پروفیسر خورشید احمد


اسلامی معاشیات ایک ارتقا پذیر سماجی علم ہے۔ یہ اقتصادیات کے اصولوں، اقدار، اداروں اور اسلامی تعلیمات کو یکجا کرنے اور نظامِ کار تشکیل دینے کی ایک کوشش ہے، تاکہ ایک نیا اقتصادی نظریہ فروغ پاسکے۔اس کا مقصد عصری اقتصادی سائنس میں محض ایک شاخ یا ذیلی شعبہ کا اضافہ نہیں بلکہ جوہری بنیادوں پر علم الاقتصاد کی تعمیروتشکیل ہے۔

مغرب میں آدم اسمتھ کے زمانے سے آج تک معاشی علوم کی تعمیر کے لیے نت نئی کوششیں اور تجربے کیے جارہے ہیں۔ یہ کوششیں فلاحی معاشیات (Welfare Economics)، رویوں کی معاشیات (Behavioral Economics)، ارتقائی معاشیات (Evolutionary Economics)، گھریلو معاشیات (Home Economics) ، سیاسی معاشیات (Political Economy)، مارکسی معاشیات (Marxist Economics) اور ماحولیاتی معاشیات (Environmental Economics) وغیرہ جیسے علوم کی صورت میں کی گئی ہیں۔

عصری اقتصادیات کا سارا تانا بانا سائنس کو اخلاقیات اور مذہب سے الگ کرنے کے تصور کے اردگرد بُنا گیا ہے۔ اس طرح معاشیات کو ’سماجی سائنس‘ ہونے کے باوجود ایک فطری سائنس (Natural Science) کے سانچے میں ڈھالنے کی منظم کوشش کی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے نہ صرف بنیادی طور پر تجرید اور انتخاب پر انحصار کیا بلکہ رفتہ رفتہ خود کو معاشرے اور انسانیت سے بھی دُور کرلیا۔ نتیجتاً سارے ہی معاشی اُمور کے بارے میں فیصلہ سازی میں منڈی نے مرکزی حیثیت حاصل کرلی۔ پوری معاشی فکر انسان کے ایک یک جہتی (unidimensional) تصور کے گرد منڈلا رہی ہے، جس کا محرک مفاد پرستی اور منافع کا حصول بن گیا۔ اس کے نتیجے میں ایک بے رحم اورسفاکانہ صورتِ حال نے جنم لیا، کیونکہ ایک طرف مغرب نے پیداوار اور دولت کی تخلیق میں شان دار ترقی کی تودوسری طرف ایک ایسی معیشت اور معاشرہ تخلیق کیا، جہاں دولت کی وسیع پیمانے پر غیرمساویانہ تقسیم اور بڑے پیمانے پر معاشی استحصال پایا جاتا ہے۔

اس عمل نے معاشرے کو وسائل رکھنے اور وسائل پر دسترس نہ رکھنے والوں میں تقسیم کردیا اور یوں طبقاتی تقسیم پیدا ہوئی۔ اس کے نتیجے میں انسان، قومیں اور ممالک ایک دوسرے کے خلاف برسرِپیکار ہوگئے، جس سے انسانیت کی بقا کو خطرہ لاحق ہوگیا۔

اقوام متحدہ کی ’غذا کے بارے میں چوٹی کی کانفرنس‘ (۲۳ستمبر ۲۰۲۱ء) کے مطابق ۲۰۲۰ء میں دنیا کے ۷۶۸ملین افراد بھوک اور افلاس کا سامنا کر رہے تھے، جن کی تعداد میں پچھلے سال اور زیادہ اضافہ ہوگیا۔ دُنیا بھر میں تقریباً ۲۷۴ملین افراد کو زندہ رہنے کے لیے کسی نہ کسی قسم کی ہنگامی امداد کی ضرورت ہے، جب کہ دُنیا کے امیرترین ایک فی صد لوگوں کے پاس دُنیا کے تقریباً ۷؍ارب لوگوں سے دوگنی زیادہ دولت ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں تین امیر ترین افراد کے پاس ۱۶۰ملین افراد کی دولت کے برابر دولت ہے۔

امریکا اس وقت دُنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ دُنیا کی ۵ فی صدآبادی کے ساتھ یہ دُنیا کی مجموعی پیداوار کے ۲۰ فی صد کا حامل ہے۔ اس کے باوجود خود ۲۰ فی صد امریکی خاندانوں کے پاس کوئی اثاثہ نہیں ہے۔ ۳۷ فی صد سیاہ فام امریکی خاندانوں کی صورتِ حال ابتر ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی اثاثہ نہیں ہے۔ امریکا میں ایک مڈل ایگزیکٹو اور اعلیٰ کارپوریٹ ایگزیکٹو کی تنخواہوں کے درمیان فرق ۱۹۵۰ء میں ۲۰ گنا تھا لیکن اب یہ بڑھ کر ۴۰۰ گنا ہوگیا ہے۔

عالمی وبائی مرض کورونا نے مزید تباہی مچا دی ہے۔ تقریباً ۸۹ملین امریکی ملازمتیں کھوچکے ہیں۔ کورونا وائرس سے ۴۴ء۹ ملین سے زائد افراد بیمار ہوچکے ہیں اور ۷لاکھ ۲۴ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود امریکی ارب پتی، خاص طور پر وہ لوگ جو دواسازی کی صنعت میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، لالچ کے اسیر اور عام انسانوں کی مجبوری سے فائدہ اُٹھانے والے ہیں۔ عالمی تباہی کے ان دوبرسوں کے دوران ۴۵؍ارب پتیوں کی دولت میں ۲ء۱ ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہوا۔ امریکی فارٹیکس فیئرنس (AFT) اور انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی اسٹڈیز پروگرام آن اِن ایکویلٹی کے تجزیہ کردہ ’فوربس‘ (Forbes) کے اعداد و شمار کے مطابق، ان کی اجتماعی دولت میں ۷۰ فی صد اضافہ ہوا۔ ۱۸مارچ ۲۰۲۰ء کو کورونا وبا کے آغاز میں ان کی دولت ۳ٹریلین ڈالر تھی، جو ۱۵؍اکتوبر ۲۰۲۱ء تک بڑھ کر ۵ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہوگئی۔

معاشی بحران اور علمِ معاشیات کا بحران

حقیقت یہ ہے کہ آج عالمی معیشت کے ساتھ ساتھ معاشیات کی سائنس دونوں ہی بحران کا شکار ہیں۔ پروفیسر ابھیجیت وی بینرجی (Abhijit V. Banerjee) اور ایستھرڈ فلو (Esther Dufly) نے اپنی کتاب: Good Economics for Hard Times  (۲۰۱۹ء) میں عصری معاشیات پر نہایت جامع تنقید کی ہے۔انھوں نے اچھی معاشیات اور فاسد معاشیات (Bad Economics)کے درمیان فرق واضح کرتے ہوئے، اس عدم اعتماد پر افسوس کا اظہار کیا ہے، جو عام آدمی معاشیات کے بارے میں رکھتا ہے۔

وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ کس طرح معاشیات اور اخلاقیات کے درمیان علیحدگی ایک ایسے معاشرے کی پیدائش کا باعث بنی ہے، جس میں انصاف اور اس کے تمام ارکان کی فلاح و بہبود کا فقدان ہے۔ ان مصنّفین کے مطابق ایسا اس وجہ سے ہے کہ یہاں بڑے پیمانے پر فاسد معاشیات کا دور دورہ ہے۔

مصنّفین، مغرب میں معاشیات کے ناقص نقطۂ آغاز پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے معاشیات کی ناکامی کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’معاشی ماہرین کا رجحان فلاح و بہبود کے تصور کو اپنانے کی طرف ہے، جو اکثر بہت محدود ہوتا ہے، آمدنی یا مواد کی کھپت کے کچھ حصے کی حد تک۔  پھر ہم سب کو ایک مکمل زندگی گزارنے کے لیے برادری کے احترام، خاندان اور دوستوں کی راحت، وقار، خوشی اور سہل زندگی سے کہیں زیادہ کی ضرورت ہے۔صرف آمدنی پر توجہ ایک آسان راستہ نہیں ہے۔ یہ ایک مسخ کرنے والی عینک ہے، جس نے اکثر ذہین ماہرینِ اقتصادیات کو گمراہ  کیا ہے، پالیسی سازوں کو غلط فیصلوں اور ہم میں سے اکثر پر غلط تصورات کو مسلط کیا ہے‘‘۔

جدید معاشیات کے بارے میں ان کی تنقید بہت باوزن ہے: ’’فاسدمعاشیات نے  معیشت کی تمام چابیاں اور وسائل امیروں کے حوالے کر دیئے، پھر عوام کے لیے فلاحی پروگراموں کو کم کرنے پر زور دیا۔ اس تصور کو غالب کر دیا کہ ریاست کمزور اور بدعنوان ہے اور غریب سُست ہیں۔ یہ وہ حکمت عملی تھی، جس نے عدم مساوات اور عوامی سطح پر جمود اور تلخی کو جنم دیا، جس سے تصادم کی فضا رُونما ہوئی ہے۔

نظریں خیرہ کرنے والی اس معیشت نے ہمیں بتایا کہ تجارت سب کے لیے اچھی ہے اور تیز تر ترقی ہی انسانیت کی معراج ہے۔ اندھی معیشت نے پوری دُنیا میں عدم مساوات کے خوفناک دھماکے اور اس کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے سماجی مسائل، اور سر پر کھڑی ماحولیاتی تباہی کو نظرانداز کر دیا‘‘۔ (Good Economics for Hard Times، پینگوئن بُکس، برطانیہ،۲۰۱۹ء)

اچھی معاشیات کی تلاش وقت کی پکار ہے۔ اسلامی معاشیات کو ترقی دینے کی کوشش اس سمت میں ایک مثبت کردار ہے۔اس سلسلے میں جن اہل علم نے کلیدی کردار ادا کیا ہے، ان میں مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی [۲۵ستمبر ۱۹۰۳ء-۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء] اور پھر باقرالصدر [یکم مارچ ۱۹۳۵ء- ۹؍اپریل ۱۹۸۰ء] کا نام نمایاں ہے۔ مولانا مودودی نے نہ صرف علم معیشت کے تمام دائروں کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر کو واضح الفاظ میں بیان کیا، اور ان کی علمی اور عملی فوقیت پر مؤثر دلائل دیے، بلکہ پورے معاشی مسئلے کو دیکھنے اور حل کرنے کے لیے جس نئے نقطۂ نظر کی ضرورت ہے، اسے بڑی گرفت کے ساتھ واضح کیا۔ اس طرح معاشیات کے علم کی تشکیلِ جدید کی تحریک، بیسویں صدی کی ایک مؤثر تحریک بن گئی۔

اسلامی معاشیات کی اساس

معاشی حوالوں سے سیّد مودودی کی تحریریں پانچ بڑے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں:

  • اوّلین اور اہم ترین تو سیّد مودودی کا معیشت کا وہ تصور ہے جو انسان دوست، عادلانہ اور ثمربار ہے اور انسانی معاشرے کے تمام ارکان کی ضرورت اور فلاح کو یقینی بناتا ہے۔ اسلامی معاشیات پر ان کی تحریروں کی اصل بنیاد، اخلاقی اقدار، سماجی انصاف اور معاشی توازن ہیں۔ یہ سیّد مودودی کا منفرد کارنامہ ہے۔ امرواقعہ ہے کہ کسی بھی شعبۂ علم کی روح اور اس کا جوہر اس کے مجموعی تصور (vision) میں ہوتا ہے ۔ انھوں نے نہ صرف پوری وضاحت سے اسلامی معیشت اور معاشرت کا تصور بیان کیا ہے ،بلکہ تفصیل سے یہ بھی بتایا ہے کہ اس تصور کے وہ کون سے امتیازات ہیں، جو روایتی معاشیات اور اس کی مختلف شکلوں سے اسے مختلف بناتے ہوئے امتیازی مقام عطا کرتے ہیں۔ معاشی تجزیے کو معیشت، معاشرے اور تہذیب کے جامع تصور کی بنیاد پر استوار کرنے کی مناسبت سے ان کی تجاویز فی الحقیقت ذہن کشا ہیں۔

ہمارے نزدیک 'تصور اور 'تجزیےمیں پیدا کردہ تفریق ہی روایتی معاشیات کی ناکامی کی اصل وجہ ہے۔ اسی لیے سیّد مودودی نے زور دے کر یہ سمجھایا ہے کہ اسلام کے تصورِ حیات، اخلاقی ضابطے اور انفرادی و اجتماعی تنظیم کا، معاشی نظریے، معاشی زندگی اور فیصلہ سازی سے لازمی ربط ہے۔ اگر اس میں سے کوئی ایک اکائی غائب ہے یا نظرانداز ہے، تو اس کو اپنی جگہ فعال اور بحال ہونا چاہیے ۔ مراد یہ ہے کہ معاشیات کی اسلامی تشکیل کی نمایاں ترین خصوصیت معاشی تجزیے اور پالیسی سازی میں بھی اخلاقی اقدار کی کارفرمائی کا کلیدی کردار ہے۔

مولانامودودی نے معاشیات کے اس پہلو پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ کیسے ایک انسان دوست معیشت، مربوط طرز فکر کے ذریعے معاشرے کے تمام افراد کے لیے اچھی زندگی کے مواقع پیدا کرسکتی ہے۔ ایک صحت مند معاشیات وہ ہوگی، جس میں معاشیات اور اخلاقیات کا ناتا ٹوٹا ہوا نہ ہو۔ مولانا نے معاشی زندگی اور اس کی انجام دہی کے مختلف پہلوؤں پر اس مربوط طرز فکر کے اثرات کو نمایاں کیا ہے۔

  • ثانیاً: مولانا مودودی نے انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور معاشرے کے باہم تعلق کو واضح کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے عمرانی علوم کے ہر شعبۂ علم کو خود اپنے ہی دائرے میں محدود کرتے ہوئے مکمل سمجھنے کے فاسد طرزِ فکر کے برعکس، مختلف شعبہ ہائے علم کے باہم ربط پر مبنی طرزِ فکر کی ضرورت پر زور دیا ۔

مولانا مودودی برملا کہتے ہیں کہ انسانی زندگی کو خانوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ زندگی کا ہرپہلو دیگر تمام پہلوؤں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ بلاشبہہ تخصص کا ایک کردار موجود ہے، لیکن زندگی کو ایسے جدا جدا خانوں میں تقسیم کر دینا غیرحقیقت پسندانہ اور انتہائی نقصان دہ ہے، جن میں ہر شعبۂ علم انسانی زندگی کے کسی پہلو کو ایک الگ دنیا میں زیر مطالعہ لاتا ہو۔ گذشتہ دو صدیوں کے دوران معاشیات کو جس طرح ایک جدا اور اپنے آپ میں مکمل علم کے طور پر پروان چڑھایا گیا ہے، اس نے ایسے یک رُخے علم کی تشکیل کی ہے، جس کی ساری توجہ ذاتی مفاد، نفع اندوزی اور مال جمع کرنے کی دوڑ میں ایک نہ ختم ہونے والے مقابلے پر ہے ۔

اس مفاد پرستانہ ذوقِ شکم و زرکا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشی مفاد کا حصول ہی تمام انسانی کوششوں کا مدار ٹھیرا ۔ دروغ گوئی، جعل سازی،اشتہاربازی اور ناانصافی کا بازار گرم ہوا، جو آج کے معاشی حقائق ہیں۔ معاشرے کا مفہوم مجرد معیشت سمجھ لیا گیا اور معیشت کو منڈی تک محدود کر دیا گیا ہے۔ آغاز تو مادی ضروریات کے لیے اخلاقی فلسفے کے پھیلاؤ سے ہوا تھا، لیکن اس نے محدود ہوتے ہوتے مالی فوائد و نقصانات کی حساب بندی کی شکل اختیار کر لی۔ پھر معاشیات کا تعلق مذہب اور اخلاقیات سے توڑنے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ اسے رفتہ رفتہ فلسفے، سیاسیات، عمرانیات، نفسیات، تاریخ سمیت دیگر شعبہ ہائے علم سے بھی جدا کر دیا گیا ۔اگر انسانی مسائل کا حل واقعی درکار ہے تو زندگی سے متعلق تمام شعبہ ہائے فکر سے معاشیات کے تعلق کو بحال کر کے مضبوط کرنا ہوگا ۔ اس نئے آغاز کے لیے مختلف شعبہ ہائے علم سے استفادہ ناگزیر ہے۔

  • ثالثاً: فعالیت (Effeciency) ہے۔ یہ گذشتہ برسوں کے دوران ماہرین معیشت کی توجہ کا مرکز ہے۔ وسائل کا باثمر استعمال، معاشی تجزیے اور فیصلہ سازی میں حقیقی ہدف بن چکا ہے۔ لیکن اس استعمال کے دوران ایک اور ناتا بھی ٹوٹ گیا ہے، یعنی ثمرانگیزی کا ناتا عدل و انصاف سے کٹ گیا، جو معیشت کے لیے بھی اور معاشرت کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوا ہے۔ اس میں مولانا مودودی کا زور اس پہلو پر ہے کہ مرکزی ہدف، عدل کو رہنا چاہیے ۔ اس طرح مطلوب ثمرانگیزی وہ آلہ ہے، جس کے ذریعے انصاف اور فلاح کا حصول ممکن ہوگا، لیکن یہ بجائے خود کوئی ہدف نہیں ہے۔ اس ٹوٹے ہوئے تعلق کو بھی جوڑنا ہوگا تاکہ ذاتی مفاد کے ساتھ سماجی ذمہ داری بھی پیش نظر رہے ۔ دولت کا حصول اس کے مؤثر استعمال اور مزید وسائل کی تخلیق کے ساتھ جڑ جائے۔ دولت کے حصول اور صَرف میں حلال اور حرام، اور مطلوب اور نامطلوب میں فرق کیا جائے، اور محض ہرفرد ذاتی نفعے کو بڑھوتری (maximize) دے کر ساری معاشی جدوجہد کا مرکزو محور نہ بن جائے۔ مغرب کے معاشی ترقی کے کردار اور طبقاتی وجود کے مقابلے میں پورے معاشرے پر ہمہ جہت معاشی ترقی (Inclusive development) کے نتیجے میں وسائل اور مواقع کی عادلانہ تقسیم اور اجتماعی فلاح کا حصول ممکن ہو۔ محض نفع اندوزی اور وہ بھی بڑی حد تک سرمایہ دار طبقے کی تو کوئی اعلیٰ مقصد نہیں ہوسکتا۔ اسے انصاف ،بھلائی، تحفظ اور عوامی بہبود کے مقاصد کے ذریعے اعتدال بخشنا ہوگا۔

اگرچہ منڈی (مارکیٹ)کی حرکیات، فیصلہ سازی کے لیے مناسب بنیاد ہیں، لیکن خود منڈی کو واضح طور پر طے شدہ اخلاقی، قانونی اور سماجی دائروں میں کام کرنا چاہیے۔ انسانوں کا اپنا مرکزی کردار ہے، لیکن اداروں کا بھی اپنا خاص مقام ہے، جو بعض صورتوں میں زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ عمل تخلیق میں مقابلہ آرائی تو لازم ہے، لیکن معیشت و معاشرت کی حرکیات میں باہم تعاون اور درد مندی بھی اہم تر ہے۔ ریاست خاموش تماشائی نہیں رہ سکتی اور نہ اسے لاتعلق ہونا چاہیے۔ اسے تنظیم اور اصلاح کا کام کرتے رہنا چاہیے، تاکہ معاشرتی اہداف کا حصول ممکن ہو۔ سیّدمودودی کہتے ہیں کہ تمام دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ ریاست اور افراد معاشرہ کو بھی اپنا اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ سماجی ترقی، معاشرے کے تمام ارکان کے لیے عدل و فلاح کی ضامن ہو۔

  • رابعاً: یہ امتیاز مولانا مودودی کو حاصل ہے کہ انھوں نے بعض بنیادی اسلامی تصورات اور افکار کی، دور جدید کے حالات اور مسائل سےمناسبت کو نمایاں طور پر پیش کیا۔ انھوں نے گذشتہ دوصدیوں سے رائج معاشی نظریات اور نظاموں کا تنقیدی مطالعہ کرتے ہوئے، معاشی سرگرمی کے لیے اسلام کے عطا کردہ اہداف کو ٹھوس انداز میں بیان کیا۔ اسلامی نظام معیشت کا ڈھانچا اور تفصیلات فراہم کرتے ہوئے انھوں نے موجودہ تناظر میں اسلامی نظام معیشت کو اوّلا ًمسلم ممالک میں اور اس کے بعد ممکنہ طور پر دوسروں کے لیے بطور ایک مثال متعارف کرانے کے امکان اور نتائج پر بحث کی ہے۔ اس مقصد کے لیے مولانا مودودی نے قرآن وسنت سے براہِ راست رہنمائی حاصل کرنے، فقہ کے ذخیرے میں موجود تفصیل کا ازسرنو جائزہ لینے، مقاصد شریعت پر غور کرکے جدید افکار و خیالات پروان چڑھانے اور موجودہ معاشی احکامات اور تعلیمات کی ضابطہ بندی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
  • خامساً: سیّد مودودی نے وضاحت سے یہ اصول اُجاگر کیا ہے کہ دولت کا معیشت میں کردار صرف ایک وسیلے کا ہے، نہ کہ بجائے خود ایک ہدف اور اصل مقصود کا۔ معاشی سرگرمی کا مقصد ہمیشہ حقیقی وسائل کی ترقی ہونا چاہیے، یعنی اشیا اور خدمات کی تیاری، ان کی عادلانہ تقسیم اور معاشرے میں فلاح و سکون کے فروغ کے لیے ان کا بہتر استعمال پیش نظر ہونا چاہیے۔

موجودہ سرمایہ دارانہ سماج کا ایک بڑا المیہ مالی معیشت اور حقیقی معیشت میں بڑھتی ہوئی خلیج ہے۔ آج کی دنیا، حقیقی اور معنوی رقوم کے سیلاب کی لپیٹ میں ہے جس میں اضافی قدر پیدا کرنے کا ٹھوس عمل، عالمی انسانی برادری کی حقیقی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں ہے۔ ایسی خود مختار فضا قائم کردی گئی ہے، جس میں دولت کو دولت کھینچتی ہے، لیکن حقیقی معیشت میں کوئی بڑھوتری نہیں ہوتی۔ اُدھار کو حقیقی دولت پیدا کرنے کے لیے صرف استعمال ہی نہیں کیا جاتا بلکہ یہ خود ایک الگ معیشت بن گئی ہے۔ گھروں، کاروباری اداروں اور ریاستوں سمیت ہر سطح پر گویا سودی قرض کے پھیلائو کی ایک دھماکا خیز صورتِ حال ہے، جس سے پیدا ہونے والے بلبلے پھیل بھی رہے ہیں اور بڑھ بھی رہے ہیں، لیکن مصنوعات اور خدمات کی حقیقی فراہمی، جو انسانی ضروریات اور سہولیات کا باعث بنیں، ان میں اضافہ نہیں ہو رہا۔

مولانا مودودی اسلامی معاشیات کے چلن سے اقتصادی میدان میں حقیقی وسائل کے درمیان ربط کو بحال کرنے کی دعوت پیش کرتے ہیں۔ سابق امریکی صدر اوباما بھی ایک تقریر میں یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ ’’دنیا کو معاشی انجینئرنگ سے زیادہ حقیقی انجینئرنگ کی ضرورت ہے‘‘۔ دنیا کی معیشت کی موجودہ صورت حال سخت تشویش ناک ہے، جس میں بیرونی زرمبادلہ کی روزانہ خریدوفروخت اشیا و خدمات کی حقیقی بین الاقوامی تجارت سے تقریباً پچاس گنا زیادہ ہے۔

یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسلامی معاشیات کی بنیادی خصوصیت، حقیقی معیشت اور اثاثہ جات کی پیداوار کا باہم تعلق ہے۔ موجودہ معاشی بحران کے ذمہ دار عوامل میں ربا (سود)، میسر (تخمینے کی بنا پر خرید و فروخت) اور غرر (تلون اور ابہام) شامل ہیں۔ اسلام ان سب کو حرام قرار دیتا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کے ایک قرطاس عمل (ایکشن پلان) میں یہ دلچسپ تبصرہ موجود ہے:’’اسلامی بنکوں کی کارکردگی کا عالمی سطح پر روایتی بنکوں سے موازنہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یورپ اور امریکا میں معاشی بحران کے نتیجے میں روایتی بنکوں کو جو بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے، اس کے پیش نظر اسلامی بنکوں کی کارکردگی بہتر رہی ہے‘‘۔

اسلامی معاشیات پر نظری اور عملی حوالوں سے مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کا اثر کم ازکم تین سمتوں میں واضح نظر آتا ہے:

اوّل:یہ کہ انھوں نے نہ صرف قرآن اور سنت کی معاشی تعلیمات کو پوری وضاحت اور اس مضمون پر پوری گرفت کے ساتھ بیان کیا بلکہ اسلامی معاشیات کی ایک الگ شعبۂ علم کے طور پر تشکیل کا عملی آغاز بھی کیا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے معاشیات کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق میں گذشتہ پچاس برس کے دوران نمایاں ترقی ہوئی ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں اس مقصد کے لیے متعدد تحقیقی ادارے قائم ہوئے ہیں۔ درجنوں بین الاقوامی کانفرنسوں اور لاتعداد سیمی ناروں اور مباحثوں کے ذریعے اس جدید اور اُبھرتے ہوئے شعبۂ علم کو مختلف پہلوؤں سے پروان چڑھانے کی کوششیں جاری ہیں۔ مسلم دنیا میں الگ سے اور اس سے باہر ڈیڑھ سو سے زائد یونی ورسٹیوں میں اسلامی معاشیات کو ایک تدریسی شعبۂ علم کے طور پر الگ سے شامل کیا جاچکا ہے۔ اس پیش قدمی میں سیّد مودودی کا کردار نمایاں ہے۔

دوم: یہ کہ مولانا مودودی محض ایک کتابی مفکر نہ تھے۔ اسلام، تبدیلی چاہتا ہے اور مولانامودودی نے مرد و خواتین کی روحانی اور اخلاقی قلب ماہیت کے لیے اور اسلام کے طے کردہ معیارات، اقدار اور اصولوں پر مبنی ایک نئے سماجی نظام کے قیام کے لیے عالمی تحریک کی تشکیل اور تعمیر میں نمایاں کردار ادا کیا۔ مولانا مودودی کا اصل مقصد اسلامی نظام کو اس کی مکمل شکل میں قائم کرنا تھا۔ گویا ان کا پیغام یہ تھا کہ اسلامی معیشت، سماجی تبدیلی کے بغیر نمو نہیں پا سکتی۔ لہٰذا، اسلامی معاشیات کے تین پہلو ایک دوسرے سے وابستہ بلکہ باہم پیوست ہیں، یعنی: اس کا اخلاقی و معیاری پہلو، ایجابی یا تجزیاتی پہلو، اور معیشت و معاشرت میں تبدیلی کے لیے اس کا تغیر اتی کردار۔

اسلامی معاشیات کو عملی شکل دینے کے لیے مولانا مودودی نے فرد اور معاشرے کے طور پر بھی اور سماج اور ریاست کی سطح پر بھی مسلمانوں کی معاشی زندگی کی تشکیل نو پر بھی مسلسل زور دیا۔ اسلامی معیشت، بنکاری اور انشورنس کے لیے عالمی تحریک کا ظہور پذیر ہونا پیش نظر رہنا چاہیے۔ دیگر حوالوں سے ہونے والی پیش رفت میں زکوٰۃ، صدقات اور انفاق سے متعلق تعلیمات کو باقاعدہ شکل دینے کے لیے تنظیموں کا قیام اہم ہے۔ یہ پیش رفت اسلام کی عصری تشکیل کے معاشی پہلو کی آئینہ دار ہے۔ تاہم، مولانا مودودی زور دے کر کہتے ہیں کہ یہ ساری کوششیں ایک بڑی تبدیلی، یعنی سماجی، معاشی اور سیاسی منظرنامے کی جامع تبدیلی کے لیے محض ایک نقطۂ آغاز ہیں۔

پھرمولانا مودودی کا اثر پالیسی سازی کے میدان میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ انھوں نے معاشی فیصلہ سازی کے ہر مرحلے پر فرد، کاروباری اداروں،معاشرے اور ریاست کے حوالے سےپورے منظرنامے کو نئے سرے سے تشکیل دینے پر زور دیا ہے۔ ان سب کا مقصد ایک عادلانہ معاشرے کا قیام ہونا چاہیے۔ مسلم ممالک کے وہ دساتیر جو مولانا مودودی کے اصل عرصۂ تصنیف و تحقیق سے قبل لکھے گئے تھے، ان کا موازنہ اسلامی احیا کی تحریکوں کے زیر اثر بننے والے دساتیر سے کیا جائے تو حیرت انگیز مشاہدات سامنے آئیں گے۔ اگر صرف تین مثالیں مقصود ہوں تو پاکستان، ایران اور سوڈان کے دساتیر میں ریاستی پالیسی کے لیے وضع کردہ رہنما اصول، اسلام کے سماجی و معاشرتی معیارات اور احکام پر مبنی اس نئی معاشی فکر کے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم پاکستان کا ۷۵واں یومِ آزادی منا رہے ہیں۔ ملت ِاسلامیہ پاکستان کے لیے ۱۴؍اگست کا دن بھی اللہ کی ایک نشانی ہے۔ صرف سات سال کی بھرپور اور پُرامن جدوجہد کے نتیجے میں دنیا کے سیاسی نقشے پر، اور وہ بھی ایک ایسے سیاسی نقشے پر جس کے سبھی نقش مغربی تہذیب، مادیت، سیکولرزم اور لبرلزم کے رنگوں سے آلودہ تھے، عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر ایک ریاست کا قیام ایک تاریخی کرشمے سے کم نہ تھا۔ تحریکِ پاکستان کی اصل بنیاد اور روح ہی یہ تھی کہ برعظیم ہند میں مسلمان محض دوسری اکثریت نہیں بلکہ ایک نظریاتی قوم ہیں۔ ان کا مقصد صرف یورپی استعمار سے آزادی ہی نہیں، توحید اور رسالت ِ محمدیؐ کی بنیاد پر ایک نئے سیاسی اور اجتماعی نظام کا قیام ہے۔ جو بہرحال وقت کے غالب تصورات سے بغاوت اور ایک نئے نظریاتی مستقبل کی تعمیر کے عزم سے عبارت تھا۔ آزادی کا حصول اس اصل مقصد کے لیے تھا۔ ان دونوں میں لازم و ملزوم کا رشتہ تھا، جسے علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے ۱۹۳۰ء کے خطبے اور پھر قائداعظم محمدعلی جناحؒ کے نام اپنے خطوط میں بہت صاف الفاظ میں بیان کردیا تھا:

  • سیاسی مطمح نظر کی حیثیت سے مسلمانانِ ہند، ملک میں جداگانہ سیاسی وجود رکھتے ہیں۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اندرون اور بیرونِ ہند دنیا کو بتا دیا جائے کہ ملک میں صرف اقتصادی مسئلہ ہی تنہا ایک مسئلہ نہیں ہے، اسلامی نقطۂ نگاہ سے ثقافتی مسئلہ ہندستان کے مسلمانوں کے لیے اپنے اندر زیادہ اہم نتائج رکھتا ہے۔
  • اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعے کے بعد مَیں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظامِ قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے، تو ہرشخص کے لیے کم از کم حقِ معاش محفوظ ہوجاتا ہے، لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقا ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اس ملک میں ناممکن ہے۔ سالہا سال سے میرا یہی عقیدہ رہا ہے۔
  • مسلم ہندستان کے ان مسائل کا حل آسان طور پر کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک کو ایک یا ایک سے زیادہ مسلم ریاستوں میں تقسیم کیا جائے، جہاں پر مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو۔ کیا آپ کی رائے میں اس مطالبے کا وقت نہیں آپہنچا؟

انگریزوں سے آزادی اور حصولِ ملک برائے قیامِ نظامِ اسلامی‘ ہی تحریکِ پاکستان کی امتیازی خصوصیت ہے اور قائداعظم کی قیادت میں جو تاریخی کامیابی قیامِ پاکستان کی شکل میں حاصل ہوئی، اس کا سہرا اسی تصور اور اس تصور کی خاطر برعظیم کے مسلمانوں کی جدوجہد اور قربانیوں کے سر ہے۔ ۱۴؍اگست کی اصل اہمیت ہی یہ ہے کہ یہ تاریخ ہرسال پوری قوم کو تحریکِ پاکستان کے اصل مقصد اور ہدف و منزل کی یاددہانی کراتی ہے، اور ہمیں اس امر پر سوچنے کی دعوت دیتی ہے کہ  سات سال میں کیا کچھ اس قوم نے حاصل کرلیا تھا پھر آزادی کے چھے عشروں میں اس اصل مقصد سے غفلت اور بے وفائی کا راستہ اختیار کیا، تو اب ٹامک ٹوئیاں مارنے کے نتیجے میں موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا ہیں، لیکن افسوس تو یہ ہے کہ اللہ کی اس نشانی سے سبق سیکھتے ہوئے راہِ راست کی طرف آنے کی کوشش اور جدوجہد نہیں کررہے۔

آزادی کی ۷۵ویں سالگرہ کے موقعے پر ہم قوم کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ اس عظیم موقعے کو محض چند روایتی اور نمایشی کارروائیوں کی نذر کرنا ایک سنگین مذاق اور بڑا المیہ ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری دیانت داری کے ساتھ اس عظیم دن کی اصل نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ پھر اس سبق اور پیغام کو حرزِ جاں بنایا جائے، جس کی نشانی (آیت) ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء، ۲۷رمضان المبارک ۱۳۶۶ھ ہے۔

 تحریکِ پاکستان کی اساس

پاکستان کا قیام ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔ اس ملک کے قیام کی جدوجہد جہاں زوال پذیر برطانوی استعمار اور اُبھرتے ہوئے ہندو سامراج کی گرفت سے آزادی کی تحریک تھی، وہیں اس سے زیادہ یہ ایک نظریاتی اور تہذیبی احیا کی تحریک تھی۔ اس کا اصل مقصد برعظیم کے ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے، وہاں کے لوگوں کو اپنے دین، ایمان، تصورِ حیات، روایات اور ملّی عزائم کی روشنی میں آزاد فضا میں ایک روشن مستقبل کی تعمیر کا موقع فراہم کرنا تھا۔ سیاسی آزادی اور دینی و تہذیبی تشکیلِ نو کا مقصد اور عزمِ تحریکِ پاکستان کے دو اہداف تھے، جو ایک ہی تصویر کے دو رُخ کی حیثیت رکھتے ہیں___ ان دونوں کا ناقابلِ انقطاع تعلق اسلامیانِ پاکستان کی قوت کا راز ہے اور ان میں تفریق اور امتیاز بگاڑ اور خرابی کی اصل وجہ ہے۔

تحریکِ پاکستان کا یہ کارنامہ ہے کہ اس نے برعظیم کے مسلمانوں کو ان کی قومی شناخت دی اور اس شناخت کی بنیاد پر ایک آزاد مملکت کے قیام کے لیے ان کو سرگرم اور متحرک کردیا، جس کا نتیجہ تھا کہ سات سال کی مختصر مدت میں برعظیم کے دس کروڑ مسلمانوں نے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند اپنی آزادی اور دین کے تحفظ کی جنگ لڑی اور بلالحاظ اس کے کہ پاکستان کے قیام سے کس کو کیا فائدہ پہنچے گا اور کس کو کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی، ایک نظریاتی جنگ کے نتیجے میں ایک آزاد ملک قائم کیا۔

تحریکِ پاکستان کی بنیاد اسلام کا تصورِ قومیت ہے جس کی روشنی میں قوم کی آزادی اور آزادی کے سایے میں قوم کی اجتماعی زندگی کی تشکیل نو کے لیے مملکت کا حصول عمل میں آیا۔ لیکن پاکستان کے ساتھ یہ المیہ رُونما ہوا کہ وہ قوم جسے مختصر ترین وقت میں یہ مملکت ِ خداداد ملی تھی، اسی قوم کے اہلِ حل و عقد اسلامی قومیت کی بنیاد پر ملک کی تعمیر سے غافل ہوگئے۔ نظریاتی شناخت اور بنیاد سے ہٹ کر ملک کو ’ترقی یافتہ‘ بنانے کی سعی لاحاصل میں ملک کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا۔ جس کانتیجہ ہے کہ صرف ۲۴برس بعد ۱۹۷۱ء میں ملک عزیز دولخت بھی ہوگیا اور آج جو کچھ موجود ہے، اس کی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ آج جس حقیقت کے اِدراک اور اقرار کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کا قیام اور پاکستان کے وجود،بقا اور ترقی کا انحصار اس نظریے پر ہے، جو تحریک کی روح اور کارفرما قوت تھی۔ قائداعظم نے ایک جملے میں اس حقیقت کو بیان کردیا تھا:

اسلام ہمارا بنیادی اصول اور حقیقی سہارا ہے۔ ہم ایک ہیں اور ہمیں ایک قوم کے طور پر آگے بڑھنا ہے۔ تب ہی ہم پاکستان کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوں گے۔

لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ قائد کے اس انتباہ کو ہم نے بحیثیت قوم نظرانداز کیا۔

۱۴؍اگست ایک عظیم یاددہانی ہے، اور یہ ایک انتباہ بھی ہے کہ اگر ملک اور نظریے کے رشتے کو نظرانداز کیا گیا تو ملک کا وجود بھی معرضِ خطر میں ہوگا (یوں تو اس وقت بھی معرضِ خطر ہی میں ہے) ۔ ہم قیامِ پاکستان کی ۷۵ویں سالگرہ کے موقعے پر اسی بنیادی نکتے پر قوم کو غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں کہ ملک آج جن مشکلات میں پھنسا ہوا ہے، ان سے نکلنے کے لیے اس بنیاد کی طرف لوٹ کر آنے کے سوا کوئی راستہ نہیں، جو تحریکِ پاکستان کی اساس ہے، جو ہماری قوت کا اصل منبع ہے، جس کے ذریعے ہم یہ ملک حاصل کرسکے اور جس کے بغیر ہم اس کو نہ قائم رکھ سکتے ہیں اور نہ ترقی دے سکتے ہیں۔

آج سب سے بڑی ضرورت قوم اور ملک کے اس تعلق کو سمجھنے اور اس پر سختی سے قائم رہنے میں ہے کہ اللہ کی سنت یہ بھی ہے کہ اگر ایک فرد یا قوم اس کی نعمتوں پر شکر کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو اس کے انعامات میں بیش بہا اضافہ ہوتا ہے اور اگر وہ کفرانِ نعمت کرتے ہیں تو پھر اس کی پکڑ بھی بہت ہی شدید ہے___ اور ناشکری کے نتیجے میں جو بگاڑ اور تباہی رُونما ہوتی ہے، اس کی ذمہ داری صرف اور صرف فرد اور قوم کے اپنے رویے اور کرتوتوں پر ہوتی ہے:

وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَ لَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ  لَشَدِیْدٌ o (ابراہیم ۱۴:۷) اور یاد رکھو، تمھارے رب نے خبردار کردیا تھا کہ اگر تم شکرگزار ہو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔

اور یاد رکھو:

وَ مَا کُنَّا مُھْلِکِی الْقُرٰٓی  اِلَّا وَ اَھْلُھَا ظٰلِمُوْنَ o(القصص ۲۸:۵۹) اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے رہنے والے ظالم نہ ہوجائیں۔

 قیامِ پاکستان کے اصل محرکات

جیساکہ ہم نے عرض کیا کہ پاکستان کا قیام ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔ جس میں ہمیں آزادی کی نعمت حاصل ہونے کے ساتھ یہ موقع بھی ملا کہ آزاد فضا میں اپنے تصورات کے مطابق نئی زندگی تعمیر کریں۔ لیکن افسوس کہ ابتدائی چند برسوں کے بعد ہی جو عناصر قیادت پر قابض ہوگئے تھے، انھوں نے نہ صرف ان مقاصد کو فراموش کیا، بلکہ ملک کو انھی باطل نظریات اور مفادات کے حصول کی بھٹی میں جھونک دیا، جن سے نکلنے کے لیے تحریکِ پاکستان برپا کی گئی تھی۔ وہ یک سوئی جو تحریکِ پاکستان کا طرئہ امتیاز تھی، ختم ہوگئی اور ملک اندرونی کش مکش اور بیرونی سازشوں کی آماج گاہ بن گیا اور آج ہماری آزادی بھی معرضِ خطر میں ہے اور ملک بھی معاشی، سیاسی، ثقافتی، اخلاقی، غرض ہراعتبار سے تنزل کا شکار نظر آتا ہے۔

۱۴؍اگست ہمیں دعوت دے رہا ہے کہ ان اصل مقاصد کی نشان دہی کریں جو قیامِ پاکستان کی جدوجہد کا محرک اور اس تحریک کی امتیازی خصوصیت تھے اور پھر اس بگاڑ کی نشان دہی کریں جس نے ہمیں تباہی کے کنارے پر پہنچا دیا ہے۔ اس تجزیے کی روشنی میں ایک بار پھر اس راستے اور منزل کی نشان دہی کریں جو اس تباہی سے بچنے اور اصل مقاصد کے حصول کی طرف پیش قدمی کا راستہ ہے۔

