سلیم منصور خالد


نائن الیون [۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء]کے افسوس ناک خونیں حملوں کے بعد امریکا نے عملاً پوری دُنیا اور اقوام متحدہ کو یرغمال بنا لیا۔ پھر انسانیت سے عاری جس تباہ کن مہم کا آغاز ’ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام سے کیا، وہ مہم نہ منطقی تھی، نہ منصفانہ تھی، اور نہ انسانیت نواز تھی، بلکہ یہ خونیں مہم، خود اس یلغار کا حصہ بننے اور اس کی قیادت کرنے والوں کے خلاف ہی پلٹ کر ایک جنگ میں تبدیل ہوگئی۔

نائن الیون کے محرکات اور معاملات کو بڑے حُسنِ تدبیر کے ساتھ سمجھنے، ان کے ذمہ داران کو کٹہرے میں لانے اور یوں تشدد کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے جن بنیادی اقدامات کی ضرورت تھی، ان اقدامات کے بجائے، دُنیابھر کی طاقتوں نے مجرمانہ حد تک آنکھیں بند کرکے لاکھوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے کے لیے امریکا کا ساتھ دیا اور افغانستان کی قانونی حکومت کو بلاجواز خوفناک حملوں کے ساتھ ختم کر دیا گیا (حالانکہ نائن الیون حملوں میں کوئی بھی افغان ملوث نہیں تھا)، اس بے صبری اور بے تدبیری کے نتیجے میں دُنیا کو جھنجھوڑنے والے المیوں نے جنم لیا:

  • آج کی دُنیا، نائن الیون سے پہلے کی دُنیا سے کہیں زیادہ غیرمحفوظ بن کر رہ گئی ہے۔
  • بھارت نے کابل کی کٹھ پتلی امریکی حکومت کے زیرسایہ پاکستان کے خلاف سازشوں اور تخریب کاری کے لیے ۶۶تربیتی مراکز قائم کیے، جہاں سے پاکستان کے خلاف مسلسل دہشت گردی ہوتی رہی۔ جس میں ایک لاکھ کے قریب پاکستان کے دفاعی جوان، افسر اور عوام جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔
  • مسلم دنیا میں قیادت و سیادت کے سرچشموں پر مسلط غیرنمایندہ حکمرانوں نے، مسلم اُمہ کے بے پناہ مادی وسائل، اس قاتلانہ یلغار کے لیے یوں مختص کردیے کہ آج ان ممالک کی معیشتیں مغربی طاقتوں کے ہاتھوں میں گروی بن چکی ہیں۔ ریاستی بجٹ خسارے سے دوچار ہیں۔ خلیج و عرب کی سطحی خوش حالی، کاغذ کے محلات کی صورت میں زمین پر آن گری ہے۔
  • بعض عرب ممالک تو اب باقاعدہ امریکی اور نیٹو افواج کی چھائونیوں کے لیے بڑے بڑے رقبے دینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ لیبیا، عراق اور شام جیسے باوسائل مسلم ممالک اور ان کی دفاعی صلاحیت بتاشے کی طرح بیٹھ گئی ہے۔ خون اور بارود کی بارش اور دلدل میں دھنسنے کے بعد ان تینوں ممالک کی حکومتوں اور سرحدوں کو پہچاننا ممکن نہیں رہا۔
  • بیس برس تک افغانستان کے جن طالبان کی بالفعل حکومت کو جبر کی قوت سے ملیامیٹ کیا گیا تھا، انھوں نے دُنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کی مدد اور پشتی بانی کے بغیر (پاکستان نے بہت محدود اخلاقی مدد کی) دُنیا کی عظیم ترین جارحانہ جنگی ٹکنالوجی کا مقابلہ کیا اور آخرکار جارح امریکا ۲۰۲۰ء میں مذاکرات کی میز پر آیا اور طالبان سے معاہدہ کیا، جس کے تحت ۳۱؍اگست ۲۰۲۱ء تک افغانستان کو چھوڑ دینے کا وعدہ کیا گیا۔ تاہم، سالِ رواں ۱۵؍اگست کو امریکی، بھارتی کٹھ پتلی حکومت بدحواسی میں پسپا ہوگئی اور اس طرح طالبان پندرہ روز پہلے ہی کابل میں داخلے پر مجبور ہوگئے۔
  • طالبان کی یہ کامیابی کسی ملک کے خلاف جارحیت نہیں ہے، اور کسی جائز حکومت کے خلاف بغاوت بھی نہیں ہے بلکہ انھوں نے اپنی حکومت کے ناجائز خاتمے کو ۲۰برس بعد مشیت الٰہی سے پلٹ دیا ہے، جس پر افغانوں کو اور اُمت مسلمہ کو خدا کے حضور سجدہ ریز ہونا چاہیے۔
  • طالبان حکومت کی طرف سے، اپنے ہم وطن غداروں، قاتلوں، اپنے خلاف لڑنے والے کرائے کے فوجیوں اور جاسوسوں کے لیے عام معافی کے اعلان نے، عصرحاضر کی بین الاقوامی تاریخ میں ایک ناقابلِ فراموش مثال قائم کی ہے۔ یہ روایت فتح مکہ کی اتباع سے وابستہ ایک عظیم الشان تہذیبی قدم ہے، جس کی پوری دُنیا کی طرف سے قدر کی جانی چاہیے تھی، مگر افسوس کہ غیرمسلم ریاستیں تو ایک طرف، خود مسلم دُنیا پر مسلط حکمرانوں نے بھی اس کی قدر نہیں کی، جو باعث ِ ندامت ہے۔
  • پاکستان اور افغانستان، اسلام اور بھائی چارے کے جن گہرے رشتوں سے باہم جڑے ہوئے ہیں، ان میں افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی ترجیحات اور ذمہ داریاں، دُنیا کے دوسرے کسی بھی ملک سے کہیں زیادہ اہم، حددرجہ نازک اور فوری اقدامات کا تقاضا کرتی ہیں۔
  • حکومتِ پاکستان کی یہ دینی، تہذیبی اور بین الاقوامی ذمہ داری ہے کہ افغانستان کے عوام کی تاریخی جدوجہد کا احترام کرتے ہوئے، افغانستان میں امن و استحکام کو ترجیح اوّل قرار دے اور افغانستان کی حکومت کو فوری طور پر تسلیم کرے۔ اس ضمن میں حکومت ِ پاکستان کی تذبذب اور گومگو کی کیفیت قومی مفادات کے قطعی منافی ہے۔
  • طالبان کی حکومت بننے سے پاکستان کی مغربی سرحدیں محفوظ ہوگئی ہیں۔ مگر بھارت اور امریکا کی یہ کوشش ہے کہ پاکستان کی مغربی سرحد یں مسلسل سلگتی رہیں، اور پاکستان بدامنی و اضطراب کے چنگل میں اُلجھا رہے۔ اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بھی افغانستان میں نئی حکومت کو فوری تسلیم کرنا ضروری ہے۔
  • بھارت اور امریکا نے افغانستان میں پاکستان کے خلاف نفرت کا جو زہر گھولا ہے، اس کا حل بھی افغانستان میں امن و آسودگی پیدا کرنے کے لیے، رفاہی کاموں میں افغان حکومت کا ہاتھ بٹانے سےممکن ہے۔
  • افغانستان کے مالی ذرائع پر امریکی پابندیوں اور عالمی سطح پر عملاً سوشل بائیکاٹ کے نتیجے میں افغانستان میں خوراک اور ادویات اور توانائی کی شدید کمی واقع ہوچکی ہے، جس نے روح فرسا انسانی المیہ پیدا کر دیا ہے۔ اس مقصد کے لیے انسانی ہمدردی اور اسلامی اخوت کی بنیادوں پر خوراک، ادویات اور توانائی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے پاکستان سے ممکن حد تک مدد فراہم کی جانی چاہیے۔
  • پہلے اشتراکی روسی فوجوں نے اور پھر افغان تنظیموں کی خانہ جنگی نے اور اس کے بعد امریکی اور نیٹو افواج نے افغانستان کے بچے کھچے نظامِ زندگی اور ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے۔ اس کی بحالی اور تعمیرنو کے لیے عالمی فنڈ قائم کیا جائے، تاکہ مواصلات، توانائی کے ذرائع، ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی تعمیرو مرمت کا کام ہوسکے۔
  • سامراجی فوجوں کی واپسی کے بعد ، افغانستان کی نئی حکومت پر مختلف النوع ذمہ داریوں کا بہت زیادہ بوجھ بڑھ گیا ہے۔ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے افغان قیادت کو اللہ پر بھروسا رکھتے اور مشاورت کی روح کو زند ہ کرتے ہوئے، اَن تھک محنت، تدبر، دُوراندیشی کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں امن و امان قائم ہو۔
  • افغانستان اور پاکستان میں امن ان دونوں ممالک کے باہمی تعلق اور اعتماد سے ممکن ہے۔ یہ ہونہیں سکتا کہ ان میں سے ایک ملک میں بدامنی ہو تو دوسرا ملک امن سے رہ سکے۔ اس لیے جس طرح طالبان نے ملک میں امن کی فضا پیدا کرنے کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے، اسی طرح حکومت ِ پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ ان لوگوں کو عام معافی دے کر انھیں سماجی زندگی کا حصہ بننے کی اجازت دے، جنھوں نے ان ۲۰برسوں کے دوران غیرملکی فوجوں کے افغانستان پر قبضے کے خلاف جدوجہد میں کسی بھی صورت حصہ لیا تھا۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ملک میں بے چینی کا ایک سبب قائم رہے گا، جسے دشمن ممالک گمراہ کن انداز سے برت سکتے ہیں۔ پاکستان کا یہ اقدام ایسے خدشات اور امکانات کو ختم کرسکتا ہے۔
  • دُنیا بھر کے مسلمانوں اور غیرمسلموں میں جو لوگ جنگ زدگی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، اور پُرامن شہری زندگی کے فروغ کے لیے دل و جان سے متحرک ہیں، ان پر لازم ہے کہ وہ بے لوث طریقے سے، سرزمین افغانستان کو امن و آسودگی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے مشورے، فنی سہولیات اور اموال و اشیا کے ذریعے موجودہ افغان حکومت کو مدد فراہم کریں(ہمیں اس بات پر اطمینان ہے کہ پاکستان کی ایک قابلِ قدر رفاہی تنظیم ’الخدمت فائونڈیشن‘ نے محدود وسائل کے باوجود افغانستان میں خوراک اور ادویات کی فراہمی کے لیے مقدور بھر عملی قدم اُٹھایا۔ اور ’الخدمت‘ یتیم بچوں کی پرورش اور نگہداشت کے لیے افغان حکومت کا ہاتھ بٹانے کے لیے بھی کوشاں ہے)۔
  • افغانستان خشکی میں گھرا ہوا ایک ملک ہے، جس کے لیے تجارت کا سب سے بڑا اور سستا راستہ پاکستان ہے۔ پاکستان نے اپنی بدترین مخالف افغان حکومتوں کے اَدوار میں بھی اس حق کو معطل نہیں کیا، مگر افسوس کہ آج یہ افغان تجارت بند ہے اور کروڑوں روپے کے پھل افغانستان میں تباہ ہورہے ہیں۔ جس سے افغان معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس زیادتی کا ازالہ ہونا چاہیے اور تجارتی آمدورفت کو فی الفور بحال کرنا چاہیے۔
  • حالیہ دنوں میں اسلام آباد اور کابل کے درمیان پی آئی اے کا کرایہ کو دو ڈھائی سو ڈالر سے بڑھا کر ڈھائی ہزار ڈالر تک کردیا گیا ہے جس نے بداعتمادی کو بڑھایا ہے۔ پھر یہ کہ طورخم بارڈر پر افغانستان سے آنے والے ٹرکوں اور ایمبولینسوں کی پندرہ پندرہ کلومیٹر طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں، جن میں مریض تڑپ رہے ہیں اور خوراک کو ترس رہے ہیں۔ معلوم نہیں قانونی طریقے سے آنے اور واپس جانے والے ان مستحق افراد کو کیوں خوار کیا جارہا ہے؟ حالانکہ ماضی میں ایسا کبھی نہیں کیا گیا۔
  • اسی طرح ہم بہت دل سوزی کے ساتھ دونوں برادر ملکوں کے سیکولر ہم وطنوں سے کہیں گے: (۱) اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ طالبان کوئی ایک باقاعدہ پارٹی نہیں بلکہ یہ عام افغان عوام کے جذبۂ حُریت و آزادی اور عزمِ دین و ترقی اور اجتماعی جدوجہد کا مظہر ہیں، پھر کسان، مزدور، نوجوان،تجارت پیشہ ،دینی تعلیم سے آراستہ اور جدید تعلیم یافتہ افغانوں کی ایک عظیم اکثریت ان کے ہم قدم ہے۔(۲) یہ کہ چالیس برس سے جنگ میں جھلستے اس ملک کے داخلی حالات خراب ہیں، اگر دین دار اور مغربی سامراجیوں کے خلاف لڑنے والوں کے گھر جلیں گے تو ان سامراجیوں کو خیر کی نظروں سے دیکھنے والوں کے گھر بھی تباہی سے نہیں بچ سکیں گے۔ اس لیے لبرل یا سیکولر ہم وطنوں کو سمجھنا چاہیے کہ طالبان نے اپنے ملک پر قابض ایک ناجائز سامراجی ٹولے کی حکمرانی سے نجات حاصل کی ہے، اپنے ملک پر کوئی قبضہ نہیں کیا، بلکہ سامراجیوں سے قبضہ چھڑایا ہے، جس میں مقابلے اور مذاکرات دونوں کا کردار ہے۔ اس لیے، وہ طالبان کے خلاف گھنائونے اور بے بنیاد پروپیگنڈے کو پروان چڑھانے کا بے فیض کام چھوڑ کر، معقول طریقے سے قومی تعمیروترقی میں ہاتھ بٹائیں۔
  • پاکستان کے اعلیٰ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ میڈیکل، انجینیرنگ، سائنس، ابلاغیات، انتظامیات، علومِ اسلامیہ اور سماجیات میں اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے لیے افغانستان کے نوجوانوں کے لیے اسکالرشپ پر نشستیں مخصوص کریں، جنھیں میرٹ پر داخلہ اور تربیت دی جائے۔یوں مستقبل میں بھائی چارے میں اضافہ ہوگا، اور افغانستان کی ترقی میں پاکستان کے کردار سے باہمی تعلقات مزید مستحکم ہوتے جائیں گے۔
  • اس کے ساتھ پاکستان کے فیصلہ سازوں پر ہم یہ امر واضح کردینا چاہتے ہیں کہ سرزمینِ پاکستان یا پاکستان کی فضائی حدود، امریکا یا نیٹو افواج کو افغانستان پہ حملے کرنے کے لیے کسی صورت مہیا نہیں کی جانی چاہیے۔ امریکا کے دبائو پر افغانستان کے خلاف کسی قسم کی راہداری دینا، قوم کے لیے بالکل ناقابلِ قبول ہے۔ امریکا سے ہم مثبت تعلقات رکھنا چاہتے ہیں، لیکن امریکا کے اور ہمارے مفادات اس پورے خطے (Region) میں کوئی مطابقت نہیں رکھتے۔ ہمیں چین، روس اور ایران کے ساتھ مل کر علاقے اور اپنے ملک کے مفادات کے مطابق افغانستان کی طالبان حکومت سے مکمل تعاون کرنا چاہیے۔ افغانستان کی تقویت اور استحکام کے لیے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ مسلم ممالک اور یورپی ملکوں کو بھی امریکا کے دبائو سے نکلنے اور آزاد پالیسی بنانے پر متوجہ کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں ترکی اور قطر کا کردار بڑا مثبت ہوسکتا ہے۔ انھیں بھی اس تزویراتی ربط و تعلق میں ساتھ ملانے کی ضرورت ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ایک پختہ عزم اور ارادے کے ساتھ حکومت ِ پاکستان کو ان اُمور پر فوری اقدامات کرنے چاہییں۔ وقت گزرنے کے بعدکیے گئے اہم ترین اقدامات بھی اپنی قدروقیمت کھو بیٹھتے ہیں۔ امریکی دبائو اور بلیک میلنگ میں آکر افغانستان کے حوالے سے تاخیری حربوں سے کام لینا،اس خطے کے لوگوں اور تاریخ و تہذیب سے انتہا درجے کی بے وفائی ہوگی۔

وہ اگست ۱۹۴۱ء تھا اور یہ اگست ۲۰۲۱ء ہے۔

۸۰برس پہلے ایک بیج بویا گیا، جس سے کونپل پھوٹی ، اور پھر ہر کونپل پھل لائی۔ تب پکارنے والا ایک تھا اور اس کی پکار پر لپکنے والے چند ایک تھے۔ اُس آغاز کے وقت پہلا اور واحد ذریعہ ایک رسالہ تھا، ماہ نامہ ترجمان القرآن!

دُنیا بھر کے انسانوں، تمام مسلمانوں اور برصغیر [آج کے بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت]  کے باشندوں کی زندگی اور زندگی کے مسائل، اسی ترجمان القرآن میں مسلسل زیربحث تھے۔ کثیرجہتی موضوعات پر کلام کرنے والے، سوئے ہوئوں کو جگانے، اور پھر جاگنے والوں کو راستہ بتانے والے، اللہ کے ایک بندے سیّدابوالاعلیٰ مودودی تھے۔ ان کے مدلل، مربوط اور بھرپور تجزیے نے ایک اسلامی تحریک برپا کرنے کی ضرورت واضح کردی تھی:

  • اسلام کا مقصد، زندگی کے فاسد نظام کو بالکل بنیادی طور پر بدل دینا ہے۔
  • دوسرے یہ کہ کُلی و اساسی تغیر صرف اُسی طریق پر ممکن ہے، جو انبیاء علیہم السلام نے اختیار فرمایا تھا۔
  • تیسرے یہ کہ مسلمانوں میں اب تک جو کچھ ہوتا رہا ہے اور جو کچھ اب ہورہا ہے، وہ نہ تو اس مقصد کے لیے ہے اور نہ اس طریقے پر ہے۔(ترجمان القرآن، محرم ۱۳۶۰ھ/ مارچ ۱۹۴۱ء،ص ۸۳)

صفر ۱۳۶۰ھ (اپریل ۱۹۴۱ء) کے ترجمان القرآن میں ، اس تجزیے کی بنیاد پر ایک تحریک کی ضرورت محسوس کرنے والوں کو دفتر ترجمان  القرآن سے رابطہ قائم کرنے کے لیے کہا گیا:

اب وقت آگیا ہے کہ جہاں جہاں اس فکر کے آدمی موجود ہیں ان کے درمیان ربط پیدا کیا جائے اور ان کے اجتماع کی کوئی صورت نکالی جائے(ص ۱۰۱)۔

اس دعوت پر لبیک کہنے والوں کو یکم شعبان ۱۳۶۰ھ /۲۵؍اگست ۱۹۴۱ء کو یک جا ہونے کی دعوت دی گئی اور اس اجتماع کا مقام طے تھا: مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کا کرائے کا مکان، متصل مبارک مسجد، شبلی سٹریٹ، اسلامیہ پارک، پونچھ روڈ، لاہور___ یہیں پر ماہ نامہ ترجمان القرآن کا دفتر بھی تھا۔ دُوردراز سے آنے والے پہلے ہی چل پڑے اور کچھ حضرات ۲۸ رجب سے ہی آنا شروع ہوگئے تھے۔ یکم شعبان تک ان فرزانوں کی تعداد ساٹھ ہوچکی تھی۔ کچھ لوگ بعد میں آئے اور جب ایک تحریک کا آغاز ہوا تو وہ تعداد میں ۷۵ تھے۔

یکم شعبان کا دن باہم تعارف اور تبادلۂ خیالات میں گزرا۔ مولانا مودودیؒ ان افراد کے  سوالات کے جواب دے رہے تھے اور آنے والے یکسو ہورہے تھے۔


تاسیسی اجتماع کا آغاز

پھر ۲ شعبان ۱۳۶۰ھ ، ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کا دن روشن ہوا۔

جماعت اسلامی کے تاسیسی اجتماع کا آغاز ہوا۔ مولانا مودودیؒ ابتدائی خطاب کے لیے اُٹھے تو صبح کے آٹھ بج رہے تھے۔ انھوں نے زندگی اور مقصد ِ زندگی کا تعلق بیان کرتے ہوئے فرمایا:

دین کوتحریک کی شکل میں جاری کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری زندگی میں دین داری محض ایک انفرادی رویے کی صورت میں جامدو ساکن ہوکر نہ رہ جائے بلکہ ہم اجتماعی صورت میں نظامِ دینی کو عملاً نافذ و قائم کرنے ، اور مانع و مزاحم قوتوں کو اس کے راستے سے ہٹانے کے لیے جدوجہد بھی کریں۔ادارہ دارالاسلام کا قیام [مارچ ۱۹۳۸ء] اس سلسلے کا پہلا قدم اُٹھایا گیا، اوراُس وقت صرف چار آدمی رفیق کار بنے۔ اس چھوٹی سی ابتدا کو اُس وقت بہت حقیرسمجھا گیا، مگر الحمدللہ کہ ہم بددل نہ ہوئے، اور اسلامی تحریک کی طرف دعوت دینے اور اس تحریک کے لیے نظری حیثیت سے ذہن ہموار کرنے کا کام لگاتار کرتے چلے گئے۔ اس دوران میں ایک ایک، دو دو کرکے رفقا کی تعداد بڑھتی رہی۔(ماہ نامہ ترجمان القرآن، اگست ۱۹۴۱ء، ص ۲۱۳)

اسلامی تحریک اور دوسری تحریکوں میں فرق

اس مرحلے پر پیش نظر تحریکِ اسلامی اور دوسری تحریکوں کے درمیان اصولی فرق کو دوٹوک الفاظ میں مولانا مودودی نے یوں بیان کیا:

مسلمانوں میں عموماً، جو تحریکیں اُٹھتی رہی ہیں، اور جو اَب چل رہی ہیں، پہلے ان کے اور اس تحریک کے اصولی فرق کو ذہن نشین کرلینا چاہیے:

  • اُن میں یا تو اسلام کے کسی جزء کو یا دُنیوی مقاصد میں سے کسی مقصد کو لے کر بنائے تحریک بنایا گیا ہے، لیکن ہم، عین اسلام اور اصل اسلام کو لے کر اُٹھ رہے ہیں، اور پورا کا پورا اسلام ہی ہماری تحریک ہے۔
  • اُن میں ہرقسم کے آدمی اس مفروضے پر بھرتی کرلیے گئے کہ جب یہ مسلمان قوم میں پیدا ہوئے ہیں تو [عملاً] ’مسلمان‘ ہی ہوں گے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ارکان سے لے کر کارکنوں اور لیڈروں تک بہ کثرت ایسے آدمی ان جماعتوں میں گھس گئے، جو اپنی سیرت کے اعتبار سے ناقابلِ اعتماد تھے اور کسی بارِ امانت کو سنبھالنے کے لائق نہ تھے۔ لیکن ہم کسی شخص کو اس مفروضے پر نہیں لیتے، بلکہ جب وہ کلمہ طیبہ کے معنی و مفہوم اور مقتضیات کو جان کر اس پر ایمان لانے کا اقرار کرتا ہے، تب اسے جماعت میں لیتے ہیں۔
  • ان تحریکوں کی نظر صرف مسلم قوم تک محدود رہی ہے۔ ان کے کاموں میں کوئی چیز ایسی شامل نہیں رہی ہے، جو غیرمسلموں کو اپیل کرنے والی ہو، بلکہ بالفعل ان میں سے اکثر کی سرگرمیاں غیرمسلموں کے اسلام کی طرف آنے میں اُلٹی سدراہ بن گئی ہیں۔(ایضاً، ص۲۱۴، ۲۱۵)

پھر اپنے اس خطاب میں مولانا مودودی نے دو زبردست اندرونی خطرات سے بھی آگاہ کیا جو ایسی تحریکوں کو پیش آتے رہے ہیں:

  • ایک یہ کہ ایسی جماعت بننے اور ایسی تحریک لے کر اُٹھنے کے بعد بہت جلدی لوگ اس غلط فہمی میں پڑگئے کہ ان کی جماعت کی حیثیت وہی ہے، جو انبیا علیہم السلام کے زمانے میں اسلامی جماعت کی تھی۔ بالفاظِ دیگر یہ کہ ’جو اس جماعت میں نہیں ہے وہ مومن نہیں ہے‘ من شذ شذ فی النار [وہ جہنّم کے لائق ہے]۔یہ چیز بہت جلدی اس جماعت کو مسلمانوں کا ایک فرقہ بنا کر رکھ دیتی ہے اور پھر اس کا سارا وقت اصل کام کے بجائے دوسرے مسلمانوں سے اُلجھنے میں کھپ جاتا ہے۔(ایضاً، ص ۲۱۵)
  • دوسرے یہ کہ ایسی جماعتیں جس کو اپنا امیر یا امام تسلیم کرتی ہیں، اس کے متعلق ان کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ اس کی وہی حیثیت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدینؓ کی تھی، یعنی جس کی گردن میں اس امام کی بیعت کا قِلَادہ نہیں وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے، اور اس غلط فہمی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آخرکار ان کی ساری تگ و دو بس اپنے امیر یا امام کی امارت و امامت منوانے پر مرکوز ہوجاتی ہے۔
  • ہم کو ان دونوں خطرات سے بچ کر چلنا ہے.... اس معاملے میں ان تمام لوگوں کو جو ہماری جماعت میں شامل ہوں، غلو سے سخت پرہیز کرنا چاہیے، کیونکہ بہرحال ہم کو مسلمانوں میں ایک ’فرقہ‘ نہیں بننا ہے۔ خدا ہمیں اس سے بچائے کہ ہم اس کے دین کے لیے کچھ کام کرنے کے بجائے مزید خرابیاں پیدا کرنے کے موجب بن جائیں (ایضاً، ص ۲۱۵، ۲۱۶)۔

تحریکِ اسلامی کا میدانِ عمل

پھر مولانا مودودی نے بڑے اختصار اور جامعیت سے تحریک ِ اسلامی کے دائرۂ عمل کی نشان دہی کرتے ہوئے رہنمائی عطا فرمائی:

  • جماعت اسلامی کے لیے دُنیا میں کرنے کا جو کام ہے، اس کا کوئی محدود تصور اپنے ذہن میں قائم نہ کیجیے۔ دراصل اس کے لیے کام کا کوئی ایک ہی میدان نہیں ہے، بلکہ پوری انسانی زندگی اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ اس کے دائرۂ عمل میں آتی ہے۔
  • اسلام تمام انسانوں کے لیے ہے، اور ہرچیزجس کا انسان سے کوئی تعلق ہے، اس کا اسلام سے بھی تعلق ہے۔ لہٰذا، اسلامی تحریک ایک ہمہ گیر نوعیت کی تحریک ہے۔ یہ خیال کرنا غلط ہے کہ اس تحریک میں کام کرنے کے لیے صرف خاص قابلیتوں اور خاص علمی معیار کے آدمیوں ہی کی ضرورت ہے۔ نہیں، یہاں ہرانسان کے لیے کام موجود ہے، کوئی انسان بے کار نہیں ہے۔ جو شخص، جو قابلیت بھی رکھتا ہو، اس کے لحاظ سے وہ اسلام کی خدمت میں اپنا حصہ ادا کرسکتا ہے۔ عورت، مرد، بوڑھا، جوان، دیہاتی، شہری، کسان، مزدور، تاجر، ملازم، مقرر، محرر، ادیب، اَن پڑھ اور فاضل اجل، سب یکساں کارآمد اور یکساں مفید ہوسکتے ہیں، بشرطیکہ وہ جان بوجھ کر اسلام کے عقیدے کو اختیار کرلیں، اس کے مطابق عمل کرنے کا فیصلہ کرلیں، اور اس مقصد کو جسے اسلام نے مسلمان کا نصب العین قرار دیا ہے، اپنی زندگی کا مقصد بناکر کام کرنے پر تیار ہوجائیں۔
  • البتہ، یہ بات ہراس شخص کو جو جماعت اسلامی میں آئے، اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو کام اس جماعت کے پیش نظر ہے، وہ کوئی ہلکا اور آسان کام نہیں ہے۔ اسے دنیا کے پورے نظامِ زندگی کو بدلنا ہے۔ اسے دنیا کے اخلاق، سیاست، تمدن، معیشت، معاشرت، ہرچیز کو بدل ڈالنا ہے۔ دنیا میں جو نظامِ حیات خدا سے بغاوت پر قائم ہے، اسے بدل کر خدا کی اطاعت پر قائم کرنا ہے۔ اس کو اگرکوئی ہلکا کام سمجھ کر آئے گا تو بہت جلدی مشکلات کے پہاڑ اپنے سامنے دیکھ کر اس کی ہمت ٹوٹ جائے گی۔اس لیے ہرشخص کو قدم آگے بڑھانے سے پہلے خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کس خارزار میں قدم رکھ رہا ہے۔ یہ وہ راستہ نہیں ہے جس میں آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹ جانا دونوں یکساں ہوں [الانفال ۸:۱۶] … لہٰذا، جو قدم بڑھائو اس عزم کے ساتھ بڑھائو کہ اب یہ قدم پیچھے نہیں پڑے گا۔ جو شخص اپنے اندر ذرا بھی کمزوری محسوس کرتا ہو، بہتر ہے کہ وہ اسی وقت رُک جائے (ایضاً، ص ۲۱۵-۲۱۷)۔

ایک داعی دین کی ذمہ داری

جماعت اسلامی کی باقاعدہ تشکیل سے چند گھنٹے پہلے اس خطاب میں مولانا مودودی صاف صاف لفظوں میں کام اور ذمہ داری کے سمجھانے کے بعدفرماتے ہیں:

  • میرا کام آپ کو ایک جماعت بنادینے کے بعد پورا ہوجاتا ہے۔ میں صرف ایک داعی تھا، بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی کوشش کررہا تھا، اور میری تمام مساعی کی غایت یہ تھی کہ ایسا ایک نظامِ جماعت بن جائے۔ جماعت بن جانے کے بعد مَیں آپ میں کا ایک فرد ہوں۔ اب یہ جماعت کا کام ہے کہ اپنے میں سے کسی اہل تر آدمی کو اپنا امیر منتخب کرے، اور پھریہ اس امیر کا کام ہے کہ آیندہ اس تحریک کو چلانے کے لیے اپنی صوابدید کے مطابق ایک پروگرام بنائے اور اسے عمل میں لائے۔
  • میرے متعلق کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ جب دعوت میں نے دی ہے تو آیندہ اس تحریک کی رہنمائی کو بھی میں اپنا ہی حق سمجھتا ہوں۔ ہرگز نہیں، نہ میں اس کا خواہش مند ہوں، نہ اس نظریے کا قائل ہوں کہ داعی کو ہی آخرکار لیڈر بھی ہونا چاہیے۔ نہ مجھے اپنے متعلق یہ گمان ہے کہ اس عظیم الشان تحریک کا لیڈر بننے کی اہلیت مجھ میں ہے، اور نہ اس کام کی بھاری ذمہ داریوں کو دیکھتے ہوئے کوئی صاحب ِ عقل آدمی یہ حماقت کرسکتا ہے کہ اس بوجھ کے اپنے کندھوں پر لادے جانے کی خود تمنا کرے۔
  •  درحقیقت میری غایت تمنا اگر کچھ ہے تو وہ صرف یہ ہے، کہ ایک صحیح اسلامی نظامِ جماعت موجود ہو، اور میں اس میں شامل ہوں۔ اسلامی نظامِ جماعت کے ماتحت ایک چپڑاسی کی خدمت انجام دینا بھی میرے نزدیک اس سے زیادہ قابلِ فخر ہے کہ کسی غیراسلامی نظام میں صدارت اور وزارتِ عظمیٰ کا منصب مجھے حاصل ہو.... لہٰذا جماعت بن جانے کے بعد میری اب تک کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ آیندہ جماعت اپنی طرف سے اس ذمہ داری کو جس کے بھی سپرد کرنے کا فیصلہ کرے، اس کی اطاعت اور خیرخواہی اور اس کے ساتھ تعاون کرنا ہرفردِ جماعت کی طرح میرا بھی فرض ہوگا(ایضاً، ص ۲۱۷، ۲۱۸)۔

جماعت کی تشکیل کا لمحہ

۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کے روز مولانا مودودی نے ان احباب کے اجتماع میں اس دستور کا مسودہ پڑھنا شروع کیا جس کی کاپیاں چھپوا کر ایک دو روز پہلے ہی تمام آنے والوں کو دے دی گئی تھیں۔ اس کا اب ایک ایک لفظ پڑھا گیا۔ ان احباب کے اجتماع میں سب نے اس بحث میں حصہ لیا۔ شام آتے آتے ہرضروری مسئلہ زیربحث آکر طے ہوچکا تھا۔

اس کے بعد سب سے پہلے سیّدابوالاعلیٰ مودودی اُٹھے۔ کلمہ شہادت: اَشْھَدُ  اَنْ  لَّا اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ  وَاَشْھَدُ  اَنَّ  مُحَمَّدًا  رَّسُوْلُ اللہِ پڑھتے ہوئے کہا:’’لوگو، گواہ رہو کہ میں آج ازسرِنو ایمان لاتا اور جماعت اسلامی میں شریک ہوتا ہوں‘‘۔

پھر محمد منظور نعمانی صاحب کھڑے ہوئے، اورآپ نے بھی مولانا مودودی کی طرح تجدید ِایمان کا اعلان کیا۔ پھر ایک ایک کرکے دوسرے افراد اُٹھے، اور اسی طرح تجدیدِ ایمان کے ساتھ جماعت اسلامی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ عجب سماں تھا۔ اکثر حضرات کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، بلکہ بعض لوگوں پر تو روتے وقت رقّت طاری ہوگئی تھی۔ہرشخص احساسِ ذمہ داری سے کانپ رہا تھا۔

اللہ کو اور حاضرین کو گواہ بنانے والے ان خوش نصیبوں کی تعداد ۷۵ تھی۔ اور یہی ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء، ۲ شعبان ۱۳۶۰ھ کا وہ لمحہ تھا جب مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کی تشکیل کا باقاعدہ اعلان کیا۔


۲۷؍اگست ۱۹۴۱ء ، ۳شعبان ۱۳۶۰ھ کے صبح آٹھ بجے دوبارہ اجلاس شروع ہوا۔

سب سے پہلے جماعت کے مختلف اُمور کے ضمن میں ہررکن سے مولانا مودودی نے براہِ راست دریافت کیا کہ وہ اپنے آپ کو جماعت کے کس شعبے میں اور کس کام کے لیے پیش کرتا ہے۔

اجتماعی زندگی کے بنیادی تقاضے

جب یہ فہرست مکمل ہوگئی تو مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی تاسیسی ارکان سے مخاطب ہوئے:

’’اب کہ آپ کی جماعتی زندگی کا آغاز ہورہا ہے۔ تنظیم جماعت کی راہ میں کوئی قدم اُٹھانے سے پہلے آپ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام میں جماعتی زندگی کے قواعد کیا ہیں؟ اس سلسلے میں چند  اہم باتیں بیان کروں گا:

  • پہلی چیز یہ ہے کہ جماعت کے ہرفرد کو نظامِ جماعت کا بحیثیت مجموعی اور جماعت کے افراد کا فرداًفرداً سچے دل سے خیرخواہ ہونا چاہیے۔ جماعت کی بدخواہی، یا افرادِ جماعت سے کینہ، بُغض، حسد، بدگمانی اور ایذا رسانی وہ بدترین جرائم ہیں، جن کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے ایمان کے منافی قرار دیا ہے۔
  • دوسری چیز یہ ہے کہ آپ کی اس جماعت کی حیثیت دُنیوی پارٹیوں کی سی نہیں ہے، جن کا تکیہ کلام یہ ہوتا ہے کہ ’’میری پارٹی، خواہ حق پر ہو یا ناحق پر‘‘۔ نہیں، آپ کو جس رشتے نے ایک دوسرے سے جوڑا ہے، وہ دراصل اللہ پر ایمان کا رشتہ ہے، اور اللہ پر ایمان کا اوّلین تقاضا یہ ہے کہ آپ کی دوستی اور دشمنی، محبت اور نفرت، جو کچھ بھی ہو اللہ کے لیے ہو۔ آپ کو اللہ کی فرماں برداری میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہے نہ کہ اللہ کی نافرمانی میں: تَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ص  وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ص [المائدہ ۵:۲۔ جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں، ان میں سب سے تعاون کرو، اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں، ان میں کسی سے تعاون نہ کرو]۔ اللہ کی طرف سے جماعت کی خیرخواہی کا جو فرض آپ پر عائد ہوتا ہے اس کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ بیرونی حملوں سے آپ اس کی حفاظت کریں، بلکہ یہ بھی ہیں کہ ان اندرونی امراض سے بھی اس کی حفاظت کے لیے ہروقت مستعد رہیں، جو نظامِ جماعت کو خراب کرنے والے ہیں۔

                        جماعت کی سب سے بڑی خیرخواہی یہ ہے کہ اس کو راہِ راست سے نہ ہٹنے دیا جائے، اس میں غلط مقاصد اور غلط خیالات اور غلط طریقوں کے پھیلنے کو روکا جائے۔ اس میں نفسانی دھڑے بندیاں نہ پیدا ہونے دی جائیں۔ اس میں کسی کا استبداد نہ چلنے دیا جائے۔ اس میں کسی دُنیوی غرض یا کسی شخصیت کو بُت نہ بننےدیا جائے،اور اس کے دستور کو بگڑنے سے بچایا جائے۔

                        اسی طرح اپنے رفقاء جماعت کی خیرخواہی کا جو فرض آپ میں سے ہرشخص پر عائد ہوتا ہے، اس کے معنی یہ ہرگز نہیں ہیں کہ آپ اپنی جماعت کے آدمیوں کی بے جا حمایت کریں اور ان کی غلطیوں میں ان کا ساتھ دیں، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ معروف میں ان کے ساتھ تعاون کریں، اور منکر میں صرف عدمِ تعاون ہی پر اکتفا نہ کریں، عملاً ان کی اصلاح کی بھی کوشش کریں۔ ایک مومن، دوسرے مومن کے ساتھ سب سے بڑی خیرخواہی جو کرسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ جہاں اس کو راہِ راست سے بھٹکتے ہوئے دیکھے وہاں اسے سیدھا راستہ دکھائے، اور جب وہ اپنے نفس پر ظلم کر رہا ہو تو اس کا ہاتھ پکڑ لے۔

                        البتہ، آپس کی اصلاح میں یہ ضرور پیش نظر رہنا چاہیے کہ نصیحت میں عیب چینی اور خُردہ گیری اور تشدد کا طریقہ نہ ہو بلکہ دوستانہ دردمندی و اخلاص کا طریقہ ہو۔ جس کی آپ اصلاح کرنا چاہتے ہیں، اس کو آپ کے طرزِعمل سے یہ محسوس ہونا چاہیے کہ اس اخلاقی بیماری سے آپ کا دل دُکھتا ہے، نہ کہ اس کو اپنے سے فروتر دیکھ کر آپ کا نفسِ متکبر لذت لے رہا ہے (ایضاً، ص ۲۲۰-۲۲۱)۔

  • تیسری بات یہ ہے کہ جماعت کے اندر جماعت بنانے کی کوشش کبھی نہ ہونی چاہیے۔ سازشیں، جتھہ بندیاں، نجویٰ (Canvassing)، عہدوں کی اُمیدواری، حمیت ِجاہلیہ اور نفسانی رقابتیں، یہ وہ چیزیں ہیں جو ویسے بھی جماعتوں کی زندگی کے لیے سخت خطرناک ہوتی ہیں، مگراسلامی جماعت کے مزاج سے تو ان چیزوں کو کوئی مناسبت ہی نہیںہے۔ اسی طرح غیبت اور تنابز بالالقاب اور بدظنی بھی جماعتی زندگی کے لیے سخت مہلک بیماریاں ہیں، جن سے بچنے کی ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے۔
  • چوتھی بات یہ ہے کہ باہمی مشاورت جماعتی زندگی کی جان ہے، اس کو کبھی نظرانداز نہ کرنا چاہیے۔ جس شخص کے سپرد کسی جماعتی کام کی ذمہ داری ہو، اس کے لیے لازم ہے کہ اپنے کاموں میں دوسرے رفقا سے مشورہ لے، اور جس سے مشورہ لیا جائے اُس کا فرض ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ اپنی حقیقی رائے کا صاف صاف اظہارکرے۔ جو شخص اجتماعی مشاورت میں اپنی صواب دید کے مطابق رائے دینے سے پرہیز کرتا ہے، وہ جماعت پر ظلم کرتا ہے، اور جو کسی مصلحت سے اپنی صوابدید کے خلاف رائے دیتا ہے وہ جماعت کے ساتھ غدر کرتا ہے۔ اور جو مشاورت کے موقعے پر اپنی رائے چھپاتا ہے، اور بعد میں جب اس کے منشا کے خلاف کوئی بات طے ہوجاتی ہے، تو جماعت میں بددلی پھیلانے کی کوشش کرتا ہے، وہ بدترین خیانت کا مجرم ہے (ایضاً، ص ۲۲۱، ۲۲۲)۔
  •  پانچویں بات یہ ہے کہ جماعتی مشورے میں کسی شخص کو اپنی رائے پر اتنا مُصر نہ ہونا چاہیے کہ یا تو اس کی بات مانی جائے، ورنہ جماعت سے تعاون نہ کرے گا یا اجماع کے خلاف عمل کرے گا۔بعض نادان لوگ بربنائے جہالت اس کو ’حق پرستی‘ سمجھتے ہیں، حالانکہ   یہ صریح اسلامی احکام اور صحابہ کرامؓ کے متفقہ تعامل کے خلاف ہے۔ خواہ کوئی مسئلہ  کتاب و سنت کی تعبیر اور نصوص سے کسی حکم کے استنباط سے تعلق رکھتا ہو، یا دُنیوی تدابیر سے متعلق ہو، دونوں صورتوں میں صحابہ کرامؓ کا طرزِعمل یہ تھا کہ جب تک مسئلہ زیربحث رہتا۔ اُس میں ہرشخص اپنے علم اور اپنی صواب دید کے مطابق پوری صفائی سے اظہارِ خیال کرتا، اور اپنی تائید میں دلائل پیش کرتا تھا، مگرجب کسی شخص کی رائے کے خلاف فیصلہ ہوجاتا، تو وہ یا تو اپنی رائے واپس لے لیتا تھا، یا اپنی رائے کو درست سمجھنے کے باوجود  فراخ دلی کے ساتھ جماعت کا ساتھ دیتا تھا۔ جماعتی زندگی کے لیے یہ طریقہ ناگزیر ہے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ جہاں ایک ایک شخص اپنی رائے پر اس قدر مُصر ہو کہ جماعتی فیصلوں کو قبول کرنے سے انکار کردے، وہاں آخرکار پورا نظامِ جماعت درہم برہم ہوکر رہے گا‘‘ (ایضاً، ص۲۲۲)۔

پھر یہاں پر مولانا مودودی نے ارکانِ جماعت کو متوجہ کیا کہ وہ مرحلہ آگیا ہے، جب انھیں اپنے قافلے کا ایک سربراہ منتخب کرنا ہے۔ اس موقعے پر صاف صاف لفظوں میں یہ ہدایت فرمائی:

  • امیرکے انتخاب میں آپ کو جو اُمور ملحوظ رکھنے چاہییں، وہ یہ ہیں کہ کوئی شخص جو امارت کا اُمیدوار ہو، اسے ہرگز منتخب نہ کیا جائے۔ کیونکہ جس شخص میں اس کارِعظیم کی ذمہ داری کا احساس ہوگا، وہ کبھی اس بار کو اُٹھانے کی خود خواہش نہ کرے گا، اور جو اس کی خواہش کرے گا، وہ دراصل نفوذ و اقتدار کا خواہش مند ہوگا نہ کہ ذمہ داری سنبھالنے کا۔اس لیے اللہ کی طرف سے اس کی نصرت و تائید کبھی نہ ہوگی۔ انتخاب کے سلسلے میں لوگ ایک دوسرے سے نیک نیتی کے ساتھ تبادلۂ خیالات کرسکتے ہیں، مگرکسی کے حق میں یا کسی کے خلاف نجویٰ اور سعی نہ ہونی چاہیے....
  • اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ اسلامی جماعت میں امیر کی وہ حیثیت نہیں ہے، جو مغربی جمہوریتوں میں صدر کی ہوتی ہے۔ مغربی جمہوریتوں میں جو شخص صدر منتخب کیا جاتا ہے، اس میں تمام صفات تلاش کی جاتی ہیں مگر کوئی صفت اگر نہیں تلاش کی جاتی تو وہ دیانت اور خوفِ خدا کی صفت ہے۔ بلکہ وہاں کا طریق انتخاب ہی ایسا ہے کہ جو شخص ان میں سب سے زیادہ عیار اور سب سے بڑھ کر جوڑتوڑ کے فن میں ماہر اور جائز و ناجائز ہرقسم کی تدابیر سے کام لینے میں طاق ہوتا ہے، وہی برسرِاقتدار آتا ہے...  
  • مگر اسلامی جماعت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے صاحب ِ امر کے انتخاب میں تقویٰ اور دیانت ہی کو تلاش کرتی ہے، اور اس بنا پر وہ اپنے معاملات پورے اعتماد کے ساتھ اس کے سپرد کرتی ہے.... اگر آپ کسی کو خداترس اور متدین پاکر اسے امیر بناتے ہیں تو اس پر اعتماد کیجیے۔ اور اگر آپ کے نزدیک کسی کی خداترسی و دیانت اس قدر مشتبہ ہو کہ آپ اُس پر اعتماد نہیں کرسکتے تو اس کو سرے سے منتخب ہی نہ کیجیے۔(ایضاً، ص ۲۲۲، ۲۲۳)

مذکورہ بالا تقریر کے بعد ۳شعبان ۱۳۶۰ھ (۲۷؍اگست ۱۹۴۱ء) کو دوپہر تک ارکانِ جماعت کے درمیان امیرجماعت کے انتخاب کی مختلف صورتوں کا مسئلہ زیربحث رہا:

  • ایک خیال یہ تھا کہ فی الحال عارضی طور پر امیرمنتخب کیا جائے اور مستقل امیر کے انتخاب کا دروازہ کھلا رکھا جائے۔
  • دوسری رائے تھی کہ ابھی سرے سے کوئی امیر منتخب نہیں ہونا چاہیے بلکہ چند افراد پر مشتمل ایک مجلس کو اختیارات دے دیئے جائیں اور اس مجلس کا ایک صدر منتخب کرلیا جائے۔
  • تیسری رائے یہ تھی کہ جماعت، بلاامیر بالکل ہی بے اصل چیز ہے۔ اگر ایک تحریک کا آغاز،قیادت کے بغیر یا کسی عارضی قیادت کی بنیاد پر ہوگا تو ایسے کمزور، سُست، ڈھیلے ڈھالے آغاز کا اس عظیم نصب العین سے کچھ میل نہیں بنتا، اور نہ اس سے کوئی تحریک برپا ہوسکتی ہے۔

جب بحث نے طول پکڑا اور بڑے اجتماع میں کوئی اتفاق رائے حاصل نہ ہوسکا تو تینوں گروہوں نے یہ مسئلہ سات افراد کی ایک منتخب مجلس کے سپرد کر دیا۔ اس سات رکنی مجلس میں مولانا مودودی شامل نہیں تھے۔ یہ مجلس بحث و تمحیص کی تمام منازل سے گزر کر، ایک متفقہ نتیجے پر پہنچی کہ تحریک سربراہ کے بغیر نہ ہو، جماعت بلاامیرنہ رہے۔ مجلس کی تجویز، محمدمنظورنعمانی صاحب نے شام چاربجے اجتماع میں پڑھ کرسنائی اور ’’پوری جماعت نے اسے متفقہ طور پر قبول کرتے ہوئے طے کیا کہ اسے دستورِ جماعت میں باقاعدہ دفعہ دہم کی حیثیت سے بڑھا دیا جائے‘‘۔جب یہ فیصلہ ہوگیا تو سبھی نے متفقہ طور پر مولانا مودودی کو اپنا امیرمنتخب کرلیا۔

امیر جماعت کا انتخاب اور پہلا خطاب

یہ ۳ شعبان ۱۳۶۰ھ/۲۷؍اگست۱۹۴۱ء ہی کا دن تھا۔ بیعت کا رسمی طریقہ اختیار کرنے کے بجائے سب نے دستور ِ جماعت کی دفعہ دہم کے مطابق اپنے امیر کی اطاعت کا عہد کیا۔ منظرایک بار پھر گذشتہ شام کا تھا۔ لوگ پھر اللہ تعالیٰ کے حضور میں روئے اور گڑگڑائے اور التجا کی کہ وہ اس جماعت کو اس کے نصب العین کے مطابق چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تب بحیثیت امیرجماعت مولانا مودودی کا یہ اوّلین خطاب تھا:

میں آپ کے درمیان نہ سب سے زیادہ علم رکھنےوالا تھا، نہ سب سے زیادہ متقی، نہ کسی اور خصوصیت میں مجھے فضیلت حاصل تھی۔ بہرحال، جب آپ نے مجھ پر اعتماد کرکے اس کارِعظیم کا بارمیرے اُوپر رکھ دیا ہے تو میں اب اللہ سے دُعا کرتا ہوں اور آپ لوگ بھی دُعا کریں کہ مجھےاس بار کو سنبھالنے کی قوت عطا فرمائے.... میں اپنی حدوسع تک انتہائی کوشش کروں گا کہ اس کام کو پوری خدا ترسی اور پورے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ چلائوں۔ قصداً اپنے فرض کی انجام دہی میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا۔ میں اپنے علم کی حد تک کتاب اللہ و سنت ِ رسولؐ اللہ اور خلفائے راشدینؓ کے نقشِ قدم کی پیروی میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھوں گا۔ تاہم، اگر مجھ سے کوئی لغزش ہو، اور آپ میں سے کوئی محسوس کرے کہ میں راہِ راست سے ہٹ گیا ہوں، تو مجھ پر یہ بدگمانی نہ کرے کہ میں عمداً ایسا کررہا ہوں، بلکہ حُسنِ ظن سے کام لے اور نصیحت سے مجھےسیدھاکرنے کی کوشش کرے۔(ایضاً، ص ۲۲۷)

مولانا مودودی نے امیر پر جماعت کا، اور جماعت پرامیر کا حق ان لفظوں میں بیان کیا:

آپ کا مجھ پر یہ حق ہے کہ میں اپنے آرام و آسایش اور اپنے ذاتی فائدوں پر جماعت کے مفاد اور اس کے کام کی ذمہ داریوں کو ترجیح دوں۔ جماعت کے نظم کی حفاظت کروں۔ ارکانِ جماعت کے درمیان عدل اور دیانت کے ساتھ حکم کروں۔ جماعت کی طرف سے جو امانتیں میرے سپرد ہوں، ان کی حفاظت کروں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے دل و دماغ اور جسم کی تمام طاقتوں کو اس مقصد کی خدمت میں صرف کردوں، جس کے لیے جماعت اُٹھی ہے۔

اور میرا آپ پر یہ حق ہے کہ جب تک میں راہِ راست پرچلوں آپ اس میں میرا ساتھ دیں، نیک مشوروں اور امکانی امدادو اعانت سے میری تائید کریں اور جماعت کے نظم کو بگاڑنے والے طریقوں سے پرہیز کریں۔ مجھے اس تحریک کی عظمت اور خود اپنے نقائص کا پورا احساس ہے.... مجھے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے بارے میں یہ غلط فہمی نہیں کہ اس عظیم الشان تحریک کی قیادت کا اہل ہوں بلکہ اس کو بدقسمتی سمجھتا ہوں کہ اس وقت اس کارِعظیم کے لیے آپ کو مجھ سے بہتر کوئی آدمی نہ ملا۔

البتہ میں اس کے لیے تیار نہیں ہوں کہ اگر کوئی دوسرا اس کام کو چلانے کے لیے نہ اُٹھے تو میں بھی نہ اُٹھوں۔ میرےلیے تو یہ تحریک عین مقصد ِ زندگی ہے۔ میرا مرنا اور جینا اس کے لیے ہے۔ کوئی اس پر چلنے کے لیے تیار ہو یا نہ ہو، بہرحال مجھے تو اسی راہ پر چلنا اور اسی راہ میں جان دینا ہے۔ کوئی آگے نہ بڑھے گا تو میں بڑھوں گا۔ کوئی ساتھ نہ دے گا تو میں اکیلا چلوں گا۔ ساری دُنیا متحد ہوکر مخالفت کرے گی تو مجھے تن تنہا اس سے لڑنے میں بھی باک نہیں ہے۔(ایضاً، ص ۲۲۷، ۲۲۸)

اس خطاب کے آخر میں، مولانا مودودیؒ نے ایک نہایت بنیادی بات واضح کرکے بہت سی غلط فہمیوں کے امکانات کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔ انھوں نے فرمایا:

آخر میں ایک بات کی اور توضیح کردینا چاہتا ہوں۔ فقہ اور کلام کے مسائل میں میرا ایک خاص مسلک ہے، جس کو میں نے اپنی ذاتی تحقیق کی بناپر اختیار کیا ہے۔ جو اصحاب ترجمان القرآن کا مطالعہ کرتےرہے ہیں، وہ اس کو جانتے ہیں۔ اب کہ میری حیثیت اس جماعت کے امیر کی ہوگئی ہے، اس لیے میرے لیے یہ بات صاف کردینی ضروری ہے کہ فقہ و کلام کے مسائل میں جو کچھ میں نے پہلے لکھا ہے اور جو کچھ آیندہ لکھوں گا یا کہوں گا، اس کی حیثیت امیرجماعت اسلامی کے فیصلے کی نہ ہوگی بلکہ میری ذاتی رائے کی ہوگی۔ میں نہ تو یہ چاہتا ہوں کہ ان مسائل میں اپنی رائے کو جماعت کے دوسرے اہلِ علم و تحقیق پر مسلط کروں، اور نہ اسی کو پسند کرتا ہوں کہ جماعت کی طرف سے مجھ پر ایسی کوئی پابندی عائد ہو کہ مجھ سے علمی تحقیق اور اظہاررائے کی آزادی سلب ہوجائے۔

ارکانِ جماعت کو مَیں خداوند برتر کا واسطہ دے کر ہدایت کرتا ہوں کہ کوئی شخص، فقہی و کلامی مسائل میں میرے اقوال کو دوسروں کے سامنے حجت کے طور پر پیش نہ کرے۔ اسی طرح میرے ذاتی عمل کو بھی، جسے میں نے اپنی تحقیق کی بناپر جائز سمجھ کر اختیار کیا ہے، نہ تو دوسرے لوگ حجت بنائیں اور نہ بلاتحقیق، میرا عمل ہونے کی حیثیت سے اس کا اتباع کریں۔ ان معاملات میں ہرشخص کے لیے آزادی ہے۔ جو لوگ علم رکھتے ہوں، وہ اپنی تحقیق پر، اور جو علم نہ رکھتے ہوں،وہ جس کے علم پر اعتماد رکھتے ہوں، اس کی تحقیق پرعمل کریں۔ نیز ان معاملات میں لوگ مجھ سے اختلاف رائے رکھنے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے میں بھی آزاد ہیں۔ ہم سب جزئیات و فروع میں اختلاف رائے رکھتے ہوئے بھی ایک جماعت بن کر رہ سکتے ہیں، جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رہتے تھے۔(ایضاً، ص ۲۲۸، ۲۲۹)


۴شعبان ۱۳۶۰ھ/۲۸؍اگست ۱۹۴۱ء جماعت اسلامی کے تشکیل کے بعد پہلا دن تھا۔

بنیادی شعبہ جات اور تقسیم کار

امیرجماعت نے اصحابِ شوریٰ سے مل کر (جن کا انتخاب انھوں نے گذشتہ شام ۲۷؍اگست ۱۹۴۱ء کو کرلیا تھا) ابتدائی طور پر کام کو پانچ شعبوں میں تقسیم فرمایا:

  • شعبۂ علمی و تعلیمی کا کام یہ ہوگا:اسلام کے نظامِ فکر اور نظامِ حیات کا اس کے مختلف فلسفیانہ اور عملی اور تاریخی پہلوئوں میں گہرا تفصیلی مطالعہ کرے۔ دُنیا کے دوسرے نظاماتِ فکروعمل پر بھی وسیع تنقیدی و تحقیقی نظر ڈالے، اور اپنے نتائجِ تحقیق کو ایک ایسے زبردست لٹریچر کی شکل میں پیش کرے، جو نہ صرف اسلامی اصول پر ذہنی و فکری انقلاب برپا کرنے والا ہو، بلکہ نظامِ اسلامی کے بالفعل قائم ہونے کے لیے بھی زمین تیار کرسکے۔ ایک ایسا نظریۂ تعلیمی اور نظامِ تعلیم مرتب کرے، جو اسلام کے مزاج سے ٹھیک ٹھیک مناسبت رکھتا ہو ، اور دُنیا میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے بنیاد کا کام دے سکے۔ اپنے نظریۂ تعلیمی کے مطابق نصاب اور معلمین تیار کرے اور بالآخر درس گاہ قائم کرکے آیندہ نسل کی ذہنی و اخلاقی تربیت کا کام شروع کر دے۔
  •  شعبۂ نشرواشاعت: شعبۂ علمی و تعلیمی سے جو لٹریچر تیار کیا جائے، اس شعبے کا فرض ہوگا کہ جہاں تک ممکن ہو، خدا کے بندوں تک پہنچانے کی کوشش کرے۔ ہر جگہ ریڈنگ روم اور بُک ڈپو قائم کرے۔
  • شعبۂ تنظیم جماعت کے فرائض ہوں گے: کارکنوں کو ہدایات دینا،انفرادی شکل میں موجود ارکان، مقامی جماعتوں اور جماعت کے نصب العین کی طرف بڑھنے والے حلقوں سے مکمل رابطہ رکھنا۔ رفتار کا جائزہ لیتےرہنا (ایضاً، ص ۲۲۹-۲۳۱)۔
  •   شعبۂ مالیات کے کام کا آغاز۷۴ روپے چودہ آنے کی نقد رقم سے ہوا، جو اسے ادارہ دارالاسلام کی طرف سے ملی۔ ۱۹۳۸ء میں قائم ہونے والے اس ادارے کے لیے مولانا مودودی نے اپنی تمام کتابیں (الجہاد فی الاسلام اور رسالہ دینیات کے سوا) وقف کر دی تھیں۔ اب اس ادارے میں موجود کتب (مالیت -/۲۰۱۴ روپے) اور تاجروں اور ایجنٹوں کے ذمہ واجب الادا رقوم (۱۳۵۶ روپے دو آنے) بھی جماعت اسلامی کے شعبہ مالیات کا اثاثہ قرارپائیں۔ جماعت کے ذی استطاعت ارکان پر لازم ہے کہ زیادہ سے زیادہ، جس قدر مالی ایثار کرسکتے ہوں کریں۔ رہے جماعت سے باہر کے لوگ، تو اگر وہ بخوشی اور بلاشرط خود کوئی مدد دینا چاہیں، تو قبول کرلی جائے۔ لیکن کوئی بڑی سے بڑی مالی اعانت بھی اس صورت میں قبول نہ کی جائے، جب کہ یہ اندیشہ ہو کہ اس کے معاوضے میں جماعت کی پالیسی پر اثرڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ (رُوداد جماعت اسلامی، اوّل، ص ۴۰،۴۱)
  • شعبۂ دعوت و تبلیغ جماعت کا سب سے اہم شعبہ ہے، اور دراصل کامیابی کا انحصار ہی اس شعبے کی کارگزاری پر ہے۔ہرشخص جو جماعت اسلامی کا رکن ہو، لازمی طورپراس شعبے کا کارکن ہوگا۔ اس کو دائماً ایک مبلغ کی زندگی بسرکرنی ہوگی۔اس کے لیے لازم ہوگا کہ جہاں، جس حلقے میں بھی اس کی پہنچ ہوسکتی ہو، نصب العین کی طرف دعوت دے اور جماعت کے نظام کی تشریح کرے۔

                        اس شعبے میں کام کرنے کے لیے آٹھ مختلف حلقے معین کر دیے جائیں، اور جماعت کا ہرکارکن اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے صرف انھی حلقوں میں تبلیغ کرے، جن سے وہ زیادہ مناسبت رکھتا ہو۔ یہ حلقے ہیں:(۱)جدید تعلیم یافتہ لوگوں اور کالجوں کا حلقہ (۲) علمائے کرام اور مدارسِ عربیہ کا حلقہ (۳) صوفیا اور مشائخ طریقت کا حلقہ (۴) سیاسی جماعتوں کا حلقہ (۵) شہری عوام کا حلقہ (۶) دیہاتی عوام کا حلقہ (۷) عورتوں کا حلقہ (۸)غیرمسلموں کا حلقہ(رُوداد، اوّل، ص ۴۲،۴۳)۔

امیرجماعت کی ہدایات

جماعت اسلامی کے لائحہ عمل سے متعلق جب ان شعبوں کا تعین اور اعلان کر دیا گیا، تو امیرجماعت اسلامی مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے حاضرین کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا:

  • جماعت کے ارکان کو ایسے تمام طریقوں سے پرہیز کرنا چاہیے، جو ان کو مسلمانوں میں ایک فرقہ بنانے والے ہوں۔ اپنی نمازیں الگ نہ پڑھیے،بحثیں اور مناظرے نہ کیجیے۔ جہاں تحقیق کے لیے نہیں بلکہ ضد اور مخالفت کی بناپر اس تحریک [یعنی جماعت]کو معرضِ بحث میں لایا جائے، وہاں صبروضبط سے کام لیجیے۔ خصوصاً جہاں میری ذات پر حملے کیے جائیں، وہاں تو ہرگز مدافعت نہ کیجیے۔ میں نہ خود اپنی مدافعت کرتا ہوں اور نہ اپنے رفیقوں سے چاہتا ہوں کہ وہ اس فضول کام میں اپنا وقت اوراپنی قوتیں ضائع کریں۔ البتہ جہاں کوئی شخص سنجیدگی سے طالب تحقیق ہو، وہاں اپنی تائید میں استدلال کیا جاسکتا ہے۔مگر جب بحث میں گرمی آتی محسوس ہو تو سلسلۂ بحث بند کر دیجیے، کیونکہ مناظرہ وہ بلا ہے، جس سے ہزار فتنے پیدا ہوتے ہیں۔(ترجمان القرآن، ایضاً، ص ۲۳۸)

بحیثیت مسلمان کے ایک ذمہ دارانہ زندگی شروع کرنے کا اور اس سے کلمۂ شہادت کا تعلق بیان کرتے ہوئے فرمایا:

  • جماعت میں جب کوئی نیا شخص داخل ہو تو اسے پورا احساسِ ذمہ داری دلا کر اَزسرِنو  کلمۂ شہادت ادا کرایا جائے۔ اس تجدید ِایمان کا مطلب صرف یہ ہے کہ جو عہد اس کے اور خدا کے درمیان پہلے موجود تھا، آج وہ اسے تازہ اور خالص اور مضبوط کر رہا ہے۔  تجدیدِ ایمان کے موقعے پر یہ بات ہرنئے داخل ہونے والے رکن کے ذہن نشین کردینی چاہیے کہ یہ دراصل زندگی کے ایک نئے باب کا افتتاح ہے، آج سے تمھاری ایک بامقصد اور ذمہ دارانہ زندگی کا آغاز ہورہا ہے۔(ایضاً، ص ۲۳۵، ۲۳۶)
  • جو شخص جماعت میں داخل ہو، اُس کو تحریک ِ اسلامی کے لٹریچر کا بیش تر حصہ پڑھوا دیا جائے، تاکہ وہ اس تحریک کے تمام پہلوئوں سے واقف ہوجائے، اور تحریک کے ارکان میں ذہنی و عملی ہم آہنگی پیدا ہوسکے۔ اس معاملے میں کسی کے متعلق یہ فرض نہ کرلیا جائے کہ وہ پہلے ہی سب کچھ سمجھنا ہوگا۔ اگر اس مفروضے پر ایسے لوگوں کی بڑی تعداد جماعت میں داخل کرلی گئی، جو اس تحریک کے لٹریچر پر نظر نہ رکھتے ہوں، تو اندیشہ ہے کہ جماعت کے ارکان متضاد باتیں اور متضاد حرکات کریں گے۔
  •  ہرجگہ [ہفتے میں ایک بار] ایک جگہ جمع ہونا چاہیے۔ اس اجتماع میں ہفتہ بھر کے کام کا جائزہ لیا جائے، آیندہ کام کے لیے باہمی مشورے سے تجاویز سوچی جائیں۔ بیت المال کے حسابات دیکھے جائیں، اور تحریک کے لٹریچر کے متعلق کوئی نئی چیز شائع ہوئی ہو تو، اس کا مطالعہ کیا جائے۔
  • جماعت کے ارکان کو قرآن اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرتِ صحابہ رضوان اللہ اجمعین سے خاص شغف ہونا چاہیے۔ ان چیزوں کو بار بار، زیادہ سے زیادہ گہری نظرسے پڑھا جائے اور محض عقیدت کی پیاس بجھانے کے لیے نہیں بلکہ ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لیے پڑھا جائے۔جہاں ایسا کوئی آدمی موجود ہو، جو قرآن کا درس دینے کی اہلیت رکھتا ہو، وہاں درسِ قرآن شروع کر دیا جائے۔
  • اس تحریک کی جان دراصل تعلق باللہ ہے۔ اگر اللہ سے آپ کا تعلق کمزور ہو تو آپ حکومت ِ الٰہیہ قائم کرنے اور کامیابی کے ساتھ چلانے کے اہل نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا، فرض عبادات کے ماسوا نفلی عبادات کا بھی التزام کیجیے۔ نفل نماز، نفل روزے، اور صدقات وہ چیزیں ہیں، جو انسان میں خلوص پیدا کرتی ہیں، اور ان چیزوں کو زیادہ سے زیادہ اخفا کے ساتھ کرنا چاہیے، تاکہ ریا نہ پیدا ہو۔ نماز سمجھ کرپڑھیے، اس طرح نہیں کہ ایک یاد کی ہوئی چیز کو آپ زبان سےدُہرارہے ہیں، بلکہ اس طرح کہ آپ خود اللہ سے کچھ عرض کررہے ہیں۔ نمازپڑھتےوقت اپنے نفس کا جائزہ لیجیے کہ جن باتوں کا اقرار آپ عالم الغیب کے سامنے کر رہے ہیں، کہیں آپ کا عمل ان کے خلاف تو نہیں ہے، اور آپ کا اقرار جھوٹا تو نہیں ہے۔ اس محاسبۂ نفس میں اپنی جو کوتاہیاں آپ کو محسوس ہوں، ان پر استغفار کیجیے اور آیندہ ان خامیوں کو رفع کرنے کی کوشش کیجیے۔
  • جماعت کے ارکان [اور کارکنان]کو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ ایک بہت بڑا دعویٰ لے کر، بہت بڑے کام کے لیے اُٹھ رہے ہیں۔ اس لیے ہرشخص کو جو اس جماعت میں شامل ہو اپنی دوہری ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے۔ خدا کے سامنے تو وہ بہرحال ذمہ دار ہے، مگر خلقِ خدا کے سامنے بھی اس کی ذمہ داری بہت سخت ہے۔ جس بستی میں بھی آپ لوگ موجود ہوں، وہاں عام آبادی سے آپ کے اخلاق بلند تر ہونے چاہییں، بلکہ آپ کو بلندیٔ اخلاق، پاکیزگیٔ سیرت اور دیانت و امانت میں ضرب المثل بن جانا چاہیے۔ آپ کی ایک معمولی لغزش نہ صرف جماعت کے دامن پر بلکہ اسلام کے دامن پر دھبہ لائے گی اور بہت سے لوگوں کے لیے سبب گمراہی بن جائے گی۔
  • تحریک اسلامی کا ایک خاص مزاج اور مخصوص طریق کار ہے، جس کے ساتھ دوسری تحریکوں کے طریقے کسی طرح جوڑ نہیں کھاتے۔ بے لگام تقریریں اور گرما گرم تحریریں، اور اس نوعیت کی تمام چیزیں اُن [دوسری] تحریکوں کی جان ہیں، مگر اس تحریک [اسلامی] کے لیے سمِ قاتل ہیں۔ یہاں کا طریق کار قرآن اور سیرتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی سیرتوں سے سیکھیے، اور اس کی عادت ڈالیے۔ آپ کو زبان یا قلم یا مظاہروں سے عوام پر سحر نہیں کرنا ہے کہ ان کے ریوڑ کے ریوڑ آپ کے پاس آجائیں اور آپ انھیں ہانکتے پھریں۔
  • آپ کو یہ عزم پیدا کرنا ہے کہ اپنی انفرادی زندگی اور گردوپیش کی اجتماعی زندگی کو حقیقت ِ اسلامی کے مطابق بنائیں اور جو کچھ باطل ہو، اسے مٹانے میں جان و مال کی بازی لگادیں۔ لوگوں کے اندر یہ گہری تبدیلی ساحری اور شاعری سے پیدا نہیں ہوا کرتی۔ آپ میں سے جو مقرر ہوں، وہ پچھلے اندازِ تقریر کو بدلیں اور ذمہ دار مومن کی طرح جچی تلی تقریر کی عادت ڈالیں۔ جو محرّر [لکھنے والے] ہیں، انھیں بھی غیرذمہ دارانہ اندازِ تحریر کو بدل کر اس آدمی کی سی تحریر اختیار کرنی چاہیے، جو لکھتے وقت احساس رکھتا ہے کہ اسے اپنے ایک ایک لفظ کا حساب دینا ہے۔
  • مختلف پارٹیوں اور مذہبی فرقوں اور مقامی قبیلوں اور برادریوں کے نزاعات سے بالکل کنارہ کش رہنا چاہیے۔ بالکل یک سُو ہوکر اپنے نصب العین کے پیچھے لگ جایئے۔ جو عمل خدا کی راہ میں نہیں ہے، اس میں مشغول ہوکر آپ اپنا وقت اور اپنی قوتیں ضائع کریں گے حالانکہ آپ کو اپنے وقت اور اپنی قوتوں کا حساب دینا ہے۔
  • تبلیغ میں حکمت اور موعظۂ حسنہ کو ملحوظ رکھیے: ’حکمت‘ یہ ہے کہ آپ مخاطب کی ذہنیت کو سمجھیں۔ اس کی غلط فہمی یا گمراہی کے اصل سبب کی تشخیص کریں۔ اس کو ایسے طریقے سے تلقین کریں، جو زیادہ سے زیادہ اس کے مناسب حال ہو۔’موعظۂ حسنہ‘ یہ ہے کہ جس [کے سامنے] آپ تبلیغ کریں، اس کے سامنے آپ اپنے آپ کو دشمن اور مخالف کی حیثیت سے نہیں بلکہ اس کے بہی خواہ اور دردمند کی حیثیت سے پیش کریں۔ ایسے باوقار، بلیغ اور شیریں انداز سے راہِ راست کی طرف دعوت دیں، جو کم سے کم تلخی پیدا کرنے والا ہو.... یہ کہ بے موقع تبلیغ نہ کیجیے۔ جب کوئی شخص یا کوئی گروہ دعوت الی الخیر سننے یا کسی نصیحت کو قبول کرنے کے موڈ میں نہ ہو، اس وقت اسے دعوت دینا، یا ایک وقت میں جتنی خوراک وہ قبول کرسکتا ہو، اس سے زیادہ خوراک اس کے اندر اُتارنے کی کوشش کرنا، بجائے مفید اثر ڈالنے کے، اُلٹا خراب اثر ڈالتا ہے۔ اسلام ایک حکیمانہ دین ہے اور اس کے مبلغ کو حکیم ہونا چاہیے۔(ایضاً، ص ۲۳۶-۲۴۰)

۵ شعبان ۱۳۶۰ھ/۲۹؍اگست ۱۹۴۱ء جماعت اسلامی کے اس تاسیسی اجتماع کا آخری دن تھا۔امیرجماعت نے اصحابِ شوریٰ کے مشورے سے جماعت کے ابتدائی پروگرام سے متعلق کچھ اُمور طے کیے، اور یہ اجتماع اختتام پذیر ہوا۔ آنے والے یہ چند فرزانے ایمان، رہنمائی اور جذبوں کی دولت لے کر ہندستان بھر میں پھیل گئے۔


اجتماع میں آنے والوں کا سلسلہ یومِ تاسیس ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کے بعد بھی جاری رہا۔ اس کا اشارہ  ترجمان القرآن کے ان اشارات سے ملتا ہے، جو اجتماع کے بعد لکھےگئے:

جماعت اسلامی کی تشکیل کا استقبال مختلف حلقوں میں مختلف طور پرہوا ہے:

__ کچھ اللہ کے بندے تو ایسے ملتے ہیں، جو اس چیز سے واقف ہوتے ہی اسے اس طرح قبول کرتے ہیں، گویا کہ وہ پہلے ہی سے اس کے طالب تھے۔

__کچھ دوسرے لوگ اس پر غور کرتے ہیں اور مختلف قسم کے شبہات پیش کر کے مزید توضیح چاہتے ہیں۔

__ کچھ اور لوگوں کے دل نے گواہی دی ہے کہ مخالفت کے لائق اگر کوئی چیز ہے تو یہی ہے۔

__ اور ایک گروہ کثیر، انتظار کی روش کو ترجیح دے رہا ہے۔

__یہ سب مختلف قسم کے استقبال، خلافِ توقع نہیں ہیں، پہلے ہی ان کا اندازہ تھا۔

البتہ جو چیز ہمارے اندازے سے بڑھ کر نکلی، وہ لبیک کہنے والوں کی تعداداور اُن کی کیفیت ہے۔ [غیرمنقسم]ہندستان کے اس قبرستان میں مشکل ہی سے یہ اُمید کی جاسکتی تھی کہ اس طرز کے ایک نظام کو قبول کرنے اور اس پر کام کرنے کے لیے ڈیڑھ سو سے زیادہ آدمی ابتدا ہی میں اُٹھ کھڑے ہوں گے۔

__یہ بات اور بھی کم متوقع تھی کہ اس چیز پر لبیک کہنے والے زیادہ تر وہ لوگ ہوں گے، جو روح و ضمیر کی ان قتل گاہوں سے سند ِ موت لے کر نکلے تھے، جن کو کالج اور یونی ورسٹی کہتے ہیں۔

__ ان سب سے بڑھ کر یہ بات ہمت افزا ہے کہ جن لوگوں نے پیش قدمی کی ہے،  ان میں سے اکثر کے طرزِ اقدام سے احساسِ ذمہ داری کا اظہار ہورہا ہے۔ وہ اس تحریک اور دوسری تحریکوں کے فرق کو سمجھتے ہوئے آرہے ہیں۔ انھیں احساس ہے کہ وہ کھیل کے میدان میں نہیں اُتررہے ہیں بلکہ شہادت گہ اُلفت میں قدم رکھ رہے ہیں۔ اس لیے وہ وضع احتیاط کے ساتھ اپنے نفس کا احتساب کرتے ہوئے بڑھ رہے ہیں کہ جو قدم بھی خدا کی راہ میں اُٹھے پھر پیچھے نہ پلٹے:ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ۔(ماہ نامہ ترجمان القرآن، اگست ۱۹۴۱ء، ص ۲)

داعی تحریک ِ اسلامی مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مذکورہ بالا خطبات میں بیان کردہ اہداف اور ہدایات میں نشانِ منزل بھی ہے، اور منزل کے راستے کا نقشہ بھی۔ ان کلمات میں راستوں کی رکاوٹیں بھی درج ہیں اور عزم و ہمت کے مینار بھی روشن ہیں۔ دردِ دل میں ڈوبی اس رہنمائی میں تنظیم و تحریک سے وابستہ ہرفرد کے لیے احتسابِ ذات اور احتسابِ تحریک کا پورا نصاب بھی صاف صاف درج ہے۔

 آج ۸۰ برس ہوچکے ہیں۔ اس کاروانِ شوق کو منزل کی جانب سفر کرتے ہوئے پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا، جموں و کشمیر میں فکری یگانگت، مگر یکسرطور پر الگ الگ تنظیمی وجود  کے باوجود، حق کے راہی گرمِ سفر ہیں۔ اب پرچم تیسری نسل کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ شجر طیبہ برگ و بار لارہاہے، قربانیاں دے رہا ہے، ہر رکاوٹ میں سےراستے نکال کر منزل کی جانب بڑھ رہا ہے۔

مگر داعی کی پکار اور تاسیسِ جماعت کے مخاطب آج ہم خود اہلِ قافلہ ہیں۔ اس لیے ہم میں سے ہردیکھنے والا دیکھ لے، اور ہر تولنے والا تول لے: قافلہ کہاں سے شروع ہوا اور کن منزلوں سے ہوتا ہوا کہاں تک پہنچا ہے، اور کتنا سفر باقی ہے!

مسلم اُمہ کے مسائل اور بحران در بحران کیفیت میں ہرمسلمان اُلجھا ہوا ہے۔ اس کا بڑا سبب جہاں سامراجی قوتوں کی عالمی سیاسی و معاشی جتھہ بندی ہے، وہیں ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ خود مسلم ممالک میں سیاسی،فکری اور دفاعی سطح پر مقتدر اور بااختیار قیادتوں کا معاملہ سوالیہ نشان ہے۔ اس کیفیت میں مایوسی کا شکار ہونا اور حالات کے بے رحم دھارے کے سامنے سپرڈال دینا، عظیم اور ناقابلِ تلافی تباہی کا پیش خیمہ ہوگا۔ یہ بحران جس قدر شدید ہے، اور مسائل و مشکلات کی یلغار جتنی تباہ کن ہے، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے، اور ان آفتوں کے دبائو سے نکلنے کے لیے، کہیں زیادہ بڑھ کر عقل، دانش، فہم و فراست کی ضرورت ہے۔

غزہ میں اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ خوں ریزی ہمارے سامنے ہے، جہاں ہردوڈھائی برس کے بعد مظلوم فلسطینی بھائیوں پر خون، آگ اور بارود کی بارش ہوتی ہے۔ دوسری جانب کشمیر کے مظلوموں کو کچلنااور آزادی کی اُمنگوں کا قتل عام بھی پوری دُنیا کے سامنے ہے۔ اسرائیل اور بھارت بنیادی طور پر نسل پرست، فسطائی اور وحشی (Rogue) ریاستیں ہیں۔ ان کی چیرہ دستیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اُمت کے صاحب ِ ایمان اور صاحب ِ بصیرت افرادِ کار کو بھرپور طریقے سے حق کی گواہی دینا ہوگی۔ملّی یک جہتی کو زندہ کرنے کے لیے اپنے اپنے ملکوں اور معاشروں میں بیداری کی تحریکیں برپا کرنے کی ضرورت ہوگی۔

مسئلہ کشمیر پر ، بالخصوص گذشتہ دو برسوں کے دوران جس انداز سے پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے وقتاً فوقتاً متضاد بیانات کا سلسلہ جاری ہے، اس نے بہت تکلیف دہ صورتِ حال پیدا کردی ہے۔

فروری ۲۰۲۱ء میں پاکستان اور بھارت کے فوجی کمانڈروں کی سطح پر اچانک مذاکرات کا اعلان، اور پھر اپریل میں ۲۵، ۳۰ صحافیوں سے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ صاحب کی بظاہر ’آف دی ریکارڈ‘ (اور عملاً آن دی ریکارڈ) ملاقات میں بیان کردہ روایتوں اور حکایتوں نے گہری تشویش کا سامان فراہم کیا ہے۔ مذکورہ ملاقات میں جنرل صاحب کی طرف سے یہ کہا جانا کہ ’ہم بیک ڈور چینل (پس پردہ) مذاکرات کر رہے ہیں‘ اور یہ کہ ’ہمیں ماضی بھلاکر آگے بڑھنا ہے‘ دھماکا خیز خبر ہے۔ جب کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی صاحب کہتے ہیں کہ ’کوئی بیک ڈور مذاکرات نہیں ہورہے‘۔ گویا کہ حکومت اور مسلح افواج ایک انداز سے نہیں سوچ رہے۔ یہ متضاد اور متحارب اطلاعات اگر سول حکومت اور پارلیمان کی جگ ہنسائی کا ذریعہ ہیں تو دوسری جانب کشمیری عوام اور قوم میں اضطراب پیدا کرنے کا سبب بنی ہیں۔یاد رہے کہ نہ ماضی سے کٹا حال ہوتا ہے اور نہ ماضی سے کٹ کر مستقبل کی صورت گری ہوسکتی ہے۔

اسی مناسبت سے ہم چند معروضات پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں:

  • اس وقت شروع کیے جانے والے مذاکرات کا جو پہلو کھل کر سامنے آیا ہے، وہ یہ ہے کہ مذکورہ مذاکرات پاکستان کی طرف سے کسی پیشگی شرط اور کسی روڈمیپ کے تعین کے بغیر ہونے جارہے ہیں۔ حتیٰ کہ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کی انتظامی وحدت پر سفاکانہ یلغار اور بین الاقوامی سطح پر عالمی برادری کے طے شدہ اُمور کی دھجیاں بکھیرنے والے اقدامات کی واپسی کا مطالبہ کیے بغیر، ان مذاکرات کا حصہ بناجارہا ہے۔ یاد رہے کہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے اقدامات میں دفعہ ۳۵-اے کے خاتمے نے جموں و کشمیر میں آبادی کے توازن و تناسب کو تلپٹ کرکے دوسرا اسرائیل بنانے کا راستہ کھول دیا ہے۔ پھر مقبوضہ کشمیر میں ۸ لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجیوں کی موجودگی، دُنیا بھر میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی کا بدترین نقشہ پیش کرتی ہے۔ بہت واضح ہے کہ ایسے غیرمشروط، اور وقت کی قید سے آزاد مذاکرات سے پاکستان کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ بلکہ اس صورت میں مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ بھارتی حکومت کے تمام غیرانسانی اور غیرقانونی اقدامات کو پاکستان کی جانب سے عملاً تحفظ دیا جارہا ہے، جس کا کوئی مثبت نتیجہ قطعاً ناممکن ہے۔
  • یہ تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ بھارت نے جب بھی پاکستان سے مذاکرات کے لیے کھڑکی کھولی تو اس کا مقصد کبھی سنجیدہ، بامعنی اور اخلاص پر مبنی مذاکرات کا انعقاد نہیں تھا۔ بین الاقوامی دبائو سے نکلنے اور اندرونِ ملک مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے ایسے کاک ٹیل مذاکرات کا کھیل اس سے پہلے بھی ڈیڑھ سو مرتبہ کھیلا جاچکا ہے۔ اس لیے بے فیض نشست و برخاست سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔
  • ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر بامقصد بات چیت، مذاکرات اور مکالمے کے لیے تیار رہا ہے، اور آج بھی تیار ہے۔ مگر ان مذاکرات میں بھارت کی مخلصانہ شمولیت کا اندازہ لگانے کے لیے لازم ہے کہ پاکستان، مذاکراتی عمل میں (مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر، بیرون پاکستان و بھارت) کشمیری نمایندگان کو ساتھ لے کرشریک ہو۔ اگر بھارت مسئلے کے اصل فریق کو مذاکرات میں شامل کرنے پر ٹال مٹول سے کام لیتا ہے، تو سمجھ لینا چاہیے کہ بھارت مذاکرات کو محض وقت گزاری کے لیے استعمال کررہا ہے۔ اس کا مقصد کشمیریوں اور پاکستان میں غلط فہمی پیدا کرنا ہے، ساتھ ہی وہ پاکستان کے اصولی موقف میں دراڑ پیدا کرنے کے لیے ایسے بے معنی مذاکرات کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔
  • اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ پاک بھارت مذاکرات کا ایجنڈا، صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت کو رُوبہ عمل لانے کی تفصیلات پر مشتمل ہونا چاہیے۔ یہ صرف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کے بنائے ہوئے کمیشن ہی کا تقاضا نہیں بلکہ خود بھارت نے بھی اسے تسلیم کیا ہے اور جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ اس عہد وپیمان میں پوری دنیا شریک ہے۔نیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی دفعہ ۲۵۷ میں بھی اسی حل کو واحد حل کی حیثیت سے طے کر دیا گیا ہے اور مسئلے کے منصفانہ، پایدار اور قانونی سلجھائو کے لیے اس کے سوا کوئی دوسرا فریم ورک نہیں ہوسکتا۔
  • کسی برادر مسلم یا غیرمسلم دوست ملک کے دبائو میں آکر اگر ہم اپنے اصولی موقف پر سمجھوتا کرتے ہوئے اور پسپائی اختیار کرنے کی راہ پر چل پڑے،اور خدانخواستہ اگر ’آؤٹ آف باکس‘ کوئی وعدہ کربیٹھے، تو یہ چیز، جدوجہد آزادیِ کشمیر کو برباد کرنے کا ذریعہ بنے گی، اور ایسا کرنے والوں کو پاکستانی اور کشمیری کبھی معاف نہیں کریں گے۔
  • کسی دوست ملک یا کسی طاقت کے دبائو میں آکر ثالثی کے پھندے کو قبول کرنا، کشمیریوں کی جدوجہد اور پاکستانیوں کی قربانیوںکو دریابرد کرنے کےمترادف ہوگا۔
  • اگرچہ موجودہ برسوں میں پاکستان کی معاشی حالت گوناگوں داخلی، خارجی اور انتظامی اسباب کے باعث تسلی بخش نہیں ہے، مگر اس کے باوجود کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی اخلاقی، قانونی، سیاسی اور بین الاقوامی پوزیشن بہت مستحکم ہے۔ اس لیے معاشی دبائو میں آکر اپنی اخلاقی اور قانونی پوزیشن کو قربان کرنے، اس پر سمجھوتا کرنے، دب کر بات کرنے اور موقف کو ضُعف پہنچانے سے ہرصورت میں بچنا چاہیے۔
  • اکتوبر ۲۰۲۰ء میں گلگت بلتستان کو عارضی صوبہ بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں کو ہدایات دینا، مسئلہ کشمیر کی اصولی حیثیت کے لیے سخت نقصان دہ تھا۔ اسی لیے ہم نے ایسے کسی عمل سے برأت کا اعلان کرنے پر زور دیا تھا اور جموں و کشمیر کی وحدت برقرار رکھنے کا اعادہ کیا تھا۔
  • بہت واضح الفاظ میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ صاحب کے سامنے ہم یہ بات رکھیں گے کہ پاک بھارت مذاکرات، ہرصورت میں پاکستان کی منتخب حکومت اور دفترخارجہ کی ذمہ داری ہے، جسے مسلح افواج کے مشورے کی ضرورت ہرقدم پر رہے گی۔ لیکن خود افواجِ پاکستان کا ایسے بین الاقوامی مذاکرات کی ذمہ داری لینا، پاکستان، پاکستان کے موقف اور قومی اداروں کی ساکھ کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوگا۔
  • یہ بات ہمیں اس لیے کہنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ پاکستان کی پارلیمنٹ اور سول حکومت کی موجودگی کے باوجود ۲۰۰۸ء سے لے کر اب تک پہلے جنرل پرویز کیانی ڈاکٹرائن، پھر جنرل راحیل شریف ڈاکٹرائن اور اب جنرل باجوہ ڈاکٹرائن پیش کرنے کا عمل اور اس کی تشہیر یا ذہن سازی ہرگز مناسب قدم نہیں ہے۔ مسلح افواجِ پاکستان کی خدمات، شجاعت اور لازوال قربانیوں کی قدر ہر پاکستانی کے دل و دماغ پر نقش ہے۔ ہرادارے کی حدود کار، دستورِ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں طے شدہ معاہدۂ عمرانی کے مطابق واشگاف ہیں۔ ان حدود سے تجاوز کرنے سے جہاں نظم و ضبط، فساد سے دوچار ہوتا ہے، وہیں پر قومی ساکھ کو صدمہ پہنچتا ہے، اور اس کی قیمت پوری قوم کی آیندہ نسلوں کو ادا کرنا پڑتی ہے۔
  • ہمارے مقتدر اداروں اور میڈیا کو ایسے نیم دلانہ مذاکرات سے توقعات وابستہ کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ افسوس کہ مخصوص این جی اوز اور میڈیا پر کنٹرول رکھنے والی مخصوص لابی قوم کو اس اندھیری سرنگ میں دھکیلنے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے۔ حکومتی اداروں کو چاہیے کہ ایسے عناصر کی جانب سے کی جانے والی بے جا داد و تحسین کی حقیقت کو سمجھیں اور ایسے دام ہم رنگ میں اُلجھنے سے بچیں۔
  • پارلیمنٹ کی ’کشمیر کمیٹی‘ کی تشکیل نو کرتے ہوئے کمیٹی کی قیادت ذمہ دار، متحرک اور مسئلہ کشمیر کا درد رکھنے والے فرد کے سپرد کی جائے۔ جو متعلقہ معاملات پر پوری لگن اور تندہی سے ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے، سیاسی، سفارتی اور فکری قیادت کو ساتھ لے کر چلے۔ اس پلیٹ فارم کی تساہل پسندی کے نتیجے میں جو پہلے نقصان ہوچکا ہے، اس کا مداوا کرے۔

ہمیں مسئلہ کشمیرکے باب میں حکومت، حزبِ اختلاف، مسلح افواج اور میڈیا کے متعلقین کے اخلاص کے بارے میں شک نہیں۔ لیکن مخلص فرد بھی اگر درست چیز کو نامناسب انداز سے پیش کرے تو اس سے کئی بار ایسا نقصان پہنچتا ہے، کہ وہ دشمن کے حق میں بہت بڑا نفع بن جاتا ہے، اور پھر ہاتھ مَلنے کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔اسی لیے ہم: ’نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں‘۔

جناب وحیدالدین خاں کا انتقال ۲۱؍اپریل ۲۰۲۱ءکو ہوا۔ سانحۂ ارتحال کے اس موقعے پر سبھی حلقے ان کی انفرادیت کا تذکرہ کرتے ہوئے، تحسینی کلمات ادا کر رہے تھے۔ مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی، جو ۱۹۶۳ء یعنی تقریباً ۶۰برس سے کسی نہ کسی رنگ میں اُن کی تنقید کا نشانہ بنتے آرہے تھے، ان میں سے کسی فرد نے ان کے بارے میں کوئی اختلافی بات نہ کہی، بلکہ اسلامی اخلاقیات اور تہذیب وروایات کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے، ان کے صرف مثبت پہلوئوں کو بنیاد بنایا اور مغفرت کی دُعا کی۔ لیکن معلوم نہیں کیوں، انتقال کے ۲۴گھنٹے گزرنے سے بھی پہلے، جناب وحیدالدین خاں سے فکری قربت اور نیاز مندانہ وابستگی رکھنے والے جاوید احمد غامدی صاحب نے اس موقعے کو اپنے مخصوص ایجنڈے کی تشہیر کا ذریعہ بنانا شروع کیا اور پھر ان کے ہم نوائوں نے سوشل میڈیا و اخبارات میں اور ادارے ’المورد‘ نے بھی اس مصرع طرح پر گرہ لگاکر ’غزل گوئی‘ شروع کر دی۔

جاوید صاحب نے امریکا سے سوشل میڈیا پر اپنا جو پیغام نشر کیا، انھی الفاظ کو تین گھنٹے بعد مجیب الرحمٰن شامی صاحب کے ٹی وی پروگرام میں مختصراً دہرایا گیا اور پھر وہی پیغام زیادہ مرتب انداز سے، اپنی سرپرستی میں شائع ہونے والے ماہ نامہ اشراق میں بطور اداریہ شائع کیا۔ ملاحظہ کیجیے:

مولانا وحیدالدین خاں ایک بڑی غیر معمولی شخصیت تھے.... میری نسبت تو ان کے ساتھ یہ ہے کہ ہم ایک ہی استاد کے شاگرد ہیں.... انھوں نے استاذ امام امین احسن اصلاحی سے ان کے ابتدائی دور میں تعلیم پائی اور مجھے یہ شرف استاذ امام کے آخری دور میں حاصل ہوا۔ اُن [یعنی وحیدالدین صاحب] کا بڑا علمی کارنامہ یہ ہے کہ دورِ حاضر میں جو دین [اسلام] کی سیاسی تعبیر کی گئی ہے، انھوںنے خالص علمی سطح پر اس کی غلطی کی۔ ان کی کتاب تعبیر کی غلطی  کو پڑھ کر آپ یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ کیسا اعلیٰ درجے کا محققانہ ذوق رکھتے تھے۔ یہ جس کارنامے کی طرف میں نے توجہ دلائی ہے، یہ بڑا غیر معمولی ہے۔ ہمارے ہاں دین کی ایک تعبیر وہ ہے، جس کو ’صوفیانہ تعبیر‘ کہنا چاہیے۔ اس کے بڑے لوگوںمیں امام غزالی اور آخری زمانے میں شاہ ولی اللہ ہیں۔ اسی طرح ’دین کی سیاسی تعبیر‘ ہے۔ اس کے سب سے بڑے مفکر مولانا سیّد ابوالاعلیٰ صاحب مودودی ہیں۔ انھوں نے اس کو نہ صرف علمی بنیادیں فراہم کی ہیں، بلکہ اپنے پورے لٹریچر میں اِسی کو سامنے رکھ کر قرآن کی تفسیر کی ہے اور احادیث کے مدّعا و مطلب کو بیان کیا ہے۔[مولانا مودودی پر تنقید کا] یہ ایک بڑا کام ہے جو اُن [خاں صاحب] کے قلم سے صادر ہوا ہے۔ اس وقت بھی میںلوگوں سے کہتا ہوں کہ وہ اگر اعلیٰ درجے کے تنقیدی کام کو دیکھنا چاہیں تو ان کو کتاب تعبیر کی غلطی کو ایک علمی کتاب کی حیثیت سے پڑھنا چاہیے (ماہ نامہ اشراق، مرتبہ:منظورالحسن،مئی ۲۰۲۱ء، ص۴-۶)

یہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ خاں صاحب کے سانحۂ ارتحال پر جاوید صاحب نے کس مبالغہ آمیز طریقے سے ایک پہلو کو اُن کے سارے کام پر حاوی کرکے، اپنے ایجنڈے کی تشہیر کے لیے برتنا ضروری سمجھا۔ یاد رہے، خاں صاحب اور جاوید صاحب کی طرف سے جماعت اسلامی یا مولانا مودودی پر کی جانے والی ’کرم فرمائیوں‘ کا ترجمان القرآن میں کبھی نوٹس نہیں لیا گیا۔ مگر اُن کی جانب سے اٹھائی گئی اس حالیہ مہم کو مدنظر رکھتے ہوئے، چند معروضات پیش کرنا ضروری ہے۔

جاوید صاحب نے یہ بہت سنگین الزام عائد کیا ہے: ’’[دین کی] سیاسی تعبیر... کے سب سے بڑے مفکر مولانا مودودی نے اس [تعبیر یا فکر]کو نہ صرف علمی بنیادیں فراہم کی ہیں، بلکہ اپنے پورے لٹریچر میں اسی [ایک مقصد]کو سامنے رکھ کر قرآن کی تفسیر کی ہے اور احادیث کے مدعا و مطلب کو بیان کیا ہے‘‘(ص۵)۔ گویا کہ جاوید صاحب کا دعویٰ یہ ہے کہ مولانا مودودی نے جو لکھا، وہ محض اُن کے وہ ذاتی احساسات و خیالات ہیں، جس میں انھوںنے دین اسلام کو محض کسی سیاسی چیز کے طور پر پیش کیا ہے۔

l امر واقعہ یہ ہے کہ مولانا مودودی کے ہاں اسلام اپنی جامعیت کے ساتھ ہی جلوہ گر رہا ہے، جسے وہ اسلام کے ایمانی، فکری، عملی اور اطلاقی پہلوئوں کے ساتھ سمجھنے، عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کے لیے زندگی بھر جدوجہد کرتےرہے۔ الحمدللہ، اسلام کی اسی کلیّت (totallity)کو انھوںنے دنیا کے سامنے پیش کیا اور اسلام کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے سے اجتناب پر زور دیا۔

l مولانا مودودی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ’’اسلام کا مقصد صرف اسلامی حکومت قائم کرنا ہے‘‘۔ اسی لیے مولانا مودودی نے سیاق و سباق سے کاٹ کر جملے پیش کرنے والی بیمار ذہنیت کی جڑ کاٹنے کے لیے دستور جماعت اسلامی کی دفعہ ۴کی تشریح کے ذیل میں مستقل طور پر لکھ دیا ہے:

اقامت ِ دین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے، بلکہ پورے دین کی اقامت ہے، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے۔ نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ سےہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیرضروری نہیں ہے۔ پورے کا پورا اسلام ضروری ہے.... ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تجزیہ و تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہر مومن کو اسے بطور خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے، اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہو سکتا، اہل ایمان کو مل کر اس کے لیے سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔

l مولانا مودودی کے نزدیک نہ تو کوئی ’صوفی اسلام‘ ہے اور نہ کوئی ’سیاسی اسلام‘ بلکہ وہ پورے اسلام ہی کو اسلام کہتے ہیں اور ایسی تقسیم روا رکھنے کو مطلق جاہلیت سے منسوب کرتے ہیں۔ گذشتہ دو صدیوں سے مغربی توسیع پسند سامراجی طاقتوں نے اپنی جارحیت کا مقابلہ کرنے والے جاں نثار مسلمانوں کو برے ناموں سے موسوم کرنے کا دھندا شروع کیا، اور اس مقصد کے لیے خود مسلمانوں ہی سے اپنے ہم نوا کارندوں کو طاقت، وسائل اور پشت پناہی سے نوازا۔ مغربیوں نے اس گھنائونے کھیل کے لیے اپنے خلاف کھڑے ہونے اور مزاحمت کرنے والے مسلمانوں کو کبھی ’وہابی اسلام‘ سے منسوب کیا، کبھی ’وحشی اسلام‘ کے ماننے والے کہا اورپھر ’رجعت پسند اسلام‘ کے علَم بردار قرار دیا۔ گذشتہ ۳۰برسوں کے دوران منفی اصطلاح سازی میں تیزی لاتے ہوئے،’غصّے اور انتقام والا اسلام‘، ’انتہا پسند اسلام‘ اور ’بنیاد پرست اسلام‘ سے مربوط کرنا شروع کیا۔ خصوصاً نائن الیون کے بعد، مغربی سامراج اور ان کے دیسی ہم نوائوں نے ہر اس فرد، ادارے اور مزاحم کار کو ’سیاسی اسلام‘ سے موسوم کر دیا، جس نے ان سفاک اور ظالم قوتوں کی خدائی، انسانیت کی تذلیل اور وحشیانہ قتل و غارت گری کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ واضح رہے کہ خود امام غزالیؒ اور شاہ ولی اللہؒ کی نسبت سے ’صوفی اسلام‘ کی نمایندگی کا جو دعویٰ جاوید احمد غامدی صاحب نے کیا ہے، اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ شاہ ولی اللہ ؒکی معرکہ آرا کتاب ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء میں خصوصیت سے اسلامی تاریخ کے جس سانحے کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے، وہ اسلام کے سیاسی نظام اور اسلامی ریاست پر بادشاہت کے غلبے کی نشان دہی پر مشتمل ہے۔ اسی طرح شاہ صاحبؒ اسلام کے اصل سیاسی نظام کو اسلام کے احیا کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔ یہی وہ بات ہے جو اسلام کے مجموعی پیغام،حکم اور مزاج کے مطابق مولانا مودودی نے عصرحاضر میں بیان کی ہے۔ اسی طرح شاہ ولی اللہؒ نے ہندوئوں کی عظیم تر مرہٹہ سلطنت کے قیام کا خطرہ بھانپتے ہوئے، احمد شاہ ابدالی کو ہند پر حملے کی دعوت دی، جس کے نتیجے میں ۱۷۶۱ء میں پانی پت کی تیسری جنگ ہوئی اور مرہٹوں کی پسپائی سے ہندو سلطنت کا خواب بکھر کر رہ گیا۔ کیا کوئی ’صوفی اسلام‘ کا علَم بردار نابغہ، اسلامی نظام سیاست کے موضوع پر لکھتا اور کھلے دشمن کے استیصال کے لیے مسلمانوں کی فوج کو دعوت دیتا ہے؟

lمولانا مودودی نے رضائے الٰہی کے حصول کے لیے،معاشرے میں ہمہ پہلو جدوجہد کی ضرورت پر زور دیا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ ، خلفائے راشدینؓ اور صلحائے اُمت کے ہاںبکمال وتمام موجود ہے، اور جسے امتداد زمانہ، خصوصاً گوری اقوام کی غلامی کے ماہ و سال نے دھندلادیا تھا۔ اس مقصد کے لیے جہاں مولانا مودودی ایمان کی آبیاری کی طرف متوجہ کرتے ہیں، وہیں توحید کے مفہوم سے آشنائی اور توحید خالص پر کاربند رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ پھر انقلابِ قیادت، تطہیر افکار اور تعمیر کردار کے ذریعے دعوتِ دین کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے ابھارتے ہیں۔ مولانا مودودی، جہاد کے تصورِ اسلام کو روشن الفاظ میں پیش کرتے ہیں اور سامراجی آقائوں کے سامنے اسلام کا پیغام پیش کرنے میں کسی مداہنت پسندی، ترمیم پسندی اور بزدلی کو قریب نہیں پھٹکنے دیتے۔ دراصل یہی ہے وہ جرأت مندی، جو مولانا مودودی کو نشانہ بنانے والوں کو بے چین کرتی ہے۔

l مولانا مودودی نے اسلام کو چھوٹے چھوٹے خانوں میں پیش کرنے کے بجائے، اسے جڑ، تنے، ٹہنیوں، پتوں، پھل اور سائے سمیت پیش کیا ہے۔ اس روایت میں تزکیہ نفس بھی آتا ہے اور نظام زکوٰۃ و نظام خدمت عامہ بھی راہ پاتا ہے۔ پھر فتنہ جوئوں کی فکری ریشہ دوانیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے مولانا مودودی کے فکری گلشن میں علم، تحقیق اور دلیل برگ و بار لاتے ہیں۔ نیز نظام معیشت و نظام سیاست اور نظام عدل، گویا عصرحاضر میں اسلامی معاشرے اور ریاست کا خاکہ  جلوہ گر ہوتا ہے۔ چونکہ جدید سامراجی قوتیں، اسلامی ریاست و سیاست کے تصور سے خائف ہیں، اس لیے وہ اسلامی نظامِ حیات سے نسبت رکھنے والوں کو ہدف بنانے پر خاصے وسائل صرف کر رہی ہیں، اور ان کی اس ہمہ پہلو یلغار کا نشانہ مولانا مودودی بھی ہیں۔ بلاشبہہ دشمن کی اس جتھہ بندی کو بہت سے چرب زبان مقرروں کی کمک میسر ہے۔ مگر کاٹھ کی یہ ہنڈیا زیادہ دیر تک چولھے پر چڑھی نہیں رہ سکتی۔ جناب سرسید احمد خاں، مرزا غلام احمد، غلام احمد پرویز وغیرہ کی سالاری میں نام نہاد مذہبیات کا حشر ہمارے سامنے ہے۔

تین مزید باتیں عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے:

پہلی بات یہ ہے کہ جاویداحمد صاحب کی جانب سے، مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی شاگردی کا دعویٰ ایک پامال افسانے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ چند درجن دروس میں شریک ہونے سے کوئی فرد، شاگرد نہیں قرار پاتا۔ دینی روایت میں شاگردی اسی وقت منسوب ہوتی ہے، جب استاد خود اپنے اطمینان کے بعد اجازت عطا فرمائے۔ حالانکہ موصوف کے حوالے سے   مولانا اصلاحی صاحب کے ہاں پائی جانے والی بے زاری مولانا سے ملنے والوں پر واضح ہے، جس کا انھوںنے متعدد افراد کے سامنے وقتاً فوقتاً اظہار بھی فرمایا۔ اس ضمن میں مولانا اصلاحی صاحب نے خود میرے استفسار پر اپنا مافی الضمیر کھل کر بیان فرمایا۔ یہ بھی عجیب شاگرد ہیں کہ استاد امین احسن اصلاحی صاحب تو تدبر قرآن میں اسلامی ریاست کے اُمور پر معرکہ آرا مباحث لکھیں، اور پھر اسلامی ریاست  کتاب سپردِقلم کریں، اور اس پر ناز بھی کریں، مگر ’شاگرد‘ اسلام میں کسی ریاست کے عملی وجود ہی سے انکار کرے؟ سچ بات ہے کہ مولانا اصلاحی اور مولانا فراہی صاحبان کو جتنا نقصان، جاوید صاحب کے افسانوی دعوائےشاگردی نے پہنچایا ہے، اس کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ لوگ موصوف کی باتیں، دعوے اور فیصلہ کن فتوے سن سن کر یہ سوچتے ہیں کہ ’’ہر دم تبدیل ہوتے ایک آزاد خیال ’شاگرد‘ کا  یہ حال ہے، تو اس کے استاد یقینا اس سے بھی زیادہ اسلام میںپیوندکاری و تحریف کے رسیا اور ’چلوتم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘ پر عمل کرنے والے ہوں گے۔ اس لیے سننے کو شاگرد کے دعوے ہی کافی ہیں، استادوں کو چھوڑو‘‘۔ اور سچ بات یہ ہے کہ جاوید صاحب کے فکری قائد اور نسبتی استاد مولانا اصلاحی صاحب نہیں بلکہ مولانا وحیدالدین خاں صاحب ہی ہیں۔

محترم مولانا وحید الدین خاں صاحب کئی حوالوں سے چونکہ بھارت میں مسلمانوں کی مذمت اور طعنہ زنی سے منسوب رہے ہیں، غالباً اسی لیے بھارتی مقتدر قوتوں کے ہاں وہ قابلِ قدر سمجھے جاتے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ ۶ستمبر۲۰۱۵ء کو اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا (ISNA: اسنا) نے اپنے ۵۲ویں سالانہ کنونشن منعقدہ شکاگو میںمولانا وحیدالدین خاں صاحب کو مدعو کیا۔ اس پر امریکا کی یونی ورسٹی کے ایک پروفیسر ایمریطس صاحب نے ’اسنا‘ انتظامیہ سے دریافت کیا کہ ’’آپ نے خاں صاحب کو کس مناسبت سے دعوتِ خطاب دی ہے، حالانکہ ان کے موقف اور رویے سے خود بھارتی مسلمانوں میں بے زاری پائی جاتی ہے؟‘ جواب میں ’اسنا‘ انتظامیہ نے بتایا:’’یہ ہمارا تجویزکردہ نام نہیں، بلکہ جب ہم نے کنونشن کا پروگرام ترتیب دیا تو امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے فرستادوں نے مقررین کی فہرست دیکھ کر کہا کہ ’ایک مقرر ہماری طرف سے رکھیں‘۔ جب ان سے پوچھا گیا: ’کون صاحب؟‘ تو انھوںنے کہا: ’انڈیا سے وحیدالدین خاں صاحب‘۔ ۲۰۱۶ء کے اکتوبر میں پروفیسر ایمریطس پاکستان آئے تو انھوں نے براہِ راست مجھے یہ تفصیل بتائی۔ اس واقعے سے خاں صاحب کو کسی خانے سے منسوب کرنا مطلوب نہیں ہے، بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ ان کی وہ کون سی ادا تھی، جو افغانستان اور عراق میں مسلمانوں پر تباہی و بربادی مسلط کرنے والے امریکی سامراجیوں کو پسند آئی تھی؟

تیسری بات یہ ہے کہ جاوید صاحب کی نسبت سے تحقیق و تجزیہ کے جس بلندمعیار کا بہت شہرہ سنایا جاتا ہے، اس کہانی سے عام آدمی واقعی مرعوب ہوتا ہے۔ لیکن انھوں نے خان صاحب کی جس کتاب کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے ہیں،اس کتاب پر ایک تبصرہ ہم آیندہ کسی اشاعت میں طبع کریں گے، جس سے موصوف کے ذوقِ مطالعہ اور تحقیقی معیار کی بلندی کے بارے میں خود قارئین اندازہ لگالیں گے۔

یہ امر واقعہ ہے کہ جلد بازی میں اور خوب سوچ بچار کے بغیر مسلط کیے گئے فیصلے قوموں اور ملکوں کی زندگی پر دُور رس منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یوں بظاہر کوئی چھوٹا سا فیصلہ ،بعض اوقات ملکوں کے مستقبل کا نقشہ بدل دیتا ہے۔جموں وکشمیر کاقضیہ، جدید بین الاقوامی تعلقات کی دنیا میں ایک دہکتا ہوا انگارہ ہے۔ اقوام متحدہ کی بے بسی، عالمی طاقتوں کی ظالمانہ لاتعلقی اور بھارت کی عہدوپیمان شکنی اور کشمیر کے مظلوم عوام پر بدترین فوج کشی نے دنیا کے سامنے ایسا منظر پیش کیا ہے، جس پر ہر درد مند انسان خون کے آنسو روتا ہے۔
بھارت میں برسراقتدار راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور بی جے پی کی نسل پرست فسطائی حکومت نے اس ماحول کو حددرجہ درد ناک بنا دیا ہے۔ اسی پس منظر میں عالمی اداروں کی بے حسی سے شہ پا کربھارتی حکومت نے ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو ایک تباہ کن یلغار کے ذریعے پورے جموں و کشمیر کو ایک قتل گاہ اور بدترین بڑی جیل میں تبدیل کر دیا۔اس جارحیت پر حکومت پاکستان کی ذمہ داری تھی کہ پوری قوت سے مسئلے پر عالمی راے عامہ کو متحرک کرتی۔ مگر روایتی سستی اور ترجیحات کی دیرینہ خرابی آڑے آئی۔ بجائے اس کے کہ بھارتی عہد شکنی اور جموں و کشمیر کی وحدت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی روش کے خلاف سراپا احتجاج بن کر دنیا کو ہم نوا بنایا جاتا، پاکستان میں ایک دوسرا ہی منظر ابھرتا دکھائی دیتا ہے، اور وہ ہے شمالی علاقہ جات، یعنی گلگت و بلتستان کو پاکستان کا عارضی صوبہ بنانے کا خطرناک منصوبہ۔ اس ضمن میں ہم نہایت درد مندی سے برسرِاقتدار اور فیصلہ سازی کے ذمہ دار سرگرم افراد اور اداروں کو متنبہ کرتے ہوئے ، بلاکم وکاست اپنی رائے پیش کر رہے ہیں:
        تمام بین الاقوامی، سیاسی، تاریخی اور جغرافیائی شواہد کے مطابق شمالی علاقہ جات ، ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ہیں۔ جموں وکشمیر ایک ایسی وحدت ہے جس میں لداخ ، جموں ،وادیِ کشمیر اور شمالی علاقہ جات شامل ہیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت سے لے کر آج تک، پاکستان کا یہی موقف ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی اسی پوزیشن اور قومی اتفاق راے کی بات کی ہے، اور آزاد کشمیر اسمبلی نے تو ۲۰۱۴ء میں ایک متفق علیہ قرارداد کے ذریعے نہ صرف اس کا اعتراف و اظہار کیاہے ، بلکہ اسے پاکستان اور کشمیری عوام کی جانب سےمسئلہ کشمیر پرموقف کا لازمی حصہ قرار دیا ہے، نیز اسی موقف کو اقوام عالم اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے تسلیم کر رکھا ہے۔
        ۱۶جنوری ۱۹۴۸ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ۲۲۸ ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، تب پاکستان کے وزیرخارجہ سرظفراللہ خاں نے کہا تھا:
The population of Kashmir is distributed community as follows: in Kashmir proper, apart from Jammu, 93.5 percent are Muslims. 62 percent of the population of Jammu are Muslims. Gilgit, which is the high mountain in region is entirely Muslim. The total area of the state, which is largely composed of high mountains and barren hills, is 82000 square miles.
کشمیر کی آبادی اس طرح سے ایک منقسم آبادی ہے: جموں کے علاوہ کشمیر میں ۹۳ء۵ فی صد مسلمان ہیں۔ جموں کی ۶۲ فی صد آبادی مسلمان ہے۔ گلگت جو بلندپہاڑی خطہ ہے، مکمل طور پر مسلمان ہے۔ ریاست کا کُل رقبہ جو بڑے پیمانے پر اُونچے اوربنجرپہاڑوں پر مشتمل ہے، ۸۲ہزارمربع میل ہے۔
        ریاست جموں و کشمیر کے شمالی علاقہ جات ۷۲ ہزار۹سو ۷۱ مربع کلو میٹر سے زیادہ وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں،جن کی آبادی ۱۸ لاکھ ہے۔ اورجب بھی جموں و کشمیر میں استصواب راے ہوا، تو یہ سبھی ووٹ ان شاء اللہ، پاکستان سے الحاق کے حق میں جائیں گے۔
        پیپلز پارٹی کے چوتھے دور حکومت (۲۰۰۸ء-۲۰۱۳ء) میں صدر آصف علی زرداری صاحب نے اگست ۲۰۰۹ ء کے دوران میں’ گلگت بلتستان امپاور منٹ اینڈ سیلف گورنس‘ ، کے نام سے داخلی خود مختاری ، کا حکم نامہ جاری کیا ۔ اس حکم نامے کے تحت’ شمالی علاقہ جات‘ کو ’گلگت بلتستان‘ کا نام دیتے ہوئے، گورنر اور وزیر اعلیٰ کے انتظامی عہدے تفویض کیے، جب کہ قانون سازی و مالیاتی اختیارات اس کی مجوزہ منتخب اسمبلی کو دیے گئے، اور اس کی کونسل کا چیرمین وزیر اعظم پاکستان کو قرار دیا گیا۔
        ذرا پیچھے چل کر دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۷۲ء میں ’شملہ معاہدے‘ کے بعد بیوروکریسی نے تب صدر پاکستان جناب ذوالفقارعلی بھٹو کو بھی یہ تجویز دے کر قائل کرلیا تھا کہ ’’گلگت بلتستان کو الگ صوبہ بنایا جائے‘‘۔ لیکن جیسے ہی انھوں نےاس تجویز پر عمل درآمد کے منفی اثرات پر جوابی دلائل سنے تو اس تجویز پر پیش رفت روک دی۔ اب انھی سے وابستگی کی دعوے دار پارٹی ایک غلطی کرنے کے بعد، اپنی غلطی کا ازالہ کرنے سے گریز کررہی ہے۔
        جلدبازی میں اٹھائے گئے اس قدم پر آزاد کشمیر ، مقبوضہ جموں و کشمیر اور خود شمالی علاقہ جات کی بیش تر سیاسی و سماجی پارٹیوں نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا۔
       حکومت پاکستان نے ، خود پاکستان کے کئی علاقوں کی طرح، ا س علاقے کے لوگوں کے بھی سیاسی ، سماجی ، تعلیمی ، معاشی اور صحت عامہ کے حقوق کی بجا آوری سے پہلو تہی کا رویہ اختیار کیے رکھا تھا۔ جب یہاں کے شہری معاشی تنگ دستی پر چیخ اُٹھے تو اس کا ملبہ آزاد کشمیر حکومت پر ڈال دیا، اور یہ فلسفہ تخلیق کیا گیا کہ’ پاکستان اس علاقے کو ضم کرے گا تو سماجی، عدالتی، دستوری اور معاشی حالات بہتر ہو جائیں گے‘۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بے معنی اوربودا عذر تھا۔ پیپلزپارٹی حکومت کے عاجلانہ فیصلے کے گیارہ برس گزرنے کے باوجود، وہاں حالات جوں کے توںہیں۔ حکومت کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ آزاد کشمیر اور اس سے وابستہ شمالی علاقہ جات کی تعمیر وترقی کے لیے آزاد کشمیر کی فراخ دلانہ مدد کرتی، لیکن افسوس کہ کم و بیش ہرحکومت نے اس معاملے میں سرد مہری کا رویہ اختیار کیا، اور بجائے اس کے کہ خرابی کو دُور کیا جاتا، ایک غلط راستے پر چلنے کے حیلے بہانے تلاش کرنے شروع کر دیے۔
        بلاشبہہ گلگت بلتستان اور اس کے ساتھ آزاد کشمیر کے سبھی حصوں کے احساسِ محرومی کو ختم ہونا چاہیے۔ لیکن خاص طور پر اس علاقے کی معاشی محرومیوں کو دُور کرنے کے نام پر اختیار کیا جانے والا یہ ایک انتہائی نامناسب راستہ ہوگا، جس سے مسئلہ کشمیر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ سوال یہ ہے کہ قضیۂ کشمیر اور اس کے بارے میں پاکستان کے اور اسٹرے ٹیجک موقف کو نقصان پہنچائے بغیر یہاں کے عوام کو معاشی، سیاسی اورسماجی طورپر کیوں اُوپر نہیں اُٹھایا جاسکتا؟ اگرپس ماندہ علاقوں کی بہتری کےنام پر دستورِ پاکستان سے ہٹ کر حل تلاش کرنے کے لیے ایسی روایت اپنا لی گئی تو معاملات گرفت سے باہر نکل جائیں گے۔ جس طرح آزاد کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بلکہ وہ مسئلہ حل ہونے تک پاکستان کی زیرنگرانی ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان بھی آزاد کشمیر کا حصہ ہونے کی حیثیت سے یہی مقام رکھتا ہے، اور ان کے مستقبل کا فیصلہ مسئلہ کشمیر کے حل سے منسلک ہے۔
        پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ’ ’عالمی مالیاتی ادارے یا بڑے سرمایہ کار یہاں سرمایہ لگانے سے گریزاں ہیں۔ ان کا اعتراض دُورکرنے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے‘‘۔ یہ عذر تو حددرجہ پست ہے۔ کیا کسی معاشی منصوبے کی تکمیل کے لیے ملک کے سیاسی اور تاریخی موقف کی قربانی دینا کوئی معقول راستہ ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ سرمایہ کاری کو قومی مفاد کے تابع رکھتے ہوئے قابلِ قبول بنایا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے اَن تھک سفارتی، مذاکراتی اورعلمی سطح پر تگ ودو کی ضرورت ہے،اور یہ کام ہماری اعلیٰ سول اور سیاسی قیادت کو کرنا چاہیے۔
مسئلے کی نزاکت اور غورطلب پہلو
یہ ہے وہ پس منظر، جس میں گذشتہ چند ہفتوں سے راولپنڈی میں چیف آف دی آرمی اسٹاف کی زیر صدارت پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں سے مذاکرات کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جس میں جموں وکشمیر کے شمالی علاقہ جات، یعنی گلگت بلتستان کو عبوری طور پر پاکستان کے پانچویں صوبے کی شکل دینے کی تجویز پر عملاً ڈکٹیشن دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ضمن میں ہم یہ اُمور وضاحت سے بیان کرنا چاہتے ہیں:
        یہ بات صاف لفظوں میں ہرخاص و عام پر واضح رہنی چاہیے کہ پاکستان میں کاروبارِ ریاست و حکومت انھی اصولوں کے مطابق چلا یا جائے گا، جو دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں طے شدہ ہیں۔ مطلب یہ کہ اس نوعیت کے امور منتخب حکومت، پارلیمنٹ اور دستور کے تابع زیر بحث آئیں گے اور تمام اداروں کو اپنے حدود کار میں ریاست اور قوم کی خدمت کی بجاآوری کرنا ہوگی۔ انتظامیہ ، مقننہ ، عدلیہ ، عسکری اداروں اور سول ملازمین کو متعین شدہ دائرے میں خدمات انجام دینا ہوں گی، اور اسی چیز کا حلف، دستور کے مطابق سبھی ذمہ داران ریاست نے اٹھایا ہے۔  
         چیف آف دی آرمی اسٹاف ، دفاع وطن کے حوالے سے ایک بڑے محترم اور حددرجہ حساس منصب پر فائز ہیں۔ انھیں سیاسی امور کی بحثوں میں شرکت سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اپنی آرا ، وزارت دفاع کی وساطت سے یا دستور میں طے شدہ سلامتی کے اعلیٰ فورم کے ذریعے حکومت کو پیش کرنی چاہییں۔ پھر ان اُمور کو طے کرتے وقت حکومت ،وزارتِ خارجہ، وزارتِ داخلہ اور وزارت قانون کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکمت عملی طے کرتے وقت بجاطورپر مسلح افواج کے مشوروں اور آرا کو بھی زیر غور لائے اور کھلے عام بحث کے بعد مناسب فیصلے کیے جائیں، جن پر ان کی روح کے مطابق، مگر لازمی طور پر دستورِ پاکستان کے دائرے میں رہتے ہوئے عمل کیا جائے۔
       اس ضمن میں بعض ’دانش مندوں‘ کا یہ کہنا کہ ’’قومی مسلح اداروں نے تو اس معاملے میں محض سہولت کاری کی ہے، کیونکہ حکومت اور اپوزیشن میں کھلا مکالمہ نہیں ہورہا‘‘۔ یہ بہت عجیب اور نہایت کمزور مفروضہ ہے۔اس کا مطلب ہے کہ کل سپریم کورٹ اپنا کام چھوڑ کر سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں سے مذاکرات کرکے کسی ’اتفاق راے‘ کو ڈھو نڈنے نکلے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ اگر بدقسمتی سے موجودہ حکومت ضد اور اَنا کے باعث اپنی منصبی ذمہ داری ادا کرنے،سب کو سننے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے سے معذور ہے تو اس کا حل نئے     قومی انتخابات ہیں نہ کہ ریاستی آئینی ڈھانچا تلپٹ کر دینا اور غیرآئینی روایات قائم کرناکوئی معقولیت ہوگی۔
        ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے ’جوں کے توں‘ (stand still) منظر نامے کو تبدیل کرنا اوراس سے چھیڑ چھاڑ کرنا، بھارتی منصوبہ سازوں کی پرانی خواہشات کی تکمیل ہوگا۔ پاکستان کا اصولی موقف یہ ہے کہ ’’اقوام متحدہ کی متفقہ قرار داد وں کے مطابق جموں و کشمیر کے عوام اپنے مستقبل کا  فیصلہ کریں گے‘‘۔البتہ بھارت کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ ’’پاکستان ، اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے سرِ مو انحراف کر کے ، جموں و کشمیر کی وحد ت کے ٹکڑے بانٹنے کی میز سجائے‘‘۔ پاکستان نے بھارت کی اس چال کو ہمیشہ ناکام بنایا اور بھارت نے ہر بار یہی کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان ،سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے متن سے باہر نکلے اورپھر بھارت یہ اعلان کرے کہ ’’پاکستان نے قرار دادوں سے دست برداری اختیار کر لی ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس طرح پاکستان کے اصولی موقف کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا، بلکہ موقف سرے سے ختم ہوجائے گا۔
         اگرچہ پاکستان کے بعض عجلت پسند سفارت کاروں نے مختلف اوقات میں مسئلہ کشمیر پر نہایت خطرناک بیان دیے ، لیکن ان افراد کی حماقتوں پر پاکستان کے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف صاحب بازی لے گئے۔ انھوں نے ۱۸ دسمبر ۲۰۰۳ء کو عالمی نیوز ایجنسی رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’’پاکستان، اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو ایک طرف رکھ کر بھارت سے مسئلہ کشمیر پر بات چیت کرنا چاہتا ہے ‘‘، اور پھر اسی آمر مطلق اور خود ساختہ حاکم نے پاکستان آبزرور کو انٹر ویو دیتے ہوئے انکشاف کیا:’’ میں نے بھارتی وزیرخارجہ نٹور سنگھ سے کہا ہے کہ آیئے، مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے سانچے سے باہر رکھ کر ایک سال کے اندر حل کر دیتے ہیں‘‘۔ جواب میں نٹور سنگھ نے کہا:’’ہم کو اس قدر جلدی نہیں ہے‘‘۔ (روزنامہ پاکستان آبزرور،۳۱ جولائی ۲۰۰۵ء)۔ اسی احمقانہ مہم جوئی کو تب وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری صاحب نے ’آؤٹ آف باکس‘کوشش قرار دیا۔ حالانکہ پاکستان کے کسی بھی حاکم کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ، کشمیر کے عوام کو نظرانداز کر کے ایسا کوئی قدم اٹھائے، کوئی عہدوپیمان کرے جو مسلّمہ موقف کے برعکس ہو۔  
         جنرل پرویز مشرف نے نہ صرف ایسے بیانات دے کر، بلکہ جموں و کشمیر کے متنازع علاقے میں بھارت کو باڑ لگانے کی اجازت دے کر، اور عملاً بھارتی فوج کی مدد کرکے کشمیر اور پاکستان کے عوام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ افسوس کہ اسی نوعیت کی منصوبہ سازی اب گلگت بلتستان کی ’معاشی بہتری‘ وغیرہ کے نام سے نئے صوبے کی صورت میں سامنے آرہی ہے۔ جنرل مشرف کا قدم مسئلہ کشمیر کی اصولی حیثیت پر خود کش حملہ تھا، تو  اب دباؤ ڈال کر یہ فیصلہ لینا، پاکستان اور کشمیری عوام کی تاریخی جدوجہد سے غداری کی طرف لے جائے گا، جس سے واپسی کا کوئی امکان نہیں ہو گا۔  
        اس منصوبے کے پیش کاروں کی طرف سے یہ ایک بالکل بے معنی عذر پیش کیا جا رہا ہے: ’’سی پیک‘‘ (چین پاک معاشی راہداری) کے لیے چین بھی یہ چاہتا ہے کہ شمالی علاقہ جات کو یک طرفہ طور پر پاکستان کا حصہ قرار دیا جائے‘‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوامی جمہوریہ چین کے پالیسی ساز ایسا غیرمنطقی اور غیر آئینی مطالبہ نہیں کر سکتے کہ جس سے پاکستان کے قومی مفادات پر ضرب کاری لگے اور جموں و کشمیر کی ۷۳ سال پر پھیلی طویل، دلیرانہ جدوجہد اور مظلومانہ قربانیوں کی تاریخ دریابرد ہو جائے۔ آخر ’شاہراہ قراقرم‘ (KKH) اسی ’جوں کی توں‘ صورت حال میں جموں و کشمیر کے متنازع علاقے سے گزر رہی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ’شاہراہِ قراقرم‘ سے بہتر شاہراہ کی تعمیر نے کون سے اور کس طرح سے نئے تقاضے لا کھڑے کیے ہیں کہ بین الاقوامی اور قومی معاملات کوتہہ و بالا کردیا جائے؟یاد رہے ۲۰۰۹ء میں عوامی جمہوریہ چین نے کشمیر ی باشندوں کی چین آمد کے لیے اپنی ویزہ پالیسی تبدیل کرتے ہوئے فیصلہ کیا تھا ، ’’جموں و کشمیر کے لوگ بھارتی پاسپورٹ کے بجائے سادہ کاغذ پر حلف نامے کے ذریعے چین کا ویزا لے سکتے ہیں‘‘۔ اس پر بھارتی حکومت نے احتجاج کیا تو چین نے بڑا مختصر جواب دیا: ’’کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے ، جو بھارتی یونین کا حصہ نہیں ہے‘‘(روزنامہ The Nation ، ۱۰؍ اکتوبر ۲۰۰۹ء)۔
        اگر پاکستان کے مقتدر حلقوں نے ، گلگت بلتستان کو صوبائی درجہ دے کر عارضی [اورپھر مستقل] صوبہ بنانے کا فیصلہ کر لیا، تو اس طرح بین الاقوامی سرحد تبدیل ہو جائے گی، جس کے نتیجے میں پوری لائن آف کنٹرول، خودبخود بین الاقوامی سرحد میں ڈھل جائے گی۔ اس صورت میں سارے علاقے سے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین ہٹ جائیں گے، اور ان مبصرین کو ہٹانا بھارت کا پرانا مطالبہ ہے۔ یہ سب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر ۹۱ (۱۹۵۱)اور قرارداد ۱۲۲، ۱۲۶ (۱۹۵۷) کے یکسر منافی ہوگا، جو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے انہدام کا سبب بنے گا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت بھی مقبوضہ جموںو کشمیر کی صورتِ حال پر عالمی عہدوپیمان کو یکسر توڑنے کا اعلان کرکے، مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ بنانے اور آزاد کشمیر پر دست درازی کے جواز کے لیے حکمت عملی وضع کرے گا۔ پاکستان اپنی ناقابلِ فہم عجلت پسندی سے بین الاقوامی تحفظ کے تمام وعدوں سے بھی محروم ہوجائے گا۔ یوں ایک گناہ بے لذت کے طور پر کشمیر کا مسئلہ ، بھارتی خواہشات کے مطابق، ٹکڑے ٹکڑے ہو کر دفن ہو جائے گا۔
        ایک مغالطہ یہ بھی پھیلایا جاتا ہے کہ ’بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برعکس رویہ اختیار کرکے کشمیر کی انتظامی اور آئینی حیثیت کو تبدیل کر دیا ہے، تو جواب میں اگر پاکستان بھی آزادکشمیر کے ایک محدود علاقے میں ایسا کچھ کرلے تو کون سی قیامت آجائے گی؟‘‘ یہ مفروضہ بھی سخت شرانگیزی کا شاخسانہ ہے۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو وہ یک طرفہ طور پر بین الاقوامی عہدوپیمان سے رُوگردانی کررہا ہے، مگراس کے ایسے منفی رویے سے قراردادیں اور عالمی فیصلے تبدیل نہیں ہوئے۔ لیکن جب دوسرا فریق بھی اسی عہدشکنی کا راستہ اختیار کرے گا تو قراردادوں کی بنیاد ڈھے جائے گی اور عالمی عہدوپیمان کی ساکھ ختم ہوجائے گی۔ مسئلہ کشمیر کی متنازع بین الاقوامی حیثیت صرف اور صرف تقسیم ہند کے اصولوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بنیاد پر قائم ہے، اور بھارت یہ چاہتا ہے کہ ان بنیادوں کو ختم کر دیا جائے۔
        جموں و کشمیر کی وحدت پر اس دست درازی کو زیربحث لاتے ہوئے کشمیر کی مزاحمتی قیادت، جس میں سیّدعلی شاہ گیلانی، محمد یاسین ملک، میرواعظ عمرفاروق اور دوسرے محترم قائدین شامل ہیں، ان سب کی متفقہ رائے ہے کہ ’’گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی کوئی بھی تجویز ناقابلِ قبول ہے۔ کیونکہ یہ قدم جموں و کشمیر کی وحدت اور بین الاقوامی پوزیشن کو تبدیل کرنے کے مترادف ہوگا‘‘۔اسی طرح آزادکشمیر کی قیادت، جس میں مسلم لیگ نون، مسلم کانفرنس، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی شامل ہیں، انھوں نے ۲۰۱۴ء میں آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی میں متفقہ قرارداد منظور کرکے اس ’پانچویں صوبے‘ کی تجویز کو مسترد کردیا تھا۔ اگر بھارت نے دھونس جماکر ایک غلط قدم اُٹھایا ہے تو اس کی غلطی کے جواب میں پاکستان کی جانب سے غلطی کا ارتکاب کہیں زیادہ بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہوگا۔   
        ہم ذرا ماضی میں جائیں تومعلوم ہوتا ہے کہ اکتوبر ۲۰۱۵ء میں نون لیگ حکومت کی قائم شدہ ’سرتاج عزیز کمیٹی‘ نے ’گلگت بلتستان کی پاکستان میں اس طرح شمولیت کی تجویز دی تھی کہ ’’این ایف سی، ایکنک وغیرہ کے ساتھ پاکستانی پارلیمنٹ میں بھی یہاںسے نمایندے لیے جائیں اور دیگر صوبوں کے مساوی حیثیت دی جائے‘‘۔ یوں پانچویں صوبے کا غلغلہ بلند ہوا، تو جموںو کشمیر کے طول و عرض میں اضطراب پھیل گیا اور کشمیری قیادت کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ جواب میں وزیراعظم محمدنواز شریف نے ۱۶مارچ ۲۰۱۶ء کو جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک کے نام خط میں وضاحت کی: ’’پاکستان، گلگت بلتستان سے وابستہ حساس اُمور سے پوری طرح واقف ہے۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان، جموں و کشمیر کے تنازع پراپنے اصولی موقف پر کبھی سمجھوتا نہیں کرے گا، وہی موقف کہ جو سلامتی کونسل کی قراردادوں پرمبنی ہے‘‘۔ { FR 1176 }
        پاکستان کے دستور کی دفعہ ۲۵۷ میں قومی پالیسی اور اس کے بنیادی اجزا کو نپے تلے الفاظ میں درج کردیا گیا ہے۔ اس کی روشنی میں گلگت اور بلتستان کو کسی شکل میں بھی پاکستان کا ایک صوبہ بنانا، اوروہاں سے پارلیمنٹ میں نام نہاد نمایندگی دینا، دستورِ پاکستان کی کھلی کھلی مخالفت اورقضیۂ کشمیر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کا ذریعہ ہوگا۔ دستور کے الفاظ ہیں: ’’جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کریں گے، تو پاکستان اور اس ریاست کے درمیان تعلقات، اُس ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق طے کیےجائیں گے‘‘۔
        ۱۹۷۳ء کے دستور پاکستان میں درج یہی الفاظ، ۱۹۵۶ء کے دستورِ پاکستان میں بھی شامل تھے۔ اس تسلسل سے یہ واضح کردیا گیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر ایک متنازع اور ناقابلِ تقسیم وحدت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھارت نے نام نہاد الحاق کے نام پر اپنے دستور میں جموں و کشمیر کے بارے میں دفعہ ۳۷۰ رکھی، تو پاکستان نے اس پر شدید احتجاج کیا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی اس بھارتی اندراج کو تسلیم نہیں کیا ، اور اسے متنازع علاقہ قرار دیتے ہوئے پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام کا مشترکہ مسئلہ قرار دیا۔
        پاکستان کی حکومت، پارلیمنٹ اور تمام ریاستی ادارے اس امر کے پابند ہیں کہ دستور ی طور پر طے شدہ وعدے کے مطابق ، مسئلہ کشمیر اور اس سے منسلک علاقوں کے مستقبل کا فیصلہ جموں و کشمیر پر مشتمل وحد ت کی مرضی کے مطابق حل کرنے میں مدد دیں،اور اس عہدوپیمان کا احترام کریں۔ پاکستان اور بھارت دونوں مل کر یا الگ الگ ، جموں و کشمیر کے مستقبل کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں ہیں، تاآنکہ جموں و کشمیر کے مسلّمہ شہری ایک آزادانہ استصواب راے سے اپنی مرضی کا فیصلہ کریں۔
اندریں حالات، ہم پاکستان کی سیاسی و دینی جماعتوں کے ساتھ ساتھ، ذرائع ابلاغ کے ذمہ داران اوردانش وروں سے اپیل کریں گے کہ وہ پاکستانی حکومت اور پاکستانی اداروں کو دستور اور قانون کا پابند بننے پر مجبور کریں اور جو سیاسی پارٹیاں اپنے غیر دانش مندانہ فیصلوں کے تحت محدود سیاسی فائدے کی اسیر ہیں، انھیںاپنی نا مناسب پالیسی پر نظر ثانی کرنے کا درس دیں ۔ اگر آج روایتی کاہلی اور عجلت پسندی سے معاملات کو بگاڑا گیا تو آنے والی نسلیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

 

 

آج کل ’یکساں نصابِ تعلیم‘ اور پھر اس میں اسلامیات کے نصاب، اور جولائی۲۰۲۰ء میں ’تحفظ ِ بنیاد اسلام ایکٹ‘ (پنجاب حکومت)کی بحث نے ماضی کے اُفق روشن کردیے۔ پاکستان کا قیام اور نظریۂ پاکستان کی بنیاد دین اسلام اور کلمۂ طیبہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔اس بنیاد کو متنازع بنانے کے لیے سیکولر عناصر نے ہمیشہ اہلِ دین ہی میں غلط فہمی پیدا کرکے پیدا شدہ کش مکش کو عام لوگوں میں بددلی پھیلانے کا کام کیا۔ سادہ لوح علما کا ایک طبقہ، ان عناصر کو ایسے شیطانی کھیل میں آلۂ کاربننے کے لیے ہرمرحلے پر ملتا رہا ہے۔ اسی نوعیت کی ایک تشویش ناک کارروائی کا احوال ہماری تاریخ کا حصہ ہے، جس میں بہت سے سبق پوشیدہ اور عبرت کے نشانات نمایاں ہیں۔

یہ ۱۹۷۵ء کے اواخر کی بات ہے۔ میں پنجاب یونی ورسٹی کا طالب علم تھا اور اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب کی تنظیمی ذمہ داری کے لیے، مولانا مودودیؒ کی رہایش گاہ ۵-اے، ذیلدار پارک کے سامنے ۴-ذیلدار پارک میں روزانہ آیا کرتاتھا۔ تب ہم تمام نمازیں مولانا مودودیؒ  کے ساتھ  اُن کے گھر کے لان میں پڑھا کرتے تھے۔ جب مولانا محترمؒ کی طبیعت ٹھیک ہوتی تو وہ نمازِ عصر کے بعد وہیں صفوں پر بیٹھے ملاقاتیوں کے سوالات کے جواب دیتے اور ہلکی پھلکی گفتگو رہتی۔ یہ سلسلہ مغرب سے کچھ دیر پہلے تک چلتا۔

ایک روز ہم نے دیکھا کہ ایک پُرجوش خوبرو نوجوان، خطیبانہ لہجے میں مولانا مودودیؒ سے کہنے لگے: ’’مولانا، بھٹو صاحب کی حکومت نےتو اسلام کو بھی تقسیم کردیا ہے۔چودہ سوسال سے اُمت ایک کلمے پرمتفق چلی آرہی ہے، لیکن اب تو کلمۂ طیبہ بھی شیعہ اور سُنّی میں تقسیم کر دیا گیا ہے‘‘۔

مولانا نے فرمایا: ’’ایسا حادثہ کب ہوا؟‘‘

نوجوان نے بتایا: ’’مولانا، یہ دیکھیے نہم، دہم اسلامیات لازمی کی کتاب میں کلمہ کے عنوان میں ’کلمہ‘ کے بجاے یہ نوٹ درج ہے: ’’اساتذۂ کرام کلمہ راہنمائے اساتذہ گائیڈ سے دیکھ کر پڑھائیں‘‘۔ اب دیکھیے مولانا ، یہ ہے مرکزی وزارتِ تعلیم اسلام آباد کی شائع کردہ گائیڈ بُک، جس میں سُنّی اور شیعہ طلبہ کے لیے الگ الگ کلمہ درج ہے‘‘۔نوجوا ن کے ہمراہ آنے والے بزرگ نے کہا: ’’مولانا، ہم آپ سے رہنمائی کے لیے حاضر ہوئے ہیں‘‘۔

مولانا نے فرمایا: ’’یہ دونوں کتابیں میرے پاس چھوڑ دیں اور کل مغرب کے بعد آئیں‘‘۔

اس واقعے کے بعد میں نے جب اس نوجوان، اور بزرگ کے علاوہ ایک وکیل صاحب کو مولانا مودودیؒ کے ہاں وقتاً فوقتاً ملاقات کے لیے آتے جاتے دیکھا، تو ایک روز نوجوان سے تعارف حاصل کیا۔ معلوم ہوا، وہ مولانا محمد شفیع جوش، ماڈل ٹاؤن ایف بلاک مسجد کے خطیب ہیں۔ ان کے ساتھ جو بزرگ ہیں ان کا نام پیر سیّد ابرارمحمد صاحب ہے اور وکیل صاحب کو ہم جانتے تھے ارشاد احمد قریشی ایڈووکیٹ۔

میں نے محمد شفیع صاحب سے پوچھا: ’’اُس روز کی گفتگو پر مولانا نے کیا رہنمائی فرمائی ہے؟‘‘

شفیع جوش صاحب نے بتایا: ’’مولانا نے کہا ہے کہ ’اس مسئلے کو سڑکوں پر احتجاج اور   باہم کشیدگی پیدا کرنے کے بجاے آئینی اور قانونی سطح پر حل کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کریں‘۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ’قانونی معاونت کے لیے میں ارشاد احمد قریشی ایڈووکیٹ کی ذمہ داری لگاتاہوں‘۔ پھر یہ بھی کہا کہ ’اس مسئلے میں ، مَیں علمی، قانونی اور مالی سطح کی تمام ذمہ داریوں کو پورا کروں گا۔آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ عدالت میں پیش ہوں اور پوری ایمانی قوت اور اللہ کی تائیدسے جم کر کھڑے رہیں‘‘۔

ان دنوں وہ تینوں حضرات، رہنمائی حاصل کرنے اوررٹ کی تیاری کے علاوہ قومی سطح پریک جائی کی حکمت عملی بنانے کے لیے مولانا مودودی کے ہاں آیا کرتے تھے: ’’پھر چند ہفتوں کے بعد ایک نہایت جامع رٹ جنوری ۱۹۷۶ء میں لاہور ہائی کورٹ میں دائر کردی گئی، جو بنیادی طورپر مولانا مودودی مرحوم و مغفور ہی کی تحریر پرمبنی تھی، تاہم اس میں کچھ الفاظ کا اضافہ کیا گیا‘‘۔

اُسی ملاقات میں شفیع جوش صاحب نے مجھ سے کہا: ’’مولانا مودودی نےسختی سے ہدایت کی ہے، کہ لوگوں سے میرا ذکر نہ کیا جائے، کہ اس صورت میں عدالتی عمل کے پاؤں لڑکھڑانے کا خدشہ ہے، جس سے پیش نظر مقصد کو نقصا ن پہنچے گا‘‘۔ یوں نوجوان، جوش صاحب نے ہم عمری کی بے تکلفی سے اس نازک رازداری کا حصے داربنالیا (اس رٹ اور اس کے نتیجے میں عدالت کے فیصلے کو اس تحریر کے آخر میں ملاحظہ فرمایئے)۔

اس واقعے کی تفصیلات معلوم کرنے کے لیے ۴۵برس بعد مولانا محمد شفیع جوش صاحب سے گذشتہ دنوں جو ملاقات ہوئی، تو اس میں متعلقہ اُمور کی وضاحت ممکن ہوئی، جسے یہاں پیش کیا جارہا ہے: محترم شفیع صاحب نے بتایا: ’’رٹ دائر کرنے کے بعد مولانا مودودی نے مشورہ دیا کہ اب آپ مولانا مفتی محمد حسین نعیمیؒ (م:۱۲ مارچ ۱۹۹۸ء) لاہور، مفتی محمد شفیع ؒصاحب (م: ۶؍اکتوبر ۱۹۷۶ء) کراچی، خواجہ قمرالدین سیال شریف (م: ۲۰ جنوری ۱۹۸۱ء) سے بھی جاکرملیں اورمقدمے کی صورتِ حال پر ذاتی سطح پر بات کریں‘‘۔

 ان اکابر علما سے ملنے کے بعد ہم نے راولپنڈی میں مولانا غلام اللہ خان (م: ۲۶مئی ۱۹۸۹ء) اور پیراختر حسین شاہ علی پوری (م: ۱۶؍اکتوبر ۱۹۸۰ء) سے بھی ملاقات کی، جنھوں نے اپنا تعاون پیش کرتے ہوئے بہ اصرار ہمیں مالی معاونت لینے کے لیے کہا تو ہم نے بڑے ادب سے ان کو بتایا: ’’کلمۂ طیبہ کے تحفظ کے لیے جملہ سفری اور عدالتی اخراجات کا کُلی ذمہ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ذاتی طورپراُٹھا لیا ہے، اس لیے اس ضمن میں کسی فرد یا جماعت سے مالی ضرورت کی حاجت نہیں رہی‘‘ تو ان حضرات نےمولانا کی عظمت اور ان کے جذبۂ اسلامی کو سراہتے ہوئے مولانا کی خدمت میں سلام پیش کیا۔ ہم نے واپسی پر یہ تشکر بھرے جذبات جب مولانا مودودی کی خدمت میں پہنچائے تو مولانا مودودیؒ نے ہمیں انھی قدموں ان حضراتِ علما کے پاس اپنے خرچ پر واپس بھیجا اورفرمایا: ’’انھیں وعلیکم السلام کہیں اور میری طرف سےشکریہ ادا کریں‘‘۔ اکابرین ملّت اسلامیہ کے اس اسوہ کا ایمان افروز مظاہرہ میری زندگی کا ناقابلِ فراموش واقعہ ہے‘‘۔

شفیع صاحب نے مزید کہا:’’اتفاق سے ان دنوں امام مسجد نبوی مدینہ منورہ، پاکستان آئے ہوئے تھے اور اُنھوں نے بادشاہی مسجد لاہورمیں نماز جمعۃ المبارک کی امامت فرمائی ، جس میں پنجاب بھرسے لاکھوں اہلِ ایمان شریک ہوئے۔ اس موقعے پر لاہور ہائی کورٹ میں دائر کردہ رٹ کا اُردو ترجمہ ایک لاکھ کی تعداد میں ہم نے شائع کرکے تقسیم کیا، جو پورے پاکستان میں پھیل گیا۔ تب ذوالفقارعلی بھٹو صاحب کا دورِ حکومت تھا۔ اسی دوران شاہِ ایران رضا شاہ پہلوی بھی پاکستان آئے [۸مارچ ۱۹۷۶ء] تھے۔ ہمارا قیاس ہے کہ انھوں نے دیگراُمور کے علاوہ اس موضوع پر بھی بات کی ہوگی۔ مولانا مودودی کی ہدایت پر ہم نے رٹ دائر کرنے سے قبل ہی محترم آیت اللہ محمدکاظم شریعت مداریؒ [م: ۳؍اپریل ۱۹۸۹ء]، ایران سےفتویٰ حاصل کرکے شیعہ موقف بھی رٹ میں شامل کرلیا تھا کہ شیعہ بھائیوں کے نزدیک بھی کلمۂ اسلام صرف ’لا الٰہ الا اللہ محمدرسول اللہ‘ ہے‘‘۔

مولانا جوش صاحب نے بتایا: ’’لیکن حکومت پاکستان دوسری جانب سے دباؤ میں نظر آرہی تھی، جس کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمداقبال [م: ۵مئی ۲۰۰۸ء] کو اسلام آباد طلب کرکے بہرقیمت مقدمے کا فیصلہ کرنے سے باز رہنے کی ہدایت کی گئی۔ اسی طرح ہمیں بھی خوف اور لالچ سے مقدمے کی پیروی سے باز رکھنے اور دوسری جانب مقدمے کو طوالت کا شکار کرنے کا کام شروع ہوا۔ اسی دوران آل پاکستان شیعہ کانفرنس کے صدراور چند روزپہلے تک فرانس میں پاکستان کے سفیر آغا مظفرعلی خاں قزلباش صاحب [م: ۲۱ستمبر۱۹۸۲ء] نے ایک جلسے میں کلمۂ اسلام کی رٹ دائر کرنے پر ہم دونوں کو ’کانگریسی مُلّا اور پاکستان کا مخالف قراردیتے ہوئے کلمۂ اسلام مقدمے کو پاکستان توڑنے کی سازش‘ قرار دیا۔ آغا قزلباش صاحب کوسابق چیف جسٹس محمد منیر [م: ۲۶جون ۱۹۸۱ء]کی معاونت حاصل تھی۔ ان کو باور کرایا گیا کہ ’’رٹ کنندہ محمد شفیع کی پیدایش تو ستمبر ۱۹۴۷ء میں ہوئی تھی، ان پر پاکستان کی مخالفت کا الزام کیسے لگایا جاسکتا ہے؟‘‘ اس طرح یہ الزام اپنی موت آپ مرگیا۔ سماعت سے پہلے ہم پر دباؤ ڈالا گیا کہ یہ رٹ واپس لی جائے، کہ کلمۂ طیبہ پہلی ہی صورت میں نصاب کے اندر شامل کردیا جائے۔ چیف جسٹس سردار محمد اقبال صاحب نے ہمیں چیمبر میں بلایا اور قومی حالات کی طرف توجہ دلا کر فرمایا: ’’یقین دلاتا ہوں واحد کلمے کی بحالی ہوجائے گی، اس لیے رٹ واپس لے لیں اور اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو میں رٹ خارج کردوں گا‘‘۔ اسی طرح ایک صوبائی سیکرٹری نے کہا کہ ’’رٹ واپس لینے کی صورت میں آپ کو حکومت کچھ انعام و اکرام سے بھی نوازنے کا ارادہ رکھتی ہے۔خواہ مخواہ مسئلے کو آگے نہ بڑھائیں‘‘۔

مولانا شفیع صاحب نے بتایا: ’’جب لاہور ہائی کورٹ کے سربراہ اور حکومت کے ایک سیکرٹری کی جانب سے دباؤ بڑھا تو ہم نے سوچنے کے لیےوقت مانگا اور اگلی تاریخ کی استدعا کی، جو صرف اگلے روز تک منظور کرلی گئی۔ یوں صرف ایک رات کے وقفے میں ہم نے مولانا مودودی کی خدمت میں حاضر ہوکرساری رُوداد بیان کی۔ ارشاد احمد قریشی صاحب بھی ہمراہ تھے۔ ہم نے مولانا مودودی سےعرض کیا: ’’حکومت ِ پاکستان نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ کلمۂ اسلام سابقہ پوزیشن پر نصاب میں بحال کردیا جائے گا۔ اور یہ کہ مجوزہ نظرثانی شدہ کتب نصاب، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو بھی پیش کردی گئی ہیں کہ آیندہ کچھ عرصے میں مطالبہ پورا ہورہا ہے،اس لیے رٹ واپس لے لیں‘‘، وغیرہ وغیرہ۔

مولانا مودودی نے گہری توجہ اور فکرمندی سے تفصیل سننے کے بعد ہم سے ارشادفرمایا: ’’یہ ایک مضبوط مقدمہ ہے، اور یہ بھی درست ہے کہ حکومت غلطی کا احساس کرکےازالہ کررہی ہے، مگروہ یہ سب باتیں آف دی ریکارڈ کرنا چاہتی ہے۔ اس طرح آپ رٹ واپس لے لیں گے اور آیندہ نصاب میں اگرکبھی ایسی حرکت ہوئی تو پھررجوع کرنا بہت مشکل ہوجائے گا، اب لہٰذا یہ ’رٹ‘  آپ کا ذاتی معاملہ نہیں رہا ہے بلکہ یہ ملّت اسلامیہ کی ترجمانی اور ایک امانت ہے۔ آپ کو ’رٹ‘ واپس لینے کا شرعی اختیار نہیں ہے۔ اس لیے آپ مکمل ثابت قدمی اختیار کریں اور عدالت میں جاکر کہیں کہ وہ آئین اور قانون کے تحت فیصلہ کرے‘‘۔

اگلے روز ۱۰ بجے سردار محمد اقبال چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ نے کمرئہ عدالت میں مجھ سے استفسار کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’آپ کا مطالبہ مان لیا گیا ہے، اس لیے رٹ واپس لے لیں‘‘۔ گذشتہ رات مولانا مودودی کے بیان کردہ الفاظ نے ہمیں ایک ایمانی قوت عطا کردی تھی، اس لیےبھری عدالت میں اعلیٰ حکام، وکلا اور جج صاحب کو مخاطب کرکے رٹ واپس لینے کے بجاے میں نے بیان ریکارڈ کرنے کا مطالبہ کردیا۔ چیف جسٹس نے غصّے میں فرمایا:’’حکومت تو نصاب  درست کرنے کا مطالبہ مان رہی ہے، تو اب آپ لوگ اور کیا چاہتے ہیں؟‘‘ میں نے معلوم نہیں کس طرح بھری عدالت میں بلندآواز میں عرض کیا: ’’جناب عزّت مآب چیف جسٹس صاحب! رٹ کلمۂ اسلام پر دعویٰ استقرارِ حق قرار دیا جائے کہ کلمۂ اسلام صرف لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ ہے۔ اس لیے فیصلہ دے کر ایمان بچا لیں یا مسترد کرکے نوکری بچالیں‘‘۔ اس پر بھری عدالت میں سناٹا چھاگیا۔ چیف جسٹس صاحب نے غصّے میں عدالت برخواست کردی۔ ہم ہائی کورٹ سے نکل کر سیدھے مولانا مودودی صاحب کے پاس پہنچے۔ شرفِ ملاقات پر مولانا کو مختصر ترین کارروائی کی یہ رُوداد سنائی تو محترم مولانا مودودی نےمسرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’آپ نے اپنا فرض ادا کردیا ہے۔ اب فیصلہ جو بھی ہو، آپ اور ہم بری الذمہ ہیں‘‘۔

مولانا شفیع صاحب نے مزید بتایا: ’’جسٹس صاحب اس روز خلافِ عادت ہائی کورٹ سے ۱۱بجے دن گھرپہنچے تو خود جسٹس سردار اقبال صاحب نے ریٹائرمنٹ کے کئی سال بعد مجھے بتایا کہ ’’یوں گھر خلافِ معمول آمد پر میری اہلیہ نے پوچھا: طبیعت تو ٹھیک ہے، آج آپ بہت جلد گھرآگئے ہیں‘‘۔ کہا کہ ’’ٹھیک نہیں ہے۔ ایک مولوی جو عدالتی آداب سے یکسرناواقف ہے، اس نے بھری عدالت میں مجھے کہا: ’’رٹ کلمہ منظور کرکے ایمان بچالیں یا مستردکرکے نوکری بچالیں۔ کیسے غیرمہذب ہوتے ہیں یہ مولوی لوگ۔ یہ سن کر طبیعت موزوں نہیں رہی تو گھر آگیا ہوں اور ساتھ ہی وہ فائل قریب رکھے ٹیبل پر دے ماری۔ میری اہلیہ گویا ہوئیں: ’’آپ رٹ منظورکرکے ایمان محفوظ کرلیں، نوکری کی فکر نہ کریں، اللہ مالک ہے‘‘ ۔ سردار اقبال صاحب نے بتایا کہ بیگم کے اس بے ساختہ اورمعصومانہ مشورے نے مجھے پریشانی سے نجات دلا کر غصہ ختم کردیا‘‘۔

شفیع صاحب کے بقول: ’’چیف جسٹس سردار محمد اقبال نے کہا: ’’پھر آپ کو معلوم ہے کہ میں نے کلمۂ طیبہ کیس ایک روز کی سماعت کے بعد منظور کرلیا اور اس ایمانی فیصلے سے طبیعت بحال و مطمئن ہوئی‘‘۔اور اس کے بعد یہ بھی امرواقعہ ہے کہ چند ہی روز بعد حکومت پاکستان کی ناراضی کے باعث، اس ترمیم کی بنیاد پر (کہ چیف جسٹس چارسال تک ہوگا) سردار محمد اقبال صاحب بطورِ چیف جسٹس فارغ کر دیے گئے [یاد رہے کہ حکومت نے جسٹس اقبال صاحب سے کہا تھا کہ آپ سینیر جج کے طور پر عدالت میں کام کرتے رہیں، مگرسردارصاحب نے صرف۵۴برس کی عمر میں عدالت کا منصب چھوڑ کر گھر آجانا پسند فرمایا۔ جو ہماری عدالتی تاریخ کا منفرد واقعہ ہے،مرتب]۔ واقعی بیگم عفت اقبال کے ایمانی مشورے سے جسٹس سردار محمد اقبال نے رٹ منظور کرکے ایمان بچانے کا ثبوت دیا اور نوکری ختم کرنے کی ذمہ داری حکومت پر ڈال دی‘‘۔

مولانا محمد شفیع صاحب نے بتایا: ’’میں نے سردار محمد اقبال صاحب سے کہا: میں بھی آج آپ کو بتا رہا ہوں کہ اس مقدمے کے پیچھے دراصل خاموشی سے مولانا مودودی تھے‘‘۔ اس پر سردار صاحب نے کہا: ’’یہ تو بہت ہی اچھاہوا کہ اُس وقت مجھے یہ بات معلوم نہ ہوئی، اوراگر یہ پتا چل جاتا تو مقدمے کے ساتھ میرا رویہ مختلف ہوتا‘‘۔ یوں انھوں نے اُس بے خبری پر مسرت کا اظہار کیا۔

’’سردار محمد اقبال صاحب نے اسی ملاقات میں یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر کلمۂ پاک کی خدمت میں آپ کو روزِقیامت اجرملے تو مجھےبھی یاد رکھنا۔ یہ کہہ کران کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور مجھ جیسے گنہگار نے نم پلکوں سے وعدہ کیا کہ اگراللہ ربّ العالمین نے میری خطاؤں سے چشم پوشی کرتے ہوئے کلمۂ اسلام کی برکت سے، کرم وفضل سے نوازا تواپنے ربّ سے عرض نوا ہوں گا کہ اس میں پہلے چیف جسٹس محمد اقبال اور اُس کے بعد جو مالک و محبوب کو منظورہو‘‘۔

اب پیش ہے رٹ اور مقدمے کا فیصلہ!

___’رٹ پٹیشن‘___

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 رٹ درخواست نمبر ۷۶/۱۵۹/۱۹۷۶ء، لاہور ہائی کورٹ

پیرابرار محمدو محمدشفیع جوش بنام حکومت ِ پاکستان بوساطت سیکرٹری تعلیم اسلام آباد (مسؤل الیہ)

رِٹ درخواست براے قراردیے جانے کہ اصل اورحقیقی کلمۂ اسلام لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  ہے۔ اور مسؤل علیہ کا اقدام جس کے ذریعے اس نے ملک کے اندر نہم ودہم جماعت کے طالب علموں کے لیے ایک مختلف کلمہ تجویز اور شائع کیا ہے ، کوئی قانونی جواز اور قانونی حیثیت نہیں رکھتا۔

مؤدبانہ گزارش ہے:

۱- یہ کہ پاکستان مسلمانانِ بر صغیر کی ان مساعی کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آیا، جو انھوں نے اسلامی نظام قائم کرنے اور اسلامی احکام کے مطابق ایک حکومت قائم کرنے کے لیے کیں۔

۲- یہ کہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل نمبر ۲ میں اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہو گا اور آرٹیکل نمبر ۱ میں اسے ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کا نام دیا گیا ہے۔

۳- یہ کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے مطابق اسلام کے پانچ ستون ہیں ، جنھیں ارکان اسلام کہا جاتا ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

بُنِیَ الْاِسْلَامٌ عَلٰی خَمْسٍ شَھَادَۃِ  اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ  وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللہِ ، وَاِقَامِ الصَّلوٰۃِ  وَاِیْتَاءِ الزَّکٰوۃِ  وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ (بخاری، جلد اول ) اسلام کی پانچ بنیادیں ہیں : اوّل: شہادت دینا اس بات کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ دوم: نماز قائم کرنا، سوم: زکوٰۃ ادا کرنا۔ چہارم: حج کرنا۔ پنجم: رمضان کے روزے رکھنا۔

پیغمبر کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور مستند حدیث میں درج انھی پانچ چیزوں کو اسلام قرار دیا گیا ہے۔ اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں:

اَلْاِسْلَامُ اَنْ   تَشْھَدَ اَنْ لَّا اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ  وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللہِ وَتُقِیْمَ الصَّلوٰ ۃَ وَتُؤْتِیْ الزَّکٰوۃَ وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَیْتَ اِنِ اسْتَطَعْتَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا (مسلم، جلد اول کتاب الایمان) اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ سوائے اللہ کے کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، ماہِ رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو اگر طاقت ہو۔

۴-یہ کہ مذکورہ بالا حوالہ جات سے بالکل واضح ہے کہ ایک غیر مسلم کو اسلام میں داخل ہونے کے لیے سب سے اوّل کلمے کا علانیہ اقرار کرنا ضروری ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو دائرۂ اسلام میں داخل نہیں ہو سکتا، خواہ وہ مذکورہ بالا دیگر چارشرائط پوری کرتا ہو۔ اس لیے یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ کلمے کو اس کے الفاظ اور معانی کے ساتھ تحفظ دیا جائے، اور کلمے کے الفاظ میں کسی قسم کی تبدیلی یا اضافے کی نہ تو اجازت دی جائے، اور نہ ایسا کوئی اقدام برداشت ہی کیا جائے۔

۵- یہ کہ مدّعا علیہ نے اسلامیات کے مضمون کو، جو کہ ثانوی سکول کے امتحانات طلبہ و طالبات کے لیے لازمی ہے، دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، جن میں سے ایک سُنّی مکتبِ فکر کے طالب علموں کے لیے اور دوسرا شیعہ مکتبِ فکر کے لیے تجویز کی گئی ہیں۔

۶- یہ کہ کتاب موسومہ اسلامیات لازمی، جو شیعہ مکتب فکر کے نہم و دہم جماعت کے طالب علموں کے لیے شائع کی گئی ہے، اس کے صفحہ ۴۶ پر ’عبادات‘ کے عنوان کے تحت کلمے کے بارے میں درج ذیل الفاظ تحریر کیے ہیں:

’’استاد صاحب شیعہ بچوں کو ان کے مسلک کے مطابق رہنمائے اساتذہ  میں دیکھ کر کلمہ بتائیں گے‘‘۔

۷- یہ کہ مدّعا علیہ نے رہنمائے اساتذہ  نام کی ایک کتاب نہم ودہم کے اسلامیات کے نصاب کے اساتذہ کی رہنمائی کے لیے شائع کی ہے (یہ بات قابل ذکر ہے کہ شیعہ اور سُنّی طبقے سے متعلق طالب علموں کے لیے تجویز کردہ کتب اسلامیات میں کلمۂ اسلام کا متن درج ہی نہیں کیا گیا ہے ) اور اساتذہ اسے صرف رہنمائے اساتذہ   نامی کتاب کی مدد سے پڑھائیں گے۔

۸- یہ کہ رہنمائے اساتذہ   نامی کتاب کے صفحہ ۳۵ پر کلمے کا ایک باب ہے، جس کے پہلے پیرا گراف میں مندرجہ ذیل الفاظ لکھے ہیں:

’کلمہ ‘اسلام کے اقرار اور ایمان کے عہد کا نام ہے ۔ کلمہ پڑھنے سے کافر، مسلمان ہوجاتا ہے ۔ کلمہ میں توحید ورسالت ماننے کا اقرار امامت کے عقیدے کا اظہار ہے۔ ان عقیدوں کے مطابق عمل کرنے سے مسلمان مومن بنتا ہے۔ کلمے کے تین حصے ہیں‘‘۔

اسی باب میں صفحہ ۳۶ پر کلمہ کا متن درج ذیل الفاظ میں درج ہے:

لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ

۹- یہ کہ رہنمائے اساتذہ   کے مذکورہ بالا باب سے یہ بالکل واضح ہے کہ وہ شخص جو اس باب میں دیے (لکھے )گئے کلمہ کا علانیہ اقرار وتصدیق نہیں کرتا ،مسلمان نہیں بن سکتا ۔ اس کی رُو سے زمانۂ رسالتؐ سے لے کر قیامت تک کے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد غیر مسلم اور کافر قرار پاتی ہے۔

۱۰- یہ کہ مذکورہ بالا کلمہ کی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمۂ اسلام کے طور پر کبھی تعلیم نہیں دی اور نہ اس کا کبھی اعلان کیا۔ نہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ حیات طیبہ میں اسلام میں داخل ہونے والے کسی شخص نے اس کلمے کا اقرار کیا۔ پھر یہ کلمہ ہرگز وہ کلمہ نہیں ہے، جسے: حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ،  حضرت ابو بکر صدیق ؓ ، حضرت علی بن ابی طالب ؓ اور حضرت زید بن حارثہ ؓ نے کہ جو نبوت کے ابتدائی دنوں پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پر اسلام میں داخل ہونے والوں میں اوّلین افراد تھے، کبھی پڑھا ہو۔ اس کلمے کا شیعہ مکتب فکر کی مستند کتابوں میں سے کسی ایک میں بھی ذکر تک نہیں ملتا ۔ درحقیقت کلمے کے الفاظ اور حروف (متن )کے بارے میں آغاز اسلام سے گذشتہ چند برسوں تک مختلف مکاتب ِفکر کے مسلمانوں کے مابین کوئی اختلاف نہیں رہا ہے۔ کچھ عرصہ پیش تر بلاجواز کلمے میں درج ذیل الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے:

عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ

مذکورہ بالا اضافی الفاظ بجاے خود اس حقیقت کا ثبوت پیش کرنے کے لیے کافی ہیں کہ وہ اصل اور حقیقی کلمے کا حصہ نہیں ہو سکتے اور یہ کہ اُن کا بعد میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اس بحث کے حق میں اہلِ تشیع علما کی تصنیف کردہ کتابوں کے (جن پر شیعہ مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مکمل اعتماد ہے) مندرجہ ذیل اقتباسات کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے :

                  (۱)            عَنْ جَمِیْلِ بْنِ  دَرَاجٍ  قَالَ سَاَلْتُ اَبَا عَبْدِاللہِ   عَنِ الْاِ یْمَانِ  فَقَالَ شَھَادَۃُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللہِ قَالَ اَلَیْسَ ھٰذَا عَمَلٌ قَالَ بَلٰی فَقُلْتُ فَالْعَمَلُ مِنَ الْاِیْمَانِ؟  قَالَ لَا یَثْبُتُ لَہُ  الْاِیْمَانُ اِلَّا بِالْعَمَلِ وَالْعَمَلُ مِنْہُ (اصول کافی، جلددوم، ص ۵۵) جمیل بن دراج سے روایت ہے کہ میں نے ابوعبداللہ (امام جعفر صادق علیہ السلام) سے ایمان کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: ’’گواہی دینا اس کی، کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کے رسولؐ ہیں‘‘۔ راوی نے کہا کہ کیا یہ عمل نہیں، فرمایا: ’’ہاں ہے‘‘۔ میں نے کہا تو کیا عمل ایمان کا جزوہے ؟فرمایا : ’’ایمان بدونِ عمل ثابت نہیں ہوتا اور عمل اس کا جزو ہے۔

                  (۲)            فَلَمَّا اَذِنَ اللہُ لِمُحَمَّدٍ فِی الْخُرُوْجِ مِنْ مَکَّۃَ اِلَی الْمَدِیْنَۃَ  بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ شَھَادَۃِ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ  وَرَسُوْلُہٗ  وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ   وَ اِیْتَاءِ الزَّکٰوۃِ وَحَـجِّ  الْبَیْتِ وَصِیَامِ شَہْرِ رَمَضَانَ (اصول کافی، جلد دوم، ص ۴۶)

                                    جب اللہ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت دی تو اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی:۱-گواہی دینا اس کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے عبد اور رسولؐ ہیں،۲- قائم کرنا نماز کا ،۳-زکوٰۃ دینا، ۴-حج کرنا اور، ۵-ماہِ صیام میں روزے رکھنا۔

                  (۳)            پھر وحی کی کہ اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )لوگوں کے پاس جاؤ اور کہو کہ : لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  کا اقرار کریں(حیات القلوب، ج ۲، ص ۴۳، مؤلفہ: علامہ مجلسی ، ترجمہ مولوی سید بشارت حسین کامل)

                  (۴)            اگر کافر شہادتین بگوید ، یعنی بگوید: اَشْھَدُ  اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ  وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ  وَرَسُوْلُہٗ  مسلمان می شود (توضیح المسائل مجموعہ فتاوٰی، سید محمد کاظم شریعت مداری، ایران ص۳۹)

۱۱- یہ کہ تمام اسلامی مکاتب ِفکر کی مذہبی کتابوں میں اس کلمے کا کہیں ذکر نہیں جو مذکورہ بالا کتاب رہنمائے اساتذہ  (مطبوعہ:حکومت پاکستان، اسلام آباد ۱۹۷۵ء)کے ص ۳۶ پر درج ہے۔

۱۲- یہ کہ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ ۳۱ کے تحت مدعا علیہ پر یہ لازم ہے کہ وہ ایسے اقدام کرے، جو مسلمانانِ پاکستان کے لیے اسلام کے بنیادی عقائد اور اصولوں کے مطابق اپنی زندگی مرتب کرنے میں معاون ہوں اور ایسی سہولتیں فراہم کرے جن کے ذریعے وہ قرآن مجید اور سنت کی منشا کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھیں،مگر اس کے برعکس مدعا علیہ کا یہ فعل آئین کی مذکورہ بالا دفعات کے منافی ہے۔

۱۳-یہ کہ مدعا علیہ اس کلمے کے سوا، جس کی تعلیم پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، کسی اور کلمے کے جاری کرنے کا قانونی طور پر مجاز نہیں ہے۔

۱۴- یہ کہ مدعا علیہ کا فرض ہے کہ نہم ودہم کے طلبہ کے لیے اسی کلمے کی تعلیم دے ، جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے مسلمانوں کو پڑھایا ہے۔

۱۵- یہ کہ مدعیان کے لیے سواے اس رٹ پٹیشن گزارنے کے اور کوئی چارۂ کار نہیں رہا ہے۔ ان حالات میں نہایت ادب سے استدعا کی جاتی ہے کہ اس امر کا اعلان کیا جائے کہ اصل اور حقیقی کلمۂ اسلام لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  ہے ۔ اور مسؤل علیہ کا اقدام جس کے ذریعے اس نے مختلف کلمہ تجویز کیا ہے یعنی لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ کوئی قانونی جواز نہیں رکھتا۔

مزید درخواست کی جاتی ہے کہ مدعا علیہ کو ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہم دہم کے طلبہ کے لیے مخصوص اسلامیات (لازمی) اور مذکورہ بالارہنمائے اساتذہ  کی کتابوں میں (ہدایات کے مطابق ) مناسب ترامیم کریں۔

نیز یہ بھی استدعا کی جاتی ہے کہ مسؤل علیہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے علاوہ کسی دیگر کلمے کا اجرا کرنے ، تسلیم یا شائع کرنے یا طالب علموں کے کورس میں شامل کرنے سے منع کر دیا جائے۔

سائلان

پیر سید ابرار محمد ، محمد شفیع جوش

بذریعہ ارشاد احمد قریشی ایڈووکیٹ

___فیصلہ ، اُردو ترجمہ ___

از:جناب محمد اقبال چیف جسٹس

۱۹۷۵ء میں حکومت پاکستان نے وزارت ِ تعلیم کے ذریعے ایک کتاب بنام رہنمائے اساتذہ  شائع کی، تا کہ اس سے ثانوی مدارس کے اساتذہ کی رہنمائی کے لیے خطوط مقرر ہوں۔

اس کتاب کا پہلا حصہ تمہیدی ہے اور بتایا گیا ہے کہ طلبہ کی نوجوان نسل کو کیوں اور کس طریق پر اسلامیات کی تعلیم دی جائے؟ کتاب کے حصہ دوم میں اسلام کے کچھ بنیادی اصول جن پر اہل سنت والجماعت کے مختلف مکاتبِ فکر کا اتفاق ہے، درج کیے گئے ہیں ۔ کتاب کا حصہ سوم صرف شیعہ طلبہ کے لیے ہے۔

کتاب کے حصہ سوم میں جو صفحہ ۳۵ سے شروع ہوتا ہے ، سبق پڑھانے والے استاد کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے شاگردوں پر کلمے کی اہمیت اچھی طرح واضح کرے۔ آگے چل کر کتاب کے اسی صفحہ ۳۵ پر من جملہ اور باتوں کے ، یہ کہا گیا ہے:

کلمہ، اسلام کے اقرار وایمان کے عہد کا نام ہے ، کلمہ پڑھنے سے کافر، مسلمان ہو جاتا ہے ۔ کلمہ میں توحید ورسالت ماننے کا اقرار اور امامت کے عقیدے کا اظہار ہے۔   ان عقیدوں کے مطابق عمل کرنے سے مسلمان مومن بنتا ہے۔

پھر صفحہ ۳۶ کے آخر کے نزدیک بتایا گیا ہے کہ کلمہ یہ ہے:

لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ

اس کا ترجمہ جو صفحہ ۳۷ پر دیا گیا ہے ،یہ ہے:

یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور حضرت علیؑ، اللہ تعالیٰ کے ولی اور رسول کریم کے وصی اور بلا فاصلہ خلیفہ ہیں۔

۲- موجودہ رٹ درخواست میں جو ۲۱ جنوری ۱۹۷۶ء کو پیر سید ابرار محمد صدر تنظیم الائمہ لاہور (خطیب جامع مسجد دارالحق ، ٹاؤن شپ سکیم ، لاہور)اور مولانا محمد شفیع جوش (مہتمم مرکز اشاعت اسلام جامع مسجد ایف بلاک ، ماڈل ٹاؤن ، لاہور)کی طرف سے دستورِ پاکستان کے آرٹیکل ۱۹۹ کے تحت دائر کی گئی ہے ، مدعیان نے کلمے کی اس صورت پر: جس میں وہ محولہ بالا کتاب رہنمائے اساتذہ  کے صفحہ ۳۶ پر درج ہے، اور اس کے ترجمے پر جو صفحہ ۳۷ پر ہوا ہے، اور صفحہ ۳۵ کی اس تحریر پر جو فیصلہ ہٰذا کے پہلے پیراگراف میں دیا گیا ہے ، اعتراض کیا ہے اور استدعا کی ہے کہ عدالت یہ قرار دے کہ اصل اور حقیقی کلمۂ اسلام لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  ہے اور مسؤل علیہ کا وہ اقدام جس کے ذریعے اس نے ایک مختلف کلمہ تجویز کیا ہے، یعنی لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ کوئی قانونی جواز نہیں رکھتا۔

۳- اس سے پہلے درخواست کی سماعت کے لیے کوئی تاریخ مقرر کی جا سکتی ، درخواست گزاروں نے آئین کی دفعہ ۲۰۴ کے تحت ۲ مارچ ۱۹۷۶ء کو ایک درخواست توہین عدالت (۷۶-۳۱- w) دائر کر دی، جس میں الزام لگایا گیا کہ ’’کل پاکستان شیعہ کانفرنس کے صدر مظفر علی قزلباش نے ۲۷فروری ۱۹۷۶ء کو شیعہ رہنماؤں اور کارکنوں کے ایک اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے درخواست گزاروں کو سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دی، اور زیر تصفیہ رِٹ درخواست کے نفس مضمون کا حوالہ بھی دیا‘‘۔ اس درخواست میں مزید کہا گیا کہ ’’اس معاملے پر الزام علیہ کی طرف سے اظہار راے، جب کہ وہ ابھی عدالت میں زیرِ سماعت تھا، عدالت ہٰذا کی سنگین اور سخت توہین کے مترادف ہے۔ لہٰذا، اسے مناسب سزا دی جائے‘‘۔

۴- شیخ مظہر علی جاوید، جنرل سیکرٹری شیعہ میوچل سوسائٹی پاکستان (رجسٹرڈ) نے بھی ایک درخواست توہین عدالت (۷۶-۳۲- w) گزاری ہے، جس میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ ’’عوام میں رٹ درخواست کے مندرجات کی نقول تقسیم کر کے بہت زیادہ تشہیر کی گئی، نیز یہ کہ رٹ درخواست کا ترجمہ اردومیں کیا گیا، اور اس کی نقلیں عوام میں وسیع پیمانے پر اس اپیل کے ساتھ تقسیم کی گئیں کہ  وہ ۷ مارچ کو اس مقدمے کی کارروائی سنیں‘‘۔ اس درخواست میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ ’’مقدمے کی تاریخ سماعت کے مقرر کیے جانے سے پہلے اردو اور انگریزی میں رٹ درخواست کی اشاعت اور اس کی تقسیم پاکستان کی ایک خاصی بڑی آبادی کے خلاف ایک تحریک کی صورت پکڑ گئی، چونکہ رٹ درخواست پیش کرنے والوں، ان کے قانونی مشیر اور طابع (قیصر پرنٹرز لاہور) کا یہ فعل مقدمے کے فیصلے پر اثر انداز ہو سکتا ہے، لہٰذا ان کے خلاف آئین کی دفعہ ۲۰۴ کے مطابق عدالتی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

اب میں ان تینوں مقدمات کا فیصلہ، یعنی رٹ درخواست ۱۵۹ بابت ۱۹۷۶ء ،فوجداری اصل نمبر ۳۱  ڈبلیو بابت ۱۹۷۶ء اور فوجداری اصل نمبر ۳۲ ڈبلیو بابت ۱۹۷۶ ء اپنے حکم کے ذریعے کر رہاہوں۔

۵- یہ معاملہ جناب وزیراعظم [ذوالفقار علی بھٹو] کے علم میں آیا، تو انھوں نے فرقہ وارانہ اختلافات کے خاتمہ کے لیے، جو قومی سالمیت اور مختلف طبقات میں ہم آہنگی کے لیے لازم ہے، حسب معمول جذبے سے کام لیتے ہوئے فوری کارروائی کی ۔ چنانچہ شیعہ اور سُنّی مکاتب ِفکر کے علما کا ایک اجلاس [وفاقی] وزیر تعلیم کی سرپرستی میں طلب کیا گیا اور معقول بحث وتمحیص کے بعد ایک نئی کتاب اسی نام یعنی رہنمائے اساتذہ کے ساتھ شائع کی گئی ۔ دونوں کتابوں کے فرق کو نمایاں کرنے کے لیے متعلقہ اقتباسات کو ذیل میں ایک دوسرے کے بالمقابل درج کیا جاتا ہے:

پہلے شائع شدہ کتاب

نئی (ترمیم شد ہ )کتاب

’’کلمہ، اسلام کے اقرار اور ایما ن کے عہد کا نام ہے۔ کلمہ پڑھنے سے کافر، مسلمان ہو جاتا ہے۔ کلمہ توحید ورسالت ماننے کا اقرار اور امامت

’’کلمۂ طیبہ، اسلام کے اقرار کا نام ہے۔ کلمہ  توحید ورسالت کا اقرار ہے‘‘۔ (ص ۳۵)

پہلے شائع شدہ کتاب

نئی (ترمیم شد ہ )کتاب

کے عقیدے کا اظہار ہے۔ ان عقیدوں کے مطابق عمل کرنے سے مسلمان مومن بنتا ہے‘‘۔ (ص ۳۵)

کلمہ: لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ (ص ۳۶) ، یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کے رسولؐ ہیں اور حضرت علی علیہ السلام، اللہ تعالیٰ کے ولی اوررسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی اوربلافاصلہ خلیفہ ہیں۔(ص ۳۷)

کلمۂ طیبہ: لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ سے کافرمسلمان ہوتا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معبود نہیں مانتے، اور حضرت محمدمصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے آخری رسولؐ ہیں۔اُن کے بعد کوئی نبی و رسولؐ نہیں آئے گا۔

لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ  سے شیعہ، توحید و رسالت کے علاوہ امامت کا اقرار اورشیعیت کا اظہار کرتے ہیں‘‘ (ص ۳۶)

رہنمائے اساتذہ  کے ترمیم شدہ ایڈیشن کے ساتھ ہی حکومت نے دو اور کتابیں شائع کیں، جن کا نام ’’اسلامیات (لازمی ) ہے، اور جو نویں اور دسویں جماعتوں کے شیعہ اور سنی طالب علموں کے درسی نصاب پر مشتمل ہیں۔ سنی طلبہ کی کتاب فیصلہ ہٰذا کے ساتھ بطور ’ضمیمہ سی ‘اور شیعہ طلبہ کی کتاب بطور ’ضمیمہ ڈی ‘ منسلک ہیں ۔ضمیمہ جات ’سی ‘ و ’ڈی‘ میں جو کلمۂ طیبہ علی الترتیب صفحات ۴۸ اور ۵۲ پر درج ہوا ہے، وہ لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ ہے ۔

۶- مقدمات ۹ جون ۱۹۷۶ء کو سماعت کے لیے پیش ہوئے تو مدّعیان نے اپنی رٹ درخواست میں مندرجہ ذیل بیان دیا:بیان منجانب :

(۱) پیر سید ابرار محمد ولد پیر سید اعجاز محمد صدر تنظیم الائمہ لاہور، خطیب جامع مسجد دارالحق، ٹاؤن شپ سکیم لاہور۔

(۲) مولانا محمد شفیع جوش ولد مولانا محمد اعظم، مہتمم مرکزِ اشاعت اسلام جامع مسجد ایف بلاک، ماڈل ٹاؤن لاہور۔

(۱) ہم نے رِٹ درخواست نمبر۱۵۹/۱۹۷۶ کے ذریعے کتاب رہنمائے اساتذہ کی  مندرجہ ذیل تحریروں پر، جو اس کے صفحات ۳۵،۳۷ پر درج ہیں، اعتراض کیا تھا ، یہ کتاب مدّعا علیہ نے وزارت تعلیم کے شعبۂ نصابات کی ری پروڈکشن یونٹ کے ذریعے ۱۹۷۵ء میں اسلام آباد سے شائع کی:

کلمہ :اسلام کے اقرار اور ایمان کے عہد کا نام ہے ۔ کلمہ پڑھنے سے کافر، مسلمان ہوجاتا ہے ۔ کلمہ میں توحید ورسالت ماننے کا اور اقرار امامت کے عقیدے کا اظہار ہے۔ ان عقیدوں کے مطابق عمل کرنے سے مسلمان مومن بنتا ہے۔

کلمہ: لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ ،یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور حضرت علی علیہ السلام، اللہ تعالیٰ کے ولی اور اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی اور بلا فاصلہ خلیفہ ہیں‘‘۔

(۲)  یہ رِٹ درخواست ابھی عدالت میں زیر تصفیہ تھی کہ مدّعا علیہ نے ایک اور کتاب اسی نام کے ساتھ شائع کی، جس کا حصہ سوم صرف شیعہ طالب علموں کے لیے ہے۔

اس کے صفحات ۳۵-۳۶ پر مندرجہ ذیل تحریر چھپی ہے :

’’کلمۂ طیبہ، اسلام کے اقرار کا نام ہے ۔ کلمہ میں توحید ورسالت کا اقرار ہے‘‘۔

کلمۂ طیبہ : لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  سے کافر، مسلمان ہو جاتا ہے ، جس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں مانتے اور حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے آخری رسول ہیں، ان کے بعد کوئی نبی ورسول نہیں آئے گا‘‘۔

لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  کے بعد عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ  سے شیعہ توحید ورسالت کے علاوہ امامت کا اقرار اور شیعیت کا اظہار کرتے ہیں۔

چونکہ اس کتاب میں یہ بالکل واضح کردیا گیا ہے کہ کلمۂ طیبہ صرف لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  ہے،اس لیے وہ اعتراض جو ہم نے پہلے اُٹھایا تھا، اب باقی نہیں رہتا۔

دوسرے بیان لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ کے بعد عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ سے شیعہ توحید و رسالت کے علاوہ امامت کا اقرر اور شیعیت کا اظہار کرتے ہیں‘‘ پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں کیونکہ یہ صرف شیعہ طالب علموں کے لیے ہے۔

(۳) چونکہ نئی کتاب کے شائع ہونے سے ہماری شکایت کا تدارک ہوگیا ہے، اس لیے ہم اپنی رٹ درخواست پر کارروائی کے لیے اصرار نہیں کریں گے۔ لہٰذا ، اس کا فیصلہ ہمارے بیان کے مطابق کردیا جائے۔سیّد افضل حیدر اور سیّد ولایت حسین حیدری نے بھی (جو شیخ مظہرعلی جاوید کی طرف سے درخواست توہین عدالت نمبر۳۲، ڈبلیو، بابت ۱۹۷۶ء میں وکیل ہیں) مندرجہ ذیل بیان داخل کیا:

’’ہم نے کتاب موسومہ رہنمائے اساتذہ کے نئے ترمیم شدہ ایڈیشن کا مطالعہ کیا جس کے حصہ سوم کے ص ۳۶ پر شیعہ طلبہ کے لیے درج ہے:

کلمۂ طیبہ: لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ سے کافر مسلمان ہوتا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں مانتے اور حضرت محمدمصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے آخری رسول ہیں۔ اُن کے بعد کوئی نبی و رسولؐ نہیں آئے گا۔ لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ کے بعد عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ سے شیعہ توحید و رسالت کے علاوہ امامت کا اقرار اورشیعیت کا اظہار کرتےہیں۔

۶- ہم نے پیر سید ابرار محمد اور مولانا محمد شفیع جوش کے بیانات رِٹ درخواست نمبر ۷۶/۱۵۹ میں اور مسٹر ارشاد احمد قریشی کا بیان درخواست توہین عدالت نمبر ۷۶ w  ۳۱ میں سن لیا ہے ۔ بطور اظہار خیر خواہی ہم بھی فوجداری اصل نمبر۳۲ ڈبلیو ۱۹۷۶ء پر اب کوئی مزید کارروائی نہیں چاہتے ،لہٰذا درخواست کا فیصلہ بھی ایسے ہی ہو جائے گا‘‘۔

فوجداری اصل نمبر ۳۱ ڈبلیو بابت ۱۹۷۶ء میں مدّعیان کے وکیل مسٹر ارشاد احمد قریشی نے بھی ایک بیان ان الفاظ میں دیا:

 نئی تالیف کے شائع ہونے کے پیش نظر میرے مؤکلوں نے رِٹ درخواست نمبر ۷۶/۱۵۹ میں یہ بیان دیا ہے کہ اب چونکہ ان کی شکایت کا تدارک ہو گیا ہے، اس لیے وہ اپنی رِٹ درخواست پر مزید کارروائی نہیں کرنا چاہتے۔ جذبۂ خیر سگالی کے اظہار کے لیے میں بھی درخواست توہین عدالت میں مزید کارروائی نہیں چاہتا۔ اس کا فیصلہ بھی ایسے ہی کر دیا جائے۔

۷- اس حقیقت کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ تمام مسلمانوں کا کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  ہی ہے ۔ جہاں تک سُنّی مکتب ِ فکر کا تعلق ہے، اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ البتہ رہنمائے اساتذہ  کی پہلی کتاب کے تحت شائع ہونے پر یہ شبہہ ہوا کہ گویا شیعہ مکتب ِ فکر کے مطابق کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ  ہے، لیکن یہ خیال نہ تو حکومت کے نقطۂ نظر سے کوئی مطابقت رکھتا ہے اور نہ شیعہ علما نے کبھی اس کی تائید کی ہے، کہ کلمۂ طیبہ سواے لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ   کے کچھ اور بھی ہے ۔ حکومت کے ما بعد رویے سے کہ اس غلطی کو درست کرنے کے لیے فوری کارروائی کی گئی، یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ ایک معصومانہ غلطی تھی۔ شیعہ مکتب ِفکر کی نیک نیتی اس بیان سے ظاہر ہوتی ہے، جس میں سید افضل حیدر نے (جو اس عدالت کے ایک سینئر ایڈووکیٹ ہیں) اور سید ولایت حسین ایڈووکیٹ نے غیر مبہم الفاظ میں تسلیم کیا ہے کہ ’’کلمۂ طیبہ صرف لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  ہے۔ اگر شیعہ علی ولی اللہ وصی رسول اللہ وخلیفتہ بلا فصل  پڑھتے ہیں تو یہ اس لیے نہیں کہ وہ کلمے کا حصہ ہے بلکہ اس سے وہ محض ’امامت ‘کا اقرار اور ’شیعیت‘ سے وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس لیے اگر شیعہ عقیدے کے متعلق کوئی شکوک کتاب رہنمائے اساتذہ کی پہلی اشاعت سے پیدا ہوئے بھی تھے، تو اب وہ دُور ہوگئے ہیں۔ اب کسی کے دل میں شیعہ عقیدے کے متعلق اس بارے میں کوئی شبہہ نہیں رہنا چاہیے‘‘۔

حافظ کفایت حسین [م:۱۴؍اپریل ۱۹۶۸ء]نے کہ جن کا شمارچوٹی کے شیعہ علما میں ہوتا ہے، تحقیقاتی عدالت کے رُوبرو جو ’پنجاب فسادات (پبلک تحقیقات) ایکٹ مجریہ ۱۹۵۳ء‘ کے تحت وجود میں آئی تھی، مسئلہ زیربحث کے متعلق درج ذیل بیان دیا تھا، جو خصوصی توجہ کے قابل ہے:

ہر اُس شخص کو مسلمان کہلانے کا حق حاصل ہے جو: (۱) توحید (۲) نبوت اور (۳)قیامت پر ایمان رکھتا ہے۔ یہ وہ تین بنیادی عقیدے ہیں، جن پرمسلمان کہلانے کے لیے یقین رکھنا ضروری ہے۔ ان تین بنیادی عقائد کے متعلق شیعہ اور اہلِ سنت میں کوئی اختلاف نہیں۔

تمام مکاتب ِ فکر کے علما اس بات پر متفق ہیں کہ کلمۂ طیبہ لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  ہے۔ اس کے ذریعے ہم یہ اقرار کرتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے پیغمبر ہیں۔ مسلمان ہونے کے لیے کلمۂ طیبہ یعنی لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  پرایمان لانا ضروری ہے، نیز اس کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کے ختم ہوجانے کا قطعی اور بلاشرط ایمان رکھنا لازم ہے۔

۸- کتاب رہنمائے اساتذہ  کی نئی اشاعت کےپیش نظر مدّعیان نے یہ بیان دیا ہے کہ ان کی شکایت رفع ہوچکی ہے، اس لیے وہ اپنی رٹ درخواست پر مزید کارروائی کے لیے زورنہیں دیتے۔ درخواست توہین عدالت ۷۶/w   ۳۱ و ۷۶/w  ۳۲ میں ہردوفریق کے وکلا کا بیان ہے کہ وہ جذبۂ حُب الوطنی کے تحت ان پر کارروائی کے لیے زور نہیں دیتے، لہٰذا ان کا فیصلہ ان کے بیانات کے مطابق کیا جاتا ہے۔

۹- مقدمے کے اختتام سے قبل مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس رٹ درخواست کے تصفیے کو  کسی ایک فریق کی کامیابی یا دوسرے کی ناکامی نہ سمجھا جائے۔اس امر پر مکمل اتفاق راے ہے کہ کلمۂ طیبہ لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ ہے۔

مدعیان کا دعویٰ بھی یہی ہے ، حکومت نے بھی اس کی تصدیق کردی ہے اور شیعوں کا عقیدہ اوراقراربھی یہی ہے۔

۹جون ۱۹۷۶ء         دستخط /محمداقبال

رٹ درخواست منظور کی گئی چیف جسٹس

(بحوالہ PLD ، جلد: XXVIII ، لاہور، ص ۱۱۲۸ - ۱۱۳۵)

_______________

[مولانا محمد شفیع جوش اُس زمانے میں آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے رکن اور اسلامی نظریاتی کونسل کشمیر کے ممبر تھے۔ آج کل جوہرٹاؤن، لاہور میں مقیم ہیں]۔

کورونا کی تباہ کاریاں دُنیا بھر میں موت کے سائے پھیلا رہی ہیں، لیکن بھارت کی نسل پرست فسطائی حکومت، جموں و کشمیر میں خون کی بارش اور ظلم و زیادتی کی جملہ کارروائیوں میں، پہلے سے بڑھ کر مصروف ہے۔ یہاں پر چار مختصر مضامین میں حالات کی تصویر پیش کی جارہی ہے۔ ادارہ

رمضان میں شہادتیں

سلیم منصور خالد

یہ رمضان المبارک بھی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں مظلوم عوام کے لیے تشدد، بے حُرمتی، ظلم، گھروں کی آتش زدگی اور گولیوں کی بوچھاڑ میں ۲۵شہادتوں اور ۲۴۹زخمیوں کا دُکھ دے کر گیا ہے۔ تاہم، یہاں پر دو مثالیں پیش ہیں:

۶مئی ۲۰۲۰ء (۱۲رمضان) کو حزب المجاہدین کےچیف آپریشنل کمانڈر ریاض نائیکو اپنے ایک ساتھی عادل کے ساتھ، اپنے ہی گاؤں میں بڑے خون ریز معرکے میں شہید کردیے گئے۔ موضع بیگ پورہ اونتی پورہ، ضلع پلوامہ (مقبوضہ جموں و کشمیر) میں پیدا ہونے والے ریاض شہید کی زندگی اپنے اندر عمل اور عزیمت کے پہاڑ سمیٹے ہوئے ہے۔ انھوں نے ڈگری کالج پلوامہ سے بی ایس سی کی تعلیم مکمل کرکے، ایک نجی اسکول میں بطور استاد پڑھانا شروع کیا۔ان کا ارادہ ریاضی میں ایم ایس سی اور پھر پی ایچ ڈی کا تھا کہ بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں کے ہاتھوں ۲۰۱۰ء میں گرفتارکرکے جیلوں میں تشدد کا نشانہ بنائے گئے۔ اور پھر رہائی کے ۲۰ روز بعد ۲۰۱۲ء میں حزب کا حصہ بن کر جدوجہد کے لیے اسکول اور گھر چھوڑ کر گھنے جنگلوں میں نکل گئے۔

وہ بُرہان مظفروانی کے قریبی ساتھی تھے۔ بُرہانی وانی کی شہادت کے چند ہی روز بعد ۱۳؍اگست ۲۰۱۶ء کو جب حزب کے چیف آپریشنل کمانڈر منصور الاسلام شہید ہوگئے تو یہ ذمہ داری ریاض نائیکو کے سپرد کی گئی، جنھوں نے خاص طور پر جنوبی وادیِ کشمیر میں جاں بازوں کو منظم کرنے اور ان کی مزاحمتی صلاحیت کو مؤثر بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔

ریاض شہید کے والد صاحب نے ایک بار بی بی سی کے نمایندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میرے بیٹے نے جس راستے کا انتخاب کیاہے، وہ درست راستہ ہے،مجھے اپنے بیٹے پر فخرہے۔ ہم ہروقت اس کی شہادت کی خبرسننے کے لیے ذہنی طورپر تیارہیں‘‘۔

ریاض ایک سنجیدہ معلّم اور متوازن طبیعت کے حامل نوجوان تھے۔ وہ نمایاں ہونے کے بجاے پیچھے رہ کر اور خاموشی سے مصروفِ کار رہنے پر کاربند تھے۔ تاہم، دو سال قبل ’الجزیرہ‘ کے نمایندے نے بڑی کوشش کرکے ان سے رابطہ کیا، تو انھوں نے اس سے گفتگو میں یہ الفاظ کہے تھے: ’’غاصبوں کے خلاف آزادی کی تحریکوں میں نشیب وفراز آتےرہتے ہیں ، لیکن پورے خلوص کے ساتھ اگر نگاہیں منزل پر لگی رہیں اورقدم اُس سمت بڑھ رہے ہوں، تو اللہ تعالیٰ ضرور کامیابی عطا فرماتا ہے اور ہماری منزل دُور نہیں ہے، ان شاء اللہ‘‘۔

اپنی اس جدوجہد کے دوران وہ کئی مرتبہ بھارتی سیکورٹی فورسز کے گھیرے میں آئے، لیکن کامیابی سے گھیراتوڑ کر اگلی منزل کی طرف گامزن ہوئے۔ یہ ۲۰۱۸ء کی بات ہے کہ ان کے والدگرامی کو بھارتی انتظامیہ نے گرفتار کرلیا۔ تب اسی سال ستمبر میں ریاض نائیکو نے اتنے جبر اور بہت سارے ناکوں کے باوجود ایک پولیس افسر اور گیارہ اہل کاروں اور رشتے داروں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ جس پر قابض بھارتیوں نے ان کے والدصاحب کو رہا کردیا۔ ساتھ ہی ریاض شہید نے ان لوگوں کو رہا کر دیا اور رہائی کے بعد ان لوگوں نے بتایا کہ ’’ہمارے ساتھ مجاہدین نے کوئی بُرا سلوک نہیں کیا‘‘۔ اس دوران ریاض شہیدنے کئی ویڈیو اور آڈیو پیغام سوشل میڈیا پرنشر کیے، جن میں جموں و کشمیر پولیس اہل کاروں کو آزادی کی جدوجہد کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالنے کی باربار اپیل کی۔

یہ جدوجہد چونکہ ایک مسلسل عمل کا نام ہے، اس لیے اس دوران جہاں دشمن کے مسلح ادارے اور خفیہ ایجنسیاں ریاض شہید کا تعاقب کرتی رہیں وہاں بھارتیوں کا ایک دام ہم رنگ بھی برابر متحرک رہا۔ یاد رہے ۱۹۹۲ء میں بھارت نے مجاہدین کشمیر کو بدنام کرنے کے لیے’الاخوان‘ کے نام سے اپنے آلہ کاروں اور قاتلوں کا گروہ تیار کیا تھا، جنھوں نے ایک جانب مجاہدین کے بہت سے قیمتی افراد کو شہید کیا، تو دوسری جانب مجاہدین کی جدوجہد کوبدنام کرنے کے لیےکبھی صحافیوں کو اغوا کیا اور کبھی یورپی سیاحوں کو اُٹھا لیا اور پھر انھیں قتل کرکے مجاہدین کو بدنام کیا۔ اس امرکی سیّدعلی گیلانی اورمجاہدقیادت نے باربار مذمت کی اور بتایا کہ اخوان المسلمون کے نہایت محترم نام کو بدنام کرنے اور حُریت پسندوں میں پھوٹ ڈالنے اور بے اعتمادی پیدا کرنے کے لیے یہ گھناؤنی کارروائیاں کی جارہی ہیں اور یہ ایک بھارتی سازش ہے، جس سے حُریت پسندوں کا کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ افسوس کہ گذشتہ تین برسوں سے بالکل یہی کام’داعش‘ کےنام ، پرچم اور نشان کو استعمال کرکے کیا جارہا ہے، حالانکہ جموں و کشمیر میں برسرِ زمین کہیں داعش موجود نہیں ہے۔ لیکن بھارتی ایجنسیاں اپنی وضع کردہ تصاویر میں، خاص طور پر داعشی نشان دکھا کر،مجاہدین آزادی کو بدنام کرنے کی کوشش کرتی آرہی ہیں، جن سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔

ریاض نائیکو گذشتہ آٹھ برسوں میں دوسری بار اپنی والدہ سے ملنےخفیہ طور پر اپنے گھر آئے، تو داعش کے رُوپ میں مخبروں نےبھارتی ایجنسیوں کو خبر دے دی۔ اس موقعے پر یہ چار مجاہد: ریاض احمد، جنیدصحرائی ، ڈاکٹرسیف اللہ اور محمد عادل بھٹ موضع بیگ پورہ (پلوامہ) میں موجود تھے۔ ریاض نےفیصلہ کیا کہ بھارتی فوجیوں کا مقابلہ اس طرح کیا جائے گا کہ دومجاہد جنیدصحرائی اورسیف اللہ اس گھیرے کو توڑ کر نکل جائیں ، جب کہ محمد عادل بھٹ ان کے ہمراہ مقابلہ کرکے غاصب فوجیوں کو مصروف رکھیں۔ جنید اور سیف اپنے کمانڈر کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے تھے،لیکن ریاض نے سختی سے حکم دےکر انھیں نکل جانے کو کہا۔

ریاض نے گھرکےنچلے کمرے اورعادل نے مکان کے اُوپروالےکمرے سے مقابلہ شروع کیا۔ اسی دوران قصبے کے سیکڑوں نوجوان اپنے گھروں سے نکل آئے اور جارح فوجیوں کے خلاف احتجاج اور پتھراؤ کرنے لگے۔ جواب میں پیلٹ گن فائرنگ، آنسوگیس اورفائرنگ کے نتیجے میں احتجاجی دباؤ کم ہوا۔ اسی دوران میں چاروں طرف سے گھیرکر بے تحاشا فائرنگ کرکے ریاض اور عادل شہید کردیے گئے۔ بھارتی فوجیوں نے ان دونوں کی میتیں قبضے میں لے لیں۔ انھیں لواحقین کے سپرد نہیں کیا اور ضلع گاندربل میں سونہ مرگ کے مقام پردفن کردیا۔

پھر ۱۹مئی کو جنید صحرائی اور طارق احمد کو بھارتی فوجیوں نے سری نگر میں گھیرے میں لیتے ہوئے اس طرح شہید کردیا کہ اس کارروائی کے دوران ۱۵ گھروں کو نذرِ آتش کرتے ہوئے تباہی مچادی۔ یاد رہے جنید صحرائی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ(ایم بی اے) ۲۹سالہ نوجوان تھے، جنھوں نے ۲۰۱۸ء میں عسکریت کا راستہ منتخب کیا۔ وہ تحریک حُریت کے نہایت محترم رہنما اشرف صحرائی کے بیٹے ہیں۔ یادرہے کہ صحرائی صاحب، محترم سیّد علی گیلانی کے دست ِ راست اور کئی عشروں سے رفیق کار ہیں۔

کشمیر: پیلٹ گن پرعدالتی پابندی سے انکار

غازی سہیل خان

۱۱مارچ ۲۰۲۰ء میں جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے ایک عدالتی فیصلے نے کشمیریوںاور انسانی حقوق کے کارکنوں میں شدید بے چینی پیدا کر دی ہے ۔ہائی کورٹ نے پیلٹ گن (Pellet Gun) پر پابندی لگانے کے لیے دائر کی گئی ایک اپیل کو مسترد کر دیا۔ پیلٹ گن پر پابندی لگانے کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ ’’بے قابو بھیڑ کو طاقت سے قابو کرنا نا گزیر ہوتا ہے ‘‘۔

جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں وادیِ کشمیر میں مظاہرین کو قابو کرنے کے لیے فورسزاہل کاروں کی طرف سے پیلٹ گن استعمال کرنے کے خلاف یہ درخواست جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار   ایسوسی ایشن کے ذریعے ۲۰۱۶ء میں اس وقت دائر کی گئی تھی، جب وادی میںمعروف عسکری کمانڈر برہان مظفروانی کی ہلاکت کے بعد وادی میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جس میں بھارتی فورسز اہل کاروں نے احتجاج کو قابو کرنے کے لیے پیلٹ گن کا استعمال کیا تھا، جس کے سبب بہت سے زخمیوں کو اپنی بینائی مکمل یا جزوی طور پر کھونا پڑی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ’’کس جگہ، کس طرح سے طاقت کا استعمال کرنا ہے، یہ اس جگہ کے انچارج پر منحصر ہے ،جو اس جگہ تعینات ہے جہاں ہنگامہ ہو رہا ہوتا ہے‘‘ ۔

’پیلٹ گن‘ کشمیر میں احتجاجی مظاہرین کے خلاف استعمال میں اُ س وقت لائی جانے لگی جب ۱۱ جون ۲۰۱۰ء کو طفیل متو، راجوری کدل، سرینگرمیں آنسوگیس شل لگنے سے جاں بحق ہوا۔ تب وہ کوچنگ کلاس میں جا رہا تھا۔اس سے قبل ۱۳ سالہ ایک اور طالب علم وامق فاروق جنوری ۲۰۱۰ء میں نزدیک سے ایک آنسو گیس شل کا شکار ہو کر جاں بحق ہوگیا تھا۔

ان اموات کے بعد نہ تھمنے والے احتجاج کو روکنے کے لیے بھارتی فورسز نے پیلٹ گن کا استعما ل کرنا شروع کیا تھا۔ پھر زخمیوں اور بینائی سے محروم نوجوانوںکی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ پیلٹ بندوق ایک بار چلانے سے اس میں سے ۵۰۰ پیلٹ ایک بار آگے کی سمت میں نکل کربکھر جاتے ہیں۔ جو کوئی بھی ان چھرّوں کی زد میں آتا ہے وہ زخمی ہو جاتا ہے ۔پیلٹ کے چھرّے لگنے کے بعد انسان زخمی ہونے کے ساتھ ساتھ شدید قسم کا درد محسوس کرتاہے ۔پیلٹ چھرّے دُور سے انسان کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتے، لیکن جب یہ ۵۰۰میٹر کی دُوری سے چلائے جائیں توشدید نقصان پہنچاتے ہیں، خاص طور سے جب یہ انسان کے نازک حصوں پہ جا کے لگتے ہیں، جن میں آنکھیں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔

۲۰۱۰ء سے آج تک کشمیر میں ہزاروں نوجوان پیلٹ بندوق کی چھرّہ فائرنگ سے جزوی اور ایک سو سے زائد نوجوان کلی طور پر اپنی آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئے ہیں اور ابھی تک پیلٹ گن کی وجہ سے ۱۴؍ افراد کی موت بھی واقع ہوچکی ہے ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق: ’’حکومت ہند، اس ہتھیار کو پیلٹ گن کہتی ہے، لیکن اصل میںیہ پمپ ایکشن شاٹ گن Pump Action Shotgun)) ہے‘‘ ۔ایمنسٹی کا مزید کہنا ہے کہ:’ ’یہ اکثر جنگلی شکار کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ یہ ہتھیار احتجاج کو قابو کرنے کے لیے نہیں بنایا گیا ہے‘‘۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے بارہا حکومت ہند سے کہا ہے کہ اس مہلک ہتھیار پر پابندی عائدکریں ۔

 وادیِ کشمیر میں پیلٹ گن کی وجہ سے خواتین ،بزرگ اور پیر و جواں سب متاثر ہوئے ہیں، تاہم متاثرین میں اکثریت نوجوانوں کی ہے ۔۲۰۱۸ء میں جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں سے تعلق رکھنے والی کم عمر بچی حبہ نثار پیلٹ لگنے کی وجہ سے اپنی ایک آنکھ کی بینائی کھو بیٹھی۔اسی طرح سے ایک اور بچی انشاء مشتاق بھی ۲۰۱۶ء میں پیلٹ لگنے کی وجہ سے اپنی دونوں آنکھوں کی روشنی سے محروم ہوکر محتاج ہو گئی ہے۔ یوں درجنوں نوجوان بینائی سے محرومی کے سبب زندگی محتاجی کے عالم میں گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

شمالی کشمیر سے ایک پیلٹ متاثر ہ نوجوان نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر انتہائی افسوس اور مایوسی کااظہار کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ’’ یہ ایک اُمید تھی وہ بھی چلی گئی اور ہم چاہتے تھے کہ اب کوئی نوجوان کشمیر میں اندھا نہ ہو، کوئی نوجوان زندگی بھر کے لیے محتاج نہ ہو، مگر عدالتی فیصلے نے ہم کو مزید مایوسی کا شکار بنا دیا ہے‘‘۔متاثرہ نوجوان کی دونوں آنکھیں پیلٹ لگنے کی وجہ سے بینائی سے محروم ہو گئی ہیں۔ اس نے کہا کہ’’ جب کوئی نوجوان پیلٹ کی وجہ سے اپنی آنکھوں کی بینائی کھو دیتا ہے تو وہ لازماً ذہنی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے،وہ محتاج ہوجاتا ہے اور چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتا، جس کی وجہ سے کبھی کبھی ایسے نوجوان خودکشی کی بھی کوشش کرتے ہیں‘‘۔

متاثرہ نوجوان نے بتایاکہ میرے ایک جاننے والے پیلٹ متاثر ہ نے گذشتہ سال خود کشی کرنے کی کوشش اس لیے کی کہ ان کے گھر میں دوپہر کا کھانا نہیں تھا اور یہ نوجوان اس گھر کا واحد کمانے والا فرد تھا، جس کی خود اپنی زندگی اب دوسروں کی محتاج ہو گئی ہے اور دیگر افراد خانہ بھی دو وقت کی روٹی کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ۔

اس کے ساتھ ہی ساتھ کشمیر میں ایک تحقیق کے مطابق: ’’پیلٹ متاثرین میں سے ۸۵ فی صد نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں ۔جس میں۲۵ء۷۹ فی صد معاشرے میں احساس تنہائی کا شکار،۱۵ء۷۹ فی صد پوسٹ ٹرامیٹک سٹرس ڈس آرڈر،۲۱ء۹ فی صد شدید پریشانی کی بیماریوں میں مبتلا ہو گئے ہیں‘‘۔ ڈاکٹروں نے ۳۸۰پیلٹ متاثرین کی تشخیص کے دوران نوٹ کیا: ’’۲۰۱۶ء کے بعد پیلٹ متاثرین مختلف قسم کی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو گئے ہیں۔

پیلٹ گن متاثرین میں سے ۹۳ فی صد افراد ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ بہت سارے متاثرین نفسیاتی امراض کے ماہرین کے پاس جانے سے گریز کرتے ہیں‘‘۔تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بے شمار متاثرین اپنے آپ کو ذہنی امراض کا شکار نہیں سمجھتے ۔تاہم، بہت سارے مریضوں کی کونسلنگ اور دیگر ادویات کے ذریعے ان کا علاج کیا جاتا ہے۔

مجموعی طور پر کشمیر میں ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر عوام میںناراضی کا اظہارکیا جا رہا ہے۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ عدالت ہی ایک ذریعہ ہے، جس کے ذریعے اس مہلک ہتھیار سے نوجوانوں کو بچایا جا سکتا تھا ،لیکن اب اس عدالتی فیصلے نے وادی میں مایوسی پھیلا دی ہے اور انتظامیہ کو من مانی کے لیے مزید کھلی اجازت مل گئی ہے۔

کشمیر کا لاک ڈاؤن اور کورونا لاک ڈاؤن؟

سہیل بشیر کار

چند دن قبل ایک معروف ٹی وی اینکر رویش کمار پروگرام میں کہہ رہے تھے کہ ’’  Covid 19 لاک ڈاؤن اور کشمیر کے لاک ڈاؤن کا موازنہ نہیں ہوسکتا۔ اصل میں کچھ لوگ غیر حقیقت پسندانہ طور پر ان دونوں لاک ڈاؤنز کوبرابر کی چیز قرار دے رہے ہیں‘‘۔ رویش نے کہا کہ ’’کشمیر کا  لاک ڈاؤن کچھ اور ہی تھا، بے مثل تھا، یعنی کہ جبر اور ظلم کی بے مثال صورت‘‘۔ یہ سن کر جی چاہا کہ کیوں نہ کشمیر کے لاک ڈاؤن کا نقشہ کھینچوں اور کیوں نہ یہ پہلو بھی بیان ہو کہ کشمیریوں نے مصیبتوں کا مقابلہ کرنا سیکھا ہے اور وہ بڑے بھیانک اَدوار کو برداشت کرکے نہ صرف زندہ رہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوئے۔

یوں تو کشمیر میں ۹۰ کے عشرے سےہی ظلم و جبر کا سلسلہ چل رہا ہے، لیکن کشمیر نے کچھ ایسے اَدوار اور واقعات بھی دیکھے جن سے یوں لگا کہ شاید اس دور سے باہر آنا ناممکن ہے۔ چاہے وہ Catch and Kill آپریشن ہو، یا حکومت کی پشت پناہی میں اخوانی دہشت گردوں کا ظلم و قہر۔ چاہے ایک منصوبے کے تحت خواتین کی عصمت دری ہو یا ۱۰ ہزار سے زائد نوجوانوں کو اس طرح غائب کرنا کہ ان مظلوموں کا نام و نشان بھی نہ ملے۔

 کئی برسوں تک بغیر کسی مقدمے کے لوگوں کو نظربند رکھنا، یا تفتیشی سنٹروں میں لوگوں کو ناقابلِ بیان اور شرم ناک اذیتیں دینا، یہ سب کشمیریوں نے دیکھا، بھگتا اور مسلسل برداشت کرتے آرہے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود لوگ پُرعزم اور زندہ رہے ہیں۔ جس علاقے میں ہزاروں جواں بیٹوں کی میّتوں کو ان کے باپ کندھا دیں، اس علاقے کے لوگ کیسے جی رہے ہوں گے؟ یہ سوچ ہی اذیت ناک حدتک انسان کو مضطرب کر دیتی ہے، لیکن کشمیریوں نے یہ اندوہناک مناظر بھی انگیز کیے۔

گذشتہ برسوں میں بھارتی حکومت نے کچھ ایسے اقدامات کیے، جن سے نہ صرف ظلم کی ساری حدود پار ہوگئیں بلکہ کشمیریوں کو نہ ختم ہونے والے اندھیرے میں دھکیل دیا گیا۔ اگرچہ ۲۰۱۶ء سے ہی حکومت نے سخت اقدامات شروع کیے، جن میں حریت قائدین کو فرضی مقدمات میں پھنسانا وغیرہ وغیرہ، لیکن جولائی ۲۰۱۹ء کے آخری ہفتہ سے ہی وادیِ کشمیر میں بھارتی حکومت نے کچھ ایسی سرگرمیاں شروع کیں کہ ہر کشمیری کہنے لگا: ’’کچھ انہونی ہونے والی ہے‘‘۔ اگست کی پہلی تاریخ سے ان اقدامات میں اور شدت آئی تو ایسا محسوس ہونے لگا کہ بہت کچھ خراب ہونے والا ہے، خوف و دہشت کا ماحول چاروں طرف چھا گیا، ۱۰ لاکھ فوجیوں کے باوجود یہاں اضافی طور پر پیراملٹری فورسز منگوائی گئی۔

۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو سویرے ہر طرف کرفیو کا اعلان ہونے لگا۔ لینڈلائن، ٹیلی فون، انٹرنیٹ سب بند تھا، حتیٰ کہ کیبل نیٹ ورک بھی بند۔ جماعت اسلامی پر تو بہت پہلے ہی پابندی لگادی گئی تھی۔ جے کے ایل ایف پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی اور اس کے اکثر کارکن گرفتار تھے۔ حریت کی چھوٹی اور بڑی قیادت کو نظر بند کیا گیا تھا۔ ۵؍اگست کو مختلف ذرائع سے معلوم ہونے لگا کہ کشمیر میں ۱۸ ہزار افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے، حتیٰ کہ دہلی نواز لوگوں کو بھی۔ تین سابق وزراےاعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، اور محبوبہ مفتی نظر بند کیے گئے۔ وہی محبوبہ مفتی جو کچھ ہی مہینوں پہلے بی جے پی کی حکومت میں ساتھی اور حلیف تھیں۔ شاہ فیصل جو کبھی ’نوجوان قیادت‘ کی حیثیت سے کُل ہند میں اُبھارے جارہے تھے، وہ بھی نظر بند کر دیے گئے ۔ انھوں نے کچھ مہینے قبل بھارتی سول سروس سے استعفا دیا تھا اور کشمیر کے مسئلے کے لیے اپنے انداز سے میدان میں اتر چکے تھے۔

 ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ جس کسی فرد کی ۵۰  یا اس سے زیادہ افراد پر گرفت تھی وہ گرفتار کرلیا گیا ۔ایسا لاک ڈاؤن کہ کسی کو کسی کی خبر نہ تھی۔ لوگوں کو انتہائی مشکلات کا سامنا تھا۔ دکانیں، کاروباری ادارے آٹھ ماہ تک بند رہے۔ میرے ماموں حج پر تھے، ہمیں یا انھیں ہماری کوئی اطلاع نہ تھی۔ میرے انتہائی قریبی دوست اپنی اہلیہ جو کہ حاملہ تھی اور کافی بیمار بھی، کے ساتھ سری نگر میں تھے، ان کی کوئی اطلاع نہ تھی۔ ان کے نوزائیدہ بچے کا انتقال ہوگیا اور اس کی اطلاع دینے کے لیے انھیں خود میرے گھر آنا پڑا۔ ان واقعات سے اندازہ ہوگا کہ لوگوں کو کس قدر دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ ۷۱  دن تک فون بند تھے۔ آج کے دور میں کوئی تصور کر سکتا ہے ایسی زندگی کا؟ اب بھی انٹرنیٹ محض 2G سپیڈ پر چل رہا ہے۔

 اخبارات کے مالکان کو یہ حکم دیا گیا کہ ’’خبر وہی چھپے جو حکومت کے خلاف نہ ہو‘‘۔ کئی دنوں تک تو اخبارات کی اشاعت بھی روک دی گئی۔ پھر اخبارات میں اداریہ لکھنا اور شائع کرنا بھی بند کیا گیا۔ انھیں سخت ہدایت دی گئی کہ کوئی ایسا مضمون نہ چھپے، جس میں موجودہ حالات کا تذکرہ ہو۔ بی بی سی نے جب مقامی احتجاج کی رپورٹ کی، تو کشمیر کے گورنر نے کھلے عام انھیں دھمکی دی۔ ایسے حالات میں کشمیریوں نے نہایت ہی دانش مندانہ رویہ دکھایا۔ وہ کسی بڑے احتجاج کے لیے باہر نہیں نکلے۔ وہ جانتے تھے کہ ہندستان اپنی طاقت کا بے دریغ استعمال کرے گا۔ ہزاروں جانیں لے گا اور دنیا کو ذرائع ابلاغ پر اس شدید پابندی کے باعث کوئی خبر بھی نہ ہوگی۔

اگرچہ ہر کوئی دُکھی اور مجروح ہے، لیکن کشمیری جانتے ہیں کہ ہمیں جینا ہوگا، ہماری جدوجہد طویل ہوگی۔ ان مشکل حالات میں کشمیر کے لوگوں نے اگرچہ دکانیں بند رکھیں، لیکن سڑکوں پر نہیں آئے۔ انھوں نے معاشرے کے کمزور افراد کا خاص خیال رکھا۔ معمولات اگرچہ متاثر رہے لیکن زندگی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی۔ اسکول بند رہے، لیکن یہ قوم جانتی ہے کہ ترقی اور عروج کے لیے تعلیم کس قدر اہم ہے، لہٰذا اپنے اپنے علاقوں میں تعلیم یافتہ افراد نے مفت ٹیوشن سنٹر کھولے، جہاں بچوں اور بچیوں کو مفت تعلیم دی جانے لگی۔ انھیں معلوم ہے کہ انھیں طویل جدوجہد کرنی ہے، اور تازہ دم ہونے کے لیے کبھی پلٹنا بھی پڑتا ہے، غرض کشمیریوں نے جینا سیکھا۔

‌ آج پوری دنیا میں لاک ڈاؤن ہے، لیکن گرفتاریاں نہیں ہیں، ظلم و جبر نہیں ہے، انٹرنیٹ چل رہا ہے، لوگ فون کے ذریعے اپنوں کے ساتھ رابطے میں ہیں، حکومتی امداد ہے۔ ایسا لاک ڈاؤن کشمیریوں کے لیے سخت ہولناک لاک ڈاؤن کے مقابلے میں کچھ بھی نسبت نہیں رکھتا۔ کشمیری تو سخت جاں آزمایش میں بھی جینا سیکھ چکا ہے۔کہاں وہ لاک ڈاؤن اور کہاں یہ والا کورونا لاک ڈاؤن!

کشمیر کی شناخت پر بھارتی حملہ؟

عارف بہار

بھارتی حکومت نے کشمیر کی قومی، نسلی اورجغرافیائی شناخت کی تبدیلی اور خصوصی قوانین کے خاتمے کے آٹھ ماہ بعد اپنے اصل منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز کردیا ہے۔ ’جموں وکشمیر ری آگنائزیشن آرڈر۲۰۲۰‘ کے نام سے جاری کردہ ایک حکم نامے کے ذریعے ریاستی ڈومیسائل کی نئی تشریح کی گئی، جس کے تحت کشمیر میں پندرہ سال تک مقیم رہنے والے، اور یہاں سات سال تک تعلیم حاصل کرنے، اور دسویں اور بارہویں جماعت کا امتحان دینے والے ملازمت کے حق دار ہوں گے۔

 ماضی میں ۳۵-اے کے تحت ان تمام قوانین کی تدوین اور تیاری کا اختیار کشمیر اسمبلی کو حاصل تھا۔ ان دفعات کے خاتمے کے بعد اب بھارتی حکومت نے یہ سارے کام اپنے ذمے لے لیے ہیں۔ ڈومیسائل قانون کی نئی تشریح کے مطابق اب بھارتی حکومت کے کشمیر میں سات سال تک تعینات رہنے والے اعلیٰ افسروں، آل انڈیا سروس آفیسرز، بھارتی حکومت کے کشمیر میں نیم خودمختار اداروں، کارپوریشنوں، پبلک سیکٹر بنکوں، بھارتی یونی ورسٹیوں کے اہل کاروںکے بچے اور وہ خود یہاں کشمیر کے لیے مختص اسامیوں پر ملازمت کرنے کے اہل ہوں گے۔ فوری طور پر نافذالعمل اس قانون کے تحت بھارتی باشندے کشمیر میں مشتہر کردہ اور غیر مشتہر شدہ اسامیوں پر درخواست دینے کے اہل ہوں گے۔ اس قانون کے نفاذ کے لیے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا گیا، جب دنیا کی توجہ کورونا بحران کی طرف ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم نے اپنے ٹویٹر پیغامات میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اس فیصلے کی شدید مذمت کی ہے کہ ’’ نریندر مودی کورونا کی جانب دنیا کی توجہ مبذول ہونے کا فائدہ اُٹھاکر کشمیر میں اپنے فاشسٹ ’ہندوتوا‘ ایجنڈے پر عمل درآمد کررہا ہے، اور دنیا کو اس کا نوٹس لینا چاہیے‘‘۔

وزیراعظم پاکستان نے اس قانون کو’’ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش اور عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی‘‘ قرار دیا۔ انھوں نے اسے ’’چوتھے جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا‘‘، اور ’’بھارت کے نئے قانون کو کلی طور پر مسترد کردیا ہے‘‘۔آزادکشمیر کے صدر مسعود خان، اور وزیراعظم فاروق حیدرنے بھی بھارت کے نئے قانون کی مذمت کی ہے۔

اس قانون کی زد چونکہ بلا تمیز مذہب اور علاقہ ریاست جموں وکشمیر کے تمام باشندوں پر پڑ رہی تھی، اس لیے کشمیری مسلمانوں سے زیادہ جموں کی ہندو آباد ی اور نوجوان نسل نے بھی اس فیصلے کے خلاف بے چینی ظاہر کرنا شروع کردی ہے۔ جموں کے ہندو نوجوانوں کو اس وقت وادی کے پریشان حال مسلمان طلبہ سے مسابقت درپیش ہے، اور وادی کی تین عشروں سے مخدوش صورتِ حال نے جموں کے ہندو طلبہ کے لیے مقابلے میں آسانی پیدا کردی ہے۔ مگر جب پورے بھارت سے ایک نئی کلاس یہاں مقابلے اور مسابقت میں اتر رہی ہے تو جموں کی ہندو آبادی اور نوجوان نسل کے لیے ایک نیا دردِ سر سامنے کھڑا نظر آیا۔

اس خطرے کو جموں میں پوری طرح محسوس کرتے ہوئے جموں کے علاقے کے ہندو طلبہ و طالبات نے مودی حکومت کو برسرِ عام ویڈیو پیغامات میں دھمکانا شروع کیا کہ ’کورونا وائرس‘ کا معاملہ ختم ہونے دو، پھر دیکھنا پورا جموں سڑکوں پر ہوگا۔ خود کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں نے بھی اس فیصلے کی یک زبان ہوکر مخالفت کی۔ اس طرح مخالفانہ ماحول کو اُبھرتا دیکھ کر بھارتی حکومت نے فوراً ہی اس قانون میں مزید ترمیم کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ ’’گریڈ ایک سے ۱۷ تک تمام اسامیاں جموں وکشمیر کے پشتینی باشندوں کے لیے ہی مختص رہیں گی‘‘۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے احتجاج اور مفاد کو دو مختلف زاویوں سے دیکھتی اور عمل کرتی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اس قانون کی زد صرف وادی کے نوجوانوں کے مفاد پر پڑتی تو نریندر مودی حکومت احتجاج اور مطالبات کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دیتی۔

اس دوران بھارت میں آباد کشمیری پنڈت اور معروف اداکار انوپم کھیر نے کشمیری زبان میں کشمیری مسلمانوں کو ایک زہر آلود پیغام دیا ہے۔ یادرہے انوپم کھیر مسلمان دشمن بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتہائی قریب ہے۔ اس نے کشمیری زبان کے تین الفاظ ’’رلو(ہم سے مل جاؤ)، گلیو (مرجاؤ)، ژلیو(بھاگ جاؤ)‘‘ پر مشتمل پیغام میں کشمیری مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ ’’تمھیں بھارت میں  گھل مل جانا چاہیے، بصورتِ دیگر تمھارے سامنے مرنے یا بھاگ جانے ہی کے دوراستے ہیں‘‘۔ انوپم کھیر کی یہ سوچ ایک فرد کے خیالات کی نہیں، بلکہ ایک پورے نسل پرست فسطائی نظام اور  نفرت انگیز ذہنیت کی عکاس ہے، اور بھارتی حکومت کے تمام اقدامات کے پیچھے یہی سوچ کارفرما ہے۔ اس سوچ میں وہی ہٹلر، مسولینی اور راتگو ملادیچ جھلکتے اور جھانکتے نظر آرہے ہیں، جن کی جانب حکومت ِ پاکستان ۵؍ اگست کے بعد سے دنیا کی توجہ مبذول کراتی آئی ہے۔

بھارت کے نئے قانونِ کشمیر پر بھارت کا اصل اور طویل المیعاد ایجنڈا فلسطین اسٹائل پر عمل درآمد کا آغاز کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی اور مسلم شناخت کو آبادی کے تناسب کی تبدیلی کے ذریعے بدلنا تھا۔ بھارت ۷۱برس تک اس راستے پر کبھی کچھوے، تو کبھی خرگوش کی چال چلتا رہا۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد نریندر مودی نے اس سمت میں خرگوش کی چال سے پیش قدمی کرنا شروع کی ہے۔

بھارت جس طرح کشمیر میں اپنا ایجنڈا یک طرفہ طور پر نافذکرنا چاہتا ہے، یہ دنیا کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اس سے صاف لگتا ہے کہ امریکا اور کچھ دوسری طاقتیں ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر، حقیقت میں بھارت کو کشمیر میں ہندوتوا ایجنڈے پر عمل درآمد کرواتے ہوئے اور آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی ٹھوس بنیادیں رکھنے کا موقع فراہم کررہی ہیں۔ اب بھارت نے کورونا کا فائدہ اُٹھا کر اس جانب عملی پیش قدمی شروع کردی ہے۔ یہ کشمیری مسلمان آبادی کو اپنے علاقے میں اقلیت میں بدلنے کی جانب اُٹھایا جانے والا ایک ٹھوس قدم ہے۔ اس کے بعد بھارت کے بڑے کاروباری گروپ کشمیریوں سے اونے پونے داموں زمینوں کی خریداری کرکے اس منصوبے کو آگے بڑھانا شروع کردیں گے۔ یہ وہ خطرہ ہے جس کی مدتوں سے نشان دہی کی جاتی رہی۔ بھارت کی اس منظم کوشش کو حالات کی قید میں پھنسے صرف کشمیری ناکام نہیں بنا سکتے۔ اس کام کے لیے پاکستان کی بھرپور مدد کی ضرورت ہے۔ حکومتِ پاکستان کو اس سلسلے میں بیان بازی سے آگے بڑھ کر کوئی پالیسی تشکیل دینا ہوگی۔

عصرِحاضر جسے زعم ہے کہ وہ’جدید‘ ہے، لیکن ظلم و زیادتی کے باب میں یہ ’جدید‘ اُتنا ہی بھیانک اور قدیم ہے، جتنا کہ ظلم و ستم سے لتھڑا تاریک ماضی ہوا کرتا تھا۔ ظلم کی طرف داری اور ظلم کی پردہ داری کےلیے عصرِحاضر کے مقتدر ملکوں، طبقوں اور ’غیرسرکاری تنظیموں‘ کی سیاہ کاری کا گندا کھیل برابر عروج پر ہے۔ اس ظلم کی ایک شرم ناک مثال بنگلہ دیش میں موجودہ عشرے میں برابر پیش کی جارہی ہے۔ لیکن عالمی ادارے، ملکوں کے حکمران اور انسانی حقوق کے ’سوداگر‘ سب خاموشی سے آنکھیں بند کیے دکھائی دیتے ہیں۔ ظلم کے اس طوفان نے ایک اور سعید روح مولانا عبدالسبحان کو نگل لیا ہے، اناللہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا عبدالسبحان ۱۹فروری ۱۹۳۶ء کو مومن پارہ، ضلع پبنہ مشرقی بنگال میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گرامی نعیم الدین احمد ایک دینی اسکالر تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم رام چندر پور سے حاصل کی، ۱۹۵۲ءمیں مدرسہ عالیہ سراج گنج سے فاضل اور ۱۹۵۴ء میں کامل کی سند اس اعزاز سے حاصل کی کہ مدرسہ بورڈ کے مشرقی پاکستان بھر کے امتحان میں ساتویں پوزیشن پر آئے۔ بنگلہ کے علاوہ، عربی، اُردو میں دسترس کے ساتھ انگریزی اور فارسی کا اچھا فہم رکھتے تھے۔ فاضل کی سند لیتے ہی خداداد قابلیت کی بنیاد پر ، اپنے مدرسے میں تدریسی ذمہ داریاں ادا کرنے لگے، اور اس کے ساتھ مزید تعلیم بھی حاصل کرتے رہے۔ اسی زمانے میں مولانا مودودی کی کتب اورکلامِ اقبال سے والہانہ عشق پیدا ہوا، اورپھر جماعت اسلامی کے قافلے کے ہراوّل دستے میں دعوت، تربیت اور خدمت پر مبنی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ مولانا عبدالسبحان ضلع پبنہ میں جماعت اسلامی کے دعوت و تنظیم میں تاسیسی رہنما تصور کیے جاتے تھے۔
۱۹۶۵ء میں پبنہ شہر منتقل ہوگئے، جہاں جماعت کے تنظیمی اور رفاہی نظم و ضبط کے ذمہ دار مقرر ہوگئے اور کچھ ہی عرصہ بعد جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۷۱ء میں پاکستانی حکمرانوں کی بے تدبیری، سیاست دانوں کی خودغرضی اوربھارتی پشت پناہی سے شروع ہونے والی بدامنی اور تخریب کاری کے دوران امن کمیٹی پبنہ کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے۔ اس دوران مولانا عبدالسبحان نے غیربنگالی اہلِ وطن کو عوامی لیگی دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل و غارت سے بچانے کے لیے اپنی جان تک داؤ پر لگادی اور تخریب کاری روکنے کے لیے شہری سطح پر انتظامات کیے۔ دسمبر ۱۹۷۱ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہجرت کرکے مغربی پاکستان آگئے اور پھر ۱۹۷۵ء میں واپس بنگلہ دیش چلے گئے۔
۲۰۰۱ء کے پارلیمانی انتخابات میں پبنہ سے پانچویں بار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے اور اس کے دو سال بعد۲۰۰۳ء میں ، یعنی ۱۹۷۱ء کے ۳۲برس بعد عوامی لیگ نے ان کے خلاف اچانک ایک فوجداری ’مقدمہ‘ درج کرا دیا، جس میں کہا گیا کہ:’’ اپریل تا اکتوبر ۱۹۷۱ء انھوں نے ۴۵۰؍افراد کو قتل کیا، جن میں زیادہ تر ہندو تھے۔ گھروں کو آگ لگائی اور لوٹ مار کی‘‘۔ جب حسینہ واجد (عوامی لیگ) کی حکومت ایک باقاعدہ سازش کے تحت قائم کی گئی تو اس حکومت نے جماعت اسلامی کی قیادت کے خلاف تواترکے ساتھ مقدمات چلانے کے لیے ۲۰۱۰ء میں نام نہاد کرائمز ٹریبونل (ICT) بنائے۔
اِس شیطانی کھیل کو آگے بڑھانے کے لیے ۲۰ستمبر ۲۰۱۲ء کو، جب مولانا عبدالسبحان ڈھاکہ سے اپنے گھر پبنہ شہر جارہے تھے کہ راستے میں پڑنے والے بنگ بندو پُل پر انھیں گرفتار کرلیا گیا، اور یہ بتایا گیا: ’’۲۰۰۳ء کے قائم شدہ مقدمے کے تحت گرفتار کیا گیا ہے‘‘۔ اگلے روز خصوصی ٹریبونل میں پیش کرکے مقدمے کی کارروائی شروع کی۔
اس خانہ ساز عدالت نے ۳۱دسمبر ۲۰۱۳ء کو مقدمے کا ڈراما شروع کیا اور ۱۸فروری ۲۰۱۵ء کو آپ کو سزاے موت سنائی۔ ۱۸مارچ ۲۰۱۵ء کو مولانا عبدالسبحان نے جھوٹے مقدمے، یک طرفہ کارروائی اور سرکاری گواہوں پر جرح کرنے کے حق کو سلب کرنے کو بنیاد بناکر سپریم کورٹ میں اپیل دائرکی۔ظاہر ہے کہ جب سب چیزیں ہی ایک جہل اور حددرجہ جعل پر مبنی تھیں تو شریک ِ جرم بنگلہ دیش سپریم کورٹ کیسے اپیل کا میرٹ پرفیصلہ دیتی؟ یوں اپیل مسترد ہوئی اور  مولانا عبدالسبحان تب سے اب تک جیل کی پھانسی گھاٹ کوٹھڑی میں قید تھے اور کسی بھی وقت تختۂ دار کے لیے بلیک وارنٹ کے اجرا کے منتظر تھے۔
بڑھاپے اور مسلسل قید کی وجہ سے مولانا عبدالسبحان متعدد امراض کے شکارہوچکے تھے۔ ۲۴جنوری ۲۰۲۰ء کو جب صحت کی حالت بہت زیادہ بگڑگئی تو جیل حکام کی سفارش پرڈھاکہ میڈیکل کالج ہسپتال منتقل کردیا گیا، جہاں ۱۴فروری ۲۰۲۰ء کو دن ڈیڑھ بجے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے نائب امیر ، بزرگ پارلیمنٹیرین ، دینی رہنما اور ۸۴سال کے بزرگ مولانا عبدالسبحان انتقال فرماگئے۔ یوں ۱۹۷۱ء میں برہمنی سامراجیت کےخلاف کھڑے رہنے اور پھر آخردم تک بھارت کی طفیلی اور ’را‘ کی پروردہ حکومت کے سامنے ڈٹ کر دیوار بننے اور اسلامی اُمت کے موقف کی تائید کرنے والے مجاہد نے جان کانذرانہ دے کر عہد ِ وفا نبھایا۔  
ہم دیکھتے ہیں کہ وہ جو انسانی حقوق کے نام پر دکان سجاتے ہیں، انھیں نہ ایسے بے معنی فوجداری مقدمات میں کوئی خرابی نظر آتی ہے، نہ انھیں جعلی عدالتی عمل میں کچھ قباحت دکھائی دیتی ہے، اور نہ ایسی اموات اور پھانسیوں پر ان کے ضمیر پہ کچھ بار پڑتا ہے۔
بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن نے تعزیتی بیان میں کہا: ’’مولانا عبدالسبحان صاحب ایک متنازعہ اور سیاسی تعصب سے آلودہ انتقامی مقدمے میں جعلی اور عوامی لیگی گواہیوں کی بنیاد پر سزاے موت سے منسوب کیے گئے۔ وہ گذشتہ آٹھ برس سے جیل میں قید تھے۔ حالانکہ ۱۹۷۲ء سے لے کر اب سے چند برس پہلے تک، بنگلہ دیش میں کبھی کسی نے، مولانا عبدالسبحان کو کسی فوجداری جرم کا ملزم قرار نہیں دیا تھا۔ اس دوران میں انھوں نے بنگلہ دیش کی سیاسی، سماجی، تعلیمی، معاشی اور دینی ترقی کے لیے بے پناہ خدمات انجام دیں۔ بنگلہ دیش میں اسلامی شعائر کی سربلندی اور عدل و انصاف کا دور دورہ دیکھنا ان کا خواب تھا۔ ایک مدت سے وہ شدید بیمار تھے۔ اہلِ خانہ نے بار بار اپیل کی کہ انھیں علاج کی سہولت مہیا کی جائے، لیکن موجودہ حکومت نے   کسی اپیل پر دھیان نہ دیا۔ اور جب حالت بہت بگڑگئی تو چند روز کے لیے اس طرح ہسپتال بھیجا کہ علاج ان کے لیے بے معنی ہو کر رہ گیا‘‘۔

پاکستان اور عالم اسلام ،عوامی جمہوریہ چین کے بارے میں دوستانہ رجحان اور خوش گوار سوچ رکھتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چین کے بارے میں یہ تصور موجود ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے سیاسی معاملات میں عدم مداخلت اور توسیع پسندانہ طریقوں سے اپنے آپ کو بچانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی معروف ہے کہ چین دوسرے ملکوں کے تعلقات میں ان کی قومی عزت نفس اور وقار کا خیال رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر پاکستان سے چین کے اور چین سے پاکستان کے تعلقات کی ایک قابلِ قدر تاریخ ہے۔ ان تمام امور کی بنیاد پر ہم عوامی جمہوریہ چین کی تعمیر ، امن اور یک جہتی کو دوستی کا مرکزی نکتہ تصور کرتے ہیں۔ 
اسی طرح ہم یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ چین کی دور اندیش قیادت واقعات اور حوادث کو مدنظر رکھتے اور اپنی پالیسیاں تشکیل دیتے وقت چند پہلوئوں پر نظرثانی کرے۔ بلاشبہہ عمومی طور پر انھیں مذہب اور مذہبی جذبات سے کچھ نسبت نہیں، لیکن بہرحال، وہ انسانی تہذیب اورانسانی معاشرے میں مذہب کے گہرے اثرات سے واقف ہیں۔ 
اسی طرح باریک بین چینی حاکموں کو اس چیز کا بھی علم ہے کہ ستاون ،اٹھاون مسلمان حاکم، مسلم اُمت کے جذبات سے جتنے بھی دُور اور سامراجیوں کے قریب تر ہوں، وہ ایک الگ اکائی ہیں۔ حاکموں کے بر عکس مسلم امت کے دل ایک وجود کی حیثیت سے دھڑکتے ہیں۔ رنگ ونسل اور علاقے یا زبان کی تقسیم کو نظر انداز کرتے ہوئے، وہ ایک تہذیب ہیں۔ یہ بات بھی چین کے دُوراندیش حاکم جانتے ہیں اور پھر زمینی حقائق بھی یہ ہیں:چینی ترکستان ،وسطی ایشیا ، ترکی، جنوبی ایشیا، انڈونیشیا سے بوسنیا اور مراکش تک ایک جغرافیائی وحدت ،مسلم اُمہ کے نام سے منسوب ہے۔ یہ وحدت نہ امریکا کی ہمسایہ ہے اور نہ یورپ سے منسلک، بلکہ اس کی بڑی آبادیاں چین ہی سے متصل اور قریب تر ہیں (جیسے مسلمانوں کے تینوں بڑی آبادیوں کے ممالک ،انڈونیشیا ،پاکستان، بنگلہ دیش)۔ اس لیے ،ایک تو اس فطری ہمسائیگی کا تقاضا ہے کہ ہمسایے کے جذبات کا پاس ولحاظ رکھا جائے۔ اور دوسرا یہ کہ حکومت کے ایوانوں میں بیٹھے مسلمان حاکموں کے بجاے کھیتوں، قصبوں، کہساروں،میدانوں اور صحرائوں میں بسنے والے مسلمانوں کے جذبات واحساسات کو سمجھنے کے لیے، جغرافیائی سرحدوں سے بالا تر ہوکر ، غور وفکر کی کوشش کریں۔
جیسا کہ اُوپر ذکر ہوا ہے، ہم چین کی جغرافیائی وحدت کا احترام کرتے ہیں۔اس کی ترقی پر خوشی محسوس کرتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ہی ہم کہنا چاہتے ہیں کہ: چینی حکومت ،چین سے منسلک سنکیانگ اور وہاں بسنے والے اویغور مسلمانوں کے ساتھ شفقت، احترام اور ان کی اقدار کے پاس ولحاظ کی راہ پر چلے، تو یہ قدم نہ صرف چین کے داخلی استحکام ،بلکہ خود مسلم امت سے چین کے خوش گوار تعلقات کے فروغ کا ذریعہ بنے گا۔ اس کے ساتھ ہی بعض مغربی ممالک کے اس پراپیگنڈے کا سدِّباب بھی ہوسکے گا جو وہ جدید چینی سلطنت میں پیدا ہونے والے تضاد کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔
گذشتہ دنوں ۴۰۳ صفحات پر مشتمل خود چین کے جو خفیہ سرکاری کاغذات The Xinjiang Papers  کے نام سے دنیا کے سامنے آئے ہیں ۔ ہم ان کی تفصیلات اور جزئیات پر بحث سے قطع نظر، یہاں پر پاکستان کے مؤقر روز نامہ Dawn  کا اداریہ پیش کر رہے ہیں، تاکہ معاملے کی گمبھیرصورتِ حال کا اندازہ ہو سکے:
’’یہ ۳۰۴ صفحات، بہت واضح الفاظ میں ایک ایسا ہوش ربا اور منجمد کر دینے والا منظر پیش کرتے ہیں، جس سے یہ نظر آتا ہے کہ چینی مسلمانو ں پر مشتمل اقلیت کی شناخت کو مٹادینے کا پروگرام پیش نظر ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر بدقسمتی کی بات یہ سامنے آ رہی ہے کہ انھیں نکال پھینکنے کی یہ حکمت عملی چینی حکومت کی پالیسی کا ایک مرکزی نکتہ ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی ان خفیہ دستاویزات کو ایک گم نام ذریعے نے نیویارک ٹائمز [۱۶نومبر ۲۰۱۹ء] کے ذریعے بے نقاب کیا ہے ، اور یوں اس سوچ اور اس عمل پر روشنی ڈالی ہے، جس کے تحت چینی مسلمانوں اور خاص طور پر اویغور مسلمانوں کو ’دوبارہ سبق سکھانے‘ [یا پڑھانے] کی غرض سے بڑے پیمانے پر نظر بند کیا گیا ہے اور انھیں وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان کاغذات سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ چین، پُرامن باشعور مسلمانوں اور انتہا پسندوں سے متصادم ہے، جسے مذہبی حوالے سے جبر کی خالص ترین شکل کہا جا سکتا ہے۔ خفیہ صفحات میں ان تقاریر کے متن بھی شامل ہیں، جن میں مبینہ طور پر صدر ژی چن پنگ نے سنکیانگ میں انتہا پسندی کے خلاف قومی سلامتی کے اداروں کے ذریعے کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح کی ایک تقریر میں ’انتہا پسندی ‘ سے ’متاثر‘ افراد کی امداد کے لیے ’تکلیف دہ علاج معالجے ‘ کی حمایت کی جارہی ہے اور کہا جا رہا ہے ’ہرگز رحم نہیں کرنا ‘۔ منظر عام پر آنے والی دستاویزات کے مطابق سرکاری اہل کاروں کی رہنمائی کے لیے ایک گائڈ کا کردار سامنے آتا ہے کہ جب پریشان حال اور دکھی اویغور [مسلمان]اپنے خاندان کے لوگوں کی ’گم شدگی ‘ کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، تو وہ [گائڈ] بتاتا ہے کہ ’’سرکاری حکام کی ہدایت ہے کہ وہ لوگ اسلام پسندانہ وائرس اور ’انقلابیت‘ سے ’متاثر‘ ہو چکے تھے، اس لیے ان کی صحت کی درستی اور انھیں ٹھیک کرنے کے لیے ’قرنطینہ ‘[متعدی امراض سے بچائو کے مرکز ] میں رکھنے کی ضرورت تھی‘‘۔ مزید برآں ، نہ چاہنے کے باوجود اویغور افراد خانہ کے پاس، سرکاری اہل کاروں کے ان بیانات کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، کیونکہ اگر وہ زیادہ پریشانی واضطراب کا مظاہرہ کریں گے تو ان کے عزیزواقارب کی نظر بندی کا زمانہ زیادہ لمبا ہو سکتا ہے ۔
’’کچھ عرصے سے مغربی ذرائع ابلاغ پر یہ بات بڑے تسلسل سے سامنے آ رہی ہے کہ ’نظربندی‘ یا حراستی کیمپوں میں ۱۰ لاکھ اویغور قیدوبند سے دو چار ہیں۔ دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت [چین ] سے اعلیٰ معاشی مفادات وابستہ رکھنے والے ممالک ، ان اطلاعات کو عام طور پر پراپیگنڈا کہانیاں کہہ کر نظر انداز کرتے ہیں ، اور انھیں مسترد کر دیتے ہیں ۔ خود چین نے ان پیپرز کو ’بے نقاب‘ کرنے والے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یہ انتہا پسندی کے خلاف ہماری جدوجہد کو بدنام کرنے کی کوشش ہے، جسے سنکیانگ میں ہی بڑی کامیابی سے آگے بڑھایا جا رہا ہے‘‘۔ جو دراصل رحم کی قدر سے مکمل طو ر پر خالی ہے۔ تاہم، اس میں اہم ترین بات یہ ہے کہ [چین نے ] ان دستاویزات کو متنازعہ کہنے سے گریز کیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس نے چینی مسلمانو ں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے بے خبری ظاہر کرنے کو ایک مشکل کام بنا دیا ہے۔ دوسرے بہت سے ملکوں کی طرح اگرچہ خود پاکستان میں بھی انسانی حقوق کا باب داغ دار ہے، لیکن اس کے باوجود جب وہ کشمیریوں اور روہنگیا [مسلمانوں ] کے انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف بات کر سکتا ہے، تو کیا وہ اویغور وں کے بارے میں خاموش رہ سکتا ہے ؟‘‘ (اداریہ روز نامہ Dawn، کراچی،۲۰ نومبر ۲۰۱۹ء ) 
’چینی دستاویزات‘ اور اس اداریے کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ چینی مسلمانوں اور اویغور مسلم آبادی ، دونوں ہی کے حوالے سے یہ دستاویزات، مخصوص ریاستی رجحان کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ ان دستاویزات میں ’سخت تادیبی کارروائی‘ اور ’دماغ درست‘ کرنے کا اسلوبِ بیان واضح ہے۔ تیسرا یہ کہ لفظ ’انتہا پسندی‘ کو مسلمانوں کے قائم مقام کے طور پر برتنے کا مغربی رجحان یہاں پر بھی موجود ہے۔چوتھا یہ کہ  دنیا کے ممالک اپنے مادی مفادات کو عزیز تر رکھتے اور انسانی مسئلے کو نظر انداز کرتے ہیں۔ پانچواں یہ کہ دنیا اور پاکستان کو اس معاملے میں تادیب اور تعذیب سے بچانے کے لیے ہمدردانہ کوششیں کرنی چاہییں۔ چھٹا یہ کہ چین نے ان دستاویزات کی مذمت تو کی ہے لیکن متنازعہ نہیں کہا۔
دنیا کے حالات اور خصوصاً ہمارے اس علاقے کے حالات جس رخ پر جا رہے ہیں ، ان کا تقاضا ہے کہ نہ صرف چین میں بقاے باہم کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا جائے، بلکہ اویغور مسلمانوں کے داخلی وتہذیبی تشخص کا اعتراف واحترام کیا جائے۔ مبینہ طور پر اویغور مسلمانوں کی نسلی تطہیر اور غالب ’ہان چینی نسل‘ کی سنکیانگ میں آبادکاری، ممکن ہے کہ چند برسوں میں ممکن بناکر مقامی آبادی کا توازن تبدیل کردیا جائے، لیکن اس کاوش کے منفی اثرات بہت دُور رس ہوں گے۔ اس لیے ناگزیر ہے کہ اویغور آبادی کو ہمدردی سے اپنے مذہبی، ثقافتی اور معاشی معاملات چلانے کے لیے شریک ِ سفر بنایا جائے ، جس طرح کہ چین کی جرأت مند حکومت نے ’ایک ملک، اور دو نظام ‘ کا تجربہ کر کے    نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اسی طرح ضرورت یہ ہے کہ ’ایک ملک اور باہم احترام‘ کے راستے پر بھی چلاجائے۔ اس طرح چین زیادہ مضبوط ہو گا اور ان تضادات کو گہرا کرنے کی مغربی سازشوں کو ناکام بھی بنا یا جاسکے گا اور مسلم اُمت میں تشویش کو ختم کیا جاسکے گا۔
_______________
 

بنگلہ دیش میں انتخابی عمل، ہوبہو تصویر ہے مقبوضہ کشمیر کے نام نہاد انتخابی ڈراموں کی۔ بنگلہ دیش کا ۱۱واں پارلیمانی الیکشن ایک ایسا کھیل تھا کہ جس میں ہر مدمقابل کھلاڑی کے ہاتھ بندھے تھے، جب کہ محبوب کھلاڑی کے ہاتھ کھلے ہوئے تھے اور پھر منصف بھی کھلے ہاتھ والی ٹیم کا رکن تھا۔ حسینہ واجد کی قیادت میں عوامی لیگ ۲۰۰۹ء میں برسرِاقتدار آئی، جس نے ۲۰۱۴ء میں جعلی مینڈیٹ کی بنیاد پر اگلے پانچ سال حکمرانی کی، اور اب اسے تیسری مرتبہ بھی ووٹ کی ضرورت تھی۔ حقائق اور واقعات چیخ چیخ کر گواہی دیتے ہیں کہ اس انتخابی ڈرامے کو عملاً بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ نے ڈیزائن کیا۔
گذشتہ سات برسوں کے دوران حسینہ واجد حکومت نے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت کو پھانسیاں دینے کے لیے افسانوی مقدموں کو نام نہاد ’خصوصی عدالتوں‘ میں چلایا۔ پھر جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر(اسلامی جمعیت طلبہ )کے کارکنوں کو جیلوں میں ڈالنے، بہیمانہ تشدد کرکے سیکڑوں کارکنوں کو معذور اور اپاہج بنانے، ملازمتوں سے برطرف کرنے کے علاوہ، جماعت کے اداروں اور نجی کاروباروں کو تباہ کرنے کے لیے ایڑی چوڑی کا زور لگا دیا۔ پھر جماعت اسلامی کی حلیف ’بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی‘ (بی این پی) کی قیادت کو میدان سے نکال باہر کرنے کے لیے، اس کی سربراہ خالدہ ضیا بیگم کو ۱۷سال کی سزا سنا کر جیل میں ڈال دیا۔
اس پس منظر میں بنگلہ دیش میں ۳۰دسمبر ۲۰۱۸ء کو ایسا نام نہاد انتخاب ہوا کہ پارلیمنٹ کی ۳۰۰نشستوں میںسے ۲۸۸ سیٹیں جتوا کر، ۹۸ فی صد کامیابی حکمران عوامی لیگ کے نام کی گئی، جسے ہر عاقل انسان اور حسِ انصاف رکھنے والے فرد نے مسترد کیا۔ تاہم، نئی دہلی اور بیجنگ حکومتوں نے سربراہی سطح سے فوری طور پر انتخابی نتائج کو قبو ل کرکے مبارک باد کے پیغامات روانہ کیے، اور چند روز بعد ’اسلامی تعاون تنظیم‘(OIC) کے سیکرٹری جنرل نے بھی یہی کیا۔
حزبِ اختلاف نے اگرچہ الیکشن سے پہلے ہی دنیا بھر کی حکومتوں کے سامنے اور ذرائع ابلاغ پر یہ دہائی دی تھی کہ قبل از انتخاب دھونس دھاندلی کا طوفان اُٹھایا جا رہا ہے۔ ستمبر۲۰۱۸ء میں  ’ڈجیٹل سیکورٹی ایکٹ‘ پاس کر کے اخبارات و ذرائع ابلاغ کی آزادی  سلب کرلی گئی۔ پھر مدمقابل پارٹیوں کے اُمیدواروں اور لیڈروں کو قیدوبند، مقدمات کی بھرمار اور پولیس یا باقاعدہ منظم غنڈوں کے ذریعے ڈرا دھمکا کر انتخابی عمل سے باہر رکھنے کی مہم چلائی گئی۔ حتیٰ کہ کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، اور جب کاغذات داخل ہوگئے تو آدھے سے زیادہ حلقوں میں اُمیدواروں کو ایک روز کے لیے بھی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اور جس روز رسمی انداز سے الیکشن کا انعقاد ہوا، اسی روز : ’’اندرونِ ملک مختلف حلقوں میں عوام کو ڈرا دھمکا کر عوامی لیگ کے انتخابی نشان ’کشتی پر مُہر لگانے پر مجبور کیا گیا‘۔(ڈیلی اسٹار، ڈھاکا، یکم جنوری ۲۰۱۹ء)
۳۰ دسمبر یومِ انتخاب کو بی بی سی کے نمایندے نے آنکھوں دیکھا حال دنیا بھر میں پہنچایا اور سنایا کہ: ’’ووٹنگ شروع ہونے سے پہلے ہی بیلٹ بکس بھر کر پولنگ اسٹیشنوں میں لائے جارہے ہیں‘‘۔ اور جب بنگلہ دیش کے دوسرے بڑے شہر چٹاگانگ میں متعین بی بی سی کے نامہ نگار نے  لکھن بازار میں ایک بھرا بیلٹ بکس، قبل از الیکشن دیکھ کر پریذائیڈنگ افسر سے سوال کیا: ’جناب یہ کیا ہے؟‘ تو متعلقہ افسر نے جواب دینے سے انکار کردیا۔ چٹاگانگ کے اس پولنگ اسٹیشن پر صرف سرکاری پارٹی کا نمایندہ موجود تھا، اور یہی حال دوسرے پولنگ اسٹیشنوں کا ہے‘‘(بی بی سی ویب سائٹ، ۳۰دسمبر ۲۰۱۸ء)۔’’خود ڈھاکا شہر کے متعدد مقامات پر عوامی لیگ نے انتخابات شروع ہونے سے پہلے ہی بیلٹ بکس، ووٹوں سے بھر دیے، اور لوگوں کو مصروف رکھنے کے لیے گھنٹوں تک لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا رکھا گیا، تاکہ ہجوم سے تنگ اور تھکن سے مجبور ہوکر لوگ ووٹ ڈالے بغیر خود ہی گھروں کو واپس لوٹ جائیں‘‘۔(ڈیلی ساؤتھ ایشین مانیٹر، یکم جنوری ۲۰۱۹ء)
انتخابات کے روز بھی لوگ اس ظلم پر بڑے پیمانے پر چیخ پکار کرتے رہے، لیکن کسی نے ان کی بات نہیں سنی: ’’یاد رہے، قانون نافذ کرنے والے چھے لاکھ سیکورٹی اہل کاروں کی نگرانی میں انتخابات ہورہے تھے۔ انتخابی عملے اور کئی جگہوں پر سیکورٹی اہل کاروں نے عوامی لیگ کے لیے مُہریں لگاکر ’انتخاب‘ کو ’محفوظ‘ بنایا۔ ڈھاکا یونی ورسٹی میں قانون کے پروفیسر آصف نذرل نے بیان کیا : بہت سے پولنگ اسٹیشنوں پر عوامی لیگ کے علاوہ کسی دوسری پارٹی کے اُمیدواروں کو  ذاتی طور پر یا ان کے پولنگ ایجنٹوں تک کو نہ بیٹھنے دیا گیا اور نہ انتخابی عمل کے معائنے کی اجازت دی گئی۔ اور جو پولنگ ایجنٹ کسی طرح، کسی مقام پر بیٹھنے میں کامیاب ہوگئے، ان کی اکثریت کو گنتی شروع کرتے وقت بھگا دیا گیا۔ بنگلہ دیش کے لوگ احمق نہیں ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ  ان کے ووٹ پر کس انداز سے، اُن کی آنکھوں کے سامنے ڈاکا زنی کی گئی ہے۔اس طرح عملاً  ایک پارٹی کی حکومت مسلط کی جارہی ہے‘‘۔(ڈیلی ساؤتھ ایشین مانیٹر، یکم جنوری ۲۰۱۹ء)
حزبِ اختلاف نے بدانتظامی، بدنظمی اور بددیانتی تمام مظاہر کو دیکھ کر، اس انتخابی ڈھونگ کو فراڈ، جعل سازی اور دھاندلی زدہ ڈراما قرار دیا، مسترد کیا اور کہا کہ: ’’یہ موت کے سکوت اور خوف کے بھوت کا کھیل تھا‘‘ (ڈیلی واشنگٹن پوسٹ ، یکم جنوری ۲۰۱۹ء)۔ یاد رہے کہ الیکشن کے روز ۲۲؍افراد قتل کر دیے گئے اور سیکڑوں افراد کو زخمی کرکے دہشت پھیلائی گئی۔ ملک کے سنجیدہ حلقے بنگلہ دیش میں جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے شدید صدمے اور مایوسی سے دوچار ہیں۔
بنگلہ دیش لیفٹ ڈیموکریٹک الائنس (LDA)نے ۸۲اُمیدواروں کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیا۔ اس کی قیادت نے ڈھاکا پریس کلب میں بتایا: ’’پورا ملک عینی شاہد ہے کہ حکمران ٹولے نے انتخابی عمل کو برباد کرکے اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا ہے‘‘۔ اور کمیونسٹ پارٹی آف بنگلہ دیش (CPB) کا موقف ہے: ’’عوامی لیگ نے الیکشن سے پہلے، الیکشن کے دوران اور الیکشن کے بعد جبر، دھوکے، دھاندلی اور جھوٹ کا طوفان برپا کیا۔ (ڈیلی اسٹار، ۱۲جنوری۲۰۱۹ء)
انسانی حقوق کے عالمی ادارے ’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW)نے انتخابات سے قبل، حسینہ حکومت کی بدنیتی کی نشان دہی کر دی تھی، اور الیکشن کے بعد اس کے ڈائرکٹر ایشیا، مسٹربریڈ ایڈمز نے گواہی دی: ’’حزبِ اختلاف کے اہم لیڈروں اور کارکنوں کو گرفتار کرکے، بعض کو قتل کر کے اور بعض کو لاپتا کرکے جس خوف اور گھٹن کا ماحول پیدا کیاگیا، اس میں کسی بھی لحاظ سے یہ قابلِ اعتبار انتخابات نہیں ہیں‘‘ (بی بی سی لندن، ۳۱دسمبر ۲۰۱۸ء)۔ بنگلہ دیش میں سابق امریکی سفیر اور ولسن سنٹر کے سینئر اسکالر ولیم بی میلان نے کہا: ’’بنگلہ دیش کے انتخابات پر ڈاکا ڈالا گیا ہے۔ یہ انتخابات سراسر بددیانتی کی ایک مجسم مثال ہیں اور حسینہ واجد کی حکومت غیرقانونی ہے‘‘ (ڈیلی نیونیشن، ڈھاکا، ۱۷جنوری ۲۰۱۹ء)۔’’برطانیہ، امریکا اور یورپی یونین نے بھی انتخابات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا‘‘(رائٹر، ۲جنوری ۲۰۱۹ء)۔ البتہ اپنا روایتی’ریکارڈ‘ برقرار رکھتے ہوئے یہ ممالک چند ہفتوں بعد اس جعلی انتخاب کو تسلیم کرکے حسب ِ معمول تعاون شروع کردیں گے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بھی ان انتخابات کی صداقت کو مشکوک اور فساد زدہ قرار دیا ہے کہ: ’’جس میں بدعنوانی کے بے شمار شواہد اپنی کہانی آپ بیان کر رہے ہیں‘‘ (ڈیلی بی ڈی نیوز۲۴، ۱۶جنوری ۲۰۱۹ء)۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے جمع کردہ حقائق کی بنیاد پر بیان دیا: ’’بنگلہ دیش کے موجودہ انتخابی نتائج کو مسترد کرنے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کرنے کے لیے منطقی اور اصولی بنیادیں موجود ہیں‘‘۔ (ڈیلی نیو ایج، ڈھاکا، ۱۷ جنوری ۲۰۱۹)
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گڑیس نے اقوامِ متحدہ کے ہیڈ کوارٹر نیویارک میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’بنگلہ دیش کے حالیہ انتخابات درست نہیں ہوئے۔ ہم بنگلہ دیش میں سیاسی عمل اور شہری زندگی کو پُرسکون بنانے کے لیے بامعنی کردار کی ضرورت پر زور دیتے ہیں‘‘۔(ڈیلی نیو ایج، ۱۹ جنوری ۲۰۱۹)
امرِواقعہ ہے کہ خاص طور پر۲۰۰۹ء کے بعد، جب سے حسینہ واجد کی عوامی لیگ برسرِاقتدارہے، بنگلہ دیش پہلے سے بھی کہیں زیادہ بھارتی گرفت میں جکڑا گیا ہے۔ وہ بہت سے مفادات جو بھارت ابتدائی ۳۷برسوں میں حاصل نہ کرسکا تھا، گذشتہ ۱۰ برسوں میں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ جس میں خاص طور پر شمال مشرقی ریاستوں (اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھالیہ، میزورام، ناگالینڈ، تری پور اور سکم) تک، بنگلہ دیش کی سرزمین سے گزر کر نئی دہلی انتظامیہ کی براہِ راست رسائی ہے۔ اسی لیے حسینہ واجد نے کہا کہ: ’’ہمارے برسرِاقتدار رہنے سے بھارت سے تعلقات مضبوط اور باثمر ہوں گے اور تجزیہ نگار ہرانمے کارلیکر نے دعویٰ کیا ہے کہ:’’ ضیاء الرحمان، حسین محمد ارشاد اور خالدہ ضیا کے اَدوارِ حکومت میں بنگلہ دیش، بھارت سے فاصلے پر اور پاکستان سے قربت کی طرف گیا تھا‘‘ (ڈیلی دی پانیئر، نئی دہلی، ۶جنوری ۲۰۱۹ء)۔ اسی اخبار نے بھارتی مقتدر قوتوں کی خواہشات کے آئینہ دار مضمون Why We need Hasina?  میں وضاحت سے بتایا کہ: ’’خالدہ ضیا نے کبھی بھارتی مفادات کے لیے کام نہیں کیا ہے بلکہ یہ جماعت اسلامی کی حمایت سے برسرِاقتدار آتی ہے اور بھارتی مفادات کے برعکس پاکستان سے قربت کی طرف بڑھتی ہے‘‘۔(ڈیلی دی پانیئر، نئی دہلی، ۷جنوری ۲۰۱۹ء)
بھارت اور دوسری طاقتیں بنگلہ دیش کو تجرباتی طور پر اسلامی قوتوں کی بیخ کنی کا میدانِ کارزار بنانا چاہتی ہیں۔ جب اسلامی شناخت کا ذکر آتا ہے تواس علاقے میں خودبخود پاکستان کا نام نمایاں ہوتا ہے۔ یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ حسینہ واجد کے لیے تیسری بار اقتدارکا راستہ ہموار کرنے میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی بنگلہ دیشی نیشنلسٹ قیادت کو بُری طرح دبایا، منتشر اور بے اثر کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ ۲۰۲۱ء کو، جب کہ بنگلہ دیش کے قیام کے ۵۰سال مکمل ہوں، تو اس مناسبت سے پاکستان کے خلاف زیادہ منظم طریقے سے، تسلسل کے ساتھ مہم چلاکر اسے بدنام کیا اور دبائو میں لایا جائے۔
حسینہ واجد کے سیاسی مشیر اور ’آبزرور ریسرچ فائونڈیشن‘ کے ایچ ٹی امام نے برملا کہا:  ’’بی این پی نے جماعت اسلامی سے تعاون جاری رکھا ہے۔ اور ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ پارٹی چین اور پاکستان کی حامی ہے، اس لیے بنگلہ دیش کی سیاست میں بھارت کسی بھی صورت، بی این پی پر بھروسا نہیں کرسکتا‘‘(دی اسٹار آن لائن، ۱۶ جنوری ۲۰۱۹ء)۔ یہ سوچ بنگلہ دیش سے زیادہ بھارت کے ان استعماری رویوں کی گواہی پیش کرتی ہے کہ برسرِزمین نئی دہلی کس انداز سے بنگلہ دیش کی سیاست اور ریاست کے معاملات میں دخیل ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے حسینہ واجد سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے مبارک دُہرائی اور کہا کہ: ’’حسینہ واجد کی صورت میں، بھارت کے لیے مشرقی محاذ محفوظ اور مامون ہے‘‘ (ڈیلی ایشین ایج، ۱۷جنوری)۔ دیکھیے: ’’حکومت ِ ہند اور بھارتی سیاست دان اور میڈیا کے لوگ بہت مسرور ہیں کہ عوامی لیگ کی کامیابی کی وجہ سے بنگلہ دیش، اسلامی بلاک میں جانے سے بچ گیا ہے‘‘۔ (سہ روزہ دعوت، نئی دہلی، ۱۴جنوری۲۰۱۹ء)
بنگلہ دیش کے اخبارات کے مطابق نئی حکومت کی شروعات کے طور پر بنگلہ دیش کے وزیرقانون انیس الحق نے کہا: ’’عوامی لیگ کی حکومت ایسی قانون سازی کرے گی کہ جس کے تحت جماعت اسلامی کو سزا دینے کا عمل تیزتر ہوگا۔ اس قانونی ترمیم کا مسودہ، وزیراعظم حسینہ واجد کی ہدایات کی روشنی میں ترتیب دیا جارہا ہے اور جلد کابینہ میں پیش کر دیا جائے گا۔ اس ترمیم کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ تاحال بنگلہ دیش جماعت اسلامی کو پوری طرح سزائیں نہیں دی جاسکیں۔ فروری ۲۰۱۳ء کے ترمیمی ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ میں افراد کو سزائیں دینے کا ذکر ہے، مگر پارٹی کو عبرت کا نشان بنانے کا معاملہ مذکور نہیں ہے۔ اب ہمارے پیش نظر یہ ہدف حاصل کرنا ہے‘‘ (ڈیلی اسٹار،۱۰جنوری ۲۰۱۹ء)۔یاد رہے کہ: ’’حسینہ واجد کی حکومت، بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے کئی اہم لیڈروں کو موت کے گھاٹ اُتارنے کے باوجود جماعت اسلامی کی کمر نہیں توڑ سکی‘‘ (سہ روزہ دعوت، نئی دہلی، ۱۴ جنوری ۲۰۱۹ء)۔ یہ نامرادی نئی دہلی اور ڈھاکا کی حکومتوں کے لیے غصّے اور شرمندگی کا باعث ہے۔
اس تسلسل میں شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھی اور عملاً ریٹائرڈ زندگی گزارنے والے بھارت نواز ڈاکٹر کمال حسین نے منصوبے کے مطابق پہلے تو ایک جعلی انتخاب کو قابلِ قبول بنانے کے لیے، بڑی مہارت سے سیاسی پارٹیوں کو انتخابی عمل میں شامل کرنے کا کام کیا۔ اور پھر منصوبہ سازی شروع کی ہے کہ: ’’بی این پی کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ جماعت اسلامی سے اپنے ۱۵سالہ اتحاد و اتفاق کو ترک کرکے، جماعت سے الگ ہوجائے‘‘ (ڈیلی سن، ڈھاکا، ۱۲جنوری ۲۰۱۹ء)۔حسینہ واجد نے سیاسی پارٹیوں کو مذاکرات کی دعوت دی، جس پر تمام پارٹیاں شرکت کرنے یا شرکت نہ کرنے پر غور کرر ہی ہیں، لیکن کمال حسین نے فوراً شرکت کا عندیہ دیا۔(ڈیلی اسٹار، ۱۴جنوری۲۰۱۹ء)
یہ تمام حقائق اور حوادث بتاتے ہیں کہ بھارت کسی صورت نہیں چاہتا کہ بنگلہ دیش میں ایسی امن و سکون کی فضا پروان چڑھے کہ وہاں کے لوگ امن اور خوش حالی کی زندگی بسر کرسکیں۔  اس طرح وہ بھارت کا دست ِ نگر رہے۔ دوسرا یہ چاہتا ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری نہ آئے اور باہم فاصلے بڑھتے رہیں۔ تیسرا یہ کہ جماعت اسلامی کے تنظیمی ہیکل کو تباہ اور بی این پی کے سیاسی وجود کو ختم کیا جائے۔ ان حالات میں مسلم اُمہ کے فہمیدہ افراد اور اداروں کو بنگلہ دیشی بھائیوں کی اس انداز سے دست گیری کرنی چاہیے کہ وہ بھارتی تسلط سے آزاد اور مسلم اُمت سے قریب تر ہوسکیں۔

پروفیسرفواد سیزگین (Fuat Sezgin )موجودہ زمانے کے ایک عظیم محقق اور اسلامی اسکالر تھے۔ مقصد سے لگن، کام کے حجم اور حددرجہ محنت کے حوالے سے ان کا مقام و مرتبہ ناقابلِ فراموش رہے گا۔افسوس کہ وہ بر صغیر پاک و ہند میں معروف نہیں تھے، جس کی وجہ یہی ہے کہ وہ جرمن زبان میں لکھتے تھے اور ہمارے ہاں صورت حال یہ ہے کہ عربی اور فارسی سے بے بہرہ اور انگریزی کی حاکمیت سے مرعوب ہیں، اس لیے انگریزی کے علاوہ دیگرزبانوں میں علوم تک رسائی نہیں رکھتے۔

فواد سیزگین ۲۴؍اکتوبر ۱۹۲۴ء کو مشرقی ترکی کے صوبے بطلیس میں پیدا ہوئے۔ انٹرسائنس تک تعلیم اناطولیہ کے شہر ارض روم (Erzurum ) میں حاصل کی۔ ۱۹۴۲ء میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انجینیرنگ فیکلٹی استنبول یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ اسی دوران میں ایک واقعے نے زندگی کا دھارا بدل دیا، اور وہ انجینیرنگ کے بجاے دوسرے عظیم ترین میدان کی طرف چلے آئے۔ ان دنوں ایک مشہور جرمن مستشرق ڈاکٹر ہیلمیٹ ریٹر (۱۸۹۲ء-۱۹مئی۱۹۷۱ء) اورینٹل فیکلٹی استنبول یونی ورسٹی میں پڑھا رہے تھے، جنھیں عربی، فارسی اور ترکی زبان پر دسترس حاصل تھی۔ وہ تصوف اور فلسفے پر اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔ ایک روز فواد کے قریبی عزیز نے کہا کہ: ’کسی روز یونی ورسٹی میں ہیلمیٹ نامی جرمن ماہر علوم اسلامیہ کا لیکچر سنو‘۔ اس ہدایت پر فواد نے ہیلمیٹ کے ایک سیمی نار میں شرکت کی۔ دورانِ گفتگو پروفیسر ہیلمیٹ نے کہا کہ: ’’اسلامی تاریخ اور عربی ادب کی عظمتوں اور وسعتوں کا کوئی حساب نہیں۔ مسلمانوں نے سائنس میں جو کارنامے انجام دیے ہیں، ان سے دُنیا ناواقف ہے، کاش! کوئی اس طرف توجہ دے؟‘‘فواد نے متاثرکن استاد کی یہ بات سن کر اسی وقت دل میں   عہد کیا: ’’میں یہ کام کروں گا‘‘ اور اگلے روز انجینیرنگ چھوڑ کر اورینٹل فیکلٹی میں داخلے کے لیے درخواست دے دی، اور یہ سوچا تک نہ کہ داخلے کی تاریخ ختم ہوچکی ہے۔ پھر پروفیسر ہیلمیٹ سے  التجا کرکے داخلہ لے لیا۔ استاد نے کہا: ’’عربی سیکھنے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔ لیکن جب شاگرد کو پُرعزم پایا تو استاد نے فواد کو سب سے پہلے قدیم عربی میں دسترس کی طرف متوجہ کیا، جو واقعی ایک مشکل کام تھا۔ تاہم وفورِشوق میں فواد نے ۱۷، ۱۷ گھنٹے عربی سیکھنے پر صرف کیے۔

اسی دوران دوسری جنگ ِعظیم میں۱۹۴۳ء میں ہٹلر کی فوجیں بلغاریہ تک آپہنچیں، تو یونی ورسٹی طویل عرصے کے لیے بند ہوگئی۔ ان چھٹیوں میں فواد نے عربی سیکھنے کے ساتھ تفسیرطبری کو  براہِ راست عربی سے پڑھنا اور قرآن پر غوروفکر شروع کیا۔ چھے ماہ بعد جب یونی ورسٹی کھلی تو استاد نے عربی میں استعداد جانچنے کے لیے امام غزالیؒ (۱۰۵۸ء-۱۱۱۱ء)کی احْیَاء عُلُومُ الدِّین سامنے رکھی۔ فواد نے اس کے مقامات پر اس طرح گفتگو کی جیسے کوئی روزنامہ پڑھ رہے ہوں۔ اس چیز سے متاثر ہوکر استاد نے ایک اور پہاڑ لاسامنے کھڑا کیا: ’’اگر علم اور مسلمانوں کی کوئی خدمت کرنا چاہتے ہو تو ساتھ ساتھ ہرسال ایک نئی زبان سیکھنے کی کوشش بھی کرو اور کم از کم ۳۰زبانیں تو ضرور سیکھو۔ یہ لسانی علم تمھیں فکر، دانش اور معلومات کی ان دُنیائوں تک لے جائےگا، جس کا کوئی شمار نہیں کرسکتا‘‘۔ اس توجہ پر بھی فواد نے عملی طور پر کام شروع کر دیا۔یوں ترکی کے علاوہ جرمن، فرانسیسی، عربی، لاطینی، سریانی، عبرانی اور انگریزی سیکھ لی، البتہ لکھنے کا زیادہ تر کام جرمنی زبان میں کیا۔

انجینیرنگ کا سابق طالب علم اب پوری دل جمعی سے دینی اور عربی علوم کے ہفت خواں طے کر رہا تھا۔ جب ۱۹۵۰ء میں ایم اے علومِ اسلامیہ پاس کرنے کے بعد اعلیٰ تحقیق کا مرحلہ آیا تو  فواد اس نتیجے پر پہنچے کہ مستشرقین اور پادری حضرات، دین اسلام پر حملہ کرتے وقت بنیادی ہدف  ذخیرۂ حدیث کو بناتے اور کہتے ہیں: ’سنی سنائی باتوں کا علم‘، اور بخاری ان کے نشانے پر ہوتی ہے۔ فواد نے بدنیتی پر مبنی اس حملے کا جواب علمی سطح پردینے کا عزم کیا۔ پروفیسر ہیلمیٹ کی رہنمائی میں تحقیق کرتے ہوئے البخاری   کے ماخذ کے موضوع پر ۱۹۵۴ء میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ جب ۱۹۵۶ء میں استنبول سے یہ تحقیقی مقالہ شائع ہوا تو علمی حلقوں کی توجہ کا موضوع بنا۔

ڈاکٹر فواد نے ذخیرئہ حدیث کی تدوین پر ’محض زبانی سنے سنائے‘ علم کے تاثر کا جواب دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ: ’’مجموعہ ہاے حدیث میں ابتدائی زمانوں ہی سے لفظ کتاب  بطوراصطلاح مکاتبت کے معنوں میں استعمال ہواہے، جس سے مراد روایت ِ حدیث کو زبانی سنے سنائے بغیر تحریری شکل میں منتقل کرنا ہے۔ اس امر کی وضاحت کے لیے اسناد میں  کتب الی  یا من کتاب کے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے۔ یوں اسناد بظاہر زبانی روایت کا حوالہ رکھنے کے باوجود بسااوقات باقاعدہ تصانیف سے حرف بہ حرف نقل اور اقتباس کی جاتی تھیں‘‘۔

ڈاکٹر خورشید رضوی کے بقول : ’’ڈاکٹر سیزگین کی شہرت کا ایک خصوصی حوالہ علمِ حدیث میں اسناد کے طریق کار اور اس کی حقیقت و اہمیت کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر ہے، جس نے مغرب کے علمی حلقوں میں بازگشت پیدا کی اور گولڈ زیہر [۱۸۵۰ء-۱۹۲۱ء] کے گمراہ کن نتیجۂ فکر اور دیگر مغربی تحقیق کاروں کے تصورات پر سنجیدہ تجزیے اور محاکمے کی ضرورت کا احساس دلایا‘‘۔

اس دوران ڈاکٹر فواد اورینٹل فیکلٹی، استنبول یونی ورسٹی میں بطورِ استاد خدمات انجام دیتے رہے کہ۲۷مئی ۱۹۶۰ء کو ترک جرنیل جنرل جمال گرسل (۱۸۹۵ء-۱۹۶۶ء)نے فوجی انقلاب برپا کیا۔ یہ انقلاب سخت گیر لادینی نظریات کا علَم بردار تھا۔ یہ وہی جنرل گرسل ہیں، جنھوں نے ۱۹۵۰ء سے ۱۹۶۰ء تک دومرتبہ منتخب ترک وزیراعظم عدنان میندریس (پ:۱۸۹۹ء) کو برطرف کیا  اور ۱۷ستمبر ۱۹۶۱ء کو، عدنان کابینہ کے وزیرخارجہ فطین رشدی زورلو (پ:۱۹۱۰ء) کے ہمراہ پھانسی دے دی تھی۔ عدنان میندریس شہید کا ایک ’جرم‘ یہ بھی تھا کہ انھوں نے اپنے دورِ حکومت میں ۱۷جون ۱۹۵۰ء کو عربی میں اذان پر پابندی ختم کی، پھر مسجد یں کثرت سے تعمیر کیں، حج پر عائد پابندیاں ختم کیں اور محکمہ مذہبی امور قائم کیا۔ اس محکمے نے نئی اور پرانی اسلامی کتب کی اشاعت کے ساتھ، مولانا مودودیؒ (م:۱۹۷۹ء)اور سیّد قطبؒ (شہادت:۱۹۶۶ء)کی بھی چند کتب ترکی زبان میں شائع کیں۔

 ’ترک فوجی حکومت‘ نے ۱۴۷ پروفیسروں کو ترکی یونی ورسیٹیوں سے نظریاتی اختلاف بلکہ اسلامی غیرت و حمیت کی پاداش میں برطرف کردیا، جن میں فواد سیزگین بھی شامل تھے۔ مارشل لا حکومت سے انصاف مل نہیں سکتا تھا، اس لیے فواد نے جلاوطنی اختیار کی۔ جرمنی چلے گئے اور فرینکفرٹ یونی ورسٹی میں استاد مقررہوئے۔ ۱۹۶۵ء میں انھوں نے فلسفی، ریاضی دان اور کیمیا دان جابر بن حیان [۷۲۱ء-۸۱۵ء]پر دوسری ڈاکٹریٹ حاصل کی، تو پروفیسر کے درجے میں ترقی   مل گئی۔پھر ۱۹۶۷ء میں ایک ذہین اور محنتی نومسلم جرمن مستشرقہ ارسل سے شادی کی۔ ان کے ہاں ۱۹۷۰ء میں ایک بیٹی پیدا ہوئی، جس کا نام ’ہلال‘ رکھا۔ (مغربی دنیا میں ’ہلال‘ [کریسنٹ] اسلام کی علامت ہے اور نام رکھتے وقت یہی پہلو پیش نظر تھا)۔

پروفیسر سیزگین کا یادگار کارنامہ عربی زبان میں علمی ذخیرے کی کیفیت کی تدوین ہے۔ جس میں ہر کتاب کے بارے اشاعت، عدم اشاعت کے ساتھ تفصیل مذکور ہے کہ یہ مخطوطہ کہاں موجود ہے۔ اس کام کی ابتدا محمد بن اسحاق الندیم (م:۹۹۵ء ) نے الفہرست کے نام سے کی تھی۔ درحقیقت ڈاکٹر فواد کا کام جرمن محقق کارل بروکلمان (Carl Brockelmann: ۱۸۶۸ء- ۱۹۵۶ء) کی اسی نام سے کتاب Geschichte der Arabischen Litteratur کی تکمیل ہے، جو ۱۸۹۸ء میں دو جلدوں میں شائع ہوئی تھی۔ اس زمانے میں اکثر کتب خانوں کی فہرستیں تیار اور    شائع شدہ نہیں تھیں، اس لیے بروکلمان کی کتاب میں بہت سی کمیاں رہ گئی تھیں۔ حتیٰ کہ استنبول میں موجود قیمتی مخطوطات کا بھی ذکر نہیں تھا۔

اس بھاری بھرکم کام کی ابتدا فواد سیزگین نے ۱۹۵۴ء میں پروفیسر ہیلمیٹ ریٹر کی خواہش پر کی تھی۔ انھوں نے مجوزہ کتاب Geschichte des Arabischen Shrifttums [تاریخ التراث العربی، عربی ورثے کی تاریخ) پر ۱۹۶۱ء میں باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا۔ اس کی پہلی جلد ۱۹۶۷ء میں اور ۱۷ویں جلد فروری ۲۰۱۸ء میں شائع ہوئی۔ اب وہ ۱۸ویں جلد کی اشاعت پر کام کر رہے تھے کہ زندگی کی ساعتیں ختم ہوگئیں۔ یہ کتاب عربی زبان میں لکھے جانے والے ایک بڑے علمی ورثے کا احاطہ کرتی ہے، جس میں: قرآن پاک،تفسیر، حدیث، تاریخ، فقہ، علم کلام، عربی شاعری، طب، علم حیوان، کیمیا، زراعت، نباتیات، ریاضیات، فلکیات، موسمیات، تصوف، نفسیات، فلسفہ، اجتماعیات، نحو، بلاغت، لغت، کائناتی مطالعہ، منطق، ارضیات، موسیقی، ادویہ سازی، حیوانیات، نجوم، عربی زبان، جغرافیہ، نقشوں جیسے گوناگوں علوم پر عربی مخطوطات و کتب کا تذکرہ شامل ہے۔

پروفیسر فواد سیزگین نے ۱۹۸۲ء میں جرمنی کی گوئٹے یونی ورسٹی میں ’عربی واسلامی تاریخ انسٹی ٹیوٹ‘ کی بنیاد رکھی۔۱۹۸۴ء میں تحقیقی مجلّے Journal of Arab and Islamic Sciences  کا اجرا کیا اور مدت تک ادارت کی۔ سائنسی علوم کے بارے میں مسلمان علما و فضلا کے لکھے چار لاکھ قدیم مخطوطوں کے آثار اور قدیم کتب کو، ۳۰سال کی مدت میں، یورپ، افریقہ، بھارت، ترکی، ایران، مصر، روس اور مشرق وسطیٰ کی لائبریریوں، ذاتی کتب خانوں اور دیہات تک میں پہنچ کر اکٹھا کیا یا معلومات لیں۔ جمع شدہ کتب کی تعداد ۴۵ہزار سے زیادہ ہے، جب کہ ۱۳ سو اصل مخطوطے اور ۷ہزار مخطوطات کے عکس شامل ہیں۔پھر ان مخطوطات و معلومات کو ایک ہزار مطبوعات کی صورت میں شائع کیا۔

ایک مشہور جرمن ماہر طبیعیات اور سائنسی علوم کے مؤرخ ڈاکٹر ایلہارڈ ویڈمین (۱۸۵۳ء-۱۹۲۸ء) نے ۱۸۹۹ء میں طے کیا کہ:’ ’میں مسلمانوں کے ایجاد کردہ ان سائنسی آلات کو جن کا تذکرہ کتب میں پڑھا ہے، عملی شکل اور نمونوں (ماڈلوں) کی صورت دوں گا‘‘۔ ڈاکٹر ایلہارڈ نے ۱۹۲۸ء تک ۳۰برسوں کی شبانہ روز کاوش سے ایسے پانچ ماڈل تیار کیے۔ اس مثال کوسامنے رکھ کر پروفیسر فواد نے دوستوں سے کہا : ’’میں کوشش کروں گا کہ کم از کم ۳۰ ماڈل اور آلات کے نمونے بناکر اس کمرے کی خالی جگہ کو پُر کروں‘‘۔ پھر اسی انسٹی ٹیوٹ میں انھوں نے اگلے سال ایک میوزیم قائم کیا، جس میں مسلمانوں کے سنہرے دور میں ایجاد اور استعمال ہونے والے آٹھ سو (۸۰۰) سائنسی آلات اور مشینوں کے اصل کے مطابق نمونے بنواکر رکھے۔

جرمن حکومت نے پروفیسر سیزگین کے ذاتی کتب خانے کو قومیا لیا تھا اور بدلے میں    معقول مالی معاوضہ دیا تھا۔ ترکی منتقل ہونے کے بعد پروفیسر سیزگین نے دوبارہ ایک ایک کتاب اکٹھی کر کے استنبول میں ایک عظیم الشان کتب خانہ بنایا۔ ترکی کی موجودہ حکومت اس لائبریری کے لیے استنبول میں ایک خصوصی بلڈنگ تعمیر کر رہی ہے۔ یہاں پر ۲۰۰۸ء میں ایک میوزیم بھی قائم کیا۔  اس میوزیم میں انھوں نے اسی طرح کے ۷۰۰ماڈل اور آلات تیار کر کے رکھوائے جیسے جرمن میوزیم میں رکھے تھے۔ پھر ۲۰۱۰ء میں استنبول میں اسلامی وعربی تاریخ کا ٹرسٹ قائم کیا۔

پروفیسر فواد نے متعین کیا ہے کہ :’’ کرسٹوفر کولمبس [م: ۱۵۰۶ء]سے بہت پہلے عربوں نے شمالی امریکا دریافت کیا تھا اور ۱۸ویں صدی کے اوائل تک دنیا کے تمام نقشے مسلمانوں ہی کے بنائے ہوئے نقشوں کی نقل تھے‘‘… پھر بتایا کہ: ’’عباسی خلیفہ مامون الرشید [م: ۸۳۳ء] نے تقریباً ستّر جغرافیا دانوں کو پوری دنیا کے مطالعے کے لیے بھیجا، جنھوں نے کئی برس گھوڑوں، اُونٹوں اور سمندری جہازوں پر گھوم پھر کر دنیا بھر کے بارے معلومات اکٹھا کیں اور نقشے بنائے‘‘۔

پروفیسر سیزگین کہا کرتے تھے: ’’ مجھے اتنی سی بات سے خوشی نہیں ہوتی کہ سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں عربوں اور مسلمانوں نے جو کارنامے انجام دیے ہیں آج ہم محض انھی پر فخر کریں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ آج کے مسلمان سمجھیں کہ ان کے آباء کتنے عظیم لوگ تھے، جو صرف اپنی انگلیوں پر گنتی کرکے اتنی زیادہ ترقی کرگئے۔ ہم ان سے اور دوسروں سے بہت کچھ سیکھ کر خوداعتمادی سے اپنی مشکلات پر قابوپا سکتے ہیں۔ ہم کو ان علما سے سبق حاصل کرنا چاہیے، جنھوں نے ہم سے کہیں زیادہ محنت کی اور لکھا۔ اتنی مشقت کے باوجود وہ زندگی میں ہم سے کہیں زیادہ خوش تھے‘‘۔

پروفیسر سیزگین نے لکھا ہے: ’’مسلمانوں میں نتیجہ خیز فکری و عملی سرگرمی کا آغاز پہلی صدی ہجری ہی میں ہوگیا تھا۔ علم کے بارے میں اہلِ اسلام کا رویہ بڑا فراخ دلانہ تھا۔ انھوں نے بغیر کسی نفسیاتی رکاوٹ کے، اپنے پیش روؤں کے علوم کو قبول کیا۔ اس طرح اسلامی تہذیب، مختلف قوموں کی ثقافتوں ، زبانوں اور علمی میراث کا نقطۂ اتصال ثابت ہوئی، جس سے انسانی فکر کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ مسلمان اپنے پیش روؤں کے مقلّد محض نہ تھے بلکہ جانچ پرکھ اور تنقید کے صحت مند معیارات کے قائل تھے۔ مسلمانوں نے اجنبی اقوام سے علمی فیض حاصل کرنے کا آغاز ان قوموںسے کیا جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے،اس لیے ان کے استفادے میں تعصب کا عنصر نہیں پایا جاتا تھا، لیکن اس کے برعکس لاطینیوں[اہل مغرب] نے عربوں کو اپنا دشمن سمجھ کر ان کے علوم سے استفادہ کیا، جس نے ان میں نفسیاتی اُلجھائو، تعصب اور سرقے کی روایت پیدا کی۔ اس طرح اعتراف کے بجاے دانستہ طور پر مسلمانوں کی دریافتوں کا سہرا بھی مغربیوں کے سر باندھنے کا رویہ شامل ہوگیا‘‘۔

پروفیسر فواد سیزگین کے کارناموں کو دُنیا بھر کے اہل علم نے سراہا۔ ۱۹۷۹ء میں جب  ’شاہ فیصل ایوارڈ‘ کا اجرا ہوا تو پہلے ہی سال سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کو اسلام کے لیے خدمات پر اور پروفیسر فواد سیزگین کو ان کی کتاب تاریخ التراث العربی (عربی ورثے کی تاریخ) پر یہ ایوارڈ  دیا گیا۔ اسی طرح جرمن حکومت نے اعلیٰ ترین اعزاز ’آرڈر آف میرٹ آف جرمنی‘ دیا۔ ’اسلام میں سائنسی اور تکنیکی علوم‘ (پانچ جلدوں) پر ایک خوب صورت کتاب پر ایران نے ۲۰۰۶ء میں ’کتاب کا عالمی ایوارڈ‘ دیا۔ یہ کتاب علمی تفصیلات کے ساتھ تصویروں اور خاکوں سے مرصع ہے، اور جرمن، ترکی، انگریزی اور فرانسیسی میں شائع ہوچکی ہے۔

۱۹۷۹ء میں امام محمد بن سعود اسلامی یونی ورسٹی ، ریاض کی دعوت پر ڈاکٹر فواد نے سات خطبے دیے، جو محاضرات فی تاریخ العلوم کے عنوان سے شائع ہوئے۔ پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی نے ان خطبات کا اُردو ترجمہ تاریخ علوم میں تہذیب اسلامی کا مقام  کے نام سے کیا، جسے ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد نے ۱۹۹۴ء میں شائع کیا ہے۔

پروفیسر فواد نے اظہارِ تشکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’علومِ اسلامیہ کے مطالعے اورعربی فہمی کے لیے یکسوئی عطا کرنے میں میرے استاد پروفیسر ہیلمیٹ ریٹر کا مجھ پر بے حد احسان ہے۔  جن علمی کاموں کے لیےمیں نے قدم اُٹھایا، ان راہوں کی مشکلات کو دیکھ کر ممکن ہے دوسروں کو گھبراہٹ محسوس ہوتی ہو۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ میں اپنے باطن کی دنیا میں گہری طمانیت اور  تشکر کے جذبات رکھتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ کے خوش نصیب ترین بندوں میں سےہوں، کہ جس  کی توفیق اور مدد سے یہ کام کر رہا ہوں‘‘۔

پروفیسر فواد سیزگین ۳۰ جون ۲۰۱۸ء کو ۹۵ برس کی عمر میں استنبول کے ایک ہسپتال میں انتقال کرگئے۔ جامع سلیمانیہ میں ان کی نمازِ جنازہ  میں ترکی کے صدر طیب اردوان بھی موجود تھے، جنھوں نے حاضرینِ جنازہ سے خطاب کرتے ہوئے گلوگیر لہجے میں کہا: ’’میں اللہ سے دُعا کرتا ہوں کہ ہمارے عظیم محسن پروفیسر فواد کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ ہمارا وہ محسن کہ جس نے ہمیں، اسلامی تاریخ اور اسلامی تہذیب کے حوالے سے بیداری کی بہترین دولت دی۔ ہمارا وہ محسن کہ جس نے سائنسی علوم میں، زمانوں پر پھیلی ہوئی اسلامیانِ عالم کی خدمات کو وضاحت سے پیش کیا۔ میں ۲۰۱۹ء کو فواد سیزگین کے سال سے منسوب کرتا ہوں کہ : جب ہم اپنی نسل کو اسلامی علوم کی واقفیت دینے اور شوق پیدا کرنے کے لیے کانفرنسیں، سیمی نار، نمایشیں اور علمی پروگرام کریں گے‘‘۔

ایمان، عزم ، ارادے، محنت اور اَن تھک جستجو کے زادِراہ سے سفر کا آغاز کرنے والے ایک اٹھارہ سالہ نوجوان نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ جو بسترمرگ پر بھی علمی فریضہ انجام دیتا رہا۔ اس اکیلے فرد نے حالیہ زمانے میں وہ کارنامہ انجام دیا، جو کئی ادارے بھی مل کر انجام نہ دے سکے۔ کیا ہماری نوجوان نسل، عشق و جنوں کی اس وادی میں قدم رکھنے کے لیےتیار ہے؟

بھارتی وزیراعظم کے نام

یہاں بھارت سے ۴۹چوٹی کے سابق اعلیٰ افسروں [جن میں مسلمان صرف تین ہیں]کا مشترکہ خط پیش ہے۔ یہ خط انھوں نے کٹھوعہ (جموں) اور اناؤ (یوپی) میں جنسی زیادتی کے ہولناک اور گھنائونے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے، بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کی بے حسی کے خلاف بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کو لکھا۔ اس خط کے تین پہلو ہیں: lپہلا یہ کہ بدترین جبری ماحول، نام نہاد جمہوریت اور برہمنی فسطائیت کے باوجود ایسے باضمیر لوگ موجودہ ہیں، جو اپنی جان و مال کی پروا کیے بغیر مظلوموں کا ساتھ دینے کے لیے ہم آواز کھڑے ہیں۔

  • دوسرا یہ کہ ان واقعات نے ایک ایسی صورتِ واقعہ پیدا کی ہے کہ جس میں بھارت میں بسنے والے مظلوم مسلمانوں، دلتوں، عیسائیوں وغیرہ کی حالت ِزار کو پیش کرنے کے لیے توجہات مرکوز کی جانی چاہییں۔ lتیسرا یہ کہ  خود جموں و کشمیر کے مظلوم اور مقہور عوام کے حق خود ارادیت کا حصول اور وہاں پر خوف ناک حد تک انسانی حقوق کی پامالی اور بھارتی مسلح افواج کی وحشت پر مبنی حکمرانی کا پول کھولنا چاہیے___ اس پس منظر میں قلم، زبان، تحقیق کا سہارا لے کر عالمی راے عامہ کو ہم نوا بنانا وقت کی اوّلین ضرورت ہے۔(ادارہ)

عزت مآب وزیر اعظم!

ہم سرکاری خدمات سے سبک دوش افسروں کا ایک گروپ ہیں، جو ’انڈین دستور‘ میں موجود سیکولر اور جمہوری قدروں میں لگاتار گراوٹ (decline)پر تشویش کا اظہار کرنے کے لیے گذشتہ سال اکٹھا ہوئے تھے۔ایسا کرکے ہم مزاحمت کی ان آوازوں کے ہم آواز ہیں، جو سرکاری نظام کی سرپرستی میں نفرت، ڈراور بےرحمی کے خوف ناک ماحول کے خلاف اُٹھ رہی ہیں۔ ہم نے پہلے بھی کہا تھا اور اب دوبارہ کہتے ہیں، ہم نہ تو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں، نہ کسی سیاسی نظریے کے پیروکار ہیں، سواے ان قدروں کے جو ہمارے آئین میں موجود ہیں۔

 آپ نے بھی چوں کہ آئین کو قائم رکھنے کا حلف لیا ہے، اس لیے ہم امید رکھتے تھے کہ آپ کی حکومت اور وہ سیاسی جماعت جس کے آپ ممبر ہیں، اس خطرناک رجحان سے باخبر ہونے کی کوشش کریں گے ، اس پھیلتی سڑاند کو روکنے کے لیے قائدانہ کردار ادا کریں گے اور سب کو   اعتماد دلائیں گے، بالخصوص اقلیت اور کمزور طبقے کو کہ وہ اپنے جان و مال اور انفرادی آزادی کے حوالے سے بے خوف رہیں۔ مگر افسوس کہ یہ اُمید مٹ چکی ہے۔ اس کے بجاے، کٹھوعہ اور اناؤ کے حادثات میں پائی جانے والی ناقابل بیان دہشت اہلِ وطن کو یہ بتاتی ہے کہ [آپ کی] حکومت اپنے بنیادی فرائض سرانجام دینے میں بالکل ناکام رہی ہے۔

ایک ایسا ملک کہ جس کو اپنی اخلاقی، روحانی اور ثقافتی وراثت پر بڑا ناز رہا ہے اور جس نے مدتوں تک اپنی تہذیبی رواداری اور ہمدردی جیسی قدروں کو سنبھال کر رکھا، افسوس کہ اسے برقرار رکھنے میں ہم سب ناکام رہے ہیں۔ ’ہندوؤں کی عظمت قائم کرنے‘ کے نام پر ایک انسان کے حق میں، جب کہ دوسرے انسانوں کے لیے جانوروں جیسی بےرحمی پالنے کی روش اپنانے کا ہرلمحہ ہماری انسانیت کو شرمسارکر رہا ہے۔ ایک آٹھ سال کی بچی سے وحشیانہ طور پر جنسی درندگی اور قتل کا اندوہ ناک واقعہ یہ دکھاتا ہے کہ ہم کمینگی کی کن گہرائیوں میں ڈوب چکے ہیں۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد یہ سب سے بڑا اندھیر ہے، جس میں ہماری حکومت اور ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادتوں کا رد عمل ناکافی اور مُردنی و بے حسی لیے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ یہ ہے وہ مقام کہ جہاں پر ہمیں اندھیری سرنگ کے آخر میں کوئی روشنی کی کرن نہیں دکھائی دیتی ہے اور ہم بس شرم سے اپنا سر جھکائے ہوئے ہیں۔

ہماری شرمندگی میں اس وقت اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے، جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے کچھ جوان دوست بھی، جو ابھی حکومتی و ریاستی مشینری میں خدمات انجام دے رہے ہیں، بالخصوص وہ جو اضلاع میں کام کر رہے ہیں اور قانونی طور پر دلتوں (شیڈیول کاسٹ) اور کمزور لوگوں کی دیکھ بھال اور حفاظت کے لیے پُرعزم ہیں، وہ اپنا فرض نبھانے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔

وزیراعظم صاحب، ہم یہ خط آپ کو صرف اپنی اجتماعی شرم کی وجہ سے یا اپنی تکلیف یا  غم کو آواز دینے یا اپنی ثقافتی قدروں کے خاتمے کا ماتم کرنے کے لیے نہیں لکھ رہے ہیں، بلکہ ہم لکھ رہے ہیں اپنے غصّے کا اظہار کرنے کے لیے، معاشرے کی خوف ناک تقسیم اور نفرت کو بڑھاوا دینے کے اس ایجنڈے کے خلاف، جو آپ کی پارٹی اور اس کے بےشمار وقت بےوقت پیدا ہوتے معروف ،غیر معروف اداروں نے ہمارے سیاسی قواعد میں، ہماری ثقافتی و سماجی زندگی اور روز مرہ میں شامل کر دیا ہے۔

یہی ہے نفرت کی وہ آگ اور اسی کے نتیجے میں کٹھوعہ اور اناؤ جیسے گھنائونے واقعات کو سماجی حمایت حاصل ہوتی اور جواز ملتا ہے۔ کٹھوعہ میں، ’سنگھ پریوار‘ کے ذریعے پُرجوش اکثریت کی جارحیت اور ان کی بداخلاقی نے نسل پرست وحشی عناصر کو اپنے گھناؤنے ایجنڈے پر آگے بڑھنے کی ہمت دی ہے۔ دراصل وہ جانتے ہیں کہ ان کی بداخلاقی کوان سیاست دانوں کی حمایت حاصل رہے گی، جنھوں نے خود ہندو مسلم تفریق کو گہرا کر کے اور ان میں پھوٹ ڈال کر اپنی سیاسی کامیابی حاصل کی ہے۔ ایسے مافیا اور غنڈوں کے سہارے پر ووٹ اور سیاسی اقتدار کو طول دینے کا نتیجہ   یہ سامنے آیا ہے کہ ان کے کارندوں کو ریپ، قتل ،زورزبردستی اور لوٹ کھسوٹ کی کھلی آزادی حاصل ہوئی ہے اور انھیں اپنی طاقت کو جمانے اور پھیلانے کے لیے شہ ملی ہے۔

لیکن، اقتدار کے اس غلط استعمال سے زیادہ کلنک کی بات، [جموں کی] ریاستی حکومت کے ذریعے متاثرہ فیملی کے بجاے مبینہ ملزم کی پشت پناہی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ سرکاری نظام کتنا خراب اور گل سڑچکا ہے۔ انائو کے شرم ناک واقعے پر یوپی ریاستی حکومت نے تبھی کچھ کیا، جب عدالت نے اس کو مجبور کیا۔ یہ ایک ایسا فعل ہے، جس سے [یوپی] حکومت کے ارادوں کا فریب صاف ظاہر ہوتا ہے۔دونوں اندوہ ناک واقعات ان ریاستوں میں پیش آئے ہیں، وزیراعظم! جہاں آپ کی پارٹی حکمراں ہے۔ آپ کی جماعت میں آپ کی برتری اور آپ کے مرکزی کنٹرول کی وجہ سے، اس خوف ناک صورتِ حال کے لیے کسی اور سے زیادہ آپ ہی کو ذمہ دار ٹھیرایا جا سکتا ہے۔

ان واقعات کی سچائی تسلیم کرنے اور متاثرین کے آنسو پونچھنے کے بجاے آپ مسلسل خاموش رہے۔ آپ کی خاموشی اس وقت ٹوٹی جب ملک اور غیرممالک میں عوامی غصے نے اس حد تک زور پکڑا کہ جس کو آپ کسی صورت نظر انداز نہیں کر سکتے تھے۔تب بھی آپ نے بدکاری کی مذمت اور شرم کا اظہار تو کیا ہے، مگر آپ نے اس کے پیچھے گھٹیا نسلی فرقہ پرستی کی مذمت نہیں کی ہے، نہ آپ نے ان سماجی، سیاسی، انتظامی حالات کو بدل دینے کا عزم کیا ہے کہ جن کے زیرسایہ نسل پرستانہ فسطائیت پھلتی پھولتی ہے۔

ہم محض ڈانٹ، پھٹکار اور انصاف دلوانے کے وعدوں سے عاجز آ چکے ہیں، جب کہ ’سنگھ پریوار‘ کی سرپرستی میں پلنے والے رنگ دار کارندے،نسل پرستانہ نفرت کی ہانڈی کو لگاتار اُبال رہے ہیں۔وزیر اعظم صاحب، یہ دوحادثے محض معمولی جرائم نہیں ہیں کہ گزرتے وقت کے ساتھ جس سے ہماری سماجی چادر کے داغ دُھل جائیں گے، ہماری قومیت اور اخلاقیات پر لگے زخم بھر جائیں گے، اور پھر وہی رام کہانی شروع ہو جائے گی بلکہ یہ ہمارے وجود پر اُمڈ آنے والے بحران کا ایک موڑ ہے۔ اس میں [آپ کی] حکومت کا رد عمل طے کرے گا کہ ایک ملک اور جمہوریت کے روپ میں کیا ہم آئینی قدروں، انتظامی اور اخلاقی نظام پر ٹوٹ پڑنے والے بحران سے نمٹنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ فوری طور پر ہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ درج ذیل کارروائی کریں :

  •  اناؤ اور کٹھوعہ کے متاثر ین تک پہنچ کر ہم سب کی طرف سے، ان سے معافی مانگیں۔
  • کٹھوعہ معاملے میں فوری استغاثہ کروائیں اور اناؤ معاملے میں بہانے تراشنے کے بجاے عدالت کی متعین کردہ رہنمائی کے مطابق اسپیشل جانچ ایجنسی کی تشکیل کریں۔
  •  ان بھولےبھالے معصوم بچوں اور نفرت انگیز جرائم کے شکار دوسرے لوگوں کے دُکھ درد کو ختم کرنے کے لیے پُرعزم ہوں کہ مسلمان، دلت، دیگر اقلیتوں، خواتین اور بچوں کو خصوصی تحفظ اور اعتماد دیا جائے گا،تاکہ وہ اپنی جان ومال اور شہری آزادی کے حوالے سے بے خوف رہیں، اور ان کو درپیش ہر قسم کے خطروں کو حکومت پوری طاقت سے ختم کرے گی۔
  •  حکومت سے ان تمام لوگوں کو برطرف کیا جائے، جو نفرت بھرے جرائم اور نفرت آمیز تقریروں سے جڑے رہے ہیں۔
  • نفرت آمیز جرائم سے سماجی، سیاسی اور انتظامی طور پر نمٹنے کے لیے ایک کل جماعتی اجلاس بلائیں۔

ممکن ہے کہ یہ دیر آید درست آید نہ ہو، مگر اس سے نظام کچھ تو دوبارہ قائم ہوگا اور کچھ   تو بھروسا ملے گا کہ بدنظمی اور مسلسل گراوٹ کو اب بھی روکا جا سکتا ہے۔ ہم پُرامید ہیں۔ [The Deccan Chronicle، حیدرآباد، ۱۶؍اپریل ۲۰۱۸ء، The Outllook India، نئی دہلی، ۱۶؍اپریل ۲۰۱۸ء، اُردو ترجمہ: سلیم منصور خالد]