سلیم منصور خالد


پنڈت جواہر لال نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی اپنی مجلسوں میں کہا کرتی تھی: ’’میری زندگی کا   حسین ترین لمحہ وہ تھا، جب میں نے پاکستان میں مداخلت کر کے بنگلہ دیش بنایا‘‘۔ لیکن دوسری طرف عجب معاملہ ہے۔ سابق مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ ۱۹۷۱ء کے المیے کو اپنا کارنامہ قرار دیتی ہے، ۴۰برس بعد  ان لوگوں کو قابلِ گردن زنی قرار دیتی ہے، جنھوں نے دشمن ملک کے حملوں کے خلاف اپنے وطن کا دفاع کیا۔ آج کے بنگلہ دیش میں اسی اندرا کے پرستار حکمران پاکستان کا نام لے کر اسلام اور اسلامیانِ بنگلہ دیش کے خلاف آگ اُگل رہے ہیں اور اسلامی سوچ کے حامل افراد کو  خون میں نہلا رہے ہیں۔ ۱۰ فی صد ہندو آبادی ان بلوائیوں کا مؤثر حصہ ہے اور دہلی نواز عوامی لیگ کے کارکن اور نیم فوجی تنظیمیں ان کی پشت پناہ ہیں۔ ہندستانی خارجہ پالیسی سے حرارت حاصل کرنے والے ذرائع ابلاغ اس صورتِ حال کو دہکتے الائو میں تبدیل کرنے کے لیے ہرلمحہ مستعد ہیں۔

نومبر ۲۰۱۲ء میں جب نام نہاد ’انٹرنیشنل وار کرائمز‘ ٹربیونل ( ICT) کے صدر جج نظام الدین کی غیراخلاقی، غیرقانونی اور دھاندلی آمیز گفتگو کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹا، اور اس نام نہاد ’جج‘ کو استعفا دے کر گھر کی راہ لینا پڑی تو نئی دہلی اور ڈھاکہ میں حکمران پارٹیوں نے بہ عجلت ِتمام ایک ڈراما اسٹیج کرنے کی ٹھانی۔

سب سے پہلا کام یہ کیا کہ وہ نام نہاد، ٹربیونل‘ جو بار بار سرکاری وکلا کی حماقتوں اور خانہ ساز گواہوں کے جعلی پن کے ہاتھوں دنیابھر میں رسوا ہو رہا تھا، اس نے جماعت اسلامی کے قائدین کے خلاف جعلی مقدموں کی کارروائی کو تیز تر کر دیا، تاکہ عوامی لیگ کے ’سیکولرانصاف‘ کی مزید دھجیوں کو بکھرنے سے بچایا جاسکے۔ یوں ۲۲جنوری ۲۰۱۳ء کو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ایک رہنما ابوالکلام آزاد کو سزاے موت دینے کا اعلان کردیا۔ اس فیصلے سے بنگلہ دیش کی سیاسی فضا میں بھونچال آگیا۔ ملک بھر میں اس فیصلے کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔ حکومت نے ان مظاہروں سے توجہ ہٹانے اور دہشت طاری کرنے کے لیے عوامی لیگ کے کارکنوں کو مسلح کر کے  گلی کوچوں میں پھیلانا شروع کر دیا، جن کی مدد کے لیے ’ریپڈ ایکشن بٹالین‘ (RAB) اور   ’بارڈر گارڈ بنگلہ دیش‘ (BGB) کے باقاعدہ دستے متعین کردیے۔

ابھی یہ کش مکش جاری تھی کہ جماعت اسلامی کے دوسرے رہنما عبدالقادر کو عمربھر قید بامشقت کی سزا سنا دی۔ سزاے موت کے برعکس عبدالقادر کو عمرقید سزا سنانے کا جو مقصد تھا وہ اگلے ہی روز بے نقاب ہوگیا۔ عوامی لیگیوں، کمیونسٹوں اور ہندوئوں نے فوراً یہ مطالبہ اُٹھا دیا کہ ’عبدالقادر کو سزاے موت دی جائے، اور اس مطالبے کے لیے ڈھاکہ کے ایک چوراہے ’شاہ باغ‘ کو ان مظاہروں کا مرکز بنانا شروع کر دیا۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر سیکولر قوم پرست بلاگروں نے: اسلام، قرآن، رسول کریمؐ اور اللہ تعالیٰ کے حوالے سے غلیظ ترین جملے لکھنا اور پھیلانا شروع کردیے ( راقم کے لیے ان میں سے ایک جملہ بھی نقل کرنا ممکن نہیں۔ ان جملوں کو پڑھ کر خون کھولتا اور آنکھیں اشک بار ہوتی ہیں)۔ یہ کارٹونسٹ اور بلاگر ’شاہ باغ‘ مظاہروں کے نمایاں لیڈروں کے طور پر سامنے آئے۔ انھی میں سے ایک اہم بلاگر طارق شنٹو دل کا دورہ پڑنے سے بے ہوش ہوگیا، جسے شیخ مجیب الرحمن میڈیکل یونی ورسٹی ہسپتال لے جایا گیا، مگر وہ ملعون جاں بر نہ ہوسکا ۔ طارق شنٹو سبھی لوگوں کے سامنے ایڑیاں رگڑتے ہوئے مرا، لیکن حسینہ واجد نے اس کی موت کو المیہ قرار دیا اور آخرت میں نجات کے لیے دعا مانگی (روزنامہ انڈی پنڈنٹ  ڈھاکہ، ۲۰فروری ۲۰۱۳ء)۔ اسی طارق شنٹو کے مرنے کو دینی جماعتوں پر قتل کے الزام کی صورت میں پھیلایا گیا۔

۱۹فروری کو کاکسس بازار میں جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے تین کارکنوں کو سرِبازار گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ ۱۸ فروری کو ’شاہِ باغ‘ چوک کو پُرونق بنانے کے لیے فلمی دنیا کے طائفے کو بھرپور تشہیر کے ساتھ لایا گیا جنھوں نے پاکستان اور بنگلہ دیش کی دینی جماعتوں کے خلاف زہرآلود تقریریں کیں۔ ۱۹ فروری ہی کو عوامی لیگ نے مطالبہ کر دیا کہ: ’’بنگلہ دیش کو جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ سے صاف کیا جائے‘‘۔ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ ’’مارچ ۲۰۱۳ء کے وسط تک مقدمے کو مکمل کرکے ملزموں کو پھانسی دی جائے‘‘۔

۲۰فروری کو عبدالقادر کو سزاے موت دینے کے لیے اپیل دائر کی گئی۔ اسی روز بنگلہ دیش حکومت کے وزیر بے محکمہ سرنجیت سین گپتا نے کہا: ’’ہمیں ۱۹۷۲ء کا اصل دستور بحال کرنا چاہیے (یاد رہے، اس دستور میں ایک پارٹی سسٹم اور غیرسرکاری اخبارات پر پابندی کا قانون ہے)۔ جماعت اسلامی پر ہرسطح پر پابندی لگانی چاہیے اور اس کے رہنمائوں کو موت کی سزا دی جائے‘‘۔ اسی وزیر نے شیخ مجیب کے سابق ساتھی قانون دان اور بنگلہ دیش کے اوّلین وزیرخارجہ ڈاکٹر کمال حسین اور نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’یہ لوگ جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے لیے سزاے موت کی تائید نہ کرکے قومی جرم کا ارتکاب کررہے ہیں‘‘۔ (روزنامہ  انڈی پنڈنٹ، ڈھاکہ، ۲۱فروری ۲۰۱۳ء)

۲۲فروری بروز جمعہ بنگلہ دیش کے شہر شہر اور قصبہ قصبہ اسلامی قوتوں نے اسلامی شعائر کی توہین اور اسلامی قوتوں کی کھلے عام جدوجہد پر پابندی لگانے کی حکومتی مہم کی مذمت کی تو عوامی لیگ کی قیادت میں جوابی حملہ آوروں نے کئی جگہوں پر مساجد کو گھیرے میں لے لیا۔ ڈھاکہ کی مشہور مسجد بیت المکرم کے سامنے باقاعدہ میدانِ جنگ بنا رہا اور چارکارکنوں کو گولی مار کر شہید اور سیکڑوں کو زخمی کر دیا۔

اسی طرح ۲۴فروری کو اسلامی قوتوں نے پورے بنگلہ دیش میں ہڑتال کی اپیل کی، جسے ناکام بنانے کے لیے پولیس، پیراملٹری فورس اور عوامی لیگ کے مسلح افراد نے صبح ہی سے مختلف جگہوں پر مظاہرین حملے شروع کردیے، جس میں ۱۰ کا رکن شہید ہوگئے۔

طرفہ تماشا یہ کہ خود مار بھی رہے ہیں اور ساتھ یہ مطالبہ بھی کرتے جارہے ہیں کہ   جماعت اسلامی پر پابندی لگائیں۔ اس سے بڑا مذاق یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کی تمام سیکولر قوتیں اور انسانی حقوق کی علَم بردار پارٹیاں اس ظلم پر خاموش ہیں۔ پاکستان کے دفترخارجہ کے  اہل کاروں کے منہ میں گویا کہ زبان ہی نہیں کہ جو اُس ہرزہ سرائی کا جواب دے، جو روزانہ پاکستان کو گالیوں کی صورت میں سنائی جارہی ہے۔

 

آج کا بنگلہ دیش سنگین صورتِ حال سے دوچار ہے۔ بھارت اور اس کے زیرسایہ  عوامی لیگ کی حکومت، بنگلہ دیش کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ دیگر مظاہر کے علاوہ وزیراعظم حسینہ واجد کا ۲۱دسمبر کو دیا جانے والا یہ بیان بڑی اہمیت کا حامل ہے : ’’فوج، انتظامیہ اور عوام سے مَیں یہ کہتی ہوں کہ جو لوگ ’جنگی جرائم‘ کے ٹربیونل کو ناکام بنانا چاہتے ہیں، آپ آگے بڑھ کر انھیں عبرت کی مثال بنا دیں‘‘۔

کیا کوئی جمہوری حکومت: فوج اور انتظامیہ اور عوام کو اس اشتعال انگیز انداز سے اُبھارکر، اپنے ہی شہریوں پر حملہ آور ہونے کی دعوت دے سکتی ہے؟ لیکن سیکولر، جمہوری، ترقی پسند اور بھارت کے زیرسایہ قوت حاصل کرنے کی خواہش مند عوامی لیگی حکومت اسی راستے پر چل رہی ہے۔ انتقام کی آگ میں وہ اس سے بھی عبرت حاصل نہیں کر رہی کہ ایسی ہی غیرجمہوری، آمرانہ اور بھارت کی تابع مہمل ریاست بنانے کی خواہش میں ان کے والد شیخ مجیب الرحمن، ہم وطنوں کے ہاتھوں عبرت کا نشان بنے تھے۔

سوال یہ ہے کہ اس تلخ نوائی کا سبب کیا ہے؟ عوامی لیگی حکومت کی ہمالیائی ناکامیاں، بدعنوانی کا سیلاب اور اگلے سال عام انتخابات کا سر پر آنا سبب تو ہے ہی، لیکن فوری وجہ نام نہاد جنگی جرائم کے ٹربیونل (ICT) کی پے درپے ناکامی اور جگ ہنسائی ہے۔ ذرا چند ماہ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اس عجیب الخلقت ٹربیونل کے بارے میں یورپی یونین کی انسانی حقوق کی کمیٹی اور برطانیہ کے نمایاں قانون دانوں کی انجمن یہ کہہ چکے ہیں کہ: ’’بنگلہ دیش کا یہ ٹربیونل، عدل کے    بین الاقوامی اور مسلّمہ تقاضوں سے یک سر عاری ہے‘‘۔ یہی بات ترکی اور امریکا کے وکلا کہہ چکے ہیں، بلکہ خود بھارت میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اسے مسترد کیا ہے۔

دوسری جانب بنگلہ دیش میں نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین میزان الرحمن نے ۱۵؍اگست ۲۰۱۲ء کو جوابی طور پر کہا: ’’جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل‘ آزادانہ اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق کام نہیں کر رہا، وہ بھیانک غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ پھر یہی صاحب ۱۳؍اکتوبر کو کہتے ہیں: ’’یہ ٹربیونل منفرد شان کا حامل ہے اور قومی پشت پناہی کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ ٹربیونل عالمی عدالت انصاف کے متبادل کی حیثیت سے کارِنمایاںانجام دے رہا ہے، تاہم قوم اس کی رفتارِکار سے مطمئن نہیں، کہ فوری نتائج سامنے نہیں آرہے‘‘۔ (ڈیلی اسٹار، ڈھاکہ)

انسانی حقوق کے ان بنگلہ دیشی علَم برداروں کی بے چینی اگر ایک جانب دیدنی تھی تو دوسری جانب عوامی لیگ حکومت کا یہ پروگرام تھا کہ کسی نہ کسی طریقے سے ۱۶دسمبر ۲۰۱۲ء تک جماعت اسلامی کے دو تین رہنمائوں کے لیے سزاے موت کا اعلان حاصل کرلیا جائے۔ مگر صورت یہ بنی کہ حکومت کے وکلا اور خانہ ساز گواہوں کو جماعت اسلامی کے وکلاے صفائی کی جانب سے شدید قانونی دفاعی حکمت عملی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کے گواہ بھی منحرف ہورہے ہیں۔ خود ٹربیونل کے سربراہ جسٹس محمد نظام الحق اس اعتبار سے ایک متنازع شخصیت ہیں کہ اب سے ۲۰سال قبل جب وہ ابھی وکیل تھے، تو انھوں نے ’عوامی عدالت‘ لگاکر جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو سزاے موت دینے کا اعلان کیا تھا، مگر اب تو وہ ’ترقی‘ کر کے جج بن بیٹھے ہیں اور اعلیٰ عدالتی مسند پر تشریف فرما ہیں۔

لیکن ان کی ساری کاوش اور بدنیتی کا بھانڈا اس وقت بیچ چوراہے پھوٹا، جب انٹرنیٹ اسکایپ (skype) پر ان کی ۱۷گھنٹے کی گفتگو اور ۲۳۰برقی خطوط(ای میل) قوم کے سامنے آگئے۔ حادثہ یہ ہوا کہ جسٹس محمد نظام الحق نے بریسلز میں ایک بنگالی قانون دان محمد ضیاء الدین سے اس طویل گفتگو اور خط کتابت میں یہ بات بڑی ڈھٹائی سے کہی: ’’حسینہ واجد حکومت تو چاہتی ہے کہ میں جلد سے جلد فیصلہ دوں، اور اس خواہش میں یہ لوگ پاگل لگتے ہیں۔ تم ہی بتائو، جب استغاثہ نالائقوں پر مشتمل ہے، اور ان سے صحیح طریقے سے کیس پیش نہیں ہورہا، تو اس میں مَیں کیا کروں؟ مَیں انھیں کمرئہ عدالت میں ڈانٹتا ہوں، مگر ساتھ ہی پرائیویٹ چیمبر میں بلا کر کہتا ہوں، بھائی ناراض نہ ہوں، یہ سب ڈراما ہے تاکہ غیر جانب داری کا کچھ تو بھرم باقی رہے۔ پھر انھیں یہ بتانا پڑتا ہے کہ وہ کیا کہیں۔ اب تم ہی رہنمائی دو میں کس طرح معاملے کو انجام تک پہنچائوں‘‘۔

یہ گفتگو ثبوتوں کے ساتھ اکانومسٹ لندن کے خصوصی نمایندے نے رسالے کو چھپنے کے لیے دی، تو اکانومسٹ نے فون کر کے جسٹس نظام صاحب سے پوچھا کہ ہمارے پاس یہ رپورٹ ہے، مگر وہ جواب میں کہنے لگے: ’’ایسا نہیں ہوسکتا، ہم تو عدالتی معاملات اپنی بیوی کے سامنے بھی زیربحث نہیں لاتے‘‘۔ لیکن اکانومسٹ نے ڈنکے کی چوٹ ڈرامے کا پول کھول دیا، اور دسمبر ۲۰۱۲ء کے ابتدائی شمارے میں خلافِ معمول رسالے کے مدیر نے اپنے ادارتی نوٹ کے ساتھ ساری کہانی شائع کردی جس نے بنگلہ دیش میں بالخصوص اور اہلِ دانش میں بالعموم تہلکہ مچادیا۔  اس پر جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے اپنے بیانات میں کہا: ’’ہم پہلے سے یہ کہتے آئے ہیں کہ یہ جج نہیں قاتل ہیں۔ یہ انصاف دینے والے نہیں انصاف کے قتل کرنے والے ہیں اور ان کی سرپرستی کرنے والی حکومت بھی انصاف اور انسانیت کی قاتل ہے‘‘۔ اس پر جسٹس محمدنظام الحق نے ۶دسمبر ۲۰۱۲ء کو حکم دیا کہ اکانومسٹ کے دو ارکان ان کے ٹربیونل کے سامنے پیش ہوکر توہین عدالت کا سامنا کریں۔ دوسری جانب بنگالی اخبار اماردیش (ہمارا وطن)، ڈھاکا نے وہ ساری بنگلہ گفتگو حرف بہ حرف شائع کردی۔ انجامِ کار جسٹس نظام الحق نے جو اس ڈرامے کا مرکزی کردار ہیں، ۱۱دسمبر ۲۰۱۲ء کو ٹربیونل کی سربراہی سے استعفا دے دیا۔

اس خبر نے حسینہ واجد کو شدید صدمہ پہنچایا، لیکن شرمندگی کا کوئی احساس کرنے کے بجاے، انھوں نے پلٹ کر جماعت اسلامی اور بی این پی کے کارکنوں کو بے رحمانہ انداز سے ریاستی جبر کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔

اس وقت بھی اگرچہ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے ۶ہزار سے زائد کارکن جیلوں میں بند ہیں لیکن حکومت نے ۱۷دسمبر کو سیاہ کاری کا وہ نشان بھی عبور کرلیا کہ جس کا آج تک پاکستان کی کسی بدترین حکومت نے بھی ارتکاب نہیں کیا تھا۔ اس روز سہ پہر کے وقت  ڈھاکہ میں اسلامی جمعیت طالبات (اسلامی چھاتری شنگھستا) کے دفتر پر چھاپا مار کر، جمعیت طالبات کی   ۲۰باپردہ کارکنوں اور ۵۵سالہ محترمہ ثروت جہاں (جن کے شوہر عبدالقادر گذشتہ ڈیڑھ سال سے مذکورہ ٹربیونل کے سامنے گرفتاری کے بعد مقدمے کا سامنا کررہے ہیں) کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا، اور الزام لگایا کہ: ’’جمعیت طالبات کے دفتر میں جہاد پر مبنی لٹریچر تھا‘‘۔حیرت کا مقام ہے کہ پاکستان میں کسی اخبار اور ٹیلی ویژن نیٹ ورک نے اس واقعے کا نوٹس تک نہیں لیا۔

دوسری طرف نظر دوڑائیں تو ڈھٹائی اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ مثالیں تو بہت سی ہیں، لیکن ۲۳دسمبر ۲۰۱۲ء کے اخبار ڈیلی اسٹار کی یہ رپورٹ کس درجہ شرم ناک مثال پیش کرتی ہے: ’’فورم فار سیکولر بنگلہ دیش اینڈ ٹرائل آف وار کریمنلز ۱۹۷۱ء کے صدر شہریار کبیر نے مطالبہ کیا ہے کہ: ان لوگوں کے خلاف عبرت ناک کارروائی کی جائے، جنھوں نے جسٹس نظام الحق کی گفتگو اسکایپ سے پکڑی (ڈائون لوڈ کی) ہے۔ اماردیش نے یہ گفتگو چھاپ کر جرمِ عظیم کیا ہے۔ ان تمام ذمہ داران کو سخت ترین سزا دی جائے‘‘۔

’ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے‘ بجاے اس کے کہ یہ لوگ شرمندگی سے اپنا منہ نوچتے اور ایک بے معنی مقدمے کے ڈرامے کی بساط لپیٹتے، وہ کہہ رہے ہیں کہ: ’’ہاں، ہمیں انصاف اور عدل سے بددیانتی کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہم جو چاہیں کریں، کوئی ہم سے پوچھ ہی نہیں سکتا‘‘۔ یاد رہے یہ شہریار کبیر ۲۰۱۲ء کے اوائل میں پاکستان آئے تھے، تاکہ پروفیسر غلام اعظم، مطیع الرحمن نظامی اور جماعت اسلامی کے دیگر رہنمائوں کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلا کر، یہاں کی سیکولر شخصیات کے بیان حاصل کریں۔ ان کا استقبال کرنے کے لیے عاصمہ جہانگیر اور اقبال حیدر گروپ کا نام نہاد ہیومن رائٹس کمیشن پیش پیش تھا۔ لیکن جب یہ امر سامنے آیا کہ شہریار کبیر تو بھارتی ایجنسی ’را‘ (RAW) کا بدنامِ زمانہ آلۂ کار ہے، تو یہ مہم دھیمے سُروں میں چلی گئی اور یہ صاحب لاہور، اسلام آباد آنے کے بجاے کراچی ہی سے رفوچکر ہوگئے۔

 مسئلے کی سنگینی کو نمایاں کرنے کے لیے دیگر اُمور بھی پیش نظر رہنے چاہییں۔آنے والے عام انتخابات کے بارے میں ستمبر ۲۰۱۲ء کو ٹائمز آف انڈیا یہ خبر دے چکا ہے کہ: ’’حسینہ واجد کی نااہل اور بھارت نواز حکومت اگلے عام انتخابات میں بدترین شکست سے دوچار ہوگی‘‘۔ اس چیز نے بھی بھارتی حکمرانوں کی نیند حرام کر رکھی ہے۔ اسی لیے ۱۸دسمبر ۲۰۱۲ء کو ڈھاکہ میں بھارتی ہائی کمشنر نے خلافِ معمول یہ کہا: ’’ہماری حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ جنھوں نے ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش بننے کی حمایت نہیں کی تھی، ہماری حکومت ان کے ساتھ نہیں چل سکے گی۔ اس طرح دوطرفہ لین دین کے سارے معاہدے غیرمؤثر ہوجائیں گے‘‘۔ یاد رہے بنگلہ دیش کا بال بال بھارتی معاہدوں میں بندھا ہوا ہے۔ اس تناظر میں یہ بیان دراصل بلیک میلنگ کا حربہ اور جماعت اسلامی کی اس متوقع گرفت کو کمزور کرنے کا بھارتی ردعمل ہے کہ جس حقیقت کو وہ دیوار پر لکھا دیکھ رہے ہیں۔ ذہن میں رہے کہ ستمبر ۲۰۱۱ء کو بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے ڈھاکا جانے سے قبل بنگلہ دیش کے ایڈیٹروں کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا: ’’بنگلہ دیش ایک غیریقینی ملک ہے، جہاں کسی بھی وقت کوئی حکومت تبدیل ہوسکتی ہے، اور سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ وہاں پر جماعت اسلامی کو ۲۵ فی صد لوگوں کی حمایت حاصل ہے، جو کوئی بھی ناپسندیدہ صورت حال پیدا کرسکتے ہیں‘‘۔

چونکہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش گذشتہ دو ماہ سے پورے ملک میں بڑے پیمانے پر کامیاب عوامی رابطے کی مہم چلا رہی ہے، جس میں کامیاب ہڑتالوں اور نوجوانوں کے زبردست مظاہروں نے حکومت کو ہلا دیا ہے۔ اسی لیے پولیس نے عوامی لیگ کے کارکنوں سے مل کر جماعت اور جمعیت کے کارکنوں کو نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا، گرفتار کیا بلکہ کھلے عام گولیاں مار کر شہید بھی کیا۔ اسی طرح خالدہ ضیا کی پارٹی بی این پی کے ساتھ جماعت اسلامی کا اتحاد عوام کو متحرک کرنے میں کامیابی حاصل کر رہا ہے، جس سے بوکھلا کر وزیراطلاعات حسن الحق نے کہا ہے: ’’بی این پی اور خالدہ ضیا براہِ راست جماعت اسلامی کا ساتھ دے رہی ہیں تاکہ جنگی جرائم کے مقدمے کو ناکام بنادیا جائے۔ ان کا یہ عمل جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔ بنگلہ دیش کے محب وطن اور ترقی پسند لوگ متحدہوکر مقدمے کو تکمیل تک پہنچائیں۔ اسی طرح بی این پی کو چاہیے کہ جماعت اسلامی کو اپنے اتحاد سے نکال باہر پھینکے‘‘۔ (ڈیلی اسٹار، ڈھاکہ، ۲۳ دسمبر۲۰۱۲ء)

یہ ہے وہ خوف، جو بھارتی حکمرانوں اور ان کی طفیلی حسینہ واجد حکومت کو کھائے جا رہا ہے۔ اس لیے وہ جماعت اسلامی کی درجہ اوّل کی قیادت پروفیسر غلام اعظم، مطیع الرحمن نظامی، علی احسن مجاہد، علامہ دلاور حسین سعیدی، میرقاسم علی، قمرالزمان، عبدالقادر اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل صلاح الدین قادر (جو فضل القادرچودھری کے بیٹے ہیں) کو پھانسی گھاٹ میں پہنچانے اور ملک کو خانہ جنگی کی آگ میں دھکیلنے پر مائل ہے۔

 

برمی مسلمانوں کا بے رحمانہ قتل عام اور بے بسی کی زندگی، ایک پتھر دل انسان کو بھی گہرے دکھ میں مبتلا کر دیتی ہے۔ بدھ مت کے پیروئوں کے اکثریتی ملک برما (میانمار) میں درندگی کے اس کھیل نے بدھ مت کی اُس بناوٹی اور افسانوی اصلیت کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے کہ:    ’’بدھ مت تو امن کا گیت اور صلح کا مذہب ہے‘‘۔

۳جون ۲۰۱۲ء کو برپا ہونے والے اس خونیں طوفان میں بدھ بھکشووں کی درندگی نے ہزاروں مسلمانوں کو ذبح کر دیا، بچ جانے والوں کو زخمی، بے گھر کیا اور ان کے گھروں کوآگ لگا دی۔ بے بس عورتوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا، بہت سوں کو زندہ جلا دیا اور بچ رہنے والوں کو  دھکیل کر سمندر کی لہروں کے سپرد ہونے پر مجبور کیا گیا۔ یہ سب کچھ آج کے اس ترقی یافتہ دور اور فعال ومتحرک میڈیا کی آنکھوں کے سامنے کیا گیا ہے۔

