اعداد و شمارکے سارے کھیل کے باوجود یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ پاکستان دنیا کے غریب ملکوں کی فہرست میں بھی خاصا نیچے آتاہے۔ غربت کی سرکاری تعریف اور اعدادوشمار کی تازہ ترین تزئین کے باوجود‘ جو حقیقت میں تکذیب و تحریف (falsification) کی ایک کوشش ہے‘ آبادی کا ایک چوتھائی حصہ غربت کی اس لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے کی تگ و دو کر رہا ہے جو جسم اور جان کے رشتے کو بس باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے‘ یعنی ۱۶کروڑ انسانوں میں سے ۴کروڑ افراد اس اذیت ناک صورت حال سے دوچار ہیں۔ لیکن اگر آزاد ماہرین معاشیات کے اندازوں کو لیا جائے تو یہ تعداد آبادی کا کم از کم ۳۳ فی صد بلکہ ۴۰ فی صد ہے‘ یعنی سوا پانچ سے ساڑھے چھے کروڑ نفوس۔
یونیسیف (UNICEF) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جنوبی ایشیا میں پانچ سال کی عمر سے کم کے بچوںکا تقریباً نصف اپنی عمر کے مطابق مطلوبہ وزن سے کم (under weight) ہے جو کمیِ تغذیہ (under-nourishment)کا ثبوت فراہم کرتاہے۔ پاکستان میں ان پانچ سال سے کم عمرکے کمیِ تغذیہ کا شکار بچوں کی تعداد ۸۰ لاکھ ہے جو اس عمر کے بچوں کا ۴۶ فی صد ہے (ڈان‘ ۳ مئی ۲۰۰۶ئ)۔ پورے ملک میں کچی آبادیوں کا جال پھیلا ہوا ہے اور کراچی جیسے شہر میں جہاں دولت کی ریل پیل ہے‘ کُل آباد رقبے کے ۵۵ فی صد پر کچی آبادیاں ہیں جو ہر بنیادی سہولت سے محروم ہیں اور گندگی اور بیماریوں کی آماج گاہ بنی ہوئی ہیں۔ (ڈیلی ٹائمز ‘۴ مئی ۲۰۰۶ئ)
پورے ملک میں ۶ئ۵۸ فی صد آبادی کو صاف پینے کا پانی میسر نہیں ہے اور وہ مجبور ہیں کہ جراثیم اور کثافت سے آلودہ پانی استعمال کریں بلکہ دیہی علاقوں میں تو انسان اور ڈھورڈنگر ایک ہی تالاب یا نالے سے یہ آلودہ پانی استعمال کر رہے ہیں۔ (ڈیلی ٹائمز‘ ۳۱ دسمبر ۲۰۰۵ئ)
تعلیم کا جو حال ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ نصف آبادی ناخواندگی کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی ہے اور جو اپنے کو تعلیم یافتہ سمجھ رہے ہیں ان کی ڈگریاں روزگار کے حصول کا ذریعہ بننے سے قاصر ہیں۔ ورلڈبنک کی تازہ ترین رپورٹ کا یہ دعویٰ بھی روح فرسا ہے کہ نہ صرف جنوب ایشیا میں بلکہ غیرترقی یافتہ ممالک کی پوری فہرست میں پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جو تعلیم پر قومی دولت کا سب سے کم حصہ خرچ کر رہے ہیں۔ تعلیم پر جنوب ایشیا میں اوسطاً خرچ قومی دولت کا ۶ئ۳ فی صد ہے‘ جب کہ تمام ترقی پذیر ممالک کا اوسط ۴ئ۳ ہے۔ پاکستان میں یہ حصہ صرف ۱ئ۲ فی صد ہے (سرکاری دستاویز معاشی جائزہ‘ ۰۶-۲۰۰۵ئ)‘ جب کہ ورلڈ بنک ازراہ کرم اس رقم کو قومی آمدنی کا ۳ئ۲ فی صد کہہ رہا ہے۔ (ملاحظہ ہو‘ ورلڈ بنک کی Green Data Book 2006 ‘ بحوالہ ڈان‘ ۱۲ مئی ۲۰۰۶ئ)
غربت اور محرومی کی یہ داستان بڑی طویل ہے لیکن ان چند حقائق کے پس منظر میں اب اس غریب ملک کے حکمرانوں کی اللّے تللّے شاہ خرچیوں کا بھی ایک منظر دیکھ لیں۔ جو کچھ ہم پیش کررہے ہیں وہ اس گھنائونی اور شرم ناک تصویر کی صرف ایک چھوٹی سی جھلک ہے ورنہ تفصیل میں جائیں تو ’تن ہمہ داغ داغ شد‘ کی کیفیت ہے۔
ایوانِ صدر سے بات کا آغاز کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص اس وقت ایک نہیں‘ دو گھروں پر قابض ہے یعنی ایوانِ صدر کے ساتھ ساتھ چیف آف اسٹاف کا وہ محل بھی اسی کے تصرف میں ہے جس کا سارا خرچ دفاع کے مقدس بجٹ سے کیا جاتا ہے۔ صرف اسلام آباد کے ایوانِ صدر کے انتظام اور رکھ رکھائو پر سال گذشتہ میں ۲۶ کروڑ ۱۶ لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں اور نئے سال کے لیے اس کو بڑھا کر ۲۹ کروڑ کردیا گیا ہے۔ ایوانِ صدر کے صرف باغات کی دیکھ بھال پر ۷۰ لاکھ سالانہ خرچ ہو رہے ہیں۔ ۲۰ جون ۲۰۰۶ء (ڈان‘۲۱ جون ۲۰۰۶ئ) کو سی ڈی اے نے اپنا جو نیا بجٹ شائع کیا ہے اس میں ایوانِ صدر میں نئی تعمیرات کے لیے ۲۱ کروڑ ۵۰ لاکھ کی رقم رکھی گئی جسے مرکز کے ترقیاتی بجٹ (Public Sector Development Programme) سے لیا جائے گا۔ عوام کم از کم ۵۵ لاکھ مکانات کی کمی سے دوچار ہیں اور اسلام آباد کے سرکاری عملے کے صرف دسویں حصے کو سرکاری مکانات کی سہولت حاصل ہے مگر ’غریب دوست بجٹ‘ اور ’غربت کم کرنے والے ترقیاتی پروگرام‘ پر پہلا حق صدر محترم کا ہے۔
گذشتہ سال کے بجٹ میں وزیراعظم صاحب کے گھر اور دفتر پر خرچ ۲۳ کروڑ ۴۰ لاکھ تھا جسے آیندہ سال بڑھا کر ۵۳ کروڑ ۸۷ لاکھ کردیا گیا ہے اور وجہ زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے دفتری نظام کی وسعت ہے۔ زلزلہ زدگان پر تو جو بھی گزر رہی ہے وہ معلوم ہے لیکن شاید غالب نے اسی کے لیے کہا تھا کہ ان کے نام پر
جب ایوانِ صدر اور وزیراعظم کے دفتر اور دیوان خانہ کا یہ حال ہے تو پھر قومی اسمبلی کے اسپیکر کیوں پیچھے رہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ان کے لیے جو گھر تعمیر کیا جائے وہ ۳ہزار گز کے سرکاری پلاٹ پر ۴ منزلہ ہو جس کا صرف تعمیر کا خرچ ۸ کروڑ ۴۷لاکھ ہوگا۔ اس پر پلاننگ کمیشن تک نے اعتراض کیا ہے لیکن عوام کے نمایندوں کا اصرار ہے کہ ان کے شایانِ شان مکان کے لیے کروڑوں روپے کی اس قیمتی زمین پر صرف تعمیر کے لیے ساڑھے آٹھ کروڑ کا خرچ کچھ زیادہ نہیں!
وزراے کرام کی فوج ظفر موج پر کیبنٹ ڈویژن کے بجٹ میں سال گذشتہ میں ۱۲ کروڑ رکھے گئے تھے جنھیں بڑھا کر اب ۱۴ کروڑ کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے خفیہ فنڈ (secret fund ) کے لیے ۴۰لاکھ کی رقم رکھی گئی ہے تاکہ ہر وزیر ۶لاکھ اور ہر وزیرمملکت کو ۴ لاکھ سالانہ مل سکیں جس کا کوئی حساب کتاب اس دنیا میں نہیں ہوگا۔
حکمرانوں کے بیرونی سفر بھی اس غریب ملک کے محدود وسائل کے بدترین استعمال کی شرم ناک مثال ہیں۔ ایک ایک سفر میں پانچ دس نہیں ۶۰‘ ۶۰ شرکاے سفر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کوئی مہینہ ایسا نہیں کہ صدر اور وزیراعظم رختِ سفر نہ باندھیں۔ وزرا‘ ارکانِ پارلیمنٹ اور سرکاری حکام کے بیرونی اسفار کی لین ڈوری لگی ہوئی ہے اور حاصل یہ ہے کہ پاکستان دنیا میں روز بروز تنہا ہوتا جارہا ہے۔ جن کی خوشامد کے لیے سفر پر سفر کیے جا رہے ہیں وہ صرف ہاتھ مروڑنے اور مزید محکومی اور اطاعت کے مطالبات کر رہے ہیں۔ خزانے پر اس کا کتنا مالی بوجھ ہے اس کا اندازہ اس سے لگایئے کہ سالِ رواں کے بجٹ کی دستاویز کی روشنی میں صرف صدر اور وزیراعظم اور ان کے ہمراہ جانے والوں کے کُل سفری اخراجات ایک ارب روپے سے زیادہ ہیں۔ وزارتِ خارجہ کے بجٹ میں ۰۶-۲۰۰۵ء کے لیے صرف صدراور وزیراعظم کے دوروں کے لیے ایک ارب کے مصارف بیان کیے گئے ہیں اور سابقہ بجٹ میں مختص رقم میں بھی ضمنی مطالبات زرکے مطابق ۲۵کروڑ کا اضافہ کیا گیا ہے جس میں سے ۱۰ کروڑ صدر کے لیے اور ۱۵ کروڑ وزیراعظم کے لیے ہیں جن کے کل اسفار کا خرچہ ۷۵ کروڑ سے متجاوز ہے۔ (ملاحظہ ہو‘ دی نیوز‘ ۲۱ جون ۲۰۰۶ئ)
ڈان کے کالم نگار سلطان احمد نے پورے سال کے صدر‘ وزیراعظم‘ وزراے کرام‘ ارکانِ پارلیمنٹ اور اعلیٰ سرکاری حکام کے دوروں پر مجموعی خرچ ہونے والی رقم کا تخمینہ ۴ ارب روپے سے زیادہ بیان کیا ہے۔ کوئی نہیں جوقومی دولت کے اس بے محابا ضیاع کا مؤثر احتساب کرے!
بہت زیادہ اہم شخصیت (VVIP) کے زیراستعمال جہاز کی صرف ایک سال کی دیکھ بھال اور اس کی تزئین و آرایش پر ۵۷کروڑ ۷۰ لاکھ روپے خرچ کیے گئے ہیں (بحوالہ Supplementary Demands for Grants and Appropriations 2005-06 ص ۲۱)
جس ملک کے عام شہری کو سائیکل/ موٹرسائیکل یا اچھی پبلک ٹرانسپورٹ میسر نہیں‘ اس کے حکمرانوں کی قیمتی کاروں کی ہوس کی کوئی انتہا نہیں۔ گذشتہ چند سال میں کیبنٹ ڈویژن نے اہم شخصیات (VVIPs) کے استعمال کے لیے ۵۵ لگژری کاریں درآمد کی ہیں جن پر ۲ ارب روپے سے زیادہ خرچ ہوا ہے۔ ان میں ۳۲ مرسڈیز بینز کاریں اور جیپیں ہیں۔ لگژری کاروں کی خرید میں اضافے کی رفتار اس طرح ہے کہ ۲۰۰۳ء میں ۱۰‘ ۲۰۰۴ء میں ۱۴ اور ۲۰۰۵ء میں ۳۱۔ ۰۶-۲۰۰۵ء کے حسابات میں صرف مزید ۱۰ گاڑیاں درآمد کی گئی ہیں جو ایک ارب سے زیادہ کی مالیت کی ہیں اور ان کی درآمدی ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مد میں ۳۶ کروڑ ۶۰ لاکھ کا خرچ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم کے دفتر کے لیے مزید دو گاڑیاں ایک کروڑ ۶۴ لاکھ کے صرفے سے خریدی گئی ہیں۔
شاہ خرچیوں کی ایک اور قسم وہ تحائف ہیں جو اس غریب ملک کے حکمران بڑے بڑے امیر ملکوں کے حکمرانوں اور کارندوں کو بڑی فراخ دلی سے پیش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ ان کے دل جیت رہے ہیں حالانکہ درحقیقت وہ اپنے آپ کو ان کے مضحکے کا ہدف بنانے کے سوا کچھ حاصل نہیں کرسکتے۔ اس کی تازہ مثال وہ تفصیل ہے جو امریکا کے اخبارات میں پاکستانی حکمرانوں کی طرف سے صرف ایک سال میں دیے گئے تحفوں کی شائع کی گئی ہے۔ اس میں صدربش‘ ان کی بیگم‘ امریکی وزرا‘ حتیٰ کہ سی آئی اے کے کارکنوں کو صدر‘ ان کی اہلیہ اور وزیراعظم کی طرف سے دیے گئے قیمتی قالینوں‘ شالوں‘ جواہرات‘ زیورات اور نایاب نوادرات کا تذکرہ بڑے کڑوے طنز کے ساتھ کیا گیا ہے۔ دو ایک نمونے ہماری قوم کے سامنے بھی آجانے چاہییں۔
جنرل پرویز مشرف نے دسمبر ۲۰۰۴ء میں صدر بش کو نگینوں سے مزین ایک چوبی میز تحفتاً دی جس کی قیمت ۱۴۰۰ ڈالر تھی۔ اس کے علاوہ بش صاحب کو ایک پرانی بندوق (antique muzzle loader) جو ۲۰۰ سال پرانی ہے‘ نیز پاکستان کا بنا ہوا قیمتی اُونی کوٹ اور ٹوپی بھی پیش کی گئی ہے۔ بیگم مشرف نے لورا بش کو سونے اور ہیروں بھرے قیمتی بُندے پیش کیے جسے امریکی اخبارات نے اس طرح بیان کیا ہے: "gold light and dark pink garnet and pink tourmaline chandelier ear rings"۔ اس کے علاوہ محترمہ نے موصوفہ کو ایک نیکلس بھی پیش فرمایا جس کی منظرکشی امریکی اخبارات نے ان الفاظ میں کی ہے: "17 light and dark pink tourmaline beaded necklace".
کہا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ تحفے‘ تحفہ دینے والوں کی دل آزاری سے بچنے کے لیے قبول کیے گئے۔ واضح رہے کہ جنرل پرویز مشرف اور ان کی اہلیہ کی فیاضی صرف صدربش اور لورابش تک ہی محدود نہ تھی بلکہ سیکرٹری آف اسٹیٹ کولن پاول‘ ڈپٹی سیکورٹی ایڈوائزر اسٹیفن ہیڈلے‘ ان کے ماتحت افسران‘ ارکانِ سینیٹ حتیٰ کہ سی آئی اے کے کارندوں کو بھی قیمتی تحفوں سے نوازا گیا___ اور وہ ایسا کیوں نہ کرتے؟ آخر پاکستان کے غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی کا ان آقایانِ والامدار سے زیادہ حق دار کون ہوسکتا تھا؟
خرچ کی ایک اور دل خراش مَد‘ خوش حال پاکستان کی پبلسٹی اور پاکستان کی خوش گوار تصویر (soft image) پیش کرنے کی مہم ہے جن پر علی الترتیب ۱۰ کروڑ اور ۱۲ کروڑ ۶۲ لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ اگر یہ ۲۲کروڑ روپے اور دوسری تمام رقوم جو مل کر اربوں روپے بنتے ہیں تعلیم‘ غریبوں کے علاج یا محتاجوں کی مدد کے لیے استعمال ہوتے تو پاکستان فی الحقیقت خوش حالی کی منزل کی طرف بڑھ سکتا تھا اور صرف تصویر (image ) ہی نہیں بلکہ حقیقت میں ایک ایسا ملک بن سکتا تھا جس کی نیک نامی کسی نمایشی پروپیگنڈے کی محتاج نہ ہوتی۔
اسلام نے قومی خزانے کے امانت ہونے کا جو تصور دیا ہے اور دورخلفاے راشدہ میں اس سلسلے میں جو معیار قائم کیا گیا اس کی تو بات ہی کیا‘ خود پاکستان کے بانی قائداعظم کی مثال بھی کچھ کم ایمان افروز نہیں۔ انھوں نے اپنے لیے بطور گورنر جنرل نیا جہاز حاصل کرنے سے انکار کردیا۔ ملک کے باہر اپنا علاج کرانے سے روک دیا۔ سرکاری خزانے سے کی جانے والی دعوتوں پر شدید کنٹرول رکھا‘ مہمانوں کی تواضع کے لیے بھی کھانے کی مقدار اور پھلوں تک کی تعداد مقرر کی اور جب ان کے لیے ایک باورچی کو لاہور سے زیارت لایا گیا جس کا پکایا ہوا کھانا وہ رغبت سے کھاتے تھے‘ تو فوراً اسے واپس کرا دیا اور اس کی آمدورفت کا خرچ بھی اپنی جیب سے ادا کیا۔
ایک وہ قائد تھے اور ایک آج کے حکمران۔ یہی فرق ہے کہ ان قائدین کی جدوجہد کے نتیجے میں انگریز اور ہندو کی ہمہ جہت مخالفت کے باوجود پاکستان کی جدوجہد کامیاب ہوئی اور مسلمانانِ ہند کو آزادی کی سعادت نصیب ہوئی۔ اور رہے آج کے حکمران‘ تو یہ قومی دولت کو آنکھیں بند کر کے لٹا رہے ہیں‘ ان کی عیاشیوں اور تن آسانیوں کی کوئی حد نہیں رہی ہے اور ان کے ہاتھوں ملک کی آزادی‘ حاکمیت‘ عزت اور حمیت سب دائو پر لگے ہوئے ہیں۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ قوم امانت میں خیانت کرنے والوں کا حقیقی احتساب کرے اور ایسی قیادت بروے کار لائے جو صادق اور امین ہو۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کسی بھی حکومت کی کارکردگی اور اس کی کامیابی اور ناکامی کو جانچنے کے لیے پوری دنیا میں چار سے پانچ سال کی مدت کافی سمجھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے پارلیمنٹ کی مدت بالعموم زیادہ سے زیادہ پانچ سال رکھی جاتی ہے اور جہاں کسی بھی نوعیت کا صدارتی نظام ہے‘ وہاں بھی عام طور پر صدر کی ایک مدت کے لیے چار یا پانچ سال مقرر کیے جاتے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو فوجی انقلاب کے ذریعے برسرِاقتدار آئے اور ان کی معاشی ٹیم اپنی حکمرانی کے سات سال پورے کرنے کو ہے۔ اس پورے زمانے میں جنرل مشرف چیف ایگزیکٹو کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور شوکت عزیز صاحب ان کی معاشی ٹیم کے کرتادھرتا کی حیثیت سے کارفرما رہے ہیں۔ جنرل صاحب ایک عرصے سے اپنے اور اپنی ٹیم کے معاشی کارناموں کو اپنی سب سے بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ امریکا‘ برطانیہ اور بھارت تینوں کے ٹی وی چینلوں کو انٹرویو دیتے ہوئے اس چبھتے ہوئے سوال کا کہ: آپ کا سب سے بڑا کارنامہ کیا ہے؟ جواب دیتے ہوئے‘ انھوں نے بڑے فخر سے فرمایا: معاشی ترقی اور خوش حالی کا حصول۔ جناب شوکت عزیز صاحب نے اس دعوے میں مزید رنگ بھرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ملک میں فی کس آمدنی اب ۸۰۰ ڈالر سالانہ ہوگئی ہے۔ غربت میں ۷ فی صد کی کمی واقع ہوئی۔ بے روزگاری میں بھی کمی ہوئی ہے اور وہ اب ۷ئ۷ فی صد سے کم ہوکر ۵ئ۶ فی صد پر آگئی ہے۔ آخری لیبر سروے کے ذریعے حاصل کردہ معلومات کے مطابق‘ ان کا ارشاد ہے کہ ۰۴-۲۰۰۳ء میں بے روزگاروں کی تعداد ۳۵ لاکھ تھی جو ۰۵-۲۰۰۴ء میں کم ہوکر ۳۳لاکھ ۳۰ ہزار رہ گئی ہے۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ حقیقت میں شرح نمو ۶ اور ۸فی صد کے درمیان ہے اور پرائمری تعلیم میں اس درجہ اضافہ ہوا ہے کہ پرائمری تعلیم کے لائق بچوں کا ۸۶ فی صد اب تعلیمی اداروں میں داخل ہورہا ہے اور بچوں کی آبادی کا ۸۳ فی صد صحت کی ابتدائی سہولت یعنی immunization سے فیض یاب ہو رہا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ۲۰۰۷ء تک تمام دیہاتوں تک بجلی کی روشنی پہنچ جائے گی اور ملک کی پوری آبادی کو صاف پانی دستیاب ہونے لگے گا۔
جنرل صاحب کی معاشی ٹیم ان خوش نما دعووں کا اس کثرت سے اعلان کر رہی ہے کہ ہٹلر کے دروغ گوئی کے مشہور وزیر گوبلز کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ ان دعووں کا بے لاگ علمی جائزہ لیا جائے اور صحیح معاشی صورت حال بے کم و کاست قوم کے سامنے رکھی جائے۔ چونکہ جون کے مہینے میں نیا بجٹ بھی آنے والا ہے‘ اس لیے اس جائزے کے لیے اس سے زیادہ اور کوئی موزوں وقت نہیں ہوسکتا۔
ہم معاشی حالات کے جائزے سے قبل اس بات کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ حکومت کے نمایندوں کے ان دعووں پر ہم ہی انگشت بدنداں نہیں‘ ملک کے اکثر ماہرین معاشیات حیران و ششدر ہیں اور ورلڈبنک‘ ایشین ڈویلپمنٹ بنک‘ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) اور امریکا کے مشہور رسالے فارن پالیسی کی تجزیاتی ٹیم سب ہی نے ان دعووں کے برعکس اعلان کیا ہے کہ زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ اور ملک کا ہر شہری اپنے روزمرہ کے تجربے کی بنیاد پر ان حقائق پر گواہی دے رہاہے کہ اعداد و شمار کا یہ کھیل حقیقت سے کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ مرکزی حکومت کے ایک سابق سیکرٹری ڈاکٹر جیلانی نے دی نیوز میں اپنے ایک مضمون میں بڑے دل چسپ انداز میں لکھا ہے کہ میں ہی نہیں میرا ڈرائیور‘ باورچی اور خاکروب تک بازار سے جو چیز بھی لینے جاتا ہے‘ اس کا تجربہ سرکاری اعلانات کی ضد ہوتا ہے۔ ڈاکٹر شاہد جاوید برکی جو ڈان میں معاشی امور پر ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں‘ ورلڈبنک میں اعلیٰ مناصب پر فائز رہے ہیں اور ایک عبوری حکومت میں وزیرخزانہ کی ذمہ داری بھی اداکرچکے ہیں‘ حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ:
حکومت کوئی قدم اٹھا سکتی ہے بشرطیکہ وہ دو باتیں پہلے کرے۔ سب سے پہلے اسے یہ خیال جھٹک دینا چاہیے کہ معیشت میں سب اچھا ہے۔ (ڈان، ۱۸ اپریل ۲۰۰۶ئ)
ملک کے توازن ادایگی (balance of payments) میں شدید خسارے کے رجحان‘ اسٹاک ایکسچینج ہی میں نہیں پوری معیشت میں سٹہ اور سٹّے کی بنیاد پر تجارتی سرگرمی اور بنکوں کے نظام کی کمزوری کی روشنی میں موصوف نے اس طرح کے خطرے تک کے امکان کا اظہار کیا ہے جیسا میکسیکو میں چند سال پہلے رونما ہوا تھا۔
جب میں ان باتوں کی طرف دیکھتا ہوں جو میکسو کے بحران سے پہلے پیش آئیں‘ تو میں انھیں آج کے پاکستان میں موجود پاتا ہوں۔(ڈیلی ٹائمز، ۲۶ اپریل ۲۰۰۶ئ)
گو کہ نمو (growth)کے اور اسٹاک مارکیٹ کے اعداد و شمار پروپیگنڈے کے لیے اچھے نظر آتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ حقیقی معیشت پر ان کا اچھا اثر ہو‘ جیساکہ چند برس پہلے بھارت میں ظاہر ہوچکا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ غربت اور بے روزگاری میں کمی آئی ہے‘ اگرچہ اسے ابھی یہ انکشاف کرنا ہے کہ یہ اعداد و شمار اسے کہاں سے ملے۔ یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستان میں عدمِ مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ ہرکسی کو نظر آتا ہے اور پاکستان کے شہری منظرنامے سے ظاہر ہے۔ کچھ ہی صارف تسلیم کریں گے کہ افراطِ زر اتنا کم ہے‘ زیادہ تر لوگ یقین رکھتے ہیں کہ معیشت میں ’بہتری‘ کے باوجود ان کی زندگی کا معیار گرا ہے۔ (روزنامہ ڈان، ۷ اپریل ۲۰۰۶ئ)
حکومت کی معاشی کارکردگی کے تصور اور عوام کو جن معاشی حقائق کا سامنا ہے‘ ان کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے‘ جب کہ حکومت زیادہ نمو کے کارنامے کی خوشی منا رہی ہے۔ عوام کی اکثریت بنیادی ضروریات اور افراطِ زر سے حقیقی آمدنی میں کمی کے مسلسل استحصال کا شکار ہے۔ حکومت بتاتی ہے کہ بڑے پیمانے کے صنعتی سیکٹر میں ۱۹ فی صد سے زائد اضافہ ہوا ہے‘ لیکن اس میں پُرتعیش گاڑیوں کا حصہ امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے تفاوت پر بے چینی کا مظہر ہے۔(ڈیلی ٹائمز، یکم مئی ۲۰۰۶ئ)
حکومت کے دعووں‘ عام آدمی کے شدید محرومی کے تجربات اور آزاد معاشی ماہرین کے سرکاری دعووں کے بارے میں واضح تحفظات کے اظہار نے بے یقینی کی جو فضا سی پیدا کر دی ہے‘ اس کا تقاضا ہے کہ حقیقت کو جاننے کی معروضی کوشش کی جائے اور یہ جائزہ علمی بنیادوں پر اور اعداد وشمار کی صحیح تعبیر کے ساتھ لیا جائے۔ ان صفحات میں اس کی کوشش کی جارہی ہے۔
۱- پہلی بات جو ہم سب کے لیے تشویش کا باعث ہے وہ سرکاری اعدادوشمار کے قابلِ اعتماد ہونے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ ایک سانحہ ہے کہ آزادی کے ۵۸سال کے بعد بھی ہم اعدادو شمار جمع کرنے کے آزاد اور قابلِ اعتماد ادارے سے محروم ہیں۔ بلکہ اس وقت تو عالم یہ ہے کہ دو سال سے سرکاری شعبہ شماریات سیکرٹری اور شماریات کے علم میں تخصص رکھنے والے ماہرین کے بغیر چلایا جارہا ہے۔ اس ادارے کو جوائنٹ سیکرٹری اور ڈپٹی سیکرٹری کے عہدے کے افراد چلا رہے ہیں۔ افسوس ہے کہ یہ اہم ادارہ اعلیٰ فنی ماہرین کی رہنمائی سے بھی محروم ہے۔ بار بار آزاد شماریاتی مقتدرہ (statiscal authority) کے قیام کے وعدے کیے گئے ہیں لیکن اس مرکزی اہمیت کے ادارے کو مناسب بنیادوں پر قائم کرنے کے کام سے مجرمانہ تغافل برتا جا رہا ہے۔ ورلڈبنک‘ ایشین ڈویلپمنٹ بنک اور پارلیمنٹ کی کمیٹیاں برسوں سے فریاد کناں ہیں مگر کوئی پیش رفت نہیں ہوتی جو اس شبہے کو تقویت دیتی ہے کہ یہ سب کچھ اعداد وشمار کو حسب خواہش مرتب کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف بار بار متنبہ کرچکاہے کہ پاکستان کی وزارتِ خزانہ ہمیں غلط اعداد وشمار دیتی رہی ہے اور یہ بات پوری قوم کے لیے شرمندگی کاباعث رہی۔ صاف نظر آرہا ہے کہ حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اسٹیٹ بنک کی رپورٹ میں ایک جگہ نہیں نصف درجن سے زیادہ مقامات پر کہا گیا ہے کہ یا ہمیں تازہ ترین اعداد و شمار نہیں دیے جا رہے یا ہمارے اعداد و شمار اور محکمہ شماریات کے اعداد وشمار میں مطابقت نہیں۔ فنی اعتبار سے لاپروائی کا یہ حال ہے کہ صارف کے لیے قیمتوں کا اشاریہ‘ جو ہراعتبار سے ایک بنیادی اہمیت کا حامل اشاریہ ہے‘ اس کے مرتب کرنے کے لیے جن مقامات اور جن منڈیوں (markets) کا انتخاب کیا گیا ہے‘ ان میں دیہی آبادی کا ایک بھی مرکز شامل نہیں۔ صرف شہری آبادی کے ۳۵ مراکز اور ۷۱مارکیٹوں سے ساری معلومات جمع کی جاتی رہی ہیں اور باربار کی گرفت کے باوجود اس کی اصلاح نہیں کی گئی۔ اب وعدہ کیا جا رہا ہے کہ ۲۰۰۷ء میں شہری اور دیہی دونوں آبادیوں سے معلومات حاصل کی جائیں گی اور غالباً بنیادی سال بھی تبدیل کیا جائے گا۔
برآمدات میں اضافے کی بات بڑے کروفر سے کی جارہی ہے کہ اس سال کُل برآمدات ۱۷ یا ۱۸ بلین ڈالر تک پہنچ جائیں گی مگر چمڑے اور چمڑے کی مصنوعات کی برآمد کے بارے میں جواعداد و شمار سامنے آئے ہیں‘ اس پر چمڑے کے صنعت کاروں اور برآمد کنندگان کی ایسوسی ایشن کا جو سرکاری ردعمل آیا ہے وہ چشم کشا ہے۔ شماریات کے فیڈرل بیورو کے سرکاری اعداد و شمار کی رو سے اس سال میں چمڑے کی مصنوعات کی برآمدات میں ۵۷ فی صد اضافہ ہوا ہے‘ جب کہ متعلقہ صنعت کے ذمہ داروں کا کہناہے کہ اس اضافے میں بڑا دخل جھوٹے بلوں (fake invoicing) کا ہے جو صرف رعایت (rebate) لینے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ایسوسی ایشن کے نمایندوں کا کہنا یہ ہے کہ پچھلے سال کے ۲۴۴ ملین ڈالر کے مقابلے میں اس سال ۳۸۷ ملین ڈالر کی برآمدات دکھائی گئی ہیں جس کا حقیقت سے تعلق نہیں۔ جولائی تادسمبر ۲۰۰۵ء کے اعداد و شمار کو چیلنج کرتے ہوئے ایسوسی ایشن کے ذمہ دار ترجمان نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ۲۰۰۴ء کے متعلقہ زمانے میں برآمدات صرف ۷ملین ڈالر تھیں جو اس سال ۶۰ملین ڈالر دکھائی گئی ہیں حالانکہ حقیقت میں اس عرصہ میں برآمدات ۵ ملین ڈالر سے زیادہ نہیں ہوسکتیں۔ اسی طرح سعودی عرب کو ۱۰ملین ڈالر برآمدات دکھائی گئی ہیں‘ جب کہ گذشتہ سال ۲ملین ڈالر تھیں اور اس سال بھی اس سے زیادہ نہیں۔ یہی صورت حال جنوبی افریقہ اور دوسرے ممالک کی ہے۔مختلف صنعتوں کے نمایندوں کا اندازہ ہے کہ صرف زیادہ قیمت کے بلوں (over-invoicing)کی بنا پر برآمدات کے اعداد و شمار میں ۵ئ۱ بلین ڈالر سے ۲ بلین ڈالر تک مصنوعی اضافے کا امکان ہے۔ اس طرح اصل برآمدات ۱۷یا ۱۸ نہیں ۱۵ یا ۱۶بلین ڈالر ہوں گی۔ (دی نیوز‘ ساجد عزیز‘ ۱۲ مئی ۲۰۰۶ئ۔ ڈان‘ ۸مئی ۲۰۰۶ئ)
اس کے ساتھ اگر اس رپورٹ کو بھی سامنے رکھا جائے کہ سنٹرل بورڈ آف ریونیو (CBR) کے ایک سابق ملازم نے ذمہ دار حضرات سے گٹھ جوڑ کر کے موجودہ حکومت کے دور میں ۲۰۰۲ء تک ۲۰ ارب روپے refundکے ذریعے نکلوائے۔ گویا ایک طرف برآمدات کو بڑھا کر دکھایا گیا اور دوسری طرف ان کے نام پرrefund کی صورت میں اربوں روپے حاصل کیے۔ یہ بدعنوانی (corruption )اور ملی بھگت (collusion) کی صرف ایک مثال ہے۔
وزیراعظم صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۵ء میں معیشت کاحجم دگنا ہوگیا ہے لیکن اگر اقتصادی سروے اور اسٹیٹ بنک کی رپورٹوں میں اضافے کی سالانہ رفتار کا مطالعہ کیا جائے تو ۰۱-۲۰۰۰ء میں اضافہ ۸ئ۱ فی صد‘ ۰۲-۲۰۰۱ء میں ۱ئ۳ فی صد‘ ۰۳-۲۰۰۲ء میں ۱ئ۵ فی صد‘ ۰۴-۲۰۰۳ء میں ۴ئ۶ فی صد اور ۰۵-۲۰۰۴ء میں ۴ئ۸ فی صد تھا۔ اس کا مجموعی input ۲۵ فی صد سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ پھر یہ معجزہ کیسے رونما ہوا؟ یہ صرف شماریات کے لیے بنیادی سال کی تبدیلی اور افراط زر کا پیدا کردہ مغالطہ ہے۔ اسے معیشت کے حقیقی طور پر دگنا ہوجانے کا نام دینا یا صریح غلط بیانی ہے اور یا معیشت کے حقیقی نمو اور مالی شعبدہ بازی کے فرق کو نظرانداز کرکے عوام کو بے وقوف بنانا۔
جس ملک کے اعداد و شمار اور معاشی ٹیم کی ترک تازیوں کا یہ حال ہو‘ اس کی قیادت کے خوش نما دعوئوں پر کون اعتماد کرے گا۔
۲- ہم دلیل کے لیے تسلیم کرلیتے ہیں کہ صدر اور وزیراعظم صاحبان معیشت کی ترقی کی جس رفتار کا دعویٰ کر رہے ہیں‘ وہ درست ہے یعنی ۰۵-۲۰۰۴ء میں یہ رفتار ۴ئ۸ فی صد سالانہ تھی اور سال رواں میں ہدف تو ۷ فی صد کا تھا مگر توقع ۳ئ۶ سے ۸ئ۶ کے درمیان کی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس اضافے کے مآخذ (sources) کیا ہیں اور ان میں کتنا دخل حکومت کی پالیسیوں کا ہے اور کتنا بیرونی (exogenous) عوامل کا۔ ڈاکٹر شاہد جاوید برکی نے نہایت علمی انداز میں یہ تجزیہ کیا ہے اور ۰۵-۲۰۰۴ء کے ۴ئ۸ فی صد اضافے کو تحلیل کر کے انھوں نے ثابت کیا ہے کہ اس اضافے کے چار مآخذ ہیں جن میں سے دو بیرونی اور ایک اتفاقی ہے۔ رہا چوتھا ماخذ تو وہ بلاشبہہ معیشت کی پیداواری صورت ہے۔ پہلا سبب موسم اور قدرت کی کرم فرمائی ہے جس کا خصوصی اثر زرعی پیداوار پر پڑتا ہے اور اس سال کی زرعی پیداوار میں ۷ فی صد اضافے میں ان قدرتی عوامل کا بڑا دخل تھا جس کا مجموعی قومی پیداوار (GDP) اضافے پر ۵ئ۱ فی صد کی حد تک اثر متعین کیا جاسکتا ہے۔ دوسرا اہم بیرونی سبب بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات ہیں جو اس زمانے میں ایک ارب ڈالر سے بڑھ کر ۴ ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں اور بڑی حد تک ناین الیون کے اثرات کی وجہ سے ہیں۔ اس میں کوئی دخل حکومت کی کسی پالیسی کا نہیں ہے۔ اس ذریعے کا عملی اثر جی ڈی پی پر ۲ فی صد کے قریب شمار کیا جاسکتا ہے۔ ان دو عوامل کے علاوہ ایک اندرونی پہلو اور بھی تھا جو دوبارہ پیش نہیں آسکتا۔ یعنی یہ کہ ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۳ء تک آئی ایم ایف کے دبائو تلے جو پالیسی اختیار کی گئی اس کی وجہ سے stabilization کے نام پر نمو کو suppress کیا گیا۔ یہ suppressed growth ۰۳-۲۰۰۲ء کے بعد اپنا اظہار کرتی ہے اور اس طرح ۰۵-۲۰۰۴ء کے اضافے میں ۵ئ۱ فی صد اس کا دخل نظر آتاہے ۔ اگر ان ۵ فی صد کو الگ کیا جائے تو اصل اضافہ صرف ۴ئ۳ فی صد کا ہے جسے structural growth کہا جاسکتا ہے اور اس کی بنیاد پر ۷ اور ۸ فی صد مسلسل اضافے کی توقعات لگانا سائنسی اعتبارسے درست نہیں۔دوسرے معاشی ماہرین نے بھی ان پہلوؤں کو قابلِ غور قرار دیا ہے اور حکومت کے اس دعوے کو محل نظر قرار دیا ہے کہ مروجہ پالیسیوں کے پس منظر میں کُل پیداوار میں ۷ اور ۸ فی صد سالانہ اضافہ تسلسل کے ساتھ برقرار رکھنا ممکن ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیٹ بنک نے ۷ فی صد کے ہدف کو قابلِ حصول قرار نہیں دیا اور سال رواں کے لیے ۳ئ۶فی صد کے لگ بھگ اضافہ کو ممکن قرار دیا ہے اور اس میں بھی بیرونی ترسیلات کے تقریباً ۲فی صد حصہ کو بیرونی عامل کے طور پر تسلیم کرنا ہوگا۔
ہم نے یہ فنی تجزیہ صرف اس لیے پیش کیا ہے کہ عام آدمی تو ۷ اور ۸ فی صد اضافے سے مرعوب ہوسکتا ہے لیکن جن کی نگاہ تمام معاشی عوامل پر ہے‘ وہ sustained rate of growth کے نقطۂ نظر سے ایک دو سال کے رفتار اضافہ کو economic break throughتسلیم نہیں کرسکتے۔
اسی طرح فنی اعتبار سے یہ ایک معما ہے کہ معاشی ترقی کے لیے جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے وہ ملک میں بچت کی شرح (rate of domestic saving) اور سرمایہ کاری کی شرح (rate of investment) ہے۔ پاکستان میں بچت کی شرح نہ صرف یہ کہ علاقے کے تمام ہی ممالک کے مقابلے میں کم ہے بلکہ مالی سال ۲۰۰۳ء میں جو بچت کی شرح مجموعی قومی پیداوار کا ۸ئ۲۰ تھی وہ ۲۰۰۴ء میں ۷ئ۱۸ اور ۲۰۰۵ء میں ۱ئ۱۵ رہ گئی۔ اس طرح ملک میں سرمایہ کاری کی شرح مطلوب شرح سے نمایاں طور پر کم ہے۔ ۷ فی صد کی رفتار سے جی ڈی پی میں تسلسل کے ساتھ اضافے کے لیے موجودہ incrementel capital output ratio کے مطابق ۳۰فی صد شرح سرمایہ کاری مطلوب ہے جب کہ یہ شرح ۲۰ فی صد سے بھی کم ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مجموعی قومی پیداوار (GDP)کی نسبت سے domestic investment ratio میں ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں کمی آئی ہے جس کی تلافی بیرونی ترسیلات اور بیرونی سرمایہ کاری (FDI) جس میں نج کاری سے حاصل شدہ رقم بھی شامل ہے‘ نے کی ہے۔ لیکن دونوں مل کر بھی مطلوب شرح سرمایہ کاری سے نمایاں طور پر یعنی تقریباً ۳۰ فی صد کم ہیں۔
ان حالات میں جو بھی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے وہ بڑی حد تک consumption based ہے مطلوبہ حد تک investment based نہیں جو بہت fragile ہے اور لمبے عرصے کے لیے قابلِ اعتماد نہیں۔ ان بنیادی معاشی حقائق کی روشنی میں ترقی کے خوش کن دعوے اور break through اور turning the corner کے مبالغہ آمیز بیانات سیاسی نعروں اور تعلّیوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔
۳- ہم نے خالص علمی اور فنی نقطۂ نظر سے جو معروضات پیش کی ہیں ان کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ حکومت کے دعووں کی زمینی حقائق سے تائید نہیں کی جاسکتی۔ لیکن یہ تو علمی بحث ہے۔ عام آدمی کی دل چسپی مجموعی پیداوار کی شرح نمو یا زرمبادلہ کے ذخائر میں افزونی نہیں__ اسے تو اپنی ضروریات زندگی کی فراہمی‘ بنیادی سہولتوں کے حصول اور روزگار اور خوش حالی کے پیمانے پر حکومت کی معاشی پالیسیوں کی کامیابی یا ناکامی کو جانچنا ہوتا ہے اور اس اعتبار سے عام آدمی کی زندگی معاشی محرومی‘ استحصال اور ظلم کی تلخیوں سے بھری پڑی ہے۔ غربت کی شرح ۳۰ سے ۴۰ فی صد تک پہنچ چکی ہے اور حکومت کے ان دعووں میں کوئی صداقت نہیں کہ ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں ۲۰۰۵ء میں ۷ فی صد کی کمی ہوئی ہے۔ حکومت کس بنیاد پر یہ دعویٰ کر رہی ہے‘ کسی کو علم نہیں اور بار بار کے مطالبات بلکہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مالیاتی کمیٹی کے متعین مطالبے کے باوجود نہ تو تفصیلی رپورٹ فراہم کی گئی ہے اور نہ ہی اس کے طریق کار (methodolgy)کو ظاہر کیا گیا۔ ورلڈ بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک نیز ABN-Amro بنک کی رپورٹ میں غربت کو ۳۲ فی صد ہی دکھایا گیا ہے حتیٰ کہ پلاننگ کمیشن کے دس سالہ وسط مدتی منصوبے میں جو ۲۰۰۵ء میں آیا تھا اور حکومت کے غربت میں کمی کے دعوے کے بعد شائع ہوا ہے‘ غربت کی شرح کو آبادی کا ایک تہائی قرار دیا گیا ہے۔ ابھی امریکی مجلہ فارن پالیسی نے جو Failed States Index شائع کیا ہے اس میں بھی پاکستان میں ۳۲ فی صد غربت کی بات کی ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ ایکونومکس کے اپنے جائزے کے مطابق بھی غربت ۳۲ فی صد سے ۳۷ فی صد تک ہے۔
غربت کا مسئلہ اوّلین معاشی مسئلہ ہے۔ پیداوار میں وہ اضافہ جو امیروں کی ضروریات کو پورا کرے یا مبادلہ خارجہ کمانے کا ذریعہ ہو‘ عوام کے لیے غیرمتعلق ہے۔ ان کی ضرورت یہ ہے کہ زندگی کی بنیادی ضروریات اور سہولتیں قابلِ برداشت قیمت پر حاصل ہوں‘ یعنی رسد بھی کافی ہو اور قیمت بھی ان کی دسترس میں ہو___ اور اس وقت دونوں ہی مفقود ہیں۔
ایک زرعی ملک جو تقسیم سے قبل پورے ہندستان کی ضروریات پوری کر رہا تھا اور ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء میں بھی بڑی حد تک زرعی اجناس کی حد تک خودکفیل ہوگیا تھا اب گندم‘ چینی‘ پیاز‘ ٹماٹراور دالوں تک کے لیے دوسروں کا محتاج ہوگیا ہے اور تمام ہی ضرورت کی اشیا کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکستان میںقیمتیں دوسرے ممالک سے کم ہیں لیکن حقائق اس کی تائید نہیں کرتے۔ ہم صرف پاکستان‘ بنگلہ دیش اور بھارت میں چند اشیاے ضرورت کی قیمتوں کے تازہ ترین اعداد و شمار پیش کرتے ہیں جو انٹرنیٹ سے حاصل کیے گئے ہیں اور پاکستان کی کرنسی میں اپریل کے آخر اور مئی ۲۰۰۶ء کے شروع کی معلومات فراہم کرتے ہیں:
اشیا
پیمانہ
Unit
اسلام آباد
(۰۶-۰۵-۰۴)
ڈھاکہ
(۰۶-۰۴-۲۷)
نئی دہلی
(۰۶-۰۴-۲۷)
آٹا
کلوگرام
۱۶ئ۱۳
۹۴ئ۱۶
۴۴ئ۱۶
ماش کی دال
"
۵۰ئ۷۵
۵۹ئ۴۶
۲۰ئ۸۲
گائے کا گوشت
"
۵۰ئ۱۳۷
۶۰ئ۱۱۸
۳۷ئ۵۱
بکری کا گوشت
کلوگرام
۵۰ئ۲۵۷
۴۳ئ۱۶۹
۵۰ئ۲۶۵
چینی
"
۸۸ئ۳۷
۱۳ئ۴۹
۱۴ئ۳۰
سویابین تیل
لٹر
۰۰ئ۸۲
۵۹ئ۴۶
۶۵ئ۶۱
آلو
"
۵۰ئ۲۶
۸۶ئ۱۱
۷۰ئ۱۳
پیاز
"
۲۵ئ۱۹
۵۵ئ۱۳
۹۶ئ۱۰
پٹرول
"
۷۷ئ۵۷
۱۲ئ۳۸
۳۸ئ۶۱
ڈیزل
"
۸۰ئ۳۸
۴۱ئ۲۵
۵۴ئ۴۲
مٹی کا تیل
"
۰۰ئ۴۰
۶۵ئ۲۹
۳۲ئ۴۹
LPG
کلوگرام
۶۴ئ۴۳
۷۷ئ۲۲
-
CNG
کیوبک میٹر
۳۷ئ۳۱
۳۱ئ۶
۶۶ئ۲۴
DAP
کلوگرام
۰۰ئ۲۳
۷۹ئ۱۲
-
یوریا
"
۰۰ئ۱۱
۲۴ئ۴
-
سیمنٹ
فی بوری
۰۰ئ۳۲۵
۲۱ئ۲۳۷
۹۴ئ۲۲۱
اس جدول سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے عام شہری کو بحیثیت مجموعی اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بنگلہ دیش کے مقابلے میں دگنا اور بھارت کے مقابلہ ایک تہائی زیادہ قوت خرید درکار ہے‘ جب کہ عام آدمی کی اوسط آمدنی ان ملکوں میں برابر برابر ہے۔ اقبال نے صحیح کہا تھا ع
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
پاکستان میں کم سے کم اُجرت قانونی طور پر ۳۰۰۰ روپے ماہانہ ہے لیکن عملاً اس سے نصف اور دو تہائی پر بھی بڑی تعداد کو کام کرنا پڑتا ہے‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جس خاندان کی آمدنی ۵ہزار ماہانہ سے ۱۰ ہزار تک ہے وہ بھی اس آمدنی میں ضروریاتِ زندگی پوری نہیں کرسکتا۔ اور اس بنیاد پر ملک میں غربت کی سطح کی گرفت میں ۶۰ اور۷۰ فی صد آبادی آجاتی ہے۔
یہی وجہ ہے یو این کے Human Development Indexمیں دنیا کے ۱۷۷ممالک میں پاکستان کا نمبر ۱۳۵ واں ہے اور گذشتہ ۶ سال میں ہم نیچے گئے ہیں‘ اُوپر نہیں آئے ہیں۔ ڈاکٹر شاہ رخ رفیع خاں کی کتاب Hazardous Home Based Labour جسے اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس نے ۲۰۰۵ء میں شائع کیا ہے‘ اس میں بچوں کی لیبر کی جس زبوں حالی کا نقشہ کھینچا گیا ہے‘ وہ رونگٹے کھڑے کرنے والا ہے۔ کارپٹ‘ چوڑیوں کی صنعت‘ پلاسٹک‘ موم بتی بنانے کے کارخانوں میں ۸ سے ۱۲ سال کے لڑکے اور لڑکیاں تک ۱۶ گھنٹے روزانہ کام کرتے ہیں اور ۱۷۰۰ سے ۲۰۰۰روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والوں کو ایک ہزار اینٹ بنانے کے ۶۰ روپے ملتے ہیں اور یہی ہزاراینٹ منڈی میں ۴ہزار روپے میں فروخت ہوتی ہے۔ زراعت میں بھی چھوٹے کاشت کار اور مزارع کی حالت دگرگوں ہے۔ بظاہر زرعی اجناس کے لیے support price کا اعلان ہوتا ہے مگر عملاً بڑا زمین دار ہی اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے اور چھوٹے کاشت کار کو جس کے اندر اپنی پیداوار کو روک رکھنے کی سکت نہیں‘ کم دام پر فروخت کرنا پڑتی ہے۔
پاکستان قومی ترقیاتی رپورٹ ۲۰۰۳ء میں ڈاکٹر اکمل حسین نے Asymmetric Markets for Inputs and Outputs میں جو حقائق پیش کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹا کاشت کار مجبور ہوتا ہے کہ اپنی پیداوار کو بڑے زمین دار کی پیداوار کے مقابلے میں سستا بیچے اور جو زرعی ضروریات اسے درکار ہیں وہ بڑے زمین دار کے مقابلے میں مہنگی حاصل کرے جس کے نتیجے میں انھی اشیا کی خرید و فروخت پر چھوٹے کاشت کار کو بڑے زمین دار کے مقابلے میں اوسطاً ۳۳ فی صد کم آمدن ہوتی ہے یا ۳۳ فی صد زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔
شہری آبادی کے بارے میں بھی متعدد جائزے یہ حقیقت سامنے لاتے ہیں کہ گذشتہ ۱۰سال میں حقیقی اُجرت (real wages) کم ہوئی ہے اس میں اضافہ نہیں ہوا جو غربت میں اضافے کا باعث ہے۔
روزگار کے سلسلے میں حقیقت یہ ہے کہ بے روزگاری جتنی زیادہ آج ہے‘ پہلے کبھی نہیں تھی۔ نیز روزگار کی فراہمی کے جو وعدے کیے جا رہے ہیں‘ ان میں صداقت نہیں۔ ایک تو روزگار کی تعریف ہی نہایت ناقص ہے یعنی اگر ایک شخص کو ہفتے میں دس گھنٹے کا کام بھی مل جائے تو وہ برسرِروزگار ہے حالانکہ اتنے گھنٹے کا کام پیٹ بھرنے کے لیے آمدن نہیں پیدا کرسکتا۔ پھر ایک عجیب و غریب قسم برسرِروزگار کی بنائی گئی ہے یعنی unpaid house labourاور ملک میں جن ۲۳ لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے ان میں سے ۱۱لاکھ سے زیادہ کا تعلق اسی unpaid house labourسے ہے۔
تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بے روزگاری کی صورت حال لیبر سروے کے تجزیہ پر مبنی ڈاکٹر جنیداحمد کے ایک مضمون کے مطابق کچھ یوں بنتی ہے کہ ۲۰۰۲ء کے مقابلے میں ۲۰۰۶ء میں میٹرک تک تعلیم پانے والوں کی بے روزگاری میں ساڑھے دس فی صد اضافہ ہوا ہے‘ جب کہ اس عرصے میں گریجویشن یا اس سے اُوپر تعلیم حاصل کرنے میں سوا اٹھارہ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ دوسالوں کے دوران ان تعلیم یافتہ بے روزگاروں میں ۲۴ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ۳۷ لاکھ بے روزگاروں میں سے ۱۳ لاکھ بے روزگار ایسے ہیں جنھوں نے میٹرک سے زیادہ اور گریجوایشن سے کم تعلیم حاصل کی ہے۔
اُجرت کی کمی‘ قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ‘ سرکاری طور پر فراہم کی جانے والی خدمات کا فقدان یا ان کی ناگفتہ بہ حالت جیسے تعلیم‘ علاج کی سہولت‘ صاف پانی کی فراہمی‘ مکان‘ سڑکوں اور روشنی تک رسائی‘ ان سب کے مجموعی اثرات کا نتیجہ ہے کہ عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوگیا ہے اورایمان کی کمزوری اور اخلاقی زوال کے اس دور میں مسلمان معاشرے میں ان حالات کے ردعمل میں ایک طرف تخریب کاری‘ چوری‘ ڈاکا اور قتل و غارت گری طوفان کی شکل اختیار کررہے ہیں تو دوسری طرف مایوسی اور بے بسی کی وہ کیفیت رونما ہو رہی ہے جو جسم فروشی اور خودکشی کی طرف لے جا رہی ہے۔ اس صورت حال کی ذمہ داری سب سے زیادہ حکومت اور معاشرے کے متمول طبقات پر آتی ہے۔
حکومت کے کرتادھرتا کتنے ہی بغلیں بجائیں‘ حقیقت یہ ہے کہ یونیسف (UNICEF) کی تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق پاکستان اور جنوب ایشیا میں under nourished اور under weight بچوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے یعنی پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں یہ شرح ۴۶ فی صد ہے جو دنیا کے اوسط سے تقریباً دگنا ہے۔ پاکستان میں ان بچوں کی تعداد ۸۰لاکھ کے قریب ہے۔ (ڈان، ۳مئی ۲۰۰۶ئ)
تعلیم کے لیے وسائل بڑھانے کے تمام دعووں کے باوجود ورلڈبنک کی تازہ ترین رپورٹ Little Green Book 2006 کے مطابق پاکستان میں تعلیم پر اخراجات قومی پیداوار کے تناسب سے کم ہیں یعنی ۳ئ۲ فی صد‘ جب کہ جنوب ایشیا کا اوسط ۶ئ۳ فی صد اور پوری دنیا کے کم ترقی یافتہ ممالک کا اوسط ۴ئ۳ فی صد ہے (ڈان، ۱۲ مئی ۲۰۰۶ئ)۔ اور بات صرف تعلیم کے بجٹ کی نہیں اس بجٹ کا استعمال‘ کرپشن‘ اسکولوں کی زبوں حالی‘ اساتذہ کا فقدان اور بے توجہی‘ تعلیمی معیار کی پستی اور شکستہ حالی سب کے سامنے ہے۔
وزیراعظم صاحب دعویٰ کر رہے ہیں کہ پرائمری عمر کے طلبا کا ۸۶ فی صد اسکولوں میں جارہا ہے‘ جب کہ ورلڈ بنک کی یہ رپورٹ کہہ رہی ہے کہ اس عمر کے بچوں کا صرف ۵۰ فی صد تعلیم کی سہولت تک رسائی پارہا ہے یعنی ۵ سے ۹ سال کے بچوں کی موجودہ تعداد ۲کروڑ کا صرف نصف تعلیم حاصل کر رہا ہے اور ان میں سے بھی اسکول چھوڑ جانے والوں (drop outs)کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ایک جائزے کے مطابق پانچویں تک آتے آتے تعداد نصف رہ جاتی ہے۔
کراچی ملک کا امیرترین شہر ہے‘ اس کے ایک حالیہ جائزے کے مطابق شہر کا ۵۵ فی صد کچی آبادیوں پر مشتمل ہے جو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ (ڈیلی ٹائمز، ۴مئی ۲۰۰۶ئ) اور پورے ملک کے بارے میں جائزے بتا رہے ہیں کہ آبادی کا ۵۹ فی صد آلودہ پانی استعمال کر رہا ہے جو پیٹ کی بیماریوں کا بڑا سبب ہے۔ (ڈیلی ٹائمز، ۳۱ دسمبر ۲۰۰۵ئ)
یہ ہیں عام آدمی کی زندگی کے حالات ___نہ پیٹ بھر کر روٹی میسر ہے‘ نہ صاف پانی‘ نہ گھرکی سہولت حاصل ہے‘ نہ تعلیم اور صحت کی۔ اور حکومت دعوے کر رہی ہے کہ ہم آسمان سے تارے توڑ لائے ہیں اور زمین پر دودھ کی نہریں بہا دی ہیں۔
۴- معاشی صورت حال کا ایک دوسرا دل خراش پہلو دولت کی ناہمواری‘ معاشرے کی طبقاتی تقسیم‘ اور حکومت کی وہ سوچی سمجھی پالیسی ہے جس کے نتیجے میں پیداوار میں نام نہاد اضافہ‘ بیرونی تجارت کا فروغ اور زرمبادلہ کے ڈھیر اصل ہدف ہیں‘ جب کہ غربت کا خاتمہ‘ روزگار کی فراہمی‘ دولت کی منصفانہ تقسیم اور عدل و انصاف اور ضروریاتِ زندگی پر مبنی آمدنی پالیسی (income policy)کا فقدان ہے۔ سرمایہ داری اپنی بدترین شکل میں پروان چڑھائی جارہی ہے۔ آزاد معیشت‘ منڈی کا نظام‘ نج کاری (privatization) اور de-regulation کے نام پر ایک استحصالی معیشت کو فروغ دیاجا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک اشرافی معیشت (elitist economy)وجود میں آئی ہے جس میں دولت کا ارتکاز ایک محدود طبقے کے ہاتھوں میں ہورہا ہے اور عام افراد غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ چند لاکھ گھرانے ہیں جو دولت کے تمام وسائل پر قابض ہیں اور ان کا پُرتعیش طرزِ زندگی اسراف اور تبذیر کی بدترین مثال ہی پیش نہیں کر رہا بلکہ معاشرے میں طبقاتی منافرت پھیلانے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ حکومت اور اس کے کارپرداز جس طرزِ زندگی کو فروغ دے رہے ہیں اور جو مثال قوم کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور سرکاری وسائل کو جس بے دردی سے عیش و عشرت اور نام و نمود کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے‘ وہ ایک طرف قومی وسائل کے ضیاع کا باعث ہے تو دوسری طرف قوم کے محروم طبقوں میں نفرت کی آگ سلگا رہا ہے اور معاشرے کو تصادم کی طرف لے جا رہا ہے۔ صرف چند حقائق پیش کیے جا رہے ہیں جن سے اس خطرناک صورت حال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
اسٹیٹ بنک نے ملک میں بنک کاری کے نظام اور کارکردگی کے بارے میں جو تازہ ترین اعداد وشمار جاری کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جون ۲۰۰۱ء میں ملک کے تمام بنکوں میں کل کھاتہ داروں کی تعداد ۲کروڑ ۷۲ لاکھ ۷۰ہزار تھی جو جون ۲۰۰۵ء میں کم ہوکر ۲کروڑ ۶۹لاکھ ۸۰ہزار رہ گئی۔ اصل کمی ان کھاتہ داروں میں ہوئی ہے جن کے ڈپازٹ ۴۰ ہزار روپے یا اس سے کم تھے اور اس کے برعکس اضافہ ان میں ہوا ہے جن کے ڈپازٹ پانچ لاکھ روپے یا اس سے زیادہ ہیں۔ ایسے افراد کی تعداد ایک لاکھ ۸۳ ہزار سے بڑھ کر ۳ لاکھ ۹۵ ہزار ہوگئی ہے۔ بنک نج کاری کے بعد جس طرح اپنے کھاتہ داروں کا استحصال کر رہے ہیں اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ۲۰۰۱ء میں کھاتہ داروں کو جو نفع دیا جا رہا تھا اگر اسے افراط زر سے adjustکرکے real returnمتعین کی جائے تو وہ صرف ۶ئ۰ تھی مگر اب ۲۰۰۵ء اور اس کے بعد کے اعداد و شمار کی روشنی میں کھاتہ داروں کی real returnمنفی ہے یعنی ۸ئ۵-۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بنکوں کا spread یعنی جس شرح پر وہ کھاتہ داروں کو نفع/سود دیتے ہیں اور جس شرح سے advance پر سود وصول کرتے ہیں وہ ۷ اور ۵ئ۷ فی صد ہے جو دنیا میں کہیں نہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ۲۰۰۶ء کے پہلے تین ماہ میں بنکوں کے نفع میں ۲۰۰۵ء کے پہلے تین ماہ کے نفع پر۵۸ فی صد اضافہ ہوا ہے اور یہ رقم ۱۴ ارب روپے بنتی ہے۔ اس طرح اگر ۲۰۰۵ء میں بنکوں کے نفع کا جائزہ لیا جائے تو ۲۰۰۴ء کے مقابلے میں ۷ئ۹۸ اضافہ ہوا۔ ٹیکس ادا کرنے کے بعد یہ نفع ۵ئ۴۷ ارب روپے تھا۔ واضح رہے کہ بنکوں کے ٹیکس کی شرح کو بھی گذشتہ سالوں میں کم کیا گیا ہے جو ۴۵ فی صد سے کم کرکے ۳۸ فی صد کردیا گیا ہے اور دعویٰ ہے کہ آیندہ سال مزید ۳ فی صد کم کردیا جائے گا۔
بنک تو پھر بھی کچھ ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اسٹاک ایکسچینج میں جو سٹہ کا کاروبار ہو رہا ہے اور جس میں گذشتہ ۶ سال میں کراچی اسٹاک ایکسچینج کا index جو ۱۹۰۰ تک گرگیا تھا‘ بڑھ کر ۱۱۰۰۰ سے تجاوز کرگیا ہے۔ چند بڑے بڑے کھلاڑی ہیں جنھوں نے اربوں روپیہ بنالیا ہے‘ جب کہ ہزاروں عام سرمایہ کار ہیں جوبالکل لٹ گئے ہیں۔ سینیٹ کی مالیاتی کمیٹی کی تجویز تھی جسے سینیٹ نے باقاعدہ حکو مت کو بھیجا تھا کہ اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار پر capital gains taxلگایا جائے مگر سرمایہ پرست لابی نے اسے نامنظور کردیا بلکہ اسٹاک ایکسچینج کے لیے جو نگران ادارہ ہے جب اس نے بڑی مچھلیوں پر گرفت کی ہلکی سی کوشش کی تو اس کے سربراہ کو بیک بینی و دوگوش کوئی وجہ بتائے بغیر برطرف کر دیا گیا۔ اسی طرح زمینوں کی قیمتوں کا مسئلہ ہے جس میں land mafiaنے اربوں روپے کمائے اور کوئی ٹیکس نہیں‘ نگرانی کا کوئی نظام نہیں۔ چھے سال میں زمین کی قیمتیں ۱۰ سے ۲۰ گنا بڑھ گئی ہیں اور ایک عام آدمی کے لیے گھر بنانے اور سرچھپانے کا اہتمام کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے اور یہ تمام طبقات ٹیکس کی گرفت سے ہی باہر ہیں۔
قیمتی ترین کاروں کی ریل پیل ہے۔ ہر مہینے ہزاروں کاریں سڑکوں پر آرہی ہے اور ایک سے ایک قیمتی کار درآمد کی جارہی ہے۔ گذشتہ سال صرف کاروں کی درآمد پر ایک ارب ڈالر سے زیادہ صرف ہوا ہے۔ جو کاریں ملک میںبنائی جارہی ہیں ان کے لیے مشینری اور پرزوں کی درآمد کو بھی اس میں شامل کرلیا جائے تو یہ رقم دگنی ہوجاتی ہے۔ اس پر مستزاد اسمگل شدہ گاڑیوںکی مالیت بھی اربوں میں ہے۔ سڑکوں کی جو حالت ہے‘ پٹرول کی درآمد سے جو بوجھ ملک کے زرمبادلہ پر پڑرہا ہے فضا کو خراب کرنے اور آلودگی کے جو تباہ کن اثرات ہورہے ہیں ان سب کا معاشی پالیسی بنانے والوں کو کوئی ادراک نہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بری حالت میں ہے۔ ریل کی ترقی کے لیے کوئی منصوبہ نہیں۔ شرم کا مقام ہے کہ جو ۵ ہزار کلومیٹر ریلوے لائن ۱۹۴۷ء میں تھی ۲۰۰۶ء میں بھی وہی ہے۔ اس میں چند کلومیٹر کا اضافہ نہیں ہوا‘ جب کہ بھارت میں ۳۰ ہزار کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ٹرین سروس عام آدمی کے لیے ٹرانسپورٹ کا موثر اور سستا نظام فراہم کر رہی ہے۔ پھر ان کے کرایوں میں بھی بین الاقوامی قیمتوں کا نام لے کر اضافہ روز مرہ کا معمول ہے مگر انرجی پالیسی اور ٹرانسپورٹ پالیسی کا فقدان ہے اور ایسی جامع پالیسی (comprehensive policy) کا توکوئی تصور ہی نہیں جو مواصلات کے جملہ پہلوؤں‘ وسائل اور کم سے کم لاگت کو سامنے رکھ کر بنائی جائے۔
سرکاری وسائل کو جس بے دردی سے استعمال کیا جا رہا ہے اس کا اندازہ صرف ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم کے اخراجات اور وزرا کی فوج ظفرموج پر کیے جانے والے اخراجات پر ایک نظر ڈالنے سے کیاجاسکتا ہے۔ صرف ان دو عہدوں پر فائز انسانوں پر روزانہ ۲لاکھ روپے سے زیادہ خرچ ہو رہا ہے‘ جب کہ ایک عام شہری کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ صدر‘ وزیراعظم‘ وزرا‘ ارکان پارلیمنٹ اور سرکاری عہدہ داروں کے صرف اس سال کے بیرونی سفر کے اخراجات کا جو تخمینہ سلطان احمد نے ڈان میں پیش کیا ہے اس نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ڈان کا کالم نگار لکھتا ہے کہ صرف پچھلے چھے ماہ میں ۷۰۵ملین ڈالر ان شاہانہ اسفار پر خرچ ہوئے ہیں۔ سرکاری استعمال کے لیے ۶۰ مرسڈیز سال گذشتہ میں منگوائی گئی تھیں‘ اب اسمبلی کے اسپیکر اور سینیٹ کے چیئرمین متمنی ہیں کہ ان کی پرانی مرسڈیز متروک کر دی جائیں‘ سوا سو کروڑ کی نئی مرسڈیز خریدی جائیں۔ اسپیکراسمبلی اپنے لیے ۱۰کروڑ کا مکان بنوانا چاہتے ہیں۔ نئے وزیروں کے لیے ۲۰کروڑ ۵۰ لاکھ روپے Minister's Enclosure میں اضافے کے لیے منظور کیے گئے ہیں۔ اسلام آباد میں بڑے لوگوں کے لیے ۱۱-H میں ایک سوشل کلب بنانے کے لیے ایک ارب روپے کا منصوبہ ہے۔ کراچی میں کراچی پورٹ کے سامنے سمندر میں ایک ۶۲۰فٹ اُونچا فوارہ ۲۲کروڑ ۵۰لاکھ روپے سے بنایا ہے جو کام نہیں کر رہا۔
اور اس قیادت کے ذہنی افلاس اور اخلاقی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ سنٹرل بورڈ آف ریونیو نے اپنے تازہ ترین فرمان کے ذریعے صدر مملکت‘ وزیراعظم اور چاروں گورنروں کے لیے خصوصی احکام جاری کیے ہیں کہ ان کے لیے منگوائے جانے والے غیرملکی سگریٹ اور سگار فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے مستثنیٰ ہوں گے۔ (ڈان، ۱۴ مئی ۲۰۰۶ئ)
ایک طرف غربت‘ افلاس‘ بے روزگاری‘ بے چارگی اور دوسری طرف اسراف‘ تبذیر‘ عیاشی اور دولت کی نمایش کا یہ ہولناک تفاوت ہے جو ملک کی معیشت ہی نہیں معاشرے کی تمام اقدار کو گھن کی طرح کھا رہا ہے اور بے چینی اور اضطراب کے اس لاوے کی پرورش کر رہا ہے جو نہ معلوم کب آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑے۔
۵- بین الاقوامی تجارت کا خسارہ جو اس سال بڑھ کر ۱۰ سے ۱۲ بلین ڈالر کی حدوں کو چھونے والا ہے اور سابقہ سال کے مقابلے میں دگنا ہوگیا ہے اور جس کے نتیجے میں توازن ادایگی بھی اب اتنے خسارے میں جا رہا ہے جو ۴ سے ۵ بلین ڈالر ہوسکتا ہے‘ جو سابقہ سال کے خسارے کے مقابلے میں تین گنا ہے‘ خطرے کی ایک اور گھنٹی ہے۔ بیرونی قرضوں میں کوئی نمایاں کمی نہیں ہوئی اور اندرون ملک قرضوں میں اضافہ ہوا ہے اور بجٹ کا خسارہ بھی تقریباً دگنا ہوگیا ہے۔ اپنے وسائل سے بڑھ کر رہن سہن (living beyond means) کی پالیسی تباہ کن ہے لیکن معاشی ترقی کے نشے میں مست قیادت ان تمام warning signals کو نظرانداز کیے ہوئے ہے اور ملک کو بہت ہی خطرناک صورت حال کی طرف لے جا رہی ہے۔
پانی کی قلت کا مسئلہ بڑا اہم مسئلہ ہے مگر اسے بھی سیاست کی نذر کردیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ گذشتہ ۷سال سے آپ حکمران ہیں۔ اس سلسلے میں آپ نے کیا اقدام کیے؟ ترجیحات کے تعین اور قومی اتفاق راے پیدا کرنے کے لیے کیا مساعی کی گئیں؟ پانی کے صحیح استعمال کے طریقوں کو رائج کرنے کے لیے کیا کیاگیا؟ پانی کا مسئلہ آج آپ کے علم میں آیا ہے؟ قیمتوں کے سلسلے میں بھی جنرل مشرف صاحب نے ۱۶مئی ۲۰۰۶ء کو ایک خطاب میں فرمایا ہے کہ کھانے کی اشیا کی قیمتوں میں ۵۰ فی صد کمی کر دی جائے گی۔ (ڈیلی ٹائمز، ۱۷ مئی ۲۰۰۶ئ)
سبحان اللہ! گویا صرف آپ کے حکم کی کمی تھی۔ لیکن اس فرمان کے جاری فرمانے میں اتنی تاخیر کیوں کی جارہی ہے؟
چینی کا بحران آج بھی موجود ہے اور اب جو بحث اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی اور وزیرتجارت کے درمیان اخبارات میں ہورہی ہے‘ اس نے اس حکومت کے سارے کرداروں کو بالکل بے نقاب کردیا ہے۔ کس طرح ذاتی منافع کے لیے سرکاری پالیسیوں کو تبدیل کیا گیا‘ بنکوں کو استعمال کیا گیا‘ درآمد کی جانے والی چینی کو بھی سرکار میں بیٹھے ہوئے مل مالکوں نے اپنے لیے نفع اندوزی کا ذریعہ بنایا‘نیب نے مداخلت کی تو اس کو کان پکڑ کر باہر کردیا گیا۔ آج بھی چینی ۳۷روپے کلو مل رہی ہے۔ پٹرول کی قیمتوں کا معاملہ بھی ایک اسیکنڈل سے کم نہیں۔ اس حکومت کے دور میں ۴۵ بار اس میں اضافہ کیا گیا ہے اور صارف کو آج اس قیمت سے تین گنا زیادہ قیمت دینا پڑ رہی ہے جو ۱۹۹۹ء میں دے رہا تھا اور ستم یہ ہے کہ قیمت میں ۴۲ فی صد حصہ سرکاری ٹیکسوں کا ہے۔
پانچ سال پہلے اسی حکومت کی کابینہ نے طے کیا تھا کہ قیمتوں کا تعین تیل اور گیس کی اتھارٹی (OGRA) کرے گی مگر اس پر عمل درآمد نہ کیا گیا۔ پٹرول کی قیمتیں غیرملکی کمپنیاں مقرر کرتی رہیں اور من مانی کرتی رہیں جن میں سیلزٹیکس اور ایکسائز پر بھی اپنا کمیشن لینا شامل ہے جس مد میں ساڑھے چار ارب روپے پچھلے چند سالوں میں ان کمپنیوںنے عوام سے وصول کیے۔ جب اس راز سے پردہ اُٹھا تو کمپنیوں نے یہ رقم واپس کرنے کے بجاے مزید سرمایہ کاری نہ کرنے کی دھمکیوں سے بلیک میل کرنا شروع کردیا۔ نیب نے نوٹس لیا تو نیب کے پیچھے پڑ گئے اور خطرہ ہے کہ جس طرح چینی کے معاملے میں نیب کی انکوائری کو دفن کر دیا گیا‘ اس طرح اس معاملے کو بھی ختم کردیا جائے گا۔
