امجد عباسی


وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا o (المزمل ۷۳:۴)

اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو۔

[جب حضوؐر کو یہ حکم دیا گیا کہ] آدھی رات تک تہجد میں مشغول رہا کر، یا کچھ بڑھا گھٹا دیا کر، اور قرآن شریف کو آہستہ آہستہ ٹھیر ٹھیر کر، پڑھا کر تاکہ خوب سمجھتا جائے، اس حکم کے بھی حضوؐر عامل تھے۔ حضرت صدیقہؓ کا بیان ہے کہ آپ قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے جس سے بڑی دیر میں سورت ختم ہوتی تھی۔ گویا چھوٹی سی سورت بڑی سے بڑی ہو جاتی تھی، صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت کا وصف پوچھا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں: خوب مد کرکے حضوؐر پڑھا کرتے تھے۔ پھر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھ کر سنائی جس میں لفظ اللہ پر، لفظ رحمن پر، لفظ رحیم پر مد کیا۔ ابن جریج میں ہے کہ ہر ہر آیت پر آپ پورا وقف فرمایا کرتے تھے جیسے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِپڑھ کر وقف کرتے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ پڑھ کر وقف کرتے، اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھ کر وقف کرتے، مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِپڑھ کر ٹھیرتے۔ یہ حدیث مسند احمد، ابوداؤد اور ترمذی میں بھی ہے۔ مسنداحمد کی ایک حدیث میں ہے کہ قرآن کے قاری سے قیامت والے دن کہا جائے گا کہ پڑھتا جا اور چڑھتا جا اور ترتیل سے پڑھ، جیسے دنیا میں ترتیل سے پڑھا کرتا تھا۔ تیرا درجہ وہ ہے جہاں تیری آخری آیت ختم ہو۔ یہ حدیث ابودائود و ترمذی اور نسائی میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن صحیح کہتے ہیں۔

[بہت سی] احادیث ہیں جو ترتیل کے مستحب ہونے اور اچھی آواز سے قرآن پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں، جیسے وہ حدیث جس میں ہے قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرو، اور ہم میں سے وہ نہیں جو خوش آوازی سے قرآن نہ پڑھے، اور حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کی نسبت حضوؐر کا یہ فرمانا کہ اسے آلِ دائود کی خوش آوازی عطا کی گئی ہے اور حضرت ابوموسٰی ؓ کا فرمانا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپؐ سن رہے ہیں تو میں اور اچھے گلے سے زیادہ عمدگی کے ساتھ پڑھتا، اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا فرمان کہ ریت کی طرح قرآن کو نہ پھیلائو اور شعروں کی طرح قرآن کو بے تہذیبی سے نہ پڑھو، اس کے عجائب پر غور کرو اور دلوں میں اثر لیتے جائو اور اس کے پیچھے نہ پڑجائو کہ جلد سورت ختم ہو۔ (بغوی)۔ ایک شخص آکر حضرت ابن مسعود ؓ سے کہتا ہے: میں نے مفصل کی تمام سورتیں آج کی رات ایک ہی رکعت میں پڑھ ڈالیں۔ آپ نے فرمایا: پھر تو تو نے شعروں کی طرح جلدی جلدی پڑھا ہوگا، مجھے وہ برابر برابر کی سورتیں خوب یاد ہیں جنھیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم      ملا کر پڑھا کرتے تھے۔ پھر مفصل کی سورتوں میں سے ۲۰ سورتوں کے نام لیے کہ ان میں سے      دو دو سورتیں حضوؐر ایک ایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے۔(تفسیر ابن کثیر، عمادالدین ابوالفدا  ابن کثیر، ص ۳۸۴-۳۸۵)

ترتیلِ قرآن کا مطلب

  • ترتیل کے لفظی معنی کلمے کو سہولت اور استقامت کے ساتھ منہ سے نکالنے کے ہیں (مفردات امام راغب)۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ تلاوتِ قرآن میں جلدی نہ کریں، بلکہ ترتیل و تسہیل کے ساتھ ادا کریں اور ساتھ ہی اس کے معانی میں تدبر و غور کریں (قرطبی)۔ ورتّـل کا عطف قم الّیل پر ہے اوراس میں اس کا بیان ہے کہ رات کے قیام میں کیا کرنا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نمازِ تہجد اگرچہ قراء ت و تسبیح، رکوع و سجود سبھی اجزاے نماز پر مشتمل ہے مگر اس میں اصل مقصود قراء ت قرآنی ہے۔ اسی لیے احادیثِصحیحہ اس پر شاہد ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز بہت طویل ادا فرماتے تھے۔ یہی عادت صحابہ و تابعین میں معروف رہی ہے۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کا صرف پڑھنا مطلوب نہیں، بلکہ ترتیل مطلوب ہے جس میں ہر ہر کلمہ صاف صاف اور صحیح ادا ہو۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح ترتیل فرماتے تھے۔ حضرت اُم سلمہؓ سے بعض لوگوں نے رات کی نماز میں آپ کی تلاوتِ قرآن کی کیفیت دریافت کی تو انھوں نے نقل کر کے بتلایا جس میں ایک ایک حرف واضح تھا۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، از مظہری)

ترتیل میں تحسینِ صوت، یعنی بقدر اختیار خوش آوازی سے پڑھنا بھی شامل ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کسی کی قراء ت و تلاوت کو ایسا نہیں سنتا جیسا اُس نبی کی تلاوت کو سنتا ہے جو خوش آوازی کے ساتھ جہراً تلاوت کرے۔ (مظہری)

.....اور اصل ترتیل وہی ہے کہ حروف و الفاظ کی ادایگی بھی صحیح اور صاف ہو ، اور پڑھنے والا اس کے معانی پر غور کر کے اُس سے متاثر بھی ہو رہا ہو، جیساکہ حسن بصریؒ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزرایک شخص پر ہوا، جو قرآن کی ایک آیت پڑھ رہا تھا اور رو رہا تھا۔ آپؐ نے لوگوں سے فرمایا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم سنا ہے: وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًابس یہی ترتیل ہے (جو یہ شخص کر رہا ہے) (القرطبی)۔ (معارف القرآن، مفتی محمد شفیع، ج ۸، ص ۵۹۰-۵۹۱)

  • رَتّلکسی چیز کی خوبی، آرایش اور بھلائی کو کہتے ہیں اور رَتّل کے معنی سہولت اور  حسنِ تناسب کے ساتھ کسی کلمے کو ادا کرنا ہے، نیزاس کا معنی خوش آوازی سے پڑھنا، یا پڑھنے میں    خوش الحانی اور حسنِ ادایگی میں حروف کا لحاظ رکھنا، اور ہر لفظ کو ٹھیر ٹھیر کر اور الگ الگ کرکے    پڑھنا ہے۔ اور اس طرح پڑھنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہرلفظ کی ادایگی کے ساتھ ساتھ انسان     اس کے معانی پر غور کرسکتا ہے اور یہ معانی ساتھ کے ساتھ دل میں اُترتے چلے جاتے ہیں۔ (تیسیر القرآن، مولانا عبدالرحمن کیلانی، ج ۴، ص ۵۳۹)
  • علامہ قرطبی لکھتے ہیں: ترتیل کا معنی ہے: بڑی خوب صورتی سے منظم اور مرتب ہونا۔   وہ منہ جس کے دانت خوب صورت اور جڑے ہوئے ہوتے ہیں، اسے ثغر رتل کہتے ہیں، یعنی کوئی دانت اُونچا نیچا نہیں، کوئی جگہ خالی نہیں، کوئی دانت ٹوٹا ہوا نہیں۔اسی مناسبت سے     ترتیلِ قرآن کا معنی ہوگا کہ اس کو آہستہ آہستہ، سوچ سمجھ کر پڑھا جائے اور اس کی تلاوت میں تیزی نہ کی جائے۔ اس آیت کی جامع اور دل نشین تفسیر حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے۔ آپ سے اس آیت کا مفہوم پوچھا گیا تو ارشاد فرمایا..... اس آیت کا معنی ہمارے نبی کریمؐ نے ہمیں بتایا کہ جس طرح تم جلدی جلدی ردی کھجوریں بکھیرتے چلے جاتے ہو، اور بال کاٹتے چلے جاتے ہو، ایسا نہ کرو۔ جب کوئی نادر نکتہ آئے تو ٹھیرجائو، اپنے دل کو اس کی اثرانگیزی سے متحرک کرو۔ تمھیں اس سورت کو جلدی جلدی ختم کرنے کی فکر نہ ہو۔ (ضیاء القرآن، پیر محمد کرم شاہ ازہری، ج ۵، ص ۴۰۲)
  • ترتیل کی تفسیر میں معصومین ؑسے بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں جن میں سے ہر ایک اس کے وسیع الابعاد وجہات میں سے کسی ایک جہت کی طرف اشارہ کرتی ہے.....

