برعظیم جنوبی ایشیا کی سیاسی تاریخ میں ۹فروری ۲۰۱۶ء ایک یادگار دن کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔ اس روز بھارت کی ممتاز ترین دانش گاہ جواہر لال نہرو یونی ورسٹی، دہلی میں نوجوان نسل نے پرانی اور خوار سیاست گری کو مسترد کرنے کا اعلان کیا۔ یاد رہے، اس یونی ورسٹی میں کمیونسٹ پارٹی کی حلیف آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (AISA)، اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں ۲۰۰۵ء سے اب تک مسلسل کامیابی حاصل کر رہی ہے۔ اس کے ووٹروں میں ہندو انتہاپسندی اور مریضانہ برہمنی قوم پرستی کو مسترد کرنے والوں میں مسلم، ہندو، سکھ اور عیسائی طلبہ و طالبات کی اکثریت شامل ہے۔
۹فروری کو جواہر لال نہرو یونی ورسٹی کی اسٹوڈنٹس یونین کے پلیٹ فارم سے مظلوم کشمیری مسلمان، افضل گرو کا یومِ شہادت منایا گیا۔ جس میں برملا کہا گیا کہ:’’ افضل گرو دہشت گرد نہیں تھا، اسے عدالتی اور ریاستی سطح پر قتل کیا گیا تھا‘‘۔ جب یہ بات ہو رہی تھی تو ہزاروں طلبہ و طالبات فلک شگاف نعروں میں ظلم کے خاتمے کے ترانے گا رہے تھے۔ اسی دوران میں حکمران بی جے پی کے حامیوں نے ان پر حملہ کر دیا اور اس تصادم میں متعدد طالب علم زخمی ہوگئے۔
اسٹوڈنٹس یونین کے صدر کنہیاکمار نے ظلم اور دہشت، معاشی استحصال اور زبان بندی کے کلچر کی غلامی سے آزادی کے حصول کا اعلان کیا، مگر حکومتی عناصر نے اس لفظِ ’آزادی‘ کو خودبخود بھارت سے آزادی کا جامہ پہنا کر صدر یونین کو غداری کے مقدمے میں گرفتار کرلیا۔
یہ ایک غیرمعمولی واقعہ ہے، جس پر آسام سے لے کر سری نگر تک اساتذہ، طلبہ، صحافیوں، دانش وروں اور وکلا کی بڑی تعداد نے حکومتی اقدامات اور فسطائیت کی کھلے لفظوں میں مذمت کی۔ بھارت کی ۴۰۰ یونی ورسٹیوں کے طالب علموں نے احتجاجی جلسے منعقد کیے۔ یہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے قابلِ احترام اور مسلّمہ۶۴دانش وروں نے مظلوم طلبہ سے یک جہتی کے لیے دستخطی مہم چلائی۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ روے سخن مختلف ہونے کے باوجود یہ واقعہ ہراعتبار سے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ یک جہتی یا ان کے ساتھ روا ظلم پر ردعمل کا حوالہ رکھتا ہے۔ جس کے لیے بھارت کی نئی نسل: کانگریسی اور جن سنگھی سوچ کو مسترد کرکے حقیقت پسندانہ راستہ اختیار کرنے کا پیغام دیتی ہے۔ اس پس منظر میں اس واقعے کو Game Changer کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہیے، جس کے دامن میں ایک نئی سوچ کی کونپل پھوٹتی دکھائی دیتی ہے۔
اس واقعے کو جموں اور کشمیر کے ہائی کورٹ کے ان فیصلوں سے ملا کر دیکھا جائے، جن میں اب سے دو سال قبل فاضل ججوں نے فیصلہ دیا تھا کہ:
بھارت کی جانب سے جموں کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنا ایک غلط دعویٰ ہے کیونکہ جس اسمبلی نے بھارت کے ساتھ اسے جوڑنے کی بات کی تھی، وہ محض معاہداتی تھی، دائمی نہیں تھی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے عوام کی مرضی اور کیے گئے معاہداتی عہدنامے کے تحت اس کے مستقبل کا تعین باقی ہے۔
یہ واقعات بھارتی حکمرانوں اور عالمی حکمرانوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں، بایں ہمہ اُمید کم ہے کہ ان کی بند آنکھیں کھلیں۔ وجہ یہ ہے کہ تنگ نظر ذہن ہمدردی، رواداری، فیاضی، آزادی، مروت جیسے لفظوں ہی سے ناآشنا ہوتا ہے، چہ جائیکہ وہ ان کے مفہوم کو سمجھے اور اُسے عملی زندگی میں اختیار کرنے کی طرف مائل ہو۔ مودی حکمرانی جس رُخ پر چل رہی ہے اس کے لیے جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے فیصلے، یا نہرو یونی ورسٹی، یا کُل ہند یونی ورسٹیوں کے طلبہ کا احتجاج کوئی معنی نہیں رکھتا۔ وہ اس تازیانے کو کوئی اہمیت نہیں دیتی، جب تک وہ اتنا زوردار نہ ہو کہ مودی کے پائوں اُکھاڑ دے۔ چونکہ فوری طور پر یہ مشکل ہے، اس لیے بھارتی مقتدرہ ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ دوسری طرف ۹فروری کے مذکورہ بالا واقعے کے حوالے سے پاکستان کے حکمرانوں، دانش وروں، صحافیوں اور بہ زعمِ خویش عالمی ضمیر کے رکھوالوں کو بھی اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔ دوستی کی رٹ لگانے والوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کن سے دوستی کے لیے بے تاب ہیں۔ وہ ان سے وفا کی توقع رکھتے ہیں ’’جو نہیں جانتے وفا کیا ہے‘‘۔ وہ تو اپنوں سے بھی وفا کے روادار نہیں!
بنگلہ دیش میں اسلام اور دو قومی نظریے کے خلاف بھارتی جارحیت کا تسلسل جاری ہے۔ اہلِ نظر اس معاملے میں یکسو ہیں کہ: ’’ڈھاکا حکومت کا اصل اقتدار نئی دہلی میں ہے۔ ڈھاکا میں تو صرف دکھانے کے لیے مقامی چہرہ ہے‘‘۔ اعلیٰ سول اور فوجی افسران کی ترقیاں، حتیٰ کہ وزارتوں: داخلہ، خارجہ اور منصوبہ سازی کے قلم دانوں کی تقسیم اور غیرملکی معاہدوں کی ترتیب تک کے معاملات بھارتی: داخلہ، خارجہ اور منصوبہ سازی ڈویژن کے اشارئہ ابرو کے تحت ہوتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے منظرنامے پر چھائے خون کے دھبوں کی جھلک گذشتہ ۲۰روز کی چند خبروں، اطلاعات و تاثرات کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہے:
ویکلی ہالی ڈے ڈھاکا نے عوامی لیگی حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کی دہائی دیتے ہوئے اداریے میں لکھا ہے: ’’حکومت تہذیب اور قانون کی سب حدوں کو پھلانگ رہی ہے۔ اسے بیگم خالدہ ضیا کے اس انتباہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی حرکتوں پر نظرثانی کرنی چاہیے کہ: ’’بنگلہ دیش کی فوج اور بیوروکریسی، عوامی لیگ کے کارکنوں کا ٹولہ نہیں ہے۔ خود انھیں بھی قانون، ضابطے اور شائستگی کا خیال رکھنا چاہیے‘‘ (۱۸ دسمبر ۲۰۱۵ئ)۔یہ بیان معاملات کی سنگینی کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔
دوسری طرف خالدہ ضیا نے ڈھاکا میں خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’جنوری ۲۰۱۴ء کے جعلی انتخابات کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرکے عوامی لیگ نے ملک کو قتل گاہ میں تبدیل کر دیا ہے۔ سیاسی کارکن زندگی گزارنے کے حق سے محروم ہیں۔ درندگی کے اس اقتدار سے نجات کے لیے قوم کے تمام طبقوں کو یک زبان اور یک جان ہونا پڑے گا‘‘۔ (پروتھم آلو، ڈھاکا، ۱۰دسمبر۲۰۱۵ئ)
ڈاکٹر شفیق الرحمن ، قائم مقام سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے حالات کی سنگینی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ۲۶نومبر کو عالمی ذرائع ابلاغ کے نام خط میں لکھا ہے: ’’حکمران ٹولہ جمہوری اور سیاسی سطح پر جماعت اسلامی کا مقابلہ کرنے کے بجاے اوچھے، ظالمانہ اور مسلسل غیرقانونی ہتھکنڈوں پر اُتر آیا ہے،جس کا بدترین مظاہرہ تو عدل کے نام پر جعلی ٹریبونل بناکر من مانے مقدمے اور من پسند فیصلے لے کر کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو سفاکانہ انداز سے قتل کیا جا رہا ہے۔ دن دہاڑے کارکنوں کو پکڑ کر غائب کیا جارہا ہے، وحشیانہ تشدد کر کے زندگی بھر کے لیے ناکارہ بنایا جا رہا ہے یا انھیں بغیر قانونی چالانوں یا پھر جعلی مقدموں کی دھونس سے جیلوں میںٹھونسا اور حبس بے جا میں رکھا جارہا ہے‘‘۔
ڈاکٹر شفیق الرحمن نے لکھا ہے: ’’بنگلہ دیش کے اقتدار پر قابض گروہ کے اس انسانیت سوز کردار کی یہ داستان قدم قدم پر ثبت دکھائی دیتی ہے۔ اس حکومت نے مائوں کی گودیں اُجاڑ دی ہیں، عورتوں کے سہاگ لوٹ لیے ہیں، بچوں کے سروں سے ان کے باپوں کا سایہ چھین لیا ہے اور والدین کے جوان بیٹوں کو اپاہج کر دیا ہے یا پھر قبروں کا رزق بنا دیا ہے۔ ان دکھیاروں کے سینے پھٹ رہے ہیں، مظلوموں کے آنسوئوں کا سمندر رواں ہے اور آہوں کے طوفان آسمان تک پہنچ رہے ہیں، مگر سنگ دل حکومت لمحے بھر کے لیے بھی اپنے وحشی اہل کاروں اور غنڈوں کو لگام دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ہم اہلِ اقتدار پر واضح کرتے ہیں کہ ’’جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کو قتل اور کارکنوں کو ظالمانہ قیدوبند اور درندگی پر مبنی تشدد کر کے بھی جماعت اسلامی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی حکومت کے برسرِاقتدار رہنے کا کوئی انسانی اور اخلاقی جواز نہیں ہے جس کے کارندے اور فیصلہ ساز عدل اور انسانیت کی تمام حدوں کو توڑ چکے ہیں۔(جماعت ویب، روزنامہ سنگرام ،ڈھاکا، ۲۶نومبر ۲۰۱۵ئ)
یہ خبرونظر چیخ چیخ کر حالات کی سنگینی کو ظاہر کر رہے ہیں، مگر افسوس کہ اس صورتِ حال پر مسلم دنیا سے کوئی مؤثر آواز سنائی نہیں دے رہی۔ صدافسوس کہ دنیا کی مقتدر قوتیں اور عالمی ذرائع ابلاغ رسمی بیان بازی کے بعد خاموشی سادھے ہوئے ہیں۔اس الم ناک منظرنامے کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ غالباً بنگلہ دیش میں موت کا سکوت ہے اور عوامی لیگ کو یک طرفہ کارروائیاں کرنے میں کچھ بھی روک ٹوک نہیں۔ حکومتی سطح پر یقینا یہی معاملہ ہے ، لیکن جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے کارکنان سرفروشی اور استقامت سے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں، جن کو بہ یک وقت بنگلہ دیشی حکومت اور بھارتی ریشہ دوانیوں سے پنجہ آزمائی کرنا پڑ رہی ہے۔ ان شاء اللہ یہ جدوجہد رنگ لاکر رہے گی۔ اس لیے کہ آمریت بظاہر کتنی ہی مضبوط ہو بالآخر اپنے تمام تر جبر کے باوجود مٹ کر رہتی ہے۔ یہی تاریخ کا سبق ہے!
گزری رات میں حکمرانوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ: ’’بھارتی جارحیت اور قومی غداری کے سامنے ہتھیار ڈال دیے جائیں‘‘۔اسلامی جمعیت طلبہ ڈھاکہ کے دفتر کے آس پاس جمعیت اور البدر کے کارکن اکٹھے ہیں۔ سورج ابھی پوری طرح طلوع نہیں ہوا۔ ساڑھے ۲۳ برس کا ایک نوجوان، اپنے چاروں طرف کھڑے ساتھیوں کی طرف نظر دوڑاتا ہے۔ اگرچہ چند سسکیاں سنائی دے رہی ہیں، مگر وہ نوجوان پوری خوداعتمادی سے اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں سے مخاطب ہوتا ہے:
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدًا عبدہٗ ورسولہٗ
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o
ہم نے اسلام ہی کی خاطر وہ کردار ادا کیا، جسے ہم خدا کی کتاب اور سنتِ رسولؐ کے مطابق درست جانتے تھے۔ ہم نے پاکستان کو معبود سمجھ کر نہیں، مسجد سمجھ کر اپنے سروں کی فصل اور اپنے مستقبل کو اس پر نچھاور کیا ہے۔
ہمیں اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ دوسرے لوگ ہمارے اس کردار کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔ جسے قبول کرنا ہے وہ تو جانتا ہی ہے کہ ہمارے سامنے صرف اس کی مرضی تھی۔ یہ خدا کی مرضی تھی کہ ہم سربکف نکل کھڑے ہوں۔ آزمایش کی اس گھڑی میں ہم نے اسی سے مدد مانگی اور اسی کے بھروسے پر اس نازک گھڑی سے نمٹنے کی کوشش کی۔
ہمارے ساتھ آج جو کچھ ہونے والا ہے، ہم گزرے ہوئے کل میں اُس سے واقف تھے اور آج ہم اُس سے بھی واقف ہیں جو آنے والا کل ہمارے لیے لے کر آئے گا۔ ہم نہ اپنے گزرے ہوئے دنوں پر شرمندہ ہیں اور نہ آنے والے کل سے مایوس ہیں۔ آزمایش خدا کی سنت ہے اور ہمیں سکھایا گیا ہے کہ آزمایش سے خدا کی پناہ مانگنی چاہیے۔ لیکن، جب وہ مسلط ہوجائے تو سرخروئی کی دُعا اور کامرانی کی اُمید کے ساتھ خدا کے حضور جھک جانا چاہیے۔
آج کا سورج ایک کڑے امتحان کے ساتھ طلوع ہوا ہے اور آنے والا کل دہکتے انگاروں کی بارش کے ساتھ نمودار ہونے والا ہے۔ ہمیں اللہ کی رضا پر راضی رہنا ہے اور ان آزمایشوں سے ایک صاحب ِ ایمان جیسے عزم اور صبر کے ساتھ گزرنا ہے۔
ہمارا ایمان ہے کہ اس راہ میں جان دے دینا وہ عظیم ترین سعادت ہے، جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کیا اپنے رب سے اپنی جانوں کے عوض جنت کا سودا کرنے سے پہلے ہم نے خوب سوچ سمجھ نہیں لیا تھا؟
آزمایش کی یہ گھڑی اُس ابدی دنیا کی کامرانیوںکی بشارت بھی ہے۔ اس لیے ان کڑی ساعتوں کا سامنا ایمان، عزم اور استقلال کی دُعا سے کیجیے کہ ایمان اور عزم کو کبھی فنا نہیں۔
آپ آج بھی وقت کا ایک بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ اقامت ِ دین، شہادتِ حق اور اسلامی انقلاب کے لیے ان زندگیوں کی حفاظت آپ پر فرض ہے۔
اگر آپ کے گھروں کی دہلیزیں آپ کے لیے بند اور راحت کدوں کی وسعتیں آپ کے لیے تنگ کردی جائیں تو ہجرت کر جایئے کہ ہجرت، وفا کے راستے کا لازمی سفر ہے۔ ہجرت خدا کے آخری رسولؐ کی سنت ہے۔
ہجرت کی تکلیفوں اور اذیتوں میں قرآن، نماز اور سیرتِ رسولؐ و سیرتِ صحابہؓ سے روشنی حاصل کیجیے کہ زندگی کا ظلمت کدہ انھی سے منور ہوسکتا ہے۔
___ اور مت بھولیے ، آپ ہی روشنی کے امانت دار ہیں۔ قرآن، سیرت اور کردار روشنی ہے، جہاں بھی رہیے اسی کے چراغ روشن کیجیے۔
کسے معلوم کہ کل ہم میں سے کون زندہ رہے اور کون کس سے مل پائے؟ وہاں تو ملاقات یقینا ہوگی، مگر اِس دنیا میں بکھر جانے سے پہلے ان چہروں کو جی بھر کر دیکھ لو، اور ان سینوں سے آخری بار معانقے کرلو کہ شاید یہ سب ایک بار پھر یہاں اس طرح جمع نہ ہوسکیں، سواے اس کے کہ ہمارا رب چاہے، اور وہ چاہے تو ہم یہاں پھر بھی مل سکتے ہیں۔
اب ہمیں ایک دوسرے سے جدا ہو جانا ہے۔
اپنے حواس مجتمع کیجیے، اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
آیئے! ہم ایک دوسرے کو دعائوں کے ساتھ رخصت کریں، فی امان اللّٰہ!
ایک طرف ہتھیار ڈالنے کی تیاری ہورہی تھی اور دوسری جانب یہ خطاب۔ خطاب ختم ہونے پر البدر کے کیڈٹ بھیگی پلکوں اور لرزتے ہونٹوں کے ساتھ ایک دوسرے کو الوداع کہہ رہے تھے۔ یہ سب ساتھی اپنے قائد کو پہلے الوداع ہونے پر اصرار کر رہے تھے، مگر وہ اس بات پر چٹان کی طرح جم گیاکہ: ’’میں آخری فرد ہوں، جو آپ سب کے روانہ ہونے کے بعد اس جگہ سے ہلے گا‘‘۔ اصرار بڑھا تو اس نوجوان نے کہا: ’’دوستو، میں مجبوراً آپ کو حکم دیتا ہوں کہ آپ ہجرتوں پر چلے جایئے‘‘۔ اور تمام مجاہد اَن دیکھی راہوں پر چل نکلے۔
یہ نوجوان اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان کے آخری ناظم شہید علی احسن محمد مجاہد تھے، جو قیامِ پاکستان کے ۱۰ ماہ بعد ۲۳جون ۱۹۴۸ء کو فریدپور میں پیدا ہوئے۔ وہ ڈھاکہ یونی ورسٹی کے طالب علم تھے۔ انھیں ۲؍اکتوبر ۱۹۷۱ء کو اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ تسنیم عالم منظر (م:۱۵ستمبر۱۹۷۲ئ) نے مشرقی پاکستان میں جمعیت کا صوبائی ناظم مقرر کیا تھا۔ یاد رہے علی احسن ’البدر‘ کے صوبائی کمانڈر نہیں تھے۔
اپنی تحریر میں ، ’مَیں‘ کا لفظ استعمال کرنے سے ہمیشہ اجتناب کیا ہے۔ لیکن آج یہ لکھے بغیر نہیں رہ سکتا کہ میں نے اس تقریر کے اجزا ان دوستوں سے مل کر قلم بند کیے، جو ان کرب و بلا کے لمحوں میں یہ تقریر سن رہے تھے۔ پھر دسمبر ۱۹۸۰ء میں ڈھاکہ پہنچ کر علی احسن محمد مجاہدبھائی کو یہ تقریر سنائی۔ یہ تقریر سناتے ہوئے جب ایک ایک جملے پر لرزتے ہوئے جملہ زبان سے ادا کرنے میں بے بس ہوجاتا تو علی احسن بھائی مجھے سینے سے لگاکر، اپنے ہاتھ سے میرے آنسو پونچھتے۔ میں حیران تھا کہ علی احسن بھائی کا ملکوتی چہرہ پُرسکون انداز سے اپنے اندر چھپے طوفان کو کس ضبط سے سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ تقریر میری مرتّبہ کتاب البدر میں اکتوبر ۱۹۸۵ء (ص ۱۷۶-۱۷۸) میں شائع ہوچکی ہے۔ کالی دیوی اور سزاے موت دینے والے ٹریبونل نے اس تقریر کو بھی فردِ جرم (چارج شیٹ) کا حصہ بنایا تھا۔ یہ تقریر زمان و مکان کی قید ختم کرتی، ہمیں ڈھاکہ سے اُٹھا کر ۱۴۰۰برس پہلے میدانِ بدر میں لے جاتی ہے۔ اس تقریر میں علی احسن کے ایمان، اعتماد اور مستقبل بینی کو اس طرح دیکھا جاسکتا ہے کہ جیسے سورج کی روشنی میں اپنے ہاتھ کی لکیریں!
o
سرزمینِ پاکستان پر علی احسن مجاہد کی ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کی صبح ڈھاکہ میں اس آخری تقریر کو، بنگلہ دیش میں ۲۲ نومبر ۲۰۱۵ء کی رات ۱۲بج کر ۵۵منٹ پر ڈھاکہ ہی میں الوداعی خطاب سمجھ کر، دوبارہ پڑھا، سمجھا اور لفظ لفظ پر خوب غور کیا ۔ بقول نعیم صدیقی مرحوم :
میرے خیال میں آتے ہیں جب وطن کے شہید
تو سوچتا ہوں کہ اپنی یہ زندگی کیا ہے
سنا تھا خونِ شہیداں سے پھوٹتی ہے سحر
تو میرے گرد یہ دیوارِ تیرگی کیا ہے
کل کا مشرقی پاکستان آج کا بنگلہ دیش ہے۔کل جہاں کُل ہند مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا اور سب سے پہلے دو قومی نظریہ مجسم صورت میں اُبھرا تھا، آج وہ اسی برہمنی سامراج کے خونیں پنجوں میں پھڑپھڑاتے پرندے کے مانند ہے۔ جہاں بھارت نے عوامی لیگ کے لیڈر شیخ مجیب الرحمن (م:۱۵؍اگست ۱۹۷۵ئ) کی مدد سے نہ صرف پاکستان توڑا بلکہ خود اپنی قوم کو ایک ایسی غلامی کی دلدل میں دھکیلا تھا، جہاں آج علامتی طور پر بنگلہ دیش کا پرچم تو موجود ہے اور کہنے کو، ایک بنگالی حکومت بھی، مگر عملاً اس کا اقتدارِ اعلیٰ بھارتی بدنامِ زمانہ ’را‘ کے ڈائرکٹریٹ کے ہاتھ میں ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک دوسرے شیخ، شیخ عبداللہ (م: ۸ستمبر۱۹۸۲ئ)نے بظاہر کشمیر کا اختیار حاصل کرنے کا ڈراما رچایا، لیکن اہلِ کشمیر آج بھی اسی برہمنی سامراج کے شکنجے میں قربانیاں دے رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد شہید کا جرم کیا تھا؟
اگر واقعی وہ اُن جرائم کے مرتکب تھے، جنھیں ’را‘ کے اہل کاروں نے مرتب کیا ہے، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے ’مجرم‘ کو خود اُس کے علاقے کے لوگوں نے کیوں ۴۳برس تک اپنے درمیان قبول کیا؟ کیوں اُس کے خلاف کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا؟ کیوں اسے رکنِ اسمبلی منتخب کیا؟ کیوں اسے بطور ’وزیرسماجی بہبود‘ (۲۰۰۱ئ-۲۰۰۷ئ)کام کرنے دیا؟ کیوں عوامی لیگ نے شیخ مجیب الرحمن کے دورِاقتدار ۱۹۷۱ء تا ۱۹۷۵ء اور بعدازاں حسینہ واجد کے پہلے دورِحکومت میں مقدمہ نہ چلایا؟___ اس المیے کا واحد جواب یہ ہے کہ وہ ایسے کسی جرم میں شریک نہیں تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو جنرل حسین محمد ارشاد کے دورِ آمریت (دسمبر۱۹۸۳ئ-دسمبر ۱۹۹۰ئ) میں جمہوریت کی بحالی اور دستوری ترامیم کے لیے عوامی لیگ ان کے ساتھ اتحاد میں شامل ہوکر جدوجہد نہ کرتی۔
اب ذرا دیکھیے: علی احسن مجاہد کو ۲۹ جون ۲۰۱۰ء کو گرفتار کیا گیا، ۱۶جنوری ۲۰۱۲ء کو چارج شیٹ مرتب کی گئی۔ ۲۱جون ۲۰۱۲ء کو الزامات متعین کر کے نام نہاد ٹریبونل میں پیش کیے گئے۔ سوال یہ ہے کہ پورے ۱۹۷۱ء میں، اور پھر ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء سے لے کر ۱۶جنوری ۲۰۱۲ء کے درمیانی عرصے میں علی احسن مجاہد کے خلاف کسی تھانے میں ان جرائم کی نسبت سے ایک سطر بھی درج نہیں، اور نہ کسی عدالت میں مذکورہ کسی الزام پر مبنی کوئی ایک مقدمہ بھی زیرسماعت ہوا۔ پھر یہ سب اچانک کیوں ہوا؟
اس جعلی عدالت نے، جسے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور عدالتی عمل کے پاسداروں نے کھلے لفظوں میں مسترد کردیا ہے، اسی عدالت نے ۱۷جولائی ۲۰۱۳ء کو علی احسن مجاہد کو سزاے موت سنائی۔ علی احسن نے اُسی وقت عدالت کی کرسی پر بیٹھے نام نہاد جج کو مخاطب کر کے کہا تھا: ’یہ سب جھوٹ ہے اور تمھارا فیصلہ بھی جھوٹ ہے، سو فی صد جھوٹ‘۔ ازاں بعد سپریم کورٹ میں اپیل کی، جو ۱۶ جولائی ۲۰۱۵ء کو مسترد ہوگئی۔ پھر ۱۸نومبر کو اسی عدالت نے نظرثانی کی درخواست بھی خارج کر دی، اور ۲۱، ۲۲ نومبر کی درمیانی رات سچائی کا قتل کر دیا گیا۔
ہمیں اس وحشت انگیزی کے پس منظر میں کارفرما محرکات کو دیکھنا چاہیے جو بین الاقوامی اور سیاسی، معاشی اور تہذیبی ایجنڈے کے حامل ہیں۔ اس میں اوّلین محرک تو اسلامی تہذیبی رشتے پر حملہ ہے، اور دوسرا فوری سبب بھارت کے معاشی مفادات کا تحفظ ہے۔ غور کیجیے کہ: ’’آج بنگلہ دیش میں ۵ لاکھ بھارتی کارکن کام کر رہے ہیں۔ (اور بنگلہ دیش، بھارت کے ایک صوبے اترپردیش سے بھی چھوٹا خطۂ ارضی ہے، جہاں غربت اور بے روزگاری کے وہ ہولناک ڈیرے ہیں، مگر) عرب امارات، امریکا، سعودی عرب اور برطانیہ کے بعد جس ملک سے سب سے زیادہ زرمبادلہ بھارت منتقل ہوتا ہے، وہ یہی ’آزاد‘ بنگلہ دیش ہے (طیب حسین، ڈیلی اسٹار، ۸مارچ ۲۰۱۵ئ)۔ قبل ازیں یہی بات ڈھاکہ کا اخبار دی نیونیشن (۲۸فروری ۲۰۱۴ئ) لکھ چکا ہے۔ دونوں اخبارات بتاتے ہیں کہ: ’’بنگلہ دیشی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۷۱۶ئ۳ ملین امریکی ڈالر سے زیادہ زرِمبادلہ بنگلہ دیش سے بھارت کی طرف بہہ جاتا ہے، جب کہ اس سے دوگنی رقم غیرقانونی ہنڈی کے ذریعے بھارت منتقل ہوتی ہے [گویا کہ تقریباً ۸؍ارب امریکی ڈالر جو: ۶ کھرب اور ۲۴؍ارب بنگلہ دیشی روپے (ٹکے) بنتے ہیں]۔ اس رقم کا بڑا حصہ تجارت، صنعت اور بنگلہ دیش میں کام کرنے والی این جی اوز میں بھارتی کارندوں کی تنخواہوں کی صورت میں بھارت منتقل ہوتا ہے‘‘ (ذرا یہاں پاکستان میں متحرک مخصوص نظریاتی ’این جی اوز‘ پر نظر ڈال کر دیکھیے، کچھ نہ کچھ ’طبق ضرور روشن‘ ہوں گے)۔
نکتے کی یہ بات ذہن نشین کرانا مقصود ہے کہ ایک طرف بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی، اس بھارتی معاشی یلغار اور غلامی کے سامنے رکاوٹ کھڑی کر رہی تھی اور دوسری طرف عالمی شہرت یافتہ صحافی اور بنگلہ دیش کے پہلے وزیرخارجہ ڈاکٹر کمال حسین کے داماد ڈیورڈ برگ مین کے بقول: ’’بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)کے مرکزی رہنما صلاح الدین قادر چودھری کا اصل جرم یہ تھا کہ انھوں نے ۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۷ء کے دوران، بطور مشیر پارلیمانی اُمور یہ دیوار کھڑی کر دی تھی کہ ہم بھارت کے ٹاٹا گروپ کو بنگلہ دیش میں ۳؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری نہیں کرنے دیں گے، اور وہ اس میں کامیاب رہے‘‘۔ (دیکھیے Progress Bangladesh، ۲۱ نومبر ۲۰۱۵ئ)
اگرچہ دیگر نظریاتی، سیاسی اور عالمی اہمیت کے اُمور بھی اس اہتمامِ قتلِ بہاراں میں شامل ہیں، مگر بنیادی طور پر بھارت نے جب یہ دیکھا کہ اس کی معاشی چراگاہ بنگلہ دیش میں رکاوٹیں کھڑی ہورہی ہیں تو اس نے ۱۹۷۱ء کے بعد دوسری بار ۲۰۰۸ء سے میں بنگلہ دیشی معاشرے کو خونیں تصادم میں دھکیلنے کے لیے عوامی لیگ سے مدد مانگی، اور آج یہ سارا کھیل، کسی بنگلہ دیشی قومی مفاد میں نہیں بلکہ بھارت کے معاشی اور سیاسی مفاد میں کھیلا جا رہا ہے۔ بھارت کے پالیسی ساز اِس طرح مسلسل سیاسی آویزش پیدا کر کے، مقامی سطح پر معاشی استحکام کی بنیادوں کو ہلامارنے اور لوگوں کو باہم لڑانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ پھر نریندرا مودی جیسے دہشت گرد کی برہمنی یلغار اس فساد میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔
صلاح الدین قادر چودھری (جو ۱۳مارچ ۱۹۴۹ء کو چٹاگانگ میں پیدا ہوئے) کے والد ِ گرامی فضل القادر چودھری (۲۶ مارچ ۱۹۱۹ئ-۱۷جولائی۱۹۷۳ئ) چٹاگانگ سے تحریکِ پاکستان کے ممتاز رہنما اور قائداعظم کے دست ِ راست تھے۔ وہ نوجوانی سے لے کر آخری سانس تک صرف مسلم لیگ ہی سے وابستہ رہے۔سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد مکتی باہنی نے انھیں گرفتار کر کے بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی ’پاکستان مُردہ باد‘ کا نعرہ بلند کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے اور آخری روز ان کو خنجر مار کر شہید کردیا گیا۔ انھی فضل القادر چودھری شہید کے بیٹے صلاح الدین قادر چودھری نہ صرف بنگلہ دیش کی مسلم قومی شناخت کے علَم بردار تھے، بلکہ بھارت کے معاشی و سیاسی مفادات کے سامنے ایک مضبوط چٹان بھی تھے، اس لیے انھیں نشانہ بنایا گیا ہے۔
صلاح الدین قادر شہید کو ۱۶دسمبر ۲۰۱۰ء کی رات گرفتار کیا گیا۔ ۱۴نومبر ۲۰۱۱ء کو چارج شیٹ جاری کی گئی اور ۴؍اپریل ۲۰۱۲ء کو یہ چارج شیٹ نام نہاد خصوصی عدالت میں پیش کی گئی۔ حکومت نے ان کے خلاف ۴۱ خانہ زاد گواہ پیش کیے، لیکن ان جعلی گواہوں کے جواب میں صلاح الدین قادر نے ۲۰گواہوں کی فہرست پیش کی، جن میں سے صرف پانچ گواہوں کو پیش کرنے کی اجازت مل سکی۔ پھر چار گواہان کو مختصر ترین وقت میں سننے کے بعد پانچویں گواہ کو سننے سے انکار کردیا گیا۔ صلاح الدین نے ۱۹۷۱ء کے حوالے سے alibi (موقع واردات پہ عدم موجودگی) کے آٹھ گواہوں کے نام پیش کیے تو ان ناموں کی فہرست کو صرف پانچ منٹ کی سماعت کے بعد مسترد کر دیا گیا۔ پھر پاکستان کے سابق قائم مقام صدر اور سابق وزیراعظم محمد میاں سومرو، سابق وفاقی وزیر ریلوے اسحاق خاں خاکوانی، روزنامہ ڈان کی چیف ایڈیٹر عنبرہارون سہگل، منیب ارجمند خاں اور ریاض احمد جیسی قابلِ احترام شخصیات نے حلفیہ یہ گواہی دینے کے لیے ڈھاکہ جانا چاہا کہ: ’’صلاح الدین قادر ۱۹۷۱ء میں پاکستان میں تھے‘‘ تو اُن افراد کے بنگلہ دیش میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ یہ معززین اس بات کے گواہ ہیں کہ صلاح الدین قادر، ۲۹ مارچ سے ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء تک مغربی پاکستان کے شہروں لاہور اور کراچی میں مقیم تھے، مگر اس نام نہاد خصوصی عدالت نے ایک نہ سنی، ایک گواہ کو بھی پیش نہ ہونے دیا۔
یوں ایک جعلی عدالت نے، جعلی مقدمے کی، جعلی کارروائی کا ڈراما رچا کر یکم اکتوبر ۲۰۱۳ء کو صلاح الدین قادر چودھری کو سزاے موت سنا دی۔ ۲۹جولائی ۲۰۱۵ء کو سپریم کورٹ نے فیصلہ برقرار رکھا اور ۱۸نومبر ۲۰۱۵ء کو نظرثانی کی اپیل مسترد کر دی۔ ۱۹۷۹ء سے ۲۰۱۲ء کے عرصے میں، چٹاگانگ سے چھے مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے والے صلاح الدین قادر ۲۱،۲۲نومبر کی درمیانی رات، حسینہ واجد کے ہاتھوں قتل کردیے گئے۔