میانمار کی فوجی حکومت بظاہر اس منظرنامے میں تماشائی دکھائی دیتی ہے، لیکن حکومت اور انتظامیہ کی ہرحرکت یہ بتاتی ہے کہ وہ براہِ راست اس قتل عام اور درندگی کے کھیل میں برابر کی شریکِ کار ہے۔ برمی بدھ لیڈروں اور عبادت گزاری کے نام پر فارغ بدھ بھکشوئوں کے دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی دبی چنگاری نے آناً فاناً، غیظ و غضب کی آگ میں تبدیل ہوکر پورے اراکان کواپنی لپیٹ میں ہی نہیں لیا، بلکہ اس کو بڑھانے کے لیے وہاں مسلسل فضا بنائی گئی ہے۔ ۱۴جولائی کو برمی صدر تھین سین نے برملا اعلان کیا: ’’روہنگیا مسلمانوں کو لازماً، میانمار سے نکالا اور اقوامِ متحدہ کے کیمپوں میں دھکیلا جائے گا۔ اس مسئلے کا واحد حل یہی ہے‘‘۔ (تہران ٹائمز، ۱۵ جولائی ۲۰۱۲ئ)

اس قتل عام پر منافقانہ سنگ دلی کا رویہ اُس خاتون نے بھی اختیار کیا ہے، جسے لوگ آنگ سان سو کوئی کے نام سے جانتے ہیں، جو اپنے ملک میں فوجی حکمرانوں پر انسانی حقوق کی پامالی کا  مقدمہ پیش کرتے ہوئے ایک بے نیام تلوار قرار دی جاتی ہے، مگر مظلوم مسلمانوں سے ہمدردی کے لیے اس کے پاس دو بول تک نہیں۔ اسے اس بات سے کوئی غرض ہے اور نہ کوئی پریشانی کہ فوجی حکمران، فسادی بدھوں کے سرپرست ہیں۔ بلکہ نوبیل انعام یافتہ آنگ سان بھی برمی مسلمانوں کو برما کا شہری تسلیم نہیںکرتی۔ اس نے لندن اسکول آف اکنامکس (LSE) میں، جون ۲۰۱۲ء کو خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’روہنگیا مسلمانوں کو برما کا شہری نہیں تسلیم کیا جانا چاہیے‘‘۔ پھر ڈائوننگ سٹریٹ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس مسئلے پر ایک حرف نہ کہا، لیکن جب صحافیوں نے سوال اُٹھایا تو صرف اتنا کہا: ’’اس نسلی فساد کا دانش مندی سے جائزہ لینا چاہیے‘‘۔

برما (میانمار) کے شمال مغربی صوبے کا نام ’اراکان‘ ہے۔ یہاں رہنے والے مسلمانوں کو ’روحنگیا‘کہا جاتا ہے۔ ’روحنگ‘ اصطلاح، لفظ ’رحم‘ (ہمدردی) سے پھوٹی ہے۔ روحنگی مسلمانوں کی یہاں آبادی کا آغاز آٹھویں صدی عیسوی میں ہوا، جب عرب تاجر اور ملاح، چین جاتے ہوئے یہاں رُکے۔ اُن کے حُسنِ سلوک اور قابلِ رحم جذبے سے متاثر ہوکر مقامی لوگوں نے انھیں مسلمان کے نام سے یاد کرنے سے زیادہ ’رحم کرنے والے‘ لوگوں سے پہچانا اور پکارا۔ اس طرح نہ صرف یہاں کے لوگوں میں اسلام پھیلنا شروع ہوا، بلکہ مسلمانوں کے نام کے ساتھ ’روحنگ‘ اور ’روحنگیا‘ کا لاحقہ بھی منسلک ہوگیا۔ اتنی صدیاں گزرنے کے بعد اُن عربوں کے یہاں کوئی آثار نہیں، لیکن ’روحنگی‘ زبان عربی رسم الخط میں بھی لکھے جانے کی گنجایش اس تعلق کی ایک یادگار ضرور ہے۔ عجب بات ہے کہ جب یہاں کے لوگ ایمان کی دولت سے فیض یاب ہوئے، تو یہی دولت ان کے حقِ زندگی کے خلاف قتل کا جواز بھی بنا ئی گئی۔ اراکانی مسلمانوں میں، چین کے صوبے ’یونان‘ کے علاوہ ہندستان اور کچھ بنگالی النسل مسلمان بھی موجود ہیں۔ ان کی آبادی ۱۰لاکھ سے زیادہ ہے اور اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق: ’’روہنگی مسلمان دنیا کی مظلوم ترین اقلیتوں میں شمار ہوتے ہیں‘‘۔

برمی مسلمانوں کے خلاف فرقہ پرست بدھوں کی یلغار کے آثار، گذشتہ صدی کے دوسرے عشرے سے نمایاں ہونے شروع ہوئے، جو تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد فسادات کی صورت میں پھوٹتے رہے ہیں۔ گذشتہ ۳۵برس کے دوران میں جو بڑے واقعات ہوئے، ان میں: ۱۹۷۸ء میں ۲لاکھ برمی مسلمانوں کو بنگلہ دیش دھکیل دیا گیا۔ پھر ۱۹۹۲ء میں ڈھائی لاکھ کو ملک بدر کیا گیا۔ افسوس ناک یہ صورت ہے کہ ان تباہ حال مسلمانوں کو بنگلہ دیش جیسا مسلمان ملک بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اور جو لوگ جان بچاکر تھائی لینڈ کی طرف گئے، انھیں تھائی ساحلی پولیس نے فائرنگ کرکے چھوٹی کشتیوں میں، کھلے سمندر میں ڈوبنے کے لیے چھوڑ دیا۔ ۱۶مارچ ۱۹۹۷ء کو ڈیڑھ ہزار بدھ بھکشوئوں کا ایک جلوس مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز نعرے بلند کرتا سڑکوں پر نکل آیا، جس نے سب سے پہلے مسجدوں پر حملہ کرکے آگ لگائی، پھر مسلمانوں کی دکانوں کو لُوٹ مار کے بعد نذرِ آتش کیا، اور گھروں کو آگ لگا دی۔ لائبریریوں میں قرآن کریم کے نسخے چُن چُن کر جلائے گئے اور بعدازاں تمام کتابوں پر تیل چھڑک کر جلا دیا گیا۔ کینگ ڈن اور منڈالے کے شہر اس سے بُری طرح متاثر ہوئے۔ ۱۵ مئی ۲۰۰۱ء کو ٹااونگو شہر میں بھکشوئوں نے مسلمانوں کے خلاف ہزاروں پمفلٹ تقسیم کیے، اور سورج غروب ہونے سے پہلے مسلمانوں کو گھیر گھیر کر جلایا، مارا اور لُوٹا گیا، جب کہ عورتوں کی بے حُرمتی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔

۳جون ۲۰۱۲ء سے اُٹھنے والی حالیہ خونیں یلغار کو اسی تناظر میں  دیکھنا چاہیے، جس میں وہاں کی حکومت، حزبِ اختلاف، میڈیا اور فوج پوری طرح شریکِ کار ہیں۔ الم ناک پہلو یہ ہے کہ :l۲۸ہزار سے زیادہ مسلمان موت کے گھاٹ اُتارے گئے ہیں۔

  •  جن مظلوموں نے جان بچا کر بنگلہ دیش کے ساحلوں پر جانے کی کوشش کی، انھیں بنگلہ دیشی ساحلی پولیس نے پہلے تو خشکی پر قدم ہی نہیں رکھنے دیا، لیکن پھر مجبور ہوکر چند گھنٹے کے لیے ساحل پر اُترنے دیا اور بعدازاں انھی کشتیوں میں دوبارہ کھلے سمندر میں دھکیل دیا۔
  • اس وقت ہزاروں برمی مسلمان ان کشتیوں پر پانی، خوراک اور سایے سے محروم اور بیماریوں کا شکار ہیں۔
  • ۶۶ ہزار سے زیادہ پناہ گزینوں کو کیمپوں اور کشتیوں میں خوراک، پانی اور ادویات کی فوری ضرورت ہے۔
  • دنیا بھر کا میڈیا اس المیے سے عملاً نظر چرائے ہوئے ہے، اور مسلم دنیا کا میڈیا بھی اس سفاکی میں برابر لاتعلقی برت رہا ہے۔
  • اسلامی کانفرنس تنظیم اور مسلم دنیا خصوصاً عرب ممالک کی لاتعلقی سے یہاں کے مسلمانوں کے دل چھلنی ہیں۔

بے خبری میں سرزد ہونے والا غیر قانونی قدم بھی قانون کی نظر میں جرم ہی قرار پاتا ہے۔ قانون اس دلیل کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے کہ: ’’ملزم بے چارے نے بے خبری میں ارتکابِ جرم کیا تھا‘‘۔

اہلِ پاکستان کے سامنے مسلسل یہ ڈراما پیش کیا جا رہا ہے کہ حکمران تاریخ کا کوئی زیادہ گہرا شعور نہیں رکھتے، اس لیے جوشِ جذبات میں اگر وہ کوئی غلط اقدام کر بیٹھیں، تو انھیں کام کے دبائو اور بے خبری کی رعایت دے کر معاف کر دیا جاتا ہے___ یہ معاملہ اور یہ ظلم، اس مظلوم اور مجبور  قوم کے ساتھ مسلسل کیا جا رہا ہے۔ قوم اس لیے بھی ’مظلوم‘ اور ’مجبور‘ ہے کہ اس کے اکثر صحافی اور اینکر پرسن بے لگام ہیں، اور قوم کے معاملات میں ان کا رویہ ذاتی پسند و ناپسند کے گرد گھومتا ہے۔ اگر واقعی وہ قوم اور اہل وطن کے بہی خواہ ہوتے، تو نئی پود کے مستقبل کے اس تعلیمی قتل عام پر خاموش نہ بیٹھتے اور پاکستان کی موجودہ جمہوری حکومتوں کی جانب سے انگریزی کی نام نہاد بالادستی کے ذریعے قوم کے برباد ہوتے ہوئے مستقبل کو یوں ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کرتے۔ غالباً ہماری حکومتوں نے یہ وطیرہ بنا رکھا ہے کہ ہر چمکتی چیز کے پیچھے بھاگو، اور ہر سراب کی طرف لپکو، چاہے یہ بھاگ دوڑ کسی کھائی میں ہی کیوں نہ جاگرائے۔

اس طرزِ عمل کا ایک افسوس ناک نمونہ، صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ کی موجودہ حکومت کے ہاتھوں سامنے آیا ہے اور وہ معاملہ ہے پنجاب بھر میں، پرائمری سے انگریزی ذریعہ تعلیم کے نفاذ کا آمرانہ فیصلہ، جو نہایت عجلت میں بغیر سوچے سمجھے اور ماہرین تعلیم سے مشاورت کے بغیر کیا گیا ہے۔ حالانکہ مذکورہ سیاسی پارٹی نے اپنے ۲۰۰۸ء کے انتخابی منشور میں ’انگریزی ذریعۂ تعلیم‘ کی شق شامل نہیں کی تھی۔ پھر اس غیرحکیمانہ فیصلے کے نفاذ کا اعلان کرنے سے متوسط طبقے کی اس قیادت نے نے صوبائی اسمبلی میں موجود سیاسی پارٹیوں سے بھی کوئی تبادلۂ خیال نہیں کیا ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے سوچا، یا کسی عاقبت نااندیش نے انھیں ایسا سوچنے کی راہ سجھائی اور موصوف نے فقط چند جونیئر، ناتجربہ کار بیوروکریٹوں سے مشورہ فرما کر، شاہانہ اعلان کر دیا کہ پنجاب بھر میں آیندہ تعلیم انگریزی میں ہوا کرے گی۔ یہ نہ سوچا کہ کیوں؟ اور پھر انگریزی کس طرح تمام بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما اور تعلیم و تربیت کا ذریعہ بن سکے گی؟

پنجاب کی صوبائی حکومت کا یہ حکم نامہ (۶۷) ۲۸مارچ ۲۰۰۹ء کو جاری ہوا: ’’چونکہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے انگریزی میڈیم کے نام پر قوم کا استحصال کر رہے ہیں، اس لیے اس  صورت حال کو درست کرنے کے لیے نچلے درجے تک تمام اسکولوں میں انگریزی میڈیم کیا جا رہا ہے۔ یکم اپریل ۲۰۰۹ء سے منتخب اسکولوں میں انگریزی میڈیم میں تعلیم دی جائے گی۔ ‘‘

دو دن کے نوٹس پر حکمِ حاکم کی اطاعت کی معجزانہ توقع رکھنے والی حکومت نے ۱۸ستمبر ۲۰۰۹ء کو اپنے اگلے حکم نامے نمبر ۱۷۶ میں نوید دی : ’’حکومت پنجاب ، ہر اسکول میں سائنس اور ریاضی انگریزی میں پڑھائے گی۔ پہلے مرحلے میں ۵۸۸ ہائی اسکول، ۱۱۰۳ گورنمنٹ کمیونٹی ماڈل گرلز پرائمری اسکول، انگریزی میڈیم میں تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں یکم اپریل ۲۰۱۰ء تک یہ تعداد دوگنا کی جائے گی، اور آخر کار یکم اپریل ۲۰۱۱ء تک پنجاب کے تمام اسکولوں میں ریاضی اور سائنس کے مضامین انگریزی میں پڑھانے شروع کر دیے جائیں گے‘‘۔ یہی حکم نامہ سلسلۂ کلام کو جاری رکھتے ہوئے بتاتا ہے:’’ابتدائی درجے میں ۱۷۶۴ اسکولوں میں یکم اپریل ۲۰۱۰ء تک انگریزی میڈیم میں تعلیم کا آغاز کر دیا جائے گا۔جس کے تحت: نرسری، اول اور دوم کلاسوں سے ان بچوں کو معلومات عامہ، ریاضی، سائنس کی تعلیم انگریزی میں دی جائے گی‘‘۔

حکم نامہ چونکہ شاہانہ ہے، اس لیے پیراگراف نمبر ۵ میں خسروانہ عنایت کرتے ہوئے  ان الفاظ میں اجازت عطا کرتا ہے: ’’ یہ بات صاف لفظوں میں بیان کی جاتی ہے کہ پرائمری سے لے کرہائی اسکولوں تک کے ہیڈماسٹر صاحبان، اس امر کے لیے مکمل طور پر با اختیار ہیں۔ انگریزی میڈیم کو نافذ کرنے کے لیے انھیں کسی اتھارٹی سے اجازت لینے کے ضرورت نہیں ہے‘‘۔     (no permission is required from any authority for this purpose)

یہ اور اس قسم کے حکم نامے، اعلانات اور اخبارات کو جاری کردہ کروڑوں روپے کے اشتہارات نے پرویز الٰہی دور کی ’پڑھا لکھا پنجاب‘ مہم کی یاد تازہ کردی ہے۔ جنابِ وزیر اعلیٰ اس کارنامے کی انجام دہی کے وقت بھول گئے کہ ایسی حماقت اُن سے قبل ۱۹۹۴ء میں اقلیتی پارٹی کے پیپلز پارٹی نواز وزیر اعلیٰ پنجاب منظور احمد وٹو فرما چکے تھے، اور یہ غنچے کھلنے سے قبل ہی مرجھا گئے تھے، یعنی معاملہ رفت گذشت ہوگیاتھا۔ معلوم نہیں کس دانش مند نے انھیں یہ سبق پڑھایا کہ انگریزی میڈیم کا اعلان کر دینے سے طبقاتی نظام تعلیم کے فسادِ آدمیت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ حالانکہ جس چیز نے پہلے ہی قومی وجود کو سرطان زدہ کر رکھا ہے، اس غیر حکیمانہ اور تعلیمی دانش سے عاری اقدام سے جسدِ اجتماعی پر فسادِ خون مکمل طور پر حاوی ہوجائے گا۔

بچے کو اگر بچپن ہی سے اپنی زبان میں سوچنے اور اپنی زبان میں بات کرنے سے روک دیں گے تو اس طرح آپ نہایت سفاکی سے، اس کے تخلیقی وجود کو قتل کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔  دنیا کی کون سی قوم ایسی ہے، کہ جس نے سائنس، ٹکنالوجی، میڈیکل، عمرانیات اور ادبیات میں  اپنی زبان کے علاوہ کسی بدیسی زبان میں کوئی کارنامہ انجام دیا ہو؟ تخلیق کا جو ہر تو کھلتا ہی اُس زبان میں ہے، جو آپ کے خواب اور آپ کے ماحول اور معاشرت کی زبان ہوتی ہے، اور جس میں  آپ بے تکلف تبادلۂ خیال کر سکتے ہیں۔

پورے یقین و اعتماد کے ساتھ ہم آج بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم پاکستان کی تعمیر و ترقی اور تحقیق سے متعلق تمام شعبہ جات میں کام کرنے والوں میں انگریزی میڈیم کے تعلیم یافتہ طبقے کی تعداد  آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حاکمانہ وسیلے سے انگریزی میڈیم چہروں کو اداروں کی سربراہی سونپ دی جاتی ہے، لیکن نیچے اتر کر دیکھیں تو سائنسی،زرعی، ایٹمی، اسلحہ سازی، میڈیکل، عمرانی علوم، صحافت اور اچھی تعلیم کے دیگر شعبہ جات تک میں نہایت بڑی تعداد انھی دیسی اسکولوں سے پڑھ کر نکلنے والوں کی ہے۔ نہ صرف یہ لوگ اس سخت ناہموار اور ناقدر شناس ماحول میں کام کر رہے ہیں، بلکہ پاکستانی قوم کو کسی نہ کسی درجے میں آزادی اور عزت کا سانس لینے کی نعمت بھی عطا کر رہے ہیں۔

وہ مسلم لیگ جس کی سربراہی قائداعظمؒ نے کی، اور جنھوں نے تحریک پاکستان کی بنیاد: ’’اسلام، مسلم قومیت اور اردو زبان‘‘ پر رکھی تھی،انھی قائد محترم کی نام لیوا پارٹی، وطن عزیز میں جہالت اور بے خبری کے اندھیروں کو گہرا کرنے کے لیے انگریزی میڈیم کے نام پر تعلیمی بربادی کے غیر شریفانہ اقدام کا باعث بن رہی ہے۔ خادمِ اعلیٰ ذرا معلوم کرکے دیکھیں تو سہی کہ اُن کے اس ایک فیصلے نے کتنے لاکھ بچوں کی آنکھوں سے علم کا نور چھین لیا ہے۔ اُن کے اس ایک تجربے نے کتنی زندگیوں کو تعلیم اور تخلیق کی نعمت سے دور کر دیا ہے؟ چاہیے تو یہ تھا کہ انگریزی میڈیم کے نام پرجو ڈراما ہمارے معاشرے کے اسکولوں میں اسٹیج کرکے والدین کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا جا رہا ہے، اسے کسی کمیشن کے ذریعے تحقیق و تجزیے کے تحت دستور پاکستان اور شہداے پاکستان کی امنگوں کے مطابق ڈھالا جاتا اور سرکاری اسکولوں کو یتیم خانوں کے بجاے تعلیم گاہوں میں تبدیل کیا جاتا، اُلٹا ان اداروں کو بے تعلیمی کی آماج گاہ بنایا جا رہا ہے۔ پھر ان اداروں کو سنبھالا دینے کے بجاے پرائیویٹ شعبے کو اندھی چھوٹ دینے کے لیے ایک سے ایک بڑھ کر اقدام کیے جارہے ہیں (بذاتِ خود پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کے کروڑوں روپے کے وظائف اس مقصد کے لیے جھونکے جا رہے ہیں کہ سرکاری اسکول ختم ہوں اور نام نہاد انگریزی میڈیم نجی اسکول قائم ہوں بلکہ پھلیں پھولیں)۔ اُردو ذریعۂ تعلیم کو ختم کرکے تعلیم کو بازیچۂ اطفال بنانے والوں کے پیچھے غالباً کوئی اور بھی ہے۔ اندازہ ہورہا ہے کہ سرکاری اداروں کو برباد کرنے والے، تعلیم دشمن بڑی تعداد میں ہمارے اردگرد منڈ لا رہے ہیں۔

اس سارے قضیے میں ایک اور معاملہ گہرے غور وفکر کا تقاضا کرتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ پاکستان میں حکومت تو جمہوریت کے نام پر قائم ہے مگر تعلیم کے معاملات میں فیصلے محض دوچار   بے دماغ افراد کی آمریت کرتی ہے۔ فوجی آمریتوں پر چار حرف بھیجئے، بجا ہے، مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والی حکومتیں کیا کر رہی ہیں؟ یہی کہ صوبائی اور مرکزی حکومت میں صرف دو چار افراد اپنی من مانی کرتے، حکومت چلاتے اور قوم کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ حالانکہ پارلیمانی نظام حکومت کی اصل خوبی یہی ہے کہ اُس میں چیزیں، کہیں زیادہ وسیع مشاورت کے ساتھ طے کی جاتی ہیں۔ لیکن یہاں سول پارلیمانی جمہوری حکومتوں کا مرغوب طرزِ حکمرانی بھی فوجی آمروں کا سا ہے۔ اس رویے نے جمہوری نظام کو نام نہاد جمہوری اور دراصل آمرانہ جمہوری تماشے میں بدل دیا ہے۔ضرورت یہ ہے کہ ناتجربہ کار، غلامی کے رسیا اور شہزادگی کے خوگر حکمرانوں کے بجاے جہاں دیدہ، مستقبل بین، دانش مند اور زیرک حکمران اور سول سرونٹ سرجوڑ کر بیٹھیں اور ایسی پالیسیاں بنائیں جو قوم کے اجتماعی مفاد میں ہوں۔ بھارت نے اب سے ۵۵ برس پیش تر زبان کے مسئلے پر اپنی قومی پالیسی مرتب کر لی، مگر ہمارے ہر دستور نے آج کے کام کو کل پر ڈال کر اپنا بوجھ اگلے لوگوں پر ڈال دیا اور آنے والے راہ فرار اختیار کر بیٹھے۔ اس مسئلے میں دیکھیے: کہ ۱۹۶۲ء کے دستور میں کہا گیا تھا: ۱۹۷۲ء تک اردو سرکاری زبان کے طور پر نافذ ہو جائے گی (ظاہر ہے کہ ذریعۂ تعلیم اس کا حصہ ہونا تھا، مگرعمل نہ ہوا)۔ پھر ۱۹۷۳ء کے دستور میں طے کیا کہ :۱۹۸۸ء تک اردو سرکاری زبان ہو گی، لیکن جنرل ضیاء الحق نے ۱۹۸۲ء میں (خدا جانے کس مجبوری یا مصلحت کے تحت)نجی اور انگریزی میڈیم سرکاری اداروں کو کھلی چھوٹ دے کر اس سب کیے کراے پر پانی پھیر دیا۔ ازاں بعد آنے والے بھٹو اور شریف خاندانوں نے سکھ کا سانس لیا۔

قیام پاکستان کے بعد بظاہر گورے انگریز حاکموں سے جان چھوٹ گئی، لیکن ان کے جاتے ہی انگریزی کی حاکمیت نہ صرف برقرار رہی بلکہ اس حاکمیت کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ مقابلے کے امتحانات اور ترقی کے مواقع کو انگریزی سے اس طرح مربوط کر دیا گیا کہ    ملک کالے اور کرپٹ انگریزوں کی سفاکانہ حاکمیت میں سسکنے لگا۔ آج عدالتوں ، دفتروں، افواج  اور کاروبار ریاست کی زبان انگریزی ہے۔ اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ استعماری حاکمیت کو دوام ملے۔  اگر اردو کو اس طرح دن دیہاڑے قتل کرنے کا عمل یوں ہی جاری رہا، تو وہ ملک جو پہلے ہی ہچکولے کھا رہا ہے، انتشار اور افتراق کے گہرے عذاب سے کبھی نہ نکل سکے گا۔

افسوس کا مقام ہے کہ اس قوم کے جسدِ ملی کو یہ زخم کسی دشمن ملک کے جرنیل یا ان کے  آلہ کار سیاست دان نہیں لگا رہے، بلکہ محب وطن مگر نادان حکمران یہ ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں، جو سنجیدگی  کے ساتھ کسی مسئلے پر مشاورت کرنے سے گریزاں رہتے ہیں اور اپنی سوچ کی کچی پکّی لہر کو حکم نامے کی شکل دے کر نافذ کردیتے ہیں۔

جنرل محمدضیاء الحق کے دورِ اقتدار (۱۹۷۷ئ-۱۹۸۸ئ)میں نجی شعبۂ تعلیم کو پوری قوت سے قدم جمانے کے لیے راستہ دیا گیا۔ اگلے قدم کے طور پر جنرل پرویز مشرف کے زمانۂ اقتدار (۱۹۹۹ئ-۲۰۰۸ئ)میں ذرائع ابلاغ اور بالخصوص برقی ذرائع ابلاغ (الیکٹرانک میڈیا) کو ایک طوفان کی سی تیزی کے ساتھ معاشرے کے قلب و دماغ اور فکروثقافت کو مسخر کرنے کے مواقع عطا کیے گئے۔ یہ دونوں کام کسی مناسب نظم وضبط کی ضرورت کو بالاے طاق رکھتے ہوئے کیے گئے۔ ان کے لیے نہ کوئی ضابطۂ کار مرتب ہوا اور نہ کوئی ضابطۂ اخلاق وضع کیا گیا۔ پھر جس نے اس آزادی سے جو حیثیت اختیار کرلی، وہ اسے چھوڑنے اور دوسری کوئی بات سننے کے لیے روادار نہ ٹھیرا۔ نجی شعبۂ تعلیم نے قوم کی کس انداز سے خدمت کی اور کس پہلو سے تخریبِ فکروتہذیب کا زہر پھیلایا ہے؟ سرکاری شعبے نے کیا خدمت کی اور کس حوالے سے بربادی کے کھیل میں آگے بڑھ کر معاونت کی؟ ذرائع ابلاغ نے کردار، ایمان، تاریخ، طرزِحیات اور تہذیب و ثقافت کو کیا چرکے لگائے اور کس حد تک  ان سب کو مسخ کیا؟بلکہ ان کا مُثلہ کیا؟___ یہ سوالات اس تحریر میں زیربحث نہیں ہیں۔ زیربحث    یہ امر ہے کہ آج ہمارے نجی تعلیمی ادارے کس کلچر کو فروغ دیتے ہوئے ہمیں کس موڑ پہ لے آئے ہیں؟

