مضامین کی فہرست


مئی ۲۰۱۷

میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسے گھر میں پیدا کیا جو مسلمان گھرانا تھا، جہاں ہر آن اچھائی اور خیر کا ماحول غالب تھا۔ پھر ایسے ماں باپ میسر آئے، جنھوں نے شروع ہی سے ایک خاص رُخ پر تربیت کی۔ بچپن ہی سے علمی، دینی اورادبی ماحول ملا ۔ ہم قرول باغ، دلّی میں رہتے تھے اور جامعہ ملیہ بھی قریب ہی تھی۔ ہر سال ’محمد علی جوہر ٹرافی‘ کے مقابلے ہوا کرتے تھے، جس میں بچوں کے لیے الگ اور بڑوں کے لیے الگ کھیلوں، نظمیں پڑھنے اور تقریروں کے مقابلے ہوتے تھے۔ میں نے سات آٹھ سال کی عمر ہی سے نظمیں پڑھنے اور مباحثوں میں حصہ لینے کے ساتھ، کھیلوں میں بھی شرکت شروع کی۔ اس تین روزہ ٹرافی پروگرام کے دنوں میں وہیں ٹھیرنا پڑتا اور زمین پر سونا ہوتا تھا۔ یہ کیمپنگ میری زندگی کا بڑا دل چسپ اور سبق آموز تجربہ تھا۔

انگریزی راج سے آزادی کے لیے جدوجہد میں شرکت، ہندو مسلم فسادات کا دل گرفتہ کرنے والا تذکرہ اور تجربہ، اور قیامِ پاکستان کی تحریک میری ابتدائی زندگی کے نقوش ہیں۔۱۹۴۲ء میں تحریکِ آزادی کو قوت سے کچلنے کی کوشش کو بچشمِ سر دیکھا اور ۴۶-۱۹۴۵ء کے انتخابات کا مشاہدہ بھی کیا۔ میرا پورا خاندان آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ تھا اور میں بچوں کی انجمن ’بچہ مسلم لیگ‘ دہلی کا سب سے کم عمر صدر منتخب ہوا تھا۔ اینگلو عریبک ہائیر سیکنڈری اسکول میں ثانوی تعلیم حاصل کی۔  یاد رہے کہ یہ اسکول تحریکِ پاکستان کا مرکز تھا اور اس کی بزمِ ادب کا سیکرٹری بننے کا بھی مجھے شرف حاصل ہوا۔ پاکستان کی تائید کے لیے ہمارے جلوس ہر ہفتے اسمبلی کی طرف جایا کرتے تھے۔ ۱۹۴۵ء کے  الیکشن میں ہم نے شب وروز کوشش کی۔ ڈاکٹر عبدالغنی قریشی دلّی میں ہمارے اُمیدوار تھے، وہ میرے والد کے گہرے دوست تھے۔ انتخابات میں وہ کامیاب بھی ہوئے۔

 ۳جون ۱۹۴۷ء کو قائداعظم کی تقریر میں نے ریڈیو سے اپنے کانوں سے سنی اور ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ سنا اور لگایا بھی۔ اس کے بعد ۳ستمبر ۱۹۴۷ء کو ہمارے گھرپر حملہ ہوا، ہمیں فی الفور گھر چھوڑنا پڑا۔ ہم گھر سے اس حالت میں نکلے کہ جو کچھ ہمارے بدن پر تھا یا ہاتھوں میں تھا، بس اسی کو ہم اپنے ساتھ لاسکے۔ ہمارا گھر لوٹا اور جلایا گیا ۔ پھر ہم مسلم اکثریت کے محلے باڑہ ہندو رائو منتقل ہوگئے۔ جہاں ہم نے پناہ لی تھی، وہاں پر بھی جلد ہی حملہ ہوا۔ اس صورتِ حال میں کئی راتیں ایسی گزریں کہ پوری پوری رات ہم جاگے اور ایک مکان سے دوسرے مکان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک رات میں ہم نے چھے جگہیں بدلی تھیں۔ انھی راتوں میں ایک وہ رات بھی تھی، جب میں نے انسانی چربی جلنے کی بدبو سونگھی۔ پھر میں اپنے والدین کے ساتھ ایک ماہ تک مہاجر کیمپ میں بھی رہا۔ ہمایوں کے مقبرے میں بھی رہنا پڑا۔ یہاں اگرچہ ہم عملاً خود مقید تھے، اس کے باوجود ہم بے گھر لوگوں کی بساط بھر خدمت کرتے رہے۔ الحمدللہ، میرے والد متمول لوگوں میں سے تھے، اس لیے ہم نے ہوائی جہاز سے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ یوں ہمارے خاندان کا ایک حصہ دسمبر۱۹۴۷ء میں پاکستان پہنچا اور میں خود اپنے والدین کے ساتھ ۱۲فروری ۱۹۴۸ء کو پاکستان منتقل ہوا۔ وہ دن اور آج کا دن، میں نے دہلی کی وہ جگہیں یا  اپنا گھر پھر نہیں دیکھا۔

بڑے بھائی ضمیراحمد مجھ سے پہلے پاکستان آگئے تھے، انھیں ایف سی کالج لاہور میں داخلہ مل گیا۔میں چونکہ فروری میں پاکستان آیاتھا اور تعلیمی سال کئی ماہ پہلے شروع ہوچکا تھا، اس لیے  داخلہ نہیں ملا۔ ان دنوں لاہور میں تعلیم الاسلام کالج  میں داخلہ کھلا ہوا تھا۔ چنانچہ میں وہاں داخل ہوا۔ اتفاق سے وہاں میرے کلاس فیلو بہار سے آئے ہوئے اقبال احمد تھے۔ ہم دونوں کلاس فیلو اور اچھے دوست تھے۔ وہیں ہمیں پہلی مرتبہ سوشلزم اور اسلام کے بارے میں بات چیت کرنے کا موقع ملا۔ اقبال صاحب بعد میں ایک سوشلسٹ دانش وَر کی حیثیت سے معروف ہوئے۔ ہم لوگ کہا کرتے تھے کہ نوجوانوں کا مستقبل یا سوشلزم ہے یا اسلام۔ وہ سوشلزم کی طرف چلے گئے، اور  یہ اللہ کا کرم ہے کہ مَیں اسلام کی طرف آگیا۔

۱۹۴۹ء میں پہلی مرتبہ مولانا مودودی کی تحریروں سے آشنا ہوا۔ الحمدللہ، ہم پہلے سے روایتی دینی زندگی تو گزارتے آرہے تھے، لیکن یہ فہم کہ اسلام کیسا انسان چاہتا ہے؟ اسلام کیسا معاشرہ چاہتا ہے؟ اسلام زندگی کو کس سمت میں لے جانا چاہتا ہے؟ اس کا ہمیں کوئی زیادہ شعور نہیں تھا۔ اس چیز کا شعور ۱۹۴۹ءکے وسط میں اس وقت ہوا، جب مَیں اسلامی جمعیت طلبہ سے متعارف ہوا۔ پھر ۱۹۵۰ءمیں مَیں اسلامی جمعیت طلبہ کا رکن بنا اور فوراً بعد کراچی جمعیت کا ناظم منتخب ہوگیا۔ اس کے بعد ناظم سندھ جمعیت اور بعد میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا ناظم اعلیٰ منتخب ہوا۔ اُس زمانے میں ہم نے اسکولوں کے طلبہ کا جو حلقہ مدارس بنایا، اس میں شیخ محبوب علی، مسلم سجاد، تنظیم واسطی اور انیس احمد وغیرہ شامل تھے۔ برادرم عبداللہ جعفر صدیقی اس پورے پراجیکٹ کے انچارج اور روح رواں تھے۔ مجھے اس پورے گروپ کے اسٹڈی سرکل چلانے اور ان کو تحریک اور ملکی اور عالمی تناظر سے متعارف کرانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ بات ہے ۱۹۵۱ء، ۱۹۵۲ء کی۔

یہاں ایک بار پھر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ایک ایسے گھرانے میں پیدا کیا، جو دینی، ملّی اور علمی ذوق رکھتا تھا۔ اس ماحول نے میری زندگی کو ایک رخ پر ڈالا اور تحریک اسلامی کو جاننے کی توفیق عطا فرمائی۔ تحریکِ اسلامی جس دعوت کو لے کر کارزارِ حیات میں سرگرم ہے، اسلامی تاریخ میں یہ کوئی نئی بات نہیں، بلکہ یہ دعوت اور سرگرمی دورِ رسالتؐ سے ترقی اور آزمایش کی منزلوں کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ بلاشبہہ ہر دور میںا س کے لیے چیلنج اور چیلنج سے نبردآزما ہونے کے وسیلے اور اس کی شکلیں بدلتی رہی ہیں، مگر دعوت کا مرکز اللہ کی طرف بلانا، رسولؐ کی اطاعت، اور تزکیہ نفوس اصل بنیاد کے طور پر کارفرما رہا ہے اور انفرادی اصلاح کے ساتھ اجتماعی جدوجہد اس کی امتیازی شناخت رہے ہیں۔

مارچ کے حوالے سے تین اہم پہلو

آج ۲۳مارچ ہے اور مارچ کے حوالے سے ہماری قومی تاریخ میں کم ازکم تین پہلو بہت اہمیت رکھتے ہیں:

اوّل: ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کو قرارداد پیش ہوئی، جو سیرحاصل بحث کے بعد منظور کی گئی۔ اگرچہ سیاسی و اجتماعی زندگی میں قراردادیں بہت سی پیش ہوتی ہیں اورقبول بھی ہوتی ہیں، لیکن وہ قراردادیں جو تاریخ کے رخ کوموڑ دیں، وہ بہت کم ہوتی ہیں۔ اس پہلو سے ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کی  قراردادِ لاہور کا منظورہونا ایک بڑے اہم اور تاریخی فیصلے کی بنیاد بنا۔

دوم: اسی تسلسل میں دوسری بڑی اہم قرارداد، اپریل ۱۹۴۶ء میں دلّی میں ہمارے اسکول کے کیمپس میں مسلم لیگ کے منتخب ارکان قومی و صوبائی اسمبلیوں کے کنونشن کی قرارداد ہے، جو ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کی قرارداد کی تکمیل، اس کی تشریح اور تعبیر اور اسے عملی شکل دینے کا ذریعہ بنی۔ اس قرارداد کے ساتھ ایک عہدنامہ بھی تھا، جس پر تمام منتخب ارکان اسمبلی نے دستخط کیے، اور اس میں تحریک ِ پاکستان کے محرک اور منزل دونوں کا معتبرترین تصور ہمیشہ کے لیے متعین اور محفوظ کر دیا گیا۔

اس سلسلے کا تیسرا سنگ ِ میل قراردادِ مقاصد ہے، جو پاکستان کی دستورساز اسمبلی میں ۹مارچ ۱۹۴۹ء کو پیش ہوئی اور ۱۲مارچ ۱۹۴۹ء کو منظور ہوئی۔ پاکستان کی پہلی دستورسازاسمبلی جو پاکستان بنانے کی جدوجہد میں ہراول دستہ تھی، اور جسے پوری قوم نے یہ کام سونپا تھا کہ ملک کا مستقبل، اس کا آیندہ کانظام ، اس کا دستور، اس کی منزل متعین کرے۔ یہ قرارداد اسی اسمبلی کا کارنامہ تھی۔

چوتھا سنگ ِ مل ۱۹۵۶ء کا متفقہ دستورِ پاکستان تھا۔ اس دستور کا نفاذ بھی ۲۳مارچ ۱۹۵۶ء کو ہوا اور ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان متعین کیا گیا۔ یہ ہماری تاریخ کا بہت بڑا سانحہ ہے کہ  مسلح افواجِ پاکستان کے سپہ سالار جنرل محمد ایوب خان نے اکتوبر ۱۹۵۸ء میں اس دستور کو منسوخ کردیا۔ ۱۹۵۶ء کا دستور آج بھی پاکستان میں دستور سازی کی تحریک اور تاریخ کا سنگِ بنیاد ہے۔ منسوخی کے باوجود، بعد میں جتنے دساتیر بنے، وہ اس بنیاد سے نہ ہٹائے جاسکے، جو بنیاد اس دستور نے فراہم کی تھی۔

دستور سازی کا مرحلہ

پاکستان میں دستور سازی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جنرل ایوب خان نے ۱۹۵۶ء کے متفقہ دستور کو منسوخ کرنے کے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا تھا کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگا، نیز ان کے اس وقت کے شریکِ کار صدر اسکندر مرزا صاحب سے منسوب یہ بات بھی زبان زدعام کی گئی تھی کہ وہ لوگ جو اسلامی دستور کی بات کرتے ہیں ان کو کشتیوں میں بٹھاکر بحیرۂ عرب کی لہروں کے سپرد کردیا جائے گا۔ البتہ مشیت اور تاریخ کا فیصلہ کچھ اور تھا۔ فوجی انقلاب کے ایک ماہ کے اندر ہی اسکندر مرزا کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا، اور پھر اسلام کے داعیوں کو نہیں بلکہ خود ان کو سمندرپار رخصت کر دیا گیا، فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ۔

۱۹۶۲ء میں انھی فیلڈ مارشل ایوب خان نے ملک کو دستور دیا۔ جس میں ملک کا نام ’اسلامک  ری پبلک آف پاکستان‘ (اسلامی جمہوریہ پاکستان) کے بجاے ’ری پبلک آف پاکستان‘ (جمہوریہ پاکستان) تھا، اور اس میں سے قراردادمقاصد کے چند نمایاں دینی پہلو نکال دیے گئے۔ ۱۹۵۶ء کے دستور میں جو ایک دفعہ تھی کہ: ’’کوئی قانون سازی قرآن وسنت کے خلاف نہیں ہوگی‘‘ اسے بھی تحلیل کردیا گیاتھا۔ بہرحال فوجی اقتدار کے زور پر ۱۹۶۲ءمیں یہ دستور نافذ کیا گیا۔ اس کے تین ماہ بعد پاکستان کی قومی اسمبلی بنی اور اس اسمبلی کے اندر جو پہلی بھرپور بحث ہوئی وہ ’سیاسی پارٹیوں کے قانون‘ پر ہوئی تھی۔ اس اسمبلی نے اس قانون میں زور دے کر یہ شق شامل کی تھی کہ پاکستان کی ہرسیاسی پارٹی کے لیے لازمی ہوگا کہ وہ اسلامی آئیڈیالوجی سے مطابقت رکھے۔ اس پر بحث کے دوران سیکولر طبقے نے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا کہ اسلامی نظریے اور اس سے مطابقت کی شرط قانون میں نہ آئے، مگر اس میں انھیں بُری طرح شکست ہوئی اور ایوب خان کے دستور ہی کے تحت بننے والی اسمبلی نے سیکولرزم کو مسلط کرنے کی سازش کو شکست دی اور پاکستان کی اسلامی شناخت کو بحال اور تحفظ دینے کا اہتمام کیا۔

واضح رہے کہ اس وقت جسٹس محمد منیر وزیرقانون تھے اور یہ اس قانون کو پیش کررہے تھے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ میں منیرصاحب جیسا فرد بھی موجودتھا، جس نے پاکستان کی اسلامی بنیاد اور شناخت پر ضرب لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، لیکن بالآخر اس کو منہ کی کھانا پڑی اور اس کی بھی دیانت کا پردہ چاک ہوگیا۔ واضح رہے کہ انھوں نے اپنی کتاب From Jinnah to Zia میں لکھا ہے کہ: ’’اسلامی آئیڈیالوجی یا پاکستان آئیڈیالوجی کا لفظ جنرل ضیاء الحق نے متعارف کرایا‘‘۔ لیکن آپ ۱۹۶۲ء کی اسمبلی کی کارروائی اٹھا کر پڑھ لیں۔ اس شخص نے سب سے پہلے تو اسلامک آئیڈیالوجی کے الفاظ کی نفی کی۔ لیکن پھر جب اسمبلی نے اصرار کیا کہ ہم یہ رکھیں گے تو اس نے یہ کہاکہ:’’سلکیٹ کمیٹی نے آئیڈیالوجی آف پاکستان کی تعریف بطور اسلام کی ہے، تاہم میں اس سے بے تعلق ہوں کہ آئیڈیالوجی ہونا چاہیے یا نکال دینا چاہیے، یا اس کی تعریف بطور اسلام کی جانی چاہیے‘‘ ( قومی اسمبلی رُوداد، ۱۱جولائی ۱۹۶۲ء)۔ یہی جسٹس منیرصاحب اگلے روز کہتے ہیں: ’’میں نے اس معاملے پر خوب غوروفکر کیا ہے اور میں یہ قرارداد پیش کرتا ہوں کہ آئیڈیالوجی کے الفاظ کو شامل کرنا کسی بھی طرح اقلیتوں کی مذہبی آزادی کو متاثر نہیں کرے گا اور یہ اقلیتوں کو اجازت دے گا کہ وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کو ایسے پروپیگنڈے میں تبدیل نہ کریں جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوں‘‘(ایضاً، ۱۲جولائی ۱۹۶۲ء)۔ یہ الفاظ تھے پاکستان میں سیکولرزم کے علَم بردار جسٹس محمد منیر کے اور ہماری تاریخ کاحصہ ہیں۔

۱۹۶۲ ء کے دستور میں پہلی آئینی ترمیم ہوئی تو وہ یہ تھی کہ پاکستان کا نام ’اسلامک ری پبلک آف پاکستان‘ ہوگا۔ قرارداد مقاصد کو ان الفاظ کے ساتھ، جن میں وہ مارچ ۱۹۴۹ء میں پاس ہوئی تھی بحال کیاگیا اور دستورکی یہ شق کہ: ’’قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوگی‘‘، اسے بھی اصل شکل میں بحال کیاگیا۔ یہ تینوں چیزیں ۱۹۶۴ء میں اس وقت منظور ہوئیں، جب مَیں اور جماعت اسلامی کی پوری مرکزی قیادت جیل میں تھی۔

اسلامی آئیڈیالوجی کا یہی تسلسل ۱۹۷۳ء کے دستور میں بھی ملے گا۔ یاد رہے کہ جب اس کا پہلا ڈرافٹ پیپلزپارٹی نے پیش کیا تو اس میں ملک کو سوشلسٹ ری پبلک آف پاکستان قرار دیاگیا۔ مجوزہ آرٹیکل ۳یہ تھا کہ: ’’پاکستان ایک سوشلسٹ ریاست ہوگی‘‘ مگر پیپلز پارٹی نے عوام کی اسلام سے وابستگی کا احترام و اعتراف کیا۔ بالآخر ایک محدود، لادین اور سوشلسٹ اقلیت کی راے پر عوام کی اُمنگوں کو ترجیح دی۔ پھر دستور کے اندر وہ تمام اسلامی شقیں جو ۱۹۵۶ء کے دستورکاحصہ تھیں، ان کو اور زیادہ بہتر انداز سے دستور کا حصہ بنالیا۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ۱۹۷۳ء کا دستور بنیادی طور پر ایک اسلامی، جمہوری، فلاحی اور ایک وفاقی دستور ہے۔ یہ دستور مذکورہ چاروں خوبیاں رکھتا ہے اور یہ دستور بھی ۱۰اپریل ۱۹۷۳ء کو منظور ہوا۔ اور ۱۴اگست ۱۹۷۳ء کو نافذالعمل ہوا۔ اس طرح ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء میں جس سفر کا آغاز ہوا تھا، اور جس کے نتیجے میں اپریل ۱۹۴۶ء،  مارچ ۱۹۴۹ء اور مارچ ۱۹۵۶ء میں ایسے سنگ ہاے میل طے کیے تھے کہ جن سے ہمیشہ کے لیے پاکستان کی شناخت اور منزل کا تعین ہوگیا۔

مسلمانوں کی تاریخ کا ایک اہم باب

اس ضمن میں یہ نکتہ بھی گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ مارچ ۱۹۴۰ء کی قرارداد کی حقیقت کو سمجھنا بہت ضروری ہے مگر بدقسمتی سے آج کل ایک خاص گروہ کی طرف سے اس کی غلط تشریح کی جارہی ہے۔

بنیادی بات یہ ہے کہ مسلمان پہلے دن سے ایک نظریاتی امت ہیں۔ اس اُمت کی بنیاد رنگ پر نہیں، نسل پرنہیں، زبان پر نہیں ، خطے پر نہیں ہے، مفادات پر بھی نہیں ہے، حتیٰ کہ مشترکہ تاریخ پر بھی نہیں ہے، بلکہ اس کی بنیاد عقیدے اور ایمان پر ہے ۔ اس کی بنیاد نظریے پر ہے، جو    قرآن وسنت سے ماخوذ ہے۔ یہی ہماری شناخت ہے مگر ہماری قیادتوں نے نہ صرف یہ کہ اس کا احترام نہیں کیا ہے، بلکہ عملاً اس سے انحراف بھی کیا ہے۔

برعظیم میں آنے والا پہلا مسلمان محمد بن قاسم نہیں تھا، بلکہ دورِ رسالت مآبؐ میں     صحابۂ کرامؓ سندھ میں تشریف لائے تھے۔ ان کے بعد محمد بن قاسم آئے اور اسلامی حکمرانی قائم ہوئی۔ پھر شمال سے مسلمان آئے تو مسلمانوں کے اقتدار کا دور شروع ہوا۔

تاریخ کا کوئی بھی منصف مزاج طالب علم اور اسکالر یہ کبھی نہیں کہہ سکتا کہ برعظیم پاک و ہند کے پورے دور میں کبھی مسلمانوں نے اسلام دوسروں پر زبردستی مسلط کیا۔ یہی نہیں بلکہ ہندوئوں کے ذات پات کے نظام اور ستّی کے رواج سے شدید اختلاف اور انقباض کے باوجود اسے ختم کرنے کے لیے سرکاری طاقت کا استعمال کرنے سے اجتناب برتا اور افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا۔ زبردستی مذہب قبول کرنے کاکوئی تاریخی واقعہ نہیں ملتا۔ اورنگ زیب عالم گیر کے بارے میں جو باتیں کہی گئی ہیں، وہ صریح تاریخی جھوٹ ہے۔ اس کی تردید خود بھارت کے غیرمسلم محققین نے کی اور کررہے ہیں۔

مسلمانوں نے اپنے تشخص اور اپنی اجتماعی زندگی کی بہتری کے لیے ادارے قائم کیے اور غیرمسلموں کو بھی پورا پورا موقع دیا کہ وہ  اپنے عقیدے اور روایات کے مطابق کام کریں۔ صرف دعوت وتبلیغ سے برہمن ازم میں دراڑیں پڑیں اور لوگ اس کے چنگل سے نکل آئے۔علماے کرام اور صوفیاے عظّام نے اس سلسلے میں بڑی روشن اور تاب ناک خدمات انجام دیں۔ تاہم، مسلمانوں کی طرف سے کوئی واقعہ ظلم وجبر کا اس زمانے میں نہیں ملتا اور ریاستی قوت کے ذریعے کبھی اسلام کو مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں تک بھی تاریخ کا مطالعہ کریں مسلمانوں کے پورے دورِ حکمرانی میں ہندو مسلم فسادات کاکوئی تصور نہیں ملتا۔ بلاشبہہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان جنگیں ہوئی ہیں، مگر اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی وسعت ِ قلبی اور   حُسنِ سلوک کے باعث مسلمانوں کی فوج میں ہندو جرنیل اور ہندو سپاہی بھی رہے۔ مسلمان سلاطین کی حکومتوں، وزارتوں اور انتظامیہ میں بھی ہندو رہے، کبھی کم اور کبھی زیادہ، لیکن ہندوئوں پر اعتماد کیا گیا اور بعض اوقات انھیں اہم ذمہ داریاں بھی سونپی گئیں۔

ہندو مسلم اتحاد میں دراڑ

پہلی مرتبہ ۱۹ویں صدی کے آخری عشرے میں یہ تذکرہ سامنے آنا شروع ہوتا ہے کہ مسلمانوں اور ہندوئوں میں فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ اس وقت سے برطانیہ نے آپس میں لڑانے کے لیے رسوخ پیدا کرلیا تھا۔ اس سے قبل ہم البیرونی کا سفرنامہ پڑھتے ہیں، جس میں اس نے بتایا ہے کہ ہندستان کے ہندوکیسے ہیں، بدھ مت کے پیروکار کیسے ہیں، مسلمان کیسے ہیں اور کس طرح باہم رہتے بستے ہیں؟ یہ ہماری تاریخ ہے جس میں ایک طرف مسلمانوں نے اپنی شناخت کو محفوظ کیا اور چارچاند لگائے ہیں، تو دوسری طرف دوسروں کی شناخت کی بھی حفاظت کی ہے۔ اس طرح ایک حقیقی تکثیری (Pluralistic) معاشرے کو تاریخ میں قائم کرکے روشن مثال پیش کی ہے۔

بلاشبہہ تاریخ میں نشیب و فراز کا ظہور ایک حقیقت ہے، اور جو لوگ اقتدارمیں رہے، ان میں اچھے بھی تھے اور بُرے بھی ۔ وہ بھی رہے ہیں جنھوں نے اسلام کانفاذ کیا ، اسلامی نظام کو ترویج دیا، اور وہ بھی رہے جنھوں نے اسلام سے اِعراض کیا اور اس کی تعلیم کو اور تاریخ کو بھی بدلنے کی کوشش کی۔ لیکن دو چیزیں مشترک اور محکم ہیں: ایک یہ کہ اپنی نظریاتی ، دینی اور تہذیبی شناخت کا تحفظ و ترقی، اور دوسرے یہ کہ اوروں کی تہذیب اور معاشرتی روایات کا احترام، اور دین کے معاملے میں جبر سے اجتناب۔

تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بیرونی قوت نے جب کسی ملک پر قبضہ کیا اور وہاں حکمرانی کرنے کے بعد کسی وجہ سے اسے جانا پڑا، تو جاتے ہوئے اُس نے اقتدار اسی طبقے کو دیا، جن سے اقتدار چھینا تھا۔ یہ تاریخ کی روایت تھی۔ اسی لیے مسلمانوں کو یہ گمان تھا کہ انگریز جب جائے گا تووہ اقتدار ہم کو دے کر جائے گا، کیوں کہ اس نے ہم سے اقتدار چھینا تھا، اس لیے ہم ہی آئیں گے۔ پھر آزادی کی تحریک میں بھی مسلمان پیش پیش تھے۔ اسی پس منظر میں ۱۸۵۷ء کا واقعہ ہوا اور اس سے پہلے تحریک ِ مجاہدین کی جدوجہد ، بنگال میں فرائضی تحریک یا اس کے بعد کے سرفروشانہ واقعات ہوں___ تاہم، آہستہ آہستہ مسلمانوں پر یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ اب جمہوریت کادور ہے اور یہ گنتی کا معاملہ ہے۔ اس میں جس کی تعداد زیادہ ہوگی وہی حاوی (dominate) ہوگا۔ میونسپل ریفارمز کی تحریک ہندستان میں ۱۸۹۰ء کے عشرے میں شروع ہوگئی تھی۔ سرسیداحمدخاں ان پہلے لوگوںمیں سے ہیں، جنھوں نے اس کا ادراک کیا۔ انھوں نے کہا کہ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے سیاسی مستقبل کی ازسرِنو تشکیل کرنی پڑے گی، وگرنہ مسلمان اس خیال میں تھے کہ ہم غالب آجائیں گے۔

 خوش قسمتی یا بدقسمتی کے ملے جلے رنگوں کے ساتھ تحریکِ خلافت جیسی پہلی عوامی تحریک کا کردار ہے۔ اس تحریک کا نیوکلیس اور جوہر مسلمان ہی تھے۔ یہ ایک ایسی عوامی تحریک تھی جس میں کئی لاکھ افراد شامل تھے اور اس کی قیادت مسلمان کررہے تھے۔ ہندوئوں نے محسوس کیا کہ اگر یہ عوامی تحریک ہی آزادی کی تحریک بن جاتی ہے او رمسلمان اس کی قیادت کرتے ہیں تو سیاسی نقشہ مختلف ہوگا۔ یہ تھی وہ چیز جس کے سبب انڈین نیشنل کانگریس اور دوسری ہندو تنظیموں نے ایک جارحانہ ہندو قوم پرستانہ حکمت عملی تیار کی۔ سرسیّد احمد خاں مرحوم کے دیے ہوئے شعور کے مطابق مسلمان    یہ بات سمجھنے لگے تھے کہ عددی اکثریت کی موجودگی سے مسلمانوں کو نقصانات پہنچیں گے۔

اسی احساس کے تابع ۱۹۰۶ء میں آل انڈیا مسلم لیگ، ڈھاکہ میں قائم ہوئی۔ بنیادی مقصد یہ تھا کہ مسلمانوںکے مفادات کاتحفظ ہو۔ مسلمانوں کو ان کی ثقافت، ان کے دین اور ان کی تعلیم و معاشرت اور ان کی روایات، ان کے حقوق سے آگاہی ہو۔ اس طرح مسلم لیگ ۱۹۰۶ء سے لے کر ۱۹۳۶ء تک محض مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے آواز بلند کرتی رہی۔ اس عرصے میں ایک بڑا اہم سنگ ِ میل دسمبر۱۹۱۶ء کا ’میثاقِ لکھنؤ ‘ ہے۔ پھر اگست ۱۹۲۸ء میں ’نہرو رپورٹ‘ آئی،  جو واضح طور پر ہندو مفادات کی محافظ تھی۔ اس کے جواب میں قائداعظم کی زیرصدارت مسلم لیگ نے مارچ ۱۹۲۹ء میں ’۱۴نکات‘ پیش کیے، جو مسلم مفادات کے تحفظ کی نہایت اہم دستاویز تھی، جو آگے چل کر قیامِ پاکستان کی بنیاد بنی۔ اس میں جداگانہ انتخاب، مسلمانوں کے جداگانہ وجود کے تحفظ کا وسیلہ بنے۔ یہ اقدامات مسلمانوں کا سیاسی وزن بڑھانے کے لیے کیے گئے۔ پھر ان کے سیاسی، تعلیمی اور معاشرتی حقوق کے تحفظ کو زبان دی گئی۔ یاد رہے کہ سائمن کمیشن رپورٹ ۱۹۳۰ء کو ہندوئوں نے جس طریقے سےاستعمال کیا اور جس طرح یہ واضح کر دیا کہ ہندو غلبہ ہی ہندستان کاسیاسی مستقبل ہوگا، تو یہ تھا وہ موقع جب مسلمان ہل گئے اور پھر انھوں نے ایک نئی حکمت ِعملی وضع کی۔ آخری منزل  جن کی دو قومی نظریے کے تحت مسلمانوں کے لیے جداگانہ اور آزاد ملک کا حصول ٹھیرا۔

دو قومی نظریے کی اساس

غالباً ۱۸۸۸ء میں عبدالحلیم شررنے اس پہلو پر ایک متعین شکل میں توجہ دلائی تھی۔ اُن سے لے کر کے ڈاکٹر سیّدعبداللطیف تک تقریباً ۱۷۰ افراد نے کھل کرکے یااشارتاً،سیاسی زبان میں یا علمی اسلوب میں تقسیمِ ہند اور دو قومی نظریے کی بات کی۔ لیکن اس میں فیصلہ کن چیز ۱۹۳۰ء میں علامہ محمد اقبال کا خطبۂ الٰہ آباد ہے۔ اس میں علامہ اقبال نے اپنی سوچ کو بڑی قوت اور دلیل کے ساتھ اور دردمندی اور سیاسی فہم و فراست کے ساتھ پیش کیا ہے۔ خود میری نگاہ میں قراردادِ پاکستان کی صورت گری کے مرحلوں کو سمجھنے کے لیے ۱۹۳۰ء کاخطبۂ اقبال ایک جوہری حیثیت رکھتا ہے۔ اس کو اگر آپ تنقیدی نگاہ سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یقینی طورپر اقبال نے بڑے دُور رس اثرات کے حامل امکانات کا نقشہ واضح کیا تھا۔

اقبال نے اپنے خطاب میں کہا تھا: ’’یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ بہ حیثیت ایک اخلاقی نصب العین اور نظامِ سیاست، اس آخری لفظ سے میرا مطلب ایک ایسی جماعت ہے، جس کا نظم و انضباط کسی نظامِ قانون کے ماتحت عمل میں آتا ہو، لیکن جس کے اندر ایک مخصوص اخلاقی روح سرگرمِ کار ہو۔ اسلام ہی وہ سب سے بڑا جزوِ ترکیبی تھا، جس سے مسلمانانِ ہند کی تاریخِ حیات متاثر ہوئی۔ اسلام ہی کی بدولت مسلمانوں کے سینے ان جذبات سے معمور ہوئے، جن پر جماعتوں کی زندگی کا دارومدار ہے۔ ہندستان میں اسلامی جماعت کی ترکیب صرف اسلام کی رہینِ منت ہے‘‘۔

آگے چل کر انھوں نے یہ بھی کہا تھا: ’’میں دوسری قوموں کے رسوم و قوانین اور ان کے معاشرتی اور مذہبی اداروں کا دل سے احترام کرتا ہوں، بلکہ بہ حیثیت مسلمان میرایہ فرض ہے کہ اگر ضرورت پیش آئے تو قرآنی تعلیمات کے حسب ِ اقتضا، میں اُن کی عبادت گاہوں کی حفاظت کروں۔ تاہم، مجھے اس انسانی جماعت سے دلی محبت ہے، جو میرے طور طریقوں اور میری زندگی کا سرچشمہ ہے۔ جس نے اپنے دین اور اپنے ادب، اپنی حکمت اور اپنے تمدن سے بہرہ مند کر کے مجھے وہ کچھ عطا کیا، جس سے میری موجودہ زندگی کی تشکیل ہوئی۔ یہ اُسی کی برکت ہے کہ میرے ماضی نے ازسرِنو زندہ ہوکر مجھ میں یہ احساس پیدا کر دیا ہے کہ وہ اب میری ذات میں سرگرمِ کار ہے‘‘۔

دوسری طرف ہم قائداعظم کے ہاں تدریج دیکھتے ہیں۔ قائداعظم پہلے ’ہندو مسلم اتحاد‘ کے نقیب تھے۔ لیکن جب انھوں نے محسوس کیا کہ ہندو قوم اور قیادت کے اصل عزائم کیا ہیں؟ تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس مصنوعی ’اتحاد‘ میں مسلمانوں کا مفاد نہیں۔ ۱۹۲۹ء سےلے کر ۱۹۳۶ء تک وہ   اس موقف پر واضح اور مطمئن ہوگئے کہ مسلمانوں کے لیے الگ ریاست ضروری ہے۔ ۱۹۳۷ء کے انتخابات اور ہندوئوں کی زیادتیوں نے اس موقف کو مزید تقویت دی۔

یہ ہے وہ پس منظر ، جس میں مارچ ۱۹۴۰ء میں قراردادِ لاہور پاس ہوئی۔ اس میں پہلی بات یہ کہی گئی ہے کہ مسلمان ایک قوم ہیں، ان کا اپنا نظام ہے۔ اس حیثیت سے ان کا سیاسی مستقبل بھارت یاہندوئوں کے ساتھ مل کر چلنے میںنہیں ہے، انھیں اپناراستہ الگ نکالنا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ جن جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، ان پر مبنی مسلمانوں کی ایک ریاست بنادی جائے۔ قرارداد میں لفظ states استعمال ہوا ہے۔ گمان غالب یہ ہے کہ قرارداد کے مختلف مسودے تھے، جن میں اسے آخری شکل دی گئی۔ جمع کے اس صیغے کو ٹائپ کی غلطی یا تسوید کا ابہام ہی قرار دیا گیا، ورنہ یہ کیسے ممکن تھا، قیامِ پاکستان تک کبھی ایک سے زیادہ مسلم ریاستوں کی بات نہ ہوئی، بلکہ ایک ہی ریاست کی بات ہوئی اور یہ سب رضاکارانہ طور پر بڑی جان دار قیادت کے ہاتھوں ہوا۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ سب کے ذہنوں میں ایک ہی مسلم ریاست، پاکستان کا قیام پیش نظر تھا، جب کہ ۱۹۴۱ء سے لے کر ۱۹۴۶ء تک کی قائداعظم کی تمام تقاریر سے یہ ظاہر ہے اور جسے اپریل ۱۹۴۶ء میں مسلم لیگ کے منتخب ارکانِ اسمبلی کی قرارداد میں دوٹوک الفاظ میں واضح کردیا گیا۔

تیسری بات یہ کہ جہاںمسلمانوں کا اقتدارہوگا، وہاں غیرمسلم آبادی کے حقوق کاتحفظ ہوگا۔ ایک اور نکتہ جس کی طرف عام طورپر ہم توجہ نہیں کرتے، وہ یہ ہے کہ اجلاس ۲۲مارچ کوشروع ہوا، ۲۳مارچ کو قراردادپیش ہوئی اور ۲۴ مارچ ۱۹۴۰ء کو منظور ہوئی۔ لیکن مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے چند ہی ہفتے کے بعد یہ اعلان کیا ہے کہ قراردا دِ لاہور ۲۳مارچ سے منسوب ہوگی، اور اس قرارداد کو ۲۳مارچ کی قرارداد کہا جائے گا، اور ۲۳مارچ ہی کا دن ہرسال منایا جائے گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کیوں؟ جہاں تک میں نے غور کیا ہے اس میں حکمت یہ ہے کہ اصل چیز قراردادکے الفاظ اور منظوری نہیں بلکہ اصل چیز وہ جوہری ٹرننگ پوائنٹ ہے، جو اس قرارداد میں واضح کیاگیا تھا، کہ اب تک ہم اپنے حقوق کے لیے ایسے فریم ورک میں راستے تجویز کر رہے تھے جو ایک ہندستان میں تھا۔ اب ہم نے یہ طے کرلیا ہے کہ ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا پر مشتمل ایک فیڈریشن نہیں چلے گی بلکہ دو الگ ممالک ہونے چاہییں۔

اس تاریخی اجلاس میں سب سے اہم تقریر قائداعظم کی ہے۔ ان کے علاوہ مولوی فضل الحق، خلیق الزماں، قاضی عیسیٰ ، بیگم محمد علی جوہر اور دوسرے افراد نے بڑی اہم تقریریں کیں۔ سب نے اسی ایک نکتے پر بات کی۔

اس کے بعد اپریل ۱۹۴۶ء کی قرارداد کو میں سنگِ میل قراردیتاہوں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے منتخب اراکینِ پارلیمنٹ جن میں مرکزی وصوبائی دونوں اسمبلیوں کے افراد شامل تھے، ان کی کانفرنس ہوئی۔ اس میں انھوں نے ایک ریاست کا وجود واضح کیا۔ یہ قرارداد حسین شہید سہروردی نے پیش کی تھی، جب کہ مارچ ۱۹۴۰ء کی قرارداد مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی (ان دونوں حضرات کا تعلق بنگال سے تھا)۔ قرارداد کے الفاظ تھے:

ہرگاہ کہ اس وسیع برصغیر پاک و ہند میں بسنے والے مسلمان ایسے دین کے پیرو ہیں، جو ان کی زندگی کے ہرشعبے(تعلیمی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی) پر حاوی ہے، اور جس کا ضابطہ محض روحانی حکمتوں، احکام، اعمال اور مراسم تک محدود نہیں۔

میں اس دوسری کانفرنس میں ایک کارکن کی حیثیت سے شریک تھا۔ ہمارے اسکول کی عمارت میں یہ اجلاس ہوا تھا۔ اس میں کچھ لوگوں نے اپنے خون سے دستخط کیے تھے۔ اس قرارداد کے ساتھ ایک حلف نامہ پڑھا گیا جس کا آغاز اس آیت سے کیا گیا تھا: اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ  o (الانعام ۶:۱۶۲)’’میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔ اور یہ کہ ہم عہد کرتے ہیں کہ اس قرارداد میں پاکستان کے قیام کے لیے: ’’جو خطرات اور آزمایشیں پیش آئیں گی، اور جن قربانیوں کا مطالبہ ہوگا، انھیں برداشت کروں گا۔ آخر میں یہ دُعا درج تھی: رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ  o  (البقرہ ۲:۲۵۰) ’’اے ہمارے رب، ہم پر صبر کا فیضان کر، ہمارے قدم جما دے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر‘‘۔ اس دستاویزپر ہرایک رکن نےدستخط کیے۔

