پروفیسر خورشید احمد


قوم اس سانحے پر دل گرفتہ تھی‘ اور خود فوج سے نسبت رکھنے والے دردمند افراد بھی شرمندہ تھے کہ شمالی وزیرستان میں ڈھائی سو فوجی افسروں اور جوانوں کے ایک پورے دستے (garrison) کو ایک گولی چلائے بغیر‘ قبائلی جوانوں نے زیرحراست لے لیا۔ یہ مغوی فوجی تقریباً دو ماہ سے قبائل کے قبضے میں ہیں اور اپنی رہائی کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں افواجِ پاکستان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد‘ اتنی بڑی تعداد میں فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے (سرنڈر) کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔  اس پر جنرل پرویز مشرف نے ایوانِ صدر کے پُرتکلف ماحول میں جس پر اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے   ؎

ترے صوفے ہیں افرنگی‘ ترے قالین ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رُلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی

جرنیلی شان سے جنگی حکمتِ عملی کی کتاب کا ورق کھولتے ہوئے فرمایا کہ ان کو پہلے مورچے لگانے چاہییں تھے اور پھر قبائل سے بات چیت کرنا چاہیے تھی اور چونکہ انھوں نے یہ ’پروفیشنل‘ راستہ اختیار نہیں کیا‘ اس لیے ۱۸ فوجی گاڑیوں کا یہ قافلہ جس میں بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایک چوتھائی حصہ سامانِ رسد اور تین چوتھائی اسلحے پر مشتمل تھا‘ قبائل کی گرفت میں آگیا۔ جنرل صاحب کا    یہ تجزیہ ممکن ہے کتابی اعتبار سے درست ہو‘ لیکن کیا فی الحقیقت پیشہ ورانہ رویے سے محرومی صرف اس ایک دستے کا معاملہ ہے یا جنرل پرویز مشرف کے دورِاقتدار میں جو سب سے اندوہناک سانحہ رونما ہوا ہے‘ اس کا تعلق فوج کے پیشہ ورانہ کردار کی کمزوری ہی سے ہے۔

فوج کو فی الحقیقت پیشہ ورانہ مہارت کے اعلیٰ ترین معیار کا پیکر ہونا چاہیے لیکن جس   فوج کو سیاست میں زبردستی کھینچ کر لایا گیا ہو‘ جو ہمہ وقتی سربراہ کی خدمات سے محروم ہو‘ جس کے  اعلیٰ صلاحیت رکھنے والے سیکڑوں افراد کو سول انتظامیہ میں گھسیٹ لیا گیا ہو‘ جس کو کاروباری معاملات میں اتنا الجھا دیا گیا ہو کہ ایک تازہ تحقیقی کتاب Military Inc. کے مطابق ۲۰۰ ارب روپے سے زیادہ کے کاروبار میں افواج‘ یا ان سے وابستہ ادارے ملوث ہیں‘ اور فوج Mili-Bisکی شکل اختیار کرتی جارہی ہے‘ اس سے کسی پیشہ ورانہ مہارت کی توقع کی جاسکتی ہے؟

گستاخی معاف‘ فوج میں پروفیشنلزم پیدا ہوتا ہے فوجی مقاصد‘ آداب اور جان دینے کے کلچر سے مکمل وابستگی کے ماحول میں۔ اگر ماحول سیاسی کھیل میں کھلاڑی بننے اور دنیا بنانے کا ہو تو پھر جان کی بازی لگانے والی کیفیت کیسے پیدا ہو۔ اگر توجہ کا مرکز سیاست میں الجھنا‘ مادی‘ معاشی اور کاروباری معاملات میں ملوث ہونا اور کیریر بنانا اور زمینوں کی ہوس بن جائیں تو پھر پروفیشنلزم کہاں سے پیدا ہو۔ اگر فوجی قیادت ہی نہیں‘ جوانوں کو دوسروں کی حفاظت کی جگہ خود اپنی حفاظت کی فکر ہو تو پھر ملک کی حفاظت کا خدا حافظ اور فوجی پروفیشنلزم قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔

بدقسمتی سے جس فوج کی شہرت (حقیقت جو بھی ہو اور جتنی بھی ہو) یہ ہوجائے کہ اس کے بارے میں دنیا میں کہا جائے کہ سینیر جنرلوں نے مال و جایداد جمع کرنے میں بے نظیر اور ان کے شوہر کوبہت پیچھے چھوڑ دیا ہے  (دی گارڈین‘۲۰ اکتوبر ۲۰۰۷ء) تو پھر اس کے افسروں اور سپاہیوں سے کون سے پروفیشنلزم کی توقع کی جائے۔ یہ چیزیں فوج کی پیشہ ورانہ مہارت کو فروغ دیں گی‘ یا اسے اس سے بتدریج دُور کرتی چلی جائیں گی۔ یہ بڑا بنیادی سوال ہے جس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

پھر فوج کی پیشہ ورانہ مہارت کا بڑا گہرا تعلق اس امر سے ہے کہ جس آپریشن میں فوج کو لگایا گیا ہے‘ اس کے بارے میںاس کے اور قوم کے جذبات کیا ہیں۔ پیشہ ورانہ مہارت محض کوئی فنی چیز نہیں ہے‘ اس کا تعلق انسان کی پوری شخصیت‘ اس کے محرکات و عزائم اور ان حالات و کوائف سے ہے جن میں کوئی اس سے عملی کام لیتا ہے۔ اگر فوج اور قوم اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ سمجھتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کوئی حقیقی جنگ نہیں ہے‘ یہ پاکستان‘ اسلام یا اُمت مسلمہ کی جنگ نہیں ہے بلکہ امریکا کی عالمی ہوسِ اقتدار اور اسلام دشمنی کی جنگ کا حصہ ہے‘ جس میں فوج کو جھونکا جا رہا ہے تو اس فوج میں پیشہ ورانہ مہارت کہاں سے آسکتی ہے۔ آپ کتنے بھی دعوے کریں کہ یہ ہماری اپنی جنگ ہے‘ قوم اور خود فوج کا ذہن اور دل اسے تسلیم نہیں کرتے۔ بلکہ آپ خود باربار کہہ چکے ہیں کہ اگر ہم یہ کام نہ کریں‘ تو امریکا کرے گا۔ آپ کے وزیرخارجہ نے اسی ہفتے کہا ہے کہ اگر ہم قبائلی علاقوں میں کارروائی نہ کریں‘ تو ناٹو کے تیس ممالک کی فوجیں خاموش نہیں بیٹھیں گی‘ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ پاکستان کی نہیں امریکا اور ناٹو کی جنگ ہے۔ جس فوج کے افسر اور جوان ضمیر کی یہ خلش رکھتے ہوں‘ ان میں پیشہ ورانہ رویہ کہاں سے آئے گا؟ آپ نے فوج کو تیار تو کیا تھا بھارت کی فوج کے مقابلے کے لیے اور یہ معرکہ جب بھی ہوا‘ فوج کے جوانوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ لیکن جس فوج کو ایک جانے پہچانے دشمن کے لیے تیار کیا گیا تھا‘ اسے اپنے ہی اہل و عیال کے کشت و خون کے لیے استعمال کیا جائے اور پھر اسے‘ اس کے غیرپیشہ ورانہ رویے کا طعنہ دیا جائے تو اس سے بڑا ستم اور کیا ہوسکتا ہے۔

پھر ایک اور بڑا بنیادی سوال ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری فوج کی ساری تربیت ہی منظم جنگ کے لیے ہوئی ہے۔ منظم اور روایتی جنگ اور گوریلا جنگ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ جس فوج کی ساری پیشہ ورانہ صلاحیتیں اور تربیت روایتی جنگ کے لیے ہو‘ اسے آپ گوریلا جنگ کے ایک ایسے میدان میں جھونک دیں جس کی نہ اُونچ نیچ سے وہ واقف ہو اور نہ جس کی مخصوص حکمت عملی  پر اس کی گرفت ہو اور پھر اس میں پیشہ ورانہ رویے کی کمی کی بات کی جائے‘ تو یہ فوج میں پیشہ ورانہ رویے کی کمی کا مظہر ہے یا پیشہ ورانہ رویے کا درس دینے والوں کے غیرپیشہ ورانہ طرزِعمل کا ثبوت؟مناسب ہوگا اگر اس پس منظر میں خود امریکا اور ناٹو ممالک کے نہایت ہی    اعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیت اور تربیت رکھنے والی افواج کی زبوں حالی کو بھی نگاہ میں رکھا جائے۔ امریکا کی فوج کی تربیت اور فنی برتری کے بارے میں تو دو آرا نہیں ہو سکتیں‘ لیکن غیرتربیت یافتہ مجاہدین اور مزاحمت کاروں کے ہاتھوں عراق اور افغانستان میں اور اس سے پہلے ویت نام میں اس کا کیا حشر ہوچکا ہے۔ اسرائیل کی فوج کے پروفیشنلزم کا تو بڑا چرچا ہے مگر لبنان میں حزب اللہ کے غیرفوجی مجاہدین نے جس طرح اسرائیل اور اس کے مددگاروں کو شکست سے دوچار کیا‘ وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

امریکا کے سابق کمانڈر کا بیان ۱۴ اکتوبر ۲۰۰۷ء کے امریکی اخبارات میں شائع ہوا ہے اور پوری دنیا میں بشمول پاکستان‘ میڈیا نے اسے بڑی اہمیت دی ہے۔ اس نے عراق میں امریکی افواج کی ناکامی کی پوری ذمہ داری وائٹ ہائوس کی جنگی حکمت عملی پر ڈالی ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں:

امریکا ایک ڈرائونے خواب سے گزر رہا ہے جس کا کوئی اختتام سامنے نہیں ہے۔ ہمارے قومی رہنمائوں نے غیرمعمولی نااہل اسٹرے ٹیجک قیادت کا مظاہرہ کیا ہے۔ بڑے پیمانے پر غلطیوں سے پُر‘ غیرحقیقت پسندانہ حد تک پُرامید جنگی منصوبے سے   لے کر انتظامیہ کی جدید ترین حکمت عملی تک‘ یہ انتظامیہ ممکنہ معاشی اور فوجی طاقت کو ہم آہنگ کرنے اور استعمال کرنے میں ناکام رہی ہے۔ موجودہ انتظامیہ‘ کانگریس‘ خفیہ ایجنسیوں خصوصاً اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو اس عظیم ناکامی کی ذمہ داری کو قبول کرنا چاہیے‘ اور امریکی عوام کو انھیں جواب دہ قرار دینا چاہیے۔ (دی نیشن‘ ۱۴ اکتوبر ۲۰۰۷ء)

جو کچھ وزیرستان میں ہو رہا ہے‘ وہ اس کی کاربن کاپی ہے۔ جو ڈھائی ہزار فوجی حراست میں آئے ہیں‘ وہ جنرل پرویز مشرف کی لہر کا شاخسانہ تھے۔ امریکا کی حکمت عملی کا جو حشر عراق میں ہو رہا ہے‘ وہی جنرل پرویزمشرف کی حکمت عملی کا وزیرستان میں ہونا مقدر ہے۔ جنرل صاحب کی آنکھیں کھلی ہوں یا نہ کھلی ہوں لیکن امریکی کانگریس کی House Armed Services Committee کی جو کارروائی امریکی اخبارات میں ۱۱اکتوبر ۲۰۰۷ء کو شائع ہوئی ہے‘ اس میںاعتراف کیا گیا ہے کہ:

صدرپرویز مشرف سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کچھ زیادہ کرنے کے لیے امریکا کا دبائو معکوس نتائج دے رہا ہے‘ اور قبائلی علاقوں میں انتہا پسندوں کے خلاف جنگ ہاری جاچکی ہے۔

ڈاکٹر مارون وین بام نے جو واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہیں‘ کمیٹی کے سامنے اپنی شہادت میں کہا ہے:

ہم میں سے بیش تر جن کی موجودہ مرحلے میں پاکستان پر نظر ہے‘ یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان شمال مغربی صوبے میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ہارچکا ہے۔

جس طرح امریکی جنرل ریکارڈو سان شیز نے کہا ہے کہ پروفیشنلزم کی کمی فوج میں نہیں‘ اس قیادت میں ہے‘ جس نے فوج کو اس آزمایش میں ڈالا ہے اور جواب دہی اس قیادت کی ہونی چاہیے‘ جو اس اسٹرے ٹیجک تباہی کی اصل ذمہ دار ہے   ع

ہم الزام ان کو دیتے تھے‘ قصور اپنا نکل آیا

 

امتحان اور آزمایش کی وہ گھڑی جو کئی مہینے سے سروں پر منڈلا رہی تھی‘ اب قوم کے سامنے ہے اور صدارت پر قابض جنرل پرویز مشرف نے دستور‘ قانون ‘ آدابِ سیاست اور اصولِ اخلاق کو بالاے طاق رکھ کر پورے فوجی کروفر کے ساتھ موجودہ اسمبلیوں سے وردی میں صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کردیا ہے اور سپریم کورٹ تک کو ایک دھمکی آمیز بیان سے نوازا ہے کہ ’’اگر میں صدر منتخب ہوگیا تو ۱۶ نومبر ۲۰۰۷ء تک چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے سے فارغ ہوجائوں گا‘‘۔

الیکشن کمیشن نے بھی ۱۹۸۸ء کے انتخابی قواعد میں ۱۰ستمبر یہ تبدیلی کر کے (اس تبدیلی کی منظوری بھی جنرل پرویز مشرف ہی سے لی گئی ہے) کہ صدر کے انتخاب پر دستور کی دفعہ ۶۳ کا  اطلاق نہیں ہوگا‘اپنی تابع داری کا بھرپور اظہار کردیا ہے۔سپریم کورٹ میں یہ مسئلہ زیرغور    (sub judice) ہے کہ صدر دو عہدے رکھ سکتا ہے یا نہیں اور کیا فوج کا چیف آف اسٹاف صدارت کا امیدوار بن سکتا ہے یا نہیں‘ لیکن عدالت کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب کا شیڈول جاری کردیا ہے اور دستور کی دفعہ ۶۳ کی بے دخلی کے ساتھ ایک اور ترمیم یہ بھی کردی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے سوا کوئی اور ریٹرننگ آفیسر کسی امیدوار کے کاغذات کو رد یا قبول نہیں کرسکتا۔ .ُ

جنرل صاحب نے جس آخری مُکے کی دھمکی دی تھی‘ اس کا بھرپور استعمال شروع ہوگیا ہے۔ اس کاآغاز ۱۰ستمبر کو جناب نواز شریف کے ساتھ بدسلوکی‘ سپریم کورٹ کے ۲۳ اگست کے فیصلے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے انھیں اپنے ملک میں واپس آنے کے حق سے محروم کرنے‘ نیز ان کے اغوا اور ملک بدری سے کیا گیا‘ اور اب ہر ممکن ہتھکنڈے سے جمہوری سیاسی جدوجہد کا راستہ قوت سے روکنے اور ریاست کی مشینری کو حزبِ اختلاف کے قائدین اور سیاسی کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاری‘ راستوں کی بندش‘ اور جمہوری احتجاج کے ہر عمل کو ناکام بنانے کا عمل زورشور سے پورے ملک میں جاری ہے۔

اس وقت قوم کو اور اس کے ساتھ‘ قوم اور دستور کی حفاظت کرنے والے اعلیٰ ترین ادارے __سپریم کورٹ __ دونوں کو ہماری تاریخ کے نازک ترین امتحان سے سابقہ ہے۔ سپریم کورٹ کا امتحان یہ ہے کہ اس نے بڑی عظیم قربانی اور جدوجہد کے بعد ۲۰ جولائی کو جو آزادی اور عزت حاصل کی ہے‘ وہ اس کی حفاظت کرپاتی ہے یا’نظریۂ ضرورت‘ کے جس دیو استبداد کو دفن کرنے کی بشارت دی گئی تھی اسے اور بھی گہرا دفن کیا جاتا ہے یا خدانخواستہ نئی زندگی دینے کا سامان کیا جاتا ہے؟

صدارتی انتخاب اور اس کے لیے اہلیت کے سلسلے میں جو مقدمات اس وقت سپریم کورٹ کے زیرسماعت ہیں‘ ان کا فیصلہ چند دن میں آنے کی توقع ہے اور ہم یہ امید رکھتے ہیں اور یہی دعا کرتے ہیں کہ عدالت پوری آزادی اور دیانت کے ساتھ دستور کے مطابق حق و انصاف کی روشنی میں خالص میرٹ پر فیصلہ کرے۔ ہم کوئی بدگمانی نہیں کرنا چاہتے لیکن کسی خوش فہمی کی بھی گنجایش نہیں۔ اصل مسئلہ ملک اور قوم کے مستقبل کا‘ اس کی آزادی اور حاکمیت کا‘ اور اس ملک کے آیندہ کے نظامِ حکمرانی کا ہے کہ یہ ملک جمہوریت اور دستور اور قانون کی بالادستی کا گہوارہ بنتا ہے یا خدانخواستہ آمریت اور سیاست میں فوج کی مداخلت کی دلدل میں گھرا رہتا ہے اور ایک تباہی کے بعد دوسری تباہی کا سفر شروع کر دیتاہے؟

اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اس نازک لمحے پر قوم اور عدالت دونوں کی توجہ ایک بار پھر نہایت اختصار سے اصل مسائل (issues) پر مرکوز کرا دیں۔ عدالت جو بھی فیصلہ کرے‘ دستوری نظام کا تقاضا ہے کہ اس کا احترام کیا جائے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے اور پاکستان کی ۶۰سالہ تاریخ اس پر گواہ ہے کہ سیاست دانوں اور پارلیمنٹ کی طرح عدالت نے بھی بودے سہاروں کے     بل بوتے پر ’نظریۂ ضرورت‘ کے تحت دستوری اور جمہوری نظام کو فروغ دینے اور اس کے تحفظ کرنے کے باب میں ہمیشہ وہ کردار ادا نہیں کیا جس کی قوم کو ان سے توقع تھی اور جو بے لاگ  عدل و انصاف کی اعلیٰ روایات سے مطابقت رکھتا ہو۔ بلاشبہہ قانون کے مسلمہ اصول courts' right to revisit کی بنیاد ہی یہ ہے کہ انسانوں کا اعلیٰ ترین ادارہ بھی غلطی کرسکتا ہے اور اس کی اصلاح کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے ___اس لیے کہ اصل فیصلہ تو پھر تاریخ کے قاضی ہی کا ہوتا ہے اور تاریخ بڑی بے لاگ نقاد ہے۔ نیز درست فیصلہ وہی ہوتاہے جو قوم کے ضمیر کی آواز ہو‘ اس لیے کہ ملک کے اصل نگہبان ۱۶ کروڑ عوام ہیں‘ جو قرارداد مقاصد کے واضح الفاظ میں اللہ کی حاکمیت کے تابع حکمرانی کے اختیارات کے اصل امین (trustee) ہیں اور ان کے دیے ہوئے اختیار کے تحت جس کا اظہار ایک طرف دستور اور قانون کی شکل میں ہوتاہے تو دوسری طرف ان کی آزاد مرضی سے منتخب ہونے والے افراد اور ادارے انجام دیتے ہیں اور ان سے بار بار متعین وقفوں سے مینڈیٹ (اختیار) حاصل کرتے ہیں۔ قانون کسی کی ذاتی مرضی کا نام نہیں بلکہ اس پورے دستوری نظام اور اداراتی انتظام سے عبارت ہے اور عدلیہ کا اس میں بڑا اہم مقام اور کردارہے۔ بات نامکمل رہے گی اگر اس امر کی تذکیر بھی نہ کی جائے کہ عوام اور تاریخ دونوں اپنا فیصلہ دیتے ہیں اور وہ بڑا کھرا فیصلہ ہوتا ہے لیکن ایک آخری فیصلہ جو سب سے بھاری ہے‘وہ ہے جو خود اللہ تعالیٰ فرمائے گا اور اس فیصلے سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ عدالت اور عوام سب کو اس آخری فیصلے کے پورے احساس اور شعور کے ساتھ اپنا اپنا کردار اداکرنا چاہیے کہ کامیابی کا یہی راستہ ہے۔


اس وقت عدالت اور قوم دونوں کے سامنے اصل سوال ایک اور صرف ایک ہے ___ یعنی ملک کا مستقبل کا نظام کیساہوگا ___آمریت یا جمہوریت‘ شخصی حکمرانی یا دستور اور قانون کی بالادستی‘ انصرامِ حکومت کا عوام کے حقیقی نمایندوں کے ہاتھوں میں ہونا یا جبر اور قوت سے مسلط کیے جانے والے افراد کی حکمرانی‘ اور واضح الفاظ میں سیاسی نظام میں فوج کی مداخلت بلکہ بالادستی یا فوج کے کردار کا دستور کے مطابق سول قیادت کے ماتحت صرف دفاعی ذمہ داریوں تک محدود ہونا۔ عدالت کے فیصلے کا اصل موضوع یہی ایشو ہے‘ مجوزہ صدارتی انتخاب کامرکزی نکتہ بھی یہی مسئلہ ہے‘ ملک میں سیاسی جماعتوں‘ وکلا اور سول سوسائٹی کی جدوجہدکا محور بھی یہی چیز ہے‘ اور آنے والے قومی اور صوبائی انتخابات کی جدوجہد کا محور بھی یہی چیز ہے‘اور آنے والے قومی اور صوبائی انتخابات کا مرکزی موضوع بھی یہی فیصلہ کن امر ہے۔

عدالت میں جس مرکزی سوال پر بحث ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ:

کیا موجودہ اسمبلیاں نیا صدر منتخب کرسکتی ہیں‘ یا اس کا سیدھا راستہ غیر جانب دار نظام کے تحت‘ آزاد اور معتمد علیہ الیکشن کمیشن کے ذریعے‘ شفاف انتخابات ہیں جن کے ذریعے قوم نیامینڈیٹ دے اور اس کی روشنی میں صدر‘ پارلیمنٹ اور انتظامیہ سب اپنا اپناکردار ادا کریں۔

دوسرا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کیا کوئی شخص فوج کے چیف آف اسٹاف کے عہدے پر فائز ہوتے ہوئے صدارتی انتخاب میں حصہ لے سکتا ہے اور کیا کوئی قانون یا ضابطہ کسی فردکو یہ ’حق‘  دے سکتا ہے؟

تیسرا مسئلہ جو ماضی کے کچھ عدالتی فیصلوں کی بنا پر پیدا کردیا گیا ہے‘ یہ ہے کہ کیا صدر کے انتخاب کے لیے دستور کی دفعہ ۶۳ لاگو ہوتی ہے یا نہیں؟ دستور میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی اہلیت کے لیے دو شقیں ہیں یعنی دفعہ ۶۲ اور دفعہ ۶۳۔ لیکن کیا صدر کے لیے صرف دفعہ ۶۲ لاگو ہوتی ہے اور دفعہ ۶۳ کا اس انتخاب سے کوئی تعلق نہیں‘ جیساکہ سرکاری حلقے دعویٰ کررہے ہیں اور الیکشن کمیشن سے انھوں نے اس تعبیر کے مطابق ضوابط کار میں تبدیلی کرا لی ہے۔

چوتھا مسئلہ جو نسبتاً ٹیکنیکل نوعیت کا ہے یہ ہے کہ کیا اس مرحلے پر عدالت عظمیٰ کو اس باب میں مداخلت کرنی چاہیے؟

عدالت جو بھی فیصلہ کرے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ عوام کی تفہیم کے لیے ان چاروں امور کے بارے میں چند اہم گزارشات پیش کردیں:

سب سے پہلے یہ بات سامنے رہنی چاہیے کہ دستور کے تحت ہمارے ملک کا نظام پارلیمانی نظام ہے اورآٹھویں ترمیم اور سترھویں ترمیم میں جو بھی اختیارات صدر کو دیے گئے ہیں اور اس کے نتیجے میں توازن اختیارات میں جو بھی سقم رونما ہوا ہے ‘اس کے علی الرغم نظامِ حکومت پارلیمانی ہے اور چند صواب دیدی اختیارات (discretionary powers) کے سوا صدر‘ وزیراعظم کے مشورے کا پابند ہے جو چیف ایگزیکٹو کی حیثیت رکھتا ہے۔ صدر‘ حکومت کا سربراہ نہیں’’مملکت کا سربراہ اور جمہوریہ کے اتحاد کی نمایندگی کرتا ہے‘‘۔ دفعہ ۴۱ کی اس حیثیت کا تقاضا ہے کہ صدر غیر جانب دار ہو‘ جماعتی سیاست سے بالا ہو‘ اور غیرمتنازع شخصیت کا حامل ہو۔ عدالت نے متعدد فیصلوں میں اس اصول کو بیان کیا ہے کہ جس نے صدر کی اس حیثیت کو ایک قانونی تقاضے (settled law) کا درجہ دے دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ’میاں نواز شریف بنام صدر پاکستان‘ (PLD 1993 SC 473) کے فیصلے میں اس اصول کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

بلاشبہہ وفاق کے اتحاد کی علامت کے طور پر صدر کو دستور میں غیر جانب دار مقام حاصل ہے‘ اور اس حیثیت میںاس کو ریاست کے تمام عمّال میں سب سے زیادہ احترام اورعزت کا حق حاصل ہے۔ لیکن یہ بھی اتنا ہی اہم ہے کہ اس اعلیٰ منصب کے وقار کی حفاظت وبقا کے لیے اور دستورکے تحت غیر جانب دار حیثیت سے صدرکو سیاسی جھگڑوں سے اپنے کو الگ رکھنا چاہیے۔ اگر صدر سیاسی کھیل کی کشش سے اپنے کو دُور نہ رکھ سکے یا وہ اسمبلی میں دوسرے سیاسی عناصر کے ساتھ فریق بنے تو قومی معاملات میں ایک غیرجانب دار ثالث اور وفاق کے اتحاد کی علامت کے طور پر اس کی حیثیت مجروح ہوجائے گی۔

سپریم کورٹ کی طرف سے دستور کے اس واضح تقاضے کی نشان دہی کی موجودگی میں جنرل پرویز مشرف جو کردار ادا کر رہے ہیں‘ وہ دستور کے الفاظ اور روح دونوں کے منافی بلکہ دستور کو مسخ (subvert) کرنے کے مترادف ہے جو ان کے اس عہد کے بھی خلاف ہے جو بطور صدر دستور کی اطاعت اور فرماں برداری کے لیے وہ ایک نہیں دو بار لے چکے ہیں اور اس باب میں صرف ان کے یہی کارہاے نمایاں انھیں آیندہ انتخاب کے لیے نااہل بنا دیتے ہیں‘ اس لیے کہ دستور کی دفعہ ۴۷(۱) کے تحت ’’دستور کی خلاف ورزی یا فاش غلط روی کے کسی الزام میں اس کا مواخذہ کیا جاسکتا ہے‘‘۔ بلاشبہہ مواخذے کا ایک خاص طریق کار ہے مگر دستور کی خلاف ورزی دستور کے تحت عہدہ صدارت کے لیے نااہل بنا دینے والا ایک جرم ہے۔

جنرل پرویز مشرف کو صدارت کے لیے نااہل بنا دینے والی دوسری بات ان کا چیف آف اسٹاف کا عہدہ ہے۔ اگر یہ تسلیم کربھی لیا جائے کہ سترھویں ترمیم کے ذریعے انھیں دوعہدے رکھنے کی رخصت دے دی گئی تھی تب بھی یہ تو ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ یہ حد ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء کو ختم ہوگئی اور پارلیمنٹ سے جس قانون کا سہارا لے کر اسے آج تک توسیع دی گئی ہے‘ وہ خود سترھویں ترمیم کی ضد ہے اور ایک فاسد قانون (bad law) ہے۔ نیز یہ توسیع اس معاہدے (covenant) کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء تک کے لیے یہ رخصت دی گئی تھی۔اس معاہدے کا عوام کے سامنے اقرار جنرل صاحب ۲۴ مارچ ۲۰۰۳ء کو اپنے خطاب میں کیا ہے جسے سترھویں ترمیم کے ساتویں نکتۂ اقرار (seventh point of agreement) کے طور پر انھوں نے تسلیم کیا ہے۔ یکم جنوری ۲۰۰۵ء سے دو عہدوں کے باعث ان کی صدارت امرواقع (de facto) تو قرار دی جاسکتی ہے لیکن امر جائز (de jure) کسی پہلو سے تسلیم نہیں  کیا جاسکتا۔ لیکن اب ان کا دعویٰ ہے کہ وہ آیندہ پانچ سال کے لیے وردی میں صدارت کے امیدوار بن سکتے ہیں‘ خواہ منتخب ہونے کے بعد وردی اتارنے کا وہ وعدہ ایک بار پھر کیوں نہ کر رہے ہوں۔ جس نے پہلا وعدہ وفا نہ کیا ہو‘ اس کے دوسرے وعدے پر اعتبار کون کرے گا۔ لیکن مسئلہ آیندہ پانچ سال کے لیے اپنے آپ کو صدارت کے لیے پیش کرنے والے امیدوار کی الیکشن کے وقت اہلیت کا ہے اور وہ جنرل صاحب کو حاصل نہیں۔ اس لیے کہ دستور اور کسی بھی قانون کے تحت ایک حاضرسروس جرنیل کو کسی سیاسی عہدے کے لیے اپنے کو امیدوار بناکر پیش کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا بلکہ یہ ایک جرم ہے جس کی سزا ملک کے قانون کے تحت ۱۰ سال قید ہے‘ اور وہ تمام افراد بھی اس سزا کے مستوجب ہوسکتے ہیںجو کسی فوجی افسر کو ایک سیاسی عہدے کے لیے نامزد کریں۔

اسی نااہلیت سے فرار کی خاطریہ ڈراما رچایا جا رہا ہے کہ دستور کی دفعہ ۶۳ کا اطلاق صدارتی امیدوار پر نہیں ہوتا۔ دیکھیے عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے لیکن عقل و تجربے دونوں اس بارے میں کسی ابہام کی گنجایش نہیں چھوڑتے۔ دستور کی دفعہ ۴۱ (۲) صاف الفاظ میں کہتی ہے کہ:

کوئی شخص اس وقت تک صدر کی حیثیت سے انتخاب کا اہل نہیں ہوگا تاوقتیکہ وہ کم از کم ۴۵ سال کی عمر کا مسلمان نہ ہو اور قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کا اہل نہ ہو۔

انگریزی میں الفاظ shall not be qualified for election ہیں اور پھر    قومی اسمبلی کی رکنیت کے سلسلے میں بھی is qualified to be elected ہیں۔

اب جو بقراطی نکتہ لایا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ دفعہ ۶۲ qualifications بیان کرتی ہے اور دفعہ ۶۳disqualifications۔ساتھ ہی اعتراف کیا جاتا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے رکن کے لیے تو ۶۲ اور ۶۳ دونوں لاگو ہیں لیکن صدر کے لیے ۶۳ لاگو نہیں۔

اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ ۶۲ اور ۶۳ دونوں مل کر اہلیت کا تعین کرتی ہیں اور یہ دونوں دفعات composite ہیں‘ separable نہیں۔ دوسرے الفاظ میں اہلیت کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ ’عدم اہلیت‘ کی کوئی بات اس میں نہ پائی جاتی ہو۔ یہ منفی پہلو ہے۔ جس میں کوئی بھی عدم اہلیت کی بات پائی جائے گی‘ وہ پہلے ہی مرحلے میں اہلیت کی دوڑ سے باہر ہوجائے گا۔ البتہ جس میں عدم اہلیت کی کوئی کیفیت نہ ہو‘ وہ بھی آپ سے آپ اہل نہیں بن جاتا بلکہ اس میں مزید اہلیت کی کچھ مثبت صفات ہونی چاہییں۔ اس طرح منفی اور مثبت دونوں پہلوؤں کے تناظر میں کسی شخص کی اہلیت کا تعین ہوسکتا ہے۔ ان میں سے ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔

بھارت کی سپریم کورٹ نے بھی ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کی صدارت کے سلسلے میں دائر کیے جانے والے ایک مقدمے میں یہی فیصلہ دیاتھا کہ ’نااہلیت‘ اور ’اہلیت‘ کے بارے میں دستور کی دفعات کو ملا کر لیا جائے گا۔ یہی عقل کا تقاضا ہے لیکن ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ کیسے کیسے لائق فائق حضرات یہ فرما رہے ہیں کہ منفی صفات (دفعہ ۶۳) کا اہلیت اور اس کی مثبت صفات (دفعہ ۶۲) سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن وہ ایک لمحہ اس بات پر بھی غور نہیں کرتے کہ جس سترھویں ترمیم کا اتنا شور ہے‘ خود اس میں صاف الفاظ میں لکھا گیا ہے کہ دفعہ ۴۷ (۷ بی):

بشرطیکہ آرٹیکل ۶۳ کی دفعہ ۱ کا پیراگراف د: دسمبر ۲۰۰۴ء کے ۳۱ویں دن سے نافذ ہوگا۔

ساری بات بھول جائیے اور اسے بھی نظرانداز کردیجیے کہ دفعہ ۶۳ میں کیا گنجایش ہے اور کیا نہیں ہے‘ صرف یہ بات کہ دستور کی اس شق میں صدر کے لیے دفعہ ۶۳ کے operative ہونے کا واضح اقرار موجود ہے اس دلیل کے تار وپود بکھیر دیتا ہے کہ دفعہ ۶۳ کا تعلق صرف رکن اسمبلی سے ہے‘ صدر سے نہیں۔

رہا یہ مسئلہ کہ کیا موجودہ اسمبلیاں اگلے پانچ سال کے نئے صدر کا انتخاب کرسکتی ہیں یا نہیں‘ اس کا تعلق دستور اور علم سیاست کے ایک بنیادی اصول سے ہے۔ معاملہ اسمبلی کا ہو یا صدر کا‘ ایک خاص مدت کے بعد انتخاب کی ضرورت صرف ایک وجہ سے ہوتی ہے اوروہ یہ ہے کہ عوام‘ جو اصل حکمران ہیں اور جن کی تائید اور اعتماد کے بغیر نظام کو جواز (legitimacy) حاصل نہیں ہوتا‘ ان سے زندگی میں صرف ایک بار استصواب کافی نہیں بلکہ وقفہ وقفہ سے ان سے نیا مینڈیٹ لیے بغیر نظامِ حکمرانی جمہوری اور دستوری قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نیا انتخاب دراصل نیا مینڈیٹ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو اسمبلی اپنا مینڈیٹ ختم کرچکی ہو وہ آیندہ کے لیے کسی اور کو مینڈیٹ کیسے دے سکتی ہے؟ اتنی صاف بات اور ایسے مسلمہ اصول کو نظرانداز کرکے قانونی موشگافیاں کی جارہی ہیں اور بظاہر پڑھے لکھے لوگ یہ کھیل کھیل رہے ہیں اور بڑی ڈھٹائی سے یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر صوبائی اسمبلیاں‘ سینٹ کے ارکان کو ۹ سال کے لیے منتخب کرسکتی ہیں تو قومی اسمبلی‘ سینٹ اور صوبائی اسمبلیاں صدر کو ۱۰ سال کے لیے کیوں منتخب نہیں کرسکتیں حالانکہ یہ صریح خلط مبحث ہے۔ سینٹ ناقابلِ تحلیل ہے اور اس میں نیا مینڈیٹ حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر تین سال کے بعد نصف ارکان کا نیا انتخاب ہوتا ہے اور اس پورے عمل میں سینٹ اور صوبائی اسمبلیاں فطری تبدیلی کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ رہا معاملہ صدر کے انتخاب کا تو وہ الیکٹرول کالج کے ہر بار نئے مینڈیٹ کا تقاضا کرتا ہے اوریہ مینڈیٹ مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے نئے انتخاب ہی سے حاصل ہوسکتا ہے ورنہ اسے صریح انتخابی دھاندلی کے کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔

البتہ اس سلسلے میں ایک اعتراف ضروری ہے۔ ایل ایف او کے ذریعے دستور کی دفعہ ۲۲۴ میں ایک لفظ کی تبدیلی سے قومی اسمبلی کے انتخاب کے دورانیے کو تبدیل کردیا گیا جس نے موجودہ دھاندلی کے لیے گنجایش پیدا کی ورنہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے سے ۶۰ دن پہلے نئے انتخاب کے لیے آپ سے آپ تحلیل ہوجاتیں۔ ہمیں اس غلطی کا اعتراف کرنا چاہیے کہ سترھویں ترمیم کے موقعے پر ایم ایم اے کی مذاکراتی ٹیم نے اس دُور رس تبدیلی کا نوٹس نہیں لیا۔ اصل دفعہ یہ تھی:

"A general election to the National Assembly or a Provincial Assembly shall be held within a period of sixty days immediately PRECEDING the  day on which the term of the Assembly is due to expire".

ایل ایف او کے ذریعے لفظ PRECEDING کو تبدیل کر کے FOLLOWING لکھ دیا گیا۔ اس کی آج implication یہ ہے کہ اسمبلیوں کا انتخاب ۱۶ اکتوبر کے ۶۰دن بعد تک کیا جاسکتا ہے‘ جب کہ اصل دستوری شق کی روشنی میں یہ انتخاب ۱۶ اکتوبر سے پہلے ۶۰ دن قبل  ہوجانا چاہیے تھا۔ اس طرح صدر کی مدت (پانچ سال) ختم ہونے سے پہلے اسمبلیوں کے انتخابات لازماً ہوچکے ہوتے۔ کمال ہوشیاری بلکہ عیاری سے یہ یک لفظی ترمیم دستور میں کی گئی اور ’انتہاے سادگی سے کھا گیا مزدورمات‘ کے مترادف ہم سب یہ دھوکا کھا گئے۔ ضمناً یہ بھی عرض کردیں کہ دستور کی دفعہ ۴۱ (۷ بی) میں بھی اگر ۶۳ (۱ڈی) کے ساتھ دفعہ ۴۳ کا اندراج کرا لیا جاتا تو پھر ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء کے بعد باوردی صدارت کے لیے آگے بڑھنے کا کوئی چور دروازہ باقی نہ رہتا۔ خود احتسابی کا تقاضا ہے کہ ان پہلوؤں پر بھی نگاہ ڈالی جائے اور دستوری اور قانونی معاملات کو جس قانونی مہارت اور عرق ریزی سے انجام دینے کی ضرورت ہے‘ اس کا پورا پورا اہتمام کیا جائے۔ جو دھوکا حکمرانوں نے دیا‘ وہ صریح وعدہ خلافی تھی اور دو عہدوں کا قانون دستور اور معاہدہ دونوں کے خلاف تھا مگر کچھ کوتاہیاں ہماری طرف سے بھی رہیں جن کے بارے میں آیندہ سبق سیکھنا ضروری ہے۔

رہا معاملہ ان امور کے بارے میں عدالت کی مداخلت کی ضرورت کا‘ تو ہم صرف اتنا ہی عرض کریں گے کہ عدالت عظمیٰ کی ذمہ داری دستور کے تحت قانون کی تعبیر اور دستور کی حفاظت کی ہے اور اس وقت دستور اور اس کے تحت وجود میں آنے والا پورا نظام معرضِ خطر میں ہے۔ اگر اس وقت عدالت عظمیٰ اپنے فرض منصبی کو ادا نہیں کرتی تو تاریخ اور یہ قوم اسے کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اس موقعے پر ہم عدالت عظمیٰ اور قوم دونوں کو اپنے الفاظ میں نہیں‘ سپریم کورٹ کے جج جسٹس محمدیعقوب علی (جو بعد میں چیف جسٹس بنے) کے اس تاریخی ارشاد کی طرف متوجہ کریں گے جو انھوں نے عاصمہ جیلانی کے مشہور زمانہ کیس میں رقم کیے تھے:

میونسپل کورٹس کے جج جنھوں نے دستور کے تحفظ‘ بقا اور دفاع کاحلف اٹھایا ہے‘ حلف نہیں توڑیں گے اور نہ اعلان کریں گے کہ غاصب کی بالاتر قوت کی وجہ سے وہ اپنے قانونی فرائض سے فارغ ہوگئے ہیں۔ اگر ججوں کو معلوم ہو کہ ریاست کے انتظامی عہدے دار ان کے احکامات نافذ کرنے کے لیے رضامندنہیں ہیں تو ان کے لیے صرف یہی راستہ کھلا ہے کہ اپنا منصب چھوڑ دیں۔ جو لوگ غاصب کی خدمت کرنے کے خواہش مند ہوں وہ اس کے مسلط کردہ لیگل آرڈر کے تحت عہدہ سنبھال سکتے ہیں لیکن یہ ججوں کے ذاتی فیصلے اور صواب دید پر منحصر ہے‘ اس کا کوئی قانونی اثر نہیں ہوگا۔ اگر وہ دوسرا راستہ اختیار کریں تو وہ یہ تسلیم کر رہے ہوں گے کہ ’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘ اور یوں غاصب کے شریک کار ہوجائیں گے۔ یہی نتیجہ ہوگا اگر وہ اپنے حلف کو نظرانداز کردیں‘ قومی نظام کی تباہی کو جائز تسلیم کرلیں اور غاصب کے غیر قانونی‘ انتظامی اقدامات کو تسلیم کریں۔

آج جنرل پرویز مشرف کی پوزیشن جنرل یحییٰ خان کی پوزیشن سے سرِمُو بھی مختلف نہیں۔ کیاآج کی عدالت اپنا فرض ادا کرے گی اور حقیقی فراست اور جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدل و انصاف کا بول بولا کرکے اس ملک میں عدلیہ کی عزت اور وقار اور اس پر عوام کے اعتماد کو نئی بلندیوں سے ہم کنار کرنے کا کارنامہ انجام دے گی؟


بلاشبہہ عدالت دستور اور قانون کے دائرے میں ہی اپنافیصلہ دے گی اور یہی اس کی ذمہ داری ہے لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عدالت دستور اور قانون کے الفاظ کے ساتھ اصولِ قانون‘ تعبیر ِدستور کے مسلمہ قواعد اور اپنے فیصلوں کے سیاسی اور اخلاقی مضمرات سے صرفِ نظر نہیں کرسکتی۔ یہ ’نظریۂ ضرورت‘ کی قبیل کی کوئی شے نہیں بلکہ اس کا تعلق مقاصدِ قانون اور روحِ دستور سے ہے___ یعنی ملک میں دستور کا بنیادی ڈھانچا اور نظامِ حکومت کے اصول اور فریم ورک۔ دستور کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو اس کے چار ہی بنیادی ستون ہیں:

1  قرارداد مقاصد اور دستور کا اسلامی کردار

2  پارلیمانی جمہوریت

3  وفاقی نظام

4 عوام دوست فلاحی معاشرے کا قیام

ان چاروں بنیادی ستونوں کی روشنی میں اگر حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت جنرل مشرف اور ان کے صدارتی انتخاب کا تعلق محض ایک فرد کی ذات سے نہیں بلکہ وہ اب عنوان ہیں اس پورے سیاسی‘ نظریاتی اور تہذیبی کش مکش کا جس میں آج ملک اور قوم مبتلا ہیں۔ اس کے پانچ پہلو ایسے ہیں جن پر توجہ مرکوز کیے بغیر اس کش مکش کا صحیح شعور و ادراک ممکن نہیں جو آج درپیش ہے۔

  •  پہلی چیز آمریت اور جمہوریت میں سے ایک کا انتخاب ہے۔جمہوریت اور شخصی حکمرانی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘ یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔جنرل پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دور سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ان کا مزاج‘طریق کار‘ اندازِ حکمرانی شخصی آمریت کی بدترین شکل ہے۔ انھوں نے ملک کے دستور کو ہر سطح پر مسخ کر دیا ہے۔ پارلیمانی نظام پر صدارتی نظام کو مسلط کردیا ہے۔ وزیراعظم‘ کابینہ اور پارلیمنٹ ان کے مُہرے ہیں اور تابع مہمل۔ وزیراعظم شامل باجا ضرور ہیں لیکن ملک کے چیف ایگزیکٹو کا کردار جنرل صاحب ادا کر رہے ہیں اور نظامِ حکومت ان کے اشارے پر اور ان کے معتمد علیہ ساتھیوں کے ذریعے (جو فوجی اور سول بیورو کریسی کا ایک مخصوص ٹولہ ہے) چلایا جا رہا ہے۔ اس کا سب سے واضح مظاہرہ پیپلز پارٹی کی رہنما محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ سے صدر کی مذاکراتی ٹیم کی شکل میں ہوا‘ جو صدر‘ ان کے چیف آف اسٹاف‘ آئی ایس آئی کے حاضر سروس جرنیل اور قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری اور صدر صاحب کے معتمدعلیہ بیورو کریٹ پر مشتمل تھی۔

یہی وجہ ہے کہ جنرل صاحب وردی اتار کر نئے انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی قومی و صوبائی اسمبلیوں سے عام شہری کی طرح دستور کے تحت صدارت کے حصول کے لیے مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔وہ چاہتے ہیں کہ وردی سمیت اپنے کو قوم پر مسلط کردیں اور پھر اپنے زیرانتظام اور صرف اپنی مرضی کے مطابق انتخابات کا ڈھونگ رچائیں۔ موجودہ اسمبلیوں سے اور وردی کے ساتھ صدارت کا انتخاب جمہوریت کا گلا گھونٹنے اور جمہوریت کو بیخ و بُن سے اُکھاڑنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ یہ کھلی کھلی شخصی آمریت کے لیے راہ ہموار کرنے کی سازش ہے ۔ اور اگر اس کا راستہ اس پہلے قدم پر نہ روکا گیا تو پھر دستور کی بالادستی اور عوام کی ان کے حقیقی نمایندوں کے ذریعے حکمرانی کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

  •  دوسرا بنیادی مسئلہ (issue) ملک کی سیاست میں فوج کے کردار کا ہے اور فوج کے ساتھ ہیئت حاکمہ (establishment) کے گٹھ جوڑ کا ہے۔ جس کے دوسرے شریک سول انتظامیہ کا ایک بااثر گروہ اور سیاسی میدان کے مفاد پرست عناصر ہیں۔ یہ وہ ہیئت حاکمہ ہے    جو ملک پر قابض ہے اور کسی صورت اقتدار پر اپنی گرفت چھوڑنے اور ملک کے عوام کو اپنی قسمت   کا مالک ہونے کا موقع نہیں دینا چاہتی بلکہ عوام کی حاکمیت میںاپنے اقتدار کی موت دیکھتی ہے۔ مسلم لیگ (ق) جو ق نہیں دراصل پرویز مشرف لیگ (PML)بن چکی ہے اور ایم کیو ایم اس کے کلیدی کردار ہیں۔ آیندہ انتخاب اس سلسلے میں ایک فیصلہ کن مرحلے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیا یہی پیران تسمہ پا ملک پر مسلط رہتے ہیں یا عوام کے حقیقی نمایندے منصفانہ سیاسی عمل کے ذریعے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس فوجی سول ہیئت حاکمہ سے نجات طویل اور   دانش مندانہ حکمت عملی کے ذریعے ہی حاصل کی جاسکے گی لیکن اس کا پہلا قدم آزاداور منصفانہ انتخاب کے ذریعے ایسی اسمبلیوں کا وجود میں آنا ہے جو فوج اور انتظامیہ (بشمول لوکل گورنمنٹ اور پولیس) کی بیساکھیوں اور ایجنسیوں کی سیاست سے آزاد ہوں اور عوام کے حقیقی نمایندوں کا کردار ادا کرسکیں۔
  •  تیسرا بنیادی مسئلہ اس وقت پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج ہماری خارجہ سیاست‘ ہماری معیشت‘ حتیٰ کہ ہمارا نظامِ تعلیم اور ہماری تہذیبی زندگی پر امریکا اور اس کا سامراجی ایجنڈا اس حد تک حاوی ہوگیا ہے کہ اب حکمران نہ صرف بیرونی قوتوں کے دبائو میں ہیں بلکہ ان کے آلۂ کار بن گئے ہیں۔ جس طرح ملک کی فوج کو اپنی قوم کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے‘ جس طرح پورے قبائلی علاقے کو سول وار کی آگ میں دھکیل دیا گیا ہے‘ جس طرح بلوچستان میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کر دی گئی ہے‘ جس طرح اسلام آباد میں مسجد اور مدرسے کی تقدیس کو پامال اور معصوموں کے خون سے ہولی کھیلی گئی ہے ‘ جس طرح دینی تعلیمی نظام کو تباہ و برباد کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں‘ جس طرح قومی تعلیمی پالیسی کو بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر بدلا جا رہا ہے‘ جس طرح کراچی جیسے شہر کو فسطائی قوتوں کی گرفت میں دے دیا گیا ہے‘ جس طرح عدالتوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے‘ جس طرح پاکستان کی نیوکلیر صلاحیت کو منجمد کیا گیا ہے اور ملک کی خارجہ اور داخلہ ہر پالیسی کو امریکا کے نئے قانون بسلسلہ نائن الیون کمیشن کی زد میں دے دیا گیا ہے اور ہر قسم کی بیرونی امداد کو اس سے نتھی کردیا گیا ہے___ وہ ملک کی آزادی اور حاکمیت پر ضربِ کاری ہے۔

اب تو یہ مداخلت اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ امریکا‘ برطانیہ اور اس کے اشاروں پر چلنے والے دوسرے حکمران آیندہ کے سیاسی دروبست کی صورت گری فرما رہے ہیں۔ سیاسی اتحاد بنانے کا کام ان کے اشارے پر اور ان کی عملی شراکت سے ہو رہا ہے‘ اور کسے ملک میں آنے دیا جائے گا اور کسے اغوا کرکے ملک بدر کردیا جائے گا‘ اس کام میں بھی حکمران‘ بیرونی ایجنسیاں‘ برطانیہ کا دفترخارجہ اور امریکا کا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ‘ سب ملوث (involve) ہیں۔اس کے بعد ہماری آزادی اور خودمختاری کی کیا حیثیت رہ گئی ہے۔

اس وقت قوم کے سامنے یہ بنیادی سوال ہے کہ آیندہ اس کے حکمران امریکا اور برطانیہ کے مقرر کردہ اور پسندیدہ افراد ہوں گے یا وہ جو پاکستانی قوم کے معتمدعلیہ‘ صرف اپنی ملت کے مفاد اور عزائم کے ترجمان ہوں اور اس کے سامنے جواب دہ ہوں۔ بھارتی کالم نگار پرافل بیدوائی (Praful Bidwai) جس کے مضامین پاکستانی اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں‘ کتنا لطف لے کر ہماری قیادت کے امریکا کے کٹھ پتلیوں کا کردا ر ادا کرنے کا ذکر کرتا ہے:

امریکا پاکستان کے معاملات میں جارحانہ طور پر مداخلت کر رہا ہے اور اس کی فوجی حکومت کو خفیہ لیکن مضبوط حمایت فراہم کر رہا ہے۔ اگرچہ امریکا کا کہناہے کہ نوازشریف کی جلاوطنی پاکستان کا داخلی مسئلہ ہے‘ سب کو معلوم ہے کہ جنوبی وسطی ایشیا کے اسسٹنٹ سکرٹری آف اسٹیٹ رچرڈ بائوچر خاص اس موقع پر‘ جب کہ نواز شریف کے اخراج کا ڈراما روبۂ عمل تھا‘ اسلام آباد میں موجود تھے۔ رچرڈ بائوچر نے عملاً واشنگٹن کے وائس راے کی حیثیت سے کام کیا ہے اور اس مفروضے پر کہ طالبان اور القاعدہ کے خلاف امریکا کی جنگ میں وہ ایک قابلِ اعتماد حلیف ہے‘ حکومت کو مشورہ دینے اور اس کی بقا یقینی بنانے کے لیے ہر چھٹے ہفتے اوسطاً ایک چکر لگاتے رہے۔ اسلام آباد میں ڈپٹی سکرٹری آف اسٹیٹ اور سابق نیشنل انٹیلی جنس ڈائرکٹرجان نیگرو پونٹے بھی     ان کے ساتھ شریک تھے۔ واضح رہے کہ امریکا چاہتا ہے کہ مشرف اور پاکستان کی سیاسی طاقتوں خصوصاً مسز بھٹو کی پیپلز پارٹی کے درمیان شراکت اقتدار کے نظام کی  براہِ راست نگرانی کرے۔ گذشتہ مہینے ہی پرویز مشرف ایمرجنسی لگانے کا ارادہ کر رہے تھے لیکن رات کو ۲ بجے سکرٹری آف اسٹیٹ کونڈولیزارائس نے ۱۷منٹ کی طویل ٹیلی فون کال میں انھیں اس سے متنبہ کیا۔ ہر کوئی اندازہ لگاسکتا ہے کہ موجودہ حالات میں امریکا کا رویہ کیا ہوگا۔ اگر وہ اپنے مخصوص فوری مقاصد کے حصول کے طریقے کے مطابق، یعنی ’کسی بھی قیمت پر دہشت گردی کے خلاف‘اس کی اصل دل چسپی ہوئی تو پرویز مشرف کے ان مہم جویانہ اقدامات کا ساتھ دے گا جو وہ پُرتشدد ہنگاموں کو   محدود رکھنے کے لیے اور کسی طرح اس ڈیل کو بچانے کے لیے کرے جو وہ مسزبھٹو سے کرنا چاہ رہا ہے…

امریکا بے نظیر بھٹو کی شراکت اقتدار کی ڈیل صرف اس لیے نہیں چاہتا ہے کہ انھوں نے امریکا کا کہا پورا کرنے کا وعدہ کیا ہے‘ بلکہ اس لیے بھی کہ اسے اندیشہ ہے کہ نوازشریف معتدل اسلامی ایم ایم اے سے پھر مل جائیں گے۔

بھارت ہی کی ایک دوسری کالم نگار سیما مصطفی ایشین ایج میں لکھتی ہے:

یہ بالکل واضح ہے کہ انھوں نے مکمل کنٹرول کی پوزیشن حاصل کرلی ہے۔ وہ پاکستان آتے جاتے ہیں اوربہت مدت ہوئی کہ ان کے بیانات نے اس ملک کی خودمختاری کی مقدس حد کو پار کرلیا ہے  جسے انھوں نے اپنا اتحادی کہا ہے‘ اور جس کی اندرونی سیاست میں انھیں غیرمعمولی دل چسپی ہے۔صدر مشرف کو پھر امریکا سے کھلی اجازت مل گئی ہے۔ بش انتظامیہ کی طرف سے ان کی حمایت بالکل واضح الفاظ میں کی جارہی ہے…

کسی کو بھی پاکستان میں حقیقی جمہوریت واپس آتی نظر نہیں آرہی۔ امریکا سترپوشی (figleaf) کے طور پر اسے استعمال کر رہا ہے تاکہ علاقے میں اپنی مسلسل موجودگی برقرار رکھے اور دہشت گردی کے خلاف اپنی حامی قیادت کو برسرِاقتدار لاسکے۔ موت کا بوسہ اپنا زہر قوم میں پھیلا رہا ہے‘ جب کہ کسی کے پاس بھی مطلوبہ تریاق نہیں ہے۔

لندن کے اخبار گارجین میں Declan Walsh رقم طراز ہے:

مشرف کے سیاسی عزائم کے لیے بھی گھڑی کی سوئیاں آگے بڑھ رہی ہیں۔ وہ موجودہ پارلیمنٹ سے ۱۵ستمبر اور ۱۵ اکتوبر کے درمیان صدر منتخب ہونا چاہتے ہیں۔ طاقت ور حلیف ان کی پشت پر ہیں‘ خاص طور پر برطانیہ اور امریکا۔ وہ پرویز مشرف کو ایک نیوکلیر اسلحے سے مسلح ملک کو مستحکم کرنے کے لیے اپنا محفوظ ترین بہترین خیال کرتے ہیں۔

سعودی انٹیلی جنس چیف کی ایک ایسی مداخلت کے بعد‘ یعنی ان کا گذشتہ ہفتے پاکستان آنا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی‘ اب نواز شریف جدہ میں بے بس ہیں۔ پاکستان کے خفیہ ادارے کے سربراہ لیفٹیننٹ کرنل اشفاق کیانی نے بھی حالیہ بھٹو مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کیا۔ صرف یہی بات کہ مسلم دنیا میں امریکا اور برطانیہ کے اہم ترین حلیفوں کے معاملات میں خفیہ سربراہوں کو بالادستی حاصل ہے‘ جمہوریت کی نازک صورت حال کی نشان دہی کرتی ہے--- (گارجین‘ ۱۱ستمبر ۲۰۰۷ء)

  •  بیرونی مداخلت اور غیرملکی آقائوں کی خوشنودی کی تلاش ہی کا ایک شاخسانہ وہ نظریاتی  کش مکش ہے جس میں غیرفطری طور پر ملک کو جھونک دیا گیا ہے اور قومی اتفاق راے پیدا کرنے کے بجاے قوم کو دو بڑے دھاروں میں بانٹنے اور ان کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ہمارا اشارہ ہے ایک طرف نام نہاد انتہا پسندی اور مذہبی شدت پسندی کا کیمپ اور دوسری طرف روشن خیال‘ میانہ رو اور لبرل عناصر کا اکٹھ۔کبھی مُلّا ملٹری اتحاد کی بات کی جاتی ہے اور کبھی ملٹری اور لبرل عناصر کے الائنس کی‘ حالانکہ اصل کش مکش مفاد پرست عناصر اور  عوام الناس اور ملک کی عظیم اکثریت کے درمیان ہے۔ اس سے توجہ ہٹانے اور اپنے مفادات کو مستحکم کرنے کے لیے ہر جرم معاف اور ہر گناہ ثواب بن جاتا ہے اور جن کو جنرل صاحب نے اپنی کتاب میں چور‘ لٹیرے اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیاتھا‘ ان ہی سے سیاست کی پینگیں بڑھائی جاتی ہیں‘ شراکت اقتدار کی بساط بچھانے کے لیے بھاگ دوڑ کی جاتی ہے۔ حالانکہ نہ تو انتہاپسندی ہمارا مسئلہ ہے اور نہ نام نہاد روشن خیالی۔ یہ سب امریکا کے شاطروں کے کھیل ہیں اور ہمارے جرنیل اور نام نہاد لبرل اس کے مہرے بنے ہوئے ہیں۔ شیعہ سُنّی کی کش مکش کا ڈراما بھی اس کھیل کا حصہ ہے۔

قوم کو اس نظریاتی کش مکش سے نکالنے اور پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کی روشنی میں قومی یک جہتی اور مفاہمت پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس کی راہ میں جرنیلی قیادت اور امریکا سے حکمرانی کی پرچیاں حاصل کرنے والے سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

  •  ایک پانچواں مسئلہ جسے بہت سوچ سمجھ کر نہایت ماہرانہ انداز میں اٹھایا جا رہا ہے وہ دو حکمت عملیوں کے درمیان مقابلے کا ہے جس میں سے ایک کو تصادم خیز (confrontationist) اور دوسرے کو تدریجی تبدیلی (transitionalist) کے داعی کے روپ میں پیش کیا جا رہا ہے اور تصادم انگیزی کی تہمت دینی قوتوں اور مسلم لیگ (ن) پر لگائی جارہی ہے‘ جب کہ مشرف لیگ‘ ایم کیو ایم اور پی پی پی کو تدریجی تبدیلی کے علَم بردار بناکر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ اندازِ بیاں صرف امریکا اور جنرل پرویز مشرف ہی نے اختیار نہیں کیا بلکہ خود محترمہ بے نظیر بھٹو بھی اسی زبان میں کلام فرما رہی ہیں اور اپنے مضامین میں یہی ہّوا کھڑا کررہی ہیں۔ لطف یہ ہے کہ دعوے تو یہ کیے جارہے ہیں لیکن تصادم کا راستہ مُکے دکھا کر خود جرنیل صاحب اختیار کر رہے ہیں۔ وکلا اور سول سوسائٹی کے پُرامن احتجاج کا راستہ ۱۲ مئی کو ایم کیو ایم کے مسلح دستوں (armed squads) نے روکا     اور جنرل صاحب نے ادھر اسلام آباد میں ہاتھ اٹھا کر اسے عوامی قوت کی فتح قرار دیا۔سپریم کورٹ کے میاں نوازشریف کے حق واپسی اور ملک میں محفوظ داخلے کے حکم کے پرخچے اڑانے اور  عدالت کی کھلی کھلی خلاف ورزی کرنے اور سینہ زوری کا رویہ اختیار کیاگیا۔ اے پی ڈی ایم کے پُرامن جمہوری احتجاج کو قوت کے ذریعے روکنے‘ ہزاروں کارکنوں اور قائدین کو گرفتار کرنے اور اظہار راے پر پابندیاں لگانے کا کام کیا جا رہا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر صدارتی اعلان کا نامناسب عجلت (indecent haste) سے اہتمام کیا جا رہا ہے اور مقابل کی جمہوری قوتوں کو تصادم انگیزی کے عنوان سے اُچھالا جا رہا ہے۔

یہ پانچ بڑے بڑے مسائل ہیں جو اس وقت قوم کے سامنے ہیں اور آنے والے انتخابات ہی وہ میدان ہیں جن میں ان تمام مسائل اور چیلنجوں کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ راستہ صرف ایک ہے ___ منظم اور پُرامن عوامی قوت کے ذریعے صدارتی انتخاب کے ڈھونگ کو روکنا اور آزاد اور شفاف انتخابات کو حقیقت بنانا ہے۔ اس کے لیے ضروری اقدام یہ ہیں:

  • جنرل پرویز مشرف اور موجودہ حکومت کا استعفا اور ایک مکمل طور پر غیرجانب دار قومی حکومت کا قیام جس کی اولین ذمہ داری انتخابات کا انعقاد ہو۔
  • آزاد اور بااختیار الیکشن کمیشن کا قیام جو تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے مشورے سے ہو اور جو ووٹروں کی صحیح فہرستوں کے مطابق مکمل غیر جانب داری کے ساتھ قومی اور صوبائی انتخابات کا اہتمام کرے۔
  •  سب جماعتوں اور قائدین کو مساوی بنیاد پر سیاسی سرگرمیوں میں شرکت اور انتخابات میں حصہ لینے کا موقع۔
  • فوج اور فوج اور سول نظام سے متعلق تمام ایجنسیوں کا سیاست سے مکمل احتراز اور    ان کے فرائض کو ان کے اپنے پیشہ ورانہ دائرے تک سختی سے محدود کرنا۔
  • عدلیہ اور میڈیا کی آزادی۔
  •  ملکی پالیسیوں کی تشکیل میں بیرونی مداخلت کا خاتمہ ۔
  • انتخابات کے عمل کے عالمی میڈیا کو بلاکسی رکاوٹ cover کرنے کے مواقع ۔

اگر حکومت اس خالص دستوری اور جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرے تو اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی مشترکہ حکمت عملی کے ذریعے آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا‘ اسمبلیوں سے استعفے‘ عوام کو متحرک کرنا اور عوامی جدوجہد کے ذریعے آزاد اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد‘ یہی وہ راستہ ہے جس سے ملک کو غیروں کی گرفت سے محفوظ رکھا جاسکتاہے اور اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں کی گرفت سے بھی نکالا جاسکتا ہے۔ ایک ملک گیر پُرامن لیکن مؤثر عوامی جدوجہد ہی کے راستے سے تبدیلی لائی جاسکتی ہے اور اس سلسلے میں غفلت‘ کوتاہی‘ اور سمجھوتوں کی تلاش سمِ قاتل کی حیثیت رکھتی ہے    ؎

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جن  دِیوں میں جان ہوگی وہ دِیے رہ جائیں گے

 اونٹ بے چارہ تو ویسے ہی بدنام ہے کہ جسے دیکھو فٹ سے کہہ دیتا ہے: ’اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی‘۔ جنرل پرویز مشرف اور ان کے بینکر وزیراعظم جناب شوکت عزیز کی حکومت کے دعووں اور کارناموں پر زمینی حقائق کی روشنی میں نظر ڈالیے تو اونٹ سے ہمدردی بڑھ جاتی ہے کہ بے داد کے اصل مستحق کون ہیں اور بدنام کون!