حضرت امام صادق سے ’ترتیل‘ کی تفسیر میں یہ آیا ہے: جس وقت تم کسی ایسی آیت سے گزرو جس میں جنت کا ذکر ہو تو رُک کر خدا سے جنت کا سوال کرو (اور اس کے لیے اپنی اصلاح کرو)، اور جب تم کسی ایسی آیت سے گزرو جس میں جہنم کا ذکر ہو، تو خدا سے اس سے پناہ مانگو (اور خود کو اس سے دُور رکھو)۔

.....ایک اور حدیث میں انھی حضرت سے اس طرح نقل ہوا ہے: قرآن کو جلدی جلدی، سرعت اور تیزی کے ساتھ نہیں پڑھنا چاہیے۔ جس وقت تم کسی ایسی آیت سے گزرو جس میں جہنم کا ذکر ہو، تو وہاں رک جائو اور خدا سے جہنم کی آگ سے پناہ مانگو.....

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ زمانے میں بہت سے مسلمان اس واقعیت سے بہت دُور ہوگئے ہیں، اور انھوں نے قرآن کے صرف الفاظ پر اکتفا کرلیا ہے، اور ان کا مقصد صرف سورت اور قرآن کو ختم کرنا ہوتا ہے۔ بغیر اس کے کہ وہ یہ جانیں کہ یہ آیات کس مقصد کے لیے نازل ہوئی ہیں؟ اور کس پیام کی تبلیغ کر رہی ہیں؟ یہ ٹھیک ہے کہ یہ قرآن کے الفاظ بھی محترم ہیں، اور ان کو پڑھنا بھی فضیلت رکھتا ہے لیکن اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ الفاظ اور تلاوت ان کے مطالب و مضامین کو بیان کرنے کا مقدمہ اور تمہید ہے۔ (تفسیرنمونہ، ج ۲۵، ص ۱۵۱-۱۵۲)

  • [گویا یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ] تیز تیز رواں دواں نہ پڑھو، بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زبان سے ادا کرو اور ایک ایک آیت پر ٹھیرو، تاکہ ذہن پوری طرح کلامِ الٰہی کے مفہوم و مدعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متاثر ہو۔ کہیں اللہ کی ذات و صفات کا ذکر ہے تو اس کی عظمت و ہیبت دل پر طاری ہو۔ کہیں اس کی رحمت کابیان ہے تو دل جذباتِ تشکر سے لبریز ہوجائے۔ کہیں اس کے غضب اور اس کے عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو۔ کہیں کسی چیز کا حکم ہے یا کسی چیز سے منع کیا گیا ہے تو سمجھا جائے کہ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور کس چیز سے منع کیا گیا ہے۔ غرض یہ قراء ت محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کر دینے کے لیے نہیں، بلکہ غوروفکر اور تدبر کے ساتھ ہونی چاہیے.....

حضرت حذیفہ بن یمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رات کی نماز میں حضوؐر کے ساتھ کھڑا ہوگیا تو آپ کی قراء ت کا یہ انداز دیکھا کہ جہاں تسبیح کا موقع آتا، وہاں تسبیح فرماتے، جہاں دُعا کا موقع آتا، وہاں دعا مانگتے، جہاں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا موقع آتا، وہاں پناہ مانگتے (مسلم، نسائی)۔ حضرت ابوذرؓ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات کی نماز میں جب حضوؐر اِس مقام پر پہنچے اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ وَ اِنْ تَغْفِرْ لَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ (اگر تو انھیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تو غالب اور دانا ہے) تو اسی کو دُہراتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی (مسنداحمد، بخاری)۔ (تفہیم القرآن، سیدابوالاعلیٰ مودودی، ج ۶، ص ۱۲۶-۱۲۷)

  • [یہاں] قرآن کے پڑھنے کا طریقہ بتایا گیا [ہے] کہ نماز میں اس کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو۔ چنانچہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضوؐر قرآن لحن اور لَے سے پڑھتے، آیت آیت پر وقف کرتے، کبھی کبھی ایک ہی آیت شدتِ تاثر میں باربار دہراتے۔ علاوہ ازیں کوئی آیت قہروغضب کی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کے غضب سے پناہ مانگتے اور جو آیت رحمت کی ہوتی، اس پر اداے شکر فرماتے۔ بعض آیتیں جن میں سجدے کا حکم یا اشارہ ہے، ان کی تلاوت کے وقت، فوری امتثالِ امر کے طور پر آپ سجدے میں بھی گرجاتے۔

تلاوتِ قرآن کا یہی طریقہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق بھی ہے اور یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ماثور و منقول بھی ہے۔ قرآن کے مقصدِ نزول کے پہلو سے بھی یہی طریقہ نافع ہوسکتا ہے لیکن مسلمانوں میں یہ طریقہ صرف اس وقت تک باقی رہا جب تک وہ قرآن کو فکروتدبر کی چیز اور زندگی کی رہنما کتاب سمجھتے رہے۔ بعد میں جب قرآن صرف حصولِ ثواب اور ایصالِ ثواب کی چیز بن کے رہ گیا تو یہ اس طرح پڑھا جانے لگا جس کا مظاہرہ ہمارے حفاظ کرام تراویح اور شبینوں میں کرتے ہیں۔ (تدبر قرآن، امین احسن اصلاحی، ج ۸، ص ۲۳-۲۴)

ترتیل کی حکمت

یہ [دراصل] ایک عظیم مہم کے لیے من جانب اللہ تربیت تھی اور اس تربیت میں ایسے ذرائع استعمال کیے گئے جن کی کامیابی کی ضمانت من جانب اللہ دی گئی تھی۔ قیام اللیل، جس کی زیادہ سے زیادہ حد نصف رات یا دو تہائی سے کم یا ایک تہائی ہے، اس میں صرف ترتیل قرآن اور نماز ہوتی ہے۔ ترتیل قرآن کا مطلب ہے قرآن کو تجوید کے ساتھ قرآن کے اصولوں کے مطابق پڑھنا، جلدی جلدی بھی نہ ہو اور محض گانے بجانے کا انداز بھی نہ ہو۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح روایات وارد ہیں کہ آپؐ نے قیام اللیل کے دوران گیارہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھا تھا لیکن ان گیارہ رکعات میں رات کے دو تہائی حصے سے قدرے    کم وقت گزارتے تھے اور آپؐ قرآن مجید کو خوب رُک رُک کر تجوید کے ساتھ پڑھتے تھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تربیت اس لیے کی جارہی تھی کہ ایک بھاری ذمہ داری آپؐ کے سپرد کی جانے والی تھی..... راتوں کو جاگنا، جب کہ لوگ سورہے ہیں، اور روز مرہ کی زندگی کی کدورتوں سے دُور ہونا، اور دنیاوی جھمیلوں سے ہاتھ جھاڑ کر اللہ کا ہو جانا، اور اللہ کی روشنی اور  اللہ کے فیوض وصول کرنا، اور وحدت مطلقہ سے مانوس ہونا، اور اس کے لیے خالص ہوجانا، اور رات کے سکون اور ٹھیرائو کے ماحول میں ترتیل قرآن، ایسی ترتیل کہ گویا یہ قرآن ابھی نازل ہو رہا ہے اور یہ پوری کائنات اس قرآن کے ساتھ رواں دواں ہے۔ انسانی الفاظ اور عبارات کے سوا ہی یہ پوری کائنات قرآن کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ قیام اللیل میں انسان قرآن کے نورکی شعاعیں، اس کے اشارات، نہایت پُرسکون ماحول میں حاصل کرتا ہے اور یہ سب اس دشوارگزار راستے کا سازوسامان ہے۔ کیونکہ اس کٹھن راستے کی مشکلات رسولؐ اللہ کے انتظار میں تھیں اور یہ ہر اس شخص کا انتظار کرتی ہیں، جو بھی اس دعوت کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے۔ جو شخص بھی جس دور میں دعوتِ اسلامی کا کام کرتاہے، شیطانی وساوس اور اس راہ کے تاریک ترین لمحات میں یہی زادِ راہ کسی داعی کے کام آتا ہے اور اس سے اس کی راہ روشن ہوتی ہے (فی ظلال القرآن، سید قطب شہیدؒ، ترجمہ: معروف شاہ شیرازی، ج۶، ص ۶۷۶-۶۷۷)۔ (انتخاب و ترتیب: امجد عباسی)