۶- ایک اور اہم مسئلہ صوبوں کے ساتھ سوتیلی ماں سے بھی بدترسلوک ہے۔ مرکز نے صوبوں کے وسائل پر قبضہ کرلیا ہے۔ سارے ٹیکس مرکز لگا رہا ہے اور جو ٹیکس ہمیشہ سے صوبوں کا حق تھے یعنی سیلزٹیکس‘ اسی طرح صوبے کے قدرتی وسائل کی رائلٹی وغیرہ‘ یہ سب اب مرکز کی گرفت میں ہیں اور ۱۹۷۳ء کے دستور کے تحت تقسیم کا جو نظام تجویز کیا گیا ہے اس پر عمل نہیں ہو رہا حتیٰ کہ این ایف سی ایوارڈ بھی معرض التوا میں پڑا ہوا ہے۔ ٹیکس جمع کرنے پر مرکز جو کمیشن لیتا ہے وہ سی بی آر کے اصل اخراجات سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ مرکز نے صوبوں کو نقد ترقیاتی قرضے دیے ہیںوہ بالعموم رعایتی شرح سود پر باہر سے حاصل کیے گئے ہیں مگر مرکز صوبوں سے ۱۴ سے ۱۷ فی صد سالانہ سود وصول کر رہا ہے اور یہ قرضے ۲۰۰ بلین روپے سے متجاوز ہیں۔ صوبے مطالبہ کررہے ہیں کہ ہم سے قرض واپس لے لیں اس لیے کہ مارکیٹ سے وہ اس سے نصف شرح سود پر قرض لے کر یہ رقم واپس کرسکتے ہیں لیکن ظلم ہے کہ ان کو قرض واپس کرنے کا حق بھی نہیں دیا جا رہا۔ این ایف سی کا جو من مانا (arbitrary) ایوارڈ صدر نے دیا ہے اس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ صوبوں کو ۴۴ ارب روپے زیادہ مل رہے ہیں لیکن اس کی سزا یہ دی جارہی ہے کہ سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام سے ملنے والی اس سے ۱۲ ارب زیادہ رقم یعنی ۵۶ ارب سے ان کو محروم کیا جا رہا ہے۔
خرابی کی جڑ دو چیزیں ہیں: ایک شخصی حکومت‘ پارلیمنٹ کی بے بسی‘ جمہوریت کا فقدان اور جواب دہی کا عدم وجود اور دوسرا معاشی پالیسی کے بنیادی نمونے (paradigm) کا بگاڑ‘ وژن کا افلاس اور حقائق سے بے تعلقی۔
دوسرے تمام معاملات کی طرح معاشی حالات کی اصلاح کا دارومدار بھی حقیقی جمہوری‘ عوام کی خادم اور عوام کے سامنے جواب دہ حکومت کے قیام پر ہے۔ ایسی حکومت کے ذریعے معاشی ترقی کے ایک بالکل دوسرے ماڈل کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو پاکستان کو سرمایہ دارانہ نظام کا دم چھلہ نہ بنائے بلکہ خودانحصاری کی بنیاد پر عوام کی فلاح و بہبود اور انصاف اور عدل اجتماعی پر مبنی ایک ہمہ جہتی معاشی پالیسی تشکیل دے تاکہ معاشی ترقی اور استحکام کے ساتھ تمام انسانوں کو باعزت زندگی گزارنے کا موقع ملے‘ اور ملک کے تمام باشندوں اور تمام علاقوں کے درمیان دولت کی تقسیم منصفانہ ہو اور وسائل حیات سب کے لیے یکساں طور پر اور وافر مقدار میں میسر ہوں۔ یہ اسلام کا تقاضا ہے‘ اور یہی ایک مہذب معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔اس انقلابی تبدیلی کے بغیر ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکتے جس میں سیاسی طالع آزمائوں اور سرمایہ داری کے اسیر معاشی کارپردازوں نے اس ملک کو پھنسا دیا ہے۔ بقول اقبال ؎
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات
بسم اللہ الرحمن الرحیم
’تہذیبی تصادم: حقیقت یا واہمہ؟ آج کی عالمی سیاست کا ایک نہایت اہم موضوع ہے۔ اس پر نظری بحث اور سیاسی بساط پر عملی صف بندی‘ دونوں کی روشنی میں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ تہذیبی تصادم اب ایک واہمہ نہیں‘ بلکہ ایک حقیقت کا روپ دھارتا جا رہاہے۔البتہ اس میں ذرا بھی کلام نہیں کہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو غیر فطری‘ غیر ضروری‘ نامطلوب اور تباہ کن ہے‘ لیکن اب اس سے مفر ممکن نہیں۔ اس لیے جہاں اصل چیلنج یہ ہے کہ اس صورتِ حال کا مقابلہ کیسے کیا جائے‘ اور اس کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے‘ وہاں یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ تکلیف دہ اور ناخوش گوار حقیقت موجود ہے اور محض آنکھیں بند کرلینے سے زمینی حقائق پادر ہوا نہیں ہوسکتے۔
تہذیب اور تہذیبی تصادم کا مفہوم کیا ہے؟ انسان کی مدنی زندگی اور اجتماعی زندگی کے حوالے سے تہذیب ایک فطری اور بنیادی ضرورت ہے۔ اس دنیا میں ایک بچہ دو انسانوں کے درمیان ایک تعلق سے وجود میں آتا ہے۔ ماں کی گود کے بغیر وہ پروان نہیں چڑھ سکتا‘ اس کی نشوونما کے لیے خاندان ‘ معاشرہ اور مدرسہ‘ سب کی ضرورت ہے۔ مدنیت انسان کی ضرورت ہے اور تہذیب اس کی اساس ہے۔ سویلائزیشن (تہذیب) کو آپ لفظی اعتبار سے دیکھیں یا تاریخ کے حوالے سے اس کا مطالعہ کریں‘ اس کا تعلق اجتماعی زندگی سے ہے۔ عربی میں اس کے لیے مدنیت‘ حضارۃ اورثقافت جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
انگریزی زبان میں بھی civil‘city‘ civicیہ سب civilization کے مصدر ہیں۔ یہ ایسا گہوارہ ہے جس میں انسانیت پروان چڑھتی ہے‘ انسان کا تشخص بھی قائم ہوتا ہے اور ااس کے لیے ترقی کی راہیں بھی استوار ہوتی ہیں۔ انسانوں کے درمیان خیالات‘ اقدار‘ ادارے‘ تعلقات‘ نظام‘ یہ سب اس کا نتیجہ ہیں۔ ثقافت (کلچر) اور تہذیب (سویلائزیشن) کی ا صطلاحات عمرانیات (سوشیالوجی) تاریخ اور فلسفے کے مباحث میں استعمال ہوتی ہیں۔ البتہ ان کی تکنیکی تعریف میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔ نیز ان دونوں کو ایک دوسرے کے مترادف کے طورپر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ عقیدے‘ اقدار اور اصول کی بنیادی قدریں جو کسی انسانی گروہ کی مشترک اساس ہوں اور جن کی بنیاد پر کسی قوم یا معاشرے کو ایک اجتماعی تشخص حاصل ہو‘ وہ کلچرہے۔ لیکن کلچر‘ عقیدہ‘ فکر‘ عادات اور اخلاق کے ساتھ ساتھ سیاسی‘ اجتماعی‘ معاشرتی اداروںحتیٰ کہ بین الاقوامی میدانوں میں بھی اپنا اظہار کرتا ہے۔ اس کے نتیجے کے طور پر مختلف فنون وجود پذیر ہوتے ہیں۔ آرٹ کی متنوع صورتیں سامنے آتی ہیں۔فنِ تعمیر رونما ہوتا ہے۔ معاشی ادارے تشکیل پاتے اور سیاسی نظام بنتے ہیں۔ اس مجموعی تشخص کو تہذیب (سویلائزیشن) کہا جاتا ہے۔ ایک کو علوم عمرانی کی اصطلاح میں ذہنی تشکیل (mentafacts)کہا جاتا ہے اور دوسرے کو مادی اور سماجی مظاہر (artefacts)‘ لیکن یہ دونوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔
ستم یہ ہے کہ آج تہذیبوں کے تصادم کو دنیا کا مقدر بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ اصل تصادم تہذیب اور وحشت‘ خیر اورشر‘ نیکی اور بدی اور ظلم و ناانصافی کے درمیان ہے۔ تہذیبوں کے درمیان تو تصادم ہی ضروری نہیں ہے۔ تہذیبوں میں تنوع‘ فکرونظر کا اختلاف‘ مختلف علاقوں میں اور مختلف زمانوں کے دوران ایک سے زیادہ تہذیبوں ا ور تمدنوں کا وجود فطری اور ایک تاریخی حقیقت ہے۔ نیز ان کے درمیان ربط و ارتباط‘ مکالمہ اور اتصال‘ تعاون اور مسابقت بھی ایک فطری امر ہے۔ کچھ حالات میں یہ مقابلہ اور تصادم کی شکل بھی اختیار کرسکتا ہے اور تاریخ میں کرتا رہا ہے لیکن محض تہذیبوں کے اختلاف کو لازماً تصادم پر منتج ہونے کے تصور کو ایک ناگزیر تاریخی حقیقت بنانا استعماری ذہنیت کا غماز ہے۔ ہر تہذیبی اختلاف کو تصادم بنانا اور اختلاف کے نتیجے میں تصادم کو انسانیت کا مقدر ٹھیرانا خود تہذیب کے تصور کی نفی ہے۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گو حق و باطل کی کش مکش تاریخ کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور حق کا غلبہ فطرت کا تقاضا اور انسانیت کی ضرورت ہے‘ لیکن یہ تصور صحیح نہیں کہ حق کا یہ غلبہ صرف جنگ اور خونی تصادم کے ذریعے بروے کار آسکتا ہے۔ حق انسان کی فطرت سے مطابقت رکھتا ہے اور حق کی قبولیت کا اصل محل انسان کا دل‘ اس کا ارادہ اور ایمان ہے اور ایمان جبر سے نہیں اختیار اور دل کی گہرائیوں سے قبولیت کا دوسرا نام ہے۔ وہ اپنی صداقت کو دلیل کی قوت‘ فطرت سے مطابقت‘ اور انسانی زندگی کو عدل و انصاف اور توازن و ہم آہنگی سے مالامال کرنے کی صلاحیت سے منواتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جسے لَا ٓ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قف قَدْ تَّـبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْـغَیِّ (البقرہ ۲:۲۵۶)‘کے قرآنی اصول میں بیان کیا گیا ہے۔ بلاشبہہ جب حق کو انسانوں تک پہنچنے سے روکا جائے اور ظلم اور عُدوان کی دیواریں حق اور انسانیت کے درمیان کھڑی کر دی جائیں تو پھر ان موانع کو رفع کرنے کے لیے قوت کا استعمال بھی ناگزیر ہوجاتا ہے۔اس وقت مغربی تہذیب کے علَم بردار اور خصوصیت سے امریکا کی حکمران قیادت تہذیبوں کے تصادم کے نام پر انسانیت پر ایک مخصوص تہذیب و تمدن کو مسلط کرنے کی جنگ کر رہی ہے اور دوسری تہذیبوں کے خلاف خاک و خون کی ہولی کھیل کھیلتے ہوئے ٹیکنولوجیکل بالادستی کا فائدہ اُٹھا کر انھیں صفحۂ ہستی سے مٹانا چاہتی ہے یا یہ کہ وہ کم از کم وہ مغرب کی غلام بن کر رہیں۔یہ ہے اصل نقشۂ جنگ جس کا بھرپور مقابلہ کرنے کے لیے اس کی حقیقی نوعیت کو سمجھنا ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جب اپنا خلیفہ بنایا تو فرشتوں نے اپنے اضطراب کا اظہار اس بنیاد پر کیا کہ یہ فساد پھیلائے گا اور خون خرابا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اِنِّیْ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ، (جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔) دراصل خلافت کے معنی ہی آزادی‘ اختیار اور انتخاب کے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ خیر اور شر تمھارے سامنے آئے گا‘ کچھ خیر کو قبول کریں گے‘ کچھ شر کو۔ عقیدے اور عمل کا یہ اختلاف انسانی زندگی کی ایک حقیقت کے طور پر باقی رہے گا اور اپنے اس انتخاب اور عمل کے بارے میں سارے انسان بالآخر آخرت میں جواب دہ ہوں گے۔ دنیا میں بھی اس کے کچھ نتائج ضرور رونما ہوں گے۔ سورۂ فاتحہ میں انسانیت کے دو دھاروں کاذکر ہے۔ ایک وہ جن پر اللہ کا انعام ہے‘ اور دوسرا وہ جو مغضوب اور غلط کار ہے۔ گویا وہ سب ایک جیسے نہیں ہوں گے۔ لہٰذا یہ تنوع اور یہ اختلاف کائنات کی بنیادی حقیقت ہے اور پوری تاریخ انسانی اس سے بھری پڑی ہے۔ یونانی فکر میں یہ تصور موجود ہے کہ ہم مہذب ہیں اور باقی سب وحشی۔ یہی چیز رومی سلطنت میں رہی۔ عیسائیت نے الہامی روایت سے انحراف کرتے ہوئے اس خون آشام یونانی اور رومی تصور کو قرونِ وسطیٰ میں عملاً قبول کرلیا جس کے نتیجے میں نہ ختم ہونے والی جنگیں اور مذہبی انتہاپسندی وجود میں آئی۔
آج کی جدید مغربی تہذیب بھی اسی مریضانہ سوچ کی وارث ہے اور اس کا اظہار امریکا اور برطانیہ کی سیاسی قیادت اور فکری رہنمائی کرنے والوں کے ان بیانات سے کھل کر دنیا کے سامنے آگیا ہے جن کا اس کے سوا کوئی مدعا نہیں ہوسکتا کہ صرف مغرب کی اقوام ہی مہذب اور تہذیب کی علم بردار ہیں اور دوسرے سب گویا تہذیب ہی کے دشمن ہیں۔ حالانکہ یورپ کے تاریخی کردار اور آج کے مغرب کے اس سامراجی تہذیبی ذہن کے مقابلے میں دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مصر ‘ شام ‘ چین ‘ ہندستان یا افریقہ کے ممالک‘ ہر جگہ تہذیبی تنوع اور اختلاف ایک حقیقت رہی ہے۔ مگر اختلاف کے نتیجے میں تہذیبی تصادم یا ٹکرائو لازماً انسانیت کا مقدر نہیں ہوا اور نہ یہ صورت رونما ہوئی کہ ایک دوسرے کو لازماً محکوم بنانے اور نیست و نابود کرنے کے لیے قوت آزمائی کی جائے۔ مسلمان مفکرین نے پوری دنیا کو دارالدعوۃ قرار دیا اور دارالسلام اور دارالحرب کے ساتھ دارالامن اور دارالعھد کے تصور سے بین الاقوامی قانون کو روشناس کیا‘ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہے بین الاقوامی قانون کی بنیاد ہی مسلمانوں نے رکھی جس میں صلح‘ امن اور جنگ سب کے اصول اور ضوابط کو مرتب کیا اور بقاے باہمی اور انصاف اور اصول کی بنیاد پر قوموں کے درمیان معاملہ کرنے کی بنیاد رکھی۔
مہذب دنیا میں عدمِ برداشت (intolerance) بھی خالص مغربی تصور ہے۔ یہ بات میں نہیں کہہ رہا‘ بلکہ مغربی تہذیب پر ٹائن بی‘ وِل ڈوراند حتیٰ کہ برٹرینڈ رسل کی تحریریں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ یہ عدمِ برداشت یورپ کا خاصّا رہا ہے۔ وہ آزادی کے سارے دعووں کے باوجود‘ بنیادی امور کے سلسلے میں اختلاف کو گوارا کرنے اور اسے معتبر (authentic) ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ پھر یہی چیز سیاسی اور تہذیبی میدان میں رونما ہوئی ہے‘ جس کا پہلا بڑا مظہر اندھی بہری استعماریت (امپیریلزم) کی شکل میں چودھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی کے نصف تک دنیا کے سامنے آیا‘ خود یورپ کے اندر فاشزم کا فروغ اور غلبہ بھی اسی ذہن کاثمرہ تھا اور پھر اس کا حالیہ اظہار گذشتہ تقریباً ۲۰‘ ۲۵ سال سے سامنے آرہا ہے اور اکیسویں صدی میں مغربی تہذیب بھی اسی تصور کی بنا پر دنیا کو تباہی اور خون آشامی کی آماجگاہ بنانے کی طرف بڑھ رہی ہے۔
فلسفہ تاریخ کے اہم مباحث میں انسانی تاریخ میں پائی جانے والی تہذیبوں کے متعدد مطالعے سامنے آئے ہیں‘ ان میں آرنلڈ ٹائن بی نے ۲۶ تہذیبوں کا اور پروفیسر سوروکن نے ۳۶تہذیبوں کا تقابلی مطالعہ کیاہے۔ ان کے مشاہدے کے مطابق بھی ہرتہذیب کا بنیادی تصور کسی نہ کسی حیثیت سے خالق کائنات سے کسی نہ کسی نوعیت کے تعلق کی بنیاد پر تشکیل پاتا تھا۔ خواہ وہ توحید کی بنیاد پر ہو یا شرک کی بنیاد پر‘ البتہ آفاقیت‘ مابعد الطبیعیاتی قوت سے رشتہ اور تعلق‘ کائنات کی روحانی حقیقت کا اعتراف کسی نہ کسی شکل میں ہر تہذیب میں موجود تھا۔ نیز خالق سے تعلق اور اس کائنات کا ایک اخلاقی وجود اور اس دنیا پر علاقائی نہیں بلکہ کائناتی اور پھر اخروی زندگی کا تصور کسی نہ کسی شکل میں ہر تہذیب میں موجود رہا ہے۔ انسانی تاریخ اور تہذیب میں بگاڑ ضرور ہوا ہے‘ لیکن اسے تخت یا تختے کی بنیاد نہیں بنایاگیا۔ یہ صرف جدید مغربی تہذیب ہے‘ جس نے خالق سے اس تعلق کو کاٹ دیا ہے۔ الہامی روایت اور مذہب کی رہنمائی کو ناکارہ اور غیرضروری قرار دیا ہے۔ اس کی جگہ مختلف عقلی تصورات اور مفادات کو جوڑتوڑ کر ایک نظامِ فکر کی شکل میں ڈھال دیا ہے‘ جس میں تین تصورات مرکزی حیثیت رکھتے ہیں یعنی:عقل پرستی (rationalism)‘ فردیت (indiviualism) اور انسان پرستی (humanism )۔ انھی کے مظاہر نیشنلزم‘ جمہوریت‘ سیکولرازم اور کمیونزم کے طور پر وجود میں آئے۔
یہ وہ تہذیب ہے جس نے رہنما اصول کی حیثیت سے دنیا پرستی‘ مادیت اور انسانی عقل و تجربے کو مرکزی حیثیت دی۔ پھر اس پر ظلم یہ کیا کہ اسی کا نام تہذیب رکھا گویا کہ باقی سب غیرمہذب تھے اور ہیں۔ امپیریلزم کی اس پوری تاریخ میں خواہ وہ فرانسیسی ہو یا برطانوی‘ جرمن سامراج ہویا ولندیزی‘ یا پھر ہسپانوی سامراج‘ یا اس کی تازہ ترین شکل امریکی استعمار‘ اس میں دوبڑے کلیدی تصورات دکھائی دیتے ہیں۔ ایک تہذیب سکھانے کا مشن (civilizing mission) اور دوسرا گوری نسل کا بوجھ (white man's burden)۔ گویا روے زمین پر صرف یہی تہذیب ہے‘ باقی ساری دنیا جہالت اور تاریکی میں ہے۔ اسی تہذیب کا غلبہ اور اسی کے نقشِ قدم پر سب کا چلنا تہذیب کی نشانی ہے‘ اور اس کو فروغ دینے کے لیے سامراجی طاقت اور فوجی قوت کا استعمال ناگزیر ہے‘ بلکہ غلبے کا اصل ذریعہ۔ ساڑھے تین چار سو سال انسانیت نے ظلمت کا جو دور دیکھا ہے‘ وہ اسی ذہنیت کی پیداوار تھا۔
بیسیویں صدی میں سامراجی قوتوں کا زوال ہوا۔ حالانکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہمارے اقتدار کا سورج کبھی غروب نہیں ہوگا۔ لیکن‘ فوجی قوت کے باوجود دوعالمی جنگوں اور اندرونی خلفشار‘ عدم مساوات‘ ناانصافی‘ ظلم اور اداروں کے انتشار کی وجہ سے ان کا زوال شروع ہوا۔ ۱۹۴۵ء اور ۱۹۸۰ء کے درمیان تقریباً ۱۵۰ آزاد ملک دنیا کے سیاسی نقشے پر اُ بھرے۔ جن میں مسلم ممالک کی تعداد ۵۷ہے۔ یہ تعداد اقوام متحدہ کے ارکان کی کل تعداد ۱۹۲ کے ایک تہائی سے کچھ ہی کم ہے۔
برطانیہ کبھی دنیا کے ایک چوتھائی حصے پر حکمران تھا‘ لیکن اس کے باوجود وہ نہ صرف اپنے آپ کو برطانیہ عظمیٰ کہتا تھا بلکہ یہ دعویٰ بھی کرتا تھا کہ دنیا کے سارے سمندر اس کے زیراقتدار ہیں۔آج اس کے جغرافیے پر نگاہ ڈالیں تو وہ زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا ہے جو چند جزیروں پر مشتمل ہے۔ وہ سورج جو کبھی اس پر غروب نہیں ہوتا تھا‘ نہ صرف غروب ہوا بلکہ آج عالم یہ ہے کہ جسے اب برطانیہ عظمیٰ کہا جاتا ہے‘ وہاں ہفتوں سورج طلوع ہی نہیں ہوتا۔ برطانیہ اب سکڑ کر ایک چھوٹا سا ملک بن کے رہ گیا ہے۔ گو غرورو تکبر اب بھی اس کا شعار ہے۔ رسّی جل گئی مگر بل نہ گیا۔
اس کے بعد دو سوپر طاقتوں امریکا اور روس کی کش مکش شروع ہوئی۔ یہ کش مکش بالآخر ۱۹۸۹ء میں روس کے انتشار و انہدام اور امریکا کی واحد سوپرپاور رہ جانے کی شکل میں منتج ہوئی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے استعماریت کا نیا دور شرو ع ہوتا ہے۔ یہی وہ دور ہے جس کی طرف توجہ مبذول کرانا مقصود ہے۔ اس دور کو تہذیبوں کے تصادم کا دور کہا جا رہا ہے۔ اس میں جن لوگوں نے بہت کام کیا ہے‘ ان میں سے تین‘چار اہم شخصیات کا ذکر کروں گا۔
ابھی افغانستان میں جہاد جاری تھا اور روس کا زوال نہیں ہواتھا کہ ۱۹۸۵ء میں امریکا کے مشہور رسالے فارن افیرز میں امریکا کے سابق صدر رچرڈنکسن نے ایک مضمون میں یہ بات کہی کہ امریکا اور روس افغانستان کے اندر لڑ رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ کیا ہو گا‘ میں نہیں کہہ سکتا‘ لیکن مجھے صاف نظر آرہا ہے کہ امریکا اور روس کا مفاد آپس میں لڑنے میں نہیں ہے۔ اصل خطرہ کچھ اور ہے‘ اس کا شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور وہ ہے اسلامی بنیاد پرستی کا خطرہ۔
اس وقت تک صرف تین چار چیزیں ہوئی تھیں‘ جن میں ایک ۵۷ مسلم ممالک کا آزاد ہونا تھا مگر وہاں بھی حکمرانی انھی قوتوں کے ہاتھوں میں تھی جو کسی نہ کسی شکل میں خود امریکا اور روس کی تابع تھیں۔ مسلم ممالک کی معیشت پر امریکا‘ یورپ اور کثیرالقومی اداروں کا قبضہ تھا۔ دوسرا یہ کہ ۱۹۶۹ء میں مسجد الاقصیٰ کو آگ لگانے کے نتیجے میں مسلمانوں نے اسلامی ممالک کی تنظیم (OIC) قائم کی جو خواہ کتنی ہی لولی لنگڑی ہو لیکن اتحاد اسلامی کی علامت بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسی طرح ۱۹۷۳ء میں پہلی مرتبہ مسلمانوں نے اپنی تیل کی قوت کو ایک سیاسی ہتھیار کے طورپر استعمال کرنے کی کوشش کی۔ پھر فروری ۱۹۷۹ء میں امام خمینی کی قیادت میں ایران کے انقلاب نے ’اسلامی خطرے‘ کو ایک عالمی ہوّا بنادیا۔
دراصل دوسری جنگ کے بعد امریکا اور مغرب کی استعماری طاقتوں کی حکمت عملی ہی یہ تھی کہ آزادی کے باوجود مسلمان اور عرب ممالک کو عالمی‘ سیاسی اور معاشی اداروں کے ساتھ شاہِ ایران اور اسرائیل جیسے عناصر کے ذریعے قابو میں رکھیں۔ ایران کے انقلاب اور افغانستان میں جہادی قوت کی کامیابی نے نقشہ بدل دیا۔ اکتوبر ۱۹۷۳ء میں رمضان کی جنگ میں یہ بات سامنے آئی کہ مسلمان اور عربوں کی تمام تر کمزوریوں کے باوجود اسرائیل کو چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت امریکا اگر بلیک میل ہو کر اسرائیل کو بڑے پیمانے پر ملٹری امداد فراہم نہ کرتا تو اسرائیل نے یہ کہہ دیا تھا کہ ہم ایٹم بم استعمال کریں گے۔ یہ ہے وہ پس منظر جس کی بنا پر مغرب کے یہ مفکر اور حکمت کار (strategists) ایک نئے دشمن کی تلاش میں تھے کہ جس کا ہوّا دکھا کر اور اپنے شہریوں کو خوف زدہ کر کے وہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کرسکیں۔ اور وہ دشمن انھیں اسلام اور مسلم دنیا کی شکل میں نظرآیا۔ اسی لیے امریکا کے سابق صدر اور سیاسی دانش ور نکسن نے ۱۹۸۵ء میں روس کو‘ اس کی زیرقبضہ مسلم آبادی کے بارے میں خبردار ضرور کر دیا تھا کہ سارا وسطی ایشیا‘ افغانستان اور مسلم دنیا‘ یہ تمھارے لیے خطرہ ہیں‘ امریکا کے لیے نہیں‘ اس لیے آئو! ہم تم مل کر کوئی راستہ نکالیں۔
بہرحال کوئی مشترکہ راستہ تو نہیں نکلا‘ لیکن جب ۱۹۸۸ء میں روسی حکمران میخایل گورباچوف نے ذہنی اور سیاسی شکست تسلیم کرلی اور یہ کہا کہ دوسال کے اندر ہم افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلالیں گے تو یہ وہ زمانہ ہے جب امریکا اور یورپی ممالک نے اپنی اصل حکمت عملی بروے کار لانا شروع کی۔ وہ حکمتِ عملی کیا تھی؟ یہ کہ اسلام اور مسلمان ہمارے اصل دشمن ہیں ۔ سب سے پہلے ناٹو کے سیکرٹری جنرل نے یہ بات کہی تھی کہ سرخ خطرہ ٹل گیا ہے‘ لیکن سبز خطرہ رونما ہوگیا ہے۔ اس کے بعد ایک بڑے اہم یہودی مفکر برنارڈ لیوس نے‘ جو لندن یونی ورسٹی میں پروفیسر رہا اور پھر ۱۹۸۰ء میں امریکا منتقل ہوگیا‘ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مشیر اور امریکا کے پالیسی ساز اور پوری اسرائیلی لابی کے دماغ کی حیثیت سے کام کرتا ہے‘ اس نے ۱۹۹۰ء میں‘ جب روسی فوجیں افغانستان سے واپس ہوئیں‘ امریکا کے اہم رسالے اٹلانٹک منتھلی (Atlantic Monthly) میں اپنے مضمون میں پہلی بار clash of civilizations کے الفاظ استعمال کیے۔ وہ اس مضمون میں کہتا ہے:
اب یہ بات واضح ہوجانا چاہیے کہ ہم مسائل‘ پالیسیوں اور ان کو لے کر چلنے والی حکومتوں کی سطح بلند ہونے کی کیفیت اور تحریک کا سامنا کررہے ہیں۔ یہ تہذیبوں کے تصادم سے کم بات نہیں ہے۔ غالباً یہ ہمارے یہود مسیحی ماضی‘ ہمارے سیکولر حال اور ان دونوں کی عالم گیر توسیع کے خلاف ایک قدیم دشمن کا شاید غیرعقلی لیکن یقینا تاریخی ردعمل ہے۔ (جیفرسن لیکچر ۱۹۹۰ئ‘ برنارڈ لیوس The Rage of Islam ، اٹلانٹک منتھلی‘ ستمبر ۱۹۹۰ئ)
اسپین میں مسلمانوںکی پہلی آمد سے لے کر ویانا میں دوسرے ترک محاصرے تک ایک ہزار سال کے دوران یورپ مسلسل اسلام کے خطرے کی زد میں رہا ہے۔
مقابلے کی جن دو قوتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ نام نہاد اسلامی بنیاد پرستی (islamic fundamentalism) ایک طرف اور سیکولر‘ سرمایہ دارانہ جمہوریت دوسری طرف ہیں اور موخرالذکر کو جدیدیت کی علَم بردار اور یہود مسیحی (Judo-Christian) تہذیب کی وارث کی حیثیت سے پیش کیا جا رہا ہے۔
یہ تھا دراصل وہ پہلا پتھر جو پھینکا گیا۔ پھر اس نکتے کو سیموئیل ہن ٹنگٹن نے آگے بڑھایا۔ یہ ایک اور یہودی ہے جو ہارورڈ یونی ورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کا پروفیسر ہے۔ اس نے ۱۹۹۳ء میں مشہور رسالے فارن افیرز میں ایک مضمون لکھا: The Clash of Civilizations۔ اس پر بحث کا آغاز ہوا‘ درجنوں مضامین لکھے گئے اور کتابوں کا بھی ایک طوفان آگیا۔ اپنی پوری بحث کو ہن ٹنگٹن نے پوری شرح و بسط کے ساتھ ۱۹۹۶ء میں اپنی کتاب Clash of Civilizations and Remaking of New World Order کی شکل میں پیش کر دیا ہے۔ اس وقت سے اب تک یہ کتاب تہذیبوں کے تصادم کے نظریے کی دانش ورانہ بائبل بن گئی ہے۔ اس کے بعد بیسیوں نہیں‘ سیکڑوں کی تعداد میں کتابیں‘ تقاریر‘ اسٹرے ٹیجک پیپرز اور دانش وروں اور ماہرین (تھنک ٹینکس) کی رپورٹیں اس موضوع پرآئی ہیں۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلمان حکمرانوں اور مسلما ن دانش وروں کو اندازہ تک نہیں کہ ان ۲۵ سالوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کتنا کام ہوا ہے اور کس طرح ذہنوں کو علمی مباحث ‘میڈیا اور سیاسی چالوں کے ذریعے ایک عالمی تصادم کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ یہ ہے وہ پس منظر جس میں ناین الیون رونما ہوا اور اس کے بعد جو کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ کوئی اتفاقی چیز نہیں ہے بلکہ وہ اس پورے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔
اس وقت جو نقشۂ جنگ ہے اس میں ایک طرف مسلم دنیا ہے جو ذہنی طورپر انتشار کا شکار ہے‘ سیاسی طور پر منقسم ہے‘ معاشی طور پر خود اپنے وسائل پر قدرت نہیں رکھتی‘ عسکری طور پر نہایت کمزور ہے۔ دوسری طرف چونکہ اسلام ایک تہذیبی اصول‘ ایک تحریک اور ایک متبادل قوت کی حیثیت سے ابھر رہا ہے اور اپنے اندر یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ ایک عالمی تہذیب کی بنیاد بن سکے‘ اس لیے اسے خطرہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے تاکہ ان کے الفاظ میں To nip the evil in the bud، یعنی اس کو حقیقی خطرہ بننے سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے۔
میں یہ چاہوں گا کہ سیموئیل ہن ٹنگٹن کا تجزیہ اور اس کا استدلال آپ کے سامنے رکھوں۔ اس نے اسلام اور مسلمانوں کو ہّوا بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے لیے وہ تاریخ سے بھی مثالیں لایا ہے اور حالیہ رجحانات کو بھی بحث میں کھینچ لایا ہے۔ اس کے لیے سروے کی تکنیک کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے‘۳۵ہزار افراد کی راے کو اس شکل میں پیش کیا ہے کہ دو چیزیں ہیں جو امریکیوں کی نظر میں آج سب سے بڑا خطرہ ہیں: ایک ایٹمی اسلحے کا پھیلائو ہے‘ اور دوسرا ’دہشت گردی‘۔ یہ سروے ناین الیون سے سات سال پہلے ۱۹۹۴ء کا ہے۔ پھر اس نے بتایا ہے کہ ان دونوں میں باہم کیا تعلق ہے؟ بھارت ۱۹۷۴ء میں ایٹمی تجربہ کرچکا تھا‘ اور اسرائیل ۱۹۷۰ء میں ایٹم بم بنا چکا تھا۔ ابھی پاکستان نے ایٹمی تجربہ بھی نہیں کیا تھا لیکن اس نے کہا کہ ایٹمی اسلحے کے پھیلائو کا اصل خطرہ ہمیں اسلام اوراسلامی تحریکوں سے ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ان دونوں کا منبع مسلمان ہیں۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: 60 % of American people regard Islamic revival a threat to US interests in the Middle East. (۶۰ فی صد امریکی عوام شرق اوسط میں اسلامی احیا کو امریکی مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں)۔
وہ مزید کہتا ہے کہ مسلمان آج تو کمزور ہیں لیکن اگر ان کو قابو نہ کیا گیاتو معاشی اعتبار سے یہ اپنے وسائل کو اپنے قبضے میں لے آئیں گے اور ایک بڑی معاشی طاقت بن جائیں گے۔ پھر آبادی کے اعتبار سے ان کی عالمی پوزیشن بدل رہی ہے۔ وہ مزید کہتا ہے کہ ۱۹۹۰ء میں دنیا کے عیسائیوں کی آبادی ۲۵ فی صد اور مسلمانوں کی ۲۰‘ ۲۱ فی صد تھی لیکن اب عیسائیوں کی آبادی کم ہورہی ہے اور مسلمانوں کی بڑھ رہی ہے۔ اس کے اندازے کے مطابق ۲۰۲۵ء تک مسلمانوں کی آبادی دنیا کی آبادی کا ۳۰ فی صد ہوجائے گی اور عیسائیوں کی آبادی سے بھی بڑھ جائے گی۔ اس دوران اگر مسلمانوں نے اپنی فوج اور اپنی ایٹمی قوت کو ترقی دی تو پھر وہ مغرب کی بالادستی (superamacy ) کو چیلنج کردیں گے۔ یہ ہے مغربی تہذیب کے لیے اصل خطرہ۔
مغرب کے لیے اصل مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی نہیں بلکہ اسلام ہے جو ایک مختلف تہذیب ہے‘ اور جس کو ماننے والے اپنی ثقافت کی برتری پر یقین رکھتے ہیں اور اقتدار میں اپنے کم تر حصے پر پریشان ہیں۔(The Clash of Civilizations and the Remaking of the World Order، نیویارک‘ Simon Schuster ‘ ۱۹۹۶ئ‘ ص ۲۱۷-۲۱۸)
دوسرے الفاظ میں اس کا دعویٰ یہ ہے کہ مسلمان اپنا تشخص رکھتے ہیں اور انھیں یہ یقین ہے کہ ان کی تہذیب‘ ان کی اقدار برتر ہیں‘ لیکن ساتھ ساتھ الفاظ استعمال کرتا ہے upset with the inferiority of their power ‘تو یہ ان کی بے چارگی ہے جس کی وجہ سے ان کا غصہ‘ مقابلے کی قوت پیدا کرنے کا محرک ثابت ہوگا جو دہشت گردی کی شکل اختیار کر سکتا ہے‘ اور جو بڑھتے بڑھتے ہمہ گیر تصادم کا روپ دھار سکتا ہے۔ ہن ٹنگٹن نے اسی کتاب میں ایک بڑی اہم بات یہ کہی ہے کہ: Terrorism is the weapon of the weak against the strong. (دہشت گردی کمزور کا طاقت ور کے خلاف ہتھیار ہے)۔ اس طرح اسلام اور دہشت گردی کا رشتہ جوڑنے کا شاطرانہ کھیل کھیلا گیا ہے۔ آگے چل کر وہ مزید کہتا ہے:
اسلام کے لیے مسئلہ سی آئی اے یا امریکا کا محکمہ دفاع نہیں ہے‘ بلکہ خود مغرب ہے جو ایک مختلف تہذیب ہے جس کے ماننے والے اپنی ثقافت کی آفاقیت پر یقین رکھتے ہیں‘ اور سمجھتے ہیں کہ ان کی بالاتر طاقت‘ خواہ زوال پذیر ہو‘ ان پر یہ فریضہ عائد کرتی ہے کہ پوری دنیا کو اپنی ثقافت کے سانچے میں ڈھال دیں۔ یہ وہ بنیادی عناصر ہیں جو اسلام اور مغرب کے درمیان تنازعے کا ایندھن فراہم کرتے ہیں۔(ایضاً)
دنیا میں ثقافتوں کی تقسیم‘ قوت و اقتدار کی تقسیم کا عکس ہوتی ہے۔ تجارت طاقت کے تابع ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ تاریخ میں کسی تہذیب کی طاقت کی توسیع اس کی ثقافت کی نشوونما کے ساتھ ساتھ ہوتی ہے‘ اور ہمیشہ اس طاقت کو دوسرے معاشروں میں اپنی اقدار‘ روایات اور اداروں تک پہنچانے میں استعمال کیا گیا ہے۔ ایک آفاقی تہذیب‘ آفاقی طاقت کا تقاضا کرتی ہے۔
اسلام اور مغرب دو جداگانہ تہذیبیں ہیں۔ صرف اسلام اور مغرب ہی نہیں‘ اور بھی تہذیبیں ہیں مگر ان میں اختلاف کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ تصادم لازم ہو۔ ان تہذیبوں میں تعاون بھی ہوسکتا ہے‘ مسابقت بھی اور بقاے باہمی (co-existance) بھی ہوسکتی ہے۔ اختلاف کا لازمی نتیجہ تصادم نہیں۔ انسانی تاریخ میں تہذیبوں کی ترقی کا راستہ تہذیبوں کے درمیان اتفاق‘ مکالمے‘ تعاون اور مسابقت کا راستہ ہے۔ محض اپنے تصورات‘ اقدار اور طور طریقوں کو دوسروں پر قوت کے ذریعے مسلط کرنے اور اسے تہذیبی تصادم قرار دینے کا راستہ تو تباہی کا راستہ ہے۔ بلاشبہہ جنگیں سیاسی اور معاشی وجوہ سے برپا ہوئیں اور وہ تاریخ کا حصہ بنیں۔ محض تہذیبوں کے تنوع‘ اقدار کے اختلاف اور اصولوں اور اجتماعی نظاموں کے باہم مختلف ہونے کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ تہذیبیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں۔ یہ مغرب کا استعماری تصور ہے جو اس سے کہلوا رہا ہے کہ:
[اہلِ مغرب] اپنی ثقافت کی آفاقیت پر یقین رکھتے ہیں‘ اور سمجھتے ہیں کہ ان کی بالاتر طاقت‘ خواہ زوال پذیر ہو‘ ان پر یہ فریضہ عائد کرتی ہے کہ پوری دنیا کو اپنی ثقافت کے سانچے میں ڈھال دیں۔
گویا قوت کے ذریعے سے ایک کلچر ‘ اس کے تصورات‘ اس کی اقدار‘ اس کے اصولوں‘ اس کے اداروں اور اس کے نظام کو دوسروں کے اوپر مسلط کرنا۔ یہ امپیریلزم ہے‘ تہذیبوں کا تصادم نہیں‘ اور اگر اس نوعیت کا تصادم کہیں پیدا ہوتا ہے تو وہ امپیریلزم کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔
اسلام کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے انسان کو اختلاف کا حق دیا ہے۔ ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دلیل سے بات کرے۔ تبادلۂ خیال‘ اظہار راے کی آزادی اور دعوت اسی چیز کا نام ہے۔ لیکن کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے عقائد اور تصورات کو دوسروں کے اوپر قوت سے نافذ کرے کہ یہی لااکراہ فی الدینہے۔ لہٰذا تہذیبوں کے لیے اگر کوئی راستہ ہے تو وہ مکالمہ‘ مسابقت اور تعاون ہے‘ جب کہ تصادم ایک دوسرے کو ختم کرنا یا نیست و نابود (eleminate) کرنا تہذیب کا نہیں وحشت اور استعماریت کا راستہ ہے۔ آج جس چیز کو تہذیبوں کا تصادم کہا جا رہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہی استعماری ذہن ہے۔ اس کی اصل جڑ یہ زعم ہے کہ ہم دوسروں سے زیادہ طاقت ورہیں اور محض قوت کی بنا پر یہ ہمارا حق ہے کہ ساری دنیا میں ہم اپنی تہذیب‘ اپنی معیشت‘ اور اپنے اداروں کو قائم کریں۔ یہ ہے خرابی کی اصل جڑ۔
مسلم معاشروں کا مکمل طور پر سیکولر ہوجانا اور مغربی تہذیب کے اہم پہلوئوں کو اختیار کرلینا بھی مغربی اور مسلم ممالک کے درمیان مستقل مفاہمت کی ضمانت نہیں دے سکتا‘ جب تک کہ مغربی اور مسلم ممالک کے درمیان باہمی نزاع کے اسباب باقی رہتے ہیں۔ خاص طور پر مسلم ممالک کی یہ خواہش کہ مغرب کے مقابلے میں طاقت کے عدمِ توازن کو دُور کیا جائے۔
ہمیں اس کے تجزیے سے اتفاق ہے کہ تہذیبوں کے تصادم کو دھوکے سے عنوان بنایا گیا ہے۔ اصل مسئلہ قوت کے توازن اور مسلم دنیا پر سیاسی‘ معاشی اور عسکری غلبہ اور تسلط ہے۔ بلاشبہہ سیکولرزم کا فروغ اس حکمت عملی کا حصہ ہے لیکن اصل مقصد دنیا پر غلبہ اور اسے اپنے زیرتسلط لانا ہے اور اس میں اسلام‘ مسلمان اُمت اور ان کا تصورِجہاد اصل رکاوٹ سمجھے جارہے ہیں۔
ہن ٹنگٹن نے جو حکمت عملی تجویز کی ہے اس میں پہلی چیز ہے امریکا کی عالمی بالادستی۔ اس کا کہنا ہے کہ: سیاسی‘ معاشی‘ فنی اور عسکری کنٹرول کا حصول ہی ہمارا اصل ہدف ہے۔ اس کے لیے ہمیں یہ یقینی بنانا پڑے گا کہ دوسری چیلنج کرنے والی کوئی طاقت وجود میں نہ آئے۔ یہی نقطۂ نظر برزنسکی کی کتاب The Chessboard of Nationsمیںجو کئی سال پہلے آئی تھی پیش کیا گیا ہے۔برزنسکی‘ صدر کارٹر کے دور میں نیشنل سیکورٹی کا مشیر رہا ہے اور یونی ورسٹی کا پروفیسر ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس وقت امریکا واحد سوپرپاور ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ آیندہ بھی یہی واحد سوپرپاور رہے۔ اس لیے امریکا کو اسے یقینی بنانا چاہیے کہ کم از کم آیندہ ۲۵سالوں میں کوئی اسے چیلنج کرنے والا میدان میں نہ آسکے‘ اور خاص طور پر یورپ ‘ چین اور مسلم دنیا کو نظر میں رکھا جائے۔
دوسری چیز دنیا کے دوسرے ممالک میں مداخلت کی حکمت عملی ہے(right of intervention)۔ اس کے مطابق جہاں کہیں کوئی خطرہ دیکھو‘ یا خطرے کی بو سُونگھو‘ قبل اس کے کہ وہ تمھارے لیے کوئی خطرہ بن سکے‘ مداخلت کرکے اسے نیست و نابود کردو۔ یہی پالیسی ہے جس پر بش انتظامیہ چل رہی ہے۔ اور اب انھوں نے اپنے اسٹرے ٹیجک ڈاکٹرائن میں کھل کر یہ بات کہی ہے کہ ’روکنا یا مداخلت کرنا‘ ان کا حق ہے‘ اقوام متحدہ کی مدد کے ساتھ یا اس کے بغیر۔ اسی خطرے کو وہ ’عدم برداشت‘ اور ’انتہا پسندی‘ کا نام دیتا ہے۔ اور اگر مسلم دنیا کے کچھ حکمران ان لفظوںکا بے محابا استعمال کرکے اپنے ہم وطنوں کو دھمکاتے ہیں تو درحقیقت وہ اپنے مشاہدے یا اپنے ذہن سے کام نہیں لیتے بلکہ ہن ٹنگٹن کے افکار کی جگالی کر رہے ہوتے ہیں۔
تیسری بات جسے وہ استحصال کی حکمت عملی کہتا ہے‘ یہ ہے کہ معاشی وسائل کو اپنی گرفت میں رکھو۔ اس لیے کہ تیل‘ توانائی‘ معدنی وسائل اور رسل و رسائل کے ذرائع اور راستے اسٹرے ٹیجک اثاثے ہیں اور ان پر ہمارا قبضہ ہونا چاہیے۔
چوتھی چیز میڈیا کی قوت کا استعمال ہے۔ ہرنوع کے ذرائع ابلاغ اس کا حصہ ہیں۔ یہ افکار اور اذہان پر کنٹرول‘ ان کی تشکیل یا انھیں مخصوص تہذیبی سانچے میں ڈھالنے کا عمل ہے۔
پانچویں چیز وہ یہ کہتا ہے کہ امریکا شاید ایک عرصے تک یہ کام اکیلے نہ کرسکے‘ اس لیے امریکا کو یورپ کے ساتھ سیاسی‘ معاشی اور فوجی اتحاد کرنا چاہیے۔ جس میں اب اسرائیل اور روس کے ساتھ بھارت کا اضافہ بھی کرلیا گیا ہے۔ اس کے نزدیک مقابلے میں اصل قوت مسلم دنیا اور عوامی جمہوریہ چین ہے۔ اس کے الفاظ میں: اسلامی اور چینی ممالک کی روایتی اور غیر روایتی عسکری طاقت میں اضافے کو روکنا۔
آخری چیز یہ بیان کرتا ہے کہ یورپ اور امریکا میں مسلمان تارکین وطن خود ہمارے اندر ایک خطرے کی چیز بن گئے ہیں۔ وہ کہتا ہے:
مغربی کلچر کو مغربی معاشروں کے اندر موجود گروپوں سے چیلنج درپیش ہے۔ اب ایک چیلنج ان تارکین وطن کی طرف سے ہے جو [ہمارے معاشرے میں] جذب ہونے کو مسترد کرتے ہیں اور اپنے ممالک کے کلچر‘ رسوم و رواج اور اقدار کو پھیلانے میں لگے رہتے ہیں۔ یہ موجودگی سب سے زیادہ یورپ اور امریکا میں ہے۔
ان پانچ نکات کی روشنی میں امریکا اور مغربی اقوام کے تیار کردہ نقشۂ جنگ کے اہم خدوخال دیکھے جاسکتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ تہذیبی تنوع کا نتیجہ تہذیبوں کا تصادم نہیںہے‘ نہ یہ ضروری ہے اور نہ مطلوب۔ لیکن جب ایک تہذیبی قوت جسے معاشی‘ سیاسی‘ عسکری بالادستی بھی حاصل ہو‘ یہ چاہے کہ وہ اپنے نظام کو ساری دنیا کے اوپر قوت کے ذریعے مسلط کرے‘ دوسروں کو اپنے رنگ میں رنگے اور ان کی معیشت‘ ان کی سیاست اور ان کی معاشرت کو اپنی زنجیروں میں جکڑ لے___ تب تصادم پیدا ہوتا ہے۔ اِس وقت اپنے سیاسی اہداف کے حصول کے لیے تصادم کی فضا پیدا کرنے کے لیے مغرب نے یہی راستہ اور طریقہ اختیار کیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے لیے اس کا مقابلہ کرنے کی کیا صورت ہے؟ کسی جذباتی‘ جوشیلے یا محض منفی ردعمل سے اس جنگ کو نہیں جیتا جاسکتا۔ کچھ مہم جُو حضرات ایسے اقدام کر سکتے ہیں جن سے وقتی طور پر کچھ تسلی ہو‘ اور یہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم نے دشمن کو زک پہنچا دی ہے‘ لیکن یہ راستہ اختیار کرنا بڑی کوتاہ نظری (short sighted) کی حکمت عملی ہوگی۔ اُمت مسلمہ ایک پیغام اور دعوت کی علم بردار اُمت ہے۔ ہماری تہذیبی جدوجہد محض قوت‘ محض وسائل‘ محض مادی منفعتوں اور دولت کے حصول کے لیے نہیں ہے۔ ہماری تہذیب کا بنیادی اصول اعلیٰ اخلاقی اقدار ہیں اور انسانی معاشرے کی تعمیر عدل و احسان کی بنیادوں پر کرنا ہے تاکہ دنیا میں عزت اور امن اور آخرت میں اصل کامیابی حاصل کی جاسکے۔
اسلامی تہذیب کی شناخت کے تین حوالے ہیں: سب سے پہلی چیز توحید‘ یعنی اللہ سے رشتہ جوڑناہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اپنے آپ کو خودکفیل اور دنیا سے بالکل بے نیاز نہ سمجھنا‘ اس دنیا کو ہی سب کچھ نہ سمجھناا ور صرف اللہ کو محض خالق کی حیثیت سے ہی نہیں ماننا بلکہ رب‘ حی وقیوم‘ صاحب امر‘ ہدایت کا منبع‘ قوت کا سرچشمہ تسلیم کرنا۔ توحید کے معنیٰ ہی یہ ہیں کہ پوری انسانیت کو اللہ کی بندگی کے راستے کی طرف لانے کی جدوجہد کی جائے۔ یہ ہماری پہلی بنیاد ہے۔
دوسری بنیاد یہ ہے کہ اسلام صرف ایک عقیدہ نہیں ہے۔ بلاشبہہ یہ عقیدہ ضرور ہے اس لیے کہ عقیدہ ہی نقطۂ آغاز ہے‘ لیکن اسلام ایک مکمل دین ہے۔ وہ اس عقیدے کی بنیاد پر ایک اجتماعی زندگی ہے‘ جس کا مظہر وہ تمام انسانی رشتے اور انسانی ادارے ہیں‘ خاندان‘ معاشرہ ‘معیشت اور سیاست ہے جو ایک مربوط اور مکمل نظام کی صورت میں عقیدے کے بیج سے ایک تناور درخت کی شکل میں رونما ہوتا ہے۔ اسے ہم ایک لفظ میں شریعت کہہ سکتے ہیں‘ یعنی اللہ کا دیا ہوا قانون۔ عیسائیت میں اگر بنیادی چیز تھیالوجی ہے تو اسلام میںبنیادی چیز شریعت ہے ‘یعنی اللہ کو مانو‘ اس کے دامن کو تھامو‘ اس سے رہنمائی حاصل کرو اور زندگی کے نظام کو اللہ کی بندگی اور اطاعت کے اصول پر قائم کرو جو آزادی اور انصاف کا ضامن ہے۔
تیسری بنیاد امت کا تصور ہے جو رنگ ‘ نسل ‘ جغرافیے‘ مفاد اور تاریخ سے بالاتر ہے۔ یورپ اور امریکا کے وہ لوگ جن کی تاریخ‘ تہذیب اور روایات ہم سے مختلف ہیں‘ وہ جس وقت لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کہتے ہیں اسی وقت ہمارا حصہ بن جاتے ہیں۔ کوئی بھی زبان بولنے والا‘ خواہ کسی بھی رنگ و نسل سے تعلق رکھتا ہو‘ دنیا کے کسی بھی مقام پر رہتا ہو‘ وہ یہ کلمہ پڑھ کر اُمت مسلمہ کا حصہ بن سکتا ہے۔
یہ تین بنیادی چیزیں ہیں اور ان کا لازمی تقاضا ہے کہ ایک طرف ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ان اصولوں پر قائم کریں‘ تمام وسائل کو اس مقصدکے لیے استعمال کریں اور مزید ترقی دیں۔ اجتماعی طاقت کا حصول بھی اس کا اہم حصہ ہے۔ نیز دنیا کے سامنے صحیح نمونہ پیش کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ البتہ دین کا فروغ اور اسلامی تہذیب کی ترویج ہم قوت کے ذریعے سے نہیں‘ دلیل کے ذریعے کرنے کے پابند ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ اپنا پیغام عام کریں اور دلیل سے کریں تاکہ قَدْ تَّـبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْـغَیِّ کا مقصد پورا ہو‘ یعنی ہمارا طریقہ یہ ہے کہ رشد‘ دلیل اور حکمت کے ذریعے سے پیغام کو دنیا تک پہنچانا ۔ دوسری طرف قوت سے حق کا اور اپنے نظام کا دفاع کرنا اور ظلم و جبرکے خلاف مزاحمت کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ جہاد دراصل انھی دو پہلوئوں سے عبارت ہے۔ ایک پہلو یہ کہ اللہ کی بندگی کے طریقے کو قبول کرنا‘اور دوسری طرف ظلم اور جارحیت کے خلاف مزاحمت کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاد ہمیشہ سے دشمن کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسلام کی مخالف قوتوں نے جن کے استعماری عزائم کی راہ میں مسلمانوں کا جذبۂ جہاد حائل ہے ہمیشہ تصورِ جہاد ہی کو ہدف بنایا ہے۔ خصوصیت سے پچھلے ۴۰۰سال کی تاریخ پڑھ لیجیے۔ مغربی استعمار کا جہاں بھی مقابلہ ہوا ہے‘ مسلمانوں ہی نے کیا ہے اور جہاد کی بنیاد ہی پر کیا ہے۔ مغرب کے مفکرین خواہ مستشرق ہوں یا مشنری یا حکمران‘ سب نے جہاد کو ہدف بنایا ہے۔
آج مسلم دنیا پر قابض حکمران طبقے جہاد اکبر اور جہاد اصغر کی جو بحثیں چھیڑ رہے ہیں‘ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ انیسویں صدی کا لٹریچر پڑ ھ لیجیے‘ مغربی مفکرین‘ ان کے مستشرق اور خود ہندستان میں سامراجی حکمرانوں کے ہم نوا یہی بات کہتے تھے‘ حتیٰ کہ جہاد کو منسوخ کرنے کے لیے جھوٹا نبی تک بنایا گیا‘ مختصر یہ کہ کوئی نئی چیز نہیں۔
اسلامی تہذیب محض قوت کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ قوت کی اگر ضرورت ہے تو اس کو مستحکم کرنے کے لیے ہے۔ اس کی اپنی صحیح شکل میں اس پر عمل کرنے کے لیے ہے اور اس کے دفاع کے لیے ہے۔ مسلمانوں نے قوت کے ذریعے سے کبھی بھی اپنی اقدار کو دوسروں پر نہیں ٹھونسا۔ کیوں کہ یہ طریقہ اللہ کی حکمت بالغہ کے خلاف ہے۔ ایمان‘ دل کی رضامندی سے‘ دل ودماغ کی یکسوئی سے اور انسانی اختیار کے استعمال سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ ایک اخلاقی عمل ہے اور کوئی اخلاقی عمل جبر کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ اخلاقی عمل تو آزادی و اختیار کی فضا میں اور رضامندی کے ساتھ فروغ پاتا ہے۔
اس تہذیبی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلی ضرورت ہے کہ ہم اللہ سے اپنا رشتہ جوڑیں اور اسے مستحکم کریں۔ جس طرح توحید اسلامی تہذیب کی بنیاد ہے‘ اسی طرح اسلام کی دفاعی حکمت عملی کا پہلا اصول اللہ سے تعلق‘ اللہ سے رشتے کو گہرا کرنا‘ اللہ سے استعانت طلب کرنا اور اللہ کے بھروسے پر اس سارے کام کو انجام دینا ہے۔ اگر اس میں ذرا بھی کمزوری ہے تو باقی جتنے بھی وسائل ہوں گے‘ وہ ریت کی دیوار ثابت ہوں گے۔ لہٰذا پہلی چیز ایمان ہے اور ایمان کا تقاضا ہے: کردار‘ تقویٰ اور للٰہیت۔ ایک ایک فرد اس کے اندر اہم ہے۔ جس طرح زنجیر میں ایک ایک کڑی اہم ہوتی ہے کیوں کہ اگر ایک کڑی بھی کمزور ہوتو زنجیر ٹوٹ جاتی ہے۔ اسی طرح عمارت کی اینٹیں اور بنیادیں ہیں۔ اگر وہ کمزور ہوں گی تو دیوار نہیں ٹھیرسکے گی۔ اس لیے فرد‘ اس کا کردار‘ اس کی للٰہیت اور تقویٰ خود ہماری دفاعی حکمت عملی کا بنیادی نکتہ ہے۔
دوسری چیز مسلمانوں کا اتحاد اور ان کی اجتماعیت ہے۔ اگر مسلمان متحد نہ ہوں‘ اور وہ فرقوں میں اور گروہوں میں بٹے ہوئے ہوں‘ ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوں تو ان کی قوت منتشر ہوکر کمزور پڑ جائے گی۔ اس لیے اجتماعیت اور اتحاد ہماری حکمت عملی کا دوسرا بنیادی نکتہ ہے۔
تیسری چیز دعوت ہے۔ ہم جامد نہیں ہوسکتے۔ ہم ایک دعوت کے علم بردار ہیں اور ہماری طاقت اللہ کی تائید کے بعد‘ انسانوں کی قوت سے ہے۔ اس لیے تعلیم‘ تبلیغ‘ دعوت اور انسانوں کو اپنے اندر جذب کرنا‘ ان کی تربیت کرنا‘ یہ ہمارا مستقل پروگرام ہے۔
اخلاقی قوت اس راستے کی اصل معاون ہے۔ اسی کے نتیجے میں انسانوں کے دل فتح کیے جاسکتے ہیں۔ ان انسانی وسائل کے ساتھ ساتھ مادی قوت بھی ضروری ہے۔ اگر ہم نے مادی قوت کو نظرانداز کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے لیے جو قانون بنایا ہے‘ ہم اس سے انحراف کریں گے۔ یہاں آگ جلاتی ہے‘ برف ٹھنڈک دیتی ہے‘ اور سورج روشنی دیتا ہے۔ یہ اس دنیا میں اللہ کا قانون ہے۔ اگر آپ پیاسے ہوں اور پانی کا گلاس آپ کے سامنے ہو تو آپ محض پانی پانی کہتے رہیں تو آپ کی پیاس نہیں بجھے گی۔ قدرت نے جو قوانین بنائے ہیں‘ ان کے ذریعے سے وسائل کو حاصل کرنا استخلاف کے معنی ہیں۔ آپ دنیا کے سارے وسائل کے امین بنائے گئے ہیں۔ استخلاف ایک حرکی تصور ہے جس کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کے اندر جو وسائل ودیعت کیے ہیں‘ ان کو دریافت کرنا‘ ان کو ترقی دینا اور ان کو صحیح مقاصد کی خدمت کے لیے استعمال کرنا۔ اس لیے قرآن نے سورۂ انفال میں صاف کہا ہے کہ اپنے گھوڑوں کو تیار رکھو۔ قوت تمھیں حاصل ہونی چاہیے اور قوت بھی ایسی کہ تمھارا دشمن اور اللہ کادشمن اس سے خوف محسوس کرے۔ قوت ایمان اور اخلاق سے‘ اور ٹکنالوجی‘ معیشت اور عسکری طاقت سے حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا ایمان و عمل کے ساتھ ترقی بھی اشد ضروری ہے۔ اگر اسے آپ نظرانداز کریں گے تو اِس تہذیبی یلغار کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔
ایٹمی طاقت آج کی دنیا میں ایک بہت ہی اہم ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان ملک کو تھوڑی سی ایٹمی صلاحیت حاصل ہوئی ہے تو اس پر دنیا بھر میں کتنا واویلا ہوا ہے۔ کہا گیا کہ یہ صلاحیت بلیک مارکیٹنگ کے ذریعے حاصل کی گئی ہے‘ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ امریکا سے لے کر بھارت تک جس نے بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کی ہے وہ بلیک مارکیٹ سے‘ پھیلائو (proliferation ) سے اور دوسروں کے کیے ہوئے کام سے فائدہ اٹھا کر ہی کی ہے اور جائز ناجائز‘ ہر طریقے سے کی ہے۔ کیا امریکا نے جرمن سائنس دان کو اغوا کرکے اس کی صلاحیت کو استعمال نہیں کیا؟ کیا بھارت نے امریکا اور کینیڈا سے نیوکلیئر پلانٹ حاصل کیے بغیر یہ صلاحیت حاصل کر لی؟ اسرائیل نے یہ صلاحیت کیسے حاصل کی ہے؟ ایران ہی پر آخر کیوں یہ دبائو ہے۔ اس لیے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایٹمی صلاحیت ہی طاقت کے عدم توازن کا توڑ ہے۔
ایٹمی طاقت کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر ٹکنالوجی بھی ایک بہت اہم میدان ہے۔ اس بات کا پورا امکان ہے کہ اس سلسلے میں اچھی صلاحیت سے ایک نہایت ہی ترقی یافتہ ملک کے اعلیٰ اور فنی نظام کو غیر موثر بنایا جا سکتا ہے۔ اگر ایک ۱۶ سال کا امریکی لڑکا پینٹاگون کی خفیہ معلومات کو دریافت کر کے اس کے کمپیوٹر کو جام کر سکتا ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے ذریعے کسی بھی ملک کے نظام کو تہ وبالا کیاجاسکے۔ اب دنیا سائبری جنگ (cyber warfare)کی طرف جارہی ہے اور ہم اس میں پیچھے نہیں رہ سکتے۔
آج کی دنیا میںطاقت کے عدم توازن کے معنی بدل گئے ہیں۔ اس لیے سدِّجارہیت (deterrance) ایک فنّی اصطلاح نہیں ہے بلکہ ایک حرکی تصور ہے جس کے معنی برابری نہیں اتنی قوت ہے کہ آپ مدمقابل کی قوت کو غیرموثر بناسکیں اور اسے جارحیت سے روک سکیں۔ آپ کو قطعاً اس کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ کو برابری حاصل ہو لیکن آپ کے پاس اس درجے کی قوت ہونی چاہیے کہ آپ نہ صرف اپنا دفاع کرسکیں‘ بلکہ دشمن پر کاری ضرب لگاسکیں۔اسے یہ احساس ہو کہ اس عمل اور ردعمل سے اسے کیا قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ قرآن پاک میں مقابلے کی قوت کا جو مقام بیان کیا گیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ تمھارے دشمن اور اللہ کے دشمن اس سے خائف ہوں اور یہ لازماً ہماری حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے۔ یہ قابلِ حصول ہے‘ اس کے لیے مساوات ضروری نہیں۔ اس کے لیے صرف صحیح حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
یہ کام استقامت اور حکمت کا تقاضا بھی کرتا ہے۔ استقامت نام ہے اپنے مسلک پر ایقان اور اعتماد کے ساتھ ڈٹ جانے کا‘ اپنے مقصد اور اپنی منزل کے صحیح شعور اور ادراک کا۔ یہ نام ہے اللہ کے بھروسے‘ اُمت کی تائید اور تعاون کا۔ استقامت صحیح منصوبہ بندی ‘ وسائل کی ترقی اور وسائل کے مؤثر استعمال اور حکمت اور اس خوف کا صحیح صحیح استعمال کا نام ہے۔ یہ بھی صبرواستقامت ہے کہ نفع عاجلہ سے بچنا اور ایسے اقدام سے بچنا جن سے جذبات کی تسکین تو ہوجائے لیکن پوری امت کو دیرپا نقصانات ہوں۔
تہذیبوں میں مکالمہ‘ تعاون‘ مسابقت حتیٰ کہ مثبت مقابلہ‘ سب درست لیکن تہذیبوں میں تصادم‘ جنگ و جدال‘ خون خرابا اور ایک دوسرے کو مغلوب اور محکوم بنانے کے لیے قوت کا استعمال انسانیت کے شرف اور ترقی کا راستہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تہذیبوں کا تصادم ہمارا لائحہ عمل نہیں‘ یہ مسلمانوں پر زبردستی ٹھونسا جا رہا ہے۔ یہ تباہی کا پیغام ہے لیکن اگر ایک سوپر پاور طاقت کے زعم میں اندھی ہو گئی ہے اور دنیا کو اپنی گرفت میں لینے اور اس پر بہ جبر بالادستی قائم کرنے کے لیے قوت کا استعمال کر رہی ہے تو اس کے آگے ہتھیار ڈالنے ‘ اور اپنے دفاع سے دست بردار ہوجانے سے بڑا جرم کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہماری لڑائی نہ امریکا کے عام انسانوں سے ہے‘ نہ یورپ کے نہ روس کے اور نہ ہندستان کے۔ ہماری قوت اور پہچان اسلام ہے‘ اور اسلام ساری انسانیت کے لیے پیغام رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ ہمارا اللہ‘ رب العالمین ہے اور ہمارا رسولؐ، رحمۃ للعالمین۔ ہم انسانوں کے لیے تباہی کا پیغام نہیں بن سکتے۔ اللہ کے تمام نبی انسانوں کو تباہی سے بچانے کے لیے آئے اور قوموں کو سیدھا راستہ دکھانے اور خیر کو قبول کرنے کی دعوت دینے کے لیے آئے‘ فوج دار بنا کر نہیں بھیجے گئے۔ ہمارے لیے امریکا کے عام انسان بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے پاکستان کے‘ یا مکے اور مدینے کے۔ لیکن اگر امریکی اور مادی تہذیب کی قیادت مادی قوت اور عسکری قوت کے زعم میں یہ سمجھتی ہے کہ وہ پوری دنیا کو دھوکا دے سکتی ہے اور ان کو اپنا محکوم بناسکتی ہے تو یہ ممکن نہیں‘ اور نہ یہ جائز ہے کہ اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا جائے۔
مسلمان ہی نہیں ‘ساری دنیا کے اچھے انسان اس صورت حال پر کرب محسوس کرتے ہیں اور اس مصیبت سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کے گوشے گوشے میں لاکھوں افراد نے عراق میں جنگ کے خلاف احتجاج کیا ہے اور کر رہے ہیں‘ امریکا میں بھی کر رہے ہیں۔ آج جو تازہ ترین جائزے آئے ہیں اس میں بش کی مقبولیت ۳۱ فی صد ہے‘ اور ۶۹ فی صد سمجھتے ہیں کہ اس نے انسانیت کو ایک غلط جنگ میں جھونک دیا ہے۔ وہ ۲۳۰۰امریکی فوجی جو عراق میں مارے گئے ہیں‘ ان کے خاندان احتجاج کررہے ہیں‘ عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں۔ بش کی قیام گاہ کے باہر احتجاجی ہڑتالیں ہورہی ہیں۔ امریکا کی ان پالیسیوں اور دست درازیوں کے خلاف مسلم دنیا کی ۹۰سے ۹۸ فی صد آبادی احتجاج کر رہی ہے۔ یورپ میں ۷۰ سے ۸۰ فی صد اور افریقہ میں ۷۰سے ۹۰ فی صد لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ غرض دنیا کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں بش کی انسانیت کش پالیسیوں کے خلاف نفرت نہ پائی جاتی ہو۔
میں تہذیبوں کے تصادم کو اس فریم ورک میں نہیں لینا چاہتا جس میں ہمارے دشمن اسے ہم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ میری نگاہ میں یہ تصادم تہذیب اور جاہلیت‘ تہذیب اور وحشی پن میں اور امن اور جنگ کے پجاریوں میں ہے۔ ہمیں اخلاقی اقدار‘ قانون کی حکمرانی‘ انصاف‘ انسان کا شرف اور عزت اور تمام انسانوں کے لیے اللہ کی زمین کو رہنے کے لائق بنانا اور رکھنا ہے۔ بلاشبہہ اس جنگ میں ہمارا ان سے مقابلہ ہے جو تباہی مچانے والے‘ امن کو پارہ پارہ کرنے والے اور ساری دنیا کو دہشت زدہ کرنے والے ہیں۔ ان کے مقابلے کے لیے ہمیں حلیفوں کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ ہمیں تن تنہا نہیں لڑنا چاہیے۔ بلاشبہہ ہم اس کا پہلا نشانہ ہیں لیکن دوسرے بھی نشانے پر ہیں۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اچھی سیاست خارجہ کے ذریعے سے حلیف پیدا کریں اور مل کے اس کا مقابلہ کریں۔ مجھے یقین ہے کہ حلیف صرف چین ہی میں نہیں ‘ یورپ اور امریکا میں بھی ملیں گے۔ اور یہی دراصل ایک داعی کا ذہن اور کردار ہونا چاہیے۔ ہم اصحاب دعوت ہیں‘ ہم نفرتوں کے پجاری نہیں ہیں‘ اس لیے ہمیں بتانا چاہیے کہ اصل جنگ تہذیب اور وحشت کے درمیان ہے۔
آئیے! تہذیب کا تحفظ کریں اور وحشت کا مل جل کر مقابلہ کریں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
صدر جارج بش کا افغانستان‘ بھارت اور پاکستان کا دورہ (۲۸ فروری تا ۴ مارچ ۲۰۰۶ئ) بھارت کے لیے تو بجاطور پر تاریخ ساز اور کامیاب ترین قرار دیا جا رہا ہے‘ مگر پاکستان کے لیے‘ جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کے علاوہ‘ سب ہی اسے ناکام اور ذلت اور پشیمانی کا باعث تصور کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ خود جنرل صاحب صدربش کے ساتھ ۴مارچ کی مشترکہ پریس کانفرنس میں زبانِ حال (body language)سے وہی بات کہہ رہے تھے جو اندرونِ ملک اور بیرون ملک تمام اصحابِ نظر کی زبان پر ہے۔ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون نے ایک ہی جملے میں پورے مضمون کا مفہوم سمو دیا ہے:
Bush gives Indians a hug and Pakistan a friendly pat.
