پاکستان کی تاریخ بہت سے عجوبوں کے تذکرے سے مالا مال ہے لیکن اس میں تازہ ترین اضافہ دو مہینوں میں تین وزراے اعظم کا دورِ حکمرانی ہے جسے جنرل پرویز مشرف کا ’’ہیٹ ٹرک‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔
۲۵ جون ۲۰۰۴ء کو ڈیڑھ سال سے وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالے رکھنے والے جناب ظفراللہ خان جمالی نے ان افواہوں کی تردید کی جو ان کی وزارت عظمیٰ سے رخصتی کے بارے میں چند ہفتے سے گردش کر رہی تھیں‘ اور پھر اچانک ایک دن بعد ہی اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کر کے ’‘میوزیکل چیرز‘‘ کے ایک کھیل کا آغاز فرمایا جس میں چودھری شجاعت حسین کو ایک قسم کے سیاسی حلالے کے طور پر وزیراعظم مقرر کیے جانے کا اعلان کیا گیا۔ چودھری صاحب ۵۷ دن وزیراعظم رہے اور اس اثنا میں جناب شوکت عزیز کا قومی اسمبلی میں انتخاب‘ قائد ایوان کی حیثیت سے تقرر اور پھر بالآخر ۲۸ اگست ۲۰۰۴ء کو وزیراعظم کی حیثیت سے حلف برداری واقع ہوئی۔ اس طرح ۲۶ جون کو شروع ہونے والے ڈرامے کا ڈراپ سین ہوا اور دنیا کی سیاسی تاریخ میں پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہوگیا کہ اس نے دو مہینوں میں تین وزراے اعظم کے اقتدار کا نظارہ دیکھ لیا۔ اس سب کے نتیجے میں پانچ درجن سے زیادہ وزرا پر مشتمل کابینہ ملک کا مقدر بن گئی۔ اس میں ابھی مسلسل اضافے متوقع ہے۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جنرل صاحب کے الفاظ میں اس کھیل کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے most smooth and democratic transition (سب سے زیادہ ہموار اور جمہوری انتقالِ اقتدار) کا نام دیا گیا۔ اور کولن پاول صاحب نے نہلے پہ دہلا مارتے ہوئے یہاں تک فرما دیا کہ اب پاکستان کو ایک بااختیار ور وزیراعظم (empowered prime minister ) میسرآگیا ہے!اور اسی ’’دھول دھپے‘‘ میں جنرل پرویز مشرف صاحب نے بھی‘ جو کھلے عام ۳۱دسمبر۲۰۰۴ء سے پہلے آرمی چیف کی وردی اتارنے کا وعدہ قوم اور دنیا سے کرچکے تھے‘ ایک قلابازی کھائی اور اس بارے میں جو ابہام وہ اور ان کے گماشتے چند مہینوں سے پیدا کر رہے تھے‘ اسے تقریباً کھلے طور پر وردی نہ اتارنے کے ارادے کے اظہار کی شکل دے دی۔
یہ تمام واقعات ایسے ہیں کہ ان پرکھل کر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے اور جو نیا سیاسی نقشہ مرتب ہو رہا ہے اس کے ادراک اور مضمرات کا احاطہ ایک اہم قومی ضرورت کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ اس وقت کچھ اوراہم موضوعات بھی ہمارے سامنے ہیں‘ جیسے: وزیرستان میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف فوج کُشی‘ بلوچستان کے مخدوش حالات‘ عراق کی ہولناک صورت حال‘ بسلان کا سانحہ‘ شیشان میں بے پایاں ظلم اور روس کے نئے عزائم‘ فلسطین اور کشمیر کے تازہ واقعات اور امریکا کا صدارتی معرکہ‘ جن میں سے ہر ایک مفصل تجزیے و تبصرے کا متقاضی ہے لیکن ان سب کو نظرانداز کرتے ہوئے ہم ملک میں تازہ ترین سیاسی مہم کاری (political engineering) اور اس کے مضمرات پر ملک و قوم کو متوجہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ؎
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو‘ زمانہ چال قیامت کی چل گیا
سیاسی بحث میں شخصیات کا تذکرہ فطری ہے اور ناگزیربھی۔ لیکن ہماری دل چسپی کا اصل مرکز و محور ملک و قوم کے مقاصد اور مفادات ہیں اور حقیقی ہدف پالیسی اور اداروں کی اصلاح اور استحکام ہے۔ جب کوئی شخص پبلک لائف میں قدم رکھتا ہے تو گویا وہ خود کو اجتماعی احتساب کے لیے بھی پیش کرتا ہے اور اسے اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ البتہ ہماری کوشش ہمیشہ یہ رہی ہے کہ قومی امور کو زیربحث لاتے ہوئے ذاتی معاملات اور معاشرتی تعلقات سے بالا ہوکر گفتگو کریں۔ جن محترم شخصیات کا ذکر اس بحث میں آیا ہے یا آئے گا‘ ان کے بارے میں ہماری بحث کا محور ان کی ذات نہیں بلکہ ان کے افکار‘ کردار اور اجتماعی رول ہے۔ ہمارا اصل مقصد پاکستان کا نظریاتی‘ سیاسی‘ ثقافتی اور معاشی استحکام ہے اور یہی وہ قدر مشترک ہے جو اس ملک کے تمام خیرخواہوں کو تنقیدواحتساب اور تعمیروترقی کے لیے سرگرم کرتی ہے۔
جس عمل کو ہم نے سیاسی مہم کاری کہا ہے اس کا سب سے اولین اظہار سابق وزیراعظم جناب ظفراللہ خان جمالی کی فارغ خطی اور اس کے اسباب اور طریق کار ہے۔ جمالی صاحب کو ایوان نے اپنا باقاعدہ قائد منتخب کیا تھا اور وہ کابینی حکومت(cabinet government )کے سربراہ تھے۔ اگر ان کی پالیسیوں پر عدمِ اعتماد تھا تو پارٹی اور پارلیمنٹ کو ان پر بحث کرنی چاہیے تھی‘ ان کا احتساب کیا جانا چاہیے تھا اور کھلے انداز میں معروف پارلیمانی ضابطوں کے مطابق ان کو ہٹایا جا سکتا تھا‘ مگر ایسا نہیں ہوا۔ صدرصاحب اپنے پارلیمانی چیمبر میں فوجی وردی میں پہلی بار تشریف لائے اور سرکاری پارٹی کے ارکان سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں ارکان اسمبلی نے ان کے سامنے شکایات کا دفتر کھول دیا ہے۔ جنرل صاحب نے کابینہ اور اسمبلی کی کارکردگی کے بارے میں اپنے تحفظات اور تنقیدات کا کھلا اظہار کیا۔ چند وزیروں کے بدعنوان ہونے کا ذکر بھی فرمایا۔ محلاتی سازشوں کے اس پس منظر میں خود جمالی صاحب کئی دن تک وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کیے جانے کی افواہوں کی تردید کرتے رہے مگر دوسرے ہی دن اچانک اپنے استعفے کا اعلان کر دیا بلکہ متبادل وزیراعظم کی نامزدگی بھی کردی۔ اس پورے عرصے میں صدر پرویز مشرف اور چودھری شجاعت حسین بھی ان پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتے رہے۔ البتہ سیاسی حلقوں میں یہ چہ مے گوئیاں ہوتی رہیں کہ وردی کے مسئلے پر صدرصاحب کی فرمایش کے مطابق دوٹوک بات نہ کہنے‘ عراق فوج بھیجنے کے معاملے میں عوامی جذبات کے احترام کا عندیہ دینے‘ حدود قوانین اور ناموس رسالتؐ کے قانون میں تبدیلی کے بارے میں تحفظات کے اظہار اور خود قومی سلامتی کونسل کے سلسلے میں کچھ دبے دبے احساسات کی بنا پر وہ صدر صاحب کا اعتماد کھو چکے ہیں اور ’باس‘ کی ناراضی مول لے چکے ہیں جس کی قیمت انھیں ادا کرنی پڑی۔
جمالی صاحب کو جس طرح اور جس عجلت میں فارغ کیا گیا‘ اس نے تمام پارلیمانی طور طریقوں‘ ضابطوں اور روایات کو پامال کر کے رکھ دیا ہے۔ ان کو ۱۸ ماہ وزیراعظم رکھنے کے بعد دو ماہ کے لیے بھی گوارا کرنا قبول نہیں کیا گیا اور ایک عبوری وزیراعظم لاکر ایک ایسے اپنے قابلِ اعتماد شخص کو وزیراعظم نامزد کیا جو خواہ کتنا ہی اچھا ٹیکنوکریٹ کیوں نہ ہو لیکن جس کی کوئی سیاسی بنیاد(base) نہ تھی‘ کوئی حلقہ انتخاب نہ تھا‘ پارٹی کے نظام میں اس کا کوئی مقام نہیں تھا‘ کوئی سیاسی تجربہ نہیں تھا‘ اسے نامزد وزیراعظم کا مقام دے کر اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے لیے دوحلقوں سے انتخاب لڑایا اور ایک کھلے کھلے انتخابی تماشے کے ذریعے منتخب بھی کرایا گیا۔ اٹک میں جو ہوا سو ہوا‘ مگر مٹھی‘ (تھرپارکر) میں تو ایسا انتخاب ہوا کہ اس علاقے کے جو روایتی لیڈر تھے ان سے بھی دوگنے اور تین گنے ووٹ کسی طلسماتی عمل کے ذریعے ہونے والے وزیراعظم کو حاصل ہوگئے۔ اس سلسلے میں پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کے نمایندوں کی رپورٹ چشم کشا ہے جو ملک کے انتخابی عمل کے افلاس اور الیکشن کمیشن کی جانب داری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انتخابی عمل کو اس طرح پامال کیا گیا کہ اس پر لوگوں کا اعتماد جو پہلے ہی متزلزل تھا‘ پارہ پارہ ہوگیا ہے اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کا جو برا بھلا عمل شروع ہوا تھا‘ اسے بڑا دھچکا لگا ہے۔
جمالی صاحب کی فارغ خطی کے اسباب آخر ایک نہ ایک دن تو کھل کر سامنے آئیں گے ہی‘ تاہم ان کے بیانات میں بین السطور کچھ چیزیں نمودار ہونے لگی ہیں۔ لیکن جس بھونڈے اور غیرپالیمانی انداز میں یہ سارا کام ہوا‘ اس نے جمہوریت کے فروغ اور ارتقا پر بڑے منفی اثرات ڈالے ہیں۔ یہ اقدام ملک کو بہت پیچھے لے گیا ہے۔
چودھری شجاعت حسین نے عبوری وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں بحیثیت مجموعی وقار کے ساتھ انجام دیں لیکن ان جیسے جہاںدیدہ اور بااثر سیاست دان کا اس پورے عمل کو آگے بڑھانے میں ایسا نمایاں کردار اور ایک انتخابی ڈھونگ کے ذریعے نئی قیادت کو آگے لانے میں ان کا حصہ‘ کسی صورت میں بھی ان کی نیک نامی کا باعث نہیں ہوا بلکہ ان کی شخصیت کو داغ دار کرنے کا ذریعہ بنا۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان کے اقتدار کے دو مہینوں میں اس سلسلے میں جو کچھ ہوا وہ جمہوریت کے چہرے کو بگاڑنے‘ دستور کے تقاضوں کو پامال اور سول نظام اور پارلیمانی اداروں کے استحکام کو مجروح کرنے کا باعث ہوا ہے‘ اور اس میں ان کے ذاتی رکھ رکھائو کے باوجود نتائج کے اعتبار سے ہر بے لاگ مبصر اور تجزیہ نگار کی نگاہ میں ان کا رول منفی اور تکلیف دہ رہا ہے۔
دوسرا بنیادی مسئلہ پارلیمانی نظام کے دروبست کی کمزوری بلکہ اس کے نظامِ کار کا درہم برہم ہوجانا ہے۔ یہ محض نظری یا ظاہری ہیئت کا مسئلہ نہیں۔ پارلیمانی نظام میں اقتدار کا سرچشمہ پارلیمنٹ ہوتی ہے جو عوام کی منتخب کردہ اور ان کے سامنے جواب دہ ہے۔ پارلیمانی نظام کا مرکزومحور وزیراعظم بحیثیت ایوان کے قائد اور ان کی کابینہ ہے جو ایوان کے سامنے انفرادی اور اجتماعی طور پر جواب دہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمانی جمہوریت میں پارٹی نظام کے مؤثر ہونے کے باوجود پارٹی کے صدر کے مقابلے میں پارلیمانی لیڈر کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ صرف انگلستان کے ویسٹ منسٹر (westminister) ماڈل ہی کا خاصہ نہیں۔ دنیا میں جہاں بھی پارلیمانی نظام ہے وہاں وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے اور کابینہ اس کی قیادت میں کام کرتی ہے۔ اگر وزیراعظم کی مرکزی حیثیت نہ ہو اور قوت کا مرکز پارلیمنٹ اور ان کا لیڈر نہیں کوئی اور ہو تو ایسے میں پارلیمانی نظام کام نہیں کرسکتا۔ بھارت میں یہ مسئلہ آزادی کے فوراً بعد رونما ہوا اور اچاریہ کرپلانی جو کانگرس کے صدر تھے اور پنڈت جواہر لعل نہرو جو پارلیمنٹ کے لیڈر اور وزراعظم تھے کے درمیان رونما ہوا‘ اور پارلیمانی نظام کے اصول و روایات کے مطابق وزیراعظم کو مرکزی حیثیت دی گئی جو وہاں پارلیمانی جمہوریت کے استحکام کا ذریعہ بنی۔ بھارت کے سیاسی تجزیہ نگار اور تامل ناڈو کے سابق گورنر ڈاکٹر جی سی الیگزنڈر لکھتے ہیں:
وزیراعظم کے اختیارات کو کم کرنے سے روکنے کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ اس کی پارٹی کے تمام ممبر اور حامی اور اتحادی پارٹیاں پارلیمانی طرزِ جمہوریت کے بنیادی اصول یعنی ’’وزیراعظم کی نظام میں بالادستی‘‘ کو ہمہ وقت اور کسی تحفظ کے بغیر قبول کریں۔ (’’پارٹی اور پی ایم ‘‘ دی ایشین افیر‘ لندن‘ ۱۶ ستمبر۲۰۰۴ئ‘ ص ۱۴)
پاکستان میں گذشتہ چند مہینوں میں جو کچھ ہوا ہے اس کا سب سے بڑا نقصان ملک کے پارلیمانی نظام کو ہوا ہے۔ وزیراعظم کی مرکزی حیثیت ختم ہوگئی ہے۔ قوت کا مرکز پارلیمنٹ‘ پارلیمانی پارٹی اور وزیراعظم اور کابینہ سے ہٹ کر صدر اور چیف آف اسٹاف کا عہدہ اور شخصیت بن گیا ہے۔ ایک غیر سیاسی شخص کو‘ خواہ وہ اپنے میدان میں کتنا ہی لائق کیوں نہ ہو‘ بطور وزیراعظم بنیادی طور پر صدر کی خواہش اور اشارے پر لانا اور اس اہم منصب پر فائز کر دینا ایک طرح سے پارلیمنٹ‘ پارلیمانی نظام اور خود وزارت عظمیٰ کے عہدے کی تنزلی (demotion) ہے۔ اب پالیسی سازی اور قوت کا سرچشمہ صدر‘ چیف آف اسٹاف ہے جو پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ نہیں اور نہ وہ پارلیمنٹ کی بحثوں میں شریک ہوکر پالیسی سازی اور قانون سازی میں کوئی مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ وزیراعظم محض ایک ملازم نہیں‘ اصل چیف ایگزیکٹوہے۔ اب صاف نظر آرہا ہے کہ جنرل مشرف ایک بار پھر کھلے کھلے چیف ایگزیکٹو بن گئے ہیں‘ تمام پالیسی فیصلے وہی کر رہے ہیں اور وہی ان کا اعلان بھی کر رہے ہیں‘ جب کہ وزیراعظم برملا اعلان کر رہے ہیں کہ وہ جنرل صاحب کی پالیسی کو لے کر چل رہے ہیں۔ اس طرح پارلیمانی نظام کے دستوری ڈھانچے پر صدارتی نظام مسلط (superimpose)کر دیا گیا ہے جس نے دستور کے ڈھانچے کا تیاپانچا کر دیا ہے اور دستور اور قانون کی حکمرانی عملاً ختم ہوگئی ہے۔ اس میں جو بھی‘ جس درجے میں بھی‘ جن وجوہ کی بنا پر بھی شریک ہوا ہے‘ وہ اس بگاڑ کا ذمہ دارہے۔ پوری قوم اس کے تلخ نتائج کو بھگت رہی ہے اور مزید بھگتے گی۔
تیسرا پہلو صدر‘ وزیراعظم‘ کابینہ اور پارلیمنٹ کے باہمی تعلق اور رول کا ہے۔ جناب شوکت عزیز صاحب جس طرح وزیراعظم بنے ہیں وہ معروف سیاسی عمل کے حلیہ بگاڑنے کے مترادف ہے۔ کیا پوری قومی اسمبلی میں ایک شخص بھی اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لائق نہیں تھا کہ باہر سے ایک فرد کو لانا پڑا۔ پھر انتخاب میں جو کچھ ہوا وہ جمہوریت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ اپوزیشن کے نمایندے کو پارلیمنٹ میں آنے اور انتخابی مہم چلانے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ایک طرف ایک شخص کو قائدایوان کے انتخاب کے لیے اہل قرار دیا جاتا ہے اور دوسری طرف اسے اجلاس میں شرکت کے لیے نہیں بلایا جاتا۔ شوکت عزیز صاحب نے کہا ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ جاوید ہاشمی صاحب کو شرکت کا موقع دیا جائے۔ پھر کس چیز نے اسپیکرکو روک دیا؟ محض ایک تقریر کا خوف؟ کیا یہی شفاف جمہوریت ہے؟
انتخاب کے بعد شوکت عزیز صاحب نے یہ عندیہ دیا کہ ان کی کابینہ صرف میرٹ کی بنیاد پر بنائی جائے گی اور اہل ترین افراد اس میں ہوں گے۔ لیکن جمالی صاحب کی کابینہ کے سارے ارکان ان کی کابینہ کی زینت بھی بن گئے اور صدر صاحب کا کابینہ کی کارکردگی پر اظہار خیال اور چند افراد کی کرپشن کی بات‘ سب پادرہوا ہوگئی۔ پھر سیاسی جوڑ توڑ اور مختلف گروپوں کے ساتھ ملانے کا عمل شروع ہوا اور ناراض عناصر کو راضی کرنے کے کرشمے سب کے سامنے آگئے۔ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ بنی ہے اور اگر کہیں محکموں کی تبدیلی ہوئی ہے تو وہ بھی براے نام۔ پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کے ایک رکن پر الزامات اور ان کے جوابی الزامات اخبارات کی زینت بن چکے ہیں ان کا صرف محکمہ تبدیل کر دیا گیا اور ایک دوسرے صاحب کو وہ محکمہ دے دیا گیا‘ اور لطف کی بات یہ ہے کہ دونوں ہی بزرگ نیب کے مطلوبہ افراد میں سے ہیں اور وزارت بھی ان کو داخلہ کی دی گئی ہے۔ یہ بھی سوالیہ نشان ہے کہ جمالی صاحب جو اب وزیراعظم نہیں رہے اور دو وزرا کا جن کے محکموں کو تبدیل کیا گیا ہے تعلق بلوچستان سے ہے۔ کابینہ کی تشکیل اور بندربانٹ نے میرٹ کے وعدے کی دھجیاں بکھیردی ہیں۔
مبصرین کے اس خدشے کو یہاں نوٹ کیا جانا بے محل نہیں کہ کابینہ کے بنانے میں وزیراعظم اور ان کے اعلان کردہ اصولوں کا رول نہ ہونے کے برابر ہے‘ اور کابینہ ان کو ایک طرح سے ورثے میں ملی ہے اور اضافے کسی اور کے اشارے پر ہوئے ہیں‘ حتیٰ کہ لندن والوں سے رابطے کے لیے صدر کے نمایندہ خاص نے ہی جاکر معاملات طے کیے ہیں۔ اس سب کا حاصل یہ ہے کہ کابینہ جس طرح بنی ہے وہ خود پارلیمانی نظام کے اصول و ضوابط سے مطابقت نہیں رکھتا اور خطرہ ہے کہ یہ پارلیمانی نظام کے صحت مند ارتقا پر ایک ضرب کاری ثابت ہوگی۔
وزیراعظم کی گرفت کابینہ پر ڈھیلی ہوگی۔ وفاداری کامرکز کہیں اور ہوگا اور اس طرح اتنی بڑی کابینہ ایک مربوط اور ہم آہنگ ٹیم کی طرح کام نہیں کر سکے گی۔ وزیراعظم پر ایک طرف اوپر والوں کا دبائو ہوگا اور دوسری طرف سے پارٹی کے بااثر گروہوں‘ افراد اور ان کے مطالبات کا۔ ہدایت اور رہنمائی کا منبع کہیں اور ہوگا اور پارلیمنٹ ملک کو اچھی حکمرانی فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ خارجہ پالیسی ہو یا داخلہ پالیسی‘ سب اس انتشار اور رسہ کشی کا شکار ہوں گے۔ خدا کرے یہ خدشات غلط ثابت ہوں لیکن جس طرح معاملات رونما ہو رہے ہیں ان سے صاف نظرآ رہا ہے کہ حکمرانی کا نظام یک مرکزیت سے محروم اور دوہری عمل داری (diarchy) بلکہ ایک نئی قسم کی سہ نکاتی تشکیل (troika) کی طرف جا رہا ہے جسے کسی پہلو سے بھی اچھا شگون قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ٹیکنوکریٹ وزیراعظم کے لیے بھی بیک وقت کئی خدائوں کی بندگی کوئی اچھا نتیجہ نہیں نکال سکتی۔
چوتھا پہلو نئے سیاسی کلچر کا ہے جو بالکل نیا تو نہیں لیکن وہ ان خرابیوں کو مستحکم اور دائمی کرتا جا رہا ہے جو ماضی میں بگاڑ اور تباہی کا سبب رہی ہیں اور جن کی موجودگی میں صحت مند جمہوری نظام اور انصاف‘ حق اور میرٹ پر مبنی اور کرپشن سے پاک اجتماعی زندگی کا وجود ناممکن ہے۔ جنرل پرویز مشرف صاحب نے تو تبدیلی کے اس عمل پر نہ صرف اطمینان کا اظہار کیا ہے بلکہ اسے مثبت قرار دیا ہے۔ ان کا ارشاد ہے: ’’میں ملک میں ایک اچھی تبدیلی دیکھ رہا ہوں اور ایک نئے سیاسی کلچر کا آغاز ہو رہا ہے‘‘۔
یہ نیا سیاسی کلچر کیا ہے؟ وہی جاگیردار طبقے کی بالادستی‘ وفاداریوں کی چشم زدن میں تبدیلی کا وہی کھیل جو پاکستان کی تاریخ میں مسلسل کھیلا جاتا رہا ہے: وزیراعظم ناظم الدین (جو مسلم لیگ کے صدر بھی تھے) کے ارکان پارلیمنٹ کا ان کے اپنے کیمپ سے نکل کر غلام محمد اور محمدعلی بوگرہ سے جا ملنا‘ ری پبلکن پارٹی کے پرچم تلے مسلم لیگیوں کے غول کے غول کا ڈاکٹر خان اورگورمانی کی طرف منتقل ہو جانا‘ کونسل اور کنونشن لیگ کے ڈرامے--- جو افراد آج شوکت عزیز صاحب کے دست راست ہیں اور جنرل پرویز مشرف کی وردی کے گن گارہے ہیں‘ کل وہی جنرل ایوب کی قصیدہ خوانی کر رہے تھے‘ جنرل یحییٰ کے ہاتھ مضبوط کر رہے تھے‘ جنرل ضیاء الحق کی کرسی مضبوط کر رہے تھے‘ نواز شریف صاحب پر جان چھڑک رہے تھے‘ بے نظیر کی وفاداریوں کے حلف اٹھا رہے تھے‘ ظفراللہ جمالی کے آگے پیچھے پھر رہے تھے۔ ان کے لیے سیاسی قبلہ بدلنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ خوشامد اور چاپلوسی ان کی فطرت اور چڑھتے سورج کی پوجا ان کا مستقل دین ہے۔ وزارتیں اور مفادات ان کا اصل مطلوب و مقصود ہیں۔ ان کی ’’جمہوریت پسندی‘‘ ان کو فوجی قیادت کو اقتدار کی دعوت دینے اور دستور اور قانون کو بالاے طاق رکھنے سے باز نہیں رکھتی‘ اور یہ صدارت اور فوج کی سربراہی کو رشتہ ازدواج میں منسلک کرنے میں نہ صرف یہ کہ کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے بلکہ اس میں ان کو اپنا اور جمہوریت کا مفاد نظرآنے لگتا ہے۔ ہوا کے رخ کے ساتھ بدلنا ان کی نگاہ میں ترقی کی علامت ہے۔ ملک اور اس کے اداروں پر چاہے کچھ بھی گزرے!
جنرل پرویز مشرف اصول پرستی اور سیاست میں گندگی سے نجات کے دعوے کے ساتھ برسرِاقتدار آئے تھے مگر وہ ایک ایک کر کے ہر وہ کام کر رہے ہیں جو بدنامِ زمانہ سیاست دان اور اقتدار کے بھوکے بیوروکریٹس اور جرنیل کرتے رہے ہیں۔ حلف کی خلاف ورزی‘وعدوں کونظرانداز کرنا‘ اپنی ذات کو ریاست کے مترادف بنالینا‘ پارٹیاں چھوڑنے والوں کو سینے سے لگانا‘ وزارتوں کے لیے بلیک میل ہونا اور ہر طالع آزما کو ایک ٹکڑا دے کر اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے میں کوئی باک محسوس نہ کرنا--- کیا یہی وہ مثبت تبدیلی ہے جس کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے اور اسی کا نام نیا سیاسی کلچر ہے؟ پاکستان بلاشبہہ بہت سے بیرونی خطرات سے دوچار ہے‘ لیکن اس کی سلامتی اور ترقی کو سب سے بڑا خطرہ گھر کے ان ہی لوگوں سے ہے۔ مفاد اور قوت کی پرستش کا یہی وہ کلچر ہے جس نے جمہوریت کو پراگندا کردیا ہے‘ معاشرہ فساد کا شکار ہے‘ عوام مصائب میں مبتلا ہیں اوراصحاب اقتدار دادعیش دے رہے ہیں۔ ایسے دوستوں کی موجودگی میں دشمنوں سے کیا خطرہ۔ حالیہ تبدیلی نے اس کلچر کے چہرے سے ہر پردہ اٹھا دیا ہے اور اس ڈرامے کے تمام کردار بے نقاب ہوگئے ہیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جب ایک قوم اس راستے پر چل پڑتی ہے تو پھر اسے تباہی سے اگر کوئی چیز بچاسکتی ہے تو وہ ایسا انقلاب ہے جو پورے نظام کو زیروزبر کر دیتا ہے--- کاش اس سے پہلے قوم کی آنکھیں کھل جائیں اور گاڑی کو پٹڑی پر لے آیا جائے۔
موجودہ سیاسی منظر اور پس منظر کا سب سے اہم اور سب سے تشویش ناک پہلو ملک کے سیاسی نظام میں فوج کے سیاسی کردار کا ہے اور ان دو مہینوں کی اکھاڑ پچھاڑ کا ایک مرکزی پہلو اسی مسئلے سے متعلق ہے۔ اندر اندر جو کھچڑی پکتی رہی ہے اس کا اصل ہدف فوج کی قیادت کو ایک دستوری اور سیاسی کردار عطا کرنا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی تاریخ کوئی اچھی تصویرپیش نہیں کرتی۔ اصولی طور پر فوج کا کام ملک کا دفاع ہے اور فوج کو مکمل طور پر سیاسی قیادت کے تابع ہونا چاہیے۔ یہ جمہوریت کی اصل روح ہے اور کیسی ہی ملمع سازی کی جائے‘ فوج کو دفاع سے ہٹا کر کوئی سیاسی کردار دینا اصولی اور عملی ہر دو پہلوئوں سے ناقابلِ تصور اور عملی اعتبار سے ملک کی سیاست اور دفاع دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔
قائداعظمؒ نے ۱۴ جون ۱۹۴۸ء کو کوئٹہ اسٹاف کالج کے فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ فوج سول نظام کے تابع اور اس کے احکام اور ہدایات کی پابند ہے اور یہی خود ان کے اس حلف کا تقاضا ہے جو وہ فوج میں شمولیت کے وقت اٹھاتے ہیں۔ دستورِ پاکستان میں یہی بات اعلیٰ ترین قانون کی حیثیت سے رقم کر دی گئی ہے۔ دستور کی دفعات۲۴۴ اور ۲۴۵ بالکل واضح ہیں۔ دفعہ ۲۴۵ کہتی ہے:
مسلح افواج‘ وفاقی حکومت کی ہدایات کے تحت‘ بیرونی جارحیت یا جنگ کے خطرے کے خلاف پاکستان کا دفاع کریں گی اور قانون کے تابع شہری حکام کی امداد میں‘ جب ایسا کرنے کے لیے طلب کی جائیں‘ کام کریں گی۔
اور دفعہ ۲۴۴ کے تحت حلف ان کے کردار اور ان حدود کی وضاحت کر دیتا ہے جن میں رہ کر انھیں اپنے فرائض انجام دینے ہیں:
میں ……… صدق دل سے حلف اٹھاتا ہوں کہ میں خلوصِ نیت سے پاکستان کا حامی اوروفادار رہوں گا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی حمایت کروں گا جو عوام کی خواہشات کا مظہر ہے‘ اور یہ کہ میں اپنے آپ کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں مشغول نہیں کروں گا‘ اور یہ کہ میں مقتضیات قانون کے مطابق اور اس کے تحت پاکستان کی بّری فوج (یا بحری یا فضائی فوج) میں پاکستان کی خدمت ایمان داری اور وفاداری کے ساتھ انجام دوں گا۔
ہماری عدالتوں نے اس حقیقت کو نظرانداز کر کے ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت فوج کی بار بار سیاسی مداخلت کو جو جواز فراہم کیا ہے اس نے سیاسی نظام کا حلیہ بگاڑ دیا ہے‘ اور ہر طالع آزما کو سیاسی نظام کی بساط لپیٹنے اور ’’قومی مفاد‘‘ کے نام پر فوجی اقتدار قائم کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ سیاسی قیادتوں اور خود عوام نے بھی اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کیا اور آج عالم یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف صاحب ایک نیا فلسفہ وضع فرما رہے ہیں کہ گویا فوج کو سیاست میں مداخلت کا ایک دائمی اختیار حاصل ہے۔ قائداعظم کے اس ارشاد کی ضد میں اور بالکل ان کے مدمقابل آتے ہوئے کوئٹہ ہی میں فوج کے گیریزن کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:
ہمیں اپنے ملک کا محض دفاع ہی نہیں کرنا ہے بلکہ ایک نئے وژن کے ساتھ اسے ترقی بھی دینا ہے‘ اور کوئی دوسرا ہمارے لیے اس کو نہیں کرے گا۔
جنرل صاحب کے قومی سلامتی کونسل کے تصور اور دستور کی سترھویں ترمیم کے موقع پر ان کے‘ سرکاری جماعت کی پوری قیادت کے‘ بلکہ ساری پارلیمنٹ کے عہدوپیمان کے باوجود ۳۱دسمبر ۲۰۰۴ء کے بعد بھی چیف آف اسٹاف کے عہدے سے چمٹے رہنے کے عزائم کے اظہار کی اصل حقیقت کو فوج کے اس تبدیل شدہ سیاسی کردار کے پس منظر میں ٹھیک ٹھیک سمجھا جا سکتا ہے۔ مسئلہ بالکل کھل کر سامنے آگیا ہے اور اب اسے ہمیشہ کے لیے طے ہوجانا چاہیے۔ یا فوج ایک دفاعی قوت ہوگی اور اس شکل میں اسے سیاسی قیادت کے تابع ہونا ہوگا اور سیاسی نظام کے بنانے اور چلانے میں اس کا کوئی کردار نہیں ہوسکتا۔ اور اگر فوجی قیادت کا سیاسی نظام کو بنانے اور چلانے میں کوئی کردار ہوگا تو پھر فوج ایک سیاسی پارٹی اور قوت بن جاتی ہے اور وہ پورے ملک اور پوری قوم کی امیدوں کا مرکز اور تائید کا محور نہیں رہ سکتی۔ پھر اس پر بھی اسی طرح تنقید ہوگی جس طرح تمام سیاسی قوتوں پر ہوتی ہے۔ پھر وہ بھی ایک پارٹی اور ایک گروہ کی نمایندہ بن جاتی ہے‘ پھر وہ بھی حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف میں سے ایک کی حلیف بنتی ہے‘ پھر وہ بھی سیاسی طورپر متنازع بن جاتی ہے۔ پھر وہ بھی مفادات کی جنگ میں ایک مخصوص حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔ ایسی فوج کبھی بھی پوری قوم کی تائید کی دعوے دار نہیں ہوسکتی۔ ایسی فوج کی دفاعی صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اس میں بھی اسی طرح پارٹی بازی کا دروازہ کھل جاتا ہے اور جنبہ داری کا مرض لگ جاتا ہے۔ ایسی فوج کی پیشہ ورانہ حیثیت بری طرح متاثر ہوتی ہے اور فوج کو جس ذہنی افتاد ‘جس ڈسپلن اور جس غیر جانب داری کی ضرورت ہوتی ہے وہ اس سے محروم ہوجاتی ہے۔
سب سے بڑھ کر دستوری حکومت اور خصوصیت سے جمہوری نظام میں فوج کے ایسے کردار کا تصور ممکن نہیں۔ آج ترکی کے یورپی یونین میں داخلے کے سلسلے میں جو سب سے اہم بحث ہو رہی ہے ان کا تعلق فوج کے سیاسی کردار ہی سے ہے اور اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ فوج کو غیر سیاسی کیے بغیر ترکی کے جمہوری کردار کو دنیا تسلیم نہیں کرسکتی۔ ہمارا بھی یہی مسئلہ ہے کہ فوج کی قیادت ایک سیاسی کردار بن گئی ہے اور جب تک اس باب کو واضح طور پر بند نہیں کیا جاتا‘ ملک میں سیاسی استحکام محال ہے اور ایک جمہوری ملک کی حیثیت سے نہ ملک کے عوام اس پر مطمئن ہوں گے اور نہ دنیا اسے قبول کرے گی۔
اگر ہم اپنی ۵۷ سالہ تاریخ کا جائزہ لیں تو اس میں ۲۳وزیراعظم آئے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کا اوسط اقتدار اڑھائی سال رہا ہے بلکہ صحیح تر الفاظ میں اگر فوجی اقتدار کے زمانے کو نکال دیا جائے تو یہ اوسط کم ہوکر سوا سال ہی رہ جاتا ہے۔اس کے برعکس فوج کے چیف آف اسٹاف کی صدارت کا زمانہ ۳۰ سال ہے جس میں ۴ فوجی سربراہ صدر رہے ہیں۔ گویا ان کا اوسط اقتدار ساڑھے سات سال تھا۔ ان ۵۷ برسوں میں فوج کے ۱۱چیف آف اسٹاف رہے ہیں اور ان کی چیف آف اسٹاف ہونے کی اوسط مدت قواعد کے مطابق تین سال کے بجاے ۵سال سے زیادہ آتی ہے۔ فوجی قیادت ملک کو نہ سیاسی استحکام دے سکی‘ نہ معاشی ترقی میں کوئی غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا اور دفاعی اعتبار سے بھی ۱۹۶۵ء کے معرکے کے بعد فوج اعلیٰ دفاعی صلاحیت کا ثبوت نہیں دے سکی۔ فوج کو ایک مؤثر دفاعی قوت بنانے کا ایک ہی راستہ ہے اور یہ کہ وہ خالص پروفیشنل فوج ہو‘ اس کی ہر جائز ضرورت پوری ہو‘ لیکن سیاست میں اس کی دخل اندازی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں عوام‘ پارلیمنٹ‘ سیاسی جماعتیں اور عدالت ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور خود فوج کی قیادت کو بھی یکسو ہونا پڑے گا کہ وہ بیک وقت دوکشتیوں میں سفرنہیں کر سکتی۔
ان حالات میں سترھویں ترمیم کے ذریعے یہ طے کیا گیا کہ دستوری انحراف کا یہ دروازہ ۳۱دسمبر ۲۰۰۴ء کو بند ہوجانا چاہیے اور اس کے بعد فوج اور اس کا سربراہ صرف دفاعی ضرورتوں تک اپنی صلاحیتوں کو وقف رکھے گا اور سیاسی قیادت سیاسی طریقے سے عوام کے نمایندوں اور پارلیمنٹ اور دستور کے تحت اپنا کردار ادا کرے گی۔ اس عہد سے نکلنے کی جوکوشش کی جا رہی ہے وہ قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی‘ ہر اعتبار سے مجرمانہ اقدام ہے جسے کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ اگر ہم نے اب بھی اپنے ماضی سے کوئی سبق نہ سیکھا تو اس ملک میں جمہوریت‘ قانون کی بالادستی اور عوام کے حق حکمرانی کا مستقبل مخدوش ہے اور ملک کا دفاع بھی بری طرح متاثر ہوگا۔
اس سلسلے میں بظاہر جو دلائل دیے جا رہے ہیں وہ نہایت بودے بلکہ لچر ہیں۔ بنیادی طور پر تین باتیں کہی گئی ہیں جن کا تجزیہ ضروری ہے۔
m دستور کے تحت دونوں عُہدوں کا ساتھ :پہلی بات دستور کے حوالے سے کہی جارہی ہے کہ دونوں عہدے ساتھ ساتھ رکھے جاسکتے ہیں۔ اس سے زیادہ لغو دعویٰ مشکل ہی سے کیا جاسکتا ہے۔ بلاشبہہ ہمارا دستور باربار فوجی قیادتوں کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنا ہے اور اس سے اسے بری طرح نقصان ہوا ہے لیکن ہر دستور کا ایک ڈھانچا (structure) ہوتا ہے اور اس ڈھانچے میں فوج کے سیاسی کردار کی کوئی گنجایش نہیں۔ اسی لیے جنرل ضیاء الحق نے اور پھر جنرل پرویز مشرف نے اپنے اپنے دور میں اپنے لیے دستور میں خصوصی جگہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جو عارضی تھی اور اس کی حیثیت دستور سے انحراف کی تھی جسے بہ حالت مجبوری وقتی طور پر اور ایک متعین مدت کے لیے گوارا کیا گیا جس کے بعد اسے لازماً ختم ہوجانا تھا۔ سترھویں ترمیم میں آرٹیکل ۴۱ کے تحت ترمیم کا جواز ہی یہ تھا کہ چیف آف اسٹاف کے عہدے کو صدارت کے ساتھ جمع کرنے کو ایک تاریخ کا پابند کر دیا جائے۔ اسے دستور کی اصطلاح میں Musharruf-specific بھی کہا جاسکتا ہے اور عمومی طور پر ہر چیف آف اسٹاف پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
اگر یہ مقصد نہیں تھا تو پھر اس ترمیم کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اب جو قانونی موشگافیاں کی جارہی ہیں وہ بدنیتی اور عہدفراموشی پر مبنی ہیں اور اس کے سوا ان کو کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ دفعہ d(۱)۶۳میں سروس آف پاکستان کا تصور واضح ہے اور دفعہ ۲۶۰ میں مزید وضاحت موجود ہے کہ فوجی سروس اس میں شامل ہے۔ اس سے ہٹ کر اس کی کوئی تعبیر دستوری تعبیر کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔ notwithstanding کا اطلاق پوری دفعہ ۴۱ پر ہوتا ہے۔ اس کے صرف کسی ایک حصے تک اس کو محدود نہیں رکھاجاسکتا اور قانون کے ذریعے ترمیم کے معنی یہ ہیں کہ چیف آف اسٹاف کا تعلق ’’آرمڈ سروسز‘‘ سے نہیں رہے گا‘ نیز یہ کسی ایک فرد تک محدود نہیں ہوسکتا بلکہ اس عہدے کو سروس سے باہرکرنا پڑے گا۔ لیکن کیا اس کا تصور ممکن ہے کہ چیف آف اسٹاف ’’فوجی سروس‘‘ کا حصہ نہ رہے اور پھر چیف آف اسٹاف بھی ہو--- یہ ایک مضحکہ خیز اور سیاسی نظام اور فوجی انتظام دونوں کو تہ و بالا کرنے والا تصور ہی ہو سکتا ہے۔ دستور و قانون میں اس کی کوئی گنجایش نہیں۔
m ایم ایم اے سے معاہدہ: دوسری دلیل سیاسی ہے کہ ایم ایم اے سے جو معاہدہ کیا گیا تھا وہ مؤثر نہیں رہا۔ ان کے بقول ایم ایم اے نے اس کی پابندی نہیں کی‘ اس لیے صدر صاحب بھی اس کی خلاف ورزی کرسکتے ہیں۔ یہ دعویٰ بھی غلط اور بددیانتی پر مبنی ہے۔ صدر صاحب اور ایم ایم اے میں کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ معاہدہ حکمران پارٹی اور ایم ایم اے میں ہوا جس کے نتیجے میں دستور میں ترمیم ہوئی اور وہ ایک دستوری تقاضا بن گیا جس کو کھلے طور پر صدر صاحب نے قبول کیا اور قوم سے عہد کیا کہ وہ اس کا احترام کریں گے۔ اب اصل معاملہ دستور کی اطاعت کا ہے‘ کسی خاص معاہدے کا نہیں۔
رہا ایم ایم اے کا معاملہ تو اس نے معاہدے کی مکمل پابندی کی ہے اور آج بھی اس پر قائم ہے۔ اس نے معاہدے کے تحت سترھویں ترمیم کے حق میں ووٹ دیا اور صدر‘ وزیراعظم اور حکمران پارٹی نے اس کا برملا اعتراف کیا۔ اس معاہدے کے تحت ایم ایم اے صدر کو اعتماد کا ووٹ دینے کی پابند نہیں تھی بلکہ معاہدے میں صاف لفظوں میں لکھا ہوا تھا کہ:
طے پایا کہ صدرمملکت کی پانچ سالہ جاری ٹرم کے تسلسل اور ان کے اس عہدے پر فائز رہنے کے لیے آئینی ترمیم کی حمایت کی جائے گی۔ مزیدبرآں سینیٹ‘ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں ایم ایم اے کے ممبران صدر کو اعتماد کا ووٹ دینے کے پابند نہ ہوں گے۔ ایم ایم اے کے ممبران صدر مملکت کے خلاف ووٹ نہیں دیں گے اور نہ کسی مخالفانہ فعالیت کا مظاہرہ کریں گے‘ نیز ووٹنگ کے عمل کے دوران ایم ایم اے کے تمام ممبران پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ایوانوں میں موجود رہیں گے۔
رہا مسئلہ قومی سلامتی کونسل کا‘ تو ایم ایم اے نے اس دفعہ کو دستور سے خارج کرانے کا ہدف حاصل کیا۔ جہاں تک عام قانون کے تحت ایسے ادارے کے قیام کا تعلق ہے‘ ایم ایم اے نے تعاون کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔ البتہ وہ مذاکرات کے لیے تیار تھی لیکن حکومت نے اس قانون سازی میں ایم ایم اے سے کسی بات چیت کی زحمت تک نہ کی۔ پھر بھی ایم ایم اے نے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں متعلقہ قانون میں اپنی ترامیم داخل کرائیں جو اس کے اس عندیہ کی علامت ہے کہ وہ اس معاملے میں کوئی درمیانی راہ نکالنا چاہتی تھی جسے حکومت نے درخوراعتنا نہ سمجھا۔ لہٰذاایم ایم اے کی طرف سے کوئی وعدہ خلافی نہیں ہوئی۔
آخری مسئلہ وردی تھا۔ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔ میں نے پاکستان اور بیرونی دنیا میں ہمیشہ یہ کہا کہ صدر کا وردی میں ہونا جمہوریت کا حصہ نہیں ہے۔ یہ غیرجمہوری بات ہے لیکن پاکستان کے حالات کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ میں کہتا رہا ہوں کہ مجھے اس کا احساس ہے کہ یہ جمہوری نہیں ہے اور مجھے کسی مرحلے پر یہ وردی اتارنا ہوگی۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے بہت سے خیرخواہ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں اپنی وردی نہ اتاروں کیونکہ وہ پاکستان کی سلامتی کے لیے فکرمند ہیں‘ میں بھی پاکستان کی سلامتی کے لیے فکرمند ہوں‘ مجھے پاکستان کی ترقی کی بھی فکر ہے۔
میں نے حالات پر گہرا غوروخوض کیا ہے اور ان کا جائزہ لیا ہے۔ میں نے اپنے آپ کو ایک طرف رکھ کر اس کا جائزہ معروضی طور پر لیا ہے‘ میں نے پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی سوچا اور سیاسی ہم آہنگی کے لیے بھی۔
میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس مسئلے پر صحیح وقت پر فیصلہ کرنا بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ چنانچہ میں نے محسوس کیا کہ فیصلے کا یہی وقت ہے‘ اور اس لمحے فیصلہ کرنا ضروری ہے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں دسمبر۲۰۰۴ء تک اپنی وردی اتار دوں گا اور چیف آف آرمی اسٹاف کے منصب سے دستبردار ہوجائوں گا۔ اس عرصے میں‘ میں خود ہی قطعی تاریخ کا فیصلہ کروں گا۔
آخر میں‘ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے یہ فیصلہ کرنے میں میری رہنمائی کی۔ میں اس موقع پر پاکستانی قوم کو مبارک باد دیتا ہوں اور میں اپنی طرف سے قوم کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں پاکستان کی ترقی اور خودمختاری پر کوئی آنچ نہ آنے دوں گا۔
اللہ ہم سب کی حفاظت کرے۔
۱- بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کرلیا گیا۔
۲- یہ طے ہوگیا کہ ایک عہدہ‘ یعنی چیف آف اسٹاف کا عہدہ چھوڑ دیا جائے گا۔
۳- اور یہ کام ۳۱ دسمبر تک ہوجائے گا۔
صرف ایک اختیار باقی تھا اور وہ یہ کہ ۳۱ دسمبر سے پہلے اگر اعلان کرنا چاہیں تو جنرل صاحب کرسکتے ہیں۔ یہ کوئی مشروط فیصلہ نہیں تھا کہ جب چاہیں اسے تبدیل کر دیں۔
حکمرانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ عوام کے اعتماد کا احترام کریں اور اپنے وعدوں کو پورا کریں۔
اگر افراد کو یہ حق دے دیا جائے کہ جب چاہیں اپنے عہدوپیمان سے پھر جائیں تو پھر زندگی کا نظام کیسے چل سکتا ہے اور ایسے قائدین کے قول و فعل پر کون بھروسا کر سکتا ہے۔
دستور نے صدر کو اختیارات دیے ہیں اور اس کی قوت کا سرچشمہ دستور اور قانون ہے‘ بندوق کی نالی نہیں۔ اگر استحکام کے لیے وردی کی ضرورت ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ دستور نے صدر کو جو اختیارات دیے ہیں اور ان میں وافر اضافہ آٹھویں ترمیم اور سترھویں ترمیم کے ذریعے کیا جا چکا ہے‘ وہ کافی نہیں ہیں۔ اس طرح پارلیمنٹ جو اصل خودمختار (sovereign) ادارہ ہے وہ اقتدار کا سرچشمہ نہیں بلکہ اقتدار کا اصل سرچشمہ چیف آف اسٹاف کا عہدہ اور فوج ہے۔ یہ پورے سیاسی نظام اور دستوری انتظام کی نفی کے مترادف ہے۔ پہلے ہی پارلیمنٹ اور وزیراعظم دونوں کی تنزلی اور سبکی ہوچکی ہے اور اختیارات کا خاصا ارتکاز صدر کی ذات میں ہوگیا ہے۔ برا یا بھلا یہ انتظام پھر بھی دیکھنے میں دستوری لگتا ہے۔ لیکن یہ دعویٰ کہ سیاسی اور معاشی استحکام اور ترقی کے لیے صدر کا عہدہ اور اختیارات کافی نہیں اور اس کے لیے چیف آف اسٹاف ہونا ضروری ہے‘ یہ پورے سیاسی انتظام کی نفی کرتا ہے اور خود جنرل صاحب کے پانچ سالہ ’’کارناموں‘‘ پر خط تنسیخ پھیر دیتا ہے۔
سیاست دانوں کا وردی جاری رکھنے کی بات کرنا اور پنجاب کی اسمبلی کی شرمناک قرارداد سیاسی خودکُشی کے مترادف ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص اپنی آزادی کو خود ہی فروخت کر دے اور اپنے کو غلام بنانے پر آمادگی کا اظہار کرے لیکن قانون کی دنیا میں یہی ایک چیز ہے جس کے بارے میں مکمل اتفاق راے ہے کہ کوئی شخص اپنی آزاد مرضی سے بھی خود اپنے کو فروخت نہیں کرسکتا۔
سیاسی اور دفاعی مضمرات کے ساتھ ان حالات کے کچھ بڑے اہم بین الاقوامی اثرات بھی ہیں۔ اگر کسی ملک کی قیادت عہدوپیمان کے بارے میں ایسی غیر ذمہ دارانہ روش اختیار کرسکتی ہے تو اس کے عالمی عہدوپیمان کی کیا حیثیت ہوگی۔ پاکستان نے جمہوریت کے احیا کے سلسلے میں پوری دنیا سے ایک عہد کیا ہے۔دولت مشترکہ میں ہماری واپسی اور یورپی یونین کا پاکستان کو جمہوری ملک تصور کرنا اس شرط سے مشروط تھا کہ صدر چیف آف اسٹاف کا عہدہ چھوڑدیں گے اور دستوری عمل کو مکمل طور پر بروے کار لانے کا موقع دیا جائے گا۔ امریکا کے مفادات جو کچھ بھی ہوں اور ہمیں علم ہے کہ امریکا کی جمہوریت سے دل چسپی کسی دوغلے پن اور مفاد پرستی پر مبنی ہے‘لیکن عالمی برادری میں ہمارا وقار اسی وقت بحال ہو سکتا ہے جب ہم جمہوری سفر کو جاری رکھیں اور اپنے تمام عہدوپیمان پورے کریں ورنہ ہماری اس کمزوری کا اصل فائدہ امریکا کو ہوگا جو پہلے ہی ہمیں بلیک میل کر کے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے اور صدر جنرل مشرف کو اپنا حلیف بنا کر پاکستان کو اپنی چاکری پر مجبور کر رہا ہے۔ جنرل صاحب نے بڑے طمطراق سے دعویٰ کیا ہے کہ میں کسی کے دبائو میں نہیں آتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ۱۱/۹ کے بعد جس طرح انھوں نے امریکا کے آگے گھٹنے ٹیکے ہیں اور مسلسل اس کے احکامات کی اطاعت کررہے ہیں‘ اس نے پاکستان کی آزادی‘ خودمختاری اور سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ بوب وڈورڈ کی کتاب Bush at War کا مطالعہ کرلیجیے۔ کانڈولیزا رائس کی امریکی کانگرس کے سامنے گواہی کو دیکھ لیجیے‘ صاف کہتی ہے ہم نے جنرل مشرف کے لیے گاجر اور چھڑی (carrot and stick) کی پالیسی اختیار کی۔ گاجر کم اور چھڑی زیادہ۔ بوب وڈورڈ لکھتا ہے کہ جنرل محمود احمد اور جنرل پرویز مشرف دونوں نے بلاچون و چرا امریکا کے ساتوں مطالبات اس طرح تسلیم کرلیے کہ خود جنرل پاول کو تعجب ہوا اور امریکا کی قیادت اس پسپائی اور سپردگی پر حیرت زدہ ہوگئی۔
Bush at Warکے صفحہ ۴۷ پر آرمٹیج کی جنرل محمود سے گفتگو بلکہ ڈانٹ ڈپٹ کا مطالعہ کرلیجیے جس سے ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ پھر صفحات ۵۸-۵۹کے مطالبات اور ان پرآمنا وصدَّقنا کی داستان پڑھ لیجیے اور خود امریکی قیادت کے تعجب کا حال پڑھ کر پسینہ پسینہ ہوجایئے۔ بہادری کے سارے دعوے اپنے کمزور عوام ہی کے مقابلے میں ہیں۔ کیا پاکستان‘ ایران‘شمالی کوریا اور لبنان سے بھی کمزور ہے--- لیکن ہماری قیادت نے ہمارے ملکی وقار کو جو چرکے لگائے ہیں وہ اب تاریخ کا حصہ اور ہماری غیرت اور آزادی پر بدنما داغ ہیں۔ سات مطالبات کی بات اب امریکا کے ۱۱/۹ کے سرکاری کمیشن کی رپورٹ میں بھی آگئی ہے۔ (دیکھیے صفحہ ۳۳۱)
ہم یہ ساری باتیں دل پر پتھر رکھ کر رقم کر رہے ہیں لیکن حقائق حقائق ہیں اور ان سے آنکھیں بند کر کے ہم حالات کی اصلاح کی طرف کوئی پیش رفت نہیں کرسکتے۔
جناب شوکت عزیز صاحب اب ملک کے وزیراعظم ہیں اور انھوں نے دستور کی حفاظت کا حلف لیا ہے۔ پارلیمنٹ کے سارے ارکان اس حلف کے پابند ہیں۔ شوکت عزیز صاحب نے ملک میں قومی یک جہتی اور اتفاق راے پیدا کرنے اور اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی بات بھی کی ہے۔ اب ان کا اور ان کی پارٹی کا امتحان ہے۔ وہ اس ملک کو دستور کے مطابق اور پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کر کے چلانا چاہتے ہیں یا ملک کے پارلیمانی نظام کو تہ وبالا کرنے‘ اس پر ’’خاکی صدارتی نظام‘‘ مسلط کرنے کے عمل میں آلہ کار بنتے ہیں ۔ ہمیں کوئی شبہہ نہیں کہ عوام کی مرضی ان شاء اللہ بالآخر بالاتر قوت ثابت ہوگی اور انا ولاغیری جسے آج کی سیاسی اصطلاح میں "I Syndrom" بھی کہا جا سکتا ہے‘ کی تاریک رات جلد ختم ہوگی۔ اسے آخرکار ختم ہونا ہے!