ڈنمارک میں آزادیِ اظہار کے نام پر ایک بار پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کرتے ہوئے توہین آمیز خاکوں کو شائع کیا گیا ہے۔ اس پر پوری اُمت مسلمہ میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ستمبر ۲۰۰۵ء کے بعد ڈنمارک کے اخبارات کی ان توہین آمیز خاکوں کی دوبارہ اشاعت یہ ظاہر کرتی ہے کہ مغرب کے اس اقدام کے خلاف مؤثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔

دنیا کو تہذیب سکھانے کا نعرہ بلند کرنے والا مغرب آج خود تہذیب کا دامن تار تار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ایک دوسرے کے مذاہب اور مقدس ہستیوں کا احترام دنیا کی مسلمہ اخلاقی اقدار میں سے ایک ہے۔ عالمی سطح پر ایسے قوانین موجود ہیں جن میں مذہبی آزادی کو یقینی بنایا گیاہے۔ آج اس بات کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ مغرب اندھے تعصب میں جس عظیم ہستی کی توہین کا مرتکب ہو رہا ہے، اس کے انسانیت پر کتنے احسانات ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا حقیقی معنوں میںاگر کوئی رہنما ہے تو وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی ہی ہے۔ یہ آپؐ ہی ہیں جنھوں نے کسی خاص قوم، نسل یا طبقے کی بھلائی کے لیے نہیں بلکہ تمام نوع انسانی کی فلاح و بہبود کے لیے آواز اُٹھائی، اور ہرقسم کی قوم پرستی کی حوصلہ شکنی کی۔ یہ آپؐ ہی ہیں جنھوں نے ایسے عالم گیر اور ہمہ گیر اصول پیش کیے جو تمام دنیا کے انسانوں کے مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔ یہ آپؐ ہی ہیں جنھوں نے وہ ابدی ہدایت اور آفاقی نظریۂ حیات پیش کیا جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انسانیت کی رہنمائی کے لیے کافی ہے۔ یہ آپؐ ہی ہیں جنھوں نے اسلام کو صرف ایک نظریۂ حیات کے طور پر ہی پیش نہیں کیا، بلکہ اپنے پیش کردہ نظریات کو عملاً جاری کر کے دکھایا اور ایک جیتی جاگتی سوسائٹی پیدا کر کے دکھا دی۔ گویا اسلام ایک نظریہ ہی نہیں بلکہ ایک نظامِ حیات بھی ہے۔ آج اُمت مسلمہ ان کے اسی مشن کی علَم بردار ہے اور ایک تسلسل سے اسے لے کر آگے بڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف سرمایہ داری، اشتراکیت، نیشنلزم اور لادینیت کے نتیجے میں انسانیت جس کرب سے گزری اور گزر رہی ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ آج بھی دنیا ایک منصفانہ نظامِ زندگی کے لیے ترس رہی ہے جو یقینا اسلامی نظریۂ حیات میں مضمر ہے۔ نبی کریمؐ کے اس عظیم کارنامے کی بنیاد پر مغرب کے دانش ور بھی آپؐ کو دنیا کا عظیم رہنما ماننے پر مجبور ہیں۔

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے۔

اسلام کی یہی وہ نظریاتی برتری ہے جو مغرب سے برداشت نہیں ہو رہی، گو آج مسلمانوں کا وہ کردار نہیں جو مطلوب ہے اور دنیا میں کوئی اسلامی ریاست حقیقی معنوں میں موجود نہیں کہ جسے ایک ماڈل کے طور پر پیش کیا جاسکے۔ اس کے باوجود قبولِ اسلام کا رجحان بڑھتا چلا جارہا ہے۔ روحانی پیاس لوگوں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اسلام کی طرف رجوع کریں۔ خود مغرب جس نے حیران کن سائنسی ترقی کی مگر انسانی زندگی کے مسائل کو مکمل طور پر حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔

توہین آمیز خاکوں کی مکرّر اشاعت اس حربے کی مثل ہے جو مشرکینِ مکہ نے اسلام کے پیغام کو روکنے اور رسول کریمؐ کے خلاف مذموم پروپیگنڈے کی صورت میں استعمال کیا تھا۔ مگر دشمن کی یہ چال جس طرح کل اُلٹی پڑی تھی اور نبی کریمؐ کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا ان کے پیغام کو عام کرنے کا ذریعہ بنا تھا، اسی طرح آج بھی مغرب کی یہ چال ان کے خلاف پڑے گی۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد اسلام کو جاننے کے لیے جس بڑے پیمانے پر مغرب میں دل چسپی پائی گئی اس کی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ لوگوں میں تجسس پیدا ہوا کہ ’دہشت گرد‘ اسلام آخر ہے کیا؟ اور مسلمان کیوں دہشت گردی کے ملزم قرار دیے جاتے ہیں؟ توہین آمیز خاکے بھی مغرب کو مزید بدنام کرنے اور اشاعت اسلام کا ذریعہ بنیں گے۔

وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (اٰل عمرٰن۳:۵۴) اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کرہے۔

مغرب میں جہاں ایک طرف اسلام کے خلاف انتہاپسندی کا رویہ پایا جاتا ہے وہاں ایسی معتدل سوچ اور فکر بھی پائی جاتی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو بھی دیگر مذاہب کی طرح مذہبی احترام ملنا چاہیے۔ برطانیہ کے شہزادہ چارلس اور حال ہی میں برطانیہ کے آرک بشپ آف کینٹربری ڈاکٹر رووان ولیم جنھوں نے مسلمانوں کو مذہبی استحقاق کی بنیاد پر علیحدہ شرعی عدالتیں قائم کرنے کے حق میں بیان دیا ہے، اسی معتدل سوچ کے علَم بردار ہیں۔ مسلمانوں بالخصوص مغرب کے مسلمانوں کو اس آواز کو مضبوط بنانے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ باہمی مکالمے، سیمی نار، ٹی وی پروگراموں، مراکز دانش سے رابطہ اور معتدل سوچ پر مبنی لٹریچر کی اشاعت وغیرہ کے ذریعے اس سوچ کو آگے بڑھانا چاہیے۔