بش نے بھارت کو تو کو گلے لگا لیا اور پاکستان کو فقط ایک دوستانہ تھپکی پر ٹرخا دیا۔
یہ بالکل سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے کہ کیا مسٹربش نے آدھی دنیا کے گرد سفر صرف اس لیے کیا کہ اپنے سب سے اہم حلیفوں میں سے ایک کے ساتھ کھڑے ہوں اور اس کو شرمندہ کریں۔
صدربش نے جنرل صاحب کے منہ پر کہا کہ میں تو صرف یہ دیکھنے کے لیے آیا ہوں کہ تم کتنے پانی میں ہو___ دہشت گردی کے خلاف میرے ساتھ تعاون کے بارے میں جو کہہ رہے ہو‘ عملاً کچھ کر بھی رہے ہو؟ اس سے پہلے کابل میں حامدکرزئی کی ہم زبانی میں فرمایا کہ میں جنرل پرویزمشرف سے سرحدوں کی خلاف ورزی اور دراندازی کے بارے میں پوچھوں گا۔ پھر دہلی میں کشمیر کے پس منظر میں یہی بات کہی۔ اور بالآخر ۴مارچ کو اسلام آباد میں جنرل صاحب کو مخاطب کرکے‘ ٹی وی کے کیمروں کے سامنے‘ خسروانہ شان سے فرمایا: میرے مشن کا ایک حصہ یہ طے کرنا تھا کہ آیا صدر (پرویز مشرف) ان دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے اتنے ہی سنجیدہ ہیں جتناکہ وہ پہلے تھے؟
تعلقات کو متلاطم لہروں کا سامنا ہے۔ دونوں رہنما اپنی گفتگو کے اصل موضوعات پر مختلف راے رکھتے تھے۔ بش انتظامیہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں مشرف کے مرکزی مقام کا ازسرنو جائزہ لے رہی ہے‘ جب کہ جوہری پھیلائو ہمیشہ سے زیادہ دکھتی رگ ہے… پاکستان‘ دہلی اور واشنگٹن دونوں جگہ ہار رہا ہے۔ اس لیے بش کا دورئہ اسلام آباد دہشت گردی کے خلاف پاک امریکا شراکت کے لیے ایک اہم لمحہ تھا‘ اور اسی طرح یہ مشرف کے اپنے سیاسی مستقبل کے لیے بھی اہم تھا۔ بش انتظامیہ کی نظروں میں اس کے آہنی ہاتھ کی بڑی قدروقیمت تھی‘ مگر اب تو اس کے اُلٹے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ طالبان کی باقیات افغانستان میں شکست سے دوچار ہوتی نظر نہیں آتی۔ اسامہ بن لادن اور اس کے صف اوّل کے رہنما ئوں نے اپنی گرفتاری کو مسلسل ناممکن بنا رکھا ہے۔ مسئلہ کشمیر ایک کھلا زخم ہے۔ اسلام آباد کے بعض باخبرسفارتی ذرائع کو اندیشہ ہے کہ بش انتظامیہ اس یقین تک پہنچ رہی ہے کہ اب ایک کمزور پاکستانی فوج اتنی ہی ضروری ہے جتنی ایک طاقت ور فوج ناین الیون کے بعد اس وقت ضروری تھی‘ جب امریکا کو افغانستان پر حملے کے لیے اس کی حمایت کی ضرورت تھی۔ پاکستان چاہتا ہے کہ امریکا کے ساتھ اس کی ایک منافع بخش اسٹرے ٹیجک شراکت قائم رہے مگرفی الحقیقت مشرف کا پاکستان‘ بھارت کے مقابلے میں تیزی سے بازی ہاررہا ہے۔ بش کے دورے نے پانچ سالہ پرانی شراکت میں بڑھتی ہوئی دراڑوں کو مزید نمایاں کردیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ واشنگٹن اب جنرل کے اس موقف کوتسلیم نہیں کرتا کہ وہی ملک کا واحد سیکولر لیڈر ہے جو ملاؤں اور جہادیوں سے جو پاکستان کے لیے طاعون ہیں‘ نمٹ سکتا ہے۔ (Debka File، ۵مارچ ۲۰۰۶ئ)
صدربش نے کل افغانستان کا اچانک دورہ کیا تاکہ اس کی نئی جمہوریت کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کریں۔ انھوں نے بالکل درست کہا کہ ساری دنیا کی نظریں اس جمہوریت پر لگی ہوئی ہیں۔ پھر وہ بھارت گئے جہاں ان کے دورے کا مرکزی نکتہ امریکا اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت [بھارت] کے تیزی سے بڑھتے ہوئے مشترک مفادات تھے۔ دورے کے تیسرے مرحلے میں وہ پاکستان پہنچے۔ بھارت [کی جمہوریت] اور پاکستان کے فرق کو نظرانداز کرنا مشکل ہے‘ جہاں پرویز مشرف نے ۱۹۹۹ء میں ایک منتخب حکومت کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کیا‘ اور اِس وقت بھی وہ اقتدار کے واحد مالک ہیں۔ گذشتہ ہفتے مسٹربش نے اپنے پاکستانی دوست کے بارے میں کہا کہ مجھے یقین ہے وہ آزاد اور غیر جانب دارانہ انتخابات کے انعقاد کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ اگر مسٹر بش واقعی یہ یقین رکھتے ہیں تو وہ بہت سے پاکستانیوں سے زیادہ سادہ لوح ہیں جنھوں نے بہت عرصہ قبل ایک ایسے لیڈر کے برسرِعام کیے گئے وعدوں پر یقین کرنا چھوڑ دیا ہے‘ کیوں کہ اس نے اپنے وعدوں کو ایک سے زیادہ دفعہ توڑا ہے۔ جنرل مشرف اقتدار پر اپنے قبضے کے بعد جمہوریت بحال کرنے کا وعدہ کرتے آرہے ہیں لیکن جب سے وہ اقتدار میں آئے ہیں انھوں نے پاکستان کی سیکولرجمہوری پارٹیوں کو دبانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے اپنی مدت کو ۲۰۰۷ء تک بڑھانے اور صدر اور فوج کے لیے نئے دستوری اختیارات کے بدلے میں ۲۰۰۴ء کے اختتام تک آرمی چیف آف اسٹاف کا عہدہ چھوڑنے کا وعدہ کیا تھا۔ بعدازاں وہ اس سے منحرف ہوگئے۔
اب جنرل مشرف کے ساتھی یہ کہہ رہے ہیں کہ آیندہ سال جن انتخابات کا وعدہ ہے‘ وہ ان کو ملتوی کردیں گے اور پارلیمنٹ جو ۲۰۰۲ء کے انتہائی بے قاعدہ انتخابات میں منتخب ہوئی تھی‘ ان کو ازسرنو منتخب کرلے گی۔ مختصر یہ کہ جنرل مشرف کو واضح طور پر امید ہے کہ وہ اپنی فوجی حکومت کو غیرمعینہ مدت تک طول دے لیں گے‘ جب کہ امریکی صدر کی سیاسی و معاشی حمایت انھیں حاصل رہے گی۔ دوسری طرف امریکی صدر نے اپنی انتظامیہ کو مسلم دنیا میں جمہوریت کی پیش رفت کے لیے وقف کردیا ہے۔مسٹربش کو داددینی چاہیے کہ وہ جنرل کے کھیل کو سمجھتے ہیں اور اسے روکنے کی کم سے کم ایک چھوٹی سی کوشش کر رہے ہیں۔
اس میں پاکستان کی سیکولر سیاسی پارٹیوں کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے اور ۲۰۰۷ء کے انتخابات کے لیے حقیقی طور پر تیار کرنے کے لیے کوششیںشامل ہونی چاہییں۔ مشرف کے بہت سے وعدوں کے باوجود‘ پاکستان ایک انتہائی غیرمستحکم ملک ہے جہاں اسلامی انتہاپسندی کا خطرہ بہت بڑا ہے اور بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ جنرل اس خطرے کے خلاف امریکا کا تدبیراتی (tactical) اتحادی ہے‘ ملک میں جمہوریت بحال کرنے کے ان کے انکار نے صورت حال کو محض خراب تر کیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ امریکا اس ناقابلِ اعتبار جنرل پر انحصار کرنا چھوڑ دے اور اس کی جگہ لینے والی جمہوری حکومت کے لیے منصوبہ بندی کا آغاز کرے۔
جارج بش کے بھارت کے ’تاریخی‘ دورے کے بعد ۳‘۴ مارچ کو پاکستان میں ان کے قیام کو لازماً ایک ضدِّعروج (anti climax) ہونا تھا۔ لیکن یہ اس سے بھی زیادہ خراب ثابت ہوا۔ اس نے پاکستان کی امریکا مخالف بڑی لابی کو تضاد‘ تلون اور بے وفائی کے الزامات کے لیے بہت زیادہ لوازمہ فراہم کیا۔ پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے جو امریکا کے ساتھ اتحاد کے چیمپین ہیں اور جنھیں صدربش ’اپنا یار‘ کہتے ہیں‘ خود کو ہمیشہ سے زیادہ مشکلات میں گھِرا ہوا پایا۔
بش نے بھارت میں اپنے میزبانوں کے لیے نیوکلیر طاقت اور اسلحے کے بارے میں عالمی قواعد میں استثنا مہیا کرکے تاریخی اقدام کیا۔ اس کے برعکس پاکستان جس نے بھارت کی طرح ۱۹۹۸ء میں ایٹمی دھماکا کیا اور عالمی عدم پھیلائو کے معاہدے میں شریک نہیں ہوا‘ اسے اس طرح نہیں نوازا گیا۔
امریکا نے بھارت سے اسٹرے ٹیجک شراکت اور اسے ۲۱ویں صدی کے لیے ایک عالمی طاقت (global force)اور عالمی شریک کار (global partner) قرار دیا اور دفاع‘ تعلیم وتحقیق‘ تجارت و معیشت‘ مشترک سرمایہ کاری‘ فوجی مشقوں میں شراکت‘ اور چین کا راستہ روکنے والی مزاحمتی قوت بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصدکے لیے امریکا نے بھارت سے نیوکلیر ٹکنالوجی اور مشترک دفاعی پیداوار کے میدانوں میں بھرپور بلکہ بے قید تعاون کے جو معاہدے کیے‘ انھوں نے عالمی سیاسی نقشے میں بھارت‘ امریکی‘ اسرائیلی گٹھ جوڑ پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے۔ اس سے بھارتی قیادت کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا ہے۔ اس کا کچھ اندازہ کلدیپ نائر کے تازہ ترین مضمون سے بھی کیاجاسکتا ہے جس میں پاکستان اور جنرل مشرف کو‘ جو خود کو امریکا کا بہترین حلیف اور ناٹو کا غیررکن شریک کار سمجھتے ہیں (بش اور مشرف ایک دوسرے کو اپنا یار ’buddy‘کہتے ہیں)‘ یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ جس طرح کبھی چین سے تعلق استوار کرنے کے لیے اسلام آباد کا راستہ اختیار کیا گیا تھا‘ اب امریکا سے دوستی کے لیے دہلی کا رخ کرنا پڑے گا۔ ان کا مشورہ یہ ہے:
پاکستان کے حق میں بہتر یہی ہے کہ وہ نیویارک پہنچنے کے لیے دہلی کا راستہ اختیار کرے۔ لیکن بھارت یہ چاہے گا کہ پہلے جہادیوں کے تربیتی کیمپ ختم کردیے جائیں‘ اور آئی ایس آئی دراندازی کے منصوبے کو ایک آپشن کے طور پر استعمال کرنا ترک کردے۔ دہلی میں بش اس کے قائل ہوگئے تھے کہ بھارت کے ساتھ پاکستان کی پالیسی کا ایک اہم جز سرحدپار دہشت گردی ہے۔
پاکستان کی اصل پریشانی کشمیر ہونی چاہیے۔ اسلام آباد سے جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں امریکا نے اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ ایک پاکستانی صحافی کے سوال کے جواب میں بش نے یہ کہتے ہوئے اپنے پہلے موقف کو دہرایا: یہ ان دو ممالک کا معاملہ ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے کا تصفیہ کریں‘ اگر مطلوب ہو تو امریکا کی مدد سے۔
صدربش کے دورے کا اگر کوئی ناقابلِ تردید پیغام ہے تو وہ یہ ہے کہ امریکا نے اپنی عالمی سیاست میں پورے سوچ بچار اور ۱۵ سال پر پھیلی ہوئی تیاری کے ساتھ بھارت سے اسٹرے ٹیجک شراکت پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے اور اسرائیل کے بعد اب بھارت اس کا سب سے معتمدعلیہ حلیف ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواری اپنی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا اصل چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ اگر وہ اب بھی اس حقیقت کوتسلیم کرنے کو تیار نہیں اور دہشت گردی میں تعاون کے تنکوں کا سہارا لینے پر تلے ہوئے ہیںتو اس کے علاوہ کیا کہاجاسکتا ہے کہ تاریخ ان کا شمار ایسے لوگوں میں کرے گی جن کے بارے میں کتاب الٰہی کا فیصلہ ہے کہ ان کی آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں‘ کان ہیں مگر سنتے نہیں اور قلب ہیں جو تفکر سے محروم ہیں۔
بش کے اس دورے کے حوالے سے بھارت اور امریکا کے نیوکلیر معاہدے کو مرکزی اہمیت دی جارہی ہے اور وہ اس کا مستحق ہے۔ لیکن یہ حقیقت سامنے رکھنی چاہیے کہ امریکا‘ بھارت سے اپنے تعلقات اسٹرے ٹیجک بنیادوں پر استوار کرنے کا مدت سے خواہاں تھا۔ ۱۹۶۲ء میں بھارت چین تصادم کے موقع پر امریکا نے بھارت کی بھرپور مدد کی۔ بھارت کو اپنے نیوکلیر اداروں کے تشکیلی دور میں امریکاسے مدد ملی۔ سردجنگ کے خاتمے کے بعد بھارت اور امریکا کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہوگئے۔ دوطرفہ افادیت کی حامل‘ تجارت اور انفارمیشن ٹکنالوجی کا حصول راجیوگاندھی کے ۱۹۹۵ء کے دورے سے شروع ہوا تھا جو پچھلے ۱۰ برسوں میں مستحکم سے مستحکم تر ہوتا گیا۔ اسرائیل نے بھی اس سلسلے میں خصوصی کردار ادا کیا۔ کلنٹن کے دورحکومت میں اسٹرے ٹیجک شراکت استوار کرنے کی ابتدا ہوئی (تفصیل کے لیے دیکھیے: کلنٹن کے مشیر ٹالبوٹ کی کتاب Engaging India)‘ ناین الیون کے بعد یہ تعلقات تیزی سے آگے بڑھے۔ رینڈ کارپوریشن کے ایک اہم مطالعے میں جو امریکی فضائیہ کے لیے کیا گیا‘ بھارت اور پاکستان دونوں کے بارے میں ’ردِّدہشت گردی‘(counter terrorism) کے سلسلے کی تفصیل موجود ہے اور پاکستان کی ساری خدمات کے مقابلے میں بھارت کے تعاون کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرا نہایت اہم مطالعہ عالمی امن کے لیے کارنیگی وقف کے زیراہتمام ایک اہم امریکی مفکر ایشلے جے ٹیلیز نے کیا ۔ اس کا عنوان ہی اس کے مقصد کا عکاس ہے: India: As a New Golbal Power - An Action Agenda for the United States. [بھارت‘ ایک نئی گلوبل قوت: امریکا کے لیے منصوبۂ عمل]۔
جو کچھ ۱۸جولائی ۲۰۰۵ء کے بش ‘من موہن سنگھ اعلامیے میں کہا گیا اور جسے ۲مارچ ۲۰۰۶ء کے دہلی معاہدے میں آخری شکل دی گئی‘ وہ ان کوششوں کا نتیجہ ہے جو ۱۰ سال سے خاموشی سے کی جارہی تھیں اور جس کے لیے بھارتی سفارت کار‘ بھارت کے لیے مہم چلانے والے پیشہ ور افراد اور ادارے اور سیاسی قیادت سرگرم عمل تھی۔
اس معاہدے نے این پی ٹی کو عملاً غیرموثر کر دیا ہے اور اب امریکا کھلے بندوں بھارت کو نیوکلیر میدان میں ہرمدد دینے کا اعلان کر رہا ہے۔ نام پُرامن استعمال کیا گیا ہے مگر حقیقت میں وہ وہ تمام ری ایکٹر جو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں‘ اپنے تصرف میں رکھنے اور انھیں عالمی معائنے سے باہر رکھنے کا حق دیا گیا ہے۔ گویا اس کو عملاً ایک نیوکلیر اسلحہ رکھنے والا ملک تسلیم کرلیاہے اور اس کے اپنے افزود کردہ پلوٹونیم کو مزیداسلحہ سازی کے لیے کھلاچھوڑ دیا گیا۔ اس کارنیگی سنٹر کی ایک محقق اور سائنس دان جوزفن سِرِن کیون (Josphen Cirincion) نے کہا ہے:
اس کے ایک تہائی ری ایکٹروں کا کسی قسم کا کوئی معائنہ نہیں کیا جاسکے گا‘ اور یہی اصل مسئلہ ہے۔ درحقیقت اس سودے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت ہرسال جتنی مقدار میں ایٹمی ہتھیار بناسکتا ہے‘ وہ اسے دگنا یا تین گنا کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ اس وقت وہ ۶سے ۱۰ تک بنا سکتا ہے۔ غیرعسکری ری ایکٹروں کو امریکی ایندھن کی فراہمی سے اس کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ وہ اپنے ملٹری ری ایکٹروں کی پیداوار کو تین گنا کردے۔ اس سے ایٹمی ہتھیاروں کی ایک دوڑ شروع ہوجائے گی‘ اس لیے کہ پاکستان یہ سب کچھ ہوتے دیکھ کر‘ خاموشی سے نہیں بیٹھ سکتا‘ نہ چین یہ دیکھ سکتا ہے‘ اور جاپان کیا کرے گا؟ یہ خطے کے لیے مسئلہ ہے اور حکومت کے لیے بھی۔
امریکا کو خود اپنے چھے سے زیادہ قوانین کو تبدیل کرنا ہوگا تاکہ بھارت کو نیوکلیر ری ایکٹر اور دوسرا مواد فراہم کرسکے۔
بھارت اور امریکا کا یہ گٹھ جوڑ فقط نیوکلیر میدان ہی میں نہیں بلکہ دفاع‘ تجارت‘ سرمایہ کاری اور ٹکنالوجی کی منتقلی‘ غرض ہرمیدان میں ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ یہ ایک وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اسی لیے اسے اسٹرے ٹیجک شراکت کہا گیا ہے اور کُھل کر اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ یہ بھارت کو اکیسویں صدی کی ایک عالمی قوت بنانے اور امریکا اور بھارت کے مل کر عالمی سیاسی بساط کا نقشہ بنانے کے لیے ہے۔ وہ نقشہ کیا ہے؟ اس کے چار بڑے بڑے اہداف ہیں:
۱- پہلا ہدف یہ ہے کہ امریکا اکیسویں صدی میں سب سے بالاتر عالمی قوت رہے اور کوئی اس کی طاقت کو چیلنج کرنے والا نہ اُبھر سکے۔ اس کام کو انجام دینے کے لیے امریکا نے دو حلیف منتخب کیے ہیں: ایک اسرائیل جو شرق اوسط میں اس کا نقیب ہوگا‘ اور دوسرا بھارت جسے ایشیا کی چودھراہٹ سونپی جارہی ہے۔
۲- دوسرا بنیادی ہدف چین کا محاصرہ ہے‘ اس لیے کہ امریکا یہ سمجھتا ہے کہ وہ یورپ کو ناٹو کی وجہ سے اپنے دائرے میں رکھ سکتا ہے‘ البتہ چین اس کے لیے اصل مدِّمقابل (challenger) بن سکتا ہے اور اس کا راستہ روکنے کے لیے ایشیا ہی سے ایک طاقت کو میدان میں لانا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کے چین سے اسٹرے ٹیجک تعلقات ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ بھارت اور پاکستان کو الگ الگ سلوک کا سزاوار سمجھا جائے۔
۳- تیسرا ہدف یہ ہے کہ اسلام اور عالمِ اسلام کو ایک منظم قوت بن کر اُبھرنے کا موقع نہ دیا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہدف بھی اسلامی احیا کا راستہ روکنا‘ مسلم ممالک کو فوج کشی اور معاشی مقاطعے کے ذریعے کمزور کرنا‘ اور اسلامی اتحاد کی جگہ مسلم ممالک کو مزید تقسیم در تقسیم کا شکار کرنا ہے۔
۴- چوتھا ہدف گلوبلائی زیشن‘ کھلی منڈی اور آزاد تجارت اور آزاد سرمایہ کاری کے ذریعے‘ نیز کثیرقومی کارپوریشنوں اور این جی اوز کے توسط سے معاشی طور پر پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لینا اور ٹکنالوجی اور فوجی قوت کے میدانوں میں امریکا اور اس کے حلیف ممالک کی ایسی بالادستی کو دوام بخشنا ہے کہ مقابلے کی قوتیں اور تہذیبیں اُبھر نہ سکیں اور اس طرح امریکا کی قیادت میں ایک نئے سامراجی دور کو مستحکم کیا جا سکے۔
اپنی بالادستی کو قائم کرنے کے لیے معاشی اور سیاسی حربوں کے ساتھ فوجی قوت کا استعمال اور اس کے لیے ایک نئے فلسفے اور خارجہ پالیسی کے ایک نئے آہنگ کو فروغ دیا جا رہا ہے‘ جس کے ذریعے عالمی ادارے اور بین الاقوامی قانون کے مسلمہ اصولوں کو نظرانداز کر کے اپنی من مانی کی جاسکے۔ یک طرفہ کارروائی‘ پیش بندی کی بنیاد پرحملے‘ حکومت کی تبدیلی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر صدمے اور رعب کی حکمت عملی (shock and awe strategy) اس کا اہم حصہ ہے۔ عالمی امن کے لیے اصل خطرہ اگر آج کسی سے ہے تو اسی ذہن اور اسی منصوبۂ کار سے ہے۔
نیوکلیر پیش رفت سے آگے بڑھ کر‘ امریکا اور بھارت کچھ اور حوالوں سے بھی‘ ایک دوسرے کو ہم خیال سمجھ رہے ہیں۔ دونوں جمہوریتیں ہیں‘ دونوں کے پھلتے پھولتے اور اضافہ پذیر باہم مربوط ٹکنالوجی کے سیکٹر ہیں۔ دونوں انگریزی بولتے ہیں‘ ایک ہی جیسے یوگا کے گروؤں کو مانتے ہیں‘ نیز فلموں میں ایک جیسی فراریت‘حتیٰ کہ ایک جیسی غذا سے محظوظ ہوتے ہیں۔ بش نے ایشیا سوسائٹی کو بتایا کہ بھارتی نوجوان ڈومینو اور پیزاہٹ کے پیزا کے ذائقے کو پسند کرتے ہیں۔ واشنگٹن اور بھارت دونوں اسلامی عسکریت سے برسرِجنگ ہیں اورچین کی بڑھتی ہوئی طاقت سے یکساں طور پر پریشان ہیں۔ بھارت کے سیکرٹری خارجہ شیام سرن نے ٹائم کو بتایا کہ اس کے امریکی ہم منصب بہت واضح طور پر ایک ایسے مضبوط اور دیرپا اتحاد کی خواہش رکھتے ہیں جو شرق اوسط سے ایشیا تک اسلامی عدمِ استحکام کی قوس کے خلاف کام کرے‘ اور ایشیا میں بہت زیادہ توازن پیدا کرے‘ یعنی دوسرے الفاظ میں بھارت چین کا ہم پلّہ(counterweight) ہو۔
اپنے قریبی پڑوسیوں اور بھوٹان‘ سِکم‘ نیپال‘ سری لنکا اور بنگلہ دیش تک جیسی چھوٹی ریاستوں کے لیے بھارت کی پالیسی کا موازنہ مغربی نصف کرّے میں امریکی مونرو ڈوکٹرائن سے کیاجاسکتا ہے‘ یعنی بھارتی بالادستی کو برقرار رکھنے کی کوشش میں‘ اگر ضرورت پڑے توطاقت کے استعمال سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ شمال میں بھارت کا مقابلہ ہمالیہ اور تبت کے پار چینی دیو سے ہے۔ یہاں بھارت اپنے حریف سے مقابلے کے لیے کلکتہ اور سنگاپور کے درمیان علاقے میں اپنی معاشی‘ سیاسی اور اسٹرے ٹیجک اہمیت کے مطابق کردار چاہتا ہے۔
ممبئی اور یمن کے درمیانی علاقے میں بھارت اور امریکا کے مفادات انقلابی اسلام کو شکست دینے کے لیے تقریباً ایک جیسے ہیں۔ ناین الیون تک اسلامی دنیا میں حکومت عام طور پر مطلق العنان حکمرانوں کے ہاتھ میں تھی۔ بھارتی قیادت مسلم مطلق العنان حکمرانوں سے تعاون کر کے غیرجانب داری کو اپنی مسلم اقلیت کو خوش کرنے کے لیے استعمال کرتی تھی۔ یہ صورت حال اب باقی نہیں رہی ہے۔ بھارتی قیادت جانتی ہے کہ بنیاد پرست جہاد‘ دہشت گردی کے اقدامات کے ذریعے سیکولر معاشروں کی بنیادیں ڈھاکر مسلم اقلیتوں کو انقلابی بنارہا ہے۔
موجودہ بھارتی قیادت یہ بات سمجھ چکی ہے کہ عالمی بے چینی کا یہ مظاہرہ اگر پھیل گیا تو بھارت جلد یا بدیر ایسے ہی حملوں کا شکار ہوگا۔ چنانچہ دہشت گردی کے خلاف امریکی کوشش کا نتیجہ بھارت کی طویل المدت سلامتی سے بنیادی طور پر متعلق ہے۔ امریکا بھارت کی کچھ جنگیں لڑ رہا ہے۔ جہاں تدابیر میں فرق ہے‘ وہاں بھی دونوں ملکوں کے مقاصد متوازی ہیں۔
آزادی کے وقت برطانوی ہندستان کو پاکستان اور بھارت میں تقسیم کردیا گیا۔ چونکہ تقسیم سے ہندومسلم آبادیاں مکمل طور پر الگ نہ ہوسکیں‘ اس لیے آج بھی بھارت میں ۱۵کروڑ مسلمان رہتے ہیں۔ قوم پرستوں کے نزدیک پاکستان ان کے تاریخی ورثے سے علیحدہ کیا ہوا حصہ ہے۔ یہ بھارتی ریاست کے لیے ایک مستقل چیلنج ہے‘ کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ہندو بالادستی کے تحت اپنا تشخص برقرار نہیں رکھ سکتے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار اور بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی شراکت میں توازن رکھنے کے لیے غیرمعمولی حساسیت اور اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے۔
چین کے ساتھ ساتھ اسلام اور عالم اسلام کو حصار میں رکھنا اس حکمت عملی کا ایک اہم حصہ ہے جسے خود صدربش کی تقاریر میں دیکھا جاسکتا ہے اور امریکا کے درجنوں مفکر اور میڈیا کے مبصر اس لَے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ناین الیون کمیشن کی رپورٹ سے لے کر فرانسس فوکویاما کی حالیہ تحریروں تک میں اسے صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے اسلامی بنیاد پرستی‘ سیاسی اسلام اور انقلابی اسلام کی اصطلاحات استعمال کی جارہی ہیں۔ مارچ ۲۰۰۶ء میں امریکا نے قومی سلامتی کی حکمت عملی کی جو دستاویز شائع کی ہے‘ اس میں دہشت گردی کے ساتھ اس کا رشتہ an aggressive ideology of hatred and murder (نفرت اور قتل کا ایک جارحانہ نظریۂ حیات) کے عنوان سے مسلمانوں سے جوڑا گیا ہے البتہ ذرا پردہ رکھ کر بات کو یوں کہاگیا ہے:
دہشت گردی کے خلاف جنگ نظریات کی جنگ ہے‘ مذاہب کی جنگ نہیں۔ ہمارے مقابلے پر آئے ہوئے مختلف اقوام کے دہشت گرد اسلام جیسے قابلِ فخر مذہب کا استحصال کرتے ہیں کہ وہ ایک پُرتشدد سیاسی وژن کے طور پر کام کرے۔ وہ دہشت گردی اور تخریب کاری کے ذریعے ایک ایسی سلطنت کا قیام چاہتے ہیں جو ہرطرح کی سیاسی اور مذہبی آزادی کا انکار کرے۔ یہ دہشت گرد جہاد کے تصور کو مسخ کرکے اسے ان لوگوں کے خلاف قتل کی دعوت میں تبدیل کردیتے ہیں جن کو وہ کافر سمجھتے ہیں‘ بشمول عیسائی‘ یہودی‘ ہندو‘ دیگر مذہبی روایات کے حامل‘ اور وہ سب مسلمان جو ان سے متفق نہیں۔ بلاشبہہ ۱۱ستمبر کے بعد بیش تر دہشت گرد حملے مسلمان ملکوں میں ہوئے ہیں اور زیادہ تر ہلاک ہونے والے بھی مسلمان ہی تھے۔
بھارت اور امریکا کے حالیہ معاہدات اور صدربش کے دورے کے مقاصد اور چیلنجوں کو اس پس منظر میں دیکھنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔
عالمی تناظر میں امریکا اور بھارت کی مشترکہ حکمت عملی کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لینے کے بعد ضروری ہے کہ صدربش کے حالیہ دورے کے ان مضمرات کو بھی سمجھا جائے جن کا تعلق پاک بھارت تعلقات سے ہے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ۱۹۵۴ء میں جب سے پاکستان کھلے طور پر امریکا کے حلقۂ اثر میں آیا اور دفاع اور سیاست دونوں میدانوں میں اشتراکی اور روس کی تحدید کے فلسفے کے تحت ان معاہدوں اور اداروں کا رکن بنا جو اس سلسلے میں امریکا نے قائم کیے تھے۔ امریکا کی طرف سے باربار کی بے وفائیوں کے باوجود چار چیزیں ایسی ہیں جن کا ایک حد تک امریکا کی حکومتوں نے‘ خواہ ان کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے ہو یا ڈیموکریٹس سے‘ احترام کیا۔
اوّل: پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں ایک توازن اور برابری کا رویہ اختیار کیا۔ ان دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات میں ایک سے معاملہ کرتے وقت دوسرے پر اس کے اثرات اور ردّعمل کو ملحوظ رکھا گیا۔ سیاسی معاملات‘ معاشی تعلقات اور فوجی ضرورت کے لیے اسلحے کی ترسیل میں ایک درجے کا توازن قائم رکھنے اور اس میں اس پالیسی کو بنیادی اہمیت حاصل رہی۔ گویا پاکستان اور بھارت سے پالیسی کے امور کی ایک جڑواں حیثیت ہے۔
دوم: پاکستان سے دوستی اور بنیادی امور پر ہم آہنگی کا رویہ اختیار کرنے کا دعویٰ کیا گیا‘ تاہم ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء میں یہ توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ اس کے باوجود مذکورہ تصور کا خمار (hang over) باقی رہا اور افغانستان پر روس کی فوج کشی اور اس کی مزاحمت کی تحریک میں پاکستان کے کردار نے اسے مزید تقویت دی۔ حتیٰ کہ اس خودفریبی (make believe)کی چھتری میں پاکستان ساری پابندیوں اور مخالفتوں کے باوجود اپنے ایٹمی پروگرام کو ترقی دے سکا۔ یہ ایک پردہ سا تھا جو ہمیشہ رہا اور اس کا سہارا لے کر ناین الیون کے بعد دوستی کے نام پر زیردستی کا دور شروع ہوگیا۔
سوم: پاکستان کے دفاع اور سلامتی میں خصوصی دل چسپی اور اس سلسلے میں فوجی اور معاشی امداد اور تعاون کو مرکزی اہمیت دی گئی۔ بھارت اسے پاکستان کے ساتھ امریکا کا امتیازی سلوک قرار دیتا رہا اور برابر احتجاج کرتا رہا لیکن ساری اُونچ نیچ کے باوجود یہ سلسلہ جاری رہا‘ اور اس کے نتیجے میں پاکستان کا دفاعی نظام امریکی سسٹم کا حصہ بن گیا جس کے مثبت اور منفی دونوں ہی پہلو ہیں ___حقیقت میں منفی پہلو کہیں زیادہ ہیں‘ کیوں کہ اس سے ہم خطرناک حد تک امریکا کے محتاج ہوگئے ہیں۔ منفی پہلو کا اندازہ ایف-۱۶ کے سلسلے میں امریکا کی بدعہدی سے کیا جاسکتا ہے۔
چہارم: کشمیر کے معاملے میں امریکا کی دل چسپی اور اصولی طور پر پاکستان کے اس موقف کی تائید کہ جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جو عالمی امن کے لیے خطرہ (flash point) بن سکتا ہے۔ شروع میں تو امریکا بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہی مسئلہ کشمیر کے فیصلے کی بات کرتا تھا‘ جب کہ روس کُھلے طور پر بھارت کے موقف کی تائید کر رہا تھا۔ اس طرح اقوام متحدہ میں روس کے ویٹو کے مقابلے میں امریکا پاکستان کی حمایت کرتا رہا اور کشمیر میں مسلح تحریکِ مزاحمت کو (پچھلے دو تین سالوں میں رونما ہونے والے انحرافی رویے کے برعکس) تحریکِ آزادی ہی تصور کرتا رہا۔ جہادی تحریک ۱۹۸۹ء سے جاری ہے اور ناین الیون کے بعد بھی امریکا نے اس کے خلاف کبھی بیان نہیں دیا۔ امریکی پالیسی میں تبدیلی کا آغاز دسمبر ۲۰۰۱ء میں دہلی کی پارلیمنٹ پرہونے والے حملے یا ڈرامے سے ہوا جو آہستہ آہستہ پختہ ہوتی گئی۔
صدربش کے حالیہ دورے نے ان چار بنیادی مقدمات (premises) میں تبدیلی پر مہرتصدیق ثبت کردی۔ اب پاکستان سے دوستی اور تعلق صرف ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا ایک پہلو ہے‘ جب کہ بھارت سے دوستی ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہے اور مشترکہ عالمی حکمت عملی کا حصہ۔
پہلی بنیاد کی جگہ اب دونوں کے بارے میں الگ پالیسی بنانے کے اصول کو مسلمہ بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ اس تصور پر عرصہ ۱۰‘ ۱۵ سال سے کام ہو رہا تھا۔ صدربش نے صاف لفظوں میں واشنگٹن‘دہلی اور پھر اسلام آباد میں یہ اعلان کرکے کہ بھارت‘ بھارت ہے اور پاکستان‘ پاکستان اور دونوں کی ضروریات اور دونوں کی تاریخ الگ الگ ہے‘ اس نقطۂ اتصال کو بھی پارہ پارہ کردیا جو ۵۰سال سے پاکستان کی قیادتوں کی نگاہ میں بھارت کے جارحانہ عزائم کے خلاف ایک ٹوٹی پھوٹی ڈھال بنا ہوا تھا اور اب اسے پے درپے ضربوں سے اڑادینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
یہ نہایت عیاری مگر ایک گونہ شایستگی کے ساتھ کچھ اسی قسم کا یوٹرن ہے جو ناین الیون کے بعد پاکستان کی موجودہ قیادت نے افغانستان کی حکومت کے بارے میں بڑے بھونڈے اور بے دردانہ انداز میں لیا تھا۔ انسانوں کو سبق سکھانے اور ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے قدرت کے طریقے بھی عجیب و غریب ہیں۔ رہی پاکستانی قوم‘ تو وہ نہ پہلے مطمئن تھی اور نہ اب خائف اور دل گرفتہ۔
یہ اس جوہری تبدیلی کا کرشمہ ہے کہ اب قوم کو بتایا جارہا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی بھارت کے محور کے گرد (India Centric) نہیں گھومنی چاہیے۔ حالانکہ جنرل پرویز مشرف نہ معلوم‘ کب کے اپنی پالیسی کا محور بدل چکے ہیں۔ ان کے دور میں ہماری پالیسی خاص طور پر صرف ایک محور کے گرد گھوم رہی ہے اور وہ ہے امریکا کا حکم اور امریکا کا مفاد۔ اب امریکا کا فلسفہ یہ ہے کہ پاکستان عملاًغیرمتعلق (irrelevent) ہے‘ اسے بھارت کے حلقۂ اثر میں رہ کر ہی اپنا مستقبل سوچنا چاہیے اور بھارت کو ایک عالمی قوت بنانا ہے تاکہ وہ چین کے دائرۂ اثر کو روک سکے۔
امریکا اور بھارت کا ایٹمی معاہدہ اسی مقصد کے حصول اور کامیابی کی منزل کے لیے ایک زینے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی کو امریکی سفارت کار کہہ رہے ہیں کہ: It is no more a zero sum game (اس میں کسی کے لیے تخت یا تختے والی بات نہیں ہے)۔ اس لیے کہ اب بھارت امریکا کے لیے امریکی نائب وزیرخارجہ نکسن برن کے الفاظ میں singularly important (واحد اہم) ملک ہے اور بین الاقوامی امور کے بھارتی ماہرین بھی صاف سمجھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ: اس ہفتے سب سے بڑا جیتنے والا بھارت ہی نظر آرہا تھا۔ پاکستان کے حصے میں پشت پر ایک ہلکی سی تھپکی سے زیادہ کچھ نہیں آیا۔ (سومینی سین گپتا‘ نیویارک ٹائمز)
بھارت اور امریکا کے لیے بلاشبہہ یہ بہت بڑی کامیابی ہے___ لیکن پاکستان کے لیے بھی یہ ایک انداز میں ایک حقیقی کامیابی بن سکتی ہے بشرطیکہ اس آئینے میں پاکستان کی موجودہ قیادت اپنا اصل چہرہ دیکھنے کی زحمت کرے اور سمجھ جائے کہ نئے زمینی حقائق کیا ہیں اور کس نوعیت کی متبادل حکمت عملی کا تقاضا کرتے ہیں۔ اگر اب بھی ہم حالات کا معروضی جائزہ لے کر اپنا راستہ خود متعین کریں تو پھراس ناکامی سے حقیقی کامیابیوں اور سرفرازیوں کے کئی دَر وَا ہو سکتے ہیں۔ شکست کو فتح بناکر پیش کرنے والے تباہی کے غار میں جاگرتے ہیں اور شکست کو شکست سمجھ کر نئے عزم کے ساتھ اپنی منزل کی طرف گامزن ہونے والے تاریخ کے رخ کو بدلنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس وقت پاکستان ایک ایسے ہی فیصلہ کن لمحے (moment of truth) سے گزر رہا ہے۔
امریکا ایک سوپر پاور ضرور ہے لیکن کوئی سوپر پاور ہمیشہ سوپر پاور نہیں رہی۔ تاریخ بیسیوں سوپرپاورز کا قبرستان ہے اور امریکا تو اپنی قوت کے نقطۂ فراز سے نشیب کے سفر پر چل پڑا ہے۔ صدربش دنیا کی نگاہ میں اس وقت امریکی تاریخ کے سب سے ناکام اور ناپسندیدہ حکمران ہیں۔ خود امریکا میں ان کی شرح مقبولیت زمین کو چھو رہی ہے۔ اس وقت ۶۸ فی صد سے زیادہ امریکی ان کی کارکردگی سے غیرمطمئن ہیں۔ ادھر امریکا کا پبلک قرض مجموعی قومی پیداوار سے بڑھ گیا ہے۔ بیرونی قرضوں کا بوجھ ۴ ہزار بلین ڈالر سے متجاوز ہے۔ صرف بجٹ کا سالانہ خسارا ۲۲۰ بلین ڈالر اور تجارتی خسارا ۷۰۰ بلین ڈالر سے متجاوز ہے۔ افغانستان اور عراق میں وہ بری طرح پھنس گیا ہے اور نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا۔ جسے حقیقی معنی میں عالمی برادری کہاجاسکتا ہے وہ اس سے متنفر ہے اور ابھی ۱۸مارچ کو عراق پر حملے کے تین سال مکمل ہونے پر دنیاکے کونے کونے میں بشمول امریکا بش انتظامیہ کے خلاف بھرپور مظاہرے ہوئے ہیں۔
امریکا اور بھارت کے اپنے عزائم ہیں‘ لیکن پاکستان اور اُمت مسلمہ کے لیے اس کی گرفت سے آزاد ہوکر ایک خارجہ پالیسی اور ریاستی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے جو ایک ہی طاقت کی تابع فرمان بنے رہنے کے بجاے آزادی کے تصور پر مبنی ہو۔ اس میں یورپ‘ چین‘ لاطینی امریکا اور عالمِ اسلام کا بڑا اہم کردار ہوسکتا ہے۔ جاپان اور روس بھی اس میں اہم کارفرما قوتیں ہوں گی۔ محض ردّعمل (reactive)کی نہیں‘ پیش قدمی (pro-active) پر مبنی خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔ ملک کے لیے سب سے زیادہ خطرناک اور ناکام خارجہ پالیسی وہ ہے جو ذہنی مرعوبیت‘ مجبوری اور خوف کی بنیادوں پر استوار کی جائے۔ چھوٹا یا بڑا ملک ہونا کوئی مسئلہ نہیں۔ شمالی کوریا اور لبنان کوئی بڑے ملک نہیں۔ شام‘ ایران اور بیلاروس ہم سے بڑے ملک نہیں۔ سوئٹزرلینڈ‘ بلجیم‘ ہالینڈ‘سویڈن اور ناروے کوئی سوپر پاور نہیں لیکن اپنے اپنے قومی مفاد اور عزائم کی روشنی میں خارجہ پالیسی تشکیل دیتے ہیں۔ آخر ہم کیوں خوف اور مجبوری کے تحت اپنی پالیسیاں بنائیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو درحقیقت اس کی داخلہ پالیسیوں اور نظامِ حکمرانی کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں۔
ہماری خارجہ پالیسی ہو یا داخلہ پالیسی‘ اصل سانحہ ہی یہ ہے کہ ملک کے دستور کے تحت اداروں کے ذریعے پالیسی سازی کے بجاے‘ فردِواحد کی پریشان فکری اور کھلنڈرانہ افتادِ طبع کے تابع ہیں۔ فوج جس کا کام سول نظام کے تحت خدمت انجام دینے کا ہے‘ اس کی قیادت سیاست‘ معیشت‘ تعلیم‘ خارجہ پالیسی‘ ہر ایک میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کرگئی ہے۔یہ بھی ایک تلخ اور الم ناک حقیقت ہے کہ امریکا کا بلاواسطہ ربط فوج کی قیادت سے ۱۹۵۴ء سے کسی نہ کسی شکل میں ہے۔ امریکا کے جو پانچ صدر پاکستان آئے ہیں‘ فوجی حکمرانوں کے دور ہی میں آئے ہیں۔ وائٹ ہائوس اور شعبہ دفاع (پینٹاگون) کو جو کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے وہ جی ایچ کیو کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔ جنرل زینی اور جنرل فرینک کی خودنوشت پڑھ لیجیے۔ جس دور میں بھی جو کام امریکا کو کروانا ہوتا ہے وہ چیف آف اسٹاف کے توسط سے کراتا ہے‘ حتیٰ کہ ایمل کاسی کے بطور مجرم حوالگی (extradition ) کو بھی اسی راستے سے حاصل کیا گیا تھا۔ خارجہ پالیسی کی تشکیل میں نہ دفترخارجہ کا کلیدی کردار ہے‘ نہ کابینہ کا‘ اور نہ پارلیمنٹ اور سیاسی قیادتوں کا___ ڈورصرف ایک مقام سے ہل رہی ہے جسے MWA (ملٹری وہایٹ ہائوس الاینس)ہی کہا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلے اس کی اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ قوم کے نمایندے‘ قومی مشاورت اور گہرے سوچ بچار کے بعد‘ محض سلامتی کے نام پر نہیں بلکہ ملک و قوم کے مقاصد‘ عزائم‘ مفادات اور دیرپا ضروریات اور تقاضوں کی روشنی میں پالیسی سازی کرسکیں۔
پالیسی سازی کے طریق کار کی اصلاح کے ساتھ پالیسی کے خدوخال کو بھی ازسرنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکا سے دوستی اور ربط و تعلق ایک حقیقی ضرورت ہے اور اس سے نہ صرف کسی کو انکار نہیں بلکہ اسے خارجہ سیاست میں ایک مقام حاصل ہے اور ہونا چاہیے۔ البتہ صرف امریکا کو محور مان کر بنانے والی پالیسی تباہی کا راستہ ہے جس سے جلدازجلد نجات ضروری ہے۔
ہم اُلٹے پائوں بھاگنے کے بجاے صرف سمت کی ایسی تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ جس میںبجاطور پر پالیسی کا محور پاکستان ہو۔ ہماری پہلی ضرورت ہے: ذہن‘ سمت اور پالیسی کے پورے پس منظر کی تبدیلی۔ خارجہ پالیسی کے جن بنیادی پالیسی امور پر گہرے غوروخوض‘ کھلے مباحثے اور تمام متاثر ہونے والے عناصر (stake holders) بشمول فوجی قیادت کی سرگرم شرکت سے‘ نئے فیصلوں کی ضرورت ہے‘ وہ یہ ہیں:
۱- دہشت گردی کے خلاف امریکا کی نام نہاد جنگ میں پاکستان کا کردار۔ آج تک پاکستان کی ساری خارجہ پالیسی اسی ایک محور پر گھوم رہی ہے جس چکر میں امریکا نے ہمیں ڈال دیا ہے‘ اس سے نکلنا ضروری ہے۔ حقیقی دہشت گردی کے ہم خلاف ہیں لیکن کیا چیز دہشت گردی ہے اور کیا نہیں ہے اور جن اسباب‘ عوامل اور حالات کی اصلاح کے بغیر سیاست میں قوت کے استعمال کو قابو نہیں کیاجاسکتا ‘ان کے بارے میں موثر حکمت عملی کا بنایا جانا اور اس پر عمل ضروری ہے ورنہ پوری دنیا تباہی کی دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے اور عام انسانوں میں عدم تحفظ کا احساس تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ امریکا کے اشارے پر رقصِ بسمل کرنے کے بجاے سوچ سمجھ کر قومی و ملّی مفادات کے حصول کے لیے نئی پالیسی وضع کرنا ضروری ہے۔
۲- پاکستان کی افغان پالیسی آج تارتار ہے۔ مقتدر طبقے نے دوستوں کو دشمن بنالیا ہے اور جو محاذ محفوظ تھے ان کو غیرمحفوظ کردیا ہے۔ جو قربانیاں پاکستان نے گذشتہ ۲۵سال میں دیں‘ وہ رایگاں جارہی ہیں اور ہاتھ میں ہزیمت اور اتہامات کے سواکچھ نہیں۔ افغان پالیسی پر مکمل نظرثانی کی ضرورت ہے اور اسے مکمل طور پر عدم مداخلت کی بنیاد پر مرتب ہونا چاہیے۔ آج بھارت‘ افغانستان میں ایک ’سخت پاکستان دشمن‘ کردار ادا کر رہا ہے اور امریکا بھارت کے اس کردار کی تحسین کر رہا ہے۔ اسلام آباد اور کابل الزامات کا تبادلہ کر رہے ہیں اور معصوم پاکستانی سرحد کے اِس پار اور اُس پار مارے جارہے ہیں۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ اس ناکام اور نامراد پالیسی کو ختم کیا جائے اور حالات کے مطابق نئی پالیسی بنائی جائے ۔
۳- بھارت کے بارے میں بھی پالیسی کی تشکیلِ نو ضروری ہے۔ بھارت امریکا گٹھ جوڑ اور اس علاقے میں اسرائیل کے ایک کارفرما قوت بن جانے کے بعد ہماری پالیسی کے پرانے خطوط بے کار ہوگئے ہیں۔ کشمیر کے معاملے میں جو قلابازیاں فوجی حکمرانوں نے کھائی ہیں‘ اس نے کشمیر کے عوام اور مزاحمتی تحریک کو مایوس کیا ہے۔ تاہم ابھی وقت ہے کہ سنبھل کر بھارت سے تعلقات اور مسئلہ کشمیر پر ایک جامع پالیسی وضع کی جائے اور فوری نتائج سے زیادہ اصل مقاصد اور اہداف کی روشنی میں وسطی مدت اور طویل مدت کی حکمت عملی تیار کی جائے تاکہ پوری قوم اس کی پشت پر ہو۔
۴- ایران کے بارے میں بھی پالیسی کو واضح کرنے اور پاک ایران اتحاد کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ایران پر امریکی حملہ پاکستان پر حملے کا پیش خیمہ ہی نہیں‘ پاکستان پر ایک بھرپور وار ہوگا۔ اس وقت اس کی پیش بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس محاذ پر بھی پیش اِقدامی (pro-active) پالیسی کی ضرورت ہے۔
۵- چین سے ہمارے تعلقات استوار رہے ہیں۔ اگر کوئی ہمارا اسٹرے ٹیجک شراکت دار ہے تو وہ چین ہی ہے۔ اس کے ساتھ پالیسی کو زیادہ موثرانداز میں مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح یورپ‘ روس‘ جاپان اور جنوبی امریکا کے ممالک سے روابط اور پالیسیوں میں ہم آہنگی ضروری ہے۔
۶- سب سے بڑھ کر مسلم ممالک کی تنظیم (OIC) کو متحرک و منظم کرنا اور اسے موثر بنانا ضروری ہے۔ اس کے لیے بہترین حکمت عملی وہ ہے جسے ۱۰سال پہلے ترکی کے اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر نجم الدین اربکان نے ڈی-۸ کے منصوبے کے تحت پیش کیا تھا۔ آٹھ مسلمان ملک عالمِ اسلام کی طاقت کے مراکز ہیں۔ ان کا منظم ہونا‘ مل کر سیاسی‘ تعلیمی‘ معاشی اور دفاعی حکمت عملی تیار کرنا سب کی قوت کا ذریعہ ہوگا اور وسیع تر اسلامی اتحاد اور دنیا میں امن کا ذریعہ بنے گا۔
۷- توانائی اور پانی دو بڑے مسئلے ہیں جن پر مستقبل کی ترقی اور ملک کی آزادی کا انحصار ہے۔ ان کے بارے میں دُور رس پالیسی بنانا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں اُمت مسلمہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ دنیا کے توانائی کے وسائل کا ۸۰ فی صد مسلم دنیا کے پاس ہے۔ صحیح توانائی پالیسی سے ہم عالمی سیاست میں بڑا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
یہ سب کام اسی وقت ممکن ہیں جب پاکستان کا اندرونی نظام حکمرانی درست ہو۔ اپنے گھر کی اصلاح اور تنظیم نو کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں۔ ملک میں دستور کے تحت حقیقی جمہوری نظام کا قیام ازبس ضروری ہے۔ فوج کی بالادستی کے ذریعے جو نظام‘ پاکستان میں مسلط کیا گیا ہے‘ وہ ملک کے استحکام‘ فوج کی قوت اور عوام کی فلاح و بہبود کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ آج وزیرستان اور بلوچستان جس آگ میں جل رہے ہیں‘ اسے بجھائے بغیر اور سیاسی مسائل کو سیاسی حکمتِ عملی سے حل کیے بغیر‘ کوئی خیرحاصل نہیں کیاجاسکتا۔ اس لیے ملکی نظام کی اصلاح خود خارجہ سیاست کو درست کرنے کے لیے ضروری ہے۔
اسی طرح معیشت کا استحکام اور ترقی‘ تعلیم و تحقیق کا فروغ‘ جدید ٹکنالوجی کا حصول اور اسے مزید ترقی دینے کی مساعی اندرونی اصلاح کا اہم حصہ ہیں۔ یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب ایک مخصوص ٹولے کی بالادستی کو ختم کرکے ملک کے تمام دستوری اداروں کو متحرک کرنے‘ استحکام بخشنے اور ان کے ذریعے ملک کی ترقی کی راہیں ہموار کی جائیں۔
آج اگر پاکستانی قوم اور اس کی موجودہ قیادت صدر جارج بش کے دورے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ہزیمت اور بدنامی سے صحیح سبق سیکھ لے اور اپنا قبلہ درست کرلے‘ تو پھر یہ چرکا کوئی زخم نہیں چھوڑے گا بلکہ اصلاح اور بلندی کی طرف سفر کے لیے تازیانہ بن جائے گا۔ ایسے تازیانے قوموں کی زندگی میں بڑا تاریخی کردار ادا کرتے اور شکست کے مقابلے میں فتح کے دروازے کھول دیتے ہیں۔
کیا پاکستانی قوم اور قیادت اس شکست کو فتح میں تبدیل کرنے کے لیے تیار ہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جس طرح جنگ میں دشمن کے مقابلے کے لیے صحیح حکمت عملی کے تعین کے لیے ضروری ہے کہ نقشۂ جنگ اور محرکاتِ جنگ کو ٹھیک ٹھیک سمجھا جائے‘ بالکل اسی طرح فکری اور تہذیبی جنگ میں کامیابی کا انحصار بھی نقشۂ جنگ اور محرکاتِ جنگ دونوں کے صحیح ادراک پر ہے۔ آج ڈنمارک کے اخبار یولاند پوسٹن (Jyllands Posten) کے ۱۲ کارٹونوں کے ذریعے مغرب کے سورمائوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک‘ اسلام اور مسلمانوں کو تمسخر‘ تضحیک اور اہانت کا ہدف بناکر اور دہشت گردی کا منبع اور علامت قرار دے کر جس عالمی تہذیبی جنگ کا اعلان کیا ہے اس کی اصل نوعیت کو سمجھنا اور اس کے مقابلے کے لیے صحیح حکمت عملی بنانا فی الوقت دنیاے اسلام کا سب سے اہم مسئلہ بن گیا ہے۔
فطری طور پر مسلم عوام نے اپنے عالم گیر ردّعمل سے یہ ظاہر کردیا ہے کہ اُمت صرف مٹی کا ڈھیر نہیں ہے۔ اس میں ایمان اور غیرت کی وہ چنگاری بھی موجود ہے جو طاقت کے زعم میں بدمست اربابِ اقتدارکے متکبرانہ اقدامات کو چیلنج کرنے کا داعیہ رکھتی ہے اور جس میں ایسا شعلہ جوالہ بننے کی استعداد بھی ہے جو بڑے بڑے محل نشینوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
اُمت مسلمہ کا ردّعمل فوری بھی ہے اور فطری بھی‘ لیکن مسئلہ محض وقتی ردّعمل کا نہیں بلکہ مقابلے کی مکمل اور مربوط حکمت عملی اور ہرسطح پر اس کے مطابق پوری تیاری کے ساتھ مسلسل جدوجہد کا ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ان شیطانی کارٹونوں کے ذریعے اُمت مسلمہ کو جس تہذیبی کروسیڈ کا ہدف بنایا گیا ہے‘ اس کے اصل نقشے اور اس جنگ کے اسلوب‘ اہداف اور تمام محاذوں کو سمجھا جائے اور مقابلے کی تیاری کی جائے۔ جہاں فوری ردّعمل ضروری تھا‘ وہیں دوسرے تمام پہلوئوں کو نظرانداز کرکے محض جذباتی اظہارِ نفرت اور غیظ و غضب سے اس معرکے کو سر نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت گہرائی میں جاکر حالات کا صحیح ادراک کرے اور مقابلے کی حکمت عملی ان تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر طے کرے۔
مغرب کی استعماری قوتوں کا یہ خیال تھا کہ دوسری جنگ کے بعد جو عالمی نظام قائم ہوگا ‘وہ صرف امریکا اور یورپی اقوام کے سیاسی غلبے سے ہی عبارت نہیں ہوگا بلکہ پوری دنیا میں مغربی تہذیب‘ فلسفے‘ اقدار‘ معیشت اور اصول حکمرانی کا دور دورہ ہوگا۔ ان کا خیال تھا کہ مذہب کا دور اب ختم ہوچکا ہے اور لادینی تہذیب کو مادی اور عسکری غلبے کے ساتھ ساتھ فکری بالادستی بھی حاصل ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں وہ پوری انسانیت کو اپنے رنگ میں رنگ لے گی۔ امریکا اور روس کی سردجنگ ایک ہی تہذیب کے دو مرکزوں کی جنگ تھی جو بالآخر امریکا کی بالادستی پر منتج ہوئی اور جلد ہی روس میں بھی لبرلزم اور جمہوریت کی وہی آوازیں بلند ہونے لگیں جو امریکا اور نام نہاد آزاد دنیا کی شناخت تھیں۔ اس زمانے میں ڈیڑھ سو سے زیادہ نئے ملک دنیا کے سیاسی نقشے پر اُبھرے لیکن بظاہر ان کے پاس نہ تو کوئی اپنا نظریہ تھا اور نہ سیاسی‘ معاشی اور عسکری اعتبار سے وہ کوئی وزن رکھتے تھے اس لیے روس کے اشتراکی ڈھانچے کے تتر بتر ہوتے ہی صرف ایک نظریے اور ایک تہذیب کے عالمی غلبے کے خواب دیکھے جانے لگے___ لیکن اس میں ایک سدّراہ کی بھی نشان دہی کی جانے لگی یعنی اسلام، ’سیاسی اسلام‘ اور اُمت مسلمہ جو اپنا تہذیبی تشخص رکھے اور اس تشخص کے اظہار اور استحکام کے لیے اجتماعی نظام‘ قانون‘ معیشت‘ معاشرت‘ تمدن اور سیاسی قوت کی طلب گار ہو۔ یہی وجہ ہے کہ روس کے عالمی قوت کی حیثیت سے میدان سے باہر ہوتے ہی اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا آغاز ہوگیا۔
مغربی استعمار کے خلاف جنگ‘ بظاہر آزادی اور قوم پرستی کے نام پر ہورہی تھی اور حق خودارادیت اس کا محور تھا مگر اسلامی دنیا میں اس کی پشت پر جو سب سے قومی محرک تھا وہ اسلام اور اس کا دیا ہوا تصورِحیات تھا۔ تحریک پاکستان میں یہ پہلو زیادہ واضح اور کھلا کھلا تھا‘ جب کہ دوسرے ممالک میں اگرچہ یہ مؤثر طور پر موجود تھا۔ اصحابِ نظر اور تاریخ پر گہری نگاہ رکھنے والے بخوبی اس سے واقف تھے مگر اظہار اور اعلان کے اعتبار سے ہر جگہ اتنا نمایاں نہیں تھا۔ ولفریڈ اسمتھ اس حقیقت کا کھلا اعتراف کرتا ہے کہ:
جوں جوں آزادی کی تحریک عوام میں مقبول ہوتی چلی گئی ‘ اس کی پس پشت قوت کے طور پر مذہب سامنے آتا گیا۔ اگرچہ تحریک کے نظریات‘ ہیئت اور قائدین زیادہ تر مغربی انداز پر قوم پرستانہ خیالات کے حامل تھے‘ تاہم عام وابستگان اور ان کے اعمال اور احساسات میں نمایاں طور پر اسلامی رنگ کا غلبہ تھا۔ مسلم عوام نے قومیت کا کوئی ایسا تصور قبول نہیں کیا جو اسلام کے بندھنوں سے ماورا کسی برادری کے ساتھ وفاداری یا کسی اور تعلق پر مبنی ہو۔ (Islam in Modern History ‘ پرنسٹن ۱۹۵۷ئ‘ ص ۷۵-۷۷)