’کشکول ٹوٹنے‘ کی بات گذشتہ چند سال سے اس تکرار کے ساتھ کہی گئی ہے کہ اب، جب کہ الیکشن کے موسم کی آمد آمد ہے‘ ہر سرکاری ترجمان کی زبان پر اس طرح رواں ہے کہ لوگ اسے حکمرانوں کا تکیہ کلام سمجھنے پر مجبورہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ اس حکومت کے کارپرداز ہٹلر کے وزیراطلاعات (بہ الفاظ صحیح تر دروغیات) کے اس ’نسخۂ کیمیا‘ پرعمل پیرا ہیں کہ ’’ایک جھوٹ کا اس تکرار سے اظہار کرو کہ لوگ اسے سچ ماننے لگیں‘‘۔

جس طرح صد ربش اور امریکی انتظامیہ نے خصوصیت سے نائن الیون کے بعد ہر محاذ پر اور خصوصیت سے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ (امریکا کی سلامتی کو خطرہ اور’عراق کے عام تباہی کے اسلحہ‘ (weapons of mass destruction) کے عنوان سے جس ڈھٹائی سے تھوک کے بھائو غلط بیانیوں کو اپنی پالیسی کا مؤثر آلہ بنایا ہے اسی طرح جنرل پرویز مشرف ، وزیراعظم شوکت عزیز اور ان کے اشتہار بازوں نے’معاشی فتوحات‘ کا سماں باندھا ہوا ہے لیکن وہ ابراہم لنکن کے اس تاریخی قول کو شاید بھول گئے کہ ’’سب انسانوں کو کچھ دیر کے لیے اور کچھ افراد کو بڑی دیر تک بے وقوف بنایا جاسکتا ہے مگر تمام انسانوں کو مستقل طورپر جھانسہ دینا ممکن نہیں‘‘۔ انسانی کیفیات اور تاریخ دونوں کا فیصلہ ہے کہ جھوٹ اورغلط بیانی خواہ کیسی ہی تکرار اور کتنی ہی تحدّی سے کی جائے بالآخر اس کا پردہ چاک ہوکر رہتا ہے اور پھر دونوں کا دودھ کاد ودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا ہے۔ جادو سر چڑھ کر بولے یا نہ بولے مگر سچ کابالآخر بول بالا ہوکر رہتا ہے اور یہی اللہ کا قانون بھی ہے کہ جب حق ظاہر ہوجاتا ہے تو پھر باطل کے لیے پادر ہوا ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ اس لیے کہ باطل کا تو مقد ر ہی ہے کہ حق کی آمد پردم دبا کر میدان چھوڑ دے۔(جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا )۔

اگست ۲۰۰۷ء میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے پاکستان پر قرضوں کی اصل بوجھ کے جو اعدادوشمار شائع کیے ہیں وہ ’کشکول توڑدینے‘ کے فسانے کی حقیقت کو کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق گذشتہ چار سال میں‘ یعنی ۲۰۰۳ء سے مئی ۲۰۰۷ء تک موجودہ حکومت نے بیرونی ممالک اور اداروں سے ۱۵ ارب ڈالر (۱۵ بلین ڈالر) کے نئے قرضے حاصل کیے ہیں۔ اب‘ یعنی اگست ۲۰۰۷ء میں بیرونی قرضوں اور ذمہ داریوں کا کل حجم ۴۰ارب ڈالر (۴۰بلین ڈالر) سے متجاوز ہے۔ لطف یہ ہے کہ ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۷ء کے چار برسوں میں پاکستان نے ۷ء۹ ارب ڈالر کی مالیت کے قرض واپس بھی کیے ہیں جس کے نتیجے میں ۲۰۰۳ء میں کل بیرونی قرضہ جو اس وقت ۳۵ء۳۳بلین ڈالر تھا کم ہوکر ۶۴ء۲۳ارب ڈالر ہوجانا چاہیے تھا مگر ۱۵ارب ڈالر سے زائد کے نئے قرضے لے لیے گئے جن کی وجہ سے یہ دوبارہ ۶۹۹ء۳۸ بلین ڈالر کی حدوں کوچھونے لگا‘ اور  اس میں اگر دوسری غیر ملکی ذمہ داریوں (liabilities) کا اضافہ کر لیا جائے تو اگست ۲۰۰۷ء میں  وہ ملک جس کے کشکول توڑنے کے ڈھول پیٹے جارہے ہیں ۱۷۲ء۴۰ بلین ڈالر کا مقروض تھا۔  واضح رہے کہ اس وقت ان قرضوں کی وجہ سے صرف سود کی مد(debt-servicing) میں پاکستان کو ۳۱۴ء۳ بلین ڈالر سالانہ ادا کرنا پڑ رہے ہیں جو دراصل نئے قرضے لے کر ادا کیے جاتے ہیں اور قرض کا اصل بار نہ صرف کم نہیں ہوتا بلکہ مزید بڑھ جاتا ہے اور سب سے بڑا ظلم یہ کہ اس  گراں باری کے باوجود ملک کی پیداوار ی صلاحیت (productive capacity) میں کوئی حقیقی اضافہ نہیں ہوتا۔

جنرل پرویز کی حکومت کے دور میں بیرونی قرضوں اور کل بیرونی ذمہ داریوں کا موازنہ کیا جائے تو صورت حال یہ بنتی ہے:

                ۲۰۰۰ء   ۲۰۰۷ء

  • بیرونی قرضہ جات                ۴۶۹ء۳۲ بلین ڈالر  ۶۹۹ء۳۸ بلین ڈالر
  • مجموعی مقروضیت‘ یعنی بیرونی قرضہ جات +بیرونی ذمہ داریاں  ۹۷۶ء۳۴بلین ڈالر   ۱۷۲ء۴۱بلین ڈالر

 اگر ہم ایک نظرمیں کشکول ٹوٹنے کی کرامات کو دیکھنا چاہیں تو کچھ یہ تصویر سامنے آتی ہے:

واضح رہے کہ ملک میں کی جانے والی جس بیرونی سرمایہ کاری کا بڑا شور ہے وہ ملک کی عام صنعتی پیداوار بڑھانے کا قرارواقعی ذریعہ نہیں بنی بلکہ اس کا سارا بہائو سروس انڈسٹری کی طرف سے جس میں برقی مواصلات (telecommunications) اور بنکاری کو مرکزی اہمیت حاصل ہے یا اسٹاک ایکسچینج میں سٹّے (speculation) پر مبنی سرمایہ کاری ۔

تازہ اعدادوشمار کی روشنی میں یہ ادارے نفع کی شکل میں جو مبادلہ خارجہ ملک سے باہر لے جارہے ہیں وہ ۲۰۰۷ء میں ایک بلین ڈالر کے قریب ہوگیا ہے اورسال گذشتہ میں اس رقم میں ۶۰فیصدی اضافہ ہوا ہے۔

 اس کے ساتھ اگر ملکی قرضہ جات (domestic debt) پر بھی نگاہ ڈال لی جائے تو ہماری ’فاقہ مستی‘ کی تصویر مکمل ہوجاتی ہے۔ اس حکومت نے اسٹیٹ بنک کے تازہ اعدادوشمار   کے مطابق جولائی ۲۰۰۶ء سے مئی ۲۰۰۷ء تک صرف ۱۱ مہینوں میں ۳۴ء۳۰۲ ارب روپے کے قرضے لیے جس کے نتیجے میں حکومت پر قرض کا کُل بار بڑھ کر ۵۹۹,۲ ارب روپے ہوگیا جو اگر  ڈالر کی شکل میں ظاہر کیا جائے تو ۶ء۴۲ بلین ڈالر بن جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں بیرونی اور    ملکی قرضوں کا بوجھ ۷ء۸۲ بلین ڈالر سے متجاوز ہے۔ اس کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ   یہ قرضے ملک کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کے سلسلے میں بڑا محدود کردار ادا کر رہے ہیں اوریہ اربوں روپے بڑی حد تک سرکار کی شاہ خرچیوں اور ملک میں ہر سطح پر کرپشن کی وجہ سے صرف  دولت مندوں اور مفاد پرست طبقات کی ہوس زر اندوزی کی نذر ہورہے ہیں‘جب کہ بوجھ ملک کے ۱۶ کروڑ عوام پر پڑ رہا ہے جس سے ان کی کمر ٹوٹ رہی ہے۔ تشویش کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اس صورت حال کو پیدا کرنے کا بڑا سبب بجٹ کا خسارہ ہے جو ۰۳-۲۰۰۲ء میں ۱۳۴ارب روپے تھا،جو ۰۷-۲۰۰۶ء میں بڑھ کر ۵۳ء۳۷۷ ارب روپے ہو چکا ہے۔ دوسری طرف بین الاقوامی تجارت کا خسارہ ہے جو اس سال ۱۷ بلین ڈالر سے زیادہ ہے اور توازن ادایگی (balance of payments) کا خسارہ ۶ارب ڈالر سے بھی بڑھ گیا ہے۔

ایک طرف قرضوں کا یہ پہاڑ ہے اور تجارت اور ادایگیوں اور بجٹ کا خسارہ ہے اور دوسری طرف عوا م کی غربت اور بھوک۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق ۲ ڈالر یومیہ فی کس آمدنی کو بنیاد بنایا جائے تو ملک کی کل آبادی کا ۷۳ فی صد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔بے روزگاری جو ۱۹۹۰ء کی دہائی میں ۵فی صد سے کچھ زیادہ تھی اب بڑھ کر ۷ اور ۸ فی صد ہو چکی ہے۔ اور مہنگائی کا یہ حال ہے کہ غریب تو غریب متوسط طبقے کے لیے بھی زندگی کی کم سے کم ضروریات بھی پورا کرنا محال ہے___کیا یہی وہ معاشی فتوحات ہیں جن کی خاطر اس جرنیلی آمریت نے ملک کی آزادی، سلامتی اور حاکمیت تک کو امریکا کی گرفت میں دے دیا ہے؟

 

جنرل پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دورِاقتدار میںزندگی کے ہر شعبے میں خرابی اور بگاڑ میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے لیکن اس کا سب سے خطرناک پہلو وہ ضرب کاری ہے جو ملک کی آزادی اور حاکمیت‘ سلامتی اور استحکام اور نظریاتی اور تہذیی شناخت پر لگی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے آزادی کی ۶۰سالہ تاریخ میں یومِ آزادی کے موقع پر سوگواری‘ بے یقینی اور اضطراب کا جو عالم اس سال تھا   وہ کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ قوم کے سر شرم سے جھک گئے جب یہ خبر آئی کہ قبائلی علاقوں میں  سیاہ جھنڈے تک لہرائے گئے اور اسلام آباد میں وزیراعظم کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ کھلی فضا میں  قومی پرچم کی رونمائی کریں۔ اس تقریب کا اہتمام بھی کانفرنس ہال کی پختہ چھت تلے کیا گیا!

اس یومِ آزادی پر لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خونی المیے کا سایہ تھا اور معصوم بچوں اور بچیوں کی دل گداز چیخیں اور قران پاک کے انسانوں کے خونی لوتھڑوں میں گڈمڈ اوراق نوحہ کناں تھے۔ وزیرستان‘ سوات‘ ہنگو‘ بنوں‘ کوئٹہ اور کوہلو میں بندوقوں کی گھن گرج اور بموں کی بارش اور انسانی لاشوں کے کشتے تھے۔ اور ان سب پر مستزاد امریکی انتظامیہ اور صدارتی امیدواروں کی دھمکیاں اور اعلانات تھے کہ اپنی آزادی اور خودمختاری کی اوقات پہچانو‘ سیدھے سیدھے ہمارے احکام کی تعمیل کرو اور ساتھ ہی تیار رہو کہ’قابل اعتماد‘ معلومات ملنے پر ہم خود تمھارے علاقوں پر بھی فوج کشی سے دریغ نہیں کریں گے۔ یہ کچھ توافغانستان میں امریکا اور ناٹو کے کمانڈر اور واشنگٹن میں ترجمان کہہ رہے تھے‘ جب کہ صدربش خود بھی گول مول انداز میں یہی پیغام دے رہے تھے مگر وہاں کے ایک صدارتی امیدوار نے تو تمام حدود کو پھاند کر صرف پاکستان ہی نہیں‘ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر بھی بم باری اور لشکرکشی کی دھمکیاں دے ڈالیں۔

امریکی کانگریس نے ۲۷ جولائی کو نائن الیون کمیشن کی سفارشات پر وہ قانون منظور کرلیا جس کے نتیجے میں پاکستان کے لیے امریکی امداد کو شرم ناک اور ذلت آمیز شرائط اور سالانہ    سرٹی فکیٹ کے اجراسے مشروط کر کے پاکستانی قیادت کو آئینہ دکھایا گیا ہے کہ تمھاری چھے سالہ ’گراںقدر خدمات‘ اور امریکا کی خوش نودی کے لیے خود اپنے مسلمان بھائیوں‘ بہنوں اور بچوں کا خون بہانے کا یہ ہے صلہ۔ ساتھ ہی بھارت سے نیوکلیر تعاون کے معاہدے کو قانون کا درجہ دے دیا گیا تاکہ علاقے پر بھارت کی بالادستی کے قیام‘ پاکستان پر نیوکلیر دبائو میں اضافے اور اس کی توانائی کی ضروریات کے بارے میں ہتک آمیز تمسخر کا مظاہرہ‘ اور پاکستان کے سب سے قابلِ اعتماد دوست چین کے گرد ائرہ تنگ کرنے کا امریکی منصوبہ آگے بڑھایا جاسکے۔

نائن الیون کمیشن کی سفاشات پر مبنی قانون صرف ہماری آزادی اور حاکمیت پر ہی ضرب نہیں لگاتا بلکہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کے لیے ایک قانونی بنیادی ڈھانچا (infra-structure) وضع کردیتا ہے۔ یہ پاکستان اور اس کی قیادت پر کھلی بے اعتمادی کا اظہار ہے اور پاکستان کو دائمی غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کا انتظام بھی۔ اس میں یہ لازم کیا گیا ہے کہ ہرسال صدرِ امریکا کو یہ سرٹی فکیٹ جاری کرنا ہوگا کہ پاکستان امریکی احکام پر قرارواقعی عمل کر رہا ہے اور ان احکام میں صرف نام نہاد دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لیے فوج کشی‘ گرفتاریاں اور دوسری تمام کارروائیاں ہی شامل نہیں‘ بلکہ پاکستان اور قبائلی علاقوں میں طالبان کے اثرورسوخ کو ختم کرنا‘ اور پاکستان میں ’سیکولر تعلیم‘ کا فروغ اور ’اسلامی شدت پسندی‘ کے خلاف مستقل کارروائی بھی سرفہرست ہے۔

غلامی کی اس دستاویز کو امریکی کانگریس نے بھاری اکثریت سے منظورکیا ہے اور اس پر عمل کے لیے نہ صرف جنرل پرویز مشرف پر دبائو ہے بلکہ دوسری لبرل قوتوں کو بھی ان کا حلیف اور شریک کار بنانے کے لیے سارے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر ملک کے اندرونی نظام میں ہرطرح کی مداخلت کا راستہ استوار کیا جا رہا ہے جس کا کھلا ثبوت برطانیہ میں جیک اسٹراکے ذریعے پیپلزپارٹی کی قیادت کو مشرف سے تعاون پر تیار کرنا‘ امریکی انتظامیہ اور میڈیا کی مشرف بے نظیر اتحاد بنانے کی کوششیں‘ اور ۹ اگست کو امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزارائس کی جنرل پرویز مشرف سے ۱۷منٹ کی ٹیلی فون کال ہے جس کے نتیجے میں ایمرجنسی کے اعلان کوروکا گیا اور انکار کے بعد سجدۂ سہو کرتے ہوئے کابل یاترا اختیار کرلی گئی۔

۲۰۰۷ء کا یومِ آزادی قوم نے آزادی‘ حاکمیت‘ عزت و وقار اور نظریاتی تشخص پر حملوں کی اس فضا میں منایا ہے___ لیکن غم و اندوہ اور اضطراب اور بے چینی کے ساتھ ساتھ اس نئے احساس  اور اس عزم کے ساتھ منایا ہے کہ قوم کو اپنی آزادی اور اپنی شناخت کے تحفظ کے لیے ایک نئی جدوجہد کرنا ہوگی۔ ۲۰جولائی کے بعد عدلیہ کی آزادی سے جس دور کا آغاز ہواہے‘ اس کی تکمیل جرنیلی آمریت سے مکمل اور مستقل آزادی کے حصول اور بیرونی استعمار کی نئی زنجیروں سے گلوخلاصی کے ذریعے اپنے انجام تک پہنچانا ہوگا ___ عزت اور آزادی کی زندگی کا صرف اور صرف یہی ایک راستہ ہے۔ اس موقع پر ذرا سی کمزوری بھی بہت مہنگی پڑسکتی ہے۔

جنرل پرویز مشرف کا اقتدار فوج اور امریکا کی بیساکھیوں پر قائم ہے‘ لیکن وقت آگیا ہے کہ ان دونوں بیساکھیوں سے نجات حاصل کی جائے۔ سیاست میں فوج کی مداخلت کے باب کو یک سربند کردیا جائے‘ اور امریکا سے تعلقات کو ازسرنو اپنی حاکمیت اور نظریاتی شناخت کی بنیاد پر استوار کیاجائے۔ خصوصیت سے نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے جس طرح خارجہ پالیسی اورداخلی سیاست دونوں کو امریکی ایجنڈے کے تابع کردیاہے‘ اس کو یک سر تبدیل کیا جائے تاکہ ملک ایک بار پھر ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے عزت سے سر اُٹھاکر اپنا سفر جاری رکھ سکے۔

پاک امریکا تعلقات: ایک جائزہ

امریکا سے پاکستان کے تعلقات کے ابتدائی خطوطِ کار قائداعظم اور قائدملّت لیاقت علی خان کے دور میں مرتب ہوئے لیکن جلد ہی اس آزاد اور باوقاردوستانہ تعلق کو سردجنگ کے پس منظر میں امریکا کی چھتری تلے آنے کے نام پر ایک نئی محکومی اور محتاجی کی شکل دے دی گئی‘ اور خارجہ سیاست کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارنے اور اس نئی سمت میں ڈالنے میں کلیدی کردار غلام محمد‘ سرظفراللہ خاں اور جنرل محمد ایوب خان کا تھا۔ قائداعظم نے برملا کہا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست اور دنیا کی پانچویں بڑی مملکت ہے اور ہم برابری کی بنیاد پر اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں امریکا سے دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ لیاقت علی خان نے بہت کھل کر پاکستان کی آزاد پالیسی اور نظریاتی کردارکا اعلان و اظہار کیا تھا اوریہاں تک کہہ دیا تھا کہ پاکستان کی آزادی اور ہماری روحانی شناخت کوئی قابلِ فروخت شے نہیںہے۔ لیکن بعد کی قیادتوں نے ان دونوں ہی کا لحاظ نہ رکھا اور امریکی سیاست کے جال میں پھنس گئے۔ امریکا نے خاص طور پر اپنے تعلقات اور اثرات کو محکم کرنے کے لیے فوج سے بلاواسطہ تعلقات کو ذریعہ بنایا اور پاکستانی قوم اور پارلیمنٹ کو کبھی بھی سارے حقائق سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ اس سے انکار نہیں کہ معاشی اور عسکری اعتبار سے کچھ مثبت فوائد بھی حاصل ہوئے لیکن جن بنیادوں کو محفوظ نہ رکھا جاسکا‘ وہ آزادی‘ حاکمیت اور نظریاتی تشخص ہیں جس کی بڑی بھاری قیمت ہر دور میں اور سب سے زیادہ جنرل پرویز مشرف کے دورِاقتدار میں قوم کو ادا کرنا پڑی۔

اس سب کے باوجود پاکستان اور امریکا کے تعلقات پراگر نظر ڈالی جائے تو ان میں بڑے نشیب و فراز صاف دیکھے جاسکتے ہیں۔ کبھی دوستی کی پینگیں بڑھائی جاتی ہیں اور کبھی صاف پیٹھ دکھا دی جاتی ہے۔ یہ تجربہ بار بار ہوا اور یہ صرف پاکستان ہی کے ساتھ نہیں‘ امریکا کی خارجہ سیاست کا طریق واردات یہی ہے۔ ایک اسرائیل کو چھوڑ کر کوئی ملک ایسا نہیںہے جس کے ساتھ امریکا نے مستقل دوستی نبھائی ہو۔ ضرورت پڑنے پر ساتھ ملانے کے لیے ہرحربہ استعمال کیا ہے جسے carrot and stick ،یعنی چارہ اور چابک کی پالیسی کہا گیا ہے۔ اگرچارے (political bribe) سے کام چل گیا تو فہوالمراد‘ورنہ چابک اور ڈنڈا بے دریغ استعمال کیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکا  گاہک(client) اور غلام (serf)تو حاصل کرسکا ہے مگر کبھی دوسروں کو وہ دوست اور ساتھی نہیں بناسکا۔ پاکستان کو اس کا تجربہ ۱۹۶۵ء میں‘ پھر ۱۹۷۱ء میں‘ پھر ۱۹۷۶ء میں‘ پھر ۹۰-۱۹۸۸ء میں‘ پھر ۱۹۹۸ء میںہوا‘ مگر مجال ہے جو ہماری قیادتوں نے اس سے کوئی سبق سیکھا ہو۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ  ع

ٹھوکریں کھا کر تو کہتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ

لیکن افسوس صد افسوس کہ اس ملک کی قیادتوں نے تو ٹھوکریں ہی نہیں‘ جوتے کھانے کے بعد بھی سبق نہیں سیکھا۔

پاک امریکا تعلقات کا سب سے ذلت آمیز دور پرویز مشرف کا دورِاقتدار ہے۔ اس کا آغاز بل کلنٹن کے دورۂ جنوبی ایشیا سے ہوتا ہے جس میں بھارت کو اسٹرے ٹیجک پارٹنر بنایا گیا‘ پانچ دن وہاں شادیانے بجائے گئے اور پانچ گھنٹے کے لیے پاکستان میں اس انداز میں آئے کہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کوئی تصویر نہیں کھنچوائی‘ کوئی مشترک پریس کانفرنس نہیں کی‘ اور بلاواسطہ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے پاکستانی قوم سے خطاب فرمایا۔ وردی پوش جنرل صاحب نے یہ سب ذلت بخوشی قبول کی اور شکریہ ادا کیا کہ انھیں اس لائق توسمجھا گیا! لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ وہ اس سے بھی زیادہ ہے۔

۹ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد امریکی رعونت اپنے عروج پر تھی اور پاکستان کی گوشمالی کا بدترین دور ۱۲ستمبر کی اس ٹیلی فون کال سے شروع ہوتا ہے جو جنرل کولن پاول نے جنرل پرویز مشرف کو کی۔  یہ گفتگو اس دھمکی کے زیرسایہ ہوئی تھی جو پہلے ہی امریکی نائب وزیرخارجہ رچرڈ آرمی ٹیج نے پاکستانی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل محمود کو واشنگٹن میں دے دی تھی‘ اور بش صاحب کا فرمان شاہی پہنچا دیا تھا کہ یا ہمارا ساتھ دو ورنہ تمھیں پتھر کے دور میں پھینک دیاجائے گا۔ اس کی پوری تفصیل امریکی صحافی باب ووڈورڈ نے اپنی کتاب Bush at Warمیں دی ہے اور دسیوں کتابوں میں وہ پوری صورت حال آچکی ہے جس میں دھونس‘ دھمکی اور ننگی جارحیت کی تلوار دکھا کر پاکستان کی فوجی قیادت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکیا گیا‘ اور جس کا اعتراف ’محکوم کی دانش مندی‘ کی مغالطہ آمیز منظرکشی کے روپ میں خود جنرل پرویز مشرف نے اپنی خودنوشت In the Line of Fire میں کیا ہے۔

آج جو ہتک آمیز سلوک امریکا‘ جنرل صاحب اور پاکستان سے کر رہا ہے‘ وہ نتیجہ ہے اس ہمالیہ کے برابر غلطی کا جو ستمبر۲۰۰۱ء میں جنرل صاحب نے کی۔ اس کے بعد سے مسلسل امریکا کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں‘ غلامی کی زنجیروں کو زیور بنا کر پیش کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب اس شیطانی گرفت سے نکلنے کی ان کوکوئی سبیل نظر نہیں آرہی ہے۔

نائن الیون کے بعد

بحیثیت سوپر پاور روس کے خاتمے کے بعد سے امریکا کی خارجہ پالیسی کا ایک ہی ہدف ہے اور وہ پوری دنیا پر اپنی سیاسی‘ عسکری‘ معاشی اور تہذیبی بالادستی کا قیام‘ دنیا کے دوسرے ممالک کے وسائل اور خصوصیت سے توانائی کے ذخائر پر قبضہ‘ اور نیوکلیر اثاثوں پر کنٹرول اور اس امر کو  واقعی بنانا ہے کہ امریکا کی اس بالادستی کو چیلنج کرنے والی کوئی قوت کسی شکل میں بھی اُبھر نہ سکے۔ نائن الیون دراصل اس سامراجی عمل (hubris)کا ایک حصہ ہے اور اس کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر انھی مقاصد کو زیادہ بھونڈے اور زیادہ خون آشام انداز میں حاصل کرنے کی عالم گیر جدوجہد کاآغاز ہوا ہے۔ البتہ اس فرق کے ساتھ کہ اب ایک فوری ہدف چند مسلمان ممالک (خصوصیت سے افغانستان‘ عراق‘ ایران‘ شام اور پاکستان)‘ اور اسلام کا وہ تصور قرار پایا جسے سیاسی اسلام‘ اسلامی بنیادپرستی‘ جہاد اور زیادہ اکھڑاور صاف الفاظ میں اسلامی دہشت گردی اور اسلامی فاشزم کہا جا رہا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کو ترغیب اور ترہیب کا ہرحربہ استعمال کرکے اپنا شریک کار بنایا گیا ہے اور یہی وہ جال ہے جس میں جنرل پرویز مشرف بخوشی قدم افروز ہوئے ہیں اور چھے سال تک ذلت آمیز خدمات انجام دینے کے بعد بھی ھل من مزید (more, more and more)کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔

صدربش نے اپنے عالمی دہشت گردی کے مقاصد کوکسی پردے میں نہیں رکھا۔ بقول  باب ووڈ ورڈ امریکا نے اپنا ہدف بہت صاف لفظوں میں دنیا کو بتا دیا ہے کہ:

ہم اپنی عظیم قوم کے دفاع میں دنیا کے کونے کونے میں موت اور تشدد پھیلائیں گے۔ (Bush At War،باب وڈ ورڈ‘ سائمن اینڈ شوسٹر‘ نیویارک‘ ۲۰۰۲ء‘ ص ۳۵۲)

دیکھیے پاکستان کے جنرل پرویز مشرف کو قابو میں کر کے کس طرح اس شکنجے میں کساگیا ہے۔ بش صاحب نے نائن الیون کے فوراً بعد اپنی پالیسی کو ان الفاظ میں بیان کیا: ’’ہمیں طاقت کا استعمال کر کے ملکوں سے فیصلے کروانا ہوں گے‘‘۔(ص ۳۳)

آرمی ٹیج نے جنرل محمود سے کہا:

پاکستان کو ایک اہم فیصلہ کرنا ہے ___ یا وہ ہمارے ساتھ ہے یا نہیں ہے۔ یہ سفیداور سیاہ میں سے کسی ایک کا انتخاب ہے۔ درمیان میں کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ الفاظ کہ ’’مستقبل آج شروع ہورہا ہے‘‘ پاکستانی صدر جنرل مشرف کو بتا دو: ’’ہمارے ساتھ یا ہمارے مخالف‘‘۔ (ص ۴۷)

جنرل کولن پاول نے صدربش سے کہہ دیا تھا کہ افغانستان پر حملہ اور بن لادن اور القاعدہ پر گرفت پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں‘ اس لیے :

پاکستانیوں کو نوٹس دینے کی ضرورت ہے… مشرف پر بہت زیادہ دبائو ڈالنے میں اندیشہ ہے‘ لیکن بالکل دبائو نہ ڈالنے میںزیادہ اندیشہ ہے۔(ص ۵۸)

۱۲ ستمبر کورات کو ۳۰:۱۲ بجے کولن پاول نے جنرل پرویز مشرف سے "As one general to another"بات کی اور ’’یا ہمارے ساتھ ہو، یا ہمارے مقابلے میں ہو‘‘ کی دھمکی دی‘ نیز سات مطالبات کیے جن کے نتیجے میں پاکستان امریکا کے جنگی پشتے (war base)میں تبدیل ہوگیا۔ کولن پاول نے باب ووڈ ورڈ سے کہا اور پھر اپنی خودنوشت میں اعتراف کیا ہے کہ وہ سمجھتا تھا کہ مشرف سات میں سے ایک دو مطالبات مان لے گا لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ہمارے جنرل صاحب نے ساتوں مطالبات بے چون وچرا ں مان لیے۔ ووڈ ورڈ لکھتا ہے:

پاول کو حیرت ہوئی جب مشرف نے کہا کہ پاکستان امریکا کے ساتوں میں سے ہر ایک اقدام میں حمایت کرے گا۔ (ص ۵۹)

بعد میں صدر بش سے جنرل پرویز مشرف نے دو درخواستیںکیں۔ ایک یہ کہ: ’’افغانستان کے بارے میںانھیں خدشہ ہے کہ شمالی اتحاد جسے امریکا بھی مانتا ہے کہ وہ قبائلی ٹھگوں کے گروہ سے زیادہ نہیں‘ افغانستان پر قابض ہوجائے گا‘‘۔ جس کے جواب میں صدربش نے خسروان شاہی سے فرمایا کہ: ’’شمالی اتحاد کے بارے میں آپ کی تشویش کا مجھے بخوبی احساس ہے‘‘۔

ملاقات کے بعد پریس کے سامنے بش نے وعدہ کیا کہ:

ہم اپنے دوستوں کی جنوب میں شامالی میدان کی طرف پیش قدمی کی حوصلہ افزائی کریں گے نہ کہ شہر کابل پر قبضہ کے لیے‘ بش نے کہا۔ (ص ۳۰۴)

اور پھر ہوا کیا؟ پورا افغانستان طشتری میں سجا کر شمالی اتحاد کی خدمت میں پیش کردیا گیا اور جنرل صاحب دیکھتے رہ گئے۔ دوسری گزارش جنرل صاحب نے صدربش سے یہ کی کہ پاکستان کے نیوکلیر اثاثہ جات کو اسرائیل سے خطرہ ہے‘ آپ ان کے تحفظ کا یقین دلائیں۔ بش نے بات کو مذاق میں اڑا دیا اور جنرل صاحب خوش ہوگئے کہ امریکا پاکستان کی ایٹمی صلاحیت پر دست درازی نہیں کرے گا۔

جنرل صاحب نے بڑی ہمت کر کے افغانستان میں روس کے خلاف جہادکے خاتمے پر امریکا کے آنکھیں پھیر لینے کے پاکستانی احساس کا ذکر کیا تو بش نے پوری ڈھٹائی سے کہا: ایسا نہیں ہوگا۔ ملاحظہ فرمایئے:

مشرف نے کہاکہ اس کو یہ خطرہ ہے کہ امریکا آخر میں پاکستان کو چھوڑ دے گا اور دوسرے مفادات دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اہمیت کم کردیں گے۔ بش نے اپنی نگاہ مرکوز کرکے کہا: پاکستانی عوام کو بتا دیں کہ امریکی صدر نے آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بتایا ہے کہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔ (ص ۳۰۳)

حسب عادت امریکا نے وہی کیا اور کر رہا ہے‘ یعنی آنکھیں پھیر لینا۔ بدعہدی اور طوطا چشمی کے علاوہ اس سے کوئی توقع رکھنا خوش فہمی ہی نہیں حماقت ہے۔ اس موقع پر صدر نکسن کی دل چسپ مگر عبرت آموز گواہی بھی ریکارڈ پر لانا مفید ہوگی جس میں امریکا کا ساتھ دینے والے چار کرداروں کا ذکر ہے جن میں سے دو کا تعلق پاکستان سے ہے۔ رچرڈ نکسن نے اپنی کتاب In the Arena: A Memoir of Victory, Defeat and Renewalمیں جو ۱۹۹۲ء میں شائع ہوئی تھی‘ لکھا ہے:

بیرونی سفر میں میرا سب سے زیادہ افسوس ناک تجربہ جولائی ۱۹۸۰ء میں‘قاہرہ میں‘  شاہِ ایران کے جنازے میں شرکت تھی۔ واشنگٹن سے کوئی بھی امریکا کی نمایندگی کے لیے ایک ایسے لیڈر کے جنازے میں نہیں بھیجا گیا جو ہمارے نہایت وفادار اور گہرے دوستوں میں سے تھا۔ مجھے پاکستان کے صدر ایوب خان کا ایک جملہ یاد آیا جو انھوں نے ۱۹۶۴ء میں‘ جنوبی ویت نام کے صدر ڈیم کے قتل میں امریکا کی شرکت پر تبصرہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا تھا کہ اس واقعے نے ثابت کردیا ہے کہ امریکا کا دوست ہونا خطرناک ہوتا ہے۔ غیرجانب دار ہونے کا فائدہ ہوتا ہے‘ اور بعض وقت دشمن ہونے سے کام نکلتا ہے۔ یہ بات میرے ذہن میں اس وقت پھر آئی جب امریکا کے ایک اور گہرے دوست پاکستان کے صدر ضیاء الحق کی پُراسرار موت کی اطلاع ملی جو ہوائی جہاز کے حادثے میں ہوئی جو بظاہر سبوتاژ کا نتیجہ تھی۔

قومی عزائم سے بدترین بے وفائی

یہ ہے امریکا کا ٹریک ریکارڈ۔ اس کے باوجود جنرل پرویز مشرف نے امریکا کا دامن تھاما اور اس کی چاکری کی خدمات انجام دیں‘ جن میں افغانستان کے اپنے دوست حکمران طالبان سے نائن الیون کے واقعے میں ان کے ملوث ہونے کے کسی واضح ثبوت کے باوجود بے وفائی‘ افغانستان پرفوجی یلغار اور اس کو تباہ و برباد کرنے کی امریکی اور بعد میں ناٹو کی جنگ میں شرکت‘ خود اپنے ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان میں امریکا اور ناٹو کی مشترک ۴۰ہزار کی فوج کے مقابلے میں ۸۰ ہزار سے ایک لاکھ فوج کو قبائلی علاقوں میں جھونک دینا‘ ۸۰۰ پاکستانی افسران اور جوانوں اور ایک ہزار سے زیادہ قبائلی مسلمانوں کی جانوں کا اتلاف اور سیکڑوں افراد کو کسی ثبوت اور کسی عدالتی کارروائی کے بغیر گرفتار کر کے امریکا کی تعذیب کا نشانہ بنانے کے لیے ان کی تحویل میں دے دینا شامل ہیں۔ پھر اس کے نتیجے میں پاکستان کے اندرونی معاملات حتیٰ کہ سیکولر تعلیمی نظام کو فروغ دینے اور ملک میں امریکا کی مرضی کی سیاسی قیادت کو برسرِاقتدار لانے کے معاملات میں امریکی ایجنڈے کی تعمیل کی راہیںاستوار کیں۔ یاد رکھیے جو پالیسی مالی منفعت یا    بہ الفاظ صحیح تر سیاسی رشوت یا بیرونی دبائو‘ بلیک میل‘ ہاتھ مروڑنے اور تازیانہ بازی کا نشانہ بننے کے نتیجے میں بنے گی‘ یا ان دونوں کے امتزاج کا نتیجہ ہوگی وہ کبھی قومی مفاد میں نہیں ہوسکتی۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے امریکا کے حکم اور مطالبے کے تحت قومی مفاد کو جس طرح قربان کیا ہے اور ملک کی خارجی اور داخلی پالیسیوں میں جو بنیادی تبدیلیاں کی ہیں وہ قوم‘ اور اس کے عزائم سے بدترین بے وفائی اور قیامِ پاکستان کے مقاصد اور دستورِ پاکستان کے تقاضوں سے متصادم ہیں۔ اور یہ سب کچھ چند بلین ڈالر حاصل کرنے اورامریکا کے دبائو اور ڈنڈوں کے سائے تلے   کیا گیا ہے۔ اس کی چند مثالیں ریکارڈ کی خاطر پیش کی جاتی ہیں۔

امریکا کی ناردرن کمانڈ کا سربراہ (۲۰۰۳ء-۲۰۰۰ء) جنرل ٹامی فرینک اپنی خودنوشت میں جو ۲۰۰۴ء میں American Soldier کے نام سے شائع ہوئی ہے‘ لکھتا ہے:

میں نے ارادہ کیا کہ سفر جاری رکھتے ہوئے پاکستان میں صدر مشرف سے مل لوں۔  اس لیے کہ اگر بازو مروڑنے کا کوئی موقع تھا تو یہی تھا۔ انھیں فیصلہ کرنا ہوگا‘ اور بہت جلدی فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کس طرف ہیں۔

اسی کتاب میں جنرل ٹامی فرینک انکشاف کرتا ہے کہ افغانستان پر امریکا کی یورش میں بھارت کی سیاسی‘ سفارتی اور فوجی شرکت بھی تھی جس پر جنرل پرویز مشرف کو اصولی اختلاف نہیں تھا البتہ صرف اس لیے پریشان تھے کہ اس سے ان کی سیاسی پوزیشن خراب ہوتی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ معاملہ اس پر طے ہواکہ بھارت کی شرکت کو نمایاں نہیں کیا جائے گا۔ یہ دل خراش داستان  انھی کی زبان میں سن لیجیے:

مشرف نے درخواست کی کہ مہم کے منصوبے میں بھارتی حکومت یا بھارتی فوج کی شرکت نہ ہو۔ خاص طور پر کسی بھی صورت میں اس طرح کہ بھارتی فوجیں پاکستان کے بحری اور فضائی حدود میں داخل ہوں۔ انھوں نے یہ بھی چاہا کہ اتحادی بھارت کی  سیاسی شرکت کوبھی بہت نمایاں نہ کریں جس سے پاکستان میں جذبات بھڑک سکتے ہیں۔ میں نے امریکی سفیر وینڈی سے کہا کہ وہ صدر مشرف کو میرا ذاتی شکریہ پہنچا دیں اور انھیں بتائیں کہ میں بھارتی شرکت کا مظاہرہ کم سے کم کرنے کی کوشش کروں گا۔ (ص ۲۷۳)

جنرل ٹامی فرینک اپنی افغان جنگ کے پورے تجربے کا تجزیہ کرتے ہوئے فخریہ انداز میں بیان کرتا ہے کہ:

علاقے میں اپنے ساتھی تلاش کرنے کے لیے اپنے ۳۰ سے زیادہ دوروں میں‘ مَیں نے بہت زیادہ چارہ اور چند ہی چابک استعمال کیے۔

اور پھر جنرل پرویز مشرف کی تابع داری کا بیان یوں رقم کرتا ہے:

اور گو کہ دنیا کو اس جنگ میں پاکستان کے فوجی کردار کا کم پتا ہے لیکن پرویز مشرف نے اپنا کہا پورا کیا‘ اور آج بھی وہ اسی طرح ہے۔ پاکستان کے گیارھویں کور کے تجربہ کار فوجیوں نے بھاگنے والے سیکڑوں القاعدہ کے دہشت گردوں کو قتل کیا اور پکڑااور وہ آج بھی وزیرستان کے پہاڑوں میں ان دہشت گردوں کو تلاش کرتے ہیں‘ جب کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز شہروں میں ان کا پتا چلاتی ہیں۔ حال ہی میں القاعدہ دہشت گردوں کی گرفتاریاں جاری مہم کی تازہ کامیابیاں ہیں۔ جب صدر بش نے کہا تھا کہ دنیا کی قومیں یا ہمارے ساتھ ہیں یاہمارے مخالف تو پاکستان نے ٹھیک ٹھیک سمجھ لیا (کہ اب اسے کیا کرنا ہے)۔

ٹامی فرینک کی گواہی کافی نہیں۔ تصویر مکمل کرنے کے لیے سی آئی اے کے ڈائرکٹر  جارج ٹی نٹ (Tenet)کی شہادت بھی ملاحظہ فرمالیجیے۔ یہ نومبر ۲۰۰۱ء کا واقعہ ہے اور پس منظر میں پاکستان کی نیوکلیر ٹکنالوجی کے افغانستان جانے کا خطرہ ہے۔صدربش نے خصوصی طیارے سے سی آئی اے کے سربراہ کو پاکستان بھیجا۔باب ووڈ ورڈ نے اپنی دوسری کتاب Plan to Attack میں اس کی اس طرح منظرکشی کی ہے۔ پہلے صدربش کی ہدایت دیکھیے:

بش نے ٹی نٹ سے کہا: میں چاہتا ہوں کہ تم ابھی وہاں جائو اور جو چاہیے وہ حاصل کرلو۔ اپنا جہاز پکڑو اور ابھی پاکستان چلے جائو۔

جارج ٹی نٹ پہلے آئی ایس آئی کے سربراہ سے ملتے ہیں۔ ذرا زبان اور عزائم ملاحظہ فرمائیں:

وہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ سے خوب خبر لینے (raising holy hell) کے ارادے سے ملنے گیا۔ اگر امریکا میں کوئی ایٹمی ہتھیار ہوا اور یہ چل گیا تو ذمہ داری تمھاری ہوگی‘ مشرف کے بارے میں اس نے کہا۔ ہم نے اس پر خوب دبائو ڈالا۔ ایک اہل کار نے کہا: ہم گوشمالی کرتے رہے (we were turning the screws) یہاں تک کہ اس کے ساتھ ہم اس مقام پر پہنچ گئے کہ پاکستانی ہمارے ساتھ کام کرنے لگے۔ (ص ۴۷)

جنرل پرویز مشرف اور ان کے وزیرخارجہ بار بار اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے کسی کے اشارے پر یا دبائو کے تحت کچھ نہیں کیا۔ اس سے بڑا جھوٹ آسمان تلے نہیں ہوسکتا۔ قوم نے جس فوج کو ملک کی آزادی اور قوم کی عزت کی حفاظت کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر تیار کیا تھا‘ اس کی قیادت نے چند ڈالروں کے لیے اور دوسروں کی دھمکیوں کے تحت خود مسلمانوں کا خون بہایا اور امریکا کی بالادستی کے قیام کے لیے خود اپنی جانیں اور عزت قربان کی۔ اقبال نے تو کشمیر کا نوحہ کیا تھا‘ کیا خبر تھی کہ پاکستان کے بارے میں بھی کہنا پڑے گا کہ اس کے جرنیلوں نے  ع

قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند!

امریکا کی کہلی مداخلت

امریکا کس طرح ہمارے معاملات میںمداخلت کر رہا ہے‘ وہ صرف افغانستان کے لیے کندھا فراہم کرنے اور وزیرستان میں فوج کشی کرنے تک محدود نہیں۔ چند اور مثالیں مشتے نمونہ ازخروارے پیش خدمت ہیں۔

امریکا اور برطانیہ کے اشاروں پر کشمیر کی جدوجہد آزادی سے دست برداری اختیار کی گئی اور نہ صرف عملاً تحریک آزادیِ کشمیر کی ہر مدد بند کردی‘ بلکہ اسے آزادی کی جنگ بھی کہنے سے توبہ کرڈالی۔ افسوس کہ بالآخر جنوری ۲۰۰۴ء میں یہاں تک اعلان کردیا کہ کشمیر کی کنٹرول لائن جسے پاکستان نے کبھی بین الاقوامی سرحد تسلیم نہیں کیا تھا‘ اسے کشمیری مجاہدین کے لیے بند کردیا جائے گا اور ان کے سرحدپار کرنے کو دہشت گردی کی ایک صورت تسلیم کرلیا۔

اس سلسلے میں ٹونی بلیئر نے صدربش کے کارندے کی خدمات انجام دیں اور جنرل پرویز مشرف کوقائل کرلیا کہ کشمیر کی تحریکِ آزادی کو تحریکِ آزادی بھی نہ کہیں۔ ابھی چند ہفتے قبل     ہی سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کے ایڈوائزر اور پالیسی کے شعبے کے مدیر الیسٹیرکیمپبل کی کتاب  The Blair Years شائع ہوئی ہے۔اس میں ٹونی بلیئر کے کارنامے اور پاکستانی جرنیل کا   ’تیرا مجبور کردینا، مرا مجبور ہوجانا‘ کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے‘ عبرت کے لیے اس کا جاننا ضروری ہے۔ جنرل صاحب سے یہ ملاقات ۷جنوری ۲۰۰۲ء میں‘ اسلام آباد میں ہوتی ہے اور اس کے بعد ۱۲فروری ۲۰۰۲ء کو وہ کشمیر کی جنگ آزادی سے دست برداری کا اعلان فرما دیتے ہیں۔الیسٹیر کیمپبل لکھتا ہے کہ:

بلیئر کا پہلا قدم یہ ہونا تھا کہ مشرف دہشت گرد گروہوں کے ساتھ سخت ہوجائے۔ بلیئر نے مشرف سے کہا کہ مذاکرات شروع ہونے کے لیے دہشت گردی کی حمایت ختم  ہونی چاہیے۔ مشرف نے حیران ہوکر دیکھا۔ بلیئر نے کہا: یہ اس لیے ٹھیک نہیں ہے کہ  اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی حکومت دہشت گردی کی حمایت کر رہی ہے۔ ہم نے اسے سمجھایا کہ اس کے لیے بہترین راستہ یہ ہے کہ وہ بڑھ چڑھ کر یہ کہے کہ وہ دہشت گردی کی ہرشکل کا مخالف ہے۔ ہم نے اسے اس پر قائل کرلیا کہ کشمیر کے بارے میں وہاں ہونے والی جدوجہد کو جنگِ آزادی نہ کہاجائے۔ اس لیے کہ یہ ہم اور امریکی راے عامہ نہیں سمجھیں گے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ اسے ایک مقامی جدوجہد کہا جائے۔ ہمیں اس پر بہت وقت خرچ کرنا پڑا لیکن بالآخر وہ مان گیا۔ (The Blair Years‘ ص ۵۹۹)

امریکا کی نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ ہو یا پاکستان کی کشمیرپالیسی‘ نیز بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اور دوستی کی پینگیں___ سب کچھ امریکا کے اشارۂ چشم و ابرو پرہوا لیکن الفاظ و معانی اپنا مفہوم کھو چکے ہیں۔ بقول جنرل صاحب یہ سب ’قومی مفاد میں ہوا‘، اور     یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

لال مسجداور جامعہ حفصہ کے خلاف جو فوجی آپریشن ہوا وہ بھی امریکا اوراس کے حواریوں کے مطالبات اور مغربی میڈیا اور خود پاکستان میں لبرل قیادت کے شوروغوغا اور اس کی سرخیل  محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہہ پر ہوا۔ صدربش‘ گورڈن برائون (برطانوی وزیراعظم) آسٹریلیا کے وزیراعظم اور خود بے نظیر صاحبہ نے باقاعدہ اس اقدام کی تحسین فرمائی اور معصوم بچوں اور بچیوں کے کشت و خون اور مدرسے کی مسماری پر مبارک باد کے پیغامات بھیجے۔ اب اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ امریکا نے ایکشن سے ایک دن پہلے باقاعدہ ہدایات جاری کیں‘ اس فرق کے ساتھ ان کا مطالبہ تھا کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے مکینوں کو گرفتار کیا جائے‘ جب کہ جنرل پرویز مشرف کی حکمت عملی یہ تھی ان کو نیست و نابود کیا جائے‘ بلکہ جامعہ حفصہ کو بھی اس طرح مسمار کیا جائے کہ بقول چیف جسٹس آف پاکستان اس آپریشن کے بارے میں ساری معلومات اور شہادتیں بھی ختم ہوجائیں۔ امریکی ہدایات ریکارڈ کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔ ۹جولائی ۲۰۰۷ء کے The Nation کے مطابق فوجی ایکشن سے ایک دن قبل(واضح رہے کہ یہی وہ دن ہے جب مصالحت کی کوششیں اپنے عروج پر تھیں‘ معاملات طے ہورہے تھے کہ ان کو سبوتاژ کردیا گیا) یہ ہدایات نازل ہوئیں:

امریکا نہیں چاہتاکہ ان درجنوں خطرناک جنگجوؤں کو جو لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں ہیں‘ محفوظ راستہ دیا جائے بلکہ سخت اقدام چاہتا ہے تاکہ وہ گرفتار ہوں۔ بش انتظامیہ کا پیغام یہ تھا کہ مولانا عبدالرشید غازی کے مطالبے کے مطابق مسجد خالی کرنے اور  لڑکیوں کے متصل مدرسے کو خالی کرنے کی شرط پر جنگجوؤں کو محفوظ راستہ نہ دیا جائے… واشنگٹن کو ان جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کے مقابلے میں گرفتار کرنے میں زیادہ دل چسپی تھی‘ اس لیے کہ اسے یقین تھا کہ ان سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم سراغ ملیں گے… انھوں نے کہا کہ امریکا کے اعلیٰ سیکورٹی اہل کار پاکستانی دارالحکومت کے واقعات کو مانٹیر کر رہے تھے اور اپنی حکومت کو باقاعدگی سے تازہ اطلاعات پہنچا رہے تھے۔

اسی طرح جنوبی اور شمالی وزیرستان میں جو امن معاہدہ ہوا اس سے امریکاسخت ناخوش تھا۔  اس نے اپنا سارا اثرورسوخ اور بازو مروڑنے (arm-twisting) کے حربے استعمال کرکے  شمالی وزیرستان اور اس سے بڑھ کر صوبہ سرحد کے چند اہم مقامات خصوصیت سے سوات‘ بنوں اور دوسرے علاقوں میں فوج بھیجنے کے لیے پاکستان پر دبائو ڈالا اور بالآخر اس علاقے میں ایک بار پھر خون ریزی اور تصادم کا سماں پیدا کردیا۔ واشنگٹن سے ڈان کے نمایندے کی ۱۶جولائی کی رپورٹ قابلِ غورہے:

امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر نے بتایا کہ امریکا پاکستان کو وہ تمام آلات فراہم کرے گا جن کی انھیں صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں جنگجوؤں کے لیے ایک مجوزہ کریک ڈائون کے لیے ضرورت ہوگی۔ اسٹیفن رِڈلے نے اے بی سی نیوز کو بتایا کہ جنرل مشرف نے قبائلی علاقوں میں مزید افواج بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے اور امریکا اس اقدام کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ ہمیں اس ملک کو اس حالت میںلاناہے جہاںاس کے پاس دہشت گردی کے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے تمام ضروری آلات ہوں‘ جو بدقسمتی سے ہمارے ساتھ طویل مدت تک رہے گا۔

بھارت کے جریدے فرنٹ لائن نے اپنی ۱۰ اگست ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں پاکستان پر تفصیلی کور اسٹوری شائع کی ہے جس میں جان شیریں (John Cherian) نے اپنے دو مضامین میں حالات کی یوں عکاسی کی ہے:

جب انھیں یاد دلایا گیا کہ قبائلی سرداروں نے گذشتہ سال ستمبر کا معاہدہ ختم کردیا ہے تو انھوں نے کہا کہ معاہدے نے اس طرح کام نہیں کیا جس طرح صدرمشرف چاہتے تھے‘ بلکہ اس طرح بھی نہیں کیا جس طرح ہم چاہتے تھے۔ اس ہفتے کے آغاز میں امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری رچرڈ بائوچر نے کانگریس کو بتایا کہ امریکا قبائلی پٹی اور سرحد کی نگرانی کے لیے پاکستانی فوج کو ہرمہینے ۱۰۰ ملین ڈالر ادا کرتا ہے۔

اگر امریکی احکام پر عمل کیا جائے تو پاکستانی فوج افغانستان سے متصل اپنے سرحدی علاقے میں پشتون قبائل کے ساتھ عملاً حالت ِ جنگ میں ہوگی…

امریکی میڈیا کی حالیہ رپورٹوں کے مطابق ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد بش انتظامیہ نے پاکستان پر دبائو ڈال کر اسے اپنے ساتھ ملا لیا۔ مشرف کو بتایا گیا کہ اگر اس نے طالبان کی حمایت ترک نہ کی تو واشنگٹن بم باری کرکے پاکستان کو پتھر کے دور میں پہنچا سکتا ہے‘ اور نئی دہلی کو اشارہ کرے گا کہ پاکستانی کشمیر کے متنازع علاقے پر قبضہ کرلے۔

پاکستانی صدر پرویز مشرف کی حالیہ پریشانیوں کی بڑی وجہ پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان کا احیا ہے۔ امریکا اور ناٹو کی افواج کی طالبان کو شکست دینے میں ناکامی نے پاکستان میں اس کے حامیوں کا حوصلہ بڑھا دیا ہے۔ بش انتظامیہ کو سیاسی طور پر یہ مناسب لگتا ہے کہ طالبان اور اس کے عسکری حلیفوں کو افغان سرحدی علاقوں میں قابو کرنے کے لیے کافی کچھ نہ کرنے کے الزام پاکستان پر رکھ دے‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ طالبان کے احیا کی حقیقی ذمہ داری واشنگٹن اور اس کے حلیفوں پر ہے۔

بش انتظامیہ حکومتِ پاکستان پر دبائو ڈال رہی ہے کہ قبائلی علاقوں میں پھر بھرپور حملہ کرے۔ اپنے علانیہ بیانات میں سینئر امریکی اہل کار کہہ چکے ہیں کہ اگر پاکستانی فوج آگے بڑھ کر اقدام نہیں کرتی تو امریکا خود اقدام کرسکتا ہے۔ ماضی میں کئی موقعوں پر امریکی فضائیہ نے القاعدہ کے اہداف کو پاکستانی حدود میں نشانہ بنایا ہے۔ امریکی اسپیشل فورسز بھی محدود پیمانے پر آپریشن کر رہی ہیں۔