جیساکہ عرض کیا ہے ضیاء الحق کے دورِحکومت میں جب نجی تعلیمی اداروں کو کام کرنے کے لیے کھلی چھوٹ دی گئی، تو پہلے ہی ایک دو سال کے دوران ان میں سے اکثر بڑے شہروں کے تعلیمی اداروں نے بطورِ فخر ہماری تہذیبی روایات و اقدار کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ٹیلی ویژن یا فلمی اداکاروں یا اداکارائوں کو اپنی تقریبات میں بلاکر مہمانِ خصوصی کا اعزاز بخشا۔ گویا بچوں کو بتایا گیا کہ یہ ہیں آپ کے رول ماڈل۔ مزیدبرآں بعض اداروں نے موسیقی کی تربیت دینے کے لیے پرائمری کے بچوں کو ہدف بنانے کا راستہ اختیار کیا۔ پھر یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے یہاں پہنچا کہ مخلوط تعلیم کے اداروں نے اپنا دائرہ اسکول سے اعلیٰ تعلیم تک پھیلا دیا اور ذرائع ابلاغ کے تعاون سے بعض نجی تعلیمی اداروں نے بلاانقطاع موسیقی کے سالانہ پروگرام ترتیب دینے شروع کیے۔ والدین نے اس بات پر غور کیے بغیر کہ یہ عمل اندر ہی اندر کیا طوفان مچارہا ہے؟ اپنے ضمیر کو تھپک تھپک کر سلا دیا۔ شاید اس لیے کہ اس سوال کی جانب توجہ دینے کا مطلب ’دقیانوسیت‘ اور ’ملائیت‘ کی پھبتی کا نشانہ بننا ہے، اس لیے چاروں طرف خاموشی کی سی فضا نظر آتی تھی مگر اس صورتِ حال کا نتیجہ، ۹ اور ۱۰ جنوری ۲۰۱۲ء کی درمیانی شب قذافی اسٹیڈیم لاہور سے متصل الحمرا کلچرل کمپلیکس میں ایک نہایت الم ناک سانحے کی صورت میں سامنے آیا۔ اس دردناک حادثے کی رپورٹنگ مختلف اخبارات نے مختلف زاویوں سے کی تھی، اس لیے یہ تفصیل اخبارات ہی کی زبانی ملاحظہ کیجیے:

  • الحمرا کلچرل کمپلیکس میں ایک نجی کالج کے زیراہتمام میوزیکل کنسرٹ کے اختتام پر کالج انتظامیہ کی غلط حکمت عملی اور سیکورٹی گارڈز کی طرف سے لاٹھی چارج کے باعث طالبات میں شدید بھگدڑ مچ جانے سے تین طالبات جاں بحق ہوگئیں، سات شدید زخمی، جب کہ درجنوں بے ہوش ہوگئیں۔ بھگدڑ کے باعث الحمرا کلچرل کمپلیکس کے باہر بچیوں کو لینے کے لیے آنے والے ورثا دیوانہ وار بچیوں کو تلاش کرتے رہے، اور نہ ملنے پر روتے پیٹتے ہوئے ہسپتال پہنچ گئے، جہاں پر ایک بچی کی شناخت ہوگئی اور اس کا والد ٹیلی ویژن کا سینیر اداکار ہے، وہ بچی کی لاش دیکھ کر بے ہوش ہوگیا۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد پولیس اور انتظامیہ کے افسران موقع پر پہنچے۔ کنسرٹ صرف طالبات کے لیے تھا، اور طالبات کی تعداد ۱۰ہزار کے قریب تھی۔ (روزنامہ نئی بات، لاہور،۱۰ جنوری ۲۰۱۲ئ)
  •  واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ڈی آئی جی آپریشن لاہور غلام محمود ڈوگر نے بتایا کہ نجی کالج نے سیکورٹی کے لیے پولیس سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا، کمپلیکس کے اندر سیکورٹی کی ذمہ داری نجی کالج کی تھی۔(ایکسپریس،۱۰جنوری ۲۰۱۲ئ)
  • ڈی آئی جی کے مطابق ۴ہزار کی گنجایش کے ہال میں ۷ہزار طالبات جمع تھیں۔ جب اختتام پر عاطف سے آٹوگراف لینے کے لیے طالبات اُمڈیں تو یہ حادثہ ہوا۔ (ڈان، ۱۰جنوری۲۰۱۲ئ)
  • اس حادثے کے دوران جب بچیاں خوف زدہ ہوکر گیٹ سے باہر بھاگ رہی تھیں، تو وہاں پہلے سے کھڑے لڑکوں نے ان لڑکیوں کے ساتھ بدتمیزی کی۔ اس کھینچاتانی میں بعض طالبات کے کپڑے بھی پھٹ گئے۔ عینی شاہدوں کے مطابق اوباش نوجوان، طالبات کو کھینچ کر گاڑیوں میں بٹھانا چاہتے تھے۔(روزنامہ آواز، ۱۰جنوری۲۰۱۲)

یہ تو تھیں مختلف اخبارات میں اس حادثے کی رپورٹیں۔ اب دو تین اداریے ملاحظہ کیجیے (یاد رہے انگریزی اخبارات نے اس واقعے پر کوئی ادارتی سطر لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی):

  • روزنامہ نواے وقت نے اپنے ادارتی شذرے میں لکھا کہ والدین بڑی بڑی فیس برداشت کرکے اپنے بچوں کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں اس اعتماد کے ساتھ بھجواتے ہیں کہ تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ وہ محفوظ بھی رہیں گے لیکن جب کسی بھی غیرذمہ داری یا غفلت کے باعث بچے یا بچی کی نعش گھر پہنچتی ہے تو والدین پر ایک قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ جس تقریب میں ۷ہزار افراد شریک ہوں، اس کو محفوظ تر بنانے کے لیے متعلقہ ادارے کی انتظامیہ کو خصوصی اقدامات کرنے چاہییں تھے۔ طالبات کو ہر صورت ڈسپلن قائم رکھنے کی بریفنگ دی گئی ہوتی تو بھگدڑ مچنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ .... اس کے لیے نہ صرف حکومت طلبہ و طالبات کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے سخت ضوابط بنائے، بلکہ تعلیمی اداروں کو خود بھی اصلاحی اقدامات تجویز کر کے لاگو کرنا چاہییں اور والدین کو ایسے معاملات میں دل چسپی لینا چاہیے۔ (۱۱جنوری ۲۰۱۲ئ)
  • ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے شوز کا اہتمام کرنے والے ادارے تمام حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانے کی طرف توجہ دیں۔ (ادارتی شذرہ، روزنامہ جنگ، ۱۱ جنوری۲۰۱۲ئ)

اس افسوس ناک واقعے پر اخبارات ہی کے صفحوں سے اتنا لوازمہ نقل کرنے کا ایک واضح مقصد یہ ہے کہ آزادیِ اظہار اور ریاست کا چوتھا یا پانچواں ستون قرار دینے والے ذرائع ابلاغ پر  اس پہلو سے بھی نظر ڈالنی چاہیے کہ وہ کس انداز سے مچھر چھانتے اور کس کاریگری سے اُونٹ نگل جاتے ہیں۔ دیکھیے، کم و بیش سبھی اخبارات نے اس نجی گروپ آف کالجز کا نام شائع کرنے سے اجتناب برتاہے۔ البتہ ایک انگریزی اور ایک اُردو اخبار نے لکھ دیا کہ یہ ’پنجاب گروپ آف کالجز‘کے زیراہتمام میوزک شو تھا، اور متاثرین اس کی طالبات تھیں۔

  • اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں نے ادارے کا نام لینے اور اس الم ناک واقعے پر تحقیقی رپورٹیں دینے سے اس لیے اجتناب برتا کہ مذکورہ گروپ آف کالجز ، تعلیم کی تجارت کے ساتھ ساتھ ایک عدد ٹیلی وژن چینل اور اخبار کا مالک بھی ہے۔ اس لیے صحافتی برادری نے اپنی برادری کے ساتھی کو تحفظ دینے کی کوشش کی، یا اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہ ادارے اخبارات کو لاکھوں روپے کے اشتہارات دیتے ہیں، اور اخبارات اپنے کاروباری معاون کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔
  • اسی طرح یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی اتنی بڑی تعداد کس خوشی اور بے خوفی سے اپنی بچیوں کو گانے بجانے کے پروگراموں میں رات دیر تک باہر جانے کی اجازت دینے کا حوصلہ رکھنے کے عادی ہوتی جارہی ہے، اور یہ امر ایک واضح ثقافتی اور تہذیبی تبدیلی کا بھی مظہر ہے۔
  • یا پھر یہ ہے کہ بچے، بچیاں اتنے منہ زور ہوگئے ہیں کہ بے بسی کے باعث والدین کے لیے اُن کی مرضی کے آگے ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
  • یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ طالبات کی ایک بڑی تعداد اپنے ’محبوب گلوکار‘ سے آٹوگراف لینے یا بہت قریب سے اس کی جھلک دیکھنے کے لیے اُمڈ پڑی، جس پر بدنظمی اور سانحہ رونما ہوا۔
  • پھر سفّاکیت کا یہ مظہربھی ملاحظہ کیجیے کہ طالبات بدحواسی اور خوف میں اس شہرلاہور میں جان بچانے کے لیے بھاگ رہی ہیں اور ’بھیڑیوں‘ کی مانند آوارہ نوجوان اُن پر جھپٹ رہے ہیں۔ یہ سب وہی ’روشن خیالی‘ ہے، جس کا ڈول جنرل مشرف نے ڈالا، ذرائع ابلاغ نے اس آگ کو بھڑکایا اور نجی تعلیمی اداروں نے بڑی بڑی فیسیں اینٹھ کر اس آوارگی کو ’ہم نصابی سرگرمی‘ بنادیا۔
  • ٹیلی ویژن چینلوں اور اخبارات نے موسیقی کے اس جنون کو دینی و اخلاقی پہلو سے زیربحث لانے کے برعکس یہ رویہ اختیار کیا ہے کہ جیسے یہ چیزیں اب طے شدہ ہیں اور ہوتی رہنی چاہییں۔

ایسے واقعات آنکھیں کھولنے کے لیے رونما ہوتے ہیں، مگر مفلس کی آہ کی طرح یہ ناشنیدہ ہی رہتے ہیں اور اکثر و بیش تر فنا کے گھاٹ اُتر جاتے ہیں۔ بہرحال نقّارخانے میں طوطی کی آواز کہیں، کسی درجے میں سنی جاسکے اور اس پر کسی روک ٹوک کے بارے میں سوچنا ہی شروع کر دیا جائے تو غنیمت ہوگا۔۲۴جنوری کو پنجاب اسمبلی میں تعلیمی اداروں میں میوزک پروگراموں کے خلاف متفقہ قرارداد کی منظوری اور پھر میڈیا کی جوابی یلغار کے جواب میں حکومت پنجاب کی پسپائی، پھر ۲۵جنوری کو قرارداد کی واپسی میں عبرت کا پیغام پوشیدہ ہے۔

انسانی جان کتنی قیمتی ہے اور انسانی حُرمت کیا معنی رکھتی ہے، قرآن حکیم نے دوٹوک الفاظ میں وضاحت کر دی ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا (المائدہ ۵:۳۲) ’’جس نے ایک بے گناہ کو قتل کیا، اس نے گویا ساری انسانیت کو قتل کر دیا‘‘۔ مراد یہ کہ بے گناہ انسانوں کا قتل کوئی بھی کرے، یہ ایک ایسا گھنائونا جرم ہے کہ کوئی اور جرم اس کی سنگینی کو نہیں پہنچتا۔ اگر مقتولین کی تعداد دوچار نہیں، دس بیس بھی نہیں،سیکڑوں اور ہزاروں بھی نہیں بلکہ لاکھوں میں ہو تو معاملہ اور بھی نازک اور سنگین ہوجاتا ہے۔ اس معاملے کی وضاحت ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے المیے اور بنگلہ دیش کی تشکیل میں قتل و غارت کے مبالغہ آمیز اعداد و شمار کے حوالے سے پیش کی جارہی ہے۔ یہ اعداد و شمار دروغ گوئی کی آخری حدود سے بھی متجاوز ہیں اور یہ سلسلہ بڑے دھڑلّے سے گذشتہ ۳۹برسوں سے جاری ہے۔ آیئے حقائق کی روشنی میں اس صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہیں۔ یک طرفہ پروپیگنڈے کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے عمل (۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء) کے ساتھ ہی اُوپر تلے مختلف اعداد و شمار فضا میں گردش کرنے لگے۔ مثال کے طور پر: ’’مشرقی پاکستان سے ایک کروڑ بنگالی، بھارت میں  پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں، ان کی گزربسر بڑی اذیت ناک ہے، انھیں دنیا بھر سے امداد کی ضرورت ہے‘‘۔ ’’پاکستانی فوج نے لاکھوں بنگالی مار دیے ہیں‘‘۔۱۰لاکھ، نہیں ۲۰ لاکھ، نہیں ۳۰ لاکھ، یہ بھی نہیں ۳۵لاکھ مار دیے ہیں‘‘ بلکہ ’’۵۰لاکھ سے بھی زیادہ مار دیے ہیں‘‘___ ’’۲لاکھ بنگالی  عورتوں کو زنا بالجبر کا نشانہ بنایا گیا‘‘۔ ’’۳ لاکھ، نہیں ساڑھے تین لاکھ بنگالی عورتوں سے زیادتی کی گئی‘‘___ ۸ جنوری ۱۹۷۲ء کو پاکستان توڑنے کی سازش کے مرکزی کردار شیخ مجیب الرحمن نے پاکستان سے رہائی پاکر لندن پہنچتے ہی دعویٰ کیا: ’’بنگلہ دیش میں ۱۰لاکھ انسان مارے گئے ہیں‘‘۔ (دی ٹائمز، ڈیلی ٹیلی گراف، لندن، ٹائمز آف انڈیا، دہلی، پاکستان ٹائمز، لاہور ۹جنوری ۱۹۷۲ء) لیکن لندن سے براستہ دہلی، ڈھاکا جاتے ہوئے شیخ مجیب کے ’فہم‘ اور ’معلومات‘ میں حیرت انگیز اضافہ ہوا، اور ۱۰جنوری کو ڈھاکا کی سرزمین چھونے کے بعد موصوف نے کہا: ’’۳۵لاکھ بنگالی مارے گئے ہیں‘‘ (جیوتی سین گپتا، بنگلہ دیش میں تحریکِ آزادی، ۱۹۴۷ء تا ۱۹۷۳ء (انگریزی) کلکتہ، ۱۹۷۴ء، ص ۴۴۵)۔ مگر کچھ ہی عرصے بعد انھوں نے ۳۵ لاکھ کے عدد میں ذرا کمی کرکے: ’’۳۰ لاکھ مارے گئے اور ۳ لاکھ عورتوں سے بالجبر زیادتی (ریپ) کی گئی‘‘ کے عدد پر جم جانا مناسب سمجھا اور پھر یہی موقف نجی، عوامی اور بین الاقوامی سطح پر دہرانا وظیفۂ زندگی بنا لیا۔

معروف صحافی ڈیوڈ فراسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے جسے ۱۸ جنوری ۱۹۷۲ء کو نیویارک   ٹیلی ویژن نے ٹیلی کاسٹ کیا تھا، اس میں بھی شیخ مجیب نے ۳۰لاکھ افراد کے قتل کا دعویٰ کیا تھا   اس سے ایک روز قبل ٹائم میگزین  کو انٹرویو میں مجیب نے بتایا تھا: ’’آج اگر ہٹلر زندہ ہوتا تو اپنی کارکردگی پر شرم سار ہوتا‘‘ (۱۷ جنوری ۱۹۷۲ء)۔ اور پھر ۳۰ لاکھ کا عدد ایک قومی نغمے یا بنگالی لوک گیتوں کا حصہ بن گیا، جس کا دہرانا ہرکس و ناکس نے اپنے اُوپر لازم کرلیا۔

اس تجزیے کے لیے ہمارا بیش تر انحصار خود بنگلہ دیش کے تحقیق کاروں اور مغربی صحافیوں کی رپورٹوں پر مبنی ہے۔ یہ تحقیق کار اگرچہ پاکستان کے حامی نہیں ہیں، مگر اس پروپیگنڈے پر بحث کے دوران میں وہ اپنے نتیجۂ فکر کو ضرور قلم بند کرتے ہیں۔

پہلے اس منظر کو دیکھیے: مشہور اطالوی صحافی خاتون آریانا فلاسی (Oriana Fallaci) لکھتی ہے: ’’میں مجیب کے گھر [فروری ۱۹۷۲ء میں] انٹرویوکرنے پہنچی، وہاں برآمدے میں ۵۰افراد کھڑے تھے۔ میں نے کہا: اندر اطلاع کیجیے۔ میری اس درخواست کے جواب میں وہاں کھڑے ایک آدمی نے نہایت غصیلے بلکہ خوف ناک انداز میں غراتے ہوئے کہا: ’انتظار کرو‘۔ میں انتظار میں بیٹھ گئی۔ ایک گھنٹہ، دوگھنٹے، تین گھنٹے، چار گھنٹے گزرے، حتیٰ کہ رات کے آٹھ بج گئے۔ پھر ساڑھے آٹھ بجے یہ کرشمہ رونما ہوا کہ مجھے مجیب کے کمرے میں جانے کی اجازت ملی، جہاں ایک آرام دہ صوفہ اور دوکرسیاں پڑی تھیں۔ مجیب نہایت بے ڈھنگے انداز میں ٹانگیں پسارے صوفے پر قابض تھا اور باقی دونوں کرسیوں پر، دو موٹے موٹے وزیر دھنسے ہوئے تھے۔ میں داخل ہوئی تو نہ کسی نے کوئی سلام کیا اور نہ میری آمد کا کوئی نوٹس لیا۔ میں حیران گم سم کھڑی تھی کہ اچانک مجیب نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’بیٹھ جائو‘۔ میں اسی کے صوفے کے ایک بازو کے ساتھ دبک کر بیٹھ گئی اور تیزی سے اپنے ٹیپ ریکارڈر کو متحرک کرنے لگی، لیکن ابھی میں نے بٹن دبایا بھی نہیں تھا کہ مجیب نے  گرج دار آواز میں مجھ سے کہا: ’’جلدی کرو، جلدی کرو، میرے پاس وقت نہیں ہے۔ ہاں، پاکستانیوں نے ۳۰ لاکھ بنگالیوں کو مارا ہے اور یہی سچ ہے۔ ۳۰ لاکھ، ۳۰ لاکھ، ۳۰ لاکھ‘‘۔ میں حیران تھی کہ وہ کس طرح ۳۰لاکھ انسانوں کے مارے جانے کے اعداد و شمار تک پہنچا ہے؟ میں نے کہا: ’’جناب وزیرعظم…‘‘ مگر وہ کوئی بات سننے کے بجاے پھر گرج دار آواز میں دھاڑنے لگا: ’’انھوں نے ہماری عورتیں اپنے شوہروں کے سامنے ماری ہیں ۔ شوہر، بیٹوں اور بیویوں کے سامنے مارے ہیں… دادا اور نانا اپنے پوتوں، نواسوں کے سامنے، چچیاں، چچوں کے سامنے…‘‘۔ میں نے فوراً کہا: ’’جناب وزیراعظم… میں چاہوں گی…‘‘ مگر مجیب نے میری بات مکمل ہونے سے قبل اسی بپھرے انداز میں وزیروں کی طرف رُخ کرتے ہوئے کہا: ’’اس کو سنو، یہ کیا چاہتی ہے؟ تمھیں کوئی حق نہیں چاہنے کا، سمجھی، جو میں کہہ رہا ہوں وہی سچ ہے‘‘۔ (آریانا فلاسی، لایورپیا، روم، ۲۴فروری ۱۹۷۲ء بحوالہ ڈاکٹر عبدالمومن چودھری Behind the Myth of Three Million [۳۰ لاکھ کی کہانی کے پیچھے]، الہلال پبلشرز،لندن، ص۶،۷)

آیئے، دیکھتے ہیں کہ اعداد و شمار کا یہ اُتار چڑھائو کس طرح وجود میں آیا ہے؟: ۷جنوری ۱۹۷۲ء کو پریس ٹرسٹ آف انڈیا (PTI) نے بنگلہ دیش کے نئے وزیراطلاعات و نشریات      شیخ عبدالعزیز کے حوالے سے کلکتے سے اعلان کیا: ’’۱۰لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں‘‘۔ اسدچودھری کی نظم رپورٹ ۱۹۷۱ء ان تمام واقعات و حوادث کی تفصیل پر مبنی قرار دی جانے لگی، جس میں دعویٰ کیا گیا: ’’ہم کو آزادی کے لیے ۱۰ لاکھ شہیدوں کا لہو دینا اور ۴۰ ہزار عورتوں کی عزت قربان کرنا پڑی‘‘۔ ۳۰ لاکھ کی کہانی کے پیچھے کے مطابق: سابق بھارتی سپہ سالار جنرل مانک شا کے نزدیک: ’’مجیب کے بقول ۳۰ لاکھ‘‘ اور مشرقی محاذ کے کمانڈر جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے مطابق: ’’جیساکہ ہم جانتے ہیں پاکستانی فوج نے ۱۰لاکھ افراد کو مارا، لیکن جہاں تک شیخ مجیب کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ ۳۰ لاکھ مارے گئے، ایک ناممکن سی بات ہے۔ مجیب منتظم کے بجاے  ایک شورش پسند (ایجی ٹیٹر) انسان تھا، جس نے ظلم کی داستان کو بڑھاوا دینے کے لیے ۳۰لاکھ کا دعویٰ کیا، حالانکہ مجیب کا یہ دعویٰ ناممکن سی بات ہے، کیونکہ پاکستانی فوج کو بہ یک وقت ملک کے اندر اور ملک کی سرحدوں پر لڑنا پڑ رہا تھا‘‘۔ (لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا، Remimiscences of Bangladesh War، وِڈیو انٹرویو، ماس کمیونی کیشن سنٹر، جامعہ ملّیہ، دہلی، ۱۹۹۴ء)۔ اس سے قبل بنگلہ دیش کی تخلیق کے ایک اہم کردار میجر جنرل ڈی کے پیلٹ نے بھی ۱۰ لاکھ کا عدد دہرایا، حالانکہ اس کے لیے وہ کوئی تائیدی ثبوت تک نہ پیش کرسکا۔ اس جنگ کے حوالے سے ان تینوں جرنیلوں یعنی مانک، اروڑا اور پیلٹ نے صرف دولفظوں کا سہارا لیا ہے: ’’یہ ایک معروف بات ہے‘‘ یا ’’جیساکہ ہم جانتے ہیں‘‘۔ یا ’’مجیب نے کہا‘‘ اتنے اہم معاملے پر ایسی سہل انگاری پر مبنی اسلوب اختیار کرنا بذاتِ خود غیرذمے دارانہ رویہ ہے اور بددیانتی پر مبنی انداز ہے۔

بقول ڈاکٹر عبدالمومن چودھری: دراصل ۳۰ لاکھ کے افسانے کو وضع کرنے کے پیچھے روزنامہ پوربودیش ڈھاکا کے مدیر احتشام حیدر چودھری اور اشتراکی روس کے سرکاری اخبار روزنامہ پراودا ماسکو کا نمایندہ متعینہ دہلی، صاف صاف دکھائی دیتے ہیں۔ پوربودیش میں احتشام حیدر نے ۲۲دسمبر ۱۹۷۱ء کو اداریہ ’’یحییٰ حکومت کو پھانسی دو‘‘ میں لکھا: ’’پاکستانی فوج نے ۳۰لاکھ بنگالی اور ۲۰۰ دانش ور مارے‘‘، جب کہ اسی اخبار نے صرف ایک روز قبل یعنی ۲۱ دسمبر ۱۹۷۱ء کو آٹھ کالم پر مشتمل ایک فیچر، جسے سرخ رنگ کی سرخیوں سے مزین کیا گیا تھا، یہ عنوان جمایا تھا: ’’بنگال کے کتنے لوگ مارے گئے؟‘‘ اور فیچر میں یہ بحث کی گئی: ’’بنگال میں ہر جگہ یہ سوال پوچھا جارہا ہے کتنے لوگ قتل ہوئے: ۱۰، ۲۰، ۳۰، ۴۰ یا ۵۰ لاکھ؟ کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے۔ لوگوں کو اس کا جواب چاہیے اور ہمیں اس سوال کا جواب دینا ہوگا‘‘۔ (پوربودیش، ۲۱ دسمبر ۱۹۷۱ء)۔ پھر ایک ہی رات گزرنے کے بعد وہ جواب کی ’تلاش و تحقیق‘ مکمل کرلیتا ہے اور اگلے روز یہی اخبار جواب دیتا ہے: ’’۳۰لاکھ سے کم نہیں‘‘ (۲۲دسمبر ۱۹۷۱ء)۔ پھر اسی خبر کو پراودا کا خصوصی نمایندہ دہلی، اپنے مرکز ماسکو بھیجتا ہے، جہاں خبر اس طرح شائع ہوتی ہے: ’’۳۰ لاکھ سے زیادہ‘‘۔ اور پھر پراودا کے حوالے سے ۵جنوری ۱۹۷۲ء کو ڈھاکا اور دہلی کے اخباروں پر خبر شائع کی جاتی ہے: ’’۳۰ لاکھ سے زیادہ بنگالیوں اور ۸سو بنگالی دانش وروں کو مارا گیا‘‘۔ یوں پندرہ روز میں،اور افراتفری کے عالم میں دو صحافی ایک افسانہ تراشنے میں پوری طرح کامیاب ہوجاتے ہیں۔ پھر ۱۰جنوری ۱۹۷۲ء کو شیخ مجیب نے ڈھاکا ایئرپورٹ پر اُترتے وقت پورے طمطراق سے یہ اعلان کردیا: ’’پاکستانیوں کے ہاتھوں ۳۵لاکھ بنگالی مارے گئے اور ۳ لاکھ بنگالی عورتوں سے زیادتی کی گئی‘‘۔

اسی دوران میں خود بھارتی حکومت بھی بہ عجلت تمام کہہ دیتی ہے: ’’۳۰ لاکھ افراد کو قتل کیا گیا‘‘ (ماہ نامہ نیشنل جیوگرافک، ستمبر ۱۹۷۲ء)۔ رابرٹ پاینی نے اپنی کتاب Tragedy of Bangladesh (میکملن، ۱۹۷۳ء، نیویارک) میں اسی بات کو تحقیقی رنگ دینے کے لیے یہ افسانہ تراشا: ’’۲۲فروری ۱۹۷۱ء کو جرنیلوں کے ایک اجلاس میں صدر پاکستان جنرل یحییٰ خان نے کہا تھا: ۳۰لاکھ بنگالیوں کو مار دو تو امن ہماری جھولی میں ہوگا‘‘ (ص ۵۰) یعنی ایک سال پہلے ہی جنرل یحییٰ نے قتل کی گنتی مکمل کرلی۔ یہاں سے وہاں تک ۳۰ لاکھ کا عدد کس کس روپ میں گھڑا، دکھایا اور پھیلایا گیا۔