۱۹۷۹ء کے ایران کے اسلامی انقلاب‘ ۱۹۷۹ء تا۱۹۸۹ء کے جہاد افغانستان اور ۱۹۷۳ء کے بعد مسلم ممالک میں اسلامی تحریکات اور اتحاد اسلامی کی اجتماعی مساعی نے جہاں اُمت مسلمہ میں اپنے تشخص کی حفاظت اور اپنی اقدار اور تصورات کے مطابق اجتماعی زندگی کی نقشہ بندی کا احساس پیدا کیا‘ وہیں مغربی اقوام کے لیے یہ احساس اور یہ کوشش خطرے کی گھنٹی بن گئی اور اسلام کو مغربی اقوام کے سیاسی مقاصد کے حصول کی راہ میں ایک رکاوٹ اور خطرہ بناکر پیش کیا جانے لگا۔ اس سلسلے میں صہیونی اور امریکی اہلِ قلم نے کلیدی کردار ادا کیا جن میں برنارڈ لیوس‘ سیمویل ہن ٹنگٹن‘ ڈینیل پائپس‘ ہنری کسنجر اور فرانسس فوکویاما خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ ناین الیون کے بعد اسلام کوجس بے دردی سے دہشت گردی کا مذہب اور ہرمسلمان کو ایک بالقوہ دہشت گرد (potential terrorist) کے روپ میں پیش کیا جارہا ہے اس کے فکری ڈانڈے تہذیبی جنگ کے متذکرہ بالا اوّلین قائدین کے رشحاتِ قلم سے جاملتے ہیں۔ صدربش اور ان کے نیوکونز (neo-cons) کا پورا طائفہ مختلف انداز میں کبھی بالکل کھلے طور پر اور کبھی منافقانہ انداز میں اور شاطرانہ اسلوب میں یہی بات کہہ رہا ہے۔ صدربش کے اس سال کے خطاب بہ عنوان State of the Nation (جنوری ۲۰۰۶ئ) میں کھل کر کہا گیا ہے کہ ہمارا اصل مقابلہ ’سیاسی اسلام‘ (political Islam)اور اسلامی بنیاد پرستی (Islamic fundamentalism) سے ہے۔ اور یہی وہ مرکزی نکتہ ہے جو ہن ٹنگٹن نے پوری چابک دستی کے ساتھ مغرب کے پالیسی سازوں کے ذہن میں بٹھانے کی کوشش کی ہے‘ یعنی:
مغرب کا اصل مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی نہیں‘ خود اسلام ہے۔ یہ ایک مخصوص تہذیب ہے جس کے وابستگان اپنے تمدن کی برتری کے قائل ہیں اور اور اقتدار و اختیار سے محرومی کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اسلام کے لیے مسئلہ سی آئی اے یا امریکا کا محکمہ دفاع نہیں‘ مغرب ہے۔ یہ ایک مختلف (اور متصادم) تہذیب ہے جس کے داعی اپنی تہذیب کی آفاقیت کے قائل ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ ان کی (بظاہر زوال پذیر) مگر بالاتر طاقت تقاضا کرتی ہے کہ اس تمدن کو پوری دنیا میں پھیلا دیا جائے۔ یہ وہ بنیادی عناصر ہیں جو اسلام اور مغرب کے درمیان تنازعے میں جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔ (The Clash of Civilizations ،سیمویل پی ہن ٹنگٹن)
بات بہت واضح ہے۔ تصادم کی وجہ دو تہذیبوں کا اختلاف نہیں۔ مغرب کا یہ عزم ہے کہ اس کی تہذیب بالاتر ہے اور اسے دنیا میں بالادست ہونا چاہیے۔ جو چیز کش مکش اور تنازعے کو جنم دے رہی ہے اور پروان چڑھا رہی ہے وہ یہ تصور ہے کہ جو طاقت مغرب کو حاصل ہے‘ اس کا استعمال مغربی تہذیب کو ساری دنیا پر مسلط کرنے کے لیے ہونا چاہیے اور یہ گویا کہ ایک واجب اور فرض ہے جسے انجام دینا مغرب کی ذمہ داری ہے۔ مغرب کی حکمت عملی میں دو تہذیبوں کی بقاے باہمی اور تعاون اور ایک دوسرے کے احترام کا کوئی مقام نہیں‘ اور یہی وہ چیز ہے جو عالمی امن کے لیے خطرے اور جنگ و جدال کی راہ ہموار کرنے کا سبب ہے۔ قوت کے عدمِ توازن کی وجہ سے کمزور ممالک اور اقوام وہ راستے اختیار کرنے پر مجبور ہوتی ہیں جو برابربرابر کی جنگ سے مختلف ہیں۔
یہ ہے وہ فکری‘ تہذیبی اور عسکری نقشۂ جنگ جس میں:
یہ محض چند کارٹون نہیں بلکہ اِن کی اشاعت ایک وسیع تر مہم کا حصہ ہے‘ پوری اسلامی دنیا کے عقیدے اور تہذیب کے خلاف برملا اعلانِ جنگ ہے اور خودپسندی اور تکبر کے مقام بلند سے استہزا‘ تذلیل اور اہانت کے ہتھیاروں سے اُمت مسلمہ کی غیرت اور عزت پر حملہ ہے۔ اگر اس کا بروقت اور مؤثر جواب نہ دیا جاتا تو اس سے بڑا سانحہ اُمت کی تاریخ میں نہ ہوتا۔ مسلم عوام نے اپنی سیاسی کمزوری کے باوجود‘ اپنی غیرتِ ایمانی کا اظہار کر کے تاریخ کا ایک نیا باب رقم کیا ہے اور وقت کے فرعونوں‘ جابر حکمرانوں اور دوسروں کی عزت سے کھیلنے والوں کو چیلنج کیا ہے اور اُمت اپنے دین‘ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور ناموس کا دفاع اور اپنی تہذیب اور اقدار کے تحفظ کے لیے پوری سرفروشی کے ساتھ میدان میں اتر آئی ہے۔ یہ جنگ طویل ہے اور فیصلہ کن بھی___ فوری احتجاج‘ جلسے اور جلوس‘ سفارتوں کا انقطاع‘ سیاسی تنائو‘ معاشی بائیکاٹ اس کا صرف پہلا مرحلہ ہیں۔ بلاشبہہ یہ ناگزیر تھے اور دشمن کے اعلانِ جنگ کے بعد دعوت مبارزت قبول کرنے کا اوّلیں اقدام___ لیکن اصل جنگ فکری‘ تہذیبی‘ معاشی اور سیاسی ہے اور بہت طویل ہے۔ اس لیے ہر سطح پر اس میں شرکت‘ مقابلے کے لیے مناسب تیاری‘ اور صحیح حکمت عملی کے ذریعے بازی سر کرنے کی نقشہ بندی اُمت مسلمہ کی اوّلیں ضرورت ہے۔ ان تمام مراحل اور ان کے لیے وسائل اور ضروری تیاری (mobilization) کے بغیر اس جنگ کا جیتنا ممکن نہیں۔ اللہ پر بھروسا ہماری قوت ہے‘ اصل سرچشمہ ہے لیکن یہ بھی اللہ ہی کا حکم ہے کہ مقابلے کے لیے ایسی قوت بھی حاصل کرو جو مدمقابل پر ہیبت طاری کردے۔
وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ لَا تَعْلَمُوْنَھُمْ - (الانفال ۸:۶۰)
اور ان کے لیے جس حد تک کرسکو فوج اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو جس سے اللہ کے اور تمھارے ان دشمنوں پر تمھاری ہیبت طاری رہے اور ان کے علاوہ کچھ دوسروں پر بھی جنھیں تم نہیں جانتے ہو۔
یہ ۱۲ شیطانی کارٹون اتفاقی طور پر شائع نہیں ہوگئے۔ ان کا خاص پس منظر ہے۔ یولاند پوسٹن کے ثقافتی امور کے ایڈیٹر فلیمنگ روز (Flemming Rose)نے باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت اس فکری اور تہذیبی جنگ کا آغاز کیا۔ اس اقدام سے ایک سال پہلے وہ امریکا گیا اور وہاں اسلام دشمنی کی مہم چلانے والوں کے سرخیل ڈینیل پائپس سے خصوصی صلاح و مشورہ ہوا۔ ڈینیل پائپس پچھلے ۴۰ سال سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف قلمی جنگ کر رہا ہے۔ دسیوں کتابوں اور سیکڑوں مضامین کا مصنف ہے۔ صہیونی تحریک میں اونچا مقام رکھتا ہے اور فلسطینیوں کے بارے میں کھلے عام کہتاہے کہ ان کو فوجی قوت سے نیست و نابود کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں۔ صدربش نے اسے ایک ایسے تھنک ٹینک کا مشیر بنایا تھا جس کے مصارف سرکاری خزانے سے برداشت کیے جاتے ہیں۔ اس مشاورت کے نتیجے میں فلیمنگ روز نے کارٹون بنانے والے ۴۰افراد کو دعوت دی اور کہا کہ تم سب موضوعات پر کارٹون بناتے ہو اور شخصیات کا تمسخر بھی اُڑاتے ہو لیکن اسلام کو تم نے کبھی تختۂ مشق نہیں بنایا۔ تو اب اسلام کا چہرہ دکھانے کے لیے اپنے برش حرکت میں لائو۔ ان ۴۰میں سے ۱۲ افراد کے کارٹون ۳۰ستمبر ۲۰۰۵ء کی اشاعت میں The Painting of a Portrait of Islam's Prophet (پیغمبراسلام کی تصویر کا خاکہ) کے عنوان سے شائع کیے گئے اور اس دعویٰ سے کیے گئے کہ اس طرح مسلمانوں کی ’تنگ نظری‘ کا علاج ہوسکے گا۔ ان کارٹونوں کو ہر کسی نے ناخوش گوار‘ اشتعال انگیز اور توہین آمیز قراردیا۔ واشنگٹن پوسٹ نے انھیں a calculated insult (ایک نپی تلی توہین) قرار دیا مگر عالمِ اسلام کے تمام احتجاج کے باوجود ایڈیٹر‘ کارٹونسٹ‘ مغربی میڈیا کی اکثریت اوروہاں کی سیاسی قیادت نے آزادیِ صحافت‘ آزادیِ اظہار راے اور سیکولر جمہوریت کا سہارا لے کر ان کا دفاع کیا اور اب تک ان کی اشاعت کو غلطی تسلیم کرکے معذرت کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ مصلحت کے تحت جو بات کہی جارہی ہے وہ صرف یہ ہے کہ ہم نے تو جو کیا‘ وہ درست کیا تھا۔ افسوس صرف اس پر ہے کہ اس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ حالانکہ اصل مقصد ہی اسلام‘ اسلام کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو دہشت گرد دکھانا اور اُنھیں بے ہودہ جنسی مذاق کا نشانہ بنانا تھا۔ اب تک فلیمنگ روز کا دعویٰ ہے کہ I do not regret having commissioned these cartoons. (مجھے یہ کارٹون بنوانے پر کوئی افسوس نہیں ہے)۔
اسی طرح اصل کارٹونسٹ کرٹ ویسٹرگارڈ (Kurt Westergaard) کا بیان لندن کے اخبارات میں ۱۸ فروری کو شائع ہوا ہے۔ ہیرالڈ نامی رسالے کے استفسار پراس نے صاف کہا کہ کارٹونوں کا اصل محرک یہ دکھانا ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام [صلی اللہ علیہ وسلم] نعوذ باللہ دہشت گردی کی علامت ہیں۔
جب پوچھاگیا کہ کیا اسے ان کارٹونوں کی اشاعت پر افسوس ہے؟ اس نے صاف جواب دیا: نہیں۔ اس نے کہا کہ ان خاکوں کے پیچھے ایک جذبہ کارفرما تھا: دہشت گردی جسے اسلام سے روحانی اسلحہ فراہم ہوتا ہے۔ (اے ایف پی رپورٹ‘ ڈان، ۱۹ فروری ۲۰۰۶ئ)
ڈنمارک کے وزیراعظم نے پہلے ۱۱ مسلمان سفرا سے ملنے سے انکار کیا۔ جب ۲۷ مسلمان تنظیموں کے نمایندے ۱۷ہزار مسلمانوں کے دستخطوں سے ان کے خلاف احتجاج اس کو دینے گئے تو لینے سے انکار کردیا گیا اور اب سارے عالمی احتجاج کے باوجود ان کا موقف یہ ہے کہ یہ سب ایک جمہوری ملک میں آزادیِ اظہار کا مسئلہ ہے اور اصرار کے باوجود انھوں نے کھلے طور اسے غلطی ماننے اور صاف الفاظ میں مسلمانوں سے معافی مانگنے سے احتراز کیا ہے۔ الاھرام کے ایڈیٹر نے طرح طرح سے سوالات کیے مگر ڈنمارک کے وزیراعظم ٹس سے مس نہ ہوئے اور یہی کہتے رہے کہ: جو کچھ بھی شائع ہوا ہے ‘ اس کے لیے ڈنمارک کے عوام اور حکومت کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔(ہفت روزہ الاھرام، ۱۲ فروری ۲۰۰۶ئ)
نہ صرف ڈنمارک کے وزیراعظم اور وزیرخارجہ کا رویہ تکبر اور تعصب سے بھرا ہوا ہے بلکہ مسلمانوں کو طیش دلانے اور ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے ناروے‘ جرمنی‘ فرانس‘ اٹلی‘ اسپین اور خود امریکا کے چند اخبارات نے ان کارٹونوں کو شائع کیا۔ یورپین یونین کے صدر نے مسلمانوں سے ہمدردی کے اظہار کے ساتھ آزادیِ صحافت کے نام پر ان شیطانی کارٹونوں کی اشاعت کی مذمت سے انکار کیا بلکہ خود صدربش اور ٹونی بلیر نے اپنے خبث باطن کے اظہار کے لیے ڈنمارک کے وزیراعظم کو ٹیلی فون کر کے اپنے تعاون کا یقین دلایا جس نے ڈنمارک کے وزیراعظم کو یہ کہنے کا موقع دیا کہ Islamic World must realise we are not isolated (اسلامی دنیا کو محسوس کرنا چاہیے کہ ہم تنہا نہیں ہیں۔ انٹرویو‘ ڈیلی ٹائمز‘ ۱۴ فروری ۲۰۰۶ئ)۔
سارے حالات اورحقائق سے ظاہر ہے کہ یہ محض ڈنمارک کے ایک اخبار کی شرارت نہیں بلکہ ایک عالمی مہم ہے جس میں ڈنمارک کو ذریعہ بنایاگیا ہے اور سب کا ہدف اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانا اور اسلام کی سب سے مقدس شخصیت اور اللہ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور ان کو نعوذ باللہ دہشت گرد کے روپ میں دکھاکر مسلمانوں کو دہشت گردی کا منبع قرار دینا ہے۔ اسی طرح جہاد کو‘ جو انصاف کے قیام کی ضمانت‘ آزادی کا محافظ اور ظلم اور بیرونی قبضے کے خلاف مزاحمت کا ذریعہ ہے‘ دہشت گردی کا نام دے کر مسلمانوں کو تہذیبی ہی نہیں سیاسی اور معاشی غلامی کے جال میں پھنسانا ہے___ الحمدللہ! مسلمان اس شیطانی کھیل کو سمجھتے ہیں اور مسلمان حکمران خواہ کتنے بھی غافل ہوں بلکہ ان میں سے کچھ سامراجی قوتوں کے آلہ کار ہی کیوں نہ ہوں‘ لیکن مسلمان عوام اپنے دین‘ اپنے ایمان‘ اپنے نبیؐ کی عصمت اور عزت اور اپنے نظریۂ حیات کی بنیادی اقدار کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے کو تیار ہیں اور کوئی رکاوٹ اس جہاد میں ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔ دنیا کے ہر خطے سے احتجاج اُمت مسلمہ کی زندگی کی علامت ہے اور باطل کی قوتوں کے لیے اس میں واضح پیغام ہے کہ مسلمانوں کو نرم نوالا نہ سمجھا جائے۔
اس احتجاج کے نتیجے میں پہلی فتح مسلمانوں کو یہ حاصل ہوئی ہے کہ اب سب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کارٹون نامناسب تھے‘ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والے تھے‘ اور بدذوقی ہی نہیں بدکلامی‘ تضحیک اور عزت پر حملے کے مترادف تھے___ لیکن اس اعتراف کے باوجود دو دعوے پورے تسلسل سے اور ڈھٹائی کے ساتھ کیے جارہے ہیں اور ایک جوابی اعتراض کی شکل میں مزید داغا جا رہا ہے جن کا جائزہ ضروری ہے۔
پہلا دعویٰ یہ ہے کہ مغربی معاشرے کی بنیاد اظہار راے کی آزادی یعنی آزادیِ صحافت پر ہے اور اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔ دوسرے الفاظ میں گو ان شیطانی خاکوں سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور ایسا عالم گیر احتجاج رونما ہوا ہے جس میں بیسیوں افراد شہید ہوگئے ہیں اور اربوں کا نقصان ہوا ہے لیکن پھر بھی مغربی ممالک اور حکومتوں کے لیے اظہار راے کی تحدید ممکن نہیں اور خوداحتسابی (self-censorship) کے علاوہ کوئی راستہ ایسے شیطانی حملوںکو روکنے کا نہیں۔ اظہار راے اور آزادیِ صحافت پر پابندی مغربی معاشرے و تہذیب کی بنیادی اقدار کے منافی ہوگی۔
دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ مغربی تہذیب کی بنیاد سیکولرزم پر ہے اور مسلم معاشرہ مذہبی اقدار پر ایمان رکھتا ہے۔ سیکولرزم میں مذہب اور مذہبی شخصیات کا مذاق اڑانا ایک معمول ہے‘ جب کہ مسلمان اس کے عادی نہیں اور اسی وجہ سے یہ تصادم کی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔ یہ دو رویوں (attitudes) کا معاملہ ہے اور سوسائٹی کے بارے میں دو تصورات کا اختلاف ہے___ اور دعویٰ یہ ہے کہ سیکولرزم میں ایسا ہی ہوتا ہے اور ہوگا اور مسلمانوں کو اگر سیکولر معاشرے میں رہنا ہے تو اس کو گوارا کرنا ہوگا۔
تیسری بات کا تعلق احتجاج کی اس نوعیت سے ہے جو چند ملکوں میں رونما ہوئی ہے اور اس میں تشدد کا عنصر آگیا جس سے بہت سی جانوں اور مال کاضیاع ہوا ہے۔ نیز مغربی ممالک کے نقطۂ نظر سے معاشی بائیکاٹ بھی احتجاج کی ایک ناقابلِ قبول صورت ہے اور یورپی یونین نے اس صورتِ حال میں عالمی تنظیم تجارت (WTO) سے دادرسی تک کی دھمکی دی ہے۔
ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں امور کا بے لاگ جائزہ لیا جائے اور مغرب کے دانش وروں‘ اہل قلم‘ صحافیوں اور سیاسی قائدین کے ان بیانات کا علمی تعاقب کیا جائے۔
آزادیِ اظہار راے اور آزادیِ صحافت پر مغربی اقوام اپنی اجارہ داری کا کیسا ہی دعویٰ کریں‘ حقیقت یہ ہے کہ ان کا تعلق ہمیشہ سے انسانی معاشرے اور تہذیب سے رہا ہے اور یہ ان کی ایجاد نہیں۔ آج بلاشبہہ مغربی ممالک میں ان اقدار کا بالعموم اہتمام و احترام ہو رہا ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ انھی ممالک میں ان آزادیوں کا خون نہ کیا جا رہا ہو۔ دنیا کی تمام تہذیبوں میں اپنے اپنے زمانے میں آزادیِ اظہار کا ایک مرکزی مقام رہا ہے گو اس کے آداب اور اظہار کے طریقوں میں فرق رہا ہے۔اسلام نے اوّل دن سے آزادیِ اظہار کو ایک بنیادی انسانی ضرورت اور قدر کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزادی دے کر پیدا کیا ہے اور وہ اس آزادی کو اس حد تک بھی لے جاسکتا ہے کہ خود اپنے خالق کا انکار کر دے۔ بلاشبہہ اس انکارکے نتائج اس کو بھگتنے پڑیں گے مگر انکار کا حق اسے دیا گیا ہے۔ مغرب کو زعم ہے کہ روسو نے یہ کہا تھا کہ Man is born free, but is everywhere in chains.(انسان آزاد پیدا ہوا‘ لیکن ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے)۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ آزادی کا تصور وحی الٰہی پر مبنی ہے اور قرآن اس کا جامع بیان ہے۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ حجۃ الوداع (۹ہجری) تاریخ کا پہلا چارٹر ہے اور سیدنا حضرت عمررضی اللہ عنہ نے روسو سے بارہ سو سال پہلے فرمایا تھا کہ تم نے انسانوں کو غلام کب سے بنا لیا؟ ان کی مائوں نے انھیں آزاد جنا تھا۔
قولوا قولاً سدیدا کا حکم دے کر قرآن نے آزادیِ اظہار کا دستوری حق تمام انسانوں کو دیا۔ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کے اصول میں مذہبی رواداری اور حقیقی تکثیریت (genuine plurality) کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کو تسلیم کیا گیا۔ امرھم شورٰی بینھم کے ذریعے پورے اجتماعی نظام کو آزادی‘ مشاورت اور حقیقی جمہوریت سے روشناس کرایا گیا۔ حکمرانوں سے اختلاف کے حق کو فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللّٰہ ورسولہ کے فرمان کے ذریعے قانون کا مقام دے دیاگیا۔ آزادیِ اظہار پر مغرب کی اجارہ داری کا دعویٰ تاریخ کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
I am free to move my hand but the freedom of my hand ends where your nose begins.
میں اپنے ہاتھ کو حرکت دینے میں آزاد ہوں‘ لیکن جہاں سے تمھاری ناک شروع ہوتی ہے‘ میرے ہاتھ کی آزادی ختم ہوجاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آزادی اور انارکی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ آزادی اگر حدود سے آزاد ہوجائے تو پھر انارکی بن جاتی ہے اور دوسروں کے حقوق پامال ہوتے ہیں۔ آزادی اور ذمہ داری اور آزادی اور حدود کی پاس داری لازم و ملزوم ہیں۔ آزادیِ اظہار کے نام پر نہ تو دوسروں کی آزادی اور حقوق کو پامال کیا جاسکتا ہے اور نہ آزادیِ اظہار کو دوسروں کی عزت سے کھیلنے اور ان کے کردار کو مجروح کرنے کا ذریعہ بننے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نظام میں آزادی کو قانونی‘ اخلاقی اور ملکی سلامتی کی حدود میں پابند کیا جاتاہے۔ جان‘ مال‘ عزت و آبرو کی حفاظت کے فریم ورک ہی میں آزادی کارفرما ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی سلامتی‘ معاشرے کی بنیادی اقدار کا تحفظ اور شخصی عزت و عفت کا احترام ہر نظام قانون کا حصہ ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر آف ہیومن رائٹس بھی آزادی اور حقوق کو ملکی قانون اور معاشرے کی اقدار سے غیرمنسلک (delink) نہیں کرتا۔
آزادیِ اظہار کا حق غیرمحدود نہیں ہے۔ عالمی ضابطہ براے شہری اور سیاسی حقوق (International Convention on Civil and Political Rights - ICCPR) اس آزادی کو صاف الفاظ میں تین چیزوں سے مشروط کرتا ہے‘ یعنی امن عامہ‘ صحت اور اخلاق کو قائم رکھنا (maintenance of public order, health and morals) ۔اس کے نفاذ کے لیے ہر ملک اپنا قانون بناتا ہے لیکن عالمی سطح پر بھی کچھ اہم ضوابط (conventions) ہیں اور دنیا کے بیش تر ممالک نے ان کی توثیق کی ہے اور وہ بین الاقوامی قانون کا حصہ ہیں۔ اس سلسلے میں ایک عالمی ضابطہ نسلی امتیاز کی تمام شکلوں کے خاتمے کے لیے (International Convention on Elimination of All Forms of Racial Discrimination -ICERD ) ہے جس کے ذریعے نسلی تفاخر‘ نفرت اور نسلی تفریق کے فروغ کو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور اس قانون کے تحت لازم کیا گیا ہے کہ تمام ممالک ان لوگوں کوسزا دیں جو نسلی اور گروہی منافرت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میںعالمی سطح پر نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے ایک کمیٹی (The Committee on the Elimination of Racial Discrimination -CERD) ہے جو متذکرہ بالا قانون (ICERD) کے نفاذ کی نگرانی کرتی ہے۔ اس کمیٹی کی عمومی ہدایات (xv of CERD) یہ ہیں کہ:
ملکی جماعتوں کے لیے لازمی ہے کہ نسلی تفاخر یا نسلی منافرت پر اُکسانے کو قابلِ تعزیر جرم قرار دیں۔ کسی بھی قسم کی قومی‘ نسلی یا مذہبی منافرت کی وکالت جسے نسلی امتیاز پر اُبھارنا قرار دیا جاسکے‘ قانوناً ممنوع ہوگی۔ اس طرح کی تعزیر اظہار راے کی آزادی سے مطابقت رکھتی ہے۔ ان فرائض کو ادا کرنے کے لیے سرکاری پارٹیاں نہ صرف مناسب قانون سازی کریں گی بلکہ اس کے نفاذ کو یقینی بنائیں گی۔ کسی شہری کا آزادی اظہارراے کا یہ حق خصوصی ذمہ داری اور فرائض رکھتا ہے۔ (عمومی سفارش نمبر۱۵‘ سی ای آر ڈی)
اسی طرح انسانی حقوق کی کمیٹی (Human Rights Committee -HRC) ہے جس نے درجنوں رپورٹیں تیار کی ہیں اور ان میں وہ رپورٹ بھی موجود ہے جس میں آزادی کے اظہار کی حدود کا واضح تعین کردیا گیا ہے اس لیے کہ اوپر مذکورہ کنونشن کی دفعہ (۲) ۲۰ میں مرقوم ہے کہ: آزادی اظہار راے کے حق کا استعمال اپنے ساتھ خصوصی فرائض اور ذمہ داریاں رکھتا ہے۔ (آرٹیکل ۲۰ [۲۵])
ایسے بیانات پر‘ جو یہودیت دشمن جذبات کو اُبھاریں یا انھیں تقویت دیں‘ پابندیوں کی اجازت ہوگی تاکہ یہودی آبادیوں کے مذہبی منافرت سے تحفظ کے حق کو بالادست بنایا جاسکے۔
اظہار راے کی آزادی کے اس حق کا اطلاق ان معلومات اور نظریات پر بھی ہوگا جو ریاست یاآبادی کے کسی حصے کو ناراض کریں‘ صدمہ پہنچائیں یا پریشان کریں۔ کثیرالقومیتی معاشرت اور رواداری کے یہی تقاضے ہیں جن کو پورا کیے بغیر کوئی جمہوری معاشرہ قائم نہیں ہوتا۔ (Hyndyside کیس)
دفعہ ۹ میں کسی مذہب کے ماننے والوں کے مذہبی احساسات کے احترام کی جو ضمانت دی گئی ہے‘ بجاطور پر کہا جا سکتا ہو کہ مذہبی احترام کی علامات کو اشتعال انگیز انداز میں پیش کر کے اس کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ مذہبی احترام کی ان علامات کا اس طرح سے پیش کرنا اس رواداری کے جذبے کی بدنیتی سے خلاف ورزی قرار دی جاسکے جو ایک جمہوری معاشرے کی خصوصیت ہونا چاہیے۔
مذہبی عقائد کی جس انداز سے مخالفت کی جائے یا انکار کیا جائے‘ اس کا جائزہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے‘ یہ ذمہ داری کہ خاص طور پر دفعہ ۹ کے تحت جس حق کی ضمانت دی گئی ہے اسے ان عقائد کے علم بردار پُرامن طور پر استعمال کرسکیں۔
عدالت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی ایسے فرد پر پابندی لگا دے جو کسی مذہب کی مخالفت یا انکار میں اس طرح کے خیالات کا اظہار کرتا ہے تاکہ جہاں تک ممکن ہو‘ ان خیالات سے بچا جاسکے جو دوسروں کے لیے اشتعال انگیز ہوں۔ (Otto Preminger Institut vs Austria)
مذہبی تقدس کی حامل باتوں کا اشتعال انگیز اور پُرتشدد طور پر پیش کرنا دفعہ ۹ کے تحت دیے گئے حقوق کی خلاف ورزی شمار ہوسکتا ہے۔ ریاست کا یہ فریضہ ہے کہ عقائد کے بارے میں حساس اقلیتوں کو حملے سے تحفظ دے۔ ریاست کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ کسی حق کے استعمال کو کسی قاعدے میں لانے کے لیے کسی فرد کی اظہار راے آزادی میں مداخلت کرے۔ ریاست کا یہ فریضہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ افراد اور سرکاری اداروں کے درمیان تعلقات کے دائرے میں مذہبی احترام کو یقینی بنائے۔ اس فریضے کومناسب ترقی دینے سے ہی یہ ممکن ہے کہ یورپی کنونشن برطانیہ میں اقلیتی مذاہب کو آگے بڑھانے میں اہم کردارادا کرسکے۔
بین الاقوامی قانونی اور عالمی عدالتوں کے فیصلے اس سلسلے میں بالکل واضح ہیں اور کوئی جمہوری ملک محض جمہوریت اور آزادیِ اظہار و صحافت کے نام پر مذہبی منافرت‘ مذہبی شخصیات کی تذلیل اور تضحیک اور کسی انسانی گروہ کے جذبات سے مذہبی‘ تہذیبی یا لسانی اہداف کو تحقیر اور تمسخر کا نشانہ بناکر کھیلنے کا حق نہیں رکھتا اور اس سلسلے میں معاملہ صرف خوداحتسابی کا نہیں‘ بلکہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ افراد‘ گروہوں اور برادریوں کے اس حق کا تحفظ کریں۔
خود ڈنمارک کا قانون اس باب میں خاموش نہیں ہے۔ اس ملک میں مذہبی عقائد‘ شعائر اور شخصیات کی عزت کے تحفظ کے لیے ناموسِ مذہب کا قانون (Blasphemy law) صدیوں سے موجود ہے۔ اسی طرح ہر فرد کی عزت کے تحفظ کے لیے Law of Libel and Slander موجود ہے۔ پھر ملک کے قانون فوج داری میں صاف صاف ایسی تمام حرکتوں کو قابل دست اندازی جرم قرار دیا گیا ہے جو دوسرے کی تذلیل اور ان کے جذبات کو مجروح کرنے والے اور مختلف گروہوں اور برادریوں کے خلاف امتیازی سلوک کے مرتکب ہوں۔ ڈنمارک کے ضابطۂ فوج داری کی دفعہ ۱۴۰ اس طرح ہے:
جو لوگ کسی مذہبی برادری کی عبادات اور مسلّمہ عقائد کا کھلا مذاق اڑائیں یا ان کی توہین کریں‘ ان کو جرمانے یا چار ماہ کی قید کی سزا دی جائے گی۔
کوئی بھی فرد جو کھلے عام یا وسیع تر حلقے میں پھیلانے کی نیت سے کوئی بیان دے یا کوئی اور معلومات پہنچائے جس کے ذریعے وہ لوگوں کے کسی گروہ کو ان کی نسل‘ رنگ یا قومی و نسلی عصبیت‘عقیدے یا جنس کی بنیاد پر دھمکی دے‘ توہین کرے‘ یا تذلیل کرے وہ جرمانے‘ سادہ حراست یا دوسال سے کم قید کی سزا کا مستحق ہوگا۔
یہ خود اس ملک کا قانون ہے جس میں مسلمانوں کے ایمان کے ساتھ یہ گھنائونا کھیل کھیلا جارہا ہے اور جس کا دفاع آزادیِ اظہار کے نام پر کرنے کی جرات مغربی اقوام کے دانش ور اور سیاسی قائد کر رہے ہیں۔
بات صرف قانون اور نظری حیثیت کی نہیں‘ اگر ان ممالک کے تعامل پر نگاہ ڈالی جائے تو صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ معاملہ مذہبی امتیاز (religious discrimination) کا ہے۔ اسی اخبار کے ایڈیٹر نے ۲۰۰۳ء میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہتک آمیز کارٹون چھاپنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ قارئین ان خاکوں کو اچھا سمجھیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا خیال ہے کہ اس سے ہنگامہ برپا ہوجائے گا۔ اس لیے میں انھیں استعمال نہیں کروں گا۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف یہ شرمناک اور ہتک آمیز کارٹون شائع کرنے کے بعد جب احتجاج ہوا اور ایران نے جرمنی کے ہولوکاسٹ کے بارے میں کارٹون بنانے کی دعوت دی تو اس اخبار کے کلچرل ایڈیٹر فلیمنگ روز نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا عندیہ دیا کہ وہ ہولوکاسٹ پر بھی کارٹون شائع کرے گا۔ لیکن اس اعلان کے فوراً بعد اخبار کے ایڈیٹر نے اس کی تردید کی اور ساتھ ہی فلیمنگ روز کو طویل رخصت پر بھیج دیا۔ آج یورپ کے کم از کم سات ممالک میںقانونی طور پر ہولوکاسٹ کو چیلنج کرنا جرم ہے اور آسٹریا میں تاریخ کا ایک پروفیسر ڈیوڈ ارونگ (David Irving) جیل میں اس لیے بند ہے کہ اس نے برسوں پہلے ہولوکاسٹ کے بارے میں دیے جانے والے اعداد وشمار کو چیلنج کیا تھا اور اب اسے تین سال کی سزا ہوگئی ہے حالاںکہ اس نے عدالت کے سامنے بیان دیا کہ مجھے غلط فہمی ہوئی تھی اور میں نے اپنے خیالات سے رجوع کرلیا ہے___ وہ آسٹریا کا باشندہ بھی نہیں مگر اس کو آسٹریا میں سزا دی گئی ہے۔ اسرائیل میں باقاعدہ قانون ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی شخصی ہولوکاسٹ کو چیلنج کرے تو اسرائیل کو حق ہے‘ اسے اغوا کر کے لے آئے اور اس کو سزا دے۔ انگلستان کے اخبار انڈی پنڈنٹ نے کسی نبی یا یہودی مذہبی لیڈر نہیں ایک دہشت گرد جرنیل ایریل شیرون کے بارے میں ایک کارٹون شائع کیا تھا جس میں اسے فلسطینی بچوں کا خون چوستے دکھایا گیا تھاجس پر ساری دنیا میں ہنگامہ ہوگیا تھا۔ برطانوی یہودیوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا اور جرمنی کے اخبار نے اس کارٹون کو چھاپنے سے انکار کردیا تھا۔ فرانس میں حضرت عیسٰی علیہ السلام پر ایک فلم میں رکیک جنسی حوالوں کی وجہ سے ہنگامے ہوئے‘ ایک سینما کو آگ لگا دی گئی اور ایک شخص جل کر مرگیا۔ آج یورپی ممالک میں گھر میں بلندآواز سے میوزک سننا منع ہے کہ ا س سے پڑوسیوں کی سمع خراشی ہوتی ہے۔ سڑک پر ہارن بجانا خلافِ قانون ہے اور گاڑی میں زور سے گانا نہیں سنا جاسکتا مگر دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات پر نشترچلانے کی آزادی ہے اور اس کا دفاع بھی جمہوریت کے نام پر کیا جاتا ہے___ کیا آزادی کے ایسے تباہ کن تصور کو‘ جو دراصل فسطائیت کی ایک ’مہذب‘ (sophisticated) شکل ہے‘ ٹھنڈے پیٹوں قبول کیا جا سکتا ہے؟
مسلمانوں کو تحمل اور برداشت کا درس دینے والوں کوا پنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے اور سمجھ لینا چاہیے کہ ظلم کی سرپرستی اور ترویج کا اس سے بھی بہتر کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا۔ ظلم کا استیصال تو اسے چیلنج کرکے اور مزاحمت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
دوسرا دعویٰ سیکولرزم کے نام پر کیا جا رہا ہے جو انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ تم مذہبی لوگ ہو اور ہم سیکولر ہیں۔ ہمیں مذہب کا مذاق اڑانے کا حق ہے۔ سیکولرزم کے چہرے کو بگاڑنے کی اس سے زیادہ قبیح صورت اور کیا ہوسکتی ہے۔ سیکولرزم کے اس اصول سے مسلمانوںکو ہی نہیں‘ تمام اہل مذہب بلکہ ابدی اخلاقی اقدار کے تمام ماننے والوں کو اختلاف ہے‘ وہ یہ ہے کہ دین و مذہب‘ الہامی ہدایت اور ابدی اقدار کا سیاسی اور اجتماعی زندگی میں کوئی کردار نہیں اور محض انسانوں کے ووٹ سے ہوائوں کے رخ کو دیکھ کر حق و باطل اور خیروشر کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ یہ وہ خطرناک نظریہ ہے جو سیکولرزم کی اساس ہے اور ہمیں اس سے بنیادی اختلاف ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ جس طرح آج ہم جنسی کو محض راے عامہ کی بنیاد پر جائز قرار دے دیا گیا ہے‘ کل کچھ انسانوں کے بنیادی حقوق کو بھی باطل قرار دیا جا سکتاہے ۔ عملاً مذہب کے ماننے والوں کو تفریق اور امتیاز کا نشانہ بنایا جارہا ہے جیساکہ فرانس میں خواتین کو اسکارف استعمال کرنے کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ مذہب نے کچھ ابدی اقداردی ہیں جنھیں محض ووٹ سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں ہمارا اور سیکولرزم کا بنیادی اختلاف ہے۔ سیکولرزم کا دوسرا ستون رواداری اور خصوصیت سے مذہبی کثرتیت (religious plurality) کا تصور ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں مذہب کے ماننے والوں کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کلچر اور ملکی روایات کی بنیاد پر اپنے مذہبی شعائر سے محروم کیا جاسکتا ہے۔ مذہبی رواداری کے معنی ہی یہ ہیں کہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کے مساوی مواقع حاصل ہوں اور اس کا لازمی تقاضا دوسرے مذاہب کا احترام ہے۔ ان کے عقائد‘ شعائر‘ عبادات اور بنیادی مظاہر کو تحقیر‘ تذلیل اور تضحیک کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ علمی انداز میں ہر موضوع پر بحث و اختلاف ہوسکتا ہے۔ لیکن سیکولرزم کے نام پر دوسرے مذاہب کی تضحیک اور تمسخر سیکولرزم کا نہیں فسطائیت اور شیونزم کا خاصا ہے اور آج سیکولرزم کے نام پر یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے جو خود سیکولرزم کے بنیادی اصولوں کی نفی ہے۔ مسئلہ نہ آزادیِ اظہار کا ہے اور نہ سیکولرزم کا‘ بلکہ ایک گہرے تہذیبی تعصب‘ طاقت کے نشے میں رعونت اور دوسروں پر اپنی اقدار اور عادات کو مسلط کرنے کی شرمناک کوشش کا ہے جو اب ایک اجتماعی جنگ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ ڈنمارک میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جس طرح اس کی پشت پناہی کی جارہی ہے وہ اس خطرناک کھیل کا حصہ ہے۔
یہ سیکولرزم بمقابلہ اسلام کا مسئلہ نہیں ہے۔ مسلمانوں کے لیے رسولؐ اللہ وہ شخصیت ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ سے براہِ راست کلامِ ربانی وصول کیا۔ ہم اپنے پیشوائوں اور نبیوں کو تاریخی شخصیات سمجھتے ہیں جو ہمارے انسانی حقوق کے جدید تصورات اور آزادیوں کے مدمقابل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارتے ہیں‘ ہم نہیں گزارتے ہیں۔ انھوں نے تاریخ کے اَن گنت نشیب و فراز میں اپنے عقیدے کو محفوظ رکھا ہے۔ ہم اپنا عقیدہ کھو چکے ہیں۔ اسی لیے ہم اسلام کے مقابلے پر مغرب کی بات کرتے ہیں بجاے اس کے کہ اسلام کے مقابلے پر عیسائیت کی بات کرتے۔ اس لیے کہ یورپ میں عیسائی زیادہ تعداد میں نہیں بچے ہیں۔ ہم اس بات سے باہر نہیں نکل سکتے کہ دنیا کے تمام مذاہب کو سامنے لے آئیں اور کہا جائے کہ ہمیں کیوں رسولؐ کا مذاق نہیں اڑانے دیا جا رہا ہے؟
اس بات پر کچھ تعجب کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ڈنمارک کے عوام اور ان کی حکومت اس اخبار اور اس کے اس فیصلے کی کہ‘ پیغمبر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے خاکے شائع کیے جائیں‘ پشت پناہی کررہے ہیں۔ کیا ڈنمارک کے لوگوں کے بارے میں نہیںسوچا جاتا کہ وہ عموماً غیرمعمولی طور پر روادار اور دوسروں کا احترام کرنے والی قوم ہیں؟
غیرملکی جس بات کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں وہ یہ ہے کہ گذشتہ کچھ برسوں سے ہم ڈنمارک کے لوگوں میں غیرملکیوں سے نفرت و حقارت کے جذبے میں اضافہ ہو رہاہے۔ میرے خیال میں‘ کارٹونوں کی اشاعت کا خود احتسابی اور آزادیِ اظہار کی بحث شروع کرنے میں بہت کم حصہ ہے۔ اسے صرف ڈنمارک میں کسی بھی مسلم شعار کے خلاف متعدی دشمنی کی فضا کے سیاق میں سمجھا جا سکتا ہے۔
ڈنمارک میں ۲ لاکھ سے زیادہ مسلمان ہیں‘ جب کہ ملک کی کُل آبادی ۵۴ لاکھ ہے۔ چند عشرے پہلے‘ ڈنمارک میں ایک بھی مسلمان نہ تھا۔ اس پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ بہت سے مقامی لوگ اسلام کو ڈنمارک کی ثقافت و تمدن کی بقا کے لیے ایک خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
۲۰ برس قبل‘ مسلمانوں کو کوپن ہیگن میں مسجد کی تعمیر کے لیے اجازت نہ دی جاتی تھی۔ مزیدبرآں‘ ڈنمارک میںمسلمانوں کے لیے کوئی قبرستان بھی نہیں ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ وہ مسلمان جن کا یہاں انتقال ہوجائے ان کی مناسب تدفین کے لیے ان کی میتوں کو ان کے ملکوں کو واپس بھجوانا ہوتا ہے۔
امریکا کے دائیں اور بائیں بازو کے لوگ آپس میں زیادہ باتوں پر اتفاق نہیں رکھتے۔ لیکن ہفتوں کے مظاہروں اور سفارت خانوں کی آتش زدگی نے دونوں کو ایک نکتے کی طرف دھکیل دیا ہے: اگر تہذیبوں میں تصادم نہیں ہے تب بھی کم سے کم مغربی دنیا اور مسلم دنیا میں ایک بہت بڑا خلا ہے۔
خوش قسمتی سے اس خلا کے حجم میں مبالغہ کیا جا رہا ہے۔ ڈنمارک کے ان کارٹونوں پر مسلمانوں کا شوروغوغا امریکی کلچر کے لیے اتنا اجنبی نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں۔ ایک دفعہ آپ اسے دیکھیں تو ایک معقول اور بنیادی طور پر امریکی ردّعمل سامنے آتا ہے۔ بہت سے امریکی جو کارٹون کی اشاعت کی مذمت کرتے ہیں اس موقف کو تسلیم کرتے ہیں جو ڈنمارک کے اخبار کے اب مشہورزمانہ ایڈیٹر نے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مغرب میں ہم عام طور پر مخصوص مفادات کے حامل گروہوں کو یہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ ہم کو خوف زدہ کر کے اس بات کے لیے آمادہ کریں جسے خوداحتسابی کہا جاتا ہے۔
یہ کتنی واہیات بات ہے۔ بڑے بڑے امریکی میڈیا کے ایڈیٹر خصوصاً نسلی اور مذہبی مفادات کے حامل گروہوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے بچنے کے لیے بہت سے الفاظ‘ جملے اور تصاویر حذف کردیتے ہیں۔ مثالیں پیش کرنا مشکل ہیں اس لیے کہ ان کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا مگر آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں۔ ایک عیسائی مبلغ (ہیوج ہیوٹ) نے پیغمبرمحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کارٹونوں کے مقابلے میں ایک مناسب مثال پیش کی: اسقاطِ حمل کے ایک کلینک پر بم باری کے بعد حضرت عیسٰی ؑکے کانٹوں بھرے تاج کا کارٹون جس میں کانٹوں کو ٹی این ٹی کی سلاخوں میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ایسا کارٹون بہت سے امریکی عیسائیوں کے جذبات کو مجروح کرسکتا تھا۔ یہی ایک وجہ ہے کہ ایسا کوئی کارٹون کسی بڑے امریکی اخبار میں نہیں دیکھا گیا۔
رابرٹ رائٹ نے اس اعتراض کا بھی بھرپور جواب دیا ہے جو مغرب کے دانش ور مسلمانوں کے مظاہروں میں تشدد کے عنصر سے آجانے پر کر رہے ہیں۔ ہم بھی تشدد کو کسی اعتبار سے صحیح نہیں سمجھتے بلکہ اپنے مقصد کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ لیکن انسانی حقائق سے صرفِ نظر بھی ممکن نہیں۔ اس اعتراض کا جواب ہم خود دینے کے بجاے رابرٹ رائٹ کے مضمون کا متعلقہ حصہ دینا مناسب سمجھتے ہیں:
جوں جوں اس واقعے کے بارے میں تفصیلات ہمارے سامنے آرہی ہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک بے ساختہ اشتعال انگیزی نہیں تھا۔ کارٹونوں کے خلاف مسلمانوں کا فوری ردّعمل تشدد کا نہیں تھا بلکہ ڈنمارک میں چھوٹے چھوٹے مظاہرے ہوئے اور ڈنمارک کے مسلمانوں نے ایک مہم چلائی جو کئی مہینے چلتی رہی لیکن دنیا کی راڈر اسکرین پر اس کا پتا نہ چلا۔ ان سرگرم لوگوں کو جب ڈنمارک کے سیاست دانوں نے جھڑک دیا اور انھیں مسلم ریاستوں کے طاقت ور سیاست دانوں سے حمایت ملی تو بڑے مظاہروں کا آغاز ہوا۔ ان میں سے بعض مظاہرے پُرتشدد ہوئے لیکن بیش تر مظاہروں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکومتوں‘ دہشت گرد گروپوں اور دوسرے سیاسی عناصر نے منظم کیے۔
دوسری طرف ‘کون کہتا ہے کہ اپنی بات پہنچانے کے لیے تشدداستعمال کرنے کے لیے کوئی امریکی روایت نہیں ہے۔۱۹۶۰ء کے عشرے کے فسادات کو یاد کیجیے جو ۱۹۶۵ء کے وائس رائٹ فسادات سے شروع ہوئے جس میں ۳۴ آدمی مارے گئے (ان فسادات کے نتیجے میں سیاہ فام آبادی کو زیادہ مقام ملا)۔ سیاہ فاموں کی ترقی کی قومی انجمن ۵۰کے عشرے سے جس شو کے خلاف احتجاج کر رہی تھی ۱۹۶۶ء میں جاکر سی بی ایس نے اس پر کارروائی کی۔ کوئی رابطہ ثابت تو نہیں کیا جا سکتا لیکن اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ ۶۵ کے عشرے کے فسادات نے میڈیا میں سیاہ فام لوگوں کی تصویرکشی (اور مضحکہ خیزی) کے بارے میں حساسیت کو بڑھا دیا۔ اسی کو حساس تر خود احتسابی کہاجاسکتا ہے۔
کارٹونوں پر احتجاج کے دوران کچھ قدامت پرست کٹر عناصر نے تنبیہہ کی کہ جو شکایات تشدد کے ساتھ پیش کی جائیں‘ ان کو حل کرنا انھیں تسلی دینے (appeasement) کے مترادف ہے‘ اور اس سے زیادہ تشدد پیدا ہوگا اور مغربی اقدار کمزور ہوں گی۔ مگر ۶۰ کے عشرے میں تو تسلی دینے کے عمل نے اس طرح کام نہیں کیا۔ ۱۹۶۶ء میں صدر جانسن نے فسادات کے لیے جو کرنر کمیشن قائم کیا تھا اس نے سفارش کی کہ غیرمساوی تعلیم کے مواقع‘ غربت‘ ملازمت اور رہایش میں امتیاز کے مسائل پر زیادہ توجہ دی جائے۔ یہ توجہ فوراً دی گئی اور اس سے آنے والے عشروں میں فسادات نہیں بڑھے۔ کارٹونوں کے شوروغوغا میں یہ احساس بہت کم ہے۔ جب کہ امریکی اس سوال پر یکسو ہوکر سوچ رہے ہیں کہ ایک کارٹون کس طرح لاکھوں افراد کو مشتعل کرسکتاہے؟ جواب ہے کہ آپ کن لاکھوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ غزہ میں اصل ایندھن اسرائیلیوں سے کشیدگی نے فراہم کیا۔ ایران میں بنیاد پرستوں نے امریکا سے پرانی دشمنی کو استعمال کیا۔ پاکستان میں مغرب کی حامی حکمران حکومت کی مخالفت نے کردار ادا کیا اور اسی طرح دوسری جگہوں پر ہوا۔ غم و غصہ اور زیرزمین شکایات کا یہ تنوع چیلنج کو پیچیدہ کرتا ہے۔ ظاہراً محض مذہبی حساس امور کو چھیڑنے سے احتراز کافی نہیں ہوگا۔ پھر بھی زیربحث جرم جامع تر چیلنج کی ایک واضح علامت ہے۔ کیونکہ بہت ساری شکایات اسی احساس میں مجتمع ہیں کہ خوش حال طاقت ور مغرب مسلمانوں کااحترام نہیں کرتا (جیسے کہ فسادات برپا کرنے والے سیاہ فام سمجھتے تھے کہ خوش حال طاقت ور ‘ سفیدفام ان کا احترام نہیں کرتے)۔ ایک کارٹون جو رسولؐ کی توہین کرکے اسلام کی بے عزتی کرتا ہے وہ لبلبی کی مانند ہے اور انتہائی اشتعال دلانے والا ہے۔
جس چیزسے زیادہ اختلاف نہیں کیا جا سکتا وہ مسلمانوں کا بڑے بڑے میڈیا چینل سے خود احتسابی کا مطالبہ ہے۔ اس طرح کی خوداحتسابی صرف ایک امریکی روایت ہی نہیں ہے بلکہ ایک ایسی روایت ہے جس نے امریکا کو دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہم آہنگ ‘ کثیرنسلی اور کثیرمذہبی معاشرہ بنایا ہے۔
ان تینوں ایشوز پر پیش کردہ معروضات کی روشنی میں آیندہ کی حکمت عملی کے خطوط کار پر غور ضروری ہے۔ مسلمانوں کا ردّعمل صرف وقتی اور جذباتی نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمیں معاملے کے سارے پہلوئوں پر غور کرکے فوری اقدام اور دور رس حکمت عملی دونوں کی فکر کرنی چاہیے۔
۱- عالمی سطح پر مسلمانوں کے جذبات اور احساسات کا بھرپور اظہار اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے پُرامن جدوجہد۔ ڈنمارک کی حکومت حتیٰ کہ متعلقہ اخبار‘ اس کے کارٹونسٹ اور کلچرل ایڈیٹر کسی نے بھی کھلے انداز میں نہ اپنی غلطی تسلیم کی ہے اور نہ معذرت کی ہے۔ لفظوں کی عیّاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے محض مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونے پر افسوس کا اظہار ہے جسے کسی حیثیت سے بھی غلطی کا اعتراف اور قرارواقعی معافی نہیں کہا جاسکتا جس کے بغیر ایسے واقعات کے دوبارہ رونما ہونے کے خطرے کاسدّباب ممکن نہیں۔ اسی لیے عوامی اور حکومتی سطح پر یہ سلسلہ برابر جاری رہنا چاہیے___ البتہ اسے پرامن رکھنا اور دلیل اور اجتماعی ضمیر کی قوت کے ذریعے سے اپنے موقف کا لوہا منوانا اسی وقت ممکن ہے جب جذبات میں آکر تشدد کا ارتکاب نہ کیا جائے جس کا نتیجہ اپنے ہی جان و مال کا ضیاع اور تباہی ہے۔
۲- دوسرا محاذ معاشی اور سفارتی دبائو ہے جو ملکی اور بین الاقوامی سیاست کے معروف طریقے (instruments) تسلیم کیے جاتے ہیں۔ اس وقت بھی تھوڑے سے معاشی دبائو کی وجہ سے‘ جس کے نتیجے میں ڈنمارک کی سات بلین کرونا کی تجارت خطرے میں پڑگئی ہے‘ ڈنمارک کی تجارتی کمپنیاں اپنی حکومت کو روش بدلنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔ یہ دبائو جاری رہنا چاہیے۔
۳- تیسرا محاذ خود مسلمان ملکوں کا اپنا اندرونی معاملہ ہے کہ حکمران بالعموم عوام کے جذبات‘ احساسات اور امنگوں سے غافل ہیں اور اپنے شخصی اور گروہی مفادات کا شکار ہیں۔ عوامی دبائو سے مجبور ہوکر ہی وہ نہایت کمزور احتجاج پر آمادہ ہوئے ہیں۔ فطری طور پر اس احتجاج کا ایک ہدف خود اپنے ملکوں میں عوام کو متحرک اور تیار کرنے کے ساتھ حکمرانوں کی روش کی تبدیلی اور جو تبدیل ہونے کے لیے تیار نہ ہو‘ اس کو تبدیل کرنے کی جدوجہد ہے۔
اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ او آئی سی اور مختلف مسلم ممالک میں مغرب میں اسلام کے خلاف جو تحریک (Islamophobia) چل رہی ہے اس کا بغور جائزہ لیا جاتا رہے اور اس کا سائنسی بنیاد پر جواب دیا جائے۔ اسی طرح مسلم اقلیتوں پر کام کرنے اور ان کو تقویت پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ اس پر بھی سنجیدگی کے ساتھ کام ہونا چاہیے کہ جس طرح anti-semetismکے سلسلے میں عالمی معاہدے اور قانون نافذ کیے گئے ہیں‘ اسی طرح Islamophobia کے خلاف بھی قانونی ضابطے مرتب کیے جائیں۔ یہ تمام کام منظم اور مرتب جدوجہد اور سیاسی اور سفارتی کوششوں کے ذریعے انجام پاسکتے ہیں بشرطیکہ مسلم حکمراں اور او آئی سی اس کے لیے مؤثر انداز میں کام کرنے کا بیڑا اُٹھائیں۔
۱- اُمتِ مسلمہ کا انتشار‘ سیاسی اور معاشی وحدت کی کمی‘نظریاتی اور تہذیبی اعتبار سے ضعف‘ حکمرانوں اور عوام میں بُعد‘ تعلیم‘ سائنس اور ٹکنالوجی اور مقابلے کی قوت کا فقدان۔ ہم دنیا کی بالادست قوتوں سے عزت اور انصاف کی توقع اس وقت تک نہیں رکھ سکتے جب تک ہم خود مضبوط نہ ہوں___ ہر اعتبار سے نظریاتی اور اخلاقی‘ معاشی اور عسکری‘ تعلیمی اور سائنسی‘ معاشرتی اور تہذیبی۔ یہ ہماری کمزوری ہے جس کا دوسرے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور یہی وہ تاریخی حقیقت ہے جسے اقبال نے اس طرح بیان کیا ہے ؎
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
جوبیداری اس شرمناک اور شیطانی کارٹون کی اشاعت سے اُمت مسلمہ میں پیدا ہوئی ہے‘ وہ اس کے اندر خیر اور اخلاقی قوت کی غماز ہے۔ اس کو پروان چڑھانا اور اُمت میں اتحاد‘ یکسوئی اور اخلاقی‘ مادی‘ معاشی اور عسکری قوت کا حصول اور عالمِ اسلام کی سیاسی قوت کو ایک مرکز پر جمع کرکے اُمت کی ترقی اور اس کے مفادات کے تحفظ اور انسانیت کی فلاح کے لیے استعمال کرنا ہے۔
۲- دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ ہمیں اس جنگ کو تہذیبوں کی جنگ نہیں بننے دینا ہے۔ ’تہذیبوں کے درمیان جنگ‘ کا تصور ہی ایک جاہلانہ اور فسطائی تصور ہے۔ تہذیبوں کا تنوع انسانیت کا سرمایہ ہے اور جس طرح انگریزی مقولہ ہے variety is the spice of life (زندگی کا حُسن تنوع میں ہے) اسی طرح تہذیبوں کا اختلاف بھی انسانیت کے حُسن کا باعث اور انتخاب کے مواقع فراہم کرکے ترقی اور مسابقت کا ضامن ہے ؎
گلہاے رنگ رنگ سے ہے رونق چمن
اے ذوق! اس جہاں کوہے زیب اختلاف سے
آج انسانیت کو جو خطرات درپیش ہیں اور خصوصیت سے ایٹمی اور عالم گیر تباہی کے دیگر ہتھیاروں کے وجود میں آنے کے بعد جنگ سراسر تباہی کا راستہ ہے۔ اسی طرح کسی ایک طبقے‘ ملک یا تہذیب کی قوت کے بل بوتے پر کسی ایک کا بالادست ہوجانا بھی سلامتی کا راستہ نہیں ہے۔ صحیح راستہ حقیقی اور مستند کثرتیت (genuine and authentic pluralism) میں پوشیدہ ہے جس میں دوسروں کو جینے دینے اور دلیل‘ افہام و تفہیم اور اعلیٰ اصولوں اور انصاف پر مبنی سماج کا نمونہ پیش کر کے اتفاق اور اختلاف میں توازن اور رد و اختیار کا موقع فراہم ہوتا ہے۔
دراصل دو قومی نظریے کی اصل بھی یہی اصول ہے کہ اقوام کو‘ خواہ وہ اکثریت میں ہوں یا اقلیت میں‘ اپنے دین و مذہب اور تہذیب و ثقافت کے تحفظ و ترقی کا حق ہے اور اس کے مناسب مواقع سب کو حاصل ہونے چاہییں۔ دوقومی نظریہ محض تقسیم کا نظریہ نہیں‘ بقاے باہمی کا نظام ہے‘ اس اصول کے ساتھ کہ جہاں اپنا مخصوص تشخص رکھنے والی قوم کو اپنے عقائد و تہذیبی اقدار کے مطابق زندگی گزارنے کے مواقع حاصل نہ ہوں اور جغرافیائی اعتبار سے ان کے ایک الگ وحدت بننے کا امکان اور موقع ہو تو وہاں سرحدوں کی ازسرنو ترتیب بھی اس کا حق ہے لیکن جہاں یہ ممکن ہو کہ مختلف قومیں تعاون اور ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکتی ہیں وہاں ریاست کو اپنا مخصوص تشخص رکھنے کے ساتھ دوسری تمام قوموں کو بھی اپنا اپنا تشخص باقی رکھنے کا موقع دینا چاہیے۔ اس لیے قومی حکومت (Nation State) کے مقابلے میں قوموں کی حکومت (State of Nationalities) ایک بالاتر سیاسی ماڈل ہے اور آج کی دنیا میں ایک ایسے ہی سیاسی ماڈل میں انسانیت کی نجات ہے جہاں قوت اور تشدد کے مقابلے میں کثرتیت کو مستند تسلیم کیا جاسکے۔