امریکی مداخلت کی تازہ ترین مثال مشرف بے نظیر مفاہمت کی کوششیں اور اس کے لیے  کی جانے والی طرح طرح کی سازشیں ہیں۔ ایمرجنسی کی بات اور پھر امریکی وزیرخارجہ کی مداخلت اس کی تازہ ترین نظیر ہیں۔ نیویارک ٹائمز ۱۱اگست ۲۰۰۷ء کے اداریے میں امریکا کے کردار کویوں بیان کرتا ہے:

وزیرخارجہ کونڈولیزارائس نے جمعرات کی رات کو ۲ بجے صدرمشرف کو فون کر کے ایک سیاسی طوفان کو دُور کرنے میں مدد دی‘ اور پارلیمنٹ کو معطل کرنے‘ عدالتوں کو بے اختیار کرنے‘ مظاہروں پر پابندی لگانے اور اس کے لیے ایک نئی صدارتی مدت کے سلسلے میں بات کی۔

لیکن یہ بحران شاید صرف ملتوی ہوا ہے۔ آٹھ سال کی مطلق العنان حکومت اور عہدشکنیوں کے بعد مشرف نے وہ حمایت کھو دی ہے جو اسے عام پاکستانیوں میں‘ تعلیم یافتہ پروفیشنل طبقے میں‘ حتیٰ کہ ساتھی فوجی افسروں میں کبھی حاصل تھی۔ مشرف کو صرف یہ بتانا کہ وہ مزید اختیارات حاصل نہ کرے کافی نہیں۔ واشنگٹن کو اسے یہ بتانا چاہیے کہ تاخیر ہونے سے قبل مذاکرات کے ذریعے جمہوریت کی طرف جلدواپس ہونا چاہیے۔

واضح رہے کہ یہاں جمہوریت کے معنی امریکا کی پسندیدہ قیادت کو برسرِاقتدار لانا ہے‘ ورنہ سب کو معلوم ہے کہ امریکا کوجمہوریت کا کتنا پاس ہے۔

اثرات و نتائج

اس دل خراش داستان کی کوئی انتہا نہیں۔ ہم نے صرف چنددستاویزاتی شہادتیں پیش کی ہیں تاکہ ’قومی مفاد‘ کی بات کرنے والوں کااصل چہرہ سامنے آسکے۔ امریکا کے ایجنڈے کے مطابق جنرل پرویز مشرف نے قوم‘ پارلیمنٹ‘ حتیٰ کہ کابینہ اور دفترخارجہ تک کو نظرانداز کرکے وحدت اقتدار (unity of command) کے نام پر خارجہ پالیسی کا جو تیاپانچہ کیا ہے‘ اس سے ملک اور اُمت مسلمہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اس کے چند اہم پہلوئوں کی نشان دہی کی جاتی ہے:

۱- صدر بش کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ نہ بین الاقوامی قانون کے اعتبار سے جنگ ہے اور نہ اس کا ہدف حقیقی دہشت گردی ہے۔ اس لیے کہ دہشت گردی کا تو سب سے زیادہ ارتکاب خود امریکا نے کیا ہے یا اس کے حلیفِ خاص اسرائیل اور پھر بھارت نے۔ اس وقت خود امریکی اور یورپی اہلِ علم ’وار آن ٹیررزم‘ کے پورے paradigmکو چیلنج کررہے ہیں‘ اور   صاف کہہ رہے ہیں کہ جنگ کا لفظ صرف اس لیے استعمال کیا جا رہا ہے کہ سویلین افراد کو    محارب (combatant) قرار دے کر قانون سے بالابالا ختم کیا جاسکے۔ ان کے بقول جن پر دہشت گردی کا شبہہ ہو جب تک الزام عدالت کے نظام کے تحت ثابت نہ ہو‘ انھیں دہشت گرد قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور جو فی الحقیقت دہشت گرد ہیں وہ بھی محارب نہیں صرف ’مجرم‘ (criminal) ہیں اور ایک مجرم کو جرم کی حد تک قانون کے عام پروسس کے ذریعے ہی سزا دی جاسکتی ہے۔   ’وار آن ٹیررزم‘ ایک قانونی فراڈ ہے اور جنرل پرویز مشرف صدر بش کے ساتھ اس فراڈ میں‘ جو  اب انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم (crime against humanity) بن چکا ہے‘ شریک ہیں اور پاکستانی فوج کو اس نے اس میں ملوث کر کے پاکستانی فوج اور پاکستانی قوم دونوں کوسخت عذاب میں مبتلا کردیا ہے۔ یہاں تو یہ ہو رہا ہے‘ جب کہ دنیا کی سوچ اب اس طرح بدل رہی ہے کہ برطانیہ کے نئے وزیراعظم گارڈن برائون نے دو ہفتے قبل یہ ہدایت جاری کی ہے کہ آیندہ کوئی برطانوی وزیر اسے ’وار آن ٹیرر‘ نہ کہے۔

۲- پاکستان کی کشمیر پالیسی کو یک سر بدل کر اور تحریک حریت کشمیر سے غداری کرکے پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات پر ضرب کاری لگائی ہے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کشمیر کے عوام کو پاکستان سے مایوس اور بددل کرکے نہ صرف ۵لاکھ شہیدوں کے خون سے بے وفائی کی ہے بلکہ جموںو کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کو بھارت کے استبداد کا نشانہ بننے اور ان کی زندگی کو جہنم بنانے کا سامان کیا ہے۔ اس کے جو دُور رس اثرات خود پاکستان کی سلامتی‘ معاشی خودانحصاری اور نظریاتی تشخص پر پڑیں گے دل ہلا دینے والے ہیں۔

۳-  بھارت سے دوستی کے سراب کے تعاقب میں بھارت کی طرف سے تمام خطرات کو نظرانداز کردیا ہے جو وہ پاکستان اور اس پورے علاقے کے لیے پیدا کر رہا ہے۔ یہاں بھارت اور امریکا کی اسٹرے ٹیجک پارٹنر اور ایٹمی سمجھوتے کی وجہ سے جو مسائل اور خطرات پاکستان‘ چین‘ ایران کو پیش آنے والے ہیں‘ ان سے آنکھیں بند کرلینا اپنے اندر بڑے مہلک امکانات رکھتا ہے۔ ان سارے پہلوؤں کا جنرل پرویز مشرف کی خارجہ پالیسی میں کوئی شعور نظر نہیں آتا۔

۴- افغانستان میں جو آگ لگی ہوئی ہے‘ بلاشبہہ اس کی اوّلین ذمہ داری امریکا اور ناٹو کی فوجوں پر ہے لیکن پاکستان بھی اس ذمہ داری میں شریک ہے‘ اور یہی وجہ ہے افغان عوام پاکستان سے دُور سے دُور تر ہوتے جارہے ہیں۔ شمالی اتحاد تو اوّل روزسے پاکستان کے خلاف اور بھارت کا حلیف اور آلۂ کار تھا لیکن وہ تمام قوتیں جو پاکستان کے لیے محبت‘ ہمدردی اور احسان مندی کے جذبات رکھتی تھیں‘ وہ بھی نائن الیون کے بعد ہم سے نالاںاور دُور ہوگئی ہیں۔ یہ دُوری اب بداعتمادی اور نفرت کی سرحدوں کو چھو رہی ہے۔ ہم نے اپنے دوستوں کو دشمن بنالیا اور دشمن اور زیادہ شیر ہوگیا۔ نیز افغانستان میں بھارت نے بڑی مضبوطی اور عیاری سے اپنے قدم جما لیے ہیں جن کا ہدف بالآخر پاکستان ہے۔ بلوچستان میں اس کے اثرات نظر آنا بھی شروع ہوگئے ہیں۔

۵- ہم اسے تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ چین اور ایران میں بھی اب پاکستان کے لیے وہ گرم جوشی نہیں جو ایک تاریخی حقیقت اور ہمارا بڑا قیمتی اثاثہ تھی۔ آج ہمارے تمام ہمسایہ ملک پہلے کے مقابلے میں ہم سے دُور اور شاکی ہیں۔یہ سب نتیجہ ہے ایک تباہ کن  خارجہ پالیسی کا جو امریکا کے مفاد میں ہے یا اس کا فائدہ ذاتی طور پر گنے چنے افراد کو پہنچ رہا ہے۔

۶- دینی اورتہذیبی اعتبار سے بھی یہ سودا بڑے خسارے کا سوداہے۔ مسلم معاشرے کو محض امریکا کو خوش کرنے کے لیے لبرل اور انتہاپسند طبقوں میں تقسیم کیاگیا ہے اور ان کو باہم تصادم کے راستے پر ڈالا جا رہا ہے۔ سیاسی مسائل کو ننگی قوت کے ذریعے حل کرنے کی احمقانہ پالیسی پر بگ ٹٹ دوڑ لگی ہوئی ہے۔ دینی مدارس اور دینی تعلیم کو ہدف بنایا جا رہا ہے جس سے معاشرے میں تصادم اور تشدد پرستی کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔ قوم اور اس کے حکمرانوں کے درمیان جنگ کی کیفیت ہے جو سیاسی اور تہذیبی عدمِ استحکام کی طرف لے جا رہی ہے۔

۷- اس پالیسی کا ایک اور بڑا ہی نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ قوم اور فوج میں نہ صرف مغائرت پیدا ہوئی ہے بلکہ یہ بے اعتمادی اب نفرت کو جنم دے رہی ہے۔ وہ فوج جسے قوم اپنی آنکھ کا تارا قرار دیتی ہے اور جس پر عقیدت اور محبت کے پھول نچھاور کرتی تھی آج وہ عوام کے غصے کا نشانہ بنتی جارہی ہے۔ اس سے بڑا سانحہ کیا ہوگا کہ ۲۹ جولائی کے اخبارات میں وزارتِ داخلہ کی یہ ہدایت شائع ہوئی ہے اور ہماری اطلاع ہے کہ فوجی ذرائع نے بھی اپنے اپنے گیریژن کو ایسی ہی ہدایات دی ہیں‘ حتیٰ کہ جنرل پرویز مشرف سے بھی یہ بات منسوب کی جارہی ہے کہ انھوں نے ہدایت کی ہے کہ فوجی افسر اور جوان بسوں میں‘ بستیوں میں اپنی وردی میں نہ گھومیں کہ ان پر حملوں کا خطرہ ہے۔

ڈیلی ٹائمز میں ۲۹ جولائی کو اس سرخی کے ساتھ یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ: ’’فوجی اور قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں کو عوام میں وردی پہن کر جانے سے متنبہ کیا گیا ہے‘‘۔ خبر کا صرف یہ جملہ سرپیٹ لینے کے لیے کافی ہے کہ: ’’وزارتِ داخلہ نے پاکستانی فوج‘ فرنٹیئرکانسٹیبلری‘ الائیٹ فورس‘ اینٹی رائٹ فورس‘ پنجاب کانسٹیبلری اور پنجاب رینجرز کے افسران اور سپاہیوں کو متنبہ کیا ہے کہ پبلک مقامات پر وردی میں نہ آئیں اور نہ نجی گاڑی وردی میں چلائیں‘‘۔ انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون

سپریم کورٹ کے محترم جج جناب جسٹس خلیل الرحمن رمدے جو ۲۰ جولائی کے فیصلے سے عالمی شہرت حاصل کرچکے ہیں اورجن کی راے کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں‘ انھوں نے ناروے میں وہاں کے وزیرخارجہ کی موجودگی میں پاکستانی قوم کے جذبات اور احساسات کی کتنی سچی ترجمانی کی ہے:

پاکستان مغرب کے مفادات کے لیے لڑ رہا ہے مگر اس سب کے باوجود شرمندگی کا سامنا ہے۔ وہ دوست جن کے لیے ہم یہ سب کر رہے ہیں‘ ہمیں دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ ایک سفارت کار نہیں بلکہ ایک جج ہیں لیکن پھر بھی وہ یہ کہیں گے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت کچھ قربانی دی ہے اور اب بھی دے رہا ہے مگر اس کی قدر نہیں کی جارہی۔

جنرل صاحب کے وردی سے چمٹے رہنے کا حاصل یہ ہے کہ اب یہ وردی محبت کے بجاے نفرت کا اور حفاظت اور آشتی کی جگہ عدم تحفظ کا نشان اور تصادم اور انتقام کی دعوت کی علامت بن گئی ہے۔

جنرل پرویز مشرف کو حقیقی قانونی جواز تو کبھی بھی میسر نہ تھا اور اس کے حصول کا ایک موقع جو ان کو ۱۷ویں ترمیم نے دیا تھا‘ اسے انھوں نے وردی نہ اتار کر ختم کردیا۔ ان کی آٹھ سالہ کارکردگی نے ان کی ساکھ (credibility)کو تار تار کردیا ہے اور رہی ان کی اور فوجی حکمرانی کے نظام کی کارکردگی (competence) تواس کا بھانڈا بھی اب پھوٹ چکا ہے۔ جولائی کے آخری ہفتے اور اگست کے پہلے ہفتے میں ڈان‘ ڈان نیوز اور سی این این نے جو سروے کیاہے‘ اس کی رو سے پاکستان کے عوام کی عظیم اکثریت (۲ء۶۵ فی صد) ان سے نجات پانے کا اعلان کر رہی ہے اور چاہتی ہے کہ وہ صدارت سے فوراً دست کش ہوجائیںاور ۵ء۵۴فی صد کہتی ہے کہ فوج کا سیاست میں عمل دخل ختم کیا جائے۔ بی بی سی کے سروے میں چھے ناموں میں میاںنواز شریف سب سے اوّل مقام پر آئے ہیں اور مشرف صاحب سب سے آخر میں۔ یہ پاکستان کے عوام کی دل کی آواز ہے اور ہم بڑے دکھ اور کرب کے ساتھ ٹائم میگزین کے تازہ شمارے سے یہ جملہ نقل کررہے ہیں جو افغانستان کے حالیہ جرگے کے بعد وہاں کے حالات پر مبنی رپورٹ میں درج کیا گیا ہے کہ افغانستان میں ’مشرف‘ کا نام اب کتوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے(ٹائم‘ ۲۷ اگست ۲۰۰۷ء)۔ جنرل ایوب تو صرف بچوں کی زبان سے یہ لفظ سن کر اقتدار چھوڑنے پر آمادہ ہوگیا تھا لیکن روے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ؟

آخر میں ہم صرف ایک بات اور کہنا چاہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کے اس تمام  ناکامی کی بڑی وجہ ملک میں جمہوریت کا فقدان‘ فوج کی سیاست میں مداخلت‘ فردِواحد کی حکمرانی‘ پارلیمنٹ کے کردارکا فقدان‘ قومی احتساب کی کمزوری اور عوام کی حکمرانی سے دُوری ہے۔ اداروں کے ذریعے فیصلہ سازی میں بڑاخیرہے اور جہاں یہ نہ ہو وہاں پالیسی سازی کا وہی حشر ہوتا ہے جو جنرل صاحب کے دورِاقتدار میں پاکستان میں ہواہے۔ حالات کی اصلاح کی راہ بھی ایک ہی ہے: یعنی جمہوریت کی بحالی‘ پارلیمنٹ کی بالادستی‘ اداروں کے ذریعے پالیسی سازی‘ حکمرانوں اور ان کی پالیسیوں کا قومی احتساب‘ اور کسی کے لیے بھی من مانی کرنے کے راستوں کو مسدود کر دینا۔

آیندہ چند مہینے پاکستان کے لیے بڑے اہم ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ قوم اپنا حق حکمرانی غاصبوں سے چھین لے‘ اور دستور اور قانون کی حقیقی بالادستی کا نظام قائم کرے جس میں ایک طرف لوگوں کو عزت اور انصاف مل سکے تو دوسری طرف ملک کی خارجی اور داخلی پالیسیاں عوام کی مرضی کے مطابق اور ان مقاصد کی روشنی میں تشکیل پاسکیں جن کے لیے پاکستان قائم ہواتھا۔

 

طوفانِ بادوباراں‘ سیلاب‘ زلزلے اور اسی نوعیت کی آفاتِ سماوی و ارضی نظامِ قدرت کا ایک حصہ اور تاریخ کامنقطع نہ ہونے والا عمل ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر طبیعی عمل اور نظام کی پیداوار ہیں‘ ان کا تعلق انسان کی ان سرگرمیوں سے بھی ہے جو قدرت کے نظام میں دراندازیاں کر رہی ہیں جنھیں عالمی حدت (global warming)اور ماحولیاتی مداخلت (ecological intervention)کا نام دیا جا رہا ہے‘ اور ان کے پیچھے اخلاقی اور تہذیبی عوامل کی بھی کارفرمائی ہے لیکن جو پہلو سب سے زیادہ غوروفکر کا مستحق ہے اس کا تعلق پیش بندی اور اصلاحِ احوال سے ہے جو ایمان‘ عقل اور تاریخی تجربات کا تقاضا ہیں۔

پاکستان کے حکمران اور پاکستانی قوم اس سلسلے میں مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہوئی ہے اور ہورہی ہے۔ اکتوبر ۲۰۰۵ء کے زلزلے نے ملک کو ہلا کر رکھ دیالیکن قدرتی آفات کے نتائج اور تقاضوں سے عہدہ برا ہونے کے لیے جو نظام National Crisis Management Authority کی شکل میں قائم کیا گیا ہے‘ اس کی کارکردگی غیرتسلی بخش ہی نہیں‘ مجرمانہ حد تک ناکارہ  رہی ہے۔ دو سال ہونے کوآرہے ہیں لیکن زلزلے کے متاثرین کا ایک بڑا حصہ کسی نہ کسی طرح اب تک اس تباہی کے چنگل سے نکل نہیں سکا۔

اس سال جون کے آخر سے سیلاب اور بارشوں کا جو سلسلہ شروع ہواہے اس کے نتیجے میں ان دو ماہ میں ملک کے بڑے حصے‘ خصوصیت سے بلوچستان‘ سندھ اور صوبہ سرحد کے بالائی علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی مچی ہوئی ہے۔سرکاری سطح پر خوش کن اعلانات کے باوجود آزاد ذرائع سے جو معلومات حاصل ہورہی ہیں اور ملکی اور غیرملکی میڈیا نے جو رپورٹیں دی ہیں‘ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ نقصان بہت ہی وسیع پیمانے پر ہوا ہے اور ریلیف کا کام ہر اعتبار سے غیرتسلی بخش ہے۔ فوج اور نجی خدمتی اداروںنے غیرمعمولی محنت کر کے متاثرہ علاقوں کے لوگوں کی مدد کی ہے مگر عام انتظامی مشینری بالکل ناکام ہوگئی ہے___ اور یہی وہ پہلو ہے جوفوری توجہ کا مستحق ہے۔

سیلاب اور بارشوں کی تباہی کا اب تک کوئی مکمل اور معتبر جائزہ سامنے نہیں آیا ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری رپورٹوں اور سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بحث سے جو صورت حال سامنے آتی ہے وہ بڑی دل خراش اور اندوہناک ہے۔ ان دو مہینوں میں ان آفاتِ سماوی کی وجہ سے ۳۲۵ افراد کے ہلاک ہونے اور مزید ۲۲۴ کے لاپتا ہونے کا اندازہ ہے‘ یعنی ۵۵۰ جانیں تلف ہوگئی ہیں۔ ۸۰ہزار سے ایک لاکھ گھروں کے مکمل طور پر تباہ ہونے یا ناقابلِ رہایش ہوجانے اور ۲۵ لاکھ سے زیادہ افراد کے بے گھر ہونے کی اطلاع ہے۔ دو مہینے گزر جانے کے باوجود بھی ہزاروں افراد ابھی تک مختلف علاقوں میں خصوصیت سے بلوچستان میں چھت یا خیمے کی سہولت سے محروم ہیں۔۵ہزار کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں بشمول بلوچستان کی کوسٹل ہائی وے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ہیں۔ ۲ لاکھ ہیکٹر سے زیادہ زرعی زمین اور ان پر موجود فصلیں تباہ ہوئی ہیں اور بلوچستان کے تعلیمی اداروں کا ۲۰فی صد اورسندھ کے تعلیمی اداروں کا ۱۰فی صد ناقابل استعمال ہوگیا ہے۔ مجموعی مالی خسارے کا اندازہ ۹۰ سے ۱۵۰ ارب روپے کا ہے۔ ان حالات میں جنرل پرویز مشرف نے بلوچستان میں متاثرہ ہر خاندان کو ۱۵ ہزار روپے کی سرکاری مدد کی پیش کش کرکے ان کے زخموں پر نمک تو چھڑکا ہے مگر ان کے دکھوں کی تلافی کا کوئی سامان نہیں کیا۔

یہ صورت حال بڑی سنگین ہے۔ یہ ایک قومی مسئلہ ہے اور اس کے حل کے لیے جنگی بنیادوں پر ریلیف اور آبادکاری (rehabilitation)کا نقشۂ کار بلاتاخیر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ حکومت اور اپوزیشن کی آویزش‘ مرکز اور صوبوں میں کش مکش یا ایک دوسرے پر الزام عائد کرنے کا موقع نہیں بلکہ پورے ملک کے وسائل کو متاثرہ علاقوں کے لوگوں کی فوری مدد اور مستقل آبادکاری میں جھونک دینے کا وقت ہے۔ البتہ چند بنیادی سوالات ہیںجن پر حکومت اور پارلیمنٹ کو پوری سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے لیے ان آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے مستقل حکمت عملی اور مؤثر نظامِ کار وضع کیاجاسکے۔

  •  مجوزہ اقدامات: ۱- آج انسانی علم اور ٹکنالوجی نے اس بارے میں غیرمعمولی صلاحیت پیدا کرلی ہے جس کے ذریعے قدرتی عوامل کو مانیٹر کیا جائے اورمتوقع حادثات سے آبادیوں کو بروقت مطلع اور متنبہ کیا جاسکے۔ ہمارا یہ نظام نہایت ناقص ہے اور جو نظام ہے بھی‘ اس کی کارکردگی بے حد غیرتسلی بخش ہے۔ اس پورے نظام کو مؤثر بنانے اور اطلاعات کی بروقت ترسیل کو ممکن بنانے کو اوّلیت دینے کی ضرورت ہے۔

۲- دوسری چیز مرکز سے لے کرصوبے‘ ضلع‘ تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر آفاتِ سماوی کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب نظامِ کاروضع کرنا‘ اس کے لیے مستقل اور والنٹیرکور تیار کرنا ہے۔ تعلیمی اداروں میں ہر طالب علم کو اس کی تربیت دینے کی ضرورت ہے اور ایک مستقل ریلیف کور ہرعلاقے میں موجود رہنی چاہیے۔ اسی طرح ایسی آفات کے نتیجے میں پیداہونے والی صورت حال سے نمٹنے کے لیے جن آلات اور وسائل کار کی ضرورت ہے وہ ہرعلاقے میں موجود ہونے چاہییں۔ یہ وہ کام ہے جسے اکتوبر ۲۰۰۵ء کے زلزلے کے بعد پوری تندہی سے پورے ملک میں کرلینا چاہیے تھا لیکن افسوس کہ اس سلسلے میں عملی پیش رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اُس وقت ایک خطیر رقم کے اعلان کے ساتھ ایک قومی والنٹیر کور کا بھی بڑے طمطراق سے اعلان ہوا تھا مگر جولائی اگست کے ان لمحات میں ان کا کہیں کوئی وجود نظر نہیں آیا۔

۳- تیسری چیز بارشوں اور سیلاب کے پانی کو محفوظ کرنے کے مستقل انتظامات سے متعلق ہے جس پر ۵۰سال سے بحث ہورہی ہے لیکن کوئی قابلِ عمل اسکیم نہیں بن پارہی۔ بڑے ڈیموں کی بات ہوتی ہے مگر وہ توتکار کی نذر ہوجاتی ہے۔ چھوٹے اور متوسط ڈیموں کی ضرورت بیان کی جاتی ہے مگر کوئی ملک گیر منصوبہ نہیں بن پاتا۔ آخر کب تک ہم ان بحثوں میں وقت ضائع کریں گے؟

۴- شہروں اور قصبات میں نکاسیِ آب کے مستقل انتظام کا مسئلہ ہے۔ملک کے تمام ہی علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی کا مسئلہ ہے۔ دریائوں پر ایسے پشتے بنانے کا سوال ہے جن سے نشیبی علاقوں میں آباد بستیوں کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچایا جاسکتا ہو۔ دنیا بھر میں انسانوں نے اپنی حفاظت بہتر زندگی کی ضمانت اور معیشت کی ترقی کے لیے ہزارہا کامیاب تجربات کیے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اور ہماری قیادت ان کی طرف توجہ نہیں دیتی اور صرف نمایشی کاموںکے ذریعے امیج درست کرنے کی خوش فہمی میں مبتلا ہے۔

۵- اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ بہت سے منصوبے غلط حکمت عملی یا بددیانتی کی وجہ سے رحمت کے بجاے مصیبت کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ بلوچستان کے میرانی ڈیم کی ناقص منصوبہ بندی اور اربوں روپے کی کرپشن کی وجہ سے انفراسٹرکچر سے متعلق منصوبوں کی خام کاری نے بھی آفاتِ سماوی کی تباہ کاریوں کو دوچند کردیاہے۔ یہ تمام معاملات فوری توجہ کا تقاضا کرتے ہیں۔

۶- ان بنیادوں اور دُوررس اقدامات کے ساتھ فوری ریلیف اور متاثرہ افراد کی جلداز جلد آبادکاری کامسئلہ ہے جس کے لیے مرکز کو اپنے وسائل سے اور عالمی اداروں کے تعاون سے ضروری اقدامات کرنے چاہییں۔

۷- متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ علاقے قرار دے کر ٹیکس‘ آبیانہ‘ قرضوں کی واپسی‘ بجلی اورگیس کی ادایگیوں سے چھوٹ اور ضروریاتِ زندگی کی فوری فرہمی کا اہتمام ضروری ہے۔ اس کام میں مرکز اور صوبوں کو تو اپنے وسائل استعمال کرنے ہی چاہییں لیکن ملک کے ہرحصے میں بسنے والے اور بیرون ملک پاکستانی متمول افراد کا فرض ہے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں اور بہنوں کی دل کھول کر مدد کریں۔ نجی شعبے میں کام کرنے والی رفاہی تنظیموںنے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں لیکن ضرورت موجودہ فراہم کردہ سہولتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس لیے یہ سارا کام خدمتِ خلق کے جذبے سے حکومت اور عوام کو مل کر انجام دینا چاہیے۔

رمضان کے مبارک مہینے کی آمد آمد ہے۔ یہ نیکیوں کا مہینہ ہے اور انسانوں کے دکھ درد میں شریک ہونے اور ان کی مشکلات کو دُور کرنے کا زریں موقع ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور پوری اُمت مسلمہ کو مصائب اور پریشانیوں سے محفوظ رکھے اور ایک دوسرے کی مدد کے ذریعے انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے کی توفیق سے نوازے۔آمین!

جولائی ۲۰۰۷ء نے پاکستان کی تاریخ میں ایک منفرد حیثیت اختیار کرلی ہے۔ اس مہینے میں تین اہم واقعات رونما ہوئے۔ یہ تینوں واقعات اپنے موضوع اور نوعیت کے اعتبار سے خواہ کتنے ہی مختلف ہوں‘ لیکن ان کا پیغام ایک ہی ہے۔ ہمارا اشارہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خونیں المیے‘ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے بارے میں تاریخی فیصلے‘ اور کُل جماعتی کانفرنس لندن کے نتیجے میں قائم ہونے والی ’آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ‘ (APDM)کی طرف ہے۔

اسے ایک قومی المیے کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ حصولِ آزادی کے ۶۰ویں سال میں ایک بار پھر پاکستانی قوم کو اپنی آزادی اور اپنے نظریاتی و تہذیبی تشخص کی حفاظت کی جنگ لڑنا پڑرہی ہے۔ ستم بالاے ستم کہ اب یہ جنگ بیرونی حکمرانوں کے خلاف نہیں‘ بلکہ اپنی ہی مملکت کے سپوتوں (زیادہ صحیح الفاظ میں:کپوتوں) اور اپنی ہی فوج کی اس قیادت سے لڑی جارہی ہے‘ جو نہ صرف قیامِ پاکستان کے مقاصد کو بالاے طاق رکھ کر بلکہ دستور‘ قانون‘ اجتماعی اخلاقیات اور ہراصول اور ضابطے کو پارہ پارہ کرتے ہوئے تمام حدود کو پھلانگ چکی ہے۔ اسی لیے اہلِ نظر کی راے ہے کہ یہ قیادت عملاً آج کی سب سے بڑی سامراجی اور فرعونی قوت کے اشارۂ چشم و آبرو اور دھمکی آمیز مطالبات کے آگے سپرڈالتے ہوئے خود ملک اور قوم کی آزادی اور شناخت کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔

ملکی صورت حال

اس خطرناک کھیل کا آغاز تو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء ہی کو ہوگیا تھا‘ لیکن اس کا اصل چہرہ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کو رونما ہونے والے الم ناک واقعے کے بعد ہی سامنے آیا‘ جب اسلام اور مسلم دنیا کے خلاف امریکی صدر جارج بش نے نئی صلیبی جنگ (crusade) کا آغاز کیا‘اور جنرل پرویز مشرف نے ان کی ایک ہی دھمکی پر اپنا قبلہ تبدیل کرکے پاکستان کی مقدس سرزمین کو ایک مسلمان ملک کے خلاف فوج کشی کے لیے استعمال کرنے کے مواقع فراہم کردیے۔ پھر جنرل موصوف: امریکی حکمرانوں کے عزائم کی برآوری کے لیے خود اپنی قوم اور اس کے دوستوں کے خلاف صف آرا ہوکر معصوم انسانوں کے خون بہانے اور چند کوڑیوں کے لیے ان کو پکڑپکڑ کر وقت کے جلادوں کے حوالے کرنے میں مصروف ہوگئے (جنرل مشرف نے اپنے اس اقدام کا اعتراف اپنی خودنوشت میں بھی کیا ہے)۔اس طرح اپنے حلیفوں کو دشمن بناڈالا‘ اور جو علاقے ہمارے محفوظ قلعے کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان وفاشعاروں کو امریکی افواج کی مسلط کردہ جنگ کی آگ میں جھونک کر خود اپنے قومی مفادات تک سے عملاً دست برداری اختیار کرلی۔ اس ضمن میں تحریک آزادی کشمیر سے عملاً  دست برداری‘ ملک کی ایٹمی صلاحیت کی تحدید اور اپنے محسن سائنس دانوں کو مجرم بناکر نشانۂ ظلم و ستم بنانا بھی شامل ہے۔

اس پسپائی اور پالیسی کے باب میں اُلٹی زقند (u-turn) ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ ’روشن خیالی‘ اور ’انتہاپسندی‘ کی مخالفت کے نام پر اسلام کے مسلمہ اصولوں اور تعلیمات تک پر سمجھوتا‘ دینی تعلیمی نظام کی ناکہ بندی کرنے‘ اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے‘ ناچ گانے کے کلچر کی آبیاری کرنے اور سیکولر نظامِ زندگی اور معاشرت کے جبری فروغ کی باغیانہ راہ اختیار کی جارہی ہے۔ ملک کے اقتدار پر قابض گروہ کے اس شیطانی کھیل نے قوم کو نظریاتی طور پر شدید دبائو کا شکار کردیا ہے۔ ریاست کے وہ سارے وسائل جو ایک مقدس امانت کے طور پر ان کے سپرد تھے‘ حکمران طبقے کے ہاتھوں اپنے ذاتی مفادات کے حصول اور امریکی ایجنڈے کو قوم پر مسلط کرنے کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔ اس ناپاک کھیل میں پاکستان کے غیرمتنازع ادارے مسلح افواج کو ملوث کرکے قومی دفاع‘ عالمی تشخص اور ملکی وحدت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اس دفاعی ادارے کو گروہی سیاسی مہم جوئی کے لیے استعمال کرتے ہوئے‘ گذشتہ تین سال سے اپنی ہی قوم کو دبانے اور سیاسی مسائل کو قوت کے ذریعے حل کرنے کے خونیں کھیل میں اسے بے دریغ جھونک دیا گیا ہے۔ صوبہ بلوچستان اور پاکستان کے قبائلی و شمالی علاقہ جات میں پاکستانی فوج کے بے دردانہ استعمال کے بعد جولائی میں‘ اسلام آباد میں مسجد‘ مدرسہ اور ماں‘ بہن اور بیٹی تک کے تقدس و احترام کو نہ صرف پامال کیا گیا ہے‘ بلکہ انھیں گولیوں سے بھون کر قوم اور قوم کی اپنی ہی دفاعی قوت کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ عدالت اور صحافت دونوں کو راستے کی رکاوٹ تصور کرتے ہوئے انھیں مکمل طور پر اپنے قابو میں لانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جس نے پوری اجتماعی زندگی کو خطرات کی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ آج عالم یہ ہے ہرطرف خون ہی خون بہتا نظر آرہا ہے: اپنے ہی جگرگوشوں اور اپنی ہی بیٹیوں کی شہ رگوں کا خون۔ اسلام آباد کے نالوں میں معصوم بچوں اور بچیوں کی نعشوں کے ٹکڑے اور غلیظ پانی پر قرآن پاک کے بکھرے اور تیرتے ہوئے اوراق‘ استغفراللّٰہ۔

اگر صدربش نے افغانستان اور عراق کی سرزمین کو خون کی ندیوں سے سیراب کر دیا ہے تو انھی امریکی حکمرانوں کے ممدوح جنرل مشرف نے یہاں پاکستان میں خون کی ندیاں بہا دی ہیں۔ ایک سیاسی تجزیہ نگار اور مؤرخ ڈاکٹر صفدرمحمود نے بجاطور پر مشرف کے دور کی شناخت کو ’خون کی ارزانی‘ سے تعبیر کیا ہے۔ مہنگائی‘ غربت‘ انتخابات میں دھاندلی‘ پارلیمنٹ کی بے توقیری‘ آمرانہ اندازِ حکومت‘ سب کا ذکر کرنے کے بعد وہ بڑے درد و کرب کے ساتھ لکھتے ہیں کہ: ’’ان [جنرل مشرف] کے عہد کی صرف ایک ہی پہچان نمایاں طور پر اُبھرتی نظر آتی ہے‘ جو ان کے باقی کارناموں کو  دھندلا دے گی اور نہ صرف عوامی حافظے بلکہ تاریخ کے صفحات پر بھی باقی رہ جائے گی اور وہ    پہچان ہے ’خون‘۔ وزیرستان سے لے کر پشاور‘ اسلام آباد‘ لاہور‘ ملتان‘ کوئٹہ اور کراچی تک بہتا ہوا خون ...معصوم پاکستانیوں کا خون جو کبھی بھی اتنا ارزاں نہ تھا اور جو گذشتہ کئی برسوں سے بہہ رہا ہے: وانا‘ باجوڑ‘ کھپران‘ گلگت‘ فاٹا‘سرحدی علاقوں‘ پشاور‘ اسلام آباد خودکش حملوںسے لے کر لال مسجد تک اور پھر کوئٹہ اور کراچی میں بہنے والا خون۔ معصوم شہریوں اور طلبہ پر بم باری اور حملوں نے ملک میں نہ صرف انتقامی فضا پیدا کردی ہے اور پولیس اور فوج کو انتقام کا نشانہ بنا دیا ہے‘ بلکہ پاکستانی معاشرے میں لاقانونیت‘ عدم تحفظ اور خوف و ہراس بھی پیدا کردیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان پر ’ناکام ریاست‘ کا لیبل لگ رہا ہے۔ اس لیے میں محسوس کرتا ہوں کہ مستقبل میں موجودہ دور کی پہچان ’خون‘ ہوگی، اپنے ہی شہریوں کا خون!‘‘ (روزنامہ جنگ ‘۱۵جولائی ۲۰۰۷ء)

اس خون آشامی کا ایک اور بھی کرب ناک پہلو یہ ہے کہ معصوموں کا یہ خون وقت کی سب سے بڑی سامراجی قوت امریکا کی قیادت کو خوش کرنے کے لیے بہایا جا رہا ہے۔ جس کا اصل ہدف (target) مسلم دنیا کی قوت کو پارہ پارہ کرنا‘ اُمت مسلمہ کو آپس میں دست و گریباں کرکے پورے علاقے کو جغرافیائی طور پر محکوم بنانا‘ ان کے معدنی و قدرتی وسائل پر قبضہ جمانا اورپوری دنیا پر اپنی بالادستی قائم کرنا ہے۔

بلوچستان میں فوج کشی‘ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں خون کی ہولی‘ اسلام آباد میں مسجدوں کا انہدام اور آرمی کیمپ میں بلاکر چیف جسٹس سے بدسلوکی‘ ان کا حبس بے جا میں رکھنا‘ بدنیتی پر مبنی ریفرنس اور معطلی وغیرہ‘ ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اس ضمن میں ایک طرف جنرل مشرف اور ان کے چند ساتھی ہیں‘ جو اپنا کھیل کھیل رہے تھے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی تدبیر اپنا کام کر رہی تھی۔ 

لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر جس طرح فوج کشی کی گئی‘ جس بے دردی اورسفاکی سے اساتذہ‘ طلبہ اور طالبات کا قتلِ عام کیا گیا۔ پھر جس رعونت سے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کیا گیا‘ جس انداز سے مسجد اور مدرسے کو ’دہشت گردی کے قلعے‘ کی شکل دے کر ملک کے اندر اور ملک کے باہر پوری دنیا کے سامنے پیش کیا گیا‘ اور جس فریب کاری کے ساتھ دروغ گوئی اور دھوکادہی کا مظاہرہ کیا گیا‘ اور جس ڈھٹائی سے حقائق کو چھپایا گیا___ اس رویے نے مدرسے کی انتظامیہ یا طلبہ کی ابتدائی غلطیوں اور طفلانہ حرکتوں کو فی الحقیقت غیرمتعلق بناکر رکھ دیا ہے۔ یوں اپنے نتائج اور اثرات کی شکل میں اس خونیں واقعے کے اصل مقاصد‘ کردار اور اہداف کو بے نقاب کرکے ثابت کردیا ہے کہ اصل مقصد تو فردِواحد کی آمریت کے اصول کو منوانا‘ فوجی قوت کے سیاسی استعمال  اور عسکری دبدبے اور اس کے فیصلہ کن رول کی بالادستی قائم کرنا اور امریکا کی خوشنودی کے حصول کے لیے اپنے ہم وطن معصوم انسانوں کا خون بہاکر تمام اہلِ وطن کو دہشت زدہ کرنا تھا۔

اصل مسئلہ کیا ھے؟

مسئلہ ریاست کی رٹ (writ)کا نہیں تھا‘ بلکہ فوجی آمریت اور بش کی سامراجیت کا   بول بالا کرنا تھا___ یہی ایشو اب قوم کے سامنے ہے کہ اس ملک کے نظامِ حکومت کو کسی دستور‘ قانون‘ ضابطے‘ نظامِ اخلاق اور عوامی حکمرانی کی بنیاد پر چلنا ہے یا فردِواحد کے آمرانہ استبداد اور فوج کے سیاسی استعمال کے ذریعے قوم کو غلامی میں جکڑنا ہے؟___ مطلب یہ کہ اس ملک کی قسمت کا فیصلہ اس قوم کے منتخب اور اس کے سامنے جواب دہ نمایندوں کو دستور اور قانون کے مطابق کرنا ہے یا امریکی قیادت کی خوشنودی کے حصول اور ان کی دھمکیوں کے زیرسایہ قائم رہنے والی فوجی حکومت کو یہ حق حاصل رہنا ہے؟

اگر بصیرت کی نظر سے دیکھا جائے تو چیف جسٹس کی معطلی‘ نام نہاد ریفرنس اور ملازمینِ ریاست کے ناقابلِ اعتبار بیاناتِ حلفی کی بھرمار میں بھی اصل ایشو یہی ہے___ یعنی دستور اور قانون کی حکمرانی یا قابض حکمران کا یہ زعم باطل کہ وہ جس فرد یا ادارے کو اپنے عزائم کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ سمجھے‘ اسے دستور اور قانون کو بالاے طاق رکھ کر حقارت کے ساتھ اپنے راستے سے اٹھاکر پرے پھینک دے۔ ایشو یہی ایک ہے: آمریت یا جمہوریت‘ من مانے حکم یا دستور اور قانون کی حکمرانی‘ عوام اور پارلیمنٹ کی عمل داری اور اداروں کا استحکام یا فوجی قیادت کی حکومت اور خفیہ ایجنسیوںکی دھونس کے ذریعے حکمرانی کی روایت؟ سپریم کورٹ کے فیصلے کی اصل اہمیت یہی ہے کہ بات صرف چیف جسٹس کی بحالی کی نہیں‘ وہ تو بلاشبہہ ایک ضروری امر تھا‘ لیکن اصل مسئلہ دستور کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کا ہے اور جس میں اصل الاصول یہ ہے کہ کسی کو بھی ایسے  شاہانہ اختیارات حاصل نہیں ہیں کہ وہ وردی یا اقتدار کے رعب میں جس کے خلاف جو چاہے  اقدام کرڈالے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔

ہم سمجھتے ہیں کہ لال مسجد کے خونیں المیے اور معصوم انسانوں کے قتلِ عام اور عدالت عظمیٰ پر یورش اور اس کے سربراہ کے اداراتی قتل  میں ایک گہرا ربط ہے۔ ان دونوں اقدام کی پشت پر وہ بنیادی مسئلہ ہے جس کی جڑیں قوم کی آزادی اور شناخت کے تحفظ‘ دستور اور قانونی بالادستی اور جمہوری نظامِ حکمرانی میں پیوست ہیں۔ اسی لیے ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ لال مسجد اور سپریم کورٹ دونوں کے بارے میں ہونے والی کارروائی اور اس پر عوامی ردعمل اور بالآخر عدالتی فیصلے (verdict) نے آزادی‘ شناخت‘ دستور کی حکمرانی‘ جمہوریت اور فوج کے سیاسی کردار کے مسئلے کو قومی زندگی کا سب سے مرکزی مسئلہ بنا دیا ہے۔

اسی تسلسل میں ’کُل جماعتی جمہوری تحریک‘ (آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ) کے قیام نے یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ آیندہ چند مہینے اس جدوجہد کے لیے کتنے اہم اور فیصلہ کن ہیں۔ پاکستانی قوم آج ایک بار پھر اسی نوعیت کی جدوجہد کے ذریعے اپنی قسمت اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں مصروف ہے‘ جیسا اس نے تحریکِ پاکستان کے دوران کیا تھا۔ فرق   یہ ہے کہ اس وقت جدوجہد کا ہدف پاکستان کا قیام تھا‘ اور اب پاکستان کی بقا‘ اس کے استحکام  اوراس کی اصل منزل کی طرف پیش قدمی کا چیلنج درپیش ہے۔ تب مقابلہ بیرونی غاصب اور    استعماری حکمرانوں سے تھا اور اب ان اندرونی اور غاصب و جابر قوتوں سے ہے‘ جنھوں نے ملک کے اقتدار پر قبضہ کرکے عوام کو ایک تاریخی جدوجہد کے ذریعے حاصل کی جانے والی آزادی‘ خودمختاری اور حق حکمرانی سے محروم کردیا ہے۔ اسی المیے کے ادراک پر ہی مستقبل کی تعمیر کا انحصار ہے۔

گویا کہ آج ملّی اور قومی سطح پر جدوجہد کا اصل ہدف حقیقی اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی اور وفاقی نظام کا قیام ہے۔ یہی وجہ ہے فوج کا سیاسی کردار‘ اس تحریک کے ایجنڈے میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک فوج کو دستور کے تحت سول نظام کے ماتحت اپنے دفاعی کردار تک محدود نہ کردیا جائے۔

اس مسئلے ہی کی تفہیم کے لیے ہم لال مسجد کے خونیں المیے اور عدالت عالیہ کے تازہ فیصلے کے کچھ اہم پہلوؤں پر اہلِ وطن کو غوروفکر کی دعوت دینا چاہتے ہیں۔

سانحہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ

لال مسجد‘ اسلام آباد اور جامعہ حفصہ کا مسئلہ اب ایک مسجد اور ایک مدرسے کا مسئلہ نہیں رہا ہے اور نہ دوبھائیوں کے صحیح یا غلط اقدام ہی اس کا محور اور مرکز ہیں۔ یہ بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں پہنچی؟ اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جائے گا۔ ہم اس کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے‘ بلکہ اس مطالبے کی بھرپور تائید کرتے ہیں کہ اس پورے مسئلے اور سانحے کی آزاد‘ بااختیار اور  اعلیٰ ترین عدالتی سطح پر تحقیق ہونی چاہیے‘ اور یہ تحقیق کھلی عدالت کے اصول پر ہونی چاہیے۔ جہاں ہرشخص کو گواہی دینے کا موقع ملے تاکہ پورے حقائق قوم کے سامنے آجائیں اور دودھ کا دودھ   پانی کا پانی ہوجائے۔ یہی وقت کی ضرورت اور انصاف کا تقاضا ہے۔

جیساکہ ہم اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ ایک بڑے اور گمبھیر مسئلے کا سر عنوان معلوم ہوتا ہے۔ لال مسجد آج نہیں بنی اور جامعہ حفصہ ۲۰۰۷ء میں منصہ شہود پر نہیں آئی۔ البتہ جنوری ۲۰۰۷ء سے جو قضیہ شروع ہوا اور ۱۰‘ ۱۱ اور ۱۲جولائی ۲۰۰۷ء کو جس خونیں تباہی پر منتج ہوا‘ وہ جرنیل شاہی اور امریکی سامراج کے نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے وسیع کینوس کا ایک اہم حصہ اور اس جنگ کا ایک نہایت اہم پلاٹ اور ایک گہری سازش ہے۔ ایسی سازش کہ جس کا اصل ہدف اسلام‘  اُمت مسلمہ‘ مسلمانوں کا دینی تعلیمی نظام اور پاکستان کا اسلامی کردار ہے‘ جب کہ عالمی سطح پر امریکا اور مغربی تہذیب کی بالادستی کے خلاف مسلمانوں کی تحریک مزاحمت کو ختم کرنا ہے۔ نیتوں کا حال    اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور فیصلہ کرنے والی اصل قوت بھی صرف وہی ہے اور یہ بھی وہی پروردگار جانتا ہے کہ کون سادہ لوحی میں الجھ کر دشمن کے کھیل کا حصہ بنا ہے یا واقعی ایسا نہیں ہوا ہے۔ بہرحال‘ یہاں ہم ذاتیات اور ضمنی واقعات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے جن اصولی اور مرکزی امور کی وضاحت اور تفہیم ضروری سمجھتے ہیں‘ ان میں سے چند ایک کی طرف‘ قوم اور اس کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں:

  •  اسلام کے بارے میں مغرب کا مخصوص تصور: سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کا ایک خاص پیکر (امیج) پوری قوت‘ مہارت اور چابک دستی سے دنیا بھر میں اُبھارا اور پھیلایا جا رہا ہے۔ سردجنگ کے خاتمے اور اشتراکی سلطنت کے انہدام (دسمبر ۱۹۹۲ء) کے بعد‘ اسلام کے اس تصورِ جہاد اور مسلمانوں کی سرفروشانہ سرگرمیوں سے خائف ہوکر امریکا کی سیاسی اور فکری قیادت نے بڑی عیاری سے ایک نیا محاذ کھولا ہے۔ جس کے تحت خاص طور پر مغربی اقوام نے بڑی حد تک اسلام اور مسلمانوں کو‘ ان کی ساری بے سروسامانی اور معاشی اور عسکری کمزوریوں کے باوجود اپنا مدّمقابل اور بالفاظ صحیح تر مستقبل کا اصل حریف اور دشمن باور کرانا شروع کیا۔ یہ کام ۸۰ کے عشرے میں ہی شروع ہوگیا تھا‘ اور افغانستان سے اشتراکی روس کی پسپائی کے بعد پورے زوروشور سے اسے انجام دیا جا رہا ہے: علمی‘ سیاسی‘ معاشی‘ تہذیبی‘ عسکری غرض یہ کہ ہرمحاذ پر___ چونکہ مغربی تہذیب کی بنیاد مذہب اور سیاست کی تفریق پر ہے‘ اس لیے جس چیز کو مغرب کے غلبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اور مغربی سامراج کے لیے سب سے بڑا خطرہ تصور کیا جا رہا ہے‘ وہ اسلام کا یہی تصور ہے کہ: ’’دین اور سیاست میں ایک ناقابلِ انقطاع ربط اور گہرا تعلق ہے۔ ریاست اور قانون‘ دین‘ الہامی ہدایت اور اس کے ذریعے حاصل ہونے والی اقدار‘ اصول اور اہداف سے غیرمتعلق نہیں ہوسکتے۔ اخلاق اور اقتدار دوالگ دنیائوں سے متعلق نہیں بلکہ اقتدار اور سیاست کو بھی اخلاق کا اسی طرح پابند ہونا چاہیے‘ جس طرح دین اسلام‘ افراد کی ذاتی زندگی اور محرکات کی صورت گری کرتا ہے‘‘۔

مغربی اقوام اور مفکرین کے بقول: ’’دین اسلام کا یہی جامع تصور مغربی تہذیب کے لیے اصل خطرہ ہے کہ یہ فکرونظر اور تہذیب و تمدن کا ایک بالکل دوسرا مثالیہ (paradigm) پیش کرتا ہے‘‘۔ جو مذہب‘ مغرب کے تصورِ حیات و اقدار کی بالادستی قبول کرنے‘ اس کے زیرسایہ ویسی ہی زندگی گزارنے کے لیے تیار ہو کہ جس سے مغرب کے مفادات پر ضرب نہ پڑے، وہی فرد، معاشرہ اور نظام فکر ’روشن خیالی اور اعتدال پسندی‘ کا علَم بردار ہے۔ اس کے بالمقابل جس دین کا اپنا تصورِ حیات اور تہذیب و تمدن اور معاشرت‘ معیشت اور سیاست کا نظام ہو‘ وہ اس مغربی تہذیب کے لیے خطرہ ہے۔ مغربی جنگجو حکمرانوں اور متعصب پالیسی سازوں کے نزدیک اس خطرے سے نمٹنے کا طریقہ بس یہی رہ گیا ہے کہ اس تصورِ حیات کو ہوّا اور بھوت (demon) بناکر پیش کیا جائے۔ پھر اس کو نیست و نابود کرنے کے لیے ہرممکن حربہ استعمال کیا جائے۔ اسلام کے لیے ’ریڈیکل اسلام‘ (انقلابی اسلام)، ’اسلامک فنڈامنٹلزم‘ (بنیادپرست اسلام)، ’پولیٹیکل اسلام‘(سیاسی اسلام) اور پھر ’اسلامک ٹیررازم‘ (اسلامی دہشت گردی) اور بالآخر ’اسلامک فاشزم‘ (فسطائی اسلام) کی مضحکہ خیز‘خودساختہ اور توہین آمیز اصطلاحات کا استعمال اسی سلسلے کی سوچی سمجھی کارروائی ہے۔ مسلمانوں کی دینی تعلیم کو اسی لیے ہدف بنایا جا رہا ہے اور دینی مدارس اور مساجد کو بھی اسی حوالے سے نام نہاد دہشت گردی کے مراکز قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ ساری منظرکشی (image building) اس لیے ہے کہ نظریاتی‘ سیاسی اور جہاں ممکن ہو مسلمانوں کے خلاف عسکری کارروائیوں کے لیے جواز فراہم کیا جاسکے۔ اسے بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ نادانستگی میں‘ یا مفادات کی اسیری میں کچھ مسلمان بھی دشمنوں کے اس کھیل میں آلۂ کار بن جاتے ہیں‘ اور پھر ایسے جعلی دانش وروں کی بھی کمی نہیں ہے کہ جن کی تحریروں اور فدویانہ گفتگوؤں میں مغرب کے نکتہ سازوں (spin doctors) ہی کی صداے بازگشت سنائی دیتی ہے۔

  •  ناجائز تجاوزات کا واویلا: اس پس منظر میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے واقعات ایک غیرمعمولی اہمیت اور معنویت اختیار کرلیتے ہیں۔ لال مسجد‘ اسلام آباد کی پہلی جامع مسجد ہے جو اوقاف کے نظام کے تحت ۴۰‘۴۵سال سے دینی خدمات انجام دے رہی ہے۔ جامعہ حفصہ کی کارکردگی تقریباً دو عشروں پر محیط ہے۔ اس پورے عرصے میں لال مسجد کی زمین کے بارے میں کبھی کوئی تنازع پیدا نہ ہوا تھا۔ جامعہ حفصہ کے بھی صرف ایک حصے کو تجاوزات میں شمار کیا گیا۔ اس بارے میں گفت و شنید اور مذاکرات کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی کوششیں ہورہی تھیں۔ یہ کوئی نیا یا منفرد مسئلہ بھی نہیں ہے۔ اسلام آباد میں کسی گلی اورمحلے میں‘ کسی نہ کسی صورت میں کیا  اسی نوعیت کا بڑا یا چھوٹا تنازع موجود نہیں ہے؟ پھر بات صرف اسلام آباد تک محدود نہیں ہے۔   وطنِ عزیز کا کون سا گوشہ ایسا ہے جہاں ناجائز تعمیرات‘ کچی آبادیاں‘ غیرقانونی فوجی تنصیبات‘ سرکاری اور غیرسرکاری زمینوں پر تصرفات کے مسائل موجود نہیں ہیں!