پاکستان بننے کے بعد قراردادِ مقاصد (مارچ ۱۹۴۹ء) کا بھی اگر تجزیہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اسلامی، جمہوری، فلاحی اور وفاقی ان چاروںبنیادوں کے اوپر ریاست کی تشکیل کا عہد اور اعلان کیا گیا ہے۔

دو قومی نظریہ: چند غورطلب پہلو

یہاں اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ دوقومی نظریہ کوئی نئی چیز نہیں ہے، یہ پہلے دن سے ہے۔ دوقومی نظریے کی بنیاد اسلام کا یہ تصور ہے کہ زندگی گزارنے کے دو ہی طریقے ہیں۔  ایک یہ ہے کہ اللہ کو الٰہ مان کر اس کی عبادت اور اس کی اتباع میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا طریق زندگی اختیار کیا جائے، جب کہ دوسرا راستہ چاہے وہ کسی دوسرے مذہب پر مبنی ہو، یا لادینیت کی بنیاد پر یا الحاد کے نا م پر ہو، یا کسی بھی نام پر، وہ الگ راستہ اور الگ نظریہ ہے۔ اس کی تلقین ہمیں سورئہ فاتحہ میں دن میں پانچ نمازوں میں بار بار کرائی جاتی ہے کہ  اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ لا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَo ’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا، اُن لوگوں کا راستہ جن پر تُو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں‘‘۔ یہ دو واضح طریقے ہیں۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ دوقومی نظریہ اس بات کی ضمانت ہے کہ اسلام سے ہٹ کر جو نظام ہوگا، اسے بھی باقی رہنے کا حق ہے۔ یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ اللہ نے انسان کو یہاں ایک مقصد کے لیے پیدا کیا ہے ، اور وہ مقصد اس کی آزمایش ہے۔ آزمایش یہ ہے کہ اسے عقل دی گئی ہے، تقویٰ دیاگیا ہے اور ساتھ ساتھ اسے اختیار بھی دیا گیا ہے، فَاَلْہَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا (الشمس ۹۱:۸) ، یعنی بدی اور پرہیزگاری کے اختیارمیں سے اب اسے منتخب کرنا ہے خیر یا شر ، اسلام یا غیر اسلام، حلال یا حرام ، اللہ کی عبادت یا طاغوت کی عبادت۔ لیکن جو انتخاب بھی وہ کرلے، اسے اس پر قائم رہنے کا حق ہے۔ کسی دوسرے کو اختیارنہیں کہ زبردستی اس کے اوپر اپنی بات کو ٹھونسنے کی کوشش کرے۔ اسی طرح جو استدلال وہ اختیار کرے گا اس کے نتائج بھی اسے بھگتنے پڑیں گے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ لیکن اختیار بہرحال اسے حاصل ہے، جس سے اس کو محروم نہیں کیا جاسکتا۔ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ لا (دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں۔ البقرہ ۲:۲۵۶)اور لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ o(تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔  الکافرون ۱۰۹:۶) میں اس حقیقت کو دوٹوک الفاظ میں بیان کردیا گیا ہے۔

سورۃ البقرۃ میں لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ   کا جو پس منظر ہے وہ یہ واضح کردیتا ہے کہ پہلے   آیۃ الکرسی ہے، جس میں اللہ کے دین کا شعور ہے، اس کی کرسی اور اس کے اقتدار کا تذکرہ ہے۔   پھر اس آیت کے بعد فرمایا گیا: قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج  فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ق (البقرہ ۲:۲۵۶)’’صحیح بات غلط خیالات سے    الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں‘‘۔

گویا  لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کی دلیل کے ساتھ غلط اور صحیح کو واضح کر دیا گیا ہے، خیر اور شر کو ایک دوسرے سے واضح کردیاگیا ہے، اور حق اور باطل کو واضح کردیاگیا ہے۔ اب جو اللہ کا راستہ اختیار کرے گا، وہ ظلمات میں نہیں نُور میں رہے گا، اور جو طاغوت کی عبادت کرے گا وہ نُو رسے دُور رہے گا۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دو قومی نظریے کی اس بنیاد کے باوجود، جو اس سے ہٹ کر رہنا چاہتا ہے اسے اپنے کیے کا آخرت میں جواب دینا ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ دوقومی نظریہ اگر پاکستان کی بنیاد بنتا ہے تو پھر کیا باقی لوگوں کے لیے یہاں رہنے کی گنجایش نہیں ہے؟ وہ بات کو اُلجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ بلاشبہہ یہ اُن کا انتخاب ہے کہ وہ اسلام قبول کریں، لیکن اگر وہ اسلام قبول نہیں کرتے تو ملک سے وفاداری کے تقاضے پورے کرنے کے ساتھ وہ ایک شہری کی حیثیت سے اپنے تمام حقوق وفرائض کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔اگر ایسا ہے تو سرآنکھوں پر۔ ہمارا یہ عہد ہے کہ ہم قوت سے اسلام مسلط نہیں کریں گے۔ بلاشبہہ ان دوسرے مذاہب یا افکار کے حاملین کو بھی مسلمانوں کے حقیقی جذبات و احساسات کا پاس و لحاظ رکھنا ہوگا۔  اگر وہ اس میدان میں بے ضابطگی کا ارتکاب کریں گے تو قانون کے مطابق انھیں جواب دہ بھی ہونا پڑے گا۔ آزادیِ افکار کا حق انھیں حاصل ہے، مگر دستور اور قانون کے دائرے کے اندر۔ اس طرح خود مسلمانوں کو بھی جو حقوق حاصل ہیں، وہ قانون کے دائرے کے اندر ہیں۔ کسی کو بھی قانون اپنےہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں ہے۔ اسلامی معاشرے کے بھی یہ آداب ہیں، اور ایک معروف جمہوری معاشرے میں بھی ان آداب کا احترام لازمی امر ہے۔

حال ہی میں عوامی راے کے جائزے پیش کرنے والے اداروں PEW اور گیلپ نے جو سروے شائع کیے ہیں، ان میں آپ دیکھیں گے کہ بہت سے مسلم ممالک میں تو مسلمانوں کی  اس اُمنگ کا اظہار کرنے والوں کی تعداد کہ شریعت کو ہماری اجتماعی زندگی کی بنیاد ہونا چاہیے، ۷۰سے ۹۹ فی صد آبادی تک نے کیا ہے۔ باقی ممالک میں بھی مسلمان ۲۰سے ۴۰فی صد تک کہتے ہیں کہ شریعت کو ہمارا قانون اور نظام ہوناچاہیے۔ اگر جمہور کی عظیم اکثریت کا یہ فیصلہ ہے تو اس کا احترام دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لیے بھی ضروری ہے، ورنہ یہ سب ’اقلیت کے استبداد‘ (Tyranny of the Minority) کے مترادف ہوگا۔

دوقومی نظریے کی حکمت عملی یہ ہے کہ مسلمان جہاں اکثریت میں ہیں اور جہاں اس پوزیشن میں ہیں کہ اپنے مستقبل کو خود طے کرسکتے ہیں، وہاں ان کے لیے صحیح راستہ یہی ہے کہ وہ اپنی زندگی اسلام کے مطابق گزاریں اور نظام حکومت اس کی بنیاد پر کارفرما ہو۔ جہاں وہ اقلیت میں ہیں تو ان کے لیے صحیح راستہ یہ ہے کہ وہاں امن سے رہیں۔ وہ دوسروںکے حقوق کا بھی خیال کریں، لیکن اپنے نظریے ، کمیونٹی، معاشرت ، روایات کی جس حدتک حفاظت کرسکتے ہیں، ان کا تحفظ کریں۔ اس تشخص کو تحلیل نہ ہونے دیں۔ اس کے لیے جدوجہد کریں اور دعوت وتبلیغ کاعمل جاری رکھیں، البتہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آج کی اقلیت کل کی اکثریت میں بدل سکتی ہے، لیکن یہ عمل دعوت و تبلیغ کے ذریعے جاری رکھنا چاہیے۔

جہاں مسلمان کسی ایسے نظام میں رہ رہے ہیں، جو ظالمانہ اور جابرانہ نظام ہے، وہاں بھی آپ اپنے وجود کے لیے اس نوعیت کی جدوجہد کرسکتے ہیں، جس میں ان اخلاقی حدود کا پورا پورا خیال رکھا جائے جو اللہ اور اس کے آخری رسولؐ نے اُمت کو تعلیم کی ہیں۔اسی لیے اسلامی تاریخ اور قانون کے اندر عدل، توازن اور توسع کی تعلیم دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ جہاد کا ایک مستقل ضابطہ اور طریقہ ہے، جو اسے دہشت گردی سے یک سر مختلف بنادیتا ہے۔ یہ محض اقتدار کی جنگ نہیں ہے۔ سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ ہو، اور پھر دوسری شرط یہ ہے کہ جہاد ان آداب، قیود اور اصولوں اور ضابطوں کے مطابق ہو، جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے طے کیے ہیں۔ اس سے ہٹ کر کوئی راستہ جائز نہیں ہے۔ گویا کہ دو قومی نظریہ ایک ابدی اصول ہے اور اس کے یہ مختلف ماڈل ہیں۔

جہاں اکثریت ہے، وہاں کم ازکم اسلامی نظام کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔ جہاں پر اکثریت یا عددی طاقت حاصل نہیں ہم وہاں کے حالات کے مطابق اپنے تشخص کی حفاظت کی کوشش کریں، اپنے حقوق کی حفاظت کی کوشش کریں اور ان مشترکات میں، جن میں دوسرے بھی شریک ہیں ہم ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلیں۔ اس فریم ورک پر چل کر ہم پُرامن اور کامیاب پیش رفت کے لیے راستہ نکال سکتے ہیں۔

مسلم دنیا: درپیش چیلنج

جہاںتک مسلم دنیا کا تعلق ہے ،ہم اس وقت بلاشبہہ ایک بہت بڑی آزمایش اور بڑے ہی نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ ۲۰ویں صدی میں ہم پر اللہ کے بے پناہ انعامات برسے ہیں، لیکن ہم نے ان کا حق ادا نہیں کیا۔ بیسویں صدی کاآغاز اس طرح ہوا تھا کہ صرف چار مسلم ممالک دنیا کے نقشے پر آزاد نظر آتے تھے، باقی ساری مسلم دنیا مغربی سامراجی طاقتوں کی غلام تھی ۔

یہ تقریباً ۲۰۰ سال کا تاریک دور تھا، تاہم ۲۰ویں صدی میں مسلمان دوسروں کی سیاسی غلامی سے نکلنے میں کامیاب ہوئے اور آج آزاد مسلمان ممالک کی تعداد ۵۷ ہے۔ ۱۹۷۳ء تک دنیا کی معاشی قوت، مغربی ممالک کے ہاتھوں میں تھی، لیکن اکتوبر ۱۹۷۳ء میں سعودی فرماں روا شاہ فیصل کی جانب سے امریکا کوتیل بند کرنے کی دھمکی کے ایک معمولی سے جھٹکے نے، مغرب کے ہوش ٹھکانے لگادیے۔ اس طرح تیل کی قیمتوں پر مغربی معاشی اجارہ داری کا توازن تبدیل ہوگیا۔ پھر ۲۰ویں صدی میں اللہ نے دین کاصحیح تصور پیش کرنے کے لیے پے درپے عظیم شخصیات پیدا فرمائیں۔ ۱۸ویں اور ۱۹ویں صدی میں اسلامی احیائی جدوجہد کے لیے حضرت شاہ ولی اللہ اور سیّداحمدشہید کا بڑاحصہ ہے۔ لیکن ۱۹ویں صدی کے آخر اور ۲۰ویں صدی میں مولانا شبلی نعمانی، مولاناابوالکلام آزاد ، علامہ محمد اقبال، مولانا مودودی، امام حسن البنا، سید قطب شہید، مالک بن نبی، سعید نورسی جیسے بڑے علما کی ایک کہکشاں ہے، جس نے بڑی وسعت کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا ۔ ان کے بیانیے میں اختلافات بھی ہیں، لیکن ایک ہی مرکزی نکتے پر سب کا اتفاق بھی تھا۔ وہ یہ کہ اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے، اور اُمت مسلمہ کی کامیابی کا انحصار جہاں انسانوں کی زندگی اور کردار کو تقویٰ اور للہیت پر تعمیر کرنا ہے، وہیں ان کی خاندانی، معاشی، اجتماعی، سیاسی، قومی اور بین الاقوامی زندگی کو بھی اللہ کی ہدایت کی روشنی میں تشکیل و تعمیر کرنا ہے۔ گویا ایک ہی مکمل نظام کو قائم کرنے کی پوری کوشش ہمارا فرض ہے۔

مجھے یہ بات سن کر الجھن ہوتی ہے، جب لوگ کہتے ہیں کہ: ’’ریاست کو اسلامی نہیں کہنا چاہیے‘‘۔ قانونی اعتبار سے ریاست ایک ’قانونی وجود‘ ہے اور ایک ’قانونی وجود‘ کی طرح اس کا ایک طبعی مقام ہے۔ بالکل اسی طرح اس کا سیاسی اور نظریاتی وجود اور مقام بھی ہے۔ اگر ایک ریاست کرسچن ریاست ہوسکتی ہے، ایک جمہوری ریاست ہوسکتی ہے، ایک ویلفیئر اسٹیٹ ہوسکتی ہے، ایک یہودی اسٹیٹ ہوسکتی ہے، ایک بدھسٹ اسٹیٹ ہوسکتی ہے ، ایک ہندو اسٹیٹ ہوسکتی ہے، تو ایک اسلامک اسٹیٹ کیوں نہیں ہوسکتی؟

مسلمانوں کا ایک گروہ کہتا ہے: ’’اس کے لیے کوشش کی ضرورت نہیں بلکہ یہ تو ایک انعام ہے‘‘۔ لیکن وہ اس بات کا جواب نہیں دیتا کہ ریاست تو کیا زندگی میں کوئی بھی چیز آپ سے آپ حاصل نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کے لیے کوشش کرنا ہوگی۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے سے یہ انعام نہیں مل سکتا۔ رزق اللہ کی نعمت ہے، لیکن کیا رزق کے لیے کوشش نہیں کی جاتی۔ اسلامی ریاست کا وجود اللہ کی نعمت اور انعام ہے تو اس کے قیام کے لیے جدوجہد اور کوشش بھی ضروری ہے۔ اور پھر جب قرآن خود کہتا ہے کہ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ  اور امربالمعروف ونہی عن المنکر یعنی ہمیں یہ کہاجاتا ہے کہ جہاں تم نماز قائم کرتے ہو، زکوٰۃ ادا کرتے ہو، وہاں امربالمعروف ونہی عن المنکر کی ذمہ داری ادا کرنا بھی تمھارا فرضِ منصبی ہے۔’امر‘ کے معنی درخواست کرنا نہیں اور ’نہی‘ کے معنی محض متنبہ کرنا نہیں ہے، بلکہ نیکی کو قائم کرنا اور بدی سے روکنا ہے۔ یہ کام ریاستی قوت کا متقاضی ہے۔ محض وعظ و تلقین اس کے لیے کافی نہیں۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ ریاست بھی ان حدود کی پابند رہے، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرما دیے ہیں۔

۲۰ویں صدی کے آخری عشروں میں بدقسمتی سے ہم نے اُس معاشی انعام کا فائدہ نہیں اُٹھایا جو اللہ تعالیٰ نے مسلم اُمہ کو عطا کیا تھا۔ ہمارے ریاستی نظام اور ہماری قومی قیادتیں جاہلیت کی بنیاد پر خود مسلمانوں ہی کے خلاف ظلم و زیادتی کا ارتکاب کرتی چلی آرہی ہیں۔ تاہم، اس ظلم و جَور اور بے اعتنائی کے باوجود اصلاح اور تبدیلی کی قوتیں ہرجگہ کارفرما ہیں۔ اگر مصر میں ۴۰ سال تک الاخوان المسلمون پر پابندی عائد کرنے اور ہزاروں کی تعداد میں کارکن شہید کرنے یا جیلوں اور تعذیب خانوں میں ڈالنے کے باوجود اسلام وہاں اُبھر سکتا ہے تو پھرمایوسی کیوں؟ ترکی جہاں اذان دینا ممنوع تھا، سر پر ٹوپی اوڑھ نہیں سکتے تھے، کوئی کتاب عربی میں نہیں چھاپ سکتے تھے لیکن وہاں بھی آخرکار مثبت تبدیلی آئی ہے۔ وسطی ایشیا میں ۷۰سال تک کیا مسلمانوں کو محکوم نہیں رکھا گیا؟ اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ گولیاں چلے بغیر وسطی ایشیا کے ممالک ماسکو کی غلامی سے نکل کر خودمختاری کی راہ پر چل نکلے۔ تمام خرابیاں، تضادات اور کمزوریاں اپنی جگہ، مگر ہمارے پاس وہ استعداد و قوت اور جذبہ بھی موجود ہے، جسے متحرک ، منظم اور علمی و اخلاقی اعتبار سے تقویت بہم پہنچانے کی ضرورت ہے، اور جہاں جہاں ہم کوشش کریں گے، ان شاء اللہ اس کے نتائج بھی ملیں گے۔ نشیب وفراز اپنی جگہ، لیکن ان سب کے باوجود ان شاء اللہ حالات بدلیں گے اور تبدیلی کی یہ اُمید بالخصوص نوجوانوں سے ہے ۔ آج مسلم دنیا کی ۵۰سے ۶۰فی صد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ ایک بڑا قیمتی اثاثہ اور بہت بڑی قوت ہے۔ ان سب کے لیے ہمارا ایک ہی مشورہ ہے کہ زندگی کو محض کھانے پینے اور آرام کے لیے استعمال نہ کریں، بلکہ زندگی کا مقصد پہچانیں، سمجھیں اور پھر اس مقصد کے مطابق اپنے آپ کو تیار بھی کریں اور اس مقصد کو بروے کار لانے کی کوشش بھی کریں۔

تبدیلی کے لیے کام انفرادی سطح پر بھی ہورہا ہے اور اجتماعی سطح پر بھی۔ یہ کام کرتے ہوئے جو کچھ ہمیں کرنا ہے، اسے اگر تین لفظوں میں ادا کروں تو وہ ہیں: خداشناسی، خود شناسی اور خلق شناسی۔

  • خداشناسی سے مراد یہ ہے کہ اللہ کو پہچانیں کہ اُس کے وجود کا جو پیغام ایک بندئہ خاکی کے لیے پیغمبروںؑ نے پہنچایا ہے، اس کے مطابق زندگی گزاریں۔
  • خودشناسی یہ ہے کہ میں خود کیسا ہوں اور اللہ اور اس کے رسولؐ مجھے کیسا دیکھنا چاہتے ہیں اور قرآن وسنت میں میرے لیے کیا نمونہ دیا گیا ہے ، کیا ہدایت دی گئی ہے۔
  • پھر ہے خلق شناسی، یعنی اس کے نتیجے میں اللہ کی مخلوق سے میرے تعلقات کیسے ہوں۔ اپنے اعزا، خاندان، محلے، بہن بھائیوں، دوستوں، دشمنوں،کافروں، مسلمانوں ،اداروں، یعنی خاندان سے لے کرریاست تک اپنی منصبی ذمہ داری معلوم ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے نوجوانوں سے یہی گزارش ہے کہ زندگی کا مقصد متعین کیجیے اوور پھر مقصد کو سنجیدگی سے قبول کرکے اس کے تقاضوں کو قبول کیجیے۔

خواتین کا میدانِ کار

اسی طرح مسلم دنیا میں پروپیگنڈے کے زور پر ایک مسئلہ پیدا کیا گیا ہے، اور وہ ہے: خواتین کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی مسخ شدہ تعبیر اور اتہام بازی۔ اس ضمن میں یہ واضح رہنا چاہیے کہ اسلام کی نظر میں کامیابی کے معیار کے اعتبار سے مردوزن کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ قرآن نے اپنے اسلوب میں اس معاملے میں واضح طور پر وضاحت کی ہے کہ ایمان لانے والے مرد، ایمان لانے والی عورتیں، تقویٰ اختیار کرنے والے مرد، تقویٰ اختیار کرنے والی عورتیں۔پھر امربالمعروف ونہی عن المنکر کو جس طرح مردوں کے لیے فریضہ قرار دیاگیا ہے اسی طرح عورتوں کے لیے بھی حکم دیاگیا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اپنی صلاحیت ، اپنی ذمہ داریوں اور اپنے ماحول کے اعتبار سے وہاں فرق ہوسکتا ہے، لیکن مقام میں، حقوق میں، اور کردار میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ بھی اللہ کا کرم ہے کہ اس نے عقیدے کی بنیادیں تفصیل سے بتا دی ہیں، جن میں نہ کوئی اضافہ ہوسکتا ہے اور نہ کمی۔ عبادات کا معاملہ جو اللہ سے انسانوں کو جوڑتا ہے اور بندوں کو اللہ کی مرضی اور بندگی کے لائق کرتا ہے، اس کی پوری تفصیل دے دی۔ اس میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔  حلال کو حرام نہیں کیاجاسکتا اور حرام کو حلال نہیں کیا جاسکتا۔ رہے زندگی کے اجتماعی اُمور اور تبدیلی کے وسائل کا حصول اور ان کا استعمال، تو زندگی کے اس وسیع دائرے کے باب میںاور ان تمام ہی معاملات میں بڑی حکمت کے ساتھ صرف ضروری ہدایات دے کر آزادی   دی ہے کہ آپ موقعے اور حالات کی مناسبت سے اپنا راستہ خود متعین کریں۔

مقاصد ِ شریعت کی روشنی میں متعین احکامات کا مکمل احترام کرتے ہوئے حکمت عملی کے ساتھ اپنا راستہ نکالیں۔ ایک طرف دین کے مکمل فریم ورک کا احترام کریں اور حدود اللہ کے اندر تمام معاملات کو طے کریں، تو دوسری طرف اس وسعت (flexibility) سے پورا پورا فائدہ اُٹھائیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمائی ہے۔ اس طرح تسلسل اور تبدیلی دونوں کی برکتوں سے فیض یاب ہوں۔

واضح رہے کہ خاندان کے بارے میں قرآن میں تفصیل سے رہنمائی دی گئی ہے۔ البتہ معاشی، سیاسی، اجتماعی اور بین الاقوامی معاملات کے بارے میں صرف رہنما اصول (guide lines) دیے ہیں، تاکہ حالات کے مطابق اور زمانے کی ضروریات کی مناسبت سے ان کی روشنی میں راستہ بنائیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور پاکؐ نے جہاں قرآن پہنچایا، اور اس کی تعلیم دی، وہیں قرآن کے مطابق تزکیہ کیا اور حکمت کی تعلیم دی۔ حکمت کی تعلیم نام ہے اس بات کا کہ الہامی ہدایت کی روشنی میں آپ اپنے دور میں، اپنے حالات کے مطابق کیسے کام کریں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے یہ کردکھایا۔ اس لیے سنت وحدیث میں ہمارے لیے یہی نمونہ ہے۔ یہ ایک طرزِ فکروعمل ہے، جس نے ہر دور میں اُمت کو اور افراد کو بھی راستہ دکھایا ہے۔

عصرِحاضر کے تقاضے اور فکرو تحقیق

عصرِحاضر کے تقاضوں کو جاننے کے لیے علمی و تحقیقی جدوجہد ناگزیر ہے۔ تحقیق کے باب میں میری درخواست یہ ہے کہ تحقیق سے پہلے پڑھنے کی عادت ڈالیے۔ مجھےیہ دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے کہ ہماری قوم میں بحیثیت مجموعی پڑھنے کی عادت کم ہورہی ہے۔ یہ اس امت کا بہت بڑا نقصان ہے۔ اللہ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے جو کتاب بھیجی ہے اس کے معنی ہی یہ ہیں کہ پڑھنا، سننا۔ جدید ٹکنالوجی سے ضرور آپ فائدہ اٹھائیں، لیکن کتاب سے آپ کا تعلق رہنا چاہیے۔

دوسری چیز یہ ہے کہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ سوچنا سمجھنا اور پھر تحقیق کے لیے اداراتی سطح پر کام کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ تحقیقی ذوق کے بغیر مکھی پہ مکھی مارناسخت کمزوری بلکہ حماقت کی بات ہے۔ ایک غالب و قاہر تہذیب کے مقابلے میں آگے بڑھ کر اسلامی تہذیب کو پیش کرنے کے لیے ماضی سے ربط، غوروفکر اور آج کے پیش آمدہ مسائل و مشکلات کا جواب دینے کی صلاحیت پروان چڑھانا اشد ضروری ہے۔

تیسری چیز یہ ہے کہ حقائق (Facts)  کے بارے میں کبھی کمپرومائز نہ کیجیے۔ حقائق کے بارے میں نہ انکار کیجیے اور نہ اس کے باب میں من مرضی (selective)کے اسیر بنیے۔ یہ ضرور متعین کیجیے کہ کیاحقائق ہیں اور کیا زیبِ داستاں ہے؟ پھر حقائق کی روشنی میں زیرمطالعہ مسئلے کی تفہیم کیجیے۔ حقائق راستہ نہیں روکتے، وہ صرف یہ بتاتے ہیں کہ کیا چیلنجز اور کیا امکانات ہیں، یعنی حقائق، تحقیق اور تفہیم کا کام بہت باریک اور نازک ہے۔ اس ضمن میں سہل انگاری کی کوئی گنجایش نہیں۔یہی وجہ ہے کہ جو لوگ محنت نہیں کرتے،ان کی تحقیق معیار کے اعتبار سے کمزور چیز ہوتی ہے۔اس عیب سے بچنے کی ضرورت ہے۔ مختصر یہ کہ ہمارا سارا کام پروفیشنل انداز میں ہوناچاہیے۔

o

سوال: میں نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو میں یہ مشن لے کر چلاتھا کہ زندگی بھر صادق اور امین رہوں گا۔ ۱۵سال تک کوشش کرتا رہا مگر یہ صداقت اور امانت مشاہدے میں نہیں آئی۔ کیا یہ انتظامی مسئلہ ہے، یا ہمارے سماجی اخلاقی نظام کا بحران ہے؟    میں کس منڈی میں اسے دیکھوں اور کس منڈی سے اسے خریدوں؟

جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ صادق اور امین ہونا کوئی قانونی یا آفیشل بات نہیں ہے۔ ایک اچھا انسان ہونا ہماری زندگی کا لازمی جزو ہے۔ آپ اگر کسی کے ساتھ تجارت کر رہے ہیں تو کیا آپ یہ توقع نہیں کرتے کہ وہ جو بھی معاملہ آپ سے کرے، وہ معاملہ شفاف ہو اور اس میں دھوکا    نہ ہو۔ آپ کسی کو قرض دیتے ہیں یا کسی سے قرض لیتے ہیں، اس وقت کیا نیت اور توقع رکھتے ہیں! جس مقام پر آپ کام کررہے ہیں، وہاں وقت کو آپ کس طرح استعمال کر رہے ہیں؟ گویا صادق اور امین ہونا تو انسان کا شرف ہے اور قدم قدم پر اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر یہ نہیں ہے تو ہماری زندگی ایک خوف ناک خلا ہی میں رہے گی۔

صداقت اور امانت ایسی بنیادی انسانی خوبیاں ہیں کہ اس کے لیے مسلمان اور غیر مسلم کے اندر فرق کی بھی زیادہ گنجایش نہیں۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے بھی صادق اور امین تھے اور ان کا صدق اور امانت اس معیار کا تھا کہ جنھوں نے نبوت کا انکارکیا، انھوں نے ہی آپؐ کے بارے میں برملا کہا کہ: ’’آپؐ صادق اور امین ہیں‘‘۔جو آپؐ کے خون کے پیاسے تھے، انھوں نے اپنی امانتیں بھی آپ ہی کے پاس رکھیں۔ نبی پاکؐ کی دیانت کا یہ عالم تھا کہ ہجرت کے وقت آپؐ نے وہ تمام امانتیں جو مشرکینِ مکہ کی تھیں، حضرت علی ؓکے سپرد کیں کہ یہ  فلاں فلاں کی امانت ہے ان کو واپس کردینا۔ یہ ہے صداقت اور امانت کا بلندترین معیار۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ صداقت اور امانت محض سیاست کے لیے نہیں بلکہ یہ خوبی شوہر اور بیوی کے درمیان، باپ اور بیٹے کے درمیان، آجر اور ملازم کے درمیان، یعنی ہر جگہ نافذالعمل ہونی چاہیے، قطع نظر مذہب و عقیدہ کے۔

 سر آئیورجننگز ((Ivor Jennings کا نام پولیٹیکل سائنس میں ایک اتھارٹی ہے۔ ان کی کتاب Cabinet Government ملاحظہ کیجیے۔ انھوں نے کہا ہے کہ: برٹش نظام میں ایک وزیرکے لیے عالم اور ماہر ہونا ضروری نہیں ہے کیوں کہ ان مہارتوں میں اہلِ علم اور ماہرین سے مدد لی جاسکتی ہے۔ لیکن وزارت کا قلم دان سنبھالنے کے لیے صداقت و امانت (integraty ) کا ہونا نہایت ضروری ہے ،اور اگر یہ صداقت و امانت نہیں ہے تو پھروہ عوامی اعتماد کا حق دار نہیں ہوسکتا۔ دراصل یہ ایک آفاقی، عالمی اور انسانی ضرورت ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اس خوبی کو بازار سے خریدا نہیںجاسکتا، یہ تو انسان کے کردار کا جوہر ہے۔

قومی سطح پر ہمارے ہاں اس وقت نظریاتی انتشار اور اخلاقی بگاڑ ہے ۔ ادارے تباہ حال ہیں اور احتساب کانظام موجود نہیں ہے۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم مایوس ہوجائیں۔ نہیں، بلکہ انھیں درست کرنے کے لیے کوشش جاری رکھیے۔ اپنی مثال بہتر سے بہتر قائم کیجیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ اس کے مثبت اثرات رُونما ہوں گے۔

ذاتی تجربے اور مشاہدے کی صرف ایک مثال دیتا ہوں کہ جب میں نے ۱۹۷۸ء میں پلاننگ کمیشن کا چارج سنبھالا تو پہلا کام یہ کیا کہ کمیشن میں کام کرنے والے افسروں اور ملازموں کے لیے قواعد و ضوابط بنائے تاکہ ان اصولوں کے تحت جس کی کوئی ذمہ داری ہو یا اس کے نتیجے میں اسے کوئی فائدہ پہنچتا ہو اس کو وہ فائدہ پہنچنا چاہیے، اور یہ کام اصول اور ضابطے کے مطابق خود بخود ہونا چاہیے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ ان قواعد کے نافذ ہونے کے بعد سب سے پہلے جس فرد کو فائدہ پہنچا، وہ صاحب قادیانی تھے۔اُس وقت کے سیکرٹری پلاننگ کمیشن میرے پاس آئے اور اُس فرد کی مذہبی شناخت بتاتے ہوئے اظہار کیا کہ ’’اب کیا کیا جائے؟‘‘ میں نے ان سے کہا کہ: ’’یہ بتانے کے لیے آپ کو میرے پاس نہیں آنا چاہیے تھا۔ بلاشبہہ وہ قادیانی ہے، مگر ہمارے دفتر میں ملازم ہے۔ اگر ان قواعد کے مطابق اس کا فائدہ ہوتا ہے اور اس نے جاپان جانا ہے تو بھیج دیا جائے‘‘۔ یہ بتانے سے مقصود یہ ہے کہ اگر آپ اپنی اپنی جگہ اس طرح مثال قائم کرنی شروع کردیں تو ان شاء اللہ حالات بدلتے ہیں۔

سوال: قومیت اور دو قومی نظریے میں ہم توازن کس طرح رکھ سکتے ہیں؟خود اقبال نے بھی وطن پرستی پر تنقید کی ہے، یعنی: ’’اِن تازہ خدائوں میں بڑاسب سے وطن ہے‘‘۔ اس کے علاوہ مولانا مودودی نے بھی جو اسلامی ریاست کی بنیاد بتائی ہے، اس میں اقتدارِ اعلیٰ کے بعد دوسرا نکتہ قومیت ہے۔ ہم بحیثیت پاکستانی ایک طرف پاکستانیت کا نعرہ بلند کرتے ہیں، دوسری طرف ایک ایرانی اور ایک افغانی اپنی قومیت کا نعرہ بلند کرتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اس میں اور ایک امت کے تصور میں توازن کیسے ہوسکتا ہے؟

جواب: بہت ہی اہم سوال ہے، جزا ک اللہ خیر۔ دیکھیے مولانا مودودی ہوں یا علامہ اقبال یا دیگر مفکرین ، انھوں نے یہ بات کہی ہے کہ اگر قومیت کی بنیاد علاقے سے اس طرح جڑی ہوئی ہو کہ میرا ملک چاہے غلط ہے یا صحیح، میں اپنے ملک کا وکیل ہوں۔ یہ چیز اسلام کی بنیاد سے متصادم ہے۔ اس بنیاد پر بننے والی قومیت اپنے حتمی نتیجے میں انسانیت کے لیے فساد کا ذریعہ ہے، اور    اس سے خیر رُونما نہیں ہوسکتا۔

حضور پاکؐ نے اسی بات کو ایک اور پس منظر میں، لیکن انتہائی خوب صورتی سے بیان فرمایا ہے کہ اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ ذہن میں رکھیے کہ عربوں میں ایک محاورہ تھا: ’’میرا بھائی درست ہویا  نادرست، مجھے اپنے بھائی کا ساتھ دینا ہے۔ اپنے قبیلے کا ساتھ دینا ہے چاہے وہ حق پر ہو یا ناحق پر‘‘۔ اس پر حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک مرتبہ یہ فرمایا کہ: ’’اپنے بھائی کا ساتھ دو، خواہ وہ حق پر ہو یا ناحق پر‘‘۔ اس فرمان پر صحابہؓ چونک گئے کہ یہ تو اسلام میں ہو ہی نہیں سکتا۔ انھوں نے پوچھا: ’’حضوؐر یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اگر ہمارا بھائی حق پر ہے تو اس کی مدد بجا لیکن اگر ناحق پر ہے تو اس کی مدد کیسے کرسکتے ہیں؟‘‘ حضوؐر نے فرمایا: ’’اگر وہ حق پر ہے تو اس کا ساتھ دیجیے اور اگر ناحق پر ہے تو اس سے اسے روک کر اس کا ساتھ دیجیے‘‘۔

یہ ہے قومیت کا وہ تصور جس کو ہم نے آئیڈیل بنانا ہے۔ لیکن اگرکہیں علاقہ خود مسئلہ بن جائے تو پھر ان کے درمیان مطابقت کا سوال ضرور پیدا ہوگا۔ حدیث میں آتا ہے کہ اپنے وطن سے تعلق اور لگائو ایک فطری عمل ہے۔ اپنی پیدایشی زمین سے ایک انس اور محبت فطری چیز ہے۔ مکہ اور بیت اللہ کا تو معاملہ ایسا تھا کہ اس کے لیے انسان تڑپے، لیکن چونکہ ایک وقت خود بیت اللہ کے قرب میں رہنا حق کی مصلحت کے منافی ہوگیا تھا، تو ہجرت کا مرحلہ آن پہنچا۔ وہ بیت اللہ جسے صحابہؓ اور حضور پاکؐ شوق سے دیکھا کرتے تھے، اسے چھوڑنا پڑا۔ عقیدہ اور حق پرستی کو اولیت حاصل ہے لیکن جب معاملہ ایک سے زیادہ شناختوں کا ہو، جو فطری ہے، تو ان میں تطبیق کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس لیے قرآن نے جہاں یہ کہا ہے کہ تمھیں ایک ماں باپ سے پیدا کیا ہے وہیں یہ بھی  نشان دہی کردی کہ شعوب و قبائل میں تقسیم بھی اک فطری عمل ہے لیکن صرف شناخت کے لیے۔ اصل چیز تقویٰ کا دامن تھامنا ہے اور معاملات کو طے کرنے میں حق پرستی کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ اس وجہ سے اللہ کو سب سے زیادہ وہ انسان پسند ہے جو تقویٰ میں سب سے آگے ہو۔

اس طرح فکری اور نظریاتی طور پر صحیح رویہ اختیار کرنے کے بعد جس امر پر غور کرنا ہے، وہ یہ کہ ان کے درمیان مطابقت اور توازن کیسے پیدا کیا جائے؟ اسی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

 اسلام یہ کہتا ہے کہ قومیت کی بنیاد نظریے پر ہے۔ اسلام کو اپنا دین ماننے والے ایک امت ہیں، خواہ ان کی زبان، ان کی نسل اور ان کا وطن کوئی بھی ہو۔ وہ کہیں پر بھی رہ رہے ہوں یا ان کا رنگ کیسا ہی ہو۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر انسان اللہ کاخلیفہ ہے تو جس بنیاد پر انسان کو اپنی زندگی کامقصد اور اپنی زندگی کی روش طے کرنی چاہیے، اسے بنیاد کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے، جو ہر ایک کے لیے ممکن ہو۔ آپ اپنا رنگ نہیں بدل سکتے، زبان شاید بدل سکیں لیکن پھر بھی فرق رہتا ہے ۔ نسل میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے۔ زمیں بدل کر آپ ہجرت کر سکتے ہیں۔ مگر اسلام نے قومیت کی اصل بنیاد عقیدے کورکھا، تاکہ ہر نسل، ہر مقام اور ہر زبان بولنے والے اس میں آسکیں اور سب آکرکے ایک ہوجائیں۔ لیکن خوبی اس کی یہ رہی کہ اس نے سب کو ایک بنانے کے بعد بھی معاشرے میں تشخص اور تنوع کو ختم نہیں کیا۔ زبان اور نسل کی نفی نہیں کی، رنگ کی نفی نہیں کی، بلکہ یہ کہا گیا کہ یہ سب ہم نے اس لیے بنائے ہیں کہ لِتَعَارَفُوْا  (تمھاری پہچان کے لیے)۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ تمھارے سامنے زندگی گزارنے اور فیصلے کرنے کا معیار ، اخلاق اور اصول ہونا چاہیے اور وہ ہے: اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ  ط(الحجرات ۴۹:۱۳)’’درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔  یہ بھی بتادیا کہ تمھاری صف ایک ہی ہے ، کچھ اُمور میں اگر اختلاف ہے تو اختلاف کو تسلیم کرنا، اختلاف میں ہم آہنگی و مطابقت (accommodation ) پیدا کرنا اور اس کو ایک نظام کے تحت لینا آپ کی ذمہ داری ہے۔

جب ہم تصورِ قومیت دیتے ہیں تو اس سے ان باقی عناصر کی نفی نہیں کرتے۔ ہم انھیں صرف ایک تصور کے دائرے میں اپنے وجود کے ساتھ جمع کرتے ہیں۔ اس میں وطن سے محبت یقینا ایک جائز اور فطری چیز ہے۔ میثاق مدینہ میں نبی پاکؐ نے ہمارے سامنے وہ ماڈل بھی رکھ دیا کہ جس میں ایک سے زیادہ قومیں، ایک سے زیادہ مذاہب کے لوگ مل کر ایک ریاست بناسکیں۔  اگر آپ اس کا مطالعہ کریں تو اس کی کُل ۸۸ شقیں ہیں۔ جن میں سے ۴۴ کا تعلق مسلمان امت سے ہے اور۴۴ کا تعلق دیگر قبائل و مذاہب سے ہے۔ ان میں صاف طور پر لکھا اور تسلیم کیا گیا ہے کہ تمھارا تشخص ، تمھارا مذہب، تمھاری روایات کو تحفظ حاصل ہوگا۔لیکن اس پورے نظام کا جو سربراہ ہوگا وہ نبی پاکؐ ہوں گے، وہی آخری اتھارٹی ہوں گے اور سیاسی بالادستی اور فیصلہ کُن حیثیت نبی پاکؐ کو حاصل ہوگی۔ اس فریم ورک میں ان سب کو لے کر چلا گیا۔یہ ہماری تاریخ ہے کہ اس میں یہودی، عیسائی، ہندو، بدھسٹ، اللہ کو نہ ماننے والے، سب موجود رہے اور انھیں ان کے حقوق دیے گئے۔ ان کے لیے ایک مقام رکھا گیا اور اسی کی مناسبت سے ان سے توقعات بھی وابستہ کی گئیں۔