۳- تیسری بنیادی بات یہ ہے کہ جو شرمناک رویہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب کے چند ممالک اور کچھ طبقات نے اختیار کررکھا ہے‘ اس کا کوئی تعلق نہ آزادیِ اظہار سے ہے‘ نہ سیکولرزم سے۔ نام نہاد تہذیبوں کے اختلاف اور تصادم میں لڑائی تہذیبوںکے درمیان نہیں‘ تہذیب اور جاہلیت کے درمیان ہے‘ انصاف اور ظلم کے درمیان ہے‘ خیر اور شر کے درمیان ہے‘ انسانیت اور فسطائیت کے درمیان ہے۔ اس میں ایسا نہیں ہے کہ سارے مسلمان ایک طرف ہوں اور دوسری اقوام ان کے مدمقابل بلکہ خود مغربی ممالک میں عام انسانوں کی بڑی تعداد اور ان کے دانش وروں میں بھی ایک معتدبہ تعداد اسے تہذیبوں کی جنگ نہیں بلکہ تہذیب کے خلاف جنگ سمجھ رہی ہے۔ مذاہب اور ان کی مقدس ہستیوں کا احترام سب کا مشترک سرمایہ ہے۔ قرآن نے تو یہ اصول پیش کیا ہے کہ ایک انسان کی ناحق موت پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے اور ایک معصوم انسان (محض مسلمان نہیں) کی جان کا بچانا ساری انسانیت کو زندگی عطا کرنے کی مانند ہے۔
قرآن نے تو جھوٹے خدائوں کو بھی گالی دینے سے منع کیا ہے کیوںکہ اس طرح مخالفین اپنی جہالت میں کائنات کے حقیقی خالق اور آقا سے گستاخی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔ جس پاک ہستی صلی اللہ علیہ وسلم کو دہشت گردی کی علامت بناکر پیش کیاجا رہا ہے‘ وہ تو پوری انسانیت کے لیے رحمت بن کر آیا تھا اور اس کا لایا ہوا دین ہے ہی دین رحمت اور پیغامِ امن و انصاف۔ اس کا کردار تو یہ تھا کہ جو اس کی راہ میں کانٹے بچھاتے تھے‘ وہ ان کی بھی دادرسی کرتا تھا‘ جنھوں نے اسے اذیتیں دے کر اپنا گھربار اور وطن چھوڑنے پر مجبور کیا جب وہ ان کے درمیان فاتح کی حیثیت سے آیا تو کسی سے بدلہ نہ لیا اور نفیرعام دے دی کہ لا تثریب علیکم الیوم۔ جس نے ایک یہودی کے جنازے کی آمد پر بھی اس کا استقبال تعظیم کے ساتھ کھڑے ہوکر کیا اور اس بات پر کہ یہ ایک یہودی کا جنازہ ہے‘ فرمایا:کیا وہ انسان نہیں‘ سیدنا عمرؓ نے جب ایک بوڑھے یہودی کو محنت مزدوری کرتے دیکھا تو اس کا بیت المال سے مشاہرہ مقرر کردیا اور یہ تاریخی الفاظ ارشاد فرمائے: تم ان انسانوں سے جب وہ جوان اور قوی تھے کام لیتے تھے اور جب ان کے قویٰ مضمحل ہوجاتے ہیں تو انھیں بے سہارا چھوڑ دیا ہے۔
ایسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرووں اور ایسے دین کے حامیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ’تہذیبوں کی جنگ‘ میں آنکھیں بند کر کے کود نہ جائیں بلکہ تہذیب کے غلبے کے لیے خود بھی اور تمام معقول انسانوں کو منظم و متحرک کریں اور اس طرح اس ایجنڈے ہی کو بدل دیں جس پر ظالم قوتیں اور مفاد پرست عناصر کارفرما ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ہم اپنے داعیانہ کردار کو سمجھیں اور اسے صحیح طریقے سے ادا کریں۔ آج بھی‘ ساری مخالفت کے باوجود‘ مغربی ممالک میں اسلام سب سے تیزی سے بڑھنے والا دین ہے۔ ہمارے لیے تہذیبی جنگ کی اس آگ میں کودنااور فریق بنناسب سے بڑی غلطی ہوگی۔ اس کے مقابلے میں ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ ہمارے لیے ایک اچھا موقع ہے: اپنے دین کا صحیح صحیح نمایندہ بننے اور اس کی تعلیمات کو انسانوں تک پہنچانے کا۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ یہ مخالفتیں آپ کے لیے نئے مواقع اور امکانات کا پیغام بن جائیں گی ؎
تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے
۴-چوتھی بنیادی بات یہ ہے کہ اس موقع پر اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت کو خصوصیت سے اوآئی سی کو تمام مذاہب کے احترام کے بارے میں کچھ اصولوں (پروٹوکول) پر دنیا کی تمام اقوام کو متفق کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ضرورت ہے کہ واضح الفاظ میں بقاے باہمی ہی نہیں‘ تعاون باہمی کا ایک ایسا چارٹر تیار کیا جائے جس پر سب عمل پیرا ہوں اور جسے قانونی اور اخلاقی دونوں اعتبار سے ایک بالاتر ضابطے کی حیثیت حاصل ہو۔ اس کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس بھی بلایا جا سکتا ہے لیکن ضروری تیاری (home work)کے بعد۔ اس کے لیے مختلف سطح پر سیمی نار‘ مذاکرات اور تحقیقی کام کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے لیے عالمی سطح پر مکالمہ وقت کی ضرورت ہے۔ اگر ان شیطانی کارٹونوں کے نتیجے میں دنیا ایک ایسے پروٹوکول پر متفق ہوجائے تو اس شر سے ایک بڑے خیر کے نکل آنے کا امکان ہے۔ جس ڈنمارک سے یہ کروسیڈ شروع ہوا ہے اس کے ایک دانش ور اور سابق وزیرخارجہ (Uffe Ellemann Jensen) نے بڑی دردمندی سے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ:
اب‘ جب کہ پیغمبرمحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کارٹونوں پر تنازع ختم ہورہا ہے‘ یا میں اس کی امید کرتا ہوں‘ یہ بات واضح ہے کہ اس میں جیتنے والے صرف انتہاپسند ہیں‘ اسلامی دنیا میں بھی اور یورپ میں بھی۔ مجھے اس بات پر افسوس ہے کہ تنازع میرے ملک میں شروع ہوا جب ایک اخبار نے آزادیِ اظہار راے کا مظاہرہ کرتے ہوئے کارٹون شائع کیے۔ یہ گذشتہ خزاں میں ہوا اور اس وقت میں نے اس کے خلاف کھلے عام آواز اٹھائی۔ اسے میں بے حسی پر مبنی ایک اقدام سمجھتا تھا کیوں کہ یہ دوسرے لوگوں کے مذہبی جذبات کو تکلیف پہنچاتا ہے۔ یہ واقعہ غیرضروری اشتعال انگیزی تھا اور خود ہماری اس آزادی کا مذاق اڑانے کے مترادف تھا جو ہمیں ازحد عزیز ہے اور جس کی ہمارے دستور میں ضمانت دی گئی ہے۔ میرے والد بھی ایک صحافی تھے‘ وہ کہا کرتے تھے کہ آزادیِ اظہار راے ہمیں وہ کچھ (جو آپ سوچتے ہیں) کہنے کا حق تو دیتی ہے لیکن ایسا کرنا لازمی نہیں ہے۔
میری رائے میں اس منحوس واقعے کے سبق بالکل واضح ہیں۔ ہم سب کو تسلیم کرنا چاہیے کہ جدید دنیا میں یہ ضروری ہوتا جا رہا ہے کہ تمام معقول لوگ باہمی احترام‘ رواداری اور بہتر افہام و تفہیم کے لیے کام کریں۔ ہمیں ایسی صورت حال سے بچنا چاہیے جہاں مختلف اقدار ایک دوسرے کے مقابل ایسے طریقوں سے آجائیں کہ تشدد یک دم برپا ہوجائے۔ اس کے بجاے ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ مذاہب‘ اخلاق اور معمولات کے درمیان رواداری کے ذریعے پُل تعمیر کریں۔
آپ چاہیں تو اسے خود احتسابی کہہ لیں لیکن معقول لوگ ہمیشہ خوداحتسابی پر عمل کرتے ہیں۔ اگر آپ ایسے کمرے میں ٹھیرنا چاہتے ہیں جس میں دوسرے لوگ بھی ہیں تو آپ کو کوشش کرنا چاہیے کہ غیرضروری اشتعال انگیزیوں سے آپ ان کو ناراض نہ کریں۔ ہم جس کمرے کے بارے میں بات کر رہے ہیں‘ وہ مقامی تالاب نہیں بلکہ عالمی گائوں ہے‘ بقاے باہمی کی کلید ہے۔
دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں۔ موجودہ صورت حال کتنی ہی خراب اور تکلیف دہ کیوں نہ ہو اگر اصحاب خیر ہمت کر کے کوشش کریں تو اسے انسانوں کے درمیان دوستی اور اعتماد باہمی کے پُل باندھنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
آخر میں ہم پاکستان کی اسلامی قوتوں سے بالخصوص اور تمام سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں سے یہ اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح اس فتنے کا بروقت نوٹس لینا ضروری تھا‘ اسی طرح اس شیطانی کروسیڈ کے مقابلے اور اس کی شکست کے لیے دیرپا لائحہ عمل کی تیاری اور اس پر ہوش مندی سے عمل بھی ضروری ہے۔ یہ ایک تاریخی موقع ہے اور اس موقعے پر ذرا سی غفلت بڑی مہنگی پڑسکتی ہے۔ ملک کی اس قیادت کو بھی ہوش کے ناخن لینا چاہییں جو اپنے عوام کے جذبات اور احساسات سے غافل اور بیرونی سہاروں پر اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ سہارے بڑے بودے اور دھوکا دینے والے ہیں۔ اصل سہارا اللہ کا ہے‘ اس کے دین کا ہے اور اس کے ان بندوں کا ہے جو اصول اور اقدار کے لیے جان کی بازی لگانے میں دنیا اور آخرت کی کامیابی دیکھتے ہیں۔ یہی اس قوم کا اصل سہارا ہیں اور یہی سہارا قابلِ بھروسا اور زمانے کی آزمایشوں پر پورا اُترا ہے۔ وما علینا الا البلاغ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جمہوریت اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود دور حاضر کے دوسرے سب سیاسی نظاموں کے مقابلے میں ایک فوقیت رکھتی ہے۔ اس میں دستور اور قانون کی حکمرانی‘ عوام کی مرضی سے حکومتوں کی تشکیل اور تبدیلی‘ حکمرانوں کی جواب دہی‘ انسانی حقوق کی ضمانت‘ عدلیہ کی آزادی اور معاشرے میں آزادانہ بحث و احتساب بشمول پریس اور میڈیا کی آزادی کو سیاسی نظام کا بنیادی ڈھانچا تصورکیا جاتا ہے اور کسی نہ کسی حد تک اس کا احترام بھی کیا جاتا ہے ۔ اگر کہیں اس سے انحراف ہوتا ہے تو بالآخر وہ طشت ازبام ہوکر رہتا ہے اور اجتماعی محاسبے کا نظام حرکت میں آجاتا ہے۔ یہی وہ عمل ہے جس سے نام نہاد جمہوری قیادتوں کا پول بالآخر کھلتا ہے۔
امریکا کومغربی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ ہے اور صدربش نے دوسری بار صدارت کا انتخاب جیتنے کے بعد تو پوری دنیا میں ’جمہوریت‘ اور آزادی کے فروغ کے لیے ’کروسیڈ‘ کو اپنی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ قرار دیا ہے اور خود عراق کے خلاف فوج کشی اور وہاں برپا ہونے والے قتل و غارت گری کے لیے اب اسی دعوے کو بطور ’جواز‘ پیش کر رہے ہیں۔ اب لے دے کے اُن کے اور اُن کے ہم نوا حکمرانوں کے‘ بالخصوص برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلیر کے پاس کہنے کے لیے بس یہی کچھ رہ گیا ہے کہ ہم نے عراق کو صدام کی آمریت سے نجات دلائی ہے اور ’جمہوری نظام‘ کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔
امریکا کے موجو دہ حکمرانوں کی پوری سفارتی اور پروپیگنڈا مہم کے باوجود‘ امریکی سفارت کاری کا یہ سال ان کی تاریخ کا ناکام ترین سال رہا ہے اور ’پبلک ڈپلومیسی‘ جس پر اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں‘ اس کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے۔ دنیا صدر بش اور امریکی قیادت کے بلندبانگ دعووں کو کوئی وقعت نہیں دے رہی بلکہ وہ ان کی پالیسیوں اور عملی اقدامات کو دیکھ رہی ہے۔ دعوے اور حقیقت میں جو تضاد اور بُعدالمشرقین پایا جاتا ہے‘ اس نے امریکا کی ساکھ کوایسا سخت نقصان پہنچایا ہے کہ اس کی تلافی ممکن نہیں___ افسوس تو امریکا کے ان حواریوں پرہے جو مسلم دنیا میں اب بھی امریکا کی کٹھ پتلیاں بنے ہوئے ہیں اور اپنے ہی عوام کے خلاف صف آرا ہیں۔ امریکا کی پالیسی کی ناکامی کا تازہ ترین اعتراف خود بش صاحب کا وہ ارشاد ہے جو ۶جنوری ۲۰۰۶ء کو واشنگٹن میںقومی زبانوں کے تحفظ کے ادارے کا افتتاح کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا ہے کہ امریکا کے امیج کو جس چیز نے بگاڑا ہے‘ وہ وہ پروپیگنڈا ہے جو دوسرے ممالک کا میڈیا کر رہا ہے۔ خصوصیت سے عرب ممالک کے ریڈیو اور ٹی وی کو نشانہ بناتے ہوئے فرماتے ہیں:
جب آپ ان میں سے کچھ ٹی وی اسٹیشن دیکھ رہے ہوتے ہیں تو آپ کے سامنے امریکا نہیں آتا۔ عرب ٹی وی ہمارے ملک کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔ بعض اوقات وہ ایسا پروپیگنڈا کرتے ہیں جوکسی بھی طرح درست نہیں ہوتا۔ یہ انصاف کی بات نہیں ہے اور یہ لوگوں کو‘ ہم جو کچھ ہیں‘اس کا صحیح تاثر نہیں دیتا۔
اس خطاب میں انگریزی کے علاوہ دنیا کی دوسری زبانوں ‘ خصوصیت سے مسلم ممالک کی زبانوں (عربی‘ فارسی اور اردو) میں بھی امریکی پروپیگنڈے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے اور ان کروڑوں ڈالر پر مستزاد جو اس وقت ’پبلک ڈپلومیسی‘ کے نام پر خرچ کیے جا رہے ہیں‘ مزید ۱۴ ملین ڈالر کا ایک نیا منصوبہ بروے کار لانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
امریکا کو حق ہے کہ وہ اپنے پروپیگنڈے پر جتنی رقم جب اور جس طرح چاہے خرچ کرے لیکن ایک بنیادی حقیقت نہ صرف امریکا بلکہ سب کے سامنے رہنی چاہیے کہ حقائق پر پروپیگنڈے کے ذریعے لمبے عرصے تک پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ اب دنیا کے ایک ’گلوبل ویلج‘ بن جانے کا کم از کم یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ بہت کم وقت میں ایک مقام کی خبریں دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچ جاتی ہیں اور اس طرح محض حقائق کو چھپانے یا پروپیگنڈے کے بل بوتے پر اپنے موقف کو پیش (project)کرنے کی گنجایش بہت کم رہ گئی ہے۔ امریکا کی قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اب ہٹلر کے وزیر ابلاغیات جوزف گوئبلز کی وہ پالیسی نہیں چل سکتی جس میں جھوٹ کو اتنی بار نشرکیا جاتا تھا کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگتے تھے۔ اب سچ بہت جلد ظاہر ہوکر رہتا ہے۔ اب اصل مسئلہ پروپیگنڈے اور ابلاغ کا نہیں‘ امریکا کی حکومت‘ اس کی پالیسیوں‘ افواج اور ذمہ دار حکام کے کارناموں کا ہے۔ جب تک پالیسی اور اس کے اہداف‘ مقاصد اور اسلوب نہیں بدلتے اور وہ تضادات جو دعوے اور عمل میں موجود ہیں‘ ان کی اصلاح نہیں ہوتی‘ محض چرب زبانی‘ جدید ترین ابلاغی وسائل اور سیاسی ملمع سازی سے استعماری پالیسیوں اور دوسروں کو غلام اور محکوم بنانے والے اقدامات پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ ایک امریکی کالم نگار ولیم فشر (William Fisher)نے اس دوعملی اور تضاد کو بڑے نرم اور ہمدردانہ انداز میں لیکن برملا طور پر یوں ادا کردیا ہے :
عراق اورشرق اوسط میں راے عامہ کے مختلف جائزوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ امریکی محرکات اور حکمت عملی کے بارے میں شک و شبہے میں مبتلا ہیں کیونکہ امریکا جو کچھ کہتا ہے اور جو کچھ کرتا ہے اس میں تضادات پاتے ہیں۔ ( `US State Department's Mixed Messages'، دی نیوز‘ ۸جنوری ۲۰۰۶ئ‘ بحوالہ دی عرب نیوز)
امریکا جس طرح اپنا ایک خاص امیج بنانے کے لیے پانی کی طرح ڈالر بہا رہا ہے‘ صحافیوں کو خرید رہا ہے‘ تعلقات عامہ کی فرموں کو استعمال کر رہا ہے اور سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کی کوشش کر رہا ہے‘ اس کا پردہ یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا ایٹ چیکو (University of California et Chico) کے پروفیسر بِین گروس کپ (Bean Grosscup) نے اس طرح چاک کیا ہے:
وہی لوگ جو آزادیِ صحافت کو فروغ دینے کے لیے پروگرام ترتیب دیتے ہیں‘ وہی تعلقات عامہ کی فرموں‘ شور مچانے والے لوگوں اور خریدے ہوئے صحافیوں سے وابستہ تھنک ٹینکوں کو ’آزاد میڈیا‘ کے طور پر رقوم فراہم کرنے کا دفاع کرتے ہیں۔ ساری بات تعلقات عامہ اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کی ہے۔ اس پر جوزف گوئبلز بھی فخر کرے گا۔(دی نیوز‘ ۴ جنوری ۲۰۰۶ئ)
امریکا کے موجودہ حکمران‘ خصوصیت سے صدر جارج بش‘ نائب صدر ڈک چینی‘ وزیردفاع رمزفیلڈ اور ان کے تمام خفیہ اداروں کے کارپرداز جس دیدہ دلیری اور سینہ زوری کے ساتھ امریکی دستور‘ قانون‘ کانگریس کے طے شدہ ضابطوں اور بین الاقوامی قانون اور جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی کر رہے ہیں‘ اس نے مشرق سے مغرب تک ہر طرف ایک تہلکہ سا مچا دیا ہے۔ مسلم ممالک کے عوام تو ایک مدت سے چیخ ہی رہے تھے‘ اب یورپی اقوام بھی پکار اُٹھی ہیں اور خود امریکا میں بھی صدربش اور ان کی پالیسیوں سے عمومی بے زاری کے اظہار کے لیے بغاوت کی ایک لہر اُٹھ رہی ہے جس کا سب سے نمایاں مظہر امریکی کانگریس کا یہ اہم اقدام ہے کہ حب الوطنی کے قانون (Patriot Act)کی غیرمعینہ عرصے کے لیے صدر بش کی درخواست رد کرتے ہوئے صرف پانچ ہفتوں کے لیے اس کی منظوری دی ہے۔
یاد رہے کہ متذکرہ قانون کو صدر بش نے نائن الیون کے بعد کانگریس سے منظور کرایا تھا اور جسے پہلے سال مکمل اتفاق راے سے منظور کیا گیا تھا۔ اس کے تحت صدر کو اور نیشنل سیکورٹی اتھارٹی کو ایسے غیرمعمولی اختیارات دے دیے گئے تھے جن کو استعمال کر کے وہ دہشت گردی کے شبہے پر لوگوں کو گرفتار کرسکتے ہیں‘ لمبی مدت تک مقدمہ چلائے بغیر زیرحراست رکھ سکتے ہیں‘ اور اگر مقدمہ چلانے کی نوبت آئے تو ناگزیر قانونی تقاضے (due process of law) کے بہت سے معروف ضابطوں کو نظرانداز بلکہ پامال بھی کرسکتے ہیں۔ مشہور امریکی رسالےNation کے مضمون نگار جوناتھن شیل (Jonathan Schell) کے بقول اس قانون نے امریکی صدر کو آج کا ایسا ایڈمنسٹریٹر بنادیا ہے کہ اگر وہ آمریت کی مکمل تصویر نہ بھی ہو تو بھی اس میں وہ ساری خصوصیات پیدا ہوگئی ہیں جن سے آمریت کا آغاز ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ حکومت بظاہر آمریت نہیں ہے مگر اس میں آمریت کی سب ابتدائی خصوصیات صاف نظر آتی ہیں۔
امریکی تاریخ میں صدارتی اختیارات کو سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر غلط استعمال کرنے والاشخص صدر بش ہے۔ (دی اکانومسٹ‘ لندن‘ ۷ جنوری ۲۰۰۶ئ‘ ص ۴۰)
امریکی جریدے ٹائم (۹ جنوری ۲۰۰۶ئ)میں کیرن ٹوملٹی (Karen Tumulty) اور مائیک ایلیو (Mike Allew) اپنے مضمون میں سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی کے رکن سینیٹر پیٹرک لی ہی (Patrick Leahy)کا یہ جملہ نقل کرتے ہیں کہ:
صدر نکسن کے بعد جس حکومت نے عدالتوں اورقانونی ضابطوں کو نظرانداز کرنے کی سب سے زیادہ کوشش کی ہے‘ وہ یہی حکومت ہے۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں صدر بش کے لیے کانگریس کی اس سرزنش (rebuke) کی اہمیت کو سمجھا جاسکتا ہے کہ حب الوطنی کے جس قانون کی سال بہ سال تجدید (renewal) سے بچنے کے لیے صدربش نے کانگریس سے اس کی غیرمعین مدت کے لیے تجدید کی قانونی تجویز پیش کی تھی بلکہ یہاں تک کہہ دیا تھا کہ we cannot afford to be without this law for a single moment(ہم اس قانون کے بغیر ایک لمحے کے لیے بھی نہیں چل سکتے)‘ اسے عظیم اکثریت نے رد کر دیا اور صرف ۵ ہفتے کے لیے اس کی تجدید کی___ یعنی ۵فروری ۲۰۰۶ء تک۔ ساتھ ہی تفتیش کے دوران تعذیب‘ یعنی ٹارچر (torture) کا دروازہ بند کرنے کے لیے جو ترمیم سینیٹر میک کین (Mc Cain) نے پیش کی تھی اور جسے بش نے ویٹو کرنے کی دھمکی دی تھی‘ اسے بھی سینیٹ نے ۹ کے مقابلے میں ۹۰ ووٹ سے منظور کرکے یہ پابندی لگا دی کہ تمام امریکی ایجنسیوں کے لیے نہ صرف امریکا کی سرزمین پر‘ بلکہ دنیا میں کہیں بھی زیرحراست دشمنوں کو ایسے تمام ہتھکنڈوں کا نشانہ بنانا خلافِ قانون ہوگا جو ظالمانہ‘ غیرانسانی اور ذلت آمیزہوں۔ واضح رہے کہ آخری وقت میں ڈک چینی نے پوری کوشش کی کہ کم از کم سی آئی اے کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے مگر سینیٹ نے یہ ماننے سے انکار کردیا اور امریکا کی موجودہ حکمران ٹیم جو کھیل کم از کم چار سال سے کھیل رہی ہے‘ عالمی احتجاج کے تحت اسے اس سے روکنے کا عندیہ دیا۔ آیندہ امریکی انتظامیہ اس کا کتنا احترام کرتی ہے یہ تو مستقبل ہی بتائے گا لیکن کانگریس کے یہ دونوں اقدام بش انتظامیہ پر اس چارج شیٹ کی تصدیق کرتے ہیں جو حقوقِ انسانی کی تنظیمیں اور عالمِ اسلام اور تیسری دنیا کے دانش ور لگا رہے تھے۔
اس سلسلے میں ہم صرف چند اہم اور نمایاں حقائق ریکارڈ پر لانا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ صدربش کے تحت امریکی جمہوریت کا اصل چہرہ سب کے سامنے آجائے اور اس آئینے میں خود ان مسلمان ممالک کی قیادتوں کی شکل بھی دیکھی جا سکے جو صرف امریکا کی خوش نودی کے لیے اپنے اپنے ملکوں میں نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں شرکت کے نام پر انسانی حقوق اور آزادیوں کا خون کررہے ہیں۔
جمہوریت کا ایک بنیادی اصول دستور اور قانون کی پاسداری ہے۔ مطلق العنان بادشاہت اور آمریت میں حکمران دستور اور قانون سے بالا رہتے ہیں اور اپنی من مانی کرتے ہیں‘ جب کہ جمہوریت میں ہر صاحبِ اقتدار اپنے لیے جواز حکمرانی دستور اور قانون سے پاتاہے اور اس کا پابند ہوتا ہے۔ صدربش اور ان کی انتظامیہ نے خود کو دستور سے بالاتر کرلیا ہے اور وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دستور کی ان تمام ضمانتوں کو پامال کر رہے ہیں جو قانون کی حکمرانی‘ نجی زندگی (privacy) کی حفاظت‘ عدالت کی اجازت کے بغیر کسی شہری کی ڈاک‘ ٹیلی فون‘ انٹرنیٹ وغیرہ کی جاسوسی کی مکمل ممانعت کے بارے میں تھیں۔
یہ انتظامیہ اس سلسلے میں ایک عظیم جرم کی مرتکب ہوئی ہے۔ اس نے ہزاروں انسانوں کی نجی زندگی کو پوری بے دردی سے مجروح کیا ہے اور چار سال سے کروڑوں کی تعداد میں ان کے پیغامات کو درمیان میں روکا (intercept کیا)ہے۔ اور اس سلسلے میں غیرمعمولی حالات کے لیے جو گنجایش پیدا کی گئی تھی کہ ایسے معاملات میں خود نیشنل سیکورٹی اتھارٹی اپنی ۱۲رکنی سرکاری جوڈیشل کمیٹی سے رجوع کرے‘ اس کی پابندی نہیں کی گئی‘ محض القاعدہ کی بو سونگھنے کے لیے بے دریغ لاکھوں ٹیلی فون کالوں اور ای میل کو سی آئی اے اور دوسری ایجنسیاں درمیان میں روکتی رہیں۔ یہ اقدام دستور‘ قانون‘ بنیادی حقوق اور شایستگی ہر چیز کی کھلی خلاف ورزی تھی جس کا پوری بے باکی سے ارتکاب کیا گیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ جب اس کی سن گن لوگوں کو ملنا شروع ہوئی اور کچھ اخبارات نے اس راز کو فاش کرنے کی کوشش کی تو ان کو روکا گیاحتیٰ کہ نیویارک ٹائمز کو خود صدر بش نے ذاتی طور پر اس رپورٹ کے انکشاف سے روکا اور اس سرکاری مداخلت کے نتیجے میں جمہوری امریکا کے جمہوری پریس نے اس خبر کو ایک سال تک دبائے رکھا مگر بالآخر دسمبر۲۰۰۵ء کے وسط میں یہ خبر اخبارات میں شائع ہوگئی۔ نیویارک ٹائمز نے اپنی ۱۵دسمبر ۲۰۰۵ء کی اشاعت میں جیمز رائزر (James Riser) اور لچ بلان (Lichtblan) کی تہلکہ مچا دینے والی رپورٹ شائع کی۔ جیمزرائزر کی کتاب State of War: The Secret History of the CIA and Bush Administration کے نام سے شائع ہوگئی ہے۔ اس کی اشاعت کے بعد اب یہ تفتیش ہورہی ہے کہ یہ راز فاش کیسے ہوگیا؟ حالانکہ بش انتظامیہ کا یہ جرم تو ایسی سنگین نوعیت کا ہے کہ وہ امریکی صدر کو مواخذے (impeachment) کا سزاوار بناتاہے۔ اب دبے الفاظ میں یہ بات کہی جانے لگی ہے اور یہ امریکی جمہوریت کا امتحان ہے کہ کیا بش یہ سب کچھ کرنے کے بعد بچ نکلتا ہے یا کیفرکردار کو پہنچتا ہے؟ سینیٹر رابرٹ بائرڈ (Robert Byrd)کہتے ہیں کہ بش نے وہ لامحدود اختیارات ہتھیالیے ہیں جو بادشاہوں اور مہاراجوں کے لیے مخصوص ہوا کرتے تھے۔ اور امریکی کانگریس کے دو ارکان جان لیوس (John Lewis) اور جان ڈین (John Deen) نے کہا ہے کہ بش نے جس طرح دستور‘ قانون‘ عدالتی نظام کو پامال کیا ہے‘ اس کی پاداش میں اس کا مواخذہ ہونا چاہیے۔
بات صرف امریکی شہریوں کی آزادیوں کی پامالی کی نہیں‘ دسمبرہی کے مہینے میں ایک دوسرا بڑا اسیکنڈل وہ اطلاعات ہیں جن کا ماخذ ایک اطالوی دستاویزی فلم ہے جس سے یہ ہوش ربا انکشاف ہوا کہ امریکا دہشت گردی کے شبہے میں پکڑے جانے والے قیدیوں کوتعذیب کا نشانہ بنانے کے لیے‘ یورپ میں کم از کم آٹھ خفیہ تعذیب خانے چلا رہا ہے۔ علاوہ ازیں یورپ کے دسیوں ممالک کے ہوائی اڈوں اور فضائی حدود کو ان قیدیوں کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک منتقل کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور گذشتہ دوسال میں ایک ایک ملک میں ایسی دو دو سو پروازیں کی گئی ہیں۔ جرمنی‘ آئرلینڈ‘ پولینڈ‘ رومانیا‘ اسپین وغیرہ اس راز کے فاش ہونے پر سخت آتش زیرپا ہوئے اور امریکا کی طرف سے ان کی اجازت کے بغیر ان کی فضائی حدود اور ہوائی اڈوں کے استعمال اور تعذیب کے لیے قیدیوں کی کھلی منتقلی پر سخت احتجاج ہوا۔ برطانیہ میں بھی ایسی ۲۰۰ پروازوں کا ریکارڈ گارڈین اخبارنے فاش کیا لیکن حکومت نہ تصدیق کرتی ہے اور نہ تردید۔ سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ بہت سے عرب اور مسلمان ممالک کو اس تعذیب کے لیے استعمال کیا گیا اور خصوصیت سے مصر‘ افغانستان‘ الجزائر اور مراکش کا کردار بڑا گھنائونا اور شرمناک ہے۔ اس اسیکنڈل کے اثرات امریکا اور یورپ کے تعلقات پر بھی بڑے دُور رس ہوسکتے ہیں۔ انھیں ٹھنڈا کرنے کے لیے امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزا رائس نے فوری طور پر یورپی ممالک کا دورہ کیا مگر آگ بظاہر سرد ہوتی نظر نہیں آتی۔
امریکا جمہوریت اور انسانی حقوق کا علم بردار بنتا ہے مگر اس کا جو کردار سامنے آیا‘ وہ یہ ہے کہ اس نے اپنے دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی‘ اپنی عدالتوں سے رجوع کرنے سے گریز کیا‘ اپنے زیرانتظام دنیا کے مختلف ممالک میں قیدخانے اور عقوبت خانے قائم کیے اور خود اپنے دوست ممالک کے قانون اور حاکمیت (sovereignty)کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی۔ نیز ٹارچر سے احتراز کے اپنے تمام دعووں کے باوجود‘ بلاواسطہ اور بالواسطہ معصوم انسانوں کو‘ جو سب ہی مسلمان تھے‘ مسلسل چار سال تک غیرقانونی اور غیرانسانی تعذیب (torture) کا نشانہ بنایا۔ اس کی کہیں کوئی دادرسی نہ ہوئی بلکہ کچھ مسلمان حکمران ظلم کے اس کھیل میں امریکا کے آلہ کار بنے اور ابھی تک وہ ہر احتساب سے بالاتر ہیں۔
ابوغریب کی جیلوں میں جو کچھ امریکا نے کیا تھا اور جس کے ۶۰۰ واقعات اتنے ہولناک تھے کہ عالمی دبائو میں امریکا کو بظاہر ان کا نوٹس لینا پڑا‘ جب کہ ہزاروں واقعات پر پردہ پڑا رہا۔ اس نے ساری دنیا میں امریکا کے دہرے معیار کا بھانڈا پھوڑ دیا اور وہ استبدادی ہتھکنڈے سب کے سامنے آگئے جو جمہوریت کے یہ علم بردار بے دریغ استعمال کر رہے تھے اور دنیا کو تہذیب کا درس دے رہے تھے‘ بلکہ کہہ رہے تھے کہ دہشت گردی اس لیے فروغ پارہی ہے کہ ان لوگوں کو ہماری آزادی اور جمہوریت بری لگتی ہے۔
پھر اسی زمانے میں اس خبر نے امریکا کے امیج کو بُری طرح مجروح کیا کہ امریکی افواج نے فلوجہ کے محاذ پر ۲۰۰۴ء میں سفید فاسفورس کا بے دریغ استعمال کیا ہے جو ایک کیمیائی ہتھیار ہے اور بین الاقوامی قانون کے مطابق اس کا استعمال انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے۔
لاس اینجلس ٹائمز کا مضمون نگار جوناتھن بی ٹکر (Jonathan B. Tucker) کیمیاوی ہتھیاروں پر سند کا درجہ رکھتا ہے‘ اور کئی کتب کا مصنف اور Monterary Institute's Center for Non-Proliferationکا سینیرفیلو ہے۔ وہ ان نام ور اہلِ قلم میں سے ہے جو اس کا کھلا اعتراف کر رہے ہیں کہ عراق میں امریکا نے کیمیاوی بم استعمال کرکے اپنا منہ کالا کیا ہے اور اس پر جو عالمی ردعمل رونما ہوا ہے وہ بالکل جائز اور امریکا کے لیے باعثِ شرم ہے:
ویت نام کی جنگ کا ایک اَن مٹ نقش بری طرح جلی ہوئی اس بے لباس ویت نامی لڑکی کِم فِک کا تھا جو سڑک پر دوڑتی ہوئی درد اور وحشت سے چیخ رہی تھی۔ یہ ۱۹۷۲ء کا واقعہ ہے۔ کِم فِک کے گھر پر ویت نام کے ہوائی جہاز نے غلطی سے نیپام بم گرا دیا تھا۔ وہ اور تو کچھ نہ کرسکی‘اس نے بے بسی کے عالم میں اپنے کپڑے پھاڑ لیے۔ معصوم شہریوں کے خلاف اس ہولناک ہتھیار کے حادثاتی استعمال نے‘ جسے اس تصویر نے لافانی بنا دیا تھا‘ عالمی راے عامہ کو جنگ کے خلاف منظم کرنے میں مدد دی۔
اب تین عشروں کے بعد نومبر ۲۰۰۴ء میں عراقی مزاحمت کاروں کے خلاف فلوجہ کی جنگ میں امریکا نے ایک دوسرا آتشیں ہتھیار‘ سفید فاسفورس استعمال کیا ہے۔ اس پر امریکا کو خصوصاً باہر کی دنیا میں تنقید کے طوفان کا سامنا ہے۔ سفیدفاسفورس جسے عرف عام میں ڈبلیوپی (wp)کہا جاتا ہے‘ ہوا میں تحلیل ہونے پر اپنے آپ بھڑک اُٹھتا ہے اور اس وقت تک خوفناک طریقے سے جلتا رہتا ہے جب تک کہ آکسیجن ختم نہ ہوجائے۔ اس کے آتشیں ذرات بیرونی کھال پر جم جاتے ہیں‘ گوشت کو ہڈیوں تک گلا دیتے ہیں اور انتہائی گہرے کیمیائی زخم پیدا کرتے ہیں جو ہلاکت خیز نہ بھی ہوں مگر شدید تکلیف دہ ہوتے ہیں اور مندمل ہونے میں بڑا وقت لیتے ہیں۔
فلوجہ میں جہاں صرف جنگجو ہی نہیں تھے‘ عام شہری بھی موجود تھے‘ آتشیں اسلحے کا استعمال تین وجوہات سے شدید غلطی تھا۔ اوّل‘یہ اخلاقی طور پر غلط تھا‘ دوسرے یہ عراق میں امریکی پالیسی کے مقاصد کے خلاف تھا‘ اور تیسرے یہ ایک منافقانہ طرزعمل تھا جو امریکا کے خلاف عالمی غم وغصے کوایندھن فراہم کرتا تھا جس سے جہادی دہشت گردوں کی بھرتی کے لیے واضح جواز فراہم ہوتا تھا۔
جوناتھن ٹکر جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ پوری دنیا کے عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس نے امریکا کے خلاف دنیا بھر میں نفرت کی آگ کو بھڑکایا ہے:
ابوغریب میں قیدیوں سے شرمناک سلوک‘ سمندرپار ممالک میں سی آئی اے کے قیدخانوں کا اسکینڈل اور فلوجہ میں سفید فاسفورس کا استعمال درحقیقت ایک ہی تصویر کے مختلف رخ ہیں۔ یہ اس حکومت کی اخلاقی حِس کے فقدان کی عکاسی کرتے ہیں جس نے امریکا کو دنیا کی نظروں میں ایک بدمعاش ریاست بنا دیا ہے۔
اسی بات کو نوم چومسکی نے نیوزویک کے مائیکل ہیسٹنگ (Michael Hasting)کو دیے گئے انٹرویو میں اس طرح بیان کیا ہے:
بش انتظامیہ امریکا کودنیا میں سب سے زیادہ خوفناک اور قابلِ نفرت ملک بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اس باب میں ان لوگوں کی صلاحیت ناقابلِ یقین ہے۔ (نیوزویک‘ ۹ جنوری ۲۰۰۶ئ‘ ص ۵۲)
ہم یہاں اتنا اضافہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ٹارچر کے استعمال کے علاوہ ظالم اور مطلق العنان حکمرانوں اور خصوصیت سے فوجی آمروں کی پشت پناہی کے سلسلے میں امریکا کی پالیسی نئی نہیں ہے۔ بلاشبہہ بش انتظامیہ نے اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ امریکا کی تاریخی پالیسی کا شرمناک حصہ رہی ہے اور اندرونِ ملک جمہوریت اور آزادی کا اگر کچھ نہ کچھ پاس کیا گیا ہے‘ تب بھی اس سے انکار مشکل ہے کہ بین الاقوامی سطح پر جنوبی امریکا سے لے کر ایشیا اور افریقہ کے تمام ہی علاقوں تک ٹارچر اور آمریت دونوں کے فروغ میں امریکا کا بڑا اہم کردار ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ۱۹۴۶ء سے ۱۹۸۴ء تک پانامہ اور بعد میں Fort Benning, Georgiaکے مقام پر امریکی فوج کے زیراہتمام School of the Americas کے نام سے ایک ادارہ قائم تھا جس میں امریکا اور دوسرے ممالک کے فوجیوں اور ایجنسیوں کے لوگوں کو ٹارچر اور ظالمانہ تفتیش کے طور طریقوں اور اس سلسلے میں جدید ترین آلاتِ تعذیب کے استعمال کی باقاعدہ تربیت دی جاتی تھی۔ اسی اسکول کے تربیت یافتہ عملے نے جنوبی امریکا اور دنیا کے دوسرے ممالک بشمول عرب ممالک میں ٹارچر کے ایک سیاسی آلے کے طورپر استعمال کو رواج دیا۔ اس سلسلے کے سارے حقائق‘ اخبارات اور رسائل میں تو آتے رہے لیکن پورے دستاویزی ثبوت کے ساتھ یہ ایک تازہ ترین کتاب کی شکل میں بھی شائع ہوگئے ہیں جسے الفرڈ میکائے (Alfred McCoy) نے مرتب کیا ہے اور جو A Question of Torture کے نام سے شائع ہوگئی ہے۔ (ملاحظہ ہو‘ گارڈین‘ لندن میں نوم کلین (Noam Klein) کا مقالہ ’US has been using Torture for Decades‘ ڈان/گارڈین سروس‘ ۱۱دسمبر ۲۰۰۵ئ)
آج گوانتاناموبے کے سیکڑوں قیدیوں کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کیا جا رہا ہے‘ اور اب تک یورپ اور عرب ممالک کے تعذیب خانوں میں امریکا کے ایما پر جو کچھ کیا جاتا رہا‘ جس طرح قیدیوں کو ملک ملک بھیج کر ٹارچر کا نشانہ بنوایا گیا اور ابوغریب عراق کے دیگر قیدخانوں اور افغانستان کے متعدد قیدخانوں میں جو کچھ کیا جاتا رہا ہے وہ کوئی نئی چیز نہیں۔ امریکی وزیردفاع رمزفیلڈ نے تو صاف کہا ہے کہ تفتیش کے لیے غیرمعمولی ذرائع کا استعمال ضروری ہے۔ بات صرف رمزفیلڈ کی نہیں‘ سارے قرائن ظاہر کرتے ہیں کہ ٹارچر کی نہ صرف اجازت بلکہ اس کے کھلے استعمال کی ہدایت یا حکم کا رشتہ صدربش تک پہنچتا ہے۔ نوم کلین لکھتا ہے:
ہمیں اس بارے میں واضح ہونا چاہیے کہ کیا چیز ہے جس کی پہلے مثال نہیں ملتی: ٹارچر نہیں‘ بلکہ اس کا کھلا کھلا ذکر۔ ماضی کی حکومتیں اپنے ان سیاہ کرتوتوں کو خفیہ رکھتی تھیں‘ جرائم کی اجازت ہوتی تھی لیکن ان کا ارتکاب چھپ چھپا کر کیا جاتا تھا‘ سرکاری سطح پر اس کی تردید اور مذمت ہی کی جاتی تھی۔ بش انتظامیہ نے یہ تکلف ختم کر دیا ہے۔ نائن الیون کے بعد اس نے بلاکسی جھجک اور شرم و حجاب کے ٹارچر کرنے کے حق کا مطالبہ کیا‘ جس کو نئی تعریفوں اور نئے قوانین سے جواز فراہم کیا۔
ٹارچر‘ امریکا اگر اپنے ملک کی حدود سے باہر کر رہا ہے‘ تب بھی اس کا جواز کسی صورت فراہم نہیں ہوتا لیکن اصل اعتراض تو ٹارچر کے ارتکاب پر ہے‘ خواہ کہیں ہو۔ امریکی انتظام میں چلنے والے قیدخانوں میں‘ امریکی شہری قیدیوں کو ٹارچر کرتے ہیں اور انھیں امریکی جہازوں میں ہی دوسرے ممالک میں منتقل کیا جاتاہے۔ خفیہ کاموں کے لیے ضروری طور طریقوں کوبالاے طاق رکھنے کے عمل نے فوجی اور خفیہ سروس کی برادری کو مخالفت میں کھڑا کردیا ہے۔ بش نے یہ صورت پیدا کر دی ہے کہ کوئی بھی ایسی تردید نہیں کرسکتا جس پر یقین کیا جاسکے۔ یہ تبدیلی بے حد اہمیت کی حامل ہے۔ جب ٹارچر خفیہ طور پر کیا جائے لیکن سرکاری اور قانونی طور پر انکار کیا جائے تو امید ہوتی ہے کہ جب ظلم بے نقاب ہوگا تو انصاف میسر آئے گا۔ لیکن جب یہ قانون کے پردے میں ہو اور جو ذمہ دار ہوں وہ انکار کریں کہ یہ ٹارچر ہے تو انسان کے اندر وہ مر جاتا ہے جسے ہنّا آرنڈٹ (Hannah Arendt) نے انسان کے اندر کا منصف قرار دیا ہے۔ جلد ہی متاثرہ لوگ انصاف کے حصول سے مایوس ہوکر اور اس کی کوشش میں خطرات کا یقین ہونے کی بنا پر اس کی کوشش ہی ترک کردیتے ہیں۔ یہ بڑے پیمانے پر وہی کچھ ہے جو کسی عقوبت خانے میں ہوتا ہے جہاں قیدیوں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ جتنا چاہیں چیخ لیں‘ کوئی ان کے چیخنے چلّانے کو نہیں سن سکتا اور نہ کوئی انھیں بچانے کے لیے آئے گا۔ (ڈان بحوالہ دی گارڈین نیوز سروس‘ ۱۱دسمبر ۲۰۰۵ئ‘ ص۱۲)
الفریڈ میک کوائے نے ٹارچر کے سلسلے میں امریکا کے تاریخی جرائم کے دستاویزی ریکارڈ کو پیش کرکے دنیا کے اور خود امریکا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے: بات اِکا دکا واقعات یا چند قانونی ترامیم کی نہیں‘ اگر حالات کو بدلنا ہے تو ظلم کے اس پورے نظام کو بدلنا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ اداروں اور حکومت کی شرکت کی تاریخ اور گہرائی کو نہیں سمجھیں گے تو آپ بامعنی اصلاحات کا آغاز نہیں کرسکتے۔ (ایضاً)
ان سنگین الزامات کے ساتھ امریکی جمہوریت پر ایک اور بدنما داغ بلکہ اس کے ایک مہلک ناسور کے بارے میں بھی انکشاف ہوا ہے جس کا تعلق صحافت کی آزادی سے ہے۔ بلاشبہہ امریکا میں صحافت اور میڈیا کو بڑی آزادی میسر ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکا کے میڈیا پر چند گروہوں کا قبضہ ہے جو اسے اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سرفہرست صہیونی لابی ہے جس کے اثرات پر ایک نہیں دسیوں کتب شائع ہوچکی ہیں۔ ایڈورڈسعید اور نوم چومسکی نے اس موضوع پر خاصا تحقیقی کام کیا ہے۔ دوسری بڑی لابی اب نیوکونز (Neo-Cons) کی ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ چشم کشا انکشافات وہ ہیں جو خود امریکی حکومت کے کردار کے بارے میں سامنے آرہے ہیں۔
صدربش‘ ڈک چینی اور حکومت کے اہم کارپرداز بلاواسطہ پریس کو ’مشورے‘ (advice) دیتے رہے ہیں۔ اب یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ صحافت اور میڈیا میں سرکاری ایجنسیوں کے تنخواہ دار بڑی تعداد میں کام کرتے ہیں۔ حکومت کی ہدایات پر بڑے بڑے اخبارات نے نہایت اہم خبریں دبا (kill کر)دی ہیں یا ان کی اشاعت کو مہینوں موخرکیا‘ اور پھر اسی وقت شائع کیا جب ان کے کسی نہ کسی صورت باہر آنے کا امکان صاف نظر آنے لگا۔ یہ بھی اب دستاویزی شہادتوں کے ساتھ ثابت ہوچکا ہے کہ امریکی فوج کے ساتھ جو صحافی ہوتے ہیں اور جن کو embedded journalists کہا جاتا ہے‘ وہ اپنے چشم دید حقائق کو بیان نہیں کرتے بلکہ دراصل فوج کے نقطۂ نظر کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس طرح صحافت کو بھی فوج کی مہم کا ایک حصہ بنادیا گیا ہے۔ پھر اس کی شہادتیں بھی سامنے آگئی ہیں کہ فوج نے خطیر رقم دے کر عراق ہی میں نہیں‘ہر جگہ اپنے مفیدمطلب مضامین لکھوائے ہیں اور خبروں کو خاص رنگ دلوایا ہے۔ امریکا اور برطانیہ دونوں جگہ صحافیوں کو ایک خاص انداز میں واقعات کے بیان پر آمادہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں رابرٹ فسک (Robert Fisk)نے لندن کے اخبار انڈی پنڈنٹ میں بڑا تفصیلی اور حقائق سے بھرپور مواد شائع کیا ہے۔ اب تو یہ واقعہ بھی طشت ازبام ہوچکا ہے کہ خود بش نے الجزیرہ ٹی وی پر بم باری کرنے کی بات کی تھی مگر ٹونی بلیر نے اسے روکنے کی کوشش کی۔ جب یہ خبرشائع ہوگئی تو ٹونی بلیر اور برطانیہ اور امریکا کی ایجنسیوں کو یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ یہ بات باہر کیسے نکل گئی۔ آزادیِ صحافت کے دعوے داروں کے ان کرتوتوں نے دنیا کی نگاہوں میں ان کی ہی نہیں‘ بڑے بڑے اخبارات کی ساکھ (credibility) کو بھی مجروح کیا ہے۔
امریکا کا یہی وہ دوغلا رویہ ہے جس نے دنیا کے عوام کو مایوس کیا ہے اور جمہوریت‘ آزادی اور حقوق انسانی کے امریکی دعووں کی کوئی وقعت باقی نہیں رہی ہے۔ امریکا کے مجرم ضمیر کی بہترین ترجمانی خود اس کے سابق صدر جمی کارٹر نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں کی ہے جس کا حسبِ ذیل اقتباس سنجیدہ غوروفکر کا متقاضی ہے اور خود امریکا کی موجودہ قیادت کے لیے لمحہ فکریہ ہے:
حالیہ برسوں میں میری اس تشویش میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے کہ حکومت کی انتہاپسندانہ پالیسیوں نے ہمارے ان بنیادی اصولوں کو زبردست نقصان پہنچایا ہے جن کا ماضی کی ساری ڈیموکریٹ اور ری پبلکن حکومتوں نے سختی سے تحفظ کیا تھا۔ ان میں امن‘ معاشی و سماجی انصاف‘ شہری آزادیوں اور بنیادی انسانی حقوق جیسے اصول شامل ہیں۔ موجودہ حکومتی طرزعمل نے شہریوں کو مبنی برصداقت اطلاعات فراہم کرنے‘ اختلافی آوازوں اور دوسروں کے نظریات کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنے جیسے پختہ امریکی تصورات کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ امریکی قیادت‘ یہ اندازہ کیے بغیر ساری دنیا پر سامراجی بالادستی قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ ہمیں اس کی کیا قیمت ادا کرنی پڑی ہے یا آیندہ ادا کرنی ہوگی۔ دہشت گردی کے خطرے سمیت ‘ باہمی مفادات کے مختلف امور پر دوسرے ممالک سے خوش دلانہ اتفاق رائے اور اتحاد قائم کرنے کے بجاے ہم نے اس شاہی فرمان کا سہارا لیا کہ ’’تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف؟‘‘ انسانی حقوق کے عظیم چیمپین کے طور پر اپنے تصورات کی سربلندی کے لیے کوشش کرنے کے بجاے ہم شخصی اور شہری آزادیوں کی کھلی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔ کس قدر شرم کی بات ہے کہ صدر اور نائب صدر اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ سی آئی اے کو زیرحراست افراد سے ظالمانہ‘ غیرانسانی اور توہین آمیز برتائو کی اجازت ہونی چاہیے۔ دنیا کی واحد سوپر پاور کی حیثیت سے امریکا کو امن‘ آزادی اور انسانی حقوق کا پرعزم چیمپین اور انسانی ہمدردی کے کاموں کا ہراول دستہ ہونا چاہیے۔ وقت آگیا ہے کہ سیاسی تقسیم سے قطع نظر‘ سارے امریکی اپنے اس مشترکہ عہد کو تازہ کریں کہ ہم پھر سے ان سیاسی واخلاقی اقدار کا احیا کریں گے جنھیں ہم نے ۲۳۰ سالوں سے سینے سے لگا رکھا تھا۔ (نوائے وقت‘ ۱۸ نومبر ۲۰۰۵ئ)
آخیر میں ہم ہرالڈ پنٹر (Harold Pinter) کی اس ویڈیو تقریر کے چند اقتباس دینا چاہتے ہیں جو اس نے اس سال کا نوبل پرائز وصول کرتے وقت کی اور اس نے امریکا کے حقیقی کردار کو اس عالمی فورم پر بڑے دو ٹوک انداز میں پیش کرکے پوری دنیا کے انسانوں کے جذبات کی ترجمانی کی۔ اس نے کہا:
کسی خودمختار ریاست پر براہ راست حملہ کبھی بھی امریکا کا پسندیدہ طریقہ نہیں رہا۔ اس نے ہمیشہ عام طور پر اس طریقے کو ترجیح دی ہے جسے کم شدت کا (low intensity) تصادم کہا جاتاہے۔ اس میں اگرچہ ہزاروں معصوم اور بے گناہ آدمی مرتے ہیں لیکن ان پر ایک ہی دفعہ بم برسا کر انھیں موت کے گھاٹ اُتارنے کے مقابلے میں‘ اس طرح اموات سُست رفتاری سے ہوتی ہیں۔ اس صورت میں آپ اس ملک کے قلب کو مبتلاے مرض (infect)کرتے ہیں‘ آپ ایک سرطانی پھوڑا پیدا کرتے ہیں اور گینگرین کوبڑھتا ہوا دیکھتے ہیں۔ جب آبادی شکست خوردہ ہوجائے___ یا مار دی جائے ایک ہی بات ہے___ اور آپ کے اپنے دوست‘ فوج اور بڑی کارپوریشنیں‘ آرام سے اقتدار پر بیٹھ جائیں تو آپ کیمرے کے سامنے جاکر کہتے ہیں کہ ’’جمہوریت قائم ہوگئی ہے‘‘۔ یہ امریکی خارجہ پالیسی میں ان برسوں میں عام بات تھی جن کا میں ذکر کر رہا ہوں…دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد امریکا نے دنیا میں دائیں بازو کی ہر فوجی آمریت کی حمایت کی اور اکثر صورتوں میں اسے قائم کیا۔ میرا مطلب انڈونیشیا‘ یونان‘ یوراگوئے‘ برازیل‘ پیراگوئے ‘ ہیٹی‘ ترکی‘ فلپائن‘ گواٹے مالا‘ سلواڈوار اور یقینا چلّی سے ہے۔ ۱۹۷۳ء میں امریکا نے صرف چلّی میں جو خوفناک زخم لگائے ان کا ازالہ ممکن نہیں اور اسے ہرگز معاف نہیں کیا جاسکتا۔ ان تمام ممالک میں لاکھوں آدمی مارے گئے۔ کیا ان سب اموات کو امریکی خارجہ پالیسی کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے؟ جواب ہے: ہاں۔ ان سب اموات کا سبب امریکی خارجہ پالیسی ہی تھی…
امریکا کے جرائم منظم‘ فاسقانہ‘ بے رحمانہ اور کسی قسم کی پشیمانی کے بغیر عمل میں آتے رہے ہیں مگر بہت کم لوگوں نے ان کے بارے میں کھل کر بات کی ہے۔ اس نے ’نیکی کے لیے ایک طاقت‘ کا بہروپ بھرکر، اسے نہایت کمالِ فن سے پوری دنیا میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ آپ کو امریکا کو داد دینی پڑتی ہے۔ یہ ہپناٹزم کا ایک شان دار‘ ذہانت سے بھرپور اور غیرمعمولی کھیل ہے۔
میں آپ سے کہتا ہوں کہ امریکا سب کی آنکھوں کے سامنے یہ کھیل کھیل رہا ہے۔ امریکا کا یہ ڈراما بے حد ظالمانہ‘ وحشیانہ اور نفرت انگیزہے۔ اس سے امریکا کی مکاری بھی ظاہر ہوتی ہے…
ہماری اخلاقی حِس کو کیا ہوگیا ہے۔ کیا کبھی ہماری یہ حِس تھی بھی؟ کیا ان الفاظ کے کوئی معنی ہیں؟ کیا یہ ایک ایسے لفظ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو آج کل بہت کم استعمال کیا جاتا ہے‘ یعنی ضمیر؟ صرف ہمارے اپنے افعال کے ساتھ نہیں‘بلکہ دوسرے کے افعال میں جو ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے اس میں بھی۔ کیاہماراضمیر مُردہ ہو چکا ہے؟
گوانتاناموبے کو دیکھیے‘ سیکڑوں افراد کسی الزام کے بغیر تین سال سے زائدعرصے سے قید ہیں۔ انھیں قانونی چارہ جوئی کا کوئی حق نہیں۔ ان پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا جا رہا۔ عملی طور پر وہ عمرقید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ جنیوا کنونشن کے علی الرغم کلی طور پر ناجائز یہ کارروائی جاری ہے۔ نہ صرف یہ کہ اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جا رہا ہے بلکہ جسے ہم ’عالمی برادری‘ کہتے ہیں، اسے بھی اس کی کوئی فکر نہیں۔ یہ مجرمانہ کارروائی ایک ایسا ملک کررہا ہے جو اپنے آپ کو آزاد دنیا کا قائد قرار دیتا ہے…
عراق پر حملہ ایک قزاقانہ اقدام تھا۔ یہ بین الاقوامی قانون کی حددرجے کی توہین تھی اور کھلی کھلی ریاستی دہشت گردی۔ یہ حملہ ایک فوجی حملہ تھا‘ اس کے لیے جھوٹ پر جھوٹ گھڑا گیا۔ اس حملے کا مقصد مشرق وسطیٰ میں امریکا کے فوجی اور معاشی کنٹرول کو مستحکم کرنا تھا۔ ہر طرح کی وجوہ ثابت کرنے میں ناکامی کے بعد آخری چارئہ کار کے طور پر آزادی دلانے کا بہانہ بنایا گیا۔ فوجی طاقت کے اس مظاہرے سے ہزاروں لاکھوں معصوم لوگوں کی موت اورتباہی واقع ہوئی ہے۔
ہم نے عراقی عوام کو کیا دیا ہے؟ ٹارچر‘ کلسٹربم‘ ڈپلیٹڈ یورینیم‘ بلالحاظ قتل و غارت کے لاتعداد واقعات‘ اور ان کی توہین اور تذلیل‘ مگر اس کے باوجود کہتے ہیں کہ ہم مشرق وسطیٰ کے لیے آزادی اور جمہوریت لائے ہیں۔
ایک شخص کو جنگی مجرم اور قتلِ عام کا مرتکب قرار دینے کے لیے آخر آپ کو کتنے آدمی مارنا ہوتے ہیں۔ ایک لاکھ؟ میرے خیال میں یہ کافی ہیں۔ اس لیے یہ انصاف کا تقاضا ہے کہ بش اور بلیر کو عالمی عدالت کے سامنے لایا جائے۔ لیکن بش چالاک ہے۔اس نے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ آف جسٹس کی توثیق نہیں کی ہے۔ اب اگر کوئی امریکی فوجی یا سیاست دان ہی سہی‘ کٹہرے میں لایا جائے گا تو بش نے دھمکی دے رکھی ہے کہ وہ اپنی فوجیں بھیج دے گا۔ لیکن ٹونی بلیر نے اس عالمی عدالت کی توثیق کی ہے‘ اس لیے بلیر پر تو مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ اگر عدالت کو دل چسپی ہے تو ہم اس کا پتا بتائے دیتے ہیں: مسمّی ٹونی بلیر‘ ساکن ۱۰-ڈاؤننگ اسٹریٹ‘ لندن۔
عراق میں مزاحمت کے شروع ہونے سے پہلے ہی امریکی بموں اور میزائلوں سے کم سے کم ایک لاکھ عراقی ہلاک ہوچکے تھے۔ کیا ان لوگوں کی کوئی حیثیت نہیں؟ ان کی اموات کوئی معنی نہیں رکھتیں؟ ان اموات کا کوئی ریکارڈ بھی نہیں‘ اور ضرورت بھی کیا ہے۔ اس لیے امریکی جنرل ٹونی فرانکس نے کہا ہے کہ ہم لاشیں نہیں گنتے۔ (دی گارڈین‘ ۸ دسمبر ۲۰۰۵ئ‘ ص ۱۰-۱۲)
ہرالڈ پنٹر نے بسترعلالت سے مظلوم انسانیت اور امریکا کے ہاتھوں زخم خوردہ اور ستم زدہ افراد و اقوام کی طرف سے کلمۂ حق کہہ کر فرض کفایہ ادا کیا ہے۔ یہ انسانیت کے ضمیر کی آواز ہے جسے کوئی آج سنے یا نہ سنے ‘کل ان شاء اللہ اسی آواز سے پوری دنیا کے دروبام گونجیں گے۔