جوں ہی ۱۸نومبر کو دونوں رہنمائوں کی اپیلیں سپریم کورٹ نے مسترد کر دیں، تو ۱۹نومبر کو انسانی حقوق کے عالمی ادارے ’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW) نے علی احسن محمدمجاہد اور صلاح الدین قادر چودھری کے لیے اس سزا پر ردعمل دیتے ہوئے یہ بیان دیا تھا: ’’جماعت اسلامی کے علی احسن محمد مجاہد اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے صلاح الدین قادر کی سزاے موت کے اعلانات کو [بنگلہ دیشی] حکام فی الفور معطل کریں اور ان فیصلوں کو غیر جانب دارانہ نظرثانی کے عمل سے گزاریں۔ بلاشبہہ ۱۹۷۱ء کے حوالے سے نازک اُمور کی جانچ ہونی چاہیے، مگر مقدمات کو انصاف کے عالمی، مسلّمہ اور عادلانہ معیارات کے مطابق چلانا چاہیے۔ مقدموں کی غیرعادلانہ کارروائی سے کبھی انصاف حاصل نہیں ہوسکتا اور خاص طور پر جب سزاے موت دیے جانے کا معاملہ ہو تو مسئلے کی نزاکت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ ، سابق امریکی سفیر اسٹیفن رپ کے اس بیان کو وزن دیتا ہے کہ مجاہد اور چودھری کے مقدموں پر فیصلہ درحقیقت اسقاطِ عدل (miscarriage of justice) ہے۔ (ڈیلی اسٹار، ۲۰نومبر ۲۰۱۵ئ)
علی احسن محمد مجاہد کے بیٹے نے ۱۹نومبر ہی کو اعلان کر دیا تھا کہ: ’’ہمارے عظیم والد نے اپنی ساری زندگی میں کوئی اخلاقی یا فوج داری جرم نہیں کیا ہے۔ وہ بے گناہ ہیں، انھیں صرف حق گوئی، دین داری کی سزا دی گئی ہے، اس لیے وہ رحم کی کوئی اپیل نہیں کریں گے‘‘۔ دوسری طرف کٹھ پتلی حسینہ حکومت نے ۲۱نومبر کی سہ پہر سے پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ: ’’دونوں لیڈروں نے صدر سے رحم کی اپیل کی ہے‘‘۔ ایک جانب ان مظلوموں پر ظلم کی انتہا اور دوسری جانب انھیں پھانسی دینے سے قبل نمک پاشی کے لیے یہ گھنائونا مذاق۔ بہرحال جوں ہی رات کے سایے گہرے ہوئے تو ڈھاکہ اور تمام بڑے شہروں میں بڑی تیزی کے ساتھ پولیس اور بنگلہ دیش ریپڈ بٹالین نے پوزیشنیں سنبھالنا شروع کردیں۔ دونوں لیڈروں کے اہلِ خانہ کو آخری ملاقات کا نوٹس دیا گیا ۔ الوداعی ملاقات کے بعد علی احسن کے بیٹے نے جیل کے گیٹ پر حکومتی پروپیگنڈے کو مسترد کرتے ہوئے بیان دیا: ’’جب ہمارے والد نے جرم کیا ہی نہیں تو معافی کی اپیل کیسی؟‘‘اور صلاح الدین قادر کے بیٹے ہمام قادر نے جیل سے باہر نکل کر بتایا: ’’ہمارے والد نے کوئی جرم نہیں کیا، اس لیے انھوں نے کسی سے رحم کی اپیل نہیں کی‘‘۔
’بی ڈی نیوز ۲۴‘ کے نمایندے کو پھانسی گھاٹ پر آخری لمحوں کے گواہ پولیس افسر نے بتایا: ’’پھانسی کے تختے پر قدم رکھتے وقت صلاح الدین قادر اور علی احسن مجاہد، دونوں ہی نہایت پُرسکون تھے۔ ان دونوں کو پھانسی کے ایک ہی پلیٹ فارم پر کھڑا کیا گیا‘‘۔ اور ڈپٹی کمشنر کے بقول: ’’دونوں خاموشی سے پھانسی کے پھندے کی جگہ جاکر کھڑے ہوئے۔ جب ان کی گردنوں میں رسہ ڈالا جا رہا تھا، تو دونوں نے لمحے بھر کے لیے بھی گردن ہلا کر کسی منفی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اور پھر ایک ہی لمحے میں دونوں کو (بنگلہ دیش کے وقت کے مطابق رات ۱۲بج کر ۵۵ منٹ، پاکستان میں رات ۱۱بج کر ۵۵ منٹ پر) تختۂ دار پر کھینچ دیا گیا‘‘۔ (۲۲نومبر ، صبح ۶بجے، بی ڈی نیوز۲۴)
دونوں قائدین کے عدالتی قتل کی اگلی صبح حسینہ واجد نے بڑی خوشی کے ساتھ پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کی تو چٹاگانگ سے عوامی لیگی ممبر نے تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’حسینہ نے پھانسیاں دے کر عظیم کارنامہ انجام دیا ہے، یہ ٹوٹ تو سکتی ہے، مگر جھک نہیں سکتی‘‘(بی ڈی نیوز،۲۲نومبر)۔ پاکستان کے وزیرداخلہ چودھری نثار علی خاں نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’یہ سزاے موت دراصل انصاف کا قتل، اخلاقیات، عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ہم اس سلسلے میں کچھ نہ کرسکے‘‘۔ جس کے جواب میں: ’’کٹھ پتلی وزیراعظم حسینہ واجد نے کابینہ کا اجلاس شروع ہوتے ہی، پھانسیوں پر خوشی کا اظہار کیا اور بنگلہ دیشی برقی ذرائع ابلاغ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ انھوں نے علی احسن مجاہد اور صلاح الدین قادر کے خاندانوں اور پس ماندگان کے دکھ درد کو کیوں سکرین پر پیش کیا ہے‘‘۔ (ڈیلی اسٹار، ۲۳نومبر ، شام ۴بجے)
اگرچہ دنیا بھر میں اس ظلم پر شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے، تاہم ۴۰ممالک کے علما کی عالمی تنظیم ’رابطہ علماے اہلِ سنت‘ استنبول نے اپنے مذمتی بیان میں کہا ہے: ’’بنگلہ دیش میں حکومت غیرانسانی، غیرقانونی اور غیراسلامی اقدامات کرتے ہوئے محب ِ وطن افراد اور تحریکِ اسلامی کے قائدین کے خلاف انتقامی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صلاح الدین قادر اور علی احسن محمد مجاہد کا خون تمام مسلم ممالک،اسلامی تنظیموں اور پوری ملت ِ اسلامیہ کی گردن پر ہے، جنھوں نے اس عرصے میں خاموشی اختیار کیے رکھی۔ ہم ہر صاحب ِ فکر اور ہر ذمہ دار فرد سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بنگلہ دیش کے ان مظلوم مسلمان بھائیوں کی معاونت کے لیے ہرممکن اقدام کریں‘‘۔ (الجزیرہ نیٹ، ۲۳ نومبر ۲۰۱۵ئ)
۲۲نومبر کو پورے بنگلہ دیش کے بڑے شہروں اور قصبوں میں دونوں شہیدوں کی نمازِ جنازہ میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ اس موقعے پر مقررین نے کہا: ’’ان شہیدوں کا کوئی قصور نہیں تھا، سب الزامات بدنیتی پر مبنی تھے، تاکہ بنگلہ دیش کو ایک خودمختار اسلامی اور معاشی اعتبار سے مستحکم ملک بننے سے روکا جاسکے۔ دشمن بھارت یہ دونوں باتیں ہضم نہیں کرسکتا، اس لیے اُس کی آلۂ کار اور غیرنمایندہ عوامی لیگی حکومت بھارت کی خوش نودی کے لیے اپنے ہی بیٹوں کے خون کی ہولی کھیل رہی ہے۔ جماعت اسلامی پہلے بھی معاشرے کی اصلاح، ترقی اور خودمختاری کے لیے کام کررہی تھی، ہم آیندہ بھی اسے بھارتی غلامی سے بچانے کے لیے کام کرتے رہیں گے۔یہ شہادتیں ہمارا راستہ روک نہیں سکتیں، بلکہ ہمیں ان سے اور زیادہ یکسوئی حاصل ہوئی ہے۔ ایک بندئہ مومن کی زندگی کا مقصد صرف اسی کی رضا ہے۔ ہم اپنی جدوجہد پُرامن، دعوتی اور جمہوری انداز سے جاری رکھیں گے‘‘۔
۲۳نومبر کو جماعت اسلامی نے پورے بنگلہ دیش میں احتجاجی ہڑتال کی اپیل کی۔ کئی شہروں میں بھرپور ہڑتال رہی، تاہم ہڑتال کو روکنے کے لیے، جماعت اسلامی اور ’اسلامی چھاترو شبر‘ (اسلامی جمعیت طلبہ) کے رہنمائوں کے گھروں کو (بھارت میں بجرنگ دل، شیوسینا اور آر ایس ایس کے فسادیوں کی طرح) رات ہی سے عوامی لیگی غنڈوں نے گھیر لیا، تاکہ مؤثر احتجاج کو روکا جاسکے۔ متعدد کارکنوں کو گھروں سے نکلتے ہی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور سیکڑوں کو گرفتار کرلیا۔کئی رہنمائوں کے گھروں کے سامنے لائوڈاسپیکر پر اعلانات کیے جاتے رہے: ’’تم گھروں کو خالی کرو، اور بنگلہ دیش چھوڑ دو‘‘۔ جیسور کالج ہاسٹل میں اسلامی چھاترو شبر کے دو لیڈروں حبیب اللہ اور قمرالحسن کو لاٹھیاں مارمار کر شہید کردیا اور باقی کا سامان اُٹھا کر باہر پھینک دیا۔ ہڑتال کو ناکام بنانے کے لیے پوری ریاستی مشینری کو استعمال کیا گیا۔ تاہم، جماعت اسلامی کی جانب سے ہڑتال کی اس اپیل میں بی این پی شامل نہیں ہوئی، حالانکہ صلاح الدین قادر چودھری بی این پی کے مرکزی لیڈر تھے۔انھوں نے اپنے اہلِ خانہ سے ۲۰ نومبر کی ملاقات میں اپنی پارٹی کے اس رویے پر دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ: ’’مجھے افسوس ہے، بی این پی نے یک جہتی کا مظاہرہ نہیں کیا‘‘۔ اور اپنے اہلِ خانہ سے کہا کہ: ’’آپ آیندہ جماعت اسلامی ہی کے ساتھ مل کر کام کریں‘‘۔
بنگلہ دیشی وزیرقانون انیس الحق نے ۲۴نومبر کو کہا ہے کہ: ’’جماعت اسلامی اور اس کی متعلقہ پارٹیوں پر جامع پابندی کے لیے، حکومت انتظامی حکم نامہ جاری کرنے کے بجاے باقاعدہ دستوری ترمیم پر کام کر رہی ہے، اور ’خصوصی عدالت‘ سے فیصلہ لینے کے لیے ریفرنس دائر کر رہی ہے تاکہ جماعت اسلامی، اس کی برادر اور اسلامی آئیڈیالوجی پر مبنی تنظیموں پر بنگلہ دیش میں مستقل طور پر پابندی عائد کردی جائے‘‘۔د وسری جانب ۲۵نومبر کو وزارتِ خزانہ نے بنک آف بنگلہ دیش سے کہا کہ: ’’جماعت اسلامی اور اس سے وابستہ تنظیموں، اور منسلک افراد کے بنکوں، انشورنس کمپنیوں، جایداد خرید و فروخت کے اداروں، ہسپتالوں، کلینکوں ، اسکولوں اور تدریسی اداروں کے لین دین پر کڑی نگاہ رکھ کر رپورٹ مرتب کی جائے، تاکہ مالیاتی پابندی کو مؤثر بنایا جاسکے‘‘۔
بہ ظاہر حالات سخت خراب ہیں اور سیکولر فسطائیت کی گرفت بھی نظر آتی ہے۔ مگر ان شاء اللہ ظلم کی یہ سیاہ رات زیادہ طول نہیں کھینچ سکے گی۔
بلاشبہہ قومی ریاستیں اپنی خود مختار حیثیت سے، اپنے شہریوں کی معاشی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہنے کا حق رکھتی ہیں۔ لیکن کیا، قوموں کی زندگی اور ان کے وجود کے لیے محض ’معاشی نفع‘ ہی آخری معیار ہوتا ہے؟ دنیا میں قوموں کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو دکھائی دیتا ہے کہ کئی حوالوں سے محض معاشی فلاح کو اوّلین حیثیت حاصل نہیں ہوتی، بلکہ تاریخی، تہذیبی، نظریاتی یا فکری پس منظر اور اس سے وابستہ امور بین الاقوامی تعلقات میں فوقیت رکھتے ہیں، بلکہ اکثر یہ پہلو حد درجہ غالب رہتا ہے، جب کہ معاشی پہلو ثانوی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔
گذشتہ دنوں (۱۶،۱۷؍اگست) بھارتی وزیر اعظم نریندرامودی کے دورۂ متحدہ عرب امارات کو دیکھنے کے لیے سنجیدہ غوروفکر کی متقاضی بنیادیں موجود ہیں۔ یہ دیکھنا اہم ہے کہ بھارت کے ساتھ عرب ممالک کے پروان چڑھتے بلکہ پرجوش بڑھتے ہوئے تعلقات میں بھارتی قومی مقاصد اور عرب یا مسلم دنیا کے مفادات و مقاصد، کون سی نزاکت رکھتے ہیں؟
یوں تو شروع ہی سے اسرائیل اور بھارت کے درمیان تعلقات کی ایک خفیہ تاریخ ۱۹۵۰ء سے موجود تھی، جب اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا اور عملاً تجارتی اور عسکری میدانوں میں تعاون بھی ایک حقیقت تھا۔ نام نہاد ’ناوابستہ ممالک تنظیم‘ (NAM) کا رکن ہونے کی بنا پر بھارت نے ان تعلقات کو چھپائے رکھا۔ مگر ۱۹۷۱ء میں پاکستان توڑنے کی مہم میںبھارت نے کھل کراسرائیل سے مدد مانگی اور اپنے یہودی جرنیل جنرل جیکب کو اس مقصد کے لیے صہیونیوں سے تعاون لینے کی ذمہ داری سونپی۔ تاہم، گذشتہ ۱۰برسوںکے دوران میں ’بھارت اسرائیل تعلقات میں گرم جوشی کی ایک لہر، منظر پہ چھائی نظر آتی ہے، جس میں اسلحے کی خرید، جنگی تربیت، تحقیقاتی تعاون اور جوہری مہارتوں کے تبادلے میں حد درجہ ابھار آیا ہے۔ اس ضمن میں صرف ایک مختصر رپورٹ India Israel Defense Co-operation کے مطالعے سے کئی پہلو واضح ہو جاتے ہیں۔ یہ رپورٹ ڈاکٹر الویت سنگھ نے لکھی ہے، اور بارالانا یونی ورسٹی، اسرائیل کے ’دی بیگن سادات سنٹر فار اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز، کے تحقیقی مجلے Perspectives (۲۷؍جنوری۲۰۱۴ئ) نے شائع کی ہے۔ ۲۰۰۴ء سے بھارت نے اسرائیل سے ’ری کونا سینس اینڈ آبزرویشن سسٹم‘ (LORROS) خرید کر مقبوضہ کشمیر میں جابجا نصب کیے ہیں، تاکہ کشمیری جدوجہد آزادی کو کچلنے کے لیے ۸لاکھ بھارتی فوجیوں کے نرغے میں ایک ایک کشمیری کی حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھی جا سکے۔
اسی طرح عالمی امور کے ماہر بھارتی نژاد کنشک تھاروا نے ۳؍اگست۲۰۱۴ء کو الجزیرہ امریکا کے لیے اپنے تجزیے میں بھارت اسرائیل تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا تھا: ’’ان دونوں ممالک کے درمیان خصوصی تعلقات ہیں اور ان کا ہدف بھی ایک ہے۔ اسرائیل، روس کے بعد دوسرے نمبر پر بھارت کو سب سے زیادہ اسلحہ فروخت کرنے والا ملک ہے۔مزید برآں اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار بھارت ہی ہے۔ بھارت نے بڑی چابکدستی سے عربوں میں دوستی کے تعلقات کی جڑوں کو گہرا کیا ہے، مگر اب تک وہ عرب ممالک پر زور ڈال کر، پاکستان کو کشمیر کے مسئلے پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر سکا‘‘۔ یہاں پر یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ اگلے چند ماہ میں نریندرا مودی کے دورئہ اسرائیل کو بھی نگاہ میں رکھا جائے۔ بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج نے یکم جون ۲۰۱۵ء کو اعلان کیا تھا کہ ’’بھارتی وزیراعظم کے دورئہ اسرائیل کا پروگرام طے کرلیا گیا ہے، جس میں دفاع اور دہشت گردی کے خاتمے کو اوّلیت حاصل ہوگی، اور یہ دورہ تاریخی اہمیت کا حامل ہوگا‘‘۔ اب اگر عرب شیوخ اور راجے امریکی معاشرت میں، صہیونیوں سے بے زار شہریوں کی اصطلاح ’Jew‘ اور ’Black Jew‘کو سامنے رکھیں تو انھیں بخوبی علم ہو جائے گا کہ ’کالے یہودیوں‘ سے مراد بھارتی قوم پرست لیے جاتے ہیں۔
یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ۲۶؍جنوری۲۰۰۶ء کو حرمین شریفین کے خادم شاہ عبداللہ مرحوم نے بھارت کے یوم جمہوریہ کی سالانہ پریڈ منعقدہ نئی دہلی میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی تھی۔ تب انھوں نے بھارتی سرزمین پر بھارت کو کسی ’دہشت گردی سے محفوظ رکھنے‘ کی خواہش کا اتنا پرزور اظہار کیا تھا کہ بھارتی حکومت اور ذرائع ابلاغ نے ان خیالات کو واضح اور متعین طور پر: ’’کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کے خلاف سعودی حکومت کے عزم اور دہلی سرکار کی ظالم حکومت سے طرف داری‘‘ سے منسوب کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان بیانات سے حریت کانفرنس اور مظلومانِ کشمیر کو سخت مایوسی ہوئی تھی۔ ازاں بعد فروری ۲۰۱۴ء میں ’سعودی بھارت دفاعی تعاون کا معاہدہ‘ طے پایا۔ یہ چیزیں خصوصاً گذشتہ ۱۰برسوں میں تیزی سے پروان چڑھیں اور انھی کے پس منظر میںمودی کے حالیہ دورۂ متحدہ عرب امارات کو دیکھنا چاہیے۔ یاد رہے کہ ’بھارت سعودی اسٹرے ٹیجک شراکت کاری‘ کی بنیاد شاہ عبداللہ نے جنوری۲۰۰۶ء میں نئی دہلی میں ’اعلانِ دہلی‘ کے ذریعے رکھی تھی، اور پھر ۲۰۱۰ء میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے سعودیہ کے دورے کے دوران ’اعلانِ ریاض‘ کے ذریعے اسے کئی درجے آگے بڑھا دیا تھا۔ شاہ عبداللہ نے شاہ فہد کے انتقال کے بعد اگست ۲۰۰۵ء میں زمام کار سنبھالی تھی اور گذشتہ۵۱برسوں کے دوران وہ پہلے سعودی حاکم تھے، جنھوں نے (ساڑھے پانچ ماہ بعد ہی) ان تعلقات کا سنگ بنیاد رکھا۔ (دی اکانومک ٹائمز ، ۲۳؍جنوری۲۰۱۵ئ)
پھر چند برسوں بعد ریاست اومان نے بھی بھارت سے ’فوجی تعاون کا معاہدہ‘ کیا، جس سے بحیرۂ عرب میں بھارت کے قدم اورپھیل گئے۔شرق اوسط میں بھارت کی بڑھتی ہوئی اسٹرے ٹیجک وسعت پذیری پر، دی نیویارک ٹائمز کے خصوصی نمایندے کبیر تانیجا نے لکھا ہے: ’’نئی دہلی حکومت نے ۲۰۰۸ء میں دوحہ (قطر) میں نہایت مہنگے اور اپنی نوعیت کے منفرد (one of a kind) دفاعی معاہدے پر دستخط کیے۔ ایسا معاہدہ آج تک کسی اور ملک سے نہیں کیا، جس کے تحت بھارت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قطر کے اثاثہ جات (assets) اور مفادات (interests)کو لاحق بیرونی خطرات سے محفوظ رکھے۔‘‘ (The Diplomat، ۸؍مارچ۲۰۱۵ئ)
یہاں دل چسپ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاست قطر کو بیرونی خطرات کس سے لاحق ہو سکتے ہیں: کیا ایران سے؟ سعودی عرب سے؟ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل سے؟ یا امریکاسے؟ فرض کیا ان میں سے کوئی ایک بھی ملک قطر پر چڑھ دوڑتا ہے تو کیا بھارت، مذکورہ ممالک سے اپنے گہرے تعلقات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر قطر کا دفاع کرنے کے لیے کھڑا ہو جائے گا، یا اس کاغذی معاہدے کا اکلوتا مقصد اربوں ڈالر اینٹھنے کا کھیل ہی کھیلنا ہے؟
سعودی گزٹ (۱۷؍اگست۲۰۱۵ئ) نے بتایا ہے کہ: ’’بھارتی وزیراعظم نے متحدہ عرب امارات کے دو روزہ دورے کا آغازوہاں کی عظیم مسجد میں قدم رکھتے ہوئے کیا، جہاں شیخ زید بن سلطان کی قبر ہے۔ گذشتہ ۳۴ برسوں میں یہ پہلا بھارتی وزیراعظم ہے، جس نے اس ملک کا دورہ کیا ہے۔‘‘ اس پر دل چسپ تبصرہ خود بھارت میں ہوا، جہاں تمام مسلم مکاتبِ فکر کے نمایندہ پلیٹ فارم: ’’مسلم پرسنل لابورڈ‘ کے سیکرٹری مولانا محمد ولی رحمانی نے فرمایا: ’’بہتر ہوتا کہ مودی، ہندستان کی کسی مسجد کا دورہ کرتے‘‘ (روزنامہ اورنگ آباد ٹائمز، ۱۸؍اگست)۔ درحقیقت اس ایک جملے میں مولانارحمانی نے شہید بابری مسجد کی چیخ اور ہندوانتہا پسندوں کے دست شرانگیز میں پھڑپھڑاتی کئی مسجدوں کا نوحہ بیان کیا ہے۔ گلف نیوز (۱۶؍اگست) کو انٹریو دیتے ہوئے مودی نے ایک طرح دار جملہ یہ بھی کہا: ’’متحدہ عرب امارات میں ایک چھوٹا بھارت ہے۔‘‘ سعودی گزٹ نے اس کی وضاحت یوں کی ہے: ’’سات ریاستوں کے اس ملک میں ۲۶لاکھ بھارتی ماہرین اور کارکن بستے ہیں، جو متحدہ عرب امارات کی کل آبادی کا ایک تہائی ہیں، اور یہاں سے ۱۴؍ارب ڈالر سالانہ بھارت لے جاتے ہیں۔‘‘ یاد رہے اسی دورے میں مودی کو سرزمین عرب پر مندر بنانے کے لیے شاہانِ امارات نے زمین کا بڑا ٹکڑا دے کر، وہاں فتح مکہ کے چودہ سوسال بعد پہلا ’بت کدہ‘ بنانے کا اعزاز حاصل کیا ہے جس پر بجاطور پر کئی عرب علما نے سخت احتجاج کیا ہے۔
دبئی کرکٹ گرائونڈ میں تقریباً ۵۰ ہزار بھارتی باشندوں سے خطاب کے دوران مسلم کشی کے دیوتا نریندرا مودی نے پاکستان پر سنگین حملے کرتے ہوئے کہا: ’’اچھی دہشت گردی یا بُری دہشت گردی نہیں چلے گی۔ تمھیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ تم دہشت گردوں کے ساتھ ہو یا انسانیت کے ساتھ؟ ہم سارک کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں، مگر کچھ ہیں جو رخنہ اندازی کر رہے ہیں، اور پھر سارک کے تمام ممالک کے نام دہرائے، مگر ان ناموں میں پاکستان کا نام نہیں لیا (خلیج ٹائمز، ہندستان ٹائمز، ۱۸؍اگست)۔ مودی نے اس تقریر میں شرانگیزی کی حد تک پاکستان کا خاکہ اُڑانے کی کوشش کی ہے۔ وال سٹریٹ جنرل نے اسی تقریر کی رپورٹ میں لکھا ہے: ’’مودی نے پاکستان پر شدید حملہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام ریاستوں کو دہشت گردی کی ’پناہ گاہ‘ کے خلاف متحد ہو جانا چاہیے، حالانکہ پاکستان نہ صرف ان الزامات کی تردید کرتا ہے، بلکہ وہ خود بدترین دہشت گردی سے متاثر ہے‘‘ (WST، ۱۸؍اگست)۔ گویا کہ مودی نے اس دورے میں پاکستان اور اس سے وابستہ مسائل کو نفرت انگیز طریقے سے نشانہ بنانا اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھا۔
مودی کے دورے کے اختتام پر ۳۱ نکاتی مشترکہ اعلامیے کو دیکھیں تو اس کے پانچ نکات (۲،۳، ۴، ۵، ۱۶) دراصل ایک ہی نکتہ ہیں: ’’مذہب کا غلط استعمال، برداشت، امن، دہشت گردی کا خاتمہ، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے خفیہ معلومات کا تبادلہ، اس ضمن میں اقوامِ متحدہ میں بھارتی مجوزہ ضابطے کی تائید‘‘ وغیرہ۔ یہاں پر پھر دھیان اس طرف جاتا ہے کہ امارات میں تو کوئی دہشت گردی ہو نہیں رہی، البتہ بھارت کے ہاں بغاوت اور خوداختیاریت کی داخلی تحریکیں یقینا مضبوط ہیں، جنھیں بھارت ’دہشت گردی‘ کہتا ہے۔ اسی طرح عرب دنیا میں بھارتی مسلمان مزدور اپنی کمائی سے دین اسلام کے آخری قلعے، مدرسے اور مساجد محفوظ کرنے کے لیے ایثار کرتے ہیں، ان کی رقوم کو بند کرنے کے لیے بھی اسی اعلامیے کا کوڑا برسایا جائے گا۔ برہمن بنیے نے کمال ہوشیاری سے ’دہشت گردی‘ کا سکّہ رائج الوقت اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے عربوں کا کندھا استعمال کیا ہے۔
عرب دنیا میں بھارت سے گہرے تعلقات کے علم بردار طبقے یہ دلیل پورے زورو شور سے پیش کرتے ہیں کہ: ’’بھارت میں ۲۰کروڑ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں، اس لیے ہم کس طرح اس کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔‘‘ عرب محبانِ بھارت کی دلیل جزوی طور پر درست ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ خود بھارت میں یہی مسلمان، جن کی تعداد گن گن کر بھارت، عربوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتا ہے، وہ بھارت کی فیصلہ سازی، حکومت اور ریاستی ڈھانچے میں کیا وزن، حیثیت اور مقام رکھتے ہیں؟
ہند کی ۱۸فی صد آبادی رکھنے کے باوجود یہ مسلمان، جن کا واسطہ دے کر تعلق بنایا یا تعلق بڑھانے کا جھانسہ دیا جاتا ہے، بے وزن ہی نہیں، بڑی حدتک بے حیثیت بھی ہیں۔ وہاں ان کا جو وجود ہے، وہ دینی مدارس، دینی جماعتوں، مسلم رفاہی اور تعلیمی اداروں کے بل بوتے پر ہے، اور جو وزن ہے وہ جنوبی ریاستوں میں ان کی آزادانہ معاشی ترقی کی بنیاد پر۔ وگرنہ کانگریس سے لے کر راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ (آر ایس ایس)کی دہشت گرد سیاسی قیادت تک زیر اقتدار ۲۰کروڑ مسلمانوں کی قسمت کو چند حوالوں سے بخوبی جانچا جا سکتا ہے: یعنی بابری مسجد کی شہادت، احمد آباد اور ممبئی میںمسلم نسل کشی (جس کی قیادت یا سرپرستی مسٹر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی نے کی)، آزادی سے لے کر اب تک ۳۰ہزار مسلم کش فسادات، گذشتہ آٹھ برسوں سے اب تک پورے ہند میں ذہین اور متحرک مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد قرار دے کر جیلوں میں گلنے سڑنے کے لیے ڈال دینے کا عمل، مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے مسلمانوں کو مرتد بنانے کے لیے ’گھر واپسی مہم‘، ۱۹۷۱ء میں پاکستان پر فوج کشی اور ۶۸ برسوں سے ایک کروڑ کشمیری مسلمانوں پر تاریخ کی بدترین فوجی یلغار اور مسلم خواتین کی بڑے پیمانے پر بے حرمتی۔ یہ چند مثالیں بھارتی سیاسی قیادت کی ’مسلم دوستی‘ کے زندہ ثبوت ہیں۔ اور اگر ثناء خوانِ تقدیسِ بھارت، ۹مارچ ۲۰۰۵ء کو ، جسٹس راجندرسچر کی سربراہی میں قائم سات رکنی اعلیٰ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ (۱۷؍نومبر۲۰۰۶ئ) کو چشم ہوش سے پڑھ لیں، تو انھیں بھارت میں مسلمانوں کے خون کی ارزانی، معاشی قتل عام، سماجی اور انسانی تذلیل کے بہت سے ثبوت مل جائیں گے (حالانکہ خود مسلمان اس رپورٹ کو بھی ادھورا سچ کہتے ہیں)۔ اسی طرح یہی لوگ چند کتابیں بھی مطالعہ کرلیں: قیدی نمبر۱۰۰، از انجم زمرد حبیب (کشمیری تحریکِ آزادی سے وابستہ خاتون جس نے زندگی کا قیمتی حصہ تہاڑ جیل میں گزارا)۔ آپریشن اکشردھام از راجیو یادویو اور شاہ نواز عالم، گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے از مفتی عبدالقیوم، اور کرکرے کے قاتل کون؟ ایس ایم مشرف (سابق انسپکٹر جنرل پولیس مہاراشٹر) تو یہ بھارت کے ’من موہنے چہرے‘ کو عرب پالیسی سازوں کے سامنے واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ آخرالذکر کتاب میں مصنف نے بتایا ہے کہ ایک ہندو پولیس افسر ہیمنت کرکرے نے کس طرح جواں مردی، انسان دوستی اور انصاف پسندی سے کام لیتے ہوئے اُن اصل ہندو انتہاپسند قاتلوں کو بے نقاب کردیا تھا، جو ہرقسم کی دہشت گردی کرتے اور الزام اُلٹا مسلمانوں کے سر دھرتے ہیں۔ اس ہندو پولیس افسر کو اس ’جرم‘ کی پاداش میں ممبئی کے مشہور اور نام نہاد ’حادثے‘ کے دوران قتل کردیا گیا۔
بھارت کے اس ڈپلومیٹک حملے کا تقاضا ہے کہ جہاں مسلم دنیا کے تحقیقی ادارے معروضی انداز سے گواہی پیش کریں، وہیں مسلم حکومتوںکو بھی خوابِ غفلت سے بیدار ہونا چاہیے۔ یہ کام محض ملازمانہ ذہنیت رکھنے والے سفارت کار نہیں کرسکتے۔
جنوری اور فروری۱۹۶۶ء میں خصوصی عدالت کی کار روائی میں سیّد قطب اور ان کے رفقا کو زبردستی، اعتراف جرم کرانے کے لیے جبر و تشدد اور اعضا شکنی کا نشانہ بنایا گیا۔ تشدد کے ان واقعات کی تائید ’ایمنسٹی انٹر نیشنل‘ کی رپورٹ میںبھی شائع ہوئی تھی۔ اس تنظیم کو نہ اخوان سے کوئی دل چسپی تھی،اور نہ مصری حکومت سے کوئی دشمنی۔
’’ایمنسٹی انٹر نیشنل بڑے افسوس سے اس امر کا اظہار کرتی ہے:
۱- ایک خصوصی قانون کے تحت مصر کے صدر کو یہ اختیارات حاصل ہیں کہ وہ سیاسی وجوہ کی بنا پر جس شخص کو چاہے، مقدمہ چلائے بغیر گرفتار کر سکتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ایک خاص عدالت کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، جس کے جج صدر خود نامزد کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ملزم کی قسمت کا فیصلہ صدر خود کرتا ہے۔
۲- فوجی جیلوں میں ملزموں پر بے تحاشا مظالم توڑے گئے، لیکن عدالت میں ان کا ذکر کرنے سے منع کر دیا گیا۔ اس مقدمے کے مشہور نظر بند سیّد قطب نے اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہا، تو عدالت نے یہ کہہ کر روک دیا: ’’تمام ملزمان جھوٹے ہیں، ان کی کسی بات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
۳- سیّد قطب اور دوسرے اخوانی نظر بندوں کو اپنی صفائی کے لیے وکیل مقرر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
۴- اس خاص عدالت کے سامنے ملزموں پر تشدد کا سوال ہوا، تو کارروائی بند کمرے میں ہونے لگی۔ اخباری نامہ نگاروں کو بھی اندر آنے کی اجازت نہ مل سکی۔
۵- ایمنسٹی انٹرنیشنل بڑے افسوس سے یہ اعلان کرتی ہے کہ عدالتی کارروائی سے ان مظالم کی تصدیق ہوتی ہے جس کا اظہار نظر بندوں کی طرف سے کیا گیا۔ نیز مصر کے عدالتی نظام کی غیر جانب داری بھی مشکوک معلوم ہوتی ہے۔ یہ کارروائی اس اعتبار سے بھی غیر تسلی بخش ہے کہ سماعت کے وقت ملزم جسمانی اعتبار سے صحت مند نہیں تھے۔ بعض مقدمات میں تو ایک ملزم کو صرف دو منٹ کا وقت دیا گیا۔
یہ تمام حقائق مصری قانونِ انصاف کی غیر جانب داری کو مشکوک بنا رہے ہیں۔ لازم ہے کہ حکومت ملزموں کے بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرے اور کھلے عام منصفانہ مقدمے کی کارروائی کا موقع دے۔
۹؍اپریل۱۹۶۶ء کو اس ٹربیونل نے صحافیوں کا داخلہ بھی کمرۂ سماعت میں روک دیا۔ کیونکہ سیّد قطب کے حوالے سے تشدد کی خبر دنیا بھر میں پھیل گئی تھی۔ جوں ہی کار روائی شروع ہوئی تو فوجی جج محمد فواد الدجوی غصّے میںسیّد قطب پر برس پڑے: ’’یہ سب جھوٹ ہے‘‘۔ ۱۲؍اپریل کو جب معالم فی الطریق (جادہ و منزل) زیر بحث لائی گئی، تو اس موقعے پر یہی جج مختلف جملے پڑھ کر آگے بڑھے، تو سیّد قطب نے وضاحت کے لیے کھڑے ہو کرجواب دینا چاہا۔ مگرجج نے انھیں بولنے کی اجازت نہ دی اور کہا: ’’ہر بات واضح ہے‘‘۔ دوسری بار سیّد قطب نے جواب دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا: ’’کیا میں جواب دے سکتا ہوں؟‘‘ لیکن روزنامہ الاہرام کے مطابق جج نے بولنے کی اجازت دینے کے بجاے کہا: ’’یہ بات بھی سزا کی مستحق ہے‘‘۔ تیسری بار صفائی پیش کرنے کی کوشش میں سیّد قطب کی زبان سے بس اتنا جملہ ہی نکل پایا تھا کہ: ’’یہ سب میں نے نہیں کہا‘‘ تو جج صاحب انھیں وہیں ٹوک کر، بہتان تراشی اور طنزو استہزا پر مبنی جملوں کے ساتھ حملہ آور ہوگئے۔ سیّد قطب نے چوتھی بار کہا: ’’مجھے اپنی بات تو کہنے کی اجازت دی جائے‘‘، مگرجج نے اس بات کا جواب دینے کے بجاے محمد یوسف ہواش کو طلب کرنے کا آرڈر جاری کر دیا تو سیّدقطب نے پھر کہا: ’’ایک منٹ‘‘ لیکن جج نے بات کرنے سے روک دیا۔ (روزنامہ الاہرام، قاہرہ ۱۱-۱۳؍اپریل۱۹۶۶ئ)