  •  تحریکِ پاکستان کا پہلا اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعے دورِحاضر میں برعظیم کے مسلمانوں نے اپنی خودی کو پہچانا اور اس طرح اپنے حقیقی وجود کو پایا۔ تحریکِ پاکستان نے پاکستانی قوم کو اس کا اصل تشخص دیا تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس اور سامراجی قوتیں جو خطرناک کھیل کھیل رہی تھیں، وہ ناکام ہوئیں اور مسلمانوں نے اپنے اصل تشخص کی بقا اور استحکام کے لیے جان کی بازی لگادی۔ انھوں نے بھی جن کو اس جدوجہد کے نتیجے میں سیاسی آزادی ملی اور انھوں نے بھی جو جانتے تھے کہ سامراج کے رخصت ہونے کے بعد بھی وہ خود حقیقی آزادی کی روشن صبح سے محروم رہیں گے۔ انھیں یہ یقین تھا کہ مسلمانوں کی ایک ایسی آزاد مملکت قائم ہوگی، جو اسلام کا مظہر اور سارے مظلوم انسانوں کا سہارا ہوگی۔ نظریاتی وطن کے قیام کی اس کامیاب جدوجہد نے مغرب کی لادینی قومیت کے بت کو پاش پاش کردیا اور پاک و ہند کی ملتِ اسلامیہ نے اقبال کا ہم زباں ہوکر انسانیت کے لیے ایک نئے روح پرور تشخص کی یافت سے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔

قیامِ پاکستان کا یہی وہ پہلو ہے کہ ۱۹۴۷ء کے بعد پوری مسلم دنیا میں اسلامی ریاست اور اسلامی تہذیب کے احیا کی لہریں بار بار اُٹھ رہی ہیں اور سارے نشیب و فراز کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے اور ان شاء اللہ جاری رہے گا۔

  • قیامِ پاکستان کا دوسرا اہم پہلو یہ تھا کہ اس کے نتیجے میں ایک طرف اہلِ پاکستان نے غلامی کی زنجیریں توڑیں، دوسری طرف برعظیم کے مسلمانوں کو امن کی جگہ میسر آئی۔ برعظیم کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ’’ہے ترکِ وطن سنت محبوب الٰہی‘‘ پر عمل کرتے ہوئے اپنے گھربار چھوڑ کر اس نئے ملک کی تعمیر کے لیے سرگرمِ عمل ہوگئی۔ جس جذبے اور جن عزائم سے یہ ترک و اختیار،  واقع ہوئے، وہ ہماری تاریخ کا نہایت ایمان افروز اور روشن باب ہے۔ یہی وہ جذبہ تھا، جس نے پاکستان کو ان اولیں ایام میں ایسے تمام خطرات کا مقابلہ کرنے کے لائق بنایا، جو اس نوزائیدہ ملک کو درپیش تھے اور جن حوادث کا ہدف اس غنچے کو پھول بننے سے پہلے ہی مَسل دینا تھا۔ آزادی خود ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اس کا پورا اِدراک انھی لوگوں کو ہوسکتا ہے، جنھوں نے غلامی کی تاریک رات کی صعوبتوں کو برداشت کیا ہو۔ آزادی کی شکل میں جو نعمت آج اہلِ پاکستان کو حاصل ہے،  وہ ہر دوسری نعمت سے زیادہ قیمتی اور حیات افروز ہے۔
  • اس تحریک کا تیسرا پہلو یہ تھا کہ یہ ایک عوامی اور جمہوری تحریک تھی۔ قائداعظمؒ نے مسلمان قوم کو بیداراور منظم کیا اور سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے عوامی قوت اور تائید کے ذریعے سات سال کی قلیل مدت میں وہ کام کردکھایا، جسے دوسرے، سالہا سال میں بھی انجام نہ دے سکے۔ تحریکِ پاکستان ایک عوامی تحریک تھی۔ جن کی نظر تحریکِ پاکستان کی تاریخ پر ہے، وہ جانتے ہیں کہ ہندومسلم سیاسی اشرافیہ (elites) نے کس کس طرح اس تحریک کاراستہ روکنے کے لیے سازشوں کے جال بُنے۔ لیکن اللہ کے فضل سے قائداعظمؒ کی قیادت اور عوام کی تائید و اعانت نے اس تحریک کو آزادی کی منزل سے ہم کنار کیا۔
  • اس تحریک کاچوتھا پہلو یہ تھا کہ قیامِ پاکستان ،اس تحریک کی آخری منزل نہیں تھا بلکہ پہلا سنگِ میل تھا۔ اصل ہدف ایک ایسے معاشرے اور ریاست کا قیام تھا، جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی سچی وفادار اور ان تعلیمات کی آئینہ دار ہو، جو انھوں نے انسانیت کو عطا کی ہیں۔ جس میں اخلاقی اقدار کو بالادستی حاصل ہو، جہاںفرد کے حقوق کی پوری حفاظت ہو، جہاں ہر مرد اور ہرعورت کی جان، مال اور آبرو محفوظ ہو۔ جہاں تعلیم کی روشنی سے بلاتخصیص مذہب و عقیدہ ہرفرد نورحاصل کرسکے۔ جہاں قانون کی حکمرانی ہو۔ جہاں حلال رزق اور معاشی ترقی کے مواقع تمام انسانوں کو حاصل ہوں۔ جہاں عدلِ اجتماعی کا بول بالا ہو، اور جہاں ریاست اور اس کے کارپرداز عوام کے خادم ہوں۔ اسلام اور اس کے دیے ہوئے جمہوری اور عادلانہ نظام کا یہ تصور تھا، جس نے مسلمانوں کو اس تحریک میں پروانہ وار شریک کیا تھا اور وہ برملا کہتے تھے کہ ہمیں ایک بار پھر اس دور کا احیا کرنا ہے، جس کی مثال اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خلفائے راشدینؓ نے قائم کی تھی۔

آیئے، قیامِ پاکستان کے ان مقاصد اور عزائم کے پس منظر میں اپنی قومی زندگی کے اس نئے سال کے آغاز پر اس امر کاجائزہ لیں کہ پاکستانی قوم اور اس کی قیادتوں نے کہاں تک ان اہداف کی طرف پیش قدمی کی اور ملک عزیز کو آج کون سے مسائل، خطرات اور چیلنج درپیش ہیں؟ نیز ان حالات میں اصل منزل کی طرف پیش رفت کے لیے صحیح حکمت عملی اور لائحہ عمل کیا ہے؟

ملک کا اصل المیہ

تحریکِ پاکستان اور تاریخ ِ پاکستان کے معروضی تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قیامِ پاکستان کا اصل سہرا اللہ تعالیٰ کے فضلِ خاص کے بعد اگر کسی کے سر جاتا ہے تو وہ قائداعظمؒ کی فراست و قیادت اور مسلمان عوام کا جذبہ اور قربانی ہے۔ آزادی کے فوراً بعد ان کی بیماری اور وفات نے ایک ایسی صورت حال پیدا کردی، جس میں وہ کھوٹے سکّے، جو ان کے گرد جمع ہوگئے تھے، اقتدار پر قبضہ جماکر ریاست کی مشینری کو بالکل دوسرے ہی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے میدان میں کود پڑے۔

پہلے وزیراعظم کو گولی کا نشانہ بنا کر قومی منظر سے ہٹا دیا گیا، دوسرے وزیراعظم کو برطرفی کی تلوار کے بل پر نکال باہر کیا گیا اور ان کے مخلص ساتھیوں کو سازشوں کے ذریعے غیر مؤثر بنادیاگیا، اور چند ہی برسوں میں بساط سیاست ایسی اُلٹی کہ اصل نقشہ درہم برہم کرکے یہ مخصوص ٹولہ اقتدار کے ہرمیدان پر قابض ہوگیا۔قانون اور ضابطے کا احترام ختم ہوگیا۔ منتخب دستور ساز اسمبلی کو بار بار توڑ دیا گیا۔ انتظامیہ اور پولیس کو سیاسی قیادت نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، جو بالآخر انھی کے ہاتھوں اسیر ہوکر رہ گئی۔ فوج کو بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور پھر فوج نے اپنے لیے سیاسی کردار حاصل کرلیا۔ عدلیہ نے کچھ مزاحمت کی، لیکن اسے بھی زیردام لانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔

 نوسال بعد پہلا دستور بنا، جسے دوہی سال کے بعد توڑ دیا گیا، اور دستور شکنی کی ایک ایسی ریت چل پڑی، جس کے مذموم اثرات کی گرفت میں ملک و قوم زبوں حال ہیں۔ جس احساس تشخص نے قوم کو جوڑا تھا، اس پر ہر طرف سے تیشہ چلایا گیا، لادینی نظریات، علاقائیت، لسانیت، برادری کا تعصب، قبائلیت، غرض کون سا تیشہ ہے جو اس پر نہ چلایا گیا ہو۔

آزادی کے بعد۲۳سال تک بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخاب نہ کرائے گئے اور پھر دسمبر ۱۹۷۰ء میں انتخابات منعقد ہوئے تو وہ دھونس، دھاندلی اور بدعنوانی کا شاہ کار رہے کہ عوامی مینڈیٹ ایک مذاق بن گیا۔ سیاسی جماعتوں میں ذاتی بادشاہت، خاندانی قیادت اور علاقائی اور لسانی تعصبات کا غلبہ رہا اور حقیقی جمہوریت کے فروغ کا ہر راستہ بند کردیا گیا۔ جس کے نتیجے میں علاقائی تعصبات نے سیاست کو آلودہ کیا اور قومی سیاست کی گاڑی پٹڑی سے اُتر گئی۔ مغربی اور ہندو تہذیب کو رواج دینے کی دانستہ کوشش کی گئی۔

معاشی ترقی کا وہ راستہ اختیار کیا گیا جس نے ملک کو ایک طرف طبقاتی تصادم میں مبتلا کیا تو دوسری طرف مغرب کے سودی سامراج کے چنگل میں اس طرح گرفتار کردیا کہ آج ملک اندرونی اور بیرونی قرضوں کے پہاڑ جیسے بوجھ تلے سسک رہاہے۔

پاکستان کا اصل المیہ ہی یہ ہے کہ اصل اقتدار اور اختیار آج تک عوام کی طرف منتقل نہیں ہوا، اور سارے وسائل پر ایک طبقہ قابض ہے جس کا تعلق سیاسی، انتظامی اور عسکری اشرافیہ سے ہے اور جو باری باری اقتدار پر براجمان ہوکر ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا ہوا ہے۔ قومی دولت کا ۸۰فی صد آبادی کے اُوپر کے ۱۰ فی صد کے پاس ہے۔ ۱۰/۱۲ہزار بڑے خاندان ہیں جو زراعت، صنعت اور تجارت پر مکمل تصرف رکھتے ہیں اور یہی خاندان سیاست پر بھی چھائے ہوئے ہیں، پارٹی خواہ کوئی بھی ہو۔ سول بیوروکریسی اور عسکری اسٹیبلشمنٹ بھی اس گٹھ جوڑ کا اہم حصہ ہیں۔

دستور موجود ہے مگر کبھی فوج کے ہاتھوں او ر کبھی سول حکمرانوں کے ہاتھوں اس کا بڑا حصہ عملاً معطل رہا ہے۔ قانون صرف کتاب قانون کی ’زینت‘ ہے، اور عملاً قانون، ضابطے اور میرٹ کا کوئی احترام نہیں۔ پولیس سیاسی قیادت کی آلۂ کار بنی ہوئی ہے۔ ہرسمت کرپشن کا دور دورہ ہے ۔ عوام کے مسائل اور مشکلات کا کسی کو درد نہیں اور نہ کوئی ان کا پُرسانِ حال ہے۔ عدالت، خصوصیت سے اعلیٰ عدالت نے کچھ آزادی حاصل کی ہے مگر اس کے فیصلوں اور احکام کو بھی کھلے بندوں نظرانداز کیا جاتا ہے، یا عملاً انھیں غیرمؤثر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ بجلی،گیس اور پانی کے بحران نے تباہی مچائی ہوئی ہے اور لاقانونیت اور دہشت گردی کے سبب عوام کی جان، مال اور عزت، سب معرضِ خطر میں ہیں۔

اندرونی انتشار اور بیرونی مداخلت

ان حالات کو اور بھی سنگین بنادینے والے چند پہلو اور بھی ہیں، جن کا اِدراک ضروری ہے۔

 ملک کے معاملات میں بیرونی قوتوں اور خصوصیت سے امریکا اور مغربی اقوام کی دراندازیاں سب سے اہم مسئلہ ہے۔ یہ سلسلہ توملک غلام محمد اور جنرل ایوب خان کے دور ہی سے شروع ہوگیا تھا، مگر جنرل پرویز مشرف کے اَدوار میں یہ اپنے عروج کو پہنچ گیا اور یہی اُلٹا سفر آج بھی جاری ہے۔

معاشی اعتبار سے بھی انھی قوتوں کی گرفت ہماری معیشت پر مضبوط تر ہورہی ہے اور سیاسی اعتبار سے بھی اندرونی معاملات کی باگ ڈور انھی کے ہاتھوں میں نظر آرہی ہے۔ سول اور فوجی تعلقات کے نشیب و فراز کے نتائج قوم بھگت رہی ہے۔ معاشی پالیسیوں کی صورت گری جس طرح عالمی بنک اور عالمی مالیاتی فنڈ کے اشاروں پر کی جارہی ہے اور سیاسی اُفق پر تبدیلیوں کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، اس نے آزادی اور قومی خودمختاری کی حقیقت کا بھانڈا پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔

اس پر مستزاد وہ نظریاتی انتشار ہے جو ملک و قوم اور خصوصیت سے نئی نسلوں پر مسلط کیا جارہا ہے۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ بھی آج متنازع موضوع بنایا جارہا ہے۔ قراردادِ مقاصد ہدف تنقید و ملامت ٹھیری ہے۔ تاریخ کے قتل کا ہوّا دکھا کر تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ ریاست اور مذہب کے تعلق تک کو زیربحث لایا جا رہا ہے۔

ایک فی صد سے بھی بہت کم تعداد رکھنے والا سیکولر اور لبرل طبقہ ہے جو میڈیا پر قابض ہے، اور آزادیِ فکر کے نام پر قومی زندگی کے مسلمات کو چیلنج کر رہا ہے اور ملک و قوم میں فکری انتشار اور خلفشار پیدا کرنے اور بھارت اور مغربی اقوام کے سامراجی ایجنڈے کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ان ۷۵برسوں میں جو طبقہ حکومت، معیشت اور سیکورٹی کے نظام پر قابض رہا ہے وہ یہی سیکولر گروہ ہے جو کبھی سوشلزم کے نام پر، کبھی سرمایہ داری کے نام پر، اور کبھی ’روشن خیال جدیدیت‘ کے نام پر حکمران رہا ہے اور سارے بگاڑ کا سبب رہا ہے۔ ملّا کو گالی دینا اور ہر خرابی کو جنرل ضیاء الحق کے سر تھوپنا تو اس کا وتیرا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ غلام محمد کے دور سے لے کر مشرف اور زرداری کے دور تک اقتدار اگر کسی طبقے کے ہاتھوں میں رہا ہے تو وہ یہی سیکولر مراعات یافتہ اشرافیہ ہے۔ سول دور ہو یا عسکری ، اس دوران میں یہی سیکولر طبقہ حکمران رہا ہے، اور ساری خرابیوں کی جڑ، اس کا ملک کے اجتماعی معاملات میں کردار ہے۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں کچھ چیزیں اسلام کے احکام کے مطابق ضرور ہوئیں، لیکن بحیثیت مجموعی اس دور میں بھی اصل فکر اور اصل کارفرما ہاتھ بہت مختلف نہ تھے۔ اس لیے اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ آزادی کے سات عشروں میں اگر کوئی فکر اور کوئی طبقہ حکمران رہا ہے تو وہ یہی سیکولر فکر اور سیکولر طبقہ ہے۔ چند مغربی محققین نے بھی اس امر کا برملا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان اور عرب ممالک میں خود مسلمانوں کی مغرب زدہ سیکولر قیادت ہے جو ناکام رہی ہے اور بگاڑ کی بھی  بڑی حد تک ذمہ دار یہی بدعنوان اور نااہل قیادت ہے۔ اس سلسلے میں پروفیسر ولفریڈ کینٹ ول اسمتھ اور پروفیسر کیتھ کیلارڈ نے بہت صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ ان ممالک میں آج جو بھی حالات ہیں وہ مذہبی قوتوں کے پیدا کردہ نہیں ہیں، بلکہ ان ممالک میں مغرب نواز سیکولر قیادتیں ان کی ذمہ دار ہیں۔

انھی حالات کا نتیجہ ہے کہ پاکستان آج صرف سیاسی اور معاشی بحران ہی کا شکار نہیں، نظریاتی، اخلاقی اور تہذیبی انتشارمیں بھی مبتلا ہے۔ حالات کی اصلاح کے لیے اس طرح کی ایک ہمہ جہتی نظریاتی تحریک اور جدوجہد کی ضرورت ہے، جیسی برعظیم کے مسلمانوں کو برطانوی اور برہمن سامراج سے نجات دلانے کے لیے اقبال کی فکری اور قائداعظم کی سیاسی رہنمائی میں برپا کی گئی تھی۔

اس ہمہ گیر بگاڑ کے تین بڑے تشویش ناک پہلو ہیں:

  • پہلا اخلاقی بگاڑ جو خود سرکاری سرپرستی میں منظم اور ہمہ گیر کوششوں کے نتیجے میں بد سے بدتر صورت اختیار کررہا ہے اور ظلم اور بداخلاقی اس نشان کو چھو رہی ہے جہاں کارواں کے دل سے احساسِ زیاں بھی رخصت ہوتا نظر آتا ہے۔ ہرسُو بدعنوانی کا دور دورہ ہے جو تقریباً ہرسطح پر طرزِحیات بنتی جارہی ہے، حتیٰ کہ بین الاقوامی ادارے بھی پاکستان کو دنیا کے دو یا تین سب سے زیادہ بدعنوان ملکوں میں شامل کر رہے ہیں۔ ملکی اور عالمی ذرائع ابلاغ سبھی اسلامی شعائر اور معاشرے کی مسلّمہ اقدار و آداب کو پامال کرنے میں مصروف ہیں۔ تعلیم کے نظام نے صرف علم ہی کی رسوائی کا سامان نہیں کیا ہے، بلکہ اخلاق کا بھی جنازہ اُٹھا دیا ہے۔ روایات کے بندھن کھل رہے ہیں اور اباحیت پسندی اور آزاد روی کا سیلاب اُمڈ رہا ہے اور بچشم سر دیکھا جاسکتا ہے کہ اس کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں۔
  • دوسرا تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ افراد کے اس اخلاقی بگاڑ کے ساتھ ساتھ ملک و ملت کے ہر اس ادارے کو تباہ کیا جا رہا ہے، جو قوم کی کشتی کو لنگر کی طرح تھامتا ہے۔ دستور ہو یا قانون، پارلیمنٹ ہو یا انتظامیہ، عدلیہ ہو یا پولیس، سول سروس ہو یا بلدیاتی نظامِ حکومت، تعلیم ہو یا ذرائع ابلاغ، حتیٰ کہ قوم کا آخری سہارا، یعنی خاندان___ ہر ایک کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ جن اداروں کو بڑی محنت اور قربانی سے استعمار کے اقتدار کے باوجود محفوظ رکھا گیا تھا، آج ان کی چولیں بھی ہل گئی ہیں اور دیواریں گر رہی ہیں۔
  • بگاڑ کا تیسرا پہلو پالیسی سازی کے سارے عمل اور فیصلہ کرنے والے اداروں اور افراد کا بیرونی اثرات کے تابع ہونا ہے، جس سے ملک کی سیاسی اور نظریاتی آزادی خطرے میں پڑگئی ہے۔ معاشی پالیسیاں بیرونی ساہوکاروں کے ہاتھوں گروی رکھ دی گئی ہیں اور اب عالمی بنک اور  عالمی مالیاتی فنڈ کا عمل دخل اتنا بڑھ گیا ہے کہ ملک کا بجٹ ملک کی پارلیمنٹ نہیں، ان اداروں کے احکام کے مطابق بنایا جا رہا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ خود وزیراعظم کے معاشی مشیر تاجروں اور صنعت کاروں سے کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ کو اپنی سفارشات کو منظور کرانا ہے تو آئی ایم ایف کے کارپردازوں سے بات کریں۔

یہی حال قانون سازی کا ہے۔ قانون بناتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جا رہا کہ ملک و ملّت کا مفاد کیا ہے یا، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کیا ہے؟ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ امریکا اور مغرب کس بات پر خوش ہوں گے؟ اور کس پر نکتہ چیں؟ چونکہ مغرب نے آج کل فنڈامنٹلزم اور تشدد کا ہوّا کھڑا کر رکھا ہے، اس لیے ہماری قومی قیادت کی جانب سے نہ صرف قسمیں کھائی جارہی ہیں کہ ہم فنڈامنٹلسٹ نہیں ہیں بلکہ ہرقانون اور اخلاقی قدر کو پامال کر کے واشنگٹن اور اس کے گماشتوں کے آگے ناک رگڑی جارہی ہے اور انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ان بھیڑیوں اور درندوں کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔ خود اقتدار میں آنے اور اقتدار میں رہنے کے لیے عوام اور پارلیمنٹ کے بجاے واشنگٹن کی خوش نودی حاصل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔

غرض سیاست، معیشت اور ثقافت و تمدن، ہر میدان میں ہم اپنی آزادی اور حاکمیت پر سمجھوتے کر رہے ہیں اور جو کچھ مسلمانانِ پاک و ہند نے اپنی جان، مال اور آبرو کی قربانی دے کر حاصل کیا تھا، اسے چند طالع آزما اپنے مفاد کی خاطر مسلسل دائو پر لگاتے چلے آرہے ہیں۔

یہ ہے وہ حالت ِزار جس میں، آزادی کے ۷۵سال کے بعد ماضی کے کچھ فوجی اورماضی اور حال کی کچھ نام نہاد جمہوری قوتوں کی حکمرانی کے طفیل پاکستان اور اہلِ پاکستان مبتلا ہیں۔ وہ ملک جو پوری ملت اسلامیہ کے لیے نئی اُمیدوں اور ایک روشن مستقبل کا پیغام لے کر سیاسی اُفق پر نمودار ہوا تھا، اسے ان اتھاہ تاریکیوں میں پہنچا دیا گیا ہے اور بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے۔

تبدیلی کا لائحہ عمل

صورتِ حال کا بگاڑ اور تاریکی کی شدت کا انکار ، دراصل حقیقت کے انکار اور عاقبت نااندیشی کے مترادف ہوگا۔ اس کے باوجود ہماری نگاہ میں مایوسی کی کوئی وجہ نہیں۔ اس لیے بھی کہ مایوسی کفر ہے، اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ حالات کیسے ہی خراب کیوں نہ ہوں، مومن کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتا (لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط)۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مخلص انسانوں کی قربانیوں کو کبھی رائیگاں نہیں جانے دے گا، جن کے خون اور عصمتوں کی قربانی سے یہ ملکِ عزیز وجود میں آیا ہے۔ اس لیے بھی کہ تاریخ کا یہی فیصلہ ہے کہ بگاڑ کی قوتیں ایک خاص حد پر پہنچنے کے بعد شکست و ریخت کا نشانہ بنتی ہیں اور خیر اور صلاح کی قوتیں بالآخر غالب ہوتی ہیں۔ جس طرح زوال اور انتشار ہماری تاریخ کی ایک حقیقت ہے، اسی طرح تجدید اور احیا بھی ایک درخشاں حقیقت ہیں:   ؎

گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے
آغوش میں ہرشب کے سحر ہوتی ہے

سوال یہ ہے کہ اصلاح کا راستہ کیا ہے؟ ہماری نگاہ میں نہ فوج کی مداخلت حالات کو درست کرسکتی ہے اور نہ تشدد کی سیاست۔ ملکی سیاست میں تصادم اور تلخی جس حد کو پہنچ گئی ہے،    اس سے صرف سیاست ہی نہیں ملک کا وجود بھی خطرے میں ہے، جس کی بڑی وجہ حکومتوں کی آمرانہ روش، تنگ دلی اور تنگ نظری ہے۔ اگر ایک طرف معاشی بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے اور وسائلِ حیات کی قلت اور مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے تو دوسری طرف لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ یہی وہ حالات ہیں جو تشدد کی سیاست کو جنم دیتے ہیں۔

اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ملک کے وہ تمام عناصر جو حالات سے غیرمطمئن ہیں، بگاڑ کے اسباب پر متفق ہیں اور جو اصلاح کے خواہاں ہیں، وہ مل جل کر مؤثر سیاسی جدوجہد کے ذریعے نظام کو بدلنے کی جدوجہد کریں۔ بگاڑ کے ایک ایک سبب کو دُور کرنا ہوگا اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ایک نئی قیادت اُبھرے جس کا دامن پاک ہو ، جو عوام میں سے ہو اور جو عوام کے سامنے جواب دہ ہو۔

  • سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ پاکستان کے اصل مقاصد، اس کی منزل اور ترجیحات کے بارے میں یکسوئی ہو۔ وہ تمام دینی اور سیاسی عناصر جو اسلام، جمہوریت، عدلِ اجتماعی اور خودانحصاری پر یقین رکھتے ہیں، وہ ایک دوسرے سے قریب آئیں اور اصولوں پر پختہ ایمان رکھنے والی باکردار قیادت کو قوم کے سامنے لائیں۔

قائداعظمؒ نے اپنا مقدمہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور روایتی سیاست کاروں کے سامنے نہیں، برعظیم کے مسلم عوام کی عدالت میں پیش کیا تھا۔ ان کو بیدار اور متحد کرتے ہوئے ایک ایسی عوامی اور جمہوری لہر پیدا کی تھی کہ روایتی قیادتیں اس سیلاب کے آگے بہہ گئیں۔ آج پھر اس کی ضرورت ہے کہ جمہوری ذرائع سے جمہور کو بیدار اور منظم کیا جائے اور قیامِ پاکستان کے مقاصد کے لیے ان کو متحرک کیا جائے۔ ملکی اور غیرملکی سازشی عناصر کا اصل توڑ عوام کی بیداری اور ان کی منظم قوت ہے۔

  • دوسری بنیادی چیز قیادت کا صحیح معیار ہے۔ قوم نے بہت دھوکے کھائے ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ نئی قیادت عوام میں سے اُبھرے اور اپنے اخلاق اور کردار کے اعتبار سے دستورِپاکستان میں مرقوم معیار (دفعہ ۶۲، ۶۳) پر پوری اُترے۔ عوام اور الیکشن کمیشن کو یہ اختیار ملنا چاہیے جیساکہ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ وہ ان دفعات کو عملاً نافذ کرسکیں۔ یہ وہ چھلنی (filter) ہے، جس سے بہتر قیادت رُونما ہوسکتی ہے۔

خودقائداعظم نے اپنی ۱۹۳۶ء کی ایک تقریر میں قیادت کے لیے بڑے نپے تلے انداز میں مطلوبہ معیار کی نشان دہی کی تھی، جس پر آج ہمیشہ سے زیادہ عمل کی ضرورت ہے۔ طلبہ کو مشورہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا: ’’ملکی حالات کا بغور مطالعہ کیجیے، تجزیہ کیجیے اور سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ اس بات کو یقینی بنایئے کہ مقننہ (Legislature) میں دیانت دار، حقیقی، مخلص اور محب ِ وطن نمایندے پہنچیں‘‘۔

  • تیسری ضرورت آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل اور اس کی مؤثر تنفیذ ہے ۔ امریکا اور مغربی اقوام سے محتاجی کا جو رشتہ قائم کیاگیا ہے، وہ اب صرف پالیسیوں تک محدود نہیں بلکہ ایک طرح کا انتظامی تعلق (structural relationship) بن گیا ہے، جس کے نتیجے میں سیاسی، عسکری، معاشی، تعلیمی، ابلاغی اور تہذیبی ہر میدان میں بیرونی ممالک اور قوتوں کااثرو نفوذ بڑھ کر اس مقام پر پہنچ چکا ہے، جہاں وہ پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور نظریاتی شناخت کو متاثر کررہا ہے۔ بڑے پیمانے (macro) کی سطح پر اثرات سے آگے بڑھ کر بات اب جزوی انتظام و انصرام (micro-management ) تک پہنچ چکی ہے۔ اس لیے نئی آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل اب ملک کی آزادی اور سلامتی کے لیے ازحد ضروری ہوگئی ہے۔

اس کے لیے ایک طرف امریکا کے اعلان کردہ دبائو سے ہمارانکلنا ضروری ہے، تو دوسری طرف ملکی وسائل کی بنیاد پر معاشی ترقی کا نقشۂ کار بنانا ضروری ہے۔ عسکری میدان میں بھی پہلے قدم کے طور پر اسلحے کے نظام اور خریداری میں مختلف ممالک سے رابطوں کی ضرورت ہے تو دوسری طرف جو حکمت عملی ۱۹۷۰ء میں بنیادی صنعتوں کے قیام اور فروغ کے سلسلے میں ہیوی مکینیکل کمپلیکس اور اسٹیل ملز کے قیام کی صورت میں اختیار کی گئی تھی، اسے نئے حالات کی روشنی میں ایک نئے انداز میں فروغ دینا ضروری ہے۔

اس سلسلے میں بھارت سے تعلقات کے باب پر بھی جامع نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ملکی مفاد کا تقاضا ہے کہ جزوی اُمور میں اُلجھنے کے بجاے اصل بنیادی مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کی جائے اور اس کے لیے فوری اور دیرپا دونوں نوعیت کی پالیسیاں بنائی جائیں۔ کشمیر اور پانی کے مسئلے کے حل ہی پر بھارت سے سیاسی اور معاشی تعلقات کا دیرپا بنیادوں پر فروغ ممکن ہے۔   ان اساسی پہلوئوں کو نظرانداز کرکے محض ’اعتماد سازی‘ کے اقدامات اور تجارت کا راستہ اختیار کرنا سیاسی اور معاشی ہردوپہلو سے مہلک ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایک آزاد اور حقیقی معنی میں پاکستانی مفادات اور ترجیحات پر مبنی خارجہ پالیسی اختیار کی جائے اور اس کے لیے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے پاکستانی عوام کے حقیقی جذبات اور خطوطِ کار میں بُعدالمشرقین ہے۔ تمام عوامی سروے اس امر کا ثبوت ہیں کہ پاکستانی قوم امریکا اور بھارت کو اپنا دوست نہیں سمجھتی اور ان کی پالیسیوں کو ملک کے لیے سب سے اہم خطرہ شمار کرتی ہے، جب کہ جنرل مشرف دور سے اب تک حکومت کی پالیسی اور ترجیحات عوام کے جذبات اور خواہشات کی ضد ہیں۔

  • چوتھی چیز ایک ملّی ضابطۂ اخلاق کی تشکیل ہے جس کی پابندی تمام سیاسی جماعتوں، پریس اور میڈیا پر لازم ہو۔ اسے افہام و تفہیم سے مرتب کیا جانا چاہیے۔ اس ذیل میں بہت کام ماضی میں ہوا ہے۔ خود دستورِ پاکستان میں بھی اس سلسلے میں بڑی رہنمائی موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر نیا اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور اس کے نفاذ کے لیے کوئی مؤثر نظام بنایا جائے، خواہ عدلیہ اس کام کو انجام دے یا کوئی اور نیا قومی ادارہ۔
  • پانچویں چیز نظامِ انتخاب کی اصلاح ہے۔ انتخابی کمیشن حکومت اور حزبِ اختلاف کے باہم مشورے اور اتفاق رائے سے مقرر ہونا چاہیے۔ پاکستان کے حالات میں انتخابات نگران حکومت کے تحت ہونے چاہییں، جس کے بغیر منصفانہ انتخابات کی توقع عبث ہے۔ اس امر پر بھی غور کی ضرورت ہے کہ اسمبلی کی مدت پانچ سال سے کم کر کے ۴سال کردی جائے تاکہ احتساب کم وقفے میں ہوسکے۔
  • چھٹی چیز ایک اعلیٰ اور خودمختار احتسابی کمیشن کا قیام ہے، جس کا مطالبہ جماعت اسلامی پاکستان اوّل روز سے کر رہی ہے، اور جس کا وعدہ خود پیپلزپارٹی، مسلم لیگ اور پاکستان تحریک انصاف کرچکے ہیں۔ گویا کہ یہ ایک متفقہ قومی مطالبہ ہے۔ پھر اس سے فرار کیوں؟ یہ مستقل کمیشن ایسا ہوناچاہیے جو حکومت، حزبِ اختلاف یا کسی بھی شہر ی یا متاثر ہونے والے فرد کی طرف سے تمام منتخب اور دوسرے ذمہ دار افراد کا احتساب کرسکے۔ اس ادارے کو یہ اختیار حاصل ہو کہ جس نے بھی اپنی سرکاری حیثیت کو ذاتی نفع کے لیے استعمال کیا ہو، اسے قرارواقعی سزا دے سکے اور عوامی وسائل ان سے واپس لے کر سرکاری خزانے میں لائے۔
  •  ساتویں چیز دستور کے مطابق صوبائی اور لوکل باڈی کی سطح پر اختیارات کی منتقلی ہے اور ان میں ضروری صلاحیت کار پیدا کرنا ہے۔ سینیٹ کو زیادہ مضبوط اور مؤثر بنانا بھی اس سلسلے میں بڑا مفید ہوسکتا ہے۔
  • آٹھویں چیز عدلیہ کی آزادی، اس کی انتظامیہ سے علیحدگی اور عدلیہ کے فیصلوں کی بلاامتیاز تنفیذ ہے۔
  • نویں چیز سول انتظامیہ اور پولیس کا ایسا انتظام ہے، جو ان کی آزاد اور غیر سیاسی حیثیت کو مستحکم کرسکے۔ ملکی، سول انتظامیہ اور پولیس، ریاست کے ادارے تو ہوں، مگر حکمران پارٹی کے سیاسی آلۂ کار نہ ہوں۔ اس کے لیے ان کو دستوری تحفظ دیا جائے، نیز ان کی تربیت اور وسائل دونوں کا اہتمام کیا جائے۔
  • دسویں چیز قومی زندگی سے کرپشن کا خاتمہ اور اس کے لیے ہرسطح پر مؤثر مہم ہے۔
  • آخری اور بہت ہی ضروری چیز ایک نئی سماجی اور معاشی پالیسی ہے، جس کا ہدف صحیح تعلیم کا فروغ، علاج کی سہولتوں کی فراہمی ، غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ اور روزگار کے مواقع کی فراہمی اور ایسی معاشی اصلاحات ہیں، جن سے سود، قمار اور ہر طرح کے استحصال کا خاتمہ ہو، دولت کی تقسیم منصفانہ ہوسکے اور تمام انسانوں کو زندگی کی جائز ضروریات مل سکیں۔

یہ وہ بنیادی نکات ہیں، جن پر عمل کر کے قوم ایک بار پھر اسلام کے حیات بخش نظام کے قیام کے لیے متحد اور سرگرمِ عمل ہوسکتی ہے اور چمن میں اس کی روٹھی ہوئی بہار واپس آسکتی ہے۔

دنیا بھر کے مسلم اہلِ علم و فضل نے یہ اہم سوال اُٹھایا ہے کہ مسلم اُمہ کے ساتھ اصل مسئلہ کیا ہوا ہے؟ کیا معاذاللہ، اسلام ہی غیر متعلق ہوگیا ہے یا کیا اسلام کو اور تاریخ میں اس کے کردار کو سمجھنے کے لیے مسلم طرزِ فکر میں کوئی خامی ہے؟ مغربی استعمار کے شکنجے سے آزادی کی جدوجہد میں اسلام کو مؤثر ترین شکل دینے کی ترکیب کیا ہو، تاکہ مسلم معاشرت کو خود اسی کی بنیادوں پر استوار کیا جاسکے ؟

غوروفکر اور بحث و مباحثے کی ان ساری کوششوں کا مقصد امت کو تجدید اور تشکیل نو کے راستے پر ڈالنا تھا۔ جمال الدین افغانی، امیر شکیب ا رسلان، حلیم پاشا، بدیع الزماں سعید نورسی، مفتی محمد عبدہٗ، ڈاکٹر محمد اقبال، رشید رضا ،حسن البنا، ابوالکلام آزاد، سیّد قطب شہید،سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، مالک بن نبی اور متعدد دیگر مفکرین ومصلحین نے انھی سوالات پر غور کیا، اور اُمہ جس دلدل میں دھنس چکی تھی، اس سے اُمت کو نکالنے کے لیے اپنے اپنے فہم کے مطابق مثبت راہیں متعین کیں۔بلاشبہہ مختلف حالات اور الگ الگ پس منظر میں، ان رجالِ کار کی بعض آرا سے اختلاف کی گنجایش موجود ہے، مگر مجموعی طور پر درست سمت کے تعین کے لیے، ان سبھی نے دردِ دل سے کاوشیں کی ہیں، جن کی قدر کی جانی چاہیے، اور منزل تک پہنچنے کے لیے دینی، فکری، تحقیقی، علمی،سیاسی اور اجتماعی جدوجہد کرنی چاہیے۔

مفکرین اور مصلحین کی اس کہکشاں میں سید ابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ء- ۱۹۷۹ء) کو ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ اس گھٹاٹوپ فضا میں ۱۹۲۰ء کے زمانے میں صرف ۱۷ سال کی عمر میں انھوں نے مسلم امہ کی تعمیرِنو کا بیڑا اٹھایا ۔دس سال کی صحافتی زندگی کے بعد انھوں نے خود کو مسلم فکر کی تشکیل نو کے جاں گسل کام کے لیے وقف کر دیا اور مسلم دُنیا میں سیاسی و سماجی تبدیلی کے لیے اور اُمت مسلمہ کی رہنمائی کی خاطر ایک تحریک بپا کی۔ جس کا مقصد امت کے احیا کے لیے راہیں متعین کرنا تھا، ایک ایسا راستہ جو پوری امت کے لیے ایک نعمت ثابت ہو۔

اخبار الجمعیۃ میں اسلام کا سرچشمۂ قوت کے حوالے سے سلسلۂ مضامین لکھنے کے بعد، ۱۹۲۷ء میں سیّدمودودی نے اسلام پر اعتراضات کی بوچھاڑ کا جواب دینے کے لیے ایک طویل تحقیقی سلسلۂ مضامین شروع کیا، جو کتابی شکل میں ڈھل گیا۔ ۱۹۳۰ء میں الجہاد فی الاسلام کی صورت میں ان کی یہ پہلی باقاعدہ کتاب دارالمصنّفین، اعظم گڑھ سے شائع ہوئی۔اس کے بعد ۲۲ستمبر۱۹۷۹ء کو اپنی وفات تک انھوں نے اسلام پر ۱۴۰کتب اور متعدد علمی مقالے لکھے، جن میں مذکورہ فکرمندی اور تاریخی تجربے کے تقریباً ہر پہلو کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان کی نمایاں ترین علمی خدمت چھ جلدوں پر مشتمل قرآن کی تفسیر تفہیم القرآن 'ہے جو ساڑھے چار ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔

اسلامی فکر کی وضاحت اور تشکیل جدید کے ساتھ ساتھ سید مودودی نے مسلم معاشرے کا تنقیدی جائزہ لیا، اور ان اسباب و عوامل کی نشاندہی کی، جو اس کے تنزل اور انتشار و زوال کا باعث بنے۔ انھوں نے مغربی تہذیب پر اور دنیا، انسان، معاشرت و معیشت سے متعلق اس کے تصورات اور اس کی خوبیوں اور خامیوں پر بھی جامع،علمی، منصفانہ اور مبنی برحقائق تنقید کی۔ وہ نہ تو مغربی تہذیب کے روشن پہلوؤں سے بے خبر تھے اور نہ اس کی کوکھ سے جنم لینے والے کج رو نظریات اور تحریکوں سے ناواقف تھے۔ وہ اس کے فکری مغالطوں، انسان، مذہب اور معاشرے کے بارے میں اس کے ناقص تصور ،اس کے اخلاقی الجھاؤ، سیاسی و سماجی کجی اور معاشی ناانصافیوں اور استحصال کے شاکی بھی تھے۔ سیّد مودودی کے افکار نے دنیا بھر کے مسلمانوں کی بلامبالغہ تین نسلوں کو متاثر کیا۔ ان کی تصانیف پچاس سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں ۔ بجا طور پرانھیں جدید اسلامی احیا کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔

سیّد مودودی بیک وقت ایک عالم دین، ایک سماجی مفکر اور سیاسی رہنما تھے۔ ان کا اوّلین اور نمایاں ترین کارنامہ اسلامی فکر کی تشکیل نو ہے، جس کا ماخذ تو دین کی اصل نصوص ہیں، تاہم ان کا انداز ہمارے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ انھوں نے اسلام کو ایک مکمل ضابطہٴ حیات کے طور پر پیش کیا۔ جس کا پیغام انسان میں باطنی تبدیلی پیدا کر کے اس کی روحانی اور اخلاقی تطہیر ہے۔ ان کے پیش نظر یہ ہے کہ ان تبدیل شدہ حضرات و خواتین کو متحرک کرکے نہ صرف ان کی زندگیوں کی تعمیر کی جائے بلکہ الہامی رہنمائی اور اللہ کے رسولوں بالخصوص خاتم الانبیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ میں فراہم کردہ نظریۂ حیات، اقدار ، اصولوں اور خیالات کے مطابق انسانی معاشرے اور تہذیب کی بھی تشکیل نو کی جائے۔

 سید مودودی نے اسلامی فکر کے تقریباً تمام ہی پہلوؤں پر قلم اٹھایا ہے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات کے طور پر انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ اسلام ایک آفاقی دین ہے اور مسلم اُمہ ایک عالمی برادری ہے۔ ایمان اس کی بنیاد ہے اور اسی پر اسلام کی اصل فطرت، ثقافت اور تہذیب استوار ہے ۔ بالفاظِ دیگر مسلم اُمہ ایمان کی بنیاد پر قائم ایک عالم گیر برادری ہے۔ توحید کے تصور نے انسان کو اس کائنات کی یک رنگی اور انسانیت کی یگانگت کی بنیاد پر یہ سبق دیا ہے کہ زندگی کو خانوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ اسی توحیدکے دیے ہوئے قوانین اور اقدار اپنی آفاقیت کے ساتھ ان اُمور کا احاطہ کرتے ہیں۔