امریکا کے جمہوری نظام کے لیے آج صدر بش‘ ان کی انتظامیہ اور نیوکون کا پورا طائفہ ایک خطرہ بن گئے ہیں۔ صدربش نے دستور کے الفاظ اور روح دونوں کی خلاف ورزی کی ہے اور اپنی راج ہٹ پر قائم ہیں۔ انھوں نے تقرریوں کے نام پر دستور کے متعین طریقے کو ترک کر کے اعلیٰ مناصب پر چور دروازوں سے اپنے پسندیدہ افراد کو مسلط کیا ہے اور اس ضمن میں کانگریس اور سینیٹ کو بھی نظرانداز کرنے میں کوئی تردد محسوس نہیں کیا۔ عام شہریوں کی جاسوسی اور ان کی نجی زندگی کی تقدیس کو پامال کیا اور اس پر عوامی احتساب کو حقارت کے ساتھ نظرانداز کردیا ہے۔ فوج اور سی آئی اے کے ذریعے انسانیت سوز مظالم کو روا رکھا ہے بلکہ عملاً اسے سندجواز فراہم کی ہے اور اب جب دفاعی بل میں سینیٹر میک کین کی ترمیم کے ذریعے ٹارچر پر کھلی پابندی لگائی گئی ہے‘تب بھی نئے قانون پر دستخط کرنے کے بعد ایک سرکاری اعلامیے میں صدر کے امتیازی اور صوابدیدی اختیار کا اعادہ کیا گیا ہے‘ جب کہ سینیٹ نے نائب صدر ڈک چینی کی ساری کوشش کے باوجود ‘صدر کو استثنا کرنے کا اختیار دینے سے انکار کردیا تھا جس سے قانون سازوں کی نیت کسی ابہام کے بغیر واضح ہوگئی تھی۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس وقت امریکا کے ’جمہوری ڈھانچے‘ پر جو گروہ مسلط ہے وہ شہنشاہی (imperial) فکر کا حامل ہے۔ نیوزویک بالعموم صدر بش کی حمایت کی روایت پر قائم ہے‘ لیکن اس کا مدیر بھی اس ذہنیت پر گرفت کیے بغیر نہیں رہ سکا۔ امریکا کی قیادت جمہوریت کے پہلے اصول‘ یعنی قانون کی پاسداری کی خلاف ورزی تو کرہی رہی ہے لیکن جمہوریت کی روح‘ یعنی دوسرے کی بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں۔ فرید زکریا An Imperial Presidencyکے عنوان سے نیوزویک کے ۱۹دسمبر ۲۰۰۵ء کے شمارے میں لکھتا ہے کہ صدربش کے دور میں:
امریکا نے جمہوریت کا ایک شہنشاہی انداز اختیار کیا ہے۔ بیرونی ممالک کے لیڈروں سے کافی ربط و ضبط ہے مگر یک طرفہ ہے۔ جن بیرونی لیڈروں سے مشورہ کیا جاتا ہے‘ دراصل انھیں امریکی پالیسی کی فقط اطلاع دی جاتی ہے۔ ’’جب ہم امریکی افسروں سے ملتے ہیں‘ وہ بولتے ہیں‘ہم سنتے ہیں۔ ہم شاذ ہی اختلاف کرتے ہیں یا کھل کر بولتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ اسے برداشت نہیں کرسکتے‘‘۔ یہ بات ایک سینیرافسرخارجہ نے اپنے مقابل امریکی افسروں کو ناراض کرنے کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتائی۔ شہنشاہی انداز جو ناراضی پیدا کرتا ہے‘ اس سے قطع نظر بے نیازانہ رویے کا مطلب یہ بھی ہے کہ امریکی افسران غیرملکیوں کے تجربے اور مہارت سے مستفید نہیں ہوپاتے… غیرملکیوں کو امریکی افسر اُس دنیا کے بارے میں جو وہ چلا رہے ہیں بڑی حد تک بے خبر نظر آتے ہیں… شہنشاہی انداز کی اپنی خوبیاں بھی ہیں۔ یہ خوف زدہ کرتا ہے‘ فیصلہ کن اقدام کے لیے جواز فراہم کرتا ہے اور دوسرے ممالک کو اپنے پیچھے آنے پر مجبور کرتا ہے لیکن یہ قیمتوں کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ اس لیے جس دنیا میں ہم داخل ہورہے ہیں‘اس کے لیے تو خاص طور پر نامناسب ہے۔ (نیوز ویک‘ ۱۹دسمبر ۲۰۰۵ئ)
اور یہی وہ انداز ’جمہوریت‘ ہے جو بش کی قیادت میں امریکا نے رائج کیا ہے لیکن اس کا نتیجہ ہے کہ خود امریکا میں آج جمہوریت کو اصل خطرہ ان نام نہاد دہشت گردوں سے نہیں جن کے سایوں (shadows) کا تعاقب کیا جارہا ہے بلکہ ان جلادوں سے ہے جو جمہوریت کے نام پر جمہوریت کے ہر اصول‘ روایت اور قدر کا خون کر رہے ہیں۔
ہمیں اس سے انکار نہیں کہ امریکی دستور میں بڑی اچھی باتیں لکھی گئی ہیں۔ ہمیں اس سے بھی انکار نہیں کہ امریکی نظامِ حکومت میں بہت سی اچھی چیزیں بھی ہیں اور عام امریکیوں میں بہت سی وہ انسانی خوبیاں موجود ہیں جو شرفِ انسانیت کا حصہ ہیں۔ امریکا میں آج بھی بڑی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو موجودہ امریکی قیادت کی پالیسیوں اور اقدامات پر ناخوش ہیں یا ماضی کی اُن پالیسیوں پر جو امریکا کی مختلف قیادتیں اپنے اپنے دورِاقتدار میں کرتی رہی ہیں۔ ان مثبت پہلوئوں کے کھلے دل سے اعتراف کے ساتھ ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ امریکی حکمران خصوصیت سے نائن الیون کے بعد جس راستے پر چل پڑے ہیں‘ وہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی نفی ہے اور عالمی امن و سلامتی کے لیے یہ راستہ بڑا خطرناک ہے۔ امریکا کی ان پالیسیوں نے دہشت گردی میں اضافہ کیا ہے اور دنیا کی مختلف اقوام ‘ خصوصیت سے مسلمان اقوام کے چین اور سکون و اطمینان کو پارہ پارہ کر دیا ہے اور امریکا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف عملاً صف آرا کردیا ہے‘ نیز دنیا کی تمام کمزور قوموں اور ان کے عوام کو ظلم اور محرومی کی آگ میں دھکیل دیا ہے۔ طاقت کی عدم مساوات نے عالمی سطح پر ایک ایسے نئے قسم کے عدمِ تحفظ کو جنم دیا ہے جو کمزور انسانوں کو ایسا راستہ اختیار کرنے کی طرف دھکیل رہا ہے جس سے دنیا میں تشدد‘ خون ریزی اور دہشت گردی میں اضافہ ہورہا ہے۔
یہ حالات سب کے لیے بڑے خطرناک ہیں اور امریکا کو اس زعم میں نہیں رہنا چاہیے کہ وہ محض قوت اور پروپیگنڈے کے بل بوتے پر اقوامِ عالم پر قبضہ کرسکتا ہے اور ان کو اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔ یہ فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ ہوش مندی کا راستہ یہ ہے کہ امریکا سے بے زاری اور نفرت کے اسباب کا بے لاگ جائزہ لیا جائے اور وہ اسباب جو دُوری اور نفرت پیدا کررہے ہیں‘ ان کو دُور کیا جائے۔ ظلم اور ناانصافی کا خاتمہ کیا جائے اور بقاے باہمی کے اصول پر انصاف اور ایک دوسرے کی آزادی‘ حقوق اور تہذیب و روایات کے احترام کی بنیاد پر عالمی امن کے حصول کی کوشش کی جائے۔ اس کے سوا جو بھی راستہ ہے‘ وہ تباہی کا راستہ ہے اور یہ تباہی وہ ہے جس کی آگ صرف کمزوروں کو اپنی گرفت میں نہیں لیتی بلکہ طاقت ور بھی اسی طرح اس کا نشانہ بنتے ہیں جس طرح کمزور۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ طاقت کی بنیاد پر انسانی مسائل و معاملات کو حل کرنے کی حماقت نہ کی جائے بلکہ عقل و انصاف اور افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا جائے کیوں کہ یہی وہ راستہ ہے جس میں سب کی فتح ہے اور شکست کسی کی بھی نہیں۔
جنرل پرویز مشرف تضادبیانی میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ ان کا ہر انٹرویو اپنے جلو میں نئی گل افشانیاں لے کر آتا ہے اور انھیں شوق ہے کہ دنیا کے ہر مسئلے پر گوہرافشانی ضرور فرمائیں حالانکہ صاحبانِ عقل نے کم گوئی اور سوچ سمجھ کر حسب ِضرورت بات کرنے ہی کو اچھی اور مدبرانہ قیادت کا خاصّہ قراردیا ہے۔ اس مہینے جمہوریت کے تصور کے بارے میںپے در پے ان کے دو انٹرویو آئے ہیں جن کا نوٹس نہ لینا قومی جرم سے کم نہ ہوگا۔
پہلا انٹرویو ایک ترک خاتون صحافی کو دیا گیا ہے جو جیو پرائیویٹ ٹی وی چینل کے تعاون سے حاصل کیا گیا ہے اور دوسرا وہ خطاب ہے جو انھوںنے امریکا کے اسٹینفورڈ یونی ورسٹی گریجویٹ اسکول آف بزنس کے ۳۰ طلبا کے سامنے گورنر ہائوس کراچی میںفرمایا۔ ان دونوں مواقع پر جنرل صاحب نے اس بات کا اعتراف کیا کہ جمہوریت میں صدرمملکت کی وردی کی کوئی گنجایش نہیں اس لیے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن اسی سانس میں انھوں نے یہ بھی ارشاد فرما دیا کہ پاکستان کے قومی مفاد میں ان کا وردی میں رہنا ضروری ہے‘ اگر ایسا نہ ہو تو پھر یہاں جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اُتر جائے گی۔ اپنے اس متضاد دعوے کے حق میں انھوں نے دو دلائل بھی دینے کی جسارت کی۔
اوّلاً ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں قیادت کی وحدت (Unity of Command) ضروری ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب وہ خود صدرمملکت کے ساتھ فوج کے سربراہ بھی رہیں۔ اس سے ان کے زعم میں فوج‘ سیاست اور بیورو کریسی میں یگانگت اور وحدت پیدا ہوتی ہے جس کی بنیاد پر انتظامیہ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کرسکتی ہے۔ بلکہ انھوں نے یہ دلیل بھی دی ہے کہ میرے صدر اور چیف آف اسٹاف ہونے ہی کا کرشمہ تھا کہ ایک اشارے پر فوج زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے فی الفور سرگرم ہوگئی۔
دوسرا ارشاد عالی مقام یہ ہے کہ پاکستان کے دستور کے تحت قومی اسمبلی اور سینیٹ کی دوتہائی اکثریت نے انھیں خصوصی اختیار دیا ہے کہ وہ یہ دونوںعہدے اپنے پاس رکھیں اور اسے انھوں نے ایک بہت ہی اچھا فیصلہ قراردیا (I think the decision is very good)۔
جنرل صاحب کے یہ دونوں بے بنیاد دعوے کسی بھی ذی ہوش اور محب وطن پاکستانی کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتے‘ نہ خاموشی سے انھیں یوں ہی جانے دیا جاسکتا ہے۔ نہ ان پر خاموش رہنا ممکن ہے۔پہلا دعویٰ اصولی طور پر قابلِ گرفت ہے تو دوسرا واقعاتی طور پر۔ پہلے‘ دوسرے دعوے کو لیجیے جو صریح جھوٹ اور غلط بیانی پر مبنی ہے۔ جنرل صاحب نہایت دیدہ دلیری سے غلط بیانی کررہے ہیں۔ ۱۷ویں دستوری ترمیم میں جسے پارلیمنٹ نے دو تہائی اکثریت سے منظور کیا تھا‘واضح طور پر طے کردیا گیا تھا کہ ایک دستوری انحراف (deviation)کے طور پر ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء تک انھیں چیف آف اسٹاف کا عہدہ رکھنے کا موقع دیا گیا ہے جس کے بعد اس کا چھوڑنا لازمی ہوگا۔ خود جنرل صاحب نے ٹی وی پر آکر قوم سے عہد کیا تھا کہ گو مجھے قومی مفاد اور حالات کی ضرورت کی بنیاد پر دوعہدے رکھنے کا مشورہ دیا جا رہا تھا لیکن میں نے طے کرلیا ہے کہ ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء سے پہلے فوج کی سربراہی سے فارغ ہوجائوں گا۔ انھوں نے دستور کے الفاظ اور سیاسی معاہدے کے علی الرغم‘ محض عام اکثریت (simple majority) سے ایک خصوصی قانون منظور کرا کر قوم اور پارلیمنٹ سے وعدہ خلافی کی اور اس طرح دستور کو مسخ کیا اور اب دعویٰ کر رہے ہیں کہ پارلیمنٹ نے دو تہائی اکثریت سے ان کو اس کی اجازت دی۔ یہ سراسر خلافِ واقعہ ہے۔
رہا مسئلہ جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی پر چلانے کے لیے جمہوریت کے مسلّمہ اصولوں کے خلاف فوج کی سربراہی پر براجمان رہنا‘ تو اس مضحکہ خیز دلیل کو کون بقائمی ہوش و حواس تسلیم کرسکتا ہے۔ یونٹی آف کمانڈ کی بات بھی ایک انتہائی خطرناک سوچ کی غمازی کرتی ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل لغو بات ہے کہ اگر میں صدر ہونے کے ساتھ چیف آف اسٹاف نہ ہوتا تو فوج سکھر بیراج کی تعمیر بروقت نہیں کرسکتی تھی اور نہ زلزلہ زدگان کی بروقت مدد ہوسکتی تھی۔ اگر ہم دلیل کی خاطر یہ نظرانداز بھی کردیں کہ عام شہری‘اسلامی تحریکات کے کارکن اور مجاہد تنظیموں کے سرفروش زلزلوں کے چند گھنٹے کے اندر ملبے میں دبے ہوئے اپنے بھائی بہنوں بلکہ مظفرآباد میں فوجی جوانوں کو ملبے سے نکالنے کے لیے پہنچ گئے تھے‘ جب کہ یونٹی آف کمانڈ کا طرہ زیب تن کیے ہوئے جرنیل صاحب کو خود اپنے بقول زلزلے کی تباہ کاریوں کا اندازہ زلزلے کے پورے سات گھنٹے کے بعد ہوا اور فوج متاثرہ مقامات میں دوسرے‘ تیسرے‘ حتیٰ کہ ساتویں دن پہنچی۔ اس کارکردگی پر پریس اور پارلیمنٹ میں سخت تنقید بھی ہوئی ہے۔
اگر اس پہلو کو نظرانداز کر دیا جائے تب بھی سب سے بنیادی اور اصولی بات یہ ہے کہ دستور کے تحت اور پوری جمہوری دنیا کی مسلّمہ روایت کے مطابق فوج سول حکومت کے تابع ہوتی ہے اور یہی اصول پاکستان کے دستور کی دفعہ ۱۴۵ میں واضح الفاظ میں موجود ہے۔ اسی کا برملا اعلان قائداعظم نے کوئٹہ میں فوج کے جوانوں کو خطاب کرتے ہوئے ۱۹۴۸ء کے اوائل میں کیا تھا۔ دنیابھر میں غیرمعمولی حادثات کے موقع پر خواہ ان کا تعلق سیلاب اورآسمانی آفات سے ہو یا سول نظام کے درہم برہم ہونے سے‘ سول حکومت کے ایک اشارے پر فوج حکم کی تعمیل میں اپنی ذمہ داری پوری کرنے پر کمربستہ ہوجاتی ہے۔ سونامی کے موقع پر تمام متاثرہ ممالک میں اس کا منظر دیکھا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں بھی سیلاب کے موقع پر ہر دور میں فوج نے خدمات انجام دی ہیں۔ امریکا میں کترینا کے طوفان میں تباہ ہونے والوں کی مدد کے لیے فوج حرکت میں آگئی۔ کیا یہ سب یونٹی آف کمانڈ کا کرشمہ تھا یا دستوری اور قانونی نظام کے موجود ہونے اور فوج کے سول حکومت کے تابع ہونے کا۔ برطانیہ میں تو فوج کسی معمولی سی معمولی کارروائی کے لیے بھی وزیراعظم کی ہدایت کے بغیر حرکت نہیں کرسکتی۔
پھر جنرل صاحب کو اس حقیقت کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ فوج کے اندر کے نظام میں یونٹی آف کمانڈ ضروری ہے‘ لیکن سول حکومت اور فوج کے درمیان رشتہ‘ کمانڈ کی وحدت کا نہیں‘ فوج کا سول کمانڈ کے تحت ہونے کا ہے۔ غیرسیاسی نظام اپنا مخصوص مزاج رکھتا ہے اور یہاں یونٹی آف کمانڈ نہیں بلکہ اختیارات میں تفریق (separation of power) اور اختیارات کی تقسیم (distribution of power) کی بنیاد پر سارا نظام چلتا ہے۔ اصل حکمران قوت ملک کا دستور ہوتا ہے جو پورے نظامِ قیادت (command structure) کو دوٹوک الفاظ میں بیان کردیتا ہے۔ اور انتظامیہ‘ عدلیہ اور مقننہ کے درمیان بھی اختیارات کی تقسیم ہوتی ہے۔ مقننہ قانون سازی کرتی ہے‘ انتظامیہ ان قوانین اور فیصلوں کو نافذ کرتی اور عوام کی منتخب اسمبلی کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے اور عدلیہ قانون کی تعبیر کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ اس تقسیم اختیارات سے نظام میں توازن آتا ہے اور صحت مند کارکردگی ممکن ہوتی ہے۔ ارتکاز اختیارات مطلق العنانی اور کرپشن کا ذریعہ بنتا ہے جسے لارڈ ایکٹن (Acton) نے ایک جملے میں اس طرح ادا کیا تھا Power corrupts and absolute power corrupts absolutely (اقتدار بدعنوان بناتا ہے اور اقتدارِ مطلق مکمل پر بدعنوان بناتا ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ خود پاکستان کے دستور میں صدرمملکت‘ بجز ان اختیارات کے جہاں اسے صواب دیدی اختیار حاصل ہے‘ وزیراعظم کے مشورے کا پابند ہے۔
اسٹینفورڈ کے طلبہ کے سامنے جو وعظ جنرل صاحب نے فرمایا ہے وہ اس سے محظوظ نہیں ہوسکتے بلکہ سرپیٹ رہے ہوں گے کہ یہ کون سا سیاسی فلسفہ ہے جو جمہوریت کے سر تھوپا جا رہا ہے۔ شاید وہ دل ہی دل میں مشہور امریکی مصنف لیوس منفورڈ (Lewis Munford) کے بیان کردہ تاریخ اور علم سیاست کے اس اصول کو تازہ کر رہے ہوں گے جو اس نے اپنی کتاب The Condition of Man میں اس طرح بیان کیا ہے اور جس سے ہر فوجی آمر سبق سیکھ سکتا ہے:
ایک سیاسی معاشرہ موٹے رسّے کی مانند ہے جس میں کئی رسیاں گندھی ہوئی ہیں۔ ان رسّیوں کے باہم ملاپ سے محض اس کی مضبوطی میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی لچک بھی بڑھ جاتی ہے۔ رسّا اپنی نوعیت میں پیچیدہ ہے۔ سیاسی گرہیں اس کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہیں‘ لیکن سیاسی زندگی میں ہمارا مقام ہمیشہ برقرار رہنا چاہیے۔ گرہ کھولنے کے بجاے ننگی تلوار سے رسّی کاٹنے کا سکندراعظم کا طریقہ اختیار نہیںکرنا چاہیے۔ سیاسی عمل کے مسائل کو کوئی بھی احمق مارشل لا سے حل کرسکتا ہے مگر کوئی احمق ہی اس کو حکومت کے مصداق سمجھ سکتا ہے۔ (دی کنڈنشن آف مین‘ ص ۱۷۵)
ہماری ساری سیاسی مشکلات کی جڑ یہی غلط ذہنیت ہے کہ فردِ واحد تمام سیاسی مسائل کو قوت کے ذریعے طے کرسکتا ہے۔ آج جو کچھ بلوچستان میں ہو رہا ہے‘ وزیرستان میں ہو رہا ہے‘ باجوڑ میں ہورہا ہے‘ اس پر عوام میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ کالاباغ ڈیم بنانے کے یک طرفہ اور من مانے اعلانات کے خلاف پورا ملک جس طرح احتجاج کر رہا ہے ‘ پارلیمنٹ مفلوج ہوگئی ہے‘ عدلیہ بے دست و پا ہے‘ حتیٰ کہ بیوروکریسی جس طرح غیرموثر بنا دی گئی ہے اور نظام اور قانون کے تحت کام کرنے کے بجاے اُوپر والوں کی مرضی کو قانون کا درجہ دے دیاگیا ہے___ یہ ہے جمہوریت کا زوال اور ہماری قومی زندگی کا المیہ۔ ہم اس دلدل سے اس وقت تک نکل نہیں سکتے جب تک دستور اور قانون کی بالادستی قائم نہ ہو۔ اداروں کے استحکام کے ذریعے قومی استحکام حاصل کیا جائے‘ مرکز اور صوبوں کے درمیان اعتماد‘ تعاون اور اشتراکِ اختیارات کا نظام بحال کیا جائے ‘ فوج کو دفاع کی ذمہ داری کے لیے مخصوص کیا جائے اور سول نظام منتخب اداروں اور سول حکومت کے ذریعے چلایا جائے اورفوج بھی اس نظام کے تابع اور اس کے سامنے جواب دہ ہو۔
’باوردی جمہوریت‘ ایک متضاد اصطلاح ہے اور اس کا جاری رہنا ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے ایک عظیم خطرہ اور قوم کے لیے ایک لعنت کی حیثیت رکھتا ہے اور خود فوج کی دفاعی صلاحیت کو تباہ کرنے اور اسے قوم کی نگاہوں میںمتنازع بنانے کا ذریعہ ہے۔ ملک کی فوج ملک کے دفاع کے لیے ہے‘ نظامِ حکومت کو چلانے یا آبی بند بنانے کے منصوبے طے کرنے کے لیے نہیں۔ فوج بھی کسی شخص کی ذاتی جاگیر نہیں بلکہ دستور کے تحت ایک اہم اور محترم قومی ادارہ ہے۔ جو ذہن ’باوردی جمہوریت‘ کی بات کرتا ہے‘ وہ فوج کو بھی ایک دستوری ادارے کے بجاے سرداری نظام کی طرح ذاتی وفاداری کے مقام پر دیکھنا چاہتا ہے جس کا بڑا ہی تکلیف دہ اظہار اس انٹرویو میں ہوا ہے جو بھارتی ٹی وی چینل CNN-ABN کو دیا گیا اور جس میں یہاں تک کہہ دیا گیا ہے:
یہ ایسی ویسی فوج نہیں ہے‘ یہ مکمل طور پر میری وفادار اور تابع ہے۔
جب سوال کیا گیا کہ آپ کشمیر کے جومختلف حل پیش کررہے ہیں‘ کیا فوج اس میں آپ کے ساتھ ہے‘ تو فرمایا:
۲۰۰ فی صد بلکہ ۱۰۰۰ فی صد۔ اگر ان خیالات کے برعکس کوئی رجحان یا اختلاف راے رکھتا ہوگا تو ان کو چشم زدن میںفوج سے نکال دیا جائے گا۔ اگر وہ ہوں تو اگلے ہی دن فوج سے باہر ہوں گے۔
سوال: آپ کا مطلب ہے کہ آپ انھیں نکال باہر پھینکیں گے؟
جواب: بالکل‘ آپ سمجھیں کہ (اگر میں یہ نہ کروں تو) میں فوج کا بے حیثیت سربراہ ہوں گا۔ یہ ایسی ویسی فوج نہیں ہے۔ میں یہاں ذمہ دار ہوں۔ جنرل اور کور کمانڈر ہیں جو کور کے ذمہ دار ہیں۔ کوئی سوال ہی نہیں کہ یہاں کوئی ایسی حرکتیں کر رہا ہو۔ اگر وہ کریں گے تو اگلے ہی روز نکال باہر کیے جائیں گے۔
بلاشبہہ آرمی میں ڈسپلن ہونا چاہیے لیکن سیاسی معاملات اور طریقوں کے بارے میں اختلاف راے اور چیز ہے اور آرمی ڈسپلن دوسری شے۔ لیکن جب دفاع میں ’یونٹی آف کمانڈ‘ کے نام پر شخصی آمریت کا بھوت سوارہو تو پھر نہ سیاست کے آداب اور اسلوب کا احترام باقی رہتا ہے اور نہ خود فوج میں اختلاف راے اور اطاعتِ احکام کی حدود کی نزاکتیں___
ہماری جدوجہد کا اصل ہدف یہی ہے کہ تقسیمِ اختیارات اور تقسیمِ کار کا جو نظام دستور میں طے کیا گیا ہے‘ سارا نظام اس کے مطابق چلے اور جس طرح اس انتظام کو درہم برہم کردیا گیا ہے اوراس میں فوج کی قیادت کے علاوہ دوسرے عناصر نے بھی بڑا مذموم کردار ادا کیا ہے بشمول عالمی طاقتیں‘ ایک بار یکسو ہوکر اس انتشار کو ختم کردیا جائے‘ اور ہمیشہ کے لیے یہ اصول طے ہوجائے کہ فوج کا دائرہ کار صرف اور صرف دفاع ہے اور وہ سول نظام کے تابع ہے‘ اس پر حکمران نہیں۔ جب تک یہ واضح ہدف حاصل نہیں ہوتا پاکستان اس دلدل سے نہیں نکل سکے گا جس میں پچھلے ۵۰ سال سے دھنسا ہوا ہے۔
۸ اکتوبر کے زلزلے نے کشمیر اور پاکستان کے شمالی اضلاع کو جس تباہی اور بربادی کا نشانہ بنایا‘ اس کی نظیر حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی‘ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ناقابلِ فراموش ہے کہ اس آزمایش اور ابتلا کا مقابلہ ملت اسلامیہ کشمیر و پاکستان نے جس ہمت اور حوصلے سے کیا‘ اس نے غم و اندوہ کی تاریک رات میں ایمان‘ عزم اور اُمید کے ایسے چراغ جلا دیے جن سے تاریکیاں چھٹنے لگیں اور نئی زندگی کے چشمے اُبھرتے نظر آنے لگے۔ اس تباہی میں بھی ہمارے لیے بڑا سبق ہے اور تعمیرنو کی اس جدوجہد میں بھی بڑا حیات آفریں پیغام ہے۔ زندہ قوموں کا یہی شیوہ ہے کہ ؎
تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے
طبعی زلزلوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے والی قوم کو اب ایک دوسری نوعیت کے زلزلوں سے سابقہ درپیش ہے۔ طبعی زلزلہ کسی پیشگی اطلاع کے بغیر‘ اچانک ہی زمین اور اس کے باسیوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے لیکن جو خوفناک سیاسی زلزلے اب پر تول رہے ہیں‘ ان کو آنے سے پہلے دیکھا اور پہچانا جاسکتا ہے اور ان کو روکنے کا وقت بھی ان زلزلوں کی گرفت سے پہلے پہلے ہے۔ طبعی زلزلوں کے نقصانات کی تلافی واقعے کے بعد ہوسکتی ہے مگر سیاسی زلزلوں کے جلو میں آنے والی تباہی سے بچنے کا واحد راستہ ان زلزلوں سے پہلے پیش بندی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ کچھ عاقبت نااندیش مصیبت (calamity)کو امکانِ نو (opportunity) کا نام دینے کی کوشش کررہے ہیں‘ یہ دراصل عظیم تر مصیبت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ طبعی زلزلوں کی لائی ہوئی تباہی کا مداوا ریلیف‘ بحالی اور تعمیرنو سے ممکن ہے مگر جو سیاسی زلزلے آج کشمیر پر منڈلا رہے ہیں‘ ان سے بچنے کا راستہ مصیبت کے آنے سے پہلے اس کے لیے تیاری میں مضمر ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس سیاسی کھیل کواچھی طرح سمجھا جائے جو اس وقت اسلام آباد‘ دہلی اور واشنگٹن میں کھیلا جارہا ہے اور آنے والی تباہی سے ملک و ملّت کو بچانے کا بروقت اہتمام کیا جائے ورنہ خدانخواستہ گھر کی تباہی کے بعد واویلا کسی کام کا نہ ہوگا۔
۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد تباہی کے جو طوفان اٹھے ہیں اور اُمت مسلمہ کو ایک کے بعد ایک چرکا لگا ہے‘ صرف افغانستان اور عراق ہی نہیں بلکہ فلسطین‘ کشمیر اور شیشان اور ان کے ساتھ اسلامی احیا کی تمام تحریکات اور خود اسلام کے بنیادی تصورات تک اسی طوفان کی زد میں ہیں۔ لیکن اس یلغار کا سب سے الم ناک پہلو یہ ہے کہ امریکا اور برطانیہ کی موجودہ قیادت تو اس صلیبی جنگ کی اصل سرخیل ہے ہی‘ لیکن خود مسلمان ممالک کے کچھ حکمران بھی اس کے دست و بازو بن گئے ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی موجودہ قیادت اور خصوصیت سے جنرل پرویز مشرف اس مسلم کُش جنگ میں جارج بش کا دست راست بن چکے ہیں اور جس طرح افغانستان پر یوٹرن اور طالبان سے بے وفائی کر کے انھوں نے افغانستان ہی نہیں عراق کو بھی امریکا کی محکومی کا شکار ہونے میں مدد دی‘ اسی طرح اب امریکا کے نقشۂ کار پر عمل کرتے ہوئے بھارت سے دوستی اور کشمیر کے مسئلے سے گلوخلاصی کی تباہ کن پالیسی پر گامزن ہوگئے ہیں۔ اب صاف نظر آرہا ہے کہ کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کے سینے میں خنجر گھونپنے اور بھارت کی بالادستی کو مستقل حیثیت دینے کے لیے کشمیر سے فوجی انخلا (demilitarization)‘ خودانتظامی (self governance)‘ اور ریاست ہاے متحدہ کشمیر (United States of Kashmir) کا سہ نکاتی فارمولا سامنے لایا گیا ہے جسے مسئلے کے مستقل حل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ان میں سے کوئی بھی چیز نہ نئی ہے اور نہ مسئلے کے حقیقی حل کی طرف کسی پیش رفت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
مسئلہ کشمیر پر جنرل مشرف کی پسپائی کا آغاز ۲۰۰۲ء میں ہوگیا تھا۔ جیسے ہی وہ امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی گرفت میں آئے اور ’مجبوری کے اتحاد‘ (coalition of the coerced) کا حصہ بنے کشمیر پر پسپائی کا آغاز ہوگیا۔ پہلے دہشت گردی اور جنگِ آزادی میں فرق کیا جاتا تھا‘ اب وہ فرق پادر ہوا ہوگیا اور جنرل صاحب بھی ’سرحد پار دراندازی‘ کی بھارتی قیادت کی زبان استعمال کرنے لگے جسے بالآخر ۶جنوری ۲۰۰۴ء کے بھارت پاکستان اعلامیہ کے دہشت گردی پروٹوکول کی شکل میں ایک مستقل زنجیر کی حیثیت دے دی گئی۔ اسی دوران بڑی چابک دستی سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ایک طرف رکھ دینے کی بات شروع ہوگئی اور متبادل تجاویز کے غبارے چھوڑے جانے لگے۔ یہ سب کچھ ایک فردِواحد کے فیصلے اور اشارے پر کیا گیا اور۵۸سالہ قومی اتفاق راے‘ دستورپاکستان کے واضح لوازم اور ایک بار نہیں بار بار پارلیمنٹ میں کیے گئے اعلانات اور قراردادوں کو بالاے طاق رکھ کر کسی قومی مشاورت کے بغیر چھے ایسے اقدام کیے گئے جن کے نتیجے میں پاکستان کی کشمیر پالیسی تار تار ہوگئی اور بھارت اور امریکا کے گٹھ جوڑ نے علاقے کے بارے میں جو نقشہ بنایا ہوا تھا اس کے لیے زمین ہموار کی جانے لگی۔
۱- خارجہ پالیسی میں کشمیر کی مرکزیت اور خصوصیت سے بھارت سے معاملات کو طے کرنے میں اس مسئلے کی اولیت کے اصول کو یک طرفہ ترک کر دیا گیا۔ بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگی گئی اور کشمیر کے مرکزی ایشو (core issue) ہونے کو عملاً ترک کردیا گیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی کا یہ ہدف کہ اصل مسئلہ کشمیر نہیں‘ پاکستان سے تجارت‘ ثقافت اور دوسرے میدانوں میں تعاون اور تعلقات کو معمول پر لانا ہے‘ اسے خود پاکستان کی موجودہ قیادت نے قبول کرلیا اور اعتمادسازی کے اقدامات (CBM's) کے نام پر اس راستے پر بگ ٹٹ سرگرم ہوگئی۔
۲- اقوام متحدہ کی قرارداد کو ایک طرف رکھ دیا گیا ہے جو دراصل کشمیر سے دست کش ہوجانے کی طرف پہلا قدم تھا۔ مسئلہ کشمیر کی اصل بنیاد ___ قانونی‘سیاسی‘ اخلاقی‘اقوام متحدہ کی قراردادیں ہی ہیں اور اس سلسلے میں سب سے اہم قرارداد …۱۹۴۸ء کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی وہ قرارداد ہے جس میں صاف لفظوں میں کہا گیا ہے:
مسئلہ کشمیر کو پرامن طور پر حل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ریاست کو غیر فوجی علاقہ قرار دے دیا جائے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب راے منعقد کیا جائے۔
حق خود ارادیت ایک بنیادی حق ہے جسے اقوام متحدہ کے چارٹر میں تسلیم کیاگیا ہے اور وقت کے گزرنے سے اس حق پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ ۱۹۹۳ء میں ویانا میں منعقد ہونے والی انسانی حقوق کی عالمی کانفرنس سے لے کر ۱۹۹۴ء میں کوپن ہیگن میں Social Summit‘ پھر ۲۰۰۰ء میں منعقد ہونے والی Millenium Summit اور خود ۲۰۰۵ء میں ہونے والی اقوام متحدہ کی عالمی سربراہ کانفرنس نے اس حق کے ناقابل سمجھوتہ ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ ایک مبصر کے الفاظ میں:
سب نے غیر ملکی قبضے اور بیرونی تسلط کی مذمت میں تمام انسانوں کے حق خودارادیت کی تصدیق کی۔
جموں و کشمیر کے عوام کے اس حق خود ارادیت اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں اس کے واضح اقرار سے دست کش ہونے کا اختیار کسی شخص کو نہیں تھا اور نہ ہے___ لیکن جنرل صاحب نے اہلِ کشمیر ہی نہیں‘ پوری مظلوم انسانیت کے اس حق پر ہاتھ صاف کرڈالا‘ جب کہ ان کے اس اعلان کی خبر وزیرخارجہ‘ وزارتِ خارجہ اور پارلیمنٹ کو رائٹر کی خبر سے ملی اور کسی سے مشورہ کرنے کی زحمت کرنا انھوں نے گوارا نہ کی۔ ان کے اس اعلان کی کوئی قانونی‘ سیاسی یا اخلاقی حیثیت نہیں اور پاکستانی قوم اور جموں و کشمیر کے عوام نے اسے رد کردیاہے لیکن جنرل صاحب نے پاکستان کی پوزیشن کو بری طرح مجروح کیا اور تحریکِ مزاحمت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
۳- بیرونی اقتدار کے خلاف تحریکِ مزاحمت اور حقیقی دہشت گردی کے درمیان فرق کو نظرانداز کر کے اور امریکا‘ بھارت اور اسرائیل کی دی ہوئی لائن پر صاد کر دیا گیا ہے۔ یہ اقدام بھی خود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں اور غیروابستہ تحریک کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی ہے اور خود عالمِ اسلام کے اہلِ علم و دانش کے اس اعلامیے کی ضد ہے جو ۱۱ستمبر کی نام نہاد امریکی جنگ کے بعد مکہ مکرمہ میں چھے روزہ اجتماع کے بعد جاری کیا گیا تھا جس میں صاف الفاظ میں اعلان کیا گیا تھا کہ دہشت گردی عام انسانوں کو اپنے تشدد کا نشانہ بنانے سے عبارت ہے جس کا کوئی جواز نہ ہو اور جس کا ارتکاب خواہ کوئی فرد کرے‘ یا گروہ یا ریاست۔ البتہ بیرونی قبضے اور تسلط کے خلاف مزاحمت کی ہر وہ کوشش جو افراد یا گروہ اپنی آزادی اور مسلط قوت یا سامراجی قبضہ کاروں (colonial settlers) سے اپنی اور اپنے وطن کی گلوخلاصی کے لیے کر رہے ہوں‘ اس سے مستثنیٰ ہے۔
۴- یک طرفہ جنگ بندی کر کے یہ اعلان کر دیا گیا ہے کہ جنگ مسائل کا حل نہیں۔ حالانکہ یہ سوال ہی مہمل ہے کہ جنگ حل ہے یا نہیں۔ جنگ تو نام ہی سیاسی حل کی ناکامی کا ہے اور اس صورت میں بین الاقوامی قانون اور تعلقات کے تمام ہی مستند اہلِ علم جنگ کو خارجہ پالیسی کا ایک ہتھیار قرار دیتے ہیں۔ جس طرح ملک کے اندر امن و امان‘ جان و مال کا تحفظ اور قانون‘ حقوق اور معاہدوں کے احترام کے لیے فوجداری قانون‘ پولیس اور نظامِ احتساب ہوتا ہے‘ بالکل اسی طرح عالمی امن اور ملکی سلامتی اور دفاع کے لیے فوج کا وجود اور جنگ کا کردار ہے۔ اگر جنگ کا کوئی کردار نہیں تو پھر فوج کا کیا جواز ہے۔ سفارت کاری‘ سیاسی معاملہ بندی اور جنگ کا سدِّجارحیت (deterrent) کردار‘ سب کا عالمی سیاست میں اپنا اپنا حصہ ہے۔ بھارت کی جنگی تیاریوں اور فوجی عزائم کی موجودگی میں پاکستانی قیادت کی طرف سے اس نوعیت کے اعلانات ذہنی شکست کی علامت ہیں اور دشمن کو شہ دینے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل صاحب کی خاکساری کی تمام باتوں اور صلح اور دوستی کے لیے منتوں کے باوجود بھارتی قیادت کا رویہ تکبر‘ غرور اور مبارزت کا ہے۔ ۱۸نومبر ۲۰۰۵ء کو بھارتی ایئرچیف مارشل ایس پی تیاگی نے پونا یونی ورسٹی میں جو ہرزہ سرائی کی ہے وہ ہماری قیادت کے منہ پر طمانچے کی حیثیت رکھتی ہے:
پاکستان اور بھارت کے مابین اعتماد کے نئے رشتے کے باوجود پاکستان بھارت کا دشمن اوّل رہے گا اور ہماری سلامتی کے لیے مسلسل خطرہ رہے گا۔ ہم پاکستان کو دشمن اوّل سمجھتے ہیں لہٰذا ہم بھارتی فضائیہ کی طاقت میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔
پھر موصوف نے وہ تفصیلات بیان کیں جو بھارتی فضائیہ کو ناقابلِ تسخیر ہی نہیں‘ علاقے کے لیے سب سے بڑی جارح قوت بنانے کے لیے کی جا رہی ہیںجس میں ملک میں جنگی طیاروں کی تیاری‘ ایف-۱۶ طیاروں کی خریداری اور ٹکنالوجی کا حصول‘ جدید ہیلی کاپٹروں کی خرید‘ ایئرڈیفنس میزائل کی ترقی‘ مگ ۲۱ اور ۲۷ اور جیگوار طیاروں کو جدید ٹکنالوجی سے آراستہ کرنا شامل ہے۔
۵- پانچویں بڑی غلطی سفارت کاری کا وہ نادر طریقہ ہے جو جنرل صاحب نے شروع کر رکھا ہے‘ یعنی اپنی طرف سے نت نئی تجاویز (options) کی بارش اور پھر اپنی ہی تجویز سے ایک نئی پسپائی‘ جب کہ بھارت کی طرف سے بڑھ بڑھ کر یہ اعلان کہ زمین کے معاملے میں کوئی بات نہیں ہوسکتی‘ بھارتی دستور اور وہاں کی پارلیمنٹ کی قرارداد سے ہٹ کر کوئی اور متبادل تجویز زیرغور نہیں لائی جاسکتی‘ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور اگر کوئی بات چیت ہوگی تو وہ آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کے بارے میں ہوگی‘ اور خرابی کی ساری جڑ دہشت گردی اور سرحد پار دراندازی ہے۔ مذہب کی بنیاد پر کوئی بات چیت ممکن نہیں وغیرہ۔ بھارت کی سیاسی قیادت ہی نہیں‘ ہر سطح کی قیادت کی یکسوئی‘ ہم آہنگی اور اپنے موقف پر استقامت کے مقابلے میں ہماری سفارت کاری پسپائی اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔
۶- اس سلسلے کی چھٹی اور بڑی ہی مہلک غلطی جو جموں و کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کے لیے ضرب کاری کی حیثیت رکھتی ہے‘ وہ آل پارٹیز حریت کانفرنس (APHC) کی تقسیم ہے۔ کشمیری عوام کی اس معتمد علیہ قیادت سے جو ایک طرف تصور پاکستان کی امین ہے تو دوسری طرف جس کی قربانیاں بے مثال اور جس کا عزم و ہمت لازوال ہے‘ بے وفائی اور اپنی پسند کے چُھٹ بھیّوں کو پروپیگنڈے کی بیساکھیوں کے ذریعے لیڈری کی خلعت سے نوازنا بے حد شرمناک ہے۔ حکومت پاکستان کی ان قلابازیوں سے کشمیری مزاحمت کی اصل قیادت پر کوئی اثر نہیں پڑا جو سید علی شاہ گیلانی‘ حزب المجاہدین اور دوسری حقیقی سیاسی اور جہادی قوتوں سے عبارت ہے۔ وہ اسی طرح اپنے اہداف کے حصول کے لیے سرگرم ہیں جس طرح پہلے تھیں لیکن حکومت پاکستان کی ساکھ اور کشمیر کے کاز سے اس کی وفاداری پر ایسے چرکے لگے ہیں کہ دوبارہ اعتماد کو بحال کرنا ایک مشکل کام بن گیا ہے۔ پاکستان کی موجودہ قیادت اور کشمیر کی تحریک مزاحمت کی حقیقی قیادت میں بڑا بُعدواقع ہوگیا ہے اور ہمیں ڈر ہے کہ یہ بُعد پاکستان کو بہت مہنگا پڑسکتا ہے۔
ان غلطیوں کا فطری نتیجہ اب یہ سامنے آیا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کی نوعیت ہی بدل گئی ہے۔ جنرل صاحب اور ان کے حواریوں کے لیے اب اصل ایشو جموں و کشمیر کے عوام کا حق خود ارادیت نہیں بلکہ صرف خود انتظامیت (self governance) ہے۔ یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ کشمیر کو پانچ یا سات علاقوں میں تقسیم کرکے‘ بھارت اور پاکستان کے تحت کچھ اختیارات دینے کی بات کی جانے لگی ہے۔ اس میں چار چاند لگانے کے لیے اس امریکی اسکیم کو جسے ۲۰۰۰ء میں امریکا کے ایک کروڑپتی بھارتی کشمیری نے چند امریکی سیاست دانوں اور دانش وروں کے ساتھ مل کر پیش کیا تھا اور سب کشمیری گروپوں اور پاکستان کے اہلِ دانش نے اسے رد کر دیا تھا‘ دوبارہ زندہ کیا جا رہا ہے۔ اسے ’یونائیٹڈ اسٹیٹس آف کشمیر‘ کے نام سے چند کشمیری رہنما اس طرح پیش کر رہے ہیں جس طرح کشمیر کی ’خودمختاری‘ (autonomy) کے خیالی نقشے خود شیخ عبداللہ نے ۱۹۵۳ء میں پیش کیے تھے اور ان کی پاداش میں وہ بیک بینی و دوگوش مسند وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کرکے زنداں کی تاریکیوں کے حوالے کردیے گئے تھے جہاں سے ان کو ’راے شماری‘ کی روشنی دوبارہ نظر آنے لگی تھی۔
صاف نظر آرہا ہے کہ جنرل صاحب اور ان کے حواری ذہنی طور پر شکست کھاچکے ہیں اور اب کشمیر کے مسئلے سے دست کش ہونے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ امریکا کے روڈمیپ پر عمل کر رہے ہیں اور فضا سازگار کر رہے ہیں کہ کشمیر کی تقسیم مستقل شکل اختیار کرلے‘ وہ لائن آف کنٹرول کو بین الاقوامی سرحد چاہے نہ بھی کہیں لیکن عملاً اسے مستقل سرحد ماننے پر تلے ہوئے ہیں اور نرم سرحدوں اور سرحدوں کو غیرمتعلق (irrelevant) کرنے کی طفل تسلیوں سے قوم کا دل خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کشمیر کے ایک حصے پر بھارت کی مستقل بالادستی اور دوسرے پر پاکستان کی‘ اس نقشے کا اصل حصہ ہیں جو اہل کشمیر کی پوری جدوجہد پر پانی پھیرنے اور ان کی قربانیوں کو خاک میں ملانے کے مترادف ہے۔ جنرل صاحب کے وزیراعظم اپنے ایک بیان میں یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ اب کشمیر کے مسئلے کے مستقل حل کی صورت بس فوجوں کی واپسی اور خودانتظامی میں مضمرہے:
منگل کو وزیراعظم شوکت عزیز نے کہا کہ پاکستان بھارت سے اپنے دیرینہ طویل مدت سے برقرار تنازعے کو ختم کرنے کے لیے کشمیر سے فوجی انخلا اور خودانتظامی کی تائید کرتا ہے۔ (دی ڈیلی ٹائمز‘ ۳۰ نومبر ۲۰۰۵ئ)
دیکھیے بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔ اس قیادت کی نگاہ میں اس دیرینہ مشکل مسئلے کا خاتمہ فوجوں کی واپسی اور خود انتظامی میں ہے۔ یہ کشمیر کے کاز کے ساتھ کھلی غداری اور جموں و کشمیر کے عوام کی قربانیوں کا سودا کرنے کے مترادف ہے جسے کشمیر کے عوام اور پاکستانی قوم کبھی قبول نہیں کرسکتی۔ جو بات جنرل مشرف‘ شوکت عزیزاور میرواعظ عمرفاروق فرما رہے ہیں‘ وہ صاف طور پر حق خود ارادیت سے دست برداری اور بھارت اور پاکستان کے زیرتسلط منقسم کشمیر میں کسی قسم کی خود انتظامی کے بھارتی اور امریکی منصوبے کے آگے سپرڈال دینے سے عبارت ہے۔ اس کا یہی وہ مفہوم ہے جو امریکا اور بھارت کے دانش ور اور پالیسی ساز سمجھ رہے ہیں‘ البتہ اسے قابلِ قبول بنانے کے لیے بھارت ذرا تغافل‘ تجاہل اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا ہے‘ ورنہ تقسیمِ کشمیر اور نام نہاد خود انتظامی اس کا اصل مقصود ہے‘ اور پاکستانی قیادت کی زیادہ سے زیادہ پسپائی کے بعد وہ اس فارمولے کو تسلیم کرے گا۔ وہ ساری مزاحمت پاکستانیوں کے لیے اسے قابلِ قبول بنانے کے لیے نمایشی طور پر کر رہا ہے۔
یہ ’آزادی‘ سے کتنا بعید تصور ہے! ایک عشرے پہلے کا حقیقی پریشانی اور تراشیدہ سیاسی مکر کا مرکب‘ جب کہ بہت سے لوگ سوچنے لگے تھے کہ بھارتی قبضے کا اختتام قریب ہے۔
وہ کہتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی نرم سرحدوں کی بات اور جنرل پرویز مشرف کے خود انتظامی اور فوجوں کی واپسی کی تجویز ان خطوط کار کی نشان دہی کررہے ہیں جن کے مطابق معاملات طے ہوسکتے ہیں۔ اس کی نگاہ میں میرواعظ عمر فاروق کی یونائیٹڈ اسٹیٹس آف کشمیر کی تجویز سونے پر سہاگہ ہے۔ وہ بڑے معنی خیز انداز میں سوال کرتا ہے کہ:
سوال یہ ہے کہ آیا نرم سرحدیں اور خود انتظامی ایک ہی چیز ہیں؟
بالآخر آزادی کو تاریخ کے سپرد کر دینے کے بعد سیکڑوں نئے تصورات اُبھرے۔ اس بحث کا سب سے ہیجان انگیز (exciting) پہلو یہ ہے کہ بحث کا آغاز ہوگیا۔ (دی نیوز انٹرنیشنل‘ ۱۵ دسمبر ۲۰۰۵ئ)
امریکا کا مشہور کالم نگار جوناتھن پاور جس کا کالم ۵۰ اخبارات میں شائع ہوتا ہے‘ پاکستان کی طرف سے دی گئی رعایتوں کی طویل فہرست بیان کرکے کہتا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو ختم کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ اس لیے کہ:
یہ وقت ہے کہ آگے بڑھا جائے‘ جب کہ عسکری مردِ آہن مشرف پاکستان کو کچھ دے سکتا ہے۔ ایک سال کے بعد ہونے والے مجوزہ انتخابات اس کا بھرم کھول سکتے ہیں۔
یہ پاکستان ہے جس نے حساس رعایات دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے‘ جیساکہ اس پر تیار ہونا کہ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے وعدے کہ مسئلے کو استصواب رائے کے ذریعے حل ہونا چاہیے‘ کو ایک طرف ڈالنا اور یہ قبول کرنا کہ کشمیر کا بیشتر حصہ براہِ راست بھارتی حاکمیت کے ماتحت رہے۔
مزید یہ کہ مشرف نے فوج اور جہادیوں کے درمیان نال (umbilical cord)کو بالآخر کاٹ دیا ہے۔ شاید بھارت اپنے کو بہت زیادہ مطمئن محسوس کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اگر وہ انتظار کرے تو پاکستان مزید رعایتیں دے سکتا ہے۔ (دی ڈیلی ٹائمز‘ ۱۶دسمبر ۲۰۰۵ئ‘ ص ۱۳)
پاکستانی قیادت اپنے کو‘ اپنے عوام کو خود فریبی میں مبتلا کرنے کے لیے کچھ بھی کہے‘ جنرل پرویز مشرف کی کشمیر پالیسی کشمیر سے دست برداری سے کم کوئی چیز نہیں ہے اور پاکستانی قوم کو اس کھیل کو سمجھ کر اپنا کردار بلاتاخیر اور مؤثر ترین انداز میں ادا کرنے کے لیے کمربستہ ہوجانا چاہیے۔
مسئلہ کشمیر کی اصل حقیقت کو پراگندا کرنے کی جو ناپاک کوشش ہو رہی ہے‘ اسے سمجھنا بہت ضروری ہے۔ کشمیر کی جدوجہد آزادی تقسیمِ ملک کے بعد شروع نہیں ہوئی‘ اس سے بہت پہلے شروع ہوگئی تھی۔ قرارداد پاکستان (۱۹۴۰ئ) سے بھی ۱۰ سال پہلے کشمیر میں عوامی تحریک اور قربانیوں کا لازوال سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور اس پوری جدوجہد کا ایک ہی ہدف تھا___ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کا ظالمانہ ڈوگرہ راج اور اس کے سرپرست برطانوی سامراج سے آزادی اور ریاست کے اسلامی تشخص کی روشنی میں اس کے مستقبل کی تعمیروتشکیل۔ قرارداد پاکستان کے اختیار کیے جانے اور تحریکِ پاکستان کے شروع ہوجانے کے بعد فطری طور پر تحریک آزادی کشمیر اس وسیع تر تحریک کا حصہ بن گئی۔ تقسیم ملک کے اعلان کے ساتھ جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے تحریک الحاق پاکستان کا آغاز کر دیا۔ آزاد کشمیر کا جو علاقہ آزاد ہوا ہے وہ کسی کی عنایت سے نہیں بلکہ مجاہدین کی قربانیوں سے آزاد ہوا ہے۔ اسی طرح شمالی علاقہ جات کے عوام کا اُٹھ کھڑا ہونا اور قربانیاں اس اسٹرے ٹیجک علاقے کی آزادی اور پاکستان سے رشتہ استوار کرنے کا ذریعہ بنی۔ اس حقیقت کو بھلایا جا رہا ہے کہ آزادی کی یہ تحریک ۱۹۳۰ء سے برسرِ جہاد ہے اور ۴۸-۱۹۴۷ء میں جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے ۴ لاکھ افراد کی قربانی پیش کرکے اس علاقے کو آزاد کرایا ہے جو آج آزاد جموںو کشمیر کے نام سے تحریک آزادیِ کشمیر کا بیس کیمپ بنا ہوا ہے۔ ۱۹۸۹ء میں مقبوضہ کشمیر میں جو مزاحمت اور جہاد کی تحریک رونما ہوئی وہ اسی کا تسلسل اور سیاسی اور جمہوری ذرائع سے تبدیلی کے تمام دروازے بندکرنے کا نتیجہ ہے۔
پھر یہ بات بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ جسے آج خود انتظامی (self governance) کہا جا رہا ہے وہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ ۱۹۵۳ء تک شیخ عبداللہ کے دور میں جو نقشۂ کار بنایا گیا تھا اس میں کم از کم نظری طور پر خودانتظامی کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے دستور میں ایک خاص دفعہ ۳۷۰ اس کے لیے رکھی گئی۔ گو بعد میں بھارت نے اس شق کی دھجیاں بکھیر دیں اور پورے کشمیر پر بدترین مرکزی آمریت مسلط کی لیکن ’خود انتظامی‘ کا دلاسہ بار بار دیا گیا۔ پھر نرسیمارائو کے زمانے میں زیادہ سے زیادہ (maximum) خودمختاری کی باتیں ہوئیں اور جموں و کشمیر کی اسمبلی نے جون ۲۰۰۲ء میں ایک قرارداد بھی منظور کی۔ شیخ عبداللہ اور اندرا گاندھی کے معاہدے کا مرکزی تصور بھی خودانتظامی ہی تھا اور آج بھی بھارت کی قیادت یہ دعویٰ کررہی ہے کہ وہ کشمیر کو خود انتظامی دے چکی ہے اور اگر خود انتظامی کی کہیں کمی ہے تو وہ پاکستانی حصہ یعنی آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں ہے۔
جموں و کشمیر پہلے ہی بھارتی دستور کے تحت خودمختاری سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور آزاد اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے ایک مقبول منتخب حکومت قائم تھی۔ انھوں نے جناب عزیز کو بتایاکہ: ’’پاکستان کے زیرنگرانی کشمیر میں خودمختاری کا واضح فقدان ہے اور گلگت بلتستان میں عوام کی خواہشات اور تمنائوں کا تعین کرنے کے لیے کسی بھی طرح کے عوامی انتخابات نہیں ہوئے ہیں‘‘۔ (دی ہندو‘ دی نیشن‘ ۱۰ دسمبر۲۰۰۵ئ)
پاکستان کی موجودہ قیادت نے خود انتظامی کی بات کر کے کشمیر کے بارے میں اپنے سارے کیس کو خود ہی تباہ کر ڈالا ہے۔ مسئلہ خود انتظامی کا نہیں‘ خود ارادیت کا ہے۔ اب ایشو ہی بدل گیا ہے اور ہم بھارت کے جال میں پھنس گئے ہیں اور جیساکہ جوناتھن پاور نے صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ جنرل پرویز مشرف اپنے اس موقف کی وجہ سے کشمیر کے بڑے حصے پر بھارت کی مستقل حاکمیت کو تسلیم کرچکے ہیں اور نتیجتاً کشمیر کی تقسیم کو مستقل حیثیت دینے پر تیار ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ عبداللہ کے بیٹے ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور اس کے پوتے اور نیشنل کانفرنس کے موجودہ صدرعمر عبداللہ نے میرواعظ اور جنرل مشرف کی اس تجویز کو ’پرانی بوتل پر نیا لیبل‘ قرار دیا ہے اور میرواعظ پر طنزکرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اگر ان کو ہمارا ایجنڈا ہی چرانا تھا تو ہزاروں افراد کو مروانے کی کیا ضرورت تھی‘‘۔
بھارت تو دراصل کسی حقیقی ’خودانتظامی ‘ کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور یہی وجہ ہے کہ دستور کی دفعہ ۳۷۰ میں بار بار ترمیم کی گئی ہے اور صدارتی حکم ناموں سے اس کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے۔ نیز مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کی ۲۶ جون ۲۰۰۰ء کی قرارداد جس میں خوداختیاری (autonomy) کا مطالبہ کیا گیا تھا وہ ۴ جولائی ۲۰۰۰ء ہی کو بھارتی کابینہ کے فیصلے کے ذریعے رد کر دیا گیا تھا اور تاریخ شاہد ہے کہ بھارت کسی شکل میں بھی حقیقی خوداختیاری دینے کے لیے نہ کبھی تیار ہوااور نہ ہوگا۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ خود انتظامی ایشو ہے ہی نہیں۔ اصل ایشو ایک اور صرف ایک ہے اوروہ ہے جموں و کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کا۔ اس کے حصول کے لیے خواہ کتنی ہی مدت لگے‘ وہاں کے عوام اس سے کم پر کبھی تیار نہیں ہوسکتے۔ وہ ۴۸-۱۹۴۷ء میں ۴ لاکھ افراد کی قربانی دے چکے ہیں اور ۱۹۸۹ء سے اب تک ایک لاکھ افراد جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں اور ان کے جذبے اور جدوجہد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ ان کو اگر کوئی مایوسی ہے تو وہ پاکستان کی قیادت سے اور اس کی روز روز کی قلابازیوں اور بے وفائیوں سے ہے۔ ورنہ ان کا حال تو یہ ہے کہ ؎
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُر دَم ہے اگر ُتو‘ تو نہیں خطرہ افتاد
گذشتہ دو سال میں پاکستان نے جو پے بہ پے غلطیاں کی ہیں اور جنرل پرویز مشرف کی ساری پسپائیوں کے جواب میں بھارت نے جس ہٹ دھرمی‘ضد اور اپنے اٹوٹ انگ موقف پر ڈٹے رہنے کا مظاہرہ کیا ہے‘ اس پر اب خود جنرل مشرف اور وزیرخارجہ خورشید قصوری بار بار کہہ رہے ہیں کہ بھارت نے کوئی لچک نہیں دکھائی اور ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں پانچ سال پہلے کھڑے تھے___ لیکن اس کے باوجود تاریخ سے نابلد اس قیادت کی آنکھیں نہیں کھلتی ہیں اور وہ امریکا کے بھروسے پر مزید پسپائیاں اختیار کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