عالمی تناظر میں ہمارے فقہا نے انٹرنیشنل لا میں بلاشبہہ دنیا کو ایک بڑی حد تک اور   اُس دور کے حالات کی روشنی میں ’دارالحرب‘ اور ’دارا لاسلام‘ میں تقسیم کیا ہے اور اس پہلو سے ’دارالحرب‘ اور ’دارا لاسلام‘ ایک بنیادی تقسیم ہے، لیکن دنیا صرف ان دو ماڈلز تک محدود نہیں ہے۔   اگر کسی ملک سے آپ برسرِجنگ ہیں تو یہی تقسیم اور اس کے احکام فیصلہ کن ہوں گے۔ لیکن اس کے علاوہ اور درجہ بندیاں ہمارے انٹرنیشنل لا کے اندر موجود ہیں، جن میں دو اور نوعیتیں قابلِ ذکر ہیں، یعنی: ’دارالامن‘ کہ جن سے آپ جنگ نہیں کررہے اور وہ غیرمسلم ہیں، اور ’دارالعہد‘ کہ جہاں غیرمسلم ہوں جن سے آپ کا کوئی معاہدہ اور کوئی معاملہ فہمی (انڈرسٹینڈنگ) ہو۔ اس کی بنیاد پر ایک فریم ورک ہوگا۔ تاریخ شاہد ہے کہ حبشہ میں عیسائیوں کی حکومت رہی، لیکن مسلمانوں نے کبھی اس پر چڑھائی نہیں کی اور اسے کبھی ’دارالحرب‘ قرار نہیں دیا گیا۔

اس فریم ورک کی روشنی میں آج کے دور اور آج کے حالات کے مطابق ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہماری نظریاتی اساس اسلامی قومیت ہے۔ پھر جس ریاست میں ہم عملاً رہ رہے ہیں، اس میں ایک سے زیادہ اگر قومیں رہتی بستی ہیں تو ان قوموں کے وجود اور حقوق کا اتنا ہی پاس و لحاظ کیا جائے گا۔ قانون کی نظر میں ان کے ساتھ برابری اور مشترکہ قومی مفادات میں مل کرکام کرنا لازم ہے۔ اسی ماڈل کو سامنے رکھ کر علما نے ۱۹۵۱ءمیں اسلامی ریاست کے جو ۲۲ اُصول مرتب کیے تھے،  اگر آپ انھیں پڑھیں تو ان میں علما نے یہ بتایا ہے کہ آج کے دور میں ہم کس طرح اس نظریے کو ایک طبعی و جغرافیائی ریاست کے اندر سمو سکتے ہیں۔ اسی کی روشنی میں پہلے قرارداد مقاصد پاس ہوئی اور پھر پاکستان کا دستور بنا ۔

پاکستان کا دستور ہمیں وہ فریم ورک دیتا ہے جس کے اندر سب کے لیے مل جل کر رہنے کا پورا پورا حق موجود ہے۔اس جغرافیائی ملک سے وفاداری اور اس کی خدمت اور تشکیل و تعمیر و ترقی کے ساتھ ہماری یہ کوشش رہے گی کہ مسلمان ممالک آپس میں ملیں اور قریب آئیں۔ پاکستان کے دستور کا آرٹیکل۴۱ بھی اس کوشش کو ایک رہنما اصول قرار دیتا ہے کہ تمام مسلم ممالک کے ساتھ ہمارے خصوصی تعلقات ہوں گے اور زیادہ سے زیادہ اسلامی اتحاد اور تعاون و مفاہمت کے لیے ہم کوشش کریں گے۔اقبال نے اپنے انگریزی خطبات Reconstruction of Religious Thought in Islam  میں یہ بات بڑی خوب صورتی سے کہی ہے کہ آئیڈیل اگرچہ خلافت ہے، لیکن موجودہ دور میںمسلم دنیا کی دولتِ مشترکہ (Common Wealth of Muslim Nations)  اس کا متبادل فراہم کرسکتی ہے، اور OIC (اسلامی تعاون تنظیم) اسی سوچ کا ایک نتیجہ ہے، جو بدقسمتی سے حکمرانوں کے ہاتھوں اب تک غیرمؤثر ہے۔

اسلامی تاریخ میں یہ بڑی دل چسپ بات ہے کہ جو لہر مصر تک گئی، اس میں اسلامائزیشن اور عربائزیشن ساتھ ساتھ تھے ،لیکن ایران اور اس کے ساتھ کے علاقوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ زبان اور مقامی کلچر، مقامی روایات ان سب کو باقی رکھنے کا پورا پورا اہتمام کیاگیا۔ کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ علاقائی زبانوں کی حوصلہ شکنی کی گئی ہو، یا ان علاقوں کے لوگوں کو ان کے حقوق نہ دیے گئے ہوں۔ خلافت ِ عثمانیہ میں کم ازکم سات وزیراعظم ایسے ہیں، جن کا تعلق بوسنیا ہرزیگووینا کے علاقے سے تھا۔ گویا احساسِ شراکت کے ساتھ ان کو خودمختاری بھی ملتی تھی اور جو والی یا گورنر بنائے جاتے تھے، وہ بالعموم وہیں سے بنائے جاتے تھے باہر سے نہیں لائے جاتے تھے۔

دینِ اسلا م درحقیقت اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کے ادا کرنے کادوسرا نام ہے۔ نماز اور زکوٰۃ ہمیں انھی دو قسموں کے حقوق کی یاد دلاتے ہیں۔ مولانا حمیدالدین فراہیؒ جو کتابِ الٰہی کی حکمتوں پر گہری نظر رکھتے تھے، فرماتے ہیں:نماز کی حقیقت بندے کا اپنے رب کی طرف محبت اور خشیت سے مائل ہونا ہے، اور زکوٰۃ کی حقیقت بندے کا بندے کی طرف محبت اور شفقت سے مائل ہونا ہے۔(تفسیر نظام القرآن، ص ۹)

دین کی اس بنیادی حقیقت کی طرف قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر اشارہ فرمایا گیا ہے۔ قرآن، نماز اور زکوٰۃ کوبنیادی اہمیت دیتے ہوئے انھیں اصل دین قرار دیتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہے:

وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ لا حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ (البینہ۹۸:۵) اور انھیں تو اسی بات کا حکم ہوا تھا کہ اخلاص کے ساتھ ہر طرف سے یکسو ہوکر اللہ کی عبادت کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی ٹھیک دین ہے۔

دین درحقیقت اللہ اور اس کے بندوں، دونوں کے حقوق کے ادا کرنے کا نام ہے۔ اس کی تصدیق احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ ہم یہاں اختصار کے پیش نظر ایک حدیث نقل کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین شخص ایسے ہیں کہ ان کی نماز ان کے سر سے ایک بالشت بھی اُوپر نہیں اُٹھتی۔ ایک وہ امام جس کو لوگ ناپسند کرتے  ہوں۔ دوسرے وہ عورت جس نے شب اس طرح گزاری کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو۔ اور تیسرے دو بھائی جو آپس میں قطع تعلق کرلیں‘‘۔(ابن ماجہ)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بندے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ اور اس کے بندوں، دونوں کے حقوق پہچانے اور ادا کرے۔ اللہ کا حق بھی صحیح معنوں میں اس وقت تک ادا نہیں ہوسکتا جب تک کہ کوئی اللہ کے بندوں کے حقوق بھی ادا نہ کرے۔

lتکمیلِ ذات کا ذریعہ : زکوٰۃ ادا کر کے انسان صرف ایک فرض ہی سے سبکدوش نہیں ہوتا بلکہ اس سے اس کی ذات کی تکمیل بھی ہوتی ہے۔ تکمیل و تزکیہ ہی احکامِ شریعت کا بنیادی مقصد ہے۔ جس چیز کا نام دین میں حکمت ہے، وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ علم و بصیرت کے ساتھ انسان کے نفس کی تربیت اور تزکیہ ہو۔ زکوٰۃ کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ اس سے انسان تزکیہ حاصل کرے۔ زکوٰۃ کے معنی پاکیزگی اور نمو کے ہیں۔ زکوٰۃ دینے سے آدمی خود غرضی، تنگ دلی اور زرپرستی کی بُری صفات سے نجات پاتا ہے۔ اس کی روح کو پاکیزگی اور بالیدگی حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا:

وَسَیُجَنَّبُھَا الْاَتْقَی  o الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی o (الیل۹۲: ۱۷-۱۸) اور اس (جہنم) سے دُور رکھا جائے گا وہ شخص جو اللہ کا ڈر رکھتا ہے اور اپنا مال دوسروں کو دیتا ہے تزکیہ حاصل کرنے کے لیے۔

ایک دوسری جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا گیا:

خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا (التوبہ ۹:۱۰۳) ان کے مالوں میں سے صدقہ لو جس کے ذریعے سے انھیں پاک کرو گے اور ان کا تزکیہ کرو گے۔

زکوٰۃ کا یہ بنیادی مقصد اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے، جب کہ زکوٰۃ دینے کے ساتھ ساتھ اس مقصد کے حاصل کرنے کی سچی طلب اور عملی اہتمام بھی پایا جاتا ہو۔ انسان زکوٰۃ محض اللہ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے دے، اس کے پیچھے کوئی اور محرک نہ ہو۔ اس کی زکوٰۃ نہ نام و نمود کے لیے ہو، اور نہ اس کا مقصد غریبوں اور محتاجوں پر احسان جتانا ہو۔

قرآن میں یہ حقیقت بار بار بیان کی گئی ہے کہ بندے کا دین اور اس کا ایمان اسی وقت کامل ہوگا اور اسے حقیقی اور روحانی زندگی اسی وقت حاصل ہوگی، جب کہ اللہ کی محبت سب محبتوں پر غالب آجائے اور دنیا کے مقابلے میں وہ آخرت کو ترجیح دینے لگ جائے۔ نماز اگر بندے کا رشتہ اللہ سے جوڑتی ہے، تو زکوٰۃ اسے دنیاپرستی سے بچاتی اور مال کی محبت دل سے نکالتی ہے۔ زکوٰۃ دے کر آدمی اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ زندگی کے حقیقی مقصد سے غافل نہیں ہے۔ اس کے پاس جو کچھ ہے، اسے وہ اللہ ہی کی ملکیت سمجھتا ہے۔ وہ اس میں سے غریبوں اور محتاجوں کا بھی حق نکالتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے وہ اسے اپنے استعمال میں بھی لاتا ہے۔ اہلِ تقویٰ کا یہ خاص شعار ہے کہ وہ اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں ارشاد ہوا ہے:

فَسَاَکْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّ کٰـوۃَ وَ الَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَo (الاعراف ۷:۱۵۶) تو میں اپنی رحمت ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو تقویٰ رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔

  •  اجتماعی فلاح و بہبود  : زکوٰۃ ادا کرنے سے انسان کا نفس بھی پاک ہوتا ہے اور اس کا مال بھی پاک ہو جاتا ہے لیکن اگر وہ اتنا خودغرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی دولت میں سے اللہ کا حق ادا نہیں کرتا، تو اس کا مال بھی ناپاک رہتا ہے اور اس کا نفس بھی ناپاک رہتا ہے۔ نفسِ انسانی کے لیے تنگ دلی، احسان فراموشی اور خودغرضی سے بڑھ کر گھٹن اور ناپاکی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ زکوٰۃ ان لوگوں کے مسئلے کا حل ہے، جو غریب اور محتاج ہیں۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بھائی کی مدد کریں اور کوئی بھائی بھوکا ننگا اور ذلیل و خوار نہ ہونے پائے۔ ایسا نہ ہو کہ جو امیر ہیں وہ تو اپنے عیش و آرام ہی میں مست رہیں اور قوم کے یتیموں، محتاجوں اور بیوائوں کا کوئی پُرسانِ حال نہ ہو۔ انھیں یہ بات محسوس کرنی چاہیے کہ ان کی دولت میں دوسرے حاجت مندوں کا بھی حق ہے۔ اس میں ان لوگوں کا بھی حق ہے جو صاحب ِ صلاحیت ہونے کے باوجود سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے کوئی کام نہیں کرسکتے۔ ان کی دولت میں ان غریب بچوں کا بھی حق ہے جو مفلسی کی وجہ سے تعلیم نہیں حاصل کرسکتے، اور ان معذوروں اور کمزوروں کا بھی حق ہے جو کسی کام کے قابل نہیں ہیں۔

پھر جو رقم بھی قوم اور جماعت کی بھلائی کے لیے خرچ کی جاتی ہے وہ ضائع نہیں ہوتی۔ جو روپیہ بھی اجتماعی فلاح و بہبود کے لیے خرچ ہوتا ہے، وہ بے شمار فوائد کا سبب بنتا ہے جن سے خود خرچ کرنے والے شخص کو بھی بے شمار فائدے پہنچتے ہیں۔ اس کے برخلاف جو شخص اپنے سرمایے کو اپنے پاس محفوظ رکھنا چاہتا ہے یا لوگوں سے سود لے کر اسے بڑھانا چاہتا ہے، وہ درحقیقت اپنی دولت کی قدر (value) کو گھٹاتا اور خود اپنی تباہی کا سامان کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:

یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ ط(البقرہ ۲:۲۷۶) اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔

دوسری جگہ فرمایا:

وَ مَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ ج وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُضْعِفُوْنَ o (الروم ۳۰:۳۹) تم جو سود اس غرض سے دیتے ہو کہ لوگوں کے مال کو بڑھائے تو اللہ کے نزدیک اس سے دولت نہیں بڑھتی۔ ہاں، جو زکوٰۃ تم خدا کی خوشنودی کے لیے دو وہ بڑھتی چلی جائے گی۔

  •  نصرت اور حفاظتِ دین : زکوٰۃ کا ایک اہم مقصد نصرتِ دین اور حفاظت ِ دین بھی ہے۔ اللہ کے دین کے لیے جو جدوجہد کی جارہی ہو اور جو جنگیں لڑی جارہی ہوں، ان کے سلسلے میں بھی زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے۔ (سورئہ توبہ ۹:۶۰)

مال کی جو تھوڑی سی مقدار زکوٰۃ کے طور پر فرض کی گئی ہے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ مال دار بس اتنا ہی خرچ کریں۔ اس کے بعد اگر کوئی ضرورت مند آجائے یا دین کی خدمت کا کوئی موقع آجائے تو خرچ کرنے سے صاف انکار کردیں، بلکہ اس کا مطلب حقیقت میں یہ ہے کہ کم از کم متعین مال تو ہر مال دار شخص کو خرچ کرنا ہی چاہیے، اس سے زیادہ جتنا بھی ہوسکے اسے صرف کرنا چاہیے۔ اسی طرح اگر زکوٰۃ ایک خاص مقدار سے کم مال پر فرض نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگاکہ جن لوگوں کے پاس اس خاص مقدار سے کم مال ہے وہ اللہ کی راہ میں کچھ خرچ ہی نہ کریں۔  اللہ کے راستے میں جس کسی سے بھی جو کچھ ہوسکے وہ خرچ کرے۔ اس میں خود اس کا اپنا فائدہ ہے۔

زکوٰۃ کے لیے ایک اہم چیز یہ بھی ہے کہ لوگوں کی زکوٰۃ ایک مرکز پر جمع کی جائے۔ پھر وہاں سے ایک نظم اور ضابطے کے ساتھ اسے خرچ کیا جائے۔ جس طرح فرض نمازجماعت کے ساتھ امام کی اقتدا میں ادا کی جاتی ہے، اسی طرح زکوٰۃ کا بھی اجتماعی نظم ہو، جس کے تحت زکوٰۃ وصول کی جائے اور پھر اسے باضابطہ خرچ کیا جائے۔ اس طرح زکوٰۃ سے معاشرے کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن (کا حاکم بنا کر)بھیجا تو فرمایا:

تم ایسے لوگوں کے پاس جارہے ہو جو اہلِ کتاب ہیں، تو تم انھیں اس امر کی شہادت کی طرف بلانا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں ۔ اگر وہ اس کو مان لیں تو انھیں بتانا کہ اللہ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ اس کو مان لیں تو ان کو بتانا کہ اللہ نے ان پر صدقہ (زکوٰۃ) فرض کیا ہے جو ان کے مال داروں سے لیا جائےگا اور ان کے غریبوں کو لوٹا دیا جائے گا۔ اگر وہ اس بات کو بھی مان لیں تو خبردار ان کے اعلیٰ درجے کے مال (چھانٹ چھانٹ کر) نہ لینا، اور مظلوم کی پکار سے بچنا کیوں کہ اُس کے اور خدا کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہے۔(بخاری، مسلم)

اس روایت سے چند اہم اُمور پر روشنی پڑتی ہے۔ جو شخص اسلامی حکومت کی طرف سے گورنر یا حاکم بنایا جائے، اس کا اوّلین فرض لوگوں کوخداے واحد کی طرف دعوت دینا ہے۔ دیگر تمام مقصدثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ غیر اسلامی حکومت میں گورنر کی بنیادی ذمہ داری نظم و نسق کو درست رکھنا ہے۔ اس کے برخلاف اسلامی نظامِ حکومت میں چھوٹے بڑے ہرکارندے کاپہلا کام لوگوں کو اللہ کے راستے کی طرف بلانا ہے۔ جس حکومت کا پہلا کام مخلوقِ خدا کو حق کی دعوت دینا ہو وہ حکومت دنیا کو رحمت سے بھر دے گی۔ اس حکومت میں ظلم اور ناانصافی کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں مل سکتا۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ لوگوں کے سامنے دین کو پیش کرنے میں ہمیشہ حکمت کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ جس قوم کو بھی ہم دین کی طرف دعوت دیں اس کی نفسیات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ پھر دین کو بیک وقت پورے کا پورا پیش کرنے کے بجاے پہلے بنیادی باتیں تدریج کے ساتھ پیش کرنی چاہییں۔ اس سے دین کو سمجھنے اور اس کو ماننے میں آسانی ہوگی۔

توحید و رسالت پر ایمان لانے کے بعد اوّلین چیز نماز ہے۔ نماز کا وقت آجانے پر صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ کون شخص اس بات کا اقرار و اعلان کرتا ہے کہ وہ خدا کا بندہ ہے اور خدا ہی کی اطاعت و بندگی میں زندگی بسر کرنا چاہتا ہے اور کون خدا سے بے رُخی اختیار کرنے کی جسارت کرسکتا ہے؟

نماز کے بعد دوسری چیز زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کی دو صورتیں ہیں: ایک تو مجرد زکوٰۃ یا صدقہ ہے، جسے اہلِ ایمان اپنے مالوں میں سے ہروقت ادا کرتے رہتے ہیں اور حتی الوسع ضرورت مندوں کی اعانت کرتے ہیں۔ زکوٰۃ کی دوسری صورت یہ ہے کہ مسلمان اپنے مال میں سے ازروے قانون ایک متعین مقدار نکالتا ہے۔ اس حدیث میں اسی زکوٰۃ کا ذکر ہے۔

زکوٰۃ کے بارے میں فرمایا کہ وہ معاشرے کے مال داروں سے لی جاتی ہے اور معاشرے ہی کے غریبوں اور ضرورت مندوں پر صرف کی جاتی ہے۔ غریبوں اور محتاجوں کی اعانت زکوٰۃ کے اہم مقاصد میں سے ہے۔ اللہ نے مال داروں کے اموال میں غریبوں کا حق رکھا ہے۔ غریبوں کا حق ان تک پہنچانا مال داروں پر واجب ہے۔ قرآنِ مجید میں بھی ارشاد فرمایا گیا ہے:

فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ  o  لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ o (المعارج ۷۰:۲۴-۲۵) ان کے مالوں میں سائلوں اور تہی دستوں کا متعین حصہ ہوتا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عامل (collector) کو یہ ہدایت کی کہ وصولی کے وقت   اچھے اچھے مال چھانٹ کر نہ لیے جائیں بلکہ اوسط درجے کا مال لیا جائے۔ اس ہدایت کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ اپنا سب سے اچھا مال زکوٰۃ میں پیش کرتے، لیکن لینے والا لینے سے انکار کرتا یہاں تک کہ یہ معاملہ خلیفۃ المومنین کی خدمت میں لایا جاتا۔ ہدایت کا منشا یہ ہے کہ عامل اپنی مرضی سے چھانٹ کر نہ لے۔ ہاں، اگر زکوٰۃ دینے والا اپنی خوشی سے چھانٹ کر اچھا مال پیش کرے تو اس کے قبول کرنے میں مضائقہ نہیں ہے۔ اس حدیث میں مظلوم کی بددعا سے بچنے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ لوگوں پر زیادتی نہ کی جائے۔ خدا ان کی پکار کو جلد سنتا ہے۔

  •  مال کی بربادی سے حفاظت :حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: صدقہ جب کسی مال میں مخلوط ہوگا (نکالا نہ جائے گا) تو وہ اس کو تباہ کر کے چھوڑے گا(مسند شافعی، بخاری)۔ یعنی اگر مال میں زکوٰۃ کا حصہ ملا ہوگا، نکال کر مستحقین کو نہیں دیا جائے گا، تویہ چیز آدمی کے دین و ایمان کو تو تباہ کرنے والی ہے ہی، ساتھ ہی اس کا پورا سرمایہ بھی اس کے ظلم کے سبب تباہ ہوسکتا ہے۔ زکوٰۃ نہ ادا کرنے کی وجہ سے آدمی کا سارا مال ناقابلِ استعمال قرار پاتا ہے۔ زکوٰۃ نہ دے کر آدمی اپنے سارے مال کو ناپاک کر دیتا ہے۔    اس سے بڑی ہلاکت اور بدبختی کی کیا بات ہوسکتی ہے۔ اسی طرح وہ شخص بھی اپنے مال کو ناپاک اور تباہ کرتا ہے جو زکوٰۃ کا مستحق نہ ہونے کے باوجود زکوٰۃ لے کر اپنے مال میں شامل کرتا ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص کو اللہ نے مال دیا۔ پھر اس نے اس کی زکوٰۃ نہیں ادا کی، تو اس کا مال قیامت کے دن نہایت زہریلے گنجے سانپ کی شکل اختیار کرلے گا۔ جس کے (سر پر) دو سیاہ نقطے ہوں گے اور وہ قیامت کے دن اس (کے گلے) کا طوق بن جائے گا۔ پھر وہ سانپ اس کے دونوں جبڑوں کو پکڑے گا اور کہے گا: میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں‘‘(بخاری، مسلم)۔پھر آپؐ نے تلاوت فرمایا:

وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَ خَیْرًا لَّھُمْ ط  بَلْ ھُوَ شَرٌّ لَّھُمْ ط سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ  ط(اٰلِ عمرٰن ۳:۱۸۰) وہ لوگ جو اس چیز میں بخل کرتے ہیں جسے اللہ نے اپنے فضل سے انھیں دیا ہے وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے لیے اچھا ہے بلکہ یہ ان کے حق میں بُرا ہے۔ جو کچھ انھوں نے بخل کیا ہوگا آگے وہی قیامت کے دن ان (کے گلے) کا طوق بن جائے گا۔

سانپ کا گنجا ہونا اس کے انتہائی زہریلا ہونے کی علامت ہے۔ زکوٰۃ دینے سے جو مال قیامت کے دن اس کی راحت اور آرام کا سبب بن سکتا تھا، اس دن مصیبت بن کر اس کی جان کو لاگو ہوگا۔ بخیل اور زرپرست حُب ِ مال کے سبب اپنے مال و دولت اور خزانے پر سانپ بنا رہتا ہے ، دوسروں کو اس سے فائدہ اُٹھانے کا موقع ہی نہیں دیتا۔ اس کا انجام اس شکل میں اس کے سامنے آئے گا کہ اس کی دولت اور اس کا خزانہ اس کے لیے سانپ بن جائے گا اور اسے ڈستا رہے گا۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جو زمین بارش کے پانی سے یا بہتے چشمے سے سیراب ہوتی ہو، یا دریا کے نزدیک ہونے کے سبب پانی دینے کی ضرورت نہ پڑتی ہو، اس کی پیداوار کا دسواں حصہ (بطورِ زکوٰۃ) نکالا جائے گا اور جس کو مزدور لگاکر سینچا جائے اس میں بیسواں حصہ ہے‘‘۔ (بخاری)

حضرت اُمِ سلمہؓ فرماتی ہیں کہ’’ میں سونے کی اوضاح (ایک خاص زیور) پہنتی تھی۔ میں نے (رسولؐ اللہ سے) پوچھا: یارسولؐ اللہ! کیا یہ بھی ’کنز‘ ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جو اس مقدار کو پہنچ جائے جس میں زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم ہے اور اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے تو ’کنز‘ نہیں ہے‘‘۔(مالک ، ابوداؤد)

قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے کہ وَ الَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَ الْفِضَّۃَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لا فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍo(التوبہ ۹:۳۴) ’’جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور انھیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انھیں دردناک عذاب کی بشارت دے دو‘‘۔ اس آیت میں سونے چاندی کی جس تخزین پر وعید آئی ہے اس روایت میں حضرت اُمِ سلمہؓ کا اشارہ اسی طرف تھا۔ سوال کا منشا یہ تھا کہ کیا زیور بھی اس کنز میں شامل ہے جس پر قرآنِ مجید میں وعید فرمائی گئی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اگر زیورات کی زکوٰۃ ادا کی جاتی رہے تو پھر وہ ’کنز‘ نہیں ہے جس پر عذاب کی دھمکی دی گئی ہے۔

حضرت سمرہ بن جندبؓ کہتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ جس چیز کو بیع (تجارت) کے لیے ہم نے تیار کیا ہو اس میں سے صدقہ (زکوٰۃ) نکالیں‘‘۔(ابوداؤد)

معلوم ہوا کہ مالِ تجارت پر زکوٰۃ لازم ہے۔

  •  زکوٰۃ کا مصرف: حضرت عطاء بن یسارؓ مرسلاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زکوٰۃ مال دار کے لیے حلال نہیں سواے پانچ آدمیوں کے: اللہ کی راہ میں لڑنے والے کے لیے، عاملِ زکوٰۃ کے لیے، قرض دار یا تاوان بھرنے والے کے لیے، اس شخص کے لیے جو کسی مفلس سے زکوٰۃ کا مال خرید لے اور اس شخص کے لیے جس کا ہم سایہ محتاج ہو، اسے زکوٰۃ دی گئی ہو اور اس مسکین نے زکوٰۃ کے مال میں سے اس مال دار کو ہدیہ دیا ہو۔(مالک ، ابوداؤد)

معلوم ہوا کہ زکوٰۃ کا مال مجاہدوں پر خرچ کیا جاسکتا ہے اور اس میں سے عاملِ زکوٰۃ (یعنی زکوٰۃ کا وصول و تحصیل کرنے والے) کو معاوضہ بھی دیا جاسکتا ہے۔ اگر کسی شخص کو تاوان بھرنا ہے یا کوئی قرض کے بوجھ سے لدا ہوا ہے تو زکوٰۃ کی مَد سے اس کی مدد کی جاسکتی ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ کسی محتاج سے زکوٰۃ کے مال کو کوئی مال دار شخص خرید کر اپنے استعمال میں لے آئے۔ اسی طرح اس ہدیہ کو قبول کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں جو کوئی محتاج شخص زکوٰۃ و صدقہ کے مال میں سے پیش کرے۔

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صدقہ مال دار کے لیے حلال نہیں ہے سواے اس کے جو جہاد میں ہو، یا مسافر ہو، یا ایک ہم سایہ محتاج ہو، اسے کوئی چیز صدقے میں ملی ہو وہ ہدیے کے طور پر تمھیں پیش کرے یا تمھاری دعوت کرے‘‘۔ (ابوداؤد)

 

ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر کو واجب کیا تاکہ لغو اور بے حیائی کی باتوں کا جو روزے میں سرزد ہوگئی ہوں کفّارہ بنے اور مسکینوں کے کھانے کا نظم ہوجائے۔(ابوداؤد)

رمضان کے ایک ماہ کے روزے رکھنے کے بعد صدقۂ فطر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تاکید ہے کہ گھر کے سبھی لوگوں کی طرف سے نمازِ عید سے پہلے پہلے صدقۂ فطر ادا کیا جائے۔ اس صدقہ کے واجب ہونے کی دو مصلحتیں اس حدیث میں بیان فرمائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ روزہ دار سے روزے کی حالت میں کوشش کے باوجود جو کوتاہی یا کمزوری ظاہر ہوئی ہو، صدقے کے ذریعے سے اس کی تلافی کرلی جائے۔ دوسری مصلحت اس میں یہ ہے کہ جس دن سارے مسلمان عید کی خوشی منانے جارہے ہوں اس دن سوسائٹی کے غریب لوگوں کے کھانے پینے کا انتظام بھی ہوجائے تاکہ وہ بھی اطمینان سے عید کی خوشی منانے میں شریک ہوسکیں۔

ترجمہ: محمد ظہیرالدین بھٹی

رمضان مکرم کی آمد پر مسلمانوں کا خوش ہونا برحق ہے، کیوں کہ یہ تمام بھلائیوں کو لے کر آتا ہے۔ اس کا دن روزہ، اس کی رات قیام اور اس کے شب و روز نیکیوں اور بھلائیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے ہیں۔ یہ بخشش کا موسم ہے۔ اس میں نیکیوں کے اجر و ثواب میں اضافہ ہے۔ لہٰذا، اس کی نعمتوں، عطیّوں اور مہربانیوں سے مسرور ہونا ہر مسلمان کا حق ہے۔     نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’تمھارے زمانے کے ایام میں تمھارے رب کے تمھارے لیے عطیات ہوا کرتے ہیں، لہٰذا ان عطیات کو حاصل کرنے میں لگے رہو‘‘۔

یہ نزولِ قرآن کا مہینہ ہے۔ اس ماہِ مقدس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس ماہ میں نفل کی ادایگی فرض کی مانند ہے اور اس میں فرض ادا کرنا غیر رمضان میں ۷۰فرضوں کی ادایگی کی طرح ہے۔ اس ماہ کی ان ہی برکات کی خاطر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رجب ہی سے اس کے استقبال کی تیاری شروع فرماتے تھے۔

رمضان نفس و روح کی راحت کا مہینہ اور دل کی خوشی کا زمانہ ہے۔ اس میں ایمان کے مظاہر ہر طرف نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان باہمی اخوت ہوتی ہے، خود غرضی نہیں بلکہ ایثار ہوتا ہے۔ اس میں سختی و تشدد نہیں بلکہ کرم و مہربانی ہوتی ہے۔ اس ماہِ مبارک میں مسلمان کو خواہ کوئی کتنا ہی برانگیختہ کر دے یا اسے کوئی کتنا ہی غصے میں لے آئے، یااگرخدانخواستہ اسے کوئی گالی بکے یا اس پر کوئی الزام تراشے، ان تمام صورتوں میں مسلمان بس یہ کہتا ہے کہ: ’’میں روزے سے ہوں‘‘۔ ظاہر ہے کہ مسلمان اپنے منہ سے کوئی ایسا لفظ نہیں نکالتا جو بے معنی ہو، جو نفس کی گہرائیوں میں ثبت نہ ہو، جو اس کے ایمان کی ترجمانی نہ کرتا ہو، جس سے شیاطین جِنّ و انس پر اسے فتح و کامیابی نہ ملتی ہو۔ مسلمان ’’میں روزے سے ہوں‘‘ کے الفاظ دہراتا ہے تو اس کا ظاہر و باطن ہم آہنگ ہوتا ہے۔   وہ ایک اخلاقی اسلامی شخصیت کا مظہرِ کامل بن کر یہ الفاظ ادا کرتا ہے۔

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے، سرکش جنوں کو پابندِ سلاسل کر دیا جاتا ہے، دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور اس کا کوئی دروازہ کھلا نہیں رہنے دیا جاتا۔ بہشت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اوراس کا کوئی دروازہ بند نہیں رہنے دیا جاتا۔ حق تعالیٰ کی طرف سے ایک پکارنے والا پکار کر کہتا ہے: اے بھلائی کے چاہنے والے آگے بڑھ! اور اے شر کے طلب گار پیچھے ہٹ!‘‘۔  اس نداے ربانی پر لبیک کہنے کے لیے کیا مسلمان نیکی کی چاہت میں آگے نہ بڑھے گا؟ ضروربڑھے گا۔

اپنے خالق کی معرفت حاصل کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ آپ اس ماہِ مبارک میں نازل ہونے والی کتاب کی تلاوت کیجیے اور اس میں خوب تدبر کیجیے۔ آپ غور کیجیے تو آپ کی سماعت سے مخاطب ہو کر کوئی کہہ رہا ہوگا: فِیْٓ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَّا شَآئَ رَکَّبَکَo (الانفطار ۸۲:۸) ’’اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا‘‘۔ اللہ نے انسان کو پیدا کیا، پھر اس کی نوک پلک سنواری، اسے پیدا کیا اور اسے راہ نمائی دی۔

دورانِ تلاوت ہی کوئی آپ سے مخاطب ہو کر آپ کو ایک زندہِ جاوید حقیقت سے آگاہ کررہا ہوگا: یٰٓاَیُّھَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّک کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِo(الانشقاق ۸۴:۶) ’’اے انسان، تو کشاں کشاں اپنے ربّ کی طرف چلا جا رہا ہے اور اُس سے ملنے والا ہے‘‘۔

لہٰذا، توبہ کے لیے جلدی کیجیے، اپنے ربّ کی طرف رجوع کیجیے تاکہ آپ تروتازہ چہرے کے ساتھ اس سے ملاقات کر سکیں۔ آپ جلدی قدم بڑھائیے اور اس کے جودو سخا، کرم و لطف اورمغفرت و احسان کے عطیات کو سمیٹ لیجیے۔

آپ اپنے حواس خمسہ پر غور کیجیے، اپنی پیدایش کے بارے میں تدبر کیجیے، اپنی ذات کے بارے میں سوچیے۔ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کے جسم کے ہر جز کو خالقِ ارض و سما نے بہترین ساخت میں پیدا کیا ہے۔ پھر اس نے ہر عضو کو جو کام کرنا ہے اس سے ہم آہنگ کیا ہے۔  دیکھیے آنکھیں، زبان، ہونٹ اور جسم کے مختلف اعضا اور نظام اپنے اپنے افعال کے ساتھ کیسی مطابقت رکھتے ہیں۔ وہ کون سی ہستی ہے جس نے انھیں اس کام کو کرنے کے ہدایت کی ہے؟ کوئی عضو سننے کے لیے ہے، کوئی دیکھنے کے لیے ہے، کوئی چکھنے اور کوئی چھونے کے لیے ہے، کوئی ہضم کرنے کے لیے ہے۔ انسان اگر اپنے تمام اعضا کو اپنے خالق کی مرضی کے مطابق استعمال کرے تو وہ جنت کا حق دار ٹھیرتا ہے۔

اگر اس ماہِ مبارک میں اترنے والی کتاب نہ اتری ہوتی تو یقینا انسان بھٹکتا رہتا، اور اپنے آپ پر غور و فکر سے محروم رہتا۔ انسان کو کون بتاتا کہ وہ اپنی پیدایش میں، اپنے حواس میں، اوراپنے جسم کے مختلف نظاموں میں ایک معجزہ ہے، قدرت کا شاہکار ہے۔ اس کا جسم اور اس کے تمام اعضا اس کائنات کے ساتھ کس قدر ہم آہنگ ہیں جس میں وہ رہ رہا ہے۔ اگر یہ ہم آہنگی سلب کر لی جائے تو انسان اورکائنات کے مابین رابطہ واتصال ختم ہو جائے۔ ایسی صورت میں انسان کسی آرزو کو پورا کرنے یا کسی چیز کو دیکھنے یا کسی معاملے میں غور و فکر کرنے سے قاصر رہ جائے۔

بلاشبہہ اللہ ہی خالق ہے ، قادر ہے، کائنات کا اور انسان کا پیدا فرمانے والا ہے۔ وَ فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَo (الذٰریٰت ۵۱:۲۱) ’’اور خود تمھارے اپنے وجود میں بہت سی نشانیاں ہیں، کیا تم کو سوجھتا نہیں‘‘۔ اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّط یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَھُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ  لا  وَّ اَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عِلْمًاo(الطلاق ۶۵:۱۲) ’’اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قِسم سے بھی اُنھی کے مانند۔ اُن کے درمیان حکم نازل ہوتا رہتا ہے (یہ بات تمھیں اِس لیے بتائی جارہی ہے) تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے‘‘۔

روزے کی حالت میں ان تمام امور پر غوروفکر سے آپ عبادت کے سا تھ ساتھ ایمان کی لذت سے بھی آشنا ہوں گے۔ آپ کی عبادت محض رسم نہیں رہے گی۔

آپ اپنے رب کو پہچانیے، اپنے آپ پر غور کیجیے، اس کائنات کو دیکھیے جس نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ آپ اپنے اور کائنات کے مابین موازنہ کیجیے، اور قرآن کے الفاظ میں اپنے آپ سے دریافت کیجیے: ’’کیا تم لوگوں کی تخلیق زیادہ سخت کام ہے یا آسمان کی؟ اللہ نے اُس کو بنایا، اس کی چَھت خوب اونچی اٹھائی پھر اُس کا توازن قائم کیا، اور اُس کی رات ڈھانکی اور اُس کا دن نکالا۔ اس کے بعد اس نے زمین کو بچھایا، اُس کے اندر سے اس کا پانی اورچارہ نکالا، اور پہاڑ اس میں گاڑ دیے سامانِ زیست کے طور پر تمھارے لیے اور تمھارے مویشیوں کے لیے‘‘۔ (النّٰزٰعت ۷۹: ۲۷-۳۳)۔ قرآن مجید میں غور کرنا چاہیے۔ اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَاo (محمد ۴۷:۲۴) ’’کیا اِن لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا، یا دلوں پر اُن کے قفل چڑھے ہوئے ہیں؟‘‘

انسان اپنے رب کی نافرمانی کرکے اپنے ساتھ خود زیادتی کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسان خیانت کیوں کرتا ہے؟ اپنے پروردگار کی معصیت کیوں کرتا ہے؟ وہ تکبر کیوں کرتا ہے؟ اپنے آپ کو بڑا کیوں سمجھتا ہے؟ کیا غور وفکر تجھے اللہ کے شایانِ شان قدر دانی کی دعوت نہیں دیتا کہ تو اللہ کی رحمت کی امید رکھے اور اس کے عذاب سے ڈرے؟ قرآن نے اس ماہِ مبارک میں نازل ہو کر تجھے وہ کچھ بتا دیا جو تو نہیں جانتا تھا اور یوں اللہ نے تجھ پر فضلِ عظیم کیا۔

امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں: ’’سب سے عجیب بات یہ ہے کہ تم اللہ کو جانتے ہو اور پھر اس سے محبت نہیں کرتے۔ اس کے منادی کی پکار سنتے ہواور پھر جواب دینے اور لبیک کہنے میں تاخیر سے کام لیتے ہو۔ تمھیں معلوم ہے کہ اس کے ساتھ معاملہ کرنے میں کتنا نفع ہے مگر تم دوسروں کے ساتھ معاملہ کرتے پھرتے ہو۔ تم اس کے غضب کی جانتے بوجھتے مخالفت کرتے ہو۔ تمھیں معلوم ہے کہ اس کی نافرمانی کی سزا کتنی بھیانک ہے مگر پھر بھی تم اس کی اطاعت کرکے اس کے طالب نہیں بنتے ہو‘‘۔

افسوس کہ تم اس ماہ مبارک کے قیمتی لمحات ضائع کر دیتے ہو اور ان کے دوران اللہ کے قرب کو تلاش نہیں کرتے۔ ابن قیمؒ نے کیا ہی خوب فرمایا ہے: روزے دار اپنے معبود کی خاطر اپنی لذتوں کو ترک کرتا ہے۔ وہ اللہ کی محبت اور اس کی رضا کو اپنے نفس کی لذات پر ترجیح دیتا ہے۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جو کوئی بندہ، اللہ کے راستے میں ایک دن کا روزہ رکھتا ہے، تو اس دن کی وجہ سے اللہ جہنم کواس شخص کی ذات سے ۷۰ خریف دُور کر دیتا ہے‘‘۔