البتہ سوال یہ ہے کہ اس تاریخی جدوجہد میں کون کس کیمپ میں ہے اور کون جمہوریت‘ دستوریت اور قانون کی بالادستی کے تاروپود بکھیرنے اور ملک کی سلامتی کو دائو پر لگانے میں معاون رہا ہے‘ اور کون دستور کے دفاع‘ قانون کی حکمرانی کے قیام‘ جمہوریت کے فروغ اور اقتدار کو عوام کی مرضی کے تابع کرنے کی جدوجہد میں مثبت کردار ادا کر رہا ہے؟ تاریخ کا قاضی بڑا بے لاگ فیصلہ دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر ہماری جواب دہی اپنے رب کے سامنے ہے جس کی گرفت سے کوئی مفرنہیں۔
آیئے وہ راستہ اختیار کریں جو ملک و قوم کو تباہی سے بچانے اور خیروفلاح اور جمہوریت اور انصاف کے فروغ کا ذریعہ بنے‘ اور آخرکار ہمیں اپنے رب کے سامنے سرخرو ہونے کی سعادت بخشے۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِبولہبی
شرارِ بو لہبی اور چراغِ مصطفویؐ کی کش مکش دراصل ایمان اور جا ہلیت کی کش مکش ہے اور یہ پہلے دن سے ہے۔ اس کا نمونہ آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیجنے سے پہلے دکھا دیا گیا۔ افراد بدل جا تے ہیں‘ موضوعات تبدیل ہو جاتے ہیں ‘ایشوز بھی نت نئے سامنے آجاتے ہیں۔ زماں کی تبدیلی کے ساتھ مکان کی تبدیلی کو بھی دوام ہے۔ وہ سرزمین جہاں یہ برپا ہو اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ لیکن یہ کش مکش تاریخ کا حصہ ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ کش مکش اسلام کی دعوت کا لازمی تقاضا ہے۔ اس کش مکش کا ایک حصہ وہ ہے جو ہمارے اپنے سینے میں نفسِ امارہ اور نفسِ مطمئنہ کے درمیان پیکار سے عبارت ہے۔ پھر یہی کش مکش ہمارے ارد گرد‘ ہمارے گھروں میں ‘ ہمارے محلوں میں ‘ہمارے ملک میں اور پوری عالمی سطح پر ہو رہی ہے ۔ یہ نئی چیز نہیں‘ بالکل فطری ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ اس کش مکش کو سمجھا جائے‘اس کو جانا جائے اور اس کا مقابلہ کیا جائے۔ اس پہلو سے مغرب کی تہذیبی یلغار کے موجودہ دور میں‘ان کے اہداف‘ ان کے طور طریقے اور وہ ہماری جن چیزوں کو نشانہ بنائے ہوئے ہے‘ اس کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔
تہذیبی یلغار کی اصطلاح میں لفظ ’یلغار‘ کا استعمال بہت معنی خیز اور مغرب اور اسلامی دنیا کے موجودہ معرکے کی حقیقی کیفیت کاصحیح ترجمان ہے۔ آج جس کیفیت سے ہم گزر رہے ہیں وہ فی الحقیقت یک طرفہ حملے کی صورت ہے۔ فوجی‘ سیاسی ‘ سماجی‘ معاشی اعتبار سے قوی تر اور بالادست تہذیبی اور سیاسی قوت ہم پر حملہ آور ہے۔ یہ یک طرفہ جنگ ہے اور اسے یلغار ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ حقائق کی ٹھیک ٹھیک عکاسی ہے۔ جہاں تک تہذیبوں کے درمیان کش مکش کا اورخیالات کے ٹکراؤ کا سوال ہے‘ یہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ افکار کے میدان میں مناظرہ اور مسابقت ایک ابدی حقیقت ہے۔ اقدار کا اختلاف اور موازنہ بھی ازل سے ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ تہذیبوں کے ایک دو سرے کے اوپر اثر انداز ہو نے کایہی وہ طریقہ ہے جس سے افکار جلا پاتے ہیں‘ نئے تصورات ابھرتے ہیں اور ترقی کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ تبلیغ‘ ترقی ‘ دعوت‘شہادتِ حق یہ سب اس کے مختلف پہلو ہیں۔ تہذیبوں کے درمیان مقابلہ اورمسابقت کوئی پریشان کن چیز نہیں ہے۔ میں اس کوخوش آمدیدکہتا ہوں۔ دعوت نام ہی اس بات کا ہے کہ ہم ہر گروہ ‘ہر فرد ‘ہر تہذیب ‘ ہرملک ‘ہر قوم تک پہنچیں ۔ان کی بات کو سنیں اور اپنی بات سنائیں۔دلیل سے بات کریں ۔ ا پنی دعوت کی صداقت کو ثابت کریں اور انھیں اپنے دائرے میں شامل کر نے کی کوشش کریں : اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُط (النحل۱۶:۱۲۵) ’’اے نبیؐ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ‘ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو‘‘۔
تہذیبوں کے درمیان مسابقت اور ایک دوسرے پر اثر انداز ہو نے کی کو شش ایک فطری چیز ہے۔ یہ فطری چیز تشویش کا باعث اس وقت بنتی ہے جب جن دو تہذیبوں یا جن دو قوموں یا جن دو افراد کے درمیان یہ معاملہ ہو رہا ہے وہ دلیل کی بنیاد پر نہ ہو‘حقائق کی بنیادپر نہ ہو ‘وہ مواقع کی یکسانی کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ ایک گروہ کو بالادستی حاصل ہوکہ وہ دوسرے کی کمزوری کا فا ئدہ اٹھا کر اس پر قوت کے ذریعے سے یا اثر انگیزی کے وہ ذرائع اختیار کرکے جو عقلی اور اخلاقی اعتبار سے درست نہیں ہیں‘ اسے مغلوب کر نے کی کوشش کرے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے یہ کہہ کر ایسے عمل کا در وازہ بند کر دیا کہ لا اکراہ فی الدین۔ اقدار میںمقابلہ ہو نا چاہیے ‘ انسانوں میں مذاکرہ ہونا چاہیے ۔ تبادلہ خیال اورڈائیلاگ انسانی زندگی ا ور تہذیب کے فروغ کا ذریعہ ہیں‘ ان کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے ۔ لیکن نہ آپ ظلم و جبراورطاقت سے اپنے نظریات اور تصورات دوسروں پرمسلط کریں اور نہ کسی کو اجازت دیں کہ وہ آپ کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر محض اپنی قوت اور طا قت کا سہارا لے کر آپ کے عقائد‘ آپ کی اقدار ‘آپ کے اخلاق ‘آپ کے نظامِ زندگی ‘ آپ کے رہن سہن اور آپ کی تہذیب و تمدن پر چھاجائے ۔
یہ ہے کش مکش کی اصل نو عیت اورا سی بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ تہذیبی کش مکش اور مقابلے کے لیے مغرب کی تہذیبی ’یلغار‘کا جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ بہت صحیح ہے۔ اس کے ذریعے وہ کیفیت ہمارے سامنے آجاتی ہے جس سے ہم سب دوچار ہیں۔ آیئے دیکھیں وہ کیفیت کیا ہے؟
مغربی تہذیب سے ہمارا معاملہ اب تقریباََ ۵۰۰‘۶۰۰ سال پرانا ہے۔ کو ئی نئی چیز نہیں۔ مغربی تہذیب کا عروج چو دہویں ‘پندرہویں ‘ سولہویں صدی میں یو رپ میں ہوا اور اسی زمانے میں اسلامی دنیا سے بھی شروع میں تعارف ‘پھر تعاون ‘پھر تصادم ‘ پھر غلبہ ‘پھر اقتدار کے استحکام کے دور آئے ‘اس کے بعد آزادی کی تحریکیں چلیں‘ جوابی رد عمل ہوا‘مغربی تہذیب کی بالا دستی اور اثر ورسوخ سیاسی حد تک ختم ہوا اورآزاد مسلمان مملکتیں وجود میں آئیں ۔ ہم ان سب ادوار سے گزرے ہیں۔ میں اس وقت پو ری تاریخ میں نہیں جا رہا ہوں ‘ صرف اشارہ کر رہا ہوں۔
اس وقت ہم جس دو رپر غور کر رہے ہیں اس کا آغاز افغانستان کے جہاد سے ہو تا ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب بر پا ہوا ‘ افغانستان پر روس نے فوج کشی کی‘ اس کا مقابلہ کیا گیا اور پھر نو سال تک وہ تا ریخی جدو جہد بر پا ہوئی ‘جس کے نتیجے کے طور پر روس کی پسپائی ہوئی ۔اس سے پہلے کے دور کو ہم سردجنگ کا دور کہتے ہیں جس میں دو سوپرپاورز تھیں:امریکا اور روس۔ یہ دونوں مغربی تہذیب ہی کے مختلف مظہر تھے۔ لیکن ان کا اپنا اپنا تشخص‘ بنیاد اور عزائم تھے۔ اور یہ آپس میں بھی متصادم تھے۔
میں ان لوگوں میں سے ہوں جو شرح صدر کے ساتھ یہ بات کہتے ہیں کہ افغانستان میں جہاد اس علاقے ہی میں نہیں ‘اس دور کی تاریخ کو بدلنے میں موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُس وقت ہمارے افغان بھائی بہنوں نے اور پو ری اسلامی دنیا نے جوجدو جہد کی اور عالمی سیاست کے پسِ منظر میں دنیا کی مختلف سیاسی قوتوں نے جس میں ہمارے مخالف اور دشمن اور مغربی تہذیب کے ایک حصے کے علمبر دار امریکا اور یورپ نے بھی شر کت کی وہ صحیح ‘ بروقت اور تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑنے والی جدوجہد تھی۔ البتہ اس جہاد کے آخری دور میں ہماری اور امریکا کی راہیں مختلف ہوگئیں۔ جب امریکا نے یہ محسوس کیا کہ اب روس کے لیے پسپائی کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تو اس نے خالص اپنے تہذیبی اور سیاسی مقاصد کی خاطر اپنے کردار کوتبدیل کر ڈالا۔ اور وہ سیناریو وجود میں آیا جس کا ہدف یہ تھا کہ افغان جہاد کی کامیابی کے ثمرات سے افغان اور مسلمان امت کومحروم کیا جائے۔ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ افغانستان کی جہا دی قوتیں جہاں روس کے خلاف جہاد میں کا میاب اور سر خرو تھیں وہیں وہ اس تبدیلی کو نہ بر وقت محسوس کر سکیں اور نہ اس میں اپنا صحیح کردار ادا کرسکیں۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ تاریخ جس نئے فراز کی طرف بڑھنے والی تھی‘ نہ بڑھ سکی اور اُمت مسلمہ ایک نئی اندرونی کش مکش اور بیرونی جنگ کی گرفت میں آگئی۔
جس وقت روس نے یہاں سے پسپائی اختیار کی ہے اور ابھی کوئی آثار نمودار نہیں ہوئے تھے کہ اسلامی قوتیں افغانستان میں مستحکم ہوکر وسط ایشیا اور باقی اسلامی دنیا کو ایک نئی صبح کی طرف لے جانے والے سفر کا آغاز کر رہی ہیں‘لیکن نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے یہ شور مچانا شروع کر دیا کہ ’’ہم اب یہ صاف دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کے نقشے پر سے سرخ خطرہ ہٹ گیاہے لیکن سبزخطرہ نمودار ہورہا ہے‘‘۔ابھی توکوئی تبدیلی نمودار نہیں ہوئی تھی‘ ابھی توجہادی گروہ باہم دست و گریبان تھے لیکن انھوں نے یہ بات کہنا شروع کر دی ۔سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا دنیا کی واحد سپرپاور کی حیثیت سے ابھر آیا اور پھر اس کے بعد سے اب تک کا دور یہ وہ دور ہے جس میں نیا نقشۂ جنگ مرتب کیا گیا ہے۔ یہ نقشۂ جنگ عسکری بھی ہے‘ سیاسی بھی ہے‘ معاشی بھی ہے ‘ فکری بھی ہے اور ثقافتی بھی ہے ۔ اس کے یہ سارے پہلو ہیں۔ کبھی کسی کا پلہ بھاری ہوتا ہے ‘ کبھی کسی کو آگے بڑھایا جا تا ہے ‘کبھی کسی کو پیچھے ہٹایا جاتا ہے۔ لیکن یہ ہمہ جہتی یلغار اورحملہ جاری ہے اور ۱۱ستمبر کے بعد اپنی کیفیت اور کمیت ہر اعتبار سے گمبھیر سے گمبھیر ہو رہا ہے۔
تر جمان القرآن میں ‘میں اور میرے ساتھی اس یلغار کے مختلف پہلوؤں کی طرف مسلسل متوجہ کر رہے ہیں۔ اس پو رے زمانے میں ‘خواہ اس کا تعلق امریکا کے مفکرین سے ہو‘ جن میں فرانسس فوکو یو ما ‘سیموئیل ہنٹنگٹن ‘ڈینئل پائیس اور دسیوں دوسرے سرگرم جنگ ہیں‘ اور خواہ وہاں کے تھنک ٹینکس ہوں یا وہ این جی اوز ہوں‘ جو پو ری دنیا میں‘ خصوصاً مسلم دنیا میں‘ اس جنگ کے طبل بجا رہے ہیں‘ ان سب کا ایک ہی مرکزی خیال (theme) ہے۔اور وہ یہ ہے کہ اب اصل مقابلہ مغربی تہذیب اور اسلام ‘اسلامی تہذیب‘ مسلم دنیا اور خاص طور پر اسلامی تحریکوں کے درمیان ہونا ہے۔ آپ ان کی فکر کااندازہ اس بات سے کیجیے کہ ۱۹۸۹ ء میں جب روس نے افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلائیں‘ تو اسی سال کے اکانومسٹ نے ایک خصوصی مضمون شائع کیا اور اس میں پو ری تاریخ انسانی کے ۲۰ اہم لمحات بیان کیے۔ اور ان میں آخری لمحہ روس کی پسپائی کے بعد بننے والا نیا سیاسی اور تہذیبی نقشہ تھا۔ اس میں ایک جملہ بڑاا ہم تھا ۔اس نے کہا کہ رو س کی فو جیں تو واپس چلی گئیں ‘ دیوار بر لن بھی ٹوٹ گئی‘اشتراکیت بھی پسپاہو گئی لیکن کیا ہمارے پاس دنیا کو دینے کے لیے کوئی نیا حیات بخش نظریہ ہے جو اس خلا کو پر کر سکے۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ اس خلا کو پر نہیں کر سکتا۔ اور پھر اپنے مخصوص انداز میں یہ بات کہی کہ البتہ مسلمانوں کو یہ زعم ہے کہ ان کے پاس ایک نظریہ ہے جو اس خلا کو پر کر سکتا ہے۔ گو یا کہ یہ تنبیہ(warning) تھی کہ اب کش مکش کا جو نیاآہنگ ہے وہ کیا ہو سکتا ہے۔
اس کے دس سال کے بعد ایک اور دلچسپ چیز اکانومسٹ میں آئی اور وہ یہ تھی کہ انہوں نے یہ بتایا کہ آج سے ایک ہزار سال بعدروس کا ایک مؤرخ گزرے ہوئے ہزار سال کا جا ئزہ لیتا ہے۔دو ہزا ریے ختم ہو گئے ہیں۔ تیسراہزا ریہ شروع ہو رہا ہے۔ وہ جا ئزہ لیتا ہے اور وہ جا ئزہ لیتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ سرد جنگ کے ختم ہو نے کے بعد اور روس کی اوراشتراکیت کی پسپائی کے بعدامریکا ایک عالمی کر دارلے کرکے اٹھا لیکن اس کے بعد پھر چین اور مسلم دنیا یہ دو نئی قوتیں ابھریں۔ اور اس طرح ایک نئی خلافت قائم ہوئی ۔اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ ایسا ہو گا۔مقصد یہ تھا کہ ایسا نہ ہو نے پائے‘ہمیں اس کے لیے پیش بندی کر نی چاہیے۔یہی وہ خیالات ہیں جنھوں نے مغرب کی ذہنی اور فکری فضابنائی ہے اور آج ان کے تھنک ٹینکس اور سیاسی قیادت سب اس پسِ منظر میں کام کرتے ہیں اور حکمتِ عملی بناتے ہیں۔
ہمیں ۱۱ستمبر کا واقعہ اسی پسِ منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ واقعہ کیسے ہوا ؟کس نے کیا؟ کون کون معاون قوتیں تھیں ؟سارے واویلے کے باوجود ان سوالات کا جواب دینے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی ہے اور نہ ہورہی ہے ۔ اس کے برعکس‘ ۱۹۸۹ء سے۲۰۰۱ء تک نئے تہذیبی تصادم کی جو فضا بنائی گئی تھی‘اس واقعے کو بنیاد بنا کراس نقشے میں رنگ بھرا جا رہا ہے اور اسے ایک واضح اور متعین رخ دیا جا رہا ہے۔امریکی صدر نے نائن الیون کمیشن بڑے حیص بیص کے بعد اور بڑے دباؤ کے بعد قائم کیا تھا اور ۱۸مہینے کی کوششوں کے بعد اس کی رپورٹ گذشتہ دنوں آئی ہے۔۶۰۰ صفحات کی رپورٹ پڑھ ڈالیے ‘ اس میں ایک جملہ بھی ان سوالات کے بارے میں نہیں ہے۔ ان کی ساری تو جہ اس پر ہے کہ جسے وہ ’’اسلامک ٹیررزم‘‘ کہتے ہیں‘ اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ لطف کی بات یہ ہے کہ اس اہم ترین دستاویز میں ’دہشت گردی‘ نہیں ’اسلامی دہشت گردی‘ کومقابلے کی قوت قرار دے کر بتایاگیا ہے ہماری یعنی امریکا کی اور مغربی اقوام کی ساری قوت اور ساری فکر اورسا ری کوشش آیندہ اس سے مقابلے کے لیے کیا ہونی چا ہیے۔
پچھلے پانچ چھ مہینوں میں تین چار بڑی اہم رپورٹیں آئی ہیں۔ان میں رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ خاص طور پر اہم ہے جس کا میں نے جون ۲۰۰۴ء کے ترجمان القرآن کے اشارات میںذکر کیا ہے۔اس سے پہلے ایک اور رپورٹ آئی ہے جس کے بارے میں برادرم سلیم منصور خالد نے مارچ ۲۰۰۴ء کے ترجمان القرآن میں لکھا ہے ‘ایشیا میں اس کا مکمل ترجمہ قسط وار شائع ہو رہا ہے۔اب یہ نائن الیون کمیشن کی رپورٹ آئی ہے ۔یہ وہ تمام چیزیں ہیں جن کو بغور پڑھنے اور تجزیہ کر نے کی ضرورت ہے۔پھر اس کو اس فکری کام کے پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے جو اس پورے زمانے میں ہوا ہے۔ جہاں تک نائن الیون کمیشن کی رپورٹ کا تعلق ہے میں اس کے صرف دو تین نکات بتا دیتا ہوں۔ ان کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ آج امریکا کے لیے سب سے بڑاخطرہ دہشت گر دی ہے۔ دنیا میں جنگوں کا نقشہ اب بدل چکا ہے۔ جنگوںکا جو کر دار تاریخ میں رہا ہے اس اندازکی فوج کشی درکار تو ہو گی لیکن قوموں کے درمیان جنگ کی شکل میں نہیں بلکہ دہشت گر دی کا تعاقب کیا جائے گا۔ اور پھر وہ یہ مرکزی جملہ لکھتے ہیں کہ یہ نہ سمجھو کہ یہ صر ف دہشت گر دی ہے‘ہمارا اصل ہدف ’اسلامی دہشت گردی‘ ہے ۔اس طرح دہشت گردی کی باقی تمام شکلیں ‘اس کے مظاہر ‘حتیٰ کی خودا مریکہ کے اپنے نظام کو چیلنج کر نے کے لیے خود امریکی جودہشت گردی کے راستے اختیار کر رہے ہیں ان سب کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ واحدہدف ’اسلامک ٹیررزم‘ ہے۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اسلامک ٹیررزم تو عنوان ہے‘اصل چیز وہ نظریاتی بنیادی ڈھانچا (Infrastructure ) ہے‘جس نے ان کے خیال میں اس دہشت گر دی کو اور امریکا کے خلاف نفرت کوجنم دیا ہے اور امریکا کو چیلنج کرنے کا جذ بہ اور قوت دی ہے۔ یہاں وہ نام لے کر اسلامی تحریکات خصوصیت سے اخوان المسلمون اورسید قطب کا ذکر کرتے ہیں‘ستم ہے کہ امام ابن تیمیہؒ کو بھی اس کا منبع قرار دیتے ہیں۔ جماعت کا نام تو نہیں لیا لیکن حقیقت ہے کہ جن شخصیات اور اسلامی تحریک کا نام لیا ہے وہ امریکی استعمار کے تازہ ہدف کی نشاندہی کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ بہت اہم ہے کہ اس رپورٹ میں جس چیز کو ہدف بنایا گیا ہے وہ محض القاعدہ نہیں بلکہ وہ بنیادی ڈھانچا ہے جو ان کے زعم میں امریکا مخالف فکر اور مزاحمتی تحریکوں کو پروان چڑھا رہا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہی وہ منبع ہے جس سے یہ نیا ذہن‘ نئے جوان ‘ان کی مختلف کوششیں سامنے آئی ہیں اور انھی کوششوں میں سے ایک کوشش وہ ہے جو مسلح ہے اور جو دہشت گر دی کر تی ہے۔ یہ سارے کا سارا بنیادی ڈھانچا اب امریکا کا اصل ہدف ہے جسے وہ اپنے اقتدار کے لیے اصل خطرہ قرار دے رہے ہیں اور یہ ذہن پیدا کر رہے ہیں کہ گویا جب تک یہ باقی ہے‘ امریکا محفوظ نہیں ہے!
