سلیم منصور خالد


’’رات تین بجے دروازے پر دستک ہوئی‘ دروازہ کھولا‘ تو چند مسلح افراد کچھ پوچھے بغیر  گھر میں گھس آئے‘ میرے بیٹے کو پکڑ کر لے گئے‘ فون کے تار کاٹ دیے اور جاتے ہوئے کہا: ’’اس بات کا کسی سے ذکر کیا تو عبرت ناک انجام ہوگا‘‘۔

’’میرا بیٹا نہایت بے ضرر اور سیدھا سادا نوجوان ہے مگر مسجد سے نکلتے ہی ایک آدمی نے اس کی گردن دبوچ لی اور کہا: یہ دہشت گرد ہے‘ سامنے سے جیپ آئی‘ اُس میں پھینکا اور گاڑی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ ڈیڑھ سال ہوگیا ہے میں اسے تلاش کر کے تھک گئی ہوں۔ میری بیوگی میں وہی میرا سہارا تھا اور ابھی بارھویں میں پڑھ رہا تھا‘ معلوم نہیں کس حال میں ہے۔ وزیرداخلہ سے لے کر کور کمانڈر تک کو ملی ہوں‘ کوئی نہیں مانتا کہ اس نے پکڑا ہے‘‘۔

’’میرا بھائی آٹھ ماہ سے غائب تھا‘ ہم اسے تلاش کر کرکے تھک گئے۔ اسی غم میں والد صاحب فالج کے حملے کے نتیجے میں بستر سے لگ گئے۔ ہر ادارہ اس کے بارے میں بے خبری کے پتھر برساتا رہا‘ لیکن اب سے ۱۵ روز پہلے ایک ہرکارے نے آکر اطلاع دی کہ وہ سرکاری ایجنسی کی حراست میں ہے‘ ضمانت پر رہائی ہوجائے گی‘‘۔

یہ واقعات کسی جاسوسی ناول کی من گھڑت کہانیاں نہیں‘ نہ یہ کسی کمیونسٹ ملک میں گزرنے والی ظلم کی داستانیں ہیں‘ بلکہ پاکستان کے طول و عرض میں ایسی خوف ناک داستانیں‘ سامع کا خون منجمد کردیتی ہیں۔

بلاشبہہ پاکستان میں خفیہ ایجنسیوں نے قومی مقاصد کے لیے بہترین کارنامے سرانجام دیے ہیں جن پر قوم کو فخر ہے‘ مگر بدقسمتی سے متعدد ایجنسیوں نے گذشتہ کئی برسوں سے یہ راستہ منتخب کر رکھا ہے کہ جب اپنے ارادے یا منصوبے کے تحت ضروری سمجھا تو آناً فاناً کسی فرد کو اٹھا لیا۔۱؎ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس مشق ستم کا نشانہ اکثر وہ لوگ بنے جنھوں نے زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں خود اپنی مسلح افواج کا ہاتھ بٹاتے ہوئے‘ دشمن سے دو دو ہاتھ کیے تھے۔

ناین الیون کے بعد بعض لوگوں نے ایک ایک دو دو ہزار ڈالر کے عوض غیرملکی مسلمان مجاہدوں کو امریکیوں اور مقامی اہل کاروں کے ہاتھ بیچا۔ حالانکہ کل تک یہ لوگ پاکستان کے   محسن قراردیے جاتے تھے‘ کہ جنھوں نے جان لڑا کر سوویت یونین کو شکست دینے کا تمغہ پاکستانی پالیسی سازوں اور عساکر کے سینے پرسجا دیا تھا‘ مگر اب حالات نے کروٹ لی اور یہ سب لوگ بڑی بے رحمی سے مسترد شدہ بوجھ قرار پائے‘ جنھیں قیمت پر یا بلاقیمت بڑی بے رحم اور دنیا بھر میں لاقانونیت کی علامت ریاست کے سپرد کردیا گیا۔ ظاہر ہے کہ خود پاکستان سے ایک قابل لحاظ تعداد افغان مجاہدین کے شانہ بشانہ جہاد میں شریک رہی تھی‘ جنھیں خود پاکستانی افواج نے یہ تربیت دی تھی‘ اب وہ تمام جاں باز ’مشکوک کردار کے حامل‘ قرار پائے۔ اسی طرح جہاد کشمیر میں شریک نوجوان اپنے جذبے اور ایمان کے ساتھ شریک ہوئے تھے‘ لیکن پاکستان کی حکومتوں نے ابتدائی زمانے سے لے کر آج تک جس اخلاقی کمزوری کے ساتھ عوام میں سے جاں باز شہریوں کے جذبوں کا خون کیا ہے اور پھر آن واحد میں سجدہ سہو کیا ہے‘ وہ قومی تاریخ کا ایک درد ناک باب ہے۔ وہ لوگ جنھیں عظیم مجاہد کہا جاتا تھا‘ ان میں کتنے ہیں جنھیں عقوبت خانوں میں دھکیلا جا رہا ہے‘     جو قومی خفیہ ایجنسیوں کے آہنی پنجروں میں سسک رہے ہیں اور ان کے والدین کرب ناک کیفیت میں تڑپ رہے ہیں۔

وہ لوگ جو جذبۂ ایمانی میں اپنا معاشی مستقبل اوراپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر قومی قیادت کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے جہاد کے لیے نکلے تھے‘ جنھیں نہ تنخواہ کا شکوہ تھا اور نہ نوکری کی تلاش‘ ان میں سے کتنے ہیں جنھیں کرزئی اور بش کے وحشیوں کے سپرد کیا جا رہاہے یا خود ان کے ہم وطن ہی ان پر ستم کے تمام گر آزما رہے ہیں۔ اب یہ عمل کوئی راز نہیں رہا ہے۔ کل تک کوئی اخبار یہ چیزیں شائع کرنے کی ہمت نہیں کرتا تھا‘ لیکن اب‘ جب کہ صبر کا پیمانہ لبریزہوچکا ہے تو پاکستانی پریس میں گاہے بہ گاہے کوئی نہ کوئی چیخ سنائی دیتی ہے۔

یکم جولائی ۲۰۰۶ء کو بی بی سی کی اُردو سروس پر اس حوالے سے ایک جان دار پروگرام   نشر ہوا۔ ۲جولائی کے تمام پاکستانی قومی اخبارات نے اسی مناسبت سے ہلا دینے والی خبریں شائع کیں۔ روزنامہ نوائے وقت کے ادارتی نوٹ کے مطابق: ’’بی بی سی نے گذشتہ ڈیڑھ دو سال کے دوران پاکستان کے مختلف علاقوں سے غائب اور لاپتا ہونے والے ایسے افراد کی فہرست جاری کی ہے جن کا تعلق مختلف سیاسی تنظیموں سے ہے اور ان افراد کو مبینہ طور پر ایجنسیوں نے اپنی تحویل میں لے رکھا ہے… وزیرستان میں روزنامہ دی نیشن کے بیوروچیف کے بارے میں بھی بتایا گیا تھاکہ انھیں مبینہ طور پر کسی ایجنسی ہی نے اغوا کیا تھا اور بعدازاں انھیں شہید کردیا تھا۔ پاکستان میں ایجنسیوں کے ذریعے سیاسی کارکنوں اور دیگر حکومت مخالف عناصر کو گرفتار کرنا اور انھیں اس طرح لاپتا رکھنا کہ ان کے ورثا مارے مارے پھرتے رہیں اور کوئی [سرکاری] محکمہ ان کی گرفتاری کی ذمہ داری ہی نہ لے‘ انتہائی وحشت ناک اور انسانیت سوز عمل ہے۔ دنیا کا کوئی بھی مہذب معاشرہ ایسی گرفتاریوں کو برداشت نہیں کرتا۔ خفیہ ایجنسیوں کا یہ کام نہیں ہے… خفیہ ایجنسیوں کو غیرقانونی اقدامات اور اپنے چارٹر کی خلاف ورزی نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ (۳ جولائی ۲۰۰۶ئ)

۱۸ اگست ۲۰۰۶ء کے قومی اخبارات میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چو دھری کا یہ شدید ردعمل شائع ہوا جس میں انھوں نے راولپنڈی سول لائنز کے تھانے دار سے فرمایا کہ وہ چالاکی اور تماشا بند کرے‘ اور اغوا کیے جانے والے فرد کو عدالت کے سامنے پیش کرے۔ مگر ایک ممتاز کالم نگار کے بقول صرف اہلِ پاکستان کے ساتھ ہی یہ سلوک نہیں کیا جا رہا‘ بلکہ قانونی ویزے پر آنے والے مسلم ممالک کے باشندوں کو بھی اسی بھٹی سے گزارا جارہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’لیکن یہ صرف ایک فرد تو نہیں ہے جسے اغوا کرلیا گیا‘ وہ تو ہزاروں کی تعداد میں ہیں…  [۱۸ اگست ہی کے اخبارات] پر ایک چھوٹی سی خبر یہ بھی ہے کہ پشاور کی ایک عدالت نے عراقی مزاحمت کار مرحوم الزرقاوی کے نائب ہونے کے الزام میں گرفتار ملزم سمیت سات غیرملکیوں کو  رہا کردیا۔ ان میں اکسفرڈ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے ڈاکٹر برہان شامل ہیں۔ الجزائر کے سعید احمد ہیں جو ۱۶ ماہ جیل میں پڑے رہے۔ الجزائر ہی کے سفیان اخضر ہیں جنھوں نے ۱۳ ماہ  قید کاٹی‘ ناجہ بن صالح کا تعلق تیونس سے ہے اور وہ ۱۸ ماہ سے سلاخوں کے پیچھے پڑے تھے۔ اسی زمانے میں تاجکستان کے جمشیداحمد بھی پشاور سے گرفتار ہوئے اور ناجہ بن صالح کے ساتھ وہ بھی  رہا کردیے گئے کہ بے گناہ ثابت ہوئے۔ ان کے ہم وطن ظریف لطیف کے خلاف کوئی ثبوت نہ پیش کیا جاسکا‘ تاہم ان پر جیل میں تشدد کے کیسے حربے آزمائے گئے کہ [ظریف] قیدی کی انتڑیاں پھٹ گئیں اور وہ کچھ کھا پی نہیں سکتا۔ ۶ ہزار سے زیادہ  ایسے پاکستانی اور غیرملکی [مسلمان] جیلوں میں پڑے ہیں جن کی فریاد سننے والا کوئی نہیں… امریکیوں کو ان پر شبہہ تھا… [حالانکہ] خود عراق اور افغانستان میں برپا امریکیوں کی خوں آشامی نے وہ عالم گیر کش مکش پیدا کی ہے جس نے پاکستان کو استعمار کی چراگاہ بنا دیا ہے۔ ہمارے ہوائی اڈوں پر وہ براجمان ہیں‘ ہمارے گھروں کو غیرملکی سونگھتے پھرتے ہیں اور ہمارے شہریوں کو وہ گرفتار کرکے لے جاتے ہیں اور پھر گوانتاناموبے کے پنجروں میں بند کرا دیتے ہیں‘‘۔ (ہارون الرشید‘ نوائے وقت‘ ۱۹اگست ۲۰۰۶ئ)

گوانتاناموبے میں ہمارے ’روشن خیال ترقی پسند‘قائدین۲؎ کے دستِ فیض سے بھیجے جانے والے قیدیوں کا کیا حشر ہو رہا ہے‘ اسے جاننے کے لیے پاکستانی کشمیری معظم بیگ (پیدایشی برطانوی) کی کتاب Enemy Combatant (لندن‘ فری پریس ۲۰۰۶ئ) کا مطالعہ کافی ہے‘ جسے جنوری ۲۰۰۲ء کو پاکستانی ایجنسی نے اسلام آباد سے اغوا کرکے گوانتاناموبے کے جلادوں کے حوالے کیا تھا۔ خود پاکستان میں ایسے بے گناہ قیدیوں کے احوال جاننے ہوں تو کوئی نہ کوئی نوجوان اپنے اندر اٹھنے والے نوحوں کو ہونٹوں پر روکے نظرآجائے گا۔ جن کو اندھادھند پکڑ کر غائب کردیا جاتا ہے اور سال سال بھر اُن کے بارے میں کچھ بتانے سے ایجنسیوں‘ پولیس اور وزارتِ داخلہ کے کارندے انکاری رہتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بے گناہ ثابت ہوکر یا تو خدا کے حضور پہنچ جاتا ہے‘  وگرنہ اس حال میں رہا کیا جاتا ہے کہ بے گناہ ہوتے ہوئے وہ ہڈیوں کا پنجر اور ٹی بی یا کالے یرقان کا مریض بن چکا ہوتا ہے۔ کیا ایسا عمل کرنے والے واقعی پاکستانی ہیں؟

اقتدار اور اختیار ڈھلتی چھائوں ہے۔ ہمیں اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ ہم کس کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ امریکی چاہتے ہی یہ ہیں بقول نپولین: ’’مسلم معاشروں کو خود ایک دوسرے پر بھوکے شیروں کی طرح چھوڑ دیا جائے اور یہ آپس ہی میں لڑتے مرتے رہ جائیں‘‘۔ اس عمل کی عبرت ناک مثال افغانستان اور عراق میں روزانہ ہم وطنوں کی دونوں جانب سے اٹھنے والی لاشیں ہیں۔

یہاں پر واضح الفاظ میں یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ کوئی فرد قانون سے بالاتر نہیں ہے‘ چاہے وہ عالم ہو یا صحافی یا سپہ سالار ہو یا عام شہری۔ اگر ان بے گناہ قیدیوںمیں سے واقعی کسی نے جرم کیا ہے تواسے لازماً اپنے جرم کی سزا ملنی چاہیے‘ مگر کھلی عدالت میں مقدمہ چلنے کے نتیجے میں۔ حکومت اسے قانون کے مطابق سزا دلائے اور عدالت کے ذریعے ہی مجرم کو سزا دی جائے۔ ان کے بچوں‘ والدین اور رشتہ داروں کو ذلیل کرنے اور قدم قدم پر جھوٹ بول کر دھوکا دینے کا ہرگز کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ عمل متاثرین کا اعتماد صرف حکومت پر ختم نہیں کرتا بلکہ ایسے افراد کایقین خود ریاست سے اٹھ جاتا ہے۔ اور وہ فرد جو سال بھر بے جا تشدد کی سولی پر لٹکنے کے بعد بے گناہ ثابت ہوکر پاکستانی گوانتاناموبے سے یا امریکی گوانتاناموبے سے رہا ہوتا ہے تو اس کی زندگی کے ان قیمتی لمحوں اور ناپیدا کنار صدمے کا جواب دہ کون ہے؟ اس لیے یہ بے جرم ملزم اور ان کے رشتے دار سوال کرتے ہیں کہ کیا پاکستان واقعی ایک آزاد ملک ہے؟

یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور اس المیے میں سب سے زیادہ تکلیف دہ یہ پہلو بھی ہے کہ ان بے نوا مظلوموں کی دادرسی کے لیے سیاسی پارٹیوں نے کوئی بامعنی آواز نہیں اٹھائی‘ حالانکہ       یہ واقعات دلدوز چیخوں کے ساتھ ہرشہر میں سنے جارہے ہیں۔ یہ بے چارے تو اتنے بڑے ملک میں بے پہچان اور شاید بے نام لوگ ہی قرار دیے جائیں‘ مگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ جو ہو رہا ہے ‘ وہ پاکستانی اہلِ دانش اوراہلِ سیاست کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس صورت حال میں  امید کی واحد کرن سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس رہ جاتے ہیں‘ جو ان تفصیلات کو   جمع کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کے لیے اپنے اختیار سوموٹو کو حرکت میں لائیں۔ اس سے نہ صرف مظلوموں کو نجات ملے گی‘ بلکہ خفیہ کاری کے تمام ادارے اپنے چارٹر سمیت عمل اور تجزیے کی میزان سے گزریں گے اور ان اداروں کے اہل کار بھی یہ بتا سکیں گے کہ وہ کتنے مجبور اور کتنے بااختیار ہیں؟ نیز عوام کو بھی معلوم ہوسکے گا کہ وہ کتنے آزاد اور کتنے مجبور ہیں؟

۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ ابتدائی دور کی مشکلات اور پریشان کن حالات کے باوجود‘ نوزائیدہ مملکت میںجو سب سے پہلی قومی کانفرنس منعقد ہوئی‘ وہ پاکستان کے نظام تعلیم کے بارے میں تھی۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ تعلیم کی تشکیل نو کا مسئلہ ابتدائی اور کس قدر اہم تھا۔ یہ کانفرنس ۲۷نومبر سے یکم دسمبر ۱۹۴۷ء تک کراچی میں منعقد ہوئی‘ یعنی قیام پاکستان کے صرف دو ماہ اور ۱۳ دن بعد۔ قائداعظمؒ بیماری کے باعث شریک نہ ہوسکے‘ مگر کانفرنس کی اہمیت کے پیشِ نظر انھوں نے اپنے پیغام کے ذریعے شرکت کی اور مرکزی وزیرتعلیم کو جو ہدایات دیں‘ وہ کلیدی خطاب میں قوم کے سامنے آئیں۔

کانفرنس کے چیئرمین جناب فضل الرحمن مرکزی وزیر داخلہ‘ اطلاعات و نشریات اور تعلیم تھے‘ جب کہ ۵۷ شرکاے کانفرنس میں متعدد ارکان دستورساز اسمبلی اور چوٹی کے ماہرین تعلیم شامل تھے۔

یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے آزادی کی جنگ لڑی تھی اور اب ایک نئے وطن‘ پاکستان کی تشکیل کا فریضہ انجام دینے چلے تھے۔ انھیں قوم سے کیے گئے اپنے وعدے بھی یاد تھے اور قوم کی منزل کے نقوش بھی ان کے سامنے روشن تھے۔ ان شرکا میں وطن عزیز میں بسنے والے دیگر مذاہب‘ یعنی عیسائیوں اور ہندوئوں کے قابلِ احترام نمایندے بھی شریک تھے۔

اس پانچ روزہ پاکستان تعلیمی کانفرنس کی روداد (proceedings) مرکزی وزارت داخلہ (شعبہ تعلیم) نے شائع کی‘ جو ۹۱صفحات پرمشتمل نہایت اعلیٰ درجے کی دستاویز ہے۔  قائداعظم    محمدعلی جناح نے نہ صرف اس دستاویز۱؎ کا مطالعہ کیا‘ بلکہ اسے سراہا بھی۔ اس کانفرنس کی روداد میں پاکستان کے مستقبل‘ یعنی پاکستان کی نسلِ نو کو درست سمت عطا کرنے کا جذبہ اور شعور‘ گہرے ادراک کی حدوں کو چھوتا نظر آتا ہے۔ لازم ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ‘ بالخصوص فوج‘ سیاست دان‘ بیورو کریسی‘ تعلیم اور قانون سازی کے متعلقین‘ بانیان پاکستان اور تحریک پاکستان کے سنجیدہ و فہمیدہ قائدین کے اس تعلیمی وصیت نامے کو پڑھیں۔ چونکہ آج کل بالخصوص امریکی صدر بش نے‘ مسلم دنیا کے نظام تعلیم کو اپنا مرکزی ہدف قرار دے رکھا ہے۔ اس لیے کئی مسلم ممالک میں ان کے حلیف حکمران   ان کی اطاعت کرتے ہوئے اپنے اپنے ملک کے نظام تعلیم پر حملہ آور ہو رہے ہیں اور سرکاری اداروں یا وہاں سرگرمِ کار‘ مخصوص این جی اوز کو ہر طرح کی مدد بہم پہنچا رہے ہیں۔

پاکستان کی تخلیق کسی فوجی جرنیل کے دماغ کی اختراع نہیں تھی۔قانون‘ جمہور اور    راے عامہ کے ملاپ اور ایمانی جذبے نے اس تصور کو ایک زندہ ریاست کا روپ عطا کیا تھا۔ اس لیے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ وہ لوگ پاکستان میں کیسا نظام تعلیم چاہتے تھے۔ زیرمطالعہ قومی تعلیمی روداد میں‘ سائنسی ترقی و تحقیقات پر شدت سے اصرار کیا گیا ہے مگر اس کے ساتھ‘ تحریک پاکستان کی لازوال روح کو بھی پوری دل سوزی سے نظام تعلیم میں سمودینے کا بھرپور اہتمام بھی کیا گیا ہے۔

کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کے بعد معزز شرکا نے مختلف کمیٹیوں کی شکل میں‘ اپنے اپنے دائرے میں تجاویز دیں اور حکمت عملی تجویز کی‘ جسے آخری روز مکمل اجلاس میں شق وار منظور کیا گیا ہے۔ روداد میں اس بات کا بھی اہتمام کیا گیا کہ کمیٹی کی سفارشات کو مکمل طور پر ریکارڈ پر لایا جائے۔ پھر مکمل اجلاس نے جس لفظ کو حذف کیا یا جس لفظ کا اضافہ کیا‘ اسے بھی دستاویز کا حصہ قرار دیا گیا تاکہ حک و اضافہ اور ناسخ و منسوخ دونوں نگاہ میں رہیں۔ کیسے محتاط لوگ تھے!

اس کانفرنس کی تین کمیٹیوں کی متفقہ سفارشات اور تین قراردادیں ملاحظہ کیجیے:

  • سب سے پہلے ’یونی ورسٹی ایجوکیشن کمیٹی‘ کی تشکیل اور نظریاتی سوچ دیکھتے ہیں: کمیٹی کے چیئرمین میاں افضل حسین (چیئرمین پبلک سروس کمیشن پنجاب و سرحد) تھے اور سیکریٹری ڈاکٹر اخترحسین‘ ایجوکیشن ایڈوائزر‘ جب کہ ارکان تھے: ۱- ڈاکٹر محمود حسین‘ وائس چانسلر ڈھاکہ یونی ورسٹی ۲- ڈاکٹر عمرحیات ملک‘ وائس چانسلر پنجاب یونی ورسٹی ۳-ڈاکٹر اے بی اے حلیم‘ وائس چانسلر سندھ یونی ورسٹی ۴-ڈاکٹر سی ایچ رایس‘ پرنسپل ایف سی کالج‘ لاہور ۵- ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی‘ ممبر دستور ساز اسمبلی ۶- پروفیسر احمد شاہ پطرس بخاری‘ پرنسپل گورنمنٹ کالج‘ لاہور ۷- دیوان بہادرسنگھا‘ اسپیکر مغربی پنجاب صوبائی اسمبلی‘ لاہور ۸- ڈاکٹر کرنل اے کے ایم خان‘ پرنسپل ڈائو میڈیکل کالج‘ کراچی۔

اس کمیٹی نے متفقہ طور پر طے کیا:

  •  پاکستان کا تعلیمی نظام‘ اسلامی نظریے کی بنیاد پر مرتب کیا جائے گا۔
  •       مسلمان طالب علموں کے لیے اسکولوں اور کالجوں میں دینی تدریس لازمی ہوگی‘ اور یہی سہولت دیگر مذاہب کے حاملین کو بھی فراہم کی جائے گی۔
  • تمام سطحوں پر جسمانی تربیت لازمی دی جائے گی‘ جب کہ کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں لازمی فوجی تربیت دی جائے گی۔ (پروسیڈنگز: دی پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس‘ ص ۱۸)
  • دوسری رپورٹ ہے‘ کمیٹی براے پرائمری اور ثانوی تعلیم کی۔ اس کمیٹی کے چیئرمین ڈھاکہ کے ابونصر وحید تھے اور سیکریٹری محمد عبدالقیوم ایجوکیشن آفیسر‘ جب کہ ارکان میں شامل تھے: ۱-ایس ایم شریف‘ ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن‘ صوبہ پنجاب ۲-ڈاکٹر قدرتِ خدا‘ ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن‘ مشرقی پاکستان ۳-ڈاکٹر دائود پوتا‘ ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن‘ صوبہ سندھ ۴-محمد اسلم خان خٹک‘ ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن‘ صوبہ سرحد ۵- ایم اے مجید‘ ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن‘ ریاست بہاول پور ۶-وی یو پروانی‘ ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن‘ ریاست خیرپور ۷- آئی ایم خان‘ سپرنٹنڈنٹ ایجوکیشن‘ بلوچستان ۸- شایستہ اکرام اللہ ۹-پروفیسر بی اے ہاشمی‘ پرنسپل سنٹرل ٹریننگ کالج‘ لاہور ۱۰- جی ڈی برنی‘ بشپ آف‘ لاہور ۱۱-بیگم صفیہ احمد۔

اس کمیٹی نے نظریہ تعلیم کے لیے حسب ذیل رہنما اصولوں کی منظوری دی:

                ۱-            تعلیم‘ اسلامی نظریۂ آفاقی اخوت‘ سماجی جمہوریت‘ اور سماجی عدل وا نصاف کی ترویج پر مبنی ہوگی۔

                ۲-            طالب علموں کے لیے لازم ہوگا کہ وہ اپنے مذاہب کے بنیادی اصولوں کو پڑھیں۔

                ۳-            تعلیم روحانی‘ سماجی اور فنی امتزاج پر استوار ہوگی۔ (روداد‘ ص ۲۱)

  • ویمن ایجوکیشن کمیٹی کی چیئرپرسن ‘ بیگم سیدہ فاطمہ رحمن اور سیکریٹری ڈاکٹر سید مزمل علی تھے۔ ارکان میں شامل تھے: ۱- ڈاکٹر خدیجہ فیروزالدین‘ ڈپٹی ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن‘ پنجاب  ۲-مس محمد علی‘ انسپکٹریس اسکولز‘ سندھ ۳- بیگم سلمیٰ تصدق حسین ۴- بیگم صفیہ احمد ۵- بیگم شایستہ اکرام اللہ خان ۶- ڈاکٹر قدرتِ خدا ۷- ایس ایم شریف ۸- پروفیسر بی اے ہاشمی۔

کمیٹی نے خواتین کی تعلیم کے لیے مختلف پہلوئوں پر سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا:

  •        تعلیم کی نظریاتی بنیادوں میں: اسلام کے آفاقی تصورِ اخوت و بھائی چارے‘ سماجی جمہوریت‘ سماجی عدل وا نصاف اور جمہوری قدروں کی ترویج ہوگی جس میں برداشت‘ خودانحصاری‘ ذاتی ایثار‘ انسانی ہمدردی اور شہری اشتراک کو ترقی دی جائے گی‘ جب کہ صوبائی تعصبات کی نفی کی جائے گی۔
  •  ثانوی درجہ تعلیم میں لڑکیوں کے لیے جداگانہ تدریس کابندوبست کیا جائے‘ اور جلد از جلد لڑکیوں کے لیے الگ کالج بنائے جائیں۔
  •     ہوم نرسنگ کی تعلیم پر مبنی نصاب کی تدریس لازمی کی جائے۔ ابتدائی طبی امداد اور ہوم نرسنگ‘ اعلیٰ ثانوی درجۂ تعلیم میں بھی لازمی کی جائے۔
  •  مغربی اور مشرقی پاکستان میں خواتین کے لیے فی الفور ایک ایک میڈیکل کالج قائم کیا جائے۔ (روداد ‘ ص ۲۴‘ ۲۵)

ان سفارشات میں نظریاتی تعلیم کی اہمیت کے ساتھ‘ طالبات کے لیے جداگانہ نصاب کی ضرورت اور مخلوط تعلیم کی نفی قابلِ غور ہے۔

بعدازاں دیگر شعبہ جات جن میں سائنس و ٹکنالوجی‘ زراعت‘ تعلیمِ بالغاں‘ مظلوم طبقات‘ اقوام کے مابین ثقافتی تعلقات وغیرہ پر مشتمل کمیٹیوں کی رپورٹیں بھی منظور ہوئیں۔ یونی ورسٹی ایجوکیشن‘ ویمن ایجوکیشن اور اسکول ایجوکیشن کمیٹیوں کے مشترکہ اجلاس نے پانچ قراردادیں منظور کیں‘ جن میں پہلی چار قراردادیں پیش مطالعہ ہیں:

                ۱-            کانفرنس اس امر پر زور دیتی ہے کہ پاکستان کی تعلیمی سرگرمیوں کو اس کے قومی کردار کا مظہر ہونا چاہیے‘ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اسلام کے تصورِ انسانیت کو روبہ عمل لایا جائے اور نسلی و جغرافیائی عصبیتوں سے مکمل طور پر علیحدگی اختیار کی جائے۔ کانفرنس نے اکثریت کے اس عزم کو قبول کیا ہے کہ اس کا نظامِ تعلیم اسلامی تعلیمات سے فیض یاب ہو‘ تاہم اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اقلیتوں کو ان اصولوں کے تحت تعلیم دی جائے جو انسانیت کے لیے اسلام کے ترقی پسندانہ اور معیاری نشان کے مظہر ہیں۔ عزت مآب جوگندر ناتھ منڈل[وزیر قانون و محنت] اور مسٹر سی ای گبن [صدر اینگلو انڈین ایسوسی ایشن آف پاکستان] اس حوالے سے کانفرنس کمیٹی کی پیش کردہ سفارشات سے پوری طرح متفق ہیں۔ اس لیے یہ امر متفقہ طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ پاکستان کا نظام تعلیم‘ اسلامی نظریے ہی کی بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے کہ جس میں آفاقی بھائی چارے‘ تحمل اور عدل کے امتیازی اوصاف پائے جاتے ہیں۔ (روداد‘  ص ۴۰)

                ۲-            کانفرنس محسوس کرتی ہے کہ جدید طرز زندگی (ماڈرن لائف) کی بہت سی سماجی آفت انگیزیوں کا سبب روحانی اور اخلاقی اقدار کی نفی ہے۔ اس حوالے سے جان لینا چاہیے کہ سماجی تعمیرنو کا کوئی پروگرام اُس وقت تک حصولِ مقصد کاذریعہ نہیں بن سکتا جب تک کہ انسانی روح کے اس خلا کو پر نہیں کیاجاتا۔ کانفرنس یہ پہلو نمایاں کرنا ضروری سمجھتی ہے کہ بہت سے مغربی ممالک‘ جہاں جدید تعلیمی نظریات نافذ ہیں‘ اب وہ بھی اس ضرورت کو محسوس کرتے ہیں کہ اسکولوں کے نصابات میں دینی تعلیم کا لازمی طور پر نفوذ ہوناچاہیے اور جسے کالج کی سطح پر معتدبہ طور پر بڑھانا چاہیے۔ کانفرنس کی سفارشات میں اس حوالے سے مسلم اکثریت کی خواہش کا عکس موجود ہے‘ تاہم اقلیتوں کی ثقافتی خودمختاری کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے اس امر کا اہتمام کیا جانا چاہیے کہ‘ جس طرح مسلمان طالب علموں کے لیے دینی تعلیم لازمی ہو‘ ویسے ہی اقلیتیں اگر خواہش کریں تو ان کے بچوں کے لیے بھی ان کے مذاہب کے مطابق تعلیم و تدریس کا اہتمام کیا جائے۔ (روداد‘ ص ۴۰‘ ۴۱)

                ۳-            کانفرنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ہمارے نظامِ تعلیم کو ٹوٹ پھوٹ کے اس عمل سے مقابلہ کرنا چاہیے‘ جس نے جدید دنیا (ماڈرن ورلڈ) میں فرد کی شخصیت کو انتشارکا شکار کر کے رکھ دیا ہے۔ لازمی طور پر ایک متوازن نظام تعلیم ہی ایسے پارہ پارہ تصورِتعلیم کا مداوا کرسکتا ہے۔ اس لیے خاکہ نصاب (کریکولا) اور مقررہ نصاب (سلیبس) کی اس انداز سے تشکیل و پشت پناہی کی جانی چاہیے کہ جس سے تعلیم کے مختلف عناصر باہم متحد اور یک جان ہوسکیں۔ (روداد ‘ ص ۴۱)

                ۴-            کانفرنس تسلیم کرتی ہے کہ روحانی‘ ذہنی اور جسمانی پہلو لازمی طور پر طالب علم کی زندگی میں ہم آہنگی اور توازن پیدا کرتے ہیں۔ لیکن ہمارا موجودہ نظام تعلیم محض کمرہ تدریس اور مطالعۂ کتاب پر زور دیتا ہے‘ جس کے نتیجے میں ایک عام سا طالب علم اپنی صحت کے بارے میں غفلت کا شکار ہوکر بیماری اور کمزوری کا نمونہ دکھائی دیتا ہے۔ جدید تعلیم کا بڑا ہدف ایک اچھے شہری کی تعمیرہے‘ اور صحت کے بارے میں غفلت کا شکار ہونے والا فرد اچھا شہری نہیں بن سکتا۔ اس مقصد کے لیے جسمانی تربیت کے کلچر کو عام کیا جائے‘    بالغ طالب علموں کو اپنے وطن عزیز کی آزادی کے تحفظ کے لیے لازمی فوجی تربیت دی جائے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اہتمام کیا جائے کہ اسکائوٹنگ‘ ملٹری ڈرل‘ رائفل کلب‘ کوہ پیمائی‘ پیراکی وغیرہ کو تعلیمی دنیا میں رواج ملے‘ جب کہ کالجوں اور یونی ورسٹیوں کی سطح پر لازمی فوجی تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ (روداد ‘ ص ۴۱)

نصف صدی بعد‘ ہم پلٹ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں بانیانِ پاکستان کے متذکرہ بالا محسوسات اور ان کی ہدایات کا ہلکا سا پرتو بھی اپنی تعلیم پر نظر نہیں آتا۔ آنے والے طالع آزما اور مفاد پرست سیاست دانوں نے تعلیم کے اس نقشۂ راہ کو اٹھا کر ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ آغاخان بورڈ کی اباحیت پسندانہ پالیسی‘ مخلوط تعلیم کی روز افزوں ترویج‘ تعلیمی اداروں میں اخلاقیات کی پامالی اور سیکولر این جی اوز کا تسلّط‘ ہماری اِسی غفلت اور کوتاہی کا نتیجہ ہیں    ؎

فطرت افراد سے اِغماض بھی کرلیتی ہے

کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف

۳ رمضان المبارک کی صبح زلزلے سے آزاد جموں و کشمیر میں مظفرآباد‘ باغ‘ کوٹلی اور  راولا کوٹ کے ساتھ نیلم وادی اور لائن آف کنٹرول کا علاقہ بری طرح متاثر ہوا اور اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ وادی نیلم اور وادی جہلم کے بے شمار دیہات اور پہاڑوں پر بستے گھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ اسی طرح صوبہ سرحد میں مانسہرہ‘ ایبٹ آباد‘ بالاکوٹ‘ بٹگرام‘ شانگلا کے طول و عرض پر موت کے سائے حکمران ہوئے۔ آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد ۲۸ ہزار مربع کلومیٹر علاقے میں ۳۵لاکھ سے زیادہ لوگ بری طرح متاثر ہوئے جن میں سے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ جاں بحق اور ۳لاکھ سے زیادہ زخمی ہوئے۔ جہاں پر ۴ لاکھ ۷۱ ہزار ۶ سو ۹۰ مکانات تباہ ہوئے۔ ان میں سے ۲لاکھ ۳۰ ہزار اور ۷۷ گھر صوبہ سرحد میں‘ جب کہ ۲لاکھ‘ ۴۱ ہزار ۶ سو ۱۳ گھر آزاد کشمیر میں تباہی سے دوچار ہوئے۔ ان علاقوں میں ایک ہزار بارہ کلومیٹر (چھوٹی بڑی) سڑکیں تباہ ہوئیں‘ جن میں  سے کشمیر کی ۵۹۸ کلومیٹر اور سرحد کی ۴۱۴ کلومیٹر طویل سڑکیں شامل ہیں۔ اب تک حاصل شدہ   اعداد و شمار کے مطابق ۶ ہزار ۴ سو ۹۲ اسکول‘ دینی مدرسے اور کالج تباہی کا نشانہ بنے‘ جن میں آزادکشمیر کے ۴ ہزار ایک سو ۷ اور صوبہ سرحد کے ۲ ہزار ۳سو ۹۰ تعلیمی ادارے تباہ ہوئے۔

زلزلے کی تباہ کاریوں کا حال جوں ہی ذرائع ابلاغ سے نشر ہوا‘ یوں محسوس ہوا کہ خیبر سے کراچی تک پوری پاکستانی قوم میں بجلی کی طرح یہ جذبہ سرایت کرگیا کہ ہر فردِ قوم کو ‘بچے اور جوان کو‘ مرد اور عورت کو آگے بڑھ کر اپنا فرض ادا کرنا ہے۔ یہ تاثر عام تھا کہ سنہ ۶۵ء کی یاد تازہ ہوگئی۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں‘ دنیا بھر میں جہاں جہاں پاکستانی آباد ہیں‘ سبھی جاگ اٹھے۔ صرف پاکستانی ہی نہیں اسلام کے رشتے سے بندھی اُمت مسلمہ بھی جاگ اُٹھی۔ استنبول اور جدہ میں اسی طرح مہم چلی جس طرح کراچی اور لاہور میں۔ معاشرے میں جتنا خیر تھا سامنے آگیا۔ ہر ادارے اور ہرتنظیم نے اپنی بساط سے بڑھ کر کارگزاری دکھائی۔ انفرادی حیثیت میں بھی بڑے بڑے منصوبے روبۂ عمل آگئے۔ ذرائع ابلاغ نے اس لہرکو آگے بڑھایا گویا اپنا فرض ادا کیا۔ کوئی فہرست بنائی جائے‘ شمار کیا جائے تو بظاہر ممکن نہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان اور الخدمت فائونڈیشن نے جو کچھ کیا اس کا ایک تذکرہ پیش کیا جا رہا ہے۔

قاضی حسین احمد‘ امیرجماعت اسلامی پاکستان کی ہدایت پر مرکز جماعت اسلامی اور الخدمت فائونڈیشن نے تمام اضلاع کو متاثرین کے لیے امدادی کیمپ قائم کرنے کی ہدایت کی۔ پہلے ہی روز شام تک ایبٹ آباد کے راستے بالاکوٹ تک اشیاے صرف کی فراہمی اور طبی امداد کی ترسیل کا آغاز ہوا۔ ابتدائی مشاورت کے بعد راولپنڈی میں آزاد کشمیر اور مانسہرہ میں صوبہ سرحد کے متاثرہ علاقوں کا بیس کیمپ قائم کرکے علی الترتیب ڈاکٹر حفیظ الرحمن اور مشتاق احمد خاں کو متعلقہ کیمپوں کا نگران مقرر کیا گیا۔ نعمت اللہ خاں ایڈووکیٹ کی سربراہی میں مجموعی طور پر رابطہ کاری کا نظام قائم کیا‘ جب کہ الخدمت فائونڈیشن کے جنرل سیکرٹری سیداحسان اللہ وقاص جملہ اشیا کی ترسیل‘ اور منصوبہ سازی کے لیے سرگرم کار ہوئے‘ پاکستان کے بیسیوں صنعتی و تجارتی اداروں کے ساتھ ۵۰ممالک کی مختلف دینی و رفاہی تنظیموں اور مؤثر شخصیتوں سے رابطہ کیا۔

پہاڑی علاقے میں سڑکیں بند ہوچکی تھیں جس کے باعث ترسیل و رابطے کا نظام قائم کرنے میں سخت دشواری پیش آرہی تھی‘ تاہم ۲۴ گھنٹے کے بعد راستے بننے اور امدادی و طبی کارکنوں کی آمدورفت شروع ہوگئی۔ دوسرے روز جماعت کے مرکزی نظم اور حلقہ خواتین کی مرکزی قیادت نے اپنے اپنے ہنگامی اجلاس طلب کر کے منصوبہ سازی کی۔ مثال کے طور پر ۲۴ گھنٹے کے اندر اندر پاکستان بھر میں امدادی کیمپوں نے کام شروع کردیا اور صرف کراچی شہر میں اس نوعیت کے ایک سو سے زائد کیمپ کھڑے ہوگئے‘ جب کہ لاہور میں ۸۰ مقامات پر اشیا کو جمع کرنے کا انتظام کیا گیا۔

مقامی کارکنوں نے زلزلے سے متاثر ہونے اور اپنے عزیزوں کے کفن دفن میں مصروفیت اور رنج و الم کا پہاڑ اٹھانے کے باوجود جس حوصلہ مندی کے ساتھ متاثرین کی امداد کے لیے ہاتھ بٹایا‘ وہ تاریخی کردار کا حامل پہلو ہے۔ زخمیوں کو ملبے سے نکالنے‘ باہر پڑے زخمیوں کا علاج کرنے اور بھوک و خوف سے نڈھال انسانوں کی مدد سب سے فوری اہمیت کے نہایت مشکل اہداف تھے۔ محدود وسائل اور بے لوث کارکنوں کی پرعزم ٹیم کے ساتھ اس جانب پیش رفت ہوئی۔ ۲۴ گھنٹے کے اندر اندر مختلف جگہوں پر ۲۵ ہزار انسانوں کے لیے کھانے اور افطار کی ترسیل کا نظام بحسن و خوبی قائم کر دیا گیا۔ کارکنوں نے ملبہ ہٹانے‘ لاشیں نکالنے اور ان کی تدفین کے سخت تکلیف دہ فریضے کو بڑی جاں فشانی سے انجام دیا۔ نیز ہر علاقے میں عارضی خیمہ بستیوں کی تنصیب اور امدادی سامان کی فراہمی کے لیے مقدور بھر کوششیں کیں۔ تباہی جس پیمانے پر وسعت پذیر ہے‘ اس میں لوگوں کی مدد کر کے انھیں بحال کرنا بڑا صبرآزما کام ہے۔ تاہم جماعت کے ۱۲ ہزار کارکنوں نے مختلف اوقات میں یہ ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کی‘ جن میں کشمیر کے مقامی ایک ہزار اور پنجاب و کراچی سے ۵ہزار کارکنوں نے‘ جب کہ صوبہ سرحد میں ۲ہزار مقامی اور پورے صوبہ سرحد سے ۳ہزار کارکنوں نے دادرسی کی کاوشوں میں حصہ ادا کیا۔

جماعت اسلامی نے ۱۰ اکتوبر کو کراچی سے ایروایشیا کی چارٹر فلائٹ کے ذریعے امدادی سامان راولپنڈی بھیجا گیا۔ لاہور جماعت نے پہلے ہی چند روز میں ڈھائی کروڑ اور کراچی میں جماعت اسلامی نے ۳۵کروڑ روپے سے زیادہ رقم جمع کی یا اس مالیت کی اشیاے صرف متاثرہ علاقوں کو بھیجنا شروع کیں۔ کراچی سے لے کر خیبر تک ہر شہر اور قصبے سے جماعت اسلامی‘ الخدمت فائونڈیشن‘ حلقہ خواتین جماعت اسلامی‘ اسلامی جمعیت طلبہ‘ جمعیت طلبہ عربیہ‘ اسلامی جمعیت طالبات اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن نے ٹرکوں‘ ویگنوں اور جیپوں کے ذریعے نہایت تسلسل کے ساتھ سامان اور رضاکار کارکنوں کو جاے تباہی پر بھیجنے کا نظام قائم کیا اور دُور دراز پہاڑی مقامات کے لیے خچر اور گدھوں کے ذریعے باربرداری کا کام لیا گیا۔ اب دو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے رسل و رسائل کا کام لیا جا رہا ہے۔

کراچی‘ لاہور‘ مرکز جماعت اور راولپنڈی میں امدادی اشیا کو چھانٹ کر مناسب پیکٹ تیار کرنے کا انتظام کیا۔ اشیاے ضرورت کی ترسیل کے مراکز میں راولپنڈی‘ مظفرآباد‘ ایبٹ آباد‘ باغ‘ مانسہرہ‘ بٹگرام‘ بالاکوٹ‘ راولا کوٹ‘ دھیرکوٹ‘ سیراں وغیرہ شامل ہیں۔

امدادی کاموں کے لیے ۵۵ ریلیف کیمپ قائم کیے گئے۔ ۱۵ نومبر تک ایک ہزار ۸سو ۵۳ ٹرکوں میں سامان بھیجا گیا‘ جن میں ۱۸ ہزار خیمے‘ ۱۶ ہزار ترپال‘ ۲۰۰پلاسٹک رول‘ ایک لاکھ کمبل/لحاف‘ ۶ہزار جیکٹس‘ ۱۶ ہزار کفن شامل تھے۔

جن اشیاے خوردونوش کی فراہمی کی جارہی ہے ان میں: آٹا‘ چاول‘ گھی‘ کوکنگ آئل‘ چینی‘ دالیں‘گڑ‘خشک دودھ‘ پیکٹ دودھ‘ بسکٹ‘ جوس‘ منرل واٹر‘ کھجور‘ جام شامل ہیں۔ اشیاے صرف میں: گرم کپڑے‘ جوتے‘ صابن‘ ٹارچ‘ چولہے‘ گیس سلنڈر‘ موم بتیاں‘ ماچس‘ لالٹیں‘ چارپائیاں‘ برتن‘ وہیل چیئر‘ بیساکھیاں‘ واکر‘ اسٹریچر‘ پھاوڑے‘ کسیاں‘ گینتیاں‘ بیلچے‘ چھتریاں‘ جنریٹر 25KV شامل ہیں۔ خصوصی مہمات کے طور پر عیدگفٹ اسکیم پیکٹ ۱۳ ہزار اور راشن پیکج اسکیم کے تحت ۳۵ہزار پیکٹ تقسیم کیے۔

  • پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوی ایشن: طبی امداد کے لیے پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (PIMA) کا عملی کردار سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے‘ ۹ اکتوبر کو پروفیسر ڈاکٹر محمداقبال خاں کو طبی امداد و بحالی کے وسیع کام کی رابطہ کاری اور منصوبہ بندی کی ذمہ داری سونپی گئی۔ جس کے تحت ۵۴۲ ڈاکٹروں اور ۴ ہزار ایک سو سولہ پیرامیڈیکل اسٹاف نے چھے ایمبولینسوں اور نجی ٹرانسپورٹ کے استعمال سے خدمات انجام دیں۔ فوری طور پر ایوب میڈیکل کمپلیکس میں الخدمت فائونڈیشن کیمپ کھولا‘ جب کہ بالاکوٹ‘ مظفرآباد‘ باغ‘ ایبٹ آباد‘ فیلڈ ہسپتال قائم کیے۔

۱۶ ممالک (سعودی عرب‘ کویت‘ مصر‘ متحدہ عرب امارات‘ امریکا‘ برطانیہ‘ ہالینڈ‘ ناروے‘ سنگاپور‘ ملایشیا‘ انڈونیشیا‘ جنوبی افریقہ‘ بحرین‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ کینیا) سے ۱۸۰ ڈاکٹروں نے الخدمت میڈیکل ایڈ پروگرام میں ہاتھ بٹایا۔۱۰ کروڑ روپے کی ادویات فراہم کیں‘ جب کہ ۲کروڑ روپے کے طبی آلات خریدے گئے۔ معذور افراد کے لیے مصنوعی اعضا کی فراہمی کا نظام وضع کیا گیا۔ تین فیلڈ ہسپتالوں (مظفرآباد‘ باغ‘ بالاکوٹ) اور گیلانی ہسپتال ایبٹ آباد میں ۵ہزار ۷ سو ۵۳ بڑے آپریشن اور ۳۵ہزار ۸سو ۷۰ چھوٹے آپریشن کیے گئے۔ مجموعی طور پر ایک لاکھ ۱۵ ہزار ۴ سو ۳۹ مریضوںکا علاج کیا گیا۔ ۴۷۱ موبائل ٹیمیں جو دُورافتادہ علاقوں بہ شمول کاغان‘ شنکیاری‘ شیام‘ الائی‘ وادی نیلم میں پہنچیں اور ۴۹ ہزار ۹ سو ۷۰ مریضوں کا علاج کیا۔ اس وقت الخدمت فائونڈیشن یا پیما کے ہسپتالوں میں ۳۱۲ ڈاکٹر‘ ۱۷۸ ڈسپنسر‘ ۷۴۰ طبی کارکن کام کر رہے ہیں۔

راولپنڈی‘ اسلام آباد‘ ایبٹ آباد‘ پشاور‘ لاہور کے سرکاری ہسپتالوں میں الخدمت کیمپ  قائم ہیں۔ راولپنڈی‘ ایبٹ آباد‘ اسلام آباد کے پرائیویٹ ہسپتالوں میں طبی امداد دی جارہی ہے۔  متحدہ عرب امارات کے فوجی ہسپتال بالاکوٹ سے تعاون کرنے کے ساتھ الہجری ہسپتال مظفرآباد اور کشمیر سرجیکل ہسپتال مظفرآباد کی تعمیرنو کا آغاز کیا گیا ہے۔ ادویات کو محفوظ رکھنے کے لیے  ’گودام ہائوس‘ کا بندوبست کیاگیا ہے۔

  • اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان: جمعیت نے باغ‘ بالاکوٹ اورمظفرآباد میں ۱۰ خیمہ بستی اسکول قائم کیے جہاں ۱۶۰۰ بچے زیرتعلیم ہیں۔ ان کی فیسیں‘ کتب‘ یونیفارم اور تدریسی اخراجات کا بندوبست کیا گیا ہے۔ کھاریاں کی اورسیز اکیڈمی میں میٹرک کے ۲۰۰ طلبہ کی امتحانی تیاری کے لیے تین ماہ کا اقامتی اسٹڈی سنٹر قائم کیا ہے‘ جہاں رہایش‘ خوراک‘ تدریس و تربیت کی جملہ ذمہ داری کو ادا کیا جا رہا ہے۔ بالاکوٹ اور مظفرآباد میں دو ریلیف کیمپ قائم ہیں جہاں جمعیت نے اپنے انتظام سے ۶۸۴ ٹرک سامان اکٹھا کرکے تقسیم کیا ہے۔ باغ کے دُور دراز مقامات پر سرگودھا اور فیصل آباد سے جمعیت کے کارکنوں نے امدادی اشیا تقسیم کیں۔ طبی امداد کے دو کیمپوں میں ۱۵۵ زیرتعلیم ڈاکٹروں نے مسلسل طبی خدمات انجام دیں ‘اور یہ سلسلہ منظم انداز میں تاحال جاری ہے۔

حلقہ خواتین‘ جماعت اسلامی پاکستان

تباہ شدہ علاقے میں خواتین کی حالت سب سے زیادہ خراب تھی۔ بچوں اور مردوں کی اموات‘ گھربار کی بربادی اور زخمیوں کی بے چارگی نے منظر کو اور بھی زیادہ دردناک بنا دیا تھا۔  عدمِ تحفظ کا احساس اور خوفناک مستقبل اس پر حاوی تھے۔ ملک کے مختلف حصوں سے پردہ دار خواتین کے لیے گھر سے نکل کر ان عورتوں کی مدد کے لیے جانا بظاہر ناممکن دکھائی دیتا تھا۔ لیکن الحمدللہ اس باب میں جماعت اسلامی کے حلقہ خواتین نے جو پیش قدمی کی اپنی اہمیت کے پیش نظر اس کے کچھ پہلو الگ سے پیش کیے جا رہے ہیں۔

پہلامرحلہ سمت کا تعین اور افراد کار کو لائحہ عمل دینے کا تھا۔ جس کے لیے حلقہ خواتین کی سیکرٹری ڈاکٹر کوثر فردوس (ممبر سینیٹ) کی قیادت میں سرحد و کشمیر کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ کارکنوں کی خیریت دریافت کی‘ ریلیف کے کاموں میں رہنمائی دی‘ متاثرین کی ضروریات اور مشکلات کا اندازہ لگایا اور تباہ حال علاقوں کی خواتین کا حوصلہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان علاقوں میں خواتین کے کسی بھی ادارے کی جانب سے یہ پہلی رابطہ کاری تھی۔

امدادی اشیا اور فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے گھروں‘ مخیر لوگوں اور فیکٹری مالکوں سے رابطے کیے۔ ایک ہفتے کے اندر دو کروڑ روپے جمع کر کے مرکز جماعت کو دیے گئے۔ جمع ہونے والے سامان کو نئے سرے سے چھانٹی کر کے ضروریات کے مطابق پیک کیا‘ لیبل لگائے اور ریکارڈ مرتب کیا۔ جو کپڑے صاف نہیں تھے یا سامان کی نقل و حمل کے دوران خراب ہوگئے تھے انھیں دھلوایا اور  استری کر کے تیار کیا گیا۔

  • اسلامی جمعیت طالبات نے معمول کی تمام سرگرمیوں کو معطل کرکے پوری توجہ امدادی کاموں پر مرکوز کر دی۔ کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں اسٹال لگاکر فنڈ اکٹھا کیا اور الخدمت فائونڈیشن کو جمع کرایا۔ حلقہ خواتین کے امداد و بحالی کے شعبے کو خدمات پیش کیں‘ امدادی سامان کی پیکنگ اور ریکارڈ رکھنے میں مدد کی۔ اسلام آباد‘ راولپنڈی‘ ایبٹ آباد‘ پشاور کے ہسپتالوں اور خیمہ بستیوں میں زخمی خواتین اور بچوں کی نگہداشت کے لیے ہاتھ بٹایا۔
  • اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (خواتین) نے ڈاکٹر سعدیہ ہارون     (رابطہ کار) کی رہنمائی میں طبی امدادی سرگرمیوں کو مربوط بنایا۔ ۱۲ اکتوبر کو ۲۰ ہزار میٹر کپڑا کفن دفن کے لیے فراہم کیا۔ لاہور‘ کھاریاں‘ کراچی‘حیدرآباد‘ فیصل آباد‘ گجرات‘ اسلام آباد‘ راولپنڈی‘ گوجرانوالہ سے لیڈی ڈاکٹروں نے خدمات پیش کیں۔ جن میں سے ۴۵ ڈاکٹر اور ۳۶ پیرامیڈیکل خواتین متاثرہ علاقوں میں گئیں۔ اسلام آباد‘ راولپنڈی‘ باغ‘ مظفرآباد‘ بالاکوٹ اور ایبٹ آباد کے ہسپتالوں میں خصوصی طور پر خدمات انجام دیں‘ جہاں خواتین پر مشتمل عملہ نہ ہونے کے برابر تھا اور پردہ دار خواتین اس تکلیف کے عالم میں بھی مرد معالجوں سے علاج کرانے میں متردد تھیں۔

ملایشیا‘ سعودی عرب‘ برطانیہ اور امریکا سے آنے والی خواتین ڈاکٹروں نے علاج معالجے کے لیے ہاتھ بٹایا۔ مستقبل کی منصوبہ سازی میں حصہ لیا۔ خواتین ڈاکٹروں اور طبی عملے (ملکی اور غیرملکی) کی رہایش اور نقل و حرکت کے جملہ امور نبٹائے۔ طبی ضروریات کی فراہمی‘ مریضوں کی تیمارداری اور دیکھ بھال کی سرگرمیوں میں جماعت اسلامی خواتین‘ جامعۃ المحصنات اور اسلامی جمعیت طالبات نے بڑی توجہ اور اخلاص سے تعاون کیا۔

  • امید نو: زلزلہ زدہ علاقوں میں بالخصوص خواتین اور بچوں پر گہرے نفسیاتی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ زندہ بچ جانے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد صدمے‘ خوف اور ناامیدی کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔ حلقہ خواتین نے انھیں زندگی میں واپس لانے کے لیے ’امیدنو‘ کے نام سے ایک مربوط پروگرام کا آغاز کیا ہے‘ جس کے لیے نفسیاتی معالجین کی اعانت اور دینی تعلیمات سے حوصلہ مندی پیدا کرنے میں حکمت و دانش رکھنے والی خواتین سے مدد لی جارہی ہے‘ جو      بات چیت‘ مشاورت (کونسلنگ) اور مادی سہارے سے ان کی مدد کر رہی ہیں۔ اس مقصد کے لیے کارکنان کو تربیت دے کر ۲۰گروپوں پر مشتمل ٹیمیں تیار کی ہیں۔ ایسی ہر ٹیم میں دو ڈاکٹر‘ دوپیرامیڈیکل اور دو رضاکار خواتین شامل ہیں۔
  • گوشہ سکون: زلزلے سے بچوں اور خواتین میں سے بہت سارے لوگ بے سہارا ہوگئے ہیں۔ انھیں معقول‘ محفوظ اور تعمیری ٹھکانہ فراہم کرنے کے لیے حلقہ خواتین نے ’گوشہ سکون‘ کی صورت میں مراکز قائم کرنے شروع کیے ہیں۔ جہاں بے سہارا‘ معصوم بچوں اور عورتوںکو  فوری ٹھکانہ فراہم کر کے ان کے عزیزوں کی تلاش‘ تعلیم کا انتظام‘ کفالت کا بندوبست اور علاج معالجے کے ساتھ خواتین کو چھوٹے بڑے ہنرسکھانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔
  • مستقبل کے نقشہ کار کے لیے اھداف:
  • مساجد اور شیلٹر ہائوسوں کی تعمیر
  • یتیم بچوں کے لیے ایک سے زیادہ یتیم خانوں کا قیام
  • مواخات اسکیم کے تحت اس مہم کا   آغاز کہ پاکستان کی مختلف گھرانے کسی ایک ایک متاثرہ گھر کو پانچ سے ۷ہزار روپے ماہانہ کی کفالت کی ذمہ داری لیں
  • سیلف ایمپلایمنٹ اسکیم (self employment) کی تحت لوگوں کو پولٹری فارمنگ کی سہولت‘ مگس بانی (شہید) کی تربیت‘دوچار بھیڑبکریوں کی فراہمی‘ کھیت میں بوائی کے لیے بیج‘ ٹھیلاریہڑی کی فراہمی کے لیے امدادی پروگرام کی تشکیل
  • ویمن ووکیشنل سنٹرز کا قیام جہاں خواتین کی دینی اور پیشہ ورانہ تربیت کا بندوبست تاکہ وہ گھر پر روٹی روزی کا کوئی کام کرسکیں اور ابتدائی طبی امداد اور حفظانِ صحت کے اصولوں سے واقفیت حاصل کرسکیں
  •   گھروں کی تعمیر کے لیے لوہے کی چادروں اور سیمنٹ کی فراہمی اور تعمیراتی عمل میں رہنمائی کے نظام کا قیام
  • چار ہسپتالوں (بالاکوٹ‘ مظفرآباد‘ باغ‘ اسلام آباد) کی تعمیر‘ مرمت اور سہولیات کی فراہمی‘ ۲۵موبائل یونٹوں کی تشکیل و تنظیم‘ مصنوعی اعضا سازی کے مرکز کے قیام‘ سیٹلائٹ کلینک کی تنصیب اور فیلڈہسپتالوں کی صلاحیت کار کو بہتر بنانے کے لیے ۲۳ملین امریکی ڈالر (یا‘ ایک ارب ۳۸کروڑ روپے) درکار ہیں۔
  • معذوروں اور بیماروں کی بحالی کے لیے میڈیکل سنٹرز کا قیام جہاں فزیوتھراپی‘ سایکاٹری اور حوصلہ مندی کے ذریعے لوگوں کو فعال زندگی گزارنے کے لیے تیار کرنا۔
  • جمع شدہ کپڑوں اور چیزوں کو ضائع ہونے سے بچانے اور حقیقی ضرورت مندوں تک پہنچانے کے لیے راولپنڈی اور مانسہرہ میں اسٹور قائم کیے جائیں۔
  • توجہ طلب امور: بلاشبہہ متاثرین کی بحالی کا ایک قابلِ قدر کام ہے ‘لیکن اس دوران چند پہلو نظروں سے اوجھل نہیں ہونے چاہییں:
  • پہلا یہ کہ عوام میں مدد کے لیے جو فوری جوش و خروش پیدا ہوا تھا‘ وقت گزرنے کے ساتھ وہ کم ہوگا‘ جب کہ متاثرین کی مشکلات آنے والے وقت‘ بڑھتی جائیں گی اور ضروریات کے نئے چیلنج سامنے آتے جائیں گے۔ اس صورت حال میں متاثرہ شہریوں کی عزتِ نفس کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے مدد دینا اور سرکاری شعبوں کی جانب سے روایتی بے اعتنائی کا سدباب کرکے سرکاری وسائل سے مدد بہم پہنچانا ہر مؤثر اور باخبرفرد کی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں سرکاری یا نجی سطح پر جو تساہل یا لاتعلقی دکھائی دے اس پر متعلقہ حکام یا ذمہ داران سے رابطہ کر کے اصلاح احوال کی کوششوں کے ساتھ‘ تحریکی سطح پر دست گیری کرنا ہوگی۔
  • دوسرا یہ کہ متاثرین کودُور دراز مقامات پر خیمہ بستیوں میں بسانے کے بجاے‘ انھی متاثرہ علاقوں سے قریب پناہ گاہیں بنانے میں مدد دینا چاہیے۔ مہاجرت اور اس میں خیموں کی معاشرت بہت سارے سماجی‘ اخلاقی اور نفسیاتی مسائل کا باعث بنتی ہے۔
  • تیسرا یہ کہ ان متاثرہ علاقوں میں کام کرنے والی غیرملکی این جی اوز اور عیسائی مشنریوں کے کام پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے (جنھوں نے ۱۹۹۵ء سے پاکستان کو عیسائیت کے لیے ضروری ترین ملک قرار دے رکھا ہے)۔ غربت اور مصیبت میں گھرے لوگوں کی مدد کے دوران ایسی    بے شمار تنظیمیں اپنے مذہبی‘ فکری اور سیاسی اہداف کو سامنے رکھتی ہیں جس میں تبدیلی مذہب یا تہذیبی تبدیلی کا بیج ڈالنے پر وہ توجہ دیتی ہیں۔ کشمیر اور سرحد کا یہ علاقہ اپنی اسٹرے ٹیجک حیثیت میں بڑی نزاکت رکھتا ہے۔ اس لیے بھی مغرب کی معاون قوتیں یہاں کے تعلیمی اداروں کو اپنا خصوصی ہدف بنائیں گی۔ اہلِ خیر کو اس نازک صورت حال سے آگاہ کر کے یہاں پر دینی مدرسے اور قومی تعلیمی ادارے قائم کرنے کو اتنی ہی اہمیت دینی چاہیے جتنی اہمیت خوراک‘ علاج اور رہایش کو دی جارہی ہے‘ کہ اسی پر یہاں کی نسلوں کے مستقبل کا دارومدار ہے۔ ایک سطح پر تو بیٹھک اسکول اور مسجدمکتب اسکیم کو روبہ عمل لایا جائے اور دوسری سطح پر تعلیم کے باقاعدہ اسکولوں کو قائم کیا جائے‘ تیسری جانب میٹرک اور انٹر کے طلبہ و طالبات کو امتحانی تیاری کے لیے مفت تدریسی سہولت بہم پہنچائیں جس کے لیے تنظیم اساتذہ‘ اسلامی جمعیت طلبہ اور اسلامی جمعیت طالبات اپنے منصوبوں میںہم آہنگی پیدا کریں۔

ربع صدی قبل‘ ۱۹۷۹ء کے ایرانی انقلاب کو بیسویں صدی میں تاریخ کا رخ موڑنے والے واقعات میں شمار کیا جاتاہے۔ اس میں ایک قوم نے بے نظیر قربانیاں دے کر اس امر کا اظہار کیا کہ وہ اپنی زندگی ___انفرادی اور اجتماعی‘ ہر دائرے میں ___ اپنا نظریۂ حیات اسلا م کی روشنی میں تشکیل کریں گے اور ریاست کا نظم اس کا ذریعہ ہوگا۔ یہ دنیا کے اس رائج الوقت نظام کے خلاف اعلانِ بغاوت تھا جہاں مذہب کو ایک خانے میں محدود کرکے‘ زندگی کے تمام معاملات وحی الٰہی سے بے نیاز ہوکر‘ محض عقل و خرد کی روشنی میں انجام دیے جا رہے تھے۔

یہ انقلاب‘ ہر انقلاب کی طرح‘ مدوجزر سے گزرتا رہا۔ یہ کتابی نہیں‘ بلکہ عملی انقلاب تھا۔ اسی لیے اس نے بے شمار مسائل اور چیلنجوں کا سامنا کیا۔ مخالفوں نے اسے ناکام کرنے کی ہر تدبیر کی۔ ایرانی عوام ہر طرح کی آزمایش سے گزرے‘ لیکن دین اور جمہوریت ان کے اجتماعی خمیر میں گندھی ہوئی ہے۔ طویل عراق ایران جنگ‘ معاشی بحران اور عالمی پابندیوں کے باوجود انھوں نے اس کا دامن نہ چھوڑا اور انتخابات بروقت منعقد ہوتے رہے۔ صدر خاتمی کا انتخاب اپنے مضمرات و اثرات رکھتا تھا اور اب ۲۰۰۵ء میں محمود احمدی نژاد کی کامیابی بھی اپنے دامن میں بہت سے سبق رکھتی ہے۔

بنیادی طور پر اسے انقلاب ۱۹۷۹ء کی تجدید کہا جاسکتا ہے۔ ایک دفعہ پھر ایرانی عوام نے واضح اور فیصلہ کن انداز سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ انقلاب کی منزل اور اہداف کے حصول کے لیے یکسو ہیں۔

ایران میں ایک انقلاب ڈاکٹر مصدق کا انقلاب بھی تھا۔ لیکن امریکا نے ۱۹۵۳ء میں اسے سازشوں کے ذریعے ناکام کر دیا اور شاہ کو پھر لا بٹھایا۔ موجودہ صدارتی انتخابات میں بھی امریکا کی منصوبہ بندی یہی تھی کہ اپنا اثرورسوخ‘ اپنے میڈیا کی طاقت‘ اپنے ڈالر اور اپنے ’طاقت ور‘ صدر کے بیانات کے ذریعے ایران میں ایسی تبدیلیوں کا آغاز کردے جو بالآخر ایران کے اسلامی انقلاب کے مقاصد کو ناکام بنادے۔ امریکی ذرائع نے ترقی‘ ترقی پسندی‘ روشن خیالی اور جدت پسندی کے  خوش نما نعروں کے ساتھ ہاشمی رفسنجانی اور ڈاکٹرکروبی کے دوماڈل آگے بڑھائے۔ اس صورت حال میں انقلاب کے محافظوں نے مکمل تیاری اور کمال درجے کی ہوش مندی کے ساتھ راستہ بنایا اور الحمدللہ بازی پلٹ کر رکھ دی۔ دوسرے مرحلے میں محمود احمدی نژاد کی ۷۰لاکھ ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی نے امریکا کا منصوبہ خاک میں ملا دیا۔ اب اسے الیکشن فراڈ نظر آنے لگے۔

اسلامی قوتوں کی اس کامیابی کے بعد امریکا اور مغرب یہ تصویر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ احمدی نژاد ایک عام سا ہنگامہ پرور لیڈر ہے۔ حالانکہ وہ ایک پڑھے لکھے فرد ہیں‘ پی ایچ ڈی ہیں‘ اپنے میدان کار کے ماہر ہیں۔ لوہار کے بیٹے ضرور ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سنار کی سو چوٹوں کا اپنی ایک ہی چوٹ کے مقابلہ کرنے کی روایت کو بھول گئے ہیں۔ڈاکٹر محمود احمدی نژاد تہران کے میئر کی حیثیت سے اپنی صلاحیتیں تسلیم کروا چکے ہیں۔ ان کے رویے اور بودوباش میں اسلامی روایات کا عکس ہے۔ یقینا ان کی مقبولیت میں ان امور کا بھی دخل ہے۔

ایران کے حالیہ انتخابات کا نتیجہ پوری اُمت مسلمہ اور خصوصاً احیاے دین اور اصلاحِ قیادت کی جدوجہد کرنے والی تحریکوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور غوروفکر کے لیے بعض نکات سامنے لاتا ہے۔

امام خمینی کے انقلاب کا ہدف ایک بے رحم سیکولر استبداد سے نجات اور جدیدیت کے نام پر امریکا کا کھلونا بننے سے انکار تھا‘ جب کہ حالیہ انتخابات میں عوام کے سامنے دو ایشوز تھے۔

اوّل: امریکا اور مغرب سے تعلقات درست کرنے کی طرف قدم ضرور اٹھائے جائیں‘ لیکن یہ احتیاط ملحوظ رہے کہ دروازے اس طرح نہ کھول دیے جائیں کہ اپنا اقتداراعلیٰ باقی نہ رہے۔

دوم: ۱۹۷۹ء کے انقلاب کے بعد متعدد خارجی اور داخلی محرکات کے نتیجے میں مالیاتی توازن بہتر ہونے کے بجاے بگڑ گیا۔ مزید یہ کہ ایک مفاد پرست طبقہ وجود میں آگیا‘ افراطِ زر میں بے حد اضافہ ہوا‘ اور بے روزگاری بہت زیادہ بڑھ گئی۔ انقلاب کے وقت تیل کی قیمت تقریباً ۲۰ڈالر فی بیرل تھی‘ اور اب ۶۰ ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ اس سے عامۃ الناس کے احوال میں جو بہتری آنا چاہیے تھی نہیں آئی‘ بلکہ مفاد پرست طبقہ ہی خوش حال تر ہوگیا۔ موجودہ انتخابی معرکے میں رفسنجانی اس طبقے کی علامت تھے۔ موجودہ انتخابی نتائج دراصل اس عدم توازن کے خلاف ایک بھرپور احتجاج ہے۔ نئے صدر اس بات کو سمجھتے ہیں کہ غریب افراد نے ان کو ووٹ اسی لیے دیے ہیں کہ وہ ان کے مسائل حل کریں‘ سماجی انصاف قائم کریں اور معاشی عدم توازن کو دُور کرنے میں فیصلہ کن کردار    ادا کریں۔

گویا کہ ۲۰۰۵ء کا صدارتی انتخاب ایران کے اسلامی انقلاب کی تجدید نو کے لیے ایک ریفرنڈم کی حیثیت رکھتا ہے اور اس طرف بھی اشارہ کر رہا ہے کہ جس طرح امام خمینی اور مہدی بازرگان نے قدیم و جدید کے سنگھم کی کیفیت پیدا کر دی تھی‘ اسی طرح رہبر اعلیٰ خمینی ثانی اور ڈاکٹر محمود احمدی نژاد مل کر انقلاب کی اصل روح کے مطابق تعمیرنو کا کام سرانجام دے کر ایران کے مسائل کے حل اور امت مسلمہ کے روشن مستقبل کے حصول کے لیے نئے چراغ جلائیں گے۔ جہاں یہ ایک بڑی کامیابی ہے وہیں دراصل ایک چیلنج بھی ہے کہ ایرانی قیادت عوام کی حمایت سے انقلاب کے مقاصد کی تکمیل کرے جس میں وہ:

۱- مغرب کی گمراہی کے جواب میں‘ نظریاتی طور پر درست مؤقف پیش کرے۔

۲- مغربی نیوکلیئر اجارہ داری کے جواب میں خود انحصاری پر مبنی نیوکلیئر پروگرام پر عمل جاری رکھے۔

۳-  ملک کے عوام کے معاشی مسائل بہتر نظم اور مؤثر حکمتِ عملی سے حل کرے۔

۴- اسلامی تعمیرنو کا کام شخصی آزادی اور جمہوری روایات کے ساتھ عوامی تائید اور شراکت سے انجام دے۔

ایرانی انقلاب تو آیا ہی ایمانی جذبے سے سرشارمستضعفین کے نام پر تھا۔ لیکن گذشتہ ۲۵برس میں بہت کچھ کیے جانے کے باوجود‘ بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ احمدی نژاد نے تہران کے میئر کی حیثیت سے جو تجربات حاصل کیے ہیں انھیں اب پورے ملک میں آزمانے کا موقع ہے۔ ساری دنیا کی نظریں ان پر لگی ہیں‘ اور امید ہے کہ اگست میں حلف اٹھا لینے کے بعد‘ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر وہ اپنے کام میں لگ جائیں گے‘ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے۔

یوں تو کسی بھی ملک کے لیے تعلیمی نظام کی اہمیت مسلّمہ ہے لیکن ایک نظریاتی مملکت کے لیے توتعلیم کی فکری جہت اور اس کے معیار کو‘ وہی حیثیت حاصل ہے جو انسانی جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے قبل اور اس کے قیام کے فوری بعد قائداعظم ؒنے اس بات کو بخوبی اُجاگر کیا کہ پاکستان کا نظامِ تعلیم کیا ہوگا اور تعلیمی پالیسی کی تشکیل میں کیا تعلیمی اہداف و مقاصد پیشِ نظر رکھے جائیں گے۔ اس کا ایک بھرپور اظہار انھوں نے‘ اپنی گرتی ہوئی صحت کے باوجود‘ پاکستان تعلیمی کانفرنس منعقدہ ۲۷نومبر تا یکم دسمبر ۱۹۴۷ء کے موقع پر کیا۔ کانفرنس میں وہ خود شریک نہ ہوسکے مگر اپنے پیغام میں پاکستان کے تعلیمی نظام کے خدوخال بخوبی واضح کر دیے تاکہ صحیح خطوط پر نظامِ تعلیم تشکیل پاسکے۔

المیہ یہ ہے کہ آج نصف صدی بعد پاکستان کے تعلیمی اداروں میں قائداعظم کے افکار سے کھلم کھلا انحراف کیا جارہا ہے اور جو کچھ پیش کرنے کی کوشش ہو رہی ہے‘ وہ مملکتِ پاکستان کے بنیادی نظریے سے صریحاً متصادم ہے۔ اس ضمن میں چند پہلو ملاحظہ کیجیے: لڈی ڈانس‘ بھنگڑے‘ گانے بجانے‘ میراتھن ریس‘ مینابازاروں‘ تلک لگانے اور بسنت منانے کے ساتھ بڑے تواتر‘ اور کثرت کے ساتھ محافل موسیقی (میوزک شو) کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ جنرل مشرف کہتے ہیں: مجھے موسیقی پسند ہے۔ میں کلاسیکل پاپ موسیقی پر نوجوانوں کے ساتھ جھوم سکتا ہوں‘دنیا میں پاکستان کا نرم تاثر(soft image) پیدا کرنے کے لیے موسیقی اور ثقافت [غالباً مغربی اور ہندووانہ] کا سہارا لینے کی ضرورت ہے۔ ۱۹۷۰ء سے ۱۹۹۰ء کے دوران آرٹسٹوں کو نظرانداز کیا گیا‘ جس    کے باعث انتہاپسندوں نے ہمارے [؟] بارے میں قائم نرم تاثر کو ملیامیٹ کر دیا‘‘۔ (روزنامہ نواے وقت‘ لاہور‘ ۱۷ مئی ۲۰۰۶ئ)

پاکستان بنانے والوں نے تو یہاں کے طالب علموں کی شخصیت کو ایک متوازن اور صحت مند انسان بنانے کے لیے پہلی کُل پاکستان تعلیمی کانفرنس (نومبر‘ دسمبر ۱۹۴۷ئ) کی قرارداد نمبر۴ میں ایک مختلف لائحہ عمل دیا تھا‘ مگر وہ فرد جو قیامِ پاکستان کے وقت چار سال دو ماہ کا کم سن بچہ تھا‘ آج اسی قوم کی ملازمت کے دوران اختیارات کی امانت کا ناجائز استعمال کر کے حکمران بننے کے بعد اپنی اس قوم کو کسی اور ہی منزل تک پہنچانا چاہتا ہے۔ موصوف کے وزیرتعلیم بھی ایک ریٹائرڈ جرنیل ہیں اور قوم کو للکار کر کہتے ہیں: ’’ہم پاکستان میں اتاترک کا نظامِ تعلیم لائیں گے‘‘۔ جنرل موصوف غالباً نہ اتاترک سے واقف ہیں اور نہ وہ نظام تعلیم و تعلّم کا حدود اربعہ جانتے ہیں۔ اُن کی شہرت  فقط یہ ہے کہ وہ اپنے نامۂ اعمال میں فرسودہ ریلوے انجنوں کی سوداکاری کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔

پاکستانی نظام تعلیم کی تشکیل کے حوالے سے پہلی قومی کانفرنس میں جو قرارداد منظور کی گئی تھی‘ اس میں تو نسلِ نو کو جسمانی تربیت دینے اور دفاعی صلاحیت پیدا کرنے کے مجاہدانہ کردار کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ لیکن جنرل ضیا الحق کے دور میں نجی شعبے کو جو آزادی ملی اور نجی شعبے‘ بالخصوص   بیکن ہائوس سسٹم وغیرہ نے برگ و بارلانا شروع کیے تو سوچا گیا کہ چونکہ نجی شعبہ اپنے محدود کیمپسوں میں نیشنل کیڈٹ کور کی تربیت کا اہتمام نہیں کرسکتا‘ اس لیے جو لڑکے‘ لڑکیاں لازمی فوجی تربیت سے ۲۰نمبروں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں‘ اُن سے یہ تھوڑا سا امتیاز بھی چھین لیا جائے (اور انٹری ٹیسٹ کے نام پر مخصوص طبقوں کو آگے بڑھنے کی مزید سہولت بہم پہنچائی جائے)۔ یوں ۱۹۹۷ء میں نواز شریف صاحب کی حکومت نے تعلیمی اداروں سے این سی سی کے خاتمے کا اعلان کیا اور اب ’پاکستانی اتاترک‘ نے قوم کی رگوں سے جہاد‘ تربیت اور قومی جذبے کی اُمنگ کو کھرچ دینے کے لیے راگ‘ رنگ اور مستی کی لہر کے ساتھ مخلوط و بے باک کلچر کی ترویج کو ترقی قرار دیا۔

طلبہ و طالبات کے لیے مخلوط میراتھن ریس کے پروگرام کو دیکھیے: گوجرانوالہ کے ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ افسر (تعلیم) نے ضلع بھر کے طلبہ و طالبات کے کالجوں کے پرنسپلوں کو اپنے خط (مورخہ ۳۱ مارچ ۲۰۰۵ئ) میں حکم دیا: ’’وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایات کے مطابق مِنی میراتھن ریس ۲۰۰۵ئ‘ ۳ اپریل ۲۰۰۵ء کو گوجرانوالہ اسٹیڈیم میں منعقد ہوگی۔

  • پہلا مرحلہ: تین کلومیٹر‘ مرد‘ ۹ بجے صبح اور تین کلومیٹر‘ عورتیں‘ ۹ بج کر ۱۵ منٹ صبح قائداعظم ڈویژنل پبلک اسکول ‘ جی ٹی روڈ سے ریس شروع کریں گے۔
  • دوسرا مرحلہ: ۱۰ کلومیٹر‘ مرد‘ ۱۰ بجے صبح۔ ۱۰ کلومیٹر‘ عورتیں۔ ۱۰ بج کر ۱۵ منٹ صبح قائداعظم ٹائون‘ علی پور بائی پاس سے شروع کریں گے۔

آپ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اپنے تدریسی عملے [خواتین اور مردوں]‘ نیز اپنے کالج کے طالب علموں [لڑکوں‘ لڑکیوں] کو لے کر میراتھن ریس کے مقام آغاز پر پہنچ جائیں۔ آپ (سرکاری ملازموں)کی حاضری‘ گوجرانوالہ جناح اسٹیڈیم میں ریس کے آغاز اور ریس کے اختتام پر لگائی جائے گی۔

پاکستان بنانے والی مسلم لیگ۱۹۴۷ء میں نسلِ نو کی تعمیرذات کے لیے ایک الگ لائحہ عمل رکھتی تھی‘ جب کہ آج کی مسلم لیگ یہ راستہ اختیار کر رہی ہے جس میں اسکولوں اور کالجوں کی لڑکیوں کو تین سے دس کلومیٹر تک شہر کی سڑکوں پر دوڑایا جائے۔ یہ کون سی تعلیم اور کون سی صحت مند سرگرمی ہے! یہ صحت مند سرگرمی سے زیادہ‘ پاکستان کو ’’اسلام کی دقیانوسی‘‘ چادر سے نکال کر روشن خیالی کے اسٹیڈیم میں لانے اور تماش بینی کا بندوبست ہے۔

پاکستان کے نظام تعلیم کو آغاخان فائونڈیشن کے ادارے آغا خان بورڈ کے حوالے کرنے کا فریضہ انجام دینے والے جنرل مشرف اور ان کے وزیرتعلیم بعض اوقات حاکمانہ لہجے میں فرماتے ہیں: ’’ہم آغا خان بورڈ کو جاری وساری کرکے دکھائیں گے‘‘۔ اگر واقعی یہ ایک نجی ادارہ ہے تو پھر ہمارے حکمران اس کے دفاع کے بارے میں اتنے حسّاس کیوں ہیں؟ کیا آج تک کبھی کسی حکمران نے اور خاص طور پر کسی فوجی طالع آزما نے کسی پرائیویٹ ادارے کے لیے یوں سینہ تان کر دفاع کی جرأت دکھائی ہے؟ ان کی یہی سرگرمی بے شمار اندیشوں کو جنم دیتی ہے‘ حالانکہ خود آغا خان فائونڈیشن کی دستاویزات‘ عملی اعلانات اور اس پر تضادات کی بھرمار سے ہمارے حکمرانوں کی وکالت کا سارا کھیل چوپٹ ہوتا نظر آتا ہے۔

آغا خان بورڈ کے افسراعلیٰ شمس قاسم لاکھا ایک ٹیلی وژن پروگرام میں بڑے پرسکون اور دلیل کے بغیر بات کرتے دیکھے گئے‘ جب کہ وزیرتعلیم جنرل جاوید اشرف سطحی الزام تراشی میں لپٹے اور غصے کی حالت میں گرجتے پائے گئے۔ جنرل جاوید اشرف نے ۳۰ مارچ ۲۰۰۵ء کو پاکستان کے تمام ارکان قومی اسمبلی وارکان سینیٹ کو ایک خط (نمبر ای ایم ۲۰۰۵ئ) بھیجا‘ عنوان تھا: ’’آغا خان یونی ورسٹی ایگزامی نیشن بورڈ‘ اے فیکٹ شیٹ‘‘۔ یہ فیکٹ شیٹ (حقائق نامہ) کیا تھی؟ تین صفحے کا تضادات سے بھرپور اور حقائق سے کوسوں دُور بیان اور اس کے ساتھ جنرل مشرف صاحب کا منظور کردہ آرڈی ننس‘ پھر آغا خان فائونڈیشن کے شمس لاکھا کا بیان بھی ہر رکن اسمبلی کے ہاتھ میں تھمایا گیا۔ اس میں پیش کردہ استدلال اپنے کیس کا دفاع کرنے سے قاصر ‘اور محض سیاسی پروپیگنڈا تھا۔

الماری کی زینت بننے والے دستور پاکستان کے مطابق جو صوبے اپنے دائرہ اختیار میں تعلیمی نظم و ضبط کے لیے خودمختار ہیں‘ انھیں جنرل جاوید اشرف کا یہی ’’فیکٹ شیٹ‘‘ والا وثیقہ بھیج کر دبائو میں لانے اور جکڑنے کی کوشش کی گئی۔ پنجاب کی حکومت نے‘ ارکان اسمبلی کے نام بھیجے جانے والے اس وثیقے کی ہوبہو نقل صوبہ بھرکے اسکولوں اور کالجوں کے پرنسپلوں کو ارسال کردی۔ کیا حکومت پنجاب بھی ایک ایسی نجی این جی او کی کاروباری مہم میں ’عوامی رابطہ کاری‘ کی حصہ دار    بن چکی ہے؟ وہ این جی او جسے اپنا بورڈ چلانے کے لیے مکمل آزادی حاصل ہے‘ جس کا ’’تصورِ قومی نصاب‘‘ بالکل جدا ہے‘ جس کے اقدامات کو پاکستانی عدالتوں میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا‘ جس کی فیسوں کا تعین اس کی ’نیک نیتی‘ پر چھوڑدیاگیا ہے‘ اور جس کے لیے پورا وطن عزیز کھلی چراگاہ ہے۔

وفاقی وزیرتعلیم یہ کہتے ہیں کہ: ’’آغا خان بورڈ تو ’او‘ لیول، ’اے‘ لیول کے لیے ہے‘ تاکہ زرمبادلہ بچایا جائے۔ پھر یہ بورڈ پاکستان کا قومی نصاب ہی پڑھائے گا‘‘۔ سوال کیا گیا: ’’جناب‘ پاکستان میں تو ’او‘ لیول ، ’اے‘ لیول کا نہ کوئی نصاب ہے اور نہ نظام۔ پھر بھلا یہ کس طرح قومی نصاب کے دائرے میں آئے گا؟‘‘ جواب حقارت آمیز خاموشی کی صورت میں ملا۔ پھر وزیر صاحب نے کہا: ’’پاکستان کا تعلیمی معیار اور یہ بورڈ بڑے خراب ہوچکے ہیں‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیرتعلیم نے پاکستان کے قومی اور سرکاری نظام تعلیم کو درست کرنے کے لیے وزارت کا قلم دان سنبھالا ہے‘     یا خرابی دیکھ کر اسے ٹھکانے لگانے‘ بیچ دینے اور قومی زندگی سے غیرمتعلق بنانے کا بیڑا اٹھایاہے؟

دوسری طرف او/اے لیول سے مقتدر طبقے کاعشق خاصّے کی چیز ہے۔ گذشتہ اڑھائی برسوں کے دوران سینیٹ اور قومی اسمبلی میں کم از کم سات مرتبہ وزارت ہاے تعلیم‘ خزانہ اور داخلہ سے یہ سوال پوچھا گیا کہ: ’’پاکستان سے کتنے طلبہ و طالبات او/اے لیول کا امتحان دے رہے ہیں؟ ان کے نتائج کا تناسب کیا رہا؟ امتحان کی رجسٹریشن‘ امتحان کے انعقاد کی مد میں گذشتہ تین برسوں کے دوران (سال بہ سال) کتنا زرمبادلہ خرچ ہوا؟‘‘--- متعلقہ وزارتوں نے پہلے تو جواب ہی نہیں دیا‘ اور جب بار بار یاد دہانیوں سے مجبور ہوکر جواب دیا تو کہا: ’’ہمارے پاس معلومات نہیں‘‘۔ پھر پوچھا گیا تو جواب ملا: ’’چونکہ او/اے لیول پاکستانی نظام تعلیم نہیں ہے‘ اس لیے جواب نہیں دیا جا سکتا‘‘۔ یہ کیسی گڈگورننس اور شاندار نظامِ حکومت ہے کہ جس کی آنکھوں کے سامنے قوم کے اربوں روپے پاکستان سے باہرجا رہے ہیں‘ اس کے ہزاروں بچے بچیاں بیرون پاکستان امتحان دے رہے ہیں‘ مگر حکومت کی کسی ایجنسی‘ کسی ادارے یا وزارت کے پاس اس کا ریکارڈ تک نہیں ہے۔ اور لطف یہ کہ اسے ایک قابلِ رشک اور قابلِ تقلید نظام قرار دے کر کہا جارہا ہے کہ یہی نظام آغا خان بورڈ لائے گا۔ حالانکہ آغاخان بورڈ بھی ایک بیرونی ایجنسی کا سوداکار نمایندہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امتحانی بورڈ کے کرتا دھرتا اور نصابی ڈھانچے کے نگران پاکستانی نہیں بلکہ برطانوی ہی مقرر کیے گئے ہیں۔

آغا خان بورڈ کی طرف سے پاکستان کے ’’قومی نصاب کی پابندی‘‘ کا پے درپے اعلان‘ ہاتھی کے دکھاوے کے دانتوں کے سوا کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ اس میں بڑا بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر نصاب پاکستان کا ہونا ہے تو محض ایک مشینی انداز سے امتحان لینے کی زحمت کرنے میں آغا خان یونی ورسٹی کو کیوں اتنی دل چسپی ہے؟ اور اتنے سے کام کے لیے یو ایس ایڈ کی کروڑوں ڈالر کی امداد‘ امریکی سفیر کی بے چینی‘ اور حکومتی عقابوں کا اضطراب کیا صرف اور صرف امتحان لینے دینے کے لیے ہے؟ نہیں! یو ایس ایڈ کی ویب سائٹس اور آغا خان ایجوکیشن سروس‘ آغا خان یونی ورسٹی اور اس کا بورڈ تصویر کا دوسرا منظر پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر آغا خان بورڈ نے ۱۱‘۱۲ اگست ۲۰۰۳ء کو نصابِ تعلیم پر گول میز کانفرنس منعقد کی‘ جس میں نصابی تبدیلیوں پر غور کیا گیا۔ پھر اسی تسلسل میں مارچ ۲۰۰۴ء کے دوران مزید اجلاس کیے۔ اس کے بعد جولائی اور ستمبر ۲۰۰۴ء کو اسی نوعیت کے بھرپور اجلاس میں نصابی جائزے کے لیے ۱۸ پینل بنائے گئے جنھوں نے مختلف سطحوں پر سامنے آنے والے ردعمل کا جائزہ لیا۔ صرف اس مشق کے لیے ۱۳ لاکھ امریکی ڈالر صرف کیے گئے۔

پاکستان کیا‘ دنیا کا کوئی بھی ملک اپنے نظام تعلیم سے مطمئن نہیں‘ لیکن وہ ملک اسے بیچ دینے یا اکھاڑ پھینکنے کے بجاے اسے بہتر بنانے کی سبیل سوچتے ہیں۔ مگر یہاں نہ صرف اس کی مذمت کی جارہی ہے بلکہ ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کا بندوبست بھی کیا گیا ہے۔ آج سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں پاکستان کے عام اسکولوں اور دیہی علاقوں کے ذہین اور محنتی طالب علموں کے جو عظیم کارنامے نظر آتے ہیں‘ اور پھر دفاع وطن کے لیے جوہری و میزائل ٹکنالوجی میں جو پیش رفت دکھائی دیتی ہے‘ بالیقین کہا جاسکتا ہے کہ اس عظیم قومی ذہانت و محنت میں آپ کو کسی عیسائی مشنری تعلیمی ادارے‘ اولیول گروپ یا اعلیٰ طبقاتی انگلش میڈیم کا کوئی رول ڈھونڈے سے بھی نہ ملے گا۔ میڈیکل اور زراعت میں انھی کم مایہ اور غریب مگر ملک و قوم کے وفادار سائنس دانوں کی عظمت کے نقوش پرآج مسلم دنیا خصوصاً ملایشیا‘ ترکی اور مصر کے سائنس دان بھی رشک کرتے ہیں۔ پھر بھی یہی بے چارے مذمت اور تحقیر کے حق دار ہیں۔

بات دراصل یہ ہے کہ پاکستان کے قومی نظام تعلیم کے جسدِملّی سے روح محمدؐکی بچی کھچی رمق کو نچوڑ کر رکھ دینا امریکی سامراج کا ہدف ہے۔ اس کے لیے انھوں نے پاکستان کی وزارت تعلیم کو بے دست و پا بناکر‘ ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے اور ہر ٹکڑے پر چار چار عالمی این جی اوز کو بٹھا دیا ہے جن کی وفاداریوں کا مرکز پاکستان میں نہیں بلکہ سات سمندر پار ہے۔ ان این جی اوز کی حکمرانی وزارت ہاے تعلیم اور ادارہ ہاے نصابیات سے لے کر اساتذہ کی تربیت اور انھیں دفتری اور انتظامی گُر سکھانے تک پھیلی ہوئی ہے۔ بڑے انتظامی عہدوں پر لاکھوں روپوں کی تنخواہوں والے باس بٹھائے اور سابق اعلیٰ فوجی افسران مسلط کیے جا رہے ہیں‘ جنھیں نہ تعلیم کے رموز سے شناسائی ہے اور نہ اجتماعی زندگی کے پیچ در پیچ سلسلوں سے نبردآزما ہونے کی کوئی تربیت حاصل ہے۔ البتہ وہ اُوپر سے ملنے والے حکم کو یونٹی آف کمانڈ کے اصول پر نچلے عملے پر اندھا دھند نافذ کرنے کا پیشہ ورانہ تجربہ ضرور رکھتے ہیں۔ غالباً ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں امریکا کو ایسے ہی فدوی مگر کروفر کے حامل افراد کار کی ضرورت ہے۔

روزنامہ  ڈیلی ٹائمز‘ لاہور (۲۰ اپریل ۲۰۰۵ئ) کے واشنگٹن میں متعین نمایندے خالد حسن نے رپورٹ دی کہ: ’’ایجوکیشن ان اسلامک ورلڈ‘ ٹاپ یو ایس پرییارٹی‘‘ (یعنی: مسلم دنیا میں تعلیم: امریکا کی ترجیح اول)۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ: ’’امریکا نے طے کیا ہے [کہ مسلم دنیا کی] وزارت ہاے تعلیم کو فنی معاونت کے لیے مادی وسائل فراہم کیے جائیں گے‘‘۔ الزبتھ چینی پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری نے یہ بیان امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے سامنے‘ تعلیم اور دہشت گردی کی مناسبت سے دیا۔ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت سینیٹر رچرڈلوگر نے کی جن کے سامنے اسلام آباد سے انٹرنیشنل کرائسز گروپ (ICG) کی ڈاکٹر ثمینہ احمد‘ عالمی بنک کے سابق اعلیٰ عہدے دار شاہد جاوید برکی ‘ اُردن کے وزیر مال ڈاکٹر بسیم‘ امریکی حکومت کے متعدد اعلیٰ افسروں اور یوایس ایڈ کے جیمز کنڈر نے بیانات دیے۔ جیمزکنڈر نے کہا: ’’امریکا کو [مسلم دنیا کے] نوجوانوں تک پہنچنا چاہیے‘‘۔ ثمینہ احمد نے کہا: ’’نائن الیون کے بعد بڑی خطیر مالی معاونت کے باوجود پاکستان کے تعلیمی ماحول کو خاطرخواہ طریقے سے متاثر نہیں کیا جاسکا‘ جس کا ایک سبب پاکستان کی غیرمؤثر تعلیمی بیوروکریسی ہے اور دوسرا یہ کہ پاکستانی حکومت مذہبی عناصر کے دبائو کے سامنے قدم نہیں جماپاتی جنھوں نے پاکستان کے نصاب تعلیم کو یرغمال بنا رکھا ہے‘‘--- یہ سب چیزیں اُس ایجنڈے کا حصہ ہیں‘ جن کے تحت پاکستان کے پورے تعلیمی منظرنامے کو تبدیل کرنے کی سرگرمی عروج پر ہے۔

مخلوط تعلیم کو رواج دینے میں ذوق شوق ‘ تربیت اساتذہ کے بے شمار قومی ادارے موجود ہونے کے باوجود امریکا اور آغا خان فائونڈیشن کی مدد کا حصول‘ نصابات کو عدم مرکزیت کی دلدل میں دھکیلنا‘ اعلیٰ تعلیمی ڈھانچے کو غیرمؤثر اور کاروباری نشیب کی طرف دھکیل دینا‘ عورتوں اور طالبات کی تعلیم و تربیت اور مخصوص ذہن سازی پر خصوصی ارتکاز‘ میڈیا کی آزاد روی بلکہ آوارہ خرامی کی سرپرستی اور اس کام کے لیے مخصوص این جی اوز کو کھل کھیلنے کا سامان مہیا کرنا--- یہ سب چیزیں نائن الیون کمیشن کی سفارشات کے بعد برق رفتاری سے مسلم دنیا‘ بالخصوص پاکستان کے تعلیمی نظام کو پامال کر رہی ہیں۔ اگر معاملات کی یہی رفتار رہی اور اہل سیاست اور اہل اقتدار نے اپنی آنکھوں پر بدستور ذاتی مفادات کی پٹی باندھے رکھی تو اب سے چار سال بعد کا پاکستان‘ نہ اقبال کا پاکستان ہوگا اور نہ قائداعظم کا پاکستان۔ ایوب خاں کی طرح آج کے حکمران بھی ماضی کی کتابوں میں بند پڑے ہوں گے‘ تاہم وہ مجبور و مقہور پاکستان این جی اوز کا پاکستان ہوگا۔ جہاں بظاہر چہرے پاکستانیوں کے ہوں گے لیکن‘ دل اور دماغ عالمی این جی اوز مافیا کی گرفت میں ہوں گے۔

اس ساری صورت حال میں سپریم کمانڈر صدر بش اپنے مددگار کمانڈروں کی خدمات کا اعتراف کرنے میں بخل سے کام نہیں لے رہے۔ C.Span ٹیلی وژن نیٹ ورک پر ۳۱ جنوری ۲۰۰۵ء کی شام انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا: ’’جنرل مشرف نے عظیم قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے اور ہمارے کسی دبائو کے بغیر ہی درست سمت میں چلنے کے لیے انھوں نے متعدد راستے اختیار کیے ہیں۔ بہت سے مواقع پر‘ میں نے جنرل مشرف سے بات چیت کے دوران یاد دلایا کہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کے عمل میں وہ خاص طور پر پاکستان کی تعلیمی پالیسی کو تبدیل کریں اور اس تعلیمی پروپیگنڈے کا خاتمہ کریں جو ان کے اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے‘‘ (یکم فروری ۲۰۰۵ئ‘  قومی اخبارات)۔ سامراج کی ایک خوبی کا اعتراف کرنا چاہیے‘ اور وہ یہ کہ جب کوئی فرد اُن کے مقاصد کی تکمیل کے لیے اُن کا مددگار بنتا ہے‘ تو وہ اس کی اتنی تعریف کرتے ہیں کہ خود اپنی قوم کے خلاف گواہی دینے والے کو شرمندگی سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ لیکن ایسا کام اُس وقت تک ہوتا ہے جب تک کہ آپریشن مکمل نہیں ہوتا۔ سرزمین ہند میں گوری اقوام نے بار بار یہی ڈراما کیا تھا اور اس صدی میں توا س کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔

’’دہشت گردی کے خلاف مہم‘‘ تو ایک بہانہ ہے۔ دراصل یہ جنگ اسلام اور قرآن کے خلاف ہے‘ اسلام کے دیے ہوئے خاندانی نظام اور سیرت محمدیؐ کے خلاف ہے اور اس سے بڑھ کر  مسلم اُمت کو ایک کم تر کمیونٹی بنانے کا شیطانی منصوبہ ہے۔ اس کام کے لیے تعلیم کا میدان اوّلیت کا حامل ہے۔ دشمن جانتا ہے کہ بقول اکبر الٰہ آبادی مرحوم:

دل بدل جائیں گے‘ تعلیم بدل جانے سے

اجتماعی زندگی مختلف سطحوں پر رواں دواں رہتی ہے جس میں حالات میں خرابی‘ الجھائو اور سدھار کی موجیں پہلو بہ پہلو چلتی ہیں۔ بلاشبہہ دوسری اقوام کی بھی قومی زندگی کو گوناگوں چیلنجوں کا سامنا ہوگا‘ لیکن پاکستان کئی حوالوں سے منفرد نوعیت کے حالات و واقعات کے بھنور میں گھرا نظر آتاہے۔

بدقسمتی سے ہماری یونی ورسٹیوں میں‘خصوصاً سماجی علوم پر ہونے والی تحقیق اور تجزیہ کاری‘ بیش تر صورتوں میں بے رنگ‘ بے لطف اور بڑی حد تک بے مغز بھی ہے۔ ان دانش کدوں میں زندہ موضوعات پر دادِ تحقیق دینا غالباً شجرممنوعہ ہے‘ اسی لیے تحقیق ایک لگے بندھے (stereotype) اسلوب میں لڑکھڑاتی نظرآتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم و صحافت کو‘ ہماری جامعاتی سطح کی تحقیقات سے کوئی قلبی رغبت نہیں ہے۔ اس تناظر میں ایسے اہلِ قلم غنیمت ہیں جو ’’چراغ اپنے  جلا رہے ہیں‘‘۔ عبدالکریم عابد ایسے دانش وروں میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں‘ جنھوں نے مختلف اخباروں میں کالم نگاری اور اداریہ نویسی کے ذریعے قوم کی بروقت رہنمائی کی ہے۔

عبدالکریم عابد کی تازہ کتاب سیاسی‘ سماجی تجزیے موضوعات کی بوقلمونی کے ساتھ علمی گہرائی اور مشاہداتی وسعت کا ایک قیمتی نمونہ ہے۔ ان کے ہاں کسی نام نہاد اسکالر کا سا جامد اسلوب نہیں ہے اور نہ کارزارِ سیاست کے کھلاڑی جیسا یک رخا پن‘ بلکہ ان کے چھوٹے چھوٹے مضامین میں انصاف‘ اظہار اور اطلاع کا جھرنا پھوٹ رہا ہے۔ وہ فلسفے‘ سیاسیات‘ ادب‘ آرٹ اور تاریخ کی عبرت آموز تفصیلات اور وجدآفریں تجزیے پیش کرتے ہیں۔ ان کی یادداشت قابلِ رشک ہے اور سماجی سطح پر تعلقات کا دائرہ بڑا وسیع ہے۔ انداز نگارش رواں دواں ہے اور لکھنے والے کے ذہنی توازن اورپختہ فکری کا پتا دیتا ہے۔ یہ کتاب عبدالکریم عابد کے ۴۹ مضامین پر مشتمل ہے‘ جن میں بیشتر کی اشاعت جسارت اور فرائیڈے اسپیشل میں ہوئی۔

جناب عابد نے اپنی زندگی کی ساٹھ بہاریں صحافت و سیاست‘ اور ادب و دانش کے ویرانوں (یا مرغزاروں) میںگزاری ہیں۔ وہ ایمان اور عقیدے کی پختگی اور تشخص کا امتیاز رکھنے کے باوجود‘ پیشہ ورانہ دیانت اور تجزیاتی معروضیت پر آنچ نہیں آنے دیتے۔

ہماری قومی تاریخ کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں: ’’پاکستان پان اسلام ازم کے جذبے کی پیداوار ہے اور اس جذبے کے بغیر پاکستان کو نہ مضبوط بنایا جا سکتا ہے‘ نہ چلایا جا سکتا ہے      (ص ۱۷۳)--- پاکستان کی سیاسی زندگی میں‘ اہلِ سیاست کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ اپنی نااہلی‘ ناعاقبت اندیشی ‘ اور مرغِ بادنما جیسی فطرت کے ہاتھوں وطن عزیزکو کھیل تماشے کی طرح برتنے میں ]کوئی[ عار محسوس نہیں کرتے‘ لیکن جوں ہی عوام میں کوئی بے چینی پیدا ہوتی ہے تو یہ لیڈر حضرات اپنی توپوں کا رخ دوسری قومیت کی طرف پھیر دیتے ہیں‘‘۔

پاکستان کے تمام المیوں کا ذمہ دار پنجاب کو قرار دینا ہماری سیاست میں ایک چلتا سکّہ ہے‘ عابد صاحب نے تفصیل سے اس کا تجزیہ کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’ہماری سیاست کا فیشن پنجاب کو مطعون کرنا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ خداوندان پنجاب کے جرائم بہت ہیں… لیکن دوسرے صوبوں کے اہلِ سیاست نے کیاکسی اچھے کردار کا مظاہرہ کیا (ص ۱۷۹)… یہ حسین شہید سہروردی تھے جنھوں نے مسلمانوں کے اتحاد ] کے نظریے [ کو زیروجمع زیرو قرار دے کر اینگلو امریکی طاقتوں کے سامنے سجدہ ریزی کا مسلک پورے دھڑلے سے اختیار کیا (ص ۱۸۱)… جمہوریت کی تباہی کے عمل میں پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں کی سیاسی قیادت کی بے اصولی اور موقع پرستی بھی شامل ] رہی ہے[۔ صورتِ حال ہرگز یہ نہیں تھی کہ پنجاب میں صرف حکمران طبقہ تھا‘ بلکہ یہاں جمہوریت‘ وفاقیت‘ صوبائی خودمختاری اور منصفانہ اقتصادی نظام کے لیے جدوجہد کرنے والے لوگ موجود اور خاصے منظم تھے لیکن دوسرے صوبوں کی سیاسی قیادتوں نے ان سیاسی عناصر کے ساتھ اشتراکِ عمل کے بجاے ] پنجاب کے[ حکمران طبقے کے ہاتھوں کھلونا بننا پسند کیا۔ انھوں نے اپنا سارا وزن‘ جمہوریت اور وفاقیت کے بجاے آمریت اور غیر جمہوری مرکز کے پلڑے میں ڈال دیا (ص ۱۲۵)… سرحد کے قیوم خاں کوئی معمولی رہنما نہیں تھے] انھوں[ نے اتحاد کے لیے کبھی پنجاب کی عوامی قوتوں کو پسند نہیں کیا]بلکہ[ ان کا گٹھ جوڑ اوپر کے اس حکمران طبقے سے تھا جس نے ظلم و جبر کی حکومت قائم کر رکھی تھی۔ ان کے سائے میں خود خان قیوم کی حکومت بھی حزبِ اختلاف کو کچلنے کی کارروائیاں بے جھجک کرتی رہی۔ انھوں نے مانکی شریف کا لحاظ کیا نہ دوسرے مسلم لیگیوں کا‘ اور سرحد کا مردِ آہن بن کر اپنے ہتھوڑے سے جمہوریت کا سر کچلتے رہے۔ ادھر غفار خاں کو سواے پختونستان کی رَٹ لگانے کے‘ دوسری کوئی بات ہی نہیں سوجھتی تھی (ص ۱۲۶)… بھٹوصاحب نے سرحد‘ بلوچستان میں نمایندہ حکومتوں کو ختم کیا‘ بلوچستان پر فوج کشی کی تو ایک طرف اکبربگٹی نے ] بھٹو صاحب کا ساتھ دے کر[ ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا‘ اور دوسری طرف سندھ سے حفیظ پیرزادہ‘ ممتاز بھٹو‘ طالب المولیٰ نے تالیاں بجا کر اس کا خیرمقدم کیا۔ اس کا مطلب تھا کہ جمہوریت نہ کسی کو عزیز ہے نہ کسی کو مطلوب۔ اب بلا سے اگر جمہوریت ذبح ہوتی ہے تو ہوجائے‘ ہم کیوں اس کا غم کریں۔ یہی ذہنیت تھی جس نے آخرکار جمہوریت اور سندھی رہنمائوں کے چند روزہ اقتدار‘ سب کو ختم کر دیا (ص ۱۲۹)… سب کھیل جو آمریت‘ چھوٹے صوبوں کے جغادری لیڈروں کی مدد سے کھیلتی رہی ہے‘ اور اب بھی کھیل رہی ہے اس کا تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ بے شک پنجاب کا حکمران طبقہ بڑا لعنتی ہے‘ مگر اس لعنتی گروہ کے ساتھی ہر صوبے میں پائے جاتے ہیں۔ جب تک یہ لوگ اپنی ضمیرفروشی ترک کر کے‘ پنجاب کے حکمران طبقے کے بجاے‘ پنجاب کے جمہوریت پسند اور سیاسی عناصر کو تقویت نہیں پہنچائیں گے‘ اس وقت تک ] پاکستان[ آمریت کے چنگل میں پھنسا رہے گا۔ اس لیے چھوٹے صوبوں کے لوگ اپنے لیے پرانی ضمیرفروش قیادت کے بجاے نئی قیادت تلاش کریں‘ جس کا اصولوں پر واقعی ایمان ہو‘ اور وہ استقامت کا مظاہرہ کرے‘ورنہ صرف پنجاب کو گالیاں دیتے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا‘‘ (ص ۱۲۹‘ ۱۳۰) وغیرہ۔

یہ تبصرہ تو ماضی پر تھا‘ اب دورِ جنرل مشرف میں پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر ابھرنے والے ان ناسوروں کی ایسی سچی تصویرکشی بھی کی ہے۔ میرظفراللہ خاں جمالی کا بے آبرو ہو کر کوچہ بدر ہونا‘ آنسو بہانا اور پھر کپڑے جھاڑ کر‘ حکمران طبقے کی تعریف پر کمربستہ ہونا عبرت کی جا ہے۔ پنجاب کے چودھریوں اور وڈیروں کا اپنے جیسے خاندانی خدمت گاروں اور پارہ صفت انسانوں کو جمع کر کے ملازمین ریاست کی چوکھٹ پر سجدہ ریز کرانے کی خواری مول لینا ایک گھنائونافعل ہے۔ کراچی سے ایم کیو ایم قسم کی بھتہ خور قیادت کا کذب و دہشت گردی وغیرہ۔

سماجی زندگی پر ادب کے کردار و احوال پر بھی بڑے جان دار تبصرے سامنے آتے ہیں۔ اس کے ساتھ علامہ اقبال کے کارنامے اور ان کے بارے میں نام نہاد ترقی پسندوں کا رویّہ زیربحث آیا ہے‘ لکھتے ہیں: ’’وہ قنوطیت اور بے عملی کے خلاف ساری زندگی جہاد کرتا رہا‘ اور اس جہاد کے سبب ہی برصغیر کے مسلمان عوام نے اقبال کو ملّت کے اقبال کا ستارہ سمجھا‘ لیکن ترقی پسندوں کو یہ ناگوار گزرا۔ اخترحسین رائے پوری نے رسالہ اردو‘ جولائی ۱۹۳۵ء میں لکھا:’’اقبال فاشتّیت کا ترجمان ہے۔ وہ مسلمانوں اور ہندستان کے لیے خطرناک ہے‘ یہی بات روزنامہ پرتاپ کے مدیرمہاشے کرشن نے ایک اداریے میں لکھی تھی: ’’شمالی ہند کا ایک خطرناک مسلمان‘‘۔ ]تاہم[ اقبال جب مسلمان عوام کا شاعر بن گیا تو ترقی پسندوں نے یہ کوشش کی کہ اسے ترجمان اشتراکیت ظاہر کریں‘ لیکن وہ دھوکا دہی کی اس واردات میں کامیاب نہیں ہوسکے…اس ضمن میں سب سے شاہکار چیز علامہ اقبال پر وہ رنگین فلم تھی‘ جو فیض احمد فیض نے کرنل فقیر وحید الدین کے سرمائے سے بنائی تھی۔ اس فلم کو میں نے بھی کراچی میں دیکھا‘ اور جب ہال سے باہر نکلا تو ممتاز حسن آگ بگولا نظرآئے۔ وہ کہنے لگے: ’’اس فلم سے اصل اقبال جو مسلمان تھا‘ غائب کر دیا گیا ہے‘ اور وہ جعلی اقبال رکھ دیا گیا ہے‘ جو مارکس اور لینن کا پیرو نظرآتا ہے‘‘۔ ہم دونوں کرنل فقیر سید وحید الدین کے مکان پر بھی گئے۔ ممتاز صاحب نے ان سے کہا: ’’مجھے افسوس ہے کہ آپ کے سرمائے سے اقبال پر ایسی فلم بنی‘ جس میں اقبال کو مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے‘‘۔ کرنل صاحب نے ان کی گفتگو سن کر فیصلہ کیا کہ یہ فلم عوام میں نمایش کے لیے پیش نہیں کی جائے گی ‘ اور اسے ضائع کر دیا جائے گا۔ کرنل صاحب نے کہا: ’’میں یہ سمجھ لوں گا کہ جو سرمایہ اس فلم پر صرف کیا گیا‘ وہ کوئی چور لے اڑا‘‘۔ اس کے بعد فیض صاحب اور کرنل صاحب کے تعلقات میں کھنچائو پیدا ہوگیا (ص ۱۱۱-۱۱۴)وغیرہ۔

اس نوعیت کے تجزیاتی نکات سے عابد صاحب نے ان دقیق بحثوں کو ایک عام فہم اسلوب میں سمو کر رکھ دیا ہے۔

کتاب کا سب سے زیادہ دل چسپ اور فکرانگیز حصہ وہ ہے‘ جس میں انھوں نے  تحریکِ آزادی‘ تحریکِ پاکستان‘ جدید مسلم قیادت اور علما کے حرکی تجربات وغیرہ کو موضوع بحث بنایا ہے۔ تاریخ کے سیاسی اور منطقی پہلو کو ایسے قائل کر دینے والے لہجے میں بیان کیا ہے کہ ایک اوسط درجے کی تعلیمی قابلیت رکھنے والا فرد بھی اس سے روشنی حاصل کرکے مستقبل کی تاریکیوں کو ختم کرنے پر سوچ بچار شروع کر دیتا ہے۔ سید احمد شہید کی تحریک‘ علامہ شبلی نعمانی کے نظریات‘ مغرب زدہ حکمران‘ پاکستانی سیاست میں جاگیردار طبقے کا کردار‘ جدید تعلیم اور ماڈرن اسلام اور موجودہ اقتصادی نظام وغیرہ کے حوالے سے ایک جہان معانی‘ نظرنواز ہوتا ہے۔

عبدالکریم عابد کہتے ہیں:’’ایک مثالی اسلامی لیڈرشپ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ تعلق باللہ اور تعلق بالعوام دونوں کی مالک ہوتی ہے۔ اس کا خدا اور خلقِ خدا ہر دو سے رابطہ ہوتا ہے۔   (ص ۱۷۲)… اسلام کے نام لیوائوں پر یہ خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ وقت کے اقتصادی چیلنج کا جواب پیش کریں۔ اگر ان کے پاس اس چیلنج کا کوئی جواب نہیں ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کا اسلام اصلی اسلام نہیں ہے‘ کیونکہ وہ اصلی اسلام ہوتا تو اس کے پاس عوام کے اقتصادی اطمینان کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا اور یہ محرومی جو نظر آرہی ہے نہ ہوتی‘‘ (ص ۲۳۱)۔

معاشی ناہمواری کے موجودہ ظالمانہ شکنجے پر عابد صاحب نے جان دار بحث کی ہے۔ اس نگارخانہ دانش و حکمت کے دلآویز رنگ گوناگوں ہیں: موضوعات کا تنوع ہے‘ بحث       کی وسعت‘ نقطہ نظر کی کشادگی اور اسلوب تحریر سادہ مگر دل چسپ اور پُرکشش۔ ابتدائیہ جناب سید منور حسن نے تحریر کیا ہے۔ مناسب ہوتا کہ ہر مضمون کے آخر میں اس کی تاریخِ اشاعت بھی درج ہوتی۔ اس کتاب کو منشورات (منصورہ‘لاہور) نے شائع کیا ہے۔ صفحات ۳۶۰ اور قیمت ۱۵۰ روپے ہے۔

جب گھر کے چوکیدار اپنی طاقت کے زور پر گھر کے مالک بن کر من مانے فیصلے کرنے لگیں تو اس گھر کے مکینوں کو سوچنا پڑتا ہے کہ وہ کس پُرامن طریقے سے اپنے ان ملازموں سے گھرکو واگزار کرائیں۔ یہ معاملہ ایک گھر کا ہو تو تکلیف دہ اور اگر ایک قوم کے ساتھ ہو تو المناک ہوا کرتا ہے۔

پاکستان میں ملازمین ریاست نے (چاہے وہ باوردی ہوں یا بے وردی) اسی قوم کو اپنے جبروزیادتی کا نشانہ بنایا ہے‘ جس قوم نے سخت قربانیوں کے ساتھ ان کے کروفرکا بندوبست کیا اور اختیار کی امانت ان کے سپرد کی۔ یہ ملازمین بنیادی طور پر عوام کے مسائل و معاملات سے لاتعلق نہیں تو بے بہرہ ہونے کی ایک تاریخ رکھتے ہیں اور اس کی وجہ اُن کی تربیت کا استعماری  پس منظر ہے۔ بہرحال ایسے لوگ جب اقتدار کے سرچشموں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا شروع کرتے ہیںتو کبھی اس کا قبلہ درست کرنے پر تل جاتے ہیں اور کبھی اس کی تاریخ ٹھیک کرنے کی فکر میں غلطاں ہوتے ہیں۔ ایسے میں کچھ خود ساختہ حکمران‘ فکری بونوں اور سیاسی بالشتیوں میں کھڑے ہو کر جب اپنے عقل کل ہونے کا اعلان کرتے ہیں تو کسی دل جلے کے ہونٹوں سے   آہ پھوٹ پڑتی ہے۔ ایسے میں یہ عقلِ کل صاحبان ’’کچل دینے‘‘کی دھمکی سے کم پر نہیں رکتے۔ ایسے ہی عقلِ کل حکمرانوں نے پاکستان کے سیاسی مستقبل کو خدشات و خطرات شکار کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی مستقبل کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ قومی نظام تعلیم کے ساتھ جس کھیل تماشے کا انھوں نے آغاز کیا ہے‘ اس پر ہر محب وطن شدید صدمے کی کیفیت سے دوچار ہے‘ تاہم قوم کو صدمے کی کیفیت سے نکل کر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے۔

جنرل یحییٰ خان کے زمانے سے اسماعیلی فرقے کے سربراہ کو پاکستان میں سرخ قالین پر استقبال کرانے والے شہنشاہ معظم کا رتبہ حاصل ہے‘ حالانکہ ان کے پاس کوئی ریاست اور کوئی حکومت نہیں۔ عجیب و غریب عقائد و نظریات کے حامل اس عالمی استعماری گروہ نے فی الواقع پاکستان میں ریاست در ریاست قائم کرنے کے لیے شمالی علاقہ جات کو اپنا مرکز بنایا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اپنے عقائد کے اعتبار سے اسماعیلی شیعہ بھی نہیں کہ مسلمانوں میں شمار کیے جائیں بلکہ ان کے عقائد قادیانیوں سے قریب تر ہیں۔ اہلِ تشیع ان کے بارے میں اسی رائے کو درست سمجھتے ہیں جو جمہور مسلمان قادیانیوں کے بارے میں رکھتے ہیں۔اور عجیب بات یہ ہے کہ انھی اسماعیلیوں کو اکثر ہمارے حکمران سب سے اچھا پڑھا لکھا‘ اور روشن خیال مسلمان قرار دیتے ہیں۔

۱۹۸۳ء میں جنرل ضیا الحق مرحوم نے آغاخان فائونڈیشن کو کراچی میںایک میڈیکل یونی ورسٹی کھولنے کی اجازت عطا کی۔ اس تعلیمی ادارے نے بے پناہ فنڈز رکھنے کے باوجود نہایت مہنگے داموں میڈیکل تعلیم کا چراغ روشن کیا۔ یہاں پر یہ مسئلہ زیربحث نہیں کہ کس طبقے کے کتنے بچوں نے یہاں سے تعلیم حاصل کی اور پھر ان میں سے کتنے فی صد پاکستان میں خدمت انجام دینے کے لیے رکے رہے۔ اس موضوع پر حقائق سامنے لائے جائیں تو خود بخود یہ حقیقت کھل جائے گی کہ یہ ادارہ اپنے حتمی نتائج کے اعتبار سے پاکستان کے بجاے دوسروں کی خدمت پر کمربستہ ہے۔ بلاشبہہ اس ادارے نے میڈیکل سائنس اور صحت کے میدان میں بڑے نمایاں نتائج دیے ہیں‘ مگر اس بات سے یہ نتیجہ کیسے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ ادارہ پاکستان بھر کے ۱۵ کروڑ لوگوں کے بچوں کو بھی تعلیم دینے کی اہلیت اور قابلیت رکھتا ہے۔

اکتوبر ۲۰۰۲ء میں عام انتخابات ہوئے۔ قوم نے اپنے نمایندے چن لیے‘ لیکن جنرل پرویز مشرف نے اپنی متنازعہ صدارت اور بوگس ریفرنڈم سے حاصل کردہ اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ۸ نومبر ۲۰۰۲ء کو اپنے دستخطوں سے ’’غیرمعمولی آرڈی ننس‘‘(CXIV/2002) منظور کیا‘ جسے ’دی گزٹ آف پاکستان‘ کے صفحات ۱۷۳۱ تا ۱۷۳۵ پردیکھا جا سکتا ہے۔ یوں قوم کے مستقبل پر ایک اور کمانڈوایکشن لیا گیا۔ افسوس کہ اہلِ سیاست اور اہلِ قانون اس آرڈی ننس کی نزاکت سے بے خبر رہے‘ اور اب یہ آرڈی ننس اپنی تمام حشرسامانیوں کے ساتھ قوم کی فکری‘ تاریخی‘ دینی اور معاشی مستقبل پر شب خون کا درجہ ہی نہیں رکھتا بلکہ دن دھاڑے ڈاکازنی کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اسے تیار کرنے والوں کو بخوبی معلوم ہے کہ کسی معاشرے اور قوم کے وقار‘ عزت اور خودی کو مسخر کرنے اور اسے ہمہ پہلو غلامی کے شکنجے میں کسنے کا سب سے کامیاب گر تعلیم ہے۔

یہاں پر آغا خان یونی ورسٹی ایگزامی نیشن بورڈ (AKU-EB) کے اس آرڈی ننس کی چند شقیں پیش کی جا رہی ہیں‘ جنھیں دیکھنا‘ پرکھنا اور اس پر آواز بلند کرنا تمام اہل نظر کی دینی‘ قومی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ آرڈی ننس کا آغاز ان الفاظ میں ہوتا ہے:

  • ہرگاہ کہ: یہ ضروری اور مناسب اور قومی مفاد میں ہے کہ تعلیمی معیار کی بلندی کے لیے طالب علموںکی حوصلہ افزائی کی جائے ‘ اور عوام کو مزید تعلیمی مواقع فراہم کیے جائیں۔
  •  مزید ہرگاہ کہ: آغا خان یونی ورسٹی‘ پاکستان کے اندر اور باہر تعلیم کی ترقی کو مشن کے طور پر اپنائے ہوئے ہے… اور مشرقی افریقہ‘ افغانستان‘ شام اور وسطی ایشیا کی ترقی کے لیے کام کر رہی ہے… مذکورہ یونی ورسٹی ضروری بصیرت‘ مہارت‘ تجربہ اور متعلقہ انتظامی صلاحیت رکھتی ہے۔
  • ہرگاہ کہ: آغا خان یونی ورسٹی نے حکومتِ پاکستان کو عظیم تر قومی مفاد میں اعانت فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے‘ جسے سرکاری اور نجی سطح پر باہم شراکت فراہم کی جائے گی۔

لہٰذا صدر پاکستان ۱۴؍اکتوبر ۱۹۹۹ء کے ہنگامی حالت کے نفاذ کے حکم اور عبوری دستور کے حکم نمبر۹‘ ۱۹۹۹ء کے تحت حاصل کردہ اختیارات کے تحت درج ذیل آرڈی ننس جاری کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتے ہیں:

آرٹیکل (۱)  اس آرڈی ننس کو ’’آغا خان یونی ورسٹی ایگزامی نیشن بورڈ ۲۰۰۲ئ‘‘ کہا جائے گا۔ (۲) یہ پورے پاکستان پر محیط ہوگا۔ (۳) یہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔

۳- ایگزامی نیشن بورڈ کا قیام:

  • ]آغا خان[ یونی ورسٹی ‘وقت‘ طریق کار کے لحاظ سے اپنی کلی صوابدید پر آغا خان امتحانی بورڈ قائم کرے گی۔
  • یہ امتحانی بورڈ مکمل طور پر خودمختار اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے قواعد وضع کرنے میں بھی کامل طور پر آزاد ہوگا۔
  • یونیورسٹی‘ اپنے کلّی اختیار (sole discretion)کے تحت امتحانی بورڈ کو پرائیویٹ امیدواروں‘ پاکستان اور پاکستان سے باہر کے غیر سرکاری اسکولوں اور ان کے طالب علموں کو امتحانات کی پیش کش قبول کرنے کی ہدایت کرسکتی ہے۔ جس کے لیے شرائط کا تعین ] آغا خان[ یونی ورسٹی کے وضع کردہ ضابطوں کے تحت کیا جائے گا۔
  • وفاقی حکومت ] پاکستان[ کے زیرانتظام اسکولوں اور ان کے طالب علم‘ بہ شمول اسلام آباد کے وفاقی علاقے‘ وفاق کے زیرانتظام قبائلی (فاٹا)شمالی علاقہ جات (فاٹا) اور چھائونیوں کے علاقے‘ امتحانی بورڈ کے امتحانات کو طے شدہ شرائط پر اختیار کرسکتے ہیں۔
  • امتحانی بورڈ‘ قومی نصاب کی روشنی میں کام کرے گا۔
  • ] آغا خان[ یونی ورسٹی کے وضع کردہ طریق کار کے مطابق امتحانی بورڈ اپنے امتحانات کے حدودکار کو سرکاری اسکولوں تک وسعت دینے کا مجاز ہوگا‘ جس کے لیے وفاقی یا صوبائی حکومتوں سے اجازت درکار ہوگی۔

۴-  امتحانی بورڈ کے مقاصد: ] سات آٹھ مقاصد درج ہیں[

۵-  امتحانات کی نگرانی:

  •   امتحانی بورڈ کا بورڈ آف ڈائرکٹرز ہوگا‘ جو بورڈ آف ٹرسٹیز کے ماتحت کام کرے گا۔ امتحانی بورڈ کے سربراہ کا تقرر یونی ورسٹی کے منتظم اعلیٰ آفیسر کی جانب سے کیا جائے گا۔
  • انٹربورڈ کمیٹی کے چیئرمینوں کا چیئرمین یا اس کا نامزد نمایندہ‘ بورڈ کا ممبر ہوگا۔

۶-  امتحانی بورڈ کو معقول حد تک امتحانات کی فیسیں عائد کرنے کا اختیار ہوگا۔

۸-            اس آرڈی ننس کے تحت نیک نیتی سے کیے گئے تمام کام کسی قسم کے عدالتی دعوئوں اور قانونی کارروائیوں سے محفوظ ہوں گے۔

جنرل پرویز مشرف (صدر)


اس آرڈی ننس کی مختلف شقوں کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسئلے کی نزاکت پوری طرح سامنے آجائے۔ مذکورہ بالا ضابطے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے:

  • جنرل مشرف نے یہ کام ’قومی مفاد‘ میں کیا ہے۔
  • جنرل مشرف کے خیال میں آغا خان یونی ورسٹی‘ پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر: بصیرت‘ مہارت‘ تجربے اور انتظامی صلاحیتوں کا قابلِ قدر اثاثہ رکھتی ہے۔ اب یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کس پیمانے سے موصوف کو ان صلاحیتوں کی وسعت کا اندازہ ہوا۔ (اور کس خوف کے تحت پاکستانی یونی ورسٹیوں کے ان قابلِ قدر اساتذہ کی عظمت اہلِ اقتدار کو معلوم نہیں ہو سکی‘  جنھوں نے سائنس‘ ایٹم‘ زراعت اور طب کے شعبوں میں عظیم الشان خدمات انجام دی ہیں)۔
  • یہ کام آغا خان فائونڈیشن کے ساتھ سرکاری طور پر باہم اشتراک سے انجام دیے جائیں گے (یہ اعتراف ہے کہ تعلیم کے میدان میں خود پاکستان کی سرکار بالکل ناکام ہے)
  • اس بورڈ کو پورے پاکستان بھر میں اپنے دائرے کو وسیع کرنے کا حق دیا گیا ہے جو کلی طور پر اپنی صوابدید پر کام کرے گا (یاد رہے کہ خود پاکستان کے وفاقی بورڈ کے علاوہ کوئی بھی امتحانی بورڈ‘ اپنے علاقے سے باہر کسی دوسرے ڈویژن کے تعلیمی اداروں کو وابستہ نہیں کر سکتا)۔ یعنی اس قانون کے تحت اسلامیان پاکستان کے پاس‘ آغا خان بورڈ سے سوال کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ وہ بورڈ کی انتظامی مشینری میں جسے چاہیں رکھیں۔ ایسا اہل کار ‘ یہودی پس منظر کا حامل ہو یا بھارت کا صلاح کار‘ یہ طے کرنا آغا خاں گروپ کے اختیار میں ہے جو یہ طے کرے گا کہ پاکستان کے مستقبل کو کس رنگ میں رنگنا ہے اور کن شرائط پر کون سی تعلیم دینی ہے۔
  • ایک طرف بورڈ کی خودمختاری اور آزادی کا یہ چارٹر ہے اور دوسری جانب پاکستان کے دینی مدارس کی خودمختاری سلب کرنے کے لیے مجنونانہ بے چینی۔
  • یہ بورڈ اپنے ہی طے کردہ اصول و ضوابط کے تحت پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر کے تعلیمی اداروں کو اپنے ساتھ وابستہ کرنے کا کھلا اختیار رکھے گا۔
  • آرٹیکل ۳( شق ۴ کے تحت) جنرل مشرف نے اس بورڈ کو وفاقی قبائل‘ شمالی علاقہ جات کے ساتھ ساتھ چھائونی کے علاقوں تک اپنا دائرہ کار وسیع کرنے کا حق عطا فرمایا ہے۔
  • کہا گیا ہے کہ امتحانی بورڈ ’’قومی نصاب کی روشنی میں کام کرے گا‘‘ لیکن اس کے پیش کردہ نصابی خاکے ‘ جنھیں آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ کے ڈائرکٹر‘ ڈاکٹر تھامس کرسٹی (Thomas Christie) نے شائع کیا ہے‘ واضح طور پر قومی نصاب تعلیم سے مختلف رخ پر رواں دواں دیکھے جا سکتے ہیں۔ تاریخ‘ سیاسیات‘ ادب اور علومِ اسلامیہ کے نصابی خاکے دیکھنے کے بعد ایسی تمام بے جا خوش فہمیاں دور ہو جاتی ہیں‘ جنھیں گوری اقوام یا ان اقوام کے ذہنی غلاموں کے ہاتھوں مشتہرکیا جاتا ہے۔ (اب اگر احتجاج کے نتیجے میں یہ لوگ کچھ تبدیلی کربھی لیں تو اس امر کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ گرفت مضبوط بنانے کے بعد وہ کل کون کون سی من مانیاں نہ کریں گے۔ کیونکہ منظور کردہ آرڈی ننس انھیں کسی قسم کی جواب دہی سے بالاتر قرار دیتا ہے۔
  • بذات خود یہ آرڈی ننس متضاد بیانات کا مجموعہ ہے۔ ایک جگہ اسے نجی دائرے تک محدود بتایا گیا ہے اور دوسری جانب اسے سرکاری تعلیمی اداروں کو اپنے شکنجے میں کسنے کا اختیار بھی دے دیا گیا ہے۔ حالانکہ پاکستان کے تعلیمی قوانین کے مطابق کوئی سرکاری ادارہ‘ کسی نجی ادارے سے وابستہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہاں پر (حکومت کی بے معنی اجازت سے مشروط کرکے) سرکاری تعلیمی اداروں کو آغاخانی کوچہ گردی کا میدان بنا دیا گیا ہے۔
  • فیسوں کا تعین کرنے کا حق بھی‘ آغا خان بورڈ کی ’’نیک نیتی‘‘ پر چھوڑ دیا گیا ہے اور نیک نیتی سے کیے گئے ان کے کسی بھی اقدام کو پاکستانی عدالتوں میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ ریاست در ریاست قائم کرنے کا یہ حق اس اقلیتی گروہ کو دیا جا رہا ہے‘ جو مغربی استعمار کی نمایشی ٹیم پر مشتمل ہے اور جس کے یہودی فری میسن سے تعلقات کوئی راز کی بات نہیں۔ وہ گروہ جو پاکستان کے سیاسی اقتدار میں رسوخ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ شمالی علاقہ جات کو اسٹرے ٹیجک کنٹرول میں لینا چاہتا ہے۔ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے نام پر‘ سیاسی کنٹرول سے پہلے اس گروہ کو پاکستان کی نئی نسل پر کنٹرول کا حق دے دیا گیا ہے۔ یہ حق تو کسی این جی او کو صومالیہ‘ نیپال‘ ہیٹی تک کے درجے کے ملک نے نہیں دیا‘ لیکن دنیا کی پہلی مسلم ایٹمی قوت‘ پاکستان کا مستقبل طشتری میں رکھ کر ان لوگوں کے سپرد کر رہی ہے‘ جو اپنے مقاصد‘ اہداف‘ مذہبی اور سیاسی سوچ ہر اعتبار سے‘ خود اس پاکستانی قوم کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں۔ آغا خاں امتحانی بورڈ اپنے مقاصد اور اہداف کے اعتبار سے دراصل ایک ایسا نظریاتی اور سیاسی حملہ ہے‘ جس کی شدت سے نہ اہلِ سیاست باخبر ہیں اور نہ اہلِ دانش اس طرف متوجہ ہیں۔

واقعات کو اگر ترتیب سے دیکھیں تو نظرآتا ہے کہ اکتوبر ۱۹۹۹ء میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے گروہ نے اخلاقی جواز نہ رکھنے کے باعث کئی قسم کے دبائو قبول کیے اور کئی حوالوں سے‘ ہتھیار ڈالتے وقت خود دشمن کو بھی حیران کر کے شادی مرگ میں مبتلا کر دیا۔ اسلام آباد کے باخبر سرکاری حلقے تسلیم کرتے ہیں کہ دسمبر ۱۹۹۹ء میں استعماری مفادات کی حامل این جی اوز نے بڑی تیزی کے ساتھ‘ مختلف وزارتوں اور پالیسی ساز اداروں میں اپنا عمل دخل بڑھا لیا۔ یوں رفتہ رفتہ پالیسی سازی اور پالیسی دستاویزات کی تیاری میں حیرت ناک حد تک اختیار حاصل کرلیا‘ بلکہ ۲۰۰۰ء کے اواخر تک اس حق کو ایک ’اعلیٰ قدر‘ کے طور پر تسلیم بھی کرا لیا۔ ڈیوولیوشن پلان یا ’اختیارات کی تقسیم پروگرام‘ کی ظاہری خوش نمائی کے باوجود اس کی داخلی بدنمائی نے قومی مرکزثقل کوہلا کر رکھ دیا۔

۲۰۰۱ء میں حکومت نے بڑی تیزی کے ساتھ ایجوکیشن سیکٹر ریفارم کے نام پر سال بہ سال چھوٹی چھوٹی تعلیمی پالیسیاں جاری کرنا شروع کیں۔ حالانکہ اس سے قبل تعلیم کے حوالے سے یہ طے شدہ امر تھا کہ پالیسی واضح طور پر مشتہرکی جائے کہ اہل حل و عقد‘ تعلیم کے میدان میں آیندہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔ لیکن فوجی حکمرانوں نے اتنے اہم اسٹرے ٹیجک شعبے کو بے سروپا انداز میں چلانا شروع کیا۔ ۲۰۰۲ء میں آغا خان یونی ورسٹی کے فرنٹ مین مسٹر شمس قاسم لاکھا کی نگرانی میں پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور یونی ورسٹیوں کے نظام کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ پھراسی سال آغا خان امتحانی بورڈ کو رات کے اندھیرے میں پاکستان بھر کے تعلیمی مستقبل کا مستقل مالک بنا دیا گیا۔ بعدازاں امریکی ادارے‘ یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ (USAID) نے آغا خان یونی ورسٹی سے ۱۳؍اگست ۲۰۰۳ء کو کراچی میں ایک معاہدہ کیا‘ جس پر امریکی سفیرہ نینسی پاول اور آغا خان یونی ورسٹی کے نمایندے شمس قاسم لاکھا نے دستخط کیے۔ اس تقریب میں وفاقی وزیر تعلیم زبیدہ جلال صاحبہ (جنھیں امریکی حکومت ’’ونڈرفل لیڈی‘‘ کے طور پر یاد کرتی ہے) اور سندھ کے وزیرتعلیم عرفان اللہ مروت بطور سرکاری گواہ موجود تھے۔ ان دستخطوں سے حکومتِ امریکا نے آغا خان یونی ورسٹی کو اپنے امتحانی بورڈ کی تعمیروترقی کے لیے ۴۵۰ لاکھ ڈالر عطا کیے اور ’’جب تک یہ بورڈ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوجاتا اسے امداد دی جاتی رہے گی‘‘ کا مژدہ بھی سنایا گیا۔ ہدف یہ مقرر ہوا کہ پاکستان بھر کے اعلیٰ و ثانوی تعلیمی بورڈ‘ آغا خان بورڈ کے قبضۂ اختیار میں چلے جائیں۔

آغا خان امتحانی بورڈ نے آغاز کار میں صرف تین ہزار ۸ سو روپے رجسٹریشن فیس فی طالب علم مقرر کی ہے‘ جسے ہر طالب علم نومبر ۲۰۰۴ء تک ادا کرے گا۔ یاد رہے کہ سرکاری تعلیمی بورڈ میں یہ فیس ۳۰۰ روپے ہے۔ بعدازاں امتحان کے لیے فیس الگ سے لی جائے گی‘ اور وہ بھی چار ہزار ہوگی۔ کیا عام طالب علم اتنی فیس ادا کر سکے گا۔ موجودہ تعلیمی بورڈوں میں امتحانی فیس میٹرک کے لیے ۷۰۰ روپے اور انٹرمیڈیٹ کے لیے ۹۰۰ روپے ہے۔تعلیم کو سستا کیے بغیر معاشرے میں تعلیم عام نہیں ہو سکتی۔ اس وقت بنگلہ دیش میں انٹرمیڈیٹ تک تعلیم مفت ہے‘ کتاب اور کاپی بھی مفت ہے‘ جب کہ انٹر تک طالبات کیبہت بڑی تعداد کو وظیفہ دیا جاتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں تعلیم عام کا ہدف سرکاری سرپرستی اور اعانت کے بغیر ممکن نہیں ہوا‘ لیکن یہاں پر تعلیم کی زمامِ کار ساہوکاروں اور کثیرقومی کارپوریشنوں کے ہاتھ میں دے کر ’’روشن پاکستان‘‘ (رائزنگ اور توانا پاکستان) بنانے کا خواب دیکھا جا رہا ہے۔

چند ماہ پیش تر قومی ادارہ نصابات (نیشنل کریکولم ونگ) اور صوبائی درسی کتب بورڈوں کے ہاتھوں جہالت پر مبنی جن غلطیوں پر قوم سراپا احتجاج بنی‘ واقعہ یہ ہے کہ اس احتجاج نے جہاں ان اداروں پر سے قوم کے اعتماد کو مجروح کیا ہے‘ وہیں حکومت اپنے منصوبے کے مطابق‘ خود نصاب اور ٹیکسٹ بک بورڈوں ہی کے وجود پر فاتحہ خوانی کے لیے تیار ہے۔ نصابی کتب کی ڈی ریگولیشن سے جنرل مشرف اور زبیدہ جلال کی یہ والہانہ وابستگی دراصل قومی نصابی عمل کوختم کرنے کا واضح اعلان ہے۔ قوم نے اپنے نصابی اداروں کو ٹھیک کرنے کے لیے آواز بلند کی‘ جسے عملاً دبا دیا گیا اور محض چند سطروں کی اصلاح اور دو تین مضامین کو حذف کرنے کے سوا تمام کا تمام متنازعہ نصاب درس گاہوں میں آج بھی موجود ہے‘ اور قومی نمایندے اس سارے ظلم سے بے خبر‘ لاتعلق اور غیرمتعلق ہیں۔ پارلیمنٹ میں اس موضوع پر ایک دو بار بات ہوئی اور حکومتی نمایندوں کے جھوٹے‘ مبہم اور متضاد بیانات سن کر‘قوم کے نمایندے ’مطمئن‘ ہوگئے۔

اب ‘ جب کہ آغا خان بورڈ‘ امریکی امداد اور حکومت پاکستان کی سرپرستی میں امتحانی نظام پر مرحلہ وار انداز میں قبضہ کر رہا ہے‘ تو پھرلامحالہ یہی بورڈ اپنا نصاب خود بنائے گا‘ خود پڑھائے گا اور اس کے مطابق امتحان لے گا۔ اس کے نصاب یا مالی طریق کار اور پیمایشی نظام پر قوم کے نمایندوںکا کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں قوم کو دھوکا دینے کے لیے حقیقی حکمران اور ان کے دست راست افراد غیرمنطقی بیانات دے رہے ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ یہ بورڈ ’’قومی نصاب کے مطابق کام کرے گا‘‘ (اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے مختلف جگہ پر آغا خان امتحانی بورڈ نے یہ لکھا بھی ہے) تاہم‘ قدم قدم پہ‘ یہ اعلان بھی کرتے جا رہے ہیں کہ ’’ہم وہی کریں گے جو ہم چاہیں گے‘‘--- مثال کے طور پر آغا خان بورڈ نے الحاق کے لیے جو شرائط نامہ جاری کیا ہے‘ اس کی شق ۳ئ۳ کے مطابق کہا گیا ہے: ’’اسکول لازماً اسی قومی نصاب کو اختیار کریں گے‘ جسے آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ جاری کرے گا‘‘۔ اس شق میں بظاہر لفظ ’’قومی‘‘ سے یہ دھوکا ہوتا ہے کہ یہ پاکستان کا طے شدہ قومی نصاب ہوگا‘ لیکن خود اس جملے کی ساخت بتاتی ہے کہ یہاں مراد وہ ’’قومی‘‘ ہے‘ جسے آغاخان بورڈ ’’قومی‘‘ قرار دے گا۔ اس معاملے کو ایک دوسری مثال سے پرکھتے ہیں۔ آغا خان بورڈ نے میٹرک کے لیے اسلامیات کے جس نصابی خاکے کو جاری کیا ہے‘ اس کے ابتدایئے میں وعدہ کیا ہے کہ ’’پاکستان کے نصابی شعبے کی ہدایات کی روشنی میں نصاب تیار کیا جائے گا‘‘۔ لیکن اس کے صفحہ ۵ پر پہنچتے ہی اعلان کیا گیا ہے: ’’قومی مقاصد کے مطابق‘ اسلامیات کا نصاب وضع کرنے کے لیے‘ زیتونیہ یونی ورسٹی‘ تیونس سے رہنمائی لی جائے گی‘‘۔ سوال یہ ہے کہ تمام اسلامی ممالک کو چھوڑ کر تیونس ہی کی مثال کیوں؟

اس لیے کہ وہاں کے آمرمطلق حبیب بورقیبہ نے ۹۸ فی صد آبادی کے مسلمان ملک میں جبری طور پر روزے پہ پابندی لگانے اور اسکارف و حجاب کو جبراً ممنوع قرار دینے کے علاوہ مسجدوں میں خطبہ و نماز پر اپنے من مانے احکام چلانے شروع کر دیے۔ قوم کو عریانی اور یورپی اقوام کی تفریحی شکارگاہ بنانے کے لیے اقدامات کیے۔ تفصیل کے لیے مولانا سیدابوالحسن علی ندوی کی کتاب مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کش مکش دیکھی جاسکتی ہے۔ بلکہ قرآن و سنت کے بتائے ہوئے اسلام کو چھوڑ کر خود جنرل مشرف کو تیونس کا لبرل اسلام پسند ہے تو اس کی ایک خاص وجہ ہے۔ نماز‘ روزے سے نجات‘ شراب اور ڈانس پارٹیوں کی فراوانی کا کلچر‘ عریانی و آوارگی کا چلن--- یہ ہے تیونس کے ’’لبرل اسلام کی منزل‘‘ ۔ ایسے ہی جابر اور آمر حکمرانوں کی رہنمائی میں تیار کردہ ’’اسلامیات‘‘ ہمارے آغاخان امتحانی بورڈ کو پسند ہے۔ آغاخان بورڈ نے اسلامیات کے لیے میٹرک کا جو نصاب پیش کیا ہے‘ اس میں قرآن کے متن کو تلاش کرنے کے لیے خوردبین کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود کہا یہ گیا ہے کہ ’’پاکستان کے قومی نصاب کی روشنی میں نصاب تیار کیا جائے گا‘‘۔ کیا ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ حکومت نے نصاب میں قرآن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے تیونس کے اسلام بذریعہ آغا خان کا یہی طریقہ مناسب سمجھا ہے؟ --- یہی صورت حال تاریخ‘ مطالعہ پاکستان اور سماجیات و ادب کے دیگر مضامین میں روا رکھی گئی ہے۔

امریکا و یورپ نے پہلے پہل یہ کہا کہ دینی مدارس سے دہشت گردی پیدا ہو رہی ہے‘ بعد میں یہ کہنا شروع کیا: ’’جدید تعلیم کے اداروں سے دہشت گرد پیدا ہو رہے ہیں‘‘۔ اس لیے مغرب کے بھتے (پے رول) پر کام کرنے والی این جی اوز نے گذشتہ چار برس سے اس پروپیگنڈے کا آغاز کیا کہ: ’’دو قومی نظریہ نفرت کی علامت ہے‘ محمد بن قاسم نے چوری چھپے حملہ کر کے وطن کے بیٹے راجہ داہر جیسے بے ضرر انسان کو خواہ مخواہ شکست دی۔ ہندستان پر قبضہ کرنے والے انگریز ماضی کی داستان تھے اور آج کے انگریز دوسری چیز ہیں جو ہمارے دوست ہیں‘ اس لیے انگریزی سامراج کے خلاف حصے نصاب سے خارج ہونے چاہییں۔ میجرطفیل‘ راجہ عزیز بھٹی‘ راشد منہاس اور دیگر نشانِ حیدر رکھنے والے افراد کا تذکرہ بھی خارج از نصاب قرار دیا جائے‘ کیونکہ اس طرح بے جا طور پر ہندوئوں سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ محمود غزنوی اور غوری حکمرانوں کا ذکر بھی ہندو کے خلاف نفرت پیدا کرتا ہے۔ نہرو اور کانگریس کے خلاف بھی مواد حذف کیا جائے۔ اصل اسلام صوفیوں نے پیش کیا۔ اسی طرح حضرت فاطمہؓ، حضرت خدیجہؓ، حضرت عائشہؓ کے ذکر کے بجاے بلقیس ایدھی اور عاصمہ جہانگیر وغیرہ کو رول ماڈل (خاکم بدہن) کے طور پر پیش کرنے کے لیے پیش رفت کی جائے (بلکہ ایسا کر بھی دیا)۔ صحابہ کرامؓ بڑے ’’لبرل‘‘ تھے۔ رسول اکرمؐ نے مسلمانوں اور یہودیوں پر مشتمل ایک تاریخی معاہدہ کیا تھا‘ جس سے مسلم اور یہودی اسلامی ریاست کے شہری بن گئے‘‘--- ان چیزوں کو روبہ عمل لانے کے لیے ایک حد تک سرکاری ٹیکسٹ بک بورڈوں کو استعمال کیا گیا اور آیندہ یہ کام زیادہ یکسوئی کے ساتھ کرنے کے لیے آغا خان بورڈ کے ذمے لگایا گیا ہے۔

اس مسئلے پر اسی قبیل کے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ترجمان جہد حق (اگست ۲۰۰۴) نے تو یہ لکھا ہے: ’’اب وقت آن پہنچا ہے کہ جنوبی ایشیا کے لیے ایک مشترکہ کتاب کے طور پر برصغیر کی تاریخ مرتب کی جائے --- بچوں کو بجاے اس کے کہ کسی واحد سرکار کی طرف سے منظور کردہ آلایشوں سے پاک سچائی سے روشناس کرایا جائے‘ انھیں ہر قسم کے نظریات سے واقفیت کرائی جائے۔ ’’نظریہ پاکستان‘‘ جس سے یہ [پاکستان] چمٹا ہوا ہے وہ بھارت کے لیے حکمران فوجی اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مذہبی گروہوں کی  نفرت سے کسی حد تک علیحدہ چیز ہونا چاہیے۔ صوبائی ٹیکسٹ بک بورڈ‘ جن کی اجارہ داری ہے نظریاتی چوکیداروں کے فرایض سرانجام دیتے ہیں اور تابع دار مصنفین کی سرپرستی کرتے ہیں‘‘۔ (ص ۸)

اس سال کے آغاز میں‘ حکومت نے ان تمام وعدوں کو پس پشت ڈال کر‘ کہ آغا خان بورڈ تو بنیادی طور پر نجی تعلیمی اداروں کے لیے ہے‘ سب سے پہلا وار وفاق کے زیرانتظام تعلیمی اداروں پر کیا۔ جنوری ۲۰۰۴ء میں اس حوالے سے سرگرمی سے کام شروع کیا گیا‘ جس پر اسلام آباد کے شہریوں کی بے چینی کو زبان دیتے ہوئے روزنامہ دی نیشن نے اپنی رپورٹ (۹فروری ۲۰۰۴ئ) میں بتایا: حکومت نے وفاقی تعلیمی بورڈ (ایف بی آئی ایس ای)کو آغا خان بورڈ سے منسلک کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ اس مقصد کے لیے وفاقی وزیرتعلیم زبیدہ جلال اور فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے ڈائرکٹر جنرل بریگیڈیر (ر) مقصودالحسن نے سرگرمی سے دبائو بڑھانا شروع کیا ہے۔ لیکن والدین اور اساتذہ کی انجمن نے اس امر کی مخالفت کی‘ اور ۲۰ جنوری کو ہونے والے اجلاس میں مزاحمت کرنے کا فیصلہ کیا۔ دوسری جانب معلوم ہوا کہ اس منصوبے پر دو طریقے سے عمل کیا جائے گا۔ پہلے والدین کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ ایک ہی تعلیمی ادارے میں اپنے بچے کو آغا خان بورڈ کے تحت امتحان دلانا چاہتے ہیں یا نہیں‘ جب کہ دوسرے مرحلے میں اس ادارے کے سب بچوں پر لازم کر دیا جائے گا کہ وہ آغا خان بورڈ ہی کو منتخب کریں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نہم دہم کا امتحان ایک ہی مرتبہ لیا جائے۔ کسی سرکاری تعلیمی ادارے کو کسی پرائیویٹ ادارے کے زیرانتظام منسلک کرنا مکمل طور پر غیرقانونی فعل ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ آغا خان بورڈ کے فارغ التحصیل طلبہ کو بیرون پاکستان آسانی سے داخلہ مل جائے گا‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کتنے طلبہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں اور اس معمولی تعداد کے لیے کیا پورے پاکستان کے بچوں کو اس مہلک سسٹم میں دھکیل دینا کوئی عقل مندی کی بات ہوگی‘‘۔

تاحال وفاقی تعلیمی بورڈ پر گرفت مضبوط بنانے کے لیے آغا خان بورڈ سرگرداں ہے‘ جب کہ وفاقی بورڈ میں قومی درد رکھنے والے چند افسر مزاحمت کر رہے ہیں۔ دوسری جانب پنجاب کے بورڈوں کے چیئرمینوں نے بھی سردست آغا خان کے سامنے ہتھیار نہ پھینکنے کا فیصلہ کیا ہے‘ لیکن یہ مزاحمت یا ضد علامتی ہے۔ اکثر چیئرمین سفارش یا ذاتی جوڑ توڑ سے اس منصب تک پہنچتے ہیں۔ جو چند ملّی درد رکھنے والے افراد ہیں‘ ان کی مزاحمت اس وقت تک باثمر نہیں ہو سکتی جب تک کہ قومی سطح پر اہل دانش اور عوامی حلقے انھیں اخلاقی امداد بہم نہ پہنچائیں۔ ایک طرف امریکی استعمار کھلے عام‘ امریکی سفیرہ کی قیادت اور جنرل مشرف و زبیدہ جلال صاحبہ کی سیادت میں تعلیمی ڈھانچے اور نظام پر قبضہ کرنے کے لیے کھلے عام پیش رفت کر رہا ہے‘ دوسری جانب ریٹائرمنٹ کے قریب تھکے ہارے چند بے نوا پروفیسر حضرات اپنے اپنے بورڈوں کو کب تک بچائیں گے۔ پھر جس طرح کا ہمارے ہاں نظام ہے کہ ایسے مباحث میں کئی مفاد پرست ناصحین مشورہ دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں کہ ’’قبول کر لیا جائے‘‘۔ دوسرا یہ کہ آغا خان بورڈ کے کارندوں نے مختلف انجمنوں اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ سے رابطوں میں تیزی پیدا کی ہے۔ اس حوالے سے وہ مذہبی پس منظر کے چند اداروں اور دینی شکل و صورت رکھنے والے چند  بندگانِ زر کو بھی شیشے میں اتار رہے ہیں‘ بلکہ اس نوعیت کے کچھ لوگوں سے رابطوں کو انھوں نے کمپنی کی مشہوری اور مذہبی طبقے کی جانب سے سندِ قبولیت کے طور پر پیش کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔

آغا خان امتحانی بورڈ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر تھامس کریسٹی جو برطانوی نژاد انگریز اور مانچسٹر یونی ورسٹی کے سابق ڈین ہیں‘ شب و روز کی جدوجہد سے اپنے وابستگان میں اضافے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کے ہمراہ شمس قاسم لاکھا ہیں‘ جن کے ہاتھوں یونی ورسٹی کے نظام کار کا حلیہ بگاڑنے اور تعلیم کو تجارت و زرپرستی کا دوسرا نام دینے کا المیہ رونما کرانے کے بعد‘ اب ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیم کی بساط بھی لپیٹی جارہی ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے یونیورسٹی سطح کی تعلیم کے دروازے تو اب نچلے اور متوسط طبقے کے بچے کے لیے بند ہو چکے ہیں۔ سیلف فنانس‘ سیلف سپورٹ اور لوٹ مار کے بے شمار نجی تعلیمی اداروں نے ناداروں کو زندگی بہتر بنانے کی دوڑ سے باہر نکال دیا ہے۔ مختلف ناموں کی یونی ورسٹیاں ہر شہر میں کھل رہی ہیں‘ جو اپنی جگہ قانون کی نہایت سنگین خلاف ورزی ہے۔ لیکن ہمارا ریاستی نظام ان جعلی اداروں کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجاے‘ انھیں مختلف اقدامات کے ذریعے پروان چڑھانے میں مددگار بن رہا ہے۔

آغا خان اقلیت کی حکمت عملی قادیانیوں اور یہودیوں سے ملتی جلتی ہے۔ وہ یہ کہ قوت کے سرچشموں کو اپنے اثرونفوذ میں لیا جائے‘ بظاہر امن پسندی کا ڈھونگ رچایا جائے اور اصل میں ہڈیوں میں اتر جانے والا ظلم ڈھایا جائے۔ اس مقصد کے لیے ان کے ہاں مادی وسائل پر قبضہ اور پس پردہ سازش دو بنیادی اصول ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آغا خان بورڈ میں فی طالب علم کی محض رجسٹریش فیس کا سرکاری بورڈوں کے مقابلے میں تناسب تقریباً چار ہزار بمقابلہ تین سو ہے‘ اور امتحانی فیس کا تناسب بھی یہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عام آدمی کے لیے اپنے بچے کو پڑھانا ممکن نہ ہوگا۔ اسی طرح جنرل مشرف کے ڈی ریگولیشن کے محبوب تصور کے تحت درسی کتب بے پناہ مہنگی ہوجائیں گی۔ ممکن ہے اس مہنگائی کا کوئی عارضی علاج امریکا اور اس کے حلیف سوچ لیں (جس کے تحت وقتی طور پر آغا خانی تعلیم کو کچھ سستا بھی کر دیں) لیکن اصل چیلنج ہمارے نزدیک اس تعلیم کا مہنگا ہونا نہیں ہے‘ بلکہ دیسی‘ بدیسی اور دشمن قوتوں کے ہاتھوں نئی نسل کے ذہن‘ فکر‘ تربیت اور مستقبل کو غلام بنانے کے راستے پر چلنا ہے۔

یورپی اقوام نے نظام تعلیم کو محکوم قوموں کے خلاف ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا‘ جس کی ایک مثال لارڈ میکالے کا فرمان ہے‘ دوسرا اعلان نپولین کا ہے کہ مسلمان ملکوںمیں ’’مقامی لوگوں کو مقامی لوگوں سے مرواو‘‘ (یعنی (natives to kill natives۔ گذشتہ تین برسوںکے دوران امریکا نے مسلم دنیا کے بارے میں جتنی رپورٹیں جاری کی ہیں‘ ان میں مسلمان ملکوں کے نظام تعلیم کو بنیادی ہدف بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔ عراق پر قبضہ کرنے سے ایک سال پیش تر جون ۲۰۰۲ء میں عراقیوں کے لیے امریکا نے درسی کتب تیار کر لی تھیں اور ۱۰‘ اپریل ۲۰۰۳ء کو بغداد پر کنٹرول حاصل کرنے کے آدھے گھنٹے بعد امریکا نے عراق کے لیے جاری کی جانے والی سب سے پہلی امداد عراقی نظام تعلیم سے منسوب کی تھی۔

ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انگریز اور یورپی استعمار نے ہر مسلمان ملک میں سیکولر اور مذہبی نظام تعلیم کو رواج دے کر خود مسلمانوں کو دو‘ مسلسل متحارب اور اجنبی گروہوں میں بانٹ کر رکھ دیا۔ ایک گروہ پر ملازمت‘ عزت اور احترام کے دروازے بند ہیں‘ چاہے وہ جس قدر بھی دیانت دار اور اسلامی تعلیمات سے قریب تر ہو۔ دوسرے گروہ کے لیے دولت‘ ثروت‘ عزت اور قوت کے تمام دھارے کھول کر رکھ دیے ہیں‘ چاہے وہ گروہ مجموعی طور پر‘ خود اپنی قوم کے لیے نفرت‘ حقارت اور بے رحمی کی چلتی پھرتی علامت ہی کیوں نہ ہو۔

اب آغا خان بورڈ اور بیکن ہائوس قسم کی برگر پود تیار کر کے خود جدید تعلیم کے فاضلین میں بھی ایک نہایت گہری تقسیم پیدا کی جا رہی ہے۔ اس ظلم کو متعارف کرانے کا کام ’’فوجی یونٹی آف کمانڈ‘‘ کے سنہری اصول کے تحت کیا جا رہا ہے۔ معاشی وسائل پر دسترس دینے کے لیے ایک جانب امریکا کی طرف سے کھلی مالی امداد ہے‘ جب کہ خفیہ طور پر دیے جانے والے فنڈز ہماری معلومات سے کہیں زیادہ ہیں۔ گذشتہ دنوں حبیب بنک جیسے قومی ادارے کو ’’آغا خان فنڈ براے ترقی‘‘ کے سپرد کرتے وقت یہ شفافیت اپنائی گئی کہ اخباری اطلاعات کے مطابق ۷۰ارب روپے کے اثاثوںوالا بنک صرف ۲۲ ارب میں فروخت کر دیا۔ اس ضمن میں آئی ایم ایف اور عالمی بنک کے دبائو کا اعتراف خود وکلا حضرات نے سپریم کورٹ کے سامنے کیا۔ وفاقی تعلیمی بورڈ کو سب سے پہلے آغا خان کے حوالے کرنے کا جو ڈول ڈالا گیا ہے‘ تو یاد رہنا چاہیے کہ اس بورڈ کی صرف اسلام آباد اور بیرون پاکستان میں اربوں روپے کی جایداد ہے‘جب کہ پاکستان کے ۲۳ تعلیمی بورڈوں کو‘ جنھیں رفتہ رفتہ آغا خان فاؤنڈیشن جیسے مگرمچھ کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہے‘ ان کے اثاثہ جات کئی ارب سے تجاوز کرجاتے ہیں۔ اور پھر قوم کے ہر بچے کی جانب سے سالانہ تاوان دینے کی مجبوری الگ۔ یہ تمام چیزیں لمحۂ فکریہ ہیں۔


آغا خان بورڈ حالات کو کس رخ پر لے جائے گا‘ یا اپنے تصورِ جہاں (ورلڈ ویو) کے مطابق اس کے کرتا دھرتا کن دائروں میں زندگی گزارنے کی پہچان رکھتے ہیں‘ اسے دیکھنے کے لیے آغاخان ایجوکیشن کے دو سوال ناموں پر نظر ڈالنا مفید رہے گا۔ آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان نے کلاس نہم سے گیارھویں جماعت تک کے طلبہ و طالبات کے ’’بالغانہ صحت کے سروے‘‘ کے لیے ایک سوالنامہ مرتب کیا ہے۔ اس سروے کو ’’دی گلوب فنڈ‘‘ اور حکومت پاکستان کے  ایک شعبے کا بھی تعاون حاصل ہے۔ ان میں بچوں سے سوال پوچھا گیا ہے:

 __  آپ کے خیال میں پاکستان میں ایڈز کا سب سے خطرناک ذریعہ کون ہے؟

(۱) غیرمحفوظ جنسی تعلقات (کمرشل جنسی ورکر‘ ایک سے زیادہ جنسی تعلقات) (۲) مرد سے مرد کا جنسی تعلق‘ وغیرہ (ص ۹)

__  آپ خود کو کس طرح ایڈز سے متاثر ہونے سے بچاسکتے ہیں؟

(۱)محدود جنسی تعلقات رکھنے سے (۲) کمرشل جنسی ورکر سے گریز (۳) حکیمی جڑی بوٹیوں اور دوائوں کے استعمال سے ‘ وغیرہ (ص ۱۰)

__  مندرجہ ذیل جملوں میں سے سب سے زیادہ اہمیت کون سے جملے رکھتے ہیں؟

(۱) اپنی مرضی سے زندگی گزارنا (۲)اپنا ہم سفر خود چننا (۳) شادی اور بچے‘ وغیرہ (ص ۲۲)

__  ان میں سے کون سی چیزیں آپ نے پچھلے چھے مہینوں میں کی ہیں؟

(۱) والدین سے جھوٹ بولا (۲) مزے کے لیے اسکول سے فرار ہوئے (۳) دکان سے چرا کر بھاگے (۴) گھر سے بھاگے (ر) دوستوں کے بہکاوے میں اگر غلط کام کیا (۵) شراب پی ہے‘ وغیرہ (ص ۲۲‘ ۲۳)

__ کیا آپ دوستوں سے گرل فرینڈ/بواے فرینڈ رکھنے کی خواہش کا اظہار کرسکتے ہیں؟

(۱) جی ہاں (۲) بالکل نہیں (۳) میں کر سکتا ہوں وغیرہ (ص ۲۳)

__  کیا آپ نے کبھی جنسی تعلقات استوار رکھے ہیں؟

(۱)  ہاں   (۲)  نہیں  (ص ۲۳)

__  اگر ہاں تو پہلی بار جنسی تعلقات استوار کرتے وقت آپ کی عمر کتنی تھی؟

(۱) ۱۳سال سے کم عمر میں (۲) ۱۳ سال کی عمر میں (۳) ۱۴سال کی عمر میں (۴) ۱۵ سال کی عمر میں (۵) ۱۶ سال کی عمر میں (۶) ۱۷ سال یا اس سے زیادہ عمر میں‘ وغیرہ (ص ۲۳)

__  جو آپ درست سمجھتے ہیں ان پر صحیح کا نشان لگائیں؟

(۱) میں اپنے جنسی اقدار اور عقیدوں کی وجہ سے پریشان ہوں (۲) میں نے کبھی بھی کسی سے جنسی تعلقات نہیں رکھے (۳)  میرے گرل/ بواے فرینڈ کے ساتھ جنسی تعلقات ہیں (۴) میں اپنے جنسی رویے پر شرمندگی محسوس کرتا ہوں (۵) میرے جنسی تعلقات کی وجہ سے میرے دوست حسد کرتے ہیں (ص ۲۴)

__  آپ کتنی مرتبہ نشہ کرتے ہیں؟

(۱)  روزانہ  (۲)  ہفتے میں ایک بار (۳)  مہینے میں ایک بار‘ وغیرہ (ص ۲۶)

__  کیا آپ شراب پیتے ہیں؟

(۱) ہاں میں پیتا/پیتی ہوں (۲)  نہیں‘ میں نہیں پیتا/ پیتی ہوں  (۳) کبھی کبھار پیتا/پیتی ہوں (ص ۲۷)

__  آپ نے شراب پینا کیوں شروع کی؟

(۱) میرے تمام دوست شراب پیتے ہیں (۲) میں دوستوں کے سامنے اچھا نظر آنا چاہتاہوں /چاہتی ہوں (۳) میں اکثر شراب کے بارے میں سنتا تھا اور پی کر دیکھتا چاہتا تھا/چاہتی تھی (۴) میں بہت پریشان رہتا تھا/رہتی تھی (ص ۲۷)

__  ہمارے معاشرے میں اخلاقی اقدار اور اصولوں کو بہت اہمیت حاصل ہے‘ آپ کے

خیال میں کیا ایک لڑکی کا شادی سے پہلے جنسی تعلقات رکھنا جائز ہے؟

(۱) اخلاقی طور پر غلط ہے (۲)  بالکل غلط نہیں (۳) میں نہیں جانتا (ص ۲۸)

__  آپ جن جوابات کو درست سمجھتے ہیں ان پر نشان لگایئے؟

(۱) میرے دوست جی بھر کے تمام قسم کے جنسی تعلقات میں حصہ لیتے ہیں (۲) میں وہ کرنا چاہتا ہوں جو میرے دوست کرتے ہیں (۳) دو محبت کرنے والوں کے لیے شادی سے پہلے جنسی تعلق ٹھیک ہے۔

__  کیا آپ گاڑی لے کر گئے؟

(۱) دوست کے گھر (۲) گھر کے آس پاس (۳) اپنے بواے/گرل فرینڈ کے گھر تک‘ وغیرہ (ص ۲۹)

اسی نوعیت کا سوال نامہ میٹرک‘ انٹر کے اساتذہ کے لیے بھی ہے۔

اوپر درج شدہ چند سوالات اور ان کے مجوزہ جوابات دیکھیے۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ حکومت کی آشیرباد سے فائونڈیشن اول روز سے ہی حلال و حرام کے مذہبی ضابطوں اور جملہ اخلاقی اقدار کو تہس نہس کر کے پاکستان کے مسلم معاشرے کو یورپ و امریکا کے طرز کی اباحیت میں ڈوبی ہوئی مادر پدر آزاد سوسائٹی میں تبدیل کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ کسی کلاس روم میں طلبہ و طالبات کے ان فارموں کو پُر کرنے کا تصور کیجیے‘ جس سے آپ کو وہ ماحول سمجھ میں آجائے گا‘ جس میں باقاعدہ بھڑکا کر لانا مطلوب ہے۔ اس سوالنامے کے نفسیاتی اور سماجی پہلو پر گفتگو کرنے سے خود حیا آتی ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ یہ سوال نامہ ’لبرل ماڈریٹ‘ مستقبل کی نشاندہی کرتا ہے۔


اس بحث کے آخر میں یہ عرض کرنا بے جا نہ ہوگا کہ ظلم پر مبنی اس آرڈی ننس اور حقارت و زیادتی پر مبنی اس نظام کو مسلط کرنے کے لیے مختلف استعماری این جی اوز اور حکومت کے بارسوخ افراد نے بڑے تسلسل سے کام کیا ہے۔ حکومت کے ’’اصل لوگ‘‘ سرخوشی کے عالم میں کچھ اچھے اور زیادہ تر برے فیصلے کرتے جارہے ہیں۔ بلاشبہ آغا خان امتحانی بورڈ کا آرڈی ننس بھی سترھویں ترمیم کے پردے میں قوم پر مسلط کیا جانے والا ظلم ہے۔ سترھویں ترمیم کو تسلیم کرنے والوں پر یہ بہت بڑا قرض ہے کہ وہ اپنی نئی نسلوں کو اس طوق غلامی سے نجات دلانے کے لیے‘ اس پر پارلیمنٹ میں بحث کریں اور مسترد کریں۔ لیکن اس سے پہلے یہ ضروری ہے کہ خود منتخب نمایندوں کو ہنگامی بنیادوں پر اس مسئلے کی نزاکت سے آگاہ کیا جائے۔ سترھویں ترمیم کی منظوری کے وقت یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ گذشتہ عہد مشرف میں جو آرڈی ننس یا فیصلے ہوچکے ہیں‘ انھیں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں زیربحث لا کر‘ قبول کرنے یا مسترد کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس مشترکہ کمیٹی کا قیام التوا میں چلا آرہا ہے۔ حالات کی سنگینی کا تقاضا ہے کہ طے شدہ طریقے کے مطابق خصوصاً اس آرڈی ننس کا جائزہ لیا جائے اور اسے مسترد کیا جائے۔

اس الم ناک صورت حال پر اہلِ دانش اور اساتذہ کرام کا یہ دینی اور قومی فریضہ ہے کہ وہ قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے ایک ایک رکن کو یہ بات سمجھائیں۔ یہ مسئلہ متحدہ مجلس عمل‘ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا نہیں ہے‘ بلکہ سبھی کے لیے مشترکہ درد اور کرب کا مسئلہ ہے۔ کیا   اہلِ دانش اور اہلِ سیاست کسی جابر کی حکمت عملی کو تسلیم کر کے صدیوں تک اپنی نسلوں کو غلامی کے غار میں دھکیلنے کے لیے تیار ہیں یا حکمت و دانش سے بیداری و یک جہتی کی شاہراہ پر چلتے ہوئے ان زنجیروں کو توڑنے کے لیے آمادہ ؟

غوروفکر کے چند نکات

استعماری دنیا کے اپنے اسالیب ہیں۔ طاقت کے بل پر اپنی پسند سے جسے چاہیں وہ ظالم قرار دے ڈالیں اور جسے چاہیں مظلوم کہہ گزریں۔ دنیا بہرحال اہل دانش اوراہل عدل سے خالی نہیں‘ لیکن حیرت اُن لوگوں پر ہوتی ہے جو ہر چڑھتے سورج کے پجاری بن کر حقائق کو جھٹلاتے ہیں‘ اپنے اور اپنی قوم کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن کر‘ دانستہ اور نادانستہ طور پر دشمن ہی کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔ لیکن کیا کیجیے کہ گذشتہ ڈھائی سو سال کی مسلم تاریخ ہرآنے والا ظالم اور وعدہ معاف گواہ یہی کہتا ہے:’’میں اپنے مسلمان بھائیوں کو بچا رہا ہوں‘‘۔

امریکی استعمار کا مسلط کردہ نام نہاد ’’مسلم ہّوا‘‘ غیرحقیقی ہونے کے باوجود‘ آج کے سیاسی اور سماجی منظرنامے پر پوری طرح چھایا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہ سب پروپیگنڈے کی کرشمہ سازی ہے کہ رائی کا پہاڑ بلکہ ہمالہ بناکر دکھایا جاتا ہے۔ پھر افغانستان اور عراق پر قیامت مسلط کی جاتی ہے اور اب پاکستان افغان سرحد پر ایک نیا میدانِ جنگ منتخب کرنا پیشِ نظر ہے۔

مغربی اقوام نے اپنے استعماری مقاصد کے لیے کھلے اورچھپے ‘ بڑے نپے تلے اقدامات کیے اور آیندہ بھی کر رہے ہیں۔ اس وقت ہمارے سامنے ایک امریکی رپورٹ ہے جو یکم اکتوبر ۲۰۰۳ء کو ایوانِ نمایندگان میں پیش کی گئی۔ یہ رپورٹ کسی فردِ واحد کی بڑ یا کسی امریکیت زدہ دانش ور کا ذہنی بخار بھی نہیں ہے‘ بلکہ اسے ۱۵ رکنی ایڈوائزری (مشاورتی) گروپ نے مرتب کیا ہے‘ جس میں ۴ سابق امریکی سفیر‘ ۷ امریکی دانش ور اور ۴ مسلم نژاد امریکی شامل ہیں۔ اس رپورٹ کا عنوان ہے:

 Changing Minds Winning Peace: a new strategic direction for US Public. Diplomacy in the Arab and Muslim World.

رپورٹ کے دیباچے سے پتا چلتا ہے کہ اس کی تشکیل ایوانِ نمایندگان کے ایما پر ہوئی۔ ایڈوائزری گروپ چیئرمین ایڈورڈ پی ڈجرجین (Edward P. Djerejian)کے بقول: میں وزیرخارجہ کولن پاول کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے گروپ کو اپنے مشن کی تکمیل کے لیے بھرپور اعانت فراہم کی۔ مزیدبرآں حکومت امریکا کے اعلیٰ سرکاری حکام نے نہ صرف واشنگٹن میں‘ بلکہ میدانِ عمل میں بھی ہماری مدد کی۔ ہمیں امید ہے کہ یہ رپورٹ ] امریکا کی[ اسٹرے ٹیجک سمت کے تعین کے لیے نہایت بنیادی اور نازک خطوط متعین کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ (ص ۵-۷)

۸۰ صفحات کی یہ رپورٹ سات حصوں پر مشتمل ہے جس کا مطالعہ مسلم دنیا کے حکمرانوں‘ صحافیوں‘ سیاست دانوں‘ دانش وروں اور اساتذہ کرام کو ضرور کرنا چاہیے۔ رپورٹ کے مرتب کنندگان نے مصر‘ شام‘ ترکی‘ سینی گال‘ مراکش‘ برطانیہ اور فرانس کا دورہ کیا‘ جب کہ پاکستان اور انڈونیشیا میں ویڈیو کانفرنسوں اور سفارتی اور دیگر ذرائع سے معلومات حاصل کیں۔

چند موضوعات پر رپورٹ کے کچھ حصوں کا ترجمہ اہل دانش کے مطالعے کے لیے پیش خدمت ہے:

  • ’’بیرون امریکا فوجی قوت کو بڑھا کر‘ دوسری حکومتوں سے مضبوط ڈپلومیٹک تعلقات قائم کرکے ہمیں اس جنگ میں مدمقابل دشمن کے مالی ذرائع اور وسائل کا گلا گھونٹ دینا چاہیے‘‘۔ (ص ۱۵)
  • ’’اگر ہم نے اپنے وجودکی وضاحت نہ کی تو خود انتہا پسند ] مسلمان [ ہمارے وجود کے خدوخال بیان کردیں گے۔ مثال کے طور پر ہم العربیہ سیٹلائٹ ٹی وی پر ایک پروگرام دیکھ رہے تھے‘ جس کا عنوان تھا:’’اسلام کو امریکیانے کا عمل‘‘۔ کہا جا رہا تھا کہ امریکا ۱۵۰۰ سال پرانے مذہب ] اسلام[ کا حلیہ بگاڑنے کا شیطانی عمل کر رہا ہے‘ جب کہ وہاں امریکا کا نقطۂ نظر پیش کرنے کے موقعے سے ہم لوگ تو محروم تھے۔ حالانکہ انصاف کا تقاضا ہے کہ امریکا کو مسلم‘ عرب دنیا میں اپنے موقف کی وضاحت کے لیے پورے جوش و خروش سے مقابلے کے لیے موجود ہونا چاہیے‘‘۔ (ص ۱۵‘ ۱۶)
  • ’’عرب اور مسلم دنیا‘ بلکہ یورپی ملکوں میں بھی امریکا کو راے عامہ کے شدید ردعمل کا سامنا ہے۔ اس چیلنج کا جواب دینے کے لیے معلومات اور پروپیگنڈے کو پوری قوت سے پھیلانا ] امریکی [ قومی سلامتی کا نہایت لازمی ہتھیار ہے‘‘ (ص ۲۰)
  • ’’راے عامہ کو زیراثر لانے کا سب سے موثر ذریعہ ٹی وی ہے۔ لیکن عرب اور مسلم دنیا میں اثرانداز ہونے اور امریکی پالیسیوں کی تائید و حمایت حاصل کرنے کے اس ذریعے کو ہم استعمال نہیں کر پا رہے۔ اگرچہ امریکا کو بیرونی دنیا کی راے عامہ کے دبائو میں آکر اپنی پالیسیوں کو تبدیل نہیں کرنا چاہیے… بلکہ ہمیں امریکی اقدار و تصورات کے مطابق عرب اور مسلم دنیا کی فکری تشکیل کر کے امن کی دنیا میں وسعت لانا ہے (ص ۲۳)… جس کے لیے ] وہاں کے [ تعلیمی نظام‘ نجی اور آزاد ذرائع ابلاغ کی ترویج‘ معاشرتی سرگرمیوں میں]مسلم[ عورتوں اور اقلیتوں کی بھرپور شرکت کا اہتمام کرنا ہوگا‘‘ (ص ۲۳)…
  • ’’عرب اور مسلم دنیا کے برسرِاقتدار گروہوں اور افراد کی پشت پناہی‘ امریکی اقدار کے منافی ہے‘ لیکن سردست ہمیں اسی راستے کو اختیار کیے رکھنا ہے‘‘۔(ص ۲۳)
  • ’’مسلم دنیا عجب فکری تضاد کا شکار ہے۔ وہ کہتے ہیں: امریکی اچھے ہیں‘ لیکن امریکی حکومت اچھی نہیں ہے‘‘ حالانکہ یہ حکومت خود امریکیوں ہی نے تو منتخب کی ہوتی ہے۔ دونوں کے درمیان ایسا فرق کرنا ایک غیرمنطقی بات ہے۔ بہرحال ہمیں اس تاثر سے فائدہ اٹھانا چاہیے جو ہماری اقدار کے بارے میں مثبت سوچ پر مبنی ہے‘‘۔ (ص ۲۴)
  • ’’امریکی حکومت ہر سال نصف ارب ڈالر عالمی ذرائع ابلاغ (ریڈیو وغیرہ) پر خرچ کرتی ہے۔ ۱۹۴۲ء سے وائس آف امریکا (VOA)کا آغاز ہوا۔ سردجنگ کے زمانے میں ’’ریڈیو فری یورپ‘‘ اور ’’ریڈیو لبرٹی‘‘ نے امریکی ایجنڈے کی تکمیل میں بڑی مدد کی۔  وائس آف امریکا کی سروس ۵۰ ملکوں کے لیے ہے‘ تاہم اس میں عربی شامل نہیں۔ اب ریڈیو اور ٹی وی مارٹی: کیوبا کے لیے‘ ریڈیو فری یورپ اور ریڈیو لبرٹی: سابق اشتراکی روس‘ بلقان اور افغانستان کے لیے۔ ریڈیو فری ایشیا: چین‘ کمبوڈیا‘ برما کے لیے۔ ورلڈ نیٹ: انگریزی میں عالمی سیٹلائٹ نیٹ ورک۔ ریڈیو فردا: ایران کے لیے‘ جب کہ ریڈیو ساوا: عرب دنیا کے لیے ہے‘ جس نے عرب نوجوان نسل کو موسیقی کے ذریعے اپنا گرویدہ بنایا ہے۔ اسی نیٹ ورک نے اُردن‘ کویت‘ دوبئی‘ قطر‘ بحرین‘ جبوتی اور عراق کے لیے ایف ایم سروس کا اجراکیا ہے اور اے ایم سروس کے ذریعے مصر‘ غزہ‘ شام‘ لبنان وغیرہ کو مخاطب کیا ہے۔ عرب دنیا کو مخاطب کرنے کے لیے مڈل ایسٹ ٹیلی وژن نیٹ ورک (METN) کا آغاز کیا جا رہا ہے‘ جس پر ۲۰۰۴ء میں ۳۷ ملین ڈالر خرچ ہوںگے۔ (ص ۲۸-۳۲)
  • ’’تعلیم وہ شعبہ ہے جہاں پر امریکا کے عرب اور مسلم دنیا سے ہمارے مفادات مشترک دکھائی دیتے ہیں‘ لیکن امریکا اس اہم ذریعے کو خاطرخواہ طریقے سے استعمال نہیں کرسکا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تعلیم کے کلیدی پروگراموں کا اجرا‘ اور وظائف کے لیے رقوم کی فراہمی‘ مسلم دنیا میں مستقبل کی قیادت کو ہم رنگ بنانے میں بنیادی کردارادا کر سکتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ عربوں اور مسلمانوں کے تعلیمی اداروں سے تعلقات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر مالی وسائل فراہم کیے جائیں‘ اور ان اداروں سے امریکی تعلیمی اداروں کا تعلق جوڑنے کی راہیں تلاش کی جائیں۔ آج مسلم دنیا‘ امریکا کے بارے میں بہت بری رائے رکھتی ہے‘ لیکن دوسری طرف امریکی تعلیم کے حوالے سے مثبت سوچ پائی جاتی ہے۔ ہمیں اس سوچ سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے‘ جس میں ہم ایک جانب تو ان کے نصابِ تعلیم کو بہتر بنائیں اور دوسری جانب انھیں امریکا میں تعلیم کے مواقع فراہم کریں‘‘(ص ۳۳)… ہم شرق اوسط میں امریکی یونی ورسٹیوں کی کارکردگی سے بہت متاثر ہوئے ہیں‘ جنھوں نے کھلی سوچ اور عالمی اقدار کی ترویج کے لیے بے پناہ کام کیا ہے۔ انھوں نے ایسے عرب مردوں اور عورتوں کو تعلیم و تربیت فراہم کی ہے‘ جو راے عامہ کی تشکیل اور ان معاشروں میں قیادت کے مناصب پر فائز ہوں گے۔ امریکی یونی ورسٹی بیروت‘ امریکی یونی ورسٹی قاہرہ اور لبنانی امریکی یونی ورسٹی نجی دائرے میں قائم ہیں‘ جہاں چھے چھے ہزار لڑکے لڑکیوں کو تعلیم دی جا رہی ہے‘ اور یہ قابلِ قدر تعلیمی ادارے‘ عرب مسلم دنیا میں امریکی اقدار کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں کی مضبوطی اور وسعت ان علاقوں کے تعلیمی ڈھانچے پر اثرانداز ہوگی‘ جس میں یونی ورسٹی تعلیم کو معاشرے کی تبدیلی میں ایک عامل کا کردار ادا کرنا ہے۔ اندریں حالات یہ ایڈوائزری گروپ سفارش کرتا ہے کہ عرب اور مسلم دنیا میں امریکی تعلیمی اداروں کی تعمیر‘ تشکیل اور وسعت پر بھرپور توجہ دی جائے‘ تاکہ امریکی قومی مفادات کو تحفظ دیا جا سکے۔ تعلیمی میدان میں طویل المیعاد سطح پر‘ سب سے زیادہ اثرانداز ہونے والی چیز اس ]مسلم ‘ عرب[ خطے کے طالب علموں کو وظائف کی فراہمی ہے۔ عرب‘ مسلم دنیا کی قیادت پر فائز غالب اکثریت‘ امریکی یونی ورسٹیوں کی فارغ التحصل ہے‘ اور یہ امر باعث مسرت ہے کہ ان میں سے بڑی تعدد نے امریکی وظائف پر ہی تعلیم حاصل کی۔ مگر افسوس کہ ا ب یہ وظائف ۲۰ ہزار سے کم ہوکر صرف ۹۰۰ رہ گئے ہیں (ص ۳۵)… ہم سفارش کرتے ہیں کہ عرب‘ مسلم اور امریکی یونی ورسٹیوں میں نہ صرف باہم مشترک منصوبے شروع کیے جائیں‘ بلکہ تعاون کے مختلف میدانوں میں بھی ہاتھ بٹایا جائے‘ جس میں نصابی کتب کی تشکیل‘ طریق تدریس اور امتحانی طریق کار شامل ہیں۔ مناسب ہوگا کہ یہ کام ہائی اسکول کی سطح پر ہی سے شروع کیا جائے۔ اس طرح مسلم دنیا کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ]ہمارے نقطۂ نظر سے[ تنقیدی سوچ کے ساتھ معاشی‘ سماجی اور سیاسی امکانات پیدا ہوں گے (ص ۳۴)… امریکا کو مسلم‘ عرب دنیا میں تعلیمی آزادی کے سوال پر بڑا پختہ موقف اختیار کرنا ہوگا۔ ہمیں باہم تعاون کے جن شعبوں میں خصوصی معاہدے کرنے چاہییں‘ ان میں صحافت‘ میڈیا‘ کاروباری انتظامیات اور طب شامل ہیں۔ ہماری جانب سے ’طلبہ ویزوں‘ کے اجرا میں زبردست کمی کوئی اچھا اقدام نہیں ہے۔ مثال کے طور پر پاکستانی طلبہ کے لیے ویزے میں دو تہائی کمی کی گئی ہے۔ مسلم دنیا کے دوسر ے ملکوں کے بارے میں یہی پالیسی ہے۔ اس رجحان کو ختم کرکے برق رفتاری سے طلبہ کو امریکا میں تعلیم کے مواقع فراہم کرنے چاہییں۔ یہی چیز ہمارے قومی مفادات کے حق میں جاتی ہے (ص ۳۵)… اسی طرح ہمیں مسلم دنیا کی یونی ورسٹیوں یا ان کے قرب و جوار میں ’’امریکن کارنر‘‘ کھولنے چاہییں‘ جہاں] مسلم[ نوجوان نسل ہمارے رسائل‘ کتب‘ انٹرنیٹ‘ فلموں‘ موسیقی اور دیگر اعانات سے ہمارے نقطۂ نظر کو سمجھ سکیں گے (ص ۳۷)… پھر ہمیں ’’امریکن رومز‘‘ بنانے چاہییں جہاں ۱۶ سے ۲۵ سال کی عمر کے نوجوان ] مسلمان[ امریکا کی چھے قدروں (آزادی‘ کثرتیت‘ آزاد روی‘معاشرت‘ نئے مواقع اور اظہار ذات) کی لذت چکھ سکیں گے (ص ۳۸)…مسلم دنیا کے خصوصاً اعلیٰ طبقے‘ اساتذہ اور طالب علموں میں امریکی مطبوعات کی بڑی مانگ ہے‘ جس سے ہمیں استفادہ کر کے اپنے مفادات کے حصول کے لیے پہنچنا چاہیے۔ اسی طرح ہمیں مقبول عام مطبوعات کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی۔ مثلاً امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے عربی فیشن میگزین ’ہائی‘(HI) کو عرب نوجوانوں میں خاص مقبولیت حاصل ہے … ہمارے اسٹرے ٹیجک مفادات کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے کتب بڑا ہم کردار ادا کریں گی۔ عربی اور مسلم مقامی زبانوں میں ترجمے کے لیے ہر سال ایک ہزار ایسی کتابوں کا ترجمہ مفید ہدف رہے گا۔ یہ کام ]مسلم دنیا میں[ مقامی سطح پر نجی شعبے کی شراکت سے کرنا مناسب ہوگا۔ اس سے ہم ان لوگوں کے تصورات کو درست کر سکیں گے‘‘۔ (ص ۳۹)
  • ’’انفارمیشن ٹکنالوجی میں انٹرنیٹ ایک نہایت طاقت ور ذریعہ ہے۔ عرب‘ مسلم معاشروں میں خاص طور پر عورتوں کی ’نیٹ‘ تک رسائی کے راستے میں متعدد رکاوٹیں ہیں۔ نئی نسل کے لڑکے لڑکیوں کو انٹرنیٹ کی بھوک بری طرح اپنی جانب کھینچ رہی ہے اور ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مسلمانوں میں آدھی آبادی ۱۷ سال سے کم عمر کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ اندریں حالات ان میں انٹرنیٹ تک بڑے پیمانے پر رسائی کے لیے امکانات پیدا کرنا‘ امریکی ثقافت اور اقدار کو مسلم معاشروں میں پیوست کرنے میں خصوصی طور پر معاون ثابت ہوگا (ص ۴۰)۔ امریکی حکومت کو انٹرنیٹ کو عرب‘ مسلم دنیا کے عوام میں پھیلانے کے لیے لگن سے کام کرنے کا منصوبہ بنانا چاہیے۔ یہ سہولت صرف شہروں تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ اسے ان دیہات تک بھی پہنچا دینا چاہیے‘ جہاں امریکا مخالف جذبات نسبتاً کم ہیں۔ اس ضمن میں این جی اوز سے مدد لی جانی چاہیے (ص ۴۲)۔ ہمیں انٹرنیٹ اور کمیونی کیشن ٹکنالوجی کی ترویج کے لیے بجٹ کا عظیم حصہ مختص کرنا ہوگا‘‘۔ (ص ۷۰)
  • ’’ہمیں امریکی مفادات کے تحفظ اور مضبوطی کے لیے عرب‘ مسلم دنیا کی مقامی این جی اوز کی بھرپور مدد اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ یہی رضاکار تنظیمیں ان معاشروں سے  انتہا پسندانہ سوچ کے خاتمے اور آزاد روی کو پروان چڑھا سکتی ہیں۔ انھی این جی اوز سے ہم ان ]مسلم [ معاشروں کے قلب (core) تک پہنچ سکتے ہیں‘ جہاں سے ہمیں اپنے (مقامی) اتحادی مل سکیں گے۔ ان این جی اوز کو زیادہ تر نوجوانوں اور عورتوں پر انحصار کرنا چاہیے‘ اور امریکا کی این جی اوز سے مضبوط روابط قائم کیے جانے چاہییں۔ یہ ہمارے مقاصد کی تکمیل کے لیے مضبوط قلعے ثابت ہوں گے۔ ہماری اس پہل قدمی سے ان ]مسلم‘ عرب[ معاشروں میں ایک نیا طبقہ وجود میں آئے گا‘ جو ان ملکوں کے سیاسی اور سماجی توازن کو تبدیل کرنے کا پیش خیمہ ہوگا‘‘۔ (ص ۵۳‘ ۵۴)
  • ’’ہماری کامیاب قومی ڈپلومیسی سے متعلق حکمت عملی کا بہت زیادہ انحصار انگریزی زبان کی تدریس پر بھی ہے۔ اس ضمن میں برٹش کونسل‘ امریکی لینگویج سنٹرز‘فل برایٹ پروگرام اور وائس آف امریکا نے بڑی خدمات انجام دی ہیں۔ اگر ہم نے اس پروگرام سے پہلوتہی برتی تو ] مسلم [ معاشروں پر اثرانداز ہونے کا ایک نہایت قیمتی موقع ضائع کر دیں گے۔ بلاشبہہ ان معاشروں میں قدامت پسندوں کی جانب سے اس طرح مزاحمت جاری رہے گی کہ: ’’انگریزی سیکھنے سے ان کی مقامی زبان‘ ان کی تہذیب و ثقافت اور مذہبی قدروں کو خطرہ لاحق ہو رہا ہے‘‘۔ اس مزاحمت کے علی الرغم ہمیں انگریزی کی تدریس عامہ کے لیے ایک وسیع پروگرام پر بڑی رقم خرچ کرنا ہوگی۔ جس میں اولین قدم کے طور پر ان ملکوں کے تعلیمی اداروں میں لسانی تربیت کے لیے امریکی ماہرین بھیجنا ہوں گے۔ یہ امریکی ماہرین ہماری قومی ڈپلومیسی کے فہم سے آراستہ ہونے چاہییں جو وہاں جاکر نصاب سازی اور افراد سازی کریں‘‘۔ (ص ۵۰‘ ۵۱)

m            ’’۱۹۴۰ء میں راک فیلر نے لاطینی امریکا کے صحافیوں کو دعوت دی‘ اس کے بعد سے اب تک امریکی سرکاری پالیسی‘ فل برایٹ پروگرام اور ہمفرے پروگرام کے تحت تقریباً ۷لاکھ افراد کو تبادلہ دانش کے پروگرام میں امریکا آنے میں مدد ملی ہے۔ اس وقت بقول کولن پاول: انٹرنیشنل وزیٹر پروگرام (IVP) سے استفادہ کرنے والوں میں ۳۹سربراہان ریاست شامل ہیں (ص ۴۶)۔ اسی طرح انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ (IMET) نے عرب‘ مسلم دنیا کے ایک ہزار سے زاید فوجی افسروں کو تربیت دی۔ آئی ایم ای ٹی ایک طاقت ور پروگرام ہے جو دنیا میں مستقبل کے لیڈروں کی تربیت کرتا ہے‘‘۔ (ص ۴۷)


 __اگر ہم بالترتیب ان نکات پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ‘ امریکی پالیسی سازوں کا پورا زور میڈیا‘ تعلیم‘ این جی اوز اور انگریزی زبان پر ہے:

 __  یہ ایک عجیب بات ہے کہ ایک طرف اربوں ڈالر کی یلغار اور خود مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کے ہاتھوں میں مقبوضہ قومی وسائل ہیں اور دوسری جانب ’’نادیدہ دشمن‘‘ اور بڑی حد تک ’’تخیلاتی مخالف‘‘ کے وسائل کا حال کسی موازنے کی بنیاد بنتا دکھائی نہیں دیتا۔ مگر ان کے مالی وسائل کو سلب کرنے کا جنون عروج پر ہے۔

 __  پروپیگنڈا میں بے بسی کی بات وہ کہہ رہے ہیں جنھوں نے زمین و آسمان سے  یک طرفہ اور منفی پروپیگنڈے کا طوفان برپا کر رکھا ہے۔ افغانستان اور عراق کے حوالے سے خود ان کے ذمہ دار کہہ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ بے بنیاد افسانے کے بل بوتے پر کیا گیا۔ انسان سوچتا ہے کہ مادی ذرائع کی فراوانی اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھرپور کنٹرول کے باوجود‘  یہ کیسی عالمی طاقت ہے جو راے عامہ سے خائف ہے۔

 __  مسلم دنیا کے حکمرانوں کو جان لینا چاہیے کہ یہ اقتدار انھیں ’’اللہ کی طرف سے انعام‘‘ کے طور پر نہیں‘ بلکہ امریکی و استعماری طاقتوں کی نیازمندانہ رفاقت کے عوض ملا ہے۔

 __  مخصوص پروپیگنڈا اور میوزک کے بخار سے اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کا  امریکی منصوبہ اپنے اندر عبرت کے بڑے سبق رکھتا ہے۔ خود ہمارے ہاں کیبل سروس‘ نجی ٹی وی نیٹ ورک‘ ایف ایم سروس بھی کسی نہ کسی درجے میں اسی ایجنڈے پر عمل ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان ذرائع ابلاغ کی گرفت‘ ابلاغیات کی دیگر تمام اقسام سے زیادہ پراثر اور گمراہ کن ہے۔

 __  تعلیم کے میدان میں امریکی منصوبہ سازوں کی حریصانہ بے چینی کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انھیں جیکب آباد ’’شہباز بیس‘‘ سے بھی زیادہ ضرورت تعلیم کے نام پر سامراجی عزائم کے حلیف ان فکری امریکی اڈوں کی ہے۔ یہ ایک درست قول ہے کہ: امریکی یونی ورسٹی بیروت نے عرب دنیا کے فکری‘ دینی اورسماجی مستقبل کو متاثر کرنے کے لیے وہ کام کیا ہے جو بہت سی مغربی حکومتیں بھی نہ کرسکتی تھیں‘‘۔ آج پاکستان میں ایف سی کالج پر امریکی کنٹرول کی بحالی ‘ نجی شعبے میں نام نہاد انگریزی میڈیم کی گرفت اور پھر آیندہ پاکستان بھر کے ثانوی و اعلیٰ تعلیمی بورڈوں کو آغا خان فائونڈیشن کے قبضے میں دینے کی تجاویز‘انھی سامراجی اور مسلم کش منصوبوں کا حصہ ہیں‘ جن کے بارے میں اہل دانش ہوشیار رہنے کی دہائی دے رہے ہیں‘ مگر مغرب سے زیادہ مغرب کے وفاداروں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ پھر ’’تعلیمی آزادی‘‘ کا مطلب اگر سمجھنا ہو تو لاہور سے شائع ہونے والے Journal South Asia کے شمارہ۲ (دسمبر ۲۰۰۳ئ) کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے‘ جس میں اے ایچ نیر نے ’’پاکستان میں نصاب کی اسلامائزیشن‘‘ (ص۷۱-۸۷) میں دین‘ اخلاق‘ پاکستانیت‘ دو قومی نظریہ ہر ایک چیز کو نصاب سے کھرچ ڈالنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور یہ رسالہ سفما (سائوتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن) کی    پیش کش ہے۔ مستقبل میں شارجہ اور دوبئی کو امریکی یونی ورسٹی کی شاخوں کے ذریعے آباد کرنے اور ’’دانش کے شہر‘‘ آباد کرنے کے منصوبوں پر بڑی برق رفتاری سے کام کا آغاز ہوچکا ہے۔

 __  مسلم دنیا کی عورتوں‘ تعلیم اور اقلیتوں کا مسئلہ امریکی استعمار کے لیے کسی انسانی مسئلے سے زیادہ‘ خود امریکی ’’اقدار و تصورات ‘‘کے پھیلائو اور مذموم سامراجی مقاصد کے حصول کا ایجنڈا ہے۔ دیکھا جائے تو حقوق اور عورتوں وغیرہ کے نام پر قائم شدہ مغربی مفادات کی محافظ نظریاتی این جی اوز کا بنیادی ہدف کسی فرد کی دست گیری سے زیادہ مسلم تہذیبی اقدار کو ہدف بنانا‘ اسلامی نظریاتی اصولوں پر تنقید کرنا‘ خاندانی نظام کی توڑ پھوڑ اور آخرکار اباحیت پسندی اور تشکیک کے کانٹے بونا ہے۔ ہم اپنے ارد گرد مخصوص این جی اوز کو واقعی امریکی مفادات کے مضبوط قلعے (سٹرانگ ہولڈز) کے طور پر کام کرتا دیکھ سکتے ہیں۔ پاکستان میں انھی این جی اوز کو پاکستان کی وفاقی وزارت میں نمایندگی اور قومی وزارتوں میں منصوبہ سازی کے لیے کلیدی رول مل چکا ہے۔ علما‘ اہل دانش اور محب وطن ارکان اسمبلی غالباً ان گہری جڑوں سے نموپانے والے کانٹوں سے پوری طرح باخبر نہیںہیں‘ اور جو اس کے ہولناک نتائج کا شعور رکھتے ہیں‘ ان کی زبانوں پر گوناگوں مفادات کے قفل لگے ہوئے ہیں۔

 __  ایک جانب تو اپنی قومی زبان سے پہلوتہی اور ترقی کے نام پر انگریزی کی جانب پیروجواں اور مرد و زن کی لپک ہے اور دوسری طرف صیاد‘ دانہ ودام لیے انھیں اور ان کے مستقبل کو شکار کرنے کے درپے ہیں۔

امریکی ایوان نمایندگان کی اس رپورٹ میں مسلم دنیا کی مسندِاقتدار اور مسندِدانش پر بیٹھے افراد کے لیے غوروفکر اور اُمت کے مفاد میں حکمت عملی تجویز کرنے کا بھرپور چیلنج موجود ہے۔  اہل دانش اور عوام کے لیے اس میں سوچ وبچار کے بڑے نکات ہیں۔

تیرھویں صدی عیسوی میں ‘ عرب مسلمان تاجروں کے ذریعے جزائر شرق الہند ]انڈونیشیا[ میں اسلام کی روشنی پہنچی۔ گذشتہ ۲۰۰ برس کے دوران مغربی استعمار میں سب سے پہلے پرتگالی ‘ ان کے بعد ہسپانوی اور آخر میں ولندیزی فوجوں نے انڈونیشیا کے جزائر پر قبضہ جمایا۔ ولندیزیوں نے یہاں کے کلچر کو مغربی اور عیسائی رنگ میں رنگنے کے لیے فوج اور پادریوں سے مدد لی۔ ۳ہزار سے زیادہ جزائر پر مشتمل‘ دنیا کا یہ سب سے بڑا مسلم ملک ۱۹۴۹ء میں آزاد ہوا۔

پوری مسلم دنیا میں ‘ انڈونیشیا ایک ایسا خطہ ہے ‘ جہاں پر مسلمان عورتوں میں دینی تبلیغ اور دینی تعلیم کا ایک بڑا وسیع اور مربوط نظام قائم ہے۔ اس نظام میں ’’مبلغہ‘‘ کا رول نہ صرف ایک دینی معلمہ کا سا ہے ‘ بلکہ وہ معاشرے کے باہمی تعلقات کی مضبوطی میں بھی ایک اہم عنصر ہے۔ دینی مبلغہ اسلام کا پیغام عام کرنے کے ساتھ معاشی‘ خانگی‘ طبی‘ سیاسی اور سماجی پہلوئوں پر بھی اپنی سامع خواتین کو رہنمائی دیتی ہے۔

انڈونیشیا میں دو طرح کے تعلیمی ادارے ہیں: ایک کو پینرنتران (pesantran)کہتے ہیں جہاں عام طور پر وہی تعلیم دی جاتی ہے‘ جیسی ہمارے ہاں عام اسکولوں میں رائج ہے‘ تاہم اس کے ساتھ بچے بچیوں کے لیے دینی تعلیم کا بھی خصوصی طور پر انتظام کیا جاتا ہے۔ دوسرے تعلیمی ادارے ’’مدارس‘‘ کہلاتے ہیں۔ یہ ہمارے دینی مدارس سے ملتے جلتے ہیں‘ مگر اپنے نصاب اور نظام کار میں ان سے زیادہ جدید ہیں۔ اس نظام میں خواتین ’’مبلغات‘‘ کا کردار بڑا منفرد ہے۔

انڈونیشی مسلم ’’مبلغات‘‘ کی دو قسمیں ہیں: پہلی کسی دینی معلم ’’کیائے‘‘ (kyai) کی بیوی ’’نیائے‘‘ (nyai) کہلاتی ہے‘ اور دوسری کو ’’استاذہ‘‘ کہتے ہیں۔ استاذہ دراصل معلمۂ قرآن ہوتی ہے۔ ’’نیائے معلمہ‘‘ اپنے شوہر یا والد کے سماجی اثرات کے پھیلائو کی بنیاد پر دینی تعلیم کا کام شروع کرتی ہے۔ اس کی مقبولیت میں بڑا حصہ اس کے شوہر کی معلمانہ قابلیت اور سماجی قبولیت کا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس  ’’استاذہ‘‘ خانگی دائرہ اثر سے بالا محض اپنی صلاحیت اور محنت کے بل پر دینی تعلیم پھیلاتی ہے۔

’’استاذہ‘‘ بچوں کو قرآن پڑھنا سکھاتی ہے ‘اور دین کے بنیادی موضوعات پر تعلیم دیتی ہے۔ اس کی کامیابی اور مقبولیت کا راز اس کی تقریری صلاحیت اور ’’مجلس تعلیم‘‘ کو منظم کرنے کی مہارت پر منحصر ہوتا ہے۔ ایسی مقبول اساتذہ میں سے بعض کو اپنے خانگی پس منظر کے باعث کام کی سہولت حاصل ہوتی ہے‘ لیکن بیش تر خاتون اساتذہ‘ اپنی بے پناہ محنت‘ لگن اور علمی قابلیت کے بل پر معاشرے میں توجہ اور احترام کا مقام حاصل کرتی ہیں۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ان مبلغات میں ایک قابل ذکر تعداد نومسلم خواتین کی ہے۔ نومسلم مبلغات میں اکثریت کا تعلق چینی نسل سے ہے۔ نومسلم مبلغات کی شہرت اور خواتین میں مقبولیت کا ایک سبب ان کا نومسلم ہونا بھی ہوتا ہے کہ: ’’انھوں نے سچے دل سے اسلام قبول کیا ہے اور اب دین اسلام کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے ہوئے ہیں‘‘۔

صدر سہارتو کے زمانے میں ان دینی مبلغات کی سرگرمیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا‘ کیونکہ حکومت کا خیال تھا کہ ’’مبلغہ خواتین کی تعلیم‘ تربیت‘ تہذیب اور ترقی کے لیے رضاکارانہ طور پر جو خدمت انجام دیتی ہے‘ وہ سرکاری اداروں اور ذرائع ابلاغ سے بھی ممکن نہیں‘‘۔ انڈونیشیا کی جدید تاریخ پر نظر رکھنے والے ماہرین کی رائے ہے کہ بہت سی مبلغات نے واقعتا اپنے اثرانگیز اسلوب بیان کے ذریعے خواتین کی نہ صرف تعلیمی ترقی کا گراں قدر کام کیا‘ بلکہ ان پر کسی بھی سیاسی یا مذہبی رہنما سے زیادہ گہرے اثرات مرتب کیے۔

انڈونیشیا میں اسلام کی دعوت‘ تبلیغ‘ تنظیم اور اجتماعی جدوجہد کرنے والی دو بڑی تحریکیں محمدیہ اور نہضۃ العلما کے نام سے معروف ہیں۔ ان میں محمدیہ کو ’’جدیدیت کی علم بردار‘‘ (modernist) اور نہضۃ کو ’’روایتی‘‘ (traditional)دھارے میں شمار کیا جاتا ہے۔ دونوں نے خواتین اور طالبات میں کام کے لیے علیحدہ تنظیمیں قائم کی ہیں۔ نہضہ کی طالبات کی تنظیم  فتایۃ اور خواتین کی مسلمات ہے۔ اسی طرح ’’محمدیہ‘‘ کی طالبات کے لیے نصیحۃ اور خواتین کے لییعائشیۃ ہے۔

فتایۃ اور نصیحۃ‘ طالبات کی حد تک‘ دینی تعلیم‘ دنیاوی تعلیم اور سماجی بہبود کے کاموں میں فعال حصہ لیتی ہیں۔ خواتین کی تنظیمات مسلمات اور عائشیۃ کی سب سے بڑی سرگرمی پینگاژن (یعنی درس قرآن) اور مجلس تعلیم کا باقاعدگی سے انعقاد ہے۔ ان تنظیموں کی ترجیح اول یہ ہے کہ ان سے وابستہ خواتین‘ درس کی مجلسوں میں لازماً شرکت کریں‘ تاہم وہ عام خواتین کو بھی شرکت کے لیے باقاعدہ دعوت دیتی ہیں۔

ان مجلسوں کے نتیجے میں کئی اساتذہ‘ مقبول معلمات بن جاتی ہیں۔ بہت سی ’’نیائے‘‘ معلمات اور اساتذہ مذکورہ بالا تنظیموں سے تعلق رکھتی ہیں ‘ لیکن اس کے باوجود روایتی اور جدید دھارے سے متاثر ایک بڑی تعداد ایسی ’’نیائے معلمات‘‘ اور اساتذہ خواتین کی ہے‘ جو آزادانہ طور پر اپنا تدریسی و تعلیمی نظام کار منظم کرتی ہیں۔ ایسی مبلغات شہر کی پسماندہ ترین آبادیوں اور دُور دراز علاقوں میں اپنے کام کا آغاز کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ البتہ کچھ تدریسی حلقے شہر کی خوش حال آبادیوں میں بھی قائم کرتے ہیں۔ ان مبلغات کی درسی اور تبلیغی مصروفیات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے ‘ کہ ایک مبلغہ ہفتے کا پہلا روز گھریلو خواتین میں‘ دوسرا روز طالبات میں‘ تیسرا روز پڑھی لکھی خواتین کی محفل میں‘ چوتھا روز مختلف دفاتر میں ملازمت سے وابستہ خواتین میں درس دینے کے لیے مخصوص کرتی ہے۔ باقی دنوں میں بعض اوقات خوشی اور غمی کی مجلسوں میں شرکت کرتی ہے۔

ان درسی مجلسوں میں شرکت کرنے والی خواتین ایک بڑے کمرے میں نشست منعقد کرتی ہیں‘ جہاں پر ایمان و تقویٰ اور معاشی ‘ سماجی اور تعلیمی موضوعات پر درس کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اگرچہ مختلف عمروں اور مختلف سماجی و معاشی طبقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین ان درسوں میں شریک ہوتی ہیں‘ لیکن یہ سماجی اونچ نیچ ان کے باہم گھل مل جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں پیدا کرتی۔

خواتین کی مجلس تعلیم کا حال:  ایک غیر مسلم اسکالر خاتون لیزایم مارکوس نے انڈونیشی مسلم خواتین میں اس دینی سرگرمی کا جائزہ لینے کے لیے تحقیق کے دوران ایک ’’مجلس تعلیم‘‘ کا آنکھوں دیکھا حال لکھا‘ جو یہاں پیش کیا جا رہا ہے:

یہ صبح چھ بجے کا وقت ہے۔ شہر کے مضافات میں چاول کے کھیتوں کے بیچوں بیچ خواتین کا ایک گروپ آ رہا ہے۔ ان میں کچھ ادھیڑ عمر کی ‘ بعض نوجوان اور بقیہ درمیانی عمر کی عورتیں ہیں۔ زیادہ تر نے انڈونیشیا کا روایتی لباس پہن رکھا ہے ۔ کچھ نے پتلونیں پہنی ہوئی ہیں‘ لیکن اُوپرایسا ڈھیلا ڈھالا کرتا ہے جو گھٹنوں سے نیچے تک چلا گیا ہے۔ تمام عورتوں نے سر پر اسکارف اس طرح باندھ رکھا ہے کہ ان کے سر کا ایک بال بھی دکھائی نہیں دے رہا‘ جب کہ دوسرا اسکارف چادر کی طرح اپنے ارد گرد لپیٹ رکھا ہے۔ کچھ عورتوں نے سر پر اسکارف کے بجائے ٹوپیاں پہنی ہوئی ہیں۔ بعض نوجوان عورتوں نے اپنے کم سن بچوں کو بھی اٹھایا ہوا ہے۔ یہ سب عورتیں ’’مجلس تعلیم‘‘ میں شرکت کے لیے اجتماع گاہ آ رہی ہیں۔

اجتماع گاہ پہنچنے سے پہلے ہی ذرا بلند آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں۔ یہ آوازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کی ہیں۔ البتہ ان میں سب سے نمایاں ترین آواز نعت پڑھنے والی خاتون کی ہے۔ یہ وہ خواتین ہیں جو قدرے پہلے اجتماع گاہ میں پہنچ چکی ہیں۔ ایسی اجتماع گاہوں کے مختلف نام بھی ہوتے ہیں۔ اس اجتماع گاہ کا نام ’’نورالاحیا‘‘ ہے۔ یہاں پہنچنے والی تمام ہی عورتیں ایک دوسرے کو خوش اخلاقی سے سلام کہتی اور خیریت دریافت کرتی ہیں۔ البتہ نوجوان عورتیں‘ بڑی عمر کی خواتین کی تعظیم کرنے کے لیے ان ہاتھوں کی پشت کو بوسہ دیتیں اور دعائیں لیتی ہیں۔ اب ہال کھچا کھچ بھر چکا ہے۔ ایک عورت نعت پڑھ رہی ہے‘ تاہم کچھ عورتیں درود شریف پڑھ رہی ہیں‘ اور باقی عورتوں کو آپس میں گفتگو کرنے کا ایک اچھا موقع ملا ہے جس سے وہ استفادہ کر رہی ہیں۔

اسی دوران سفید لباس زیب تن کیے ہوئے ایک ’’کیائے‘‘ (دینی معلم‘ شوہر) اور ’’نیائے‘‘ (اس کی معلمہ بیوی) ہال میںداخل ہوتے ہیں‘ اور سب کو ’’السلام علیکم‘‘ کہہ کر ایک چوڑے بنچ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں قرآن اور عربی کی کتب ہیں۔ بغیر کسی تاخیر کے نیائے ]معلمہ[ سورۃ فاتحہ پڑھتی ہے‘ اور اس کے ساتھ تمام عورتیں کورس کی صورت میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت کرتی ہیں۔یہ سلسلہ صرف ایک بار پڑھنے سے رک نہیں جاتا بلکہ ’’نیائے‘‘ ]معلمہ[ کی رہنمائی میں وہ ۱۰ بار‘ سورہ فاتحہ پڑھتی ہیں ‘ ہر بار سورۃ مکمل کرنے کے بعد خدا کے حضور بخشش اور سلامتی کے لیے کسی ایک فرد کے لیے ایک جملے میں دعا کرتی ہیں‘ مثلاً حضرت آدم ؑ، حضرت ابراہیم ؑ، حضرت محمدؐ، حضرت خدیجہؓ، حضرت ابوبکر صدیق ؓ،حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز اور آخر میں خود مجلس تعلیم کی شرکا کے لیے دعا کرتی ہیں۔ جب فاتحہ کے ساتھ یہ دعائیہ عمل ختم ہوتا ہے تو ’’نیائے‘‘ ]معلمہ[ اپنے شوہر ’’کیائے ‘‘]معلم[ سے کہتی ہیں‘ وہ گذشتہ درس کا خلاصہ بیان کرے۔ جس کے بعد کیائے ]معلم[ قرآنی تفسیرجلالین سے عربی متن کی ایک ایک لائن پڑھتا ہے جس کا انڈونیشی میں ترجمہ اس کی بیوی‘ نیائے ]معلمہ[کرتی جاتی ہے۔ جونہی متن کا ترجمہ ختم ہوتا ہے تو پھر نیائے ]معلمہ[ اپنی علمی صلاحیت کی بنیاد پر اس متن کا موجودہ دینی‘ اخلاقی‘ سیاسی‘ ذہنی اور سماجی نوعیت کے روز مرہ مسائل سے تعلق جوڑتی ہے اور یہ عمل بڑا پرُتاثیر ہوتا ہے۔ ’’کیائے‘‘ ]معلم[ اگرچہ پورے درس میں زیادہ تر خاموش رہتا ہے‘ لیکن اپنی فاضل اہلیہ کے ساتھ اس کی موجودگی اس اعتبار سے اہم تصور کی جاتی ہے کہ وہ کسی دینی یا فقہی اُلجھن کو حل کرنے کے لیے اپنے فہم کے ساتھ‘ سامعین کو بروقت رہنمائی دے سکتا ہے۔

جب اس درس کے پہلے حصے کا اختتام ہوتا ہے تو ایک عورت پلاسٹک بیگ‘ اور دوسری لکڑی کا چھوٹا باکس اٹھا کر تمام عورتوںکے قریب سے گزرتی ہے۔ کم و بیش تمام ہی عورتیں اپنے پرس سے کچھ سکّے یا نوٹ نکال کر ان میں ڈالتی ہیں۔ پلاسٹک کا بیگ ان دونوں معلموں کے لیے اور لکڑی کا باکس اس اجتماع گاہ کی تعمیر و ترقی کے لیے ہوتا ہے۔ اس کے بعد درس کا دوسرا دَور شروع ہوتا ہے۔ اس مرتبہ پھر ’’کیائے‘‘ ]معلم[ امام غزالیؒ کی احیاء العلوم سے متن پڑھتا ہے اور ’’نیائے‘‘ ]معلمہ[ اس کا ترجمہ کر کے‘ مفصل تشریح کرتی ہے۔ اس تشریح کو بھی وہ موجودہ حالات سے جوڑتی ہے۔ تقریباً ساڑھے سات بجے یہ ’’مجلس تعلیم‘‘ اختتام کو پہنچتی ہے۔ جس کے بعد بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ سبھی کے لیے بخشش اور مغفرت کی دعا کی جاتی ہے۔ اس کے بعد عورتیں اُمڈ کر آتی ہیں اور نیائے ]معلمہ[ کے ہاتھوں کو بوسہ دیتی ہیں اور کیائے ]معلم[ کا شکریہ ادا کر کے ہال سے باہر نکلنا شروع کرتی ہیں۔

یہ ایک مضافاتی علاقے کی مجلس تعلیم کا حال ہے‘ جب کہ ۱۹۹۰ء میں انڈونیشیا کے صرف ایک جزیرے بوگر(Bogor) میں خواتین کے درس قرآن یا مجلس تعلیم کے ۱۹ ہزار ۸ سو ۵۱ حلقے تھے‘ جن میں اب تک کم از کم ۲۰‘۲۵ فی صد ضرور اضافہ ہوا ہوگا۔

مختلف سطحوں پر مجلس تعلیم یا درس قرآن کے ایسے سلسلے چل رہے ہیں‘ مثلاً ’’کام باپا‘‘ مردوں کے لیے‘ ’’پینگوژن ریماجا‘‘ نوجوانوں کے لیے ‘ ’’پینگوژن گابنگن‘‘ مخلوط مجلس کے لیے اور ’’پینگاژن‘‘ صرف عورتوں کے لیے ہیں۔ ان درسی سرگرمیوں کے نقطہ ء آغاز کا تعین ذرا مشکل ہے‘ تاہم یہی خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز روایتی دھارے کی تنظیم نہضۃ نے نہیں بلکہ جدید دھارے کی محمدیہ نے کیا تھا۔ کیونکہ وہ روایتی طرزعمل سے ہٹ کر کام کرنے والی تنظیم قرار دی جاتی ہے۔ محمدیہ ۱۹۱۲ء میں قائم ہوئی اور اس نے ۱۹۱۷ء میں عائشیۃ تشکیل دی۔ اس تنظیم نے مسلمان عورتوں میں دینی‘ تعلیمی‘ تربیتی اور اصلاحی امور کو اولیت دیتے ہوئے ۱۹۲۲ء میں پہلی ’’مسجد براے خواتین‘‘ (ضلع کائومن‘ یوگی آکارتا) میں قائم کی۔ یہ مسجد خواتین کو نماز اور عبادت کی سہولت فراہم کرنے کے ساتھ خواتین کی عمومی دینی تعلیم کا مرکز بھی قرار دی گئی۔ اس کا مکمل انتظام و انصرام عائشیۃ کی دو خواتین کے ہاتھ میں تھا۔ خواتین کی دوسری مسجد ۱۹۲۶ء میں ’’مسجد اسطری‘‘ (گورٹ‘ جنوبی جاوا) میں قائم کی گئی۔ اس طرح  محمدیہ نے عورتوں میں دینی تعلیم اور عبادت کے لیے علیحدہ مساجد قائم کرنے کی روایت متعارف کرائی۔

گھریلو خواتین کے درس یا مجلس تعلیم کے پروگرام زیادہ تر ان اوقات میں ہوتے ہیں جب انھیں گھر کے کاموں سے کچھ فرصت میسر ہوتی ہے‘ تاہم طالبات اور ملازمت پیشہ عورتوں کے لیے مغرب اور عشاء کے درمیان پروگرام کیے جاتے ہیں۔ مختلف اعداد و شمار کے مطابق جدید تعلیم یافتہ خواتین یا زیرتعلیم طالبات کی مقابلتاً بڑی تعداد ان پروگراموں میں شرکت کرتی ہے۔یہ پروگرام ۱۵روزہ یا ترجیحاً ہفت روزہ ہی کیے جاتے ہیں تاکہ دینی معلومات کی فراہمی کا تسلسل قائم رہے۔

خواتین کے پروگراموں میں آیات قرآنی اور ان کے ترجمے کو بار بار دہرانے پر زور دیا جاتا ہے‘ تاکہ آیات ‘ ان کا مفہوم اور ان میں پوشیدہ پیغام کی تاثیرشرکا کے ذہن نشین ہو جائے۔ اگرچہ اکثر درسی مجالس کسی موضوع یا موقع کے حوالے سے منسوب کی جاتی ہیں‘ لیکن ان مواقع پر خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے‘ مثلاً جشن نزول قرآن‘ استقبال رمضان‘ لیلۃ القدر‘ میلادالنبی‘ رجبان ‘ وغیرہ۔ دینی مدارس یا مستحق لوگوں کی مدد کے لیے ’’ایک گلاس چاول‘‘ جیسے سلسلے بھی ساتھ ہی ساتھ چلتے ہیں‘ تاکہ عام فرد کو بوجھ کا احساس بھی نہ ہو اور رضاکارانہ طور پر بڑے پیمانے پر خوراک جمع کر لی جائے۔ یہ مسئلہ صرف خوراک کی اشیا تک محدود نہیں بلکہ بہت سی عورتیں بہ یک مشت رقم دینے کے بجائے قسطوں میں عطیہ دے کر دینی تعلیم کے نظام کو ایک مستحکم معاشی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ خواتین کا یہ ایثاراور شوق اس درجے بڑھا ہوا ہے کہ مردوں اور نوجوانوں کے دینی سلسلہ ہاے درس کے بہت سے اخراجات انھی کے ذریعے پورے ہوتے ہیں‘ بلکہ بعض مدرسے یا مساجد تو صرف ایک ایک مبلغہ کی محنت سے جمع شدہ وسائل سے قائم ہوئی ہیں۔

دینی معلمات اس پہلو پر خصوصی توجہ دیتی ہیں کہ وہ جس علاقے یا جس طبقے میں خطاب کریں‘ ان کی اپنی زبان اور انھی کے محاورے میں کلام کریں تاکہ سامعین اپنائیت محسوس کریں۔ ان مجلسوں میں بعض  عورتیں روایتی طور پر بوتلوںمیں صاف پانی بھر لاتی ہیںکہ حاضرین کی دعا سے یہ پانی شفا کا باعث بن سکتا ہے۔ اس سے فائدہ ہوتا ہے یا نہیں‘ لیکن پانی بھری بوتلوں پر دم اور دعا کی مشق روز افزوں ہے کہ یہ پانی کے پینے سے شوہر توجہ دینے لگ جائے ‘ بچے پڑھائی میں دلچسپی لیں‘ بچوں کو نماز سے تعلق ہو جائے‘ زچگی کا زمانہ سہل رہے‘ کاروبار اور قرض کی الجھنیں دُور ہو جائیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ دینی معلمات اور مبلغات ‘ اپنی حاضرین کو توجہ دلاتی ہیں کہ: ’’اس محفل کو فرشتوں کا سایہ‘ خدا کی رحمت اور رسولؐ خدا کی خوشنودی حاصل ہے۔ آپ اپنی ان بہنوں کے لیے صراط مستقیم کی دعا کریں جو اس وقت ڈسکو ڈانس کلبوں‘ جمناسٹک کے اداروں‘ سینما ہالوں اور بازاروں‘ کلبوں میں اپنا حال اور اُخروی مستقبل خراب کر رہی ہیں‘‘۔ ان کلمات سے کلاس میں شریک عورتیں ایک خاص قسم کی قلبی طمانیت حاصل کرتی ہیں۔

انڈونیشی معاشرے میں معلمہ‘ مبلغہ یا استاذہ کا کردار مرکزیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ معلمہ اپنے شوہر کے ہمراہ دینی خدمت انجام دیتی ہیں۔ استاذہ آزادانہ طور پر خود اس میدان میں پیش رفت کرتی ہیں،  ’’نیائے‘‘ اور ’’استاذہ‘‘ کو معاشرے کا وہ طبقہ قرار دیا جاتا ہے جو خواتین میں تعلیم و تربیت کے ذریعے توازن پیدا کرتا ہے۔ ایک مبلغہ اس امر کا خصوصی اہتمام کرتی ہے کہ وہ بہترین عربی اور شان دار انگریزی بول سکے۔ اس مقصد کے لیے ریفریشر کورسز اور سمعی و بصری اعانات سے بھی استفادہ کرتی ہیں۔ ان کا شوق اور منصبی ذمہ داریاں انھیں محنت کے لیے اُبھارتی ہیں۔ بلاشبہ ان کی تعلیمی قابلیت اور تعلیمی اسناد بھی انھیں وقار دیتی ہیں۔ لیکن مشاہدہ ہے کہ یہ چیز ثانوی ہے۔ اصل چیزیں دوسری ہیں جو انھیں مقبولیت اور اثرانگیزی کا جوہر عطا کرتی ہیں ‘ وہ یہ ہیں:

    ۱- دین کا علم (چاہے اس کے لیے کوئی اعلیٰ درجے کی سند لی گئی ہے یا نہیں)

    ۲- اپنی تقریر میں قرآن کی آیات کا برمحل حوالہ دینا اور احادیث نبویؐ سے استدلال کرنا ۔

    ۳- سماجی زندگی اور سماجی مسائل سے واقفیت کا ثبوت دینا (یہ چیز ان کی تقریروں سے خود بخود ظاہر ہو جاتی ہے کہ وہ حالات حاضرہ اور قومی یا مقامی زندگی سے کس قدر واقف ہیں۔ اس کے لیے وہ جدید اخبارات و رسائل کا مطالعہ کرتی ہیں)۔

    ۴- گفتگو میں عربی اور انگریزی زبان میں مختلف تحریروں سے استفادے کا اظہار۔

    ۵- تقریر کے دوران کسی لطیفے اور ہلکی پھلکی بات سے سامعات کو اچانک ہنسا کر ماحول کو بوجھل بننے سے محفوظ رکھ سکیں اور تقریر سنتے سنتے عورتیں اچانک کھل کھلا کر ہنسنے پر مجبور ہو جائیں۔

پانچویں چیز کو چاروں خصوصیات کے ساتھ ایک اہم مقام حاصل ہے۔

بہت سی مقبول مبلغات کی تقریروں کے کیسٹ‘ بڑے بڑے پاپ میوزک سنٹروں پر دستیاب ہیں اور ان کی مانگ میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان مبلغات کا تعلق محمدیہ‘ نہضۃ اور آزاد حلقوں سے ہے۔ طریق کار اور اسلوب بیان ایک جیسا ہے۔ ان کی تقریروں کے مرکزی موضوعات میں: عبادت‘ تقویٰ‘ عورت کا مقام‘ سماجی بہبود اور سماجی انصاف شامل ہیں۔ خواتین میں ان مبلغات کی شہرت اور مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جس پر مغربی حلقے اور خاص طور پر عیسائی مشنری سخت پریشان ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عورتوں میں دین سے وابستگی کا یہ سلسلہ اُن ]مشنریوں[کے بہت سے منصوبوں پر پانی پھیر رہا ہے۔ اگرچہ مبلغات میں ایک طاقت ور غیر روایتی یا جدید لہر بھی کام کر رہی ہے‘ تاہم اپنی تمام تر جدیدیت کے باوجودیہ ویسی ’’جدید‘‘ بن نہیں سکتی کہ دین کے مصالح اور اہداف کی تعبیر کو اُلٹ پلٹ کر رکھ دے‘ بلکہ تجزیہ یہی بتاتا ہے کہ گاہے آزاد روی کا جذبہ رکھنے کے باوجود یہ معلمات جب قرآن کھول کر درس دیتی ہیں تو پھر ان میں اور روایتی طرزفکر رکھنے والی دینی معلمات میں کوئی خاص فرق رہ نہیں جاتا۔ خواتین میں دینی تعلیم‘ تبلیغ اور تربیت کا مسلم دنیا کا یہ غالباً سب سے موثر اور وسیع ادارہ ہے (ماخوذ :

The Muballighah: Religion in Indonesia by Lies M. Marcose  ‘ مجلہ Dossiers شمارہ ۷‘۸‘ پیرس)۔

 

یکم اکتوبر ۲۰۰۱ء کو بنگلہ دیش میں آٹھویں عام انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)‘ جماعت اسلامی‘ جاتیو پارٹی اور متحدہ اسلامی الائنس پر مشتمل چار جماعتی اتحاد اور عوامی لیگ کے درمیان اصل مقابلہ ہوا۔ چار جماعتی اتحاد کا تشخص یہ تھا کہ: یہ اسلامی رحجان کی حامل‘ پاکستان سے تعلقات کی حامی اور دو قومی نظریے کی طرف دار پارٹیاں ہیں۔ دوسری طرف عوامی لیگ واضح طور پر سیکولرزم کی علم بردار‘ ہندو اور بھارتی مفادات کی حلیف جماعت کے طور پر قوم کے سامنے تھی۔ عوامی لیگ کی پشت پر ماضی کے کمیونسٹوں اور حال کے این جی اوز مافیا کی بھرپور تائید کا آسرا اور ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ہندوئوں کی طرف داری بھی شامل تھی۔

عوامی لیگ کی سربراہ حسینہ واجد کے مقابلے میں چار جماعتی اتحاد کی مرکزی قیادت بی این پی کی بیگم خالدہ ضیا اور جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمن نظامی کے سپرد تھی۔ اس انتخابی مہم کے دوران عوامی لیگ کے غنڈا عناصر نے جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر (اسلامی طلبہ تنظیم) کے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور بی این پی کے کارکنوں کو بھی مارا جس کے نتیجے میں متعدد قیمتی کارکن شہید ہوگئے‘ تاہم چار جماعتی اتحاد نے تشدد کے واقعات کا تشدد سے جواب دینے کے بجائے سیاسی تعلیم اور انتخابی مہم پر زور دیا۔ جن دنوں انتخابی مہم زوروں پر تھی‘ انھی دنوں ۱۱ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا حادثہ بھی رونما ہو گیا۔ اس واقعے کو بنیاد بنا کر عوامی لیگ نے چار جماعتی اتحاد کو: پاکستان کا دلال‘ طالبان کا ہراول دستہ اور اسلامی بنیادی پرستی کا قائم مقام گردانتے ہوئے بھرپور الزامی مہم شروع کر دی۔

یکم اکتوبر ۲۰۰۱ء کو جب انتخابات ہوئے تو ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب ۷۳ فی صد سے زیادہ نکلا۔ ۲۸۲ میں سے عوامی لیگ کو ۶۲ اور چار جماعتی اتحاد کو ۲۰۲ نشستیں ملیں‘ جن میں سے جماعت اسلامی کے ۳۱نامزد امیدواروں میں سے ۱۷ ارکان نے‘ جماعت کے انتخابی نشان ترازو کے تحت کامیابی حاصل کی اور جماعت کو ۱۰ فی صد ووٹ ملے۔ ہارنے والے ۱۰ امیدوار ۵۰۰ سے ایک ہزار تک کے ووٹوں کے فرق سے ہارے (جماعت اسلامی اور اسلامی متحدہ محاذ کے مجموعی طور پر ۲۹ امیدوار کامیاب ہوئے)۔ جماعت اسلامی کے کامیاب امیدواروں میں: مولانا مطیع الرحمن نظامی (امیر جماعت)‘ مولانا عبدالسبحان‘ مولانا دلاور حسین سعیدی‘ مولانا فریدالدین‘ مولانا عبدالعزیز‘ مفتی عبدالستار‘ ڈاکٹر عبداللہ محمد طاہر‘ پروفیسر عبداللہ کافی‘ پروفیسر شہادت حسین‘ مولانا ریاست علی‘ پروفیسر محمد روح القدوس‘ پروفیسر عزیز الرحمن‘ محمدشاہ جہاں‘ میزان الرحمن‘ پروفیسر غلام پرواز‘ پروفیسر عبدالخلیق‘ اور غازی نذرالاسلام پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ مطیع الرحمن نظامی نے عوامی لیگ کے سابق وزیر اطلاعات و نشریات ابوسعید کو شکست دی۔

یہ نتائج بھارت و مغرب نواز اور بنگلہ قوم پرستی کے حامی لوگوں کے لیے دھچکا ثابت ہوئے۔ اسی لیے متعدد بھارتی اور مغربی مبصرین یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ: ’’یہ نتائج اس اعتبار سے خطرے کی گھنٹی ہیں کہ بنگلہ دیش میں اسلامی بنیاد پرست انتخابی عمل کے ذریعے ایک بڑا مرحلہ طے کر کے آگے نکل آئے ہیں‘‘۔ سہ روزہ  دعوت دہلی کے اداریے کے مطابق ’’ہندستانی میڈیا اور سیاسی حلقوں میں سب سے زیادہ تشویش جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ساتھ خالدہ ضیا کے اتحاد پر ظاہر کی جا رہی ہے--- کہا جا رہا ہے کہ خالدہ ضیا کی حکومت جماعت کے زیراثر رہے گی‘‘۔ بنگلہ دیش میں متعدد مبصرین نے ان نتائج کو دو قومی نظریے کی تجدید قرار دیتے ہوئے ۱۹۴۶ء میں سلہٹ کے اس ریفرنڈم کا اعادہ قرار دیا ہے‘ جس میں وہاں کے لوگوں نے پاکستان میں شمولیت کا ووٹ دیا تھا۔ یہ تبصرے کسی جذباتی ردعمل کا مظہر قرار دیے جائیں یا انھیں حقیقت سمجھا جائے‘ بہرحال یہ بات واضح ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام نے ایک واضح ‘ مثبت‘ اسلامی اور مسلم قوم پرستانہ سوچ کی تائید میں یک جہتی کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔

اگرچہ بھارتی ذرائع ابلاغ نے عوامی لیگ کی شکست کو سیکولرزم کی شکست اور پاکستان نواز گروہ کی کامیابی قرار دیا ہے‘ لیکن خالدہ ضیا نے بھارتی حکومت کو متعدد بار یقین دہانی کرائی ہے کہ: ’’اسے بھارت کے خلاف کسی مہم جوئی سے سروکار نہیں‘‘۔ اس موقف کا سبب یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں بھارت نے جس درجے کا اثر و نفوذ حاصل کر رکھا ہے اور اس کی سرحدات جس قدر غیر محفوظ ہیں‘ اس پس منظر میں وہاں کی حکومت کا ایک بڑا مسئلہ ریاست کے اقتداراعلیٰ کا تحفظ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’را‘‘ ۱۰ اخبارات چلا رہی ہے۔ ملک کے پانچ بڑے اخبارات میں سے تین اِن میں شامل ہیں۔

پاکستان میں بسنے والا کوئی بھی فرد اس مشکل چیلنج اور بے شمار عملی مسائل کو نہیں سمجھ سکتا جو وہاں کی اسلام دوست اور تعمیری قوتوں کو درپیش ہیں۔ بنگلہ قوم پرستی‘ لادینیت‘ ہندو اور بھارت کا اتحاد تو تھا ہی‘ لیکن اس ’’اتحاد‘‘ کو ان نام نہاد رضاکار تنظیموں (NGOs)کی بھی بڑی کمک میسر ہے جو اسٹرے ٹیجک مفادات کی حامل اور غیر ملکی امداد یافتہ پروپیگنڈا تنظیمیں ہیں۔اگر یہ کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ چار جماعتی اتحاد کی مدمقابل عوامی لیگ کی اصل قیادت انھی تنظیموں کے وفاق کے پاس تھی۔ یاد رہے ان مخصوص سیاسی مفادات کی حامل این جی اوز کی فیڈریشن ’’اداب‘‘ (دی ایسوسی ایشن آف ڈویلپمنٹ ایجنسیز بنگلہ دیش‘ADAB) کے نام سے منظم ہے جو عملاً ایک طاقت ور سیاسی پارٹی کا عکس ہے۔ اس میں یو ایس ایڈ‘ دی ایشیا فائونڈیشن‘ کاریتاس‘ وائی ایم سی اے‘ پروشیکا‘ براک وغیرہ شامل ہیں۔ ۲۱ مئی ۲۰۰۱ء کو ’’اداب‘‘ نے اس قرارداد کے تحت بڑے پیمانے پر پروپیگنڈا مہم کا آغاز کیا کہ: ’’بنگالی قوم میں یہ بیداری پیدا کی جائے کہ وہ ان قوتوں کوووٹ نہیں دیں گے‘ جو ملک کی ترقی کو پیچھے کی طرف لے جانا چاہتی ہیں‘‘۔ ان تنظیموں کا یہ نعرہ بذاتِ خود ان کے ہدف اور مقصد کو واضح کر رہا ہے۔

انتخابی نتائج اور عمل کی تکمیل پر تمام غیر جانب دار مبصرین نے اطمینان کا اظہار کیا۔ بنگلہ دیش میں دستوری ترمیم کے بعد اب انتخابات غیر جانب دار عارضی حکومت کی نگرانی میں ہوتے ہیں (یہ پاکستان کے لیے بھی قابل تقلید ہے)۔ یاد رہے کہ دستور میں اس ترمیم کی تجویزاور مہم سابق امیر جماعت بنگلہ دیش پروفیسر غلام اعظم نے چلائی تھی لیکن اس کے باوجود‘ عوامی لیگ کی لیڈر نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ پاکستان کی طرح بنگلہ دیش میں بھی انتخاب ہارنے والی پارٹی کے لیے نتائج کو تسلیم کرنا سخت اذیت ناک عمل ہوتا ہے۔ پچھلی مرتبہ خالدہ ضیا نے الیکشن جیتا تو پورا عرصہ حسینہ واجد نے ان کے خلاف مہم جوئی کی‘ اور پھر جب ۱۹۹۶ء میں حسینہ واجد ۱۴۶ نشستوں پر کامیاب ہوئیں تو خالدہ ضیا نے تسلسل کے ساتھ احتجاجی عمل جاری رکھا‘ تاہم بنگلہ دیش میں جمہوریت کے وجود کو اس پیمانے پر خطرہ لاحق نہیں ہوتا جس طرح پاکستان میں ہو جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی فوج اتنی مضبوط نہیں اور نہ وہاں کی خفیہ ایجنسیوں کو وہ ’’احترام و مقام‘‘ حاصل ہے جو پاکستان میں پایا جاتا ہے ۔ بہرحال بنگلہ دیشی فوج میں بھارت مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔ انتخابات کے انعقاد میں‘ عبوری حکومت کے ساتھ بنگلہ دیشی فوج نے بھرپور معاونت کی۔

اس تناظر میں بنگلہ دیش کے انتخابات کے بعد یہ منظر اُبھرتا ہے کہ عوامی لیگ ان تمام عناصر کے تعاون کے ساتھ محاذ آرائی کے راستے پر چلے گی۔ بھارت کے مفادات کی نگہبانی کو درپیش خطرہ بھی ان کے لیے باعث تکلیف امر ہے۔ موجودہ حکومت کا یہ مخالف عنصردانش ور طبقے اور صحافت میں کارفرما لوگوں کو متحرک کر کے جماعت اسلامی کے حوالے سے اپنی مہم کو استوار کر رہا ہے‘ اور غالباً ان کا مرکزی ہدف بھی جماعت ہی ہوگی۔

یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ عوامی لیگ بے لوث کارکنوں کی ایک بڑی ٹیم رکھنے کے باوجود‘ اپنے کارکنوں کو نئی قیادت اور نئی پارلیمنٹ کے خلاف متحرک کرنے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کارکنان سمجھتے ہیں کہ وہ الیکشن ہارے ہیں (اس لیے ارکان پارلیمنٹ کی حلف برداری کے روز عوامی لیگ کی ہڑتال کی اپیل بری طرح ناکام ہوئی۔ عوامی لیگ کے ارکان نے پارلیمنٹ کے رکن کی حیثیت سے ۲۴ اکتوبر کو حلف اٹھایا ہے)۔ عوامی لیگ کے منجھے ہوئے صلاح کاروں نے بھی حسینہ واجد کی ردعمل کی پالیسی پر لبیک نہیں کہا۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح نہ صرف ملک میں جمہوریت کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے بلکہ عوامی لیگ کے لیے آیندہ فتح کے امکانات کم ہو جائیں گے۔

خالدہ ضیا کی ۶۰ رکنی کابینہ میں جماعت اسلامی کے مطیع الرحمن نظامی نے وزیر زراعت اور علی احسن محمد مجاہد نے وزیر سوشل ویلفیئر کا حلف اٹھایا ہے (امیر اور قیم دونوں کے وزیر بن جانے کے جماعت پر کیا اثرات ہوں گے‘ یہ الگ موضوع ہے) ۱۹۷۱ء کے ’غداروں‘ کو وزیر بنانے پر خالدہ ضیا کو بہت کچھ سننا پڑ رہا ہے۔ عوامی لیگ کی حکمت عملی یہ ہوگی کہ کسی طرح چارجماعتی اتحاد میں غلط فہمی کو پروان چڑھایا جائے۔اگر عوامی لیگ اپنے ان مقاصدمیں ناکام رہی اور چار جماعتی اتحاد یک جہتی کے ساتھ خدمت انجام دینے میں کامیاب رہا‘ تو بنگلہ دیش ہی کے نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے سیاسی مستقبل پر اس کے اثرات پڑیں گے۔ لیکن دوسری جانب خود بی این پی اپنی بھرپور وسیع اکثریت  کے زعم میں اپنے اتحادیوں کی آرا کو نظرانداز کرنا چاہے تو بلاشبہ وہ ایسا کر سکتی ہے۔ یہی وہ پہلو ہے ‘ جس کو اُبھار کر عوامی لیگ اور سیکولر حلقے کامیابی کے امکانات کی دنیا دیکھتے ہیں۔ بہرحال اس وقت تک تو اس اتحاد کو بچانے کے لیے خالدہ ضیا کا ذہن بالکل واضح ہے۔ وہ عوامی لیگ جیسی نظریاتی اور گہرے اثرات رکھنے والی قوت کا توڑ کرنے کے لیے جماعت اسلامی کے تربیت یافتہ‘ پرعزم اور پرجوش کارکنوں کی معاونت کی اہمیت کو اشد ضروری سمجھتی ہیں کیونکہ بی این پی بہرحال ایسی ٹیم نہیں رکھتی‘ تاہم مستقبل کے پردے میں امکانات اور خدشات دونوں پائے جاتے ہیں۔

۳۰ برسوں پر پھیلے اس طویل عرصے نے پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا‘ آئین تبدیل ہو گیا‘ اور معاشرے کی ہیئت میں تبدیلی واقع ہو گئی۔ اسی طرح مسائل کی نوعیت اور تقدیم و تاخیر کا مسئلہ بھی ہے۔  جس میں بی این پی کو ایک یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ وہ عوامی لیگ کے منفی حربوں کا کیسے مقابلہ کرے اور کس طرح اچھی کارکردگی پیش کرکے اپنے رفقا کو کرپشن سے بچائے؟ دوسری طرف جماعت اسلامی کو یہ چیلنج درپیش ہے کہ وہ سیکولر لابی کے بالمقابل کیسے آئینی دستاویزات میں اسلامی شقوں کا اضافہ کرا سکے گی؟ اس کے علاوہ دوسرا راستہ یہ ہے کہ ان امور پر پورا زور لگانے کے بجائے کابینہ کی مجموعی کارکردگی کو بہتر بناکر اپنے دائرہ اثر کو بڑھایا جائے۔ اگر اس حکومت میں جماعت اسلامی یہ نقش قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تودوسرے مقامات پر اسلامی تحریکوں کے لیے بھی اس تجربے سے استفادے کا راستہ کھل سکتا ہے۔