امام حسن البناؒ فرماتے ہیں: ’’لوگ دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو کوئی بھلائی کرتا ہے یا نیکی کی بات کرتا ہے تو چاہتا ہے کہ اس کا فوری معاوضہ ملے۔ اس کے بدلے میں مال ملے جسے وہ   جمع کرے، یا اسے شہرت و نیک نامی ملے، یا اسے کوئی مرتبہ و عہدہ ملے، یا اسے کوئی لقب ملے کہ اس لقب کے ساتھ اس کا شہرہ ہر طرف ہو۔ دوسرا وہ ہے جس کا ہر قول و فعل محض اس لیے ہوتا ہے کہ وہ خیر کو خیر ہونے کی وجہ سے چاہتا ہے۔ وہ حق کا احترام کرتا ہے اور حق سے اس کے حق ہونے کی وجہ سے محبت کرتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ دنیا کے معاملے کا سدھار صرف اورصرف حق و خیر سے ہی ہے۔ انسان کی انسانیت دراصل یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو حق و خیر کے لیے وقف کر دے‘‘۔

اے میرے مسلمان بھائی! آپ ان دو قسموں میں سے کون سی قسم کے مسلمان بننا  چاہتے ہیں؟ کتنا اچھا ہو کہ آپ دوسری قسم میں داخل ہوں اور ایسے مسلمان بن جائیں جو حکم کو بجالاتا ہے، جس سے منع کیا گیا ہے اسے ترک کر دیتا ہے، جو کچھ مل گیا ہے اس پر صبر کرتا ہے۔ انعام ملے تو شکر کرتا ہے، آزمایش آئے تو صبر کرتا ہے، گناہ کرے تو مغفرت طلب کرتا ہے۔ آپ بھی ایسے ہی ہو جائیے۔ ایسے لوگوں میں شامل ہو جائیے جن کا دایاں ہاتھ صدقہ دے تو بائیں کو  خبر نہ ہو۔ آپ کم زور کی مدد کیجیے۔ صلہ رحمی کیجیے۔ لوگوں کے بوجھ اٹھایئے، لوگوں کی حصولِ حق میں مدد کیجیے۔ ضرورت مند کا ساتھ دیجیے اور اس کی مدد کے لیے تعاون کیجیے۔ یتیم کے سر پر دستِ شفقت رکھیے، بیوہ کی سرپرستی کیجیے۔

فلسطین، عراق، افغانستان، سوڈان، کشمیر، اریٹیریا اور صومالیہ کے اپنے بھائیوں کی غم خواری کیجیے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کی جان، مال، عزت و آبرو خطرے میں ہے ان کے لیے دعائیں کیجیے۔ آپ اُن مظلوم مسلمانوں کے لیے دعا کیجیے، جن کے گھروں کو منہدم کیا گیا اور انھیں ان کے علاقوں سے بے دخل کر دیا گیا۔

آپ صلاح الدین ایوبی کا یہ قول یاد رکھیے: ’’میں کیسے ہنسوں، جب کہ اقصیٰ اسیر ہے؟‘‘

آپ رات میں ضرور نوافل ادا کیجیے تاکہ آپ کا شمار ان لوگوں میں ہو جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’راتوں کو کم ہی سوتے تھے، پھر وہی رات کے پچھلے پہروں میں معافی مانگتے تھے، اور اُن کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے‘‘۔(الذٰریٰت ۵۱: ۱۷۔۱۹)

دعا مومن کا ایک بڑا ہتھیار ہے۔ دعا کیجیے کہ اللہ ظالموں کے مقابلے میں اہلِ ایمان کی مدد فرمائے۔ دعا میں الحاح دزاری ضرور کیجیے۔ اللہ ظالم سامراجیوں، ان کے آلۂ کاروں کو برباد کرے۔

شیطان کے پھندے سے بچنے کی کوشش کیجیے۔ یہ شیطان انسانوں میں سے ہوں یا جنوں میں سے۔ یہ شیطان، آپ کے روزے کو بگاڑنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ وہ آپ کو تراویح اور تہجد سے ہٹا کر فلمیں دیکھنے پر آمادہ کریں گے۔ وہ آپ کو موسیقی اور لغویات میں الجھائیں گے، اور آپ ان کے چکّر میں آ کر روزوں کے مقاصد فراموش کر دیں گے اور پھر صیام و قیام کو ہی نظر انداز کردیں گے۔ حالاںکہ رات کے قیام کے بارے میں رب العزت فرماتا ہے:

وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ق  عَسٰٓـے اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا o

 (بنی اسرائیل ۱۷:۷۹) اوررات کو تہجد پڑھو، یہ تمھارے لیے نفل ہے، بعید نہیں کہ تمھارا رب تمھیں مقامِ محمود پر فائز کردے۔

شیطان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ رمضان میں مومن ایک ایسی شخصیت بن جاتا ہے جس پر ایمان کا غلبہ ہوتا ہے۔ یہی شخصیت شرعاً مطلوب ہے۔ اسی شخصیت کے ہاتھوں نصرت ملتی ہے۔ اس لیے شیطان آپ کے اور اس شخصیت کی تشکیل کے مابین حائل ہو جائے گا، کیوں کہ ایسی شخصیت کی تشکیل میں اس کی ہلاکت ہے۔ اگر بحمدللہ، رمضان کے اثرات سے اسلام کی مطلوب شخصیت وجود میں آئے تو یہ انسانیت کی فتح ہے۔

رمضان کے اس پیغام اور وقت کی اس آواز کو توجہ سے سنیے اور اس پر غور کیجیے۔ اس طرح آپ کامران و کامیاب لوگوں میں شامل ہو جائیںگے اور ناکام و نامراد نہ ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ رمضان کو ہم سب کے لیے مبارک بنائے، اور ہم سب کو خوب برکتیں ، رحمتیں اور بخشش عطا فرمائے۔ رمضان المبارک کو قیمتی بنانے کے لیے اسے کیسے گزارا جائے ؟ کن اعمال کی کثرت کی جائے ؟ کن چیزوں سے بچا جائے؟ کا تذکرہ ضروری ہے۔

 ادب،احتیاط اور عاجزی سے رہیں : رمضان المبارک کے دن بھی بابرکت ہیں، اور اس کی راتیں بھی پُر نور ہیں، اور اس کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ اس لیے اس مہینے کے داخل ہوتے ہی ایمان والوں پر ایک ، خاص کیفیت طاری ہو جاتی ہے___ ادب ،عاجزی اور احتیاط کی کیفیت۔ ایسانہیں ہوتا کہ روزہ افطار کرتے ہی نفس کا جن بوتل سے باہر آ جائے ، اور گناہ کی زندگی شروع ہوجائے۔

انسان کا نفسِ امارہ اور شیطان اس کو الٹی راہ پر ڈالتا ہے۔ رمضان المبارک کا اصل مقصد ہے قربانی، یعنی کم کھانا ، کم پینا ، کم سونا، زیادہ مال خرچ کرنا، اللہ کی راہ میں خوب جدوجہد کرنا۔  اب شیطان نے انسانوں کو سکھا دیا ہے کہ رمضان المبارک کا مطلب ہے : خوب کھانا کہ پیٹ پھول جائے، خوب پینا کہ پیٹ پھٹنے لگے، خوب سونا کہ بستر بھی تنگ آ جائے ۔

 کچھ کام بڑھا دیں: رمضان المبارک میں عام دنوں سے زیادہ عبادات میں محنت کرنی چاہیے، اور محنت وہ ہوتی ہے جو انسان کو تھکاتی ہے۔ رمضان المبارک کے پہلے لمحے سے لے کر آخری دن سورج غروب ہونے تک ، محنت کا یہ سلسلہ جاری رہے۔ چنانچہ فوراً یہ کام بڑھا دینے چاہییں:

  • نماز : یعنی فرائض وواجبات کا خوب اہتمام ، اور نوافل کی کثرت۔ رمضان المبارک میں تراویح بہت بڑی نعمت ہے۔ تہجد کا بھر پور اہتمام کیا جائے۔
  • تلاوت : روزانہ کم از کم تین پارے اور زیادہ جس قدر ممکن ہو نیز قرآن کا فہم اور اس سے ہدایت حاصل کی جائے۔
  • صدقات: خوب سخاوت کی جائے، خوب مال خرچ کیا جائے۔ بالخصوص ان مسلمانوں تک افطار اور کھانا پہنچایا جائے، جو اپنے گھروں سے محروم ہجرت پر مجبور ہیں۔ 
  • جہاد : رمضان المبارک جہاد کا مہینہ ہے۔ غزوئہ بدر اسی مہینے میں پیش آیا۔ اس لیے غزوئہ بدرکی ہر یاد تازہ کرنی چاہیے: جان کی قربانی ،مال کی قربانی ، جہاد کی دعوت۔
  • آخرت کی فکر : اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے ۔ یہ فکر اور عقیدہ انسان کی اصلاح کے لیے لازمی ہے۔ اس کا زیادہ سے زیادہ محاسبہ اور تذکرہ کیا جائے تو فضول کام کرنے، مال جمع کرنے، اور اس دنیا کی خاطر ذلیل ہونے کے عذاب سے نجات مل جائے گی۔

کچھ کام ترک  کر دیں

  • بد نظری : اپنی آنکھوں کی خوب خوب حفاظت کرنی چاہیے ، ورنہ رمضان المبارک کانور حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔
  • لغویات :کوشش کرکے ٹی وی کو مہینہ بھر بند کردینے کی مشق کریں اور دیگر لغو کاموں سے بچیں۔
  • مذموم مجلسیں:جن مجالس میں بے حیائی، غیبت اور جھوٹ کا چلن ہو، ان کو ترک کردیں۔

 چند کام کم کردیں

  • کھانا ،پینا، سونا ،جائز لذت حاصل کرنا، گفتگو کرنا کم کر دیں۔

روزانہ کا سوال روزانہ بلاناغہ : دو رکعت نماز صلوٰۃ الحاجات پڑھ کر دعا کیا کریں : یا اللہ ! اس رمضان المبارک کوہمارے لیے رحمت ، مغفرت ، جہنم سے نجات اور عافیت والا مہینہ بنا دے۔ ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما، جن پر تیرا فضل ہے، اور جن کی بخشش ہوئی ہے، اور ہمیں اپنی پناہ عطا فرما ان لوگوں میں شامل ہونے سے ،جو رمضان تو پاتے ہیں ، مگر ان کی بخشش نہیں ہوتی۔

 آخری عشرے کی حفاظت :رمضان المبارک کا آخری عشرہ بہت قیمتی ہوتا ہے۔  عید کے لیے نیا جوڑا ضروری نہیں ہے، اور نئے جوتے کے بغیر بھی عید کی خوشیاں پوری طرح سے  مل جاتی ہیں۔ رمضان المبارک کا آخری عشرہ بازاروں میںضائع کرنا افسوس ناک ہے۔ اس لیے جس طرح بھی بن پڑے آخری عشرے کو ضائع ہونے سے بچایا جائے، اور اس عشرے کے دن اور رات قیمتی بنائے جائیں۔ افسوس کہ عید کی خریداری کے نام پر اپنی اصل خوشیوں کو برباد کرنے کا رواج مسلمانوں میں عام ہو چکا ہے۔ ممکن ہے یہ رمضان المبارک ہمارا آخری رمضان ہو، اس لیے اسے قیمتی بنا لیں، اور اسے پالیں ۔ یا ارحم الرّحمین ، ہمیں توفیق عطا فرما !

 چار اعمال کی کثرت: بعض روایات میں آیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں چار کاموں کی کثرت کی ترغیب ارشاد فرمائی: اس ماہ میں چار کاموں کی کثرت کرو،  ان میں سے دو کام ایسے ہیں کہ ان کے ذریعے تم اپنے پرور دگار کو راضی کرو گے، اور دو کام ایسے ہیں جن سے تم بے نیاز نہیں ہوسکتے ہو۔ وہ دو کام جن سے اللہ تعالیٰ کی خوش نودی حاصل ہو گی :

  •  لا الہ الا اللہ کا ورد رکھنا ،
  • اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے رہنا۔
  •  وہ دو چیزیں جن سے تم بے نیاز نہیں رہ سکتے ہو یہ ہیں :

  • جنت کا سوال کرنا
  •  جہنم سے پناہ مانگنا۔

رمضان المبارک میں تو ہر عمل کا اجر ویسے ہی ۷۰ گنا بڑھ جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ باقاعدہ مصلے پر بیٹھ کر ذکر کریں۔ چلتے پھرتے، کھانا پکاتے ، کپڑے دھوتے ،ہروقت زبان پر ذکر اور درود شریف جاری رکھنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ اسی طرح روزانہ استغفار کا معمول بنانا چاہیے۔

ہر روزے کے لیے نیت اور سچی شرط ضروری ہے، تاہم نفس کو روکنے کی شرائط بہت سی ہیں۔ چنانچہ کوئی شخص اسی وقت حقیقی روزہ دار ہو گا، جب وہ اپنے پیٹ کو کھانے سے بچائے، اور اپنی آنکھ کو شہوت کی نظر سے ، کان کو غیبت کے سننے سے، زبان کو بے ہودہ اور فضول گفتگو کرنے سے ، اور جسم کو دنیا کی تابعداری اور شریعت کی مخالفت سے محفوظ رکھے۔ کیوںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا تھا کہ : جب تو روزہ رکھے تو ضروری ہے کہ تیرا کان ،تیری آنکھ ، تیری زبان، تیرا ہاتھ اور تیرا ہر عضو روزہ رکھے۔ نیز فرمایا : بہت سے روزے دار ایسے ہیں ، جنھیں روزے سے بھوکا اور پیاسا رہنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

 روایتی افطار پارٹیاں : رمضان میں شیطان کا ایک پھندا غفلت زدہ افطار پارٹیاں ہیں۔ ان پارٹیوں میں کھانے کی حرص، فضول گپ بازی، اور قیمتی وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔ ہاں، کوئی اجتماع ہو تو اس میں شرکت کر سکتے ہیں۔ بلاشبہہ افطار کی دعوت بہت فضیلت والا عمل ہے۔ اس فضیلت کو حاصل کرنے کے لیے غریبوں کے گھر ، شہداے کرام کے ورثا، دین کے خدمت گاروں اور مہاجرین کو رقم یا کھانا بھجوا دیں۔ اگر کسی کو افطار پر گھر بلائیں تو دین کی تعلیم کا اہتمام کریں۔ ایک دوسرے کے مقابلے پر دعوتیں نہ کریں، بلکہ اپنے وقت کو قیمتی بنائیں، اور افطاری کا کھانا بھجوا دیا کریں۔

جب کسی انسان کو اللہ تعالیٰ عبادت ، خلوت اور ذکر کی توفیق عطا فرماتا ہے، تو اس انسان کو عجیب مزا آنے لگتا ہے۔ تب خطرہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی اجتماعی ذمہ داریوں سے غافل نہ ہو جائے۔  اس لیے بھر پور عبادت اور تلاوت کے ساتھ ساتھ یہ بات یاد رہے، کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی ہیں۔

 ہمارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود میدانوں میں نکل کر تلوار اٹھاتے ، اور جہاد فرماتے تھے اور دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد فرماتے تھے۔ اس عظیم اور بہترین اُمت کا فرد ہونے کی وجہ سے ہم پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہیں، اور ہم پرانی اُمتوں کے صوفیوں کی طرح صرف خلوت، عبادت اور تنہائی کے مزے نہیں لوٹ سکتے۔ اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ہمارا دل فلسطین ، افغانستان ، عراق ، کشمیر اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے درد کو محسوس کرے۔

ہم ان مجاہدین کے لیے دعا کریں جو ہمارے سرکا تاج ہیں، اس لیے کہ وہ میدانوںمیں لڑ رہے ہیں۔ہم دشمنانِ انسانیت کی جیلوں میں قید اسیرانِ اسلام کے لیے بلک بلک کر دعائیں مانگیں۔ ہم ان تمام اہلِ دین کے لیے دعائیں مانگیں، جن پر دین کی خاطر زمین تنگ کر دی گئی ہے اور ہم اپنے دل کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے اُمتی کا دل بنائیں۔

ترجمہ: محمد ظہیرالدین بھٹی

ماہِ رمضان کے روزے اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہیں۔ علامہ ابن قیمؒ نے اپنی کتاب الطب النبوی میںلکھا ہے: ’’روزہ روح، دل اور بدن کی بیماریوں سے بچانے کے لیے ڈھال ہے۔ اس کے فائدے بے حد و شمار ہیں۔ روزوں کا حفظانِ صحت پر عجیب اثر پڑتا ہے۔ روزے سے مضرت رساں فضلات اڑ جاتے ہیں اور انسانی نفس اذیت سے محفوظ ہو جاتا ہے‘‘۔

بلاشبہہ روزے صحت کے لیے بہت مفید ہیں۔ بڑے بڑے طبیبوں اور ڈاکٹروں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ روزہ صحت پر مثبت اثرات ڈالتا ہے۔بالخصوص وہ لوگ جو بعض مخصوص امراض میں مبتلا ہوتے ہیں، روزے ان کے لیے نفع بخش ثابت ہوتے ہیں اور وہ ان امراض سے نجات پاجاتے ہیں، جیسے بلڈپریشر ، ہاضمے کی خرابیاں، دل کی تکلیفیں وغیرہ۔

ماہِ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی بیماریاں کم ہو جاتی ہیں۔ اس کا بہترین ثبوت ہسپتالوں کے وہ رجسٹر ہیں، جن میں مریضوں کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ ان مریضوں پر، ان کے دوا دارو اور  علاج معالجے پر اٹھنے والے اخراجات کم ہو جاتے ہیں، جنھیں ہم انسانی بہبود کے پروگراموں پر خرچ کرسکتے ہیں۔ گویا روزہ اقتصادی فائدے کا باعث بھی ہے۔

پروفیسر لولوہ صالح اپنی کتاب الوقایۃ الصحۃ علی ضوء الکتاب و السنۃ  [کتاب و سنت کی روشنی میں صحت وپرہیز] میں لکھتی ہیں: روزہ رکھنے کے فائدے جو صحت اور تندرستی کے حوالے سے حاصل ہوتے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اب تو ایک عام شخص بھی اس حقیقت کو جانتا ہے اور اس کے نتائج کو محسوس کرتا ہے۔ وہ روزوں کے عمدہ صحت بخش فوائد کا اعتراف کرتا ہے۔

ڈاکٹر جمعہ کہتے ہیں: روزے سے ہائی بلڈپریشر نارمل ہو جاتا ہے۔ ماہِ رمضان میں بلڈپریشر کے کلینک اور ہسپتالوں کے متعلقہ شعبوں میں اس مرض کے مریضوں کی تعداد کم ہو جاتی ہے۔

نظامِ انہضام کو روزوں کی بدولت بہت فائدہ ہوتا ہے۔ جب انسان کو روحانی ماحول، خاموشی اور تزکیہ پرور آسودگی میسر ہوتی ہے تو اس کا اثر ہاضمے کے نظام پر بھی براہ راست پڑتا ہے۔ نظام انہضام ایک طویل مدت تک بدہضمی سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ پروٹین اور نشاستہ پر مشتمل غذا سے آنتوں اور انتٹریوں کو پہنچنے والی تکالیف کا علاج کرنے میں روزہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر روے وال فرڈ کہتے ہیں کہ روزہ رکھنے اور فاقہ کشی سے انسان کی عمر طویل ہو جاتی ہے، کیونکہ روزہ صحت کو بہتر بناتا ہے اور بدن کو مضرت رساں فضلوں سے پاک کرتا ہے۔

ڈاکٹر عبدالعزیز اسماعیل کہتے ہیں: طبی لحاظ سے روزہ بہت سے مواقع پر اختیار کیا جاتا ہے، جب کہ اکثر اوقات میں پرہیز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ معلوم ہو چکا ہے کہ بہت سے حالات میں روزہ ہی واحد علاج ہوتا ہے۔

ڈاکٹر مائیک فیڈن کہتے ہیں: ہر شخص روزہ رکھنے کا محتاج ہے، اگرچہ وہ بیمار نہ بھی ہو، کیوںکہ جسم انسانی میں غذائوں، دوائوں اور تمباکو نوشی کے زہر اکٹھے ہوتے رہتے ہیں اور انسان کو مریض بنا دیتے ہیں۔ اسے سُست اور کم متحرک بنا دیتے ہیں (ان کا یہ پیغام عام مریضوں کے لیے بالعموم اور تمباکو نوش خواتین و حضرات کے لیے بالخصوص بہت اہم ہے)۔

بہت سی طبی تحقیقات اور مطالعات نے واضح کر دیا ہے کہ تمباکو کا دھواں ایک زہر ہے۔ بدقسمتی سے تمباکو کا نشہ بہت سے ممالک میں عام ہو چکا ہے۔ مشرق و مغرب کے کروڑوں لوگ اس نشے کے عادی ہیں۔ تمباکو نوشی کے نتیجے میں مہلک بیماریاں پھیل رہی ہیں۔اب تو تمباکو نوشی کے صحت کے لیے مضر اثرات ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکے ہیں۔ ان نقصانات سے کسی کو بھی انکار نہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ تمباکو نوشی کے مضر اثرات انسان کے پورے جسم کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ یہ نظام انہضام، اعصابی نظام، دورانِ خون کے نظام، گردوں کے نظام، جنسی تعلق، بچوں، حتیٰ کہ رحمِ مادر میںپرورش پانے والے جنین کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔

امریکی سرجن اریگارٹس گراہم کہتا ہے:یہ ایک بالکل واضح حقیقت ہے کہ تمباکو نوشی، کینسر کی بیماری کو ۲۰ گنا زیادہ بڑھا دیتی ہے۔

تمباکو نوشی سے صحت کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں مطالعات ، حقائق ، اعدادو شمار اور جائزے بہت مرعوب کن اور خوف ناک ہیں۔ بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک ملک میں تقریباً ۲۰ہزار افراد کا انتقال دل کی بیماریوں کی وجہ سے ہوا، ۱۵ ہزار پھیپھڑوں کے امراض کی وجہ سے جاں بحق ہوئے اور ۳۳ہزار کینسر کے مرض کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ یہ سب کچھ ایک سال میں ہوا۔

سوال یہ ہے کہ پھر کیا کرنا چاہیے؟

ڈاکٹر آندرے سویپران کہتی ہیں: حفظانِ صحت کے اصولوں کا تقاضا ہے کہ تمباکو نوشی سے مکمل پرہیز کیا جائے۔ تمباکو کے دھوئیں سے آلودہ مقامات سے دُور رہا جائے۔

رمضان کا مہینہ اس کے لیے بہترین موقع ہے۔ بقول ڈاکٹر رابرٹ بارٹلر: اس میں شک نہیں کہ روزہ جراثیم سے نجات پانے کے لیے ایک فعال ذریعہ ہے۔

یہاں روزوں سے متعلق حفظانِ صحت کے کچھ قواعد اور حقائق عرض کیے جاتے ہیں:

اوّلاً: ابن قیمؒ فرماتے ہیں: شرعی روزہ رکھنے سے صحت کی حفاظت ہوتی ہے، بدن اور نفس کی ریاضت و مشق ہوتی ہے۔ کوئی بھی صحیح الفطرت انسان اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتا۔

ثانیاً: ایک مغربی ڈاکٹر کہتا ہے: سال میں ایک ماہ روزے رکھنے سے بدن میں ایک سال کے دوران جمع ہونے والے تمام فاسدو مُردہ مادے ختم ہو جاتے ہیں۔

ثالثاً: ایک عمر رسیدہ خاتون ’میشیل انجلو‘ کہتی ہیں: میں اپنی صحت، قوت اور اپنی بڑی عمر میں چستی و توانائی کی حفاظت کرنے پر فخر محسوس کرتی ہوں۔ اس عمر میں صحت و توانائی کا راز یہ ہے کہ میں وقتاً فوقتاً روزے رکھتی ہوں۔ میں ہر سال ایک ماہ روزے رکھتی ہوں، ہر مہینے میں ایک ہفتہ روزے رکھتی ہوں، اور ہر ہفتے ایک دن روزہ رکھتی ہوں۔

رابعاً: ایک شخص ۱۱ دن مسلسل روزے رکھے تو اس کا وزن ۱۱کلو گرام کم ہوسکتا ہے، اور معدہ صحیح اور قوی۔ دوسرے ہفتے کے روزے مکمل کرنے کے بعد، اس کے بدن سے وہ تمام نمکیات نکل گئے جو اس کی عرقِ النسا (ران سے شروع ہونے والا جوڑوں کا درد) بیماری کا سبب تھے۔

بندئہ مومن ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے عطا کی اُمید رکھتا ہے اور ہمیشہ اُس سے مانگتا ہے۔ خزانے اُس کے ہیں مگر ختم نہ ہونے والے خزانے ہیں: وَ اِنْ مِّنْ شَیْ ئٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآئِنُہٗ وَمَا نُنَزِّلُہٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ (الحجر ۱۵:۲۱) ’’کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں، اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں‘‘۔

حدیث قدسی کا مفہوم ہے: ’’اے میرے بندو! اگر تمھارا اوّل و آخر شخص اور تمام جِنّ و انس ایک جگہ کھڑے ہوکر (بیک وقت) مجھ سے مانگیں اور میں ہرایک کو اس کی طلب کے مطابق عطا کردوں، تو یہ چیز میرے خزانے میں صرف اتنی سی کمی کرسکتی ہے جتنی سوئی سمندر میں ڈبو کر باہر نکالنے سے ہوتی ہے‘‘۔ (مسلم، ۲۵۷۷)

یہ حدیث اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کی طرف اشارہ ہے۔ بندۂ مومن کی نگاہ بڑے سے بڑے معاملے سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے امر میں بھی اللہ ہی کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا دیکھتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی تعلیم فرمائی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے ہرشخص کو اپنی ہرحاجت اور ضرورت کا سوال اپنے رب سے کرنا چاہیے۔ یہاں تک کہ اگر اُس کے جوتے کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو وہ بھی اللہ ہی سے مانگے‘‘۔ (صحیح ابن حبان)

جب مسلمان کو یہ معلوم ہوجائے کہ ہرقسم کی نعمتوں کا خزانہ اللہ کے ہاتھ میں ہے تو     پھر مومن کا فرض ہے کہ وہ قبولیت کے تصور بلکہ یقین کے ساتھ اللہ سے دعا کرے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، آپؐ نے فرمایا: اللہ سے دعا کرو تو تمھیں اس کی قبولیت کا یقین ہونا چاہیے۔ (مستدرک حاکم، ترمذی)

  •  صرف اللہ ہی سے دُعا کرنا:عبادت کو اللہ کے لیے خالص کرنا ہر عبادت کی اصل اور عمل کی اساس ہے:

فَادْعُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَo(المؤمن ۴۰:۱۴)     (پس اے رجوع کرنے والو) اللہ ہی کو پکارو اپنے دین کو اُس کے لیے خالص کر کے، خواہ تمھارا یہ فعل کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔

قرآن مجید کا بیان ہے:

وَ اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِیَّاہُ ج فَلَمَّا نَجّٰکُمْ اِلَی الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ  ط وَ کَانَ الْاِنْسَانُ کَفُوْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۶۷) جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اُس ایک (اللہ) کے سوا دوسرے جن جن کو تم پکارتے ہو وہ سب گم ہوجاتے ہیں، مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اُس سے منہ موڑ جاتے ہو۔ انسان واقعی بڑا ناشکرا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمایا ہے: اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوْٓ ئَ (النمل ۲۷:۶۲) ’’کون ہے جو بے قرارکی دُعا سنتا ہے، جب کہ وہ اُسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟‘‘

آدابِ دعا میں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنے کی ہے کہ دعا کا آغاز خالق ارض و سما کی حمدوثنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صلاۃ و سلام سے کیا جائے۔ حضرت فضالہ بن عُبیدؓ روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے ایک آدمی کو سنا کہ اُس نے نماز میں نہ اللہ کی حمدوثنا کی، نہ رسولِ کریمؐ پر صلاۃ و سلام کی دعا کی۔ اس پر رسولؐ اللہ نے فرمایا: اس شخص نے جلدبازی سے کام لیا ہے۔ پھر اُس آدمی کو بلایا اور اُس سے یا کسی اور سے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص نماز ادا کرے تو اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا سے ابتدا کرے۔ پھر نبیؐ پر درو د و سلام کی دعا کرے، پھر جو مانگنا چاہے مانگے‘‘۔ (ترمذی)

  • دل کی حضوری اور نفس کی بیداری:مومن کا یہ عقیدہ ہے کہ ثواب کے خزانے بھی اللہ کے پاس ہیں اور عذاب کا اختیار بھی اُسی کو حاصل ہے۔ قلب ِ مومن ان دونوں احساسات کے ساتھ اپنے رب کے حضور میں پہنچتا ہے۔ اجروثواب کی کشش اور عذاب و عتاب کا خوف ایسی چیزیں ہیں کہ یہ مومن کے لیے حضوری قلب کا سبب بنی رہتی ہیں۔ مومن کی دعا کی شان یہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور حکم بھی یہی ہے کہ دعا و مناجات اور ذکروتسبیحات میں حضوری قلب اختیار کرو:

وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً وَّ دُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَ لَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَo(اعراف ۷:۲۰۵) اے نبیؐ!  اپنے رب کو  صبح و شام یاد کیا کرو دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ۔ تم اُن لوگوں میں سے نہ ہوجائو، جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے کہ اللہ سے دعا کرو تو قبولیت کا یقین رکھتے ہوئے کرو، یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ غافل و لاپروا دل کی دعا کبھی قبول نہیں فرماتا۔ (مستدرک حاکم ،  ترمذی)

  • عزم و پختہ یقین سے مانگنا: دعا دراصل انسان کی عاجزی و بے بسی ، ناتوانی و کمزوری اور تہی دامنی کا اظہار ہے۔ رب کی قدرتِ کاملہ اور اس کے وسیع خزانوں کا اقرار ہے۔اللہ تعالیٰ کی عطا و بخشش کا اعتراف ہے۔ دنیا و آخرت کی ہر بھلائی مومن اس سے مانگتا اور دنیا کی ہرطاقت کو  اللہ کے سامنے ہیچ سمجھتا ہے۔ مومن جس یقین کے ساتھ یہ عقیدہ رکھتا ہے اُسے اللہ تعالیٰ کے سامنے دعا کرتے ہوئے بھی اسی عزم و یقین سے کام لینا چاہیے۔ رسولؐ اللہ نے اسی لیے دعا میں استثنا کے اظہار سے منع فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو وہ انکسار و تواضع کا پورا زور اُس میں صرف کرے اور یہ نہ کہے کہ اے اللہ!اگر تو چاہے تو عطا فرما دے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس دعا کو اُس کے لیے نامطلوب نہیں بنانا چاہتا‘‘۔ (بخاری، مسلم)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو یہ نہ کہے کہ اے اللہ اگر تو چاہے تو معاف فرما دے، بلکہ اپنے سوال میں زور پیدا کرے اور اپنی طلب میں رغبت کو بڑھائے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی چیز گراں بار نہیں جسے وہ عطا نہ فرما سکے‘‘۔(بخاری، مسلم)

  •  دُعاے مستضعفین: اہل طائف کے بدترین ردعمل کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بارگاہِ رب میں دستِ دُعا بلند فرمائے:

اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِی وَقِلَّۃَ حِیْلَتِی وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ، اَنْتَ رَبُّ المُسْتَضْعَفِیْنَ وَاَنْتَ رَبِّی، اِلٰی مَنْ تَکِلُنِی؟ اِلَی بَعِیْدٍ  یَتَجَھَّمُنِیْ اَمْ اِلٰی عَدُوٍ مَلَّکْتَہُ اَمْرِی؟ اِنْ لَمْ یَکُنْ بِکَ عَلَیَّ غَضَبٌ فَلَا أُبَالِی، وَلٰکِنَّ عَافِیَتَکَ ھِیَ اَوْسَعُ لِیْ، اَعُوْذُ بِنُورِ وَجْھِکَ الَّذِی اَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمَاتُ وَصَلُحَ عَلَیْہِ اَمْرُ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ مِنْ اَنْ یَنْزِلَ بِی غَضَبُکَ اَوْ یَحِلَّ عَلَیَّ سَخَطُکَ، لَکَ العُتَبِی حَتّٰی تَرْضٰی وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِکَ ، بار الٰہا! میں اپنی کمزوری و بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ تجھی سے کرتا ہوں، یا ارحم الراحمین! تو کمزوروں کا رب ہے اور تو ہی میرا بھی رب ہے۔ تومجھے کس کے حوالے کر رہا ہے؟ کسی بیگانے کے جو تندی سے میرے ساتھ پیش آئے؟ یا کسی دشمن کے جس کو تو نے میرے معاملے کا مالک بنا دیا ہے؟ اگر مجھ پر تو ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی کی ذرا پروا نہیں، لیکن تیری عافیت میرے لیے زیادہ کشادہ ہے۔ میں تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ چاہتاہوں جس سے اندھیرے روشن ہو جاتے ہیں اور دنیا و آخرت کے معاملات کا سدھار اسی پر ہے، کہ مجھ پر تیرا غضب نازل ہو یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو، تیری ہی رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تو خوش ہو جائے اور تیرے بغیرکوئی زور اور طاقت نہیں۔

  •  دُعاے بدر :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفیں درست کرکے واپس آتے ہی اپنے پاک پروردگار سے نصرت و مدد کا وعدہ پورا کرنے کی دُعا مانگنے لگے۔ آپؐ کی دُعا یہ تھی:

اَللّٰھُمَّ اَنْجِزْلِی مَا وَعَدْتَّنِیْ، اَللّٰھُمَّ اَنْشُدُکَ عَھْدَکَ وَ وَعْدَکَ ،اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا فرما دے۔ اے اللہ! میں تجھ سے تیرا عہد اور تیرے وعدے کا سوال کررہا ہوں۔

پھر جب گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی تو آپؐ نے یہ دُعا فرمائی:

اَللّٰھُمَّ اِنْ تَھْلِکْ ھٰذِہِ العِصَابَۃُ الْیَوْمَ لَا تُعْبَدُ، اَللّٰھُمَّ اِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدْ بَعْدَ الْیَوْمِ اَبَدًا،اے اللہ! اگر آج یہ گروہ ہلاک ہوگیا تو تیری عبادت نہ کی جائے گی۔ اے اللہ! اگر تو چاہے تو آج کے بعد تیری عبادت کبھی نہ کی جائے۔

آپؐ نے خوب تضرع کے ساتھ دُعا کی۔ یہاں تک کہ دونوں کندھوں سے چادر گرگئی۔ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے چادر درست کی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ!بس فرمائیے! آپؐ نے اپنے رب سے بڑے الحاح کے ساتھ دُعا فرمالی۔ ادھر اللہ نے فرشتوں کو وحی کی کہ:

اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ (الانفال۸:۱۲) میں تمھارے ساتھ ہوں، تم اہلِ ایمان کے قدم جمائو، میں کافروں کے دل میں رُعب ڈال دوں گا۔

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی بھیجی کہ:

اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُرْدِفِیْنَ (الانفال۸:۹) ’’میں ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ تمھاری مدد کروں گا جو آگے پیچھے آئیں گے۔

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جھپکی آئی۔ پھر آپؐ نے سر اُٹھایا اور فرمایا: ’’ابوبکرؓ خوش ہوجائو، یہ جبریل ؑ ہیں ، گردوغبار میں اَٹے ہوئے‘‘۔ ابن اسحاق کی روایت میں ہے آپؐ نے فرمایا:’’ ابوبکرؓ خوش ہوجائو، تمھارے پاس اللہ کی مدد آگئی۔ یہ جبریل ؑ ہیں، اپنے گھوڑے کی لگام تھامے اور اس کے آگے آگے چلتے ہوئے آرہے ہیں اور گردوغبار میں اَٹے ہوئے ہیں‘‘۔

  • قبولیت کے لیے جلدبازی نامطلوب:عموماً دعا کرنے والا اپنی تکلیف سے نجات یا نعمت کے حصول کے لیے دعا کا سہارا تو لیتا ہے مگر جلدبازی کرتا ہے۔ انسان کی یہ جلدبازی قبولیت ِ دعا میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اُس کی دعا قبولیت کو ابھی پہنچ نہیں پاتی کہ وہ ہمت ہار بیٹھتا ہے اور دُعا کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جب تک بندہ کسی گناہ کے کام یا رشتہ داری توڑنے کے لیے دعا نہیں کرتا ، یا جلدی کا طالب نہیں ہوتا اُس کی دعا قبول ہوتی رہتی ہے۔ پوچھا گیا: یارسولؐ اللہ! جلدی سے کیا مراد ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اُس کا   یہ کہنا کہ میں تو دعا کرکر کے تھک گیا ہوں، مجھے نہیں دکھائی دیتا کہ میری دعا قبول ہوگی۔ پھر اس مرحلے پر پہنچ کر وہ دعا کرنا چھوڑ دیتا ہے‘‘۔(مسلم)

بندۂ مومن قبولیت ِ دعا میں ایسی نامطلوب عجلت کا متمنی کیسے ہوسکتا ہے کیوںکہ اللہ کئی اسباب اور وجوہ کی بنا پر قبولیتِ دعا کو مؤخر کرسکتا ہے اور یہ تاخیر بھی مومن کے لیے باعث ِ خیر ہوتی ہے۔ جب بندئہ مومن کی دعائیں قبول نہ ہورہی ہوں تو اُسے اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ اللہ سے اپنے    تمام گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے اور ساتھ ساتھ اپنی حاجت و ضرورت کو بھی کمال ترین تواضع کے ساتھ مسلسل اپنے رب کے سامنے پیش کرتے رہنا چاہیے۔ وہ اپنی درخواست کی منظوری کا شدید حریص ہو اور بار بار اس عرض کو بارگاہ الٰہ العالمین میں پیش کرے۔ دعا کی قبولیت اور عدم قبولیت دونوں صورتوں میں دعا کا یہ مسلسل عمل اس کے لیے سراسر خیرواجر کا سبب بنے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو مسلمان بھی اللہ سے کوئی دعا کرے اور اس میں گناہ کا عمل نہ ہو اور قطع رحمی کا سوال نہ ہو تو اللہ تعالیٰ دُعا کرنے والے کو تین میں سے ایک چیز عطا کردیتا ہے۔ یا تو اُس کی دعا فوراً قبول ہوجائے گی، یا اس دعا کو آخرت میں اُس کے لیے ذخیرہ کردیا جائے گا، یا اس دعا میں مانگی گئی چیز کے برابر کسی بڑی مصیبت کو ٹال دیا جائے گا‘‘۔(مسنداحمد)

یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ کسی دعا کی قبولیت کا عمل طویل عرصے کے لیے بھی مؤخر ہوسکتا ہے۔ حضرت ایوبؑ کی بیماری سے شفا اور حضرت یوسف ؑ کی واپسی کے لیے حضرت یعقوب ؑ کی دعائیں اِس کی واضح مثال ہیں۔ حالاںکہ یہ دونوں ہستیاں زمرئہ انبیا ؑمیں شامل ہیں۔ لہٰذا ناگزیر ہے کہ بندۂ مومن اپنے رب کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو اور دعا کا عمل کبھی ترک نہ کرے۔ دعا بذاتِ خود اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے جو ہر صورت اور شکل میں بندے کے لیے خیروفلاح کی ضامن ہے۔

  • سرگوشی و شائستگی کا انداز :دعا ایک عرض، درخواست اور التجا ہے۔ جس طرح دنیاوی اُمور میں اس کے آداب میں نرمی، شائستگی اور ادب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے، اس سے ہزار گنا زیادہ رب کے سامنے پیش ہونے والی درخواست، یعنی دعا میں اس کو ملحوظ رکھنا ناگزیر ہے۔ ان اُمور میں سے ایک بات آواز کو ہلکا اور مدھم رکھنا ہے۔ خود قرآنِ مجید کے اندر اللہ تعالیٰ نے انسانوں سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ: اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً ط اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَo (اعراف ۷:۵۵) ’’اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے، یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔

حضرت ابوموسیٰؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ لوگوں نے ایک موقعے پر بلندآواز سے تکبیر پڑھنا شروع کر دی۔ اس پر نبی کریمؐ نے فرمایا: لوگو! اپنے اُوپر ترس کھائو، تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے، بلکہ سمیع اور قریب کو پکار رہے ہو اور وہ تمھارے ساتھ ہے۔(بخاری، مسلم)

بعض لوگ جذبات میں دعائیہ کلمات کو ایسے لب و لہجے میں ادا کرتے ہیں گویا اللہ سے دعا نہیں کی جارہی، بلکہ اُسے حکم دیا جا رہا ہے۔ ظلم کی شدت اور انتہا کا اثر یہ نہیں ہونا چاہیے کہ انسان دعا کے اندر شائستگی اور نرمی ہی کو بھول جائے۔ ایسی دعا تو زیادہ سے زیادہ رازدارانہ انداز میں ہونی چاہیے۔

  • وقتِ سحر و نیم شبی:رات کا پچھلا پہر، نیم شب، وقت ِ سحر ، رب سے اپنا مافی الضمیر بیان کرنے اور اُس سے مانگنے کا بہترین اور خاص موقع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہمارا رب روزانہ رات کو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے۔ جب رات کی آخری تہائی باقی رہ جاتی ہے تو فرماتاہے: کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اُس کی دعا کو قبول کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اُسے عطا کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے گناہوں کی مغفرت طلب کرے اور میں اُسے معاف کردوں؟‘‘ (بخاری، مسلم)

حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسولؐ اللہ کو فرماتے سنا کہ: ’’رات کی ایک ساعت ایسی ہے جس میں کوئی مسلمان اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کے کسی امر میں خیر مانگے تو اللہ اُسے وہ عطا کردیتا ہے اور یہ روزانہ کا عمل ہے‘‘۔ (مسلم)

نماز ایک ایسا عمل ہے جو اوّل و آخر ذکر و تسبیحات اور دعا و مناجات پر مشتمل ہے۔ نماز کے کسی بھی حصے میں دعا کی جائے تو اس کی قبولیت کے امکانات اسی قدر روشن ہوتے ہیں جس قدر دعا میں اخلاص و للہیت اور عاجزی و انکساری ہو۔ نماز کی اس اہمیت کے باوجود ایک خاص کیفیت ایسی ہے جو نماز ہی کا حصہ ہے مگر یہ اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حالت ِ سجدہ میں بندہ اپنے رب سے قریب ترین ہوتا ہے‘‘۔(مسلم)

  • حرام رزق کے منفی اثرات: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگو! یقینا    اللہ تعالیٰ طیب ہے اور طیب (پاک) چیزوں کو ہی قبول کرتا ہے، اور اللہ نے مومنین کو بھی وہی حکم دیا ہے جو مُرسلین کو دیا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ط(المومنون ۲۳:۵۱) اے پیغمبرو ؑ! پاک اور طیب چیزیں کھائو اور صالح عمل کرو۔

اور (دوسری جگہ) فرمایا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ (البقرہ ۲:۱۷۲) اے    اہلِ ایمان! ہم نے تمھیں جو پاکیزہ رزق دیا ہے اس سے کھائو۔

پھر آپؐ نے اُس شخص کا ذکر کیا جو طویل سفر کرتا ہے جس سے اس کے بال اُلجھے ہوئے اور جسم غبارآلود ہوجاتا ہے۔ وہ اسی حالت میں آسمان کی طرف متوجہ ہوکر دست ِ دعا دراز کرتا ہے۔ کہتا ہے: اے رب! اے رب! جب کہ اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام، اور اس کی پرورش بھی حرام غذا سے ہوئی ہوتی ہے، تو پھر کیسے اس کی دعا قبول ہوگی؟(مسلم، ۱۰۱۵)

  • دُعا مومن کا ہتھیار: امام ابن قیمؒ کے مطابق مصائب و مشکلات میں دعا کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:

                ۱-            اگر دعا مصیبت سے قوی تر ہو تو مصیبت سے نجات کا ذریعہ بن جائے گی۔

                ۲-            اگر مصیبت سے دعا کمزور ہے تو مصیبت اُس کے اُوپر غلبہ پا لے گی اور بندہ اُس سے دوچار ہوجائے گا۔ لیکن اس دعا کا اتنا فائدہ ضرور ہوگا کہ مصیبت کی شدت کم ہوجائے گی۔

                ۳-            اگر مذکورہ دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی نہ ہو تو دونوں باہم کش مکش اور تصادم کے دوران ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔(الجواب الکافی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی چاہتا ہو کہ کرب و بلا اور مصائب میں اُس کی دعا قبول ہو، تو وہ خوش حالی اور سلامتی کے زمانے میں کثرت سے دعا کرے۔ (ترمذی)

جب تمام سہارے ختم ہوجائیں، تمام اسباب بے کار ہوجائیں تو مومن کے پاس دعا کی صورت میں پھر بھی ایک مضبوط سہارا باقی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے:

وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ o(البقرہ ۲:۱۸۶) اور اے نبیؐ! میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انھیں بتادو کہ میں اُن سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اُس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا، اُنھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں، شاید کہ وہ راہِ راست پالیں۔

 تحریکِ اسلامی نام ہے دین کے پورے نظامِ فکر و عمل کی طرف دعوت دینے اور اس کو قائم کر نے کے لیے اجتماعی جدو جہد کرنے کا۔ یہ جزو کی نہیں، کل کی دعوت دیتی ہے۔کسی مخصوص تعلیم سے نہیں،شریعت کی تمام تعلیمات سے بحث کرتی ہے۔ کتاب الٰہی کی چند آیات کا انتخاب نہیں کرتی، بلکہ پورے قرآن کو مرکزِ فکرو عمل بناتی ہے۔معاشرے کی فلاح کے لیے کی جانے والی  مختلف اسلامی خدمات، دینی تعلیمی اداروں کا قیام، اسلامی عقائد و عبادات کی تعلیم کے لیے دینی مجلسوں اور اصلاحی جلسوں کا انعقاد ، بے جا رسوم و روایات سے مسلمانوں کو بچانے کے لیے اصلاحِ معاشرہ کے نام سے ہونے والی جدو جہد ، مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کی کوششیں ، فلاحی و رفاہی انجمنوں کی تشکیل کی وہ حمایت بھی کرتی ہے ، اور خود بھی یہ خدمات انجام دیتی ہے۔ لیکن انھی خدمات اور مصروفیات کو اپنی توانائیوں اور پروگراموں کا اصل مقصود نہیں بتاتی۔

بلاشبہہ یہ مبارک اور مسعود خدمات بڑی قابل قدر ہیں اور ہر طرح کی تائید و تقویت کی مستحق ہیں،لیکن اقدام کو بقا سے، تحریک کو تحفظ سے، اور جدید کو قدیم سے ممتاز کیے بغیر ہم تحریک اسلامی کی صحیح تعریف نہیں کر سکتے اور نہ اس کی کماحقہ شناخت ہو سکتی ہے۔۱

دنیا کی تمام اسلامی تحریکوں نے مروجہ دین داری کو احیاے دین کے لیے ناکافی قرار دیا ہے۔ انھوں نے اسلام کو عقائد و عبادات سے آگے بڑھ کر خاندان و معاشرت، سیاست و تہذیب اور معاشرہ و ریاست کے تمام میدانوں میں متحرک اور جاوداں دیکھنے کی آرزو ظاہر کی ہے اور اس کے مطابق نقشۂ کار، حکمت عملی اور منصوبہ سازی کو اپنی پالیسی و پروگرام میں جگہ دی ہے۔

تحریک اسلامی کے ایک کارکن کو دعوت اور اقامت دین کے فریضے کی ادائی میں ایک داعی کا مزاج تشکیل دینا پڑتا ہے۔ داعی کے مزاج سے مراد، اخوان المسلمون مصر کے رہ نما بہی الخولی کے الفاظ میں یہ ہے کہ وہ درج ذیل ہتھیاروں سے مسلح ہو:

  •  حقیقت پسندانہ عقلیت، جو محض نظریاتی نہ ہو، بلکہ محسوس و مشاہد ہو اور عمل سے ہم آہنگ ہو۔
  •  روحانیت، جو مادیت سے کارکن کو بلند کر دے۔ یہ روحانیت معاشرتی ہو، رہبانیت کی طرف مائل نہ کرتی ہو، نہ اسباب و وسائل کو چھوڑ نے کی دعوت دیتی ہو۔
  •  ایجابی فطرت، جو اقدام و عمل پر داعی کو آمادہ کرے اور منفی ذہنیت سے محفوظ رکھے۔ ۲

’حقیقت پسندی‘ کی تشریح کرتے ہوئے بہی الخولی کہتے ہیں کہ: قرآن نے جو اسلوب اختیار کیا ہے، اس میں فکر و فلسفہ بھی ہے اور محسوس و مشاہد حقائق کا ادراک بھی۔ کچھ لوگ اپنے افکار و نظریات خالص عقلی و فکری انداز میں پیش کرتے ہیں، علت و معلول، اسباب و مسببات کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں، فکر و نظر کی گہرائیوں میں اتر کر جزئیات و کلیات اور مختلف مفروضات و حقائق کی چھان بین کر کے انھیں عوام کے سامنے پیش کردیتے ہیں اور بس۔ اس طریقۂ کار سے دل کے تار چھیڑے جا سکتے ہیں نہ دلوں اور دماغوں میں کوئی ہلچل پیدا کی جا سکتی ہے ۔ سچا داعی وہ ہے جو عملی زندگی سے بحث کرتا ہے اور واقعات کی دنیا کو موضوع بناتا ہے۔۳

’معاشرتی روحانیت‘ سے استاد بہی الخولی ’روح اور مادہ کا حسین اور متوازن اجتماع‘ مراد لیتے ہیں۔ کیوں کہ انسان روح اور مادہ دونوں سے مرکب ہے اور دونوں کا اپنا نظام اور اپنے تقاضے اور مطالبات ہیں۔ اسے روح اور مادہ دونوں کے حقوق حکمت، نظم اور سلیقہ سے ادا کرنا ہے۔

’معاشرتی روحانیت‘ سے متصف شخص دونوں زندگیاں جیتا ہے۔ اس کی پرواز دونوں دنیاؤں میں رہتی ہے۔ اس کاجسم زمین پر ہوتا ہے، لیکن حقیقت آسمان پر رہتی ہے۔ اعضا و جوارح اہلِ دنیا کی طرح کام کرتے ہیں، لیکن روحانی صلاحیتیں عارفین حق کی طرح کسی اور ہی مقصد کے لیے وقف ہوتی ہیں۔ وہ اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا سے بے گانہ ہوتا ہے:  ۴

الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن

مُلاّ کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں

کرگس کا جہاں اور ہے ،شاہیں کا جہاں اور

’ ایجابی فطرت اور عملی مزاج‘ سے مراد یہ ہے کہ انسان اللہ سے اپنا تعلق جوڑ کر خاموش نہ بیٹھ جائے، ورنہ یہ سلبی روحانیت ہوگی، بلکہ تعلق باللہ اسے اقدام پر ، ایجابی منصوبہ بندی پر اور تنقید و عمل پر آمادہ کرے۔ دوسرے لفظوں میں مصنف اسے ’خدائی سیر‘ کا نام دیتے ہیں، جس کی دو واضح خصوصیات ہیں:

                ۱-            ایمان وہ بھڑکتا ہوا انگارہ ہے جس سے داعی قوت عمل اور غیرت حق اکتساب کرتا ہے۔

                ۲-            یہ ایک قوت محرکہ ہے جس کی وجہ سے داعی یہ احساس رکھتا ہے کہ تنفیذ اور عمل کی طرف بڑھنا نا گزیر ہے۔۵

دعوت و اقامت دین کی ان تحریکوں کی جدو جہد علمی و فکری سطح پر بھی ہوتی ہے اور عمل و اقدام کے میدانوں میں بھی۔ ان دونوں کے درمیان توازن قائم رکھنا ایک نازک کام ہے۔ بسااوقات ملک و ملت کے مسائل اور فوری بحرانوں کو حل کرنے میں تحریک اس قدر الجھ جاتی ہے کہ علمی و فکری اہداف نظروں سے اوجھل ہونے لگتے ہیں، اور کبھی اس کے علی الرغم پوری تحریک علمی منصوبہ بندی میں اس طرح جت جاتی ہے کہ عملی حقائق اور زمینی واقعات بھی صرفِ نظر ہو جاتے ہیں۔ توازن اور اعتدال کو قائم رکھتے ہوئے علمی و فکری منصوبہ بند ی کاتقاضا ہے کہ:

                ۱-            تحریک کے کارکن مطالعے کو اپنی روز مرہ کی عادت بنائیں۔ سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ (۱۹۰۳ء- ۱۹۷۹ء)، انجینیرمالک بن نبی (۱۹۰۳ء-۱۹۷۳ء)، شہید مرتضیٰ مطہری (۱۹۱۹ء- ۱۹۷۹ء) کے علاوہ تحریک سے باہر کے علما وفضلا کی تحریروں کا مطالعہ قلب و ذہن کو وسعت بھی بخشے گا اور امت مسلمہ سے قریب بھی کرے گا۔

                ۲-            تحریک اسلامی کے سنجیدہ اہل قلم اور ارباب تحقیق تحریک سے باہر کے علما و فضلا، اربابِ علم و تحقیق سے رابطہ رکھیں۔ انھیں تحریک کی علمی و فکری منصوبہ بندی میں شامل کریں۔ ان کے تعاون سے ایسا صالح لٹریچر تیار کریںجو مسلمانوں کی نشاتِ ثانیہ کے لیے ضروری ہے۔ اربابِ قلم کی ایک کہکشاں تیار کرنے کے لیے یہ کام مستقل منصوبہ بندی کا متقاضی ہے۔

                ۳-            دینی مدارس کے علما اور عصری جامعات کے فضلا کو ایک ساتھ دعوت دین کے کاز سے جوڑنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ دونوں گروہوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج نے امت کو دو متوازی دھاروں میں تقسیم کر دیا ہے اور اس کے نقصانات فکری انتہا پسندی کی شکل میں ظاہر ہورہے ہیں۔۶  تحریک اسلامی ان دو متوازی دھاروں کو خدمت دین کے مقصد سے قریب کر دے تو امت کے بہت سے فکری بحرانوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

معاصر تعبیر و تشریح کی ضرورت

’ما بعد مودودی‘ کی اصطلاح بعض دانش وروں نے یہ ثابت کرنے کے لیے استعمال کی کہ مولانا مودودیؒ کے افکار اب بدلتے حالات کا ساتھ نہیں دیتے۔ یہ سیّد مودودیؒ کی تحریروں کے ناقص فہم کا ثمرہ ہے، یا ان کے مقام و مرتبے کے ساتھ ناانصافی کرنے کی جارحانہ ذہنیت کی عکاسی ہے۔ الجامعہ الاسلامیہ شانتا پورم کیرالہ میں اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کی اسلامک اکیڈمک کانفرنس (۱۴-۱۵ جولائی ۲۰۱۲ء ) میں مضمون نگار نے ’سیّدمودودیؒ کا مطالعہ - معاصر دور میں‘ کے موضوع پر ایک بحث پیش کی۔ سیّد مودودیؒ نے احیاے اسلام کے لیے دستوری اور جمہوری جدوجہد کی جو اسکیم تیار کی تھی، وہ گفتگو کا خاص نکتہ تھی۔ اس کی افادیت آج پہلے سے زیادہ محسوس ہوتی ہے۔۷

بلاشبہہ سیّد مودودیؒ نے جن حالات میں تحریک اسلامی کی عملی جدوجہد کا نظریہ پیش کیا تھا، وہ اب کافی بدل چکے ہیں۔بدلتے ہوئے حالات میں دین کی تعبیر و تشریح کے لیے متعدد نئے اُفق اور چیلنج سامنے آچکے ہیں۔ یہ تعبیر و تشریح سیّد مودودیؒ کے فکر کی توسیع ہوگی، تغلیط نہیں۔ سیّد سعادت اللہ حسینی نے تحریک اسلامی ہند کے سیاق و سباق میں دعوت فکر دی ہے کہ جماعت اسلامی کے مصنفین ’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘ کی سیاسی بحث کو کیوں آگے نہ بڑھا سکے؟ کیوں استعمار سے آزاد ملک کے احوال میں کوئی ایسا سیاسی فلسفہ تشکیل نہیں دیا جا سکا جو ’ مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘ کی بحث کا فطری ارتقا بھی ہوتا اور نئے احوال میں رہ نمائی کا ذریعہ بھی بنتا۔۸

سیّد مودودیؒ نے مغربی جمہوریت کو اسلام کے نظام شورائیت سے متصادم قرار دیا تھا۔ اسلامی ریاست ’’نہ تو مغربی اصطلاح کے مطابق مذہبی حکومت ہے اور نہ جمہوری حکومت، بلکہ وہ ان دونوں کے درمیان ایک الگ نوعیت کا نظام سیاست و تمدن ہے‘‘۔۹  مغربی اصطلاح میں مذہبی حکومت دو بنیادی تصورات کا مجموعہ ہے: ایک خدا کی بادشاہی، قانونی حاکمیت کے معنیٰ میں۔ دوسرے پادریوں اور مذہبی پیشواؤں کا ایک طبقہ، جو خدا کا نمایندہ اور ترجمان بن کر خدا کی اس بادشاہی کو قانونی اور سیاسی حیثیت سے عملاً نافذ کرے ۔ مولانا مودودیؒ نے مغربی جمہوریت کو بھی دو تصورات کا مجموعہ قرار دیا تھا:

                ۱-            عوام کی قانونی اور سیاسی حاکمیت، جو عوام کی اکثریت ، یا ان کے منتخب کیے ہوئے نمایندوں کی اکثریت کے ذریعے عملاً ظہور میں آئے۔

                ۲-            ریاست کا انتظام کرنے والی حکومت کا عوام کی آزادانہ خواہش سے بننا اور بدل سکنا۔

سیّد مودودیؒ نے مغربی جمہوریت کے قانونی حاکمیت کے تصور کو تبدیل کر کے اللہ کے لیے خاص کیا اور سیاسی حاکمیت کو خلافت قرار دے کر اسے ریاست کے عام مسلمان باشندوں کے حوالے کر دیا۔ اس طرح اسلامی ریاست کو مغربی اصطلاح کے مطابق جمہوریت قرار دینے کو سیّدمودودیؒ نے غلط قرار دیا۔ ۱۰

جماعت اسلامی ہند نے بدلتے ہوئے حالات کا ادراک کیا۔ ہندستان میں رائج جمہوریت کی حمایت و تقویت ، ملکی انتخابات میں شرکت کا جواز، انتظامی اداروں میں ملازمت کا حصول، سیکو لر سیاسی افراد اور جماعتوں سے ارتباط و تعاون اور سیاسی نظام میں مسلمانوں کی حصہ داری کے لیے اس کے فیصلے اور کل ہند ویلفیئر پارٹی کی تشکیل وغیرہ ایسے اقدامات ہیں، جن کا فیصلہ جماعت اسلامی ہند نے طویل مشاورت اور اجتماعی اجتہاد کے بعد کیا، مگر اس کی تائید میں اسلامی لٹریچر کی تیاری کا کام ابھی باقی ہے۔ یاد رہے کہ مولانا مودودیؒ کی تحریریں ان فیصلوں کی تائید کرتی نظر نہیں آتیں ۔

عالمِ عرب کی طاقت ور اسلامی تحریک اخوان المسلمون ۱۹۲۸ء میں قائم ہوئی۔ سید قطب  اس کے نظریہ ساز قرار پائے۔ ۱۹۵۳ء میں وہ اخوان میں شامل ہوئے اور اس کے ترجمان الاخوان المسلمون کے مدیر مقرر ہوئے۔ آگے چل کر وہ مکتب الارشاد(مجلس عاملہ) کے رکن بنے۔ انھوں نے اپنے مؤثر اسلوب میں عالم عرب کے حالات پر اسلامی رہ نمائی کا فریضہ ادا کرنا شروع کیا۔ جنوری ۱۹۶۴ء میں ان کی معرکہ آرا تصنیف معالم فی الطریق  منظر عام پر آئی۔ ۱۱   اس کتاب نے یہ بحث زور شور سے اٹھائی کہ آج پوری دنیا جہالت و جاہلیت میں ڈوبی ہوئی ہے۔  اس جاہلیت کی بنیاد ہے اللہ کے اقتدار اعلیٰ پر دست درازی اور حاکمیت الٰہ سے بغاوت۔ ۱۲  تمام عرب اور مسلم حکومتیں اس جہالت و جاہلیت کو فروغ دے رہی ہیں۔ اس لیے سید قطب نے کہا کہ ’’آج احیاے اسلام کا آغاز اس ہراول دستے سے ہوگا، جو اس کار عظیم کا عزم مصمم لے کر اٹھے اور پھر مسلسل منزل کی طرف پیش قدمی کرتا چلا جائے اور جاہلیت کے اس بے کراں سمندر کو چیرتا ہوا آگے کی جانب رواں دواں رہے‘‘۔ ۱۳ یہی کتاب ۱۹۶۶ء میں فاضل مصنف کی شہادت کا سبب قرار دی گئی۔ ۱۴

مصر اور پورے عالم عرب میں جبر و ظلم کی ایک طویل تاریخ سے گزر کر اخوان المسلمون کے جاں نثاروں نے دعوت و اقامت دین کا فریضہ انجام دیا۔ان کے متعدد رہ نمائوں کو تختۂ دار پر چڑھا دیا گیا۔ تزکیہ و شہادت کے اس پورے سفر میں سید قطب شہید ؒ کی تحریریں ہی مرکز توجہ رہی ہیں۔ دوسرے اخوان مصنفین نے بلا شبہہ دعوت و تربیت کے لیے بے شمار موضوعات پر اپنی یادگار تخلیقات پیش کیں، لیکن ان کی حیثیت تفہیم و تشریح سے زیادہ نہ تھی۔ جناب حسن بن اسماعیل الہضیبیؒ(۱۸۹۱ء-۱۹۷۳ء) ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۵۱ء کو مرشد عام منتخب ہوئے ۔ انھوں نے مارچ ۱۹۲۴ء تک مصری عدالتوں میں وکالت کرنے کے بعد ۲۷برس جج کے فرائض بھی انجام دیے تھے۔ قانونی و فقہی امور میں مہارت رکھنے کے علاوہ اخوان کے اندر ایک گروہ کی فکر میں پرورش پانے والی انتہاپسندی پر وہ سخت مضطرب تھے۔ انھوں نے پوری کوشش کی کہ اخوان ملکی قوانین کی پابندی کریں اور حکومت سے کوئی تصادم مول نہ لیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنی معروف زمانہ تصنیف دعاۃ لا قضاۃ  تصنیف کی۔ ۱۵

حسن الہضیبی نے اس کتاب میں یہ نقطۂ نظر پیش کیا کہ قرآن و سنت کی روشنی میں داعیانِ دین کی یہ ذمہ داری تو ہے کہ وہ اصلاح و احیا کے لیے کماحقہ جدو جہد کریں، تاہم افراد و اقوام کو زبردستی اور قوت کے استعمال سے راہِ ہدایت پر لانا ان کی ذمہ داری نہیں ہے، اور غیر مسلم معاشرے میں رہنے والے مسلمان اپنی نیت اور عمل کے مطابق اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ ان کے خلاف تکفیر و تفسیق کی مہم چلانا، دعوت دین کے دائرے سے باہر ہے۔

شیخ الہضیبیؒ کی اس صراحت و وضاحت کے باوجود انتہا پسند نوجوانوں نے جماعۃ التکفیر          والھجرۃ کے نام سے ایک الگ گروپ تشکیل دے دیا۔ ۱۶ اور مصر میں فکری انتہا پسندی کی ایک نئی لہر آگئی۔ اس حقیقت کا اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں ہے کہ آج بھی سید قطب شہیدؒ کی تحریریں عالمِ عرب میں سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ اخوان مفکرین بدلے ہوئے حالات میں نئی تعبیر و تشریح کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔

تکثیری معاشرہ اور اس کے تقاضے

تکثیریت کی ایک تفہیم، جو موجودہ دور میں رائج ہے، اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ: ’’سارے مذاہب اور متنوع افکا ر کو بیک وقت درست مانا جائے اور کسی عقیدہ، فلسفہ یا فکر پر تنقید نہ کی جائے‘‘۔ گویا معاشرے میں موجود سارے افکار اور فلسفے اپنی انفرادیت کھو کر ایک نئی فکر اور فلسفہ تشکیل دیں، جس میں سب کی سوچ، ذہنیت اور رنگ و آہنگ شامل ہو۔ اس فکر کے مطابق کسی ایک فکر یا عقیدے کی صداقت پر اصرار باقی نہیں رہتا۔

تکثیری معاشرے کا ایک دوسرا فہم یہ ہے کہ: ’’مختلف و متصادم افکار و نظریات اور عقائد کو یکساں آزادی حاصل ہو۔ کسی فکر کو صحیح سمجھنے والا آزاد ہو کہ اس فکر کی معقولیت اور نافعیت کا اثبات کر سکے اور علمی انداز اور شائستہ اسلوب میں دوسرے نظریے پر تنقید و جرح کرسکے۔ گویا اپنے نظریے پر قائم رہتے ہوئے، دوسرے نظریات سے مباحثہ و مجادلہ کی راہ اختیار کرے۔ اس طرح تمام افکار و مذاہب کے لیے مکالمہ کی راہ ہموار ہوتی ہے‘‘۔

موجودہ دور کے مسلم مفکرین نے تکثیریت کے آخر الذکر فہم کو تسلیم کیا ہے۔ انھوں نے اسلام کی حقانیت پر ایمان رکھنے کے ساتھ دوسرے مذاہب و نظریات کی آزادی و حقوق کو خوش دلی سے مانا ہے اور مکالمہ اور اشتراک و تعاون کے لیے راہیں استوار کیں ہیں۔

ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی(۱۹۳۲ء-۲۰۱۱ء)نے غیر اسلامی قوتوں سے اشتراک کی حدود کار پر مفصل گفتگو کی ہے۔ ان کے خیال میں مکہ میں حلف الفضول کا تاریخی معاہدہ، جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے قبل ایک تکثیری معاشرے کے اندر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ یہ ایک معاہدے تھا، جس میں مشرکین ، ملحدین اور موحدین سب نے متحد ہو کر برائی اور نانصافی کے خلاف مشترکہ جدو جہد کرنے کا عہد باندھا تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عہد رسالت میں بھی اس معاہدے کی بڑی قدر کرتے تھے اور ایک روایت کے مطابق آپؐ نے فرمایا تھا کہ: ’’اگر اس طرح کا کوئی معاہدہ دوبارہ ہو تو آپؐ اس میں شریک ہونا پسند کریں گے‘‘۔ ڈاکٹر فریدی کہتے ہیں:’’اس قسم کی کاوشوں میں تعاون مسلمانوں کا اخلاقی فریضہ ہے۔ اپنے تعاون کو اس شرط پر مشروط کرنا کہ اس طرح کی کوشش جامع اور ہمہ جہت ہو اور معاشرے کی بنیادی برائیوں کا انسداد اس میں شامل ہو، صحیح نہیں ہے‘‘۔ ۱۷

حزب النہضۃ تیونس کے رہنما راشد الغنوشی (پ:۱۹۴۱ء) اسلام کے نظام عدلِ اجتماعی کے قیام کے لیے شراکتِ اقتدار کو ناگزیر تصور کرتے ہیں، خواہ وہ معاشرہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ اس شراکت کے لیے صرف یہ ضروری نہیں ہے کہ شریعت اسلامیہ کی تنفیذ اس کا مطمح نظر ہو، بلکہ ملک میں آمریت کو روکنے کے لیے بھی یہ شراکت کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح آزادی، ترقی، سماجی استحکام، شہری آزادیوں کے حصول، حقوق انسانی کے احترام، سیاسی تکثیریت کی پاس داری، عدلیہ کی آزادی کی بحالی، آزادی اظہارِ راے، اسلامی اوقاف، مساجد و مدارس کے تحفظ وغیرہ، وسیع تر مقاصد میں غیرمسلموں کی شراکت کے ساتھ بے دین اور ملحد قوتوں کے ساتھ حصہ داری نبھائی جاسکتی ہے۔ ۱۸

غیر اسلامی حکومتوں میں شراکت کے ثبوت کے لیے راشد الغنوشی، سورۂ یوسف سے استدلال کرتے ہیں، جس میں حضرت یوسف ؑ نے شاہِ مصر سے کہا تھا کہ ملک کے خزانے میرے سپرد کر دیجیے، کیوں کہ میں ان کی حفاظت کر سکتا ہوں: قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ ج اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ (یوسف۱۲:۵۵) ۔اس کے بعد قرآن حضرت یوسف ؑ کے کامل تسلط اور ہمہ گیر اقتدار کو اس طرح بیان کرتا ہے:

وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّالِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ ج یَتَبَوَّاُ مِنْھَا حَیْثُ یَشَآئُ ط نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآئُ وَ لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ o(یوسف۱۲:۵۶) اس طرح  ہم نے اس سرزمین میں یوسف ؑ کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ وہ مختار تھا کہ جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔ ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیںنوازتے ہیں۔ نیک لوگوں کا اجر ہمارے یہاں مارا نہیں جاتا۔

حضرت یوسف ؑ کا حوالہ دے کر راشد الغنوشی نے لکھا کہ پیغمبر وقت کو جیل کی سزا برداشت کرنا پڑی، سوتیلے بھائیوں کے ناروا سلوک کو برداشت کرنا پڑا، مگر جب مناسب وقت آیا توشاہ مصر کے دربار میں سب سے اہم ذمہ داری بڑھ کر قبول کی، تاکہ قحط اور خشک سالی میں مبتلا عوام کو راحت پہنچا سکیں۔ انھوں نے یہ انتظار نہ کیا کہ مصری عوام دعوت توحید کو قبول کر لیں اور شرک و کفر کو چھوڑ کر مؤحد بن جائیں، تاکہ ایک اسلامی ریاست کی تشکیل ہو سکے۔ ۱۹

راشد الغنوشی نے سیرت طیبہ سے ہجرت حبشہ کی مثال بھی پیش کی ہے، جو بڑی دل چسپ ہے۔ حبشہ کا بادشاہ عیسائی تھا، مگر انصاف پسند تھا۔ مکہ میں جب حالات ناقابل برداشت حد تک پہنچ گئے تو رجب ۴۵ عام الفیل؍ ۵ بنوی میں اللہ کے رسولﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا:

لَوْ خَرَجْتُمْ اِلٰی أَرْضِ الْحَبْشَۃِ، فَاِنَّ بِھَا مَلِکاً  لَا یُظْلَمُ عِنْدَہٗ أَحَدٌ، وَھِیَ أَرْضُ صِدقٍ حَتّٰی یَجْعَلَ اللہُ لَکُمْ فَرَجًا مِـمَّا أَنْتُمْ  ۲۰   اچھا ہو کہ تم لوگ نکل کر حبشہ چلے جائو۔ وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا اور وہ بھلائی کی سر زمین ہے۔ جب تک اللہ تمھاری اس مصیبت کو رفع کرنے کی کوئی صورت پیدا کرے، تم لوگ وہاں ٹھیرے رہو۔

اس ارشاد کی بنا پر ۱۱ مرد اور ۴ خواتین نے حبشہ کی راہ لی۔ پھر چند مہینوں کے اندر مزید لوگوں نے ہجرت کی، یہاں تک کہ ۸۳ مرد ، ۱۱عورتیں اور ۷  غیر قریشی مسلمان حبشہ میں جمع ہو گئے اور مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف ۴۰ آدمی رہ گئے تھے۔۲۱ صحابہ و صحابیات کی حبشہ آمد کا نتیجہ یہ ہوا کہ بادشاہ مسلمان ہو گیا،ا گر چہ اس نے اسلامی شریعت ملک میں نافذ نہ کی۔ اسے خدشہ ہوا کہ اسلام قبول کرنے کا اعلان ہوتے ہی اس کی سلطنت خطرے میں پڑ جائے گی اور مہاجرین کا تحفظ مشکل ہو جائے گا۔ جب شاہِ حبشہ کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔۲۲

بھارت کے ممتاز عالم دین مولانا سلطان احمد اصلاحیؒ (۱۹۵۲ء-۲۰۱۶ء) نے اس موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی کتاب مسلمان اقلیتوں کا مطلوبہ کردار  میں ہندستانی مسلمانوں کے شرعی اور اسلامی کردار پر کھل کر گفتگو کی ہے۔ انھوں نے ملک و ملت کی تعمیر اور بھلائی کے کاموں میں شرکت کو ’ ہر مسلمان کی دینی زندگی کا لازمی ایجنڈا ‘ قرار دیا ہے۔۲۳ انھوں نے مسلمانوں کو تاکید کی کہ ان کی اجتماعیت ’ غیر متحارب اور غیر نزاعی‘ ہو۔ اس پر سخت نگاہ رکھی جائے کہ      ’سیاسی و غیرسیاسی‘ کسی دائرے میں اس کا رنگ و آہنگ معاندا نہ نہ ہونے پائے اور ان کی تمام تر دینی اور مذہبی جماعتوں کا کردار اصلاً دعوتی، رفاہی اور اصلاحی رہے۔۲۴ انھوں نے بھی حضرت یوسف ؑ اور شاہِ حبشہ کے نمونوں سے استدلال کیا کہ غیر مسلم اکثریت کے درمیان کسی منصب کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں اور ضرورت کے تقاضے سے غیر دینی نظام حکومت کے ساتھ اشتراک و تعاون کی راہ عام مسلمان کے لیے درست اور صائب ہے۔۲۵ اس معاملے میں کلیدی مناصب ہوں یا غیر کلیدی مناصب، سب یکساں ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ :’’ عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کی چھوٹی بڑی ہرطرح کی ملازمت اور چھوٹا بڑا ہر طرح کا عہدہ و منصب مسلمان اقلیت کی یکساں ضرورت ہے۔۲۶

مولانا اصلاحیؒ ملک کی مقننہ، یعنی اس کی اسمبلی اور پارلیمنٹ اور اس کے واسطے سے حکومت اور وزارت میں مسلمان اقلیت کی مؤثر حصہ داری کے لیے انتخابات میں شرکت کو ضروری قرار دیتے ہیں اور قوم اور اجتماعیت کی حیثیت سے مسلمان امت کو ہوم ورک اور منصوبہ بندی کی تلقین کرتے ہیں۔ اسی طرح انتظامیہ و عدلیہ میں جگہ پانے کے لیے مقابلہ جاتی امتحانات میں شرکت کو ضروری تصور کرتے ہیں ۔۲۷

تکثیری معاشرے میں اسلام کی رہ نمائی سے متعلق یہ تخلیقات بہت اہم ہیں، مگر بہت سے سوالات ہنوز حل طلب ہیں۔ اس نئے فلسفے کی مکمل اسلامی تفہیم ابھی باقی ہے اور اس کے بطن سے جنم لینے والے اشکالات کا شافی جواب دینا اسلامی تحریکوں کا فوری مسئلہ ہے۔

حواشی و مراجع

۱-              ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ، اسلامی نشاتِ ثانیہ کی راہ، مرکزی کتبہ اسلامی، دہلی، اکتوبر ۱۹۷۴ء، ص ۱۶۶

۲- بہی الخولی، تحریک اور دعوت ، اُردو ترجمہ، عبید اللہ فہد فلاحی، بیروت ۱۴۰۳ھ؍ ۱۹۸۳ء، ص ۶۸

۳-            حوالۂ سابق، ص ۷۰                    ۴۔ حوالۂ سابق ،ص ۳۳۹-۳۴۰                       ۵۔ حوالۂ سابق، ص۴۰۴

۶-   جدید تعلیم گاہوں سے دینی و تعلیمی اداروں کے اشتراک کی ناگزیریت کے لیے دیکھیے راقم کا مضمون ’بدلتے ہوئے حالات میں مدارس اسلامیہ کی ترجیحات‘، ماہ نامہ تہذیب الاخلاق، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی،  جلد، ۳۵، شمارہ۴ ،ص ۳۶۔

۷-  Post-Maududismکی اصطلاح حسن الامین نے اپنے پی ایچ ڈی مقالے میں استعمال کی ہے جو انھوں نے ۲۰۱۰ء میں ارسمس یونی ورسٹی روٹر دم، نیوزی لینڈ میں پیش کیا۔ راقم کی راے ہے کہ ’مابعد اسلامیت‘ یا ’ ما بعد مودودیت‘ کی اصطلاحات نرے ابہام کے سوا کچھ بھی نہیں۔

۸-            سیّد سعادت اللہ حسینی، ’تحریک اسلامی اور فکری چیلنج‘، ماہ نامہ عالمی ترجمان القرآن لاہور، دسمبر ۲۰۱۵ء، ص ۸۴۔ انھوں نے تحریک اسلامی کے حلقوں کو دعوت احتساب دی ہے۔ ان کے بقول دنیا کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی ڈھنگ کا ’تصور جہاں‘ (ورلڈ ویو) نہیں ہے، جہاں سے کار آمد آئیڈیاز پیدا ہوسکیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ورلڈ ویو ز ہیں، لیکن آئیڈیاز نہیں ہیں۔

۹-            سید ابوالاعلیٰ مودودی، اسلامی ریاست ،  ترتیب: خورشید احمد، اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، لاہور۔

۱۰-         حوالۂ سابق، ص ۴۸۰-۴۸۱ ۔ دوسری طرف ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدیؒ نے جمہوریت کو اصلاً ملوکیت، ڈکٹیٹرشپ اور جبر و استحصال سے متصادم قرار دیا ہے ۔ انھوں نے لکھا ہے کہ:’’ یہ موقف کہ جمہوریت فی نفسہ طاغوت ہے، حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ [جمہوری] نظام، عوام کے فیصلے اور اختیار سے مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں جمہوری خلافت بھی بن سکتا ہے‘‘۔ ’ملاحظہ کیجیے، فضل الرحمٰن فریدی، اقامت دین کا سفر، ہندستانی تناظر میں، مرکزی مکتبہ اسلامی، دہلی، نومبر ۱۹۹۷ء، ص ۴۹

۱۱-         سید ، قطب، معالم فی الطریق، دار الشروق، بیروت ۱۹۶۸ء، ص ۸  ۱۲ (جادہ و منزل، مترجم: خلیل احمد حامدی، ناشر، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور)۔                         ۱۲- حوالۂ سابق، ص ۹

۱۳-         عبید اللہ فہد فلاحی اور محمد صلاح الدین عمری، سید قطب شہیدؒ: حیات و خدمات، منشورات، لاہور، ۱۹۹۹ء، صفحات۴۰۰۔ سلیم منصور خالد،اسلام کی آواز، سیّد قطب شہید، منشورات، لاہور، ۲۰۱۵ء

۱۴-         اخوان المسلمون کی تاریخ جاننے کے لیے مطالعہ کیجیے راقم کی کتاب: اخوان المسلمون: تزکیہ، ادب، شہادت ، القلم پبلی کیشنز ،سری نگر، ۲۰۱۱ء، صفحات: ۳۰۲۔     ۱۵- حوالۂ سابق، ص ۱۰۔ ۱۶

۱۶-         الہضیبی، حسن بن اسماعیل، دعاۃ لا قضاۃ، قاہرہ، ۱۹۷۷ء، ص ۵۔ اُردو ترجمہ: داعی کا منصبِ حقیقی، مترجم: گل زادہ شیرپائو،ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور، ۲۰۰۹ء۔

۱۷-ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی، ’تکثیری معاشرہ اور ہمارا مطلوبہ رویہ‘، [ترجمانی: عرفان وحید]، ماہ نامہ رفیق منزل نئی دہلی، اکتوبر ۲۰۱۳ء، قسط پنجم، ص۲۸۔ انھوں نے پرہیزگاری کے اس موہوم تصور پر تنقید کی ہے  جس کے تحت مسلمانوں کا ایک طبقہ انسانوں کی تکالیف کے سدّباب کی چھوٹی کوششوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا اور یہ سوچتا ہے کہ اگر اللہ پر ایمان نہ لانے کی بنیادی برائی کو ختم کر دیا جائے تو تمام انسانی مصائب خودبخود ختم ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر فریدی کہتے ہیں: ’’ شریعت کی یہ تعبیر یکسر غیر مطلوب ہے۔ یہ سوچ انفرادی و اجتماعی معاشرتی تبدیلی کے محرکات کے عدم فہم کی بھی چغلی کھاتی ہے‘‘۔ حوالۂ سابق، ص ۲۹۔

۱۸-         راشد الغنوشی، The Participation of a Islamist in a Non-Islmaic Government، لندن ۱۹۹۳ء، ص ۵۱، ۶۳   ۱۹-  حوالۂ سابق، ص ۶۵

۲۰-ابن ہشام، سیرت النبیؐ، [تحقیق: محمد محی الدین عبد المجید]، دار الفکر، القاہرہ، ۱۹۳۷ء، الجزالاول، ص۳۴۳

۲۱- سید ابو الاعلیٰ مودودی، سیرت سرور عالم، ادارۂ ترجمان القرآن لاہور، مرتبین: نعیم صدیقی، عبد الوکیل علوی، اشاعت سوم، دسمبر، ۱۹۸۰ء، جلد اول، ص ۷۰۵- ۷۰۶۔

۲۲- راشد الغنوشی، حوالۂ سابق، ص ۵۸

۲۳- سلطان احمد اصلاحی ، ’مسلم اقلیتوں کا مطلوبہ کردار‘، فکرو آگہی، اعظم گڑھ، ۲۰۰۲ء، ص ۱۰۱  ۲۴۔

۲۴- حوالۂ سابق، ص ۱۰۲ ۲۵۔             ۲۵- حوالۂ سابق، ص ۱۳۰                     ۲۶- حوالۂ سابق، ۱۵۰

۲۷-حوالۂ سابق، ص ۱۵۰۔ ۱۵۷ ، تکثیری معاشرے میں مسلمانوں کے کردار پر ایک عالمانہ تحقیق معروف سیرت نگار پروفیسر محمد یاسین مظہر صدیقی نے سپردِ قلم کی ہے: مکی اسوۂ نبویؐ ، مسلم اقلیتوں کے مسائل کا حل، اسلامک بک فائونڈیشن، نئی دہلی، اپریل ۲۰۰۵ء۔

ہر موسم کے اپنے پھل اور ہر زمانے کے اپنے ’نمونے‘ (ماڈل) ہوتے ہیں۔ ہمارے موجودہ زمانے کا نمونہ ’بیانیہ‘ سے منسوب ہے۔ خورشید ندیم صاحب نے ۱۵؍اپریل ۲۰۱۷ء کو ایک غیر معروف مصنف کی شرانگیزی کو ایجابی طور پر اپنے ’بیانیہ‘ میں پیش کیا اور ایمن الظواہری سے منسوب قول دہرایا: ’’سید قطب کی کتابیں وہ بارود تھیں، جنھوں نے امت میں جہادی سوچ پیدا کی… [سید قطب] کی کتب اور رسائل میں بہت سے مقامات پر تکفیر کی تپش محسوس ہوتی ہے‘‘۔

یہ نقل کرنے کے بعد ندیم صاحب نے لکھا ہے: ’’میں اگر یہ پڑھ کر چونکا تو اس کا سبب سید قطب کے خیالات نہیں ہیں۔ [ان] کی کتاب معالم فی الطریق  کا اردو ترجمہ میں نے بچپن میں پڑھا [تھا، جس] کے تعارف میں لکھا ہے، جب فوجی عدالت نے سید قطب سے پوچھا کہ اُن کے اور مولانا مودودی کی دعوت میں کیا فرق ہے؟ سید صاحب نے جواب دیا ’لافرق‘ (کوئی فرق نہیں ہے)‘‘۔ موصوف نے اپنے ’بیانیے‘ میں زور پیدا کرنے کے لیے لکھا ہے: ’’میں سید قطب کے ان خیالات سے بہت پہلے سے واقف ہوں۔ یہ بحث بھی نئی نہیں ہے کہ دور جدید میں جہادی اور تکفیری سوچ کے بانی سید قطب ہیں… اخوان کی فکر اور تنظیم ہی سے دوسری انتہا پسند تنظیمیں وجود میں آئیں، جو مسلمان حکمرانوں کو مرتد قرار دیتی ہیں، اور ان کی تکفیر کرتی ہیں۔دیکھیے، اب جماعت اسلامی کا کیا موقف سامنے آتا ہے؟ وہ بھی خود کو اس سوچ سے الگ کرتی ہے یا پھر بدستور ’لافرق‘ کے نقطۂ نظر ہی کو اختیار کرتی ہے‘‘۔ (روزنامہ دنیا، ۱۵؍اپریل۲۰۱۷ء)

درحقیقت یہ کالم ایک چارج شیٹ سے بڑھ کر ایک تہمت ہے، جس میں یہ متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ فی زمانہ مسلمانوں سے منسوب جتنی قتل و غارت گری ہورہی ہے، اس کا منبع سیّد قطب شہید اور اخوان المسلمون کی فکر ہے۔ چوںکہ سیّدقطب نے اپنے آپ کو مولانا مودودی کا ہم خیال قرار دیا ہے، اس لیے جماعت اسلامی والے اس ’مذموم سوچ‘ سے اپنی علیحدگی کی وضاحت کریں ورنہ وہ بھی اس قتل و غارت گری کے ذمہ دار ہیں۔

کسی فرد کے لکھنے اور بولنے پر تو کوئی قدغن نہیں لگا سکتا۔ یہ مشاہدے کی بات ہے کہ موصوف اپنے ہر اس کالم میں، جو وہ اہلِ مذہب کی ’اصلاح‘ کے جذبے سے لکھتے ہیں، ان میں اِدعا کی کثافت اور سرزنش کا انداز پایا جاتا ہے، اور اکثر احساسِ ذمہ داری سے بے نیاز ہو کر لکھا جاتا ہے۔ افسوس کہ انھوں نے اس تحریر میں ہوشیاری بلکہ سفاکی سے، مغرب کے اُس بیانیے کو دُہرا ڈالا ہے، جسے وہ گذشتہ ۲۵برس سے ہر آن مسلم دانش کے سرتھوپے چلے جا رہا ہے، اور سید قطب شہید کو حالیہ زمانے کی تمام ’دہشت گردی کا مرکز‘ بنا کر پیش کر رہا ہے۔

مولانا مودودی اور سیّد قطب شہید کے حوالے سے پہلی بات یہ ذہن نشین کر لیجیے کہ ان دونوں حضرات نے کبھی تکفیر اور کفرسازی کا اسلوب اختیار نہیں کیا، بلکہ اس سے ہمیشہ پہلو بچایا ہے۔ کیا کالم نگار کا کوئی ہم نوا یہ بے بنیاد دعویٰ کرسکتا ہے کہ مولانا مودودیؒ نے تکفیری فکر کی ترویج  یا تائید کی ہے؟ جس طرح سید مودودیؒ کے بارے میں برعظیم جنوبی ایشیا کا کوئی باشعور شخص یہ دعویٰ تسلیم نہیں کرسکتا، بالکل اسی طرح سید قطب شہید کا لٹریچر ان الزامات کا جواب خود دیتا ہے۔

ذرا ماضی میں جھانکتے ہیں:یہ ۱۹۳۶ء کی بات ہے کہ چند جیّد علما کی طرف سے مولانا شبلی نعمانی اور مولانا حمیدالدین فراہی کے خلاف کفر کا فتویٰ شائع ہوا۔ مولانا مودودی نے تڑپ کر اس کے جواب میں لکھا: ’’مومن کو کافر کہنے میں اتنی ہی احتیاط کرنی چاہیے، جتنی کسی شخص کے قتل کا فتویٰ صادر کرنے میں کی جاتی ہے، بلکہ یہ معاملہ اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ کسی کوقتل کرنے سے کفر میں مبتلا ہونے کا خوف تو نہیں ہے، مگر مومن کو کافر کہنے میں یہ خوف بھی ہے کہ اگر فی الواقع وہ شخص کافر نہیں ہے، اور اس کے دل میںذرہ برابر بھی ایمان موجود ہے، تو کفر کی تہمت خود اپنے اوپر پلٹ آئے گی۔ پس، جو شخص اللہ تعالیٰ کا خوف اپنے دل میں رکھتا ہو، اور جس کو اس کا کچھ بھی احساس ہو… وہ کبھی کسی مسلم کی تکفیر کی جرأت نہیں کر سکتا… جو شخص، مسلمان کی تکفیر کرتا ہے، وہ دراصل اللہ کی اُس رسی پر قینچی چلاتا ہے، جس کے ذریعے سے مسلمانوں کو جوڑ کر ایک قوم بنایا گیا ہے… اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ علماے دین میں کافروں کو مسلمان بنانے کا اتنا ذوق نہیں، جتنا مسلمانوں کو کافر بنانے کا ذوق ہے‘‘… (ماہ نامہ ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۳۶ء)

ہم دیکھتے ہیں، سیّد قطب شہید نے سہ طرفہ جبر، یعنی: مغربی سامراجی سازشیوں،اشتراکیت کے پرچم برداروں اور عرب قوم پرستی کے نشے میں مدہوش عرب فوجی حاکموں کا جبر دیکھا اور اس کا سامنا بھی کیا، مگر اس کے باوجود سید قطب نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ: ’’میرے ہم نواؤ، اُٹھو اور سوشلسٹ عرب قوم پرست ڈکٹیٹر ناصر کی حکومت اور اس کے اہل کاروں کو قتل کر ڈالو‘‘۔ نہ یہ کہا کہ: ’’جہاں کوئی امریکی یا یہودی نظر آئے، اسے پھڑکا دو‘‘۔ نہ انھوں نے اُس جاہلیت کوجو اشتراکیت، سرمایہ دارانہ مادہ پرستی اور نسلی قوم پرستی کے مرکب سے سرطان کا پھوڑا بن چکی ہے اور اس نے نوعِ انسانی کو کرب میں مبتلا کررکھا ہے، اس کے بارے میں کہا کہ: ’’اِس کے فرستادوں کو اڑا دو‘‘۔ ہرگز نہیں، بلکہ انھوںنے اس کے لیے دعوت، تنظیم اور اخلاقی تربیت ہی کو بنیاد بنانے کی دعوت دی۔

دوسری طرف مولانا مودودی نے اپنے عزیز از جاںکارکنوں [اللہ بخش ۱۹۶۳ء لاہور، محمدعبدالمالک ۱۹۶۹ء ڈھاکہ ، ڈاکٹر نذیراحمد۱۹۷۲ ء ڈیرہ غازی خان] کی لاشیں اُٹھا کر بھی بار بار یہی تلقین کی: ’’ہم نے کسی صورت تشدد کا راستہ اختیار نہیںکرنا، دعوت کا راستہ ہی اصلاح اور تبدیلی کا راستہ ہے۔ ہم نے کسی سازش کا حصہ نہیں بننا اور آئینی و جمہوری راستے ہی سے منزل کی طرف گامزن رہنا ہے‘‘۔ مولانا مودودی نے ۹مئی ۱۹۶۳ء کو مکہ مکرمہ میں عرب نوجوانوں سے خطاب میں ہدایت فرمائی تھی: ’’اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے‘‘ (ماہ نامہ ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۳ء، تفہیمات، سوم، ص ۳۶۲)۔جماعت اسلامی تو اگست ۱۹۴۱ء میں بنی، لیکن مولانا مودودی کی وہ تحریریں، جو انھوں نے اپنے دورِ نوجوانی میں اخبارات مسلم اور الجمعیۃ میں ۱۹۲۲ء سے ۱۹۲۸ء کے زمانے میں لکھیں، ان میں بھی تشدد کے عمل کی تائید و تحسین نہیں کی، بلکہ گرفت اور مذمت کی۔

کالم نگار نے جماعت اسلامی کو اپنا ’موقف واضح‘ کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے۔ عرض یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی تاریخ، عمل اور اس کا دستور اس پر واضح ہیں۔ ’دستور جماعت اسلامی پاکستان‘ کی دفعہ ۵ (شق۳،۴) میں درج ہے: ’’جماعت اپنے پیش نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی۔ جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کی طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی‘‘۔(دستور، ص ۱۵)

اسی طرح سیّد قطب کے فکری وارثوں، یعنی الاخوان المسلمون نے کبھی بغاوت اور تکفیر اور قتل و غارت کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ اخوان کے مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع کا یہ تاریخ ساز جملہ اخوانی فکر کا حقیقی عکاس ہے، جو انھوں نے اگست ۲۰۱۳ء کو قاہرہ کے میدان رابعہ میں فرمایا تھا کہ: ’’ہم پُر امن ہیں، پُرامن رہیں گے، اور ہمارا پُرامن رہنا تمھاری گولیوں اور توپوں سے زیادہ طاقت ور ثابت ہوگا‘‘۔ مرشد عام اور ان کے ۴۵ ہزار جاں نثار آج بھی، مصر کی جیلوں میں صبر و ثبات کا نشان بن کر ہمارے معذرت خواہی کے دل دادہ دانش وروںکی تخیل آفرینی کا عملی جواب ہیں۔

سیّد قطب شہید نے اپنی کتاب معالم فی الطریق  میں یہ اصولی بات بیان کی ہے: ’’اسلام، جاہلیت کے ساتھ نیمے دروں نیمے بروں نوعیت کی کوئی مصالحت قبول نہیں کرسکتا۔ معاملہ خواہ اس کے تصور اور نظریے کا ہو اور خواہ اس تصور اور نظریے پر مرتب ہونے والے قوانینِ حیات کا۔ اسلام رہے گا یا جاہلیت‘‘ (اردو ترجمہ: جادہ و منزل، ص ۳۶۴-۳۶۵)۔ یہ اصولی بات سیّدقطب نے قرآن اور آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تتبّع میں کہی ہے، جس کی بازگشت صحابہؓ اور صلحاؒ کے ہاں بھی سنائی دیتی ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے: ’’اور حق اور باطل کو گڈمڈ نہ کرو‘‘ (البقرہ۲: ۴۲)۔ مزید فرمایا: ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ اس کو سارے ادیان پر غالب کردے، ان مشرکوں کے علی الرغم‘‘ (التوبہ۹:۳۳)۔ یہ ابدی حقیقت قرآن میں موجود ہے تو سیّدقطب اپنی شہادت کے ۵۰سال بعد بھی کیوں گردن زدنی ہیں؟

اگر ایمن ظواہری نے اپنی صواب دید پر یہ کہا ہے کہ انھوں نے سیّد قطب کی تحریروں سے اپنی منزل کا سراغ پایا ہے، تو کسی بھی فرد کی جانب سے ایسا من مانا دعویٰ کوئی انوکھی بات نہیں۔ ماضی میں خوارج نے ایک منفی رول ادا کیا تھا اور آج منکرینِ حدیث یا درست لفظوں میں امریکی مرضی کے مطابق ’اسلام پیش کرنے والے‘ بھی قرآن ہی کو اپنے لیے ’ذریعۂ رہنمائی‘ قرار دینے کا دعویٰ کرکے اُمت کے سینے پر مونگ دَل رہے ہیں۔ تو اب کیا یہ کہا جائے گا کہ خارجیوں اور منکرینِ  حدیث کی جدید ترین قسموں کا ذمہ دار (نعوذباللہ) قرآن ہے؟ اگر ایک فرد، سیّدقطب شہید یا علامہ محمد اقبال یا مولانامودودی کی تحریروں سے وہ شگوفہ نکالتا ہے، کہ جس پودے کو کبھی انھوں نے پانی دیا ہی نہیں تھا، تو وہ، ایسے کم فہم فرد یا شرانگیز گروہ کی حرکات کے کیسے ذمہ دار قرار پاتے ہیں؟

معذرت خواہ دانش ور، نہ تو سیّد قطب شہید کے عہد کے جبر کو جان سکتے ہیں، نہ وہ زمان و مکان اُن کے تجزیے کی گرفت میں آسکتے ہیں، جن میں انھوں نے پھانسی کے پھندے کو چوم کر بھی اللہ اور اس کے رسولؐ سے وفاداری کا ثبوت دیا۔ شکوک و شبہات کی فصلیں بونے والے قلم کار، بھلا نہتے کارکنوں کی قتل و غارت گری کا ادراک کیسے کرسکتے ہیں؟ یک قطبی امریکی سامراجی عہد میں سانس لینے والے ’مغرب زدہ علما‘ کے لیے انسانی حقوق، امن، عدل، رواداری کے کاغذی الفاظ میں ’بڑی قوت‘ ہے، مگر ناصر اور سیسی کی جیلوں میں سسکتی انسانیت اور صلیبوں پر لٹکتے لاشے اور جیل میں کتوں کے جبڑوں میں بھنبھوڑی جاتی عفت مآب خواتین کی کوئی آوازکانوں سے نہیں ٹکراتی۔

ہمارے  ان پارا صفت قلم کاروں کو نہ توسامراجی سلطنتوں میں وسعت لانے والی مغربی سامراجی طاقتیں یاد آتی ہیں ، نہ اقوامِ متحدہ کی بارگاہ سے نازل ہونے اور قتل و غارت مسلط کرنے والی خونیں قراردادیں متوجہ کرتی ہیں، اورنہ ڈیزی کٹر اور بموں کی ماں یاد آتی ہے۔یاد آتا ہے تو بس یہ کہ کسی طرح شرق و غرب کے غاصبوں کو چیلنج کرنے والی کوئی آہ، چیخ بن کر فضا کو نہ چیر دے۔

یہی کالم نگار اس سے قبل متعدد بار لکھ چکے ہیں کہ ’سیاسی اسلام‘ یا ’اسلام کی سیاسی تعبیر موجودہ المیے کی ذمہ دار ہے،سوال پیدا ہوتا ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ دو عشروں سے پہلے انھی اصحابِ قلم کی تحریروں نے وہ قیامت کیوں نہ ڈھائی، جو آج ان کے سر تھوپی جارہی ہے؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان مظلوم مفکرین نے نہ وہ ’نظریہ‘ دیا تھا اور نہ وہ ’تنظیمیں‘ بنائی تھیں، جنھیں آج ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔ دراصل یہ دانستہ مغالطہ انگیزی اس حقیقی مجرم اور سامراج کو بچانے کی یاوہ گوئی ہے، جس سے اصل قاتل سے توجہ ہٹاکر قتل اور آلۂ قتل کو، خود مقتول کے ذمے لگایا جارہا ہے۔

اہلِ صدق و صفا جانتے ہیں کہ ایسی وعدہ معاف دانش کی عمر مچھر کی زندگی سے زیادہ حقیر ہے۔ ہم جیسے لوگوں کے لیے اگرچہ سیدقطب شہید دل اور سیّد مودودی دماغ کا درجہ رکھتے ہیں، لیکن ہم ان کی باتوں کو آخری سند نہیں مانتے، یہ مقام تو صرف کلام اللہ اور سنت اور حدیث رسولؐ اللہ کو حاصل ہے۔

’’الزام لگایا جا رہا ہے کہ طیب اردوان آمر بننا چاہتا ہے۔ اردوان ایک فانی انسان ہے، اسے تو یہ تک نہیں معلوم کہ وہ ۱۶؍اپریل تک زندہ بھی رہتا ہے یا نہیں۔ ہم ملکی نظام میں دُور رس اصلاح لانا چاہتے ہیں۔ الزام لگانے والوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آمر ووٹ کی پرچیوں اور عوام کی حقیقی راے کے ذریعے نہیں آیا کرتے‘‘___ ترک صدر رجب طیب اردوان ۱۶؍اپریل کو ہونے والے ریفرنڈم کے خلاف جاری پروپیگنڈے کا جواب دے رہے تھے۔ یہ دن اب ترک تاریخ کے اہم ترین دنوں میں شامل ہوگیا ہے۔ اس روز ۸۰ فی صد سے زائد عوام نے دستوری ترامیم کے حق یا مخالفت میں ووٹ دیتے ہوئے بالآخر پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ان ترامیم کی تفصیل سے پہلے آیئے ذرا اس جوہری تبدیلی کا پس منظر تازہ کرلیں۔

۹۳سال قبل مصطفیٰ کمال اتاترک نے خلافت ِ عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے سیکولر ترک ریاست کی بنیاد رکھی تھی۔ اس نے اذان، نماز اور قرآنِ کریم سمیت تمام دینی شعائر پر پابندی عائد کر دی۔ اس نے اپنی پارٹی کے علاوہ کوئی دوسری سیاسی جماعت بنانے پر بھی پابندی لگادی۔ اتاترک کے اس نظام اور پالیسیوں کے خلاف سب سے پہلی بغاوت اس کی اپنی پارٹی کے ایک رکن اسمبلی عدنان مندریس اور اس کے ساتھیوں نے کی۔ انھوں نے اتاترک کی جماعت سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ۱۹۴۵ء میں اپنی الگ ’ڈیموکریٹک پارٹی‘ (DP)بنا لی۔ ۱۹۵۰ء کے انتخابات میں ان کی پارٹی نے بھاری اکثریت حاصل کرتے ہوئے اذان، نماز اور قرآن کی تلاوت پر لگی پابندی ختم کر دی اور ملکی تعمیروترقی کے سفر میں اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ ان کے ۱۰سالہ دورِاقتدار کے بعد ۲۷مئی ۱۹۶۰ء کو ۳۸ فوجی افسروں نے ان کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے ۲۳۵ جرنیلوں سمیت ساڑھے پانچ ہزار فوجی افسر ملازمت سے فارغ کر دیے۔ صدر جلال بایار کو عمرقید اور وزیراعظم عدنان مندریس کو تین ساتھیوں سمیت دُوردراز جزیرے میں لے جاکر ۱۶ستمبر ۱۹۶۰ء کو پھانسی دے کر وہیں دفن کر دیا (۱۷؍اپریل ۱۹۹۰ء کو وزیراعظم ترگت اوزال نے ان کا جسد ِ خاکی وہاں سے لاکر استنبول میں دفن کیا۔ اسمبلی نے باقاعدہ قانون سازی کرتے ہوئے انھیں شہید ِ وطن قرار دیا اور انھیں دی گئی سزاے موت کو غلط قرار دیا)۔

ظلم و جبر، محلاتی سازشوں، پے درپے فوجی انقلابات اور اتاترک ذہنیت کے ہرمخالف پر رجعت پسندی و شخصی اقتدار کے الزامات پر مشتمل ترک تاریخ کے مزید کئی ابواب رقم کیے جانے لگے۔ اتاترک سے لے کر آج تک کے ۹۳سالہ عرصے میں ۶۵ حکومتیں بنائیں اور ختم کی گئیں، یعنی ہرحکومت کی اوسط عمر تقریباً ۱۷مہینے رہی۔ عدنان مندریس، ترگت اوزال اور طیب اردوان کے عہد ِ حکومت نکال دیے جائیں تو، فی حکومت یہ عرصہ ایک سال سے بھی کم رہ جائے۔ کئی بار دستوری ترامیم کی گئیں۔ ۱۹۶۱ء اور ۱۹۸۲ء میں ان ترامیم کے لیے عوامی ریفرنڈم بھی کروائے گئے لیکن ملک کو ہمیشہ کسی نہ کسی بحران کا سامنا رہا۔ مختلف قائدین نے اس پورے نظام کو تبدیل کرنے کی خواہش و کوشش کی لیکن کسی کو بھی کامیاب نہ ہونے دیا گیا۔ خود صدر طیب اردوان کو گذشتہ سال جولائی میں خونیں فوجی انقلاب کا نشانہ بنایا گیا۔ ۲۴۰ بے گناہ ترک شہری شہید اور سیکڑوں زخمی کر دیے گئے۔ ربِ ذوالجلال کی حفاظت نہ ہوتی تو اردوان بھی کسی صورت بچ نہ سکتے۔

اس تناظر میں صدر طیب اردوان نے اعلان کیا کہ وہ ترک جمہوریہ کے ۱۰۰سال پورے ہونے تک ترکی کو پھر سے دنیا کی کامیاب ریاست بنادیں گے۔ ان کے عہد ِ اقتدار میں ہونے والی بے پناہ ترقی اور حالیہ دستوری ترامیم ان کے اسی خواب کا حصہ ہیں۔ ان ترامیم میں ۱۸شقیں شامل ہیں۔ اس کا اہم ترین پہلو عوام کے براہِ راست ووٹ کے ذریعے منتخب ہونے والے     صدرِ مملکت کو سربراہِ حکومت بنانا ہے۔ پارلیمنٹ کو اس کے اصل کام، یعنی حکومت کی کارکردگی پر   نگاہ رکھنے اور قانون سازی کرنے کے لیے مخصوص کر دیا گیا ہے۔ یہ جوہری تبدیلی ترکی کی تاریخ سے جڑی ہوئی ہے۔ اسی تاریخی ربط کو واضح کرتے ہوئے ریفرنڈم کے اگلے روز صدر اردوان نے استنبول میں مدفون صحابیِ رسولؐ حضرت ابوایوب انصاریؓ کی قبر پر فاتحہ خوانی کی، جو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش خبری کی روشنی میں فتح قسطنطنیہ کی کوششوں میں شریک ہوکر شہادت کے رُتبے پر فائز ہوئے۔ ان کے بعد وہ فاتح قسطنطنیہ اور خلافت عثمانیہ کے بانی محمد الفاتح کی قبر پر گئے۔ پھر پھانسی پانےوالے سابق وزیراعظم عدنان مندریس، سابق صدر ترگت اوزال اور سابق وزیراعظم نجم الدین اربکان کی قبر پر گئے۔ ان کی یہ فاتحہ خوانی اس بات کی علامت تھی کہ جس تبدیلی کے لیے آپ سب کوشاں رہے، آج ہم اس کا عملی آغاز کرچکے ہیں۔

حالیہ ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ کے ارکان کی تعداد ۵۵۰ سے بڑھا کر ۶۰۰ کردی گئی ہے۔ اس طرح ارکان اسمبلی کا حلقۂ انتخاب مختصر کرتے ہوئے انھیں عوامی مسائل حل کرنے کے زیادہ مواقع حاصل ہوں گے۔ چوں کہ اب پارلیمنٹ کو تمام تر سیاسی جوڑتوڑ سے پاک کر دیا گیا ہے، اس لیے اُمید کی جاسکتی ہے کہ ارکانِ اسمبلی کی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں بہتر کارکردگی کا موجب بنیں گی۔پارلیمنٹ صدر، اس کے نائبین اور وزرا کا احتساب کرسکتی ہے۔ پارلیمنٹ کی طرف سے صدر کے مواخذے کے اعلان کے بعد صدرِ مملکت نئے انتخابات کا اعلان بھی نہیں کرسکے گا۔ انتہائی ناگزیر حالات میں اگر صدر اسمبلی توڑنے اور نئے انتخابات کا اعلان کرنا چاہے گا، تو اسے صرف پارلیمانی انتخابات ہی نہیں، صدارتی انتخابات بھی دوبارہ کروانا ہوں گے، یعنی خود بھی جانا ہوگا۔ حالیہ ترامیم کے مطابق صدر اور پارلیمنٹ ایک ہی روز ہونے والے عام انتخابات کے ذریعے منتخب ہوا کریں گے۔ واضح رہے کہ حالیہ پارلیمانی اور صدارتی مدت کو ۲۰۱۹ء میں ختم ہونا ہے اور ابھی سے آیندہ انتخابات کی تاریخ طے کردی گئی ہے جو ۳نومبر ۲۰۱۹ء کو ہوں گے۔ ان ترامیم کے ذریعے تمام فوجی عدالتیں ختم کر دی گئی ہیں۔ ایسی عارضی عدالتوں کا قیام صرف حالت ِ جنگ میں کیا جاسکے گا۔

حالیہ ترامیم کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اس کی ۱۸ شقوں میں سے ۱۶شقیں ۳نومبر ۲۰۱۹ء کے انتخابات کے بعد نافذالعمل ہوں گی۔ فی الحال صرف دو شقوں پر عمل درآمد ہوگا۔ ایک تو یہ کہ صدرِ مملکت اگر چاہے تو وہ کسی سیاسی پارٹی کا رکن بن سکتا ہے۔ گویا یہ منافقت ختم کر دی گئی کہ صدرِ مملکت عملاً تو اپنی پارٹی کا مدار المہام تک رہتا ہے، لیکن بظاہر یہ اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ اس کا کسی پارٹی سے تعلق نہیں۔ سیاسی وابستگی کی اجازت کا مطلب ہے کہ اب صدر اردوان اپنی  جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے رکن بلکہ سربراہ بھی بن سکیں گے۔ دوسری شق جس پر فوری عمل درآمد ہوگا وہ عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی سے متعلق ہے۔ اس وقت بھی تمام ججوں کا تعین صدرِمملکت کی منظوری ہی سے ہوتا ہے، لیکن آیندہ صدر کو ۱۰ میں سے ۴ جج اپنی صواب دید پر مقررکرنے کا اختیار ہوگا۔

ایک طرف طیب اردوان ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ میں ایک فانی انسان ہوں جسے اپنے کل کی خبر نہیں، دوسری طرف ان کے مخالفین کا الزام ہے کہ اردوان نے ۲۰۲۹ء تک اقتدار پر قبضہ کرلیا ہے۔ حقیقت دیکھیں تو الزام لگانے والوں کی فہم و فراست پر شک ہونے لگتا ہے۔ صدرِمملکت کا عہدہ پانچ سال کا ہوتا ہے۔ حالیہ ترامیم کے مطابق وہ زیادہ سے زیادہ دو بار منتخب ہوسکے گا۔  الزام لگانے والے گویا ابھی سے اعترافِ شکست کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ۳نومبر۲۰۱۹ء کو ہونے والے انتخابات میں طیب اردوان جیت جائیں گے اور پھر پانچ سال بعد ۲۰۲۴ء میں بھی وہی صدر منتخب ہوں گے، اور اس طرح ۲۰۲۹ء تک وہ اقتدار پر براجمان رہیں گے۔

طیب اردوان فرشتہ نہیں، دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان ہے۔ غلطیاں کرتا بھی ہے اور کربھی سکتا ہے لیکن ان پر آمریت کا الزام لگانے والے مغرب کا حال ملاحظہ ہو۔ ناکام فوجی بغاوت کے مرکزی کردار اب بھی امریکا اور مختلف یورپی ممالک میں براجمان ہیں۔ ترک حکومت کے مطابق فوجی بغاوت میں ناکامی کے بعد اب اندرونی خلفشار کی لہر کے پیچھے بھی ان کا واضح کردار ہے۔ مغرب جو خود کو جمہوریت اور حقوقِ انسانی کا ہیرو سمجھتا ہے، حالیہ دستوری ریفرنڈم کے موقعے پر یورپ میں مقیم ترک عوام کو اس کے حق میں بات کرنے سے روک دیا گیا۔ خود ترک وزیرخارجہ کا جہاز ہالینڈ میں اُترنے سے روک دیا گیا تاکہ وہ اپنے شہریوں سے ریفرنڈم کے بارے میں بات نہ کرسکیں۔ ترک خاتون وزیر کار کے ذریعے ہالینڈ جانے میں کامیاب ہوگئیں، تو ترک قونصل خانے سے ۵۰۰ میٹر کے فاصلے پر انھیں روک کر زبردستی واپس بھجوا دیا گیا۔ یورپ میں تقریباً ۴۰لاکھ ترک شہری رہتے ہیں۔ خدا کی شان دیکھیے کہ یورپ کے تمام منفی ہتھکنڈوں کے باوجود بیرونِ ملک مقیم ترک شہریوں کی غالب اکثریت نے دستوری ترامیم کے حق میں راے دی۔

اب ایک بار پھر یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت پر بحث کی جارہی ہے۔ ترکی ہی نہیں خود اسلام اور مسلمانوں کو اعتراضات کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یورپ کے کئی اہم ممالک میں اس وقت انتخابی عمل جاری ہے۔ تقریباً ہر جگہ انتہاپسند سیاسی جماعتیں شدومد سے اسلام پر الزام تراشی کرر ہی ہیں۔

جرمنی میں اپنے آپ کو ’متبادل‘ کے طور پر پیش کرنے والی جماعت کے رہنما بیاٹریکس فون شڑوگ کا فرمانا ہے کہ’’اسلام کوئی مسیحت کی طرح کا باقاعدہ دین نہیں بلکہ چند افکاروخیالات کا مجموعہ ہے جو ریاست کو زبردستی مسلمان بنانا چاہتا ہے۔ اسلام جرمنی کے لیے ایک سنگین خطرہ اور جرمنی کے دستور سے متصادم ہے۔ فرانس کے سابق صدر نیکولا سرکوزی کا ارشاد ہے کہ ’’یورپ کسی طرح ایسے ملک کو اپنا حصہ نہیں بناسکتا جو ۷۰ملین مسلمانوں پر مشتمل ہے‘‘۔ جرمن چانسلر میرکل، گاہے مسلمانوں سے اظہارِ ہمدردی کرتی دکھائی دیتی ہیں، یورپی یونین میں ترک رکنیت کے بارے فرماتی ہیں کہ ’’ہم ترکی کو رکنیت نہیں دیں گے لیکن اس سے مذاکرات بھی ختم نہیں کریں گے‘‘۔ گویا وہی پالیسی جو مقبوضہ فلسطین میں نیتن یاہو یا اس کے پیش رو صہیونی رہنمائوں کی رہی کہ فلسطینیوں کو لاحاصل مذاکرات میں اُلجھائے رکھو اور ان کا قتل عام بھی جاری رکھو۔

اپنے عوام کی تائید اور ملک میں ایک مستحکم و مضبوط سیاسی نظام کی بنیاد رکھنے کے بعد صدر طیب اردوان نے بھی دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضرورت پڑی تو ایک اور ریفرنڈم کے ذریعے عوام کی راے معلوم کرنے کے بعد ہم یورپی یونین کے ساتھ ان مذاکرات کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کردیں گے۔ اس صورتِ حال پر کئی یورپی دانش وروں نے تشویش کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔ فرانس کے انسٹی ٹیوٹ براے عالمی تعلقات کے نائب صدر دیدیہ پیلیون کا کہنا ہے کہ ’’یورپی یونین ایک سیاسی پلیٹ فارم ہے، کوئی مسیحی پلیٹ فارم نہیں۔ یورپی یونین کی پارلیمنٹ سے ایسی آوازیں اُٹھنا کہ ہمیں ترکی کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ منقطع کر دینا چاہیے، یورپی ریاستوں کے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے۔ ان لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقت ترکی نہیں بلکہ یورپ ایک ’مرد بیمار‘ کی حیثیت اختیار کر رہا ہے۔ ایک مضبوط ترکی کے ساتھ رابطہ منقطع کرنا یورپ کی سنگین سیاسی حماقت ہوگی‘‘۔

اسی تناظر میں صدر طیب اردوان کا یہ بیان بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ ’’معاہدۂ لوزان پر نظرثانی کی ضرورت ہے‘‘۔واضح رہے کہ ۲۴جولائی ۱۹۲۳ء کو سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزان میں ہونے والے اس معاہدے میں خلافت ِ عثمانیہ کا ترکہ تقسیم کرتے ہوئے ترکی کو اس کے بہت سارے اعصابی مراکز سے محروم کر دیا گیا تھا۔ اس معاہدے میں ایک طرف ترکی تھا اور دوسری جانب برطانیہ، فرانس، اٹلی، جاپان اور یونان سمیت کئی ممالک۔ ۱۴۳ شقوں پر مشتمل معاہدے میں خلافت ِ عثمانیہ کا عملاً خاتمہ کرتے ہوئے اسے اس کی حالیہ سرحدوں میں مقید کر دیا گیا۔ اس کے اہم بحری راستوں اور سمندری علاقوں پر عملاً اس کا اختیار ختم کر دیا گیا تھا۔ باسفورس اور مرمرہ جیسی انتہائی اہم بحری گزرگاہوں کو بہرصورت اور مفت کھلا رکھنے کا عہد کروا لیا گیا تھا۔ اگرچہ سوشل میڈیا میں گردش کرنے والے ان دعوئوں کی تو کوئی تاریخی سند نہیں کہ معاہدۂ لوزان میں ترکی پر تیل کی تلاش اور کھدائی پر ۱۰۰سال کے لیے پابندی لگادی گئی تھی جو ۲۰۲۳ء میں ختم ہوجائے گی۔ لیکن صدر اردوان کے الفاظ میں ہمیں ۱۹۲۰ء کے معاہدہ ’سیفر‘ کی موت دکھلا کر ۱۹۲۳ء کے معاہدۂ لوزان کے دائمی اپاہج پن پر راضی کرلیا گیا۔ اردوان کی طرف سے اس معاہدے کا ذکر بنیادی طور پر اندرون و بیرون کے لیے ایک پیغام ہے کہ اس وقت ایک بار پھر خطے میں جو نئے ’معاہدہ ہاے لوزان‘ تیار اور نافذ کیے جارہے ہیں، عراق اور شام کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ترکی سے بھی کئی علاقے کاٹنے کی کوششیں ہورہی ہیں، ہمیں خود کو مضبوط تر کرتے ہوئے، ایک مستحکم نظامِ حکومت تشکیل دیتے ہوئے اور اپنے دورِعروج کو یاد رکھتے ہوئے انھیں ناکام بنانا ہے۔ آخر میں ترک دستوری ریفرنڈم پر ایک عوامی تبصرہ جو خود ترکی میں بھی بہت معروف ہوا ہے اور عالمِ عرب میں بھی کہ ’’اتاترک کا انتقال تو ۷۹سال قبل ہوگیا تھا، لیکن اس کی تدفین اب ہوسکی‘‘۔

یہ امر بھی البتہ ایک حقیقت ہے کہ خود اتاترک کے بہت سے حامیوں نے بھی ’ہاں‘ میں ووٹ دیا۔ ترک قوم پرست جماعت نے تو باقاعدہ ان کی حمایت کا اعلان کر رکھا تھا، جب کہ دوسری جانب پروفیسر نجم الدین اربکان کی سعادت پارٹی نے کھل کر ان ترامیم کا ساتھ نہیں دیا۔ سعادت پارٹی کے صدر تمل کرم اللہ اوغلو کا ایک ملاقات میں کہنا ہے کہ کئی ترامیم اچھی ہیں، کچھ پر تحفظات بھی ہیں، لیکن اصل تشویش اس بات پر ہے کہ طرفین ایک دوسرے کے خلاف سخت ترین زبان استعمال کررہے ہیں۔ ایک فریق ’ناں‘ کہنے والوں کو غدار کہتا ہے تو دوسرا ’ہاں‘ کہنے والوں کو۔ یہ خلیج خطرناک ہے۔ تاہم، اصل ضرورت ملک کا جمہوری نظام مضبوط کرنا ہے۔

مملکت ِخداداد پاکستان کے ساتھ جموں و کشمیر کے لو گوں کی محبت و عقیدت کو ئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔یہ آج کی بات نہیں ہے بلکہ یہ اُنس اور لگاؤ کا تعلق اُ س دن سے چلا آرہا ہے، جب سے یہ مملکت معرضِ وجود میں آئی ہے۔

یہ محبت دلوں میں لیے کشمیری قوم کی دو نسلیںرخصت ہو چکی ہیں۔ اپنے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے یہ قوم بر صغیر کے تقسیم کے دن ہی سے جدوجہد میںمصروف ہے اور اسے قدم قدم پر مصائب اور صعوبتوں کا سامنا رہا ہے۔آزادی کی یہ تحریک اب با ضا بطہ طور پر تیسری نسل تک منتقل ہوچکی ہے ۔ بھارت کے وحشت ناک مظالم کشمیریوں کے صبرو اسقامت اور قربانیوں سے مزین اس تحریک آزادی کی راہ کھو ٹی نہ کر سکے ا ور نہ اپنوں کی بے رُخی اس جذبۂ حُریت کو کمزور کر سکی ہے۔ بلامبالغہ آج کی تاریخ میں، یہ حقیقت علی الاعلان کہی جاسکتی ہے کہ کشمیریوں کے جذبۂ آزادی اور پاکستان سے محبت کو ہر کٹھن اور مشکل حالات سے مہمیز ملی ہے۔