جوہری کا نام بنگلہ دیش کے مشہور صحافی کی حیثیت سے تسلیم شدہ ہے۔ انھوں نے اپنی بنگلہ کتاب The Riddle of Thirty Lakh [۳۰ لاکھ کا معمّہ] (ڈھاکا، ۱۹۹۴ء) میں لکھا ہے: ’’یہ بات فہم سے بالاتر ہے کہ آٹھ ماہ اور بارہ روز کی ایک گوریلا جنگ میں ۳۰ لاکھ انسان مارے جائیں، اور یہ بات بھی وہم و گمان سے کوسوں دُور ہے کہ اس دوران میں دو لاکھ سے زیادہ عورتوں سے بالجبر زیادتی کی گئی ہو۔ میں نے ملک کے مختلف اضلاع کے ۵۰۰ افراد کا انٹرویو کیا، اور ان سے پوچھا ہے: ’’آپ کے خاندان کے دُور و نزدیک میں، یا آپ کے جاننے والوں میں یا پھر آپ کے گائوں محلے میں، کسی پاکستانی فوجی نے جنسی بے حُرمتی کی ہو تو ایسا کوئی واقعہ آپ بتا سکتے ہیں؟‘‘ ان میں سے ہر فرد نے کہا: ’نہیں‘۔ ممکن ہے وہ اپنے خاندان کے بارے میں ایسی بات بتاتے وقت شرماتے ہوں، مگر گائوں، محلے کے بارے میں گواہی دینے میں کسی فرد کے لیے کوئی امرمانع نہیں ہوسکتا تھا۔ البتہ چند بدکرداروں کے ہاتھوں ایسے واقعات ہوئے، مگر ان چند کو پھیلا کر ۲لاکھ بنا دینا کیسے ممکن ہوا ہے؟ پھر ملک بھر سے ان اعداد و شمار کو صرف ایک ہفتے میں فیصلہ کن شکل دینا کیسے ممکن ہوا؟ کس نے یہ سروے کیا؟‘‘ (ایضاً، ص ۱۴)

ولیم ڈرومنڈ (William Drummond)، نمایندہ خصوصی روزنامہ گارڈین لندن  رقم طراز ہے: ’’۳۰ لاکھ افراد کا قتل ایک غیرحقیقی داستان سرائی ہے، جسے دنیا بھر کے اخبارات میں اُچھالا گیا۔ میں نے بنگلہ دیش کے بہت سے دورے کیے۔ اس دوران بے شمار لوگوں کے ساتھ ملاقاتیں کرنے، سیکڑوں دیہات کا سفر کرنے اور اُوپر سے لے کر نچلی سطح تک حکومتی اہل کاروں سے تبادلۂ خیال کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ۳۰لاکھ افراد کے قتل کی بات ایک انتہا درجے کی مبالغہ آمیزی ہے (گارڈین، ۶ جون ۱۹۷۲ء)۔ ایک اور صحافی پیٹرگل نمایندہ خصوصی روزنامہ ٹیلی گراف، لندن (۱۶؍اپریل ۱۹۷۳ء) نے لکھا ہے: ’’شیخ مجیب کا یہ دعویٰ کہ ۳۰لاکھ بنگالی افراد مارے گئے ایک ایسی مبالغہ آمیز کہانی ہے، جس میں نقصان کو ۲۰فی صد زیادہ، بلکہ ۵۰،۶۰ فی صد تک بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے‘‘۔

عبدالمہیمن ضلع نواکھالی کے معروف سیاسی رہنما، ۱۹۷۰ء میں قومی اسمبلی کے منتخب رکن اور شیخ مجیب الرحمن کے طویل عرصے تک قریبی دوست رہے ہیں۔ انھوں نے ۱۹۹۰ء میں یحییٰ مرزا کو انٹرویو میں بتایا: ’’بنگلہ دیش کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا رکن ہوتے ہوئے میں یہ بات پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ میں نے ضلع نواکھالی کے طول و عرض میں، پولیس اسٹیشنوں اور یونین کونسلوں میں گھوم پھر کر بڑی باریک بینی سے ۱۹۷۱ء کے مقتولین کے بارے میں معلومات اکٹھی کی ہیں۔ جن کے مطابق ضلع نواکھالی میں ۷ہزار سے کم افراد مارے گئے اور اگر [متحدہ پاکستان کے حامی] مقتول رضاکاروں کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد ساڑھے سات ہزار سے ہرگز زائد نہیں بنتی۔  یاد رہے کہ ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کے اضلاع کی تعداد ۱۹ تھی، اور تمام اضلاع اس جنگ سے برابر کی سطح پر متاثر نہیں ہوئے تھے، جب کہ نواکھالی وہ ضلع تھا جو جنگ سے بہت زیادہ متاثر اضلاع میں شمار ہوتا تھا۔ مراد یہ ہے کہ اگر ضلع نواکھالی سے جمع کردہ اعداد و شمار کو پیش نظر رکھیں اور تمام اضلاع میں مقتولین کی تعداد کا اوسط نکالیں تو اس کے باوجود یہ تعداد ایک لاکھ ۲۵ ہزار سے ہرگز زیادہ نہیں ہوسکتی‘‘۔ (بحوالہ ۳۰ لاکھ کا معمّہ، از جوہری، ص ۴۸،۴۹)

بنگلہ دیش کے محقق پروفیسر نعیم مہیمن نے اپنے مقالے Accelerated Media and 1971 میں اس پر بحث کی ہے: ’’۳۰ لاکھ کے اس عدد کو بنگلہ دیش کی سرکاری تاریخ میں تقدیس اور ایمان کا درجہ حاصل ہوگیا۔ یوں برسوں سے اس تعداد کو کسی بھی دائرۂ تحقیق میں اعتراض اور تجزیاتی چیلنج سے یک سر آزاد سمجھ لیا گیا۔ البتہ حالیہ زمانے کے تجزیہ کاروں نے دلیل دی ہے کہ پاکستانی فوج کے لیے ان سات مہینوں کے عرصے میں ۳۰لاکھ انسانوں کو قتل کرنا قطعی  طور پر ناممکن ہے۔ اگر یوں انسانوں کو مارنا مقصود ہوتا تو اُس کے لیے باقاعدہ کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا جاتا۔ مثال کے طور پر جرمنی کے آمر فیوہرر ہٹلر نے مبینہ طور پر اپنی پوری قوت سے ۶۰لاکھ یہودیوں کو چھے برسوں میں مارا، اور اس کے لیے باقاعدہ قتل گاہیں بنائی گئیں۔ گیس چیمبرز اور لانے لے جانے کے لیے سڑکوں کے جال سے استفادہ کیا گیا۔ مگر پاکستان کے حوالے سے ہمیں کہیں بھی ایسا پروگرام دکھائی نہیں دیتا اور نہ پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں نسل کشی (ethnic cleansing) کا کوئی منصوبہ تشکیل دیا۔ اس لیے ان چند مہینوں میں، مشینی قتل گاہوں، نسل کشی کے کیمپوں کی عدم موجودگی میں ۳۰لاکھ انسانوں کو مارنا، ناممکن ہے‘‘۔ (ص۱۰، اس مقالے کا ایک حصہ۔Economic & Political Weekly ،ممبئی، ۲۶ جنوری ۲۰۰۸ء میں بھی شائع ہوا)

یاد رہے ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کی آبادی ۶ کروڑ ۹۷ لاکھ ۷۴ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ جہاں ۶۸ہزار ۳ سو ۸۵ دیہات اور ۴ہزار ۴ سو ۷۲ یونین کونسلیں تھیں۔ جیسے ہی ۳۰ لاکھ کا نمبر فضا میں اُچھالا گیا تو متعدد آزاد ذرائع نے اپنی تحقیقی کاوشوں سے ثابت کیا کہ یہ اعداد و شمار سخت مبالغہ آمیز ہیں___ ضلع جیسور، کلکتہ کی جانب، مشرقی پاکستان کا ایک سرحدی ضلع ہے۔ اس کے معروف سماجی رہنما خوندکر ابوالخیر بتاتے ہیں: ’’ہمارے پورے ضلعے سے ۲۰، ۲۵ سے زیادہ افراد، فرار ہوکر بھارت نہیں گئے۔ خود میرے گائوں اور مضافات کے دیہات میں پاکستانی فوج سے کہیں ایک جگہ بھی لڑائی کے واقعے اور کسی قسم کے قتل و غارت کی نوبت نہیں آئی‘‘۔ (۳۰ لاکھ کی کہانی کے پیچھے، ص ۲۰)

اس طرح دیکھا جاسکتا ہے کہ آزاد ذرائع ہی نہیں بلکہ شیخ مجیب کے قریبی ساتھی بھی لاکھوں کے اعداد و شمار کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ دوسری طرف خود بنگلہ دیش حکومت نے ۷جنوری ۱۹۷۲ء سے مقتولینِ آزادی کے اعداد و شمار اکٹھا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر تشہیری مہم چلائی۔ ۱۶جنوری ۱۹۷۲ء کو شیخ مجیب نے عوامی لیگ کے کارکنوں اور اسمبلی کے ارکان کو حکم دیا کہ وہ اپنی پہلی فرصت میں ’مقتولینِ آزادی‘ کی تفصیلات اکٹھی کریں، اور دو ہفتے کے اندر اندر عوامی لیگ کے مرکزی دفتر جمع کرائیں (روزنامہ بنگلہ دیش آبزور، ۱۶ جنوری ۱۹۷۲ء، بحوالہ ۳۰ لاکھ کی کہانی، ص ۲۳)۔ پھر شیخ مجیب نے ۲۹ جنوری ۱۹۷۲ء کو سرکاری سطح پر ایک ۱۲ رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی، جس کے سربراہ عبدالرحیم، ڈی آئی جی پولیس تھے، جب کہ ارکان کمیٹی میں عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی گروپ) کے لیڈر اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تجربہ کار ارکان شامل تھے۔ سرکاری گزٹ میں اس کمیٹی کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ کمیٹی کے ذمے یہ کام تھا کہ: وہ مقتولین اور املاک کے نقصان کا جائزہ لے اور شرپسندوں کی نشان دہی کرے۔ ساتھ ہی یہ بھی حکم دیا گیا کہ مذکورہ کمیٹی: ’’اپنی رپورٹ ۳۰ اپریل ۱۹۷۲ء تک لازماً پیش کرے، اور اس مقصد کے حصول کے لیے تمام وسائل بروے کار لائے‘‘۔

’’عبدالرحیم انکوائری کمیٹی‘‘ نے بڑی تن دہی سے کام کیا، ایک ایک یونین کونسل اور ایک ایک پولیس اسٹیشن سے رابطہ کرکے کوائف جمع کیے، اور انفرادی گواہیوں کو بھی قلم بند کیا۔ روزنامہ گارڈین لندن کا نمایندہ خصوصی ولیم ڈرومنڈ جو مستقل طور پر ڈھاکا میں مقیم تھا، بیان کرتا ہے: ’’مارچ کے تیسرے ہفتے تک انکوائری کمیٹی کے سامنے صرف ۲ہزار افراد کے قتل کی رپورٹیں پیش ہوسکیں کہ: انھیں پاکستانی افواج نے مارا تھا‘‘ (روزنامہ گارڈین، لندن، ۶ جون ۱۹۷۲ء)۔ تاہم جب انکوائری کمیٹی نے رپورٹ مکمل کی تو معلوم ہوا کہ پورے بنگلہ دیش میں اس ساڑھے آٹھ ماہ کی بغاوت، خانہ جنگی، بلوے، لوٹ مار اور گوریلا جنگ میں ۵۶ہزار ۷ سو ۶۳افراد کے قتل کے ثبوت فراہم کیے جاسکے ہیں۔ بقول ولیم ڈرومنڈ: ’’جوں ہی انکوائری کمیٹی کے سربراہ نے رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی تو جلد مشتعل ہوجانے والا جذباتی مجیب آپے سے باہر ہوگیا، اور اس نے رپورٹ پکڑ کر فرش پہ دے ماری اور غصے میں چلّانے لگا: ’’میں نے ۳۰ لاکھ کہے ہیں ۳۰ لاکھ۔ تم لوگوں نے یہ کیا رپورٹ مرتب کی ہے؟ یہ رپورٹ اپنے پاس رکھو، جو میں نے کہہ دیا ہے، بس وہی سچ ہے‘‘۔ (گارڈین، لندن، ۶ جون ۱۹۷۲ء)

بنگلہ دیش قومی اسمبلی میں وزارتِ خزانہ کے بیان کے مطابق یہی نمایندہ آگے چل کر رقم طراز ہے کہ: ’’مجیب نے مقتولین کی مدد کے لیے ۲ ہزار ٹکہ فی کس کا جو اعلان کیا تھا، اس کے حصول کے لیے ۷۲ہزار افراد نے درخواستیں جمع کرائیں، جن میں ۵۰ہزار مقتولین کے لیے رقم حاصل کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا، اور ان درخواستوں میں متعدد جعلی درخواستیں بھی شامل تھیں‘‘۔ (گارڈین، لندن، ۶جون ۱۹۷۲ء)

یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ عوامی لیگ کی پروپیگنڈا مشین کے مطابق: ’’بھارت میں پناہ گزین بنگالیوں میں سے لاکھوں افراد بھوک اور بیماری سے مارے گئے‘‘۔ اس طرح جن لوگوں نے مذکورہ بالا دعوے کے ساتھ رقوم وصول کیں، ان میں بہت سے وہ لوگ بھی شامل تھے جو بھارتی کیمپوںمیں مارے گئے تھے۔ (عبدالغفار چودھری، مضمون: ’ہمیں ہمت سے سچ کا سامنا کرنا چاہیے‘، روزنامہ جنپد، ڈھاکا، ۲۰ مئی ۱۹۷۳ء، بحوالہ ۳۰ لاکھ کی کہانی کے پیچھے، ص ۲۹، ۳۰)

شیخ مجیب نے جھوٹ کی جو آلودگی پھیلائی تھی، وہ ذہنوں کو مسموم کرتی رہی۔ پھر ۱۵جون ۱۹۹۳ء کو بنگلہ دیش قومی اسمبلی میں کرنل اکبر حسین (جو جنرل ضیا الرحمن اور خالدہ ضیا کی حکومتوں میں وزیر رہ چکے تھے) نے یہ کہہ کر بحث کو دوبارہ زندہ کر دیا کہ: ’’عوامی لیگ نے ۳۰لاکھ مقتولینِ آزادی کا افسانہ گھڑا، جب کہ حقیقت اس کے صرف ۱۰ فی صد کے قریب ہے‘‘۔ اس پر عوامی لیگ کے رکن اسمبلی عبدالصمد آزاد نے اسمبلی میں جواب دیا: ’’یہ بات ہم نے اپنے لیڈر شیخ مجیب سے سنی ہے اور اسے ہی ہم درست سمجھتے ہیں‘‘۔ پھر ہندو رکن اسمبلی شدھن گھشو شیکر نے چیلنج کرتے ہوئے سوال اُٹھایا: ’’اکبر حسین اپنے دعوے کا ثبوت پیش کریں‘‘۔ تب وزیر اکبرحسین نے کہا: ’’بنگلہ دیش بننے کے بعد حکومت نے اعلان کیا تھا کہ جس جس گھرانے کا کوئی فرد بھی اس جنگ میں مارا گیا ہے یا لاپتا ہوا ہے،و ہ گھرانہ متعلقہ فرد کا نام پتا بتا کر ۲ہزار ٹکے بطور امداد وصول کرے۔ اس اپیل کے جواب میں بنگلہ دیش بھر سے صرف ۳ لاکھ افراد نے نام درج کرائے۔ اگر وہ ۳۰لاکھ ہوتے تو لازماً وہ بھی نام درج کراتے، مگر ایسا نہیں ہوا، باقی ۲۷ لاکھ کہاں گئے؟ جب یہ جواب ملا تو پورے ایوان پہ خاموشی چھا گئی‘‘۔(بنگلہ دیش قومی اسمبلی کی روداد، ۱۵، ۱۶ جون ۱۹۹۳ء بحوالہ ۳۰لاکھ کی کہانی کے پیچھے، ص ۵)

مجیب حکومت سقوطِ مشرقی پاکستان کے فوراً بعد نقصان، اموات اور جرائم کے ذمہ داران کے تعین کے لیے پوری طرح سرگرم عمل ہوگئی۔ یوں ۲۲دسمبر ۱۹۷۱ء کو کلکتہ سے مجیب کی جلاوطن حکومت نے اعلان کر دیا تھا: ’’جن خواتین کے ساتھ پاکستانی فوجیوں نے زیادتی (ریپ) کی ہے وہ ’بنگالی ہیروئنیں‘ ہیں۔ پھر مجیب کی آمد پر جنوری ۱۹۷۲ء میں ڈھاکا میں ایک بہت بڑا ’بنگالی ہیروینز کمپلیکس‘ قائم کر دیا گیا، جس کا سربراہ مجیب کے رشتے دار جہانگیر حیدر کو مقرر کیا گیا۔ اس کمپلیکس کے لیے ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذریعے بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کرٹ والڈ ہایم نے ’ہیروینز کمپلیکس‘ کا دورہ بھی کیا، لیکن یہ کمپلیکس ایک روز کے لیے بھی آباد نہ ہوسکا۔ کتنی بنگالی ہیروینیں یہاں رجسٹرڈ ہوئیں؟ آج تک کسی کو یہ عدد معلوم نہ ہوسکا۔ کیونکہ اس باب میں دعوے کے لیے کوئی قابلِ ذکر ثبوت فراہم نہ ہوسکا۔ یوں خجالت میں چند ماہ بعد یہ منصوبہ اور کمپلیکس اچانک ختم کر دیا گیا‘‘۔ (۳۰ لاکھ کی کہانی کے پیچھے، ص۲۵، ۳۰)

ازاں بعد تحریک آزادیِ ہند کے معروف رہنما اور بنگالی نژاد سبھاش چندرابوس کی بھتیجی پروفیسر ڈاکٹر شرمیلا بوس (بھارتی بنگالی اور ہاورڈ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی) نے جون ۲۰۰۵ء میں اپنے تحقیقی مقالے Problem of Using Women as Weapons in Recounting the Bangladesh War [بنگلہ دیش کی جنگ میں عورتوں کا بطور ہتھیار استعمال] میں لکھا ہے: ہمیں سچ بتانا چاہیے اور سچ یہ ہے کہ پاکستانی افواج پر بنگالی عورتوں کی اس پیمانے پر بے حُرمتی کا الزام مبالغہ آمیز حد تک بے بنیاد ہے۔ پاکستانی فوج نے ایک منظم قوت کے طور پر اپنی ڈیوٹی انجام دی جس میں عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا گیا۔ میں نے وسیع پیمانے پر انٹرویو، مکالموں اور تحقیق سے یہی بات دیکھی ہے کہ پاکستانی فوج نے عورتوں کو یک سر نظرانداز کرکے، صرف مقابلہ کرنے والے جوانوں کو نشانہ بنایا‘‘۔ اس پر روزنامہ ڈیلی ٹائمز لاہور نے ۲ جولائی ۲۰۰۵ء کو اپنے اداریے New Impartial Evidence [نیا غیر جانب دارانہ ثبوت]میں لکھا: ’’پروفیسر شرمیلا بوس نے چشم دید گواہوں کی گواہی اور گہرے تحقیقی کام کی بنیاد پر برسوں سے لگنے والے اس الزام کی تردید کی ہے کہ پاکستان نے بنگالی عورتوں کو بالجبر زیادتی کا نشانہ بنایا‘‘۔

یہاں ایک مرتبہ پھر اطالوی صحافی خاتون آریانا فلاسی کے مکالمے سے رہنمائی لیتے ہیں،  جس نے اپریل ۱۹۷۲ء میں (تب) صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کا انٹرویو لیا، جو اس کی کتاب    Interview With Historyمیں شامل ہے۔ فلاسی کے جواب میں بھٹو نے کہا: ’’مجیب الرحمن ایک پیدایشی جھوٹا شخص ہے۔ یہ اس کے بیمار ذہن پر ہے کہ وہ کب کیا بات کر دے، مثلاً   وہ یہ کہتا ہے کہ اس قتلِ عام میں ۳۰ لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔ وہ پاگل ہے___ وہ سب لوگ پاگل ہیں۔ بہ شمول اخبارات کے جو اس کی بات کو دہراتے ہیں کہ ۳۰ لاکھ لوگ مارے گئے، ۳۰ لاکھ قتل ہوگئے۔ بھارتیوں نے کہا تھا کہ ۱۰ لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔ شیخ مجیب نے پہلے ۱۰کو ۲۰ کیا اور پھر ۳۰ لاکھ بنا دیا۔ وہ تو طوفان سے مرنے والے لوگوں کی تعداد بھی اسی طریقے سے ضرب تقسیم کر کے بڑھاتا رہتا تھا۔ بھارتی صحافیوں کے مطابق مرنے والوں کی تعداد ۶۰ سے ۷۰ ہزار تھی، جب کہ کچھ مشنری لوگوں کے مطابق ۳۰ ہزار لوگ مارے گئے تھے، اور جہاں تک میری اطلاعات ہیں تقریباً ۵۰ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ چاہے اس ملٹری ایکشن کا کوئی بھی جواز پیش کیا جائے، میں حالات کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ میں محض چیزوں کو حقیقت کی طرف واپس لا رہا ہوں، کیونکہ ۵۰ہزار اور ۳۰ لاکھ لوگوں کے مرنے میں بہت بڑا فرق ہے___ مشرقی پاکستان سے بھارت جانے والے پناہ گزینوں کے بارے میں [بھارتی وزیراعظم] اندرا گاندھی کہتی ہیں کہ یہ ایک کروڑ لوگ تھے۔انھوں نے جان بوجھ کر ایک کروڑ کا نمبر دیا، تاکہ اسے جواز بناکر مشرقی پاکستان پر حملہ کرسکے، لیکن جب ہم نے اقوام متحدہ سے کہا کہ وہ [بنگالی] پناہ گزینوں کی تعداد چیک کر کے بتائے تو بھارت نے ہمارے اس مطالبے کی شدید مخالفت کی۔ اگر ایک کروڑ کا عدد ٹھیک تھا تو انھیں اقوام متحدہ سے چیک کرانے سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اصل بات ایک کروڑ یا دو کروڑ کی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آرمی آپریشن میں جو لوگ مارے گئے ہیں، ان کی تعداد غلط ہو، لیکن پناہ گزینوں کی تعداد کے بارے میں میرے پاس موجود اعداد و شمار غلط نہیں تھے۔ ہمیں اچھی طرح پتا تھا کہ کتنے لوگ مشرقی پاکستان سے بھارت گئے تھے۔ اب یہ بات کہ وہاں کتنی عورتوں کے ساتھ بالجبر زیادتی کی گئی اور کتنی قتل ہوئیں؟ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وہاں بہت زیادتیاں ہوئی تھیں۔ اس پورے عرصے میں اس طرح کی زیادتی کے صرف چار کیس رپورٹ ہوئے، اگر ان کو دس سے ضرب دیں تو ان کیسوں کی تعداد ۴۰ ہوجاتی ہے۔ پھر بھی ہم ان اعداد تک نہیں پہنچ سکتے جو مجیب اور اندرا گاندھی پوری دنیا میں پھیلاتے تھے‘‘ (ایک سیاست کئی کہانیاں، میں مذکورہ انٹرویو کا ترجمہ از رؤف کلاسرا، ص ۳۶۲، ۳۶۳)۔ ڈھاکا ہی سے نعیم مہیمن کے مطابق: ’’۱۹۷۱ء میں بھارت جانے والے بنگالیوں کی تعداد ۱۲ لاکھ سے ایک کروڑ ، بلکہ دو کروڑ تک بیان کی جاتی رہی۔ پھر ایک فلم ساز لیرلیون نے اس خودساختہ کہانی پر فلم بناکر انتہائی مبالغہ آمیزی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا‘‘۔(مقالہ مذکورہ، ص ۱۴)

واشنگٹن میں بنگلہ دیش کے سفیر شمشیر ایم چودھری نے کہا کہ:’’۱۹۷۱ء کی جنگ کے حوالے سے ہمارے ہاں جو مبالغہ آمیز اعداد و شمار گردش کر رہے ہیں، ان میں غلطی اور شرارت دونوں چیزوں کا عنصر شامل ہے۔ سچ کی تلاش اور الزام تراشی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کی حکومتیں مل کر ایک ایسا کمیشن مقرر کریں، جو اس المیے کے دوران پیدا شدہ حقائق کو ایک رپورٹ کی صورت میں مرتب کرے‘‘۔ (روزنامہ ڈان، کراچی، ۷جولائی ۲۰۰۵ء)

یہاں پر دوبارہ اس امر کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ کسی ایک فرد کی جان اور ایک فرد کی آبرو اتنی ہی قیمتی ہے جتنی کہ پوری قوم کی جان اور آبرو۔ مسئلہ اعداد و شمار کا نہیں لیکن اعداد و شمار کے بل پر جو طوفان اُٹھا کر اس خطۂ ارضی کے مسلمانوں کے درمیان نفرت اور خلیج پیدا کر کے باہمی دشمنی کو ہوا دینے کی کوشش ہورہی ہے، اسے زیربحث لانا اور ریکارڈ درست کرنا بے حد ضروری ہے۔اس مختصر مضمون میں اسی بڑے مسئلے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

اوّلاً یہ کہ جھوٹ گھڑ کر، کروڑوں انسانوں اور بیسیوں قوموں میں ملکِ پاکستان کے بارے میں نفرت اور حقارت کی آگ سلگائی جارہی ہے، جسے افسانوی پٹرول چھڑک کر بڑے پیمانے پر پھیلایا جاتا ہے، نتیجے میں پاکستان اور اہلِ پاکستان کو اس نفرت کی قیمت دینا پڑتی ہے۔

ثانیاً یہ کہ اس مبالغہ آمیز طرزِ بیان نے بالخصوص ان لوگوں کو جو، ۱۹۷۱ء میں پاکستان کے لیے سربکف تھے، وہ ’پاکستانی دلّالی‘ کے ’الزام‘ اور اس پروپیگنڈے کی تپش میں خود اور ان کی آیندہ نسلیں جل رہی ہیں۔ اس طرح ان کے لیے اپنے مادرِ وطن میں زندگی بسر کرنا ایک اذیت ناک تجربہ بنا دیا گیا ہے۔

ثالثاً یہ کہ جھوٹ کے بل بوتے پر جس تاریخ کو گھڑا اور پھر ’حقیقت‘ کے طور پر ذہنوں، نصابوں اور کتابوں میں نقش کیا گیا ہے، ان کا نتیجہ ایک نہ ختم ہونے والی نفرت کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ آج بنگلہ دیش کی مقتدر حکومت اور پالیسی ساز ادارے اسی خانہ ساز نفرت میں اپنے ’اقدام‘ کا جواز پاتے ہیں۔

ظاہر ہے یہ الفاظ فضا میں تحلیل ہوکر تو نہیں رہ گئے۔ ان الفاظ نے اپنا ایک اثر دکھایا ہے، اور بنگلہ دیش کی نئی نسل کے ذہن میں: پاکستان اور مسلمان کی ایک تصویر بھی بنائی۔ ایسی تصویر جسے خود پاکستان کی لسانی قوم پرست تحریکیں پسند کرتی ہیں اور ان کے سایے میں اپنی منزل دیکھتی ہیں۔ اسی تصویر کے خدوخال کو گہرا اور نمایاں کرنے کے لیے بھارتی لابی، ہندو کمیونٹی کی مؤثر قیادت اور وہ اشتراکی لابی سرگرم عمل رہی ہے، جسے پاکستان کا وجود ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ بلکہ اس کے نزدیک سب خرابیوں کا مرکز پاکستان ہی ہے۔

تاریخ کا یہ ایک ایسا بوجھ ہے جسے بحیثیت قوم، اہلِ پاکستان کو اٹھانا ہے، مگر بوجھ اتنا ہونا چاہیے، جتنا ہے۔ ایسا بے حدوحساب بوجھ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، اسے وضاحت کے ساتھ بیان کرنا ضروری ہے۔ گناہ پہ ندامت اور چیز ہے، لیکن ناکردہ گناہوں کے بوجھ تلے کچلا جانا دوسری بات ہے۔ آیئے، دیکھتے ہیں،اعداد و شمار اور پروپیگنڈے کی یہ آگ کس طرح لمحہ بہ لمحہ بھڑکتی ہوئی یہاں تک پہنچی کہ آج عالمی پروپیگنڈے اور تاریخی و ادبی لٹریچر کا حرفِ معتبر بن گئی ہے، مگر جواب اور وضاحت کے لیے کوئی سامنے نہیں آتا۔ اس طرح یک طرفہ پروپیگنڈے کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:

یہاں یہ امر بھی زیربحث نہیں ہے کہ اس قتل و غارت کا کیا جواز تھا اور کیا جواز نہیں تھا۔ اور یہ بھی جائزہ نہیں پیش کیا جا رہا کہ ۲۵ اور ۲۶ مارچ ۱۹۷۱ء کی درمیانی شب شروع ہونے والے ’آپریشن سرچ لائٹ‘ کی کیا قانونی حیثیت تھی۔ اسی طرح یہاں یہ جائزہ بھی پیش نہیں کیا جا رہا کہ یکم مارچ سے ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء تک کتنے ہزار غیربنگالی، پنجابی، پٹھان پاکستانیوں، خصوصاً بہار سے ہجرت کر کے آنے والے عام غریب مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں پر کیا بیتی؟ (صرف ایک مثال ملاحظہ کیجیے: ’’۳ اور ۴ مارچ کی درمیانی شب چٹاگانگ کی فیروزشاہ کالونی کو جہاں اُردو بولنے والے رہتے تھے اسے عوامی لیگ کے کارکنوں نے چاروں طرف سے گھیر کر ۷۰۰ گھروں کو آگ لگا دی۔ جو عورتیں اور بچے آگ سے بچنے کے لیے باہر نکلے ان کو گولی مار دی جاتی۔ اس طرح صرف ایک جگہ پر لگ بھگ ۲ ہزار افراد کو زندہ جلامارا گیا‘‘) اور آپریشن کے ایک ہفتے کے بعد وہ مسلسل مقامی مسلح افراد اور بھارتی شرپسندوں کے کس کس ظلم کا نشانہ بنائے گئے؟ (ملاحظہ کیجیے: ’’مشرقی پاکستان میں لاکھوں غیر بنگالی بری طرح پھنس کر رہ گئے ہیں اور وہ بنگالیوں کے انتقام کا نشانہ ہیں‘‘۔ (روزنامہ سٹیٹسمین، نئی دہلی، ۴؍اپریل ۱۹۷۱ء)۔ ’’مشرقی پاکستان میں جگہ جگہ غیربنگالیوں کے گھروں کو جلایا، ان کے مردوں اور عورتوں کو مارا اور ان کی بے حُرمتی کی جارہی ہے۔ میمن سنگھ کی صرف ایک مسجد میں ۱۵۰۰ ایسی غیربنگالی بیوہ عورتوں نے پناہ لی، جن کے شوہروں کو ذبح کر کے مار دیا گیا‘‘۔ (سیلون ڈیلی نیوز، کولمبو، ۱۵ مئی ۱۹۷۱ء)

پھر سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد ان غیربنگالی اور ان کے ساتھ ’متحدہ پاکستان‘ پر یقین رکھنے والے بنگالی شہریوں پر کیا گزری؟ دنیا بھر کے اخبارات ان مظلوموں کی چیخ و پکار اور خون کے آنسوئوں سے لکھی مظلومیت کی گواہی پیش کرتے رہے، مگر ان کی تائید و ہمدردی میں کہیں سے نحیف سی آواز بھی نہیں اُبھری، کہیں کوئی پتّا تک نہیں ہلا۔ یاد رہے آرمی آپریشن کے بعد غیربنگالی پاکستانیوں کو عوامی لیگ اور بھارتی پشت پناہی سے تیار کردہ مکتی باہنی (جس کا مؤثر آپریشنل حصہ بھارتی فوج پر مشتمل تھا)کو پاکستانی فوج اور غیربنگالیوں کے قتلِ عام کے لیے اذنِ عام مل گیا، جس نے ۱۶دسمبر سے پہلے اور پھر بعد میں خون کی ہولی کھیلی۔ اور ساتھ ہی ۱۹۷۲ء کے دستورِ بنگلہ دیش میں یہ تحفظ بھی لے لیا کہ اس آزادی کی تحریک میں حصہ لیتے وقت آزادی کے سپاہیوں نے جو کچھ بھی کیا ہے، اسے کہیںچیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔ گویا اُن کے ہرقسم کے قتل و غارت گری کے جرائم کو دستوری تحفظ اور عام معافی دے دی گئی___ یوں اگر یہ کہا جائے کہ مشرقی پاکستان میں حقیقی معنوں میں قتل عام عوامی لیگ ہی نے کیا تو اسے مبالغہ آمیزی قرار نہیں دینا چاہیے۔ نعیم مہیمن اپنے مقالے Accelerated Media and 1971میں ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلاتے ہیں: ’’ایک طرف بھارتی فوج نے اپنی سرزمین پر مکتی باہنی کے لیے مشرقی پاکستان سے عوامی لیگی جوانوں اور چین نواز سوشلسٹوں کو گوریلا تربیت دی، تو دوسری جانب ۱۹۷۱ء کے اسی بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، عوامی لیگ کی تائید اور اپنے اسٹرے ٹیجک مفادات کی تکمیل کے لیے انھی سوشلسٹ گوریلوں کو منظم طریقے سے ذلیل کرنا اور انجام تک پہنچانا شروع کر دیا۔[اضافہ از مضمون نگار: پھر اپنی پروپیگنڈا مشینری سے قتل کے ان واقعات کا سارا الزام پاکستان اور متحدہ پاکستان چاہنے والے بنگالیوں کے کھاتے میں ڈال دیا]۔ اس شاطرانہ چال کو سمجھنے کے لیے عوامی لیگ کے اس رویے کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کے بعد جوں ہی عوامی لیگ کو اقتدار پر قبضہ مضبوط کرنے کا موقع ملا تو اس نے ڈیڑھ دو سال کے اندر اندر سوشلسٹ بنگالیوں کو نہ ختم ہونے والی گندی جنگ کی بھینٹ چڑھایا‘‘ (ص ۸)۔ وہ عوامی لیگ جس کے چہرے پر ۱۹۷۱ء اور ۱۹۷۲ء میں بے گناہ غیربنگالیوں کے خون کے دھبے صاف نظر آتے ہیں: ’’اسی عوامی لیگ نے اپنے پہلے دورِاقتدار میں چٹاگانگ کے پہاڑی علاقے [ہل ٹریک] میں آباد بدھ مت کے ہزاروں شہریوں کو قتل کیا‘‘ (نعیم مہیمن، ص ۹)۔ مگر امن کے کسی دیوتا نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ ان بے چاروں کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ عوامی لیگ کی طرح برہمن نواز نہیں تھے۔

سوال یہ ہے کہ کیا یکم مارچ ۱۹۷۱ء کے بعد ہزاروں کی تعداد میں غیربنگالیوں کا قتل عام بھلا دینے والی بات تھی؟ اور کیا اس خون کا جواب لینے والا اس دنیا میں کوئی نہیں؟

کیا پاکستان کے تحقیقی اداروں اور یونی ورسٹیوں کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ پاکستان توڑنے، پاکستانیوںکو مارنے اور پاکستان کو بدترین الزامات کا نشانہ بنانے والے اقدامات کا معروضی اور تحقیقی انداز سے جائزہ لیں؟

اگر یہ سمجھ کر چپ سادھ لی جائے کہ الزام فلاں پہ لگ رہا ہے تو وہی بھگتے، ایسا بے رُخی پر مبنی رویہ اختیار کرنا کم از کم تحقیقی اداروں کے شایانِ شان نہیں ہوسکتا۔ آج پاکستان کے حوالے سے انتہا درجے کا منفی پروپیگنڈا پورے بنگلہ دیش کے وجود میں خون کی طرح گردش کر رہا ہے۔ جماعت اسلامی، مسلم لیگ، پاکستان جمہوری پارٹی اور نظامِ اسلام پارٹی کے وہ لوگ جو متحدہ پاکستان چاہتے تھے اور جائز طور پر ’ایک پاکستان‘ چاہتے تھے، آج وہی لوگ اس نفرت کی آگ میں جلائے جارہے ہیں۔ اگر ریاست اور ریاست کے اداروں کا یہی رویہ رہا تو مستقبل میں خود اس پاکستان کی سالمیت اور دفاع کے لیے نکلتے وقت لوگ کیا سوچیں گے؟

 

یہ عہد ظلم اور ظلم کی طرف داری کا عہد ہے۔ اس عہد میں سیکولر دہشت گردی اپنے عالمی سرپرستوں اور مقامی سطح پر ذہنی افلاس کی شکار دانش وری کے زور پر سیاہ کو سفید قرار دینے پر مُصر ہے۔

تاریخ کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سابق مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے پہلے تو ۱۹۶۸ء میں اگر تلہ سازش کے ذریعے پاکستان توڑنے کے لیے بھارت سے سازباز کی، مگر چند اقتدار پرستوں اور سیاست کے زور پر وہ مقدمہ رفت گزشت ہوا۔ پھر ۱۹۶۹ء میں تعلیمی اداروں میں   عوامی لیگ اور اس کی طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس لیگ (چھاترو لیگ) نے اسلامی اور پاکستانی سوچ کے حامل طلبہ پر کھلم کھلا حملے شروع کیے، مگر حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ ۱۹۷۰ء کو اسی عوامی لیگ نے پورے مشرقی پاکستان میں کسی بھی مدمقابل سیاسی جماعت کو اپنی انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی اور ان کے جلسوں پر حملے کر کے الٹا دینے اور سامعین کو  قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ تب اس کی پشت پر بھارت نواز سیکولر، روس نواز کمیونسٹ اور صاحب ِ ثروت ہندو موجود تھے۔ سیاسی حریفوں کا کھلے سیاسی عمل اور دلیل کے میدان میں مقابلہ کرنے کے بجاے عوامی لیگ نے بدترین فسطائیت کا راستہ چُنا اور اس طرح یک طرفہ انتخابی نتائج حاصل کیے۔

پھر اسی سیکولر قوم پرستی کا بدترین ناگ اس وقت آگ اُگلنے لگا۔ یوں یکم مارچ سے ۲۵مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران میں پورے مشرقی پاکستان میں اُردو، پنجابی اور پشتو بولنے والے     ہم وطنوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس المیے کا دستاویزی ثبوت مارچ ۱۹۷۱ء کے عالمی اخبارات اور قرطاس ابیض میں موجود ہے کہ عوامی لیگ، مسلح غنڈوں اور مکتی باہنی کے درندوں نے صرف ۲۵یوم میں ۳لاکھ پاکستانیوں کو ذبح کرنے کے لیے باقاعدہ مذبح خانے بنائے، ان کی بہوبیٹیوں کی عزت و ناموس کو پامال کرنے کا اذنِ عام دیا، مگر افسوس کہ ان مظلوم انسانوں کا خون، عزت، ناموس اور جانیں بس رزقِ خاک بن کر رہ گئیں۔ پاکستان کے یہ ایسے مظلوم و مقتول ہیں کہ    جن کے قتل کا دعویٰ کرنے کے لیے اس دنیا میں نہ کوئی حکومت ہے اور نہ کوئی تنظیم۔

یہی وجہ ہے کہ جب مارچ ۱۹۷۱ء کے بعد بھارت کی فوجی مدد سے عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کا عمل شروع کیا تو اُس وقت بھی ہمارے ہاں ساری سیکولر دانش مکمل طور پر خاموش رہی، بلکہ ان قاتلوں اور غداری کا ارتکاب کرنے والے عوامی لیگیوں اور مکتی باہنی کے غنڈوں کو ’ضمیر کے سپاہی‘ قرار دیتی رہی۔

ازاں بعد مکتی باہنی نے اپنے ہاتھوں قتل کیے جانے والے ۳ لاکھ مظلوم پاکستانیوں کے الزام کا داغ دھونے کے لیے، پہلے تو دسمبر ۱۹۷۱ء میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس جنگ میں ۳لاکھ بنگالی عورتوں کی بے حُرمتی ہوئی ہے اور ۱۰لاکھ کو قتل، مگر ۲۰ روز بعد شیخ مجیب الرحمن نے رہا ہوتے ہی   بے حرمتی کی تعداد کو ۱۰لاکھ بنا دیا اور بھارت کی مسلط کردہ جنگ میں مارے جانے والے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کی تعداد کو ۳۰ لاکھ تک بڑھا دیا۔ دنیابھر نے لفظوں کی یہ حیرت انگیز جادوگری دیکھی، مگر کسی نے اس بدترین جھوٹ کا جواب دینے کی کوشش نہ کی۔ اِدھر مغربی پاکستان میں نہایت منظم یونی ورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کی بڑے پیمانے پر موجودگی کے باوجود کسی نے جواب دینے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ کیا زندوں کی کوئی بستی ایسے صریح ظلم پر خاموش رہ سکتی ہے؟ پاکستان کے تعلیمی اداروں کے نصاب اس تخریب اور جارحیت کے حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔دوسری جانب صورت یہ ہے کہ عریاں جھوٹ پر مبنی اعداد و شمار بنگلہ دیش کی نئی نسل کے ذہنوں میں راسخ، دنیا کی دستاویزات کا حصہ اور پاکستانی سیکولر لابی کا ہتھیار بن چکے ہیں۔

اب دیکھیے اس تصویر کا دوسرا پہلو___ گذشتہ تین برسوں کے دوران میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو جس سیاسی،ابلاغی اور پُرتشدد یلغار کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس پر خود یہاں پاکستان کی سیکولر لابی کے فعال کارندے شاداں و فرحاں نظر آتے ہیں، اور بنگلہ دیش میں تو اسی سیکولر بنگلہ قومیت کی کوکھ سے جنم لینے والی عوامی لیگی حکومت کے نزدیک سب سے بڑا ہدف ہی یہ ہے کہ وہ کسی طرح جماعت اسلامی کو ختم کردے، اس کی قیادت کو پھانسی پر لٹکا دے اور اسلامی لٹریچر کو نیست و نابود کردے۔ ان شاء اللہ یہ دیوانگی اپنی موت آپ مرے گی۔

اس سیکولر لابی کا یہ نامۂ اعمال کس درجے میں آتا ہے؟ مثال ملاحظہ کیجیے: بیرسٹر عبدالرزاق، بنگلہ دیش سپریم کورٹ کے ایک نہایت سینیر قانون دان ہیں۔ انھوں نے ۱۹۸۰ء میں بیرسٹری کی ڈگری لندن کی لنکن اِن سے، جب کہ سرمائیکل ہاورز چیمبرز اور لارڈ پیٹر رالنسن چیمبرز سے قانونی مہارت حاصل کی۔ انھوں نے اپنے وطن بنگلہ دیش واپسی پر، ملک کی تاریخ کا ایک مشہور مقدمہ لڑا بنگلہ دیش بنام پروفیسر غلام اعظم (46 DLR)۔ جماعت اسلامی کے قائد پروفیسر غلام اعظم کی شہریت کا یہ مقدمہ انھوں نے جیتا۔ اسی طرح انھوں نے چٹاگانگ پہاڑی سلسلے پر ’علاقائی کونسل ایکٹ‘ کو عدالتِ عظمیٰ میں قانونی طور پر ختم کرایا۔ پھر اخبار اماردیش پر پابندی کا خاتمہ کرایا۔ اس اعتبار سے قومی سطح پر دیگر بہت سے مقدمات میں کامیابی نے انھیں مرکزی حیثیت دلا دی۔ یہی نہیں بلکہ ناداروں کو مفت قانونی و عدالتی مدد فراہم کرنے کے لیے وہ ہردم مستعد رہتے ہیں۔

بیرسٹر عبدالرزاق جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل بھی ہیں، اور گذشتہ مہینوں میں عوامی لیگی حکومت نے جماعت اسلامی کے پانچ مرکزی رہنمائوں کو فی الحقیقت پھانسی دینے کے لیے جس گھنائونے ڈرامے کا آغاز کیا ہے، اس ڈرامے کو ناکام بنانے کے لیے، سپریم کورٹ میں عبدالرزاق مذکورہ پانچ لیڈروں کے وکیلِ دفاع ہیں۔ لیکن دیکھیے اس قابلِ احترام قانون دان کے ساتھ بھارت نواز فسطائی حکومت کا کیا رویہ ہے؟ دی ڈیلی اسٹار ڈھاکا لکھتا ہے: ’’۵جولائی ۲۰۱۰ء کو جس وقت بیرسٹر عبدالرزاق سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑ رہے تھے، اسی وقت ان کے چیمبر میں سادہ پوش پولیس اہل کار آن دھمکے، اور ان کے معاون کوثر حمید ایڈووکیٹ کو زدوکوب کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’تمھارے دفتر میں بم بنائے جاتے ہیں، ہم تلاشی لیں گے‘‘۔ کوثرحمید نے جواب دیا: ’’بھائی، یہاں صرف قانون کی کتابیں ہیں، آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ لیکن پولیس والے توہین آمیز رویہ اختیار کرنے کے ساتھ دفتر میں اتھل پتھل کرکے چلے گئے۔ کوثرحمید نے قریبی پولیس اسٹیشن میں فوجداری رپورٹ درج کرانا چاہی مگر تھانے کے سربراہ نے رپورٹ درج کرنے سے انکار کر دیا‘‘ (اخبار مذکور، ۶ جولائی ۲۰۱۰ئ)۔ پولیس کے اس رویے پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور سیکرٹری نے احتجاج کیا اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اپنے ہنگامی اجلاس میں اس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ (ایضاً، ۷جولائی ۲۰۱۰ئ)

۲۶ جولائی ۲۰۱۰ء کو بیرسٹر عبدالرزاق نے اُس نام نہاد ’جنگی جرائم کے ٹربیونل‘ کی حیثیت اور اہلیت کو چیلنج کرتے ہوئے رٹ پیٹشن (۵۳۹۱، ۲۰۱۰ئ) دائر کی۔ اگلے روز ۲۷جولائی جب عبدالرزاق سپریم کورٹ سے اپنے چیمبر ۶۷ نیاپلٹن آرہے تھے کہ پولیس والے پھر ان کے دفتر آن دھمکے اور ان کی آمدورفت کے اوقات کا شیڈول نوٹ کرکے لے گئے۔ ۱۲؍اگست کو دو پولیس افسران پوری گارد کے ساتھ بیرسٹر عبدالرزاق کے گائوں بیانی بازار، سلہٹ جاپہنچے اور خاندان کے ایک ایک فرد کے کوائف اکٹھا کرنے کی کارروائی کے دوران علاقے بھر میں دہشت پھیلائے رکھی۔ اس نوعیت کی یہ پے درپے کارروائیاں دراصل ملک کے اس مایہ ناز قانون دان کو اعصابی طور پر ہراساں کرنے اور اپنی منصبی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے، جماعت اسلامی کے مرکزی رہنمائوں کے دفاعی اور عدالتی امور میں رکاوٹ ڈالنے کا حربہ ہیں۔ اس امر پر ڈھاکا سپریم کورٹ کے وکلا میں گہری تشویش پائی جاتی ہے کہ ممکن ہے بیرسٹر عبدالرزاق کو کسی جھوٹے مقدمے میں پھانس کر چندماہ کے لیے منظر سے ہٹا دیا جائے، یا پھر فسطائیت کا نشانہ بناکر ویسے ہی ختم کر دیا جائے۔

اس شرم ناک صورتِ حال کو بے نقاب کرنے کے لیے بنگلہ دیش کے بہت سے منصف مزاج حضرات تو یک زبان ہیں، لیکن سیکولر، قوم پرست، عوامی لیگی حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی، اور جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہاں کی سیکولر صحافی لابی، اس ظلم و زیادتی میں عوامی لیگ کی ہم نوا ہے۔ وہ جنھوں نے ۱۹۷۱ء میں تین لاکھ غیربنگالی پاکستانیوں کے خون کی ہولی کھیلی تھی، اور ان کے دستاویزی اور تصویری ثبوت تک موجود ہیں، وہ اس وقت حکومت اور پارٹی کی  اہم مسندوں پر براجمان ہیں، اور جنھوں نے کوئی جرم نہیں کیا، انھیں یک طرفہ طور پر ملزم و مجرم  قرار دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔ کیا تہذیب و شائستگی اور عدل و انصاف کے الفاظ یوں ہی بے توقیر ہوتے رہیں گے؟

ظلم اور جھوٹ کو راستہ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ظلم اور جھوٹ کے لیے کوئی حد اور کوئی اخلاقی قدر رکاوٹ پیدا نہیں کرسکتی۔ تہذیب، اخلاق، قانون اور ضابطے کو ماننے والے ہی حدود کی پاس داری اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ کل کے پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش میں جس   بے دردی سے سچ اور عدل کا خون کیا جا رہا ہے وہ دنیا بھر کے باشعور لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے۔

عوامی لیگ جس نے پاکستان توڑنے اور بھارتی حکومت اور فوج کی پشت پناہی سے لاکھوں ہم وطنوں کو قتل کرنے کے جرم کا ارتکاب کیا تھا، جنوری ۲۰۰۹ء سے پھر برسرِاقتدار ہے۔ اس کا یہ اقتدار امریکا اور بھارت تزویراتی سرپرستی کا مظہر ہے۔ بنگلہ دیش کے کروڑوں عوام جنھیں عوامی لیگ نے سنہرے مستقبل کا خواب دکھلا کر پاکستان سے توڑا تھا، وہ انھیں خوش حالی تو نہ دے سکی، لیکن وہ مسائل جو آج کے بنگلہ دیش کے مسائل نہیں انھیں مسائل بناکر، ایک جوا کھیلنے کے لیے میدان میں اُتر آئی ہے۔

گذشتہ تین برس سے الفاظ: ’’پاکستان، اسلام اور مسلم‘‘، اس کی اندھی اور بے رحم طاقت کا نشانہ ہیں۔ اس مناسبت سے عوامی لیگ حکومت نے جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی   (بی این پی) کو اپنا اوّلین ہدف بنا رکھا ہے۔ جنوری ۲۰۱۰ء سے داروگیر کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، جس میں اخلاق، قانون اور ضابطے کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی گئی ہیں۔

آخرکار ایک جھوٹے اور خانہ ساز مقدمے میں ۲۹جون کو بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے ۷۰سالہ امیر مطیع الرحمن نظامی، ۶۵سالہ سیکرٹری جنرل علی احسن مجاہد اور۶۸سالہ ہر دل عزیز مفسرِقرآن مولانا دلاور حسین سعیدی کو گرفتار کرلیا۔ اگلے روز عدالت نے انھیں ضمانت پر رہا کیا تو فوراً کچھ نئے بے سروپا مقدموں میں گرفتار کر کے ۱۶دن کے ریمانڈ پر پولیس کے سپرد کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی بنگلہ دیش سے جماعت اسلامی، بی این پی اور اسلامی چھاترو شبر کے ہزاروں کارکنوں کی پکڑدھکڑ شروع کردی۔ اس حوالے سے قیدی رہنمائوں اور کارکنوں کو اپنے وکیلوں تک رسائی کو ناممکن بنادیا گیا۔ ملک کے ممتاز قانون دان بیرسٹر عبدالرزاق کے دفتر پر دھاوا بول دیا، تاکہ وہ قانونی معاونت سے باز رہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی کارکنوں نے پُرامن احتجاج کرنا چاہا تو انھیں عوامی لیگ کے مسلح غنڈوں نے سخت بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنایا، مگر پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ بعدازاں زخمی احتجاجی کارکنوں کو پولیس نے ٹرکوں میں پھینک کر پولیس اسٹیشنوں میں بند کر دیا۔ اس سے قبل ۲۷جون کو بی این پی کے سابق وزیرمملکت مرزا عباس کو ان کے اہلِ خانہ اور خواتین سمیت تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