اُمت مسلمہ کو خود بھی ایک زندہ اُمت کا ثبوت دینا چاہیے۔ دنیا میں امن اور انصاف کی بالادستی بنیادی طور پر اُمت مسلمہ کا فرض منصبی اور نبی کریمؐ کے عالمی مشن کا تقاضا ہے۔ اگر مغرب انتہاپسندی، تعصب اور قوم پرستی کے نشے میں اندھا ہوکر اور اسلام سے خائف ہوکر دنیا کے امن کو برباد کرنے اور اشتعال انگریزی پر تلا بیٹھا ہے تو اس کے سدباب کے لیے ہرسطح پر اقدامات اٹھانا مسلمانوں کی دینی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔ نائن الیون کے واقعے سے جس طرح پردہ اُٹھ رہا ہے، عراق پر حملے اور افغانستان پر جارحیت کے دعووں کی جس طرح قلعی کھل رہی ہے اور دہشت گردی کے نام پر جس طرح انسانیت کے بجاے مغرب کے مفاد کی جنگ لڑی جارہی ہے، ان سب باتوں سے مغرب کا دہرا معیار کھل کر سامنے آگیا ہے۔ اب وہ مزید ذلت سے بچنے کے لیے مسلمانوں کو اشتعال انگیزی کی راہ پر ڈال کر، توڑ پھوڑ، قتل و غارت گری کے ذریعے ’دہشت گرد‘ کے طور پر سامنے لانا اور ’تہذیبوں کی جنگ‘ مسلط کرنا چاہتا ہے جو دراصل خود مغرب کا کھڑا کیا ہوا ہوّا ہے۔ مسلمانوں کو دشمن کی اس چال کو سمجھنا چاہیے اور اپنے حقوق کی سربلندی کے لیے پُرامن جدوجہد کو بنیاد بنانا چاہیے۔

ایک مومن کی فراست کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کوئی بھی اقدام اصولوں سے ہٹ کر اور اخلاق سے گرا ہوا نہ اٹھایا جائے۔ صبرواستقامت اور اسلام کی اخلاقی برتری بالآخر دشمن کے    دل میں گھر کرنے کا باعث بنے گی۔ اس کے علاوہ عالمی اسلامی تنظیم کی سطح پر اقدامات کا اٹھانا، عالمی قوانین کے ذریعے اپنے حقوق کا تحفظ حکومتی سطح پر سفارتی بائیکاٹ اور احتجاج اور دیگر    ذرائع ابلاغ کے ذریعے مکالمے اور اسلام کے آفاقی پیغام کو عام کرنا چاہیے۔ مغرب کا دہرا معیار بالآخر خود اسے اپنی اور دوسروں کی نظروں میں گرا دے گا۔

ایک محاذ معاشی دبائو کا بھی ہے جب چند برس قبل توہین رسالتؐ کی جسارت کرنے پر مسلم دنیا نے ڈنمارک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا تو اس کی سات بلین کرونا کی تجارت خطرے میں پڑ گئی تھی اور وہاں کی تجارتی کمپنیوں نے اپنی حکومت کو روش بدلنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس مؤثر حربے کو ایک بہتر حکمت عملی کے ساتھ استعمال کر کے بھی مغرب کو اشتعال انگیزی سے روکنے کے لیے دبائو بڑھایا جاسکتا ہے۔

آج مسلمان ایک بڑی تعداد اور وسیع وسائل رکھنے کے باوجود اتنے بے وزن ہیں کہ جو چاہے ان کو ذلیل و رسوا کرکے رکھ دے اور ان کی عزت کو خاک میں ملا دے۔ ایسا کیوں ہے؟ درحقیقت اُمت مسلمہ اپنے فرضِ منصبی کو فراموش کرچکی ہے اور اقامت دین کے لیے خدا سے جو  عہد کر رکھا تھا، اسے پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ نبی کریمؐ سے محبت ہمارے ایمان کا تقاضا ہے، ان کی حرمت پر ہم جان قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہیں لیکن محبت رسولؐ کا حقیقی تقاضا یہ ہے کہ     ہم صحیح معنوں میں خدا کے بندے بن جائیں۔ نبی کریمؐ کے سچے اُمتی بن کر اپنے اخلاق و کردار سے گواہی دیں، اور تڑپتی ہوئی انسانیت کے لیے امن وانصاف کے پیغام کے علَم بردار بن کر اُٹھیں اور قرآن وسنت کی دعوت کو عام کریں۔ نیکی کا حکم دیں برائی سے روکیں، اور اس کے لیے    انتہائی جدوجہد، کوشش اور جہاد کریں۔ مسلمانوں کی طاقت کا راز بھی اسی بات میں مضمر ہے۔   اس کے لیے بس ایک شرط ہے کہ پہلے ہم اپنے پیکرِخاکی میں جان پیدا کریں    ؎

ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ

پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے

اسلام، نبی کریمؐ اور مسلمانوں کو آزادیِ راے، آزادیِ صحافت، انسانی حقوق اور سیکولر جمہوریت کے نام پر تضحیک، تمسخر اور تذلیل کا برابر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی  نہیں کہ اس کا پشت پناہ مغرب ہے اور وہی اس کو تحفظ بھی دیتا ہے۔ بھارتی نژاد ملعون رشدی کے بعد بنگلہ دیش کی تسلیمہ نسرین(حال ہی میں ان کی متنازعہ کتاب دوئی کھنڈت پر بھارتی مسلمانوں کے ردعمل کا سامنے آنا)، ڈنمارک کے اخبار اور دیگر اخبارات میں شیطانی خاکوں کی اشاعت، ولندیزی فلم ساز تھیووان گوخھ کی اسلام میں عورت کے مقام کے موضوع پر اشتعال انگیز فلم کی تیاری اور اس کے شدید ردعمل میں اس کی ہلاکت، جرمنی میں توہینِ رسالتؐ پر عامرچیمہ کی شہادت، اور اب سوڈان میں ایک عیسائی مشنری اسکول کی ٹیچر گلین گبنز کا اپنی کلاس کے طلبہ کو ’ٹیڈی بیر‘ کا نام (نعوذ باللہ) محمدصلی اللہ علیہ وسلم رکھنے کے لیے ورغلانے اور توہین رسالتؐ کا مرتکب ہونا ،اسی کا تسلسل ہے۔ گلین گبنزکی سزا ختم کروانے اور تحفظ دینے میں بھی برطانیہ کا ہاتھ نمایاں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مغرب کی طرف سے توہینِ اسلام اور توہینِ رسالتؐ میں کیوں شدت آتی جارہی ہے، اور دوسری جانب اس سب کچھ کو آزادیِ راے اور انسانی حقوق کے حوالے سے تحفظ دینے کی بات بھی کی جارہی ہے، نیز اُمت کے اہلِ علم اس مسئلے کا کس انداز سے جواب دیں؟

مغرب میں چند صدیاں قبل انسانی حقوق کا سوال اس وقت سامنے آیا جب یورپ میں سائنس اور مذہب میں چپقلش سامنے آئی۔ اس سے قبل یورپی تاریخ میں انسان کے بنیادی حقوق کا کوئی تصور نہیں ملتا۔ عیسائیت نے چند یونانی تصورات کو مذہبی تقدس کا مقام دے دیا اور     سائنسی حقائق کو جھٹلاتے ہوئے انتہائی اقدامات اٹھائے اور ان عقائد کی خلاف ورزی کرنے پر سائنس دانوں کو پھانسی تک دے ڈالی۔ اس پر شدید ردعمل سامنے آیا اور اہلِ یورپ نے کلیسا کی بالادستی ختم کرنے کا فیصلہ کیا، نیز انسان کے بنیادی حقوق کے لیے مذہب سے ہٹتے ہوئے قانون سازی کی بنیاد رکھی۔ سائنس کو اُلوہیت کا مقام دے دیا اور تجرباتی سائنس اور تجربہ و مشاہدہ کو علم کی بنیاد ٹھیرایا۔ عیسائیت کے غلط تصورات کی بنا پر مذہب سے بے زار اور بے نیاز ہوکر انسانی زندگی کے معاملات کو طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے نتیجے میں انسان کے بنیادی حقوق کے لیے قانون سازی عمل میں آئی۔ اس کا آغاز انگلستان کے میگناکارٹا (۱۲۱۵ئ) سے ہوا ،اور مختلف مراحل سے گزرتا ہوا یہ عمل اقوام متحدہ کے منشورِ انسانی حقوق (۱۹۴۸ئ) پر منتج ہوتا ہے۔