کشمیریوں کا پاکستان کے ساتھ محبت کا اظہار کو ئی جز وقتی یا مادی فوائد کے حصول کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک روحانی اور نظریاتی رشتہ ہے، جس کی بنیادیں بہت ہی راست و پیو ست ہیں ۔ یہ رشتہ حرص و طمع کے کسی مفروضے پر استوار نہیں ہے، بلکہ یہ مادی قدروں سے ماورا ایک ایسا لافانی تعلق ہے، جو ایمان و ایقان سے تعلق رکھتاہے ۔ اس رشتے کا تعلق لاالہ الا اللہ سے ہے، جس کی بنیاد پر یہ مملکت خداداد قائم کی گئی ہے۔ پاکستان محض متعین جغرافیائی حدود کا نا م نہیں ہے بلکہ یہ ایک نظریہ اور فکر ہے، جس کی اپنی ایک ایسی شان دار تہذیب اور درخشاں تاریخ ہے جس نے عالمِ انسانیت کو ظلمت کدوں سے نکال کر خیر اور روشنیوں سے منور کر دیا ہے۔

اسی نظریے اور تہذیب و تاریخ سے وابستگی کشمیریوں کی پاکستان سے محبت اور عقیدت کا مظہر ہے۔یہی وجہ ہے کہ لاکھوں بھارتی فورسز کی ناک کے نیچے کشمیر میں سبز ہلالی پرچم لہرایا جاتا ہے ۔کھلے سینوں کے ساتھ، اُگلتی گولیوں بندوقوں کے دہانوں کے سامنے ’ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہما را ہے‘ کے نعرے بلند کیے جاتے ہیں ۔ نہ صرف کشمیر میں، حتیٰ کہ بھارت کی دوسری ریاستوں میں نتائج کی پروا کیے بغیر کشمیری پاکستان کے حق میں اپنے جذبا ت کا اظہار کرتے ہیں۔

پاکستان میں پیش آئے کسی ناخوش گوار واقعے پر کشمیریوں کے دل مضطرب ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے لیے دعائوں اور نیک تمناؤں سے یہاں کی مسجدیں گونج اُٹھتی ہیں ۔ خود غلامی کی ذلت میں جکڑے ہونے کے با وجود ہمیشہ کشمیریوںکو پاکستان کی نظریاتی بقا اور جغرافیائی سالمیت اور وہاں کے عوام الناس کی سلامتی کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کے بعد کشمیریوں کی تمام تر نظریں پاکستان پر مرکوزہیں ۔اسے اپنا محسن قرار دیتے ہیں، اُمیدوں اور تمنائوں کا مر کز مانتے ہیں۔

بھارت کے ظالمانہ جبری قبضے سے نجات حا صل کر نے کے لیے وہ پاکستان کی ہر ممکن مدد کو پاکستان کی منصبی ذمہ داری سمجھتے ہیں ۔کیو نکہ پاکستان نہ صرف تنازعہ کشمیر کا فریق بلکہ مغلوب و مجبور قوم کا خیرخواہ ہونے کے ساتھ ساتھ وکیل بھی ہے۔ اس حوالے سے وہ پاکستان سے کسی غیرمستعدی کی اُمید نہیں رکھتے۔کسی ایسے اقدام اور لاپروائی سے پاکستان کے ساتھ بے پناہ عقیدت رکھنے والے کشمیریوں کی د ل آزاری ہوتی ہے جس سے مسئلۂ کشمیر کو زک پہنچتی ہو، جو کشمیریوں کے جذبات سے ہم آہنگ نہ ہو، بے مثال قربا نیوں سے مطابقت نہ رکھتا ہو،اور زمینی حقائق کے بر عکس ہو۔ 

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ تنازعہ کشمیر کو بین الاقوامی رنگ دینے اور اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کو اس میں دخل اندازی کی دعوت دینے میں بھارت نے پہل کی تھی۔ پاک بھارت کے مابین کشمیر پر تنازع اُٹھ کھڑا ہو نے اور آج تک حل نہ ہونے کی بنیادی وجہ جہاں انگریز سامراج کی بھارت کے ساتھ ملی بھگت اور جموں و کشمیر کے فرقہ پرست ڈوگرہ مہاراجا کا سازشیں رچانا ہے،  وہاں پاکستان کی سیاسی عدم حساسیت اور لَیت ولعل پر مبنی پالیسی بھی بنیادی وجہ ہے۔

چو نکہ اصولِ تقسیم کے فارمولے کی رُو سے جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ شامل ہونا یقینی تھا اور یہاں کے لوگوں کی غالب اکثریت اس کے حق میں تھی لیکن اس کے با وجود ایسا ہونے نہیں دیا گیا اور بھارت، جموں و کشمیر کا زبردستی ’الحاق‘ اپنے ساتھ کر نے اور اسے اپنی ریاستوں کی فہرست میں شامل کر نے میں کامیاب ہوگیا۔ قائد اعظم نے جموں و کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا جس کے بغیر پاکستان کا وجود نا مکمل ہے۔

کشمیر کو پاکستان کے لیے ’کورا چیک‘(Blank Cheque) کہا گیا تھا، جسے پاکستان جب چاہے وصول کر سکتا ہے اور بھارت چاہے کچھ بھی کرے، زمینی حقائق بہرحال ہر لحا ظ سے پاکستان کے حق میں ہیں ۔ پاکستان اسی زعم میں مبتلا رہ کر کوئی خا طر خو اہ اقدام کر نے سے پس وپیش کر تا رہا اور نتیجتاً وقت گزرنے کے ساتھ آسان اور قابل فہم کشمیر کا معاملہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا چلاگیا۔ بھارت نت نئے فرضی بہانوں سے وقت گزاری کی اپنی پالیسی پر عمل پیرا رہا ۔ پاکستان مسئلے کی حساسیت سے بے پروا رہ کر محض زبا نی بیانات پر قانع رہا، مگر دوسری جانب بھارت جموں و کشمیر کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے جان توڑ کو ششوں میں منہمک ہو گیا۔

ایک طرف بھارت نے جموں و کشمیر کے قد آور سیاسی شخصیات کو اپنی جھولی میں ڈالنے کی کامیاب کو ششیں کر ڈالیں، تو وہیں دوسری طرف بھارتی آئین کی توسیع جموں و کشمیر تک کر نے کا  باقاعدہ عمل بھی شروع کر دیا گیا۔ پُرفریب انداز سے بھارتی آئین میں دفعہ ۳۷۰ کی تخلیق کرکے چپکے سے ایسے داؤ کھیلتا رہاکہ ریاست کو بھارتی یو نین کے ساتھ غیر محسوس انداز سے ضم کرنے کی راہیں کھول کر رکھ دیںاور آہستہ آہستہ یہ منصوبہ ا ب اپنے تکمیل کے قریب پہنچتا دکھا ئی دینے لگا ہے۔ بھارتی آئین کی مذکورہ دفعہ بھارت کی طرف سے جمو ں و کشمیر کے لوگوں پرکوئی با رِ احسان یا کوئی فراخ دلانہ تحفہ نہیں تھا، بلکہ یہ بھارت کی طرف سے ایک منصوبہ بنداقدام تھا، جس کی رُو سے بھارت آئینی طور پر جموں وکشمیر کے معاملات میں دخل اندازی کر نے کی پو زیشن میں آگیا ۔ وگر نہ بھارت کے پاس ریاست جمو ں و کشمیر میں کسی بھی قسم کی سیاسی یا اقتصادی دخل اندازی کا کوئی آئینی اور قانونی جوا ز مو جو د نہیں تھا۔ پھر یہاں سے اپنے ہم نوا طالع آزما سیاسی لیڈروں کی وساطت سے جموں و کشمیر کے عوام کو یہ بات باور کرانے میں بھی ایک حد تک کا میاب رہا کہ یہاں کے لوگوں کا پشتی بان اور عزت و وقار کا ضامن بھارتی آئین ہے۔اسی لبادے کی آڑ میں بھارت ریاست کے وسائل اورذخائر پر قابض ہو کر دودوہاتھوںلوٹنے میں لگا ہواہے۔ بھارت کی جانب سے ایک سے بڑھ کر ایک ترکیب اور سازشیں پروان چڑھانے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔

جموں و کشمیر میں یہ احساس موجود ہے کہ بھارتی جارحانہ عزائم اور وقوع پذیر حالات کے علی الرغم پاکستان محض تما شائی بن کر اس صورتِ حا ل کا مشاہدہ کر تا رہا اور اس نے مدافعانہ پالیسی کے بجاے چپ سادھ لینے میں عافیت جانی۔ زبانی جمع خرچ اور خواب و خیالات کی دھن میں اس مستی کے جواب میں بھارت فائدہ اُٹھا کر تنازعے کی ہیئت بگا ڑنے میں مصروف عمل رہا اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ آگے بڑھتا چلاگیا۔ پاکستان مناسب جوابی اقدام کے بجاے حالات دیکھتا رہا۔

پاکستانی حکمرانوں کی نیم دلانہ پالیسی کا یہ نتیجہ برآمد ہو ا کہ بھارت تنازعہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک عام مسئلے کی سطح پرلاکر اسے باہمی مسئلہ قرار دینے کے اپنے دعوے میں جری ہو تا گیا۔ وہ ببانگ دہل اقوام متحدہ یا دیگر کسی غیر جانب دار ادارے یا ملک کی مداخلت کو گوارا نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ جمو ں وکشمیر کے عوام کے پیدایشی حق خودارادیت کے مطالبے کی ادایگی پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر وعدہ کرنے کے باوجود بھارت اپنے وعدے سے علانیہ مکر گیا ہے ۔ تنازعہ کشمیر پرسلامتی کو نسل کی منظور کردہ قراردادوں کی نفی کرکے انھیں نا قابل عمل قرار دے رہا ہے۔ مقامی انتظا می اُمور کی بجا آوری کے لیے گذشتہ عرصے کے دوران اسمبلی انتخابات کواستصواب راے کا متبادل کہہ کر اسے اپنے حق میں فیصلہ قرار دے رہا ہے۔ ا سی پر اکتفا نہیں بلکہ آگے بڑھ کر اب تسلیم شدہ بین الاقوامی تنازعہ کشمیر کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دے رہا ہے اور پاکستان کی جانب سے کشمیرکے مسئلے پر بات کرنے پر اپنے اندرونی معاملے میں دخل اندازی کرنے کا الزام صادر کر دیتا ہے۔

دوسری طرف پاکستان کشمیر کے حوالے سے غیر مستقل پالیسی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ گذشتہ سات دہائیو ں کے عرصے کے دوران بین الاقوامی تسلیم شدہ تنازعہ کشمیر کے ہوتے ہوئے بھارت کے ساتھ کئی دوطرفہ معاہدوں میں شامل ہو گیا، جس سے مسئلہ کشمیر کی بین الاقوامی نوعیت پر حرف آنے کے دریچے وَا ہوئے ہیں۔ معاہدہ تاشقند اور شملہ سمجھو تہ نامی با ہمی معاہدوں پر دستخط ثبت کرکے پاکستان نے جو پسپائی اختیار کی، اس سے تنازعہ کشمیر متاثر ہو ئے بغیر نہیں رہا۔ اسی طرح پاکستان کی سیاسی قیادت کی طرف سے کئی بار ایسے بیانات سامنے آئے جن سے پاکستانی حکومت کی مسئلہ کشمیر کے تئیں سرد مہری کے واضح آثار دکھائی دیتے تھے۔ کبھی اس کا حل نکالنا آنے والی نسل پرچھوڑنے کی بات کی گئی اور کبھی بھارت کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانے کو اس پر فوقیت دی گئی۔

اس کے بعد بچی کھچی کسر پاکستا نی فو جی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور حکو مت میں نکال کر رکھ دی گئی۔ پرویز مشرف نے پاکستان کی زمام کار ہاتھ میں لیتے ہی ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ بلند کیا ۔ وہ بھارت کے ساتھ دوستی کر نے اور پینگیں بڑھانے کے فراق میں پاکستان کی تاریخی پس منظر کی روشنی میں مرتب کی ہوئی کشمیر پالیسی سے منحرف اور پاکستان کے تاریخی اور روایتی موقف سے دست بردار ہوگیا۔ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے خود ساختہ اور غیر منطقی آوٹ آف بکس چار نکاتی فارمو لہ پیش کیا ۔ مذکورہ فارمولا جموں و کشمیر کے عوام کی اُمنگو ں اور جذبات پر شب خو ن کے مترادف تھا۔

ایک طرف یہ ’جنرل مشرف فارمولا‘ پاکستان کی دیرینہ کشمیر پالیسی سے متصادم تھا، وہیں دوسری طرف اس نا م نہاد فارمولے نے آزادی پسند کشمیریوں میں شکوک و شبہات پیدا کر دیے۔ نتیجتاً ریاست کی آزادی پسند قیادت انتشار کا شکار ہو گئی۔جموں وکشمیرکے ہند نوازسیاسی لیڈروں کو پاکستان مدعو کر کے ان کے لیے ریڈ کارپٹ بچھائے گئے۔حالاںکہ پاکستانی حکومت اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ ریاست کا یہ ہند نواز طبقہ بھارتی مقبوضہ مشینری کا آلۂ کار ہے جو جموں و کشمیر میںبھارتی قبضے کو مستحکم کر نے اور دوام بخشنے میں ہراول دستے کا کام انجام دے رہا ہے ۔ یہ طبقہ جموں وکشمیرکے لوگوں پر مصائب اورجبر وستم ڈھانے میں بھارتی فورسز کے ساتھ برابر کا شریک رہاہے۔ ریاست میںبھارتی مظالم کا دفاع اور انھیںجواز بخشنے میں پیش پیش چلا آرہا ہے۔ اس کے باوجود جنرل پرویز مشرف کی طرف سے اس کا والہانہ اسقبال کیا گیاجو آزادی پسند کشمیری قوم کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف تھا۔

بھارت کے ساتھ کنٹرول لائن پر جنگ بندی کرکے جنرل پرویز مشرف نے بھارت کو لائن آف کنٹرول پر دیوار تعمیر کرنے اور تاربندی کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی۔ اس طرح سے بھارت، جموں وکشمیر کو منقسم کرنے والی خو نیں عبوری لائن کو نا قابلِ عبور بنا نے میں کا میاب ہو گیا، تاکہ منقسم کشمیری ایک دوسرے کے ساتھ مل نہ سکیں، مشکل اور مجبوری کے حا لات میںمقبوضہ کشمیر کے لوگ آزاد کشمیر میں پناہ نہ لے سکیں ۔ یہ سب کچھ پاکستانی حکو مت کی اجازت سے ہی یقینی ہوسکا ہے۔ بصورت دیگر ایسا کر نا بھارت کے لیے نہ ممکن تھا اور نہ حقوق انسانی اور بین الاقوامی قانون ہی اس بات کی اجازت دیتا ہے۔ ما ہر قانون و اعلیٰ پایے کے دانش ور حضرات او ر تجزیہ نگاروں کے مطابق ’مشرف فارمولا‘ مسئلے کے حل کے لیے نہیں، بلکہ اس مسئلے کو مٹانے کی کوشش تھی۔

بھارتی ظالموں کا ظلم اپنی جگہ ننگا ناچ، ناچ رہا ہے، لیکن پاکستانی حکمرانوں کی اس متلون مزاجی سے مسئلۂ کشمیر کی قانونی اور اخلاقی بنیادوںکی بیخ کنی ہوتی رہی ہے۔ یوں پاکستان کو مسئلے کے ایک فریق اور مظلوم کشمیریوں کے وکیل ہونے کے اعتبار سے مقدمہ پیش کرنے میں کمزوری در آئی۔ پاکستان کی جانب سے ایسی بے جا لچک دکھانے سے یہاں کشمیر میں یہ تاثر اخذ کیا جانے لگا ہے کہ پاکستان اب مسئلہ کشمیر سے چھٹکارا حا صل کر نے کی کو ششیں کر رہا ہے۔ درآں حالاںکہ وہ اپنے بیانات میں کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد جاری رکھنے کا دعویٰ بھی کررہا ہے۔ دوسری طرف بھارت اپنے موقف کے اندر سخت شدت لا تا جا رہا ہے۔ جموں و کشمیر پر اپنے قبضے کو مضبوط کرنے کے لیے ہمہ جہت نو عیت کے منصوبے تشکیل دے رہا ہے۔

پچھلے ۷۰ برسوں سے با لعموم اور گذشتہ ۲۷ برسوں سے با لخصوص محوِ جدوجہد کشمیریوں کو   تختۂ مشق بنا یا ہواہے ۔ راے عامہ اور عالمی برادری کے سامنے منفی پروپیگنڈا کر کے جموں و کشمیر کی تحریک خو د ارادیت کو بھارت ’دہشت گردی‘ سے منسوب کر نے کی کو ششیں کر رہاہے۔ ایسی  صورتِ حال کے حوالے سے پاکستان کس قدر متفکر ہے اور بھارتی منصوبوں اور پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کے لیے کیا کاوشیں کی جارہی ہیں؟ کوئی مناسب، مؤثر اور خیرخواہ اقدام کشمیری ہنوز دیکھنے سے قاصر ہیں۔پھر پاکستان کی کشمیر کمیٹی کا رُخِ کردار’تو ایک ’معمّہ ہے سمجھنے اور سمجھانے کا‘۔

پاکستان کی جانب سے دی گئی ان یک طرفہ رعایتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ محوِ جدو جہد کشمیری قوم پر عذاب و عتاب ڈھانے میں بھارتی حکو مت اور بھارتی فورسز تیز سے تیزتر اور بد سے بدترین ہوتے گئے ۔۱۹۹۰ء سے لے کر اب تک ایک لاکھ سے زائد نہتے کشمیریوں کو بھارتی فورسز کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتاردیا گیا ہے۔ یتیموں ، بیواؤںاور نیم بیواؤں کی ایک بڑی تعدا د سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور کردی گئی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں گمنام قبریں جموں و کشمیر میں اب تک دریافت کی جا چکی ہیں۔ عزت و عصمت اور جان و مال کی بے مثال قربانی اس عرصے کے دوران اس قوم نے پیش کی ہے۔ اس قوم کے جیالے تختۂ دار کو چوم رہے ہیں اور آج کی تاریخ میں    اب بھارتی قبضے کے خلاف آواز بلند کرنے والے کشمیرکی نو خیز نسل کو بے رحمی سے بینائی سے محروم  کیا جارہا ہے۔ کمسن بچوں سے لے کر عمر رسیدہ بزرگ بلا نا غہ جیلوں کے اندر پابند سلاسل کیے جارہے ہیں۔ بندوق اور توپ تفنگ کا مقابلہ اب نہتے کشمیری درختوں کی ٹہنیاں اور سنگ ریزے  اُٹھا اُٹھا کر کررہے ہیں۔ سینوں پر گو لیاں کھاکھاکر بھارتی جبری قبضے کو للکار رہے ہیں۔

جب ایک طرف کشمیری قوم تحریک آزادی کو منزل مقصود سے ہمکنار کرنے کا عزم لیے میدانِ کارزار میں کو دپڑی ہو ئی ہے اورتحریک آزادی سے کسی بھی حال میں دست بردار ہو نے کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں، تو پاکستان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کشمیریوں کی ہرممکن مدد کے لیے پوری یکسوئی کے ساتھ سامنے آئے۔ کشمیریوں کو بھارت کی جانب سے درپیش مظا لم اورجارحیت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کرے، بلکہ ایک محسن اور لائق وکیل ہو نے کے ناتے مؤثر اقدام کرے۔ پاکستانی عوام ہمیشہ سے کشمیریوں کی پشت پر رہے ہیں اور بیش بہا قربا نیاں پیش کرتے آرہے ہیں۔

پاکستانی عوام اور کشمیریوں کے مابین پیار و عقیدت کا یہ رشتہ اس بات کا متقاضی ہے کہ حکومت پاکستان، تنازعہ کشمیر کے حوالے سے اپنے اصولی اور تاریخی موقف سے پسپائی اختیار نہ کرے۔ پاکستانی عوام اور کشمیری قوم کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے حکومت پاکستان منظم اور مربوط انداز سے کشمیر کی تحریک آزادی کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اقدام کرے۔ عصرِ حا ضر کے تقاضوں کا ادراک کر کے ہر اُس سعی کو عملی جا مہ پہنایا جا ئے، جو اس سمت میں ممد و معاون ثابت ہو۔ کشمیر کے خونیں میدانِ کارزار سے یہی فلک شگاف آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ یہاں کی عزت مآب مائیں اور بہنیں پاکستان سے یہی امید لگائے ہوئے اپنے لخت ہاے جگر اس راہ میں قربانی کے لیے پیش کر رہی ہیں۔  

پاکستانی حکومت کے ایوانوں میں ہے کوئی یہ پکار سننے والا؟

۲۰کروڑ آبادی کے ساتھ اُتر پردیش بھارت کا سب سے بڑا صوبہ ہے اورتاریخی لحاظ سے بھی یہ بہت اہم ریاست ہے۔ رانی جھانسی کا قلعہ اور تاج محل (آگرہ) کی پُرشکوہ عمارت بھی اسی ریاست میں ہے۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، جس کی بنیاد جناب سرسیّداحمد خاں نے رکھی تھی،      اسی صوبے کا معروف نام ہے۔ وارنسی(بنارس) شہر ،جسے برہمنوں کا ’مذہبی دارالحکومت‘ کہا جاتا ہے، اُترپردیش کا حصہ ہے۔ فیض آباد (جہاں مبینہ طور پر رام دیوتا کی پیدایش ہُوئی) اور گورکھ پور جیسے خالصتاً ہندو شہر اسی صوبے کے جزو ہیں جن پر کٹر ہندو قوم پرست فخر کرتے ہیں۔

اب یہ برہمنی رنگ، گورکھ پور کے بڑے مندر کے مہنت یوگی ادیتا ناتھ کی شکل میں   بطور وزیراعلیٰ اُترپردیش، سیاسی اور اقتداری لحاظ سے غالب آ چکا ہے۔ ادیتا ناتھ اور اُن کے کروڑوں چاہنے والوں نے اعلان کر رکھا ہے کہ ہم اقتدار میں آئے تو بھارت بھر کا ہروہ شہر جو کسی مسلمان نام سے معروف ہے، اُس کا نام تبدیل کر کے ہندو شکل دے دیں گے۔ بی جے پی بھارتی مسلمانوں کے مشہور علمی شہر، دیوبند، کا نیانام ’دیوربند‘ رکھنے کی تجویز اُترپردیش کی صوبائی اسمبلی میں پیش کر چکی ہے۔ وہ تاج محل کا نام بھی تبدیل کرنے کے عزم کا اعلان کر چکے ہیں۔ ادیتا ناتھ نے حالیہ صوبائی انتخابی مہم کے دوران واضح طور پر جگہ جگہ اعلان کیا تھا کہ: ’’اگر مَیں وزیر اعلیٰ بن گیا تو ہمایوں پور کا نام’ہنومان پور‘ اور اسلام پور قصبے کا نام ’ایشور پور‘ رکھ دوں گا‘‘۔ اب اس سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اپنے انتخابی منشور کے مطابق اُتر پردیش کے مسلمانوںکے نام سے منسوب تمام شہروں کے نام تبدیل کرے۔ کیا ایسا کرنا ممکن ہوگا؟

اُترپردیش ایسی بڑی ریاست کے بڑے شہروں کی تعداد ۶۵ہے۔ اِن میں مسلمانوں کے نام سےمنسوب ۱۶ بڑے شہر آباد ہیں جن میں: غازی آباد، الٰہ آباد، علی گڑھ،مراد آباد،فیض آباد، مظفر نگر، شاہجہان پور، فرخ آباد، فتح گڑھ، فتح پور، مغل سراے،غازی پور،سلطان پور،اعظم گڑھ، اکبر پوراورشکوہ آباد شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بھارتی مسلمان، جو اُترپردیش ریاست کی کُل آبادی کا ۲۰ فی صد سے زیادہ ہیں، کیا یہ زیادتی برداشت کریں گے؟ ایک معروف بھارتی نجی ٹی وی کے ٹاک شو’آپ کی عدالت‘ میں ادیتا ناتھ نے اعلان کیا ہے کہ ہندوؤں کا حق ہے کہ ہم اقتدار میں آکر مسلمانوں کے ناموں سے منسوب بھارتی شہروں کے نام تبدیل کردیں، کیوں کہ اب تاریخ بدلنے کاوقت آگیا ہے‘‘۔

اُترپردیش کے یہ زعفرانی وزیر اعلیٰ، بی جے پی اور انتہاپسند آر ایس ایس کے اُن مقتدر ہندو سیاست دانوں میں سے ایک ہیں، جو بھارت میں اسلام کی تبلیغ پر بھی پابندی عائد کرنے کے حامی ہیں اور کہتے ہیں کہ: ’’بھارتی مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو مذہب اختیار کرلینا چاہیے‘‘۔  اس کوشش اور’اپیل‘ کو وہ ’گھر واپسی‘ کا نام دیتے ہیں۔ ادیتا ناتھ نے اَب تک بھارت کے ۱۸۰۰ عیسائیوں کو ہندو بنانے کا دعویٰ کیا ہے ۔مسلمانوں سے نفرت اور دنگے کے بیوپاری اُترپردیش کے یہ نئے وزیر اعلیٰ مسلمانوں کے خلاف تشدد کو اپنا حق سمجھتے اور ایسا کہتے اور کرتے ہُوئے ذرا بھی حیا محسوس نہیں کرتے ، حالاںکہ وہ خود کو ’سنیاسی‘ بھی کہتے ہیں۔

ایک بھارتی نجی ٹی وی کے پروگرام میں جب ادیتاناتھ سے پوچھا گیا کہ: ’’سنیاسی ہو کر خوں ریزی، تشدداور مسلمانوں کے خلاف فساد کی بات کیوں کرتے ہو؟ تو تُرت جواب دیا: ’’مَیں سنیاسی ہو کر ہروقت مالا بھی رکھتا ہُوں اور بھالا(خنجر)بھی‘‘۔ موصوف نے زعفرانی لباس پہننے والے سیکڑوں جوگیوں کی ایک نجی فوج بھی بنا رکھی ہے، جن کے پاس ہمیشہ تیز دھار بھالے ہوتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ بن کر بھی ادیتا ناتھ کو اپنے اُن نفرت آگیں بیانات پر کچھ شرم محسوس نہیں ہوتی، جب اس نے کہا تھا:’’ اگر کسی مسلمان لڑکے نے کسی ہندو لڑکی سے شادی کی تو ہم ۱۰۰مسلمان لڑکیوں کو اُٹھا لائیں گے۔ اگر کسی ایک بھارتی مسلمان نے کسی ہندو کا قتل کیا تو ہم قتل کا مقدمہ  نہیں درج کروائیں گے بلکہ خود بدلہ لینے کے لیے ایک ہندو کے بدلے میں ۱۰ مسلمانوں کا قتل کریں گے‘‘۔ نئے وزیراعلیٰ نے یہ بھی اعلان کر رکھا ہے کہ: ’’اقتدار میں آکر ہم اُترپردیش کی  تمام مساجد میں اپنی دیوی اور دیوتاؤں کے بُت بھی رکھیں گے‘‘۔

بھارتی مسلمانوں کے خلاف ادیتا ناتھ کی نفرت انگیز مہم کو بی جے پی کے صدر امِت شا  کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہے۔ دونوں کے گٹھ جوڑ ہی کا یہ نتیجہ تھا کہ حالیہ اُترپردیش(یوپی) کے انتخابات میںکسی ایک بھی مسلمان امیدوار کو بی جے پی نے پارٹی ٹکٹ نہیں دیا۔ اور جب  اس بارے امِت شا سے پوچھا گیا تو جواب میں کہا:’’ اُتر پردیش میں ہمیں کوئی موزوں مسلمان امیدوار ملا ہی نہیں‘‘۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ’آل انڈیا مجلسِ مشاورت‘ کے سابق صدر، ظفرالاسلام خان [ملّی گزٹ کے ایڈیٹر]، نے ٹھیک ہی کہا :’’ بی جے پی نے یو پی میں مسلمان امیدواروں کی نفی کی ہے۔ جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ بی جے پی نے نفرت کی فتح حاصل کی ہے‘‘۔

اُتر پردیش اسمبلی میں کُل ۴۰۳نشستوں میں سے بی جے پی نے ۳۱۲جیتی ہیں، جب کہ مجموعی طور پر کامیاب مسلمان امیدواروں کی تعداد۲۴ہے۔ یو پی میںمسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے یہ تعداد اصولی طور پر۱۰۰ہونی چاہیے تھی (یاد رہے ۲۰۱۲ء میں جیتنے والے مسلمان اُمیدواروں کی تعداد۶۹تھی)۔ ان ۲۴ کامیاب مسلمان اُمیدواروں میں ۱۷سماج وادی پارٹی، ۵ کانگرس اور ۲ بھوجن سماج پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ تعداد بھی نریندر مودی، اِمت شا اور ادیتاناتھ سے برداشت نہیں ہو رہی ہے؛ چنانچہ چند روز قبل راجیہ سبھا(بھارتی سینٹ) میں ایک کٹر ہندو رکن، ایم رامیش نے کہا ہے کہ: ’’بھارت میں مسلمانوں کی تعداد میں تشویش ناک اضافہ ہورہاہے، ہمیں آن دی ریکارڈ بتایا جائے کہ ہر بھارتی صوبے میں مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے؟‘‘اور جب رامیش کو بتایا گیا: ’’بھارت کے کُل ۶۷۵ضلعوں میں۸۶ضلعے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد ۲۰فی صد سے زائد، اور ان ۸۶ضلعوں میں ۱۹ضلعے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد۵۰فی صد سے زائد ہے‘‘ تو رامیش کے منہ سے بے اختیار نکلا:’’ اوہ، یہ تو بہت بڑھ گئے ہیں‘‘۔

حالیہ انتخابات سے قبل عالمی شہرت یافتہ ماہرینِ معیشت کی پیش گوئی تھی کہ نریندر مودی نے بھارت میں جن خطرناک معاشی پالیسیوں کا اجرا کر رکھا ہے، اِن کی بنیاد پر وہ یہ انتخابات جیت نہیں سکیں گے لیکن بی جے پی ۴۷ سیٹوں سے اُٹھ کر ۳۱۲ سیٹوں پر آگئی۔

آخر ہوا کیا کہ بی جے پی اور مودی کے خلاف پیش گوئیاں کرنے والے سارے تجزیہ نگار چِت ہو گئے؟ دراصل نریندر مودی اور بی جے پی قیادت نے ایک خاص انتخابی حکمت عملی کے تحت زیادہ تر ٹکٹ اُن لوگوں کو دیے جو بدمعاش ، بھتہ خور، قاتل،جرائم پیشہ ، سزا یافتہ اور بھاری کالے دھن کے مالکان تھے۔ انھی لوگوں نے ماردھاڑ، اپنی دہشت، کالے دھن اور مجرمانہ سرگرمیوں کو بروے کار لا کر اُترپردیش کا الیکشن بھاری اکثریت سے جیتا ہے۔ یہ محض ہمارا الزام یا تعصب نہیں ہے بلکہ بھارتی میڈیا بھی اِس کی گواہی دیتے ہوئے نشان دہی کر رہا ہے۔بھارت کے ایک ممتاز انگریزی اخبارنے اپنے صفحہ اوّل کی سٹوری میں بتایا ہے کہ اُترپردیش کے تازہ ترین انتخابات میں رگھوراج پرتاپ سنگھ ،راجا بھائیا، امنمانی ترپاٹھی،  وجے مشرا،سوشیل سنگھ ایسے درجنوں لوگ جیت کر سامنے آئے ہیں، جن پر قتل، بھتہ خوری، اغوا کار ی ایسے سنگین جرائم کے ارتکاب کے نہ صرف الزامات ہیں، بلکہ اُن میں سے بیش تر کا سیاسی پس منظر بھی یہی ہے۔

ایسے لوگ بھی اُترپردیش اسمبلی کے رکن بن گئے ہیں،جو خوفناک جرائم کے تحت مختلف جیلوں میں قید تھے لیکن اُنھیں خصوصی طور پر پیرول پر رہا کیا گیا، تاکہ وہ الیکشن لڑسکیں۔ قاتل امنمانی ترپاٹھی نے تو جیل میں بیٹھ کر الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔ قتل کے الزام میں قید راجا بھائیانے اپنے سیاسی حریف ،جانکی سرن، کو ایک لاکھ سے زائد ووٹوں سے ہرایا ہے۔ ریاست اُترپردیش کے حالیہ انتخابات میں ایک مشہور گینگسٹرسوشیل سنگھ نے بی جے پی کے ٹکٹ پر اپنے سیاسی حریف، شیام نرائن سنگھ کو شکست دی ہے۔وجے مشرا نامی ایک ایسا شخص جس کی غنڈا گردی اور بھتہ خوری کے چرچے اُتر پردیش کے ہربڑے شہر میں ہیں، یہ بھی ریاستی اسمبلی کا رکن بن گیا ہے۔ بی جے پی کی ایک رکن، سنجو دیوی، قتل کے الزام میں جیل میں ہے، وہ بھی جیت گئی ہیں۔ بی جے پی کی ایک اور مشہور لیڈر نیلم کرواریا، جو لڑائی مار کٹائی میں بہت شہرت رکھتی ہے، بھی بھاری ووٹوں سے جیتی ہیں۔

بی جے پی کے کئی سزا یافتہ مجرم ، جو اس وقت اُتر پردیش کی مختلف جیلوں میں قید ہیں، خود اگر تازہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے تو اُن کی بیویوں نے اُن کی جگہ الیکشن لڑا ہے۔ مثال کے طور پرسنجیو مہیشواڑی، پریم سنگھ عرف مُنا بجرنگی اور ڈی پی یادیو۔ یہ لوگ خود تو مظفر نگر اور تہاڑ جیل میں مختلف سنگین جرائم کے تحت سزائیں کاٹ رہے ہیں، اُن کی جگہ اُن کی بیویوں نے الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئیں۔

اتنے بھاری مینڈیٹ سے جیتنے کا ایک سبب انڈین ایکسپریس کی ممتاز تجزیہ نگار، سروتھی رادھا کرشن، نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:’’ بی جے پی نے دولت مند اور طاقت ور افراد کو زیادہ تر ٹکٹ دیے تھے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ یو پی کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کے جو لوگ جیت کر سامنے آئے ہیں، اُن میں ۸۰فی صد کروڑ پتی ہیں‘‘۔ حیرت مگر اس بات پر ہے کہ مذکورہ جرائم پیشہ افراد کے رکن اسمبلی بننے کے باوجود مغرب کی ’مہذب دنیا‘ میں کسی کو بھارتی جمہوریت پر کوئی اعتراض نہیں ہے!  حتیٰ کہ سی این این ایسے بظاہر وقیع امریکی ٹیلی ویژن نیٹ ورک نے اپنے تبصرے میں اُترپردیش میں بی جے پی کی تازہ کامیابی کو ’جمہوری دنیا کے لیے قابلِ فخر اور قابلِ تقلید‘ قرار دے ڈالا ہے۔ ہم توحیران ہُوئے ہی ہیں، خود بھارتی غیرجانب دار میڈیانے بھی سی این این کے اس تبصرے پر سخت حیرانی کا اظہار کیا ہے!