روزنامہ آماد دیش کے مدیر محمودالرحمن کو اس جرم میں گرفتار کیا گیا کہ انھوں نے   حزبِ اختلاف کی خبریں کیوں شائع کیں۔ پھر ٹیلی ویژن چینل ’چینل نمبر۱‘ کو بند کر دیا۔ ٹیلی ویژن ’بنگلہ وژن‘ پر پابندی عائد کی کہ وہ بحث و نظر کے پروگرام نشر نہیں کرسکتا۔ ’دیگنتا ٹیلی ویژن‘ کو ایسی دہشت کا ہدف بنایا کہ اس کے لیے صحافتی سرگرمیوں کو جاری رکھنا مشکل ہوگیا۔ بنگلہ دیش آبزور، ڈھاکہ سے نکلنے والا انگریزی کا ایک قدیمی اخبار ہے، جسے زبردستی بند کر دیا گیا ہے۔ بانی جماعت اسلامی مولانا مودودیؒ کی کتابوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے تمام کتابوں کو مدرسوں اور مساجد کی  ۲۴ہزار لائبریریوں سے ہٹانے کا حکم دے دیا گیا ہے۔یہ وہ اوچھے ہتھکنڈے ہیں، جنھیں حسینہ کے والد مجیب الرحمن نے اختیار کرتے ہوئے بنگلہ دیش میں ایک پارٹی کی آمریت اور پابند میڈیا کو     رواج دینے کی کوشش کی، مگر انجامِ کار جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔

یاد رہے کہ اس وقت حسینہ واجد کی حکومت اپنے والد شیخ مجیب الرحمن کی اُس احمقانہ سیاسی حکمت عملی کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، جس میں آمرانہ کے قانون کا نفاذ، آزادانہ اظہار راے پر پابندی اور اسلامی پارٹیوں کے وجود کا مکمل خاتمہ تھا۔ پھر اس حکومت نے بہ عجلت تمام ’مسٹر قدرتِ خدا تعلیمی کمیشن‘ کے نام سے پیش کردہ سفارشات کا سہارا لے کر اسلامی مدرسے اور اسلامیات کی تعلیم کو بنگلہ دیش سے ختم کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔

پاکستان کے عوام اور مقتدر طبقوں کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ اس بھارت نواز حکومت نے نہایت قلیل مدت میں بھارت سے دُوررس اثرات کے حامل ایسے معاہدے کیے ہیں، جنھوں نے بنگلہ دیش کی رہی سہی آزادی کو بھی مفلوج کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر چٹاگانگ کی بندرگاہ تک  براہِ راست رسائی، مونگلا اور آشور گنج دریائی بندرگاہوں کو بھارتی دسترس میں دیناوہ اقدام ہیں، جن کے تزویراتی اثرات کا مداوا ممکن نہیں ہوسکے گا۔ مزیدبرآں فرخاڈیم کی طرح بھارت کو  دریاے بارک پر ٹیپائی مُکھ ڈیم تعمیر میں مدددینا بھی اسلامیانِ بنگلہ دیش کے سینے میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔ ان مختلف معاہدوں پر حسینہ واجد نے دہلی کے دورے میں دستخط کیے ہیں۔ ظاہر ہے کہ عوام میں اس پر شدید غم و غصے کی لہر پائی جاتی ہے، جسے جماعت اسلامی اور بی این پی نے درست  سمت عطا کرکے قوم کے جذبات کی ترجمانی کی۔ مگر بھارت اور امریکا کی گماشتہ حکومت تمام جمہوری اور اخلاقی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے، ان سیاسی پارٹیوں کو نیست و نابود کرنے کے راستے پر چل نکلی ہے۔

اب مطیع الرحمن نظامی، علی احسن مجاہد اور اسسٹنٹ سکریٹری جنرل محمد قمرالزماں اور عبدالقادر کو ’۱۹۷۱ء کے جرائم‘ کے نام پر ایک خصوصی ٹریبونل میں پیش کر کے، ان کے لیے پھانسی کی سزا کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ تین ماہ قبل، حسینہ کی حکومت نے مجیب الرحمن کے قتل کے نام پر ۳۵سال بعد چھے سابق فوجی افسروں کو پھانسی دے دی تھی، اور اب یہی کھیل جناب نظامی اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی جارہی ہے، اور اس مقصد کے لیے ۲؍اگست سے ایک نام نہاد ٹریبونل کارروائی کرنے جارہا ہے۔

دنیا بھر کے مسلمانوں اور انصاف پسند انسانوں کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ فسطائیت اور بیرونی مداخلت کی اس گھنائونی کارروائی کو کس طرح روکتے ہیں۔ خاص طور پر اہلِ پاکستان کو جاننا چاہیے کہ اگر یہ ماڈل، بنگلہ دیش میں تھوڑی سی بھی کامیابی حاصل کرلیتا ہے تو آنے والے کل میں اس کا اگلا شکار سری لنکا کے مسلمان، بھارت کے مسلمان اور پھر خود پاکستان کی دینی قوتیں ہوں گی۔ اسی طرح یہ بھی جاننا چاہیے کہ بھارت کی یہ پیش رفت چند افراد کا لہو پینے تک محدود نہ ہوگی، بلکہ خود سارک ممالک میں بھارتی بالادستی قائم کرنے کے قوم پرستانہ بھارتی ایجنڈے کا فیصلہ کن وار ثابت ہوگی۔ کیا پاکستانی عوام، دانش ور اور مقتدر طبقے اس صورت حال سے لاتعلق رہیں گے؟

حکومت کے معاملات اور نظامِ کار کو چلانے کی واحد ذمہ داری حکومت پر نہیں، بلکہ یہاں کے تمام اداروں اور شہریوں پر بھی آتی ہے۔ لیکن پالیسیوں کے نفاذ، نظم و ضبط کو قائم کرنے اور عدل و انصاف کے ساتھ متوازن انداز سے روزمرہ معاملات کو چلانے کی آخری ذمہ داری حکومت ِ وقت ہی پر آتی ہے۔ تاہم حکومت ِصوبہ پنجاب کے مشیروں کی غالب تعداد، درحقیقت حکومت کے  مسائل اور عوام کی مشکلات دُور کرنے کے بجاے،انھیں اُلجھانے کی جانب دھکیل رہی ہے۔ یہاں پر تعلیمی شعبے کے ساتھ کیے جانے والے ظلم و زیادتی پر مبنی کھیل اور تجربات کی بھینٹ چڑھانے کی روش کی جانب توجہ مبذول کرائی جاتی ہے (رفتہ رفتہ یہ آگ پورے پاکستان کے تعلیمی نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی)۔

  • گذشتہ برس پنجاب ۲۶ کالجوں میں بی اے کے کمزور نتائج پر، ان کالجوں کے مسائل کو سمجھنے اور ذمہ داری کا تعین کرنے کے بجاے ۲۶ پرنسپلوں کو بہ یک جنبش قلم معطل کر دیا گیا۔ اس چیز نے اصلاح سے زیادہ خوف اور بددلی پھیلانے کا کام کیا اور آخری قیمت خود طالب علموں کو دینا پڑی۔ یوں بہت سے طلبہ و طالبات داخلہ بھیجنے سے محروم رہ گئے۔
  • اس سال کے شروع میں یک لخت یہ اعلان کر دیا گیا کہ صوبہ پنجاب کے تمام اسکولوں میں انگریزی، پہلی کلاس سے لازم کردی گئی ہے۔ اعلان کرنے سے کون کسے روک سکتا ہے، مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ خود کالجوں میںانگریزی کے استاد نہایت قلیل تعداد میں موجود ہیں، کہاں پنجاب کے ہزاروں اسکولوں میں، انگریزی کے ایسے بخار کو مسلط کر دینا کہ جس کے جواز اور عمل کے بارے میں بے شمار سنجیدہ سوالات جواب طلب ہیں، جہاں تربیت یافتہ اساتذہ کا فقدان اور سہولیات کا فقدان پھن پھیلائے ناگ کی طرح کھڑا ہے، وہاں پر ایسا غیرحقیقت پسندانہ اعلان ایک عاجلانہ اقدام تھا۔ نتیجہ یہی ہوا کہ ایک دو ماہ بعد حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ جس چیز کا بہرحال حکومتی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ (یاد رہے ایسا ہی اعلان ۱۹۹۴ء میں پیپلزپارٹی کے حمایت یافتہ وزیراعلیٰ منظوروٹو نے کیا تھا اور چار ماہ خاک اُڑانے کے بعد اس غیر دانش مندانہ فیصلے کو واپس لیا تھا)۔
  • آمرمطلق جنرل پرویز مشرف کے زمانے ۲۰۰۲ئ-۲۰۰۳ء میں، سابق فوجیوں، بیوروکریٹوں اور این جی اوز کے مالی و نظریاتی شکاریوں کو نوازنے کے لیے، کالجوں اور ہسپتالوں میں بورڈ آف گورنرز مسلط کرنے، اور اس پردے میں درحقیقت ان تعلیمی اداروں کو پرائیویٹائز کرنے کے احمقانہ منصوبے پر کام شروع کیا گیا۔ لیکن ڈاکٹروں، پروفیسروں اور طالب علموں کی بھرپور جدوجہد کے نتیجے میں، اس ڈاکا زنی کا راستہ روک دیا گیا۔ تمام سیاسی قوتوں بہ شمول پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی نے استادوں، ڈاکٹروں اور طالب علموں کی اس تحریک کی بھرپور حمایت کی اور مزاحمت کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔

اب، جب کہ جمہوری حکومت، باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے، معلوم نہیں اس میں شامل وہی پارٹیاں، جو بجاطور پر ماضی میں اس گھنائونے کھیل کی مخالف تھیں، انھوں نے کس طرح خود ۲۶کالجوں میں بورڈ آ ف گورنرز قائم کر کے، اور پھر اس راستے پر چلتے ہوئے مزید اداروں کا تیاپانچا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پھر یہ کہ  انھیں ایک ایسی انتظامیہ کے رحم و کرم پر چھوڑنے اور اس علاقے کے ہزاروں طالب علموں کے تعلیمی مستقبل کو تاریک کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ کیا واقعی کوئی جمہوری حکومت ایسے تعلیم دشمن اقدام کا فیصلہ کرسکتی ہے؟

  • ان کالجوں میں بورڈ آف گورنرز قائم کرکے، چار سالہ بی ایس ڈگری کورس کے اجرا کا خوش نما خواب دکھایا گیا ہے۔ یہاں پر حکومت کے مشیروں کو اس امر کی وضاحت کرنی چاہیے کہ جن چند تعلیمی اداروں کو گذشتہ ۱۵ برس کے اندر اس نوعیت کے تجربے کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے، وہ ادارے اپنا شاندار ماضی رکھنے، اساتذہ کی بڑی تعداد اور وسائل کا اچھا خاصا اثاثہ رکھنے اور بے تحاشا قومی وسائل ہڑپ کرنے کے باوجود، تعلیمی زبوں حالی کا شکار کیوں ہیں۔ بہت سی جگہوں پر اب تک کورس کی آئوٹ لائن نہیں بن سکی، کہیں سمسٹرسسٹم کے نام پر دھاندلی اور انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے، اور کہیں سہولیات کا فقدان سوالیہ نشان ہے۔ پھر ان مذکورہ اداروں کا اصل زور پڑھائی پر نہیں وسائل کے مالِ غنیمت کو جمع کرنے پر ہے، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ کثیرتعداد غیرتربیت یافتہ اور چند ہزار روپوں پر استادوں کی بھرتی یا ریٹائرڈ اساتذہ کو کچھ وظیفہ دے کر کام چلانے کا کلچر روزافزوں ہے۔ چونکہ کسی مقتدرہ یا اتھارٹی کے پاس ان سے سوال جواب کرنے کی فرصت نہیں، اس لیے آخری ہدف بے چارے طالب علم کا وقت، اس کے والدین کی جیب اور پاکستان کا مستقبل ہے۔ اگر لاہور جیسے بڑے شہر کے بڑے کالجوں میں یہ تجربہ عبرت کا نشان بن چکا ہے، تو پھر مضافات میں اور وہ بھی تھوک کے حساب سے کالجوں میں یہ نظام لانا، کس تعلیمی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔

یہاں پر یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ پنجاب یونی ورسٹی جیسے باوقار تعلیمی ادارے نے بھی دوچار سال بعد، سالِ رواں سے بہت سارے شعبہ جات میں سمسٹرسسٹم ختم کر دیا ہے۔ لیکن حکومت کے مشیر، وزیراعلیٰ پنجاب کو یہ سبق دے رہے ہیں کہ: ’’آپ بورڈ آف گورنرز اور چار سالہ ڈگری کورس مع سمسٹر سسٹم پنجاب بھر میں پھیلا دیجیے۔ اس طرح ایشیائی ٹائیگر بن جائیں گے‘‘۔  یاد رہے اس سسٹم میں جو پڑھاتا ہے، وہی پرچہ بناتا ہے اور خود ہی پرچے کے نمبر لگاتا ہے۔ نمبروں کے اس جمعہ بازار کے بل پر ڈگریاں لینے والے لوگوں کے سامنے تو کئی غیرڈگری یافتگان کے   سر فخر سے بلند ہوجائیں گے، کہ بھائی ہم تم سے بہتر ہیں۔

  • اس سسٹم کو نافذ کرنے کے نتیجے میں، ان کالجوں میں دو سالہ ڈگری کورس کے جن   طلبہ و طالبات کا داخلہ ختم ہوجائے گا، ان کے مستقبل کا کیا بنے گا؟ نئے استاد، ڈاکٹریٹ کی جعلی ڈگریوں کے ساتھ کس اعزازیے پر تشریف لائیں گے اور چار سالہ ڈگری کے طلب گار طالب علم، کیسا فیضِ علم پائیں گے، اس کا فیصلہ تو سال بھر میں ہوجائے گا، لیکن ہزاروں طالب علموں کے تعلیمی مستقبل کو جو صدمہ پہنچے گا، اس کی تلافی کوئی پنجاب اسمبلی اور کوئی سپریم کورٹ نہ کرسکے گی، جب کہ اس ڈگری کے لیے ہر بورڈ آف گورنر اپنی من مانی کے ساتھ مہنگی فیسوں کا طوفان برپا کرتا رہے گا۔ کیا حکومت پنجاب، عوام کے نام پر، عوام کے بچوں کے تعلیمی اداروں کو نئے ساہوکاری نظام کی نذر کرنا چاہتی ہے؟ عقل اس منطق کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اسی طرح یہ سوال بھی اہمیت اختیار کر جائے گا کہ دو سالہ ڈگری حاصل کرنے والے طالب علموں کا کیا مستقبل ہے؟ کیونکہ ۲۵،۳۰ کالجوں میں مہنگی تعلیم اور من مانے نمبر حاصل کرنے والے امیرزادے تو ان بے زر   طالب علموں کو پچھاڑ کر آگے نکل چکے ہوں گے۔
  • اسی طرح مبینہ طور پر حکومت اس فیصلے کو بھی آخری شکل دے رہی ہے کہ پنجاب کے ۴ہزار کالج پروفیسروں کوجبری طور پر ریٹائر کردیا جائے، تاکہ خزانے پر سے بوجھ کم ہو۔ ایک طرف خزانے سے بوجھ ہٹانے کا یہ ظالمانہ منصوبہ اور دوسری جانب ٹھیکے (یعنی کنٹریکٹ) پر غیر تربیت یافتہ اور اپنے تدریسی مستقبل کے بارے میں خوف زدہ استادوں کی بھرتی___ کیا اس نوعیت کے فیصلے سے پنجاب میں علم و ہنر کے پھول کِھلیں گے یا تعلیم و دانش کا دیوالیہ نکلے گا؟
  • شریف حکومت اپنے مرکزی حلیفوں کے ساتھ مل کر متضاد رویوں کی عکاس ایک تعلیمی پالیسی کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جس میں انٹر کی کلاسیں رفتہ رفتہ اسکولوں میں منتقل کردی جائیں گی، جہاں نہ لیبارٹریاں موجود ہیں اور نہ اس درجے کا تربیت یافتہ عملہ۔ دوسری جانب سوال یہ ہے کہ کالجوں کے اتنے بڑے رقبوں اور عمارتوں کا کیا بنے گا؟ جواب صاف ظاہر ہے کہ انھیں کوئی بیکن ہائوس، کوئی سٹی ٹائپ یا کوئی اور گروپ آف کالجز وغیرہ اُچک لیں گے۔ رسمی سا کرایہ دیں گے اور کسی کنگرو اسمبلی کی چھوٹی سی قرارداد سے وہ رسمی رقم بھی ہمیشہ کے لیے معاف کرا لیں گے۔ کیا اس اندھیرنگری کی طرف اسی جمہوری دور میں سفر کرنا تھا؟ یاد رہے ریلوے کے بڑے بڑے اسکول، جہاں مزدوروں کے بچے پڑھا کرتے تھے۔ آج ان کی ملکیت یا کنٹرول تبدیل ہوجانے کے سبب وہ بچے ان اسکولوں کے قریب سے بھی نہیں گزر سکتے۔
  • پنجاب حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر ایک ٹاسک فورس اس سلسلے میں بھی کام کررہی ہے کہ جن جن کالجوں میں بی کام کی تعلیم دی جارہی ہے، اس بی کام کی تعلیم کو نجی شعبے کے حوالے کردیا جائے۔ کیا حکومت نے پولیس اور عدلیہ کو بھی رفتہ رفتہ نجی شعبے کے ہاتھوں بیچنے کا فیصلہ کرلیا ہے!

اگر پنجاب حکومت کے اعلیٰ دماغ ایسا نہیں چاہتے، تو پھر سوال یہ ہے کہ وہ ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے والا یہ کھیل کیوں کھیل رہے ہیں؟

 

’’ایک ،دو، تین___ نہیں، یہ تو چار، پانچ، چھے درجن سے بھی زیادہ ہیں، جنھوں نے  بی اے کی جعلی ڈگری کی بنیاد پر صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے انتخابات میں نشستیں حاصل کی ہیں‘‘۔ یقینی بات ہے کہ خود ہارنے والے امیدواروں کی بھی ایک بڑی تعداد نے ایسے ہی حلفیہ بیان داخل کرائے ہوں گے، جس میں غلط اعداد و شمار کے سچا ہونے کی قسم کھائی گئی تھی۔ یاد رہے کہ ایسے جھوٹے ارکانِ اسمبلی کی ایک قابلِ لحاظ تعداد کے ساتھ گذشتہ اسمبلیاں (۰۷-۲۰۰۲ئ) پانچ سال مکمل کرچکی ہیں، اور دوسری اسمبلیوں نے دو سال پورے کرلیے ہیں۔

یہ امر جس قدر افسوس ناک ہے، اپنے نتائج کے اعتبار سے اس سے بہت زیادہ سنگین ہے۔ جعلی ڈگریوں کے اجرا سے پیدا شدہ جرائم کا یہ سلسلہ، ان جعلی اور جھوٹے دعووں سے جاملتا ہے، جنھیں بعض مہاجرین نے متروکہ املاک کو ہتھیانے کے لیے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ اس لوٹ کھسوٹ میں چند بااثر تو مال و متاع لے اُڑے، مگر مہاجرین کی بہت بڑی تعداد اپنے جائز حق سے بھی محروم رہ گئی۔ نتیجہ یہ کہ حسرت، ناکامی اور محرومی کے اس زہر    نے ہزاروں خاندانوں کے مستقبل کو ڈس لیا۔ جھوٹ کے اس کاروبار نے آنے والے دنوں میں  قسم قسم کی سماجی بیماریاں پیدا کیں۔ مثال کے طور پر:

۱- پس ماندہ علاقوں کے بچوں کے لیے کوٹے کی محفوظ نشستوں پر شب خون مارنے    کے لیے جعلی ڈومیسائل تیار کر کے اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینیریا سول سرونٹ بنانا۔

۲- پی ایچ ڈی کی جعلی ڈگریاں حاصل کر کے معاشرے پر دھونس جمانا، ملازمت میں ترقیاں پانا، گریڈ حاصل کرنا، اور ماہانہ دس پندرہ ہزار روپے بھتہ وصول کرنا (اس قماش کی دھاندلی زدہ ڈگریوں میں خون پسینہ ہمسایے کا، سفارش دوست کی، ماہانہ وظیفہ ریاست کا اور صرف نام اپنا استعمال ہوتا ہے)۔

۳- صوبائی اور قومی اسمبلی کے لیے ۲۰۰۲ء میں لازم کیا گیا کہ کم از کم گریجوایٹ فرد اس انتخاب میں حصہ لے سکے گا۔ اس قانون کا احترام کرنے اور معقول طریقے سے اس کو تبدیل کرانے کے بجاے، قومی قیادت کے لیے سامنے آنے والوں کی ایک تعداد نے جعل سازی کا ارتکاب کیا اور جعلی ڈگریوں کے ساتھ کاغذات نامزدگی داخل کرائے اور الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔

خاص طور پر ۱۹۵۵ء کے بعد وحدتِ مغربی پاکستان (ون یونٹ) کے زمانے سے، اور پھر بعد میں بھی جعلی ڈومیسائل کی بنیاد پر، پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں داخلہ حاصل کرنے کے لیے، سیاست دانوں اور اعلیٰ سرکاری ملازمین کی ملی بھگت نے پس ماندہ علاقوں میں احساسِ محرومی کو    نہ صرف بڑھایا، بلکہ اس کے نتیجے میں مرکز گریز قوتوں کو وجود بخشا اور تقویت دی۔ دیکھا جائے تو اس دھاندلی سے محض چند سو طالب علموں نے حق داروں کی حق تلفی کی، لیکن جوابی ردعمل میں وہاں سے ملک کے کروڑوں شہریوں کو نفرت کا پیغام ملا۔ جن لوگوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے، اور جو ریاست کے معاملات کے امین ہیں، ان کا یہ اقدام ملک سے بے وفائی، اختیارات کے ناجائز استعمال اور دھاندلی کا مرتکب قرار پایا، مگر قوم بے بسی میں ان کا احتساب تک نہ کرسکی۔

جعلی ڈگریوں کے اجرا میں اس نوعیت کی مثالیں سامنے آئی ہیں:

پہلی یہ کہ کچھ لوگوں کو وہم ہے کہ نام کے ساتھ ’ڈاکٹر‘ لگانے سے غالباً عزت میں اضافہ ہوتا ہے یا اس سے زندگی ذرا لمبی ہوجاتی ہے۔ حالانکہ یہ دونوں فضول وہم ہیں۔ جنرل محمد ضیا الحق مرحوم کی حکومت میں وزیرخزانہ ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم نے پی ایچ ڈی کرنے والوں کے لیے چند ہزار روپوں کا اضافی الائونس دینے کا اعلان کیا، تو اس چیز نے ’عزت‘ کے بحران پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ ’جیب‘ گرم کرنے کا دروازہ بھی کھول دیا۔ یوں جائز، اہل اور محنتی محققین کے ساتھ فراڈ، نالائق اور جعلی ’ڈاکٹروں‘ کی بھی ایک فصل تیزی سے پک پک کر تیار ہونا شروع ہوئی۔

حکومت نے لوگوں کو تحقیق کے راستے پر چلنے کے لیے اُبھارا مگر یونی ورسٹیوں کے   بعض اساتذہ نے یہاں بھی جرم کا ارتکاب کیا، انھوں نے اپنے ہاتھوں سے متعدد جعل سازوں کو ڈاکٹریٹ کی عباے فضیلت پہنانے کا گناہ کیا۔ اس ضمن میں اپنے گروہ کو نوازنے کے ’بے لوث‘ جذبے اور تعلقات کی برکھا نے جل تھل کردیا۔ ایسی ’پی ایچ ڈیوں‘ میں عموماً شعبہ ہاے اسلامیات، اور شعبہ ہاے ادبیات، پھر سماجیات، نمایاں نظر آتے ہیں۔ اگر گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو  مذہبی طبقے کے ایک گروہ نے ایسی ڈاکٹریٹ حاصل کرنے میں زیادہ سرگرمی دکھائی ہے۔ بعض مقالے تو کسی ’گھوسٹ محقق‘ نے لکھے، پروف دوسرے لوگوں نے پڑھا اور بعض مقالے دس بارہ لوگوں نے انٹ شنٹ ٹکڑے جوڑ کر تیار کیے اور مستقبل کے ڈاکٹر صاحب نے، محض کمپوزنگ کرانے اور جِلد بنوانے کا کرب برداشت کیا۔ دوسری طرف ۵سو ڈالرفیس دے کراسپین یا امریکا سے ڈگریاں حاصل کرنے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ طرفہ تماشا دیکھیے کہ ایسے مقالات پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری کا اعلان کرنے کے ساتھ، مقالے کی قدروپیمایش کرنے والے محققین کی اس راے کا پورا احترام کیا جاتاہے: ’’ڈگری دے دی جائے، مقالہ شائع کرنے کی اجازت نہ دی جائے‘‘۔ کیا ایسے مقالات میں ریاست کا کوئی خفیہ راز پوشیدہ ہوتا ہے یا کوئی مخرب اخلاق حوالہ؟ اصل میں یہ مقالے اس قابل نہیں ہوتے کہ اشاعت کے بعد یونی ورسٹی کی نیک نامی کا سبب بن سکیں۔ بعض دُوراندیش ڈاکٹر صاحبان تو انتظامیہ سے ملی بھگت کرکے اپنے مقالے کی کاپی لائبریری تک پہنچنے ہی نہیں دیتے، اور مقالے کا اسقاط اپنے یا یونی ورسٹی کلرکوں سے کراد یتے ہیں۔ اسی کو کہتے ہیں: آزادی! کس وقت شوکت تھانوی کا افسانہ ’سودیشی ریل‘ یاد آیا ہے۔

ان دوسری قسم کا تعلق بعض مذہبی عناصر سے جڑتا ہے۔ اگرچہ دینی مدارس کے اساتذہ کرام، تقویٰ، للہیت اور علم و ایثار میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، اور یہی وجہ ہے کہ جب وہ کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھ کر دے دیا کرتے تھے کہ: ’’اس برخوردار سے مَیں نے سنا اور اسے پڑھانے کی اجازت دی‘‘ تو وہ فرد علما کی صف میں شامل ہوجاتا تھا۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے بجاطور پر  دینی مدارس سے درسِ نظامی پاس کرنے والے طالب علموں کو ایم اے عربی اور ایم اے اسلامیات کے برابر تسلیم کرنے کا اعلان کیا ، تو اس چیز پر اظہارِ تشکر کے بجاے، مختلف فرقہ وارانہ مسالک نے اپنے امتحانی نظام میں لچک پیدا کی یا نمبر دینے میں سخاوت کا مظاہرہ کیا، یا اپنے ہم مسلکوں کو ڈگری دینے میں فراخ دلی کا ثبوت دیا۔ اس طرح وہ فضا پیدا ہوئی، جس میں خود دینی مدارس کے   علماے کرام کو سخت دل گرفتگی میں یہ کہنا پڑا: ’’اس ایم اے کے برابر درجے کی ڈگری نے تو ہمیں سخت نقصان پہنچایا ہے۔ اس دوڑ میں شرکت کی خواہش نے حصولِ علم کی خواہش کو بُری طرح پامال اور گریڈ ۱۷ کی نوکری حاصل کرنے کی بھوک میں اضافہ کیا ہے‘‘۔ پھر ایسا بھی ہوا کہ بعض دینی مدارس کے بورڈوں نے اور بعض منتظمین نے وہ راستہ اختیار کیا، جس پر ندامت کے پسینے کے سوا اور کیا بہایا جاسکتا ہے۔ ان جملوں سے یہ نہ سمجھا جائے کہ تمام وفاق یا دینی مدارس کا ہرطالب علم اسی طرح کر رہا ہے، حاشا وکلا ایسا نہیں ہے، مگر اُوپر جو صورت بیان کی گئی ہے، اس کے بھی خاطرخواہ شواہد موجود ہیں۔ نقل یا دھاندلی ہر جگہ جرم ہے، لیکن اگر اس بیماری کا چلن مذہبی طبقے میں جڑ پکڑ لے تو صورت حال دھماکا خیز ہوجاتی ہے۔

تیسری قسم ہماری یونی ورسٹیوں اور کالجوں کے ان پروفیسر صاحبان پر مشتمل ہے، جنھوں نے ترقیاں پانے کے لیے، ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حصول میں ایسی خیانت کاری (plagarism) کی مثالیں پیش کی ہیں کہ سر ندامت سے جھک جاتا ہے۔ ان ’ڈاکٹروں‘ نے مقالوں کی تیاری میں حددرجہ جادوگری دکھائی ہے۔ یہ ایسا موضوع ہے جس پر الگ مضمون کی گنجایش ہے۔

پھر چوتھی صورت یہ سامنے آئی کہ جب بی اے کی ضرورت پورا کرنے کے لیے براہِ راست ایم اے کی ڈگری کے برابر مذہبی وفاق کی ڈگری مل سکتی ہے تو اس سے کیوں نہ استفادہ کیا جائے۔ اسی باعث ایک تعداد نے مذہبی بورڈوں کی ڈگری سے اپنی امیدواری کو ’جائز‘ بنایا۔ اگرچہ ایسی مثالیں درجن بھر ہی کیوں نہ ہوں، مسند ِ ارشاد و تقویٰ کے وارثوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کی ساکھ کو کن ظالموں نے نقصان پہنچا کر جگ ہنسائی کا سامان مہیا کیا ہے۔

اس کے بعد ہے باری اُس نوعیت کی، جس کے تحت بی اے کی جعلی ڈگریاں لے کر دھڑلے سے انتخابات میں حصہ لیا گیا۔ ایسے ہرکیس کو بدترین جعل سازی بلکہ ڈاکا زنی اور   دہشت گردی کا کیس تصور کرتے ہوئے تحقیقات کی جانی چاہیے۔ اگر پارلیمنٹ، سقراط کے الفاظ میں: ان لوگوں کا گڑھ نہیں ہے جو عوام کے بجاے صرف اپنے ہی مفاد پر نظر رکھتے ہیں۔ تو پھر انھیں اس بارے میں قانون سازی کرنا ہوگی۔ وگرنہ عدالت، عوام اور میڈیا اپنا راستہ خود تلاش کرلیں گے۔ اس پس منظر میں صرف ۲۰۱۰ء کی چند خبریں ملاحظہ فرمایئے:

  • ۲۸ مارچ ۲۰۱۰ء دی نیوز انٹرنیشنل اسلام آباد میں عثمان منظور نے رپورٹ کیا: ’’جعلی ڈگریوں کے حامل مزید ارکانِ پارلیمنٹ خطرے کی زد میں آگئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے   رکن قومی اسمبلی جمشید دستی اور مسلم لیگ ق کے رکن اسمبلی نذیر جٹ نے سپریم کورٹ میں جعلی ڈگری ثابت ہونے کے بعد استعفا دے دیا ہے، مگر یہیں پر ایک دل چسپ منظر یہ بھی دیکھیے: صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب آصف علی زرداری کی جانب سے یہ چیز ریکارڈ پر لائی گئی تھی کہ انھوں نے پیڈنٹن [Pedinton] اسکول، لندن سے ’کاروباری انتظامیات‘ اور معاشیات میں ڈگری لی تھی۔ تاہم ۲۰۰۸ء کے عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی ویب سائٹ سے یہ ثبوت ہٹا دیا گیا۔ دراصل تحقیق کاروں نے پیڈنٹن اسکول کو لندن ہی نہیں بلکہ پورے برطانیہ میں تلاش کرنے کی بارہا کوشش کی، مگر کسی جگہ اس ادارے کو موجود نہ پایا گیا۔ برٹش کونسل نے بھی برطانیہ میں ایسے کسی ادارے کا وجود تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ تاہم اس سے ملتا جلتا ایک ادارہ پیڈنگٹن [Pedington] سڈنی، آسٹریلیا میں مل گیا، مگر وہاں پر صرف نرسری سے انٹرمیڈیٹ تک تدریس ہوتی ہے۔  اندریں اثنا صدر آصف زرداری کی ہمشیرہ ڈاکٹر عذرا صاحبہ نے دی نیوز کے رپورٹر عمرچیمہ کو بتایا کہ: ’’میرے بھائی آصف نے سینٹ پیٹرکس کالج کراچی سے ڈگری کا امتحان پاس کیا تھا‘‘، مگر معلوم کرنے پر کالج انتظامیہ نے اپنے ریکارڈ میں ایسے کسی فرد کا نام نہ پایا۔

اسی طرح پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما اور وفاقی وزیر عدل و قانون جناب بابر اعوان کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے بارے میں قوی شکوک و شبہات موجود ہیں، جب کہ وہ اس بات سے انکاری ہیں۔ بابر اعوان نے مونٹی سیلو [Monticello] یونی ورسٹی سے ڈگری لینے کا دعویٰ کر رکھا ہے، اور صورت یہ ہے کہ امریکی ایجوکیشنل فائونڈیشن (USEF) نے تصدیق کی ہے کہ: ’’یہ یونی ورسٹی نہ تو ڈگری پروگرام کرا سکتی ہے اور نہ پی ایچ ڈی کے کورس ہی پیش کرسکتی ہے، بلکہ اس نام نہاد    یونی ورسٹی کو ۲۰۰۰ء میں اس نوعیت کے فراڈ کرنے پر ۱۷ لاکھ ڈالر جرمانہ کرکے بند کر دیا گیا تھا‘‘۔ پھر ہائرایجوکیشن کمیشن بھی اس یونی ورسٹی کو جعلی قرار دیتا ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ق) فارورڈ بلاک کے رکن قومی اسمبلی میاں طارق محمود (گجرات) کی ڈگری بھی مشکوک ہے۔ اس میں     دل چسپ امر یہ ہے کہ میاں طارق محمود (پیدایش: ۵مئی ۱۹۵۵ئ) ۱۹۷۱ء میں سرگودھا بورڈ سے میٹرک کا امتحان دینے کے لیے رجسٹرڈ ہوئے، مگر وہ میٹرک کا امتحان پاس نہ کرسکے۔ انھوں نے جس طارق محمود کی ۲۰۰۳ء کی گریجوایشن کی ڈگری جمع کروا کے نامزدگی منظور کرائی، اس طارق محمود کی تاریخ پیدایش ۲مارچ ۱۹۷۸ء ہے، اور اس نے گوجرانوالہ بورڈ سے ۱۹۹۵ء میں انٹر کا امتحان پاس کیا تھا۔ یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی حاجی ناصر ایسی جعلی مذہبی ڈگری لینے کے جرم میں نااہل قرار پاچکے ہیں۔ جنرل مشرف کابینہ کے دو وزراے مملکت بھی جعلی ڈگریوں سے آراستہ تھے۔ سابق سینیٹر پری گل آغا کی ڈگری کو بھی چیلنج کیا گیا، مگر کوئی جواب دینے کے بجاے ۱۷ویں ترمیم جیسا کارنامہ انجام دے کر، وہ اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوئی ہیں۔ (روزنامہ، دی نیوز انٹرنیشنل، ۲۸ مارچ ۲۰۱۰ئ)

  • پنجاب صوبائی اسمبلی کے ۲۹ ارکان کی جعلی ڈگریوں پر مشتمل کیس لاہور ہائی کورٹ کے انتخابی ٹریبونل میں زیرسماعت ہیں، جس میں تینوں پارٹیوں مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) اور پیپلزپارٹی کے وابستگان شامل ہیں۔ یاد رہے ان مبینہ ۲۹ ملزم ارکانِ اسمبلی میں پانچ خواتین  ارکانِ اسمبلی بھی جعلی ڈگریوں کی حامل قرار دی جارہی ہیں (The Peninsula،قطر، ۲ مئی ۲۰۱۰ئ)
  • منڈی بہائوالدین سے پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی محمدطارق تارڑ، ملتان یونی ورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے دعوے دار ہیں، مگر وہ اپنا نام تک انگریزی میں نہیں لکھ سکتے۔ ان کا مقدمہ لاہور ہائی کورٹ ملتان بنچ میں زیرسماعت ہے ( دی نیشن، لاہور، ۱۲ مئی ۲۰۱۰ئ)
  • مسلم لیگ (ن) نے پنجاب صوبائی اسمبلی کے ان ۵۴ ارکان اسمبلی کی فہرست تیار کی ہے، جو اگرچہ مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں، مگر ان میں قدر مشترک ایک ہی ہے، اور  وہ ہے گریجوایشن کی جعلی ڈگریاں۔ (روزنامہ ڈیلی ٹائمز، لاہور، ۷مئی ۲۰۱۰ئ)

ذرا غور کیجیے کہ جن لوگوں نے جھوٹ کے بل بوتے پر حقِ نمایندگی حاصل کیا، ان کے ہاتھوں قانون سازی کی حیثیت کیا ہوگی۔ حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر جو ایسے لوگوں کو دوبارہ اپنی پارٹیوں میں نہ صرف شامل کر رہے ہیں، بلکہ انھیں پارٹی ٹکٹ اور عہدے بھی دے رہے ہیں (جعل سازی پر نااہل قرار پانے والے جمشید دستی کو بڑی دیدہ دلیری سے پیپلزپارٹی نے پھر   قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے نامزد کیا اور وہ جیت بھی گئے)۔ اس میں زیادہ افسوس ناک طرزِعمل الیکشن کمیشن کا رہا ہے کہ جس نے ایسی عذرداریوں کی سماعت کے لیے سال ہا سال ضائع کیے، حالانکہ یہ مقدمے دو، تین پیشیوں سے زیادہ بحث و تفتیش کے متقاضی نہ تھے۔ یعنی یہی معلوم کرنا تھا کہ فلاں فرد نے جو بی اے کی ڈگری جمع کرائی ہے، کیا متعلقہ یونی ورسٹی اسے اپنے ریکارڈ کے مطابق درست قرار دیتی ہے؟ (ارکانِ اسمبلی کی ایسی دستاویزات کے اندرجات الیکشن کمیشن اپنی ویب سائٹ پر بھی مہیا کرسکتا تھا)۔ اسی طرح مذہبی بورڈوں سے منسوب ایسے مشکوک امیدواروں سے، عدالت میں قرآن، حدیث اور سبع معلقہ سے آٹھ آٹھ سطروں کا ترجمہ سن کر ان کی اہلیت کو متعین کیا جاسکتا تھا، بلکہ خود براہِ راست دینی امور پر بحث بھی اُن کی حقیقت کو بے نقاب کرسکتی تھی۔ (یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے میڈیکل کالجوں اور انجینیرنگ یونی ورسٹیوں میں داخلے کے لیے حافظِ قرآن امیدواروں کی محض سند کی بنیاد پر اہلیت کا فیصلہ نہیں کیا جاتا، بلکہ    تین رکنی بورڈ براہِ راست ان امیدواروں سے قرآن سن کر ان کی اہلیت کا فیصلہ کرتا ہے)۔ لیکن افسوس کہ ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا، اور یہ نمایندے فریب کاری کرتے ہوئے، عزت کے مقام اور قانون سازی کی مسند پر بیٹھے مزے اُڑاتے رہے۔

یہاں لازم ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کو دیکھیں: ارشاد ہے:

  • ’’ایک بندئہ مومن کی فطرت میں خیانت اور جھوٹ کا وجود ممکن نہیں‘‘ (مسنداحمد، بیہقی)۔
  • ’’یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی جھوٹی بات بیان کرو، حالانکہ وہ تم کو اس بیان میں سچا سمجھتا ہو‘‘(ابوداؤد)۔
  •  ’’جس شخص نے حاکم کے سامنے جھوٹی قسم کھائی، تاکہ اس کے ذریعے کسی مسلمان کا مال مار لے، تو قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حال میں اس کی پیشی ہوگی کہ اللہ اس پر سخت غضب ناک اور ناراض ہوگا‘‘(بخاری، مسلم)۔ l ’’جو شخص خیانت کرنے والے کی خیانت کو چھپائے تو وہ بھی اسی [خیانت کار] کی مانند ہے‘‘ (ابودائود)___ ان احادیث مبارکہ سے ایسے جعل ساز ڈگری یافتگان کی حیثیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اور اب یہ خبر ملاحظہ ہو:

  •  ’’پاکستان الیکشن کمیشن نے ان ارکان صوبائی و قومی اسمبلی کے بارے میں، جنھوں نے جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لیا، انھیں سبق سکھانے اور سیاسی عمل سے باہر نکال دینے کے لیے حکم جاری کیا ہے۔ قائم مقام چیئرمین الیکشن کمیشن جسٹس جاوید اقبال نے ہدایت کی ہے کہ جعلی ڈگریوں والے ممبران اسمبلی کے خلاف فوج داری مقدمات درج کیے جائیں، ایسے مقدمات قانون کے مطابق فوری طور پر نمٹائے جائیں، اور انھیں آیندہ الیکشن میں حصہ لینے سے روکا جائے۔ جعلی دستاویزات اور جھوٹے بیاناتِ حلفی داخل کرنا سنگین بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے، ان کے خلاف عوامی ایکٹ ۱۹۷۶ء (سیکشن ۷۸) کے تحت سیشن جج کے روبرو جانا لازم ہے‘‘ (روزنامہ ایکسپریس، نواے وقت، جنگ، ۷ مئی ۲۰۱۰ئ)

کیا جناب جاوید اقبال کی اس خواہش کا حشر بھی ’این آر او‘ والے فیصلے پر عمل درآمد کے نام پر بلی چوہے کا کھیل تو نہیں بنا دیا جائے گا؟ مگر ظاہر ہے دعوے کا جواب دعویٰ بھی ہوتا ہے اور بقول ہیگل: Thesis کا Anti-Thesis۔ اسی کا نتیجہ دیکھیے کہ چیئرمین الیکشن کمیشن کے بیان کے چھے روز بعد اسی الیکشن کمیشن کے سیکرٹری صاحب فرماتے ہیں: ’’فروری ۲۰۰۸ء کے عام انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن میں ۷۰ پیٹشنز جعلی ڈگریوں سے متعلق تھیں۔ الیکشن کمیشن ان میں سے ۲۴ پر فیصلے دے چکا ہے۔ جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر گذشتہ عام انتخابات میں حصہ لینے والے نااہل نہیں ہیں‘‘ (روزنامہ نواے وقت، لاہور، ۱۳ مئی ۲۰۱۰ئ)۔ اس اُڑتی ہوئی دھول میں چیئرمین صاحب کا فرمایا سچ سمجھا جائے یا سیکرٹری صاحب کو معتبر جانا جائے۔ قانون کا احترام کیا جائے یا احکامِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پاس داری کی جائے۔

موشگافیوں کو چھوڑ کر حکومت کو چاہیے کہ وہ ان لوگوں کو، جو جعلی ڈگریاں لے کر مسندِ تدریس پر بیٹھے ہیں یا مسندِ حکومت پر براجمان ہیں، ان کو نااہل قرار دینے کے ساتھ، ان سے تمام وصول شدہ تنخواہوں، الائونسوں اور تحفوں کو نہ صرف واپس لے، بلکہ بھاری جرمانے بھی وصول کرے۔ مزید یہ کہ فراڈ کے جرم کی جو سخت ترین سزا ممکن ہے، اسے بھی ان پر نافذ کرے۔ احتساب اور شفافیت نے آخر کہیں سے تو اپنے سفر کا آغاز کرنا ہے۔ پاکستان کے عوام اس قافلۂ عدل کے مدتوں سے منتظر ہیں۔ شاید وہ گھڑی آن پہنچی ہے ، جب کہہ سکیں کہ ’ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘۔

اسلامی چھاترو شبر کے تین کارکن شہید اور:’’ سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ گرفتاریاں ڈھاکہ، سلہٹ، چٹاگانگ، راج شاہی، پبنہ، تنگائل، برہمنا باڑیہ، چاندپور، رنگ پور وغیرہ سے  عمل میں لائی گئیں‘‘ (دی ڈیلی اسٹار، ۱۳ فروری۲۰۱۰ئ)۔ فروری کا مہینہ بنگلہ دیش میں طالب علموں کی اسلامی تحریک اور جماعت اسلامی کے لیے ابتلاو آزمایش کا کڑا موسم لے کر آیا۔

اگرچہ گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران میں عوامی لیگ کا بنیادی ہدف بنگلہ دیش جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر ہی رہی ہے، لیکن یہ ساری یلغار منفی پروپیگنڈے، بیانات اور دھمکیوں تک محدود تھی۔ تاہم فروری ۲۰۱۰ء کے پہلے عشرے میں لیگی حکومت نے ان پر دائرۂ حیات کو تنگ کرنے کے لیے گوناگوں اقدامات شروع کیے۔ ان واقعات کے ذکر سے ذرا پیچھے نظر دوڑاتے ہیں تو     یہ حقائق سامنے آتے ہیں۔

بھارت کا تھنک ٹینک سائوتھ ایشین اینلسز گروپ (SAAG) اپنی ۲۷ جون ۲۰۰۷ء کی تحقیقی رپورٹ نمبر۲۲۷۵ میں بھارت اور بنگلہ دیش کی حکومتوں کو ’خبردار‘ کرتا ہے: ’’بنگلہ دیش میں جمہوریت کے لیے خطرہ: اسلامی چھاترو شبرہے‘‘۔ بھارت کی سرزمین سے اس نوعیت کی پروپیگنڈا رپورٹ میں لکھا ہے: ’’۱۹۷۱ء میں جب بنگالی عوام نے پاکستان کے خلاف مسلح جدوجہد کے لیے ہتھیار اُٹھا لیے تھے، تو اسلامی چھاتروشبر کی پرانی تنظیم اسلامی چھاترو شنگھو (اسلامی جمعیت طلبہ) نے اس کی مزاحمت کی تھی… اسلامی چھاترو شبر فروری ۱۹۷۷ء کوڈھاکہ یونی ورسٹی کی جامع مسجد میں تشکیل دی گئی، اور اس نے ۱۹۸۲ء میں چٹاگانگ یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کا الیکشن جیت کر تعلیمی اداروں میں اسلامی فکر کی ترویج کا کام شروع کیا۔ آج وہ بنگلہ دیش میں جمہوریت اور سیکولرزم کے لیے خطرہ بن چکی ہے‘‘___ اس طرح بھارت کی طرف سے واضح ہدف دیا گیا کہ آیندہ کیا کرنا مطلوب ہے، یعنی شبر اور جماعت اسلامی کو نشانہ بنانا۔ یہ ہے وہ کھیل جوقدم بہ قدم آگے بڑھتا ہوا آج کے بنگلہ دیش کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک دوسرا منظر بھی دیکھیے۔ ۲۰۰۸ء سے بنگلہ دیش جماعت اسلامی اور چھاترو شبر مسلسل عوامی لیگ کے نہایت زہریلے بلکہ گالیوں اور بے ہودہ الزامات سے آلودہ پروپیگنڈے کی زد میں رہیں، کیونکہ وہ سال انتخابات کا سال تھا۔ اسی سال الیکشن کمیشن نے جماعت اسلامی سے مطالبہ کیا کہ وہ اسلامی نظام کے نفاذ سے متعلق اپنے دستور، منشور اور لائحہ عمل میں تبدیلی کرے۔ یہ نفسیاتی، ابلاغی اور اداراتی سطح پر عجیب نوعیت کا دبائو تھا، جس نے جماعت اور اس کی برادر تنظیمات کے لیے پریشانی پیدا کی۔

۱۹ جنوری ۲۰۱۰ء کو جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمن نظامی نے ’بنگلہ دیش- بھارت مشترکہ اعلامیے‘ کو اہلِ بنگلہ دیش کی معاشی زندگی کے لیے بُری طرح نقصان دہ معاہدہ قرار دیا اور اعلان کیا کہ ’’جماعت اسلامی: بھارت-بنگلہ دیش معاہدے، آئین میں پانچویں ترمیم کی منسوخی اور مجوزہ تعلیمی پالیسی کے منفی پہلوئوں کے خلاف عوام میں بیداری پیداکرنے کی مہم چلائے گی‘‘(دی ڈیلی اسٹار، ۲۰ جنوری ۲۰۱۰ئ)۔ اس بیان کے صرف پانچ روز بعد، یعنی ۲۴ جنوری کو ’’بنگلہ دیش الیکشن کمیشن نے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل کو خط لکھا کہ وہ جماعت اسلامی کا چارٹر تبدیل کریں، اپنے پروگرام میں سے اس نکتے کو حذف کریں کہ جماعت، بنگلہ دیش میں منظم جدوجہد کے ذریعے اسلامی نظام کا نفاذ چاہتی ہے۔ پھر جماعت اسلامی کے دستور کی ان بہت سی دفعات کو ختم کیا جائے جو اپنے وابستگان کو اسلامی نظام کے نفاذ کی راہیں دکھاتی ہیں، ایسا لائحہ عمل ریاستی دستور کے مزاج کے یک سر منافی ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی نے اپنے دستور میں اور تمام تنظیمی سطحوں پر قائم شدہ کمیٹیوں میں عورتوں کو ۳۳ فی صد نمایندگی دینے کا بھی اہتمام نہیں کیا ہے۔ پھر جماعت اسلامی نے غیرمسلموں کو پارٹی ممبرشپ دینے کے اعلان کے باوجود انھیں پارٹی پروگرام کا پابند بنایا ہے، اور وہ پروگرام اسلامی نظام کا نفاذ ہے، یہ بات ان غیرمسلموں سے امتیازی سلوک روا رکھنے کی دلیل ہے۔ ان تمام نکات کی روشنی میں اگر جماعت اسلامی نے اپنے معاملات کو دی گئی ہدایات کے مطابق درست نہ کیا توری پریزنٹیشن آف دی پیپلزآرڈر (RPO) کے تحت جماعت اسلامی کی موجودہ حیثیت تحلیل کر دی جائے گی‘‘ (ایضاً، ۲۵ جنوری ۲۰۱۰ئ)

ابھی الیکشن کمیشن کے اس نادر شاہی حکم کی صداے بازگشت ختم نہیں ہوئی تھی کہ آناً فاناً ۳فروری کو ڈھاکہ یونی ورسٹی میں ایم اے کے طالب علم اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکن ابوبکر صدیق کو قتل کر دیا گیا۔ ۱۱فروری کو پولیس ہی کی موجودگی میں اسٹوڈنٹس لیگ کے غنڈا عناصر نے راج شاہی یونی ورسٹی میں اسلامی چھاترو شبر کے کارکن اور ایم اے فائنل کے طالب علم حفیظ الرحمن کو گردن میں گولی مار کر قتل کیا، اور دیر تک میت کو گھیرے رکھا مگر پولیس نے کوئی کارروائی نہ کی۔ ۱۲فروری کو چٹاگانگ یونی ورسٹی میں اسلامی چھاترو شبر کے کارکن محی الدین کو قتل کر دیا گیا، اور تادمِ تحریر تدفین کے لیے میت نہیں دی گئی۔ ساتھ ہی اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو چٹاگانگ میڈیکل کالج، چٹاگانگ یونی ورسٹی اور محسن کالج سے گرفتار کرنا شروع کیا ،اور پہلے ہی ہلے میں ۹۶کارکنوں کو جیل میں دھکیل دیا گیا۔ ۹فروری کو راج شاہی یونی ورسٹی میں چھاترولیگ کا حامی  جاں بحق ہوا، اور اس واقعے کو بنیاد بناکر پورے ملک میں جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کی اندھادھند گرفتاریوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سرکاری ٹیلی ویژن، اخبارات، وزرا اور پولیس افسران کے بیانات نے فضا کو مزید دھواںدار بنا دیا۔ داخلہ امور کے وزیرمملکت شمس الحق ٹوکو نے کہا: ہم راج شاہی یونی ورسٹی اور راج شاہی شہر سے اسلامی چھاترو شبر اور جماعت اسلامی کو ختم کر کے دم لیں گے‘‘۔ اس کے پہلو بہ پہلو یہ خبر بڑے تسلسل کے ساتھ نشر کرنا شروع کی گئی: ’’امریکا، اسلامی چھاترو شبر کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا فیصلہ کر رہا ہے‘‘۔

جماعت اسلامی کے امیرمطیع الرحمن نظامی اور جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنے بیانات میں مطالبہ کیا کہ ’’راج شاہی یونی ورسٹی کے الم ناک واقعے کے ساتھ دیگر تعلیمی اداروں میں قتل و غارت گری کے تمام واقعات کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں تاکہ ذمہ داران کا تعین ہوسکے، اور اس منفی پروپیگنڈے سے پیدا شدہ فضا کو صاف اور حقائق کو منظرعام پر لایا جاسکے۔ جماعت اسلامی پُرامن، جمہوری، عوامی اور دعوتی پروگرام پر یقین رکھتی ہے، جس میں تشدد کا راستہ اپنانے کی کوئی گنجایش نہیں۔ (ایضاً، ۱۲فروری ۲۰۱۰ئ)