پھر یہ کہ اسلام کسی خاص قوم، برادری، نسل، علاقے یا زبان تک محدود نہیں ہے۔ یہ تو انسانوں کے خالق کی طرف سے اس کے رسولوںؑ کے ذریعے بھیجی گئی رہنمائی ہے،جس کا آغاز زمین پر زندگی کی ابتدا سے ہی ہو گیا تھا،یعنی اسلام تمام انبیا علیہم السلام اور ان کے پیروکاروں کا دین ہے۔ اس لیے مسلمان، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ علیہم السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیا ـؑپر ایمان رکھتے ہیں۔

’ اسلام‘ کا لغوی مفہوم ’سلامتی اور تسلیم‘ کا ہے۔اسلام یہ بتاتا ہے کہ صرف اللہ ہی لائق عبادت و اطاعت ہے۔ اور یہ کہ اس کے نبی کو فکر و عمل کے لیے نمونہ اور ہدایت کا سرچشمہ تسلیم کیا جائے۔ یہ اپنے ماننے والوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خدا کی مرضی اور رہنمائی کو مان کر زندگی گزاریں۔ ’شریعت‘ (لغوی معنی: راستہ) ایسے معیارات، اقدار اور قوانین کا مجموعہ ہے، جو مل کر اسلامی طرزِ زندگی تشکیل دیتے ہیں۔

اسلام انسان کے اختیار و انتخاب کی آزادی پر یقین رکھتا ہے اور ایمان و عقیدے کے حوالے سے کسی جبر کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ انسانوں کے لیے ایسی مذہبی اور ثقافتی ترتیب فراہم کرتا ہے، جو فی الحقیقت تکثیریت پر مبنی ہے۔ نظریاتی سرحدوں کو عبور کرنے کے لیے آزادانہ مرضی اور دلیل ہی واحد راستہ ہے۔ اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کا احترام اسلام کا بنیادی اصول ہے۔ اسلام کا تعلق زندگی کے ہر پہلو سے ہے: ایمان اور عبادت، روح اور مادیت، شخصیت و کردار، فرد اور معاشرہ، معیشت اور معاشرت، قومی و بین الاقوامی اُمور۔

 تاہم، زندگی اور کائنات سے متعلق اسلام کا اخلاقی طرز فکر سب پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ہر مادی شے کو بھی روحانیت اور تقدیس کی چھتری تلے جمع کردیا گیا ہے۔ اس سے نہ تو دنیاوی پہلو خارج ہیں اور نہ اسلام زندگی کے غیرمذہبی پہلووٴں کو مذہبی مراسم سے متصادم سمجھتا ہے، بلکہ یہ زندگی کے تمام پہلوؤں کو ایک اخلاقی و روحانی نظام کے تابع کرتا ہے ۔

اس لیے اسلام بنیادی طور پر ایمان، رنگ، عقیدے، زبان اور علاقے سے قطع نظر تمام انسانوں کے لیے ایک اخلاقی اور نظریاتی طرزِ فکر ہے۔ یہ ثقافتوں اور مذاہب کے تنوع کی حقیقت تسلیم بھی کرتا ہے اور ان کا احترام بھی کرتا ہے۔ مسلم اُمہ میں بھی تنوع موجود ہے ۔اسلام مصنوعی اتحاد، جبری اطاعت یا تضادات کے اجتماع کا حامی نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ بقائے باہمی اور باہمی تعاون کی حقیقی بنیاد فراہم کرتا ہے ۔

اسلام میں ایمان و تہذیب کا ایک اہم پہلو ان اقدار کا فروغ ہے، جو قطعی اور عالم گیر ہیں۔  ان کے ساتھ وہ اس پر زور دیتا ہے کہ ایسے بنیادی اداروں کی تشکیل کی جائے، جو اس نظام کو مضبوطی اور پاے داری دیتے ہیں۔ پھر اس احساس کو بھی زندہ و توانارکھتاہے کہ زندگی کا ایک بڑا میدان ایسا ہے، جس میں موجود لچک، وقت کے بدلتے تقاضوں سے نباہ کر سکتی ہے۔ اسلامی اقدار کا ڈھانچا (Islamic System of Values) انسانی فطرت اور عالم گیر حقائق، پر استوار ہے، جس میں یہ شعور بھی موجود ہے کہ ان اقدار کے اطلاق کے لیے باریکیاں اور طریق کار بدلتے ہوئے سیاسی، معاشی اور ثقافتی حالات کے مطابق اختیار کیے جاسکتے ہیں۔

اسلام ایک عمومی ضابطہ بندی ضرور کرتا ہے، لیکن یہ انسانی افعال و کردار کے لیے سخت گیر ہدایات سے احتراز برتتا ہے ۔یہ ایک فرد کو معاشرے، بلکہ تمام مخلوقات میں بنیادی اہمیت کا حامل سمجھتا ہے۔ ہر فرد انفرادی طور پر خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس طرح انسان کی حیثیت سماجی مشینری میں محض ایک پرزے کی نہیں ہے۔ معاشرہ، ریاست، قوم اور انسانیت سب ہی اہم ہیں اور ہر ایک کا ایک خاص کردار ہے۔ تاہم، زندگی کے اختتام پر حتمی جواب دہی فرد ہی کی ہوگی ۔اس طرح اسلامی نظام میں فرد کی مرکزیت لازم ٹھیرتی ہے۔ یوں فرد کا ربط معاشرے اور اس کے اداروں سے بھی جوڑا گیا ہے اور ان دونوں کے درمیان ایک متوازن تعلق بھی قائم کیا گیا ہے۔

اسلامی اخلاقیات، زندگی کو بھرپور طریقے سے گزارنے کے تصور پر مبنی ہیں، نہ کہ زندگی کے انکار پر۔ اخلاقی ضابطے کی پاسداری کرکے انسانی افعال کے تمام پہلوؤں کو نیکی کا درجہ مل جاتا ہے۔ فرد کی سطح پر تقویٰ اور معاشرے میں اخلاقیات ایسی مطمئن زندگی تشکیل دیتے ہیں، جس میں ذاتی اوراجتماعی فلاح اور ہر ایک کی بہبود و ترقی محفوظ ہے۔ دولت کوئی مذموم شے نہیں بلکہ مال کمانے کی ترغیب دی گئی ہے بشرطیکہ اخلاقی اقدار اور معاشرتی حقائق کی پاس داری کی جائے۔ ایک اچھی زندگی انسانی کوشش کا ایک بڑا ہدف ہے ۔

اس دنیا کی بھلائی اور آخرت کی بھلائی کا باہم براہ راست تعلق ہے کیونکہ یہ دونوں زندگی ہی کے دو رخ ہیں۔ زندگی کے غیر مذہبی امور کو بھی روحانیت سے استوار کرکے اور دنیاوی زندگی کی ہرشکل اور فعل کو اخلاقی نظام کا حصہ بنا کر، انسان کو یہ صلاحیت بخش دی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنی ضروریات کو پورا کرنے کا سامان کرے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایسا معاشرہ بھی تشکیل دے، جس میں  سب کی ضروریات پوری کرنے کا سامان ہو۔

انفرادی آزادی، ملکیت کا حق اور مالی سرگرمی کا حق، کاروبار کے ضوابط اور وسائل و مواقع کی عادلانہ تقسیم، اسلام کے معاشی نظام کے لازمی عناصر ہیں۔ مگر ساتھ ہی ساتھ، ہرسطح پر اخلاقی چھلنیاں موجود ہیں۔ فرد کی نیت، ذاتی طرزِ عمل، معاشرتی رواج اور چلن، آجر اور اجیر کا رویہ اور فرد وریاست کا تعلق، ان سب کی تہذیب معاشی ضابطوں کو ایک ایسے مجموعی نظام کا حصہ بناتی ہے، جس سے انصاف اور سماجی فلاح یقینی ہو جائے۔ اس میں ریاست کا بھی ایک مثبت کردار ہے بالخصوص نگرانی، رہنمائی اور ضروری قواعد کی تشکیل کے ذریعے۔ تاہم، اس کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ آزادی، معاشی مواقع کے حصول اور حق ملکیت کا تحفظ کرے۔

  اسلام کے طرزِ فکر میں ضروریات کے حصول کو اہمیت حاصل ہے اور یہ ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے، جس میں تمام انسانوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہو، اور جس کا بنیادی ذریعہ فرد کی محنت اور کمائی کے لیے عمل اور جدوجہد ہے۔ اس نظام میں ایسا ماحول تشکیل دیا جاتا ہے جس میں نادار افراد کو بھی باعزّت زندگی گزارنے اور معاشرے کا مؤثر کردار بننے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ جیساکہ ہم نے پہلے یہ کہا ہے کہ اسلام دولت کمانے کی ہرگز نفی نہیں کرتا بلکہ اسے اللہ کا فضل قرار دے کر تلاش کرنے پر اُبھارتا ہے لیکن اس کا اصل ہدف اخلاقی بہتری اور روحانی مسرت کا حصول اور عدل و مساوات پر مبنی معاشرے کا قیام ہے، جس میں تمام افراد کے لیے مواقع یکساں دستیاب ہوں۔ یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب معاشرہ معاشی اور سماجی اعتبار سے اپنے کمزور افراد کے لیے مؤثر مدد فراہم کرے۔

اس مقصد کے لیے خاندان کے ادارے، معاشرے اور ریاست کے دیگر ستونوں کا کردار تشکیل دیا گیا ہے۔ ’علم معاشیات‘ میں اسلام کا امتیاز آزادی و فرائض میں اور استعداد و انصاف میں متوازن تعلق قائم کرنا ہے۔ انصاف، اسلام کی اقدار میں سے ایک کلیدی تصور ہے اور عدل کا قیام اللہ کی طرف سے انبیا علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد بتایا گیا ہے ۔ ہدایت کا تعلق صرف انسان کے اپنے معبود سے روحانی تعلق تک محدود نہیں ہے، بلکہ انسان کا دوسرے انسانوں اور دیگر مخلوقات سے تعلق بھی اسی طرح سنجیدگی سے لازم ہے۔

یہ اس طرزِ فکر اور انسان و معاشرت سے متعلق تصور کا مختصر بیان ہے، جس میں معیشت اور معاشیات سے متعلق سیّد مودودی کے طرزِ فکر کو سمجھا جاسکتا ہے۔ سیّد مودودی معروف معنوں میں معیشت کے میدان کے ماہر تو نہ تھے، تاہم معاشی موضوعات پر ان کی تحریروں نے معیشت کے بارے میں ایک منفرد طرزِ فکر کی بنیاد ضرور ڈالی ہے، جسے اب ’اسلامی معاشیات‘ کہا جاتا ہے۔

سیّد مودودی نے نہ صرف قرآن اور سنت میں موجود معاشی تعلیمات کو خوب تفصیل سے بیان کیا ہے بلکہ انھوں نے مجموعی تہذیبی پس منظر میں ایک فرد کی معاشی مشکلات کا حل بھی تجویز کیا ہے۔ انھوں نے خاصی وضاحت سے بتایا ہے کہ ایک جامع انداز میں ان مشکلات کو کیسے حل کیا جاسکتا ہے کہ معاشی زندگی کے اخلاقی تقاضوں کی پاسداری بھی ہو اور مادی ضروریات کو بھی پورا کیا جا سکے۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ ’اسلامی معاشیات‘ کے فلسفے کو دو ٹوک انداز میں اور پوری وضاحت سے بیان کرنا ہے۔

 ممتاز برطانوی ماہر معیشت اور ڈرہم یونی ورسٹی میں مرکز برائے مشرق وسطیٰ اور اسلامی علوم کے ڈائرکٹر پروفیسر روڈنی ولسن(Rodney Wilson) کا کہنا ہے :

[سیّد مودودی کی] تحریروں اور تقریروں نے برصغیر میں ماہرین معیشت کی جدید نسل پر گہرے اثرات مرتب کیے،جنھوں نے اسلامی تعلیمات کو ان خیالات و تصورات کے ساتھ ملا کر دیکھنے کی کوشش کی، جو انھوں نے اپنی تربیت کے دوران سیکھے تھے۔ اگرچہ ’اسلامی معاشیات‘ کی اصطلاح سیّدمودودی نے ایجاد کی تھی، لیکن اس شعبۂ علم نے ایک درسی مضمون کی شکل ۱۹۷۰ء میں اختیار کرنا شروع کی ۔ (مقالہ: The Development of Islamic Economics، مشمولہ: Islamic Thought in the Twentieth Century، (لندن:۲۰۰۴ء) ، ص ۱۹۶-۱۹۷)

 جدہ، سعودی عرب میں اسلامی ترقیاتی بنک کے اسلامی تحقیق و تربیت کے ادارے (IRTI) کے ریسرچ ایڈوائزر ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا نے لکھا ہے:

پیشہ ور ماہر معیشت نہ ہونے کے باوجود اسلامی معاشیات کے میدان میں سیّدمودودی کی خدمات بہت نمایاں ہیں۔ انھیں تاریخ میں ایسے عظیم مفکرین میں شمار کیا جائے گا، جنھوں نے جدید دور میں اس شعبے کی تشکیل کے لیے بنیاد رکھی تھی۔ ہندوپاک میں اور دیگر مسلم ممالک میں اس میدان میں لکھی گئی تقریبا ًتمام تحریروں پر ان کی چھاپ ہے اور وہ انھی کی مرہون منت ہیں ۔(The Muslim World، (اپریل ۲۰۰۰ء) میں مقالہ Mawdudi's Contribution to Islamic Economics، ص ۱۶۳-۱۸۰)

سیّدمودودی نے ’اسلامی معاشیات‘ کے فلسفے، اس کی بنیادوں، اس کے منہج اور ایک اسلامی معاشی نظام کے اداروں کے خدوخال بیان کرکے بڑی بنیادی خدمت سرانجام دی ہے۔ انھوں نے روایتی معاشیات میں اپنے مفادات کی بنیاد پر فیصلے کرنے والے فرد(Homo economicus) کے مقابلے میں ایک ایسے انسان کا تصور دیا ہے، جو اسلام کی بنیاد پر غوروفکر کرنے والا ایک ایسا  ذمہ دار فرد ہے جسے اپنے افکار و خیالات اور فیصلوں کا آخرت میں جواب بھی دینا ہے۔ یہاں یہ حقیقت بیان کرنا بھی دلچسپ ہے کہ جدید معاشیات کے دو بڑے مکاتب فکر کے بانی ایڈم سمتھ [م:۱۷۹۰ء] اور کارل مارکس [م: ۱۸۸۳ء] بھی بنیادی طور پر کوئی ماہرین معاشیات نہ تھے، لیکن کلاسیکی اور اشتراکی مکاتبِ فکر کی بنیاد ان دونوں مفکرین کے تصورات اور تصانیف پر کھڑی ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ۲۰۰۹ء میں پروفیسر الینور اوسٹروم (Elinor Ostrom -انڈیانا یونی ورسٹی) نے معاشیات کا ’نوبیل پرائز‘ حاصل کیا، حالانکہ یہ خاتون، معروف پیشہ ورانہ بنیادوں پر ماہر معاشیات نہیں ہیں۔

ہم متوجہ کرتے ہیں کہ ماہرین سماجیات و سیاسیات اور سماجی و سیاسی جدوجہد سے وابستہ کارکنان، مولانا مودودیؒ کی تصانیف کو غور سے پڑھیں۔ اس سے اُنھیں ایسا وژن اور بصیرت حاصل ہوگی، جس کی روشنی میں موجودہ سماجی ومعاشی فساد سے معاشرے کو پاک کرنے اور معاشی عدل کی تعمیر کے مؤثر طریقے اپنا سکیں گے۔(جاری)

کیا مسئلہ کشمیر ، یوں ہی سلگ سلگ کر، سامراجیت کی نذر ہوجائے گا؟

یہ اذیت ناک سوال جموں و کشمیر اور پاکستانی عوام کے سینے میں خنجر کی طرح پیوست ہے، اور ہرآنے والا دن اس کرب میں اضافہ کر رہا ہے۔ ایک طرف بھارت میں حکومت، فوج، حزبِ اختلاف تینوں ہی یکسوئی کے ساتھ، کشمیر میں انسانیت کے قتل پر قدم بہ قدم آگے بڑھ رہے ہیں، اور دوسری جانب پاکستان میں حکومت، حزبِ اختلاف اور فوج مسئلہ کشمیر کے حل کی جدوجہد کے لیے یکسو اور متحد دکھائی نہیں دیتے۔

اگر حالیہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ برس فروری میں اچانک کمانڈروں کی سطح پر فائربندی کی یادداشت پر دستخطوں نے تو ہر کسی کو حیرت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا تھا۔ جنگی صورتِ حال سے دوچار ملکوں کے درمیان ایسے سنگین معاملات حکومتی سطح پر طے کیے جاتے ہیں، لیکن یہاں پر عسکری سطح پہ مذاکرات اور معاملہ فہمی کی گئی۔

ہم نے اسی وقت خبردار کیا تھا کہ یہ محض بھارتی چال ہے، جس سے وہ پاکستان کے اندر غلط فہمی کو ہوا دے گا اور وقت گزاری کے بعد، برابر اپنے ایجنڈے پر نہ صرف قدم آگے بڑھائے گا بلکہ جب چاہے گا کشمیر میں قتل و غارت سے دریغ نہیں کرے گا۔ پھر ایسا ہی ہوا کہ،اپریل ۲۰۲۱ء کے بعد خاص منصوبے کے تحت انسانیت کی تذلیل پر مبنی نام نہاد سول اقدامات پر عمل جاری رہا۔ حتیٰ کہ اسی سال یکم ستمبر ۲۰۲۱ء کو جموں و کشمیر کے عظیم رہنما سیّد علی گیلانی صاحب کے انتقال کے موقعے پر بھارتی حکومت کی جانب سے بدترین ظلم و زیادتی کا ارتکاب کیا گیا ۔ گیلانی صاحب کی تجہیزو تدفین توپ و تفنگ کے زیرسایہ جبری طور پر من مانے طریقے سےکی گئی، اوراہلِ خانہ تک کو شرکت سے محروم رکھا گیا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان فروری ۲۰۲۱ء کی نام نہاد ’فوجی معاملہ فہمی‘ کے صرف تین ماہ بعد پاکستان کے سپہ سالار صاحب نے بھارت کے ساتھ ’ماضی کو بھلا کر‘ معاملات میں آگے بڑھنے کا نظریہ (doctrine) پیش کیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سے ’ماضی کو بھلا کر؟‘ یعنی یہ ماضی کہ: بھارت نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد اسے ناکام بنانے کے لیے ہر ہتھکنڈا استعمال کیا، اور بڑے پیمانے پر مسلسل پاکستان کی تخریب کا سامان کر رہا ہے، ۱۹۷۱ء میں پاکستان توڑا، پاکستان میں بار بار مداخلت اور تنگ نظر قوم پرستوں اور مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں دہشت گردی کرائی، افغانستان سے پاکستان کی تباہی کا سامان مہیا کیا اور جموں و کشمیر میں مسلسل قتل و غارت اور درندگی و بہیمیت کا ارتکاب کیا ہے اور مسلسل کیے جا رہا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا، جب معصوم کشمیری نوجوان شہید نہ ہورہے ہوں، اور کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے اور اسے ہندو اکثریت کا ایک خطہ بنانے کےمذموم منصوبے پر عمل نہ ہورہا ہو۔

ہماری دانست میں بھارت سے تعلقات پر بات کرتے وقت یہی اذیت ناک ماضی سامنے آتا ہے۔ کیا یہ ماضی یک طرفہ طور پر بھلا دینا اور ان اسباب و علل کو نظرانداز کرنا کوئی واقعی سوچی سمجھی حکمت عملی اور دانش مندی ہے؟ پھر یہ کہ ریاست کے مستقبل سے منسوب معاملات کی پالیسی بنانا کیا عوام کے منتخب نمایندوں کا کام ہے یا طاقت کے کسی ایک یا دو مراکز کے پاس اس نوعیت کے ڈاکٹرائن پیش کرنے اور واپس لینے کا اختیار ہے؟ اسی طرح یہ بات واضح ہے کہ خود عمران خاں حکومت کا رویہ بھی مسئلہ کشمیر پر چند روایتی تقاریر اور بیانات تک محدود رہا ہے۔ ماضی کی حکومتوں کی طرح ان کی ’کشمیر کمیٹی‘ بھی نہایت نچلے درجے پر محض خانہ پُری اور بے عملی کی تصویر بنی رہی۔

اب جیسے ہی اپوزیشن پارٹیوں کی صورت میں شہباز شریف حکومت برسرِاقتدار آئی تو اُس نے کشمیر کے مسئلے کو اپنی توجہ کا اس طرح موضوع بنایا ہے کہ بھارت کے تمام منفی اقدامات کو نظرانداز کرکے، اس سے تجارتی تعلقات پروان چڑھانے کے لیے کمرشل اتاشی مقرر کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اگرچہ تنقید کے بعد حکومت کی جانب سے وضاحت کی گئی ہے کہ ’’اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تجارتی تعلقات قائم کیے جارہے ہیں‘‘۔ اگر واقعی تجارتی تعلقات قائم نہیں کیے جارہے تو کمرشل اتاشی کیا سیاحت کے لیے دہلی بھیجے جارہے ہیں؟ تاہم، یہ وضاحت اقتدارو اختیار کے سرچشموں پر فائز افراد کی جانب سے عوام کو اندھیرے میں رکھنے کی ایک حرکت لگتی ہے۔ اس خدشے کی بنیاد ایک تو شریف حکمرانی میں بنیادی اُمور کو نظرانداز کرکے بھارت سے تعلقات بڑھاتے وقت بزعم خود معاشی پہلو کو مرکزیت دینا ہے اور دوسری طرف طاقت ور ادارے بھی وقتاً فوقتاً اس نوعیت کے خیالات کا اظہار کرتے آئے ہیں۔

چند لمحوں کے لیے یہ مان لیا جائے کہ بھارت سے تجارت کھول دی جائے، تو اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ بھارت نے پاکستانی درآمدات پر دو سو فی صد ڈیوٹی عائد کر رکھی ہے۔ ماضی کے تجربات گواہ ہیں کہ بھارت کو پاکستانی برآمدات کا حجم، بھارت سے درآمدات کا صرف پانچواں حصہ رہا ہے، اور اس طرح ہم بھارت کی معاشی قوت کو بڑھانے کا ذریعہ بنتے رہے ہیں۔دوسرے یہ کہ اس پیش قدمی سے پاکستان کی گھریلو صنعت اور زراعت پر شدید منفی اثرات پڑیں گے، کیونکہ بھارت میں شعبہ زراعت سے متعلق طبقوں کو پانی اور بجلی کے سستے فلیٹ ریٹ پر فراہمی کے نتیجے میں پاکستان کے مقابلے میں بہت کم معاشی دبائو کا سامنا ہے۔ یہ حقائق نظرانداز کرکے بھلا ہمارے حکمت کار کس طرح دوطرفہ تجارت کے نام پہ، عملاً یک طرفہ تجارت کو پاکستان کے حق میں قرار دیتے ہیں؟ اس تمام پس منظر میں پاکستانی زرِمبادلہ کا بہائو بھارت ہی کے حق میں ہوگا، نہ کہ پاکستان کی جانب۔خیر، یہ تو جملہ معترضہ ہے، وگرنہ ہمارے نزدیک پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل مسئلہ ، مسئلہ کشمیر ہی ہے۔ تجارت، تعلیم، ثقافت، ثانوی اُمور ہیں، جن کی بنیاد پر اصل مسئلے کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا اور نہ قالین کے نیچے دھکیلا جاسکتا ہے۔

مسئلہ کشمیر ایک عالمی مسئلہ ہے، جو دو ملکوں کے درمیان زمین کا کوئی تنازعہ نہیں ہے، بلکہ ڈیڑھ دو کروڑ انسانوں کی زندگی، تہذیب اور حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے۔ اس طرح جموں و کشمیر کسی بھی اصول کے تحت نہ بھارت کا حصہ ہے اور نہ اس کا اندرونی معاملہ ہے۔

مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی ۱۷ سے زیادہ قراردادیں، عالمی برادری کی فکرمندی کی گواہ ہیں،  اور اس پس منظر میں دوایٹمی طاقتیں ہروقت جنگ کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ خدانخواستہ معمولی سی بے احتیاطی پوری انسانیت کے مستقبل کو بربادی کے جہنّم میں دھکیل سکتی ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ بڑی طاقتیں محض بھارت کی مارکیٹ میں حصہ پانے سے دلچسپی رکھتی ہیں اور اپنے ایک ’پسندیدہ‘ ملک کے جرائم پر پردہ ڈال کر غیرانسانی اور غیراخلاقی جرم کا ارتکاب کررہی ہیں۔ اب رفتہ رفتہ پاکستان کی حکومتوں کی طرف سے بھی کچھ ایسے ہی اشارے مل رہے ہیں، جو انتہائی تشویش ناک ہیں۔

جموں و کشمیر کے مستقبل کا مسئلہ، تقسیم ہند کے طے شدہ ضابطے کے تحت، وہاں کے لوگوں کے حقِ خود ارادیت کا مسئلہ ہے، جسے بار بار اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں نے تسلیم کرتے ہوئے ، اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری پر زور دیا ہے۔ ان تمام وعدوں اور اتفاق رائے کی بنیادوں پر یہ امر بالکل شفاف انداز سے سامنے آتاہے کہ مسئلہ کشمیر نہ تو وہاں بسنے والے لوگوں کے صرف انسانی حقوق کی پاس داری کا معاملہ ہے اور نہ داخلی سیاسی حقوق کے بندوبست کا کوئی معاملہ ہے۔ بلاشبہہ یہ تمام مسائل اپنی جگہ اہم اور حل طلب ہیں، لیکن اصل مسئلہ براہِ راست حقِ خود ارادیت کے نتیجے میں وہاں کے لوگوں کے مستقبل کا معاملہ ہے، جسے بھارتی حکومتیں بہت ڈھٹائی کے ساتھ ٹالتی چلی آرہی ہیں اور اس کے ساتھ وہاں بسنے والے مردوں، عورتوں اور بچوں پر انسانیت سوز مظالم کا ارتکاب کررہی ہیں۔

۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارت کی فسطائی حکومت نے عالمی سطح پر منظور کردہ حدود پامال کرتے ہوئے ایک غیر آئینی اقدام سے اس مسئلے کو مزید الجھا دیا ہے۔ اس طرح بھارتی دستور کی دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اے کو ختم کر کے کشمیر کی مقامی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے مذموم عمل کا آغاز کر دیا ہے۔

برطانوی سامراجی حکومت کے زمانے سے جموں و کشمیر کے مسلمان ایک وحشیانہ ریاستی جبر کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور تھے، اور جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر وہاں سے نقل مکانی کرکے، امرتسر، سیالکوٹ، گجرات، راولپنڈی، گوجرانوالہ اور لاہور کی جانب مہاجرت پر مجبور کردیے گئے تھے۔ پھر اگست ۱۹۴۷ء میں بھارت اور پاکستان کی شکل میں دو ریاستیں وجود میں آنے کے فوراً بعد اکتوبر ۱۹۴۷ء میں جموں میں مسلمانوں کی بدترین نسل کشی کی گئی۔ پھر وقفے وقفے سے بھارتی ریاست نے جموں و کشمیر میں مسلم اکثریت کو پے درپے انسانیت سوز مظالم، عورتوں کی بے حُرمتی، قتل و غارت اور سالہاسال تک جیلوں اور عقوبت خانوں میں قید کرکے نوجوانوں کو مارڈالنے اور زندگی بھر کے لیے معذور بنادینے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اس کے نتیجے میں گذشتہ تین عشروں کے دوران ڈیڑھ لاکھ کے قریب لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ جہاں پر ناجائزقبضہ ہوگا، وہاں مزاحمت ہوگی۔ سامراجی اور غاصب قوتوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے آزادی حاصل کرنا، انسانیت کا بنیادی حق ہے، جسے کوئی سلب نہیں کرسکتا۔ آج دُنیا کے نقشے پر موجود دو سو ممالک میں ۱۵۵  سے زیادہ ملکوں نے اپنے حقِ خودارادیت کی بنیاد پر آزادی حاصل کی ہے۔ کہیں مذاکرات سے، کہیں انتخاب سے اور کہیں مسلح مزاحمت سے یہ منزل حاصل کی گئی ہے۔ خود مقبوضہ برطانوی ہند نے بھی انھی ذرائع کو استعمال کرکے برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کی ہے، جسے کوئی فرد نہیں جھٹلا سکتا۔ اسی بنیاد پر کشمیر میں بھی مظلوموں کے ایک حصے نے قلم اور دلیل سے، دوسرے طبقے نے مکالمے اور سیاسی و سفارتی میدان میں، اور تیسرے حصے نے عملی مزاحمت کا راستہ اختیار کیا ہے۔ یہ تینوں راستے درست بھی ہیں اور ایک ہی منزل کی طرف بڑھنے کا سامان کرتے ہیں۔

یہ ایک ہمہ گیر اور مربوط جدوجہد ہے، جس میں عالمی ضمیر کو جگانے، ابلاغ عامہ کے اداروں کو جھنجھوڑنے اور حکمرانوں کی یادداشت کو تازہ رکھنے کے لیے پاکستانی حکومت کو مربوط کاوشیں کرنی چاہییں، نہ کہ زندگی اور موت کے اس مسئلے کو ابہام اور تضادات کے گرداب میں گم کرنے کا سامان!

 

برادرم اسماعیل الفاروقی نے کینیڈا اور امریکا میں قیام کے دوران بحیثیت مسلمان اپنی ہستی پر غور کرنے اور اپنی اصل شناخت کو دریافت کرنے پر پوری توجہ دی۔ ان کو صہیونی غاصبوں کے ہاتھوں اپنے گھربار اور مادرِوطن کو چھوڑنا پڑا تھا۔ انھوں نے جون ۱۹۶۷ء میں اسرائیل اور مغربی طاقتوں کی یلغار کے دوران اُردن، شام اور مصر کی شکست، بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے اور عرب قومیت کے شرمناک زوال کا مشاہدہ کیا تھا۔

غریب الوطنی کے اس زمانے میں الفاروقی نے آزادی کے ان مواقع کی قدر کی، جن سے وہ مغرب کی علمی دُنیا سے استفادہ کررہے تھے۔ پھر فکری، ثقافتی، سیاسی اور سامراجی جبر کی ناقابلِ قیاس گرفت اور اُمت مسلمہ اور دوسری متاثرہ اقوام پر کثیرجہتی غلامی کے تباہ کن اثرات کا بھی قریب سے مشاہدہ کیا۔ وہ سامراجی طاقتوں کے دُہرے معیارات کو پردۂ سیمیں کے پیچھے سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ پھر انھوں نے امریکا میں تعلیم کی غرض سے آنے والے نوجوان مسلمانوں [مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن-  MSA : ۱۹۶۲ء] کے انقلابی تصورات سے حرارت لی۔ اس طرح مسلمانوں اور انسانیت کے نئے مستقبل کی تعمیر کی منظم کوششوں کے حلقۂ اُلفت سے وہ وابستہ ہوئے۔

اسماعیل الفاروقی نے نوجوانوں کی اس روح پرور دنیا [MSA]میں، خود کو بڑا بے تکلف اور بہت آسودہ خاطر محسوس کیا۔ وہ ان میں سے ایک ہوگئے اور ان نوجوانوں نے بھی جذبۂ سپاس سے انھیں ایک شفیق معلّم اور دُور اندیش قائد کی حیثیت سے دیکھا۔ میں یہ لکھ کر کوئی انکشاف نہیں کروں گا، اگر اپنے دو عزیز ترین بھائیوں ڈاکٹر احمد توتونجی [پ: ۱۹۴۱ءعراق] اور ڈاکٹر عبدالحمید ابوسلیمان [م:۱۸؍اگست ۲۰۲۱ء] کے کردار کو ضبط تحریر میں لائوں۔ ان دو قیمتی ساتھیوں کی دل سوزی نے اس عمل کو باثمر بنایا۔ الفاروقی کے لیے فی الواقع یہ رفاقت بڑی رحمت و برکت کا ذریعہ بنی۔ وہ اب اس دنیا میں مضبوط قدموں سے واپس آگئے تھے کہ جس دنیا سے ان کا ازلی تعلق تھا۔ زندگی کے آخری دو عشروں کے دوران انھوں نے ایک پختہ کار اسلامی اسکالر، اسلامی تعلیمات کے ایک محترم استاد، ایک منفرد داعی اور اسلام کے ایک سچے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ انھوں نے شعوری اور روحانی تبدیلی کے اس سفر کو ان خوب صورت الفاظ میں بیان کیا ہے:

میری زندگی میں ایک وقت تھا… جب مجھے فکری سطح پر یہ ثابت کرنا تھا کہ میں اپنی جسمانی اور شعوری بقا، مغرب سے جیت سکتا ہوں۔ لیکن جب اس مقصد میں قدرے کامیابی حاصل کرلی، تو پھر یہ ہدف بھی میرے لیے بے معنی ہوکر رہ گیا۔

میں نے خود سے سوال کیا:

’میں کون ہوں؟ ایک فلسطینی، ایک فلسفی یا ایک آزاد خیال انسانیت کا حامل؟ ‘

میرے داخلی وجود نے جواب دیا:

’مَیں مسلمان ہوں‘۔

 برادرم الفاروقی اس داخلی تبدیلی کو، دوسرے انداز میں اپنے دوست کے نام ایک خط میں، جو انھوں نے اپنی شہادت سے صرف ۲۶دن قبل یکم مئی ۱۹۸۶ء کو لکھا، یوں بیان کرتے ہیں:

بیروت کی امریکی یونی ورسٹی سے گریجویشن کے بعد میں نے فلسطین میں ’عرب کوآپریٹو سوسائٹیز‘ میں رجسٹرار، اور پھر گلیلی کے صوبے میں انتظامی افسر کی حیثیت سے کام کیا۔ جب جیش الانقلابی قائم کی گئی، تب میں شمالی خطے میں انتظامی گورنر کی حیثیت سے کام کررہا تھا، جو اس وقت تک دشمنوں کے ہاتھوں سے محفوظ تھے۔

اسی دوران مزید پڑھائی کے لیے امریکا چلا گیا۔ مغربی فلسفے میں ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد میں اسلامی علوم کے ورثے سے دُوری اور اپنی جاہلیت کی کیفیت سے آگاہ ہوا۔ چنانچہ واپسی پر الازہر یونی ورسٹی میں نئے سرے سے سیکھنے کے لیے داخلہ لیا۔ لیکن  یہ بہت ہی خصوصی تیز تر پروگرام تھے، گویا کہ ان تین برسوں پر پھیلا وقت، جو الازہر کے کیمپس میں گزار رہا تھا، اس میں ایک مزید ڈاکٹریٹ کر رہا تھا۔ اس کے بعد مختلف یونی ورسٹیوں میں مطالعہ اسلامی میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمت کی۔ اسی دوران امریکا میں طلبہ کی اسلامی تحریک  [یعنی MSA]سے وابستگی نے مجھے وہ سوچ عطا کی، جس کا مقصد امریکا میں مسلمان نوجوانوں کے اخلاق و کردار کی تربیت اور ان کے اسلامی تصورات کو مزید گہرا کرنے کے ساتھ اسلامی فکر کی ترویج اور اس کا فروغ تھا۔ یہی ہے وہ سرگرمی ،جس میں، الحمدللہ آج تک مصروفِ عمل ہوں۔

اطالوی نژاد امریکی پروفیسر ڈاکٹر جان ایل ایسپوزیٹو [پ:۱۹۴۰ء] جو اسماعیل راجی الفاروقی کے براہِ راست شاگرد بھی رہے، وہ الفاروقی کی زندگی کے اس پہلو کو یوں بیان کرتے ہیں:

وہ ایک مرکز کے گرد متحرک، تخلیقی مفکر، مقابلہ کرنے والے دل آویز فرد اور میدانِ کار میں لگن سے کام کرنے والے انسان تھے۔ اسلام اور اسلام کی تعلیمات کا جوہر ان کے عقیدے، پیشے اور صلاحیت میں رَچ بس گیا تھا۔ ان کی زندگی کو اختصار سے بیان کرنا اور اس کا تجزیہ کرنا ایک مشکل کام ہے۔ محتاط لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق مطلوب مسلمان وہ ہے، جو سرتسلیم خم کرکے اللہ کی رضا کے حصول کے لیے زندگی بھر جدوجہد کرے۔ اسماعیل الفاروقی واقعی ایک مجاہد تھے۔

پروفیسر اسپوزیٹو کے گراں قدر الفاظ میں صرف یہ اضافہ کروں گا:

اسماعیل راجی الفاروقی نے اپنی علمی زندگی کا آغاز ایک مسلمان عرب قوم پرست کی حیثیت سے کیا، الحمدللہ، آخرکار وہ ایک اسلامی داعی کی حیثیت میں دُنیا سے رخصت ہوئے۔وہ ایک ثابت قدم مجاہد کے طور پر زندہ رہے اور اسی مشن سے وابستگی کی وجہ سے شہادت پائی۔

تریپولی میں ملاقات کے بعد ہمارا ایک دوسرے کے ساتھ سرگرم رابطہ ۲۷مئی ۱۹۸۶ء کی اس رات تک رہا کہ جب وہ اور ان کی اہلیہ امریکی ریاست پنسلوینیا کے شہروینکوٹ میں ایک قاتل کی خنجرزنی کے زخموں کی تاب نہ لاکر ربّ کے حضور پیش ہو گئے۔

میں دی اسلامک فائونڈیشن، لیسٹر اور ’اسلامک کونسل آف یورپ‘ میں سرگرم تھا۔ انھوں نے اسلامی دعوت کی اساس اور حرکیات پر کانفرنسوں اور سیمی ناروں کے ایک سلسلے کی نہ صرف کامیاب منصوبہ بندی کی، بلکہ اس کی تنظیم میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اسی سلسلے کے توسیعی منصوبۂ عمل کے تحت: اسلام میں بنیادی حقوق کے اعلامیے کی تیاری، ایک مثالی اسلامی دستور کے بنیادی خدوخال اور اسلام اور مسئلۂ فلسطین کی وضاحت کے باب میں گراں قدر حصہ ڈالا۔

عیسائی مسلم مکالمے کے لیے کوششیں

جون ۱۹۷۶ء سے عیسائی مشن کی تنظیمChambesy Dialogue Consultation  اور اسلامی دعوۃ کے موضوع پر ہم نے ایک ساتھ کام کیا۔’ورلڈ کانگریس آف چرچز‘ (WCC) جنیوا ،  دی اسلامک فائونڈیشن لسٹر(برطانیہ) اور ’مطالعہ برائے اسلام اور عیسائی مسلم تعلقات‘ سیلیوک کالج برمنگھم (برطانیہ) نے اس منصوبے پر مشترکہ کاوش کی تھی۔ اس مشاورت کا مَیں شریک چیئرمین تھا۔ اسماعیل الفاروقی اس تاریخی مشاورت میں ایک محور کی حیثیت رکھتے تھے۔ عیسائی اخلاقیات پر اسماعیل الفاروقی  کی کتابChristian Ethics کو عیسائی اسکالروں نے ’’ایک متاثر کن شاہکار قرار دیا‘‘۔

اس مشاورت کا حتمی اعلامیہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہ اعلامیہ ایک صاحب ِ فکروعمل مسلمان کی سوچ کا مظہر تھا، جسے زیادہ تر الفاروقی ہی نے لکھا تھا اور جس کو حتمی اعلامیے کی بنیاد کے طور پر دونوں مذاہب کے علما نے قبول کیا تھا۔ ’مسلم ،عیسائی مکالمے‘ کی عالمی تحریک میں یہ پہلا ٹھوس قدم تھا کہ جس میں مسلمانوں کا نقطۂ نظر اتنے مؤثر طریقے سے اور کسی عصبیت کے بغیر اور حقیقت پسندانہ انداز میں اتنے بڑے فورم پر پیش کیا گیا تھا۔ اس دستاویز کو دی اسلامک فائونڈیشن لسٹر نے ۱۹۸۲ء میں شائع بھی کیا تھا۔

افسوس کہ اس تاریخی دستاویز کو مستقبل کے ’مسلم، عیسائی مکالمات‘ کی بنیاد نہیں بنایا جاسکا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دونوں مذاہب کی برادریوں کی توجہ اصل مسائل اور تشویش کے اُمور سے ہٹ گئی، اور پوری قوت محض بے جان مذہبی لفاظی، بے معنی تواضع اور نمائشی خوش خلقی کی طرف مڑگئی۔ الفاروقی بھائی نے بڑی جرأت سے مشاورت میں اپنا نقطۂ نظر ان الفاظ میں بیان کیا تھا:

یہ درست ہے کہ نوآبادیاتی نظام اور توسیع پسندانہ ذہنیت ایک منفی قوت ہے۔ اس مشاورت میں ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اپنی طاقت کے دائروں کے اندر بات کرنے کے وہ طریقے اور ذرائع دریافت کریں، اور یہ دیکھیں کہ ہم کیا حکمت عملی اختیار کرسکتے ہیں؟ میں ذاتی طور پر اس شخص کے ساتھ بحث کرنے کو تیار نہیں ہوں، جو یہ دلیل دیتا ہے کہ ’آج کل انڈونیشیا میں کوئی نوآبادتی جبر نہیں ہے‘۔ میں یہاں پر اپنی اس تشویش کا برملا اظہار کرتا ہوں کہ انڈونیشیا میں عیسائی مشنری تحریک اور نوآبادتی جبر کے درمیان گہرے رابطے موجود ہیں۔ اگر آپ کو یہ منظر دکھائی نہیں دیتا کہ تنزانیا اور انڈونیشیا میں سامراجی طاقتیں عیسائیوں کو کس انداز سے استعمال کر رہی ہیں تو پھر ہمیں مکالمہ جاری رکھنے کی کوئی ٹھوس بنیاد اور ضرورت دکھائی نہیں دیتی ہے۔

ڈاکٹر اسماعیل الفاروقی نے مزید کہا:

عیسائی مبلغین کے طرزِعمل کا ضابطہ تیار کرنا پہلی چیز نہیں ہے کہ جس پر ہمیں تشویش ہو، یہ دوسرے مرحلے کا تقاضا ہے۔ پہلا مرحلہ لازمی طور پر باہمی اعتماد کا فہم ہے۔ یہ بات عیسائی مبلغین سے، جو مسلمانوں کے مقابلے میں تبلیغی سرگرمیوں میں بہت آگے رہے ہیں اور جن کی مشنری سرگرمیوں کی تاریخ گذشتہ کئی عشروں کے دوران ایسے واقعات و حادثات سے بھری پڑی ہے، کہ وہ مسلمانوں کی نظروں میں شکوک پیدا کرتی ہیں۔ اس تاریخ کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں۔ پھر اس عزم کا بھی اظہار کریں کہ اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے آیندہ مثبت قدم اُٹھایا جائے گا۔ یہ کام مسلمانوں کے ساتھ تعاون کے اصول و ضوابط مرتب کرنے اور طریق کار کی تیاری کے لیے مل بیٹھنے سے قبل ہونا چاہیے۔

یہ پہلا موقع تھا کہ بین المذاہب کانفرنسوں کے اس حتمی بیان میں مسلمانوں کی تشویش کو واضح الفاظ میں یوں منظور کیا گیا تھا:

  • کانفرنس، عیسائیوں اور مسلمانوں کے اس حق کو تسلیم کرتی ہے کہ وہ اپنی زندگیوں کے نظام کو اپنے مذہبی اصولوں اور قوانین کے مطابق تشکیل دیں، اور تمام ضروری اداروں کو مذہبی اصولوں اور قوانین کے مطابق برابر کے شہریوں کی حیثیت سے قائم اور برقرار رکھیں۔
  • عیسائی شرکا اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ان اخلاقی غلطیوں کے حوالے سے پوری ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں، جن کی وجہ سے نوآبادیاتی طاقتوں اور ان کے ہمراہیوں کے ہاتھوں [مسلم آبادیوں کو] مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کانفرنس پر یہ حقیقت واضح ہے کہ بداعتمادی اور خوف کی وجہ سے ’مسلم عیسائی تعلقات‘ متاثر ہوئے ہیں۔ مشترکہ اچھائی کے لیے باہمی تعاون کرنے کے بجائے مسلمان اور عیسائی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا اور ایک دوسرے سے بیگانہ ہی رہے ہیں۔
  • نوآبادیاتی نظام کے ایک صدی سے زیادہ عرصے کے بعد بھی متعدد عیسائی مشنری، نوآبادیاتی طاقتوں کے مفادات کے لیے جان بوجھ کر یا غیرشعوری طور پر کام کرتے رہے ہیں، اور مسلمانوں کے ساتھ تعاون کرنے میں بے دلی محسوس کرتے رہے ہیں، اور انھیں ظالموں کا ایجنٹ تصور کرتے ہوئے ان سے لڑتے رہے ہیں۔ اگرچہ اب اس تعلق میں یقینی طور پرکچھ تبدیلی کا آغاز ہوا ہے۔ تاہم، مسلمان اس کے باوجود کوئی بھی قدم اُٹھانے سے اس لیے گریزاں ہیں کہ عیسائیوں کی نیت پر ان کو شک ہے۔ اس کی وجہ یہ ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ آج کے عیسائی مشنریوں کی متعدد سرگرمیاں مخصوص مفادات کے لیے عمل میں لائی جاتی ہیں۔
  • اس ضمن میں مسلمانوں کی بے خبری، مسلمانوں کی تعلیم، صحت، ثقافتی اور معاشرتی خدمات، مسلمانوں کی سیاسی پریشانیوں اور بحرانوں، ان کے معاشی انحصار، سیاسی تقسیم اور عمومی ضعف کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے، ان [مسیحی]مبلغین نے مذہب کی تبدیلی میں وسعت لانے اور عیسائیوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ دوسرے مقاصد کے لیے کام کیا۔ حال ہی میں بعض بڑی طاقتوں کے خفیہ اداروں سے ان کے خدمتی تعلق کے انکشاف نے ان خدشات کی تصدیق کرکے موجودہ خراب صورت حال کو مزید خراب کردیا ہے۔
  • کانفرنس کے مسیحی ارکان، عیسائیت کے نام پر ہر ایسی خدمت سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں، جس نے اللہ اور ہمسائے سے محبت کے سوا کوئی اور مقصد اختیار کرکے اس کے مقصد کی اہمیت کو کم کردیا۔ وہ اعلان کرتے ہیں کہ ایسی کوئی بھی خدمت جو کسی مذموم مقصد کے لیے کی جائے، وہ پراپیگنڈے کا ہتھیار ہے اور خدا اور ہمسائے سے محبت نہیں ہے۔ انھوں نے اتفاق کیا کہ وہ اپنی پوری طاقت اور ان کے اختیار میں جو بھی ذرائع ہوں گے، انھیں استعمال کرتے ہوئے عیسائی گرجاگھروں اور مذہبی تنظیموں کو اس صورت حال سے مناسب طور پر آگاہ کریں گے۔ کانفرنس بڑے دکھ کے ساتھ عیسائی مشن کے بارے میں مسلمانوں کے ان رویوں سے آگاہی حاصل کرتے ہوئے، جو خدمت کے غلط استعمال سے متاثر ہوئے، عیسائی گرجاگھروں اور مذہبی تنظیموں پر زور دیتی ہے کہ وہ مسلم دُنیا میں ایسی مذموم خدمات کو معطل کردیں۔
  • یہ بنیادی اقدام مسلم عیسائی تعلقات کی فضا کو سازگار بنانے اور باہم تعاون کے فروغ میں اضافے کے لیے بنیادی کردار ادا کرے گا۔ کانفرنس واضح الفاظ میں زور دیتی ہے کہ گرجا گھروں اور مذہبی تنظیموں کی جانب سے عطاکردہ امدادی مال و اسباب کو، ان ممالک کی مقامی آبادی کے لوگوں کے تعاون کے ذریعے تقسیم کیا جائے، کہ جہاں یہ امداد دینے کا ارادہ ہو اور اس طرح متعلقہ لوگوں کی عزت ، وقار اور تشخص کا احترام کیا جائے۔

علمی و فکری خدمات

اس مشاورت میں مسلمان مندوبین نے بڑی لگن کے ساتھ اپنا کردار ادا کیا، لیکن جناب اسماعیل الفاروقی کی خدمات فیصلہ کن تھیں۔ الفاروقی نے ۲۵ کتابیں تصنیف کیں، اور ایک سو سے زیادہ تحقیقی مقالات لکھے۔ لیکن میری نظر میں ان کا ممتاز ترین اور ہمیشہ زندہ رہنے والا کارنامہ  ان کی تین کتب ہیں:

  • Tawhid: Its Implications for Thought and Life [توحید، نظریہ اور زندگی کے لیے اس کی دلالت ] (انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ ورجینیا، یوایس اے ۱۹۸۲ء/
  • The Cultural Atlas of Islam [اسلام کا ثقافتی نقشۂ جہان]، لویس لمیاء الفاروقی کے ساتھ (میک ملن، نیویارک ۱۹۸۶ء)/
  • Islam and The Problem of Israel [اسلام اور اسرائیل کا مسئلہ] (اسلامک کونسل آف یورپ، لندن، ۱۹۸۰ء) ۔

برادرم الفاروقی شہید، اسلامی روح کا لب ِ لباب چند الفاظ میں اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’اس میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا کہ اسلامی تہذیب کا جوہر اسلام ہے، اور اسلام کی روح التوحید ہے۔ یہ التوحید ہی ہے جو اسلامی تہذیب کو اس کی ثقافت دیتی ہے‘‘۔ (التوحید،ص ۱۷)

اسماعیل الفاروقی کے ہاں اسلام کا تصور، ایک مکمل ضابطۂ حیات کے طور پر ہی ہے، جو آئینے کی طرح صاف دکھائی دیتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’اسلام، دنیا میں زندگی گزارنے کا طریقہ ہے۔ اسلام کا اس کے سوا کوئی دوسرا مقصد نہیں ہے کہ زندگی اللہ کی مرضی کے تحت، اپنے اور معاشرے کے ساتھ احساسِ ذمہ داری کے ساتھ گزاری جائے‘‘۔

اسلامی تاریخ اور اسلامی قانون کے کردار پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اسماعیل الفاروقی لکھتے ہیں: ’’انھوں نے مسلم دنیا کو ادارے، اخلاق، طرزِزندگی اور کلچر دیا۔ انھوں نے تمام نسلوں اور ثقافتوں کے مسلمانوں کو ایک ہی نظریے کے تحت تعلیم دی اور ایک ہی نصب العین کے تحت ایک برتر قوت میں باہم جوڑ دیا۔ اسلامی قوانین کی بنیادی قوت نے کامیابی کے ساتھ اتحاد کو فروغ دیا اور تفریق کے ان تمام خطرات کو روک دیا، جن میں مسلم تاریخ کی چودھویں صدی میں غیرملکی طاقتوں کی فتوحات بھی شامل ہیں۔ یہ بجا ہے کہ شریعت یا اسلامی قانون دونوں ہی دنیا بھر میں مسلمانوں کے اتحاد میں ہراول دستے اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی ہے وہ حقیقت، جو اُمت مسلمہ کو عالم گیر اخوت بنادیتی ہے‘‘۔

برادرم الفاروقی کے ہاں اُمت کا نصب العین بڑا واضح ہے: ’’ظاہری طور پر اُمت کی نشوونما کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے۔ اس کا وجود اللہ تعالیٰ کی مرضی کے اظہار کا ذریعہ ہے، جس کا مقصد  اس اُمت کے ذریعے زمان و مکان کی حقیقت کی تلاش ہے اور دُنیا کے سامنے اس حقیقت کا اظہار ہے، جو اللہ تعالیٰ کی حتمی وحی کی بنیاد، اس کی مرضی کے ذریعے اس نکتے کی تشکیل کرتی ہے، اور جہاں خدائی کائنات رضائے الٰہی کے اظہار کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ جیساکہ قرآن میں اُمت مسلمہ کے وجود کا مقصد بیان کیا گیا ہے: ’’تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو‘‘۔

برادرم الفاروقی، اسلام کے اداراتی کردار اور اسلام کے مستقبل کی وضاحت کرتے ہیں:

اسلام وہ واحد مذہب ہے ، جس نے زیادہ تر مذاہب کا مقابلہ انھی کے مضبوط مراکز اور ماحول میں کیا، خواہ یہ مقابلہ افکار و خیالات کے میدان میں تھا یا تاریخ کے میدانِ جنگ میں۔ اسی طرح اسلام ان تمام معرکوں میں شریک رہا، خواہ وہ روحانی تھے یا سیاسی۔ یوں اسلام نے اپنے نظام کو مکمل کیا ، اور یہ آج بھی تمام محاذوں پر بڑی مضبوطی کے ساتھ معرکہ آرا ہے۔ مزیدبرآں اسلام وہ واحد مذہب ہے، جس نے یہودیت، عیسائیت، ہندومت اور بدھ مت کے ساتھ بین المذہبی اور بین الاقوامی آویزش کے تمام معرکوں میں بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کی، جو ان مذاہب کے ساتھ برپا ہوئے۔

یہ واحد مذہب ہے، جس نے دنیابھر میں مغربی نوآبادیاتی نظام اور سامراجیت کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی تمام کوششوں کو جھونک دیا، جس کے نتیجے میں یہ نوآبادیاتی نظام ٹکڑے ٹکڑے ہوا۔اسلام آج بھی فکری سطح پر ترقی کر رہا ہے اور دعوت وتبلیغ کے ذریعے سے پھیل رہا ہے، اور کسی بھی دوسرے مذہب کے مقابلے میں اس میں شامل ہونے والوں کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ اس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ یہی وہ مذہب ہے، جس کے دشمنوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے۔ اسی طرح یہی وہ مذہب ہے جس کو سب سے زیادہ غلط سمجھا گیا ہے۔

اسماعیل الفاروقی نے دسمبر ۱۹۸۱ء میں کوالالمپور میں منعقدہ ۱۵ویں صدی ہجری کانفرنس میں اپنے مقالے Dawah in the West: Promise and Trial میں یہ پُرجوش اپیل کی:

آج ہجری صدی کو منانے کا مقصد، درحقیقت انسانیت کو اس تہذیب کی طرف متوجہ کرنا ہے، جو فطرت سے بغاوت کے نتیجے میں خوار و زبوں ہے۔ چودہ سوسال قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کے لیے سب سے زیادہ موزوں اور ایک صحت بخش  عالمی نظام (World Order) عطا کیا۔ آج تڑپتی انسانیت کو اس الٰہی نظامِ جہاں سے زیادہ کسی دوسری چیز کی ضرورت نہیں ہے....  مسلمان بھائی پہلے اس کو قائم کریں اور اس کے بعد انسانیت سے اپیل کریں کہ وہ ان کی صفوں میں شامل ہوجائیں، تاکہ امن اور انصاف، تقویٰ اور نیکی کے نئے عالمی نظام کے لیے جدوجہد ثمربار ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ، دلیل اور مثال کے ساتھ عمل کا حکم دیتا ہے۔ ہم سب اس ربِ ذوالجلال کی وحی کے قابل خود کو ثابت کیوں نہیں کرسکتے؟

برادرم اسماعیل الفاروقی مستقبل بین اور مستقبل ساز سوچ کے مالک تھے۔ وہ کسی پُرسکون لائبریری کے اسکالر نہیں تھے۔ اپنی زندگی کے آخری دو عشروں میں وہ جس تبدیلی کے خواہش مند تھے، اس کا انھیں پورا شعور تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلم دُنیا کو خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے  متحرک رہے۔ اُمت کے پاس موجودہ تمام وسائل، خاص طور پر نوجوانوں کو بروئے کار لانے کے لیے اور اسلامی نظامِ جہاں کے قیام کے لیے وہ شب و روز اور مسلسل جدوجہد میں مصروف رہے۔  وہ مسلمانوں کی ان قومی، سیاسی قیادتوں کے بھی نقاد تھے، جنھوں نے اس کردار اور ذمہ داری کی ادائی سے مجرمانہ حد تک پہلوتہی برتی تھی، وہ بنیادی ذمہ داری کہ جو دین اور تاریخ نے ان پر ڈالی تھی۔ الفاروقی نے بڑے واضح الفاظ میں بیان کیا:

عالم اسلام کی قومی حکومتوں نے (جو خواہ دستوری بادشاہتیں ہوں، جمہوری یا فوجی آمرانہ حکومتیں ہوں) جتنی بھی حالیہ زمانے میں اصلاحات کی ہیں، وہ زیادہ تر ریت پر تعمیر کی گئی ہیں۔ مسلم دُنیا میں ’جدیدیت‘ اس لیے ناکام ہوگئی کہ یہ مغرب زدہ تھی اور جو مسلمانوں کو ان کے ماضی سے الگ کررہی تھی، اور ہم وطن مسلمانوں کو مغربی انسان کی بگڑی ہوئی صورت (caricature) میں ڈھالنا چاہتی تھی۔

اُمت مسلمہ کی موجودہ صورت حال سے نکلنے کے لیے ان کا نسخہ بڑا سادہ اور تیربہدف ہے۔ انھوں نے مکمل تبدیلی پر زور دیا، لیکن اس طریق کار کی کلید ان کے نزدیک دعوت، تعلیم اور اس میں بھی زیادہ اہم کام علم (knowledge)کو اسلامی رنگ میں رنگنا ہے:

اسلام کی عالمی اُمت اس قوت سے دوبارہ نہیں اُٹھ پائے گی، یا اُمت ِ وسط نہیں بنے گی جب تک وہ ا پنے مقصد ِ زندگی، اس کے کردار، اس کی تقدیر، یعنی اسلام پر عمل نہیں کرے گی۔ یہ اُمت صرف اللہ کا خلیفہ بن کر اور اسلام کے صحیح تصور کے ساتھ وابستگی ہی سے گردوپیش میں پھیلے ہوئے چیلنج کا جواب دے سکتی ہے۔

برادرم اسماعیل الفاروقی نے جس لائحہ عمل کی نشان دہی کی ہے، اس کے اہم اجزائے ترکیبی میں تعلیم کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنا، کردار سازی کی طرف متوجہ ہونا، خاندان کی حفاظت کرنا، معیشت کی مضبوطی و خودانحصاری، معاشرے اور طرزِحکومت کے اداروں کی شریعت کے اصولوں اور تعلیمات کے مطابق اصلاح اور تعمیر کرنا شامل ہے۔ اسی طرح ہرسطح پر دعوتِ حق اس مشن کے لیے لازمی طاقت، روحانی زندگی کا حصول، اخلاقیات کی قوت، مادی وسائل کے تمام ذرائع کا استعمال اور ان کی نشوونما میں تیزی لانا شامل ہے۔

چونکہ اس تبدیلی کے لیے انھوں نے خود جدوجہد کی ہے، اسی لیے ان کا لائحہ عمل ہمہ پہلو ہے، جیساکہ انھوں نے توحید: نظریہ اور زندگی کے لیے اس کی دلالت  میں بیان کیا ہے۔   وہ اپنی زندگی کے آخری چند برسوں میں شعوری انقلاب کے لیے خاص طور پر یکسو اور وقف تھے۔ ایسا شعوری انقلاب جو مکمل تبدیلی کے لیے عمل کی قوت سے سرشاری عطا کرتا ہے۔ اس ضرورت کا احساس بیدار کرنے کے لیے انھوں نے مسلم دنیا کے تمام دانش وروں سے دل سوز اپیل کی تھی، جو ان کی شہادت کے بعد امریکن جرنل آف اسلامک سوشل سائنسز (AJISS)میں شائع ہوئی:

ہمارے سامنے انتہائی اہم کام ایک ہے اور وہ یہ کہ ہم کب تک اپنے آپ کو روٹی کے  ان چند ٹکڑوں پر راضی اور مطمئن رکھیںگے، جو مغرب ہماری طرف پھینک رہا ہے۔  آج یہی وقت ہے کہ ہم اپنا اصل کردار سمجھیں اور اسے ادا کریں۔ صحت مند اور عادل معاشرے کی تشکیل کے ماہرین کی حیثیت سے ہمیں اپنی ترتیب اور تربیت کا جائزہ لینا اور اُسے قرآن اور سنت کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ ہمارے اجداد نے تاریخ، قانون اور ثقافت میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ مغرب نے اس ورثے کو ہم سے عاریتاً لیا اور اس کو سیکولر قالب میں ڈھال دیا۔ کیا اس کے لیے کچھ کہنے کی ضرورت ہے کہ ہم آگے بڑھ کر اس کو حاصل کریں اور پھر اسی طرح اس کو اسلامی بنادیں؟

مختصر ترین الفاظ میں برادرم اسماعیل راجی الفاروقی کی یہی وصیت ہے۔ میں دعا اور اُمید کرتا ہوں کہ مسلم دانش ور، ان کی پیشہ ورانہ تنظیمیں اور عام طور پر اسلامی تحریکیں، وقت کی اس فوری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے لازماً پہل کریں گی۔


(انگریزی سے ترجمہ: عارف الحق عارف / سلیم منصور خالد)

انسانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو دو کردار واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں :

  • ایک وہ لوگ جو موجود حالات پر مطمئن رہتے ہیں اور وقت کے دھارے کے ساتھ ہی چلتے ہیں۔ اس طرح انھی افراد کے خیالات، نمونے اور طرزِعمل کو اختیار کرتے ہیں، جو اس راستے کی ترغیب دیتے اور اس کے فروغ کے لیے کام کرتے ہیں۔
  • دوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے، جو موجود حالات کو چیلنج کرتے ہیں اور غالب خیالات اور روّیوں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں ، ان کی جگہ متبادل خیالات پیش کرتے اور روشن راستے تلاش کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ اس طرح وہ مثبت تبدیلی کے نقیب بن جاتے ہیں۔

ممکن ہے کہ مؤخرالذکر افراد، تعداد میں کم، بظاہر غیرمؤثر اور بے اختیار ہوں، بلکہ ان کو ایذا رسانی کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہو، لیکن بالآخر یہی وہ لوگ ہوتے ہیں، جو مستقبل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے، اور تہذیبی تبدیلی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ایسی تبدیلی کہ جس سے انسانی خیالات، معاشرے، ثقافت اور تاریخ کی صحت مند صورت گری ہوتی ہے۔

برادرم اسماعیل راجی الفاروقی، اس دوسرے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں اسلامی فکرودانش کے آسمان پر جلوہ افروز ہوئے۔ نوجوانی ہی میں انھوں نے اسلامی علوم میں اعلیٰ فراست رکھنے والے ایک دانش ور اور بلندپایہ عالم کی حیثیت سے اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ ایسے بلندمرتبت فاضل تھے، جو ایک طرف اسلامی فکر، تہذیب اور ثقافت کے قدیم اور جدید مستند مآخذ سے واقف تھے۔ اس کے پہلو بہ پہلو انھوں نے خداداد صلاحیت کے بل پر مغربی فلسفے، معاشرتی علوم کی ترتیب، تقابل مذاہب اور تاریخ کے میدان میں گہری تجزیاتی بصیرت بھی حاصل کی تھی۔ یہ چیز فی الحقیقت ایک نادر خوبی ہے۔

اسماعیل فاروقی زبان و بیان پر مضبوط گرفت رکھنے، جذبات کے غلبے سے آزاد اور  متحمل و منصف مزاج مقرر تھے۔ وہ ایسے مؤثر نثرنگار تھے، جنھوں نے اپنے نتائجِ فکر اور خیالات سے بڑی وضاحت اور مضبوط استدلال کے ساتھ عہدِحاضر کی فکرودانش کو مخاطب کیا۔ ان کی تقریروں اور تحریروں نے علمی پختگی، سائنسی اپروچ، معقولیت پسندی، ادبی چاشنی اور ہوش مندی سے آراستہ جوش و جذبے کے بل پر نوجوانوں اور حق کی متلاشی دو نسلوں کو متاثر کیا۔ انھوں نے ایک علمی شخصیت، ایک شفیق استاد، ایک راست فکر مفکر اور ایک مستقبل بین مبلغ کی حیثیت سے اپنے اعلیٰ فکروفن کا لوہا منوایا۔ الفاروقی کی جامع علمی خدمات کو دیکھتے ہوئے میں انھیں امریکا اور یورپ میں اسلامی احیا کا معمار سمجھتا ہوں۔ اس امتیازی حیثیت اور رہنمائی کے منصب تک پہنچنے کے لیے انھیں ایک بڑا طویل سفر کرنا پڑا۔

اسماعیل راجی الفاروقی، یکم جنوری ۱۹۲۱ء کو فلسطین کے تاریخی اور ثقافتی شہر جافا کے ایک علم دوست گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے خاندان کے گہوارے میں حاصل کی۔ ان کے والد گرامی فلسطین میں ایک قابلِ احترام شخصیت اور عالم فاضل قاضی تھے۔ الفاروقی کی شخصیت پر والدصاحب کی عظمت نے پہلا اور گہرا تاثر قائم کیا۔ ان کی شخصیت کی تعمیر میں اسلامی تربیت کے روایتی دانش کدوں، یعنی مسجد اور مدرسے نے نوجوانی میں اسلامی اقدار سے اُن کی وابستگی پختہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی دُنیوی تعلیم کا آغاز ایک فرانسیسی کیتھولک تعلیمی ادارے ’کالج ڈیسس الفریر [تاسیس: ۱۸۸۲ء] سے ہوا، جب کہ اعلیٰ تعلیم امریکن یونی ورسٹی بیروت [تاسیس: ۱۸۶۶ء]، اور پھر امریکا کی انڈیانا یونی ورسٹی [تاسیس: ۱۸۲۰ء] اور ہارورڈ یونی ورسٹی [تاسیس: ۱۶۳۶ء] سے تکمیل کو پہنچی۔

الفاروقی نے علومِ اسلامیہ کی تعلیم الازہر یونی ورسٹی قاہرہ [تاسیس:۹۷۲ء]سے بھی حاصل کی۔ بعدازاں میکگل یونی ورسٹی، مانٹریال [تاسیس: ۱۸۲۱ء] کی علومِ الٰہیات فیکلٹی میں عیسائیت اور یہودیت پر ایک ریسرچ فیلو کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اس طرح انھوں نے دونوں طرح کے نظام ہائے تعلیم (مغربی اور اسلامی) سے یکساں طور پر استفادہ کیا۔ فلسفہ، مذاہب اور تاریخ کا تقابلی موازنہ اور اسلامی علوم میں تحقیق، ان کی زندگی کا مقصد اور ان کی مہارت کے شعبے بن گئے۔ امریکا میں انھوں نے ۶۴-۱۹۶۳ء تک شکاگو یونی ورسٹی میں، ۱۹۶۴-۱۹۶۸ء کے دوران سایراکیوز یونی ورسٹی اور آخر میں [۱۹۶۸-۱۹۸۶ء] ٹیمپل یونی ورسٹی فلاڈلفیا میں بطور استاد خدمات انجام دیں۔

اسماعیل الفاروقی نے فلسفہ اور تقابل مذاہب اور تاریخ کے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم و تربیت حاصل کرکے انسانی افکار سے آگہی اور ثقافت کے مطالعے کو یہ سمت عطا کرنے کی کوشش کی کہ، اسلام کے اعلیٰ مقاصد، بہترین اقدار اور اصولوں کی روشنی میں ثقافتی تشکیل نو کی جانی چاہیے، تاکہ دنیا میں امن اور عدل کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس منزل کے حصول کے لیے انھوں نے نظامِ عالم (World Order) کو اسلامی تصور میں ڈھالنے کے لیے جدوجہد کی۔ عظیم مہم جوئی پر مبنی یہ کام انھوں نے ایک اسلامی اسکالر کی حیثیت سے کرنے کا بیڑا اُٹھایا اور پورے عزم سے وہ جانب ِ منزل رواں رہے۔

اسلامی احیا کے لیـے فکرمند

برادرم الفاروقی کے ساتھ میرا شعوری ربط و تعلق ۱۹۶۱ء میں اس وقت قائم ہوا، جب انھوں نے ایک نوجوان اسکالر اور ایک مہمان فیلو کے طور پر ڈاکٹر فضل الرحمٰن [م: ۲۶جولائی ۱۹۸۸ء] کے ساتھ ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، کراچی سے وابستگی اختیار کی۔

اسلامک آئیڈیالوجی کونسل کے قیام [۱۹۶۲ء] سے قبل پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی [م: ۲۳جنوری ۱۹۸۱ء] کی سربراہی میں اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، کراچی یہ خدمات انجام دے رہا تھا۔ قریشی صاحب کراچی یونی ورسٹی کے وائس چانسلر بھی تھے اور میں اس وقت وہاں معاشیات کی تدریس سے وابستہ تھا۔ ڈاکٹر قریشی ہی کی دعوت پر ہماری پہلی ملاقات ہوئی۔ پھر یہ رابطہ زندگی بھر شعوری تعاون، ذاتی دوستی بلکہ صحیح معنوں میں حقیقی برادرانہ رشتے میں ڈھل گیا۔ الحمدللہ، ۳۵  برس سے زیادہ عرصے تک پھیلا رہا۔

کراچی میں الفاروقی کا قیام ۱۹۶۱ء سے۱۹۶۳ء تک رہا۔ تب ہم تقریباً ہرہفتے ملاقات کرتے، جو اکثر ڈاکٹر فضل الرحمٰن صاحب کے ہاں ہوتی۔ ہم دونوں نے ڈاکٹر صاحب سے اپنے نقطۂ نظر میں اختلاف کے باوجود، مسلسل شعوری رابطے، باہمی اعتماد، احترام اور ہم نشینی میں یہ زمانہ بسر کیا۔  ڈاکٹر فضل الرحمٰن صاحب تو تیزی سے اس سمت میں رواں دواں رہے، جس کو مستشرقین ’اسلامی جدیدیت‘ کہتے ہیں۔ دوسری جانب اسماعیل الفاروقی معقولیت اور جدیدیت کے طاقت ور اثر میں سانس لینے کے باوجود، اسلامی احیا کے شان دار دور کی بازیافت کے لیے کوشاں نظر آتے تھے۔ یہ صاف دکھائی دیتا تھا کہ وہ خود کو دو دنیائوں کے درمیان بٹا ہوا پاتے ہیں۔

اس بات کو قدرے وضاحت کے ساتھ یوں پیش کیا جاسکتا ہے، کہ اسلام ہمارا مشترکہ بندھن ہے، مگر برسرِ زمین دیکھیں تو اُمت کا حال اور مستقبل: پریشانی، بدحالی اور انتشار کا عکس پیش کرتا ہے۔ اس لیے فطری سی بات تھی کہ عصرِحاضر میںمسلمانوں کی پریشان کن صورت حال کے مختلف مظاہر، علمی، سماجی، دفاعی، ثقافتی اور سیاسی پہلو ہمارے بحث مباحثوںکے مرکزی موضوعات ہوا کرتے تھے۔ اسماعیل الفاروقی اپنی تعمیر کے اس شعوری مرحلے میں اسلامی  مآخذ سے پختہ وابستگی کے باوجود وہ ’عربیت‘ (Arabism) اور ’مسلم جدیدیت‘ کی لہر کے زیراثر بھی تھے۔ ایک طرف اسلام کے ساتھ ان کی وفاداری ظاہر تھی، اور دوسری طرف اُمت مسلمہ کی حالت زار کا منظرنامہ انھیں تڑپاتا تھا۔ تاہم، وہ محض نوحہ خوانی کرنے اور پھر مایوسی کی چادر اُوڑھ کر سوجانے والوں میں سے نہ تھے، بلکہ مسلم ملت کے شعوری دیوالیہ پن اور روحانی تنزل کے اس کہرام کی تشخیص کے لیے فکرمند تھے۔ نوآبادیاتی طاقتوں کے غلبے، مغربی سوچ اور خیالات کے مقابلے میں قابلِ عمل متبادل پیش کرنے میں دل چسپی رکھتے تھے۔ وہ مسلم دانش وروں اور رہنمائوں کی ناکامی پر کڑھتے اور مضطرب رہتے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ ہماری یہ سماجی اور مکالماتی مجلسیں انھی موضوعات کے دائرے میں گھومتیں۔ ہم ان اُمور اور ان سے پیدا ہونے والی تشویش پر مدلل منطقی اسلوب میں اور بعض اوقات جذباتی انداز میں بھی بحث کرتے۔ الفاروقی، مسلم عرب پس منظر اور نوجوانی کے جوش و ولولے میں، اور مَیں تجدید ِاسلام کے ایک صورت گر اور آج کی نام نہاد اصطلاح میں ’بنیاد پرست‘ کے رُوپ میں اس مکالمے کا حصہ دار ہوتا تھا۔ الفاروقی کے ’عروبہ‘ کا تصور مغربی سیکولر قومیت سے مغلوب نہیں تھا۔ یہودیت اور عیسائیت کے مطالعے نے ان کو اسلامی سوچ کے ساتھ مربوط کردیا تھا۔ تاہم، محسوس ہوتا کہ بعض اوقات ’عرب ازم‘ کا حوالہ ان کے جذبات کو گرفت میں لے ہی لیتا تھا۔ ان پُرجوش بحثوں میں مجھے، جو ڈاکٹر فضل الرحمٰن صاحب اور الفاروقی بھائی سے عمر میںچھوٹا تھا، نہ صرف برداشت کیا جاتا بلکہ بعض مواقع پر بحث میں میرے رویّے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ فکری اختلاف نے ہمارے شعوری رابطوں کو کبھی ختم نہ ہونے دیا۔ یہاں تک کہ بحث مباحثے کا ٹکرائو بھی ہمارے دوستانہ اور نیازمندانہ تعلقات کو شاہراہ سے نہ اُتار سکا۔ ان فکری پنجہ آزمایوں نے درحقیقت ہماری دوستی کے بندھن کو مزید مضبوط بنایا، اور مختلف زاویۂ نظر رکھنے کے باوجود ہمیشہ مکالمہ جاری رکھنے کو خوشی خوشی قبول کیا کہ ہمارے درمیان زیربحث موضوعات پر بہت مشترک اور وسیع بنیادیں تھیں۔

کچھ عرصہ گزرا تو برادرم اسماعیل الفاروقی واپس کینیڈا چلے گئے۔ ڈاکٹرفضل الرحمٰن صاحب اسلام آباد منتقل ہوگئے اور جدیدیت کی طرف آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے۔ تقریباً ۱۰سال تک میرا اور الفاروقی کا آپس میں براہِ راست رابطہ نہ رہا۔ حتیٰ کہ ۱۹۷۳ء میں تریپولی (لیبیا) میں مسلم نوجوانوں کے بارے میں منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس کے موقعے پر اچانک ہماری ملاقات ہوگئی۔

واقعہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر محبت اور یگانگت کے جذبات میں بے قابو ہوگئے۔ میں دوسرے مندوبین کے ساتھ تریپولی کے اس ہوٹل کی راہداری اور استقبالیے کے درمیان کھڑا تھا، جہاں ہم نے ٹھیرنا تھا۔ اچانک مَیں نے دیکھا کہ برادرم اسماعیل الفاروقی میری طرف چلے آرہے ہیں اور مجھے دیکھ کر وہ خوشی سے بلندآواز میں پکار اُٹھے: ’برادر خورشید‘ اور پھر وہ بغل گیر ہونے کے لیے دوڑ پڑے۔ یہ ایک ایسا جذباتی لمحہ تھا کہ ہم دونوں کی آنکھیں آنسوئوں سے لبریز ہوگئیں۔ گرم جوشی اور خوشی کے اس بے ساختہ اور والہانہ اظہار نے راہداری میں موجود سبھی مندوبین کو بہت متاثر کیا۔ شیخ احمد صلاح جمجوم [م:۲۰۱۰ء] اس جذباتی مِلن سے اس قدر متاثر ہوئے کہ میں بعدازاں جب بھی ان سے ملا، انھوں نے ہمیشہ ’بھائی الفاروقی‘ کے الفاظ اور ’برادر خورشید‘ کو ان کے جذباتی لہجے کی ہوبہو نقل کرتے ہوئے دہرایا۔ وہ دن اور آج کا دن، یہ الفاظ میرے دل میں پیوست ہیں۔ یہ چیز ہمیشہ ایک خزانے کے طور پر میری یادداشتوں میں موجود رہے گی۔

یہ بھی یاد رہے کہ ہماری اس جذباتی ملاقات کے چند منٹ بعد قریبی مسجدسے مغرب کی اذان بلند ہوئی۔ خاص طور پر ہم میں سے ان لوگوں کی، جو یورپ اور امریکا سے آئے تھے، خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی، جنھوں نے دل کو پگھلا دینے اور نماز کی طرف دعوت دینے والی اس دل آویز آواز کو برسوں کے بعد سنا تھا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا کہ الفاروقی زاروقطار رو رہے ہیں۔ میری طرف دیکھتے ہوئے رندھی ہوئی آواز میں پکار اُٹھے: ’’اللہ کی قسم،اگر میں امریکا کا طویل سفر کرکے صرف یہی آواز سننے کے لیے آتا تو محسوس کرتا کہ مجھے اس مشقت کا بہت زیادہ پھل مل گیا ہے‘‘۔اس جملے کی ادائی، الفاظ کی ترتیب اور روحانی تڑپ نے اصل الفاروقی کے باطن کو ظاہر کردیا تھا۔ یہ تھی اسلام کے ساتھ ان کی گہری وابستگی اور اسلامی شعائر کے لیے ان کا جوش، ولولہ اور کشش۔ آنسوئوں کی برکھا میں ان کی آنکھیں روشنی اور خوشی سے دمک رہی تھیں۔ ان کا چہرہ روحانی مسرت سے جگمگا رہا تھا۔ اذان کا ہرلفظ ہمارے دلوں میں خوشبو اور زندگی کی طرح رَچ گیا تھا۔ کیسی یادگار تھی ہماری باہم ملاقات، اور اسی لمحے اذان کی اس پکار کا بلند ہونا، اللہ اکبر!

وہ چند دن جو تریپولی میں گزارے۔ انھوں نے ہمارے تعلق کو ایک نئی جہت عطا کی۔ اب ہم دونوں اسلامی احیا کے ایک ہی دھارے پر رواں دواں تھے۔ الفاروقی اُس مشکل دوراہے سے آگےنکل آئے تھے، اور اسلام کی وکالت میں ہم سے بھی آگے تھے۔ بعد کے برسوں میں ہمارا یہ قریبی تعلق ایک مشترک فکروعمل کی صراطِ مستقیم پر استوار تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں غلبۂ اسلام کی تاریخی جدوجہد میں حقیقی شراکت دار اور ایک دوسرے کا مددگار بنادیا تھا۔ الفاروقی کا جو شعوری، روحانی اور نظریاتی سفر ’مسلم عرب‘ کی حیثیت سے شروع ہوا تھا، اس نے انھیں تاریخی تبدیلی کے ذریعے ’اسلامی عرب‘ میں بدل دیا تھا۔ امریکا میں ان کے قیام کے زمانے اور مغرب میں پھیلے ہوئے اسلاموفوبیائی تلخ مباحثوں نے اس تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا تھا، الحمد للّٰہ علٰی ذٰلک۔ (جاری)

(  انگریزی سے ترجمہ: عارف الحق عارف /  سلیم منصور خالد)

وطنِ عزیز کے موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی حالات پر نظر ڈالیں تو سخت تشویش ناک منظر سامنے آتا ہے۔

۲۳ کروڑ آبادی کا ملک بے یقینی اور بداعتمادی کا شکار ہے۔ لاکھوں انسانوں کی کتنی عظیم قربانیوں کے بعد یہ وطن حاصل ہوا؟ یوں لگتا ہے کہ اس سوال کو پاکستان کی دوسری اور تیسری نسل کے ذہنوں سے کھرچ کر مٹا دیا گیا ہے۔ عوام بظاہر بے بس ہیں لیکن وہ اتنے بے گناہ بھی نہیں۔ آخری ذمہ داری بہرحال عوام کی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بگاڑ کو فروغ دینے میں ہرکسی نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اخبار، ٹیلی ویژن، سوشل میڈیا اور سماجی محفلوں میں بیٹھیں تو تعمیر کی بات خال خال ہوتی ہے، اور تخریب، جنگ و جدل اور انتقام در انتقام کا تذکرہ ہرچیز پر حاوی ہوجاتا ہے۔ اور ایوانِ حکومت و سیاست کسی مچھلی منڈی کا منظر پیش کررہا ہے۔ اہلِ اختیار نے قوم کو ایک ایسی اندھی سرنگ میں دھکیل دیا ہے، جس کے دوسرے سرے پر روشنی کی کوئی کرن بمشکل نظر آتی ہے۔

ہم نہایت اختصار کے ساتھ، قارئین کے سامنے چند معروضات پیش کر رہے ہیں:

  • کچھ بھی کہا جائے، پاکستان کے حالات کو بگاڑنے میں کلیدی کردار اُن مؤثر سیاست دانوں نے ادا کیا، جنھوں نے ملازمینِ ریاست (سول اور فوجی) کو اپنی حدود سے باہر نکل کر اقتدار کے کھیل کا کھلاڑی بننے کا نہ صرف موقع دیا، بلکہ اس میں شریک رہے۔ اگر ہماری سیاسی قیادت اپنے وقتی اقتدار اور ذاتی و گروہی مفاد کی سطح سے بلند ہوکر، قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں میں آئین سازی پر توجہ مرکوز رکھتی، اور صحیح جمہوری اصولوں کے مطابق ملک کی نظریاتی بنیادوں کو معاشی و سماجی عدل کی بنیاد پر مستحکم کرتی، اور نظامِ حکومت کو اچھی کارکردگی کے ساتھ چلاتی تو عوامی اقتدار کے ایوانوں اور راہداریوں میں غیرسیاسی عناصر کے ناجائز تجاوزات کا وہ ہنگامہ برپا نہ ہوتا، جس کے نتائج قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ مراد یہ ہے کہ پہلے تو ہماری سیاسی قیادت نے دستور سازی میں غفلت برتی اور بعد میں صدقِ دل سے دستور پر عمل نہ کرکے عملاً دستور کو تسلیم کرنے سے نہ صرف پہلوتہی برتی بلکہ اس سے کھلم کھلا انحراف کیا۔

پھر انھی سیاست دانوں نے آنے والے اَدوار میں، اقتدار اور سیاست کو اعلیٰ قومی و تہذیبی  مقاصد و اہداف کے حصول کا ذریعہ بنانے کے بجائے، محض حصولِ اقتدار، جلب ِ زر اور اپنے سماجی رُتبے کی بلندی کا ذریعہ بنایا۔ قومی و عالمی حالات سے واقفیت، علم و دانش میں وسعت اور مسائل و معاملات کو حل کرنے کی صلاحیت کو نچلی سطح سے بھی کم تر درجے کا مقام دیا گیا۔ اس طرح کی ناخواندہ اور اَن پڑھ سیاسی قیادت نے اپنے مقام و مرتبہ کو کچھ ملازمین کے ہاتھوں رہن رکھ دیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ سیاسی قیادتوں کا اپنی پارٹیوں میں آمریت مسلط کرنا، میرٹ کے بجائے اقرباپروری اور خوشامد کو اوّلیت دینا، مشاورت کی روح کچلنا اور اپنے مفادات کے لیے دن رات وفاداریاں تبدیل کرتے رہنا___ ان علّتوں نے اعتماد اور تعاون کے سرچشموں کو گدلا کر کے رکھ دیا۔

  • دوسری ذمہ داری ہماری اعلیٰ فوجی قیادت پرآتی ہے، جس نے جنرل محمد ایوب خاں کے زمانے سے اقتدار میں بالواسطہ اور پھر بلاواسطہ دراندازی اختیار کی۔ پھر رفتہ رفتہ سیاسی پارٹیوں، صحافیوں اور سول ملازمین میں اپنے اثر و رسوخ کو وسعت دی اور آخرکار اقتدار پر قابض ہوگئے۔ فوجی حکمران بظاہر تو چار اَدوار میں تقسیم ہیں، یعنی محمد ایوب خاں، آغا یحییٰ خان ، محمد ضیاء الحق، پرویز مشرف اور اقتدار شماری کے ۳۳برس___  مگر یہ گنتی حدرجہ غیرحقیقی ہے۔ حقائق کی دُنیا میں، براہِ راست اور بالواسطہ یہ اقتدار کم و بیش ۶۵برس پر پھیلا ہوا ہے۔ اس چیز نے ایک طرف وطن عزیز کی دفاعی صلاحیت کو نقصان پہنچایا۔ دوسری جانب خود قومی فوج نہ صرف بار بار متنازع بنی بلکہ سول میدان میں تعامل کے نتیجے میں کئی خرابیوں سے بھی دوچار ہوئی۔ اگرچہ اسی فوج نے وطن عزیز کے دفاع کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ بڑے پیمانے پر پیش کیا ہے، اور بے پناہ قربانیاں دی ہیں، جو ہماری تاریخ کا قابلِ فخر باب ہے۔ مگر سیاسی کھیل میں اس براہِ راست یا بالواسطہ شرکت نے مسلح افواج کے کردار کو گہنانے میں اپنا حصہ ادا کیا ہے۔ چونکہ یہ بات ایک روشن سچ ہے اس لیے ہر آمر اور اس کے ساتھیوں نے وقت گزرنے کے بعد اس مہم جوئی کی مذمت ضرور کی۔
  • تیسری ذمہ داری ہماری اعلیٰ عدلیہ پر آتی ہے۔ ہرچند کہ عدلیہ نے بہت قابلِ ذکر خدمات انجام دی ہیں، مگر ملک کو دستور، اصول اور قاعدے کی پٹڑی سے اُتارنے اور ماورائے دستور حکمرانی کی افزایش میں اعلیٰ عدلیہ سے ایسے اقدام بھی سرزد ہوئے ہیں، جن کے نتیجے میں دستور و قانون کی بالادستی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔اسی طرح عدالتی فعالیت نے عوام کی داد رسی کم اور بیان بازی کے کلچر کو زیادہ فروغ دیا ہے۔ یہ سب چیزیں ہمارے عدالتی نظام کو ضُعف پہنچانے کا سبب بنی ہیں۔
  • چوتھی ذمہ داری اہلِ صحافت اور اصحابِ دانش پر عائد ہوتی ہے۔ کسی قوم کا حدردرجہ قیمتی طبقہ اس کے اہلِ صحافت اور دانش وروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد ہماری صحافت، گروہی تقسیم کی اُن گھاٹیوں میں گم ہوئی کہ عوام کو مبالغہ آمیزی کی خوراکیں دی گئیں، تسلسل کے ساتھ جھوٹ سنایا گیا، اور سچ کو بڑی عیّاری سے چھپایا گیا۔ چند قابلِ احترام صحافت کاروں کو چھوڑ کر، ہماری قومی اور علاقائی صحافت، پاکستان میں سیاسی و قومی تخریب کا ذریعہ بنی۔

اہلِ دانش، درحقیقت کسی قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ اور اس کے مستقبل اور وقار کا تاج ہوتے ہیں۔ بلاشبہہ قدرتِ حق نے ہمیں دانش سے آراستہ افراد عطا کیے۔ لیکن المیہ یہ ہوا کہ پاکستان کے سادہ لوح شہریوں کو، جن میں تمام علاقوں کے لوگ شامل ہیں، انھی مؤثر دانش وروں نے لڑانے، نفرت کو بڑھاوا دینے اور تعمیر و ترقی کا راستہ روکنے میں وہ رویہ اختیار کیا، جس پر سوائے افسوس کے کیا کہا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فساد کی صورتِ حال میں وہ کوئی مؤثر قومی خدمت انجام نہ دے پائے۔

  • قومی تعمیر میں اساتذہ، بالخصوص اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اساتذہ کا کردار بڑا مرکزی ہوتاہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں یونی ورسٹی اساتذہ، قومی پالیسیوں کی تشکیل میں بہت قیمتی حصہ ڈالتے ہیں اور اس سے بڑھ کر وہ اپنے ہونہار شاگردوں کی صورت میں قوم کو ایسی ٹیم تیار کر کے دیتے ہیں، جو قدم قدم پر قوم کو رہنمائی دینے میں اہم حصہ ادا کرتی ہے۔مگر ہمارے اساتذہ کی اکثریت نے اپنے فرائض سے غفلت برتی۔ اسی لیے جب ہم اپنی اعلیٰ درس گاہوں کے احوال دیکھتے ہیں تو مایوسی ہوتی ہے۔ یہ درس گاہیں ڈگریوں کی افزائش میں تیز تر، لیکن اعلیٰ ذہن تخلیق کرنے میں سُست تر نظر آتی ہیں۔
  • چھٹی ذمہ داری سول ملازمین (بیوروکریسی) پر عائد ہوتی ہے، کہ ان میں بہت سے مؤثر ملازمین نے اقتدار پرست طبقوں کی ہوس پورا کرنے میں اُنھیں تحفظ دیا اور یوں قوم کو خوار کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ نوکر شاہی کے ان کارندوں نے فوجی اور سیاسی قیادت کو غیرقانونی افعال چھپانے کے گُر سکھائے۔ عوام سے غلاموں کا سا سلوک روا رکھا، اور زندگی کے معاملات مستعدی سے چلانے کے بجائے سُست روی کا رویہ اپنایا۔ یوں اپنے نوکر شاہانہ اقتدار کومستحکم کیا۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان چھے طبقوں کے نامناسب رویوں نے وہ صورتِ حال پیدا کردی ہے، جس سے ہم دن رات گزر رہے ہیں۔ اہلِ سیاست اور صاحب ِ اختیار گروہوں اور طبقوں کی نظر میں اگر کوئی سب سے زیادہ بے وزن چیز ہے تو وہ دستورِاسلامی جمہوریہ پاکستان اور پاکستانی عوام ہیں۔ انھیں اس چیز سے کچھ غرض نہیں کہ ان کی جنگ ِ اقتدار کے نتیجے میں ملک کا کتنا نقصان ہوتا ہے؟ انھیں کچھ فکر نہیں کہ ان کی ضد اور محض ہوس اقتدارکے نتیجے میں قوم کے مستقبل کی راہ میں کون کون سے ہمالہ کھڑے ہورہے ہیں؟ ہرگز نہیں! یہ تو بس یہ سمجھتے ہیں کہ ۲۳کروڑ عوام محض اُن کی غلامی کے لیے ان کو ورثے میں ملے ہوئے ہیں۔ انجامِ کار بدانتظامی، معاشی بے تدبیری ، قانونی شکنی اور نفرت آمیزی نے فساد کی آگ کو بھڑکا رکھا ہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ اس طرح کی صورتِ حال میں پاکستان امن و سکون اور تعمیروترقی کا گہوارہ بن سکے۔ ذرا سوچیے تو!

انسان کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ ماہ و سال کا سفر اسے آخرت کا سبق بھی بھلا دیتا ہے، لیکن نہایت قریبی ساتھیوں، اور خاص طور پر لڑکپن کے زمانے سے ہمدرد اور ہمہ دم دوستوں کی رحلت، بڑی شدت سے آخرت کی حقیقت یاد دلاتی ہے۔ برادرم محمدحاشرفاروقی کی جدائی (۱۱جنوری ۲۰۲۲ء) کے صدمے سے ابھی نہیں نکلا تھا کہ بھائی حسین خان کے انتقال کی خبر نے نڈھال کر دیا__ انا لِلّٰہِ  وانا الیہ رٰجعون

میری یادداشت کے سامنے وہ منظر تازہ ہوگیا کہ ۱۹۵۱ءمیں خالق دینا ہال میں مولانا مودودیؒ کی تقریر سننے کے بعد روشن چہرے اور پُرعزم جذبوں سے سرشار ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی، جو دل و جان سے جمعیت کے ساتھ وابستگی رکھنے اور دعوت کو سمجھنے کے لیے جوش و ولولہ لیے ہوئے تھا۔ اس نوجوان کا نام حسین خان تھا، جو حیدرآباد دکن سے ہجرت کرکے پچھلے ہی سال کراچی آئے تھے۔

چند ہی ملاقاتوں کے بعد میں نے اندازہ لگا لیا کہ یہ نوجوان تعلیم میں بھی اچھے ہیں، مطالعے کا بھی بہترین ذوق رکھتے ہیں اور طلبہ سیاسیات کے رموز کو بھی بہت خوبی سے جانتے پہچانتے اور بصیرت کے ساتھ آگے بڑھ کر کام کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ عبداللہ جعفر صدیقی بھائی نے ان کی تربیت پر حسب ِ ذوق خصوصی توجہ دی، یوں بہت جلد جمعیت کے رکن بنے اور کراچی جمعیت کےاہل الرائے رفقا میں شمار ہونے لگے۔

جب ۱۹۵۳ء سے ۱۹۵۵ء کے دوران میں ارکانِ جمعیت نے مجھے نظامت اعلیٰ کی ذمہ داری سونپی، تو میں نے حسین خان بھائی کو جمعیت کا مرکزی سیکرٹری (معتمدعمومی) مقرر کیا۔ انھوں نے بڑی دل جمعی کے ساتھ جمعیت کی تنظیم کو مضبوط بنانے اور مقامات سے رابطہ رکھنے اور اُمیدوارانِ رکنیت کی تربیت کانظام وضع کرنے کے لیے دن رات ایک کرکے اپنی بہترین صلاحیتیں لگادیں۔ اس طرح انھوں نے نظامت کی ذمہ داری میں شراکت کا حق ادا کیا۔

پھر میرے بعد اکتوبر ۱۹۵۵ء میں حسین خان اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے، اور اگلے سیشن کے لیے بھی ۱۹۵۶ء میں انھی کا انتخاب ہوا۔ لیکن انھوں نے جرأت مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے مرکزی شوریٰ کے سامنے یہ عرض داشت رکھی کہ مجھے نظامت ِاعلیٰ کی ذمہ داری سے فارغ کر دیا جائے، میں مشرقی پاکستان میں جاکر جمعیت کی دعوت و تنظیم کا کام کرنا چاہتا ہوں۔ دراصل انھوں نے ۱۹۵۶ء میں مشرقی پاکستان کے دورے کے دوران یہ دیکھا کہ تنگ نظر بنگلہ قوم پرستی اور سوشلسٹ تحریک کے بالمقابل، مختلف تعلیمی اداروں میں اُن کی تقاریر نے وہاں کے طلبہ پر اچھا نقش چھوڑا ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنے گھربار کا آرام ترک کرنے اور تعلیم چھوڑ کر مشرقی پاکستان منتقلی کا فیصلہ کرکے شوریٰ کو اپنی رائے کی تائید پر قائل کرلیا۔ یوں مرکزی مجلس شوریٰ نے ان کی جگہ برادرم ابصار عالم کو ناظم اعلیٰ منتخب کرلیا اور یہ ڈھاکا چلے گئے۔

ڈھاکا پہنچ کر انھوںنے وہاں کے مقامی رفقا محمدعلی کو ناظم مشرقی پاکستان اور قربان علی کو معتمد صوبہ مقرر کرکے، ان کے ایک معاون کے طور پر کام شروع کر دیا، اور ترجیحی طور پر بنگلہ زبان سیکھنےپر توجہ دی۔ انھی کی تجویز پر ڈھاکا میں مستحق اور نادار طلبہ کے لیے ایک ہاسٹل قائم کیا گیا، جہاں سے جمعیت کو بڑے ہونہار کارکن ملے، جنھوں نے تحریک کے لیے شان دار خدمات انجام دیں۔

حسین خان کی ان روز و شب کی سرگرمیوں سے مشرقی پاکستان جمعیت کی جڑیں مضبوط ہوگئیں۔ اکتوبر ۱۹۵۸ء کو ارکان نے لاہور میں سالانہ اجتماع کے دوران نظامت ِاعلیٰ کا انتخاب بھی عجیب صورت میں کیا۔ ۸؍اکتوبر کو پاکستان میں تو مارشل لا لگ گیا، مگر اپنے پروگرام کے مطابق ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳؍اکتوبر کے گیارھویں سالانہ اجتماع کے لیے کچھ ارکان لاہور پہنچ گئے۔ حالات کی سنگینی دیکھ کر، جمعیت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے حسین خان بھائی کو ناظم اعلیٰ منتخب کرلیا۔ ساتھ میں مارشل لا نے جمعیت پر پابندی عائد کردی، اور یہ پابندی کا دور جون ۱۹۶۲ء کو مارشل لا کے اختتام پر ختم ہوا، تب اکتوبر ۱۹۶۲ء کو شیخ محبوب علی جمعیت کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ یوں حسین خان نے ۱۹۵۸ء سے ۱۹۶۲ء تک پابندی کے زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے بڑے کٹھن حالات میں یہ ذمہ داری ادا کی۔

عملی زندگی میں قدم رکھا تو انھوں نے چٹاگانگ کو اپنا مستقر بنایا۔ حسین خان بھائی کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ کمیونسٹوں اور قوم پرستوں سے گریز کے بجائے، ان سے مکالمہ رکھنے، تعلقات بنانے، اپنی بات ان تک پہنچانے اور ان کی حکمت ِعملی کو سمجھ کر تحریک کے لیے راہیں کشادہ کرنے کی دُھن میں رہتے۔ اس لیے بلاشبہہ مشرقی پاکستان میں سب سے پہلے خواجہ محبوب الٰہی بھائی نے جمعیت کے کام کو آگے بڑھایا، لیکن اس کو مضبوط بنیادوں پر تناور درخت حسین بھائی نے بنایا۔

چٹاگانگ میں کاروں کی کمپنی کی ملازمت کے دوران بہت سے تحریکی رفقا کو ملازمتیں دلائیں اور چٹاگانگ میں تحریک کے کام پر اپنا گہرا نقش مرتسم کیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ڈھاکا میں   خرم بھائی کی توجہ سے تحریک کے کارکنوں پر تربیت کا رنگ نمایاں تھا اور چٹاگانگ میں حسین بھائی کے ہاتھوں سیاسی اور اجتماعی اُمور میں آگے بڑھنے کا ذوق گہرا تھا۔ چٹاگانگ میں جماعت اسلامی کے فیصلے اور حسین خان بھائی کے ذوق کے مطابق انھیں مزدوروں میں کام کی ذمہ داری سونپی گئی، جہاں انھوں نے چٹاگانگ ریلوے میں کمیونسٹ مزدور یونین کو ۲۰برس بعد شکست سےدوچار کیا۔ بہرحال، ۱۹۶۵ء میں ٹوکیو یونی ورسٹی میں اکنامکس میں داخلہ لیا، اور پھر تادمِ آخر جاپان ہی کے ہوکر رہ گئے۔

جاپان میں ان سے قبل عبدالرحمٰن صدیقی صاحب اور عراق کے ڈاکٹر صالح مہدی سامرائی دعوتِ دین کی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ یاد رہے صالح مہدی، زرعی کالج فیصل آباد میں زیرتعلیم تھے، اور یہیں سے میرے رابطے میں آئے،جنھیں مَیں عربی اور انگریزی میں مولانا محترم کی کتب بھیجتا رہا اور جب ’مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن، جاپان‘ کی دعوت پر حسین بھائی ٹوکیو پہنچے، تو اب یہ قافلۂ راہِ حق تین ساتھیوں پر مشتمل ہوگیا۔

یہاں جاپان کے نومسلم حاجی عمرمیتا نے رسالہ دینیات کا جاپانی میں ترجمہ کیا، جو آج تک ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوچکا ہے۔ قبل ازیں قرآن کریم کے جاپانی زبان میں پانچ چھے غیرمستند ترجمے شائع ہورہے تھے۔حسین خان بھائی نے جاپان مسلم ایسوسی ایشن کے صدر عبدالکریم سائتو اور حاجی عمرمیتا کے ساتھ مشورہ کیا کہ درست ترجمۂ قرآن شائع کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے ہرہفتے اکٹھے ہوکر حسین بھائی، حاجی عمر مرحوم کو تفہیم القرآن سے جاپانی میں ترجمۂ قرآن کے لیے معاونت دیتے۔ یوں پانچ سال کی مسلسل کوشش کے بعد، فی الحقیقت مولانا مودودی کے ترجمۂ قرآن کو جاپانی میں رواں اور مستند ترجمۂ قرآن کا رُوپ دینے کا کارنامہ انجام دیا۔

گذشتہ کئی برسوں سے وہ کوشش کر رہے تھے کہ تفہیم القرآن کا جاپانی میں ترجمہ مکمل کرلیں۔ اس مقصد کے لیے جتنی پیش رفت ہوتی، اسے وہ شائع کر دیتے، مگر یہ منصوبہ مکمل نہ ہوسکا۔

عزیزم سلیم منصور نے مجھے بتایا ہے کہ تین ماہ پہلے دسمبر میں حسین خان بھائی نے انھیں فون پر تاکید سے کہا کہ ’’پاکستان میں بی ایس، ایم اے، ایم ایس سی، ایم فل، پی ایچ ڈی اور ہائرایجوکیشن کے طلبہ و طالبات تک تفہیم القرآن پہنچانے کا بجٹ بتائیں اور ان تک پہنچانے کی اسکیم بنا کر بھیجیں‘‘۔ میں نے بتایا کہ یہ تعداد چار لاکھ نفوس تک ہے، اور اس مقصد کے لیے ڈھائی ارب روپے سے زیادہ اخراجات ہوں گے تو وہ کہنے لگے: ٹھیک ہے، مجھے متعلقہ پریس کی تفصیل بھیجیں کہ کہاں رقم بھجوائوں اور اس بجٹ میں جو رائلٹی بنتی ہے، سب سے پہلے وہ مولانا محترم کے بچوں کو دوں گا‘‘۔ انھیں کہا کہ ’’چین، ترکی یا بیروت سے کام ممکن ہوسکتا ہے کیونکہ پاکستان میں نہ تو کوئی پریس اتنا بڑا کام کرسکتا ہے اور نہ جلدبندی اور کاغذ کی فراہمی آسانی سے ممکن ہوگی‘‘ تو کہنے لگے: ’’میرے لیےان تینوں ملکوں میں معاملہ کرنا زیادہ آسان ہوگا‘‘۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ کام بڑا بھاری تھا، اور اس کے لیے نقشۂ کار اس سے بھی زیادہ کٹھن تھا۔ نتیجہ یہ کہ میں کچھ نہ کرسکا‘‘___ اس واقعے سے آپ ان کی لگن اور قرآن سےمحبت کا پیمانہ دیکھ سکتے ہیں۔

حسین خان، جاپان میں پاکستان کے عوامی سفیر تھے اور دعوتِ دین کے رہبر اور مسلم اُمہ کے مسائل و مشکلات کو پیش کرنے والے دلِ بے تاب۔ دسمبر ۱۹۶۸ء میں جب مَیں نے ماہ نامہ چراغِ راہ کراچی  سوشلزم نمبر شائع کیا تو اُس میں انھوں نے ایک علمی مقالہ ’سوشلزم اور معاشی ترقی‘ تحریر کیا۔ جسے مولانا مودودیؒ نے بہت مفید تحریر قرار دیا۔ وہ علمی کتب خریدنے، پڑھنے اور ان سے قیمتی نکات کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی خصوصی اہتمام کرتے تھے۔ آج اپنے مرحوم بھائی کو یاد کر رہا ہوں تو ۷۰برس کا سفر آنکھوں کے سامنے آگیا ہے۔ وہ ۲فروری ۱۹۳۳ء کو پیدا ہوئے اور ۱۹مارچ ۲۰۲۲ء کو زندگی کا سفر مکمل کرکے اللہ کے حضور پیش ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خطائوں کو معاف فرمائے اور صدقاتِ جاریہ میں برکت عطا فرمائے، آمین!

’ترقی کے تصور‘ کا بحران ایک اہم مسئلہ ہے، لیکن صرف یہی ایک پہلو نہیں ہے۔ اس بندگلی سے نکلنے کے لیے بنیادی راستہ یہ ہے کہ ترقی کے لیے روایتی مثالیے (Paradigm) کو تبدیل کیا جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ اہم مسائل بھی ہیں، جنھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس موقعے پر ہم ان سے متعلقہ چنداُمور کی نشاندہی کریں گے:

            ۱-         حقیقی منصوبہ بندی اور دانش مندانہ اقتصادی پالیسی سازی کے لیے اگر ایک لازمی شرط مناسب تصوراتی ڈھانچے کی فراہمی اور پالیسی سازوں اور اقتصادی ماہرین کے درست ذہنی رویے (مائنڈسیٹ) ہیں۔ دوسری شرط کا تعلق قابلِ اعتماد اعداد و شمارکی فراہمی، فنی مہارت اور فیصلہ سازی کے مناسب نظام، پالیسی پرعمل درآمد، بروقت نگرانی کے بندوبست اور ناکامی، کوتاہی اور غلطی کے نتیجے میں درستی کے مؤثر عمل سے ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اس سمت میں اس سب کے باوجود کوششیں ناکافی ہیں۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اعداد و شمار جمع کرنے کے لیے ایک خودمختار اتھارٹی ہو، جسے اعلیٰ مہارت و دیانت کے حامل ماہرین چلائیں۔ یہ اتھارٹی اسمبلی کو براہِ راست جواب دہ ہو اور اس کی رپورٹیں اسمبلی میں باقاعدگی سے پیش ہوں جس طرح کہ اسٹیٹ بنک کی رپورٹیں پیش ہوتی ہیں۔

            ۲-         نئے ترقیاتی مثالیے کے لیے پلاننگ کمیشن کی تعمیرنو اور اصلاحی پروگرام ایک لازمی تقاضا ہے۔ منصوبہ بندی اور منصوبہ بندی کمیشن کا کردار واضح طور پر متعین ہونا چاہیے۔ اس کا تعلق معاشی اُمور میں ریاست کے کردار سے ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس حوالے سے بہت سا ابہام پایا جاتا ہے۔ ریاست کو مارکیٹ اکانومی کے متوازن بنانے میں فعال اور مثبت کردار ادا کرنا چاہیے، بلکہ مارکیٹ کی ناکامی کے بارے میں بھی محتاط رہنا چاہیے اور اس بات پر بھی نظر رکھنی چاہیے کہ سماجی مقاصد پوری طرح سے بروئے کار لائے جارہے ہیں یا سماجی و معاشی زندگی کو روندا جارہا ہے؟ حکومت کی مداخلت واضح طور پر طے شدہ ضابطوں کے تحت ہونی چاہیے تاکہ یہ افسرشاہی کی بے جا مداخلت، سُست روی، رشوت ستانی اور سیاسی کھیل کا آلۂ کار نہ بن سکے۔ طریقِ کار شفاف ہونا چاہیے اور احتساب کے نظام کو پوری طرح مستحکم ہونا چاہیے۔

            ۳-         نظام کی ایک اور کمزوری کا تعلق معاشی پالیسی سازی کے لیے مختلف سطح پرتحقیق کی سہولت کا موجود نہ ہونا ہے۔ اس امر کی فوری ضرورت ہے کہ آزادانہ تحقیق کو فروغ دیا جائے اور اس بات کا انتظام کیا جائے کہ اس تحقیق کے نتائج حکومت اور اس کی ایجنسیوں کو، تعلیمی، تحقیقی اور کاروباری اداروں کو آسانی سے دستیاب ہوں۔ کونسل آف اکنامکس ایڈوائزرز کے وفاقی اور صوبائی سطح پر قیام کے بارے میں بھی سوچا جانا چاہیے۔ یونی ورسٹیوں اور نجی سطح پر قائم تحقیقی اداروں کو بھی تحقیقات مصلحت بینی کے بغیر شائع کرنی چاہییں۔ پالیسی سازی کے معیار کی بہتری صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب ان اُمور کو اداراتی سطح پر انجام دیا جائے۔ پھر یہ بھی اہم ہے کہ بیرونی ماہرین پر انحصار کو کم کیا جائے اور پالیسی آپشن اور قدروقیمت کا اندازہ لگانے (evaluation) کے عمل میں اضافہ کیا جائے۔

            ۴-         ایک اہم مسئلہ فیصلہ سازی اور ترقیاتی عمل میں عوام کی شمولیت ہے۔ کچھ اقتصادی ماہرین کا مشورہ ہے کہ ترقیاتی اُمور تین سیکٹر میں باہمی تعاون کے ساتھ انجام دیے جانے چاہییں___ عوامی، نجی، اور عوام اور حکومت کے مابین سول سوسائٹی کے اداروں کی شراکت داری اور انتظام کے ذریعے۔ ایثارپیشہ سیکٹر ایک بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اسے ایک مناسب انداز میں ترقی، منصوبہ بندی اور انتظام و انصرام کے عمل سے مربوط کیا جاسکتا ہے۔ اس پہلو کو پوری طرح سے منظم اور مربوط کیا جائے۔

            ۵-         ایک بڑا پیچیدہ پہلو ریاست کے وفاقی کردار اور صوبائی اختیارات کے درمیان ابہام و اختلاف سے متعلق ہے۔ ترقی، منصوبہ بندی اور انتظامیہ اور ریاست کے مالیاتی ڈھانچے اور پالیسی سازی میں حد سے بڑھی مرکزیت (over- centralisation)پائی جاتی ہے۔ اس میدان میں تبدیلی کے لیے بنیادی فکر اور ڈھانچے پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ بلاشبہہ یہ کام قومی ہم آہنگی کے ذریعے ہی ممکن ہوگا۔ اگر اس پہلو پر فوری طور پر توجہ نہ دی گئی تو اس کے ملک بالخصوص معیشت اور سیاسی اُمور پر سخت منفی اثرات مرتب ہوتے رہیں گے۔

            ۶-         عارضی (ایڈہاک ازم) اور قلیل مدت کے لیے منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کے کلچر کا  مسلط رہنا بھی ایک چیلنج ہے۔ درمیانی مدت کی منصوبہ بندی اور طویل مدتی منصوبہ بندی کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے۔ ملک زیادہ دیر تک اس طرزِعمل کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

            ۷-         پاکستان کی ترقی کا مسئلہ شدید خسارے اور عدم توازن کے کچھ پہلوئوں پر خصوصی توجہ مرکوز کرتا ہے۔ زراعت سے صنعت بشمول بھاری صنعت اور سروسز سیکٹر کی طرف ترقی کا سفر نشیب و فراز پر مبنی ہے۔ پاکستان کے سروسز سیکٹر میں توسیع نظر آتی ہے، لیکن یہ توسیع زراعت اورصنعتی سیکٹر میں متناسب توسیع اور معیار میں بہتری کے بغیر ہے۔ اشیا اور وسائل کے استعمال اور صَرف(consumption) کی اپنی حدود ہیں۔ اندرونِ ملک بچتوں (domestic savings) میں توسیع کے نتیجے میں لازماً سرمایہ کاری بڑھنی چاہیے،مگر اس میں شدید عدم توازن پایا جاتا ہے۔ پھر درآمد و برآمد میں عدم توازن کا مسئلہ بھی بُری طرح درپیش ہے۔ پائدار ترقی صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب پیداوار سیکٹر میں توسیع ہورہی ہو، پیداوار میں مسلسل اضافہ ہورہا ہو، ملکی بچت اور سرمایہ کاری پر زیادہ انحصار ہو، انفراسٹرکچر میں مناسب سرمایہ کاری کی جائے اور ملکی پیداوار کو بیرونِ ملک فروخت کیا جائے۔ پاکستان کی تجارت، ادائیگی میں عدم توازن، مالیاتی خسارہ، قرض کا بڑھتا ہوا بوجھ اور افراطِ زر کا دبائو، نظام میں شدید بگاڑ اور کمزوریوں اور خامیوں کی نشان دہی کرتا ہے۔

            ۸-         سماجی شعبے کی ترقی، یعنی تعلیم، صحت، خوراک، مہارت کا فروغ اور انصاف کی فراہمی صحت مند اور پائدارترقی کے لیے ناگزیر ہیں۔ یہ اسی قدر اہم ہے جیساکہ ترقی کی رفتار کی شرح اہم ہے۔ دراصل ان دونوں کے درمیان ایک باہمی تعلق پایا جاتا ہے اور یہ دونوں طرح سے کام کرتا ہے۔ معاشی ترقی، سماجی ترقی کے لیے وسائل فراہم کرتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ سماجی ترقی بھی اقتصادی ترقی کے لیے ایک بڑا بنیادی عنصر ہے۔ صحت، تعلیم، مہارت میں فروغ اور جدوجہد کے لیے سرگرم جذبہ ترقی کے فروغ کے لیے اہم عناصر ہیں۔ لہٰذا، نیامثالیہ جس کی سفارش کی جارہی ہے، یہ trickle-down ماڈل سے نمایاںفرق ظاہر کرتا ہے اور سماجی ترقی کو معاشی ترقی کے لیے کی جانے والی کوششوں کا مرکز بنا دیتا ہے۔

            ۹-         قومی خودانحصاری کا حصول اس بحث کا مرکزی پہلو ہے۔ خودانحصاری کا مطلب معاشی خودکفالت نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کو بیرونی قوتوں اور بیرونی اداروں اور حکومتوں پرانحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کو اپنے قومی مقاصد اور اغراض کے پیش نظر اپنی ترجیحات اور پروگراموں کا تعین کرنا چاہیے۔ دوسروں پر انحصار کرنے کے مختلف پہلو ہیں جن میں فہم و دانش، سیاسی، اقتصادی، ٹکنالوجی اور ثقافتی پہلو شامل ہیں۔ یہ تمام پہلو آپس میں مربوط ہیں۔ عالم گیریت کا مطلب لازماً خودانحصاری کا نقصان یا نظریاتی اور ثقافتی تشخص سے محرومی نہیں ہے۔ یہ مکمل خودانحصاری کے ساتھ ایک ملک کا عالم گیریت کے اثرات سے مستفیدہونا اور اس کے مضر اثرات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے۔ بیرونی سرمایے پر بہت زیادہ انحصار اور بڑےپیمانے پر بیرونی قرضوں کا حصول، خودانحصاری سے مطابقت نہیں رکھتا۔

                        پاکستان کے پاس ایک بہت اہم اثاثہ (resource) ہے، جسے قومی اقتصادی ترقی کے لیے پوری طرح سے استعمال نہیں کیا گیا۔ یہ اثاثہ بیرونِ ملک موجود پاکستانی ماہرین، پاکستانی ذہانت (Intellect) اور جوہرِقابل ہے۔ اسی طرح بیرونِ ملک سے آنے والی ترسیلات (Remittences) ایک بہت قیمتی مالیاتی سرمایہ ہیں، جو بدقسمتی سے بڑی حد تک روزمرہ مصرف کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ حالانکہ ان کا ایک قابلِ ذکر حصہ سرمایہ کاری کے لیے استعمال ہونا چاہیے، تاکہ بیرونِ ملک کام کرنے والوں اور ان کے خاندان کے لیے ایک مستقل آمدن کا ذریعہ بن سکے، اور ملک کی معاشی ترقی میں بیرونی قرض کی جگہ اپنے لوگوں کے وسائل استعمال ہوسکیں۔ ان خداداد اور قیمتی ذرائع سے مؤثر اور مفید انداز میں استفادے کے لیے مناسب حکمت عملی کی تیاری ایک بڑا چیلنج بھی ہے اور ایک تاریخ ساز موقع بھی۔

            ۱۰-       عوام کا معاشی اور سیاسی عمل میں شرکت ایک فیصلہ کن مسئلہ ہے، جسے ترقیاتی مساعی کے ایک لازمی حصے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ اقتصادی ترقی، آزادی اور جمہوریت پوری طرح باہم مربوط ہیں۔ بھارتی نوبیل انعام یافتہ ماہرمعاشیات امریتاسین (Amartaya Sen) کا بنیادی کام اس ضمن میں بہت مناسبت رکھتا ہے۔ (دیکھیے: Development as Freedom، نیویارک، اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ۱۹۹۹ء)

عوام کی شمولیت، آزادیِ اظہار ، اختلافِ رائے اور تنظیم اور پارلیمنٹ کی بالادستی ایک کامیاب ترقیاتی مثالیے کے بنیادی اجزا ہیں۔ عوام کی شرکت کا ایک اور اہم پہلو انھیں ترقیاتی عمل میں ایک حقیقی نگہدار (stakeholder) بناناہے۔ روزگار کی فراہمی، سیلف ایمپلائمنٹ کی تخلیق اور مفید روزگار کی فراہمی کے مواقع میں متواتر اضافہ، اس سکّے کا دوسرا رُخ ہے۔

پاکستان کی مستقبل کی معاشی ترقی کی حکمت عملی ان دس نکات کے تناظر میں بنائی جانی چاہیے۔ اس خواب کی تعبیر ایک نئے مثالیہ کی تشکیل اور اس کی ترویج کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس کے نتیجے میں قوم اس قابل ہوسکے گی کہ وہ اپنے ذرائع سے پوری طرح مستفید ہوسکے اور پاکستان جس مقصد کی تکمیل کے لیے قائم کیا گیا تھا، وہ پایۂ تکمیل کو پہنچ سکے۔

اقبال اور قائداعظم کا تصورِ معیشت

اس تناظر میں یہ مفید ہوگا کہ علامہ محمد اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے تصورات کو ایک بار پھر تازہ کیا جائے۔اقبال کہتے ہیں:

چیست قرآں، خواجہ را پیغامِ مرگ
دست گیر بندۂ بے ساز و برگ

قرآن کیا کہتا ہے؟ یہ امیروں کے لیے، وہ امیر لوگ جنھوں نے دولت کو اپنا خدا بنا لیا ہے، موت کا پروانہ ہے۔ قرآن ان لوگوں کا مددگار ہے جو وسائل زندگی نہیں رکھتے۔ اس کا مشن غریبوں کو بلند کرنا اور ان کو طاقت ور بنانا ہے۔

کس نہ باشد درجہاں محتاج کس
نکتۂ شرع مبین ، این است و بس

اسلامی شریعت کا مقصد انسان کی دوسرے انسان پرمحتاجی کو ختم کرنا ہے۔ کسی کو دوسروں کا دست نگر نہ رہنا چاہیے۔ یہ وہ مقصد ہے جس کی تکمیل شریعت کے پیش نظر ہے۔

یہی وہ مشن تھا جس کی طرف علامہ اقبال نے قائداعظم محمدعلی جناح کو اپنے انتقال سے تقریباً ایک سال قبل خط میں متوجہ کیا۔ ۲۸مئی ۱۹۳۷ء کو انھوں نے اپنے اس خط میں قائداعظم کو لکھا:

ہمارے سیاسی اداروں نے عام مسلمانوں کی حالت بہتر بنانے اور ان کی فلاح و بہبود کی طرف کبھی غور کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ روٹی کا مسئلہ روز بروز نازک ہوتا جارہا ہے۔ مسلمانوں میں یہ احساس بڑھتا جارہا ہے کہ گذشتہ دوسوسال سے وہ برابر تنزل کی طرف جارہے ہیں۔ عام مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا غربت کی وجہ ہندو کی سودخوری اور سرمایہ دارانہ ذہنیت ہے۔ یہ احساس کہ غیرملکی حکومت بھی اس افلاس میں برابر کی حصہ دار ہے۔ ابھی پوری طرح ذہنوں میں نہیں اُبھرا، لیکن آخرکار ایسا ہو کر رہے گا۔ جواہر لال نہرو کی بے دین اشتراکیت مسلمانوں میں کبھی مقبول نہ ہوسکےگی۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کے اس مسئلے کو کس طرح حل کیا جائے؟ مسلم لیگ کا سارا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیا کوشش کرتی ہے؟ اگر اس امر میں مسلم لیگ نے کوئی اُمید نہ دلائی تو مجھے یقین ہے کہ مسلم عوام پہلے کی طرح اس سے بے تعلق رہیں گے۔ خوش قسمتی سے اسلامی قانون (شریعت) کے نفاذ سے اس مسئلے کا حل ہوسکتا ہے۔

اسلامی قانون کے طویل اور گہرے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظامِ قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو کم از کم ہرشخص کے لیے حقِ معاش محفوظ ہوجاتا ہے۔ لیکن جب تک اس ملک میں ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستیں معرض وجود میں نہیں آتیں، اسلامی شریعت کا نفاذ ممکن نہیں ہے۔ سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور اب بھی مجھے یقین ہے کہ مسلمانوں کی غربت اور روٹی کا مسئلہ اور ہند میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہوسکتا ہے۔ (اقبال اور قائداعظم ،مرتبہ: پروفیسر احمد سعید، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص۱۰۴-۱۰۵)

قائداعظم نے بھی آل انڈیا مسلم لیگ کے تیسویں سالانہ اجلاس (۲۴؍اپریل ۱۹۴۳ء، دہلی) میں پاکستان کے پیش نظر اقتصادی امور کا ذکر کرتے ہوئے واضح طور پر کہا:

میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو انتباہ کردینا چاہتا ہوں، جو ہمارا خون چُوس کر ایسے نظام کے تحت پلے بڑھے جو اس قدر خبیث اور اس قدر فاسد ہے، جو انھیں اس درجہ خودغرض بنادیتا ہے کہ ان کے ساتھ معقول بات کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ عوام کا استحصال ان کی رگ و پے میں داخل ہوگیاہے، وہ اسلام کی بنیادی تعلیم کو فراموش کربیٹھے ہیں۔ ان لوگوں کی حرص اور خودغرضی نے دوسروں کے مفادات کو اپنے تابع کرلیا ہے، تاکہ وہ موٹے ہوتے رہیں۔ یہ درست ہے کہ آج ہم اقتدار میں نہیں ہیں۔ آپ کہیں بھی دیہات کی طرف نکل جائیں۔ میں گائوں میں گیا ہوں۔ ہمارے لوگوں میں لاکھوں ایسے ہیں، جنھیں رات کو روٹی کھانا بھی نصیب نہیں ہے۔ کیا یہ تہذیب ہے؟ کیا پاکستان کا یہ مقصد ہے؟ کیا آپ یہ تصور کرسکتے ہیں کہ لاکھوں کا استحصال کیا گیا اور انھیں دن میں ایک بار بھی روٹی نہیں ملتی؟ اگر پاکستان کا تخیل یہ ہے تو میں ایسا پاکستان نہیں لوں گا۔ اگر ان میں عقل ہے تو انھیں خود کو زندگی کے نئے اور جدید حالات سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو پھراللہ ہی ان کی مدد کرے تو کرے، ہم تو ان کی کوئی مدد نہیں کریں گے۔ لہٰذا، ہمیں خود پر اعتماد ہونا چاہیے۔ ہمیں ڈگمگانا چاہیے اور نہ ہچکچانا، یہ ہماری منزل ہے، جسے ہمیں حاصل کرنا ہے۔(Speeches, Statements & Messages of The Quaid-e-Azam، جلد۲، مرتبہ: خورشیداحمد خاں یوسفی، بزمِ اقبال، لاہور)

قائداعظم نے قیامِ پاکستان کے بعدایک درجن سے زائد تقاریر میں سماجی انصاف کے حصول کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ وہ محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے لیے اس قدر فکرمند تھےکہ  ۲۷ستمبر ۱۹۴۷ءکو ولیکا ٹیکسٹائل ملز کا سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے، انھوں نے صنعتی اور زرعی ترقی پر زور دیتے ہوئےواضح طور پر کہا:

اپنے ملک میں صنعت کاری کے ذریعے ہم اشیائے صرف کی فراہمی کے لیے بیرونی دنیا پر انحصار کم کرسکیں گے،لوگوں کو روزگار کے زیادہ مواقع فراہم کرسکیں گے اور مملکت کے وسائل میں بھی اضافہ کرسکیں گے۔ قدرت نے ہمیں صنعت و حرفت میں کام آنے والے بہت سے خام مال سے نوازا ہے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اسے ملک اور عوام کے بہترین مفاد کے لیے استعمال کریں…مجھے یہ بھی اُمید ہے کہ آپ نے فیکٹری کا منصوبہ بناتے وقت کارکنوں کے لیے مناسب رہایش گاہوں اور دیگر سہولتوں کا بھی اہتمام کیا ہوگا کیونکہ مطمئن کارکنوں کے بغیر کوئی صنعت پنپ نہیں سکتی۔ (ایضاً، جلدچہارم، ص۲۶۲۲)

پاکستان کے اقتصادی مقاصد کے بارے میں ان کے وژن کا بڑا واضح اظہار، قوم سے ان کے آخری خطاب میں ہوتا ہے۔ یہی وہ موقع تھا، جب انھوں نے یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کیا۔ انھوں نے فرمایا:

حکومت پاکستان کی حکمت ِعملی یہ ہے کہ قیمتوں کو ایسی سطح پر مستحکم کردے جو تیار کنندہ اور صارف دونوں کے لیے منصفانہ ہو۔ مجھے اُمید ہے کہ اس اہم مسئلہ کو کامیابی کے ساتھ حل کرنے کے لیے آپ کی کوششیں اس پہلو کا لحاظ رکھیں گی۔

آپ کا تحقیقی شعبہ، بنکاری کے طور طریقوں کو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں جو کام کرے گا، میں اس کا دلچسپی کے ساتھ انتظار کروں گا۔ اس وقت مغربی اقتصادی نظام نے انسانوں کے لیے تقریباً ناقابلِ حل مسائل پیدا کردیے ہیں اور ہم میں سے اکثر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید کوئی معجزہ ہی دُنیا کو اس بربادی سے بچاسکے، جس کا اسے اس وقت سامنا ہے۔ یہ افراد کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی سطح سے ناچاقی کو دُورکرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ اس کے برعکس گذشتہ نصف صدی میں دوعالمی جنگوں کی زیادہ تر ذمہ داری بھی اسی کے سر ہے۔ مغربی دنیا اس وقت اپنی میکانکی اور صنعتی اہلیت کے باوجود جس بدترین ابتری کی شکارہے، وہ اس سے پہلے تاریخ میں کبھی نہ ہوئی ہوگی۔ مغربی اقدار، نظریے اور طریقے خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچّے اسلامی تصور پر استوار ہو۔ اس طرح سے ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کرسکیں گے اور بنی نوع انسان تک پیغامِ امن پہنچا سکیں گے کہ صرف اسلام ہی اسے بچاسکتا ہے اور انسانیت کو فلاح و بہبود، مسّرت و شادمانی سے ہمکنار کرسکتا ہے۔ (The Civil & Military Gazette، ۲جولائی ۱۹۴۸ء، بحوالہ ایضاً، خورشیداحمد خاں یوسفی،بزمِ اقبال لاہور، جلدچہارم، ص ۲۷۸۵-۲۷۸۸)

دستورِ پاکستان کی دفعات

یہ اقتصادی تصورات اور تصورِ پاکستان، دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باب دوم میں درج ہیں اور پالیسی کے لیے اصول فراہم کرتے ہیں:

اسلامی طریق زندگی

دفعہ ۳۱  (۱) پاکستان کے مسلمانوںکو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انھیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآنِ پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔

(۲) پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل کے لیے کوشش کرے گی:

(الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قراردینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا، اورقرآنِ پاک کی صحیح اور من و عن طباعت اور اشاعت کا اہتمام کرنا۔

(ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا، اور

(ج) زکوٰۃ، عشر ، اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔

معاشرتی انصاف کا فروغ   اور معاشرتی بُرائیوں کا خاتمہ

دفعہ ۳۷، مملکت:(الف) پسماندہ طبقات یا علاقوں کے تعلیمی اور معاشی مفادات کو خصوصی توجہ کے ساتھ فروغ دے گی۔

(ب) کم سے کم ممکنہ مدت کے اندر ناخواندگی کا خاتمہ کرے گی اور مفت اور لازمی ثانوی تعلیم مہیا کرے گی۔

(ج) فنی اور پیشہ وارانہ تعلیم کو عام طور پر ممکن الحصول اور اعلیٰ تعلیم کو لیاقت کی بنیاد پر سب کے لیے مساوی طور پر قابلِ دسترس بنائے گی۔

(د) سستے اور سہل الحصول انصاف کو یقینی بنائے گی۔

(ہ)منصفانہ اور نرم شرائط کار، اس امر کی ضمانت دیتے ہوئے کہ بچوں اور عورتوں سے ایسے پیشوں میں کام نہ لیا جائے گا جو ان کی عمر یا جنس کے نامناسب ہوں، مقرر کرنے کے لیے، اور ملازم عورتوں کے لیے زچگی سے متعلق مراعات دینے کے لیے احکام وضع کرے گی۔

(و)مختلف علاقوں کے افراد کو تعلیم، تربیت، زرعی اور صنعتی ترقی اور دیگر طریقوں سے اس قابل بنائے گی کہ وہ ہرقسم کی قومی سرگرمیوں میں جن میں پاکستان میں ملازمت کی خدمت بھی شامل ہے، پورا پورا حصہ لے سکیں۔

عوام کی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کا فروغ

دفعہ ۳۸، مملکت: (الف) عام آدمی کے معیارِ زندگی کو بلند کرکے دولت اور وسائلِ پیداوار و تقسیم کو چند اشخاص کے ہاتھوں میں اس طرح جمع ہونے سے روک کر کہ اس سے مفادِ عامہ کو نقصان پہنچے اور آجرو ماجور اور زمین دار اور مزارع کے درمیان حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دے کر بلالحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل، عوام کی فلاح و بہود کے حصول کی کوشش کرے گی۔

(ب) تمام شہریوں کے لیے ملک میں دستیاب وسائل کے اندر معقول آرام و فرصت کے ساتھ کام اور مناسب روزی کی سہولتیں مہیا کرے گی۔

(ج) پاکستان کی ملازمت میں یا بصورتِ دیگر ملازم تمام اشخاص کو لازمی معاشرتی بیمہ کے ذریعے یا کسی اور طرح معاشرتی تحفظ مہیا کرے گی۔

(د) ان تمام شہریوں کے لیے جو کمزوری، بیماری یا بے روزگاری کے باعث مستقل یا عارضی طور پر اپنی روزی نہ کما سکتے ہوں، بلالحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل ، بنیادی ضروریاتِ زندگی مثلاً خوراک، لباس،رہایش، تعلیم اور طبّی امداد مہیا کرے گی۔

(د) ربا کو جتنی جلد ممکن ہو، ختم کرے گی۔

دستورِ پاکستان کے یہ واضح احکامات ہیں اور دستور اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہرسال قومی اسمبلی کو بتایا جائے کہ ان مقاصد کے حصول کے لیے کیا پیش رفت ہوئی ہے اور کیا اقدامات اُٹھائے گئے ہیں؟ لیکن یہ وہ کام ہے جس کی حکومت کبھی فکر نہیں کرتی اور یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ پارلیمنٹ اس سلسلے میں مؤثر احتساب کے باب میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔

نئے مثالیـے کی تشکیل

یہاں پیش کی گئی سفارشات کی روشنی میں ہم اس بات کا مشورہ بھی دیں گے کہ نئے مثالیے میں درج ذیل باتوں کی طرف خاص طور پر توجہ مرکوز رکھی جائے:

            ۱-         قدرت نے انسان اور اس کے ماحول کو جو وسائل فراہم کیے ہیں، ان کی بہترین نشوونما کے ساتھ اُنھیں استعمال کیا جائے۔

            ۲-         ان کی اس طرح سے منصفانہ تقسیم اور استعمال ہو کہ تمام انسانی تعلقات کا فروغ اور تنظیم عدل اور احسان کی بنا پر ہو۔

            ۳-         متوازن اور پائدار ترقی، وسائل کے ضیاع اور غلط استعمال سے اجتناب، ظلم اور انسانوں کے استحصال کا خاتمہ کیا جائے۔ مالی اور قیمتوں میں استحکام کے ذریعے افراد کے درمیان، علاقوں کے درمیان، شعبہ جات کےدرمیان اور قومی سطح پر مساوات کا حصول ممکن بنایا جائے۔

            ۴-         خودانحصاری کے اعلیٰ مقام کا حصول بشمول اُمت کی اجتماعی خود انحصاری، حقیقی تکثیریت پر مبنی ایک عالمی نظام کا وژن، جس کے نتیجے میں تمام اقوام اور ثقافتوں کا مل جل کر رہنا ممکن ہو اور وہ ایک منصفانہ عالمی نظام میں باہمی مقابلے اور تعاون کے ساتھ رہ سکیں۔

ان مقاصد کے حصول کے لیے ترقیاتی حکمت عملی کو درج ذیل اوصاف پر مشتمل ہونا چاہیے:

            ۵-         ترقیاتی حکمت عملی کو اخلاقی،روحانی اور مادی پہلوئوں پر مشتمل ہونا چاہیے۔

            ۶-         ترقیاتی اہداف __ پیداوار میں اضافے کے لیے جدت و ندرت کے ساتھ ساتھ معاملہ فہمی سے کوشش اور اس بات کو پیش نظر رکھنا کہ اس سے تمام لوگوں کی ضروریات کی فراہمی اور بہتری یقینی ہو، اور ایک مضبوط، ترقی پذیر اورنشوونما پانے والی معیشت کا قیام عمل میں آئے۔

            ۷-         دُنیا میں اچھی زندگی کا حصول، آخرت میں ایک کامیاب زندگی کا وسیلہ ہونا چاہیے۔

            ۸-         محرک ___ اخلاقی محرکات مادی جزا و سزا کے ساتھ۔ ذاتی اصلاح سماجی و اخلاقی ذمہ داری اور جواب دہی کے ساتھ۔

            ۹-         اخلاقی فلٹر اور سماجی فلٹر کا نظام جو صَرف، پیداوار اور فیصلہ سازی کے تمام مراحل پر مارکیٹ کے نظام کو درست رکھنے کے لیے ایک مؤثر کردار ادا کرے۔

            ۱۰-       فرد کی مرکزیت اور فلاح و بہبود کی حامل سوچ کارفرما ہونا، پیداوار اور صَرف کو مفید اور ثمرآور بنانا چاہیے۔ اجتماعی معاملات کا نظام ماحول دوست ہونا چاہیے۔

            ۱۱-       جائیداد بطورِ ٹرسٹ ___ نجی ملکیت کا حق اور منافع کا حصول، سماجی و اخلاقی ذمہ داری کے ساتھ۔یہ ایک انقلابی تصور ہے، جو سرمایہ کاری کو سرمایہ پرستی سے محفوظ رکھتا ہے۔

            ۱۲-       مالیاتی ڈھانچے کی تشکیل نو میں سود کا یقینی خاتمہ اور ارتکازِ دولت میں کمی۔

            ۱۳-انصاف کی فراہمی بشمول منصفانہ تنخواہ، آمدنی اور شراکت، رقم کی منتقلی اور مبنی بر عدل وراثت کی تقسیم۔

            ۱۴-حکومت کا مثبت اور بامقصد کردار۔

            ۱۵-معیشت اور اس سے متعلق اُمور کی اَزسرنو تشکیل، محض مالیاتی سیکٹر میں اصلاحات نہ ہوں۔

            ۱۶-       پاکستان کی خودانحصاری اور بحیثیت مجموعی اُمت کی خودانحصاری___ معاشی تعاون اور عالم گیریت کے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے یک جہتی کا اظہار اور اس کے لیے مواقع کو استعمال کرنا۔

اُمید ہےکہ مندرجہ بالا اقدامات کی روشنی میں حکومت، تحقیقی اداروں اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے پاکستان کی اقتصادی اور سماجی ترقی کے لیے ایک نئی حکمت عملی وضع کرنے کے لیے ایک سنجیدہ اور پائدار کوشش کی جائے گی تاکہ جس مقصدکے لیے یہ ملک قائم کیا گیا تھا، وہ پورا ہوسکے اور ہمارے عہد میں اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے لیے جدوجہد کو ایک نئی مہمیز دینے کا باعث بن سکے۔

پاکستان اپنی آزادی کے ۷۴ برس مکمل کرچکا ہے۔ اس موقعے پر اس کی معاشی کارکردگی کا جامع اور صحیح جائزہ و تجزیہ اور اس کی جانچ پڑتال انتہائی ضروری ہے۔

گذشتہ سات عشروں میں جو ترقیاتی منصوبے بنائے گئے، لگتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیت کھوچکے ہیں۔ دھندلے معاشی مستقبل میں وقتی راستے نکالنے، اور بظاہر ہوشیاری سے راستے نکالنے کی کوششوں کے باوجود امکان نہیں ہے کہ مزید ایسی پالیساں کامیابی سے ہم کنار ہوں۔ یہ اپنے تمام مثبت اور منفی پہلوؤں کے ساتھ پاکستانی معیشت کا مجموعی منظر نامہ ہے، جو قیامِ پاکستان کے مقاصد اور اس کے عوام کی ادھوری خواہشات کے تناظر میں تجزیے اور جائزے کا مستحق ہے۔ پے دَرپے اُلجھتے معاشی،انتظامی اور سیاسی تجربات کے نتیجے میں اُبھرنے والے ایک عظیم قومی خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ دانش وروں اور آزاد تحقیقی اداروں کو چاہیے کہ ان معاشی کامیابیوں اور ناکامیوں کا غیر جانب دارانہ جائزہ لے کر درپیش چیلنج کا جواب دیں اور پاکستانی عوام کے بہتر مستقبل کو یقینی بنانے کےلیے متبادل حکمت عملی اور پالیسی کے امکانات کو واضح کریں۔

میں پچھلے سات عشروں میں معاشی کارکردگی کے بارے میں اپنے خیالات اور خدشات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں، جو میری نظر میں چند مثبت کامیابیوں کے باوجود، لوگوں کی ضروریات، توقعات اور اُمنگوں سے بہت کم ہیں۔ سات دہائیوں کی ترقیاتی کوششوں اور بیرونی اور اندرونی بھاری قرضوں کو برداشت کرنے کے بعد، انصاف کے بغیر واضح طور پر متضاد رویوں پر کھڑے معاشی پالیسی سازی کے نظام کا خواب دیکھناایک بے کار حرکت ہے۔دولت، چندحلقوں میں مرتکز ہوگئی ہے اور عوام کی ایک بڑی تعداد وسیع پیمانے پر غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے محرومی اور بدحالی کا شکار ہے۔ ترقی کی جو حکمت عملیاں برسوں سے اپنائی گئیں، وہ بڑے پیمانے پر بیرونی صلاح کاری اور تجاویز اور عالمی مالیاتی اداروں کی حاکمانہ ہدایات پر مشتمل تھیں۔ وہ نہ صرف یہ کہ اصل حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں بلکہ جمہور عوام کی اقدار اور اُمنگوں سے بھی یکسر متصادم تھیں۔ یہ بیش تر پالیسیاں جواز (legitimacy) اور اعتبار (credibility) دونوں سے خالی تھیں، اسی لیے بے ربط اور مسخ شدہ چلی آرہی ہیں۔ اکثر اوقات یہ پالیسیاں معمولی سیاسی فائدے حاصل کرنے کےلیے اور فوری یا مقامی اور غیر ملکی مفادات کو تحفظ دینے اور ان کے تقاضے پورے کرنے کےلیےاپنائی گئی تھیں۔

اگرچہ محضر توازن یا بیلنس شیٹ (balance sheet)کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں، جنھیں پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ لیکن اس بیلنس شیٹ کے کچھ بھیانک پہلو بھی ہیں جن پر بہ غور توجہ دیے بغیر بیلنس شیٹ متوازن نہیں رہے گی۔ اس بات پر بمشکل ہی کوئی اختلاف ہوگا کہ پاکستان کا مروج معاشی نظام اپنی حقیقی صلاحیتوں کو پورا نہیں کرسکا، جسے نرم سے نرم الفاظ میں اوسط درجے کا قرار دیا جاسکتا ہے،تاہم اس بناپر پاکستان کو ’ناکام ریاست‘ قرار دینا سخت مضحکہ خیز ہے، جیسا کہ ہمارے بعض کرم فرما اور نقاد مسلسل دُنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ بہرحال، اس نظام کو مارکیٹ اکانومی کے جادوئی منتر، لبرلائزیشن، ڈی ریگولیشن، نج کاری، بڑی صنعتوں کے استحکام کے نظریے اور عالم گیریت کی برکات کی وجہ سے کامیابی کی داستان کے طور پر پیش کرنا بھی غلط ہے۔؎۱

معاشی ترقی: تاریخی تناظر

پاکستان کی معاشی کارکردگی کو اس کے تاریخی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ متحدہ ہندستان کے مسلمانوں کا ۲۵ فی صد آبادی ہونے کے باوجود ملکی معیشت میں حصہ بمشکل پانچ سے آٹھ فی صد تھا۔ مسلم اکثریتی صوبوں، یعنی موجودہ پاکستان کی معیشت زیادہ تر زراعت پر منحصر تھی۔ کپاس کا ایک بڑا پیداآوری ملک ہونے کے باوجود، ۱۹۴۷ء میں پورے پاکستان میں صرف دو ٹیکسٹائل ملیں تھیں۔ سنہری ریشے (پٹ سن) کی صورت حال مشرقی پاکستان میں زیادہ قابل رحم تھی۔ پاکستان سنہری ریشہ پیدا کرنے والے دنیا کے بڑے ممالک میں سے ایک تھا، حالانکہ آزادی کے موقعے پر اس میں سنہری ریشے کی کوئی ایک مِل(Mill) بھی نہیں تھی۔ ۱۹۴۷ء میں ہندستان کی صنعتی پیداوار میں اس خطے کاحصہ ناقابل یقین حد تک کم تھا، جوبمشکل ایک فی صد تھا۔ اس پس منظر میں سنگین ناکامیوں، ضائع ہونے والے مواقع، غلط ترجیحات اور منصفی کی اہم جہتوں کو ناقابل معافی حد تک نظر انداز کیے جانے کے باوجود، گذشتہ ۷۴ برسوں میں جو کچھ حاصل کیا گیا ہے، وہ اہم ہے۔ اگر مسلمان اپنا الگ وطن نہ بناتے تو جو کچھ حاصل کیا گیا ہے، یہ بھی حاصل نہ ہوتا۔ خود ہندستان نے ۱۹۴۷ءسے جو بھی معاشی ترقی کی ہے، وہ بھی ممکن نہ تھی، اگر یہ خطّہ دوبڑی قوموں کے درمیان خانہ جنگی (Civil war) کی حالت میں رہتا (اگرچہ دہلی کے حکمرانوں نے غاصبانہ طورپر مسئلہ کشمیر کھڑا کرکے اس پورے علاقے کو جنگی صورتِ حال سے دوچار کر رکھا ہے)۔

پاکستان ان چند ترقی پذیر ممالک میں سے ایک ہے، جنھوں نے سات عشروں کے دوران اوسطاً ۵ فی صد کی شرح ترقی (growth rate)حاصل کی ہے۔ کچھ اہم معاشی ترقیاتی اشاریوں (indicators) پر نظر ڈالنے سے پیش رفت کا عمومی اندازہ ہوتا ہے۔ مجموعی ملکی پیداوار جو ۱۹۴۷ء میں صرف ۵۸ ؍ارب روپے تھی، ۲۰۲۱ء میں بڑھ کر تقریباً۴۶ہزار ۴سو ۶۴؍ ارب روپے ہو گئی ہے، یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں۔اوسط فی کس (per capita)سالانہ اضافہ ۲ فی صد سے زیادہ ہے، جس کے نتیجے میں اس مدت کے دوران فی کس اوسط میں تقریباً پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور جی ڈی پی (خالص قومی پیداوار) کے لحاظ سے اس کی ۴۴ویں بڑی معیشت ہے، جو قوتِ خرید کے برابری کے اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو دنیا کی ۲۸ویں بڑی معیشت بناتی ہے۔

تاہم، فی کس جی ڈی پی اور ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس کے حوالے سےاس کی پوزیشن واضح طور پر خراب ہے (بالترتیب ۲۰۳ ممالک میں ۱۶۴ واں اور ۱۹۰ ممالک میں ۱۴۷ واں نمبر)۔ سماجی شعبے میں ناکامی، وسائل کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ بنیادی طور پر گمراہ کن پالیسیوں کی وجہ سے ہے، جس کو عوام کی عدمِ شرکت اورعمومی احتساب کی عدمِ موجودگی نے بڑھاوا دیا ہے۔مزید برآں ورلڈبنک اور عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) جیسے عالمی سرمایہ دارانہ اداروں کی ہدایات پر ضرورت سے زیادہ انحصار رہا، جنھوں نے مغرب کےلیے بنے معاشی ترقی کے طریقوں کو تیسری دنیا کے ممالک پر چسپاں کرنے کی کوشش کی۔

معیشت کی بنیادی کمزوریوں اور ناکامیوں کا پتا پالیسی کی غلطیوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ غلط ترجیحات، بیرونی آمرانہ پالیسیوں، بدانتظامی اور بدعنوانی کی وجہ سے معاشی ترقی کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ سکے۔ یہ اشرافیہ ہی ہے جس نے عام آدمی کا حصہ غصب کرکے اپنی حد سے زیادہ منافع کمایا ۔ غربت کی سطح میں اتار چڑھاؤ آیا ہے جو اس وقت آبادی کے ۶ فی صد سے زیادہ ہے۔ البتہ مناسب زندگی گزارنے کی کم سے کم سہولتوں سے محروم لوگوں کی تعداد ۲۰فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح دولت کی تقسیم بھی دولت مندوں کے حق میں بڑھتی چلی جارہی ہے۔ غربت کے خاتمے میں ریاست کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ عالمی بنک کی ایک تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ غربت میں کمی لانے کےلیے زکوٰۃ اور صدقات کے ذریعے تقریباً ۲۸ فی صد پروگرام نجی سطح پر ہورہے ہیں، جن کی سالانہ لاگت تقریباً ۷۰ سے ۱۰۰؍ ارب روپے ہیں۔

مختلف اَدوار میں فوجی اور سول دونوں حکومتوں کی کچھ حقیقی لیکن بیش تر سطحی پالیسیوں میں تبدیلیوں کے باوجود، معاشی بد حالی کی نوعیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس کی وجہ سنگین تصوراتی ابہامات ، معاشی حکمت عملیوں میں خامیاں، مسخ شدہ ترجیحات، سراسر نااہلی اور بدعنوانی تھی کہ معیشت ہموار نہ چل سکی اور بڑھوتری کی شرح برقرار نہ رہ سکی۔مزید برآں، معیشت کو وسائل کی بہت ہی غلط تقسیم سے زک پہنچی، جس کے نتیجے میں شدید عدم مساوات اور معاشی اور سماجی فوائد کے عدم توازن نے ملک کے مختلف خطوں کے درمیان منافرت، رقابت اور بے اعتمادی پیدا کی۔ پالیسی کی ان خامیوں اور کارکردگی میں ناکامیوں کی ذمہ داری ان تمام حکومتوں پر پوری پوری آتی ہے، جنھوں نے ان سات عشروں میں ملک پر حکمرانی کی ہے۔انصاف کو یقینی بنانے کےلیے سب کا مواخذہ ہونا چاہیے۔ بہر حال اندیشوں کے تمام اطراف کی نشان دہی ضروری ہے۔ ان اہم ترین اطراف کی جانب آنے سے قبل ضروری ہے کہ ۱۹۵۰ء کی دہائی سے جاری بحران اور الجھنوں سے متعلق سب سے بنیادی ایشو پر بات کی جائے۔ یہ ترقی کے تصور اور مطلوبہ معیشت کے وژن سے متعلق ہے۔

ترقی کا وژن: بنیادی اُمور

جن بیوروکریٹوں اور مقتدر جرنیلوں نے معاشی پالیسی کی تشکیل اور انتظام میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، اور جن سیاست دانوں نےاس عمل میں حصہ لیا، ان کا زیادہ تر انحصار غیر ملکی مشوروں اور ان کے ساتھ آنے والے دباؤ پر تھا۔

 سیاست کے بانیوں کا ابتدائی وژن دھندلا گیا ، حتیٰ کہ غیر ملکی مشوروں اور عطیہ دینے والے اداروں کی ہدایات کی تعمیل میں انھیں پتا ہی نہ چلا کہ کدھر جانا ہے۔ سرمایہ دارانہ پیراڈائم (مثالیہ) پر مبنی ترقی کا ماڈل، جسے یورپ اور امریکا میں آزمایا گیا، خاص طور پر دوسری جنگِ عظیم کے بعد ان کا ’مارشل پلان‘، ان کا ارفع معیار اور سکّہ رائج الوقت بن گیا۔ ہاروڈ ڈومر(Harrod-Domar) ماڈل اور اس کے متعلقات، جنھیں چینری(Chenery)، نرکسی (Nurkse)، آرتھر لیوس (Arthur Lewis)، کوزنیٹس(Kuznets)، روستو (Rostow) اور دیگر حضرات نے منظم کیا۔؎۲   ایک اہم نظریاتی سرچشمۂ فیض (inspiration)بن گیا ، جب کہ امدادی ایجنسیوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ذریعے تیار کردہ تجاویز، خاص طور پر ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف نے ترقیاتی حکمت عملیوں اور پالیسیوں کےلیے جو معیار اور ضابطے (parameters) مقرر کیے، انھی کو گذشتہ چھے عشروں سے مختلف حکومتیں اپناتی چلی آرہی ہیں ۔ کچھ کچے پکے تغیرات کے باوجودتقریباً تمام حکومتوں نے ترقی اور معاشی تبدیلی کے لیے سرمایہ داری کا تجویز کردہ راستہ ہی اختیار کیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سوشل ازم سے داغ دار نعرے بازی یا بیان بازی اور جنرل محمد ضیاء الحق کے دورِحکومت میں برائے نام اسلامی اقتصادی پالیسی بھی سرمایہ داری کے کردار کے اصل جوہر کو تبدیل نہ کرسکی۔

دوسرے خطوں کی طرح یہ ماڈل یہاں بھی ناکام ہورہا ہے۔ اسی لیے 'انسانی ضروریات کے لیے فکرمندی، 'غربت میں کمی، بڑے پیمانے پر معاشی استحکام اور اس طرح کی دیگر خصوصیات کا بظاہر اضافہ کیا گیا، لیکن اس کا بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔زمینی حقائق بہت کچھ بتا رہے ہیں۔پائدار اور جامع ترقی ایک سراب بنی ہوئی ہے،اور جو بھی ترقی ہوئی ہے، اس کے ساتھ سماجی تناؤ، بڑھتا ہوا اقتصادی فرق اور خلیج،زیادہ غیر ملکی انحصار، سیاسی خودمختاری کا خاتمہ، ماحولیاتی تباہی اور ثقافتی بحران میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ نچلی سطح تک معاشی ترقیاتی فائدے پہنچانے کے جو خواب پیش نظر تھے، وہ سراب ثابت ہوئے ہیں۔اس کے بجائے وہی ممالک کامیاب ہوئے ہیں، جنھوں نے اپنی آزادانہ راہیں اختیار کیں، اور اس ماڈل کو اپنی بنیادی ضروریات اور حالات کے مطابق ڈھال لیا اور بیرونی دباؤ اور تجاویز کو آنکھیں بند کرکے قبول نہیں کیا۔ بدقسمتی سے پاکستان ایک غیرمربوط سرمایہ داری کے راستے پر چل پڑا ہے۔ توازن کے ساتھ اس تجربے کا ایک ایمان دارانہ جائزہ ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ یہ ماڈل قومی خدمت اور قومی تعمیر کے امکانات روشن کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ اصل ضرورت اس مثالیے(Paradigm) کو علی الاطلاق تبدیل کرنے کی ہے ، اس کے اندر محض کچھ ترامیم سےکوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔آپ کسی خونخوار عفریت کے جسم پر انسانی ہمدردی کا نقاب نہیں چڑھا سکتے، اورنہ اس بلا سے کسی اچھے انسان کی طرح برتاؤ کی توقع کرسکتےہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام : چھے مہلک خامیاں

سرمایہ دارانہ ترقی کا پیراڈائم چھے مہلک خامیوں سے دوچار ہے، جنھیں لگی لپٹی بغیر سمجھنے کی ضرورت ہے:

  • سب سے پہلی خرابی یہ ہے کہ یہ معاشیات کو اخلاقیات، اخلاقی اقدار اور سماجی اور مساوی معیارات سے مکمل طور پر الگ کرتا ہے۔ انسان کی یہ تباہی دراصل سائنس اور اثباتیت (positivism)  کے نام پر ہوئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صحیح اور غلط اور عدل اور ظلم کا تصور ترقی کی حرکیات کی زبان میں بےگانہ ہوگیا۔ 'معاشرتی ترقی کے بارے میں غور و فکر کرنا،اس کی شناخت اور اس کے بارے میں اخلاقی انتخاب (ethical choices) سے توجہ ، دوسرے تمام امور سے ہٹ کر جنون کے ساتھ مقدار اور قیمتوں(quantum and rates) کی بڑھوتری، سرمائے کی تشکیل، غیرملکی امداد اور وسائل کی تقسیم کی طرف منتقل ہوگئی۔اس کے نتیجے میں پورے عمل کو ایک قسم کی غیرانسانی شکل دے دی گئی۔جیسا کہ ڈینس گولیٹ (Denis Goulet)نے واشگاف الفاظ میں واضح کیا ہے کہ ترقی کا مطلب مطلق اقدار کو مادی بنانا اور ساختیاتی جبریت(structural determinism) کو تخلیق کرنا ہوگیا ہے۔؎۳ اس نقطۂ نظر کے کھوکھلے پن کا احساس تیزی سے بڑھنے لگا ہے۔ ڈینس گولیٹ اس غیراقداری اور غیراخلاقی نقطۂ نظر سے مکمل طور پر نکلنے کی ضرورت پر اصرار کرتے ہیں:

زیادہ تر ترقیاتی پروگرام ثقافتی اقدار کو آلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور انھیں محض ترقی کے ذرائع کے طور پر دیکھتے ہیں، یعنی ان اقدار کو اپنے ان مقاصد کے حصول میں معاون یا رکاوٹ سمجھتے ہیں جن کا اس اخلاقی نظام اور اقدار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ترقی کو مجموعی اقتصادی ترقی، جدید اداروں کی تخلیق، اور صارفین کی خواہشات اور پیشہ ورانہ عزائم کے پھیلاؤ کے ساتھ موافق کرتے ہیں۔تاہم، بنیادی طور پر ان میں سے کوئی بھی ترقی نہیں ہے، بلکہ سماجی تبدیلیاں ہی بہتر طور پر حقیقی ترقی کے راستے ہموار کرسکتی ہیں۔ ترقی کے ایک بالکل مختلف تصور کی ضرورت ہے، جو قوموں کے متنوع اقدار ی نظام سے اخذ کیا گیا ہو۔ان اقدار اور معانی، وفاداریوں، اور طرزِ زندگی کے ان نیٹ ورکس سے ترقی کےمقاصد اور اس کے حصول کے لیے موزوں ترین ذرائع کو اخذ کرنا چاہیے۔

روایتی اقدار اکثر پنہاںحرکیات کا سہارا لیتی ہیں۔ انھیں ایسے طریقوں سے ترقیاتی تبدیلی لانے کے لیے متحرک کیا جا سکتا ہے، جو متعلقہ آبادیوں کی شناخت اور سالمیت کو کم سے کم نقصان پہنچائیں۔ صحیح ترقی کی بنیاد روایتی اور مقامی اقدار پر ہونی چاہیے کیونکہ بالآخر معاشی اور سماجی ترقی دونوں ہی ایک وسیع تر مقصد کے مطابق، انسانی ترقی کو فروغ دینے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ تاہم، انسانی ترقی کا انحصار شناخت کے محفوظ احساس اور ثقافتی سالمیت کے علاوہ معانی کے اس نظام پر بھی ہے جس سے انسان جذباتی طور پر وفادار ہو سکتا ہے۔؎۴

  • سرمایہ دارانہ ترقی کے ماڈل کی دوسری بڑی خامی یہ ہے کہ یہ ’معاشرے‘ کو ’معیشت‘ اور ’معیشت‘ کو ’مارکیٹ‘ کے ساتھ برابر کرتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کو ’معاشی جوش و خروش‘ '( ' economism)  کی فتح قرار دیا گیا ہے اور یہ ہمارے دور کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دنیا میں معاشی اور سماجی بحران کی جڑ ہے۔ایک ڈچ ماہر اقتصادیات ڈیس گیپر(Des Gaper) نے اس تصور کا درج ذیل خلاصہ پیش کیا ہے:

’اکانومزم‘ ان خیالات کا نام ہے جن کے مطابق زندگی کی تفہیم، قیمت اور انتظام معاشی حساب سے کی جانی چاہیے، یا یوں کہہ لیں کہ معیشت ایک جداگانہ اور بنیادی نوعیت کا دائرہ ہے جس کواس کی اپنی آفاقی اور تکنیکی ضروریات کے مطابق چلانا چاہیے جہاں شرح نمو میں بڑھوتری ہی ترقی کا اصل جوہر ہے۔؎۵

اس نقطۂ نظر کا منطقی نتیجہ مارکیٹ کا تمام فیصلوں میں حتمی ثالت بننے اور فیصلہ کن قوت کی صورت میں نکلتا ہے، بالآخر وہ لوگ جن کے پاس قوتِ خرید (purchasing power) زیادہ ہوتی ہے، ان کا سکہ چلتا ہے اور تمام وسائل ان ہی کی طرف اکٹھے ہوتے ہیں۔ اشرافیہ، دراصل استحصالی اور غیر منصفانہ سوسائٹی کا فطری نتیجہ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ سرمایہ داری کے حامی بھی اب پوری انسانی حالت کے اس بالکل بدلی ہوئی شکل (metamorphosis) پر سراپا احتجاج ہیں۔ جارج سوروس (George Soros) اپنی کتاب On Globalization میں کہتے ہیں: ’’مارکیٹ کے طریقۂ کار پر حد سے زیادہ انحصار کرنا بہر صورت خطرناک ہے۔مارکیٹیں اس لیے تیار کی گئی ہیں کہ لوگوں کو رضامندی سے اشیا اور خدمات کے آزادانہ تبادلے کی سہولت فراہم کی جا سکے، لیکن وہ خود اس قابل نہیں ہیں کہ امن و امان جیسی اجتماعی ضروریات کی یا خود مارکیٹ میکانزم کی دیکھ بھال کر سکیں، نہ وہ عدل اجتماعی کو یقینی بنانے کی اہل ہیں۔ یہ مشترک ملکیت والی اشیا (public goods )صرف ایک سیاسی عمل کے ذریعے فراہم کی جاسکتی ہیں،لیکن معاشرہ صحیح اور غلط کی تمیز کے بغیر نہیں چل سکتا۔ جائز اور ناجائز کے اجتماعی فیصلے سیاست کے سپرد کیے گئے ہیں، جب کہ سیاست کی دنیا میں ایسے اجتماعی فیصلوں کا کوئی قوی اخلاقی ضابطہ وجودہی نہیں رکھتا‘‘۔؎۶

 ایک فرانسیسی ماہر اقتصادیات اگنیسی ساش (Ignacy Sachs)، اس تخفیف پسندانہ (reductionist) نقطۂ نظر کو چیلنج کرتے ہیں اور ترقی کے لیے زیادہ جامع اور انسانیت سے متصف نقطۂ نظر کی طرف ایک طاقتور استدعاکی تحریک دیتے ہیں۔معاشی بڑھوتری کے نظریات عام طور پر سرمایہ کاری سے پیداوار میں اضافے سے متعلق تخفیف پسند میکانکی پیراڈائم کواختیار کرتے ہیں۔ جہاں تک لفظ ’ترقی‘ کا تعلق ہے، اگر اسے نیچرل سائنس کےلیے اختیار کیا جائے تو یہ اس کی نامیاتی تشریح کے لیے پُر کشش ہوسکتا ہے۔ نامیاتی نشوونما مکمل طور پر جان دار کے جینیاتی کردار اور ماحولیاتی عوامل کے باہمی تعامل سے طے ہوتی ہے۔ یہ پیداوار (growth)، پختگی (maturation)،   گلنے سڑنے (decay) اور بکھرنے (decomposition) جیسے روایتی طریقے کو اختیار کرتاہے:

اس کے برعکس، سماجی و اقتصادی ترقی ایک کھلا تاریخی عمل ہے جس کا انحصار کم از کم جزوی طور پر انسانی تخیل، منصوبوں اور فیصلوں پر ہوتا ہے جو قدرتی ماحول کی مجبوریوں اور زندہ ماضی (تاریخ) کے بوجھ سے مشروط ہوتے ہیں۔ صرف ہماری انواع (species) اپنے مستقبل کو ایجاد کرنے اور اپنے ماحول کو اپنی مرضی کے مطابق بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس میں حقیقت پسندی اور ذمہ داری کے اصول کے مطابق رَدّ وبدل ہوتا ہے۔

اس طرح ترقی کو سماجی و اقتصادی ڈھانچے کی تبدیلی اور انتظام کے ایک دانستہ اور خو د اپنی رہنمائی کرنے والے عمل کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔جس کا مقصد تمام لوگوں کو باوقار ذریعۂ معاش کی فراہمی کے ذریعے مسلسل بہتری لا کر ایک مکمل اور باوقار زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرنا ہے، چاہے مختلف ادوار میں مختلف معاشروں کی طرف سے ان اہداف کے لیے جو بھی ٹھوس اقدامات کیے گئے ہوں۔؎۷

یہ تخفیف پسندی (Reductionism)، معاشیات کے چند عظیم معماروں کے خیالات سے بھی مختلف ہے۔ الفریڈ مارشل (Alfred Marshall) معاشیات کو محض دولت کا مطالعہ ہی نہیں سمجھتے بلکہ اس سے بڑھ کر وہ خود انسان کا مطالعہ سمجھتے ہیں۔ گالبریتھ (Galbraith) نے مارشل کا یہ اقتباس دُہرایا ہے: ’’ماہرمعاشیات کو بھی دوسروں کی طرح انسان کے حتمی مقاصد کے بارے میں فکرمند ہونا چاہیے‘‘۔؎۸

آر ایچ ٹانی (R.H. Tawny) نوحہ پڑھتے ہیں: ’’صنعت کار ان لوگوں کو نظر انداز کردیتے ہیں جن کے لیے دولت حاصل کرنا چاہیے اور حصول دولت کے طریقوں میں ہی کھو جاتے ہیں‘‘۔؎۹

’معاشرے‘ کو ’معیشت‘ تک محدود کرنے اور معیشت کو صرف منڈی کا عمل بنانے کی یہ کوشش تمام فیصلہ سازی میں معاشی تحفظات کو فیصلہ کن عنصر بنادیتی ہے اور یہ سرمایہ دارانہ ماڈل کی سب سے مہلک خامی ہے۔

  • تیسری خامی یہ ہے کہ تبدیلی کے جعل ساز عمل (falsification) کا تعلق، ترقیاتی ماڈل کو اس کے تاریخی اور ثقافتی تناظر سے الگ کردیتا ہے۔ ترقی کو ایک تکنیکی مسئلے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جو معاشی پیرامیٹرز پر منحصر ہوتا ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ عالم گیر اعتبار کے حامل ہیں۔ اس فریم ورک میں ترقی سرمایے کی تشکیل، بچت اور سرمایہ کاری اور وسائل کی مؤثر تقسیم کا کام بن جاتی ہے۔ جن ممالک میں سرمائے کی کمی ہے، وہ بیرونی سرمایہ کاری اور بیرونی امداد حاصل کرکے اس کمی کو پورا کرتے ہیں۔ پیداوار کا حصول ہی معاشرے کا ہدف بن جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرے کی تبدیلی کا پورا عمل واقع ہوتا ہے۔ ترقی کا یہ عمل عالمی سرمایہ دارانہ عمل کا حصہ بن جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں مغربی طاقتیں بالا دستی حاصل کرتی ہیں۔
  • چوتھی خامی، بڑی کمزوری کا تعلق ادارہ جاتی عوامل کو تقریباً مکمل طور پر نظر انداز کرنے سے ہے، جو حقیقت میں معاشرے کی تبدیلی اور اس کے عمل کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
  • پانچویں خامی، اس نقطۂ نظر کا مجموعی نتیجہ ہے کہ اس ماڈل میں ترقی، اپنے آپ میں ایک مطلوب بن جاتی ہے اور معاشرے کے فروغ کا ایسا ذریعہ نہیں بنتی جو معاشرے کے تمام افراد، قطع نظر نسل، رنگ، مذہب یا جنس کے، تمام لوگوں کے لیے انصاف کو یقینی بنائے۔ سرمایہ دارانہ ترقی کے ماڈل میں ’کارکردگی‘ کلیدی لفظ بن جاتاہے، ’انصاف‘ اور ’انسانی بھلائی‘ نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ترقی اور فلاح کا رشتہ بلاواسطہ قائم نہیں ہوتا بلکہ بالواسطہ طور پر متوقع ہوتا ہے۔ اس طرح غربت میں کمی اور عوام کی فلاح و بہبود اوّلین مطلوب نہیں، بلکہ ضمنی نتیجہ کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں، جسے اصطلاح میں Trickle down کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ماڈل میں  انسانی ترقی، غربت میں کمی اور روزگار پیدا کرنے کے نام پر، اصل توجہ جی ڈی پی اور اس کی شرح پیداوار پر ہے۔ لبرلائزیشن، پرائیویٹائزیشن اور ڈی ریگولیشن صنعت کاری کی اس حکمت عملی کے اہم ستون ہیں۔
  • چھٹا، اور آخری نکتہ یہ ہے کہ یہ ماڈل کاروباری شخص، سرمایہ دار، سرمایہ کار کو کلیدی کردار تفویض کرتا ہے لیکن پھر بھی یہ اپنی فطرت میں اشرافیہ ہی رہتا ہے ۔ نجی شعبے کو اہم محرک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ریاست اور سول سوسائٹی کا کردار غیر اہم ہے۔ لوگوں کی شرکت اس نظام کے لیے اجنبی ہے۔

جمہوریت کے لیے تمام زبانی جمع خرچ کے باوجود، اس عمل میں سے عوام کا اخراج اور ان کی غیر موجودگی اس ماڈل کی ایک بڑی خصوصیت ہے۔

سرمایہ دارانہ ماڈل کی یہ مہلک خامیاں تیسری دنیا کے لوگوں کو حقیقی ترقی اور فلاح و بہبود فراہم کرنے میں ناکامی کی جڑ ہیں، جو اپنی معاشی قسمت بدلنے کی لاحاصل کوششوں میں مصروف ہیں۔ مرکزی دھارے کے ماہرینِ اقتصادیات اور حکمت عملی ساز چاہے کچھ بھی بہانہ بنائیں، یہ احساس [مسلسل] بڑھتا جا رہا ہے کہ سرمایہ دارانہ پیراڈائم کا ’دیوتا ناکام ہوچکا ہے‘۔نئے پیراڈائم کی تلاش اُفق پر امید کی حقیقی کرن ہے۔

عالمی ترقیاتی ادارے کی سفاکانہ پالیسیاں

پروفیسر ولیم ایسٹرلی (William Easterly) عالمی بنک کے سابق ماہر اقتصادیات نے اپنی کتاب The Elusive Quest for Growth میں عالمی ترقیاتی ادارے کا ایک ماہرانہ سروے کیا ہے۔ اس کے نتائج سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کے مستحق ہیں:

۵۰برس پہلے، دوسری جنگ عظیم کے بعد، ہم ماہرین اقتصادیات نے وہ ذرائع دریافت کرنے کےلیے اپنی جرأت مندانہ جستجو کا آغاز کیا تھا کہ جن کی مدد سے منطقہ حارہ (tropics)کے غریب ممالک بھی یورپ اور شمالی امریکا کی طرح امیرممالک بن سکیں۔ ہمیں کئی دفعہ خیال ہوا کہ ہم کامیابی کی کلید کو پاگئے ۔ ہم نے جو قیمتی چیزیں پیش کیں ان میں غیر ملکی امداد سے لے کر مشینوں میں سرمایہ کاری تک، تعلیم کو فروغ دینے سے لے کر آبادی میں اضافے کو کنٹرول کرنے تک، اصلاحات پر مشروط قرضے دینے سے لے کر قرضوں میں ریلیف کی مشروط فراہمی تک شامل تھیں مگر ہم نے ان میں سے کوئی بھی وعدہ وفا نہیں کیا ۔ جن غریب ممالک کا ہم نے مذکورہ نسخوں سے علاج کیا، حسب توقع وہ حقیقی ترقی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

جس خطے کی ترقی پر ہم نے سب سے زیادہ توجہ دی، وہ افریقا ہے جو مکمل طور پر ترقی کرنے میں ناکام رہا۔ لاطینی امریکا اور مشرق وسطیٰ نے کچھ عرصے کے لیے ترقی کی، لیکن پھر ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کے عشروں میں یہ نمو تنزلی کی طرف بڑھ گئی۔ جنوبی ایشیا جو ماہرین اقتصادیات کی جانب سے گہری توجہ حاصل کر رہا ہے، بے ہنگم ترقی کا شکار ہے، جس کی وجہ سے دنیا کے غریبوں کا بڑا حصہ جنوبی ایشیا میں ہے ۔ اور حال ہی میں مشرقی ایشیا کی، جس چمکتی کامیابی کا ہم نے بار بار جشن منایا، اس کی ترقی بھی گراوٹ کا شکار ہوگئی (جنوبی ایشیائی قوموں میں سے تمام تو نہیں، البتہ کچھ قومیں دوبارہ اُٹھ رہی ہیں)۔ منطقہ حارہ کا نسخہ ہم نے اس سے باہر کچھ سابق اشتراکی ممالک پر لاگو کرنے کی کوشش کی لیکن نتائج بہت مایوس کن نکلے۔؎ ۱۰

ولیم ایسٹرلی نے پچھلے چھے عشروں کے دوران اپنائی گئی ترقی کے راستوں سے بہت بنیادی انحراف تجویز کیا ہے ۔ وہ مفادِ عامہ پر مبنی نقطۂ نظر پر زور دیتا ہے۔ وہ جڑ سے حقیقی ترغیبات پر مبنی شرکت پر زور دیتا ہے، نہ کہ ڈیلیور کرنے میں ناکام ہونے پر اور پھر اُس کے اعادے پر۔

ورلڈ بنک کے ایک اور سابق سینئر ماہر اقتصادیات جان پرکنز (John Perkins) کی ایک دلچسپ اور آنکھیں کھول دینے والی کتاب آئی ہے ۔انڈونیشیا میں اپنے کچھ ساتھیوں کے کچھ واضح تبصروں پر غور کرتے ہوئے پرکنز نے Confessions of an Economic Hitman میں اعتراف کیا ہے:

امریکی خارجہ پالیسی اور اس کے کارپوریٹ مفادات کو فروغ دینے کے لیے ہم انڈونیشیا کی اکثریت کے لیے زندگی کو بہتر بنانے کی خواہش کے بجائے لالچ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ایک لفظ ذہن میں آیا: کرپٹو کریسی، مجھے یقین نہیں تھا کہ میں نے اسے پہلے سنا تھا یا ابھی ایجاد کیا ، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ بالکل نئی اشرافیہ کی حقیقت واضح کرتا ہے جس نے کرۂ ارض پر حکمرانی کی کوشش کرنے کا خیال پال رکھا ہے۔ رابرٹ میکنامارا (McNamara)، فورڈ موٹر کمپنی کے صدر کے عہدے سے صدر کینیڈی اور جانسن کے ماتحت سیکرٹری دفاع کے عہدے پر چلے گئے تھے، اور اب دنیا کے سب سے طاقتور مالیاتی ادارے میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ معیشت کی ترقی میں مدد کرنا صرف ان چند لوگوں کو اور بھی امیر بناتا ہے جو اہرام کے اوپر بیٹھے ہیں، جب کہ یہ نیچے والوں کے لیے سوائے نیچے کی طرف دھکیلنے کے کچھ نہیں کرتا۔ درحقیقت، سرمایہ داری کو فروغ دینے کا نتیجہ اکثر ایسے نظام کی صورت میں نکلتا ہے جو قرون وسطیٰ کے جاگیردارانہ معاشروں سے ملتا جلتا ہے۔؎ ۱۱

جان پرکنز نے ترقی پذیر دنیا میں میگا پراجیکٹس کی حقیقی حرکیات کو سامنے لاکر سعودی عرب میں امریکا کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے:

امریکی فرموں کو زیادہ سے زیادہ ادائیگیاں کرنے سے سعودی عرب کے امریکا پر زیادہ سے زیادہ انحصار کی راہ ہموار ہو رہی ہے ۔ بہت جلد واضح ہوگیا کہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں۔ تقریباً تمام نئے منصوبوں میں پیش رفت اور ان کی دیکھ بھال کے لیے سعودیوں کو امریکا کی ضرورت ہوگی۔ یہ منصوبے اس قدر اعلیٰ تکنیکی ہیں کہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ جن کمپنیوں نے انھیں تیار کیا ہے، صرف وہ ہی ان کو برقرار رکھنے اور جدید بنانے کی اہل اور ذمہ دار ہوں گی…ہر پراجیکٹ کے لیے جن دوفہرستوں کا میں نے تصور کیا: ایک ڈیزائن اور تعمیراتی معاہدوں کی، جن کی ہم توقع کرسکتے ہیں، اور دوسری طویل المدت سروس اور انتظامی معاہدوں کی فہرست۔ ان منصوبوں سے بہت سے امریکی انجینئر اور ٹھیکیدار آنے والے عشروں تک خوب فائدہ اُٹھائیں گے۔؎ ۱۲

پرکنز اس احساس جرم کی وجہ سے ہر وقت پریشان رہتا ہے۔وہ مستقبل کے بارے میں مایوسی کا شکار نہیں ہے بلکہ اس کی فکر وہ روایتی حکمت ہے جس کے ہم سب غلام بن چکے ہیں:

میں یہ بہت تفصیل سے بیان کرسکتا ہوں کہ آج ہمیں جو مسائل درپیش ہیں، وہ انھی بدخواہ اداروں کا نتیجہ نہیں ۔ نیز یہ اقتصادی ترقی کے بارے میں غلط تصورات سے وجود پذیر ہوئے ہیں۔ قصور خود اداروں میں نہیں ہے، بلکہ ان کے کام کرنے کے انداز اور ایک دوسرے کے ساتھ تعامل اور اس عمل میں ان کے منتظمین کے کردار کے بارے میں ہمارے تصورات میں ہے۔؎ ۱۳

اس کے باوجود وہ پُرامید اور پُراعتماد ہے کہ دنیا، تمام انسانوں کی مدد کر سکتی ہے مگر صرف اسی صورت میں جب ہم پیراڈائم تبدیل کریں اور اسے حقیقت میں بدلنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ یہ ایک نیا خواب ہوگا جو دُنیا کے استحکام اور سماجی طورپر مساوات کے اصولوں پر مبنی ہوگا۔

نوبیل انعام یافتہ جوزف اسٹگلٹز(Joseph Stiglitz)، جو بطورچیف اکنامسٹ اور ورلڈ بنک کے نائب صدر کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اپنی اہم تصنیف Globalization and Its Discontents میں اس موضوع پر عالمی مالیاتی اداروں میں پالیسی سازی کی اندرونی کہانی کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

آئی ایم ایف کی پالیسیاں، جزوی طور پر اس مضحکہ خیز مفروضے پر مبنی ہیں کہ مارکیٹیں، خود سے، مؤثر نتائج کا باعث بنتی ہیں لیکن آئی ایم ایف مارکیٹ کے اقدامات میں مطلوبہ حکومتی مداخلت کی اجازت دینے میں ناکام رہا حالانکہ یہ مداخلت اقتصادی ترقی کی رہنمائی کر سکتی تھی اور ہر ایک کو بہتر بنا سکتی تھی۔

فیصلے جس بنیاد پر کیے گئے، وہ نظریے اور خراب معاشیات کا ایک دلچسپ امتزاج نظر آتا تھا۔ یہ نظریاتی واہمہ کبھی کبھی خاص مفادات پر پردہ ڈالتا نظر آتا ہے۔ جب کسی ملک پر بحران آتا ہے، آئی ایم ایف ان ممالک کے لوگوں پر اپنی پالیسیوں کے اثرات پر غور کیے بغیر، پرانے، نامناسب [مگر بزعمِ خویش] 'معیاری حل تجویز کردیتا ہے۔ میں نے شاذ و نادر ہی اس بارے میں سنا ہے کہ پالیسیاں غربت کے لیے کیا کریں گی؟ شاذ و نادر ہی متبادل پالیسیوں کے نتائج کے بارے میں غور کیا گیا ہو یا ان پالیسیوں کا تجزیہ کیا گیا ہو۔ ہر بیماری کے لیے ایک ہی نسخہ تھا۔ کسی سے متبادل رائے نہیں مانگی گئی۔ آئیڈیالوجی گائیڈڈ پالیسی کا نسخہ تھماکر ممالک سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ بغیر بحث کے آئی ایم ایف کے رہنما اصولوں پر عمل کریں۔ ان اصولوں نے اکثر خراب نتائج پیدا کیے کیوں کہ وہ اصول جمہوریت مخالف تھے۔

آئی ایم ایف کی ساختیاتی ایڈجسٹمنٹ کی پالیسیاں، وہ پالیسیاں جو کسی ملک کو بحرانوں  سے عہدہ برآ ہونے کے ساتھ ساتھ مزید مستقل عدم توازن کو ایڈجسٹ کرنے میں مدد کرنے کے لیے بنائی گئی تھیں، اُن کی وجہ سے بہت سے ممالک میں بھوک بڑھی اور فسادات ہوئے اور اگر ایک قلیل مدت کےلیے کوئی ملک ترقی حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوگیا، تب بھی اکثر فوائد غیرمتناسب طور پر امیروں ہی کو ملے ۔ نچلے طبقے کو کبھی اس سے بھی زیادہ غربت کا سامنا کرنا پڑا۔؎ ۱۴

مغرب کا دہرا معیار اور خود غرضی

جوزف اسٹگلٹز کے بین الاقوامی ’معاشی کھلاڑیوں‘ پر الزامات بہت سخت ہیں، لیکن سچی بات کی ہے:

عالم گیریت کے ناقدین بجاطور پر مغربی ممالک پر منافقت کا الزام لگاتے ہیں۔ مغربی ممالک نے تجارتی رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے غریب ممالک کو تو مجبور کیا ہے، لیکن اپنے ہاں رکاوٹیں برقرار رکھی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کو اپنی زرعی مصنوعات برآمد کرنے سے روکتے ہیں اور اس لیے انھیں برآمدی آمدنی کی اشد ضرورت سے محروم کردیتے ہیں۔ بلاشبہہ ریاست ہائے متحدہ امریکا اہم مجرموں میں سے ایک بڑے مجرم کے طور پر چلاآرہا ہے، اور یہ ایک ایسا گمبھیر مسئلہ تھا جس کے بارے میں مَیں شدت سے محسوس کرتا ہوں۔ جب میں اقتصادی مشیروں کی کونسل کا چیئرمین تھا، تو میں نے اس منافقت کے خلاف بھرپور جدوجہد کی۔ اس سے نہ صرف ترقی پذیر ممالک کو نقصان پہنچا ہے بلکہ اس سے امریکیوں کو بھی نقصان ہوا۔ صارفین کے طور پر، انھوں نے زیادہ قیمتیں ادا کیں، اور ٹیکس دہندگان کے طور پر، بھاری سبسڈی، اربوں ڈالر کی مالی اعانت کے لیے بھی خرچ کرنا پڑا۔ میری جدوجہد اکثر ناکام رہی۔ خصوصی تجارتی اور مالی مفادات غالب رہے۔

مغرب نے گلوبلائزیشن کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا ہے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ وہ ترقی پذیر دنیا کی قیمت پر فوائد کا غیر متناسب حصہ حاصل کرلے۔ یہ صرف اتنا ہی نہیں تھا کہ زیادہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک نے ترقی پذیر ممالک کے سامان کے لیے اپنی منڈیوں کو کھولنے سے انکار کر دیا۔ مثال کے طور پر، ٹیکسٹائل سے چینی تک بہت سی اشیا پر اپنا کوٹہ برقرار رکھا، جب کہ ان ممالک نے اس بات پر اصرار کیا کہ وہ اپنی منڈیوں کو ترقی پذیر ممالک کے لیے کھول دیں۔ دولت مند ممالک کے سامان؛  یہ صرف اتنا ہی نہیں تھا کہ ترقی پذیر ممالک نے زراعت پر ریاستی رعایت (سبسڈی) جاری رکھی، جس سے ترقی پذیر ممالک کے لیے مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا، جب کہ ترقی پذیر ممالک صنعتی سامان پر اپنی سبسڈی ختم کرنے پر اصرار کرتے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے کچھ کو درحقیقت بدتر بنا دیا گیا۔

مغربی بنکوں کو لاطینی امریکا اور ایشیا میں کیپٹل مارکیٹ کے نظام کے ڈھیلے ہونے سے فائدہ ہوا، لیکن ان خطوں کو اس وقت نقصان اٹھانا پڑا، جب قیاس آرائی پر مبنی بڑے پیمانے پر رقم (hot money)کی آمد ہوئی (وہ رقم جو کسی ملک کے اندر اور باہر آتی ہے، اکثر راتوں رات، اکثر اس بات پر شرط لگانے سے کچھ زیادہ ہوتی ہے کہ کرنسی ہے یا نہیں)۔ یہ کثیر سرمایہ جن ممالک میں ڈالا گیا تھا اچانک پلٹ گیا۔ پیسے کے اچانک اخراج نے کرنسیوں کو تباہ کردیا اور بنکنگ نظام کو کمزور کر دیا۔ اپنے قیام کے نصف صدی بعد یہ واضح ہے کہ آئی ایم ایف اپنے مشن میں ناکام ہو چکا ہے۔ اس نے وہ نہیں کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا___ معاشی بدحالی کا سامنا کرنے والے ممالک کے لیے فنڈز فراہم کرنا، ملک کو اس قابل بنانے کے لیے فنڈز کی فراہمی کہ وہ مکمل روزگار کے قریب پہنچ سکے اور اس کو مالی بحران سے نکالنا۔ لیکن ایک بار جب کوئی ملک بحران کا شکار ہوگیا تو آئی ایم ایف کے فنڈز اور پروگرام نہ صرف اس کو مستحکم کرنے میں ناکام رہے، بلکہ صورتِ حال یہ ہے کہ بہت سے معاملات میں حقیقت میں معاملات کو مزید خراب کردیا، خاص کر غریبوں کے لیے۔

جوزف اسٹیگلٹز کی جانب سے نج کاری کی پوری پالیسی اور اسے فروغ دینے کے لیے کی جانے والی زبردستی کی حکمت عملیوں پر کھلی تنقید بھی قابل غور ہے اور اس پر غور کیا جانا چاہیے:

بدقسمتی سے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک نے نج کاری کے مسئلے کو تنگ نظری سے دیکھا ہے۔ اس کی کوشش تھی کہ نج کاری کو تیزی سے آگے بڑھانا چاہیے … آئی ایم ایف نے صرف یہ سمجھا کہ مارکیٹیں ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تیزی سے پیدا ہوتی ہیں، جب کہ حقیقت میں، بہت سے حکومتی سرگرمیاں اس لیے پیدا ہوتی ہیں کہ مارکیٹیں ضروری خدمات فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ نج کاری صرف صارفین کی قیمت پر نہیں بلکہ کارکنوں کی قیمت پر بھی آئی ہے… نج کاری اکثر نوکریاں پیدا کرنے کی بجائے موجود نوکریوں کو بھی تباہ کر دیتی ہے‘‘۔

اندھی نج کاری کے مزید دو پہلو قابل توجہ ہیں:

اس کے برعکس نج کاری نے معاملات کو اتنا بگاڑ دیا ہے کہ آج بہت سے ممالک میں نج کاری کو طنزیہ ’رشوت‘ کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی حکومت بدعنوان ہو تو اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ نج کاری سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔ آخر کار جس بدعنوان حکومت نے فرم کو بدانتظامی سے چلایا، وہی نج کاری کی باگیں بھی سنبھالے گی۔ بیش تر ممالک میں یکے بعد دیگرے سرکاری حکام نے یہ یقین کرلیا ہے کہ نج کاری کا مطلب یہ ہے کہ انھیں اب سالانہ منافع کی پستی (skimming )تک محدود رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کسی سرکاری ادارے کو مارکیٹ کی قیمت سے کم قیمت پر بیچ کر وہ اپنے لیے اثاثہ کی قیمت کا ایک اہم حصہ حاصل کر تے ہیں، بجائے اس کے کہ اسے بعد کے آفس ہولڈرز کے لیے چھوڑ دیں۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ دھاندلی زدہ نج کاری کے عمل کو اس لیے تیار کیا گیا تھا کہ اس سے حکومتی وزرا زیادہ رقم اپنے لیے مخصوص کریں، وہ رقم نہیں جو حکومت کے خزانے میں جمع ہوگی، معیشت کی مجموعی کارکردگی کی کوئی پروا کیے بغیر۔ جیسا کہ ہم دیکھیں گے کہ روس کس طرح ہرصورت میں اس تباہ کن نج کاری کے نقصانات کا خصوصی مطالعہ پیش کرتا ہے‘‘۔

ڈونرز یا امداد دینے والوں نے کس طرح مغربی سخاوت حاصل کرنے والوں کے ہاتھ مروڑ دیے ہیں، اسٹیگلٹز کی جانب سے صرف دو مثالیں پیش خدمت ہیں:

شاید زیادہ تشویش کا باعث حکومتوں کا کردار رہا ہے، بشمول امریکی حکومت کے، جنھوں نے اقوام عالم کو ان معاہدوں پر عمل کرنے پر مجبور کیا، جو ترقی پذیر ممالک کے لیے انتہائی غیر منصفانہ تھے ، جس پر وہاں کی بدعنوان حکومتوں نے دستخط بھی کیے ۔ ایسے غیرمنصفانہ معاہدوں کی ایک طویل تاریخ ہے، جن کو نافذ کرنے کے لیے مغربی حکومتوں نے اپنی طاقت کا استعمال کیا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے خلاف براہ راست جائز شکایات کی فہرست میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ ایسی سرمایہ کاری اکثر صرف حکومت کی طرف سے حاصل کردہ خصوصی استحقاق کی وجہ سے پھلتی پھولتی ہے۔ اگرچہ معیاری معاشیات ان مراعات پر توجہ مرکوز کرتی ہے، جو اس طرح کے استحقاق کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ گھناؤنا پہلویہ ہے کہ اس قسم کی بیشتر مراعات سرکاری افسران کی رشوت ستانی اور بد عنوانی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری صرف جمہوری عمل کو کمزور کرنے کی قیمت پر آتی ہے۔ یہ خاص طور پر کان کنی، تیل اور دیگر قدرتی وسائل میں سرمایہ کاری کے لیے درست ہے، جہاں غیر ملکیوں کو کم قیمتوں پر رعایتیں حاصل کرنے کی حقیقی ترغیب حاصل ہوتی ہے۔

اس تلخ کہانی کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ حالات تبھی بدل سکتے ہیں، جب بہت ہی بنیادی چیزوں میں تبدیلی لائی جائے۔ اس سلسلے میں اسٹیگلٹز کی اپنی تجاویز ایک نیا پیراڈائم (مثالیہ) بنانے سے متعلق ہیں:

یہ واضح ہے کہ اصلاحات کی ایک کثیر الجہتی حکمت عملی ہونی چاہیے۔ ترقی پذیر ممالک کو اپنی فلاح و بہبود کی ذمہ داری خود لینی چاہیے۔ وہ اپنے بجٹ کا انتظام کرسکتے ہیں۔ اگرچہ یہ اپنےکم وسائل کے اندر رہ کر حفاظتی رکاوٹوں کو ختم کرکے صارفین کو زیادہ قیمت ادا کرنے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔

انھیں بین الاقوامی برادری سے صرف اتنا ہی پوچھنا چاہیے کہ ان کے حق ضرورت اور انتخاب کو قبول کریں جس میں ان کے سیاسی فیصلوں کی عکاسی ہوتی ہو۔ مثال کے طور پریہ کہ کس کو کیا رسک لینا چاہیے؟ دیوالیہ پن کے قوانین اور ریگولیٹری ڈھانچے کو اپنے حالات کے مطابق بنانے اور ترقی یافتہ ممالک کے تیار کردہ سانچوں (Templates) کو قبول نہ کرنے پر ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ جس چیز کی ضرورت ہے وہ پائیدار، منصفانہ اور جمہوری ترقی کے لیے پالیسیاں ہیں۔ یہی ترقی کا راز ہے۔ترقی کا مطلب معاشروں کو تبدیل کرنا ، غریبوں کی زندگیوں کو بہتر بنانا ہے، جس سے ہرایک کو کامیابی، صحت کی سہولت اور تعلیم تک رسائی کا موقع ملے۔

چند لوگوں کی تحکمانہ پالیسیوں کا اتباع کرنے سے مذکورہ ترقی ممکن نہیں ہے۔ جمہوری فیصلے یقینی بنانے کا مطلب یہ یقینی بنانا ہے کہ ترقی پذیر ممالک ماہرین اقتصادیات، سرکاری افسران اور دیگر ماہرین کی ایک وسیع کھیپ کو اس بحث میں شامل کیا جائے۔ نیز اس کایہ مطلب بھی ہے کہ ان لوگوں کی شرکت اس قدر وسیع ہونا چاہیے، جو ماہرین اور سیاست دانوں سے بالاتر ہو۔ ترقی پذیر ممالک کو اپنے مستقبل کی ذمہ داری خود سنبھال لینی چاہیے۔ لیکن مغرب میں ہم اپنی ذمہ داریوں سے دست بردار نہیں ہوسکتے۔

پاکستان میں ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے، وہ ترقی کے اس ’پیراڈائم‘ (مثالیے)کا براہِ راست نتیجہ ہیں، جس کی ملک کی مختلف قیادتوں نے اپنی من مانی سے پیروی کی ہے۔ چند مثبت پہلوئوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن جب ہم اٹھائے جانے والے اخراجات، پیدا ہونے والی خرابیوں، ضائع ہونے والے مواقع اور لوگوں اور معاشرے کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا جائزہ لیتے ہیں، تو بگاڑ اور معاشی تباہ کاریوں کے جلو میں ان کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔(جاری)

_______________

حواشی اور حوالہ جات

  1.  Pervez Hasan, Pakistan’s Economy at the Crossroads: Past Policies and Present Imperatives, Karachi, Oxford University Press, 1998.; Charles H. Kennedy and Cynthuia A. Botteron (eds), Pakistan 2005, Karachi, Oxford University Press, 2006.; Ishrat Hussain, Pakistan: The Economy of an Elitist State, Karachi, Oxford University Press, 1999. ; Shahrukh Rafi Khan (ed), 50Years of Pakistan’s Economy:Traditional Topics and Contemporary Concern, Karachi: Oxford University Press, 1999.  S. Akber Zaidi, Issues in Pakistani Economy, Second Edition, Karachi: Oxford University Press 2005.; Khalid Rahman and Abdullah Adnan, Special Issue Pakistan: Society and State The Muslim World, Hartford, Connecticut, Vol. 96, No. 2, April 2006.; Reports and Studies  of Pakistan  Institute of Development Economics, Islamabad and Social Policy and Development Centre, Karachi.

  2.  Hollis B. Chenery, Mon- tela S. Ahluwalia, C.L.G. Bell and Richard Jolly, Redistribution with Growth, London, Oxford University Press, 1974. ; Ragnar Nurkse, Problems of Capital Formation in Underdeveloped Countries, New York, Oxford University Press, 1953; W.W. Rostow, Stages of Economic Growth, Cambridge, Cambridge University Press, 1971. ; Simon Kuznets ‘Economic Growth and Income Inequality’ The American Economic Review, Vol. 45: 1 (1955)  W. Arthur Lewis, The Theory of Economic Growth, London, Unwin Press, 1955.

  3.  Denis Goulet, Development Ethics: A Guide to Theory and Practice, London, Zed Books, 1995, p 20.

4.    ibid, p. 141

  5.  Des Gasper, The Ethics of Development: From Economism to Human Development, New Delhi, Vistaar Publication, 2004, p xiii.

6.    George Soros, On Globalisation, New York, Public Affairs, 2002, p. 6-7.

 7.   Ignacy Sachs, Understanding Development: People, Markets and States in Mixed Economies, New Delhi, Oxford University Press, 2000, pp. 54-55.

  8.  John Kenneth Galbarith, The Affluent Society, Boston, Houghton Miffin Co. 1958.

  9.  R. H. Tawny, The Acquisitive Society, quoted in John Bartlett, Familiar Quotations, 15th edition, Boston, Little, Brown & Co., 1980, p 773.

  10. William Easterly, The Elusive Quest: Economists’ Adventures and Misadventures in the Tropics, Cambridge, The MIT Press, 2002 , p. 11-12.

  11. John Perkins, Confessions of an Economic Hitman, San Francisco, Barrett-Koehler Publishers, 2004, p 26.

  12. ibid.,  p 87.

  13. ibid.,  p 222.

14.    Joseph Stiglitz, Globalisation and Its Discontents, London, Allen Lane, 2002, p12. (آیندہ تمام اقتباسات اسی کتاب سے ماخوذ ہیں)

 اللہ تعالیٰ اپنے قانون کے تحت زندگی دیتا اور اپنے طے شدہ قانون کے مطابق اس فانی زندگی کو واپس لے لیتا ہے۔ لیکن امر واقعہ ہے کہ کچھ سعید روحوں کی موت واقعی زندگی کو بے رنگ بناتی اور رنج وغم کی گہرائیوں میں دھکیل دیتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں، جن کی زندگیاں صرف اللہ کی راہ میں اور اللہ سے اپنے عہدو فا کو نبھانے میں گزرتی ہیں ۔ایسی ہی ایک نہایت پیاری شخصیت حاشربھائی بھی تھے، جو ۱۱ جنوری ۲۰۲۲ءکو ۹۲برس کی عمر میں ربّ کے حضور پیش ہو گئے ،انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

میرے شفیق بھائی حاشر فاروقی کا انتقال، جہاں مسلم اُمہ کے لیے ایسا بڑا نقصان ہے کہ جس کا عام لوگوں کو ادراک نہیں، وہیں میرے لیے ذاتی طور پر شدید صدمہ ہے کہ تقریباً ۷۰ برس پر پھیلے تحریکی زندگی اور ذاتی تعلقات کا ایک روشن باب ختم ہو گیا۔ وہ میرے بڑے بھائی کی طرح تھے۔ایک ہم دم دیرینہ تھے، علمی کاموں میں مدد کرنے والے شفیق مدد گار تھے، اور سب سے بڑھ کر اللہ کی راہ میں اللہ کے لیے محبت کرنے اور دعائیں دینے والے فرد تھے۔

زندگی کے اتنے طویل سفر میں میں نے حاشر فاروقی بھائی کو اسلام کا انسانِ مطلوب، امت کا درد مندفرد اور ایک سچا پاکستانی پایا۔ وہ اپنی نوعیت کے ایک عظیم صحافی ہی نہیں تھے بلکہ ایک مفکر، علمی منصوبہ ساز ،حوصلہ بڑھانے والے دست گیر اور راہیں سُجھانے والے ہمدرد رہنما بھی تھے۔ اسلام کی صحیح ترجمانی کسی خوف اور مصلحت کے بغیر ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ انھوں نے اسلام کو اس رنگ میں پیش کیا جس میں قرآن، سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور علمائے سلف نے پیش کیا ہے اور لبرل طبقے کے انحرافات اور مغربی فکر کے تحت کیے جانے والے سمجھوتوں (Compromises) کا پردہ چاک کیا ۔ پھر اُمت مسلمہ کاہردُکھ اور اس کا ہر مسئلہ ان کا اپنا مسئلہ تھا اور وہ اس کے بے باک ترجمان تھے۔ ان کا عالم یہ تھا کہ دنیا کے کسی حصے میں بھی مسلمانوں پر کوئی ظلم ہوتا تووہ تڑپ اُٹھتے تھے اور ان کا قلم مظلوم کی دادرسی کے لیے تلوار کی کاٹ ثابت ہوتا تھا۔ امیرمینائی کے بقول:

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

میں گواہی دیتا ہوں اور ایک خلق اس پر گواہ ہے کہ دینِ اسلام سے ان کی وابستگی بدن میں دوڑنے والے خون کی مانند تھی۔ اسلامی نظریۂ حیات کی توضیح و تبلیغ اورمسلمانوں کے مقدمے کی پیش کاری کی خاطر وہ زندگی بھر جدوجہد کرتے رہے، اور اسی راستے پر چلتے ہوئے آخری سانس لیا:

مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَيْہِ۝۰ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ۝۰ۡۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا۝۲۳ۙ  (الاحزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔

اسلام پر ہونے والے حملوں اور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر وہ محض تڑپنے کی حد تک نہیں رہتے تھے، بلکہ اپنی اس تڑپ کو عمل اور تحریر میں ڈھال دیتے تھے۔ گویا کہ دیکھتے ،سنتے، دوا کرتے اور دعا دیتے ہوئے اپنا عملی حصہ ادا کرتے تھے۔ اور یہ سب کام نہایت قلیل مادی ومعاشی وسائل کے باوجود انجام دیتے تھے ۔ وہ اس انتظار میں نہیں رہتے تھے کہ کون کیا کرتا ہے، بلکہ اس بارے میں فکر مند ہوتے تھے کہ وہ اپنی قوت اورصلاحیت کس حد تک اس مقصد کے لیے نچوڑ دینے کے لیے کتنا وقت صرف کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے گذشتہ صدی کے اواخر میں سلمان رشدی کی شیطانی ہزلیات کا جس تحقیقی ،علمی، تحریکی، تنظیمی ،اور ابلاغی سطح پر حاشر بھائی نے تعاقب کیا، اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک امڈتی ہوئی مغربی گستاخانہ لہر سے آگاہ کیا، اس کے ہم گواہ ہیں۔ یہ کوشش ان کے لیے صدقۂ جاریہ کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔

حاشر بھائی زمانہ طالب علمی ہی سے مسلم کاز سے وابستہ تھے۔ علامہ اقبال ،حسن البنا شہید، قائد اعظم اور مولانا مودودی رحمہم اللہ کے افکار سے گہرے ربط وتعلق نے انھیں روحِ عصر سے جوڑدیا تھا۔اس فکر ی تعلق نے انھیں دین وملت سے مربوط کیا، اور غیرت وعمل سے سینچا۔ برطانیہ کے امپیریل کالج میں وہ علم الحشرات(Entomology) میں ڈاکٹریٹ کے لیے گئے، لیکن مسلمانوں کی حالتِ زار نے انھیں اپنا کیرئیر قربان کرنے اور اسلام اور مسلمانوں کی خدمت ہی کو اصل کیریئر بنانے پر دل کی گہرائیوں سے مجبور کردیا۔ اس طرح وہ مسلمانوں کے خاموش سپہ سالار بننے کی راہوں پر چلنے کے لیے یکسو ہوگئے۔ ابتداء میں برطانیہ آنے والے مسلمان طالب علموں سے ربط وتعلق بڑھایا اور انھیں علمی مہارت کے ساتھ ،امت اور اسلام سے وابستگی پر ابھارنے کے لیے تدابیر سوچنا شروع کیں۔ الحمد للہ ،اس ضمن میں ان کی کوششوں میں اللہ تعالیٰ نے برکت عطا کی۔ انھوں نے فیڈریشن آف اسٹوڈنٹس اسلامک سوسائٹی (FOSIS)، یوکے اسلامک مشن (UKIM)، مسلم ایجوکیشن ٹرسٹ (MET)،مسلم ایڈ، دی اسلامک فائونڈیشن ،مسلم کونسل آف بریٹن (MCB) وغیرہ کی تنظیم وتوسیع کے لیے بہ یک وقت کارکن اور رہنما کا کردار ادا کیا۔

گذشتہ صدی کے ساٹھ کے عشرے میں اُمت مسلمہ پر دُنیا بھر کے اشتراکی،صہیونی، برہمن اور ملحدیلغار کرنے لگے تو فاروقی صاحب نے اُمت کے دفاع کے لیے سوچا کہ اُمتِ مسلمہ کے ان تمام مسائل کو، ایک جسد واحد کی طرح دیکھا اور پیش کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنے تخلیقی ذہن، خوب صورت اسلوب تحریر، مستقبل بین نظر اور تحقیقی ذوق سے کام لیتے ہوئے  لندن سے ایک رسالہ نکالنے کا منصوبہ بنایا۔ مجھے یہ سعادت حاصل ہے کہ اس میدان میں  حاشربھائی کی غیرمعمولی فکر مندی اور عمل پسندی کا گواہ بھی ہوں اور ان کامعاون اور ساتھی بھی۔  مالی وسائل ،تحریر وتحقیق اور کتب ورسائل کی فراہمی کے لیے ہاتھ بٹا نے کا اللہ تعالیٰ نے مقدور بھر موقع دیا اور اس سلسلے میں خود مولانا مودودیؒ اور چودھری غلام محمدمرحوم کی تائید اور رہنمائی حاصل تھی۔ اس کے نتیجے میں ایک خواب مئی ۱۹۷۱ء میں پندرہ روزہ Impact International کے نام سے شرمندۂ تعبیر ہوا، اور بہت جلد، دنیا کے تقریباً اسّی ممالک میں متعارف ہوکر اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوا۔ مگر وائے افسوس کہ ۳۵ برس تک جدوجہد کرنے کے بعدمالی مشکلات کے سبب یہ رسالہ بند ہو گیا۔

امپـیکٹ کسی حکومت یا جماعت کا ترجمان نہیں صرف اور صرف اسلام اور مسلم اُمت کا ترجمان تھا۔ اس کا اصل ہدف جہاں اسلام کو اس کی اصل شکل میں مغربی اور خصوصیت سے انگریزی دان دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا، وہیں مسلمانوں کے افکار و مسائل اور اُن پر کیے جانے والے مظالم کی بے باک ترجمانی تھا۔ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ امپـیکٹ نے ’مسلم ویو پوائنٹ‘ کے مقابلے میں ہمیشہ ’مسلم ویو پوائنٹس‘ (Muslim View Points) کی اصطلاح استعمال کی، جو آزادیِ رائے اور افکار میں نظریاتی حدود کے اندر تنوع کی غمّاض تھی۔ یہ صحافت میں ایک بڑی روشن مثال تھی کہ صداقت و دیانت کے ساتھ حقیقی تنوع کا اظہار ہی زندگی کے ہمہ پہلوئوں کو اُجاگر کرسکتا ہے۔

۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان پر بھارتی یلغار نے انھیں مضطرب کیا، اور جب دسمبر میں پاکستان کا مشرقی بازو ٹوٹا تو اس کی ٹوٹ پھوٹ کو انھوں نے اپنی ذات میں اسی طرح محسوس کیا، جس طرح محسوس کرنے کا حق ہے۔ لیکن فاروقی بھائی نے اس مسئلے کے مابعد اثرات سے پاکستان کو نکالنے کے لیے اپنی ذمہ داری بھی ادا کی، اور مغربی دنیا کے مرکزی اخبار ات، ریڈیو سروسز کے ساتھ ساتھ یورپ اور بڑے ممالک کے پالیسی سازوں کے سامنے پاکستان کا کیس پیش کیا۔ یہ کام اداروں کے کرنے کا تھا، مگر فاروقی بھائی نے مختلف اوقات میں اپنے رفقا برادرم سلیم صدیقی، غزالی خاں، عبدالواحد حامداور اوصاف فاروقی وغیرہ کی مدد سے یہ کارنامہ انجام دیا۔ اس طرح دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی سچی تصویریں مضبوط دلائل وبراہین کے ساتھ پیش کیں۔

حاشر فاروقی بھائی ایک ایثار پیشہ ،قناعت پسند اور سچے صحافی تھے ۔مقصد کی لگن کا دوسرانام حاشر فاروقی تھا۔ ذاتی مفاد کی قربانی دینے کی ایک اعلیٰ مثال تھے، اور عملاً مغربی دنیا میں مسلم صحافت کے حدی خواں تھے۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے جو راہیں دکھائیں اورجو نقشۂ کار پیش کیا ، آنے والی نوجوان نسل کا فرض ہے کہ وہ ان راستوں کو روشن کریں۔ ہم نے ایک حاشرفاروقی بھائی کی جدائی دیکھی ہے۔ اللہ کے کرم سے اگر درجن بھر حاشر فاروقی اس محاذ کو سنبھالنے کے لیے آمادۂ کار ہوجائیں تو ان شا ءاللہ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے مسائل پوری قوت سے دنیا کے سامنے نہ صرف نمایاں ہونے لگیں گے بلکہ امت میں یکجہتی بھی پیدا ہوگی ۔ 

فرد ہو یا قوم، نظریے اور مقصود حیات کے بغیر اس کی ترقی اور استحکام ممکن نہیں۔ علامہ اقبال نے اس نکتے کو اسرار و رموز میں بڑے دل نشیں انداز میں بیان کیا ہے:

زندہ فرد از ارتباطِ جان و تن
زندہ قوم از حفظِ ناموسِ کہن

مرگِ فرد از خشکیِ رودِ حیات
مرگِ قوم از ترکِ مقصودِ حیات

(فرد کی زندگی جان و تن کے تعلق سے قائم ہے، اور قوم کی زندگی اپنی قدیم روایات کے تحفظ سے قائم رہتی ہے۔ فرد کی موت جوئے حیات خشک ہوجانے سے واقع ہوجاتی ہے، اور قوم کی موت مقصودِ حیات ترک کردینے سے ہے۔)

نظریۂ حیات کی اہمیت

فرد اور قوم دونوں ہی کی زندگی میں نظریہ، تصورِ حیات اورزندگی کے مقصود کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ قرآن نے انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہدایت کو قرار دیا ہے۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ اس کی سب سے بنیادی دعا ہے اور ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ اس دعا کا جواب ہے۔ قرآن پاک میں تخلیق آدم ؑکے واقعے کو جس طرح بیان کیا گیا ہے، اس کا مرکزی نکتہ انسان کا مقصدِ وجود ہے، یعنی خلافت اور نیابتِ الٰہی اور پورا قرآن اس ہدایت کا امین ہے جو انسان کو یہ کردار ادا کرنے کے لائق بناتا ہے۔

اس سلسلے کی سب سے پہلی چیز یہ ہے جس انسان کو اللہ نے اپنا خلیفہ بنایا، اسے علم الاشیاء سے نوازا۔ اسے عقل، ارادے اور اختیار کی دولت سے مالا مال کیا۔ اس کے اندر خیر اور شر دونوں کا داعیہ رکھا: فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا o (الشمس ۹۱:۸)، اسے حق و باطل اور خیروشر میں تمیز کی صلاحیت سے نوازنے کے بعد، ہدایت سے بھی نوازا اور کامیابی کی شاہراہ کو روشن کرکے اسے بتادیا کہ جو ہدایت کی پیروی کرے گا وہی کامیاب ہے اور جو اس سے رُوگردانی کرے گا وہ ناکام و نامراد ہے:

فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ o وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَـآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج  ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o (البقرہ ۲: ۳۸-۳۹) پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے تو جو لوگ اس ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

اس سے معلوم ہوا کہ انسانی زندگی کی سب سے کارفرما قوت نظریہ اور ہدایت ہے۔ اس مثالیے (paradigm ) میں تین چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں:

       ۱-    علم الاشیاء، یعنی انسان کو اس کائنات کے وسائل اور خزانوں کا علم اور ادراک عطا کیا گیا ہے۔ اسی چیز نے انسان کو دوسری تمام مخلوقات پر فوقیت بخشی اور اسے نیابت و خلافت کا اہل بنایا۔

       ۲-    عقل اور انتخاب کی آزادی انسانوں کو عطا کی۔ فرشتوں نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’یہ فساد کرے گا‘‘۔ گویا رد وقبول کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کوجبر میں نہیں کسا بلکہ اس کو آزادی اور انتخاب کی صلاحیت بھی دی ہے۔ یہ دونوں چیزیں تو سیکولر سوچ اور دینی سوچ میں مشترک ہیں۔ البتہ اس سلسلے کی تیسری چیز (ہدایت) کے بارے میں (جو انسانی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے) سیکولر سوچ اور دینی سوچ میں بُعدالمشرقین نظر آتا ہے اور یہیں سے اختلاف کی بنیاد سامنے آتی ہے۔

       ۳-    ہدایت سے مراد اس زندگی کو گزارنے کا اسلوب ، احساس ذمہ داری کی میزان اور آخرت میں جواب دہی کی ذمہ داری ہے، جس کے لیے انبیاورسل علیہم السلام کو بھیجا گیا، کتابوں اور ہدایت کی روشنی دی گئی اور خاتم الانبیا محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی اس ابدی ہدایت کی تکمیل کی۔

               فرمایا: اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ ط کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ قف لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ قف وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا۝۰ۤۡ غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیْکَ الْمَصِیْرُ o (البقرہ ۲:۲۸۵)’’رسولؐ اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے۔ اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں، انھوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کرلیا ہے۔ یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں ، اور اس کی کتابوں، اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں، اور ان کا قول یہ ہے کہ : ’’ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے، ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی۔ مالک! ہم تجھ سے خطابخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے‘‘۔

مرادیہ ہے کہ ہدایت وہ چیز ہے جو مقصد تک پہنچنے کی تمام تر جدوجہد کو سہارا عطا کرتی ہے، علم کو انسانیت کے لیے نافع اور سودمند بناتی ہے، اور نیابت و خلافت کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے رہنمائی عطا کرتی ہے۔

دوسرے لفظوں میں علم الاشیاء، آزادیِ انتخاب اور ہدایت کے تین ستونوں پر ہی نظریہ،  مقصد اور منزل کے چراغ روشن ہوتے ہیں۔ ان کے بغیر نہ زندگی میں انضباط پیدا ہوتا ہے، نہ اصل جوہرِ انسانیت کا اظہار ہوتا ہے، اور نہ تحریک و تحرک کو کوئی راستہ ہی ملتا ہے۔ اس لیے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے نظریہ ناگزیر ہے، اور یہ سبھی معاشروں اور انسانوں کے لیے ضروری ہے، جب کہ اسلامی نقطۂ نظر سے ہدایت، انسانی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت ہے جس کے لیے   یہ اصول طے کر دیا گیا:

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ لا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَo (الفاتحہ ۱:۵-۶)’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا، اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں‘‘۔

انسانی تہذیب کی تشکیل میں نظریہ کا کردار

انسانی زندگی اور انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ  جن قوموں اور انسانوں کے سامنے کوئی نظریہ اور منزل تھی، انھی نے اوراقِ تاریخ اور دامنِ تہذیب میں نام پیدا کیا۔ نظریہ غلط ہو یا درست، شر پہ مبنی ہو یا خیر کا علم بردار، دونوں ہی صورتوں میں وہ ہمیشہ زندگی کی نشوونما اور پیش رفت اور ترقی کے لیے، ایک بنیادی محرک رہا ہے۔ البتہ نظریہ اگر حق پر مبنی ہے تو اس سے انسانی زندگی اور دنیائے تہذیب میں خیر اور فلاح کے چشمے پھوٹتے ہیں اور اگر وہ باطل پر مبنی ہے تو یہ جہان تگ و دو فساد کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔

تاریخ کے اس فتوے کو ایک طرف تو ابن خلدون[م:۱۴۰۶ء] نے اپنے انداز میں مقصد، شریعت اور عصبیت کے فریم ورک میں پیش کیا ہے، اور دوسری جانب خود دورِ جدید کے فلاسفۂ تاریخ نے شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر پی اے ساروکن [م:۱۹۶۸ء]، آرنلڈ جے ٹائن بی[م:۱۹۷۵ء] اور عصرِ حاضر کے دیگر ماہرین تاریخ نے بھی اپنے اپنے انداز میں اس موضوع پر لکھا ہے۔ ان سب کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ وہی قومیں انسانی تاریخ کے اسٹیج پر ابھری ہیں، جن کے سامنے ایک اعلیٰ نصب العین تھا، اور جو اس نصب العین اور نظریے کی بنیاد پر فکری، سماجی، معاشی اور نفسیاتی زندگی کے چیلنجوں کا جواب دینے کا داعیہ، صلاحیت اور جذبہ رکھتی تھیں۔ اس چیز کو گذشتہ ربع صدی کے ماہرین تہذیب و تاریخ: ’انسانی تہذیب کی تشکیل میں نظریے اور افکار کی فیصلہ کن کار فرمائی‘ کے جملے میں پیش کرتے ہیں۔ اس اصول کو ہمارے اہلِ دانش نے فکری و عملی جدوجہد سے مربوط کیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ [م:۱۷۶۲ء] نے اسے ’اجتہاد اور جہاد‘ سے تعبیر کیا ہے، اور شعرو ادب نے اسے ’قلم اور تلوار‘ کی علامات کی شکل میں پیش کیا ہے۔

یہ تاریخ انسانی کا نہایت صاف اور واضح فیصلہ ہے کہ تہذیبی تبدیلی کے لیے فیصلہ کن عامل قلم ہی ہے۔ قلم سے مراد ہے فکرو دانش اور اخلاق و اصول، جب کہ اس تبدیلی کو روبہ عمل لانے اور اس کی حفاظت کے لیے قوت، تنظیم اور تلوار کا وجود ناگزیر ہے۔ یوں قلم اور تلوار انسانی تاریخ، تہذیب اور زندگی کے لیے دست راست اور ایک دوسرے کے زبردست معاون اور پُشتی بان ہیں۔

۲۰ویں صدی ایک طرف بے خدا فلسفوں کے درمیان کش مکش اور دوسری طرف یورپی قوموں کے درمیان تجارتی و معاشی رقابت کی بنا پر خوں ریز تصادم کی صدی تھی___ اس سے ماقبل متصل ۱۹ویں صدی میں ایوان ترگینف [م:۱۸۸۳ء] نے نہل ازم ( Nihlism :’زندگی ایک   بے معنی اور محض وجودی چیز ہے‘) کے نظریے کو بڑے دعوے سے پھیلانے کی کوشش کی تھی۔ گذشتہ  دو صدیوں میں جواب دہی کے تصور سے بالا انسان کی مزعومہ سوچ کا سرچشمہ اسی فکر سے پھوٹتا ہے۔ ۱۹ویں صدی کے اواخر میں اشتراکیت اور پرولتاری، یعنی مزدوروں کی آمریت کا نعرہ بلند ہوا، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے وسیع حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی کے افکار کو تہہ وبالا کر دیا، مگر اپنی غیر فطری بنیاد کے باعث ۷۰، ۸۰ سال کے بعد ہی اشتراکیت کا سورج ڈوب گیا۔اسی درمیان میں فسطائیت (Fascism) کا ڈنکا بھی بجا مگر ایک دوعشروں میں ہی، یہ انسانی تاریخ کی بدترین اصطلاح بن کر فنا کے گھاٹ اتر گیا۔ انسانیت کے ساتھ یہ کتنا بڑا مذاق ہے کہ وہی مغربی تہذیب جس نے ۲۰ویں صدی میں سائنسی ترقی کا سہارا لے کر دو عظیم جنگوں میں کروڑوں انسانوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا تھا، آج مسلمانوں کو امن کا درس دے رہی ہے؟ پھر سوویت یونین کے انہدام [۲۶دسمبر۱۹۹۱ء] کے بعد فرانسس فوکویاما [پ:اکتوبر ۱۹۵۲ء] نے End of the History میں گویا نظریاتی تاریخ کے خاتمے کا اعلان کیا  مگر چند ہی برسوں میں یہ فکر بھی پانی کے بلبلے کی طرح تحلیل ہوگئی۔

آج دنیا میں ایک بار پھر نظریات کی بالادستی، مقاصد اور ’اقدار بطور اصل کار فرما قوت‘ کے فہم اور حصول کی پیاس بڑھ رہی ہے۔ عصر حاضر میں پیدا شدہ عالمی، تہذیبی، معاشی، اخلاقی اور سیاسی بحران کا حل ایک بار پھر نظریاتی آدرشوں میں تلاش کیا جا رہا ہے۔ مراد یہ ہے کہ اصل بحران،  اخلاقی بحران ہے، نظریاتی شعور کی پستی کا بحران ہے، جس نے انسانی زندگی اور اس کے مستقبل کو خوف ناک چیلنج سے دو چار کر دیا ہے۔

آج اہل فکر ونظر، اقدار اور اخلاق کی کارفرمائی کو زندگی کے فیصلہ کن مظہر کی صورت میں پیش کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ انسانیت کا مستقبل اسی وقت روشن قرار دیا جاسکتا ہے، جب ایک ایسا عالمی نظام معرض وجود میں آئے، جو احترامِ آدمیت، اخوت، حریت اور مساوات اور بے لاگ انصاف پر استوار ہو، جو استحصال سے پاک اور انسانوں کے درمیان محبت، امداد باہمی اور مؤدت کا داعی ہو۔ پاکستان کے فکری بانی علامہ محمد اقبال کہتے ہیں:

وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے، اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ہے، جو نسل و زبان و رنگ سے بالاتر ہے۔ جب تک اس نام نہاد جمہوریت میں سے اس ناپاک قوم پرستی اور اس ذلیل ملوکیت کی لعنتوں کو پاش پاش نہ کر دیا جائے گا، جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبار سے الخلق عیال اللہ کے اصول کا قائل نہ ہو جائے گا، جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ ونسل کے اعتبارات کو نہ مٹایا جائے گا، اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کر سکیں گے، اور اخوت، حریت اورمساوات کے شان دار الفاظ شرمندۂ معنی نہ ہو پائیں گے [یکم جنوری۱۹۳۸ء کو  سالِ نو کا پیغام، آل انڈیا ریڈیو، لاہور]

اسی طرح علامہ محمد اقبال ایک دوسرے موقع پر لکھتے ہیں:

جو کچھ قرآن سے میری سمجھ میں آیا ہے، اس کی رو سے اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح ہی کا داعی نہیں، بلکہ بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے، جو اس کے قومی اور نسلی نقطۂ نظر کو یکسر بدل کر، اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے… یہ اسلام ہی تھا جس نے بنی نوع انسان کو سب سے پہلے یہ پیغام دیا کہ دین نہ تو قومی ہے، نہ نسلی ہے، نہ انفرادی، نہ پرائیویٹ، بلکہ خالصتاً انسانی ہے۔ اس کا مقصد، باوجود تمام فطری امتیازات کے عالمِ بشریت کو متحد و منظم کرنا ہے۔

۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کو خطبہ الٰہ آباد میں علامہ اقبال نے یہ بھی فرمایا تھا:

اسلام، فرد کی زندگی کو دین اور دنیا کے الگ الگ خانوں میں نہیں بانٹتا۔ وہ مادے اور روح کی کسی ناقابلِ اتحاد ثنویت کا قائل نہیں ہے۔ اسلام کی رُو سے خدا اور کائنات، روح اور مادہ، کلیسا اور ریاست ایک ہی کُل کے جزو ہیں، اور ایک دوسرے سے پیوست ہیں۔ اسلام یہ نہیں سکھاتا کہ انسان اس آلایشوں سے لبریز اور ناپاک دنیا کا کوئی باشندہ ہے اور وہ اسے کسی دوسری دنیا کی خاطر ترک کردے، جہاں روح رہتی ہے۔ اسلام کے نزدیک مادہ روح کا وہ روپ ہے جو قیدمکان و زمان میں گھرا ہوا ہے۔ یورپ کی عیسائی ریاستوں کی زندگی سے مذہب عیسوی تقریباً خارج ہوگیا ہے… میری خواہش ہے [اور مجھے یقین ہے کہ] شمال مغربی ہندستان کے مسلمانوں کو ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی۔

گویا اسلام ان نسلی اور علاقائی امتیازات سے بلند ہو کر انسان کو اس کی فطرت کی جانب بلاتا اور اسے ایک تصور جہاں (World View) کی روشنی دیتا ہے کہ جس کی بنا پر منصفانہ نظامِ جہاں (World Order) نموپذیر ہوتا ہے۔

اس وقت جو لوگ نظریے کی کار فرمائی اور اس کی اہمیت کا انکار کر رہے ہیں، وہ اس بات کو بھول گئے ہیں کہ مقصد حیات، نظریے، اخلاقی اور سماجی اقدار سے کٹ کر، اور مفاد وعصبیت کی دلدل میں پھنس کر انسان حیوانیت کی سطح پر پہنچ جاتا ہے۔ جتنا وہ نظریے اور اخلاق سے دُور ہوتا ہے، اتنا ہی وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے تباہی وبربادی کا سبب بنتا ہے۔نہ اس کی قوم پرستانہ جمہوریت، انسانیت کے لیے ہمدردیِ عمل کا پروگرام پیش کرتی ہے اور نہ ملوکیت یا ڈکٹیٹرشپ ہی انسانیت کے دکھوں کا مداوا کر پاتی ہے۔ ان طرزِ ہائے حکومت کی طرح معاملہ قوموں اور ملکوں کا بھی ہے۔

 تحریکِ پاکستان کی قوتِ محرکہ

پاکستان میں نظریہ پاکستان کو سمجھے بغیر تحریک پاکستان اور اس تحریک کی اصل قوتِ محرکہ کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ پاکستان کے وجود کو سمجھنے کی کنجی تحریک پاکستان کا نظریہ ہے۔ اس مناسبت سے سمجھنا چاہیے کہ مسلمان اور اسلام دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ اسلام ہی مسلمانوں کے تشخص کی علامت ہے اور مسلمان ہی اسلام کی پہچان ہیں۔ اس حوالے سے یہ نظریہ کہ’’ مسلمان ہونا تو ٹھیک ہے، مگر اس کا اسلامی ہونا کوئی ضروری تقاضا نہیں ہے‘‘، ایک احمقانہ اور تباہ کن تصور ہے۔ مسلمان اپنی تعریف کے اعتبار سے ایک اُمت کا حصہ ہے، ایک مشن اور مقصد کا علَم بردار ہے، جسے مسلمانیت کی پہچان نے ایک خاص ذمہ داری سونپ دی ہے۔ مسلمان گناہ گار ہو سکتا ہے، مگر وہ اسلام کے تصور جزا و سزا، اور اُخروی جواب دہی کے تصور سے اپنے آپ کو الگ کرلے یا اس کی مسلسل نفی کرے تو وہ مسلمان نہیں رہ سکتا۔ اس لیے عقیدہ ہی اول وا ٓخر مسلمان کی پہچان ہے۔

یہ عقیدہ انسان کے ذہن میںتین بنیادی تصورات راسخ کر دیتا ہے: lغیر اللہ سے بغاوتl اللہ پر ایمان اور اس کے سامنے مکمل سپردگیlزندگی گزارنے کے لیے اللہ، رسولؐ،  قرآن اور آخرت پر ایمان اور قرآن و سنت کی ہدایت کے مطابق زندگی کو ڈھالنے کی جدوجہد ___ یہ تینوں تصورات ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور یہی مسلم اُمت کی بنیاد ہیں، اور اسی مناسبت سے ہر مسلمان مرد اور عورت کی شناخت متعین ہوتی ہے۔

یہ وضاحت ضروری ہے کہ جس چیز کو ’دو قومی نظریہ‘ کہا جاتا ہے یہ ہندستانی مسلمانوں کی اختراع نہیں ہے، بلکہ وہ پہلے دن سے اسلام کے ایمانی، فکری، تہذیبی تصورات اور اہداف کو قائم کرنے والا نظریہ ہے۔ سورۂ فاتحہ دو قوموں اور دوامتوں کے خدوخال واضح کرتی ہے، فرمایا:

صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ لا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ o

قرآن کریم کا یہی افتتاحیہ اس دو قومی نظریے کو وجود بخشتا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ہمیشہ سے دوراستے متعین کرکے، انسانوں کو رد و قبول کا اختیار دے دیا گیا ہے، یعنی ایک سیدھا راستہ اور دوسرا اس کے برعکس اللہ کی ہدایت سے انحراف اور انکار کا راستہ۔ ایک راستہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے اصولوں سے تشکیل پاتا ہے، اور دوسرا راستہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے انکار، مخالفت یا اپنی خواہشات کی پیروی سے منسوب ہے۔ اس دو قومی نظریے میں جو بنیادی حقیقت بیان کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ انسانیت دراصل انھی دو بنیادی قافلوں پر مشتمل ہے۔ ان دونوں قافلوں میں فکر، صورت، ہیولا، شکل اور منزل جدا جدا ہے۔ ایک قافلہ انبیا علیہم السلام کے بتائے ہوئے راستے پر چل رہا ہے اور دوسرا انحراف اور بغاوت کو اپنائے ہوئے ہے۔

اس نظریے کے تین مضمرات ہیں، جن کا سمجھنا از بس ضروری ہے:

  • پہلی بات یہ کہ افراد اور اقوام کو اس امر کی آزادی حاصل ہے کہ وہ کون سی منزل اور کس نظریے کا انتخاب کرتے ہیں۔ اسی انتخاب کے مطابق وہ اجتماعی زندگی میں نتائج بھگتیں گے اور انفرادی طور پر آخرت میں جواب دہ ہوں گے۔
  • دوسری یہ کہ ہر قوم کو یہ موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنے تصور اور منزل کے انتخاب کے مطابق اپنے تشخص اور تہذیبی اور معاشرتی دروبست کا انتظام و انصرام کرے، اور اس میں مسابقت و بہتری کے امکانات کو بروئے کار لائے۔
  • تیسری جہت، انسانی زندگی کے اُس پہلو سے وابستہ ہے، جس کا ذریعہ ہدایت الٰہیہ ہے۔ صرف اس ایک پہلو سے جو عقیدے پر مبنی ہے، اس میں تو لازماً یک رنگی ہے، تاہم احوال و ظروف اور زمان و مکان کی مناسبت سے، اس عقیدے کے تحت یک سو اور باہم مربوط ہوتے ہوئے، افراد اور ممالک کے لیے کثرتیت کی گنجایش پوری طرح موجود ہے۔ اسلام نے اس جزوی اختلاف اور تنوع کو اللہ اور اس کے آخری رسولؐ کے پیش کردہ ضابطے کے فریم ورک میں اختیار کرنے اور راستے نکالنے کی اجازت دی ہے۔

یہی چیز ہے دوقومی نظریے کی اساس اور وسیع تر بنیاد۔ اسی بنا پر ایک مسلمان کے لیے  لازم ہے کہ تصور حیات اور الہامی ہدایت کی بنیاد پر دنیا میں علم پھیلائے، رہنمائی دے اور دوسروں کے لیے قابل اتباع نمونہ پیش کرے۔ یہی حق دو قومی نظریہ دوسروں کو بھی دیتا ہے کہ وہ اپنے تصورات و عقائد کے مطابق انفردی اور اجتماعی زندگی کے معاملات کو چلائیں۔ یہ نظریہ مغرب کے ’قومی ریاستوں‘ (Nation States) کے تصور سے بالکل مختلف سوچ کا حامل ہے۔ اس میں قومی ریاست کا نہیں، قوموں کی ریاست کا تصور ہے جس میں یہ اہتمام موجود ہے کہ ہر قوم کو اپنے تشخص کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے، تاہم جس کو اکثریت حاصل ہے، اس کی یہ اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ جہاں وہ اپنے اصولوں اور اقدار کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل کرے، وہیں اس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اختلاف اور تنوع کا احترام کرے اور اقلیتوں کے لیے آسودگی پیدا کرے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرے۔ اس فریم ورک کی مختلف اور متنوع صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں، مگر ان میں مسلمانوں کے لیے تین کو مرکزیت حاصل ہے:

۱- وہ ملک، جہاں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے اور اس میں انھیں اقتدار بھی حاصل ہے۔

۲- وہ ملک، جس میں مسلمانوں کی اکثریت تو ہے، مگر اقتدار سے محروم ہیں۔

۳- وہ ملک، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اورانھیں اقتدار بھی حاصل نہیں ہے۔

پہلی صورت میں اسلامی نظریے کا تقاضا یہ ہے کہ اجتماعی زندگی کانظام، اسلام کی روشنی میں وضع کیا جائے جس میں اکثریت نظام زندگی اور منزل کو متعین کرے اور دوسری تمام اقوام کو انفرادی، تہذیبی اور اجتماعی حقوق حاصل ہوں، تاکہ وہ اس نظریاتی ریاست میں اپنے مذہبی اور نظریاتی تشخص کے لیے مناسب جگہ (space) پا سکیں۔ اس طرح اکثریت اور اقلیت، دونوں عدل و انصاف اور افہام و تفہیم کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔

دوسری صورت میں مسلمانوں کی فطری طور پر خواہش اور کوشش ہوگی کہ وہ اپنی اکثریت کو اختیار اور اقتدار دلانے کے لیے جدوجہد کریں۔ یہ ان کاجائز حق ہے۔ اگر انھیں اس میں کامیابی حاصل ہو جاتی ہے تو وہ پہلی صورت میں آ جاتے ہیں، ورنہ جدوجہد کے مرحلے میں شامل رہتے ہیں۔

رہی تیسری صورت، تو اس میں اسلام نے یہ بات قبول کی ہے کہ جن کو اکثریت اور اقتدار حاصل ہے، انھیں اجتماعی زندگی میں انصاف اور دوسروں کے حقوق کی پاس داری کے ساتھ حکمرانی کا موقع ملنا چاہیے۔ دوسرے مذہبی اور تہذیبی تشخص کے حاملین کو قرار واقعی جگہ اور سہولت حاصل ہونی چاہیے، تاکہ وہ باوقار اور منصفانہ انداز سے زندگی گزار سکیں۔

مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں دو قومی نظریہ، انسانی تاریخ و تہذیب اور زندگی سے مطابقت رکھتا ہے، تاہم حالات کی مناسبت سے اس میں تقدیم و تاخیر ہو سکتی ہے۔ اس نظریاتی فریم ورک میں برعظیم پاک و ہند کے حالات کا جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے ۹۰۰ سالہ دور حکمرانی میں اس بات کی پوری کوشش کی ہے کہ وہ بڑی حد تک شریعت کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ایک کار فرما قوت بنانے کا اہتمام کریں۔ انھیں اس میں کامیابیاں بھی ملیں اور ناکامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس طرز احساس کا منہ بولتا ثبوت اس خطۂ ارضی میں تجدیدِ دین اسلام کی متعدد تحریکیں ہیں، مگر اس تمام تر احساس کے باوجود خطۂ ہند کی تاریخ یہ ثبوت پیش نہیں کرتی کہ مسلمانوں نے جبر اور قوت کے ذریعے یہاں بسنے والی اکثریت کو اپنے مذہب، اپنی زبان اور اپنے تہذیب و تمدن کو تبدیل کرنے پر کبھی مجبور کیا ہو، بلکہ اس کے برعکس انھیں اس چھتری کے تحت پوری آزادی کے ساتھ اپنے عقیدے اور تہذیب کے مطابق زندگی گزارنے کا پورا پورا موقع دیا گیا اور اجتماعی امور میں معاشرے کے تمام طبقوں کو برابر کے مواقع میسر رہے۔

مسلمانوں کی آمد سے پہلے کے ہندستان کی تاریخ دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندومت کے پیرو کاروں کو جب بھی اقتدار ملا، انھوں نے دوسرے مذہب کو نیست و نابود کیا۔ اس کے پیروکاروں کو ملک بدر کیا یا اپنے نظام میں تحلیل کرنے کے لیے ہر ناجائز کوشش کی، یا ان کی انفرادی شناخت کو ختم کرکے دم لیا۔ اس کے برعکس مسلمانوں کی ۹۰۰سالہ حکمرانی کے زمانے کا ریکارڈ   پوری دنیا کے سامنے موجود ہے، اور ان لوگوں کے پاس بھی موجود ہے جنھیں ’ہندوسیکولرازم‘ میں ’روشن خیالی‘ کی روشنی دکھائی دیتی ہے۔ اس زمانے کا ریکارڈ گواہی دیتا ہے کہ مسلمانوں نے سیاسی غلبے کے باوجود، دوسرے مذاہب کی شناخت کو ختم کرنے یا ان کے پیروکاروں کو اس مناسبت سے کبھی شہری حقوق سے محروم کرنے کی کوشش نہیں کی (البتہ متحارب اور جنگ میں مصروف عناصر کا معاملہ دوسرا ہے)۔ یوں سرزمین ہند پر مسلم دور حکومت میں تمام افکار و مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ، باغ کے مختلف اور رنگارنگ پھولوں کی طرح پھلتے پھولتے اور اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہے۔

بعدازاں برطانوی استعمار کے قبضے کے اولین دور میں شعوری طور پر، ہوشیاری اور  چابک دستی کے ساتھ، اس نو آبادیاتی طاقت نے کوشش کی کہ یہاں مسلمانوں کو کمزور اور غیر مؤثر بنادیں کیونکہ انھیں اصل چیلنج مسلمانوں سے تھا، جن سے انھوں نے اقتدار چھینا تھا اور اسی مناسبت سے ہندو نفسیاتی طور پر برطانوی استعمار کے حلیف تھے۔ اسی استعمار نے سیاسی، تہذیبی اور معاشی اعتبار سے اپنے ہم نوائوں کی ایک قوت تیار کی جس کے لیے عیسائی مشنری قوتوں، جدید تعلیم کی تحریک اور دوسرے تمام سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوئوں کی بالادست قوت کو ہرممکن سہولت مہیا کی۔ دوسری طرف مسلمانوں کا ایک مراعات یافتہ طبقہ   پیدا کیا، جو دور غلامی میں انگریزوں کا وفادار، اور مسلمانوں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنا رہا۔  قیامِ پاکستان کے بعد اس طبقے نے اپنے اس کردار کو پوری وفاداری سے انجام دے کر ملک کو نظریاتی کش مکش اور تہذیبی انتشار کی دلدل میں دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ہندستان میں چونکہ مسلمانوں کی آبادی تقریباً ایک چوتھائی تھی اور ہندوغالب اکثریت رکھتے تھے، اس لیے بھی ہندوئوں کو اجتماعی نظام میں بالادستی دی گئی۔ اس پس منظر میں تحریک آزادی اُبھری۔

انگریزوں کے اس دور حکمرانی میں جو پہلی عوامی تحریک زبان زدِ خاص و عام ہوئی، جس کی بازگشت سمندر پار بھی سنی گئی اور جس نے اہلِ ہند میں ایک عوامی شعور بیدار کیا، وہ تحریکِ خلافت تھی۔ اس تحریک کی قیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی۔ تب مسلمان دو قومی نظریے کی روشنی میں اپنے سیاسی حقوق اور نظریاتی و تہذیبی تشخص کو ہندستان کے اجتماعی وجود ہی میں حاصل کرنے کی کوشش شروع کررہے تھے۔ اس ضمن میں ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کا قیام، مسلم شناخت کا تحفظ، حقوق کا حصول، سیاسی جدوجہد میں نظم و ضبط کا احساس اورتقسیم اختیارات بنیادی ستون کا درجہ رکھتے ہیں۔مسلم لیگ کے قیام ہی نے وفاقی اور صوبائی اختیارات کی بحث کو ایک رخ دیا۔ اس کے مقابلے میں انڈین نیشنل کانگریس اختیارات کی مرکزیت چاہتی تھی۔ سائمن کمیشن اور نہرو رپورٹ میں کانگریس کی اس سوچ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ۱۹۳۵ء کے ایکٹ کے تحت قائم شدہ کانگریس کی صوبائی حکومتوں نے مسلمانوں کا جو حشر کیا، وہ ٹھیک اسی طرز عمل کا ایک عکس تھا جسے اپنے دورِ اقتدار میں ہندوئوں نے جین مت اور بدھ مت کے ماننے والوں سے روا رکھا تھا۔

یہ تھا منظر نامہ تیسری صورت کے حوالے سے جسے مسلمانوں نے دوسری صورت میں ڈھالتے ہوئے آگے بڑھنے اور پھر نمبر ایک میں تبدیل کرنے کی منزل کا انتخاب کیا۔ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کی قرارداد لاہور (جسے ہندوئوں نے قرارداد پاکستان کا نام دیا) دراصل اُس راستے کا سنگ میل ہے، جس راستے کی طرف کانگریس کی تنگ نظری نے مسلمانوں کو دھکیلنے کے لیے بنیادی کردار ادا کیا۔ اس چیزنے تہذیبی شناخت کے لیے دو قومی نظریے کو اور زیادہ وضاحت کے ساتھ مسلمانوں کے ذہنوں میں اتارا اور دلوں کی دھڑکن بنادیا۔

اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ علامہ محمد اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد (۲۹دسمبر ۱۹۳۰ء) کو غور سے دیکھا جائے۔ ۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۰ء کے زمانے میں مسلمان مفکرین، سیاست دان،  علمائے کرام اور دانش ور ایک گہرے اضطراب کا شکار تھے۔ پھر حالات کا حقیقت پسندانہ جائزہ   لے کر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کا ہدف محض برطانوی سامراج سے آزادیِ محض کا حصول نہیں ہے، بلکہ یہ آزادی وہ اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان کی    یہ آزادی دوسرے عقائد رکھنے والوں کے لیے بھی امن و آشتی کی نوید ثابت ہوگی۔

آزادی کے اس تصور کو ایک طاقت ور جذبے کی شکل ۱۹۰۶ء سے ۱۹۳۸ء کے درمیانی عرصے کے معروضی حالات نے دی۔ یہ بات طے ہوگئی کہ ایک تنگ نظر اکثریت سے آزادی حاصل کرکے مسلم ریاست کا قیام لازم ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ اور قائد اعظم ؒکے مابین جو خط کتابت ہوئی، اور ۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۰ء کے درمیان آل انڈیا مسلم لیگ نے جو قرار دادیں منظور کیں، اور ان میں جو مسائل نمایاں کیے گئے، اگر دیانت داری سے ان کا مطالعہ کیا جائے تو صرف ایک ہی نتیجہ سامنے آتا ہے، اور وہ یہ کہ اپنے دینی، نظریاتی، تہذیبی، سیاسی اور معاشی تشخص اور مستقبل کو محفوظ کرنے اور اسے ترقی دینے کے لیے مسلمانوں کے سامنے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ مسلم ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے۔یوں احساس اور سوچ جب عمل میں تبدیل ہونا شروع ہوئی تو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔

قائداعظم کا وژن

قائداعظم محمد علی جناح نے ۱۹۳۸ء سے ۱۹۴۸ء تک اپنے ۱۰۰ سے زیادہ بیانات میں: اسلامی نظریے، اسلامی تہذیب، اسلامی قومیت، اسلامی تشخص، اسلامی قانون، اسلامی کلچر، اسلامی تاریخ اور اسلامی معاشرت کا ذکر کیا ہے۔

قائداعظم نے ہندو قوم پرست لیڈر گاندھی جی (م: ۱۹۴۸ء) کے نام اپنے ۱۰ستمبر ۱۹۴۴ء کے خط میں لکھا تھا:

قرآن مجید مسلمانوں کا ضابطۂ حیات ہے۔ اس میں مذہبی، مجلسی، دیوانی، فوج داری، عسکری، تعزیری، معاشی، سیاسی اور معاشرتی، غرض یہ کہ سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ مذہبی رسوم سے لے کر روزانہ کے امورِ حیات تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرم تک، زندگی میں جزا اور سزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا تک___ یہ قول و فعل اور حرکت کے احکامات کا مجموعہ ہے۔

اس پس منظر میں ۱۱؍اگست۱۹۴۷ء کی تقریر کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کرنا اور اس کی بنیاد پر یک سر مختلف استدلال گھڑنا، قائداعظم کے ساتھ سخت ناانصافی اور علمی اعتبار سے سراسر بددیانتی ہے۔ خود قائد اعظم نے باانداز دگر اس تقریر کی تین مرتبہ وضاحت کی۔ ہم یہاں قائداعظم کا ایک بیان اور تین تقاریر پیش کر رہے ہیں۔بیان ۱۱؍اگست۱۹۴۷ء سے ڈیڑھ ماہ قبل کا ہے اورتقریریں ۱۱؍اگست کے بعد کی ہیں۔

تحریک پاکستان کے زمانے میں کانگریس کے حامی، قیام پاکستان کے مخالف، متحدہ قومیت کے طرف دار اور روشن خیال، مسلمان رہنمائوں میں ایک نمایاں نام خان عبدالغفار خاں [م:۱۹۸۸ء]  کا تھا۔ انھوں نے ۳جون ۱۹۴۷ء کے اعلان تقسیم کے بعد اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے، ۲۳جون کو کہا تھا:

’جملہ پٹھانوں کے لیے ایک ’آزاد پٹھان ریاست‘ قائم کی جائے۔ اس ریاست کا دستور جمہوریت کے اسلامی تصورات، مساوات اور معاشرتی انصاف کے مطابق وضع کیا جائے۔ جملہ پٹھانوں سے اپیل ہے کہ وہ اس محبوب منزل کے حصول کے لیے متحد ہو جائیں اور کسی غیر پختون غلبے کے سامنے سرتسلیم خم نہ کریں۔

 اس کے جواب میں ۲۸ جون ۱۹۴۷ء کو نئی دہلی سے قائداعظم نے ایک طویل بیان جاری کیا:

اس سے قبل اس نوع کا پرفریب اور عیارانہ مطالبہ خان برادران یا کسی اور کی جانب سے پیش نہیں کیا گیا کہ سارے پختونوں کے لیے آزاد ’پٹھان ریاست‘ قائم کی جائے۔ ان کا دوسرا نعرہ دو رنگا ہے، اور اس کا مقصد بھی پٹھانوں کو گمراہ کرنا ہے۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ مجوزہ ’پٹھانستان‘ کا دستور جمہوریت کے اسلامی تصورات، مساوات اور معاشرتی انصاف پر مبنی ہوگا، تو ان کا مطلب، مجلس دستور ساز پاکستان، جومسلمانوں کی عظیم اکثریت پر مشتمل ہوگی، پریہ بہتان طرازی کرنا ہے کہ وہ جمہوریت کے اسلامی تصوراتِ مساوات ومعاشرتی انصاف کو نظر انداز کر دے گی… یہ محض ایک عیارانہ حربہ ہے جس کا مقصد شمال مغربی سرحد کے مسلمانوں کو گمراہ کرنا ہے… خان عبدالغفار خاں جو سرحدی گاندھی کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، ان کو اسلامی تصوراتِ مساوات و معاشرتی انصاف پر اجارہ داری حاصل نہیں ہے… یہ اچانک اور نئی قلابازی خالصتاً سیاسی عیاری اور ایک حربہ ہے … خاں برادران نے اخبارات میں ایک اور زہریلا نعرہ بلند کیا ہے کہ مجلس دستور ساز پاکستان، شریعت کے بنیادی اصولوں اور قرآنی قوانین کو نظرانداز کر دے گی۔ یہ بھی بالکل نادرست بات ہے۔ ۱۳ سے زیادہ صدیاں بیت گئیں، اچھے اور بُرے موسموں کا سامنا کرنے کے باوصف، ہم مسلمان نہ صرف اپنی عظیم اور مقدس کتاب قرآن کریم پر فخر کرتے رہے، بلکہ ان تمام ادوار میں جملہ مبادیات کو  حرز جان بنائے رکھا… معلوم نہیں کہ خان برادران کو اچانک اسلام اور قرآنی قوانین کی علَم برداری کا دورہ کیسے پڑا ہے، اور انھیں اُس ہندومجلس دستور ساز پر اعتبار ہے جس میں ہندوئوں کی ظالمانہ اکثریت ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ صوبہ سرحد کے مسلمان واضح طور پر یہ سمجھ لیں کہ وہ پہلے مسلمان ہیں اور بعد میں پٹھان‘‘۔ [قائداعظم: تقاریر و بیانات، ج۴، ترجمہ اقبال احمد صدیقی، بزم اقبال، لاہور، ص ۳۴۶-۳۴۷]

اس بیان میں قائداعظم نے خصوصاً دو چیزوں کو وضاحت سے نمایاں کیا ہے۔ ایک یہ کہ سیکولر، روشن خیال اور ’اکھنڈ بھارت‘ کے طرف دار پرلے درجے کے موقع پرست ہیں، اور دوسرا یہ کہ اسلام،نسلی اور علاقائی تفریق سے بالاتر ہے۔ اسی لیے انھوں نے کہا کہ آپ پہلے مسلمان اور پھر پٹھان ہیں۔ یہی چیز دو قومی نظریے کی جان ہے۔

۲۵جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام میلاد النبیؐ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے، قائداعظم نے فرمایا:

میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے،  یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی، حالانکہ آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے، جس طرح تیرہ سو برس پیش تر ہوتا تھا… اسلام اور اس کے اعلیٰ نصب العین نے ہمیں جمہوریت کا سبق پڑھایا ہے۔ اسلام نے ہر شخص کو مساوات، عدل اور انصاف کا درس دیا ہے… رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم راہبرتھے، آپؐ ایک عظیم قانون عطاکرنے والے تھے،آپؐ ایک عظیم مدبر تھے، آپؐ ایک عظیم فرماں روا تھے، جنھوں نے حکمرانی بھی کی۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بہت سے لوگ اس بات کو نہیں سراہتے… اسلام نہ صرف رسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ ہر مسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے، جو اس کی زندگی اور اس کے رویے بلکہ اس کی سیاست اور اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ ایک خدا اور خدا کی توحید، اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ [ایضاً، ص ۴۰۲-۴۰۳]

اس خطاب میں قائداعظم نے برملا اعلان کیا ہے کہ جو لوگ، اسلامی نظریۂ حیات کے حوالے سے پاکستانی مسلمانوں کی یکسوئی کو ابہام و انتشار کا نشانہ بنا رہے ہیں، وہ شر انگیز عناصر ہیں۔ وہ تیرہ صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی اسی طرح اسلام کے قانون شریعت کو قابل عمل قرار دیتے ہوئے اس پر زور دے رہے ہیں___فروری۱۹۴۸ء میں امریکی عوام کے نام ریڈیو نشری پیغام میں قائداعظمؒ نے فرمایا:

مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا، جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان اصولوں کا عملی زندگی پر اطلاق ویسے ہی ہو سکتا ہے، جیسے کہ ۱۳ سو برس قبل ہو سکتا تھا۔ اسلام نے ہر شخص کے ساتھ عدل و انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیں، اور پاکستان کے آیندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔ [ایضاً، ص۴۲۱-۴۲۲]

امریکی عوام کے نام اس نشریے میں وہ صاف لفظوں میں بتاتے ہیں کہ ۱۳سو برس قبل جس طرح اسلام کے اصولوں کا اطلاق ہوا تھا، ویسا ہی آج بھی ہو سکتا ہے، اور ریاستِ پاکستان کے دستور میں انھی اصولوں کو پیش نظر رکھا جائے گا___یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں انھوں نے کہا:

مغربی اقدار، نظریے اور طریقے___ ایک خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کر سکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا، اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا، جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے اسلامی تصور پر استوار ہو۔ اس طرح ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کر سکیں گے، اور بنی نوع انسان تک امن کا پیغام پہنچا سکیں گے۔[ایضاً،ص۵۰۱]

اس بیان میں انھوں نے مستحکم لہجے میں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ مغربی دانش ہمارے مسائل کا حل پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس لیے اسلامی نظریے کی بنیاد پر ہمیں اپنا معاشی نظام بھی پیش کرنا ہوگا۔

آخر میں یہ وضاحت مناسب ہوگی کہ ۱۱؍اگست کی تقریرمیں قائداعظم غیر مسلموں کے شہری حقوق کی بات کررہے تھے، نہ کہ تحریک پاکستان کے بنیادی استدلال اور موقف کی نفی کر رہے تھے۔ البتہ پاکستان کے سیکولر دانش وروں اور بھارت کے مصنفین نے قائداعظم کے تمام خطبات کو نظر انداز کرکے فقط اس ایک تقریر کو بنیاد بناکر اس سے بالکل ہی دوسرامفہوم اخذ کرلیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان ’روشن خیال‘ دانش وروں کو دیانت کا دامن تھامنا اور ہٹ دھرمی کو چھوڑ دینا چاہیے۔

قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں میں ہمیں ایک نظریاتی چیلنج درپیش تھا، آج پھر اس مسئلے کو زیادہ شدت کے ساتھ ابہام کا شکار کیا جا رہا ہے۔ کل اس کے علم بردار، خود پاکستان میں چند سیکولر اور اباحیت پسند لوگ تھے، اور آج بھارت سے لے کر امریکا تک اس منفی پروپیگنڈے کے     پشتی بان حضرات کی ایک فوج ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم پوری یک سوئی کے ساتھ اپنے نشانِ منزل پر نظریں جما کر اس منزل کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔

کہا جاتا ہے کہ اس نظریاتی بحث میں پڑنے سے بھلا کون سا مسئلہ حل ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ سیکولرلابی نے اسی دینی اور نظریاتی رشتے کو کمزور بنانے کے لیے وہ سارا جال بُنا جس کے نتیجے میں، پاکستان کی نظریاتی اساس سے ہاتھ دھونا کوئی بڑا خسارہ نہیں سمجھا جارہا۔ حالانکہ سیانا دشمن اسی جڑ پر تیشہ چلا رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک پاکستان کے دینی اور آئینی رشتے کو نشانہ بناکر توڑ پھوڑ نہیں دیا جائے گا اس وقت تک، اس مملکت ِ خدادا د کی تخریب ممکن نہیں ہوگی۔ اندریں حالات تمام اہلِ وطن کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کی اس پہچان اور رشتے کو سمجھیں، اس کی حفاظت کریں اور اس کی بنیادوں پر اپنے سماجی، تہذیبی، معاشی اور سیاسی مستقبل کی تعمیر کریں۔

یاد رہے کہ آج پاکستان جن مسائل میں گھرا ہوا ہے، اس کا واحد حل دو قومی نظریے کی بازیافت اور اسلامی نظریۂ حیات کے لیے مکمل یکسوئی میں پوشیدہ ہے۔ امریکا کی یلغار ،داخلی انتشار، بلوچستان کا قضیہ، مہنگائی کا عفریت اور سیاسی، معاشی اور اخلاقی بحران، ان سب کا علاج اسی سے ممکن ہے۔ نیت ٹھیک نہ ہو تو اسے محض ایک نظری بات کہہ کر ٹالا جاسکتا ہے لیکن اگر نیت درست ہو تو اسلام کی یہ رہنمائی اور بانیانِ پاکستان علامہ اقبال و قائداعظم کی یہ پکار اُلجھی راہوں کو صراط مستقیم بنا دے گی۔