روزنامہ ڈان کراچی (۲۲ جولائی ۲۰۰۷ء) میں اردشیر کاؤس جی کا مضمون‘ کراچی کے مرکزی تجارتی علاقے آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ڈھائی ایکڑ کے قطعہ زمین کے بارے میں بڑی چشم کشا معلومات پر مشتمل ہے۔ یہ پلاٹ سندھ حکومت نے ریلوے کے استعمال کے لیے دیا تھا‘ مگر فوج کے کوارٹر ماسٹر جنرل‘ لیفٹیننٹ جنرل افضل مظفر کے ایما پر‘ وزیراعلیٰ سندھ ارباب عبدالرحیم نے اپنے قانونی اختیارات سے تجاوز کرکے اور سرکاری طور پر قائم ۱۴ رکنی کمیٹی کی سفارشات کو نظرانداز کرتے ہوئے ‘۴۳ منزلہ دوہرے مینار کے ’کراچی فنانشل ٹاور‘ کو تعمیر کرنے کی اجازت  عطا فرمائی ہے۔ جس کا انتظام و انصرام ایک فوجی ادارے نیشنل لاجسٹک سیل (NLC) کے سپرد ہوگا اور سرمایہ کاری احسان ہولڈنگ دوبئی کے تعاون سے ہوگی۔ اس تعمیراتی منصوبے پر کراچی کے عوام اور انتظامیہ سراپا احتجاج ہیں‘ مگر فوجی قیادت اور اس کی شریک کار نام نہاد سیاسی انتظامیہ نے اس احتجاج کو پرکاہ کی حیثیت نہیں دی۔

دوسری خبر ۲۵ جولائی کے ڈیلی ٹائمز لاہور کی ہے ‘جس میں بتایا گیا ہے کہ صرف لاہور میں ۳۵اسکول کئی سال سے چیخ رہے ہیں کہ ان کی زمینوں پر لینڈمافیا قابض ہے ‘جن کے سامنے حکومت اور قانون بے بس ہیں___ صاف ظاہر ہے کہ جامعہ حفصہ کا مسئلہ محض چند گز زمین کا مسئلہ نہیں تھا‘ کہ جس کے لیے یہ چنگیزی ڈراما رچایا جاتا۔

دوسرا ایشو جامعہ حفصہ کے طلبہ و طالبات کی ان سرگرمیوں کو قرار دیا جاتا ہے‘ جو پچھلے چند ماہ میں رونما ہوئیں (واضح رہے کہ جامعہ کے قیام سے سے اس سال کے آغاز تک ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا تھا اور نہ اسلام آباد کے ۸۰ دوسرے مدارس میں اور پاکستان کے سرکاری اعلان کے مطابق ۱۷ ہزار سے زائد مدارس کے طلبہ نے کبھی کوئی ایسا اقدام کیا تھا)۔ اس جامعہ کے طلبہ اور طالبات کے چند ایسے اقدام جن کے بارے میں ملک کے تمام ہی دینی قائدین اور تعلیمی اداروں کے ذمہ داران اپنے ذہنی تحفظات کا اظہار کرتے رہے‘ انھیں جس طرح پاکستان ہی میں نہیں پوری دنیا میں اُبھارا (project) گیا‘ وہ بڑا معنی خیزہے۔

جس ملک میں جرائم روز افزوں ہوں‘ اغوا براے تاوان کے واقعات عام ہوں‘ پولیس اور انتظامیہ قانون نافذ کرنے میں ناکام ہو‘ افراد اور ادارے پرائیویٹ سیکورٹی کے حصول کے لیے اپنے آپ کو مجبور پاتے ہوں‘ جہاں ایم کیو ایم جیسی تنظیمیں بھتہ خوری اور قتل و غارت گری کا    بازار گرم کیے رکھیں اور کوئی ان سے پوچھنے والا نہ ہو‘ بلکہ مسلح افواج کا سربراہ ببانگ دہل ان کی  پشت پناہی کر رہا ہو___ وہاں چند طالبات کا دینی جوش و جذبے ہی میں سہی ایسے چند اقدام کرنا اتنا بڑا جرم کیسے بن گیا؟ وہ اقدام کہ جن کے نتیجے میں کسی جان کا ضیاع تو دُور کی بات ہے کسی کی نکسیر بھی نہ پھوٹی ہو اور نہ کوئی دست و گریباں ہی ہوا ہو‘ وہاں ایسی فوج کشی کی جائے کہ مسجد کا تقدس پامال ہو‘ مدرسے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے اور اسے بالآخر منہدم کر دیا جائے‘ سیکڑوں افراد شہید کردیے جائیں اور فوج کے کمانڈوز (ایس ایس جی) کا اس طرح استعمال کیا جائے کہ جیسے دشمن کے بہت بڑے قلعے کو فتح کیا جا رہا ہو۔ حکمران طبقے نے ساری دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی کہ جامعہ حفصہ میں بارودی سرنگیں ہیں‘ توپیں‘ میزائل اور خطرناک اسلحے کے انبار ہیں اور نہ معلوم کون سی تربیت یافتہ فوج ہے جو وہاں قلعہ بند ہے۔

چاروں طرف سے گھر جانے اور پانی‘ بجلی‘ سوئی گیس کی ناکہ بندی ہوجانے کے بعد  چند طلبہ آخری مرحلے میں بہرحال غیرقانونی ہتھیاروں سے اپنا دفاع کررہے تھے۔ اگر فی الحقیقت ان کے پاس وہی اسلحہ موجود تھا کہ جس کا شور ہر طرف بپا کیا گیا تھا‘ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان محصور‘ مجبور اور موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنے والوں نے اسے استعمال کیوں نہیں کیا؟پھر جس اسلحے کی بعد میں نمایش کی گئی‘ اس کے بارے میں ملکی اور غیرملکی صحافیوں سب نے لکھا کہ ان کا کوئی تعلق جامعہ کے طلبہ یا محافظوں سے ثابت نہیں کیا جاسکا۔ رہا چند دن کی مزاحمت کا مسئلہ تو روزانہ کشمیر میں دو دو اور تین تین مجاہد کئی کئی گھنٹے نہیں‘ کئی کئی دن صرف ایک دو کلاشنکوفوں کے ذریعے بھارت کی باقاعدہ فوج کے بڑے بڑے دستوں کو مصروف رکھتے ہیں۔

مسجد اور مدرسے کی انتظامیہ سے انتظامی اور اصولی سطح پر جو غلطیاں ہوئیں اور طلبہ و طالبات نے اچھے مقاصد کے لیے جو غیرمتوازن طریقے استعمال کیے‘ ان پر ناپسندیدگی اور گرفت کا اظہار دینی اور تعلیمی حلقوں نے بروقت کیا اور اصلاح احوال کی کوشش بھی کی (دیکھیے: جامعہ حفصہ کا سانحہ، مولانا زاہد الراشدی)۔ لیکن حکومت‘ اور مدرسے کی انتظامیہ دونوں ہی معاملات کو طول دیتے رہے۔

  •  خفیہ ایجنسیوں کا کردار: ان چھے مہینوں میں رونما ہونے والے واقعات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اور اس کی ایجنسیاں ایک خاص کھیل کھیل رہی تھیں۔ مسجد اور مدرسے کی انتظامیہ اس جال میں پھنسی ہوئی تھی لیکن اصل کھیل صرف اسلام آباد کے علاقے جی-۶ میں نہیں‘ کسی اور ہی محاذ پر کھیلا جا رہا تھا‘ اور وہ تھا دنیا کے سامنے پاکستان میں ’طالبانایزیشن‘ (Talibanization) کے نام پر اسلامی دہشت گردی اور اس کے لیے مسجد اور مدرسے کی مرکزیت کو ہدف بنانا۔ جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوں نے اور ان کے پہلو بہ پہلو سیکولرمیڈیا نے‘ حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کی سربراہ نے دسیوں تقاریر اور بیانات میں اسے ’اسلامی دہشت گردی‘ کی مثال کے طور پر پیش کیا۔ افہام و تفہیم کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی تمام کوششوں کو پہلے طول دے کر اور پھر جب وہ کامیاب ہوتی نظر آئیں تو انھیں سبوتاژ کرکے مسجد‘ مدرسہ اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کر کے اپنی ’آزاد خیالی‘ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کارکردگی کا تمغہ لینے کے لیے سیکڑوں اساتذہ‘ طلبہ اور طالبات کو شہید کردیا گیا۔ اپنی ہی فوج کے کمانڈروں کو اس خونیں کھیل میں استعمال کیا گیا‘ جس کے نتیجے میں فوج کے جوانوں کی قیمتی جانیں بھی اس المیے کی نذر ہوئیں۔ اس سازش میں جرنیلی ٹولے کے ساتھ نام نہاد آزاد خیال اور لبرل طبقے بھی برابر کے شریک تھے اور جس طرح صدربش‘ برطانوی وزیراعظم گورڈن برائون‘ یورپی یونین کے نمایندے‘ آسٹریلیا کے وزیراعظم‘ بے نظیر بھٹو‘ ایم کیو ایم کے الطاف حسین یا ترکی کے فوجی صدر اور مغربی میڈیا نے جنرل پرویز مشرف کو شاباش دی ہے‘ وہ پورے کھیل سے پردہ اٹھانے کے لیے کافی ہے۔

اس آپریشن کی تمام تر بنیاد جھوٹ‘ مبالغے اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مسجد‘ مدرسے اور اس کے طلبہ کے بارے میں ایسی تصویرکشی پر مبنی ہے جو بش کے عراق پر حملے سے    پہلے عراق کے ایٹمی ہتھیاروں کے واویلے کی یاد دلاتی ہے۔ جس طرح وہ فضا بنائی گئی تھی‘ بالکل     وہی طریقہ اسلام آباد اور پاکستان کے دینی اداروں کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ جو  اصل حقائق تھے‘ ان کو جاننے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور اگر کسی نے ان کی طرف توجہ بھی دلائی تو اسے نظرانداز کردیا گیا۔ ہم مسجد اور مدرسے کی انتظامیہ کے اقدامات کی تائید نہ کرنے کے باوجود  یہ سمجھتے ہیں کہ جرنیلی آمریت‘ لبرل فسطائی قوتوں اور عالمی میڈیا نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کو  اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

  •  عدل پسند لبرل نقطۂ نظر: ہم تصویر کے اس رخ کو سامنے لانے کے لیے جسے حکومت‘ لبرل اہلِ قلم اور مغربی میڈیا نے کُلی طور پر نظرانداز کیا ہے‘ ایک لبرل دانش ور ڈاکٹر مسعودہ بانو کے مضمون سے اقتباس دیتے ہیں جو پاکستان کے ایک لبرل اخبار دی نیوز (مئی ۲۰۰۷ء) میں شائع ہوا تھا۔ڈاکٹر مسعودہ بانو اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں پوسٹ ڈاکٹریٹ تحقیق کر رہی ہیں اور دینی تعلیمی ادارے ان کے مطالعے کا خصوصی موضوع ہیں:

اپنے تحقیقی تجربے کے پورے دورانیے میں‘ مجھے کبھی ایسا معاملہ درپیش نہیں آیا کہ انسان نے جو کچھ میدان میں دیکھا ہو وہ عام عوامی تاثر میں یک سر مختلف ہو۔ جامعہ حفصہ کی  طالبات اور لال مسجد کے قائدین و طلبہ کے اقدامات‘ ذرائع ابلاغ میں شدید تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں کہ وہ ملک میں اپنی تعبیر اسلام نافذ کرنے کی کوشش کرکے دوسرے لوگوں کی آزادیوں پر دست اندازی کے مُرتکب ہورہے ہیں۔ تاہم‘ انھی لبرل حلقوں سے نسبت رکھنے کے باوجود‘ میرا تجربہ اور مشاہدہ مختلف ہے۔ عبدالرشید غازی کے مجھے دیے گئے متعدد انٹرویو اور جامعہ حفصہ کے کئی بار دورے کا تجربہ اس خوف ناک تصور کو سہارا دینے میں مددگار ثابت نہیں ہوا۔ دوسروں کے ردعمل دیکھ کر‘ میں باربار حیران ہوتی ہوں کہ ایسا ردعمل کیوں ہے؟ میں جب اس مدرسے کی حدود میں داخل ہوئی تو مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ کسی لڑکیوں کے کالج کا ہوسٹل ہے۔ لڑکیاں اسلام کی انتہائی کٹر اور سخت گیر تعبیر کرتی ہیں‘ لیکن جو کچھ وہ کہتی ہیں اُس میں شعور موجود ہوتا ہے۔ گفتگو اور بحث و مباحثے کے دوران وہ: قبائلی علاقوں میں حکومت کے غیرقانونی اقدامات یا فوجی آپریشنوں‘ لاپتا لوگوں کے معاملات‘ الیکٹرانک میڈیا کو بہت زیادہ چھوٹ دینے اور ریاستی نظام کے عمومی انتشار کے احوال (جہاں حکومتی اداروں سے کوئی بھی عام شہری کام نہیں کراسکتا‘ جب تک اُس کے [بڑے لوگوں سے] تعلقات نہ ہوں) جیسے موضوعات پر بڑے اعتماد کے ساتھ اور جم کر بات کرتی ہیں۔ وہ سیاہ برقعوں میں نہیں‘ بلکہ اپنے گرد لپیٹے ہوئے دوپٹوں میں ہنستی اور ایک دوسرے سے خوش گوار گفتگو کرتی ہیں۔ وہ آپ میں دل چسپی لیتی ہیں اور یوں لگتا ہے کہ وہ عام کالج کی لڑکیوں جیسی ہی لڑکیاں ہیں‘ تاہم قدامت پرست ذہنی رجحان کے ساتھ۔

بہرحال اپنے ٹی وی انٹرویو کے دوران وہ جس معاملے کو پیش پیش رکھتی ہیں‘ کیا یہی اُن کا اصل رُوپ ہے؟میرے خیال میں‘ اس تاثر کا بہت زیادہ تعلق اُن کے لباس سے ہے۔ مدرسے میں کئی بار جانے کے دوران میں‘ مَیں نے ایک تقریب میں بھی شرکت کی۔ یہ نعت گوئی یا مذہبی موضوع پر تقریری مقابلہ تھا۔ مدرسے کے کھچاکھچ بھرے صحن میں ۳ ہزار لڑکیاں تو ضرور موجود ہوں گی اور کچھ لڑکیوں کی مائیں بھی وہاں موجود تھیں۔ اس پروگرام میں حکومت کے خلاف انتہائی ظریفانہ خاکے (skits) پیش کیے گئے۔ مدرسے کی طالبات پرویز مشرف یا اعجازالحق یا دیگر وزرا اور ذرائع ابلاغ کے نمایندوں کا روپ دھارے ہوئی تھیں۔ ان خاکوں میں حکومت کی کارکردگی پر بڑے لطیف پیرایے میں تنقید کی گئی تھی۔ اس تقریب کا منظرنامہ‘ ان پروگراموں کی یاد دلا رہا تھا جو پاکستان کے عمومی کالجوں میں ہوتا ہے۔

اسی طرح ڈھائی مہینے پاکستان کے چپے چپے پر پھیلے مدرسوں میں انٹرویو کرنے کے بعد جب مجھے عبدالرشید غازی سے انٹرویو کا موقع ملا تو وہ یقینی طور پر نفرت پھیلانے والے بنیاد پرست نظر نہیں آئے۔ اُن تک پہنچنا آسان ہے۔ وہ آپ کو وقت دیتے ہیں اور جدید دنیا کی حقیقتوں سے بھی خوب آگاہ ہیں۔ ہاں‘ یہ بات درست ہے کہ مدرسے میں ایک بندوق بردار [گن مین] بھی موجود ہے‘ لیکن ایک ایسے ملک میں کہ جہاں علما کا قتل ایک معمول ہو‘ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اُنھوں نے اپنے اردگرد سیکورٹی کے مزید انتظامات کیوں نہیںکیے ہیں‘ خصوصاً ایک ایسے وقت میں کہ جب وہ سرفہرست نشانے پر ہیں۔ مجھے ان ملاقاتوں اور رابطوں کے بعد جس چیز نے پریشان کیا‘     وہ یہ تھی کہ ذاتی طور پر دورہ کرنے کے بعد جامعہ حفصہ سے جو تصور بنتا ہے وہ کسی    تشدد پسند (militant) ادارے سے یک سر مختلف ہے۔ مجھے کئی لوگوں نے بتایا کہ  اس مدرسے میں داخل ہونے کے لیے تمھیں دل گُردے کی ضرورت ہوگی۔ لیکن       اس مدرسے کا پُرامن ماحول دیکھ کر مجھے لوگوں کے اس تبصرے پر حیرت ہوئی۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ غازی برادران نے اپنے بارے میں انتہائی پُرتشدد ہونے کا تاثر کیوں پیدا کیا؟کیونکہ جب آپ اُن سے ملنے کے لیے جاتے ہیں‘ تو اُس سے بالکل مختلف تصور پیدا ہوتا ہے۔ اس بات کو دو طریقوں سے سمجھا جاسکتاہے: اوّل‘ اگر یہ حقیقتاً خفیہ ایجنسی کا آپریشن تھا تب تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے‘ کیونکہ خفیہ ایجنسیاں یہی چاہتی ہیں کہ وہ انتہاپسند اور تشددپسند کا تصور اُبھاریں اور اُنھوں نے ان بھائیوں سے کہا ہوگا کہ وہ انتہاپسندانہ رویہ اختیار کیے رکھیں۔ دوم: اگر یہ ایجنسی کا آپریشن نہیں تھا اور مدرسے کے ساتھ کئی بار رابطہ رکھنے کے بعد میرے خیال میں یہی معاملہ تھا (اگرچہ کوئی بھی فرد یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا)‘ تب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھائیوں نے اس قدر انتہاپسند موقف کیوں اختیار کیا؟ کیا وہ حقیقت پسندانہ طور پر سمجھتے تھے کہ واقعی وہ حکومت پر کنٹرول حاصل کرکے شریعت نافذ کرسکتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ اُنھوں نے اس قدر انتہائی اقدامات اس لیے اٹھائے تاکہ اپنا وجود برقرار رکھ سکیں‘ نہ کہ حقیقی طور پر شریعت نافذ کرنے کے لیے۔ اس معاشرے میں میرے ساتھی جو لبرل طبقات سے تعلق رکھتے ہیں‘ وہ کسی تحقیق کے بارے میںاسے معقول دلیل قرار دیں گے کہ آپ اپنے مطالعے کے ہدف کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اُسے سمجھنے کی کوشش کریں۔

میں جامعہ حفصہ کی طرف ایک اور انداز سے دیکھتی ہوں۔ میں نے ملک بھر کے ۷۰سے زائد مدارس کے دوروں اور مصاحبوں (انٹرویوز) کے بعد جامعہ حفصہ کا دورہ کیا۔ میرے خیال میں ان تمام ہی مدرسوں میں حکومت کی امریکا نواز پالیسیوں‘ قبائلی پٹی میں حملوں‘ لاپتا لوگوں کے مسئلے‘ مدرسوں اور اسلام کو تحقیری لہجے میں پیش کرنے اور ذرائع ابلاغ کو بے حدوحساب چھوٹ دینے کے بارے میں تشویش کااظہار کیا گیا۔ اُن کی راے میں یہ ملک اسلام کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔

جب آپ دیکھتے ہیں کہ معاشرے کی اتنی بڑی تعداد چند اُمور پر تشویش کا اظہار کرتی ہے‘ تب سمجھ لینا چاہیے کہ یہ چند افراد کا خلجان نہیں ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم اور معاشرے کے چند دیگر طبقات کی طرف سے جامعہ حفصہ کو دبانے کے لیے قوت کے استعمال کے مطالبے غیرحقیقت پسندانہ ہیں۔ قدامت پرست اقدار رکھنے والے یہ لوگ بھی تو بہرحال آپ کے معاشرے کا حصہ ہیں اور اُن کی تعداد بہت بڑی ہے۔ پُرتشدد اسلام پسندی کے ایسے مظاہر کو روکنے کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ حکومت ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی پالیسیوں کی اندھی پشتی بان نہ بنے‘ کیونکہ ان کی وجہ سے علما کو یہ قوت مل جاتی ہے کہ وہ بڑی تعداد میں اپنے پیروکاروں کو حرکت میں لے آئیں۔(The Puzzle of Jamia Hafsa ،دی نیوز انٹرنیشنل، ۴مئی ۲۰۰۷ء)

ہم نے ڈاکٹر مسعودہ بانو کے مضمون سے طویل اقتباس اس لیے دیا ہے کہ ایک غیر جانب دار  لبرل دانش ور خاتون بھی ان حقائق کی طرف متوجہ کر رہی ہے جنھیں یک سر نظرانداز کر کے سیاسی طالع آزما اور لبرل دانش ور آنکھیں بند کرکے استعماری قوتوں اور فوجی آمروں کی ہاں میں ہاںملانا اپنی معراج سمجھ رہے ہیں۔

جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے خونیں انجام کے دو روز بعد ڈاکٹر مسعودہ بانو کا تبصرہ بھی اس لائق ہے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ وہ دی نیوز میں لکھتی ہیں:

واہ! نام نہاد لبرل جیت گئے۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر بے رحمی سے حملہ کیا گیا‘ [عبدالرشید] غازی‘ ان کی والدہ اور ان کے سیکڑوں شاگرد [طلبہ و طالبات] مارے گئے۔ حکومت نے دارالحکومت کے عین قلب میں انتہائی سفاکانہ قتلِ عام کیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہی لبرل جو امن کی بات کرتے ہیں اور عراق پر جارحیت اور جنگ پر احتجاج کا علَم بلند کرتے ہیں‘ نہ صرف یہ کہ انھوں نے اس [فوجی آپریشن] کی حمایت کی حتیٰ کہ حکومت کو اس پر مبارک باد بھی دے رہے ہیں۔ لیکن کم از کم وہ لوگ جو اس حوالے سے خامہ فرسائی کرتے رہتے ہیں‘ ان کو اس قسم کے مطلق دعوؤں سے اجتناب کرنا چاہیے کہ اکثریت اس سے خوش ہے (یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جو ایک اخبار نے کیا)۔مجھے بطور محقق اس دوران غازی اور مدرسے کے اندر موجود لوگوں کے متعلق [بہت کچھ] جاننے کا موقع ملا‘ اور میں ایک ایسی عورت کی حیثیت سے کہ جو برداشت پر یقین رکھتی ہے اور جو انسانی جان کا احترام کرتی ہے‘ یہ کہنا چاہتی ہوں کہ میں اس تمام آرمی ایکشن کو ایک جرم کی طرح دیکھتی ہوں‘اور میں ایسے بہت سے لوگوں کو جانتی ہوں جو اسی طرح دیکھتے ہیں۔ اس وقت پاکستان ایک بٹے ہوئے گھر کی طرح ہے۔محض اغوا اور حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے جیسے جرائم کی بنا پر کس نے حکومت کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے ہی عوام کا یوں قتلِ عام کرے؟ انھوں نے‘ غازی برادران اور ان کے شاگردوں نے‘ نہ کسی کو قتل کیا اور نہ جسمانی طور پر نقصان پہنچایا‘ تو پھر کس طرح ان کی سزا اس قدر شدید ہوسکتی ہے۔  یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس تمام خوں ریزی سے بآسانی بچا جاسکتا تھا‘ اگر جنرل مشرف کا ایک ایسے وقت میں مغرب کو اپنی وفاداری کا ثبوت فراہم کرنے جیسا مخصوص مقصد  نہ ہوتا‘ جب کہ وہ انتہائی کمزور ہوچکے ہیں اور انھیں مغرب کی حمایت کی شدید ضرورت ہے۔ دوسری صورت میں‘ قتلِ عام کے بغیر مسئلے کو حل کرنے کے لیے بہت سے ایسے اقدامات ممکن تھے جو اٹھائے جاسکتے تھے۔ بجلی‘ پانی اور گیس کاٹ دینے سے کم از کم لڑکیوں کو جلد یا بدیر باہر آنے پر مجبور کیا جاسکتا تھا۔ اسی طرح اگر مذاکرات کے لیے مزید کچھ دن دے دیے جاتے تو یقینا پاکستان کے وجود کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہوسکتا تھا۔ (What a Victory!‘دی نیوز‘ ۱۳جولائی ۲۰۰۷ء)

وہ اپنے فکرانگیز تبصرے کے اختتام پر لکھتی ہیں:

لال مسجد کے باب کو ختم کرنے سے پہلے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کس چیز نے [عبدالرشید] غازی کو (جس نے پوسٹ گریجویٹ ڈگری لے رکھی تھی) اور اُن کے طالب علموں کو (جن کی اکثریت متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی اور جو میٹرک یا ایف اے کے بعد وہاں آئے تھے) اس مزاحمت پر مجبور کیا۔ ذرائع ابلاغ میں اُن کے حوالے سے ہونے والی بحث کا ارتکاز اُن کی جانب سے عوامی اخلاقیات سنوارنے کی مہم پر تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ انتہائی بنیادی انسانی حقوق کے مطالبات کی بنا پر حرکت پذیر ہوئے تھے۔ وہ قبائلی علاقوں میں ان ملٹری آپریشنوں کے خاتمے کے لیے دلائل دے رہے تھے‘ جو عام شہریوں کی ہلاکت کا باعث بن رہے تھے۔ وہ ملک میں مقدمہ چلائے بغیر لوگوں کو امریکا کے حوالے کرنے کی مخالفت کر رہے تھے۔ ہم میں سے جن لوگوں نے مدرسے میں جانے اور اُن سے اور اُن کے طلبہ سے بات چیت کرنے کی زحمت کی‘ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ بہ تکرار قانون کی بالادستی کی بات کرتے تھے۔ اپنے اہداف کو کامیاب بنانے کے لیے اُنھوں نے جو راستہ اختیار کیا‘ بلاشبہہ وہ درست راستہ نہ تھا‘ لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ کس چیز نے اُنھیں اور اُن کے پیروکاروں کو اس جدوجہد پر آمادہ کیا‘ کیونکہ حتمی طور پر اخلاقی خیالات و نظریات کی مُدلل قوت ہی لوگوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی زندگی نچھاور کردیں۔ کوئی بھی شخص‘ حتیٰ کہ انتہائی غریب شخص بھی کسی معمولی بات کے لیے اپنی جان نہیں دے سکتا۔ (دی نیوز‘ ۱۳ جولائی ۲۰۰۷ء)

سانحے کے بعد کے تقاضے

ہم سمجھتے ہیں کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا مسئلہ کوئی منفرد واقعہ نہیں‘ بلکہ امریکا اور   جنرل مشرف کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تحت دہشت گردی کے نام پر جرنیلی آمریت کو مستحکم کرنے اور عالمی سامراج کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا مذموم کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اسی لیے جہاں ہم ایک طرف اس پورے کھیل کا پردہ چاک کرنے کو اوّلیت دیتے ہیں اور اسے وسیع تر تناظر میں دیکھتے ہیں‘ وہیں ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سانحے کی تحقیق کے لیے اعلیٰ ترین سطح پر عدالتی کمیشن قائم کیا جائے‘ جو سارے پہلوؤں کاجائزہ لے اورخصوصیت سے ان سوالوں کا جواب دے کہ:

                ۱-  لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی انتظامیہ اور طلبہ و طالبات پر جو الزامات لگائے جارہے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے‘ اور حالات کو اس مقام تک لانے میں کون کون سی قوتیں کس درجے میں شریک تھیں___ ہر ایک کا کردار اور رول بالکل کھل کر سامنے آئے۔

                ۲-  جنوری ۲۰۰۷ء سے پہلے کوئی مسئلہ کیوں پیدا نہیں ہوا ‘اور وہ کیا خاص حالات اور اسباب ہیں جن کی وجہ سے جنوری سے جولائی تک مختلف واقعات رونما ہوئے؟

                ۳-   انتظامیہ اور طلبہ و طالبات کی اصل شکایات کیا تھیں اور ان کو رفع کرنے کے لیے کیا کیا گیا؟

                ۴- انتظامیہ اور طلبہ و طالبات سے کیا غلطیاں سرزد ہوئیں اور حالات کی اصلاح اور افہام و تفہیم کے ذریعے معاملات کو طے کرنے کی کیا کوششیں ہوئیں‘ کیا معاہدے ہوئے‘ کس نے ان معاہدوں کو سبوتاژ کیا اور مصالحت کا عمل کیوں کامیاب نہ ہوا؟

                ۵-  اس پورے معاملے میں حقیقی تشدد کا کتنا حصہ ہے اور کون اس کا ذمہ دار ہے؟

                ۶- کیا حکومت کے پاس کوئی مذاکراتی حکمت عملی اور اختیار تھا؟ اور کیا عالمی تجربات کی روشنی میں قوت کے استعمال کے بغیر مسئلے کا حل ممکن نہیں تھا؟ اگر ایسا تھا تو کیا ضروری حد تک قوت کا استعمال ہوا یا قوت کا بے رحمانہ‘ بے محابا اور سفاکانہ استعمال کیا گیا؟

                ۷- یہ سوال بھی اہم ہے کہ قوت کے استعمال کے لیے جس دستوری اور قانونی جواز کی ضرورت ہے‘ وہ پورا کیا گیا؟ اسلام آباد میں سول اتھارٹی کون ہے؟ پولیس کے ذریعے مسئلے کو کیوں حل نہیں کیا گیا؟ پولیس اور رینجرز کو کئی مہینے اسلام آباد کس اتھارٹی کے تحت لایا گیا‘ اور  ان کو کیوں واپس کیا گیا؟ آخری فوجی آپریشن کا فیصلہ کس نے کیا اور کس دستوری اختیار کے تحت کیا گیا؟ اس میں سول انتظامیہ‘ کابینہ‘ چیف آف آرمی اسٹاف ہرایک کا کیا کردار ہے؟

                ۸- سپریم کورٹ کے بنچ نے مفاہمت کے ذریعے مسئلے کے حل کے لیے ہدایات جاری کی تھیں‘ ان کا کیا بنا؟ عدالت کا کیا رول رہا اور انتظامیہ نے عدالت کے احکام کے الفاظ اور اسپرٹ کی کہاں تک پیروی کی؟

                ۹- مسجد اور مدرسے میں موجود افراد اور اسلحے وغیرہ کے بارے میں حکومت کے دعوے کیا تھے اور حقیقت کیا نکلی؟ فوجی آپریشن کے لیے جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ کہاں تک ضروری تھا؟ جانی اور مالی نقصان کی صحیح پوزیشن کیا ہے؟ فی الحقیقت کتنے اساتذہ‘  طلبہ و طالبات اور دوسرا عملہ مسجد و مدرسے میں تھا؟ کُل اموات کتنی ہوئیں؟ قرائن و شواہد بتاتے ہیں کہ طالبات‘ طلبہ اور اساتذہ کو اس سے کہیں زیادہ تعداد میں قتل کیا گیا کہ جتنی تعداد حکومتی ترجمان بتاتے ہیں۔ اس قتلِ عام کی باقاعدہ اعلیٰ سطحی تحقیقات ہونی چاہییں۔

                ۱۰- فوج نے جو ہتھیار استعمال کیے‘ وہ کون کون سے تھے؟ مدرسے کے طلبہ کی طرف سے  کون سے ہتھیار استعمال ہوئے؟ انٹرنیٹ پر موجود مضامین اور روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والی تصاویر میں ’سفید فاسفورس‘ کے سفاکانہ استعمال کے شواہد کی کیا حقیقت ہے؟۱؎ کیمیکل اسلحے کے استعمال کا کس نے حکم دیا تھا؟ عمارت کے اندر آگ لگنے‘ لاشوں کے جھلسنے اور اس کے اسباب کا تعین ضروری ہے‘ نیز کس قسم کی گیسوں کا استعمال اس آپریشن میں کیا گیا اور ان کے کیا اثرات رونما ہوئے؟

                ۱۱-         جس اسلحے کی نمایش کی گئی ہے‘ اس کی حقیقت کیا ہے؟

                ۱۲-         مسجد میں طلبہ اور طالبات کو یرغمال بنائے جانے کے دعوے کی کیا حقیقت ہے؟ محاصرے کے دوران علما‘ صلح کاروں اور میڈیا کے نمایندوں کو مسجد اور مدرسے میں جانے سے


۱-  یاد رہے کہ حکومت کے فوجی اور سول ترجمان اس امر سے مسلسل انکار کرتے رہے‘ تاہم ۲۶ جولائی کو وفاقی وزیر مذہبی امور اعجازالحق نے اعتراف کیا: ’’لال مسجد آپریشن میں فاسفورس بم استعمال کیے گئے تھے‘‘۔ (روزنامہ نوائے وقت‘ لاہور‘ ۲۷ جولائی ۲۰۰۷ء)

                                                کس نے روکا؟ آپریشن کے بعد بھی دو دن مسجد اور مدرسے میں میڈیا کو داخل ہونے سے کیوں روکا گیا؟ اس زمانے میں اندر کیا کچھ ہوا؟ چار سو کفن منگوانے کے بعد صرف ۹۲لاشوں کی تدفین کا معما کیا ہے؟ بی بی سی کے نمایندے کو گورکن نے بتایا کہ ایک ایک قبر میں دو دو لاشیں ہیں۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟

                ۱۳-  مسجد کی بے حُرمتی‘ قرآن پاک اور دینی کتب کی بربادی اور مسجد میں جوتوں سمیت جانا اور فوجی ترجمان کا یہ فتویٰ نشر کرنا کہ آپریشن کے دوران اس جگہ کی حیثیت مسجد کی نہیں رہی ہے‘ کہاں تک صحیح ہے؟ قرآن پاک کے جلائے جانے اور قرآن کے اوراق کی بے حُرمتی کے بارے میں سپریم کورٹ کے بنچ نے بھی سوال اٹھائے ہیں۔ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے اور اس سلسلے میں سارے حقائق قوم کے سامنے آنے چاہییں۔

یہ اور متعدد دوسرے سوالات ایسے ہیں جن کے مبنی برحق جواب قوم کے سامنے آنا ضروری ہیں‘ اور پھر ان جوابات کی روشنی میں جس نے جس حد تک دستور‘ قانون اور اصولِ انصاف سے انحراف کیا ہے‘ اس کی ذمہ داری کا تعین اور قرارواقعی سزا کا اہتمام۔

ہم پوری ذمہ داری سے یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے۔ جو کچھ ہوا ہے وہ ہماری تاریخ کے الم ناک ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح برطانوی استعمار کے ایک کارندے جنرل ڈائرنے ۱۹۱۹ء میں امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں کئی سو ہندستانیوں کو گولیوں سے بھون کر رکھ دیا تھا‘ پاکستان کی تاریخ میں ایک سیکولر اور نام نہاد روشن خیال جرنیل نے صدربش اور مغرب کے سامراجی حکمرانوں کی  خوش نودی اور انھیں اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر یورش اور  خون کی ہولی کھیل کر ویسا ہی بدترین اقدام کیا ہے۔ تاریخ تو اس ظلم برپا کرنے والوں کو معاف نہیں کرے گی، لیکن ملّت اسلامیہ پاکستان کا بھی فرض ہے کہ وہ اس کشت و خون کے ذمہ داروں کا احتساب کرے‘ اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ احتساب بھی دستور اور قانون کے مطابق ہو___ ایک سفاکیت کا جواب دوسری لاقانونیت سے نہ دیا جائے___ لاقانونیت اور دہشت گردی کو روکنے  کا اصل ذریعہ سب کے لیے قانون کی حکمرانی اور کھلے انداز میں احتساب اور انصاف کا قیام ہے۔ یہی راستہ معقول بھی ہے اور خیر اور صلاح بھی صرف اسی کے ذریعے رونما ہوسکتی ہے۔

عدلیہ کی بالادستی کے لیے سنگ میل

سپریم کورٹ کے ۱۳ رکنی بنچ کے ۲۰جولائی ۲۰۰۷ء کے فیصلے نے قوم کو یہ اُمید دلائی ہے کہ اعلیٰ عدالت نظریۂ ضرورت کے شیطانی چکر سے نکلنے کی طرف بڑھ رہی ہے اور عوام کو یہ اعتماد حاصل ہو رہا ہے کہ اس ملک کے کمزور اور مظلوم انسانوں کے لیے بھی انصاف کا حصول ممکن ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے ملک اپنی حقیقی منزل کی طرف گامزن ہوسکے گا۔

۲۰ جولائی ۲۰۰۷ء کا فیصلہ گہرے غوروخوض کا متقاضی ہے مگر اس کا حق اسی وقت ادا ہوسکے گا جب عدالت اپنا تفصیلی فیصلہ دے گی۔ البتہ مختصر فیصلے نے جو تاریخی خدمت انجام دی ہے‘ اس کا ادراک ضروری ہے۔ ہماری نگاہ میں درج ذیل پہلو غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں:

                ۱-  عدالت نے کوئی مبہم یا نیمے دروں نیمے بروں راستہ اختیار نہیں کیا‘ بلکہ دوٹوک الفاظ میں ایک واضح فیصلہ دیا ہے‘ جس نے قوم کو اُمید کی نئی کرن دکھائی ہے۔ اس پر عدالت پوری قوم کی طرف سے ہدیۂ تبریک کی مستحق ہے۔ ظلمتوں کی ماری اس قوم کے لیے یہ فیصلہ روشنی کا پیغام اور مستقبل پر بھروسے کی نوید کی حیثیت رکھتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔

                ۲-  پاکستان کی تاریخ میں‘ عدالت نے پہلی مرتبہ فوجی حکمرانی ہی کے دور میں ایک فوجی حکمران کے فیصلے کے خلاف دستور اور قانون کے مطابق فیصلہ دیا ہے‘ اور اس طرح طاقت پر قانون کی بالادستی کے اصول کو قائم کیا ہے۔ سیکولرزم اور نام نہاد جدیدیت کے علَم بردار جسٹس محمدمنیر نے تمیزالدین خان کیس سے ’نظریۂ ضرورت‘ کے بل پر دستور اور انصاف کی خلاف ورزی کا جو دروازہ کھولا تھا اور جس کے نتیجے میں آمریت کا عفریت دندناتا ہوا قومی زندگی میں داخل ہوا‘ اس نے جمہوریت کو پنپنے ہی نہ دیا۔ بلاشبہہ جسٹس حمودالرحمن نے جنرل آغا یحییٰ خان کو غاصب (usurper) قرار دیا تھا لیکن یہ فیصلہ جنرل یحییٰ کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد آیا تھا‘ اور یہی وجہ ہے کہ یہ بعد کے طالع آزمائوں کا راستہ نہ روک سکا۔ حالیہ فیصلہ اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اگر قوم اس کی پشت پر مضبوطی سے قائم رہتی ہے توآیندہ یہ جمہوریت کے لیے فتح و کامرانی کے دروازے کھول دے گا‘ اور ان شاء اللہ فوجی آمریت قصۂ پارینہ بن جائے گی۔

                ۳-  اس فیصلے کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس میں دستور اور قانون کی بالادستی کے اصول کو بنیاد بنایا گیا ہے اور صدر (چیف آف اسٹاف) کا وہ اقدام صریحاً غیرقانونی تھا‘ جس کے تحت اس نے وردی کا سہارا لے کر چیف جسٹس کو بلاجواز‘ دستور کے واضح تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے غیرفعال کیا تھا یا جبری رخصت پر بھیجا تھا۔ اس فیصلے کو کالعدم قرار دینے سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ چیف جسٹس اس پورے زمانے میں دستوری اور قانونی طور پر چیف جسٹس تھے‘ قائم مقام چیف جسٹس کا تقرر غیرقانونی تھا ۔

                ۴- اس فیصلے میں تین کے مقابلے میں ۱۰ کی اکثریت نے یہ بھی فیصلہ دیا ہے کہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دستور کے مطابق نہیں اور اس طرح اسے بھی حرفِ غلط کی طرح منسوخ کردیا گیا اور چیف جسٹس کسی داغ کے بغیر اپنے مقام پر بحال ہوگئے۔

                ۵- ضمناً اس فیصلے نے اس بات کو بھی واضح کردیا کہ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں اور کوئی بھی احتساب سے بالا نہیں‘ بشمول چیف جسٹس لیکن احتساب‘ قانون اور دستور کے مطابق ہی ہوسکتا ہے۔ من مانے اور اندھادھند (arbitrary) انداز میں نہیں۔

                ۶- اس فیصلے میں خود عدلیہ کا بھی احتساب موجود ہے‘ خصوصیت سے جس طرح سپریم جوڈیشل کونسل نے کچھ ایسے اختیارات اپنے لیے حاصل کرنے کی کوشش کی‘ یا ایسے انداز میں اپنے کام کا آغاز کیا جو دستور اور اصول انصاف کے مطابق نہیں۔ ان تمام چیزوں پر بھی فیصلے میں گرفت کی گئی ہے اور غلط اقدام کو غیرمؤثر کردیا گیا ہے۔

ان تمام اعتبارات سے یہ فیصلہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے لائق ہے اور عدلیہ کی آزادی اور اس کے اعتبار (credibility)کی بحالی کی راہ پر ایک عظیم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ یہ صرف پہلا قدم ہے‘ ہراعتبار سے اہم اور تاریخی قدم___  لیکن پھر بھی صرف پہلا قدم۔ ابھی ماضی کے ملبے کو صاف کرنے اور دستوریت اور قانون کی حکمرانی کی منزل کو پانے کے لیے عدالت‘ انتظامیہ اور خود قوم کو بہت کچھ کرنا ہوگا۔ جہاں یہ فیصلہ خالص دستور اور قانون کے مطابق ہے اور کسی سیاسی مصلحت کا سایہ اس پر نہیں‘ وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسا صاف ستھرا اور   مبنی برعدل فیصلہ ممکن ہی اس لیے ہوا کہ قوم نے‘ اور خصوصیت سے وکلا برادری نے بے لاگ انداز اور بالکل دوٹوک طریقے سے عدالت کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ قوم انصاف اور اصول کی بالادستی چاہتی ہے نہ کہ مصلحت پر مبنی کوئی فیصلہ۔ جس عدالت کو یہ یقین ہو کہ قوم انصاف چاہتی ہے اور انصاف کے لیے قربانی دینے کا عزم رکھتی ہے‘ وہ پھر پوری مضبوطی سے دستور اور انصاف کی علَم بردار بن سکتی ہے اور لاقانونیت اور قوت کے پجاریوں کو چیلنج کرسکتی ہے۔ اس بار الحمدللہ یہی  ہوا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اس انداز میں ہوا۔ اب عدالت اور قوم دونوں پر ذمہ داری ہے کہ اس راستے پر استقامت اور حکمت کے ساتھ آگے بڑھے۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ عدالت کو کسی ایسی آزمایش میں نہ ڈالا جائے جس میں اس کے قدم ڈگمگانے کا خطرہ ہو۔ سیاسی فیصلے سیاست کے میدان میں ہوں اور قانون اور دستور کی تعمیر اور تنفیذ کے معاملات عدالت میں طے ہوں۔      یہ توازن ضروری ہے اور اس نزاکت کو سامنے رکھ کر ہی ہم ملک میں جمہوریت کی آگے کی منزلیں سر کرسکتے ہیں۔

تاریخ ساز فیصلے کے دو اھم تقاضے

البتہ دو باتوں کی طرف توجہ دلانا ہم ضروری سمجھتے ہیں: پہلی یہ کہ اس فیصلے کے کچھ اخلاقی اور ایک حد تک خود قانونی تقاضے ہیں جن کو پورا کیا جانا چاہیے اور ان کا تعلق صدر‘ وزیراعظم‘ وزیرقانون اور ان اداروں کے سربراہوں سے ہے جن کا چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس سے بلاواسطہ تعلق تھا۔ انھیں اپنی ذمہ داری کا اعتراف کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس اور قوم سے معافی مانگنی چاہیے اور اپنے عہدے سے استعفا دے دینا چاہیے تاکہ اس فیصلے کے منطقی تقاضے پورے ہوں۔ واضح رہے کہ وزیراعظم شوکت عزیز نے فیصلے سے پہلے یہ بات کہی تھی کہ اگر فیصلہ حکومت کے خلاف ہوتا ہے تو وزیراعظم کو مستعفی ہوجانا چاہیے۔ معاملہ صرف وزیراعظم کا نہیں‘ ان کے ساتھ جنرل مشرف کا استعفا بھی ضروری ہے۔

ریفرنس کے اصل ذمہ دار جنرل مشرف ہیں‘ جنھوں نے فوجی وردی میں چیف جسٹس کو ریفرنس کا نشانہ بنایا‘ استعفے کا مطالبہ کیا‘ کئی گھنٹوں تک حبسِ بے جا میں رکھا‘ تین مہینے تک پریس اور میڈیا میں ریفرنس کے حق میں دلائل دیتے رہے‘ مزید حقائق بیان کرنے کی دھمکیاں دیں‘ اور  طرح طرح کے الزامات لگانے سے بھی گریز نہ کیا۔ ۱۲مئی کے کراچی کے قتلِ عام اور اسلام آباد کے بھنگڑے کے جشن کو عوامی تائید‘ اپنی فتح اور چیف جسٹس کی شکست کا عنوان دیا‘ اور یہاں تک ارشاد فرمایا کہ اگر جھوٹ سچ پر غالب رہا تو وہ روئیں گے___  رونا تو بلاشبہہ ان کے مقدر میں   اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا تھا مگر بات رونے پر ختم نہیں ہوسکتی۔ سب سے زیادہ اس ریفرنس کے اور اس ریفرنس کے سلسلے میں جو کچھ کیا گیا‘ اس کے ذمہ دار جنرل مشرف ہیں اور ان کا استعفا پہلا تقاضا ہے۔ ان کے ساتھ وزیراعظم‘ وزیرقانون‘ سیکرٹری قانون اور ان تمام افراد کا استعفا اور احتساب ضروری ہے جنھوں نے جنرل مشرف اور وزیراعظم کے موقف کی تائید میں بیان حلفی دائر کیے۔

دوسرا بنیادی مسئلہ جو اس ریفرنس اور مختلف حلفی بیانات سے سامنے آیا ہے وہ کاروبار حکومت میں ایجنسیوں کے کردار سے متعلق ہے‘ جو اپنے اصل فرائض منصبی سے ہٹ کر جاسوسی اور     خلافِ قانون سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ جن کا منہ بولتا ثبوت ان کے اپنے بیانات اور وہ معلومات اور ان معلومات کے ذرائع ہیں جن سے یہ بیانات بھرے ہوئے ہیں۔ حکومت پاکستان اور اس کے اداروں کی بڑی ہی کریہہ تصویر ہے جو ان بیانات میں قوم کے سامنے آئی ہے۔ اگر ان اداروں کا احتساب نہیں ہوتا اور ان سرگرمیوں کو لگام نہیں دی جاتی تو ہم کبھی بھی قانون اور ضابطے پر مبنی ایک ملک اور مہذب معاشرہ نہیں بن سکتے۔ جن حضرات نے قانون کی خلاف ورزی یا محض اثرورسوخ کی بناپر قانون اور ضابطے کے خلاف کام کا اعتراف کیا ہے‘ انھیں اس کی قرارواقعی سزا ملنی چاہیے‘ اور جنھوں نے برسرِاقتدار افراد کی تائید میں غلط بیانی اور فسانہ سازی سے کام لیا ہے‘ انھیں ان کی قیمت ادا کرنا چاہیے۔ ان بااثر مجرموں کو ایسے ہی چھوڑ دینے کے معنی یہ ہیں کہ ملک میں قانون کی حکمرانی محض ایک سراب ہوگی۔ یہ اقبالی مجرم ہیں اور ان کو اس کی ایسی سزا ملنی چاہیے جس میں دوسروں   کے لیے عبرت کا سامان ہو اور ملک کے نظامِ حکمرانی سے ان خرابیوں کاہمیشہ کے لیے ازالہ ہوسکے۔

۲۰جولائی کے فیصلے کے یہ دو کم سے کم تقاضے ہیں جو فوری طور پر پورے ہونے چاہییں۔

اُمید کا پیغام

آخر میں ہم اس پورے معاملے میں کُل جماعتی تحریک جمہوریت کے رول کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ امر باعث افسوس ہے کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں اس میںشریک نہیں ہوئیں اور ایک بڑی جماعت جس نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے تھے وہ اس میثاق کے عہدوپیمان کے   علی الرغم فوجی حکومت سے معاملات طے کرنے میں مصروف رہی اور اس فیصلہ کن مرحلے پر بھی پیچھے رہ گئی۔ اس امر پر تاَسف کے اظہار کے ساتھ ہم اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں جو باقی تمام جماعتوں نے اس نئے محاذ کے قیام کی شکل میں اختیار کیا ہے‘ اور اسے ۲۰جولائی ۲۰۰۷ء کے فیصلے کی طرح جمہوریت کے قیام اور دستور اور قانون کی حکمرانی کی جدوجہد کا ایک سنگ میل قرار دیتے ہیں۔

قرارداد مقاصد سے لے کر ۱۹۷۳ء کے دستور تک جن چار باتوں پر قوم کاکامل اتفاق (consensus ) ہے‘ وہ یہ ہیں:

                ۱-   پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اس کے وجود اور بقا کا انحصار اسلام کے احکام‘ اقدار اور اصولوں کے مطابق مبنی برعدل نظام کا قیام ہے۔ اقتدار ایک امانت ہے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وفاداری کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔

                ۲-  پاکستان کا نظامِ حکومت جمہوری ہوگا جس میں عوام کے حقوق کی حفاظت‘ پارلیمنٹ کی بالادستی‘ عدلیہ کی آزادی‘ صاف شفاف انتخابات‘ اور عوام کی مرضی کے مطابق اور ان کے سامنے جواب دہی کے اصول پر حکومت کا قیام اور تبدیلی واقع ہوگی۔

                ۳-  پاکستان ایک فلاحی ریاست ہے جس میں تمام شہریوں کو بلاتفریق نسل‘ زبان اور مذہب زندگی کی ضروری سہولتیں حاصل ہونی چاہییں اور ترقی کے مساوی مواقع میسر ہوں تاکہ مہذب زندگی گزار سکیں۔

                ۴-  پاکستان کا سیاسی نظام وفاق کی بنیاد پر قائم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تمام صوبوں کو اپنے وسائل پر تصرف کا اختیار ہو اور دستور کے دائرے میں تمام صوبوں کو مکمل خوداختیاری حاصل ہو۔ پاکستان کی مضبوطی اور خوش حالی کا انحصار تمام صوبوں کی مضبوطی اور خوش حالی پر ہے۔

ان اصولوں کا واضح تقاضا یہ ہے کہ ہر ادارہ اپنے اپنے دائرے میں دیانت داری سے کام کرے اور دوسرے اداروں میں دخل اندازی سے احتراز کرے۔ فوج کی اصل ذمہ داری دفاعِ وطن اور سول حکومت کے تحت خدمات انجام دینا ہے۔ سیاست میں فوج کی مداخلت دستور کی خلاف ورزی‘ سیاسی نظام کی بربادی کا ذریعہ اور خود فوج کی دفاعی صلاحیت اور قوم کی نگاہ میں غیرمتنازع حیثیت کو مجروح کرنے کا باعث ہوتی ہے۔ اس لیے فوج کو سیاست میں ملوث کرنا فوج اور ملک دونوں کے مفاد کے خلاف ہے۔

عوام کی مرضی کی حکومت اسی وقت قائم ہوسکتی ہے جب سب کو انتخاب میں شرکت کے مساوی مواقع حاصل ہوں اور انتخاب کا نظام ہرقسم کی دراندازی اور جانب داری سے پاک ہو۔ اس کے لیے راے دہندگان کی فہرستوں کا درست ہونا‘ الیکشن کمیشن کی مکمل آزادی اور غیر جانب داری اور پورے انتخابی عمل کا صاف اور شفاف ہونا ضروری ہے۔ صحافت کی آزادی بھی اس کے لیے ایک ضروری عمل ہے تاکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا صحیح حقائق سے قوم کو آگاہ کرسکے۔ انتخابی عمل کو ہربدعنوانی سے پاک ہونا چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب انتخابات ایک غیر جانب دار حکومت کی نگرانی میں منعقد ہوں۔

کُل پاکستان جمہوری تحریک کا قیام انھی مقاصد کے حصول کے لیے ہے۔ ہرجماعت کا  اپنا منشور اور پروگرام ہے‘ لیکن ان مشترکہ نکات پر سب کا اتفاق ہے اور سب مل کر ان کے حصول کے لیے سیاسی جدوجہد کا عہد کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کی معطلی کے خلاف وکلا اور عوام کی تحریک نے جمہوریت کی بحالی کے لیے عوامی تائید اور تحرک کی اہمیت کو ایک بار پھر واضح کردیا ہے۔ کُل جماعتی جمہوری تحریک‘ اپوزیشن کی جماعتوں کے اس عزم کا مظہر ہے کہ مشترک مقاصد کے حصول کے لیے وہ فیصلہ کن عوامی تحریک کا راستہ اختیار کر رہے ہیں اور یہ جدوجہد دستور کی مکمل بحالی اور جمہوریت کے قیام اور اسلامی نظام کے نفاذ پر منتج ہوگی‘ ان شاء اللہ!


(کتابچہ دستیاب ہے، منشورات، منصورہ، لاہور)

بجٹ بنانا بلاشبہہ ایک انتہائی اہم سرگرمی ہے اور بجٹ جہاں حکومت کی کُل آمدنی اور خرچ کا میزانیہ اور معاشی پالیسی اور ترجیحات کا عکاس ہوتا ہے وہیں اس کی حیثیت قانون سازی کے ایک ایسے کام کی ہے جس کے ذریعے معاشی مشکلات کے حل کے لیے قوم کے عزائم اور طرزِفکر کی نشان دہی ہوتی ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی قوم ملکی معیشت کے تمام شعبوں میں معاشی خودکفالت کے حصول کے لیے دستیاب وسائل کو کتنی ہنرمندی سے استعمال کرتی ہے۔

بدقسمتی سے حکومت کی طرف سے مالی سال ۲۰۰۷ء-۲۰۰۸ء کے لیے پیش کیا گیا بجٹ انتہائی مایوس کن ہے۔ یہ یقینا ایک الیکشن بجٹ ہے جسے کسی بھی لحاظ سے حقیقی معاشی بنیادوں پر تیار کیا گیا بجٹ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے جی ڈی پی میں ۷ فی صد اضافہ کرنے کے علاوہ زرمبادلہ کے ذخائر کو ۱۵ ارب روپے تک پہنچا دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ     یہ کامیابی کہاں تک حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کا ثمرہ اور ان کے مؤثر ہونے کی دلیل ہے اور کہاں تک نائن الیون کے بعد بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کا اپنا سرمایہ پاکستان منتقل کرنے اور پاکستانی حکومت کے امریکا کے آگے ہتھیار ڈالنے کی وجہ سے سیاسی اور معاشی امداد کا نتیجہ ہے۔

عالمی بنک کی جانب سے ترقیاتی اشاریوں کے حالیہ مطالعے میں‘ جو ۱۵ اپریل ۲۰۰۷ء کو جاری کیا گیا ہے‘ قوتِ خرید کے تطابق (parity) کی بنیاد پر پاکستان میں ۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۵ء تک جی ڈی پی میں فی کس اضافہ ۶۲ء۴ فی صد رہا‘ جب کہ اسی دورانیے میں دوسرے ترقی پذیر ممالک کی فی کس اوسط اضافہ کچھ اس طرح رہا: فلپائن ۱۷ء۵ فی صد‘ انڈونیشیا ۷۷ء۵ فی صد‘ ترکی ۷۹ء۵ فی صد‘ جب کہ بھارت ۳۲ء۷ فی صد۔ یاد رہے کہ اسی دورانیے میں کم آمدنی والے ممالک میں اوسط فی کس اضافہ ۳۸ء۶ فی صد تھا جو پاکستان میں اس اضافے سے ۳۰ فی صد زیادہ ہے۔ گویا اس حوالے سے حکومتِ پاکستان جو بلندبانگ دعوے کر رہی ہے اس علاقائی تناظر میں اس کا قدکاٹھ بہت ہی کم ہوجاتا ہے۔

حکومت کا ایک اور دعویٰ یہ ہے کہ اس کے دور میں غربت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اور کُل آبادی کا ۱۰ فی صد غربت سے نجات پا چکا ہے‘ یعنی اس حکومت سے پہلے ملک کی ۳۴ فی صد آبادی غربت کی حد سے نیچے تھی جو اَب صرف ۲۴ فی صد ہے۔ یہ دعویٰ بھی درست ثابت کرنا مشکل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خط ِ غربت سے نیچے رہنے والوں میں سے ۳۳ فی صد اس خط کو عبور کرگئے ہیں۔ گویا ہرسال کُل آبادی کا دو سے تین فی صد خط ِ غربت سے اُوپر چلا گیا ہے۔ دیکھا جائے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ غربت کے خط سے نیچے رہنے والے ۵کروڑ ۲۰ لاکھ افراد میں سے ایک کروڑ ۳۰لاکھ افراد غربت کی گرفت سے نکل گئے ہیں۔ اُسے محض ایک شماریاتی کرشمہ ہی کہا جاسکتا ہے!

زمینی حقائق کیا ہیں؟ کیا یہ حقائق حکومتی دعوؤں کی تصدیق کرتے ہیں؟ خود یہی سروے (پی ایس ایل ایم ۰۵-۲۰۰۴ء) جس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے‘ اسی میں ایسے شواہد موجود ہیں جو سرکاری دعوؤں کی نفی کرتے ہیں۔ اس سروے رپورٹ کی جلد دوم میں‘ جس میں صوبائی اور ضلعی ڈیٹا کے حوالے سے ص ۴۰۶‘ جدول ۱.۵ میں کہا گیا ہے کہ انٹرویو کیے گئے افراد میں سے ۱۵ء۲۴ فی صد نے کہا کہ وہ ۲۰۰۵ء میں ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں کہیں خراب یا بہت زیادہ خراب حالت میں رہ رہے ہیں‘ جب کہ اسی گروپ کے ۵ء۵۱ فی صد لوگوں نے بتایا کہ اس دوران ان کی حالت میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوسکی۔ اس صورت حال کی روشنی میں حکومتی بیان کی قلعی کھل جاتی ہے جس میں انھوں نے غربت کے خط کے نیچے کے ۳۳ فی صد افراد کے غربت سے نکل آنے کا دعویٰ کیا ہے۔ پاکستان میں ’غربت کے خاتمے‘ کے رواں پروگرام سے متعلق ایشیائی ترقیاتی بنک کی تازہ ترین رپورٹ (ورکنگ پیپر نمبر۴‘ ۲۰۰۷ء) میں کہا گیا ہے کہ اس ضمن میں عوام کا تاثر یہ ہے کہ       اس پروگرام کے نتیجے میں (جس میں سوشل ایکشن پروگرام بھی شامل ہے) خصوصاً ملک کے   دیہی علاقوں میں کوئی خوش گوار تبدیلی یا ترقی کے مظاہر نظر نہیں آتے۔

حکومت کا حقائق کو مسخ کر کے اعداد و شمار کو غلط انداز میں پیش کرنا ہرسنجیدہ شہری کے لیے فکروتشویش کا باعث ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بجٹ کی دستاویز اور بجٹ تقریر میں بہت سے واضح تضادات ہیں جو حیرت کا باعث ہیں۔ مثلاً وزیرمملکت براے خزانہ‘ وزیراعظم اور ان کے مشیران کے بقول بجٹ کا کُل حجم ۱۸ کھرب ۷۵ ارب روپے ہے‘ جب کہ بجٹ میں جو مختلف اخراجات کے تخمینے دیے گئے ہیں ان کا میزان ۱۵ کھرب ۹۹ ارب روپے بنتا ہے (خلاصہ بجٹ‘ باب دوم‘ ص ۷)۔ اور اس امر کی وضاحت نہیں کی گئی کہ ۱۸ کھرب والی رقم میں صدیوں کے بجٹ کی رقوم بھی شامل کرلی گئی ہیں تاکہ تاثر یہ ہو کہ تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ پیش کیا گیا ہے۔

بجٹ کا سرسری جائزہ لینے سے ہی کم از کم چھے ناکامیوں کی نشان دہی کی جاسکتی ہے:

۱-  ملک کو ادایگیوں اور تجارتی خسارے کے حوالے سے سخت عدم توازن کا سامنا ہے۔ جب ۱۹۹۹ء میں حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا‘ اس وقت تجارتی خسارے کا حجم ایک ارب ۷۴ کروڑ ڈالر تھا‘ جب کہ آج سات سال کے عرصے میں یہ ۱۱ ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ بلکہ یہ بھی خدشہ ہے کہ اس خسارے کا اصل حجم ۱۳ ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہوگا۔ اسی طرح ادایگیوں کے خسارے کا حجم ۰۰-۱۹۹۹ء میں ایک ارب ۱۴ کروڑ ڈالر تھا‘ جب کہ یہ خسارہ ۰۳-۲۰۰۲ء یعنی جس سال موجودہ قومی اسمبلی کا انتخاب ہوا مثبت ہوگیا اور ۳ ارب ۱۶کروڑ ڈالر ہوگیا۔ بدقسمتی سے اب‘ یعنی ۲۰۰۷ء میں ادایگیوں کے توازن میں خسارے کا حجم ۶ ارب ۲۰کروڑ ڈالر کی ہوش ربا حد تک ہوچکا ہے جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ادایگیوں کا خسارہ ہے۔ اس سے زیادہ حیرت اور تشویش کی بات یہ ہے کہ اس بجٹ میں ان دو قسم کے خساروں کو فوری طور پر نیچے لانے کے لیے کوئی حکمت عملی تجویز نہیں کی گئی ہے۔

۲-  معاشی ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے معیشت کا اشیا کی پیدایش کے سیکٹر (commoduty sector) میں اضافہ ضروری ہے کیونکہ اسی سے ترقی اور معیشت نمو پاتی ہے۔ اس وقت جس بڑھوتری کو ہم دیکھ رہے ہیں اس کی بنیاد دراصل خدمات کے شعبے اور خارجی عوامل پر ہے۔ جن میں بیرونِ ملک پاکستانیوں کا بھیجا ہوا سرمایہ (جو حکومت کی ملکیت نہیں) اور وہ امداد شامل ہے جو نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے معاوضے کے طور پر امریکی حکومت سے حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح زراعت کے شعبے میں‘ جو پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے‘ کوئی قابلِ ذکر اور دیرپا معیاری یا مقداری بہتری نہیں ہوئی ہے۔ درحقیقت زراعت کے شعبے کو مسلسل نظرانداز کیاجاتا رہا ہے۔ اس میں پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے جو اشیاے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کاسبب بنا ہے۔ اسی طرح صنعتی شعبے خصوصاً ٹیکسٹائل کی صنعت سخت عدم توجہی کا شکار رہی ہے جس پر پاکستان کی ۶۰ فی صد سے زیادہ برآمدات کا دارومدار ہے۔ یہ ٹیکسٹائل کے شعبے میں بحران ہی ہے جس کے باعث ہماری برآمدات کافی کم ہوئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب تیار شدہ مال (جس کی زیادہ قیمت ہوتی ہے) کے بجاے خام روئی برآمد کی جارہی ہے (اس سال ۳ ارب ڈالر کی روئی برآمد ہوئی ہے)۔ اسی طرح بعض دوسری صنعتیں مثلاً چمڑاسازی‘ سرجیکل آلات اور کھیلوں کے سامان کی صنعت بھی بحران کا شکار ہیں۔ ان صنعتوں میں بھی پیداواری اخراجات اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ ان کی مصنوعات عالمی منڈی میں دوسرے ممالک کی مصنوعات کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ حکومت نے ان مسائل کو نظرانداز کردیا ہے۔ اگر ان مسائل سے عہدہ برآ نہیں ہوا گیا تو پاکستان چند ہی سالوں میں ایک غیرصنعتی ملک بھی بن سکتا ہے۔ ۱۱۶ ٹیکسٹائل مِلیں پچھلے دو سال میں بند ہوچکی ہیں۔ کوئی پانچ لاکھ تکلے ساکت ہوگئے ہیں اور لاکھوں افراد کو روزگار سے محروم ہونا پڑا ہے اور زورِخطابت کے باوجود‘ ملک کی سب سے اہم اور نازک پیداوار کے بارے میں بجٹ خاموش ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور زندگی کی عام ضروریات بھی پوری کرنا ہرکسی کے بس سے باہر ہے۔ عام شہری اس کی تکلیف دہ گرفت میں ہے۔ اسے دو وقت کی روٹی کا یارا نہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کھانے پینے کی اشیا میں افراطِ زر ۱۰ فی صد‘ جب کہ غیرسرکاری اندازوں کے مطابق ۱۵ سے ۲۰ فی صد ہے۔ شاندار فصلوں (گندم اور چاول) کی موجودگی میں یہ اعدادوشمار عجب لگتے ہیں۔ بجٹ میں جن امدادی اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے ان کا شاید آغاز بھی نہ ہوسکے۔ تاریخ شاہد ہے کہ زرتلافی سے بدعنوانی بڑھتی ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس سبسڈی کی جو بظاہر پُرکشش رقم بجٹ میں دی گئی ہے یعنی ۲ کھرب ۱۰ ارب روپے اس میں ۹۰ ارب تو واپڈا اور کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کے لیے ہیں۔ ہم حیران ہیں کہ کھانے پینے کی اشیا کے باب میں دی جانے والی زرتلافی جو ۶ ارب روپے کے لگ بھگ ہے اور دو ڈالر سے کم آمدنی والی آبادی پہ اگر اسے تقسیم کیا جائے تو بمشکل ۷روپے فی کس فی مہینہ آتا ہے۔ ہرشخص سوچ سکتا ہے کہ اتنی ’بڑی رقم‘سے عام آدمی مہنگائی پر کیا قابو پاسکے گا اور اس سے غریبوں کو کیا ریلیف مل سکے گا؟

اس ملک کو ایسی معاشی اور صنعتی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو روزمرہ استعمال کی اشیا پر درآمدی ڈیوٹی اور سیل ٹیکس کم کر کے پیداواری اخراجات میں کمی کرے۔ یوٹیلٹی سٹور سے صرف دوفی صد آبادی فائدہ اٹھا سکتی ہے اور یہ دو فی صد بھی صرف غریب افراد نہیں ہوتے۔کسی بھی طرح  یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ افراطِ زر پر ہمیشہ مالیات اور محاصل پالیسیوں کے اشتراک سے ہی قابو پایا جاسکتا ہے جن میں طلب و رسد دونوں کی ایک ساتھ فکر کی جائے‘ جب کہ یہ نہیں کیا جا رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس حکومت کے دورِاقتدار میں مہنگائی کا بھوت لوگوں کی خوشیوں کے قتل میں مصروف رہا ہے۔ ۲۰۰۰ء-۱۹۹۹ء میں افراطِ زر کی شرح صرف ۵۸ء۳ فی صد تھی۔ ۰۳-۲۰۰۲ء میں یہ تناسب ۱ء۳ فی صد رہا‘ جب کہ صرف ایک سال میں یعنی ۰۵-۲۰۰۴ء میں یہ ۳ء۹ فی صد تک پہنچ گیا۔ موجودہ اور گذشتہ سالوں کے دوران یہ اوسطاً ۸ فی صد رہا۔ موجودہ بجٹ کسی بھی پہلو سے افراطِ زر جیسے شدید اہم مسئلے کے مختلف پہلوؤں سے سنجیدگی سے نبٹنے میں بُری طرح ناکام رہا ہے۔

۴-  ملک کو جس دوسرے اہم مسئلے کا سامنا ہے‘ اس کا تعلق غربت اور بے روزگاری سے ہے۔ دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہی حال انسانی وسائل کی ترقی و تربیت‘ افرادی قوت اور تعلیمی منصوبہ بندی کا ہے۔ بجٹ ان کے متعلق بھی بلندبانگ دعوؤں پر مشتمل ہے مگر ان چیلنجوں کا ٍمؤثر طور پر مقابلہ کرنے کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ غربت میں کمی اور صحت کی سہولیات کی بڑے پیمانے پر فراہمی کے لیے بڑی رقوم مختص نہیں کی گئی ہیں۔ تعلیم جیسے اہم شعبے کے لیے وسائل کا قحط ہے‘ جب کہ حکومت نے اپنے اخراجات میں اضافہ کیا ہے اور شان و شوکت کی زندگی کا جیسے نشہ ہوگیا ہے۔ ترقیاتی بجٹ پر نظرثانی کرکے ۳۶ ارب تک کم کردیا گیا ہے۔ بجٹ حقیقی ترقی‘ غربت کے خاتمے‘ انسانی وسائل میں بہتری اور معاشرتی فلاح و بہبود کے حوالے سے ایک ناکام بجٹ ہے۔

۵-  پرویز مشرف اور شوکت عزیز کی پالیسیوں نے غریبوں کو غریب تر اور امیروں کو امیر تر کردیا ہے۔ گذشتہ آٹھ برسوں کے دوران یہ فاصلہ شرمناک حد تک بڑھا ہے۔ اکنامک سروے جیسی اہم سرکاری دستاویز میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اس وقت اُوپر کے ۲۰ فی صد افراد کے پاس نیچے کے ۲۰فی صد افراد کے مقابلے میں قومی وسائل کا بہائو ۴۰۰ فی صد زیادہ ہے۔ ایک اور تحقیق کے مطابق حکومتی آمدنی میں ۱۰۰ روپے اضافہ ہو تو صرف ۳ روپے نیچے کی ۱۰ فی صد آبادی تک پہنچتے ہیں اور ۳۴ روپے اُوپر کے ۱۰ فی صد تک۔ اسٹاک ایکسچینج اور جایداد (رئیل اسٹیٹ) کے کاروبار میں تیزی جس کے نتیجے میں لوگ لکھ پتی اور کروڑپتی ہوگئے ہیں‘ سٹہ بازی کا مرہونِ منت ہے۔ یہ معاشی پالیسیوں کی خوبیوں کی وجہ سے نہیں ہے۔ ملک میں بڑے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا اشرافیہ طبقہ ڈاکوؤں کے سرداربن چکے ہیں۔ ان پر کوئی ٹیکس نہیں لگتا۔ عام آدمی تمام   براہِ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے پس رہا ہے اور جو استحصال کرنے والا طبقہ ہے وہ کسی بھی قابلِ ذکر ٹیکس سے مبرا ہے۔ عدمِ مساوات میں غیرمعمولی اضافے کے باعث معاشرہ تقسیم اور پولارائزیشن کا شکار ہوچکا ہے۔ اس خوف ناک صورت حال کا بجٹ میں ذکر تک نہیں ہے۔

۶-  جہاں تک حکومت کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ ملک میں مالیاتی ڈسپلن قائم ہوگیا ہے‘ یہ محض ایک افسانہ ہے۔ بجٹ کا خسارہ ۳ کھرب سے زیادہ ہے‘ جب کہ بیرونی اور اندرونی دونوں طرح کے قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے سات برسوں میں قرضوں کا کُل حجم بڑھ کر ۱۵ کھرب روپے ہوچکا ہے‘ جب کہ قرضوں سے نمٹنے کی سرکاری حکمت عملی مکمل طور پر ناکارہ ثابت ہوئی ہے۔ حکومت کی مالیاتی ناکامی کا ایک اور منہ بولتا ثبوت تقریباً ۴۰ ارب ڈالر کا قومی مقاصد کے لیے مفید استعمال نہ کرنا ہے‘ جس میں ۲۶ ارب ڈالر وہ ہیں جو بیرون ملک پاکستانیوں نے بھیجے ہیں اور ۱۰ سے ۱۲ ارب ڈالر وہ ہیں جو بیرونی امداد کے طور پر وصول کیے گئے ہیں۔ یہ خطیر وسائل سرمایہ کاری میں نہیں گئے‘ زیادہ تر خرچ شان و شوکت کے لیے‘ جایدادوں کی خریدوفروخت میں اور اسٹاک ایکسچینج میں سٹہ بازی کی صورت میں ہوا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ملک کی حالت اس فرد کی سی ہے جو چادر سے زیادہ پائوں پھیلاتا ہے۔ اس سلسلے میں خود حکمرانوں نے بدترین مثالیں قائم کی ہیں۔ غیرپیداواری اخراجات میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ یہی حال مسلح افواج کے بجٹ کا ہے جسے ۰۸-۲۰۰۷ء کے لیے تین کھرب کردیا گیا ہے جو ۱۹۹۹ء کے مقابلے میں ڈھائی گنا زیادہ ہے۔ اس سے معیشت عدمِ توازن کا شکار ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت کو حکمت عملی کی ناکامی کے لیے یقینا جواب دہ ہونا پڑے گا۔

آخری بات یہ کہ اس سال ضلعی اور تحصیل حکومتوں کے علاوہ یونین کونسلوں کو جو بے حساب اور غیرمنطقی طور پر زیادہ رقوم فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے‘ یہ دراصل انتخابات میں استعمال کے لیے دی جانے والی سیاسی رشوت ہے۔ یہ عوام کے خون پسینے کی کمائی کا بدترین اور بددیانتی پر مبنی استعمال ہے۔ یہ رقوم صرف سرکاری پارٹی سے متعلق افراد کو دی جارہی ہیں۔

اس تبصرے کے بعد یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ بجٹ (۰۸-۲۰۰۷ء)اس قابل ہے کہ اسے پارلیمنٹیرین بالکل اُسی طرح ایوان سے باہر پھینک دیں جس طرح ۸۷-۱۹۸۰ء کے جناب یٰسین وٹو کی طرف سے پیش کیے گئے بجٹ کے ساتھ ہواتھا۔ اس سال کے بجٹ کا بھی وہی حشر ہونا چاہیے۔ کیا قومی اسمبلی اس ضمن میں اپنا قومی اور اخلاقی فریضہ ادا کرے گی یا وردی والی حکومت کے سامنے سرتسلیم خم کردے گی؟

 

عربی کا مشہور اور بڑا سچا مقولہ ہے کہ ’’عالِم کی موت پورے عالَم کی موت کے مترادف ہے‘‘۔ دنیا میں روشنی علم اور اہلِ علم و تقویٰ کے وجود سے ہے اور زندگی میں سب سے بڑا خسارہ ارباب علم و تقویٰ کی محبت سے محرومی اور ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے نتیجے میں رونما ہوتا ہے‘ اور اگر رخصت ہونے والا عالِم شخصی طور پر آپ کا استاد‘ محسن اور مربی بھی ہو تو پھر یہ نقصان اور بھی سِوا ہوجاتا ہے۔ میرے لیے ہی نہیں‘ تحریک اسلامی‘ تحریک اہلِ حدیث اور عالمِ اسلام کے ہزاروں طالبانِ علم کے لیے استاد محترم مولانا عبدالغفارحسنؒ کا ۲۲ مارچ ۲۰۰۷ء کو اس دنیاے فانی سے ابدی زندگی کی طرف کوچ ایک ایسا ہی سانحہ ہے۔ اِنَّا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔ اللہ تعالیٰ  ان کی تقریباً ایک صدی پر پھیلی ہوئی دینی‘ علمی‘ دعوتی اور تربیتی خدمات کو قبول فرمائے‘ انھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے‘ اور جنت میں ان کے درجات کو بلند فرمائے‘ اللھم اغفرلہٗٗ وارحمہٗ۔

مولانا عبدالغفار حسنؒ سے میری پہلی حقیقی ملاقات اس زمانے میں ہوئی جب وہ جماعت اسلامی کے شعبۂ تربیت کے ناظم مقرر ہوئے۔ میں اس وقت جمعیت کے ناظم اعلیٰ کی ذمہ داری   ادا کر رہا تھا۔ یہ صحیح ہے کہ ان کو دیکھنے کا اس سے پہلے بھی بارہا موقع ملا تھا لیکن وہ سرسری سلام و دعا سے زیادہ نہ تھا‘ اس لیے اس کا کوئی خاص نقش دل و دماغ پر نہیں۔ البتہ ۱۹۵۴ء سے ملاقاتوں اور استفادے کا جو سلسلہ شروع ہو وہ میری زندگی کا بڑی قیمتی سرمایہ ہے۔ فطری طور پر جس پہلی ملاقات کا میں ذکر کررہا ہوں اس کا موضوع جمعیت کی تربیت گاہوں میں مولانا عبدالغفار حسنؒ کی شرکت اور ہمارے پورے تربیتی پروگرام کو مرتب کرنے کے لیے ان کے مشورے اور ہدایات تھیں۔ مولانا کے علم اور خصوصیت سے علمِ حدیث کا رعب تو پہلے سے تھا لیکن اس ملاقات کی سب سے نمایاں یاد مولانا کی طبیعت کی سادگی‘ جس پر معصومیت کی چھاپ نمایاں تھی اور غرورعلم کی جگہ کسرنفسی اور  سب سے بڑھ کر طلبہ کے لیے شفقت اور ان کے سارے ہی مطالبات کو بے چوں و چراں تسلیم کرکے دل موہ لینے والی ادا تھی۔مجھے یاد نہیں کہ کبھی ایک بار بھی انھوں نے ہمارے کسی مطالبے کا جواب نفی میں دیا ہو۔

۱۹۵۴ء سے ۱۹۵۶ تک مجھے مولانا مرحوم سے جمعیت کے پروگراموں کے سلسلے میں بارہا ملنے‘ گھنٹوں استفادہ کرنے‘ اور پھر دو روزہ تربیت گاہ سے بڑھ کر ایک ہفتہ اور دس دس دن کی تربیت گاہوں میں ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ بالعموم وہ ہمارے ساتھ ہی قیام فرماتے۔ درسِ حدیث اور اصولِ حدیث تو ان کے خاص موضوع تھے ہی مگر درسِ قرآن اور تربیتی موضوعات پر بھی باقاعدہ تقاریر کے علاوہ انفرادی اور اجتماعی نشستوں میں ہماری رہنمائی فرماتے اور کبھی کسی سوال پر کبیدہ خاطر نہ ہوتے۔ ان کے علم کے ساتھ ان کی سیرت‘ ان کی سادگی اور ان کی شفقت کا ہم سب پر گہرا اثر تھا۔ خرم بھائی [خرم مراد] تو ان کے گرویدہ تھے ہی‘ لیکن ہم سب بھی ان کی شخصیت کے اسیر تھے۔

مولانا عبدالغفار حسنؒ کے جماعت میں آنے کے بعد بہت تھوڑا عرصہ قریبی تعلقات کی سعادت نصیب ہوئی۔ ماچھی گوٹھ میں ان سے کئی بار گفتگو ہوئی اور معاملات کا حل نکالنے کے لیے ملاقاتیں ہوئیں۔ پھر کوٹ شیرسنگھ کی طویل شوریٰ کے دوران جس میں نئے دستور کی تدوین ہوئی برابر ملاقاتیں رہیں۔ بدقسمتی سے اس کے بعد مولانا عبدالغفار حسنؒ جماعت سے مستعفی ہوکر مولانا عبدالرحیم اشرف کے ساتھ فیصل آباد چلے گئے لیکن الحمدللہ اس کے بعد بھی وقتاً فوقتاً ان سے ملنے اور استفادے کا موقع ملتا رہا۔ جب وہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں استاذ حدیث تھے‘ اس زمانے میں مجھے پروفیسر عبدالغفور اور جناب صادق حسین کے ساتھ مسجدنبویؐ میں اعتکاف کی سعادت حاصل ہوئی۔ ہر روز ہی مولانا سے ملاقات ہوتی اور ہم ان سے استفادہ کرتے۔ کئی بار انھوں نے     درسِ قرآن دیا اور ہمارے بہت سے سوالات کا جواب دیا اور اشکال کی گرہ کشائی فرمائی۔

جمعیت کے زمانے میں مولانا سے حدیث کا سبقاً سبقاً درس لینے کا موقع بھی ملا۔ تقریباً ۸۰احادیث ہم نے ان سے پڑھیں اور کمالِ شفقت سے ایک بار تربیت گاہ کے آخری پروگرام میں فرمایا کہ حدیث کی روایت کے سلسلے کی آخری کڑی وہ خود ہیں۔یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے نسلاً بعد نسل ۲۴ سلسلوں سے‘ وہ چند احادیث جن کا انھوں نے ہمیں درس دیا ہے‘ بلافصل ہم تک بھی پہنچ گئی ہیں اور اس طرح مولانا عبدالغفار حسن کے توسط سے ہم بھی وہ خوش نصیب ہیں جو اپنی ساری کمزوریوں اور محرومیوں کے باوجود اس ذہبی سلسلہ سے مربوط ہوگئے ہیں۔ اس وقت مولانا کے اس فیض خاص پر ہم سب پھولے نہیں سمائے۔ بعد میں ان کی کتاب عظمتِ حدیث میں روایت کے اس پورے سلسلے کو دیکھا تو اور بھی خوشی ہوئی کہ اس طرح ہم کو بھی مولانا کے توسط اور ان کی شاگردی کی نسبت سے اس سلسلے کا دامن تھامنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

مولانا عبدالغفار حسنؒ کی پیدایش ۲۰جولائی ۱۹۱۳ء کو ضلع رہتک (مشرقی پنجاب) میں ہوئی۔ انھوں نے دارالحدیث رحمانیہ دہلی سے درس نظامی کی تکمیل اور دورہ حدیث کیا۔ پھر لکھنؤ یونی ورسٹی سے ۱۹۳۵ء میں فاضل ادب عربی اور ۱۹۴۰ء میں پنجاب یونی ورسٹی سے مولوی فاضل کی سندات حاصل کیں۔ دارالحدیث رحمانیہ دہلی‘ مدرسہ رحمانیہ بنارس اور مدرسہ کوثرالعلم مالیرکوٹلہ میں  درس وتدریس کی خدمات انجام دیں۔

ترجمان القرآن کے ذریعے مولانا مودودیؒ سے تعلق قائم ہوا اور ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی قائم ہوئی تو گو تاسیسی اجلاس میں شریک نہ ہوسکے مگر خط کے ذریعے تاسیسی ارکان میں شامل ہوئے۔ ۱۹۴۸ء میں پاکستان ہجرت کی۔ کچھ عرصہ راولپنڈی میں جماعت کی تربیت گاہ میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ مولانا مودودیؒ کی پہلی گرفتاری کے موقع پر ایک ماہ کے لیے قائم مقام امیرجماعت کی ذمہ داری ادا کی۔ اس کے بعد بھی دو بار قائم مقام امیرجماعت کی حیثیت سے تحریک کی خدمت اور قیادت کی۔ ۱۹۴۳ء سے مرکزی شوریٰ کے رکن رہے اور ۱۹۵۷ء تک جماعت سے وابستہ رہے۔ طریق کار کے بارے میں کچھ اختلاف اور انتخابی سیاست سے اصولی بے زاری کے سبب جماعت سے الگ ہوئے لیکن جماعت کے مقصد‘ یعنی اقامتِ دین کے باب میں کبھی کسی تحفظ کا اظہار نہیں کیا۔ جماعت کے اور خصوصیت سے مولانا مودودیؒ کے علمی کام کے ہمیشہ معترف رہے اور کلمۂ خیر کہتے رہے۔ یہ بھی ایک اہم حقیقت ہے جماعت جمعیت کے بعد بھی وہ اپنے انداز میں اسی مقصد کی خدمت میں آخری وقت تک مصروف رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے اپنے لیے درس و تدریس کا راستہ اختیار کیا۔ فیصل آباد میں جامعہ تعلیمات اسلامیہ اور مدینہ یونی ورسٹی میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں نوسال رہنمائی کے فرائض انجام دیے۔ تحریک ختم نبوت کے دوران ۱۱ ماہ سنت یوسفی ادا کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی اور جیل میں بھی درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ کا اس طرح اہتمام کیا کہ جیل مدرسہ میں تبدیل ہوگیا۔

مولانا عبدالغفار حسنؒ کی زندگی بڑی سادہ اور پاک صاف تھی۔ وہ سلف کا نمونہ تھے اور انھیں دیکھ کر اور ان سے گفتگو کرکے ایمان میں اضافہ ہوتا تھا۔ ان کی حکمت بھری مگر بڑی آسان‘ ہلکی پھلکی اور دل نشین باتیں دل پر نقش ہوجاتی تھیں۔ توازن اور میانہ روی مولانا کی زندگی کا شعار تھی۔ کتاب ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ دنیا سے ان کو بس اتنی دل چسپی تھی جتنی روح اور بدن کے رشتے کو باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ دنیا کو خدا کے دین کے مطابق بدلنے کے لیے جس جدوجہد اور کوشش کی ضرورت ہے‘ وہ ان کی زندگی کا مشن تھا۔ میرا پہلا اور اصل رشتہ تو ان سے شاگردی اور تحریکی رفاقت کا تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے میرے مقدر میں یہ خوشی بھی لکھی ہوئی تھی کہ ان کے پوتے ڈاکٹر اسامہ حسن کا عقد میری بیٹی سلمیٰ سے ہوا اور اس طرح ہمارے خاندانوں میں بھی ارتباط کی ایک اور خوش گوار صورت پیدا ہوگئی۔

یہ مولانا عبدالغفار حسنؒ کی خوش نصیبی ہے کہ ان کے خاندان میں کم از کم پانچ پشتوں تک علم کی شمع بلافصل روشن رہی ہے۔ ان کے دادا مولانا عبدالجبار عمرپوری بڑے جیدعالمِ دین اور استادعصر تھے۔ ان کے والد مولانا حافظ عبدالستار عمرپوری کم عمری کے باوجود علمی دنیا میں نام پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ مولانا عبدالغفار حسنؒ خود اپنے عصر کے اہلِ علم و تقویٰ میں اُونچا مقام رکھتے ہیں اور ان کے صاحبزادے خصوصیت سے ڈاکٹر صہیب حسن‘ ڈاکٹر سہیل حسن اپنے اپنے میدان میں علم کی شمعیں روشن کیے ہوئے ہیں۔ ان کا پوتا ڈاکٹراسامہ حسن انگلستان کی ایک     یونی ورسٹی میں انفارمیشن ٹکنالوجی کا استاد ہے۔ وہ بھی‘ الحمدللہ علم دین کے حصول اور دعوت و تبلیغ کے میدان میں سرگرم ہے۔ یہ اللہ کا بڑا فضل اور انعام ہے جس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے‘ذٰلک فضل اللّٰہ یؤتی من یشاء۔

 

حسن البنا شہید سے میرے تعلق کی بنیاد بڑی منفرد ہے۔وہ اسلامی تاریخ کی ان چند مرکزی شخصیات میں سے ہیں جن سے ملاقات نہ کرنے کی حسرت ہمیشہ رہے گی۔ مجھے اپنے بچپن میں مولانا ابولکلام آزاد،مولانا حسرت موہانی، مولانا شوکت علی اورعلامہ محمد اسد کو دیکھنے کا     موقع ملا۔مگر مولانا محمد علی جوہر اورعلامہ محمد اقبال دوایسی شخصیات ہیں جن کو نہ دیکھنے کا قلق رہاہے۔ اس تسلسل میں جس تیسری شخصیت کو دیکھنے کی تمنا، خواہش اور شوق رہا،وہ حسن البنا شہید تھے۔

حسن البنا کی شخصیت میں ایک غیر معمولی سحرانگیزی (charisma)  اور دل کش جاذبیت کا امتزاج نظر آتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حسن البنا کے قالب میں ایک ایسی بے چین روح ہے، جو اپنے رب کی خوش نودی حاصل کرنے، اس کی مرضی و ہدایت کی روشنی میں دنیا کو بدل ڈالنے اور اسے مالک و خالق کی اطاعت میں لانے کے لیے ہر آن سرگرداں اورمضطرب ہے۔ یہ کیفیت ان کے بچپن سے لے کر جوانی اور پھر شہادت کے لمحات تک موجزن نظر آتی ہے۔ مجھے بے شمار مفکرین کو پڑھنے، استفادہ کرنے،اوربہت سے اہلِ دل سے ملنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی ہے۔ لیکن جو کرشماتی کیفیت حسن البنا شہید کی زندگی،ان کے روزوشب اور ان کے مکالمات ومعاملات میں نظر آتی ہے،اوروہ بھی نہایت فراوانی کے ساتھ، وہ کہیں اور نہیں ملتی۔ اسی لیے مجھے ایسی دل آویز شخصیت کونہ مل سکنے پر احساس تاسف ہمیشہ رہے گا۔

اخوان کے تیسرے مرشد عام جناب عمر تلمسانی مرحوم سے لے کر موجودہ مرشد عام محمدمہدی عاکف تک سبھی سے مجھے ملنے کا شرف حاصل ہے۔ کچھ سے تو خاصی قربت بھی رہی ہے، جیسے جناب استاد مصطفی مشہوراور جناب مامون الہضیبی۔مامون الہضیبی کے والد حسن الہضیبی جو حسن البنا مرحوم کے بعد دو سرے مرشد عام تھے ، ان سے ملاقات تو نہیں ہوئی،البتہ خط و کتابت کی سعادت حاصل ضرور ہوئی۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے دور میںانھوں نے اپنی تحریروں سے بھی نوازا۔ان مواقع کے باوجود حسن البنا جیسے عبقری قائدسے ملنے کے شوق اور نہ مل سکنے کی حسرت اپنی جگہ موجودہے۔انسان کسی عظیم شخصیت سے ملاقات میں کچھ حاصل کرتاہے یا کچھ حاصل نہیں کرپاتا،یہ دوسری بات ہے، لیکن ایسے پاک طینت اشخاص اور اہل اللہ کو دیکھنا اور ان کی مجالس میں بیٹھنا بھی روحانی تعلیم و تربیت کے زمرے میں آتا ہے۔ اس اعتراف حقیقت کے ساتھ ساتھ  ایک اور اعتراف بھی شاید بے محل نہ ہو۔ مجھ جیسے عقلیت زدہ انسان پر بھی یہ کیفیت باربار گزری ہے کہ حسن البنا شہید کو اپنے قریب پایا ہے۔ ان سے صحبت اور بالمشافہہ استفادے کے باب میں محرومی کے باوجود ان سے ایک ایسی نسبت زندگی بھر محسوس کی ہے جسے روحانی ملاقات کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ ایک روحانی تجربہ ہے یا محض اپنی خواہشات کی تسکین کہ بارہا زندگی میں ان سے قربت اور ان کے حلقۂ مریداں میں شرکت کی لذت محسوس ہوئی ہے۔ یہ اللہ کا فضل اور ان کی طلسماتی شخصیت کا کرشمہ ہے۔

  •  پھلا تعارف:حسن البنا شہید کی داستانِ حیات، مقصدِ زندگی اور دعوتی و تحریکی خدمات کے بارے میں ہماری معلومات کا ذریعہ برادرم سعید رمضان مرحوم ہیں۔ سعید رمضان، حسن البنا شہید کے نہایت قریب اور معتمدعلیہ تھے۔ حسن البنا، رسالہ الشہاب نکالتے تھے، جس کی ادارت میں سعیدرمضان کا اہم کردار تھا۔ وہ نہایت ذہین، صاحب علم اوردعوت کو سمجھنے والی بھرپور شخصیت کے مالک تھے۔ مجھے ،خرم بھائی [خرم مراد] اور راجا بھائی [ظفراسحاق انصاری] کو ان سے ملنے اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا شب و روز موقع ملا۔ اس طرح ہم بڑے خوش نصیب تھے کہ ہمیں ان کے بہت ہی قریبی ساتھی اور نوجوان شاگرد کے ذریعے، جو بعد میں ان کے داماد بنے،حسن البنا کی شخصیت اوران کی فکر، اخوان کی دعوت، اخوان کے نظام تربیت اور اجتماعی جدوجہد کے اسلوب سے واقفیت ہوئی۔ اسی طرح امام حسن البنا کے بیٹے سیف الاسلام اور نواسے ڈاکٹر طارق رمضان بن سعید رمضان سے بھی ہمیں ان کے حالات جاننے کا موقع ملا۔

سعید رمضان دسمبر ۱۹۴۸ء میں پاکستان آئے اور پھر فروری ۱۹۴۹ء میں امام حسن البنا کی شہادت کے بعد کچھ عرصہ کے لیے یہیں مقیم ہوئے۔ ۱۹۵۰ء میں وہ عرب دنیا میں پاکستان کو متعارف کروانے کے لیے گئے اور پھر ۱۹۵۱ء کی مؤتمر عالم اسلامی کی دوسری کانفرنس میں شریک ہوئے، اور اس کے معتمدعام دوم منتخب ہوئے۔ کانفرنس میںسعید رمضان کی تقریر مسحور کن تھی۔   اﷲ تعالیٰ نے انھیں تقریر کا غیر معمولی ملکہ عطاکیاتھا۔ عربی میں تو وہ قادر الکلام تھے ہی ،لیکن انگریزی پر مکمل دسترس نہ رکھنے کے باوجود، ان کے اظہار بیان میں تاثیر کچھ کم نہ تھی۔فکر و جذبات کا جو مؤثر اظہار ان کی خطابت میں تھا، وہ قابل رشک تھا۔ خاص طور پر نوجوانوں کو وہ مسحور کرنے اور عمل پر اُبھارنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔

پاکستان میں ان کے قیام کے دوران میں ہی چونکہ اخوان المسلمون پر پابندی لگا دی گئی تھی اور امام حسن البنا شہید کر دیے گئے تھے،اس لیے وہ یہیں ٹھیرگئے۔ آرام باغ،کراچی میں ایک فلیٹ انھوں نے کرایے پر لے لیا تھا۔یہ فلیٹ ہماری ملاقاتوں کا مرکز بن گیا تھا۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہوگا کہ ہم ان سے نہ ملتے ہوں۔ مولانا ظفر احمد انصاری مرحوم و مغفور سے جو راجا بھائی کے والد محترم اور تحریک پاکستان کے اہم قائد تھے، ان سے سعید رمضان کا غیرمعمولی تعلق خاطر تھا۔ وہ مولانا انصاری صاحب سے باپ کی طرح محبت کرتے تھے اور انصاری صاحب، سعید رمضان سے اپنے بیٹوں کی طرح محبت کرتے تھے۔ پاکستان میں قیام کے زمانے میں انھوں نے خود کو مختلف مفید کاموں میں مشغول رکھا‘ اور خاص طور پرکراچی کے نوجوانوں کو اسلامی مقاصد کے لیے سرگرم عمل کرنے میں کوشاں رہے۔ انھوں نے ان کی اچھی خاصی تعداد میں ایک نئی روح پھونک دی۔ ریڈیو پاکستان سے اسلام اور قرآن پر عربی تقاریر کا سلسلہ شروع کیا جو عرب دنیا میں بہت مقبول ہوا۔

  •  فکر اور قلب کا راستہ: اخوان اور حسن البنا شہید سے ہم جس راستے سے روشناس ہوئے وہ کتابی راستہ نہیں تھا۔ مولانا مودودی، میرے والدگرامی نذیر احمد قریشی مرحوم کے گہرے دوست تھے۔اس مناسبت سے مجھے مولانامودودی کو دیکھنے کی سعادت تو ۱۹۳۸ء میں حاصل ہو گئی تھی، البتہ مولانامودودی تک رسائی ان کی کتابوں ہی کے ذریعے ممکن ہوسکی۔ اس کے برعکس حسن البنا اور اخوان تک رسائی ان افراد کے ذریعے ہوئی، جنھیں حسن البنا شہیدنے تیار کیاتھا۔ دونوں کے درمیان یہ ایک بڑی وجۂ امتیاز ہے کہ مولانا مودودی فکر اور دماغ کے راستے، اور حسن البنا قلب اور روح کے راستے انسانوں کی زندگیوں میں داخل اور ان کی قلب ماہیت کرنے کا کارنامہ انجام دیتے ہیں۔ خود میری زندگی میں بھی یہ دونوں انھی راستوں سے داخل ہوئے،اور آج تک فکراور قلب میں سمائے ہوئے ہیں۔

مولانا مودودی تحریر و تقریر میں ممتاز، اعلیٰ درجے کے منتظم ، بلندپایہ مدبراور تحریک کے قائد تھے۔ اس طرح تحریک میںہر حیثیت سے ان کا کردار بڑا نمایا ں رہا ہے۔یہ اوصاف اپنی جگہ بڑی مرکزیت رکھتے ہیں، تاہم مولانا محترم کی شخصیت کا سب سے زیادہ غالب پہلو، ان کی فکر، ان کی تحریر اور وہ عظیم الشان لٹریچر ہے، جس نے افراد کے دل و دماغ میں طوفان بپا کیا اور ایک پوری نسل کی زندگی کا رخ بدل کر رکھ دیا۔ اسی طرح اگرچہ حسن البنا شہید کی تقاریراور کتابیں بھی ہیں اور  علمی اور عملی ہردو اعتبار سے ان کا بڑا بلند مقام بھی ہے، لیکن ان سب اوصاف کے ساتھ حسن البنا کا نمایاں ترین وصف انسان سازی ہے۔ ان کا بلند ترین کارنامہ روح سے روح کا اتصال ہے۔بلاشبہہ اس میں دلیل کی قوت کے ساتھ عقل کو اپیل بھی شامل ہے، لیکن ان کی شخصیت، ان کی دعوت اور ان کی تحریک کا اصل ہدف انسان کا قلب ہے۔ ان کی تقریروں کو پڑھتے وقت احساس ہوتا ہے کہ :ان کی زبان کے ساتھ ان کی روح بھی بولتی تھی۔ ان کے اس خاص اسلوب اور  اثر انگیزی کو روحانی ٹیلی پیتھی (spiritual telepathy)یا خیال رسائی کہا جاسکتا ہے۔

 اخوان المسلمون پر لکھا وسیع لٹریچر مجھے پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ اخوان سے وابستہ اہل قلم نے بڑی مفیدذاتی یادداشتیں تحریر کی ہیں۔ یہ یادداشتیں نہ صرف تاریخی اعتبار سے، بلکہ فکری موضوعات کے لحاظ سے بھی معاصر اسلامی ادب کانہایت قیمتی سرمایہ ہیں ۔ اس تحریری لوازمے سے استفادے کے باوجود حسن البنا اور اخوان کو سمجھنے کے لیے جو چیزسب سے زیادہ پُرکشش ذریعہ رہی، وہ اخوان کے قائدین کی گفتگوئیں اور ان کے ساتھ زندگی گزارنے کے وہ مواقع ہیں جو مجھے حاصل ہوئے۔ اس طرح ان سے کتابی سے زیادہ قلبی رشتہ قائم ہوا۔

  •  ایک سحرانگیز شخصیت: اس تناظر میں میرے دل و دماغ پرحسن البنا شہید کی جس چیز کا سب سے زیادہ اثر ہے، وہ ان کی مسحورکن شخصیت ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ   ایک ایسی پاک روح ہے جسے دیکھ کر اﷲ کی یاد انسان کے دل میں اُترجائے اور ایمان میں   حرارت و حلاوت محسوس ہو۔ امام حسن البناکی آپ بیتی یا دعوتی سفر کی یادداشتوں (مُذَکّرات)کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیسی شخصیت کے حامل انسان تھے۔ انھیں پڑھتے ہوئے یہ منظر سامنے آتا ہے کہ چھے سات سال کی عمر کے بچے کا دل دینی جذبات کا اُمنڈتا ہوا سرچشمہ ہے۔  پھر یہی بچہ ۱۷‘۱۸ سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے قاہرہ اور اسکندریہ کے ریستورانوں، قہوہ خانوں اور  سماجی محفلوں میں، تفریحی مقامات اور مختلف لوگوں سے مذاکرات تک میں، ہر جگہ ایک ایسی بے چین روح اور محبوب شخصیت کی صورت میں نظر آتا ہے، جو اپنے مالک سے محبت اور تعلق خاطر کی لذت سے سرشار ہے۔مگر اس شخصیت کا اس سے بھی زیادہ خوب صورت پہلویہ ہے کہ وہ نیکی اور پاکیزگی، کامیابی اور ابدی کامرانی کی اس لذت کو اپنی ذات تک محدود کرنے کے روایتی تصور کو نہیں اپناتی،بلکہ یہ مضطرب روح، اﷲ کے بندوں کو، اللہ کے غضب سے بچانے اور رب کی بندگی میں لانے کے لیے سرگرم و کوشاں ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس نے ۲۱ سال کے اندر مصر کا ہی نہیں،بلکہ عالم عرب کا پورا فکری نقشہ بدل دیا اور دنیا میں ایک تہلکہ سامچادیا۔

۱۹۲۸ء میں، اسماعیلیہ کے مقام پر منظم انداز سے دعوت کا آغاز کرنے والے حسن البنا نے  ۱۹۴۹ء میں جام شہادت نوش کیا۔ ان کی شہادت کے وقت پورے مصر میں اخوان کے لاکھوں وابستگان تھے اور ۲ہزارسے زیادہ شاخیں تھیں،جب کہ صرف قاہرہ میں ۲۰۰ تنظیمی حلقے تھے۔ امام البنامہینے میں ۲۰‘۲۲دن سفرپر رہتے تھے۔ شہر شہر، قریہ قریہ لوگوں سے ملتے اور ان سے مخاطب ہوتے تھے۔کنواںخود پیاسوں کے پاس پہنچتا،رات دن کی پروا کیے بغیر،نیند اورتھکن کو خاطرمیں لائے بغیر،قلب وروح کے دروازوںپر دستک دینے والے اس محسن کا نام حسن البنا تھا۔ جن دنوں وہ سفر میں نہیں ہوتے تھے، ان دنوں جہاں کہیں بھی ان کا مستقرہوتا،وہ وہیں پر دعوتی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے۔ کوئی مسجد،محلہ حتیٰ کہ وہ جگہیں بھی جنھیں لوگ بالعموم اہل تقویٰ کے لیے کوئی بہت اچھی جگہ نہیں سمجھتے،مثلاکلب،عام ریستوران، اور ایسے ریستوران بھی جہاں نغمہ وسرود کی محفلیں برپا ہوتیں،وہ وہاں جاپہنچتے۔ ان جگہوں پر بھی بلامبالغہ ان کو بڑی عزت سے دیکھا جاتا تھا۔حسن البنا نے کوئی جگہ نہیں چھوڑی جہاں انھوں نے مقدور بھر شہادت حق کا فریضہ ادا نہ کیا ہو۔ وہ لوگ جو ان سے اختلاف کرتے تھے، وہ بھی ان کی روحانیت، ان کی ربانیت، ان کے اخلاص اور مقصد سے ان کی والہانہ وابستگی کی مٹھاس کومحسوس کرتے تھے اوربے اختیار احترام کرتے تھے۔   یہ کیفیت آج تک موجود ہے۔ان کی شخصیت کایہی وہ طلسماتی پہلو ہے،جس سے ارباب اقتداراور عالمی سامراج خوف زدہ تھے،اور ان کو اپنے عزائم کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔

سعید رمضان مرحوم نے اپنی اہلیہ جو امام شہید کی صاحبزادی ہیں، کی تربیت کے حوالے سے مجھے بتایا کہ اس گھرانے پر اللہ تعالیٰ کی کتنی رحمت ہے۔یہ خاتون عبادت ،سخاوت اوروفاشعاری کا بہترین نمونہ ہیں۔سعید رمضان پر آزمایش اور بیماری کے بڑے سخت دور گزرے ہیں۔ مگر اللہ کی اس بندی نے اولاد کی بہترین تربیت کی اور شوہر کو بھی سہارا دیا۔ اس حسن تربیت کی ایک مثال ان کے صاحبزادے طارق رمضان کا اپنے والد کے قریبی دوستوں سے احترام کا رویہ ہے۔ وہ مجھ سے ہمیشہ اس احترام سے پیش آئے،جو ایک اچھے مسلم معاشرے میں باپ کے ایک قریبی ساتھی کا حق سمجھاجاتا ہے ۔ضمناً عرض ہے کہ طارق رمضان کا پی ایچ ڈی کامقالہ حسن البنا، یعنی اپنے نانا پر ہے،جوفرانسیسی زبان میں ہے ۔افسوس ہے کہ ابھی تک اس کا ترجمہ شائع نہیں ہوا۔

  •  اصل کارنامہ :۲۰ویں صدی کے آغاز میں اُمت مسلمہ زبوں حالی اور غلامی کے جس مقام پر پہنچ چکی تھی، اس میں امت مسلمہ خاص طور پر عرب دنیا کو دوبارہ حقیقی وژن دینا حسن البنا شہید اور اخوان کا بڑا کارنامہ ہے۔ اس کو اپنا حقیقی مشن یاد دلانا،امت میں خود اعتمادی کی کمی کا جو بحران پیدا ہوگیا تھا، اس بحران سے نکالنا۔ پھراس مشن کو حاصل کرنے کے لیے امنگ، پروگرام، تنظیم اور تحریک فراہم کرنا، یہ عظیم کارنامہ ہے،جس میں حسن البنا شہید کا کردار کلیدی اور فیصلہ کن ہے۔ مولانا مودودی نے جو کام برعظیم پاک و ہند میں کیا، وہی کام ایک مؤثر انداز میں حسن البنا شہید اور ان کے ساتھیوں نے عرب دنیا میں انجام دیا ۔ آج عالمی اسلامی احیاکی لہرکو اس مقام تک پہنچانے کا سہرا اﷲ کی توفیق اور فضل سے بنیادی طور پر انھی دو شخصیات کے سر ہے۔ بلاشبہہ اس میں علامہ محمداقبال کا بھی ایک اہم کردار ہے ،لیکن اس کا دائرہ فکری ہے،جب کہ دعوت،تنظیم،تربیت اور لائحہ عمل   انھی دو شخصیات سے منسوب ہے۔

للہیت اور درویشی حسن البنا شہید کی شخصیت کے غالب ترین پہلو ہیں۔ دعوت کی تڑپ اور وہ لگن کہ جس کا اظہار انھوں نے بچپن سے لے کر شہادت تک کیا، زندگی کا حصہ بننا ہے۔ اسی طرح ان کے ہاں اسلام کا تصور بہت صاف اور ہمہ گیر ہے۔ان کے نزدیک فرد، معاشرے، ریاست اور تاریخ کے لیے اسلام ہی ایک دعوت انقلاب ہے۔ گویا کہ اﷲ کی بندگی کی بنیاد پر زندگی کے پورے نظام کی تعمیر اور انسان کو خلافت کا جو منصب دیا گیا ہے، اس کے تقاضوں کو ہر سطح پر، انفرادی اور اجتماعی طور پر پورا کرنا زندگی کا لائحہ عمل ہے۔

اس وژن اور تصور میں مجھے ان کے ہاں تین اور خوبیاں نمایاں نظر آتی ہیں، اوّل:  بندے کا رب سے مضبوط تعلق، پھر بندوں کا بندوں سے ہمدردی ،وقار،اوربے لوثی پر مبنی تعلق۔ انھوں نے اس پہلو کو بہت مرکزی حیثیت و اہمیت دی۔ دوم: اجتماعیت ہے۔اس کے لیے انھوں نے چار اصطلاحیں استعمال کی ہیں: پہلی: مسلمان خاندان(اسرہ)، دوسری مسلمان معاشرہ (مجتمع یا سول سوسائٹی)،تیسری: مسلمان مملکت( دولۃ یااسٹیٹ)، اور چوتھی: عالمگیر اسلامی امہ،اور اس میں انھوں نے عرب قومیت اور اسلامی قومیت کو گڈ مڈ کرنے کی ٹھوکر نہیں کھائی۔ انھوں نے جہاں عربیت اور عربی قومیت کو اسلامی قومیت کا حصہ اور اسے قوس قزح کے رنگوں میں سے ایک رنگ قرار دیا ہے، وہیں انھوں نے عربی قومیت کوطاغوت نہیں بننے دیا،بلکہ اسے اسلامی معاشرے کا نمایاںاور روشن حصہ بنایا ہے۔ تیسرا یہ ہے کہ انھوں نے انفرادی انقلاب کو جو فرد کے اندر پیدا ہو تا ہے،اور اجتماعی انقلاب جو فرد کے ذریعے سوسائٹی میں رُو پذیر ہوتا ہے، ان کا آپس میں مضبوط بندھن قائم کیاہے،اور اس چیز کو اداراتی سطح پر منظم کیا ہے۔

سعید رمضان نے ہمیں ایک واقعہ یہ سنایا تھا،کہ اخوان کے کسی ساتھی سے کوئی غلط کام ہوگیا،جس پر معذرت کی غرض سے وہ امام حسن البنا کے پاس ایک سوا گھنٹہ رہا، لیکن انھوں نے اس ساتھی کو یہ موقع ہی نہیں دیا کہ وہ معذرت کر سکے۔ وہ پیاراور محبت سے ساتھی کی دل جوئی کرتے رہے کہ اس کو یہ ہمت نہیں ہوسکی کہ وہ معذرت کے الفاظ زبان پر لاسکے،حالانکہ امام شہید کو      یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ ساتھی معذرت کرنے کے لیے ہی آیا ہے۔اسی طرح بعض نوجوان ان کے پاس آتے اور خلافِ شرع چیزیں، مثلاً سونے کی انگوٹھی وغیرہ پہنے ہوتے، توحسن البنا ان کو      نہ ٹوکتے۔ لیکن تھوڑے ہی دن کی صحبت کے نتیجے میں ان کی انگوٹھی بغیر کچھ کہے اُتر جاتی تھی۔

ہمارے اخوان سے تعلق کا ایک اہم حوالہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے صرف جماعت اسلامی کو ہی نہیں، بلکہ پاکستان کو اور پاکستان کے تصور کو بھی عالم عرب میں پورے شعور کے ساتھ سمجھا اور پوری دل جمعی سے سمجھایا ۔ یہ سلسلہ ۱۹۴۶ء سے شروع ہو جاتا ہے ،جب قائداعظم [۱۸۷۶ء-۱۹۴۸ء] اور حسن البنا شہید کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس طرح عالم عربی میں اخوان، پاکستان کے سب سے بڑے ہم نوا تھے۔ پاکستان بننے پر انھوںنے مصر بھرمیں پاکستان کا جشن استقلال منایا۔سعید رمضان نے تو قیام پاکستان کے بعد ۱۹۵۰ء میں بہت سے مسلم ممالک خاص طور پر عرب ممالک کے طول وعرض کا دورہ کرکے پاکستان کے تصور کی وضاحت کی تھی۔

  •  اخوان کے گھرے اثرات: مجھے کئی بار مصر جانے کا موقع ملا ہے۔ اس میں وہ زمانہ بھی شامل ہے کہ جب شدید گھٹن اورسخت آمرانہ گرفت کا دور دورہ تھا اور کسی کے لیے اف تک کرنے کی گنجایش نہیں تھی ۔ان دنوں میں بھی مجھے ہوٹلوںکے خدمت گار ملازمین (ویٹرز) تک نے اخوان اور حسن البنا کے بارے میںاپنے والہانہ جذبات سے آگاہ کیا۔

۱۹۵۴ء میں، مصر کے فوجی آمر مطلق ناصر کا دورِ عروج تھا اور ناصر کی مطلق العنانی جنون کی حدوں کو چھو رہی تھی۔ کوئی فرد اس کے خلاف دبی زبان میں بھی بات نہیں کرسکتا تھا۔ اخوان پر پابندی تھی، اس کے ہزاروںکارکنان گرفتار تھے۔ دسمبر ۱۹۵۴ء میں جب میں جمعیت میں تھا،   ایک روز خبریں سنتے ہوئے معلوم ہواکہ مجاہد کبیر شیخ محمد فرغلی سمیت اخوان کے چھے رہنماؤں[عبد القادر عودہ ،یوسف طلعت،ابراہیم طیب،محمود عبداللطیف،ہنداوی دویر] کو پھانسی دے دی گئی ہے ۔  یہ خبر ہمارے لیے گہرے صدمے کا باعث بنی ۔اس موقع پر ہم نے کراچی میں بھرپور احتجاج کیا ۔

اسی زمانے میںانٹرنیشنل اسمبلی آف مسلم یوتھ (IAMY) کی ایک کانفرنس کراچی میں منعقد ہوئی تھی،جس میں مصرکا سرکاری وفد شرکت کے لیے آیاتھا۔اس وفدکے سربراہ مصری فوج کے ایک کرنل تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف سے ہم نے اس کانفرنس میں، اس ظلم وزیادتی کے خلاف بھرپوراحتجاج کیا۔ اسی مناسبت سے ایک بڑا مؤثر دو ورقہ (پمفلٹ )راجا بھائی اورمیں نے انگریزی میں تیار کیا تھا: WHY OPPRESSION ON MUSLIM BROTHERHOOD? [اخوان المسلمون پر ظلم کیوں؟]__ جسے ہم چھپوا کر اور چھپا کر کانفرنس ہال میںلے جانے میں کامیاب ہوگئے۔ جوں ہی پاکستان کے وزیراعظم محمد علی بوگرا کانفرنس کا افتتاح کرنے کے لیے ہوٹل میٹروپول کے پنڈال میں داخل ہوئے، اس دو ورقے کی ایک کاپی انھیں دی گئی۔ اسی لمحے مختلف جگہوںپر کھڑے جمعیت کے ساتھیوں نے بڑے منظم انداز سے تمام قطاروں میں ہر شخص تک یہ پمفلٹ پہنچا دیا۔ اس واقعے سے پوری کانفرنس میں تہلکہ سا مچ گیا۔مصرکے سرکاری وفد کوتوگویاآگ لگ گئی،اور ادھرہماری حکومت حرکت میں آگئی۔میں جمعیت کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے اس کانفرنس میں شریک تھا۔ خرم بھائی نے مصری وفد کے سربراہ کی تقریر کے دوران ہال میں کھڑے ہوکر ،اسے مخاطب کرکے کہا: تمھارے ہاتھ اخوان المسلمون کے راہ نماؤں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، تم قاتلوں کے ساتھی ہو۔

اس کشیدہ صورت حال کے باوجود، مصرکے سرکاری وفد میںشامل ایک نوجوان طالب علم بڑی خاموشی سے آکر ہمیں ملا اور اس نے کہا کہ:’’میں دل و جان سے اخوان کا ہمدرد ہوں۔ آپ لوگوں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر جو اقدام کیا ہے، وہ حق پر مبنی ہے۔میںاپنے ہزاروں مظلوم ساتھیوں کی طرف سے آپ کا شکریہ اداکرتا ہوں‘‘۔

دراصل عوامی سطح پر جولوگ اخوان کے گرویدہ ہیں، وہ تو گرویدہ ہیں ہی،مگر جو اس تحریک سے باہر ہیں، میںنے ان پربھی اخوان کابے پناہ فکری و اخلاقی اثر دیکھا ہے۔اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں، پارلیمنٹ کے اندر ،وزرا اور عرب لیگ کے افسروں سے مجھے بات کرنے کے بہت سے مواقع ملے ہیں، اور جب بھی کھلے دل کے ساتھ انھوں نے آف دی ریکارڈ بات کی تو میں نے انھیں یہ کہنے پر مجبور پایا کہ:’’ اخلاقی اور نظریاتی اعتبار سے اگر کوئی قابل لحاظ قوت ایسی ہے جو مصر کو بچاسکتی ہے تو وہ صرف اخوان المسلمون ہے‘‘۔

  •  باطل کے مذموم عزائم: حسن البنا نے ایسے نامساعد حالات میں کام کیا، جب کہ: ایک طرف سامراجی طاغوت اوردوسری طرف مقامی اشرافیہ تھی (یہ مقامی اشرافیہ ہی غالب تعداد میں،سامراجی قوتوں کی آلۂ کار رہی ہے)۔ تیسری جانب وہ مہم جو.ُ فوجی افسران تھے جنھوں نے اقتدار کا مزا چکھ لیا تھا۔یہ مقتدر فوجی طبقہ ایک وسیع عالمی منظر نامے میں مغربی یا کمیونسٹ روسی سامراج کا آلۂ کار بنا۔ فوجی انقلابات کا یہ سلسلہ شرق اوسط سے شروع ہوا اور ۱۹۵۸ء میں پاکستان تک آپہنچا۔ اپنی ہی قوم کو فتح کرنے کی اس فوجی لہر نے افریقہ کے نو آزاد ممالک کی بڑی تعداد کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا۔ دراصل یہ حکمت عملی مغرب کے پیش نظر تھی،کہ جو ممالک آزاد ہو رہے ہیں وہ آزاد ہو کر بھی سامراجی قوتوں کے لیے چیلنج نہ بننے پائیں، اور کسی مثبت بنیاد کے بل بوتے پر نظریاتی یا معاشی و سیاسی قوت کا نیا مرکز نہ بن سکیں، اور اپنی معاشی، تجارتی، تہذیبی اور سیاسی پالیسیوں میں تابع مہمل بن کر رہیں۔

ان مقاصد کے حصول کے لیے اشتراکی عناصر نے اور امریکا اور اس کے حواریوں نے یہ کوشش کی کہ لوگوں کو خریدیں، معاشی مفادات کے جال میں پھنسائیں، سیاسی اور فوجی معاہدات کے ذریعے ان قوموں کو ایک نئی قسم کی غلامی میں جکڑ لیں۔اس ہدف کے حصول کے لیے انھوں نے یہ اصول طے کیا کہ: ’’فوجی قیادت ہی ہماری بہتر حلیف ہے۔جو اپنے ملکوں میںبغاوت کرکے اقتدار پر شبخون مارے،اور ہماری مدد سے ہماری قائم مقام (proxy) بن کرہماری مرضی پوری کرے‘‘۔ کچھ رپورٹوں میں صاف لکھا ہے کہ مغرب زدہ گروہوں کے لیے اقتدار کی راہیں کشادہ کرنا خواہ یہ فوجی انقلاب اور استبدادی حکومت (despotic rule) کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو، مغربی اقوام کے قومی مفاد میںہے، تاکہ مذکورہ ممالک کے عوام کو قابومیں رکھا جا سکے۔ مائلز کوپ لینڈ (Miles Copeland) جس نے عرب دنیا میں سفارتی ذمہ داریاں بھی ادا کیں اور وہ سی آئی اے کا ایجنٹ بھی تھا، اس کی یادداشتوں The Game of Nations: The Amorality of Power Politics (1970),  اور The Game Players Confessions (1989) سے بھی اس امر کی وضاحت ہوتی ہے۔ مغربی پالیسی ساز اور سیاسی تجزیہ کار اب     کھلے لفظوں میں اعتراف کرتے ہیں کہ: مسلم دنیا یاتیسری دنیا میں جو فوجی انقلاب آئے یا جو سیاسی اتھل پتھل ہوتا رہا ہے، ان سب کے پیچھے کسی نہ کسی صورت میں امریکا اور اس کی ایجنسیوں کا ہاتھ تھا‘‘۔مشرق وسطیٰ اس سامراجی چنگل سے کبھی نہیں نکل سکا۔

شام میں اخوان المسلمون کے سربراہ ڈاکٹر مصطفی سباعی [۶۳-۱۹۱۵ء] نے الفتح میں ایک مرتبہ لکھا تھا: [مسلم دنیا کی] سیاسی پارٹیاں ہر معاملے میں ایک دوسرے کی مخالف ہیں، مگر ایک نکتے پر ان کا اتفاق ہے، اور وہ ہے ’دین دشمنی‘___ اس لیے نظامِ حکومت میں تبدیلی کے سوا اصلاح کی کوئی صورت نہیں، اور نظامِ حکومت کی تبدیلی کا دارومدار ہے معاشرے کی تبدیلی پر۔ افسوس کہ علماے کرام اس بات کو نہیں سمجھتے‘‘۔ میں اس میں یہ اضافہ کروں گا، کہ ’دین دشمنی‘ کی اس روش میں فوجی قیادتوں اور سیاسی طالع آزمائوں کو عالمی سامراجی قوتوں کی بھرپور سرپرستی حاصل رہی ہے۔ صدافسوس اس بات پر کہ اپنی قوم کے مفادات سے بے وفائی کا ارتکاب کرنے میں یہ طبقہ     ادنیٰ درجے کی شرم تک محسوس نہیں کرتا، اور سامراجی آقائوں کے سامنے اپنی قومی اور ذاتی ذلت تک کو خوشی خوشی برداشت کرلیتا ہے، بلکہ اس توہین کو بھی اعزاز کی کوئی قسم تصور کرتا ہے۔

اس منظرنامے میںحسن البنا اور اخوان المسلمون نے دعوت،تنظیم اور تربیت کاکام شروع کیا۔وہ بہ یک وقت عالمی سامراج اور سامراج کے مقامی آلۂ کاروں کے سامنے چٹان بن کر کھڑے ہوگئے۔انھوں نے،دین کی گمراہ کن اور معذرت خواہانہ تعبیر کرنے والوںاور معاشرے میں سماجی، معاشرتی،اور سیاسی ظلم کی تمام بنیادوں کوپوری قوت سے چیلنج کیا۔اس کے لیے اخوان نے جو راستہ اختیار کیا، اس میں تنظیم اور صحافت کے ساتھ ساتھ سیاست میں کھلے بندوں حصہ لینا بھی شامل تھا۔ حسن البنا نے خود بھی الیکشن میں حصہ لیا ، اور اگر برطانوی اور مصری حکومت ان کا راستہ نہ روکتی   تو وہ بڑی عظیم اکثریت سے کامیاب ہوتے ۔

 ان پابندیوںاور تمام تر مشکلات کے باوجود حسن البنا نے جو طریقہ اختیار کیا، وہ افراد سے رابطے کا طریقہ تھا۔یہی وہ امتیاز ہے جس نے استبدادکے اندھے بہرے ظلم اور اپنی بات کہنے کے کھلے مواقع نہ ہونے کے باوجود گھر گھر، محلے محلے، گاؤں گاؤں، قریہ قریہ اس دعوت کو پہنچادیا۔   اسی لیے ساری پابندیوں کے باوجود آج بھی اخوان ایک اہم سیاسی اور نظریاتی قوت کے طور پر موجود ہیں،بلکہ ملک کی پارلیمنٹ میں مضبوط حزب اختلاف کا درجہ رکھتے ہیں۔حالانکہ اخوان کی تنظیم خلاف قانون ہے،اور اخوان کے وابستگان نے آزاد امیدواروں کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا۔ اخوان کی اس طلسماتی قوت کا ثبوت ہر موقع پر نظر آتا ہے۔ اس چیز کا گہرا تعلق   حسن البنا کی شخصیت اور ان کے اس طریقۂ کار سے ہے، جس میں تنظیم پر پابندی کے باوجود خود کار پھیلائو اورنچلی سطح تک ان کی رسائی ممکن ہوئی۔ یہ ان کی قوت کا بڑاراز اوربہت بڑا خزانہ ہے۔

  •  اخوان کی قوت کا راز: سعید رمضان کے ذریعے ہم نے اس راز کو سمجھنے کی کوشش کی ۔تب ہم نوجوان تھے اور اسلامی تحریکی لٹریچر کا تازہ تازہ مطالعہ کیا تھا۔اسلام کی ہمہ گیرانقلابیت کا جذبہ پوری طرح دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا(الحمدللہ، آج بھی وہی کیفیت ہے،البتہ ماہ و سال کی رفت و گذشت کے سبب قوت کار کم رہ گئی ہے)۔ ہم یہ معلوم کرکے بہت خوش تھے کہ جو بات  مولانا مودودی نے مغربی طاغوت کی روح اور فطرت کے بارے میں کہی ہے ،اور جو بات مولانا نے اسلام کے انقلاب اور پورے نظام کی تبدیلی کے حوالے سے ارشاد فرمائی ہے،بالکل وہی بات حسن البنا نے بھی اپنے خطبات میں کہی ہے۔اس طرح نصب العین اور حصولِ منزل کی جدوجہد میں ہم اور اخوان ایک ہی منزل کے راہی ہیں۔

