دورحکومت میں خطرناک رجحانات کو ہوا دی جا رہی ہے: نظریاتی انتشار‘ دو قومی نظریے کے بارے میں شدید ژولیدہ فکری و مغرب کی آبرو باختہ تہذیب و ثقافت کا فروغ‘ بھارت کی مشرکانہ اور ہندو تہذیبی یلغار کے لیے خوش آمدید کا رویہ___ یہ سب باتیں پاکستان کے وجود اور اس کی تہذیبی شناخت کے لیے شدید خطرے کا باعث ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ مسلم لیگ (ق) کی قیادت عام حالات میں اسلام اور مسلمانوں کی اقدار ہی کی باتیں کیا کرتی تھی‘ اب وہ بھی بھارت کے ساتھ مشترک تہذیب کے راگ الاپ رہی ہے۔ کوئی مشترک پنجابی تہذیب کی بات کرتا ہے تو کوئی اپنے ماتھے پر تلک لگاکر‘ ہندو جنونیوں کے لیڈر شری ایل کے ایڈوانی کو لاہور کے قلعے میں مندر کا سنگِ بنیاد رکھنے کی دعوت دے رہا ہے    ؎

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں

تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں

اسی لَے میں ایک آواز ’’اعتدال پسندی اور روشن خیالی‘‘ کی بلند کی جارہی ہے جس کے نام پر کبھی داڑھی اور حجاب کا مذاق اڑایا جاتا ہے‘ کبھی چوروں کے ہاتھ کاٹنے کو وحشت اور ظلم   قرار دیا جاتا ہے‘ کبھی حدود قوانین کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے تو کبھی توہین رسالتؐ کا قانون کانٹا   بن کر چبھنے لگتا ہے۔ کبھی بسنت کے نام پر شراب و شاہد اور فحاشی کا بازار گرم کیا جاتا ہے‘ کبھی   مخلوط میراتھن ریس کا ڈراما رچایا جاتا ہے‘ کبھی دینی تعلیم اور مدارس کو زیرِعتاب لایا جاتا ہے اور کبھی انتہاپسندی کے نام پر ہر اصول و ضابطے اور تمام اقدار و روایات کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے اور   سمجھا جاتا ہے کہ ترقی نام ہے بے حجابی‘ عریانی اور فحاشی کو فروغ دینے کا۔

یہ سب کچھ اقبال اور قائد اعظم کے تصورِجدیدیت کے نام پر کیا جا رہا ہے حالانکہ قائداعظم نے جس پاکستان کے لیے جدوجہد کی تھی اور مسلمانوں نے قربانیاں دی تھیں وہ اسلامی تہذیب و معاشرت کی حفاظت اور فروغ کے ہدف کے لیے تھی‘ مغربی تہذیب اور ہندو ثقافت کے فروغ کے لیے نہیں۔ اور رہا اقبال‘ تو اس نے تو ساری زندگی ہی جس کارعظیم کے لیے وقف کی اس میں ترقی اور روشن خیالی کے اس فتنے کا پردہ چاک کرنے کو مرکزیت حاصل تھی۔ جاوید نامہ میں کس   بالغ نظری اور کس صاف گوئی اور راست فکری کے ساتھ وہ کہتا ہے:

شرق را از خود برد تقلیدِ غرب

باید ایں اقوام را تنقیدِ غرب

قوتِ مغرب نہ از  چنگ و رباب

نے زرقصِ دخترانِ بے حجاب

نے ز سحرِ ساحرانِ لالہ روست

نے ز عریاں ساق ونے از قطعِ موست

محکمی او را نہ از لا دینی است

نے فروغش از خطِ لاطینی است

حکمت از قطع و بریدِ جامہ نیست

مانعِ علم و ہنر عمّامہ نیست

علم و فن را اے جوانِ شوخ و شنگ

مغز می باید نہ ملبوسِ فرنگ

اندریں رہ جز نگہ مطلوب نیست

ایں کُلہ یا آں کُلہ مطلوب نیست

فکرِ چالا کے اگر داری بس است

طبعِ درّا کے اگر داری بس است

گر کسے شبہا خورد دودِ چراغ

گیرد از علم و فن و حکمت سراغ

ملکِ معنی کس حدِ او را نہ بست

بے جہادِ پیہمے ناید بدست

مشرق کو مغرب کی تقلید نے اپنا آپ بھلا دیا ہے۔ ان اقوامِ مشرق کو چاہیے کہ وہ مغرب کو تنقید کی نظر سے دیکھیں۔ مغرب کی قوت چنگ و رباب سے نہیں‘ نہ یہ بے پردہ لڑکیوں کے رقص کی وجہ سے ہے۔ نہ یہ سرخ چہرہ‘ محبوبوں کے جادو کی وجہ سے نہ یہ ان کی عورتوں کی ننگی پنڈلیوں اور بال کٹانے سے ہے۔ نہ اس کا استحکام لادینی کی وجہ سے ہے اور نہ اس کی ترقی رومن رسم الخط کے باعث ہے۔ افرنگ کی قوت ان کے علم اور فن کے سبب سے ہے۔ ان کا چراغ اسی آگ سے روشن ہے۔ ان کی حکمت لباس کی قطع و برید کے سبب سے نہیں‘ عمامہ علم و ہنر سے منع نہیں کرتا۔ اے شوخ و شنگ جوان علم و فن کے لیے مغز چاہیے نہ کہ مغربی لباس۔ اس راہ میں صرف نگاہ مطلوب ہے‘ یہ ٹوپی یا وہ ٹوپی مطلوب نہیں۔ اگر تیرے اندر زود و رس فکر اور تیزبین طبع ہے تو یہ دونوں چیزیں علم و فن کے لیے کافی ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی راتیں فکر اور مطالعہ میں بسر کرتا ہے تو وہ علم و فن اور حکمت کا سراغ پالیتا ہے۔ معانی کی سلطنت جس کی حدود کا تعین کوئی نہیں کرسکا‘ کوشش پیہم کے بغیر ہاتھ نہیں آتی۔

آج کی جمہوری تحریک کا چوتھا ہدف پاکستان کی نظریاتی شناخت کا تحفظ اور اسلامی تہذیب و ثقافت پر اس حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھنے والی تہذیبی اور تمدنی یلغار کی بھرپور مزاحمت اور پاکستان کے اصل تصور کے مطابق اس کی تعمیرنو کے لیے اجتماعی جدوجہد اور نئی قیادت کو بروے کار لانے کی کوشش ہے۔

بہارت سے دوستی لیکن کس قیمت پر؟

بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے نام پر قومی غیرت اور پاکستان کے حقیقی مفادات کی قیمت پر بنیادی پالیسی کے معاملات میں ایسی قلابازیاں (U-turns) کھائی جارہی ہیں جن کے نتیجے میں نہ صرف ملک کی سلامتی اور استحکام معرضِ خطر میں ہے بلکہ پورے علاقے کا نقشہ ہی تہ و بالا ہوسکتا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ محض کوئی سرحدی تنازع نہیں‘ یہ ڈیڑھ کروڑ انسانوں کی آزادی اور       حقِ خودارادیت کا مسئلہ ہے اور پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کے ساتھ ساتھ تقسیمِ ہند کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ کسی فردِ واحد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اسے اپنے کھلنڈرانہ رویوں اور اپنی طالع آزمائیوں کا نشانہ بنائے۔ کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ قوم کے تاریخی موقف کو محض اپنے زعم میں تبدیل کر دے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں جہاں ایک اخلاقی اور قانونی معاہدہ ہیں‘ وہیں وہ ایک عالمی میثاق کی حیثیت رکھتی ہیں جس کے تین بنیادی فریق ہیں: پاکستان‘ بھارت اور جموں و کشمیر کے عوام۔ اقوام متحدہ اور پوری عالمی برادری اس میثاق کی ضامن ہے۔ تعجب کا مقام ہے کہ ایک فوجی جسے عالمی سفارت کاری اور بین الاقوامی قانون اور آداب کے باب میں کوئی مہارت حاصل نہیں‘ کسی مشورے اور مجاز اداروں کے کسی فیصلے کے بغیر‘ ترنگ میں آکر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بارے میں عالمی میڈیا کے سامنے یہ کہنے کی جسارت کرتا ہے کہ انھیں ایک طرف رکھا (set aside) جاسکتا ہے۔ صدافسوس یہ ہے کہ ایسا کہنے والے کا کوئی احتساب نہیں ہوتا‘ اور اقتدار کے پجاری نہ صرف اس کی تاویلیں کرنے لگتے ہیں بلکہ پوری کشمیر پالیسی کا رخ ہی بدل دیتے ہیں۔

اس قیادت کی سیاسی سوجھ بوجھ کے بارے میں کیا کہا جائے جو اسی پسپائی‘ عاقبت نااندیشی اور قومی مفادات سے بے وفائی کو اپنی ’’جرأت اور بہادری‘‘ کا نام دیتی ہے اور پھر خود اپنی تعریف کے راگ الاپتی ہے۔ ’’جرأت و فراست‘‘ کا عالم یہ ہے کہ جب امریکا بہادر کہتا ہے کہ ہمارا ساتھ دو‘ ورنہ ہماری دشمنی کے لیے تیار ہوجائو تو غیر مشروط ہتھیار ڈال دیتی ہے۔ لبنان اور شمالی کوریا جیسے کمزور اور چھوٹے ممالک سفارت کاری میں جوہر دکھاتے ہیں‘ ہم اس کے گردِراہ کو بھی نہیں پاسکتے۔ ۱۹۷۱ء کی شکست کے بعد بھی‘ شملہ معاہدے کے موقع پر سیاسی قیادت نہ صرف اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کے اصولوں کا ذکر شامل کرا لیتی ہے بلکہ جو بات بھی کرتی ہے وہ ’’دونوں حکومتوں کے اصولی مؤقف پر کسی اثر کے بغیر‘‘کے فریم ورک میں کرتی ہے اور کشمیر کے مسئلے کے آخری حل (final solution) کو ایجنڈے میں رکھتی ہے۔ لیکن ہمارے فوجی حکمران ان تمام قانونی اور سفارتی نزاکتوں کا کوئی ادراک نہیں رکھتے اور بس جرأت کا صرف یہ مفہوم سمجھتے ہیں کہ مستعدی سے دوسروں کے مطالبات کے آگے سپر ڈال دیں اور اپنے مؤقف کو چشم زدن میں ترک کر دیں۔

جمہوری جدوجہد کا پانچواں ہدف کشمیر کے معاملے میں قوم کے جذبات اور عزائم اور پاکستان کے حقیقی مفادات کی روشنی میں ایک ایسے محکم اور مبنی برحق موقف کا اعادہ ہے جو جموں و کشمیر کے عوام کے عزائم اور اہداف سے مطابقت رکھتی ہو‘ جو ان کی تاریخی جدوجہد کی قربانیوں کی     لاج رکھنے والی ہو اور جو پاکستان اور جموں و کشمیر کے عوام کے بہترین مفاد میں ہو۔ پاکستانی قوم بھارت سے دوستی ضرور چاہتی ہے لیکن غیرت اور ملکی اور ملّی مفادات پر کوئی سمجھوتہ کیے بغیر۔

m غربت اور مھنگائی: عوامی احتجاج کا ایک اور ہدف وہ معاشی مشکلات ہیں جو اس حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں اور جن کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ زرِمبادلہ کے ذخیرے میں اضافہ بجا‘ لیکن جس زرمبادلہ کا کوئی فائدہ عوام کو اور خصوصیت سے مجبور اور    پسے ہوئے طبقات کو نہیں اس کا کیا حاصل؟ غربت کی شرح بڑھ رہی ہے اور آج ۵ کروڑ سے زیادہ افراد دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ اگر ۱۹۹۰ء میں خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی آبادی  کُل آبادی کا ۲۰-۲۲ فی صد تھی تو ۲۰۰۴ء میں ان کی تعداد ۳۲-۳۴ فی صد ہوگئی ہے۔ اگر ۱۹۹۹ء میں بے روزگاری کا تناسب صرف ۵ فی صد تھا تو ۲۰۰۴ء میں وہ بڑھ کر ۸ فی صد سے بڑھ گیا ہے۔ تیل اور گیس کی قیمتوں میں ان پانچ سالوں میں ۸۰ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ پٹرول ۱۹۹۹ء میں ۲۶ روپے لٹر تھا جو آج ۴۶ روپے لٹر ہے۔ آٹا ۹روپے کلو تھا‘ اب ۱۹ روپے کلو ہے۔ چینی ۱۳ روپے کلو تھی ‘   اب ۲۰ روپے کلو ہے۔ عوام چیخ رہے ہیں‘ اور جنرل پرویز مشرف اور ان کے ارب پتی معاشی مینیجر مبادلہ خارجہ کے ذخائر کے اضافے پر شادیانے بجا رہے ہیں اور کل تک جس اسٹاک ایکسچینج کی ہوش ربا ترقی پر نازاں تھے‘ اب مہینے بھر میں ہی اس میں ۴۰ فی صد کمی پر بغلیں جھانک رہے ہیں۔ جنرل مشرف اور ان کی حکومت بے شک ’ابن مریم‘ ہونے کا دعویٰ کریں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام کے دکھوں کا مداوا کون کرے‘ ان کے زخموں پر مرہم کا پھاہا کون رکھے؟

عوامی جدوجہد کا ایک اہم ہدف اس معاشی استحصال اور ظلم کا خاتمہ اور ملک کی معاشی ترقی کا وہ آہنگ اختیار کرنا ہے جس کے نتیجے میں ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچ سکیں‘ بے روزگاری ختم ہوسکے‘ مہنگائی کا عفریت قابو میں لایا جاسکے‘ دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کو حدود کا پابند کیا جا سکے۔ اشیاے ضرورت عام آدمی کی دسترس میں ہوں‘ معاشی ترقی کے مواقع سب کو حاصل ہوں۔

  • صوبوں کی بے اطمینانی: جنرل مشرف نے اکتوبر ۹۹ء کے خطاب میں ایک ہدف صوبوں کے درمیان ہم آہنگی اور مرکز اور صوبوں کے تعلقات میں سدھار کو قرار دیا تھا مگر آج مرکز اور صوبوں میں جتنا بُعد ہے اور چھوٹے صوبے جس بے چینی اور اضطراب میں مبتلا ہیں‘ وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے پہلے کے پُرآشوب حالات سے گہری مماثلت رکھتا ہے اور تمام  محبِّ وطن عناصر کے لیے شدید پریشانی کا باعث ہے۔ مشترکہ مفادات کی کونسل ایک دستوری ادارہ ہے‘ اس کا ایک بھی اجلاس گذشتہ پانچ سال میں نہیں ہوا۔ نیشنل فنانس ایوارڈ پر صوبوں کے مالیات اور ترقی کا انحصار ہے‘ اس پانچ سال میں کوئی ایوارڈ نہیں دیا جاسکا۔ صوبہ سرحد اپنے حق کے لیے  چیخ رہا ہے‘ بلوچستان کے عوام محرومیوں اور امتیازی سلوک کا شکار ہیں‘ سندھ میں بھی بے چینی کی لہریں اٹھ رہی ہیں۔ پانی کی تقسیم اور آبی ذخائر کی تعمیر کے مسئلے کو اتنا الجھا دیا گیا ہے کہ اب وہ ایک فنی مسئلے سے بڑھ کر ایک پیچیدہ سیاسی مسئلہ بن گیا ہے۔ شمالی علاقہ جات اور بلوچستان کے حساس علاقوں میں تصادم کی آگ پارلیمانی کمیٹی بجھانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن جنرل صاحب کے اندازِکلام میں کوئی فرق نہیں اور وہ اپنے  اذیت ناک اور توہین آمیز لب و لہجے میں کوئی تبدیلی لانے کو تیار نہیں جس کی وجہ سے حالات مزید بگاڑ کی طرف جا رہے ہیں۔ وہ ابھی تک مضبوط مرکز ہی پاکستان کی مضبوطی سمجھتے ہیں‘ جب کہ مضبوط صوبوں اور مطمئن صوبوں کے بغیر پاکستان کی مضبوطی کا تصور ہی ناممکن ہے۔

عوامی جمہوری تحریک کا ایک ہدف حقیقی وفاقی نظام کا قیام اور مرکز اور صوبوں میں اختیارات کی ایسی تقسیم اور اس کا نفاذ ہے جو صوبوں کی مضبوطی اور ترقی کا باعث ہو اور صوبوں کی مضبوطی اور ترقی کے ذریعے پاکستان مضبوط اور مستحکم ہو سکے۔

جو سیاسی تحریک متحدہ مجلس عمل کی قیادت میں مارچ ۲۰۰۵ء میں شروع ہوئی ہے اور جس کو ۲اپریل ۲۰۰۵ء کو ہڑتال نے مہمیز دی ہے وہ انھی اہداف کے حصول کے لیے ہے اور ان کے مکمل حصول تک ان شاء اللہ جاری رہے گی۔

ویب سائٹ پر راے عامہ

یہ اہداف عوام کے اصل جذبات اور عزائم کے آئینہ دار ہیں۔ مجلس عمل نے ان کو زبان دی ہے اور انھیں حاصل کرنے کے لیے جمہوری اور عوامی تحریک شروع کی ہے۔ تاہم یہ بھی ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ جس طرح چاروں ملین مارچ اور ۲ اپریل کی ہڑتال میں یہ اہداف اور مقاصد ہرکسی کی زبان پر رہے ہیں‘ ایک تازہ جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنرل مشرف کی ذاتی ویب سائٹ پر بھی سوالات کی شکل میں انھی کی بارش ہو رہی ہے اور جنرل صاحب جو الٹے سیدھے جوابات دے رہے ہیں‘ وہ ان کی بوکھلاہٹ کے غماز ہیں۔ دی نیوز انٹرنیشنل لندن میں ۸ اپریل ۲۰۰۵ء کو شائع ہونے والے ایک جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ سوالات اور اعتراضات مہنگائی کے مسئلے پر آئے ہیں اور دوسرے نمبر پر آنے والے سوالات کا تعلق    جنرل صاحب کی نام نہاد ’’روشن خیال اعتدال پسندی‘‘ پر لوگوں کے احساسات اور اضطرابات ہیں۔ تجزیہ نگار لکھتا ہے کہ: جہاں تک روشن خیال اعتدال پسندی کا تعلق ہے‘ بظاہر عوام زیادہ   آزاد روی سے خوش نہیں ہیں جو الیکٹرانک میڈیا کے بعض چینلوں میں ظاہر ہو رہی ہے۔

جنرل صاحب نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ وہ خود بھی حد سے زیادہ مغرب زدگی (over westernization) کے حق میں نہیں لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ مسئلہ محض الیکٹرانک میڈیا کا نہیں‘ ان کی ملک گیر پالیسی کا ہے اور پھر اصل مسئلہ حد سے زیادہ مغرب زدگی کا نہیں بلکہ جدیدیت (modernization) کے نام پر مغرب زدگی ہے جو اُمت مسلمہ کے عقیدے‘ تہذیب‘ تاریخ اور روایات کے خلاف ہے اور جسے ایک مفاد پرست طبقہ بیرونی میڈیا‘ این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی معرفت جنرل صاحب کی سرپرستی میں فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔

تیسرے نمبرپر آنے والے سوالات کا تعلق پاکستان کی آزادی اور حاکمیت سے ہے اور عوام نے امریکا کے بڑھتے ہوئے اثرات اور اس کی کاسہ لیسی کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ چوتھے نمبر پر پاکستان کے نیوکلیر اثاثوں کی حفاظت اور ڈاکٹر عبدالقدیر خاں سے کیے جانے والے سلوک کے بارے میں عوام کا اضطراب ہے۔ جائزے میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ عوام کے ایک حصے کا خیال ہے کہ: Pakistan is selling its sovereignity cheaply (پاکستان اپنی خودمختاری اور حاکمیت کو کوڑیوں کے دام فروخت کر رہا ہے)۔

جنرل صاحب اس پر بہت برافروختہ ہیں اور جس نوعیت کے جوابات دے رہے ہیں  اس میں دلیل سے زیادہ غصہ‘ اور حقائق کی بنیاد پر بات کرنے کے بجاے اپنی ذات پر اعتماد اور بھروسے کا سہارا زیادہ ہے۔ اس ویب سائٹ سے جنرل صاحب یا پالیسی سازی کے ذمہ دار کوئی فائدہ اٹھاتے ہیں یا نہیں‘ لیکن اس سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ جو بات ایم ایم اے کے ملین مارچوں میں کہی جا رہی ہے اور جس کا اظہار ۲ اپریل کی عوامی ہڑتال میں ہوا ہے‘ وہی اصل عوامی جذبات‘ احساسات اور مسائل کا آئینہ ہے۔ جنرل صاحب کی ویب سائٹ پر بھی اسی کا پرتو دیکھا جاسکتا ہے۔ اسے دی نیوز کے جائزے میں Let this be a wakeup call for all(اس سے سب لوگوں کی آنکھیں کھل جانا چاہییں)کہا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وی وی آئی پی کلچر سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ نقارۂ نقارہ

طلبہ کنونشن : نوشتۂ دیوار

انھی دنوں راے عامہ کا ایک فیصلہ کن اظہار ۹ اپریل ۲۰۰۵ء کو جناح کنونشن سنٹر میں منعقد ہونے والے قومی طلبہ کنونشن میں جنرل مشرف کی موجودگی میں ہوا۔ اس کنونشن کے مقررین اور حاضرین سب چھلنیوں سے گزر کر پہنچے تھے لیکن اس کے باوجود جب کچھ دبنگ طلبہ مقررین نے وردی پر وعدہ خلافی‘ وانا میں ترقیاتی کاموں کے نام پر فوج کے استعمال‘ بلوچستان والوں کو وہاں سے ہِٹ (hit)ہونے کی دھمکی جہاں سے وہ سوچ بھی نہیں سکتے‘ فوج کے اقتدار سنبھالنے‘ اور    بسنت منانے جیسے پروگراموں پر عوام کا نقطۂ نظر پیش کیا تو بھرا ہوا ہال تالیوں سے گونج گونج اٹھا۔ جنرل مشرف نے جواب میں اپنی گھسی پٹی باتیں دہرائیں لیکن وہ بھی جانتے تھے کہ وہ اپنے سوا کسی کو قائل نہیں کررہے۔ اگر اس پر بھی وہ نوشتۂ دیوار نہ پڑھیں تو ان کی بالغ نظری کو کیا کہا جائے۔


متحدہ مجلس عمل نے ایک بڑی قومی خدمت بروقت انجام دی ہے کہ اس نے عظیم عوامی تحریک کے ذریعے قوم کے اصل مسائل اور اس کے حقیقی عزائم اور اہداف پر سب کی توجہ کو مرکوز کیا ہے۔ یہ المیہ ہے کہ بہت سی احزاب اختلاف ساحل سے نظارۂ طوفان کر رہی ہیں اور اپنی اپنی مخصوص ترجیحات میں گرفتار ہیں۔ ملک کی ضرورت آج یہ ہے کہ سب محب وطن اور جمہوری قوتیں مل کر ملک کو بحران سے نکالنے کی اجتماعی جدوجہد کریں اور امریکا کے اس کھیل کا پردہ بھی چاک کردیں کہ جنرل صاحب کسی روشن خیال اعتدال پسندی کے داعی ہیں اور دوسری نام نہاد لبرل قوتوں کو ان کا حلیف ہونا چاہیے۔ آج مسئلہ نام نہاد روشن خیالی اور اعتدال پسندی نہیں‘ یہ تو جنرل صاحب کی انتہاپسندی اور شخصی حکومت کو دوام بخشنے کے لیے محض ایک حربہ اور دھوکا ہے۔ پاکستان کی بنیاد اور پاکستان کے دستور کے ستون اسلام‘ پارلیمانی جمہوریت اور اصول وفاق ہیں۔ یہی     تین ستون عوامی جمہوری جدوجہد کی بنیاد ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان سب کا حاصل پاکستان کی آزادی اور حاکمیت کے تحفظ کے ساتھ‘ اس کی اسلامی تہذیبی شناخت کی ترقی اور استحکام اور سب کے لیے عدل و انصاف کا قیام ہے۔ یہی آج عوام کے دل کی آواز ہے اور پاکستان کی ترقی اور استحکام کا اصل نسخہ ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ آج آپ زندگی کے جس شعبے سے بھی متعلق کسی شخص سے بات کریں گے تو ٹیپ کا بند یہی ہوگا: ’’حالات بڑے خراب ہیں۔ ہر طرف گھٹاٹوپ اندھیرا ہے۔ ایک مخصوص طبقے کو چھوڑ کر‘ ہر شخص شدید مشکلات اور مصائب کا شکار اور بے بسی اور مایوسی کی گرفت میں ہے‘‘۔ نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ جس چیز کا مسلمان معاشرے میں کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا‘ یعنی حالات سے بیزار ہو کر خودکشی‘ اب اس میں بھی روز افزوں اضافہ ہے۔ ان حالات میں ’’تابناک مستقبل‘‘ کی بات کیا بے وقت کی راگنی نہیں؟

اس ماحول میں بالعموم ردعمل کچھ ایسا ہی ہوتا ہے کہ ’’جسے دیکھو یہی کہتا ہے‘ ہم بیزار بیٹھے ہیں‘‘۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے ہی حالات میں مستقبل اور خصوصیت سے تابناک مستقبل کا تصور اور اس کی طرف بڑھنے کی بات وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن جاتی ہے۔ اس لیے کہ اگر مستقبل کو حال سے بہتر بنانے کا احساس اور جستجو موجود نہ ہو تو پھر تاریکی کے چھٹنے اور حالات کو تبدیل کرنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔ بگاڑ اور تاریکی ہی کا تقاضا یہ ہے کہ بنائو کی فکر ہو‘ روشنی کی تلاش ہو اور تعمیرنو کے لیے جدوجہد کی جائے۔ ترقی اور اصلاح کا راستہ حالات کے آگے سپرڈال دینے کا نہیں‘ حالات کو صحیح رخ پر موڑنے کے عزم اور عملی کوشش کا راستہ ہے۔ زندہ رہنے اور پستی سے بلندی کی طرف اٹھنے ‘ اپنی اور مظلوم اقوام کی قسمت بدلنے کا یہی راستہ ہے۔ خاص طور پر ہرمسلمان کے لیے‘ ہرمسلمان ملک کے لیے اور بحیثیت مجموعی پوری اُمت مسلمہ کے لیے تو اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ممکن ہی نہیں ہے۔ البتہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ’’تابناک مستقبل‘‘ کا صحیح تصور ہمارے سامنے ہو‘ اور مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے جن عوامل اور اقدامات کی ضرورت ہے‘ ان کا پورا پورا شعور ہو اور عملاً ایسے مستقبل کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے نہ صرف جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے بلکہ اس کے تقاضے بھی پورے کیے جائیں۔ اس لیے ہماری نگاہ میں جہاں حالات کی خرابی کا ادراک ضروری ہے‘ وہیں مستقبل کے صحیح تصور اور ایک تابناک مستقبل کے حصول کے لیے مطلوبہ لائحہ عمل کی تفہیم ازبس ضروری ہے۔

مستقبل کا حقیقی تصور

سب سے پہلا سوال ہمارے غور کرنے کا یہ ہے کہ مستقبل ہے کیا؟ جس تابناک مستقبل کی بات ہم کر رہے ہیں‘ اُس کے بارے میں سب سے پہلے ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس کی اصل وسعتیں کیا ہیں۔ یہ دنیا ایک عارضی گھرانا ہے۔ افراد ہی نہیں‘ اقوام کے لیے بھی یہ محدود امکانات سے عبارت ہے۔ البتہ اگر کوئی مستقبل ہے تو وہ صرف آخرت کا ہے‘ جو ہمیشہ کے لیے ہے۔ آخرت کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے۔ البتہ آخرت کی اس کامیابی کا انحصار اس دنیا ہی کی زندگی کی صحیح ترتیب و تنظیم پر ہے۔ دنیا ایک کھیتی کی مانند ہے‘ لیکن اس کھیتی سے تیار ہونے والی فصل یا منزلِ مقصود ہے یا آج کی کاروباری اصطلاح میں اس کی جو مارکیٹ ہے وہ آخرت ہے۔ اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ تابناک مستقبل وہ ہے جو آخرت میں تابناک ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مستقبل سے محفوظ رکھے جو آخرت میں تاریک ہو۔

جب ہم اس موضوع پر انفرادی یا اجتماعی طور پر‘ ایک گروہ یا ایک قوم کی حیثیت سے‘ پاکستانی یا اُمت مسلمہ کے فرد کی حیثیت سے غور کریں تو ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اصل تابناکی اور اصل کامیابی اور اصل روشنی آخرت کی زندگی کی ہے۔ وہی ہمارا ہدف ہونا چاہیے۔ یہاں جو مشکلات بھی ہوں‘ جو صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں‘ اور پریشانیاں اور دشواریاں پیش آئیں بلکہ بظاہر جو ناکامیاں ہوں‘ وہ سب عارضی‘ وقتی اور غیرحقیقی ہیں۔ حقیقی کامیابی صرف آخرت کی کامیابی ہے۔ اس لیے جس تابناک مستقبل کا ہم خواب دیکھ رہے ہیںاور جس کے لیے ہم دعائیں کر رہے ہیں‘ جس کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے وہ آخرت کی کامیابی ہے۔

یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہمارے اوپر ایک بہت بڑا انعام ہے کہ اس نے ہماری بشری کمزوریوں کو سامنے رکھ کر وعدہ فرمایا کہ اصل ہدف اور حقیقی کامیابی تو صرف آخرت کی کامیابی ہے لیکن تم کو دنیا میں بھی اس کی کچھ جھلکیاں دکھا دی جائیں گی ‘گویا اس کا کچھ حصہ تمھیں دنیا میں بھی میسرآسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے انقلابی پیغام اور مشن کا یہ بڑا اہم پہلو ہے کہ اس میں دنیا کی تعمیر اور اصلاحِ انسان ‘ اور یہاں انصاف اور خیر کا حصول اور غلبۂ آخرت کی کامیابی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ یہ پیغام اور مشن دوسرے مذاہب اور فلسفوں سے ہٹ کر ہے کہ اس میں وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) کی بشارت موجود ہے کہ دیکھو حوصلہ نہ ہارنا اور نہ غم کرنا‘ اگر تم مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے‘ یعنی دنیا میں بھی تم کو کامیابی ہوسکتی ہے بشرطیکہ سچے معنی میں اہلِ ایمان کا رویہ اور کردار اختیار کرو۔ یہاں بھی حالات بدل سکتے ہیں‘ یہاں بھی تاریکیاں چھٹ سکتی ہیں‘ یہاں بھی زمین اپنی نعمتیں اُگل سکتی ہے اور آسمان اپنی برکتیں نازل کرسکتا ہے اور اس طرح یہ آخرت کی کامیابی کا آغاز ہو سکتا ہے۔ انتہا تو بہرحال آخرت ہی میں ہے البتہ آغاز یہیں سے ہوسکتا ہے کیونکہ یہ ایک تسلسل ہے۔ اس پہلو سے دنیا میں مستقبل کے تابناک ہونے کی خواہش کرنا‘ اس کی تمنا اور دعا کرنا‘ اس کے لیے کوشش اور جدوجہد کرنا بھی دراصل اسلام کے مشن کا ایک حصہ ہے۔

قرآن کی روشنی میں

اسی لیے ہمیں دعا کی صورت میں جو ہدف اور مشن دیا گیا وہ یہ ہے کہ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِo (البقرہ ۲:۲۰۱)’’اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا‘‘۔

قرآن نے اہلِ تقویٰ کو یہ بشارت بھی دی ہے کہ:

وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ (الاعراف ۷:۹۶)

اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔

اللہ تعالیٰ نے حق و باطل کی کش مکش کے بارے جس سنت الٰہی کا واشگاف اعلان کیا ہے وہ تو ہے ہی یہ کہ:

وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًاo

(بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)

اور اعلان کر دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا‘ باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔

اللہ کا قانون اور تاریخ کا فیصلہ بلاشبہہ یہی ہے کہ:

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ھُوَزَاھِقٌط (الانبیاء ۲۱:۱۸)

مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مٹ جاتا ہے۔

اللہ کا وعدہ ہے:

وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ o اِنَّھُمْ لَھُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَo وَاِنَّ جُنْدَنَا لَھُمُ الْغٰلِبُوْنَ o فَتَوَلَّ عَنْھُمْ حَتّٰی حِیْنٍ o وَّاَبْصِرْھُمْ فَسَوْفَ یُبْصِرُوْنَ o اَفَبِعَذَابِنَا یَسْتَعْجِلُوْنَ o فَاِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِھِمْ فَسَآئَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِیْنَo وَتَوَلَّ عَنْھُمْ حَتّٰی حِیْنٍ o وَّاَبْصِرْ فَسَوْفَ یُبْصِرُوْنَo (الصٰفٰت ۳۷:۱۷۱-۱۷۹)

اپنے بھیجے ہوئے بندوں سے ہم پہلے ہی وعدہ کرچکے ہیں کہ یقینا ان کی مدد کی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب ہوکر رہے گا۔ پس اے نبیؐ، ذرا کچھ مدت تک انھیں ان کے حال پر چھوڑ دو اور دیکھتے رہو‘ عنقریب یہ خود بھی دیکھ لیں گے۔

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی تحریک کو مخاطب کر کے یاد دلایا جاتا ہے:

وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَاَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہٖ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo (الانفال ۸:۲۶)

یاد کرو وہ وقت جب کہ تم تھوڑے تھے‘ زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا‘ تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمھیں مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تم کو جاے پناہ مہیا کردی‘ اپنی مدد سے تمھارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمھیں اچھا رزق پہنچایا‘ شاید کہ تم شکرگزار بنو۔

غلبۂ حق کی نوید تمام صحف سماوی میں مرقوم ہے:

وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِـنْم بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَo اِنَّ فِیْ ہٰذَا لَبَلٰغًا لِّقَوْمٍ عٰبِدِیْنَo وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَo(الانبیاء ۲۱:۱۰۵-۱۰۷)

اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے اس میں ایک بڑی خبر ہے عبادت گزار لوگوں کے لیے اور اے نبیؐ، ہم نے تم کو دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

دنیا میں کامیابی اور آزمایش دونوں ہی اہلِ ایمان کی تقدیر ہیں:

عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّھْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ o (الاعراف ۷:۱۲۹)

قریب ہے وہ وقت کہ تمھارا رب تمھارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے‘ پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔

حق و باطل کی اس کش مکش میں نشیب و فراز آتے ہیں۔ شکست و فتح دونوں سے سابقہ پڑتا ہے اور اس عمل سے گزرے بغیر منزل مقصود حاصل نہیں ہوتی لیکن استقامت اور وفاداری سے جو جدوجہد کی جائے گی‘ وہ بالآخر کامیاب ہوکر رہے گی:

اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗط وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ ج وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُھَدَآئَ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۴۰)

اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمھارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔ یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں‘ اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہیں۔

مخالفت کے طوفان اہلِ ایمان کے عزم و ہمت اور توکل اور ایقان میں اضافے کا باعث ہوتے ہیں اور جب وہ استقامت دکھاتے ہیںتو پھر اللہ کی مدد آتی ہے اور وہ غالب و کامران رہتے ہیں:

اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النُّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِیْمَانًا وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُo فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَفَضْلٍ لَّمْ یَمْسَسْھُمْ سُوْٓئٌ لا وَّاتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللّٰہِط وَاللّٰہُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِیْمٍo (اٰل عمرٰن ۳: ۱۷۳-۱۷۴)

جن سے لوگوں نے کہا کہ’’تمھارے خلاف بڑی قوتیں جمع ہوئی ہیں‘ ان سے ڈرو‘‘ تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انھوں نے جواب دیا: ’’ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے‘‘۔ آخرکار وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹ آئے‘ اور ان کو کسی قسم کا ضرر نہ پہنچا اور اللہ کی رضا پر چلنے کا شرف بھی انھیں حاصل ہوگیا‘ اللہ بڑا فضل فرمانے والاہے۔

اللہ کا وعدہ یہ بھی ہے کہ:

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَo ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ o (الصف ۶۱:۸-۹)

یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں‘ اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

اور پھر اہل ایمان کو دعوتِ جہاد دی جاتی ہے جو آخرت کی کامیابی‘ جو فوزِ عظیم کا زینہ اور ضمانت ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا گیا کہ:

وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا ط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَo(الصف ۶۱:۱۳)

اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو‘ وہ بھی تمھیں دے گا‘ اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبیؐ، اہلِ ایمان کو اس کی خوشخبری دے دو۔

مشکلات اور سختیاں ضرور آئیں گی مگر پھر اللہ تعالیٰ آسانیوں اور کامیابیوں کا سامان بھی کر دے گا بشرطیکہ اس پر توکل کر کے اپنی جدوجہد جاری رکھیں اور استطاعت بھر جدوجہد میں کمی نہ کریں۔

سَیَجْعَلُ اللّٰہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا o (الطلاق ۶۵:۷)

بعید نہیں کہ اللہ تنگ دستی کے بعد فراخ دستی بھی عطا فرما دے۔

فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o (الم نشرح ۹۴:۵-۶)

پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔ بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔

سب سے اہم چیز یہ ہے کہ کسی حالت میں بھی اللہ سے مایوس نہ ہوا جائے اور جدوجہد سے کسی صورت میں بھی پہلوتہی نہ کی جائے۔ مومن کی قوت کا سب سے بڑا ذریعہ اللہ رب العزت سے تعلق ہے اور اس کا وعدہ ہے کہ اہلِ ایمان اور اہلِ تقویٰ کا مستقبل ہر حال میں روشن ہے‘ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی‘ اور اگر اہلِ ایمان صحیح طریقے سے جدوجہد کریں توانھیں آخرت کی کامیابی کے ساتھ دنیا میں بھی کامرانی حاصل ہوگی‘ اس لیے حالات کیسے بھی مشکل اور نامساعد ہوں‘ اہلِ ایمان کے لیے مایوسی کی کوئی گنجایش نہیں‘ قرآن کے الفاظ میں مایوسی کفر ہے اور اللہ کی رحمت کا دروازہ ہر لمحے کھلا ہوا ہے۔ ہر حال میں مومن کی نظر اپنے اللہ کے وعدے‘ اس کی نصرت اور مدد‘ اس کی اعانت اور سرپرستی اور اس کی رضا اور خوش نودی پر ہوتی ہے اور یہی وہ چیزہے جو اس کی زندگی کے ہر لمحے کو روشن اور اس کے ہر قدم کو تابناک مستقبل کی طرف پیش رفت بنا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میںتابناکی اور کامیابی‘ اگر وہ آخرت کی کامیابیوں کے تسلسل کے لیے ہو‘ تو وہ خود بھی اصل کامیابی کے موثر ذریعے کی حیثیت سے ایک مطلوب شے ہے‘ نامطلوب چیز نہیں ہے‘ لیکن معیار‘ آخرت کی کامیابی ہی کو ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ اگر آخرت کی کامیابی کی بنا پر یہاں ہماری ساری زندگی صعوبتوں میں گزر جاتی ہے تو بھی یہ ناکامی نہیں۔ یہ بھی روشنی کی طرف اور تابناکی کی طرف پیش قدمی ہے۔ البتہ یہ اللہ کا ہمارے اوپر بڑا انعام ہے‘ رحم ہے اور فضل ہے کہ اس نے ہماری کمزوریوں کی بناپر ہم کو کسی ایسی آزمایش میں نہیں ڈالا جو ہماری استطاعت سے بڑھ کر ہو۔ انسان کی فطرت کا لحاظ رکھتے ہوئے اُس نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ ہمیں زمین میں خلافت اور تمکن عطا کرے گا تاکہ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ اس دین کو دوسرے تمام طریقوں کے اوپر غالب کرنا اس کی سنت اور وعدہ ہے۔ یہ ساری چیزیں بھی مسلمان کا مقدر ہیں‘ ہماری تاریخ اور جدوجہد کا حصہ ہیں۔

مستقبل کی تابناکی کے بارے میں ایک مومن کو ایک پَلکے لیے بھی شک یا خوف میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ یقینا مشکلات ہیں‘ مسائل ہیں‘ پریشانیاں ہیں‘تصادم ہے‘ مگر اس کے ساتھ ساتھ ایمان کی قوت‘ اللہ پر بھروسا اور اللہ کا یہ وعدہ لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ کہ مایوس کبھی نہ ہونا‘ ہمت نہ ہارنا اور تابناک مستقبل کا صرف خواب ہی نہیں دیکھتے رہنا بلکہ اس کے لیے سرگرم عمل ہوجانا‘ یہ مسلمان کی شخصیت کا لازمی حصہ ہے۔ تو کیسی ہی پریشانیاں اور کیسی ہی مشکلات کیوں نہ ہوں لیکن ہماری نگاہ اسلام کے روشن مستقبل ہی پر ہونی چاہیے۔

کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ جب ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ اس دعوت اور اس پیغام کا آغاز فرمایا تو حضرت ابوذر غِفاریؓ اسلام قبول کرتے ہیں اور اُن کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ ابھی آغازِ وحی کا تیسرا اور چوتھا سال ہی ہے۔ اس موقع پر ایک اِعرابی آتا ہے‘ اسلام قبول کرتا ہے اور حضوؐر اس سے یہ کہتے ہیں کہ اپنے قریے میں چلے جائو اور انتظار کرو اس وقت کا جب یہ دین غالب ہوگا۔ آپؐ قریش کے سرداروں کو مخاطب فرما کر کہتے ہیں کہ کیا میں تم کو ایک ایسا کلمہ نہ بتا دوں کہ جس کو اگر تم مان لو تو پھر عرب اور عجم تمھارے تابع ہوں گے۔ وہ وقت کہ جب مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم اور تعذیب اس مقام پر تھی کہ حضرت خبابؓ جیسے اولوا العزم صحابی بھی بے چین ہوکر کہتے ہیں: یارسولؐ اللہ! اللہ کی مدد کب آئے گی؟ تو آپؐ فرماتے ہیں کہ خباب‘ کیا تم ابھی سے تھک گئے ہو؟ کیا تم نہیں جانتے کہ تم سے پہلی قوموں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا‘ ان کے گوشت کو ان کی ہڈیوں سے لوہے کی کنگھیوں سے جدا کیا گیا تھا اور ان کے جسم کو آروں سے کاٹ دیا جاتا تھا لیکن وہ اللہ کی راہ پر قائم رہتے تھے۔ لیکن دیکھیے حضور اکرمؐ یہ بات کہہ کر رک نہیں گئے بلکہ آپؐ نے فرمایا: خدا کی قسم! وہ وقت آئے گا جب ایک سوار تنِ تنہا صنعا سے حضرموت تک بے خوف و خطر سفر کرے گا اور اللہ کے سوا اسے کوئی خوف نہ ہوگا‘ یعنی جب دین حق کو غلبہ حاصل ہوگا۔ پھر سب نے دیکھا وہ وقت آیا اور اَطْعَمَھُمْ مِّنْ جُوْعٍ لا وَّاٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍo (قریش ۱۰۶:۴) کی کیفیت پیدا ہوگئی‘ یعنی بھوک سے تحفظ اور کھانے کی فراوانی اور خوف سے نجات اور امن کی نعمت۔ پھر وہ وقت کہ جب حضوؐر مکہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ہجرت کا وقت ہے‘ بظاہر کس مپرسی کا عالم ہے۔ اپنے وطن کو چھوڑنا پڑ رہا ہے اور اس وقت جب سراقہ آپؐ کا تعاقب کر کے آپؐ تک پہنچ جاتا ہے تو آپؐ اسے کہتے ہیں کہ تمھیں کسریٰ کا کنگن دیا جائے گا۔ کیا وقت ہے لیکن کسریٰ کے کنگنوں کا ذکر کس اعتماد کے ساتھ کیا جا رہا ہے اور پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ کسریٰ کے کنگن آئے اور اس شخص کو دیے بھی گئے‘ سبحان اللہ!