دوسری طرف مغرب اور امریکا کا اپنے مذموم مقاصد اور مفادات کے حصول کے لیے عدل و انصاف اور حقوق انسانی کی دھجیاں اڑا دینا، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں افغانستان اور عراق پر حملہ، گوانتاناموبے اور ابوغریب جیل میں تشدد کے انسانیت سوز واقعات، اور ایران پر حملے کی دھمکی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ کھلی حقیقت ہے۔ ایسے میں اقوام متحدہ کے  منشورِ انسانی حقوق، عدل و انصاف اور امن و امان جیسی اقدار پر عمل درآمد ایک سوال بن کر رہ جاتا ہے۔

قانونِ توہینِ رسالتؐ ہی کو لیجیے۔ نیو انسائی کلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق اکثر مشرقی اور یورپی ممالک میں قانونِ توہینِ انبیاؑ(بلاس فیمی لا) کسی نہ کسی صورت میں قابلِ مواخذہ جرم رہا ہے۔ آسمانی صحائف کو ماننے والی اقوام جہاںبھی حکمران رہی ہیں وہاں توہینِ رسالتؐ کی سزا، سزاے موت پر عمل درآمد ہوتا رہا ہے۔ یورپ اور امریکا اور دیگر سیکولر ریاستوں میں قانونِ توہینِ مسیحؑ (بلاس فیمی لا) اب بھی موجود ہے، اور اس حوالے سے ان ملکوں کی اعلیٰ ترین عدالتوں کے فیصلے بھی موجود ہیں۔ برطانیہ میں اٹھارھویں صدی تک توہینِ مسیحؑ کی سزا، سزاے موت تھی مگر بعد میں سزاے موت ختم کردی گئی، لہٰذا اب اس کی سزا عمرقید ہے۔

اس ضمن میں ایک معروف مثال یورپی یونین حقوق انسانی کی عدالت کا ۲۵نومبر ۱۹۹۶ء کوبرطانیہ کے حق میں دیا جانے والا فیصلہ ہے۔ اس کی اہمیت اس لحاظ سے بھی ہے کہ اس سے مجموعی طور پر مغرب کے نقطۂ نظر کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس مقدمے کے مطابق ایک برطانوی شہری نیگل ونگرو نے حضرت عیسٰی ؑکے حوالے سے ایک فلم دکھانے کی اجازت طلب کی۔ مگر یورپی یونین حقوق انسانی کی عدالت نے اس کی اجازت نہ دی کہ اس سے عیسائیوں کے جذبات مشتعل   ہوں گے اور توہینِ عیسٰی ؑ ہوتی ہے۔ مگر جب اس کیس میں سلمان رشدی کے خلاف توہینِ رسالتؐ  کا مسئلہ اٹھایا گیا تو اسے خارج از بحث قرار دے دیا گیا (دیکھیے: ناموسِ رسولؐ اور قانونِ توہین رسالتؐ، محمد اسماعیل قریشی، ص ۲۳۴-۲۳۹)۔ یہاں مغرب کا دہرا معیار، انسانی حقوق اور اخلاقی اقدار کے تمام تر دعووں کے باوجود واضح طور پر محسوس کیا جاسکتاہے۔

اسلام میں انسانی حقوق کا تصور مغرب سے بہت پہلے ۱۴ سو سال سے موجود ہے اور اس کا خلاصہ نبی کریمؐ کا خطبہ حجۃ الوداع ہے۔ اسلام بلاامتیاز مذہب و ملّت تمام انسانوں کے حقوق کی  نہ صرف ضمانت دیتا ہے، بلکہ قوتِ نافذہ رکھتا ہے، اور قانونی چارہ جوئی کا حق بھی دیتا ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے منشورِ انسانی حقوق کی حیثیت محض ایک اعلان سے بڑھ کر نہیں اور نہ اس کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے کوئی ضمانت دی گئی ہے۔

اسلام نے جہاں رنگ و نسل کے فرق کی بنیاد پر انسانی تفاوت کو مٹایا ہے، وہاں تمام انسانوں کو اولادِ آدم ہونے پر برابر قرار دیا اور نیکی اور تقویٰ کو وجۂ امتیاز ٹھیرایا ہے۔ آزادیِ اظہارِ راے کو شہریوں کا بنیادی حق ہی نہیں، بلکہ درپیش مسائل پر اظہارِ راے کو مغرب کے تصور سے بڑھ کر، حق سے زیادہ فرض ٹھیرایا ہے۔ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ بھلائی کی دعوت دے اور برائی سے روکے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ اسی کا نام ہے۔ اس سے غفلت برتنا نہ صرف نفاق ہے، بلکہ اسے ملّت کے زوال کا ایک سبب بھی بتایا گیا ہے، جیساکہ بنی اسرائیل کی روش تھی کہ انھوں نے ایک دوسرے کو برے افعال سے روکنا چھوڑ دیا تھا۔ (المائدہ ۵:۷۹)

اسلام نے ضمیر اور اعتقاد کی آزادی کا حق دیا ہے۔ ہرشخص کو حق حاصل ہے کہ وہ کفروایمان میں سے جو راہ چاہے اختیار کرلے۔ اسلام نے لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (البقرہ ۲:۲۵۶) کااصول دیا ہے۔ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ مسلمانوں نے کبھی کسی قوم کو جبراً مسلمان نہیں کیا، بلکہ ذمی کی حیثیت سے ان کو مذہبی آزادی دی ہے اور ان کا تحفظ کیا ہے۔ اسلام نے تو مذہبی دلآزاری سے بھی منع کیا ہے۔

وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ (الانعام ۶:۱۰۸) ان کو برا بھلا نہ کہو جنھیں یہ لوگ اللہ کے ماسوا معبود بناکر پکارتے ہیں۔

خیال رہے کہ جہاں مذہبی دلآزاری سے منع کیا گیا ہے وہاں برہان، دلیل اور معقول طریقے سے مذہب پر تنقید کرنا اور اختلاف کرنا آزادیِ اظہار کے حق میں شامل ہے۔ خود مسلمانوںکو ہدایت کی گئی ہے کہ اہلِ کتاب اور دیگر مذاہب کے حاملین سے اگر گفتگو کی جائے تو  تحمل اور رواداری کا مظاہرہ کیا جائے اور احسن انداز اپنایا جائے:

وَ لَا تُجَادِلُوْٓا اَھْلَ الْـکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ (العنکبوت ۲۹:۴۶) اہلِ کتاب سے بحث نہ کرو مگر احسن طریقے سے۔

اسلام میں رواداری کا تصور یہ نہیں ہے کہ مختلف اور متضاد خیالات کو درست قرار دیا جائے۔ بقول سید مودودی: ’’رواداری کے معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں کے عقائد یا اعمال ہمارے نزدیک غلط ہیں، ان کو ہم برداشت کریں، ان کے جذبات کا لحاظ کر کے ان پر ایسی نکتہ چینی نہ کریں جو ان کو رنج پہنچانے والی ہو، اور انھیں ان کے اعتقاد سے پھیرنے یا ان کے عمل سے روکنے    کے لیے زبردستی کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ اس قسم کے تحمل اور اس طریقے سے لوگوں کو اعتقاد و عمل کی آزادی دینا نہ صرف ایک مستحسن فعل ہے، بلکہ مختلف الخیال جماعتوں میں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ لیکن اگر ہم خود ایک عقیدہ رکھنے کے باوجود محض دوسرے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ان کے مختلف عقائد کی تصدیق کریں، اور خود ایک دستورالعمل کے پیرو ہوتے ہوئے دوسرے مختلف دستوروں کا اتباع کرنے والوںسے کہیں کہ آپ سب حضرات برحق ہیں، تو اس منافقانہ اظہارِ راے کو کسی طرح رواداری سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ مصلحتاً سکوت اختیار کرنے اور عمداً جھوٹ بولنے میں آخر کچھ تو فرق ہونا چاہیے‘‘۔ (تفہیمات، اوّل، ص ۱۱۴-۱۱۵)