تاہم ایک پہلو میں ہمیں کچھ فرق محسوس ہوتا تھا۔ اخوت اور محبت کا ویسا کلچر ہمارے ہاں   اس طرح فروغ نہیں پاسکا، جس طرح اخوان کے یہاں نظر آتا ہے۔اس کاایک چھوٹا سا مظاہرہ روزمرہ کے میل جول میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔مثال کے طور پر ہمارے اہل حل و عقد جب ہم سے ہاتھ ملاتے تو ان کے ہاتھ کی گرفت میں ذاتی تعلق کا اس درجہ اظہار نہیں محسوس ہوتا تھا، جیسا اخوان کے بڑے اور چھوٹے ہر بھائی سے ملتے وقت محسوس ہوتا ۔ممکن ہے اس میں ہمارے خطے کی آب و ہوا ، کلچر اور رسم و رواج کا بھی اثر ہو۔ اخوان کے ہاں اﷲ کی خاطر محبت کے تصور کو بڑا مرکزی مقام حاصل ہے۔خود جماعت اسلامی کے تربیتی لٹریچر میں اس موضوع سے متعلق احادیث کاایک مؤثر انتخاب موجود ہے، لیکن اپنائیت کے اس تصور کووہ اہمیت اور مرکزیت اس درجے میں حاصل نہیں ہوسکی، جو اخوان کے ہاں نظر آئی۔اللہ کی خاطر محبت ہم نے اخوان کے احباب سے سیکھی۔ یہ سیکھا کہ اﷲ کی خاطربندوں کے درمیان تعلق کی بنیادکو کس طرح مضبوط بنایا جا سکتا ہے اور پھرجب اخوان کے لٹریچر کو پڑھا تو اس میں بھی اسی اسپرٹ کو رچا بسا پایا۔ اخوان کے جتنے بھی کارکنوں سے ہمیں ملنے کا موقع ملا،ان میںاسی جذبے اور حرارت کی فراوانی پائی۔ حسن البنا کی زندگی کا مطالعہ کیا تو ان کی زندگی کے اندر بھی یہی کیفیت موجزن دیکھی۔ غالباً ’محبت فاتح عالم‘ والی کیفیت اور اس سے رونما ہونے والی مقناطیسی قوت ہے ،جس کے ادراک نے ان سے اس تحریک کانام اخوان المسلمون رکھوایا(پیش نظر رہنا چاہیے کہ تیسری اور چوتھی صدی ہجری کی ’اخوان الصفا‘ سے اخوان المسلمون کا کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ خالص قرآنی اخوت سے اس کا رشتہ ہے)۔ یہ چیز ہمیں سب سے زیادہ متاثر کرنے والی تھی۔

اسی طرح ہم نے اخوان کے تربیتی نظام سے بھی بہت کچھ سیکھا۔ اس زمانے میں مولاناعبد الغفار حسن [م:۲۲مارچ ۲۰۰۷] جماعت اسلامی میںشعبہ تربیت کے ذمہ دار تھے۔  درس قرآن، درس حدیث، سیرت اور لٹریچر، جماعت کے تربیتی نظام کے عناصرترکیبی تھے ۔ اجتماع ارکان میں ان چیزوں کی باقاعدگی کے ساتھ احتساب کا اہتمام بھی تھا۔ روحانیت اور ربانیت، اخوان کے دو نہایت مرکزی پہلو ہیں۔ جمعیت میں ہم نے اخوان سے یہ سیکھا تھا کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں روحانی بالیدگی کے لیے شب بیداری بھی ایک مؤثر تربیتی پروگرام ہے۔ اس سے قبل جماعت اور جمعیت کے پروگراموں میں شب بیداری نہیں ہوتی تھی۔ یوں جمعیت اور جماعت میں بھی شب بیداری کا پروگرام متعارف ہوا۔

  •  نظام الاسرہ اور اس پر اختلاف:حسن البنا نے دعوت ، تنظیم اور تربیت کے آغاز ہی میں خداداد صلاحیت کی بنا پر اس خطرے کو بھانپ لیا تھاکہ آنے والے کل میں،اس راستے پر چلنے والے جاں نثاروں کو کن مشکلات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ دعوت، تحریک اور آزمایش،    لازم و ملزوم ہیں۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے انھوں نے کہا : بہترین طریقہ یہ ہے کہ افراد کو جوڑ کر اس طرح سے چھوٹے چھوٹے گروپ بنا دو کہ ریاستی جبر کے نتیجے میں اخوان کا مرکزی نظم رہے یا نہ رہے، مگر تنظیم کا یہ بنیادی یونٹ اپنی جگہ کام کرتا رہے۔

ایسے نظریاتی حلقے کی حد ۱۰ افراد پر قائم کی، جسے’ اسرہ‘ کہتے تھے۔جب ۱۰افراد پورے ہوجاتے تو انھیںدو ’اسروں‘ میں تقسیم کردیتے۔اس طرح انھوںنے ہزاروں حلقوں کی صورت میں نظام قائم کیا۔ اس نظام اسرہ میں سب سے زیادہ دل چسپ چیز اس کا اجتماعی مطالعے کانظام ہی  نہیں تھا، بلکہ اس میںعبادات بھی مشترک تھیںاورشب بیداریاں بھی۔ میرے نزدیک ’نظام اسرہ‘ میں سب سے اہم چیزیہ تھی کہ اس کے ممبران ایک دوسرے کی خوشیوں اور غموں میں پورے شعور  اور وابستگی سے شرکت کریں۔ ایک دوسرے کا سہارا بنیں۔کسی ایک ساتھی پرکوئی مصیبت آئے    تو ’اسرہ‘ کے تمام ساتھی اس کی مدد کو پہنچیں۔یہی اسرہ کا مرکزی اصول تھا: پاکیزہ، ہمدرد اور      بے لوث برادری۔

بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ اخوان کی بقا کا بڑا انحصار اس ’نظام اسرہ‘ پر رہا۔اس کے ثمرات میںسے بہت متاثر کن چیزآزمایش اور ابتلا میں ان کی استقامت تھی۔ صدرناصر کے زمانے میں صرف مصر میں ۳۰ سے ۴۰ ہزار افراد جیلوں میں تھے اور بیش ترشدید تعذیب کا نشانہ بنائے گئے تھے ۔ ان سخت آزمایشوں اور ابتلا کے ادوار سے گزرنے کے باوجود انھوں نے الحمدللہ، جس تقویٰ اور استقامت کا ثبوت دیا ہے ،وہ پختہ ایمان اور اس ’نظام اسرہ‘ کی برکات کا عملی اظہار تھا،کہ جس نے لوگوں کو آپس میں جوڑ دیا تھا۔اسی ’نظام اسرہ‘ نے قیدی ساتھیوں کے خاندانوں کی دست گیری ، عملی مدد اور ہمت بندھانے میں معاونت کی ہے۔

سعید رمضان سے ’نظام اسرہ‘ سمجھ کر ہم نے اسلامی جمعیت طلبہ میں اس کو اختیار کرنے کی کوشش کی تھی۔جمعیت کی تنظیم کو جو اسکولوں ، کالجوں،یونی ورسٹیوں کے کارکنوں پر مشتمل تھی، اسے علاقائی اور رہایشی بنیادپرکام کے لیے منظم کیا،جو اسرے ہی کی ایک شکل تھی۔اس وقت کی جمعیت  کے ناظم اعلیٰ کو کچھ دیگر امور کے ساتھ اس پر بھی شدید اضطراب ہوا۔ وہ پریشان تھے کہ ہماری تحریک کے روایتی نظام میں یہ ایک نئی چیز آگئی ہے۔ بالآخر ہمیں اس نظام میں کچھ تبدیلیاں کرنا پڑیں۔ اس طرح ہمارارہایشی نظام تو باقی رہا، لیکن ’نظام اسرہ‘ اپنے اخوانی تصور کے مطابق ہمارے تنظیمی نظام کا حصہ نہ بن سکا۔ یوں کراچی جمعیت میں ’نظام اسرہ‘ محض چار پانچ سال تک ہی چلا۔ یہاں پر یہ تذکرہ بھی ضروری محسوس ہوتا ہے کہ جب جمعیت میں ’نظام اسرہ‘ پر بحث اٹھی،ان دنوں مولانا مودودی جیل میں تھے۔ مولانا امین احسن اصلاحی (م: دسمبر ۱۹۹۷ء) کا رجحان اسرے کے حق میں نہیں تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ یہ نوجوانوں کی محض ایک اپچ ہے اور بس۔ مگر انھوں نے کھل کر اس کی مخالفت نہیں کی تھی۔اس زمانے میں ہمیں جمعیت میں بڑی آزمایش اور نازک مرحلے سے گزرنا پڑا۔

اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہوں ہمارے ان بزرگوں پر جنھوں نے اس دورآزمایش میںنوجوانوں کی راہ نمائی فرمائی اور جمعیت انتشار سے بچ گئی۔اس سلسلے میں محترم شیخ سلطان احمد صاحب ، چودھری رحمت الٰہی صاحب اورچودھری غلام محمد صاحب کا کردار اہم تھا۔ انھوں نے ہمارے اس داخلی قضیے کو سلجھایااور یہ کہا کہ کراچی جمعیت کے اس تجربے کو ہم اسلام اور تحریک کے مزاج کے خلاف یا روایات سے متصادم نہیںپاتے۔اس طرح ہمیں تائید حاصل ہوئی،اور اس بحث پر جو مقدمہ بنا تھا وہ قبول نہیں کیا گیا۔

  •  ھجرت اور دعوت کا ثمر: جس زمانے میں مصر میں اخوان ابتلا سے گزرے، انھوں نے اپنی ابتلا کی مدت کو قصۂ زمین، برسر زمین سمجھ کر حالات کا سامنا کیا۔ بعد میں جب موقع ملا تو ان میں سے کچھ لوگ سعودی عرب، کویت یا خلیجی ممالک چلے گئے۔کچھ افراد امریکا، جرمنی، انگلستان کی طرف جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ اسلام کے ان نہایت قیمتی سپوتوں نے مغربی دنیا میں دعوت اسلام کی بھاری ذمہ داری سر انجام دینے کے لیے بڑی ٹھوس بنیادیں استوار کیں۔آج مغربی دنیا میں اشاعت اسلام کے بیش تر سر چشموں کے پیچھے روایتی مذہبی طبقوں سے کہیں زیادہ اخوان کے ان جلاوطن کارکنوں کی پرخلوص حکمت اور مساعی کارفرما ہے۔

اخوان میں ایک اور وصف بڑا متاثر کن اورقابل رشک ہے،اور وہ ہے ان کا اﷲ سے تعلق کے ساتھ ساتھ قرآن سے ربط۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیںہے کہ اخوان اور قرآن لازم و ملزوم     بن گئے ہیں۔اس باب میں میرا سب سے دل چسپ تجربہ وہ تھا، جب میں محترم میاں طفیل محمد کے ساتھ صدر حسنی مبارک سے ملنے مصر گیا تو ان لوگوں نے ہمارے لیے  نہر سویز کی سیر کا انتظام کیا تھا۔ ہم رات کے ۱۲ بجے سویز نہر کی سیر کے لیے نکلے اورفجر سے کچھ پہلے واپس آئے۔ وہاں ہوتا یہ ہے کہ جہاز سویز کے درمیان میں کمان تبدیل کرتا ہے۔ ایک جہاز ایک طرف سے آتا ہے اور  دوسرا جہازدوسری طرف سے۔ جب کمان تبدیل ہورہی تھی تو جس جہاز میں ہم تھے، اس کا ایک  اعلیٰ کمانڈر ہم سے ملا۔جب اس سے میاں صاحب،جماعت اور میرا تعارف ہوا، تو اس نے احترام اور اپنائیت کے اظہار کے لیے آہستگی سے اپنی جیب سے قرآن نکالا اور ہمیں ہدیہ کر دیا ۔یہ اشارہ تھا اس بات کا کہ میرا تعلق اخوان سے ہے۔ حالانکہ خفیہ سروس کے لوگ ہمیں گھیرے ہوئے تھے۔ یہ واقعہ غیرمحسوس انداز میں ہوا۔

  •  سماجی اور معاشی فکر: معاشرتی تشکیل کی فکراور وژن کے موضوع پر مولانا مودودی اور اخوان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں تھا، تاہم پروگرام کے نفاذکی تفصیلات میں کچھ امور پر ایک حد تک اختلافِ رجحان کا احساس ہوتا ہے۔ اخوان کے یہاں شروع ہی سے دعوت، سیاست، خدمت اور متبادل اقتصادی بنیاد تعمیر کرنے کی فکرساتھ ساتھ موجود رہی ہے۔ اخوان نے غربت کو ختم کرنے اور روزگار فراہم کرنے کی اسکیم ۱۹۳۳ء میں شروع کی تھی۔ اداراتی (انسٹی ٹیوشنل) مناسبت سے ان کے ہاں معاشی مسائل اور سامراج سے چھٹکارا پانے کا نظامِ کار نمایاں طور پر متحرک دکھائی دیتا ہے۔

ہمارے ہاں کام کا آغاز ایمان ، عقیدے اور دینی وژن سے ہوتا ہے۔ پھر ہم آہستہ آہستہ مذکورہ اداراتی اور سماجی مسائل کی طرف آتے ہیں۔ البتہ شعوری طور پر، آئینی مسائل ہمارے ہاں  مرکزیت کے حامل رہے ہیں، جن کو دنیا بھر کی اسلامی تحریکیں قابل تقلید اقدام تسلیم کرتی ہیں۔ مگر دوسری جانب معاشی اور معاشرتی مسائل پر ایک متوازن اور متناسب انداز سے ہماری توجہ مرکوز نہیں رہی، اس کمی کا مداوا کم از کم مستقبل میں ضرور ہونا چاہیے۔ میں نے اس سلسلے میں جو ہاتھ پاؤں مارنے کوشش کی ہے، ان مساعی میں مجھے مولانا مودودی ،مولانا اصلاحی اور چودھری غلام محمد [م:۱۹۷۰ء] کی خصوصی مدد اور راہ نمائی حاصل رہی ہے ۔میرا پختہ یقین ہے کہ ایمان، عقیدے اور اخلاق کی مرکزیت اور دینی روح کے ساتھ سماجی اور معاشی میدان میں تحریک کے انقلابی پروگرام کو کلیدی حیثیت حاصل ہونی چاہیے ۔مگر یہ کام نعروں کی سطح پر نہیں،بلکہ تسلسل اور ایک ایسے   اسلامی فریم ورک کے ساتھ ہو نا چاہیے، جو عصری تقاضوں کو بھی پورا کرنے کا بھرپور اہتمام کرے۔ سماجی و معاشرتی مسائل میں اخوان کی متوازن دل چسپی قابل رشک ہے ۔البتہ ان کے ہاں   افراط و تفریط کے بعض مناظر بھی نظر آتے ہیں۔اس سلسلے میںڈاکٹر مصطفی سباعی نے تو اشتراکیت فی الاسلام تک کی بات کہہ دی تھی،تاہم اسے اخوان کے مجموعی ذہن نے قبول نہیں کیا۔

اس کے برعکس جماعت اسلامی، عورتوںکے ووٹ کے حق اور خاص طور پر اجتماعی معاملات اور تحریکی نظام میں خواتین کی شرکت کے حوالے سے، اخوان سے بہت آگے تھی۔ عورتوں کے ووٹ کے حق کو اخوان نے ۱۹۵۰ء کے عشرے میں تسلیم کیا، مگرجماعت اسلامی نے شروع ہی سے اس کو تسلیم کیا تھا، بلکہ مولانا مودودی نے تو یہاں تک لکھا کہ عورتوں کی الگ شوریٰ ہو جو معاملات پر آزادانہ انداز میں غوروفکر کرے۔ اخوان اور جماعت میں پائے جانے والے ایسے جزوی اختلافِ راے کا تعلق نفاذدین کی تفصیلات سے ہے ،وژن اور تصور سے نہیں۔

  •  تشدد کے الزام کی حقیقت: ایک طرف تاریخ میں اخوان پر ابتلا و آزمایش کے دور باربار آئے۔ دوسری طرف خود انصاف اور قانون کا خون کرکے اقتدار پر ناجائز قبضہ کرنے اور اپنے ہی ہم وطنوں کا خون بہانے والے نام نہاد روشن خیال طبقے نے الٹا اخوان ہی کو تشدد پسند  کہہ کرانھیں الزامی مہم کا نشانہ بنایا۔افسوس کہ ہمارے یہاں لبرل طبقے کی لبرلزم کا حدود اربعہ بس  اتنا ہے کہ مغرب کی اندھی تقلید کی جائے ۔انھیں جمہوریت، انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی اور عدل وغیرہ کی ہوا بھی نہیں لگی۔

اقتدار، وسائل، طاقت، قومی اقتدار، مادی وسائل، عسکری طاقت اور ذرائع ابلاغ پر قابض اس طبقے کے بارے میں ایک مرتبہ مولانا مودودی نے فرمایا تھاکہ یہ ایسے پہلوان ہیںجو   مدمقابل کے ہاتھ پاؤں باندھ کراس سے کشتی لڑنے کے لیے میدان میں اُترتے ہیں۔اس طبقے نے ایک طرف اخوان کو نشانہ بنایا، تو دوسری جانب پاکستان میں مولانا مودودی کو قید کرکے یہ کہنا شروع کیا کہ اخوان، تشدد پسند ہیںاورجماعت اسلامی کا تعلق بھی اخوان سے ہے۔ اخوان سے کوئی تنظیمی تعلق نہ رکھنے کے باوجود جماعت نے اخوان کے خلاف بدنیتی پر مبنی اس پروپیگنڈے کی مخالفت کی، اور اخوان کے دفاع میں کبھی کوتاہی نہیں برتی۔اخوان پر مظالم کے خلاف اور ان کی تائید و حمایت میں، ہم نے ہر پلیٹ فارم پر،تحریر اور تقریر میں آواز بلند کرنے کی کوشش کی ہے، مگرتصادم اور ٹکراؤ پر منتج ہونے والے ایجی ٹیشن کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ جماعت کو اس بارے میں ہمیشہ شرحِ صدر رہا ہے کہ مؤثر، باوقاراور نصیحت کے انداز میں بات زیادہ  پُر اثر ہوتی ہے۔

یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اخوان نے کبھی اپنی حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لیے طاقت یا زیر زمین روابط کو استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اخوان کے ہاںقوت مجتمع کرنے کی سوچ، فلسطین پر قبضے کے خواہاں یہودیوں اور یورپیوں کی سامراجی یلغار کو روکنے کا سرعنوان تھی۔اگرچہ ایک دومواقع پرچند غیر ذمہ دار نوجوانوں کی نامناسب انفرادی حرکتیں انھیںدلدل میں دھکیلنے کا ذریعہ بنیں، لیکن ان کی تاریخ کے گہرے مطالعے کی بنا پر میں یہ بات برملا کہہ سکتا ہوں کہ قوت کے استعمال کے حوالے سے ان پر عائدالزامات میں بہت کچھ محض زیب داستان کی حیثیت رکھتاہے۔

مناسب ہوگا کہ اخوان کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کے لیے یہاں پر امام حسن البنا کے اس مشہور خطبے پر غور کیا جائے، جو انھوں نے ۱۹۳۸ء میں اخوان کے پانچویں اجلاس میں دیا تھا۔ انھوں نے فرمایا تھا: ’’اخوان، فکروعمل کی سطحیت پر ریجھ جانے والے نہیں ہیں، بلکہ وہ گہری فکر اور وسیع    زاویۂ نظر کے حامل ہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ کسی چیز کی گہرائیوں میں ڈوب کر نہ دیکھیں… وہ جانتے ہیں کہ قوت کے مدارج کیا ہیں: ان میں اولیت، عقیدہ و ایمان کی قوت کو حاصل کرنا ہے۔ اس کے بعد وحدت و ارتباط کی قوت کا حصول ہے، اور ان دونوں کے بعد زورِبازو کا درجہ آتا ہے… الاخوان، متشددانہ انقلاب کے بارے میں قطعی طور پر کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتے۔ وہ کسی حال میں اس طریق کار پر اعتماد نہیں کرتے، اور نہ اس کا نفع بخش اور نتیجہ خیز ہونا انھیں تسلیم ہے… تاہم اگر حالات کی رفتار یہی رہے گی اور اصحابِ اقتدار اس کا علاج نہیں سوچیں گے، تو اس کا لازمی نتیجہ متشددانہ انقلاب کی صورت میں ظاہر ہوگا، لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ اس میں اخوان کا ہاتھ ہوگا، بلکہ یہ حالات کے دبائو اور اصلاح سے گریز کا لازمی نتیجہ ہوگا۔ ضرورت یہ ہے کہ ہماری قومی زندگی کے سیاہ وسفید پر قابض طبقے اپنی ذمہ داری اور صورت حال کی نزاکت کو سمجھیں‘‘۔

جماعت اسلامی پاکستان نے اپنے دستور کی دفعہ ۵(۴) میں واضح طور پر اعلان کیا ہے: ’’جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد، خفیہ تحریکوں کی طرز پر نہیں کرے گی، بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی‘‘۔ اس طرح جماعت نے ہمیشہ کے لیے دوسرے دروازے کو بند کردیا۔ پھر اسی طرح جماعت اسلامی پاکستان نے ستمبر ۱۹۴۸ء کو مرکزی مجلس شوریٰ میں یہ قرارداد منظور کی تھی کہ: ’’اپنے مقصد کے حصول کے لیے جماعت اسلامی ایسے ذرائع اور طریقوں کا استعمال جائز نہیں سمجھتی‘ جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے بدنظمی اور بدامنی رونما ہو۔ جماعت اسلامی، اصلاح و انقلاب کے لیے جمہوری طریقوں پر یقین رکھتی ہے، یعنی تبلیغ و تلقین کے ذریعے سے اذہان اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے اور راے عام کو ان تغیرات کے لیے ہموار کیا جائے، جو ہمارے پیش نظر ہیں۔ جماعت کا کوئی کام خفیہ نہیں ہے بلکہ سب کچھ علانیہ ہے۔ جن قوانین پر ملک کا نظم و نسق اس وقت چل رہا ہے ان کو وہ توڑنا نہیں چاہتی، بلکہ اسلامی اصولوں کے مطابق بدلنا چاہتی ہے‘‘۔

مولانا مودودی نے ۱۹۶۳ء میں، مسجد ابراہیم ،مکہ معظمہ میں عرب نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’[دنیا بھر میں] اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔یہ بھی دراصل بے صبری اور جلد بازی ہی کی ایک صورت ہے ،اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے ۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے، بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے، اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں، ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا، وہ ایسا پاے دار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلد بازی سے کام لے کر اگر کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے گا تو جس راستے سے وہ آئے گا ،اسی راستے سے وہ مٹا یا بھی جاسکے گا‘‘۔ (دیکھیے: ماہ نامہ ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۳ء)

مولانا مودودی پہلی بار ۱۹۵۶ء میں عالم عرب گئے تھے، لیکن ان سے پہلے مولانا مسعود عالم ندوی نے ۱۹۴۹ء میں بلاد عرب کا دورہ کیا تھا۔ مسعود عالم صاحب نے اپنے ایمان افروز سفرنامے دیارِعرب میں چند ماہ میں یکم جولائی ۱۹۴۹ء کو لکھا تھا: ’’جس شخص پر اخوان سے تعلق کا ادنیٰ شبہہ بھی ہوتا ہے، اسے فوراً قیدکرلیا جاتا ہے۔ حیرت ہے، حکومت کی فوج اور پولیس کے سامنے، اسلام اور مصر کے دشمن قاہرہ کی سڑکوں پر اکڑتے پھرتے ہیں، لیکن مصری حکومت ان کے خلاف کچھ نہیں کرتی۔ اس کا سارا غیظ و غضب اسلام کے داعیوں پر ٹوٹتا ہے‘‘۔ پاکستان آکر مولانا مسعود عالم ندوی نے مختلف تربیتی پروگراموں میں اخوان کے بارے میں جو تاثرات بیان کیے، ان میں اخوان سے محبت، اخوان سے قربت، اخوان سے عقیدت اور اخوان کو اپنا دست و بازو سمجھنے کا پہلو غالب تھا۔ بعد ازاں خود مولانا مودودی نے کئی باراس بات کا اظہار فرمایاکہ:’’فکری اعتبار سے جو کام ہم کر رہے ہیں،وہی کام اخوان کر رہے ہیں۔ہمارے درمیا ن بنیادی نقطۂ نظر کا کوئی مسئلہ نہیں ہے‘‘۔

  •  امام شھید کے رفقا:یہ واقعہ بھی تاریخی نوعیت کا ہے کہ جب مصری حکومت نے اخوان پر پابندی لگائی تھی، تو عبدالقادر عودہ شہید [۱۹۰۶ء-۱۹۵۴ء] ہائی کورٹ کے جج تھے۔ پابندی کے خلاف مقدمہ چلا، مگر عدالت نے اخوان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ جس عدالت نے فیصلہ دیا،اس کے جج عبدالقادر عودہ بھی تھے۔ان کا کہنا یہ تھاکہ: ’’مجھے تاریخ نے اخوان پر حَکَم[جج] بنایا اور بالآخر میں اخوان ہی کا ہو گیا‘‘۔ اپنی مشہور کتاب التشریع الجنائی فی الاسلامانھوں نے اخوان کی دعوت قبول کرنے کے بعدلکھی۔

بعدازاں جب میں کراچی یونی ورسٹی کے شعبہ معاشیات میں پڑھا رہا تھا، اس زمانے میں  سید قطب ہمارے لیے فکرو عمل کی ایک بڑی مؤثر علامت اور ہمارے ہیرو تھے۔افسوس ہے کہ مجھے سید قطب سے بھی ملنے کا موقع نہیں ملا،لیکن ان کی جان دار تحریروں اور علمی طور پر نہایت وقیع نگارشات سے بھرپور استفادے کی کوشش کی ہے۔ سب سے بڑھ کر حق کی راہ میں ان کی استقامت میرے لیے ہی نہیں، ہماری پوری نسل کے لیے روشنی کا مینار ثابت ہوئی ہے۔سید قطب کو ناصر نے قید میں ڈالا اور اس طرح مقدمہ چلایا کہ انھیں وکیل تک نہ کرنے دیا۔ سوڈان سے دو چوٹی کے وکیل احمد امین سالک اور محمد احمد دورابی، فروری ۱۹۶۶ء میں قاہرہ پہنچے تو انھیں دھکے دے کر مصر سے نکال دیا گیا۔ اس طرح سید قطب نے تن تنہا بڑی جرأت اور استقامت سے مقدمے کا سامنا کیا۔ آخر کار ۲۹اگست ۱۹۶۶ء کو مفسر قرآن، مفکر اسلام، اعلیٰ پائے کے ادیب اور دانش ور سیّد قطب کو پھانسی دے دی گئی۔

اخوان کے قائدین میں ،میرا سب سے زیادہ گہرا تعلق استاد مصطفی مشہور سے تھا۔ وہ متعدد بار پاکستان میں ہمارے مہمان رہے، خصوصاً افغانستان کے جہاد کے زمانے میں۔ اس کے علاوہ ان سے میری ملاقاتیں انگلستان، مصر، جرمنی اور ترکی میں بھی ر ہیں۔ ہم نے دعوت دین کے کاموں میںتبادلۂ خیال کے لیے ایک مشاورت قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کوششوں کے وہ سربراہ تھے اور میں ان کا نائب تھا۔حسن البنا کی زندگی میں مصطفی مشہور نوجوانوں کے گروپ کے سربراہ تھے۔ اسی طرح مامون الہضیبی سے بھی مصر اور یورپ میں تبادلۂ خیال ہوتا رہا ۔ان تمام مواقع پر اشتراک اور افہام و تفہیم کا پہلو غالب رہا۔ البتہ حکمت عملی میں کبھی کبھار ترجیحات کے بارے میںاختلاف راے بھی پیدا ہوا۔ جماعت کے نظام تربیت کو انھوں نے سمجھنے کی کوشش کی۔ اخوان کے قائدین کویہ احساس تھا کہ فکری میدان میںہمارا [یعنی جماعت کا] کام ان سے بہترہے۔ہم نے کشمیر کے مسئلے کو تمام تفصیلات کے ساتھ واضح کیا اور اخوان نے اس مسئلے پر پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا۔ اسی طرح فلسطین کے مسئلے کے سب سے مؤثر داعی اخوان تھے اور ہم نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا۔

  •  آرا میں اختلاف: جب سعید رمضان یہاں پاکستان میں تھے تو ان کی خواہش تھی کہ جماعت اسلامی کی موجودگی کے باوجود پاکستان میں ایک حلقہ ایسا بھی قائم کیا جائے جو براہ راست اخوان سے متعلق ہو۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ’الاحباب‘ کے نام سے تنظیم بنانے کی کوشش بھی کی تھی۔ چودھری غلام محمد صاحب اور میرے سمیت ،جمعیت کے رفقا نے ان سے تفصیلی بات چیت کی اوربتایا کہ ایسا کوئی بھی متبادل یا متوازی نظام یہاں قائم ہوا تو وہ اس مقصد کے لیے مجموعی   طور پرمفید نہیں ہو گا۔ ہمارا یہ اختلاف نظریاتی نہیںبلکہ حکمت عملی کا تقاضا تھا۔

ایک مسئلہ متعدد بار اخوان کی طرف سے اٹھا یا گیا تھا کہ ہم سب مل کر عالمی سطح پر تنظیم کا ایک ڈھیلا ڈھالا وفاق قائم کریں، لیکن ہم نے اس تجویز کی تائید نہیں کی، اور ان کے سامنے یہ بات رکھی کہ موجودہ حالات میں حسب ضرورت آپس میں مل کر تبادلۂ خیالات سے آگے ہمیں نہیں بڑھنا چاہیے۔ اس کی دو وجوہ ہیں: پہلی یہ ہے کہ عالمی حالات کے پیش نظر کچھ رفاہی منصوبوں میں تعاون تو درست ہوسکتا ہے، لیکن اس سے زیادہ ربط و تعلق موجودہ عالمی اور خود مسلم ممالک کے سیاسی حالات کی وجہ سے نہ ممکن ہے اور نہ مفید۔دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلمان ممالک میں کسی جگہ تحریک اسلامی پر پابندی ہے اوران کے خلاف ریاست قوت استعمال کر رہی ہے۔ کہیں کچھ نرمی ہے اور پناہ مل رہی ہے۔اگر آپ ایک نظم بن جائیں گے تو بین الاقوامی ریاستی تعلقات میں مسائل پیدا ہوں گے اورحکمرانوں کو تحریک اسلامی کے خلاف کام کرنے میں زیادہ قوت حاصل ہو جائے گی اور وہ اس کے خلاف زیادہ مؤثر اقدام کریں گے۔ البتہ اگر ہر ملک میں آزاد نظم رہے اور واحد مرکزیت سے گریز کیا جائے تو یہ تحفظ کا ذریعہ ہو گا۔ اسی لیے ہم نے کوئی بین الاقوامی تنظیم نہیں بنائی۔

یہ دُور اندیشی دراصل مولانا مودودی کی بصیرت کا مظہر ہے۔ البتہ کسی مسئلے پر مشترکہ موقف اختیار کرتے ہوئے متفقہ نقطۂ نظر بیان کرنا مختلف چیز ہے۔اس کے لیے وقتاً فوقتاً دوسرے پلیٹ فارم موجود ہیں۔ایسے پروگراموں میں اسلامی تحریکات کے ذمہ داران نے شرکت کرکے اس مقصد کو تقویت دی ہے، اورکوشش یہ رہی ہے کہ آپس میںزیادہ سے زیادہ ہم آہنگی رہے۔ یہ سوچ پوری دنیا میں اسلامی تحریک کے لیے مفید رہی ہے۔

۱۹۸۲ ء میں، قاہرہ میںمصر کے صدر حسنی مبارک سے ہم نے انھی کی دعوت پر ملاقات کی تھی۔اس ملاقات میں ہم نے یہ کہا تھا: ’’ اُمت کا مفاداسی میں ہے کہ ریاستی قیادت اور تحریک اسلامی تصادم کے بجاے افہام وتفہیم کاراستہ اختیار کریں، اور اگر تعاون ممکن نہیں تو ایک دوسرے کی پوزیشن کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر بقاے باہمی (co-existence)کا راستہ اختیار کریں۔

 ۷۰ کے عشرے میں،جب لیبیا میں اخوان پر پابندی نہیں تھی، ڈاکٹر شریف جوصدر قذافی کی کابینہ میں شامل تھے اور ڈاکٹر محمدیوسف مغائریف جو لیبیا کے آڈیٹرجنرل تھے، ان حضرات کے توسط سے مجھے پیش کش کی گئی تھی کہ میں لیبیا میں معاشی مشیر بن کر آجائوں، لیکن میں نے معذرت کی ۔ پھر جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ اخوان اور لیبیا کے مطلق العنان حکمرانوں کا راستہ الگ ہے۔اسی طرح سعودی عرب کے ذمہ داران سے اخوان کے بارے میں بار بار گفتگوئیں ہوئی ہیں۔ اُردن میںشہزادہ حسن بن طلال سے کئی بار میری ملاقات میں اخوان کے معاملے پر بات ہوئی ہے۔ ان تمام ملاقاتوں میں ہم نے کبھی بھی تحریک کی عزت اور وقار پر مصلحت آمیزی کا راستہ اختیار نہیںکیا،بلکہ ہمیشہ نصیحت اور تلقین کا راستہ اختیار کیا۔

۱۹۹۰ء میں، جب عراق نے کویت پر قبضہ کیا تو دنیا بھر سے اسلامی تحریکوں کے قائدین نے عالم عرب کا دورہ کیا۔ اس وفد میں محترم قاضی حسین احمد، ڈاکٹر نجم الدین اربکان،ڈاکٹر حسن ترابی اور اخوان المسلمون اُردن کے عبد الرحمن خلیفہ شامل تھے۔مجھے بھی اس وفد میں شرکت کا شرف حاصل ہے ۔ ہم نے عراق،اردن،سعودی عرب،اور ایران کا دورہ کیا،اور وہاں پر چوٹی کی قیادت سے ملاقاتیں کیں۔ اس دورے میں عراقی سربراہ صدام حسین سے بھی ہماری ملاقات ہوئی تھی۔اس گفتگو کا محور جنگ تھا۔ صدام حسین سے قاضی حسین احمدصاحب نے بڑے واضح لفظوں میں کہا تھا کہ: ’’جنگ آپ پر مسلط کی جارہی ہے۔ آپ کو چاہیے کہ مذکرات سے راستہ نکالیں۔ کویت پر قبضہ اصول اور حکمت دونوں اعتبار سے گھاٹے کا سودا ہے‘‘۔ ان کے نائب صدر سے ہم نے عراق میں گرفتار اخوان کے کارکنوں کی رہائی کے بارے میں بات کی،افسوس کہ انھوں نے کوئی واضح بات نہ کی۔

  •  جھاد اور تصورِ جھاد: عیسائی مشنریوں، جنگ جو. ُ صہیونیوں اورعلمی دیانت سے تہی دامن مستشرقین نے مسلم معاشروں کے مغرب زدہ عناصر کی مدد سے جہاد کے لفظ کو منفی پروپیگنڈے کا ہدف بنادیا تھا۔حسن البنا نے دعوت کے آغاز پر ہی یہ واضح کیا کہ جہاد کے معانی دراصل استبدادی، سامراجی اور طاغوتی قوتوںسے مقابلہ ہے۔اس طرح انھوں نے بڑے نمایاں انداز سے دعوت، فکر، تشریح، ابلاغ ، عمل،دفاع وغیرہ سے متعلق تفصیل سے راہ نمائی دی۔

اسی ضمن میں مولانا مودودی کا یہ بڑا اہم کارنامہ ہے کہ انھوں نے ۱۹۳۰ء میںجہاد کے تصور کو اپنی معرکہ آرا کتاب الجہاد فی الاسلام میں نکھار کر امت کے سامنے پیش کیا۔ ۱؎      ادھر اخوان المسلمون ۱۹۲۸ء میں قائم ہوئی ۔ حسن البنا کا یہ کارنامہ ہے کہ انھوں نے جہادکے تصور کو نکھارنے کے ساتھ ساتھ فلسطین پر یہودی قبضے سے نجات پانے کے لیے مسلم امت کواس کے لیے عملاً تیار بھی کیا۔ اس طرح وہ امت جو سیاسی غلامی ،معاشی محکومی ،اخلاقی ابتری اورفکری مرعوبیت کے ہاتھوںشکست اور پسپائی کی علامت بن چکی تھی ،اسے علامہ محمد اقبال ،حسن البنا شہید اور   مولانا مودودی نے ایمان، اعتماد، امنگ، اورعزم کے ساتھ راستہ بنانے کی راہ دکھائی ۔

حالیہ تاریخ کا مطالعہ کریںتو معلوم ہوتا ہے کہ مصر وہ پہلا ملک ہے جہاں کھل کر دین اور سیاست کی تفریق کی بات پیش کی گئی تھی۔ برعظیم پاک و ہند میںمولانا ابوالکلام آزاد،علامہ محمداقبال اور مولانا مودودی کے مضبوط استدلال نے یہاں پریہ بات نہیں چلنے دی، جب کہ مصر میں      علی عبدالرزاق (م: ۱۹۶۶ء) نے کھلے بندوں چیلنج کے انداز میں یہ بات کہی تھی کہ خلافت کاقیام ضروری نہیں ہے، اور دین اور سیاست کی تفریق ممکن ہے اور کچھ حالات میں مطلوب بھی۔     امام حسن البنا نے اس چیلنج کا فکری اور عملی سطح پر جواب دیتے ہوئے کہا تھاکہ: اسلام ایک ریاست، ایک نظام حکومت اور ایک معاشرے کی تشکیل کرتا ہے۔اس طرح انھوں نے ریاست کے اسلامی تصور کو تحرک اور تحریک کا حوالہ بنادیا ۔بعد ازاں مسلم دنیا میں جتنی بھی اسلامی تحریکیں اٹھیں، خواہ وہ  اخوان المسلمون یا جماعت اسلامی کے قافلے سے الگ ہوکر چلیں یاالگ سے قائم ہوئیں،ان سب کا ایک اہم ہدف اسلامی ریاست کا قیام طے پایا۔آج اسلام پر جو بھی تحقیقی ، تجزیاتی یا سخت متعصبانہ مطالعات سامنے آرہے ہیں،ان میں اسلامی احیا اور اسلامی ریاست، اخوان، جماعت اسلامی، مولانا مودودی ،سید قطب اور حسن البنا کا ذکر مرکزی موضوعات کے طور پر ملے گا۔

  •  حکمت عملی اور بحران: اخوان المسلمون ایک زندہ تحریک ہے ،اور ایک  فعال تحریک کی حیثیت سے اسے داخلی طور پر کئی بحرانوں سے گزرنا پڑا ہے ۔ بعض اوقات اس کے مختلف وابستگان الگ بھی ہوئے ہیں،اور انھوں نے الگ سے اپنی راہ بنائی بھی ہے ۔جب وہ الگ ہوگئے تو پھر اپنے قول وفعل کے ذمہ دار وہ خود ہیں، اخوان المسلمون یا حسن البنا ان افراد کے کسی فعل کے لیے جواب دہ نہیں ہیں۔

 اخوان المسلمون کے بڑے دھارے نے بڑے تسلسل کے ساتھ ،استبدادی حکومتوں کی جانب سے مسلط کردہ آزمایش کا مقابلہ کیا۔ اپنے متوازن اور راست طریق کار کو انھوں نے ترک نہیں کیا اور نہ وہ کسی رد عمل کا شکار ہوئے۔یہ دراصل حسن البنا کی اس تربیت کا کرشمہ ہے جس کے تحت مختلف نامساعد حالات کے باوجود انھوں نے راستہ نکالنے والی انقلابیت کا دامن تھامے رکھا۔ بالکل یہی صورت حال مولانا مودودی کے ہاں بھی دکھائی دیتی ہے، جو سخت سے سخت اشتعال انگیز حالات کے باوجود واقعات سے متاثر نہیں ہوتے ،بلکہ خداداد دانش اوراللہ پر بھروسا کرتے ہوئے اس طرح راستہ بنالیتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

اخوان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف وہ لوگ تھے جنھوں نے شدید ردعمل میں آکراخوان سے ناتا توڑ لیااور اپنی نادانی سے استبدادی قوتوں کو مضبوط کیا۔ انجام کارظلم کی سیاہ رات طویل ہوئی اور تبدیلی کے امکانات کی دنیا محدود ہوئی۔ دوسری جانب الگ ہونے والے وہ لوگ تھے، جو سمجھتے تھے کہ ہمیں مقتدر قوتوں کے ساتھ مل کر راستہ بنانا چاہیے۔ ان میں سے بعض لوگوں نے صدر ناصر اور کچھ افراد نے صدر سادات سے تعاون بھی کیا،مگر کوئی امید بر نہ آئی بلکہ اس طرح وہ اور زیادہ بے وزن ہوئے۔مقصد کا حصول دُور کی بات ہے ،وہ خود اپنے مشن سے دور ہوتے چلے گئے۔ طاغوت کے طرف داروں سے مل کر طاغوت کو لگام دینا کارِمحال ہے۔گویا کہ مقصد اور منزل کے بارے میں سمجھوتا تباہ کن ہوتا ہے۔

حکمت اور مصلحت ،قرآن کے اصول ہیں۔ ان دونوں کا مفہوم سیرت پاک کے مطالعے سے متعین ہوجاتا ہے۔ہرجگہ اور ہر دور میں اسلامی تحریکوں کو چاہیے کہ وہ ان اصولوں کو اپنی پالیسی کا حصہ بناکر شہادتِ حق، تطہیرافکار اور تعمیرمعاشرہ کا راستہ بنائیں۔ اس راستے کا انتخاب کرتے ہوئے غلطی بھی ہوسکتی ہے، لیکن غلطی تو اس صورت میں بھی ہوسکتی ہے کہ آپ پورے معاشرے سے کٹ کر کسی جنگل بیابان میں چلے جائیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اجتہادی غلطی کا بھی ایک اجر ہے اور اگر اجتہاد صحیح ہے تو اس کے دو اجر ہیں۔ اسی فریم ورک کے اندر اخوان کے لیے بھی اور ہمارے لیے بھی، اور آیندہ آنے والوں کے لیے بھی اہم سبق ہے۔

  •  علمی میدان میں خدمات: عام طور پر ہمارے تحریکی حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ حسن البنا شہید اور ان کے قریبی رفقا نے شاید کسی ٹھوس علمی کام کی بنیادیں استوار نہیں کیں،بلکہ یہ کام محض واعظانہ ابھار اور وقتی جوش و ولولے پر رواں دواں تھا۔میرے خیال میں یہ تاثر سراسر معلومات کی کمی کے باعث پھیلا ہے۔ مصر میں اخوان کے علاوہ بھی علمی کام کی روایت گہری اور بڑی وسیع ہے۔ اس علمی روایت میں دونوں طبقے شامل ہیں، یعنی اسلام پر تنقید کرنے والے بھی اور اسلام کا دفاع یا اسلام پیش کرنے والے بھی۔ بلاشبہہ حسن البنا شہید نے کوئی     بڑی بڑی کتابیںتصنیف نہیں کیں۔ ان کے ۲۰ رسائل اور بیش تر تقاریر ہیں۔ یہ مختصر رسائل بھی  فکری گہرائی اور حکیمانہ راہ نمائی سے بھرپور ہیں، اور قرآن اور سیرت کے گہرے مطالعے اور اپنے دور کے حالات پر انطباق کے مظہر ہیں۔

ہمارے ہاں علمی کام کازیادہ حصہ اللہ کے ایک بندے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی   فکر وکاوش کاثمرہ ہے۔ اس کے برعکس اخوان کے ہاں ہمیں نظر آتا ہے کہ ایک پوری ٹیم ہے جس نے مل کر یہ کام کیا ہے۔ اس کام کی وسعتوں کو دیکھیں تو یہ بڑا معرکے کا کام ہے ۔مثال کے طور پر عبدالقادر عودہ شہید نے اسلامی قانون پر جو کام کیا، وہ ۲۰ ویں صدی کے معتبر ترین کاموں میں سے ایک کام ہے۔ وہ اپنے فن کے ماہر تھے اور قرآن و سنت پر ان کی نگاہ بڑی گہری تھی۔سید قطب شہیدنے تفسیر فی ظلال القرآن ،العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام، معالم فی الطریق وغیرہ جیسی معرکہ آرا کتب لکھیں،بلکہ ادبی اور فکری نوعیت کی بڑی قابل قدر تصنیفات بھی پیش کیں۔ڈاکٹر مصطفی حسنی سباعی کی ایک دو آرا سے اختلاف کے باوجود:  السنۃ ومکانتہا فی التشریع الاسلامی،نظام السلم والحرب فی الاسلام،المرأۃ بین الفقہ والقانون،الاستشراق والمستشرقون،المرونۃ والتطور فی التشریع الاسلامی،التکافل الاجتماعی فی الاسلام،غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہیں اور ان کے علاوہ بھی وہ مزید درجن بھر کتب کے مصنف ہیں۔ محمد الغزالی، بہی الخولی،محمد محمود الصواف،عبد البدیع صقر، محمداحمد ابوشقہ، ڈاکٹر سید سابق، ڈاکٹر عبدالعزیز کامل،ڈاکٹر عیسیٰ عبدہ ابراہیم،ڈاکٹر محمد المبارک، ڈاکٹر سعید حویٰ، عبدالکریم زیدان، ڈاکٹر جمال عطیہ ، ڈاکٹر یوسف قرضاوی، ڈاکٹر توفیق شاوی، پروفیسرمصطفی احمدزرقا، پروفیسر محمد قطب،پروفیسر عبد الحکیم عابدین،ڈاکٹر مالک بدری اور ان کے ہمراہ دیگر رفقا نے قائدانہ سطح کی کتب تحریر کیں۔انھوں نے یہ کام ایک ٹیم کی طرح انجام دیا۔ اوراس قافلۂ علم و دانش میں آج بھی قیمتی اضافے ہورہے ہیں۔پھر خود امام حسن البنا کے والد گرامی احمد عبدالرحمن البنا نے الفتح الربانی (شرح مسند امام احمد) ۲۴ جلدوں پر مشتمل ایک  بڑا وقیع علمی کارنامہ انجام دیا۔

اسی طرح صحافت کے میدان میں اخوان کے تجربات ،ندرت ِخیال ،بروقت اظہار ،  علمی شان اور عزم و حوصلے کو ابھارنے والاانداز بھی ایک قابل رشک پہلو رکھتاہے۔ یہ ایک دو پرچوں کی بات نہیں، بلکہ اس میں عربی،انگریزی اور فرانسیسی میں درجنوں چھوٹے بڑے رسائل وجرائد کے نام سامنے آتے ہیں۔پابندیاںلگتی رہیں،مگر نام ،اسلوب اور مقام بدل کرحق کی گواہی دینے کا فریضہ ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کی گئی۔پھر علمی اور تحقیقی مجلوں کو دیکھتے ہیںتومختلف عرب ریاستوں اور یونی ورسٹیوں کے جرائد تک میں اخوانی علم کلام کی گونج سنائی دیتی ہے،کہیںدھیمے انداز میںاور کہیں پُرزور انداز میں۔یہ سب کام ایمانی حلاوت ،اجتماعی وابستگی،روحانی جذبے اور مؤثر تربیت کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں۔

  •  آج کا منظرنامہ اور تقاضے:تحریک احیاے اسلام کے مخالفین نے جماعت اسلامی  اور اخوان المسلمون کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہوئے جہاد اور اسلامی ریاست کو ہدف تنقید بنایا ہے،اور ان دونوں چیزوں کو دہشت گردی سے جوڑ دیا ہے۔درحقیقت اس مغربی جارحیت کا مرکزی نکتہ اسلام کا وہ تصور ہے کہ جس کی وجہ سے امت کا اجتماعی ذہن مغرب کی طاغوتی بالادستی اور اس کی ذہنی، فکری، معاشی اور تہذیبی حاکمیت کو ماننے سے انکار کرتا ہے۔اہل مغرب یہ چاہتے ہیں کہ ان کی من مانی اور دھونس کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ ہو۔ ہر کوئی ، ہر معاملے میں انھی کے فکر، خیال، اقدام اور عمل کو قبول کرے اور ایک خادم کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر تیار ہو۔مغرب کے عزائم کے برعکس مسلمانوں کی تصورِجہاد سے وابستگی لازوال ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس امت کی طرف سے ہر نوعیت کے ظلم کے خلاف مزاحمت رک نہیں سکتی۔

اس جارحانہ پروپیگنڈے اور حالات وواقعات کے منفی بہاؤ کو دیکھتے ہوئے بسا اوقات لوگوں پر مایوسی کے آثار نظر آتے ہیں۔بلاشبہہ بے جا خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے، لیکن خواہ مخواہ کی مایوسی بھی غلط ہے۔ دشمن کے پروپیگنڈے سے خائف نہیں ہونا چاہیے، مگر کھلی آنکھوں اور کشادہ ذہن کے ساتھ معاملات کا تجزیہ کرنے کا عمل بھی ترک نہیں کرنا چاہیے۔

موجودہ عہد میں جس وسعت اورجس شدت کے ساتھ مولانا مودودی ،حسن البنا شہید، اور سید قطب شہیدکے خلاف یہود ونصاریٰ اور ہنود پروپیگنڈا کر رہے ہیں، اس کی فکری، مذہبی اور عملی بنیادوں کا ادراک کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں سید قطب اور مولانا مودودی کی فکر کو درست   پس منظر میں پیش کرنا نہایت ضروری ہے۔ جذباتی اور علامتی وابستگی سے بڑھ کر اسے شعوری اور نظریاتی تناظر میں سمجھنے اور پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

مولانا مودودی اسلامی تحریکوںکے سامنے آج ایک بڑا چیلنج یہ بھی ہے کہ صف بندی گہرے شعور کے ساتھ کی جائے اور مسلمان نوجوانوں کو دردمندی سے سنبھالا جائے۔اگر کوئی مسلمان نوجوان شدید دباؤ کے نتیجے میں ردعمل کے راستے پر جاتا ہے تو مجھے ڈر ہے کہ پھر وہ مغرب کے تعصب اور ظلم و ستم کے جواب میں اور زیادہ تشدد کی طرف ہی جائے گا۔ اصولاً یہ راستہ نہ درست ہے اور نہ مطلوب۔ اگر یہ نوجوان سید قطب اور سید مودودی کے اصل فکری نظام (پیراڈائم)کو  سمجھ لے گا تو ظلم کے خلاف دلیل کی قوت، کردار کی شان اور دعوت وحکمت کی طاقت کے ساتھ تو ضرور اٹھے گا، لیکن ایک ظلم کی جگہ وہ کبھی دوسرے ظلم کا حصہ نہیںبنے گا۔ یہ اسی وقت ہو گا جب وہ اس نظامِ فکر اور نظم ِتنظیم سے وابستہ ہوگا۔ اس طریقۂ کار کے لیے وقت لگے گا، محنت کرنا ہوگی،اورصبر و ہمت سے کام کرنا پڑے گا۔

میں تشدد کے فروغ کی کسی بھی شکل کو حقیقی اسلامی تحریک اور اسلامی احیا کے لیے ایک   تباہ کن خطرہ سمجھتا ہوں، تاہم کشمیر، فلسطین، چیچنیا میں آزادی کی تحریکوں، اور عراق و افغانستان پر غیرملکی تسلط کی نوعیت دوسری ہے۔ اسلام، انسانیت کے لیے نظام رحمت ہے، اورنبی کریمؐ رحمۃ للعالمین ہیں۔ اسلام کے علَم بردار یہ بات قبول نہیں کرسکتے کہ ایک ظالم کے ظلم کی سزا دوسرے بے گناہ لوگوں کو دی جائے۔ اس لیے جب مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے کا مرحلہ آئے تو وہ بھی،رحمت عالمؐ کے پیش کردہ نمونۂ عمل کو سامنے رکھ کر اختیار کرنا ہوگا۔اس کے علاوہ اختیار کردہ راستہ سرور عالمؐ کا راستہ نہیںہوسکتا،چاہے اس کے لیے کیسے ہی خوش نما دعوے اور دلائل پیش کیے جائیں۔جان لینا چاہیے کہ جہاد اور انتقامی تشدد کے درمیان بڑا فرق ہے۔ ہمیں دشمن کے کھیل کا حصہ نہیں بننا،مگر خاموشی سے بھی خود ہمارے اور اسلام کے بارے میں ایک غلط تصور پیدا ہوگا۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ انسانیت کو خیر کی طرف بلائیں اور شھداء علی الناس کی ذمہ داری ادا کریں۔ ہم سب کو فکر کرنی چاہیے کہ اسلام کی دعوت، تربیت، شناخت اور تحریک اسلامی کا امتیازی کردار مجروح نہ ہونے پائے۔

یہی حسن البنا شہید اور مولانا مودودی کی دعوت اور ان کا پیغام ہے۔

                                               

۹ مارچ ۲۰۰۷ء پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن ایک جرنیل نے اقتدار کے نشے میں ملک کے چیف جسٹس کو کئی گھنٹے اپنے کیمپ آفس میں قید رکھنے کے بعد بڑی رعونت سے معطل کردیا اور دستور کے واضح احکام کے برعکس ایک قائم مقام چیف جسٹس مقرر کردیا۔ کراچی اور لاہور سے ججوں کو ہوا کے دوش پر اسلام آباد لاکر اپنی مرضی سے ایک سپریم جوڈیشل کونسل قائم کردی جسے ناشایستہ عجلت (indecent haste) کے ساتھ دستوری چیف جسٹس کے خلاف ایک ریفرنس سے بھی نواز دیا گیا اور اس کونسل نے چشم زدن میں چیف جسٹس کے غیرفعال (non functional) کیے جانے پر مہرتصدیق ثبت کردی۔ اس طرح عملاً فوجی قیادت کے ہاتھوں عدلیہ کے خلاف ایک کودِتا (coup d'e'tat) واقع ہوگیا۔

پاکستان ہی نہیں‘ مہذب دنیا کی تاریخ میں نظامِ عدل کے خلاف ایسے کمانڈو ایکشن کی مثال نہیں ملتی۔ پھر چیف جسٹس کو اس طرح من مانے طور پر معطل ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس کے ساتھ سخت ہتک آمیز رویہ اختیار کیا گیا۔ اسے زبردستی سپریم کورٹ جانے سے روک دیا گیا۔ اس کی کار اور گھر پر سے قومی اور چیف جسٹس کا جھنڈا اُتار دیا گیا۔ گھر پر پولیس اور رینجرز کی ایک بڑی نفری لگادی گئی۔ سارے راستے بند کردیے گئے‘ گھر سے لفٹر کے ذریعے گاڑیاں اٹھا لی گئیں۔ ٹیلی فون‘ ٹی وی اور انٹرنیٹ سے رشتے منقطع کردیے گئے اور ایک دہشت کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس لام بندی کے نتیجے میں فطری طور پر کچھ لمحات کے لیے پورے ملک پر سکتے کی سی کیفیت طاری ہوگئی لیکن پھر جلد ہی دکھ‘ حیرت اور افسوس اور غم و غصے کے بادل چھٹنے لگے۔

 جیسے ہی عوام و خواص کو معلوم ہوا کہ چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری نے عدلیہ پر حملہ آور ہونے والوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا ہے اور اپنی اور عدلیہ کی عزت کی حفاظت کے عزم اور جرأت کا اظہار کیا ہے تو پوری قوم ایک نئے جذبے سے چیف جسٹس کے ساتھ یک جہتی کے اظہار اور عدلیہ کی آزادی‘ عزت اور وقار کی تائید‘ دستور اور قانون کی بالادستی اور فسطائی قوتوں کی دراندازیوں کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی اور یک زبان ہوکر انصاف اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے سرگرم ہوگئی___ اور ۹ مارچ کے بعد کا ہر دن گواہ ہے کہ ملک کے گوشے گوشے میں وکلا‘ سیاسی اور دینی جماعتیں‘ صحافی‘ تاجر‘ طلبہ‘ غرض سوسائٹی کے تمام ہی طبقے جرنیلی آمریت کے اس وار کا بھرپور توڑ کرنے کی ملک گیر جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور ریاستی دہشت گردی اور پولیس اور رینجرز کی گولیوں اور لاٹھیوں کا پُرامن اور پُرعزم انداز میں مقابلہ کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کو توقع تھی کہ وہ چیف جسٹس کو یوں دبوچ کر عدلیہ کو اپنی گرفت میں لے آئیں گے اور الیکشن کے اس فیصلہ کن سال میں اپنی من مانی کرنے کے لیے بگ ٹٹ کارفرمائیاں کرسکیں گے لیکن وہ اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر کچھ دوسری ہی تھی___ جو کام انھوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے اور عدالت کے مقدس ادارے کو اپنی خواہشات کے تابع کرنے کے لیے اٹھایا تھا‘ وہی ان کے زوال اور ان شاء اللہ بالآخر مکمل ناکامی کا وسیلہ بن گیا۔ وَ یَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَo  (الانفال ۸:۳۰) ’’وہ اپنی چالیںچل رہے تھے‘ اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا‘ اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے‘‘۔

ایک اھم تاریخی واقعہ

جس طرح عدلیہ پر جرنیلی آمریت کے اس حملے کے جواب میں وکلا برادری اور ملک کی تمام ہی دینی‘ سیاسی‘ سماجی اور تجارتی قوتیں اُٹھ کھڑی ہوئی ہیں‘ اس سے ایک اہم تاریخی واقعے کی یاد تازہ ہوگئی جس میں آج کے پاکستان اور اس میں ہونے والی اس کش مکش کے لیے جو حکمرانوں اور عوام میں برپا ہے‘ بڑا سبق ہے۔