تابناک مستقبل کی بات‘ میں کسی خوش فہمی یا شاعرانہ خیال آرائی کی بنا پر نہیں کر رہا بلکہ  اللہ کی کتاب اور نبی پاکؐ کی سنت یہ دونوں ہمیں یہ اعتماد اور یقین دلاتے ہیں کہ جو بھی حالات ہوں اور جیسے بھی حالات ہوں وہ لوگ جنھیں اللہ نے ایمان کی دولت سے مالا مال کیا ہے وہ تابناک مستقبل کے بارے میں کبھی کسی غلط فہمی کا یا کسی مایوسی کا شکار نہیں ہو سکتے۔

تاریخ کی گواھـی

اگر آپ تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ تاریخ کے نشیب و فراز‘ قوموں کا عروج و زوال‘ پستی و بلندی کے مناظر‘ کامیابی و ناکامی کی داستانیں‘ فتح و شکست کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اللہ کے اسی وعدے کا منظرنامہ پیش کرتے ہیں۔ معلوم تاریخ میں کم از کم ۳۶ عظیم تہذیبوں کے اسی سفر کی کہانی ملتی ہے اور عروج کے وقت ہر تہذیب کو یہی گمان تھا کہ اب اس کا کوئی مقابلہ کرنے والا نہیں ہے۔لیکن پھر چشمِ تاریخ نے دیکھا کہ اُسے زوال‘ انتشاراور شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری اقوام اُبھریں اورتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ کا یہ سلسلہ برابر چلتا رہا اور چلتا رہے گا۔ حضرت عیسیٰ ؑنے سچ کہا تھا کہ کتنے آگے ہیں جو پیچھے رہ جائیں گے اور کتنے پیچھے ہیں جو آگے نکل جائیں گے۔

قرآن کہتا ہے کہ اسی طرح ہم قوموں کے در میان اتار چڑھاؤ‘کامیابی وناکامیابی اور زندگی ا ور موت کے دور لاتے رہتے ہیں۔ تاریخ سے صاف نظر آتا ہے کہ کوئی بھی دور ابدی یا مستقل نہیں۔ نہ کامیابی کو دوام ہے اور نہ ناکامی کو۔ حالات برابر بدلتے ہیں ۔اس لیے کسی ایک صورت حال کے اوپر یہ سمجھ لینا کہ اَب تو ہم بس پھنس گئے ‘اب کوئی را ستہ نہیں۔ اب شکست ہمارا مقدر ہے اور دوسروں کے تابع دار بن کر ہی زندہ رہ سکتے ہیں‘ یہ ایک مغالطہ ہے۔ جس کی نگاہ تاریخ پر ہو گی وہ کبھی بھی اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہو سکتا۔

پو ری تاریخ کو چھوڑ دیجیے ۔ بہت سے لوگ آج موجود ہیں ‘میں خود بھی اپنے آپ کواِن میں شامل کر تا ہوں جنھوں نے چشمِ سر سے دیکھا کہ سلطنتِ برطانیہ کا ایک زمانے میں کیا دبدبہ  تھا۔ اسے دنیا کی حکمران قوت ہونے کار زعم تھا۔ غلبہ و بالادستی کو وہ اپنا مقدر سمجھتی تھی اور غرور کا یہ حال تھا کہ اس نے انگریزی زبان میں اس محاورے کا ا ضا فہ کیا کہ:

Sun is never set in the British Empire.

چونکہ دنیا کی چو تھا ئی سرزمین پر اس کی حکمرا نی تھی‘ اس لیے اس کا دعویٰ تھا کہ ہماری حکمرانی میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا ۔ایک جگہ سے غروب ہوتا ہے تو دو سری جگہ سے اُبھر جاتا ہے۔ لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ چند ہی سالوں میں اس کی سلطنت قصۂ پارینہ بن گئی اور کیفیت یہ ہوئی کہ وہ ایک سپرپاور سے سکڑکر ‘ صرف ڈیڑھ جزیرے کی حکومت رہ گئی۔ اور اب تو عالم یہ ہے کہ ہفتوں اس کی قلمرو میں سورج طلوع نہیں ہوتا! اسی طرح دولتِ برطانیہ نے انگریزی زبان میں اس محاورے کا اضا فہ کیا کہ Britannia rules the waves ‘یعنی دنیا کے سارے سمندروں کے پانی پرہما ری حکمرانی ہے لیکن پھر ہم نے دیکھا کہBritannia had to waive the rule [یعنی برطانیہ کو حکومت چھوڑنا پڑی]اور سمندر اس کی گرفت سے نکل گیا۔ تو یہ ہیں وہ نشیب وفراز ‘ جن میں مغرور کے طلسم کا ٹوٹنا اور مظلوم کا بالاتر قوت بن جانا‘ یہ سب مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔

ابھی کل کی بات ہے کہ امریکا اور اشتراکی روس دونوں بڑی طاقتیں (super powers) تھیں اور دونوں ایک دو سرے سے برابر پنجہ آزمائی کر رہی تھیں۔ کیا آپ بھول گئے کہ روس کے سربراہ مملکت خروشچیف اقوامِ متحدہ کے ہال میں میز پراپنے جوتے رکھ کرکے کہتا ہے کہ : I have come here to bury capitalism. (میں یہاں سرمایہ داری کا جنازہ نکالنے آیا ہوں)۔

اور پھر آپ نے دیکھا کہ کس طرح روس منتشر ہو جاتا ہے۔ گویا کہ محض ایک خاص موقعے پر کسی کاحا وی ہوناکوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جس کو ابدی (everlasting) سمجھا جائے۔اقتدار‘ غلبہ اور قوت سب بڑی وقتی اور عارضی چیزیں ہیں۔ہم نے خود اس کا نظارہ کیا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ ایسے ابھی اور بہت سے تجربات اور مناظر ہم اور آپ دیکھیں گے۔ اس لیے یہ سمجھ لینا کہ اس وقت فلاں غالب ہے تو وہی غالب رہے گا‘ درست نہیں۔

اپنے ملک کی تاریخ بھی آپ دیکھ لیجیے۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ ایک سرپھرے آمر (اسکندر مرزا) نے مکمل اقتدار کے زعم میں برسرِاقتدار آنے کے بعد پہلا بیان یہ دیا تھا کہ ہم اِن مولویوں کو کشتیوں میں بٹھا کر کے سمندر پار بھیج دیں گے۔ لیکن اللہ کی قدرت کو آپ نے دیکھا کہ مو لوی تو الحمد للہ وہیں ہیں ۔ خود اس کو ایک مہینے کے اندر ملک چھوڑنا پڑا۔یہاں کون تھا جس نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ’’ہما ری کر سی مضبوط ہے اور اس کو کوئی نہیں ہلا سکتا‘‘۔ لیکن کون سی کر سی ہے جو با قی رہ گئی۔ آپ چا ہے وسیع تر تاریخ کے پسِ منظر میں دیکھیں‘ چاہے اپنے دور کے عا لمی سطح پر رونما ہو نے والے نشیب وفراز کو دیکھیں اور خواہ آپ اپنے ملک میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر غور کریں‘ کہیں بھی مایوسی کے لیے کوئی وجہِ جواز نظر نہیںآتی۔ اس سے انکار نہیں کہ تاریکی آتی ہے‘ شکستیں بھی ہوتی ہیں‘ لیکن ہر نشیب کے بعد فراز اور ہر شکست کے بعد کامیابی کا امکان بھی رونما ہوتا ہے۔ کیا خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی بلندیوں کے بعداُحد کی ہزیمت نہیں دیکھی ۔کیا حدیبیہ کے بعد فتحِ مکہ کا منظر رونما نہیں ہوا۔ کیا فتح مکہ کے بعد حنین سے سابقہ پیش نہیں آیا۔یہ نشیب و فراز زندگی کی حقیقت ہیں۔لیکن ان میں سے کسی کو لے کر یہ سمجھ لینا کہ اب کچھ ممکن نہیں اورہمت ہار جانااور مایوسی میں گرفتار ہو جانا کسی مسلمان کا شیوہ نہیں۔ جس کی نگاہ تاریخ پر ہو ‘انسانی زندگی کے نشیب وفراز پر ہو وہ کبھی بھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوسکتا۔ اس کے اوپر قرآن شا ہد ہے ‘سیرت شاہد ہے ‘پو ری تاریخ گواہ ہے اور میرا اور آپ کا تجربہ گواہ ہے۔تو پھر کیوں ایک خاص وقت کی کیفیت کو ہم مستقل اور دوام کا درجہ دینے کی غلطی کریں۔ ہمیں چیزوں کو ان کے حقیقی پسِ منظر میں دیکھنا چاہیے اور اسی کی رو شنی میں پھر ہمیں اپنا رویہ اور اپنا کرنے کاکام متعین کرنا چاہیے۔

قابلِ غور مثبت پھلو

اس پس منظر میں غور کرنا چاہیے کہ جہاں یہ ناقابلِ انکار حقائق ہیں اور جہاں اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ ان شاء اللہ حق غالب ہوگا اور باطل کو شکست ہوگی‘ وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمیں ہمیشہ پو ری دیا نت کے ساتھ حالات کا بے لاگ جا ئزہ لینا چاہیے۔ خوش فہمیوں میں رہ کر کبھی کوئی فرد یا کوئی قوم وقت کے تقا ضوں کو پورا نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ پاک میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ مبارک میں جو بھی نشیب وفراز آئے اور معرکے ہوئے‘ اُن کے اوپر خود زمین و آسمان کے مالک نے تبصرہ فرمایا ہے‘ احتساب کیا ہے‘ آیندہ کے لیے سبق سکھائے ہیں۔ یہ بھی حکمت ہے کہ اس پورے تبصرے کو ہمیشہ کے لیے قرآن کا حصہ اس لیے بنا دیا گیا تاکہ انسان خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں۔ ہمیں متنبہ کردیا گیا اس وقت بھی جب اللہ کا نبیؐ ہمارے درمیان تھا‘ اگر انسانوں نے حقائق سے صرفِ نظر کیا ‘احکام سے رو گر دانی کی یاجو ذمہ داری سونپی گئی ہے اس کو ادا نہ کیا گیا تو جیتی ہوئی با زی پلٹ سکتی ہے۔ اور اسی طرح اگر حق کے داعی کی آواز پر لبیک کہا تو ہا ری ہوئی با زی جیتی جا سکتی ہے۔ قرآنِ پاک میں یہ تمام چیزیں اسی لیے محفوظ کی گئی ہیں کہ ہم اُن سے سو چنے کا انداز ‘ غوروفکر کا اَسلوب اور ہر دور میں حالات کے جائزے ‘ اُن کا احتساب ‘ان کی تشخیص اور پھر ان کی رو شنی میں لائحہ عمل کی تیاری کاکام انجام دے سکیں۔

اس وقت ہم بڑے نازک امتحانی دور سے گزر رہے ہیں ۔ تاہم‘ اس میں کچھ بڑے مثبت پہلو ہیں اور ان مثبت پہلوؤں میںیہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ عددی اعتبار سے مسلمان آج ‘ایک ارب ۴۰کروڑ کے قریب ہیں جو دنیا کی آبا دی کا پانچواں حصہ ہیں ۔ہم ابھی اڑھائی تین سو سال کے کھلے کھلے استعماری دور کے تسلط سے نکلے ہیں ۔ پورا عالمِ اسلام پانچ بڑی مغربی استعماری قوتوں کی گرفت میں تھا اور ہمیں سانس لینے تک کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن ہمارے دیکھتے دیکھتے استعمار کی گرفت ڈھیلی پڑی‘ اور غلامی کے سائے چھٹے اور ۵۷ آزادمسلمان مملکتیں وجود میں آئیں۔ تقریباً۹۰ کروڑ مسلمان اِن آزاد مملکتوں میں ہیں۔ اور تقریباً ۴۰‘ ۴۵ کروڑ مسلمان ایسے ہیں کہ جو ۹۰‘ ۹۵ مسلم آبادیوں کی شکل میں غیر مسلم ممالک میں رہ رہے ہیں۔ یہ عددی قوت ہر ایک اعتبار سے بڑی اہم حقیقت ہے۔ معاشی ‘ عسکری اور نظریاتی ہر اعتبار سے دنیا کے مستقبل کا فیصلہ کر نے میں انسانوں کی اتنی بڑی تعداد اور ان کی یہ قوت ایک بڑا اہم کر دار ادا کر تی ہیں۔

پھران ممالک کا محلِ وقوع دیکھ لیجیے ۔ دنیا کے کل زمینی رقبے کا تقریباً۲۳ فی صد مسلمانوں کے اقتدار کے تحت ہے۔اور یہ سارا علا قہ معاشی وسائل سے مالامال ہے۔ پو ری دنیا کی توانائی کے ۸۰فی صد ذخا ئرہمارے پاس ہیں۔ مالی وسائل اور جنگی اعتبار سے اور معاشی نقطۂ نظر سے تمام اہم  راستے انھی علاقوں سے گزرتے ہیں۔ معاملہ خواہ زمینی رابطوں کا ہو‘ یا سمندری اور ہوائی ‘ ان تمام میں مر کزی حیثیت مسلمان ممالک کی ہے۔

لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جسے ہم آزادی کہہ رہے ہیں‘ وہ صحیح معنوں میں مکمل طور پر آزا دی نہیں ہے۔بظاہر قانونی اور سیا سی انداز میں ہم استعمار کی گرفت سے نکل گئے ہیں‘ لیکن ان کا فکری غلبہ ‘تہذیبی گرفت ‘ عسکری اور معاشی قوت کا عدم توازن اور پھر اس وقت   عالم گیریت اور گلوبل سسٹم جس انداز سے کارفرما ہیں تو اس میں ایک سوپر پاور عسکری اور سیاسی اعتبار سے ‘ اور مغربی تہذیب فکری اور سا ئنسی‘ ٹکنالوجی اور ثقا فتی اعتبار سے چھائی ہوئی ہے اور مسلمان ملکوں کی آزادی حقیقی آزادی کا رنگ اختیار نہیں کر سکی ہے۔ دوسرے الفاظ میں نوآبادیاتی تسلط ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوا۔

اس نئے دور میں نوآبادیاتی استعماری تسلط کی شکل میںبڑی جو ہری تبدیلی آئی ہے‘اس کو سمجھنا ضروری ہے۔  یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی ایک ملک کے لیے خواہ عسکری اعتبار سے وہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو‘ ممکن نہیں کہ وہ پوری دنیا کو زیادہ دیر تک اپنی گرفت میں رکھ سکے۔بش چار سوا چار سال سے جو کچھ کر رہے ہیں اس کا نشا نہ صرف ہم رہے‘اُس کی قیمت ہم ادا کر تے رہے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خواہ وہ افغانستان ہو یا عراق ہو‘ سوپرپاور جو کچھ کرنا چاہتی تھی نہیں کر سکی اور وہ مجبور ہے کہ اپنی قوت کی کم مایگی (limitations of power )کا بھی احساس کرے۔ وہ جو کچھ کرنا چاہتی ہے محض اپنی قوت کے زعم میں کرنہیں سکتی۔ اگر کہیں اسے جبر کی قوت سے غلبہ میسر آبھی گیا ہے‘ تب بھی اس کا اقتدار بڑا کمزور اور محدود ہے اور اسے اس کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ ہرجگہ مزاحمت ہے اور یہ مزاحمت ایک بہت بڑے قومی اور مؤثر عنصر کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ سوپرپاور کی قوت کا مقابلہ اس کے سامنے سر جھکا دینے اور غلامی کو قبول کر لینے سے نہیں بلکہ سامراجی قوت کی مزاحمت کرنے سے ہوتا ہے۔ نائن الیون کے واقعے سے بڑے منفی نتائج رونما ہوئے ہیں۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سوپر پاور کے لیے ہر میدان میں اپنی من مانی کرنا ممکن نہیں رہاہے۔دہشت گر دی کے خلاف جنگ کا جائزہ لیجیے۔ آج نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا اُس سے کہیں زیا دہ غیر محفوظ ہے جتنا اس واقعے سے پہلے تھی۔ طا قت کی اس ساری نمایش اور کشت وخون کے ذریعے افغانستان کو کھنڈر بنا دیا گیا ۔وہاں ۲۰ سے ۲۵ہزارمعصوم افراد شہید ہوئے۔ عراق میں ایک لاکھ سے زیا دہ عام شہری شہید ہوئے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ساری قوت اور وسائل کے بے محابا استعمال کے باوجود یہ سوپرپاور افغانستان ہو یا عراق کہیں بھی محفوظ نہیں۔

پھر آپ یہ دیکھیے کہ کس طرح عوامی بیداری کی ایک لہرسا ری دنیا میں رونما ہوئی ہے۔دنیا کے ہر سروے میں امریکا کی غیرمقبولیت بلکہ نفرت نمایاں نظر آتی ہے۔ وہ ممالک جن کی قیادتیں  بظاہر اس کے ساتھ ہیں‘مثلاً خود ترکی کا ایک سروے یہ بتاتا ہے کہ۸۰ فی صد سے زیادہ آبا دی اُس سے نفرت کا اظہار کررہی ہے۔جر منی اور فرانس کے ۶۰اور ۷۰فی صد لوگ امریکا اور روس کی پالیسیوں سے بے زاری کا اظہار کر رہے ہیں۔بر طا نیہ اس کا سب سے بڑا حلیف ہے لیکن وہاں عوامی ردِ عمل کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمند ر امریکا اور برطانوی حکومت کو چیلنج کر رہا ہے۔ میں نے خوداپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح لوگوں نے احتجاج کیا۔ ۱۹ مارچ ۲۰۰۵ء کو عراق پر حملے کے   دو سال بعد پورے یورپ میں اس ناجائز جنگ کے خلاف شدید عوامی مظاہرے ہوئے ہیں۔

ہما ری موجودہ فوجی حکومت بھی اس معاملے میں بش کے ساتھ ہے لیکن ملک کے کسی بھی کونے یاگوشے میں جا کر دیکھ لیجیے کہ عوام کے اس با رے میں جذ بات کیا ہیں۔نیوز ویک نے یہ دل چسپ اور عبرت آموز واقعہ ریکارڈ کیا ہے کہ افغانستان میں جس پاکستانی فوجی دستے نے ۱۰افغانوں کو شہید کیا تھا جب اس کا کما نڈر جو غالباً لیفٹیننٹ کرنل کے رینک کا تھا ‘ہلاک ہوا اور اس کا جنازہ اس کے گاؤں میں آیا تو اس کے باپ نے اپنے بیٹے کی نمازِ جنا زہ پڑھنے سے انکار کر دیا۔ نیوز ویک کے نمایندے نے اس سے پو چھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا ؟ تو اس نے کہا کہ میں نے اپنے بیٹے کو بڑی تمناؤں سے فوج میں بھیجا تھا مگر اس لیے نہیں بھیجا تھاکہ وہ جاکر مسلمانوں کو مارے ۔ اس کی نماز جنازہ بش کو پڑھنی ہے تو پڑھے‘ میں باپ ہوتے ہوئے بھی اس غدار کی نماز نہیں پڑھ سکتا۔ یہ ایک فرد کا واقعہ نہیں ہے ‘ایک باپ کا وا قعہ نہیں ہے‘یہ ایک قوم کی سوچ ہے۔    یہی پوری اُمت مسلمہ کی سوچ ہے۔

اسی طرح انڈی پنڈنٹ کے نامہ نگار رابرٹ فسک نے ایک پورا مضمون افغانستان کے بارے میں لکھا ہے جس میں وہ کہتا ہے: میں جہاں بھی گیا ہوں امریکی بم باری سے جولوگ شہید ہوئے ہیں‘ ان کے مزارلوگوں کے لیے مر جع بنے ہوئے ہیں۔ ہر جمعے کو وہاں عرس کا سماں ہوتا ہے اور امریکی فو جی تنہا با ہر نکلنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔ اس طرح دیکھیے بظاہر امریکا کا غلبہ ہے ‘خون بھی بہہ رہا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی غورطلب ہے کہ عوامی سطح پر اس کا ردِ عمل کیا ہو رہا ہے۔ ہمیں منفی اور مثبت‘ روشن اور تا ریک دونوں پہلوئوں پر نظر رکھنی چاہیے۔ صرف ایک چیز کونہ دیکھیے۔ ساری بربادی کے باوجود‘ مَیں تو اس صورتِ حال میں ایک تابناک مستقبل کے امکانات بچشمِ سر دیکھتا ہوں۔

لیکن یہ بات ضرور میں کہنا چا ہتا ہوں کہ یہ تابناک مستقبل آپ سے آپ نہیں آئے گا۔ یہ اللہ کا قانون ہے کہ تبدیلی مسلسل جدوجہد‘ قربانی اور ثابت قدمی سے آتی ہے‘ یہی اللہ کی سنت اور قانون ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے قانون اور سنت کو بدلتا نہیں۔  فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًاج وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًاo (فاطر ۳۵:۴۳) ’’تم اللہ کی سنت میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائو گے اور تم اللہ کی سنت کو ٹلتی ہوئی ہرگز نہ دیکھو گے‘‘۔

قانون یہ ہے کہ آپ کو اس تابناک مستقبل کے لیے کوشش کرنی ہو گی۔آپ کو اس کے لیے جدوجہد کرنی ہو گی۔مجھے اور آپ کو اس کے لیے اپناکردار ادا کر نا ہو گا۔ پھر یہ تابناک ہو گا‘ اور کوئی چیز اس کو تابناک ہونے سے روک نہیں سکتی۔لیکن اگر ہم اپنا فرض ادا نہیں کریں گے‘ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے‘ یا ہم مایوسی کا شکار ہو جائیں گے تو پھر یہ مستقبل تابناک نہیں‘ تاریک ہوگا۔کسی بھی کاروبار میں نفع نقصان دونوں ہو تے ہیں۔بار بار نقصان ہوتے ہیں۔ آدمی دیوالیہ ہوجاتا ہے‘ دکان بند کرنی پڑجا تی ہے۔کارخانے پر قفل لگ جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ ایک حقیقت نہیں ہے کہ ایک نقصان کے بعد آپ پھر نفع کے لیے کوشش کر تے ہیں۔ایک بارکاروبار میں نقصان ہونے کے بعد آپ پھر دوسرا کاروبار شروع کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔اگر کاروباری زندگی میں آپ کا یہ رویہ ہے تو پھر سیاسی ‘تہذیبی‘ دینی اور ایمانی زندگی کے لیے آپ اِس سے ہٹ کر کے کیوں سو چتے ہیں؟

منزل اور مقصد کا شعور

تابناک مستقبل تو ہمارا مقدر ہے۔ لیکن یہ اسی وقت ہمارا مقدر ہے جب ہم اس کا حق ادا کرد یں گے۔ اس کے لیے دو چیزیں بہت ضروری ہیں ۔پہلی چیز خود احتسابی ہے۔ آپ دیانت داری کے ساتھ جائزہ لیں کہ ہماری کمزوری کے اسباب کیا ہیں؟ پھر آپ یہ دیکھیں کہ ان حالات کا مقابلہ کر نے کے لیے صحیح لائحہ عمل کیا ہوسکتا ہے؟

جدوجہد اور اس کے نتیجے میں کامیابی کے لیے اولیں شرط ہے منزل اور مقصد کا شعور‘ یعنی انسان کا وژن‘ اس کا تصور ِ حیات۔ میں اگر اسے سے ذرازیا دہ کھل کر کہوں تو اس کا ایمان اور ایمان کی بنیاد پر اُس کا مقصدِ حیات اور زندگی کے اہداف۔ اگر یہ کمزو ری کا شکار ہو جائیں تو یہ سب سے بڑی مصیبت اور سب سے بڑی ناکامی ہے۔ آج مسلمانوں کا معاملہ یہی ہے کہ اللہ کی کتاب بھی موجود ہے ‘اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی موجود ہے‘ ہما ری تاریخ بھی موجود ہے اورصلحاے اُمت کی کوششیں اور کارنامے اور خدمات بھی موجود ہیں۔لیکن اس کے باوجود عملاََہم نے بھی زندگی کوخانوں میں بانٹ دیا ہے۔میں اُن کی بات نہیں کر رہا جو دین سے اتنے غافل ہیں کہ صرف دنیا کو اپنا ملجا اورماویٰ اور اپنا سب کچھ بنا چکے ہیں۔میں اُن کی بات کر رہا ہوں جو نمازیں پڑھتے ہیں ‘ جو روزہ رکھتے ہیں جو گڑگڑاگڑگڑا کر دعائیں بھی کر تے ہیں‘ جو صدقات وخیرات بھی دیتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں سو چتے کہ اِس نماز کے اثرات ہما ری انفرا دی اور اجتما عی زندگیوں پر بھی پڑنے چا ہییں۔کیا ہماری ذمہ داری صرف نماز پڑھ لینے کی ہے یا جس خدا نے ہمیں نماز پڑھنے کے لیے کہا ہے‘ اس نے ہمیں یہ بھی کہا ہے کہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَـنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ، یعنی نماز تو وہ ہے جو انسان کو فحش اور منکر سے روکتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں جو پوری زندگی کو اللہ کی بندگی میں لانے کا ذریعہ بنتی ہے۔

ہم بڑے اہتمام سے رمضان کا استقبال کرتے ہیں ‘سحری اور افطار کا اہتمام کر تے ہیں‘ عیدیں منا تے ہیں لیکن یہ بھول جا تے ہیں کہ یہ روزہ تو تقویٰ کے لیے ہے۔یہ رو زہ تو اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے ہے۔قرآن نے تو اس کا مقصد اور حاصل یہ بتایا ہے کہ جس ہدایت‘ یعنی قرآن سے تمھیں سرفراز کیا ہے اسی پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکرگزار بن جائو (وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo البقرہ ۲:۱۸۵)۔ گویا روزہ تو اس مقصد کے لیے ہے کہ ہم قرآن کے پیغام کو پھیلائیں‘ اللہ کی حاکمیت کو قائم کریں اور دین کی سربلندی کی جدوجہد میں مسلسل مصروف رہیں۔

ایمان کی فکر اور ایمان کے مطابق زندگی گزارنے کا عزم ہماری قوت کی پہلی بنیاد ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم اپنا جا ئزہ لے کر کے یہ دیکھیں کہ ایمان ‘ایمان کے تقاضے ‘ زندگی کا مقصد اس کے اہداف اوروژن ‘اور اِس وژن کے ساتھ ساتھ پھر اِیمان اور عمل کے تعلق کی کیا کیفیت ہے۔ اسلام میں ایسا کوئی تصور موجود نہیں ہے کہ ایمان عمل کے بغیرہو ‘ جس طرح عمل ایمان کے بغیر ممکن نہیں ہے اسی طرح ایمان بھی عمل کے بغیر نامکمل اور بے ثمر ہے‘ یہ دونوں ساتھ ساتھ ہیں۔ لہٰذا ہماری پہلی کمزوری ایمان کی‘ تصورِ زندگی کی ‘مقصودِ حیات کی‘ ہدف کی اور منزل کے شعور کی ہے۔ اگر اسے ہم درست کر لیں تو باقی تمام معاملات صحیح رُخ پر آسکتے ہیں ۔اور جب تک یہ درست نہ ہو تو تابناک مستقبل ایک خواب اور سراب رہے گا‘ وہ ہمارا مستقبل نہیں بن سکے گا۔

اخلاقی قوت

ایمان کے ساتھ دوسری بنیادی چیز اخلاقی قوت ہے۔اخلاقی قوت کی بنیاد ایمان ہے۔ عبادات اِس قوت کو پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ یہ وہ قوت ہے جو انسان کو سکھاتی ہے کہ وہ ظلم کو    نہ برداشت کرے بلکہ اسے چیلنج کرے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے صاف کہا کہ اگر تم اخلاق کے اعلیٰ مقام پر ہو گے تو پھر تم میں سے ہر ایک دس دشمنوں کے لیے کا فی ہوگا۔اور اگر تمھا رے اخلاق کمزور ہو جائیں گے توتم دو کے لیے کافی ہوجاؤ گے۔لیکن آج معا ملہ یہ ہے کہ ہم ایک کا مقابلہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اس لحاظ سے ہماری دوسری کمزوری یہی اخلاقی قوت کی کمزوری ہے۔ اور اخلاقی قوت ایمان اور عبادات کے ساتھ پیدا ہوتی ہے‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے جلا پاتی ہے اور دعوت الی الخیر اور قربانی دینے سے اس میں نمو اور ترقی رونما ہوتی ہے۔

مادی وسائل کی ضرورت

تیسری اہم بات ما دی قوت ہے۔اگر آپ ما دی قوت کوحاصل کر نے میں غفلت برتتے ہیں اور مقابلے کی قوت پیدا کرنے کی فکر نہیں کرتے تو صرف ایمان اور اخلاق کے ذریعے سے آپ یہ با زی نہیں جیت سکتے ہیں۔ اسلام ہم میں حقیقت پسندی پیدا کرتا ہے اور فطرت کے قوانین کے احترام کی تلقین کرتا ہے۔

اسلام کی خوبی ہی یہ ہے کہ اس کی قوت اس کے اندر ہے کہ اس نے  ایمان ‘اخلاق اور مادی قوت‘اِن تینوں کو ایک وحدت میں تبدیل کردیا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس بات کاحکم نہیں دیا کہ قوت حاصل کرو‘ اتنی قوت کہ دشمن پر تمھارا خوف اور دبدبہ قائم ہوسکے اور تم اس کو منہ توڑ جواب دے سکو:

وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ ج لَا تَعْلَمُوْنَھُمْ ج اَللّٰہُ       یَعْلَمُھُمْ (الانفال ۸:۶۰)

اور تم لوگ‘ جہاں تک تمھارا بس چلے‘ زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعدا کو خوف زدہ کرو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔

قرآن میں طاقت کے حصول اور گھوڑوں کو تیار رکھنے کی جو بات کہی گئی ہے وہ محض گھوڑوں تک محدود نہیں بلکہ وہ اس بات کی دعوت ہے کہ اپنے وقت کی بہترین معاشی‘ سائنسی‘ عسکری ٹکنالوجی کو اپنی گرفت میں لاؤ۔ اس بارے میں قرآن نے بڑے پیا رے انداز میںاپنی بات کہی ہے کہ یہ قوت اتنی ہو نی چاہیے کہ تمھا رے دشمن کو خوف ہو جو دراصل تمھا را دشمن ہی نہیں‘ اللہ کا دشمن بھی ہے اور یہ دشمن وہ ہیں جنھیں تم جانتے ہو اور وہ بھی جن کو تم نہیں جانتے لیکن اللہ کو ان کا علم ہے۔

اجتما عی نظام کی اصلاح کے لیے قوت کا حصول ضروری ہے۔ یہ ما دی قوت اگر اللہ کے دین کی سر بلندی کے لیے ہو ‘ اگر اُمت مسلمہ کے شہداء علی الناس کے مشن کو ادا کرنے کے لیے ہو تو یہ عبادت ہے۔ یہ دنیا پرستی نہیں ہے‘یہ ما دہ پرستی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ دیا ہی اسی لیے ہے کہ اُسے ہم مسخر کر کے اُن اخلاقی مقاصد‘اور نظر یات کے غلبے کے لیے استعمال کریں جو استخلاف کی بنیاد پرہما رے ذمے کیے گئے ہیں۔

معاشرے اور قیادت کا بگاڑ

ان تین بنیا دی چیزوں کے بعد پھر میں یہ بات کہنا چا ہتا ہوں کہ ِاس وقت جہاں انفرادی طور پر‘ الحمدللہ ہما رے معا شرے کے اندربہت خیر موجود ہے اور  میری طرح جن افراد کو بھی دنیا کے گوشے گوشے میں جا نے کا موقع ملا ہے‘ وہ یہ گوا ہی دے سکتے ہیں کہ خراب مسلمان معا شرہ   بھی اپنے اندر بڑا خیر رکھتا ہے۔لیکن اس اعتراف کے بعد ‘یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ آج  مسلم معاشرہ ‘مسلمانوں کا اجتما عی نظامِ قانون ‘ اخلاق‘ معیشت سب زبوں حالی کا شکار ہیں۔ اس پر پردہ ڈالنے سے کوئی فا ئدہ نہیں ۔ ہمیں سمجھنا چا ہیے کہ یہ بگاڑکی گرفت میں ہیں اور خود پورے معاشرے اور ریاست کی اصلاح اور تعمیرنو تابناک مستقبل کے حصول کے لیے ضروری ہے۔ انفرادی اصلاح کافی نہیں‘ دعوت‘ نیکی کا حکم‘ برائی کو مغلوب کرنے اور معاشرے اور ریاست کو شریعت اسلامی کے مطابق منظم اور سرگرم کرنا بھی دنیا اور آخرت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔

پانچویں چیز مسلمانوں کی قیادت کا بگاڑ ہے۔اور میں یہاں ’قیادت‘ کے لفظ کو اس کے وسیع ترین مفہوم میں استعمال کر رہا ہوںجس میں گھر کا سر براہ‘ استاد اور تعلیمی ادارے کا سر براہ‘معا شی حیثیت سے قیادت کے مقام پر فائز لوگ‘ اور پھر اجتما عی اور سیاسی قوت اور سربرا ہی۔ اس وقت اُمتِ مسلمہ کا بہت بڑامسئلہ قیادت کا بگاڑ اور اسلامی معیار سے کوسوں دُور ہونا ہے۔ عوام کی خامیاں اپنی جگہ‘ مگر قیادت کا بگاڑ‘ اصل خرابی ہے۔ عوام الناس‘ عمل میں خواہ کتنے بھی گئے گزرے ہوں‘ ان کی خواہشات ‘ اور تمنائیںسب کا ہدف دورِ رسالت مآب اوردورِ خلافت را شدہ ہی ہے۔آپ کسی اَن پڑھ بڑھیا سے پو چھ لیں کہ تم کون سا نظام چا ہتی ہو؟ وہ کہے گی کہ مجھے وہ عدل چاہیے جو حضرت عمر فاروق ؓ نے دنیا کو دیا تھا۔ یہ احساس موجود ہے۔ لیکن قیادت ‘اس کا قبلہ ‘ اس کی وفاداریاں‘ اس کی ترجیحات سب بگاڑ کا شکار ہیں اور عوام اور قیادت کے درمیان ایک سمندر حائل ہے۔صرف سمندر ہی حائل نہیں بلکہ ان کے درمیان مسلسل کش مکش ہے اور اب تو عالم یہ ہے کہ اس قیادت میں ایسے بدنصیب بھی ہیں جن کو یہ تک کہنے کی جسارت ہو تی ہے کہ کیا میں لوگوں کے ہاتھ کاٹنا شروع کر دوں‘اور اس طرح پوری قوم کولنجا کر دوں۔انھیں ڈاڑھی اور حجاب کا تمسخر اُڑاتے ہوئے بھی کوئی شرم نہیں آتی۔ یہ بگاڑ بڑا بنیادی بگاڑ ہے۔

ہمیں ان پانچوں دائروں میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ ان میں سے ہم کسی ایک کو بھی اگر نظر انداز کر تے ہیں تو پھر تابناک مستقبل ایک خواہش تو ہو سکتا ہے‘ ایک حقیقت نہیں بن سکتا۔ یقین جا نیے ان میں سے کوئی مشکل اور کوئی سبب بھی ناقابلِ تسخیر نہیں ۔ہم نے آج بھی ان    گئے گزرے حالات میں اپنی آنکھو ں سے دیکھا ہے کہ کس طرح افراد کی زندگیاں بدلتی ہیں؟  کس طرح قوموں کی تقدیریں بدلتی ہیں؟ میں دو واقعات آپ کو بتانا چا ہتا ہوں۔

دو روشن مثالیں

جب ملایشیا آزا د ہوا تو اس وقت کی حکومت نے یہ طے کیاکہ انگریزوں کی حکمتِ عملی پر عمل کر تے ہوئے اسکول کے بچوں اور بچیوں کو تعلیم کے لیے بیرونِ ملک بھیجیں ۔اس کے لیے برطانیہ‘ آسٹریلیا اور امریکا ان تین ملکوں کا انتخاب کیا گیا۔اور ہزاروں کی تعدادمیں نوجوان نابالغوں اور اسکول کی عمر کے بچوں بچیوں کو بھیجا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ وہ اس طرح مغرب کے رنگ میں رنگ کرکے آئیں گے کہ پھر زندگی کی انھی رنگینیوں کو ملک میں عام کریں گے۔اور ہم اس طریقے سے ان کو آزادی دینے کے بعد بھی اپناغلام رکھ سکیں گے۔لیکن میں آپ کو بتاتاہوں کہABIM اوراسلامی تحریک وہاں پر انھیں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی وجہ سے رونما ہوئی اور بالکل فضا     بدل گئی۔