اس زمانے میں جو بھی بھارت یا مقبوضہ کشمیر گیا ہے‘ وہ اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ پاکستان کی اصولی اور متفق علیہ کشمیر پالیسی آج پارہ پارہ ہوچکی ہے اور پاکستان پر کشمیری عوام کا اعتماد بری طرح متزلزل ہوچکا ہے‘ جب کہ بھارت کی کشمیر پالیسی میں کوئی فرق نہیں آیا ہے اور وہ پاکستان سے مزید رعایات کا اسی طرح مطالبہ کر رہا ہے جس طرح اسرائیل مجبور فلسطینیوں سے شب و روز کررہا ہے۔ امریکا اپنا کھیل کھیل رہا ہے۔ وہ ایک طرف پاکستان کو مزید پسپائی اختیار کرنے پر زور دے رہا ہے اور دوسری طرف بھارت کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے پر تلا ہوا ہے۔ نیز اس کا مفاد اس میں ہے کہ کشمیر منقسم رہے مگر کوئی ایسی صورت نکل آئے جس سے امریکا کو اس علاقے میں مزید قدم جمانے‘ اپنی فوجوں کے قیام کے لیے کچھ اور علاقہ حاصل کرنے‘ اور پورے علاقے کی نگرانی کے لیے یہاں اپنی موجودگی کے لیے مزید سہولتیں حاصل کرنے کا موقع مل جائے۔
یونائیٹڈ اسٹیٹس آف کشمیر کی امریکی تجویز دراصل کشمیر فار یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کا ایک جال ہے۔ امریکی دانش وروں کی کشمیر اسٹڈی کا ہدف اس کے سوا کچھ نہیں۔البتہ ایک مزید پہلو مطلوب ہے اور وہ کشمیر کے اسلامی تشخص کو بگاڑنا اور وہاں ایک سیکولر نظام کا فروغ‘ نیز بالآخر خود پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنا اور پاکستان اور بھارت کو لسانی‘ معاشی‘ تہذیبی وحدت کی طرف لے جانا جو بالآخر تقسیم ہند کے تاریخی عمل کو الٹی سمت میں موڑ سکے اور پھر اکھنڈ بھارت کی کوئی شکل وجود میں آسکے۔ اس ذہن کو سمجھنے کے لیے صرف دو حوالے پیش کرنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔
نئے وجود کا اپنا سیکولر جمہوری دستور ہوگا‘ اپنی شہریت‘ جھنڈا اور مقننہ ہوگی جو دفاع اور خارجہ امور کے علاوہ تمام معاملات پر قانون سازی کرے گی۔ بھارت اور پاکستان کشمیر کے وجود کے دفاع کے ذمہ دار ہوںگے۔ امید کی جائے گی کہ بھارت اور پاکستان کشمیر کے لیے مالی انتظامات کریں گے۔
بھارت کی مرکزی حکومت دفاع‘ خارجہ امور اور مواصلات کے شعبے رکھ سکتی ہے اور دوسرے تمام معاملات پر کشمیریوں کو خود اپنے اُوپر حکومت کی اجازت دی جائے گی۔ بے شک پاکستان کو بھی لائن آف کنٹرول کی اپنی طرف اسی طرح کی اجازت دینا ہوگی۔ (سیفما لیکچر‘ ڈیلی ٹائمز‘ ۱۳ دسمبر ۲۰۰۵ئ)
مشہور بھارتی صحافی اور کالم نگار کلدیپ نائر نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان امن کا عمل پورے جنوبی ایشیا پر پھیل سکتا ہے اور ایک واحد ریاست وجود میں آسکتی ہے جس کی نرم سرحدیںاور معاشی خوش حالی ہو۔ (دی نیوز‘ ۱۴ دسمبر ۲۰۰۵ئ‘ ص ۱۸)
کلدیپ نائر نے ایک بار پھر بڑے شدومد سے یہ بات کہی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر مسئلے کا کوئی حل قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ ان کی تقریر کا سارا زور اس پر تھا کہ قائداعظم نے پاکستان بناکر غلطی کی اور مولانا ابوالکلام آزاد کا تصور درست تھا‘ بلکہ اپنے انٹرویو میں تو قائداعظم سے یہاں تک منسوب کرگئے کہ تقسیم کے بعد وہ اس شک میں مبتلا تھے کہ تقسیم صحیح ہوئی یا غلط۔ افسوس اس انٹرویو کے وقت کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ اس صریح دریدہ دہنی پر اس کی گرفت کرتا:
کراچی میں بحریہ کے ایک نوجوان افسرنے مسٹر جناح سے پوچھا کہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا حصول صحیح قدم تھا یا نہیں؟ نائر کے مطابق‘ قائداعظم کا جواب تھا: میں نہیں جانتا۔
قائداعظم پر اس سے بڑا الزام ممکن نہیں۔ تقسیم کے بعد ایک نہیں ان کی درجنوں تقاریر گواہ ہیں کہ انھوں نے پاکستان کے قیام کو اللہ کا کتنا بڑا انعام اور مسلمانوں کی کتنی عظیم کامیابی قرار دیا۔ لیکن بھارت اور اس کی قیادت کا جو ذہن تقسیم سے پہلے تھا‘ آج بھی وہی ہے اور اصل ہدف تقسیم کی نفی اور مذہب کی بنیاد پر اجتماعی زندگی کی صورت گری کے مقابلے میں سیکولرازم کو مسلط کرنے کا نصب العین ہے۔ سارا کھیل اسی کے لیے ہے۔ پنجاب میں لسانی وحدت اور تجارت اور تہذیب و ثقافت دونوں ہتھیاروں کا بے محابا استعمال قائداعظم اور ملت اسلامیہ پاکستان کی جدوجہد سے حاصل شدہ اس آزاد اسلامی ملک کو ایک بار پھر کسی نہ کسی شکل میں بھارت کے ساتھ نتھی کرنے کے لیے ہے۔ستم ہے کہ کچھ جواں سال دانش ور یہ مشورے دے رہے ہیں کہ تاریخ کو بھول جائو اور نئے بام و در تلاش کرو حالانکہ تاریخ کو نظرانداز کرنا ایسی سنگین غلطی ہے کہ اس کی تلافی ممکن نہیں۔ تاریخ بڑی ظالم نقاد ہے۔ یاد رکھیے‘ جو تاریخ سے خود سبق نہیں سیکھتے‘ تاریخ انھیں اپنے انداز میں بڑا سخت سبق سکھاتی ہے۔ بھارت اور امریکا کا نقشۂ کار بالکل واضح ہے۔ اس سے وہی آنکھیں بند کرسکتا ہے جو آنکھوں دیکھتے کنویں میں چھلانگ لگانے پر تلا ہوا ہو۔ ہمیں یقین ہے کہ ملت اسلامیہ پاکستان خودکشی کی اس راہ پر قوم و ملک کو دھکیلنے کی کسی کوشش کو گوارا نہیں کرسکتی۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی کی اس زبوں حالی کی اصل وجہ کیا ہے؟ اس کی اصل وجہ فردِ واحد کی حکمرانی‘ پارلیمنٹ کی بے بسی اور قومی احتساب کی کمی بلکہ فقدان ہے۔ ہمارا اصل سانحہ ہی یہ ہے کہ قومی امور پر فیصلے کرنے کے لیے مؤثر اداراتی نظام (institutional set-up) یا موجود نہیں یا اسے غیرمؤثر کر دیا گیا ہے۔ غلام محمد کے دَور سے لے کر جب وہ گورنرجنرل تھے جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے تک‘ کسی نہ کسی شکل میں اداروں کے انہدام کا عمل جاری رہا ہے جو جنرل مشرف کے دور میں اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ معاملہ کشمیر کا ہو یا فوج کے سیاست میں کردار کا‘ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا مسئلہ ہو یا قومی مالیاتی ایوارڈ کا‘ بھارت سے دوستی کا مسئلہ ہو یا اسرائیل سے سلسلہ جنبانی کا‘ زلزلے کے متاثرین کے لیے ریلیف اور بحالی کی بات ہو یا صوبوں کے ترقیاتی منصوبوں اور ترجیحات کا معاملہ‘ ایک فردِواحد ہے جو محض اپنی ذاتی پسند و ناپسند (sweet will)‘ ترجیحات اور تعصبات کی روشنی میں معاملات طے کر رہا ہے۔ باقی سب کا حال یہ ہے کہ ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم! سینیٹ‘ پارلیمنٹ‘ عدلیہ‘ سب غیرمؤثر ہوکر رہ گئے ہیں بلکہ ہم بربناے علم یہ بھی ریکارڈ پر لے آنا چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے نہ صرف یہ کہ بیش تر سابق سفارت کار اور خارجہ پالیسی پر گہری نگاہ والے دانش ور غیرمطمئن ہیں بلکہ خود دفترخارجہ ایک مخمصے کا شکار ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے موجودہ پالیسی کے بنانے میں خود دفترخارجہ کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اداروں کے تباہ کیے جانے کا اس سے اندوہناک منظر کیا ہوگا؟ یہی وجہ ہے کہ جب تک اداروں کو بااختیار اورمستحکم کرنے کا اہتمام نہیں ہوگا اور عوام اور سیاسی اور دینی قوتیں اپنے اختیارات کو غاصبوں سے چھین کر دوبارہ اپنے ہاتھ میں نہیں لے آتے‘ ہماری آزادی‘ سالمیت‘ نظریاتی تشخص‘ معاشی صلاحیت ہر چیز دائو پر لگی رہے گی۔ اس لیے خرابی کی اصلاح کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر موجودہ قیادت کو قومی خودکشی کے راستے سے روکا جائے‘ وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ مسائل کے مستقل حل کے لیے فردِواحد کی حکمرانی کے نظام کو لگام دی جائے اور دستور اور قانون کی بالادستی‘ پارلیمنٹ کی حکمرانی اور عوام کے حقیقی اختیارات کے لیے جدوجہد کی جائے تاکہ خرابی کی جڑ کو دُور کیا جاسکے۔
کشمیر کے مسئلے پر جو بات سب سے زیادہ ضروری ہے‘ وہ اصولی موقف پر استقامت اور دنیا کے حالات کو دیکھ کر ایسی حکمت عملی کی تشکیل ہے جو ہمارے اصولی اور تاریخی اہداف کے حصول کاذریعہ بن سکے۔منزل تک پہنچنے کے لیے نئے راستے اختیار کرنا تو مطلوب ہے لیکن بظاہر راستہ نظر نہ آنے پر منزل ہی ترک کر دینا حماقت ہی نہیں قومی خودکشی بھی ہے۔
پاکستان کے دستور کی دفعہ ۲۵۷ میں قومی پالیسی کو نہایت نپے تلے الفاظ میں درج کردیا گیا ہے۔ اس کے مطابق ریاست ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے‘ اس کا وہی فیصلہ قبول کیا جائے گا جو وہاں کے عوام استصواب رائے کے ذریعے کریں گے۔ بعد میں پاکستان سے اس ریاست کے تعلقات وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق طے کیے جائیں گے۔ یہی وہ پالیسی ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں سے مطابقت رکھتی ہے اور یہی اصول انصاف اور جمہوریت کا تقاضا ہے۔
اس بنیادی پالیسی فریم ورک کی روشنی میں ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت جلدبازی سے کوئی اُلٹا سیدھا ’حل‘ تلاش کرنا ایک عاجلانہ اقدام ہوگا جو پاکستان اور کشمیری عوام دونوں کے مفاد کے منافی ہے۔ اس وقت جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے‘ وہ صبروہمت اور حکمت کے ساتھ اپنے اصولی موقف پر قائم رہنا ہے۔ عالمی حالات میں تیزی سے تغیر آرہا ہے۔ امریکا کی خون آشام پالیسیاں دم توڑ رہی ہیں۔ پوری دنیا کے عوام تو امریکی پالیسیوں کے مخالف تھے ہی‘ اب خود امریکا میں بھی ہوا کا رخ بدل رہا ہے اور عراق میں امریکا کی شکست نوشتۂ دیوار بن گئی ہے۔ دنیا کے دانش ور چِلّا رہے ہیں کہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں دنیا میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے اور سب کا امن و سکون تہ وبالا ہوچکا ہے۔ اب یہ جنگ اور اس کے جلو میں بنائی جانے والی پالیسیاں انسانی آزادی اور جمہوری اقدار کے لیے خطرہ بنتی چلی جارہی ہیں۔ ان حالات میں سارا انحصار امریکا پر کرنا بہت بڑی حماقت ہے۔
اس وقت مسئلے کو زندہ رکھنا وقت کی اصل ضرورت ہے اور اس کے لیے تحریک مزاحمت کے ساتھ ایسی یک جہتی کا اظہار ہونا چاہیے جو پاکستان پر مقبوضہ کشمیر کے عوام کے اعتماد کو مزید پروان چڑھائے اور کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو ان کے اعتماد کو مجروح کرنے والی ہو۔ اس سے مکمل احتراز کیا جائے۔ بھارت پر نپے تلے دبائو کو بڑھانا اور وہاں انسانی حقوق کی جس بے دردی سے پامالی کی جارہی ہے اس کو عالمی سطح پر اٹھانا ہمارا ہدف ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی تحریکِ مزاحمت کی ہرممکن اخلاقی‘ مادی اور سفارتی تائید کی جائے۔
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ جموں و کشمیر کے مسلمان بھارت کے ساتھ کسی قیمت پر اور کسی شکل میں رہنا پسند نہیں کرتے۔ انھوں نے جو قربانیاں دی ہیں اور جس عزم و ہمت کا شب و روز مظاہرہ کر رہے ہیں‘ اسے نظرانداز کرکے محض چند مفاد پرست عناصر کے بل بوتے پر بھارتی تسلط کو کسی بھی شکل میں دوام دینے کی کسی بھی کوشش کی کسی نوعیت کی بھی تائید کشمیری عوام سے غداری اور خدا کے غضب کو دعوت دینے والی چیز ہوگی۔
آج یہ بات بھی الم نشرح ہوچکی ہے کہ کشمیر کی اصل قیادت وہ ہے جو بھارت کے تمام مظالم اور پاکستان کی تمام پسپائیوں کے باوجود بھارت کے تسلط کے خلاف صف آرا ہے اور استصواب رائے کے بنیادی اصول سے ہٹ کر کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں۔ سید علی شاہ گیلانی کی قیادت میں کل جماعتی حریت کانفرنس اور تحریکِ حریت جموں و کشمیر ہی کشمیری عوام کی اصل امنگوں کی ترجمان ہے اور تمام مجاہد قوتوں کا اعتماد بھی اسی انقلابی قیادت کو حاصل ہے۔ حزب المجاہدین تحریکِ مزاحمت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے نظرانداز کرکے کشمیر کے مستقبل کا کوئی حل ممکن نہیں۔
زمینی حقائق پر جن کی نظر ہے‘ وہ واقف ہیں کہ اس وقت پاکستان کا سرکاری میڈیا جن شخصیات اور گروہوں کو اُبھارنے کی کوشش کر رہا ہے‘ وہ حقیقی عوامی تائید سے محروم ہیں اور تمام مؤثر سیاسی اور جہادی قوتیں انھیں شبہے کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ استعماری تسلط کے خلاف تحریکوں کا مطالعہ اس امر کو بالکل واضح کردیتا ہے کہ فیصلہ کن قوتیں وہی ہوتی ہیں جو استعماری نظام کے خلاف مزاحمت کی جدوجہد کرتی ہیں۔ کشمیر میں بھی فیصلہ کن قوت موروثی گدی نشینوں کی نہیں‘ مجاہدین اور ان سیاسی قائدین کی ہے جو بے خوف و خطر بھارتی سامراج سے ٹکر لے رہے ہیں۔ پاکستانی عوام بھی جن لوگوں پر بھروسا کرتے ہیں وہ یہی مزاحمت کی قوتیں ہیں‘ بھارتی قیادت سے پینگیں بڑھانے والے نہیں۔
اس پس منظر میں پاکستان کے عوام اور یہاں کی مؤثر سیاسی اور دینی قوتوں کا فرض ہے کہ حالات کی نزاکت کو محسوس کریں اور راے عامہ کو متحرک و منظم کرکے موجودہ عاقبت نااندیش قیادت کو تباہی کے راستے سے روکنے اور بالآخر اسے اقتدار و اختیار سے ہٹاکر ایک ایسی سمجھ دار‘ معاملہ فہم اور صاحبِ بصیرت قیادت کو اختیارات کا امین بنانے کی جدوجہد کریں جو ملک و قوم کو اس کے اصل نصب العین اور اہداف کے حصول کے لیے سرگرم کرسکے‘ جو خود بھی ان مقاصد کی وفادار ہو اور قوم اور اس کے تمام وسائل کو بھی ان مقاصد کے حصول کے لیے وقف کردے۔
کشمیر اور پاکستان دو الگ الگ وجود (entities)نہیں ہیں‘ ایک دوسرے کا حصہ اور تکملہ ہیں۔ ہمارے لیے کشمیر کا مسئلہ سب سے پہلے ایک اصولی مسئلہ ہے کہ اس سے ڈیڑھ کروڑ مسلمانوں کا مستقبل وابستہ ہے اور ہمارے لیے ممکن نہیں کہ اپنے ان مظلوم بھائیوں کو بے سہارا چھوڑ کر ان کے قاتلوں سے دوستی کی پینگیں بڑھائیں۔ پھر کشمیر اور پاکستان کا جغرافیائی‘ سیاسی‘ معاشی‘ مواصلاتی‘ تہذیبی اور دینی تعلق کچھ ایسا ہے کہ ان کے درمیان یہ یا وہ کا معاملہ نہیں بلکہ دونوں کی قسمت ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔ جو پاکستان یا کشمیر کی بات کرتے ہیں‘ وہ اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں اور پاکستانی قوم کو بھی‘ اس لیے کہ کشمیر پر دوسروں کا غاصبانہ تسلط پاکستان پر تسلط کے ہم معنی ہے اور بالآخر اس کی کمزوری پر منتج ہوگا۔ اسی لیے قائداعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ اگر ہماری شہ رگ دوسروں کے قبضے میں ہے تو کیا ہم محفوظ رہ سکتے ہیں؟
یہی وجہ ہے کہ آج کشمیر پالیسی اور کشمیر کے مستقبل کے بارے میں جو بات سید علی شاہ گیلانی کہہ رہے ہیں وہی قاضی حسین احمد اور آغا شاہی اور سردار آصف احمد علی کہہ رہے ہیں۔ ہمارے لیے اپنے اصولی موقف پر ڈٹ جانے کے سوا کوئی متبادل راستہ نہیں۔
کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیر کے عوام کو اپنی آزاد مرضی سے کرنا ہے اور پاکستانی قوم اور قیادت کا فرض ہے کہ ان کے اس حق کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دے اور اس باب میں کسی کمزوری کا مظاہرہ نہ کرے۔ گذشتہ چار پانچ سال میں جس کمزوری‘ بے اعتدالی اور پسپائی کا مظاہرہ کیا گیا ہے‘ اس سے فوری طور پر رجوع کیا جائے اور پاکستان کے تاریخی اور اصولی موقف پر سختی سے قائم رہنے اور قوم کو اس کے لیے متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ عالمی سطح پر پوری تیاری کے ساتھ ایک بھرپور مہم شروع کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ عالمی ضمیر کو بیدار کیا جاسکے۔ تاریخ میں آج تک کسی قوم کو محض جبر اور قوت کے ذریعے محکوم نہیں رکھا جا سکا۔ جو قوم اپنی آزادی کے لیے جان کی قربانی دینے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی ہو ‘ پھر اسے کوئی غلام نہیں رکھ سکتا۔ کشمیری عوام نے زندگی اور بھارت کے تسلط سے آزادی کے اسی راستے کو اختیار کرلیاہے۔
اب پاکستان کا فرض ہے کہ وہ اس عظیم جدوجہد کی تقویت کا باعث بنے اور اس سلسلے میں کسی کمزوری کا مظاہرہ نہ کرے۔ اب امتحان ان کا ہے جنھیں جرأت اور حوصلہ مندی کا دعویٰ ہے۔ جرأت نام ہے اپنے نصب العین اور مقاصد کے بارے میں استقامت اور جدوجہد کا۔ جو حق کی راہ میں جدوجہد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت انھی کو حاصل ہوتی ہے۔ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔
گذشتہ شمارے میں یہ بتایا گیا تھا کہ جنوری تا مارچ ۲۰۰۶ء کی سہ ماہی میں رسالے کی توسیعِ اشاعت کے لیے غیرمعمولی کوششیں کی جائیں گی۔ ترجمان القرآن ایک پیغام کا علم بردار ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اس کو پڑھنے والے اس پیغام کو عام کرنے اور دوسروں تک پہنچانے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ آج اس کی جو غیرمعمولی اشاعت ہے اس کی وجہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے بعد ہمارے رفقا کی کوششیں ہی ہیں۔
اس سہ ماہی مہم میں ہمارا بنیادی ہدف یہ ہے کہ معاشرے کے پڑھے لکھے ہر باشعور شہری تک ایک دفعہ نمونے کا پرچہ پہنچا دیا جائے۔ اس حوالے سے اپیل کی گئی ہے اور مختلف سطح کے نظم اس میں دل چسپی لے رہے ہیں۔ جنوری کے لیے ہمیںکافی بڑی تعداد میں آرڈر موصول ہوچکے ہیں۔ فروری اور مارچ میں یقینا اضافہ ہوگا۔
مختلف پیشوں سے وابستہ ہمارے رفقا کی خصوصی کوشش ہونا چاہیے کہ یہ رسالہ ملک کے ہراستاد‘ صحافی‘ ڈاکٹر‘انجینیر‘ وکیل‘ اکائونٹنٹ‘ کمپیوٹر اور آئی ٹی کے ماہر‘ سول اور فوجی افسر‘ تاجر‘ دکان دار‘ صنعت کار‘ کارپوریشنوں کے افسر اور عام پڑھے لکھے فرد تک پہنچے۔ نہ صرف مردوں تک بلکہ ان پیشوں سے وابستہ اور گھریلو امور میں مصروف تعلیم یافتہ خواتین کے ہاتھوں میںبھی ضرور جائے۔
دوسری طرف ہماری کوشش ہے کہ رسالے کا معیار بہتر سے بہتر ہو اور یہ پڑھنے والوں کے لیے ایک مکمل راہنما رسالہ ثابت ہو اور ہر ماہ انھیں فکری غذا ہی نہیں ‘بلکہ ایمان اور عملِ صالح کے لیے جذبہ اور توانائی بھی دے تاکہ آخری فیصلے کے وقت وہ فوزِ عظیم سے ہمکنار ہوں۔
_____________(کتابچہ دستیاب ہے۔ منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور)
دسمبر ۲۰۰۵ء میں مکہ مکرمہ میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم (OIC) کی سربراہی کانفرنس غیرمعمولی اہمیت کی حامل تھی۔ یہ اجلاس تنظیم کے قیام کے ۳۶ سال بعد اور نائن الیون کے بعد رونما ہونے والی صورت حال کے چار سال بعد منعقد ہو رہا تھا۔ اس کے سامنے بڑا بنیادی مسئلہ یہ تھاکہ آج کے حالات میں اُمت مسلمہ کے اصل مسائل اور چیلنجوں کی روشنی میں اُمت کی یہ مرکزی سیاسی تنظیم کہاں تک وقت کے تقاضوں کو پورا کر رہی ہے اور اس کے اہداف‘ مستقبل کے وژن اور خود تنظیم کے چارٹر‘ تنظیمی ڈھانچے اور طریق کار میں کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
اس اجلاس سے پہلے ۲۰۰۳ء میں ملایشیا میں منعقد ہونے والے اجلاس میں نئے نقشۂ کار کی تیاری کے لیے اہم شخصیات کا ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا جس کے دو اجلاس ملایشیا اور پاکستان میں منعقد ہوئے اور پھر خود مکہ مکرمہ میں ستمبر ۲۰۰۵ء میں عالمِ اسلام کے اہم مفکرین اور علما کا ایک اجتماع منعقد ہوا تاکہ اس سربراہی اجلاس میں ضروری تیاری (home work) کے بعد کوئی واضح نقشۂ عمل سامنے آسکے۔
اس سربراہی کانفرنس میں ترکی کے طیب اردگان‘ شام کے بشار الاسد‘ مصر کے حسنی مبارک اور لیبیا کے معمرالقذافی نے شرکت نہیں کی۔ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ اور ایران کے احمدی نژاد کی تقاریر بحیثیت مجموعی اچھی تھیں۔ سیکرٹری جنرل اکمل الدین اوغلو کی تقریر بھی اس لحاظ سے قابلِ ذکر تھی کہ اس میں ایک طرف وقت کی ضرورت کا ادراک تھا اور دوسری طرف خود احتسابی کی دعوت تھی۔ کانفرنس نے بہت دبے ہوئے فدویانہ لہجے میں یہ کہا کہ کسی رکن ملک پر حملے کو قبول نہیں کیا جائے گا‘ جب کہ یہ کہنے کی ضرورت تھی کہ کسی ایک پر حملہ سب پر حملہ سمجھا جائے گا اور متحدہوکر مقابلہ کیا جائے گا۔
اس پس منظر میں اجلاس کی تین اہم دستاویزات‘ یعنی اعلانِ مکہ‘ کانفرنس کا اعلامیہ اور ۱۰سالہ منصوبۂ کار سامنے آئے ہیں۔ حسب معمول اجلاس میں سربراہوں کی دھواں دھار تقاریر بھی ہوئی ہیں لیکن ان تمام تقاریر اور تینوں دستاویزات کا تجزیہ کیا جائے تو سخت مایوسی ہوتی ہے اور الحقُّ مُرٌّ(سچائی کڑوی ہوتی ہے) کے اصول کا احترام کرتے ہوئے ہم یہ سوال کرنے پر مجبور ہیں کہ اس سربراہی کانفرنس کا اعلامیہ ’اعلانِ مکہ‘ تھا یا ’اعلانِ واشنگٹن‘ کی ہی ایک شبیہہ!
کانفرنس کی ساری کارروائی اور اعلانات کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ عالمِ اسلام کا اصل مسئلہ ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکا کی نام نہاد جنگ ہے اور اندرونی طور پر اصل مسئلہ ’انتہا پسندی‘ ہے جس کا ’روشن خیالی‘ اور ’اعتدال پسندی‘ کے ذریعے توڑ کے لیے حکمران ایک عالم گیر ’کروسیڈ‘ میں مشغول ہیں‘ اور اس کے لیے مسجد و منبر اور مدرسہ اور میڈیا سب کو وقف ہونا چاہیے۔ اس سربراہی کانفرنس نے بش اور کونڈو لیزا رائس کے ہم زبان ہوتے ہوئے مسلمان ممالک میں اس مقصد کے لیے نصابِ تعلیم کی تبدیلی کا حکم بھی صادر فرما دیا ہے۔ یہ اعلامیہ جہاں قیادت کے ذہنی افلاس اور فکری غلامی کا غماز ہے‘ وہیں سیاسی بصیرت اور ایمانی جرأت کی کمی بھی اس کی سطرسطر سے ہویدا ہے___ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!
پہلا مسئلہ دہشت گردی کا ہے جسے موجودہ امریکی قیادت نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے اور کر رہی ہے اور مسلمان ممالک کے سربراہ اپنے اپنے مفاد میں اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ کوئی صاحبِ ایمان اور بالغ نظر دانش ور اور سیاسی کارکن حقیقی دہشت گردی کا جواز پیش نہیں کرسکتا‘ لیکن آج اصل مسئلہ دہشت گردی نہیں‘ وہ حالات ہیں جودہشت گردی کو جنم دے رہے ہیں۔ جب تک ان کے بارے میں صحیح رویہ اختیار نہیں کیا جاتا‘ دہشت گردی اور عدمِ تحفظ میں اضافہ ہی ہوگا ‘کمی نہیں۔ جب تک قبضے اور ریاستی دہشت گردی کے مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا‘ دہشت گردی کے مسئلے کا حل ممکن نہیں۔ ستمبر۲۰۰۵ء میں مکہ میں علما اور دانش وروں کا جو اجتماع ہوا تھا اس نے سرکاری نمایندوں کی ناراضی کے باوجود کھل کر یہی بات کہی تھی‘ مگر سربراہوں کے اعلامیے میں اس حقیقت پسندانہ تجزیے کا کوئی پرتو نظرنہیں آتا۔ اُس دستاویز میں اہلِ علم نے صاف کہا تھا کہ:
۱- مسلم دنیا کے لیے دہشت گردی کا مقابلہ کرنا اور اس کی بنیادی وجوہات کو دُور کرنا لازمی ہے۔
۲- اپنے دفاع کے بنیادی حق‘ نیزغیرملکی تسلط کے خلاف تحریکِ آزادی اور دہشت گردی میں امتیاز ہونا چاہیے۔
۳- دہشت گردی کے بنیادی اسباب کا سامنا کرنا چاہیے اور ان کے خلاف لڑنا چاہیے۔
۴- او آئی سی کو دہشت گردی کی تعریف کرنے اور جارحیت اور غیرملکی تسلط کی مزاحمت کرنے میں‘ جس کی ضمانت بین الاقوامی معاہدوں اور اداروں نے دی ہے‘ زیادہ بڑا کردار ادا کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے ۲۰۰۲ء میں مکہ میں علما نے چھے دن دہشت گردی کے مسئلے پر غور کر کے جو مؤقف بیان کیا تھا‘ اس میں بھی جہاں حقیقی دہشت گردی کی موثر مذمت تھی‘ وہیں دفاع اور آزادی کی تحریکاتِ مزاحمت کو اس زمرے سے خارج کرنے کا واضح اعلان تھا۔ اسی طرح مصر (شرم الشیخ ) میں اگست ۲۰۰۵ء میں البرکۃ گروپ کے زیراہتمام علما اور فقہا کا جو اجتماع ہوا اس کی متفقہ قرارداد میں یہ موجود ہے کہ:
کسی بھی طرح اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ’دہشت گردی‘ کی اصطلاح میں اپنے دفاع‘ جارحیت کے خلاف اپنے تحفظ اور تسلط کے خلاف مزاحمت کرنے کو شامل کرلیا جائے۔
زمین پر قبضہ کرنے والوں اور حقوق غصب کرنے والوں کے خلاف مزاحمت ایک قانونی فریضہ ہے۔ اس صورت میں قتل ہونے کے لیے سامنے آنے کو خودکشی نہیں کہا جاسکتا خواہ کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جائے۔ دہشت گردی اور لوگوں کے اپنے دفاع‘ خودارادیت اور قابضین کے خلاف مزاحمت کے حق میں فرق ہونا چاہیے۔ یہ وہ حقوق ہیں جن کی عالمی تنظیموں کے جاری کردہ معاہدے ضمانت دیتے ہیں۔
ہمیں افسوس ہے کہ اس کانفرنس کے اعلامیے اور سربراہان کی تقاریر میںاس ریاستی تشدد اور ظلم کا کوئی ذکر نہیں جو امریکا‘ اسرائیل‘ روس اور بھارت اپنے اپنے علاقوں میں مسلمانوں پر توڑ رہے ہیں اور نہ ان جارحانہ پالیسیوں پر کوئی گرفت ہے جن کے نتیجے میں عالمِ اسلام ہی نہیں‘ ساری دنیا کے عوام ان سامراجی قوتوں کے خلاف چِلّا رہے ہیں۔ ستم ہے کہ فلسطین اور کشمیر کے سلسلے میں حق خودارادیت کی بات تو کی گئی ہے لیکن اسرائیل اور بھارت کے مظالم کے خلاف کوئی لفظ ان اعلانات میں موجود نہیں۔ عراق اور افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کا کوئی مطالبہ نہیں اور شہری آبادی پر جو وحشیانہ مظالم ہوتے رہے ہیں‘ ان کے لیے مذمت کا ایک لفظ بھی موجود نہیں ہے۔ مسلمان عوام اور حکمرانوں کے درمیان جو بُعد___ بلکہ بُعدالمشرقین ہے اس کی اس سے زیادہ اندوہناک مثال اور کیا ہوسکتی ہے؟
دوسرا بنیادی مسئلہ اسلام اور اس کے بنیادی عقائد اور تعلیمات بشمول جہاد کے سلسلے میں مغربی یلغار کا ہے۔ اس سلسلے میں سخت معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے جیسے کمزوری مسلمانوں ہی کے مؤقف میں ہے اور وہ انتہاپسندی اور تنگ نظری میں مبتلا ہیں۔ مغرب کا ہدف نہ انتہاپسندی ہے اور نہ تنگ نظری___ اس کا اصل ہدف خود اسلام اور اسلام کے تحت رونما ہونے والا وہ ذہن ہے جو دوسروں کی غلامی اور محکومی کا باغی ہو اور اپنے ایمان‘ اقدار‘ اصول اور حقیقی مفادات کے مطابق خودانحصاری کی بنیاد پر دنیا میں اپنا مقام حاصل کرنا چاہتا ہے۔ مغرب کے مطالبے پر اور بش کے تراشیدہ تصورات کو اگر مسلم ممالک کے سربراہ بھی پیش کریں گے تو اسے مسلمان اُمت کا ضمیر کبھی قبول نہیں کرسکتا۔
۱- پہلی ضرورت صحیح وژن کی ہے اور وہ وژن اسلام اور مسلم تاریخ اور روایات پر مبنی ہونا چاہیے‘ مغرب کے مطالبات اور ترغیبات پر نہیں۔
۲- اصل چیز اُمت مسلمہ کا دینی‘ اخلاقی‘ تہذیبی تشخص (identity) ہے۔ جب تک اس تشخص کو تجدید اور ترقی کی بنیاد نہیں بنایا جائے گا‘کامیابی ممکن نہیں۔ اس اجتماع میں تو یہ بات تک کہی گئی تھی کہ جب تک اس اُمت کو ہم اپنے فکروعمل کا ماخذ نہیں بناتے جو حرمِ کعبہ میںطواف و سعی میں مشغول ہے‘ محض سلطانی ضیافت کے دیوان میں بیٹھے ہوئے لوگ اُمت کے مسائل کے حل کی راہ ہموار نہیں کرسکتے۔
۳- تیسری بنیادی بات یہ کہی گئی تھی کہ اصل کمی مشوروں اور منصوبوں کی نہیں‘ عزم و ارادے (political will)کی ہے۔ جب تک یہ نہ ہو سب کارروائی کاغذی رہے گی۔
۴- اس اجتماع میں کھل کر بتایا گیا تھا کہ اصل مسئلہ حکمرانوں اور عوام میں بُعد اور خود مسلم دنیا کے نظامِ حکومت میں اسلام کی کارفرمائی اور عوام کی شرکت اور مؤثر اختیار کی کمی ہے۔ اس رپورٹ کا سب سے پہلا نکتہ ہی یہ تھا کہ:
ان تجاویز اور سفارشات کا کوئی پرتو سربراہی کانفرنس کے اعلانات میں نظر نہیں آتا اور یہی وجہ ہے کہ یہ کانفرنس اس تبدیلی کے آغاز کے بارے میں کوئی خدمت انجام نہ دے سکی جو وقت کی ضرورت اور اس تنظیم کے تن مُردہ میں جان ڈالنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
آخر میں ہم یہ وضاحت بھی کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس تنظیم کی کمزوری اور سربراہوں کی ناکامی اُمت مسلمہ کی ناکامی نہیں‘ بلکہ یہ اُمت اور اس کے حکمرانوں کے درمیان بُعد کا آئینہ ہے اور یہ اُمت اسی وقت اپنا حقیقی کردار ادا کرسکے گی جب اس کی قیادت اُمت کے عزائم کی آئینہ دار ہو اور عوام اور حکمران یک زبان ہوکر وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا کی زندہ مثال بن جائیں۔
پاکستان کے بارے میں بھارت کی سیاست کو اگر ایک پرانی کہاوت کی شکل میں بیان کیا جائے تو اس میں ذرا بھی مبالغہ نہ ہوگا۔ ہندو ذہنیت کے بارے میں برعظیم کا ہر خاص و عام جانتا ہے کہ’بغل میں چھری، منہ میں رام رام‘ یہی حال آج بھی ہے۔ ایک طرف کشمیر میں لائن آف کنٹرول کو چند مقامات پر کھولنے اور اس سے بھی بڑھ کر اسے غیرمتعلق (irrelevant) بنانے کی باتیں ہورہی ہیں‘ اور دوسری طرف مشرق اور شمال‘ ہر سمت میںخون آشام جنگی مشقوں کا اہتمام کیا جارہا ہے اور وہ بھی ایک ایسے وقت جب جنوبی ایشیا زلزلوں اور آسمانی تباہی کی ہولناک گرفت میں ہے۔
ابھی مغربی بنگال میں بھارت کی تاریخ کی سب سے اہم جنگی مشقیں بھارت اور امریکا کی مشترک مشق کی حیثیت سے ختم نہیں ہوئی تھیں کہ پاکستان کی سرحد کے قریب راجستھان میں ۱۹۸۷ء کے Operation Brass Tracks کے بعد اسی نوعیت کی ۱۴ روزہ مشقوں کا آغاز ۱۸نومبر ۲۰۰۵ء سے ہوگیا ہے جسے Operation Desert Strike کا نام دیا گیا ہے‘ اور اس میں ۲۰ہزار فوجی شرکت کریں گے اور بھارت کی ایرفورس فرانسیسی ساخت کے میراج۲۰۰۰‘ روسی ساخت کے ایم جی-۲۷ اور برطانوی ساخت کے Jaguar لڑاکا طیاروں سے اس شان سے شرکت کرے گی کہ مشقوں کا ۴۰ فی صد ہوائی فوج اور باقی بری فوج کی کارروائیوں کے لیے مختص ہوگا۔ بری فوج اس موقع پر روسی ساخت کے این ٹی-۹۰ ٹینکوں کو زیرمشق لارہی ہے جو ۳۱۰ کی تعداد میں بھارت نے روس سے اس طرح حاصل کیے ہیں: ۱۲۴ بنے بنائے روس نے فراہم کیے ہیں‘ جب کہ ۱۸۶ روس سے حاصل شدہ خام مال اور ٹکنالوجی کی مدد سے بھارت نے خود آخری شکل میں تیار کیے ہیں۔ یہ وہ ٹینک ہیں جنھیں اس وقت کا بہترین ٹینک سمجھا جارہا ہے اور ان میں سے ہر ایک کی قیمت ۱۰ کروڑ ۵۰لاکھ روپے ہے۔
مغربی بنگال کی بھارت امریکا مشترک مشقوں کے آخری دن دہلی میں امریکا کے ناظم الامور رابرٹ اوبلیک نے ایک چونکا دینے والا بیان دیا ہے کہ اگرچہ مشقیں تجرباتی ہیں لیکن اب بھارت اور امریکا کی دوستی اس مقام پر ہے کہ ایسی مشقیں مستقبل میں کسی تیسرے ملک میں فوجی آپریشن کی طرف بھی جا سکتی ہیں۔ البتہ ایسا مشترک فوجی آپریشن ایک قومی فیصلہ ہوگا جو بھارت کی حکومت کو کرنا ہوگا۔ یہ مشترک مشقیں اور اس سے بڑھ کر ان کے اختتام پر یہ بیان اس علاقے کے بارے میں بھارت اور امریکا کے مستقبل کے عزائم کا آئینہ دار اور علاقے کے دوسرے ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی کا درجہ رکھتا ہے۔
امریکا نے مشرق وسطیٰ‘ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کو اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے جو نقشہ بنایا تھا اس میں شاہ ایران اور اسرائیل دو بنیادی کردار تھے۔ ایران کے اسلامی انقلاب نے اس نظام کا ایک ستون منہدم کر دیا۔ امریکا کا سارا انحصار اسرائیل پر رہ گیا جو غیرحقیقت پسندانہ تھا۔ اسی لیے اسرائیل اور بھارت کی دوستی کا آغاز ہوا تاکہ بھارت کو اس نظام میں بالآخر شامل کرلیا جائے۔ پہلے دور میں ۱۰‘۱۵ سال میں بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کو مستحکم کیا گیا جس نے کلنٹن کے دور میں بھارت کو اس نظام کا حصہ بناکر ایک تثلیث بنانے کے عمل کا آغاز کردیا مگر ۱۹۹۸ء کے بھارت کے ایٹمی تجربات نے سطح کے اوپر نظر بہ ظاہر اس عمل کو سست کردیا۔ عراق اور افغانستان پر قبضہ اور وسط ایشیا میں تاجکستان‘ ازبکستان اور قازقستان میں فوجی اڈوں کا قیام اس حکمت عملی کا حصہ ہے لیکن اصل ہدف بھارت کو اس نظام کا حصہ بنانا تھا جو بش انتظامیہ نے پچھلے دوسال میں مستحکم کرلیا ہے‘ اور اکتوبر کی مغربی بنگال مشقیں‘ بھارت اور امریکا کا ۱۰سالہ دفاعی تعاون کا معاہدہ اور سب سے بڑھ کر جولائی ۲۰۰۵ء میں کیا جانے والا ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی کا معاہدہ جس نے عملاً بھارت کو ایک نیوکلیر پاور تسلیم کرلیا ہے اور ہائی ٹیک تعاون کا دروازہ کھول کر پورے علاقے کے دفاعی توازن کو درہم برہم کردیا ہے۔ اس پورے عمل کا اصل ہدف چین‘ ایران‘ پاکستان اور عرب ممالک ہیں۔ حالیہ مشقوں کو اسی پس منظر میں سمجھا جاسکتا ہے۔
مغربی بنگال کی مشترک مشقوں کے فوراً بعد راجستھان کی جنگی مشقیں پاکستان اور ایران کے لیے خصوصی پیغام رکھتی ہیں۔ مشقوں کے آغاز ہی پر بھارت کے ہوائی فوج کے سربراہ ایرچیف مارشل ایس پی تیاگی کا بیان جو انھوں نے پونا یونی ورسٹی میں دیا ہے جو بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا ارشاد ہے:
گو کہ گذشتہ تین سال میں ان دونوں قوموں کے درمیان حالات بہت کچھ تبدیل ہوگئے ہیں‘ مگر سلامتی کی صورت حال اسی طرح ہے۔ دہشت گردی کا انفراسٹرکچر پاکستان میں ابھی تک موجود ہے اور سرحد پار دہشت گردی میں بھی کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔
ہماری سلامتی کی منصوبہ بندی میں چین جو کچھ کر سکتا ہے اس کو مقام ملنا چاہیے کیونکہ مجھے اپنے پڑوس میں چینی اسلحہ نظرآرہا ہے۔ چین کی جانب سے ہمارے ملک کا اسٹرے ٹیجک گھیرائو کافی آگے بڑھ چکا ہے اور اس سے مستقبل میں ہمارے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے---
پاکستان اور چین کو بھارت کے لیے ایک خطرہ قرار دیتے ہوئے انھوں نے کہا:اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے ان دو پڑوسی ممالک کے ساتھ جنگ کے لیے بے تاب ہیں… (ٹائمز آف انڈیا‘ ۱۸ نومبر ۲۰۰۵ئ)
لیکن جو کچھ بھارت کی مشقیں ظاہر کرتی ہیں اس کے بارے میں یہی کہاجا سکتا ہے کہ ؎
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر
لہو پکارے گا آستیں کا
بھارت کی ان تیاریوں‘ عزائم اور strategic calculations کا صحیح ادراک ضروری ہے‘ اور دوستی کا جو خمار پاکستان کی قیادت پر طاری ہے اسے حقیقت پسندی کے غسل کی فوری ضرورت ہے۔ ایران اور چین کو بھی ان تیاریوں کا بروقت نوٹس لینا چاہیے‘ نیز امریکا کے ساتھ اندھی دوستی اور امریکا کی خاطر جو اندرون ملک اور بیرونی خطرات ہم نے مول لیے ہیں ان کے ادراک کی شدید ضرورت ہے۔ ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ ان حالات میں ناٹو کے ایک ہزار فوجیوں کا امدادی کاموں کے نام پر پاکستان میں آنا‘ اس پورے آپریشن کا امریکا کی فوجی کمانڈ میں برسرکار ہونا‘اور اس ایک ہزار کی نفری میں صرف ۱۶۸ انجینیر یا ڈاکٹر ہونا اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے۔ حکومت کی خوش فہمیاں جو بھی ہوں‘ پاکستانی عوام اور سیاسی قوتیں اس صورت حال پر سخت متفکر ہیں اور بجاطور پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ عوامی خدشات کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ناٹو کے فوجیوں اور ان کے قائم کردہ کیمپوں اور ہسپتالوں کی حفاظت کے لیے پاکستانی فوج اور رینجرز کی ایک بڑی تعداد لگانا پڑی ہے‘ اور عام آدمی ناٹو کے ہسپتالوں کے مقابلے میں پاکستان اور دوسری سول این جی اوز کے ہسپتالوں میں جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
وقت آگیا ہے کہ پاکستانی قیادت اپنی خوش فہمیوں کے سراب سے نکلے اور اپنی خارجہ پالیسی کا جائزہ لے کر اسے زمینی حقائق اور پاکستانی عوام اور اُمت مسلمہ کی امنگوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرے اور پارلیمنٹ اور قوم کو اعتماد میں لے۔ ہماری اصل طاقت اللہ کی مدد کے بعد ملک کے عوام اور اُمت مسلمہ سے یک جہتی اور اتحاد میں ہے‘ اور امریکا پر بھروسا کرنے کے بجاے خودا نحصاری (self-reliance) کا راستہ ہی قومی سلامتی کا راستہ ہے۔
پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ ہر حکومت نے اپنے اپنے دور میں کسی نہ کسی شکل میں صحافت کو زنجیریں پہنانے اور اپنے مفید مطلب مؤقف اختیار کرنے کی مذموم کوششیں کی ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ صحافت کو مکمل آزادی دیں گے اور دستور اور قانون کے دائرے میں اظہاررائے اور تنقید کے حق کے استعمال کا ہر موقع دیں گے۔ کچھ پہلوئوں سے شاید گذشتہ چھے سالوں میں بظاہر صحافت کو نسبتاً آزادی میسر بھی آئی ہے لیکن آہستہ آہستہ حکومت کی گرفت اور سرکاری وسائل کا صحافت کو زیردام رکھنے کے لیے استعمال بڑھ رہا ہے۔ پریس ایڈوائس کا سلسلہ جاری ہے۔ صحافیوں کو ہم نوا بنانے کے لیے ترغیب اور ترہیب کے ہتھکنڈے بے دریغ استعمال کیے جارہے ہیں۔ لفافہ کلچر بھی اپنا کام کر رہا ہے اور ’الطاف و اکرام‘ کے دوسرے ذرائع بھی اپنا کام دکھارہے ہیں۔ سرکاری اشتہارات کو سرکاری نقطۂ نظر کو فروغ دینے اور اختلافی رائے رکھنے والے اخبارات کو سزا دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک لسانی تنظیم دہشت گردی کے وہی حربے پھر استعمال کررہی ہے جو ۱۹۹۰ئ/۱۹۸۰ء میں اس کا شعار تھے۔ فریڈم آف انفارمیشن کا قانون نہایت عام اور نقائص سے پُر ہے‘ نیز صحافت اور الیکٹرانک میڈیا میں سرکاری اثراندازی اور اجارہ داری کی صورت دونوں اپنا اپنا ہاتھ دکھا رہے ہیں۔
پارلیمنٹ میں بار بار یہ مسائل اٹھائے گئے ہیں مگر حکومت کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں اور وزیراطلاعات سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک یہی رٹ لگائے جارہے ہیں کہ صحافت آزاد ہے اور جمہوریت کا کارواں رواں دواں ہے۔ ویج ایوارڈ کا مسئلہ برسوں سے معلق ہے۔ وزیراعظم نے ایک کل جماعتی کمیٹی بنائی تھی جس میں راقم کو بھی رکھا گیا تھا مگر جس کام کو دوماہ میں کرنا تھا وہ پانچ ماہ میں شروع بھی نہ کرسکے اور میں نے احتجاجاً کمیٹی سے استعفا دے دیا۔
اس کا نوٹس اب عالمی سطح پر بھی لیا جا رہا ہے اور اس شذرے کا باعث وہ تازہ سروے ہے جو فرانس کی ایک مشہور تنظیم RSF (Reports Sans Frontiers) نے اسی مہینے شائع کیا ہے اور جس میں ۲۰۰۲ء اور ۲۰۰۵ء کے درمیان حالات کا موازنہ کرکے دکھایا گیا ہے کہ دنیا کے ۱۶۶ممالک جن کا سروے کیا گیا ہے ان میں پاکستان کا نمبر ۲۰۰۲ء میں ۱۱۹ تھا‘ یعنی سب سے نیچے کے ۴۰ ملکوں میں ہم ‘ مگر اب ’ترقی‘ کر کے ۲۰۰۵ء میں یہ شمار ۱۵۰ پر آگیا ہے۔ گویا سب سے بدتر ۲۰ملکوں میں ہم ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ افغانستان کا شمار ہم سے اوپر ہے‘ یعنی ۱۲۵ ویں پوزیشن‘ جب کہ بھارت کا نمبر ۱۰۹ ہے۔
جمہوریت کے فروغ کے لیے آزادی صحافت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اس حکومت کے دور میں جس طرح پارلیمنٹ مفلوج ہے اور سول نظام پر فوج کی گرفت بڑھ رہی ہے‘ اسی طرح صحافت پر بھی کنٹرول‘ مداخلت‘ اور ’چمک‘ کے سائے مسلط ہیں اور دعووں اور حقیقت میں خلیج روز بروز بڑھ رہی ہے جو ہر اعتبار سے خطرناک ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء کی صبح آٹھ بج کر باون منٹ پر پاکستان اور کشمیر کے طول و عرض میں اور خصوصیت سے صوبہ سرحد اور آزاد کشمیر کے شمالی علاقوں میں ایک ایسا تباہ کن بھونچال آیا جس نے ہزاروں جیتے جاگتے‘ ہنستے کھیلتے انسانوں کو چشم زدن میں موت کی نیند سلا دیا۔ ایک لاکھ کے قریب جوان‘ بوڑھے‘ مرد‘ عورتیں اور بچے زخموں سے چور ہوگئے‘ ۵۰ لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوگئے اور دسیوں شہر اور سیکڑوں دیہات دیکھتے ہی دیکھتے کھنڈروں میں تبدیل ہوگئے۔ اس ہمہ گیر تباہی کے احساس سے پاکستان اور اُمت مسلمہ ہی نہیں‘ پوری دنیا کے کروڑوں انسانوں کے دل کم از کم وقتی طور پر دہل گئے اور آنکھیں اشک بار ہوگئیں___ لیکن کیا جاگتوں کو موت کی آغوش میں سلانے والا یہ قیامت خیز زلزلہ‘ پاکستان کے ۱۵ کروڑ نیند کے متوالوں اور ان کی غافل اور حق فراموش قیادت کی آنکھیں کھولنے اور ان کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کا کارنامہ بھی انجام دے سکتا ہے؟
ساری تباہی اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے اور فوری امداد کی ہر کوشش وقت کا تقاضا اور انسانی اور قومی ضرورت ہے۔ جانیں بچانے‘ یعنی ریسکیو (rescue)‘ مدد پہنچانے یعنی ریلیف (relief) اور بحالی (rehabilitation) کی تمام مساعی ضروری اور فوری توجہ کی مستحق ہیں اور ان کے باب میں کوئی کوتاہی‘ اخلاقی اور اجتماعی ظلم کی بدترین مثال ہوگی لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مستقبل کی تاریکی یا تابناکی کا اصل انحصار اس امر پر ہوگا کہ کیا ہم اس چشم کشا انتباہ پر واقعی آنکھیں کھولتے ہیں؟ اور پھر یہ کہ اس گمبھیر آزمایش میں‘ بحیثیت قوم ہمارے رویوں اور ردعمل میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں؟
خود احتسابی‘ انفرادی اور اجتماعی رویوں کا جائزہ‘ قومی اور سرکاری پالیسیوں پر نظرثانی‘ اللہ کے غضب کو دعوت دینے والے اعمال و احوال کا ادراک‘ اپنے رب سے توبہ و استغفار اور حقیقی خدمت‘ بھائی چارے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ٹھیک ٹھیک ادایگی کی فکر ہی ہمیں زندگی کے مصائب و آلام سے حقیقی نجات کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ اسلامی اور غیراسلامی رویے میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ غیراسلامی رویے کا سارا دروبست صرف طبعی اور وقتی امورسے عبارت ہوتا ہے یعنی ریسکیو‘ ریلیف اور بحالی ___ اور اسلامی رویہ ان کے ساتھ ساتھ ان سرگرمیوں کی اصل روح‘ جذبہ اور حقیقی ہدف اللہ کی رضا کا حصول‘ اس سے تعلق اور استعانت کی طلب اور اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق حق و انصاف کے قیام کے لیے اصلاحِ احوال سے عبارت ہوتا ہے تاکہ معاشرہ خیر اور فلاح کا گہوارہ بن سکے اور زمین و آسمان سے اللہ کی برکتیں میسر آسکیں۔
قرآن و حدیث کا نقطہ نظر
قرآن نے انسانوں کو سوچنے سمجھنے اور غوروتدبر کرنے کا جو آہنگ دیا ہے‘ اس کا سب سے امتیازی پہلو ہی یہ ہے کہ وہ جہاں زندگی کے طبعی پہلو اور حوادثِ زمانہ کے مادی احوال و ظروف کا ادراک کرتا ہے اور انھیں نمایاں حیثیت دیتا ہے‘ وہیں ان کے پیچھے کارفرما اخلاقی‘ روحانی اور نظریاتی اسباب و عوامل کو بھی بھرپورانداز میں نمایاں کرتا ہے۔ بلکہ صحیح تر الفاظ میں ان طبعی حقائق کو زندگی کے حقیقی اور اخلاقی اسباب و اسباق کی تفہیم کا ذریعہ بناتا ہے اور اس طرح سوچ کے ان دو بنیادی زاویوں کو ایک دوسرے سے نمایاں کردیتا ہے جو اسلام اور غیراسلام کا خاصہ ہیں اور زندگی کے دو تصورات (paradigms) کے مظہر ہیں۔ زندگی کا ایک وہ رویہ ہے جو صرف طبعی پہلو پر اکتفا کرلیتا ہے اور دوسرا طبعی پہلو کے ساتھ اس کے اخلاقی‘ روحانی اور نظریاتی پہلو کو بھی اپنی گرفت میں لے آتا ہے اور اس طرح چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے ہر واقعے کو زندگی کے بنیادی تصورات‘ اقدار اور مقاصد اور کامیابی اور ناکامی کے اخلاقی اور ابدی معیار سے وابستہ کردیتا ہے۔
تَبٰرَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ ز وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْـرُ نِ o الَّذیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ o (الملک ۶۷:۱-۲)
نہایت بزرگ و برتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں (کائنات کی) سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ اور وہ زبردست بھی اور درگزر فرمانے والا بھی۔
موت ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے اور شب و روز ہم سب ہی اس کا نظارہ کرتے رہتے ہیں‘ کبھی اپنے اعزہ اور اقارب کی جدائی کی شکل میں اور کبھی بڑے بڑے اجتماعی حادثات کی صورت میں جو اپنے اور غیر سب کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ قرآن پاک میں گزری ہوئی قوموں کی تباہی کے جو رونگٹے کھڑے کر دینے والے واقعات بیان کیے گئے ہیں‘ وہ صرف ان قوموں کے غضب ناک انجام ہی کا تذکرہ نہیں بلکہ قیامت تک سب انسانوں کے لیے اور خصوصیت سے اہلِ ایمان کے لیے انتباہ کا سامان بھی لیے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے بیان کی اصل حکمت بھی یہی ہے کہ انسانوں کو غفلت سے بیدار کریں تاکہ وہ زندگی اور موت کے ان تمام مناظر سے عبرت لے سکیں جو خواہ ماضی میں واقع ہوئے ہوں یا ان کی جھلک خود ان کے اپنے گردوپیش میں دیکھی جا سکتی ہو‘ یا جس کا تجربہ وہ اور ان کے جیسے دوسرے انسان اور اقوام وقتاً فوقتاً کرتے ہیں۔
اَفَاَمِنَ اَھْلُ الْقُرٰٓی اَنْ یَّاْتِیَھُمْ بَاْسُنَا بَیَاتًا وَّ ھُمْ نَآئِمُوْنَo اَوَاَمِنَ اَہْلُ الْقُرٰٓی اَنْ یَّاْتِیَھُمْ بَاْسُنَا ضُحًی وَّھُمْ یَلْعَبُوْنَo اَفَاَمِنُوْا مَکْرَ اللّٰہِ فَلَا یَاْمَنُ مَکْرَ اللّٰہِ اِلاَّ الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَo اَوَلَمْ یَھْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِ اَھْلِھَآ اَنْ لَّوْ نَشَآئُ اَصَبْنٰھُمْ بِذُنُوْبِھِمْ (اعراف ۷:۹۷-۱۰۰)
پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت اچانک ان پر رات کے وقت نہ آجائے گی جب کہ وہ سوئے پڑے ہوں؟ یا انھیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا؟ جب کہ وہ کھیل رہے ہوں؟ کیا یہ لوگ اللہ کی تدبیر سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی تدبیر سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔ کیا ان لوگوں کو جو سابق اہلِ زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں‘ اس امر واقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انھیں پکڑ سکتے ہیں؟
قرآن اقوامِ سابقہ کے حق سے انحراف اور ظلم و جور میں حد سے گزر جانے کے واقعات کا تذکرہ کر کے اور ان کے عبرت ناک انجام کا بار بار ذکر کر کے ہمیں سوچ کے اس انداز کی تعلیم دے رہا ہے کہ طبعی عوامل اور اخلاقی عوامل کو باہم دگر مربوط دیکھنے کی روش اختیار کریں اور ماضی سے روشنی حاصل کرتے ہوئے حال کی اصلاح کی فکر کریں۔ اللہ کی اس گرفت کی حیثیت کب عذاب کی ہے اور کب انتباہ کی‘ نیز عذاب کی بھی مختلف حیثیتیں ہیں اور ہر عذاب ایک ہی نوعیت کا نہیں‘ لیکن یہ سب علمی بحثیں ہیں جن کا یہ محل نہیں ___ جو بات ناقابلِ انکار ہے‘ وہ یہ ہے کہ طبعی عوامل اور اخلاقی عوامل دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں اورزلزلے‘ طوفان‘ سیلاب‘ تباہی پھیلانے والے جھکڑ جہاں اپنے طبعی اسباب و احوال رکھتے ہیں‘ وہیں ان کے پیچھے مضبوط اور چشم کشا اخلاقی عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ کوتاہ بیں اپنی نظر کو صرف طبعی احوال تک محدود رکھتے ہیں لیکن مومن صادق ان کے اخلاقی‘ روحانی‘ مابعد الطبیعیاتی اور تہذیبی اسباب و عواقب پر بھی اپنی نگاہ کو مرکوز کرتا ہے اور اُن سے اصلاح احوال کے لیے عبرت کا درس لیتا ہے۔