حقیقت یہ ہے کہ آزادیِ راے، آزادیِ صحافت، انسانی حقوق اور لادین جمہوریت جیسی مغربی اقدار بظاہر دل کو بھاتی ہیں، عقل کو اپیل کرتی ہیں لیکن عملاً جب مفادات آڑے آئیں، نسلی و مذہبی تعصب سے واسطہ پڑے، انسانی حقوق اور عدل و انصاف پر زد پڑے تویہ اقدار غیرجانب داری کے بجاے جانب داری کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ محض عقلِ انسانی کو بنیاد بناکر آزادیِ راے اور آزادیِ صحافت جیسی اقدار کے تحت توہینِ رسالت کا ارتکاب کیا جائے، اور اس کے نتیجے میں خواہ بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان اور مسلمانوں کی دل آزاری اور فساد کا اندیشہ ہو مگر انسان کسی تحدید پر تیار نہ ہو___ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان اگر ٹھیر کر نہیں سوچتا تو قرآن کے مطابق انسان کی اس روش سے زمین میں فساد برپا ہوسکتا ہے۔ ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَـرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (الروم ۳۰:۴۱) ’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے‘‘۔ تہذیبوں کی جنگ کا واویلا بھی مچایا جارہا ہے اور اسلام کو ہدف بنایا جا رہا ہے، حالانکہ اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ تو آزادیِ اظہار کے تحت نہ صرف معقول اور منطقی انداز میں اختلافِ راے کا حق دیتا ہے، بلکہ عقیدے کی آزادی اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔

اس مسئلے کا اصولی حل یہی ہے کہ مغرب نے مذہبی تعصب کی وجہ سے عقل اور سائنس کو جس طرح خدا بنا رکھا ہے اور اسے اُلوہیت کا درجہ دے رکھا ہے، اس پر نظرثانی کرے۔ اگر یہ ماضی کے عیسائیت اور اہلِ کلیسا کے غلط نظریات کا ردعمل ہے تو اسلام کے حوالے سے ایسا سوچنا مناسب نہیں۔ اسلام ایک روایتی مذہب نہیں، بلکہ ایک دین اور ایک مکمل نظامِ حیات ہے جو ہر شعبۂ زندگی بہ شمول سائنس کے لیے ہدایات اور رہنمائی رکھتا ہے۔ اصولی طور پر بھی دیکھا جائے تو آزادیِ راے، انسانی حقوق اور انسانیت کی فلاح کے لیے اسلام کی تعلیمات زیادہ جامع ہیں جنھیں عقل تسلیم کرنے پر مجبور ہے، جب کہ عیسائیت و دیگر مذاہب کی تعلیمات اس معیار پر پورا نہیں اترتیں۔ اگرچہ روسو نے یہ کہا تھا کہ انسان آزاد پیدا ہوا مگر اسے ہرجگہ زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے، تاہم یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے ۱۴سو سال پہلے یہ فرمایا تھا کہ تم نے انسانوں کو غلام کب سے بنا لیا؟ ان کی مائوں نے تو انھیں آزاد جنا تھا۔ مگر اس جرأت کے لیے خدا سے ڈرنے والا دل اور  وحیِ الٰہی پر ایمان لانے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اسلام اپنی تعلیمات اور منطقی استدلال کی بنا پر غالب نہ آجائے۔ اسلام کی نظریاتی بالادستی اور اسلامی تحریکوں کے تحت احیاے اسلام کے لیے برپا منظم جدوجہد، اور قبولِ اسلام کے بڑھتے ہوئے عالمی رجحان کی بنا پر، مغرب کو یہ خدشہ یقین میں بدلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ بقول اقبال  ع

ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبرؐ کہیں

فرانس‘ یورپ میںمسلمانوں کی آبادی (۵۰ لاکھ) کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک تصور کیا جاتا ہے جہاں مسلمان سیکولرزم اور مذہبی آزادی کی بنیاد پر مسلم تشخص کی بقا کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ اسکارف پر حالیہ پابندی کے قانون نے اس جدوجہدمیں مزید سرگرمی پیدا کی ہے۔ فرانس میں اسلام اور مسلمانوں پر اس کے آیندہ کیا اثرات مرتب ہوںگے‘ اس کا ایک اندازہ اگلے برس اپریل میں ہونے والے فرانسیسی کونسل براے مسلم فیتھ (French Council of the Muslim Faith- CFCM) کے انتخابی نتائج سے بھی لگایا جا سکے گا۔

CFCM بنیادی طور پر فرانسیسی مسلمانوں کا نمایندہ حکومتی ادارہ ہے جو ۲۰۰۳ء میں تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کے صدر دلیل بوبکر ہیں جو پیرس کی قدیم مسجد کے جدید ذہن کے حامل ریکٹر ہیں اور ان کی تعیناتی وزیرداخلہ نکولس سارکوزی (Nicolos Sarkozy) سے مذاکرات کے بعد کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ کونسل کے دو نائب صدر ہیں جن میں سے ایک کا تعلق یونین آف اسلامک آرگنائزیشن آف فرانس (UOIF) سے ہے اور دوسرے کا نیشنل فیڈریشن آف فرنچ مسلمز (FNMF) سے‘ دونوں ہی سخت موقف کے حامل گروپ شمار کیے جاتے ہیں۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ محتاط قیادت کے تحت فرانسیسی مسلمانوں کی اجتماعی طور پر نمایندگی ہوسکے۔

اس مرتبہ خیال کیا جارہا ہے کہ انتخاب کھلے ماحول میں ہوں گے۔ ایک انتخابی حلقہ مسجد یا نماز کے لیے مختص جگہ پر مشتمل ہوگا۔ ۴ ہزار نمایندے تقریباً ۹۰۰انتخابی حلقوں سے انتخاب میں حصہ لیں گے۔ موجودہ ۴۱ رکنی CFCM میں ۷۰ فی صد ارکان کا تعلق UOIFیا FNMFسے ہے‘ جب کہ صرف ۱۵ فی صد کا تعلق بوبکر کے کیمپ سے ہے۔ اس بار مزید دو سخت گیر جماعتوں کا انتخاب میں حصہ لینے کا امکان ہے۔ دوسرے لفظوں میں‘ مروجہ قوانین کے تحت موجودہ صدر کو بآسانی شدت پسند گروپ کی اکثریت ہٹاسکتی ہے۔

بوبکر نے اس خدشے کے پیش نظر دھمکی دی ہے کہ اگر مروجہ انتخابی قوانین کو تبدیل نہ کیا گیا تو وہ انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔ ووٹنگ کی بنیاد مسجد کے رقبے کو بنایا گیا ہے۔ ان کے خیال میں قدیم اور جدید مساجد کو رقبے کی بنیاد پر برابر شمار کرنا ناانصافی ہے۔ حالانکہ پیرس کی مسجد قدیم ترین مسجد ہے جو ۱۹۲۰ء میں قائم ہوئی تھی۔ اس کے مقابلے میں مخالفین کا اصرار ہے کہ قوانین میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔ یہ بحث شدت پکڑ رہی ہے۔

کچھ لوگوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ اس طرح سخت گیر موقف کے حامل گروہ کونسل پر چھا جائیں گے۔ وہ اس کی یہ دلیل دیتے ہیں کہ موجودہ صدر کی قیادت میں کونسل اسکارف کی سرکاری پالیسی کی حمایت کرتی ہے اور مسلمانوں کو ترغیب دیتی ہے کہ وہ اس قانون کی پابندی کریں‘ جب کہ اس کے برعکس UOIFاسکول کی بچیوں کو اسکارف پہننے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

UOIF اگرچہ کسی بیرونی تنظیم سے تعلق کی نفی کرتی ہے لیکن یہ بنیادی طور پر اخوان المسلمون سے متاثر ہے جو اسلامی نظام کے نفاذ کی علم بردار ہے۔ UOIF کے مطالبات میں سے ایک مطالبہ لڑکیوں کی تیراکی کے لیے الگ تالاب کا بھی ہے جس سے ان کی فکر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

مسلمانوں کے باہمی اختلافات بھی ایک اہم موضوع ہے۔ اس سے وہ سیاست دان جو شدت پسند اسلام کے مخالف ہیں‘ ان کی تشویش میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ ان اختلافات کے ساتھ امن و امان سے کس طرح رہا جا سکتا ہے۔