اس سے بھی زیا دہ آنکھیں کھولنے والی مثال الجزائر کی ہے۔ہم نے تو بر طانوی استعمار کو دیکھا ہے۔ جس میںفرانسیسیوں کے مقابلے میں پھر بھی کچھ معقولیت تھی۔ کچھ قانون کا احترام تھا۔ کچھ مذہبی روادا ری تھی ۔فرانس کا حال تو یہ تھا کہ انھوں نے اپنے مقبو ضہ علاقوں کو سیا سی اور معاشی اعتبار سے ہی تباہ نہیں کیا‘ بلکہ اخلاق ‘ تعلیم ‘حتیٰ کہ زبان‘ کسی کو نہیں چھوڑا۔ الجزائر میں استعمار کے جارحانہ رویے کے نتیجے میں یہ قوم عربی زبان سے محروم ہوگئی تھی۔جب ۵۵/۱۹۵۴ء میں وہاں کی قومی محاذ آزادی (این ایل ایف) کے سربراہ یہاں پاکستان آئے تو اس وقت میں جمعیت کا   ناظم اعلیٰ تھا۔ہم ان سے ملنے کے لیے میٹروپول ہوٹل میں گئے۔ہم اپنے ساتھ ایک عربی کا مترجم لے کر گئے۔جب ان سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ میں عربی نہیں بول سکتا ۔ کوئی فرانسیسی مترجم لائیے۔یہ کیفیت تھی وہاں کی مسلمان قیادت کی۔

اگر آپ فرانس کی میڈیا پالیسی کو دیکھیں تو سر پکڑ لیں گے کہ فرانسیسی دور اقتدار میں جو فلمیں فرانس میں نہیں دکھائی جا سکتی ہیں‘ وہ فحش پروگرام الجزائر میں پوری بے باکی سے ٹیلی کاسٹ کیے جاتے تھے۔ مقصد تھا پورے معاشرے کو بگاڑنا اور اخلاقی انارکی میں مبتلا کرنا۔ اس کا ردِعمل یہ ہوا کہ اسلامی مزاحمت اور اسلامی تحریک نے دل و دماغ میں طوفان برپا کر دیا۔ عربی زبان کا احیا ہوا‘ اسلامی نظام کی پیاس اتنی بڑھی کہ ۱۹۹۲کے انتخابات میں اسلامی فرنٹ کو تقریباً ۹۰ فی صد ووٹ ملے۔

مزاحمت‘ اصل طاقت

استعمار کی منصوبہ بندی ہمیشہ سے یہی رہی ہے جس کی تلقین آج بش صاحب اور ان کی ٹیم کر رہی ہے کہ تعلیم کو تبدیل کرو‘مدرسوں کو سیکولر رنگ میں رنگو۔ جہاد کا لفظ تو آج نہیں‘ پہلے دن سے دشمنوں کا ہدف رہا ہے ۔آپ کو معلوم ہے کہ اسلام پر غالباََ دو سری صدی ہجری کے اندر پہلی تنقیدی کتاب جو ایک عیسائی عالم کی طرف سے آئی ہے‘ اُس میں اصل ہدف جہاد اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے‘یعنی نبی پاک ؐ کی ذاتِ مبارک اور جہاد کا تصور ہمیشہ سے اصل ہدف رہے ہیں۔ فرانسیسی‘ برطا نوی‘ فرانسیسی‘ اطالوی استعما ری دور کا مطالعہ کر لیجیے‘ سب کے سامنے اصل ہدف جہاد تھا۔ خواہ وہ السنوسی کی تحریک ہو‘خواہ وہ الجیریا کے عبدالقادر کی تحریک ہو‘ خواہ وہ صومالیہ کی تحریک ہو‘ خواہ برعظیم کے شاہ اسماعیل شہیدؒ کی تحریک ہو۔ہر جگہ آپ دیکھیں گے کہ جہاد ہی نے استعمار کا راستہ روکا اور جہاد ہی کو استعمار نے ہدف بنایا۔یہ نئی نہیں‘ بڑی پرا نی حکمتِ عملی ہے۔ اور بظاہر معلوم ہو تا ہے کہ پتا نہیں یہ کیا کر لیں گے لیکن جہاد کا تصور ہو یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی سنت کی مرکزی حیثیت‘ دشمن کی ساری یلغار کے باوجود ان پر کوئی دھبا نہیں آسکا اور نہیں آسکتا۔ جھوٹی نبوتیں تک برپا کی گئیں لیکن دین حق پر کوئی آنچ نہ آئی۔ اسلام کو دبانے کی جتنی کوششیں ہوئیں‘ وہ اتنا ہی مستحکم ہوا    ؎

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے

اتنا ہی یہ اُبھرے گا‘ جتنا کہ دبا دیں گے

تاریخ میں ہم پر بڑے سخت دور گز رے ہیں۔شا ید سب سے سخت دور وہ تھا جب چنگیز اورہلاکو کی فوجوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی ۔اور مسلمانوں کی مایوسی اور بے بسی کا عالم یہ تھا کہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ اگرکوئی تاتار مسلمانوں سے کہتا تھا کہ تم لیٹ جاؤ اور انتظار کرو کہ میں اپنے گھر سے اپنی تلوار لے ا ٓؤں اور اس سے میں تم کو ذبح کروں تو وہ لیٹے رہتے تھے۔ حتیٰ کہ وہ اپنا خنجر لاتے اور ان کو ذبح کر دیتے۔یہ کیفیت تھی مسلمانوں کی۔لیکن اس کے بعد دیکھیے کہ      دو سوسال کے اندر اندر پھر حالات بدل گئے اور انھی تاتاریوں کے دل و دماغ کو اسلام نے مسخر کرلیا‘ جنھوں نے مسلمانوں کو فتح کیا تھا۔ اسلام نے ان کو فتح کرلیا اور بقول اقبال     ؎

ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے

پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

وہی تاتار جو مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھا رہے تھے اور شہدا کے سروں سے مینار بناتے تھے‘ انھی کے ذریعے سے پھر۴۰۰ سال تک مسلمانوں کی حکمرانی کا نظا رہ چشمِ تا ریخ نے دیکھا۔ لہٰذا تاریخ کے نشیب وفراز سے پریشان نہ ہوں ۔لیکن اس میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ میرا اور آپ کا ردِ عمل کیا ہو تا ہے؟ غلامی یہ نہیں ہے کہ ہمارے ہاتھوں میں زنجیریں پڑجائیں اور ہمارے پاؤں بیڑیوں سے جکڑے ہوئے ہوں‘ بلکہ غلامی یہ ہے کہ ہم ظلم کی بالادستی کو قبول کرلیںاورمزا حمت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔جہاد نام ہی مزا حمت کا ہے ۔جہاد نام ہے ظلم اور کفر کے غلبے کے خلاف جدوجہد کرنے کا۔خواہ وہ قلم سے ہو‘ زبان سے ہو‘ ذہن سے ہو‘مال سے ہو یا جان سے ہو۔یہ سب اس کی مختلف شکلیں ہیں۔اور اس وقت دشمنوں کا یہی ہدف ہے کہ مسلمانوں میں روحِ جہاد باقی نہ رہے ۔ ان کا ہدف ہماری قوتِ مزاحمت ہے‘ شر سے سمجھوتا نہ کرنے کا جذبہ ہے۔ حالات کے آگے سپر نہ ڈالنے کا داعیہ ہے‘ مقابلے کا جذبہ اور اُمنگ ہے۔ اقبال نے ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ میں ابلیس کی اس پریشانی کا اظہار بڑے واضح الفاظ میں کر دیا ہے    ؎

ہے اگر مجھ خطر کوئی تو اِس اُمت سے ہے

جس کے خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو

یہ جو شرارِ آرزو ہے‘یہ جو ظلم کے آگے ہتھیار نہ ڈالنے اور حق کے لیے جدوجہد کرنے کا جذبہ ہے‘ یہ ہماری اصل طاقت ہے۔ اگر یہ جذبہ آپ میں موجود ہے تو کوئی آپ کو غلام نہیں بناسکتا‘ کوئی ہمیں مغلوب نہیں کرسکتا۔اور اگر یہاں ہم نے شکست کھا لی تو ہمارے پاس اگر سونے کے انبار ہو ں ‘بنکوں میں ڈالروں کی ریل پیل ہو‘ حتیٰ کہ اسلحے کی فراوانی ہو‘ تب بھی ہم غلامی سے نجات نہیں پا سکتے۔ اس لیے اگرآپ مجھ سے ایک لفظ میںپو چھنا چا ہتے ہیں کہ تابناک مستقبل کی ضمانت کیا ہے؟ تو وہ ہے آرزو‘ وہ ایمان ہے ‘ وہ یہ جذبہ ہے ‘ وہ یہ مزاحمت ہے‘  وہ یہ احساس ہے کہ ہمیں اللہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کو قبول کرنا     ہے‘ اس کے داعی بننے کے لیے جدوجہد کرنی ہے۔ اسی سے دنیا اور آخرت دونوں میں ہمارا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔

اتحاد کی ضرورت

میں بات ختم کرنے سے پہلے ایک اور امر کی طرف آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جو فتنے اورمشکلات آج ہمیں در پیش ہیں‘ اُن میں ایک ہمارا آپس کی تفرقہ با زی ‘کفر سازی‘ اور جزوی امور کو اتنی اہمیت دے دینا ہے کہ اصول پامال ہوجائیں اور باہم رواداری پارہ پارہ ہوجائے۔ اصول ‘ بنیاد اور متفق علیہ معاملات کو نظرانداز کر کے فرو عی ‘جزوی‘ غیر متعلق باتوں میں اُلجھ جانے اور ان کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کا مرض ہمارے مخالف بڑی کامیابی سے ہمارے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی حکمتِ عملی ہے جس سے ہمارے مخالف ہمیں نان ایشوز میں الجھا کراصل ایشوز سے جن کو ہمیںمل جل کر حل کر نا ہے‘ غافل رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی مثال میں آپ کو یہ دینا چا ہتا ہوں کہ عراق میں امریکی قوتوں کے غلبے کے بعد جو سب سے زیا دہ اہم ایشو اٹھایا گیا وہ یہ ہے کہ عراق میں اتنے شیعہ ہیں اتنے سنی ‘اور یہ کبھی ساتھ نہیں رہ سکتے۔اور بددیانتی کی انتہا ہے کہ کرد جو آبا دی کا پانچواں حصہ ہیں‘ وہ ۱۰۰ فی صد سنی ہیں مگر انھیں کوئی سنی نہیں کہتے ۔لیکن جو ۲۲‘۲۳فی صد عرب سنی ہیں انھیں سنی قرار دیتے ہیں اور باقیوں کو   شیعہ قرار دیتے ہیں۔یہی چیز افغانستان میں آپ نے دیکھی۔پشتون اور فا رسی بولنے والے‘    سنی اورشیعہ‘یعنی یہ سارے تنازعات پیداکیے جا رہے ہیں۔ انھی کا پرتو آپ پاکستان میں بھی   دیکھ سکتے ہیں۔

میں نے آغاز میں کہا تھا کہ ایمان کے ساتھ ساتھ دین کا صحیح وژن ضروری ہے۔ اور اس وژن کے اندر ایک بڑی چیز ہے: الاقدم فالاقدم کہ جو اہم ہے اسی کو اہم ہونا چا ہیے۔جو مرکزی ہے اسی کو مرکزی ہونا چا ہیے۔جو اصول ہے اسی پر ہما ری اصل نظرہو نی چا ہیے۔اور جو اختلاف ہے ‘ جو فرو عی ہے اس کے با رے میں ہمیں توسع ‘ رواداری کواپنانا چا ہیے ۔مکالمہ ضرور کیجیے لیکن اس میں اُلجھ کر اصل کو بھول جانا اور تر جیحات کا بگڑ جانا یہ بہت بڑی تبا ہی ہے۔میں نے    جتنا مطا لعہ کیا ہے‘ میں آپ سے ایمان داری سے کہتا ہوں کہ اہلِ سنت کے درمیان جو مکاتب فکر ہیں ان میں ۹۵ فی صد ایشوز وہ ہیں کہ جن میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں۔ سا رے اختلافات صرف ۵ یا ۶ فی صد معاملات کے اُوپر ہیں۔اور اگر آپ اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کے مابین اختلافی امور کا جائزہ لیں تو یہ زیادہ سے زیا دہ بڑھ کر کے ۸ سے ۱۰فی صدامور کے بارے میں ہیں‘ جب کہ  ۹۰ فی صد امور میں ہم سب مشترک ہیں۔

کیا ظلم ہے کہ ۹۰ فی صد اور ۹۵فی صد قدر مشترک کو تو ہم بھول جاتے ہیں‘ اور اس پانچ سات فی صد جس کے با رے میں اختلاف ہے ‘اس میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ ہم اختلاف سے انکار نہیں کرتے لیکن اگر ہم اس اختلاف کو اس کی حدود میں رکھیں‘ اختلافی امور میں روادا ری بر تیں اور جو ہما رے مشترکات ہیں اس پر ڈٹ جائیںتو ہما ری کتنی بڑی قوت ہے ۔اور یہی وجہ ہے کہ میں کہتا ہوں کہ فقہ نظامِ زندگی ہے ‘ قانون ہے ‘ ہمارا راہنما ہے۔لیکن ہما ری تر جیحات میں سب سے پہلی چیز قرآن ہو نی چا ہیے۔پھر سنتِ رسول ؐ ، پھر فقہ‘اور پھر تاریخ ۔اگر یہ تر تیب آپ رکھیں گے تو کبھی بگاڑ نہیں آئے گا۔ اس سے بڑا سانحہ کیا ہوگا کہ ہم قرآن کو بھول جائیں ‘ سنت کی ہم فکر نہ کریں ‘فقے میں بھی مشترکات کو ہم نظرانداز کر دیں اور صرف فروعات میں ہی الجھ جائیں تو پھر حالات خراب نہ ہوں تو کیا ہو؟

عزمِ نو

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی صحیح بات کہی تھی کہ لن یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما یصلح بہ اولھا ، اِس اُمت کے آخری دور کی اصلاح بھی اُسی سے ہوسکتی ہے جس سے اِس کے پہلے دور کی اِصلاح ہوئی تھی۔اور وہ ہے قرآن۔تو آئیے ! اس کتابِ ہدایت کو تھام لیں اور غلبۂ اسلام کی اُس اُمنگ کو جو ساری قوت کا سرچشمہ ہے ‘اِس جذبے کو بیدار اور اُجاگر کریں کہ ہمیں ظلم کے آگے کبھی بھی سپر نہیں ڈالنا بلکہ مزاحمت کرنا ہے۔اور اگر آپ تاریخ پر غور کریں تو آپ یہ دیکھیں گے کہ خیر اور شر کی کش مکش سے ہی قوموں میں ساری تخلیقی قوت (creativity) پیدا ہو تی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح فزکس میں رگڑ (friction) سے انرجی پیدا ہوتی ہے ۔اسی طرح انسانی زندگی میں بھی اسی کش مکش سے تخلیقی قوت پیدا ہوتی ہے اور طاقت کے نئے سر چشمے پھوٹتے ہیں۔

تو آئیے!ہم ایمان اور اُمید کا دامن تھام لیں۔ اللہ کو اپنی قوت کا ذریعہ بنائیں ۔ اور اپنے عوام کو بیدار اور منظم کریں کہ اللہ کی نصرت کے لیے یہ ضروری ہے۔  ھُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ o (الانفال ۸:۶۲ )’’وہی وہ ذات ہے جس نے اپنی مدد اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید فرمائی‘‘۔ اپنے رب سے مدد طلب کریں ۔ تاریکی سے مایوس نہ ہوں۔ بچپن میں‘ میں نے ایک قطعہ سنا تھا جسے حرزِجان بنا لیا‘ اس پر بات ختم کرتاہوں:

یوں  اہلِ  توکل  کی  بسر  ہوتی  ہے

ہر  لمحہ   بلندی  پہ  نظر  ہوتی  ہے

گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے

آغوش میں ہر شپ کے سحر ہوتی ہے


یہ اشارات اس تقریر پر مبنی ہیں جو مدیر ترجمان القرآن نے ۱۱ مارچ ۲۰۰۵ء کو فاران کلب کراچی کے ایک بڑے اجتماع میں کی جس میں کراچی کے اہل دانش اور تاجر برادری کے سرکردہ افراد شریک تھے۔ ضروری نظرثانی اور اضافوں کے ساتھ۔

(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۵ روپے۔ سیکڑے پر رعایت۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور۔ فون:۵۴۳۴۹۰۹)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آج پوری ملّتِ اسلامیہ ہر سمت سے اندرونی اور بیرونی چیلنجوں اور خطرات کا نشانہ بنی ہوئی ہے اور اس کا سینہ اپنوں اور غیروں کے تیروں سے چھلنی ہے لیکن ہماری نگاہ میں اس وقت تین ایسے بنیادی اور گمبھیر چیلنج ہیں جن کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے اور ان کا مقابلہ کرنے کی صحیح حکمت عملی مرتب اور اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور پوری اُمت مسلمہ خصوصاً ملّتِ اسلامیہ پاکستان کی بقا‘ استحکام اور ترقی اسی پر منحصر ہے۔ اسلام کی حفاظت کا بیڑا تو اس کے وحی کرنے والے نے اٹھا رکھا ہے۔ اگر ایک قوم اس کا حق ادا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو وہ قادر ہے کہ دوسری قوموں کو اس امانت کا بار اٹھانے کے لیے آگے بڑھا دے جس طرح وہ ماضی میں کرتا رہا ہے۔ اس کی ایک تابناک مثال کی طرف اقبال نے اس طرح اشارہ کیا ہے   ؎

ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

لیکن اصل مسئلہ اسلام کی بقا کا نہیں‘ بحیثیت قوم اور اُمت ہماری بقا اور ترقی کا ہے۔ تمام اہلِ ایمان اور اصحابِ بصیرت کی ذمہ داری ہے کہ ان چیلنجوں اور خطرات کا صحیح صحیح ادراک کریں جن کی زد میں ہمارا قومی اور ملّی وجود ہے اور اُمت مسلمہ کو بیدار‘ منظم اور متحرک کرنے کی سعی و جہد کریں تاکہ ان چیلنجوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا جا سکے۔

جن تین چیلنجوں کو ہم بنیادی اور فیصلہ کن سمجھتے ہیں ان میں دو چیلنج اندرونی ہیں‘ اور ایک بیرونی ہے۔

داخلی صورت حال

سب سے پہلا چیلنج ہماری اپنی داخلی صورت حال کا نتیجہ ہے جس کا تعلق ذاتی کردار سے لے کر اجتماعی زندگی اور نظامِ حیات تک سے ہے۔ آج کا مسلمان فرد اور مسلمان معاشرہ ہمارے سارے دعووں کے باوجود‘ اسلام کے کم سے کم معیار سے بھی کوسوں دُور ہے اور ہم اسلام کی جو تصویر پیش کر رہے ہیں‘ وہ دین حق کا پرتو ہرگز نہیں۔ اچھی مثالیں آج بھی موجود ہیں اور شاید انھی کے طفیل ہمیں زندہ رہنے کی مہلت ملی ہوئی ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ اپنی تمام نمازوں‘ روزوں‘ زکوٰۃ اور حج و عمروں کے باوجود‘ بحیثیت مجموعی ہم‘ انفرادی اور اجتماعی دونوں دائرہ ہاے زندگی میں جہالت‘ غفلت‘ نفاق‘ خود غرضی‘ ناانصافی‘ نفس پرستی اور دنیا طلبی کی گرفت میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ خود دین کے بارے میں ہمارا وژن دھندلا اور پراگندا ہوتا جا رہا ہے۔ زندگی کے تضادات پر ہم کوئی خلش محسوس نہیں کرتے۔ جو ملک لاکھوں انسانوں کی بیش بہا قربانیوں کے ذریعے اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا اس میں اسلام ہی سب سے زیادہ مظلوم ہے۔ اس کے احکام کی کھلی کھلی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو نظرانداز ہی نہیں‘ علی الاعلان پامال کیا جا رہا ہے اور ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

عالم یہ ہے کہ آج جان‘ مال‘ عزت بلکہ ایمان بھی محفوظ نہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اسے توڑنے میں جری ہیں۔ جرائم کی فراوانی ہے اور مظلوم کی دادرسی کرنے والا کوئی نہیں۔ غریب غریب تر ہو رہا ہے۔ اخلاقی گراوٹ اس انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ مجرم کھلے بندوں جرم کرکے دندناتے پھرتے رہتے ہیں لیکن کوئی ان کو روکنے اور قابو کرنے والا نہیں۔ مسلم معاشرے میں خودکشی کا کبھی وجود نہ تھا مگر آج یہ عفریت بھی سر اٹھا رہا ہے اور معاشرے کو تہ و بالا کرنے والے اس ’سونامی‘ سے بچانے کی کوئی فکر اہل اختیار و ثروت کو نہیں۔ انفرادی بگاڑ نے اب اجتماعی بگاڑ کی شکل اختیار کرلی ہے اور اربابِ اقتدار خوابِ غفلت میں محو اور اپنی دل چسپیوں میں گم ہیں‘ بلکہ بگاڑ کی سرپرستی کی خدمت انجام دے رہے ہیں جس کی ایک شرمناک مثال حالیہ بسنت میلہ ہے۔ جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا میں سونامی نے اور خود اپنے ملک میں بارشوں نے تباہی مچائی۔ ۵ فروری کو مظلوم کشمیری بھائیوں سے یک جہتی کا دن منایا گیا مگر عین اسی زمانے میں خالص ہندوانہ انداز میں اور عالمی میڈیا اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے زیرسایہ قومی غیرت اور ذاتی شرم و حیا کو بالاے طاق رکھ کر بسنت میلہ منایا گیا اور اسے ملک کے ذمہ دار ترین افراد کی سرپرستی حاصل رہی۔

اس بگاڑ کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اب اقدار اور پیمانے تک بدلنے لگے ہیں اور ’ناخوب‘ کو ’خوب‘ بناکر اور بڑا مفید اور دل آویز روپ دے کر پیش کیا جا رہا ہے۔ آزادی، ’روشن خیالی اور اعتدال پسندی‘ کے نام پر اصولوں‘ احکام‘قوانین اور اقدار کو سمجھوتے کی سان پر رکھ کر ٹکڑے ٹکڑے کیا جا رہا ہے۔ یہ اجتماعی فساد اس وقت ہمارا سب سے بڑا دشمن بن گیا ہے۔ اگر اپنے تصورِ دین کی حفاظت اور خیروشر کے معیارات کی تفہیم اور ان کے احیا کے باب میں کچھ بھی غفلت برتی گئی تو کوئی چیز ہمیں تباہی سے نہ بچا سکے گی کہ یہ اللہ کی سنت اور تاریخ کا فیصلہ ہے   ع

چمن کی فکر کر ناداں ’’تباہی‘‘ آنے والی ہے

قیادت اور حکمرانوں کا رویہ

اس صورت حال کو پیدا کرنے‘ بڑھانے کی ذمہ دار اور اصلاح کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہماری قیادت اور حکمران قوتیں ہیں۔ یہ بات اُمت مسلمہ کے لیے بالعموم اور پاکستان کے لیے بالخصوص صادق ہے۔ افراد اُمت کی ذمہ داری اور جواب دہی بھی اپنی جگہ حقیقت ہے اور ہم اسے کسی پہلو سے بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہتے مگر بگاڑ کو اس انتہا تک پہنچانے میں سب سے زیادہ ذمہ داری اس قیادت کی ہے جس کا فرض اس کو روکنا اور صلاح و خیر کے غلبے اور فروغ کے لیے جدوجہد کرنا تھا۔ ہم ’قیادت‘ کے لفظ کو اس کے وسیع تر معنی میں استعمال کر رہے ہیں جس میں زندگی کی ہر سطح کی قیادت شامل ہے لیکن اس وقت بگاڑ کا سب سے بڑا سرچشمہ حکومت اور ملک کا بالادست طبقہ ہے جس نے دستور‘ قانون‘ ضابطہ کار‘ روایات‘ اخلاقی اقدار سب کی پامالی کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔ اس میں سرفہرست فوجی قیادت‘ معاشی اشرافیہ‘ بیوروکریسی اور نام نہاد آزاد خیال سیاسی قوتوں کا گٹھ جوڑ ہے جو قوت کے ہر منبع پر قابض ہے اور اختیار اور اقتدار کو ذاتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کر رہا ہے اور اجتماعی زندگی کو بگاڑ‘ تصادم‘ ناانصافی اور بے راہ روی کی طرف لے جا رہا ہے۔

ہم بڑے دکھ سے یہ بات کہنے پر مجبور ہیں کہ اس بگاڑ میں مرکزی کردار جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں کا ہے جو اصلاح کے بلندبانگ دعوے کرتے ہیں مگر ان کے ساڑھے پانچ سالہ دورِاقتدار میں بحیثیت مجموعی بگاڑ انتہا درجے تک پہنچ گیا ہے اور نظریاتی خلفشار‘ اخلاقی بے راہ روی‘ سماجی بے انصافی‘ معاشی ظلم و استحصال‘ سیاسی جنبہ داری‘ مفاد پرستی اور بے اصولی کا یہ حال ہوگیا ہے کہ قوم کی ایک بیٹی کی عصمت دری کی جاتی ہے اور کہا جا رہا ہے حکمران مجرموں کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔ سپریم کورٹ کے اعلیٰ ترین انتظامی افسر ۲۲گریڈ کے رجسٹرار کو بدعنوانی کے الزام میں برطرف کیا جاتا ہے۔ مرکزی وزرا میں وہ ’پارسا‘ بھی شامل ہیں جن پر نیب میں مقدمے چل رہے ہیں۔ ایک صوبے کا وزیراعلیٰ اپنے اہم ترین وزیر کو بدعنوانی کے الزام میں برطرف کرتا ہے اور وہ برطرف وزیر‘ وزیراعلیٰ پر بدعنوانی کا الزام لگاتا ہے اور پارٹی کی مرکزی قیادت دونوں کو خاموش رہنے اور فقط سیزفائر کرانے ہی میں عافیت دیکھتی ہے۔ گویا حمام میں سب ننگے ہیں۔ اور ستم بالاے ستم یہ کہ قومی احتسابی ادارے (نیب) کا ایک سینیر ڈائرکٹر (جو ریٹائرڈ فوجی افسر ہے)‘ رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے اور وہ بھی دو دوسرے ریٹائرڈ فوجیوں ہی کے کروڑوں اور اربوں کے کرپشن پر پردہ ڈالنے کے لیے۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ پولیس کے افسر اور اہل کار جرم کرتے ہوئے نہ پکڑے جاتے ہوں اور ہزاروں ہیں جو ہر قانون سے بالاتر اور ہر گرفت سے آزاد ہیں اور عام شہریوں کی زندگیوں کو عذاب بنانے میں مصروف ہیں۔ ملک کی فوج کو اپنے ہی ملک کے شہریوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اور فوج اور عوام کے درمیان فاصلے روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ غربت‘ مہنگائی اور بے روزگاری میں ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے لیکن حکمران ہیں کہ اپنے لیے مراعات اور تنخواہوں میں اضافوں کے حصول اور  حفاظت کے نام پر فاقہ کش قوم کے اربوں روپے سے بلٹ پروف مرسیڈیز اور لینڈ کروزر منگوانے اور سرکاری خرچ پر عمرے کرنے میں مصروف ہیں۔

معاشی استحکام کی حقیقت

مبادلۂ خارجہ کے ذخائر میں اضافے کی خبریں سنانے والوں کو ذرہ برابر احساس نہیں کہ عام آدمی زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہے اور ہمہ پہلو بدعنوانی‘ بددیانتی اور کام چوری نے زندگی کے ہر دائرے کو مسموم کیا ہوا ہے۔ ایک طرف کشکول توڑنے کے دعوے ہیں‘ دوسری طرف بڑے پیمانے پر اس غریب قوم پر قرضوں کا نیا بوجھ لادا جا رہا ہے۔ صرف ان پانچ سالوں میں اربوں ڈالر کے نئے قرضے لیے گئے ہیں۔ اب تو اسٹیٹ بنک کی تازہ ترین رپورٹ بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ بیرونی قرضے پھر ۳۶ ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے ہیں۔ وہی ورلڈ اکانومک فورم جس کے داووس (سوئٹزرلینڈ) کے سالانہ اجلاس کے حوالے سے جنرل پرویز مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز اپنی کامیابیوں اور فتوحات کے شادیانے بجانے میں کوئی کسر نہیں  چھوڑتے‘ دیکھیے وہ پاکستان کی حالت کا کیا نقشہ کھنچ رہا ہے۔ ورلڈ اکانومک فورم گذشتہ پانچ چھے سال سے ایک رپورٹ The Global Competetiveness Index شائع کررہا ہے جس میں دنیاکے مختلف ممالک کی تین بنیادوں پر درجہ بندی کی جاتی ہے یعنی Growth Competetiveness Index ‘ Technology Index اور Public Institutions Index۔ اس میں معیشت کی کیفیت‘ اداروں کی حالت‘ بدعنوانی کی صورت حال‘ مسابقت اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول کی صورت کو سامنے  رکھا جاتا ہے۔ اس ادارے کی تازہ ترین رپورٹ اسی ماہ شائع ہوئی ہے: The Global Competetiveness Report 2004-05 اس کی تیاری میں ۱۰۰ سے زیادہ تحقیقی اداروں نے حصہ لیاہے اور یہ ۱۶۰اشاریوں (indicators) کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے‘ اس رپورٹ میں پاکستان کا مقام دنیا کے ۱۰۴ ملکوں میں ۹۱نمبر پر ہے یعنی ہم معاشی دوڑ میں سب سے پیچھے رہ جانے والے ۱۴ملکوں میں سے ایک ہیں۔ اس اشاریے میں بھارت کا نمبر ۵۵ پر آتا ہے اور مسلمان ملکوں میں دو ہم سے کم تر اور ۱۱ ہم سے بہتر ہیں۔ جنوب ایشیا میں بھارت اور  سری لنکا دونوں ہم سے نمایاں طور پر آگے ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ شرم کی بات یہ ہے کہ ۲۰۰۴ء کی فہرست کا مقابلہ جب ۲۰۰۳ء سے کیا جائے تو پاکستان اوپر جانے کی بجاے نیچے چلاگیا ہے۔ ۲۰۰۳ء میں ہم ۱۰۱ ملکوں میں ۷۳ ویں نمبر پر تھے اور ۲۰۰۴ء میں ۱۰۴ ملکوں میں ۹۱نمبر پر آگئے ہیں۔ دعوے ترقی کے ہو رہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ مجموعی طور پر ہم ترقی کی سیڑھی پر اوپر جانے کے بجاے نیچے کی طرف لڑھک رہے ہیں۔

معروف ادارے ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کے تیار کردہ گوشوارئہ بدعنوانی (کرپشن انڈکس) میں بھی وطن عزیز کی یہی صورتِ حال نظر آتی ہے۔ ۲۰۰۳ء میں ۱۳۳ ممالک کے جائزے میں ہمارا شمار ۹۲ نمبر پر تھا اور ۱۰ میں سے ہمیں ۵ئ۲ نمبر حاصل ہوئے تھے۔ ۲۰۰۴ء میں ۱۴۵ ممالک کے جائزے میں گر کر ۱۲۹ کے شمار میں آگیا ہے اور ہمارے نمبر ۱۰میں سے ۱ئ۲ ہوگئے ہیں۔ یہ ہے ہماری کارکردگی کا اصل چہرہ جس پر جنرل پرویز مشرف یہ غلاف چڑھا رہے ہیں کہ اب ملک میں صرف معمولی نوعیت کی (tactical) کرپشن ہے یعنی اعلیٰ سطح پر بڑے پیمانے کی (strategic) کرپشن ختم ہوگئی ہے۔ چوری اور سینہ زوری اگر اس کا نام نہیں تو پھر کیا ہے؟

بگاڑ کے اسباب اور عوامل کا جائزہ لیا جائے تو افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس کا     بڑا سبب پاکستان اور مسلم اُمت کی موجودہ قیادتیں ہیں جو ذات اور مفاد کے چکر میں ہیں‘ جو   مدد کو دستور‘ قانون‘ ضابطے اور اخلاق ہر چیز سے بالا رکھتی ہیں‘ جو نہ عوام میں سے ہیں اور نہ عوام کے سامنے جواب دہ ہیں بلکہ جن کے مفادات اور قوم کے مفادات متصادم ہیں۔ پاکستان میں صاحبانِ اقتدار کا موجودہ سیاسی گٹھ جوڑ دراصل فوجی قیادت‘ بیوروکریسی‘ معاشی اشرافیہ اور    ان سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہے جو ہر قیمت پر اقتدار پر قابض رہنے میں اپنی عافیت دیکھتے  ہیں۔

ہمارا دوسرا چیلنج یہی قیادت ہے۔

امریکا کی عالمی سیاست

تیسرا چیلنج امریکا کی عالمی سیاست ہے جس کا خصوصی نشانہ اسلام‘ اسلامی دنیا اور پاکستان اور چند دوسرے مسلمان ممالک ہیں۔ صدربش نے اپنی صدارت کے پہلے چار سال میں عالمی بساط پر امریکی تسلط کو مستحکم کرنے اور ہر متبادل قوت کو غیرمؤثر بنانے کے لیے اپنا نقشۂ جنگ خاصے تفصیلی انداز میں بنا لیا تھا اور اب دوسرے دور میں اپنی پہلی ہی تقریر اور پھر کانگریس کے سامنے State of the Nation خطاب میں اسے اور بھی نوک پلک سے درست کر کے پیش کردیا ہے۔ ۲۱منٹ کی صدارتی تقریر میں انھوں نے ۴۲ بار liberty (آزادی) اور freedom (آزادی) کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے دنیا کے ہر گوشے تک آزادی اور جمہوریت کو مسلط کرنے کے عزائم کا اظہار کیا ہے۔ درحقیقت اس طرح صدر بش نے مستقبل کے نقشۂ جنگ کو بالکل واضح کر دیا ہے۔ الفاظ پر کیسا ہی ملمع کیوں نہ چڑھایا جائے‘ دل کی بات زبان پر آہی جاتی ہے۔ صدارتی تقریر میں صدر بش نے freedom (آزادی) کو fire (آگ) سے تشبیہ دی ہے: a fire in the mind of men اور یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ’’آزادی کی جنگ دنیا کے تاریک ترین گوشوں تک پہنچانا‘‘ اس کا مشن ہے۔ درحقیقت یہ آزادی کی تحریک نہیں‘ آزادی کے نام پر دنیا کو آگ اور جنگ کے شعلوں میں دھکیلنے کا خونی کھیل ہے۔

لندن کے اخبار دی گارڈین کے مضمون نگار ٹرس ٹرام ہنٹ (Tristram Hunt) نے اپنے ایک تازہ مضمون میں صدربش کے ایک مشیر کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں جو انھوں نے ایک امریکی صحافی رون سوس کائنڈ (Ron Suskind)سے کہے۔

اب ہم ایک سلطنت ہیں۔ جب ہم کوئی اقدام کرتے ہیں تو ہم اپنے لیے حقائق خود تخلیق کرتے ہیں۔ اور جس وقت آپ اس حقیقت کا مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں‘ ہم دوبارہ اقدام کرتے ہیں‘ جس سے نئی حقیقتیں تخلیق پاتی ہیں۔ ہم تاریخ ساز ہیں۔ اب آپ کا‘ اور آپ سب کا کام محض یہ رہ جائے گا کہ ہم جو کرتے ہیں‘ اس کو پڑھتے (اور دیکھتے) رہیں۔ (گارڈین‘ ۱۸ فروری ۲۰۰۵ئ)

یہ رعونت دنیا میں آزادی اور جمہوریت کے نام پر نئے استعماری نظام کے قیام کے اصل چہرے سے پردہ اٹھادیتی ہے۔ ایسی ہی رعونت کا اظہار ۱۱؍۹ سے بہت پہلے کولن پاول نے بھی کیا تھا۔ اس وقت وہ پہلی عراق جنگ کے وقت امریکن چیف آف اسٹاف تھے‘ امریکا     میں پاکستان کی سفیر سیدہ عابدہ حسین نے پاکستان کے نیوکلیر دفاعی حق کا دفاع کرتے ہوئے  کولن پاول سے کہا تھا کہ جنرل صاحب‘ ہمارے پاس تو ایک دو ہی ’فٹ بال‘ ہیں، آپ کے پاس تو ہزاروں بم ہیں تو جنرل کولن پاول نے سختی سے جواب دیا:Madame! We are America (محترمہ! ہم امریکا ہیں۔)

یہ ایک حقیقت ہے کہ ’آزادی‘ کا علم بردار امریکا صرف حکم چلا رہا ہے اور ہمارے حکمران صرف اس کی آوازِ بازگشت بنے ہوئے ہیں۔ ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کے جو وعظ دیے جارہے ہیں‘ وہ امریکا کے نئے عالمی نظام میں اس کے حکم کے مطابق اپنے چہرے مہرے کو قابلِ قبول بنانے کی ایک کوشش سے زیادہ نہیں۔ صدربش‘ نائب صدر ڈک چینی‘ نئی وزیرخارجہ کونڈولیزا رائس‘ ۱۱؍۹ کمیشن کی سرکاری رپورٹ‘ امریکی تھنک ٹینکس کی درجنوں رپورٹیں‘ سی آئی اے کے تھنک ٹینک‘ نیشنل انٹیلی جنس کونسل سے لے کر امریکی کانگریس کی ریسرچ سروس کی رپورٹوں تک کو دیکھ لیجیے‘ سب میں یک زبان ہو کر یہی کہا جا رہا ہے ہمیں مسلمانوں کے ذہن کو بدلنا ہے‘ اصل خطرہ انتہا پسندی (Extremism) بنیاد پرستی (Fundamentalism) اور اس اسلامی اداراتی نظام (Islamist infrastructure)سے ہے جو جہاد کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ دہشت گردی‘ حتیٰ کہ اسلامی دہشت گردی (Islamist terrorism) تو صرف مظاہر ہیں‘ اصل منبع اسلام اور اس کا تصورِ جہاد ہے جس سے سیاسی اسلام (Political Islam) رونما ہوتا ہے اور جس کا ہدف سیکولرزم کے مقابلے میں اجتماعی زندگی اور ریاست کے نظام کو دین  اور مذہب کی روشنی میں تعمیر کرنا ہے۔

ان تمام پالیسی ساز اداروں اور افراد کے تجزیے کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلم دنیا میں امریکا سے جو نفرت ہے‘ اس کا منبع اسلام اور اس کا انقلابی تصورِحیات ہے جو ریاست اور مذہب کی دوئی کے مقابلے میں ان کی ہم آہنگی اور وحدت سے عبارت ہے۔ صدربش نے ۱۱ستمبر کے واقعے کے بعد صلیبی جنگوں (کروسیڈ) کی بات کر کے مسلمانوں کو چونکا دیا تھا مگر پھرفوراً ہی وہ واشنگٹن کے اسلامک سنٹرگئے اور پہلی بات جو کی وہ یہی اعتدال پسند(moderate) اسلام کی تھی۔ اس کے بعد سے جتنی بھی اہم رپورٹیں امریکی مفکرین یا اداروں کی طرف سے آرہی ہیں‘ ان میں اعتدال پسند اور انتہا پسند (extremist) اسلام کا فرق بیان کیا جا رہا ہے اور حسبِ موقع اسلامی دنیا میں سیکولرزم کے فروغ کی بات بھی کی جارہی ہے۔ ۱۱؍۹ کمیشن امریکا کا سب سے اعلیٰ بااختیار کمیشن تھاجس نے پاکستان اور جنرل پرویز مشرف کی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کو امریکا کے مفاد میں سب سے اہم تصور قرار دیا۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ کے صفحہ ۳۶۹ پر    یہ سفارش کی ہے جسے امریکی صدر نے وائٹ ہائوس سے جاری ہونے والے حقائق نامے    (۳۰ جولائی ۲۰۰۴ئ) میں امریکی پالیسی قرار دیا ہے:

اگر پرویز مشرف‘ پاکستان اور اپنی بقا کی جنگ میں روشن خیال اعتدال پسندی کے عزم پر ڈٹے رہتے ہیں تو پھر امریکا کو مشکل فیصلوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اسے پاکستان کے مستقبل کے حوالوں سے طویل المیعاد تعلق استوار کرنا ہوگا۔ امریکا کو اپنی موجودہ امداد جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ‘ انتہاپسندی کے خلاف جنگ میں حکومت پاکستان کی مزید مدد کرنا ہوگی۔ یہ مدد ایک جامع کوشش کی صورت میں ہونی چاہیے جس کادائرہ فوجی امداد سے لے کر بہتر تعلیم کے لیے وسائل کی فراہمی پر محیط ہونا چاہیے اور یہ تعاون اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک پاکستانی قیادت مشکل فیصلوں کے لیے تیار رہتی ہے۔ (امریکی شعبۂ تعلقات عامہ کا خبرونظر‘ اگست ۲۰۰۴ء شمارہ۲)

اس رپورٹ میں پورے عالم اسلام میں ’امریکا اور ہمارے مسلمان دوستوں‘ کے بارے میں سفارش کی گئی ہے کہ:

امریکا اور اس کے دوستوں کو ایک اہم فوقیت حاصل ہے کہ ہم ان کو ایسا تصور دے سکتے ہیں جس سے ان کے بچوں کا مستقبل سنور سکتا ہے۔ اگر ہم عرب ممالک اور عالم اسلام کے صاحبِ فکر لیڈروں کے نظریات پر توجہ دیں تو اعتدال پر مبنی اتفاق راے حاصل ہوسکتا ہے۔ (۱۱؍۹ رپورٹ‘باب ۱۲‘ ص ۳۷۶)

صدر بش نے ستمبر ۲۰۰۴ء میں اقوام متحدہ میں کیے جانے والے اپنے خطاب میں فرمایا کہ:

کئی عشروں سے دنیا میں آزادی‘ امن و سلامتی اور ترقی کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمیں اب اس دائرے کو مزید بڑھانے کا تاریخی موقع ملا ہے تاکہ بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا انصاف اور عزت و وقار کے ساتھ مقابلہ کیا جاسکے۔

انھوں نے مزید فرمایا کہ :

ہمیں مشرق وسطیٰ کے اصلاح پسندوں کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ وہ آزادی اور پرامن جمہوری معاشروں کی تعمیر کے لیے کوشاں ہیں۔

یہ تقریر امریکی شعبۂ تعلقات عامہ کے خبرونظر (اکتوبر ۲۰۰۴ئ‘ پہلا شمارہ) نے صدربش‘ جنرل پرویز مشرف اور صدر حامد کرزئی کی تصویر کے ساتھ شائع کی ہے۔

جنوبی ایشیائی امور کے لیے امریکا کی نائب وزیر خارجہ کرسٹینا روکا نے ۲۲ جون ۲۰۰۴ء کو ایوانِ نمایندگان کی بین الاقوامی تعلقات کمیٹی کے سامنے اپنے بیان میں فرمایا:

پاکستان کو ایک جدید اور اعتدال پسند اسلامی جمہوری ملک بنانے کے لیے اس کی مدد جاری رکھی جائے… پاکستان میں ہماری تمام پالیسیوں اور پروگراموں کا مقصد یہ ہے کہ اسے ایک اعتدال پسند اور خوش حال ملک بنانے میں مدد دی جائے۔ ہم سیکورٹی کے شعبے میں تعاون اور فروغ جمہوریت اور ترقی و خوش حالی کے اپنے پروگراموں کے ذریعے پاکستان کی مدد کر رہے ہیں۔ یہ ایسے پروگرام ہیں جو انتہا پسندی اور عدمِ استحکام کی روک تھام میں مدد دیتے ہیں… ہم حکومت پاکستان کی تعلیمی اصلاحات کی کوششوں میں بھی نمایاں مدد دے رہے ہیں۔ ان میں مدارس کی اصلاح شامل ہے… ہمارے پروگراموں سے سیاسی جماعتوں کی اصلاح میں بھی مدد ملے گی۔ ہم اساتذہ‘ میڈیا اور سول سوسائٹی کے لیڈروں‘ نوجوانوں اور متوسط طبقے کے ان پاکستانیوں پر بھی توجہ دے رہے ہیں جن کی طرف سے جمہوری اقدار کی مزاحمت ہوسکتی ہے۔ (خبرونظر‘ جولائی ۲۰۰۴ئ‘ پہلا شمارہ)

اصل ھدف: اسلام

’روشن خیال اعتدال پسندی‘ پر جو وعظ ہم گذشتہ دو سال سے سن رہے ہیں‘ ان کا شجرئہ نسب صدر بش اور ان کی انتظامیہ اور امریکی تھنک ٹینکس کے اسی تجزیے اور اصلاح کے نسخے سے مل جاتا ہے۔ اس کا ہدف اسلام کا تصورِ حیات‘ دین و دنیا کی یک رندگی کا نظریہ‘ تصورِ جہاد اور امربالمعروف ونہی عن المنکر اور اجتماعی زندگی میں اسلام کا کردار ہے۔ امریکا کی نارتھ ایسٹرن یونی ورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ایم شاہد عالم کی کتاب Is There an Islamic Problem? اسی ماہ شائع ہوئی ہے۔ اس میں انھوں نے بڑی دیانت اور جرأت کے ساتھ امریکا کے اصل عزائم کو بیان کیا ہے اور نہایت مدلل انداز میں ان کا تعاقب کیا ہے۔ انھوں نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں امریکی قیادت کے اصل ہدف کو بہت صاف لفظوں میں بیان کیا ہے:

مسلمانوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلامی دنیا کے خلاف امریکی اور اسرائیلی عزائم اب اس سے کہیں زیادہ بڑھ چڑھ کر ہیں جتنے وہ ۱۱؍۹ سے پہلے تھے۔ اس وقت وہ اسلامی دنیا پر گماشتوں کے ذریعے غلبہ حاصل کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اب ان کے عزائم اس سے آگے ہیں۔ وہ اب مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسلامی دنیا‘ بلکہ خود اسلام‘ امریکی شرائط پر اپنی اصلاح کرے۔ (America's New Civilising Mission‘ڈان‘ ۱۲ فروری ۲۰۰۵ئ)

یہ کہ اسلام ہی اصل ہدف ہے اس کا اندازہ اس امر سے کیجیے کہ امریکا صرف دینی مدارس کے نظام کی تبدیلی ہی کے لیے کوشاں نہیں بلکہ پورے تعلیمی نظام کو سیکولر بنانے کا مطالبہ کررہا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے ۲۰۰۲ء میں جو تعلیمی اصلاحات شروع کیں اور جن کے تحت نصاب کی تبدیلی‘ دینی مدارس کا رجسٹریشن اور آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ آرڈی ننس ۲۰۰۲ء وغیرہ کا سلسلہ شروع کیا گیا‘ وہ سب اسی امریکی منصوبے کا حصہ ہیں۔ حال ہی میں امریکی حکومت کی جو دستاویزات سامنے آئی ہیں اور جنھیں وہاں کے قانونِ اطلاعات کے تحت حاصل کیا گیا ہے‘ ان میں ۲۰۰۲ء کا ایک پالیسی پیپر Strategy for Eliminating the Threat from Jehadist Networks of Al-Qaida: Status and Prospects سامنے آیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی حکومت جو پالیسی پاکستان میں فروغ دے رہی ہے وہ اسی نسخے کا استعمال ہے۔

ایک ایسا سیکولر نظامِ تعلیم استوار کرنا جو پاکستان کے دیہی علاقوں کے لوگوں کے بنیاد پرست مدرسوں پر مکمل انحصار کو ختم کر دے۔

تعلیمی ’’اصلاحات‘‘

امریکی حکومت آٹھ مدات کے تحت اس مقصد کے لیے پاکستان کی مدد کر رہی ہے جس میں نصاب کی تبدیلی‘ اساتذہ کی تربیت‘ اساتذہ اور طلبہ کے تبادلے‘ تعلیمی وظائف شامل ہیں۔ لیکن چونکہ امریکا کو جنرل پرویز مشرف اور پاکستانی وزراے تعلیم کے سارے تعاون کے   باوجود پورا بھروسا نہیں‘ اس لیے اب امریکی کانگریس میں باقاعدہ ایک بل پیش کیا گیا ہے  (HR 4818) جس کی رو سے امریکا تعلیم کی اصلاح کے لیے ۱۰۰ ملین ڈالر کی جو مالی مدد دے رہا ہے وہ اس بات سے مشروط ہوگی کہ انھیں پاکستان کی ’جنوری ۲۰۰۲ئ‘ والی تعلیمی اصلاحات کے نفاذ کے لیے استعمال کیا جائے اور اس قانون کے منظور ہونے کے بعد ۹۰ دن کے اندر سیکرٹری آف اسٹیٹ ایوان نمایندگان کو مطلع کرے گا کہ یہ رقم صرف ان اصلاحات کے لیے استعمال ہوئی ہے جو امریکا کا ہدف ہے۔ ان اصلاحات کی تعریف اس قانون میں یوں کی گئی ہے:

تعلیمی اصلاحات میں پاکستان کے سیکولر نظامِ تعلیم کی توسیع اور بہتری‘ اور پاکستان کے نجی دینی مدارس کے لیے ایک معتدل نصاب تیار کرنے اور نافذ کرنے کی کوششیں شامل ہیں۔ (دی نیوز‘ ۱۶ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)

پاکستان میں امریکا کی سابق سفیر نینسی پاول نے اس سلسلے میں بہت کلیدی کردار ادا کیا۔ آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ کے حکم نامے پر عمل کرانے کے لیے یو ایس ایڈ نے ۱۳ اگست ۲۰۰۳ء کو آغا خان یونی ورسٹی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور اخباری اطلاعات کے مطابق ۴۵ ملین ڈالر کی مدد کا وعدہ کیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس معاہدے پر دستخط تو امریکی سفیر اور آغا خان یونی ورسٹی کے نمایندہ شمس لاکھا صاحب نے کیے مگر اس تقریب میں اصل گواہ اس وقت کی پاکستانی وزیرتعلیم محترمہ زبیدہ جلال صاحبہ تھیں۔ امریکی سفیر نے یہ بھی کہا کہ آغا خان بورڈ کی مدد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک وہ اپنے پائوں پر کھڑا نہ ہو جائے۔ واضح رہے کہ عراق پر امریکی قبضے کے فوراً بعد‘ پہلے سے تیار نصاب کے مطابق درسی کتب وہاں ۱۰ اپریل ۲۰۰۴ء کو متعارف کرا دی گئی تھیں۔ یہ کتب جون ۲۰۰۲ء میں حملے سے ایک سال پہلے ہی تیار کر لی گئی تھیں۔

صدر بش نے پاکستان کے بارے میں اپنے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں صاف الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان میں نصاب کی تبدیلی میرے مشورے پر امریکی امداد کے تحت کی جارہی ہے۔ اس بیان پر راقم نے سینیٹ میں سوال بھی اٹھایا جس کے جواب میں وزیرتعلیم نے فرمایا کہ یہ سب پروپیگنڈا ہے اور ہمیں کوئی dictate (مجبور) نہیں کر رہا۔ حالانکہ دو اور دو چار کی طرح یہ حقیقت واضح ہے کہ ’روشن خیال اعتدال پسندی‘، ’بنیاد پرستی کی مخالفت‘، ’انتہا پسندی سے برأت‘ کی ساری باتیں امریکا کے مطالبے پر کی جارہی ہیں‘ بالکل اسی طرح جس طرح ۱۳ستمبر کو کولن پاول کے ایک ٹیلی فون پر افغان پالیسی کا یوٹرن لیا گیا تھا اور جس طرح اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی ہماری فوجی قیادت امریکا کی فوجی قیادت کے ہر اشارے پر تسلیم و رضا کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔

ہم بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ۱۱؍۹ کے بعد جنرل پرویز مشرف نے جن   محاذوں پر پسپائی اختیار کی ہے‘ ان میں سے ہر محاذ ملک و ملّت کی سلامتی کے لیے بڑا اہم تھا یعنی افغانستان اور عالم اسلام کے عوام سے دوری بلکہ بے وفائی‘ امریکی استعمار کا آلہ کار بننا اور اس کی جنگی کارروائیوں کے لیے اپنا کندھا فراہم کرنا‘ مسئلہ کشمیر پر اپنے اصولی موقف سے پسپائی اور جہاد کشمیر کو بھارت اور امریکا کے دبائو میں پہلے سرحدی دراندازی اور پھر دہشت گردی تک سے موسوم کرنا‘ نیوکلیر محاذ پر کمزوری اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی افسوس ناک تذلیل اور امریکا کے ناجائز مطالبات کے آگے ہتھیار ڈالنا‘ تعلیم‘ میڈیا‘ حتیٰ کہ پارلیمنٹ کے ارکان تک کی تربیت کے لیے امریکی پروگراموں کو اختیار کرنا___ یہ سب محاذ پاکستان کی سیاسی‘ معاشی‘ دفاعی ‘ تہذیبی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اہم ہیں۔ ان کے بارے میں امریکا کے زیراثر پالیسی کی تبدیلی جس کا کریڈٹ کولن پاول اور اس سے زیادہ کونڈولیزا رائس نے اپنی ترغیب اور دبائو (carrot and stick) پالیسی٭ کی کامیابی کے عنوان سے لیا ہے۔

اسلام پر بے جا تنقید

ان میں سب سے زیادہ تشویش ناک قلابازی وہ ہے جو اسلام اور نظریہ پاکستان کے سلسلے میں جنرل پرویز مشرف نے کھائی ہے۔ اس کا حسین عنوان ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ہے حالانکہ اس میں ساری زبان‘ استعارے‘ محاورے‘ موضوع اور مدعا وہی ہے جو صدر بش اور امریکی کارپرداز ان سے کہلوانا چاہتے ہیں۔ کبھی وہ انتہاپسندی اور بنیاد پرستی سے توبہ کرتے ہیں‘ کبھی دہشت گردی پر کان پکڑتے ہیں‘ کبھی جدیدیت‘ جدید کاری اور اعتدال پسندی کی بات کرتے ہیں اور اسی خوش گفتاری میں کبھی’مُلّا‘ پر برس پڑتے ہیں اور داڑھی اور حجاب کو بھی رگید ڈالتے ہیں___ اور پھر ہمت کر کے سیکولرزم کی بات بھی کرڈالتے ہیں کہ اسلام اور سیکولرزم میں گویا کوئی تضاد نہیں ہے اور ان کو متصادم قرار دینا گویا مُلّا کی سازش ہے جس سے اسلام کو آزاد کرانے کے لیے وہ نہ صرف سرگرمِ عمل ہیں بلکہ پوری او آئی سی (OIC) کو بھی متحرک کر دینا چاہتے ہیں۔ جنرل صاحب کے ان ارشادات عالیہ پر نظر ڈالنا ضروری ہے تاکہ مُلّا کے اسلام‘ بش کے اسلام اور مشرف کے اسلام کے خدوخال واضح ہوسکیں۔

۲۴ ستمبر ۲۰۰۳ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو خطاب کرتے ہوئے جنرل صاحب کہتے ہیں:

ہمارا عقیدہ حرکی ہے جو اجتہاد(یا مشورے کے ذریعے تعبیر) کے عمل کے ذریعے مسلسل تجدید اور اطلاق کو تقویت دیتا ہے۔ اسلامی وژن تاریخ کے کسی ایک عہد کی گرفت میں نہیں ہے۔ یہ معتدل اور مستقبل بین ہے۔ اسلام کو چند انتہاپسندوں کی تنگ نظری کے ساتھ گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔

جنرل صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ دانستہ یا نادانستہ (غالباً نادانستہ) وہ اس جملے میں ایک ایسی بات کہہ گئے ہیں جو اسلام کی پوری تعلیم پر خط تنسیخ پھیر دیتی ہے۔ دورِرسالت مآبؐ اور دورِ خلافت راشدہ ہمارا معیاری دور ہے جو ہمیشہ کے لیے نمونہ‘ معیار‘ دلیل اور حجت ہے۔ انھوں نے trapped in any one period of historyکے الفاظ استعمال کر کے عمومی بیان  (sweeping remark) کے ذریعے اس پر بھی ہاتھ صاف کر دیا ہے۔ بلاشبہہ اسلام موڈرن بھی ہے اور مستقبل بین بھی‘ لیکن مسلمانوں کے لیے ان کے ایمان کے تقاضے کے طور پر ان کا اصل حوالہ دورِرسالت مآبؐ اور دورِ خلافت راشدہؓ ہے اور سنت رسولؐ اور سنتِ خلفاے راشدہ اسلام کے اولیں‘ مستقل اور ناقابلِ تغیر مآخذہیں جنھیں ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کے نام پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

یکم جنوری ۲۰۰۴ء کو OIC - Challenges and Response کے عنوان سے خطاب کرتے ہوئے جنرل صاحب مغرب کے پروپیگنڈے کا شکار ہوکر وہی زبان استعمال کرنے لگے جو صدر بش اور اسلام کے ناقدین مغربی میڈیا میں استعمال کر رہے ہیں یعنی: اسلام کا تعلق بنیاد پرستی کے ساتھ‘ بنیاد پرستی کا انتہا پسندی کے ساتھ اور انتہا پسندی کا دہشت گردی کے ساتھ۔

بجاے اس کے کہ وہ علمی انداز میں‘ ان میں سے ہر اصطلاح اور اس کے مالہٗ اور ماعلیہ کا تجزیہ کریں‘ ایک ہی سانس میں سب کا انکار کرجاتے ہیں اور اسلام کے دفاع کے نام پر وہی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کا راگ الاپنے لگتے ہیں جس کا مطالبہ صدر بش اور کونڈولیزا رائس کر رہے ہیں۔

جدیدیت اور سیکولرزم کا وعظ

یہاں تک انسان خوش فہمی کا سہارا لے سکتا ہے لیکن جب آگے بڑھ کر وہ یہ بھی کہہ جاتے ہیں کہ اسلام اور سیکولرزم میں کوئی تصادم نہیں تو گویا بلی تھیلے سے باہر آگئی اور اسی طرح بش کی زبان اور مشرف کے الفاظ میں کوئی فرق باقی نہیں رہا۔ فرماتے ہیں:

ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے‘ وہ ایک نشاتِ ثانیہ ہے۔ ہمیں اعتدال پسندی کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ ایک مصالحانہ طرزِعمل‘ پُرامن نقطۂ نظر تاکہ ہمارے اوپر سے یہ الزام دھل جائے کہ اسلام جنگ جُو مذہب ہے اور جدیدیت‘ جمہوریت اور سیکولرزم کا مخالف ہے۔

اگر کسی کو یہ گمان ہو کہ جنرل صاحب نے سیکولرزم کا ذکر شاید جوشِ خطابت میں اس کے اصل مفہوم کو سمجھے بغیر‘ صرف مغرب کے ناقدین کو مطمئن کرنے کے لیے کردیا ہے تو وہ اس کی گنجایش بھی نہیں چھوڑتے۔ یورپ میں Renaissance (نشاتِ ثانیہ) ایک متعین فکری‘ تہذیبی اور سیاسی انقلاب کے لیے استعمال ہوتا ہے جو خدا‘ مذہب اور روایت سے بغاوت اور اجتماعی زندگی کے لیے وحی اور دینی اقدار کی جگہ خالص عقل اوردنیاوی علم کی بنیاد پر متبادل بنیادوں کے تلاش کی کوشش تھی۔ ایسا بھی نہیں کہ سیکولرزم کا یہ حوالہ بس مغرب کی زبان بند کرنے کے لیے ہے۔ وہ مسلسل اس تصور کی تبلیغ فرما رہے ہیں کہ سیکولرزم اور اسلام میں کوئی تضاد نہیں۔ واشنگٹن پوسٹ میں جو مضمون ان کے نام سے شائع ہوا ہے اور جسے تمام پاکستانی اور اخبارات نے شائع کیا‘ اس میں بھی وہ کھل کر لکھتے ہیں کہ:

میں اپنے مسلمان بھائیوں سے کہتا ہوں: نشاتِ ثانیہ کا وقت آگیا ہے۔ آگے کا راستہ روشن خیالی کا راستہ ہے۔ ہمیں غربت کے خاتمے اور تعلیم‘ حفظانِ صحت اور عدلِ اجتماعی کے خاتمے کے ذریعے انسانی وسائل کی ترقی پر توجہات مرکوز کرنی چاہییں۔ اگر ہماری سمت یہ ہو تو یہ تصادم کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں اعتدال کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور ایک مصالحانہ روش اختیار کرنا ہوگی تاکہ اس عام خیال کا مقابلہ کیا جاسکے کہ اسلام شدت پسندی کا مذہب ہے اور جدیدیت‘ جمہوریت اور سیکولرزم سے متصادم ہے۔ (واشگٹن پوسٹ ۱-۲ جون ۲۰۰۴ئ)

ورلڈ اکانومک فورم کے داووس میں منعقد ہونے والے سیمی نار (۲۳ جنوری ۲۰۰۴ئ) میں جنرل صاحب نے پھر اسی لَے کو آگے بڑھایا ہے۔جناب کے ارشادات عالیہ کی کچھ جھلکیاں ملاحظہ فرمایئے۔ پہلے مغرب کی پوزیشن کو یوں واضح کیا ہے:

اسلام اور مسلمانوں کے بارے میںمغرب کا تصور کیا ہے؟ پہلا تصور یہ ہے کہ اسلام انتہا پسندی‘ دہشت گردی‘ بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کا مذہب ہے۔ دوسرا تصور یہ ہے کہ اسلام جمہوریت‘ جدیدیت اور سیکولرزم سے متصادم ہے۔ اور تیسرا یہ ہے کہ مسلمان عالمی برادری میں جذب ہونے سے انکار کرتے ہیں۔

پھر اپنے زعم میں ان کا جواب دیا ہے کہ اسلام جمہوریت‘ سیکولرزم اور موڈرنزم کا مخالف نہیں۔ جمہوریت کی بابت تو بات زیادہ غلط نہیں کہی ہے (اگرچہ وہ یہ بھول گئے کہ خود وردی زیب تن رکھ کر اور صدارت اور چیف آف اسٹاف کے عہدے اپنی ذات میں جمع کر کے وہ کون سی جمہوریت کی بات کر رہے ہیں)۔ موڈرنزم اور سیکولرزم پر ان کے ارشادات ملاحظہ ہوں:

جدیدیت کی بات ہو تو اسلام زمانے اور ماحول کے مطابق فکر کا مسلسل جائزہ لینے کے عمل پر یقین رکھتا ہے۔ اسلام جدید ہے‘ یہ زمانے کا ساتھ دیتا ہے۔ یہ کبھی بھی ماضی سے پیوست نہیں رہا۔ اور تیسرے یہ کہ جہاں تک سیکولرزم کا تعلق ہے۔ اسلام اقلیتوں کے مساوی حقوق میں یقین رکھتا ہے۔ چنانچہ تفصیلات میں جائے بغیر‘ پاکستان جیسے ملک میں جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام کے ساتھ معروف ہے‘ لازماً یہ بات مضمر ہے کہ ہمیں اپنے تصورات میں جمہوری ہونا‘ سیکولر ہونا اور جدید ہونا ہے۔

اس کے جواب میں اس سے زیادہ کیا کہاجائے کہ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

اور موڈرنزم اور سیکولرزم کی جو تعریف جنرل صاحب نے فرمائی ہے۔اس کے بارے میں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ عالمی خاندان میں فٹ نہ ہونے کی بات کے جواب میں کٹّر(bigoted) مسلمانوں پر ہاتھ صاف کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ کچھ سرپھرے ہیں جوساتھ نہیں چل پاتے‘ نہ یہ جدید علم حاصل کرتے ہیں‘ نہ انگریزی زبان سیکھتے ہیں اور موسیقی سے بھی دل نہیں بہلاتے‘ یہ مٹھی بھر لوگ ہیں‘ ان کی فکر نہ کرو۔

سیکولرزم کی حقیقت

اب جنرل صاحب کو یہ کون سمجھائے کہ جس طرح Renaissance(نشاتِ ثانیہ)کا ایک خاص تاریخی پس منظر ہے اسی طرح Enlightenment (روشن خیالی)بھی مغرب کی تہذیبی و فکری تاریخ کی ایک معروف اصطلاح ہے جس کے معنی ہی یہ ہیں کہ وحی کے بجاے عقل کی بنیاد پر تمام معاملات کا حل تلاش کیا جائے۔ آخرت اور روحانی پہلو غیرمتعلق ہیں اور اصل میدانِ کار صرف یہ دنیا اور اس کے امور ہیں اور سیکولرزم اس تثلیث (نشاتِ ثانیہ‘ روشن خیالی اور سیکولرزم) کا لازمی جزو ہے‘ اور سیکولرزم ضد ہے زندگی کے اس تصور کی جو دنیا کے معاملات کو دین اور وحی کے ذریعے حاصل شدہ علم و اقدار کی بنیاد پر مرتب کرنے کا داعی ہے۔ یہ کہنا کہ سیکولرزم کا تعلق محض مذہبی رواداری یا اقلیتوں سے خوش معاملگی سے ہے ‘علم سیاست اور تاریخ دونوں سے لاعلمی کا غماز ہے۔

Vergilius Ferm کی مرتب کردہ An Encyclopaedia of Relegions (مطبوعہ: دی فلاسوفیکل لائبریری‘ نیویارک) میںThe Enlightenment کی وضاحت یوں کی گئی ہے: ’’روشن خیالی اس تحریک کا نام ہے جو اٹھارویں صدی کے عمومی ماحول کو بیان کرتی  ہے‘‘۔

اسی انسائی کلوپیڈیا میں Renaissanceکی تشریح یوں کی گئی ہے:

علمی اور جمالیاتی بیداری کی لہر‘ جس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ۱۴ویں صدی میں اس کا آغاز ہوا۔ یہ اچھا ہو یا برا‘ نشاتِ ثانیہ میں ایک انقلاب کی خاصیت تھی‘ اس کا کلیدی نکتہ سیکولر انسانیت دوستی تھا جس میں انسانی اور دنیاوی اقدار کو تسلیم کیا گیا تھا بغیر کسی دین یا کلیسائی جواز کے۔ (ص ۶۵۵-۶۵۶)

سیکولرزم کا مفہوم بھی اسی انسائی کلوپیڈیا میں یوں بیان کیا گیا ہے:

سیکولرزم افادی ‘ عمرانی اخلاقیات کی ایک مخصوص شکل (جی جے ہولی اوک: ۱۸۱۷ئ- ۱۹۰۶ء نے اس کو پیش کیا)‘ جو مذہب کے کسی حوالے کے بغیر اور صرف انسانی عقل‘ سائنس اور نظمِ اجتماعی کے ذریعے انسان کی بہتری چاہتا ہے۔ (ص ۷۰۰)

چونکہ سیکولرزم ان تمام اصطلاحات میں سب سے مرکزی حیثیت رکھتا ہے اس لیے اس کے مفہوم کو بالکل محکم کرنے کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند مزید حوالے دے دیے جائیں۔

Victor Hictz جو Havaford College پنسلوانیا امریکا کا پروفیسر ہے‘ سوشل سائنسز انسائی کلوپیڈیا میں اپنے مضمون میں لکھتا ہے:

سیکولر بنانے کا مطلب ہے کہ معاشرے کی اخلاقی زندگی سے مذہبی عقائد اور رسومات اوراجتماعیت کے لیے احساس کو ختم کر دیا جائے۔ ایک سیکولر سوسائٹی میں روز مرہ کے امور کسی الہامی مداخلت کے بغیر انجام دیے جاتے ہیں۔ دراصل یہ روشن خیالی کا فلسفہ تھا جس نے سیکولر فکر کو اصل طاقت فراہم کی۔ اس نظریے کا دعویٰ ہے کہ معاشرے کو ان اخلاقی اصولوں پر مبنی ہونا چاہیے جو انسان کی اجتماعی زندگی کے آفاقی نوعیت کے بارے میں صرف عقلی بنیادوں پر حاصل کیے جائیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نظم اجتماعی کے عقلی اصولوں کو عموماً عقیدے پر مبنی مذہبی روایات کی ضد کے طور پر پیش کیا گیا۔

The Oxford Encyclopaedia of Modern Islamic Worldکی جلد چہارم میں چارلس ڈی اسمتھ اپنے مقالے میں سیکولرزم کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:

سیکولر کی اصطلاح کا مطلب ہے کہ وہ جو مذہبی نہیں ہے۔ یہ لاطینی لفظ sacculum سے نکلا ہے جس کا ابتدائی مطلب وقت کے حوالے سے عہد یا نسل ہے۔ بعد میں اس کی شناخت وہ تمام معاملات ہو گئے جن کا کوئی تعلق جنت کے حصول سے نہ ہو‘ یعنی اس دنیا کے معاملات سے وابستہ ہوگیا۔

سیکولرزم یا لادینی عمل یورپ کے تاریخی تجربے پر مبنی ہے۔ اس کا مطلب تھا زندگی اور فکر کے تمام پہلوئوں کا مذہب سے کسی رشتے یا کلیسائی ہدایت سے بتدریج علیحدگی۔

اسلام اور سیکولرزم کا تضاد

ہم بالکل صاف لفظوں میں یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ جہاں تک دنیاوی امور اور مسائل کا تعلق ہے‘انسانی حقوق‘ آزادی‘ انصاف‘ تعلیم‘ صحت اور معاشی ترقی اور خوش حالی کا حصول‘ یہ سب اسلام کی نگاہ میں مطلوب ہی نہیں اس کے نظامِ حیات کا لازمی حصہ ہیں۔ اسی طرح دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ رواداری‘ اقلیتوں کے حقوق کا مکمل تحفظ اور تہذیب‘ سیاست اور معیشت کے دائروں میں مختلف مذاہب‘ ثقافتوں اور مکاتبِ فکروخیال کا وجود (co-existence)  اسلام کے اجتماعی نظام کا خاصہ ہیں لیکن اسلام اور سیکولرزم کا فرق___اور بڑا بنیادی اور جوہری فرق___ یہ ہے کہ اسلام زندگی کے تمام معاملات کو عقل کے ساتھ وحی الٰہی کی بالا اتھارٹی کے تابع کرتا ہے اور دنیا میں حسنات کے حصول کو آخرت میں حسنات کے حصول سے مربوط کرتا ہے۔ اسلام میں رہبانیت کا کوئی تصور نہیں۔ اسلام پوری انسانی زندگی کو دین کی فراہم کردہ ہدایت کی بنا پر حق وا نصاف کے ساتھ مرتب و منظم کرتا ہے اور اس طرح وہ تصورِ حیات جو صرف اس دنیا کی فلاح کا متلاشی ہو اور صرف عقل پر بھروسا کرے‘ اسے اسلام رد کردیتا ہے اور اس کی جگہ زندگی کا وہ تصور دیتا ہے جس میں دنیا کی تعمیروترقی کا سامان آخرت پر نگاہ رکھ کر اور اس کی کامیابی کو اصل منزل قرار دے کر نیز اللہ اور اس کے رسولؐ کی دی ہوئی رہنمائی کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ یہ سیکولرزم کی ضد ہے اور اس نظام میں اس سیکولرزم کی کوئی گنجایش نہیں جو مغرب کے نشاتِ ثانیہ اور روشن خیالی کے جلو میں رونما ہوا اور جس نے دنیا کو جنگ و جدال‘ ظلم و استحصال اور سماجی بے راہ روی اور انتشار کی آماج گاہ بنا دیا۔

محمدؐ عربی کا اسلام

اسلام نے زندگی کو خانوں میں تقسیم نہیں کیا اور دین اور دنیا کو دو الگ الگ خانے بنانے کو وہ جاہلیت اور شیطان کی پیروی قرار دیتا ہے اور ایمان لانے والوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ پورے کے پورے دین میں داخل ہوجائیں۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص وَلاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌo (البقرہ ۲:۲۰۸)

اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔

اسلام کی نگاہ میں صرف دنیا طلبی یا دنیا اور عقبٰی دونوں کی یکساں طلب زندگی کے دو مختلف نظریات ہیں جن کا مقصد‘ مزاج اور نتائج جدا جدا ہیں۔ صرف دنیاطلبی‘ سیکولرزم کا مقصود ہے اور اسلام دنیا اور آخرت دونوں کی بیک وقت فکر کا نام ہے۔ قرآن پاک میں ان دونوں نقطہ ہاے نظر کو تین متصل آیات میں بڑے جامع انداز میں بیان کر دیا گیا ہے حالانکہ یہاں اول الذکر خداکے منکر نہیں بلکہ اس کے ماننے والے ہیں البتہ وہ دنیا کے حسنات کو آخرت سے مربوط نہیں کرتے۔ اس میں یہ رمز بھی پوشیدہ ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ سیکولرزم میں مذہب کی نفی نہیں بلکہ بس اسے ذاتی معاملہ قرار دیا گیا ہے‘ ان کا جواب بھی اسی میں آگیا:

فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَـآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍo وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَـآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ o اُولٰٓئِکَ لَھُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْاط وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِo (البقرہ ۲:۲۰۰-۲۰۲)

(مگر اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں میں بھی بہت فرق ہے) ان میں سے کوئی تو ایسا ہے جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دے دے۔ ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور کوئی کہتا ہے کہ اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی‘ اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔ ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ) حصہ پائیں گے اور اللہ کو حساب چکاتے کچھ دیر نہیں لگتی۔

اسلام تو نام ہی اس دین اور مسلک کا ہے جس میں انسان پوری زندگی کو اللہ کی اطاعت کے دائرے میں لے آئے اور صرف اسی طریقے کو اللہ نے پسندیدہ قرار دیا ہے۔

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ قف (اٰل عمرٰن ۳:۱۹)

اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔

اور

وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ج (اٰل عمرٰن ۳:۸۵)

اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اُس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔

اسلام کی نگاہ میں زندگی کے تمام معاملات کے لیے حَکَم اور قانون ساز اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور وہی آخری سند ہیں۔ ہر معاملے میں‘ خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات سے‘ خاندانی تعلقات ہوں یا معاشی امور‘ سیاست ہو یا عدالت‘ ملکی زندگی ہو یا خارجی اور بین الاقوامی مسائل‘ حلال و حرام کا تعلق انسان کی زندگی کے تمام پہلوئوں سے ہے اور ان حدود کا تعین کرنے کا اختیار اللہ اور اس کے رسولؐ کو ہے۔ ایمان کے معنی اس اختیار کو اپنے رب کو سونپنا ہے اور جس نے اس نکتے کو نہیں سمجھا‘ اسے اسلام کی ہوا تک نہیں لگی۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مومن وہ ہے جو اپنے ہوائے نفس کو میری لائی ہوئی ہدایت کے تابع کرلے۔ پھر بندے کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَہٗ ج (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳)

کہو‘ میری نماز ‘میرے تمام مراسمِ عبودیت‘ میرا جینا اور میرا مرنا‘ سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔

اس دین کا مقصد اگر ایک طرف رب کی بندگی اور اس کی رضا کے حصول کو ہر چیز پر مقدم رکھنا ہے تو دوسری طرف انسانوں کے درمیان انصاف اور عدل کا قیام اور زندگی کو حسنات اور خیر سے مالا مال کرنا ہے:

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید ۵۷:۲۵)

ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا‘اور ان کے ساتھ کتاب (قانونِ حیات) اور میزان (عدل) نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔

ایمان اور تقویٰ کا تعلق صرف رب سے قربت اور روح کی بالیدگی ہی سے نہیں دنیا کی خوش حالی سے بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ  (الاعراف ۷:۹۶)

اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔

اسلام پوری دنیا کو اور اس کے تمام امکانات کو انسان کے لیے مسخر کرتا ہے اور یہی معنی ہیں انسان کی خلافت کے‘ لیکن ساتھ ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں اس گھوڑے کی سی ہے جو کھونٹے سے بندھا ہوا ہے اور اس کی آزادی کی حد وہ ہے جو اس کی رسی متعین کرتی ہے جس سے وہ کھونٹے سے بندھا ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ انسان آزاد ضرور ہے مگر اس کی آزادی ان حدود کی پابند ہوجائے جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے مقرر فرمائی ہیں۔ کافراور مومن میں یہی فرق ہے۔ اسلام نہ مُلّا کا اسلام ہے اور نہ اسے کسی بش اور کسی مشرف کی خواہشات کے تابع کیا جا سکتا ہے۔ وہ تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہدایت کا نام ہے اور بات وہی معتبر ہے جس کی سند اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہو۔ اہلِ ایمان اور اہلِ رحمت کی تعریف ہی قرآن یہ کرتا ہے:

اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰئۃِ وَالْاِنْجِیْلِ ز یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ لا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَـانِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج لَآ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ ص فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ o (الاعراف ۷:۱۵۷-۱۵۸)

(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر‘ نبی اُمی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اورانجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے‘ بدی سے روکتا ہے‘ ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے‘ اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتاہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے‘ وہی فلاح پانے والے ہیں۔ اے محمدؐ، کہو کہ ’’اے انسانو‘ میں تم سب کی طرف اس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمان کی بادشاہی کا مالک ہے‘ اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے‘وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے: پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے‘ اور پیروی اختیار کرو اس کی‘ امید ہے کہ تم راہِ راست پالوگے۔

اس راستے کو اختیار کرنے کے بعد انسان اپنی آزادی کو اللہ کی مرضی اور اس کے حکم کے تابع کر دیتا ہے اور اسی کا نام اسلام ہے۔

فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا o (النساء ۴:۶۵)

نہیں‘ اے محمدؐ، تمھارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں‘ پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں‘ بلکہ سربسرتسلیم خم کرلیں۔

اسلام کی روح اور مسلمان کا شعار یہ ہے کہ جو اللہ کا رسول ؐ حکم دے اسے تسلیم کرلیں اور جس سے وہ روک دے اس سے رک جائیں۔ یہی شان تقویٰ ہے‘ فرمایا:

وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ق وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ o (الحشر ۵۹:۷)

جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جائو۔ اللہ سے ڈرو‘ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

اسلام: پاکستان کا مستقبل

جو بھی اس راستے کو اختیار کرے گا وہ اللہ کا چہیتا ہوگا اور جو اللہ کے بتائے ہوئے راستے سے انحراف کرے گا یا اللہ کی بندگی کرنے والوں کا استخفاف کرے گا‘ اس کا دل نورِایمان کا مسکن نہیں ہو سکتا۔ اسلام نہ مُلّا کا ہے اور نہ مشرف کا‘ اور نہ اسلام کو بش کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے تراش خراش کا تختۂ مشق بنایا جا سکتا ہے۔ یہ تو صرف محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کا نام ہے اور قیامت تک انھی نقوش پر چلنے کا نام اسلام ہے۔ یہ ایک ازلی اور ابدی حقیقت ہے اور کسی کے کہنے سننے سے اس حقیقت پر کوئی حرف نہیں آسکتا۔ مسلمان وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر ڈٹ جاتا ہے اور اس سے سرِموانحراف نہیں کرتا خواہ کوئی اسے انتہاپسندی قرار دے یا بنیاد پرستی۔ مسلمان اُمتِ وسط ہیں اور اسلام عدل اور اعتدال کا راستہ ہے لیکن یہ اعتدال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا متعین کردہ ہے‘ کسی دوسرے کی خواہش پر کی جانے والی تراش خراش کا نام اعتدال نہیں‘ تحریف اور ضلالت ہے۔ ان مسلمہ اصولوں اور تاریخی حقائق کی روشنی میں جنرل پرویز مشرف کی یہ جسارت بھی دیکھ لیںکہ وہ احکامِ الٰہی اور اسلام کے شعائر کا ذکر کس طرح کرتے ہیں اور اپنی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی رَو میں وہ کیا کچھ کہنے سے باک نہیں کرتے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان بشمول مسلمان اور دوسرے اعتدال پسندوں کا ملک ہے۔ انھوں نے کہا: ’’ہمیں انتہاپسند ملائوں کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ اسلام کو ان کی ضرورت ہے‘‘۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کسی کو اجازت نہیں دے گی کہ وہ پردہ کرنے‘ یا داڑھیاں رکھنے جیسی خود ساختہ اسلامی اقدار کو مسلط کریں۔ ہاں یہ بھی ہے کہ کسی کو بھی پردہ کرنے      یا داڑھی رکھنے سے منع نہیں کیا جائے گا۔ پرویز مشرف نے عہد کیا کہ پاکستان میں    انتہا پسندی کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔ (ڈیلی ٹائمز‘ ۱۹ دسمبر ۲۰۰۴ئ)

زباں بگڑی سو بگڑی تھی‘ خبر لیجے دہن بگڑا

مُلّا پرتبّر ا کرنے کی آڑ میں‘ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح احکام اور دینی شعائر کا استخفاف کرنے والے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اسی ہرزہ سرائی کو ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ سمجھا جائے گا‘ تو ان کی عقل پر فاتحہ ہی پڑھی جاسکتی ہے۔ اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ انتہاپسندی کی تہمت کی دھول (smoke screen) میں اصول‘ احکام اور شعائر کے بارے میں ایسی لاف زنی کو قبولیت حاصل ہوسکتی ہے تو اسے امریکا کے سینیٹر بیری گولڈ وائر کے یہ الفاظ سنانا شاید بے محل نہ ہو کہ:

I would remind you that extremism in the defence of liberty is no vice. And let me remind you also that moderation in the pursuit of justice is no virtue.

میں آپ کو یاد دلائوں گا کہ آزادی کے دفاع میں انتہا پسندی کوئی برائی نہیں ہے۔ اور یہ بھی آپ کو یاد دلائوں گا کہ عدل کے حصول میں اعتدال پسندی کوئی خوبی نہیں ہے۔

آخر میں ہم صرف اتنا ہی عرض کریں گے کہ اسلام ایک اور صرف ایک ہے اور وہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام ہے۔ ملّتِ اسلامیۂ پاکستان پوری اُمتِ مسلمہ کی طرح صرف اسی اسلام کو معتبر جانتی ہے۔ کسی مُلّا‘ کسی مشرف اور کسی بش کے قول یا خواہش کو اسلام کی سند حاصل نہیں ہوسکتی۔ ماضی میں بھی جس نے اسلام کا چہرہ بگاڑنے اور اسے اپنی خواہشات کا تابع بنانے کی کوشش کی‘ وہ ناکام و نامراد ہوا اور آج بھی ہر ایسی کوشش کا مقدرناکامی اور نامرادی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ ہم نے جس ذکر کو اتارا ہے‘ ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں (نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ o الحجر۱۵:۹)‘ اور یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (الصف ۶۱:۸) ’’یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں‘ اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا‘ خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔

؎  نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

  پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

۲۰۰۴ء کے امریکا کے صدارتی انتخابات امریکا کی سوا دو سو سالہ تاریخ میں ایک منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ انتخابات بظاہر امریکا کی سرزمین پر اور امریکی ووٹروں کی شرکت سے واقع ہوئے لیکن عملاً ووٹ کے بغیر‘ دنیا بھر کے باشعور اور عالمی سیاست پر نگاہ رکھنے والے افراد اس انتخاب میں شریک تھے جو امریکا اور دنیا کو جارج بش کی خطرناک اور جنگجویانہ سیاست سے نجات دلانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہر بڑا شہر‘ ہر ٹی وی اسٹیشن‘ ہر اخبار کا دفتر اور ہر سیاسی چوپال پولنگ اسٹیشن کا منظر پیش کر رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ پوری دنیا کے باسی اس انتخاب میں بش اور کیری کے انتخابی معرکے میں خود اپنے مستقبل کو تلا ش کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے چشمِ فلک نے امریکا کے کسی بھی انتخابی معرکے میں یہ منظر نہیں دیکھا۔

جہاں تک امریکا سے باہر کی دنیا کا تعلق ہے‘ ہر اخباری جائزہ اور ہر راے عامہ کا سروے بھاری اکثریت سے جارج بش کے مقابلے میں جان کیری کی کامیابی کا اعلان کر رہا تھا۔ بات صرف عرب‘ مسلم اور تیسری دنیا تک محدود نہ تھی‘ بلکہ یورپ اور جنوبی امریکا کے تمام ممالک بشمول انگلستان میں دیکھی جا سکتی تھی۔ اگرچہ برطانیہ کی حکومت بش کی استعماریت کی طرف دار تھی لیکن وہاں کے عوام بھی بھاری اکثریت سے (کچھ جائزوں کے مطابق ۷۰ اور ۸۰فی صد) بش کی شکست کے متمنی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آخری نتائج آنے سے پہلے ہی کیری نے شکست تسلیم کرلی تو ان کی امیدوں پر اوس پڑگئی اور امریکی ووٹروں کی اکثریت سے (گو مقابلہ قریبی تھا اور بش کو عمومی ووٹوں کا ۵۱ فی صد اور کیری کو ۵.۴۸ فی صد ملا اور انتخابی ادارے میں بش کو ۲۷۰ اور کیری کو ۲۵۲ ووٹ ملے) جارج ڈبلیو بش مزید چار سال کے لیے امریکا کے  صدر منتخب ہوگئے۔

عالمی ردعمل

حالات کا اگر گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا حقیقت سے قریب تر ہوگا کہ عالمی راے عامہ اور امریکا کے زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے امریکی ووٹروں کی اکثریت نے جو فیصلہ دیا ہے وہ جارج بش کی جیت سے زیادہ سینیٹر کیری کی شکست ہے۔ اس لیے کہ وہ اور ان کی انتخابی حکمت عملی اُس جارج بش کو نہ ہلا سکے جس کی خود امریکی عوام کی تائید ۲۰۰۱ء میں ۹۰ فی صد سے کم ہو کر ۲۰۰۴ء میں الیکشن سے چند دن پہلے صرف ۴۹ فی صد رہ گئی تھی (ٹائم میگزین‘ ۱۵نومبر ۲۰۰۴ئ‘ ص ۲۷)۔ یہ سب امریکی جمہوریت کے مخصوص آہنگ‘ میڈیا کی قوت‘ منظم اور طاقت ور لابیوں کی اثرانگیزی اور اصول اور اخلاقی اقدار کے بارے میں امریکی عوام کے مسخ شدہ اور ناقص وژن کا کرشمہ ہے کہ تباہ کاریوں کے تشویش ناک چار سالہ ریکارڈ کے باوجود جارج بش صدر منتخب ہوگئے اور اب امریکا اور اقوامِ عالم کو نئی آزمایشوں سے دوچار کریں گے۔

صدر بش نے اپنے مخصوص اندازمیں دعویٰ کیا ہے کہ ’’امریکا نے فیصلہ دے دیا ہے‘ اور مجھے اپنی پالیسی پر عمل کرنے کے لیے عوام کی جانب سے اختیار (مینڈیٹ) حاصل ہوگیا ہے‘‘۔ لیکن یہ دعویٰ اس اعتبار سے بہت محل نظر ہے کہ امریکا بری طرح تقسیم ہوگیا ہے اور دنیا کے سارے ہی ممالک کے عوام کی سوچ‘ جذبات اور توقعات اور امریکی قیادت کے عزائم اور اعلان میں اتنا بُعدواقع ہوگیا ہے کہ دنیا امن و سکون‘ قانون کی حکمرانی‘ بین الاقوامی انصاف کے حصول      اور جنگ وجدل سے پاک زندگی کے لیے‘ اپنے دیرینہ خوابوں کو پراگندا ہوتے دیکھ رہی ہے۔ ہرگوشۂ ارض پر بشمول امریکا بے یقینی‘ بے اطمینانی اور عدمِ تحفظ کے مہیب سائے منڈلا رہے ہیں۔ بش صاحب یہ انتخاب خوف (fear) کی فضا پیدا کر کے جیتے ہیں اور اب ساری دنیا اس خوف کی لپیٹ میں آرہی ہے۔ اگر کہیں کوئی خیر کا کلمہ ادا ہو رہا ہے تو وہ یہ ہے ’’بھلا ہو امریکی دستور کا‘ یہ بش کے آخری چار سال ہیں!‘‘ (امریکی دستور کے تحت کوئی تیسری مدت کے لیے صدرنہیں ہو سکتا)

۲۰۰۴ء کے امریکی انتخاب کا ایک غیرمعمولی پہلو یہ بھی تھا کہ امریکا اور یورپ کے اہم اخبارات نے ‘ جن کی روایت تھی کہ مضامین تو ہر مکتب فکر کے شائع کرتے تھے مگر ادارتی کالموں میں کسی صدارتی امیدوار کی تائید نہیں کرتے تھے‘ انھوں نے اس روایت کو توڑتے ہوئے سینیٹرکیری کی کمزوریوں کے اعتراف کے باوجود ووٹروں کو امریکا اور عالمی امن کے مفاد میں ان کو ووٹ دینے کا مشورہ دیا تھا۔ اس بات میں نیویارک ٹائمز‘ واشنگٹن پوسٹ اور اکانومسٹ لندن‘ یک آواز تھے جو دراصل ’’زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو‘‘ پر عمل کرتے ہوئے امریکا اور دنیا کو مزید کش مکش اور تصادم سے بچانے کے لیے کوشاں تھے۔ جب انتخابی نتائج میں بش کو فتح ہوئی تو جرمنی کے مشہور ہفت روزہ Der Spiegel نے سرورق پر امریکا کے مجسّمۂ آزادی کی آنکھوں پر امریکی جھنڈا باندھ کر امریکی عوام کی بند آنکھوں کا گلہ کیا۔ لندن کا ڈیلی مرر چیخ اٹھا کہ:

How can 59,054,087 people be so dumb?

۰۸۷‘۰۵۴‘۵۹ افراد اتنے نہ سوچنے سمجھنے والے کس طرح ہوسکتے ہیں؟

اور ماسکو کا پراودا یہ لکھنے پر مجبور ہوا کہ:

امریکا کے بنیاد پرست عیسائی طالبان کا عکس ہیں۔ دونوں اپنے خدا کی توہین کرتے ہیں اور انکار کرتے ہیں (اکانومسٹ‘ اسپیشل رپورٹ، ’’امریکی اقدار‘‘ ۱۳ نومبر ۲۰۰۴ئ‘ ص ۲۹)

انھی جذبات و احساسات کا اظہار امریکا کے ہمسایہ ممالک کے عوام کر رہے ہیں۔ جارج بش انتخاب کے بعد دو ملکوں میں گئے۔ ایک چلی‘ جہاں انتخابی نتائج کے فوراً بعد ایشیاپیسفک اکانومک کارپوریشن فورم کا سربراہی اجلاس ہوا اور اس میںہزاروں انسانوں نے صدربش کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ وہ یہ بینر اٹھائے ہوئے تھے:

You have blood on your hands. We do not want you here.

تمھارے ہاتھ خون سے آلودہ ہیں۔ ہم تمھیں یہاں نہیں دیکھنا چاہتے۔

۲۰ سربراہانِ حکومت اور ۵۰۰ سے زیادہ کارپوریشنوں کے ذمہ داران میں سے سیاہ جھنڈیوں سے صرف ایک شخص کا استقبال کیا گیا اور وہ صدر بش تھے۔ یہ تھا عوامی ردعمل‘ جارج بش کے انتخاب کے بعدپہلے بیرونی دورے کے موقع پر۔ اس کے بعد ۳۰ نومبر ۲۰۰۴ء کو وہ دوسرے ہمسایہ ملک کینیڈا گئے۔ وہاں بھی دونوں شہروں میں‘ یعنی اوٹاوا اور ہیلی فیکس میں ہزارہا انسانوں نے اسی طرح احتجاجی نعروں سے ان کا استقبال کیا۔ کینیڈا کے وکلا کی بڑی تعداد نے کینیڈا کے وزیراعظم پال مارٹن کو ایک یادداشت پیش کی جو انسانیت کے خلاف جارج بش کے جرائم کی چارج شیٹ کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں جارج بش اور امریکا کے ان جرائم کی فہرست دی گئی ہے  جو گذشتہ چار سال میں ان کی قیادت میں وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ ان وکلا نے مطالبہ کیا کہ   جارج بش کا استقبال نہ کیا جائے بلکہ جنگی جرائم کے خلاف ان پر اسی طرح مقدمہ چلایاجائے جس طرح جرمنی کی سیاسی قیادت پر دوسری جنگ کے بعد نیورمبرگ ٹرائل کے ذریعے چلایا گیا تھا۔ الیکشن میں کامیابی‘ حقائق پرپردہ نہیں ڈال سکتی اور پروپیگنڈے کا کرّوفر عوامی جذبات اور احساسات کو دھندلا نہیں کرسکتا۔ امریکا کی موجودہ قیادت اور اس کے حواری حکمرانوں کو ہوا کے رخ کا کچھ نہ کچھ اندازہ کرنا چاہیے کہ    ؎

سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا

کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا

انتخابی نتائج: بنیادی عوامل

بلاشبہہ ہر ملک کے شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ جس کو مناسب سمجھیں‘ مسندِقیادت پر سرفراز کریں لیکن عالم گیریت کے ثمرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ ممالک جو عالمی کردار ادا کررہے ہیں‘ ان کی قیادت اور پالیسیوں کی تشکیل میں ان ممالک کے عوام اور قیادتیں بھی حصہ لیں (مداخلت کے بغیر) جو ان کی پالیسیوں سے متاثر ہو رہی ہیں۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ ہمارے عوام اور سوچنے سمجھنے والے عناصر ان اسباب و عوامل کا گہری نظر سے جائزہ لیں جو امریکا کے انتخابات‘ اس کے نتائج‘ اور عالمی پالیسیوں پر اس کے اثرات سے متعلق ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکی انتخابات کے جو نتائج نکلے اس کے اہم اسباب کیا ہیں اور ان سے کیا سبق سیکھا جا سکتا ہے۔

اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکا ایک ملک نہیں‘ عملاً ایک بّراعظم ہے۔ ۱۱۸ ملین ووٹروں نے اس انتخاب میں شرکت کی ہے لیکن تمام معروضی جائزے اس امر پر گواہ ہیں کہ امریکا کے عوام کی دل چسپی کا اصل مرکز و محور بین الاقوامی مسائل اور خارجہ پالیسیوں کے امور کبھی بھی نہیں رہے۔ ان کی اصل دل چسپی اندرونی مسائل سے ہوتی ہے۔ امریکی عوام کی معلومات دوسرے ممالک کے بارے میں بس واجبی سی ہیں۔ گو امریکا ایک مدت سے ایک بڑی عالمی طاقت ہے۔ اس وقت اس کی ۳ لاکھ فوجیں صرف عراق‘ افغانستان اور جنوبی کوریا ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے ۸۰ سے زیادہ ممالک میں موجود ہیں اور عسکری‘ معاشی اور ابلاغی‘ ان تینوں راستوں سے وہ دنیا پر چھایا ہوا ہے۔ اس لیے امریکا کی قیادت اور اس کی پالیسیوں کی صحیح تفہیم ساری دنیا کے پالیسی بنانے والوںکے لیے ضروری ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کی قیادت اور میڈیا دونوں نے اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی۔ ہمارے ملک میں پالیسی سازی کے اجتماعی‘ شورائی اور اداراتی نظام کا فقدان ہے جس کے نتیجے میں فردِواحد جو چاہتا ہے کرتا ہے اور سرکاری پارٹی کے ارکان اور ذرائع ابلاغ اس کی ہربات پر تعریف اور توصیف کے ڈونگرے برسانا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں اور یہی ہماری اصل کمزوری ہے۔ ضروری ہے کہ امریکی معاشرہ ‘اس کے سیاسی نظام کی موجودہ کیفیت‘ وہاں پالیسی سازی کے طریق کار اور موثر قوتوں کا صحیح ادراک کیا جائے تاکہ پاکستان‘ اُمت مسلمہ اور دنیا کے دوسرے ممالک اپنے سیاسی‘ معاشی‘ تہذیبی اور نظریاتی مقاصد‘ عزائم اور مفادات کی روشنی میں صحیح خطوط پر پالیسی وضع کرسکیں اور متبادل حکمت عملی وجود میں لاسکیں۔ اسی لیے ۲۰۰۴ء کے انتخابات اور ان میں کارفرما عوامل کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کی ضرورت ہے۔

۱- خوف کا احساس

ان انتخابات پر تحقیقی کام کے لیے تو ابھی کچھ عرصہ لگے گا لیکن فوری طور پر جو بات کہی جاسکتی ہے اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ ان انتخابات میں فیصلہ کن عنصر‘ کوئی مثبت ہدف یا کارکردگی نہ تھی بلکہ غالب چیز خوف کا احساس تھا جسے صدربش اور ان کی انتخابی مہم چلانے والوں نے بڑی کامیابی اور چابک دستی سے استعمال کیا۔ امریکا کی ایک امتیازی خصوصیت مادی خوش حالی اور عوام کا احساس امن وسلامتی ہے۔ گذشتہ ۲۰۰ سال میں کوئی لڑائی امریکا کی سرزمین پر نہیں لڑی گئی۔ دونوں عالمی جنگوں کا میدانِ جنگ یورپ‘ ایشیا اور افریقہ تھے۔ امریکی افواج نے شرکت ضرور کی مگر لڑائی امریکی سرزمین پر نہیں ہوئی‘ اس لیے امریکی عوام و خواص جنگ کی ہولناکیوں اور تباہ کاریوں کا تجربہ نہیں رکھتے۔ پرل ہاربر پر جاپانی حملے کے بعد ۱۱ستمبر کو نیویارک کے جڑواں ٹاوروں کی تباہی جس میں دنیا کے ۴۰ ممالک کے ۲ ہزار ۷ سو ۵۲ افراد ہلاک ہوئے دوسرا واقعہ ہے جس نے امریکیوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا۔

بش انتظامیہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر عدمِ تحفظ کے احساس کو نہ صرف اپنی پالیسی کا مرکز و محور بنایا بلکہ پوری انتخابی مہم جنگی خوف زدگی کی نفسیات (war-psychosis) کی بنیاد پر منظم کی اور اس جھانسے (trap) میں سینیٹر جان کیری بھی آگئے۔ انھوں نے بھی عراق اور ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف جنگ کے سلسلے میں وہی زبان استعمال کی بلکہ بش سے زیادہ شعلہ بیانی کی کوشش کی جو بالکل مصنوعی تھی۔ فطری طور پر امریکی ووٹر نے زمانہ جنگ کے صدر کو ہی اس جنگ کو جاری رکھنے کے لیے ترجیح دی۔  یہی بش کا ترپ کا پتا تھا کہ جنگ کے دوران کمانڈر تبدیل نہ کرو۔ اس کے باوجود عراق کی جنگ اور دہشت گردی امریکی ووٹروں کی نگاہ میں فیصلہ کن عامل کے طور پر تیسرے نمبر پر تھے‘ یعنی ۱۹ فی صد‘ جب کہ معیشت اور روزگار دوسرے (۲۰ فی صد) اور اخلاقی اقدار اور خاندان کے نظام کا تحفظ پہلے نمبر (۲۲فی صد) پر تھے۔

یہ بھی ایک دل چسپ حقیقت ہے کہ بش اور ان کی سیاسی ٹیم نے عراقی جنگ اور دہشت گردی (بین الاقوامی اور ملکی سطح پر) اور لبرل کیری کی وجہ سے خاندانی نظام اور اخلاقی اقدار (خصوصیت سے ہم جنس پرستی‘ اسقاطِ حمل اور جنسی بے راہ روی) کو خطرے کے دورخ بناکر    پیش کیا۔ اور یہی وہ منفی عامل ہے جس کی وجہ سے بش امریکا کے عوام کے مذہبی جذبات اُبھار کر خصوصیت سے قدامت پسند عناصر کی تائید کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ برازیل کے   صدر لولاڈی سلوا (Lula de Silva) نے اس پہلو کو بڑے صاف الفاظ میں یوں بیان کیا:

خوف کا استحصال ایک بہت ترقی یافتہ اعلیٰ درجے کی سائنس ہے لیکن برازیل اس کلچر کا قائل نہیں ہے جسے امریکی انتخابات میں فتح حاصل ہوئی۔ ہمیں جس بات پر تشویش ہے وہ یہ کہ اپنی سلامتی کے دفاع کے نام پر امریکا ان جنگوں کوآگے بڑھائے گا جو اس نے شروع کیں۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ یکم دسمبر ۲۰۰۴ئ)

اسی احساس کی بازگشت کو فرانس سے لے کر ملایشیاتک تمام اہم تجزیہ نگاروں کی تحریروں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج امریکا ہی نہیں پوری دنیا ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ غیرمحفوظ اور احساسِ خطر میں مبتلا ہے۔ اس کا سیاسی فائدہ جارج بش نے بھرپور انداز میں حاصل کیا ہے۔

۲-  عیسائی قدامت پرست عنصر

دوسرا اہم پہلو امریکا کی سیاسی اور اجتماعی زندگی میں مذہب اور مذہب میں بھی عیسائی قدامت پرستوں اور انتہا پسندوں کا کردار ہے۔ امریکا دنیا کے دوسرے ملکوں میں سیکولرزم اور آزاد خیالی (لبرلزم) کا علم بردار ہے‘ مسلمان ممالک کو اپنے زعم میں مذہبی عناصر سے پاک کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی تک کر رہا ہے‘ خصوصیت سے پاکستان‘ سعودی عرب اور ایران کو ہدف بنایا ہوا ہے اور دینی تعلیم کو سیکولر سانچے میں ڈھالنے کے لیے پانی کی طرح ڈالر بہا رہا ہے‘ اور ان ملکوں کی قیادتوں کو سرکاری اور این جی اوز کے ذریعے زیردام لانے میں مشغول ہے۔ دین اور سیاست کے رشتے کو توڑنا اصل ہدف ہے۔ لیکن خود امریکا کا اپنا کیا حال ہے اور اس میں خصوصیت سے اس موثر‘ منظم اور نہایت طاقت ورگروہ کا جسے نیوکونز (neo-cons) کہا جا سکتا ہے کیا کردار ہے؟ یہ بات قابلِ غور بھی ہے اور چشم کشا بھی۔دستور میں ضرور ریاست اور مذہب کی تفریق کا اصول بیان کیا گیا ہے مگر تازہ ترین جائزے کے مطابق آبادی کا ۸۰ فی صد کہتا ہے کہ وہ خدا پر ایمان رکھتا ہے اور ۶۰ فی صد کا دعویٰ ہے کہ اس کی زندگی میں مذہب ایک موثر اور کارفرما قوت ہے (PEW کا سروے‘ مارچ مئی۲۰۰۴ئ‘ بحوالہ اکانومسٹ‘ ۱۳ نومبر۲۰۰۴ئ)۔ تقریباً اسی تناسب سے اسرائیل کی تائید اور فلسطینیوں سے بے اعتنائی اور مخالفت کی کیفیت ہے۔ اس کی تائید گیلپ کے سروے سے بھی ہوتی ہے جس کے مطابق ۵۰ فی صد سے زیادہ امریکی اس کے قائل ہیں کہ چرچ کو سیاست میں موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔

جارج بش نے اس مذہبی جذبے کو بڑی کامیابی سے اپنی سیاسی مہم میں استعمال کیا۔ اپنے کو new-born عیسائی کی حیثیت سے سامنے لایا۔ یہاں تک دعویٰ کیا کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں وہ فرمانِ خداوندی کے مطابق کر رہا ہوں۔ اس کی الیکشن مہم کا اصل دماغ کارل روو  (Karl Rove) تھا۔ اس کی انتخابی حکمت عملی انتہائی کامیاب ثابت ہوئی۔ آیندہ بھی وہ پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کرے گا۔

یہ عجیب تضاد ہے کہ بش اور اس کے پالیسی سازوں کو امریکا میں تو مذہب کے کردار کا استحکام مطلوب ہے اور عالم اسلام میں مذہب کے کردار کا استرداد--- وہاں انتہاپرستی کو سینے سے لگانا اور یہاں جسے انتہاپرستی کا نام دیا جا رہا ہے اس کے خلاف جنگ اور روشن خیال اعتدال پسندی کی تبلیغ بلکہ اسے قوت کے ذریعے مسلط کرنے کی سعی بلیغ۔ یہی وہ تضاد ہے جسے اقبال نے جہاد اور جنگ کے پس منظر میں یوں واضح کیا تھا:

فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے

دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر

تعلیم اُس کو چاہیے ترکِ جہاد کی

دنیا کو جس کے پنجۂ خونیں سے ہو خطر

باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے

یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تاکمر

ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے

مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر

حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات

اسلام کا محاسبہ ، یورپ سے درگزر

۳- انتخابی مھم کا منفی پھلو

امریکا کے صدارتی انتخابات کا تیسرا اہم پہلو اس کا منفی رنگ ہے۔ بش صاحب نے خود بھی اور ان کی پوری میڈیا ٹیم نے بھی‘ جان کیری کی شخصیت کو ہدفِ تنقید بنایا اور اسے منہدم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ نجی زندگی‘ جنگی خدمات‘ ووٹنگ ریکارڈ کون سی چیز ہے جسے استعمال نہیں کیا گیا۔ پوری انتخابی مہم پر ۴ ارب ڈالر خرچ ہوئے جس میں سے ۴۵.۱ ارب ڈالر صرف ٹی وی کی اشتہاری مہم پر خرچ کیے گئے اور ایک نہیں دسیوں کتابیں اس مرکزی خیال پر لائی گئیں کہ کیری دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔ (ملاحظہ ہو‘ Unfit for Command  از John E.O. Neil اور Jerome Corsi)

اگر دنیا کی سب سے ترقی یافتہ جمہوریت کا یہی معیار ہے تو ’’پھر کسے رہنما کرے کوئی؟‘‘ ٹی وی پر دونوں امیدواروں کے مقابلے میں جان کیری کی ذہنی برتری اور پالیسی کے معاملات پر مضبوط گرفت کا اعتراف بلااستثنا سب نے کیا لیکن غیراخلاقی چالیں اس برتری کو بہا کر لے گئیں اور  ع

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا ’’سرمایہ دار‘‘

امریکی ایجنڈا

بش صاحب کا دعویٰ ہے کہ انتخابی نتائج نے ان کی عالمی پالیسیوں کی تائید کر دی ہے  اور اب وہ پہلے سے بھی زیادہ جرأت کے ساتھ اس پالیسی پر گامزن ہوسکیںگے جو مندرجہ ذیل  خونی خصوصیات سے عبارت ہے:

۱- تن تنہا دنیا کے معاملات کو طے کرنے کی سعی اور اس کے لیے قوت کا بے محابا استعمال۔

۲- عالمی اداروں کو غیر موثر بنانا یا اپنی چاکری پر مجبور کرنا‘ خصوصیت سے اقوامِ متحدہ کو بے اثر کرنا‘ اس کے سیکرٹری جنرل کو بلیک میل کرنا اور اس طرح عالمی اداروں کو اپنے اہداف کے لیے استعمال کرنا۔

۳- کسی متبادل قوت کو وجود میں نہ آنے دینا۔

۴- کسی بھی خود ساختہ خطرے کی بنیاد پر پیشگی حملوں کے ’’اصول‘‘ کا سہارا لے کر فوجی اقدام کرنا۔

۵- دنیا کے دوسرے ممالک میں‘ جہاںقیادت سے ناخوش ہوں ‘اسے اپنے اور دنیا کے لیے خطرہ قرار دے کر تبدیلیِ قیادت پر عمل ۔

۶- دنیا میں کسی بھی دوسرے ناپسندیدہ ملک کو کسی بھی صورت میں اور کسی بھی درجے کی نیوکلیر طاقت بننے سے بہ جبر روک دینا۔

۷-  دنیا کے دوسرے ممالک میں قومی تعمیراور فروغِ جمہوریت کے نام پر تبدیلی کی تائید اور معاونت۔

۸- دنیا کے تیل کے وسائل پر قبضہ اور دنیا کی منڈیوں کو اپنی مصنوعات کے لیے آزاد عالمی تجارت کے نام پر حاصل کرنا‘ اور خود اپنی معیشت میں طرح طرح کی درآمدی پابندیوں اور  اعانتوں(subsidies) کو جاری رکھنا۔

یہ وہ بنیادی ایجنڈا ہے جس پر صدر جارج بش اپنی دوسری مدت صدارت میں کاربند رہنا چاہتے ہیں اور ان کے دست و بازو اس کا برملا اظہار کر رہے ہیں۔ انتخابی نتائج کے فوراً بعد جو اقدامات انھوں نے کیے ہیں وہ ہوا کے اس رخ کا پتا دیتے ہیں مثلاً:

۱-  کولن پاول سے نجات اور ان کی جگہ کنڈولیزا رایس کو سیکرٹری خارجہ مقرر کرنا جو نیوکونزکی گل سرسبد اور پیشگی حملوں اور حکومتوں کی تبدیلی کے فلسفے کی خالق ہیں۔

۲-  سیکرٹری دفاع رونالڈ رمس فیلڈ اور اس کے دست راست پال وولفورٹز کو باقی رکھنا حالانکہ ابوغریب کے واقعے کے بعد سے ان دونوں کی برطرفی کا مطالبہ ہر طرف سے ہو رہا ہے لیکن یہ بش صاحب کی آنکھ کے تارے ہیں۔

۳- اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے عراق کی جنگ کو برملا ناجائز (illegitimate)  قرار دیا اور امریکا کے مطالبات تسلیم کرنے میں تردد کا اظہار کیا تو ان کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں اور اقوام متحدہ کی کرپشن کی باتیں کی جانے لگیں۔ تیسری دنیا کے ممالک کے شدید احتجاج پر یہ لے فی الحال کچھ مدہم پڑگئی ہے لیکن اگر کوفی عنان       راہِ راست پر نہ آئے تو پھر اس لے کو بڑھایا جا سکتا ہے۔

۴-  فلوجہ پر حملہ اور عراق میں اجتماعی مزاحمت کی تحریک کو قوت سے کچلنے کے لیے فلوجہ کو ایک نشانِ عبرت بنانے کی کوشش۔ بش کے انتخاب کے بعد فلوجہ میں دو سو کے قریب امریکی فوجی مارے گئے ہیں اور عراقی شہریوں کی ہلاکت کا کوئی ریکارڈ نہیں لیکن اندازہ ہے کہ کئی ہزار افراد شہید ہوئے ہیں۔ فلوجہ میں حکمت عملی کا ایک اہم اور دردناک پہلو یہ تھا کہ سب سے پہلے امریکی فوج نے وہاں کے ہسپتال پر قبضہ کیا تاکہ ہلاک ہونے والوں کا ریکارڈ دنیا کے سامنے نہ آسکے اور زخمیوں کی آہ و بکا بھی دنیا تک نہ پہنچ سکے۔

اس کے ساتھ ہی یہ پہلو قابلِ غور ہے کہ صدر بش کے قریبی اور اندرونی حلقے کے جو دانش ور بش کی پالیسیوں کے لیے زمین ہموار کرنے کا کام کرتے ہیں‘ وہ بڑھ چڑھ کر شام‘ شمالی کوریا‘ ایران اور سعودی عرب کو آیندہ ہدف بنانے کی باتیں کررہے ہیں‘ البتہ خود پاکستان کے صدر ان کے پسندیدہ اور محبوب افراد میں سرفہرست ہیں‘ ان کی تو تعریف کی جاتی ہے مگر ہر تحریر کی تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ پاکستان پر مزید دبائوڈالا جائے کہ وہ دہشت گردی کی مہم میں اور     بڑھ چڑھ کر حصہ لے‘ خود اپنے لوگوں کو نشانہ بنائے‘ مدرسوں کا مزاج لادینی بنائے‘ دینی سیاسی قوتوں کو غیرموثر بنائے‘ آزاد خیال سیاسی عناصر کو آگے لائے‘ حدود قوانین اور ناموسِ رسالتؐ کے قانون کو تبدیل کرے‘ پاسپورٹ سے مذہب کا خانہ نکالے اور معیشت کو بیرونی مصنوعات کے لیے کھول دے۔

ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ہر طرف سے یلغار ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو اس پوری مہم میں اپنے اصل ساتھی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے بلکہ جمہوریت پسندی کے سارے دعوئوں کے ساتھ ان کی وردی کو بھی (جو فوجی آمریت کی علامت ہے) اس کام کو انجام دینے کے لیے ضروری قرار دیا جا رہا ہے۔ ادھر جنرل صاحب کا بھی حال یہ ہے کہ ایک سال میں چار بار امریکا تشریف لے گئے ہیں۔ بش اور مشرف کے رازونیاز کا یہ عالم ہے کہ  ع

تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری

امریکی عزائم

امریکی صدر کے قریب ترین حلقوں کی سوچ کے انداز کو سمجھنے کے لیے ہم صرف یہ اقتباس پیش کر رہے ہیں‘ انھیں دیکھیے اور اندازہ کیجیے کہ امریکی قیادت دنیا کو کہاں لے جانا چاہتی ہے اور مسلم ممالک کے سربراہ اس کے آلہ کار بننے کے لیے کس حد تک جانے کو تیار ہیں۔

فرانس کا ایک مشہور دانش ور پیٹرک سیل (Patrik Seale) اپنے ایک تازہ مضمون میں امریکا کے ذہنی منظرنامے کا یوں جائزہ لیتا ہے اور اسے جمہوریت بذریعہ فتح (democracy by conquest) کا نام دیتا ہے:

نوقدامت پسندوں کا استدلال ہے کہ عربوں پر تبدیلی باہر سے‘ اگر ضروری ہو تو طاقت کے ذریعے مسلط کی جانی چاہیے۔ پیشگی فوجی حملہ ایک آپشن رہنا چاہیے۔ عرب اسرائیلی تنازعے پر عربوں اور مسلمانوں کی مایوسی کو بآسانی نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ امریکا دشمنی محض گرم ہوا ہے‘ جیسے ہی امریکا کے دشمنوں کو کچلا جائے گا‘ یہ اُڑ جائے گی۔ ڈگلس فِیتھ اور ولیم کرسٹل دو سربرآوردہ نیوکونزہیں جو اپنے اپنے طریقے سے پورے گروپ کی سوچ کی نمایندگی کرتے ہیں۔ فِیتھ پینٹاگون کی درجہ بندی میں تیسرے نمبر پر ہے۔ عام طور پر اسی کو کریڈٹ دیا جاتا ہے کہ اس نے وہ خفیہ معلومات وضع کیں اور استعمال کیں جن کی وجہ سے امریکا نے جنگ شروع کر دی۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ وہ برسرِمنصب ہے اور بش کی دوسری مدت میں اس کے اپنے عہدے پر برقرار رہنے کا امکان ہے۔

فِیتھ نے‘ جسے اسرائیل کا گہرا دوست کہا جاتا ہے‘ یروشلم پوسٹ سے ۱۲دسمبر کے اپنے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ اگر ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کو ترک کرنے میں لیبیا کی پیروی نہ کی تو ایران کی ایٹمی تنصیبات کے خلاف فوجی حملے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اس نے پیش گوئی کی کہ عرب دنیا بشمول مصر‘ سعودی عرب اور اُردن جیسے حلیف ممالک میں آیندہ چار سال میں بش کی خارجہ پالیسی کا محور جمہوری اصلاحات کو ہونا چاہیے۔

ولیم کرسٹل حکومت میں شامل نہیں ہے اس لیے وہ زیادہ کھل کر بات کر سکتا ہے۔ وہ امریکی پریس کا اسامہ بن لادن ہے۔ ہمیشہ عرب دنیا اور ایران کے خلاف امریکی جہاد کی دعوت دیتا ہے۔ وہ مکالمے‘ سفارت کاری اور نیم دلانہ اقدامات میں یقین نہیں رکھتا۔ اس کی تکنیک تشدد پر کھلم کھلا اُبھارنا ہے۔

نیوکونز کے ترجمان ویکلی اسٹینڈرڈ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے اس نے صدام کا تختہ اُلٹنے کی مسلسل مہم چلائی۔ اب وہ امریکا کو علاقے کے دوسرے ممالک خصوصاً شام پر حملہ کرنے کے لیے اُکسا رہا ہے۔

اپنے مضمون میں کرسٹل گرجتا ہے: شام ایک دشمن حکومت ہے۔ ہم نے نرم و گرم دونوں طرح کی بات چیت کو آزمایا ہے۔ بات چیت ناکام ہوئی ہے۔ ہمیں اب  اسد کی حکومت کو سزا دینے اور روکنے کے لیے اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔

اس طرح کے فیصلہ کن اقدام کوجائز ثابت کرنے کے لیے وہ شام پر ان سرگرمیوں کی اجازت دینے اور حوصلہ افزائی کرنے کا الزام لگاتا ہے جو نہ صرف ہمارے عراقی دوستوں کی بلکہ براہِ راست امریکی افواج کی ہلاکت کا باعث بن رہی ہیں۔

کرسٹل کیا سفارش کرتا ہے؟ ’’ہم شام کی فوجی تنصیبات پر بم باری کر سکتے ہیں۔   ہم دراندازی روکنے کے لیے طاقت کے ساتھ سرحد سے کچھ پار جاسکتے ہیں۔ ہم مشرقی شام میں سرحد سے کچھ دور قصبہ ابوکمال پر قبضہ کرسکتے ہیں جو عراق میں شام کی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی اور تنظیم کا مرکز معلوم ہوتا ہے۔ ہم شام کی حزبِ اختلاف کی کھلے اور چھپے حمایت کرسکتے ہیں‘‘۔

وہ اپنے مضمون کا اختتام ان الفاظ پر کرتا ہے: یہ وقت ہے کہ عراق اور وسیع تر مفہوم میں شرق اوسط میں جنگ جیتنے کے لیے ہم شام کے معاملے میں سنجیدہ ہوجائیں۔ (روزنامہ Star ‘لندن ‘۱۹ دسمبر ۲۰۰۴ئ)

امریکا کی The Inter-Press News میں جم ہوب(Jim Hobe) بش کے ساتھیوں کے عزائم کو یوں بیان کرتا ہے:

میڈیا کی مہم کا آغاز گذشتہ ہفتے ہوا۔ فائونڈیشن براے دفاع جمہوریت (F.D.D) کے تین تجزیہ نگاروں نے واشنگٹن ٹائمز میں ایک مضمون شائع کیا‘ عنوان تھا: ’’شام کا خونی کردار: اسد عراق کی دہشت گرد بغاوت کو امداد بہم پہنچا رہا ہے‘‘۔ ایف ڈی ڈی (ایک قدامت پرست گروپ ہے جو عموماً اسرائیل کی دائیں بازو لیکوڈ پارٹی کی حمایت کرتا ہے)۔

پھر ولیم کرسٹل نے جو منصوبہ براے نئی امریکی صدی (PNAC) کا بااثر صدر ہے ویکلی اسٹینڈرڈ کا ایڈیٹرہے‘ اپنے اداریے: شام کے بارے میں سنجیدہ ہونے کی ضرورت میں اسی موضوع کو لیا اور اس نتیجے تک پہنچا کہ عراق کی وجہ سے امریکی فوج پر حقیقی دبائوکے باوجود دمشق سے معاملہ کرنے کے لیے حقیقی راستے موجود ہیں۔

وال اسٹریٹ جنرل شرق اوسط کے بارے میں نیوکونز کی رائے کا قابلِ اعتبار اشارہ ہے۔ اس نے اپنے اداریے میں الزام لگایا: ’’شام دہشت گرد گروہوں کو مادی امداد پہنچا رہا ہے۔ عراق میں امریکی فوجیوں کو مارنے کے لیے اور عراقیوں کو کھلے عام مزاحمت میں شامل ہونے کی دعوت دے رہا ہے‘‘۔

اداریہ ’’شام کے بارے میں سنجیدگی؟‘‘ میں بش انتظامیہ پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ اشتعال انگیزیوں پر ملے جلے سیاسی اشارے اور کمزور ردعمل دے رہی ہے اور اس بات پر ابھارا کہ جس طرح ۱۹۹۸ء میں ترکی نے کردوں کی حمایت کرنے پر دمشق پر حملہ کرنے کے لیے جنگی تیاری کی تھی کم سے کم اسی طرح کے فوجی اقدام کی دھمکی دی جائے۔

حالانکہ شام امریکا سے ہرطرح کا تعاون کر رہا ہے اور اختلاف کا کوئی موقع نہیںدے رہا۔

مقابلے کی حکمت عملی

امریکا کی موجودہ قیادت کے عزائم کے بارے میں نہ کسی خوش فہمی کی گنجایش ہے اور نہ غلط فہمی کی۔البتہ اہم ترین سوال یہ ہے کہ اس کا مقابلہ کس طرح کیا جائے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے دو باتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔

ایک یہ کہ امریکا آج خود اوپر سے نیچے تک بٹا ہوا ہے۔ بلاشبہہ صدر بش اور ان کے قریبی ساتھی ملک کو ایک خاص رخ پر لے جانا چاہتے ہیں۔ اس میں مذہبی انتہاپرست‘ صہیونی قوتیں اور سرمایہ دارانہ نظام کی وہ قیادت جو فوجی صنعتی طاقت (Military- Industrial Complex)  سے تعبیر کی جاتی ہے اس وقت اصل فیصلہ کن قوت ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دانش وروں ‘ لبرل قوتوں اور عوام کا بڑا حصہ ان حالات پر دل گرفتہ ہے اور کسی دوسرے راستے کی تلاش میں ہے۔ جارج بش کو ۵۱ فی صد ووٹ ضرور حاصل ہوئے ہیں اور ہر طرح کے سیاسی کرتب کرکے حاصل ہوئے ہیں لیکن جن تقریباً نصف ووٹروں نے ووٹ نہیں دیے اور جن ۴۹ فی صد نے کیری اور دوسرے نمایندوں کو ووٹ دیے وہ بھی ملک کی ایک اہم سیاسی قوت ہیں اور کل فیصلہ کن قوت بن سکتے ہیں۔ اس لیے امریکا کو ایک سیاسی وحدت نہیں سمجھنا چاہیے اور اس سے مکالمے میں حکومت کے ساتھ دانش وروں اور دوسرے سیاسی عناصر اور قوتوں تک بھی رسائی حاصل کرنا ضروری ہے۔

دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ امریکا اور اس کی قیادت دنیا میں جتنی ناپسندیدہ آج ہے‘ کبھی نہ تھی۔ کبھی امریکا آزادی‘ خوش حالی‘ عالمی امن‘ جمہوریت ‘ ترقی اور انسانی مساوات کی  علم بردار قوت کے طور پر جانا جاتا تھا اور ابراہم لنکن اور ووڈر ولسن سے لے کر جان کینیڈی اور جمی کارٹر تک (امریکا کی ساری خرابیوں کے باوجود) دنیا کو ایک مثبت پیغام دیتے تھے لیکن بش سینیر اور بش جونیئر کے دور میں امریکا کا جو چہرہ دنیا کے سامنے آیا ہے اور اس کے نتیجے میں جو بُعد اور دُوری دنیا بھر کے عوام اور بہت سے ممالک کی قیادتوں کی طرف سے واقع ہوئی ہے‘ وہ عالمی سطح پر دنیا میں امن اور انصاف کے قیام کی تحریک کے نقطۂ نظر سے ایک مثبت شے ہے۔ اسے نظرانداز کرکے حالات کا صحیح جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔

پھر امریکا کی معیشت بھی ایسے دبائو کا شکار ہے کہ یہ اس کے موجودہ سیاسی کردار کو طویل عرصے تک سہارا نہیں دے سکتی۔ اس وقت بھی امریکا دنیا کا سب سے مقروض ملک ہے اور دنیا کے بجٹ کا ۸۰ فی صد امریکا ہڑپ کررہا ہے ‘یعنی تقریباً ۲.۱ بلین ڈالر روزانہ۔ اس کا بجٹ خسارہ اور تجارتی خسارہ دونوں اژدہے کی طرح منہ کھولے کھڑے ہیں اور یہ صورت حال بہت عرصے نہیں چل سکتی۔ ڈالر پر برابر دبائو ہے اور یورو ایک متبادل عالمی کرنسی کے طور پر روز بروز ترقی کررہا ہے۔ یورپ میں امریکا سے بے زاری اور آزاد سیاسی اور معاشی پالیسی سازی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ چین اور جاپان اپنے اپنے طور پر عالمی قوت کے نئے مرکز کے طور پر رونما ہو رہے ہیں۔ لاطینی امریکا شمالی امریکا کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کر رہا ہے اور وہاں ایک بار پھر بائیں بازو کے رجحانات ترقی کر رہے ہیں۔ روس بھی امریکا کی زور زبردستی سے بے زار ہے اور نئے راستوں کی تلاش میں ہے۔

دنیا کے دوسرے ممالک کے لیے امریکا واحد آپشن نہیں اور مستقبل میں سیاست کو ایک بار پھر کثیرقطبیت (multi-polarity)کی طرف بڑھنا ہے۔ پاکستان اور اُمت مسلمہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو امریکا کے دامن سے نتھی نہ کرے اور اپنے اختیار کو کھلا رکھے اور آہستہ آہستہ خارجہ پالیسی میں آزادی سے قدم بڑھانے کی جگہ(independent space ) پیدا کرنے کی کوشش کرے۔

پھر یہ حقیقت بھی سامنے رہنی چاہیے کہ دنیا کے عوام ایک بڑی قوت ہیں اور ان کو طویل عرصے کے لیے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مسئلہ محض حکومتوں کا نہیں عوامی قوت کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔ عوامی طاقت کو نظرانداز کر کے کسی پالیسی کو زیادہ دیر تک نہیں چلایا جاسکتا۔ اس لیے خارجہ پالیسی کے دروبست درست کرتے وقت اس پہلو کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔

ان حالات میں پاکستان کی خارجہ پالیسی پر خصوصیت سے امریکی انتخابات کے نتائج کی روشنی میں ازسرنو غور کی ضرورت ہے۔ امریکا ‘یورپ‘ چین‘ روس‘ افریقی اور ایشیائی ممالک سے تعلقات کے ساتھ ساتھ اُمت مسلمہ کے سیاسی اور معاشی اتحاد کے لیے اقدامات اور کسی نہ کسی شکل میں مشترک دفاع کے نظام کو حقیقت کا روپ دینا‘ ہمارے وجود‘ آزادی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ اس کے لیے ہرسطح پر کھلی بحث ہونی چاہیے۔ جس سہل انگاری اور کوتاہ بینی کے ساتھ جنرل پرویز مشرف اور ان کی ٹیم نے پاکستان کو بالکل امریکا کی جھولی میں ڈال دیا ہے اور مکمل طور پر امریکی ’گھڑے کی مچھلی‘ کے طور پر خارجہ پالیسی کی تشکیل کی جارہی ہے‘ وہ ملک کے مفاد سے متصادم اور تاریخ کے رخ کے حقیقی فہم سے عاری ہے۔

وقت آگیا ہے کہ ان امور پر کھل کر بحث ہو‘ پالیسی سازی کا کام تمام سیاسی قوتوں کے مشورے سے انجام پائے‘ پارلیمنٹ یہ کام کرے اور کسی ایک فرد کو سیاہ و سپید کا مالک نہ بننے دیا جائے۔ ہماری کمزوریوں کا بڑا سبب پارلیمنٹ کی بے بسی اور اجتماعی اور اداراتی انداز میں پالیسی سازی کا فقدان ہے۔ اب اس روش کو یکسر بدلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس کے لیے دستور کی مکمل بحالی‘ پارلیمنٹ کی بالادستی اور تمام جمہوری‘ سیاسی اور دینی قوتوں کا یک جان ہو کر ملک اور اس کے نظریاتی‘ سیاسی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت اور تحریکِ پاکستان کے اصل مقاصد کے مطابق ملک کی تعمیروترقی کے لیے جدوجہد کرنا ناگزیر ہے۔ عزت اور آزادی کا یہی راستہ ہے۔ اس وقت ذرا سی غلطی بڑے دُوررس اثرات اور نتائج پر منتج ہوسکتی ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ  تمام جمہوری قوتیں اس بنیادی مقصد کے لیے مل جل کر جدوجہد کریں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اک نشترِزہرآگیں رکھ کر نزدیک رگِ جاں بھول گئے!

اُمت مسلمہ کے مصائب اور آلام کی آج کوئی انتہا نہیں ہے۔ ہر سطح پر بگاڑ ہے اور سارا جسم زخم زدہ‘ گویا ’’تن ہمہ داغ داغ شد‘‘ کی کیفیت ہے۔ لیکن سب سے بڑا المیہ ایمان‘ معاملہ فہمی اور عوام کے جذبات اور احساسات کے ادراک کے باب میں ہماری قیادت کا افلاس اور دیوالیہ پن ہے جس نے دل و دماغ کو سوچنے اور صحیح راستہ تلاش کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے۔ جنھیں معاملات کا امین بنایا گیا تھا‘ وہ اپنی اُمت کی دولت کو خود ہی برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دلوں کا حال تو صرف اللہ ہی جانتا ہے‘ مگر انسانوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ظاہر پر حکم لگائیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوںپر حکمران بلکہ قابض قیادتوں کے اعمال اور اعلانات کو دیکھ کر انسان یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے  ع

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

اس المیے کا تازہ ترین مظہر وہ بیان ہے جو جنرل پرویز مشرف نے کشمیر جیسے نازک اور اسٹرے ٹیجک اہمیت کے مسئلے پر ۲۵ اکتوبر کو اپنے ہی وزیراطلاعات کی طرف سے دی جانے والی افطار پارٹی میں اپنے ہی ملک کے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے‘ بڑی سہل انگاری بلکہ دیدہ دلیری سے‘جو زبان پر آیا بس کہہ ڈالا (off the cuff) کے انداز میں دے ڈالا اور اس کے عواقب اور مضمرات کا کچھ بھی خیال نہ کیا۔ اب خود وطن عزیز کے سنجیدہ فکر عناصر کے منفی ردعمل اور اس سے بھی بڑھ کر بھارت کی بے حسی اور سینہ زوری دیکھ کر ان کی اور ان کے حواریوں کی طرف سے عجیب عجیب تاویلات کی جارہی ہیں اور عالم یہ ہے کہ   ع

کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے

اہلِ دانش تو بچے کو بھی یہ سکھایا کرتے تھے کہ پہلے بات کو تولو‘ پھر منہ سے بولو‘ لیکن ہماری قیادت کا عالم یہ ہے کہ منہ سے بولنے کے بعد بھی سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔  اب ارشاد ہو رہا ہے کہ مجھے misrepresent ] غلط پیش[کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کس نے misrepresent کیا؟ آپ کے اپنے وزیراطلاعات نے؟ آپ کے اپنے منتخب صحافیوں نے؟ آپ نے خود ہی تو ان سے کہا تھا:

ہم کیا چاہتے ہیں؟ قوم کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ اور اس پر بحث کرنا چاہیے۔

میری نظر میں consensus ]اتفاق راے[ وہ ہوگی جو آپ debate ]بحث[ کروائیں۔ میں سن رہا ہوں گا‘ دیکھ رہا ہوں گا‘ ٹی وی پر میڈیا پر لوگ کیا باتیں کر رہے ہیںاور وہی consensus ہوتا ہے۔ کوئی ووٹنگ نہیں ہوتی ہے اس میں۔ اُسی سے میں judgment ]اندازہ اور فیصلہ[کروں گا کہ ok ] ٹھیک ہے[ یہ میرے خیال میں لوگوں کو پسند ہوگا۔ وہ لے کر پھر بات کروں گا… میری آپ سے درخواست ہے کہ اس پر بحث کا آغاز کریں‘ اس پر لکھیں‘ debate کروائیں‘ لوگوں کو بلائیں اور ان سے بات کروائیں۔ (بحوالہ ۲۵اکتوبر ۲۰۰۴ء کی تقریر کا سرکاری متن)

اگر کسی نے misrepresent کیا ہے تو وہ خود جنرل پرویز مشرف ہی ہیں‘ کوئی اور نہیں۔ پتا نہیں انھوں نے خود اپنے کو  misrepresent کیاہے یا نہیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان‘ پاکستانی قوم اور اس مسئلے پر قائداعظم سے لے کر اب تک کے قومی اجماع (national consensus) کو خود انھوں نے بری طرح misrepresent کیا ہے۔ انھوں نے جس قومی جرم کا ارتکاب کیا ہے‘ اس پر ان کا بھرپور مواخذہ (impeachment) ہونا چاہیے۔

کشمیر پر قومی موقف

کشمیر پر قومی اجماع جن امور پر ہے اور قائم رہ سکتا ہے‘ وہ یہ ہیں:

                ۱-            جموں و کشمیر کی ریاست ایک وحدت ہے‘ اور اس کے مستقبل کا فیصلہ ایک وحدت کے طور پر کیا جانا ہے۔

                ۲-            ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا باقی ہے‘ اس کے دو تہائی علاقے پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے‘ نام نہاد الحاق ایک ڈھونگ اور دھوکا ہے جسے کوئی دستوری‘ قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی جواز حاصل نہیں۔

                ۳-            ریاست کے مستقبل کا فیصلہ اس کے عوام کو اپنی آزاد مرضی سے کرنا ہے جسے معلوم کرنے کے لیے بین الاقوامی انتظام میں استصواب راے کرایا جائے گا۔

                ۴-            کشمیر کا مسئلہ نہ زمین کا تنازع ہے‘ نہ سرحد کی صف بندی کا معاملہ ہے‘ اور نہ محض پاکستان اور بھارت میں ایک تنازع ہے بلکہ اس کے تین فریق ہیں: پاکستان‘ بھارت اور جموں و کشمیر کے عوام ---جنھیں آخری فیصلہ کرنا ہے۔

                ۵-            کشمیر بھارت کے لیے غاصبانہ ہوسِ ملک گیری کا معاملہ ہے اور پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے کیوں کہ اس کا تعلق ان بنیادوں سے ہے جن پر پاکستان قائم ہوا اور تقسیمِ ہند عمل میں آئی۔ اس کے ساتھ اس کا تعلق ریاست کے مسلمانوں کے (جن کو عظیم اکثریت حاصل ہے) مستقبل اور پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات‘ نیز معاشی اور تہذیبی وجود سے بھی ہے۔

ان پانچ امور پر قومی اجماع تھا اور ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان کا اصولی موقف یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل اقوام متحدہ کی ۱۳ اکتوبر ۱۹۴۸ئ‘ ۵ جنوری ۱۹۴۹ء اور سلامتی کونسل کی دوسری قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دوراقتدار کے اولین برسوں میں اسی موقف کا اظہار کیا اور ۱۲ جنوری ۲۰۰۲ء کی تقریر میں جنگِ آزادی اور دراندازی کے بارے میں ایک ابہام کے اظہار کے بعد‘ ۵ فروری ۲۰۰۲ء کو مظفرآباد میں آزاد کشمیر کی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے اصولی موقف کا ایک بار پھر پوری قوت اور صراحت سے اعادہ کیا اور قومی موقف پر ڈٹ جانے کے عزم کا اظہار کیا جسے  موجودہ پسپائی کی اہمیت اور سنگینی کو سمجھنے کے لیے ذہن میں تازہ کرنا ضروری ہے۔

پرویز مشرف صاحب کہتے ہیں:

گذشتہ برسوں سے ۵ فروری ہم سب کے لیے ایک اہم دن ہوگیا ہے۔ اس لیے کہ اس دن پاکستان کی حکومت اور عوام بھارتی مقبوضہ کشمیر میں اپنے بھائیوں اور بہنوں سے یک جہتی کو تازہ کرتے ہیں‘ اور کشمیری عوام کو ان کے لاینفک حق خودارادی کی شان دار جدوجہد میں غیر متزلزل‘ واضح اور جائز حمایت کو تقویت دیتے ہیں۔ آج ہم تنازع کشمیر سے متعلق اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی تنفیذ کے لیے اپنے عہد کو تازہ کرتے ہیں‘ اور بین الاقوامی برادری خصوصاً ہندستان کو وہ حلفیہ وعدہ یاد دلاتے ہیں جو کشمیر کے عوام سے کیا گیا تھا کہ انھیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی ہم ہندستان کے غیر قانونی قبضے کے خلاف اہلِ کشمیر کی جدوجہد کے شہدا کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔

گذشتہ ۱۳ برسوں میں کشمیریوں کی حق خود ارادی کی جدوجہد نے خصوصی طور پر سخت لیکن المناک منظر دیکھا ہے۔ ۷ لاکھ بھارتی افواج نے ظلم و جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ایسی روش اختیار کی جس کی کوئی مثال نہیں۔ اس عرصے کے دوران ۸۰ ہزار سے زیادہ کشمیری شہید کیے گئے ہیں۔ ہزاروں کو تعذیب کا نشانہ بنایا گیا ہے اور وہ معذور ہوگئے ہیں اور ہزاروں تعذیب خانوں اور نظربندی مراکز میں انتہائی بے بسی کی حالت میں محبوس ہیں۔

خلاصہ یہ کہ کشمیر کے نوجوانوں کو عملاً انتہائی بے رحمی اور منظم انداز سے ختم کیا جا رہا ہے۔ بھارتی قابض فوجوں کا ایک خصوصی ہدف خواتین ہیں۔ بھارتیوں کا گھنائونا ہدف یہ ہے کہ کشمیر کے عوام کو جبراً جھکا دیا جائے اور انھیں مجبور کیا جائے کہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے حق کے استعمال کا مطالبہ ترک کر دیں۔

خواتین و حضرات! مقبوضہ ریاست کے ایک کروڑ عوام کو ان کے آزادی کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا ان کا حق‘ وقت گزرنے کے ساتھ ختم نہیں ہوگیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے نفاذ کو یقینی بنانے میں بین الاقوامی برادری کی ناکامی نے ان کے جواز کو کم نہیں کر دیا۔

بھارت آزادی کی تحریک کو بدنام کرنے کی ایک بدباطن عالمی مہم میں مصروف ہے۔ وہ الزام لگاتا ہے کہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کی باہر سے پاکستان کے ذریعے سرپرستی کی جارہی ہے۔ اس نے اس کو سرحد پار دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی کے طور پر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔ وہ مغرب کے خدشات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی راے عامہ کو گمراہ کرنا چاہتا ہے۔

بھارت پاکستان پر کشمیر میں پراکسی وار کا الزام لگاتا ہے۔ یہ سوال کرنے کو دل چاہتا ہے کہ اگر کشمیر کی جدوجہد کو باہر سے منظم کیا جا رہا ہے تو وہ ۸۰ ہزار شہدا کون ہیں جو مقبوضہ کشمیر کے قبرستانوں میں دفن ہیں۔

خواتین و حضرات! کوئی بھی بیرونی عنصر کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو‘ عوام کی خواہشات کے علی الرغم کسی بھی تحریک کو اس پیمانے پر‘ اس شدت سے‘ اتنے طویل عرصے تک برقرار نہیں رکھ سکتا۔ بھارت کی بھاری بھرکم فوجی مشین کی‘ مقبوضہ کشمیر میں ریاست کی جبری طاقت کے کلّی استعمال اور قوانین کے بلاامتیاز استعمال کے باوجود‘ آزادی کی تحریک کو کچلنے میں ناکامی کشمیری جدوجہد کی مضبوطی‘ مقبولیت اور مقامی ہونے کا ثبوت ہے۔ یہ جدوجہد کشمیر کے عوام کے دل و دماغ میں پیوست ہے۔ اس کے لیے وسائل اور توانائی کا مخزن بہادر کشمیری مردوں اور عورتوں کا خون پسینہ اور ان کے قائدین کا استقلال و عزم ہے۔

بھارت چاہتا ہے کہ ’سٹیٹس کو‘ کی بنیاد پر سلامتی کونسل کی قراردادوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے قبضے کو مستحکم کرے اور فوجی حل مسلط کرے۔ اس طرح کی کوششیں دنیا میں کہیں بھی کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے اصولوں اور فیصلوں سے انحراف تنازعات اور سنگین صورت حال میں اضافے اور طوالت کا باعث ہوا ہے۔ کشمیر کوئی استثنا نہیں ہے۔دوسرے عالمی مسائل  کی طرح تنازع کشمیر کو بھی اقوامِ متحدہ کے فیصلوں کی بنیاد پر اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہونا چاہیے۔

خواتین و حضرات! میں اپنے کشمیری بھائیوں کو واضح یقین دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی حکومت‘ عوام اور میں خود اپنے وعدے کی پاسداری کریں گے‘ اور ان کی منصفانہ اور عظیم جدوجہد کی مکمل سیاسی‘ سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے۔ (آزاد جموں اورکشمیر اسمبلی اور جموں اور کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب‘ ۵ فروری ۲۰۰۲ئ)

ہم نے یہ طویل اقتباس اس لیے دیا ہے کہ یہ جنرل پرویز مشرف کی زبان سے قومی اجماع کا واضح اور مکمل اظہار تھا اور قوم آج بھی اس پر قائم ہے مگر جنرل صاحب نے ایک الٹی زقند لگاکر قومی اتفاق راے کو پارہ پارہ کرنے اور پاکستان کی کشمیر پالیسی کو بھارت اور امریکا کے عزائم اور مطالبات کے تابع کرنے کی مجرمانہ جسارت کی ہے اور کچھ حاصل کیے بغیر لچک کے نام پر وہ سب کھو دیا ہے جو ہمارا سیاسی‘ قانونی اور اخلاقی سرمایہ اور کشمیر کی تحریک مزاحمت کی تقویت کا سامان تھا اور اب خود بھی جھینپ مٹانے کے لیے اصولی موقف کی طرف پلٹنے کی بات کر رہے ہیں۔

کشمیر پالیسی میں تبدیلی

یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے ۱۲ جنوری ۲۰۰۲ء کے بیان کے بعد دیے جانے والے بیانات میں ۵ فروری کے بیان کو چھوڑ کر ایک طے شدہ انداز(pattern ) نظر آتا ہے۔ انھوں نے آہستہ آہستہ پسپائی اختیار کی۔ جنرل صاحب کی پسپائی کا نقطۂ عروج ان کا ۲۵ اکتوبر کا بیان ہے جو دائرہ پورا کر کے قومی کشمیر پالیسی کی یکسر نفی پر منتج ہوا۔

                ___        پہلے دبے لفظوں میں ’’سرحد پار مداخلت‘‘ کو بند کرنے کی بات کی گئی۔

                ___        پھر پاکستانی زمین کو بھارت کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کا اعلان ہوا (حالانکہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیں اور لائن آف کنٹرول کسی سرحد کا نام نہیں اور مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں ایک ہی قوم آباد ہے)

                ___        پھر کشمیر کی مزاحمتی تحریک کی عملی اعانت اور تعاون سے بڑی حد تک دست کشی اختیار کی گئی۔

                ___        پھر ایک انٹرویو میں رائٹر کے نمایندے سے بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بالاے طاق رکھنے ( set aside کرنے) کا مجرمانہ اعلان کسی قانونی یا سیاسی اختیار کے بغیر کرڈالا گیا۔

                ___        اور اب ۲۵ اکتوبر کے بیان میں جسے بظاہر غوروفکر کے لیے لوازمہ (food for thought ) کہا جا رہا ہے‘ اور جو ہر قسم کے thoughtسے عاری ہے‘ ۱۹۵۰ء سے ۱۹۹۷ء تک دس بار مختلف شکلوں میں بیان کردہ نام نہاد آپشن ( option) کو اپنے زعم میں ایک نئے راستے لیکن حقیقت میں پالیسی میں ایک بنیادی تبدیلی کے طور پر پیش کیا ۔ اس سے بھی زیادہ بات یہ کی کہ اسے ایک خود ساختہ مگر برخود غلط اصول کے نام پر پیش کیا کہ جو چیز بھارت کے لیے ناقابلِ قبول (unacceptable) ہے‘ اس سے ہٹ کر راستہ نکالنا چاہیے۔

یہ بڑی ہی بنیادی تبدیلی ہے جسے اسٹرے ٹیجک پسپائی اور بھیانک سیاسی غلطی ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہ بنیادی مفروضہ ہی ناقابلِ قبول ہے اس لیے کہ مسئلہ بھارت یا پاکستان کا قبول کرنا یا نہ کرنا نہیں بلکہ اصولی مسئلہ ہے جس کا تعلق ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے حق خود ارادیت سے ہے۔ اس اصول کا انحصار کسی کی پسند اور ناپسند پر نہیں۔ اگر اس اصول کو مان لیا جائے تو پھر دنیا بھر کی سامراجی قوتوں سے گلوخلاصی کا تو کوئی امکان ہی باقی نہیں رہتا اس لیے کہ کوئی قابض قوت کبھی بھی اپنے تسلط کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی ہے‘ حتیٰ کہ اسے مجبور کر دیا جائے اور اس کے لیے قبضہ جاری رکھنا ممکن نہ رہے۔

دوسرا انحراف یہ کیا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کی ریاست کی وحدت کو سات حصوں میں پارہ پارہ کرتے ہوئے مسئلے کا مرکزی نقطہ (focus) ہی بدل دینے کی حماقت کی گئی ہے۔ اصل مسئلہ ریاست جموں و کشمیر کے الحاق (accession) کا ہے جسے تبدیل کر کے ریاست کی تقسیم (division) کا مسئلہ بنا دیا گیا۔

تیسری بنیادی چیز ان علاقوں کی حیثیت (status)کی ہے جس میں بلاسوچے سمجھے امریکا کے عالمی کھیل کے لیے دروازے کھولنے کے لیے آزادی‘ اقوام متحدہ کی تولیت اور بھارت اور پاکستان کے مشترک انتظام کے تصورات کو مختلف امکانات کی شکل میں پیش کیا گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کا کوئی ادراک تک نہیں کیا گیا کہ ان میں سے ہر ایک کے پاکستان کی سالمیت‘ حاکمیت اور علاقے کے اسٹرے ٹیجک مفادات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور ان عوام کے دل پر کیا گزرے گی جو ۵۷ سال سے بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں۔

چوتھی چیز شمالی علاقہ جات کے مسئلے کو نہایت سہل انگاری اور عاقبت نااندیشی سے سات میں سے ایک حصے کے طور پر پیش کر دیا گیاہے حالانکہ اس سلسلے میں پاکستان کی تمام حکومتوں نے اسے استصواب کے سلسلے میں جموں و کشمیر کی ریاست کا حصہ تسلیم کرتے ہوئے ایک اسٹرے ٹیجک پردے میں رکھا تھا۔ اس کی اہم تاریخی اور علاقائی وجوہ تھیں کہ تقسیم سے قبل کشمیر کی اسمبلی میں نمایندگی کے باوجود یہ علاقہ اس طرح کشمیر کا حصہ نہیں تھا جس طرح باقی ریاست تھی اور نہ یہ اس خرید و فروخت کا حصہ تھا جس کے نتیجے میں جموں و کشمیر پر ڈوگرا حکمرانی قائم ہوئی تھی۔ نیز یہ علاقہ وہاںکے لوگوں کی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان میں شامل ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک وہ آزاد کشمیر کا حصہ نہیں شمار کیا گیا۔چین سے ہمارے سرحدی رشتے کا انحصار اس حصے پر ہے جو چین کے دو اہم صوبوں سے ملحق ہے۔ جنرل صاحب نے شوق خطابت میں ان تمام نزاکتوں کو نظرانداز کر کے اس علاقے کو بھی ’’آزادی‘‘ بین الاقوامی تولیت اور بھارت کے ساتھ مشترک کنٹرول کی سان پر رکھ دیا ہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!

سیاست‘ حکومت اور سفارت کاری کی نزاکتوں سے ناواقف جرنیل جب بھی اقتدار پر غاصبانہ قبضہ جماکر ایسے معاملات سے نبٹتے ہیں اور فردِ واحد کو اجتماعی اور اداراتی فیصلہ کاری سے ہٹ کر قوموں کی قسمت سے کھیلنے کا اختیار مل جاتا ہے تو پھر ایسی بھیانک غلطیاں اور ٹھوکریں اس قوم کی قسمت بن جاتی ہیں۔

مغربی تجزیہ نگار اور بہارتی مبصرین کی رائے

پاکستانی قوم اور اس کے معتبر سیاسی قائدین تو اس سیاسی غارت گری( vandalism ) پر آتش زیرپا ہیں لیکن دیکھیے کہ مغربی تجزیہ نگار اور خود بھارتی سیاسی‘ صحافتی دانش ور‘ جنرل صاحب کی ان ترک تازیوں کو کس رنگ میں دیکھ رہے ہیں۔

سب سے پہلے برطانیہ کے رسالے ہفت روزہ اکانومسٹ (۳۰ اکتوبر تا ۶ نومبر ۲۰۰۴ئ) کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں جسے اس نے ’کمانڈو ڈپلومیسی‘ کا عنوان دیا ہے:

گذشتہ ۱۸ مہینوں سے بھارت اور پاکستان اپنے ۵۷ سالہ جھگڑے کے تصفیے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بعض دفعہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امن کے دو متوازی عمل جاری ہیں۔ ایک میں رکھ رکھائو والے سفارت کار جامع مذاکرات میں مصروف ہیں۔ دوسرا پاکستان کے صدر جنرل مشرف کا انفرادی مظاہرہ (solo show) ہے۔ بعض اوقات وہ سفارتی خندقوں سے تھک کر اوپر آجاتے ہیں اور عوامی سطح پر تبادلۂ خیالات کرتے ہیں۔ ان کے ابلاغی منتظمین (media managers) کو سوچنا چاہیے کہ جو ایک دفعہ کمانڈو بن گیا وہ ہمیشہ کے لیے ایک کھلی بندوق ہے (once a commando, always a loose cannon)۔ ان کے تازہ ترین ارشادات اب تک کے سب سے زیادہ غیر سفارتی ہیں۔ بھارت سے اپنے مرکزی تنازعے‘ یعنی کشمیر کے مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہوئے جنرل مشرف اب تک عمومی اصولوں پر قائم رہے ہیں۔ کشمیر لائن آف کنٹرول کے ذریعے بھارتی اور پاکستانی انتظام کے حصوں میں تقسیم ہے۔ دونوں میں سے کوئی بھی اسے مستقل سرحد تسلیم نہیں کرتا۔ جنرل مشرف نے ہمیشہ اصرار کیا ہے کہ یہ ’سٹیٹس کو‘ کسی حل کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ وہ کہتے ہیں یہ تنازع ہے اوریہی تین جنگوں کا سبب ہے۔ تازہ ترین جنگ ۱۹۹۹ء میں ہوئی۔

بہرطور ۲۵ اکتوبر کو ایک افطار ڈنر میں جنرل مشرف اپنے خیالات کو دو قدم آگے لے گئے۔

اول : وہ یہ قبول کرتے دکھائی دیے کہ جس طرح لائن آف کنٹرول پاکستان کے لیے ناقابلِ قبول ہے‘ اسی طرح استصواب کے لیے پاکستان کا مطالبہ جس میں کشمیری بھارت یا پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کریں گے‘ بھارت کبھی بھی اس کی اجازت نہیں دے گا۔

دوم: انھوں نے دوسرے متبادلات (options) کو بیان کرنا شروع کیا۔ انھوں نے کہا کہ کشمیر کے سات علاقے ہیں‘ دو پاکستان میں اور پانچ بھارت میں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں سے کچھ یا سب کو غیر فوجی کر دیا جائے اور ان کی حیثیت تبدیل کر دی جائے۔ جس کا نتیجہ آزادی ہو سکتا ہے‘ بھارت پاکستان کے درمیان کانڈومینیم (condominium)  ]ایسا علاقہ جہاں دونوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں[ ہوسکتا ہے یا اقوامِ متحدہ کا مینڈیٹ۔

بہرحال شک و شبہے کی وجوہات ہیں۔ جنرل صاحب کی تجاویز کی اس وقت جو شکل ہے اس میں ان خیالات کی بازگشت سنی جا سکتی ہے جو عرصے سے فضا میں گردش کر رہے ہیں اور جو بھارت کے لیے ناقابلِ قبول ہیں۔بدتر بات یہ ہے کہ پریس کانفرنس کے ذریعے بات چیت کا مطلب یہ ہے کہ دونوں فریقوں میں خلیج اس قدر وسیع ہے کہ اس قسم کے خیالات پر کوئی ابتدائی بات بھی نہیں ہوئی ہے۔

بھارت نے سرد مہری کے ساتھ رسمی ردعمل دیا اور کہا کہ وہ میڈیا کے ذریعے کشمیر پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مگر اس نے کم سے کم ان خطوط پر بات چیت کو یکسر خارج از امکان قرار نہیں دیا۔ شاید اس کو اندازہ ہے کہ جنرل مشرف ملک کی مذاکرات کی پوزیشن میں انقلابی تبدیلی کے لیے راے عامہ ہموار کرنے کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو اس کی ضرورت ہے۔ ان کے مخالفین نے ابھی سے ہی ان پر کشمیر کی فروخت کی سازش کا الزام لگا دیا ہے۔

اپنے اقتدار کے پانچ سال میں جنرل مشرف نے اپنی حکومت کو پالیسی کی کچھ غیرمعمولی تبدیلیوں سے گزارا ہے۔ انھوں نے پاکستان کے پروردہ طالبان کو گہری کھائی میں پھنسا دیااور ایٹمی معلومات فروخت کرنے کے الزام پر ایک قومی ہیرو عبدالقدیر خان کی توہین کی۔ اس سب پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے جس پر انھوں نے اب تک قابو پایا ہے۔ اب انھوں نے غالباً اب تک کی سب سے مشکل فروخت شروع کر دی ہے: اپنے اہلِ وطن کو اس بات پر آمادہ کرنا کہ وہ کشمیر پہ اپنے بیش تردعووں سے دست بردار ہوجائیں۔

جنرل صاحب کے ابلاغی منتظمین اور وہ خود اپنی ان تجاویز پر جو بھی روغن چڑھائیں‘ ان کا ماحصل کشمیر پر اپنی قومی پالیسی اور اہداف سے مکمل طور پر دست کش ہونا اور تحریکِ آزادی کشمیر کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے سوا کچھ نہیں۔ دیکھیے خود بھارت کے دانش وروں اور تجزیہ نگاروں نے اسے کس رنگ میں دیکھا ہے۔

انڈین ایکسپریس (۲۷ اکتوبر ۲۰۰۴ئ) میں سی راجا موہن لکھتا ہے:

جنرل مشرف کی تجویز ہے کہ ریاست میں لائن آف کنٹرول کے پار جموں و کشمیر کا ایک حصہ باہمی سمجھوتے کے تحت متعین کیا جائے‘ وہاں سے فوجیں ہٹا لی جائیں اور اس علاقے کی سیاسی حیثیت کو تبدیل کر دیا جائے۔ یہ تجویز پاکستان کے ہمیشہ سے قائم کئی مضبوط موقفوں سے انحراف کیا ہے‘ یعنی:

اول: استصواب راے کے خیال کو ایک طرف رکھنے سے جنرل مشرف نے یہ اشارہ دیاہے کہ پاکستان کا اپنا ہی پروردہ خود ارادیت کا نظریہ جموں و کشمیر میں عملاً بروے کار نہیں آسکتا۔

دوم: انھوں نے اس تصور کو ترک کر دیا ہے کہ پاکستان جموں و کشمیر کے بعض علاقوں پر قبضہ کر کے شامل کر لے۔

سوم : تیسری اور زیادہ اہم تبدیلی یہ ہے کہ نام نہاد شمالی علاقوں کو بھی معاملے کا حصہ بنا دیا ہے حالانکہ ۱۹۷۲ء کے شملہ معاہدے کے بعد پاکستان نے شمالی علاقوں(بلتستان اور گلگت) کو پاکستانی ]آزاد[ کشمیر سے انتظامی طور ر علاحدہ کر دیا تھا۔

بھارت کے اہم روزنامے دی ہندو کی ۸ نومبر کی اشاعت میں جان شیرین نے مشرف صاحب کی تجاویز پر بھارت کے سفارت کاروں کے ردعمل کو یوں بیان کیا ہے:

بھارت کے سفارتی مبصرین نے جنرل مشرف کی نئی پہل کاری میں کشمیر پر پاکستان کے قدیم موقف سے انحراف کو نوٹ کیا ہے۔ پہلی دفعہ ایک پاکستانی صدرِ ریاست نے اشارہ دیا ہے کہ لائن آف کنٹرول دونوں ملکوں کے درمیان بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحد کے لیے اندازاً خدوخال فراہم کرسکتی ہے۔ انھوں نے یہ بھی اعتراف کرلیا ہے کہ آزاد کشمیر اور شمالی علاقے جو پاکستانی انتظام میں ہیں‘ متنازعہ علاقے ہیں۔

جنرل مشرف کی نئی تجویز نے استصواب کے مسئلے کو پسِ پشت ڈال دیا ہے اور اس کے بجاے منقسم جموں و کشمیر کے سات علاقوں کو متعین کیا ہے۔ جنرل مشرف نے جو خیال پیش کیا ہے‘ اس کے مطابق ساتوں علاقوں کے لوگ علاحدہ علاحدہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

جان شیرین نے سری نگر مظفرآباد بس سروس اور گیس کی پائپ لائن کا بھی ذکر کیا ہے کہ اب پاکستان ان تمام امور کا کشمیر کے ’’کور ایشو‘‘ کے بنیادی مسئلے سے تعلق توڑنے (delink) کے لیے تیار ہے اور اس قلب ماہیت میں امریکا کا خصوصی کردار ہے جس کا امریکا کے وزیرخارجہ کولن پاول صاحب نے اپنے ۱۸ اکتوبر کے ایک بیان میں کریڈٹ لے بھی لیا ہے۔

دی ہندو کے ۸ نومبر ہی کے شمارے میں ایک اور تجزیہ نگار لوو پوری کا تبصرہ بھی توجہ کے لائق ہے:

صدر (جنرل مشرف) پاکستان کے وہ پہلے صدر ریاست ہوگئے جنھوں نے کشمیر کے پیچیدہ مسئلے کی اس حقیقت کا اعتراف کیا جس پر کم بحث کی گئی ہے‘ یعنی جموںو کشمیر لسانی‘ نسلی اور جغرافیائی اور مذہبی طور پر ایک منقسم ریاست ہے اور کوئی بھی حل اس ناقابلِ تردید حقیقت سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔

پاکستانی صدر نے پہلی دفعہ اس اہم حقیقت کو بیان کیا ہے کہ پاکستانی ]آزاد[کشمیر اور وادی کشمیر میں بہت کم قدرِ مشترک ہے‘ اس لیے کہ دونوں کی مختلف نسلی اور لسانی بنیادیں ہیں… مشرف کی تجویز گیلانی کی اس پرانی تجویز کے خلاف ہے کہ جموںو کشمیر کو حق خود ارادیت ملنا چاہیے اور چونکہ یہ مسلم اکثریتی ریاست ہے‘ اس لیے پاکستان کے حق میں رائے دے گی۔

مشرف کے فارمولے کے ماخذ کے بارے میں اشارہ پاکستان کی حامی جمعیت المجاہدین کی قیادت کے ردعمل سے سامنے آتا ہے:جنرل مشرف ایک امریکی حل کو مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس طرح کشمیر کے مسئلے پر نظریاتی پسپائی دکھا رہے ہیں اور کشمیر کے عوام سے دغابازی کررہے ہیں۔

جب واقعات کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جاتا ہے تو جنرل مشرف کے نئے فارمولے کے پیچھے بین الاقوامی ڈور بہت واضح ہو جاتی ہے۔ یکم دسمبر ۱۹۹۸ء کو تاجر فاروق  کاٹھواڑی (جو اصلاً وادی کشمیر کا باشندہ ہے) کی سربراہی میں کام کرنے والے کشمیر اسٹڈی گروپ نے ایک رپورٹ میں تجویز دی تھی:

’’جموں و کشمیر کی سابقہ ریاست کے ایک حصے کو (کسی بین الاقوامی تشخص کے بغیر) ایک خودمختار وحدت کے طور پر تشکیل دیا جائے جس میں پاکستان اور بھارت دونوں طرف آنے جانے کی سہولت حاصل ہو‘‘۔ دراصل یہ تجویز زمینی اور آمدورفت کی رکاوٹوں کے باوجود کشمیری زبان کے حوالے سے نئی ریاست کی تہذیبی ہم آہنگی کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا چاہتی ہے۔

آخری نتیجے کے طور پر اس گروپ نے جس کے کئی ارکان امریکی ایوانِ نمایندگان کے رکن ہیں یا دانش ور ہیں‘ بھارت اور پاکستان کے درمیان وادی کشمیر کے لیے کنڈومونیم (ایسا علاقہ جس میں دو خودمختار ریاستوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں) کا کیس پیش کر دیا تھا۔ تقریباً چھے سال بعد صدر مشرف ایک حل کے طور پر کنڈومونیم کے بارے میں بات کرتے ہیں اور اس طرح ایک متحدہ جموں و کشمیر میں استصواب راے کے پاکستان کے سخت اور اصرار کیے جانے والے مطالبے کو ایک دم ترک کر دیتے ہیں۔ صدر مشرف کے تجویز کردہ سات حصوں کی مشابہت ان سات علاقوں تک جاتی ہے جن کا تعین کاٹھواڑی رپورٹ کے دوسرے حصے میں کیا گیا ہے جو بعد میں آئی۔ (فرنٹ لائن‘ ۲۲ اکتوبر ۱۹۹۹ئ)

اس میں ایک تفصیلی نقشے کے ساتھ سات تجاویز ہیں جو امریکا کے سیاسی جغرافیے کے ماہرین کی مدد سے تیار کی گئی ہیں۔ ساتوں تجاویز میں کمیونل فالٹ لائن (مذہبی بنیادوں پر علیحدگی) واضح طور پر نظر آتی ہے۔ رپورٹ کی چھے تجاویز میں جموں و لداخ کے علاقوں کی تقسیم کی تجویز دی گئی ہے۔ تقسیم کے لیے اصل بنیاد مذہب محسوس ہوتی ہے‘ جب کہ زبان‘ ثقافت اور معیشت کے بندھنوں کو کم اہمیت دی گئی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ایک مکمل آزاد مسلم ریاست تخلیق کی جائے۔

اسی روزنامے میں ایک اور صحافی اور دانش ور مرالی دھر ریڈی‘ جنرل صاحب کے ۲۵ اکتوبر کے خطاب پر ۲۹ اکتوبر کی وزارت خارجہ کی توضیحات پر تعجب کا اظہار کرتا ہے اور صاف کہتا ہے کہ جنرل صاحب نے جو کچھ کہا‘ وہ ایک کمانڈو کے انداز کا مظہر ہے اور وہ اپنے یوٹرن کے لیے فضا بنانے کے لیے یہ سارا کھیل کھیل رہے ہیں:

تجویز پر ایک نظرڈالنا ہی اس بات کے لیے کافی ہے کہ اس کو ۱۹۴۷ء کے بعد سے پاکستانی انتظامیہ کی کشمیر پالیسی کے بارے میں ایک بالکل نئی سوچ کا عنوان دیا جائے۔ پاکستان کا بیان کردہ موقف یہ رہا ہے کہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نافذ کیا جائے اور کشمیریوں کو موقع دیا جائے کہ وہ فیصلہ کریں کہ آیا وہ بھارت کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا پاکستان کا۔

اس تبدیلی کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے ریڈی کہتا ہے:

ایک ایسے موڑ پر جب بھارت کے ساتھ مکالمہ جاری ہے‘ کس چیز نے مشرف کو اپنی تجویز کو عوام کے سامنے لانے پر آمادہ کیا؟ نئی تجویز ۱۱؍۹ کے اثرات کا منطقی نتیجہ نظرآتی ہے۔ مشرف کو افغانستان پر یوٹرن اور طالبان سے لاتعلقی پر اس وقت مجبور ہونا پڑا جب ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیویارک میں جڑواں ٹاور زمین بوس ہوگئے۔ ان قوتوں کے چیلنج نے‘ جو ’’دہشت گردی ‘‘کے خلاف امریکا کے نام نہاد اتحاد میں پاکستان کی شرکت کی مخالف ہیں‘ پاکستان کے اندر اس بحث کا آغاز کر دیا ہے کہ کشمیر پر ایک نئی سوچ کی ضرورت ہے۔

ایک اور بھارتی روزنامے دی ٹربیون میں ڈیوڈ دیوداس نے کشمیر ڈائری کے عنوان  سے ۱۰ نومبر کی اشاعت میں بڑی دل چسپ اور کھری کھری باتیں لکھی ہیں جن پر پاکستان کے پالیسی ساز اداروں اور سیاسی قیادت کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے بلکہ سردھننا چاہیے:

بے چارہ جنرل مشرف! کشمیر کے بارے میں انھوں نے حال ہی میں جو تجویز دی ہے‘ اس کی تاریخی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے سرحد کے اس طرف کے ردعمل سے ان کو شدید طور پر ناامید ہونا چاہیے۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ جولائی ۲۰۰۱ء میں انھوں نے آگرہ میں اہتمام کر کے میڈیا میں جو نئی اٹھان (come uppance) حاصل کی وہ انھوں نے کھلی کھلی باتیں کر کے نمبر بناکر حاصل کی۔ لیکن اس دفعہ اسی انداز کے کھلے پن نے ان کو ایک تکلیف دہ صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔ انھوں نے پاکستان کی سوداکاری کی پوزیشن کو علانیہ بیان کر کے‘ جس پر دونوں ممالک بالآخر راضی ہو سکتے ہیں‘ بے حد محدود کر دیا۔ اس کے نتیجے میں انھوں نے اپنے ملک میں اپنے مخالفین کے ہاتھ میں اپنی ٹھکائی کے لیے موٹا ڈنڈا تھما دیا ہے۔

جنرل صاحب کو خاص طور پر جسونت سنگھ کا ردعمل پڑھ کر پریشانی ہوئی ہوگی جنھوں نے بی جے پی اور نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی طرف سے کسی تصفیے کی تلاش میں سرحدوں میں تبدیلی کو مسترد کر دیا۔ مسٹرسنگھ این ڈی اے کی حکومت میں مختلف اوقات میں وزیرخارجہ‘ وزیر دفاع اور وزیر خزانہ رہے ہیں۔ صدر مشرف نے جس حل کا ذکر کیا ہے اس کے بہت قریب کے حل پر اس وقت بحث ہوئی ہے‘ جب کہ این ڈی اے کی حکومت تھی…

معلوم ہوتا ہے کہ جنرل صاحب جس چیز کو آخری پیش کش ہونا تھی‘ وہاں سے مذاکرات کا آغاز کر کے انتہائی پیچیدہ صورت حال کا شکار ہوگئے ہیں۔ بلاشبہہ یہی ایک سپاہی اور سیاست دان کا فرق ہے۔ غالباً ان کا اعتماد اس ملاقات کی بنیاد پر ہے جو انھوں نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ستمبر میں وزیراعظم من موہن سنگھ  کے ساتھ کی تھی۔ یقینا وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جس آدمی سے بات کر رہے ہیںوہ سیاست کی غیریقینی دنیا سے تعلق نہیں رکھتا اور ایک دانش ور کی طرح حقائق پر انحصار کرتا ہے۔

اگر یہ سچ ہے تو صدر مشرف کو دو عوامل کے بارے میں سوچنا چاہیے تھا۔ پہلا: ڈاکٹر سنگھ نے ایک طویل مدت ایک کامیاب بیوروکریٹ کے طور پر گزاری ہے۔ دوسرا: اگر وہ سیاست دانوں کے طریقوں میں کوئی دقت محسوس کرتے بھی ہیں تو بہرحال وہ سرکاری مذاکرات کا طویل تجربہ رکھتے ہیں۔

فوجی حکمرانوں کے ملمع سازاور ابلاغی ماہرین جنرل مشرف کی ذہنی قلابازیوں اور تکے بازیوں پر جو بھی رنگ روغن چڑھانے کی کوشش کریں‘ عالمی میڈیا اور خصوصیت سے بھارتی میڈیا نے ان کی تجاویز کے اصل خدوخال کو بالکل بے نقاب کر دیا ہے اور اس آئینے میں جناب کمانڈو صدر صاحب کی الٹی زقند کا اصل چہرہ دیکھا جا سکتا ہے۔ پھر بھارتی قیادت نے جس بے التفاتی بلکہ حقارت سے اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے اور اپنے موقف سے سرمو ہٹنے سے انکار کردیا ہے‘ اس نے جنرل صاحب کی خوش فہمیوں کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے اور اب وہ بھارت سے غلط اشاروں کا گلہ کر رہے ہیں اور کسی بچے کی طرح بلبلا کر کہہ رہے ہیں کہ اگر بھارت اٹوٹ انگ کی بات کرے گا تو ہم بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بات کرنے لگیں گے۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمراں نہ برعظیم کی تاریخ کے نشیب و فراز سے واقف ہیں اور نہ ہندو قیادت کے ذہن اور عزائم کا حقیقی ادراک رکھتے ہیں۔ ان کی گرفت برہمن کی سیاست کاری‘ دھوکا دہی اور کہہ مکرنیوں پر بھی نہیں‘ اور وہ مکروفریب کے ان حربوں سے بھی ناآشنا ہیں جو کانگرس اور بھارت کی ہندو قیادت کا طّرہ امتیاز ہیں۔

پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر سیاست اور سفارت کاری کو اس کے مسلمہ آداب کے مطابق انجام نہ دیا جائے تو اس کا نتیجہ اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ جو قیادت اپنے اصولی موقف کو اس سہل انگاری کے ساتھ ترک کر دیتی ہے اس کا انجام ناکامی اور ہزیمت کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ فلسطینی قیادت نے اسرائیل اور امریکا کے ہاتھوں یہی چوٹ کھائی اور جنرل پرویز مشرف قوم کو اسی ہزیمت اور پسپائی کی طرف لے جارہے ہیں۔ لیکن ان شاء اللہ پاکستانی قوم ان کو اس راہ پر ہرگز نہیں چلنے دے گی اور جموں و کشمیر کی عظیم جدوجہد آزادی سے کسی کو غداری کرنے کا موقع نہیں دے گی۔

شخصی آمریت کا خمیازہ

اگر جنرل مشرف کی اس اُلٹی زقند کا تجزیہ کیا جائے تو چند باتیں سامنے آتی ہیں:

اولاً‘ یہ نتیجہ ہے ملک میں جمہوری اداروں کی کمزوری‘ فردِ واحد کے ہاتھوں میں فیصلے کے اختیارات کے دیے جانے اور اس کے ہر مشورے بلکہ خیال آرائی کے قانون‘ ضابطۂ احتساب اور جواب دہی سے عملاً بالاتر ہونے کا۔ یہ اس بات کا کھلا کھلا ثبوت ہے کہ شخصی نظام سے زیادہ کمزور کوئی اور نظام نہیں ہوتا اور اس میں ایسی ایسی بھیانک غلطیاں ہوتی ہیں جو تاریخ کا رخ بدل دیتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جنرل صاحب کو ایسے پالیسی بیانات دینے کا اختیار کس نے دیا؟ ان کی حیثیت ایک عام تبصرہ گو کی نہیں‘ وہ پاکستان کی پالیسی کے امین اور اس کے پابند ہیں اور ان کو ذاتی خیالات کے اس طرح اظہار کا کوئی حق حاصل نہیں۔ دستور کے مطابق پالیسی سازی‘ پارلیمنٹ اور اس کابینہ کا کام ہے جو پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہے۔ دستور میں صدر کے لیے صواب دیدی اختیارات کے تمام اضافوں کے باوجود‘ صدر کو پالیسی سازی یا طے شدہ پالیسی سے ہٹ کر بیان دینے کا کوئی اختیار نہیں۔ وہ ان تمام معاملات میں کابینہ کی ہدایت کا پابند ہے۔ لیکن کیا ستم ہے کہ نہ پارلیمنٹ سے مشورہ ہوتا ہے‘ نہ کابینہ کسی مسئلے اور تجویز پر غور کرتی ہے‘ نہ وزارتِ خارجہ کو اعتماد میں لیا جاتا ہے اور صدر مملکت ایک کمانڈو کی شان سے اتنے بنیادی امور کے بارے میں طے شدہ پالیسی سے ایسے جوہری انحراف پر مبنی خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور سرکاری پارٹی کے ارکان مواخذہ کرنے کے بجاے تاویلیں کرنے اور آئیں بائیں شائیں کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اصل وجہ ایک شخص کے ہاتھوں میں اقتدار کا ارتکاز اور قومی اور اجتماعی محاسبے کا فقدان ہے۔ نیز پارلیمنٹ کو غیرمؤثر بنا دیا گیا ہے۔

پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاست اور سفارت دونوں میں اصولی اور انتہائی (maximal)  پوزیشن کے بارے میں اس وقت تک کوئی لچک نہیں دکھائی جاتی جب تک مخالف قوت اپنے پتے کھیل نہیں لیتی۔ جموں و کشمیر کے بڑے حصے پر قبضہ بھارت کا ہے اور لچک ہم دکھا رہے ہیں۔ تجویز بھارت کی طرف سے آنی چاہیے اور ردعمل ہمارا ہونا چاہیے لیکن یہاں الٹی گنگا  بہہ رہی ہے کہ قابض قوت تو اپنے موقف پر سختی سے قائم ہے‘ اور لچک ہم دکھا رہے ہیں اور  ایک خیالی آخری (minimal)پوزیشن کو بات چیت کے آغاز میں پیش کر رہے ہیں۔ایں چہ بوالعجبی است۔

وقت آگیا ہے کہ اس بات کو صاف الفاظ میں بیان کیا جائے کہ اس کام کے لیے مخصوص اہلیت اور ایک ایسی سیاسی قیادت جسے تاریخی حقائق اور عالمی سفارت کاری کا گہرا ادراک ہو‘ ضروری شرط ہے۔ فوج کا اپنا ایک مزاج اور تربیت ہوتی ہے اور فوجی کمانڈ کا یہ کام نہیں کہ وہ اہم اور سنجیدہ سفارتی‘ سیاسی اور فنی معاملات پر جولانیاں دکھائیں بلکہ اصول تو یہ ہے کہ فوج بلاشبہہ دفاع کے لیے ہے‘ لیکن جنگ و صلح ایسے اہم امور ہیں کہ ان کو صرف جرنیلوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ پھر آمریت کا تو خاصّہ ہے کہ ایک شخص اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگتا ہے‘ اور خود کو ہر مشورے سے بالا سمجھتا ہے اور اپنی بات کو حق اور قانون کا درجہ دینے لگتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو تباہی کا سبب بنتی ہے اور انسانوں کو ہٹلر‘ مسولینی اور اسٹالن بنا کر چھوڑتی ہے۔ ان حالات میں خوشامد‘ چاپلوسی اور مفاد پرستی کا کلچر جنم لیتا ہے۔ فیصلے حقائق اور میرٹ کی بنیاد پر نہیں کیے جاتے اور قومی مفاد تک کو  دائو پر لگا دیا جاتا ہے۔ جمہوری نظام میں فیصلے پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں۔ کابینہ بھی کچھ اصولوں اورحدود کی پابند ہوتی ہے۔ غیر ذمہ دارانہ انداز میںاعلانات اور صرف اپنی مرضی کے مطابق اتفاق راے بنوانے کے ڈرامے نہیں ہوتے۔ ادارے فیصلے کرتے ہیں اور قومی مفاد کو ذاتی ترنگ کی چھری سے ذبح کرنے کا کسی کو موقع نہیں دیا جاتا۔ دیکھیے کہ بھارتی صحافی اور سفارت کار کلدیپ نیر جس کو جنرل صاحب نے ۲۵اکتوبر سے ہی پہلے اپنے ان خیالات عالیہ سے روشناس کرا دیا تھا‘ بگاڑ کی اصل وجہ کو کس طرح بیان کرتا ہے:

مشرف کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔ ایک حکمران کو جو کچھ کرنا چاہیے وہ بس یہ ہے کہ جرأت کا مظاہرہ کرے اور لوگ اس کی پیروی کریں گے۔ مشرف کو پاکستان میں بہت سے مسائل کا سامنا نہیں رہا۔ جمہوریتیں اتفاق راے کی بنیاد پر کام کرتی ہیں نہ کہ حکم دینے پر‘ حکمران کتنے ہی جرأت مند کیوں نہ ہوں… مشرف سے ملاقات کے بعد میں نے محسوس کیا کہ انھیں بھارت کے زمینی حقائق کے بارے میں کچھ زیادہ جاننے کی ضرورت ہے۔ کوئی سیاسی پارٹی‘ حکمران کانگریس‘ بی جے پی یا کوئی دوسری جماعت لائن آف کنٹرول کو تبدیل کرنے کی جرأت نہیں کر سکتی۔ (روزنامہ ڈان‘ ۲۳ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)

پاکستان کی کمزوری کی اصل وجہ قیادت کا دستور‘ قانون‘ پارلیمنٹ‘ اجتماعی فیصلہ کاری  اور ادارتی نظم و احتساب سے بالا ہونے کا تصور رکھنا اور اس کیفیت کا مسلسل برداشت کیا جانا ہے۔ جب تک اس کی اصلاح نہیں ہوگی پاکستانی قوم ۲۵ اکتوبر جیسے اعلانات کی طرح کی بھیانک غلطیوں سے محفوظ نہیں رہ سکے گی۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ قومی مفاد سے ایسا خطرناک کھیل کھیلنے والوں کا مؤثر مواخذہ کیا جائے؟ کیا پارلیمنٹ اور قوم ایسی عاقبت نااندیش قیادت کو لگام دے گی یا اس کی سواری کے لیے بدستور اپنی پشت پیش کرتی رہے گی؟

زمینی حقائق پر نظر

اس وقت جو عالمی حالات ہیں ان پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ۱۱؍۹ کے بعد جو فضا بنا دی گئی ہے‘ وہ ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی۔ امریکا سے دنیا بھر کے عوام کی بے زاری اور عراقی عوام کی مجاہدانہ مزاحمت اپنا رنگ دکھا کر رہے گی۔ امریکا کا جنگی بجٹ آج دنیا کے تمام ممالک کے مجموعی جنگی بجٹ کے برابر ہوگیا ہے۔ امریکا کا تجارتی خسارہ اس وقت ۵۵۰ بلین ڈالر سالانہ تک پہنچ رہا ہے جو اس کی کل قومی پیداوار کے ۷ئ۵ فی صد کے برابر ہے۔ اسی طرح اس کے بجٹ کا خسارہ ۴۰۰ ارب ڈالر سے متجاوز ہے۔ امریکا میں قومی بچت کی سطح بہت گرگئی ہے اور دنیا کی دوسری اقوام کی قومی بچت کو امریکا کے لیے استعمال کرنے پر ہی اس کی ترقی بلکہ بقا کا انحصار ہے۔ اس وقت دنیا کی بچت کا تقریباً ۸۰ فی صد یعنی تقریباً ۶ئ۲ بلین ڈالر روزانہ امریکا کی نذر ہو رہا ہے۔ نتیجتاً امریکا دنیا کا سب سے زیادہ مقروض ملک بن گیا ہے۔ امریکی قیادت اور دنیا بھر کے عوام کے درمیان خلیج روز بروز بڑھ رہی ہے۔ حالات ایک نئے رخ پر جا رہے ہیں--- مسئلہ وقت کا ہے‘ صبروہمت کا ہے‘ بصیرت اور تاریخ شناسی کا ہے۔ اور وقت ہمارے ساتھ ہے بشرطیکہ ہم حکمت اور صبر کا راستہ اختیار کریں۔

اسی طرح جموں و کشمیر کے زمینی حقائق بھی غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ بھارت ریاستی ظلم و استبداد کے تمام ہتھکنڈے استعمال کر کے بھی وہاں کے عوام کو اپنی گرفت میں رکھنے میں ناکام ہے۔ اس امر پر سب ہی کا اتفاق ہے کہ وادیِ کشمیر ہی نہیں‘ جموں تک میں بھارتی حکومت اور دہلی کے اقتدار سے مکمل بے زاری ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے جن معروف زمانہ آزاد خیال اور سیکولر صحافیوں نے مقبوضہ جموں کشمیر کا دورہ کیا تھا‘ ان میں سے ہر ایک اس پر متفق ہے کہ وہاں کے عوام بھارت کے ساتھ رہنے کے لیے کسی قیمت پر تیار نہیں۔ لبرل لابی کے ایک سرخیل کے الفاظ میں: alienation from Dehli is complete & irreversible. (دہلی سے بے زاری مکمل اور ناقابل رجوع ہے)۔

یہی وجہ ہے کہ اگر ۱۹۶۵ء کے زمانے میں پاکستان سے جانے والے کمانڈوز کو بھارتی فوج پکڑنے میں کامیاب ہوگئی تو آج کیفیت یہ ہے کہ چند ہزار مجاہدین نے سات لاکھ بھارتی فوجیوں کا ناطقہ بند کیا ہوا ہے۔ جہاد و حریت کی تمام تر جدوجہد مقبوضہ کشمیر کے جا ں نثاروں کے لہو کا ثمر ہے جس کا زندہ ثبوت ہر بستی میں وہاں کے شہیدوں کے مرقد ہیں۔ تاہم آزاد کشمیر اور پاکستان سے جو مجاہدین وہاں گئے ہیں وہ وہاں کے عوام کے ہیرو ہیں جن کو مکمل پناہ دی جاتی ہے اور شہادت کی صورت میں ۳۰‘۳۰ ۴۰‘۴۰ بلکہ ۵۰‘۵۰ ہزار افراد نماز جنازہ میں شرکت کر کے ان سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہر جنازہ بھارت کے تسلط اور قبضے کے خلاف بستی بستی ایک استصواب کا درجہ رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ مزاحمت‘ متحدہ جہاد کونسل اور حریت کانفرنس کے قائد سید علی شاہ گیلانی نے جنرل پرویز مشرف کی تجاویز کی سخت مخالفت کی ہے اور پاکستانی قوم کو یہ پیغام دیا ہے کہ جب ہم اپنی جانوں کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور استبداد کی قوتوں کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں توآپ کمزوری اور تھکن کا مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں؟ ہم اس وقت آپ سے استقامت کی توقع رکھتے ہیں۔ اسلامی تاریخ سخت سے سخت حالات میں بھی حق کی خاطر ڈٹ جانے والوں کی تابناک مثالوں سے بھری پڑی ہے اور آج بھی فلسطین‘ عراق‘ افغانستان‘ کشمیر اور شیشان ہر محاذ پر طاقت ور دشمن کا مقابلہ کرنے والے کمزور مسلمان سینہ سپر ہیں۔ پھر پاکستان کی قوم اور قیادت کیوں صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ رہی ہے۔

امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے جب مائوزے تنگ سے تائیوان کے بارے میں بات کی تو اس نے یہ کہہ کر کسنجر کی زبان بند کر دی تھی کہ’’ہم اس معاملے میں ۱۰۰ سال بھی انتظار کرسکتے ہیں‘‘۔

اہل جموں و کشمیر نے ۵۷ سال جدوجہد کی ہے اور ۱۹۸۹ء کے بعد سے تو ان کی جدوجہد دسیوں گنا بڑھ گئی ہے۔ کیا ایسی جرأت مند اور جان پر کھیل جانے والی قوم کی ہمتوں اور امنگوں کے باب میں ہم بحیثیت قوم فخر اور تائید کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کرسکتے ہیں؟ وقت ہمارے ساتھ ہے۔ بھارت اس انقلابی قوت کا تادیر مقابلہ نہیں کر سکتا۔ تاریخ میں کوئی بھی استعماری اور قابض قوت ہمیشہ غالب نہیں رہی ہے۔ جس قوم نے بھی بیرونی استبداد کے خلاف سپر نہ ڈالنے کا عزم کیا ہے‘ وہ ایک دن اپنی آزادی حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوئی ہے: تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ۔ یہی زمانے کی کروٹیں اور نشیب و فراز ہیں جن سے تاریخ عبارت ہے۔

کیا ہم تاریخ کے اس سبق اور اللہ کے اس قانون کو بھول گئے ہیں؟ آزادی‘ ایمان اور عزت کوئی قابلِ خریدوفروخت اشیا نہیں۔ کشمیری قوم نے بھارتی وزیراعظم کے ۲ئ۵ بلین ڈالر کے معاشی پیکج کا ایک ہی جملے میں جواب دے دیا: ’’ہمیں سیاسی آزادی درکار ہے‘ معاشی پیکج ہمارا ہدف نہیں‘‘۔ اہلِ کشمیر نے تو اپنا جواب دے دیا‘ سوال یہ ہے کہ پاکستانی قوم کا جواب کیا ہوگا اور پاکستانی فوج جس کا مقصد وجود ہی ملک کا دفاع‘ کشمیر کی آزادی کا حصول اور علاقے پر بھارت کی بالادستی کو حدود کا پابند کرنا ہے‘ اس کا جواب کیا ہوگا؟ کیا یہ فوج معاشی کاروبار کرنے‘ زمینوں کا انتظام کرنے‘ سول ملازمتوں اور سیاست پر قبضہ کرنے کے لیے ہے یا ملک کے دفاع‘ مظلوموں کی مدد اور پاکستان کی شہ رگ کو دشمن کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے ہے۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ فوج کے سربراہ نے اپنی دستوری‘ قانونی‘ اخلاقی ہر ذمہ داری کے برخلاف ایک ایسی تجویز پیش کر دی ہے جس کے معنی کشمیر کی تقسیم ہی نہیں بلکہ کشمیر کو اس خطے کے نقشے سے ہمیشہ کے لیے غائب کر دینے کے مترادف ہے۔ ان کی غفلت اور خوش فہمی کا یہ حال ہے کہ  ع

اک نشترِ زہرآگیں رکھ کر نزدیک رگ جاں بھول گئے!

ھماری قومی ذمہ داری اور تقاضے

اس خطرناک کھیل کو کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے؟ پارلیمنٹ اور قوم کی ذمہ داری ہے کہ اپنا کردار ادا کرے۔ قومی احتساب کو موثر بنائے اور اس قومی اجماع پر سختی سے قائم ہوجائے جس کی شیرازہ بندی قائداعظمؒ نے اپنے ہاتھوں سے کی تھی‘ اور اپنی ساری توجہ اصولی موقف پر مکمل اعتماد اور استقلال کے ساتھ مرکوز کرے اور کشمیری عوام کی تحریکِ مزاحمت کی بھرپور معاونت کی پالیسی اختیار کرے اور پاکستان کی معاشی‘ اخلاقی‘ عسکری اور سیاسی قوت میں اضافے کے لیے اقدامات کرے تاکہ یہ قوم اپنا حق لے سکے‘ مظلوموں کی مدد کر سکے اور ظالموں کو ظلم سے روک سکے:

وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَـآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًاo(النسائ۴:۷۵)

آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔

اس مقصد کے لیے قوت فراہم کرنا اور اس قوت کو رب کی امانت کے طور پر اپنی حفاظت اور مظلوموں کی مدد و استعانت کے لیے استعمال کرنا بھی عبادت ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ اقبال نے اسی طرف اشارہ کیا ہے:

ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ

پہلے اپنے پیکرِخاکی میں جاں پیدا کرے

پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار

اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے

اور یہ اس لیے کہ    ؎

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

اُمت مسلمہ آج جن حالات سے دوچار ہے کشمیر ہو یا فلسطین‘ افغانستان ہو یا عراق‘ مینڈانائو ہو یا شیشان--- حق و باطل کی کش مکش میں سرخرو ہونے کا ایک ہی راستہ ہے--- ایمان‘ تقویٰ اور جہاد۔ پسپائی‘ سمجھوتے اور کمرہمت کھول دینے سے کوئی قوم عزت اور آزادی کی زندگی نہیں گزار سکتی:

زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ

جوے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوے کم آب

اور آزادی میں بحر بے کراں ہے زندگی

اُمت مسلمہ‘ پاکستانی قوم اور اس کی سیاسی و عسکری قیادت کے لیے آج کے حالات میں اور خصوصیت سے کشمیر کی جدوجہد آزادی کے پس منظر میں اقبال کا پیغام یہ ہے کہ:

جس میں نہ  ہو انقلاب‘ موت ہے وہ زندگی

روح امم کی حیات‘ کش مکش انقلاب

صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم

کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب

نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر

نغمہ ہے سوداے خام خون جگر کے بغیر

اس قوم کا مقدر پسپائی نہیں‘ اپنے ملّی اور تاریخی اہداف کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنا ہے۔ یہ کم ہمت لوگوں کا شعار ہے کہ زمانے کے ساتھ بہ جاتے ہیں۔ زمانہ ساتھ نہ دے تو مسلمان کا شیوہ یہ ہے کہ وہ زمانے کو بدلنے کے لیے سرگرم عمل ہوجاتا ہے‘ اور یہی عزت اور کامیابی کا راستہ ہے۔ آج جن کے ہاتھوں میں مسلمانوں کی قیادت ہے  اُن کو ہوا کے رخ پر مڑجانے والے مرغ بادنما کے مذموم کردار سے احتراز کرنا چاہیے اور اپنے مقاصد اوراہداف کے حصول کے لیے زمانے کو مسخر کرنے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے    ؎

حدیث بے خبراں ہے‘ تو بازمانہ بساز

زمانہ با تو نسازد تو بازمانہ ستیز

صبح و شام اقبال اور قائداعظم کا نام لینے والے کیا اقبال اور قائداعظم کے راستے پر چلنے کے لیے تیار ہیں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شخصی اقتدار‘ فوجی مداخلت و حکمرانی اور عوامی نمایندوں کا نفاق و بے وفائی

۱۵ اکتوبر ۲۰۰۴ء کو قومی اسمبلی میں سرکاری جماعت کے ارکان اسمبلی نے حزب اختلاف کی پرزور اور شدید مزاحمت اور ہمہ جہتی مخالفت کے باوجود جس سرعت‘ دھاندلی اور منہ زوری سے صدر کے لیے دو عہدوں کے بل کو منظور کیا وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ حکمران جماعتوں کے اتحاد نے یہ بل منظور کرکے دستور اور جمہوریت کے سینے میں چھرا گھونپا ہے‘ خود اپنے اوپر اور پارلیمنٹ پر بے اعتمادی کا ووٹ دیا ہے‘ اور سب سے بڑھ کر جنرل پرویز مشرف کے پانچ سالہ دورحکمرانی کی ناکامی پر مہرتصدیق ثبت کر دی ہے۔ ان سب پر مستزاد‘ اپنے زعم میں جنرل پرویز مشرف کو پارلیمنٹ کے ایک دستور سے متصادم فاسد قانون (bad law)کا سہارا لے کر دستور کی خلاف ورزی‘ سترھویں ترمیم کے قانونی تقاضوں اور خود اپنے ۲۵ دسمبر۲۰۰۳ء کے قومی عہدوپیمان (national commitment) سے نکلنے اور بدعہدی کرنے کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔یہ  عوام کے نمایندوں کے لیے سیاسی خودکشی سے کم نہیں۔

اس اقدام اور اس کے پس منظر اور پیش منظر پر جتنا بھی غور کیا جائے اسے ملک و ملت کے لیے اندوہناک ہی کہا جا سکتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف دہائی دے رہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں فوج کو کیوں نشانۂ تنقید بنایا جا رہا ہے لیکن اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری خود ان پر اور ان کے پارلیمانی حواریوں پر آتی ہے کہ ان کے ان اقدامات کی وجہ سے ملک کی وہ فوج جسے کبھی صد فی صد عوام کی تائید حاصل تھی اب اتنی متنازع بنادی گئی ہے کہ ہر سطح پرہدف تنقید بنی رہی ہے اور اس کی دفاعی صلاحیتیں بھی بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔ فوج کو سیاست میں ملوث کرنے اور اسے مستقل سیاسی کردار کا حامل قرار دینے کا اس کے سوا کوئی اور نتیجہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کے اس کردار کا ہر سطح پر پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ کے باہر احتساب ہو۔ جنرل پرویز مشرف نے محض اپنے اقتدار کی خاطر وردی کو ہدف بنوایا ہے۔ ان کی اس ہوس کی قیمت فوج کا پورا ادارہ اور قوم کی نگاہوں میں اس کے مقام کو ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ جنرل صاحب کے ایک سینیررفیق لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی نے ان کو بڑا صائب مشورہ دیا ہے کہ اب بھی وہ اپنے عہد کو جو اب ہمارے دستور کا حصہ ہے پورا کریں اور فوج کو اس بدنامی سے بچالیں جو بصورت دیگر ناگزیر ہوگی۔ ان کا مشورہ ایک عقل مند دوست کا مشورہ ہے جس پر جنرل صاحب کو سنجیدگی سے غور اور نیک نیتی سے عمل کرنا چاہیے:

لیکن ایسا کیا ہوگیا ہے کہ جس سے صرف ایک باوردی صدر ہی نبٹ سکتا ہے‘ یہ کوئی نہیں بتاتا… میں نہیں سمجھتا کہ صدر کو پیچیدہ صورت حال کو مزید پیچیدہ کرنے کی کوئی خواہش ہے۔ یہ امکان کہ کچھ لوگ سڑکوں پر آجائیں گے جن کے پُرتشدد ہونے کا خاصا امکان ہے‘ ایک پریشان کن خیال ہے۔ اس بدنظمی کا الزام لامحالہ جنرل کی وردی سے دیرپا محبت پر لگے گا جو بہت پریشان کن ہوگا۔ کیا ہوگا اگر وردی نے بھی کوئی مدد بہم نہ پہنچائی؟ نہیں‘ میں نہیں سمجھتا کہ وردی اور تمغوں سے آراستہ صدر ایک اچھا تصور ہے۔ (ڈیلی ٹائمز‘ ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)

حالات کی ستم ظریفی ہے کہ عوام کے وہ نمایندے جو پارلیمانی جمہوریت کو مستحکم کرنے اور دستور کے مطابق ملک کا نظام زندگی چلانے کے لیے منتخب ہوئے تھے--- اور مسلم لیگ (ق) کا انتخابی منشور پارلیمانی جمہوریت اور پارلیمان کو مضبوط ومستحکم اور مؤثر کرنے کے دعووں پر مشتمل تھا--- ان کی ایک تعداد دستور کے خلاف ایسا قانون منظور کرتی ہے کہ ایک شخص بیک وقت فوج کا باوردی سربراہ اور سروس آف پاکستان کا تنخواہ دار ملازم بھی ہوسکتا ہے اور ملک کا صدر بھی جو خالص سیاسی عہدہ ہے‘ جب کہ خود فوج کے ریٹائرڈ سوچنے سمجھنے والے افراد صدر کو متنبہ کر رہے ہیں کہ وہ یہ خطرناک کھیل نہ کھیلیں‘ اور دستور کے تحت انھیں جو غیرمعمولی مواقع دیے گئے ہیں ان پر قناعت کر کے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔

صدر کے دو عہدوں پر قابض رہنے کے سلسلے میں خود صدر اور ان کے ’’نورتن‘‘ گذشتہ چند مہینوں سے ڈرامے کے مختلف ایکٹ وقتاً فوقتاً اسٹیج کرتے رہے ہیں‘ اور اب دو عہدوں کے قانون کی شکل میں ابہام (suspense) کو ختم کر کے آخری ایکٹ کی طرف پیش رفت کا سماں باندھا جا رہا ہے۔ لیکن یہی وہ فیصلہ کن وقت ہے جب ایک بار پھر اس مسئلے کے سارے پہلوئوں پر غور کر لیا جائے تاکہ اب بھی ملک کو مزید بگاڑ اور تباہی سے بچانے کے لیے کوئی مؤثر اقدام ہو سکے ورنہ ہمیں صاف نظر آرہا ہے کہ ایک شخص کی ہٹ دھرمی اور مخصوص سیاسی گروہوں کی مفاد پرستی کے نتیجے میں ملک جس بحران اور خلفشار کی طرف جا رہا ہے‘ وہ کسی کے لیے بھی خیر کا پیغام نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ عمل خود جنرل پرویز مشرف اور اس سے بھی زیادہ فوج کے لیے بحیثیت ایک دفاعی ادارے کے‘ بڑے ہی مہلک مضمرات کا حامل ہے۔ ابھی وقت ہے کہ عقل کے ناخن لیے جائیں اور ملک اور فوج کو اس بحران سے بچا لیا جائے۔

باطل اورفاسد قانون

’’دو عہدوں کا قانون‘‘ اگرچہ اسے پارلیمنٹ اکثریت سے منظور کرلے تب بھی یہ صرف ایک آمرانہ‘ استبدادی اور من مانی پر مبنی (arbitrary) قانون ہی نہ ہوگا بلکہ دستور کی اصطلاح میں‘ ایک اصلاً باطل اور فاسد قانون (void ab initio) ہوگاجس کی کوئی دستوری اور قانونی حیثیت نہیں ہوسکتی۔

سب سے پہلے ایک اصولی بات سمجھ لی جائے۔ بلاشبہہ ملک کی پارلیمنٹ اصل قانون ساز ادارہ ہے لیکن پارلیمنٹ بھی کوئی باطل اور فاسد قانون بنانے کی مجاز نہیں۔ اسلامی اصول فقہ کی رو سے چونکہ قرآن و سنت قانون کا اصل منبع ہیں اس لیے کوئی قانون ساز ادارہ قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتا۔ اگرخدانخواستہ کسی پارلیمنٹ کی صد فی صد اکثریت بھی شراب اور زنا کو قانون کے ذریعے جائز کرنے کا اعلان کر دے تو وہ قانون فاسد اور باطل ہی ہوگا۔ اسی طرح جن ممالک میں تحریری دستور ہے ان میں مقننہ پابند ہوتی ہے کہ دستور کے خلاف یا اس سے متصادم کوئی قانون سازی نہیں کر سکتی اور اگر وہ کوئی ایسا قانون بنا دیتی تو وہ سندجواز سے محروم رہتا ہے۔

جدید اصول قانون (jurisprudence)میں ایک بڑا بنیادی اضافہ( contribution) دوسری جنگ عظیم کے بعد نازی جرمنی کے ذمہ دار افراد کے مقدمے میں‘ جسے نیورمبرگ ٹرائل کہا جاتا ہے‘ ہوا۔ اس کے فیصلوں کو عالم گیر قبولیت حاصل ہے اس میں یہ اصول طے کیا گیا کہ کچھ اقدار اور اصول فطری انصاف اور عالم گیر صداقتوں کا درجہ رکھتے ہیں اور اگر ان کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اور انسانیت کے خلاف جرائم کاارتکاب کیا جاتا ہے‘ تومحض یہ بات اس کے لیے جوازفراہم نہیں کرسکتی کہ حکم مجاز ادارے نے دیا تھا یا یہ کہ ایسا اقدام کسی ایکٹ آف پارلیمنٹ‘ یعنی قانون کے تحت کیا گیا تھا۔ یہی وہ بنیاد تھی جس پر جرمن پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے اُن قوانین کو باطل قرار دیا گیا جو انسانی اقدار کے خلاف تھے اور نازی جرمنی کے چیف جسٹس آرنسٹ یاننگ کو بطور ملزم اس عدالت میں پیش کیا گیا اور اسے عمرقید کی سزا دی گئی۔ اس کا یہ دفاع کچھ بھی کام نہ آیا کہ اس نے ان قوانین کو نافذ کرنے کے احکام دیے تھے جن کو پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔ نیورمبرگ کی عالمی عدالت کا فیصلہ تھا کہ ایسے اقدام جو بظاہر ملکی قانون کا درجہ رکھتے ہوں اور ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے ہی کیوں نہ بنائے گئے ہوں لیکن اگر ایسے ایکٹ آف پارلیمنٹ بنیادی طور پر اخلاقی اور انسانی جمہوری قدروں سے بالاتر یا متصادم ہوں توانھیں جائز قانون اور جائز اقدام تصور نہیں کیاجاسکتا۔ ایسے قوانین اپنی پیدایش کے وقت سے ہی باطل اور فاسد ہیں اور ان کو عدالت نافذ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔

جدید اصول قانون کے اس کلیے کی روشنی میں آیئے اس امر کا جائزہ لیں کہ اگر ’’دو عہدوں کا قانون‘‘ اسمبلی میں منظور ہونے کے بعد سینیٹ سے گزر کر صدر کی منظوری (assent ) حاصل کر بھی لیتا ہے تب بھی اس کی حیثیت کیا ہوگی۔ وہ ایک باطل اور فاسد قانون (void piece of legislation) ہوگا جس کی کوئی قانونی اور اخلاقی حیثیت نہیں ہوگی۔ اس کی وجوہ مختصراً یہ ہیں:

۱-            دستور ملک کا بالاتر قانون ہے اور کوئی قانون دستور سے متصادم نہیں ہوسکتا۔ ہر قانون سازی کو دستور کی کسوٹی پر پر کھا جاتا ہے اور جو قانون اس کے برعکس ہو‘ وہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے اور کسی حیثیت سے بھی مؤثر نہیں ہو سکتا۔ اب دیکھیے دستور کیا کہتا ہے:

(i) دفعہ ۴۱ کی رو سے کوئی شخص جو قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کا اہل نہ ہو‘ وہ صدر نہیں ہوسکتا۔ اور قومی اسمبلی کے رکن کی اہلیت اور نااہلیت کا تعین دفعہ ۶۲ اور دفعہ ۶۳ میں کر دیا گیا ہے جس کی رو سے:

(د) وہ پاکستان کی ملازمت میں کسی منفعت بخش عہدے پر فائز ہو ماسواے ایسے عہدے کے جسے قانون کے ذریعے ایسا عہدہ قرار دیا گیا ہو جس پر فائز شخص نااہل نہیں ہوتا۔

دستور کی دفعہ ۲۶۰ میں سروس آف پاکستان کی تعریف کر دی گئی ہے جس میں ’’فوج کی ملازمت‘‘ اپنی ہر شکل میں موجود ہے۔

اسی طرح دفعہ ۶۳ کی شق (ک) کی رو سے سروس آف پاکستان سے ریٹائر ہونے والا کوئی شخص بھی اہل نہیں ہو سکتا جب تک ملازمت سے فراغت پر دو سال نہ گزر جائیں۔

شق (د) میں قانون کے ذریعے جس عہدے کو مستثنیٰ کیے جانے کا ذکر ہے وہ دفعہ ۲۶۰ کو   بے اثر (over-rule) نہیں کرسکتا۔

(ii) دستور کی دفعہ ۲۴۴ کے تحت مسلح افواج کے تمام ارکان کے لیے لازم کیا گیا ہے کہ وہ یہ حلف اٹھائیں کہ: ’’میں اپنے آپ کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوںمیں مشغول نہیں کروں گا‘‘۔

اس عہد کو محض قانون کے ذریعے نہ بدلا جا سکتا ہے اور نہ اس سے کسی کو مستثنیٰ کیا جاسکتا ہے۔

(iii) سترھویں دستوری ترمیم کے ذریعے دفعہ ۴۱ میں جو شرط عائد کی گئی تھی وہ دستوری ترمیم کا مقصد اور ہدف تھی ‘یعنی یہ کہ جنرل پرویز مشرف کو (d) (i) ۶۳ سے جو استثنا دیا گیا ہے وہ ۳۱ دسمبر۲۰۰۴ء کو ختم ہوجائے گا۔ اب دستوری ترمیم کے اس دستوری تقاضے سے فرار ممکن نہیں‘ اس لیے کہ قانون سازی کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ ترمیم کے بارے کوئی ایسی ترمیم نہیں ہوسکتی جو اصل ترمیم کے مقصد کے منافی اور اس کو کالعدم (undo) کرنے والی ہے۔

دو عہدوں کا قانون اگر تسلیم کر لیا جائے تو وہ سترھویں ترمیم کے مقصد کو کالعدم کرتا ہے‘ اس کی مکمل طور پر نفی کر دیتا ہے۔ یہ سادہ قانون کے ذریعے دستور میں تبدیلی کے مترادف ہوگا جو باطل اور فاسد ہے۔

(iv) یہ قانون دستور کے پورے ڈھانچے (structure) کو تہہ و بالا کر دیتا ہے۔ جس تقسیمِ کار پر دستور مبنی ہے اس میں صدر کا فیڈریشن کی علامت ہونا‘ پارلیمنٹ کی بالادستی‘ سول اور فوجی نظام کا الگ الگ ہونا‘ کسی ایک فرد کے ہاتھوں میں قوت کا ایسا ارتکاز نہ ہونا جو باقی اداروں کو غیرمؤثر کر دے‘شامل ہیں۔ یہ ’’قانون‘‘ ان تمام پہلوئوں سے دستور کے نظام کار سے متصادم ہے اور فردواحد کو دستوریا قانون سے بالا کرنے کی کوشش ہے جو جمہوریت کی ضد اور پارلیمانی نظام حکومت کی نفی ہے۔

(v) دفعہ ۴۲ کے تحت صدر کے حلف نامے میں ایک اہم شق یہ بھی ہے کہ:

میں اپنے ذاتی مفاد کو اپنے سرکاری کام اور اپنے سرکاری فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہونے دوں گا۔

حلف کی اس شق اور دو عہدوں کے قانون میں چونکہ تصادم ہے‘ اس لیے کہ یہاں مفاد کا ٹکرائو (conflict of interest) آرہا ہے۔ یہ قانون جنرل پرویز مشرف ہی کو ایک اعتبار سے دستور کے متعدد احکامات سے استثنا دے رہا ہے۔ اس لیے وہ خود اس کی منظوری نہیں دے سکتے۔  اگر وہ اس قانون کو منظوری دیتے ہیں تو اپنے ذاتی مفاد کو بالاتر رکھتے ہیں اور حلف کی خلاف ورزی کی بنیاد پر اپنے کو صدارت کے عہدے کے لیے نااہل بنا لیتے ہیں۔

(vi)  یہ تو دستوری اور قانونی بحث تھی لیکن صدارت کے لیے سب سے اہم چیز ایک شخص کی صداقت‘ عہد کی پاسداری‘ دھوکادہی سے پاک ہونا اور امانت و دیانت ہے۔ دستور کی دفعہ ۶۲ میں بھی دو شقیں ایسی ہیں جو اس پہلو سے اہم ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ وہ شخص صدر نہیں بن سکتا جو:

(و) سمجھ دار‘ اور پارسا نہ ہو اور فاسق ہو‘ اور ایمان دار اور امین نہ ہو۔

(ز) کسی اخلاقی پستی میں ملوث ہونے یا جھوٹی گواہی کے جرم میں سزایافتہ ہو۔

بدترین بدعھدی

سترھویں دستوری ترمیم کے سلسلے میں اصل جوہری شق ہی یہ تھی کہ صدر چیف آف اسٹاف کا عہدہ ۳۱دسمبر۲۰۰۴ء تک چھوڑدے گا۔ سینیٹر ایس ایم ظفر جو اس معاہدے کو انجام کار تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے تھے اپنی کتاب Dialogue on the Political Chess Board میں اس کی پوری تفصیل بیان کرتے ہیں۔ کتاب کا آغاز اس آیت ربانی سے کرتے ہیں:

وَلَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِھَا (النحل ۱۶: ۹۱)

اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو۔

کتاب کا انتساب مشہور صحابی رسولؐ حضرت ابوجندلؓ کے نام کرتے ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو نمایاں کرتے ہیں:

ابوجندل صبر کرو‘ اللہ تعالیٰ تمھارے لیے آسانی کا سامان کرے گا۔ ہم نے ان لوگوں سے ایک معاہدہ کرلیا ہے اور انھیں اپنا عہدوپیمان دے دیا ہے اور ہم اپنے عہد سے پھر نہیں سکتے۔

قرآن و سنت کی اس تذکیر کے ساتھ وہ بیان کرتے ہیں کہ:

میں نے صدر کو بتایا کہ ایم ایم اے نے صدر کے انتخاب کے مطالبے سے دستبردار ہونے پر رضامندی ظاہر کی ہے اور اس کے بجاے انھیں دستور کے تحت منتخب صدر تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے‘ بشرطیکہ وہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرسکیں۔ اس صورت میں وہ آپ سے دو میں سے ایک عہدہ چھوڑنے کے لیے کوئی حتمی تاریخ معلوم کرنے میں حق بجانب ہیں۔ (ص ۱۵۸)

اسی کے نتیجے میں صدر نے ایک عہدہ چھوڑنے کی شرط تسلیم کی جو معاہدے کا اصل نکتہ تھی۔

اب یہ بات طے ہوگئی کہ اس صورت میں صدر حتمی طور پر ایک قطعی تاریخ کا عندیہ دیں گے…پھر جو تاریخ بتائی جائے گی اس کا اطلاق نااہلیت کی دفعہ‘ یعنی دستور کی دفعہ ۶۳ (د) کے ذریعے ہوگا۔ (ص ۱۶۱)

دیکھیے بالکل واضح ہے کہ اصل ایشو کیا تھا۔ اور دستور کی دفعہ (d) (i) ۶۳ کو سترھویں ترمیم میں لانے کا مقصد چیف آف اسٹاف کے عہدے سے فراغت تھی۔ جب دستوری ترمیم کا مقصد ہی یہ تھا تو استثنا کا سہارا لیے جانے کی کوئی گنجایش نہیں رہتی:

چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ چھوڑنے کے بارے میں انھوں نے کہا کہ وہ اس مسلمہ اصول کو تسلیم کرتے ہیں کہ صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف کے دونوں عہدے ایک شخص نہیں رکھ سکتا۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ایک عارضی مدت کے لیے سول حکومت کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ مگر انھوں نے کہا کہ انھوں نے اس پر بھی لچک کا اظہار کیا ہے۔ (ص ۱۸۵)

اس کے نتیجے میں طے ہوا کہ ایک عہدہ‘ یعنی چیف آف اسٹاف کا عہدہ ۳۱دسمبر ۲۰۰۴ء تک چھوڑ دیا جائے گا۔ دفعہ ۶۳ (د) ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء سے نافذ العمل ہوگی جو اس تاریخ کے بعد دو مناصب پر برقرار رہنے کو نااہل قرار دے گی۔

یہ معاہدے کے اسی مرکزی عہدوپیمان (commitment) کا اعلان عام تھا جو صدر نے ٹیلی وژن پر قوم اور پوری دنیا کے سامنے یوں کیا :

I have decided to leave the Army Chief post before Dec 31st, 2004. But it will be upon me to decide about the timing within this period.

میں نے ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء سے پہلے آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیاہے۔ لیکن اس مدت کے دوران اس کے وقت کا تعین میں خود کروں گا۔

دفعہ ۶۳ (i) (د) کے ساتھ دفعہ ۴۳ کا ذکر کرنے کا مسئلہ بھی لیاقت بلوچ صاحب نے اٹھایا لیکن ایس ایم ظفر صاحب نے اطمینان دلایا کہ دفعہ ۶۳ اس سلسلے میں کافی ہوگی (ص ۱۹۴)۔

ایس ایم ظفر صاحب نے اپنی کتاب  میں (ص ۲۲۶-۲۲۷) یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ صدر کو اعتماد کا ووٹ دینے کے سلسلے میں ایم ایم اے نے کوئی وعدہ نہیں کیا تھا‘ البتہ اس کی مخالفت نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا جسے انھوں نے پورا کر دیا۔

سترھویں ترمیم اس بارے میں امرقاطع ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی بری فوج کی سربراہی سے ۳۱دسمبر۲۰۰۴ء تک فراغت کے بعد سیاست میں فوج کی مداخلت کا دروازہ بند ہوجائے گا۔ ایس ایم ظفر صاحب نے سینیٹ میں ۲۹ دسمبر کو اپنی تقریر میں اس بات کو اس طرح ادا کیا اور اسی کو انھوں نے اپنی کتاب میں ضمیمہ نمبر۹ کی شکل میں اصل معاہدے کے حاصل کے طور پر پیش کیا ہے:

اب میںاپنے حتمی نتیجے تک آئوں گا۔ جناب عالی! وقت آگیا ہے کہ ہم آگے کی طرف دیکھیں اور ہمیں لازماً آگے کی طرف پیش رفت کرنا چاہیے۔ ہم نئے ہزاریے میں ہیں‘ اب یہ وقت ہے کہ ہم سب عہد کریں‘ تمام سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں کو عہد کرنا چاہیے‘بلکہ درحقیقت مکمل سول سوسائٹی کو‘ بشمول افواجِ پاکستان کے افسران اور تمام فوجیوں کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ آیندہ سول میں فوج کی طرف سے کوئی مداخلت نہیں ہوگی۔ (ص ۲۷۷)

یہ تھا اصل مسئلہ اور جنرل پرویز مشرف اور پوری پارلیمنٹ کا عہدوپیمان۔ یہ ایک سیاسی اور عمرانی معاہدہ تھا جسے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ توڑا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ  جو بھی اسے توڑ رہا ہے‘ یا توڑنے کے لیے سامان فراہم کر رہا ہے وہ دستور کا باغی‘ جمہوریت کا قاتل اور قوم کا مجرم ہے اور وہ اللہ کی پکڑ سے بھی نہیں بچ سکے گا۔

اس قانون کے فاسد اور خلاف دستور ہونے کے بارے میں تمام ہی آزاد ماہرین قانون یک زبان ہیں کہ یہ دستور کے خلاف اور جمہوریت کی نفی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قرارداد پوری قانون دان برادری کے خیالات کی ترجمان ہے:

قومی اسمبلی نے ایک ایکٹ کے ذریعے‘ جو دستور کو پامال کرتا ہے اور جو ریاستی اداروں کو فرد واحد کے خبط (whim)کے تابع کرتا ہے‘ ملک کی دستوری حکومت کو ذاتی حکومت میں تبدیل کر دیا ہے۔ (ڈان، ۱۹ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)

اس بارے میں دو آرا مشکل ہیں کہ یہ قانون کتاب قانون کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا اور پارلیمنٹ کے لیے خودکشی کا پروانہ ہے۔ اس کے نتیجے میں حکمران پارٹی کی جو بھی سیاسی حیثیت تھی وہ خاک میں مل گئی ہے۔ حکومت حکمرانی کے لیے ہر جواز سے محروم ہوگئی ہے اور جنرل صاحب اور ان کی پوری ٹیم نے اپنے اعتبار (credibility ) اور سندجواز (legitimacy )‘ دونوں پر وار کر کے خود ہی انھیں تار تار کر دیا ہے۔

مسئلہ صرف قیادت کے اعتبار اٹھ جانے نہیں‘ پورے نظام امر اور اصحاب امر کی سندجواز کا ہے۔ اور جو قیادت اور جو نظام اعتبار اور جواز دونوں سے محروم ہو وہ کھوٹے سکوں کی مانند ہے اور اس کے دن گنے جاچکے ہیں۔ جس ملک کا سربراہ اور حکمران پارٹی ایسے واضح عہدوپیمان کے بعد ان کو پامال کرنے پر تلے ہوئے ہوں‘ ان کے قول و فعل کا دنیا میں کسی کو اعتبار نہیں ہوسکتا۔

ایس ایم ظفر صاحب نے سورۃ النحل کی آیت ۹۱ نقل کی ہے جو عہد کی پاسداری سے متعلق ہے۔ ہم اس کے ساتھ اگلی آیت بھی پیش کرتے ہیں جو ایک آئینہ ہے جس میں جنرل پرویز مشرف اور حکمران پارٹی اپنا پورا چہرہ دیکھ سکتی ہے اور اپنے انجام کی تصویر بھی اسے اس میں صاف نظرآجائے گی:

وَاَوْفُوْا بِعَھْدِ اللّٰہِ اِذَا عٰھَدْتُّمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِھَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰہَ عَلَیْکُمْ کَفِیْلًاط اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَo وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَھَا مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْکَاثًاط تَتَّخِذُوْنَ اَیْمَانَکُمْ دَخَلًام بَیْنَکُمْ اَنْ تَکُوْنَ اُمَّۃٌ ھِیَ اَرْبٰی مِنْ اُمَّۃٍط اِنَّمَا یَبْلُوْکُمُ اللّٰہُ بِہٖط وَلَیُبَیِّنَنَّ لَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ o (النحل ۱۶:۹۱-۹۲)

اللہ کے عہد کو پورا کرو‘ جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو‘ جب کہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ بنا چکے ہو۔ اللہ تمھارے سب افعال سے باخبر ہے۔ تمھاری حالت اس عورت کی سی نہ ہوجائے جس نے اپنی ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ تم اپنی قسموں کو آپس کے معاملات میں مکروفریب کا ہتھیار بناتے ہو تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ کر فائدے حاصل کرے حالانکہ اللہ اس عہدوپیمان کے ذریعے سے تم کو آزمایش میں ڈالتا ہے‘ اور ضرور وہ قیامت کے روز تمھارے اختلافات کی حقیقت تم پر کھول دے گا۔ (النحل ۱۶: ۹۱-۹۲)

اور عہدومیثاق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے بارے میں اللہ کا فرمان یہ ہے کہ اس کی زد خود ایمان تک پر پڑتی ہے:

اَوَ کُلَّمَا عٰھَدُوْا عَھْدًا نَّبَذَہٗ فَرِیْقٌ مِّنْھُمْط بَلْ اَکْثَرَھُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَo

یہاں تک کہ جب کبھی ان لوگوں نے پکا عہد کیا تو ان میں سے ایک فریق نے اس کو توڑ دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں اکثر ایمان سے عاری ہیں۔ (البقرہ ۲:۱۰۰)

فَمَنْ تَوَلّٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (اٰل عمرٰن ۳:۸۲)

اور جواس کے بعد (اپنے عہد سے) پھر جائیں تو یہی فاسق لوگ ہیں۔


اس مسئلے کے قانونی اور اخلاقی پہلو بلاشبہہ بہت اہم اور ملک کے مستقبل اور یہاں جمہوری سیاست کے فروغ کے سلسلے میں کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے بڑے دور رس سیاسی مضمرات بھی ہیں۔

عدم استحکام

جنرل صاحب اور ان کے حواری سیاسی استحکام کی خاطر وردی کی بات کرتے ہیں اور جنرل صاحب نے پانچ سال میں جو نظام قائم کیا ہے اور جسے وہ پایدار جمہوریت (sustainable democracy )قرار دیتے ہیں‘ اس کو بچانے اور آگے بڑھانے کا ذکر کرتے ہیں۔ لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ خود اس کے بارے میں اس قانون کا فتویٰ کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پانچ سال میں انھوں نے استحکام کی طرف قدم بڑھایا ہے‘ جب کہ اگر ایسے کسی قانون کی ضرورت ہے تو وہ صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب ان کا بنایا ہوا گھروندا استحکام سے محروم ہو۔ دراصل جنرل صاحب غیریقینی اور مجرم ضمیری کا شکار ہیں اور یہ قانون ان کے پانچ سالہ دور کے حاصل پر عدم اطمینان کا اظہار ہے۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ جو سیاسی نظام انھوں نے قائم کیا وہ متزلزل ہے۔ سیاسی قوت کا مرکز نہ عوام ہیں‘ نہ دستور‘ اور نہ پارلیمنٹ‘ صرف فوج  قوت کا منبع ہے‘ اور انھیں خطرہ ہے کہ ان کا بنایا ہوا یہ محل بندوق کی نالی کے بغیر زمین بوس ہوجائے گا۔ اگر وہ پانچ سال میں بھی اپنے پائوں پر کھڑے ہونے والا کوئی نظام قائم نہیں کرسکے تو مزید چار سال میں کیا کر سکتے ہیں؟ ان کے ایک مداح اسٹیفن کوہن (Stephen Cohen) نے اپنی تازہ ترین کتاب The Idea of Pakistan میں جنرل صاحب اور فوج کی حکمرانی کی ناکامی کا یوں اعتراف کیا ہے:

فوج کے ہر جگہ موجود ہونے کی وجہ سے پاکستان قومی سلامتی کی ایک ایسی ریاست رہے گا جس میں ترقی اور جواب دہی کی قیمت پر سلامتی کے مقاصد فیصلہ کن ہوں گے‘ نیز  جواز اور قوتِ متخیلہ کے فقدان کی وجہ سے سمت تبدیل کرنے کے قابل بھی نہ ہوگا۔ صدر اور آرمی چیف دونوں کی حیثیت سے پرویز مشرف کی کارکردگی غیراطمینان بخش ہے۔ مشکل نظر آتا ہے کہ مشرف کی قیادت کے مزید چار برس کسی طرح پاکستان کے مستقبل میں ڈرامائی تبدیلی لاسکیں۔ (بحوالہ Military's Broken Law لا از عرفان حسین‘ ڈان، ۱۶ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)

پھر بات صرف جنرل صاحب کے بنائے ہوئے نظام کے عدم استحکام ہی کی نہیں بلکہ پورے نظامِ حکمرانی کی تباہی کی ہے۔ جنرل صاحب کے پورے دور حکومت اور خصوصیت سے اس ’’دو عہدوں کے قانون‘‘ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ملک کے اداروں کو تباہ کر دیا گیا ہے اور سارے نام نہاد استحکام کی بنیاد فرد واحد کو قرار دے دیا گیا ہے۔ شخصی حکمرانی اور وہ بھی فوجی لبادے میں‘ خرابی کی اصل جڑ ہے۔ ملکوں میں استحکام اداروں کے استحکام سے آتا ہے۔ فرد تو آنی جانی چیز ہے۔ جہاں استحکام کا انحصار محض ایک فرد پر ہو وہ آمریت ہی کو جنم نہیں دیتا بلکہ خود استحکام بھی خواب و خیال سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ جمہوریت کے درخت کو جو چیز کسی گھن کی طرح کھا رہی ہے اور جس نے اسے کھوکھلا کر دیا ہے‘ وہ یہی شخصی حکمرانی‘ ارتکاز اختیارات اور فردواحد کی ناگزیریت ہے۔ وقت آگیاہے کہ خرابی کی اس اصل جڑ پر ضرب لگائی جائے اور استحکام کے لیے وہ راستہ اختیار کیاجائے جو پایدار ہو۔ یہ صرف اداروں کے استحکام سے حاصل ہوسکتا ہے اور اس کے لیے جن اداروں کا استحکام ضروری ہے وہ دستور‘ پارلیمنٹ‘ سیاسی جماعتیں‘ عدلیہ‘ قانون کی حکمرانی اور جواب دہی کا مؤثر نظام ہیں۔ بات صرف ایک فرد کی ذات کی نہیں‘ گو جنرل صاحب اپنی تمام ساکھ اور جواز کھوچکے ہیں۔ لیکن اب بھی ہمارا ہدف ان کی ذات نہیں‘ ان کی یہ کوشش ہے کہ شخصی حکمرانی کے نظام کو ملک پر مسلط کر دیں۔

فوجی قیادت کے سیاسی عزائم

اس کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ شخصی حکمرانی بھی دراصل فوجی حکمرانی (military rule) کی شکل میں ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کی راہ میں جو مشکلات اور موانع حائل رہے ہیں‘ ان میں سیاسی قوتوں کی کمزوریوں اور بے تدبیریوں کے ساتھ فوجی قیادت کے سیاسی عزائم اور سیاسی عمل میں بار بار مداخلت کا بڑا ہی بنیادی کردار ہے۔ جو بھی فوجی طالع آزما میدان میں آیا ہے اس نے استحکام اور قومی مفاد ہی کا سہارا لیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں استحکام اور قومی مفاد دونوں ہی پامال ہوئے ہیں۔

آج صورت یہ ہے کہ فوج کی دفاعی صلاحیت کمزور سے کمزور تر ہو رہی ہے اور سیاست‘ انتظامیہ‘ معیشت اور اجتماعی زندگی کے دوسرے دائروں میںاس کا کردار بڑھ رہا ہے۔ ان دائروں کے لیے نہ اس کو تربیت دی گئی ہے اور نہ اسے ان میں کوئی مہارت حاصل ہے۔ سول انتظامیہ میں آج ایک ہزار سے زیادہ ریٹائرڈ یا حاضر سروس فوجی چھائے ہوئے ہیں‘ سفارت کاری ہو یا تعلیمی اداروں کی سربراہی--- ہر جگہ ریٹائرڈ فوجیوں کی فوج ظفر موج براجمان ہے۔ پبلک سیکٹر کے اہم ترین اداروں کی سربراہی بھی فوجی عملے (personnel )کو سونپی گئی ہے اور معیشت کے میدان میں بھی فوجی ادارے اپنے ہاتھ پائوں پھیلا رہے ہیں۔ پروفیسر حسن عسکری رضوی ہیرالڈ میں اپنے ایک مضمون میں اس کا اس طرح نوحہ کرتے ہیں کہ:

The corporate interests of the military have expanded so much under General Musharuf that the army is now overwhelming all the major sectors of the state, economy and the society. And it is leading to a situation that can be declared as the colonization of the civil institutions by the military.

جنرل مشرف کے دور میں فوج کے کاروباری مفادات اتنے توسیع پذیر ہوگئے ہیں کہ فوج اب ریاست‘ معیشت اور سوسائٹی کے تمام بڑے شعبوں پر چھائی ہوئی ہے‘ اور ایسی صورت حال کی طرف بڑھ رہی ہے جس کو سول اداروں پر فوج کا استعماری قبضہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

ہمیں دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ فوجی قیادت اور خصوصیت سے جنرل پرویز مشرف کو کوئی شعور نہیں کہ فوج کو سیاست‘ معیشت اور انتظامیہ میں ملوث کر کے وہ کس طرح فوج کو قوم کے اعتماد اور محبت و عقیدت سے محروم کر رہے ہیں‘ اور اسے قوم کے مخالفانہ جذبات کا ہدف بنا رہے ہیں۔ فوج اپنے دفاعی اور پیشہ ورانہ کردار کو بھی کمزور کر رہی ہے اور عوام اور فوج میں فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ اختلافات اور بے اعتمادی اس رخ پر جارہی ہے جو بے زاری اور نفرت کا روپ دھار سکتی ہے جو ملکی دفاع کے لیے بڑا ہی خطرناک ہو سکتا ہے۔

آج وردی کی بحث کا ہدف صرف ایک فرد نہیں بلکہ یہ اصولی مسئلہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں فوج کا کیا کردار ہونا چاہیے؟ جنرل پرویز مشرف کی شخصی اور باوردی حکمرانی دراصل فوج کے سیاسی کردار کی علامت ہے۔ آج تک سیاسی عناصر بھی اور عدالتیں بھی ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت فوج کے عارضی کردار کو گوارا کرتے رہے ہیں جس نے اس کے مستقل کردار کی راہ ہموار کردی ہے۔ اب اصل ہدف فوج کا یہی کردار ہے اور نظریۂ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کردینے کی ضرورت ہے تاکہ اس باب کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔ فوج صرف دفاع وطن کے لیے مخصوص ہو اور سیاسی نظام دستور کے تحت سیاسی قوتوں کے ذریعے ہی سے چلایا جائے۔ یہی جمہوریت ہے اور یہی اسلام کا تقاضا ہے جس کا بالواسطہ اعتراف خود جنرل صاحب اپنی اس تقریر میں کرچکے ہیں کہ خلیفۂ وقت فوجی سالار کو برطرف کرنے کا حق رکھتا ہے۔

امریکی عزائم کا آلـہ کار

جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوںکے نتیجے میں جن کو ان کے بقول فوجی قیادت کی تائید حاصل ہے‘ ملک امریکا کے عالمی عزائم کا آلہ کار بن گیا ہے۔ امریکا اس وقت عالم اسلام ہی نہیں‘ اسلام اور اس کی احیائی تحریک کو اپنا مدمقابل سمجھ کر ہر طرح سے کمزور کرنے اور کچل دینے کے لیے سرگرم ہے۔ اس لیے اس کروسیڈ میں جنرل صاحب کے تعاون نے پاکستان کو ساری دنیا کے مسلمان عوام اور انصاف دوست انسانوں سے کاٹ دیا ہے اور سمجھا جا رہا ہے کہ ہم امریکا کے پیادہ سپاہی (foot soldier ) کا کردار ادا کررہے ہیں۔ پاکستانی عوام بھی اس پالیسی سے نالاں ہیں اور پوری دنیا میں ہماری جو تصویر ابھر رہی ہے وہ شرمناک ہے۔ امریکا کی دوستی تو کبھی بھی قابل اعتبارنہ تھی اور آج بھی نہیں ہے لیکن امریکا نوازی اور امریکا کے آگے سپرڈالنے سے‘ ہم اپنے عوام سے دُور اور اپنے دوستوں کی نگاہ میں مخدوش بن گئے ہیں۔ اور امریکا کا یہ حال ہے کہ ہر تابع داری کے بعد وہ  ھل من مزید کا مطالبہ کرتا ہے اور ہمیں کمزور کرنے اور رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ بھارت اور اسرائیل کو مضبوط کرنا اور پاکستان اور مسلمان ممالک کو کمزور رکھنا اس کی پالیسی کا ہدف ہے۔ نیز مسلم ممالک کے نظام تعلیم کو خالص سیکولر رنگ دینے‘ جہاد کے جذبے کو ختم کرنے‘ مسلمانوں کے مسائل کومسلسل نظرانداز کرنے اور اُمت مسلمہ کو اپنے معاشی اور ثقافتی شکنجے میں کسنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔

حد یہ ہے کہ امریکی کانگرس نے ایک نہیں کئی کئی قوانین منظور کیے ہیں کہ پاکستان کے رویے کو ہر سہ ماہی چیک کیا جائے کہ نام نہاد دہشت گردی کے سلسلے میں وہ کیا کر رہا ہے‘ نیوکلیر عدم پھیلائو کے بارے میں اس کا عمل کیا ہے اور اب تو یہ بھی کہ سیکولر تعلیم کے فروغ اور دینی مدارس کی تعلیم کی اصلاح کے بارے میں کیا کیا جا رہا ہے۔ ہر سہ ماہی جائزے کے بعد جس مالی امداد کا وعدہ کیا گیا ہے وہ بہ اقساط جاری کی جائے گی۔ اکتوبر میں امریکی نائب وزیرخارجہ کرسٹیناروکا  تشریف لائی تھیںتو ان کا اصل ہدف وزارت تعلیم کو اپنے منصوبے کے لیے مسخر کرنا اور شمالی علاقہ جات کا دورہ کر کے آغا خان فائونڈیشن کے کارناموں کا جائزہ لینا تھا۔ جس وقت محترمہ شمالی علاقہ جات کا دورہ کر رہی تھیں اس وقت ہیلری کلنٹن نیویارک میںآغا خان فائونڈیشن کے لیے عطیات جمع کرنے کی مہم کی قیادت کر رہی تھیں۔ اب پاکستانی فوج‘ پاکستانی پولیس‘ پاکستانی انتظامیہ اور پاکستانی سیاسی قیادت‘ سب کی تربیت کا ٹھیکہ امریکا یا امریکا کے فنڈ پر چلنے والی این جی اوز کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ یہ سب عوامی احتساب اور پارلیمنٹ کی نگرانی سے بالا بالا شخصی حکومت کا کرشمہ ہے۔

سیکولر اقدار کا فروغ

عوام کے حقیقی معاشی مسائل کو نظرانداز کر کے معیشت کے تمام دروازوں کو عالمی ساہوکاروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ مار کے لیے کھول دیا گیاہے۔ مبادلۂ خارجہ کے ذخائر بڑھائے جارہے ہیں لیکن ملک میں غربت بڑھ رہی ہے اور بے روزگاری میں اضافے کی رفتار دگنی ہوگئی ہے۔ دولت کی عدم مساوات میں دن دونی رات چوگنی بڑھوتری ہو رہی ہے‘ اشیاے صرف کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں‘ پانی اور بجلی کی قلت ہے۔ عوام علاج کی سہولت سے محروم ہیں اور بچوں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد کے لیے تعلیم کا حصول ناممکن بنا دیا گیا ہے۔

تعلیم کی نج کاری کے نام پر تعلیم کے استحصال کا ایک ایسا نظام ملک پر مسلط کر دیا گیا ہے کہ عام انسان کے لیے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانا ناممکن ہوگیا ہے۔ انگریزی میڈیم کا فروغ‘ اے لیول‘ مشنری تعلیمی اداروں کا احیا‘ آغا خان فائونڈیشن کو امتحانات اور بالآخر نصاب تعلیم کا ٹھیکہ وہ چیزیں ہیں جو تعلیم کو قومی دھارے اور ملک کی نظریاتی اور اخلاقی اساس سے کاٹ کر مغرب کی تہذیبی غلامی کا آلہ کار بنانے کے منصوبے کا حصہ ہیں۔ مشنری اداروں کی سرپرستی کے لیے تو یہ بے چینی ہے کہ جن اداروں کو ۱۹۷۰ء کی دہائی میں قومی تحویل میں لیا گیا تھا ان کو ان صلیبی اداروں کو واپس دیا جا رہا ہے‘ لیکن اسی زمانے میں مسلمان اداروں جیسے انجمن حمایت الاسلام کے جن تعلیمی اداروںکو قومیایا گیا تھا انھیں ان اسلامی تنظیموں کو واپس دینے یا ان کے کردار کو بڑھانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ سارا کام یک طرفہ انداز میں سیکولر اور لبرل قوتوں کے عزائم کو تقویت دینے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک بیرونی ایجنڈا ہے جس کے تحت خود اپنی قوم کو دوسروں کی سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی غلامی میں دیا جا رہا ہے اور یہ سب شخصی اور باوردی حکمرانی کا نتیجہ ہے۔

عوامی تحریک کی ضرورت

ان حالات میں قوم کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہا ہے کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے مؤثر عوامی قوت کے ذریعے اس یلغار کا مقابلہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں ہمارے اہداف بہت واضح اور متعین ہونے چاہییں یعنی:

۱-  ملک کی سیاست کو دستور کے تحت سیاسی قوتوں کے ذریعے کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے‘ اور جو قیادت اپنی حکمرانی کا جواز (legitimacy )کھو چکی ہے اور جس نے ہر عہدوپیمان کو پامال کیا ہے اس سے نجات ضروری ہے۔

۲-  ملک کی فوج کو صرف دفاعی ذمہ داریوں کے لیے مخصوص کیا جائے اور کسی صورت میں بھی فوج کی سیاسی مداخلت کو گوارا نہ کیا جائے۔ تمام سیاسی جماعتیں عہد کریں کہ بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی صورت میں بھی سیاست میں فوج کو ملوث نہیں کریں گی اور عدالتیں بھی یکسو ہوجائیں کہ ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت کسی بھی شکل میں فوج کی مداخلت کو سندِجواز نہیں دی جائے گی۔

۳-  پاکستان کی آزادی‘ نظریاتی تشخص اور تہذیبی شناخت کی ہر قیمت پر حفاظت ہوگی۔ امریکا سے دوستی صرف اپنی آزادی‘ معاشی خودانحصاری اور دینی‘ تعلیمی اور تہذیبی اقدار کی مکمل پاسداری کے ساتھ اختیار کی جائے گی اور زندگی کے تمام شعبوں میں امریکی مداخلت اور اثراندازی کو لگام دی جائے گی۔ حقیقی معنوں میں آزاد خارجہ پالیسی اختیار کی جائے گی جو پاکستان اور امت مسلمہ کے مفادات کی محافظ ہو۔ بھارت سے دوستی بھی مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل‘ برابری کے اصول اور باوقار سیاسی اور معاشی تعلقات سے مشروط ہوگی۔

۴-  ملک کے معاشی وسائل ملک کے عوام کو عزت کی زندگی گزارنے کے لائق بنانے کے لیے استعمال ہوں گے‘ اور ہرشہری کو اس کی بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔

۵-  ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور ہر سطح پر اور ہر طبقے کے لیے جواب دہی اور احتساب کا آزاد‘ مؤثر اور بے لاگ نظام قائم کیا جائے گا تاکہ ملک کی سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی زندگی کو  مفاد پرستوں کے چنگل سے آزاد کیا جاسکے‘ اور عام آدمی عزت کی زندگی گزارنے اور ملک کے وسائل سے اپنا حق وصول کرنے کے لائق ہوسکے۔

۶-  مغرب اور بھارت کی تہذیبی یلغار کے آگے بند باندھے جائیں اور پاکستان حقیقی اسلامی فلاحی ریاست کی اس منزل کی طرف پیش رفت کر سکے جس کا خواب ملت اسلامیہ پاک و ہند نے علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کی رہنمائی میں دیکھا تھا اور جس کے لیے بیش بہا قربانیاں دی تھیں۔ تقسیمِ ہند کی نفی اور مشترک ثقافت اور مفادات کے بھارتی منصوبے سے قوم کو آگاہ کیا جائے‘ اور اپنی آزادی‘ دینی تشخص‘ معاشی مفادات اور تہذیبی شناخت کی حفاظت کے لیے مؤثر عوامی تحریک برپا کی جائے۔

یہ ہیں وہ اہداف جن کو سامنے رکھ کر عوامی بیداری کی تحریک پورے نظم اور صبروتحمل سے چلانے کی ضرورت ہے۔ یہ تحریک اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک عوامی قوت کے ذریعے تمام اہداف حاصل نہ ہوجائیں۔ اس عوامی تحریک کو ہر غلط راستے سے بچایا جائے اور کسی طالع آزما کو یہ موقع نہ دیا جائے کہ وہ عوام کے جذبات اور قربانیوں کا فائدہ اٹھا کر اپنے لیے کوئی مسیحائی کا مقام حاصل کرلے۔ وقت آگیا ہے کہ ماضی کے تلخ تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور ان خطرات کے پورے ادراک کے ساتھ جن سے ماضی میں عوامی تحریکات زک اٹھا چکی ہیں‘ شخصی حکمرانی سے نجات اور عوامی حاکمیت اور اسلام کی بالادستی کی اس تحریک کو حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کے ساتھ اس کے اصل انجام تک پہنچایا جائے۔ وجاھدوا فی اللّٰہ حق جھادہ!

(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۵ روپے۔ سیکڑے پر رعایت: منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)


دنیا میں ہمیشہ غلط کار لوگوں کا یہ خاصّہ رہا ہے کہ غلط کاروں کے انجام کی پوری تاریخ ان کے سامنے ہوتی ہے مگر وہ اس سے سبق نہیں لیتے۔ حتیٰ کہ اپنے پیش رَو غلط کاروں کا جوانجام خود ان کے اپنے ہاتھوں ہوچکا ہوتاہے اس سے بھی انھیں عبرت حاصل نہیں ہوتی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خدا کا قانونِ مکافات صرف دوسروں ہی کے لیے تھا‘ اُن کے لیے اس قانون میں ترمیم کر دی گئی ہے۔ پھر اپنی کامیابیوں کے نشے میں وہ یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ دنیا میں سب احمق بستے ہیں۔ کوئی نہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے‘ نہ اپنے کانوں سے سُن سکتا ہے اور نہ اپنے دماغ سے واقعات کو سمجھ سکتا ہے۔ بس جو کچھ وہ دکھائیں گے اسی کو دنیا دیکھے گی‘ جو کچھ وہ سنائیں گے اسی کو دنیا سنے گی‘ اور جو کچھ وہ سمجھائیں گے دنیا بُزِاخفش کی طرح اس پر سرہلاتی رہے گی۔ یہی برخود غلطی پہلے بھی بہت سے بزعمِ خویش عاقل اور فی الحقیقت غافل لوگوں کو لے بیٹھی ہے‘ اور اسی کے بُرے نتائج دیکھنے کے لیے اب بھی کچھ برخود غلط حضرات لپکے چلے جارہے ہیں۔   سید مودودیؒ