پورا قرآن غوروفکر کے اس اسلوب کی تعلیم دیتا ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے پیارے اور بڑے مؤثرانداز میں اس ربط و تعلق پر انسانوں کی توجہ کو مرکوز فرمایا ہے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ کی روایت ہے کہ آپ کا ارشاد ہے:
ما من قوم یظھرُ فیھم الزنا الا اخذوا بالسنۃ وما من قوم یظھر فیھم الرّشا الا اُخذ وبالرعب (رواۃ احمد‘ مشکٰوۃ‘ کتاب الحدود)
کوئی قوم ایسی نہیں ہے کہ اس میں بدکاری عام ہو مگر یہ کہ وہ قحط سالی میں گرفتار ہوجاتی ہے اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں رشوت پھیل جائے مگر یہ کہ اس پر خوف و دہشت طاری ہوجاتی ہے۔
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ جس قوم میں خیانت کا بازار گرم ہوگا‘ اس قوم میں اللہ تعالیٰ دشمن کا خوف اور دہشت پھیلا دے گا‘ جس معاشرے میں زنا کی وبا عام ہوگی وہ فنا کے گھاٹ اتر کر رہے گا‘ جس معاشرے میں ناپ تول میں بددیانتی کا رواج عام ہوگا وہ رزق کی برکت سے محروم ہوجائے گی‘ جہاں ناحق فیصلے ہوں گے وہاں خوں ریزی لازماً ہوکر رہے گی اور جس قوم نے بدعہدی کی‘ اس پر دشمن کا تسلط بہرحال ہوکر رہے گا۔ (رواہ مالک‘ مشکوٰۃ‘ باب تفسیرالناس)
اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ چشم کشا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد ہے جو حضرت ابوہریرہؓ سے ترمذی میں اس طرح روایت ہوا ہے:
جب مال غنیمت کو ذاتی مال سمجھا جانے لگے‘اور امانت کو مالِ غنیمت سمجھ لیا جائے‘ زکوٰۃ ادا کرنا جرمانہ اور چٹی بن جائے‘ اور علم حاصل کرنے کا مقصد دین پر عمل کرنا نہ ہو (محض دنیا کمانا ہو) اور مرد اپنی ماں کی نافرمانی کرتے ہوئے بیوی کی بات ماننے لگے‘ اور باپ سے دُوری اختیار کرے اور اس کے مقابلے میں دوست کی قربت چاہے۔ مسجدوں میں شور ہونے لگے (اور مسجد کے آداب کا لحاظ نہ کرتے ہوئے اونچی آواز میں بات چیت اور بحث و تکرار شروع ہوجائے) قبیلے کا سردار فاسق (اللہ رسولؐ کا نافرمان) بن جائے اور قوم کا سربراہ گھٹیا انسان بن جائے‘ اور آدمی کی عزت اس کے شرسے محفوظ رہنے کے لیے کی جانے لگے‘ آلاتِ موسیقی کثرت سے ظاہر ہوجائیں‘ شراب پی جانے لگے‘ اس اُمت کا آنے والا گروہ گزر جانے والے گروہ پر لعنت ملامت کرنے لگے (اگر ایسی صورت حال ہوجائے) تو تم انتظار کرو‘ سرخ آندھیوں کا___ زلزلوں کا___ زمین کے دھنس جانے کا___ صورتوں کے بگڑ جانے کا___ آسمان سے نازل ہونے والے عذاب کا‘اور یہ نشانیاں یکے بعد دیگرے اس طرح ظاہر ہونے لگیں گی جیسے اگر پرانی تسبیح کا دھاگا ٹوٹ جائے تو اس کے موتی مسلسل گرنے لگتے ہیں۔(ترمذی‘ حدیث ۲۱۳۶‘ کتاب الفتن)
قرآن پاک نے زمانے کے نشیب و فراز اور قوموں کے عروج و زوال کے ذکر سے جس تذکیر کا اہتمام کیا ہے‘ ارشادات نبویؐ میں انھی پہلوئوں کی طرف مستقبل کے واقعات اور حالات کی نشان دہی کرکے ہمیں انتباہ کیا گیا ہے تاکہ انسان بحیثیت مجموعی اور مسلمان بطور خاص زندگی اور موت‘ اور حوادثِ زمانہ اور طبعی احوال سے بس یونہی نہ گزر جائیں بلکہ ان میں جو اصل معنویت پوشیدہ ہے اس کو سمجھیں‘ فساد فی الارض پیدا کرنے والے اعمال سے اجتناب کریں‘ خیروصلاح پھیلانے والے اقدام کی فکر کریں اور یہ یاد رکھیں کہ اللہ کا قانون ہے کہ جب بھی اس کی گرفت واقع ہوتی ہے تو وہ خود انسانوں کے اپنے اعمال اور ظلم و طغیان کی وجہ سے ہوتی ہے اور پھر اس میں گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ ایسے حالات میں معاشرے کی تباہی کی زد میں صرف ظالم اور بدکردار ہی نہیں آتے بلکہ وہ بھی آتے ہیں جو خواہ شریکِ جرم نہ ہوں لیکن ظالم اور باغی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں۔
وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَـآصَّۃً وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ o (انفال ۸:۲۵)
اور بچو اس وقت سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُھْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّاَھْلُھَا مُصْلِحُوْنَ o (ھود ۱۱:۱۱۷)
اور تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح احوال کرنے والے ہوں۔
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا وَّ لٰکِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ o (یونس ۱۰:۴۴)
حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا‘ لوگ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔
انتباہ کے ساتھ آزمایش کا بھی ایک نظام ہے جس کا اصل مقصد تو اخلاقی اور روحانی تزکیہ اور تربیت ہے لیکن وہ بھی طبعی عمل کے ذریعے کارفرما ہوتی ہے اور کچھ کے لیے تنزل اور تباہی کا ذریعہ بن جاتی ہے اور کچھ کے لیے ترقی اور کامیابی کا زینہ ثابت ہوتی ہے۔ یہ بھی اللہ کا ایک اٹل قانون ہے اور جس طرح انتباہ‘ گرفت اور سزا اصلاح کے عمل کا ایک حصہ ہے‘ اسی طرح آزمایش اور جانچ پرکھ کا الٰہی نظام بھی اس وسیع تر عمل کا ایک لازمی پہلو ہے۔
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ o وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ o (العنکبوت ۲۹:۲-۳)
کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمایش کرچکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو یہ ضرور دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون؟
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیٍٔ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمٰرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo اُوْلٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۵۵-۱۵۷)
اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر‘ فاقہ کشی‘ جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے‘ اور کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘ انھیں خوش خبری دے دو۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی‘ اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے جو چیز بالکل صاف ہوکر ہمارے سامنے آتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ جو مصیبت بھی انسانوں پر آتی ہے وہ بے سبب نہیں ہوتی اور اس کے پیچھے محض طبعی عوامل ہی نہیں‘ اخلاقی اور مابعدالطبیعیاتی عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں اور ہر ایسا واقعہ جہاں دلوں کو افسردہ کرنے والا ہے‘ وہیں اسے دل کی آنکھوں کو کھولنے والا بھی بننا چاہیے تاکہ انسانی زندگی سے بگاڑ‘ ظلم اور طغیانی ختم ہو اور انسان اللہ کی رحمت اور برکتوں کے مستحق بن سکیں۔
جائزے اور احتساب کی ضرورت
آج پاکستانی قوم جس آزمایش میں مبتلا ہے‘ اس میں جہاں زلزلے کے متاثرین کی مدد‘ ان کے غم اور تکلیف میں شرکت‘ مریضوں کی تیمارداری اور علاج ‘ تباہ شدہ بستیوں کو دوبارہ آباد کرنے کی کوشش ہماری ذمہ داری ہے‘ وہیں اللہ تعالیٰ سے خلوصِ دل کے ساتھ استغفارو توبہ اور انفرادی اور اجتماعی ہر سطح پر خوداحتسابی اور اجتماعی احتساب کا اہتمام بھی ضروری ہے تاکہ اللہ کے غضب سے بچا جاسکے‘ اور اس کی مغفرت اور رحمت کو دعوت دی جا سکے___ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنی طرف پلٹ کر آنے والے ہر فرد اور ہر قوم کو معاف کرنے والا‘ گنہگاروں اور خطاکاروں کو اپنی مغفرت میں ڈھانپ کر اپنے الطاف و اکرام سے نوازنے والا ہے۔
فَمَنْ تَابَ مِنْ م بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰہَ یَتُوْبُ عَلَیْہِط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (المائدہ ۵:۳۹)
پھر جو ظلم کرنے کے بعد توبہ کرے اور اپنی اصلاح کر لے تو اللہ کی نظر عنایت پھر اس پر مائل ہوجائے گی۔ اللہ بہت درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ ھُوَیَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ وَیَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَاَنَّ اللّٰہَ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ o (التوبہ ۹:۱۰۴)
کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی خیرات کو قبولیت عطا کرتا ہے اور یہ کہ اللہ بہت معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔
جن حالات سے آج ہماری قوم دوچار ہے ان میں صرف انفرادی توبہ و استغفار ہی نہیں بلکہ اجتماعی توبہ و استغفار کا اہتمام بھی ضروری ہے۔
وَتُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o (النور ۲۴:۳۱)
اے مومنو‘ تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو‘ توقع ہے کہ فلاح پائو گے۔
اس وقت جب کہ پوری قوم ۸ اکتوبر کے قیامت خیز زلزلے کے زیراثر غم اور خوف کی لپیٹ میں ہے‘ امدادی کاموں کے ساتھ ساتھ جو چیز بے حد ضروری ہے وہ رجوع الی اللہ‘ انفرادی اور اجتماعی احتساب‘ اللہ کے حضور توبہ و استغفار اور اللہ سے وفاداری اور ان مقاصد کے لیے عزم نو کے اظہار کی ضرورت ہے جن کے حصول کے لیے یہ ملک قائم ہوا تھا اور جس کا عہد ہم نے بحیثیت قوم اپنے رب سے کیا تھا کہ ہم کلمہ لا الٰہ الا اللہ کی سربلندی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے کے مطابق چلنے کے لیے یہ آزاد ملک حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
کیا آج اس سوال پر غور کرنا وقت کی اہم ضرورت نہیں کہ ہم نے اللہ سے اپنے اس عہد کے ساتھ عملاً کیا معاملہ کیا ہے؟ اللہ نے ہمیں ایک آزاد ملک سے نوازا اور ہم نے عملاً غیراسلامی قوتوں کی سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی بالادستی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیا‘ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اُمت مسلمہ کی نشات ثانیہ کا نقیب بنایا اور ہم نے ان قوتوں کا ساتھ دیا جنھوں نے مسلمان ممالک پر فوج کُشی کی اور ہمارے ہی کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی۔ نتیجتاً مسلمان ممالک میں خاک و خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے اور امن و چین تباہ ہیں۔ ہم نے اپنی معیشت کو سود‘ سٹے‘ رشوت خوری‘ ناجائز منافع خوری‘ اور ظلم و استحصال کی آماج گاہ بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں آبادی کا ۴۰ فی صد غربت کی زندگی گزار رہا ہے اور صرف ایک دو فی صد عیش و عشرت کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ ہم نے تعلیم کو فکری اور تہذیبی غلامی کا آلہ بنا دیا ہے اور نئی نسل کی اخلاقی اور نظریاتی تربیت کے باب میں مجرمانہ غفلت برتی ہے۔ فواحش کا بازار گرم ہے اور زنا بالجبر کے واقعات روز افزوں ہیں۔ عام انسانوں کی جان‘ مال اور عزت محفوظ نہیں اور جن کا کام عام انسانوں کی جان اور مال کی حفاظت تھا‘ وہ خود جان اور مال کے لیے خطرہ بن گئے ہیں اور جن کے ذمے دفاع وطن کا مقدس فریضہ تھا‘ وہ چوکیدار کے بجاے حکمران بن بیٹھے ہیں۔ بنیادی قومی امور پر بے دردی سے یوٹرن لیے جا رہے ہیں اور حکمرانوں اور قوم میں اعتماد اور ہم آہنگی کا تعلق ختم ہوگیا ہے۔ پھر بات صرف حکمرانوں‘ اہلِ سیاست‘ اصحابِ ثروت اور بااثر طبقات ہی کی نہیں کہ وہ تو ہر حد کو پامال کر رہے ہیں‘ اب تو بات پوری قوم کی ہے الا ماشا اللہ___ جب عموم بلوہ کی کیفیت ہو تو پھر اللہ کی گرفت کا تازیانہ کیوں حرکت میں نہ آئے۔ تاریخ کا مطالعہ کرلیں‘ یہی سنت الٰہی ہے اور اللہ کی سنت بدلا نہیں کرتی۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا o
اس لیے ۸ اکتوبر کا پہلا اور سب سے اہم پیغام یہی ہے کہ متاثرہ افراد کی فوری مدد اور تباہ شدہ بستیوں کو دوبارہ بسانے کی مطلوب کوششوں کے ساتھ استغفار‘ انفرادی اور اجتماعی توبہ اور اس کے ساتھ اعمال اور پالیسیوں کے باب میں خوداحتسابی اور اجتماعی احتساب کا اہتمام کیا جائے۔ اس سے وہ بیداری اور روشنی رونما ہوگی جس میں غفلت‘ بے راہ روی‘ اللہ سے نافرمانی‘ اللہ کے بندوں کے حقوق سے روگردانی‘ ظلم و استحصال‘ اور غیروں کی مغلوبیت اور محکومی کی تاریکیوں سے یہ قوم نکل سکے گی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت‘ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادایگی‘ امن وامان‘ صلح و آشتی‘ عدل وا نصاف‘ خوداعتمادی‘ خودانحصاری اور خودمختاری‘ عزت و وقار اور انفرادی اور اجتماعی سربلندی کی راہ پر گامزن ہوسکے گی۔
مثبت اور منفی پھلو
۸ اکتوبر کے قومی سانحے پر جو ردعمل ملک کے طول و عرض میں رونما ہوا ہے‘ وہ بھی اپنے اندر غوروفکر کے بڑے اہم پہلو رکھتا ہے۔ ایک طرف سہمی ہوئی قوم نے فوراً اپنے رب کو پکارا۔ ہم نے بچشم سر یہ منظر دیکھا کہ جس وقت زمین لرز رہی تھی اور فلک بوس عمارتیں کانپ رہی تھیں‘ خاص و عام سب قبلہ رو ہو کر اللہ کو پکار رہے تھے اور اس سے حفظ و امان کی بھیک مانگ رہے تھے۔ پھر جیسے جیسے تباہی کے آثار نمایاں ہوئے‘ فی الفور عام انسان‘ خصوصیت سے نوجوان‘ یونی ورسٹیوں‘ کالجوں‘ اسکولوں اور دینی مدارس کے طلبہ جوق در جوق اپنے تباہ حال بھائیوں اور بہنوں کی مدد کو دوڑ پڑے۔ خیبر سے کراچی تک بجلی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ عام و خاص ‘ امیر و غریب‘ جوان اور بوڑھے سب اپنے مصیبت زدہ بھائیوں اور بہنوں کی مدد کے لیے بے چین ہوگئے۔ عطیات بارش کی طرح برسنے لگے‘ ننگے ہاتھوں لوگ ملبے کو صاف کرنے‘ ملبے تلے دبے انسانوں کی جان بچانے‘ زخمیوں کو خون دینے‘ اور مر جانے والوں کی میتوں کو دفن کرنے میں کسی تخصیص کے بغیر تن من دھن سے لگ گئے۔ قوم نے آزمایش کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے ایک نئے جذبے کا اظہار کیا___ یہ روشنی کی وہ کرن ہے جس نے اس تاریک رات کو صبح نو کا پیغام دیا۔
لیکن اس ایمان افروز ردعمل کے ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ وہ جن کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور ہے اور جن کو سب سے پہلے اس قومی تباہی کا ادراک کرنا چاہیے تھا اور تمام وسائل کو بلاتاخیر حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے جھونک دینا چاہیے تھا‘ وہ تین دن تک حیص بیص کا شکار رہے۔ وزیراطلاعات فرماتے ہیں کہ کاروبار چل رہا ہے اور سب ٹھیک ہے۔ ایک کور کمانڈر کہتے ہیں کہ کیوں واویلا کرتے ہو‘ مرنے والوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ وزیراعظم بھی غصے میں کہہ ڈالتے ہیں کہ میڈیا منفی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ اسلام آباد جیسے مرکزی شہر میں پہلے دن مارگلہ ٹاور کا ملبہ اٹھانے کے لیے صرف ایک کرین میسرآسکی۔ برطانیہ اور جاپان سے تیزرفتار ایمرجنسی فورس ۲۴ گھنٹے میں پہنچ گئی مگر فرنٹیر ورکس آرگنائزیشن اور کراچی سے مدد آنے میں تین دن لگ گئے۔ اسپین کی ریسکیو ٹیم ۲۴ گھنٹے میں آگئی مگر ایئرپورٹ پر ۴۸ گھنٹے انتظار کرتی رہی۔
بحران سے نمٹنے (Crisis Management) کے باب میں اپنے قومی افلاس اور بے بسی کا منظر ہر دیکھنے والے کے لیے سوہانِ روح تھا۔ ہمارے پاس وہ آلات نہیں جن سے کنکریٹ کو چیرا جا سکے‘ زندوں کا پتا لگایا جا سکے‘ ملبے سے انسانوں کو نکالا جا سکے۔ پولیس اور فوج تک کو ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے کوئی تربیت نہیں دی گئی۔ فائربریگیڈ دنیا بھر میں ایسی ایمرجنسی کے لیے ہر قسم کے آلات اور تربیت یافتہ افراد سے آراستہ ہوتے ہیں مگر ہمارے ملک میں اس کا کوئی وجود نہیں۔ ۱۹۵۲ء کا سول ڈیفنس ایکٹ موجود ہے‘ ۱۹۵۸ء کا مغربی پاکستان کا National Calamities (Prevention and Relief) Act کتابِ قانون کا حصہ ہے۔ ۲۰۰۰ء میں قومی بحرانوں سے نمٹنے کا ایک مرکز‘ مرکزی وزارت داخلہ میں قائم کیا گیا تھا جس کا ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر سربراہ بھی ہے۔ پانچ سال سے نیشنل ڈیفنس مینجمنٹ ایجنسی کا منصوبہ سرکاری فائلوں میں گردش کر رہا ہے جس کے لیے UNDP نے ۱۵ کروڑ ۵۰ لاکھ کا بجٹ (پانچ سال کی مدت کے لیے) طے بھی کیا ہوا ہے مگر یہ سب کاغذوں پر ہیں اور مصیبت اور آزمایش کے وقت بچائو کی معمولی کارروائی کے لیے بھی ننگے ہاتھوں پر انحصار کرنا پڑا یا بیرونی امداد پر!
یہ ہے قومی سطح پر ہماری تیاری کی کیفیت۔ اہم شاہ راہیں اگر بند ہوجاتی ہیں تو ہمیں ان کو کھولنے کے لیے ہفتوں اورمہینوں کی ضرورت ہے اور وہ انسان جو ان نامساعد حالات کی گرفت میں آجائیں ان کا انجام اس کے سوا کچھ نہیں کہ جب تک تریاق عراق سے آئے سانپ کا ڈسا اللہ کو پیارا ہوجائے!
قوم نے اربوں روپے‘ قرض کا بوجھ سر پر اٹھا کر‘ فوج پر خرچ کیے مگر اس کے پاس اتنے ہیلی کاپٹر بھی نہیں کہ کچھ علاقوں میں مؤثر امدادی کام انجام دے سکیں۔ وزیرستان میں آپریشن کے لیے تو ہیلی کاپٹروں کی کمی نہیں لیکن آزاد کشمیر اور سرحد کے متاثرہ علاقوں میں امدادی کام کے لیے چندہیلی کاپٹر سے زیادہ ہم فراہم نہیں کرسکے۔ بلاشبہہ تباہی بہت عظیم اور غیر متوقع ہے مگر کسی درجے میں تو قوم اور اس کے کلیدی اداروں کو ایمرجنسی حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے آراستہ ہونا چاہیے۔ لیکن اس حادثۂ فاجعہ نے ہماری اس کمزوری کو بالکل طشت ازبام کر دیا اور سب کہنے پر مجبور ہوئے کہ Emperor has no clothes (بادشاہ سلامت بے لباس ہیں)۔
بات صرف نظام‘ اس کے اداروں‘ اور ذمہ داری پر فائز افراد کار ہی کی نہیں___ کرایوں میں اضافے‘ اشیاے ضرورت کی قیمتوں میں اضافے‘ ملبے میں دبے ہوئے انسانوں کے بدن سے اور اجڑے ہوئے گھروں سے قیمتی سامان اور زیورات کی چوری‘ امدادی سامان کی لوٹ مار‘ حتیٰ کہ پولیس کے کارندوں کا ان قبیح کارروائیوں میں ملوث ہونا___ معاشرے کے وہ ناسور ہیں جن کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
ایک طرف خیر اور خدمت کا عوامی جذبہ‘ دوسری طرف ذمہ داروں کی غفلت اور معاشرے کے کچھ عناصر کا ان حالات میں بھی ایسے گھنائونے کردار کا مظاہرہ___ ہماری اجتماعی زندگی کے دو مختلف پہلوئوں کو نمایاں کرتا ہے۔ اس میں ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ شر کی قوتوں کو قابو کرنے اور خیر کی قوتوں کو منظم کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کر کے آج بھی حالات کو بدلا جا سکتا ہے۔ اپنوں ہی نے نہیں ‘غیروں نے بھی اس تضاد کو دیکھا اور عالمی صحافیوں نے اپنی رپورٹوں میں نمایاں کیا۔ تصویر کے دونوں رخ سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے منفی پہلو کو اس لیے بیان کیا کہ اس سے صرفِ نظر ممکن نہیں لیکن ہم مثبت پہلو کو روشنی کی اصل کرن سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اگر قوم کے اس جذبے اور رویے کو صحیح طریقے پر منظم اور متحرک کیا جائے تو اس عظیم تباہی سے مستقبل کے لیے خیرکثیر کے سرچشمے بھی پھوٹ سکتے ہیں۔ ہم تحدیث نعمت کے طور پر عرض کریں گے کہ عوامی سطح پر جس طرح ملک کے ہر طبقے نے ایثار و قربانی اور جوش و جذبے کا اظہار کیا اور لوگوں نے انفرادی طور پر اور دینی‘ سماجی اور پروفیشنل تنظیموں نے اپنی بساط سے بھی بڑھ چڑھ کر خدمات انجام دیں وہ ہماری تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ جماعت اسلامی اور مجاہد تنظیموں‘ خصوصیت سے حزب اسلامی اور جماعت الدعوۃ نے جس طرح اپنے دکھ کو بھول کر اپنے دکھی بھائیوںاور بہنوں کی خدمت کی‘ وہ روشنی کا مینار ہے۔
ابتدائی غفلت کے بعد سرکاری ادارے اور فوج بھی حرکت میں آگئی‘ گو اب تک ان کی کارکردگی توقعات سے بہت کم رہی ہے لیکن جتنا کام بھی وہ اب کر رہی ہیں‘ اس کا اعتراف ہونا چاہیے‘ لیکن ضرورت کا عشر عشیر بھی ابھی پورا نہیں ہو رہا۔ سب سے بڑھ کر مسئلہ جامع منصوبہ بندی کا فقدان‘ ضروری ٹکنالوجی اور صلاحیت کی کمی‘ اور فوج‘ سول حکومت‘ صوبائی اور مقامی حکومتوں اور نجی خدمتی اداروں کے درمیان مؤثر رابطے کی کمی ہے جس کا جلد از جلد تدارک ہونا چاہیے۔
بے شمار افراد نے انفرادی طور پر اور دینی اور سماجی اداروں نے‘ خصوصیت سے ان اداروں کی جن کی اساس اسلامی بنیادوں پر ہے‘ بڑی جاں فشانی سے خدمت انجام دے کر ایک روشن مثال قائم کی ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس قوم کو اٹھانے والی اصل قوت اسلام اور جذبہ خدمت ہے۔
مغربی تجزیہ نگاروں کی نظر میں
ہم نے جن دو پہلوئوں کی طرف متوجہ کیا ہے‘ ان کا مشاہدہ اور تجربہ ہزاروں انسانوں نے ان چند ایام میں کیا ہے اور ملکی اور غیرملکی صحافیوں اور تجزیہ نگاروں نے بھی ان کو بیان کیا ہے۔ اس تضاد کے چند اہم پہلوئوں کو اجاگر کرنے کے لیے ہم ملکی اور غیرملکی مبصرین کی چند آرا کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔
اکانومسٹلکھتا ہے:
یہ ۱۱؍اکتوبر کے بعد ہوا کہ فوج نے قصبوں سے باہر پھیلنا شروع کیا… اس تباہی پر حکومت کے سست ردعمل پر ایک غصے کی کیفیت تھی۔ بالاکوٹ میں جہاں ۱۰ اکتوبر کو سڑکیں کھولی جاسکیں‘ لوگوں نے شکایت کی کہ فوج نے پہلا دن اپنے کیمپ قائم کرنے میں صرف کیا۔ مظفرآباد میں ایک چار منزلہ ہوٹل کے مالک نے‘ جو اب محض ایک کھنڈر تھا‘ بتایا کہ تین دن تک فوج کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ اس تباہ شدہ ہوٹل میں اب ۵۰لاشیں دفن ہیں۔ لٹیروں نے ان کی جیبوں کو خالی کر دیا۔ صاف دکھ رہا ہے کہ فوج نے آغاز کرنے میں بہت سستی سے کام لیا۔ ۱۲ اکتوبر کو پنجاب سے تازہ دم جوانوں کی دو ڈویژن نے کشمیر اور سرحد میں آنا شروع کیا۔ بہت سے لوگوں نے فوجی اور سول اتھارٹیز کے درمیان خراب رابطے کی شکایت کی۔(۱۵ اکتوبر ۲۰۰۵ئ‘ ص ۲۳)
نوائے وقت کا نمایندہ مظفرآباد کے حالات کا نقشہ یوں کھینچتا ہے:
مظفرآباد کا پورا علاقہ قبرستان بن کر رہ گیا ہے۔ حکومت کی بے حسی‘ لاقانونیت اور ہرطرف افراتفری نے لوگوں کو عدمِ تحفظ کا شکار کر دیا ہے۔ بے گھر لوگ اپنے گھروں کے ملبے‘ سڑکوں‘چوراہوں پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ سخت سردی میں بغیر ٹینٹ کے چادروں میں گزارا کر رہے ہیں۔ ہر طرف مسلح نوجوانوں کی ٹولیاں پھرتی نظر آرہی ہیں۔ ان کے پاس کلاشنکوف‘ پستول‘ بندوقیں اور ڈنڈے ہیں۔مستحقین کا امدادی سامان جہاں نظر آتا ہے‘ لوٹ لیتے ہیں۔ مظفرآباد شہر میں ڈاکوئوں کے گروہ بھی سرگرم ہوگئے ہیں۔ گھروں سے قیمتی سامان لوٹ رہے ہیں۔ لوگوں کی عزتیں بھی محفوظ نہیں۔ شہر میں پولیس نام کی کوئی چیز نہیں‘ جب کہ فوج نے بھی ان کارروائیوں کو روکنے کے لیے ابھی تک کوئی اقدامات نہیں کیے۔ (۱۴ اکتوبر ۲۰۰۵ئ)
لندن کے دی ٹائمز نے اپنی ۱۵ اکتوبر کی اشاعت میں شائع ہونے والے اداریے میں مسائل کا یوں ذکر کیا ہے:
ٹیلی ویژن پر زلزلے کی خبر کے بعد باغ کے کسی آدمی نے حکومت کی طرف سے اگر کوئی امداد دیکھی ہے تو وہ تباہی کے تین دن بعد تھی۔ کسی وقت کے اس خوش حال چھوٹے سے قصبے کے لوگ آزاد کشمیر کی پہاڑیوں کے دامن میں تمام امیدیں کھو چکے تھے۔ باغ کے ایک دکان دار عبدالرزاق نے کہا: حکومت ٹیلی ویژن پر مدد دکھارہی ہے۔ ہم نے تو پانی کا ایک قطرہ‘ کوئی دوائی یا غلے کا ایک دانہ بھی اپنی طرف آتے نہیں دیکھا ہے۔ (روزنامہ ڈان‘ ۱۴ اکتوبر ۲۰۰۵ئ)
جہاں یہ منفی پہلو ہیں جن کا مؤثر سدباب ہونا چاہیے‘ وہیں مثبت پہلو بھی ایسے ہیں جو امید کی شمعیں روشن کرتے ہیں۔ بی بی سی اور دی نیوز کا نمایندہ اور مشہور صحافی رحیم اللہ یوسف زئی سرحد کے حالات کا یوں نقشہ کھینچتا ہے:
صوبہ سرحداور آزاد کشمیر میں زلزلے کے متاثرین کو مدد پہنچانے کے لیے اسلامی اور دوسری غیر سرکاری تنظیمیں ایک شدید لیکن بیشتر صحت مند مقابلے میں مصروف ہیں۔ بالاکوٹ میں تقریباً ۲۰ تنظیموں کے کیمپوں کی موجودگی کے بارے میں بتایا گیا اور وہ نظر بھی آتے تھے جو زلزلہ زدگان کے لیے مختلف خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان کی اکثریت‘ یعنی ۱۲ اسلامی ہیں۔ الطاف حسین کی ایم کیو ایم نے بھی تباہ شدہ بالاکوٹ کے بازار میں ایک بینر لگایا تھا لیکن ان کے رضاکار کوئی کام کرتے نظر نہ آئے۔ بالاکوٹ میں جن اسلامی تنظیموںنے کیمپ لگائے‘ ان میں جماعت اسلامی کی الخدمت اور اس کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ‘ مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی (ف) کا الرحمت ٹرسٹ‘ امہ ویلفیئر ٹرسٹ‘ جماعت الدعوۃ‘ جامعہ فریدیہ‘ لال مسجد اسلام آباد اور جہادی گروپ حزب المجاہدین اور جیش محمد شامل ہیں۔ بعض چھوٹی اسلامی تنظیموں نے بھی بینر لگائے تھے اور امدادی سامان سے بھرے ٹرکوں کے ساتھ پھر رہے تھے جو ملک کے کونے کونے سے لوگوں نے بھیجے تھے۔
الرحمت ٹرسٹ کے منتظم نوید مسعود ہاشمی نے دی نیوز کو بتایا کہ حزب المجاہدین اور جیش محمد کے ارکان ۸ اکتوبر کی صبح زلزلے کے بعد نہ صرف بالاکوٹ بلکہ آزاد کشمیر کے دوسرے مقامات پر بھی ریسکیو آپریشن کا سب سے پہلے آغاز کرنے والوں میں سے تھے۔ ان گروپوںسے وابستہ مجاہدین علاقے میں موجود تھے اور اس لیے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں دوسروں سے پہلے پہنچ پائے۔ انھوں نے تباہ شدہ مکانات میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکال کر اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچاکر جانیں بچائیں۔ اس نے بتایا کہ بالاکوٹ ہو یا مظفرآباد یا باغ‘ ہر جگہ حالات مختلف تھے۔ لیکن کوئی غیرجانب دار نمایندہ دیکھ سکتا تھا کہ زلزلے کے متاثرین کو امداد پہنچانے میں کون سب سے زیادہ سرگرم ہیں۔ دیکھنے ہی سے یقین آتا ہے‘اور ہم رپورٹروں اور سیاست دانوں اور قانون دانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں اور جائزہ لیں کہ کون متاثرین کی خدمت کر رہا ہے اور کون صرف شور مچا رہا ہے۔ اسلامی تنظیموں کے ارکان بالاکوٹ سے آگے مختلف پہاڑوں کے درمیان منتشرآبادیوں میں ان کے گائوں میں پہنچ چکے ہیں تاکہ ان کو امداد پہنچائیں۔
عوام کے اس مثبت رویے کا اعتراف سیکولر طبقے کے سرخیل The Friday Times (۱۴ اکتوبر ۲۰۰۵ئ) نے بھی اپنے ادارتی کالم میں کیا ہے اور ایک برطانوی رپورٹر کی یہ رپورٹ نقل کی ہے جو ملاحظے کے لائق ہے:
کترینا کے بعد اور نیو آرلینز سے مقابلہ و موازنہ اس سے زیادہ واضح نہیں ہوسکتا۔ امریکا میں جب حکومت کی امداد نہیں پہنچی تو مسلح لوٹ مار کرنے والے سڑکوں پر آگئے اور بچنے والوںکو اپنی جان کے لالے پڑگئے۔ دوسری طرف پاکستان میں پورے ملک سے لوگ مدد پہنچانے کے لیے آگئے۔ انھوں نے اپنے کام چھوڑ دیے‘ کچھ نے لفٹ لی اور ٹرکوں اور منی بسوں کے ساتھ خطرناک انداز سے لٹک کر انتہائی خطرناک موڑ کاٹتے ہوئے‘ جب کہ نیچے وادی میں جھانکنے پر خوف آتا تھا‘ مدد کو پہنچ گئے۔ دوسرے پہاڑوں پر سورج کی تپش میں گھنٹوں پیدل چلے‘ جب کہ وہ مسلمانوں کے روزوں کے مہینے رمضان کی وجہ سے پانی بھی نہ پیتے تھے۔ پاکستان کے عظیم عوام کو اتنے شدید حالات میں اس بڑے پیمانے پر جذبۂ انسانیت کے مظاہرے سے زیادہ خراجِ تحسین نہیں پیش کیا جاسکتا۔
عالمی برادری کی مدد بھی ایک قابلِ قدر پہلو ہے اور اس میں مسلم ممالک اور مغربی اقوام دونوں نے حصہ لیا ہے۔ امریکا کی شرکت اس کے وسائل اور اس کے لیے پاکستان کی موجودہ حکومت کی خدمات کے پس منظر میں نہایت مایوس کن ہے۔ بھارت اور اسرائیل نے بھی حالات سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔
جن اقوام اور اداروں نے کھلے دل سے مدد کی ہے‘ اس کا اعتراف ہونا چاہیے اور قوم ان سب کی شکرگزار ہے لیکن یہ پہلو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ اسلامی قوتوں کی عوامی خدمت‘ قربانی اور امتحان کی گھڑی میں تاریخی کردار کو مغربی میڈیا جس انداز میں پیش کر رہا ہے‘ وہ بڑا افسوس ناک ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ۱۶ اکتوبر کی اشاعت میں خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔ عنوان ہے: Extremists Fill Aid Chasm after Quake ۔ پورا مضمون زہرسے بھرا ہوا ہے‘ صرف چند اقتباسات دیے جا رہے ہیں جو قوم کے لیے لمحۂ فکریہ فراہم کرتے ہیں۔
مظفرآباد (پاکستان‘ ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۵ئ) فوج ردعمل دینے میں سست رہی اور بین الاقوامی امدادی ایجنسیاں بعض حالات میں ابھی آغاز ہی کر رہی تھیں‘ لیکن یہاں پاکستان کے زلزلے کے علاقے کے قلب میں ملبے اور بارش کے اندر جماعت الدعوۃ جو ملک کی سب سے نمایاں انتہاپسند گروپ ہے‘ کے پرجوش مجاہد نظر آرہے تھے۔
دریاے نیلم کے قریب ایک ڈھلوان پر اس گروپ نے ایک بڑا فیلڈ ہسپتال قائم کیا ہے جس میں ایکسرے مشین‘ شعبہ دندان سازی‘ عارضی آپریشن تھیٹر‘ حتیٰ کہ آنے والے صحافیوں کے لیے ایک خیمہ بھی موجود ہے۔ ڈسپنسریوں میں عطیہ کیے ہوئے انٹی بائیوٹک‘ دافع درد ادویات اور دوسرے طبی سامان کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ علاقے کے سب سے بڑے شہر مظفرآباد میں ہفتے کی صبح جو دوسرے گروپ موجود تھے‘ ان میں جماعت اسلامی کا خیراتی شعبہ ہے جو ایک اسلامی سیاسی پارٹی ہے جس کی فلسطین کے جنگجو گروپ حماس سے نظریاتی وابستگی ہے‘ اور الرشید ٹرسٹ‘ کراچی کا ایک خیراتی ادارہ ہے جس کے امریکی اثاثے بش انتظامیہ نے اس بنیاد پر ضبط کر لیے تھے کہ یہ القاعدہ کو فنڈ پہنچاتے ہیں۔ گروپ نے الزام کو مسترد کیا تھا اور ان کا دعویٰ تھا کہ وہ صرف سماجی بہبود تک ہی محدود ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کے نمایندے John Lancestor کے خبثِ باطن کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ جماعت اسلامی کا ذکر حماس سے اس کے نظریاتی رشتے کے بغیر اس کے لیے ممکن نہ تھا حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ جماعت اسلامی کا اپنا طریق کار ہے اور وہ ۱۹۴۱ء سے برعظیم میں سرگرمِ عمل ہے۔
قوم کے بڑے حصے نے اور خصوصیت سے اسلامی تنظیموں اور اداروں نے جس طرح اس قومی آزمایش میں کردار ادا کیا ہے‘ وہ اچھے مستقبل کا پیش خیمہ ہے اور ضرورت ہے کہ تمام اسلامی اور اصلاحی قوتیں مل کر تعمیرنو کا کام اخلاقی جذبے اور نظریاتی تعلیم اور بیداری کے ساتھ انجام دیں۔
مستقبل کا نقشہ
آخر میں ہم مستقبل میں کرنے کے کاموں کے حوالے سے چند ضروری گزارشات کرنا چاہتے ہیں۔
ملک کی دینی اور سیاسی جماعتوں نے حکومت کی غفلت‘ کوتاہیوں اور جانب داری کے باوجود جس قومی یک جہتی اور سیاست سے بالا ہو کر خدمت اور وسیع تر ملکی اور ملّی مفاد کی خاطر ایک مثبت قومی رویے کا اظہار کیا ہے ‘وہ بہت قابلِ قدر ہے اور اسے ہر قیمت پر باقی رہنا چاہیے۔ لیکن اسے برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور خصوصیت سے جنرل پرویز مشرف اپنا رویہ بدلیں۔ اس نازک وقت اور مصیبت کے اس لمحے میں بھی ان کی ساری مساعی اپنی ذات اور فوج کے محور کے گرد گھوم رہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی سول حکومت‘ کوئی دستوری ادارہ‘ کوئی پارلیمنٹ ملک میں موجود نہیں۔ بس جنرل صاحب اور فوج ہی ساری کرتا دھرتا ہے اور اب تو کھل کر وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ فوج ہی وہ واحد ادارہ ہے جو اس بحران سے ملک کو نکال سکتا ہے جب کہ ہر اعتبار سے‘ فوج کی سیاست اور سول معاملات میں کارکردگی نہایت مایوس کن بلکہ تباہ کن رہی ہے۔ تعمیرنو کا کام فوج کا نہیں‘ سول دستوری نظام کا ہے۔ اس بارے میں قومی سیاسی جماعتوں کا نقطۂ نظر تو بالکل واضح اور مبنی برحق ہے۔ لیکن جنرل صاحب کے امریکی سرپرست بھی اس سلسلے میں اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں ایان بریمر (Ian Bremmer) کا تبصرہ جنرل صاحب کو آئینہ دکھانے کے مترادف ہے۔ وہ لکھتا ہے:
یونان‘ ترکی اور انڈونیشیا میں ایک بڑی بنیادی بات مشترک ہے‘ یہ جمہوریتیں ہیں۔ ان کے رہنما عوام کی مرضی سے حکومت کرتے ہیں۔ پاکستان کے صدر پرویز مشرف کو ایسا کوئی عوامی جوازحاصل نہیں ہے۔ وہ ایک فوجی جنرل ہیں جنھیں فوج کے زیرحکمرانی ریاست میں بہت زیادہ اختیارات حاصل ہیںجن کا مینڈیٹ پاکستانی عوام کے ساتھ ایک سمجھوتے پر منحصر ہے۔(۱۲ اکتوبر ۲۰۰۵ئ)
جنرل صاحب جتنی جلد ان حقیقی زمینی حقائق کا ادراک کرلیں‘ اتنا ہی ان کے لیے‘ بحیثیت ایک قومی ادارہ فوج کے لیے اور سب سے بڑھ کر ملک اور اس کے دستوری نظام کے لیے بہتر ہے۔ اس لیے ہم تجویز کریں گے کہ فوری امداد کے کام میں فوج جو بھی مفید کردارادا کرے‘ لیکن مستقبل کے تعمیرنو کے پورے پروگرام کو پارلیمنٹ کے مشورے سے طے ہونا چاہیے۔ اسے سول نظام کے تحت انجام دیا جانا چاہیے اور سول نظام میں اس انفراسٹرکچر اور مردان کار کی تربیت (capacity building) کا پورا اہتمام ہونا چاہیے جو ایسے نظام کو مستقل بنیادوں پر چلانے کے لیے ضروری ہے۔ ہم یہ بھی تجویز کریں گے کہ مقامی اور علاقائی سیاست سے بالا رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام میں مرکز اور صوبوں کے درمیان مناسب کوارڈی نیشن (باہمی موافقت اور تعاون) ہو اور صوبائی اسمبلی اور حکومت کے توسط سے ایک بااختیار ادارہ صوبہ سرحد کے تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر کے لیے قائم کیا جائے اور دوسرا آزاد کشمیر کے لیے ۔ مستقل بنیادوں پر مرکزی سطح پر ایک نظام تشکیل دیا جائے جس میں فیڈریشن اور تمام صوبوں کو مؤثر نمایندگی حاصل ہو‘ نیز کل جماعتی بنیادوں پر اس میں پارلیمنٹ کی نمایندگی ہو۔
چند قابل توجہ امور
دیگر قابلِ توجہ امور یہ ہیں:
۱- جو بیرونی امداد وصول ہوئی ہے یا آیندہ ہوگی‘ اس کے استعمال پر مناسب پارلیمانی نگرانی ضروری ہے جس کے لیے سرکاری جماعت کے نمایندوں کے ساتھ تمام اہم اپوزیشن جماعتوں کی نگرانی و احتساب کا اہتمام ہونا چاہیے۔
۲- سول حکومت اور عوامی سماجی اداروں کے درمیان ربط اور کوارڈی نیشن کی شدید ضرورت ہے جسے شراکت باہمی کے کسی اصول پر منظم ہونا چاہیے۔ مسلسل عوامی شرکت اور اعتماد کے بغیر اس گمبھیر چیلنج کا مؤثر جواب مشکل ہے۔
۳- درجہ وار منصوبہ بندی ضروری ہے جس کے تین مرحلے ہیں:
پہلا مرحلہ فوری مدد کا ہے جو کم از کم تین چار ماہ پر محیط ہوگا۔ اس میں راستوں کا کھولنا اور انھیں برقرار رکھنا نیز بجلی‘ پانی اور ضروریاتِ زندگی کی فراہمی‘ رہایش کا فوری انتظام اور ہر قسم کی مناسب سہولتوں کی فراہمی شامل ہے۔
دوسرا مرحلہ تعمیرنو کا ہے یعنی کئی شہروں کو آباد کرنا‘ روزگار کے مواقع کی فراہمی‘ صحیح جگہ کا انتخاب‘ زلزلوں اور دوسرے خطرات کا اندازہ کرکے تعمیر کے لیے صحیح اصول و ضوابط کی تیاری اور ان کے نفاذ اور سختی سے جائزے کا انتظام۔ اس منصوبے میں رہایش‘ تعلیم‘ صحت‘ روزگار‘ رسل و رسائل‘ پانی اور بجلی کی فراہمی کے لیے مربوط اسکیموں کی ضرورت ہوگی جنھیں اس طرح مرتب کیا جائے کہ ان علاقوں اور ان کے متاثر افراد کی مناسب وقت میں خود کفالت اور اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کا بندوبست ہوسکے۔ نیز یہ سارا کام کم سے کم رقم میں کیا جائے۔
۴- ایک بڑا مسئلہ زخمیوں اور خصوصیت سے ان ہزاروں افراد کا ہے جو اعضا سے محروم ہوکر مستقل معذوری کا شکار ہوگئے ہیں۔ ان کے لیے بالکل الگ منصوبہ بندی کی ضرورت ہوگی۔
۵- اسی طرح یتیم بچوں اور بیوہ خواتین کا مسئلہ ہے۔ بچوں کا مسئلہ اور بھی گمبھیر ہے۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ ایسے بچوں کی تعداد ۵۰‘ ۶۰ ہزار تک ہوسکتی ہے۔ اس سے قومی ایمرجنسی کی سطح پر ہی نبٹا جا سکتا ہے۔
۶- تعمیرات کا کم تر معیار ایک بڑے مسئلے کی حیثیت سے سامنے آیا ہے۔ سڑکوں کا رونا تو مدت سے رویا جا رہا تھا۔ اب سرکاری عمارتوں (اسکول‘ ہسپتال) کی کمزوری کھل کر سامنے آگئی ہے۔ صرف صوبہ سرحد میں ۸ ہائی اسکول اور ایک ہزار ہسپتال زمین بوس ہوگئے۔ اسلام آباد کے مارگلہ ٹاور کا معاملہ بھی ایک اسکینڈل بن چکا ہے۔ اس پورے مسئلے کو بہت سائنسی انداز میں لینا ہوگا اور تعمیرات کے قواعد و ضوابط کے پورے معاملے کا ازسرنو جائزہ لینے اور قواعد و ضوابط کے مطابق تعمیرات کو یقینی بنانا بہت بڑا چیلنج ہے۔
۷- قومی سطح پر تباہی کو روکنے اور بحرانوں سے نمٹنے کا مؤثر پروگرام بنانے کی ضرورت ہے۔ فائر بریگیڈ‘ اسکائوٹس‘ این سی سی‘ سول ڈیفنس اور خصوصی دستوں کی ٹریننگ اور ان کے لیے ضروری آلات و اوزار اور جدید ترین تکنیکی سہولتیں ضروری ہیں۔
۸- ایسے حادثات کے بعد وبائوں کا پھوٹ پڑنا بھی ایک بڑا خطرہ ہے اور اس کی پیش بندی نیز علاج کی سہولتوں کی فراہمی کو بھی اس منصوبے کا حصہ ہونا چاہیے۔
۹- ہمہ پہلو بدعنوانی اور کرپشن ایک قومی ناسور ہے۔ حکومت اور اس کے اداروں پر لوگوں کا اعتماد باقی نہیں رہا ہے۔ لوکل گورنمنٹ میں ۷۰ فی صد اور سول حکومتوں میں ۵۰ فی صد بدعنوانی کی بات عام ہے۔ فوج بھی اب اس بیماری سے محفوظ نہیں رہی ہے۔ تعمیرنو کے کام میں بڑا خطرہ ہے کہ کرپشن کی وجہ سے سارا منصوبہ خاک میں مل جائے۔ اس لیے اس مسئلے کا کھل کر سامنے کرنے اور مناسب نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
آخر میں ہم ایک بار پھر اس طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ اس پورے معاملے میں ہر کام میں اور ہر مرحلے پر اخلاقی تربیت‘ دیانت داری کے اہتمام‘ احتساب اور نگرانی کے مؤثر نظام اور حقیقی شفافیت کی ضرورت ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب مادی وسائل کا استعمال اخلاقی ضابطوں کی حدود میں ہو اور دیانت داری کو صلاحیت اور قابلیت کے ساتھ ضروری صفت قرار دیا جائے۔ نیز حکومت‘ سول سوسائٹی اور عوام سب اخلاقی اصولوں اور ضابطوں کی پاسداری اور سب سے بڑھ کر آخرت کی جواب دہی کے احساس کے ساتھ کام انجام دیں۔
یہ اسی وقت ممکن ہے جب قیادت کے پیمانوں کو تبدیل کیا جائے‘ قانون اور ضابطے کی حکمرانی کو حقیقت بنایا جائے‘ کھلی حکمرانی کا راستہ اختیار کیا جائے‘ ہر ادارہ اپنے اپنے دائرے کا ذمہ دار ہو اور کسی ایک ادارے کو سب پر مسلط کرنے کی حماقت نہ کی جائے۔ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ قانونی احتساب کے ساتھ عوامی احتساب کا ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں کوئی جواب دہی سے بالا نہ ہو اور کسی غلط کار کے بچ نکلنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔
اگر ۸ اکتوبر کا زلزلہ ہمارے لیے ماضی کی ڈگر کو بدلنے اور مستقبل کے لیے صحیح راستے پر اختیار کرنے کی راہ پر ڈالنے کا ذریعہ بنتا ہے تو پھر اس شر سے خیر کے چشمے بھی پھوٹ سکتے ہیں۔ صرف یہی وہ تبدیلی ہے جو ہماری دنیا کو سنوار سکتی ہے اور آخرت میں بھی کامیابی کا امکان روشن ہوسکتا ہے۔
جمہوریت نے تو عوام کی پسند اور ناپسند کو معیاری حیثیت دینے کا کارنامہ دور جدید میں انجام دیا ہے اور اب راے عامہ کے عالمی جائزے اس کا ایک اہم پیمانہ بن گئے ہیں‘ لیکن انسانی ضمیر نے ہمیشہ عوام کے جذبات و احساسات کو ہوا کا رخ جاننے اور بھلے اور برے میں تمیز کرنے کا ذریعہ سمجھا ہے۔ پرانی کہاوت ہے ؎
زبان خلق کو نقارئہ خدا سمجھو
برا کہے جسے دنیا اسے برا سمجھو
پچھلے دو ماہ میں ایسے کئی اہم جائزے سامنے آئے ہیں جن کے آئینے میں امریکا کی موجودہ قیادت‘ خصوصیت سے صدربش اور ان کی نیو کون (Neo-Con) ٹیم کے بارے میں اور اس سے بھی زیادہ امریکا کی جاری پالیسیوں کے بارے عالمی راے عامہ اور دنیا کے چوٹی کے تھنک ٹینکس کی حالیہ سوچ کو سمجھا جا سکتا ہے۔ آج صدر بش دنیا کی واحد سوپر پاور کے کرتا دھرتا ہیں۔ وہ اور ان کے انتہاپسند حواری دنیا پر بزعم خود جمہوریت مسلط کرنے کے داعی ہیں بلکہ اس کے لیے جنگ کرنے پر تلے ہوئے ہیں‘ لیکن جمہوریت کے یہ علم بردار ایک لمحہ توقف کرکے اس بات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں کہ جن پر وہ ’’جمہوریت‘‘ نازل کرنا چاہ رہے ہیں‘ وہ خود بش صاحب اور امریکا کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں۔
امریکا کے صدارتی انتخابات کے بعد سے امریکا میں راے عامہ کے تمام جائزے یہ بتارہے ہیں کہ صدر بش کی مقبولیت کا گراف خود امریکا میں مسلسل نیچے جارہا ہے اور تازہ جائزوں کے مطابق ۶۱ فی صد آبادی اب ان سے‘ ان کی کارکردگی سے اور ان کی قائدانہ صلاحیتوں سے مایوس ہے۔
اس سے زیادہ دل چسپ اور چشم کشا نتائج اس سروے کے ہیں جس میں دنیا بھر سے ۱۵ہزار افراد نے شرکت کی اور جس کا اہتمام بی بی سی نے کیا تھا اور جسے power play game(اقتدار کا کھیل) کا نام دیا گیا تھا۔ ان ۱۵ ہزار افراد نے ایک باہمی عمل کے ذریعے عالمی راے کی روشنی میں ۱۱ افراد کی ایک ٹیم کا انتخاب کیا جو دنیا کی صحیح رخ پر قیادت کرے اور انسانی مسائل کو حل کرسکے۔ اس جائزے کے نتیجے میں جن ۱۱افراد کا انتخاب ہوا ان میں سرفہرست جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا ہیں۔ بل کلنٹن نمبر۲ پر ہیں اور کوفی عنان گیارھویں ہیں۔ دل چسپ اور قابل غور بات یہ ہے کہ اس ٹیم میں کسی اور سیاست دان کا انتخاب نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس جن افراد کو مذہبی قیادت فراہم کرنے کی نسبت حاصل ہے ان میں سے دو اس میں آسکے ہیں‘ یعنی دلائے لاما اور آرچ بشپ ڈیسمونڈ ٹوٹو۔ مؤخرالذکر کا تعلق بھی جنوبی افریقہ سے ہے اور وہاں کے Truth Commissionکے سربراہ تھے۔ امریکی پالیسیوں کے ناقد نوم چومسکی کو اس ٹیم میں نمبر۴ پر شریک کیا گیا ہے۔ باقی پانچ افراد کا تعلق IT اور عالمی مالیات سے ہے۔ جارج بش کا نمبر ۴۳ ہے‘ جب کہ ان کے دو بڑے ناقد ہیوگوشاواز اور فیڈل کاسترو نے ۳۳ ویں اور ۳۶ویں پوزیشن حاصل کی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس جائزے میں ۱۰۰ میں صرف ایک مسلمان کا نام آتا ہے اور وہ ہے اسامہ بن لادن جس کا نمبر ۷۰ واں ہے۔ بش کے ناقدین میں امریکا کا مشہور صحافی اور مصنف مائیکل مور بھی ہے جس کا نمبر ۱۵ ہے‘ یعنی بش سے ۲۸ منزلیں اوپر ہے۔
راے عامہ اور تحقیق کے امریکی ادارے Pew اور گیلپ کے تمام جائزے بھی ایسی ہی تصویر پیش کرتے ہیں۔ مغربی ممالک میں امریکا کی قیادت اور پالیسیوں سے بے اطمینانی کا اظہار ۶۰ سے ۷۰ فی صد آبادی کر رہی ہے اور عالمِ اسلام میں یہ بے زاری اور نفرت ۷۰ سے ۹۲ فی صد تک ہے۔
راے عامہ کے تمام جائزے تسلسل کے ساتھ عالمی ضمیر کا جو فتویٰ پیش کر رہے ہیں‘ اس کی توثیق ایک ایسے ادارے کی طرف سے بھی ہوئی ہے جس کے بارے میں کسی کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ اس کے اعلانات سے بھی ہوا کا یہی رخ سامنے آئے گا۔ ہماری مراد ہے سویڈن کے نوبل انعام کا فیصلہ کرنے والی عالمی کمیٹی۔ گذشتہ دو ہفتوں میں دو اہم ایوارڈ جن شخصیات کو دیے گئے ہیں‘ وہ بھی اسی رخ کی تائید کرتے ہیں۔ پہلا امن کا نوبل انعام ہے جو ویانا کی عالمی ایٹمی توانائی کی اتھارٹی اور اس کے سربراہ ڈاکٹر البرادی کو ملا ہے جس سے بش اور امریکا اتنے خفا تھے کہ اس کی مدت میں توسیع کی سرتوڑ مخالفت کر رہے تھے اور اس میں ناکام رہے۔ البرادی نے عراق میں تباہ کن ہتھیاروں (WMD's) کے امریکی ڈھونگ میں ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا اور اتھارٹی کے انسپکٹر برٹس (Brits) نے امریکا کو انسپکشن ٹیم کے سارے کام کو سبوتاژ کرنے کا مجرم قرار دیا تھا۔ البرادی کو امن کا انعام ملنا صدر بش اور امریکا کی موجودہ قیادت کے منہ پر ایک طمانچا تھا اور امریکی قیادت اس پر اتنی جزبز ہوئی کہ کمیٹی کو یہ وضاحت کرنا پڑی کہ ہمارا فیصلہ معروضی حقائق پر مبنی تھا اور اسے کسی کے خلاف سمجھنا صحیح نہیں۔
ابھی امریکا کی قیادت اس زخم کو چاٹ رہی تھی کہ نوبل کمیٹی نے ایک اور بم گرا دیا۔ اس سال ادب کا نوبل انعام برطانیہ کے ادیب اور ڈراما نویس ہیرلڈ پنٹر (Harold Panter) کو دیا گیا ہے۔ ہیرلڈ پنٹر ویسے تو مشہور ادیب ہے اور ۱۹۶۰ء کی دہائی سے اسے ادبی اور ثقافتی حلقوں میں خاص مقبولیت حاصل ہے۔ اس کا پہلا ڈراما The Birthday Party ۱۹۵۸ء میں شائع ہوا تھا اور اسٹیج بھی ہوا لیکن گذشتہ ۱۰ برس سے اس کی شہرت ڈراموں سے بھی زیادہ اس کے سیاسی بیانات اور سرگرمیوں کی بنا پر ہے۔ بلاشبہہ اس کے ڈراموں میں بھی سیاسی رنگ موجود ہے۔ دنیا کے بے سہارا اور مجبور انسانوں کے غم کو اس نے ادب کی زبان میں بیان کیا ہے بلکہ اندازِ بیان بھی منفرد ہے کہ وہ روانی اور لسانی چاشنی کے مقابلے میں بے ترتیبی اور ابہام کو ذریعہ بناتا ہے جو اس کی نگاہ میں اس دور کے کرب و اضطراب کا مظہر ہے۔ آج اس کی دھوم امریکا کی تشدد کے خلاف نام نہاد جنگ کی بھرپور سرگرم مخالفت اور بش اور بلیر پر جان دار تنقید کی وجہ سے ہے۔
بش نے کہا ہے ’’ہم دنیا کے بدترین ہتھیاروں کو دنیا کے بدترین رہنمائوں کے ہاتھوں میں جانے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔ بہت خوب! سامنے آئینہ دیکھو‘ یہ تم ہو!
آزادی اور جمہوریت ___ بش اور بلیر کے نزدیک ان الفاظ کا مطلب موت‘ تباہی اور انتشار ہے۔
پنٹر نے ۲۰۰۳ء کے اپنے ایک مضمون میں بش کی انتظامیہ کو ہٹلر کے نازی جرمنی سے تشبیہ دی تھی۔ گوانتاناموبے کے قیدخانے کو جرمنی کے اجتماعی تعذیب گھروں کا تازہ نمونہ قرار دیا تھا‘ اور صدر بش کو خون کا پیاسا عالمی درندہ اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر کو فریب زدہ احمق اور قتل عام کرنے والے کے لقب سے نوازا تھا۔ اس نے امریکی میڈیا پر بھی سخت تنقید کی تھی اور اسے بش کے جرائم میں شریک قرار دیا تھا۔ اس نے اپنی ایک نظم The Bombs میں آج کی سیاسی صورت حال کا نقشہ یوں کھینچا ہے:
بم چل رہے ہیں
The bombs go off
ٹانگیں دھڑ سے الگ ہو رہی ہیں
The legs go off
سر کٹ کر گر رہے ہیں
The heads go off
بیان کے لیے الفاظ نہیں مل رہے
There ar no more words to be said
ہمارے پاس اب بموں کے علاوہ کچھ نہیں
All we have left are the bombs,
بم ہمارے سر پھاڑ کر باہر آرہے ہیں
Which burst out of our head.
ہیرلڈ پنٹر کو ادب کا نوبل انعام اور ڈاکٹر البرادی کو امن کا نوبل انعام ان دونوں کے لیے تو اعزاز ہے‘ لیکن یہ امریکا‘ جارج بش اور ٹونی بلیر کی قیادت پر عالمی ضمیر کے عدمِ اعتماد (vote of no-confidence) کا بھی برملا اعلان ہے۔ سچ ہے‘ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے!