سلیم منصور خالد


’سیّد قطب کو پھانسی دے دی گئی‘۔

’سیّد قطب کو شہید کر دیا گیا۔‘

اخبارات کی شہ سرخیوں اور ریڈیو سے نشر ہونے والی خبروں میں اطلاع اورتاثر سے لبریز الفاظ شائع ہوئے اور آوازیں ابھریں۔

جنھوں نے سمجھا تھا: ’آواز کو دبا اور قلم کو توڑ دیا ہے، اب ہمارا اقتدار محفوظ ہے‘، وہ نہ آواز کو دبا سکے، نہ قلم کی قوت سلب کر سکے اور نہ اپنے اقتدار کو بچا سکے۔

آج وہ آواز زندہ ہی نہیں، بہت توانا بھی ہے۔ اس قلم سے نکلی تحریریں آج بھی روشنی اور نور بکھیر رہی ہیں۔ ان الفاظ کی خوشبو سے فضائوں کو معطر کرنے والے، دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں۔ اس فرد کا استدلال، اسلام کے پروانوں کا دماغ ہے۔ وہ جو قیدوبند اور بیماری و نقاہت کے باعث ہمدردی کا مستحق قرار دیا جا رہا تھا، آج وہی ہے جو برہانِ ربّانی بنا جاہلیت اور طاغوت کی رگِ جاں کے لیے چیلنج سمجھا جا رہا ہے۔ یہ نام ہے سیّد قطب شہید۔

o

سیّد قطب شہید کے والد ابراہیم قطب، مصر کے ضلع اسیوط کے موشا، نامی گائوں میں رہتے تھے۔ وہیں ۶؍اکتوبر۱۹۰۶ء کوسیّد قطب کی ولادت ہوئی۔ ان کا نام سیّد رکھا گیا اور قطب ان کا خاندانی نام تھا(یہاں لفظ ’سید‘ بطور نام ہے، سیّد زادہ‘ نہیں)۔ آپ کی والدہ کا نام فاطمہ حسین عثمان تھا۔ مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی کے بقول انھیں سیّد قطب نے بتایا تھا کہ پانچ نسلیں پیش تر ہمارے آباواجداد ہندستان کے کسی علاقے سے ہجرت کرکے عرب میں آبسے تھے۔ سید قطب کے والد ابراہیم قطب، مصر کے مشہور رہنما مصطفیٰ کامل پاشا [۱۴؍اگست۱۸۷۴ئ-۱۰؍فروری۱۹۰۸ئ] کی تحریک ’حزب الوطنی‘ سے متاثر تھے، جو مصر کی آزادی اور مغربی سامراج کی غلامی سے نجات کے لیے متحرک تھی۔ چند برسوں بعد یہ خاندان گائوں چھوڑ کر قاہرہ کی ایک نواحی بستی حلوان میں آباد ہو گیا۔

۱۰برس کی عمر میں سید قطب، قرآن کریم حفظ کرکے قاہرہ کے ثانوی مدرسے میں داخل ہوگئے۔ اسکول کے زمانے ہی میں وہ سامراجی قوتوں کے خلاف تقریریں کرنے میں پیش پیش تھے۔ کالج میں داخل ہوئے تو ماموں کے ہاں رہنے لگے۔ ۱۹۲۹ء میں ایجوکیشن میں آنرز کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا، اور لیکچرر مقرر ہوئے۔ ۱۹۳۸ء میں والد کا انتقال ہو گیا، تو ان کی والدہ اپنے بچوں سمیت، اپنے بھائی احمد حسین الموشی کے ہاں قاہرہ آگئیں۔ اعلیٰ صلاحیت اور محنت کے نتیجے میں ان کو ۱۹۳۹ء میں وزارت تعلیم نے انسپکٹر آف اسکولز کے عہدے پر فائز کر دیا۔ ۱۹۴۰ء میں ان کی والدہ محترمہ بھی انتقال کر گئیں۔یوں بڑا بھائی ہونے کے ناتے بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سید قطب کے کندھوں پر آگئی۔

لڑکپن کے زمانے میں سید قطب انگریزوں سے حصول آزادی کے لیے سعد زغلول پاشا (۱۸۵۹۔۲۳؍اگست۱۹۲۷ئ) اور ان کی ’وفد پارٹی‘ سے متاثر تھے، جو استعماری ہتھکنڈوں کو بے نقاب کرنے میں بڑی جرأت سے متحرک تھی۔ تب مصر پر احمد فواداوّل (۱۸۶۸ئ-۲۸؍اپریل ۱۹۳۶ئ) کی بادشاہت تھی اور برطانیہ کی بھرپور پشت پناہی۔ سید قطب کی ابتدائی تحریریں، آزادیِ وطن کے انقلابی لہجے سے بھرپور پیغام پیش کرتی ہیں۔وہ مصری حکمرانوں کے استبداد اور انگریز نوازی کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ مثال کے طور پر مصر کے وزیر اعظم [۲۴؍جون ۱۹۲۸ئ- ۴؍اکتوبر۱۹۲۹ئ] محمد محمود پاشا [م:۱۹۴۱ئ] نے جب اپنے ایک بیان میں حریت و استقلال کے جذبے سے سرشار مصریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

میں قانون شکنی کرنے اور بدامنی کو ہوا دینے اور امن امان میں خلل ڈالنے والوں کو ہرگز برداشت نہیں کروں گا۔ ایسی سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کی خبر آہنی ہاتھوں سے لوں گا۔

اس بیان نے ملک میں خوف کی لہر دوڑا دی،اور سید قطب تڑپ اٹھے۔ انھوں نے اخبار کو مضمون بھیجا، جس میں لکھا:

یَا صَاحِبَ الْیَدِ الْحَدِیْدِیَّۃِ : [اے لوہے کے ہاتھوں والے] اگر تو اپنے لوہے کے ہاتھوں پر نظر ڈالے گا، تو تجھے معلوم ہو جائے گا کہ وہ زنگ آلود ہو چکے ہیں۔

وزیر اعظم محمود پاشا سمجھ گئے کہ حملہ جوابی ہے۔ انھوں نے انتظامیہ کے اہل کار بھیجے کہ وہ مضمون نگار کو ان کے سامنے پیش کریں، تاکہ اس کو سمجھایا جا سکے۔ سید قطب، وزیراعظم دفتر پہنچے تو وزیراعظم محمود پاشا اپنے سامنے ۲۲سالہ نوجوان کو دیکھ کر حیرانی سے پوچھنے لگے:

’’اے نوجوان! یہ مضمون تم ہی نے لکھا ہے؟‘‘

سید قطب نے جواب دیا: ’’جی ہاں، یہ میں نے لکھا ہے؟‘‘

وزیراعظم نے پوچھا: ’’اتنے سخت لہجے میں لکھنے کی وجہ؟‘‘

نوجوان سید قطب نے جواب دیا: ’’یہی میرا عقیدہ ہے‘‘۔

وزیراعظم نے حکمت سے کام لیتے ہوئے کہا: ’’جائو میرے بیٹے، جو دل میں آئے لکھو‘‘۔

وزیراعظم کا خیال تھا کہ دھمکی دیے بغیر، حکومت کے ایوانوں کا رعب لڑکے کے دل پر اثر ڈال کر رہے گا، مگر ایسا نہ ہو سکا۔

یاد رہے یہ وہ زمانہ ہے جب ۱۹۲۸ء میں اخوان المسلمون ابھی اسماعیلیہ میں تشکیلی دور سے گزر رہی تھی۔ اگلے ۱۵ برسوں کے دوران میں سید قطب کا یہی قلم مختلف اخباروں اور رسالوں میں بڑی قوت سے ہم وطنوں کو سامراجی زنجیریں توڑنے کے لیے پکارتا رہا۔ حتیٰ کہ مصری حاکم اعلیٰ (۲۸؍اپریل۱۹۳۶ئ-۲۶؍جولائی۱۹۵۲ئ) شاہ فاروق تک تلملا اٹھا، اور وزارتِ داخلہ کو ہدایت کی کہ سید قطب کو گرفتار کیا جائے۔ مگر اس کے وزیراعظم محمود فہمی نقراشی پاشا نے گرفتاری کے حکم پر عمل درآمد میں رکاوٹ پیداکی، اور سید قطب کے خاندان سے ذاتی اور سماجی تعلق کی بنا پر شاہ فاروق سے کہا: ’’میں سید قطب کو سمجھائوں گا‘‘۔ نقراشی پاشا نے انھیں سمجھانے کی جسارت کرنے کے بجاے امریکی نظام تعلیم و تربیت کے جائزے کے لیے ملک سے باہر بھجوانے کی اسکیم بنائی۔

o

سیّدقطب شہید ایک عالم اور دانش ور ہی نہ تھے، بلکہ ایک صاحب طرز ادیب اور شاعر بھی تھے۔ انھوں نے ۱۹۳۹ء میں التصویر الفنی فی القرآن کے عنوان سے ایک قسط وار مقالہ لکھنا شروع کیا، جو مجلہ المقتطف میں طبع ہوتا رہا، اور بعد میں یہی سلسلۂ تحریر سیّد قطب کی پہلی علمی کتاب التصویر الفنی فی القرآن کی صورت میںڈھلا۔ اس کتاب کا انتساب انھوںنے اپنی والدہ مرحومہ کے نام کتنے والہانہ جذبے سے تحریر کیا:

اے میری ماں!

گائوں میں رمضان کا پورا مہینہ جب ہمارے گھر پر قاری حضرات دل نشین انداز میں قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے، تو آپ گھنٹوں کان لگا کر پوری محویت اور توجہ کے ساتھ پردے کے پیچھے سے تلاوت سنا کرتی تھیں۔

میں آپ کے پاس بیٹھ کر جب بچوں کی عادت کے مطابق شور کرتا تھا، تو آپ مجھے اشارے سے باز رہنے کی تلقین کیا کرتیں اور پھر میں بھی آپ کے ساتھ کان لگا کر سننے لگ جاتا۔ میرا دل الفاظ کے سحر انگیز لحن سے محظوظ ہوتا، اگرچہ اس وقت میں ان کے مفہوم سے ناآشنا تھا۔

آپ کے ہاتھوں جب پروان چڑھا تو آپ نے مجھے گائوں کے پرائمری اسکول میں داخل کرا دیا۔ آپ کی سب سے بڑی آرزو یہ تھی کہ اللہ میرے سینے کو کھول دے، اور میں قرآن حفظ کر لوں، اور اللہ مجھے خوش الحانی کی نعمت سے نواز دے، اور پھر میں آپ کے سامنے بیٹھا ہر وقت تلاوت کیا کروں۔ پھر آپ کی یہ آرزو بر آئی اور میں نے قرآن حفظ کر لیا، اور یوں آپ کی آرزوئوں کا ایک حصہ پورا ہو گیا۔ اس طرح آپ نے مجھے اس نئی راہ پر ڈالا، جس پر میں اب گامزن ہوں۔

میری امی، آپ اگرچہ ہم سے رخصت ہو گئی ہیں، مگر اب تک آپ کی آخری تصویر میرے حافظے پر نقش ہے۔

گھر میں آپ کا ریڈیو کے سامنے بیٹھ کر خوش الحان قاری کی تلاوت کا سننا مجھے ابھی تک نہیں بھولا۔ تلاوت سنتے وقت آپ کے مقدس چہرے کا اتار چڑھائو بھی مجھے یاد ہے، جو اس بات کی دلیل تھی کہ آپ کے دل اور دماغ، قرآن کے اسرار و رموز کو بخوبی سمجھتے ہوئے متاثر ہوا کرتے تھے۔

پیاری امی!آپ کا وہی ننھا بچہ، آپ کا جوان لختِ جگر آج آپ ہی کی تعلیم و تربیت کی طویل محنت کا ثمرہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہے۔ اگرچہ حسنِ ترتیل کی اس میں کمی ہے، لیکن غالباً حسنِ تاویل کی نعمت سے وہ محروم نہیں۔

اللہ آپ کی قبر پر رحمت کا سایہ کرے اور آپ کے بیٹے کو محفوظ رکھے۔

بالکل اسی طرح سیّد قطب نے اپنی اگلی کتاب مشاہد القیامۃ فی القرآن کا انتساب اپنے کریم و حلیم والد کے نام کرتے ہوئے ان الفاظ کو چنا:

میرے ابّا،یہ کاوش میں آپ کی روح کی نذر کرتا ہوں۔

میں ابھی بچہ ہی تھا کہ آپ نے میرے احساس و وجدان پر یوم آخرت کا خوف نقش کردیا۔ آپ نے مجھے کبھی جھڑکا نہیں، بلکہ میری نظروں میں آپ کی ساری زندگی یوں گزری کہ قیامت کی باز پرس کا احساس ہر آن آپ پر غالب رہتا۔ ہروقت آپ کے دل اور ضمیر پر اس کا اثر اور زبان پر اس کا ذکر رہتا۔

دوسروں کے حقوق دلانے اور دینے کے وقت آپ اپنی ذات کو تکلیف میں ڈال لیتے، اور دوسروں سے اپنا حق وصول کرتے وقت آپ پر بے نیازی اور ایثار کی کیفیت طاری رہتی۔

آپ دوسروں کی زیادتیوں پر کھلے دل سے درگزر فرماتے، حالانکہ ان کو جواب دینے کی آپ میں طاقت ہوتی تھی۔ دراصل آپ قیامت کے روز اس صبر کواپنے لیے کفّارہ سمجھتے تھے۔ اکثر آپ اپنی ضروریات کی اشیا بھی دوسروں کو پیش کردیتے، حالانکہ آپ کو ان کی ضرورت ہوتی تھی، لیکن آپ کہا کرتے تھے: ’زادِ آخرت جمع کر رہا ہوں۔‘

آپ کاچہرہ میری یاد داشت پر اس طرح نقش ہے کہ: رات کے کھانے سے فراغت کے بعد ہم اسی طرح آپ کو تلاوتِ قرآن میں مگن دیکھتے، جس طرح آپ صبح تلاوت کیا کرتے تھے، اور اپنے والدین کی ارواح کو ثواب پہنچاتے تھے۔ ہم چھوٹے چھوٹے بچے بھی آپ کے ساتھ اِدھر اُدھر سے چند آیات گنگنانے لگتے، جو ہمیں پوری طرح یاد نہ ہوتی تھیں۔

سید قطب کا ابتدائی دور تحریر ادب، شاعری، ادبی تنقید اور سرگرم صحافت کی وادیوں میں  فکر و دانش کے چراغ روشن کرنے سے منسوب ہے۔ اس ضمن میں وہ عباس محمود العقاد (۲۸؍جون ۱۸۸۹ئ، اسوان- ۱۳؍مارچ۱۹۶۴ئ، قاہرہ) کے طرز تحریر اور اسلوبِ اظہار سے متاثر تھے۔ سیّدقطب کے ماموں احمدحسین الموشی، استاد عباس محمود العقاد کے دوست تھے۔ العقاد عربی ادب کے بڑے صاحبِ قلم تو تھے ہی، اور اسی طرح ان کے ہاں قرآن سے رہنمائی اور حریت پسندی سے وابستگی کے ساتھ الحاد سے بے زاری بھی فراواں تھی۔ سیدقطب نے ان تمام خوبیوں کو العقاد کی صحبت اور مطالعے سے بخوبی اخذکیا۔

سیّد قطب کی جس کتاب نے بڑے پیمانے پر اہلِ علم و دانش کی توجہ کھینچی، وہ العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام ہے، جو ۱۹۴۷ء میں یعنی ان کے امریکا جانے سے پہلے شائع ہوئی۔ اردو ترجمہ [از:پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی] اسلام میں عدل اجتماعی ۱۹۶۰ء میں طبع ہوا۔

 جیسے ہی اس کتاب کی پہلی کاپی مرشد عام امام حسن البنا کے ہاتھوں میں پہنچی، تو انھوںنے کتاب پڑھ کر ایک بھری مجلس میں بے ساختہ فرمایا:

’اِن پاکیزہ افکار کے مصنف کو الاخوان المسلمون میںہونا چاہیے۔‘

مصری حکومت نے ۱۹۴۸ء میں جدید طریقۂ تعلیم و تربیت کے مشاہدے اور مطالعے کے لیے انھیں امریکا بھیجا۔ پہلے چھے مہینے وہ ولسن ٹیچرز کالج، واشنگٹن ڈی سی سے وابستہ رہے۔ پھر  یونی ورسٹی آف ناردرن کولوراڈو (تاسیس:۱۸۸۹ئ) کے کولوراڈو کالج آف ایجوکیشن، گریلی میں داخل ہوئے۔ جہاں وہ تقریباً ڈیڑھ سال رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے امریکا کے دیگر شہروں: سان فرانسسکو، اسٹن فورڈ، نیویارک، شکاگو، لاس اینجلز وغیرہ میں بھی تھوڑا تھوڑا عرصہ قیام کیا اور امریکی زندگی کے مختلف پہلوئوں کو قریب سے دیکھا۔

امریکا سے واپسی پر وہ چند ہفتے برطانیہ، سویزرلینڈ اور اٹلی میں بھی رہے۔ مغربی دنیا میں اس قیام کے دوران میں انھوں نے مغربی افکار کی حقیقت اور مادی تہذیب کی تباہ کاریوں کا     براہِ راست مشاہدہ کیا اور اس کے بعد ہی ان پر حقیقت واضح ہوئی اور یہ یقین ان کے دل میں   بیٹھ گیا کہ انسانیت کی فلاح صرف اسلام میں ہے۔

۱۹۵۰ء کے آخری ہفتوں میں سیّد قطب امریکا و یورپ کے سفر سے واپس آئے۔ ۱۹۵۱ء کے ابتدائی دنوں میں الاخوان المسلمون سے گہرے تعلق کو انھوں نے اپنی روح میں اترتے محسوس کر لیا، اور وابستہ ہوگئے، گویا: ’’پھر دل نے بیٹھنے نہ دیا عمر بھر کہیں‘‘۔ تب اپنی کتاب اسلام اور عدلِ اجتماعی کا انتساب ان لفظوں میں نئے سرے سے لکھا:

اُن صالح نوجوانوں کے نام

جنھیں میں اپنی چشمِ خیال میں دیکھا کرتا تھا۔

لیکن اب، ان کو حقیقی زندگی میں اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرتے ہوئے پاتا ہوں۔ یہ وہ مومنین ہیں، جن کے نفوس کی گہرائیوں میں یہ حقیقت پیوست ہے کہ عزت: اللہ، اس کے رسولؐ اور مومنین ہی کے لیے ہے۔

ان نوجوانوں کے نام

جو میرے خیالات میں، اور خوابوں میں ابھرے تھے، لیکن حقیقت میں وہ خیال سے بھی آگے، اور آرزوئوں سے بھی بڑھ کر ہیں۔

ان نوجوانوں کے نام

جو ضمیرِ غیب سے اس طرح پھوٹے ہیں، جس طرح ضمیرِعدم سے حیات پھوٹتی ہے، اور جس طرح ظلمتوں سے نور پھوٹتا ہے۔

ان نوجوانوں کے نام

جو اللہ کے نام پر، اللہ کی راہ میں، اور اللہ کی رحمتوں کے زیر سایہ جہاد کرتے ہیں،

میں یہ کتاب انھی کے نام منسوب کرتا ہوں۔

سیّد قطب نے ۱۹۵۳ء میں قاہرہ سے مجلہ الفکر الجدید  جاری کیا۔ اس پرچے  میں دیگر موضوعات کے ساتھ، انھوں نے جاگیردارانہ ظلم، سرمایہ دارانہ سفاکی اور استعماری حیوانیت پر شدت سے لکھنا شروع کیا۔ دولت کی ذخیرہ اندوزی اور مالی اجارہ داری کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں غلط ثابت کیا۔ عدل، انصاف، غربا کی دست گیری اور قرآن و سنت سے اسلام کے اقتصادی نظام کی طرف دعوت دی کہ بعض لوگوں نے ان کے افکار کو اشتراکی فکر کا اثر قرار دے ڈالا۔ حالانکہ وہ فکر و خیال کی کسی لہر میں اشتراکی تحریک سے کچھ بھی علاقہ نہیں رکھتے تھے۔ درحقیقت اُس زمانے میں کمزوروں، ناداروں، مظلوموں، محکوموں اور نو آبادیاتی نظام میں جکڑے لوگوں اور پسے ہوئے طبقوں کی دست گیری کرنے یا اُن کے حق میں کلمۂ خیر کہنے والے کو بے جا طور پر ’اشتراکیت زدہ‘ باور کرنے میں کچھ دیر نہ لگتی۔ جس طرح بعد کے زمانے میں آزادی کی جدوجہد کرنے یا اپنے ملّی حقوق کا تحفظ کرنے والے ہر مسلمان کو ’دہشت گرد‘ اور’انتہا پسند‘ کہا جانے لگا۔

۲۳؍جولائی ۱۹۵۲ء کو جنرل محمد نجیب کی سربراہی میں مصر میں فوجی انقلاب آیا، تواخوان کی آزمایشوں کا دور عارضی طور پر ختم ہوگیا۔ اس دوران میں سید قطب اخوان کے مرکزی دفتر میں  شعبہ دعوت کے انچارج مقرر ہوئے۔ انھوںنے اپنے آپ کو ہمہ تن اخوان کی دعوت کے لیے وقف کردیا۔ جولائی ۱۹۵۴ء میں وہ جریدہ الاخوان المسلمون  کے مدیر مقرر ہوئے۔ ۷؍جولائی ۱۹۵۴ء کو اینگلو مصری معاہدہ ہوا۔ اخوان نے اس معاہدے کو مسترد کر دیا۔ سید قطب کے قلم نے اس معاہدے کی دھجیاں بکھیر دیں، اسی جرم میں یہ جریدہ ستمبر۱۹۵۴ء میں حکومت نے بند کر دیا۔

اس سے قبل ۱۹۵۰ء میں الاخوان کے نوجوان عبقری رہنما سعید رمضان نے مجلہ المسلمون جاری کیا، اور اگلے برس سید قطب سے درخواست کی کہ وہ ہر شمارے کے لیے فی ظلال القرآن کے عنوان سے ایک مستقل کالم لکھا کریں۔ سیّد قطب نے اس تجویز کو شرفِ قبولیت بخشا اور بہت جلد ان کا یہ کالم مجلہ المسلمون کی جان اور عالم عرب میں دعوتِ قرآن کا موثر وسیلہ بن گیا۔ اسی دوران میں قاہرہ کے ایک اشاعتی ادارے نے سید قطب سے باقاعدہ درخواست کی کہ وہ اس سلسلۂ مضامین کو مستقل تفسیر اور کتاب کی شکل دیں۔ یوں جنوری۱۹۵۴ء تک اس کی پہلی چار جلدیں مکمل ہو گئیں۔ ۲۶؍اکتوبر۱۹۵۴ء کو مصری غاصب حکمران جمال ناصر نے قاتلانہ حملے کے جھوٹے الزام میں اخوان کے ۵ہزار کارکنوں کو گرفتار کر لیا،جن میں سیّدقطب بھی شامل تھے۔

ان گرفتار شدگان میں سے اخوان کے چھے رہنمائوں: سیکرٹری جنرل (سابق) جسٹس عبدالقادر عودہ، شیخ محمد فرغلی، یوسف طلعت، ابراہیم طیب، ہنداوی دویر اور عبداللطیف کو ۸؍دسمبر۱۹۵۴ء کے روز پھانسی دے دی، لیکن مرشد عام حسن الہضیبی کی سزاے موت عمر قید میں تبدیل کر دی۔

اس گرفتاری کے دوران سید قطب کو آہنی بیڑیوں میں جکڑ کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ وہاں شدتِ بخار نے ان کی صحت برباد کرکے رکھ دی۔ انھیں قلعہ جیل، ابوزعبل اور لیمان طرہّ کی دہشت انگیز جیلوں میں ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ حالت تشویش ناک حد تک خستہ ہو گئی تو انھیں زنجیروں میں جکڑ کر فوجی ہسپتال میں منتقل کیا گیا۔ اس طرح صرف آٹھ ماہ میں وہ دل، سانس اور اعصاب کے امراض میں گھر چکے تھے۔

انھی پُر مصائب ایام میں انھوں نے بچی کھچی قوت مجتمع کرکے فی ظلال القرآن کی   طبع شدہ جلدوں پر نہ صرف نظر ثانی کی، بلکہ بقیہ جلدوں پر بھی کام شروع کیا۔ تاہم ترقی پسند انقلابی فرعون جمال ناصر نے ایک تحقیقاتی کمیٹی مقرر کی، جس کے ذمے یہ کام تھا کہ: سید قطب جو لکھیں، اس میں سے ’قابلِ اعتراض‘ حصے حذف کر دیے جائیں، تاکہ ’روشن خیال قومی حکومت‘ پر کوئی زد   نہ پڑے۔‘ اس کڑے جبر کے نظام کے باوجود سید قطب نے تفسیر مکمل کی۔ مذکورہ سنسر کمیٹی نے  ’سورۂ فجر‘ اور ’سورہ بروج‘ کے مقدمے کی اشاعت روک دی۔ پھر اسی طرح تفسیری مسودے کے کئی کئی حصے حذف کر دیے۔ ایسے بعض قلمی شذرے ان کی کتاب معالم فی الطریق کا حصہ ہیں۔

سید قطب کے چھوٹے بھائی پروفیسر محمد قطب نے فی ظلال القرآن کے انگریزی ترجمے In The Shade of the Quran کی تعارفی سطور میں لکھا:

فی ظلال القرآن مصنف کی فکری زندگی کے سب سے زیادہ معرکہ آرا برسوں کا ثمر ہے۔ اس تفسیر کا طویل ترین حصہ ۱۹۵۴ء سے ۱۹۶۴ء تک کی مدت میںلکھا گیا، جب کہ وہ جیل میں قید تھے۔ اسلام کے عظیم مقاصد کی خاطر انھوں نے اپنے افکار، اپنے احساسات، اپنی راتوں، اپنے دنوں اور درحقیقت اپنی پوری زندگی کو وقف کر دیا تھا۔ اس دوران میں وہ پوری طرح قرآن کے زیر سایہ زندگی گزار رہے تھے۔ ایک ہمہ پہلو اور بھرپور جدوجہد، جس کی وجہ سے وہ قید ہوئے اور پھر موت کے گھاٹ اتار دیے گئے، صرف اس مقصد کے لیے تھی کہ اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ ایک گروہ کی شکل میں سامنے آئے، جو اپنی زندگی میں اسلام پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ اسلام کا داعی بھی ہو، یہاں تک کہ اسلام اس پوری ملت کا بحیثیت مجموعی عملی دستورِ حیات بن جائے۔ فی ظلال القرآن،درحقیقت اسی جدوجہد کی ایک اہم ترین کڑی ہے، اور اس لیے یہ قرآن کی مجرد تفسیر سے بہت آگے کی چیز ہے۔

تفسیرفی ظلال القرآن: بلند پایہ ادبی اسلوب، معتدل طرزِ بیان، ضعیف روایات سے پاک، عصری جاہلیت پر نقد و جرح، جدید تحقیقات کی عادلانہ تفہیم، فقہی اختلافات سے اجتناب، انقلاب آفرین اظہارِ مدعا اور قرآن و دین کو ایک ہمہ پہلو تحریک بنا دینے کا نصاب ہے۔

جمال ناصر نے اخوان پر دل لرزا دینے والے مظالم ڈھائے، کئی ذمہ داروں کو شہید کر دیا گیا۔ مختلف اوقات میں اخوان کے ۵۰؍ہزار کارکنوں کو جیل کی اندھیری کوٹھڑیوں میں ٹھونس دیا گیا۔انھیں کئی کئی دن بھوکا رکھا گیا۔اس حالت میں ان سے مشقت کرائی گئی، ان پر کتّے چھوڑکر بھنبھوڑا گیا۔ ان قیدیوں کو اس بری طرح پیٹا جاتا کہ پیٹنے والے تھک جاتے۔

اس داستانِ الم کو پڑھنے کی تاب ہو تو یہ کتابیں پڑھ لی جائیں: lرُودادِ قفس )ایام من حیاتی) از زینب الغزالی  lرُودادِ ابتلا از احمد رائف، lوادیِ نیل کا قافلۂ سخت جان از حامد ابونصر (ترجمہ: حافظ محمد ادریس)lیادوں کی امانت از عمر تلمسانی (ترجمہ: حافظ محمد ادریس)۔

سید قطب جیسے بے مثل فاضل مصنف اور مدبر کے ساتھ، جو انتہائی سخت حالات پیش آئے، ان کی سرگذشت یوسف المعظم نے تحریر کی ہے:

تعذیب کے گونا گوں پہاڑ سید قطب پر توڑے گئے۔ انھیں آگ سے داغا گیا۔ پولیس کے کتوں نے انھیں کچلیوں میں لے کر گھسیٹا، ان کے سر پر مسلسل کبھی گرم اور کبھی ٹھنڈا پانی انڈیلا گیا، انھیں لاتوں اور گھونسوں سے مارا گیا۔ دل آزار الفاظ اور بازاری اشاروں سے ان کی توہین کی گئی، مگر ان سب چیزوں نے سید قطب کے ایمان و یقین میں اضافہ کیا اور راہ حق پر ان کے قدم اور مضبوطی سے جم گئے۔

۱۳؍جولائی۱۹۵۵ء کو مصر کی ’عوامی عدالت‘نے سید قطب شہید کو ۱۵سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔ اس روز وہ بیماری و کمزوری کے سبب اور قیدی ہونے کے باوجود عدالت میں حاضر ہونے سے قاصرتھے۔ ۱۹۵۶ء کے وسط میں ان سے کہا گیا کہ وہ چند سطریں معافی نامے کے طور پر لکھ دیں تو ان کو رہا کر دیا جائے گا۔ یہ الفاظ سید قطب کے سینے میں تیر کی طرح لگے، ان کے چہرے کا رنگ سرخ ہو گیا اور انھوں نے تڑپ کر فرمایا:

مجھے ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو مظلوم سے کہتے ہیں کہ ظالم سے معافی مانگو۔ خدا کی قسم، اگر معافی کے چند الفاظ بھی مجھے پھانسی سے نجات دلا سکتے ہوں، تومیں تب بھی انھیں کہنے یا لکھنے کے لیے کبھی اور کسی صورت میں تیار نہ ہوں گا، اور میں اپنے رب کے حضور اس حال میں حاضر ہونا پسند کروں گا کہ میں اس سے خوش ہوں اور وہ مجھ سے خوش۔

سیّد قطب بچپن سے معدے اور انتڑیوں کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ نوجوانی میں سانس کا عارضہ بھی لاحق ہو گیا۔ اسی لیے ڈاکٹر جسمانی محنت سے منع کرتے تھے۔ ۴۰ برس کی عمر میں دوستوں سے کہا: اسکندریہ جا رہا ہوں‘‘ پوچھا: ’’کیوں؟‘‘۔ کہا :’’ہوا کی تبدیلی کے لیے‘‘۔ پوچھا: ’’ہوا کی تبدیلی؟‘‘ کہا: ’’ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ تمام دوائیاں آزما لی ہیں، کچھ بھی افاقہ نہیں ہو رہا، تو بہتر یہی ہے کہ ہوا کی تبدیلی کے لیے چند ہفتے اسکندریہ چلے جائو‘‘۔

۱۹۵۴ء کی گرفتاری کے دوران میں تشدد کے باعث سانس کی بیماری دو چند ہو گئی، اور ساتھ ہی گردوں کا عارضہ بھی لاحق ہو گیا، اور حالت یہ ہوگئی کہ پھیپھڑوں سے خون آنے لگا۔ اسی لیے دو ماہ تک فوجی عدالت میں سماعت بھی رکی رہی۔ جیل کے ہسپتال میں علاج ممکن نہ رہا تو ڈاکٹروں کے بورڈ نے [غیرفوجی] المنیل ہسپتال منتقل کرنے کی سفارش کی، مگر دیر تک فوجی حکام نے اجازت نہ دی۔ انجام کار جب حالت نازک ہو گئی تو وہاں بھیجا گیا، مگر چند ہفتوں بعد پھر واپس جیل لے آیا گیا۔ دو ماہ بعد حالت ویسی ہی ہوگئی تو ایک بار پھر کچھ عرصے کے لیے المنیل لانا پڑا۔ پھر ۱۹۶۳ء میں تیسری بار صحت جواب دینے لگی تو عراقی صدر عبدالسلام عارف کی اپیل پر رہا کیا گیا۔

o

۱۹۶۴ء میں ۱۰ سالہ قید بامشقت گزارنے کے بعد سید قطب کو رہا کیا گیا۔ اخوان المسلمون کے تیسرے مرشد عام عمر تلمسانی کے بقول: ۱۹۶۴ء میں جب سید قطب رہا ہوئے، تو عراقی صدر عبدالسلام عارف نے انھیں تعلیم و تربیت کے ایک اعلیٰ منصب کی پیش کش کی، کہ وہ عراق کے نظام تعلیم کی بہتری کے لیے کاوشیں کریں۔ سیّد شہید نے مجھ سے اس پیش کش کے قبول یا قبول نہ کرنے کے بارے میں مشورہ مانگا۔ میں نے انھیں مشورہ دیا کہ: ’’آپ یہ پیش کش قبول کر لیں اور عراق چلے جائیں‘‘۔ دراصل مجھے مصر کے فوجی حکمرانوں کے ارادے برے نظر آ رہے تھے۔ تاہم، سیّد قطب نے میرے مشورے کے برعکس فیصلہ یہ کیا کہ وہ اپنی عالمانہ فکر کا دفاع کرنے کے لیے مصر ہی میں رہیں گے‘‘۔

رہائی پانے کے بعد سید قطب نے اپنی کتاب معالم فی الطریق کا مسودّہ، مرشدعام امام حسن الہضیبی کی خدمت میں پیش کیا، تاکہ اخوان کے کارکنان کے مطالعۂ نصاب میں اس سے استفادہ کیا جا سکے۔ مرشدِ عام نے مسودے کا مطالعہ کرنے کے بعد فرمایا: ’’زیادہ مناسب ہوگا کہ اسے شائع کر لیا جائے، تاکہ اخوان اور عام لوگ بھی اس سے بخوبی استفادہ کرسکیں‘‘۔ چنانچہ ۱۹۶۴ء میں یہ کتاب شائع ہو گئی۔ اس کتاب کا ہر صفحہ اور ہر سطر سید قطب کے ایمانِ کامل اور عملی شعور کی زندہ دلیل ہے۔ تاہم اگلے برس اگست۱۹۶۵ء میں سید قطب کو گرفتار کرنے کے لیے ایک سازش کا افسانہ تراشا گیا۔ دیگر بے معنی الزامات کے ساتھ سید قطب کی کتاب معالم فی الطریق (جادہ ومنزل ترجمہ: خلیل احمد حامدی) کے جس پیراگراف کو خطرناک قرار دیتے ہوئے، صدر ناصر نے سید قطب کو گردن زنی قرار دیا، وہ تحریر یہ تھی:

جس طرح اسلام کے دورِ اوّل میں اسلامی معاشرہ ایک مستقل اور جداگانہ معاشرے کی صورت میں ترقی کی فطری منازل طے کرتا ہوا بام عروج کو پہنچا تھا، اسی طرح آج بھی، ویسا ہی اسلامی معاشرہ وجود میں لانے کے لیے اسی طریق کار کو اختیار کیا جانا لازم ہے۔ اس اسلامی معاشرے کو اردگرد کے جاہلی معاشروں سے الگ رہ کر اپنا تشخص قائم کرنا ہوگا۔ (جادہ و منزل، ص۵۰-۵۱)

ان پانچ سطورکو ناصر حکومت نے ’بغاوت کی بنیاد‘ قرار دیا۔ سید قطب کے ساتھ اُن کے بھائی محمد قطب اور بہنوں امینہ قطب،حمیدہ قطب کے علاوہ زینب الغزالی [۲؍نومبر۱۹۱۹ئ- ۳؍اگست۲۰۰۵ئ]، مرشد عام کی اہلیہ، ان کی بیٹی خالدہ اور ۷۰۰ سے زیادہ باپردہ خواتین کو بھی گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا: ’’ان کے ساتھ کم و بیش ۲۰ہزار مرد کارکنوں کو قید کر لیا گیا اور مزید گرفتاریاں جاری رکھیں‘‘۔ (ڈیلی ٹیلی گراف، لندن، ۱۱؍اکتوبر۱۹۶۵ئ)

اس گرفتاری کے دوران میںسیّد قطب اور ان کے رفقا کی کیا حالتِ زار رہی؟ اس کی ایک جھلک دکھانے کے لیے لبنانی عیسائی ادیب روکس معکرون کی کتاب اقسمت ان اَروی [میں نے قسم کھائی، سب کچھ بتائوں گا] سے چند اقتباسات ذیل میں دیے جا رہے ہیں۔ روکس معکرون اس زمانے میں چار برس تک مصر کی جیلوں میں قید رہے، لبنان واپسی پر یہ مختصر کتاب لکھی:

اخوان کے بعض نظر بند، جیل کی چاردیواری میں عمارت کے اندر چکر لگا رہے ہیں۔ ان کے پائوں زخمی ہیں اور جسم تھکن سے چور۔ مگر پہرے داروں کے ہاتھوں میں کوڑے ہیں۔ جونہی کوئی نظر بند رُکتا ہے، پہرے دار کوڑے مار مار کر اس کی کمر لہولہان کر دیتے ہیں۔ پہرے داروں کی ایک اور ٹولی نظر بندوں کے چہروں پر گرم چُونا پھینک رہی ہے۔

لیمان جیل میں ایک اِخوانی کے چند رشتے دار ملنے آئے۔ پہرے داروں نے ان میں سے ایک خاتون سے بدکلامی کی۔ اِخوانی کو غصہ آگیا، اس نے زنجیروں میں جکڑا ہونے کے باوجود پہرے دار کو ڈانٹا، اور ساتھیوں نے بھی اس کی تائید کی۔ تھوڑی دیر بعد داروغۂ جیل کے حکم پر بہت سے اخوانیوں کو صحن میں لایا گیا اور ان نہتے لوگوں پر گولیوں کی بارش ہونے لگی۔ ۲۱نوجوان تو اسی وقت شہید ہو گئے۔ مرتے مرتے ان کی زبان سے اسلام کا کلمہ طیبہ جاری تھا۔ ۵۶شدید زخمی ہوئے، جن میں سے ۱۱ بعد میں چل بسے۔ دن بھر لاشیں پڑی رہیں اور باقی لوگوں کو حکم دیا گیا کہ وہ انھیں روندتے ہوئے گزریں۔

ایک نوجوان طالب علم محی الدین کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے بھائی سے ایک ایسی حرکت کا مرتکب ہو، جس کے تصور ہی سے گھِن آتی ہے، زبان اسے بیان نہیں کر سکتی اور قلم لکھتے ہوئے ہچکچاتا ہے۔ یہ حکم سُن کر طالب علم فرطِ غم سے بے ہوش ہو گیا، لیکن کوڑے مارنے والے ہی اسے ہوش میں لائے۔ اب آگے کیا لکھا جائے۔

یہ ۵۹سالہ سیّد قطب ہیں، جو مسلم دنیا کے نامور صاحب ِ قلم اور مصنف ہیں۔ جیل میں ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، اس کی صرف ایک ہی مثال کافی ہے۔ اس عظیم دانش ور کے لیے ظالموں نے ایک بھیڑیا نما کتا پال رکھا تھا۔ جب سیدقطب بھوک، پیاس، تھکن اور سزا کی تاب نہ لا کر بے ہوش ہو جاتے تو کتا ان پر چھوڑ دیا جاتا۔ اور یہ کتا انھیں ٹانگ سے پکڑتا اور صحن میں گھسیٹتا پھرتا۔

سید قطب اور ان کے رفقا کا مقدمہ فوجی عدالت کے سپرد کیا گیا۔ اس نام نہاد عدالت کے کارندوں نے سماعت کے پورے دورانیے میں ان کے ساتھ توہین آمیز رویہ اختیار کیے رکھا۔ جس کا ایک مقصد تو یہ تھا کہ ذہنی اذیت دی جائے، اور دوسرا یہ کہ وہ ردِ عمل میں اگر کچھ سخت کہیں تو اسے بہانہ بنا کر یہ مشہور کیا جائے کہ یہ ’لوگ غیر مہذب‘ ہیں۔اٹارنی جنرل صلاح نصار اس نام نہاد عدالتی کارروائی کے دوران میں سید قطب کو کبھی ’جرائم پیشہ لوگوں کا لیڈر‘ اور کبھی اس سے بھی زیادہ پست لفظوں میں مخاطب کرتا۔

o

آخری مقدمے کی سماعت کے دوران میں سیّد قطب پر اٹارنی جنرل صلاح نصار کی جرح کے کچھ حصے:

صلاح نصار: آپ کے وہ مضامین جو معالم فی الطریق میں شامل ہیں، کیا جیل میں لکھے گئے، اور ان کا موضوع کیا ہے؟

  • سیّد قطب: ہاں، میں نے جیل میں لکھے ہیں۔ ان میں بنیادی موضوعات اصولِ عقیدہ سے متعلق ہیں۔ اس کے علاوہ حاکمیتِ رب کا مسئلہ ہے، تنظیم کا مسئلہ ہے۔
  •  کیا حسن الہضیبی آپ کی اس راے سے پہلے سے واقف تھے؟ اور انھوں نے آپ کی یہ تحریر دیکھی ہے؟
  • سیّد قطب: جی انھوںنے دیکھی ہے۔
  •  کیا آپ الہضیبی سے ملے ہیں؟
  • سیّد قطب: ۱۹۶۴ء میں رہائی کے بعد الہضیبی سے تین ملاقاتیں ہوئی ہیں اور تینوں میرے گھر پر ہوئیں، اور ان میں صرف ہم دونوں ہی شریک رہے۔
  •  اخوان پر پابندی کے باوجود کیا آپ حسن الہضیبی کو مرشد عام تصور کرتے ہیں؟
  • سیّد قطب: حسن الہضیبی کو مرشد عام کی حیثیت سے تسلیم کرنا تو لوگوں کے دلوں کی بات ہے۔ پابندی ہو یا نہ ہو، جب تک وہ مرشدعام ہیں انھیں رہبر تسلیم کیا جائے گا، اورمیرے اندر بھی یہی شعور ہے کہ وہ ہمارے مرشد عام ہیں۔
  •  کیا اخوان المسلمون کو سعودی عرب سے پیسے آتے ہیں؟
  • سیّد قطب: جی ہاں، لیکن وہ پیسے ہمارے محنت کش بھائیوں ہی کی طرف سے آتے ہیں۔
  •  مختلف ممالک میں اخوان کی تنظیمیں قائم ہیں، حالانکہ وہ مختلف قومیں ہیں۔ کیا ان اخوانیوں کا یہ تعلق ان کی ’وطنیت‘ کے منافی نہیں ہے؟
  • سیّد قطب: میرے خیال میں عقیدے کا رشتہ، قومی یا علاقائی رشتے سے زیادہ گہرا اور زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں ’وطنیت‘ اور ’قومیت‘ کے ان تعصبات کو ہوا دینے میں یہودی اور عیسائی استعمار کے شہ دماغوں نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ افسوس کہ اس زہرناکی نے امت کی وحدت کو پارہ پارہ کیا ہے، جسے دور کرنا ہوگا۔
  •  آپ اخوان سے جو وابستگی کی بات کرتے ہیں، یہ اسلام سے نہیں بلکہ جماعت سے تعلق اور وابستگی کی بات ہے؟
  • سیّد قطب: اخوان المسلمون کی دعوتی سرگرمیوں کی ساری  وسعت دراصل اسلام اور اسلامی عقیدے کی وسعت ہے۔
  •  وہ مسلمان جو اخوان سے تعلق رکھتے اور جو اخوان سے تعلق نہیں رکھتے، ان دونوں میں کیا امتیازی فرق ہے؟
  • سیّد قطب: جو چیز اخوان کو اپنے تمام مسلمان بھائیوں میں ممتاز کرتی ہے، وہ ہے ان کے پاس اسلام کو نافذ کرنے کا پروگرام اور ایجنڈا۔ اس اعتبار سے اخوان بہرحال اپنے ان مسلمان بھائیوں سے ممتاز حیثیت رکھتے ہیں، کہ جن کے پاس اسلام کا یہ عملی پروگرام نہیں ہے۔
  •  جو لوگ اخوان سے منسلک ہیں، وہ اپنے آپ کو فی سبیل اللہ کہتے ہیں۔ آپ کے خیال میں کیا صرف اخوانی لوگ ہی اللہ کے راستے پر ہیں اور باقی نہیں ہیں؟
  • سیّد قطب: مجموعی طور پر جو لوگ اخوان المسلمون کے پروگرام کے مطابق چلتے ہیں، ان کے بارے میں، میں یہی سمجھتا ہوں۔ تاہم ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ زیادہ بہتر انداز سے نہ چل رہے ہوں۔
  •  اخوان المسلمون میں اور مسلمانوں کی دوسری جماعتوں میں آخر کیا فرق ہے؟ حالانکہ سب ایک ہی طرح کے مسلمان ہیں؟
  • سیّد قطب: میرے خیال میں فرق، کسی کا کسی پر فوقیت کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ صرف اس بنا پر ہے کہ ایک کے سامنے واضح پروگرام اور نقشہ کار ہے، دوسرے کے پاس نہیں ہے۔ یہ چیز ہی بنیادی فرق ہے۔
  • آپ کا اپنے آخری ہدف تک پہنچنے کا طریق کار کیا ہے؟
  • سیّد قطب: ہماری آخری منزل شریعتِ الٰہی کا نفاذ ہے۔ اس راستے میں سرگرم سفر رہنے کے لیے انفرادی اور فکری تربیت کی ضرورت ہے۔ اجتماعی طور پر راستے کی طوالت اور اس کے مدارج اور اس کی مشکلات کا واضح احساس ہے۔
  •  پابندی کے بعد آپ کی تنظیم الاخوان المسلمون اس وقت خفیہ تنظیم نہیں ہے؟
  • سیّد قطب: آپ چاہیں تو اسے خفیہ کہہ لیں۔
  • جب آپ کا ہدف انفرادی، فکری اور اخلاقی تربیت ہے تو پھر آپ خفیہ کیوں ہیں، کھل کر سامنے کیوں نہیں آتے؟
  • vسیّد قطب: ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ: اس خطے میں عیسائی، یہودی اور اشتراکی قوتیں منظم طور پر اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی اخلاقیات سے ربط و تعلق رکھنے والی تمام تنظیمی اور اداراتی جماعتوں کی جڑوں کو کاٹنے میں ایک دوسرے کی مدد گار کے طور پر متحرک ہیں۔ ان قوتوں کو ظلم و جبر پر مبنی یہ کام کرنے کی کھلم کھلا اجازت ہے۔ تمام مالیاتی، انتظامی، ریاستی اور ابلاغی وسائل ان کے قبضے میں ہیں۔ اتنی جابرانہ اور ظالمانہ قوت رکھنے کے باوجود، وہ ہمیں ایک دن بھی کھلم کھلا برسرِزمین کام کرنے کی اجازت دینے اور ذرا سا بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ ہمیں ہمارے ملک اور ہمارے معاشرے میں، لکھنے، بولنے اور جمع ہونے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پھر یہی گروہ اپنی مرضی سے غیر اخلاقی اور تہذیب و شائستگی سے ٹکراتا ہوا قانون بنا کر ہمیں بند، پابند اور غیر قانونی قرار دیتا ہے۔ اس لیے ہمیںمجبوراً اپنی بات کہنے کے لیے خفیہ طور پر کام لینا پڑا ہے۔ دیکھنا تو یہ چاہیے کہ ہمیںکس بات پر، کیوں اور کس طرح روکا گیا ہے؟ اور اس کا جواز کیا ہے؟ پھر جب ہم اپنے پیدایشی حق کو استعمال کرکے ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو بتایا جائے کہ بھلا اس میں ملک اور معاشرے کو ہم کیا نقصان پہنچاتے ہیں۔
  •  مسلم اُمت ایک لمبے عرصے سے تباہ اور خوار ہے، آپ اس کو زندہ اور بحال کرنے کے لیے کیا پروگرام رکھتے ہیں؟
  • سیّد قطب: ’مسلم اُمت‘ سے آپ کی مراد کیا ہے؟ ’مسلم اُمت‘ تو اس کو کہتے ہیں، جو: سیاسی، اجتماعی، معاشی اور تہذیبی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشا کے مطابق برضا و رغبت فیصلے کرے۔ اس مناسبت سے مصر اور دنیا میں امتِ مسلمہ موجود نہیں ہے، اگرچہ مسلمان بہت موجود ہیں۔ پھر ان میں انفرادی اور اجتماعی طور پر بہت سے لوگ اس چیز کے لیے کوشاں ہیں کہ یہ مسلمان بہ حیثیت امتِ مسلمہ دنیا میں اپنا منصبی کردار ادا کریں۔
  •  آپ کے خیال میں، مصر میں جو معاشرتی نظام قائم ہے، کیا یہ جاہلی نظام ہے؟
  • سیّد قطب: میرے خیال میں یہ غیر اسلامی نظام ہے۔
  •  آپ کے خیال میں کیا ہمارا معاشرہ جاہلی معاشرہ ہے؟
  • سیّد قطب: اصولی طور پر یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ سوسائٹی اسلامی ہوتی ہے یا سوسائٹی جاہلی ہوتی ہے۔
  • [مصر کے]موجودہ نظام حکومت کے بارے میں آپ کی کیا راے ہے؟
  • سیّد قطب: میرے خیال میں یہ جاہلی نظام حکومت ہے۔
  •  اس کا مطلب ہے کہ آپ اسے تبدیل کرنا چاہتے ہیں؟
  • سیّد قطب: یقینا اسے تبدیل ہونا چاہیے۔
  •  اچھا، ’طاغوت‘، سے آپ کی کیا مراد ہے؟
  • سیّد قطب: میری راے میں، اللہ کے قانون سے ٹکرانے والا ہر قانون ’طاغوت‘ ہے۔
  •  ’وطنیت‘ کے بارے میں آپ کاکیا خیال ہے؟
  • سیّد قطب: میرے خیال میں ’وطنیت‘ کی بنیاد، عقیدے پر استوار ہونی چاہیے زمین پر نہیں۔ اس لیے وطنیت کی محدود سوچ کو تبدیل ہونا چاہیے۔
  •  ’قومیت‘ کے بارے میں کیا خیال ہے؟
  • سیّد قطب: میرا خیال ہے کہ محدود قومیت، ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔ اب دنیا فکر، سوچ اور عقیدے کی بنیاد پر وجود پا رہی ہے۔ اس میں ’اسلامی قومیت‘ کی بات ہو رہی ہے۔
  •  ’حاکمیتِ الٰہی‘ سے آپ کی کیا مراد ہے؟
  • سیّد قطب: ’حاکمیت الٰہی‘ سے مراد، اللہ کی شریعت کو قانون کا ماخذتسلیم کرنا اور اس کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔
  •  آپ کو معلوم ہوگا کہ ’خوارج‘ نے بھی یہی بات کہی تھی، اور حضرت علیؓ ابن ابی طالب نے ان سے کہا تھا:’’بات تو ان کی ٹھیک ہے، مگر مقصد ٹھیک نہیں؟‘‘
  • سیّد قطب: تاریخ میں کب کس نے کیا کہا تھا، اس سے قطع نظر، جب میں نے یہ اصطلاح استعمال کی، اُس وقت میرے ذہن میں وہ تاریخی واقعہ نہیں تھا۔ اللہ نے اپنی کتاب انسانی رہنمائی اور انسانی زندگی کو متوازن رکھنے اور درست فیصلے کرنے کے لیے نازل کی ہے۔ اسے رُوبہ عمل لانے کے لیے ہم ’حاکمیت الٰہی‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔
  •  کیا آپ نے یہ فکر سیدابوالاعلیٰ مودودی کی کتابوں سے اخذ نہیں کی ہے؟
  • سیّد قطب: جب میں اسلام کے بارے میں پڑھ رہا تھا، تب میں نے المودودی کی کئی کتابوں سے استفادہ کیاہے۔
  •  آپ کی دعوت اور مودودی کی دعوت میں کیا فرق ہے؟
  • سیّد قطب: کوئی فرق نہیں ہے۔
  •  اخوان کو مسلح کرنے اور فوجی تربیت دینے کا مقصد کیا تھا؟
  • سیّد قطب: دفاع۔
  •  کس طرف سے حملے کا دفاع؟
  • سیّد قطب: یہودیوں کے حملے سے دفاع۔ اسی طرح تشدد کے لیے گرفتار کرنے، گرفتار کرکے قتل کرنے اور ماوراے عدالت موت کے گھاٹ اتار دینے کے عمل سے دفاع… جیسا کہ ۱۹۵۴ء میں بے جا طور پر اخوان پہ مسلط کیا گیا تھا۔
  •  کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ آپ نے حکومت کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے؟
  • سیّد قطب: جو حکومت کسی قانون اور اخلاق کی پاس داری نہیں کرتی، اس کے غلط فیصلوں سے اختلافِ راے رکھنے کا مطلب حکومت کا مقابلہ کرنا نہیں ہوتا۔
  •  موجودہ حالات میں آپ کا تنظیم قائم کرنا،کیا قانون کے خلاف نہیں ہے؟
  • سیّد قطب: میں جانتا ہوں کہ آپ کے حکم کی رو سے یہ غیر قانونی ہے۔ لیکن ایک ذمہ دار فرد کی حیثیت سے یہ میری مجبوری ہے، کیوںکہ ایک ذمہ دار تنظیم ہی فرد اور اجتماعیت کی فکری اور اخلاقی تربیت کا ذریعہ ہوتی ہے۔
  •  قانون کی خلاف ورزی، آخر اخلاقی تربیت کا کیسے وسیلہ بن سکتی ہے؟ کیاشریعت اس کی اجازت دیتی ہے، جب کہ ملک کا سرکاری مذہب بھی اسلام ہی ہو؟
  • سیّد قطب: اگر ملکی قانون ایک مسلمان کو دعوت دین کے بنیادی فریضے ہی کی ادایگی سے منع کرتا ہے، تو اصولاً یہ خرابی اس قانون میں ہے، جو دین کی ایک بنیاد کی مخالفت پر مبنی ہے۔
  •  کیا آپ کے خیال میں موجودہ مصری قوانینِ ریاست، مسلمانوں کو ان کے دینی فرائض کی انجام دہی سے اور دعوتِ دین سے منع کرتے ہیں؟
  • سیّد قطب: جو ریاستی قوانین اور جو حکومتی فیصلے الاخوان کی سرگرمیوں کو روکنے اور تنظیم کو تباہ کرنے کے لیے بنائے اور نافذ کیے گئے ہیں، یہ دین کی مخالفت کے فیصلے ہیں۔ اس لیے کہ اخوان کو دین کی دعوت کے علانیہ کام سے روکنے کا عمل، بہرحال دینِ اسلام کی تعلیمات کے منافی فعل ہے۔
  •  آپ کا مطلب ہے کہ اخوان کو تحلیل اور غیر قانونی قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ وہ دین اسلام کا کام کرتی ہے؟
  • سیّد قطب: بالکل، میں یہی سمجھتا ہوں۔
  •  بتائیے: تاریخی اعتبار سے آپ اخوان پر پابندی کے کیا اسباب جانتے ہیں؟
  • سیّد قطب: مجھے یہ تو معلوم ہے کہ حکومتی فیصلے کے نتیجے میں اخوان پر پابندی لگائی گئی ہے، لیکن یہ معلوم نہیں کہ ایسا کیوں کیا گیاہے؟ اور نہ یہ معلوم ہے کہ پابندی کے اس فیصلے کا قانونی اور اخلاقی جواز کیا ہے؟ تاہم، مجھے یہ معلوم ہے کہ الاخوان المسلمون پر صرف دینی سرگرمیوں کی وجہ سے پابندی لگائی گئی ہے، اور یوں بلاوجہ اسے تحلیل کیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ محض اسلام دشمن طاقت ور قوتوں کے ذہن کا خلل ہے۔
  •  اخوان کو اس کے خفیہ تنظیم ہونے کے سبب تحلیل کیا گیا ہے؟
  • سیّد قطب: مجھے معلوم ہے کہ اس وقت اخوان پر پابندی لگانے کا جواز اسے خفیہ تنظیم کے مسئلے سے جوڑ کر نکالا گیا ہے۔ تاہم، اخوان کی تحلیل کا سبب یہ نہیں ہے، بلکہ اس کا سبب وہ ناپاک بیرونی سازشیں ہیں جنھوں نے اس پر پابندی لگوائی۔
  •  کیا مصر کی انقلابی حکومت ایسی خفیہ تنظیم کو اجازت دے سکتی ہے؟
  • سیّد قطب: لیکن یہ تو ممکن تھا کہ حکومت خفیہ تنظیم کے وجود پر بات کرتی اور علانیہ تنظیم کو بحال کرتی۔
  •  آپ کی راے کے مطابق کیا الاخوان المسلمون ہی وہ واحد تنظیم ہے، جو اسلامی احکامات کے عین مطابق کام کررہی ہے، جس کا  مطلب یہ ہے کہ اگر اس کو روکا گیا تو مسلمانوں کو دینی فرائض ادا کرنے سے روگا گیا؟
  •  سیّد قطب: میری راے کے مطابق مختلف مسلم ممالک میں الاخوان المسلمون دعوتِ دین کا ایک کامیاب تجربہ رہا ہے۔ گذشتہ چار عشروں کے دوران، بلاشبہہ ہم سے کچھ غلطیاں بھی ہوئیں، جن سے تنظیم کو نقصان پہنچا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس اسلامی تحریک کو خفیہ تنظیم کے مسئلے سے الگ کر دیا جائے۔
  •  آپ کی تنظیم کے رہنمائوں علی عشماوی وغیرہ کے مطابق آپ نے ان کو یہ کہا تھا، کہ وہ جاہلیت زدہ لوگوں کے درمیان ایک مومن کا وجود رکھتے ہیں۔ ان کا اس ملک، معاشرے اور اس میں قائم شدہ حکومت سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے، اور مومن ہونے کی حیثیت سے ان کو چاہیے کہ اپنے آپ کو حالت ِجنگ میں سمجھیں۔ آپ نے ان کو یہ بھی کہا ہے کہ یہ ملک اسلامی اصطلاح کے مطابق آپ کے لیے ’دارالحرب‘ ہے۔ لہٰذا، جو فساد اور قتل کی سرگرمیاں یہاں ہوں گی، اس میں کوئی مضائقہ نہیں، اور نہ اس کی کوئی سزا ہو گی، بلکہ اس پراجر ملے گا؟
  •  سیّد قطب: یہ بات سمجھنے میںآپ اور اُن سے بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں:پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تنظیم ابھی ایک بیج ہے، جو بڑھے گا اور نشوونما پائے گا، تاکہ مومنین کے ہر اول دستے میں شامل ہو جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ امت مسلمہ کا ’دارالحرب‘ اور ’دارالاسلام‘ سے تعلق، تو یہ گفتگو نظریاتی اصولوں کی بحث کے ضمن میں آتی ہے اور وہ بھی فقط احکام کو بیان کرنے کی غرض سے اور یہ بحث موجودہ دور میں عمل درآمد کرنے کے لیے نہیں۔ کیوںکہ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ ایک مسلم اُمت کا وجود مستقبل کے کاموں میں سے ایک کام ہے۔ یہ باتیں میں سمجھانا چاہتا تھا، لیکن افسوس، کہ وہ میری بات صحیح انداز میں سمجھ نہ پائے۔
  • انھوں نے کس طرح آپ کی باتیں سمجھنے میں غلطی کی ہے؟ خاص کر جب ان میں سے ایک فرد نے آپ سے مسلمان کے قتل کے مسئلے پر بحث کی تھی اور اس کے بقول آپ نے کہا تھا کہ صرف لاالٰہ الااللہ کہہ دینے سے کسی فرد کا قتل حرام نہیں ہو جاتا؟
  •  سیّد قطب: مجھے یہ گفتگو یاد نہیں، اور اگر ہوئی بھی ہو گی، تو ضرورا پنی جان کے دفاع کے زمرے میں کی ہوگی، اور ایسی حالت میں زیادتی کرنے والا گنہگار ہوتا ہے، نہ کہ دفاع کرنے والا۔
  •  کیا آپ نہیں دیکھتے کہ مسلمانوں کے درمیان خفیہ تنظیم کی موجودگی فتنے کا باعث بنتی ہے؟ جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا؟
  •  سیّد قطب: کبھی فتنے کا باعث بھی بنتی ہے، مگر گناہ اس پر ہوگا، جو اسے کھلم کھلا سرگرمیاں کرنے سے روکے، کہ پھر لوگ خفیہ سرگرمیاں کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ اس صورت حال سے بچائو اسی طرح ممکن ہے کہ کھلم کھلا سرگرمیوں کی اجازت دے دی جائے۔
  •  کیا آپ کا دین آپ پر واجب نہیں کرتا کہ آپ فتنے کو پیدا ہونے سے روک دیں؟ اور فتنے کے پیدا ہونے کے اقدامات و امکانات سے بچائیں؟
  •  سیّد قطب: دینی فریضے کی ادایگی فرض ہے، اور افتراق فتنہ ہے۔ مجھے چاہیے کہ اپنے دینی فریضے پر قائم رہوں اور اگر بے جا حکومتی رکاوٹ سے فتنہ واقع ہوتا ہے تو اس فتنے کا گناہ مجھ پر نہیں بلکہ اس پر ہو گا، جس نے میرا حقِ اظہار اور حقِ اجتماع چھینا اورمجھے چھپ کر کام کرنے پر مجبور کیا ہے۔
  • آپ کے خیال میں موجودہ حکومت اور اس نظام میںوہ کون کون سے اختلافی امور ہیں، جن کو آپ ٹھیک کرنے کے لیے کوشاں ہیں؟
  •  سیّد قطب: اللہ کی وضع کردہ شریعت، ان حکمرانوں کی وضع کردہ ’شریعت‘ میں موجود نہیں۔ ہمیں تو اللہ ہی کی شریعت کا نفاذ مطلوب ہے، لیکن حکمرانوں کا اصرار اپنی خود ساختہ شریعت کے نفاذ پر ہے۔ میری راے کے مطابق یہی ہے سب سے بڑا تضاد، جس سے ہمارے معاشرے میں تمام فروعی تضادات جنم لے رہے ہیں۔(جاری)

بنگلہ دیشی اقتدار پر قابض حسینہ واجد، انسانی لہو کے جام پر جام پی رہی ہے۔ ہزاروں علما، طلبہ، سیاسی کارکنوں کے خون کی ہولی کھیلنے کے ساتھ، جس نے گذشتہ عرصے کے دوران جماعت اسلامی کے مرکزی رہنمائوں عبدالقادرمُلّا اور محمد قمرالزماں کو پھانسی دی۔ اب اس عمل میں تیزی لارہی ہے۔   اس خونیں کھیل کے لیے نام نہاد ’عالمی جنگی جرائم‘ کا ٹریبونل قائم کیا، جسے دنیا کے کسی باضمیر فرد نے عدالت تسلیم نہیں کیا۔ اسی کے ذریعے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کی لیڈرشپ کو تہہ تیغ کیا جارہا ہے۔

بھارت کی کٹھ پتلی بنگلہ دیشی حکومت کا اگلا ہدف، جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد ہیں، جنھیں مذکورہ ٹریبونل نے ۱۷جولائی ۲۰۱۳ء کو سزاے موت سنائی تھی۔ انھوں نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ ۲۷مئی ۲۰۱۵ء کو سپریم کورٹ نے اپیلیٹ بنچ تشکیل دیا تاکہ درخواست کو سرسری سماعت کے بعد ٹھکانے لگایا جائے۔

۱۶جون کو چیف جسٹس سریندر کمار سنہا کی سربراہی میں اپیلیٹ بنچ نے، علی احسن مجاہد کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سزاے موت کو بحال رکھا۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران اٹارنی جنرل محبوب عالم نے سرکاری موقف پیش کیا، جب کہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)کے مشیراعلیٰ خوندکر محبوب حسین اور ایس ایم شاہ جہاں نے علی احسن صاحب کی وکالت کی۔

علی احسن کے بیٹے علی احمد مبرور نے کہا: ’’ہمیں سپریم کورٹ سے انصاف نہیں ملا، اور اس فیصلے کے ذریعے ایک بار پھر انصاف کا قتل ہوا ہے‘‘، جب کہ اٹارنی جنرل محبوب عالم کے بقول: ’’سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری ہونے کے بعد سزاے موت کے فیصلے پرعمل درآمد کردیا جائے گا‘‘۔

جنگی جرائم کے مقدمات میں عالمی شہرت یافتہ قانون دان ٹوبی کیڈمین نے بنگلہ دیش کے نام نہاد ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ کو عالمی عدالتی معیارات کے یکسر منافی قرار دیتے ہوئے کہا: ’’نہ اس ٹریبونل کے ارکان کی عدالتی تربیت ہے اور نہ وہ انٹرنیشنل کریمنل قانون کے ماہر ہیں‘‘۔ اسی طرح انسانی حقوق کی بہت سی عالمی تنظیموں: ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، انٹرنیشنل سنٹر فار ٹرانزیشنل جسٹس نے بھی مقدمے کی سماعت ، کارروائی اور ٹریبونل کے وجود پر کھلے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

فیصلے کے اعلان کے فوراً بعد علی احسن مجاہد کے سینیر وکیل خوندکر محبوب حسین نے اخباری نمایندوں کو بتایا: ’’ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلے پر حیرت ہوئی ہے، خصوصاً اس صورت میں، جب کہ استغاثہ درست گواہیاں اور موزوں ثبوت پیش کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ بہرحال ہم تفصیلی فیصلے کی کاپی موصول ہونے پر سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کریں گے‘‘۔

علی احسن مجاہد کے بڑے بھائی علی افضل محمد خالص (امیر جماعت اسلامی فریدپور) نے کہا: ’’میرے بھائی کو جھوٹی گواہیوں کی بنیاد پر سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے، حالانکہ وہ اس مقدمے میں ہراعتبار سے بے گناہ ہیں۔ میرا خاندان اس فیصلے کو مسترد کرتا ہے، جو جھوٹ، جعل سازی، سازش اور غیراخلاقی بنیاد پر گھڑا گیا ہے۔ ہم اس سفاک حکومت اور اس کی ظالم عدلیہ کے اس غیراخلاقی، غیرقانونی اور غیرانسانی فیصلے کے خلاف اس دنیا میں احتجاج تک نہیں کریں گے اور صرف اللہ تعالیٰ سے انصاف چاہیں گے، اسی کا فیصلہ انصاف اور عبرت کا نمونہ ہوگا‘‘۔

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائم مقام امیر مقبول احمد نے کہا: ’’اس جھوٹے، بے بنیاد اور انتقام پر مبنی مقدمے نے ایک بار پھر اس بے رحم حکومت کا چہرہ بے نقاب کردیا ہے، جو جماعت اسلامی کو ختم کرنے کے لیے ہرغیراخلاقی ہتھکنڈا استعمال کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔ یہ حکومت علی احسن مجاہد جیسے سنجیدہ، بہادر اور دانش ور رہنما کے وجود کو ختم کرنے کے لیے ہرانتہائی سطح تک جانے کے لیے تیار دکھائی دیتی ہے‘‘۔

علی احسن مجاھد کا پیغام: سزاے موت کا فیصلہ سننے کے بعد  علی احسن مجاہد صاحب نے حسب ذیل پیغام دیا ہے، جسے ان کے بیٹے علی احمد مبرور نے سوشل میڈیا پر جاری کیا ہے: ’’الحمدللہ، میں اس انتہائی سزا کے اعلان پر ذرّہ برابر پریشان نہیں ہوں، جسے حکومت نے اپنی بدترین دشمنی کی تسکین کے لیے سنایا ہے۔ میرے فاضل وکلاے کرام نے مقدمے کی پیروی قابلِ تحسین محنت سے کی ہے اور سپریم کورٹ کے بنچ کے سامنے اس سچائی کو پوری قوت اور مہارت سے پیش کیا ہے، جو میری بے گناہی کی دلیل ہے۔ میں یقین کامل رکھتا ہوں کہ میرے خلاف گھڑے گئے مجرمانہ الزامات کی سرے سے کوئی حقیقت نہیں ہے، کجا یہ کہ ان کی بنیاد پر کوئی سزا سنائی جائے۔ حکومتی استغاثہ الزامات ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ اسی طرح اس مقدمے کے تفتیشی افسر تک نے اعتراف کیا ہے کہ ۱۹۷۱ء کی جنگ کے دوران میں، مَیں مذکورہ کسی بھی الزام یا جرم میں ملوث نہیں پایا گیا، مگر اس کے باوجود میں عدل سے محروم رکھا گیا ہوں۔

’’اس ماحول میں، مَیں جانتا ہوں کہ صرف میرا اللہ ہی میرا گواہ ہے۔ میں واشگاف لفظوں میں اعلان کرتا ہوں کہ مجھ پر عائد کردہ الزامات ۱۰۰ فی صد جھوٹے،جعلی اور بدنیتی پر مبنی ہیں۔ مجھے الزامات اور کردارکشی کی اس یلغار کا نشانہ صرف ایک بنیاد پر بنایا جا رہا ہے ، اور وہ یہ کہ میں تحریک اسلامی کا کارکن ہوں۔

’’میرے ہم وطنو! بنگلہ دیش میں روزانہ سیکڑوں لوگ قدرتی اسباب سے موت کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہ اموات کسی نام نہاد عدالتی ڈرامے میں سنائی جانے والی سزاے موت سے نہیں ہوتیں۔ کب اور کہاں کس فرد نے موت کی آغوش میں جانا ہے، اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے۔ کسی کو اختیار نہیں کہ وہ زندگی اور موت کے بارے میں ذاتِ باری کے فیصلے کو تبدیل کرے۔ اس صورت میں سزاے موت کا سنایا جانا میرے لیے کوئی وزن اور وقعت نہیں رکھتا۔ سو، مجھے اس خبر پر کوئی پریشانی نہیں کہ میرے لیے موت کی سزا تجویز کی گئی ہے۔

’’میرا ایمان ہے کہ ایک بے گناہ فرد کا قتل، تمام انسانیت کا قتل ہے۔ میں نے زندگی بھر کسی فرد کو نہ قتل کیا ہے اور نہ کسی ایسے گھنائونے فعل کا شریکِ جرم رہا ہوں۔ اسی طرح میں یہ بھی جانتا ہوں کہ حکومت نے باطنی نفرت اور سیاسی انتقام میں میرے خلاف جھوٹے اور بدنیتی پر مبنی الزامات کو ایک نام نہاد عدالت میں سزاے موت کا ذریعہ بنایا ہے۔ سن لیجیے، میں اپنی زندگی کے ہرلمحے میں، اللہ کے دین کی خدمت اور سربلندی کے لیے اپنی جان دینے کے لیے تیار تھا اور تیار ہوں۔ اللہ ہی میرا حامی و مددگار ہے___علی احسن مجاہد‘‘

۱۱؍اپریل ۲۰۱۵ء کو پاکستانی وقت کے مطابق رات ۳۰:۹ بجے عالمِ اسلام کا ایک عظیم فرزند تختۂ دار پر جھول گیا۔ شہید محمد قمرالزمان ایک فرد نہیں بلکہ فی الحقیقت ایک تحریک تھے۔ وہ بنگلہ دیش میں تحریکِ اسلامی میں، ایک مدبر دینی و سیاسی رہنما، اور جماعت اسلامی کے مستقبل کے قائد تھے۔ وہ بہ یک وقت بزرگوں اور نوجوانوں میں مقبول اور نہایت سلجھی، متین اور متوازن طبیعت کے مالک تھے۔ انھوں نے دل و دماغ اور جسم کی تمام صلاحیتیں دین اسلام کی خدمت اور سرزمینِ بنگال میں مسلمانوں کی ترقی و سربلندی کے لیے کھپا دیں۔ صدافسوس کہ ایک سفاک، اذیت پسند اور بھارتی آلۂ کار گروہ نے انھیں موت کے گھاٹ اُتار دیا، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔

جو اللہ کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے، صرف اہلِ حق کی یادوں ہی میں نہیں بلکہ اللہ کے وعدے کے مطابق انھیں ہراعتبار سے حیاتِ جاوداں حاصل ہے:

وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ ط بَلْ اَحْیَآئٌ وَّ لٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۵۴) جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انھیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ حقیقت میں زندہ ہیں، مگر تمھیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔

اور یہی وہ نفوسِ قدسیہ ہیں جنھیں ان کا خالق و مالک ان کی اس وفاشعاری کا پورا پورا اجر دے گا:

مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o لِّیَجْزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِھِمْ وَ یُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ (الاحزاب ۳۳:۲۳-۲۴) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ (یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کی جزا دے اور منافقوں کو سزا دے۔

اہلِ حق کی آزمایش کا یہ سلسلہ صبرواستقامت کے ساتھ جاری ہے۔

بنگلہ دیش کے وزیرقانون انیس الحق نے ۴؍اپریل کو پوری ڈھٹائی کے ساتھ ان الفاظ میں چیلنج کیا ہے کہ: ’’تحمل سے دیکھتے جایئے، انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے دائرۂ کار میں وسعت لانے کے لیے ہم ایک ترمیم بہت جلد کابینہ میں پیش کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں، اسی ٹریبونل سے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو ایک مجرم پارٹی کے طور پر غیرقانونی قرار دلایا جائے گا‘‘۔ (روزنامہ سٹار، ڈھاکہ، ۵؍اپریل ۲۰۱۵ئ)

محمد قمر الزمان کو حسینہ واجد کی حکومت نے جھوٹے مقدمات میں ۱۳جولائی ۲۰۱۰ء کو گرفتار کیا۔ ۹مئی ۲۰۱۳ء کو ایک نام نہاد عدالت نے انھیں سزاے موت سنائی۔ اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل پر اختلافی فیصلہ ۱۸فروری ۲۰۱۵ء کو جاری ہوا، جس میں کثرت راے سے   سزاے موت کو برقرار رکھا گیا۔ اس فیصلے کے خلاف ۵مارچ کو سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی، اور سماعت کے لیے ۵؍اپریل کی تاریخ مقرر ہوئی۔ سپریم کورٹ بنگلہ دیش کے چیف جسٹس سریندر کمارسنہا کی صدارت میں قمرالزمان کی اپیل کو مستردکرتے ہوئے سزاے موت کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا۔ اٹارنی جنرل محبوب عالم نے کہا: ’’اب پھانسی کی سزا پر عمل درآمد میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی‘‘۔(روزنامہ  سٹار، ڈھاکہ، ۶؍اپریل ۲۰۱۵ئ)

عالمی اور قومی سطح پر ردِعمل کی شدت کے باوجود عوامی لیگی حکومت بڑی تیزی سے معاملات کو ناقابلِ واپسی نشان تک پہنچا رہی تھی۔ بنگلہ دیش نیوز نیٹ ورک نے ۷؍اپریل کو خبر دی کہ سنٹرل جیل ڈھاکہ میں سزاے موت پر عمل درآمد کے منتظر قمر الزمان کے بچے جب شام ۴۵:۴ پر ملاقات کے بعد باہر آئے، تو انھوں نے انگلیوں سے فتح کا نشان بنایا۔ قمرالزمان کے سب سے بڑے بیٹے اقبال حسن نے بتایا:

ہمیں اس فیصلے پر کوئی پریشانی نہیں، ہم اپنے والد سے مسکراہٹوں کے ساتھ جدا ہوکر آرہے ہیں۔ یہ سارا مقدمہ بے بنیاد ہے اور اس مقدمے پر یہ فیصلہ   شرم ناک ہے۔ ہمیں اللہ کے سوا کسی سے انصاف کی اُمید نہیں ہے۔ اس مقدمے کی تیاری اور فیصلے کے ذمہ داروں اور موجودہ نام نہاد وزیراعظم سے ہمارا اللہ ہی نبٹے گا، وہی حقیقی عادل ہے۔ (بی ڈی نیوز، ۷؍اپریل ۲۰۱۵ئ)

شھادت پر عالمی ردعمل

’ہیومن رائٹس واچ‘(HRW) ایشیا کے ڈائرکٹر مسٹر براڈ ایڈمز نے قمرالزمان کی   سزاے موت کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’موت ایک ناقابلِ واپسی سزا ہے، اور جب ایسی سزا قانون کے تقاضوں کو نظرانداز کرکے دی جائے تو اس کے ظالمانہ ہونے میں دو راے نہیں ہوسکتیں۔ بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے مقدمات کا پورا عمل، شفاف قانونی طریقوں کی بے حُرمتی اور جانب دارانہ عدالتی طریق کار کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہونے سے کم حیثیت نہیں رکھتا… بلاشبہہ  ہم نے ۱۹۷۱ء میں مبینہ جنگی جرائم پر بازپُرس کی تائید کی تھی، مگر ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ: ’’ان مقدمات کی سماعت بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ قانونی و عدالتی معیارات کے تحت ہونی چاہیے۔ کیونکہ اُس وقت قانون اور عدل کی پاس داری انتہا درجے کی اہمیت اختیار کر جاتی ہے، جب معاملہ کسی فرد کو سزاے موت سنائے جانے پر پہنچ رہا ہو۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ قمرالزمان کے مقدمے کا، ان قانونی اور مبنی بر عدل معیارات کے مطابق فیصلہ نہیں ہوا‘‘۔ (بنگلہ دیشی اخبارات، ۷؍اپریل ۲۰۱۵ئ)

اقوامِ متحدہ کمیٹی براے انسانی حقوق (UNHRC) وہ ادارہ ہے، جو ’انسانی اور سیاسی حقوق کے عالمی معاہدوں‘ کی تشریح اور نگرانی کرتا ہے۔ اس کے مطابق: ’’سزاے موت کے فیصلوں کے عمل کو عادلانہ دفاع اور شفاف قانونی طریق کارکا اس درجے پابند ہونا چاہیے کہ کسی طرح کے شک و شبہے کی گنجایش نہ ہو۔ اور بنگلہ دیش نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ۱۸دسمبر ۲۰۰۷ء کو اس اتفاق راے پر مبنی قرارداد پر دستخط کیے ہیں، اس لیے بنگلہ دیش حکومت اس امر کی پابند ہے کہ وہ مسلّمہ عالمی عادلانہ اصولوں کی پاس داری کرے‘‘۔مگر جوشِ انتقام میں عوامی لیگی حکومت نے محمد قمرالزماں شہید کے معاملے میں اپنے تسلیم اور دستخط شدہ اصولوں کی دھجیاں اُڑائی ہیں۔

’انٹرنیشنل جیورسٹس یونین‘ (IJU) استنبول نے بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے   سزاے موت سنائے جانے کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ’’محمد قمرالزمان کے لیے     اس انتہائی سزا کا اہتمام اپنی سیاسی مدِمقابل جماعت کو ختم کرنے کا کھلا منصوبہ ہے۔ جس ادارے کے ذریعے موت کی سزائیں سنائی جارہی ہیں، وہ کسی بھی معیار اور کسی بھی اصول کے تحت نہ تو ’عالمی‘ ہے اور نہ ’عدالت‘ کے معیار پر پورا اُترتا ہے۔ اس ضمن میں دنیا بھر کے قانون پسند اور مقتدر حضرات اور اداروں کو بنگلہ دیشی حکومت پر دبائو ڈالنا چاہیے کہ وہ اس غیرمنصفانہ سزا کو نافذ نہ کرے۔ اسی طرح خود بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کو ہیگ کے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (ICC) کے طے شدہ ضابطوں کے تحت تشکیل دیا جانا چاہیے، تاکہ کسی شک و شبہے اور زیادتی کی گنجایش نہ رہے‘‘۔(ورلڈ بلیٹن، ۸؍اپریل ۲۰۱۵ئ)

آخری لمحات اور وصیت

شہید قمرالزمان کے بڑے بیٹے اقبال حسن نے ۱۱؍اپریل کی شام، شہادت سے چند گھنٹے پہلے اپنے والد سے ۳۵منٹ کی آخری ملاقات کے بعد جیل سے باہر نکل کر اخبارنویسوں کو بتا دیا تھا کہ: ’’میرے والد نے شہید عبدالقادر مُلّا کی طرح، ایک ظالم اور عدل کی قاتل حکومت سے رحم کی اپیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میرے والد کو آج صبح دو ججوں نے ملاقات میں یہ کہا کہ ’’آپ رحم کی اپیل کریں تو آپ کی جان بچ جانے کا پورا امکان ہے‘‘، مگر میرے والد نے انھیں واضح طور پر کہہ دیا:

حکومت نے جھوٹا اور بددیانتی پر مبنی مقدمہ درج کیا تھا۔ جب میں نے کسی جرم کا ارتکاب ہی نہیں کیا تو پھر میں معافی کس چیز کی مانگوں؟ میں ایسی ظالم، بدعنوان اور انسانیت کی قاتل حکومت کے صدر سے اپنی زندگی کی بھیک نہیں مانگ سکتا۔ جو آپ کے جی میں آتا ہے کریں، میرا حامی و مددگار صرف میرا اللہ ہے۔

اقبال حسن کے بقول: ’’جب ہم اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے ہمراہ آخری ملاقات کے لیے والد محترم کی کوٹھڑی کے قریب پہنچنے تو وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ ہم ان سے ملنے قریب  پہنچ چکے ہیں۔ مجھے اپنے والد کی پھانسی کوٹھڑی کا پتا دُور سے اُس آواز نے بتایا، جو اُن کی تلاوت قرآنِ پاک سے معمور تھی۔ جب ہم سلاخوں کے پیچھے کوٹھڑی کے قریب پہنچے تو انھوں نے مسکراہٹ سے ہمارا استقبال کیا، اور ’السلام علیکم‘ کہہ کر سب سے پہلی بات ہم سے یہ کہی کہ:

میں بنگلہ دیش میں اسلامی نظام کا نفاذ دیکھنا چاہتا تھا۔ اللہ کو میری اتنی ہی زندگی منظور ہے تو اب اگلے سفر کے لیے نوجوان اس تحریک کی قیادت سنبھالیں، اپنی بہترین صلاحیتیں پروان چڑھائیں اور ان صلاحیتوں کو اس راہ میں کھپائیں۔  ہم وطنوں کو بھارتی آلۂ کار حکومت کے ظلم اور غلامی سے بچائیں اور اس ظلم کا حساب بھی لیں۔ اس ظلم کا حساب یہ ہے کہ اس سرزمین پر اللہ کی حاکمیت قائم ہو اور اسی مقصد کے لیے جدوجہد کی جائے۔

انھوں نے ہم بہن بھائیوں کو یہ نصیحت کی کہ ہم اپنی تمام زندگی ایمان کے ساتھ اور ایمان پر عمل کے ذریعے گزاریں۔ہم اہلِ خانہ اور جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر [اسلامی جمعیت طلبہ] کے کارکنوں کو انھوں نے جو آخری پیغام دیا، وہ بہت مختصر ہے:

قرآن کو اپنا ساتھی بنائیں، قرآن کے سایے میں زندگی گزاریں ،اور قرآن و سنت ہی کو پوری زندگی کا رہنما بنائیں۔

جس وقت ہفتے کی رات ۳۰:۹ بجے محمد قمرالزمان کو پھانسی دی گئی، اُس وقت حکومتی اہتمام میں ’سیکولر کارکنوں‘ کا ایک جمگھٹا، سنٹرل جیل ڈھاکہ کے باہر: ’’پھانسی دو، پھانسی دو‘‘ کے نعرے بلند کر رہا تھا۔ پولیس اور مسلح اہل کاروں کی بڑی فورس کسی دوسرے فرد کو اس علاقے کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دے رہی تھی، مگر اس ’پسندیدہ گروہ‘ کو جیل کے قریب لے جاکر نعرے لگوانے کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔

بنگلہ روزنامہ نیادیگنتا کے مطابق جیل کے عملے نے بتایا:’’جب محمد قمرالزمان سے کہا گیا کہ: ’’وقت ہوگیا ہے، اب پھانسی گھاٹ چلنا ہے، تو وہ بسم اللہ پڑھ کر کھڑے ہوگئے۔ عملے کے   دو آدمیوں نے سہارا دینے کے لیے قدم بڑھایا تو انھوں نے کسی طرح کا سہارا لینے سے انکار کردیا اور خود ہی منزل کی طرف چل پڑے۔ پھانسی گھاٹ کی طرف ان کے چلنے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ ساتھ دینے والا عملہ تقریباً دوڑ رہا تھا۔ یوں قمرالزمان بلندآواز میں تلاوت کرتے ہوئے پھانسی کے تختے پر جاکھڑے ہوئے اور آخری لمحے تک بغیر کسی گھبراہٹ کے تلاوت ہی میں مصروف رہے‘‘۔

اتوار کو سحری کے وقت جب شہید محمد قمرالزمان کی میّت شیرپور کے گائوں کماری بازی ٹکھالی (Kumari Bazitkhali) لائی گئی تو اس چھوٹے سے گائوں کو چاروں طرف سے پولیس، ریپڈ ایکشن بٹالین (RAB) اور بارڈر گارڈ بنگلہ دیش (BGB)کے ہزاروں مسلح اہل کاروں نے گھیر رکھا تھا (بزدلی کی انتہا ہے)۔ سحری کے وقت صرف ۵۰؍افراد کو نمازِجنازہ پڑھنے کی اجازت دی گئی اور پاکستان کے وقت کے مطابق صبح چاربج کر ۴۵منٹ پر قمرالزمان کی تدفین عمل میں لائی گئی۔ ۸بجے کے بعد جوں ہی مسلح سرکاری اہل کاروں کا ایک حصہ وہاں سے واپس گیا، تو بی بی سی لندن کے مطابق مقامی صحافی عبدالرحمن نے بتایا:’’ بے شمار لوگ آہ و فغاں کرتے اور سسکیاں بھرتے قبرستان میں جمع ہوگئے‘‘۔ پھر کچھ دیر بعد ہزاروں لوگوں نے وہاں پر قمرالزمان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی۔

اخبارات کو جاری کیے گئے ایک خط میں محمد قمرالزمان شہید کے بیٹے حسن زمان نے لکھا ہے:

ہمیں اپنے والد گرامی کی عظیم الشان شہادت پر فخر ہے۔ اے حسینہ واجد! آپ میرے والد کو شہید کرنے میں کامیاب رہیں، لیکن آپ کو شاید علم نہیں کہ میرے والد قمرالزمان شہید جنت الفردوس میں ہیں اور آپ کے والد شیخ مجیب الرحمن جہنم کا ایندھن بنے ہیں۔ آپ نے میرے والد کو اس جرم میں پھانسی کا سزاوار ٹھیرایا کہ انھوں نے ۱۹۷۱ء میں اپنے علاقے میں امن کے قیام اور بھارتی مداخلت کے خلاف رکاوٹ بننے کی کوششیں کی تھیں۔ اگر انھوں نے وہ جرائم کیے ہوتے جو آپ نے جھوٹ پر مبنی مقدمے میں درج کیے تھے، تو علاقے کے لوگوں کو بھی اس کا کچھ علم ہوتا مگر پورے علاقے میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے ۴۲برس تک کسی ایک فرد نے بھی میرے والد کو بُرے نام سے نہیں پکارا۔ آپ نے میرے والد کو ۲۰۱۰ء میں گرفتار کرکے مختلف جیلوں اور تشدد گاہوں میں حیوانی تشدد کا نشانہ بنایا، مگر انھوں نے اس تمام تشدد کو خندہ پیشانی اور صبر سے برداشت کیا۔ آپ نے ہرحربہ اختیار کیا کہ میرے والد کو نفسیاتی طور پر توڑ دیا جائے، مگر الحمدللہ وہ ثابت قدم رہے۔ آپ کا خیال تھا کہ وہ سزاے موت کے خلاف آپ لوگوں سے زندگی کی بھیک مانگیں گے، لیکن انھوں نے آپ کی اس مذموم خواہش کو پائوں کی ٹھوکر سے اُڑا دیا۔ (بنگلہ اخبارات)

پاکستانی حکومت اور میڈیا کی بے حسی

روزنامہ جسارت  نے اس موقعے پر ’قمرالزمان کی پھانسی اور پاکستان کی بے حسی‘ کے زیرعنوان اپنے اداریے میں لکھا: ’’بنگلہ دیش حکومت کے تمام اقدامات خالصتاً پاکستان کے خلاف معاندانہ رویے پر مبنی ہیں۔ بنگلہ دیش کے متنازع اور غیرقانونی ٹریبونل کے مقدمات اور الزامات دراصل سب کے سب پاکستان اور پاک فوج کے خلاف چارج شیٹ ہیں، لیکن پاکستانی حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں نے اسے بنگلہ دیش کا اندرونی مسئلہ قرار دے کر فرار کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ اس مقام تک بات پہنچانے میں مغرب، یہود اور ہنود کے زیرکنٹرول پاکستانی میڈیا نے اہم کردار اداکیا ہے، بلکہ اس کو ایجنڈا ہی یہ دیا گیا ہے کہ پاکستان، نظریۂ پاکستان اور اسلام سے وابستگی کو گالی بنا دیا جائے۔ چنانچہ [آج] جب بنگلہ دیش میں خاص طور پر جماعت اسلامی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو  ہمارا میڈیا بالکل خاموش ہے… آج اگر بنگلہ دیش حکومت کو نہیں روکا گیا تو پھر وہ کل پاک فوج کے خلاف بھی اقدامات کرے گی، اور اس وقت اگر کچھ کہا گیا تو یہی یاد دلایا جائے گا کہ ’’یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے‘‘۔(۱۳؍اپریل ۲۰۱۵ئ)

روزنامہ نواے وقت (۱۳؍اپریل) نے اداریے میں لکھا: ۱۹۷۱ء میں عالمی سازشوں کے نتیجے میں پاکستان دو ٹکڑے ہوا۔ اس سے قبل یہ دونوں علاقے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کہلاتے تھے۔ جب بھارتی افواج اور اس کی حمایت یافتہ مکتی باہنی کے مسلح تخریب کاروں نے پاکستان کے خلاف کارروائیاں شروع کیں تو محب ِ وطن بنگالی پاکستانیوں نے اس کے خلاف   حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کا ساتھ دیا۔ ان کا یہ فعل اپنے ملک کے دفاع کے لیے جائز اور برحق تھا۔ اب ۴۴برس بعد اپنے وطن کا دفاع کرنے والوں کو ’جنگی مجرم‘ قرار دے کر پھانسی پر لٹکائے جانے کا عمل نہایت افسوس ناک ہے۔ اگر یہ لوگ مجرم ہوتے تو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد انھیں تختۂ دار پر کیوں نہیں لٹکایا گیا۔ اب حسینہ واجد کے دورِ حکومت میں ایسا [اس لیے] کیا جارہا ہے کہ جماعت اسلامی آج بھی بنگلہ دیش میں ایک مضبوط سیاسی جماعت ہے۔ جماعت اسلامی کے جن عہدے داروں کو پھانسی دی گئی ہے، انھوں نے بنگلہ دیش بننے کے بعد کبھی نئے ملک کی مخالفت نہیں کی، اور نہ اس کے خلاف کوئی کام کیا۔ وہ تو بنگلہ دیش کے پُرامن شہری بن کر رہے۔ پاکستان کو ایسے لوگوں کی پھانسی پر شدید ردعمل ظاہر کرنا چاہیے، کہ جن کو پاکستان کی حمایت کی سزا دی جارہی ہے، اور پاکستان کو ان لوگوں کی سزا ختم کرانے کے لیے کوششیں کرنی چاہییں‘‘۔

روزنامہ اُمت (۱۳؍اپریل)نے قمرالزمان کی شہادت پر جو خصوصی شذرہ شائع کیا، اس کا کچھ حصہ پیش ہے:

  •  بنگلہ دیش کی ناگن نے اس بار جماعت اسلامی کے رہنما قمر الزمان کو ڈس لیا ہے۔ صرف اس جرم میں کہ وہ پاکستان کے دفاع کے لیے سینہ سپر کیوں ہوئے تھے۔
  • اے خداے ذوالجلال! قمرالزمان شہید کو جنت عطا فرما اور حسینہ واجد کو نشانِ عبرت بنا ۔
  • اے ربِ کائنات! حکومت ِ پاکستان کو خاصی مقدار میں غیرت اور حمیت عطا فرما، تاکہ اپنے بیٹوں کے قتل پر لب سینے کے بجاے وہ جوابی قانونی و سفارتی اقدام کرسکے۔
  • اے ربِ ذوالجلال! پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو بھی کچھ غیرت عطا فرما، تاکہ اپنے مفادات سے اُوپر اُٹھ کر حکومت پر دبائو ڈالیں کہ وہ گھٹنوں میں منہ نہ چھپائے بلکہ عملی فیصلے کرے۔
  • اے ہماری جانوں کے آقا! عالمِ اسلام میں پھیلے انتشار کا خاتمہ فرما، اور مسلم ممالک کو توفیق دے کہ وہ بھارت اور بنگلہ دیش پر دبائو ڈال کر ان مظلوموں کے قتل کا سلسلہ روکیں۔
  • اے ہمارے رب! پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلی دینی اور سیاسی جماعتوں کو توفیق دے کہ وہ کچھ وقت نکال کر بنگلہ دیش کے ان مظلوم مسلمانوں کے لیے آواز بلند کریں۔

قمرالزمان شھید: حیات و خدمات

محمد قمرالزمان ۴جولائی ۱۹۵۲ء کو شیرپور کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۹ء میں میٹرک کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ کی دعوت قبول کی۔ ۱۹۷۱ء میں جب سالِ دوم کے طالب علم تھے، تو اپنے علاقے میں امن و امان کی بحالی کے لیے رضاکارانہ خدمات انجام دیں۔ ۱۹۷۶ء میں ڈھاکہ یونی ورسٹی سے ایم اے صحافت کیا۔ ۱۹۷۴ء سے ۱۹۷۷ء تک ڈھاکہ میں طلبہ کو منظم کیا اور ۶فروری ۱۹۷۷ء کو ڈھاکہ یونی ورسٹی میں اسلامی چھاترو شبر کی تاسیس میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کے پہلے مرکزی سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے، اور اگلے برس ۱۹۷۸ء میں مرکزی صدر منتخب ہوئے۔ تعلیم سے فارغ ہوتے ہی ۱۹۷۹ء میں جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ ۱۹۸۰ء میں عملی زندگی کا آغاز ڈھاکہ ڈائجسٹ کے مدیر منتظم کی حیثیت سے کیا۔ ۱۹۸۳ء میں ہفت روزہ سونار بنگلہ کی ادارت سنبھالی۔ روزنامہ سنگرام کی مجلس ادارت کے کلیدی رکن کی حیثیت سے اہم صحافتی خدمات انجام دیں۔ وہ بنگلہ دیش کے صحافیوں کی پیشہ ورانہ تنظیموں کے سرگرم رکن رہے، جن میں ’ڈھاکہ یونین آف جرنلسٹس‘، ’بنگلہ دیش فیڈرل یونین آف جرنلسٹس‘ اور نیشنل پریس کلب شامل ہیں۔ ۱۹۸۳ء سے ۱۹۹۱ء تک جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری نشرواشاعت اور ۱۹۹۲ء سے تاحال مرکزی سینیر ڈپٹی سیکرٹری جنرل تھے۔

قمرالزمان کی بے گناہی کا ثبوت ان کی پوری زندگی ہے اور جس شان سے وہ سوے دار چلے اور موت کے پھندے کو اللہ کا نام لے کر چوم کر انھوں نے اس پر مہرتصدیق ثبت کردی۔ قمرالزمان ۱۹۷۱ء کے خون آشام دور کے بعد ڈھاکہ یونی ورسٹی میں اپنا سر فخر سے بلند کرتے ہوئے داخل ہوئے۔ وہی ڈھاکہ یونی ورسٹی جہاں عوامی لیگ کے طلبہ کا غلبہ تھا اور جو چھانٹ چھانٹ کر ان لوگوں کو نشانہ بنا رہے تھے، جن پر انھیں ’جنگی جرائم‘ کا شبہہ تھا۔ انھوں نے اسی یونی ورسٹی میں کھلے بندوں تعلیم حاصل کی۔ ایم اے میں اول پوزیشن حاصل کی، اسلامی چھاترو شبر کے سرگرم رکن رہے اور کسی نے ان پر انگلی نہ اُٹھائی۔ ۷۴-۱۹۷۳ء میں جب جنگی جرائم کے مرتکب افراد پر مجیب الرحمن کے دورِ حکومت میں مقدمات بنائے گئے تو ان کا کہیں ذکر نہ تھا۔ لیکن اب ۴۰برس بعد مجیب کی بیٹی اور اس کے حواریوں نے ان کو اس جھوٹے مقدمے میں محض سیاسی انتقام اور جماعت اسلامی کو   زِک پہنچانے کے لیے پھانسا جسے عدالتی عمل میں ثابت نہ کیا جاسکا۔ سیکولر قوم پرستانہ ’انصاف‘ کی مثال دیکھیے کہ جن دیہات کے ۱۲۰؍افراد کو ’قتل کرنے‘ اور ’بے حُرمتی‘ اور ’لُوٹ مار‘ کا الزام لگایا گیا، وہاں سے ایک بھی گواہ پیش نہ کیا جاسکا۔ اور جو گواہ پیش کیے ان پر وکلاے صفائی کو جرح کا موقع تک نہ دیا گیا۔ محمدقمرالزمان نے اس ’عدالتی قتل گاہ‘ میں ظالموں کو ظالم کہا اور اپنی شہادت سے اپنے برحق ہونے کو ثابت کردیا۔

قمرالزمان سیاست دان اور صحافی ہی نہیں بلکہ ایک محقق اور دانش ور بھی تھے۔انھوں نے بہت سے مضامین اور متعدد بنگلہ کتب تصنیف کیں: mعصرِجدید اور اسلامی انقلاب mتحریک اسلامی اور عالمی منظرنامہ  mمغرب کا چیلنج اور اسلام mانقلابی رہنما: پروفیسر غلام اعظم، جب کہ خرم مراد کی کتاب قرآن کا راستہ کا بنگلہ ترجمہ شامل ہیں۔

ریاستی فسطائیت کی بدترین مثال

آج بنگلہ دیش میں جو صورتِ حال ہے، اس کے بارے میں جماعت اسلامی کے قائم مقام سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمن کا یہ بیان قابلِ توجہ ہے: ’’عوامی لیگی حکومت کی فسطائی حکمت عملی کے نتیجے میں نہ صرف بڑے پیمانے پر جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، بلکہ گرفتار کرتے وقت اُن پر وحشیانہ تشدد بھی کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ ان کے گھروں میں لُوٹ مار بھی کی جاتی ہے اور گھروں کے برتن، فرنیچر اور شیشے تک توڑ پھوڑ دیے جاتے ہیں۔ یہ طرزِعمل دراصل اس لیے اختیار کیا جاتا ہے کہ اردگرد کے لوگوں میں دہشت پھیل جائے، اور خود نشانہ بننے والا گھرانہ دیر تک معاشی دبائو کی زد میں رہے۔سڑکوں پر اور مظاہروں میں ہمارے کارکنوں کو قتل کرنے کے لیے حکومتی مشینری اور عوامی لیگی کارکنوں کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اس نوعیت کے لاتعداد واقعات بھی ہیں: ۳؍اپریل کو گوبند گنج جیل میں اسلامی چھاترو شبر کے رکن سحرالاسلام کو تشدد کرکے شہید کردیا۔ انھیں دو ماہ قبل گرفتار کرتے وقت لاٹھیاں مار کر زخمی کر دیا تھا، اور زخمی حالت میں جیل میں ڈال دیا اور پھر تشدد کرکے مار دیا ۔ پھر ۶؍اپریل کو نواکھالی میں ’شبر‘ کے کارکن عمرفاروق کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ ۲؍اپریل کو سراج گنج میں پولیس افسر نے ’شبر‘ کے ۱۸سالہ رکن انیس الرحمن انیس کو گولی مار کر شہید کردیا۔ اسی طرح پبنہ صدر میں جماعت اسلامی کے رکن محمدشریف الاسلام کو بھرے بازار میں چھرا گھونپ کر مار دیا۔ یہ واقعات روزانہ کی بنیاد پر ریاستی، حکومتی اور سیاسی فسطائیت کی بدترین مثالیں ہیں‘‘۔

دینی اور تعمیری قوتوں کو کچلنے کی سازش

تاریخ میں یہ انوکھی مثال ہے کہ ۴۰برس گزرنے کے باوجود عوامی لیگ، ہندستان کی بی ٹیم کی پوزیشن ہی پر قائم رہنا چاہتی ہے اور اسی حیثیت میں اپنے ہی لوگوں کو مار کر اپنے بیرونی آقائوں کو خوش کرنے میں دن رات مصروف ہے۔ ایسی ظالمانہ غلامی کی مثال مسلم دنیا نے کم ہی دیکھی تھی، لیکن علاقائی قومیت و لسانیت کے بت کی پوجا کرنے والوں نے ایسی قابلِ نفرت مثال پیش کی ہے۔

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عوامی لیگ، بنگلہ دیش کو ایک آزاد مسلم ملک کے طور پر ترقی دینا چاہتی ہے تو یہ اُس کی کم فہمی ہے۔ جب مسلم لیگ سے الگ ہوکر عوامی لیگ بنی تھی، تب سے اس پارٹی کا اوّلین ہدف بھارتی برہمنوں کی خوشنودی رہا ہے۔ ۱۹۷۱ء میں جماعت اسلامی نے تو یقینا پاکستان کی سالمیت اور بھارتی گماشتوں اور بھارتی فوجوں کے مقابلے کے لیے جان ہتھیلی پر رکھی تھی، لیکن اس کے برعکس بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے وہ عناصر جو ۱۹۷۱ء میں     عملاً عوامی لیگ ہی کا حصہ تھے، اس بی این پی کو بھی عوامی لیگ دم لینے کی مہلت نہیں دینا چاہتی، کیونکہ بی این پی کا موقف بھی یہ ہے کہ: ’’بنگلہ دیش کی خودمختاری کا تحفظ کیا جائے، اسے ہمسایہ بھارت کا تابع مہمل طفیلی ریاست نہ بنایا جائے‘‘۔ یہ چیز نہ بھارت کو ہضم ہوسکتی ہے اور نہ بھارت کے بنگلہ دیشی کارندوں کو راس آسکتی ہے۔

یہ بھارت اور حسینہ واجد کے اس منصوبے کا حصہ ہے کہ جماعت اسلامی اور دیگر اسلامی حلقوں کی سیاسی اور اجتماعی قوت کو بنگلہ دیش میں اس طرح کاٹ دیا جائے کہ وہ کبھی طاقت نہ پکڑسکیں۔ جماعت اسلامی کے دیگر اکابر رہنمائوں کو سزاے موت کی صف میں کھڑا کیا ہوا ہے۔ خصوصاً مئی ۲۰۱۵ء میں سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد اور غالباً مطیع الرحمن نظامی کو ہدف بنانے کا خدشہ ہے۔ بعداز شہادت احتجاج کے بجاے، ان قیمتی جانوں کو بچانے کے لیے آج آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔

حیرت انگیز بات ہے کہ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی انسانی ادارے اس ظلم و درندگی کو روکنے میں بہت سُست روی کے شکار دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ بنگلہ دیشی جنگی جرائم کے نام نہاد ٹریبونل  نہ صرف بنگلہ دیش میں، بلکہ دنیابھر کے انصاف پسند اور غیر جانب دار حلقوں میں، کسی درجے بھی قابلِ اعتماد عدالتی ادارہ تسلیم نہیں کیے گئے۔ سبھی نے انھیں برسرِاقتدار گروہ کے سیاسی مقاصد کی تکمیل کا بدترین آلۂ شر تصور کیا ہے۔

۱۵؍اپریل ۲۰۱۵ء کو بنگلہ دیش کے اخبارات میں امریکی محکمہ خارجہ کے نام ایک خفیہ برقی پیغام افشا ہوکر شائع ہوا، جس کے مطابق: ’’عوامی لیگی حکومت کے انتہاپسند عناصر کی راے ہے کہ: ’’یہی درست وقت ہے، جب جماعت اسلامی اور دیگر اسلامی پارٹیوں کو تباہ کیا جاسکتا ہے‘‘۔

نام نھاد ٹریبونل کی حقیقت

بیرسٹر ٹوبی کیڈمین (Toby Cadman) برطانوی نژاد ، بین الاقوامی قانون کے عالمی ماہر ہیں۔ وہ بوسنیا اور روانڈا میں جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے ناقابلِ فراموش خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ انھوں نے بنگلہ دیش میں، جماعت اسلامی کے خلاف مقدمات کے اس عمل پر بہت سے مضامین لکھے ہیں۔ ان کے ایک مضمون سے چند حصے ملاحظہ ہوں:

’’بنگلہ دیش کا انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل مکمل طور پر ایک قومی [بنگالی] ادارہ ہے۔ اسے کسی بھی اعتبار سے بین الاقوامی نوعیت کا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بنگلہ دیش بہت سے عالمی یا بین الاقوامی معاہدوں کا پابندہے، مگر پوری کوشش کی گئی ہے کہ ۱۹۷۱ء کے واقعات کے حوالے سے قائم کردہ ٹریبونل کی کارروائی میں کسی بھی بین الاقوامی معاہدے کا کچھ خیال نہ رکھا جائے۔ پھر اس ٹریبونل کو ایک آزاد، خودمختار اور غیر جانب دار ٹریبونل کی حیثیت سے کام کرنے کے قابل بنانے کے لیے مطلوب وسائل بھی فراہم نہیں کیے گئے‘‘۔

’’حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت کی پہلے دن سے یہ کوشش رہی ہے کہ کوئی بین الاقوامی ماہر قانون اس ٹریبونل کے سامنے پیش نہ ہو۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ کئی عالمی ماہرین قانون نے بنگلہ دیشی حکومت کو جنگی جرائم کے ان نام نہاد مقدمات میں معاونت کی پیش کش کی، مگر ہربار اس   پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا گیا۔ ایسا غالباً اس لیے کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت کو یہ خوف لاحق ہے کہ غیر جانب دارانہ انداز سے مقدمات چلائے جانے کی صورت میں،اس کے لیے مطلوبہ فیصلوں کا حصول ناممکن ہوگا۔اس بارے میں جیوفرے رابرٹسن کی رپورٹ بہت اہم ہے،جن کے بقول: ’’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے لیے غیرملکی اور غیر جانب دار ججوں کا تقرر لازم ہے، کیونکہ ملک کے اندر سے مقرر کیے جانے والے جج قومی عصبیت میں بہہ گئے ہیں اور قانون کے بنیادی اصولوں پر خاطرخواہ توجہ دینے میں ناکام رہے ہیں‘‘۔

’’اسی طرح بنگلہ دیش میں نام نہاد جنگی ٹریبونل کی کارروائی غیرمعمولی حد تک اُلجھی ہوئی اور متنازع ہے، جس میں انصاف کی فراہمی کے پورے عمل کو دائو پر لگادیا گیا ہے۔ مقدمات کی کارروائی کسی بھی اعتبار سے ایسی شفاف نہیں ہے کہ اس پر کہیں سے کوئی اعتراض کیا ہی نہ جاسکے۔ حالانکہ اس معاملے میں شفافیت اور جامعیت کا خیال رکھا جانا لازم ہے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں جانب داری اور ناانصافی کا الزام عائد کیا جانا بالکل فطری امر ہے۔ میں پورے یقین کی بنیاد پر یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ مدعا علیہان [جماعت اسلامی سے نامزد کردہ ملزمان] نے کسی بھی مرحلے پر معاملات کو خواہ مخواہ اُلجھانے اور بگاڑنے کی کوشش نہیں کی، اور ان کا ایسا کوئی ارادہ تھا ہی نہیں۔ وہ تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ جنگی جرائم کے نام نہاد مقدمات عالمی برادری کی نگرانی میں چلائے جائیں تاکہ غیرجانب دارانہ کارروائی کے نتیجے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ مگر بدقسمتی سے اس پورے عمل کا بنیادی محرک سیاسی انتقام دکھائی دیتا ہے۔ عالمی سطح پر دنیا مجموعی طور پر یہی سمجھتی ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت ’جنگی جرائم کی تحقیقات‘ کے نام پر اور غیرمعیاری طریق کار اپنا کر محض سیاسی انتقام لے رہی ہے‘‘۔(tobycadman.com)

عالمی ادارے اس امر میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتے ہیں کہ وہ بنگلہ دیش کی غیرقانونی حکومت کو مجبور کریں کہ وہ بددیانتی پر مبنی عدالتی ڈرامے کے بجاے درست عدالتی عمل کو شروع کرے۔

نام نہاد جنگی جرائم ٹریبونل کے یہ تمام مقدمات ظاہر کرتے ہیں کہ گذشتہ برسوں میں عدلیہ میں عوامی لیگ کی سیاسی بھرتیوں نے ایسی صورت حال پیدا کردی ہے کہ وہاں کے چیف جسٹس سے لے کر نچلی سطح تک، ججوں میں انصاف کی پاس داری سے بڑھ کر زمانۂ طالب علمی کی عوامی لیگ کی سیاست پرستی رنگ جما رہی ہے۔ اسلامی قوتوں اور خصوصاً جماعت اسلامی سے نفرت کے جذبات رکھنے والے برسلز، بلجیم میں مقیم ڈاکٹر احمد ضیاء الدین اس خونیں ڈرامے کے ہدایت کار ہیں، جنھیں اکانومسٹ لندن اور وال سٹریٹ جرنل نے دسمبر ۲۰۱۲ء میں بے نقاب کردیا تھا۔ یاد رہے کہ اُس وقت مذکورہ متنازع ٹریبونل کے چیئرمین جسٹس نظام الحق اور ضیاء الدین کی اس گفتگو کو اکانومسٹ نے ان لفظوں میں شائع کیا تھا: ’’ڈاکٹر ضیاء الدین نے جسٹس نظام الحق سے کہا تھا کہ وہ جلد از جلد فیصلے نمٹائیں (فیصلوں کا مطلب سزاے موت سنانا ہے)۔ کوئی بھی آپ کو مقدمات کی سماعت سے نہیں روک سکے گا، اور ان ملزموں کو اسی سرزمین پر پھانسی دی جائے گی‘‘۔ (روزنامہ اسٹار، ڈھاکہ، ۳مارچ ۲۰۱۳ئ)۔ بیرسٹر ٹوبی کیڈمین کے بقول: ’’نظام الحق اور ضیاء الدین کی اس گفتگو سے بالکل واضح شکل سامنے آئی کہ بنگلہ دیش ’وار کرائمز ٹربیونل‘ کے سربراہ تو نظام الحق تھے، مگر وہ کام ڈاکٹر ضیاء الدین کی ہدایات کی روشنی میں کرتے تھے‘‘۔ان حقائق کی بنیاد پر نام نہاد ٹریبونل کی عدالتی دیانت کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ گیا تھا۔

اس سارے پس منظر میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پاکستان کا دفاع کرنے والوں کے قتلِ عام پر پاکستان کی حکومت، سیاسی پارٹیوں اور سیاست دانوں کا رویہ تقریباً لاتعلقی کا ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خاں نے اس المیے پر جرأت مندانہ اور حقیقت پسندانہ  بیان دیا، لیکن دوسری طرف وزیراعظم اور وزارتِ خارجہ کا اس ضمن میں رویہ ناقابلِ فہم اور حددرجہ مداہنت پر مبنی ہے۔یہ اس بیماری کی علامت ہے کہ ہمارے پاکستانی حکمران، دانش ور اور صحافتی حلقے اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔ انھیں پروا نہیں کہ پاکستان کی تاریخ کے درست تناظر کو بگاڑا جارہا ہے اور ایک نیا جعلی تناظر تیار کیا جارہا ہے۔حالانکہ ان کا دشمن اپنی تمام تر حکمت عملی اُس تاریخ کی بنیاد پربنا رہا ہے، جو خود دشمن کے ہاتھوں مسخ کرکے لکھی اور جھوٹی داستانوں کی شکل میں پھیلائی گئی ہے۔صد افسوس کہ ہمارے مقتدر اور حکمران طبقے بھی اسی پر ایمان لابیٹھے ہیں۔

عزمِ نو

بنگلہ دیش میں تمام تر ریاستی فسطائیت دراصل اسلام پسند قوتوں کو کچلنے کی سازش ہے۔ تاہم قمرالزمان کی شہادت کے باوجود اہلِ بنگلہ دیش پُرعزم ہیں، اللہ کے اس فرمان کے پیش نظرکہ اللہ کے دین کو بہرحال غالب آکر رہنا ہے۔ وہ غلبۂ اسلام کی جدوجہد کو ایک نئے عزم، ولولے اور صبرواستقامت سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (الصف ۶۱:۸) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

اسلام دشمن قوتوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ظلم و ستم اور جبر و سفاکیت سے اسلام کو غالب آنے سے نہیں روکا جاسکتا۔

بنگلہ دیش ملت ِ اسلامیہ سے وابستہ اور مسلم قومیت کے جذبے سے سرشار لوگوں کا وطن ہے۔ ان کے آباواجداد نے کبھی غلامی کی زنجیروں کو قبول نہیں کیا۔ ہزار سالہ مسلم دورِحکومت میں بھی یہ لوگ خودمختاری اور خودداری کا حوالہ بنے رہے۔ پھر انگریزوں سے آزادی اور برہمنی سامراج سے چھٹکارا پانے کے لیے ان کی قربانیوں اور جدوجہد کا کوئی مقابلہ نہیں۔ مگر اس سب کے باوجود تاریخ کا یہ تکلیف دہ سوال ہے کہ :

گذشتہ ۴۰برسوں سے یہی مظلوم بنگلہ دیشی، برہمنی آلۂ کار عوامی لیگ کے پھندے میں کیوں پھڑپھڑا رہے ہیں؟

اس سوال کا جواب بنگلہ دیشی اور غیربنگلہ دیشی ماہرین تاریخ و سماجیات پر قرض ہے۔ تاہم، اس وقت رنج و اَلم کا معاملہ آج کے لہورنگ بنگلہ دیش سے وابستہ ہے۔

۵ جنوری ۲۰۱۴ء بنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ جمہوریت سے وابستہ ملکوں کے لیے بھی ایک شرم ناک دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس روز عوامی لیگ کی حکومت نے یک طرفہ انتخابی یلغار کرکے پوری پارلیمنٹ پر قبضہ جمالیا تھا۔ اس قبضے کو پہلے پہل یورپی یونین اور امریکا تک نے مسترد کیا، مگر آہستہ آہستہ حسینہ واجد کی سربراہی میں قابض ٹولے سے معاملات طے کرنے شروع کر دیے اور عوامی لیگ نے بھی بھارت کو زیادہ سے زیادہ مراعات دینے کے لیے اُوپر تلے فیصلے شروع کر دیے۔ بھارتی مفادات کے تحفظ اور بنگلہ دیشی مفادات کی نفی پر مبنی اس ’لوٹ سیل‘ پر محب ِ وطن حلقے چیخ اُٹھے۔

جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP ) کے ساتھ مزید ۱۸پارٹیوں نے اس عوامی لیگی قبضہ گروپ کے خلاف ۵جنوری ۲۰۱۵ء کو ’یومِ قتلِ جمہوریت‘قرار دے کر تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ غاصب حکومت نے اس احتجاج کو کچلتے ہوئے ۲۰۰ سے زیادہ افراد کو قتل اور    ۱۵ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کرلیا۔ بنگلہ دیش کے طول و عرض میں عوام نے جوش و خروش سے حکومتی اقدامات کے خلاف نفرت کا اظہار کیا۔ ریل کی پٹڑیوں، قومی شاہرائوں اور دریائی آبی راستوں پر آمدورفت کو معطل کر دیا۔ حزبِ اختلاف کا یہ احتجاج ۵جنوری ۲۰۱۴ء سے اب تک جاری ہے۔ اس دوران حکومت نے نہ صرف طالب علموں اور مزدوروں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا، بلکہ بزرگوں، مریضوں اور چھوٹے بچوں تک کو خون میں نہلادیا۔

صرف مارچ کے دوران جماعت اسلامی اور بی این پی کے ۵۰ سے زائد کارکنوں کو  مختلف شہروں (چٹاگانگ، رنگ پور،جیسور، سلہٹ، میمن سنگھ، فینی، ڈھاکہ وغیرہ) میں چھرا گھونپ کر   ہلاک کیا گیا ہے۔ اس نوعیت کی کارروائی عوامی لیگ کے کارکنوں نے کی، جن میں سے بیش تر کی  نشان دہی گواہوں نے کی، مگر پولیس انھیں پکڑنے یا مقدمہ دائرکرنے سے انکار کرتی چلی آرہی ہے۔ اس سے عوامی لیگ اور پولیس کی ملی بھگت بے نقاب ہوجاتی ہے، اور عوام میں عدم تحفظ کے احساس اور خوف کی فضا دیکھی جاسکتی ہے۔

۱۷ مارچ کو آدھی رات کے وقت گورنمنٹ کالج چٹاگانگ اور گورنمنٹ محمد محسن کالج چٹاگانگ سے اسلامی چھاتروشبر  (اسلامی جمعیت طلبہ بنگلہ دیش) کے ۸۰ کارکنوں کو بلاوجہ اُٹھا کر تھانوں میں بند کردیا گیا۔ جب پولیس طلبہ کے ہاسٹلوں پر دھاوا بول رہی تھی تو چھاترو لیگ، یعنی عوامی لیگ کی حامی اسٹوڈنٹس لیگ کے مقامی کارکن پولیس کو نشان دہی کرکے شبر کے کارکنوں کو گرفتار ہی نہیں  کرا رہے تھے بلکہ دھکے دیتے ہوئے گھسیٹ بھی رہے تھے۔ اس طرح کے دل دوز واقعات آج کے بنگلہ دیش میں روز کا معمول بن چکے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ (HRW) ایشیا کے ڈائرکٹر براڈ ایڈم نے مطالبہ کیا ہے کہ: ’’مارچ ۲۰۱۵ء میں بی این پی کے ترجمان اور مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل صلاح الدین احمد(جو وزیر بھی رہے)  کے حکومتی کارندوں کے ہاتھوں اغوا کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کرائی جائیں‘‘۔ یاد رہے کہ ۱۰مارچ کی رات صلاح الدین کے ہمسایے کے مطابق سادہ کپڑوں میں پولیس کے کارندے ان کی قیام گاہ پر آئے۔ انھوں نے چندگھنٹوں کی پوچھ گچھ کا وعدہ کرکے انھیں ساتھ لیا، اور بعد میں انکار کردیا کہ ہمیں کوئی علم نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے، بلکہ اس طرح سیاسی کارکنوں کو غائب کرنے کے بے شمار واقعات شہر شہر میں دُہرائے جارہے ہیں۔ اس عمل کا سب سے زیادہ نشانہ اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو بنایا جا رہا ہے، جن میں سے بعض کی لاشیں ندی نالوں اور جوہڑوں میں تیرتی پائی گئی ہیں، یا پھر اُن کی ٹانگوں پر گولیاں مار کر انھیں اپاہج بنادیا گیا ہے۔ یہ وہ وحشیانہ تکنیک ہے جو بھارت میں راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ (RSS) اپناتی ہے۔

اپریل کا مہینہ اس اعتبار سے بڑی نزاکت رکھتا ہے کہ اس ماہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے چوٹی کے رہنمائوں کو سزاے موت دینے کے لیے عوامی لیگی حکومت آخری ڈراما رچانے جارہی ہے۔

مئی ۲۰۱۳ء میں جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما محمد قمرالزماں کو جھوٹے مقدمے میں سزاے موت سنائی گئی۔ ان کی طرف سے کی گئی نظرثانی کی اپیل کو ایک جج نے منظور اور تین نے مسترد کیا، اور ۱۹فروری کو نام نہاد کرائمز ٹربیونل نے سزاے موت کے وارنٹ پر دستخط کیے۔ اب یکم اپریل سے قمرالزماں کی حتمی اپیل کی سماعت شروع ہورہی ہے۔ امکان یہی ہے کہ یہ بھی مسترد کی جائے گی۔ اسی طرح ٹریبونل کی جانب سے سزاے موت کے خلاف امیرجماعت اسلامی مطیع الرحمن نظامی کی سپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت بھی ۳۰ مارچ سے ہورہی ہے، جب کہ ۱۸فروری کو جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر مولانا عبدالسبحان کو ٹریبونل نے سزاے موت سنائی ہے۔ عبدالسبحان صاحب نے ۱۸مارچ کو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔ یہ اپیل ۸۹ صفحات، ۹۲ دلائل اور ۱۱۸۲ صفحات کے دستاویزی ثبوتوں پر مشتمل ہے۔

یاد رہے جماعت کے دو اور مرکزی رہنمائوں: میرقاسم علی کو اکتوبر ۲۰۱۴ء میں اور اظہرالاسلام کو ۳۰دسمبر ۲۰۱۴ء کو ٹریبونل نے سزاے موت سنائی ہے۔ عدل کے نام پر عدل کے قتل اور انسانیت کی تذلیل کا یہ کھیل بنگلہ دیش کی عدالتوں میں مسلسل کھیلا جا رہا ہے، جب کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی نام نہاد سول سوسائٹی اس باب میں چپ سادھے ہوئے ہے۔

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائم مقام سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمن نے اس صورتِ حال کو چند لفظوں میں بیان کردیا ہے کہ: ’’بنگلہ دیش سخت بے یقینی، انتشار، حکومتی جبر اور عوامی لیگی فسطائیت کا شکار ہے۔ ۱۶کروڑ عوام کا ملک بدترین غلامی کے دور سے گزر رہا ہے۔ لوگ اپنے جائز جذبات کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ حکومتی پشت پناہی میں تشدد کی لہر نے ہرغیرت مند شخص کو اپنے نشانے پر لے رکھا ہے۔ روزانہ بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، تشدد، قتل اور سیاسی بنیادوں پر جبری اغوا کی خبریں روزناموں کے صفحۂ اوّل پر اس کربلا کی تصویر پیش کرتی ہیں۔ وہ ملک جس میں حسینہ واجد کی غیرنمایندہ، غیراخلاقی اور غیرقانونی حکومت نے عوامی حقِ حکمرانی غصب کر رکھا ہے، اس کے حالات کو درست سمت دینے کا واحد حل یہ ہے کہ حسینہ واجد ٹولے کو عوام کا خون چُوسنے اور خون بہانے کے بجاے برطرف کیا جائے اور ایک عبوری حکومت کے تحت آزادانہ، منصفانہ اور کھلے عام عوامی شرکت  یقینی بنانے والے انتخابات کرائے جائیں۔ اسی طریقے سے اس بحران سے نکلا جاسکتا ہے‘‘۔

بنگلہ دیش میں اس وقت عوام کی اکثریت اپنے آپ کو ہندستانی شکنجے سے باہر نکال کر خودمختاری اور مسلم تشخص کے تحفظ کے لیے کوشاں ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی کو اپنے مقاصد کے حصول کی قیادت پر دیکھتے ہیں۔ مگر دوسری جانب بھارت، اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے، عوامی لیگ کی پشت پناہی میں کسی بھی انتہا تک جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حسینہ واجد نے پولیس کو احکامات دیے ہیں کہ: ’’اپوزیشن کی تحریک کچلنے کے لیے آپ جس انتہا تک بھی جائیں، اس کی ذمہ داری میں قبول کروں گی، آپ بے خوف انھیں کچل دیں‘‘۔ یہ احکامات کوئی خفیہ سرکلر نہیں، بلکہ حسینہ کے روزانہ کے بیانات میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

اس تحریر کے ابتدا میں یہ سوال اُٹھایا گیا تھا کہ حریت اور خودداری کا یہ خطۂ مسلم بنگال، جس نے ہندو کی غلامی کو قبول نہیں کیا تھا، گذشتہ ۴۰برس سے کیوں غلامی اور خودکشی کی زنجیروں پر جھول رہا ہے؟ اس سوال کا جواب کچھ پیچیدہ نہیں۔ جب کسی قوم، ملک یا قبیلے کے اپنے لوگ، دشمن کا   آلۂ کار بننے کو تیار ہوجائیں اور پھر انھیں دشمن سے بھرپور کمک بھی مل جائے، تو شب ِ غم طویل تر ہوجایا کرتی ہے۔ شیخ عبداللہ نے جموں وکشمیر میں جواہر لال نہرو کے دست ِ شر انگیز پر بیعت کر کے جموں و کشمیر کو بھارتی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہے، تو بنگال کے شیخ مجیب نے نہرو کی بیٹی اندراگاندھی کے قدموں کو چھو کر مسلم بنگال کو بھارتی مفادات کی چراگاہ بنادیا ہے۔ جب اپنے، دوسروں کے وفادار بنتے ہیں تو ان کے لیے انسانی جان اور قومی غیرت کچھ معنی نہیں رکھتی اور ان بدقسمت قوموں کو صبحِ آزادی کا نظارہ کرنے کے لیے طویل عرصے تک قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔

معاشرہ کوئی جامد چیز نہیں ہے۔ زندگی اور موت، تعمیر اور تخریب کا معاشرتی زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ تاہم جب موت کے سایے گہرے اور تخریب کے حوالے بڑھ جائیں تو معاشرہ بیماری کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس صورت حال میں زندگی اور تعمیر کی قوتوں کے لیے ناگزیر ہوجاتا ہے کہ وہ اپنا بھرپور اورمثبت کردار ادا کرکے معاشرے کو زندگی اور تعمیر کا نمونہ بنائیں۔

پاکستانی معاشرہ بھی اسی طرح کی کش مکش سے دوچار ہے۔ یہاں ایک طرف اگر تعمیر کا نشان بلند ہوتا ہے تو ساتھ ہی تخریب کی موجیں اسے زیرآب لے جانے کے لیے اُمڈ آتی ہیں۔ پاکستان کی نئی نسل کے لیے آج کے حالات کی شدت بے مثال ہے، لیکن انھیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ: ’ہم لائے ہیں طوفاں سے کشتی نکال کے‘ بھی ایک حقیقت ہے۔ ہمارا معاشرہ   آج اچانک کسی عفریت کے جبڑوں میں نہیں جکڑا گیا، بلکہ یہ کام بہت پہلے شروع ہوا، اور یہ عفریت اپنی کینچلی اور رنگ  بدل بدل کر اس معاشرے کی کمرتوڑنے کے درپے رہا ہے۔ یہ سب کچھ یکایک رُونما نہیں ہوگیا بلکہ اس میں درجہ بدرجہ بہت سی قوتوں نے حصہ ڈالا ہے، بالخصوص طاقت ور منفی طبقوں نے!

یہاں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ (۲۵ ستمبر ۱۹۰۳ئ-۲۲ستمبر ۱۹۷۹ئ)کی چند تحریروں اور بیانات کی روشنی میں پاکستانی تاریخ کے اوراق اُلٹے ہیں کہ اس موسمِ خزاں نے گلستانِ وطن کو کس کس طرح اُجاڑا ہے۔

پاکستان میں دستور سازی کا عمل ابتدائی منازل طے کررہا تھا، مگر طاقت کے حریص طبقے، ملک و قوم کے مستقبل سے بے پروا ہوکر باہم جنگ و جدل میں مصروف تھے۔ مغربی پاکستان سے جاگیردارانہ پس منظر کے حامل سیاست دان، کھلے عام اعلیٰ سول افسروں سے مل کر اور پس پردہ  اعلیٰ فوجی افسروں سے سازباز کرکے، زیر تشکیل دستور میں نقب لگا رہے تھے۔ وہ اس امر سے بے پروا تھے کہ اس کا نتیجہ مشرقی پاکستان میں کیا نکلے گا اور خود یہاں مغربی پاکستان میں کیا عذاب آئے گا۔ جدید تعلیم یافتہ اور انگریزی طور طریقوں کا رسیا یہ حاکم طبقہ اپنی دُھن میں ہرچیز کو تہس نہس کر رہا تھا۔ ۱۴؍اکتوبر ۱۹۵۰ء کو مولانا مودودی نے قوم کو متنبہ کرتے ہوئے لاہور میں خطاب کے دوران کہا تھا:

کسی زندہ قوم کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ چند آدمیوں کے ہاتھ میں دے کر خاموش بیٹھ جائے، اور ان کی مرضی پر چھوڑ دے کہ وہ جس طرح چاہیں ملک کے نظام کو ڈھال دیں۔(سیّد مودودی: دستوری سفارشات پر تنقید و تبصرہ،ص ۴۱)

دراصل وہ خبردار کر رہے تھے کہ قومی معاملات کو چند ہاتھوں میں دے دینے کا نتیجہ   محلاتی سازشوں اور ان کے نتیجے میں تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔ ظاہر ہے کہ ملک میں لاقانونیت اور غیردستوری کلچر کے فروغ سے ظلم کے علاوہ کون سی فصل برگ و بار لاسکتی ہے؟ اور جب مسئلہ ملک کے دفاع کا ہو تو حسِ انصاف کو بیدار رکھنا اور بھی ضروری ہوجاتا ہے، بجاے اس کے کہ       جنگی صورتِ حال میں عدل کو بھی گولی کا نشانہ بنادیا جائے۔ یہاں مولانا مودودی کی ایک طویل تقریر سے اقتباس دیا جا رہا ہے۔ یہ تقریر انھوں نے ۲۲جولائی ۱۹۵۱ء کو لاہور میں کی تھی۔      تب بھارتی افواج، پاکستان پر حملے کے لیے تیار کھڑی تھیں اور ملک سخت ہیجانی کیفیت میں مبتلا تھا۔ مولانا نے بنیادی اخلاقی اصولوں کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے فرمایا تھا:

یہ بات ہرجگہ ذہن نشین کرانے کی کوشش کریں کہ [قومی] مورال کے بحال رکھنے کے لیے جھوٹ کے بجاے سچ کا ہتھیار استعمال کیا جائے۔ خالی خولی پُرجوش باتوں سے مورال اگر بحال ہو بھی جائے تو یہ مستقل نہیں، عارضی ہوتا ہے۔

ایک اور چیز جسے دفاع کے معاملے میں خاص اہمیت حاصل ہے، وہ یہ ہے کہ ملک کے اندر ظلم و ستم اور بے انصافیوں اور حق تلفیوں کو قطعی طور پر بند ہونا چاہیے۔ ظلم سے بڑھ کر قومی دفاع کو کمزور کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سرزمین [پاکستان] ہمارا نہیں بلکہ اسلام کا گھر ہے۔ ہمارے لیے یہ سب سے بڑی نعمت ہے، اور ہم ہرقیمت پر اس کی حفاظت کے لیے تیار ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ہرمسلمان میں اس نعمت کی قدر کا جذبہ پیدا کریں، اور اس کے قلب و روح میں یہ خیال جاگزیں کردیں کہ اس نعمت کی حفاظت میں کوئی قربانی بھی گراں نہیں ہے۔l(اخبار سہ روزہ کوثر، لاہور، ۲۸جولائی ۱۹۵۱ئ)

اس تقریر میں مولانا مودودی نے جنگی صورتِ حال میں جھوٹے پروپیگنڈے کی اشاعت اور ’نظریۂ ضرورت‘ کے تحت محض جوشیلے طرزِ بیان کی نفی کی ہے۔ ساتھ ہی یہ بتایا ہے کہ بھلے لوگو، جب ملک جنگی صورتِ حال سے دوچارہو تو اپنے معاشرے میں اور زیادہ عدل و انصاف کی دولت لٹائو، نہ کہ عدل و انصاف کو صدمہ پہنچائو، اور یہ بھی کہ اسلام کے گھر کے مانند پاکستان کی حفاظت کرنے کے لیے ہر آن تیار بھی رہو۔

اس تقریر کو اڑھائی ماہ اور پاکستان کو قائم ہوئے ابھی چار برس گزرے تھے کہ اوّلین وزیراعظم لیاقت علی خاں کے قتل (۱۶؍اکتوبر ۱۹۵۱ئ) نے پاکستان کو خونیں دلدل میں دھکیل دیا۔   تلوار اور تشدد کے اس پہلو کو مولانا مودودی نے ’قاضیِ شمشیر‘ کی اصطلاح سے منسوب کیا، اور جماعت ِ اسلامی کے کُل پاکستان اجتماع منعقدہ کراچی میں خطاب کے دوران فرمایا:

کسی ملک کے لیے اس سے بڑھ کر اور کوئی بدقسمتی نہیں ہوسکتی کہ اس میں فیصلے کا آخری اختیار عقل، شعور، دلیل اور راے عام سے چھین کر ’قاضیِ شمشیر‘ کے سپرد کردیا جائے۔ یہ قاضی کوئی عادل اور صاحب ِ فکر قاضی نہیں ہے۔ یہ اندھا، بہرا اور گونگا قاضی ہے۔ اس سے جب کبھی فیصلہ چاہا گیا ہے ، اس نے حق اور انصاف دیکھ کر نہیں، بلکہ خون کی رشوت لے کر فیصلہ کیا ہے، اور جس نے بھی زیادہ خون چٹا دیا، اسی کے حق میں اس نے فیصلہ دیا ہے، خواہ وہ حق پر ہو یا ناحق پر، خواہ وہ نیک ہو یا نہ ہو۔

کوئی قوم جو خود اپنی دشمن نہ ہو، اور جس کی عقل کا دیوالیہ نہ نکل چکا ہو، ایسی بے وقوف نہیں ہوسکتی کہ اپنے معاملات کا فیصلہ: شعور و استدلال کے بجاے تلوار کے اندھے قاضی کے سپرد کردے۔ اگر ہم اپنا مستقبل تاریک نہیں کرنا چاہتے تو ہمیںپوری قوت کے ساتھ اپنے ملک کے حالات کو اس خطرناک رُخ پر جانے سے روکنا چاہیے۔(۱۰نومبر ۱۹۵۱ئ، رُوداد جماعت اسلامی،ششم: ص ۵۴)

مولانا مودودی کی جانب سے  ’قاضیِ شمشیر‘ کا  یہ اشارہ ہر اس اندھی بہری قوت کی طرف ہے، جو عدل کے نام پر عدل کوقتل کرے یا تشدد کے لیے خودساختہ اُصولوں کی بنیادپر دوسروں کی جان لینے کے بہانے گھڑے اور وسیلے تراشے۔ یہ فعل کسی کے بھی ہاتھوں رُونما ہوسکتا ہے: سیاسی لبادے میں ایم کیو ایم جیسے طائفے ہوں یا ’محرومی‘ کے نام پر قوم پرستوں کی پُرتشدد خفیہ تنظیمیں، یا مذہب کے نام کو استعمال کرنے والے خونیں گروہ، یا پھر عدل و انصاف کے مسلّمہ اصولوں سے بالاتر ادارے۔ انسانی جان لینے کے کھیل میں یہ سب   ’قاضیِ شمشیر‘  بن جاتے ہیں۔

جب وزیراعظم لیاقت علی خاں کا قتل ہوا تو اُس وقت ملک میں دستورسازی اور اختیارات کی تقسیم کا معاملہ زیربحث تھا۔زیربحث کہنا درست نہیں، درست بات یہ ہے کہ دستورسازی کے موقعے پر مختلف  طاقت ور گروہ زیادہ سے زیادہ اختیارات چھیننے کی دوڑ میں باہم معرکہ آرا تھے۔ ان حالات میں ۳۰جنوری ۱۹۵۳ء کو لاہور کے جلسۂ عام میں مولانا مودودی نے زیربحث بہت سی دستوری سفارشات کے بعض پہلوئوں پر مفصل تبصرہ کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کے بارے میں چنداصولی نکات ارشاد فرمائے۔ یاد رہے کہ اُن کی تقریر کا یہ حصہ عام (سویلین) شہریوں کے حوالے سے نہیں بلکہ خود فوجیوں کے بارے میں اور فوجی عدالتوں کے حوالے سے تھا۔ انھوں نے دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے فرمایا تھا:

’دستوری سفارشات کی رپورٹ‘ میں فوجی عدالتوں کے مقدمات کے خلاف سماعت کرنے سے سپریم کورٹ کو روک دیا گیا ے۔ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیںآتی، حالانکہ خود انگلستان میں، سپریم کورٹ میں ہرعدالت کے [فیصلے کے] خلاف اپیل کی جاسکتی ہے، حتیٰ کہ فوجی عدالت کے خلاف بھی، اور پھر یہ بات کسی طرح ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر ہمارے سپاہی کس پاداش میں انصاف سے محروم رکھے جائیں؟ جس طرح سے ایک عام آدمی کے لیے ملک کی آخری عدالت سے انصاف حاصل کرنے کا امکان ہے، اسی طرح سے ہمارے فوجیوں کے لیے بھی انصاف کے حصول کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے۔ کوئی شخص کہتا ہے کہ اس طرح فوج میں ڈسپلن قائم نہیں رہتا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ فوج میں بے انصافی سے ڈسپلن کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری فوج کے بھی ہرسپاہی کو پوری طرح سے یہ اطمینان حاصل ہونا چاہیے کہ اس کے ساتھ بے انصافی کبھی نہیں ہوسکے گی، اور یہ ایسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ وہ    کورٹ مارشل کے مقابلے میں سپریم کورٹ سے اپیل کرسکے۔ دستور میں کورٹ مارشل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گنجایش نہ رکھنا قطعی طور پر اسلامی اصولِ عدل  کے خلاف ہے۔ (ماہ نامہ چراغِ راہ، کراچی، مدیر: نعیم صدیقی، خصوصی ضمیمہ، جولائی ۱۹۵۳ئ)

یاد رہے یہ اُس وقت کی بات ہے جب پاکستان کا نظامِ حکومت ۱۹۳۵ء کے برطانوی ترمیم شدہ ایکٹ کے تحت چل رہا تھا اور ابھی تک دستورسازی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ اب، جب کہ دستور بن چکا ہے اور ۶۰برس کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد دستوری روایات اور عدالتی عمل اپنی گہری بنیادیں استوار کرچکے ہیں، تو فوج کے داخلی نظام میں فوجی عدالتوں کا معاملہ اور ان کا اختیارِ سماعت کہیں زیادہ واضح انداز میں طے ہوچکا ہے۔

اس دستور ی بحث کے دوران ۱۹۵۳ء کے ابتدائی مہینوں میں صوبہ پنجاب ’فتنۂ قادیانیت‘ کے مسئلے پر ہنگاموں میںگِھر گیا (ان ہنگاموں کی صورت گری کرنے والے چہروں سے کب کا نقاب اُترچکا، مگر ہمارا مقبوضہ میڈیا ان کے نام لینے سے شرماتا ہے)۔ پنجاب کے حاکم آگے بڑھے، سول اور فوجی اعلیٰ افسروں سے مل کر لاہور میں ۶مارچ کو مارشل لا لگادیا۔ اس اقدام سے ’قاضیِ شمشیر‘  نے اقتدار کا ذائقہ چکھا اور اپنی قوت کا اندازہ بھی لگایا۔ فوجی عدالت لگی، سرسری سماعت ہوئی اور ۱۱مئی ۱۹۵۳ء کے روز مولانا مودودی کو سزاے موت سنانے کا فیصلہ صادر ہوا۔ ازاں بعد شدید عوامی اور بین الاقوامی ردّعمل اور احتجاج کے نتیجے میں یہ سزا عمرقید میں تبدیل ہوگئی۔ وہ مولانا مودودی جو صرف ساڑھے چار ماہ قبل فوجیوں کے لیے انصاف اور اپیل کا حق مانگ رہے تھے، چند ہی ماہ بعد خود اُنھیں فوجی عدالت میں دھر لیا گیا اور اعلیٰ سول عدالت میں اپیل کے حق کا تو کوئی سوال ہی نہ تھا۔

انھی ہنگاموں کی تحقیقات کے لیے جسٹس محمد منیر (م: ۱۹۷۹ئ) اور جسٹس ایم آر کیانی (م:۱۹۶۲ئ) پر مشتمل ایک ’تحقیقاتی عدالت‘ ۱۹جون ۱۹۵۳ء کو قائم کی گئی۔ اس خصوصی عدالت میں ۱۳فروری ۱۹۵۴ء کو مولانا مودودی نے اپنا تیسرا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے فرمایا:

ایک جمہوری نظام میں یہ بات نہیں مانی جاسکتی کہ قوم خود اپنے مفاد کی دشمن ہے، اور اس کے مفاد کو [فقط] چند افسرزیادہ جانتے ہیں۔

دراصل یہ نشان دہی تھی اس خطرے کی، کہ ملک کے کاروبارِ حکومت اور فیصلہ سازی کے عمل کو چند (سول یا فوجی) افسروں  کے ہاتھ میں دے دینے کا نتیجہ جمہوری بساط کے لپٹنے کی صورت میں سامنے آئے گا۔ پہلے مارشل لا کی فوجی عدالتوں نے سول شہریوں کو سزائیں سنائیں، پھر تحقیقات کے نام پر انڈین سول سروس کے تیار کردہ عدالتی افسروں نے مذکورہ بالا تحقیقاتی عدالت کی ایک رپورٹ مرتب اور ۱۰؍اپریل ۱۹۵۴ء کو جاری کی گئی، جس میں دینی اصولوں اور علما کا مذاق اُڑایا گیا تھا اور بہت سی غیرمتعلقہ بحثیں بھی ٹھونس دی گئیں۔ حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کی    یہ واحد تحقیقاتی رپورٹ ہے جو سرکاری طور پر بیک وقت انگریزی، اُردو اور بنگلہ زبان میں بڑے پیمانے پر شائع کی گئی (اور اب بھی لاہور کے فٹ پاتھوں سے دستیاب ہوجاتی ہے)۔ یہ رپورٹ دراصل تحقیقات سے زیادہ سیکولرزم کے جواز کا مقدمہ پیش کرنے کی دستاویز تھی، جسے سیاسی مقتدرہ اور اعلیٰ افسرشاہی نے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔

رپورٹ کی بے سروپا اور حددرجہ متنازع باتوں کا مولانا مودودی نے جیل ہی میں بیٹھ کر جواب لکھا، جو ۱۹۵۵ء میں تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر تبصرہ کے نام سے شائع ہوا۔ مولانا مودودی نے برطانیہ میں اصولِ قانون کے مایہ ناز پروفیسر البرٹ وین ڈائسی (Dicey: ۱۸۳۵ئ-۱۹۲۲ئ) کی معروف کتاب The Law of Constitution (طبع نہم) کے حوالے سے لکھا:

مارشل لا کا مفہوم یہ ہے کہ ایک ملک کی یا اس کے کسی حصے کی حکومت عارضی طور پر فوجی عدالتوں کے ذریعے چلائی جائے… سپاہی ایک فساد کو اسی طرح دباسکتے ہیں جس طرح وہ ایک بیرونی حملے کو دفع کرسکتے ہیں۔ وہ باغیوں سے اسی طرح جنگ کرسکتے ہیں، جس طرح وہ غیرملکی دشمنوں سے کرسکتے ہیں۔ مگر وہ [یعنی فوجی] ازروے قانون اس کا کوئی حق نہیں رکھتے کہ فساد یا بدامنی کی سزا لوگوں کودیں۔ امن قائم کرنے کی کوشش کے دوران میں لڑتے باغیوں کو قتل کیا جاسکتا ہے، اور قیدیوں کو اگر وہ بھاگ نکلنے کی کوشش کررہے ہوں گولی سے ماراجاسکتا ہے، مگر کوئی ایسی سزاے موت، جو  ایک کورٹ مارشل کی طرف سے دی جائے، غیرقانونی ہے بلکہ اصولاً ایک مجرمانہ قتل ہے۔(ایضاً،ص ۲۹۳).... جب باقاعدہ عدالتیں کھلی ہوں اور مجرموں کو ان کے حوالے کیا جاسکتا ہو، تاکہ وہ عام قانون کے مطابق ان کے بارے میں کارروائی کرسکیں، تو تاج [ریاست]کو دوسرا کوئی طریق کارروائی اختیار کرنے کا حق نہیں ہے۔ (ایضاً، ص ۱۹۸)

مولانا مودودی کسی بھی درجے میں ریاست یا ریاستی اداروں کوعدل اور انصاف کے مسلّمہ اصولوں سے ہٹ کر چلنے سے روکتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ریاست اور حکومت ایک مہذب حوالہ ہیں، جنھیں قانون شکن اور عدل کے قاتل باغیوں کے برعکس راستہ اختیار کرنا چاہیے ۔ اسی لیے وہ مذکورہ تبصرے میں  ڈبلیو فورسائیتھ کی کتاب Cases and Opinions on Constitutional Law  کے حوالے سے لکھتے ہیں:

۱۸۶۶ء میں جمیکا کی بغاوت کو کچلنے کے لیے جو مارشل لا لگایا گیا تھا، اس پر انگلستان کے دو ممتازماہرین قانون بحث میں لکھتے ہیں: بغاوتوں کو فوجی طاقت سے دبانا بلاشبہہ قانونی فعل ہے، مگر غیرقانونی [یعنی فوجی] عدالتوں کے ذریعے سے جرائم کے مرتکبین کو سزا دینا ایسی کارروائی ہے جو ’دستاویز حقوق‘ (Petition of Rights) کے ذریعے ممنوع ہے۔ فوجی حکام کا یہ فرض تھا کہ قیدیوں کو دیوانی اقتدار کے سپرد کردیتے… اگر مسٹرگورڈن نے فی الواقع غداری کی بھی تھی تو وہ [یعنی فوجی حکام] اس کو سزا دینے کا کوئی حق نہ رکھتے تھے۔ ان کا دائرۂ اختیار صرف طاقت کے ذریعے دبا دینے تک محدود تھا،   نہ کہ وہ جرائم کی سزا بھی دینے لگیں۔

قانون کے سب ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جہاں عام ملکی عدالتیں کھلی ہوئی ہوں، یا کھل سکتی ہوں، وہاں فوجی عدالتیں قائم کر کے لوگوں کو سزائیں دینا بالکل ناجائز ہے۔(تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر تبصرہ، ص ۶۰)

آگے بڑھنے سے پیش تر تاریخ کا یہ باب دیکھنا مفید ہوگا۔وزیراعظم محمدعلی بوگرہ [م:۱۹۶۳ئ] قوم کو یہ خوش خبری سناچکے تھے کہ: ’’۲۵دسمبر ۱۹۵۴ء کے روز قوم کو دستور کا تحفہ دیں گے‘‘۔ مگر منفی قوتوں کی شرانگیزی متحرک ہوئی، جسے یہاں پر ڈاکٹر صفدرمحمود کی کتاب مسلم لیگ کا دورِ حکومت سے نقل کیا جارہا ہے۔ یہ نثرپارہ بلاتبصرہ بہت کچھ بیان کرتا ہے۔ یاد رہے ۲۸؍اکتوبر کو اسمبلی کا اجلاس منعقد کرنے کا اعلان ہوچکا تھا کہ:

گورنر جنرل [ملک] غلام محمد نے ۲۴؍اکتوبر ۱۹۵۴ء کو [پاکستان کی] مرکزی وزارت کو برطرف کر دیا، دستور ساز اسمبلی کوتوڑ دیا۔ یہ اقدامات فوج کے سربراہ [جنرل محمد ایوب خان] اور بیوروکریسی کی مکمل حمایت سے کیے گئے۔ امریکا میں خفیہ مواد کے سامنے آنے سے پتا چلا ہے کہ دستور سازاسمبلی کو واشنگٹن کی آشیرباد اور منظوری کے بعد توڑا گیا تھا۔ عملی اقدام سے پہلے اسکندر مرزا اور واجد علی (امریکا میں پاکستانی سفیر امجدعلی کے بھائی) نے امریکی سفیر [متعینہ پاکستان] کو اپنے ارادوں، منصوبوں اور سخت اقدامات سے آگاہ کیا، اور اسے بتایا کہ: ’’اس اقدام کا مقصد پاکستان کو مُلّاازم سے بچانا ہے‘‘ (ص ۲۳۵)۔ جب غلام محمد نے، جو عوام کے منتخب نمایندے نہیں تھے، نے دستورساز اسمبلی کو منسوخ کردیا تو… اسے [مسلح افواج پاکستان کے]کمانڈر انچیف محمدایوب خان کی بھی حمایت حاصل رہی (مسلم لیگ کا دورِ حکومت، ناشر: جنگ پبلشرز، لاہور، مارچ ۱۹۹۳ئ، ص ۲۳۶)

اسی واقعے کی کچھ تفصیلات پروفیسر وارث میرمرحوم نے اس طرح بیان کی ہیں:

[ملک] غلام محمد کبھی کبھی اپنے فیصلوں پر ریوالور کی رہنمائی میں بھی عمل کرایا کرتے تھے۔ [سابق وزیراعظم] چودھری محمد علی (مسلم لیگ کا دورِ حکومت) اور اسکندر مرزا (غیرمطبوعہ سوانح عمری) دونوں راوی ہیں، امریکا سے واپسی پر [وزیراعظم] محمدعلی بوگرہ کو[گورنر جنرل ملک] غلام محمد کے سامنے پیش کیا گیا، تو غلام محمد نے تکیہ کے نیچے سے ریوالور نکال لیا اور جب تک بوگرہ نے [دستور ساز اسمبلی توڑنے کی] تجویز سے اتفاق نہ کرلیا غلام محمد انھیں قتل کی دھمکیاں دیتے رہے۔ اس کارروائی کے دوران [جنرل محمد] ایوب خان ریوالور ہاتھ میں پکڑے پس پردہ کھڑے رہے۔ ( خوشامدی ادب اور سیاست، القمر انٹرپرائزز، لاہور،۱۹۹۴ئ، ص ۲۷)

اس دعوے کی تردید کبھی سامنے نہیں آئی۔ اس میں سے ریوالور کی بات کو نظرانداز کر بھی دیں تو ’طاقت ور‘ کے قلم اور چھڑی میں بہرحال ریوالور سے زیادہ طاقت ہوتی ہے۔

اس دستور ساز اسمبلی کے توڑنے کے واقعے پر تڑپ کر میاں طفیل محمد (سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان) کراچی پہنچے اور جماعت اسلامی کراچی کے امیر چودھری غلام محمد کے ہمراہ تمیزالدین (م: ۱۹۶۳ئ) اسپیکردستور ساز اسمبلی کو بڑی مشکل سے آمادہ کیا کہ وہ اس آمرانہ اور  ملکی سالمیت کے لیے تباہ کن اقدام کو عدالت میں چیلنج کریں۔ میاں طفیل محمد اپنی کتاب مشاہدات (نومبر۲۰۰۰ئ) میں تفصیل (ص ۲۳۲-۲۴۴) سے بیان کرتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے وکلا کی فیس تک کے لیے مالی وسائل جماعت اسلامی نے فراہم کیے اور سندھ ہائی کورٹ میں اس اقدام کو کس طرح چیلنج کیا گیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے گورنر جنرل غلام محمد کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا،    مگر سپریم کورٹ نے پاکستانی سیکولر لابی کے نظریہ ساز رہنما چیف جسٹس محمدمنیر کی سربراہی میں  گورنر جنرل کے فیصلے کو ایک کے مقابلے میں چار کی اکثریت سے سند ِ جواز عطا کی ۔ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کی تائید اور جسٹس منیر کے فیصلے سے اختلاف کرنے والے وہ واحد رکن جسٹس اے آر کارنیلیس تھے۔

قیامِ پاکستان کے بعد ۱۹۵۳ء میں لاہور میں نافذ ہونے والا مارشل لا عملی سطح پر سیاست دانوں  کی ناکامی کا اعلان اور فوجی اقتدار کی ریہرسل تھا۔ چنانچہ اس کامیاب ریہرسل کے بعد، صدر اسکندر مرزا (م: ۱۹۶۹ئ) نے ۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کو اسمبلیاں توڑ کر اور سول حکومتیں برطرف کر کے پورے پاکستان میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ مسلح افواج کے کمانڈرانچیف جنرل محمد ایوب خان کو وزیراعظم اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا۔ (یاد رہے کہ ’قائد عوام‘  ذوالفقار علی بھٹونے اس مارشل لائی کابینہ میں وفاقی وزیر کا عہدہ حاصل کیا تھا)۔ ۲۰روز بعد ۲۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کو جنرل ایوب خان، صدر اسکندرمرزا کو برطرف کر کے کرسیِ صدارت پر بھی متمکن ہوگئے۔ یاد رہے اس مارشل لا کے نفاذ سے قبل یہ اعلان ہوچکا تھا کہ فروری ۱۹۵۹ء میں عام انتخابات ہوں گے۔اس مارشل لا سے صرف دوماہ قبل سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی زیرادارت ماہ نامہ ترجمان القرآن، لاہور (اگست ۱۹۵۸ئ) میں جو اداریہ (اشارات) شائع ہوا، اس کے انتباہ کو ملاحظہ کیجیے کہ کس قدر دُوراندیشی سے آنے والے خطرات سے قوم کو خبردار کیا گیا تھا، کس اندازسے سیاست دانوں کو جھنجھوڑا گیا تھا اور کن الفاظ میں اعلیٰ فوجی قیادت کو عقل و خرد کی بات سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ لکھا تھا:

اسے مسلمان ممالک کی بدقسمتی کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ دنیا نے آج تک اجتماعی زندگی کے بارے میں جتنے مفید سبق سیکھے ہیں، نہ صرف ان سب کو بھلا دیا جاتا ہے بلکہ اُن غلطیوں کو باربار دُہرایا بھی جاتا ہے۔ مثال کے طور پر فوج کے غلط استعمال کو ہی لیجیے۔ ہرمعمولی عقل و خرد رکھنے والاآدمی بھی اس حقیقت سے واقف ہے کہ فوج اپنے ملک پر حکومت کرنے کے لیے نہیں بلکہ ملک کو بیرونی دشمنوں سے بچانے کے لیے منظم کی جاتی ہے۔ اس وجہ سے دنیا کے تمام عقل مند لوگ ملکی معاملات میں فوج کی دخل اندازیوں کو پسند نہیں کرتے، مگر ہماری شومیِ قسمت کہ جو لوگ ہمارے ہاں اقتدار پر قابض ہیں، وہ چونکہ عوامی تائید کی قوت سے محروم ہیں، اس لیے وہ اس کمی کو فوج کی طاقت اور پشت پناہی سے پورا کرتے ہیں۔ جہاں کسی حلقے میں اضطراب یا عدم اطمینان دکھائی دیا، اُسے فوراً فوج کی مدد سے دبا دیا۔ بظاہر یہ نسخہ بڑا سستا اور آسان ہے، لیکن اس کے نتائج ملک، قوم، اصحابِ اقتدار اور خود فوج کے حق میں نہایت مہلک ہوتے ہیں۔ اس کا پہلااثر یہ پڑتا ہے کہ ملک کے باشندے خود اپنی فوج سے بوجوہ متنفر ہوجاتے ہیں اور ملک کی حفاظت کے لیے فوج اور قوم کا تعاون ممکن نہیں رہتا۔      یہ صورتِ حالات ’سامراجی من چلوں‘ کے لیے بڑی ہی حوصلہ افزا ثابت ہوتی ہے اور اس سے بسااوقات ملک کی آزادی پر آبنتی ہے۔

فوجی افسروں کے منہ کو جب ایک دفعہ اقتدار کا [ذائقہ] لگ جاتا ہے، تو پھر پوری فوج کا نظم تہ و بالا ہوجاتا ہے۔ ملک کے یہ پاسبان ہمیشہ اس تاک میں رہتے ہیں کہ باہر چاہے انھیں کچھ فتح کا موقع ملے یا نہ ملے، مگرانھیں گھر کو ضرور فتح کرڈالنا چاہیے۔ اگر اخلاقی حیثیت سے اس معاملے کو دیکھا جائے تو یہ بے حد افسوس ناک ہے۔ اس سے بڑی غداری اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک فوج جن لوگوں کے روپے سے منظم اور مسلح ہوتی ہے، وہ طاقت پاکر خود اپنی قوم کی گردن پر ہی سوار ہوجائے اور سنگین کی نوک پر ملک میں اپنا حکم منوانا شروع کردے۔

معاملہ صرف ایک انقلاب تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ فوجی انقلاب ایک ایسا شیطانی چکر ہے کہ کوئی ملک بدقسمتی سے اس میں ایک دفعہ گرفتار ہوجائے تو اس سے بچ نکلنے کی کوئی اُمید باقی نہیں رہتی۔ ایسا ملک پیہم انقلاب اور ناگہانی تغیرات کی آماج گاہ بن جاتا ہے، اور کش مکش اور چھین جھپٹ کی بیماری سیاسی پارٹیوں سے نکل کر فوج کے مختلف طبقوں میں سرایت کرنا شروع کردیتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے جو معاملات بساطِ سیاست پر سیاسی جوڑتوڑ سے طے کیے جاتے تھے، اب ان کے فیصلے کے لیے ’قاضیِ شمشیر ‘کی طرف رجوع کرنا بالکل ناگزیر ہوجاتا ہے، اور یہ قاضی اپنے مزاج کے اعتبار سے اس قسم کا بے حس واقع ہوا ہے کہ اسے اگر ایک مرتبہ عدالت کی کرسی پر متمکن کردیا جائے تو پھر یہ اُس وقت تک چین نہیں لیتا، جب تک کہ سارا ملک تاخت و تاراج نہ کردیا جائے۔

اس کے علاوہ فوجی انقلاب کے وقت خواہ نعرے کتنے ہی خوش کُن اور احساسات و جذبات خواہ کتنے پاکیزہ ہوں، لیکن یہ انقلاب اپنی کامیابی اور بقا کے لیے اس بات پر مجبور ہے کہ کسی ایسے جابرانہ نظام کو جنم دے، جس میں نہ صرف لوگوں کے جسم گرفتار ہوں بلکہ ان کی روح بھی پابہ زنجیر رہے۔ اور لوگ دم بخود ہوکر ان فوجی آمروں کے افعال و اعمال دیکھتے چلے جائیں۔ پوری قوم بھیڑ بکریوں کا ایک بے زبان گلہ بن کر رہے جسے یہ ’مصلحین قوم‘ میکانکی طور پر جس طرف چاہیں ہانک کرلے جائیں۔

اس صورت ِ حال کو برقرار رکھنے کے لیے سب سے پہلے فوجی آمر کے کارناموں کو بڑے ہی مصنوعی اندازسے بڑھاچڑھا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ یہ آمر ایک عام انسان کے بجاے فوق البشر دکھائی دے اور قوم اُسے اپنا واحد نجات دہندہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو۔ چنانچہ دیکھیے، ان فوجی آمروں کی کارگزاریوں کو کس مبالغہ آمیزی کے ساتھ مختلف طریقوں سے نشر کیا جاتا ہے اور قوم کے ذہن میں یہ خیال راسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان لوگوں کے کارنامے بالکل غیرمعمولی ہیں۔ دوسرے قوم کی ذہنی تربیت کے لیے ایک ایسا پروگرام طے کیا جاتا ہے، جس سے وہ ہرمعاملے کو فہم و فراست کی معتدل میزان پر تولنے کے بجاے اُسے جذبات کی شعلہ فشانیوں سے حل کرتی ہے اور اندھی پیروی کی اتنی خوگر بنادی جاتی ہے کہ تباہ کن حوادث میں مبتلا ہونے کے بعد بھی اُس کی آنکھیں کھلنے نہیں پاتیں۔

اس قسم کی تلاطم خیز ذہنی کیفیت پیدا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جذبات کے سمندر میں طوفان اُٹھائے جائیں۔ یہ کام معمولی طریقوں سے تو سرانجام نہیں پاسکتا، اس کے لیے بڑے ہی غیرمعمولی حربے استعمال کیے جاتے ہیں، مثلاً سب سے پہلے پوری قوم کو ٹھوس حقائق کی دنیا سے نکال کر سپنوں کی ایسی فضا میں آباد کیا جاتا ہے، جہاں وہ صرف آرزوئوں اور تمنائوں پر مرنا سیکھتی ہے ۔جہاں وہ عقل کی بات بتانے والوں کو دشمن اور خوش کن باتیں بنانے والوں کودوست سمجھنے لگتی ہے۔ جہاں صرف خواب و خیال کی پرستش ہوتی ہے اور جہاں رہبرانِ قوم کے اخلاقی اور ذہنی اوصاف نہیں دیکھے جاتے بلکہ صرف اس بات کا اندازہ کیا جاتا ہے کہ وہ لاف گزاف میں کس قدر مشّاق اور زبان کے استعمال میں کس حد تک مطلق العنان ہیں۔

پھر اس قوم کے بارے میں اس بات کا بھی التزام کیا جاتا ہے کہ اُس کے دل و دماغ پر مستقل خوف کی کیفیت طاری رہے تاکہ وہ اپنے بچائو اور حفاظت کے لیے ایک   فوجی آمر کی آمریت بخوشی قبول کرلے۔ اس صورتِ حال کے نتائج دیکھ کر ہر حساس مسلمان تڑپ اُٹھتا ہے۔ آئے دن کے تغیرات نے بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے وقار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ آخر مسلمانوں کو وہ کیا بیماری لاحق ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال نہیں کرسکتے اور اپنی قومی طاقت کو آپس کی کش مکش میں تباہ کردیتے ہیں۔

یہ وہ وقت ہے، جب کہ ہمارے فرماں روائوں کو اپنی آنکھیں کھولنی چاہییں۔ اپنے محلات میں بیٹھ کر وہ یہ نہ سمجھیں کہ آج سے ہزار سال پہلے کی فضا، جیسی کہ اُن کے محلوںکے اندر ہے، ویسی باہر بھی موجود ہے۔ زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے، باہر انقلاب کی بڑی بڑی موجیں اُٹھ رہی ہیں، وہ ان کے دروازوں پر دستک دے رہی ہیں۔ ان سے صرفِ نظر کرکے چلنا کوئی دانش مندانہ فعل نہیں۔ ملکی اقتدار یا قیادت، خواہ وہ کسی نوعیت کی ہو، اُس کے بچائو کی صورت صرف یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس جمہوری دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کر کے عوام کو اُن کے پورے پورے جمہوری حقوق بہم پہنچانے میں قطعاً بخل سے کام نہ لے۔ نیز عوام کے حقیقی مسائل کو سمجھے اور اپنی عیاشیوں میں مست رہنے کے بجاے اُن کی ضروریات کو پورا کرنے کا انتظام کرے… ہر شخص اور ہرملّت کے صبر کا ایک پیمانہ ہوتا ہے۔ اس میں خواہ کتنی ہی وسعت ہو، مگر ایک حد ایسی ضرور آتی ہے جہاں پہنچ کر وہ اپنی ساری وسعتوں کے باوجود چھلک پڑتا ہے۔ یہ حد بڑی ہی خطرناک اور ہلاکت خیز ہوتی ہے۔ اس سے ہمارے اصحابِ اقتدار کو بچنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اگر یہ حضرات وقت کے اس مطالبے کو پورا نہیں کریںگے تو زمانے کی کروٹ انھیں اس مطالبے کی تعمیل پر مجبور کرے گی اور یہ تعمیل اکثروبیش تر بہ نوکِ شمشیر ہی ہوا کرتی ہے۔(ماہنامہ ترجمان القرآن، لاہور، اگست ۱۹۵۸ئ)

  • حاکم طبقوں نے اس پکار کو سنجیدگی سے نہ لیا، اور ملک میں پہلا سخت گیر مارشل لا نافذ کردیا، جس نے ملک کی بنیادوں کو ہلا دیا۔ اس حکومت کو ملک توڑنے کی بھارتی اور عوامی لیگی ’اگرتلہ سازش‘ کا سچا مقدمہ چلانے کی ہمت نہ ہوسکی اور جب وہ بوڑھا مارشل لا گیا، تو اس کے ضمیمے کے طور پر دوسرا تازہ دم مارشل لا ۲۵مارچ ۱۹۶۹ء کو نافذ کردیا گیا۔ اس کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے پاکستان کے دونوں حصوں میں قائم شدہ برابری (Parity) کااصول روند ڈالا۔ مغربی پاکستان میں چار صوبے بنانے اور ۱۹۷۰ء میں دستورساز اسمبلی کے انتخابات کرانے کا اعلان کردیا۔ حالانکہ ۱۹۵۶ء کے متفقہ دستور کو بحال کر کے، قومی اسمبلی ضروری ترامیم کرکے ملک کا نظام چلا سکتی تھی۔ مگر اس کے بجاے صدر چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان نے دستور ساز اسمبلی ہی کے انتخاب کا راستہ چُنا۔ مولانا مودودی نے اس فیصلے کے بعد نہیں، بلکہ فیصلے کااعلان ہونے سے پہلے متنبہ کرتے ہوئے صاف لفظوں میں بتا دیا تھا:
  •  اگر نئی آئین ساز اسمبلی بنی تو مجھے توقع نہیں کہ دستور کے دیباچے پر بھی اتفاق ہوسکے گا، چہ جائیکہ دستورِ پاکستان کا ڈھانچہ مرتب کیا جاسکے۔ (روزنامہ نواے وقت، ۷؍اکتوبر ۱۹۶۹ئ)
  •  اگر اس ملک کو تباہ کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہو تو ضرور ایک آئین ساز اسمبلی بنالی جائے، ملک [پاکستان] کو تباہ کرنے کا یہ ایک مجرب نسخہ ہوگا۔ (جماعت اسلامی کے کارکنوں سے خطاب، ۹نومبر ۱۹۶۹ئ)

اور پھر یہی ہوا کہ ملک میں ایسے مادرپدر آزاد انتخابات ہوئے، کہ جن میں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن اور ان کی عوامی لیگ کو کھلی چھٹی دی گئی۔ مارشل لا حکومت کے زیرسایہ یہ فسطائیت خوب تروتازہ ہوئی، اور دھاندلی و غنڈا گردی کے زور پر پورا انتخاب ہی لُوٹ کر لے گئی۔ پھر نہ   اُس ’دستورساز اسمبلی‘ کا اجلاس ہوا اور نہ آئین بنا، البتہ پاکستان ضرور ٹوٹ گیا۔

گذشتہ برس پاکستان کی وفاقی حکومت کی ہٹ دھرمی اور اس کے جواب میں دھرنا کریسی نے عملاً ریاست اور جمہوریت کو کمزور کیا ہے۔ حاکموں اور حاکموں سے لڑنے والوں کی کم فہمی کا یہ نتیجہ ہے یا پس پردہ قوتوں کی جادوگری کہ سیاست دانوںکو نااہل ثابت کردیا جائے، جیسا سوال یہاں زیربحث نہیں لا رہے، مگر نتیجہ تو یہی نکلا ہے۔ اس کھیل کے لیے کس نے کس کا کندھا استعمال کیا، یا کس نے اپنا کندھا پیش کیا، عملی سطح پر طاقت کے سرچشمے اپنی جگہ سے سرک کر وہاں جاپہنچے ہیں، کہ جہاں سے انھیں درست جگہ پر لانے کے لیے بڑی قربانیاں دی گئی تھیں۔

ہمہ وقتی وزیرخارجہ کو مقرر نہ کرنا، وزارتِ دفاع کا قلم دان ایسی شخصیت کو تھمانا کہ جن سے دفاعی ادارے ویسے ہی مغائرت محسوس کرتے ہیں، پالیسیوں کو عارضی (ایڈہاک) بنیادوں پر چلانا، بھارت سے تجارتی تعلقات کے لیے شوق و ذوق کا مظاہرہ کرنا اور فیصلہ سازی کو گنتی کی چند رکنی ٹیم کا کھیل بنانا، بہرحال کسی سازش کا نتیجہ نہیں، البتہ کم فہمی کا ثمرہ ہے۔ حماقت ایسی بلا ہے کہ جو بہت سی بلائوں کو جنم دیتی ہے۔ پھر وطن عزیز ایک جانب حالت ِ جنگ میں ہے تو دوسری جانب میڈیا گروپ ۲۴گھنٹے سنگ زنی میں مشغول ہیں، دلیل اور دلیل سے عاری گوناگوں میزائلوں سے لیس ہیں۔ اس عالم میں بے چاری جمہوریت کی کمزور سی عمارت کہاں تک ان حملوں کا مقابلہ کرتی۔ پھر   طویل عدالتی جنگ کے نتیجے میں عدل کے ایوانوں کی کسی حد تک جو آزادی بحال ہوئی تھی، اسے ریاست و حکومت کی جانب سے اعانت کی ضرورت تھی، لیکن شاہانہ اندازِ حکومت نے بھی گویا ایک ایک کرکے اختیار کے سارے پتے بکھیر دینے کی ٹھان رکھی تھی۔ اور دکھائی یہ دیتا ہے کہ ریاستی اختیار و اقتدار کے قلم دان عملاً دوسری جگہ منتقل ہوچکے ہیں۔ آج اخبارات اور ٹیلی ویژن پروگراموں میں کہیں دبے الفاظ میں اور کہیں کھلے الفاظ میں کہا جا رہا ہے کہ: ’’سیاست دان نااہل، کرپٹ اور نالائق ہیں، یہ ملک نہیںچلاسکتے‘‘۔

ان جملوں میں پیغام صاف ظاہر ہے۔ اس طرح نہ صرف معاملات کوخاص جانب دھکیلا جارہا ہے، بلکہ ایک ایک کرکے حد توڑی جارہی ہے، اور ہر کام خود سیاست دانوں سے کرایا جا رہا ہے۔ ماضی میں اسی قسم کے شوروغوغے پر مولانا مودودی نے سبھی کو متنبہ کیا اور ۲۹؍اگست ۱۹۶۲ء کو چوک یادگار پشاور میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا:

  •  ملک میں حکومت کرنا اس ملک کے باشندوں کے نمایندوں کا کام ہے۔ سرکاری، سول یا فوجی ملازموں کا کام ان کی اطاعت کرنا ہے، حکمرانی کرنا نہیں۔ ہرطبقے کے سرکاری ملازموں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب ان کے ہاتھ میں طاقت دی جاتی ہے تو یہ اُن پر قوم کا اعتماد ہوتا ہے۔ اس لیے قوم کو کسی حالت میں دھوکا نہیںدینا چاہیے۔ (روزنامہ انجام، پشاور، ۲ستمبر ۱۹۶۲ئ، سید مودودی سرحد میں، ص ۱۳۱)
  •  قوم کے ملازموں کا خود آقا بن جانا اور قوم کو اپنا غلام بنا لینا فی الواقع ایک ’مکمل انقلاب‘ ہے، البتہ اس انقلاب پر زندہ باد کا نعرہ لگانا کسی ذی شعور آدمی کے بس میں نہیں ہے‘‘۔ (خط بنام عارف دہلوی، ملتان، ۱۸؍اکتوبر ۱۹۶۲ئ، مکاتیب اوّل، ص ۳۶،۳۷)

جب انتقام کے جذبے سے مغلوب قوم پرست بھگوڑے اور ان کے ہم نوا بھتّاخور ایک کمزور جمہوری حکومت کا مذاق اُڑاتے ہوئے کھلے عام فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دیتے ہیں تو انھیں مولانا مودودی کا یہ انتباہ یاد رکھنا چاہیے:

یہ کہنا کہ ملکی اقتدار کی آخری ذمہ داری فوج پر ہے، ایک غلط پالیسی ہے۔ فوج کی ذمے داری ملک کوبیرونی حملہ آوروں سے بچانے کی ہے، نہ کہ ملک چلانے کی۔ ملک فوج کا نہیں بلکہ اپنے باشندوں کا ہے۔ اور یہ باشندوں کا اپنا ہی کام ہے کہ وہ اپنے گھر کے معاملات کو چلائیں بھی اور بگڑ رہا ہو تو اسے درست بھی کریں۔ ملازمین خواہ    فوج کے ہوں یا سول، ان کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ ملک کا نظامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیں۔(تحریکِ جمہوریت: اسباب اور مقاصد، ۱۹۶۷ئ،ص ۹)

یہ عاقبت نااندیش عناصر صرف دعوتِ اقتدار ہی نہیں دیتے بلکہ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ فوج کھلے عام فوجی آپریشن کرے۔ ظاہر ہے کہ کچھ آپریشن تو ہوچکے اور کچھ آپریشن ہو بھی رہے ہیں، مگر معاملات سلجھنے کے بجاے اُلجھ رہے ہیں۔ اسی قسم کے خطرات کو بھانپتے ہوئے مولانا مودودی نے فرمایا تھا:

اس سے زیادہ غلط کام کوئی نہ ہوگا، اور اس ملک کا کوئی بدخواہ ہی ایسا کام کرسکتا ہے کہ ملک کی فوج کو ملک کے عوام سے لڑا دے۔ اگر فوج سے ہم وطنوں پر گولیاں چلانے کا کام لیا گیا تو اس سے فوج اور قوم دونوں کو نقصان پہنچے گا۔ بڑا ظالم ہوگا وہ حاکم، جو ملک کی فوج کو اپنے عوام کے سامنے لاکھڑا کرے۔ (۵-اے، ذیلدار پارک، اوّل: مرتبہ: مظفر بیگ،ص ۲۴۳)

درحقیقت جو عناصر قومی افواج کو سول آبادی میں آپریشن اور اقتدار سنبھالنے پر اُبھارتے ہیں، و ہ بظاہر دوست بن کر، لیکن عملاً دشمن کا سا کردار ادا کرتے ہیں۔ ۳۵برس تک فوج ملک کے    سیاہ و سفید کی مالک رہ چکی ہے، مگر اس دوران میں معاملات کی کوئی کل سیدھی نہ ہوسکی، بلکہ ایسے ایسے اُلجھائو پیدا ہوئے کہ عشرے گزر جانے کے باوجود تار سلجھائے نہیں جاسکے۔

پاکستان میں ۲۱ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں جو فوجی عدالتیں قائم ہوئی ہیں ، ان کے بارے میں روزنامہ The Newsنے اپنی رپورٹ ۴جنوری ۲۰۱۵ء میں لکھا ہے:

دہشت گردی کے ملزموں پر پاکستان آرمی ایکٹ (PAA) کے تحت مقدمے چلائے جائیں گے، جنھیں کسی بھی سول عدالت میں اپیل کا کوئی حق حاصل نہیں ہوگا۔ سینیروکیل کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحمن کے بقول دہشت گردوں کو فوج گرفتار کرے گی، تفتیش کرے گی اور بند کمرے میں مقدمے کی سماعت کرے گی۔ پاکستان آرمی ایکٹ کے مطابق کورٹ مارشل کے فیصلوں کے خلاف کوئی دادرسی نہ ہوسکے گی۔ تاہم دفعہ ۱۴۳ کے تحت چیف آف آرمی اسٹاف ہی سزامیں کمی یا معافی کا اختیار رکھتے ہیں۔

یقینا بہت سوچ بچار کے بعد یہ اصول وضع کیے گئے ہوںگے، مگر یوں انصاف اور صفائی  کے اصولوں کی کس حد تک پاس داری ممکن ہوگی؟ ایک نازک سوال ہے۔ اور کیا اس کے نتیجے میں واقعی معاملات سلجھ جائیںگے یا پھر عجلت میں سخت فیصلے، کسی اور بڑے ردعمل کی فصل بوئیں گے؟

جن تشدد پسندوں اور دہشت گردوں نے ملک کے امن کو تباہ کیا ہے، ان کی سرکوبی پر قوم میں اتفاق پایا جاتا ہے۔ ان عناصر کی ہمدردی یا اعانت کے لیے کوئی قابلِ ذکر آواز پاکستانی معاشرے میں سنائی نہیں دیتی۔ لیکن کیا انصاف کے طے شدہ ضابطوں کے برعکس اس بیماری کا علاج صرف گولی ہے؟ اس ضمن میں مولانا مودودی بڑی وضاحت کے ساتھ اسلام کا اصول بیان کرتے ہیں:

شریعت ِ الٰہی کسی بُرائی کو محض حرام کردینے یا اسے جرم قرار دے کر اس کی سزا مقرر کردینے پراکتفا نہیں کرتی، بلکہ وہ ان اسباب کا بھی خاتمہ کردینے کی فکر کرتی ہے جو کسی شخص کو اس بُرائی میں مبتلا ہونے پر اُکساتے ہوں، یا اُس کے لیے مواقع بہم پہنچاتے ہوں یا اس پر مجبور کردیتے ہوں۔

نیز شریعت، جرم کے ساتھ اسبابِ جرم، محرکاتِ جرم اور رسائل و ذرائع جرم پر بھی پابندیاں لگاتی ہے، تاکہ آدمی کو اصل جرم کی عین سرحد پر پہنچنے سے پہلے کافی فاصلے ہی پر روک دیا جائے۔ وہ اسے پسند نہیں کرتی کہ لوگ ہر وقت جرم کی سرحدوں پر ٹہلتے رہیں اور روز پکڑے جائیں اور سزائیں پایا کریں۔

وہ [شریعت ِ الٰہی] صرف محتسب (prosecutor) ہی نہیں ہے، بلکہ ہمدرد، مصلح اور مددگار بھی ہے۔ اس لیے تمام تعلیمی، اخلاقی اورمعاشرتی تدابیر اس غرض کے لیے استعمال کرتی ہے کہ لوگوں کو بُرائیوں سے بچنے میں مدد دی جائے۔(تفہیم القرآن، سوم، سورۃ النور، حاشیہ ۲۳،ص ۳۷۲)

اندریں حالات معاشرے کی تمام مقتدر اور ذمہ دار قوتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ    باہم تصادم کے بجاے اس خطرناک صورتِ حال سے نکلنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کریں، ٹھنڈے دل و دماغ سے کوششیں کریں، اور جو عناصر ان کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنے یا گہری دلدل میں دھکیلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، ان کی شرانگیزی سمجھنے کی بصیرت حاصل کریں۔

اس تمام صورتِ حال کو پیش نظر رکھیں تو پاکستان کی تاریخ کے تناظر میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ’شمشیر‘ اور ’قاضیِ شمشیر‘ کے ہاتھوں یہ مسائل حل ہونے مشکل ہیں، بلکہ اس مقصد کے لیے قانون کی عمل داری اور جمہوری راستے کے سوا ہرراستہ سواے خرابی کے کچھ بھی نتیجہ نہ دے سکے گا۔مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کے کارکنوں کے سامنے لائحہ عمل پیش کرتے ہوئے ۱۹۵۷ء میں واضح طور پر یہ فرمایا تھا:

تین حقیقتیں واضح طور پر آپ کی نگاہ میں رہنی چاہییں:

  • پہلی یہ کہ آپ اس ملک میں اسلامی نظامِ زندگی عملاً قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے قیادت کی تبدیلی ناگزیر ہے۔
  • دوسری یہ کہ آپ جس ملک میں کام کر رہے ہیں وہاں ایک آئینی و جمہوری نظام قائم ہے اور اس نظام میں قیادت کی تبدیلی کا ایک ہی آئینی راستہ ہے: انتخابات۔

تیسری یہ کہ ایک آئینی و جمہوری نظام میں رہتے ہوئے تبدیلیِ قیادت کے لیے کوئی غیرآئینی راستہ اختیار کرنا شرعاً آپ کے لیے جائز نہیں ہے اور اسی بناپر آپ کی جماعت کے دستور نے آپ کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ آپ اپنے پیش نظر اصلاح و انقلاب کے لیے آئین و جمہوری طریقوں ہی سے کام کریں۔(تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل، ۱۹۵۷ئ، ص ۱۳۸) 

ہم بنگلہ دیش کی معاشی خوش حالی، قومی آزادی اور سیاسی خودمختاری کے حامی ہیں اور دعاگو ہیں۔ لیکن عوامی لیگ کی غیرقانونی اور غیرنمایندہ حکومت کے تحت بنگلہ دیش میں آج کل بخار کی سی جو کیفیت پائی جاتی ہے جس میں یہ آوازیں بلند ہورہی ہیں: ’’یہ پاکستان کا ایجنٹ ہے۔ اس کی کتاب جھوٹ کا پلندہ ہے۔ اس نے ایجنسیوں سے پیسے لے کر کتاب لکھی ہے۔ ملکی آزادی اور اقتدارِ اعلیٰ کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ تاریخ کی حفاظت کے لیے اس پر پابندی لگائی اور شائع شدہ کتاب کو ضبط کرلیا جائے۔ مصنف پر غداری کا مقدمہ چلایا اور سخت سزا دی جائے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔   یہ واویلا ہے بنگلہ دیش کے ایئروائس مارشل (سابق) عبدالکریم خوندکر کی کتاب بیٹوری بیرے: ۱۹۷۱ء [۱۹۷۱ء، اندر اور باہر کی کہانی] میں شائع ہونے والے ایک جملے کے خلاف۔

ذرا آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ اصولی طور پر چند پہلو سامنے رکھ لیے جائیں اور تاریخ کے دوچار ورق بھی پلٹ لیے جائیں۔ جھوٹ تو ویسے بھی ایک ایسی لعنت ہے کہ جسے شرک کا دستاویزی ثبوت سمجھنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو لسانی، علاقائی یانسلی قوم پرستی کا سب سے بڑا ہتھیار بھی یہی جھوٹ ہوتا ہے۔ نفرت کی آگ بھڑکانے کے لیے اعداد و شمار کا جھوٹ، معاملات فہمی کی جڑ کاٹنے کے لیے جھوٹ کی کاری ضرب اور پروپیگنڈا کا الائو بھڑکانے کے لیے جھوٹ کے پٹرول کا مسلسل چھڑکائو۔ گویا کہ اس طرح نفرت کے دیو کو بے قابو کرکے دین، اخلاق،کردار، انسانیت اور شائستگی کے قتلِ عام کا گھنائونا کھیل کھیلنا نسلی قوم پرستی کا وتیرا ہے۔ بنگلہ دیش کی تشکیل اور پاکستان کی تخریب کا یہ کھیل ہماری آنکھوں کے سامنے کھیلا گیا۔ اس پس منظر میں جزوی معاملات کو جھوٹ کے رنگ میں یوں رنگا گیا کہ ہنستی بستی زندگی خون آلود ہوگئی۔ معمولی درجے کی پھنسیاں جھوٹ کے بل بوتے پرسرطان کے رستے ناسور دکھائی دینے لگے۔ معاشی اعداد و شمار کو مبالغہ آرائی کے لباس میں یوں بناسنوار کر پیش کیا جاتا رہا کہ حقائق کے ٹیلے، ہمالہ کی چوٹیاں دکھائی دینے لگیں۔ بلاشبہہ جہاں انسان بستے ہیں، معاملات میںا فراط و تفریط ہوتی ہے، جنھیں احسن طریقے سے حل کیا جاتا ہے اور حل کیا جانا چاہیے۔ مگر ایسا شاید ہی ہوا ہو کہ اس بدمستی میں اپنوں کو دشمن اور دشمنوں کو اپنا سمجھ لیا گیا ہو۔ مگربنگلہ دیش کی تشکیل کے وقت ایسا ہی ہوا تھا۔ یوں جھوٹ کی بنیاد پر شروع کیا جانے والا سفر ۴۳برس گزرنے کے بعد بھی جھوٹ کا سہارا مانگتا ہے اور سچائی کو قتل کرنے کے لیے متحرک رہتا ہے۔

۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کو بنگلہ دیش بننے سے چار سال قبل کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جنوری ۱۹۶۸ء میں مشرقی بھارت کے صوبے ’تری پورہ‘ کے شہر ’اگرتلہ‘ میں، خفیہ طور پر عوامی لیگ کی قیادت اور بھارتی انٹیلی جنس بیورو نے مل کر ایک سازش تیار کی۔ عوامی لیگ کے نمایندے شیخ مجیب کے ایما پر یہاں پہنچے تھے۔ ان خفیہ اجلاسوں میں طے پایا کہ: ’’مشرقی پاکستان کو  پاکستان سے کاٹ کر الگ کر لیا جائے گا اور اس ضمن میں بھارت، سازشیوں کی مدد کرے گا۔ حکومت پاکستان کو اس سازش کا علم ہوا تو اس نے عوامی لیگ کے ۳۵ افراد کو گرفتار کرکے سازش کی تفصیلات قوم کے سامنے پیش کردیں۔ مگر اگلے ہی لمحے بنگالی قوم پرست، نام نہاد ترقی پسند اور  آزاد خیال اخبارات نے پاکستان بھر میں شور مچا دیا کہ: ’’ایسی کوئی سازش تیار نہیں کی گئی، یہ   مغربی پاکستانی حکمرانوں کا جھوٹا الزام ہے اور انسانی بنیادی حقوق کا قتلِ عام ہے‘‘۔

تاہم، صدر ایوب خاں حکومت کو اپنے موقف کی سچائی پر یقین تھا، جنھوں نے پاکستان کے نیک نام سابق چیف جسٹس ایس اے رحمن (۱۹۰۳ء-۱۹۹۰ء) کی سربراہی میں خصوصی تحقیقاتی ٹربیونل قائم کردیا۔ لیکن ڈھاکہ میں جوں ہی اس خصوصی عدالت نے کارروائی شروع کی تو قوم پرستانہ فاشزم حرکت میں آیا، تاکہ سچائی کا گلا گھونٹا جاسکے، اور عوامی لیگی مسلح غنڈوں نے حملہ کرکے نہ صرف ریکارڈ کو نقصان پہنچایا، بلکہ جسٹس ایس اے رحمن کو مشکل سے جان بچانا پڑی۔ پھر پاکستان مسلم لیگ کے صدر ممتاز محمد خاں دولتانہ کے بے پناہ اصرار پر فروری ۱۹۶۹ء میں ان مقدمات پر کارروائی معطل کرکے مجیب کو رہا کرنا پڑا۔ یاد رہے کہ اس پورے عرصے کے دوران ’روشن خیال‘ صحافی، مجیب کی ’بے گناہی‘ کا ماتم کرتے رہے۔ لیکن جوں ہی بھارتی فوج کی مدد سے مشرقی پاکستان کو کاٹ کر بنگلہ دیش بنادیا گیاتھا تو مجیب الرحمن نے اعتراف کیا: ’’ہم اس علیحدگی کے لیے برسوں سے بھارت کے ساتھ رابطے میں تھے‘‘۔ اسی بات کا چند برس پہلے حسینہ واجد نے بھی اعتراف کیا اور پھر ۲۲فروری ۲۰۱۱ء کو عوامی لیگی ڈپٹی اسپیکر پارلیمنٹ شوکت علی (جو اگر تلہ سازش کے ملزموں میں شامل تھا) نے اعترافِ عام کیا کہ: ’’ہمارے خلاف اگر تلہ سازش کے حوالے سے حکومت نے درست مقدمہ بنایا تھا، ہم نے شیخ مجیب کی قیادت و رہنمائی میں ’سنگرام پریشد‘ بناکر علیحدگی کے لیے عملی پروگرام بنایا تھا‘‘۔

۱۹۷۰ء کے پورے سال انتخابی مہم میں ایک جانب تو عوامی لیگ نے اپنے مدمقابل جماعتوں: جماعت اسلامی، پاکستان جمہوری پارٹی اور مسلم لیگ کو جلسے تک نہ کرنے دیے، اور دوسری جانب اپنے منشور میں اور جلسوں کی تقاریر میں باربار یہ کہا کہ ہمارا پروگرام ’پاکستان کو مضبوط بنائے گا، ہم وحدت پاکستان پر یقین رکھتے ہیں‘‘۔ لیکن جوں ہی انتخابی نتائج سامنے آئے جو   یک طرفہ تھے، کیونکہ انتخابات کے روز، پولنگ اسٹیشنوں پر عوامی لیگ کے مسلح لوگوں کا قبضہ تھا اور انتظامیہ بے بس تماشائی تھی۔ نتیجہ یہ کہ جن دو تین حلقوں پر وہ یوں ظالمانہ قبضہ نہ کرسکے، وہاں سے راجہ تری دیوراے اور نورالامین قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ یہاں ایک اور قابلِ غور بات دیکھیے کہ ویسے تو صدر جنرل یحییٰ خاں کو ساری قوم کے ساتھ یہ بقلم خود ’روشن خیال طبقے‘ بھی بُرا کہتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ برملا یہ فتویٰ بھی دیتے ہیں: ’’پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ شفاف اور غیرجانب دارانہ انتخابات ۱۹۷۰ء میں جنرل یحییٰ خاں کے زیرقیادت ہی میں منعقد ہوئے تھے‘‘۔کیا وہ شفاف انتخابات تھے یا روشن دن میں کھلے عام ڈاکازنی تھی؟

یکم مارچ ۱۹۷۱ء کو جب صدر جنرل یحییٰ خاں نے دستور ساز اسمبلی کا اجلاس، ذوالفقار علی بھٹو کے دبائو میں چند روز کے لیے ملتوی کیا تو شیخ مجیب نے چشم زدن میں مشرقی پاکستان میں ’سول نافرمانی‘ کی تحریک شروع کرکے ایسا غنڈا راج قائم کردیا جس میں ہم وطن غیربنگالی پاکستانیوں (اُردو بولنے والوں، پنجابیوں، پٹھانوں) کی خواتین، اجتماعی عصمت دری اور قتل و غارت گری کی خاطر بنگالی قوم پرست مسلح جتھوں کے لیے ’حلال‘ قرار پائیں۔ مردوں اور بچوں کا قتلِ عام شروع ہوا۔ لُوٹ مار سکہ رائج الوقت ہوگیا۔اسی فضا میں ۷مارچ ۱۹۷۱ء کو ریس کورس گرائونڈ ڈھاکہ میں ایک بڑے جلسے سے فسطائی سیاست کے دیوتا مجیب الرحمن نے خطاب کیا۔ اس مضمون کے شروع میں جس الزامی بارش کا تذکرہ کیا گیا ہے اس کا نشانہ عبدالکریم خوندکر ہیں، اور ان کا جرم یہی جلسہ عام ہے۔

ایئروائس مارشل (سابق) اے کے [عبدالکریم] خوندکر، جو ۱۹۷۲ء سے ۱۹۷۵ء تک  بنگلہ دیش فضائیہ کے چیف آف ایئرسٹاف رہے، یہ صاحب ۱۹۷۱ء کے دوران علیحدگی کی تحریک میں ڈپٹی چیف آف اسٹاف تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ۱۹۷۶ء سے ۱۹۸۲ء تک آسٹریلیا میں اور ۱۹۸۲ء سے ۱۹۸۶ء تک ہندستان میں بنگلہ دیش کے سفیر رہے۔ ۱۹۸۶ء میں پارلیمنٹ کا الیکشن جیتا اور عوامی لیگ حکومت میں قومی منصوبہ سازی کے دو مرتبہ وزیر رہے۔ موجودہ ستمبر میں انھوں نے اپنی کتاب’ بیٹوری بیرے ۱۹۷۱ء‘ میں لکھا ہے کہ: ’’۷مارچ ۱۹۷۱ء کو ڈھاکہ میں بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے شیخ مجیب الرحمن نے آزادی کا اعلان نہیں کیا تھا بلکہ تقریر کے اختتام پر  ’جئے پاکستان‘ (پاکستان زندہ باد) کا نعرہ بلند کیا تھا‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس واقعے کے لاکھوں گواہ موجود ہیں، مگر بُرا ہو قوم پرستانہ دروغ گوئی کا، کہ وہ سچائی کی روشنی میں آنا نہیں چاہتی۔ اسی لیے ستمبر کی دوتاریخ کو مذکورہ کتاب کے شائع ہوتے ہی بنگلہ دیش میں عوامی لیگ اور ہندو اسٹیبلشمنٹ نے خوف ناک طوفان برپا کردیا۔ یہاں اُس کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں:

  • اخباری ایجنسی Newsnextbd (۵ستمبر ۲۰۱۴ء) کے مطابق: ’’بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ میں معمول کی کارروائی روک کر، پوائنٹ آف آرڈر پر بیٹوری بیرے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیرصنعت امیرحسین نے کہا: ’’اس کتاب سے ۷مارچ ۱۹۷۱ء کی تاریخی تقریر ہی کو نہیں بلکہ پوری بنگلہ دیش کی قوم کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے، جس سے بنگلہ دیش کی آزادی اور  اقتدارِ اعلیٰ خطرے میں پڑگئے ہیں‘‘۔ممبر پارلیمنٹ طفیل احمد (یاد رہے یہ شخص ۱۲؍اگست ۱۹۶۹ء کو محمدعبدالمالک ناظم اسلامی جمعیت طلبہ ڈھاکہ کے براہِ راست قاتلوں میں شامل تھا) نے کہا: ’’۷مارچ کی تقریر کے حوالے سے خوندکر اپنا بیان واپس لے اور پوری قوم سے معافی مانگے‘‘۔  شیخ فضل الکریم نے کہا: ’’بنگلہ دیش کا مطلب مجیب الرحمن ہے۔ خوندکر نے یہ بات لکھ کر آئین شکنی کی ہے۔ اس پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔ یہ کتاب اس پاکستانی ایجنٹ نے ایجنسیوں سے پیسے لے کر لکھی ہے۔ بنگلہ دیش کی تاریخ کی حفاطت کے لیے ضروری ہے کہ اس کتاب پر پابندی لگائی جائے اور طبع شدہ کاپیاں ضبط کی جائیں‘‘۔
  • روزنامہ Dhaka Tribune (۷ستمبر ۲۰۱۴ء) نے بتایا کہ: ایئروائس مارشل (سابق) اے کے خوندکر نے کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں ترمیم کر کے ص۳۲ پر لکھا ہے کہ: ’’مجیب نے تقریر کے آخر میں جئے بنگلہ اور جئے پاکستان کا نعرہ بلند کیا تھا‘‘۔ (یاد رہے کہ اس کتاب کا پہلاایڈیشن ۲ستمبر ۲۰۱۴ء کو شائع ہوا تھا)۔ پہلے ایڈیشن میں اے کے خوندکر نے لکھا تھا: ’’مجیب نے تقریر کے آخر میں جئے پاکستان کا نعرہ بلند کیا تھا‘‘(اس ترمیم کے بعد بھی اصولی طور پر ایئروائس مارشل خوندکر اپنے موقف پر قائم ہیں کہ مجیب کے آخری الفاظ ’پاکستان زندہ باد‘ ہی تھے)۔
  • ڈھاکہ کے روزنامہ اخبار  New Age(۶ستمبر ۲۰۱۴ء) کے مطابق: ’’بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)کے قائم مقام سیکرٹری جنرل فخرالاسلام نے کہا ہے:’’اے کے خوندکر نے سو فی صد درست واقعہ لکھا ہے کہ مجیب الرحمن نے ۷مارچ کی تقریر کے آخر میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند کیا تھا۔ یہ سچائی بیان کر کے درحقیقت اے کے خوندکر نے عوامی لیگ کی مدتوں سے پھیلائی ہوئی دروغ گوئی کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے‘‘۔

مسئلہ دراصل یہ ہے کہ بھارتی پشت پناہی سے تقویت حاصل کرنے کی رسیا عوامی لیگ کے کارندے اپنے لیڈر مجیب کو شیر کی کھال پہنانا چاہتے ہیں، مگر بدقسمتی سے وہ مجیب کے وجود پر پوری نہیں آتی۔ اس لیے وہ ہر اُس فرد پر چڑھ دوڑتے ہیں جو کہتا ہے کہ: ’’یہ شیر نہیں ، شیر کی کھال ہے‘‘۔ آج عوامی لیگی تڑپ رہے ہیں کہ ۷مارچ ۱۹۷۱ء کی تقریر کے آخر سے، مجیب کے کہے جانے والے الفاظ ’پاکستان زندہ باد‘ کو اگر درست تسلیم کرلیا جائے تو اُن کے لیے اس تقریر کی   بطور ’اعلانِ آزادی‘ حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ حالانکہ مجیب نے ’پاکستان زندہ باد‘ ہی پر تقریر کا اختتام کیا تھا اور اُس کا یہ کہنا ایک درجے میں بزدلی یا منافقت کا شاہکار تھا۔

وجہ صاف ظاہر ہے کہ مجیب نے ۱۹۷۲ء کے بعد یہ بات بار بار ریکارڈ پر لانے کی کوشش کی  ہے کہ: ’’میں بہت مدت سے علیحدگی کے لیے کام کر رہا تھا‘‘۔ مگر ۷مارچ ۱۹۷۱ء کو یہی شیربنگال، بھیگی بلی بن کر، ان الفاظ کو منہ سے نکالنے کی ہمت نہ کرسکا۔صرف یہ نہیں بلکہ جب اگست ۱۹۷۱ء میں، یعنی مارچ ۱۹۷۱ء کے چھے ماہ بعد مجیب کو خصوصی عدالت میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تو    ان کے وکیل اے کے بروہی مرحوم کے بقول: ’’مجیب نے جو حلفیہ بیان عدالت میں جمع کرایا،  اس کے مطابق مجیب نے ثبوتوں، گواہوں اور اپنے دستخطوں کے ساتھ یہ تسلیم کیا کہ مَیں مشرقی پاکستان کو علیحدہ نہیں کرنا چاہتا، پاکستان کے وفاق کو مضبوط کرنے اور صوبائی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد کر رہا ہوں، اور ایک پاکستان کا حلفیہ لیڈر اور شہری ہوں‘‘۔ یہ دستاویز آج تک ہمارے حقیقی حکمران طبقے کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ گویا کہ عوامی لیگ کی طرف سے دعویٰ کردہ نام نہاد اعلانِ آزادی کے چھے ماہ بعد اور بھارتی حملے کے بل پر علیحدگی حاصل کرنے سے چار ماہ پہلے تک’عظیم بنگالی لیڈر‘ مجیب الرحمن نے باربار جھوٹ کہا تھا کہ میں پاکستان قائم رکھنا چاہتا تھا۔ مراد یہ ہے کہ یہ کیسا لیڈر ہے جو موت کو سامنے دیکھ کر سراسر جھوٹ بولنے لگتا ہے اور وہ بھی بار بار۔ یہی پے درپے غلط بیانی عوامی لیگ کی علیحدگی کی تاریخ کی بنیاد تھا۔ اسی افسانہ طرازی کی بنیاد پر عوامی لیگ، بنگلہ دیش کی نئی نسل کو گمراہ کر کے پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے کی آج تک کوشش کررہی ہے۔ اسی بے جا اور بے بنیاد اساس پر مجیب کو ’عظیم لیڈر‘ قرار دلوانے کے لیے تاریخ کا قتل کرنے پر تلی ہوئی ہے،اور ہر اس شخص کی زبان گدی سے کھینچ دینے کے لیے آمادہ جنگ رہتی ہے، جو سچائی کی ذرا سی خوشبو بھی پھیلانے کی کوشش کرے، اور عوامی لیگی جھوٹ کی نشان دہی کرے۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے چند ہفتوں بعد مجیب الرحمن نے بے سوچے سمجھے ۳۰لاکھ بنگالیوں کے قتل کا الزام پاکستانی افواج پر تھوپ دیا،اور جب خود مجیب کی مقرر کردہ تحقیقاتی ٹیم نے کہا کہ:’’ تمام مقتولین کی تعداد اس پورے عرصے میں ۵۰ ہزار کے لگ بھگ تھی (جن میں خود عوامی لیگی مکتی باہنی کے ہاتھوں غیربنگالی مقتولین بھی شامل تھے)‘‘، تو اُس رپورٹ کو مجیب نے فرش پر دے مارتے ہوئے کہا: ’’میں نے ۳۰ لاکھ کہا ہے، اس لیے ۳۰ لاکھ ہی لکھو اور کہو‘‘۔ اسی طرح ۳لاکھ بنگالی خواتین کی بے حُرمتی کا افسانہ۔ لیکن جب ڈاکٹر شرمیلابوس نے طویل تحقیقی جدوجہد کے بعد اپنی کتاب Dead Reckoning میں دلائل و شواہد کے ساتھ ثابت کیا کہ: ’’یہ ۳۰ لاکھ اور ۳لاکھ کے اعداد و شمار بے ہودہ پروپیگنڈے سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتے‘‘، تو اُس ہندو اور بھارتی خاتون کو پاکستانی ایجنٹ قرار دیا اور اس کی کتاب پر بنگلہ دیش میں پابندی لگادی۔ حیرت کی بات ہے کہ آزادی راے اور مجیب کا دم بھرنے والے ’روشن خیال‘ صحافی اور دانش ور اس ظلم پر بالکل چپ سادھے بیٹھے ہیں۔

یہاں پر اس کو بھی ریکارڈ پر لاناضروری ہے کہ وہی شیخ مجیب جو متحدہ پاکستان میں کالے قوانین کی منسوخی، انسانی بنیادی حقوق کے تحفظ اور جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کا سب سے بڑا لیڈر تصور کیا جاتا تھا، وہی صاحب جب خوابوں کی جنت بنگلہ دیش کا کرتا دھرتا بنا تو اسے حکمرانی کا کچھ مزا نہ آیا۔ اسی لیے شیخ مجیب نے چوتھی ترمیم کے ذریعے ۲۵ جنوری ۱۹۷۵ء کو تمام سیاسی پارٹیوں کو قانونی طور پر ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اسی دستوری ترمیم کے ذریعے ملک میں پارلیمانی کے بجاے صدارتی نظام رائج کیا۔ اعلیٰ عدلیہ کی آزادی سلب کی اور بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے   ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دائرہ سماعت و اختیار کو محدود تر کرایا۔ یہی نہیں بلکہ خود پارلیمنٹ کے اختیارات میں بھی کمی کردی۔ ۲جون ۱۹۷۵ء کو اپنی عوامی لیگ کے نام میں دو لفظوں کا اضافہ کر کے واحد حکمران پارٹی قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اس پارٹی کا نام تھا: ’بنگلہ دیش مزدور کسان عوامی لیگ‘ (BKSAL: بنگلہ دیش کرشک سرامک عوامی لیگ)۔ جمہوریت کے اس قتل عام اور فسطائیت کے تحفظ کے لیے چوتھی ترمیم کو مجیب نے ’دوسراانقلاب‘ بھی قرار دیا۔ پھر اپنی اس سیاسی پارٹی کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی میں حاضر ملازمت فوجی جرنیلوں کو رکن مقرر کیا، جن میں ایک ایئروائس مارشل عبدالکریم خوندکر بھی تھے۔ بہرحال اس انتہا کا انجام صرف ڈھائی ماہ بعد اس وقت ہوا، جب ۱۵؍اگست ۱۹۷۵ء کو فوجی انقلاب نے مجیب کے پورے خاندان کو گولیوں سے بھون ڈالا، اور حسینہ واجد اس لیے بچ رہی کہ ملک سے باہر تھی۔ہمارے ’انقلابی‘ اور ’ترقی پسند‘ اپنے محبوب مجیب کی اس بدترین عہدشکنی اور آمریت کے تذکرے کو بھی گول کرجاتے ہیں۔

۲۰۰۹ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد عوامی لیگی حکومت نے نام نہاد جنگی جرائم کی خصوصی عدالتیں (ICT) قائم کیں، جہاں جماعت اسلامی کے بزرگ رہنمائوں اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے لیڈروں کو سزاے موت دلوانے کے لیے جعلی مقدمے شروع کیے گئے اور یہ عمل آج تک جاری ہے۔ اپنے وطن پاکستان کے دفاع کرنے کے جرمِ بے گناہی میں ملوث کیے جانے والے  ان ملزموں کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے نہ متعلقہ ریکارڈ تک رسائی دی گئی ہے، نہ گواہوں کو پیش کرنے دیا گیا ہے اور نہ وکلا کی پوری طرح مددلینے دی گئی ہے۔ پھر ان نام نہاد عدالتوں میں بیٹھے قصابوں کے ہاتھوں دھڑادھڑ موت کی سزائیں سنانے کا عمل شروع کرایا گیا۔ سچائی کی قاتل عوامی لیگ نے اپنے مسلح غنڈوں کو ریاستی پشت پناہی کے ساتھ ’شاہ باغ مورچہ‘ لگانے کے لیے ڈھاکہ میں موقع فراہم کیا، تاکہ کنگرو عدالت اگر غلطی سے بھی صفائی کی کسی دلیل کو سن کر متاثر ہونے لگے تواُسے بیرونی دبائو میں لایا جائے۔ اس فسطائی غنڈا گردی کی بدترین مثال شہید عبدالقادر مُلا  کی سزا ہے، جنھیں خصوصی عدالت نے عمرقیدسنائی، مگر اس غنڈا مورچے کے دبائو کے تحت پہلے تو حسینہ واجد نے مؤثر بہ ماضی آرڈی ننس جاری کر کے بدترین دھاندلی کی ، اور پھر سپریم کورٹ نے سزاے موت سنادی اور چند گھنٹوں بعد اُس سزا پر عمل کرکے عبدالقادر کو پھانسی دے دی گئی۔

اسی طرح خود بنگلہ دیش میں عوامی لیگی حکومت نے گذشتہ چار برسوں میں دو مرتبہ مولانا مودودی کی کتابوں مع تفہیم القرآن، سرکاری تعلیمی اداروں اور مسجدوں کی لائبریریوں میں ترسیل و مطالعے پر پابندی عائد کی ہے۔ ہندو آقائوں کو خوش کرنے اور بے دینی کو فروغ دینے کی علَم بردار عوامی لیگ سے اس کے سوا کیا اُمید کی جاسکتی ہے۔ مگر ہمارا سوال خود پاکستان کی اس ’روشن خیال‘ ، ’انسانی حقوق کی علَم بردار‘ اور ’کشادہ دل‘ اشرافیہ سے ہے، جو اسلامیانِ پاکستان کی زبان کاٹنے اور یادداشت سے ہر مثبت چیز کھرچنے کے لیے ہر آن متحرک رہتی ہے۔ جس کے نزدیک عوامی لیگ، روشن خیالی، حقوق کی ’کامیاب‘ جنگ جیتنے کی علامت ہے، لیکن یہ کیا ماجرا ہے کہ وہ اپنی محبوب حکومت کی جانب سے کتابوں پر پابندیوں، تحقیق کاروں پر دائرۂ حیات تنگ کرنے اور ہاتھ پائوں باندھ کر مقدمے چلاچلا کر ذبح کرنے جیسے گھنائونے افعال پر خاموش ہیں؟ کیا ان کے بارے میں یہ تصور کرنا درست نہیں کہ، یہ ہیں پورس کے ہاتھی اور تاریخ کے قاتل! مہذب اصطلاحوں کے پردے میں دشمن کی ہاں میں ہاں ملانا ان کا مذہب ِ عشق ہے اور اپنوں کے خون اور جذبات کی ہولی کھیلنا ان کا من بھاتا کھاجا ہے۔ یہ ہے ہماری ’روشن خیال تعلیم یافتہ‘ اشرافیہ، جس کی موجودگی میں بیرونی دشمنوں کو کچھ زیادہ تگ ودو کی ضرورت نہیں۔

مسلم دنیا یوں توبہت سے داخلی اور خارجی مسائل اور بحرانوں سے دوچارہے، لیکن ان میں سب سے زیادہ تکلیف دہ صورتِ حال وہ ہے، جس میں خود ہم وطن اور ہم نسل مسلمان ، اپنے ہی ہم وطنوں سے ظلم وتشددکارویہ اختیارکرتے ہیں، اور پھراس بہتے ہوئے خون اور تباہ کی جانے والی زندگیوں کواپنی قومی ترقی کا وسیلہ بتاتے ہیں۔ اس سفاکی اور شرمناکی کے لیے بے غیرتی اور غداری سے کم لفظ استعمال کرنا ممکن نہیں۔

عالم اسلام اور خصوصاً عالم عرب میں اسرائیل کے نام سے ایک ناجائز حکومت کے ہاتھوں امریکا ویورپ جو حیوانی کھیل کھیل رہے ہیں، اسی سے ملتاجلتاحیوانی اور غیرانسانی رویہ، ہندوقوم پرست ریاست ہندستان اپنائے ہوئے ہے۔ اس نے ایک جانب ۶۸برس سے کشمیرکے مسلمانوں کو محکوم بناکرظلم کے پہاڑتوڑے ہیں تودوسری جانب بنگلہ دیش کی مسلم ریاست کواپنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کی ہے۔ اس سیاہ رات کے اندھیرے گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے محبِ وطن، اسلام دوست اور مسلم قوم پرست بنگلہ دیشی اپنے ملک میں ایک عذاب سے گزررہے ہیں، جس کا ماسٹرمائنڈ بھارت ہے اور اس کے ایجنڈے کو بنگلہ دیش میں نافذ کرنے کا ذریعہ عوامی لیگ اور اس کی مددگارتنظیمیں ہیں۔

عوامی لیگ نے دسمبر۲۰۰۸ء میں اقتدارحاصل کرنے کے بعد سے بنگلہ دیش کی قومی سلامتی کو بھارتی مفادات کے سامنے سرنڈرکرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں، جن کی بنگلہ دیش کے دُوراندیش اور اپنی قومی آزادی واسلامی تہذیبی تشخص کو تحفظ دینے والے افراد اور تنظیموں نے کھل کر مخالفت کی۔ جواب میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے زیر اثربنگلہ دیش کی متعدداین جی اوزاور عوامی لیگی حکومت نے بڑے پیمانے پر ریاستی مشینری کو استعمال کرکے ان آوازوں کو کچلنے کا راستہ اختیار کیاہے۔

حکومت نے سب سے پہلے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے خلاف عدالتی ڈرامے کا آغازکیا۔ اُس کے بزرگ رہنماؤں اور فعال کارکنوں کو گرفتارکرکے نام نہاد ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ (ICT) قائم کرکے مقدمات چلانے شروع کیے۔ اس خصوصی عدالت پر بنگلہ دیش کے قانونی حلقوں، راست فکر دانش وروں اور صحافتی تنظیموں نے زبردست احتجاج کیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ (HRW) اور دیگربین الاقوامی تنظیموں نے اس انتقامی ڈرامے کو مستردکردیا۔ مگر  عوامی لیگی حکومت نے پوری ڈھٹائی سے ، سزاے موت سنائے جانے والے فیصلوں کا نہ صرف اعلان کیا، بلکہ ۱۲دسمبر۲۰۱۳ء کو عبدالقادرمُلّا کو پھانسی دے بھی دی۔ اس عدالتی قتل عام پر دنیابھر نے برملا احتجاج کیا، لیکن یہ انتقامی عدالتی عمل رک نہیںسکا۔اس وقت بھی جماعت اسلامی اور بنگلہ دیشن نیشنلسٹ پارٹی (BNP)کے قائدین کو سزائیں سنائی جارہی ہیں، اور انھیں اپنے دفاع کے لیے آزادانہ طور پر بنیادی عدالتی سہولیات تک بھی میسر نہیں ہیں۔

یادرہے کہ اس نام نہاد عدالت (ICT) کے چیف جج مسٹرنظام کی شرمناک گفتگوکو ۲۰۱۲ء میں سکائپ سے ریکارڈکر کے اکانومسٹ  لندن اوربنگلہ دیش کے اخبارات نے شائع کرکے بتایاکہ یہ عدالت حکومت کی ہدایات پر فیصلے کررہی ہے نہ کہ قانون اور عدل کے مسلّمہ اصولوں کے مطابق۔

اسی طرح بنگلہ دیش میں اظہارراے کے ذرائع پر بری طرح پابندیاں عائد ہیں، جس کی چندمثالیںدیکھ کراندازہ ہوسکتا ہے کہ وہاں جبروظلم کاراج کس طرح اپنے شہریوں کی زندگی کو عذاب بنارہاہے۔ ۲۷؍اپریل ۲۰۱۰ء کو نجی شعبے میں سب سے بڑے ٹی وی نیٹ ورک ’چینل ون‘ کو اس لیے بندکردیاگیاکہ وہ حزب اختلاف کی خبریں نشرکرتا ہے۔ ۲۲؍اگست ۲۰۱۱ء کواطلاعاتی ترسیل کے سب سے مؤثرنجی ادارے ’شیرشا نیوز‘(Sheersha News) کوکام کرنے سے روک دیا، اور اس کا سبب بھی حزبِ اختلاف کی خبریں نشرکرنا تھا۔ ۱۶ فروری کوحکومت کی بھارت نواز پالیسیوں پرتنقیدکرنے والے’سوناربلاگ‘ کو بندکردیاگیا۔ ۱۱؍اپریل ۲۰۱۳ء کو بنگلہ دیش میں حزبِ اختلاف کے سب سے بڑے حامی اخبار اماردیش (Amar Desh) کے مدیرکواس بنا پر گرفتارکرکے تشددکانشانہ بنایاگیاکہ انھوں نے نام نہادعدالتی جج مسٹرنظام کی غیرقانونی اور غیراخلاقی گفتگوکو شائع کیا تھا، حالانکہ یہ گفتگو اکانومسٹ لندن بھی شائع کرچکاتھا۔ ۱۴؍اپریل۲۰۱۳ء کو حکومتی مسلح ایجنسیوںنے اسلامی قوتوں کے سب سے بڑے اور قدیم اخبار سنگرام کے دفاترپرحملہ کردیا۔

۵مئی ۲۰۱۳ء کو ’ڈی گنتا ٹیلی وژن‘ (Diganta TV) اور ’اسلامک ٹیلی ویژن‘ پر اس لیے پابندی عائد کردی کہ انھوں نے ’حفاظتِ اسلام‘ تنظیم کے پُرامن احتجاجی دھرنے کو کچلنے کے حکومتی قتلِ عام کی تصاویر دکھائی تھیں۔حفاظت اسلام نامی تنظیم‘ جو علما اور دینیطالب علموں پرمشتمل ہے، کے پُر امن احتجاج ۵مئی ۲۰۱۳ء کو ۱۰ہزار مسلح اہل کاروں کے ذریعے کچل دیاگیا۔ بیسیوں طالب علموں کی لاشوں کا آج تک نشان نہیں ملا۔صحافیوں کو ڈرانے، اخبارات کی اشاعت کو معطل کرنے اور میڈیا کی نشریات کوخراب کرنے کا کھیل پوری قوت سے جاری ہے۔ اس جارحیت پر۱۶قومی اخبارات کے ایڈیٹروں نے ایک مشترکہ بیان میں حکومتی کارروائیوں کی مذمت کی اور مطالبات پیش کیے، جنھیں بھارتی کٹھ پتلی حکومت نے مستردکردیا۔درحقیقت عوامی لیگ حکومت کی جڑ ڈھاکہ میں نہیں، نئی دہلی سے خوراک حاصل کرتی ہے۔

ایک غیرآئینی اور غیر اخلاقی حکومت کی سربراہ حسینہ واجد درحقیقت اپنے والد شیخ مجیب کی جابرانہ انتقامی پالیسیوں کاتسلسل ہے، جس نے فروری۱۹۷۵ء میںپورے بنگلہ دیش میں سیاسی پارٹیوںکوختم کرکے ایک پارٹی کی حکومت قائم کی تھی اور پھر۷جون ۱۹۷۵ء کودستورمیں چوتھی ترمیم کرکے ایک پارٹی اورایک اخبارکا کالاقانون نافذ کیا گیاتھا۔ ان اقدامات کے لیے اسے دہلی سرکارکی سرپرستی حاصل تھی۔ اسی طرح جولائی ۲۰۱۴ء میں مولانا مودودی کی کتب کو مساجد اور تعلیمی اداروں کی ۲۴ہزار لائبریریوں میں رکھنے پر پابندی لگا دی گئی۔پھر حسینہ واجد نے ۱۷؍اگست ۲۰۱۴ء کو دستور میں ۱۶ویں ترمیم کا مسودہ کابینہ سے منظور کرایاہے، جس کے نتیجے میں اعلیٰ عدلیہ ، عملاً   اس طرح حکومت کے رحم و کرم پر ہوگی کہ ججوں کا مواخذہ عدالتی کمیشن نہیں کرے گا بلکہ براہِ راست پارلیمنٹ ہی ججوں کی قسمت کا فیصلہ کیا کرے گی۔

بنگلہ دیش کوایک بڑے جیل کی شکل دے کرہزاروں سیاسی بلکہ سماجی کارکنوں تک کو جیلوں میں ٹھونسا جا چکاہے۔ بنگلہ دیش میں اس وقت ۶۲۹پولیس اسٹیشن ہیں جہاں پر صرف ۲۰۱۲ء میں ۲لاکھ ۲۹ہزار ۵سو ۸۵ افراد کو گرفتارکرکے مختلف اوقات میں تشددکانشانہ بنایاگیا۔ ۲۰۱۳ء میں یہ تعداد دگنا ہوگئی۔ جیلوں میںقیدبزرگوں ، لیڈروں اور کارکنوں کوقانونی ، طبی اور بنیادی سہولتیں تک میسرنہیں۔

جماعت اسلامی اور طالب علموں کی تنظیم اسلامی چھاتروشبر (اسلامی جمعیت طلبہ) کے ہزاروں کارکنوں کو جیلوں میں بند‘ سیکڑوں کارکنوں کو زخمی اور درجنوں کارکنوں کو گولی مار کر قتل کیاجاچکاہے، جب کہ سیکڑوں کارکن طالب علموں کو تعلیمی اداروں سے بے دخل کیاجاچکاہے۔

اسلامی چھاتروشبرکے کارکنوں پر تشددکے لیے RAB (ریپڈایکشن بٹالین)، بارڈرگارڈز بنگلہ دیش(BGB)، پولیس اورعوامی لیگ کے غنڈاعناصراورچھاترولیگ کے   دہشت گردوںکی مشترکہ ٹیم متحرک ہے۔ شبر کے جن سیکڑوں کارکنوںکوزخمی کیاگیاہے ان میں سے بہت سوں کو زندگی بھرمعذوربنانے کے لیے ‘ ان کی دونوں ٹانگوں پر قریب سے گولیاں مار کر اپاہج کردیاگیاہے، یاپھرکہنیوںمیں گولیاں مارکرہاتھوں سے معذورکردیاگیاہے۔ اس نوعیت کے خوف ناک تشدداورباقاعدہ اندازسے ظلم کی مثالیں عصرِ حاضر میں کہیں نہیں دیکھی گئیں۔ مگرافسوس ہے کہ دنیا میں اس کے خلاف آوازبلندنہیں ہورہی۔

گذشتہ برس ایک طالب علم دلاورحسین کو، جو اسلامی چھاتروشبرسے تعلق رکھتے ہیں، ڈھاکا سے گرفتار کرکے ۳۵۲ مقدمات میں ملوث کیا۔ ۴۵روز تک تشددکے دوران ان کے ہاتھ اور پاؤںکے ناخن جڑسے اکھاڑ لیے گئے اور اتنا تشددکیاکہ دلاور کے جسم کا آدھاحصہ مفلوج ہوگیاہے۔ یہ ایک مثال نہیں بلکہ ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ جنھیں بیان کرتے ہوئے روح کانپ اُٹھتی ہے۔

۲۰۱۴ء کے جون میں اسلامی چھاتری شنگھستا (اسلامی جمعیت طالبات) کی۳۲کارکنان کو بھی توہین آمیزطریقے سے گرفتارکرکے جیلوںمیں بندکردیاگیا۔

معلومات کے اس برق رفتارزمانے میں یہ سب کچھ ہورہاہے اور کوئی اس ظلم کا ہاتھ روکنے والانہیں۔ یہ سب کچھ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اور بے حرمتی ہے اور انسانی حقوق کا تعلق سرحدوں کی قید سے مشروط نہیں۔ اس لیے دنیا کے کونے کونے سے عوامی لیگی کٹھ پتلی حکومت کے اس ظلم کے خلاف آواز بلندہونی چاہیے۔ نام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کو توڑاجائے۔ گرفتارشدگان کو رہاکیاجائے۔ جعلی انتخاب کی پیداوارحکومت کو برطرف کرکے نئے انتخابات کرائے جائیں اور بھارتی تسلط سے بنگلہ دیش کے عوام کو آزادی دلائی جائے۔

مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی ۲۵ستمبر ۱۹۰۳ء کو اورنگ آباد، حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ اسی طرح آپ کے آباو اجداد کا تعلق حضرت ابو اسحاق شامی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں تشکیل پانے والے چشتیہ سلسلے سے تھا۔ آپ کے بزرگوں میں سے خواجہ محمد (۹۴۳ء-۱۰۲۰ء) ان مجاہدین میں شامل تھے، جنھوں نے سلطان محمود غزنوی کے سومنات پر آخری اور فیصلہ کن معرکے میں شرکت کی سعادت حاصل کی تھی۔ ازاں بعد انھی کی اولاد سے خواجہ قطب الدین مودود چشتی (م:۱۱۳۳ء ) نے خدمت دین کے چراغ روشن کیے۔ مولانا مودودی کے والد سید احمد حسن کے نانا محسن الدولہ احمد کو انگریزوں نے ۱۸۵۷ء میں جنگ آزادی میں حصہ لینے کی پاداش میں پھانسی دے دی۔

مولانا مودودی نے ہوش سنبھالتے ہی جدید اور دینی تعلیم کے سرچشموں سے فیض پانے کے مواقع پائے۔ اس ضمن میں ان کے والد سید احمد حسن مودودی کی توجہ اور فکر مندی قابل ذکر تھی۔ والد کے ہاتھوں تربیت کے نتیجے میں مودودی صاحب کی اخلاقی، دینی، علمی اور سماجی شخصیت اس سانچے میں ڈھلی کہ وہ بیسویں صدی میں مفکرِ اسلام، مفسرِ قرآن اور قائد تحریک اسلامی کی حیثیت سے جانے اور پہچانے گئے۔ جنھوں نے لاکھوں لوگوں کے دلوں کی دنیا بدلی، افکار و خیالات کی دنیا میں حق بینی اور حق گوئی کا بیج بویا۔

 مولانا مودودی نے لڑکپن میں جس حادثے یا المیے کے نتیجے میں اپنی ذات میں تحقیق و تحریر کی جس بے پناہ قوت کا اندازہ لگایا، اس صورتِ حال کا تعلق کم و بیش ہمارے موجودہ عہد سے ملتا جلتا تھا۔ وہ یہ کہ تب اسلام اور مسلمانوں کو ایک جانب تو افریقا اور ترکی میں کچلا جا رہا تھا۔ دوسری جانب ہندوئوں اور یورپی عیسائی سامراجیوں کی جانب سے یہ کہا جا رہا تھا کہ اسلام اور مسلمان خون آلود ماضی اور خون آلود لائحہ عمل رکھتے ہیں۔ اس حد درجہ سفاکانہ پراپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے ۲۴برس کی عمر میں مولانا مودودی نے الجہاد فی الاسلام لکھنا شروع کی۔ جو بعدازاں ایک معرکہ آرا کتاب کی صورت میں اہل علم کی تحسین اور توجہ کا مرکز بنی، اور اسی کتاب نے علامہ محمداقبال کو مولانا مودودی کی جانب متوجہ کیا۔ اس موقعے پر اقبال نے فرمایا تھا: اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانون صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے، اور میں ہر ذی علم کو مشورہ    دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے۔ اقبال ہی نے بعد ازاں چودھری نیاز علی خاں کے وقف (پٹھان کوٹ،پنجاب) میں منتقل ہونے کی دعوت دی۔

 مولانا مودودی نے جہاں اسلام کے دیگر پہلوؤں پر قلم اٹھایا اور عصرِ حاضر کے چیلنجوں کا جواب دیا، وہیں انھوں نے جنوری ۱۹۴۲ء میں قرآن کریم کی تفسیر تفہیم القرآن لکھنا شروع کی۔ اور ۳۰برس پانچ ماہ کی مدت میں ۷جون ۱۹۷۲ء کو اسے مکمل کیا۔

 کسی بھی زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنا ایک مشکل کام ہے، لیکن جب معاملہ قرآن کریم جیسی الہامی کتاب اور الٰہی پیغام کا ہو، تو اس ذمہ داری کی نزاکت بے حدو حساب ہوجاتی ہے۔ مولانا مودودی سے قبل قرآن کریم کے اردو میں اکثر ترجمے لفظی سانچوں کے قریب رہ کر کیے گئے تھے، مگر ان میں کمی یہ تھی کہ قرآن کا مفہوم، پڑھنے والے تک منتقل نہیں ہو پاتا تھا۔ تاہم، مولانا فتح محمد جالندھری مرحوم کا ترجمہ کئی حوالوں سے بہتر اور عام فہم تھا۔ لیکن اسے عام فہم بنانے کے لیے انھوں نے قوسین میں بہت سی اضافی عبارتوں کا سہارا لیا تھا۔ جب کہ مولانا مودودی نے ترجمہ قرآن کے لیے قرآنی آیات کی ترجمانی کا راستہ اختیار کیا، اور کلام الٰہی کی حدود کا حد درجہ خیال رکھا کہ اسی دائرے میں رہتے ہوئے کلام پاک کو اردو خواں طبقے تک منتقل کریں۔ ماہرین لسانیات کے بقول مولانا مودودی نے قرآن سمجھنے کے لیے اپنے قاری کی بے پناہ دست گیری کی ہے۔ ترجمے میں روانی، ربط، عام فہم اور بامحاورہ بنا کر پیش کرتے ہوئے دل کش انداز اختیار کیا ہے۔

 اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن عظیم کی تفسیر تفہیم القرآن لکھتے وقت، مولانا مودودی نے کلاسیکی اسلوب تفسیر سے ذرا ہٹ کر، لیکن تفسیری روایت اور قرآن و حدیث کے متن سے جڑ کر تفسیری خدمت انجام دی ہے۔ تفسیر لکھنے سے پہلے انھوں نے اعلیٰ پاے کے تفسیری ادب اور امہات تفاسیر کا مطالعہ کیا۔ احادیث نبوی کے ہزاروں صفحات پر پھیلے لوازمے کا مطالعہ کر کے موضوعات کا اشاریہ بنایا، مسلم تاریخ اور فقہی لٹریچر کی بنیادی کتب کے مباحث اور کلامی معرکوں کو ذہن نشین کیا۔ دوسری جانب اپنے آپ کو عصرِ حاضر سے جوڑتے ہوئے مغربی افکار و نظریات اور برسرپیکار عالمی و مقامی تحریکات مثلاً :نسل پرستی، سرمایہ داری، اشتراکیت، لادینیت، استعماریت، اور نام نہاد آزاد خیالی کے نام پر سٹراند پیدا کرتی عریانی و فحاشی کے سرچشموں کو گہرائی میں جا کر پرکھا۔

مولانا مودودیؒ خود لکھتے ہیں: ’’اس سلسلے میں میں نے ویدوں کے تراجم لفظ بلفظ پڑھے۔ بھگوت گیتا لفظ بلفظ پڑھی۔ ہندو شاستروں کو پڑھا۔ بدھ مذہب کی اصل کتابیںجو انگریزی میں ترجمہ ہوئی ہیں، ان کو پڑھا۔ بائبل پوری پڑھی اور پادری ڈومیلو کی تفسیر کی مدد سے پڑی۔ یہودیوں کی اپنی کتابوں کو پڑھا۔ تالمود کے جتنے حصے مل سکے وہ سب پڑھے‘‘۔ یاد رہے مولانا مودودیؒ کو اردو، عربی، انگریزی اور فارسی پر تو دسترس حاصل تھی، اس کے ساتھ انھوں نے جرمن زبان بھی سیکھی تھی۔

اس کے پہلو بہ پہلو خود مسلمانوں میں در آنے والی آبا پرستی، الحاد، انکار حدیث، فرقہ پرستی اور اس کے ساتھ بدترین بغاوت انکارِ ختم نبوت کے کانٹوں بھرے جنگل کو صاف کرنے کے لیے چومکھی لڑائی لڑی۔ اس جان جوکھم معرکے اور اس مطالعاتی عمل کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی تفسیر لکھنے کا عمل بھی جاری رکھا۔ اس دوران میں مولانا مودودی پے درپے گرفتاریوں کا نشانہ بنے اور سزاے موت کا بھی سامنا کیا، جو بعد میں عمر قید میں تبدیل ہو گئی۔

 تفہیم القرآن کے لکھے جانے سے پہلے اور پھر بعد میں بہت سے علماے کرام نے بھی کمال درجہ محنت، اور تفقہ فی الدین کے ساتھ تفسیر قرآن کی خدمات انجام دیں۔ اس کے باوجود تفہیم القرآن کو دوسری تفاسیر سے متعدد حوالوں سے امتیاز حاصل ہے۔ پروفیسر خورشید احمد کے مطابق: تفہیم القرآن میں اس نقطۂ نظر سے قرآن کا مطالعہ کیا گیا ہے کہ یہ کتاب صحیفۂ ہدایت ہے، جو ہر فرد اور پوری امت میں غور و فکر اور مطالعے کا ایک خاص انداز پیدا کرنا چاہتا ہے۔ تفہیم نے اس امر کی وضاحت پیش نظر رکھی ہے، کہ قرآن کریم، زمانے کے تغیر اور تبدیلی کے تقاضوں کا پورا لحاظ رکھتے ہوئے ایک مکمل ضابطۂ حیات فراہم کرتا ہے۔ اس مجموعی نقشے کے مطابق انسانی معاشرتی زندگی کے پورے دھارے کا رخ موڑنے کی قوت پیش کرتا ہے۔

تفہیم القرآن کے اوراق پر پھیلے مباحث سے یہ پیغام روشنی کی طرح پھوٹتا ہے کہ قرآن کریم ایک الہامی اور عظیم کتاب ہونے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ابدی ہدایت اور پیغام دعوت ہے۔  دعوت قبول کرنے والوں کے لیے زندگی بھر کی جدوجہد کا ایک واضح اور نکھرا ہوا نصاب ہی نہیں بلکہ صراطِ مستقیم کا زادِ راہ بھی ہے۔

اسی طرح تفہیم القرآن نے سورتوں کے باہمی ربط اور سورتوں کے متن میں پوشیدہ وحدت کو بیان کرنے کے لیے کسی فلسفیانہ تقریر کے بجاے صاف اور عام فہم انداز میں نمایاں طور پر قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔ مولانا مودودی نے ہر سورت کے پس منظر اور مرکزی موضوعات کو آغاز میں بیان کر کے قاری کے لیے سہولت دے کرقرآن فہمی سے اس کی وابستگی کو مضبوط بنا دیا ہے۔

تفہیم القرآن کا ایک بڑا کمال یہ ہے کہ اس نے فقہی مسائل کو اس توازن، اعتدال اور وسیع البنیاد رنگ میں حل کیا ہے کہ امت میں اتحاد اور بقاے باہم کی خوشبو بکھرتی ہے۔ انھوں نے کسی ایک فقہ کے وکیل صفائی بننے کے بجاے قرآن، سنت، حدیث اور اکابرین ملت اسلامیہ کے متفق علیہ فیصلوں اور افکار کو قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔

تفہیم القرآن میں تقابل ادیان کا موضوع خصوصی شان کا حامل ہے۔ اس ضمن میں مولانا مودودی نے اسرائیلی خرافات سے آلودہ روایات سے دینی لٹریچر، خصوصاً تفسیری ادب کو پاک کرنے کا کارنامہ انجام دینے والوں میں اہم مقام پایا ہے۔

تفہیم القرآن میں قدیم اور جدید کا توازن برقرار رکھا گیا ہے۔ مولانا مودودی نہ تو جدیدیت کا رنگ اختیار کر کے مغرب زدہ معذرت خواہی کی راہ پر چلے اور نہ قدامت سے چمٹ کر عصرِ حاضر سے بے خبر رہے۔ اس نازک سفر میں انھوں نے قرآن و سنت کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور جدید عہد کے سوالوں کا جرأت ایمانی اور دانش برہانی سے مدلل اور شافی جواب دیا۔

 اس عظیم تفسیر کے انسائی کلوپیڈیا محاسن کو ایک مختصر مضمون میں سمیٹا نہیں جا سکتا۔ تاہم، یہ امر پیش نظر رہے کہ اب تک اس تفسیر کے ۶ لاکھ ۴۰ ہزار سے زیادہ سیٹ ( ۳۸لاکھ اور ۶۰ہزار جلدوں سے زیادہ ) اردو میں شائع ہو چکے ہیں، جب کہ اس کے مکمل ترجمے دنیا کی حسب ذیل زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں: انگریزی، ترکی، بنگالی، روسی، فارسی، پشتو، جرمن اور سندھی۔ جن زبانوں میں ترجمے تکمیل کے قریب ہیں، ان میں ہندی، چینی، جاپانی، انڈونیشنی، ہسپانوی اور عربی شامل ہیں۔

تفہیم القرآن کی اس مقبولیت کا اعتراف کرتے ہوئے حضرت مولانا انور شاہ کاشمیری کے شاگرد مولانا محمد چراغ نے فرمایا تھا:ـ تفہیم القرآن کا پیرایۂ بیان اس قدر سلجھا ہوا ہے کہ انسان دورِ حاضر کے فتنوں کی اصل حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہو جاتا ہے۔ ملّاواحدی نے اعتراف کیاـ: ’’مولانا مودودی سمجھنے اور سمجھانے دونوں اوصاف سے بہرہ ور ہیں۔ سمجھنے کا وصف تو کسی نہ کسی قدر اکثر لوگوں میں ہوتا ہے، مگر سمجھانے کے وصف سے بہت کم لوگ نوازے جاتے ہیں۔ تفہیم القرآن جدت دکھاتی ہے، تاہم حدود اور اعتدال کے دامن کو پکڑے رہتی ہے‘‘۔ پروفیسر زینب کا کاخیل کے مطابق: ’’مولانا مودودی کا اصل مقصد کلام الٰہی کی صحیح ترین تفسیر بیان کرنا ہے، نہ کہ کسی خاص مکتب فکر کی تقویت یا آبیاری کرنا‘‘۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین جسٹس محمد افضل چیمہ نے کہا: تفہیم القرآن کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نہ صرف طرز استدلال میں نہایت معقول اور سائنٹی فک انداز اختیار کیا گیا ہے بلکہ مناسب مقامات پر فلسفہ، طبیعیا ت، علم الکیمیا، فلکیات اور دیگر جدید سائنسی علوم کا براہِ راست تجزیہ کرتے ہوئے بات کی گئی ہے۔ جس سے ایک متجسس طالب علم کی علمی حس مطمئن ہوتی اور شکوک و شبہات کا ازالہ ہو جاتا ہے۔

فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمان نے اعتراف کیا ہے: تفہیم القرآنمیں مولانا مودودی اس عہد کی زبانِ علم میں، اس عہد کے لوگوں سے مخاطب ہیں۔ میں نئی نسل کو تفہیم کے مطالعے کا مشورہ دوں گا۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج والدین کے لیے، اپنی اولاد کو پیش کرنے کے لیے تفہیم القرآن ایک بہترین تحفہ ہے، جو ایمان کو مضبوط، اسلامی تہذیب کو بارآور اور صراطِ مستقیم کے سفر کو آسان بنا دیتا ہے۔

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی جس ابتلا و آزمایش سے گزررہی ہے، اس کی جڑیں سرزمینِ بنگلہ دیش میں نہیں بلکہ اس طوفانِ کرب و بلا کا مرکز سرحدپار موجود ہے۔ بنگلہ دیش میں اس نفرت کے سوداگر عوامی لیگ، بنگالی قوم پرست، مقامی ہندو اور سیکولر طبقات ہیں۔ حسب ذیل تحریر ملاحظہ کیجیے:

میں ذاتی سطح پر جماعت اسلامی کے بارے میں ۱۹۷۱ء کی مناسبت سے کوئی اچھی راے نہیں رکھتا۔ لیکن اس لمحے جب بنگلہ دیش میں دانش وروں اور صحافیوں کی ایک بڑی تعداد جماعت اسلامی پر سنگ باری کر رہی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ مجھے سچ کہنے میں بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔

بہت سے مقامات پر، بہت سے لوگوں سے ملنے کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ عوامی لیگ خود دہشت گردانہ کارروائیاں کرکے، ان جرائم کا الزام جماعت اسلامی پر دھر رہی ہے۔ مزید یہ کہ ، بے شمار تحریروں اور تصانیف کے مطالعے کے بعد، جب میں [بنگلہ دیش کے حوالے سے] بھارت کے موجودہ طرزِعمل کا جائزہ لیتا ہوں، تو مجھے صاف دکھائی دیتا ہے کہ ۱۹۷۱ء میں [مشرقی پاکستان پر مسلط کردہ] جنگ بھارت کی مسلط کردہ تھی، اور جو فی الحقیقت بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ (RAW) کا پراجیکٹ تھا۔  اسی طرح جب میں عوامی لیگ اور ذرائع ابلاغ کو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا کرتے ہوئے دیکھتا ہوں، تو مجھے اس یلغار کے پسِ پردہ محرکات کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ بنگلہ دیش میں فی الواقع جماعت اسلامی ہی وہ منظم قوت ہے، جو بھارت کی بڑھتی ہوئی دھونس اور مداخلت کو روکنے میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ گویا کہ ۱۹۷۱ء میں ہماری آزادی کے حصول کی جدوجہد کے دشمن، آج ہماری آزادی کے تحفظ کے بہترین محافظ ہیں۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی سیاسی جدوجہد کی مخالفت کرنے کے باوجود میں محسوس کرتا ہوں کہ اس پارٹی کا وجود ہماری آزادی کے تحفظ کے لیے اشد ضروری ہے۔ بھارت نے ہمارے صحافیوں، سیاست دانوں، قلم کاروں اور فوجیوں کو خرید رکھا ہے، لیکن میں واشگاف کہوں گا کہ وہ جماعت اسلامی کو خریدنے میں ناکام رہا ہے۔

یہ تحریر بنگلہ دیش کے سابق وزیر بیرسٹر شاہ جہاں عمر کی ہے، جو ایک ماہر معاشیات بھی ہیں اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے مرکزی رہنما اور خالدہ ضیا کے مشیر بھی ۔ پاکستان سے علیحدگی کی جدوجہد میں حصہ لینے کے اعتراف میں بنگلہ دیش نے انھیں دوسرے سب سے بڑے قومی اعزاز ’بیراتم‘ سے نوازا ہے۔ انھوں نے یہ احساسات اپنے فیس بک اکائونٹ پر ۱۸جنوری ۲۰۱۴ء کو مشتہرکیے۔ انھی بیرسٹر شاہ جہاں عمر نے عبدالقادر کی شہادت کے دو روز بعد ۱۴دسمبر ۲۰۱۳ء کو لکھا تھا:

وہ لوگ جو عبدالقادر کی شہادت پر مٹھائیاں تقسیم کر رہے تھے، ان کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ نہ تھی، اور یہ لوگ ایک غیرانسانی اور وحشیانہ عمل کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ لیکن   ان ایک ہزار پاگلوں کے مقابلے میں ۱۰۰ سے زیادہ مقامات پر لاکھوں لوگوں نے عبدالقادر کی شہادت پر غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرکے اس ابدی سچائی کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا کہ وہ ایک مظلوم انسان تھا، جسے انتقام کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔

بنگلہ دیش جماعت اسلامی درحقیقت اُس نام نہاد ’امن کی آشا‘ کے سامنے ایک آہنی چٹان ہے، جسے ڈھانے کے لیے برہمنوں ، سیکولرسٹوں اور علاقائی قوم پرستوں کے اتحادِ شرانگیز     نے  ہمہ پہلو کام کیا ہے۔ اس ضمن میں ان کا حقیقی سرمایہ جھوٹا پروپیگنڈا اور اسلام کی تضحیک ہے۔ بھارتی کانگریس کے لیڈر اور گذشتہ ۱۰ برسوں سے حکمران وزیراعظم من موہن سنگھ اس مناسبت سے ایک دل چسپ کردار ہیں۔ جنھوں نے: بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کو بے دست وپا کرنے، مولانا مودودیؒ کی کتابوں پر پابندی عائد کرنے اور دو قومی نظریے کی حامی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کو دیوارسے لگانے کے لیے حسینہ واجد حکومت کی بھرپور سرپرستی کی۔ دوسری جانب خود بھارت میں مسلم نوجوانوں کو جیل خانوں اور عقوبت کدوں میں سالہا سال تک بغیر کسی جواز اور عدالتی کارروائی کے ڈال دینے کا ایک مکروہ دھندا جاری رکھا ہے۔ افسوس کہ پاکستانی اخبارات و ذرائع ابلاغ اس باب میں خاموش ہیں۔

بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے حوالے سے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے اس بیان کو پڑھیے، جو انھوں نے بنگلہ دیش میں اپنے مجوزہ دورے سے قبل۳۰جون ۲۰۱۱ء کو نئی دہلی میں بنگلہ دیش اور بھارت کے ایڈیٹروں سے گفتگو کرتے ہوئے دیا تھا:

بنگلہ دیش سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں، لیکن ہمیں اس چیز کا لحاظ رکھنا پڑے گا کہ  بنگلہ دیش کی کم از کم ۲۵ فی صد آبادی اقراری طور پر جماعت اسلامی سے وابستہ ہے اور وہ بہت زیادہ بھارت مخالف ہے۔ اس لیے بنگلہ دیش کا سیاسی منظرنامہ کسی بھی لمحے تبدیل ہوسکتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ عناصر جو جماعت اسلامی پر گرفت رکھتے ہیں، بنگلہ دیش میں کب کیا حالات پیدا کردیں۔

وزیراعظم من موہن سنگھ کی اس ’فکرمندی‘ اور بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کو کچلنے کی خواہش کو معلوم نہیں پاکستانی وزارتِ خارجہ کس نظر سے دیکھتی ہے، تاہم عوامی لیگ، حسینہ واجد اور ان کے ساتھیوں کی حیثیت محض ایک بھارتی گماشتہ ٹولے کی سی ہے۔ جسے بنگلہ دیش کے مفادات سے زیادہ بھارتی حکومت کی فکرمندی کا احساس دامن گیر ہے۔ گذشتہ تین برسوں پر پھیلے ہوئے عوامی لیگی انتقام کو پاکستانی سیکولر طبقے ۱۹۷۱ء کے واقعات سے منسوب کرتے ہیں، حالانکہ بدنیتی پر مبنی اس یلغار کا تعلق حالیہ بھارتی پالیسی سے ہے۔ وہ پالیسی کہ جس کے تحت بھارت اپنے ہمسایہ ممالک میں نوآبادیاتی فکر اور معاشی و سیاسی بالادستی کو مسلط کرنا چاہتا ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت   یہ کام کھل کر ، کررہی ہے اور پاکستان میں یہ ظلم ’مادرپدر آزاد میڈیا‘ اور وفاقی حکومت میں گھسے   کچھ عناصر انجام دے رہے ہیں جس کے تحت انجام گلستان صاف دیکھا جاسکتا ہے۔

ظلم اور وہ بھی انصاف کے نام پر، ہمیشہ فسطائی اور ظالم قوتوں کا ہتھیار رہا ہے۔ جب ایسے ظلم کو میڈیا اور سامراجی قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہوجائے تو پھر سوال اور جواب کی گنجایش  کم ہی رہ جاتی ہے۔

ایسا ہی ظلم بنگلہ دیش میں ۶۵سالہ عبدالقادر مُلّا، اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی کے ساتھ روا رکھا گیا ہے، جنھیں ۵فروری ۲۰۱۳ء کو قانون کی من مانی تاویل کرتے، من پسند عدالت سجاتے اور دفاع کے جائز حق سے محروم رکھتے ہوئے عمرقید سنائی گئی۔ وہ اس ظلم پر اپیل کے لیے سپریم کورٹ گئے، مگر ساڑھے سات ماہ تک بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے عجیب و غریب تاریخ رقم کی۔ بنگلہ دیش کے معروف قانون دان محمد تاج الاسلام کے بقول: ’’جنوبی ایشیا کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ایک ٹرائل کورٹ کی طرف سے سنائی گئی سزا کو سپریم کورٹ نے بڑھا کر سزاے موت میں تبدیل کردیا ہے‘‘۔ مگر یہ تماشا ہوا ہے۔

عبدالقادر مُلّا کا جرم کیا ہے؟ یہی کہ جب ۱۹۷۱ء میں، دنیا بھر کی برادری میں ایک تسلیم شدہ ملک پاکستان کے مشرقی حصے میں ہندستانی فوج کی زیرنگرانی تربیت یافتہ دہشت گردوں کی مسلح کارروائیوں نے زورپکڑا، تب ملک توڑنے، بھارتی افواج کا ساتھ دینے، پُرامن شہریوں کو قتل کرنے اور قومی اِملاک کو تباہ کرنے والی مکتی باہنی کے مقابلے میں مسلح طور پر نہیں، بلکہ محض تبلیغ اور افہام و تفہیم کے ذریعے پُرامن رہنے اور شہری زندگی کو بحال کرنے کی جدوجہد میں عبدالقادر نے اپنی بساط کے مطابق کھلے عام رابطہ عوام مہم چلائی۔ اُس وقت وہ ایم اے کے طالب علم تھے۔ ان کا یہی ’جرم‘ آج ۴۲سال بعد ’جنگی جرم‘ بلکہ ’انسانیت کے خلاف جرم‘ بنا دیا گیا۔ عوامی لیگ نے اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو سہارا دینے، ہندو آبادی کو خوش کرنے اور بھارت نواز سیکولر قوتوں سے تعاون لینے کی غرض سے اس مقدے بازی کا ڈراما رچایا۔

جوں ہی عبدالقادر مُلّا کو جنگی جرائم کی نام نہاد عدالت نے سزاے عمر قید سنائی، حسینہ واجد  سپریم کورٹ میں گئیں اور کہا:’’عبدالقادر کو عمرقید کے بجاے سزاے موت دی جائے‘‘۔ اور سیکولر لابی کے وہ کارکن جو سزاے موت کو ویسے ہی ختم کرنے کا علَم تھامے نظر آتے ہیں، وہ بھارتی  سرکاری پشت پناہی (یہ الزام نہیں بلکہ اس بات کی گواہی بھارت کے معتبر اخبارات بھی پیش کرچکے ہیں) میں ’’عمرقید نہیں، سزاے موت چاہیے‘‘ کے نعرے بلند کرتے ہوئے سڑکوں پر آگئے۔ سڑکوں پر  کیا آئے، خود حکومت کے اہل کاروں نے، عوامی لیگ کے عہدے داروں اور کابینہ میں بیٹھے وزیروں نے، اداکاروں اور گلوکاروں نے، پولیس کی حفاظت میں، اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پکنک کا ماحول پیدا کرنے کے لیے شاہ باغ چوک کو سرکس کا گڑھ بنایا گیا، اور آخرکار ۱۸ستمبر ۲۰۱۳ء کو اپنی ’روشن دماغ‘ عدلیہ سے یہ فیصلہ لے لیا کہ ’’عبدالقادر مُلّا کو سزاے موت دی جائے‘‘۔

برطانوی دارالامرا کے رکن لارڈ الیگزنڈ ر چارلس کارلائل نے ۲۰ستمبر ۲۰۱۳ء کو مسٹر ایچ ای ناوی پلے، ہائی کمشنر اقوام متحدہ براے انسانی حقوق، سوئٹزرلینڈ کے نام خط میں تحریر کیا:

میں نے برطانیہ کے کُل جماعتی گروپ براے انسانی حقوق کے رکن کی حیثیت سے ۷جون ۲۰۱۳ء کو آپ کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرائی تھی کہ بنگلہ دیش میں  انسانی حقوق کی صورتِ حال سخت ابتر ہے، اور یہ حالات روز بروز بدترین شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں خاص طور پر عرض کیا تھا کہ اس المیے کا سب سے  بڑا محرک وہاں پر انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کا قیام اور اس کی کارروائی ہے۔

مجھے ذاتی طور پر آپ کے اس طرزِعمل پر حیرت ہوئی کہ آپ نے گذشتہ دنوںجنیوا میں خطاب کرتے ہوئے انسانی حقوق کی بے حُرمتی کے مراکز کے طور پر شام، مصر اور عراق کا نام تو لیا، مگر عجیب بات ہے کہ انسانی حقوق کی ان قتل گاہوں میں آپ نے بنگلہ دیش کا نام نہیں لیا۔

[بنگلہ دیش کے] عام انتخابات سے صرف چند ماہ پیش تر ، یہاں کی حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے اور گرفتاریوں کی یلغار کرنے کے لیے پورا زور لگارہی ہے۔ جسے بڑھاوا دینے کے لیے اس حکومت کے قائم کردہ کرائمز ٹریبونل کے جانب دار اور سیاسی طور پر متحرک ججوں نے اپنے کھیل سے، بنگلہ دیشی معاشرے کو بدامنی کی آگ میں دھکیلنے کا پورا بندوبست کررکھا ہے۔ صفائی کے گواہوں کا اغوا اور دیگر غیرمہذب اقدامات نے عدالتی کارروائی جیسے جائز اور مقدس عمل کو تباہی سے دوچار کرا دیا ہے۔

جیساکہ میں نے اپنے جون کے خط میں آپ کو لکھا تھا کہ ’جرائم کے خلاف عالمی انصاف‘ کو لازماً جرائم کے خلاف محض قومی سطح پر دائرۂ سماعت میں نہیں آنا چاہیے، بلکہ اس کے ساتھ لازمی طور پر عالمی سطح پر انسانی حقوق کے معیارِ انصاف اور کارروائی کے عالمی معیار اور شفافیت کے مسلّمہ اصولوں پر بھی پورا اُترنا چاہیے۔ اس ضمن میں کسی بھی کم تر معیار کو اپنانے کا مطلب عدل و امن کے مجموعی ہدف کو ضائع کرنے کے ہم معنی ہوگا۔

تاہم، اس ہفتے عبدالقادر مُلّا کے مقدمے میں بنگلہ دیش سپریم کورٹ کے فیصلے نے سخت پریشانی سے دوچار کیا ہے، جس میں سپریم کورٹ نے گذشتہ عرصے میں دائر کی گئی درخواست پر ایک قدم آگے بڑھ کر عمرقید کو سزاے موت میں تبدیل کردیا ہے اور اپیل کا حق بھی سلب کرلیا گیا ہے۔

بنگلہ دیشی حکومت نے اقوام متحدہ کے گروپ براے ’من مانی نظربندی‘ کی گذشتہ برس کی اس رپورٹ کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا ہے، جس میں یہ بات واضح کی تھی کہ وہاں پر عالمی انصاف کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں اور اب اس فیصلے نے پیش قدمی کرتے ہوئے اس سزا یافتہ قیدی کے نظرثانی کے حق اپیل کو سلب کرکے بین الاقوامی ضوابط کو روند ڈالا ہے، جس کی مذمت کرنا لازم ہے۔

میں عبدالقادر مُلّا کے اس فیصلے کے بارے میں ہیومن رائٹس واچ (HRW) کے   اس تجزیے کی پُرزور تائید کرتا ہوں کہ:

Bangladesh: Death Sentence Violates Fair Trial Standards, 18th September (بنگلہ دیش میں ۱۸ستمبر کو سزاے موت کا فیصلہ مقدمات کے منصفانہ معیار کی خلاف ورزی ہے)۔

انھوں نے بجا طور پر اس معاملے کی نشان دہی کی ہے کہ [بنگلہ دیش حکومت کی جانب سے زیرسماعت مقدمات کے بارے] بعد از وقت قوانین کی تبدیلی، مقدمے کی شفاف کارروائی کے بین الاقوامی قانونی نظریے کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

[امریکی] وزیرخارجہ جان کیری کی جانب سے وزیراعظم حسینہ واجد اور ان کی مدّمقابل خالدہ ضیا کو بات چیت کے ذریعے معاملات کا حل نکالنے کی دعوت خوش آیند ہے۔ تاہم، پاے دار امن کے لیے ضروری ہے کہ ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ کو لازماً بین الاقوامی نگرانی میں اپنی کارروائی کرنی چاہیے۔

لارڈ الیگزنڈر کارلائل، نہ پاکستانی ہیں اور نہ جماعت اسلامی کے رکن اور کارکن وغیرہ، بلکہ وہ ایک پارلیمنٹیرین،  مذہباً غیرمسلم اور پیشے کے اعتبار سے قانون دان ہیں۔انھوں نے اس مقدمے کو خالصتاً قانونی، انسانی اور اخلاقی بنیادوں پر دیکھا تو چیخ اُٹھے کہ: ’’یہ کیا ظلم ہو رہا ہے؟‘‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود ہمارے ہاں کے انسانی حقوق کے علَم برداروں کی حسِ انصاف کو کیا ہوا، اور خود ہمارے حکمرانوں اور مقتدر طبقوں کی قومی حمیت کو کیوں گھن لگ گیا ہے؟

عبدالقادر مُلّا ۱۴؍اگست ۱۹۴۸ء کو ضلع فریدپور (مشرقی پاکستان حال بنگلہ دیش) کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۸ء میں راجندر کالج، فریدپور سے گریجویشن کے بعد ڈھاکہ یونی ورسٹی میں ایم اے میں داخلہ لیا۔ اسی دوران یونی ورسٹی کے ایک ہاسٹل میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم منتخب ہوئے۔ وہ ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد کبھی اپنے ملک سے باہر نہیں گئے۔     اسی معاشرے میں کھلے عام رہے اور عملی زندگی میں بطور صحافی خدمات انجام دیں۔ معروف اخبار روزنامہ سنگرام ڈھاکہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر، اور بنگلہ دیش نیشنل پریس کلب کے رکن منتخب ہوئے۔

۵فروری کو جب نام نہاد عدالت نے عبدالقادر کو ڈیڑھ گھنٹے پر محیط وقت میں مقدمے کا فیصلہ سنایا تو اس روز بی بی سی لندن کے نمایندے کے مطابق: ’’عبدالقادر نے بلندآواز میں ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ بلند کیا اور ججوں کو مخاطب کرکے کہا: ’’ایسا غیرمنصفانہ فیصلہ کرنے پر تمھیں کوئی اچھے نام سے یاد نہیں کرے گا‘‘۔ اور ان کے وکیل بیرسٹر عبدالرزاق نے کہا: ’’یہ عدالت کے رُوپ میں ایک شکاری چڑیل ہے‘‘۔ تاہم، جب باہر نکلے تو برطانوی اخبار دی انڈی پنڈنٹ کے نمایندے   فلپ ہشز کے بقول: ’’عبدالقادر مُلّا، عدالت کے فیصلے پر واضح طور پر خوش نظر آرہے تھے، اور انھوں نے عدالت سے نکلتے وقت فتح کا نشان بلند کیا‘‘۔(۱۹فروری ۲۰۱۳ء)

جیساکہ بتایا جاچکا ہے کہ ان کی عمرقید پر بھارت نواز لابی اور بنگالی قوم پرست سیکولر لابی نے ’سزاے موت دو‘ مہم چلانا شروع کردی اور آخرکار ۱۷ستمبر کو سزاے موت کا فیصلہ لے لیا۔ ۲۰ستمبر کو عبدالقادر مُلّا کے بیٹے نے جیل میں ان سے ملاقات کے بعد بتایا کہ: ’’میرے ابا نے کہا ہے، بیٹا! میں کتنا خوش نصیب ہوں کہ لڑکپن سے جس موت کی دعا مانگا کرتا تھا، اللہ کی خوش نودی سے وہ موت میرے سامنے ہے۔ اس پر غم نہ کرو، بلکہ اس کی قبولیت کے لیے رب کریم سے دعا مانگو‘‘۔ آج صورت یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں یہ خبر ہر خاص و عام میں گرم ہے کہ: ’’عوامی لیگ کم از کم عبدالقادر مُلّا کو تو سب سے پہلے سزاے موت ضرور دے گی‘‘___ مگر کیوں؟ جواب بڑا واضح ہے کہ ملک میں بدامنی کا ایک ایسا دور شروع ہوجائے کہ عوامی لیگ کی حکومت جو اگلے ماہ اپنی مدت ختم کررہی ہے وہ براہِ راست راے دہندگان سے بچ جائے اور وہاں کی عدلیہ، فوج اور ٹیکنوکریٹ کا ایک عبوری دورِحکومت ان انتقامی کارروائیوں کو جاری رکھ سکے۔


جماعت اسلامی کے خلاف مقدمات کے فیصلے تو اُوپر تلے آہی رہے ہیں، اور اب ۲۲ستمبر کو اسی کرائمز ٹریبونل نے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ایک بزرگ رہنما عبدالعلیم کے خلاف بھی ’۱۹۷۱ء میں انسانیت کے خلاف جرائم‘ کی سماعت مکمل کرلی ہے اور کسی بھی وقت یہ فیصلے کا اعلان کرسکتی ہے۔ یاد رہے، عبدالعلیم، بنگلہ دیش کے مرحوم صدر ضیا الرحمن کی کابینہ میں وزیر رہ چکے ہیں۔

۲۱ستمبر کو حسینہ واجد نے معروف صحافی ڈیوڈ فراسٹ (الجزیرہ ٹی وی) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ: ’’خالدہ ضیا کی بی این پی سے ہمارا نظریاتی اختلاف ہے، اس لیے ہم کبھی آپس میں نہیں مل سکتے‘‘۔ یہ نظریاتی اختلاف تین دائروں میں دیکھا جاسکتا ہے: l بی این پی ، بنگلہ دیش کے دستور میں اسلامی شقوں کو لانے اور ان کا تحفظ کرنے والی پارٹی ہے، جب کہ عوامی لیگ نے آتے ہی ان دستوری شقوں اور قوانین کو ختم کردیا ہے۔lبی این پی، بنگلہ دیشی قومیت کی علَم بردار ہے (جس کا مطلب دو قومی نظریہ ہے)، جب کہ عوامی لیگ بنگلہ قوم پرستی کی پرستار ہے، جو دو قومی نظریے کی نفی ہے۔ lبی این پی، بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر اور بنگلہ دیش کے اقتدارِاعلیٰ کے  تحفظ کی علَم بردار ہے لیکن عوامی لیگ، بھارتی حکومت کے سامنے خود سپردگی اور تابع مہمل رہنے کے لیے بے تاب ہے۔

یہ ہیں وہ نظریاتی اختلافات، جن کے نتیجے میں جماعت اسلامی اور بی این پی آپس میں حلیف ہیں اور عوامی لیگ ان کی دشمنی کے لیے ہرلمحے اور ہرقیمت پر مائل بہ جنگ ۔

 

’۹۱سالہ پروفیسر غلام اعظم کو دینی تو سزاے موت چاہیے، مگر صحت اور عمر کا خیال کرتے ہوئے ہم ۹۰سال قید کی سزا سناتے ہیں، جو تسلسل کے ساتھ جاری رہے گی یا پھر ان کی موت تک برقرار رہے گی‘۔

یہ الفاظ فضل کبیر، جہانگیر حسن، انوارالحسن پر مشتمل نام نہاد ’جنگی جرائم کے ٹربیونل‘ کے فیصلے میں درج ہیں، جو ۱۵جولائی ۲۰۱۳ء کو سنایا گیا۔اس عدالتی ڈرامے کے اسٹیج کو بنگلہ دیش کے اہلِ دانش اور قانون دانوں نے واضح طور پر مسترد کردیا تھا، تاہم بین الاقوامی سطح پر بھی اس کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کو کسی نے مان کر نہ دیا۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

  •  ۲۹ دسمبر ۲۰۰۹ء کو انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن (IBA) نے اس کی تشکیل پر اعتراض اُٹھایا۔
  •  ۱۹ مئی ۲۰۱۰ء کو امریکن سوسائٹی آف انٹرنیشنل لا (ASIL) نے وضاحت طلب کی۔
  •  ۱۵ مارچ۲۰۱۱ء کو انٹرنیشنل سنٹر فار ٹرانزیشنل جسٹس (ICTJ) نے اسے مسترد کیا۔
  • ۲۱ مارچ ۲۰۱۱ء ’جنگی جرائم کے معاملے‘ پر امریکی سفیر اسٹیفن جے راپ نے اعتراض اُٹھایا۔
  •  ۱۸مئی ۲۰۱۱ء کو ہیومن رائٹس واچ (HRW) نے پورے عمل پر تنقید کرتے ہوئے بنگلہ دیشی وزیراعظم کو خط لکھا۔
  •  ۲۱ جون ۲۰۱۱ء کو ایمنسٹی انٹرنیشنل (AI) نے قانونی حیثیت پر بنیادی سوال اُٹھائے۔
  •  ۶فروری ۲۰۱۲ء یو این ورکنگ گروپ آن آربٹریری ڈیٹنشن (UNWGAD) نے اس ڈرامے کے خلاف رپورٹ دی۔

علاوہ ازیں یورپ، ملایشیا اور ترکی وکلا کی تنظیموں نے اس سارے سلسلے کو قانون کے ساتھ صریح مذاق قرار دیا، اور اسی مضحکہ خیز ’عدالت‘ نے بنگلہ دیش ہی نہیں، بلکہ عالمِ اسلام کے ایک بزرگ، عالمِ دین اور رہنما پروفیسر غلام اعظم کے لیے عملاً سزاے موت کی سزا کا اعلان کیا ہے۔

پروفیسر غلام اعظم ۷نومبر ۱۹۲۲ء کو پیدا ہوئے۔ زمانۂ طالب علمی میں تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ۱۹۵۰ء میں ڈھاکا یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے، پھر بنگلہ زبان تحریک میں حصہ لیا اور ۱۹۵۵ء میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے۔ انھوں نے پاکستان میں دعوتِ دین، دستور سازی، بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق کی بحالی کے لیے بھرپور جدوجہد کی اور متعدد بار قیدوبند کی آزمایشوں سے گزرے۔غلام اعظم صاحب کی جماعت اسلامی میں شمولیت کے بعد، مشرقی پاکستان جماعت اسلامی کی ترقی اور پھیلائو کی رفتار میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اُن کی پُرکشش اور دل نواز شخصیت نے اپنوں اور غیروں کے دلوں کو جس طرح فتح کیا، یہی خوبی دشمن کے لیے کانٹا بن گئی۔

یکم سے ۲۴ مارچ ۱۹۷۱ء تک عوامی لیگ نے غیربنگالیوں کا قتلِ عام کیا ، اُردو بولنے والوں کی عورتوں کی سرعام بے حُرمتی کی، ہزاروں بہاری ، پنجابی اور پٹھان مسلمانوں کو چُن چُن کر ذبح کیا۔ پھر ۲۵مارچ ۱۹۷۱ء کو پاک آرمی نے جوابی آپریشن کیا تو، پروفیسر غلام اعظم ان مرکزی شخصیات میں شامل تھے، جنھوں نے ’امن کمیٹی‘ قائم کرکے شہری زندگی کی بحالی کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے بھارتی فوج کے پشت پناہ مداخلت کاروں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے، مشرقی پاکستان کے تمام اضلاع اور اکثر تحصیل ہیڈکوارٹرز کا دورہ کیا۔ پروفیسر صاحب کے رفیقوں میں بزرگ سیاست دان نورالامین، فضل القادر چودھری، مولوی فریداحمد، خواجہ خیرالدین، شفیق الاسلام وغیرہ شامل تھے۔ ان کاوشوں سے حالات میں تبدیلی آئی، مگر بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان میں بھیجی جانے والی بھارتی آلۂ کار  مکتی باہنی اور کمیونسٹ تخریب کاروں کی مدد سے پاکستان توڑنے کے اس موقع سے پورا فائدہ اُٹھایا۔ بھارتی جرنیلوں کی کتابیں گواہ ہیں کہ وہ مارچ سے دسمبر تک پوری طرح مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسندوں کی مدد میں مصروف تھے۔ آخرکار ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کو پاکستان توڑنے کا منصوبہ مکمل کیا۔

پروفیسر غلام اعظم ۲۱دسمبر ۱۹۷۱ء کو مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان (بعد میں بنگلہ دیش) جارہے تھے کہ بھارتی افواج نے مشرقی پاکستان پر حملہ کردیا، اس لیے ان کا طیارہ کولمبو سے واپس مغربی پاکستان آگیا۔ اس کے بعد وہ ۱۹۷۴ء تک پاکستان میں رہے۔ ۱۸؍اپریل ۱۹۷۳ء کو   مجیب حکومت نے اُن کی شہریت منسوخ کردی۔ ایک طویل عرصہ جلاوطنی گزارنے کے بعد   پروفیسر صاحب ۱۱؍اگست ۱۹۷۸ء کو ڈھاکہ واپس چلے آئے اور ۲۰برس تک عدالتی جنگ لڑنے کے بعد اعلیٰ عدلیہ نے پروفیسر صاحب کی شہریت بحال کی، اور وہ جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے۔

۱۱جنوری ۲۰۱۲ء کو بھارت نواز حسینہ واجد حکومت نے انھیں گرفتار کیا اور خراب صحت کے باوجود پہلے پہل طبی سہولت دینے سے انکار کیا۔ پھر انھیں قرآن پاک تک اپنے پاس رکھنے کے لیے عدالتوں میں درخواست دائر کرنا پڑی ، اور چھے ماہ کی جدوجہد کے بعد قرآن،سیرتِ رسولؐ ، حدیث کے انتخاب پر مشتمل اور دعائوں پر مبنی ایک ایک کتاب فراہم کی گئی۔

ان کے مقدمے کی کارروائی کو عالمی اخبارات نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ برطانیہ اور ترکی سے وکلا کی تنظیموں نے غلام اعظم صاحب کے مقدمے کی پیروی کے لیے آنا چاہا، مگر نام نہاد ٹربیونل نے انھیں اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ غلام اعظم صاحب کی طرف سے ۲ہزار گواہوں نے عدالت میں پیش ہونے کے لیے اپنے نام درج کرائے، مگر صرف ۱۲؍افراد کو گواہی کی اجازت دی گئی اور   ان میں سے بھی متعدد افراد کو دھمکایا ڈرایا گیا، حتیٰ کہ ایک ہندو گواہ شکھو رنجن کو اغوا کرلیا۔ ایک اطلاع کے مطابق اُسے اغوا کرکے کلتّے لے جایا گیا ہے۔ دوسری جانب استغاثے پر گواہ پیش کرنے کے لیے کوئی پابندی نہ لگائی۔ یہی نہیں بلکہ انڈین ایجنسی ’را‘  (RAW) کے ایجنٹ شہریار کبیر کو ایک معزز اتھارٹی کے طور پر تسلیم کیا۔ یہ وہی فرد ہے، جسے پاکستان میں ہیومن رائٹس کمیشن کے بھارت نواز پروپیگنڈا مینیجرز نے گذشتہ برس بلاکر لیکچر کرائے تھے۔

پروفیسر غلام اعظم صاحب کو اس گرفتاری کے دوران اپنے مرحوم بھائی کی نمازِ جنازہ میں شرکت تک کی اجازت نہ دی گئی، جب کہ گرفتاری سے قبل پروفیسر صاحب کے بیٹے بریگیڈیئر جنرل عبداللہ اعظم کو بغیر کسی وجہ کے فوج سے برطرف کردیا گیا۔پروفیسر غلام اعظم کی اس سزا نے پورے بنگلہ دیش کو ہلا کر رکھ دیا، مگر وزیراعظم حسینہ واجد نے ۱۶جولائی کو پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ہم خوش ہیں کہ غلام اعظم کو سزا ملی ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ ہم اپنی مدتِ حکومت میں سزائوں پر عمل درآمد کرائیں گے۔ میں ججوں کی جرأت کو سلام پیش کرتی ہوں کہ انھوں نے عالمی اور مقامی دبائو کو مسترد کردیا ہے، اور یہ ہماری بہت بڑی قومی کامیابی ہے‘‘۔ یہ وہ ’کامیابی‘ ہے جس کی کوئی اخلاقی اور قانونی حیثیت نہیں ہے، مگر افسوس تو پاکستان کے حکمرانوں اور دانش وروں پر ہے۔ حکومت اور دفترخارجہ اس پر کوئی ردعمل نہیں دے رہے، جب کہ پروفیسر صاحب کو سزا دی گئی ہی   اس جرم کی بنا پر ہے کہ ’’انھوں نے ۱۹۷۱ء میں پاکستان کا ساتھ دیا‘‘___ اور پاکستان ہے کہ خاموش!

اگر فیصلے کو پڑھا جائے تو وہ تمام تر اخباری رپورٹوں پر مشتمل ہے۔ یاد رہے کہ اُس وقت ملک پر مارشل لا نافذ تھا اور سنسرشپ کے باعث پروفیسر صاحب کے حکومت وقت پر تنقیدی بیانات کی اشاعت ممکن نہ تھی۔ پھر غلام اعظم صاحب پر براہِ راست الزام لگانے کے بجاے، جماعت اسلامی کو ’مجرم‘ قرار دینے کے لیے استغاثے کے مخالفانہ سیاسی بیانات سے مقدمے کو سجایا گیا ہے۔ درحقیقت یہ فیصلہ پروفیسر صاحب کی زندگی سے کھیلنے اور آخرکار جماعت اسلامی، آج کی جماعت اسلامی کے لیڈروں اور لٹریچر پر پابندی لگانے کا فیصلہ ہے۔

وہ لوگ جو آج یہاں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں، چاہے وہ اسٹیبلشمنٹ ہو یا حکومتی کارندے، انھیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ مقدمے بنگلہ دیش کی نمایشی حکومت کے مقدمے نہیں، بلکہ یہ بھارت کے سیاسی پروپیگنڈے اور فوجی یلغار کا ایک محاذ ہیں۔ آپ دیکھیں پہلے یہ مقدمے دو، پھر چار، اس کے بعد ۱۱؍افراد پر چلنے شروع ہوئے۔ اب ان کا دائرہ ان لوگوں تک پھیلا دیا گیا ہے، جو امریکا یا برطانیہ کے شہری بن چکے ہیں۔ جس نام نہاد بنگلہ دیشی ایکٹ کی بنیاد پر یہ ٹربیونل بنایا گیا ہے اس کی یہ شق قابلِ غور ہے: ’’یہ ٹربیونل ہر اس فوجی، دفاعی یا رضاکار فرد یا گروہ پر مقدمہ چلانے کا اختیار رکھتا ہے، جس نے بنگلہ دیش کی سرزمین پر جنگی جرم کیا، چاہے وہ کسی بھی قومیت سے تعلق رکھتا ہو‘‘۔ اور پھر یہ پے درپے مقدموں کے جعلی فیصلے مستقبل کے ڈرامے کا رُخ دکھاتے ہیں۔بنگلہ دیش تو محض ایک دکھلاوا ہے، اصل ڈائریکٹر بھارت ہے۔

پروفیسر غلام اعظم صاحب نے حق کی شہادت دے کر اپنا فرض ادا کردیا ہے۔ کیا اس شہادت کی شہادت دینے والے کسی غیبی مدد کا انتظار کریںگے یا قافلۂ حق میں شہادتِ حق ادا کریں گے!

۱۷جولائی کو اسی خانہ ساز عدالت نے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل     علی احسن محمد مجاہد کو سزاے موت سنائی۔ سزاے موت کا اعلان  سننے کے بعد وہ پُرسکون انداز سے کھڑے ہوئے اور اعلان کرنے والے سے مخاطب ہوکر کہا: ’’آپ کا فیصلہ سو فی صد بددیانتی پر مبنی ہے اور میں سو فی صد بے گناہ ہوں۔ ہاں، میرا ایک جرم ہے اور وہ یہ کہ میں اسلامی تحریک کا کارکن ہوں‘‘۔

علی احسن محمد مجاہد گذشتہ دورِ حکومت میں مرکزی وزیر کی حیثیت سے شاندار کارکردگی کے باعث بنگلہ دیش کی بیوروکریسی اور پالیسی ساز اداروں اور دانش وروں کی نگاہوں میں ایک   دیانت دار، پُرعزم، محنتی اور معاملہ فہم رہنما کی حیثیت سے اُبھرے ہیں۔ اُن کی یہ متاثر کن کارکردگی  حسینہ واجد حکومت کو ہضم نہ ہوسکی۔

اس سال کے آغاز سے فیصلے سنائے جارہے ہیں۔ سب سے پہلے ۲۱جنوری کو جماعت اسلامی کے رہنما ابوالکلام آزاد کو سزاے موت سنائی گئی۔ اس کے بعد اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل عبدالقادر ملّا کو ۵فروری کو عمرقید کی سزا سنائی گئی۔ ۲۸فروری کو جماعت کے مرکزی رہنما اور بنگلہ دیش کے مقبول ترین مذہبی راہنما دلاور حسین سعیدی کو سزاے موت دی گئی۔ قیدیوں کو شرمناک حالت میں رکھا گیا ہے۔ غلام اعظم صاحب ۸فٹ کی کوٹھڑی میں تھے۔ انھیں ڈھاکے سے دُور دوسری جیل میں منتقل کر کے اب علی احسن مجاہد اس میں لائے گئے ہیں۔ غلام اعظم صاحب نے کہا: ایسا لگ رہا ہے کہ قبر سے نکلا ہوں۔

علی احسن مجاہد کی سزا کے بعد اب مولانا مطیع الرحمن نظامی کے مقدمے کی سماعت شروع ہوگئی ہے۔ اس کے بعد ابوالکلام محمد یوسف، مولانا عبدالسبحان، ازہرالاسلام اور میرقاسم علی کے مقدمات پر فیصلے ہوں گے۔

یہ فیصلے اور یہ ڈرامے ایک طرف، مگر پاکستان کادفترخارجہ کہہ رہا ہے کہ ’’یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے‘‘ حالانکہ یہ تمام فیصلے پاکستان پر الزام تراشی کا دفتر اور متحدہ پاکستان کی حمایت کا ’جرم‘ کرنے والوں کے لیے پھانسی کے اعلانات ہیں۔ اس بے رحمانہ انداز سے مظلوموں کے زخموں پر نمک پاشی کرکے مسلم لیگ کی حکومت نے پاکستان اور تحریکِ پاکستان سے مذاق کیا ہے۔

 

 

آج ۲۸فروری اور پاکستان میں صبح سوا بارہ بجے کا وقت ہے۔ بنگلہ دیش میں ’جنگی جرائم‘ کے ٹربیونل کا ایک جج فضلِ کبیر اپنے دوساتھیوں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا ہے، سامنے کٹہرے میں مفسرِقرآن، بنگلہ دیش میں لاکھوں دلوں کی دھڑکن ، جماعت اسلامی کے نائب امیر دلاور حسین سعیدی کھڑے ہیں، جن کا چہرہ مطمئن اور دائیں ہاتھ میں قرآن کریم ہے۔

جج کے رُوپ میں انصاف کا قاتل ۱۲۰ صفحے کا فیصلہ پڑھتے ہوئے کہتا ہے: ’’دلاور حسین  کے خلاف ۲۷،اور حمایت میں ۱۷ گواہ پیش ہوئے۔ چونکہ ۲۰ الزامات میں سے آٹھ الزامات  ثابت ہوئے ہیں، اس لیے:He will be hanged by neck till he is dead.  (انھیں پھانسی کے پھندے پر اس وقت تک لٹکا رہنے دیا جائے جب تک یہ مر نہیں جاتے)۔

اگلے ہی لمحے ڈھاکا میں کمیونسٹوں کا اخبار ڈیلی سٹار انٹرنیٹ ایڈیشن میں سرخی جماتا ہے:  Sayeed to be hanged ۔ اور انڈین ٹیلی ویژن NDTV مسرت بھرے لہجے میں بار بار یہ سرخی نشر کرتا ہے: Senior Jamaat leader gets death sentence۔

علامہ دلاور حسین سعیدی دعا کے لیے ہاتھ اُٹھاتے ہیں اور چپ چاپ، جلادوں کے جلو میں پھانسی گھاٹ جانے والی گاڑی کی طرف مضبوط قدموں کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔

۱۹۷۶ء سے دلاور حسین سعیدی، اسلامیانِ بنگلہ دیش کے دلوں پر راج کرنے اور قرآن کا پیغام سنانے والے ہر دل عزیز خطیب ہیں، جو متعدد بار پارلیمنٹ کے رکن بھی منتخب ہوچکے ہیں۔ انھیں ۲۹ جون ۲۰۱۰ء کو حسینہ واجد کی حکومت نے گرفتار کیا۔ ڈھائی برس کے عدالتی ڈرامے کے بعد آج سیاہ فیصلہ اس حال میں سنایا کہ پورا ڈھاکا شہر اور دوسرے بڑے شہر ’بارڈر گارڈ بنگلہ دیش‘    (بی جی بی) اور ’ریپڈ ایکشن بٹالین‘(آر اے بی) کی سنگینوں تلے کرفیو کا منظر پیش کر رہے تھے۔ دوسری طرف شاہ باغ میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے زیراہتمام مظاہرہ پروگرام چل رہا ہے کہ ’’مارچ میں جماعت کے لیڈروں کو پھانسی دو‘‘۔ فیصلے کے اعلان کے بعد احتجاجی مظاہرہ کرنے والے اسلامی جمعیت طلبہ کے ۳۰ کارکنوں کو گولی مار کر شہید کر دیا، سیکڑوں کو زخمی اور ہزاروں کو گرفتار کرلیا گیا۔