اخوان کے ان اکابرملزموں کی پیروی کرنے والا کوئی وکیل اس نام نہاد عدالت میں موجود نہیں تھا۔ ’فرانسیسی نیشنل بار ایسوسی ایشن‘ کے سابق صدر ولیم تھروپ اور ممتاز قانون دان اے جے ایم ونڈال اور مراکش کے دو سابق وزراے قانون اور متعدد نامور وکلا نے مقدمے کی پیروی کے لیے اجازت چاہی، جسے اس عدالت نے مسترد کر دیا۔ سوڈان سے وکلا رضاکارانہ طور پر قاہرہ پہنچے اور قاہرہ ایسوسی ایشن سے رجسٹریشن حاصل کر کے جونہی عدالت پہنچے، تو انھیں پولیس نے تشدد کرکے عدالت کے احاطے سے بھگا دیا اور فوراً مصر چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
اسی ’ترقی پسند‘ ،’روشن خیال‘، اور قوم پرست فوجی عدالت نے ۲۲؍اگست ۱۹۶۶ء کو سیّد قطب، محمدیوسف ہواش اور عبدالفتاح اسماعیل کے لیے سزاے موت کا حکم سنا دیا۔
مجھے پہلے سے اس بات کا علم تھا کہ اس مرتبہ حکومت میرے سر کی طالب ہے۔ مجھے نہ اس پر افسوس ہے اور نہ اپنی موت کا رنج، بلکہ میں خوش ہوں کہ اپنے مقصد کے لیے جان دے رہا ہوں۔ اس بات کا فیصلہ تو آنے والا مؤرخ ہی کرے گا کہ ہم راہ راست پر تھے یا کہ حکومت؟
قاہرہ کی تازہ اطلاعات سے معلوم ہوا ہے کہ وہاں اخوان المسلمون کے خلاف عدالتی کارروائی کا جو ڈراما ہو رہا تھا، اس کے نتیجے میں عالمِ اسلامی کے نہایت ممتاز مفکر، عالم اور صاحبِ قلم سیّد قطب اور چھے دوسرے اصحاب کے لیے سزاے موت کا فیصلہ کیا گیا ہے، اور باقی ۲۸؍اشخاص کو طویل قید کی سزائیں دی گئی ہیں، جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ اس سے پہلے ۱۹۵۴ء میں صدر ناصر کی حکومت دنیاے اسلام کی ایک نہایت قیمتی شخصیت سید عبدالقادر عودہ کو اپنی سیاسی اغراض پر قربان کر چکی ہے، جن کی کتاب اسلامی قانونِ تعزیرات کو آج تمام اہل علم خراجِ تحسین ادا کر رہے ہیں۔
اب پھر ایک دوسری قیمتی شخصیت کو انھی اغراض کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے، جس کی کتاب اسلام میں عدل اجتماعی اور جس کی تفسیر فی ظلال القرآن اسلامی لٹریچر میں ہمیشہ یاد گار رہنے والی چیزیں ہیں۔ درحقیقت یہ ہماری انتہائی بدقسمتی ہے کہ مصر کے حکمران ایسے نازک وقت میں، جب کہ اسرائیل کے جارحانہ اقدامات عرب اور اہلِ عرب کے خلاف روز بروز ترقی پر ہیں، اپنی ساری طاقت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صرف کیے جا رہے ہیں۔
اس وقت ضرورت ہے کہ دنیاے اسلام کے ہر گوشے سے ان حکمرانوں پر اس روش سے باز آجانے کے لیے اخلاقی دبائو ڈالا جائے۔ جس عدالتی کارروائی کو انھوں نے اخوان پر یہ ظلم ڈھانے کے لیے بہانہ بنایا ہے، اس کو ایمنسٹی انٹر نیشنل پوری طرح بے نقاب کر چکی ہے، اور صدر ناصر کے سوا کوئی شخص بھی یہ باور نہ کرے گا کہ اس نام نہاد عدالت میں فی الواقع یہ مظلوم لوگ مجرم ثابت ہوئے ہیں۔
پھر ۲۶؍اگست کو مولانا مودودی نے مصری صدر کے نام یہ اپیل ارسال کی:’’سیّد قطب دنیاے اسلام کا مشترک سرمایہ ہیں۔ خدارا، اس قیمتی مسلمان کی زندگی کو ختم نہ کیجیے‘‘۔
۲۶؍اگست ہی کو نومسلمہ مریم جمیلہ نے مصری صدر ناصرکے نام برقی خط بھیجا: ’’آپ کے پاکستانی بھائی، سیّد قطب اور دوسرے اخوانی رہنمائوں کو سزاے موت سناے جانے کے فیصلے پر گہرے دکھ کا اظہار اور شدید احتجاج کرتے ہیں۔ خدانخواستہ، آپ کے ہاتھوں ان کی موت دنیاے عرب ہی نہیں بلکہ دنیاے اسلام کے لیے ایک ناقابلِ تلافی علمی اور تہذیبی نقصان ہوگا۔ اگر آپ نے اس سزا پر نظر ثانی نہ کی، تو اللہ تعالیٰ آپ کے اس جرم کو کبھی معاف نہیں کرے گا‘‘۔
پوری دنیا سے سیّدقطب کی رہائی کے لیے اپیلیں شروع ہو گئیں، البتہ پاکستان اور ہندستان میں مضبوط مذہبی تعلیمی روایت رکھنے والے مکتب فکر کے چند حضرات نے ناصر کے اقدامات کی تائید کی۔ یہ ناصر حکومت کی خوش قسمتی تھی کہ اسے دنیابھر کی کمیونسٹ پراپیگنڈا مشینری کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اس غوغا آرائی نے ناصر کو ہیرو بنائے رکھا، حالانکہ وہ اپنی قوم اور مسلمانوں کے لیے دہشت، ظلم، ذلت اور شکست خوردگی کی علامت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
سیّد قطب کی سب سے چھوٹی بہن حمیدہ قطب، اپنے بڑے بھائی کی شہادت سے ایک رات پہلے کی رُوداد بیان کرتی ہیں:
۲۸؍اگست۱۹۶۶ء کی رات، جب کہ میں جیل ہی میں تھی، جیلر صفوت نے مجھے طلب کیا اور کہا: ’’یہ دیکھو تمھارے بھائی کی موت کا آرڈر، اسے کل پھانسی دے دی جائے گی۔ حکومت چاہتی ہے کہ تمھارا بھائی سیّد ہماری بات کا جواب ’ہاں‘ میں دے۔ اگر وہ جواب ’ہاں‘ میں نہیں دے گا تو صرف تم اپنا بھائی نہیں ضائع کر دو گی، بلکہ ہم اور مصر بھی اسے کھو دیں گے۔ ہم نہیں چاہتے کہ اسے پھانسی دی جائے، ہم اسے بچانا چاہتے ہیں۔ اسے سمجھانے اور بچانے میں صرف تم ہماری مدد کر سکتی ہو۔ تم سیّد سے یہ بات لکھوا دو: ’’ہماری تحریک کا تعلق کسی نامعلوم گروپ سے ہے‘‘۔
میں نے کہا: ’’یہ آپ کو بھی معلوم ہے اور مجھے بھی ،اور خود ناصر کو بھی معلوم ہے کہ اخوان کا تعلق کسی ملکی یا غیر ملکی ناپسندیدہ گروپ سے نہیں ہے، تو پھر میں یہ بات کیوں اپنے بھائی سے کہوں؟‘‘
جیلر نے کہا: ’’تم ٹھیک کہتی ہو، ہمیں معلوم ہے کہ تمھارا تعلق کسی ایسے ناپسندیدہ گروہ سے نہیں ہے اور آپ اچھے لوگ ہیں، لیکن سیّد کو بچانے کے لیے ہمیں اس تحریر کی ضرورت ہے‘‘۔
میں نے کہا: ’’اس بات پر بھائی کا جواب مجھے معلوم ہے، لیکن اگر آپ چاہتے ہیں تو میں ان تک یہ بات پہنچا دیتی ہوں‘‘۔
جیلر نے عملے سے کہا: ’’اسے سیّد قطب کے پاس لے چلیں‘‘۔
میں نے جیلر اور عملے کی موجودگی ہی میں بھائی تک پیغام پہنچایا۔
بھائی سیّد نے میرے چہرے کی طرف اس طرح دیکھا کہ گویا پوچھ رہے ہوں: ’’کیا تم بھی یہی چاہتی ہو یا یہ چاہتے ہیں؟‘‘
میں نے اشارے سے ان کو بتایا: ’’یہ چاہتے ہیں‘‘۔
پھر بھائی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’خدا کی قسم! اگر یہ بات سچی ہوتی تو میں لکھ دیتا اور دنیا کی کوئی طاقت مجھے یہ کہنے اور لکھنے سے نہ روک پاتی، لیکن چونکہ یہ بات ہے ہی سراسر جھوٹ، اس لیے میں کسی صورت میں جھوٹ نہیں بولوں گا‘‘۔
جیلر صفوت نے سیّد بھائی سے کہا: ’’اچھا، تو پھر آپ کی یہی راے ہے؟‘‘
سیّد بھائی نے کہا: ’’ہاں، یہی ہے‘‘۔
جیلر مجھے یہ کہہ کر چلا گیا: ’’اپنے بھائی کے پاس تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ لو‘‘۔
اب ہم دونوں بہن بھائی اکیلے تھے، اور یہ ہماری آخری ملاقات تھی۔ میں نے بھائی کو بتایا کہ: ’’اس نے مجھے طلب کرکے کیا آرڈر دکھائے، اور کیا بات کی، اور میں نے کیا جواب دیا‘‘۔
سیّد بھائی نے ساری بات سننے کے بعد براہ راست مجھ سے پوچھا: ’’کیا تمھیں یہ بات پسند ہے کہ میں وہ بات لکھ دوں جو یہ چاہتے ہیں؟‘‘
میں نے بھائی کو ایمان اور دکھ سے لبریز ایک حرفی جواب دیا: ’’نہیں‘‘۔
پھر سیّد بھائی نے کہا: ’’زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے، یہ لوگ میری زندگی کا فیصلہ نہیں کرسکتے، یہ نہ میری زندگی میں کمی کر سکتے ہیں اور نہ اضافہ، مجھے وہی منظور ہے جو اللہ کو منظور ہے‘‘۔
اب یہاں پر مصری جیل خانہ جات پولیس کے دو اہل کار بھائیوں کی یادداشت پیش کی جا رہی ہے، کہ جب وہ ۲۹؍اگست۱۹۶۶ء کے روز سیّد قطب کی پھانسی کے وقت موقعے پر موجود تھے۔ یہ روایت محمد عبدالعزیز المسند نے تحریر کی ہے:
’’جس چیز نے ہماری زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا، وہ یہ مناظر تھے‘‘۔
ہم ہر رات فوجی جیل [قاہرہ] میں بوڑھے اور جوان قیدی وصول کرتے تھے۔ ان کے بارے میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ: ’’یہ یہودیوں کے ساتھی، بڑے خطر ناک اور غدار ہیں، ان سے تمام راز اگلوانے ضروری ہیں، اور یہ کام صرف تشدد ہی سے کیا جا سکتا ہے‘‘۔
ان قیدیوں کو ہم جیل جانے میں کوڑوں اور چھڑیوں سے اتنا مارتے کہ ان کے جسموں کی رنگت تبدیل ہو جاتی۔ یہ کام کرتے وقت ہمیں اس بات کا پورا یقین تھا کہ ہم ایک مقدس قومی ذمہ داری ادا کررہے ہیں، لیکن دوسری طرف ہم نے ہمیشہ یہ بھی دیکھا کہ وہ ’غدار‘ راتوں میں مسلسل اللہ کو پکارتے تھے اور سختی سے نمازوں کی پابندی کرتے تھے۔
ان میں سے کچھ تو بدترین تشدد اور وحشی کتوں کے جبڑوں میں نوچے جانے کے سبب موت کے گھاٹ اتر گئے، لیکن حیرت ناک منظر یہ تھا کہ وہ پھر بھی مسکراتے اور مسلسل اللہ کا نام لیتے رہے۔ یہ دیکھ کر ہم کبھی کبھار اس شک میں پڑ جاتے کہ ہمیں حکام بالا نے جو بتایا ہے، وہ درست ہے یا نہیں۔ کیونکہ یہ بات ناقابلِ یقین تھی کہ: ’’اتنے پختہ ایمان اوریقین رکھنے والے یہ لوگ ملک کے غدار اور یہودی دشمنوں کے ساتھی ہو سکتے ہیں‘‘۔ میں نے اور میرے بھائی نے فوجی حکام کا یہ رویہ دیکھ کر طے کیا کہ ہم ممکن حد تک ان قیدیوں کو تکلیف پہنچانے سے گریز کریں گے۔
کچھ ہی مدت بعد قید خانے کے اس حصے سے تبدیل کرکے ہماری ڈیوٹی ایک ایسی کوٹھڑی پر لگائی گئی، جس کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ: ’’اس میں سب سے خطر ناک قیدی اور ان تمام مجرموں کا سرغنہ قید ہے، جس کا نام سیّد قطب ہے‘‘۔ اس قیدی کی کوٹھڑی پرتعینات ہوئے، تو ہم نے دیکھا کہ اب تک اس شخص پر اتنا تشدد کیا جا چکا تھا کہ اس کے لیے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا تک مشکل تھا۔
اسی نگرانی کے دوران میں ایک رات اس خطر ناک قیدی کی پھانسی کے احکامات موصول ہوئے، اور احکامات آنے کے تھوڑی ہی دیر بعد اس شخص کے پاس ایک سرکاری مولوی صاحب کو لایا گیا، جنھوں نے اس قیدی سے کہا: ’’اپنے گناہوں کی توبہ کرلو‘‘۔ جواب میں قیدی نے کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالا، بس ایک گہری نگاہ سے ان مولوی صاحب کا چہرہ دیکھا، اور منہ دوسری طرف پھیر لیا۔
اگلی صبح سرکاری احکامات کے مطابق ہم دونوں اس قیدی کے ہاتھ باندھ کر، کوٹھڑی سے باہر ایک بندگاڑی میں لے گئے۔ اس گاڑی میں دو قیدی پہلے سے موجود تھے۔ کچھ ہی لمحوں بعد یہ گاڑی پھانسی گھاٹ کی طرف روانہ ہوگئی۔ ہمارے پیچھے کچھ مصری فوجی گاڑیاں تھیں، جو قیدیوں کو غالباً فرار ہونے سے باز رکھنے کے لیے ساتھ ساتھ آ رہی تھیں (حالانکہ ہم جیل کی چاردیواری کے اندر ہی تھے)۔ اس فوجی قافلے میں شامل ہر سپاہی نے ذاتی پستول کے ساتھ اپنی اپنی پوزیشن سنبھال رکھی تھی۔
جلّاد ان قیدیوں کو پھانسی دینے کے لیے تیاریاں مکمل کر چکے تھے۔ مخصوص پھانسی گھاٹ کے تختے پر کھڑا کرکے، دوسرے دو ساتھیوں کے ساتھ اس خاص شخص کی آنکھیں کالی پٹیوں سے باندھی اور گردن میں رسا ڈال دیا گیا۔ ایک چاق و چوبند جلّاد، اس شخص اور اس کے دو ساتھیوں کے قدموں تلے تختے کو گرانے کے احکامات کا منتظر تھا۔ اس حکم کے لیے بطور علامت، ایک کالے جھنڈے کو لہرایا جانا تھا۔
ہم صاف لفظوں میں سن رہے تھے کہ وہ تینوں قیدی تختۂ دار پر بلندآواز میں ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں سے جنت میں ملنے کی خوش خبری کا تبادلہ کر رہے تھے۔ اور بار بار کہہ رہے تھے: اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد[اللہ عظیم ہے اور تمام تعریفیں اس کے لیے ہیں]۔
ان دردناک اور سانس روک دینے والے لمحات میں ہم نے ایک فوجی گاڑی کو بڑی تیزی سے اپنی طرف آتے دیکھا۔ جوں ہی ہمارے قریب پہنچ کر گاڑی کا دروازہ کھلا، تو اس میں سے ایک اعلیٰ فوجی افسر نمودار ہوا، جس نے بلند آواز میں، جلّاد کو فوراً پیچھے ہٹنے کو کہا۔
وہ افسر تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے سیّد کی طرف بڑھا اور اس کی گردن سے رسا ہٹانے اورآنکھوں سے پٹی کھولنے کا حکم دیا۔ پھر کپکپاتی آواز میں سیّد سے یوں مخاطب ہوا: ’’میرے بھائی سیّد، میں تمھارے پاس رحم دل صدر [جمال ناصر]کی طرف سے زندگی کا تحفہ لایا ہوں۔ صرف ایک جملہ تمھیں اور تمھارے دوستوں کو موت سے بچا سکتا ہے‘‘۔
اس نے سیّد کے جواب کا انتظار کیے بغیر ایک کاپی کھولی اور کہا:
’میرے بھائی، تم صرف یہ جملہ لکھ دو، ’میں نے غلطی کی تھی اور میں معافی مانگتا ہوں۔‘
سیّد کے چہرے پر ایک ناقابل بیان مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ افسر کی طرف دیکھا اور حیران کن طور پر، مطمئن لہجے میں افسر سے مخاطب ہو کر کہا:
’’نہیں، کبھی نہیں۔ میں اس عارضی زندگی کو، ہمیشہ کی زندگی پر ترجیح نہیں دے سکتا‘‘۔
فوجی افسر نے مایوسی بھرے لہجے میں کہا: ’’سیّد، اس کا مطلب صرف موت ہے‘‘۔
سیّد نے جواب دیا: ’’اللہ کے راستے میں موت کو خوش آمدید، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد‘‘۔
یہ جواب سیّد کے عقیدے کی پختگی ظاہر کرتا تھا۔ اس سے زیادہ مکالمے کو جاری رکھنا ناممکن تھا۔ افسر نے جلاد کو پھانسی لگانے کے لیے پکارتے ہوئے اشارا کیا۔ اس آخری لمحے میں ان کی زبانوں سے جو جملہ نکلا، وہ ہم کبھی نہیں بھول سکتے: لا اِلٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ۔
اورپلک جھپکنے سے پہلے سیّد قطب اور ان کے دونوں ساتھیوں کے جسم، لٹکتے رسّوں پر جھول گئے۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون
[چودھری غلام جیلانی روایت کرتے ہیں]’’ریڈیو پاکستان سے سیّد قطب کی شہادت کی خبر سنتے ہی میں بے چین ہو کر، دکھی دل کے ساتھ مولانا مودودی کے گھر اور جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر۵۔ اے ذیلدار پارک اچھرہ کی طرف چل پڑا۔ راستے میں مولانا گلزار احمد مظاہری بھی ساتھ ہو لیے۔ مولانا نے ہمیں معمول کے خلاف اپنے دفتر میں داخل ہوتے دیکھا: میں اور مولانا گلزار احمد ایک جانب کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ مولانا کے چہرے سے شگفتگی غائب تھی۔
مولانا گلزاراحمد مظاہری نے کہا: ’’مولانا، شہداے اخوان کی تعزیت آپ سے نہ کی جائے تو اور کس سے کی جائے؟‘‘
مجھے یاد آیا، ایک بار مولانا نے شگفتہ انداز میں فرمایا تھا: ’’مجھ میں ایک بہت بڑا عیب ہے، اور وہ یہ کہ میرا چہرہ میری داخلی کیفیت کو ظاہر نہیں ہونے دیتا‘‘… لیکن آج یہ پہلا موقع تھا کہ دل کا حزن اور طبیعت کا ملال مولانا کے چہرے اور آواز سے مترشح تھا۔
مولانا نے فرمایا: ’’اللہ جب کسی کو محبوب رکھتا ہے تو اسے اِسی راہ سے اپنے پاس بلاتا ہے‘‘۔
مجھے یکا یک ایسا محسوس ہوا کہ گویا مولانا کے الفاظ ان کے آنسوئوں میں بھیگ رہے ہیں۔ کمرے میں سناٹا سا طاری تھا۔ پنکھا چل رہا تھا، لیکن روح کی انگیٹھی گویا دہکنے لگی تھی۔ ایسا دکھائی دے رہا تھا، جیسے مولانا نے آج اپنے پاسبانِ فکر کو رخصت دے دی تھی، اور اب وہاں فقط ایک بندۂ مومن کا دل تھا، جو اپنے ہمراہی کے غم میں ڈوب رہا تھا۔
قدرے توقف کے بعد مولانا مودودی نے فرمایا:
میرا توکل سے برا حال ہو رہا ہے۔ آج صبح [۲۹؍اگست۱۹۶۶ئ] جب میں ناشتہ کرکے اپنے دفتر میں کام کرنے کے لیے آیا، تو مجھے اچانک ایسا محسوس ہوا گویا مجھ پر depression [افسردگی]سا طاری ہو رہا ہے۔ میں نے اخبار اٹھا کر پڑھنا چاہا، لیکن میرا دماغ، میری نگاہوں کا ساتھ نہ دے رہا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ مجھ پر یہ کیفیت کیوں طاری ہے؟ ذہن منتشر تھا اور کوشش کے باوجود کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ میں نے روشنی گل کر دی اور بستر پر لیٹ گیا۔ دوپہر کے قریب اٹھا، تو بھی کیفیت میں وہی اضمحلال رچا ہوا تھا۔ اتنے میں [بیٹے] محمدفاروق نے آکر اطلاع دی کہ ریڈیو سے اعلان ہوا ہے کہ سیّد قطب اور ان کے دو ساتھیوں کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ تب میں سمجھا کہ مجھ پر یہ depression کیوں طاری تھا۔ جس وقت مجھے محسوس ہوا کہ میرا دل اچانک بیٹھ رہا ہے، تو غالباً وہ وہی وقت تھا ، جب سیّد قطب کو تختۂ دار پر لٹکایا جا رہا ہوگا۔
یہاں پہنچ کر مولانا مودودی کی آواز شدتِ جذبات سے بالکل رُندھ گئی۔ ہم خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ مولانا نے اچانک میز پر پڑے کاغذات کی جانب ہاتھ بڑھا دیا، اور ہم سمجھ گئے کہ مولانا اس موضوع پر کچھ زیادہ بول کر اپنے صبر کا پیمانہ لبریز نہیں کرنا چاہتے اور زندگی کی مہلت کو اسی خالق کی راہ میں صرف کرنے کو مطلوب سمجھتے ہیں‘‘۔
۲۹؍اگست، سہ پہر ریڈیو پر سیّد قطب اور ان کے دوساتھیوں کو پھانسی دیے جانے کی خبر سن کر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اخبارات کو یہ بیان دیا:
آج صدر ناصر نے سیّد قطب اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دے کر پوری دنیاے اسلام کے دل میں زخم ڈال دیے ہیں ، اور اسلامی تاریخ میں اپنے لیے ایک ایسی جگہ پیدا کر لی ہے، جو کسی کے لیے باعث ِعزت نہیں ہو سکتی۔ مصری حکومت کے سارے پراپیگنڈے کے باوجود آج کوئی شخص بھی یہ باور کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ العدالۃ الاجتماعیہ فی الاسلام (اسلام اور عدلِ اجتماعی) کا مصنّف واقعی سزاے موت کا مستحق مجرم تھا۔ اس فعل پر دشمنانِ اسلام تو ضرور خوش ہوں گے، مگر کوئی مسلمان اس پر ہرگز خوش نہیں ہو سکتا۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان شہیدوں کی قربانیاں قبول فرمائے، اور مصر کی سرزمین کو زیادہ عرصے تک عدل و انصاف کی نعمت سے محروم نہ رکھے۔
o
یاد رہے، خود سیّد قطب، مولانا مودودی کے علمی و فکری اثاثے کے دل و جان سے قدر دان تھے۔ انھوں نے فی ظلال القرآن میں متعدد مقامات پر اس کا والہانہ اعتراف کیا ہے۔ یہاں پر صرف دو اقتباس دیے جاتے ہیں:
اخوان المسلمون کے رہنمائوں کو جب موت کی سزائیں سنائی گئیں، تو پورا عالم اسلام غم و اندوہ کی تصویر بن کر تھرا اٹھا، یہ اس کا پہلا رد عمل تھا۔ دوسرا رد عمل یہ تھاکہ وہ سراپا احتجاج بن گیا۔ اور آخر وقت تک میں مصر کے ارباب اختیار کو اس ہولناک گناہ کے ارتکاب سے روکنے کی کوشش کی، مگر مشیت الٰہی کو یہ منظور نہ تھا۔ جن نفوسِ قدسیہ کی قسمت میں اللہ تعالیٰ نے شہادت کی سعادت لکھ دی تھی، وہ عالم اسلام کے احتجاج کی بنا پر اس سعادت سے کیوں کر محروم کیے جا سکتے تھے؟ اور جن کے لیے عذاب الٰہی کانوشتہ لکھا جا چکا تھا، وہ اس نوشتے کی پاداش سے کیونکر بچ سکتے ہیں۔
سیّد قطب اور ان کے ساتھیوں کے لیے یقینا موت کا ایک دن مقرر تھا۔ ان کی زندگی کے ساغر کے لبریز ہو کر چھلک جانے کی ایک ساعت متعین تھی، اس میں نہ تقدیم ہو سکتی تھی، نہ تاخیر۔ ان خادمان حق نے اپنی زندگیاں دینِ حق کی خدمت میں بسر کی تھیں اور وقت آگیا تھا کہ ان کے حسنِ عمل کو قبولیت حاصل ہو: قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلَّا مَا کَتَبَ لَنَا(التوبہ۹:۵۱) ’’ان سے کہو، ہمیں ہرگز کوئی(بُرائی یا بھلائی) نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے شہادت لکھ رکھی تھی۔ لہٰذا، بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر عالم آخرت کا سفر اختیار کرنے کے بجاے وہ شہادت کا تاج سر پر رکھے، رحمت کے فرشتوں کے دوشِ سعادت پر سوار ہو کر اپنے پروردگار کے جوارِ رحمت میں چلے گئے۔ اس اعتبار سے سیّد قطب نہایت خوش قسمت تھے۔
سیّد قطب کی شہادت پر اہلِ حق اس لیے غم زدہ نہیں ہوئے تھے کہ وہ موت کی آغوش میں چلے گئے، موت کی آغوش میں تو ہر شخص کو جو پیدا ہوا ہے، جانا ہے۔ افسوس اور غم اس پرہوا کہ اسلام اور عالمِ اسلام ان کی خدمات سے محروم ہوگیا۔ افسوس ان کی موت کا نہیں، افسوس عالم اسلام کی بے بسی کا ہوا۔ یہ شہیدانِ حق خوش نصیب تھے۔ بدنصیب تو وہ تھے جو اپنے زعم میں یہ سمجھ رہے تھے کہ انھوں نے اپنے اقتدار کی راہ سے چند کانٹوں کو ہٹادیا ہے۔ کیا خوب کہا تھا، آل فرعون کے ایک آدمی نے، جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا کہ:
اے میری قوم کے برسراقتدار لوگو، آج تمھیں ملک میں اقتدار حاصل ہے اور تم جو چاہو کر سکتے ہو، مگر یہ تو بتائو کہ خدا کے عذاب سے تمھیں کون بچائے گا، جب کہ وہ آئے گا۔
سیّد قطب اور ان کے رفقا پر تشدد اور ظلم کے پہاڑ توڑنے والے اور انھیں پھانسی کے پھندوں پر لٹکانے والے ذلت کی زندگی جئے اور ذلت کی موت مرے۔
اس بندۂ مومن کی یہ صدا ہزاروں برس سے مسلسل فضاے بسیط میں گونج رہی ہے۔ یہ صدا ہر اس موقعے پر نشۂ اقتدار میں بدمست ان لوگوں کو جھنجھوڑتی ہے، جو اس چند روزہ زندگی کے مزے کی خاطر خدا کے دین کی طرف بلانے والوں کو اپنی راہ سے ہٹانے کے لیے اپنے اقتدار کی اندھی، بہری اور حیوانی طاقت سے کام لیتے ہیں۔
پروفیسر جان کیلورٹ( شعبہ تاریخ، گیریگٹن یونی ورسٹی، اوماہا، ریاست ہزاسکا) کو سیّدقطب پر تخصّص حاصل ہے۔ وہ ان کے بارے میں مغرب کے منفی پراپیگنڈے کا جواب دیتے ہیں: ۲۰۱۰ء میں کولمبیا یونی ورسٹی سے شائع شدہ اپنی کتاب Sayyid Qutb and the Origins of Radical Islamism [سیّد قطب اور انقلابی اسلام]میں لکھتے ہیں:
مصر کے دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والا سادا سا نوجوان سیّدقطب، پہلے پہل ایک سیکولر قوم پرست تھا، مگر مطالعے اور حالات کے معروضی مشاہدے نے اسے تبدیل کردیا۔ جس کے نتیجے میں وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سماجی، معاشی اور سیاسی تبدیلی لانے کے لیے مصلح بن کر سامنے آیا۔ امریکا کے سفر نے سیّدقطب کو مشتعل نہیں کیا، بلکہ ان کے اسلامی سماجی، معاشی اور سیاسی مطالعے کو اور زیادہ دلائل و تقویت فراہم کی۔ درحقیقت سیّدقطب کے انقلابی تصورات کی تشکیل کا بنیادی قصّہ یہ ہے کہ: مغربی سامراجی اور مابعد نوآبادیاتی دھونس کے خلاف جدوجہد نے انھیں ظلم کے خلاف ابھارا، جس میں وہ سامراجیت، اشتراکیت، قوم پرستی اور سرد جنگ کے جبر کو چیلنج کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔
سیّد قطب نے مطالعہ قرآن سے دل بستگی اور ایثار و قربانی کا سبق حاصل کیا۔ تاہم، ان کے انقلابی تصورات کی تشکیل میں دو چیزوں کو بنیادی دخل حاصل ہے: پہلا یہ کہ عصرِ حاضر اوراس کے افکار و نظریات کا وسیع تنقیدی مطالعہ۔ دوسرا یہ کہ آمرِ مطلق ناصر کے ہاتھوں مصر کی جیلوں میں اخوان کے کارکنوں پر ہولناک مظالم۔ اس کے باوجود سیّدقطب کے ہاں ’تصورجاہلیت‘ میں کہیں یہ بات شامل نہیں ہے کہ جاہلیت زدہ یا بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا جائے۔ اس لیے سیّدقطب کو نائن الیون یا القاعدہ سے جوڑنا، مغربی دانش وروں اور مقتدر قوتوں کی کم فہمی اور کج روی ہے۔
یاد رہے کہ مصر کے نوبیل انعام یافتہ ادیب نجیب محفوظ (۱۹۱۱ئ- ۲۰۰۶ئ) نے برملا اعتراف کیا: ’’مجھے تاریکی اور ظلمت سے نکالنے والی ہستی سیّدقطب ہی تھے‘‘۔ علامہ عبدالعزیز بن باز (۱۹۱۰ئ-۱۹۹۹ئ)کہتے ہیں: ’’سیّدقطب راہ خدا کے داعی تھے۔ جب اللہ نے ان کو سیدھا راستہ دکھایا تو انھوں نے قرآن کریم سے خوب لو لگائی‘‘۔
سیّد قطب شہید کی اخوان المسلمون سے وابستگی سے پہلے کس کو معلوم تھا کہ یہ نوجوان دنیا کی عظیم اسلامی شخصیت ہوگا، اسلام کو اس کے ذریعے روحانی طاقت حاصل ہو گی۔ اسے اصلاح معاشرہ اور اشاعت ِ اسلام کی عظیم تحریک کی رفاقت کی سعادت حاصل ہوگی۔
بڑا بھائی ہونے کی حیثیت سے سیّد قطب ایک جانب اپنی تین بہنوں: نفیسہ قطب، امینہ قطب، حمیدہ قطب اور اکلوتے بھائی محمد قطب کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینے کی جانب متوجہ رہے اور باقی وقت ملازمت، صحافت اور قومی جدوجہد میں مصروف رہے۔ ۴۴برس کی عمر میں اخوان المسلمون سے منسلک ہوئے اور ۴۷برس کی عمر میں دس سال قید بامشقت میں جکڑ دیے گئے۔ ۵۷برس کی عمر میں رہا ہوئے اور ۵۸برس کی عمر میں دوبارہ گرفتار کرلیے گئے۔ اسی دوران ۵۹برس اور ۱۱ ماہ کی عمر میں جامِ شہادت نوش کرکے حیاتِ جاوداں پاگئے۔ ان کٹھن شب وروز میں وہ شادی نہ کر پائے۔ اس دنیا میں ان کی اولاد ان کی ۲۵کتب اور ان سے فیض پانے والے لاکھوں فرزندانِ اسلام ہیں۔
سیّد قطب گندمی رنگ، درمیانی قامت، اکہرے بدن،بڑی بڑی روشن آنکھوں اور کشادہ پیشانی کے مالک تھے۔ یہاں ان کے بھائی بہنوں کا مختصر تعارف پیش کیا جا رہا ہے:
شہادت سے کچھ عرصہ پہلے سیّد قطب شہید نے عزم و ایمان کے جذبات سے لبریز یہ اشعار کہے تھے:
اے میرے دوست! تو قید و بند میں بھی آزاد ہے،
توسب رکاوٹوں کے باوجود آزاد ہے،
اگر تو اللہ کا دامن مضبوطی سے تھامے ہے،
توپھر بندوں کی چالیں تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں،
اے میرے دوست! تاریکی کے لشکر فنا ہو کر رہیں گے،
اور دنیا میں صبحِ نو طلوع ہو کر رہے گی،
تو اپنی روح کو روشن اور منور ہونے تو دے،
وہ دیکھ! دور سے صبح ہمیں خوش آمدید کہہ رہی ہے،
میرے بھائی! تیرے دل پر فریب کا ایک کمزور اور ناکارہ سا تیر آکر لگا،
یہ تیر تھکے ہوئے بازوئوں نے تیری طرف نشانہ بنا کر پھینکا تھا۔
ان شاء اللہ، یہ [ظالم ]بازو ایک روز کٹ جائیں گے،
لہٰذا، تو صبر و استقامت کا دامن تھامے رکھ۔
اُس منّوردن کے بعد یہ[ظالم] بازو، شیروں کے مسکن تک نہ پہنچ سکیں گے۔
میرے بھائی! تیری ہتھیلیوں سے خون کے فوارے ابل رہے ہیں،
تیرے ہاتھوں نے ان حقیر زنجیروں کے اندر شل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔
تیرے ہاتھوں کی قربانی نے عرشِ اعلیٰ پر قبولیت پائی ہے
یہ ہاتھ، اس مہندی سے گل رنگ ہوں گے،جو کبھی بے رنگ نہ ہو گی۔
میرے ہم دم! آنسو بہاکر میری قبر کو ان سے تر نہ کرنا،
بلکہ میری ہڈیوں سے، تاریک راہوں میں بھٹکنے والوں کے لیے شمع روشن کرنا،
اے میرے دوست! میں معرکۂ حق سے ہرگز نہیں اکتایا،
او رمیں نے ہتھیار ہرگز نہیں ڈالے،
اگرچہ جہالت اور تاریکی کے لشکر مجھے چاروں طرف سے گھیر ہی لیں،
تب بھی مجھے صبحِ روشن کے طلوع ہونے کا پختہ یقین ہے!
اللہ نے ہمیں اپنی دعوت کے لیے منتخب کیا ہے،
ہم اُس کے راستے پر ضرور گام زن رہیں گے۔
ہم میں سے کچھ نے جان دے کر اپنی نذر پوری کر دی،
اور کچھ، اس راہ وفا میں اپنے عہد و پیمان پر قائم ہیں۔
میں بھی اپنے رب اور اس کے دین پر خود کو نچھاور کر دوں گا،
اور یقین و ایمان کے ساتھ اس راہ پہ چلتا رہوں گا،
پھر اِس دنیا میں کامرانی سے بہرہ ور ہوں گا، یا
اللہ کے پاس ابدی حیات سے ہم کنار ہوں گا!
’سیّد قطب کو پھانسی دے دی گئی‘۔
’سیّد قطب کو شہید کر دیا گیا۔‘
اخبارات کی شہ سرخیوں اور ریڈیو سے نشر ہونے والی خبروں میں اطلاع اورتاثر سے لبریز الفاظ شائع ہوئے اور آوازیں ابھریں۔
جنھوں نے سمجھا تھا: ’آواز کو دبا اور قلم کو توڑ دیا ہے، اب ہمارا اقتدار محفوظ ہے‘، وہ نہ آواز کو دبا سکے، نہ قلم کی قوت سلب کر سکے اور نہ اپنے اقتدار کو بچا سکے۔
آج وہ آواز زندہ ہی نہیں، بہت توانا بھی ہے۔ اس قلم سے نکلی تحریریں آج بھی روشنی اور نور بکھیر رہی ہیں۔ ان الفاظ کی خوشبو سے فضائوں کو معطر کرنے والے، دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں۔ اس فرد کا استدلال، اسلام کے پروانوں کا دماغ ہے۔ وہ جو قیدوبند اور بیماری و نقاہت کے باعث ہمدردی کا مستحق قرار دیا جا رہا تھا، آج وہی ہے جو برہانِ ربّانی بنا جاہلیت اور طاغوت کی رگِ جاں کے لیے چیلنج سمجھا جا رہا ہے۔ یہ نام ہے سیّد قطب شہید۔
o
سیّد قطب شہید کے والد ابراہیم قطب، مصر کے ضلع اسیوط کے موشا، نامی گائوں میں رہتے تھے۔ وہیں ۶؍اکتوبر۱۹۰۶ء کوسیّد قطب کی ولادت ہوئی۔ ان کا نام سیّد رکھا گیا اور قطب ان کا خاندانی نام تھا(یہاں لفظ ’سید‘ بطور نام ہے، سیّد زادہ‘ نہیں)۔ آپ کی والدہ کا نام فاطمہ حسین عثمان تھا۔ مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی کے بقول انھیں سیّد قطب نے بتایا تھا کہ پانچ نسلیں پیش تر ہمارے آباواجداد ہندستان کے کسی علاقے سے ہجرت کرکے عرب میں آبسے تھے۔ سید قطب کے والد ابراہیم قطب، مصر کے مشہور رہنما مصطفیٰ کامل پاشا [۱۴؍اگست۱۸۷۴ئ-۱۰؍فروری۱۹۰۸ئ] کی تحریک ’حزب الوطنی‘ سے متاثر تھے، جو مصر کی آزادی اور مغربی سامراج کی غلامی سے نجات کے لیے متحرک تھی۔ چند برسوں بعد یہ خاندان گائوں چھوڑ کر قاہرہ کی ایک نواحی بستی حلوان میں آباد ہو گیا۔
۱۰برس کی عمر میں سید قطب، قرآن کریم حفظ کرکے قاہرہ کے ثانوی مدرسے میں داخل ہوگئے۔ اسکول کے زمانے ہی میں وہ سامراجی قوتوں کے خلاف تقریریں کرنے میں پیش پیش تھے۔ کالج میں داخل ہوئے تو ماموں کے ہاں رہنے لگے۔ ۱۹۲۹ء میں ایجوکیشن میں آنرز کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا، اور لیکچرر مقرر ہوئے۔ ۱۹۳۸ء میں والد کا انتقال ہو گیا، تو ان کی والدہ اپنے بچوں سمیت، اپنے بھائی احمد حسین الموشی کے ہاں قاہرہ آگئیں۔ اعلیٰ صلاحیت اور محنت کے نتیجے میں ان کو ۱۹۳۹ء میں وزارت تعلیم نے انسپکٹر آف اسکولز کے عہدے پر فائز کر دیا۔ ۱۹۴۰ء میں ان کی والدہ محترمہ بھی انتقال کر گئیں۔یوں بڑا بھائی ہونے کے ناتے بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سید قطب کے کندھوں پر آگئی۔
لڑکپن کے زمانے میں سید قطب انگریزوں سے حصول آزادی کے لیے سعد زغلول پاشا (۱۸۵۹۔۲۳؍اگست۱۹۲۷ئ) اور ان کی ’وفد پارٹی‘ سے متاثر تھے، جو استعماری ہتھکنڈوں کو بے نقاب کرنے میں بڑی جرأت سے متحرک تھی۔ تب مصر پر احمد فواداوّل (۱۸۶۸ئ-۲۸؍اپریل ۱۹۳۶ئ) کی بادشاہت تھی اور برطانیہ کی بھرپور پشت پناہی۔ سید قطب کی ابتدائی تحریریں، آزادیِ وطن کے انقلابی لہجے سے بھرپور پیغام پیش کرتی ہیں۔وہ مصری حکمرانوں کے استبداد اور انگریز نوازی کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ مثال کے طور پر مصر کے وزیر اعظم [۲۴؍جون ۱۹۲۸ئ- ۴؍اکتوبر۱۹۲۹ئ] محمد محمود پاشا [م:۱۹۴۱ئ] نے جب اپنے ایک بیان میں حریت و استقلال کے جذبے سے سرشار مصریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
میں قانون شکنی کرنے اور بدامنی کو ہوا دینے اور امن امان میں خلل ڈالنے والوں کو ہرگز برداشت نہیں کروں گا۔ ایسی سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کی خبر آہنی ہاتھوں سے لوں گا۔
اس بیان نے ملک میں خوف کی لہر دوڑا دی،اور سید قطب تڑپ اٹھے۔ انھوں نے اخبار کو مضمون بھیجا، جس میں لکھا:
یَا صَاحِبَ الْیَدِ الْحَدِیْدِیَّۃِ : [اے لوہے کے ہاتھوں والے] اگر تو اپنے لوہے کے ہاتھوں پر نظر ڈالے گا، تو تجھے معلوم ہو جائے گا کہ وہ زنگ آلود ہو چکے ہیں۔
وزیر اعظم محمود پاشا سمجھ گئے کہ حملہ جوابی ہے۔ انھوں نے انتظامیہ کے اہل کار بھیجے کہ وہ مضمون نگار کو ان کے سامنے پیش کریں، تاکہ اس کو سمجھایا جا سکے۔ سید قطب، وزیراعظم دفتر پہنچے تو وزیراعظم محمود پاشا اپنے سامنے ۲۲سالہ نوجوان کو دیکھ کر حیرانی سے پوچھنے لگے:
’’اے نوجوان! یہ مضمون تم ہی نے لکھا ہے؟‘‘
سید قطب نے جواب دیا: ’’جی ہاں، یہ میں نے لکھا ہے؟‘‘
وزیراعظم نے پوچھا: ’’اتنے سخت لہجے میں لکھنے کی وجہ؟‘‘
نوجوان سید قطب نے جواب دیا: ’’یہی میرا عقیدہ ہے‘‘۔
وزیراعظم نے حکمت سے کام لیتے ہوئے کہا: ’’جائو میرے بیٹے، جو دل میں آئے لکھو‘‘۔
وزیراعظم کا خیال تھا کہ دھمکی دیے بغیر، حکومت کے ایوانوں کا رعب لڑکے کے دل پر اثر ڈال کر رہے گا، مگر ایسا نہ ہو سکا۔
یاد رہے یہ وہ زمانہ ہے جب ۱۹۲۸ء میں اخوان المسلمون ابھی اسماعیلیہ میں تشکیلی دور سے گزر رہی تھی۔ اگلے ۱۵ برسوں کے دوران میں سید قطب کا یہی قلم مختلف اخباروں اور رسالوں میں بڑی قوت سے ہم وطنوں کو سامراجی زنجیریں توڑنے کے لیے پکارتا رہا۔ حتیٰ کہ مصری حاکم اعلیٰ (۲۸؍اپریل۱۹۳۶ئ-۲۶؍جولائی۱۹۵۲ئ) شاہ فاروق تک تلملا اٹھا، اور وزارتِ داخلہ کو ہدایت کی کہ سید قطب کو گرفتار کیا جائے۔ مگر اس کے وزیراعظم محمود فہمی نقراشی پاشا نے گرفتاری کے حکم پر عمل درآمد میں رکاوٹ پیداکی، اور سید قطب کے خاندان سے ذاتی اور سماجی تعلق کی بنا پر شاہ فاروق سے کہا: ’’میں سید قطب کو سمجھائوں گا‘‘۔ نقراشی پاشا نے انھیں سمجھانے کی جسارت کرنے کے بجاے امریکی نظام تعلیم و تربیت کے جائزے کے لیے ملک سے باہر بھجوانے کی اسکیم بنائی۔
o
سیّدقطب شہید ایک عالم اور دانش ور ہی نہ تھے، بلکہ ایک صاحب طرز ادیب اور شاعر بھی تھے۔ انھوں نے ۱۹۳۹ء میں التصویر الفنی فی القرآن کے عنوان سے ایک قسط وار مقالہ لکھنا شروع کیا، جو مجلہ المقتطف میں طبع ہوتا رہا، اور بعد میں یہی سلسلۂ تحریر سیّد قطب کی پہلی علمی کتاب التصویر الفنی فی القرآن کی صورت میںڈھلا۔ اس کتاب کا انتساب انھوںنے اپنی والدہ مرحومہ کے نام کتنے والہانہ جذبے سے تحریر کیا:
گائوں میں رمضان کا پورا مہینہ جب ہمارے گھر پر قاری حضرات دل نشین انداز میں قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے، تو آپ گھنٹوں کان لگا کر پوری محویت اور توجہ کے ساتھ پردے کے پیچھے سے تلاوت سنا کرتی تھیں۔
میں آپ کے پاس بیٹھ کر جب بچوں کی عادت کے مطابق شور کرتا تھا، تو آپ مجھے اشارے سے باز رہنے کی تلقین کیا کرتیں اور پھر میں بھی آپ کے ساتھ کان لگا کر سننے لگ جاتا۔ میرا دل الفاظ کے سحر انگیز لحن سے محظوظ ہوتا، اگرچہ اس وقت میں ان کے مفہوم سے ناآشنا تھا۔
آپ کے ہاتھوں جب پروان چڑھا تو آپ نے مجھے گائوں کے پرائمری اسکول میں داخل کرا دیا۔ آپ کی سب سے بڑی آرزو یہ تھی کہ اللہ میرے سینے کو کھول دے، اور میں قرآن حفظ کر لوں، اور اللہ مجھے خوش الحانی کی نعمت سے نواز دے، اور پھر میں آپ کے سامنے بیٹھا ہر وقت تلاوت کیا کروں۔ پھر آپ کی یہ آرزو بر آئی اور میں نے قرآن حفظ کر لیا، اور یوں آپ کی آرزوئوں کا ایک حصہ پورا ہو گیا۔ اس طرح آپ نے مجھے اس نئی راہ پر ڈالا، جس پر میں اب گامزن ہوں۔
میری امی، آپ اگرچہ ہم سے رخصت ہو گئی ہیں، مگر اب تک آپ کی آخری تصویر میرے حافظے پر نقش ہے۔
گھر میں آپ کا ریڈیو کے سامنے بیٹھ کر خوش الحان قاری کی تلاوت کا سننا مجھے ابھی تک نہیں بھولا۔ تلاوت سنتے وقت آپ کے مقدس چہرے کا اتار چڑھائو بھی مجھے یاد ہے، جو اس بات کی دلیل تھی کہ آپ کے دل اور دماغ، قرآن کے اسرار و رموز کو بخوبی سمجھتے ہوئے متاثر ہوا کرتے تھے۔
پیاری امی!آپ کا وہی ننھا بچہ، آپ کا جوان لختِ جگر آج آپ ہی کی تعلیم و تربیت کی طویل محنت کا ثمرہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہے۔ اگرچہ حسنِ ترتیل کی اس میں کمی ہے، لیکن غالباً حسنِ تاویل کی نعمت سے وہ محروم نہیں۔
اللہ آپ کی قبر پر رحمت کا سایہ کرے اور آپ کے بیٹے کو محفوظ رکھے۔
بالکل اسی طرح سیّد قطب نے اپنی اگلی کتاب مشاہد القیامۃ فی القرآن کا انتساب اپنے کریم و حلیم والد کے نام کرتے ہوئے ان الفاظ کو چنا:
میں ابھی بچہ ہی تھا کہ آپ نے میرے احساس و وجدان پر یوم آخرت کا خوف نقش کردیا۔ آپ نے مجھے کبھی جھڑکا نہیں، بلکہ میری نظروں میں آپ کی ساری زندگی یوں گزری کہ قیامت کی باز پرس کا احساس ہر آن آپ پر غالب رہتا۔ ہروقت آپ کے دل اور ضمیر پر اس کا اثر اور زبان پر اس کا ذکر رہتا۔
دوسروں کے حقوق دلانے اور دینے کے وقت آپ اپنی ذات کو تکلیف میں ڈال لیتے، اور دوسروں سے اپنا حق وصول کرتے وقت آپ پر بے نیازی اور ایثار کی کیفیت طاری رہتی۔
آپ دوسروں کی زیادتیوں پر کھلے دل سے درگزر فرماتے، حالانکہ ان کو جواب دینے کی آپ میں طاقت ہوتی تھی۔ دراصل آپ قیامت کے روز اس صبر کواپنے لیے کفّارہ سمجھتے تھے۔ اکثر آپ اپنی ضروریات کی اشیا بھی دوسروں کو پیش کردیتے، حالانکہ آپ کو ان کی ضرورت ہوتی تھی، لیکن آپ کہا کرتے تھے: ’زادِ آخرت جمع کر رہا ہوں۔‘
آپ کاچہرہ میری یاد داشت پر اس طرح نقش ہے کہ: رات کے کھانے سے فراغت کے بعد ہم اسی طرح آپ کو تلاوتِ قرآن میں مگن دیکھتے، جس طرح آپ صبح تلاوت کیا کرتے تھے، اور اپنے والدین کی ارواح کو ثواب پہنچاتے تھے۔ ہم چھوٹے چھوٹے بچے بھی آپ کے ساتھ اِدھر اُدھر سے چند آیات گنگنانے لگتے، جو ہمیں پوری طرح یاد نہ ہوتی تھیں۔
سید قطب کا ابتدائی دور تحریر ادب، شاعری، ادبی تنقید اور سرگرم صحافت کی وادیوں میں فکر و دانش کے چراغ روشن کرنے سے منسوب ہے۔ اس ضمن میں وہ عباس محمود العقاد (۲۸؍جون ۱۸۸۹ئ، اسوان- ۱۳؍مارچ۱۹۶۴ئ، قاہرہ) کے طرز تحریر اور اسلوبِ اظہار سے متاثر تھے۔ سیّدقطب کے ماموں احمدحسین الموشی، استاد عباس محمود العقاد کے دوست تھے۔ العقاد عربی ادب کے بڑے صاحبِ قلم تو تھے ہی، اور اسی طرح ان کے ہاں قرآن سے رہنمائی اور حریت پسندی سے وابستگی کے ساتھ الحاد سے بے زاری بھی فراواں تھی۔ سیدقطب نے ان تمام خوبیوں کو العقاد کی صحبت اور مطالعے سے بخوبی اخذکیا۔
سیّد قطب کی جس کتاب نے بڑے پیمانے پر اہلِ علم و دانش کی توجہ کھینچی، وہ العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام ہے، جو ۱۹۴۷ء میں یعنی ان کے امریکا جانے سے پہلے شائع ہوئی۔ اردو ترجمہ [از:پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی] اسلام میں عدل اجتماعی ۱۹۶۰ء میں طبع ہوا۔
جیسے ہی اس کتاب کی پہلی کاپی مرشد عام امام حسن البنا کے ہاتھوں میں پہنچی، تو انھوںنے کتاب پڑھ کر ایک بھری مجلس میں بے ساختہ فرمایا:
’اِن پاکیزہ افکار کے مصنف کو الاخوان المسلمون میںہونا چاہیے۔‘
مصری حکومت نے ۱۹۴۸ء میں جدید طریقۂ تعلیم و تربیت کے مشاہدے اور مطالعے کے لیے انھیں امریکا بھیجا۔ پہلے چھے مہینے وہ ولسن ٹیچرز کالج، واشنگٹن ڈی سی سے وابستہ رہے۔ پھر یونی ورسٹی آف ناردرن کولوراڈو (تاسیس:۱۸۸۹ئ) کے کولوراڈو کالج آف ایجوکیشن، گریلی میں داخل ہوئے۔ جہاں وہ تقریباً ڈیڑھ سال رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے امریکا کے دیگر شہروں: سان فرانسسکو، اسٹن فورڈ، نیویارک، شکاگو، لاس اینجلز وغیرہ میں بھی تھوڑا تھوڑا عرصہ قیام کیا اور امریکی زندگی کے مختلف پہلوئوں کو قریب سے دیکھا۔
امریکا سے واپسی پر وہ چند ہفتے برطانیہ، سویزرلینڈ اور اٹلی میں بھی رہے۔ مغربی دنیا میں اس قیام کے دوران میں انھوں نے مغربی افکار کی حقیقت اور مادی تہذیب کی تباہ کاریوں کا براہِ راست مشاہدہ کیا اور اس کے بعد ہی ان پر حقیقت واضح ہوئی اور یہ یقین ان کے دل میں بیٹھ گیا کہ انسانیت کی فلاح صرف اسلام میں ہے۔
۱۹۵۰ء کے آخری ہفتوں میں سیّد قطب امریکا و یورپ کے سفر سے واپس آئے۔ ۱۹۵۱ء کے ابتدائی دنوں میں الاخوان المسلمون سے گہرے تعلق کو انھوں نے اپنی روح میں اترتے محسوس کر لیا، اور وابستہ ہوگئے، گویا: ’’پھر دل نے بیٹھنے نہ دیا عمر بھر کہیں‘‘۔ تب اپنی کتاب اسلام اور عدلِ اجتماعی کا انتساب ان لفظوں میں نئے سرے سے لکھا:
جنھیں میں اپنی چشمِ خیال میں دیکھا کرتا تھا۔
لیکن اب، ان کو حقیقی زندگی میں اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرتے ہوئے پاتا ہوں۔ یہ وہ مومنین ہیں، جن کے نفوس کی گہرائیوں میں یہ حقیقت پیوست ہے کہ عزت: اللہ، اس کے رسولؐ اور مومنین ہی کے لیے ہے۔
جو میرے خیالات میں، اور خوابوں میں ابھرے تھے، لیکن حقیقت میں وہ خیال سے بھی آگے، اور آرزوئوں سے بھی بڑھ کر ہیں۔
جو ضمیرِ غیب سے اس طرح پھوٹے ہیں، جس طرح ضمیرِعدم سے حیات پھوٹتی ہے، اور جس طرح ظلمتوں سے نور پھوٹتا ہے۔
جو اللہ کے نام پر، اللہ کی راہ میں، اور اللہ کی رحمتوں کے زیر سایہ جہاد کرتے ہیں،
میں یہ کتاب انھی کے نام منسوب کرتا ہوں۔
سیّد قطب نے ۱۹۵۳ء میں قاہرہ سے مجلہ الفکر الجدید جاری کیا۔ اس پرچے میں دیگر موضوعات کے ساتھ، انھوں نے جاگیردارانہ ظلم، سرمایہ دارانہ سفاکی اور استعماری حیوانیت پر شدت سے لکھنا شروع کیا۔ دولت کی ذخیرہ اندوزی اور مالی اجارہ داری کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں غلط ثابت کیا۔ عدل، انصاف، غربا کی دست گیری اور قرآن و سنت سے اسلام کے اقتصادی نظام کی طرف دعوت دی کہ بعض لوگوں نے ان کے افکار کو اشتراکی فکر کا اثر قرار دے ڈالا۔ حالانکہ وہ فکر و خیال کی کسی لہر میں اشتراکی تحریک سے کچھ بھی علاقہ نہیں رکھتے تھے۔ درحقیقت اُس زمانے میں کمزوروں، ناداروں، مظلوموں، محکوموں اور نو آبادیاتی نظام میں جکڑے لوگوں اور پسے ہوئے طبقوں کی دست گیری کرنے یا اُن کے حق میں کلمۂ خیر کہنے والے کو بے جا طور پر ’اشتراکیت زدہ‘ باور کرنے میں کچھ دیر نہ لگتی۔ جس طرح بعد کے زمانے میں آزادی کی جدوجہد کرنے یا اپنے ملّی حقوق کا تحفظ کرنے والے ہر مسلمان کو ’دہشت گرد‘ اور’انتہا پسند‘ کہا جانے لگا۔
۲۳؍جولائی ۱۹۵۲ء کو جنرل محمد نجیب کی سربراہی میں مصر میں فوجی انقلاب آیا، تواخوان کی آزمایشوں کا دور عارضی طور پر ختم ہوگیا۔ اس دوران میں سید قطب اخوان کے مرکزی دفتر میں شعبہ دعوت کے انچارج مقرر ہوئے۔ انھوںنے اپنے آپ کو ہمہ تن اخوان کی دعوت کے لیے وقف کردیا۔ جولائی ۱۹۵۴ء میں وہ جریدہ الاخوان المسلمون کے مدیر مقرر ہوئے۔ ۷؍جولائی ۱۹۵۴ء کو اینگلو مصری معاہدہ ہوا۔ اخوان نے اس معاہدے کو مسترد کر دیا۔ سید قطب کے قلم نے اس معاہدے کی دھجیاں بکھیر دیں، اسی جرم میں یہ جریدہ ستمبر۱۹۵۴ء میں حکومت نے بند کر دیا۔
اس سے قبل ۱۹۵۰ء میں الاخوان کے نوجوان عبقری رہنما سعید رمضان نے مجلہ المسلمون جاری کیا، اور اگلے برس سید قطب سے درخواست کی کہ وہ ہر شمارے کے لیے فی ظلال القرآن کے عنوان سے ایک مستقل کالم لکھا کریں۔ سیّد قطب نے اس تجویز کو شرفِ قبولیت بخشا اور بہت جلد ان کا یہ کالم مجلہ المسلمون کی جان اور عالم عرب میں دعوتِ قرآن کا موثر وسیلہ بن گیا۔ اسی دوران میں قاہرہ کے ایک اشاعتی ادارے نے سید قطب سے باقاعدہ درخواست کی کہ وہ اس سلسلۂ مضامین کو مستقل تفسیر اور کتاب کی شکل دیں۔ یوں جنوری۱۹۵۴ء تک اس کی پہلی چار جلدیں مکمل ہو گئیں۔ ۲۶؍اکتوبر۱۹۵۴ء کو مصری غاصب حکمران جمال ناصر نے قاتلانہ حملے کے جھوٹے الزام میں اخوان کے ۵ہزار کارکنوں کو گرفتار کر لیا،جن میں سیّدقطب بھی شامل تھے۔
ان گرفتار شدگان میں سے اخوان کے چھے رہنمائوں: سیکرٹری جنرل (سابق) جسٹس عبدالقادر عودہ، شیخ محمد فرغلی، یوسف طلعت، ابراہیم طیب، ہنداوی دویر اور عبداللطیف کو ۸؍دسمبر۱۹۵۴ء کے روز پھانسی دے دی، لیکن مرشد عام حسن الہضیبی کی سزاے موت عمر قید میں تبدیل کر دی۔
اس گرفتاری کے دوران سید قطب کو آہنی بیڑیوں میں جکڑ کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ وہاں شدتِ بخار نے ان کی صحت برباد کرکے رکھ دی۔ انھیں قلعہ جیل، ابوزعبل اور لیمان طرہّ کی دہشت انگیز جیلوں میں ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ حالت تشویش ناک حد تک خستہ ہو گئی تو انھیں زنجیروں میں جکڑ کر فوجی ہسپتال میں منتقل کیا گیا۔ اس طرح صرف آٹھ ماہ میں وہ دل، سانس اور اعصاب کے امراض میں گھر چکے تھے۔
انھی پُر مصائب ایام میں انھوں نے بچی کھچی قوت مجتمع کرکے فی ظلال القرآن کی طبع شدہ جلدوں پر نہ صرف نظر ثانی کی، بلکہ بقیہ جلدوں پر بھی کام شروع کیا۔ تاہم ترقی پسند انقلابی فرعون جمال ناصر نے ایک تحقیقاتی کمیٹی مقرر کی، جس کے ذمے یہ کام تھا کہ: سید قطب جو لکھیں، اس میں سے ’قابلِ اعتراض‘ حصے حذف کر دیے جائیں، تاکہ ’روشن خیال قومی حکومت‘ پر کوئی زد نہ پڑے۔‘ اس کڑے جبر کے نظام کے باوجود سید قطب نے تفسیر مکمل کی۔ مذکورہ سنسر کمیٹی نے ’سورۂ فجر‘ اور ’سورہ بروج‘ کے مقدمے کی اشاعت روک دی۔ پھر اسی طرح تفسیری مسودے کے کئی کئی حصے حذف کر دیے۔ ایسے بعض قلمی شذرے ان کی کتاب معالم فی الطریق کا حصہ ہیں۔
سید قطب کے چھوٹے بھائی پروفیسر محمد قطب نے فی ظلال القرآن کے انگریزی ترجمے In The Shade of the Quran کی تعارفی سطور میں لکھا:
فی ظلال القرآن مصنف کی فکری زندگی کے سب سے زیادہ معرکہ آرا برسوں کا ثمر ہے۔ اس تفسیر کا طویل ترین حصہ ۱۹۵۴ء سے ۱۹۶۴ء تک کی مدت میںلکھا گیا، جب کہ وہ جیل میں قید تھے۔ اسلام کے عظیم مقاصد کی خاطر انھوں نے اپنے افکار، اپنے احساسات، اپنی راتوں، اپنے دنوں اور درحقیقت اپنی پوری زندگی کو وقف کر دیا تھا۔ اس دوران میں وہ پوری طرح قرآن کے زیر سایہ زندگی گزار رہے تھے۔ ایک ہمہ پہلو اور بھرپور جدوجہد، جس کی وجہ سے وہ قید ہوئے اور پھر موت کے گھاٹ اتار دیے گئے، صرف اس مقصد کے لیے تھی کہ اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ ایک گروہ کی شکل میں سامنے آئے، جو اپنی زندگی میں اسلام پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ اسلام کا داعی بھی ہو، یہاں تک کہ اسلام اس پوری ملت کا بحیثیت مجموعی عملی دستورِ حیات بن جائے۔ فی ظلال القرآن،درحقیقت اسی جدوجہد کی ایک اہم ترین کڑی ہے، اور اس لیے یہ قرآن کی مجرد تفسیر سے بہت آگے کی چیز ہے۔
تفسیرفی ظلال القرآن: بلند پایہ ادبی اسلوب، معتدل طرزِ بیان، ضعیف روایات سے پاک، عصری جاہلیت پر نقد و جرح، جدید تحقیقات کی عادلانہ تفہیم، فقہی اختلافات سے اجتناب، انقلاب آفرین اظہارِ مدعا اور قرآن و دین کو ایک ہمہ پہلو تحریک بنا دینے کا نصاب ہے۔
جمال ناصر نے اخوان پر دل لرزا دینے والے مظالم ڈھائے، کئی ذمہ داروں کو شہید کر دیا گیا۔ مختلف اوقات میں اخوان کے ۵۰؍ہزار کارکنوں کو جیل کی اندھیری کوٹھڑیوں میں ٹھونس دیا گیا۔انھیں کئی کئی دن بھوکا رکھا گیا۔اس حالت میں ان سے مشقت کرائی گئی، ان پر کتّے چھوڑکر بھنبھوڑا گیا۔ ان قیدیوں کو اس بری طرح پیٹا جاتا کہ پیٹنے والے تھک جاتے۔
اس داستانِ الم کو پڑھنے کی تاب ہو تو یہ کتابیں پڑھ لی جائیں: lرُودادِ قفس )ایام من حیاتی) از زینب الغزالی lرُودادِ ابتلا از احمد رائف، lوادیِ نیل کا قافلۂ سخت جان از حامد ابونصر (ترجمہ: حافظ محمد ادریس)lیادوں کی امانت از عمر تلمسانی (ترجمہ: حافظ محمد ادریس)۔
سید قطب جیسے بے مثل فاضل مصنف اور مدبر کے ساتھ، جو انتہائی سخت حالات پیش آئے، ان کی سرگذشت یوسف المعظم نے تحریر کی ہے:
تعذیب کے گونا گوں پہاڑ سید قطب پر توڑے گئے۔ انھیں آگ سے داغا گیا۔ پولیس کے کتوں نے انھیں کچلیوں میں لے کر گھسیٹا، ان کے سر پر مسلسل کبھی گرم اور کبھی ٹھنڈا پانی انڈیلا گیا، انھیں لاتوں اور گھونسوں سے مارا گیا۔ دل آزار الفاظ اور بازاری اشاروں سے ان کی توہین کی گئی، مگر ان سب چیزوں نے سید قطب کے ایمان و یقین میں اضافہ کیا اور راہ حق پر ان کے قدم اور مضبوطی سے جم گئے۔
۱۳؍جولائی۱۹۵۵ء کو مصر کی ’عوامی عدالت‘نے سید قطب شہید کو ۱۵سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔ اس روز وہ بیماری و کمزوری کے سبب اور قیدی ہونے کے باوجود عدالت میں حاضر ہونے سے قاصرتھے۔ ۱۹۵۶ء کے وسط میں ان سے کہا گیا کہ وہ چند سطریں معافی نامے کے طور پر لکھ دیں تو ان کو رہا کر دیا جائے گا۔ یہ الفاظ سید قطب کے سینے میں تیر کی طرح لگے، ان کے چہرے کا رنگ سرخ ہو گیا اور انھوں نے تڑپ کر فرمایا:
مجھے ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو مظلوم سے کہتے ہیں کہ ظالم سے معافی مانگو۔ خدا کی قسم، اگر معافی کے چند الفاظ بھی مجھے پھانسی سے نجات دلا سکتے ہوں، تومیں تب بھی انھیں کہنے یا لکھنے کے لیے کبھی اور کسی صورت میں تیار نہ ہوں گا، اور میں اپنے رب کے حضور اس حال میں حاضر ہونا پسند کروں گا کہ میں اس سے خوش ہوں اور وہ مجھ سے خوش۔
سیّد قطب بچپن سے معدے اور انتڑیوں کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ نوجوانی میں سانس کا عارضہ بھی لاحق ہو گیا۔ اسی لیے ڈاکٹر جسمانی محنت سے منع کرتے تھے۔ ۴۰ برس کی عمر میں دوستوں سے کہا: اسکندریہ جا رہا ہوں‘‘ پوچھا: ’’کیوں؟‘‘۔ کہا :’’ہوا کی تبدیلی کے لیے‘‘۔ پوچھا: ’’ہوا کی تبدیلی؟‘‘ کہا: ’’ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ تمام دوائیاں آزما لی ہیں، کچھ بھی افاقہ نہیں ہو رہا، تو بہتر یہی ہے کہ ہوا کی تبدیلی کے لیے چند ہفتے اسکندریہ چلے جائو‘‘۔
۱۹۵۴ء کی گرفتاری کے دوران میں تشدد کے باعث سانس کی بیماری دو چند ہو گئی، اور ساتھ ہی گردوں کا عارضہ بھی لاحق ہو گیا، اور حالت یہ ہوگئی کہ پھیپھڑوں سے خون آنے لگا۔ اسی لیے دو ماہ تک فوجی عدالت میں سماعت بھی رکی رہی۔ جیل کے ہسپتال میں علاج ممکن نہ رہا تو ڈاکٹروں کے بورڈ نے [غیرفوجی] المنیل ہسپتال منتقل کرنے کی سفارش کی، مگر دیر تک فوجی حکام نے اجازت نہ دی۔ انجام کار جب حالت نازک ہو گئی تو وہاں بھیجا گیا، مگر چند ہفتوں بعد پھر واپس جیل لے آیا گیا۔ دو ماہ بعد حالت ویسی ہی ہوگئی تو ایک بار پھر کچھ عرصے کے لیے المنیل لانا پڑا۔ پھر ۱۹۶۳ء میں تیسری بار صحت جواب دینے لگی تو عراقی صدر عبدالسلام عارف کی اپیل پر رہا کیا گیا۔
o
۱۹۶۴ء میں ۱۰ سالہ قید بامشقت گزارنے کے بعد سید قطب کو رہا کیا گیا۔ اخوان المسلمون کے تیسرے مرشد عام عمر تلمسانی کے بقول: ۱۹۶۴ء میں جب سید قطب رہا ہوئے، تو عراقی صدر عبدالسلام عارف نے انھیں تعلیم و تربیت کے ایک اعلیٰ منصب کی پیش کش کی، کہ وہ عراق کے نظام تعلیم کی بہتری کے لیے کاوشیں کریں۔ سیّد شہید نے مجھ سے اس پیش کش کے قبول یا قبول نہ کرنے کے بارے میں مشورہ مانگا۔ میں نے انھیں مشورہ دیا کہ: ’’آپ یہ پیش کش قبول کر لیں اور عراق چلے جائیں‘‘۔ دراصل مجھے مصر کے فوجی حکمرانوں کے ارادے برے نظر آ رہے تھے۔ تاہم، سیّد قطب نے میرے مشورے کے برعکس فیصلہ یہ کیا کہ وہ اپنی عالمانہ فکر کا دفاع کرنے کے لیے مصر ہی میں رہیں گے‘‘۔
رہائی پانے کے بعد سید قطب نے اپنی کتاب معالم فی الطریق کا مسودّہ، مرشدعام امام حسن الہضیبی کی خدمت میں پیش کیا، تاکہ اخوان کے کارکنان کے مطالعۂ نصاب میں اس سے استفادہ کیا جا سکے۔ مرشدِ عام نے مسودے کا مطالعہ کرنے کے بعد فرمایا: ’’زیادہ مناسب ہوگا کہ اسے شائع کر لیا جائے، تاکہ اخوان اور عام لوگ بھی اس سے بخوبی استفادہ کرسکیں‘‘۔ چنانچہ ۱۹۶۴ء میں یہ کتاب شائع ہو گئی۔ اس کتاب کا ہر صفحہ اور ہر سطر سید قطب کے ایمانِ کامل اور عملی شعور کی زندہ دلیل ہے۔ تاہم اگلے برس اگست۱۹۶۵ء میں سید قطب کو گرفتار کرنے کے لیے ایک سازش کا افسانہ تراشا گیا۔ دیگر بے معنی الزامات کے ساتھ سید قطب کی کتاب معالم فی الطریق (جادہ ومنزل ترجمہ: خلیل احمد حامدی) کے جس پیراگراف کو خطرناک قرار دیتے ہوئے، صدر ناصر نے سید قطب کو گردن زنی قرار دیا، وہ تحریر یہ تھی:
جس طرح اسلام کے دورِ اوّل میں اسلامی معاشرہ ایک مستقل اور جداگانہ معاشرے کی صورت میں ترقی کی فطری منازل طے کرتا ہوا بام عروج کو پہنچا تھا، اسی طرح آج بھی، ویسا ہی اسلامی معاشرہ وجود میں لانے کے لیے اسی طریق کار کو اختیار کیا جانا لازم ہے۔ اس اسلامی معاشرے کو اردگرد کے جاہلی معاشروں سے الگ رہ کر اپنا تشخص قائم کرنا ہوگا۔ (جادہ و منزل، ص۵۰-۵۱)
ان پانچ سطورکو ناصر حکومت نے ’بغاوت کی بنیاد‘ قرار دیا۔ سید قطب کے ساتھ اُن کے بھائی محمد قطب اور بہنوں امینہ قطب،حمیدہ قطب کے علاوہ زینب الغزالی [۲؍نومبر۱۹۱۹ئ- ۳؍اگست۲۰۰۵ئ]، مرشد عام کی اہلیہ، ان کی بیٹی خالدہ اور ۷۰۰ سے زیادہ باپردہ خواتین کو بھی گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا: ’’ان کے ساتھ کم و بیش ۲۰ہزار مرد کارکنوں کو قید کر لیا گیا اور مزید گرفتاریاں جاری رکھیں‘‘۔ (ڈیلی ٹیلی گراف، لندن، ۱۱؍اکتوبر۱۹۶۵ئ)
اس گرفتاری کے دوران میںسیّد قطب اور ان کے رفقا کی کیا حالتِ زار رہی؟ اس کی ایک جھلک دکھانے کے لیے لبنانی عیسائی ادیب روکس معکرون کی کتاب اقسمت ان اَروی [میں نے قسم کھائی، سب کچھ بتائوں گا] سے چند اقتباسات ذیل میں دیے جا رہے ہیں۔ روکس معکرون اس زمانے میں چار برس تک مصر کی جیلوں میں قید رہے، لبنان واپسی پر یہ مختصر کتاب لکھی:
اخوان کے بعض نظر بند، جیل کی چاردیواری میں عمارت کے اندر چکر لگا رہے ہیں۔ ان کے پائوں زخمی ہیں اور جسم تھکن سے چور۔ مگر پہرے داروں کے ہاتھوں میں کوڑے ہیں۔ جونہی کوئی نظر بند رُکتا ہے، پہرے دار کوڑے مار مار کر اس کی کمر لہولہان کر دیتے ہیں۔ پہرے داروں کی ایک اور ٹولی نظر بندوں کے چہروں پر گرم چُونا پھینک رہی ہے۔
لیمان جیل میں ایک اِخوانی کے چند رشتے دار ملنے آئے۔ پہرے داروں نے ان میں سے ایک خاتون سے بدکلامی کی۔ اِخوانی کو غصہ آگیا، اس نے زنجیروں میں جکڑا ہونے کے باوجود پہرے دار کو ڈانٹا، اور ساتھیوں نے بھی اس کی تائید کی۔ تھوڑی دیر بعد داروغۂ جیل کے حکم پر بہت سے اخوانیوں کو صحن میں لایا گیا اور ان نہتے لوگوں پر گولیوں کی بارش ہونے لگی۔ ۲۱نوجوان تو اسی وقت شہید ہو گئے۔ مرتے مرتے ان کی زبان سے اسلام کا کلمہ طیبہ جاری تھا۔ ۵۶شدید زخمی ہوئے، جن میں سے ۱۱ بعد میں چل بسے۔ دن بھر لاشیں پڑی رہیں اور باقی لوگوں کو حکم دیا گیا کہ وہ انھیں روندتے ہوئے گزریں۔
ایک نوجوان طالب علم محی الدین کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے بھائی سے ایک ایسی حرکت کا مرتکب ہو، جس کے تصور ہی سے گھِن آتی ہے، زبان اسے بیان نہیں کر سکتی اور قلم لکھتے ہوئے ہچکچاتا ہے۔ یہ حکم سُن کر طالب علم فرطِ غم سے بے ہوش ہو گیا، لیکن کوڑے مارنے والے ہی اسے ہوش میں لائے۔ اب آگے کیا لکھا جائے۔
یہ ۵۹سالہ سیّد قطب ہیں، جو مسلم دنیا کے نامور صاحب ِ قلم اور مصنف ہیں۔ جیل میں ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، اس کی صرف ایک ہی مثال کافی ہے۔ اس عظیم دانش ور کے لیے ظالموں نے ایک بھیڑیا نما کتا پال رکھا تھا۔ جب سیدقطب بھوک، پیاس، تھکن اور سزا کی تاب نہ لا کر بے ہوش ہو جاتے تو کتا ان پر چھوڑ دیا جاتا۔ اور یہ کتا انھیں ٹانگ سے پکڑتا اور صحن میں گھسیٹتا پھرتا۔
سید قطب اور ان کے رفقا کا مقدمہ فوجی عدالت کے سپرد کیا گیا۔ اس نام نہاد عدالت کے کارندوں نے سماعت کے پورے دورانیے میں ان کے ساتھ توہین آمیز رویہ اختیار کیے رکھا۔ جس کا ایک مقصد تو یہ تھا کہ ذہنی اذیت دی جائے، اور دوسرا یہ کہ وہ ردِ عمل میں اگر کچھ سخت کہیں تو اسے بہانہ بنا کر یہ مشہور کیا جائے کہ یہ ’لوگ غیر مہذب‘ ہیں۔اٹارنی جنرل صلاح نصار اس نام نہاد عدالتی کارروائی کے دوران میں سید قطب کو کبھی ’جرائم پیشہ لوگوں کا لیڈر‘ اور کبھی اس سے بھی زیادہ پست لفظوں میں مخاطب کرتا۔
o
آخری مقدمے کی سماعت کے دوران میں سیّد قطب پر اٹارنی جنرل صلاح نصار کی جرح کے کچھ حصے:
صلاح نصار: آپ کے وہ مضامین جو معالم فی الطریق میں شامل ہیں، کیا جیل میں لکھے گئے، اور ان کا موضوع کیا ہے؟
بنگلہ دیشی اقتدار پر قابض حسینہ واجد، انسانی لہو کے جام پر جام پی رہی ہے۔ ہزاروں علما، طلبہ، سیاسی کارکنوں کے خون کی ہولی کھیلنے کے ساتھ، جس نے گذشتہ عرصے کے دوران جماعت اسلامی کے مرکزی رہنمائوں عبدالقادرمُلّا اور محمد قمرالزماں کو پھانسی دی۔ اب اس عمل میں تیزی لارہی ہے۔ اس خونیں کھیل کے لیے نام نہاد ’عالمی جنگی جرائم‘ کا ٹریبونل قائم کیا، جسے دنیا کے کسی باضمیر فرد نے عدالت تسلیم نہیں کیا۔ اسی کے ذریعے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کی لیڈرشپ کو تہہ تیغ کیا جارہا ہے۔
بھارت کی کٹھ پتلی بنگلہ دیشی حکومت کا اگلا ہدف، جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد ہیں، جنھیں مذکورہ ٹریبونل نے ۱۷جولائی ۲۰۱۳ء کو سزاے موت سنائی تھی۔ انھوں نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ ۲۷مئی ۲۰۱۵ء کو سپریم کورٹ نے اپیلیٹ بنچ تشکیل دیا تاکہ درخواست کو سرسری سماعت کے بعد ٹھکانے لگایا جائے۔
۱۶جون کو چیف جسٹس سریندر کمار سنہا کی سربراہی میں اپیلیٹ بنچ نے، علی احسن مجاہد کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سزاے موت کو بحال رکھا۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران اٹارنی جنرل محبوب عالم نے سرکاری موقف پیش کیا، جب کہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)کے مشیراعلیٰ خوندکر محبوب حسین اور ایس ایم شاہ جہاں نے علی احسن صاحب کی وکالت کی۔
علی احسن کے بیٹے علی احمد مبرور نے کہا: ’’ہمیں سپریم کورٹ سے انصاف نہیں ملا، اور اس فیصلے کے ذریعے ایک بار پھر انصاف کا قتل ہوا ہے‘‘، جب کہ اٹارنی جنرل محبوب عالم کے بقول: ’’سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری ہونے کے بعد سزاے موت کے فیصلے پرعمل درآمد کردیا جائے گا‘‘۔
جنگی جرائم کے مقدمات میں عالمی شہرت یافتہ قانون دان ٹوبی کیڈمین نے بنگلہ دیش کے نام نہاد ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ کو عالمی عدالتی معیارات کے یکسر منافی قرار دیتے ہوئے کہا: ’’نہ اس ٹریبونل کے ارکان کی عدالتی تربیت ہے اور نہ وہ انٹرنیشنل کریمنل قانون کے ماہر ہیں‘‘۔ اسی طرح انسانی حقوق کی بہت سی عالمی تنظیموں: ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، انٹرنیشنل سنٹر فار ٹرانزیشنل جسٹس نے بھی مقدمے کی سماعت ، کارروائی اور ٹریبونل کے وجود پر کھلے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
فیصلے کے اعلان کے فوراً بعد علی احسن مجاہد کے سینیر وکیل خوندکر محبوب حسین نے اخباری نمایندوں کو بتایا: ’’ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلے پر حیرت ہوئی ہے، خصوصاً اس صورت میں، جب کہ استغاثہ درست گواہیاں اور موزوں ثبوت پیش کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ بہرحال ہم تفصیلی فیصلے کی کاپی موصول ہونے پر سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کریں گے‘‘۔
علی احسن مجاہد کے بڑے بھائی علی افضل محمد خالص (امیر جماعت اسلامی فریدپور) نے کہا: ’’میرے بھائی کو جھوٹی گواہیوں کی بنیاد پر سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے، حالانکہ وہ اس مقدمے میں ہراعتبار سے بے گناہ ہیں۔ میرا خاندان اس فیصلے کو مسترد کرتا ہے، جو جھوٹ، جعل سازی، سازش اور غیراخلاقی بنیاد پر گھڑا گیا ہے۔ ہم اس سفاک حکومت اور اس کی ظالم عدلیہ کے اس غیراخلاقی، غیرقانونی اور غیرانسانی فیصلے کے خلاف اس دنیا میں احتجاج تک نہیں کریں گے اور صرف اللہ تعالیٰ سے انصاف چاہیں گے، اسی کا فیصلہ انصاف اور عبرت کا نمونہ ہوگا‘‘۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائم مقام امیر مقبول احمد نے کہا: ’’اس جھوٹے، بے بنیاد اور انتقام پر مبنی مقدمے نے ایک بار پھر اس بے رحم حکومت کا چہرہ بے نقاب کردیا ہے، جو جماعت اسلامی کو ختم کرنے کے لیے ہرغیراخلاقی ہتھکنڈا استعمال کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔ یہ حکومت علی احسن مجاہد جیسے سنجیدہ، بہادر اور دانش ور رہنما کے وجود کو ختم کرنے کے لیے ہرانتہائی سطح تک جانے کے لیے تیار دکھائی دیتی ہے‘‘۔
علی احسن مجاھد کا پیغام: سزاے موت کا فیصلہ سننے کے بعد علی احسن مجاہد صاحب نے حسب ذیل پیغام دیا ہے، جسے ان کے بیٹے علی احمد مبرور نے سوشل میڈیا پر جاری کیا ہے: ’’الحمدللہ، میں اس انتہائی سزا کے اعلان پر ذرّہ برابر پریشان نہیں ہوں، جسے حکومت نے اپنی بدترین دشمنی کی تسکین کے لیے سنایا ہے۔ میرے فاضل وکلاے کرام نے مقدمے کی پیروی قابلِ تحسین محنت سے کی ہے اور سپریم کورٹ کے بنچ کے سامنے اس سچائی کو پوری قوت اور مہارت سے پیش کیا ہے، جو میری بے گناہی کی دلیل ہے۔ میں یقین کامل رکھتا ہوں کہ میرے خلاف گھڑے گئے مجرمانہ الزامات کی سرے سے کوئی حقیقت نہیں ہے، کجا یہ کہ ان کی بنیاد پر کوئی سزا سنائی جائے۔ حکومتی استغاثہ الزامات ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ اسی طرح اس مقدمے کے تفتیشی افسر تک نے اعتراف کیا ہے کہ ۱۹۷۱ء کی جنگ کے دوران میں، مَیں مذکورہ کسی بھی الزام یا جرم میں ملوث نہیں پایا گیا، مگر اس کے باوجود میں عدل سے محروم رکھا گیا ہوں۔
’’اس ماحول میں، مَیں جانتا ہوں کہ صرف میرا اللہ ہی میرا گواہ ہے۔ میں واشگاف لفظوں میں اعلان کرتا ہوں کہ مجھ پر عائد کردہ الزامات ۱۰۰ فی صد جھوٹے،جعلی اور بدنیتی پر مبنی ہیں۔ مجھے الزامات اور کردارکشی کی اس یلغار کا نشانہ صرف ایک بنیاد پر بنایا جا رہا ہے ، اور وہ یہ کہ میں تحریک اسلامی کا کارکن ہوں۔
’’میرے ہم وطنو! بنگلہ دیش میں روزانہ سیکڑوں لوگ قدرتی اسباب سے موت کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہ اموات کسی نام نہاد عدالتی ڈرامے میں سنائی جانے والی سزاے موت سے نہیں ہوتیں۔ کب اور کہاں کس فرد نے موت کی آغوش میں جانا ہے، اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے۔ کسی کو اختیار نہیں کہ وہ زندگی اور موت کے بارے میں ذاتِ باری کے فیصلے کو تبدیل کرے۔ اس صورت میں سزاے موت کا سنایا جانا میرے لیے کوئی وزن اور وقعت نہیں رکھتا۔ سو، مجھے اس خبر پر کوئی پریشانی نہیں کہ میرے لیے موت کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
’’میرا ایمان ہے کہ ایک بے گناہ فرد کا قتل، تمام انسانیت کا قتل ہے۔ میں نے زندگی بھر کسی فرد کو نہ قتل کیا ہے اور نہ کسی ایسے گھنائونے فعل کا شریکِ جرم رہا ہوں۔ اسی طرح میں یہ بھی جانتا ہوں کہ حکومت نے باطنی نفرت اور سیاسی انتقام میں میرے خلاف جھوٹے اور بدنیتی پر مبنی الزامات کو ایک نام نہاد عدالت میں سزاے موت کا ذریعہ بنایا ہے۔ سن لیجیے، میں اپنی زندگی کے ہرلمحے میں، اللہ کے دین کی خدمت اور سربلندی کے لیے اپنی جان دینے کے لیے تیار تھا اور تیار ہوں۔ اللہ ہی میرا حامی و مددگار ہے___علی احسن مجاہد‘‘
۱۱؍اپریل ۲۰۱۵ء کو پاکستانی وقت کے مطابق رات ۳۰:۹ بجے عالمِ اسلام کا ایک عظیم فرزند تختۂ دار پر جھول گیا۔ شہید محمد قمرالزمان ایک فرد نہیں بلکہ فی الحقیقت ایک تحریک تھے۔ وہ بنگلہ دیش میں تحریکِ اسلامی میں، ایک مدبر دینی و سیاسی رہنما، اور جماعت اسلامی کے مستقبل کے قائد تھے۔ وہ بہ یک وقت بزرگوں اور نوجوانوں میں مقبول اور نہایت سلجھی، متین اور متوازن طبیعت کے مالک تھے۔ انھوں نے دل و دماغ اور جسم کی تمام صلاحیتیں دین اسلام کی خدمت اور سرزمینِ بنگال میں مسلمانوں کی ترقی و سربلندی کے لیے کھپا دیں۔ صدافسوس کہ ایک سفاک، اذیت پسند اور بھارتی آلۂ کار گروہ نے انھیں موت کے گھاٹ اُتار دیا، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
جو اللہ کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے، صرف اہلِ حق کی یادوں ہی میں نہیں بلکہ اللہ کے وعدے کے مطابق انھیں ہراعتبار سے حیاتِ جاوداں حاصل ہے:
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ ط بَلْ اَحْیَآئٌ وَّ لٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۵۴) جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انھیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ حقیقت میں زندہ ہیں، مگر تمھیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔
اور یہی وہ نفوسِ قدسیہ ہیں جنھیں ان کا خالق و مالک ان کی اس وفاشعاری کا پورا پورا اجر دے گا:
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o لِّیَجْزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِھِمْ وَ یُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ (الاحزاب ۳۳:۲۳-۲۴) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ (یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کی جزا دے اور منافقوں کو سزا دے۔
اہلِ حق کی آزمایش کا یہ سلسلہ صبرواستقامت کے ساتھ جاری ہے۔
بنگلہ دیش کے وزیرقانون انیس الحق نے ۴؍اپریل کو پوری ڈھٹائی کے ساتھ ان الفاظ میں چیلنج کیا ہے کہ: ’’تحمل سے دیکھتے جایئے، انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے دائرۂ کار میں وسعت لانے کے لیے ہم ایک ترمیم بہت جلد کابینہ میں پیش کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں، اسی ٹریبونل سے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو ایک مجرم پارٹی کے طور پر غیرقانونی قرار دلایا جائے گا‘‘۔ (روزنامہ سٹار، ڈھاکہ، ۵؍اپریل ۲۰۱۵ئ)
محمد قمر الزمان کو حسینہ واجد کی حکومت نے جھوٹے مقدمات میں ۱۳جولائی ۲۰۱۰ء کو گرفتار کیا۔ ۹مئی ۲۰۱۳ء کو ایک نام نہاد عدالت نے انھیں سزاے موت سنائی۔ اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل پر اختلافی فیصلہ ۱۸فروری ۲۰۱۵ء کو جاری ہوا، جس میں کثرت راے سے سزاے موت کو برقرار رکھا گیا۔ اس فیصلے کے خلاف ۵مارچ کو سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی، اور سماعت کے لیے ۵؍اپریل کی تاریخ مقرر ہوئی۔ سپریم کورٹ بنگلہ دیش کے چیف جسٹس سریندر کمارسنہا کی صدارت میں قمرالزمان کی اپیل کو مستردکرتے ہوئے سزاے موت کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا۔ اٹارنی جنرل محبوب عالم نے کہا: ’’اب پھانسی کی سزا پر عمل درآمد میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی‘‘۔(روزنامہ سٹار، ڈھاکہ، ۶؍اپریل ۲۰۱۵ئ)
عالمی اور قومی سطح پر ردِعمل کی شدت کے باوجود عوامی لیگی حکومت بڑی تیزی سے معاملات کو ناقابلِ واپسی نشان تک پہنچا رہی تھی۔ بنگلہ دیش نیوز نیٹ ورک نے ۷؍اپریل کو خبر دی کہ سنٹرل جیل ڈھاکہ میں سزاے موت پر عمل درآمد کے منتظر قمر الزمان کے بچے جب شام ۴۵:۴ پر ملاقات کے بعد باہر آئے، تو انھوں نے انگلیوں سے فتح کا نشان بنایا۔ قمرالزمان کے سب سے بڑے بیٹے اقبال حسن نے بتایا:
ہمیں اس فیصلے پر کوئی پریشانی نہیں، ہم اپنے والد سے مسکراہٹوں کے ساتھ جدا ہوکر آرہے ہیں۔ یہ سارا مقدمہ بے بنیاد ہے اور اس مقدمے پر یہ فیصلہ شرم ناک ہے۔ ہمیں اللہ کے سوا کسی سے انصاف کی اُمید نہیں ہے۔ اس مقدمے کی تیاری اور فیصلے کے ذمہ داروں اور موجودہ نام نہاد وزیراعظم سے ہمارا اللہ ہی نبٹے گا، وہی حقیقی عادل ہے۔ (بی ڈی نیوز، ۷؍اپریل ۲۰۱۵ئ)
’ہیومن رائٹس واچ‘(HRW) ایشیا کے ڈائرکٹر مسٹر براڈ ایڈمز نے قمرالزمان کی سزاے موت کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’موت ایک ناقابلِ واپسی سزا ہے، اور جب ایسی سزا قانون کے تقاضوں کو نظرانداز کرکے دی جائے تو اس کے ظالمانہ ہونے میں دو راے نہیں ہوسکتیں۔ بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے مقدمات کا پورا عمل، شفاف قانونی طریقوں کی بے حُرمتی اور جانب دارانہ عدالتی طریق کار کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہونے سے کم حیثیت نہیں رکھتا… بلاشبہہ ہم نے ۱۹۷۱ء میں مبینہ جنگی جرائم پر بازپُرس کی تائید کی تھی، مگر ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ: ’’ان مقدمات کی سماعت بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ قانونی و عدالتی معیارات کے تحت ہونی چاہیے۔ کیونکہ اُس وقت قانون اور عدل کی پاس داری انتہا درجے کی اہمیت اختیار کر جاتی ہے، جب معاملہ کسی فرد کو سزاے موت سنائے جانے پر پہنچ رہا ہو۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ قمرالزمان کے مقدمے کا، ان قانونی اور مبنی بر عدل معیارات کے مطابق فیصلہ نہیں ہوا‘‘۔ (بنگلہ دیشی اخبارات، ۷؍اپریل ۲۰۱۵ئ)
اقوامِ متحدہ کمیٹی براے انسانی حقوق (UNHRC) وہ ادارہ ہے، جو ’انسانی اور سیاسی حقوق کے عالمی معاہدوں‘ کی تشریح اور نگرانی کرتا ہے۔ اس کے مطابق: ’’سزاے موت کے فیصلوں کے عمل کو عادلانہ دفاع اور شفاف قانونی طریق کارکا اس درجے پابند ہونا چاہیے کہ کسی طرح کے شک و شبہے کی گنجایش نہ ہو۔ اور بنگلہ دیش نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ۱۸دسمبر ۲۰۰۷ء کو اس اتفاق راے پر مبنی قرارداد پر دستخط کیے ہیں، اس لیے بنگلہ دیش حکومت اس امر کی پابند ہے کہ وہ مسلّمہ عالمی عادلانہ اصولوں کی پاس داری کرے‘‘۔مگر جوشِ انتقام میں عوامی لیگی حکومت نے محمد قمرالزماں شہید کے معاملے میں اپنے تسلیم اور دستخط شدہ اصولوں کی دھجیاں اُڑائی ہیں۔
’انٹرنیشنل جیورسٹس یونین‘ (IJU) استنبول نے بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے سزاے موت سنائے جانے کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ’’محمد قمرالزمان کے لیے اس انتہائی سزا کا اہتمام اپنی سیاسی مدِمقابل جماعت کو ختم کرنے کا کھلا منصوبہ ہے۔ جس ادارے کے ذریعے موت کی سزائیں سنائی جارہی ہیں، وہ کسی بھی معیار اور کسی بھی اصول کے تحت نہ تو ’عالمی‘ ہے اور نہ ’عدالت‘ کے معیار پر پورا اُترتا ہے۔ اس ضمن میں دنیا بھر کے قانون پسند اور مقتدر حضرات اور اداروں کو بنگلہ دیشی حکومت پر دبائو ڈالنا چاہیے کہ وہ اس غیرمنصفانہ سزا کو نافذ نہ کرے۔ اسی طرح خود بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کو ہیگ کے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (ICC) کے طے شدہ ضابطوں کے تحت تشکیل دیا جانا چاہیے، تاکہ کسی شک و شبہے اور زیادتی کی گنجایش نہ رہے‘‘۔(ورلڈ بلیٹن، ۸؍اپریل ۲۰۱۵ئ)
شہید قمرالزمان کے بڑے بیٹے اقبال حسن نے ۱۱؍اپریل کی شام، شہادت سے چند گھنٹے پہلے اپنے والد سے ۳۵منٹ کی آخری ملاقات کے بعد جیل سے باہر نکل کر اخبارنویسوں کو بتا دیا تھا کہ: ’’میرے والد نے شہید عبدالقادر مُلّا کی طرح، ایک ظالم اور عدل کی قاتل حکومت سے رحم کی اپیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میرے والد کو آج صبح دو ججوں نے ملاقات میں یہ کہا کہ ’’آپ رحم کی اپیل کریں تو آپ کی جان بچ جانے کا پورا امکان ہے‘‘، مگر میرے والد نے انھیں واضح طور پر کہہ دیا:
حکومت نے جھوٹا اور بددیانتی پر مبنی مقدمہ درج کیا تھا۔ جب میں نے کسی جرم کا ارتکاب ہی نہیں کیا تو پھر میں معافی کس چیز کی مانگوں؟ میں ایسی ظالم، بدعنوان اور انسانیت کی قاتل حکومت کے صدر سے اپنی زندگی کی بھیک نہیں مانگ سکتا۔ جو آپ کے جی میں آتا ہے کریں، میرا حامی و مددگار صرف میرا اللہ ہے۔
اقبال حسن کے بقول: ’’جب ہم اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے ہمراہ آخری ملاقات کے لیے والد محترم کی کوٹھڑی کے قریب پہنچنے تو وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ ہم ان سے ملنے قریب پہنچ چکے ہیں۔ مجھے اپنے والد کی پھانسی کوٹھڑی کا پتا دُور سے اُس آواز نے بتایا، جو اُن کی تلاوت قرآنِ پاک سے معمور تھی۔ جب ہم سلاخوں کے پیچھے کوٹھڑی کے قریب پہنچے تو انھوں نے مسکراہٹ سے ہمارا استقبال کیا، اور ’السلام علیکم‘ کہہ کر سب سے پہلی بات ہم سے یہ کہی کہ:
میں بنگلہ دیش میں اسلامی نظام کا نفاذ دیکھنا چاہتا تھا۔ اللہ کو میری اتنی ہی زندگی منظور ہے تو اب اگلے سفر کے لیے نوجوان اس تحریک کی قیادت سنبھالیں، اپنی بہترین صلاحیتیں پروان چڑھائیں اور ان صلاحیتوں کو اس راہ میں کھپائیں۔ ہم وطنوں کو بھارتی آلۂ کار حکومت کے ظلم اور غلامی سے بچائیں اور اس ظلم کا حساب بھی لیں۔ اس ظلم کا حساب یہ ہے کہ اس سرزمین پر اللہ کی حاکمیت قائم ہو اور اسی مقصد کے لیے جدوجہد کی جائے۔
انھوں نے ہم بہن بھائیوں کو یہ نصیحت کی کہ ہم اپنی تمام زندگی ایمان کے ساتھ اور ایمان پر عمل کے ذریعے گزاریں۔ہم اہلِ خانہ اور جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر [اسلامی جمعیت طلبہ] کے کارکنوں کو انھوں نے جو آخری پیغام دیا، وہ بہت مختصر ہے:
قرآن کو اپنا ساتھی بنائیں، قرآن کے سایے میں زندگی گزاریں ،اور قرآن و سنت ہی کو پوری زندگی کا رہنما بنائیں۔
جس وقت ہفتے کی رات ۳۰:۹ بجے محمد قمرالزمان کو پھانسی دی گئی، اُس وقت حکومتی اہتمام میں ’سیکولر کارکنوں‘ کا ایک جمگھٹا، سنٹرل جیل ڈھاکہ کے باہر: ’’پھانسی دو، پھانسی دو‘‘ کے نعرے بلند کر رہا تھا۔ پولیس اور مسلح اہل کاروں کی بڑی فورس کسی دوسرے فرد کو اس علاقے کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دے رہی تھی، مگر اس ’پسندیدہ گروہ‘ کو جیل کے قریب لے جاکر نعرے لگوانے کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔
بنگلہ روزنامہ نیادیگنتا کے مطابق جیل کے عملے نے بتایا:’’جب محمد قمرالزمان سے کہا گیا کہ: ’’وقت ہوگیا ہے، اب پھانسی گھاٹ چلنا ہے، تو وہ بسم اللہ پڑھ کر کھڑے ہوگئے۔ عملے کے دو آدمیوں نے سہارا دینے کے لیے قدم بڑھایا تو انھوں نے کسی طرح کا سہارا لینے سے انکار کردیا اور خود ہی منزل کی طرف چل پڑے۔ پھانسی گھاٹ کی طرف ان کے چلنے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ ساتھ دینے والا عملہ تقریباً دوڑ رہا تھا۔ یوں قمرالزمان بلندآواز میں تلاوت کرتے ہوئے پھانسی کے تختے پر جاکھڑے ہوئے اور آخری لمحے تک بغیر کسی گھبراہٹ کے تلاوت ہی میں مصروف رہے‘‘۔
اتوار کو سحری کے وقت جب شہید محمد قمرالزمان کی میّت شیرپور کے گائوں کماری بازی ٹکھالی (Kumari Bazitkhali) لائی گئی تو اس چھوٹے سے گائوں کو چاروں طرف سے پولیس، ریپڈ ایکشن بٹالین (RAB) اور بارڈر گارڈ بنگلہ دیش (BGB)کے ہزاروں مسلح اہل کاروں نے گھیر رکھا تھا (بزدلی کی انتہا ہے)۔ سحری کے وقت صرف ۵۰؍افراد کو نمازِجنازہ پڑھنے کی اجازت دی گئی اور پاکستان کے وقت کے مطابق صبح چاربج کر ۴۵منٹ پر قمرالزمان کی تدفین عمل میں لائی گئی۔ ۸بجے کے بعد جوں ہی مسلح سرکاری اہل کاروں کا ایک حصہ وہاں سے واپس گیا، تو بی بی سی لندن کے مطابق مقامی صحافی عبدالرحمن نے بتایا:’’ بے شمار لوگ آہ و فغاں کرتے اور سسکیاں بھرتے قبرستان میں جمع ہوگئے‘‘۔ پھر کچھ دیر بعد ہزاروں لوگوں نے وہاں پر قمرالزمان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی۔
اخبارات کو جاری کیے گئے ایک خط میں محمد قمرالزمان شہید کے بیٹے حسن زمان نے لکھا ہے:
ہمیں اپنے والد گرامی کی عظیم الشان شہادت پر فخر ہے۔ اے حسینہ واجد! آپ میرے والد کو شہید کرنے میں کامیاب رہیں، لیکن آپ کو شاید علم نہیں کہ میرے والد قمرالزمان شہید جنت الفردوس میں ہیں اور آپ کے والد شیخ مجیب الرحمن جہنم کا ایندھن بنے ہیں۔ آپ نے میرے والد کو اس جرم میں پھانسی کا سزاوار ٹھیرایا کہ انھوں نے ۱۹۷۱ء میں اپنے علاقے میں امن کے قیام اور بھارتی مداخلت کے خلاف رکاوٹ بننے کی کوششیں کی تھیں۔ اگر انھوں نے وہ جرائم کیے ہوتے جو آپ نے جھوٹ پر مبنی مقدمے میں درج کیے تھے، تو علاقے کے لوگوں کو بھی اس کا کچھ علم ہوتا مگر پورے علاقے میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے ۴۲برس تک کسی ایک فرد نے بھی میرے والد کو بُرے نام سے نہیں پکارا۔ آپ نے میرے والد کو ۲۰۱۰ء میں گرفتار کرکے مختلف جیلوں اور تشدد گاہوں میں حیوانی تشدد کا نشانہ بنایا، مگر انھوں نے اس تمام تشدد کو خندہ پیشانی اور صبر سے برداشت کیا۔ آپ نے ہرحربہ اختیار کیا کہ میرے والد کو نفسیاتی طور پر توڑ دیا جائے، مگر الحمدللہ وہ ثابت قدم رہے۔ آپ کا خیال تھا کہ وہ سزاے موت کے خلاف آپ لوگوں سے زندگی کی بھیک مانگیں گے، لیکن انھوں نے آپ کی اس مذموم خواہش کو پائوں کی ٹھوکر سے اُڑا دیا۔ (بنگلہ اخبارات)
روزنامہ جسارت نے اس موقعے پر ’قمرالزمان کی پھانسی اور پاکستان کی بے حسی‘ کے زیرعنوان اپنے اداریے میں لکھا: ’’بنگلہ دیش حکومت کے تمام اقدامات خالصتاً پاکستان کے خلاف معاندانہ رویے پر مبنی ہیں۔ بنگلہ دیش کے متنازع اور غیرقانونی ٹریبونل کے مقدمات اور الزامات دراصل سب کے سب پاکستان اور پاک فوج کے خلاف چارج شیٹ ہیں، لیکن پاکستانی حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں نے اسے بنگلہ دیش کا اندرونی مسئلہ قرار دے کر فرار کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ اس مقام تک بات پہنچانے میں مغرب، یہود اور ہنود کے زیرکنٹرول پاکستانی میڈیا نے اہم کردار اداکیا ہے، بلکہ اس کو ایجنڈا ہی یہ دیا گیا ہے کہ پاکستان، نظریۂ پاکستان اور اسلام سے وابستگی کو گالی بنا دیا جائے۔ چنانچہ [آج] جب بنگلہ دیش میں خاص طور پر جماعت اسلامی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو ہمارا میڈیا بالکل خاموش ہے… آج اگر بنگلہ دیش حکومت کو نہیں روکا گیا تو پھر وہ کل پاک فوج کے خلاف بھی اقدامات کرے گی، اور اس وقت اگر کچھ کہا گیا تو یہی یاد دلایا جائے گا کہ ’’یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے‘‘۔(۱۳؍اپریل ۲۰۱۵ئ)
روزنامہ نواے وقت (۱۳؍اپریل) نے اداریے میں لکھا: ۱۹۷۱ء میں عالمی سازشوں کے نتیجے میں پاکستان دو ٹکڑے ہوا۔ اس سے قبل یہ دونوں علاقے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کہلاتے تھے۔ جب بھارتی افواج اور اس کی حمایت یافتہ مکتی باہنی کے مسلح تخریب کاروں نے پاکستان کے خلاف کارروائیاں شروع کیں تو محب ِ وطن بنگالی پاکستانیوں نے اس کے خلاف حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کا ساتھ دیا۔ ان کا یہ فعل اپنے ملک کے دفاع کے لیے جائز اور برحق تھا۔ اب ۴۴برس بعد اپنے وطن کا دفاع کرنے والوں کو ’جنگی مجرم‘ قرار دے کر پھانسی پر لٹکائے جانے کا عمل نہایت افسوس ناک ہے۔ اگر یہ لوگ مجرم ہوتے تو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد انھیں تختۂ دار پر کیوں نہیں لٹکایا گیا۔ اب حسینہ واجد کے دورِ حکومت میں ایسا [اس لیے] کیا جارہا ہے کہ جماعت اسلامی آج بھی بنگلہ دیش میں ایک مضبوط سیاسی جماعت ہے۔ جماعت اسلامی کے جن عہدے داروں کو پھانسی دی گئی ہے، انھوں نے بنگلہ دیش بننے کے بعد کبھی نئے ملک کی مخالفت نہیں کی، اور نہ اس کے خلاف کوئی کام کیا۔ وہ تو بنگلہ دیش کے پُرامن شہری بن کر رہے۔ پاکستان کو ایسے لوگوں کی پھانسی پر شدید ردعمل ظاہر کرنا چاہیے، کہ جن کو پاکستان کی حمایت کی سزا دی جارہی ہے، اور پاکستان کو ان لوگوں کی سزا ختم کرانے کے لیے کوششیں کرنی چاہییں‘‘۔
روزنامہ اُمت (۱۳؍اپریل)نے قمرالزمان کی شہادت پر جو خصوصی شذرہ شائع کیا، اس کا کچھ حصہ پیش ہے:
محمد قمرالزمان ۴جولائی ۱۹۵۲ء کو شیرپور کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۹ء میں میٹرک کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ کی دعوت قبول کی۔ ۱۹۷۱ء میں جب سالِ دوم کے طالب علم تھے، تو اپنے علاقے میں امن و امان کی بحالی کے لیے رضاکارانہ خدمات انجام دیں۔ ۱۹۷۶ء میں ڈھاکہ یونی ورسٹی سے ایم اے صحافت کیا۔ ۱۹۷۴ء سے ۱۹۷۷ء تک ڈھاکہ میں طلبہ کو منظم کیا اور ۶فروری ۱۹۷۷ء کو ڈھاکہ یونی ورسٹی میں اسلامی چھاترو شبر کی تاسیس میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کے پہلے مرکزی سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے، اور اگلے برس ۱۹۷۸ء میں مرکزی صدر منتخب ہوئے۔ تعلیم سے فارغ ہوتے ہی ۱۹۷۹ء میں جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ ۱۹۸۰ء میں عملی زندگی کا آغاز ڈھاکہ ڈائجسٹ کے مدیر منتظم کی حیثیت سے کیا۔ ۱۹۸۳ء میں ہفت روزہ سونار بنگلہ کی ادارت سنبھالی۔ روزنامہ سنگرام کی مجلس ادارت کے کلیدی رکن کی حیثیت سے اہم صحافتی خدمات انجام دیں۔ وہ بنگلہ دیش کے صحافیوں کی پیشہ ورانہ تنظیموں کے سرگرم رکن رہے، جن میں ’ڈھاکہ یونین آف جرنلسٹس‘، ’بنگلہ دیش فیڈرل یونین آف جرنلسٹس‘ اور نیشنل پریس کلب شامل ہیں۔ ۱۹۸۳ء سے ۱۹۹۱ء تک جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری نشرواشاعت اور ۱۹۹۲ء سے تاحال مرکزی سینیر ڈپٹی سیکرٹری جنرل تھے۔
قمرالزمان کی بے گناہی کا ثبوت ان کی پوری زندگی ہے اور جس شان سے وہ سوے دار چلے اور موت کے پھندے کو اللہ کا نام لے کر چوم کر انھوں نے اس پر مہرتصدیق ثبت کردی۔ قمرالزمان ۱۹۷۱ء کے خون آشام دور کے بعد ڈھاکہ یونی ورسٹی میں اپنا سر فخر سے بلند کرتے ہوئے داخل ہوئے۔ وہی ڈھاکہ یونی ورسٹی جہاں عوامی لیگ کے طلبہ کا غلبہ تھا اور جو چھانٹ چھانٹ کر ان لوگوں کو نشانہ بنا رہے تھے، جن پر انھیں ’جنگی جرائم‘ کا شبہہ تھا۔ انھوں نے اسی یونی ورسٹی میں کھلے بندوں تعلیم حاصل کی۔ ایم اے میں اول پوزیشن حاصل کی، اسلامی چھاترو شبر کے سرگرم رکن رہے اور کسی نے ان پر انگلی نہ اُٹھائی۔ ۷۴-۱۹۷۳ء میں جب جنگی جرائم کے مرتکب افراد پر مجیب الرحمن کے دورِ حکومت میں مقدمات بنائے گئے تو ان کا کہیں ذکر نہ تھا۔ لیکن اب ۴۰برس بعد مجیب کی بیٹی اور اس کے حواریوں نے ان کو اس جھوٹے مقدمے میں محض سیاسی انتقام اور جماعت اسلامی کو زِک پہنچانے کے لیے پھانسا جسے عدالتی عمل میں ثابت نہ کیا جاسکا۔ سیکولر قوم پرستانہ ’انصاف‘ کی مثال دیکھیے کہ جن دیہات کے ۱۲۰؍افراد کو ’قتل کرنے‘ اور ’بے حُرمتی‘ اور ’لُوٹ مار‘ کا الزام لگایا گیا، وہاں سے ایک بھی گواہ پیش نہ کیا جاسکا۔ اور جو گواہ پیش کیے ان پر وکلاے صفائی کو جرح کا موقع تک نہ دیا گیا۔ محمدقمرالزمان نے اس ’عدالتی قتل گاہ‘ میں ظالموں کو ظالم کہا اور اپنی شہادت سے اپنے برحق ہونے کو ثابت کردیا۔
قمرالزمان سیاست دان اور صحافی ہی نہیں بلکہ ایک محقق اور دانش ور بھی تھے۔انھوں نے بہت سے مضامین اور متعدد بنگلہ کتب تصنیف کیں: mعصرِجدید اور اسلامی انقلاب mتحریک اسلامی اور عالمی منظرنامہ mمغرب کا چیلنج اور اسلام mانقلابی رہنما: پروفیسر غلام اعظم، جب کہ خرم مراد کی کتاب قرآن کا راستہ کا بنگلہ ترجمہ شامل ہیں۔
آج بنگلہ دیش میں جو صورتِ حال ہے، اس کے بارے میں جماعت اسلامی کے قائم مقام سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمن کا یہ بیان قابلِ توجہ ہے: ’’عوامی لیگی حکومت کی فسطائی حکمت عملی کے نتیجے میں نہ صرف بڑے پیمانے پر جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، بلکہ گرفتار کرتے وقت اُن پر وحشیانہ تشدد بھی کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ ان کے گھروں میں لُوٹ مار بھی کی جاتی ہے اور گھروں کے برتن، فرنیچر اور شیشے تک توڑ پھوڑ دیے جاتے ہیں۔ یہ طرزِعمل دراصل اس لیے اختیار کیا جاتا ہے کہ اردگرد کے لوگوں میں دہشت پھیل جائے، اور خود نشانہ بننے والا گھرانہ دیر تک معاشی دبائو کی زد میں رہے۔سڑکوں پر اور مظاہروں میں ہمارے کارکنوں کو قتل کرنے کے لیے حکومتی مشینری اور عوامی لیگی کارکنوں کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اس نوعیت کے لاتعداد واقعات بھی ہیں: ۳؍اپریل کو گوبند گنج جیل میں اسلامی چھاترو شبر کے رکن سحرالاسلام کو تشدد کرکے شہید کردیا۔ انھیں دو ماہ قبل گرفتار کرتے وقت لاٹھیاں مار کر زخمی کر دیا تھا، اور زخمی حالت میں جیل میں ڈال دیا اور پھر تشدد کرکے مار دیا ۔ پھر ۶؍اپریل کو نواکھالی میں ’شبر‘ کے کارکن عمرفاروق کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ ۲؍اپریل کو سراج گنج میں پولیس افسر نے ’شبر‘ کے ۱۸سالہ رکن انیس الرحمن انیس کو گولی مار کر شہید کردیا۔ اسی طرح پبنہ صدر میں جماعت اسلامی کے رکن محمدشریف الاسلام کو بھرے بازار میں چھرا گھونپ کر مار دیا۔ یہ واقعات روزانہ کی بنیاد پر ریاستی، حکومتی اور سیاسی فسطائیت کی بدترین مثالیں ہیں‘‘۔
تاریخ میں یہ انوکھی مثال ہے کہ ۴۰برس گزرنے کے باوجود عوامی لیگ، ہندستان کی بی ٹیم کی پوزیشن ہی پر قائم رہنا چاہتی ہے اور اسی حیثیت میں اپنے ہی لوگوں کو مار کر اپنے بیرونی آقائوں کو خوش کرنے میں دن رات مصروف ہے۔ ایسی ظالمانہ غلامی کی مثال مسلم دنیا نے کم ہی دیکھی تھی، لیکن علاقائی قومیت و لسانیت کے بت کی پوجا کرنے والوں نے ایسی قابلِ نفرت مثال پیش کی ہے۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عوامی لیگ، بنگلہ دیش کو ایک آزاد مسلم ملک کے طور پر ترقی دینا چاہتی ہے تو یہ اُس کی کم فہمی ہے۔ جب مسلم لیگ سے الگ ہوکر عوامی لیگ بنی تھی، تب سے اس پارٹی کا اوّلین ہدف بھارتی برہمنوں کی خوشنودی رہا ہے۔ ۱۹۷۱ء میں جماعت اسلامی نے تو یقینا پاکستان کی سالمیت اور بھارتی گماشتوں اور بھارتی فوجوں کے مقابلے کے لیے جان ہتھیلی پر رکھی تھی، لیکن اس کے برعکس بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے وہ عناصر جو ۱۹۷۱ء میں عملاً عوامی لیگ ہی کا حصہ تھے، اس بی این پی کو بھی عوامی لیگ دم لینے کی مہلت نہیں دینا چاہتی، کیونکہ بی این پی کا موقف بھی یہ ہے کہ: ’’بنگلہ دیش کی خودمختاری کا تحفظ کیا جائے، اسے ہمسایہ بھارت کا تابع مہمل طفیلی ریاست نہ بنایا جائے‘‘۔ یہ چیز نہ بھارت کو ہضم ہوسکتی ہے اور نہ بھارت کے بنگلہ دیشی کارندوں کو راس آسکتی ہے۔
یہ بھارت اور حسینہ واجد کے اس منصوبے کا حصہ ہے کہ جماعت اسلامی اور دیگر اسلامی حلقوں کی سیاسی اور اجتماعی قوت کو بنگلہ دیش میں اس طرح کاٹ دیا جائے کہ وہ کبھی طاقت نہ پکڑسکیں۔ جماعت اسلامی کے دیگر اکابر رہنمائوں کو سزاے موت کی صف میں کھڑا کیا ہوا ہے۔ خصوصاً مئی ۲۰۱۵ء میں سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد اور غالباً مطیع الرحمن نظامی کو ہدف بنانے کا خدشہ ہے۔ بعداز شہادت احتجاج کے بجاے، ان قیمتی جانوں کو بچانے کے لیے آج آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔
حیرت انگیز بات ہے کہ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی انسانی ادارے اس ظلم و درندگی کو روکنے میں بہت سُست روی کے شکار دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ بنگلہ دیشی جنگی جرائم کے نام نہاد ٹریبونل نہ صرف بنگلہ دیش میں، بلکہ دنیابھر کے انصاف پسند اور غیر جانب دار حلقوں میں، کسی درجے بھی قابلِ اعتماد عدالتی ادارہ تسلیم نہیں کیے گئے۔ سبھی نے انھیں برسرِاقتدار گروہ کے سیاسی مقاصد کی تکمیل کا بدترین آلۂ شر تصور کیا ہے۔
۱۵؍اپریل ۲۰۱۵ء کو بنگلہ دیش کے اخبارات میں امریکی محکمہ خارجہ کے نام ایک خفیہ برقی پیغام افشا ہوکر شائع ہوا، جس کے مطابق: ’’عوامی لیگی حکومت کے انتہاپسند عناصر کی راے ہے کہ: ’’یہی درست وقت ہے، جب جماعت اسلامی اور دیگر اسلامی پارٹیوں کو تباہ کیا جاسکتا ہے‘‘۔
بیرسٹر ٹوبی کیڈمین (Toby Cadman) برطانوی نژاد ، بین الاقوامی قانون کے عالمی ماہر ہیں۔ وہ بوسنیا اور روانڈا میں جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے ناقابلِ فراموش خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ انھوں نے بنگلہ دیش میں، جماعت اسلامی کے خلاف مقدمات کے اس عمل پر بہت سے مضامین لکھے ہیں۔ ان کے ایک مضمون سے چند حصے ملاحظہ ہوں:
’’بنگلہ دیش کا انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل مکمل طور پر ایک قومی [بنگالی] ادارہ ہے۔ اسے کسی بھی اعتبار سے بین الاقوامی نوعیت کا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بنگلہ دیش بہت سے عالمی یا بین الاقوامی معاہدوں کا پابندہے، مگر پوری کوشش کی گئی ہے کہ ۱۹۷۱ء کے واقعات کے حوالے سے قائم کردہ ٹریبونل کی کارروائی میں کسی بھی بین الاقوامی معاہدے کا کچھ خیال نہ رکھا جائے۔ پھر اس ٹریبونل کو ایک آزاد، خودمختار اور غیر جانب دار ٹریبونل کی حیثیت سے کام کرنے کے قابل بنانے کے لیے مطلوب وسائل بھی فراہم نہیں کیے گئے‘‘۔
’’حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت کی پہلے دن سے یہ کوشش رہی ہے کہ کوئی بین الاقوامی ماہر قانون اس ٹریبونل کے سامنے پیش نہ ہو۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ کئی عالمی ماہرین قانون نے بنگلہ دیشی حکومت کو جنگی جرائم کے ان نام نہاد مقدمات میں معاونت کی پیش کش کی، مگر ہربار اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا گیا۔ ایسا غالباً اس لیے کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت کو یہ خوف لاحق ہے کہ غیر جانب دارانہ انداز سے مقدمات چلائے جانے کی صورت میں،اس کے لیے مطلوبہ فیصلوں کا حصول ناممکن ہوگا۔اس بارے میں جیوفرے رابرٹسن کی رپورٹ بہت اہم ہے،جن کے بقول: ’’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے لیے غیرملکی اور غیر جانب دار ججوں کا تقرر لازم ہے، کیونکہ ملک کے اندر سے مقرر کیے جانے والے جج قومی عصبیت میں بہہ گئے ہیں اور قانون کے بنیادی اصولوں پر خاطرخواہ توجہ دینے میں ناکام رہے ہیں‘‘۔
’’اسی طرح بنگلہ دیش میں نام نہاد جنگی ٹریبونل کی کارروائی غیرمعمولی حد تک اُلجھی ہوئی اور متنازع ہے، جس میں انصاف کی فراہمی کے پورے عمل کو دائو پر لگادیا گیا ہے۔ مقدمات کی کارروائی کسی بھی اعتبار سے ایسی شفاف نہیں ہے کہ اس پر کہیں سے کوئی اعتراض کیا ہی نہ جاسکے۔ حالانکہ اس معاملے میں شفافیت اور جامعیت کا خیال رکھا جانا لازم ہے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں جانب داری اور ناانصافی کا الزام عائد کیا جانا بالکل فطری امر ہے۔ میں پورے یقین کی بنیاد پر یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ مدعا علیہان [جماعت اسلامی سے نامزد کردہ ملزمان] نے کسی بھی مرحلے پر معاملات کو خواہ مخواہ اُلجھانے اور بگاڑنے کی کوشش نہیں کی، اور ان کا ایسا کوئی ارادہ تھا ہی نہیں۔ وہ تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ جنگی جرائم کے نام نہاد مقدمات عالمی برادری کی نگرانی میں چلائے جائیں تاکہ غیرجانب دارانہ کارروائی کے نتیجے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ مگر بدقسمتی سے اس پورے عمل کا بنیادی محرک سیاسی انتقام دکھائی دیتا ہے۔ عالمی سطح پر دنیا مجموعی طور پر یہی سمجھتی ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت ’جنگی جرائم کی تحقیقات‘ کے نام پر اور غیرمعیاری طریق کار اپنا کر محض سیاسی انتقام لے رہی ہے‘‘۔(tobycadman.com)
عالمی ادارے اس امر میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتے ہیں کہ وہ بنگلہ دیش کی غیرقانونی حکومت کو مجبور کریں کہ وہ بددیانتی پر مبنی عدالتی ڈرامے کے بجاے درست عدالتی عمل کو شروع کرے۔
نام نہاد جنگی جرائم ٹریبونل کے یہ تمام مقدمات ظاہر کرتے ہیں کہ گذشتہ برسوں میں عدلیہ میں عوامی لیگ کی سیاسی بھرتیوں نے ایسی صورت حال پیدا کردی ہے کہ وہاں کے چیف جسٹس سے لے کر نچلی سطح تک، ججوں میں انصاف کی پاس داری سے بڑھ کر زمانۂ طالب علمی کی عوامی لیگ کی سیاست پرستی رنگ جما رہی ہے۔ اسلامی قوتوں اور خصوصاً جماعت اسلامی سے نفرت کے جذبات رکھنے والے برسلز، بلجیم میں مقیم ڈاکٹر احمد ضیاء الدین اس خونیں ڈرامے کے ہدایت کار ہیں، جنھیں اکانومسٹ لندن اور وال سٹریٹ جرنل نے دسمبر ۲۰۱۲ء میں بے نقاب کردیا تھا۔ یاد رہے کہ اُس وقت مذکورہ متنازع ٹریبونل کے چیئرمین جسٹس نظام الحق اور ضیاء الدین کی اس گفتگو کو اکانومسٹ نے ان لفظوں میں شائع کیا تھا: ’’ڈاکٹر ضیاء الدین نے جسٹس نظام الحق سے کہا تھا کہ وہ جلد از جلد فیصلے نمٹائیں (فیصلوں کا مطلب سزاے موت سنانا ہے)۔ کوئی بھی آپ کو مقدمات کی سماعت سے نہیں روک سکے گا، اور ان ملزموں کو اسی سرزمین پر پھانسی دی جائے گی‘‘۔ (روزنامہ اسٹار، ڈھاکہ، ۳مارچ ۲۰۱۳ئ)۔ بیرسٹر ٹوبی کیڈمین کے بقول: ’’نظام الحق اور ضیاء الدین کی اس گفتگو سے بالکل واضح شکل سامنے آئی کہ بنگلہ دیش ’وار کرائمز ٹربیونل‘ کے سربراہ تو نظام الحق تھے، مگر وہ کام ڈاکٹر ضیاء الدین کی ہدایات کی روشنی میں کرتے تھے‘‘۔ان حقائق کی بنیاد پر نام نہاد ٹریبونل کی عدالتی دیانت کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ گیا تھا۔
اس سارے پس منظر میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پاکستان کا دفاع کرنے والوں کے قتلِ عام پر پاکستان کی حکومت، سیاسی پارٹیوں اور سیاست دانوں کا رویہ تقریباً لاتعلقی کا ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خاں نے اس المیے پر جرأت مندانہ اور حقیقت پسندانہ بیان دیا، لیکن دوسری طرف وزیراعظم اور وزارتِ خارجہ کا اس ضمن میں رویہ ناقابلِ فہم اور حددرجہ مداہنت پر مبنی ہے۔یہ اس بیماری کی علامت ہے کہ ہمارے پاکستانی حکمران، دانش ور اور صحافتی حلقے اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔ انھیں پروا نہیں کہ پاکستان کی تاریخ کے درست تناظر کو بگاڑا جارہا ہے اور ایک نیا جعلی تناظر تیار کیا جارہا ہے۔حالانکہ ان کا دشمن اپنی تمام تر حکمت عملی اُس تاریخ کی بنیاد پربنا رہا ہے، جو خود دشمن کے ہاتھوں مسخ کرکے لکھی اور جھوٹی داستانوں کی شکل میں پھیلائی گئی ہے۔صد افسوس کہ ہمارے مقتدر اور حکمران طبقے بھی اسی پر ایمان لابیٹھے ہیں۔
بنگلہ دیش میں تمام تر ریاستی فسطائیت دراصل اسلام پسند قوتوں کو کچلنے کی سازش ہے۔ تاہم قمرالزمان کی شہادت کے باوجود اہلِ بنگلہ دیش پُرعزم ہیں، اللہ کے اس فرمان کے پیش نظرکہ اللہ کے دین کو بہرحال غالب آکر رہنا ہے۔ وہ غلبۂ اسلام کی جدوجہد کو ایک نئے عزم، ولولے اور صبرواستقامت سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (الصف ۶۱:۸) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
اسلام دشمن قوتوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ظلم و ستم اور جبر و سفاکیت سے اسلام کو غالب آنے سے نہیں روکا جاسکتا۔
بنگلہ دیش ملت ِ اسلامیہ سے وابستہ اور مسلم قومیت کے جذبے سے سرشار لوگوں کا وطن ہے۔ ان کے آباواجداد نے کبھی غلامی کی زنجیروں کو قبول نہیں کیا۔ ہزار سالہ مسلم دورِحکومت میں بھی یہ لوگ خودمختاری اور خودداری کا حوالہ بنے رہے۔ پھر انگریزوں سے آزادی اور برہمنی سامراج سے چھٹکارا پانے کے لیے ان کی قربانیوں اور جدوجہد کا کوئی مقابلہ نہیں۔ مگر اس سب کے باوجود تاریخ کا یہ تکلیف دہ سوال ہے کہ :
گذشتہ ۴۰برسوں سے یہی مظلوم بنگلہ دیشی، برہمنی آلۂ کار عوامی لیگ کے پھندے میں کیوں پھڑپھڑا رہے ہیں؟
اس سوال کا جواب بنگلہ دیشی اور غیربنگلہ دیشی ماہرین تاریخ و سماجیات پر قرض ہے۔ تاہم، اس وقت رنج و اَلم کا معاملہ آج کے لہورنگ بنگلہ دیش سے وابستہ ہے۔
۵ جنوری ۲۰۱۴ء بنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ جمہوریت سے وابستہ ملکوں کے لیے بھی ایک شرم ناک دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس روز عوامی لیگ کی حکومت نے یک طرفہ انتخابی یلغار کرکے پوری پارلیمنٹ پر قبضہ جمالیا تھا۔ اس قبضے کو پہلے پہل یورپی یونین اور امریکا تک نے مسترد کیا، مگر آہستہ آہستہ حسینہ واجد کی سربراہی میں قابض ٹولے سے معاملات طے کرنے شروع کر دیے اور عوامی لیگ نے بھی بھارت کو زیادہ سے زیادہ مراعات دینے کے لیے اُوپر تلے فیصلے شروع کر دیے۔ بھارتی مفادات کے تحفظ اور بنگلہ دیشی مفادات کی نفی پر مبنی اس ’لوٹ سیل‘ پر محب ِ وطن حلقے چیخ اُٹھے۔
جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP ) کے ساتھ مزید ۱۸پارٹیوں نے اس عوامی لیگی قبضہ گروپ کے خلاف ۵جنوری ۲۰۱۵ء کو ’یومِ قتلِ جمہوریت‘قرار دے کر تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ غاصب حکومت نے اس احتجاج کو کچلتے ہوئے ۲۰۰ سے زیادہ افراد کو قتل اور ۱۵ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کرلیا۔ بنگلہ دیش کے طول و عرض میں عوام نے جوش و خروش سے حکومتی اقدامات کے خلاف نفرت کا اظہار کیا۔ ریل کی پٹڑیوں، قومی شاہرائوں اور دریائی آبی راستوں پر آمدورفت کو معطل کر دیا۔ حزبِ اختلاف کا یہ احتجاج ۵جنوری ۲۰۱۴ء سے اب تک جاری ہے۔ اس دوران حکومت نے نہ صرف طالب علموں اور مزدوروں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا، بلکہ بزرگوں، مریضوں اور چھوٹے بچوں تک کو خون میں نہلادیا۔
صرف مارچ کے دوران جماعت اسلامی اور بی این پی کے ۵۰ سے زائد کارکنوں کو مختلف شہروں (چٹاگانگ، رنگ پور،جیسور، سلہٹ، میمن سنگھ، فینی، ڈھاکہ وغیرہ) میں چھرا گھونپ کر ہلاک کیا گیا ہے۔ اس نوعیت کی کارروائی عوامی لیگ کے کارکنوں نے کی، جن میں سے بیش تر کی نشان دہی گواہوں نے کی، مگر پولیس انھیں پکڑنے یا مقدمہ دائرکرنے سے انکار کرتی چلی آرہی ہے۔ اس سے عوامی لیگ اور پولیس کی ملی بھگت بے نقاب ہوجاتی ہے، اور عوام میں عدم تحفظ کے احساس اور خوف کی فضا دیکھی جاسکتی ہے۔
۱۷ مارچ کو آدھی رات کے وقت گورنمنٹ کالج چٹاگانگ اور گورنمنٹ محمد محسن کالج چٹاگانگ سے اسلامی چھاتروشبر (اسلامی جمعیت طلبہ بنگلہ دیش) کے ۸۰ کارکنوں کو بلاوجہ اُٹھا کر تھانوں میں بند کردیا گیا۔ جب پولیس طلبہ کے ہاسٹلوں پر دھاوا بول رہی تھی تو چھاترو لیگ، یعنی عوامی لیگ کی حامی اسٹوڈنٹس لیگ کے مقامی کارکن پولیس کو نشان دہی کرکے شبر کے کارکنوں کو گرفتار ہی نہیں کرا رہے تھے بلکہ دھکے دیتے ہوئے گھسیٹ بھی رہے تھے۔ اس طرح کے دل دوز واقعات آج کے بنگلہ دیش میں روز کا معمول بن چکے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ (HRW) ایشیا کے ڈائرکٹر براڈ ایڈم نے مطالبہ کیا ہے کہ: ’’مارچ ۲۰۱۵ء میں بی این پی کے ترجمان اور مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل صلاح الدین احمد(جو وزیر بھی رہے) کے حکومتی کارندوں کے ہاتھوں اغوا کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کرائی جائیں‘‘۔ یاد رہے کہ ۱۰مارچ کی رات صلاح الدین کے ہمسایے کے مطابق سادہ کپڑوں میں پولیس کے کارندے ان کی قیام گاہ پر آئے۔ انھوں نے چندگھنٹوں کی پوچھ گچھ کا وعدہ کرکے انھیں ساتھ لیا، اور بعد میں انکار کردیا کہ ہمیں کوئی علم نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے، بلکہ اس طرح سیاسی کارکنوں کو غائب کرنے کے بے شمار واقعات شہر شہر میں دُہرائے جارہے ہیں۔ اس عمل کا سب سے زیادہ نشانہ اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو بنایا جا رہا ہے، جن میں سے بعض کی لاشیں ندی نالوں اور جوہڑوں میں تیرتی پائی گئی ہیں، یا پھر اُن کی ٹانگوں پر گولیاں مار کر انھیں اپاہج بنادیا گیا ہے۔ یہ وہ وحشیانہ تکنیک ہے جو بھارت میں راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ (RSS) اپناتی ہے۔
اپریل کا مہینہ اس اعتبار سے بڑی نزاکت رکھتا ہے کہ اس ماہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے چوٹی کے رہنمائوں کو سزاے موت دینے کے لیے عوامی لیگی حکومت آخری ڈراما رچانے جارہی ہے۔
مئی ۲۰۱۳ء میں جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما محمد قمرالزماں کو جھوٹے مقدمے میں سزاے موت سنائی گئی۔ ان کی طرف سے کی گئی نظرثانی کی اپیل کو ایک جج نے منظور اور تین نے مسترد کیا، اور ۱۹فروری کو نام نہاد کرائمز ٹربیونل نے سزاے موت کے وارنٹ پر دستخط کیے۔ اب یکم اپریل سے قمرالزماں کی حتمی اپیل کی سماعت شروع ہورہی ہے۔ امکان یہی ہے کہ یہ بھی مسترد کی جائے گی۔ اسی طرح ٹریبونل کی جانب سے سزاے موت کے خلاف امیرجماعت اسلامی مطیع الرحمن نظامی کی سپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت بھی ۳۰ مارچ سے ہورہی ہے، جب کہ ۱۸فروری کو جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر مولانا عبدالسبحان کو ٹریبونل نے سزاے موت سنائی ہے۔ عبدالسبحان صاحب نے ۱۸مارچ کو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔ یہ اپیل ۸۹ صفحات، ۹۲ دلائل اور ۱۱۸۲ صفحات کے دستاویزی ثبوتوں پر مشتمل ہے۔
یاد رہے جماعت کے دو اور مرکزی رہنمائوں: میرقاسم علی کو اکتوبر ۲۰۱۴ء میں اور اظہرالاسلام کو ۳۰دسمبر ۲۰۱۴ء کو ٹریبونل نے سزاے موت سنائی ہے۔ عدل کے نام پر عدل کے قتل اور انسانیت کی تذلیل کا یہ کھیل بنگلہ دیش کی عدالتوں میں مسلسل کھیلا جا رہا ہے، جب کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی نام نہاد سول سوسائٹی اس باب میں چپ سادھے ہوئے ہے۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائم مقام سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمن نے اس صورتِ حال کو چند لفظوں میں بیان کردیا ہے کہ: ’’بنگلہ دیش سخت بے یقینی، انتشار، حکومتی جبر اور عوامی لیگی فسطائیت کا شکار ہے۔ ۱۶کروڑ عوام کا ملک بدترین غلامی کے دور سے گزر رہا ہے۔ لوگ اپنے جائز جذبات کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ حکومتی پشت پناہی میں تشدد کی لہر نے ہرغیرت مند شخص کو اپنے نشانے پر لے رکھا ہے۔ روزانہ بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، تشدد، قتل اور سیاسی بنیادوں پر جبری اغوا کی خبریں روزناموں کے صفحۂ اوّل پر اس کربلا کی تصویر پیش کرتی ہیں۔ وہ ملک جس میں حسینہ واجد کی غیرنمایندہ، غیراخلاقی اور غیرقانونی حکومت نے عوامی حقِ حکمرانی غصب کر رکھا ہے، اس کے حالات کو درست سمت دینے کا واحد حل یہ ہے کہ حسینہ واجد ٹولے کو عوام کا خون چُوسنے اور خون بہانے کے بجاے برطرف کیا جائے اور ایک عبوری حکومت کے تحت آزادانہ، منصفانہ اور کھلے عام عوامی شرکت یقینی بنانے والے انتخابات کرائے جائیں۔ اسی طریقے سے اس بحران سے نکلا جاسکتا ہے‘‘۔
بنگلہ دیش میں اس وقت عوام کی اکثریت اپنے آپ کو ہندستانی شکنجے سے باہر نکال کر خودمختاری اور مسلم تشخص کے تحفظ کے لیے کوشاں ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی کو اپنے مقاصد کے حصول کی قیادت پر دیکھتے ہیں۔ مگر دوسری جانب بھارت، اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے، عوامی لیگ کی پشت پناہی میں کسی بھی انتہا تک جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حسینہ واجد نے پولیس کو احکامات دیے ہیں کہ: ’’اپوزیشن کی تحریک کچلنے کے لیے آپ جس انتہا تک بھی جائیں، اس کی ذمہ داری میں قبول کروں گی، آپ بے خوف انھیں کچل دیں‘‘۔ یہ احکامات کوئی خفیہ سرکلر نہیں، بلکہ حسینہ کے روزانہ کے بیانات میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
اس تحریر کے ابتدا میں یہ سوال اُٹھایا گیا تھا کہ حریت اور خودداری کا یہ خطۂ مسلم بنگال، جس نے ہندو کی غلامی کو قبول نہیں کیا تھا، گذشتہ ۴۰برس سے کیوں غلامی اور خودکشی کی زنجیروں پر جھول رہا ہے؟ اس سوال کا جواب کچھ پیچیدہ نہیں۔ جب کسی قوم، ملک یا قبیلے کے اپنے لوگ، دشمن کا آلۂ کار بننے کو تیار ہوجائیں اور پھر انھیں دشمن سے بھرپور کمک بھی مل جائے، تو شب ِ غم طویل تر ہوجایا کرتی ہے۔ شیخ عبداللہ نے جموں وکشمیر میں جواہر لال نہرو کے دست ِ شر انگیز پر بیعت کر کے جموں و کشمیر کو بھارتی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہے، تو بنگال کے شیخ مجیب نے نہرو کی بیٹی اندراگاندھی کے قدموں کو چھو کر مسلم بنگال کو بھارتی مفادات کی چراگاہ بنادیا ہے۔ جب اپنے، دوسروں کے وفادار بنتے ہیں تو ان کے لیے انسانی جان اور قومی غیرت کچھ معنی نہیں رکھتی اور ان بدقسمت قوموں کو صبحِ آزادی کا نظارہ کرنے کے لیے طویل عرصے تک قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔
معاشرہ کوئی جامد چیز نہیں ہے۔ زندگی اور موت، تعمیر اور تخریب کا معاشرتی زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ تاہم جب موت کے سایے گہرے اور تخریب کے حوالے بڑھ جائیں تو معاشرہ بیماری کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس صورت حال میں زندگی اور تعمیر کی قوتوں کے لیے ناگزیر ہوجاتا ہے کہ وہ اپنا بھرپور اورمثبت کردار ادا کرکے معاشرے کو زندگی اور تعمیر کا نمونہ بنائیں۔
پاکستانی معاشرہ بھی اسی طرح کی کش مکش سے دوچار ہے۔ یہاں ایک طرف اگر تعمیر کا نشان بلند ہوتا ہے تو ساتھ ہی تخریب کی موجیں اسے زیرآب لے جانے کے لیے اُمڈ آتی ہیں۔ پاکستان کی نئی نسل کے لیے آج کے حالات کی شدت بے مثال ہے، لیکن انھیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ: ’ہم لائے ہیں طوفاں سے کشتی نکال کے‘ بھی ایک حقیقت ہے۔ ہمارا معاشرہ آج اچانک کسی عفریت کے جبڑوں میں نہیں جکڑا گیا، بلکہ یہ کام بہت پہلے شروع ہوا، اور یہ عفریت اپنی کینچلی اور رنگ بدل بدل کر اس معاشرے کی کمرتوڑنے کے درپے رہا ہے۔ یہ سب کچھ یکایک رُونما نہیں ہوگیا بلکہ اس میں درجہ بدرجہ بہت سی قوتوں نے حصہ ڈالا ہے، بالخصوص طاقت ور منفی طبقوں نے!
یہاں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ (۲۵ ستمبر ۱۹۰۳ئ-۲۲ستمبر ۱۹۷۹ئ)کی چند تحریروں اور بیانات کی روشنی میں پاکستانی تاریخ کے اوراق اُلٹے ہیں کہ اس موسمِ خزاں نے گلستانِ وطن کو کس کس طرح اُجاڑا ہے۔
پاکستان میں دستور سازی کا عمل ابتدائی منازل طے کررہا تھا، مگر طاقت کے حریص طبقے، ملک و قوم کے مستقبل سے بے پروا ہوکر باہم جنگ و جدل میں مصروف تھے۔ مغربی پاکستان سے جاگیردارانہ پس منظر کے حامل سیاست دان، کھلے عام اعلیٰ سول افسروں سے مل کر اور پس پردہ اعلیٰ فوجی افسروں سے سازباز کرکے، زیر تشکیل دستور میں نقب لگا رہے تھے۔ وہ اس امر سے بے پروا تھے کہ اس کا نتیجہ مشرقی پاکستان میں کیا نکلے گا اور خود یہاں مغربی پاکستان میں کیا عذاب آئے گا۔ جدید تعلیم یافتہ اور انگریزی طور طریقوں کا رسیا یہ حاکم طبقہ اپنی دُھن میں ہرچیز کو تہس نہس کر رہا تھا۔ ۱۴؍اکتوبر ۱۹۵۰ء کو مولانا مودودی نے قوم کو متنبہ کرتے ہوئے لاہور میں خطاب کے دوران کہا تھا:
کسی زندہ قوم کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ چند آدمیوں کے ہاتھ میں دے کر خاموش بیٹھ جائے، اور ان کی مرضی پر چھوڑ دے کہ وہ جس طرح چاہیں ملک کے نظام کو ڈھال دیں۔(سیّد مودودی: دستوری سفارشات پر تنقید و تبصرہ،ص ۴۱)
دراصل وہ خبردار کر رہے تھے کہ قومی معاملات کو چند ہاتھوں میں دے دینے کا نتیجہ محلاتی سازشوں اور ان کے نتیجے میں تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔ ظاہر ہے کہ ملک میں لاقانونیت اور غیردستوری کلچر کے فروغ سے ظلم کے علاوہ کون سی فصل برگ و بار لاسکتی ہے؟ اور جب مسئلہ ملک کے دفاع کا ہو تو حسِ انصاف کو بیدار رکھنا اور بھی ضروری ہوجاتا ہے، بجاے اس کے کہ جنگی صورتِ حال میں عدل کو بھی گولی کا نشانہ بنادیا جائے۔ یہاں مولانا مودودی کی ایک طویل تقریر سے اقتباس دیا جا رہا ہے۔ یہ تقریر انھوں نے ۲۲جولائی ۱۹۵۱ء کو لاہور میں کی تھی۔ تب بھارتی افواج، پاکستان پر حملے کے لیے تیار کھڑی تھیں اور ملک سخت ہیجانی کیفیت میں مبتلا تھا۔ مولانا نے بنیادی اخلاقی اصولوں کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے فرمایا تھا:
یہ بات ہرجگہ ذہن نشین کرانے کی کوشش کریں کہ [قومی] مورال کے بحال رکھنے کے لیے جھوٹ کے بجاے سچ کا ہتھیار استعمال کیا جائے۔ خالی خولی پُرجوش باتوں سے مورال اگر بحال ہو بھی جائے تو یہ مستقل نہیں، عارضی ہوتا ہے۔
ایک اور چیز جسے دفاع کے معاملے میں خاص اہمیت حاصل ہے، وہ یہ ہے کہ ملک کے اندر ظلم و ستم اور بے انصافیوں اور حق تلفیوں کو قطعی طور پر بند ہونا چاہیے۔ ظلم سے بڑھ کر قومی دفاع کو کمزور کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سرزمین [پاکستان] ہمارا نہیں بلکہ اسلام کا گھر ہے۔ ہمارے لیے یہ سب سے بڑی نعمت ہے، اور ہم ہرقیمت پر اس کی حفاظت کے لیے تیار ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ہرمسلمان میں اس نعمت کی قدر کا جذبہ پیدا کریں، اور اس کے قلب و روح میں یہ خیال جاگزیں کردیں کہ اس نعمت کی حفاظت میں کوئی قربانی بھی گراں نہیں ہے۔l(اخبار سہ روزہ کوثر، لاہور، ۲۸جولائی ۱۹۵۱ئ)
اس تقریر میں مولانا مودودی نے جنگی صورتِ حال میں جھوٹے پروپیگنڈے کی اشاعت اور ’نظریۂ ضرورت‘ کے تحت محض جوشیلے طرزِ بیان کی نفی کی ہے۔ ساتھ ہی یہ بتایا ہے کہ بھلے لوگو، جب ملک جنگی صورتِ حال سے دوچارہو تو اپنے معاشرے میں اور زیادہ عدل و انصاف کی دولت لٹائو، نہ کہ عدل و انصاف کو صدمہ پہنچائو، اور یہ بھی کہ اسلام کے گھر کے مانند پاکستان کی حفاظت کرنے کے لیے ہر آن تیار بھی رہو۔
اس تقریر کو اڑھائی ماہ اور پاکستان کو قائم ہوئے ابھی چار برس گزرے تھے کہ اوّلین وزیراعظم لیاقت علی خاں کے قتل (۱۶؍اکتوبر ۱۹۵۱ئ) نے پاکستان کو خونیں دلدل میں دھکیل دیا۔ تلوار اور تشدد کے اس پہلو کو مولانا مودودی نے ’قاضیِ شمشیر‘ کی اصطلاح سے منسوب کیا، اور جماعت ِ اسلامی کے کُل پاکستان اجتماع منعقدہ کراچی میں خطاب کے دوران فرمایا:
کسی ملک کے لیے اس سے بڑھ کر اور کوئی بدقسمتی نہیں ہوسکتی کہ اس میں فیصلے کا آخری اختیار عقل، شعور، دلیل اور راے عام سے چھین کر ’قاضیِ شمشیر‘ کے سپرد کردیا جائے۔ یہ قاضی کوئی عادل اور صاحب ِ فکر قاضی نہیں ہے۔ یہ اندھا، بہرا اور گونگا قاضی ہے۔ اس سے جب کبھی فیصلہ چاہا گیا ہے ، اس نے حق اور انصاف دیکھ کر نہیں، بلکہ خون کی رشوت لے کر فیصلہ کیا ہے، اور جس نے بھی زیادہ خون چٹا دیا، اسی کے حق میں اس نے فیصلہ دیا ہے، خواہ وہ حق پر ہو یا ناحق پر، خواہ وہ نیک ہو یا نہ ہو۔
کوئی قوم جو خود اپنی دشمن نہ ہو، اور جس کی عقل کا دیوالیہ نہ نکل چکا ہو، ایسی بے وقوف نہیں ہوسکتی کہ اپنے معاملات کا فیصلہ: شعور و استدلال کے بجاے تلوار کے اندھے قاضی کے سپرد کردے۔ اگر ہم اپنا مستقبل تاریک نہیں کرنا چاہتے تو ہمیںپوری قوت کے ساتھ اپنے ملک کے حالات کو اس خطرناک رُخ پر جانے سے روکنا چاہیے۔(۱۰نومبر ۱۹۵۱ئ، رُوداد جماعت اسلامی،ششم: ص ۵۴)
مولانا مودودی کی جانب سے ’قاضیِ شمشیر‘ کا یہ اشارہ ہر اس اندھی بہری قوت کی طرف ہے، جو عدل کے نام پر عدل کوقتل کرے یا تشدد کے لیے خودساختہ اُصولوں کی بنیادپر دوسروں کی جان لینے کے بہانے گھڑے اور وسیلے تراشے۔ یہ فعل کسی کے بھی ہاتھوں رُونما ہوسکتا ہے: سیاسی لبادے میں ایم کیو ایم جیسے طائفے ہوں یا ’محرومی‘ کے نام پر قوم پرستوں کی پُرتشدد خفیہ تنظیمیں، یا مذہب کے نام کو استعمال کرنے والے خونیں گروہ، یا پھر عدل و انصاف کے مسلّمہ اصولوں سے بالاتر ادارے۔ انسانی جان لینے کے کھیل میں یہ سب ’قاضیِ شمشیر‘ بن جاتے ہیں۔
جب وزیراعظم لیاقت علی خاں کا قتل ہوا تو اُس وقت ملک میں دستورسازی اور اختیارات کی تقسیم کا معاملہ زیربحث تھا۔زیربحث کہنا درست نہیں، درست بات یہ ہے کہ دستورسازی کے موقعے پر مختلف طاقت ور گروہ زیادہ سے زیادہ اختیارات چھیننے کی دوڑ میں باہم معرکہ آرا تھے۔ ان حالات میں ۳۰جنوری ۱۹۵۳ء کو لاہور کے جلسۂ عام میں مولانا مودودی نے زیربحث بہت سی دستوری سفارشات کے بعض پہلوئوں پر مفصل تبصرہ کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کے بارے میں چنداصولی نکات ارشاد فرمائے۔ یاد رہے کہ اُن کی تقریر کا یہ حصہ عام (سویلین) شہریوں کے حوالے سے نہیں بلکہ خود فوجیوں کے بارے میں اور فوجی عدالتوں کے حوالے سے تھا۔ انھوں نے دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے فرمایا تھا:
’دستوری سفارشات کی رپورٹ‘ میں فوجی عدالتوں کے مقدمات کے خلاف سماعت کرنے سے سپریم کورٹ کو روک دیا گیا ے۔ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیںآتی، حالانکہ خود انگلستان میں، سپریم کورٹ میں ہرعدالت کے [فیصلے کے] خلاف اپیل کی جاسکتی ہے، حتیٰ کہ فوجی عدالت کے خلاف بھی، اور پھر یہ بات کسی طرح ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر ہمارے سپاہی کس پاداش میں انصاف سے محروم رکھے جائیں؟ جس طرح سے ایک عام آدمی کے لیے ملک کی آخری عدالت سے انصاف حاصل کرنے کا امکان ہے، اسی طرح سے ہمارے فوجیوں کے لیے بھی انصاف کے حصول کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے۔ کوئی شخص کہتا ہے کہ اس طرح فوج میں ڈسپلن قائم نہیں رہتا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ فوج میں بے انصافی سے ڈسپلن کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری فوج کے بھی ہرسپاہی کو پوری طرح سے یہ اطمینان حاصل ہونا چاہیے کہ اس کے ساتھ بے انصافی کبھی نہیں ہوسکے گی، اور یہ ایسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ وہ کورٹ مارشل کے مقابلے میں سپریم کورٹ سے اپیل کرسکے۔ دستور میں کورٹ مارشل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گنجایش نہ رکھنا قطعی طور پر اسلامی اصولِ عدل کے خلاف ہے۔ (ماہ نامہ چراغِ راہ، کراچی، مدیر: نعیم صدیقی، خصوصی ضمیمہ، جولائی ۱۹۵۳ئ)
یاد رہے یہ اُس وقت کی بات ہے جب پاکستان کا نظامِ حکومت ۱۹۳۵ء کے برطانوی ترمیم شدہ ایکٹ کے تحت چل رہا تھا اور ابھی تک دستورسازی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ اب، جب کہ دستور بن چکا ہے اور ۶۰برس کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد دستوری روایات اور عدالتی عمل اپنی گہری بنیادیں استوار کرچکے ہیں، تو فوج کے داخلی نظام میں فوجی عدالتوں کا معاملہ اور ان کا اختیارِ سماعت کہیں زیادہ واضح انداز میں طے ہوچکا ہے۔
اس دستور ی بحث کے دوران ۱۹۵۳ء کے ابتدائی مہینوں میں صوبہ پنجاب ’فتنۂ قادیانیت‘ کے مسئلے پر ہنگاموں میںگِھر گیا (ان ہنگاموں کی صورت گری کرنے والے چہروں سے کب کا نقاب اُترچکا، مگر ہمارا مقبوضہ میڈیا ان کے نام لینے سے شرماتا ہے)۔ پنجاب کے حاکم آگے بڑھے، سول اور فوجی اعلیٰ افسروں سے مل کر لاہور میں ۶مارچ کو مارشل لا لگادیا۔ اس اقدام سے ’قاضیِ شمشیر‘ نے اقتدار کا ذائقہ چکھا اور اپنی قوت کا اندازہ بھی لگایا۔ فوجی عدالت لگی، سرسری سماعت ہوئی اور ۱۱مئی ۱۹۵۳ء کے روز مولانا مودودی کو سزاے موت سنانے کا فیصلہ صادر ہوا۔ ازاں بعد شدید عوامی اور بین الاقوامی ردّعمل اور احتجاج کے نتیجے میں یہ سزا عمرقید میں تبدیل ہوگئی۔ وہ مولانا مودودی جو صرف ساڑھے چار ماہ قبل فوجیوں کے لیے انصاف اور اپیل کا حق مانگ رہے تھے، چند ہی ماہ بعد خود اُنھیں فوجی عدالت میں دھر لیا گیا اور اعلیٰ سول عدالت میں اپیل کے حق کا تو کوئی سوال ہی نہ تھا۔
انھی ہنگاموں کی تحقیقات کے لیے جسٹس محمد منیر (م: ۱۹۷۹ئ) اور جسٹس ایم آر کیانی (م:۱۹۶۲ئ) پر مشتمل ایک ’تحقیقاتی عدالت‘ ۱۹جون ۱۹۵۳ء کو قائم کی گئی۔ اس خصوصی عدالت میں ۱۳فروری ۱۹۵۴ء کو مولانا مودودی نے اپنا تیسرا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے فرمایا:
ایک جمہوری نظام میں یہ بات نہیں مانی جاسکتی کہ قوم خود اپنے مفاد کی دشمن ہے، اور اس کے مفاد کو [فقط] چند افسرزیادہ جانتے ہیں۔
دراصل یہ نشان دہی تھی اس خطرے کی، کہ ملک کے کاروبارِ حکومت اور فیصلہ سازی کے عمل کو چند (سول یا فوجی) افسروں کے ہاتھ میں دے دینے کا نتیجہ جمہوری بساط کے لپٹنے کی صورت میں سامنے آئے گا۔ پہلے مارشل لا کی فوجی عدالتوں نے سول شہریوں کو سزائیں سنائیں، پھر تحقیقات کے نام پر انڈین سول سروس کے تیار کردہ عدالتی افسروں نے مذکورہ بالا تحقیقاتی عدالت کی ایک رپورٹ مرتب اور ۱۰؍اپریل ۱۹۵۴ء کو جاری کی گئی، جس میں دینی اصولوں اور علما کا مذاق اُڑایا گیا تھا اور بہت سی غیرمتعلقہ بحثیں بھی ٹھونس دی گئیں۔ حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کی یہ واحد تحقیقاتی رپورٹ ہے جو سرکاری طور پر بیک وقت انگریزی، اُردو اور بنگلہ زبان میں بڑے پیمانے پر شائع کی گئی (اور اب بھی لاہور کے فٹ پاتھوں سے دستیاب ہوجاتی ہے)۔ یہ رپورٹ دراصل تحقیقات سے زیادہ سیکولرزم کے جواز کا مقدمہ پیش کرنے کی دستاویز تھی، جسے سیاسی مقتدرہ اور اعلیٰ افسرشاہی نے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔
رپورٹ کی بے سروپا اور حددرجہ متنازع باتوں کا مولانا مودودی نے جیل ہی میں بیٹھ کر جواب لکھا، جو ۱۹۵۵ء میں تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر تبصرہ کے نام سے شائع ہوا۔ مولانا مودودی نے برطانیہ میں اصولِ قانون کے مایہ ناز پروفیسر البرٹ وین ڈائسی (Dicey: ۱۸۳۵ئ-۱۹۲۲ئ) کی معروف کتاب The Law of Constitution (طبع نہم) کے حوالے سے لکھا:
مارشل لا کا مفہوم یہ ہے کہ ایک ملک کی یا اس کے کسی حصے کی حکومت عارضی طور پر فوجی عدالتوں کے ذریعے چلائی جائے… سپاہی ایک فساد کو اسی طرح دباسکتے ہیں جس طرح وہ ایک بیرونی حملے کو دفع کرسکتے ہیں۔ وہ باغیوں سے اسی طرح جنگ کرسکتے ہیں، جس طرح وہ غیرملکی دشمنوں سے کرسکتے ہیں۔ مگر وہ [یعنی فوجی] ازروے قانون اس کا کوئی حق نہیں رکھتے کہ فساد یا بدامنی کی سزا لوگوں کودیں۔ امن قائم کرنے کی کوشش کے دوران میں لڑتے باغیوں کو قتل کیا جاسکتا ہے، اور قیدیوں کو اگر وہ بھاگ نکلنے کی کوشش کررہے ہوں گولی سے ماراجاسکتا ہے، مگر کوئی ایسی سزاے موت، جو ایک کورٹ مارشل کی طرف سے دی جائے، غیرقانونی ہے بلکہ اصولاً ایک مجرمانہ قتل ہے۔(ایضاً،ص ۲۹۳).... جب باقاعدہ عدالتیں کھلی ہوں اور مجرموں کو ان کے حوالے کیا جاسکتا ہو، تاکہ وہ عام قانون کے مطابق ان کے بارے میں کارروائی کرسکیں، تو تاج [ریاست]کو دوسرا کوئی طریق کارروائی اختیار کرنے کا حق نہیں ہے۔ (ایضاً، ص ۱۹۸)
مولانا مودودی کسی بھی درجے میں ریاست یا ریاستی اداروں کوعدل اور انصاف کے مسلّمہ اصولوں سے ہٹ کر چلنے سے روکتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ریاست اور حکومت ایک مہذب حوالہ ہیں، جنھیں قانون شکن اور عدل کے قاتل باغیوں کے برعکس راستہ اختیار کرنا چاہیے ۔ اسی لیے وہ مذکورہ تبصرے میں ڈبلیو فورسائیتھ کی کتاب Cases and Opinions on Constitutional Law کے حوالے سے لکھتے ہیں:
۱۸۶۶ء میں جمیکا کی بغاوت کو کچلنے کے لیے جو مارشل لا لگایا گیا تھا، اس پر انگلستان کے دو ممتازماہرین قانون بحث میں لکھتے ہیں: بغاوتوں کو فوجی طاقت سے دبانا بلاشبہہ قانونی فعل ہے، مگر غیرقانونی [یعنی فوجی] عدالتوں کے ذریعے سے جرائم کے مرتکبین کو سزا دینا ایسی کارروائی ہے جو ’دستاویز حقوق‘ (Petition of Rights) کے ذریعے ممنوع ہے۔ فوجی حکام کا یہ فرض تھا کہ قیدیوں کو دیوانی اقتدار کے سپرد کردیتے… اگر مسٹرگورڈن نے فی الواقع غداری کی بھی تھی تو وہ [یعنی فوجی حکام] اس کو سزا دینے کا کوئی حق نہ رکھتے تھے۔ ان کا دائرۂ اختیار صرف طاقت کے ذریعے دبا دینے تک محدود تھا، نہ کہ وہ جرائم کی سزا بھی دینے لگیں۔
قانون کے سب ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جہاں عام ملکی عدالتیں کھلی ہوئی ہوں، یا کھل سکتی ہوں، وہاں فوجی عدالتیں قائم کر کے لوگوں کو سزائیں دینا بالکل ناجائز ہے۔(تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر تبصرہ، ص ۶۰)
آگے بڑھنے سے پیش تر تاریخ کا یہ باب دیکھنا مفید ہوگا۔وزیراعظم محمدعلی بوگرہ [م:۱۹۶۳ئ] قوم کو یہ خوش خبری سناچکے تھے کہ: ’’۲۵دسمبر ۱۹۵۴ء کے روز قوم کو دستور کا تحفہ دیں گے‘‘۔ مگر منفی قوتوں کی شرانگیزی متحرک ہوئی، جسے یہاں پر ڈاکٹر صفدرمحمود کی کتاب مسلم لیگ کا دورِ حکومت سے نقل کیا جارہا ہے۔ یہ نثرپارہ بلاتبصرہ بہت کچھ بیان کرتا ہے۔ یاد رہے ۲۸؍اکتوبر کو اسمبلی کا اجلاس منعقد کرنے کا اعلان ہوچکا تھا کہ:
گورنر جنرل [ملک] غلام محمد نے ۲۴؍اکتوبر ۱۹۵۴ء کو [پاکستان کی] مرکزی وزارت کو برطرف کر دیا، دستور ساز اسمبلی کوتوڑ دیا۔ یہ اقدامات فوج کے سربراہ [جنرل محمد ایوب خان] اور بیوروکریسی کی مکمل حمایت سے کیے گئے۔ امریکا میں خفیہ مواد کے سامنے آنے سے پتا چلا ہے کہ دستور سازاسمبلی کو واشنگٹن کی آشیرباد اور منظوری کے بعد توڑا گیا تھا۔ عملی اقدام سے پہلے اسکندر مرزا اور واجد علی (امریکا میں پاکستانی سفیر امجدعلی کے بھائی) نے امریکی سفیر [متعینہ پاکستان] کو اپنے ارادوں، منصوبوں اور سخت اقدامات سے آگاہ کیا، اور اسے بتایا کہ: ’’اس اقدام کا مقصد پاکستان کو مُلّاازم سے بچانا ہے‘‘ (ص ۲۳۵)۔ جب غلام محمد نے، جو عوام کے منتخب نمایندے نہیں تھے، نے دستورساز اسمبلی کو منسوخ کردیا تو… اسے [مسلح افواج پاکستان کے]کمانڈر انچیف محمدایوب خان کی بھی حمایت حاصل رہی (مسلم لیگ کا دورِ حکومت، ناشر: جنگ پبلشرز، لاہور، مارچ ۱۹۹۳ئ، ص ۲۳۶)
[ملک] غلام محمد کبھی کبھی اپنے فیصلوں پر ریوالور کی رہنمائی میں بھی عمل کرایا کرتے تھے۔ [سابق وزیراعظم] چودھری محمد علی (مسلم لیگ کا دورِ حکومت) اور اسکندر مرزا (غیرمطبوعہ سوانح عمری) دونوں راوی ہیں، امریکا سے واپسی پر [وزیراعظم] محمدعلی بوگرہ کو[گورنر جنرل ملک] غلام محمد کے سامنے پیش کیا گیا، تو غلام محمد نے تکیہ کے نیچے سے ریوالور نکال لیا اور جب تک بوگرہ نے [دستور ساز اسمبلی توڑنے کی] تجویز سے اتفاق نہ کرلیا غلام محمد انھیں قتل کی دھمکیاں دیتے رہے۔ اس کارروائی کے دوران [جنرل محمد] ایوب خان ریوالور ہاتھ میں پکڑے پس پردہ کھڑے رہے۔ ( خوشامدی ادب اور سیاست، القمر انٹرپرائزز، لاہور،۱۹۹۴ئ، ص ۲۷)
اس دعوے کی تردید کبھی سامنے نہیں آئی۔ اس میں سے ریوالور کی بات کو نظرانداز کر بھی دیں تو ’طاقت ور‘ کے قلم اور چھڑی میں بہرحال ریوالور سے زیادہ طاقت ہوتی ہے۔
اس دستور ساز اسمبلی کے توڑنے کے واقعے پر تڑپ کر میاں طفیل محمد (سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان) کراچی پہنچے اور جماعت اسلامی کراچی کے امیر چودھری غلام محمد کے ہمراہ تمیزالدین (م: ۱۹۶۳ئ) اسپیکردستور ساز اسمبلی کو بڑی مشکل سے آمادہ کیا کہ وہ اس آمرانہ اور ملکی سالمیت کے لیے تباہ کن اقدام کو عدالت میں چیلنج کریں۔ میاں طفیل محمد اپنی کتاب مشاہدات (نومبر۲۰۰۰ئ) میں تفصیل (ص ۲۳۲-۲۴۴) سے بیان کرتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے وکلا کی فیس تک کے لیے مالی وسائل جماعت اسلامی نے فراہم کیے اور سندھ ہائی کورٹ میں اس اقدام کو کس طرح چیلنج کیا گیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے گورنر جنرل غلام محمد کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا، مگر سپریم کورٹ نے پاکستانی سیکولر لابی کے نظریہ ساز رہنما چیف جسٹس محمدمنیر کی سربراہی میں گورنر جنرل کے فیصلے کو ایک کے مقابلے میں چار کی اکثریت سے سند ِ جواز عطا کی ۔ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کی تائید اور جسٹس منیر کے فیصلے سے اختلاف کرنے والے وہ واحد رکن جسٹس اے آر کارنیلیس تھے۔
قیامِ پاکستان کے بعد ۱۹۵۳ء میں لاہور میں نافذ ہونے والا مارشل لا عملی سطح پر سیاست دانوں کی ناکامی کا اعلان اور فوجی اقتدار کی ریہرسل تھا۔ چنانچہ اس کامیاب ریہرسل کے بعد، صدر اسکندر مرزا (م: ۱۹۶۹ئ) نے ۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کو اسمبلیاں توڑ کر اور سول حکومتیں برطرف کر کے پورے پاکستان میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ مسلح افواج کے کمانڈرانچیف جنرل محمد ایوب خان کو وزیراعظم اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا۔ (یاد رہے کہ ’قائد عوام‘ ذوالفقار علی بھٹونے اس مارشل لائی کابینہ میں وفاقی وزیر کا عہدہ حاصل کیا تھا)۔ ۲۰روز بعد ۲۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کو جنرل ایوب خان، صدر اسکندرمرزا کو برطرف کر کے کرسیِ صدارت پر بھی متمکن ہوگئے۔ یاد رہے اس مارشل لا کے نفاذ سے قبل یہ اعلان ہوچکا تھا کہ فروری ۱۹۵۹ء میں عام انتخابات ہوں گے۔اس مارشل لا سے صرف دوماہ قبل سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی زیرادارت ماہ نامہ ترجمان القرآن، لاہور (اگست ۱۹۵۸ئ) میں جو اداریہ (اشارات) شائع ہوا، اس کے انتباہ کو ملاحظہ کیجیے کہ کس قدر دُوراندیشی سے آنے والے خطرات سے قوم کو خبردار کیا گیا تھا، کس اندازسے سیاست دانوں کو جھنجھوڑا گیا تھا اور کن الفاظ میں اعلیٰ فوجی قیادت کو عقل و خرد کی بات سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ لکھا تھا:
اسے مسلمان ممالک کی بدقسمتی کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ دنیا نے آج تک اجتماعی زندگی کے بارے میں جتنے مفید سبق سیکھے ہیں، نہ صرف ان سب کو بھلا دیا جاتا ہے بلکہ اُن غلطیوں کو باربار دُہرایا بھی جاتا ہے۔ مثال کے طور پر فوج کے غلط استعمال کو ہی لیجیے۔ ہرمعمولی عقل و خرد رکھنے والاآدمی بھی اس حقیقت سے واقف ہے کہ فوج اپنے ملک پر حکومت کرنے کے لیے نہیں بلکہ ملک کو بیرونی دشمنوں سے بچانے کے لیے منظم کی جاتی ہے۔ اس وجہ سے دنیا کے تمام عقل مند لوگ ملکی معاملات میں فوج کی دخل اندازیوں کو پسند نہیں کرتے، مگر ہماری شومیِ قسمت کہ جو لوگ ہمارے ہاں اقتدار پر قابض ہیں، وہ چونکہ عوامی تائید کی قوت سے محروم ہیں، اس لیے وہ اس کمی کو فوج کی طاقت اور پشت پناہی سے پورا کرتے ہیں۔ جہاں کسی حلقے میں اضطراب یا عدم اطمینان دکھائی دیا، اُسے فوراً فوج کی مدد سے دبا دیا۔ بظاہر یہ نسخہ بڑا سستا اور آسان ہے، لیکن اس کے نتائج ملک، قوم، اصحابِ اقتدار اور خود فوج کے حق میں نہایت مہلک ہوتے ہیں۔ اس کا پہلااثر یہ پڑتا ہے کہ ملک کے باشندے خود اپنی فوج سے بوجوہ متنفر ہوجاتے ہیں اور ملک کی حفاظت کے لیے فوج اور قوم کا تعاون ممکن نہیں رہتا۔ یہ صورتِ حالات ’سامراجی من چلوں‘ کے لیے بڑی ہی حوصلہ افزا ثابت ہوتی ہے اور اس سے بسااوقات ملک کی آزادی پر آبنتی ہے۔
فوجی افسروں کے منہ کو جب ایک دفعہ اقتدار کا [ذائقہ] لگ جاتا ہے، تو پھر پوری فوج کا نظم تہ و بالا ہوجاتا ہے۔ ملک کے یہ پاسبان ہمیشہ اس تاک میں رہتے ہیں کہ باہر چاہے انھیں کچھ فتح کا موقع ملے یا نہ ملے، مگرانھیں گھر کو ضرور فتح کرڈالنا چاہیے۔ اگر اخلاقی حیثیت سے اس معاملے کو دیکھا جائے تو یہ بے حد افسوس ناک ہے۔ اس سے بڑی غداری اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک فوج جن لوگوں کے روپے سے منظم اور مسلح ہوتی ہے، وہ طاقت پاکر خود اپنی قوم کی گردن پر ہی سوار ہوجائے اور سنگین کی نوک پر ملک میں اپنا حکم منوانا شروع کردے۔
معاملہ صرف ایک انقلاب تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ فوجی انقلاب ایک ایسا شیطانی چکر ہے کہ کوئی ملک بدقسمتی سے اس میں ایک دفعہ گرفتار ہوجائے تو اس سے بچ نکلنے کی کوئی اُمید باقی نہیں رہتی۔ ایسا ملک پیہم انقلاب اور ناگہانی تغیرات کی آماج گاہ بن جاتا ہے، اور کش مکش اور چھین جھپٹ کی بیماری سیاسی پارٹیوں سے نکل کر فوج کے مختلف طبقوں میں سرایت کرنا شروع کردیتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے جو معاملات بساطِ سیاست پر سیاسی جوڑتوڑ سے طے کیے جاتے تھے، اب ان کے فیصلے کے لیے ’قاضیِ شمشیر ‘کی طرف رجوع کرنا بالکل ناگزیر ہوجاتا ہے، اور یہ قاضی اپنے مزاج کے اعتبار سے اس قسم کا بے حس واقع ہوا ہے کہ اسے اگر ایک مرتبہ عدالت کی کرسی پر متمکن کردیا جائے تو پھر یہ اُس وقت تک چین نہیں لیتا، جب تک کہ سارا ملک تاخت و تاراج نہ کردیا جائے۔
اس کے علاوہ فوجی انقلاب کے وقت خواہ نعرے کتنے ہی خوش کُن اور احساسات و جذبات خواہ کتنے پاکیزہ ہوں، لیکن یہ انقلاب اپنی کامیابی اور بقا کے لیے اس بات پر مجبور ہے کہ کسی ایسے جابرانہ نظام کو جنم دے، جس میں نہ صرف لوگوں کے جسم گرفتار ہوں بلکہ ان کی روح بھی پابہ زنجیر رہے۔ اور لوگ دم بخود ہوکر ان فوجی آمروں کے افعال و اعمال دیکھتے چلے جائیں۔ پوری قوم بھیڑ بکریوں کا ایک بے زبان گلہ بن کر رہے جسے یہ ’مصلحین قوم‘ میکانکی طور پر جس طرف چاہیں ہانک کرلے جائیں۔
اس صورت ِ حال کو برقرار رکھنے کے لیے سب سے پہلے فوجی آمر کے کارناموں کو بڑے ہی مصنوعی اندازسے بڑھاچڑھا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ یہ آمر ایک عام انسان کے بجاے فوق البشر دکھائی دے اور قوم اُسے اپنا واحد نجات دہندہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو۔ چنانچہ دیکھیے، ان فوجی آمروں کی کارگزاریوں کو کس مبالغہ آمیزی کے ساتھ مختلف طریقوں سے نشر کیا جاتا ہے اور قوم کے ذہن میں یہ خیال راسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان لوگوں کے کارنامے بالکل غیرمعمولی ہیں۔ دوسرے قوم کی ذہنی تربیت کے لیے ایک ایسا پروگرام طے کیا جاتا ہے، جس سے وہ ہرمعاملے کو فہم و فراست کی معتدل میزان پر تولنے کے بجاے اُسے جذبات کی شعلہ فشانیوں سے حل کرتی ہے اور اندھی پیروی کی اتنی خوگر بنادی جاتی ہے کہ تباہ کن حوادث میں مبتلا ہونے کے بعد بھی اُس کی آنکھیں کھلنے نہیں پاتیں۔
اس قسم کی تلاطم خیز ذہنی کیفیت پیدا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جذبات کے سمندر میں طوفان اُٹھائے جائیں۔ یہ کام معمولی طریقوں سے تو سرانجام نہیں پاسکتا، اس کے لیے بڑے ہی غیرمعمولی حربے استعمال کیے جاتے ہیں، مثلاً سب سے پہلے پوری قوم کو ٹھوس حقائق کی دنیا سے نکال کر سپنوں کی ایسی فضا میں آباد کیا جاتا ہے، جہاں وہ صرف آرزوئوں اور تمنائوں پر مرنا سیکھتی ہے ۔جہاں وہ عقل کی بات بتانے والوں کو دشمن اور خوش کن باتیں بنانے والوں کودوست سمجھنے لگتی ہے۔ جہاں صرف خواب و خیال کی پرستش ہوتی ہے اور جہاں رہبرانِ قوم کے اخلاقی اور ذہنی اوصاف نہیں دیکھے جاتے بلکہ صرف اس بات کا اندازہ کیا جاتا ہے کہ وہ لاف گزاف میں کس قدر مشّاق اور زبان کے استعمال میں کس حد تک مطلق العنان ہیں۔
پھر اس قوم کے بارے میں اس بات کا بھی التزام کیا جاتا ہے کہ اُس کے دل و دماغ پر مستقل خوف کی کیفیت طاری رہے تاکہ وہ اپنے بچائو اور حفاظت کے لیے ایک فوجی آمر کی آمریت بخوشی قبول کرلے۔ اس صورتِ حال کے نتائج دیکھ کر ہر حساس مسلمان تڑپ اُٹھتا ہے۔ آئے دن کے تغیرات نے بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے وقار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ آخر مسلمانوں کو وہ کیا بیماری لاحق ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال نہیں کرسکتے اور اپنی قومی طاقت کو آپس کی کش مکش میں تباہ کردیتے ہیں۔
یہ وہ وقت ہے، جب کہ ہمارے فرماں روائوں کو اپنی آنکھیں کھولنی چاہییں۔ اپنے محلات میں بیٹھ کر وہ یہ نہ سمجھیں کہ آج سے ہزار سال پہلے کی فضا، جیسی کہ اُن کے محلوںکے اندر ہے، ویسی باہر بھی موجود ہے۔ زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے، باہر انقلاب کی بڑی بڑی موجیں اُٹھ رہی ہیں، وہ ان کے دروازوں پر دستک دے رہی ہیں۔ ان سے صرفِ نظر کرکے چلنا کوئی دانش مندانہ فعل نہیں۔ ملکی اقتدار یا قیادت، خواہ وہ کسی نوعیت کی ہو، اُس کے بچائو کی صورت صرف یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس جمہوری دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کر کے عوام کو اُن کے پورے پورے جمہوری حقوق بہم پہنچانے میں قطعاً بخل سے کام نہ لے۔ نیز عوام کے حقیقی مسائل کو سمجھے اور اپنی عیاشیوں میں مست رہنے کے بجاے اُن کی ضروریات کو پورا کرنے کا انتظام کرے… ہر شخص اور ہرملّت کے صبر کا ایک پیمانہ ہوتا ہے۔ اس میں خواہ کتنی ہی وسعت ہو، مگر ایک حد ایسی ضرور آتی ہے جہاں پہنچ کر وہ اپنی ساری وسعتوں کے باوجود چھلک پڑتا ہے۔ یہ حد بڑی ہی خطرناک اور ہلاکت خیز ہوتی ہے۔ اس سے ہمارے اصحابِ اقتدار کو بچنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اگر یہ حضرات وقت کے اس مطالبے کو پورا نہیں کریںگے تو زمانے کی کروٹ انھیں اس مطالبے کی تعمیل پر مجبور کرے گی اور یہ تعمیل اکثروبیش تر بہ نوکِ شمشیر ہی ہوا کرتی ہے۔(ماہنامہ ترجمان القرآن، لاہور، اگست ۱۹۵۸ئ)
اور پھر یہی ہوا کہ ملک میں ایسے مادرپدر آزاد انتخابات ہوئے، کہ جن میں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن اور ان کی عوامی لیگ کو کھلی چھٹی دی گئی۔ مارشل لا حکومت کے زیرسایہ یہ فسطائیت خوب تروتازہ ہوئی، اور دھاندلی و غنڈا گردی کے زور پر پورا انتخاب ہی لُوٹ کر لے گئی۔ پھر نہ اُس ’دستورساز اسمبلی‘ کا اجلاس ہوا اور نہ آئین بنا، البتہ پاکستان ضرور ٹوٹ گیا۔
گذشتہ برس پاکستان کی وفاقی حکومت کی ہٹ دھرمی اور اس کے جواب میں دھرنا کریسی نے عملاً ریاست اور جمہوریت کو کمزور کیا ہے۔ حاکموں اور حاکموں سے لڑنے والوں کی کم فہمی کا یہ نتیجہ ہے یا پس پردہ قوتوں کی جادوگری کہ سیاست دانوںکو نااہل ثابت کردیا جائے، جیسا سوال یہاں زیربحث نہیں لا رہے، مگر نتیجہ تو یہی نکلا ہے۔ اس کھیل کے لیے کس نے کس کا کندھا استعمال کیا، یا کس نے اپنا کندھا پیش کیا، عملی سطح پر طاقت کے سرچشمے اپنی جگہ سے سرک کر وہاں جاپہنچے ہیں، کہ جہاں سے انھیں درست جگہ پر لانے کے لیے بڑی قربانیاں دی گئی تھیں۔
ہمہ وقتی وزیرخارجہ کو مقرر نہ کرنا، وزارتِ دفاع کا قلم دان ایسی شخصیت کو تھمانا کہ جن سے دفاعی ادارے ویسے ہی مغائرت محسوس کرتے ہیں، پالیسیوں کو عارضی (ایڈہاک) بنیادوں پر چلانا، بھارت سے تجارتی تعلقات کے لیے شوق و ذوق کا مظاہرہ کرنا اور فیصلہ سازی کو گنتی کی چند رکنی ٹیم کا کھیل بنانا، بہرحال کسی سازش کا نتیجہ نہیں، البتہ کم فہمی کا ثمرہ ہے۔ حماقت ایسی بلا ہے کہ جو بہت سی بلائوں کو جنم دیتی ہے۔ پھر وطن عزیز ایک جانب حالت ِ جنگ میں ہے تو دوسری جانب میڈیا گروپ ۲۴گھنٹے سنگ زنی میں مشغول ہیں، دلیل اور دلیل سے عاری گوناگوں میزائلوں سے لیس ہیں۔ اس عالم میں بے چاری جمہوریت کی کمزور سی عمارت کہاں تک ان حملوں کا مقابلہ کرتی۔ پھر طویل عدالتی جنگ کے نتیجے میں عدل کے ایوانوں کی کسی حد تک جو آزادی بحال ہوئی تھی، اسے ریاست و حکومت کی جانب سے اعانت کی ضرورت تھی، لیکن شاہانہ اندازِ حکومت نے بھی گویا ایک ایک کرکے اختیار کے سارے پتے بکھیر دینے کی ٹھان رکھی تھی۔ اور دکھائی یہ دیتا ہے کہ ریاستی اختیار و اقتدار کے قلم دان عملاً دوسری جگہ منتقل ہوچکے ہیں۔ آج اخبارات اور ٹیلی ویژن پروگراموں میں کہیں دبے الفاظ میں اور کہیں کھلے الفاظ میں کہا جا رہا ہے کہ: ’’سیاست دان نااہل، کرپٹ اور نالائق ہیں، یہ ملک نہیںچلاسکتے‘‘۔
ان جملوں میں پیغام صاف ظاہر ہے۔ اس طرح نہ صرف معاملات کوخاص جانب دھکیلا جارہا ہے، بلکہ ایک ایک کرکے حد توڑی جارہی ہے، اور ہر کام خود سیاست دانوں سے کرایا جا رہا ہے۔ ماضی میں اسی قسم کے شوروغوغے پر مولانا مودودی نے سبھی کو متنبہ کیا اور ۲۹؍اگست ۱۹۶۲ء کو چوک یادگار پشاور میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا:
جب انتقام کے جذبے سے مغلوب قوم پرست بھگوڑے اور ان کے ہم نوا بھتّاخور ایک کمزور جمہوری حکومت کا مذاق اُڑاتے ہوئے کھلے عام فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دیتے ہیں تو انھیں مولانا مودودی کا یہ انتباہ یاد رکھنا چاہیے:
یہ کہنا کہ ملکی اقتدار کی آخری ذمہ داری فوج پر ہے، ایک غلط پالیسی ہے۔ فوج کی ذمے داری ملک کوبیرونی حملہ آوروں سے بچانے کی ہے، نہ کہ ملک چلانے کی۔ ملک فوج کا نہیں بلکہ اپنے باشندوں کا ہے۔ اور یہ باشندوں کا اپنا ہی کام ہے کہ وہ اپنے گھر کے معاملات کو چلائیں بھی اور بگڑ رہا ہو تو اسے درست بھی کریں۔ ملازمین خواہ فوج کے ہوں یا سول، ان کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ ملک کا نظامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیں۔(تحریکِ جمہوریت: اسباب اور مقاصد، ۱۹۶۷ئ،ص ۹)
یہ عاقبت نااندیش عناصر صرف دعوتِ اقتدار ہی نہیں دیتے بلکہ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ فوج کھلے عام فوجی آپریشن کرے۔ ظاہر ہے کہ کچھ آپریشن تو ہوچکے اور کچھ آپریشن ہو بھی رہے ہیں، مگر معاملات سلجھنے کے بجاے اُلجھ رہے ہیں۔ اسی قسم کے خطرات کو بھانپتے ہوئے مولانا مودودی نے فرمایا تھا:
اس سے زیادہ غلط کام کوئی نہ ہوگا، اور اس ملک کا کوئی بدخواہ ہی ایسا کام کرسکتا ہے کہ ملک کی فوج کو ملک کے عوام سے لڑا دے۔ اگر فوج سے ہم وطنوں پر گولیاں چلانے کا کام لیا گیا تو اس سے فوج اور قوم دونوں کو نقصان پہنچے گا۔ بڑا ظالم ہوگا وہ حاکم، جو ملک کی فوج کو اپنے عوام کے سامنے لاکھڑا کرے۔ (۵-اے، ذیلدار پارک، اوّل: مرتبہ: مظفر بیگ،ص ۲۴۳)
درحقیقت جو عناصر قومی افواج کو سول آبادی میں آپریشن اور اقتدار سنبھالنے پر اُبھارتے ہیں، و ہ بظاہر دوست بن کر، لیکن عملاً دشمن کا سا کردار ادا کرتے ہیں۔ ۳۵برس تک فوج ملک کے سیاہ و سفید کی مالک رہ چکی ہے، مگر اس دوران میں معاملات کی کوئی کل سیدھی نہ ہوسکی، بلکہ ایسے ایسے اُلجھائو پیدا ہوئے کہ عشرے گزر جانے کے باوجود تار سلجھائے نہیں جاسکے۔
پاکستان میں ۲۱ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں جو فوجی عدالتیں قائم ہوئی ہیں ، ان کے بارے میں روزنامہ The Newsنے اپنی رپورٹ ۴جنوری ۲۰۱۵ء میں لکھا ہے:
دہشت گردی کے ملزموں پر پاکستان آرمی ایکٹ (PAA) کے تحت مقدمے چلائے جائیں گے، جنھیں کسی بھی سول عدالت میں اپیل کا کوئی حق حاصل نہیں ہوگا۔ سینیروکیل کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحمن کے بقول دہشت گردوں کو فوج گرفتار کرے گی، تفتیش کرے گی اور بند کمرے میں مقدمے کی سماعت کرے گی۔ پاکستان آرمی ایکٹ کے مطابق کورٹ مارشل کے فیصلوں کے خلاف کوئی دادرسی نہ ہوسکے گی۔ تاہم دفعہ ۱۴۳ کے تحت چیف آف آرمی اسٹاف ہی سزامیں کمی یا معافی کا اختیار رکھتے ہیں۔
یقینا بہت سوچ بچار کے بعد یہ اصول وضع کیے گئے ہوںگے، مگر یوں انصاف اور صفائی کے اصولوں کی کس حد تک پاس داری ممکن ہوگی؟ ایک نازک سوال ہے۔ اور کیا اس کے نتیجے میں واقعی معاملات سلجھ جائیںگے یا پھر عجلت میں سخت فیصلے، کسی اور بڑے ردعمل کی فصل بوئیں گے؟
جن تشدد پسندوں اور دہشت گردوں نے ملک کے امن کو تباہ کیا ہے، ان کی سرکوبی پر قوم میں اتفاق پایا جاتا ہے۔ ان عناصر کی ہمدردی یا اعانت کے لیے کوئی قابلِ ذکر آواز پاکستانی معاشرے میں سنائی نہیں دیتی۔ لیکن کیا انصاف کے طے شدہ ضابطوں کے برعکس اس بیماری کا علاج صرف گولی ہے؟ اس ضمن میں مولانا مودودی بڑی وضاحت کے ساتھ اسلام کا اصول بیان کرتے ہیں:
شریعت ِ الٰہی کسی بُرائی کو محض حرام کردینے یا اسے جرم قرار دے کر اس کی سزا مقرر کردینے پراکتفا نہیں کرتی، بلکہ وہ ان اسباب کا بھی خاتمہ کردینے کی فکر کرتی ہے جو کسی شخص کو اس بُرائی میں مبتلا ہونے پر اُکساتے ہوں، یا اُس کے لیے مواقع بہم پہنچاتے ہوں یا اس پر مجبور کردیتے ہوں۔
نیز شریعت، جرم کے ساتھ اسبابِ جرم، محرکاتِ جرم اور رسائل و ذرائع جرم پر بھی پابندیاں لگاتی ہے، تاکہ آدمی کو اصل جرم کی عین سرحد پر پہنچنے سے پہلے کافی فاصلے ہی پر روک دیا جائے۔ وہ اسے پسند نہیں کرتی کہ لوگ ہر وقت جرم کی سرحدوں پر ٹہلتے رہیں اور روز پکڑے جائیں اور سزائیں پایا کریں۔
وہ [شریعت ِ الٰہی] صرف محتسب (prosecutor) ہی نہیں ہے، بلکہ ہمدرد، مصلح اور مددگار بھی ہے۔ اس لیے تمام تعلیمی، اخلاقی اورمعاشرتی تدابیر اس غرض کے لیے استعمال کرتی ہے کہ لوگوں کو بُرائیوں سے بچنے میں مدد دی جائے۔(تفہیم القرآن، سوم، سورۃ النور، حاشیہ ۲۳،ص ۳۷۲)