اس خطرے کے مقابلے کے لیے کیاحکمتِ عملی اختیار کی جائے؟ اس سلسلے میں ایک بڑی اہم کتاب آئی ہے :Imperial Hubris: Why the West is Loosing War on Terror جس کے لکھنے والے کا نام نہیں دیا گیا اسےanonymous یعنی گمنام کے نام سے لایا گیا ہے۔ یہ چند ہفتے پہلے آئی ہے۔دل چسپ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ جسے گمنام بنایا گیا ہے وہ سی آئی اے کا حاضر سروس آفیسرہے اور اسے باقاعدہ سی آئی اے نے اجازت دی ہے کہ اپنا نام بتائے بغیر یہ کتاب لکھے اور شائع کرے۔ اس اہم کتاب کے ساتھ ہی برطانیہ سے ایک اور کتاب Collosus: The Price of American Empireشائع ہوئی ہے‘ اس کا مصنف وہاں کا مشہور مورخ Niall Fergusonہے۔ دونوں کتابیں ایک ہی طرز کی ہیں۔ گمنام کی کتاب میں جو نقشۂ جنگ بنایا گیا ہے وہ اس اعتراف پر مبنی ہے کہ امریکا کے خلاف جو نفرت عالم اسلام میں ہے وہ امریکا کی پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔یہ بات کھل کر پورے دھڑلے سے کہی گئی ہے اور اس میں یہ متعین کیا گیا ہے کہ اس نفرت کی وجہ وہ پالیسی ہے جو امریکا نے اسرائیل کی مکمل تائید میں اختیار کی ہے اور اسرائیل کی جو مدد وہ کر رہا ہے‘ ثانیاً مسلم ممالک کے حکمران جوظالم وجابر (tyrant) ہیں‘ وہ ہمارے ساتھ ہیں اورہم ان کی تائید کر رہے ہیں لیکن مسلمان عوام ان سے ناخوش ہیں ۔ تیسرے‘ چین‘ روس اور انڈیا جو مسلمانوں کی آزادی کی تحریکوں کو کچل رہے ہیں‘ لیکن ہماری تائید ان تینوں ممالک کو حاصل ہے۔ اسی طرح افغانستان اور عراق پر قبضہ اور تیل کے ذخائر کو امریکی تسلط میں لانے پر مسلمان اور عرب برافروختہ ہیں۔
اس تمام اعتراف کے بعد وہ کہتاہے کہ ہمارے سامنے چار سیناریو ہیں۔پہلا راستہ جس پر صدر بش کار بند ہیں یہ ہے کہ ہم محض قوت کے ذریعے سے ‘ فوج کشی کے ذریعے سے ‘ ان ’’دہشت گردوں‘‘کو بھی اور ان کو پناہ دینے والوں کو بھی ختم کر دیں۔ یہ کام محض انھیں ختم کرنے سے پورا نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے ہمیں قوت کا ایسا استعمال کر نا پڑے گا جس کے نتیجے کے طور پر ہزاروں لاکھوں انسانوں کی جا نیں جا ئیں گی‘ بستیاں تباہ ہوں گی‘نقل مکانی ہوگی اور بالآخر ان ملکوں پر فوجی قبضہ ہوگا۔ دو سرا را ستہ یہ ہے کہ ہم اپنی پالیسیاں تبدیل کریں ۔ ان سے بات چیت کریں اور کوئی را ستہ نکالیں ۔اس کا کہنا یہ ہے کہ پہلا ہم کرسکتے ہیں لیکن اس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ اور یہ بھی ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ آیا اس سے فی الحقیقت تمام خطرات ختم ہوجائیں گے ۔البتہ اس سے جو کچھ حاصل ہو گا وہ یہ ہے کہ امریکا کو دنیا میں مسلم دنیا میں ایک نئی قابض قوت بننا پڑے گا۔ گو یا کہ جس طرح سترھویں‘ اٹھارھویں‘ انیسویں اوربیسویں صدی کے وسط تک سامراج قابض تھا وہ را ستہ ہمیں اختیار کر نا پڑے گا۔کیا ہم یہ کر سکتے ہیں ؟ اور کیا یہ قبضہ بہت عرصے چل سکتا ہے؟ اور کیا امریکی قوم اس کے لیے مسلسل قربانی دینے کو تیار ہے؟ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ موصوف یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ دوسرا راستہ بھی ہم اختیار نہیں کرسکتے کہ ہم اپنی پا لیسیاں بد ل لیں۔ یہ بھی ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ پھر کیاکریں ؟
وہ کہتا ہے کہ پھر تیسرا را ستہ یہ ہے کہ ہم مسلم دنیا میں ’قوم سازی‘ (nation building) کریں ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ وہاں کے نظامِ تعلیم کو‘میڈیا کو‘نو جوانوں کو ‘حکمرانوں کو ‘ان سب کو اپنے زیرِ اثرلائیں ۔ یہ کام جمہو ریت ‘ آزاد روی(لبرلزم) اور Globalizationیعنی عالم گیریت کے نام پر کیا جائے۔ اس کا دائرہ کار بڑا وسیع اور متنوع ہے۔ اس میں معیشت ہے ‘اس میں کلچر ہے‘ اس میں افکار ہیں ‘اس میں پارلیمنٹیرینز کی تر بیت ہے ‘اس میں طلبا کے تبادلے ہیں ‘اس میں میڈیا کو ہر قیمت پر استعمال کر نا ہے۔ یہ ’قوم سازی‘ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک چوتھی چیز اور چا ہیے‘ اور وہ یہ ہے کہ امریکا ایک نئی قسم کی سلطنت (imperial power) بنے۔جس کے لیے اس نے Liberal Empire کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ قابض تو نہ ہوں ‘لیکن ذہنوں پرقبضہ کریں ‘معیشت کو گرفت میں لائیں‘بین الاقوامی تجارتی کمپنیوں اور این جی اوز کے ذریعے سے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے آئیںاور اپنے اثر ورسوخ کو اتنا بڑھا لیں کہ ان ممالک کی قیادتیں اور ان کے کارفرما عناصر آپ ہی کے مطلب کی کہیں۔ ساتھ ہی یہ پیغام بھی دے دیا جائے کہ اگر ہمارے نقشے کے مطابق کام نہیں کرو گے اور ’’لبرل میانہ روئی‘‘ اختیار نہیں کرو گے تو قوت استعمال کی جا ئے گی،’سزا دی جا ئے گی‘۔ لفظ استعمال کیا ہے punishmentکا اور اس punishment میںدو چیزیں ہیں ۔ پیش بندی کے طور پر حملہ (preemptive strike) جس کے معنی یہ ہیں کہ جہاں خطرہ محسوس ہو وہا ں فوج کشی کر ڈالو۔ کوئی ثبوت ہو نہ ہو‘جیسا عراق اور افغانستان میں کیا ہے۔اورregime changeیعنی حکمران مفید مطلب نہ ہوںتو ان کو بدل کرمفید مطلب لوگوں کو اوپرلاؤ ۔ یہ وہ نیا ماڈل ‘نیا نمونہ اور نیا نقشہ ہے جس کے مطابق عمل کر کے وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے اقتدار کو قائم رکھیں گے۔
ہم جس مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں وہ یہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے ؟اس کا مقا بلہ کر نے کا ایک طریقہ تو یہ ہے۔ اور یہ میں اس مفروضے پر کہہ رہا ہوں کہ ۱۱ستمبر کا واقعہ مسلمانوں نے کیا تھااور جسے وہ القاعدہ کہتے ہیںوہ اس کے ذمہ دار تھے ۔گو اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس وا قعے کے بعد بن لادن نے‘ القاعدہ نے‘ officially انکار کیا تھا کہ ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب امریکا نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ بن لادن کو گر فتار کر کے دے دوتو طالبان نے یہ کہا کہ ہمارے پاس ثبوت لاؤ۔اور اگر تم ہمیں ثبوت نہیں دینا چا ہتے ہو تو کوئی بین الاقوامی عدالتی کمیشن قائم کر دو جس مین تین مسلمان ممالک کے جج ہوں‘ان کے سا منے شہادتیں لاؤ ۔اگر وہ طے کرتے ہیں کہ یہ حملہ بن لادن نے کیا ہے تو ہم اسے آپ کو دے دیں گے۔
جو تحقیق آزاد ذرائع سے ہوئی ہے وہ حیران کن ہے ۔ خود امریکا کے تجزیہ نگاروں نے یہ بات کہی ہے کہ اگر ان چار حملوں میں صرف یہ ۱۹ ہائی جیکر شریک تھے تو یہ کام ہو نہیں سکتا‘ جب تک کہ ان کے ۵۰‘۶۰ معا ونین امریکا میں زمین پر مو جود نہ ہوں اور خصوصیت سے ان ہوائی اڈوں پر جہاں سے یہ جہاز گئے ہیں ۔اس لیے کہ جس precision کے ساتھ ‘جس چابک دستی سے‘ ٹھیک ٹھیک نشانے پر اور بڑے مؤثر طریقے سے یہ اقدام ہوا ہے وہ کمپیوٹرائزکیے بغیر ہو نہیں سکتا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ۷۴۷جہاز کو ایسے لوگ جن کو Executive Plan چلانے کی تربیت دی گئی ہووہ فضا میں اس جہاز پر قبضہ کر سکیں‘پا ئلٹ کو ہٹا دیں ‘ اسٹیرنگ پر آجائیں۔ اور پھر نیویارک جہاں دو ہزارفلک بوس عمارتیں تھیں اس میں سے متعین طور پر ایک خاص ٹاورکو اور وہ بھی ایک خاص مقام پر جا کر ہٹ کریں ۔ پھراس کے اٹھارہ منٹ کے بعد دوسرا ٹاور۔ اس کے چالیس منٹ کے بعدپینٹاگون ۔ یہ سب ممکن نہیں ۔ پینٹاگون کی عمارت تو صرف تین منزلہ تھی۔ اس کے بارے میں جو کتابیں آئی ہیں ان سے معلوم ہو تا ہے کہ خودپہلا اعلان جو وہاں ہواوہ یہ کہا گیا ہے کہ یہ ایک میزائل حملہ تھا۔ عمارت کو اگر آپ دیکھیں تو اس میں ایک بہت بڑاسوراخ ہے اور جہاز کا کوئی ملبہ وہاں نہیں پایاگیا۔ اور جس طرح ٹاور پر حملہ کرنے والے جہازوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ جہاز ساراکا سارا تحلیل ہو گیا ‘پینٹاگون میں یہ ممکن نہیں تھا۔ لیکن ۴۸گھنٹے کے اندرپینٹاگون نے چھ بار اپنے سر کاری بیان کو بدلا ہے۔ اور بالآخر اسے جہاز قرار دیا۔
اس بارے میںاتنی چیزیں آئی ہیں ‘میں ان سب کو نظر انداز کر تا ہوں‘ میں کہتا ہوں مان لیجیے کہ انھوں نے یہ اقدام کیا ہے اور اگر فی الحقیقت انھوں نے ہی کیا تھا‘تو میں آپ سے صاف کہنا چاہتا ہوں کہ ان کی جرأت اورسوچ کا فیصلہ تو اللہ کرے گا‘ لیکن بحیثیت مجموعی مسلمانوں کو اور اسلام کو اس سے نقصان پہنچا ہے۔ اور اس کے نتیجے کے طور پرتاریخ تہذیبی مکالمے کے جس رخ پر جا سکتی تھی وہ متاثر ہو ئی ہے۔ اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مقابلہ کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے تو نتائج کے اعتبار سے‘ اسلام کے مزاج کے اعتبار سے ‘ اسلامی احیا کے امکانات کے اعتبار سے ‘ اسلامی دعوت کے اعتبار سے ‘ اسلامی تہذیب وثقافت کے اعتبار سے یہ را ستہ مقصد حاصل کر نے کا راستہ نہیں ہے۔ میں فلسطین اور کشمیر کی جہادی تحریک کی بات نہیں کر رہا‘ میں ٹریڈ ٹاور اور اس قسم کے واقعات پر بات کر رہا ہوںاور یہی وجہ ہے کہ تمام اسلامی تحریکات کے قائدین نے اس کی مذمت کی اور۱۲ستمبر۲۰۰۱کو منصورہ سے ایک بیان جاری ہوا جس میں یہ کہا کہ ہم اس دہشت گر دی کے اس واقعے کی مذمت کر تے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ اعلان بھی کر تے ہیں کہ دہشت گردی افراد کی طرف سے ہو ‘گروہوں کی طرف سے ہو یا حکومتوں کی طرف سے ہو‘ مساوی طور پر قابلِ مذمت ہیں۔ اصل مسئلہ دہشت گر دی نہیں‘ بلکہ وہ اسباب ہیں ‘ وہ نا انصافیاں ہیں ‘وہ ظلم ہیں اوروہ مسائل ہیںجو لوگوں کو دھکیل دھکیل کر غلط راستے کی طرف لے جا رہے ہیں۔ اور جب تک ان معاملات کو حل نہیں کیا جائے گا دنیا میں امن اور سلامتی کا وجود عنقا رہے گا۔
تحریکِ اسلامی کا یہ ذہن ہے اوریہی ذہن حق پر مبنی ہے۔ جہاں مظلوم مجبور ہو کر تشدد کا راستہ اختیار کر تا ہے ‘دنیا بھر کی تحریکاتِ اسلامی اس کی کیفیت ‘اس کے احساسات ‘ اس کے جذبات کو محسوس کر تی ہیں۔ لیکن تبدیلی اور اسلامی انقلاب اور اسلامی احیا کا راستہ تشدد اور دہشت گردی کا راستہ نہیں ہے ۔ را ستہ وہی ہے جو اسلامی تحریکات نے سنت نبوی ؐاور قرآنی منہج کو سامنے رکھ کر مرتب کیا ہے۔ جہاد کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ جہاد تو انصاف کے قیام‘ اللہ کے کلمہ کی بلندی اور اخلاقی اقدار کے احیا کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔
اس پس منظر میں ‘میں اپنی بات کو سمیٹتے ہو ئے یہ کہوں گا کہ سب سے پہلی چیز دشمن کو جانناہے۔دشمن کے ہتھیاروں کو جاننا ہے‘دشمن کے اسالیب اور طریقوں سے واقفیت حاصل کرنا ہے‘ اور ان راستوں اور طریقوں کی تفہیم ہے جن سے یہ یلغار ہو رہی ہے۔ یہ ہمہ جہتی یلغار ہے‘ یہ فکری بھی ہے ‘یہ تعلیمی بھی ہے ‘ یہ ٹکنالوجیکل بھی ہے‘یہ معا شی بھی ہے ‘ یہ سیا سی بھی ہے ‘یہ فوجی بھی ہے۔ اس میں میڈیا بڑا اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ہمارے گھروں کونشانہ بنا یا جا رہا ہے۔ ہماری ماؤں‘بہنوں اوربیٹیوں اور بچوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔
یہ بات بھی غور کر نے کی ہے کہ کھلے دشمن کا مقابلہ آسان ہو تا ہے لیکن جب دشمن آپ کے اندر سے ایسے عناصر کو استعمال کرے جن کانام اورچہرے آپ جیسے ہوںتو یہ خطرہ اور یہ لڑائی زیادہ گمبھیر اور زیا دہ مشکل ہو جا تی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے کفار کے بارے میں جتنی باتیں کہی ہیں ان سے زیادہ منافقین کے بارے میں کہی ہیں۔ہماری یہ جنگ تصادم و یلغار صرف با ہر سے نہیں‘ یہ اندر ونی سبوتاژ بھی ہے۔ آپ دیکھیے کہ مدارس کو نشا نہ بنایا جارہا ہے۔ نظامِ تعلیم کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وہ مسلم دنیا کو چار گروہوں میں پیش کر رہے ہیں۔ ایک کو وہ کہتے ہیں بنیاد پرست۔ جو ان کی نگاہ میںدہشت گرد ہیں۔ دوسرے کو وہ کہتے ہیں قدامت پر ست۔جو ہیں توروایت اور اسلامی اقدار کے حامی لیکن وہ کوئی بڑا چیلنج نہیں ہیں۔بس وہ اپنی روایات کے علم بردار ہیں۔ تیسرے ہیں ماڈرنسٹ‘لبرل اورچوتھے ہیں کھلے کھلے سیکولرسٹ ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ان کو آپس میں لڑانا چا ہیے۔سا ری قوت ہماری اس پرصرف ہو نی چا ہیے کہ اسلام کو ایک روشن خیال میانہ روی کے مذہب کے طور پرپیش کیا جائے ۔ہم ان کی تا ئید کریں اوران کی تقویت کاذریعہ بنیں ۔ ان کے ذریعے ہم مسلمان معاشرے کو اندر سے تباہ کریں۔
تو یہ حملہ با ہر سے بھی ہے اور اندر سے بھی ہے۔ اور مسلمانوں کی سیاسی اور معا شی قوتوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس کا مقابلہ کر نے کے لیے سب سے پہلی چیزیہ ہے کہ ہم دشمن کو سمجھیں۔ دو سری چیزیہ ہے کہ ایک ہمہ جہتی حکمت عملی بنائیں‘محض کسی ایک ٹارگٹ کونہ لیں۔اور تیسر ی چیز یہ ہے کہ ہم ہر میدان میں مقابلہ کریں اوراس کی تیاری کریں ۔ مقابلے کے ساتھ ساتھ ڈائیلاگ اور مذاکرہ بھی کریں۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ آخری حل مذاکرات سے نہیں ہوگا۔ اپنے صحیح وقت پر ایک ہمہ گیر معرکے کے لیے آپ کو تیار ہو نا ہے۔ لیکن وہ تیاری دہشت گر دی کے اقدامات کے ذریعے نہیں ہوسکتی اور نہ یہ اس کے ممدومعاون ہوسکتے ہیں۔اس کا راستہ یہ ہے کہ عوامی جدوجہد کے ذریعے اپنے اپنے ملک میں اسلامی قیادت کو اوپر لائیں اور پھر ان ممالک کو اسلام کا حقیقی قلعہ بنائیں۔ یہی وہ جنگ ہے جو پاکستان میں ہم لڑرہے ہیں۔ اور یہی وہ جنگ ہے جو تحریکِ اسلامی ہر ملک میں لڑ رہی ہے اور یہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم اس تہذیبی تصادم کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ یہ کوئی وقتی جنگ نہیں ہے یہ کوئی شارٹ ٹرم جنگ نہیں ہے۔ بلا شبہ اس کے وقتی تقاضے بھی ہیں اور شارٹ ٹرم تقاضے بھی ہیں لیکن اصل جنگ لمبی ہے اور ہمیں اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرنا ہے اور پوری بالغ نظری کے ساتھ اس کام کو انجام دینا ہے ۔
اس سلسلے میں سب سے اہم چیز اُمت کو اسلام کی بنیاد پر فکری‘ عملی‘ اخلاقی‘ نظریاتی‘ تعلیمی‘ معاشی‘ تہذیبی ہر اعتبار سے مضبوط تر کرنا ہے۔ اس کے رشتے کو ایک طرف اللہ تعالیٰ سے اس طرح جوڑنا ہے کہ صرف اس کی مدد پر ہمارا بھروسہ ہو تو دوسری طرف اس کے فراہم کردہ وسائل کو اس کے بتائے ہوئے دین کی سربلندی اور اہداف کے حصول کے لیے منظم اور مرتب کرنا ہے۔ جن کو دنیا میں بڑی طاقتیں کہا جاتا ہے وہ عارضی اور بالآخر فنا ہونے والی ہیں۔ باقی رہنے والی قوت صرف حق کی قوت ہے۔ اللہ پر بھروسا اور اُمت کی صحیح خطوط پرتیاری ہی وہ راستہ ہے جس سے اس یلغار کا مؤثر مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ایمان‘ مادی اور اخلاقی قوت‘ اتحاد اور باہمی تعاون اور سب سے بڑھ کر مسلسل اور صبرآزما جدوجہد درکار ہے۔ اقبال نے مسجد قرطبہ کے سائے میں جو پیغام اُمت مسلمہ کو دیا تھا وہ اسی جدوجہد کا پیغام تھا ؎
جس میں نہ ہو انقلاب‘ موت ہے وہ زندگی
روحِ امم کی حیات‘ کش مکشِ انقلاب
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
یہی وہ صحیح حکمتِ عملی ہے جس سے مغربی تہذیب کی اس یلغار کا مقا بلہ کیا جا سکتا ہے ۔
جس طرح فرعون نے انا ربکم الاعلٰی کا نعرہ لگایا تھامگر ذلت کی موت مرا ‘اسی طرح برطانیہ کے شاہ لوئی چہاردہم(xiv) نے دعویٰ کیا تھا کہ "I am the State" لیکن وہ اور اس کی سلطنت جلد ہی قصہ پارینہ بن گئی۔ آج کے فرعون اور لوئی بھی اُسی زبان میں بات کررہے ہیں اور اپنے حشر سے بے خبر ہیں۔ ہم امریکا کی قیادت اور اس کے عزائم پر مسلسل تنقید کر رہے ہیں اور درپیش خطرات کا پورا شعور رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ تبدیلی کی ان لہروں پر بھی نظر ضروری ہے جو غالب نظام اور مغرور حکمرانوں کو چیلنج کر رہی ہے۔
یہ ردعمل عوامی سطح پر تو اول روز سے موجود ہے لیکن اب مقتدر حلقوں میں بھی اختلافی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں جو استبدادی قوتوںکے لیے زوال کے آغاز کی علامت ہیں۔ ۱۱؍۹ کمیشن کی کارروائیوں اور رپورٹوں نے امریکی قیادت کے دعوئوں کا پول کھولنا شروع کر دیا ہے۔ پارلیمنٹ کی مختلف کمیٹیاں امریکا اور برطانیہ میں پالیسیوں کے پاے چوبیں کی نشان دہی کررہی ہیں۔ صحافی اور اہلِ قلم اب کھل کر بات کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈھائی سال کے حیص بیص کے بعد امریکا کی عدالت عالیہ نے گوانتاناموبے کے قیدیوں کے سلسلے میں پہلا اہم فیصلہ دیا کہ ان کے حق دفاع کو مستقلاً معطل نہیں رکھا جا سکتا اور عدالت نے اپنے فیصلے میں اس اصول کا بھی اعادہ کیا ہے کہ ’’جنگ ہو یا دہشت گردی کا خطرہ‘ انتظامیہ کو لوگوں کو ان کی آزادیوں سے محروم رکھنے کی کھلی چھٹی نہیں دی جا سکتی‘‘۔ عدالت نے اس کلیے کو بھی بیان کیا ہے کہ:
"A state of war is not a blank cheque for the president".
عوامی سطح پر صدر جارج بش کی قباے شاہانہ کو تار تار کرنے کا کام ایک بہت ہی غیرمتوقع انداز میں ہو رہا ہے۔ ایک مشہور فلم ساز اور آسکرایوارڈ حاصل کرنے والے اداکار مائیکل مور (Michael Moore) نے ایک دستاویزی فلم بنائی ہے جسے امریکا (ہالی ووڈ)کے وال ڈزنی نے تو جاری کرنے سے انکار کر دیا مگر فرانس کے کینزکے میلے کو اس نے لوٹ لیا۔ اب یہ فلم امریکا اور یورپ میں دکھائی جارہی ہے۔ اس کا عنوان ہے فارن ہائٹ ۱۱/۹ (Fahrenheit 9/11)۔ اس فلم میں جارج بش کا اصل چہرہ اور استعماری کردار‘ نیز سعودی حکمرانوں سے ان کی اور ان کے خاندان اور ساتھیوں کے تعلقات کی پوری داستان بیان کی گئی ہے اور دکھایا گیا ہے کہ اس امریکی حکمران ٹولے نے اپنے سامراجی مقاصد اور دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے کس طرح ۱۱/۹ کو استعمال کیا ہے۔ اس کا ایک مرکزی کردار وہ بدنصیب ماں ہے جس نے اپنے بیٹے کو اپنا پیٹ کاٹ کر فوج میں بھرتی کرنے کے لیے تیار کیا اور جسے وہ اپنا سہارا سمجھ رہی تھی مگر کس طرح عراق کی جنگ نے اسے بے سہارا کر دیا۔ یہ ایک ماں کی نہیں پوری امریکی قوم کی کہانی ہے۔ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے کالم نگار پال کروگ مین (Paul Krugman) کے الفاظ میں یہ فلم اپنی ایک گونہ جانب داری کے باوجود ۱۱/۹ اور اس کے بعد کے کھیل کے بارے میں ان حقائق سے پردہ اٹھاتی ہے جن سے امریکی عوام کو بے خبر رکھا گیا تھا۔
یہ ان لیڈروں کے بارے میں ضروری سچائی بیان کرتی ہے جنھوں نے ایک قومی المیے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا اور جس کی قیمت ایک عام امریکی نے ادا کی۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبون‘ ۵ جولائی ۲۰۰۴ئ)
"Who gave the United States a whistle to be the world's refree?"
امریکا اپنی تمام چابک دستی اور اثرورسوخ کے باوجود اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے امریکی فوجیوں کو جنگی جرائم سے مستثنیٰ رکھنے کی قرارداد منظور نہیں کرا سکا اور آخری وقت پر اسے اس قرارداد کو واپس لینا پڑا۔ امریکا کی ساری کوشش کے باوجود اسرائیل کو جنگ کی عالمی عدالت میں منہ کی کھانی پڑی اور ۱۵ میں سے ۱۴ ججوں نے (صرف امریکی جج نے فیصلے سے اختلاف کیا) فلسطینیوں کی زمین پر آہنی باڑ بنانے کو خلافِ قانون قرار دیا اور اسے منہدم کرنے کا مطالبہ کیا جس کی توثیق اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی بھاری اکثریت سے کر دی ہے۔
امریکی فوج کے کچھ باضمیر افسر جو عراق سے واپس آئے ہیں صدر بش کی پالیسیوں کی ناکامی کا برملا اعتراف کر رہے ہیں۔۸۲ آرمڈ ڈویژن کا ایک افسر اعتراف کرتا ہے کہ صدر بش کے Mission Accomplishedاور عراق کی مبینہ آزادی کے اعلان کے بعد جو کچھ ہوا وہ مشن کی تکمیل نہیں بلکہ قتل و غارت گری کی نئی دوڑ کے سوا کچھ نہیں۔
ایک دفعہ پھر ہر طرف جنگ کی کیفیت تھی لیکن اس دفعہ آپ کا مقابلہ سول مزاحمت کاروں سے تھا۔ ہم عوام سے لڑ رہے تھے۔ ہر گھر‘ ہر چھت‘ ہر صحن‘ ہر اسکول کا میدان ایک مورچہ بن گیا تھا۔ ایک چیک پوائنٹ پر ایک نوجوان لڑکی نے کسی خوف کے بغیر مجھ سے بہترین انگریزی میں کہا: اگر میں تم کو قتل کر سکتی‘ تو ایسا ضرور کرتی۔
فلوجہ نے مجھے جنگ اس تناظر میں دکھائی۔ اگر ہم پورا شہر بھی روند کر رکھ دیتے اور اس کو ایک کھنڈر میں تبدیل کر دیتے‘ تب بھی ہم جیت نہیں سکتے تھے۔(فریڈرک ایف کلیرمونٹ: Faluja: A New Beginning بہ حوالہ: اکانومک اینڈ پولٹیکل ویکلی‘ ۳ جولائی ۲۰۰۴ئ)
کلیرمونٹ کے الفاظ میں فلوجہ میں جو کچھ ہوا ہے اگر کسی مثال سے بیان کیا جا سکتا ہے تو وہ اسٹالن گراڈ ہے جس نے دوسری جنگ کا رخ بدل دیا۔
اسٹالن گراڈ سے مقابلہ اس لیے مناسب ہے کہ وہ بھی جنگ میں ایک فیصلہ کن موڑ (turning point ) تھا۔ فلوجہ عوامی شعور کے ایک نئے دور کا آغاز تھا جس میں صدام اور بعثی نظریہ بے معنی ہوگیا۔ مرد اور عورت‘ شیعہ اور سنی‘ عیسائی اور کُرد‘ سب شانہ بشانہ لڑے۔ یہ ایک نیا قومی شعور ہے جو مذہبی‘ اجتماعی اور سیاسی تفریقات سے بالا ہے۔ قابض فوج کی شعیوں اور سنیوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کی کوشش بری طرح ناکام ہوئی۔ فلوجہ اس جدوجہد کی استعمار دشمن نوعیت کی علامت تھا۔ یہ عرب دنیا میں ایک نیا عنصر ہے اور آج قوم کی حرکی خصوصیت ہے۔
اگر صدر بش اپنی عراقی مہم کو بچانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے تجویز ہے : جارج ٹینٹ جیسے سی آئی اے کے خوشامدیوں کے ساتھ کم وقت گزاریں اور زیادہ وقت الجزیرہ ٹیلی ویژن دیکھیں۔
بش انتظامیہ کے خفیہ اطلاعات کے نظام کا مرکزی عنصر یہ نہیں تھا کہ یہ مناسب تعداد میں ٹیلی فون ٹیپ کرنے میں ناکام رہا‘ بلکہ یہ تھا کہ اس نے عراق یا وسیع تر عرب دنیا کے ذہن (mindset)کو سمجھنے کی پروا نہیں کی اور اب بھی نہیں کر رہا۔
صدربش اور ان کے طائفے کے ذہن کی یہ عکاسی مبنی برحقیقت ہے لیکن ستم بالاے ستم کہ مسئلہ محض صدربش کا نہیں عرب اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کا بھی اس سے مختلف نہیں۔ اور مزید بدقسمتی ہے کہ خود ہمارے حکمران بھی اسی مرض کا شکار ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فتح کے ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ یہ سب ہی اپنے عوام کے جذبات‘ احساسات اور عزائم سے لاتعلق ہیں اور آج کے نیرو (Nero) کا کردار ادا کررہے ہیں۔ اس پر بھی کیا یہ سب یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کا حشر بھی نیرو کے حشر سے مختلف ہوگا؟
شماریات (Statistics) کی بحیثیت ایک علم عمر اب ۱۰۰سال سے زیادہ ہے۔ اس زمانے میں زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں قابلِ اعتماد اعداد و شمار کی اہمیت بے انتہا بڑھ گئی ہے اور معاشی اور معاشرتی منصوبہ بندی میں اعداد و شمار کا کردار روز بروز بڑھ رہا ہے۔ حکومت اور مختلف اداروں کی کارکردگی کا پیمانہ بھی یہی اعداد و شمار بن گئے ہیں۔ ان حالات میں اعداد و شمار کو جمع کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے والے اداروں کو مرکزی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ ایک زمانے میں تو شماریات کو ناقابلِ اعتماد گورکھ دھندا سمجھا جاتا تھا اور ایک ماہرِ شماریات نے یہاں تک لکھ دیا تھا کہ جھوٹ تین قسم کے ہوتے ہیں۔
Lies, white lies and statistics, in order of ascendence.
۱- اعداد و شمار کے نظام کو آزاد انتظام کے تحت مرتب کرنا ‘ اس کے لیے قانون کے ذریعے آزاد اداروں کا قیام جن کو دستوری تحفظ حاصل ہو اور جن کے مالی ذرائع حکومتوں کی مرضی پر موقوف نہ ہوں۔
۲- ہر موضوع کے بارے میں ایک سے زیادہ اداروں کے ذریعے اعداد وشمار کا حصول ‘ تاکہ ایک ہی موضوع کے بارے میں مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کا تقابل کیا جا سکے۔ نیز متبادل ذرائع کی موجودگی اعداد و شمار میں بددیانتی کرنے کے خلاف ایک مؤثر رکاوٹ کا کردار بھی ادا کر سکے۔ اس باب میں خصوصیت سے نجی شعبے کے اداروں کی خدمات اہمیت اختیار کرگئی ہیں جو سرکاری ذرائع کے لیے بھی checks & balances کی کیفیت پیدا کرنے کا باعث ہوتی ہے۔
۳- اب یورپ کے کئی ممالک خصوصیت سے انگلستان میں ایک ادارہ بہت مؤثر کردار ادا کر رہا ہے اور وہ ہے Statistics Commission جس کی حیثیت ایک طرح کے نگراں (Statistics Watch-dog ) یا محتسب (Statistics-Ombudsman) کی ہے جو دوسروں کی تحریک پر اور خود اپنے اختیار سے (suo moto) شماریات کے پورے نظام پر نگاہ رکھتا ہے ‘اور جہاں کہیں کوئی ایسی تدبیر اختیار کی جاتی ہے جس سے شماریات کی صحت پر برا اثر پڑے‘ یہ کمیشن فوری طور پر احتساب کا فرض ادا کرتا ہے۔
حال ہی میں پاکستان میں بنیادی سال (year base) کو تبدیل کرنے کا کام ۲۳سال کے تغافل کے بعد بہت ہی عجلت میں کیا گیا اور نئی اور پرانی دونوں بنیادوں پر اعداد و شمار اور تبدیلی کے رجحانات کا تقابل شائع نہیں کیا گیا جو علمی اعتبار سے سخت قابلِ گرفت ہے‘ خصوصیت سے اس لیے کہ جس سال کو نیا بنیادی سال قرار دیا گیا ہے وہ غیرمعمولی حالات کا شکارتھا‘ یعنی ۲۰۰۰-۱۹۹۹ئ۔ اسی طرح غربت کی کیفیت اور کمیت کا تعین کرنے کے لیے جو سال میں چار بار ہائوس ہولڈ سروے ہوتے ہیں اور ان کے اوسط کو سال کے لیے غربت کے تعین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طریقے سے ہٹ کر محض ایک مختصر (یعنی اصل نمونے کے صرف ایک تہائی) نمونے کی بنیاد پر اور وہ بھی صرف ایک سہ ماہی تک محدود رکھ کر جو اعداد و شمار دیے گئے ہیں ان کے بارے میں شدید شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اگر ہمارے ملک میں بھی شماریات کا کمیشن بحیثیت محتسب ہو تو ایسے واقعات پر بروقت گرفت ہو سکتی ہے۔
برطانیہ کے کمیشن نے حال ہی میں قومی شماریات کے دفتر پر سخت تنقید کی ہے کہ اس نے بلاجواز اور تمام حقائق ظاہر کیے بغیر کچھ میدانوں میں اعداد و شمار جمع کرنے کے طریقے میں تبدیلیاں کرڈالی ہیں۔ کمیشن نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ:
سرکاری اعداد و شمار پر عوام کا اعتماد اعداد مرتب کرنے کے طریقوں کے معیار سے متاثر ہوتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار مرتب کرنے کے انتظامات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے اعتماد کو تقویت دی جاسکے۔ (گارجین‘ جولائی ۲۰۰۴ئ‘ بیان پروفیسر ڈیوڈرڈ‘ چیئرمین شماریاتکمیشن)
پاکستان میں بھی شماریات کے سرکاری ادارے کی تنظیم نو‘ اس کے تمام معاملات میں مکمل شفافیت اور ایک آزاد کمیشن جو شماریات کے پورے نظام بشمول محکمہ کسٹم اور اسٹیٹ بنک کی فراہم کردہ معلومات پر نگاہ رکھے‘ وقت کی ضرورت ہے۔
جناب جسٹس ناظم حسین صدیقی چیف جسٹس آف پاکستان نے صوبہ پنجاب کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشن ججوں کی تربیت کی تکمیل پر فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کی تقریب تقسیمِ اسناد میں ملک کے عدالتی نظام پر عوام کے اعتماد کے مسئلے پر بڑے بنیادی اور فکر انگیز خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس امر کا اعتراف کرتے ہوئے کہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد مطلوبہ معیار سے کہیں کم ہے‘ انھوں نے صرف نئے ججوں ہی کو نہیں بلکہ عدلیہ کی ہر سطح پر ذمہ دار افراد کو تلقین کی ہے کہ ’’ہمیں (عدلیہ کو) ملک میں انصاف کے نظام پر عوام کے اعتماد کو بحال کرنا ہوگا‘‘۔ فاضل چیف جسٹس کا ارشاد ہے کہ ’’انصاف کی فراہمی مشکل کام ہے‘ تاہم نئے جج صاحبان اپنی ذہانت اور دل و دماغ کی تمام تر صلاحیتوں کو کام میں لاکر عوام کو انصاف کی فراہمی یقینی بناسکتے ہیں۔ اگر ہمیں ایک مہذب قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا ہے تو اسلام کی آفاقی تعلیمات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کے مطابق انصاف کی فراہمی کو افضل عمل کی حیثیت سے معاشرتی زندگی میں عملی شکل دینی ہوگی اور عوام کا اعتماد نظامِ انصاف پر بحال کرنا ہوگا‘‘۔ چیف جسٹس صاحب نے یہ بھی کہا کہ ’’ڈسٹرکٹ جج نظام انصاف میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ضلع کی سطح پر جج صاحبان انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو پورا نظام انصاف زمین بوس ہوسکتا ہے‘‘۔
جسٹس ناظم حسین صدیقی صاحب نے ایک بڑے بنیادی مسئلے کی طرف عدلیہ اور پوری قوم کو متوجہ کیا ہے اور ہماری اجتماعی زندگی کی ایک نہایت ہی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ اس وقت ملک کے سارے ہی ادارے سخت اضمحلال کا شکار ہیں لیکن جس ادارے کی اصلاح کی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ فکر کرنی چاہیے وہ عدلیہ کا ادارہ ہے۔ اگر حالات کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو بڑے دکھ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج ملک میں عام آدمی کے لیے انصاف کا حصول سب سے مشکل بن گیا ہے۔ پولیس کی بدعنوانی اپنی جگہ‘ لیکن عدلیہ کا ادارہ جس حد تک انصاف فراہم کرنے اور اپنے کو مفادات‘ بااثر عناصر کے دبائو اور خود حکومت وقت کی دراندازیوں سے بالا رکھ کر اصلاح احوال کے لیے جو کردار ادا کر سکتا ہے وہ اس میں کامیاب نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روز بروز عوام کا اعتماد پورے نظامِ عدل پر‘ نچلی سطح سے لے کر اعلیٰ ترین سطح تک بری طرح مجروح ہوا ہے۔ اس باب میں قوم جن مسائل سے دوچار ہے ان میں اہم ترین یہ ہیں:
اولاً ‘قوانین کی بھرمار ہے‘ مگر قانون کا احترام عنقا ہے۔ قوانین کی اکثریت سامراجی دور کا عطیہ ہے اور آزادی کے حصول کے بعد ۵۷ سال گزر جانے کے باوجود ان قوانین میں آزادی کے تقاضوں اور اسلامی قانون و روایات سے ہم آہنگی کے حصول کے لیے کوئی ہمہ گیر تبدیلی نہیں کی گئی۔ دسیوں قانونی کمیشن بنے ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل اور اعلیٰ عدالتی کمیشن نے سفارشات پیش کی ہیں لیکن حکومت اور پارلیمنٹ نے ان پر کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ حالانکہ ۱۹۷۳ء کے دستور کے تحت بنیادی حقوق کے نقطۂ نظر سے ملک کے قوانین کی اصلاح کا کام دوسال کے اندر اور اسلامی احکام و قوانین کے اعتبار سے سات سال کے اندر مکمل ہوجاناچاہیے تھا۔ آج بھی اگر پارلیمنٹ دن رات اس کے لیے کام کرے تو یہ مقصد ایک متعین مدت میں حاصل ہو سکتا ہے۔ اس سے عوام او رعدلیہ دونوں کا کام آسان ہو جائے گا۔
دوسری بنیادی چیز ہر سطح پر عدلیہ میں ججوں کے انتخاب‘ ان کی تربیت اور احتساب کے نظام کا مؤثر ہونا ہے۔ ججوں کے انتخاب میں دو ہی بنیادیں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں‘ یعنی قابلیت (merit) اور دیانت(integrity)۔ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح عدلیہ میں بھی تقرر کا نظام نہایت ناقص اور سیاسی اور دوسری مصلحتوں کے تابع ہے جس کے نتیجے میں ہر سطح پر عدلیہ میں ایسے عناصر در آئے ہیں جن کی صلاحیت اور دیانت دونوں شک و شبہے سے بالا نہیں۔ عدلیہ کو جس تربیتی نظام اور جس نظام احتساب کی ضرورت ہے وہ نہایت غیر مؤثر ہے۔ دستور نے اعلیٰ عدالتوں کے لیے تقرری کا جو نظام تجویز کیا ہے اس پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ حالیہ تجربات اور دنیا کے دوسرے ممالک کے اقدامات کی روشنی میں جن چیزوں کی فوری ضرورت ہے وہ یہ ہیں:
ا- عدلیہ کو مکمل طور پر انتظامیہ سے آزاد کیا جائے اور اس سلسلے میں طے شدہ پالیسیوں پر مکمل طور پر عمل ہونا چاہیے۔ جس میں مرکزی وزارت قانون میں ججوں کا بطور سیکرٹیری تقرر اور صوبوں کے چیف جسٹس صاحبان کا قائم مقام گورنر مقرر کیا جانا بالکل ختم ہونا چاہیے۔
۲- ججوں کے تقرر کا نظام بھی اصلاح طلب ہے اور اس کے لیے بھارت کے حالیہ انتخابات کی روشنی میں اس پر غور ہونا چاہیے کہ دستوری ترمیم کے ذریعے ایک بالکل آزاد ادارہ نیشنل جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے جو مرکز اور صوبوں کی سطح پر ججوں کے تقرر کے لیے صدرمملکت کو ایک پینل کی سفارش کرے اور صدر اسی پینل میں سے تقرر کا پابند ہو۔
۳- ججوں کی تعداد میں بھی ضرورت کے مطابق اضافے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں مقدمات کی بھرمار ہے اور پورے ملک میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد مقدمات (۵ ہزار سے زائد سزاے موت کے مقدمات) زیرسماعت ہیں۔ انصاف میں تاخیر انصاف سے محرومی کی ایک شکل ہے۔ ہمارے ملک میں حال یہ ہے کہ مقدمے کے فیصلے کے انتظار میں زندگی کے دن تمام ہوجاتے ہیں مگر مقدمے سے نجات نہیں ملتی۔ اس کی کئی وجوہ ہیں جن میں ججوں کی تعداد کی کمی‘ ججوں کی اسامیوں کا بلاجواز خالی رکھنا (اس وقت اعلیٰ عدالتوں میں مجموعی طور پر ۲۶ سیٹیں خالی ہیں‘ سپریم کورٹ میں ۴‘ لاہور ہائی کورٹ میں ۱۲‘ سندھ میں ۶‘ پشاور میں ۲ اور بلوچستان میں ۱۲)‘ وکیلوں کا بار بار مقدمات کی سماعت ملتوی کرانا‘ عدالت کے انتظامی نظام میں کرپشن اور ناقص کارکردگی‘ ججوں کی کارکردگی کے جائزے اور احتساب کے نظام کی کمزوریاں قابل ذکر ہیں۔ دنیا بھر میں قاعدہ ہے کہ ایک مقدمہ جب ضروری تفتیش مکمل ہونے کے بعد شروع ہوجاتاہے تو پھر اسے فیصلے تک تسلسل سے جاری رکھا جاتا ہے۔ مقدمات کے فیصلے میں تاخیر کی ذمہ داری عدالت‘ پولیس ‘ وکلا اور عوام سب پر آتی ہے اور اس کے مؤثر تدارک کی ضرورت ہے۔
۴- ججوں کی مدت ملازمت پر بھی معروضی انداز میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔نیز ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد مختلف بامعاوضہ ذمہ داریوں کے لیے ان کے دستیاب ہونے کے بھی اچھے نتائج سامنے نہیں آتے ہیں۔ اس لیے اس مسئلے پر ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھائی جائے‘ پنشن میں اتنا اضافہ ہو کہ ان کو ملازمت کی حاجت نہ رہے اور ان کی صلاحیتوں سے صرف تعلیم‘ تحقیق اور نیم عدالتی نوعیت کے کاموں میں فائدہ اٹھایا جائے جس کی کوئی تنخواہ نہ ہو بلکہ صرف ضروری سہولتیں فراہم کی جائیں۔ اس طرح مدت ملازمت کے بعد کی ترغیبات کا دروازہ بند کیا جا سکتا ہے۔
۵- ہر سطح پر ججوں کے تقرر‘ ترقی اور احتساب کا نظام قائم کیا جائے۔
۶- ہر سطح پر ججوں کے لیے تربیت‘ تحقیق اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ضروری انتظامات کیے جائیں۔
۷- عدلیہ کے حضرات کو خود بھی اپنے احتساب کی فکر کرنی چاہیے۔ جسٹس محمد منیر سے لے کر جسٹس ارشاد احمد خان تک جج حضرات میں سے کچھ نے جس طرح سرکاری اثرات کو قبول کیا اور قانون اور عدل پر سیاسی اثرات کو قبول کیا‘ وہ عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو مجروح کرنے کا ذریعہ بنا ہے۔ جج حضرات جس طرح سیاسی اور سماجی محفلوں میں شریک ہو رہے ہیں اس سے ان کی غیر جانب داری کا تاثر متاثر ہو رہا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ جس طرح کا سیاسی کردار ادا کر رہے ہیں وہ ان کے ماقبل کے دور کے بارے میں بھی لوگوں کے اعتماد پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ یہ تمام بڑے نازک معاملات ہیں اور ان کے بارے میں آداب اور روایات کی ذمہ داری خود عدلیہ پر ہے تاکہ اس کا کردار ہر طرح کی انگشت نمائی سے بالا رہے۔
ہمارے دستور کے تحت عدلیہ کی ذمہ داری صرف قانون کی پاسداری کی نہیں بلکہ دستور کی اطاعت اور حقوقِ انسانی کے سلسلے میں عوام کے حقوق کی حفاظت بھی ہے۔ اب تو عدالتی فعالیت (judicial activism) ایک معروف حقیقت بن گیا ہے۔ اس پس منظر میں عدلیہ کا ہر قسم کی سیاسی جانب داری سے پاک ہونا‘ حکومت کے اثرات سے اپنے کو محفوظ رکھنا اور دیانت اور ذہانت کے اعلیٰ ترین معیارات پر پورا ہونا ازبس ضروری ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے عدلیہ پر اعتماد کے مسئلے کو اٹھا کر ان تمام پہلوئوں پر ازسرنو غوروفکر کی دعوت دی ہے۔ ہماری رائے میں اس مسئلے پر کھلی بحث ہونی چاہیے اور پارلیمنٹ کو جلد از جلد اس کو زیرغور لاکر ضروری قانون سازی کر کے اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔
’’روشن خیالی‘‘ اور ’’اعتدال پسندی‘‘ بڑ ے خوش نما الفاظ ہی نہیں‘ بڑے دل پذیر تصورات بھی ہیں۔ اگر مسلمان تہذیب و ثقافت‘ معاشرت اور شریعت پر اسلام کے فکری‘ نظریاتی اور اخلاقی تناظر میں غور کیا جائے‘ تو یہ اس دین اور تہذیب کی امتیازی خصوصیات میں سے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاملہ عقیدے کا ہو یا عمل کا‘ فرد کی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی‘ عبادت ہو یا معیشت‘ حتیٰ کہ دوستی کے امور ہوں یا دشمنی اور جنگ کے‘ ان سب میں اسلام نے عدل کا حکم دیا ہے جو اعتدال اور توازن کی علامت ہے۔ اسلام نے ہر سطح پر ہراقدام کے لیے احتساب کی شرط لگائی ہے جو شعور‘ اختیار اور روشن خیالی پر منحصر ہے اور تعصب‘ جہل اور جانب داری سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اُمت مسلمہ کو خیراُمت اور اُمت وسط قرار دیا ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام امور میں میانہ روی اور وسط کی راہ کو بہترین راستہ اور طریقہ قرار دیا ہے (خیر الامور اوسطہا)۔ اس لیے اگر روشن خیال اعتدال پسندی کی بات کی جائے تو اس پر تعجب یا اعتراض کچھ بے محل معلوم ہوتا ہے۔ لیکن مشکل یہ آپڑی ہے کہ آج جس ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی بات کی جا رہی ہے اس کا پس منظر ہمارا اپنا دین‘ ہماری اپنی تہذیب‘ ہماری اپنی روایت اور ہماری ضرورت نہیں بلکہ وہ ایک خاص تاریخی عمل کا حصہ بن گئی ہے اور دنیا کے‘ خصوصیت سے‘ مسلم دنیا کے لیے جس نئے سیاسی اور تہذیبی نقشے میں رنگ بھرا جارہا ہے‘ اس کا اہم رنگ ہے۔ عالمی حالات اور رجحانات کا جائزہ لیجیے تو صاف نظر آ رہا ہے کہ اس کا تعلق بیرونی دبائو اور مطالبات سے ہے۔