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمن نظامی نے اس کرب ناک صورت حال پر ۱۷فروری کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا: ’’جوں ہی مَیں نے ’بنگلہ دیش بھارت معاہدے‘ پر نقدو جرح کی تو بنگلہ دیش کی اسلامی قوتوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو قتل کیا گیا، جماعت اسلامی اور شبر کے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، کالجوں اور ہاسٹلوں سے پکڑ کر جیل خانوں میں پھینکا گیا ہے۔ حکمران عوامی لیگ نے اپنی پارٹی کے مسلح غنڈوں کو من مانی، پُرتشدد کارروائیاں کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے‘‘۔ اس مضمون میں بیان کردہ دیگر واقعات کا تذکرہ کرنے کے بعد جناب نظامی نے یہ بھی بتایا کہ: ’’۱۱فروری کو جہاں ایک طرف اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو مارا گیا، وہاں دوسری جانب راج شاہی میں جماعت اسلامی کے امیر اور اسکول ٹیچر عطاء الرحمن کو کمرۂ امتحان سے تشدد کرتے ہوئے گرفتار کیا، اور پانچ روزتک ٹارچر سیل میں رکھا گیا۔ ۱۲ فروری کو جماعت اسلامی چٹاگانگ کے امیر اور ممبر پارلیمنٹ شمس الاسلام کو پُرامن احتجاجی جلوس کی قیادت کرنے پر اس حالت میں گرفتار کیا کہ عوامی لیگ کے مسلح کارکنوں نے پولیس کی موجودگی میں جلوس پر دھاوا بول دیا اور ۱۰۰ سے زیادہ کارکنوں کو مارتے پیٹتے ہوئے جیل میں دھکیل دیا۔ ۱۲ فروری ہی کو جماعت اسلامی سلہٹ کے پُرامن اجلاس پر لاٹھی چارج کیا گیا اور عوامی لیگ کے مسلح افراد نے حملہ کرکے بیسیوں کارکنوں کو پکڑپکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔ مسلح غنڈوں نے جماعت اسلامی اور اسلامی شبر کے کارکنوں کے گھروں پر حملے کیے، دکانوں اور تعلیمی اداروں میں گھس کر کارکنوں کو سڑکوں پر لایا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس موقعے پر پولیس خاموشی سے تماشا دیکھتی رہی۔ یہ واقعات فسطائیت کی تصویر اور جمہوریت کی توہین اور انسانیت کی تذلیل ہیں، جنھیں کوئی باشعور فرد برداشت نہیں کرسکتا‘‘۔

ان واقعات کی کڑیوں کو ملانے سے پیداشدہ صورت حال، مستقبل کے ایک سنگین منظرنامے کی طرف توجہ دلاتی ہے:

                ۱-            سیکولر قوتیں، موجودہ عالمی فضا سے فائدہ اُٹھا کر، دینی قوتوں کو میدان سے باہر نکالنے کے لیے ہرمنفی حربہ استعمال کریں گی۔

                ۲-            اس شاطرانہ عمل کے لیے امریکا اور بھارت سے ہمدردی کا دم بھرتے ہوئے ، ان کی ڈپلومیٹک حیثیت سے فائدہ اٹھائیں گی۔

                ۳-            مسلم دنیا میں چونکہ ایسی پٹھو حکومتوں کو امریکا، بھارت اور اسرائیل وغیرہ کی پشت پناہی حاصل ہے، اس لیے ان کے لیے فسطائی ہتھکنڈے استعمال کرنا سلامتی کونسل کی نظر میں جائز تصور ہوں گے۔

                ۴-            اسلام اور اسلامی پروگرام کی اشاعت و ترویج کے جملہ اداروں کے خاتمے کے لیے مسلم قومی حکومتیں کسی بھی انتہا تک جاسکتی ہیں۔

                ۵-            یہ حکومتیں، اسلامی پارٹیوں کے پروگرام کے چھوٹے سے چھوٹے جملوں تک کے خاتمے کی کوشش کریں گی۔ جہاں جہاں اسلامی تحریک، مقتدر قوتوں کے لیے سیاسی چیلنج بنیں گی، وہاں پر انھیں اسی نوعیت کے اقدامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

                ۶-            مسلم اُمہ میں اس صورت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا گیا تو یہی ماڈل دیگر مسلم ممالک میں بھی روبۂ عمل آسکتا ہے۔

اندریں حالات بنگلہ دیش میں اسلامی تحریک کے مظلوم کارکنوں اور حامیوں سے یک جہتی کے ساتھ اس سوال پر غوروفکر کی ضرورت ہے کہ ایسے کسی خطرے کا مداوا کس طرح کیا جائے؟___ اس سوال کا جواب ایک ہی ہے: اور وہ یہ کہ: ’’ایمان اور کردار کی مضبوطی، تنظیم کی پختگی، دعوتِ دین کا شوق، علم و فضل میں گہرائی اور اپنے دائرے میں سمٹنے کے بجاے معاشرے کے اندر پھیل جانے کا جذبہ‘‘۔ اگر یہ چیزیں وافر مقدار میں موجود ہوں گی تو یقینا ایسی یلغار کو روکا بلکہ پسپا ہونے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔

امریکا اور مغرب یا ان کے چہیتے حکمرانوں کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کتنی حقیقی ہے اور کتنی خودساختہ، ان مفروضوں پر بحث سے قطع نظر ایک اور سخت اذیت ناک چیلنج درپیش ہے۔ اس چیلنج کو ’مغرب کی عریاں دہشت گردی‘ کے سوا کیا نام دیا جاسکتا ہے!

ایک زمانہ تھا کہ مسلم خواتین مکمل حجاب کااہتمام کرتیں، اور اس مقصد کے لیے برقعہ پہنتیں۔ مگر آج کا ’مہذب مغرب‘ ان باحیا و پاک باز خواتین سے مطالبہ کررہا ہے کہ وہ برقعہ اتاریں، حجاب کو نوچ کر پرے پھینکیں، بلکہ ’دہشت گردی‘ کی نام نہاد جنگ میں مغرب کا خوف دُور کرنے کے لیے خود کو بے لباس کرکے تصویریں بنوائیں۔ جدید تعلیم اور ابلاغی یلغار کے زیراثر برقعہ و حجاب پر نرم رویہ اختیار کرنے کے لیے وہ بڑی حد تک تیار دکھائی دیتی ہیں، لیکن اس تیسرے حملے کو برداشت کرنے کے لیے ہرگز ہرگز تیار نہیں ہوسکتیں، بلکہ اس کاتصور کرکے زندہ رہنے سے زیادہ وہ موت کے انتخاب کوترجیح دینے سے بھی گریز نہ کریں گی۔ یہ فیصلہ تو مسلم خواتین کا ہے___ مگر امریکا یہ کہتا ہے: ’’تم اپنی جگہ غیرت کو محفوظ رکھو، مگر ہم مشینوں کے ذریعے تمھیں بے لباس کرکے تصویریں بنائیں گے‘‘۔ صاحبو، آج امریکی فضائی اڈوں پر ایسی مشینوں (naked body scanners)کی تنصیب کر دی گئی ہے (اور تیزی سے اس تنصیباتی عمل کو وسعت دی جارہی ہے) تاکہ خوف زدہ مغربیوں کے ہاتھوں حیا کا پردہ تار تار ہوتا رہے، اور پھر دنیا کے مظلوم اور مسلم اُمہ کے مجبور عوام اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر برداشت کرلیں۔

اپنی سرزمین پر یہ بیہودہ کام کرنے کے ساتھ ساتھ خودمسلم ممالک سے بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ہاں سے امریکا جانے والے مسافروں کو ’مکمل جسمانی سکین‘ کر کے طیاروں میں بیٹھنے کی اجازت دیں۔ آخرکار منصوبہ یہ ہے کہ تمام ہوائی اڈوں پر فضائی مسافروں کی عریاں اسکیننگ کی مشینیں لگا دی جائیں۔ لوگ حیران و پریشان ہیں کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے؟

جواب میں امریکی حکام کہتے ہیں کہ: دسمبر ۲۰۰۹ء کے کرسمس کے موقع پر نائیجیریا کے ۲۳سالہ افریقی مسلمان عمرفاروق عبدالمطلب کو مبینہ طور پر آتش گیر پائوڈر کمر سے باندھے ہوئے ڈیٹرایٹ (مشی گن) کے ہوائی اڈے سے گرفتار کرنے کا واقعہ ہی اس جبر کا باعث بنا ہے۔ (یاد رہے یہ مسافر ایمسٹرڈم کے ہوائی اڈے سے طیارے (فلائٹ ۲۵۳) پر سوار ہوا تھا، اور سیکورٹی کی ذمہ داری اسی ہوائی اڈے کے حکام پر تھی)۔ جواب میں مسلم رہنما کہتے ہیں کہ یہ واقعہ محض ایک ڈراما تھا، جسے اسٹیج کر کے ایک بہانہ تراشا گیا تاکہ مذکورہ پروگرام کے نفاذ کا جواز پیدا کیاجاسکے اور اس شک کی بنیاد بڑی مضبوط ہے۔

مبینہ طور پر یہ واقعہ تو دسمبر ۲۰۰۹ء میں ہوتا ہے، مگر سی این این نے اب سے سات ماہ   پیش تر ہی یہ خبر دے دی تھی کہ: ’’مسافروں کی عریاں تصویرکشی (naked pictures) کی جاری ہے‘‘ (۱۸ مئی ۲۰۰۹ء، cnn.com)۔ اسٹاف رپورٹر جرمی حسو نے اپنی خصوصی رپورٹ میں لکھا: ’’جسم کی مکمل تصویرکشی کی مشینوں سے، فرد کے کپڑوں کے نیچے سے ہر دھاتی اور غیردھاتی چیز دیکھی جاسکتی ہے بلکہ زیرجامہ نقوش تک نظر کے سامنے آجاتے ہیں اور یہ ۳ ڈی عکس بندی چند سیکنڈ میں کرلی جاتی ہے‘‘ (یکم اپریل ۲۰۰۹ء، livescience.com)۔ آگے چلیے، معروف صحافی جیفری لایب نے تو اس سے بھی ایک سال پہلے دی ڈینورپوسٹ میں بتایا تھا: ’’ڈینور بین الاقوامی ہوائی اڈے کے علاوہ امریکا کے دیگر پانچ ہوائی اڈوں پر مکمل جسمانی عریاں تصویر سازی کی مشینیں لگادی گئی ہیں‘‘۔(۲۹ مئی ۲۰۰۹ء، denverpost.com)

اسی طرح تھامس فرینک نے اب سے ڈیڑھ سال قبل ۶جون ۲۰۰۸ء کو امریکا کے مشہور جریدے یو ایس ٹوڈے میں رپورٹ دی تھی کہ: ’’انسانی بدن کو اسکین کرنے والی وہ مشینیں، جو لوگوں کے کپڑوں سے بھی نیچے کی تصویریں بنا سکتی ہیں، معروف ترین ہوائی اڈوں پر نصب کر دی گئی ہیں‘‘ (۶ جون ۲۰۰۸ء- USA Today)۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مغربی اور امریکی حکمرانوں کی بدنیتی اور قانون شکنی تو کب سے اپنا رنگ دکھا رہی تھی، مگر اس شیطانی سلسلے کو    بڑے پیمانے پر روبہ عمل لانے کے لیے ’کرسمس ڈراما ۲۰۰۹ء‘ کا سہارا لیا جا رہا ہے۔

مسئلے کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے یہاں پر مسلم دنیا سے نہیں بلکہ خود امریکی اور مغربی ذرائع ابلاغ ہی سے چند تجزیاتی رپورٹوں کے اقتباسات اور بیانات پیش کیے جاتے ہیں:

  • پال ایڈورڈ پاکر کے مطابق: ’’یہ اسکینر مشینیں، کپڑے پہننے کے باوجود، مسافروں کی کپڑوں سے بے نیاز تصویر بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں‘‘(۳۱دسمبر ۲۰۰۹ء، progo.com)۔ اس ضمن میں ٹیلی ویژن ایسی رپورٹیں پیش کر کے، کہ جن میں اسکینر سے گزرنے والے لوگوں کے چہروں اور تناسلی اعضا (genitals) کو دھندلا کردکھایا جا رہا ہے، عام ناظرین کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ پیچھے کمرے میں بیٹھ کر دیکھنے والے عملے کے لوگ، اس عکس کو ایک معمولی سے اُلٹ پلٹ (inversion) کے عمل سے بالکل اس طرح دیکھ سکتے ہیں، جیسے وہ بالکل عریاں کیفیت میں، اپنے حقیقی خدوخال اور رنگ و حالت میں ان کے سامنے ہوں۔ اور ان کی یہ تصویریں، اسی حالت میں ہوبہو ریکارڈ کا مستقل حصہ بھی بن جاتی ہیں‘‘۔ (۸ جنوری ۲۰۱۰ء، پال جوزف واٹسن، prisionplanet.com)
  • ’’مکمل انسانی جسم کی اس خفیہ تصویرکشی کا ایک خوفناک پہلو یہ بھی ہے کہ ہوائی اڈے سے سفر شروع کرنے یا سفر مکمل کر کے باہر نکلنے والا مسافر خطرناک ریڈیائی لہروں میں غسل کرکے نکلتا ہے۔ افسوس کہ اس انتہائی نقصان دہ عمل کے باوجود امریکی انتہاپسند (نیوکونز) اس امر پر زور دے رہے ہیں کہ ایسی مشینیں بڑے پیمانے پر نصب کی جائیں‘‘۔ (۳۱ دسمبر ۲۰۰۹ء، infowars.com)
  • خود امریکا میں ’ٹکنالوجی اور آزادی‘کے عنوان سے شائع شدہ ایک فکرانگیز مضمون بتاتا ہے کہ:’’یہ ٹکنالوجی، انسان کی آزادی، خلوت اور پوشیدہ وجود پر براہِ راست حملہ ہے۔ جس کے ذریعے خواتین و حضرات کو ان کی مرضی کے بغیر اور ان کی سفری مجبوریوں سے ناجائز طور پر    فائدہ اٹھاتے ہوئے، ان کی شرم گاہوں تک کی تصویرکشی کی جاتی ہے۔ عملی شکل یہ ہے کہ سفر کے   دوران میں ایئرپورٹ کی چیک پوسٹ سے گزرتی سواری کو یہ مشینیں عریاں حالت میں چلتا دکھاتی ہیں۔ یہ انسانوں کی نجی زندگی اور وقار پر ایک بدترین جارحیت ہے۔ مانا کہ کچھ افراد دوسروں کے سامنے عریاں ہونے کو معیوب نہیں سمجھتے، مگر انسانوں کی عظیم ترین اکثریت، اس بے حیائی کو   نفرت سے دیکھتی ہے۔ اس طرح یہ سارا قصہ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ ایسے  توہین آمیز عمل کو کوئی بھی مہذب انسان برداشت نہیں کرسکتا۔ یاد رہے کہ سفری حفاظت کے ادارے میں ۴۳ہزار افسران اور لاتعداد خفیہ ایجنٹ، صرف امریکا کے ۴۵۰ ہوائی اڈوں پر روزانہ ڈیوٹی دیتے ہیں، جب کہ امریکا ہوائی اڈوں پر روزانہ ۲۰ لاکھ مسافر، سفر کی غرض سے آتے ہیں‘‘۔ (۸جنوری ۲۰۱۰ء، aclu.org)
  • ’’مانچسٹر ایئرپورٹ (برطانیہ) پر ایک سال سے تجرباتی طور پر عریاں تصویرکشی کرنے والی ان مشینوں پر یہ پابندی عائد کی گئی ہے کہ وہ بچوں کی ایسی تصویریں نہ بنائیں، کیونکہ اس طرح ’بچوں کی عریاں کشی کے قانون‘ کی خلاف ورزی ہوتی ہے‘‘ (mailonsunday.co.uk)۔ اسی خبر کو اخبار دی گارڈین، لندن (۴ جنوری ۲۰۱۰ء) نے زیادہ تفصیل سے پیش کیا۔
  • ’’سفری حفاظت کی انتظامیہ (TSA) یہ بھی کہتی ہے کہ اس تصویری مواد میں دیگر جسمانی تفصیلات پر زور نہیں دیا جاتا، بس یہ دیکھا جاتا ہے کہ کہیں کسی فرد نے جسم کے ساتھ اسلحہ تو نہیں باندھ رکھا، حالانکہ یہ بہانہ گمراہ کن ہے۔ ہم نے خود دیکھا ہے کہ وہ یہ تصویریں سامنے سے اور عقب سے بناتے ہیں اور ان تصویروں کو جتنا چاہیں بڑا کر کے دیکھا جاسکتا ہے‘‘۔ (۸؍اپریل ۲۰۰۹ء، ولیم سیلٹن، slate.com)
  • جینی میسریو اور مائیک اہلرز کی رپورٹ کے مطابق: ’’سفری حفاظتی انتظامیہ (TSA) لوگوں کو جتنا چاہے دھوکا دے لے، لیکن امرواقعہ یہی ہے کہ انسانی شرف اور احترام کی تذلیل کا یہ پورا بندوبست ہے۔ خود ٹی ایس اے کی دستاویزات سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان اسکینر مشینوں میں یہ بھرپور صلاحیت ہے کہ وہ مسافروں کی [عریاں] تصویریں بناکر محفوظ رکھیں اور دوسری جگہ منتقل کریں۔ ایسی تصویریں جو زیب تن کپڑوں کے نیچے کی عکس بندی کرلیتی ہیں۔ کمپیوٹر ہیکروں یا دوسرے کارکنوں کے ہاتھوں ان تصویروں کے غلط طور پر استعمال ہونے کا ہرآن خدشہ موجود رہے گا‘‘۔ (۱۱ جنوری ۲۰۱۰ء، cnn.com)
  • یہ امرواقعہ ہے کہ انتظامیہ اپنے شہریوں کے ساتھ دھوکا دہی کا ثبوت دیتے ہوئے دوسری بات کہہ رہی ہے، حالانکہ یہ بات ایک معلوم حقیقت کا درجہ رکھتی ہے کہ ’جسمانی جائزے‘ کے ان اسکینروں سے بنے ہوئے عکس آپ کی عریاں حالت میں تصویر بناکر، آپ کے تناسلی اعضا تک کی باریک سے باریک تفصیل کو ریکارڈ کرلیتے ہیں۔ (godlikeproductions.com)
  • ’’ایسے بہت سے منصوبوں کے طرف دار یہودی تک اس صورتِ واقعہ پر تڑپ   اُٹھے ہیں۔ مثلاً صہیونی اخبار دی یروشلم پوسٹ کے نمایندہ میتھیو ویگز نے رپورٹ کیا: ’’یہودی مذہبی رہنمائوں کے مطابق مکمل جسمانی اسکیننگ سے عورتوں کی حیا اور احترام پر بہت منفی اثر پڑے گا‘‘ (۷جنوری ۲۰۱۰ء، jpost.com)۔ اسی طرح جرمنی کی ’پائی ریٹ پارٹی‘ نے بھی عریاں اسکینروں کے خلاف مظاہرہ کیا‘‘۔ (۱۱ جنوری ۲۰۱۰ء، thelocal.de)
  • ’’ہالینڈ میں سلامتی کے مشیر نے حکومت سے استدعا کی ہے کہ وہ جلد از جلد فنڈز جاری کرے تاکہ ’عریاں جسمانی‘ تصویرکشی کے ایسے سفری (موبائل) اسکینرز استعمال میں لائے جائیں کہ جن کے ذریعے بازاروں میں چلنے، فٹ بال کھیلنے اور اسٹیڈیم وغیرہ میں کھیلوں سے لطف اندوز ہونے والے تماشائیوں وغیرہ تک کو عریاں حالت میں دیکھا، پرکھا اور ریکارڈ کیا جاسکے۔ (۲۰جنوری ۲۰۱۰ء، dutchnews.nl)
  • ایک اسکینر جو ایک لاکھ ۳۰ ہزار ڈالر سے ایک لاکھ ۷۰ ہزار ڈالر کی قیمت رکھتا ہے، امریکا کے ۱۹ ہوائی اڈوں پر ۴۰ کی تعداد میں نصب اور زیراستعمال ہیں۔ ۱۵۰ مزید نصب کیے جارہے ہیں، جب کہ امریکا کے ۴۵۰ ہوائی اڈے ہیں (۳۱ دسمبر ۲۰۰۹ء، progo.com)۔ اسی طرح سی این این نے ان تفصیلات کی تائید کرنے کے ساتھ یہ خبر دی ہے: ’’۲۰۱۱ء تک پورے امریکا میں یہ مشین لگا دی جائیں گی۔ (۱۱ جنوری ۲۰۱۰ء، cnn.com)
  • ایک جانب ’سفری حفاظت کی انتظامیہ‘ کے ترجمان کرسٹن لی نے یہ کہا ہے: ’’ہم یہ اقدامات سلامتی کی غرض سے کر رہے ہیں، ہمیں کسی مذہب یا قومیت سے کچھ نہیں لینا دینا‘‘ (۴جنوری ۲۰۱۰ء،cnn.com)۔ دوسری طرف دنیا کی معروف اخباری ایجنسی اے ایف پی  کے مطابق: ’’جن ممالک کے باشندوں کو خاص طور پر ان مشینوں کے ذریعے دیکھا، پرکھا اور ریکارڈ کیا جارہا ہے، ان میں شامل ہیں: سعودی عرب، پاکستان، ایران، سوڈان، شام، افغانستان، الجزائر، عراق، لبنان، لیبیا، صومالیہ، یمن، نائیجیریا اور کیوبا‘‘ (france24.com)۔ امریکی ٹیلی ویژن سی این این نے ۴ جنوری ۲۰۱۰ء کو انھی ممالک کے نام ایک اعلیٰ امریکی افسر کے حوالے سے دہراے ہیں۔ [یاد رہے کہ ان میں۱۳ مسلم ممالک کی کل آبادی ۷۰ کروڑ نفوس پر مشتمل ہے]
  • امریکی مسلمانوں کی تنظیم ’کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز‘ (CAIR) کے نیشنل ایگزیکٹو نہاد عواد (Nihad Awad) نے اس صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سی این این کو بتایا: ’’ان اسکینروں کی تنصیب کے تحت مسلم اکثریتی آبادی رکھنے والے ۱۳ممالک کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پھر ان میں سے بھی خصوصی ہدف وہ لوگ ہیں، جو اَب امریکی قومیت اختیار کرچکے ہیں، مگر ان کی پیدایشی اور نسلی شناخت ان ۱۳ ملکوں سے منسوب ہے۔ یوں نسلی اور اعتقادی سطح پر وہ بجاطور پر مسلم دنیا سے فطری اور روحانی وابستگی رکھتے ہیں۔ اس بندوبست کے بعد یہ امریکی مسلمان جب کبھی کبھار اپنے پیدایشی ملک میں عزیزوں سے ملنے جائیں گے تو ایسی تضحیک کا ہدف بنیں گے، اور وہ بھی خودبخود مذکورہ تذلیل کا نشانہ بنیں گے جو حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے سعودی عرب کا سفر کرتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچیں گے‘‘ (۴جنوری ۲۰۱۰ء، cnn.com)

مغرب کے خوف زدہ حکمرانوں نے دنیا بھر میں ایک ہسٹیریائی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ اسی کیفیت میں وہ اپنے مذموم سیاسی و معاشی مفادات کا تحفظ کرتے اور اعلیٰ انسانی اور تہذیبی اقدار کو کچلے جارہے ہیں۔ اُوپر مذکورہ اسکیننگ مشینوں کے اس استعمال کا مطلب یہ ہے کہ:

                ۱-            اہلِ مغرب کے خیال میں حیا اور انسانی حق خلوت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

                ۲-            خاص علاقے اور نشان زدہ مذہب کے لوگ اہلِ مغرب کی نظر میں ملزم کا درجہ رکھتے ہیں۔

                ۳-            مغربی حکمرانوں کو بلاروک ٹوک یہ حق حاصل ہے کہ وہ اقتدار اور قوت پر قابض ہونے کی بنیاد پر، جب، جس طرح اور جس پیمانے پر چاہیں___ انسانی جان، مال اور آبرو پر حملہ کرسکتے ہیں۔

                ۴-            اپنے اقتدار کی بھیک مانگنے والے مسلم حکمران، مغرب کی ظالم حکومتوں کے اندھے، بہرے اور وحشی قوانین کے نفاذ ہی کو ’روشن خیالی‘ تصور کرتے ہیں۔

کیاانسانی تاریخ نے کبھی پہلے بھی یہ منظر دیکھا تھا؟ کیا جنگل میں درندوں نے بھی کبھی ایسے ظالمانہ اختیار کو استعمال کیا تھا؟ کیا اکیسویں صدی کا انسان اتنا بے بس، مجبور اور مقہور ہے کہ چند انسان، چند ادارے اور چند مشینیں انھیں مَسل کر رکھ دیں۔ اور اگروہ اُف بھی کریں تو انھیں وحشی، غیرمہذب، تہذیب دشمن، تنگ نظر اور دہشت گرد کہہ کر، ان کا منہ بند کردیں؟ کیا ایسے  توہین آمیز اقدامات کے نتیجے میں دنیا کو امن کی فضا مل جائے گی؟ معمولی سی بھی عقل رکھنے والے انسان کا جواب ہوگا: ’نہیں‘___ یہ انسانی تاریخ کا سبق ہے کہ ذلت، جبر اور ظلم کرنے والے    اگر ایک دروازہ بند کرتے ہیں توردعمل کے لیے مظلوم دس مزید دروازے کھول لیتے ہیں۔ اس لیے اگراصلاح اور انسانیت کی فلاح مطلوب ہے تو پھر قوموں کے حق حکمرانی کا احترام کیا جائے، ان پر جارحیت و استعماریت ختم کی جائے تو خود بخود ’خوف‘ کے یہ بادل چھٹ جائیں گے۔

اندریں حالات بے حیائی، تذلیل اور ظلم کے اس بندوبست کو مسلم دنیا کا شدید ترین احتجاج ہی روک سکتا ہے۔ مگر افسوس کہ مسلم دنیا میں اس حوالے سے لاتعلقی،بے بسی، یا چشم پوشی کا رویہ ایک عذاب کی صورت مسلط ہے۔ ہاں، البتہ امریکا کے بالکل قریب ایک چھوٹے سے کمیونسٹ ملک کیوبا نے ۶جنوری ۲۰۱۰ء کو ضرور امریکا سے احتجاج کیا ہے، یا پھر ایک بے بس عراقی مسلمان خاتون نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ اس تقابلی صورت حال کا تقاضا ہے کہ مسلم دنیا میں مذکورہ مسئلے پر باخبر کرنے کی مہم چلائی جائے۔ احتجاج منظم کیا جائے اور علمی وفکری سطح پر شرفِ انسانیت کے بھولے سبق کو یاد دلایا جائے، کہ انسان اشرف المخلوقات ہے، جانور نہیں!