یہ واقعہ ساتویں صدی ہجری کے وسط (۶۳۹ھ) کا ہے جب مصر پر مملوک (خاندانِ غلاماں) حکمران تھے اور محض قوت کی بنیاد پر قانونی ضابطوں اور فقہی احکام کو پامال کر رہے تھے۔ اس زمانے میں ایک صاحبِ عزیمت قاضی شمس العلماء شیخ عزالدین عبدالسلامؒ نے ایک سنہری مثال قائم کرکے اسلام کے اصولِ حکمرانی اور نظامِ عدل کو نئی زندگی عطا کی۔ شیخ کا تعلق اصلاً بلادِشام سے تھا اور اپنے علم اور تقویٰ کی وجہ سے اسلامی دنیا میں شہرت رکھتے تھے۔ جب وہ مصر آئے تو الملک الصالح نجم الدین نے ان کو قضا (عدالت) کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز کیا۔ شیخ عزالدین نے قانونی معاملات میں مملوک اربابِ اقتدار کے خلاف بڑی جرأت سے حق و انصاف کے مطابق فتوے دیے اور احکام صادر کیے جس سے اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی۔ بادشاہ نے خود شیخ کے پاس آکر فتویٰ اور عدالتی فیصلہ تبدیل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا مگر شیخ نے صاف انکار کردیا اور کہہ دیا کہ وہ عدالتی معاملات میں دخل اندازی نہ کریں ورنہ شیخ قضا کے منصب سے دست بردار ہوجائیں گے۔ نائب سلطنت نہ مانا اور ننگی تلوار لے کر اپنے سپاہیوں کے ساتھ شیخ کو قتل کرنے کے لیے ان کے گھر پہنچا اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ شیخ کے نوعمر بچے نے دروازہ کھولا تھا‘ شمشیر بدست سپاہیوں کو دیکھ کر سخت پریشان ہوا لیکن شیخ ایمان‘ عزم اور ہمت کا پیکر تھے۔ بلاخوف نائب سلطنت کے سامنے آئے اور وہ ایسا ہیبت زدہ ہوا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ شیخ نے فتویٰ تبدیل کرنے سے انکار کیا اور پوری متانت سے اپنا تمام سامان گھر سے نکال کے گدھے پر لادا اور قاہرہ چھوڑنے کا عزم کرلیا۔ سوال کیا گیا کہ کہاں جا رہے ہیں؟ تو جواب دیا گیا کہ ’’کیا اللہ کی زمین فراخ نہیں ہے کہ کسی ایسی سرزمین پر رہا جائے جہاں قانون کی پاس داری نہ ہو‘ جہاں اہلِ شریعت بے قیمت ہوجائیں اور عدالتی نظام میں اربابِ اقتدار مداخلت کریں‘‘۔

قاضی القضاۃ کے اس اقدام کی خبر قاہرہ کے طول و عرض میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور پھر کیا تھا___ مؤرخ لکھتے ہیں کہ کیا عالم اور کیا عامی‘ پورا قاہرہ گویا قاضی کی ہم نوائی کے لیے اُمنڈ آیا اور شیخ کے ساتھ ہوگیا۔ عوام الناس مصر کے قاضی کی حمایت میں گھروں سے اس طرح نکل آئے کہ بچے‘ بوڑھے‘ جوان‘ مرد‘ خواتین سب ان کے ساتھ تھیں۔ اس عوامی یک جہتی نے حکمرانوں کو ششدر کر دیا اور سلطان نے قاضی کے آگے سپر ڈال دی۔ مملوک اربابِ اقتدار شیخ کے فیصلے کو ماننے پر مجبور ہوئے اور اس طرح قانون نے اپنی بالادستی منوا لی اور عدالت کی عصمت اور وقار کا بول بالا ہوا۔ (ملاحظہ ہو‘ عبدالرحمن الشرقاوی کی کتاب  ائمہ الفقہ التسعہ‘  ص ۳۶۰-۳۶۱)

اس واقعے سے اسلامی قانون‘ نظامِ عدل اور اصولِ حکمرانی کے باب میں چند بنیادی اصول بالکل کھل کر سامنے آتے ہیں:

پہلا اصول قانون کی حکمرانی اور شریعت کی بالادستی کا ہے۔ اللہ کے دین اور انبیاے کرام علیہم السلام کی دعوت کا مرکزی نکتہ اللہ کی عبادت اور بندگی کے ساتھ انسانوں کے درمیان عدل وانصاف کا قیام ہے (الحدید۵۷:۲۵)۔ مقاصدشریعت میں سرفہرست عدل اورقسط کی فراہمی ہے اور اس بارے میں کوئی سمجھوتا یا مداہنت ممکن نہیں۔

دوسرا اصول قانون کی نگاہ میں سب کی برابری ہے۔ اس سلسلے میں امیراور غریب اور طاقت ور اور کمزور میں کوئی تمیز نہیں۔ سب کے لیے ایک ہی قانون ہے جیساکہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ماضی میں قومیں اس لیے تباہ ہوگئیں کہ وہ کمزوروں پر تو قانون لاگو کرتے تھے مگر ذی اثر قانون سے بالا رہتے تھے‘ جب کہ آپؐ کے مشن کا ہدف ہی یہ ہے کہ تمام انسانوں کو ایک ہی قانون کا پابند کیا جائے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر (العیاذ باللّٰہ) فاطمہ بنت محمدؐ بھی چوری کی مرتکب ہوگی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جائے گا۔

تیسرا اصول عدلیہ کی آزادی اور قضا کے نظام کا انتظامیہ کی دراندازی سے مکمل طور پر پاک ہونا ہے۔ حاکمِ وقت پر بھی قاضی کا حکم اسی طرح نافذ ہے جس طرح کسی عام شہری پر۔ اور حکمرانوں کو قضا کے معاملات میںمداخلت یا اس پر اثرانداز ہونے کا کوئی حق نہیں۔

چوتھی چیز قوم کا عدلیہ پر اعتماد ہے ‘جو قاضی کے علم اور تقویٰ اور انصاف کے باب میں اس کے بے لاگ ہی نہیں‘ ہر اثر سے بالا ہونے پر مبنی ہے۔ عدل کی میزان کے آگے قوت کی تلوار بے اثر ہے اور تلوار کو عدل کی میزان کے خادم کاکردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب عدالت اور عدل قائم کرنے کے ذمہ دار دیانت اور اپنے منصب کے تقاضوں کو پورا کرکے عوام کا اعتماد حاصل کریں۔

پانچواں اصول اور سبق اس واقعے سے یہ بھی نکلتا ہے کہ اگر تلوار میزانِ عدل کی چاکری کرنے سے باغی ہو‘ تو پھر عوام کی قوت وہ قوت ہے جو تلوار کو قابو کرسکتی ہے اور تلوار کو حدود کا پابند اور عدل کا آلہ کار بنا سکتی ہے۔ اس کے لیے عوام کا چوکس ہونا اور نظامِ عدل کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہونے کا عزم اور آمادگی ہی نہیں‘ اس کا عملی اظہار بھی ضروری ہے۔ یہی جذبہ اور جرأت اس بات کا ضامن بن جاتا ہے کہ تلوار کمزور کے لیے خطرہ نہ بنے اور معاشرے میں انصاف اور خیر کی حفاظت اور افزایش کا ذریعہ بنے۔ نیز خود نظامِ عدل تلوار کی زد سے محفوظ رہے۔

یہ وہ اصول ہیں جن کی روشنی میں آج بھی ہمیں اپنے مقصد کا تعین اور اس کے حصول کی صحیح اور مؤثر حکمت عملی اور مناسب نقشۂ کار تیار کرنا چاہیے۔

عدلیہ اور دستوری حکمرانی کو چیلنج

جنرل پرویز مشرف نے ملک کے چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری کو بظاہر جبری رخصت پر بھیج کر (مگربیک بینی و دوگوش عملاً برطرف کرکے) دراصل پورے نظامِ عدل اور دستوری حکمرانی کے عمل کو چیلنج کیا ہے۔ اگر اسے برداشت کرلیا جاتا ہے تو پھر ملک پر شخصی اور فوجی آمریت کواپنی قبیح ترین صورت میں مسلط ہونے سے روکا نہیں جاسکتا۔ اور یہ سارا کھیل کھیلا بھی اسی لیے گیا کہ عدالت کو اپنی گرفت میں لے کر سیاسی دروبست اور حکمرانی (governance) کے پورے عمل کو اپنے تابع کرلیا جائے۔ جس طرح یہ کام کیا گیا‘ اس میں دستور اور قانون کی تو دھجیاں بکھیری ہی گئیں‘ لیکن افسوس ہے شرافت اور انسانیت کی ہر قدر کو بھی پامال کیا گیا اور مقصد یہ دکھانا تھا کہ فوجی حکمران جس طرح چاہیں اور جدھر چاہیں نظامِ حکومت کو ہنکا سکتے ہیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ یہ کام پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا اور مستقبل کے سیاسی نقشے کی ایک خاص سمت میں صورت گری کے مقصد سے کیا گیا۔ چیف جسٹس کی ذات کو اس لیے نشانہ بنایا گیا کہ ان کو قابو کرکے عدلیہ کے پورے ادارے (institution) کو اپنا تابع مہمل بنایا جاسکے اور یہ اس لیے ضروری تھا کہ دستور کی جو خلاف ورزیاں ہورہی ہیں اور جو مزید پیش نظر ہیں ان کو صرف اس صورت میں روا رکھا جا سکتا ہے کہ عدلیہ اس پر صاد کرے۔ فوجی حکمرانوں اور آمرانہ عزائم رکھنے والوں نے۱۹۵۴ء سے یہی راستہ اختیار کیا ہے اور بدقسمتی سے عدالتوں نے بھی نظریۂ ضرورت کا سہارا لے کر فسطائی قوتوں کی کارفرمائیوں کے لیے سندجواز فراہم کرنے کی خدمت بالعموم انجام دی ہے۔ مجبوریاں اور توجیہات جو بھی ہوں‘ نیز جب بھی کسی صاحب ِ عزم جج نے دستور سے انحراف کے اس راستے کو روکنے‘ اور قانون کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کی حفاظت کی کوشش کی ہے‘ اسے راستے سے ہٹانے کا کھیل کھیلا گیا ہے۔ کبھی یہ کام اچھے ججوں کی ترقی کا راستہ روک کر کیا گیا ہے تو کبھی ان کو راستے سے ہٹاکر‘ جس کے لیے نت نئے انداز میں عبوری دستوروں کا ڈھونگ رچا کر تازہ حلف کا مطالبہ کرکے یہ مقصد حاصل کیا گیا ہے۔

بات کسی کی ذات کی نہیں‘ اصول کی ہے اس لیے یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ جون ۲۰۰۵ء میں جسٹس افتخارمحمد چودھری کے چیف جسٹس بننے کے بعد حکمرانوں کو توقع تھی کہ چونکہ وہ ۲۰۱۳ء تک چیف جسٹس رہیں گے‘ اس لیے ان سے ایک طویل رفاقت (long partnership)  کا سلسلہ استوار کیا جائے۔ لیکن ان کو اس ڈیڑھ پونے دو سال بعد یہ احساس ہوگیا کہ راوی کے لیے سب چین لکھنا ممکن نہیں۔ جسے ’عدالتی فعالیت‘(judicial activism) کہا جا رہا ہے‘ وہ حکمرانوں کے عزائم کی تکمیل میں رکاوٹ بنتی جارہی ہے۔ خاص طور پر انسانی حقوق کی حفاظت‘ دستور کے مکمل احترام‘پارلیمانی جمہوریت اور فیوڈلزم کے اصولوں کی پاس داری اور سب سے بڑھ کر سیاست میں فوج کے مستقل رول کے سلسلے میں عدالت سے جس قسم کا تعاون فوجی حکمرانوں کو مطلوب تھا‘ وہ ملنا مشکل ہو رہا تھا‘ اس لیے چیف جسٹس کے خلاف دائرہ تنگ کرنے کا اور فائلیں بنانے کا کھیل شروع کردیا گیا اور نئے انتخابی عمل کے شروع ہونے سے پہلے ہی ان سے نجات حاصل کرلینے کی منصوبہ سازی کی گئی۔

اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے فوجی اقدام اور ۲۰۰۲ء کے نام نہاد ریفرنڈم کے جواز (validation) میں جسٹس افتخار محمد چودھری کی تائیدی آواز نے ان عناصر کو غالباً ہمت دلائی ہوگی‘ لیکن ان کی توقعات پوری ہوتی نظر نہیں آرہی تھیں۔ چیف جسٹس بننے کے بعد بھی جس حد تک حکومت کا لحاظ رکھا جاسکتا تھا‘ رکھا گیا۱؎ ،گو اس بارے میں دوسری راے بھی موجود ہے لیکن جس طرح سپریم کورٹ بنیادی حقوق‘ دستور کی بالادستی اور مظلوم افراد اور طبقات کی حق رسائی کے سلسلے میں محتاط لیکن آزاد روش اختیار کر رہی تھی اس سے اقتدار کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں اور ایجنسیوں کی سکہ بند کارروائیوں کے سہارے جنرل صاحب نے بالآخر ۹مارچ کو عدالت عظمیٰ پر بڑی عجلت اور بھونڈے انداز میں بھرپور وار کردیا۔ پھر اس کے دفاع میں انھوں نے اور ان کے چند وزرا نے جو انداز اختیار کیا اس نے حق‘ انصاف‘ سچائی سب کو پرزے پرزے کردیا اور ملک اور ملک کے باہر پاکستان کے امیج کو جتنا نقصان اس جارحانہ حملے اور اس کے بعد کیے جانے والے غیردستوری‘ غیراخلاقی اور غیرمہذب اقدامات نے پہنچایا ہے‘ اتنا کبھی کسی اور نے نہیں پہنچایا۔

چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری صاحب کے خلاف جو اقدام کیا گیا ہے وہ دستور‘ قانون‘ اخلاق و آداب اور عقلِ عام ہر ایک کے خلاف ہے اور بدیہی طور پر بدنیتی (malafide) پر مبنی نظرآتا ہے۔ ہمیں توقع ہے سپریم جوڈیشل کونسل اس ریفرنس کا فیصلہ حق وانصاف اور دستور کے مطابق کرے گی۔ آج جسٹس افتخارمحمد چودھری ہی زیرسماعت (on trial) نہیں خود اس ملک کا عدالتی نظام بھی زیرسماعت (on trial) ہے اور اللہ کی عدالت کے ساتھ اب عوام کی عدالت بھی   ساتھ ہی ساتھ برسرِعمل ہے۔ دنیاوی حد تک آخری فیصلہ عوام ہی کا قبول کیا جائے گا‘ اس لیے بھی کہ   ؎

زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
بُرا کہے جسے دنیا ، اسے بُرا سمجھو

جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواری بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ معاملہ عدالت کے زیرسماعت ہے اور اس پر صحافتی اور عوامی سطح پر کوئی بحث نہیں ہونی چاہیے اور یہ بھی کہ ایک دستوری مسئلے پر حزبِ اختلاف اور وکلا حضرات سیاست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو قابلِ مذمت اور ناقابلِ قبول ہے۔ یہ اعلانات سنتے سنتے کان پک گئے ہیں‘ اس لیے سب سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان دعووں کے بارے میں کچھ عرض کردیا جائے۔

بلاشبہہ عدالت میں زیرسماعت معاملات کا فیصلہ عدالت پر چھوڑنا چاہیے اور کسی طرح بھی عدالت کو متاثر کرنا غلط ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ جو دستوری‘ قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی معاملات کسی بھی تنازع سے متعلق ہوں ان پر کلام نہ کیا جائے۔ عدالت کی کارروائی یا اس کو متاثر کرنے والی چیزوں پر تبصرہ معیوب نہیں‘ اصل مسائل پر بات چیت نہ صرف عدالت کے وقار کے منافی نہیں بلکہ عدالت کو حالات کو سمجھنے اور صحیح راے پر پہنچنے میں مددگار ہوتی ہے۔

قانون کی اصطلاح sub judice کے دو مفہوم ہیں: ایک under or before a 

court or judge/ under judicial consideration اور دوسرے undetermined۔ یعنی ابھی اس متنازع امر کو طے کرنا باقی ہے جو کام عدالت کر رہی ہے۔ کوئی اقدام جو عدالت کے اس کام میں مخل ہو یا اسے انصاف کرنے سے منع کرنے والا ہو‘ وہ غلط ہے۔ لیکن ہر وہ کام‘ بحث‘ مدد جو انصاف کے قیام کو آسان بنانے اور مسئلے کی تنقیح میں مددگار ہو‘ وہ ممنوع نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ توہین عدالت (contempt of court) کی تعریف یہ کی گئی ہے:

ایسا عمل جو عدالت کو انصاف فراہم کرنے سے روکے‘ رکاوٹ بنے یا پریشانی کا باعث ہو‘ یا جو اس کے وقار کو نقصان پہنچائے۔ (Black's Law Dictionary‘ص ۲۸۸)

عدالت کے زیرسماعت کے نام پر دستوری اور سیاسی موضوعات پر بحث و گفتگو کا دروازہ بند کرنا یا ان تمام امور کا زیربحث لانا جن سے خود عدالت کو مسئلے کو سمجھنے اور تنازع کے منصفانہ حل میں مدد ملے‘ نہ توہینِ عدالت(contempt) کی تعریف میں آتا ہے اور نہ زیرسماعت کی قدغن ان پر لاگو ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہو تو زندگی کے ہزاروں لاکھوں امور پر اظہار راے اور بحث و مباحثے کا دروازہ بند ہوجائے۔

یہ تو تھی اصولی بات‘ لیکن جب یہ بات ان کی طرف سے کی جاتی ہے جنھوں نے    چیف جسٹس کا میڈیا ٹرائل آج نہیں‘ اسٹیل مل کے فیصلے کے فوراً بعد ۲۰۰۶ء کے وسط سے شروع کردیا تھا اور جو تسلسل کے ساتھ پریس کو ایک خاص نوعیت کی معلومات خفیہ طور پر فراہم کرکے پریشر بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں تو  ع

ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے

جرنیل صاحب خود ٹی وی پر دو گھنٹے لن ترانی فرماتے ہیں اور ہرجلسے میں گوہرافشانیاں کررہے ہیں۔ ان کے وزیر اور دو صوبائی وزراے اعلیٰ دن رات اسی مشق میں مبتلا ہیں اور جو وزیر خاموش ہیں جرنیل صاحب ان کو للکار رہے ہیں کہ میدان میں اترو‘ میرا دفاع کرو اور چیف جسٹس کے خلاف مہم چلائو۔ یہ سب سیاست نہیں تو کیا ہے؟ اس کے مقابلے میں ہماری سیاست شرافت‘ متانت اور دلیل کی سیاست ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ فوج کا سربراہ فوجی وردی میںسیاسی تقاریر کر رہا ہے‘ ووٹ مانگ رہا ہے۔ مخالفین کو تہس نہس کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے‘ قومی خزانے کو ہرجلسے میں بے دریغ لٹا رہا ہے۔ اگر یہ سیاست گندی سیاست نہیں تو کیا اسے فوجی پریڈ اور جنگی مشق (military exercise) کہا جائے گا؟ حکومت کا پورا اقدام اور اس پس منظر اور پیش منظر کی ہرہرحرکت سیاسی ہی نہیں‘ اوچھی سیاست بازی کی غماز ہے۔ اگر اہلِ سیاست اور قانون دان اس پر بھی ردعمل ظاہر نہ کریں تووہ اپنے فرائض منصبی کی ادایگی میں مجرمانہ کوتاہی کے مرتکب ہوں گے۔ سیاست خود کوئی برائی نہیں‘ جمہوری عمل تو عبارت ہی سیاست سے ہے۔ البتہ اوچھی سیاست نہیں ہونی چاہیے لیکن اس کا ارتکاب وکلا اور سیاست دانوں نے نہیں‘ جنرل صاحب اور ان کی حکومت نے کیا ہے۔ اس کے لیے ہماری بات نہیں‘ ان کے ان مداحوں کی سند بھی حاضر ہے  جن کے بل بوتے پر فوج کے سربراہ سیاست فرما رہے ہیں۔

مغرب کی تنقید

 لندن کا روزنامہ دی ٹائمز اپنی ۱۴مارچ ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں Judicial Errorکے عنوان سے ادارتی کالم میں پاکستان کے حالات پر یوں تبصرہ کرتا ہے:

۱۹۹۹ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے صدرمشرف کا اصرار رہا ہے کہ ان کا مقصد پاکستان کے لیے حقیقی جمہوریت ہے… لیکن انھوں نے حسب وعدہ ملک میں ایک منتخب جمہوری حکومت کی واپسی کے لیے کوئی خاص سرگرمی نہیں دکھائی ہے۔

 چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کی برطرفی اور اس کے خلاف عوامی ردعمل کا ذکرکرنے کے بعد دی ٹائمز فیصلہ دیتا ہے کہ:

Pakistan is literally without rule of law.

اور پھر چیف جسٹس چودھری کے ’عدالتی تحرک‘ پہلے سے جمع شدہ مقدمات کو نمٹائے اور خصوصیت سے لاپتہ ہوجانے والے افراد کے حقوق کی حفاظت کے باب میں مساعی کا ذکرکرنے کے بعد جنرل صاحب کے دوسروں پر سیاست چمکانے کے دعوے کے جواب میں بڑی مسکت انداز میں اداریے میں کہا گیا ہے کہ:

حکومت کے لیے کسی سیاسی محرک کا انکار لاحاصل ہے۔ اس کے اقدام کو تقریباً پوری دنیا میں اس سال کے انتخابات کے‘ اُن ضوابط کے تحت انعقاد سے پہلے جن کو قانونی طور پر چیلنج کرنے کی توقع ہے‘ عدلیہ کو سدھانے کی کوشش سمجھا جارہا ہے۔

اگر سیاست کا جواب سیاست سے نہ دیا جائے تو کیا کیا جائے؟ جنرل صاحب کے مقدمے کے بودے پن کا پول بھی ٹائمز نے یہ کہہ کر کھول دیا ہے کہ:

اب تک حکومت نے مسٹر چودھری کے خلاف جو کچھ کہاہے اگر ان کا مقدمہ اس سے بہت زیادہ خراب نہیں ہے تو ان کو بحال کردیا جانا چاہیے۔ اچھے جنرل جانتے ہیں کہ کب قدم پیچھے ہٹانے چاہییں۔ (ٹائمز، اداریہ‘ ۱۴ مارچ ۲۰۰۷ء)

نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، لاس اینجلز ٹائمز اور دوسرے مغربی اخبارات اور رسائل نے اپنے اپنے انداز میں یہی بات لکھی ہے کہ اصل کھیل سیاسی ہے اور جرنیل صاحب عدالت عالیہ کے دستوری اور قانونی امور اور حقوق انسانی کے معاملات میں حکومت پر گرفت سے پریشان ہیں‘ اور اس انتخاب کے سال میں اپنی وردی بچانے اور انتخاب کو من پسند انداز میں منعقد کرانے میں عدالت کی ممکنہ رکاوٹ کو دُور کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سیاست نہیں‘ بلکہ گندی اور پست سطح کی سیاست نہیں تو اور کیا ہے اور اس کا مقابلہ سیاسی تحریک سے نہیں تو پھر کس طریقے سے ہوسکتا ہے؟ ہم صرف اہم ذرائع یعنی لندن کے اخبار دی گاڑدیناور ہفت روزہ اکانومسٹ سے ضروری اقتباس دینے پر کفایت کرتے ہیں تاکہ جنرل صاحب اور ان کے میڈیا منتظمین کو اندازہ ہوجائے کہ   ؎

پتّا پتّا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ توسارا جانے ہے

دی گارڈین لندن اپنے ۱۷ مارچ ۲۰۰۷ء کے اداریے Justice Deniedمیں‘ جنرل مشرف اور چیف جسٹس کی ملاقات کا حال بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے:

پاکستان ایک جوش کی کیفیت میں ہے۔ جب جنرل مشرف نے آٹھ سال قبل فوجی انقلاب کے ذریعے قبضہ کیا تھا‘ اس کے بعد مسٹر چودھری پہلے شہری ہیں جو اس کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں۔ کم قیمت پر اسٹیل مل کی نج کاری کے فیصلے کو اُلٹ دینے‘ اور ان سیکڑوں لوگوں کے مسئلے کو جنھیں انٹیلی جنس ایجنسیوں نے غائب کررکھا ہے لے کر اُٹھنے کی وجہ سے وہ حکومت کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہے تھے۔ لیکن مشرف کا وار حفظ ماتقدم کے طور پر بھی تھا۔

صدر کا انتخاب ایک پارلیمنٹ نے کیا ہے جس کی مدت اگلے سال ختم ہورہی ہے۔ مشرف کی اتنی مخالفت ہے کہ آنے والی پارلیمنٹ کا صاد کرنے کا امکان نہیں‘ خاص طور پر اس لیے کہ اس نے فوج کے سربراہ کا عہدہ چھوڑنے سے انکار کیا ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ ہی سے اپنا انتخاب کروانے کی کوشش پر بہت سے قانونی اقدام ہوں گے۔ اس لیے ضرورت ہے ایک تابع دار چیف جسٹس کو مسند پر بٹھانے کی۔

لندن اکانومسٹ پاکستان کی صورت حال کا اپنے کالم میں جائزہ لیتے ہوئے یہ لکھتا ہے:

پاکستان کے شمالی قبائلی علاقوں کو زیر کرنے کی فوج کی کوششیں جنرل کی گرتی ہوئی مقبولیت کی ایک وجہ ہیں۔ اس وجہ سے وہ لوگوں کو  ایک امریکی کٹھ پتلی لگتا ہے۔ اس بات نے حال ہی میں پاکستان کے بڑے شہروں میں چھے خودکش حملوں سمیت دہشت گردی کی ایک لہر کو اٹھادیا۔ صدر کی کوشش یہ ہے کہ اقتدار پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے عدلیہ کا بازو مروڑ دیا جائے۔

اپنے اب تک کے دوسالہ دور میں مسٹر چودھری نے کم و بیش ہر وہ چیز کی ہے جس کی توقع ایک پاکستانی جج سے نہیں کی جاتی۔ انھوں نے بلوچستان میں مشتبہ باغیوں کے غائب کیے جانے پر انکوائری شروع کروا دی۔ انھوں نے حکمران سیاست دانوں اور پولیس کے سربراہوں کو‘ غریبوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینے پر سخت سرزنش کی۔ انھوں نے شادیوں کی شان و شوکت سے بھرپور تقریبات پر پابندی لگائی کہ اس سے طبقاتی امتیاز پیدا ہوتا ہے۔ انھوں نے افراطِ زر کے خلاف مقدمات سنے‘ پبلک پارکوں کو امیروں کے لیے گاف کلب بنانے کی ممانعت کی اور بچوں کی شادیوں کو غیرقانونی قرار دیا۔ گذشتہ برس انھوں نے ایک بڑی اسٹیل مل کی نج کاری کو بولیوں کے عمل میں بے قاعدگی کی وجہ سے روک کر صدر کو خاص طور پر ناراض کیا۔

اگر جنرل مشرف واقعتا مزید پانچ سال کے لیے صدر اور فوجی سربراہ رہنا چاہتے ہیں تو قانونی چیلنجوں کے ایک سیلاب کی توقع کرسکتے ہیں۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے واضح بات ہے کہ ایک آزاد ذہن کا اعلیٰ جج ان کی پسند کا نہیں ہو سکتاتھا۔ لیکن مسٹرچودھری کے معطل کرنے سے صورت حال زیادہ خراب ہوگئی ہے۔

اگر مسٹر چودھری کو برطرف کیا جاتا ہے تو جنرل مشرف کے لیے یہ دعویٰ کرنا مشکل ہوگا کہ ان کی حکومت دستوری ہے‘ اور اگر انھیں بحال کیا جاتا ہے تو وہ ان کے لیے بہت سی پریشانیوں اور دردسر کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایسے میں لوگ سوچتے ہیں: الیکشن ہوں گے بھی؟

سیاست چمکانے اور عدالت کے زیرسماعت ہونے کے بارے میں اتنی وضاحت کافی ہے۔ نیز مندرجہ بالا معروضات سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اصل مسئلہ اس ریفرنس کا نہیں جو ساری بے قاعدگیوں کے بعد بظاہر اب داخل کردیا گیا ہے بلکہ اپنے سیاسی کھیل کے ’رنگ میں بھنگ پڑنے‘ کے خطرے سے بچنے کے لیے کھیلا جا رہا ہے اور اس کھیل نے ملک کے اندر بھی جرنیل صاحب کی ساکھ کو‘ (جو پہلے ہی کون سی اچھی تھی) بالکل خاک میں ملا دیا ہے اور پوری دنیا میں پاکستان اور خصوصیت سے جرنیل صاحب نے جو سیاسی کھڑاگ کیا تھا اس کا پول بھی کھول دیا ہے۔

حکومت کے غیرآئینی اقدامات

اس حقیقی پس منظر کی تفہیم کے ساتھ ساتھ اس بات کی ضرورت بھی ہے کہ دستوری اور قانونی اعتبار سے بھی ان اقدامات کا جائزہ لیا جائے جو ۹ مارچ اور اس کے بعد کیے گئے ہیں۔

سب سے پہلی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ملک کا دستور‘ تمام کچھ تبدیلیوں اور ترامیم کے باوجود اختیارات کی تقسیم کا ایک واضح نقشہ پیش کرتا ہے اور اقتدار کو تین متعین اداروں میں تقسیم کرتا ہے یعنی انتظامیہ‘ مقننہ اور عدلیہ۔ انتظامیہ کا سربراہ وزیراعظم ہے‘ جب کہ صدرمملکت وفاق کی علامت۔ صدر ان امور کو چھوڑ کر جن میں اسے صواب دیدی اختیارات حاصل ہیں‘ وزیراعظم اور کابینہ کی ہدایات کا پابند ہے۔ مقننہ کاکام قانون سازی‘ پالیسی ہدایات دینا اور انتظامیہ پر نظر رکھنا اور اس کا احتساب ہے‘ جب کہ عدلیہ دستور اور قانون کی محافظ اور دونوں سے آزاد اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ ہم اس وقت اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ موجودہ صدر نے اپنی فوجی وردی کی بنیاد پر پوری انتظامیہ کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے اور کابینہ بشمول وزیراعظم ان کے تابع مہمل بنے ہوئے ہیں جو دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی اور جمہوری عمل کو مسخ کرنے کا سبب بنا ہوا ہے لیکن اس سے بڑھ کر اب وہ عدالت پر بھی مکمل کنٹرول چاہتے ہیں اور اس کے لیے ۹ مارچ کا اقدام کیا گیا ہے۔ اس سے اختیارات کی تقسیم (separation of power)کا پورا نقشہ درہم برہم ہوگیاہے۔ یہی وہ چیز ہے جو آمریت اور فسطائیت کی طرف لے جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ووڈرو ولسن نے جو امریکی صدر ہونے کے ساتھ ایک قانونی ماہر بھی تھا‘ یہ اصول بیان کیا ہے کہ:

اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ طاقت کا غلط استعمال نہیں ہوگا‘ واحد راستہ یہ ہے کہ اس کو محدود کیا جائے‘ یعنی طاقت کو طاقت سے روکا جائے۔ آزادی کی تاریخ حکومت کی طاقت پر تحدیدات کی تاریخ ہے۔

اور امریکی جج جسٹس برانڈل نے ایک مشہورمقدمہ Myees vs. United States کے فیصلے میں اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا‘ جسے دستور کا ایک مسلّمہ اصول شمار کیا جاتا ہے کہ:

۱۷۸۷ء کے کنونشن میں‘ اختیارات کی علیحدگی کا ڈاکٹرائن منظور کیا گیا‘ اس لیے نہیں کہ کارکردگی کو بڑھایا جائے بلکہ من مانی طاقت کے استعمال کو محدود کرنے کے لیے۔ مقصد ٹکرائوسے بچنا نہیں تھا بلکہ تین شعبوں (مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ) میں حکومت کے اختیارات کی تقسیم کی بنا پر ناگزیر ٹکرائو عوام کو آمریت سے بچانے کا سبب بن جاتا ہے۔(ملاحظہ کیجیے:Fundamental Law of Pakistan ، اے کے بروہی‘ ص ۷۰-۷۱)

ہمارے دستور کی بھی یہی بنیاد ہے لیکن unity of command کے نام پر جرنیل صاحب نے اس کا حلیہ بگاڑدیا ہے اور ملک پر من مانے اور آمرانہ حکمرانی (arbitarary rule)  کی سیاہ رات طاری کردی ہے۔

دستورکی رو سے عدلیہ‘ انتظامیہ سے مکمل طور پر آزاد ہے۔ صدر کو دستور کے مطابق اور دستوری روایات کا احترام کرتے ہوئے‘ جنھیں Judges Case میں قانون کا درجہ دے دیا گیا ہے‘ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے تقرر کا اختیار دیا گیا ہے لیکن ایک بار کسی جج کے تقرر کے بعد دستور نے صدر اور انتظامیہ سے یہ اختیار سلب کرلیا ہے کہ وہ جس طرح چاہے اور جب چاہے ایک جج کو فارغ کردے‘ رخصت پر بھیج دے‘ غیرفعال بنا دے‘ معطل کردے یا کسی اور شکل میں اس کے اختیارات میں تخفیف کرسکے۔ دستور کی دفعہ ۲۰۹ میں واضح طور پر لکھ دیا گیا ہے کہ صرف اس دفعہ کے تحت اعلیٰ عدالت کے کسی جج کے سلسلے میں کوئی کارروائی ہوسکتی ہے۔ وزیرقانون کی یہ ہرزہ سرائی کہ جسے ججوں کے تقرر کا اختیار ہے‘ اسے ان کو رخصت کرنے یا معطل کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے اس لائق ہی نہیں کہ اس پر سنجیدہ گفتگو کی جائے۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے۔

بلاشبہہ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیںاور کوئی قانون سے بالا نہیں اور اگر کسی جج نے اپنے منصب کے منافی کوئی کام کیا ہے تو اس کا بھی اسی طرح محاسبہ ہونا چاہیے جس طرح کسی اور کا۔ لیکن بنیادی اصول یہ ہیں کہ:

اوّل، ہر اقدام اور احتساب قانون کے تحت اور اس کے دائرے کے اندر ہو۔

دوم، نیز صرف اسے اقدام کرنے کا حق ہے جسے قانون یہ حق دیتا ہے۔

سوم، اس حق کا استعمال بھی قرار واقعی قانونی عمل (due process of law) ہی کے تحت ہوسکتا ہے۔

چہارم، قانون کا استعمال من پسند (selective) نہیں بلکہ سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہ جس سے آپ خوش ہیں اس کے لیے قانون کا کوئی وجود نہ ہو اور جس سے آپ ناراض ہوجائیں اس کے لیے ’قانون سب کے لیے‘ کا فرمان جاری ہوجائے۔

اور پنجم، قانون کا استعمال بدنیتی پر مبنی نہ ہو یعنی اسے نیک نیتی (bonafide)  سے استعمال کیا جائے بدنیتی (malafide)سے نہیں۔

چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کے معاملے میںصاف نظر آرہا ہے کہ قانون کے ان پانچوں مسلمہ اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پوری وکلا برادری اور ملک کے تمام ہی دینی‘ سیاسی اور پروفیشنل اداروں اور دانش وروں نے اسے قانون اور انصاف کا قتل قرار دیا ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل ایک دستوری ادارہ ہے جس کی تشکیل بھی دستور میں کردی گئی ہے جسے کوئی بدل نہیں سکتا۔ صدر کو دستور یہ اختیار دیتا ہے کہ کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس اسے بھیج دے۔ الزامات کی تحقیق اور جرم کے تعین کا اختیار صدر‘ وزیراعظم یا کسی اور کو حاصل نہیں اور نہ صدر کا یہ کام ہے کہ چیف جسٹس سے سوال جواب کرے اور کہے کہ چونکہ وہ مجھے مطمئن نہیں کرسکے اس لیے میں ریفرنس بھیج رہا ہوں۔ یہ دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ہمیں ان دستوری ماہرین کی راے تسلیم کرنے میں تامل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس ہو ہی نہیں سکتا۔ دفعہ ۲۰۹ میں اس کے لیے اگر لفظی گنجایش ہے بھی‘ تو یہ عدل کے اساسی اصول کے خلاف ہے۔ ہماری نگاہ میں ریفرنس تو چیف جسٹس کے خلاف بھی دیا جاسکتا ہے لیکن یہ دستوری طور پر متعین کردہ سپریم جوڈیشل کونسل ہی کو بھیجا جاسکتا ہے۔ قانون کے ایک دوسرے اساسی اصول کہ ایک شخص اپنے معاملے میں خود جج نہیں ہوسکتا اس کی رو سے ایسی صورت میں متعلقہ جج اس ریفرنس کی حد تک کونسل میں شریک نہیں ہوگا اور دستور کے مطابق دوسرا سینیر جج اس کا رکن ہوجائے گا۔ صدر کا  چیف جسٹس کو کیمپ آفس میں طلب کرنا‘ خود استفسار کرنا‘ جواب طلب کرنا اور وہ بھی فوجی وردی میں دستور اور شایستگی ہرایک کے خلاف تھا۔ اس طرح صدر نے دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے اور دستورکے ایک ستون یعنی عدلیہ کی آزادی پر ضرب لگائی ہے۔

دوسری چیز چیف جسٹس سے استعفا طلب کرنے سے متعلق ہے۔ یہ اختیار دستور نے صدر کو نہیں دیا اور انھوں نے یہ مطالبہ کرکے دستور کی خلاف ورزی اور عدلیہ کی آزادی پر ایک اور حملہ کیا ہے۔

تیسرا غیرقانونی عمل چیف جسٹس کے استعفا نہ دینے کے عندیے کے اظہار پر انھیں  معطل (suspend) کرنے کا ہے جس کا کوئی اختیار صدر یا سپریم جوڈیشل کونسل کسی کو بھی حاصل نہیں۔ چیف جسٹس اس وقت تک چیف جسٹس رہتا ہے جب تک اس کے خلاف کونسل فیصلہ نہ دے دے۔ آداب عدالت کا تقاضا ہے کہ وہ خود چھٹی پر چلا جائے یا خود کو ان امور سے غیر متعلق کرلے جو فیصلے پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ لیکن اسے غیرفعال کرنا یا جبری رخصت پر بھیجنا دستور اور قانون کے خلاف ہے۔ اب ۱۹۷۰ء کے جس قانون کی بات کی جارہی ہے وہ۱۹۷۳ء کے دستور کے بعد غیرمؤثر ہوچکا ہے اور ۱۹۷۵ء کے جواز (validation) کا تعلق صرف ان امور سے ہے جو اس قانون کے تحت ۱۹۷۰ء اور ۱۹۷۵ء کے درمیان ہوئے۔ آیندہ کے لیے ۱۹۷۳ء کا دستور اصل حَکَم ہے۔

چوتھی دستوری خلاف ورزی چیف جسٹس کی موجودگی میں قائم مقام چیف جسٹس کا تقرر اور دستور کے واضح احکام میں ’available‘ کا غیرقانونی اضافہ کرکے سینیرترین جج کی جگہ اس کے جونیر جج کا اس عہدے پر تقرر ہے۔ یہ روایت خود بڑی غلط ہے اور عدلیہ کی آزادی کے لیے بڑا خطرہ اور انتظامیہ کے لیے دراندازیوں کا دروازہ کھولنے والی ہے۔

پھر یہ بھی ایک معما ہے کہ چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری ۱۱بجے صبح سے ۴بجے شام تک خاکی صدر کے کیمپ میں محصور تھے۔ جرنیل صاحب کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے جمعہ کی نماز سے قبل یعنی ایک اور دو بجے کے درمیان چیف جسٹس کو ریفرنس کی چارج شیٹ دی۔ قائم مقام چیف جسٹس کی تقریب حلف برداری ۴ بجے ہوجاتی ہے اور اس میں سندھ اور پنجاب کے چیف جسٹس حضرات نے بھی شرکت کی جو جوڈیشل کونسل کے رکن تھے اور جن کو خاص طور پر خصوصی جہاز کے ذریعے لایا گیا جس میںلازماً ۴گھنٹے لگے ہوں گے۔ پھر طرفہ تماشا ہے کہ وزارتِ قانون کا نوٹی فکیشن ۳بجے جاری ہوا ہے جس میں قائم مقام چیف جسٹس کے تقرر کا اعلان ہے اور کونسل نے ۵بجے ایک ہنگامی اجلاس میں چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کو غیرفعال کرنے کا فیصلہ کیا۔

اوّل تو یہی محل نظر ہے کہ کیا دستور‘ جوڈیشل کونسل کو یہ اختیار دیتا ہے؟ لیکن بفرض محال اگر یہ اختیار تھا بھی‘ تو صدر کے چیف جسٹس کو غیرفعال کرنے کے بعد اسے غیرفعال کرنے کی کیا ضرورت تھی۔کیا اس کے یہ معنی نہیں کہ صدر نے غیرفعال کرنے کا جو اقدام کیا وہ صحیح نہیں تھا اور اسی وجہ سے کونسل نے دوبارہ یہ اقدام کیا۔ لیکن اگر صدر کا وہ اقدام درست نہیں تھا تو قائم مقام چیف جسٹس کا تقرر اور اس کے حلف کا اقدام قانونی اور دستور کے مطابق کیسے ہوسکتے ہیں؟ خاص طور پر‘ جب کہ دستور میں سینیرترین جج کا قائم مقام مقرر کیا جانا دفعہ ۱۸۰ کے تحت ایک لازمی فرض (obligatory imperative) ہے اور availableکا اضافہ دستور میں کرنے کا کسی کو اختیار نہیں۔

یہ سب بڑے سنگین دستوری اور قانونی سوال ہیں اور ان کا سامنا کیے بغیر ملک قانون کی حکمرانی کی طرف پیش قدمی نہیں کرسکتا۔ جرنیل صاحب نے یہ سب کچھ کرکے خود کو دستوری اور قومی مواخذے کا مستحق بنالیا ہے___ دیکھیے ’قانون سب کے لیے‘ کا اصول کب حرکت میں آتا ہے۔

جس طرح یہ سارا اقدام کیا گیا ہے‘ اس کے دستوری پہلوؤں کے ساتھ اہم سیاسی اور اخلاقی پہلو بھی ہیں۔ چیف جسٹس کو کیمپ آفس میں بلانا‘ ان سے سوال جواب کا وہ عمل کرنا جو صرف جوڈیشل کونسل ہی کسی جج سے کرسکتی ہے‘ اور پھر فوج کے چیف آف اسٹاف کی وردی میں یہ عمل کرنا اور ٹی وی اور میڈیا میں اس کی تصاویر جاری اور نشر کرنا‘ پھر جب تک قائم مقام چیف جسٹس کی  حلف برداری مکمل نہ ہوگئی۔ چیف جسٹس کو کیمپ آفس میں محبوس رکھنا‘ جب کہ جرنیل صاحب بقول خود اس عرصے میںیعنی ۳بجے کی فلائٹ سے کراچی روانہ ہوگئے۔ (یہ بات انھوں نے جیو کے انٹرویو میں خود کہی ہے) پھر چیف جسٹس کی کار سے جھنڈا اُتارنا‘ ان کے گھر سے جھنڈا اُتارنا‘ ان کو سپریم کورٹ نہ جانے دینا اور زبردستی ان کو گھر میں محبوس کرنا‘ ان کے گھر کی پولیس اور رینجرز کی ناکہ بندی‘ ٹیلی فون‘ ٹیلی وژن‘ اخبارات‘ ذاتی عملہ ہر چیز سے محروم کردینا‘گھر کے اندر سیکورٹی ایجنسیوں کا ہرچیز پر قبضہ کرلینا اور پورے خاندان کو ایک وقت تک صرف ایک کمرے میں بند کردینا‘ ملنے جلنے پر پابندی___ یہ کس اخلاق کا مظاہرہ ہے؟ چیف جسٹس قومی پروٹوکول میں صدر‘ وزیراعظم اور سینیٹ کے صدر کے بعد چوتھے یا پانچویں نمبر پر آتا ہے۔ آرمی کے چیف آف اسٹاف کا نمبر پھر اس کے دس نمبروں کے بعد آتا ہے۔ پھر ابھی آپ نے ریفرنس بھیجا ہے‘ اس کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں ہوا لیکن جرم کے اثبات سے پہلے ایسی گھنائونی سزا قانون‘ انصاف اور اخلاق ہر ایک کے خلاف ہے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو (خواہ وہ کیسے ہی اُونچے مراتب پر فائز ہوں) سزا نہ دینا قومی جرم ہوگا۔

یہ تو ۹مارچ کی بات ہے۔ پھر چیف جسٹس کے ساتھ ۱۳ مارچ کو جو کچھ ہوا‘ وہ اس سے بھی زیادہ شرم ناک اور مجرمانہ فعل ہے۔ اس پورے عرصے میں وکلا برادری کے احتجاج اور سیاسی جماعتوں اور عوام کی احتجاجی سرگرمیوں کو جس طرح اندھی قوت کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی ہے اور میڈیا کے ذریعے صریح جھوٹ اور دھوکے کی جو مہم چلائی گئی ہے‘ اس نے قانون اور اخلاق دونوںکی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ جو حکمران اس سطح پر اتر سکتے ہیں وہ ہر قسم کے جواز سے محروم ہوجاتے ہیں اور ان کا شمار مجرموں کی صف میں ہوتا ہے۔ کیا جرنیل صاحب اور ان کے حواریوںکو ان حقائق کا کچھ بھی شعور ہے؟ اور کیا وہ قوم اور پوری دنیا کو بالکل بے عقل سمجھتے ہیں کہ گوئبلز کو مات کرنے والے ان کرتبوں سے وہ انھیں بے وقوف بناسکتے ہیں؟ملک اور بین الاقوامی میڈیا پر جس کی نظر ہے وہ جانتا ہے کہ حکومت کی ان تمام کارستانیوں کا انجام اس سے مختلف نہیں کہ آسمان پر تھوکا منہ پر___

عدلیہ کا امتحان

چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کی جو جھلکیاں سرکاری’خفیہ خبررسانی‘ (leakege) کے ذریعے سامنے آئی ہیں‘ ان کے بارے میں سب حیران ہیں کہ کیا یہی وہ چارج شیٹ ہے جس کے سہارے جرنیل صاحب نے یہ اقدام کیا ہے؟ جسٹس افتخارمحمد چودھری نے اپنے کھلے دفاع کا اعلان کیا ہے اور یہ ان کا حق ہے اور فرض بھی۔ اگر ان سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو اس کا احتساب ضرور ہونا چاہیے۔ لیکن جو کچھ اخبارات میں آیا ہے یا جو ریفرنس سے پہلے ان کے میڈیا ٹرائل کے ذریعے قوم کے سامنے لایا گیا ہے اس میں بظاہر کوئی ایسی چیز نہیں جسے دستور‘ قانون یا عدالتی آداب کی صریح اور قابلِ گرفت خلاف ورزی کہا جاسکے۔ لیکن اس سلسلے میں اصل فیصلہ انصاف اور حق کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل ہی کرسکتی ہے اور اسے ہی کرنا چاہیے۔ البتہ ’قانون سب کے لیے‘ کے علَم برداروں سے اتنی گزارش کرنے کی جسارت ہم بھی کرسکتے ہیں کہ حضرت عیسٰی ؑکا مشہور واقعہ آپ کے لیے بھی بہت کچھ پیغام رکھتا ہے کہ:

Whoever of you has committed no sin may throw the first stone.

تم میں سے جس نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے وہ پہلا پتھر پھینکے۔

اور تاریخ گواہ ہے اس مجمع میں پہلا پتھر پھینکنے والا کوئی سامنے نہ آیا۔

جیساکہ ہم نے پہلے کہا آج صرف جسٹس افتخارمحمد چودھری ہی کا مقدمہ ہی زیرسماعت نہیں‘ ہماری عدلیہ کا بحیثیت ادارہ بھی امتحان ہے اور پوری قوم ہی سخت امتحان کی گھڑی میں ہے۔ عدلیہ کی تاریخ میں روشن اور تاریک دونوں پہلو نظر آتے ہیں۔ جس طرح مختلف ادوار میں نظریۂ ضرورت کے نام پر اصول اور اداروں کے صحیح خطوط پر ارتقا کے عمل کو نقصان پہنچا ہے اب اس کی تلافی کا وقت آگیا ہے۔ نیز اربابِ اختیار کے پروٹوکول‘ مالی فوائد اور مراعات کا مسئلہ بھی اب ڈھکا چھپا نہیں بلکہ اس کا کھل کر سامنا کرنا ہوگا۔

مسئلہ ایک فرد کے کاروں اور جہازوں کے استعمال کا نہیں‘ حکمرانی کے اس پورے کلچر کا ہے جس کو ایک مخصوص طبقے نے ملک پر مسلط کردیا ہے اور ہر کوئی اس دوڑ میں شریک ہوچکا ہے۔ بات عدلیہ اور انتظامیہ کے تعلق ہی کی نہیں بلکہ ملکی اور غیرملکی تجزیہ نگاروں کے اس اضطراب پر بھی ٹھنڈے دل کے ساتھ غوروفکر کرنے کی ہے جسے military judiciary allianceتک کا نام دیا گیا ہے۔ ہرفوجی طالع آزما کے لیے جواز فراہم کرنے والوں اور ہر عبوری دستور پر حلف لینے والوں کی روش پر اب نہ صرف کھلا احتساب ہونا چاہیے بلکہ اس بُری روایت کو ختم ہونا چاہیے تاکہ ملک میں حقیقی جمہوریت‘ دستور اور قانون کے احترام‘ اداروں کے استحکام‘ اداروں کی بنیاد پر پالیسی سازی اور فیصلہ کرنے کا نظام قائم ہوسکے اور یہ قوم اور ملک جن مقاصد کے لیے جمہوری جدوجہد اور اُمت مسلمہ پاک و ہند کی بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔ آج عدلیہ اور سیاسی قیادت ہی نہیں پوری قوم کے لیے فیصلے کی گھڑی (moment of truth) ہے اور سابق جج اور نام ور وکیل فخرالدین جی ابراہیم نے ایک مجلے میں جس چیلنج کی نشان دہی کردی ہے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کا وقت ہے:

If people give up protesting now, they might as well forget about independent judiciary.

اگر لوگ اس وقت احتجاج کرنا چھوڑ دیں تو وہ بھلے آزاد عدلیہ کو بھول جائیں۔

ان کی بات سے مکمل اتفاق کے ساتھ ہم اس پر یہ اضافہ ضروری سمجھتے ہیں کہ بلاشبہہ اولین چیلنج عدلیہ کی آزادی اور اس پر فوجی حکمرانی کے شب خون سے پیدا شدہ حالات کے مقابلے کا ہے لیکن بات اس سے زیادہ ہے۔ یہ حملہ جس وجہ سے ہوا ہے وہ سیاست میں فوج کی مداخلت اور انتظامیہ پر چیف آف اسٹاف کا قبضہ ہے۔ اب عدلیہ کی آزادی بھی اسی وقت حاصل ہوسکے گی جب جرنیلی آمریت سے نجات حاصل کی جائے‘دستور کو اس کی اصل شکل میں نافذ کیا جائے‘ پارلیمنٹ کی بالادستی بحال ہو‘ دستور کی تینوں بنیادوں پر خلوص اور دیانت سے عمل ہو یعنی اسلام‘ پارلیمانی جمہوریت اور حقیقی فیڈرل نظام کا قیام۔ یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب قومی جدوجہد عدلیہ کی آزادی کے ہدف کے ساتھ عدلیہ پر حملے کے اسباب اور ان قوتوں کو بھی غیرمؤثر بنانے پر توجہ مرکوز کرے جو دستور‘ جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی کی بساط لپیٹ دینے پر تلے ہوئے ہیں۔

یہ اسی وقت ممکن ہے جب اقتدار دستور کے مطابق عوام کو منتقل کیا جائے‘ جرنیلی آمریت سے نجات پائی جائے اور حقیقی طور پر آزاد عبوری حکومت کے تحت آزاد الیکشن کمیشن کے تحت صاف اور شفاف انتخابات منعقد کیے جائیں تاکہ عوام اپنی آزاد مرضی سے اپنے نمایندے منتخب کریں جو دستور کے مطابق اور قومی احتساب کے بے لاگ نظام کے تحت اپنی ذمہ داری ادا کریں۔ فوج اپنے پروفیشنل دفاعی ذمہ داریوں تک محدود ہو اور سیاست کو سرکاری ایجنسیوں کی دست برد سے پاک کیا جائے۔ جزوی اہداف سے اصل مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے۔ اب اس جدوجہد کو مکمل جمہوریت اور دستور کے الفاظ اور روح دونوں کے مکمل نفاذ تک جاری رہنا چاہیے۔

 

اختلاف راے علم و تحقیق کے لیے رحمت ہے۔ یہ صرف کھلی بحث‘ تنقیدی جائزے اور دیانت دارانہ بحث کے ذریعے ہی ممکن ہے کہ صحیح علمی قدروقیمت کا تعین ہوسکے۔ حقیقی مکالمے کے مفہوم میں یہ شامل ہے کہ دلائل کے لیے وسعت قلبی‘حقائق کا ادراک‘ اختلاف راے کے لیے  تحمل و برداشت ہو‘ جب کہ اہم ترین پہلو علمی دیانت اور اخلاقی بلندی ہے۔ اگر یہ نہیں ہے تو باقی سب کی کوئی اہمیت نہیں۔

پاکستان دنیا کے سیاسی نقشے پر ۱۹۴۷ء میں اُبھرا۔ اس نے مسلمانان ہند کی جمہوری جدوجہد کے نقطۂ عروج کی عکاسی کی جس کے تحت انھوں نے برطانوی راج سے ایک نئے دستوری نظام کے تحت آزادی حاصل کی۔ اس نے مسلمانوں کو اس قابل بنایا کہ وہ مسلم اکثریتی علاقوں میں ایک آزاد اور خودمختار ریاست قائم کرسکیں جہاں وہ اپنے ایمان‘ اقدار‘ نظریات اور تاریخی روایات کی روشنی میں سماجی‘ سیاسی‘ اقتصادی اور ثقافتی ترقی کرسکیں۔ یہ ان کی اسلامی تشخص سے وابستگی اور تعلق ہی تھا جس نے پوری سیاسی جدوجہد کے دوران مسئلے کو زندہ رکھا‘ خاص طور پر تحریکِ خلافت (۱۹۱۱ء-۱۹۲۵ء) اور تحریک پاکستان (۱۹۴۰ء-۱۹۴۷ء) کے دوران۔ محمداقبال کا مسلم لیگ کے اجلاس سے صدارتی خطاب (۱۹۳۰ء)‘ قائداعظم محمدعلی جناح اور دیگر مسلم لیگی قائدین کے سیکڑوں بیانات اور پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کا قرارداد مقاصد (مارچ ۱۹۴۹ء) کا منظور کرنا‘ ان سب پر ایک محتاط نظر‘ اس بات میں کوئی شبہہ باقی نہیں رہنے دیتی کہ اسلام ہی تحریکِ پاکستان اور ریاست اور معاشرے کا مرکزی نکتہ تھا‘جو اس تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں ایک حقیقت کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا۔

سیکولرلابی نے آئین ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد پر بحث کے دوران پہلی مرتبہ سر اُٹھایا۔ اس موقع پر‘ قائداعظم کی ۱۱ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کو ہندو ممبران اسمبلی نے جن کا تعلق کانگریس پارٹی سے تھا‘ پورے زوروشور سے اُٹھایا۔ آئین ساز اسمبلی کے مسلم ممبران نے لیاقت علی خان‘ عبدالرب نشتر اور مولانا شبیراحمدعثمانی کی قیادت میں اس دعوے کو رد کردیا اور قراردادمقاصد تقریباً متفقہ طور پر منظور ہونے سے سیکولرلابی کا پول کھل کر رہ گیا۔ یہ افسوس ناک امر ہے کہ سیکولر لبرل لابی اسی غبارے میں پھر ہوا بھرنے کے عمل پر مصر ہے۔ جسٹس محمدمنیر فریب اور تحریف کے اس کھیل کے مرکزی کھلاڑی تھے۔ اپنی کتاب: From Jinnah To Zia (وین گارڈ بکس‘ لاہور‘ ۱۹۸۰ء) میں انھوں نے جناح کا پاکستان بطور سیکولر ریاست کے تصور کے حق میں مبینہ دلائل پیش کیے۔ پاکستان اور بیرون ملک میں پائی جانے والی تمام سیکولر لابی اس کتاب میں جناح سے وابستہ کیے جانے والے بیانات کو اس بحث میں بنیادی حوالے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ اگرچہ جسٹس منیراور سیکولرلابی کے الزامات کو بہت سے مصنفین بشمول تبصرہ نگار نے چیلنج کیا ہے ‘ لیکن زیرتبصرہ مختصر اور جامع کتاب: سیکولرجناح میں سیکولر حضرات کے موقف پر بہت بھرپور‘ جان دار اور شواہد کے ساتھ کڑی تنقید کی گئی ہے۔ سلینہ کریم نے انتہائی محتاط تحقیقی کام سے جسٹس منیر اور تمام ہم خیال سیکولر لابی کے اسکالر ادیبوں کے ٹولے بشمول اردشیر کاؤس جی ‘ اشتیاق احمد‘ پرویز ہود بھائی‘ اے ایچ نیر وغیرہ جیسے مریضانہ ذہنیت کی حد تک لکھنے والوں کے موقف کا بھرپور اور زوردار انداز میں رد کردیا ہے۔

یہ کتاب اس بات کے بارے میں کوئی شک و شبہہ باقی نہیں چھوڑتی کہ قائداعظم کو جانتے بوجھتے غلط نقل (quote)کیا گیا ہے۔ درحقیقت انھیں نہ صرف چھانٹ چھانٹ کر اور سیاق و سباق سے ہٹتے ہوئے نقل کیا گیا ہے بلکہ جو الفاظ انھوں نے کبھی نہیں کہے‘ وہ ان سے منسوب کردیے گئے ہیں۔ مزیدبرآں ان مصنفین نے بڑی تعداد میں اور بکثرت پائے جانے والے ان شواہد سے صرفِ نظر کیا ہے جو قائداعظم کے اس نقطۂ نظر اور وژن کو واضح کرتے ہیں‘ جو وہ پاکستان کے بارے میں اسلام کے اصولوں پر مبنی اور ملّت اسلامیہ کی آرزؤں اور تمنائوں کے مطابق ریاست کے طور پر رکھتے تھے۔سلینہ کریم نے نہایت محتاط انداز میں قائداعظم کے رائٹر کے نمایندے کو دیے گئے اس انٹرویو کا جس کا عام طور پر حوالہ دیا جاتا ہے‘ اصل متن تلاش کیا ہے‘ اور حتمی طور پر ثابت کیا ہے کہ جسٹس منیر نے جو الفاظ ان سے منسوب کیے تھے‘ وہ اصل بیان میں تھے ہی نہیں۔ جسٹس منیر نے ان سے یہ منسوب کیا ہے کہ انھوں نے کہا: ’’نئی ریاست ایک جدید ریاست ہوگی جس میں اعلیٰ ترین اختیار (sovereignty)  عوام کے ہاتھ میں ہوگا‘‘۔

یہ بات دل چسپی کا باعث ہوگی کہ گرامر کی ایک غلطی کی وجہ سے مصنفہ اس رخ پر پڑیں اور بالآخر تحقیق کے بعد یہ دریافت ہوا کہ یہ اقتباس محض لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے ایک جعل سازی تھا‘اور سب سے زیادہ پریشان کن پہلو یہ ہے کہ یہ بات ایک چیف جسٹس نے کی جسے انصاف اور سچائی کا نگہبان تصور کیا جاتا ہے۔

کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب اس بیان سے متعلق ہے جو قائداعظم سے منسوب کیا جاتا ہے جوکہ جعل سازی کا ایک نمونہ ثابت ہوچکا ہے۔ باقی تین ابواب جناح سے متعلق دوسری ۱۲ فرضی باتوں کے بارے میں ہیں‘ جن کا تعلق ان کے مبینہ سیکولرزم یا ان کے اپنے نام نہاد سیکولر طرززندگی سے ہے۔ اس بحث میں محتاط محققہ نے ۴۰ سے زیادہ اقتباسات پیش کیے ہیں جن سے جناح کی اسلام کے عقیدے اور نظریے سے گہری وابستگی‘ اور انھوں نے ملّت اسلامیہ سے اسلام کے تحرک‘ تشخص اور پاکستان کی منزل کے تناظر میں جو پختہ عہد کیا تھا‘ ثابت ہوتا ہے۔ مصنفہ نے اپنے دعوے کو شک و شبہے سے بالاتر ناقابلِ تردید شواہد سے ثابت کیا ہے۔ انھوں نے سیکولر اور لبرل لابی کے اخلاقی اور علمی دیوالیہ پن کا بھی انکشاف کیا ہے جنھوں نے اپنے موقف کو‘ واقعات کو مسخ کر کے‘ حقائق سے انکار کرکے اور قبیح و ناروا علمی فروگذاشت کی بنیاد پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ سیکولر لابی کے ہردعوے کو حقائق اور ٹھوس دلائل سے رد کیا گیا ہے۔ بہرحال جناح کے ساتھ بالآخر انصاف کیا گیا ہے‘ جب کہ پاکستان میں انصاف تقسیم کرنے والوں نے ان کے سر ناانصافیاں منڈھی ہیں۔

اگرچہ زیرتبصرہ کتاب جناح کے پاکستان کے وژن اور جسٹس منیر اور ان کے پیرو اہلِ قلم کی فریب کاری جو انھوں نے برسوں پھیلائے رکھی‘ کے حوالے سے بھرپور ہے‘ تاہم مصنفہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس کی حیثیت ایک تاریخ کی کتاب کی نہیں ہے۔ یہ اب بھی مفید ہوگا اگر اس بحث کے تاریخی تناظر میںاسی طرح کا قابلِ قدر علمی مطالعہ پیش کیا جائے۔

بحث کا پہلا مرحلہ ۱۹۴۹ء میں آئین ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد سے پہلے اور دوران بحث سے متعلق ہے۔ اس کے بعد ۱۹۵۳ء میں قادیانی مسئلے پر حکومت مخالف تحریک کے بعد کے اثرات کو سامنے لاتی ہے۔ جسٹس منیر کا اسلامی ریاست کے تصور اور جناح کے مبینہ سیکولر وژن کے بارے میں پہلا حملہ تحقیقاتی عدالت کی پنجاب میں فسادات کے بارے میں رپورٹ میں کیا گیا جو پنجاب ایکٹ II‘ ۱۹۵۴ء کے تحت قائم کی گئی تھی۔ یہ رپورٹ عام طور پر منیر رپورٹ ۱۹۵۶ء کے طور پر جانی جاتی ہے‘ اور اس پر مکمل تنقیدی جائزہ جماعت اسلامی پاکستان نے منیر رپورٹ کا تجزیہ ‘ (پنجاب ڈسٹربنس انکوائری رپورٹ کا تنقیدی جائزہ) کے عنوان سے شائع کیا‘ جو مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے لکھا اور اس تبصرہ نگار نے اس کا ترجمہ کیا۔

منیر رپورٹ  میں جناح کے ڈوم کیمپلز کے انٹرویو پر مبنی اسی مبینہ اقتباس (ص ۲۰۱) کا حوالہ دیا گیا ہے ‘جس کی حقیقت زیرتبصرہ کتاب میں بہت واضح طور پر کھول دی گئی ہے۔ہمارے جواب الجواب‘ منیر رپورٹ کا تجزیہ میں قائداعظم کے بارے میں اس موقف کو رد کردیا گیاتھا‘ مگر مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی جھجک نہیں کہ فریب دہی پوری طرح کھل کر سامنے نہیں آئی تھی جب تک کہ موجودہ کتاب سامنے نہیں آئی۔ اس تحقیق کا سہرا یقینا سلینہ کریم کو جاتا ہے۔

شریف المجاہد (قائداعظم جناح: اسٹڈیز ان دی انٹرپرٹیشن، قائداعظم اکیڈیمی‘ کراچی‘ ۱۹۷۸ء) اور دیگر بہت سے مصنفین بشمول تبصرہ نگار (کیا قائداعظم ایک دھوکا باز تھے؟  نیوایرا، کراچی‘ ۲۸ جنوری ۱۹۵۶ء) نے اس موضوع پر لکھا ہے اور قائداعظم کی اس مسئلے پر پوزیشن کو واضح کیا ہے۔بعض مقامات پر دھیمے‘ خوش گوار اور مناظرانہ انداز میں --- جس مشقت سے  سلینہ کریم نے تحقیق کی اور جس طرح سے انھوں نے جعل سازوں کی فریب دہی کا انکشاف کیا ہے‘ اپنے موضوع پر قابلِ تحسین کاوش ہے جو ریکارڈ درست رکھنے میں بھی مددگار ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ یہ کتاب ایک آئینے کی مانند ہے جو قائداعظم کے پاکستان کے بارے میں حقیقی تصور اور سیکولر لابی کے مسخ شدہ بیانات دونوں کی عکاسی کرتی ہے۔

سلینہ کریم بجا طور پر دعویٰ کرتی ہیں کہ جناح نے اپنی تقریروں‘ تحریروں اور انٹرویو میں محض ایک بار بھی سیکولرزم کے نظریے کی واضح طور پر حمایت نہیں کی‘ یا پاکستان کے ایک سیکولر ریاست کے طور پر کوئی اشارہ بھی دیا ہے۔ درحقیقت انھوں نے بارہا پاکستان کے لیے ’مسلم ریاست‘، ’اسلامی ریاست‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ قیامِ پاکستان کے پیچھے جو تصور کارفرما تھا وہ ’اسلامی اصولوں‘ اور’اسلامی قانون‘ پر عمل درآمد تھا۔ تاہم ان سے قائد کے کئی بیانات میں اہم متعلقہ بیانات رہ گئے۔ مثال کے طور پر مسلمانانِ ہند کے لیے اپنے ایک پیغام (۸ستمبر‘ ۱۹۴۵ء) میں انھوں نے سیکولرزم کے نظریے پر ایک شدید ضرب لگائی۔ انھوں نے کہا:

ہرجہت میں مسلمان اپنی ذمہ داریاں زیادہ سے زیادہ محسوس کررہے ہیں۔ ہرمسلمان جانتا ہے کہ قرآنی احکام صرف مذہبی اور اخلاقی امور تک محدود نہیں ہیں۔ گبن کے بقول: اٹلانٹک سے گنگا تک قرآن کو ایک بنیادی ضابطے کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے‘ نہ صرف دینیات کے اعتبار سے بلکہ سول اور فوج داری ضابطوں اور ایسے قوانین کے لحاظ سے جو بنی نوع انسان کے افعال اور املاک پر اللہ تعالیٰ کے غیرمبدل قوانین کے طور پر محیط ہے۔ جہلا کے سوا ہر شخص اس امر سے واقف ہے کہ قرآن کریم مسلمانوں کا عام ضابطہ حیات ہے۔ ایک دینی‘ معاشرتی‘ سول‘ تجارتی‘ فوجی‘ عدالتی‘ فوج داری ضابطہ ہے۔ رسومِ مذہب ہی سے متعلق نہیں‘بلکہ روزانہ زندگی سے متعلق بھی۔ روح کی نجات سے لے کر جسمانی صحت تک‘ حقوق العباد سے لے کر فردِواحد کے حقوق تک‘ اخلاقیات سے لے کر جرائم تک اس دنیا میں سزا سے لے کر عقبیٰ میں سزا تک۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لازمی قرار دیا کہ ہرمسلمان کے پاس قرآن کریم کا ایک نسخہ ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی رہنمائی خود کرسکے۔ لہٰذا اسلام محض روحانی عقائد اور نظریات یا رسم و رواج کی ادایگی تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور پورے مسلم معاشرے پر محیط ہے‘ زندگی کے ہرشعبے پرمن حیث المجموع اور انفرادی طور پر جاری و ساری ہے۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات‘ جلدسوم‘ ترجمہ:اقبال احمد صدیقی‘ بزمِ اقبال‘لاہور‘ ص ۴۷۴)

سیکولرزم سے متعلق ایک اور بہت اہم حوالہ‘ جو غالباً واحد حوالہ ہے جسے میں نے ان کی تقاریر اور بیانات میں پایا‘ پارٹیشن پلان کے اعلان کے بعد اور کراچی روانگی سے قبل‘ ۱۳ جولائی ۱۹۴۷ء کی ایک اہم پریس کانفرنس کے موقع پر سامنے آیا۔ان سے براہِ راست یہ سوال کیا گیا: پاکستان سیکولر ریاست ہوگی یا مذہبی ریاست؟مسٹر جناح نے جواب دیا: ’’آپ مجھ سے ایک احمقانہ سوال کر رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ مذہبی ریاست کے معنی کیا ہوتے ہیں‘‘۔ (ایک اخبار نویس نے کہا کہ مذہبی ریاست ایسی ریاست ہوتی ہے جس میں صرف کسی مخصوص مذہب کے لوگ‘ مثلاً مسلمان تو پورے شہری ہوسکتے ہیں اور غیرمسلم پورے شہری نہیں ہوسکتے)۔ مسٹر جناح نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’پھر مجھے ایسا لگتا ہے کہ پہلے میں نے جو کچھ کہا ہے (یعنی پاکستان میں اقلیتوں سے متعلق )وہ ایسے تھا جیسے چکنے گھڑے پر پانی گرا دیا جائے‘‘ (قہقہہ)۔ خدا کے لیے اپنے ذہن سے وہ واہیات باتیں نکال دیجیے جو کہی جارہی ہیں۔ مذہبی کا کیا مطلب ہے میں نہیں جانتا۔ (ایک صحافی نے کہاکہ ایسی ریاست جو مولانا چلائیں)۔ مسٹر جناح نے جواب دیا: ’’اس حکومت کے بارے میں کیا خیال ہے جو ہندستان میں پنڈت چلائیں گے؟‘‘ (قہقہہ)۔ مسٹر جناح نے کہا: ’’جب آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا۔ ہم نے جمہوریت کا سبق تیرہ سو برس پہلے پڑھا تھا‘‘۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات‘ جلد چہارم‘ ایضاً‘ ص ۳۵۲)

سلینہ کریم نے کتاب کا آخری باب قائد کے ریاست اور معاشرے کے بارے میں وژن کے مختلف پہلوؤں کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں جائزے کے لیے مختص کیا ہے۔ یہ بحث مسٹر جناح کے اسلامی اقدار‘ اصولوں اور اسلامی روایات سے اور ان کے نقطۂ نظر کی گہری وابستگی کے کسی حد تک ادراک میں مددگار ہے‘ تاہم قرآن کے اقتصادی نظام اور خاص طور پر زکوٰۃ کا ایک سیاسی مسئلے کی بحث کے دوران تذکرہ باعثِ حیرت ہے۔ البتہ بحیثیت مجموعی کتاب میں جناح کے تصورِپاکستان پر بحث اُٹھائی گئی ہے جو اپنے موضوع پر لٹریچر میںمفید اضافہ ہے۔ مطالعہ پاکستان میں دل چسپی رکھنے والوں کو اس کتاب کا لازماً مطالعہ کرنا چاہیے۔(ترجمہ: امجد عباسی)

(Secular Jinnah: Munier's Hoax Exposed, by Saleena Karim, Laskeard, UK, Exposure Publishing, 2005, pp 148, ISBN: 1905363753)

 

جنرل پرویز مشرف نے دستور اور صدارتی آداب‘روایات اور وقار کو یکسر بالاے طاق رکھ کر اپنے مخصوص جنگ جویانہ انداز میں ۲۰۰۷ء کی انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ اشاروں میں باتیں تو وہ ایک عرصے سے کر رہے تھے لیکن نام نہاد تحفظ خواتین بل کا دفاع کرتے ہوئے صاف لفظوں میں انھوں نے کہا کہ اب ملک میں اصل کش مکش دو قوتوں کے درمیان ہے۔ ایک ان کی روشن خیال لبرل ٹیم جس کے وہ خود سربراہ ہیں اور دوسری ملک کی اسلامی قوتیں جو ان کی نگاہ میں ترقی کی مخالف اور جدیدیت کی راہ کی اصل رکاوٹ ہیں۔ پھر بنوں اور کرک کے جلسوں میں انھوں نے کھل کر اپنی اور اپنے ساتھیوں کی انتخابی مہم کا آغاز کیا اور صاف صاف ووٹ مانگے۔ جوشِ خطابت میں اپنے مخالفین کو ’جاہل‘، ’منافق‘ اور ’جھوٹے‘ کے القاب سے نوازا اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ’’ملک آج ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف ترقی اور روشن خیالی ہے تو دوسری طرف جہالت اور انتہاپسندی‘‘۔ ان کے الفاظ میں:

There are  two roads: one leading towards development, progress and prosperity and the other leading towards backwardness and destruction. The coming elections would be very crucial and the outcome would define our national sense of direction. It is a contest between religious radicalism and enlightened moderation.

اور اب تازہ ترین ارشاد یہ ہے کہ وہ خود ۲۰۰۷ء کے انتخابات میں اپنے امیدواروں کا انتخاب کریں گے اور ان کی انتخابی مہم چلائیں گے۔ جس دوراہے کا وہ اب ذکر کررہے ہیں اس کی ایک راہ جنرل پرویز کی فوجی آمریت کی راہ ہے اور دوسری جرنیلی آمریت کے مخالفین اور اسلامی فلاحی اور جمہوری پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی۔

یادش بخیر‘ جنوری ۲۰۰۷ء میں اس دوراہے کی نشان دہی کرتے وقت وہ بھول گئے کہ اس سے سواسات سال پہلے ۱۷ اکتوبر۱۹۹۹ء کو اپنے فوجی اقدام کے پانچ دن بعد انھوں نے ایسا ہی ایک ارشاد فرمایا تھاکہ:

آج پاکستان اپنی تقدیر کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایسی تقدیر جو فردِواحد کے ہاتھ میں ہے‘ خواہ سنوار دے یا برباد کر دے۔

سواسات سال تک مکمل اور غیرمشروط اقتدار اور امریکا کی بھرپور امداد کے باوجود اگر آج پھر وہ قوم کو بتا رہے ہیں کہ وہ ابھی تک قوم ایک دوراہے پر کھڑی ہے تو یہ ان کی اپنی اور ان کے بنائے ہوئے نظام کی ناکامی کا اس سے واضح اعتراف اور کیا ہوسکتا ہے۔ ان سات سال میں وہ اس منزل کی طرف کوئی پیش قدمی نہ کرسکے تو اب کس امید پر قوم کو نئی منزل کی راہ دکھا رہے ہیں۔

بالعموم جمہوری ممالک میں پارلیمنٹ کی مدت چار سے پانچ سال ہوتی ہے۔ اور ایک مدت ایک قیادت کی کامیابی و ناکامی کو واضح کرنے کے لیے کافی تصور کی جاتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو سواسات سال ایسا اقتدار ملا ہے کہ ان کے لیے کوئی چیلنج نہیں تھا۔ ۲۰۰۲ء کے انتخابات کے بعد اور من مانی دستوری ترامیم اور ان سے بھی زیادہ ہر دستور اور قانون سے عملاً بالا ہوکر اور عالمی قوتوں سے پوری مفاہمت بلکہ سپردگی کا رویہ اختیار کر کے‘ وہ ملک و قوم کو جس مقام پر لے آئے ہیں‘ وہ ہراعتبار سے ۱۹۹۹ء سے بدتر ہے۔ ہمیں ان کی اس بات سے تو اتفاق ہے کہ فی الحقیقت ملک اس وقت ایک دوراہے پر کھڑا ہے لیکن یہ دوراہا وہ ہے جہاں جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوں نے دھکے دے دے کر ملک کوپہنچایا ہے اور اب وہی سوال جو انھوں نے ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو بڑے طمطراق سے اٹھایا تھا‘ اب خود ان کی ناکامیوں اور جرنیلی آمریت کی تباہ کاریوں کے بعد بڑی گمبھیر صورت میں ملک و قوم کے سامنے ہے یعنی:

کیا یہ وہ جمہوریت ہے جس کا تصور قائداعظم نے دیا تھا؟

آج قوم کے سامنے اصل سوال یہ ہے کہ قائداعظم کی رہنمائی میں ملّت اسلامیہ نے جس اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی ریاست کے قیام کے لیے پاکستان بنایا تھا‘ جرنیلی حکمران نے اس سے ہمیں کتنا دُور کردیا ہے۔ اب قوم کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ جس طرح برعظیم کے مسلمانوں نے پاکستان کے قیام کے لیے عوامی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے سات سال کی قلیل مدت میں یہ آزاد خطہ زمین حاصل کرلیا‘ جو بدقسمتی اور ہماری اپنی غلطیوں سے آہستہ آہستہ سیاسی طالع آزمائوں اور بیوروکریسی‘ جرنیلوں‘ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ کی دراندازیوں اور کچھ عاقبت نااندیش ججوں کی مصلحت بینی سے تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے‘ اسے بچانے اور اُمت مسلمہ اور اس کے حقیقی قائدین اقبال اور قائداعظم محمدعلی جناح کے تصور کے مطابق تعمیر کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دیں۔ بلاشبہہ پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے اور انتخاب کسی نام نہاد روشن خیالی اور کسی خیالی انتہاپسندی کے درمیان نہیں بلکہ سیدھے سیدھے فوجی آمریت‘ شخصی حکمرانی‘ امریکا کی سیاسی اور معاشی غلامی اور خدانخواستہ بالآخر بھارت کی علاقے پر بالادستی اور ملت اسلامیہ پاکستان کی حقیقی آزادی سے محرومی کے مقابلے میں ملّت اسلامیہ پاکستان کے دینی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت‘ اللہ کی حاکمیت کے تحت عوام کی حکمرانی‘ پارلیمنٹ کی بالادستی اور قانون اور انصاف کے قیام کے درمیان ہے۔ ۲۰۰۷ء فیصلے کاسال ہے۔ قائداعظم کی رہنمائی میں سات برس میں ہم نے پاکستان حاصل کرلیا تھا اور جنرل پرویز مشرف کی حکمرانی میں ان سات برسوں میں پاکستان ہراعتبار سے اپنے اصل مقاصد سے دُور اور ایک نئی غلامی اور محکومی کی گرفت میں آگیا ہے جس سے نجات ہی میں اب پاکستان کی بقا اور اس کی ترقی کا امکان ہے۔

غلامی کے سایے

قیامِ پاکستان کا سب سے اہم حاصل ملت اسلامیہ پاکستان کی آزادی تھی یعنی مغربی سامراج سے آزادی کے ساتھ ساتھ بھارتی سامراج کی گرفت سے نکل کر خود اپنے دین وایمان ‘ تہذیب و ثقافت اور مادی اور روحانی اہداف کے حصول کے مواقع کا حصول۔ قرارداد مقاصد جو دستور کا قلب ہے‘ اس منزل کا بہترین اظہار و اعلان ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے سات سالہ دورِاقتدار میں ان تمام مقاصد پر کاری ضرب لگی ہے اور ایک ایک بنیاد کو منہدم کرنے کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ واضح اقدام کیے گئے ہیں جن سے ان کا پورا گیم پلان کھل کر سامنے آگیا ہے:

  • اسلام کی جگہ روشن خیال اعتدال پسندی کے نام پر سیکولرازم اور مغربی لبرلزم کا فروغ جس  کی زد ہردینی اور اخلاقی قدر پر ہو 
  • جمہوریت کی جگہ شخصی آمریت جس پر فوجی وردی مستزاد 
  • جن سرحدوں کو قائم کرنے کے لیے قیامِ پاکستان کی تاریخی جدوجہد ہوئی تھی اب بھارت دوستی کے نام پر انھیں غیرمتعلق بنا دینے کے منصوبے‘ جموں و کشمیر جو پاکستان کی شہ رگ ہے اسے مستقل طور پر بھارت کی گرفت میںدینے کی تجاویز 
  • کشمیر کا جو علاقہ مسلمانوں نے اپنے خون سے آزاد کرایا  اس پر بھی بھارت کے مشترکہ کنٹرول کے نقشے
  • جس مقبوضہ کشمیر میں مسلمان پانچ سے چھے لاکھ قیمتی جانوں کی قربانی دے کر آزاد ی کی جدوجہد کر رہے ہیں‘ اسے طشتری میں رکھ کر بھارت کو  پیش کردینے اور اس بھارتی خواب میں رنگ بھرنے کی باتیں کہ ناشتہ امرتسر میں ہو‘ دوپہر کا کھانا لاہور میں کھایا جائے اور رات کا کھانا کابل میں۔

جس مغربی سامراج سے لڑکر قوم نے آزادی حاصل کی تھی‘ آج جرنیلی حکمران خوشی خوشی بلکہ اسی نوعیت کے فخر کے ساتھ جس کا مظاہرہ دورِ غلامی کے نوابوں اور راجاؤں نے کیا تھا‘ امریکا کی بالادستی ہی نہیں عملی غلامی کے طوق پہن کر ملک کو نئے سامراج کے جال میں پھنسا رہے ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد ملک امریکا اور اس کی دہشت گرد قیادت کے آگے اس طرح صف بستہ ہیں کہ ہر روز ان کی طرف سے نیا مطالبہ آرہا ہے اور ہمارے یہ فوجی جرنیل خود اپنے معصوم شہریوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں تاکہ امریکا سے داد وصول کریں حالاں کہ جو کچھ حاصل ہو رہا ہے وہ صرف جھڑکیاں‘ دھمکیاں اور ھل من مزید کے مطالبات ہیں۔ جنوری ۲۰۰۷ء کے پہلے ۱۴ دنوں میں ایک نہیں چار چار امریکی ذمہ داروں نے بڑے طمطراق کے ساتھ پاکستانی حکمرانوں کو دھمکیوں اور گھر.ُکیوں کے ساتھ دوغلے پن اور دھوکابازی کے تمغوں سے بھی نوازا ہے___ امریکی وزیرخارجہ کونڈالیزارائس‘ محکمہ سراغ رسانی کاسربراہ جان نیگروپونٹے‘ ناٹو کے ایساف کمانڈر ڈیوڈ ری چرڈ اور نائب وزیرخارجہ ری چرڈ بوچر نے اپنے اپنے انداز میں اور ایک دوسرے سے بڑھ کر پاکستان پر طالبان کی پشت پناہی‘ ان کی تنظیم نو اور تائید کا الزام لگایا ہے‘ دھمکیاں دی ہیں اور پاکستان کی سرزمین پر پیشگی حملے کے خالص جارحانہ اقدام کا عندیہ دیا ہے اور اس کا نمونہ پہلے ہی ڈمہ ڈولہ‘ باجوڑاور شوال امریکی طیارے اور میزائل پیش کرچکے ہیں۔ اس کے جواب میں ہماری طرف سے مجرمانہ پسپائی ہی اختیار نہیں کی گئی بلکہ قومی عزت و غیرت اور عسکری وقار کو مجروح کرتے ہوئے وزیرستان میں ایک سال میں دو بلکہ فی الحقیقت تین بار ہمارے علاقے پر امریکی بم باری کو خود اپنے سر لے لیا گیا ہے۔ یہ اگر غلامی کی نئی زنجیریں نہیں تو کیا ہیں؟

نئے امریکی قانون کا شکنجہ

پاکستان کی جو تذلیل اس جرنیلی آمریت میں ہوئی ہے‘ وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ اگر اس جرنیلی کارنامے کی اصل تصویر دیکھنی ہے تو اس تازہ قانون کا مطالعہ کرلیجیے جو     ابھی امریکی ایوان نمایندگان نے بڑی عجلت میں نائن الیون کمیشن کی سفارشات کو قانونی شکل دینے کے لیے منظور کیا ہے۔ اس قانون کا سیکشن ۱۴۴۲ پاکستان کے بارے میں ہے۔ اس حصے میں دہشت گردی کے مقابلے کے نام پر پاکستان کی جو تصویر دی گئی ہے اور اس کے بارے میں جو پالیسی قانون کا حصہ بنائی گئی ہے اس کا ایک ایک لفظ پڑھنے اور تجزیہ کرنے کے لائق ہے۔    حملہ کرنے والے سعودی اور مصری تھے‘ القاعدہ کا مرکز افغانستان تھا۔ مگر افغانستان پر ایک صفحہ‘ سعودی عرب پر ایک صفحہ لیکن پاکستان پر پورے چھے صفحات پر مشتمل قانون لاگو کیا گیا ہے  جیسے اصل مجرم پاکستان ہے۔ یہ قانون پاکستان کے لیے کلنک کا ٹیکہ اور جنرل پرویز مشرف کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ ہے وہ مقام جس پر اس عظیم ملک کو جس نے اللہ کی مدد اور صرف اپنی کوششوں سے ایک ایٹمی طاقت بننے کی سعادت حاصل کی تھی‘ اب اس جرنیلی آمریت نے پہنچا دیا ہے۔ ہم پاکستان کے متعلقہ حصے کی چند اہم دفعات یہاں دیتے ہیں تاکہ قوم کو معلوم ہوسکے کہ ملک کو کس شکنجے میں کَس دیا گیا ہے اور کس طرح جس مدد کے لیے بغلیں بجائی جارہی ہیں اس کے سر پر پابندیوں کی تلوار کس کس شرط کے ساتھ چھائی ہوئی ہے اور اس کے لیے یہ پابندی بھی رقم کردی گئی ہے کہ وہ ہرسال امریکی صدر کے سرٹیفیکٹ کے بغیر ایک سانس بھی نہیں لے سکے۔ یہ پریسلر پابندیوں کی تازہ اور زیادہ مکروہ شکل ہے۔

                ۲- ایسے بہت سے مسائل ہیں جو امریکا اور پاکستان کے تعلقات کو خطرات سے دوچار کرسکتے ہیں‘ عالمی استحکام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور پاکستان کو غیرمستحکم کرسکتے ہیں‘ بشمول:

                (اے)   جوہری ہتھیاروں کی ٹکنالوجی کے پھیلائو کو روکنا۔

                (سی)  مؤثر سرکاری اداروں کی تعمیر‘ خصوصاً سیکولر پبلک اسکول ۔

                (ای)   پورے ملک میں طالبان اور دوسری پُرتشدد انتہاپسند طاقتوں کی مسلسل موجودگی کے حوالے سے اقدامات کرنا۔

                (جی) دوسرے ملکوں اور علاقوں کی طرف جنگ جوؤں اور دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکنے کے لیے پاکستان کی سرحدات کو محفوظ بنانا۔

                (ایچ) اسلامی انتہاپسندی کے ساتھ مؤثر طور پر نبٹنا۔

                (بی) پالیسی کا بیان: امریکا کی پالیسیاں درج ذیل ہوں گی:

                (۱)  عالمی دہشت گردی‘ خصوصاً پاکستان کے سرحدی صوبوں میں‘ ختم کرنے کے لیے اور طالبان سے وابستہ طاقتوں کے لیے پاکستان کے ایک محفوظ پناہ گاہ کے استعمال کو ختم کرنے کے لیے حکومت پاکستان کے ساتھ کام کرنا۔

                ۳-  حکومت پاکستان اور بھارتی حکومت کے درمیان تنازع کشمیر کے حل کے لیے مدد کرنا۔

                (سی) حکمت عملی متعلقہ پاکستان:

                ۱-  اس ایکٹ کے قانون بن جانے کے ۹۰دن کے اندر اندر صدر متعلقہ کانگریس کمیٹی کو ضروری ہو تو خفیہ رپورٹ پیش کرے گا جو امریکا کی طویل المیعاد حکمت عملی کو بیان کرے۔

                ۲-  متعلقہ کمیٹی سے مراد: کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹی‘ مجلس نمایندگان کی مصارف (appropriations) کمیٹی اور سینیٹ کی بھی خارجہ تعلقات اور مصارف کمیٹی۔

                (ڈی) پاکستان کو امریکا کی سلامتی کی امداد پر تحدید:

                تحدید:  (اے)یہ امداد منظور نہیں ہوگی جب تک کہ اس تاریخ کو ۱۵ دن نہ گزر جائیں‘ جب کہ صدر صورت حال کے بارے میں متعین معلومات حاصل کرے اور متعلقہ کانگریس کمیٹیوں کو تصدیق کرے کہ حکومت پاکستان اپنے زیراختیار علاقوں بشمول کوئٹہ اور چمن ‘ صوبہ سرحد اور قبائلی علاقے میں طالبان کو کام کرنے سے روکنے کے لیے اپنی تمام ممکنہ کوششیں کر رہا ہے۔

                (بی) اس تصدیق کو غیر خفیہ ہونا چاہیے لیکن اس کا ایک ضمیمہ خفیہ بھی ہوسکتا ہے۔

                ۲-   استثنا: صدر اس تحدید کو ایک مالیاتی سال کے لیے معطل کرسکتا ہے‘ اگر وہ کانگریس کی مصارف کمیٹیوں کو یہ تصدیق کرے کہ ایسا کرنا امریکا کی قومی سلامتی کے مفاد کے لیے اہم ہے۔

                (ای)  جوہری پھیلائو: (۱) کانگریس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پاکستان کا ایٹمی اور میزائل ٹکنالوجی کے پھیلائو کے نیٹ ورک کو باقی رکھنا پاکستان کو امریکا کے حلیف قرار دینے سے متغائر ہے۔

                ۲-  کانگریس کی راے: کانگریس کی راے یہ ہے کہ امریکا کی قومی سلامتی کے مفادات بہتر طور پر حاصل ہوں گے اگر امریکا پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے لیے ایک طویل المیعاد حکمت عملی طے کرے اور اس کو نافذ بھی کرے‘ اور جوہری پھیلائو کو روکنے کے لیے حکومت پاکستان کے ساتھ کام کرے۔

واضح رہے کہ اس قانون میں حقیقی طور پر صرف تین ملکوں کا ذکر ہے یعنی افغانستان‘ پاکستان اور سعودی عرب اور جیساکہ ہم نے عرض کیا‘ سب سے زیادہ پابندیاں اور شکنجے پاکستان  کے لیے ہیں۔ یہ ہے ہماری آزادی کی حقیقت۔

جرنیلی نظام کے لیے پاکستان کا دستور تو کب کا قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ اب تو امریکا کا یہ قانون موجودہ حکمرانوں کے لیے اصل ’دستور‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور انتہاپسندی‘ لبرلزم‘ طالبان دشمنی کے بارے میں جو کچھ کہا اور کیا جا رہا ہے اس کا پاکستان کے دستور‘ قانون یا مفادات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سب کچھ وہ امریکا کے فرمان کی تعمیل کے سوا کچھ نہیں۔

آج پاکستان جس دوراہے پر ہے وہ یہی امریکی غلامی یا حقیقی آزادی کا دوراہا ہے اور وقت آگیا ہے کہ پاکستانی قوم اس نئی غلامی کی زنجیروں کو پارہ پارہ کردے اور صرف اللہ کی غلامی میں حقیقی آزادی کا راستہ اختیار کرے۔

وفاق کا شیرازہ معرضِ خطر میں

جنرل پرویز مشرف کی سات سالہ حکمرانی کا ایک اور ثمرہ یہ ہے کہ ملک میں آج فیڈریشن جتنی کمزور ہے اور مرکز اور صوبوں کے تعلقات جتنے خراب آج ہیں ۱۹۷۱ء کے سانحے کے بعد کبھی نہ تھے۔ جنرل صاحب نے اپنا جو سات نکاتی پروگرام ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۹ء میں اعلان فرمایا تھا اس میں ایک فیڈریشن کی مضبوطی اور تمام صوبوں اور مرکز میں زیادہ ہم آہنگی کا حصول بھی تھا مگر حاصل اس کے برعکس ہے۔ خود جرنیل صاحب نے اپنے حالیہ دورۂ سرحد میں اعتراف کیا ہے کہ فیڈریشن میں تعلقات کی بہتری حاصل نہیں کی جاسکی ہے۔ بلوچستان میں تین سال سے فوج کشی جاری ہے اور اس عرصے میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوچکے ہیں‘ سیکڑوںہلاک ہوئے ہیں اور پورا صوبہ ایک آتش فشاں کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

صوبہ سرحد میں مرکز صوبائی حکومت پر ہر طرح کا دبائو استعمال کر رہا ہے۔ چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو کسی مشورے کے بغیر مسلط کیا جاتا ہے۔ صوبائی اسمبلی کی قراردادوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ صوبے کے مالی حقوق ادا نہیں کیے جارہے۔ ایک تحریری معاہدے کے تحت پاکستان کے سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں جو ثالثی کمیشن بنایا گیا تھا کہ پن بجلی کے منافعے کا اس کاحصہ ادا کیا جائے ۔ اس کے متفقہ فیصلے کو بھی نافذ نہیں کیا جا رہا اور صوبے کو صف آرائی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ حِسبہ بل جوصوبائی اسمبلی نے دو بار منظور کیا ہے اسے مرکز ویٹو کرنے پر تلا. ُ  ہوا ہے۔ صوبائی وزیراعلیٰ کے مکان پر آئی بی کے اہل کار دھماکا خیز مواد رکھتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ۷۰ ہزار فوج لگائی ہوئی ہے جو محض شبہے کی بنیاد پر    کشت و خون کر رہی ہے۔ ۷۰۰ سے زیادہ فوجی ہلاک ہوچکے ہیں اور اس سے زیادہ عام شہری   جاں بحق ہوئے ہیں۔ فوج اور ان قبائل کو جو پاکستان کے محافظ تھے ایک دوسرے کے خلاف   صف آرا کردیا گیا ہے اور امن کے معاہدات کے ذریعے اس آ گ کو بجھانے کی جو کوشش کی گئی ہے اس کو سبوتاژ کرنے کے لیے امریکا‘ افغانستان کی حکومت‘ افغانستان میں ناٹو کی ایساف کی کمانڈ اور خود ملک کے فوجی حکمران طرح طرح کی کارروائیاں کررہے ہیں جن سے خطرہ ہے کہ امن کی فضا ختم ہوجائے اور خدانخواستہ کوئی بڑا خونی تصادم پھر سر اُٹھالے۔

پنجاب چونکہ حکمران ہے‘ اس لیے اس سے بظاہر مرکز کے تعلقات اچھے ہیں لیکن دراصل خود صوبے کے مختلف حصوں کے درمیان کھچائو اور رسہ کشی ہے اور خصوصیت سے جنوبی پنجاب میں بے زاری کی لہریں اُٹھ رہی ہیں۔ سندھ کا معاملہ کچھ اور بھی پیچیدہ ہے۔ وہاں جس پارٹی نے  سب سے زیادہ ووٹ لیے تھے‘ اسے حکومت بنانے سے محروم رکھا گیا اور مصنوعی اکثریت پیدا کرکے سیاسی دروبست کا اہتمام کیا گیا۔ ایک لسانی تنظیم کو جو دراصل ایک مافیا کی حیثیت رکھتی ہے صوبے پر مسلط کردیا گیا ہے جس نے صرف کراچی ہی نہیں پورے صوبے میں تباہی مچائی ہوئی ہے۔ ایک ایسے شخص کو جو خودسزا یافتہ تھا‘ جھوٹی معافی دے کر اور سیاسی سودا بازی کے نتیجے میں  گورنر مقرر کیا گیا اور وہ گورنر باقی تمام صوبوں کے گورنروں کے مقابلے میں ایک متوازی حکومت کے ذریعے اپنی من مانی کر رہا ہے۔

صوبائی خودمختاری کا مسئلہ ایسی گمبھیر شکل اختیار کرتا جا رہا ہے کہ فیڈریشن کا شیرازہ   معرضِ خطر میں ہے لیکن جرنیل صاحب یونٹی آف کمانڈ کے نام پر فیڈریشن پر ایک وحدانی نظام مسلط کررہے ہیں اور یہ وحدانی نظام خاکی وردی میں ملبوس ہے۔ بگاڑ کی اصل وجہ یہ جرنیلی نظام ہے جس نے ملک کے سارے اداروں کا خانہ خراب کر دیا ہے۔

ایک دوراہا یہ بھی ہے کہ آیا اس ملک کو ایک حقیقی فیڈرل نظام کے مطابق چلنا ہے۔ آمریت اور وحدانی نظام جس کے بوجھ تلے خدانخواستہ پورا نظام درہم برہم ہو جائے۔

امن و امان کی بگڑتی صورت حال

جنرل پرویز مشرف نے ایک وعدہ قوم سے یہ بھی کیا تھا کہ وہ ملک میں امن و امان قائم کریں گے‘قانون کی حکمرانی ہوگی اور ہر فرد کو انصاف فراہم کیا جائے گا۔ لیکن ان کے سات سالہ دورِاقتدار میں جو چیز سب سے ارزاں ہوگئی ہے ایک عام فرد کی آزادی‘ زندگی اور عزت کی پامالی ہے۔ پولیس کی اصلاحات اس دعوے کے ساتھ کی گئی تھیں اب پولیس سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہوگی اور وہ عام شہریوں کو جان‘ مال اور عزت کا تحفظ دے سکے گی۔ پولیس کے لیے مالی وسائل اور ٹکنالوجی دونوں فراہم کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا لیکن پنجاب جیسے صوبے میں جس کا پولیس کا بجٹ ۶ ارب روپے سے بڑھ کر ۲۱ ارب روپے کردیا گیا ہے۔ صوبے کا دارالحکومت تک جرائم کا مرکز بن گیا ہے اور صوبے کے کسی گوشے میں عوام کو امن اور چین میسر نہیں۔ لاہور کے مصروف ترین علاقے میں دن دہاڑے صوبے کا اعلیٰ ترین قانونی افسر اڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور اس کے ساتھی قتل کر دیے جاتے ہیں اور ملزموں کی نشان دہی کیے جانے کے باوجود وہ پولیس کی دسترس میں نہیں آتے۔ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس پولیس کی کارکردگی پر بے اعتمادی کا اظہار کرتا ہے اور   اعلیٰ عدالت کے جج یہاں تک کہتے ہیں کہ پولیس کا بجٹ روک دیا جائے اور یہ اربوں روپے   عوام کو ریلیف دینے کے لیے استعمال کیے جائیں۔ سپریم کورٹ بار بار پولیس کو ملزموں پر    ہاتھ ڈالنے کا حکم دیتی ہے اور پولیس افسر عدالت میں آنے تک کی زحمت گوارا نہیں فرماتے۔ صوبے میں نام لے کر ڈاکوؤں کے ۴۵ گروہوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو سیکڑوں وارداتوں میں  ملوث ہیں مگر کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ صوبے کا وزیراعلیٰ بھی چیخ اُٹھتا ہے مگر ان بااثر ڈاکوؤں اور اغوا کاروں کے آگے بے بس ہے۔ پنجاب میں صرف ۲۰۰۶ء میں تمام جرائم میں ۲۵ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ کراچی اور سندھ کا حال اس سے بھی خراب ہے۔ سرحد میں پہلے تین سال صورت حال  بہتر تھی لیکن وہاں بھی ۲۰۰۶ء میں جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیرداخلہ خود جنرل پرویز مشرف کی تشویش کا یوں اظہار کرتے ہیں:

صدر کو ملک میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح پر خاصی تشویش ہے‘ خصوصاً دہشت گردی‘ انتہاپسندی‘ فرقہ واریت‘ اسٹریٹ کرائم کے واقعات پر۔

یہ بیان وزیرداخلہ نے آرمی ہائوس میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد دیا جو جنرل پرویز مشرف کے سات سالہ دورِاقتدار کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

لیکن بات صرف روایتی جرائم ہی کی نہیں کہ چوری‘ ڈاکے‘ آبروریزی‘ اغوا براے تاوان‘   کارچوری اور موبائل چوری ہر جرم میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس سے زیادہ خطرناک رجحان یہ ہے کہ سیکڑوں شہریوں کو سرکاری ادارے اُٹھا کر لے جاتے ہیں اور مہینوں نہیں‘ برسوں ان کا پتا نہیں چلتا۔ سیکڑوں کو کسی عدالتی کارروائی کے بغیر اور کسی جرم کو ثابت کیے بغیر امریکا کے حوالے کر دیا گیا اور  بے غیرتی کی انتہا ہے کہ اسے اپنا کارنامہ بیان کیا جاتا ہے‘ حتیٰ کہ اپنی خودنوشت میں اس کا نمایاں طور پر ذکر کیا جاتا ہے اور یہاں تک دعویٰ کیا جاتا ہے کہ حکومت کو اس کے عوض کروڑوں ڈالر ملے۔   یہ اور بات ہے کہ ڈالروں والی بات کو ہر طرف سے تھوتھو ہونے کے بعد واپس لینے کی جسارت بھی کی گئی ہے۔ معصوم انسانوں کو یوں اُٹھا لینا دستور‘ قانون‘ دین‘ اخلاق ہر ایک کے خلاف ہے لیکن اس جرنیلی دور میں یہ بھی کھلے بندوں کیا جا رہا ہے اور سپریم کورٹ کے بار بار انتباہ اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود ان لاپتا افراد کا کوئی پتا نہیں مل رہا ہے۔

اگر بصیرت کی نگاہ سے حالات کو دیکھا جائے تو اس لاقانونیت کے فروغ کا ایک بنیادی سبب فوج کے جرنیلوں کا اقتدار پر غاصبانہ قبضہ‘ دستورشکنی اور اس دستورشکنی کے لیے عدالتی جواز کی فراہمی کی مکروہ روایت ہے۔ جب اعلیٰ ترین سطح پر دستور اور حلف توڑنے پر کوئی گرفت نہیں ہوگی تو پھر ہرسطح پر قانون شکنی کا دروازہ کھلے گا۔ جب طاقت ورقانون سے بالا ہوں گے تو پھر کون قانون کا احترام کرے گا۔ جب تک دستور توڑنے والوں کو دستور کی دفعہ ۶ کے تحت قرارواقعی سزا کا نظام مؤثر نہیں ہوگا‘ تو پھر کسی سطح پر بھی قانون کا احترام قائم نہیں ہوسکے گا۔

ایک دوراہا آج قوم کے سامنے یہ بھی ہے کہ اس ملک میں دستور اور قانون کی حکمرانی ہوگی۔ یا وردی اور قوت والے جو چاہے کرلیں وہ قانون کی گرفت سے باہر ہی رہیں گے۔ اگر انصاف اور امن ہمارا مقصد ہے تو پھر ہرسطح پر قانون توڑنے والے ہاتھ روکنے ہوں گے یا ایسے ہاتھوں کو کاٹنا پڑے گا تب ہی سب کی جان‘ مال‘ عزت اور آبرو محفوظ ہوسکیں گے۔

دستور کی بے وقعتی

بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ملک کا ایک دستور ہے لیکن وہ صرف کاغذ کا ایک پرزہ بنادیا گیا۔ یہ درست ہے کہ اصل دستور میں من مانی تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں اور آٹھویں اور ۱۷ویں ترامیم کے ذریعے اس کا حلیہ خاصا بگاڑ دیا گیا ہے مگر اس سب کے باوجود جس دستور پر قیادت نے حلف لیا ہے اس کا بھی ان حکمرانوں کو کوئی پاس نہیں۔

دستور میں سب سے پہلے اللہ سے وفاداری اور اسلامی نظریے کی پاس داری کا حلف ہے مگر روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر اللہ کے احکام اور اسلام کی واضح تعلیمات سے انحراف کیا جارہا ہے۔ شراب جس کا استعمال دستور اور قانون کے تحت جرم ہے‘ اب کھلے بندوں منگوائی جارہی ہے اور ہوٹلوں اور دعوتوں میں جام لنڈھائے جارہے ہیں۔ زنا اب جرم نہیں رہی اور اللہ کی حدوں کو پامال کیا جارہا ہے۔ سود جسے شرعی عدالتوں نے ختم کرنے کا فیصلہ دیا تھااس کی بنیاد پر سارا نظام چلایا جارہا ہے۔ بے حیائی اور فحاشی کو عام کیا جا رہا ہے اور اس کا نام روشن خیالی رکھا گیا ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ جو فوج کا آج بھی رسمی موٹو ہے‘ اس کا ذکر بھی زبان پر لانے سے لرزہ طاری ہے اور قسمیں کھاکھا کر کہا جا رہا ہے کہ جہاد سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ہر جہادی تنظیم گردن زدنی ہے۔ نصابِ تعلیم سے بھی جہاد کا ہر ذکر خارج کیا جا رہا ہے۔ اگر بس چلے تو نعوذباللہ قرآن پاک میں بھی ترمیم کر کے ان تمام آیات کو نکال دیا جائے جو جہاد کے بارے میں ہیں۔ اسلامیات کے نصاب کو بھی بدلا جا رہا ہے اور دوسرے تمام مضامین سے اسلام اور اسلامی تاریخ و ثقافت کے ذکر کو خارج کیا جا رہا ہے اور وزیرتعلیم‘ جو ماشا اللہ سابق جرنیل بھی ہیں اور امریکا سے تعلیمی اصلاحات کے لیے سندجواز بھی لے آئے ہیں‘ فرماتے ہیں کہ ’’نصابِ تعلیم پر تنقید کرنے والے مکار اور منافق ہیں‘‘ اور’’یہ لوگ ملک کو چھٹی صدی میں دھکیلنا چاہتے ہیں‘‘۔ قرآن میں ۴۰ پاروں کی بات کرنے والے وزیرتعلیم کو کیا پتا کہ چھٹی صدی تو دورِ جاہلیت کی صدی ہے۔ سیدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا انقلاب تو ساتویں صدی میں آیا۔ دورِ رسالت مآب ؐ اور خلافتِ راشدہ ہی کا زمانہ مسلمانوں کے لیے   ہمیشہ معیار اور ماڈل رہا ہے‘ رہے گا۔ اُمت کا قبلہ آج کے حکمرانوں اور ان کے امریکی آقائوں کی تمام خواہشات کے باوجود ان شاء اللہ یہی رہے گا۔ حال ہی میں وزارتِ تعلیم نے جو وائٹ پیپر شائع کیا ہے وہ اس فکر سے ذرا بھی مختلف نہیں جو اس سے پہلے سکندرمرزا اور ایوب خاں جیسے لوگ پیش کرتے رہے ہیں اور جس طرح ان کے مذموم منصوبے عوام کے دبائو میں پادر ہوا ہوئے‘ اسی طرح ان شاء اللہ آج کے جرنیلی حکمرانوں کے عزائم بھی خاک میں ملیں گے۔

ایک دوراہا یہ بھی ہے کہ اس قوم کی منزل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین اسلام ہے یا اسلام کا وہ نمونہ جو بش اور اس کے حواریوں کے لیے قابلِ قبول ہو اور جو تصوف کی کوئی ایسی شکل اختیار کرلے جس سے باطل کی قوتوں اور سامراجی طاقتوں کو کوئی خطرہ نہ ہو۔

معیشت کی زبوں حالی

جنرل پرویز مشرف اور ان کے ظلِّی وزیراعظم شوکت عزیز اپنی معاشی فتوحات کا بڑا دعویٰ کرتے ہیں اور اس کا رکردگی کے سہارے عوام کے دل جیت لینے کی باتیں کرتے ہیں۔ کاش‘ یہ حضرات اپنے محلات سے نکل کر زمینی حقائق کو بھی دیکھیں اور بچشم سر نظارہ کریں کہ عوام کن مشکلات سے دوچار ہیں۔ اعدادوشمار کی بازی گری نہ غربت کو مٹا سکتی ہے اور نہ بھوک کا مداوا کرسکتی ہے۔ بے روزگاری جو انھی کے اعدادوشمار کے مطابق ۱۹۹۱ء میں ۳ فی صد سے کم تھی وہ ۲۰۰۳ء میں ۳ء۸ فی صد سے تجاوز کرگئی اور ۲۰۰۶ء میں ۸ء۶ بتائی جاتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں بھوک‘ افلاس اور بے روزگاری کی وجہ سے خودکشی کسی دور میں نہیں ہوئی لیکن اس جرنیلی دور میں ہرسال سیکڑوں افراد خودکشی تک پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ایک حالیہ سروے کی روشنی میں صرف راول پنڈی میں اور صرف ۲۵ تھانوں سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر ۲۰۰۶ء میں ۵۲ افراد نے خودکشی کی ہے (جنگ،  ۲۰ جنوری ۲۰۰۷ء’اسلام آباد کا جڑواں شہر اور خودکشیاں‘ منوبھائی)

یہ حال ایک شہر کا نہیں پورے ملک کا ہے۔ ان سات سالوں میں اشیاے ضرورت کی قیمتوں میں ایک سو سے لے کر چار سو فی صد تک اضافہ ہوا ہے۔ دولت کی عدم مساوات میں محیرالعقول اضافہ ہواہے۔امیر امیر تر ہو رہا ہے اور غریب غریب تر ۔موجودہ حکومت کی ساری پالیسیوں کا ہدف امیروں کو امیر تر کرنا ہے جس کا ایک اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ ملک کی کُل آبادی میں بمشکل ۱۵ فی صد ایسے ہیں جو بنکوں میں حساب رکھتے ہیں۔ ان کی تعداد ۱۹۹۹ء میں ۸ء۲۹ ملین تھی جو ۲۰۰۶ء میں کم ہو کر ۲ء۲۶ ملین رہ گئی۔ ان میں سے جو اپنے بنک کھاتے میں اوسطاً ۱۰ ہزار روپے یا اس سے کم رقم رکھتے تھے وہ ۱۹۹۹ء میں کل کھاتہ داروں کا ۵ء۵۱ فی صد تھے‘ جب کہ ان کی کُل رقم بنک کے تمام کھاتہ داروں کی رقم کا ۳ء۱۱ فی صد تھی۔ لیکن جون ۲۰۰۶ء میں  ان کی تعداد ۵ء۵۱ سے کم ہوکر ۱ء۲۶ فی صد ہوگئی ‘ یعنی ۵۰ فی صد کی کمی اور ان کے کھاتوں کی رقم ۳ء۱۱ سے کم ہو کر ۸ء۰ فی صد رہ گئی یعنی اس میں کمی ۱۲۰۰ فی صد سے زیادہ ہوئی۔ اس کے برعکس اگر ان کھاتہ داروںکے کھاتوں اور ان میں رکھی ہوئی رقم کا مطالعہ کیا جائے جن کے ڈیپازٹ ایک کروڑ روپے یا اس سے زیادہ ہے تو ان کی تعداد ۱۹۹۱ء میں کل کھاتہ داروں کا صرف ۱ء۰ فی صد تھی‘ جب کہ ان کے کھاتوں میں جمع رقم کل رقم کا ۳ء۱۳ فی صد تھی لیکن ۲۰۰۶ء میں کھاتوں کی تعداد کے اعتبار سے ان کی تعداد کل کھاتوں کا صرف ۰۷ء۰ تھی‘ جب کہ ان کھاتوں میں رقم کل رقم کا ۵ء۳۴ فی صد (بحوالہ ڈان ۱۸-۲۴ دسمبر ۲۰۰۶ء‘ مضمونFailure of Monetary Policy از جاوید اکبر انصاری)

یہ تو صورت ہے عام افراد کی معاشی زبوں حالی کی‘ لیکن مجموعی معاشی صورت حال بھی کچھ کم تشویش ناک نہیں۔ افراطِ زر میں برابر اضافہ ہو رہا ہے اور اسٹیٹ بنک کے تازہ ترین اندازوں کے مطابق افراطِ زر کے بارے میں جو تخمینہ تھا کہ وہ ۲۰۰۶ء-۲۰۰۷ء میں ۵ء۶ فی صد ہوگا‘ اندیشہ ہے کہ وہ ۸ فی صد کے لگ بھگ ہوگا۔ اور جہاں تک اشیاے خوردونوش کا تعلق ہے تو دسمبر۲۰۰۵ء کے مقابلے میں دسمبر ۲۰۰۶ء میں یہ اضافہ ۷ء۱۲ فی صد ہوا ہے (بحوالہ دی نیشن ‘ ۲۱جنوری ۲۰۰۷ء)

تجارتی خسارہ ۵ بلین ڈالر سے بڑھ کر ۱۲ بلین ڈالر کی حدوں کو چھو رہا ہے اور بین الاقوامی ادایگی کا خسارہ ڈیڑھ بلین ڈالر سے بڑھ کر ۵ بلین سے تجاوز کر رہا ہے۔ گو زرمبادلہ کے ذخائر ۱۳بلین ڈالر کے لگ بھگ ہیں لیکن ۲۰۰۲ء کے مقابلے میں جب یہ ۱۱ مہینے کی درآمدات کے برابر تھے اس کے مقابلے میں اب یہ بمشکل چار مہینے کی درآمدات کے لیے کفایت کرتے ہیں۔

آزادی گروی رکھ کر جس معاشی ترقی کا شوروغوغا ہے اس کی حقیقت تلخ اور سراب کے مانند ہے۔ اور ایک دوراہا یہ بھی ہے کہ کون سی معاشی ترقی اس قوم کو مطلوب ہے۔

پاکستان دوراھے پر

دوراہے اور بھی ہیں لیکن سب کا مرکزی نکتہ ایک ہی ہے___ یعنی جنرل پرویز مشرف کے سات سالہ دورِحکمرانی میں قوم کو جس جگہ پہنچا دیا گیا ہے‘ اس سے نجات کا اب ایک ہی راستہ ہے اوروہ شخصی آمریت اور فوج کے سیاسی کردار سے نجات اور حقیقی جمہوری نظام کی طرف     پیش قدمی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ قوم ہمیشہ کے لیے اس امر کو طے کردے اور تمام جمہوری اور اسلامی سیاسی قوتیں یک جان ہوکر اس کے لیے سرگرم عمل ہوجائیں کہ ملک کی بقا اور ترقی کا انحصار ۱۹۷۳ء کے دستور کو اس کی اس شکل میں نافذ کرنے پر ہے جو اکتوبر ۱۹۹۹ء سے قبل موجود تھا۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ملک میں جرنیلی آمریت کے خلاف بھرپور تحریک ہو اور نئے انتخابات ایک حقیقی غیر جانب دار حکومت کے تحت کھلے اورشفاف انداز میں ہوں۔ اصل حکمران جنرل پرویز مشرف ہیں اور خود انھوں نے انتخابی مہم کا آغاز کرکے‘ کھلے عام یہ دعوت دے کر کہ ان لوگوں کو منتخب کرو جو میرے ساتھ ہیں اور ان کی آزاد خیالی کے علم بردار ہیں اور پھر یہ اعلان کر کے کہ وہ خود حکمران لیگ اور اس کے حواریوں کی لگام تھامے ہوئے ہیں‘امیدواروں کا انتخاب وہ خود کریں گے اور انتخابی مہم بھی وہ خود چلائیں گے۔ اب یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی موجودگی میں کوئی غیرجانب دار انتظام وجود میں نہیں آسکتا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس پورے دور میں کوئی فیصلہ پارلیمنٹ یا کابینہ نے نہیں کیا‘ سارے فیصلے جنرل صاحب خود کرتے ہیں‘ یا کورکمانڈر وں کی میٹنگ میں کیے جاتے ہیں۔ مرکزی کابینہ کو تو ان کی خبربھی اخبارات ہی کے ذریعے ہوتی ہے۔ ان حالات میں واضح ہے کہ اصل حکمران جنرل پرویز مشرف ہیں اور ان کی موجودگی میں کسی آزادی اور غیرجانب دار انتخاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے تین بنیادی نکات ہیں جن پر    تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کو متفق ہوکر جدوجہد کرنی چاہیے:

                ۱-  دستور کی اس کی اصل شکل میں بحالی‘ شخصی حکمرانی کا خاتمہ اور فوج کو دستور کے تحت مکمل طور پر منتخب سول نظام کے تحت کام کرنے کا پابند کرنا۔

                ۲-  چونکہ جنرل پرویز مشرف جو اصل حکمران اور سرکاری پارٹی کے حاکم مطلق ہیں ان کی حکومت کے تحت آزاد اور غیر جانب دار انتخابات ناممکن ہیں‘ اس لیے ان کا استعفا اور صحیح معنوں میں ایک غیرجانب دار انتظام کے تحت ایک مکمل طور پر بااختیار پارلیمنٹ کی تمام سیاسی جماعتوں کے مشورے کے مقرر کردہ آزاد الیکشن کمیشن کے تحت نئے انتخابات۔

                ۳-  انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کی غیرمشروط شرکت اور طے شدہ آداب کے مطابق انتخابی مہم کے پورے مواقع۔

اس سیاسی جدوجہد اور انتخاب میں جنرل پرویز مشرف کو بھی اسی طرح شرکت کا موقع ملنا چاہیے جس طرح باقی تمام سیاسی عناصر کو‘ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اقتدار سے فارغ ہوں‘ وردی اُتاریں تاکہ صدر کا عہدہ اور چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ دونوں دستور کے تحت  بحال ہوسکیں اور وہ صدارت یا اسمبلی کی رکنیت جس کے لیے بھی حصہ لینا چاہیں برابری کی بنیاد پر حصہ لیں۔

انھیں دعویٰ ہے کہ وہ بزدل انسان نہیں۔ اگر ایسا ہے تو انھیں ہرگز زیب نہیں دیتا کہ   فوج کی وردی پہن کر فوجی بیرک کے محفوظ مقام پر بیٹھ کر اس سیاسی معرکے میں شرکت کریں۔    یہ دعوے کہ وردی کا کوئی تعلق جمہوریت سے نہیں اور پانچ سال والی اسمبلی سے دس سال کے لیے صدارتی انتخابات کرانے کے منصوبے دراصل سیاسی دیوالیہ پن ہی کا مظاہرہ نہیں بلکہ خود       اپنی کمزوری کا بھی اعتراف ہیں۔ اگر آپ کو اعتماد ہے کہ عوام آپ کے ساتھ ہیں تو پھر فوج کی چھتری تلے بیٹھ کر شب خون مارنے کے کیا معنی؟

فوج کو جس طرح سیاست میں ملوث کیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں جس طرح فوج متنازع بن گئی ہے اور عوام اور فوج میں فاصلے بڑھ گئے ہیں‘ یہ کھیل اب ختم ہونا چاہیے اور ہمیشہ  کے لیے ختم ہونا چاہیے تاکہ جمہوریت کی گاڑی پٹڑی پرچڑھ سکے اور فوج دستور کے تحت سول نظام کی قیادت میں اپنا کردار ادا کرسکے۔۲۰۰۷ء فیصلے کا سال ہے اور اب توقع ہے کہ یہ قوم وہ فیصلہ کرے گی جس کے نتیجے میں پاکستان اپنی اصل منزل کی طرف پوری قوت اور یک سوئی سے    پیش قدمی کرسکے گا۔