جو نیا عالمی نظام وضع کیا جا رہا ہے وہ استعمار کی سب سے جامع اور گمبھیر صورت (version) ہے جس میں عسکری‘ سیاسی‘ معاشی اور ثقافتی پہلو مساوی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کا ہدف دنیا کے تمام ممالک اور اقوام کو ایک سوپر پاورامریکا کی صرف سیاسی اور عسکری چھتری تلے لانا نہیں بلکہ فکری‘ معاشی‘ مالیاتی اور ثقافتی طور پر بھی ایک ہی نظامِ اقدار (value system) سب پر مسلط کرنے کا منصوبہ ہے۔ اسے جبر واختیار اور ترغیب و ترہیب کے ہر ممکنہ ذرائع کے استعمال سے کامیاب کرانا مقصود ہے۔ اس ہمہ جہتی حکمت پر سرد جنگ کے دور کے ختم ہونے کے بعد سے‘ بڑی چابک دستی سے عمل کیا جا رہا ہے اور ۱۱ستمبر کے بعد کے اقدامات اس وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ اسے سمجھے بغیر روشن خیالی اور میانہ روی کی جو آوازیں آج اٹھ رہی ہیں‘ ان کی حقیقت اور مضمرات کو سمجھنا ممکن نہیں۔ اس ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کا کوئی تعلق ہماری اپنی ضروریات سے نہیں‘ یہ ہمارے اپنے تہذیبی لنگر سے مربوط اور وابستہ نہیں بلکہ یہ عنوان ہے اس تبدیلی کا‘ جو اسلام اور مسلم معاشرے اور تہذیب کو‘ اس کی اپنی اساس سے ہٹاکر‘ مغرب سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کی جا رہی ہے اور آج سے نہیں سامراج کی یلغار کے پہلے دور ہی سے کی جا رہی ہے۔ البتہ استعمار کی تازہ یورش میں اس کو ایک زیادہ مرکزی کردار دیا گیا ہے۔
گذشتہ ربع صدی میں امریکی دانش ور‘ پالیسی ساز اور میڈیا ایک نئی تہذیبی جنگ میں مصروف ہے اور اس کا ہدف مغرب کے لبرل‘ معاشی اور سیاسی نظام کو پوری دنیا پر مسلط کرنا ہے۔ ہم انھی صفحات میں اس سلسلے میں دسیوں کتب اور تحقیقی اور تجزیاتی رپورٹوں کا ذکر کر سکتے ہیں۔ اس پوری حکمت عملی کو مشہور امریکی رسالہ فارن پالیسی (Foreign Policy) کے ایڈیٹر جوزف نائی (Joseph Nye) نے اپنے ایک مضمون میں کسی تکلف کے بغیر مختصر طور پر بیان کردیا ہے۔ وہ کہتا ہے:
عالمی سیاست میں طاقت کی نوعیت میں تبدیلی آ رہی ہے۔ طاقت کا مطلب یہ ہے کہ آپ جو حاصل کرنا چاہتے ہیں حاصل کریں۔ اور اگر ضروری ہو تو اسے امر واقع بنانے کے لیے دوسروں کے رویوں کو تبدیل کر دیں۔
(Re-Ordering the World: The Long-term implications of 11th Sept. ed. by Mark Leonard. Foreword by Tony Blair, The Foreign Policy Centre, London 2002)
جنگ وہ آخری اور قطعی کھیل ہے جس میں عالمی سیاست کے کارڈ کھیلے جاتے ہیں اور طاقت کا تناسب ثابت کیا جاتا ہے۔
البتہ اب نیوکلیر اسلحے کے ایک کارفرما قوت بن جانے سے حالات کروٹ لے رہے ہیں۔ نیز دنیا کی مختلف اقوام میں قومیت کے تصور کے جاگزیں ہوجانے سے عالمی سیاست کے دروبست میں تبدیلی آگئی ہے۔ اسی طرح عالمی سرمایہ داری کی موجودہ شکل جس میں معاشی فوائد کا حصول‘ دنیا کے ممالک کی منڈیوں پر قبضے کے ذریعے ان سے فائدہ اٹھانے کے اسلوب‘ کثیرالقومی کمپنیوں کا کردار یہ سب جنگ اور محض قوت کے ذریعے دوسروں کو قبضے میں رکھنے کو اگر مشکل نہیں تو مہنگا (too costly)بنائے جا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں فوجی اورمعاشی قوت جسے وہ Hard Power کہتا ہے مؤثرتو ہیں لیکن اب جن عوامل کا کردار بڑھ رہا ہے انھیں جوزف نائی Soft Powerکہتا ہے:
اس صورت میں یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ عالمی سیاست کا ایجنڈا ترتیب دیا جائے اور دوسروں کو فوجی اور اقتصادی ہتھیاروں کی دھمکی یا استعمال کے ذریعے بزور طاقت اس طرف لایا جائے۔ طاقت کا یہ پہلو کہ دوسرے وہ چاہنے لگیں جوآپ چاہتے ہیں‘ نرم طاقت (Soft Power)کہا جاتا ہے۔ نرم طاقت کا انحصار سیاسی ایجنڈے کو اس طرح ترتیب دینے کی قابلیت پر ہوتا ہے جو دوسروں کی ترجیحات کا تعین کرے۔
اس حکمت عملی پر مؤثر عمل کے لیے ابلاغ کی قوت کا استعمال مرکزی اہمیت رکھتا ہے اور اقتصادی قوت کا ہدف افکار‘ اقدار‘ کلچر کی تبدیلی ہے۔ اس نئی جنگ میںاصل مزاحم قوت مقابل تہذیب کا عقیدہ‘ نظریہ‘ اصول اور اقدار بن جاتے ہیں۔ اسلامی دنیا میں عوام کی اسلام سے وابستگی اور اپنی تہذیب اور اقدار کے بارے میں استقامت--- مغرب کے لیے سب سے بڑا دردسر بنی ہوئی ہے۔ جوزف نائی اعتراف کرتا ہے کہ:
یقینی طور پر ایسے علاقے ہیں‘ جیسے شرق اوسط‘ جہاں امریکی کلچر کے حوالے سے گومگو یا مکمل مخالفت کی کیفیت اس کی ’نرم طاقت‘ کو محدود کر دیتی ہے۔
یہ ہے اصل مخمصہ! اور اس کا حل تجویز ہوا ہے مسلم ممالک میں ’روشن خیالی‘ اور ’اعتدال پسندی‘ کی حکمت عملی کا فروغ کہ اس طرح مسلم دنیا کو اس کی اپنی بنیادوں سے ہلا کر مغرب کے رنگ میں رنگنے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے مسلمان عورت کا حجاب بھی توپ اور میزائل کی طرح خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ اسلام سے مسلمانوں کی وابستگی اور اپنی ثقافت اور روایت سے محبت مغرب کی نگاہ میں اس کے عزائم کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسلام میں دین و سیاست کا ناقابلِ تقسیم ہونا اصل سدِّراہ ہے۔
جہاد کا جذبہ جو دفاع کا مؤثر ترین ذریعہ ہے‘ ان کی آنکھوں کا کانٹاہے۔ مسئلہ بنیاد پرستی نہیں‘ اسلام کا ایک مکمل نظامِ زندگی ہونے کا تصور ہے۔ یہ مغرب کی نگاہ میں اصل سنگِ راہ ہے۔ ایک جرمن مستشرق خاتون ایندریا لوئیگ (Andrea Lueg) اپنے ایک مضمون The Perception of Islam in Western Debate میں صاف الفاظ میں مغرب کے دانش وروں کے اس یقین کو یوں پیش کرتی ہے:
مغرب اسلام کو ایک ایسے مذہب کے طور پر زیربحث لاتا ہے جو اسلامی ممالک کے بے شمار سیاسی‘ ثقافتی اور سماجی مظاہرکا ذمہ دار ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ اسلام ایک مذہب کی حیثیت سے مغربی ممالک میں خوف پیدا کرتا ہے۔ مذہب کا وہ خوف جو ہمارا خیال ہے کہ ہم نے اپنے روشن خیال معاشروں سے ختم کر دیا ہے۔
The Next Threat: Perception of Islam, ed. by Jochen Heppila and Andrea Lueg, Pluto Press, London 1995, p27)
مغرب اسلام کی بڑھتی ہوئی سیاسی مقبولیت کو خطرناک‘ یک رخی اور عجیب قرار دیتا ہے۔ جنگجو اسلام کے فروغ نے اس شدید بحث کا آغاز کر دیا ہے کہ مغرب اس کے بارے میں کیا کچھ کر سکتا ہے یا کرنا چاہیے۔ کچھ امریکی سرکاری افسران اور مبصرین نے پہلے ہی جنگجو اسلام کو مغرب کا اگلا دشمن قرار دے دیا ہے جس کو اسی طرح قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے جس طرح سرد جنگ میں کمیونزم کو کیا گیا تھا۔ (ص ۱۳۱)
اس پس منظر میں امریکی اور یورپی دانش وروں اور پالیسی ساز اداروں کی کوشش ہے کہ اسلامی دنیا کو بنیاد پرست‘ جنگجو اور لبرل‘روشن خیال اور اعتدال پسندوں میں تقسیم کریں۔ جسے وہ بنیاد پرست‘ جہادی‘ اور مزاحم قوت سمجھتے ہیں اسے ختم کیا جائے اور اس کی جگہ اسلام کے ایک لبرل ورژن کو فروغ دیا جائے۔ نیوزویک کے مدیر بھارت نژاد امریکی فرید زکریا اسی حکمت عملی کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
اوّلین طور پر ہمیں عرب اعتدال پسند ریاستوں کی مدد کرنی چاہیے لیکن اس شرط پر کہ وہ فی الواقع اعتدال پسندی کو مکمل طور پر اختیار کریں۔ ہم مسلمان اعتدال پسند گروہ اور اہل علم تیار کر سکتے ہیں اور ان کی تازہ فکر عرب دنیا میں نشر کرسکتے ہیں جن کا مقصد یہ ہو کہ بنیاد پرستوں کی طاقت کو توڑا جائے۔ (Re Ordering The World ‘ ص ۴۷)
یہ ہے وہ پس منظر جس میں جنرل پرویز مشرف صاحب کی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی تازہ حکمت عملی کی اصل معنویت اور مناسبت (relevance) کو سمجھا جا سکتا ہے۔ نیتوں کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے‘ لیکن انسانی جائزوں کا انحصار ظاہری عوامل ہی پر ہوتا ہے۔ جنرل صاحب نے اپنے اقتدار کے اولیں ایام میں اتاترک کی بات کی‘ پھر عوامی دبائو میں تاویلیں کیں‘ جب موقع ملا حدود قوانین اور اہانتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا۔ موقع بے موقع اسلام میں لبرلزم کا ذکر کیا۔ پھر جہاد اور جنگِ آزادی اور دہشت گردی کے فرق کو یکسر نظرانداز کرنا شروع کیا اور اب کھل کر روشن خیال اعتدال پسندی کے نام سے اسلام میں نشات ثانیہ اور دہشت گردی کی تباہ کاریوں پر دل گرفتگی کا اظہار کرتے ہوئے اور تصادم کے مضراثرات سے خائف کرتے ہوئے نہ صرف روشن خیال اعتدال پسندی اور لبرلزم کا درس دے رہے ہیں بلکہ پہلی بار کھل کر کہہ رہے ہیں کہ اسلام کا جدت پسندی اور سیکولرازم سے کوئی تصادم نہیں‘ یہ ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔ سیکولرازم کی اتنی کھلی تائید انھوں نے پہلی بار کی ہے اور اس طرح روشن خیالی کی بلی تھیلی سے باہرآگئی ہے۔ اب ان کے پورے وعظ و تلقین کی شان نزول اور روشنی کا منبع بھی کسی پردے میں نہیں رہا۔ نیز یہ بھی کہ یہ آواز نئی نہیں‘ بلکہ بار بار اٹھائی جاتی رہی ہے۔ لبرلزم کے ایسے ہی وعظ ہم سو سال سے سن رہے ہیں۔ اقبال نے مغرب کے مقاصد کی تکمیل کرنے والے دانش وروں اور حکمرانوں کے فکری اور تہذیبی دیوالیہ پن کا بہت پہلے ماتم کر کے ان سے اُمت کو ہوشیار کیا تھا:
ترا وجود سراپا تجلیِ افرنگ
کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر
مگر یہ پیکر خاکی خودی سے ہے خالی
فقط نیام ہے تُو زر و نگار و بے شمشیر
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید
مشرق میں ہے تقلیدِ فرنگی کا بہانہ
اسلام پر حملہ کبھی باہر سے ہوتا ہے ‘ کبھی اندر سے‘ کبھی کھل کر ہوتا ہے اور کبھی چھپ کر‘ اور کبھی تحریف کے ذریعے ہوتا ہے تو کبھی تعبیر کے نام پر۔ کبھی دشمنی کے انداز میں ہوتا ہے اور کبھی اصلاح کے نام پر۔ چراغ مصطفویؐ اور شرار بولہبی بہرصورت ہر دور میں اور ہر میدان میں برسرِپیکار رہے ہیں اور رہیں گے۔
روشن خیالی اور اعتدال پسندی وہی مطلوب ہے جو اللہ کی بندگی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے وابستہ ہو۔ ایمان‘ تقویٰ‘ عبادت‘ شریعت سے وفاداری‘ اُمت کے حقوق کی ادایگی اور آخرت کی جواب دہی کا احساس وہ فریم ورک فراہم کرتے ہیں جس میں اسلام کی انصاف‘ اعتدال اور توازن پر مبنی مثالی تہذیب کی صورت گری ہوتی ہے۔ یہ ہدایت پر مبنی اور ہویٰ (خواہشِ نفس) سے پاک روشن خیالی اور اعتدال پسندی ہے۔ جو روشن خیالی اور اعتدال پسندی اسلام میں معتبر ہے۔ اس کی بنیاد وہ دعا ہے جو ہر مسلمان نماز کی ہر رکعت میں اپنے رب سے مانگتا ہے یعنی:
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ
اے رب! ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا‘ جو معتوب نہیں ہوئے‘ جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔
ہدایت کوئی مبہم اور غیرمتعین شے نہیں‘ وہ اللہ کی وحی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے عبارت ہے اور روشنی کا اصل منبع یہی رہنمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روشن خیالی کا ماخذ اس سے ہٹ کر کوئی دوسری شے نہیں ہوسکتی۔ اللہ ہی کائنات کا نور ہے (اللّٰہ نور السموات والارض) اور اللہ کی کتاب ہی انسانوں کو تاریکیوں سے نور کی طرف لاتی ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمْ بُرْھَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا (النساء ۴:۱۷۴)
لوگو! تمھارے رب کی طرف سے تمھارے پاس دلیل روشن آگئی ہے اور ہم نے تمھاری طرف ایسی روشنی بھیج دی ہے جو تمھیں صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے۔
فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَاعْتَصَمُوْا بِہٖ فَسَیُدْخِلُہُمْ فِیْ رَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَفَضْلٍ وَّیَہْدِیْہِمْ اِلَیْہِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا (النساء ۴:۱۷۵)
اب جو لوگ اللہ کی بات مان لیں گے اور اس کی پناہ ڈھونڈیں گے ان کو اللہ اپنی رحمت اور فضل و کرم کے دامن میں لے لے گا اور اپنی طرف آنے کا سیدھا راستہ ان کو دکھا دے گا۔
یَّہْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہ‘ سُبُلَ السَّلٰمِ وَیُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہٖ وَیَہْدِیْہِمْ اِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (المائدہ ۵:۱۶)
تمھارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اُجالے کی طرف لاتا ہے اور راہِ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے۔
واضح رہے کہ راہ راست ہی اعتدال کی راہ ہے۔ اسی لیے اس اُمت کو اُمت وسط (البقرہ ۲:۱۴۳) اور انصاف اور عدل کو‘ جو توازن‘ حسن‘ ہم آہنگی اور میانہ روی کا جامع ہے‘ اس اُمت کا مشن اور اس کی امتیازی شان قرار دیا (النساء ۴:۱۳۵‘ المائدہ ۵:۸‘ الاعراف ۷:۲۹‘ النحل ۱۶:۹۰) اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی زندگی کے لیے یہ زریں اصول مقرر فرما دیا کہ خیرالامور اوسطھا --- تمام معاملات میں میانہ روی اور اعتدال پسندی ہی بہترین طریقہ ہے۔
حقیقی روشن خیالی اور اعتدال پسندی قرآن و سنت کی مکمل اطاعت اور پاسداری سے عبارت ہے جو ہمارے نظام زندگی میں پہلے سے موجود (built-in) ہے اسے کہیں باہر سے لانے اور دوسروں کی خواہشات اور مطالبات کی روشنی میں کسی انتخاب و اختیار (pick and choose) اور کسی تراش خراش کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ کی نگاہ میں اس کے دین میں کمی بیشی اور دوسروں کی خواہشات کی روشنی میں رد و قبول سے بڑا کوئی جرم نہیں۔ اس پر دنیا میں خسارے اور آخرت میں بدترین عذاب کی وعید ہے۔
اسلام میں روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا جو مقام ہے‘ وہ شریعت کے اس کلّی مثالیے (paradigm) کا حصہ ہے‘ اس سے جدا کوئی جز نہیں۔ اس میں تحریف‘ غلو‘ قطع و برید اور جاہلانہ تعبیرات سے تحفظ اور الفاظ و معانی اور قانون اور روحِ قانون کا ناقابلِ انقطاع رشتہ ہے۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو ہمیشہ صحیح راستے پر قائم رکھنے کے لیے جو نسخۂ کیمیا تجویز فرمایا ہے‘ وہی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے حدود اربعہ کو طے کر لیتا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:
عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ الْعُذْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَحْمِلُ ھَذَا الْعِلْمَ مِنْ کُلِّ خَلَفٍ عُدُوْ لُہٗ یَنْفُوْنَ عَنْہٗ تَحْرِیْفَ الْغَالِیْنَ وَاِنْتِحَالَ الْمُبْطِلِیْنَ وَتَاْوِیْلَ الْجَاھِلِیْنَ (مشکوٰۃ)
اس علم کے حامل ہر نسل میں وہ لوگ ہوں گے جو دیانت و تقویٰ سے متصف ہوں گے وہ اس دین کی غلوپسندوں کی تحریف‘ اہلِ باطل کی غلط نسبت و انتساب اور جاہلوں کی تاویلات سے حفاظت فرمائیں۔
یہ ہے اسلام کی کھلی شاہراہ۔ لیکن جس لبرلزم‘ ماڈرنزم‘ روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی بات امریکی دانش ور اور پالیسی ساز کر رہے ہیں اور جس کی بازگشت خود ہمارے کچھ حکمرانوں اور دانش وروں کی تحریروں اور تقریروں میں سنی جاسکتی ہے اُس میں اور اس میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
چراغ مصطفویؐ سے جو روشن خیالی اور اعتدال پسندی رونما ہوتی ہے‘ وہ شریعت اسلامی کے بے کم و کاست اتباع سے عبارت ہے۔ اس کے مقابلے میں ’شراربولہبی‘ کا جو تقاضا اور مطالبہ ہے وہ یہ ہے کہ وقت کی جابر اور بالادست قوتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کے دین‘ اقدار اور تصورِ زندگی کو قبول کیا جائے‘ ان کے تصور ترقی کو اختیار کیا جائے‘ ان کے رنگ میں اپنے کو رنگ لیا جائے اور ان کے دیے ہوئے معیار کے مطابق اور ان کے پسندیدہ پیمانوں میں اللہ کے دین کو ڈھال دیا جائے۔ گویا جس طرح اکبر بادشاہ نے اپنے دور کے باغیوں کو خوش کرنے کے لیے ایک ’’دین الٰہی‘‘ بنانے کی جسارت کی تھی‘ اسی طرح آج امریکہ اور مغرب کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے ایک نیا ’اسلام‘ وضع کیا جائے جو اُمت کے مرکز سے ہٹ کر ملک اور مقامی مفادات کو مرکز بنائے اور جس کا اصل ہدف شریعت کو عملاً معطل کرکے دین و دنیا کی تفریق اور ماڈرنائزیشن کے نام پر مغربیت کے لیے راہ ہموار کرے۔ اس طرح اسلام کا نام باقی رکھ کر ایک سیکولر نظامِ زندگی پروان چڑھایا جائے تاکہ اسے امریکہ اور مغرب کے حکمران اور دانش ور ’روشن خیال اور اعتدال پسند‘ تسلیم کریں‘ جس کو وہ فنڈامنٹلزم اور انتہاپسندی قرار نہ دیں بلکہ اس ’اسلام‘ میں وہ اپنی تہذیبی اقدار اور عادات و اطوار کی جھلک دیکھ سکیں اور اس پر ’ترقی پسندی‘ کی مہر لگا سکیں۔
’چراغ مصطفویؐ ،اور ’شرار بولہبی‘ کی دائمی ستیزہ کاری اور اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلام اور اکبری دین الٰہی کی پیکار کی یاد دہانی کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ۱۱ستمبر کے بعد مسلم دنیا اور خصوصیت سے پاکستان پر امریکی اثرات بلکہ تسلط کا جو آغاز عسکری تعاون اور سیاسی تابع داری سے ہوا تھا‘ وہ اب نظریاتی‘ تعلیمی اور ثقافتی غلامی کے دائروں تک وسیع ہوتا جارہا ہے۔ اب اس کے لیے ایک تصوراتی خاکہ (conceptual framework) بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ جس کی خصوصی سعادت ہمارے جنرل پرویز مشرف کو حاصل ہو رہی ہے۔ پہلے انھوں نے اپنی تقریروں میں اور اپنے مختلف سیاسی حلیفوں سے ملاقاتوں میں ایک نئے وژن اور ایک تصوراتی ہیولا کی طرف اشارے کیے‘ پھر او آئی سی کے کولالمپور میں منعقد ہونے والے سربراہی اجلاس میں اس ادارے کی تشکیلِ نو کے عنوان سے اُمت مسلمہ کے لیے ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی ایک حکمت عملی پیش کرنے کی سعی بلیغ فرمائی اور اب ۲ جون ۲۰۰۴ء کو امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ کے ایک مضمون کی شکل میں اپنے اس نئے فلسفے کو‘ غالباً اپنی پہلی تحریر کے طور پر پیش کیا ہے جسے پاکستان کے تمام اخبارات نے بھی نمایاں طور پر شائع کیا ہے۔ او آئی سی کے وزراے خارجہ کے اجلاس منعقدہ استنبول میں ان کی پیش کردہ حکمت عملی (روشن خیال اعتدال پسندی- Enlightened Moderation)کو خود او آئی سی کے ہدف کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس تصوراتی خاکے اور حکمت عملی کا معروضی جائزہ لیا جائے اور اس کے حسن و قبح کو علمی تجزیے کے ذریعے واضح کیا جائے تاکہ اُمت کے رہے سہے گلشن کو شرار بولہبی کی آتش زنی سے محفوظ کیا جا سکے۔
دنیا ۹۰ء کے عشرے کے آغاز سے لے کر اب تک‘ ایک انتہائی ابتری اور افراتفری کے دور سے گزر رہی ہے اور اس تشویش ناک صورت حال میں بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ انتہاپسندوں‘ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے ہاتھوں معصوم افراد جس المناک صورت حال سے دوچار ہیں اور خاص طور پر میرے ہم مذہب مسلمان بھائی جس عذاب سے گزر رہے ہیں اس نے مجھے اس بات پر مائل کیا ہے کہ میں اس ابتری اور انتشار سے بھری دنیا کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کروں۔
دہشت گردی اور انتہا پسندی کے جرائم میں ملوث افراد بھی مسلمان ہیں اور ان کا نشانہ بننے والے بدنصیب بھی اسلام ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔
اور ان کی نگاہ میں اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ’’غیر مسلموں میں‘ غلط فہمی کی بنیاد ہی پر سہی مگر ایک عمومی تاثر یہ قائم ہو رہا ہے کہ اسلام عدم رواداری‘ انتہاپسندی اور دہشت گردی کا مذہب ہے‘‘۔
جنرل صاحب ان بے بنیاد تہمتوں سے اتنے خائف اور مرعوب ہیں کہ پہلے ہی شکست تسلیم کرلیتے ہیں یعنی ’’ہم اپنی دلیلوں کے ذریعے ذہنوں میں بیٹھے ہوئے اپنے خلاف تاثرات کو ختم کرنے کی جنگ جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے‘‘۔ اور یہ سب کچھ اس لیے کہ ’’مسلمان آج دنیا میں بہت غریب‘ سب سے زیادہ غیرتعلیم یافتہ‘ سب سے زیادہ بے بس اور سب سے زیادہ عدم اتحاد و استحکام کے شکار گروہ کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں‘‘۔
اس تجزیے کے بعد جنرل صاحب مسئلے کا حل یہ بتاتے ہیں کہ مسلمان اور غیرمسلم دنیا دونوں ان کی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی حکمت عملی کو قبول کرلیں تو سب ٹھیک ہو سکتا ہے۔
جنرل صاحب نے تلقین تو مغربی اقوام کو بھی یہی کی ہے اور بہ کمالِ شفقت مغربی دنیا اور بالخصوص امریکا کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ ’’مسلم دنیا کو درپیش تمام سیاسی تنازعات کو عدل و انصاف کے ساتھ مل کرحل کرنا ہوگا اور محروم اور پسماندہ مسلم دنیا کی سماجی اور معاشی ترقی کے لیے معاونت کرنا ہوگی‘‘۔ لیکن ان کا سارا زور اسلام کی ’اصلاح‘ اور مسلمانوں کے رویوں اور عمل کو تبدیل کرنے پر ہے۔ جنرل صاحب نے اسلام اور مسلمانوں کے لیے جو وژن پیش فرمایا ہے ‘ اس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ:
ہمیں اعتدال کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور ہمیں کشادہ نظری کے ساتھ ایک ایسے رویے کو فروغ دینا ہوگا جو اس غلط تصور کو باطل قرار دے سکے کہ اسلام ایک جارحیت پسند دین ہے اور اسلام جدت پسندی‘ جمہوریت اور سیکولرازم سے متصادم ہے۔
اور اس سب کے باوجود جنرل صاحب متنبہ فرما رہے ہیں کہ:
یہ سب کرتے ہوئے یہ بات بھی ہمیں پیشِ نظر رکھنا ہوگی کہ جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں‘ ضروری نہیں ہے کہ ہر وقت ہمارے ساتھ پوری طرح وہی سلوک روا رکھا جائے جو حق و انصاف کے اصولوں کے عین مطابق ہو۔
جنرل پرویز مشرف صاحب نے اسلامی دنیا کی جہادی تحریکوں کو‘ ایک ایسے ڈھکے چھپے انداز میں جو ان کی سوچ اور دل کی کیفیت کی غمازی کرتا ہے‘ افغانستان میں روس کے استعماری حملے کے خلاف تحریکِ مزاحمت کا نتیجہ قرار دیا ہے اور ۱۹۹۰ء کے بعد رونما ہونے والی نام نہاد دہشت گردی کو اس سلسلے کی ایک کڑی قرار دیا ہے۔ وہ جہاد اور آزادی کی تحریکات اور دہشت گردی کے فرق کو سمجھنے اور بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے اور امریکی دانش وروں اور پروپیگنڈے کے ماہرین کی تیار کردہ نئی تثلیث یعنی ’بنیاد پرستی، انتہاپسندی اور دہشت گردی‘ کو سارے مسائل کی جڑ قرار دے کر ’روشن خیال‘میانہ روی اور اعتدال پسندی‘ کے داعی بن کر اسلامی دنیا میں نشاتِ ثانیہ کی ضرورت کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ مضمون میں ایک پیراگراف اسلام کے اولین دور اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ماڈل کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ہے مگر اس کے بعد نہ مسلمانوں کے عروج اور عالمی قوت بننے کے اسباب پر کوئی روشنی ڈالی ہے اور نہ موجودہ حالت زار کا کوئی علمی تجزیہ کیا ہے۔ بس تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ معاشی ترقی اور سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں ہم پیچھے رہ گئے ہیں‘ مقابلے کی سکت ہم میں نہیں ہے۔ خرابی کی جڑ بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی ہے اور ہمارے لیے نجات کی کوئی راہ اس کے سوا نہیں کہ مغرب سے ہم آہنگی اختیار کریں اور ’’کشادہ نظری کے ساتھ ایک ایسے رویے کو فروغ دیں جو اس غلط تصور کو باطل کر دے کہ اسلام ایک جارحیت پسند دین ہے اور اسلام جدت پسندی‘ جمہوریت اور سیکولرازم سے متصادم نہیں۔
۱- جسے مغرب بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کہتا ہے اسے ترک کر دو اور روشن خیال اعتدال پسندی اختیار کرو۔
۲- ساری توجہ معاشی ترقی‘ تعلیم‘ غربت کے خاتمے‘ صحت اور عدل و انصاف کے حصول پر مرکوز کر دو اور اس کے لیے جدت پسندی‘ جمہوریت اور سیکولرازم کا راستہ اختیار کرو۔
۳- اسلامی کانفرنس کی تنظیم کو مؤثر اور فعال بنائو اور اس میں نئی روح پھونکو تاکہ مسلم دنیا اکیسویں صدی کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے۔
جنرل پرویز مشرف کے اس مضمون میں دو باتیں ایسی ہیں جن کو ہم مثبت سمجھتے ہیں۔ ایک‘ خواہ کتنے ہی ادب سے انھوں نے کہا ہو لیکن ان کا یہ ارشاد کہ ’’مغربی دنیا کو اور بالخصوص امریکا کو مسلم دنیا کو درپیش تمام سیاسی تنازعات کو عدل و انصاف کے ساتھ حل کرنا ہوگا اور محروم اور پس ماندہ دنیا کی سماجی اور معاشی ترقی میں معاونت کرنا ہوگی‘‘ اور دوسری یہ کہ مسلم دنیا کو اپنے گھر کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے اور اس کے لیے ’’اپنی ساری توانائیاں غربت کو دُور کرنے‘ تعلیم اور صحت اور عدل و انصاف کے مثالی نظام کے ذریعے اپنے افرادی وسائل کو فروغ دینے کے لیے‘‘ صرف کرنی چاہییں۔ ان دونوں باتوں سے کسی کو اختلاف نہیں لیکن جس پس منظر میں انھوں نے روشن خیال اعتدال پسندی کی اپنی حکمت عملی کو پیش کیا ہے اور جن دلائل اور شواہد کے بل بوتے پر کیا ہے‘ وہ بڑا خام اور حالات کی بڑی غلط عکاسی کرنے والا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اُمت مسلمہ کا مقدمہ پیش کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں اور عملاً ان کی اس تحریر سے اسلام اور مسلمانوں پر مغرب کے تمام غلط اور ناروا اعتراضات کی بالواسطہ یا بلاواسطہ تائید ہوتی ہے۔ ہم خود ان کے اور تمام سوچنے سمجھنے والے اہل فکرودانش کے غور کے لیے چند گزارشات پیش کرتے ہیں:
۱- دہشت گردی نہ ۱۹۹۰ء کے عشرے سے شروع ہوئی ہے اورنہ اس کا تعلق محض مسلمانوں سے ہے جیسا کہ زیربحث مضمون سے ظاہر ہوتا ہے۔ اول تو دہشت گردی کی تعریف ضروری ہے کیوں کہ قوت کے استعمال کی ہر کوشش کو دہشت گردی نہیں کہا جا سکتا۔ پھر دہشت گردی صرف افراد یا گروہوں کی طرف سے ہی نہیں ہوتی حکومتوں کی طرف سے بھی ہوتی ہے۔ آج دہشت گردی کا زیادہ ارتکاب حکومتوں ہی کی طرف سے ہو رہا ہے بلکہ عوامی سطح پر رونما ہونے والی دہشت گردی بالعموم نتیجہ ہوتی ہے تبدیلی کے سیاسی اور پُرامن مواقع کے مسدود کیے جانے اور ریاستی تشدد اور قومی اور بالاتر قوتوں کے طاقت کے بے محابا اور بے جواز استعمال سے۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کے نام پر جو دہشت گردی حکومتیں اور ریاستی ایجنسیاں انجام دیتی ہیں‘ وہ اس کی بدترین شکل ہے جسے آج دہشت گردی کہا جا رہا ہے۔ وہ دراصل ریاستی ظلم اور استبداد اور بالاتر قوتوں کا اپنے کو قانون‘ انصاف اور جمہوری روایات سے آزاد قرار دے لینے اور طاقت ور عناصر کی کمزوریوں پر دست درازیوں کی پیداوار ہے۔ یہ سیاسی مسائل کو سیاسی طریق کار سے حل نہ کرنے اور محض قوت سے حل کرنے کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
جنرل صاحب کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ جسے وہ اور امریکا دہشت گردی کہہ رہے ہیں وہ ۱۹۹۰ء میں افغانستان میں جہادی جدوجہد‘ روس کی پسپائی اور بعد میں امریکا کے تغافل سے پیدا ہوئی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ جہادی سرگرمیوں کا آغاز افغانستان میں روس کی فوج کشی سے ہوا اور نہ دنیا میں دہشت گردی کا آغازمسلم دنیا سے ہوا۔ بنیادی طور پر دہشت گردی یورپ کی استعماری اور فسطائی حکومتوں کے خلاف عوامی ردعمل کی ایک شکل کو قرار دیا گیا ہے جس میں غیر ریاستی عناصر مسلح سیاسی مقاصد کے لیے جدوجہد پر مجبور ہوئے ہیں۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اورخصوصیت سے مغربی دنیا میں گذشتہ ڈیڑھ سو سال میں اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بیرونی استعماری قوتوں کی مزاحمت کی مختلف تحریکوں نے اس راستے کو اختیار کیا ہے۔
یہ دورِ جدید کی تاریخ کا ایک خاص پہلو ہے جس کا کسی مذہب یا علاقے سے تعلق نہیں۔ سیکڑوں کتابیں اور ہزاروں مقالات اس کے مختلف پہلوئوں پرلکھے گئے ہیں۔ ہم صرف ایک کتاب کا حوالہ دیتے ہیں جسے مارتھا کرنسٹارڈ (Martha Crenstard )نے مرتب کیا ہے اور Terrorism in Context کے نام سے امریکا کی پینسلوانیا اسٹیٹ یونی ورسٹی پریس نے شائع کیا ہے۔ یہ کتاب ۱۱ستمبر کے واقعہ سے ۶ سال پہلے شائع ہوئی ہے اور اس میں مغرب اور مشرق کی درجنوں دہشت گرد تحریکوں کی پوری تاریخ بیان کی گئی ہے۔ نیز مغرب کے سیاسی مفکرین نے‘ خاص طور پر یورپ‘ لاطینی امریکا اور افریقہ کے دانش وروں نے ظالم حکمرانوں اور سامراجی حکومتوں کے خلاف مسلح جدوجہد کا کیا کیا جواز پیش کیا ہے اور اس بحث کو یورپ اور امریکا کے تاریخی تناظر میں انقلابی دہشت گردی (Revolutionary Terrorism) اور انارکسٹ دہشت گردی کے زمروں (Categories) میں بیان کیا ہے۔ شاید ہی دنیا کا کوئی حصہ ہو جہاں گذشتہ ڈیڑھ سو سال میں ایک نہیں‘ کئی کئی تحریکیں ایسی نہ اٹھی ہوں جنھیں آج کی اصطلاح میں دہشت گرد تحریک کہا جاتا ہے۔ ان کے کیا اسباب تھے‘ ذمہ داری کن عناصر پر تھی‘کن تحریکوں کے مثبت نتائج نکلے اور ان کے برپا کرنے والے قومی ہیرو ہی نہیں تاریخی کردار شمار کیے گئے۔ اگر جنرل صاحب اس پورے پس منظر سے واقف نہیں تو انھیں ایسے موضوع پر قلم نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔
۲- جہادی تحریک کو بھی افغانستان سے وابستہ کردینا حقائق سے ناواقفیت ہے یا مسئلے کو الجھانے کی کوشش۔ جہاد اسی ماڈل کا ایک حصہ ہے جسے جنرل صاحب نے ضمنی طور پر اسلام کے ابتدائی دور کے نام سے پیش کیا ہے۔ دورِ جدید میں مغرب کی تمام استعماری قوتوں کا مقابلہ ہر مسلمان ملک میں جہاد ہی کے ذریعے سے کیا گیا اور اسی وجہ سے مغربی اقوام کا خصوصی ہدف جہاد کا تصور رہا جسے ’منسوخ‘ کرانے کے لیے ان کو جھوٹی نبوت تک کا کھیل کھیلنا پڑا۔ الجزائر کی جہادی تحریک جدید تاریخ کا ایک تابناک باب ہے۔ فلسطین میں صہیونی قوت کے خلاف جہاد کا آغاز جدیدانتفاضہ سے نہیں ۱۹۴۸ء کی جدوجہد سے ہوتا ہے جو آج تک جاری ہے۔ کشمیر میں بھی جہاد کا آغاز افغانستان سے روس کی پسپائی سے شروع نہیں ہوتا بلکہ ۱۹۴۷ء میں ڈوگرہ راج اور اس کے مظالم کے خلاف منظم انداز میں ہوا اور آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کسی سیاسی خیرات یا اتفاقی حادثہ کی بنا پر بھارت سے آزاد نہیں ہوئے‘ یہ منظم جہادی جدوجہد سے آزاد کرائے گئے۔
جنرل صاحب نے جو تاریخی پس منظر بیان کیا ہے‘ وہ حقائق پر مبنی نہیں۔ اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ انھوں نے دہشت گردی کا سارا ملبہ مسلمانوں پر گرا دیا ہے۔ نہ اس کے عالمی پس منظر کاذکر کیا ہے‘ نہ ان حقیقی تاریخی‘ سیاسی اور تہذیبی اسباب و عوامل کا تجزیہ کیا ہے اور نہ مغربی اقوام کے اس کردار کی طرف کوئی اشارہ کیا ہے جو اس صورت حال کو پیدا کرنے کا ذریعہ بنے ہیں۔ کاش انھوں نے جرمن محققہ ایندریا لوئیگ ہی کا مطالعہ کر لیا ہوتا جو The Next Threat کے آخری باب میں اپنے نتائج تحقیق بیان کرتے ہوئے اعتراف کرتی ہے کہ:
ان بہت سی خوفناک چیزوں کا اسلام سے بہت کم تعلق ہے‘ بلکہ ان کی بنیادیں کچھ دوسری ہیں۔ اور ان دل دہلا دینے والے (shocking) کاموں میں سے کئی جدید مغربی معاشروں میں بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ‘ انتہا پسندی کی لادینی جڑیں بھی ہوسکتی ہیں‘ چاہے اس کے علم بردار اس کا انکار کریں۔ اس سے پہلے کہ ہم دوسروں کی انتہاپسندی کے بارے میں غضب میں آجائیں‘ ہمیں اپنے کلچر کی انتہاپسندی کا انکار نہیں کرنا چاہیے۔ جب جرمن نوجوان تارکینِ وطن کے ہوسٹل جلا ڈالنا چاہتے ہیں تو ان کا تعلق بھی انتہاپسندی اور غیرمعقولیت سے ہوتا ہے‘ صرف شراب نوشی اور فہم و فراست کے فقدان سے نہیں۔ لیکن شاید ہم میں سے کوئی ان جرائم کی بنیاد مذہب میں بتانے کا نہ سوچے یا یہ کہے کہ ان کا سرچشمہ مغرب کی عیسائی روایات ہیں۔ پس شرق اوسط کے لوگوں کی انتہاپسندی یا غیرمعقولیت کا تعلق ہمیشہ مذہب سے نہیں ہوتا۔ (ص ۱۵۷)
کاش ہمارے اہلِ قلم حقائق کی گہرائی تک جانے کی کوشش کریں اور ان گمبھیرمسائل کی گہرائی میں جاکر سیاسی‘ عمرانی اور نفسیاتی عوامل کی روشنی میں تجزیہ کریں۔ جنرل صاحب کا مضمون اس پہلو سے یک طرفہ‘ سطحی اور ملامتیہ انداز کا حامل ہے۔ ؎
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے
۳- جنرل پرویز مشرف نے مسلمانوں کو بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور ان کے درمیان ایک عارضی تعلق (causal relationship)بھی دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بنیاد پرستی ایک مبہم اور خالص امریکی تصور ہے جس کا اسلام سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہ انیسویں صدی کے آخر میں اور بیسویں صدی کے آغاز کی ایک عیسائی تبلیغی تحریک کی پیداوار تھا جسے گذشتہ چند برسوں سے مسلمانوں پر تھوپا جا رہا ہے۔ جنرل صاحب نے بے سوچے سمجھے اسے مسلمانوں سے وابستہ کردیا۔
انتہاپسندی ایک انسانی کمزوری ہے جو اہلِ مغرب میں بھی ہو سکتی ہے ‘ سیاست دانوں میں بھی‘ فوجیوں میں بھی اور کسی بھی گروہ یافرد میں۔ اس کا رشتہ نام نہاد بنیاد پرستی اور دہشت گردی سے جوڑنے کا کوئی منطقی جواز نہیں۔ دہشت گردی کے اپنے اسباب ہیں اور انتہاپسندی ایک بالکل دوسری شے ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر دہشت گردی انتہا پسندی کا نتیجہ ہو اور ہر انتہا پسندی دہشت گردی پر منتج ہو۔ جنرل صاحب کی یہ ساری بحث محض مغالطوں پر مبنی ہے اور پاکستان اور اسلام دونوں کی بڑی غلط نمایندگی کا ذریعہ بنی ہے۔ تعجب ہے کہ انھوں نے ایک لمحے کے لیے یہ بھی نہیں سوچا کہ اسلام اور مسلمانوں پر بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کا لیبل لگانے میں مغرب اور امریکا کے دانش وروں اور خصوصیت سے‘ صہیونی اہلِ قلم کا کیا کردار اور ان کے کیا مفادات وابستہ ہیں۔ کس طرح اسرائیل کے مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے وہ اسلام‘ عربوں اور مسلمانوں کی ایک خاص انداز میں منظرکشی کر رہے ہیں اور اس میں سیاسی مبصروں‘ دانش وروں اور صحافیوں کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا بلکہ ہالی وڈ کی فلموں نے کیا کردار ادا کیا ہے۔ اگر ان تمام حقائق پر کسی کی نگاہ نہیں تو کیا ضروری ہے کہ جن موضوعات پر آپ کی گرفت نہیں ان پر آپ گوہر افشانی کریں۔ اسلام کے بارے میں مغرب کے خود ساختہ تصورات اور فضا کو خراب کرنے میں ان کے کردار کے بارے میں جوشین ہپلر اور ایندریا لوئیگ کا یہ جملہ قابلِ غور ہے کہ:
یہ کتاب اسلام کا نہیں ‘بلکہ اسلام کے بارے میں مغرب کے دشمنانہ رویے کا جائزہ لے گی] یا مزعومہ ’اسلامی خطرے‘ کا[۔ ہمارا ایک نظریہ ہے کہ اس وقت اسلامی خطرے کے بارے میں عوامی لٹریچر کا جو فیشن ہے‘ مفروضہ خطرے یعنی اسلام سے اس کا بہت کم سروکار ہے۔ اس کا زیادہ تعلق مغرب کے اندازِ فکر سے ہے جس کا ایک جزو سرد جنگ کے اختتام کی وجہ سے ہماری شناخت میں پایا جانے والا خلا ہے۔ یہ پہلو ہمارے اندر دل چسپی پیدا کرتا ہے۔ (ص -۱)
ان مصنفین نے یہ بھی کہا ہے کہ خود بنیاد پرستی کی ساری بحث پر بھی ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی نگاہ میں:
ہمارا استدلال یہ ہے کہ اگرچہ بنیاد پرستی خراب ہے لیکن اس کے ناقد لامحالہ اچھے نہیں ہیں اور ضرور کچھ کے درپردہ محرکات ہو سکتے ہیں۔(ص -۳)
یورپ کے کچھ دانش ور اتنا غور کرنے کو تیار ہیں لیکن ہمارے اپنے ذمہ دار حضرات آنکھیں بند کر کے وہی بات کہنے اور لکھنے میں عار محسوس نہیں کرتے جس کا اظہار مغرب کے متعصب حکمران اور دانش ور کر رہے ہیں! اور جن کے اخلاقی اور ذہنی افلاس کا یہ حال ہے کہ جب ان سے کسی دعوے کے لیے دلیل طلب کی جاتی ہے اور شواہد کی عدم موجودگی پر احتساب ہوتا ہے تو ان کے پاس اس کے سوا کہنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا کہ بس میں یہ کہہ رہا ہوں۔
ہمارے پاس کوئی قابلِ اعتماد شہادت نہیں ہے کہ عراق اور القاعدہ نے امریکا پر حملوں میں تعاون کیا۔
تو اس کے جواب میں امریکی صدر جارج بش صاحب نے جو جواب دیا وہ گنیزبک میں درج کیے جانے کے لائق ہے :
The reason I keep insisting that there was a relationship between Iraq and Saddam and Al-Qaeeda is because there was a relationship between Iraq and Al-Qaeeda.
اس کی وجہ کہ میں برابر اصرار کرتا رہاہوں کہ عراق‘ صدام اور القاعدہ میں تعلق تھا یہ ہے کہ عراق اور القاعدہ میں تعلق تھا۔ (ٹائم ۲۸ جون ۲۰۰۴ئ)
دہشت گردی اور مسلمانوں کے سلسلے میں ہمارے جنرل صاحب اور جارج بش کے اسلوبِ استدالال میں بھی کوئی زیادہ فرق نہیں!