بھارتی انتخابی نتائج اور مسلم فکرمندی

سیّد سعادت اللہ حسینی o

مسلمانوں نے بالعموم اور ہندستانی مسلمانوں نے بالخصوص اپنی حالیہ تاریخ میں خود کو سب سے زیادہ نقصان اپنی جذباتیت سے پہنچایا ہے۔ جذباتیت صرف تشدد کا نام نہیں ہے ، بلکہ بسااوقات بغیر سوچے سمجھے کیے جانے والے پُرامن اقدامات بھی جذباتیت کا حصہ بن جاتے ہیں، جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے بعض صورتوں میں سخت مہلک ہوسکتے ہیں۔ یہ شدتِ جذباتیت ہی ہے جو بعض پر انتہاپسندی کا بخار طاری کردیتی ہے اور بعض پر مایوسی و قنوطیت مسلط کردیتی ہے۔ اسی شدت کی وجہ سے ہم اپنے پسندیدہ لوگوں کی خرابیوں کو نہیں دیکھ پاتے اور ناپسندیدہ لوگوں کی خوبیوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اسی شدت کی وجہ سے ہم دنیا اور اس کی ہرچیز کو سیاہ اور سفید کے انتہائی خانوں میں بانٹ دیتے ہیں اور خاکستری (Grey) کا اندازہ نہیں کرپاتے۔ اسی شدت کے نتیجے میں بھارتی اکثریتی طبقے کے ذہن اور جذبات کو نہیں سمجھ پاتے اور نہ اس سے رابطہ کاری (communication) کی راہیں تلاش کرپاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ملّت ِ اسلامیہ ہند میں عوامی جذبات آگے ہیں اور قیادت پیچھے، بلکہ صحافت اور دانش وری کا کام بھی صرف عوامی جذبات کی ترجمانی تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔

حالیہ انتخابی نتائج کے بعد سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل کا جو طوفان اُمڈ آیا ہے، وہ اسی نفسیات کا مظہر ہے۔ کوئی یوپی کے مسلمانوں کو کوس رہا ہے کہ انھوں نے ’’بہار کے مسلمانوں کی طرح دانش مندی کا مظاہرہ نہیں کیا‘‘، تو کسی نے یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ: ’’مسلمان تباہی گوارا کرتے ہیں، لیکن اتحاد پسند نہیں کرتے‘‘۔ کوئی ایک قدم آگے بڑھ کر مسلم سیاسی جماعتوں کو بی جے پی کا ایجنٹ ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے، اور کسی کے خیال میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی سیاسی جماعت کو چھوڑ کر ’غیروں‘ کو ووٹ دیا۔ غرض یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔

شدید ردعمل کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔ چند دنوں تک جذبات کی آندھیاں چلتی ہیں، پھر حالات معمول پر آجاتے ہیں۔ شدتِ جذبات کی اوجِ ثریا سے کمالِ سکون کے تحت الثریٰ تک کا  یہ طویل سفر بس چند گھنٹوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارا یہی اجتماعی احتجاجی مزاج ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔ وہ مزاج جو واقعات کے صرف انتہائی سُروں ہی کو سن پاتا ہے۔ جو اُمیدیں وابستہ کرنے میں بھی فراخ دل ہوتا ہے اور مایوس ہونے میں بھی دیر نہیں لگاتا۔ جو ہرکوشش کا نتیجہ فوری دیکھنا چاہتا ہے۔ ایسا مزاج اور ذوق، اصلاحِ احوال کی سنجیدہ، دھیمی اور طویل المیعاد کوششوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

واقعہ یہ ہے کہ نہ یوپی کے مسلمانوں نے کوئی غیرمعمولی غلطی کی ہے اور نہ جو کچھ ہوا ہے، وہ کوئی بڑی تباہ کن آفت ہے۔ واقعات کو ہمیں اس کے اصلی رنگ میں اور درست تناسب میں دیکھنا چاہیے۔ یہی معقول رویہ ہے۔ بہار میں اتحاد مسلمانوں کا نہیں، بلکہ سیکولر جماعتوں کاہوا تھا۔ یوپی کی سیاست میں ایسا اتحاد ممکن نہیں ہوسکا، اور اس پر مسلمانوں کا کوئی بس نہیں تھا۔ مسلمانوں نے کبھی متحد ہوکر ووٹ نہیں دیا۔ ذات پات اور سیاسی جماعتوں کی تقسیم ہمیشہ رہی ہے۔ اس بار عام مسلمانوں نے معقولیت کے ساتھ ووٹ دینے کی ہرممکن کوشش کی۔کئی مسلم سیاسی جماعتوں نے حالات کو دیکھ کر خود کو انتخابی معرکے سے دُور رکھا۔ یہ خود ایک غیرمعمولی بات ہے، اور اس سے پہلے کسی صوبے میں ایسا نہیں ہوا۔ جن مسلم جماعتوں نے ان حالات میں بھی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا، مسلمانوں نے عام طور پر انھیں لائقِ اعتنا نہیں سمجھا، جیساکہ ووٹوں کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ پہلے غیرمسلم ووٹ منقسم رہتے تھے، اس دفعہ وہ متحد ہوگئے۔ متحد کیوں ہوئے؟ اس کی وجوہ کئی ہیں۔ فرقہ پرست طاقتوں کا وفادار ووٹ بنک تو موجود ہے ہی۔ مسلمانوں کی جذباتی تقریریں، مذکورہ بالا قسم کے سوشل میڈیا پوسٹ، مسلم قائدین کی بے محل اور بے فیض اپیلیں، اُردو میڈیا کا شورشرابہ وغیرہ، فرقہ پرستوں کے وہ کارگر ہتھیار ہیں، جو مخلص مسلمانوں کے سادہ لوح ہاتھوں کے ذریعے پوری قوت سے استعمال ہوتے ہیں۔ انھوں نے منفی نتائج بخشنے کا کام خوب کیا۔ پھر بہت سے درمیانی ووٹرز بھی پلٹ گئے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کی ایک قابلِ ذکر آبادی ایسی ہے، جو فرقہ پرست نہیں ہے، لیکن فرقہ پرستی کا خاتمہ اس کا سب سے بڑا ایجنڈا بھی نہیں ہے۔ وہ متبادل، حوصلہ مند، نسبتاً زیادہ دیانت دار اور محنتی حکمران چاہتے ہیں ، اور اپنی سوچ کے مطابق موجودہ وزیراعظم میں انھیں یہ خوبیاں دکھائی دیں اور انھوں نے دوسروں پر انھیں ترجیح دی۔

ذات پات اور طبقات میں بٹے ہوئے اس معاشرے کو کوئی طاقت ور مشترک خواب، کوئی مشترک اُمید اور کوئی نہایت حرکیاتی مشترک قیادت ہی متحد کرسکتی ہے۔ جوں ہی ملک کی بڑی آبادی کو یہ چیز میسر آئی، تو ذات پات کی دیواریں گرنے لگیں۔ مسلمانوں کو میسر آئے گی تو وہ بھی متحد ہوجائیں گے۔ ایسے کسی مشترکہ وژن اور متحدہ قیادت کے بغیر یہ اُمید کرنا کہ ہرمسلمان غیبی الہام کے ذریعے کسی ایک امیدوار کو متحد ہوکر ووٹ دے گا، خام خیالی ہے۔ بڑے سے بڑا تجزیہ نگار بھی بی جے پی کی مدمقابل پارٹی کی انتخابی پوزیشن کا اندازہ نہیں بتا سکتا تھا ،تو ایسے میں ایک عام مسلمان صحیح اندازہ کرکے ووٹ کیسے دیتا؟

رہی بی جے پی کے پردے میں آر ایس ایس کی جیت، تو اس کی بنیاد پر مسلمانوں کو خواہ مخواہ احساسِ شکست کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ نہ بی جے پی نے پہلی بار کسی ریاست میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور نہ یوپی میں پہلی بار کسی کو اتنی سیٹیں ملی ہیں۔ یہ صرف ایک سیاسی پارٹی نہیں ہے، بلکہ ایک نظریاتی تحریک ہے۔ یہ تحریک ایک عرصے سے اس ملک میں سرگرم ہے اور بہت پہلے   اس نے طاقت کے بہت سے مراکز پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔

آزادی سے قبل اور فوری بعد، خود کانگریس کا ایک بڑا طبقہ اسی نظریے کی سیاسی نمایندگی کرتا تھا۔ اسی طبقے کی انتہاپسندانہ اور عدم رواداری کی سوچ کے نتیجے میں تقسیم ہند کا عمل تیز تر ہوا۔اسی طبقے نے فسادات کو ہندستان کی تاریخ کا مستقل حصہ بنایا۔ اسی نے منظم طریقے سے اُردو زبان کی جڑیں کاٹیں۔ جگہ جگہ مسجد مندر کے مصنوعی تنازعے پیدا کیے۔ پولیس اور انتظامیہ میں تعصب کا زہر پھیلایا۔ وقتی اور جذباتی مسائل میں مسلمانوں کو اُلجھایا۔ ان کی قیادتوں کو کمزور کیا۔ یاد رہے بھارت کا حقیقی اقتدار اصلاً بہت پہلے سے اسی طبقے کے کنٹرول میں ہے۔ اس لیے محض بی جے پی کے جیت جانے سے کسی بہت بڑے ’انقلاب‘ کا امکان نہیں ہے۔ انقلاب کا عمل آزادی کے بعد ہی سے جاری ہے۔ آزادی کے فوری بعد جس مقام پر کانگریس کھڑی تھی، اُس مقام پر   آج بی جے پی کھڑی ہے۔ اُس وقت کانگریس کا ایک طبقہ مسلم دشمن تھا، آج بی جے پی کا ایک طبقہ مسلم دشمن ہے۔ اُس وقت وہ مقبول جماعت تھی اور آج یہ ہے۔ اُس وقت کانگریس میں لبرل اور  انصاف پسند لوگ بھی تھے اور آج بی جے پی میں بھی ہیں (اگرچہ تعداد اور تناسب میں یہ کم زیادہ ہوسکتے ہیں)۔ ان فرقہ پرست قوتوں کو یقینا ہارنا چاہیے تھا، لیکن اگر وہ نہیں ہاریں تو ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں پر کوئی بالکل نئی اور غیرمتوقع قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔

اصل قابلِ توجہ چیز اس ملک کے عوام کا ذہن ہے۔ خاص طور پر اس ملک کی نئی نسل اور تعلیم یافتہ نوجوان کیا سوچ رہے ہیں؟ یہ اصل مسئلہ ہے۔ اگر ذہن مثبت ہے تو بی جے پی بھی کوئی غیرمعمولی کام نہیں کرپائے گی اور کچھ کرے گی تو ٹک نہیں پائے گی، اور اگر ملک کا اجتماعی ذہن منفی ہے تو سیکولر جماعتیں بھی مسلمانوں کی طرف داری کا خطرہ مول لے کر ’خودکشی‘ کا راستہ نہیں اختیار کریں گی۔ اَمرِواقعہ ہے کہ ان نتائج کے باوجود غیرمسلم اکثریت میں بدترین تعصب نہیں پایا جاتا۔ لیکن اب ذہن تیزی سے مسموم ہوتے جارہے ہیں اور ان کا بروقت نوٹس لینا ضروری ہے۔

کرنے کا اصل کام پہلے بھی یہ تھا اور آج بھی یہ ہےکہ ہم مسلمان ملک کی اکثریت کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار کریں۔ ان کی غلط فہمیاں اور ان کے غلط شبہات اور اندیشے دُور کریں۔ پوری خوداعتمادی کے ساتھ دعوتِ دین کا فریضہ انجام دیں اور اس دعوت کی عملی شہادت بھی دیں۔ انھیں دین اسلام کے بارے میں بھی بتائیں اور اپنے عمل سے بھی خود کو خیرخواہ ثابت کریں۔ قوموں نے انبیاے علیہم السلام کی مخالفت ضرور کی ہے، لیکن کسی نبیؑ کو ان کی قوم نے اپنا بدخواہ نہیں سمجھا۔ دعوت کے آغاز سے پہلے ہرنبیؑ کا امیج اپنی قوم میں ایک مخلص اور خیرخواہ فرد کا تھا۔ ہمارا ایسا امیج کا   نہ ہونا دعوت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے اور ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ بھی۔ یہاں کی آبادی سے خیرخواہی کا تعلق قائم کرنا اور اسے منوانا، اس وقت ہماری اصل ترجیح ہونی چاہیے۔

سیاسی سطح پر بڑی ضرورت بیدارمغز سیاسی قیادت کے اُبھرنے کی ہے۔ مسلمانوں کی سیاسی و ملّی جماعتیں مل بیٹھ کر مشترکہ سیاسی قوت کو اُبھاریں۔ یاد رہے خود مسلم فرقہ پرستی ۱۰گنا زیادہ طاقت ور ہندو فرقہ پرستی پیدا کرتی ہے۔ اس لیے ہماری سیاست کو فرقہ پرست اور مسلم قوم پرست رنگ کے بجاے اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اصول پسند اور انصاف پسند سیاست کا رنگ اختیار کرنا چاہیے۔

یہ خیال بھی صحیح نہیں ہے کہ ہرجگہ انتخابات میں حصہ لینا ضروری ہے۔ ملک کے اکثر مقامات پر غیرانتخابی سیاسی اثراندازی کی حکمت ِ عملی ہی کامیاب ہوسکتی ہے۔کہیں کہیں محدود پیمانے پر صرف مسلمانوں کی نہیں، بلکہ تمام طبقات کی نمایندگی کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ بھی لیا جاسکتا ہے، لیکن زیادہ تر ہماری قیادت کو سیاسی جماعتوں سے گفت و شنید اور مصالحت و معاہدات ، ووٹرز کی صحیح رہ نمائی کرنا اور منتخب نمایندوں سے کام کرانا جیسے عمل ہی کرنے ہوں گے۔ ایسی مشترکہ اور دانش مند قیادت اُبھرتی ہے تو وہ بی جے پی سے بھی بہت سے مفید کام کراسکتی ہے، اور ایسی قیادت کے بغیر من موہن سنگھ جیسے وزیراعظم کی مخلصانہ کوششوں کے باوجود ’سچرکمیٹی‘ جیسے متعدد فیصلے بھی ۱۰برس بعد بے اثر رہ جاتے ہیں۔

مسلمانوں نے بالعموم اور ہندستانی مسلمانوں نے بالخصوص اپنی حالیہ تاریخ میں خود کو سب سے زیادہ نقصان اپنی جذباتیت سے پہنچایا ہے۔ جذباتیت صرف تشدد کا نام نہیں ہے ، بلکہ بسااوقات بغیر سوچے سمجھے کیے جانے والے پُرامن اقدامات بھی جذباتیت کا حصہ بن جاتے ہیں، جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے بعض صورتوں میں سخت مہلک ہوسکتے ہیں۔ یہ شدتِ جذباتیت ہی ہے جو بعض پر انتہاپسندی کا بخاری طاری کردیتی ہے اور بعض پر مایوسی و قنوطیت مسلط کردیتی ہے۔ اسی شدت کی وجہ سے ہم اپنے پسندیدہ لوگوں کی خرابیوں کو نہیں دیکھ پاتے اور ناپسندیدہ لوگوں کی خوبیوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اسی شدت کی وجہ سے ہم دنیا اور اس کی ہرچیز کو سیاہ اور سفید کے انتہائی خانوں میں بانٹ دیتے ہیں اور گرے کا اندازہ نہیں کرپاتے۔ اسی شدت کے نتیجے میں بھارتی اکثریتی طبقے کے ذہن اور جذبات کو نہیں سمجھ پاتے اور نہ اس سے رابطہ کاری (communicate) کی راہیں تلاش کرپاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ملّت ِ اسلامیہ ہند میں عوامی جذبات آگے ہیں اور قیادت پیچھے، بلکہ صحافت اور دانش وری کا کام بھی صرف عوامی جذبات کی ترجمانی تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔

حالیہ انتخابی نتائج کے بعد سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل کا جو طوفان اُمڈ آیا ہے، وہ اسی نفسیات کا مظہر ہے۔ کوئی یوپی کے مسلمانوں کو کوس رہا ہے کہ انھوں نے ’’بہار کے مسلمانوں کی طرح دانش مندی کا مظاہرہ نہیں کیا‘‘، تو کسی نے یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ: ’’مسلمان تباہی گوارا کرتے ہیں، لیکن اتحاد پسند نہیں کرتے‘‘۔ کوئی ایک قدم آگے بڑھ کر مسلم سیاسی جماعتوں کو بی جے پی کا ایجنٹ ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے اور کسی کے خیال میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی سیاسی جماعت کو چھوڑ کر ’غیروں‘ کو ووٹ دیا۔ غرض یہ کہ جتنے منہ ،اتنی باتیں۔

شدید ردعمل کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔ چند دنوں تک جذبات کی آندھیاں چلتی ہیں، پھر حالات معمول پر آجاتے ہیں۔ شدتِ جذبات کی اوجِ ثریا سے کمالِ سکون کے تحت الثریٰ تک کا  یہ طویل سفر بس چند گھنٹوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارا یہی اجتماعی احتجاجی مزاج ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔ وہ مزاج جو واقعات کے صرف انتہائی سُروں ہی کو سن پاتا ہے۔ جو اُمیدیں وابستہ کرنے میں بھی فراخ دل ہوتا ہے اور مایوس ہونے میں بھی دیر نہیں لگاتا۔ جو ہرکوشش کا نتیجہ فوری دیکھنا چاہتا ہے۔ ایسا مزاج اور ذوق، اصلاحِ احوال کی سنجیدہ، دھیمی اور طویل المیعاد کوششوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

واقعہ یہ ہے کہ نہ یوپی کے مسلمانوں نے کوئی غیرمعمولی غلطی کی ہے اور نہ جو کچھ ہوا ہے، وہ کوئی بڑی تباہ کن آفت ہے۔ واقعات کو ہمیں اس کے اصلی رنگ میں اور صحیح تناسب میں دیکھنا چاہیے، یہی معقول رویہ ہے۔ بہار میں اتحاد مسلمانوں کا نہیں، بلکہ سیکولر جماعتوں کاہوا تھا۔ یوپی کی سیاست میں ایسا اتحاد ممکن نہیں ہوسکا، اور اس پر مسلمانوں کا کوئی بس نہیں تھا۔ مسلمانوں نے کبھی متحد ہوکر ووٹ نہیں دیا۔ ذات پات اور سیاسی جماعتوں کی تقسیم ہمیشہ رہی ہے۔ اس بار عام مسلمانوں نے معقولیت کے ساتھ ووٹ دینے کی ہرممکن کوشش کی۔کئی مسلم سیاسی جماعتوں نے حالات کو دیکھ کر خود کو انتخابی معرکہ سے دُور رکھا، یہ خود ایک غیرمعمولی بات ہے، اور اس سے پہلے کسی صوبے میں ایسا نہیں ہوا۔ جن مسلم جماعتوں نے ان حالات میں بھی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا، مسلمانوں نے عام طور پر انھیں لائقِ اعتنا نہیں سمجھا، جیساکہ ووٹوں کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ پہلے غیرمسلم ووٹ منقسم رہتے تھے، اس دفعہ وہ متحد ہوگئے۔ متحد کیوں ہوئے؟ اس کی وجوہ کئی ہیں۔ فرقہ پرست طاقتوں کا وفادار ووٹ بنک تو موجود ہے ہی۔ مسلمانوں کی جذباتی تقریریں، مذکورہ بالا قسم کے سوشل میڈیا پوسٹ، مسلم قائدین کی بے محل اور بے فیض اپیلیں، اُردو میڈیا کا شورشرابہ وغیرہ، فرقہ پرستوں کے وہ کارگر ہتھیار ہیں، جو مخلص مسلمانوں کے سادہ لوح ہاتھوں کے ذریعے پوری قوت سے استعمال ہوتے ہیں۔ انھوں نے منفی نتائج بخشنے کا کام خوب کیا۔ پھر بہت سے درمیانی ووٹرز بھی پلٹ گئے۔

اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کی ایک قابلِ ذکر آبادی ایسی ہے، جو فرقہ پرست نہیں ہے۔ لیکن فرقہ پرستی کا خاتمہ اس کا سب سے بڑا ایجنڈا بھی نہیں ہے۔ وہ متبادل، حوصلہ مند، نسبتاً زیادہ دیانت دار اور محنتی حکمران چاہتے ہیں ، اور اپنی سوچ کے مطابق موجودہ وزیراعظم میں انھیں یہ خوبیاں دکھائی دیں اور انھوں نے دوسروں پر انھیں ترجیح دیں۔

ذات پات اور طبقات میں بٹے ہوئے اس معاشرے کو کوئی طاقت ور مشترک خواب، کوئی مشترک اُمید اور کوئی نہایت حرکیاتی مشترک قیادت ہی متحد کرسکتی ہے۔ جوں ہی ملک کی بڑی آبادی کو یہ چیز میسر آئی، تو ذات پات کی دیواریں گرنے لگیں۔ مسلمانوں کو میسر آئے گی تو وہ بھی متحد ہوجائیں گے۔ ایسے کسی مشترکہ وژن اور متحدہ قیادت کے بغیر یہ اُمید کرنا کہ ہرمسلمان غیبی الہام کے ذریعے کسی ایک امیدوار کو متحد ہوکر ووٹ دے گا، خام خیالی ہے۔ بڑے سے بڑا تجزیہ نگار بھی بی جے پی کی مدمقابل پارٹی کی پوزیشن یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں تھا ،تو ایسے میں ایک عام مسلمان صحیح اندازہ کرکے ووٹ کیسے دیتا؟

رہی بی جے پی کے پردے میں آر ایس ایس کی جیت تو اس کی بنیاد پر مسلمانوں کو خواہ مخواہ احساسِ شکست کا شکار نہیں بننا چاہیے۔ نہ بی جے پی نے پہلی بار کسی ریاست میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور نہ یوپی میں پہلی بار کسی کو اتنی سیٹیں ملی ہیں۔ یہ صرف ایک سیاسی پارٹی نہیں ہے، بلکہ ایک نظریاتی تحریک ہے۔ یہ تحریک ایک عرصے سے اس ملک میں سرگرم ہے اور بہت پہلے   اس نے طاقت کے بہت سے مراکز پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔ آزادی سے قبل اور فوری بعد، خود کانگریس کا ایک بڑا طبقہ اسی نظریے کی سیاسی نمایندگی کرتا تھا۔ اسی طبقے کی انتہاپسندانہ اور    عدم رواداری کی سوچ کے نتیجے میں تقسیم ہند کا عمل تیز تر ہوا۔اسی طبقے نے فسادات کو ہندستان کی تاریخ کا مستقل حصہ بنایا۔ اسی نے منظم طریقے سے اُردو زبان کی جڑیں کاٹیں۔ جگہ جگہ مسجد مندر کے مصنوعی تنازعے پیدا کیے۔ پولیس اور انتظامیہ میں تعصب کا زہر پھیلایا۔ وقتی اور جذباتی مسائل میں مسلمانوں کو اُلجھایا۔ ان کی قیادتوں کو کمزور کیا۔ یاد رہے بھارت کا حقیقی اقتدار اصلاً بہت پہلے سے اسی طبقے کے کنٹرول میں ہے۔ اس لیے محض بی جے پی کے جیت جانے سے کسی بہت بڑے اس ’انقلاب‘ کا امکان نہیں ہے۔ انقلاب کا عمل آزادی کے بعد ہی سے جاری ہے۔ آزادی کے فوری بعد جس مقام پر کانگریس کھڑی تھی، اُس مقام پر آج بی جے پی کھڑی ہے۔ اُس وقت کانگریس کا ایک طبقہ مسلم دشمن تھا، آج بی جے پی کا ایک طبقہ مسلم دشمن ہے۔ اُس وقت وہ مقبول جماعت تھی اور آج یہ ہے۔ اُس وقت کانگریس میں لبرل اور  انصاف پسند لوگ بھی تھے اور آج بی جے پی میں بھی ہیں (اگرچہ تعداد اور تناسب میں یہ کم زیادہ ہوسکتے ہیں)۔ ان فرقہ پرست قوتوں کو یقینا ہارنا چاہیے تھا، لیکن اگر وہ نہیں ہاریں تو ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں پر کوئی بالکل نئی اور غیرمتوقع قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ اصل قابلِ توجہ چیز اس ملک کے عوام کا ذہن ہے۔ خاص طور پر اس ملک کی نئی نسل اور تعلیم یافتہ نوجوان کیا سوچ رہے ہیں؟ یہ اصل مسئلہ ہے۔ اگر ذہن مثبت ہے تو بی جے پی بھی کوئی غیرمعمولی کام نہیں کرپائے گی اور کچھ کرے گی تو ٹک نہیں پائے گی اور اگر ملک کا اجتماعی ذہن منفی ہے تو سیکولر جماعتیں بھی مسلمانوں کی طرف داری کا خطرہ مول لے کر ’خودکشی‘ کا راستہ نہیں اختیار کریں گی۔ اَمرِواقعہ ہے کہ ان نتائج کے باوجود غیرمسلم اکثریت میں بدترین تعصب نہیں پایا جاتا۔ لیکن اب ذہن تیزی سے مسموم ہوتے جارہے ہیں اور ان کا بروقت نوٹس لینا ضروری ہے۔

کرنے کا اصل کام پہلے بھی یہ تھا اور آج بھی یہ ہےکہ ہم مسلمان ملک کی اکثریت کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار کریں۔ ان کی غلط فہمیاں اور ان کے غلط شبہات اور اندیشے دُور کریں۔ پوری خوداعتمادی کے ساتھ دعوتِ دین کا فریضہ انجام دیں اور اس دعوت کی عملی شہادت بھی دیں۔ انھیں دین اسلام کے بارے میں بھی بتائیں اور اپنے عمل سے بھی خود کو خیرخواہ ثابت کریں۔ قوموں نے انبیاے علیہم السلام کی مخالفت ضرور کی ہے، لیکن کسی نبیؑ کو ان کی قوم نے اپنا بدخواہ نہیں سمجھا۔ دعوت کے آغاز سے پہلے ہرنبیؑ کا امیج اپنی قوم میں ایک مخلص اور خیرخواہ فرد کا تھا۔ ہمارا ایسا امیج کا   نہ ہونا دعوت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے اور ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ بھی۔ یہاں کی آبادی سے خیرخواہی کا تعلق قائم کرنا اور اسے منوانا، اس وقت ہماری اصل ترجیح ہونی چاہیے۔

سیاسی سطح پر بڑی ضرورت بیدارمغز سیاسی قیادت کے اُبھرنے کی ہے۔ مسلمانوں کی سیاسی و ملّی جماعتیں مل بیٹھ کر مشترکہ سیاسی قوت کو اُبھاریں۔ یاد رہے خود مسلم فرقہ پرستی دس گنا زیادہ طاقت ور ہندو فرقہ پرستی پیدا کرتی ہے، اس لیے ہماری سیاست کو فرقہ پرست اور مسلم قوم پرست رنگ کے بجاے اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اصول پسند اور انصاف پسند سیاست کا رنگ اختیار کرنا چاہیے۔

یہ خیال بھی صحیح نہیں ہے کہ ہرجگہ انتخابات میں حصہ لینا ضروری ہے۔ ملک کے اکثر مقامات پر غیرانتخابی سیاسی اثراندازی کی حکمت ِ عملی ہی کامیاب ہوسکتی ہے۔کہیں کہیں محدود پیمانے پر صرف مسلمانوں کی نہیں، بلکہ تمام طبقات کی نمایندگی کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ بھی لیا جاسکتا ہے، لیکن زیادہ تر ہماری قیادت کو سیاسی جماعتوں سے گفت و شنید اور مصالحت و معاہدات ، ووٹرز کی صحیح رہ نمائی کرنا اور منتخب نمایندوں سے کام کرانا جیسے عمل ہی کرنے ہوں گے۔ ایسی مشترکہ اور دانش مند قیادت اُبھرتی ہے تو وہ بی جے پی سے بھی بہت سے مفید کام کراسکتی ہے، اور ایسی قیادت کے بغیر من موہن سنگھ جیسے وزیراعظم کی مخلصانہ کوششوں کے باوجود ’سچرکمیٹی‘ جیسے متعلق متعدد فیصلے بھی دس برس بعد بے اثر رہ جاتے ہیں۔

جان کنی کے وقت سورۂ يٰسۗکی تلاوت؟

سوال: سورۂ يٰسۗ کوقرآن کا دل کہا جاتا ہے ، کیا یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے؟

جان کنی کے وقت سورۂ يٰسۗ کی تلاوت کی جاتی ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جان نکلنے کے بعد مُردے کے پاس بھی اس کی تلاوت کی جانی چاہیے۔اس سلسلے میں رہ نمائی فرمائیے ۔ کیا یہ باتیں احادیث سے ثابت ہیں؟

جواب: بعض روایات میں یہ باتیں مذکورہیں ، لیکن ناقدینِ حدیث نے انھیں ضعیف اور موضوع قرار دیا ہے۔مثلاً سورۂ يٰسۗ کے قرآن کا دل ہونے کی بات سنن ترمذی اورسنن دارمی کی ایک روایت میں آئی ہے، جوحضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اِنَّ لِکُلِّ شَی ءِ قَلْبًا وَقَلْبُ الْقُرآنِ يٰسۗ ،ہر چیز کا ایک دل ہوتا ہے اورقرآن کا دل سورۂ یٰسٓ ہے۔ (ترمذی :۲۸۸۷، دارمی:۲۱۴۹)

امام ترمذی ؒ نے لکھا ہے کہ ’’ یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں‘‘۔ اس کی سند میں ایک راوی ہارون ابومحمد ہے ۔ اسے امام ترمذی نے مجہول کہا ہے ۔ ابوحاتم نے فرمایا ہے کہ ’’یہ حدیث باطل ہے ۔ اس کی کوئی اصل نہیں ہے ‘‘۔ علامہ البانیؒ فرماتے ہیں کہ’’ اس کی سند میں ایک راوی مقاتل بن سلیمان ہے (نہ کہ مقاتل بن حیّان ) اوروہ کذّاب ہے۔ اس بنا پر یہ حدیث موضوع ہے ‘‘۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموـضوعۃ ، حدیث :۱۶۹)

اسی طرح روایات میں جان کنی کے وقت سورۂ يٰسۗ کی تلاوت کا حکم ملتا ہے۔ حضرت معقل بن یسار ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اِقْرَءُ وا يٰسۗ عَلٰی مَوْتَاکُمْ ،تم میں سے جن لوگوںکی موت کا وقت آگیا ہو ان پر  سورۂ يٰسۗ پڑھو۔(ابوداؤد،۳۱۲۱، ابن ماجہ :۱۴۴۸)

یہ روایت بھی ضعیف ہے ۔ اس کی سند میں ایک راوی عثمان ہے ، جس نے اسےاپنے باپ سے روایت کیا ہے ۔ یہ دونوں مجہول ہیں۔ امام دار قطنیؒ نے فرمایا ہےکہ ’’ اس موضوع پر روایت کی جانے والی کوئی روایت صحیح نہیں ہے ‘‘۔ علامہ البانی ؒ نے بھی اسے ضعیف قراردیا ہے۔(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ ، حدیث نمبر :۵۸۶۱)

تاہم، مسند احمد کی ایک روایت میں ، جو حضرت معقل بن یسار ؓ سے مروی ہے ، یہ دونوں باتیں مذکور ہیں ، یعنی اس میں یٰسٓ کو قرآن کا دل کہا گیا ہے اورجان کنی کے وقت اس کی تلاوت کا بھی حکم دیا گیا ہے ۔ لیکن اس کی سند میں عن رجل عن ابیہ (ایک آدمی نے اپنے باپ سے روایت کی) آیا ہے ۔ دونوں کے مجہول ہونے کی وجہ سے اس روایت کوضعیف قرار دیا گیا ہے ۔

جان نکلنے کے بعد جب تک میت کوغسل نہ دیا جائے، اسے ناپاک قرار دیا گیا ہے ۔ اس لیے غسل سے پہلے میت کے قریب قرآن مجید پڑھنے کو فقہاء نے مکروہ کہا ہے ۔ (کتاب الفتاویٰ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، طبع دیوبند،۳/۱۳۹)۔ (مولانا ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی)


دوسری تنظیم سے تعاون یا عدم تعاون

سوال : میں جماعت اسلامی کی رکن ہوں اور ابلاغی محاذ (بلاگز، اخبارات، انٹرنیٹ) پر دین اور تحریک کے دفاع کے لیے بسا ط بھر متحرک اور دل و دماغ اور قلم سے حاضر ہوں۔ میرے شوہر کا تعلق ایک رفاہی تنظیم سے ہے۔ میرے شوہر کو جماعت کے نظم سے کوئی شکایت نہیں اور وہ جماعت میں میری سرگرمیوں پر خوش ہیں اور اکثر اوقات مددگار ہوتے ہیں۔ جس سے میرے لیے ان سرگرمیوں میں حصہ لینا آسان اور حوصلہ افزا ہے۔ میں کبھی کبھار کسی پہلو سے شوہر کی وابستگی والی تنظیم کے لیے دوچار سطریں سوشل میڈیا پر لکھ دیتی ہوں، جن کا تعلق ان کی تنظیم کی جانب سے اُٹھائے گئے کسی سماجی مسئلے سےمتعلق ہوتا ہے۔ ان تمہیدی سطور کے بعد عرض یہ ہے کہ:

۱- کیا ایک ہی مقصد رکھنے والوں کو محض مختلف پلیٹ فارم ہونے کے باعث ہرسطح پر الگ سمجھنا درست ہے؟

۲- ابلاغِ دین یا رفاہی کاموں میں میرا اپنے شوہر سے کیا رویہ ہونا چاہیے؟

اس پیش آمدہ تحریکی اور گھریلو پریشانی پر درخواست گزار ہوں کہ رہنمائی فرمائیں۔

جواب : ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ص وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ ص (المائدہ ۵:۲) ’’نیکی اور تقویٰ کے کام میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور گناہ اور معصیت کے کام میں باہمی تعاون نہ کرو‘‘۔ قرآنِ پاک کے اس ارشاد کی روشنی میں ایک شخص یا اشخاص ایک تنظیم میں رہتے ہوئے،کسی دوسری تنظیم سے تعاون کرسکتے ہیں۔ اپنی بیان کردہ صورتِ حال کے مطابق اگر آپ اس اصول پر چل رہی ہیں تو چاہے آپ کا شوہر جماعت اسلامی میں شامل نہیں، آپ صحیح سمت پر گامزن ہیں اور اسی اصول پر عمل پیرا رہیں۔(مولانا عبدالمالک)


مرحوم و مغفور کے معنی

سوال : بعض مقالات میں فوت ہو جانے والے لوگوں کے لیے ’مرحوم و مغفور‘ لکھا جاتا ہے۔ ’مرحوم‘ کے معنی ہیں ’جس پر رحم کیا گیا ہو‘ اور ’مغفور‘ کے معنی ہیں ’بخشا ہوا‘ یعنی جس کو ’بخش دیا گیا ہو‘۔ یہ لکھنا کس طرح صحیح ہے، جب کہ کسی کے پاس اس کا علم نہیں کہ کون بخشا گیا ہے اور کون نہیں بخشا گیا؟

جواب :یہ دونوں لفظ بطورِ دُعا لکھے جاتے ہیں، جیسے ’رحمہ اللہ‘ اور ’غفرلہٗ‘ لکھا جاتا ہے۔ پہلے جملے کے معنی یہ ہیں کہ ’اللہ ان پر رحم فرمائے‘ اور دوسرے جملے کے معنی یہ ہیں کہ ’اللہ ان کی مغفرت فرمائے‘۔ ’مرحوم‘ رحمہ اللہ کی جگہ اور ’مغفور‘، غفرلہٗ کی جگہ استعمال ہوتاہے۔ (مولانا سیّد احمد عروج قادری، احکام و مسائل، دوم، ص ۱۶۷)

 

A Documentary History of Islamic Education In Pakistan (پاکستان میں اسلامی تعلیم کی دستاویزی تاریخ ) مرتبین : ڈاکٹر ممتاز احمد،حسن الامین۔ ناشر :ایمل پبلی کیشنز ، ۱۲- سیکنڈ فلور، مجاہد پلازہ ، بلیو ایریا، اسلام آباد ۔ فون : ۲۸۰۳۰۹۶۔۰۵۱۔ صفحات : ۳۳۲،قیمت : ۴۹۰ روپے۔

اس کتاب کے مرتبین نے تعارف میں لکھا ہے: ہمیں یہ کتاب ترتیب دینے کا خیال اسلامک فاونڈیشن بنگلہ دیش کی شائع کردہ : Reports on Islamic Education And Madarssa Education in Bengal (1861-1997)  دیکھ کر آیا۔ چنانچہ مرتبین نے ۱۹۴۷ء سے تاحال اسلامی تعلیم پر پالیسی دستاویزات کو مرتب کیا گیا ہے۔ زیر نظر کتاب میں ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۰ء تک حسبِ ذیل رپورٹیں اور دستاویزات یک جا کی گئی ہیں:l پاکستان ایجوکیشن کانفرنس ، ۱۹۵۹ء lقومی تعلیم پر شریف کمیشن کی رپورٹ ۱۹۵۹ء lسید معظم حسین کمیٹی رپورٹ: اسلامی عربی یونیورسٹی کمیشن ، ۱۹۶۴ء- ۳ ۱۹۶ء lمشرقی پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ، ۱۹۶۶ء lمدرسہ ایجوکیشن پر ۶۷-۱۹۶۶ء کے سیمی نار کی رُوداد l نور خان کمیشن کی رپورٹ ۱۹۶۹ء lنئی تعلیمی پالیسی ۱۹۷۰ء ۔

مرتبین نے مغربی مصنّفین کی اس غلط فہمی کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے، پاکستان میں اسلامی تعلیم کا دائرہ صرف دینی مدارس تک محدود ہے۔ اسکولوں ، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں جو مذہبی تعلیم دی جاتی ہے، وہ بھی اسلامی تعلیم کے زمرے میں شمار ہوتی ہے۔

 مرتبین نے دوسری جلد بھی جلد شائع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اقبال انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ براے تحقیق ومکالمہ (IRD ) کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ممتاز احمد ( م: ۳۰ مارچ ۲۰۱۶ء )     نے کتاب کا انتساب پروفیسر ظفر اسحاق انصاری کے نام کیا تھا، مگر وہ ممتاز صاحب کے ۲۶ روز بعد (۲۴؍اپریل ۲۰۱۶ء ) انتقال کر گئے۔ یہ کتاب ان دونوں محترم اور ممتاز محققین کی یاد تازہ کرتی رہے گی۔ (رفیع الدین ہاشمی)


اسفار اقبال ، عنایت علی ۔ ناشر :قرطاس پبلشرز پوسٹ بکس نمبر ۲۵، فیصل آباد ۔ ملنے کا پتا: مکتبہ معارف اسلامی منصورہ لاہور۔ صفحات : ۳۱۲۔ قیمت : ۴۸۰ روپے۔

علامہ اقبال جیسی مختلف الحیثیات شخصیت کے سوانح اور فکر وفلسفے پر ہزارسے اوپر کتابوں کے باوجود ، نئی کتابوں کی تالیف واشاعت کا سلسلہ جاری ہے۔ زیر نظر کتاب میں علامہ اقبال کے ملکی اور غیر ملکی اسفار کی تفصیلات جمع کی گئی ہیں۔ اقبال کا پہلا قابلِ ذکر سفر انگلستان کا تھا، جس سے تین سال بعد وہ تین ڈگریاں لے کر واپس آئے ۔ بعد ازاں انھوں نے حیدر آباد دکن ، کشمیر ، مدراس ، میسور، الٰہ آباد ، شملہ ، افغانستان، سرہند شریف ، بھوپال، دہلی اور پانی پت کے سفر کیے۔ درمیان میں دوبار یورپ گئے اور ان دوروں میں انھوں نے انگلستان کے علاوہ ہسپانیہ ، اٹلی ، مصر ،فلسطین کے مختلف علاقوں اور شہروں کے علاوہ بیت المقدس کی زیارت کی۔

مؤلف پیشے کے اعتبار سے انجینیر ہیں ۔ برسوں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے وابستہ رہے۔ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کی ساتھ ساتھ انھوں نے فروغِ اقبالیات کو بھی مقاصد زندگی میں شامل کیے رکھا۔ جس کا حاصل زیرِ نظر کتاب، یعنی اسفارِ اقبال کا ایک بہترین موقع ہے۔ سلیقے سے مرتب کی گئی یہ کتاب اقبالیات کی دل چسپ کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔ طباعت اور اشاعتی معیار اطمینان بخش ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


تعارف کتب

oسیرت سید الابرار ؐ ، منیر احمد خلیلی ۔ ناشر : ادبیات ، غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور۔ صفحات : ۴۹۴۔ قیمت : ۸۵۰ روپے۔[سیرتِ پاکؐ پر اس کتاب کے پہلے حصے میں ولادت سے وفات تک کے واقعات کا تذکرہ ہے، دوسرے حصے میں سیرت وسنّت کے قرآنی گوشوں ، تزکیہ وتربیت ، دعوت وتبلیغ ، امربالمعروف ونہی عن المنکر اور حقوق النبیؐ پر بات کی گئی ہے۔ مؤلف نے جو لکھا ، سیرت پر ماقبل اردو کتابوں اور عربی مآخذ کو سامنے رکھ کر چھان پھٹک کر ذمّہ داری سے لکھا ۔ یہ کتاب اردو کے ذخیرہ سیرت النبی ؐ میں اچھا اضافہ ہے۔ ]

اذکارِ مسنونہ

سوال: واقعہ یہ ہے کہ بچپن میں غیرشعوری حالت میں والد بزرگوار نے سجادہ نشین سلطان امیرمرحوم کے ہاتھ پر میری بیعت کرائی۔ جو فرائض کے پابند کبائر سے مجتنب، خدایار آدمی تھے۔ دربار پر جاتے تو مسنون طریقے سے دُعاے مغفرت کرتے۔ لوگوں نے دربار کا طواف شروع کر دیا تو موصوف نے دربارکے اندر ایک ایسی دیوار بنوا دی، جس سے طواف ناممکن ہوگیا۔ اُن کے ان اعمال اور خدایار ہونے کی وجہ سے مجھے ان سے بے حد عقیدت تھی۔ ۱۹۴۳ء میں جماعت کی رکنیت سے سرفراز ہوا۔ اس کے بعد میرے اندر ایک زبردست کش مکش ہوئی۔ وہ یہ کہ سکونِ قلب کے لیے رکنیت اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنا کافی محسوس ہوتا رہا، مگر ساتھ ہی اپنی توجہات کو سمیٹ کر ایک مرکز پر مجتمع رکھنے کے لیے اوراد و وظائف کی تشنگی محسوس ہوتی۔ اس مقصد کے لیے جب مختلف حضرات کی طرف نظر دوڑاتا تو اقامت ِ دین کے بنیادی تقاضوں سے ان کی غفلت ان کی ساری وقعت گھٹا دیتی…  میری درخواست ہے کہ اذکار و اورادِ مسنونہ میں سے کچھ ایسی چیز یا چیزیں تجویز فرما دیں جو میری طبیعت سے مناسبت رکھتی ہوں اور جن سے ۱۵، ۲۰، ۲۵ منٹ صرف کر کے اپنی توجہات کو سمیٹنے میں مدد لیا کروں۔

جواب: ’ذکر‘ کے معاملے میں دو باتیں پیش نظر رہنی چاہییں۔ ایک یہ کہ ’ذکر‘ بہ تکلف نہ ہونا چاہیے بلکہ دلی رغبت اور شوق کے ساتھ ہونا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ ذکر کا انتخاب اپنے دلی ذوق کی بناپر کرنا چاہیے۔ ذکر وہ کیجیے جس سے خود اپنی رُوح کی مناسبت آپ کو محسوس ہو، اور اس وقت کیجیے جب پوری توجہ اور رغبت کے ساتھ آپ کرسکیں۔

ان دو باتوں کو ذہن میں رکھ کر آپ مشکوٰۃ میں سے تین مقامات کو بغور پڑھیں۔ کتاب الصلوٰۃ میں سے باب الذکر بعد الصلوٰۃ اور باب صلوٰۃ اللیل، باب القصد فی العمل اور کتاب الدعوات پوری۔ ان حصوں میں آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ذکر و دُعا کس طرح فرماتے تھے اور دوسروں کو آپؐ نے کیا کیا چیزیں اس سلسلے میں بتائی ہیں۔ ان میں سے جو جو چیزیں بھی آپ کے دل کو لگیں ان کا انتخاب کرلیجیے۔ (’رسائل و مسائل‘ ، ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴۸، عدد۲، مئی ۱۹۵۷ء ، ص ۱۰۱-۱۰۲)