اندریں حالات معاشرے کی تمام مقتدر اور ذمہ دار قوتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ باہم تصادم کے بجاے اس خطرناک صورتِ حال سے نکلنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کریں، ٹھنڈے دل و دماغ سے کوششیں کریں، اور جو عناصر ان کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنے یا گہری دلدل میں دھکیلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، ان کی شرانگیزی سمجھنے کی بصیرت حاصل کریں۔
اس تمام صورتِ حال کو پیش نظر رکھیں تو پاکستان کی تاریخ کے تناظر میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ’شمشیر‘ اور ’قاضیِ شمشیر‘ کے ہاتھوں یہ مسائل حل ہونے مشکل ہیں، بلکہ اس مقصد کے لیے قانون کی عمل داری اور جمہوری راستے کے سوا ہرراستہ سواے خرابی کے کچھ بھی نتیجہ نہ دے سکے گا۔مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کے کارکنوں کے سامنے لائحہ عمل پیش کرتے ہوئے ۱۹۵۷ء میں واضح طور پر یہ فرمایا تھا:
تیسری یہ کہ ایک آئینی و جمہوری نظام میں رہتے ہوئے تبدیلیِ قیادت کے لیے کوئی غیرآئینی راستہ اختیار کرنا شرعاً آپ کے لیے جائز نہیں ہے اور اسی بناپر آپ کی جماعت کے دستور نے آپ کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ آپ اپنے پیش نظر اصلاح و انقلاب کے لیے آئین و جمہوری طریقوں ہی سے کام کریں۔(تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل، ۱۹۵۷ئ، ص ۱۳۸)
ہم بنگلہ دیش کی معاشی خوش حالی، قومی آزادی اور سیاسی خودمختاری کے حامی ہیں اور دعاگو ہیں۔ لیکن عوامی لیگ کی غیرقانونی اور غیرنمایندہ حکومت کے تحت بنگلہ دیش میں آج کل بخار کی سی جو کیفیت پائی جاتی ہے جس میں یہ آوازیں بلند ہورہی ہیں: ’’یہ پاکستان کا ایجنٹ ہے۔ اس کی کتاب جھوٹ کا پلندہ ہے۔ اس نے ایجنسیوں سے پیسے لے کر کتاب لکھی ہے۔ ملکی آزادی اور اقتدارِ اعلیٰ کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ تاریخ کی حفاظت کے لیے اس پر پابندی لگائی اور شائع شدہ کتاب کو ضبط کرلیا جائے۔ مصنف پر غداری کا مقدمہ چلایا اور سخت سزا دی جائے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ واویلا ہے بنگلہ دیش کے ایئروائس مارشل (سابق) عبدالکریم خوندکر کی کتاب بیٹوری بیرے: ۱۹۷۱ء [۱۹۷۱ء، اندر اور باہر کی کہانی] میں شائع ہونے والے ایک جملے کے خلاف۔
ذرا آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ اصولی طور پر چند پہلو سامنے رکھ لیے جائیں اور تاریخ کے دوچار ورق بھی پلٹ لیے جائیں۔ جھوٹ تو ویسے بھی ایک ایسی لعنت ہے کہ جسے شرک کا دستاویزی ثبوت سمجھنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو لسانی، علاقائی یانسلی قوم پرستی کا سب سے بڑا ہتھیار بھی یہی جھوٹ ہوتا ہے۔ نفرت کی آگ بھڑکانے کے لیے اعداد و شمار کا جھوٹ، معاملات فہمی کی جڑ کاٹنے کے لیے جھوٹ کی کاری ضرب اور پروپیگنڈا کا الائو بھڑکانے کے لیے جھوٹ کے پٹرول کا مسلسل چھڑکائو۔ گویا کہ اس طرح نفرت کے دیو کو بے قابو کرکے دین، اخلاق،کردار، انسانیت اور شائستگی کے قتلِ عام کا گھنائونا کھیل کھیلنا نسلی قوم پرستی کا وتیرا ہے۔ بنگلہ دیش کی تشکیل اور پاکستان کی تخریب کا یہ کھیل ہماری آنکھوں کے سامنے کھیلا گیا۔ اس پس منظر میں جزوی معاملات کو جھوٹ کے رنگ میں یوں رنگا گیا کہ ہنستی بستی زندگی خون آلود ہوگئی۔ معمولی درجے کی پھنسیاں جھوٹ کے بل بوتے پرسرطان کے رستے ناسور دکھائی دینے لگے۔ معاشی اعداد و شمار کو مبالغہ آرائی کے لباس میں یوں بناسنوار کر پیش کیا جاتا رہا کہ حقائق کے ٹیلے، ہمالہ کی چوٹیاں دکھائی دینے لگیں۔ بلاشبہہ جہاں انسان بستے ہیں، معاملات میںا فراط و تفریط ہوتی ہے، جنھیں احسن طریقے سے حل کیا جاتا ہے اور حل کیا جانا چاہیے۔ مگر ایسا شاید ہی ہوا ہو کہ اس بدمستی میں اپنوں کو دشمن اور دشمنوں کو اپنا سمجھ لیا گیا ہو۔ مگربنگلہ دیش کی تشکیل کے وقت ایسا ہی ہوا تھا۔ یوں جھوٹ کی بنیاد پر شروع کیا جانے والا سفر ۴۳برس گزرنے کے بعد بھی جھوٹ کا سہارا مانگتا ہے اور سچائی کو قتل کرنے کے لیے متحرک رہتا ہے۔
۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کو بنگلہ دیش بننے سے چار سال قبل کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جنوری ۱۹۶۸ء میں مشرقی بھارت کے صوبے ’تری پورہ‘ کے شہر ’اگرتلہ‘ میں، خفیہ طور پر عوامی لیگ کی قیادت اور بھارتی انٹیلی جنس بیورو نے مل کر ایک سازش تیار کی۔ عوامی لیگ کے نمایندے شیخ مجیب کے ایما پر یہاں پہنچے تھے۔ ان خفیہ اجلاسوں میں طے پایا کہ: ’’مشرقی پاکستان کو پاکستان سے کاٹ کر الگ کر لیا جائے گا اور اس ضمن میں بھارت، سازشیوں کی مدد کرے گا۔ حکومت پاکستان کو اس سازش کا علم ہوا تو اس نے عوامی لیگ کے ۳۵ افراد کو گرفتار کرکے سازش کی تفصیلات قوم کے سامنے پیش کردیں۔ مگر اگلے ہی لمحے بنگالی قوم پرست، نام نہاد ترقی پسند اور آزاد خیال اخبارات نے پاکستان بھر میں شور مچا دیا کہ: ’’ایسی کوئی سازش تیار نہیں کی گئی، یہ مغربی پاکستانی حکمرانوں کا جھوٹا الزام ہے اور انسانی بنیادی حقوق کا قتلِ عام ہے‘‘۔
تاہم، صدر ایوب خاں حکومت کو اپنے موقف کی سچائی پر یقین تھا، جنھوں نے پاکستان کے نیک نام سابق چیف جسٹس ایس اے رحمن (۱۹۰۳ء-۱۹۹۰ء) کی سربراہی میں خصوصی تحقیقاتی ٹربیونل قائم کردیا۔ لیکن ڈھاکہ میں جوں ہی اس خصوصی عدالت نے کارروائی شروع کی تو قوم پرستانہ فاشزم حرکت میں آیا، تاکہ سچائی کا گلا گھونٹا جاسکے، اور عوامی لیگی مسلح غنڈوں نے حملہ کرکے نہ صرف ریکارڈ کو نقصان پہنچایا، بلکہ جسٹس ایس اے رحمن کو مشکل سے جان بچانا پڑی۔ پھر پاکستان مسلم لیگ کے صدر ممتاز محمد خاں دولتانہ کے بے پناہ اصرار پر فروری ۱۹۶۹ء میں ان مقدمات پر کارروائی معطل کرکے مجیب کو رہا کرنا پڑا۔ یاد رہے کہ اس پورے عرصے کے دوران ’روشن خیال‘ صحافی، مجیب کی ’بے گناہی‘ کا ماتم کرتے رہے۔ لیکن جوں ہی بھارتی فوج کی مدد سے مشرقی پاکستان کو کاٹ کر بنگلہ دیش بنادیا گیاتھا تو مجیب الرحمن نے اعتراف کیا: ’’ہم اس علیحدگی کے لیے برسوں سے بھارت کے ساتھ رابطے میں تھے‘‘۔ اسی بات کا چند برس پہلے حسینہ واجد نے بھی اعتراف کیا اور پھر ۲۲فروری ۲۰۱۱ء کو عوامی لیگی ڈپٹی اسپیکر پارلیمنٹ شوکت علی (جو اگر تلہ سازش کے ملزموں میں شامل تھا) نے اعترافِ عام کیا کہ: ’’ہمارے خلاف اگر تلہ سازش کے حوالے سے حکومت نے درست مقدمہ بنایا تھا، ہم نے شیخ مجیب کی قیادت و رہنمائی میں ’سنگرام پریشد‘ بناکر علیحدگی کے لیے عملی پروگرام بنایا تھا‘‘۔
۱۹۷۰ء کے پورے سال انتخابی مہم میں ایک جانب تو عوامی لیگ نے اپنے مدمقابل جماعتوں: جماعت اسلامی، پاکستان جمہوری پارٹی اور مسلم لیگ کو جلسے تک نہ کرنے دیے، اور دوسری جانب اپنے منشور میں اور جلسوں کی تقاریر میں باربار یہ کہا کہ ہمارا پروگرام ’پاکستان کو مضبوط بنائے گا، ہم وحدت پاکستان پر یقین رکھتے ہیں‘‘۔ لیکن جوں ہی انتخابی نتائج سامنے آئے جو یک طرفہ تھے، کیونکہ انتخابات کے روز، پولنگ اسٹیشنوں پر عوامی لیگ کے مسلح لوگوں کا قبضہ تھا اور انتظامیہ بے بس تماشائی تھی۔ نتیجہ یہ کہ جن دو تین حلقوں پر وہ یوں ظالمانہ قبضہ نہ کرسکے، وہاں سے راجہ تری دیوراے اور نورالامین قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ یہاں ایک اور قابلِ غور بات دیکھیے کہ ویسے تو صدر جنرل یحییٰ خاں کو ساری قوم کے ساتھ یہ بقلم خود ’روشن خیال طبقے‘ بھی بُرا کہتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ برملا یہ فتویٰ بھی دیتے ہیں: ’’پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ شفاف اور غیرجانب دارانہ انتخابات ۱۹۷۰ء میں جنرل یحییٰ خاں کے زیرقیادت ہی میں منعقد ہوئے تھے‘‘۔کیا وہ شفاف انتخابات تھے یا روشن دن میں کھلے عام ڈاکازنی تھی؟
یکم مارچ ۱۹۷۱ء کو جب صدر جنرل یحییٰ خاں نے دستور ساز اسمبلی کا اجلاس، ذوالفقار علی بھٹو کے دبائو میں چند روز کے لیے ملتوی کیا تو شیخ مجیب نے چشم زدن میں مشرقی پاکستان میں ’سول نافرمانی‘ کی تحریک شروع کرکے ایسا غنڈا راج قائم کردیا جس میں ہم وطن غیربنگالی پاکستانیوں (اُردو بولنے والوں، پنجابیوں، پٹھانوں) کی خواتین، اجتماعی عصمت دری اور قتل و غارت گری کی خاطر بنگالی قوم پرست مسلح جتھوں کے لیے ’حلال‘ قرار پائیں۔ مردوں اور بچوں کا قتلِ عام شروع ہوا۔ لُوٹ مار سکہ رائج الوقت ہوگیا۔اسی فضا میں ۷مارچ ۱۹۷۱ء کو ریس کورس گرائونڈ ڈھاکہ میں ایک بڑے جلسے سے فسطائی سیاست کے دیوتا مجیب الرحمن نے خطاب کیا۔ اس مضمون کے شروع میں جس الزامی بارش کا تذکرہ کیا گیا ہے اس کا نشانہ عبدالکریم خوندکر ہیں، اور ان کا جرم یہی جلسہ عام ہے۔
ایئروائس مارشل (سابق) اے کے [عبدالکریم] خوندکر، جو ۱۹۷۲ء سے ۱۹۷۵ء تک بنگلہ دیش فضائیہ کے چیف آف ایئرسٹاف رہے، یہ صاحب ۱۹۷۱ء کے دوران علیحدگی کی تحریک میں ڈپٹی چیف آف اسٹاف تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ۱۹۷۶ء سے ۱۹۸۲ء تک آسٹریلیا میں اور ۱۹۸۲ء سے ۱۹۸۶ء تک ہندستان میں بنگلہ دیش کے سفیر رہے۔ ۱۹۸۶ء میں پارلیمنٹ کا الیکشن جیتا اور عوامی لیگ حکومت میں قومی منصوبہ سازی کے دو مرتبہ وزیر رہے۔ موجودہ ستمبر میں انھوں نے اپنی کتاب’ بیٹوری بیرے ۱۹۷۱ء‘ میں لکھا ہے کہ: ’’۷مارچ ۱۹۷۱ء کو ڈھاکہ میں بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے شیخ مجیب الرحمن نے آزادی کا اعلان نہیں کیا تھا بلکہ تقریر کے اختتام پر ’جئے پاکستان‘ (پاکستان زندہ باد) کا نعرہ بلند کیا تھا‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس واقعے کے لاکھوں گواہ موجود ہیں، مگر بُرا ہو قوم پرستانہ دروغ گوئی کا، کہ وہ سچائی کی روشنی میں آنا نہیں چاہتی۔ اسی لیے ستمبر کی دوتاریخ کو مذکورہ کتاب کے شائع ہوتے ہی بنگلہ دیش میں عوامی لیگ اور ہندو اسٹیبلشمنٹ نے خوف ناک طوفان برپا کردیا۔ یہاں اُس کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں:
مسئلہ دراصل یہ ہے کہ بھارتی پشت پناہی سے تقویت حاصل کرنے کی رسیا عوامی لیگ کے کارندے اپنے لیڈر مجیب کو شیر کی کھال پہنانا چاہتے ہیں، مگر بدقسمتی سے وہ مجیب کے وجود پر پوری نہیں آتی۔ اس لیے وہ ہر اُس فرد پر چڑھ دوڑتے ہیں جو کہتا ہے کہ: ’’یہ شیر نہیں ، شیر کی کھال ہے‘‘۔ آج عوامی لیگی تڑپ رہے ہیں کہ ۷مارچ ۱۹۷۱ء کی تقریر کے آخر سے، مجیب کے کہے جانے والے الفاظ ’پاکستان زندہ باد‘ کو اگر درست تسلیم کرلیا جائے تو اُن کے لیے اس تقریر کی بطور ’اعلانِ آزادی‘ حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ حالانکہ مجیب نے ’پاکستان زندہ باد‘ ہی پر تقریر کا اختتام کیا تھا اور اُس کا یہ کہنا ایک درجے میں بزدلی یا منافقت کا شاہکار تھا۔
وجہ صاف ظاہر ہے کہ مجیب نے ۱۹۷۲ء کے بعد یہ بات بار بار ریکارڈ پر لانے کی کوشش کی ہے کہ: ’’میں بہت مدت سے علیحدگی کے لیے کام کر رہا تھا‘‘۔ مگر ۷مارچ ۱۹۷۱ء کو یہی شیربنگال، بھیگی بلی بن کر، ان الفاظ کو منہ سے نکالنے کی ہمت نہ کرسکا۔صرف یہ نہیں بلکہ جب اگست ۱۹۷۱ء میں، یعنی مارچ ۱۹۷۱ء کے چھے ماہ بعد مجیب کو خصوصی عدالت میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تو ان کے وکیل اے کے بروہی مرحوم کے بقول: ’’مجیب نے جو حلفیہ بیان عدالت میں جمع کرایا، اس کے مطابق مجیب نے ثبوتوں، گواہوں اور اپنے دستخطوں کے ساتھ یہ تسلیم کیا کہ مَیں مشرقی پاکستان کو علیحدہ نہیں کرنا چاہتا، پاکستان کے وفاق کو مضبوط کرنے اور صوبائی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد کر رہا ہوں، اور ایک پاکستان کا حلفیہ لیڈر اور شہری ہوں‘‘۔ یہ دستاویز آج تک ہمارے حقیقی حکمران طبقے کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ گویا کہ عوامی لیگ کی طرف سے دعویٰ کردہ نام نہاد اعلانِ آزادی کے چھے ماہ بعد اور بھارتی حملے کے بل پر علیحدگی حاصل کرنے سے چار ماہ پہلے تک’عظیم بنگالی لیڈر‘ مجیب الرحمن نے باربار جھوٹ کہا تھا کہ میں پاکستان قائم رکھنا چاہتا تھا۔ مراد یہ ہے کہ یہ کیسا لیڈر ہے جو موت کو سامنے دیکھ کر سراسر جھوٹ بولنے لگتا ہے اور وہ بھی بار بار۔ یہی پے درپے غلط بیانی عوامی لیگ کی علیحدگی کی تاریخ کی بنیاد تھا۔ اسی افسانہ طرازی کی بنیاد پر عوامی لیگ، بنگلہ دیش کی نئی نسل کو گمراہ کر کے پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے کی آج تک کوشش کررہی ہے۔ اسی بے جا اور بے بنیاد اساس پر مجیب کو ’عظیم لیڈر‘ قرار دلوانے کے لیے تاریخ کا قتل کرنے پر تلی ہوئی ہے،اور ہر اس شخص کی زبان گدی سے کھینچ دینے کے لیے آمادہ جنگ رہتی ہے، جو سچائی کی ذرا سی خوشبو بھی پھیلانے کی کوشش کرے، اور عوامی لیگی جھوٹ کی نشان دہی کرے۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے چند ہفتوں بعد مجیب الرحمن نے بے سوچے سمجھے ۳۰لاکھ بنگالیوں کے قتل کا الزام پاکستانی افواج پر تھوپ دیا،اور جب خود مجیب کی مقرر کردہ تحقیقاتی ٹیم نے کہا کہ:’’ تمام مقتولین کی تعداد اس پورے عرصے میں ۵۰ ہزار کے لگ بھگ تھی (جن میں خود عوامی لیگی مکتی باہنی کے ہاتھوں غیربنگالی مقتولین بھی شامل تھے)‘‘، تو اُس رپورٹ کو مجیب نے فرش پر دے مارتے ہوئے کہا: ’’میں نے ۳۰ لاکھ کہا ہے، اس لیے ۳۰ لاکھ ہی لکھو اور کہو‘‘۔ اسی طرح ۳لاکھ بنگالی خواتین کی بے حُرمتی کا افسانہ۔ لیکن جب ڈاکٹر شرمیلابوس نے طویل تحقیقی جدوجہد کے بعد اپنی کتاب Dead Reckoning میں دلائل و شواہد کے ساتھ ثابت کیا کہ: ’’یہ ۳۰ لاکھ اور ۳لاکھ کے اعداد و شمار بے ہودہ پروپیگنڈے سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتے‘‘، تو اُس ہندو اور بھارتی خاتون کو پاکستانی ایجنٹ قرار دیا اور اس کی کتاب پر بنگلہ دیش میں پابندی لگادی۔ حیرت کی بات ہے کہ آزادی راے اور مجیب کا دم بھرنے والے ’روشن خیال‘ صحافی اور دانش ور اس ظلم پر بالکل چپ سادھے بیٹھے ہیں۔
یہاں پر اس کو بھی ریکارڈ پر لاناضروری ہے کہ وہی شیخ مجیب جو متحدہ پاکستان میں کالے قوانین کی منسوخی، انسانی بنیادی حقوق کے تحفظ اور جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کا سب سے بڑا لیڈر تصور کیا جاتا تھا، وہی صاحب جب خوابوں کی جنت بنگلہ دیش کا کرتا دھرتا بنا تو اسے حکمرانی کا کچھ مزا نہ آیا۔ اسی لیے شیخ مجیب نے چوتھی ترمیم کے ذریعے ۲۵ جنوری ۱۹۷۵ء کو تمام سیاسی پارٹیوں کو قانونی طور پر ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اسی دستوری ترمیم کے ذریعے ملک میں پارلیمانی کے بجاے صدارتی نظام رائج کیا۔ اعلیٰ عدلیہ کی آزادی سلب کی اور بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دائرہ سماعت و اختیار کو محدود تر کرایا۔ یہی نہیں بلکہ خود پارلیمنٹ کے اختیارات میں بھی کمی کردی۔ ۲جون ۱۹۷۵ء کو اپنی عوامی لیگ کے نام میں دو لفظوں کا اضافہ کر کے واحد حکمران پارٹی قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اس پارٹی کا نام تھا: ’بنگلہ دیش مزدور کسان عوامی لیگ‘ (BKSAL: بنگلہ دیش کرشک سرامک عوامی لیگ)۔ جمہوریت کے اس قتل عام اور فسطائیت کے تحفظ کے لیے چوتھی ترمیم کو مجیب نے ’دوسراانقلاب‘ بھی قرار دیا۔ پھر اپنی اس سیاسی پارٹی کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی میں حاضر ملازمت فوجی جرنیلوں کو رکن مقرر کیا، جن میں ایک ایئروائس مارشل عبدالکریم خوندکر بھی تھے۔ بہرحال اس انتہا کا انجام صرف ڈھائی ماہ بعد اس وقت ہوا، جب ۱۵؍اگست ۱۹۷۵ء کو فوجی انقلاب نے مجیب کے پورے خاندان کو گولیوں سے بھون ڈالا، اور حسینہ واجد اس لیے بچ رہی کہ ملک سے باہر تھی۔ہمارے ’انقلابی‘ اور ’ترقی پسند‘ اپنے محبوب مجیب کی اس بدترین عہدشکنی اور آمریت کے تذکرے کو بھی گول کرجاتے ہیں۔
۲۰۰۹ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد عوامی لیگی حکومت نے نام نہاد جنگی جرائم کی خصوصی عدالتیں (ICT) قائم کیں، جہاں جماعت اسلامی کے بزرگ رہنمائوں اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے لیڈروں کو سزاے موت دلوانے کے لیے جعلی مقدمے شروع کیے گئے اور یہ عمل آج تک جاری ہے۔ اپنے وطن پاکستان کے دفاع کرنے کے جرمِ بے گناہی میں ملوث کیے جانے والے ان ملزموں کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے نہ متعلقہ ریکارڈ تک رسائی دی گئی ہے، نہ گواہوں کو پیش کرنے دیا گیا ہے اور نہ وکلا کی پوری طرح مددلینے دی گئی ہے۔ پھر ان نام نہاد عدالتوں میں بیٹھے قصابوں کے ہاتھوں دھڑادھڑ موت کی سزائیں سنانے کا عمل شروع کرایا گیا۔ سچائی کی قاتل عوامی لیگ نے اپنے مسلح غنڈوں کو ریاستی پشت پناہی کے ساتھ ’شاہ باغ مورچہ‘ لگانے کے لیے ڈھاکہ میں موقع فراہم کیا، تاکہ کنگرو عدالت اگر غلطی سے بھی صفائی کی کسی دلیل کو سن کر متاثر ہونے لگے تواُسے بیرونی دبائو میں لایا جائے۔ اس فسطائی غنڈا گردی کی بدترین مثال شہید عبدالقادر مُلا کی سزا ہے، جنھیں خصوصی عدالت نے عمرقیدسنائی، مگر اس غنڈا مورچے کے دبائو کے تحت پہلے تو حسینہ واجد نے مؤثر بہ ماضی آرڈی ننس جاری کر کے بدترین دھاندلی کی ، اور پھر سپریم کورٹ نے سزاے موت سنادی اور چند گھنٹوں بعد اُس سزا پر عمل کرکے عبدالقادر کو پھانسی دے دی گئی۔
اسی طرح خود بنگلہ دیش میں عوامی لیگی حکومت نے گذشتہ چار برسوں میں دو مرتبہ مولانا مودودی کی کتابوں مع تفہیم القرآن، سرکاری تعلیمی اداروں اور مسجدوں کی لائبریریوں میں ترسیل و مطالعے پر پابندی عائد کی ہے۔ ہندو آقائوں کو خوش کرنے اور بے دینی کو فروغ دینے کی علَم بردار عوامی لیگ سے اس کے سوا کیا اُمید کی جاسکتی ہے۔ مگر ہمارا سوال خود پاکستان کی اس ’روشن خیال‘ ، ’انسانی حقوق کی علَم بردار‘ اور ’کشادہ دل‘ اشرافیہ سے ہے، جو اسلامیانِ پاکستان کی زبان کاٹنے اور یادداشت سے ہر مثبت چیز کھرچنے کے لیے ہر آن متحرک رہتی ہے۔ جس کے نزدیک عوامی لیگ، روشن خیالی، حقوق کی ’کامیاب‘ جنگ جیتنے کی علامت ہے، لیکن یہ کیا ماجرا ہے کہ وہ اپنی محبوب حکومت کی جانب سے کتابوں پر پابندیوں، تحقیق کاروں پر دائرۂ حیات تنگ کرنے اور ہاتھ پائوں باندھ کر مقدمے چلاچلا کر ذبح کرنے جیسے گھنائونے افعال پر خاموش ہیں؟ کیا ان کے بارے میں یہ تصور کرنا درست نہیں کہ، یہ ہیں پورس کے ہاتھی اور تاریخ کے قاتل! مہذب اصطلاحوں کے پردے میں دشمن کی ہاں میں ہاں ملانا ان کا مذہب ِ عشق ہے اور اپنوں کے خون اور جذبات کی ہولی کھیلنا ان کا من بھاتا کھاجا ہے۔ یہ ہے ہماری ’روشن خیال تعلیم یافتہ‘ اشرافیہ، جس کی موجودگی میں بیرونی دشمنوں کو کچھ زیادہ تگ ودو کی ضرورت نہیں۔
مسلم دنیا یوں توبہت سے داخلی اور خارجی مسائل اور بحرانوں سے دوچارہے، لیکن ان میں سب سے زیادہ تکلیف دہ صورتِ حال وہ ہے، جس میں خود ہم وطن اور ہم نسل مسلمان ، اپنے ہی ہم وطنوں سے ظلم وتشددکارویہ اختیارکرتے ہیں، اور پھراس بہتے ہوئے خون اور تباہ کی جانے والی زندگیوں کواپنی قومی ترقی کا وسیلہ بتاتے ہیں۔ اس سفاکی اور شرمناکی کے لیے بے غیرتی اور غداری سے کم لفظ استعمال کرنا ممکن نہیں۔
عالم اسلام اور خصوصاً عالم عرب میں اسرائیل کے نام سے ایک ناجائز حکومت کے ہاتھوں امریکا ویورپ جو حیوانی کھیل کھیل رہے ہیں، اسی سے ملتاجلتاحیوانی اور غیرانسانی رویہ، ہندوقوم پرست ریاست ہندستان اپنائے ہوئے ہے۔ اس نے ایک جانب ۶۸برس سے کشمیرکے مسلمانوں کو محکوم بناکرظلم کے پہاڑتوڑے ہیں تودوسری جانب بنگلہ دیش کی مسلم ریاست کواپنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کی ہے۔ اس سیاہ رات کے اندھیرے گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے محبِ وطن، اسلام دوست اور مسلم قوم پرست بنگلہ دیشی اپنے ملک میں ایک عذاب سے گزررہے ہیں، جس کا ماسٹرمائنڈ بھارت ہے اور اس کے ایجنڈے کو بنگلہ دیش میں نافذ کرنے کا ذریعہ عوامی لیگ اور اس کی مددگارتنظیمیں ہیں۔
عوامی لیگ نے دسمبر۲۰۰۸ء میں اقتدارحاصل کرنے کے بعد سے بنگلہ دیش کی قومی سلامتی کو بھارتی مفادات کے سامنے سرنڈرکرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں، جن کی بنگلہ دیش کے دُوراندیش اور اپنی قومی آزادی واسلامی تہذیبی تشخص کو تحفظ دینے والے افراد اور تنظیموں نے کھل کر مخالفت کی۔ جواب میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے زیر اثربنگلہ دیش کی متعدداین جی اوزاور عوامی لیگی حکومت نے بڑے پیمانے پر ریاستی مشینری کو استعمال کرکے ان آوازوں کو کچلنے کا راستہ اختیار کیاہے۔
حکومت نے سب سے پہلے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے خلاف عدالتی ڈرامے کا آغازکیا۔ اُس کے بزرگ رہنماؤں اور فعال کارکنوں کو گرفتارکرکے نام نہاد ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ (ICT) قائم کرکے مقدمات چلانے شروع کیے۔ اس خصوصی عدالت پر بنگلہ دیش کے قانونی حلقوں، راست فکر دانش وروں اور صحافتی تنظیموں نے زبردست احتجاج کیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ (HRW) اور دیگربین الاقوامی تنظیموں نے اس انتقامی ڈرامے کو مستردکردیا۔ مگر عوامی لیگی حکومت نے پوری ڈھٹائی سے ، سزاے موت سنائے جانے والے فیصلوں کا نہ صرف اعلان کیا، بلکہ ۱۲دسمبر۲۰۱۳ء کو عبدالقادرمُلّا کو پھانسی دے بھی دی۔ اس عدالتی قتل عام پر دنیابھر نے برملا احتجاج کیا، لیکن یہ انتقامی عدالتی عمل رک نہیںسکا۔اس وقت بھی جماعت اسلامی اور بنگلہ دیشن نیشنلسٹ پارٹی (BNP)کے قائدین کو سزائیں سنائی جارہی ہیں، اور انھیں اپنے دفاع کے لیے آزادانہ طور پر بنیادی عدالتی سہولیات تک بھی میسر نہیں ہیں۔
یادرہے کہ اس نام نہاد عدالت (ICT) کے چیف جج مسٹرنظام کی شرمناک گفتگوکو ۲۰۱۲ء میں سکائپ سے ریکارڈکر کے اکانومسٹ لندن اوربنگلہ دیش کے اخبارات نے شائع کرکے بتایاکہ یہ عدالت حکومت کی ہدایات پر فیصلے کررہی ہے نہ کہ قانون اور عدل کے مسلّمہ اصولوں کے مطابق۔
اسی طرح بنگلہ دیش میں اظہارراے کے ذرائع پر بری طرح پابندیاں عائد ہیں، جس کی چندمثالیںدیکھ کراندازہ ہوسکتا ہے کہ وہاں جبروظلم کاراج کس طرح اپنے شہریوں کی زندگی کو عذاب بنارہاہے۔ ۲۷؍اپریل ۲۰۱۰ء کو نجی شعبے میں سب سے بڑے ٹی وی نیٹ ورک ’چینل ون‘ کو اس لیے بندکردیاگیاکہ وہ حزب اختلاف کی خبریں نشرکرتا ہے۔ ۲۲؍اگست ۲۰۱۱ء کواطلاعاتی ترسیل کے سب سے مؤثرنجی ادارے ’شیرشا نیوز‘(Sheersha News) کوکام کرنے سے روک دیا، اور اس کا سبب بھی حزبِ اختلاف کی خبریں نشرکرنا تھا۔ ۱۶ فروری کوحکومت کی بھارت نواز پالیسیوں پرتنقیدکرنے والے’سوناربلاگ‘ کو بندکردیاگیا۔ ۱۱؍اپریل ۲۰۱۳ء کو بنگلہ دیش میں حزبِ اختلاف کے سب سے بڑے حامی اخبار اماردیش (Amar Desh) کے مدیرکواس بنا پر گرفتارکرکے تشددکانشانہ بنایاگیاکہ انھوں نے نام نہادعدالتی جج مسٹرنظام کی غیرقانونی اور غیراخلاقی گفتگوکو شائع کیا تھا، حالانکہ یہ گفتگو اکانومسٹ لندن بھی شائع کرچکاتھا۔ ۱۴؍اپریل۲۰۱۳ء کو حکومتی مسلح ایجنسیوںنے اسلامی قوتوں کے سب سے بڑے اور قدیم اخبار سنگرام کے دفاترپرحملہ کردیا۔
۵مئی ۲۰۱۳ء کو ’ڈی گنتا ٹیلی وژن‘ (Diganta TV) اور ’اسلامک ٹیلی ویژن‘ پر اس لیے پابندی عائد کردی کہ انھوں نے ’حفاظتِ اسلام‘ تنظیم کے پُرامن احتجاجی دھرنے کو کچلنے کے حکومتی قتلِ عام کی تصاویر دکھائی تھیں۔حفاظت اسلام نامی تنظیم‘ جو علما اور دینیطالب علموں پرمشتمل ہے، کے پُر امن احتجاج ۵مئی ۲۰۱۳ء کو ۱۰ہزار مسلح اہل کاروں کے ذریعے کچل دیاگیا۔ بیسیوں طالب علموں کی لاشوں کا آج تک نشان نہیں ملا۔صحافیوں کو ڈرانے، اخبارات کی اشاعت کو معطل کرنے اور میڈیا کی نشریات کوخراب کرنے کا کھیل پوری قوت سے جاری ہے۔ اس جارحیت پر۱۶قومی اخبارات کے ایڈیٹروں نے ایک مشترکہ بیان میں حکومتی کارروائیوں کی مذمت کی اور مطالبات پیش کیے، جنھیں بھارتی کٹھ پتلی حکومت نے مستردکردیا۔درحقیقت عوامی لیگ حکومت کی جڑ ڈھاکہ میں نہیں، نئی دہلی سے خوراک حاصل کرتی ہے۔
ایک غیرآئینی اور غیر اخلاقی حکومت کی سربراہ حسینہ واجد درحقیقت اپنے والد شیخ مجیب کی جابرانہ انتقامی پالیسیوں کاتسلسل ہے، جس نے فروری۱۹۷۵ء میںپورے بنگلہ دیش میں سیاسی پارٹیوںکوختم کرکے ایک پارٹی کی حکومت قائم کی تھی اور پھر۷جون ۱۹۷۵ء کودستورمیں چوتھی ترمیم کرکے ایک پارٹی اورایک اخبارکا کالاقانون نافذ کیا گیاتھا۔ ان اقدامات کے لیے اسے دہلی سرکارکی سرپرستی حاصل تھی۔ اسی طرح جولائی ۲۰۱۴ء میں مولانا مودودی کی کتب کو مساجد اور تعلیمی اداروں کی ۲۴ہزار لائبریریوں میں رکھنے پر پابندی لگا دی گئی۔پھر حسینہ واجد نے ۱۷؍اگست ۲۰۱۴ء کو دستور میں ۱۶ویں ترمیم کا مسودہ کابینہ سے منظور کرایاہے، جس کے نتیجے میں اعلیٰ عدلیہ ، عملاً اس طرح حکومت کے رحم و کرم پر ہوگی کہ ججوں کا مواخذہ عدالتی کمیشن نہیں کرے گا بلکہ براہِ راست پارلیمنٹ ہی ججوں کی قسمت کا فیصلہ کیا کرے گی۔
بنگلہ دیش کوایک بڑے جیل کی شکل دے کرہزاروں سیاسی بلکہ سماجی کارکنوں تک کو جیلوں میں ٹھونسا جا چکاہے۔ بنگلہ دیش میں اس وقت ۶۲۹پولیس اسٹیشن ہیں جہاں پر صرف ۲۰۱۲ء میں ۲لاکھ ۲۹ہزار ۵سو ۸۵ افراد کو گرفتارکرکے مختلف اوقات میں تشددکانشانہ بنایاگیا۔ ۲۰۱۳ء میں یہ تعداد دگنا ہوگئی۔ جیلوں میںقیدبزرگوں ، لیڈروں اور کارکنوں کوقانونی ، طبی اور بنیادی سہولتیں تک میسرنہیں۔
جماعت اسلامی اور طالب علموں کی تنظیم اسلامی چھاتروشبر (اسلامی جمعیت طلبہ) کے ہزاروں کارکنوں کو جیلوں میں بند‘ سیکڑوں کارکنوں کو زخمی اور درجنوں کارکنوں کو گولی مار کر قتل کیاجاچکاہے، جب کہ سیکڑوں کارکن طالب علموں کو تعلیمی اداروں سے بے دخل کیاجاچکاہے۔
اسلامی چھاتروشبرکے کارکنوں پر تشددکے لیے RAB (ریپڈایکشن بٹالین)، بارڈرگارڈز بنگلہ دیش(BGB)، پولیس اورعوامی لیگ کے غنڈاعناصراورچھاترولیگ کے دہشت گردوںکی مشترکہ ٹیم متحرک ہے۔ شبر کے جن سیکڑوں کارکنوںکوزخمی کیاگیاہے ان میں سے بہت سوں کو زندگی بھرمعذوربنانے کے لیے ‘ ان کی دونوں ٹانگوں پر قریب سے گولیاں مار کر اپاہج کردیاگیاہے، یاپھرکہنیوںمیں گولیاں مارکرہاتھوں سے معذورکردیاگیاہے۔ اس نوعیت کے خوف ناک تشدداورباقاعدہ اندازسے ظلم کی مثالیں عصرِ حاضر میں کہیں نہیں دیکھی گئیں۔ مگرافسوس ہے کہ دنیا میں اس کے خلاف آوازبلندنہیں ہورہی۔
گذشتہ برس ایک طالب علم دلاورحسین کو، جو اسلامی چھاتروشبرسے تعلق رکھتے ہیں، ڈھاکا سے گرفتار کرکے ۳۵۲ مقدمات میں ملوث کیا۔ ۴۵روز تک تشددکے دوران ان کے ہاتھ اور پاؤںکے ناخن جڑسے اکھاڑ لیے گئے اور اتنا تشددکیاکہ دلاور کے جسم کا آدھاحصہ مفلوج ہوگیاہے۔ یہ ایک مثال نہیں بلکہ ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ جنھیں بیان کرتے ہوئے روح کانپ اُٹھتی ہے۔
۲۰۱۴ء کے جون میں اسلامی چھاتری شنگھستا (اسلامی جمعیت طالبات) کی۳۲کارکنان کو بھی توہین آمیزطریقے سے گرفتارکرکے جیلوںمیں بندکردیاگیا۔
معلومات کے اس برق رفتارزمانے میں یہ سب کچھ ہورہاہے اور کوئی اس ظلم کا ہاتھ روکنے والانہیں۔ یہ سب کچھ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اور بے حرمتی ہے اور انسانی حقوق کا تعلق سرحدوں کی قید سے مشروط نہیں۔ اس لیے دنیا کے کونے کونے سے عوامی لیگی کٹھ پتلی حکومت کے اس ظلم کے خلاف آواز بلندہونی چاہیے۔ نام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کو توڑاجائے۔ گرفتارشدگان کو رہاکیاجائے۔ جعلی انتخاب کی پیداوارحکومت کو برطرف کرکے نئے انتخابات کرائے جائیں اور بھارتی تسلط سے بنگلہ دیش کے عوام کو آزادی دلائی جائے۔