۴- جنرل پرویز مشرف کے مضمون میں دہشت گردی کے سارے منظر اور پیش منظر میں نہ ریاستی دہشت گردی کا کوئی ذکر ہے اور نہ دہشت گردی کے ارتکاب‘ فروغ اور دوام بخشنے میں امریکہ کے کردار پر کوئی گرفت بلکہ اس کا کوئی تذکرہ میں نہیں۔ امریکی قیادت کی بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا کوئی تذکرہ ان کی تحریر ہی نہیں۔ افغانستان اور عراق میں امریکہ جس دہشت گردی کا ارتکاب کر رہا ہے‘ اس پر ان کے ضمیر کی کسی خلش کا کوئی سایہ ان کی تحریر پر نہیں پڑا حالانکہ یہ ایک اہم موقع تھا کہ وہ امریکی قوم سے خطاب کر رہے تھے اور کچھ ان کو بھی آئینہ دکھانے کی خدمت انجام دیتے۔
امریکی دانش وروں اور عوام کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد امریکا کی اپنی دہشت گردی پر نالہ کناں ہے۔ چومسکی جیسے مفکر تو پہلے سے کہہ رہے ہیں کہ امریکا آج ایک غنڈہ ریاست (rogue state)بن چکا ہے۔ سابق امریکی اٹارنی جنرل ریمزے کلارک نے امریکا کے وحشیانہ مظالم پر کئی کتابیں لکھی ہیں اور عراق کی ۱۹۹۱ء کی جنگ سے پہلے‘ جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد کے جنگی جرائم پر ایک بین الاقوامی ٹربیونل کی رپورٹ بھی موجود ہے جو ریمزے کلارک نے جنگی جرائم (War Crimes)کے نام سے قانونی مطالعوں اور ضروری شہادتوں کے ساتھ شائع کی ہے۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کو فروغ دینے میں امریکہ کیا کردار ادا کر رہا ہے‘ اس پر درجنوں کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں۔ لیکن جنرل پرویز مشرف صاحب کی تحریر‘ امریکہ کے اس کردار کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں کرتی۔ اس موقع پر شالمرز جانسن کی تحقیقی کتاب Blowback: The Costs and Consequences of American Empire سے دو اقتباس اصل حقیقت کے ادراک کے لیے مفید ہوں گے۔
ایک آدمی کی نظروں میں جو دہشت گرد ہے‘ بلاشبہہ وہی دوسرے کی نظروں میں آزادی کے لیے لڑنے والا ہے۔ جس چیز کو امریکی اہلکار اپنے معصوم شہریوں پر بلااشتعال دہشت گردحملے کہہ کر مذمت کرتے ہیں ‘ وہ اکثر سابقہ امریکی استعماری کارروائیوں کا ردعمل ہوتا ہے۔ دہشت گرد بے گناہ شہریوں اور غیرمحفوظ امریکی اہداف پر حملہ کرتے ہیں ‘ صرف اس وجہ سے کہ امریکی سپاہی اور ملاح اپنے بحری جہازوں سے کروز میزائل فائر کرتے ہیں اور آسمان کی بلندیوں پر بی-۵۲ طیاروں میں بیٹھ کر بم باری کرتے ہیں اور واشنگٹن سے جابر و استبدادی حکومتوں کی حمایت کی جاتی ہے۔ ڈیفنس سروس بورڈ کے اراکین نے اپنی ۱۹۹۷ء کی رپورٹ میں جو ڈیفنس کے انڈر سیکرٹری کو دی گئی‘ لکھا تھا: تاریخی حقائق عالمی حالات میں امریکا کی شرکت اور امریکا کے خلاف دہشت گرد حملوں میں اضافے کے درمیان واضح تعلق ظاہر کرتے ہیں۔ مزیدبرآں فوجی طاقت میں فرق کی وجہ سے قومی ریاستیں امریکا پر کھلم کھلا حملہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتیں اور یوں وہ سمندر پار عامل استعمال نہیں کر سکتیں۔ (ص-۹)
دہشت گردی کی تعریف یہ ہے کہ جس طاقت پر حملہ نہیں کیا جا سکتا اس کے جرائم پر توجہ دلانے کے لیے بے گناہوں کو نشانہ بنایا جائے۔ ۲۱ویں صدی کے بے گناہ‘ حالیہ عشروں کی استعماری مہمات کے مابعد اثرات کی تباہیوں کی غیرمتوقع فصل کاٹیں گے۔ اگرچہ بیشتر امریکی اس امر سے ناواقف ہیں کہ ان کے نام پر کیا کچھ کیا جاچکا ہے اور کیا جا رہا ہے‘ سب ہی انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی قوم کی عالمی منظر پر غلبہ پانے کی مسلسل کوششوں کی گراں قیمت ادا کریں گے۔ (ص ۳۳)
خدا کرے مسلمان قیادتوں کو کبھی یہ توفیق حاصل ہو کہ وہ بھی امریکا کی قیادت کو بتا سکیں کہ دنیا میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے وہ اس کی کن پالیسیوں اور اقدامات کا ردعمل ہے اور آخری ذمہ داری کس پر ہے ع
اٹھا زمانہ میں جو بھی فتنہ اٹھا تیری رہ گزر سے پہلے!
۵- جنرل پرویز مشرف نے اسلام کے تاریخی کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آج کی زبوں حالی کا ذکر کیا ہے اور اس سے نکلنے کے لیے روشن خیال اعتدال پسندی کا درس دیا ہے اور ساتھ ہی معاشی اور تعلیمی ترقی کی بات کی ہے۔ بلاشبہہ معاشی اور تعلیمی ترقی اُمت کی بڑی ضرورت ہے لیکن ہمارا عروج اور ہمارا زوال محض مادی اسباب کی وجہ سے نہ تھا۔ اسلام کی اصل قوت اس کی دعوت‘ اس کے پیغام‘ اس کے اصول اور اس عملی نمونے میں تھی جو اسلاف نے پیش کیا۔ وہ اخلاقی قوت ان کا اصل سرمایہ تھی۔ دین و دنیا کی وحدت‘ انسانی مساوات‘ قانون کی بالادستی‘ حکمرانوں کی جواب دہی‘ شریعت کی پابندی‘ انصاف کی فراوانی‘ معاشرتی اور معاشی مساوات--- علم اور وسائل کے ساتھ عقیدہ‘ اخلاق‘ سیرت و کردار‘ اداروں کا استحکام اور احتساب کا موثر نظام ہماری قوت کا راز تھا۔ جب ان اصولوں اور اقدار کو فراموش کیا جانے لگا‘ جب عیش و عشرت اور سہولت کی زندگی اختیار کر لی گئی‘ جب جہاد اور اجتہاد کو ترک کر دیا گیا تو ہم دوسروں کے لیے تر نوالہ بن گئے‘ کمزور سے کمزور تر ہوتے گئے‘ غلامی اور محکومی کا نشانہ بنے اور آج بھی آزادی کے حصول کے باوجود دوسروں پر محتاجی اور ان کی سیاسی اور معاشی بالادستی کے تحت جینے کی مہلتیں مانگنے میں مصروف ہیں۔ اقبال نے مرض کی صحیح تشخیص کی تھی کہ:
اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات
جو فقر سے ہے میسر‘ تونگری سے نہیں
اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور
قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں
سبب کچھ اور ہے‘ تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں
اگر جہاں میں مرا جوہر آشکار ہوا
قلندری سے ہوا ہے‘ تونگری سے نہیں
لیکن ہمارا کیا حال ہے؟ ہم کاسہ گدائی سے ترقی کی منزلیں طے کرنا چاہتے ہیں اور خداشناسی اور جہاد کا راستہ ترک کر کے عزت کے حصول کے خواب دیکھ رہے ہیں اور اقبال ہی کی اس بات کو بھول گئے ہیں کہ ؎
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے‘ نہ من تیرا نہ تن
عنقریب ایک وقت آئے گا جب دوسری قومیں اکٹھی ہو کر تم پر ٹوٹ پڑیں گی‘ جس طرح کھانے والے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کسی نے پوچھا کیا ہم اس وقت قلیل تعداد میں ہوں گے؟
آپؐ نے فرمایا: تمھاری تعداد تو بہت زیادہ ہوگی لیکن تم سیلاب کے اوپر بہنے والے خس و خاشاک کی مانند ہوگے۔ اللہ تمھارے دشمن کے سینے سے تمھارا رعب چھین لے گا اور تمھارے دلوں میں ’وہن‘‘ ڈال دے گا۔
پوچھا: اللہ کے رسولؐ! یہ وہن کیا ہے؟ فرمایا: دنیا کی محبت اور موت (شہادت) سے نفرت۔
مسلمانوں کی تاریخ کے نشیب و فراز اور ان کے عروج و زوال کے جس تذکرے میں تجزیے کا یہ رخ موجود نہ ہو‘ اسے حقیقت پسندانہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
۶- جنرل مشرف نے معاشی ترقی‘ انصاف کی فراہمی‘ تعلیم کے فروغ اور جمہوریت کی بات بھی کی ہے لیکن کیا اس سوال سے اغماض برتا جا سکتا ہے کہ ان سب سے محرومی کے اسباب کیا ہیں اور وہ کون سے مفاد پرست طبقات ہیں جو وسائل پر قابض ہیں اور قوم کو ان سے محروم رکھے ہوئے ہیں؟ جمہوریت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مفاد پرست عناصر اور خود فوجی حکمرانوں کا کیا کردار ہے؟ انصاف سے کون محروم رکھے ہوئے ہیں؟ اداروں کے استحکام کی راہ میں کون رکاوٹ ہے؟ اس ملک کے حکمران طبقوں نے کون سی میانہ روی اختیار کی ہے۔ ساری مسلم دنیا کا جائزہ لے لیجیے۔ جن طبقات نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے وہ وہی ہیں جن پر لبرل کا لیبل ہے‘ جو ماڈرنزم کے علم بردار ہیں‘ جو سیکولر نظام کے حامی ہیں۔ یہی سامراجی قوتوں کے رفیقِ کار تھے اور یہی آزادی کے بعد اپنی ہی قوم کا خون چوسنے میں مصروف ہیں۔ ماڈرنزم کی قوتوں نے یورپ میں تو کچھ اچھے کام بھی کیے ہیں لیکن مسلم دنیا میںتو اصل ناکامی نام نہاد لبرل اور سیکولر لیڈرشپ کی ہے۔ کمال اتاترک اور شاہِ ایران اس ماڈرنزم کی علامت تھے۔ جمال عبدالناصر‘ صدام حسین‘ حافظ اسد‘ معمر قذافی‘ حبیب بورقیبہ‘ حواری بومدین‘ کس کس کا نام لیا جائے‘ یہ سب لبرل اور سیکولر قیادت تھی جس نے اسلامی دنیا کو ذلیل او ررسوا کیا۔ پاکستان میں کون سی قیادت ناکام ہوئی--- یہی لبرل سیکولر قیادت: جنرل ایوب سے جنرل پرویز مشرف تک۔ اقبال نے صحیح ہی کہا تھا ؎
زندہ کر سکتی ہے ایران و عرب کو کیونکر
یہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لبِ گور
اور ؎
نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
۷- جنرل مشرف نے یہ بھی کہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ان اسباب کی فکر کرنا ہوگی جو ناانصافی پیدا کر رہے ہیں اور لوگوں کو انتہاپسندی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ کیا جنرل صاحب بتا سکیں گے کہ خود اپنے ملک میں جسے وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کہتے ہیں اس کے ازالے کے لیے اسباب کی تلاش اور ناانصافیوں اور محرومیوں کو دُور کرنے کے لیے انھوں نے کیا کیا؟ اور کیا وہ بھی صدر بش کی طرح محض قوت کے استعمال سے ان خرابیوں کا قلع قمع کرنے کی پالیسی پر گامزن نہیں جن کا حل صرف حقوق کی ادایگی‘ انصاف کے قیام‘ جمہوری عمل کے استحکام‘ مذاکرات اور سیاسی طریقے ہی سے کیا جا سکتا ہے۔
۸- جنرل مشرف نے سیکولرزم کے اسلام سے متصادم نہ ہونے کی بات بھی کی ہے جو اسلام کے تصورِ حیات اور پاکستان کے مقصدِ وجود کی نفی کے مترادف ہے۔ اگر یہ بات سیکولرازم کے تصور اور اس کے مضمرات سے عدمِ واقفیت کی بنا پر کی گئی ہے تو افسوس ناک ہے اور اگر جان بوجھ کر یہ شوشہ چھوڑا گیا ہے تو جنرل صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ سکندر مرزا اور ایوب سے لے کر آج تک جس نے یہ بات کہی ہے‘ اس نے بالآخرمنہ کی کھائی ہے۔ اُمت مسلمہ لادینی نظریۂ حیات کو کبھی قبول نہیں کرسکتی۔ امریکی دین الٰہی کا اصل ہدف اسلامی دنیا میں دین و دنیا اور مذہب و سیاست کی تفریق کے نظام کو رائج کرنا اور اسلام کا ایک ایسا راہبانہ تصور فروغ دینا ہے جس میں دین گھر اور مسجد تک محدود ہو جائے اور دنیا کا نظام شیطانی نظریات کی پیروی میں چلایا جائے۔ شریعت معطل رہے اور جہاد منسوخ ہو جائے۔ لیکن یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف ہے۔
استعماری دور میں بیرونی حکمران ایسی دسیوں کوششیں کرکے ناکام رہے ہیں اور اب وہ اپنے دیسی ساجھیوں کے ذریعے یہ کرانا چاہتے ہیں تو ان شاء اللہ اسی طرح اب بھی ناکام رہیں گے البتہ اس سے بہتوں کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ کر دیں گے۔ ماضی میں نہ دین اکبری چل سکا اور نہ اب دین امریکی کے پنپنے کا کوئی امکان ہے۔ اللہ نے اپنے دین کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور اس دین سے ٹکر لینے کی جس نے بھی کوشش کی ہے بالآخر پاش پاش ہوا ہے۔ ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ یہ راستہ اختیار نہ کریں۔ ؎
مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں‘ کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سرِّ کلیمؑ و خلیلؑ
اور مسلمان فرد اورقوم دونوں کے لیے عزت اور زندگی کا ایک ہی راستہ ہے یعنی ؎
حدیث بے خبراں ہے‘ تو بازمانہ بساز
زمانہ با تو نہ سازد‘ تو بازمانہ ستیز
ہر دور میں جنگ‘ جنگ کا اسلوب اور جنگی ہتھیار بدلتے رہے ہیں اور نئے نئے ہتھیار اسلحہ خانے کی زینت اور انسانیت کے لیے مصیبت بنتے رہے ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے اختتام پر اگست ۱۹۴۵ء میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا کے ایٹمی حملے نے اجتماعی تباہی کے ہتھیار Weapons of Mass Destruction (WMD)کی اصطلاح کو عالمی سیاست اور جنگ و صلح کی لغت میں ایک خاص مقام دے دیا۔ کیمیاوی‘ حیاتیاتی اور گیس پر مبنی اسلحے کے لیے یہ لفظ اس سے پہلے بھی استعمال ہوتا تھالیکن دورِ جدید میں ڈبلیو ایم ڈیز نے بڑی اہمیت اختیار کرلی ہے۔
۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد ’دہشت گردی‘ اور ’خودکش حملوں‘ کو بھی ایک قسم کا ڈبلیو ایم ڈی ہی بناکر پیش کیا جا رہا ہے اور ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے نام پر دنیا کو نہ صرف دہشت گردی کے ایک بدترین عفریت کی آماجگاہ بنا دیا گیا ہے‘ بلکہ اس نام نہاد جنگ کے پردے میں کچھ دوسری ہی قسم کے اجتماعی تباہی کے ہتھیاروں سے دنیا کے مختلف ممالک اور تہذیبوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان میں میڈیا کی ثقافتی یلغار اور مسلم ممالک کے تعلیمی نظام پر ایک کاری وار خصوصیت سے اہمیت اختیار کرگئے ہیں‘ جن کو ہم ڈبلیو ایم ڈیز ہی کی تازہ ترین شکل سمجھتے ہیں۔ اجتماعی تباہی کے ہتھیار جس طرح انسانوں اور شہروں کو جسمانی طور پر تباہ کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں‘ اسی طرح یہ نئے علمی اور فنی ہتھیار قلب و نظر کو مسخر کرنے‘ افراد‘ معاشروں اور تہذیبوں کے تشخص کو تہ وبالا کرنے اور ایک نوعیت کی نظریاتی نسل کشی (ideological genocide) کا مقصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ویسے تو استعماری قوتوں نے ایسے حربے ہمیشہ ہی استعمال کیے ہیں اور اکبرالٰہ بادی نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ع
دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے!
لیکن اپنی کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار سے تعلیم پر جدید حملے تباہی کے مہلک ہتھیار کی شکل اختیارکرگئے ہیں۔ اس حملے کے اہداف کیا ہیں؟ علامہ اقبال نے اس خداداد صلاحیت کی بنیاد پر جو فراست ایمانی اور تاریخی اور تہذیبی شعور کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ان کو دی تھی‘ اُن سے اُمت مسلمہ کو بہت پہلے متنبہ کر دیا تھا۔ ضربِ کلیم میں ’نصیحت‘ کے عنوان سے شیطان کے اس حربے کو وہ یوں بیان کرتے ہیں:
اک لُردِ فرنگی نے کہا اپنے پسر سے
منظر وہ طلب کر کہ تری آنکھ نہ ہو سیر
بیچارے کے حق میں ہے یہی سب سے بڑا ظلم
بَرّے پہ اگر فاش کریں قاعدۂ شیر
سینے میں رہے رازِملُوکانہ تو بہتر
کرتے نہیں محکوم کو تیغوں سے کبھی زیر
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے‘ اسے پھیر
تاثیر میں اِکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب
سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر
امریکا کی سامراجی اور صلیبی قیادت اس وقت عالمِ اسلام اور خصوصیت سے اس کی احیائی تحریکوں اور جہادی قوتوں کو زیر کرنے کے لیے جس حکمت عملی پر عمل پیرا ہے‘ اس میں فوجی قوت‘ معاشی دبائو اور پروپیگنڈے کی نفسیاتی جنگ کے ساتھ جو سب سے خطرناک ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے وہ تعلیم کے نظام کو تبدیل کرواکے ذہنوں کو مسخر کرنے کے ذریعے اُمت کو غلامی کے نئے شکنجوں کی گرفت میں لینا ہے۔ فوجی قوت سے بلاشبہہ کچھ تھوڑے عرصے کے لیے مقابل قوت کو قابو میں کیا جا سکتا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ہر استعمار اور قبضے کے خلاف تحریک مزاحمت جلد یا بدیر رونما ہوتی ہے۔ معاشی دبائو بھی ایک عرصے تک چلتا ہے اور نفسیاتی حربے اور پروپیگنڈے کی تاثیر بھی محدود ہے۔ البتہ ذہنی غلامی‘ تعلیم کے ذریعے دل و دماغ کو مسخر کرنا‘ سوچنے کے انداز اور نفع و نقصان‘ خیروشر اور مطلوب اور نامطلوب کے پیمانوں کو بدل دینا ہی وہ حربہ ہے جس سے محکومی کو دوام دیا جاسکتا ہے--- اور اس وقت امریکی دانش ور اور سیاسی قیادت اور اس کے ’مراکز دانش‘ (think tanks)عوامی تباہی کے جس ہتھیار کواستعمال کرنے کے لیے سب سے زیادہ بے چین ہیں‘ وہ نظام تعلیم کی تبدیلی اور نصاب تعلیم میں ایسے تغیرات ہیں جو سوچنے کے انداز کو بدل سکیں اور اسلام کے انقلابی پیغام کو کسی ایسی شکل میں تبدیل کرسکیں کہ مذہبی حِس بھی تسکین پالے اور اسلام کا جہاں بانی اور تاریخ سازی کا کردار بھی ختم ہوجائے۔
اصل ہدف اسلام کا تصور‘ اس کا تاریخی کردار اور وہ احیائی قوتیں ہیں جو اسلام کو محض گھر اور مسجد تک محدود نہیں کرتیں بلکہ زندگی کے پورے نظام کو اس کے تابع لانا چاہتی ہیں‘ اور اس سے بھی بڑھ کر دنیا میں ظلم کے ہر نظام کو چیلنج کر کے انسانوں کو انصاف اور عزت کے حصول کے راستے کی دعوت دیتی ہیں۔ استعمار کا یہ وہی حربہ ہے جسے اقبال نے یوں بیان کیا تھا:
بہتر ہے کہ شیروں کو سکھا دیں رمِ آہُو
باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہٗ
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند
تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ
سارا ہدف یہ ہے کہ اسلام ایک اجتماعی قوت کی حیثیت اختیار نہ کرے‘ دین و سیاست میں تفریق ہو‘ اور اہل ایمان کفر اور ظلم کی قوتوں کے خلاف ایک تحریک اور ایک چیلنج بن کر نہ ابھر سکیں‘ آپس میں بٹ جائیں اور ہر ملک اور ہر گروہ صرف اپنے آپ میں مگن ہو (’سب سے پہلے پاکستان‘ میں اس کی بازگشت سنی جاسکتی ہے)‘ اور ایک دوسرے کا معاون و مددگار بن کر انصاف کے حصول اور ظلم کے خلاف جدوجہد سے پہلوتہی کرلے--- اقبال نے متنبہ کیا تھا کہ:
ہے زندہ فقط وحدتِ افکار سے ملّت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
وحدت کی حفاظت نہیں بے قوتِ بازو
آتی نہیں کچھ کام یہاں عقلِ خداداد
اے مردِ خدا تجھ کو وہ قوت نہیں حاصل
جا بیٹھ کسی غار میں اللہ کو کر یاد
مسکینی و محکومی و نومیدیِ جاوید
جس کا یہ تصوف ہو وہ اسلام کر ایجاد
مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
اور یہ اہل کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
اُس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف
۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد جس نقشۂ جنگ کو ترتیب دیا گیا ہے اس میں فوج کشی‘ معاشی دبائو اور نفسیاتی اور ابلاغی جنگ کے ساتھ مسلمانوں کے دینی تعلیمی نظام کو سبوتاژ کرنا اور اسے دنیاوی علوم اور عصری مسائل کے نام پر اپنی جڑوں سے اکھاڑدینا ہے۔ جدید تعلیمی نظام میں جس حد تک بھی اسلام کے انقلابی تصورِ حیات اور خصوصیت سے حق و باطل کی کش مکش میں مسلمانوں کے کردار اور اجتماعی مقاصد اور وحدت اُمت کے تصورات پائے جاتے ہیں‘ ان کو تار تار کرنا اور محض دنیاطلبی‘ عیش پرستی‘ ہوس رانی‘ اور طائوس و رباب کی زندگی کا رسیا بنانا ہے۔اس کے لیے اصل ہدف اسلام کا یہ تصور زندگی ہے کہ مسلمان ایک نظریاتی اُمت ہیں‘ ایک جسم کے اعضا کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کا اپنا اخلاقی‘ معاشی‘ سیاسی‘ تہذیبی‘ مالیاتی اور ثقافتی نظام ہے۔ وہ ایک نظامِ نو کے داعی اور تہذیب و تمدن کے ایک منفرد تصور کے مطابق انفرادی اوراجتماعی زندگی کی تشکیل کی جدوجہد میں اپنا مستقبل دیکھتے ہیں۔ یہ تصور آج کی امریکی قیادت کی نگاہ میں اس کے مفادات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور وہ اسے ’خطرہ‘ بناکر ایک طرف مسلمانوں کی عسکری قوت کو غیرمؤثر بنانے‘ ان کے معاشی وسائل کو گلوبلائزیشن کے نام پر اپنی گرفت میں لانے اور سب سے بڑھ کر فکری یلغار اور تعلیم کے بطور ایک مہلک ہتھیار کے بے محابا استعمال سے ان کو اپنی غلامی میں لانے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ کام سرکاری ذرائع کے ساتھ مسلمان ملکوں کے اپنے حکمرانوں‘ لبرل طبقات اور بیرونی سرمایے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے ذریعے انجام دینا چاہتے ہیں جس کے لیے سرمایہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے اور مفید مطلب حکمرانوں کو آلۂ کار بنایا جا رہا ہے۔
اسلام کے تصورِحکومت‘ ملّت کی وحدت‘ جہاد اور ظلم کے خلاف جدوجہد کے جذبے کو اصل ہدف بنایا گیا ہے۔ بنیاد پرستی‘ عسکریت‘ تشدد‘ انتہاپرستی اور اس نوعیت کے تمام اتہامات مسلمانوں پر اور خصوصیت سے دینی قوتوں پر لگائے جا رہے ہیں۔ مسلم دنیا میں حکمرانوں اور عوام میں کش مکش برپا کرنے اور ان کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراکرنے کے لیے نت نئے حربے استعمال کیے جارہے ہیں‘ اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اس کے لیے چھتری کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اگر ایک طرف حفظ ماتقدم حملے(pre-emptive strike) اور حکومتوں کی تبدیلی (regime change)کی حکمت عملی پر عمل ہو رہا ہے تو دوسری طرف دینی تعلیم کے نظام کو تبدیل کرنے‘ اسے سرکاری گرفت میں لانے‘ اور ملکی تعلیمی نظام میں نصاب اور تعلیمی اہداف کو تبدیل کرانے اور ذہنوں کو تبدیل کرنے اور اپنا ہم نوا بنانے کے منصوبوں پر پوری شدومد کے ساتھ عمل کیا جا رہا ہے۔ افغانستان اور عراق کو تو مکمل طور پر اپنے زیرتسلط لے آیا گیا ہے لیکن اس تہذیبی اور تعلیمی جنگ کا ہدف پورا عالمِ اسلام ہے جس میں خصوصیت سے اس وقت سعودی عرب‘ مصر اور پاکستان نشانہ ہیں۔
امریکا کی اس حکمت عملی کی یہ جھلکیاں صدربش سے لے کر ان کے دفاع کے وزیررمزفیلڈ‘ قومی سلامتی کی مشیر کنڈولیزا رائس اور وزیرخارجہ کولن پاول کے بیانات میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ لیکن اس کا بہت واضح اور مکمل اظہار حال ہی میں شائع ہونے والی دو اہم رپورٹوں میں ہوا ہے جس میں جنگ کا پورا نقشہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک رپورٹ وہاں کے مشہور تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کے قومی سلامتی کے تحقیقی شعبے نے تیار کی ہے اورCivil Democratic Islam: Partners, Resources and Strategiesکے عنوان سے حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ اسےCheryl Benardنے مرتب کیا ہے۔ اس کی تیاری میں آٹھ دوسرے دانش وروں نے شرکت کی ہے جن میں کابل میں امریکی سفیر زلمے خلیل زاد بھی شریک ہیں۔
رپورٹ کا بنیادی تصور یہ ہے کہ آج اسلام ایک دھماکا خیز شکل اختیار کرگیا ہے جو اندرونی اور بیرونی جدوجہد میں مصروف ہے تاکہ اپنی اقدار اور اپنے تشخص کو ابھارسکے اور ان کی روشنی میں دنیا میں اپنا مقام حاصل کرسکے۔ اس پس منظر میں امریکا اور مغربی دنیا کا مفاد اور ہدف یہ ہونا چاہیے کہ اسلامی دنیا ایک ایسی صورت اختیار کرے جو مغرب کے ساتھ ہم آہنگ ہو--- یعنی جمہوری اس معنی میں کہ سماجی اعتبار سے ترقی پسند (socially progressive) ہو اور بین الاقوامی طور پر قابلِ قبول رویہ اختیار کرے۔ اس کے لیے امریکی پالیسی کیا ہو؟ رپورٹ کہتی ہے:
اس لیے دانش مندی کی بات یہ ہے کہ اسلامی دنیا میں ان عناصر کی حوصلہ افزائی کی جائے جو عالمی امن اور عالمی برادری سے ہم آہنگ ہیں اور جمہوریت اور جدیدیت کو پسند کرتے ہیں۔
۱- بنیاد پرست (fundamentalists)جو مغربی تہذیب کے خلاف ہیں اور اسلامی قانون اور اخلاقیات کا وہ تصور رکھتے ہیں جو رپورٹ کے مصنفین کی نگاہ میں جدیدیت سے متصادم ہے۔ یہ مغرب کے لیے سب سے بڑا خطرہ اور نتیجتاً اہم ترین دشمن ہیں۔
۲- دوسراگروہ قدامت پسندوں (traditionalists)کا ہے جو تبدیلی‘ تجدد اور جدیدیت سے خائف ہیں اور روایت کے اسیر رہنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ یہ بھی ہمارے دشمن ہیں مگر نمبر ایک کے مقابلے میں غنیمت ہیں۔
۳- تیسرا گروہ جدیدیت پسندوں (modernists)کا ہے جو اسلامی دنیا کو آج کی مغربی دنیا (جسے رپورٹ عالمی برادری global community قرار دیتی ہے)سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے اسلام کو جدید بنانے کے خواہاں ہیں۔ یہ ہمارے لیے قابلِ قبول ہیں باوجودیکہ یہ گروہ اسلام سے رشتہ باقی رکھنا چاہتا ہے۔
۴- چوتھا گروہ جو مغرب کے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ ہے وہ لادینیوں (secularists)کا ہے جو دین و دنیا اور مذہب اور سیاست کی علیحدگی کے کھلے کھلے قائل ہیں‘ اور مغرب کے ماحول کی مکمل پیروی کرتے ہوئے مذہب کو ذاتی مسئلے اور اجتماعی امور کو مغربی صنعتی جمہوریوں کے طور طریق پر چلانا چاہتے ہیں۔
اصل رپورٹ میں ان چاروں کے درمیان بھی تقسیم در تقسیم کی نشان دہی کی گئی ہے جن میں سب سے ’فسادی‘ اور خطرناک وہ بنیاد پرست ہیں جو ان کی نگاہ میں تشدد کے طریقے اختیار کرتے ہیں۔ تمام بنیاد پرست دہشت گرد نہیں خطرناک ضرور ہیں۔ اسی طرح قدامت پسندوں‘ جدیدیت پسندوں اور لادینیوں میں بھی کم از کم دو دو گروہ ہیں۔
۱- قائدین اور رول ماڈل تیار کرنا۔ وہ جدیدیت پسند جن کے ستائے جانے کا اندیشہ ہے ان کو شہری حقوق کے حوصلہ مند قائدین کے طور پر سامنے لایا جائے جو وہ فی الحقیقت ہیں۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ یہ مفید مطلب ہے۔
۲- سیاسی حد رسائی (out reach)کے معاملات میں جدیدیت پسند عام مسلمانوں کو شامل کیا جائے تاکہ آبادی کی بنیاد پر حقیقی صورت حال کی صحیح عکاسی ہو۔ مسلمانوں کی اسلامیت کو مصنوعی طور پر ابھارنے سے احتراز کیا جائے۔ اس کے بجاے ان کو اس بات کا عادی بنایا جائے کہ اسلام ان کی شناخت کا بس ایک حصہ ہو سکتا ہے۔
۳- اسلامی دنیا میں سول سوسائٹی کی حمایت کی جائے۔ یہ بحرانی حالات‘ میں مہاجروں کی دیکھ بھال میں اور تنازعے کے بعد کی صورت حال میں خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے۔ اس صورت میں ایک جمہوری قیادت سامنے آسکتی ہے اورمقامی این جی اوز اور دوسری شہری انجمنوں کے ذریعے عملی تجربہ حاصل کر سکتی ہے۔ دیہی اور پڑوسی کی سطح پر بھی یہ انجمنیں ایک ایسا انفراسٹرکچر ہیں جو سیاسی شعور بیدار کرسکتی ہیں اور معتدل جدیدیت پسند قیادت ابھار سکتی ہیں۔
۴- مغربی اسلام ‘ جرمن اسلام اور امریکی اسلام وغیرہ کو تشکیل دینا۔ اس کے لیے ان معاشروں کی ہیئت کا اور ان کے ہاں رائج فکروعمل کے ارتقا کا بہتر فہم حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ان کے نظریات کا استنباط کرنے‘ اظہار کرنے اور ان کو قانونی شکل دینے (codifying)میں مدد دی جائے۔
۵- انتہاپسند اسلام سے وابستہ افراد اور موقفوں کو بے جواز قرار دیا جائے۔ بنیاد پرست خودساختہ قائدین کے غیراخلاقی اور منافقانہ افعال کو عام کیا جائے۔ مغرب پر بداخلاقی اور سطحیت کے الزامات‘ بنیاد پرستوں کے اسلحہ خانے کا پرکشش حصہ ہیں‘ جب کہ انھی نکات پر وہ خود بہت زیادہ حملے کی زد میں ہیں۔
۶- عوامی ذرائع ابلاغ میں عرب صحافیوں کی حوصلہ افزائی کرنا کہ وہ بنیاد پرست قائدین کی زندگیوں‘ عادات و اطوار اور بدعنوانیوں پر تفتیشی رپورٹنگ کریں۔ ان واقعات کی تشہیر کی جائے جو ان کی بے رحمی کو ظاہر کرتی ہے‘ مثلاً حال ہی میں آتش زنی کے واقعے میں سعودی اسکول میں لڑکیوں کی اموات‘ جب کہ مذہبی پولیس نے آگے بجھانے والوں کو جلتے ہوئے اسکول کی عمارت سے لڑکیوں کو نکالنے سے ہاتھ پکڑ کر روکا کیونکہ وہ باپردہ نہ تھیں۔ اور ان کی منافقت جس کا اظہار اس سے ہوتا ہے کہ سعودی مذہبی انتظامیہ تارک وطن کارکنوں کو اپنے نئے پیدا ہونے والے بچوں کی تصویریں منگوانے سے اس بنیاد پر روکتی ہے کہ اسلام میں تصویر بنانا منع ہے‘ جب کہ ان کے اپنے دفاتر میں شاہ فیصل وغیرہ کی بڑی بڑی تصاویر آویزاں ہیں۔
۷- دینی سرگرمیوں کی مالی معاونت کے نظام کو درہم برہم کیا جائے‘ اس لیے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو وسائل فراہم کرنے میں خیراتی اداروں کا کردار ۱۱ستمبر کے بعد زیادہ واضح طور پر سمجھا جا رہا ہے۔ ضروری ہوگیا ہے کہ سرکاری سطح پر تحقیقات ہوں اور مسلسل جاری رہیں۔
۸- خوش حال اور معتدل اسلام کے نمونے کے طور پر مناسب نظریات رکھنے والے ممالک اور علاقوں یا گروپوں کی شناخت کرکے اور ان کی سرگرمی سے مدد کرکے تشہیر کی جائے۔ ان کی کامیابیوں کو شہرت دی جائے۔
۹- تصوف کے مقام ومرتبے کو بلند کیا جائے۔ مضبوط صوفی روایات کے حامل ممالک کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ اپنی تاریخ کے اس حصے کو اہمیت دیں اور اسے اپنے اسکول کے نصاب میں شامل کریں۔ صوفی اسلام پر زیادہ توجہ دی جائے۔
۱۰- انقلابی اسلامی تحریکوں کے بڑی عمر کے وابستگان کے نظریات تبدیل ہونے کی آسانی سے توقع نہیں کی جاسکتی۔ لیکن اگر جمہوری اسلام کا پیغام متعلقہ ممالک کے اسکول نصابات میں اور سرکاری میڈیا میں داخل کر دیا جائے تو ان کی نوخیز نسل پر اثرانداز ہوا جا سکتا ہے۔ انقلابی بنیاد پرستوں نے تعلیم میں رسوخ حاصل کرنے کے لیے بہت بڑی کوششیں کی ہیں اور اس کا امکان بہت کم ہے کہ وہ کسی لڑائی کے بغیر اپنی قائم شدہ جڑیں چھوڑ دیں۔ یہ میدان ان سے واپس حاصل کرنے کے لیے ایک بھرپور کوشش کی ضرورت ہوگی۔
اس ۱۰ نکاتی حکمت عملی کو بروے کار لانے کے لیے ایک مفصل پروگرام اور ترجیحات ہی نہیں بلکہ پورے سیاسی اور نظریاتی کھیل کا نقشۂ کار بھی رپورٹ کی زینت ہے۔ میکاولی کی سیاست تو مشہور تھی ہی‘ مگر بش کے امریکا نے میکاولی کی سیاست کا جو اکیسویں صدی کا ایڈیشن مرتب کیا ہے‘ اس کے خدوخال ہی دیکھ لیں اور اس آئینے میں غیروں ہی کے نہیں اپنوں کے بیانات‘ عزائم اور اعلانات کی تصویر بھی دیکھ لیں کہ کس طرح ماڈرن اور ماڈریٹ اور روشن خیال اسلام کا تانابانا بنا جا رہا ہے:
مجموعی حکمت عملی کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ضروری ہوگاکہ درج ذیل خصوصی سرگرمیاں بھی کی جائیں:
___ ان کے افکار کی توسیع واشاعت کی جائے۔
___ ان کی عوام اور نوجوانوں کے لیے لکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے۔
___ اسلامیات کے نصاب میں ان کے افکار کو متعارف کروایا جائے۔
___ ان کو عوامی پلیٹ فارم مہیا کیا جائے۔
___ مذہب کے بنیادی تصورات کے بارے میں ان کے افکار ونظریات کو ان بنیاد پرستوں اور روایت پسندوں کے مقابلے میں عام کیا جائے جو پہلے سے ہی اپنے نظریات کی اشاعت کے لیے ویب سائٹس‘ اشاعتی ادارے‘ تعلیمی ادارے اور دیگر ذرائع استعمال کرتے ہیں۔
___ غیرمطمئن مسلم نئی نسل کے لیے جدیدیت کو متبادل ثقافت کے طور پر پیش کیا جائے۔
___ قبل از اسلام اور غیر اسلامی تاریخ اور ثقافت سے متعلق بیداری کو سہولت پہنچاکر اور حوصلہ افزائی کرکے متعلقہ ممالک کے میڈیا اور نصاب کے ذریعے عام کیا جائے۔
___ لادینی شہری اور ثقافتی اداروں اور پروگراموں کی حوصلہ افزائی اور امداد کی جائے۔
___ روایت پسندوں کی بنیاد پرستوں کے تشدد اور انتہاپسندی پر تنقید کو عام کر کے‘ اور روایت پسندوں اور بنیاد پرستوں کے درمیان اختلاف کو ہوا دے کر۔
___ روایت پسندوں اور بنیاد پرستوں کے درمیان اتحاد کی روک تھام کرکے۔
___ ان جدیدیت پسندوں اور روایت پسندوں کے درمیان تعاون کو فروغ دیا جائے جو اس تناظر میں ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ روایت پسندوں کے اداروں میں جدیدیت پسندوں کی موجودگی اور حیثیت کو بڑھا یا جائے۔
___ روایت پسندوں کے مختلف حلقوں کے درمیان امتیاز برتا جائے۔
___ ان عناصر کی حوصلہ افزائی کی جائے جو جدیدیت سے قریب تر ہیں--- جیساکہ دوسروں کے مقابلے میں فقہ حنفیہ۔ ایسے فتاویٰ جاری کیے جائیں جو قبولیت عام حاصل کرکے دقیانوسی وہابی فتووں کی حیثیت کو کمزور کریں۔
___ صوفی ازم کی شہرت اور مقبولیت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
___ اسلامی تعبیرات کے سوال پر ان کے نقاط نظر میں پائے جانے والے اختلافات کو چیلنج کرکے اور بے نقاب کر کے۔
___ غیرقانونی گروپوں اور سرگرمیوں سے ان کے تعلقات کو بے نقاب کر کے۔
___ ان کی پُرتشدد سرگرمیوں کے نتائج کو عام کر کے۔
___ اپنی اقوام کی فلاح و بہبود کے صحیح رخ پر تعمیروترقی کرنے کی نااہلیت کو ظاہر کرکے۔
___ ان پیغامات کوبالخصوص نوجوانوں‘ نیک روایت پسند آبادی‘ مغرب میں مسلم اقلیتوں اور خواتین کو پہنچاکر۔
___ انتہا پسند بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں کے کارہاے نمایاں کی تعریف کرنے اور انھیں احترام دینے سے اجتناب کرکے اور اس کے بجاے انھیں خبطی اور بزدل‘ نہ کہ بدی کے ہیرو کے طور پر پیش کر کے۔
___ صحافیوں کی حوصلہ افزائی کر کے کہ وہ بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں کے حلقوں میں تفتیشی رپورٹنگ کے ذریعے بدعنوانی‘ منافقت اور اخلاقی گراوٹ کے معاملات کو سامنے لائیں۔
___ بنیاد پرستی کو بطور مشترکہ دشمن تسلیم کرنے کی حوصلہ افزائی کر کے‘ قوم پرستی اور بائیں بازو کے نظریات کی بنیاد پر امریکا مخالف قوتوں کے ساتھ لادینی عناصر کے اتحادوں کی حوصلہ شکنی کر کے۔
___ اس نظریے کی حمایت کر کے کہ مذہب اور ریاست اسلام میں بھی جدا جدا ہوسکتے ہیں اور اس سے ایمان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ (ص ۶۱-۶۶)
تہذیبی‘ فکری اور تعلیمی جنگ کا پورا نقشۂ کار آپ کے سامنے ہے۔ اگر اب بھی کسی کو امریکی سامراج کی تازہ ترین صلیبی جنگ کے اصل اہداف‘ مقاصد اور مضمرات کو سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے تو اس کی وجہ امریکی دانش وروں کی صاف گوئی کی کمی نہیں‘ اپنی کج فہمی یا تغافل جاہلانہ ہوسکتی ہے۔ رہے ہمارے حکمران اور لبرل دانش ور‘ تو ذرا امریکا بہادر کے ان ارشادات کا موازنہ اپنے حکمرانوں‘ وزراے تعلیم بلکہ کچھ ’علماے کرام‘ کی گوہرافشانیوں سے کرکے دیکھ لیجیے۔ صاف نظر آجائے گا کہ ؎
انھی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں‘ زباں میری ہے بات ان کی
انھی کی محفل سنوارتا ہوں‘ چراغ میرا ہے رات ان کی
دوسری طرف اس سے بھی زیادہ اہم رپورٹ وہ ہے جو ایک اعلیٰ اختیاراتی مشاورتی گروپ نے مرتب کی ہے جس میں ۱۴ اہم سابق سفیر اور چوٹی کے دانش ور تھے اور جس کے صدر سابق سفیر ایڈورڈ پی ڈجرجن(Edward P. Djerejan) تھے اور جسے امریکی ایوان نمایندگان کی Committee on Appropriationنے مرتب کرایا ہے۔ اس گروپ نے مسلم دنیا کے اہم ممالک کا دورہ کیا اور جہاں نہ جا سکا وہاں ٹی وی کانفرنس کے ذریعے وہاں کے اہم لوگوں سے رابطہ کیا۔ مدیر ترجمان القرآن کو بھی ایک ایسی ہی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ رپورٹ اکتوبر ۲۰۰۳ء میںChanging Minds Winning Peace: A New Strategic Direction for U.S. Public Diplomacy in the Arab and Muslim World کے نام سے شائع ہوئی ہے‘ اور امریکی کانگریس کی متعلقہ کمیٹیوں اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اس سے استفادہ کیا ہے۔۱؎