وزیرداخلہ سارکوزی اور ماڈریٹ مسلمانوں کے خیال میں مسلمانوں کے مختلف طبقات کی نمایندگی پر مشتمل ایک مضبوط کونسل کا قیام اس لحاظ سے مفید ہوگا کہ اس طرح مسلم راے عامہ کے تمام نقطہ ہاے نظر کی نمایندگی ممکن ہوسکے گی۔ فرانسیسی سیاست دانوں میں بھی دونوں آرا کے حامی پائے جاتے ہیں۔ وزیر داخلہ اگرچہ اسکارف پر پابندی کے حامی ہیں لیکن انھوں نے UOIF کی سالانہ کانفرنس میں بھی شرکت کی جو اس پابندی کی مخالف ہے۔

فرانسیسی وزیرداخلہ اس نقطۂ نظر کی نمایندگی بھی کر رہے ہیں جن کے خیال میں فرانس کو ۱۹۰۵ء کے قانون میں تبدیلی کرنی چاہیے جس کے تحت مذہب اور ریاست کو جدا جدا کیا گیا ہے۔ انھوں نے اپنی ایک تازہ کتاب میں مطالبہ کیا ہے کہ جب حکومت ثقافتی اور کھیل پر مبنی گروہوں کی مالی اعانت کرتی ہے تو مذہبی گروہوں کی اعانت کیوں نہیں کی جاتی؟ اگر مذہبی گروہوں کی حمایت کی جائے تو بیرونی ممالک کی مداخلت کو جو مساجد اور مذہبی اسکولوں کی بہت بڑی تعداد کی اعانت کرتے ہیں‘ روکا جا سکتا ہے۔ یاد رہے عراق میں (اگست ۲۰۰۴ئ) فرانسیسی صحافیوں کو اغوا کرنے والوں کا ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ فرانس میں اسکارف پہننے پر پابندی ہٹائی جائے۔

فرانسیسی مسلم کونسل کا متوقع انتخاب‘ مسلمانوں کے لیے متفقہ مؤقف اور یک جہتی کے مظاہرے کا تاثر پیش کرنے کا ایک اچھا موقع ہے۔ اختلاف راے اپنی جگہ لیکن اجتماعی مفاد پر اشتراک عمل کی ضرورت ہے۔ (ماخوذ: اکانومسٹ‘ ۳۰ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)

صوبہ سرحد کی مجلسِ عمل کی حکومت نے گذشتہ ڈیڑھ برس میں نفاذِ شریعت اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے کئی اہم اور بنیادی اقدامات اٹھائے ہیں۔ ان میں نفاذِ شریعت بل‘ سود سے پاک اسلامی بنک کاری‘ عوام کو انصاف کی فراہمی کے لیے حسبہ ایکٹ‘ پرائمری تک طلبہ و طالبات کو مفت کتب اور یونیفارم کی فراہمی‘ میٹرک تک مفت تعلیم‘ خواتین یونی ورسٹی کا قیام‘ پانچ مرلہ مکانات پر ٹیکس کا خاتمہ‘ فحاشی و بے حیائی سے پاک معاشرے کے لیے مختلف اقدامات‘ سادگی اور میرٹ کلچر کا فروغ‘ ہسپتالوں میں شام کی او پی ڈی کا آغاز جس سے محض پانچ روپے کی فیس پر ہرطرح کے علاج معالجے کی سہولت اور مفت ایمرجنسی خدمات کی فراہمی اور خیبر میڈیکل کالج کو  یونی ورسٹی کا درجہ دینا اور طالبات کے لیے گرلز کیمپس کا قیام نمایاںہیں۔ یقینا یہ اقدامات اپنی جگہ بنیادی اہمیت کے حامل ہیں اور ان کے نتیجے میں اسلامائزیشن کے عمل کو آگے بڑھانے میں اور عوام کے مسائل حل کرنے میں بڑی مدد ملے گی اور سرحد کی سیاسی تاریخ میں یہ تاریخ ساز اقدامات گردانے جائیں گے۔ البتہ حال ہی میں نظامِ صلوٰۃ کا نفاذ نہایت اہمیت کا حامل اقدام ہے۔

مجلسِ عمل سرحد نے اپنے انتخابی منشور میں صوبہ سرحد کے عوام سے صوبے میں نفاذِ شریعت کا وعدہ کیا تھا اور بڑے پیمانے پر عوامی تائید کے حصول میں یہ ایک اہم پہلو تھا۔ چنانچہ سرحدحکومت نے اسی تناظر میں اور اپنے اس وعدے کی تکمیل اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے صوبے بھر میں نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ کا اعلان کیا ہے جس کے تحت پورے صوبے میں ایک ہی وقت پر اذان اور نماز ادا کی جائے گی اور نماز کے اوقات میں سرکاری دفاتر اور تمام کاروباری ادارے بند کر دیے جائیں گے۔ آیندہ ہرنجی و سرکاری عمارت میں مسجد کی تعمیر کے لیے جگہ مختص کی جائے گی‘ نیز خواتین کی سہولت کے پیشِ نظر تمام بس اڈوں اور دیگر پبلک مقامات پر وضوگاہ اور بیت الخلا کی تعمیر کو خصوصی ترجیح دی جائے گی۔ اس بات کو بھی واضح کیا گیا کہ نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ کے لیے قوت کے استعمال کے بجاے تلقین اور تبلیغ کو ترجیح دی جائے گی۔ مزید عملی اقدام اٹھاتے ہوئے سرحد حکومت نے علما و ائمہ کرام‘ خطبا حضرات اور تاجر برادری کو اعتماد میں لیتے ہوئے آزمایشی طور پر صوبائی دارالحکومت پشاور میں نمازِ جمعہ کے یکساں اوقات مقرر کر دیے ہیں جس کے تحت ایک بجے نمازِ جمعہ کی اذان ہوگی اور ڈیڑھ بجے نمازِ جمعہ ادا کی جائے گی‘ جب کہ ایک بجے سے لے کر دو بجے تک نمازِ جمعہ کے لیے وقفہ ہوگا جس کے دوران تمام دفاتر‘تجارتی ادارے‘ مارکیٹیں بند رہیں گے۔ اس تجربے کے بعد دیگر نمازوں کے اوقات کا تعین کیا جائے گا اور پھر اس عمل کو پورے صوبے تک بڑھا دیا جائے گا۔ اس حکم کے تحت پشاور میں نمازِ جمعہ خوش اسلوبی سے ادا کی جا رہی ہے اور تنفیذ صلوٰۃ کے عمل کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔

صوبہ سرحد میں مجموعی طور پر مذہبی رنگ نمایاں ہے اور عوام کی موجودہ منتخب حکومت اور عوامی تائید کے ذریعے اسلامی نظام کے نفاذ کے امکانات روشن ہیں۔ البتہ بقول مولانا مودودیؒ ہرتجدیدی تحریک کے لیے تاریخ کا یہ سبق ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے:

اس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ جس سیاسی انقلاب کی جڑیں اجتماعی ذہنیت‘ اخلاق اور تمدن میں گہری جمی ہوئی نہ ہوں وہ نقش برآب کی طرح ہوتا ہے۔ کسی عارضی طاقت سے ایسا انقلاب واقع بھی ہوجائے‘ تو قائم نہیں رہ سکتا‘ اور جب مٹتا ہے تو اس طرح مٹتا ہے کہ اپنا کوئی اثر چھوڑ کر نہیں جاتا۔ (تجدید و احیاے دین‘ ص ۱۲۳)