اس رپورٹ کا مثبت پہلو تو یہ ہے کہ اس میں امریکا کے بارے میں عالمِ اسلام اور عرب دنیا میں پائی جانے والی بے چینی بلکہ نفرت کا واضح اعتراف موجود ہے۔ البتہ اصلاحِ احوال کے لیے امریکا کی پالیسیوں پر نظرثانی کا تو بالکل ضمنی طور پر ذکر کرتی ہے لیکن اصل توجہ اس پر ہے کہ دنیا ہمیں صحیح طور پر سمجھ نہیں رہی‘ اس لیے خوب وسائل خرچ کر کے امریکی نقطۂ نظر کو دنیا کو سمجھانے اور عرب اور اسلامی دنیا کے تعلیمی‘ سیاسی اور سماجی نظام میں ایسی تبدیلیوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جو امریکا کی ساکھ کو بڑھانے اور ان کو امریکا کا ہم نوا بنانے میں موثر ہوسکیں۔ سرمایے کا بے محابا استعمال‘ نظام تعلیم کو متاثر کرنا‘ ریڈیوا ورٹی وی کا موثر استعمال‘ وفود کے تبادلے‘ طلبہ قیادتوں‘ فوجی ذمہ داروں کے تبادلہ پروگراموں‘ امریکی لٹریچر کی ان ممالک کی زبانوں میں فراہمی‘ امریکی سینٹرز کا قیام‘ امریکا میں ان ملکوں کی زبانوں کے جاننے والوں کا خصوصی پروگرام وغیرہ بھی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔ اس خدشے کا بھی اعتراف ہے کہ جمہوریت کے فروغ سے کہیں مذہبی انتہاپسند ان ممالک میں غلبہ نہ حاصل کرلیں۔
ہم ان تمام اخباری مضامین اور بیانات سے صرفِ نظر کر رہے ہیں جن میں مدرسے کی تعلیم‘ جہادی کلچر کی فسوں کاریوں اور نام نہاد بنیاد پرست تنظیموں کی سرگرمیوں کو ہدف تنقیدوملامت بنایا گیا ہے اور جس نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں پیالی میں طوفان (storm in a cup of tea) کا سماں پیدا کر دیا ہے۔ امریکا کے کارفرما عناصر کے ذہن کو بنانے اور خود پالیسی ساز اداروں کو متاثر کرنے میں اس کا بھی بڑا دخل ہے۔ پالیسی ساز اداروں اور ’مراکز دانش‘ کی رپورٹوں کے جائزے سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم اس وقت خاص ہدف ہیں۔
اس پس منظر میں پاکستان میں جنرل پرویز مشرف اور ان کی ٹیم کے ذریعے جو تبدیلیاں نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم میں لائی جا رہی ہیں‘ ان کے بے لاگ جائزے کی اشد ضرورت ہے۔ اس لیے کہ سرکاری اعلانات برأت کے علی الرغم یہ ایک حقیقت ہے کہ ان نام نہاد اصلاحات کے ڈانڈے امریکی پالیسی اور مطالبات سے ملتے ہیں جس کا اعتراف امریکی وزیرخارجہ جناب کولن پاول نے امریکا کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے سامنے اپنے ایک بیان میں ۱۰ مارچ ۲۰۰۴ء کو ان الفاظ میں کیا کہ: ’’پاکستانی مدارس دہشت گردوں کی آماجگاہ ہیں جس کے لیے ہم مشرف اور دیگر اسلامی ممالک کے سربراہوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں‘‘۔ اسی طرح امریکا کی سلامتی کی مشیر کونڈولیزارائس کا یہ بیان بھی ایک جہانِ معنی اپنے اندر رکھتا ہے کہ ’’اسلامی ممالک بشمول پاکستان کا تعلیمی نصاب بڑا مسئلہ تھا اور ہم اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی مشاورت سے بڑی تبدیلیاں کررہے ہیں‘‘۔
ہماری وزیرتعلیم خواہ کتناہی یہ کہتی رہیں کہ: ’’نصاب میں تبدیلی اور اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی منصوبہ بندی ہماری اپنی ہے‘ کوئی امریکی یا بیرونی دبائو کا شاخسانہ نہیں‘‘۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس کے پیچھے امریکا کی عالمی حکمت کا دبائو موجود ہے اور ایک موقع پر تو کونڈاولیزارائس نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ: ’’پاکستان میں تعلیمی نصاب میں تبدیلی کے پیچھے ہماری ہدایات کارفرما ہیں‘‘۔اب تو ’زبانِ خنجر‘ اور ’آستیں کا لہو‘ دونوں پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ تعلیمی نظام اور تعلیمی نصاب دونوں میں کی جانے والی تبدیلیوں کی اصل شان نزول کیا ہے؟
بلاشبہہ یہ تبدیلیاں ۱۱ستمبر کے واقعے کے بعد ہی شروع ہوگئی تھیں اور ان میں سے کچھ جنرل پرویز مشرف کے اپنے سیکولر اور لبرل رجحانات کے زیراثر بھی ہوسکتی ہیں لیکن تعلیم کو سیکولرائز کرنے کی مہم میں تیزی ۱۱ستمبر کے بعد کی امریکی پالیسیوں کے نتیجے میں آئی ہے۔
اس پس منظر میں کچھ تبدیلیاں تو وہ ہیں جو خاموشی سے وزارتِ تعلیم کے ذریعے لائی جارہی تھیں لیکن ایک دھماکا اس رپورٹ کی اشاعت سے ہوا جسے مغربی سرمایے کے بل بوتے پر ایک این جی او نے سیکولر اور لبرل دانش وروں کے ایک گروہ سے تیار کروایا اور The Subtle Subversionکے نام سے یہ رپورٹ اے ایچ نیر اور احمدسلیم کی ادارت میں Sustainable Development Policy Institute (SDPI)نے شائع کی جس پر وزارت تعلیم کی ایک کمیٹی نے باقاعدہ غور کیا۔ خدا بھلا کرے ان اہلِ قلم اور پارلیمنٹ کے ارکان کا جنھوں نے اس پر بروقت گرفت کی اور وزارتِ تعلیم کو ایک دفاعی پوزیشن میںڈال دیا۔ یہ رپورٹ اس ذہن کی کھلی عکاسی کرتی ہے جو تعلیم کے نظام کو کلی طور پر غیراسلامی بناکر مغرب کے لبرل فریم ورک میں لانا چاہتا ہے اور جو امریکا کے اصل اہداف کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔ اس گروہ نے کوشش تو یہ کی تھی کہ وزارتِ تعلیم کے ذریعے اپنے مذموم اہداف کو حاصل کر لے لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک سنت ہے کہ وہ شر سے کبھی کبھی خیر بھی نمودار کرتا ہے‘ اسی طرح جس طرح رات سے دن رونما ہوتا ہے۔ اس رپورٹ کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مخالف قوتوں کا پورا کھیل سامنے آگیا اور قوم جو ایک حد تک غفلت کا شکار تھی‘ چونک اٹھی اور جو تبدیلیاں خاموشی سے لائی جارہی تھیں وہ ایک دم سب کے سامنے آگئیں۔ اس سلسلے میں روزنامہ نواے وقت و روزنامہ انصاف اور اسلامی جمعیت طلبہ ‘ اسلامی جمعیت طالبات اور تنظیم اساتذہ نے بھی بہت کلیدی کردار ادا کیا۔
اس طرح نظام تعلیم اور نصابِ تعلیم کا مسئلہ قومی بحث اور پارلیمنٹ میں احتساب کا موضوع بن گئے۔ ہم نے جو پس منظر پیش کیا ہے اس میں اس بحث کی اصل معنویت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ہم آیندہ شمارے میں ان شاء اللہ‘ ایس ڈی پی آئی کی رپورٹ اور وزارتِ تعلیم کے مختلف اقدامات کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔
حضرت علی ؓ کا مشہور فرمان ہے کہ کفر کی حکومت چل سکتی ہے مگر ظلم کی نہیں۔ اللہ تعالیٰ ایک حد تک ہی ظالم کو مہلت دیتا ہے‘ پھر جلد ہی اس کا اصل چہرہ بے نقاب ہو جاتا ہے اور بالآخر زمین اس کے پائوں تلے سے نکل جاتی ہے۔
امریکا کی موجودہ قیادت کی رعونت ہی اس کے زوال کو قریب لانے کے لیے کیا کچھ کم تھی کہ اب اس کے ظلم اور انسانیت سوز حرکتوں کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان ہے جس نے پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے اور بش انتظامیہ کی چولیں ہلنے لگی ہیں۔
جن کی نگاہ امریکا کی تاریخ پر ہے وہ جانتے ہیں کہ جمہوریت‘ قانون کی بالادستی‘ احترام انسانیت‘ بنیادی حقوق اور آزادیوں کے علم برداروں کے دعووں اور حقیقت میں کتنا بُعد رہا ہے اور امریکا کے اصل باشندوں (ریڈ انڈینز) سے لے کر ایفرو امریکنوں اور دوسری غیرملکی اقوام کے ساتھ تاریخ کے مختلف ادوار میں کیا رویہ اختیار کیا گیا ہے لیکن جو تصویر تہذیب نو کی علم بردار اس واحد سوپر پاور کی عراق کی کارگزاریوں کی صورت میںاب سامنے آرہی ہے وہ شرمناک ہی نہیں‘ انسانیت کے لیے ہولناک بھی ہے۔ ابوغریب کے جیل خانے کی جو تصاویر گذشتہ چند ہفتوں میں ساری دنیا کے سامنے آئی ہیں‘ ان میں مظلومیت اور بربریت کے وہ مناظر چشم انسانیت نے دیکھے ہیں جو دلوں ہی کو نہیں پھاڑ دیتے بلکہ مستقبل کی کسی بہت بڑی تباہی کی بھی پیش گوئی کرتے ہیں۔ عراق کے معصوم مردوں‘ عورتوں اور جوان بچوں کو جس سفاکی اور بربریت سے جسمانی اور جنسی تعذیب کا نشانہ بنایا گیا ہے وہ ظلم‘ بے حیائی‘ فسطائیت اور بہیمیت کی تاریخ میں ایک تاریک ترین اور خون آشام باب کا اضافہ ہے۔ امریکی افواج نے اسلام اور عربوں سے نفرت کا جس طرح اظہار کیا ہے اور تشدد اور تعذیب کے جو ہتھیار ابوغریب جیل خانے کے بے بس قیدیوں پر استعمال کیے ہیں وہ جنگی جرائم کی بدترین مثال ہیں اور ان سے امریکی فوج اور اس کی قیادت کی ذہنی‘ اخلاقی حالت کی جو تصویر دنیا کے سامنے آئی ہے وہ اتنی شرمناک ہے کہ الفاظ بیان سے قاصر ہیں۔پال بریمر جو عراق کا امریکی وائسرائے ہے وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوا ہے کہ:
جو کچھ ہوا ہے اس کا بیان کرنا ہولناک ہے‘ ناقابل برداشت‘ غیر انسانی اور انسانی شرف‘ عالمی امن اور اخلاقی اقدار کے خلاف۔
لیکن افسوس کہ اس اعتراف کے باوجود کہ اس کی اپنی راجدھانی میں اس کی اپنی افواج کے کیا کارنامے ہیں‘ نہ اسے استعفا دینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور نہ فوج کے کمانڈر‘ وزیردفاع اور خود جارج بش کو--- حالانکہ جو کچھ امریکی افواج نے کیا ہے اس کی ان سب پر اخلاقی ہی نہیں قانونی ذمہ داری بھی آتی ہے اس لیے کہ اوپر سے آئے ہوئے احکامات کی پیروی (chain of command) کے اصول کے تحت اور ان بیانات کی روشنی میں جو چند فوجیوں نے اپنے کیریئر کو خطرے میں ڈال کر دیے ہیں‘ کہ یہ سب کچھ ایک باقاعدہ اور طے شدہ پالیسی کاحصہ تھا اور اوپر کے احکام یا کم از کم واضح اشاروں اور اجازتوں پر مبنی تھا۔
جو کچھ ابوغریب کے عقوبت خانے میں ہوا ہے اس کی کچھ تفصیل اخبارات میں آگئی ہے اور ابھی اس سے زیادہ اندوہناک کارگزاریوں کی تصاویر حکومت اور کچھ دوسرے اداروں کے قبضے میں ہیں وہ بھی شاید آہستہ آہستہ سامنے آجائیں گی۔ ہم ان تفصیلات کویہاں بیان کرنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔ البتہ چند غورطلب امور ہیں جن کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں۔
اولاً جو کچھ ابوغریب میں ہوا‘ وہ صرف اس ایک عقوبت خانے تک محدود نہ تھا بلکہ سارے شواہد اشارہ کرتے ہیں اور ریڈکراس‘ ہیومن رائٹس واچ اور غالباًخود امریکی فوج کی خفیہ رپورٹوں سے یہ ثابت ہے کہ ہزاروں افراد اس ظلم وستم اور ذلت و تعذیب کا نشانہ بنائے گئے ہیں۔ یہ سب وہ افراد تھے جن کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہوا‘ صرف تفتیش کے لیے ان کو ان مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ ظلم صرف ان انسانوںہی پر نہیں بلکہ پوری انسانیت پر ہوا ہے اور امریکا کی موجودہ قیادت انسانیت کی مجرم اور سزا کی مستوجب ہے۔
ثانیاً اس سے جدید تہذیب کے علم برداروں کے اخلاق اور کردار کی جو تصویر سامنے آتی ہے‘ وہ انتہائی گھنائونی ہے اور جو خوب صورت لبادے اس تہذیب نے اوڑھ رکھے ہیں‘ وہ اب تارتار ہوگئے ہیں۔ کوئی معذرت اور کوئی تاویل اس کے کریہہ چہرے پر پردہ نہیں ڈال سکتی۔ بلکہ جارج بش اور ان کے وزیردفاع ڈونلڈرمزفیلڈ نے جو سہارا لیا ہے کہ یہ چند افراد کی غلطی ہے اس سے بڑا جھوٹ اور دھوکا اور کوئی نہیں ہوسکتا جو اس قیادت کے اخلاقی دیوالیے پن کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اس میں غلطی کو تسلیم کرنے کی اخلاقی جرأت بھی نہیں۔
ثالثاً ان واقعات سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اب عالمی انصاف اور انسانیت کے معاملات کو کسی قاعدے اور قانون کے مطابق طے کرنے اور جواب دہی کا کوئی نظام باقی نہیں رہا ہے اور دنیا ایک جنگل کے قانون کے دور کی طرف واپس جارہی ہے۔ یہ صورت حال سارے انسانوں کے لیے ایک انتباہ (wake up call) کا درجہ رکھتی ہے کہ آج جو کچھ عراق میں ہو رہا ہے کل یہی سب کچھ دوسروں کے ساتھ ہونے والا ہے۔ اور اگر کسی کو اپنی عزت‘ آزادی اور آبرو کی فکر ہے تو آج ظالم کا ہاتھ روکے اور ظلم کی اس روش کو برائی کے اولیں اظہار ہی پر کچلنے کے اصول پر اس ظلم کی مزاحمت کرے اور بالآخر نیست و نابود کرنے کی کوشش کرے۔
استعمار، ظلم اور تعذیب کے اس گھنائونے باب کا آخری حملہ‘ بلکہ حملہ وہ اطلاع ہے جو ۲۵مئی کے اخبارات کی زینت ہے کہ امریکی حکومت نے قید خانوں اور تفتیش کے مقامات کی فوٹوبندی اور فلم بندی پر آیندہ کے لیے پابندی لگا دی ہے۔ اخلاقی زوال کی اس سے زیادہ انتہا کیا ہوگی کہ جرم کی بیخ کنی کے بجاے جرم کو جاننے کے ذرائع کو ختم کیا جائے۔
اس پس منظر میں ۲۲ مئی کو لندن میں وہاں کے میئر کین لیونگسٹن کی قیادت میں ایک عوامی مظاہرے کا انعقاد تاریکی میں روشنی کی کرن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں لیبرپارٹی کے سینیرلیڈر ٹونی بین اور رکن پارلیمنٹ جارج گیلووے کی تقاریر یہ امید دلاتی ہیں کہ انسانیت کا ضمیر مردہ نہیں ہوا۔ کین لیونگسٹن نے اس موقع پر کہا ہے کہ:
ان ہولناکیوں کو ختم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہماری افواج کو عراق سے فی الفور واپس بلا لیا جائے‘ اور بش پر اُن جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جائے جو اس کی نگرانی میں ہوئے اور اس نے شروع کروائے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ آزادی دلانے آرہے ہیں لیکن وہ تعذیب کا نشانہ بنانے والے ثابت ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جمہوریت لائیں گے لیکن اس کے بجاے وہ خونخوار کتے اور قاتلوں کے کن ٹوپ لائے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ انسانی حقوق لارہے ہیں لیکن اس کے بجاے وہ قیدیوں کی خوراک کو بیت الخلا میں پھینکنے اور وہاں اسے انسانوں کو کھانے پر مجبور کرنے والے ثابت ہوئے۔
امریکی اور برطانوی حکومتیں جارحیت کی مرتکب ہوئی ہیں۔ انھوں نے عراق پر ناجائز طور پر قبضہ کیا ہے۔ تعذیب قبضے کا ناگزیر حصہ ہے۔
لندن میں عراق میں کیے جانے والے انسانیت سوز مظالم کے خلاف عوامی ردعمل رونما ہورہا ہے لیکن عالمِ اسلام اور خصوصیت سے اس کی حکومتیں سو رہی ہیں۔ کسی کو اتنی توفیق بھی نہیں ہوئی کہ امریکا کی کھل کر مذمت کرتا‘ امریکی سفیروں کو بلا کر اپنی اور اپنے عوام کے غم و غصے کا موثر اظہار کرتا‘ امریکا سے تعلقات پر نظرثانی کا عندیہ دیا جاتا‘ امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک چلائی جاتی‘ یو این او کی سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس طلب کیا جاتا‘ جنرل اسمبلی کا اجلاس بلایا جاتا‘ او آئی سی اپنا سربراہی اجلاس بلاتی‘ مسلم ممالک میں امریکا کے خلاف عوامی مظاہرے ہوتے اور امریکا نے عراق میں جو رویہ اسلام‘ مسلمانوں‘ مسلمانوں کے مقدس مقامات اورعرب عوام کے ساتھ اختیار کر رکھا ہے‘ اس کے خلاف عوامی اور سرکاری سطح پر تحریک کا آغاز کیا جاتا۔ ہمیں یقین ہے کہ اللہ کا قانون تو ان شاء اللہ ضرور اپنے وقت پر اپنا اظہار کرے گا اور ظالم کی کشتی ڈوب کر رہے گی لیکن کیا مسلمان اُمت اور اس کی قیادتیں محض خاموش تماشائی بنی رہیں گی؟--- ہم اپنے ضمیر‘اپنے عوام‘ تاریخ اور سب سے بڑھ کر اپنے اللہ کو کیا جواب دیں گے؟
بھارت کی چودھویں لوک سبھا کے انتخابات مقررہ وقت سے چھ ماہ قبل اپریل اور مئی ۲۰۰۴ء میں چار مرحلوں میں منعقد ہوئے اور ۱۲ مئی کو سامنے آنے والے نتائج نے بھارت ہی نہیں پوری دنیا کو چونکا دیا۔ بی جے پی اور اس کے اتحادی جو اپنی متوقع فتح کے نشے میں چور تھے‘ خوابِ غفلت سے بیدار ہوئے۔ کانگریس اور اس کے اتحادی جنھیں فتح کی کوئی امید نہ تھی اولاً ۲۱۷ نشستیں لے کر اور پھر دوسری جماعتوں کی تائید سے‘ لوک سبھا میں ۳۲۰ ارکان کی تائید حاصل کر کے وزارت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ اس انتخاب کا گہری نظر سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
بھارت‘ پاکستان اور مغربی دنیا کے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں تبصروں کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ ہم بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اس اہم تبدیلی کے چند ضروری پہلوئوں پر کلام کریں اس لیے کہ پاکستانی حکومت کے ذمہ دار حضرات کے بیانات سے احساس ہوتا ہے کہ وہ ابھی تک اس غیر متوقع حادثے کے مالہ اور ماعلیہ کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔
جمہوریت میں اصل فیصلہ کن قوت عوام کی رائے اور ان کا فیصلہ ہوتی ہے۔ بھارت سے ہمیں جو بھی شکایات ہوں لیکن چار باتیں ایسی ہیںجن کا اعتراف حق پسندی کا تقاضا ہے۔ اول: وہاں سیاست میں کرپشن‘ پارٹیوں کے انتخابات میں دھاندلی اور مفاد پرستی کی شکایات بھی موجود ہیں اور اقلیتوں خصوصیت سے مسلمانوں اور پست طبقوں سے امتیاز برتا اور ان کو خوف زدہ کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود بحیثیت مجموعی ملک میں انتخابات منصفانہ ہوتے ہیں (ریاست جموں و کشمیر کو چھوڑ کر کہ وہ ملک کا حصہ نہیں‘ ایک مقبوضہ ریاست ہے)۔ اس کی بڑی وجہمسلسل انتخابات کا انعقاد اور ایک مختصر سے عرصے کے انحراف (اندرا گاندھی کے دور کی ایمرجنسی) کے سوا انتخابی عمل کے دستور کے مطابق کام کرنے اور ان کے نتائج کو بہ رضا و رغبت قبول کرنے کی روایت قائم ہوگئی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ عوام میں بھی اپنے حق کا احساس اور اپنی قوت کے استعمال کا دم خم پیدا ہوگیا ہے۔ حتیٰ کہ مسلمانوں نے بھی تمام تحدیدات اور ترغیبات کے علی الرغم اپنے ووٹ کی قوت اور اہمیت کو محسوس کرلیا ہے اور اسے استعمال بھی کیا ہے۔ فوج اور اسٹیبلشمنٹ اپنی حدود کے اندر ہے اور یہی وہ چیز ہے جس نے وہاں جمہوریت کے پودے کو پنپنے اور ایک سایہ دار درخت بننے کا موقع دیا ہے۔ اس سے اس اصول کی صداقت بھی ایک بار پھر واضح ہوجاتی ہے کہ ساری خرابیوں کے باوجود جمہوریت کی کمزوریوں اور خرابیوں کا حل مزید جمہوریت اور اس تجربے کو مزیدمستحکم کرنے میں ہے‘ مسیحائوں کی تلاش اور وقتی ٹوٹکے (short cuts) آزمانے میں نہیں کیوں کہ ان کا نتیجہ جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس میں پاکستان کے طالع آزمائوں کے لیے بڑا سبق اور پاکستانی عوام اور سیاسی جماعتوں کے لیے بڑا مثبت پیغام بلکہ راہ نمائی ہے۔
دوم: جمہوریت کے فروغ اور انتخابات کو ایک فیصلہ کن نظام بنانے میں بڑا دخل الیکشن کمیشن کی آزادی‘ اس کے اختیارات کی وسعت‘اور بحیثیت مجموعی الیکشن کمیشن کی بے داغ کارکردگی پر بھی ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے کو سرکاری دبائو اور سیاسی جماعتوں کے اثرات سے محفوظ رکھا ہے۔ ۷۰۰ کروڑ ووٹروں سے ربط‘ ان کے حق راے دہی کے صحیح استعمال کے لیے مناسب انتظامات‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا بے لاگ تعاون‘ اور جدید ترین مشینوں اور طریقوں کا استعمال‘ ہر حوالے سے اس نے اپنی کارکردگی ثابت کی ہے۔ ان انتخابات میں الیکٹرانک ووٹ کا طریقہ استعمال کیا گیا اور حقیقت یہ ہے کہ امریکا سے بہتر انتظامات کیے گئے۔ صدربش کے ساڑھے تین سال پہلے منعقد ہونے والے انتخاب میں الیکٹرانک نظام نے خاصی جانب داری کا مظاہرہ کیا تھا مگر بھارت جیسے کم ترقی یافتہ ملک نے شفاف طریقے سے اپنی خدمات انجام دیں۔ ووٹر کو صرف اپنے مطلوب نشان پر انگلی رکھنا تھی‘ باقی سارا کام کمپیوٹر نے انجام دے دیا۔ اس کامیابی میں الیکشن کمیشن اور اس کی کارکردگی کا بڑا دخل ہے۔
سوم: بھارت میں عدلیہ کا کردار بھی اہم ہے جس نے انسانی حقوق کے تحفظ اور سیاسی جنبہ داری کے ہر سائے سے اپنے کو محفوظ رکھتے ہوئے دستور کے مطابق قانونی نظام کو ترقی دینے میں بڑا شاندار کردار ادا کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی پشت پر بھی عدلیہ کی آزادی اور قوت موجود ہے۔
چہارم: ان کے ساتھ بھارت میں پریس کی آزادی نے بھی جمہوریت کے فروغ میں بڑا اہم حصہ لیا ہے۔ پریس اور میڈیا کا اپنا اپنا تعصب اپنی جگہ‘ اسی طرح کچھ لوگوں کا اپنے زعم میں قومی مفاد کی خاطر خاص عناصر کو زیادہ اہمیت دینا بھی ایک حقیقت ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ بھارتی پریس نے دوسرے نقطہ نظر کی اشاعت اور ابلاغ میں بھی آزادی سے کام لیا ہے۔
ان چاروں عناصر کی نشان دہی کے ساتھ اس بات کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ سب سے اہم کردار عوام کا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کی قوت سے آگاہ ہو رہے ہیں اور اس کے استعمال کی جرأت اور سلیقے کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتاپارٹی نے پروپیگنڈے کی قوت کو بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ اس کا پورا انتخابی بجٹ بی بی سی کے ایک جائزے کے مطابق ۵۰۰ کروڑ روپے کا تھا جو پاکستان کے پورے سالانہ بجٹ کا ۷۰ فی صد ہوتا ہے۔ صرف میڈیا کے اشتہارات پر بقول کلدیب نیر ۲۰ ملین ڈالر خرچ کیے گئے۔ لیکن بھارتی ووٹر نے محض میڈیا کی چکاچوند میں ’روشن بھارت‘ (Shining India) پر ایمان لانے سے انکار کر دیا۔ اس کا کریڈٹ عوام ہی کو جاتا ہے جن میں تعلیم اور خواندگی کا تناسب پاکستان سے خواہ تھوڑا سا بہتر ہو‘ لیکن عالمی سطح سے وہ ابھی بہت پیچھے ہیں۔
انتخابات کے مثبت پہلوئوں میں انتخابی نتائج کو سب کا خوش دلی سے قبول کرنا اور انھیں ناکام کرنے یا ہارس ٹریڈنگ اور مصنوعی اکثریت سازی کے ذریعے عوام کے فیصلے کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کا نہ ہونا بھی جمہوری اداروں کے بلوغ (maturity)کا اظہار ہے۔
ان مثبت پہلوئوں کے ساتھ یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ اپنے تمام سیکولرزم‘ لبرلزم اور قانون کے احترام کے دعووں کے ساتھ جس طرح بی جے پی نے سونیا گاندھی کے وزیراعظم بننے کا راستہ روکا اور انتہاپسندی کے ساتھ ہندو شیونزم کا مظاہرہ کیا‘ تشدد اور خلفشار کے سمندر میں ملک کو ڈبونے اور معاشی انتشار اور بحران کی فضا پیدا کی‘ وہ جمہوریت کے چہرے کے ایسے بدنما داغ ہیں جن پر نظر رکھے بغیر بھارت کی سیاسی نفسیات کا صحیح ادراک ممکن نہیں۔
انتخابی نتائج کے اس پہلو پر بڑے شرح و بسط کے ساتھ کلام ہوا ہے کہ بی جے پی کی معاشی حکمت عملی بری طرح ناکام رہی ہے۔ یہ حکمت عملی وہی ہے جس پر ہم بھی آنکھیں بند کرکے عمل کر رہے ہیں۔ ہماری معیشت کی شرح نمو اب ۲ئ۵ یا ۸ئ۵ فی صد ہے مگر بھارت کی ۸فی صد سالانہ تھی۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر ۱۲ بلین ڈالر ہیں ‘بھارت کے ۱۱۸ بلین ڈالر تھے۔ ہماری زراعت ۲ فی صد اور بھارت کی ۹ فی صد کی رفتار سے ترقی کر رہی ہے۔ لیکن اس تمام ترقی کا فائدہ بمشکل ۵ فی صد اہل ثروت کو ہو رہا تھا اور عوام کی اکثریت اس کے ثمرات سے محروم تھی۔ آندھراپردیش جسے دنیا میں کامیابی کی مثال( success story )کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا‘ جہاں کی IT کی برآمدات ۶ ارب ڈالر سالانہ کو چھو رہی تھیں اور جس کے وزیراعلیٰ چندرا بابو نائیڈو کو بل کلنٹن اور بل گیٹس سینے سے لگا رہے تھے‘ ان کی وزارت خس و خاشاک کی طرح بہہ گئی۔ اس سے لبرل معیشت‘ نج کاری اور گلوبلائزیشن کے سہارے معاشی پالیسی سازی کے افلاس کا پتا چلتا ہے۔ اس میں پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر ملکوں کے پالیسی سازوں کے لیے عبرت کا بڑا سامان ہے۔ یہی کچھ ارجنٹاٹنا میں ہوا‘ یوروگوا میں ہوا اور اب ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں ہوا۔ کیا اب بھی ہمارے معاشی معالج اسی نسخے پر عمل جاری رکھیں گے؟
بھارت کے انتخابات کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ یک پارٹی یا دو پارٹی نظام کے دن گنے جاچکے ہیں۔ اب اتحادوں کی سیاست ہے اور اس میں عوامی مسائل کے ساتھ مقامی مسائل نے بڑی اہمیت اختیار کرلی ہے۔ دونوں ہی بڑی پارٹیوں کو علاقائی پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلناپڑا ہے۔ ایک اتحاد میں ۲۷ پارٹیاں ہیں تو دوسرے میں ۲۰۔ کانگرس نے سابقہ انتخاب میں ناکامی سے بروقت سبق سیکھا اور اتحاد کی سیاست کا نقشہ بڑی محنت اور چابک دستی سے بنایا‘ خصوصاً جنوب کی علاقائی جماعتوں کو ساتھ ملا کر اس نے ایک کامیاب حکمت عملی وضع کی۔ اسی طرح محروم طبقات اور اقلیتوں کو اس نے سمجھ داری سے اپنی طرف ملتفت کیا اور اس کا اسے بھرپور فائدہ پہنچا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کا زوال فروری ۲۰۰۲ء میں شروع ہوگیا تھا جب اس نے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام اور نسل کشی کے سوچے سمجھے منصوبے پر منظم طریقے سے عمل کیا اور پھر گجرات کے انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھایا۔ بھارت کا مسلمان پہلے ۲۴ سال پاکستان کی طرف دیکھتا رہا۔لیکن سقوطِ ڈھاکہ کے سانحے نے اسے اس طرف سے مایوس کر دیا تو اسے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا خیال آیا۔ اب ہندو انتہاپسندی نے اس کی کمر توڑنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں بابری مسجد کی شہادت اور گجرات کے مسلم کُش فسادات اہم ترین حربے تھے۔ لیکن حالیہ انتخابات میں مسلم ووٹر نے پہلی بار ایک واضح انتخابی حکمت عملی پر عمل کیا‘ اس نے اپنے ووٹ کی قوت کو کامیابی سے استعمال کیا۔ بی جے پی کے نمایشی اقدامات کے باوجود جن میں مولاناابوالکلام مرحوم کی نواسی اور راجیہ سبھا کی سابق مسلمان ڈپٹی چیئرپرسن نجمہ ہبت اللہ کی تائید اور جامع مسجد دہلی کے امام کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے‘ مسلمان ووٹر نے تقریباً پورے ملک میں اپنا ووٹ صرف اسی نمایندے کو دیا جس کے بارے میں خیال تھا کہ وہ بی جے پی کے نمایندے کو شکست دے گا۔ اس طرح ۱۴فی صد ووٹروں کے فیصلہ کن ووٹ نے بیسیوں انتخابی حلقوں میں پانسہ پلٹ دیا۔ کانگریس کو اس کا احساس ہے اور یہی وجہ ہے بھارت کی تاریخ میں پہلی بار ۶۷ افراد کی کابینہ میں ۷ مسلمان وزرا شامل کیے گئے ہیں۔ اگر مسلمان اپنے تشخص کی حفاظت کے ساتھ اچھی انتخابی حکمت پر مستقبل میں بھی عمل پیرا ہوتے ہیں تو توقع ہے کہ وہ بھارت کی سیاست اور اجتماعی زندگی میں اپنا قرارواقعی مقام حاصل کرسکیں گے۔
ان انتخابات کا ایک اور پہلو (جس کے اثرات شاید صرف بھارت تک ہی محدود نہ رہیں) بائیں بازو کی جماعتوں کا تیسری سیاسی قوت بن کر ابھرنا اور گلوبلائزیشن کے عالمی سرمایہ داری کے منصوبے کو روک لگانے کے عزم کا اظہار ہے۔ لاطینی امریکا میں بھی یہ رجحان واضح ہورہا ہے اور امکان ہے کہ برطانیہ میں لیبر پارٹی کی بے وفائی (betrayal) کے علی الرغم یورپ کے دوسرے ممالک میں یہ رجحان تقویت پائے گا اور خود برطانیہ میں لیبر کی سیاست میں آیندہ تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ علاقائی اور عالمی دونوں تناظر میں یہ تبدیلیاں گہرے مطالعہ اور صحیح ردعمل کی متقاضی ہیں۔
پاک بھارت تعلقات کا مسئلہ بھی بہت گہرے غوروفکر کا تقاضا کرتا ہے۔ انتخاب سے پہلے ہماری قیادت نے اپنے سارے انڈے بی جے پی اور زیادہ صحیح الفاظ میں اٹل بہاری واجپائی کی ٹوکری میں ڈال دیے اور ان کے لیے دعائیں بھی شروع ہوگئیں۔ اسی طرح جس طرح وزیراعظم صاحب نے اس وقت جب ساری دنیا بش پر لعنت بھیج رہی ہے‘ ان کے لیے دعائوں کا تحفہ پیش فرمایا ہے۔ یہ سادگی نہیں ڈپلومیسی کی زبان میں نہایت بھیانک غلطیاں (blunders) ہیں جن سے احتراز کرنا چاہیے۔
انتخابی نتائج کے بعد سونیا گاندھی اور ڈکشٹ کے بیانات کا سہارا لیا جانا شروع ہوگیا ہے اور ایک بار پھر وہی مذاکرات کی رٹ لگائی جا رہی ہے حالانکہ ابھی بھارت میں وزارت نے اپنے قدم بھی نہیں جمائے ہیں۔ ایسی عجلت بڑی عاقبت نااندیشانہ سیاست ہے۔ کیا ہم صبروہمت کا دامن بالکل ہی چھوڑ چکے ہیں؟
کانگریس اور اس کے اتحادیوں کی سیاست کا بغور تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ حکومت کمزور ہے اور جو تھوڑی بہت گنجایش موجود تھی‘ ایک اقلیتی فرقے کے وزیراعظم کی وجہ سے وہ اور بھی کم ہوگئی ہے۔ کانگریس کی صدر بھی بھارت نژاد نہیں۔ سونیا گاندھی کی وزارت عظمیٰ کا راستہ روکنے کے لیے بی جے پی کی مرکزی قیادت نے جس طرح حلف برداری کی تقریب کے بائیکاٹ سے لے کر بڑی بڑی سورما خواتین کے استعفوں‘ سر کے بال منڈوانے اور ماتمی اجتماع کی دھمکیاں دیں‘ ان سے بی جے پی کی سیاست کے طریق واردات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ واجپائی نے بھی ایک ہی سانس میں دوستی اور جنگ دونوں کی باتیں کی تھیں۔ اب کشمیر کے مسئلے کے منصفانہ حل کی مشکلات بڑھ گئی ہیں اس لیے کہ حکومت کی کمزوری اور اپوزیشن میں ہندو سیاست کے چیلنجوں کونظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ کانگریس کی حکومت کے ترجمانوں کی طرف سے دو اعلان بڑے اہم اور معنی خیز ہیں۔ ایک شملہ معاہدے کا اعادہ اور دوسرے دیوارِ برلن کے گرنے کی بات۔ من موہن سنگھ صاحب کا حافظہ خطا کر رہا ہے۔ دیوار برلن تو پندرہ سال پہلے گرچکی تھی اور اس کے گرنے کا تصور نہ ہونا تو بہت پہلے کی بات ہے۔ لیکن دیوار برلن کی تلمیح میں کن عزائم کا ڈھکا چھپا اعلان ہے؟ وہی جو پنڈت نہرو‘ کانگریس ورکنگ کمیٹی اور اچاریہ کرپلانی نے بھارت اور پاکستان کے دوبارہ ملنے کی توقعات کی شکل میں کیا تھا اور جن کی طرف ایڈوانی صاحب کنفیڈریشن کی بات کرکے اشارے کر رہے تھے؟ آغاز ہی ان اعلانات سے ہواہے‘ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
مذاکرات ضرور کیجیے۔ ہم سب اس کے حق میں ہیں لیکن ان سے کسی قسم کی توقع رکھنا ایک حماقت ہوگی اور ان کی توقع پر متبادل راستوں اور حکمت عملیوں سے صرفِ نظر کرنا مجرمانہ اور بھیانک غلطیوں کے ارتکاب کے مترادف ہوگا۔ پورے منظرنامے کو سامنے رکھ کر گہرے سوچ بچار اور ضروری حکمت عملیاں تیار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ کشمیر میں اگر سیاسی اور مزاحمتی دبائو ذرا بھی کم ہوتا ہے تو مذاکرات کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ آخر سورن سنگھ بھٹو مذاکرات بھی کانگریس ہی کے زمانے میں ہوئے تھے۔ ڈکشٹ صاحب اسلام آباد میں سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ جامع مذاکرات(composite dialouge) کا آغاز بھی کانگریس ہی کے زمانے میں ہوا تھا جوآگے نہ بڑھا تھا۔ اب بھی امن کے قیام اور معنی خیز مذاکرات کے انعقاد کی ہرکوشش کرنا ہمارا فرض ہے مگر سمجھ داری‘ صبر‘ متانت اور قومی وقار کے ساتھ۔ اس موقع پر قائداعظم کے دو ارشادات اگر سامنے رہیں اور ان سے کچھ روشنی بھی حاصل کرلی جائے تو بڑا مفید ہوگا۔ قائداعظم نے ۱۵ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو مسلم لیگ کے لکھنؤ کے اجلاس میں بڑی پتے کی بات کہی تھی:
کمزور فریق کی جانب سے امن و صلح کی پیش کش کا مطلب ہمیشہ کمزوری کا اعتراف اور جارحیت کو حملہ کرنے کی ترغیب ہوتا ہے۔ تمام تحفظات اور معاہدات‘ اگر ان کی پشت پر طاقت نہ ہو‘ محض کاغذ کے پرزے ہوتے ہیں۔ سیاست کا مطلب انصاف کے نعروں یا رواداری یا خیرسگالی کی چیخ پکار پر بھروسا کرنا نہیں۔ سیاست کا مطلب ہے طاقت اور صرف طاقت۔
۱۱ مارچ ۱۹۴۸ء کو سوئٹزرلینڈ کے صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے قائداعظم نے جو بات کہی وہ آج ۱۹۴۸ء سے بھی زیادہ بامعنی اور برمحل ہے۔
سوال: کیا امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کبھی اپنے اختلافات اور تنازعات پُرامن طور پر حل کرلیں گے؟
جواب: بشرطیکہ بھارتی حکومت احساسِ برتری ختم کر دے‘ پاکستان کو برابر کی حیثیت دے اور اصل حقائق کا سامنا کرے۔
سوال: کیا بین الاقوامی معاملات میں پاکستان اور بھارت مل جل کر کام کریں گے اور کیا بیرونی حملے کی صورت میں بّری اور بحری محاذوں پر مشترکہ دفاع کریں گے؟
جواب: مجھے ذاتی طور پر ذرا بھی شبہہ نہیں کہ ہمارے اعلیٰ ملکی مفادات کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کو بین الاقوامی معاملات میں اپنا اہم کردار انجام دینے کے لیے مل جل کر کام کرناچاہیے۔ دو آزاد اور خودمختار مملکتوں کی حیثیت سے پاکستان اور بھارت کو بیرونی حملے کا مقابلہ باہمی تعاون سے کرنا چاہیے۔ لیکن اس کا دارومدار سراسر اس بات پرہے کہ پاکستان اور بھارت پہلے اپنے اختلافات اور تنازعات ختم کرلیں۔ اگر ہم پہلے اپنے گھر کو مضبوط اور استوار کرلیں تو پھر اس قابل ہوسکتے ہیں کہ بین الاقوامی معاملات میں ثابت قدمی سے بہت زیادہ حصہ لے سکیں۔
قائداعظم کے دونوں اقوال ان زریں اصولوں کی نشان دہی کرتے ہیں جن پر عمل کرنے سے ہماری پاک بھارت دوستی کی بنیادیں استوار ہوسکتی ہیں۔ ان کو نظرانداز کرکے جذباتی اندازمیں یا بیرونی دبائو کے تحت سیاست کاری ملک و ملّت کے لیے مہلک ہے۔
یہ وقت ہے کہ پارلیمنٹ اور تمام سیاسی اور دینی قوتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور ٹھوس بنیادوں پر خارجی اور داخلی پالیسی تشکیل دیں۔ جنرل پرویز مشرف اور ان کی ٹیم کی اب تک کی کارگزاری ہر اعتبار سے سخت مایوس کن اور مستقبل کے لیے اپنے دامن میں مہیب خطرات لیے ہوئے ہے۔ کشمیر کا مسئلہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اور ان انتخابات کے جو اثرات اس پر مرتب ہوں گے ان کے فوری اور گہرے جائزے کی اور ایسی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے جس سے تحریک مزاحمت کو صحیح پیغام پہنچے۔ جلدبازی میں اور وقتی مصالح یا بیرونی دبائو میں بنائی جانے والی پالیسیاں تارِعنکبوت کی طرح ہوتی ہیں۔ اس جال سے ہم جتنی جلد نکل جائیں ہمارے لیے بہتر ہے۔
مولاناابوالکلام آزاد نے ایک تقریر میں تاج محل کی تعریف میں رطب اللسان اور اس کے حسن اور دلآویزی سے مبہوت انسانوں کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ اس حسن مجسم کی جتنی تعریف چاہے کرلو لیکن یہ نہ بھولو کہ اس کی شان و شوکت اور دلربائی مرہون منت ہے ان نظر نہ آنے والے پتھروں پر جو اس کی بنیاد میں پیوستہ ہیں اور فنِ تعمیر کے اس عجوبے کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں--- کشمیر کی تحریکِ آزادی کا معاملہ بھی کچھ اس سے مختلف نہیں۔ ۱۹۸۰ء کے وسط میں مقبوضہ کشمیر میں جو تحریکِ مزاحمت شروع ہوئی‘ اور ۱۹۸۹ء کے انتخابی معرکے کے بعد جس سیاسی جدوجہد نے جہاد آزادی کا روپ دھارا‘ اس کی قیادت اگر حزب المجاہدین اور دوسری جہادی تنظیمیں کر رہی ہیں‘ اور اس کی سیاسی رہنمائی کی سعادت سید علی گیلانی اور ان کے رفقاے کار کو میسر آئی ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے پیچھے کئی اہم شخصیات کی وہ مساعی ہیں جو تاج محل کی نیو کے پتھروں کا درجہ رکھتی ہیں اور اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ اس تاریخی تحریک کی صورت گری میں ان کا بڑا حصہ ہے--- اور ان کا مقام اس سے اور بھی بلند ہوجاتا ہے کہ انھوں نے ساری خدمات اللہ کے لیے اور اپنی مظلوم قوم کی آزادی کے حصول کے لیے انجام دیں اور ہر نام و نمود سے بالا ہوکر!
مولانا عبدالباری مرحوم اس تحریکِ مزاحمت و جہاد کے گم نام بانیوں میں سب سے نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ مولانا عبدالباری ہی نے اس جدوجہد کی سرپرستی کے لیے مولانا سعدالدین مرحوم کو آمادہ کیا۔ ۱۹۸۰ء میں انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں تین ہفتے گزارے۔ کام کا ایک نقشہ ان کے ذہن میں تھا۔ وہاں اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں اور جماعت اسلامی کی قیادت سے تحریکِ آزادی کے لیے ایک نئی حکمت عملی پر افہام و تفہیم کی فضا پیدا کی۔ نئے خطوطِ کار مرتب کیے گئے۔ نوجوانوں نے کام شروع کر دیا۔ پھر ۱۹۸۳ء میں مولانا سعدالدین پاکستان تشریف لائے اور تحریک آزادی کے سلسلے میں اعلیٰ ترین سطح پر مشورے ہوئے اور بالآخر چار پانچ سال کی تیاری کے بعد ۱۹۸۸ء میں تحریک نے نئی کروٹ لی--- نوجوانوں میں ڈاکٹر ایوب ٹھاکر‘ ڈاکٹر غلام نبی فائی‘ تجمل حسین اور ان کے رفقا کا کردار سب سے اہم تھا تو بزرگوں میں مولانا سعدالدین‘ سید علی گیلانی اور اشرف صحرائی کا--- اور ان سب کے پیچھے جس شخص نے خاموشی‘ حکمت اور لگن کے ساتھ اس تحریک کے دروبست کی شیرازہ بندی کی وہ مولانا عبدالباری تھے‘ جو اس تحریک کو خاک و خون کی منزلیں طے کرتے دیکھتے ہوئے اور اس کے لیے دعائیں کرتے ہوئے ۲۶ فروری ۲۰۰۴ء کو اس دارفانی سے اپنے رب حقیقی کی طرف رخصت ہوگئے--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا عبدالباری نے اکتوبر ۱۹۱۹ء میں وادی کشمیر کی تحصیل باندی پور (بارہ مولہ) کے ایک معزز دینی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ۱۸ سال کی عمر میں جموں و کشمیر کی آزادی کی تحریک میں شرکت اختیار کی‘ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس میں شرکت کی‘ اور تحریک کے ہرمرحلے میں مردانہ وار شریک رہے۔ ۱۹ جولائی ۱۹۴۷ء کو جس اجلاس میں الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کی گئی ‘اس میں وہ بھی شریک تھے۔ ۱۹۴۷ء کے آخری ایام میں پاکستان ہجرت کی۔ بالاکوٹ میں چند سال قیام کے بعد راولپنڈی منتقل ہوگئے۔
جماعت اسلامی سے ذہنی اور عملی رفاقت کے ساتھ ساتھ مسلم کانفرنس آزاد کشمیر سے وابستگی جاری رکھی اور اس کے سینیرنائب صدر اور مجلس عاملہ کے فعال رکن رہے۔ ۱۹۷۴ء میں جب جماعت اسلامی آزاد کشمیر قائم ہوئی تو اس کے صدر منتخب ہوئے اور یہ ذمہ داری۱۹۸۱ء تک انجام دی۔ جس لگن سے امیرجماعت کی حیثیت سے کام کیا‘ اسی لگن سے کرنل رشید عباس اور عبدالرشید ترابی کی امارت میں بحیثیت رکن خدمات انجام دیں۔ ۱۹۹۴ء میں کار کے ایک حادثے کے نتیجے میں صاحبِ فراش ہوگئے مگر اسلام‘ تحریک اسلامی اور تحریک آزادی کشمیر کے لیے اسی طرح فکرمند رہے اور آخری سانس تک اپنے رب سے وفاداری کا جوعہد کیا تھا اس پر قائم رہے۔
مجھے مولانا عبدالباریؒ سے ملنے کا پہلا موقع ۱۹۷۸ء میں ملا جب میں انگلستان سے اسلام آباد منتقل ہوا۔ ۱۹۷۹ء میں ایران کے دورے میں بھی ساتھ رہے۔ ان کے انگلستان اور سعودی عرب کے دوروںمیں بھی‘ مجھے ان کے ساتھ وقت گزارنے کا بھرپور موقع ملا۔ تحریکی مشاورتوں اور اجتماعات میں بھی ایک دوسرے کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میں نے اس پورے عرصے میں مولانا عبدالباریؒ کو ایک بڑا صاف ستھر انسان پایا۔ اسلام کی دعوت‘ تحریک اسلامی کی خدمت‘ دینی تعلیم خصوصیت سے مساجد اور مدرسوں کی کفالت‘اور سب سے بڑھ کر جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کی جدوجہد‘ ان کے شب و روز کا مرکزومحور تھے۔ اس کے ساتھ اولاد کی تربیت اور ان کو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اسلام اور تحریکِ اسلامی کے رنگ میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش‘ ان کی مساعی کا حاصل ہیں۔ سیاسی معاملات میں ان کی رائے بڑی صائب اور خصوصیت سے کشمیر کے حالات کا تجزیہ بڑا چشم کشا ہوتا تھا۔ خود مجھے تحریکِ آزادی کشمیر میں سراپا کھینچ لانے میں ان کا بھی حصہ ہے۔گو اس سلسلے میں مرحوم ڈاکٹر ایوب ٹھاکر‘ برادرم الیف الدین ترابی اور عزیزی حسام الدین کا بھی بڑا ہی موثر کردار رہا ہے۔
مولانا عبدالباری سے ۲۵ سالہ تعلق میں‘ میںنے محسوس کیا کہ ان کی زندگی میں تین چیزیں بڑی نمایاں ہیں۔ سب سے پہلی چیز ان کا اسلام اور تحریکِ اسلامی سے کمٹ منٹ ہے۔ انھوں نے اسلام کو ایک عقیدے اور نظامِ عبادت کے طور پر ہی قبول نہیں کیا تھا بلکہ اسے زندگی کا مشن بنالیا تھا۔ اس کے لیے جدوجہد‘ قربانی اور اس پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچانے کی تڑپ اور جذبہ‘ ان کی پہچان بن گیا تھا۔ دین کو ہر شعبۂ زندگی میں خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی‘ مساجد اور مدارس کا قیام ہو یا دعوت و تحریک کی مساعی‘ صحافت ہو یا خطابت‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو بھی صلاحیتیں ودیعت کی تھیں اور جو بھی وسائل عطا کیے تھے‘ ان کو انھوں نے پوری دیانت اور دلجمعی کے ساتھ اللہ کی راہ میں صرف کیا اور بڑی کشادہ دلی کے ساتھ کیا۔ اور جب قضاے الٰہی سے وہ ایک حادثے کی بناپر صاحبِ فراش ہوگئے‘ تب بھی صبروشکر کی کیفیت میں ذرا فرق نہ آیا۔ انھوں نے ہمت نہ ہاری اور ان کا دل‘ ان کے ہاتھ‘ ان کی آنکھ اور ان کی زبان‘ اللہ کے ذکر میں مصروف رہی۔
دوسری چیز پاکستان سے ان کی محبت اور شیفتگی تھی اور یہ محبت محض وطن کی بنیاد پر نہ تھی بلکہ وہ پاکستان کو اسلام کا گھر اور قلعہ سمجھتے تھے اور مسجد کی طرح اس کی حفاظت اور خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے تھے۔
مولانا عبدالباری ؒکے عشق کا تیسرا مرکز و محور کشمیر اور خصوصیت سے اس کی آزادی کی تحریک اور پاکستان سے اس کے الحاق کی خواہش اور کوشش تھی۔ یہ چیز ان کو اپنی زندگی سے بھی زیادہ عزیز تھی‘ اور میں نے ان کو اس سے کبھی ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہ پایا خواہ اس کا تعلق کشمیر کاز کو سفارتی‘ سیاسی اور اخلاقی حمایت فراہم کرنا ہو یا جہادی قوت کو متحرک کرنا ہو کشمیر کی آزادی کے لیے ان کی خدمات ایک زریں مثال کا درجہ رکھتی ہیں۔
ان تینوں مقاصد کے حصول کے لیے انھوں نے اپنی زندگی کو وقف کر دیا اور اپنی اولاد اور اپنے دوستوں‘ ساتھیوں اور رفقا کو آمادہ اور متحرک کیا۔ یہ کام انھوں نے ہمت اور بالغ نظری سے انجام دیا۔ انھوں نے اپنے مقصد کے لیے جدوجہد کرنے کے باب میں بے پناہ جرأت کا مظاہرہ کیا۔ کتنا ہی مضبوط دشمن ہو اور راہ کی مشکلات کیسی ہی کٹھن کیوں نہ ہوں‘ وہ اپنے مشن کے لیے جدوجہد میں سرگرم رہے۔ وہ مخالفتوں کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند تھے۔ انھیں اپنے اللہ پر اور اپنے مشن کی صداقت پر بھروسا تھا اور یہی ان کی طاقت اور استقامت کا راز تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے اور انھیں اپنے جوارِرحمت میں جگہ دے۔آمین!
۱۱ فروری ۲۰۰۴ء کو جب میں آکس برج کے ہسپتال میں برادرم حاشر فاروقی اور برادرم کمال ھلباوی کے ساتھ انتہائی نگہداشت کے شعبے میں اپنے عزیز بھائی اور تحریک آزادی کشمیر کے عظیم مجاہد ڈاکٹر ایوب ٹھاکرسے ملا‘ تودل ایک خطرے کے احساس سے کانپ رہا تھا اور زبان ارض وسما کے مالک سے التجا کر رہی تھی کہ اسلام کے اس سپاہی کو نئی زندگی دے اور اس مقصد کے حصول کی جدوجہد کے لیے مزید مہلت دے جس میں اس نے اپنی طالب علمی‘ اپنی جوانی اور اپنی پوری زندگی وقف کر دی تھی۔ ایوب ٹھاکر زبان سے کچھ کہنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے مگر اصرار کر کے کاغذمنگوایا اور کانپتے ہاتھوں سے مجھے گواہ بناکر لکھا کہ میری زندگی کا مقصد اسلام‘ پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر ہے--- آکسیجن لگی ہوئی تھی لیکن قلب و نگاہ انھی مقاصد پر مرکوز تھے۔ ہاں‘ یہ بھی لکھا کہ میرے بیٹے مزمل کا خیال رکھنا‘ اسے اس راہ میں آگے بڑھنے کے لیے تربیت اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔
ایوب ٹھاکر مرحوم سے میری پہلی ملاقات ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ کے بنگلہ دیش میں منعقد ہونے والے ایک تربیتی کیمپ میں ۱۹۸۰ء میں ہوئی‘ جب وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ تھے اور سری نگر میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ اس نوجوان نے اپنے خلوص‘ اپنی فکری اصابت اور مقصد سے اپنی لگن کے باب میں مجھے تحریک آزادی کشمیر سے وابستہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں نوجوان ایوب ٹھاکر سے یہ پہلی ملاقات اہم سنگ میل ہے۔ ہم جتنے دن ساتھ رہے‘ ایک ہی موضوع ہماری گفتگو کا محور تھا--- کشمیر کے لیے کیا کیا جائے اور پاکستان اور عالمِ اسلام کو اس کے لیے کیسے متحرک کیا جائے؟ اس پہلی ملاقات ہی میں ان کا جو نقش دل و دماغ پر مرتسم ہوا وہ اقبال کے اس جوان کا تھا جس کے بارے میں انھوں نے کہا تھا ؎
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
یہ ایوب ٹھاکر اور ان جیسے نوجوان ہی تھے جنھوں نے مجھے یہ یقین دیا کہ کشمیر کے مسلمان بھارت کی غلامی پر کبھی قانع نہیں ہوں گے‘ اور ان شاء اللہ ایک دن ان زنجیروں کو توڑکر رہیں گے جن میں انھیں پابندسلاسل کردیا گیا ہے۔ ایوب ٹھاکر کا وژن بہت صاف اور نقشۂ راہ بالکل واضح تھا۔ انھوں نے خود اس پر چل کر کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو اپنے خون اور پسینے سے سینچا اور عالمی سطح پر کشمیرکاز کو پیش کرنے میں جتنی خدمت انجام دی وہ دوسری کسی جماعت‘ گروہ‘ بلکہ مملکت کی خدمت سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ ایوب ٹھاکر کے وژن میں کشمیر کی آزادی‘ پاکستان سے اس کی وابستگی اور صرف اسلام کی بالادستی‘ ایک ہی حقیقت کے تین روپ اور ایک ہی منزل کے تین نشان تھے۔ اس سلسلے میں‘ میں نے ان کو کبھی کسی کنفیوژن کا شکار نہیں پایا۔ جس قوم نے ایوب ٹھاکر جیسا نوجوان‘ مجاہد اور مفکر پیدا کیا وہ ان شاء اللہ کبھی غلام نہیں رہ سکتی--- آزادی اور عزت کی زندگی اس کا مقدر ہے‘ وقت جتنا بھی لگے!
ڈاکٹر ایوب ٹھاکر مرحوم مقبوضہ کشمیر کے قصبہ شوپیاں (اسلام آباد) میں ۱۹۴۹ء میں پیدا ہوئے۔ اسلامی جمعیت طلبہ جموں و کشمیر کے ناظم اعلیٰ رہے۔ کشمیر یونی ورسٹی سے نیوکلیرفزکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر کے تدریس کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ سری نگر میں مسئلہ کشمیر پر ایک عالمی کانفرنس کے انعقاد کے ’جرم‘ میں گرفتار ہوئے اور ملازمت سے برطرف کیے گئے۔ ۱۹۸۱ء میں جدہ کی عبدالعزیز یونی ورسٹی میں استاد کی حیثیت سے ان کی تقرری ہوئی اور پھر وہاں انھوں نے پانچ سال خدمات انجام دیں جس کے بعد ۱۹۸۶ء میں انگلستان منتقل ہوگئے جہاں تن‘ من دھن سے آزادی کشمیر کی جدوجہد میں شب و روز مشغول ہوگئے۔ مجھے یہ سعادت حاصل ہے کہ میری ہی دعوت پر وہ انگلستان آئے‘ انٹرنیشنل سینٹر فار کشمیر اسٹڈیز قائم کیا‘ پھر ورلڈ کشمیر فریڈم موومنٹ کے بانی صدر بنے‘ مرسی انٹرنیشنل اور جسٹس فائونڈیشن انھی کی محنتوں کا ثمرہ تھے۔ انگلستان‘ یورپ اور پوری دنیامیں کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے موثر خدمات انجام دیں۔ خود مقبوضہ کشمیر میںتحریک کو پروان چڑھانے اور مضبوط کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
وہ عالمی سطح پر تحریک کے دماغ تھے اور دست و بازو بھی خود ہی فراہم کرتے تھے۔ ہندستانی حکومت نے ایک جھوٹے مقدمے میں ان کو گھیر لیا تھا (جس میں مجرموں کی فہرست میں میرا نام بھی شامل تھا)‘ اور اسی بنیاد پر ان کا پاسپورٹ بھی ضبط کرلیا گیا تھا‘ نیز بی جے پی کے دور حکومت میں ایل کے اڈوانی ان کے بطور قیدی واپسی (repatriation)کے لیے ذاتی طور پر کوشش کرتا رہا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کی دسترس سے محفوظ رکھا۔ برطانیہ میں سیاسی‘ سفارتی اور علمی حلقوں میں انھوں نے بے پناہ کام کیا اور بڑی عزت کا مقام بنایا۔ مسلم کمیونٹی کو بھی متحرک کرنے میں ان کا بڑا کردار تھا۔ امریکہ‘ یورپ اور عرب دنیا‘ ہر جگہ انھوں نے تحریکِ آزادی کشمیر کو متحرک کیا اور اس کی قیادت کی ذمہ داریاں ادا کیں۔
ڈاکٹر ایوب ٹھاکرمرحوم بہت سلجھی ہوئی فکر کے حامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اعلیٰ ذہنی اور تنظیمی صلاحیتوں سے نوازا تھا جن کو انھوں نے اپنے مقصد کی خدمت کے لیے بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ ادارہ سازی (institution making) کا بھی ان کو ملکہ حاصل تھا۔ وہ دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے میں اپنی مثال آپ تھے۔ مقصد کے لیے قربانی اور اَن تھک محنت ان کی شخصیت کے دلآویز پہلو تھے۔ تحریکِ اسلامی کے وفادار سپاہی تھے اور نازک سے نازک وقت پر بھی ان کی وفاداری پر کوئی آنچ نہ آئی ع
یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے
اللہ تعالیٰ اپنی حکمتوں کو خود ہی خوب جانتا ہے اور اس کا ہر فیصلہ قبول‘ لیکن ایک پختہ کار انسان کی حیثیت سے ۵۵ سال کی عمر میں جدوجہد کے اس عالم میں جب کشتی بالکل منجدھار میں تھی‘ ان کا ۱۰ مارچ ۲۰۰۴ء کو رخصت ہو جانا‘ ایک ایسا نقصان ہے جس کا تصور بھی نہیں کیاتھا اور ان کے رخصت ہو جانے سے ایک ایسا خلا واقع ہوگیا ہے جس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ؎
مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب ایک سانحہ سا ہوگیا ہے
جس رب السمٰوٰت والارض نے یہ نعمت دی تھی‘ اس نے واپس لے لی ہے اور اس سے ہی دعا ہے کہ اس خلا کو پر کرے اور اس نقصان کی تلافی کا سامان بھی اپنے قبضۂ قدرت سے فرمائے اور اپنے اس مخلص اور وفادار بندے کی خدمات کو قبول فرمائے‘ اسے جنت الفردوس میں جگہ دے‘ اور جس مظلوم قوم کی آزادی کی جدوجہد میں اس نے اپنی جان آفریں کے سپرد کی اس قوم کی اس جدوجہد کو کامیاب فرمائے کہ اس کی خاطر لاکھوں جانیں تلف ہوگئی ہیں اور ہزاروں جوانیاں لُٹ گئی ہیں۔میں نے ایوب ٹھاکر کو کبھی مایوس نہ پایا۔ وہ ہر حال میں اچھے مستقبل کی امیداور امنگ رکھتے تھے کہ ؎
گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے
آغوش میں ہر شب کے سحر ہوتی ہے
بیسویں صدی میں اسلامی فکر کی تشکیل نو اور اسلامی احیا کی جدید تحریکیں ایک زندہ حقیقت ہیں۔ ان تحریکوں کے ظہور اور نشووارتقا کی تاریخ میں چند شخصیات بہت نمایاں نظر آتی ہیں‘ اور ہر معروضی اور منصفانہ جائزے میں ان کی حیثیت مرکزی اور کلیدی ہے‘ ان میں سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کو ایک منفرد اور ممتاز مقام حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ربع صدی میں مشرق اور مغرب‘ برعظیم پاک و ہند‘ عالمِ عربی‘ جنوب مشرقی ایشیا‘ یورپ اور امریکا سے اسلام اور عالمِ اسلام کے بارے میں جو بھی اہم کتاب یا تحقیقی مقالہ شائع ہوا ہے‘ اس میں سید مودودیؒ کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس تحقیق و تالیف کا مقصد کیا ہے؟ سید مودودیؒ کی عظمت و خدمات اور ان کے کارناموںکا اعتراف یا انھیں تنقید و ملامت کا ہدف بنانا۔
۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے واقعے کے جلو میں کتابوں کا جو ریلا آرہا ہے یا پھر ’اسلامی بنیاد پرستی‘، ’مسلم انتہا پسندی‘، ’سیاسی اسلام‘، ’عسکری اسلام‘ حتیٰ کہ ’اسلامی دہشت گردی‘ کے حوالوںسے جوفکری یورش جاری ہے‘ اس میں بھی ہر صاحب ِ قلم اپنے اپنے مقاصد اور تجزیوں اور جائزوں کے مطابق سید مودودی کو نشانہ بنانے میں کوئی کوتاہی نہیں کر رہا۔یہاں مقصد ان فکری حملوں اور قلم کاریوں کا احتساب کرنا نہیں ہے بلکہ صرف اس طرف توجہ دلانا ہے کہ آج اسلام کی تہذیبی قوت اور مسلمانوں کی احیائی تحریکوں پر یلغار کرنے والے حلقے عالمِ اسلام کی جن شخصیات کو بحث کا مرکز و مداربنا رہے ہیں‘ان میں سید مودودیؒ سرفہرست ہیں۔ ایک طرف مغربی یا مغرب زدہ مخالفین ان کے افکار کو فتنے کی جڑ قرار دے رہے ہیں‘ تو دوسری طرف اسلام کے بہی خواہ جس تبدیلی پر فخرکررہے ہیں اور جس سرمایے کی حفاظت کے لیے کوشاں ہیں ‘وہ گواہی دیتے ہیں کہ اس قیمتی امانت کو اُمت کے لیے حرزجاں بنانے میں سید مودودیؒ کی خدمات کتنی بھرپور اور فیصلہ کن ہیں۔
ترجمان القرآن کی اس اشاعت ِ خاص کی مناسبت سے ہم نے مناسب سمجھا کہ کچھ وقت اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں صرف کریں کہ بیسویں صدی میں احیاے اسلام کی جدوجہد میں دوسرے احیائی مفکرین اورمصلحین کے ساتھ‘ سید مودودیؒ کا اصل کارنامہ کیا ہے۔ وہ کارنامہ کہ جس نے اِس صدی کے آغاز اور اس کے اختتام کے حالات میں اتنا بنیادی اور انقلابی فرق پیدا کر دیا کہ دشمن جس اُمت کو بیمار اور بے کار سمجھ کر اس کی ’تجہیزوتکفین‘ کی تیاریاں کررہے تھے‘ وہ ایک بار پھر ایک ’عالمی خطرہ‘ تصور کی جا رہی ہے۔ جن سامراجی قوتوں نے سمجھ لیا تھا کہ اب دنیا ان کی چراگاہ ہے۔ انھیں اب ’تہذیبوں کے تصادم‘ کاخطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ چنانچہ وہ نئی استعماری یلغار اور صلیبی جنگوں (Crusades)کا آغاز کرتے ہوئے‘ بارود‘ جھوٹ اور تباہی کی پوری قوت کے ساتھ عملاً میدان میں کود پڑے ہیں۔
وَمَا عَلَی اللّٰہِ بِمُسْتَنکَرٍ
اَن یَجْمَعَ العَالَمَ فِی وَاحِدٖ
اللہ کی ذات سے بعید نہیں کہ وہ ایک عالم ]کی ساری خوبیاں [کسی فردِ واحد میں جمع کر دے۔
ہمارے دور میں سیدمودودیؒ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص کرم تھا جس کے نتیجے میں اُمت کو نئی زندگی ملی۔
فکری میدان میں ان کے کام پر بہت پیش رفت ہوئی ہے اور اس سے زیادہ مستقبل میں ہوگی۔ بحیثیت مفسرقرآن (تفہیم القرآن ‘ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘ رسائل و مسائل)‘ حدیث کے خادم (سنّت کی آئینی حیثیت‘ تفہیم الحدیث‘تفہیمات) سیرت نگار (سرورِعالمؐ، نشری تقریریں) فقیہ (تفہیم القرآن‘ رسائل ومسائل) متکلم اور عصرحاضر کے اجتماعی علوم کے ناقد اور ان میدانوں میں اسلامی فکر کے شارح اور ترجمان کی حیثیت سے انھوں نے سیکڑوں چراغ روشن کیے ہیں۔ اس کے ساتھ انھوں نے اپنے عہد کی فکر کو صرف متاثر ہی نہیں کیا‘ بلکہ ایک نیا رخ دینے کی کامیاب کوشش کی ہے‘ جس کے نتیجے میں آج دنیا کے گوشے گوشے سے ان کے افکار کی صداے بازگشت سنی جا سکتی ہیں۔
اس وقت مقصد ان پہلوئوں پر گفتگو نہیں‘ بلکہ سیدمودودیؒ کے پورے لٹریچر کو سامنے رکھ کر ہم ان کے مرکزی کارنامے (contribution ) پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔ اس مناسبت سے صرف چند کلیدی امور پر اور وہ بھی ان کے مجموعی وژن اور اس نئے مثالیے (paradigm ) کا تعین و تشریح موضوع ہوگا‘ جس کی تشکیل اور ترویج میں سید صاحب کا مرکزی کردار رہا ہے۔ بلاشبہہ بیسویں صدی میں علامہ اقبال ؒ،مولانا ابوالکلام آزادؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ سے لے کر حسن البناؒ، سید قطب ؒاور مالک بن نبیؒ تک مفکرین نے اپنے اپنے انداز میں اس وژن‘ اس فکر اور اس مثالیے کی تشکیل و تکمیل میں اپنا اپنا حصہ بٹایا‘ لیکن سچی بات یہی ہے کہ ع
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
اس مطالعے میں ہم پہلے مختصراً یہ تعین کریں گے کہ سید مودودیؒ نے فکری میدان میں اصل کارنامہ کیا انجام دیا‘ تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ ان کے اصلاحی کام کے بنیادی خدوخال کس فکری اساس کے برگ و بار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی پس منظر میں یہ دیکھیں گے کہ اکیسویں صدی اور خصوصیت سے ۱۱ستمبر کے بعد کی دنیا اور اس میں اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنجوںسے عہدہ برآ ہونے کے لیے سید مودودی کے روشن کردہ چراغ کیا روشنی فراہم کرتے ہیں اور اسلامی تحریکات اور ان کے قائدین کو بالخصوص جو مسائل درپیش ہیں۔ سیدمودودیؒ کے فکر اور اصلاحی حکمت عملی کی روشنی میں انھیں کس طرح اور کس رخ پر آگے بڑھتے ہوئے حل کیا جاسکتا ہے۔ سیدمودودی کے خیالات حرفِ آخر نہیں ہیں اور ہماری یہ کوشش بھی ایک جسارت سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ہے۔ اس کے باوصف ہم یہ متعین کرنے کی ایک طالب علمانہ کاوش کررہے ہیں کہ بیسویں صدی میں تو سید مودودی نے جو کچھ خدمت انجام دی ہے اس کی عظمت اپنی جگہ‘ لیکن ان کی فکر اور تجربے سے بھرپور رہنمائی (inspiration) لیتے ہوئے ہمیں اکیسویں صدی میں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
ہم ابتدا ہی میں یہ بات کہہ دینا چاہتے ہیں کہ مولانا مودودی ایک انسان تھے اور کسی انسان کی فکر یا عمل ہمیشہ کے لیے نمونہ نہیں بن سکتے۔ یہ مقام تو صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے جن کی رہنمائی اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں: وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی o اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی - (النجم: ۵۳:۳-۴)،’’وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا‘ یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے‘‘۔اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ خود مولانا مودودی نے جو تربیت ہمیں دی‘ اس میں سب سے نمایاں پہلو یہی تھا کہ انھوں نے نہ خود کو تنقید واحتساب سے بالا رکھا اور نہ ہمیں شخصیت پرستی کی راہ پر ڈالا۔
شروع ہی میں یہ وضاحت کر دینا بھی ضروری ہے‘ کہ ’فکرمودودی‘ خود کوئی مستقل بالذات چیز نہیں ہے‘ بلکہ مولانا مودودیؒ کی اصل کوشش یہ تھی کہ قرآن و سنت کی تعلیم کو اس کی اصل روح کے مطابق عصری حالات و ظروف کے پس منظرمیں پیش کریں اور اُمت کا رشتہ قرآن وسنت سے جوڑیں۔
مولانا مودودیؒ کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے قرآن و سنت کو تحریک اور اُمت کے لیے ہدایت اور روشنی کے منبع کے طور پر پیش کیا اور اس کسوٹی پر حال اور ماضی کی ہر کوشش کو پرکھنے کا درس دیا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ اسلامی کوئی مذہبی فرقہ یا مسلک نہیں ہے‘ بلکہ اس نے سب فرقوں اور مسلکوں کو قرآن و سنت کی بنیاد پر ایک متحرک قوت میں ڈھال دینے کی کوشش ہے۔ بلاشبہہ‘ اللہ تعالیٰ ہر دور میں انسانوں ہی کو اپنے پیغام کی تجدید اور تنفیذ کے لیے ذریعہ بناتا ہے۔ چنانچہ اس حد تک ان ایسے برگزیدہ انسانوں کا ذکر اور ان کی خدمات کا اعتراف بھی فطری امر ہے جو اس کارعظیم میں انسانوں کو اٹھانے‘ منظم و متحرک کرنے اور پھر ایک متعین راہِ عمل پر گامزن ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس لیے ہماری توجہ کا مرکز بھی ان رجال کار کی ذات سے زیادہ دین اسلام کی تفہیم‘ اس کے مقام اور سربلندی کے لیے ان کی کوششیں ہوں گی۔
مولانا مودودیؒ کے اس علمی اور فکری کام کے لیے چار پہلو اہم ہیں: پہلا دین کا وہ تصور جسے انھوں نے اجاگر کیا۔ دوسرا وہ ’طرزِفکر‘ جس کے ذریعے اس کام کو انجام دیا گیا۔ تیسرے تبدیلی احوال اور احیاے دین کے لیے وہ ’حکمت عملی‘ جو اپنے زمانے کے حالات کی روشنی میں انھوں نے مرتب کی۔ چوتھے وہ عملی جدوجہد‘ اس کے اصول وضوابط اور تنظیمی ڈھانچے اور راستے جن پر عملاً انھوں نے اپنی جدوجہد کو مرکوز کیا۔
ہم اس مضمون میں زیادہ توجہ مولانا مودودی کے ’طرزِفکر‘ پر مرکوز کرنا چاہتے ہیں اور باقی تینوں کے بارے میں صرف مختصر اشارات پر اکتفا کریں گے اور یہ اس لیے کہ اکیسویں صدی کے لیے مولانا مودودی کے پیغام کا استنباط کرنے کے لیے توجہ کا مرکز ’فکر‘ سے بھی زیادہ ’طرزِفکر‘ ہی کو ہونا چاہیے۔
۱- حق‘ حق ہے اور اسے کسی دوسرے سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اللہ حق ہے‘ اللہ کا رسولؐ حق ہے‘ اللہ کی کتاب حق ہے‘ اللہ کا دین حق ہے‘ اوراللہ کا وعدہ یعنی آخرت ‘جنت اور جہنم حق ہیں۔ ان سب کو ہمیں صرف حق ہونے کی حیثیت ہی سے قبول کرنا چاہیے۔ یہ ان کے حق ہونے کا تقاضا ہے۔ اس لیے کہ حق خود سب سے بڑی طاقت ہے--- ایمان حق کو حق تسلیم کرنے ہی سے عبارت ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ اسے یکسوئی کے ساتھ قبول کیا جائے اور زندگی کی تمام وسعتوں میں یک رنگی اور وفاداری کا ثبوت پیش کیا جائے‘ اور حق کے غلبے کی جدوجہد میں تن‘ من‘ دھن سے جُت جائیں: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لاَ شَرِیْکَ لَہٗج (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳)، ’’کہو‘ میری نماز‘ میرے تمام مراسمِ عبودیت‘ میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں‘‘۔ گویا حق کے غلبے کی جدوجہد بھی حق ہی کا ایک حصہ ہے جسے صاحبِ حق کے بتائے ہوئے طریقے ہی سے جاری و ساری رکھا جاسکتا ہے۔ یہ طریقہ اسوہ انبیا علیہم السلام اور منہج رسالتؐ ہے اور اس کا آخری اور مکمل ترین ماڈل محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ کامل ہے۔
۲- تاریخِ انسانی میں انسان کے سامنے صرف دو ہی راستے ہوسکتے ہیں--- ایک اللہ کی ہدایت اور اللہ کے رسولوں اور انعام یافتہ پیروکاروں کا راستہ‘ اور دوسرا انسانوں کا اپنا اختراع کردہ راستہ‘ خواہ اس کا نام‘ شکل اور زمانہ کچھ بھی ہو۔ بنی نوع انسان کا اصل مسئلہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ وہ اللہ کا ہدایت کردہ راستہ اختیار کریں یا انسان کا اپنا خودساختہ راستہ--- آج بھی انسان کا بنیادی مسئلہ یہی ہے اور ہمیشہ رہے گا: ’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے‘ تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے‘ اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا‘ اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے‘ وہ آگ میں جانے والے ہیں‘ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔( البقرہ ۲:۳۸-۳۹)
۳- انبیا علیہم السلام کے بتائے ہوئے طریقے کا نام دین اسلام ہے۔ کائنات کا پورا نظام اللہ کے قانون کے مطابق چل رہا ہے‘ لیکن اس فرق کے ساتھ کہ کائنات کی ہر شے اللہ کے قانون کی پابند ہے۔ البتہ انسانوں کو آزادی کی نعمت سے نوازا گیا ہے اور ان کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ بہ رضا و رغبت اللہ کے قانون (دین) کو قبول کر کے اپنی فطرت اور کائنات کے نظام سے ہم آہنگ ہوجائیں--- یہ سپردگی ہی اسلام ہے اور اسی کے ذریعے دل کا چین اور زندگی اور کائنات میں امن و سکون میسرآسکتا ہے۔
۴- زندگی ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے‘ اور دین اسلام نام ہے زندگی کے پورے نظام کو اللہ کی بندگی میں لانے کا۔مراسم عبادت سے لے کر انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کو اللہ کے رنگ میں رنگا ہونا چاہیے: (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط (البقرہ۲:۲۰۸)، ’’اے ایمان لانے والو‘ تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو‘‘۔ اور صِبْغَۃَ اللّٰہِج وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃًز (البقرہ۲:۱۳۸)، ’’کہو:اللہ کا رنگ اختیار کرو۔ اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہوگا‘‘۔ یہ ہدایت زندگی کے ہر شعبے اور سرگرمی کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ دین کامل اور مکمل ہے۔ اس ابدی ہدایت کا ایک معجزاتی پہلو یہ ہے کہ جہاں اس میں ہر زمانے کے لیے زندگی کی جملہ ضروریات کے لیے رہنمائی موجود ہے‘ وہیں اس کے نظامِ کار میں وہ گنجایش بھی موجود ہے جو مرورزمانہ کی تبدیلیوں اور ضروریات کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔ گویا ثبات اور تغیر کا ایک حسین امتزاج ہے جو اس کے نظام کا حصہ ہے۔ جو تبدیلی اور تسلسل کے لیے ایک خودکار انتظام کا بندوبست کر دیتا ہے۔
۵- یہ دین اعتدال‘ انصاف‘ توازن اور راہِ وسط کی نشان دہی کرتا ہے: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ (البقرہ۲:۱۴۳) ، ’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو‘‘۔دین اسلام فطرت سے ہم آہنگ ہے‘ عدل اورفلاح کا ضامن ہے‘ حشووزوائد سے پاک ہے‘ آزادی اور ترقی کا علم بردار ہے۔ یہ دین جسم و جاں‘ روح و بدن‘ مادی اور روحانی‘ اخلاقی اور دنیوی ہر ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ یہ ’وسطیہ‘ اس کی شان ہے (خیرالامور اوسطھا) جو اس کا حصہ (built-in) اور شناخت ہے اور کہیں باہر سے نہیں لائی جاتی۔ خود ساختہ اعتدال کے نام پر کسی تراش خراش کی اسے حاجت نہیں۔ اعتماد‘ رواداری‘ استقامت اور حکمت اس کے اپنے اصول اور شناخت کے ذرائع ہیں۔
یہ حق‘ یہ ہدایت‘ یہ دین بھی آپ سے آپ نافذ نہیں ہوتا‘بلکہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایمان‘ عمل اور جدوجہد کا راستہ تعلیم فرمایا ہے اور انبیاے کرام ؑنے اپنے عمل اور اپنی تحریک سے اس کے لیے نقشہ راہ (road map) فراہم کر دیا ہے‘ جو یہ ہے:
۱- اسے پورے یقین کے ساتھ قبول کرو (ایمان)
۲- اس پر خود عمل کرو اور استقامت کے ساتھ کرو۔ (اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا - الاحقاف ۴۶:۱۳)
۳- تمام انسانوں کو اس کی دعوت دو۔ (وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحاً- حم السجدہ ۴۱:۳۳)
۴- اس دین کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیرنو کرو--- اسے پوری زندگی پر غالب اور حکمران کر لو۔ (ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّـہٖ - الصف ۶۱:۹)
ایمان اس کا نقطۂ آغاز ہے‘ عمل اس ایمان کا اولین تقاضا ہے‘ عبادت اور اللہ کی اطاعت اور بندگی اس کا فطری مظہر اور اللہ کی رضا اس کا مطلوب و مقصود ہے۔ یہ عبادت محض مراسم عبادت تک محدود نہیں بلکہ پوری زندگی کو اللہ کے قانون اور ہدایت کے مطابق ڈھالنے اور سنوارنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ پھر ایمان ہی کا یہ تقاضا ہے کہ اس شمع کو روشن کیا جائے اور اس نور کو پھیلانے کے لیے انفرادی اور اجتماعی جدوجہد کی جائے ایک مسلسل‘ جاں گسل‘ نہ ختم ہونے والی جدوجہد۔
اسی جدوجہد کا نام جہاد ہے‘ جو نفس کے خلاف جہاد سے شروع ہو کر اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کے قیام اور اس کے دیے ہوئے قانونِ حیات کے نفاذ کے ہر کوشش اور ہر قربانی سے عبارت ہے اور یہی عبادت کی معراج ہے۔ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمھیں عذاب الیم سے بچا دے؟ ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر‘ اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو‘‘۔(الصف ۶۱:۱۰-۱۱)
دعوت اور جہاد ایک ہی جدوجہد کے مختلف رخ ہیں۔ اس میں جبر اور دہشت گردی کا کوئی شائبہ بھی نہیں۔ (لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِلا،دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔البقرہ ۲:۲۵۶) یہ پیغام دلیل‘ مباحثے اور مجادلے‘ دعوت اور ڈائیلاگ‘ محبت‘ دردمندی اور خدمت سے انسانوں تک پہنچایا جاتا ہے لیکن اگر اسے قوت سے دبانے اور روکنے کی کوشش کی جائے تو پھر ظلم اور طغیان کا مردانہ وار مقابلہ اور جان اور مال کی قربانی بھی اسی جدوجہد کے اعلیٰ مراحل میں شامل ہے۔ اسی دعوت اور جدوجہد کے نتیجے میں مسلمان فرد (مرد و عورت) مسلم خاندان‘ مسلم معاشرہ‘ اسلامی ریاست و حکومت اور انصاف پر مبنی عالمی نظام وجود میں آتے ہیں۔
۶- یہ ساری جدوجہد انفرادی ذمہ داری بھی ہے اور اجتماعی بھی۔ ہرمسلمان‘ اُمت مسلمہ کا حصہ ہے ۔ یہ اُمت ایک صاحب مشن اور صاحب شریعت اُمت ہے۔ جس کا مقصد وجود اور فرضِ منصبی ہی دین حق کی شہادت‘اللہ کی بندگی کی دعوت‘ امربالمعروف اور نہی عن المنکر‘ قیام انصاف‘ مظلوموں کی مدد و اعانت اور پوری انسانیت کو اس کے رب کی بندگی کی طرف بلانا اور بندگی رب کے نظام کو قائم کرنا ہے۔ (کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط- اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔(اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰)
۷- اس مشن (قولی اور عملی شہادت‘ انفرادی اور اجتماعی شہادت‘ اقامت دین) کے لیے جو راستہ ‘اللہ کے رسولؐ نے طے کر دیا ہے وہ ہے:
اپنی اصلاح --- اجتماعیت کی اصلاح--- اخلاق و کردار اور علم و تقویٰ کی قوت کے ساتھ وسائل و ذرائع کا موثر ترین استعمال‘ قوت کے منبع کی تسخیر‘ بہترین صلاحیت اور استطاعت کا حصول اور طاقت کی ہر شکل کو اللہ کا مطیع اور اس کے پیغام کو پھیلانے کی خدمت کا آلہ کار بنانا‘ تاکہ عدل و انصاف قائم ہوسکے‘ حق حق دار کو مل سکے اور ظلم و استحصال کا خاتمہ ہو سکے۔ چنگیزیت سے انسانیت کو محفوظ رکھنے کا یہی طریقہ ہے اور یہ بھی عبادت ہی کی ایک شکل ہے۔ (وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ - الانفال ۸:۶۰‘ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبِ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِج - الحدید۵۷:۲۵)
اولاً: ایمان‘ اخلاقی برتری‘ اعلیٰ کردار اور تقویٰ اور خدا ترسی کی زندگی۔
ثانیاً: فکری قوت اور قیادت۔
ثالثاً: اجتماعی قوت--- اخلاقی‘ معاشی‘ مادی‘ سیاسی‘ سائنسی‘ عسکری--- مقابلے کی قوت‘ تاکہ وقت کے تقاضوں اور عصری حالات کا مقابلہ کیا جا سکے۔
یہ کام اللہ سے تعلق‘ فکری گہرائی اور اجتماعی طاقت تینوں کے بیک وقت حصول اور مقابلے کی طاقت کی فراہمی ہی سے انجام دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے ایمان‘ اجتہاد اور جہاد ہی وہ ستون ہیں جن پر دین کی عمارت کی تعمیر ممکن ہے اور انھی پر اس کے استحکام کا انحصار ہے۔
سیاسی مغلوبیت‘ ذہنی انتشار‘ اخلاقی خلفشار‘ اور تہذیبی پراگندگی کے ماحول میں سیدابوالاعلیٰ مودودی کی یہ آواز ایک نئے وژن کا پیغام دیتی تھی۔ سید مودودیؒ کی یہ پکار قرآن کی طرف رجوع کرنے (back to the Quran) اور قرآن کی صداقت پر کامل ایمان کے ذریعے پیش قدمی کرنے (forward with the Quran)کی دعوت تھی۔ سید مودودی کی یہی وہ فکر تھی جس نے اُمت کی مضطرب روحوں کو روشنی کا پیغام دیا‘ دلیل اور تعین کے ساتھ دین کا اصل وژن پیش کیا۔ یہی وہ دعوت تھی جس نے اُمت کونئے اعتماد‘ ولولے اور اُمید سے شادکام کیا۔ ایک طرف اسلام کی شاہراہ عمل کو صاف لفظوں میں پیش کیا تو دوسری طرف انھیں انفرادی اور اجتماعی جدوجہد کا راستہ دکھایا۔ اسلام کو مسلم معاشرے کی ایک کارفرما قوت بنانے کی دعوت دی اور اسلام کو ایک عالمی پیغام اور زندگی کے دھارے کو بدلنے والی تحریک کے طور پر صرف روشناس ہی نہیں کرایا‘ بلکہ فکری اور عملی و تنظیمی جدوجہد کے ذریعے ایک ملک گیر اور بالآخر عالمی جدوجہد میں منظم کر دیا۔
سید مودودیؒکے کارنامے پر نگاہ ڈالی جائے تو صاف نظرآتا ہے کہ انھوں نے پہلے دن سے یہ محسوس کر لیا تھا کہ ان کے دور کے مسلمانوں کی سب سے پہلی ضرورت تصورِ دین کی اصلاح ہے۔ مختلف داخلی اور خارجی اسباب کے نتیجے میںخود مسلمانوں نے بھی زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ انھوں نے دین کو گھر‘ مسجد اور زیادہ سے زیادہ مدرسے اور چند مذہبی رسوم و رواج تک محدود کر لیا تھا اور اسی پر قانع ہوگئے تھے۔ دین کے اس تصور پر ضرب کاری لگانا وقت کی اہم ضرورت تھی‘ تاکہ قرآن کا تصورِ دین اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برپا کردہ انقلاب کا تصور ایک بار پھر کسی کمی بیشی کے بغیر ان کے سامنے رکھا جا سکے اور انھیں توحید اور عبادت کا صحیح مفہوم سمجھایا جا سکے۔
پھر قول و فعل کا تضاد مسلمانوں کو کھائے جا رہا تھا‘ جس نے اسلام کی برکتوں سے ان کی زندگیوں کو محروم کر دیا تھا۔ سید مودودیؒ نے ایمان اور عمل‘ عبادت اور زندگی کے تمام شعبوں سے اس کے ربط کو واضح کیا۔ اسی طرح اجتماعی زندگی اور نظام کا بگاڑ‘ قیادت کا غلط ہاتھوں میں چلا جانا اور مسلمانوں کا قوت اور اقتدار سے محروم ہو کر‘ ایک محکوم قوم بن جانا تھا۔ یہ وہ اسباب تھے جن کے نتیجے میں مسلمان اپنے اصل مشن اور کردار سے غافل ہوگئے تھے اور چھوٹے چھوٹے مفادات کے پجاری بن گئے تھے۔ سید مودودی نے زوال اور کمزوری کے ان تمام اسباب کو ٹھیک ٹھیک متعین کرکے ان کا موثر سدباب کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اپنی اور اُمت کی ساری توجہ کو جزوی اور وقتی مسائل اور معاملات سے ہٹاکر چند مرکزی نکات پر مرکوز کیا‘ جنھیں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے:
یہ چھ نکات ہیں جن پر سیدمودودی علیہ الرحمہ نے اُمت مسلمہ کو جمع کرنے اور بیسویں صدی کی اسلامی جدوجہد کو ان کے مطابق مرتب کرنے کی سعی کی۔
میں جس چیز کو سید مودودی کی ’طرزِفکر‘ کہتا ہوں اس کا پہلا نکتہ دین کا یہ تصور‘ دین کی دعوت اور اقامت کا یہ وژن اور اس وژن کے مطابق اُمت کو متحرک کرنے کے لیے وہ تنظیمی اقدام ہے‘ جو جماعت اسلامی اور اس کی برادر تنظیموں کی شکل میں‘ ان کی قیادت اور رہنمائی میں وجود میں آئیں۔ لیکن سیدمرحوم کے ’طرزِفکر‘ کا پورا احاطہ صرف اس مرکزی نکتے کی شکل میں نہیں کیاجاسکتا۔ اس کے لیے ان اصولوں اور ضابطوں کی نشان دہی بھی ضروری ہے جو سید مودودیؒ کو اس مرکزی نکتے تک لائی اور جس کے لیے انھوں نے اپنی ساٹھ سالہ جدوجہد میں اپنے ساتھیوں ہی کو نہیں‘ پوری اُمت کو بھی تلقین اور وصیت کی۔ اس رہنمائی کے مرکزی نکات یہ ہیں:
ا - اسلامی فکروعمل کی آبیاری کہ اُمت اور اس کے ایک ایک فرد کی قوت کا اصل منبع اللہ سے تعلق اور ایمان‘ رب کی پہچان ہے۔ صرف اسی خالق و مالک کے دامن کو تھامنے کا نام ایمان کامل ہے۔ عقل اور وسائل کا اپنا مقام ہے اور بہت اہم مقام ہے‘ لیکن اولین چیز اللہ پر ایمان اور اس کے صحیح تقاضوں کا شعور ہے۔ پھر اللہ پر بھروسا اور صرف اس سے استعانت ہی مسلمانوں کی قوت کا اصل منبع ہے۔ توحید کی حقیقت کو پانا زندگی کے تمام معاملات کے حل کے لیے شاہ کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔
ب- قرآن و سنت اس اُمت کی رہنمائی کا اصل سرچشمہ ہیں۔ فقہ‘ تاریخ‘ مسلمانوں کے افکار‘ اجتہادات اور تجربات سب اپنے اپنے مقام پر ضروری ہیں۔ ماضی سے رشتہ اور روایت کا احترام‘ تہذیبی شناخت اور تسلسل کے لیے ضروری ہیں‘ لیکن ہدایت کے ماخذ کی ترتیب میں قرآن سب سے اولین ہے اور سنت اس کا لازمی حصہ۔ اسلاف سے محبت‘ ان سے تعلق‘ ان کا احترام ازبس ضروری ہے‘ لیکن حق کا معیار صرف اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اور طریقہ ہے۔ اولین دور میں مسلمانوں کی ترقی کا اصل سبب اللہ سے رشتہ اور اللہ کی کتاب سے تعلق اور اللہ کے رسولؐ کو یہ مرکزی حیثیت دینا تھا۔ افسوس کہ بعد میں یہ ترتیب بدل گئی۔
فقہ کا بڑا اہم کردار ہے اور رہے گا‘ لیکن ہر دور میں اور خصوصیت سے آج کے دور میں تمدن کے احوال و ظروف کی ہر سطح پر ایسی بنیادی تبدیلیاں واقع ہوگئی ہیں کہ زندگی سے دین کی مفید مطلب مطابقت (relevence )کو دوبارہ منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام اسی وقت ممکن ہے کہ الاول فالاول کے اصول پر قرآن و سنت کو مرکزی حیثیت دی جائے اور ان کے سائے تلے فقہ اور روایت سے استفادہ کیا جائے ‘اور خصوصیت سے نئے مسائل کے حل کے لیے اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولؐ کی سنت ہی کو اولین سرچشمہ بنایا جائے۔ اجتہاد اور فکری آزادی پر جو خودساختہ اور ناروا پابندیاں لگ گئی ہیں‘ ان سے چھٹکارا پایا جائے۔ یہ کام نہ درایت سے بغاوت کے انداز میں ہو اور نہ روایت کا اسیر بن کر کیا جائے۔ فکری اور عملی جدوجہد کے لیے بھی اور تعلیم کے پورے نظام میں بھی اعتدال کے ساتھ صحیح ترتیب کا احیا ضروری ہے۔
ج- اس کام کو انجام دینے کے لیے اصول اور فروع‘ مقصد اور پالیسی کے فرق‘ نصب العین اور اقدار اور ضابطوں اور طریق کار کا تعلق‘ بنیاد اور تفصیل میں تمیز‘ منصوص اور غیرمنصوص اور مسنون اور غیرمسنون کے مراتب کا لحاظ اور سنت اور بدعت کی حقیقی تفہیم ضروری ہے۔ تقلید کے لمبے دور میں ان ترجیحات‘اور بنیادی اصولوں اورضابطوں کو نظرانداز کر دیا گیا تھا اور آج تجدید و احیا کا کام انجام دینے کے لیے ان کی پاس داری ضروری ہے۔
ان تمام پہلوئوں پر کھل کر بحث ہو‘ ترجیحات کا صحیح تعین ہو اور تقدیم و تاخیر اور راجع ]رجوع کرنے والی[ اور غیر راجع کی حدود اور شکلوں کا صحیح شعور پیدا کیا جائے۔ نیز عصری حالات کے مطابق لیکن قرآن وسنت سے مکمل وفاداری کے ساتھ‘ روایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ وقت کے تقاضوںکے مطابق اسلام کو زندگی کا رہنما بنایا جائے‘ تاکہ جمود کو توڑ کر صحت مند حرکت کو پھر حقیقت کا روپ دیا جائے۔ ایسی ہی حرکت میں برکت ہے۔
د- اس کام کو انجام دینے کے لیے زمانے کے حالات‘ مسائل اور ان تبدیلیوں کا تنقیدی مطالعہ اور تجزیہ بھی نہایت ضروری ہے۔ درحقیقت یہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا اپنے اصل نصب العین‘ اصول و اقدار‘ قانون واحکام‘ ترجیحات اور مطلوبہ خطوط کار کے تنفیذی عمل کا اطلاق۔ ایک طرف اُمت مسلمہ کی موجودہ حالت (status quo) اور روایت پر ہونا چاہیے تو دوسری طرف دورِحاضر کی غالب تہذیب اور اس کے زیراثر پوری دنیا کے نظام اور طریق واردات کا محاکمہ ہونا چاہیے۔ہماری اپنی تہذیبی ترقی کے سلسلے کا جو انقطاع واقع ہوا ہے‘ اسے بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور جو خلا واقع ہوا ہے‘ اسے پورا کرنے کے لیے اجتہادی بصیرت کی ضرورت ہے‘ جو نہ غالب تہذیب کی نقالی سے ممکن ہے اور نہ خود اندھی تقلید پر انحصار کرنے سے کچھ خیر رونما ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے خیروشر میں تمیز اور اپنے تجربات میں سے مفید کو جاری رکھنا اور راہ کی رکاوٹوں کو دُور کرنا اور غالب تہذیب کا بھی ایسی ناقدانہ نگاہ سے مطالعہ کرنا کہ اس کے ان پہلوئوں سے استفادہ ممکن ہو جو ترقی کے اصل اسباب ہیں اور ان تمام برائیوں اور خباثتوں سے اجتناب کرنا کہ جو انسانی زندگی کو بگاڑ اور فساد کی جہنم میں دھکیل رہے ہیں۔ خذما صفا ودع ما کدر۔
ہ- اس پورے کام کو انجام دینے میں ایک اور پہلو کی فکر ضروری ہے۔ وہ پہلو‘ وہ مقصد اور نظریے سے حقیقی معنوں میں مکمل وفاداری (کمٹ منٹ) کے ساتھ حقیقت پسندی (realism) اور اپنے دین کے اصولوں کا نئے حالات میں اطلاق اور اس کے لیے جس دانش و بصیرت (practical wisdom) کی ضرورت ہے‘ اس کا ٹھیک ٹھیک استعمال ہے۔ سید مودودی نے اس سلسلے میں بار بار حکیم حاذق کی مثال دی ہے جو بزرگوں کے نسخوں کا آنکھیں بند کر کے استعمال نہیں کرتا‘ بلکہ مریض کے حال اور دوائوں کی خاصیت کو سامنے رکھ کر طب کے ابدی اصولوں کا ہر ہر مریض پر الگ الگ اطلاق کرتا ہے۔ سید مودودی نے صاف لفظوں میں کہا تھا :’’ حقیقی مصلح کی تعریف یہ ہے کہ وہ اجتہاد وفکر سے کام لیتا ہے اور وقت اور موقعے کے لحاظ سے جو مناسب ترین تدبیر ہوتی ہے‘ اسے اختیار کرتا ہے‘‘۔ یہ زاویہ نظر سید مودودیؒ کے ’طرزِفکر‘ کا اہم حصہ ہے۔
یہ وہ مرکزی نکات ہیں جن سے سید مودودی کا ’طرزِفکر‘ عبارت ہے۔ اس میں مقصد کا شعور‘ اور دین کے سرچشموں سے وفاداری بھی ہے اور اس کے ساتھ آزادی فکر‘ شوریٰ‘ نئے تجربات‘ عصری ضروریات کا شعور‘ مقابلے کی قوت کی فراہمی اور مردان کار کی تیاری سب شامل ہیں۔ سید مودودی نے نئے حالات میں نئی حکمت عملی اختیار کرنے اور نئے تجربات کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اور یہ بھی ان کے ’طرزِفکر‘ کا ایک اہم پہلو ہے۔
سیدمودودیؒ کے طرزِفکر کے مختلف گوشوں پر کلام کرنے کے بعد‘ اس موضوع پر بات کرنا مناسب ہوگا کہ اکیسویں صدی کے اوائل میں پاکستان ہی نہیں‘ پوری دنیا میں آج تحریکِ اسلامی کس مرحلے میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فکری میدان میں اسلام کے ایک مکمل اور جامع دین اور نظریۂ حیات ہونے اور اس نظریے کو غالب کرنے کے لیے انفرادی جدوجہد کے ساتھ اجتماعی تحریک کی ضرورت تو اب روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔
اسلامی تحریکوں کے مؤسسین نے (اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں بارش کرے) یہ کام بڑی خوبی کے ساتھ انجام دیا ہے اور ان کے اخلاص سے اجتماعی جدوجہد کا آغاز ہوگیا ہے--- لیکن ہمارے خیال میں یہ صرف آغاز ہوا ہے‘ تکمیل کی منزل ابھی بہت دُور ہے اور ہمیں اور پوری اُمت کو مسلسل دعوت عمل دے رہی ہے۔ اس آغاز نے جہاں مسلمانوں کو نیاجذبہ‘ نئی روشنی‘ نئی اُمنگ اور زندگی کے لیے ایک خوب صورت ہدف فراہم کیا ہے‘ وہیں مخالفین کے لیے بھی خطرے کی گھنٹیاں بج گئی ہیں۔ اسی لیے وقت کے فرعونوں اور ہامانوں کی زبان سے ’کروسیڈ‘ کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور مختلف عنوانوں سے اسلامی احیا کو اصل نشانہ اور خطرہ بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ ہاروڈ یونی ورسٹی کے امریکی پروفیسر سیموئیل ہنٹنگٹننے اپنی کتاب The Clash of Civilizations (تہذیبوں کا تصادم) میں بہت صاف الفاظ میں مغرب کے نقشۂ جنگ کو پیش کر دیا ہے:
مغرب کا حقیقی مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی نہیں ہے‘ بلکہ خود اسلام ہے۔ اسلام جو ایک مختلف تہذیب ہے جس کے ماننے والے اپنے تشخص کی فوقیت کے علاوہ طاقت کی کمزوری کا شکار ہیں۔ ادھر اسلام کے لیے‘ سی آئی اے یا امریکی محکمہ دفاع اصل مسئلہ نہیں ہیں‘ بلکہ خود مغرب مسئلہ ہے‘ جو ایک مختلف تہذیب ہے۔ ایسی تہذیب‘ جس کے ماننے والے اپنی ثقافت کی آفاقیت کے قائل ہیں‘ اور اپنی ثقافت کو پوری دنیا پر حاوی کرناچاہتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی عوامل ہیں‘ جو اسلام اور مغرب کے درمیان تصادم کو فروغ دے رہے ہیں۔(حوالہ بالا‘ ص ۲۱۷-۲۱۸)
مغربی مفکرین اسلام کو ہوّا اور دشمن بناکر پیش کر رہے ہیں اور اس کی روشنی میں نقشۂ جنگ بنانے میں مصروف ہیں‘ جب کہ مسلمان اُمت اور اسلامی تحریکوں کا اصل مسئلہ کسی سے جنگ یا مقابلہ نہیں‘ بلکہ اپنے گھر کی اصلاح اور تعمیرہے۔ افکار و نظریات کا تبادلہ اور رد و قبول انسان کا بنیادی حق ہے‘ جسے جنگ سے منسلک نہیں کرنا چاہیے۔ اہلِ مغرب کے دانش وروں اور ان کے اہلِ حل و عقد کا مرض بھی اس اقتباس سے واضح ہے کہ وہ طاقت کی بنیاد پر یہ اپنا حق سمجھتا ہے کہ اپنے تصورات اور کلچر کو دوسروں پر مسلط کرے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ بگاڑ کی جڑ اسلام یا مسلمانوں کی بے بسی نہیں‘ مغرب کا یہ فاسد نظریہ ہے۔ لیکن آج مسلمان اس سے غافل ہیں کہ اپنی پوزیشن کو دلیل کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں اور مغربی میڈیا نے عام لوگوں کے ذہنوں کو جس طرح مسموم کر دیا ہے‘ اس کا بھرپور مقابلہ کر سکیں۔
یہ مقابلہ کسی ادھورے عمل اور قریبی یا مختصر راستے (shortcut) سے نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے تو وہی طریقہ اختیار کرنا پڑے گا‘ جو بیسویں صدی کے آغاز میں ساری کمزوریوں کے باوجود احیاے اسلام کی تحریکات کے مؤسسین نے اختیار کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بیسویں صدی کے آغاز اور اکیسویں صدی کے اوائل میں بہت سی مماثلتیں دیکھ رہے ہیں۔ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد افغانستان اور عراق پر امریکا کی وحشیانہ فوج کشی اور ساری دنیا میں نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر فکری‘ ابلاغی‘ سیاسی اور عسکری میدانوں میں خونیں جارحیت نے صورت حال کو اور بھی گمبھیر بنا دیا ہے۔ اس وقت محض جذباتی انداز میں کوئی فوری انتقامی کارروائی اسلام اور مسلمانوں کے حقیقی مقاصد اور اہداف کی خدمت نہیں کرسکتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ بیسویں صدی کے فکر اور تجربات کی روشنی میں‘ اکیسویں صدی کے لیے مسلمان اور خصوصیت سے اسلامی تحریکیں اپنی حکمت عملی وضع کریں۔
اس وقت جو بنیادی چیلنج مسلم اُمہ کو درپیش ہیں ان کے دو بڑے بڑے محاذ ہیں: ایک دفاعی اور دوسرا تعمیری۔ ان دونوں کے بارے میں کچھ معروضات پیش کی جا رہی ہیں:
جس طرح بیسویں صدی کے آغاز میں یورپی استعمار‘مسلم دنیا پر مسلط تھا‘ اسی طرح اب اکیسویں صدی کے آغاز میں ہمارا واسطہ امریکی استعمار سے ہے‘ لیکن جوہری فرق کے ساتھ۔
اس وقت امریکا عسکری اعتبار سے واحد سوپر پاور ہے۔ اس کا جنگی بجٹ باقی تمام دنیا کے تمام ممالک کے مجموعی بجٹ کے برابر ہے۔ اس کی معاشی صلاحیت دنیا کی معیشت کا ایک چوتھائی ہونے کے باوجود ایسی نہیں ہے کہ بہت لمبے عرصے تک وہ محض عسکری قوت کے بل پر دنیا کے بڑے حصے کو اپنے قابو میں رکھ سکے۔
ہرچند کہ امریکا کی کوشش ہے اور یہی اس کی موجودہ قیادت کا اعلان شدہ ہدف بھی یہ ہے کہ وہ آیندہ پچیس پچاس سال تک واحد سوپر پاور رہے اور کوئی مدمقابل اُبھرنے نہ پائے۔ لیکن یہ دھونس اور دعویٰ‘ قدرت کے قانون کے خلاف ہے۔ البتہ عسکری قوت کے ساتھ ابلاغی قوت ایک ایسے مقام پر ہے کہ دنیا کی آبادی کے بڑے حصے کے ذہنوں کو اس سے مسموم اور خائف کیا جاسکتا ہے اور کیا جا رہا ہے۔ تاہم‘ اس میدان میں بھی یہ قوت اور اختیار غیرمحدود نہیں ہے اور صحیح معلومات کو چھپانے اور دنیا کو دھوکے میں رکھنے کی ایک حد ہے--- جیساکہ عراق پر حملے کے اسباب کے سلسلے میں سامنے آیا ہے۔ پھر دنیا کے دوسرے ممالک‘ خصوصیت سے یورپ کے بڑے ملک‘ چین اور ایک حد تک روس ابھی امریکا کو چیلنج نہیں کر رہے‘ لیکن پوری طرح اس کے ساتھ بھی نہیں ہیں۔ امریکا کی اس کھلی دھونس کے خلاف ان معاشروں میں اضطراب اور بے چینی کی لہریں ابھر رہی ہیں۔بے اطمینانی کی یہ لہر ساری دنیا میں اور خاص طور پر یورپ حتیٰ کہ امریکا میں عوامی قوت کی صورت میں ابھر رہی ہے۔
عالم گیریت(globalization) کے بہت سے نقصانات اور خطرات ہیں‘ لیکن اس کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں اور ان میں سے ایک گہرا جذبہ بغاوت ہے جو روز بروز بڑھ رہا ہے اور عالمی سطح پر ایک مثبت پہلو ہے ۔ آج کی دنیا کا سب سے پریشان کن پہلو عسکری‘ سیاسی‘ معاشی اور فنی سطح پر قوت کی عدمِ مساوات ہے--- لیکن اس کے خلاف متبادل اضطرابی لہروں (countervailing powers) کا رونما ہونا بھی ایک فطری عمل ہے۔ اس کے لیے صبر اور حکمت سے کام کرنے‘ فوری تصادم سے بچنے‘ صحیح تیاری کرنے‘ عالمی سطح پر اقدام کے لیے مناسب امکان کو تلاش کرنا ضروری ہے۔
۱- اکیسویں صدی کا سب سے اہم پہلو ’عالم گیریت‘ ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں‘ کہ تمام ناہمواریوں کے باوجود اب پوری دنیا ایک اکائی بنتی جا رہی ہے اور کسی کے لیے بھی اس سے الگ تھلگ رہنا ممکن نہیں رہا۔ اب صرف اپنی دنیا میں بند رہنے کا راستہ قابلِ عمل نہیں رہا۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں‘ دنیا کا ہر واقعہ آپ کو متاثر کر رہا ہے۔ تجارت اور سرمایہ کاری ہی نہیں‘ سرمایہ‘ اشیا‘ انسانوں اور معلومات کی برق رفتار نقل و حرکت کی وجہ سے حالات میں جوہری فرق واقع ہوچکا ہے‘ جس نے بے شمار خطرات اور مسائل کو جنم دیا ہے‘ اور ساتھ ہی بے پناہ امکانات کا دروازہ بھی کھول دیا ہے۔
ماضی میں تحریکِ اسلامی کے لیے ممکن تھا کہ اس کے اولین اور اصل مخاطب صرف مسلمان ہوں‘ لیکن آج یہ ممکن نہیں رہا۔ اس لیے جو کچھ مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے‘ اسے ساری دنیا میں سنا جا رہا ہے اور نتائج اخذ کیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہوگیا ہے کہ اسلام کے علم بردار صرف خود کلامی تک دعوت کو محدود نہ رکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ فکری سرحدیں بہت دُور دُور تک پھیل گئی ہیں۔ اس لیے غیرمسلموں سے خطاب اور ان تک دعوت کو موخر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بڑا بنیادی فرق ہے جسے ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
۲- مشرق اور مغرب اس طرح شیروشکر ہوگئے ہیں کہ دونوں کے الگ الگ مسائل ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے جملہ پہلوئوں سے صرفِ نظر کرکے کلام ممکن نہیں رہا۔ بلاشبہہ مسلم دنیا کا مسئلہ یہ ہے کہ خدا پر ایمان‘ اللہ کے رسولؐ سے وابستگی اور اسلام سے ایمانی‘ جذباتی اور ثقافتی تعلق موجود رہے ‘مگر دین کے صحیح اور مکمل تصور اور دین کے انفرادی اور اجتماعی تقاضوں کی تکمیل اور احترام میں کمی کے نتیجے میں یہ ہدف نہیں پایا جاسکتا۔ اس لیے اسلامی احیا کے ساتھ ایمان کا تعلق اجتماعی نظام زندگی کے لیے حقیقی چیلنج بن جاتا ہے۔
دوسری طرف مغربی دنیا میں اجتماعی زندگی متعدد خوبیوں اور وسائل سے مالا مال ہے‘ جن میں قانون کی حکمرانی‘ رائے کی آزادی‘ انصاف کے حصول میں سہولت‘ دولت کی فراوانی‘ تعلیم و تحقیق‘ اور ایجاد و اختراع کا عام ہونا قابل ذکر ہیں۔ لیکن دولت اور وسائل کی ارزانی میں اخلاقی اقدار کی پامالی‘ انسانی تعلقات کی تباہی‘ خاندانی نظام کا انتشار‘ جرائم اور ظلم واستحصال کی بہتات اور سب سے بڑھ کر دل کا چین‘ روح کا سکون اور اللہ سے تعلق کا فقدان‘ زندگی کو اجیرن بنائے ہوئے ہے۔ اس پس منظر میں بات صرف نظام کے اصلاح و احوال کی نہیں‘ دل کی اصلاح اور اللہ سے تعلق کی یافت کی ہے۔ ہر اس تعلق کی بنیاد پر اخلاقی اقدار کے احیا اور ہر سطح پر انصاف کے حصول کی خواہش کا جذبہ ہے۔ یہ دونوں پس منظر اب دو الگ الگ دنیا میں نہیں ہیں‘ بلکہ ایک ہی میدان کے دو محاذ ہیں۔ تحریکِ اسلامی اس جوہری فرق کو نظرانداز نہیں کرسکتی۔
۳- پھر اس نئے عالمی تناظر میں ایک عالمی طاقت کا ہمہ پہلو غلبہ ہے اور اس کے نتیجے میں سیاسی‘ مادی اور تہذیبی میدانوں میں وسائل‘ قوت اور اختیارات میں ایک شدید عدمِ توازن رونما ہوگیا ہے۔ یہ ایک ایسے معاشی اور سیاسی نظام کا غلبہ ہے جو ساری دنیا کے وسائل کو ایک محدود اقلیت کی خدمت اور چاکری کے لیے وقف کر رہا ہے۔ سرمایہ داری کا نیا روپ اور منڈی کی معیشت (مارکیٹ اکانومی) کے نام پر مغربی اقوام اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا دنیا پر غلبہ آج ایک دوسرے میدانِ جنگ کا منظر پیش کرتے ہیں۔ مخصوص استعماری مقاصد کی حامل نام نہاد این جی اوز کا ایک خاص کردار ہے اور ریاستی قوت (state power)کے ساتھ ملٹی نیشنل کارپوریشن اور این جی اوز اس معاشی اور نظریاتی عالمی میدان کے اصل کردار ہیں‘ جن سے معاملہ کرنا وقت کا اہم چیلنج ہے۔
۳- ماضی کے سامراج کے لیے صحیح لفظ نوآبادیت (colonialism )تھا‘ جس میں سامراجی قوتیں دوسرے ممالک پر قبضے (occupation )کے ذریعے ان کے وسائل پر تسلط جماتی تھیں۔ آج کے سامراج نے بالکل ایک دوسرا روپ دھار لیا ہے۔ اب قبضہ بھی ایک حربہ ہے لیکن اصل حربہ وسائل کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا اور عملاً دوسرے ممالک پر قبضے کے بغیر ان کے وسائل اور مردانِ کار کو اپنی گرفت میں لے لینا ہے۔ جس کے لیے میڈیا سے لے کر معاشی تسلط اور سیاسی دخل اندازی‘ دھوکا دہی اور وفاداریوں کی خرید کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ بالادستی حاصل کرنے کے سامراجی ہدف نے نقشۂ جنگ کو بالکل بدل دیا ہے۔
۵- فکری غلبہ اور ثقافتی اور تہذیبی تسلط ہمیشہ سے اہم تھے مگر آج کے میڈیا اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے انقلاب میں ابلاغ کے ذرائع اور مائیکروچپ (micro-chip) نے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اثروتاثیر کی یہ قوتیں غالب اقوام کو وہ مدد دے رہی ہیں جو اس سے پہلے کبھی حاصل نہیں تھیں۔ اب اس نئے حربے سے فوج کشی کے بغیر ملکوں‘ علاقوں اور قوموں کو فتح کیا جاسکتا ہے اور ان کی سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی زندگی ہی کو متاثر نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان کے ذہنوں کو بھی مسموم ‘ مفلوج اور محکوم بنایا جا سکتا ہے۔
۶- اس تناظر میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس وقت مغربی اقوام اور خصوصیت سے امریکا کی قیادت ان عناصر کے ہاتھوں میں ہے جو ایک نئی قدامت پسند تحریک(neo-con) سے وابستہ ہیں۔ جس میں عیسائی مذہبی قوتوں کے ساتھ عالمی صہیونی طاقت بھی شریک ہے (اور اسے برہمنیت کی بھی تائید حاصل ہے)۔ اس قوت کا گٹھ جوڑ امریکا کے بم باز اور ہلاکت پرور حکمرانوں سے ہوگیا ہے۔ یہ اتحاد عالمی دراندازیوں کی حکمت عملی وضع کر رہا ہے۔ یہ اسلام اور مسلمانوں کو اپنے اصل ہدف اور مقابل کی حیثیت سے سامنے رکھے ہوئے ہیں۔ اصل ہدف جیساکہ ہم نے سیموئیل ہنٹنگٹن کے اقتباس سے پیش کیا ‘اسلام ہے‘ محض نام نہاد دہشت گردی نہیں۔ جنگ صرف سیاسی محاذ پر نہیں‘ فکری اور تہذیبی محاذ پر بھی مسلط کی گئی ہے۔
یہ ہے اکیسویں صدی کا وہ تناظر جس میں اسلامی تحریکات کو اپنی داخلی اور عالمی حکمت عملی وضع کرنی ہے۔ ان حالات کا صحیح اور گہرا ادراک اولین ضرورت ہے۔
آج ’زمانہ شناسی‘ یا وقت کی نبض اور رفتار کو سمجھنے کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ یہ کام پوری دیانت‘ علمی گہرائی‘ حقیقت پسندی اور انصاف کے ساتھ کیا جائے اور ہر تعصب سے بالا ہوکر کیا جائے۔ تنقید کرنے سے پہلے تفہیم کی ضرورت ہے۔ تفہیم ہی سے یہ متعین ہوسکے گا کہ کیا قابلِ قبول ہے اور کیا ناقابلِ قبول۔ کہاں کوئی اشتراک ممکن ہے اور کہاں مقابلہ ناگزیر ہے۔ اور مقابلہ بھی مناسب تیاری‘ صحیح حکمت عملی ‘ طویل اور مختصر مدت کی ترجیحات کے تعین اور اپنی قوت کے صحیح اندازے کے ساتھ ہونا چاہیے۔
ان حالات سے خوف زدہ ہونے یا امریکا اور وقت کی غالب قوتوں کا کاسہ لیس بن جانے اور ان کی چھتری تلے پناہ لینے سے اُمت مسلمہ کو احتراز کرنا چاہیے۔ تصادم نہ اس وقت ممکن ہے اور نہ مطلوب۔ لیکن حاشیہ برادری بھی کوئی غیرت مندانہ راستہ نہیںہے۔ عزت اور وقارکا راستہ ہی محتاط مزاحمت کا راستہ ہے‘ اور مقابلے کے لیے اس جنگ میں تمام ہی حلیفوں سے سیاسی ‘ریاستی اور عوامی سطح پر تعاون ضروری ہے۔ مسلمان اُمت اور ممالک کے لیے تنہائی (isolation) سے بچنا ضروری ہے۔ آپس کے تعاون اور اتحاد کی بھی اشد ضرورت ہے۔ موثر ڈپلومیسی ہی کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ اور مستقبل کی منصوبہ بندی ہوسکتی ہے۔ ہمیں خود اور دوسروں سے مل کر انسانی حقوق‘ آزادی اور قانون کی حکمرانی کے لیے کھلے دل سے کام کرنا چاہیے۔ بین الاقوامی قانون کے احترام‘ حقیقی جمہوری قدروں کے تحفظ اور انصاف کے حصول کے لیے عالمی جدوجہد میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان سب قوتوں سے تعاون کرنا اور تعاون حاصل کرنا چاہیے جن سے جزوی طور پر ہی سہی مقاصد کا اشتراک ممکن ہے۔
۱- حکومتوں سے بات چیت اور افہام و تفہیم
۲- ان ممالک کے عوام اور اہل دانش تک رسائی اور اپنی بات پہنچانے کی کوشش
۳- پھر ان ممالک میں ایسے تمام عناصر سے ربط اور تعاون کی راہوں کی تلاش‘ جن سے کلی یا جزوی اشتراک عمل ممکن ہے۔
یہ نہ توسمجھوتے کا راستہ ہے اور نہ کسی کمزوری کی علامت ہے۔ یہ حقیقت پسندی کا تقاضا‘ اور دعوت کا راستہ ہے۔
اس سلسلے میں مسلمان حکمرانوں سے بھی ربط کی ضرورت ہے اور ان میں برے اور کم برے میں تمیز کرنا ہوگا۔ بلاشبہہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اُمت کے عوام اور حکمرانوں میں بعدالمشرقین ہے اور ان کے درمیان نہ صرف ایک خلیج حائل ہے ‘بلکہ دونوں کے عزائم‘ جذبات‘ اہداف اور مفادات تک میں ایک واضح تفاوت بلکہ تضاد ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ کے ہم نوا‘ اس پر اعتماد کرنے والے اور اس کے حلیف حکمران بھی دل کے کسی نہ کسی گوشے میں یہ احساس رکھتے ہیں کہ کسی وقت بھی وہ ان کو دھوکادے سکتا ہے۔ ان حالات میں ان حکمرانوں کا اپنا مفاد بھی اسی میں ہے کہ اپنے عوام سے قریب ہوں اور ان سے تصادم کی جگہ ایسا رشتہ قائم کریں کہ مل جل کر سب کے مفاد کا تحفظ ہوسکے۔ یہ نازک اور مشکل کام ہے لیکن اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اسلامی تحریکات کو سمجھنا چاہیے کہ ان کی اصل طاقت اللہ پربھروسے کے بعد عوام کی طاقت ہی ہوسکتی ہے اور انھیں وہ راستہ اختیار کرنا چاہیے جس سے وہ عوام کو ساتھ لے کر اپنے ملک اور اُمت مسلمہ کے مفاد کا بھی تحفظ کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے جس حد تک اور جس طرح مسلمان حکمرانوں پر اثرانداز ہونا ممکن ہو‘ اس کی فکر کرنی چاہیے۔
اس کے ساتھ ان عالمی مسائل پر ایک واضح موقف اختیار کرنا ضروری ہے جو آج انسانیت کے مرکزی مسائل ہیں۔ ان میں انسانی حقوق‘ عدل اجتماعی‘ معاشی ترقی اور دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم‘ خاندان کے نظام کا انتشار‘ طبقاتی تصادم‘ مظلوم اقوام کی دادرسی اور دنیا کو ظالم حکمرانوں اور سرمایہ پرستوں کی گرفت سے نجات سرفہرست مسائل ہیں۔
عالمی سطح پر ہماری نگاہ میں آج سب سے بڑا مسئلہ ’ورلڈ میڈیا‘ میں مسلمانوں اور خصوصیت سے اسلامی تحریکات کے لیے جگہ حاصل کرنا اور اپنی بات کو دنیا تک پہنچانے کے لیے راستہ نکالنا ہے۔ آج میڈیا کی قوت‘ عسکری قوت سے کسی طرح کم نہیں۔ اسلامی تحریکات نے حرف مطبوعہ (printed word)کو تو ذریعہ بنایا ہے‘ لیکن جدید ابلاغی ذرائع میں جو چیزیں سب سے اہم ہیں‘ یعنی الیکٹرانک میڈیا اور ڈیجیٹل پاور بڑی حد تک یہ ذرائع ابھی ہماری دسترس سے باہر ہیں اور یہ ہماری بہت بڑی کمزوری ہے۔ اس میدان میں خلا کو پُر کرنا اولین اہمیت کا حامل ہے۔
اسی طرح ساری کمزوریوں اور مشکلات کے باوجود‘ مسلمان ملکوں کا اتحاد‘ ان کا مشترک محاذ‘ اور متعین مسائل کے بارے میں ایک مشترک موقف‘ معاشی اور سرمایہ کاری کے میدان میں تعاون اور بالآخر عسکری تعاون اور ہم آہنگی بھی وقت کی ضرورت‘ اور سب کے مفاد میں ہیں۔
مسلم ممالک کا تعاون اسلام اور اُمت کے تصور کا تقاضا تو ہے ہی‘ لیکن آج تو یہ ہر ملک‘ حتیٰ کہ اس کے حکمرانوں کی بھی ایک ضرورت بن گیا ہے۔ اس لیے اسلامی تحریکات کو عالمی سطح کی حکمت عملی بناتے وقت ان پہلوئوںکو سامنے رکھنا چاہیے۔
دین کا مجموعی تصور اور بنیادی اصولوں کی تشریح کے باب میں مؤسسین نے بڑا قیمتی اور راہ کشا کام کیا ہے‘ لیکن اس سلسلے میں چند اہم کام ہیں جن کی طرف توجہ وقت کا تقاضا ہے۔
مولانا مودودیؒ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا ایک اہم ذریعہ اس علمی کام کو جاری رکھنا‘ آگے بڑھانا اور نئے تقاضوںکو پورا کرنا ہے جس کا آغاز انھوں نے ۸۰ سال پہلے کیا تھا۔
پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اصولی اور مرکزی تصورات تو مؤسسین نے واضح کردیے ہیں‘ لیکن ان میں مزید وسعت پیدا کرنا‘ تفصیلات کا تعین کرنا‘ خصوصیت سے زندگی کے مختلف شعبوںمیں اسلام کی رہنمائی کو فکری (conceptional) پہلو کے ساتھ اطلاقی (applied) شکل میں مرتب کرنا جو ایک متوازن پالیسی کی صورت گری کر سکے‘ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ نیز ہر میدان میں نئے علمی چیلنجوں کا موثر مقابلہ بھی علمی اور تحقیقی پروگرام کا حصہ ہونا چاہیے۔
اس کے ساتھ یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ مؤسسین کے مخاطب بالعموم مسلمان تھے اور وہ بھی اپنے اپنے ملک اور خطے کے لوگ‘ جیسا کہ ہم نے پہلے اشارہ کیا۔ آج دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ اسلام‘ مشرق اور مغرب میں موضوعِ گفتگو ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ غیرمسلموں کی ذہنی اور تہذیبی سطح سامنے رکھ کر اور دنیا کے تمام انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے اسلام کے پیغام کو آج کی زبان میں اور آج کے ایشوزکی روشنی میں پیش کیا جائے۔ یہ پیغام ان زبانوں میں پیش کیاجائے جن کے ذریعے ہم دنیا کی بڑی آبادی تک پہنچ سکیں۔ اس سلسلے میں انگریزی زبان نے خصوصی اہمیت اختیار کر لی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
مغربی تہذیب اور اس کی اہم تحریکوں‘ سوشلزم اور سرمایہ داری کے بارے میں مؤسسین نے بڑی وقیع علمی تنقید اور احتساب کا اہتمام کیا ہے۔ لیکن انسانی علوم کی اسلامی بنیادوں پر تشکیلِ نو اور آج کے سیاسی‘ معاشی‘ سماجی‘ سائنسی مباحث کی روشنی میں اسلام کی تعلیمات کی صحیح ترجمانی اور خصوصیت سے سیکولرزم اور موڈرنزم کی نئی تشکیلات‘ سرمایہ داری کی جدید شکل‘ لبرلزم اور تحریک نسواں کی جدید شکل اور مسلم ممالک کے معاشی‘ سیاسی‘ سماجی‘ علاقائی‘ لسانی مسائل اور اقلیتوں کے کردار کے سلسلے میں بے شمار امور اور معاملات ہیں‘ جن پر غوروفکر‘ تحقیق و جستجو اور بحث و مباحثے کے بعد مثبت طور پر ہمیں اپنا موقف پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ساری ضرورتیں صرف مؤسسین کی علمی خدمات کی تحسین اور صرف انھی کے آثار کی طباعت سے پوری نہیں ہوسکتیں۔ اس کے لیے تووہی کام جاری رکھنا ہوگا جو اسلامی تحریک کے مؤسسین نے شروع کیا تھا۔
اس سلسلے میں جو تجربات اب تک ہوئے ہیں‘ ان کے جائزے اور احتساب کی ضرورت ہے۔ اتحاد اور الحاق کے فوائد اور مضمرات پر بھی غوروفکر کی ضرورت ہے۔ ایران‘ پاکستان‘ ملایشیا‘ ترکی‘ الجزائر‘ سوڈان‘ یمن جہاں بھی مفید تجربات ہوئے ہیں‘ ان کے گہرے اور ناقدانہ مطالعے اور تجزیے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہہ تبدیلی کے عمومی عمل کی تو نشان دہی کر دی گئی ہے‘ مگر اس کی عملی تفصیلات اور اس کے گوناگوں تقاضوں پر کام کی ضرورت ہے۔ اقتدار کو متاثر کرنا‘ اقتدار میں بامعنی شرکت‘ اقتدار پر دسترس‘ غرض کتنے ہی پہلو ہیں جن کے بارے میں اسٹرے ٹیجک غوروفکر کی اشد ضرورت ہے۔ اسی طرح مختلف ملکوں میں سیاسی تجربات کے جو نتائج نکلے ہیں اور جو مسائل و مشکلات سامنے آئی ہیں‘ وہ بڑے وسیع پیمانے پر مطالعے‘ بحث مباحثے‘ شوریٰ اور نئے اقدامات کے متقاضی ہیں۔
ہمارا مقصد بیرونی اور اندرونی‘ دفاعی اور داخلی‘ تعمیری میدانوں کے تمام مسائل کا احاطہ نہیں ہے۔ ہم صرف یہ توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ ان دونوں میدانوں میں جو مسائل اور معاملات آج درپیش ہیں‘ ان کے حل کے لیے بیسویں صدی کی اسلامی فکر میں ایک اصولی رہنمائی تو موجود ہے لیکن وقت کی اصل ضرورت اس ’طرزِفکر‘ کی روشنی میں آج کے مسائل کے لیے فکری اور عملی جدوجہد ہے۔ اس کام کی انجام دہی کے لیے ضروری ہے کہ قرآن و سنت ہی کو اصل ماخذ بنایا جائے۔ مؤسسین کی فکر سے اسی طرح استفادہ کیا جائے جس طرح انھوں نے اپنے پیش رووں کے قیمتی کام سے استفادہ کیا ‘لیکن اسی پر قناعت کیے رکھنا خود ان کے ساتھ بڑی ناانصافی ہوگی۔
ہماری نگاہ میں سید مودودیؒ کا اصل پیغام اکیسویں صدی کے لیے یہ ہے کہ وژن‘ مقصد اور اصول پر یکسوئی کے ساتھ قائم رہا جائے۔ اپنے پیش رووں کی فکر اور خدمات سے احترام اور وفاداری کے ساتھ استفادہ کرتے ہوئے‘ جدید اور نئے مسائل اور معاملات سے صرفِ نظر نہ کیا جائے بلکہ پوری قوت سے ان سے نبردآزما ہونے کی سعی کی جائے۔ فکر کے ساتھ ’طرزِفکر‘ کو توجہ اور نئی جدوجہد میں مرکزی اہمیت دی جائے۔ جس روش اور طریق کار (methodology) سے مؤسسین نے کام کیا اس میں بہتری اور تازگی پیدا کی جائے‘ نئے حالات اور مسائل کے لیے پوری شدومد سے اسے روبہ عمل بھی لایا جائے۔ اس فکر کو وسعت اور عمق دونوں میدانوں میں آگے بڑھایا جائے۔ لیکن اس کے ساتھ نئی فکر‘ نئی ٹکنالوجی ‘ نئی مہارت‘ اور نئے تجربات کے بارے میں اسی شوق اور جذبے سے جدوجہد کی جائے جس سے پیش رووں نے اپنے زمانے میں کی تھی اور ہمارے لیے روشن نقوشِ راہ مرتب کیے تھے --- کہ آگے بڑھنے اور نئی دنیا تلاش کرنے کا یہی طریقہ ہے ؎
شاید کہ زمیں ہے وہ کسی اور جہاں کی
تو جس کو سمجھتا ہے فلک اپنے جہاں کا