صوبہ سرحد میں نفاذِ شریعت کے حوالے سے اسی تاریخی حقیقت کو شاہ اسماعیل شہیدؒ اور سیداحمد شہیدؒ کی برپا کردہ تجدید و احیاے دین کی تحریک سے سمجھا جاسکتا ہے۔ وہ اور ان کے ساتھی ایسی پاکباز نفوس اور ہستیاں تھیں جن کو دیکھ کر عہدِ رسالتؐ اور عہدِ صحابہؓ کی یاد تازہ ہوجاتی تھی لیکن انھوں نے عوام الناس کو ذہنی و اخلاقی طور پر نفاذِ شریعت کے لیے تیار کیے بغیر شریعت کو نافذ کردیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے اسے قبول نہ کیا اور تجدید و احیاے دین کی اتنی عظیم تحریک برگ و بار نہ لاسکی۔ ماضی قریب میں صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں سطحی انداز میں اور عوام کی ذہنی و اخلاقی تربیت کے بغیر نظامِ صلوٰۃ نافذ کرنے کی کوشش کی گئی جو نقش برآب ثابت ہوئی اور آج وہ ماضی کا حصہ ہے۔ لہٰذا مجلسِ عمل جو ایک بار پھر سرحد میں نفاذِ شریعت کے عمل کو آگے بڑھا رہی ہے‘ جو بہت خوش آیند و مبارک اقدام اور ہر مسلمان کے دل کی آواز ہے‘ اسے اس پہلو کو خاص طور پر اہمیت دینا چاہیے اور پیشِ نظر رکھنا چاہیے تاکہ نفاذِ شریعت کا یہ عمل خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل کو پہنچے اور دیرپا اثرات کا باعث ثابت ہو۔

اسلام اپنی معاشرت کی بنیاد خدا کی مکمل اطاعت و بندگی‘ خوفِ خدا‘ فکرِآخرت اور اس اصول پر رکھتا ہے کہ مسلمانوںکے معاشرے میں خیر اور بھلائی پھیلے اور شر اور بدی مٹ جائے۔ فرد کی اصلاح کے لیے اسلام نے جو نظامِ تربیت وضع کیا ہے وہ اسی فکر کو پروان چڑھاتا ہے اور اس میں اقامتِ صلوٰۃ اور نظامِ صلوٰۃ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

یہی وجہ ہے کہ نماز کو دین کا ستون قرار دیا گیا ہے اور نبی کریمؐ جیسی ہستی نے جو رحمۃ للعالمین ہیں‘ نماز قائم کرنے پر اس شدت سے زور دیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ اپنی جگہ کسی اور کو امام بنائوں اور ان لوگوں کے گھروں کو آگ لگا دوں جو اذان سننے کے بعد بھی گھروں میں پڑے سو رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز اسلام کا وہ شعار ہے اور وہ پیمانہ ہے جس سے فوری طور پر اندازہ ہوجاتا ہے کہ کتنے لوگ خدا کی عملاً اطاعت کے لیے تیار ہیں اور اسی بات سے معاشرتی بگاڑ کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ یہی بات منافقین کو بھی نماز ادا کرنے پر مجبور کرتی تھی۔

اسلام میں عبادت کا تصور محض چند مراسم عبادت کی ادایگی کا نام نہیں بلکہ انفرادی سطح سے اجتماعی سطح تک ہر معاملے اور ہر شعبۂ زندگی میں خدا کی اطاعت و فرماں برداری اور خدا کے قانون کی بالادستی کا نام ہے۔ لہٰذا محض نماز کی ادایگی مقصود نہیں بلکہ روحِ نماز پیشِ نظر رکھنا مطلوب ہے۔ چنانچہ اس کے لیے ضروری ہے کہ بڑے پیمانے پر ذہنی و اخلاقی تربیت اور راے عامہ ہموار کی جائے۔

فریضہ اقامت دین کے تین بنیادی اور ناگزیر تقاضوں میں خدا کی اطاعت و بندگی‘ صالح افراد کی تنظیم اور امربالمعروف ونہی عن المنکر(یعنی خیر اور بھلائی پھیلے اورشروفساد اور بگاڑ مٹے) شامل ہیں۔ نبی کریمؐ کے اسوہ سے بھی یہی رہنمائی ملتی ہے۔ آپؐ نے بھی انھی بنیادوں اور خطوط پر اسلامی معاشرے کی تشکیل و تعمیر فرمائی تھی۔ آپؐ نے لا الٰہ الا اللہ کی بنیاد پر جس  تحریکِ اصلاح کی بنیاد رکھی تھی‘ اس کا مطلب خدا کی مکمل اطاعت و بندگی اور غلبۂ دین تھا (مزید مطالعے کے لیے: فریضہ اقامت دین‘ مولانا صدر الدین اصلاحی)۔ لہٰذا نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ میں ان تینوں پہلوئوں اور عبادت اور نماز کی روح کو پیشِ نظر رکھنا لازم ہے۔

معاشرتی صورت حال

نظامِ صلوٰۃ کے کامیابی سے نفاذ کے لیے پہلی ضرورت بڑے پیمانے پر اس کے حق میں راے عامہ کی ہمواری اور تیاری ہے۔ اس کے لیے معاشرے اور معاشرتی صورت حال کا بغور جائزہ لینا ضروری ہے۔ اگرچہ لوگ مسلمان ہیں لیکن ان کی عملی زندگی جدید نظریات‘ مغربی تہذیب یا روایتی مذہب پسندی میں بٹی ہوئی ہے۔

جدید ذہن مغرب سے متاثر ہے اور اس کے نزدیک مذہب ذاتی مسئلہ ہے اور اس کا چند مراسم عبادت سے زیادہ عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں‘یعنی لادینیت یا سیکولر ذہنیت کا شکار ہے۔ مذہب پسند ایک بڑا طبقہ تقلید کا شکار ہے۔ وہ نماز‘ روزہ‘ رسوم و رواج اور اپنے مسلک تک محدود ہے اور اس سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے علاوہ جدید ذرائع ابلاغ اور دوسری قوتیں بھی معاشرتی بگاڑ میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ بحیثیت مجموعی شر اور بگاڑ کا پہلو غالب نظرآتا ہے۔ اب معاشرے کا صرف وہ صالح عنصر یا اہلِ خیر ہی رہ جاتے ہیں جن کے دل میں اسلام کے لیے محبت ہے اور وہ دل و جان سے خدا کی اطاعت اور اسلام کی سربلندی کے لیے خواہاں ہیں۔ یہی امید کی کرن ہیں اور یہی وہ قوت ہے جس کے ذریعے نفاذِ شریعت اور نظامِ صلوٰۃ کا نفاذ اور اسلامی نظام کا قیام عملاً ممکن ہے۔

معاشرہ خدا کی اطاعت کے لیے کس حد تک تیار ہے۔ اس کا ایک اندازہ نماز پڑھنے کے رجحان سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کتنی تعداد میں لوگ نماز ادا کرتے ہیں جومقابلتاً بہت تھوڑی تعداد ہے۔ وہ لوگ جو نماز کے دیگر تقاضے پورے کرتے ہیں ان کی تعداد تو اور بھی کم ہے‘ تاہم صوبہ سرحد میں بحیثیت مجموعی ادایگی نماز کا رجحان مقابلتاً بہترہے۔ اس معاشرتی صورت حال کو سامنے رکھنا بھی ناگزیر ہے۔

صالح عنصر پر مبنی صلوٰۃ کمیٹیاں

ان حالات میں فطری طور پر پہلی ترجیح وہ افراد یا گروہ یا عنصر ہونا چاہیے جو خود اسلام پر عمل پیرا ہے‘ اسلامی نظام کے نفاذ کا خواہاں ہے اور اس کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔ اس صالح عنصر کو منظم کرنے اور ایک مؤثر قوت میں تبدیل کرنے کے لیے ایک عملی شکل صلوٰۃ کمیٹیوں کا قیام ہے۔ گلی‘ محلے اور بستی کی سطح پر صلوٰۃ کمیٹیاں قائم کی جا سکتی ہیں۔ ان کمیٹیوں کے ارکان وہ لوگ ہونے چاہییں جو نمازی ہوں‘ نیک اور صالح ہوں‘ صاحبِ کردار ہوں اور خلقِ خدا کی اصلاح و بہتری کے لیے فکرمند ہوں اور دل دردمند رکھتے ہوں‘ نیز انھیں لوگوں کی تائید وحمایت حاصل ہو۔

کمیٹی کا بنیادی مقصد لوگوں کو خدا کی بندگی و اطاعت‘ آخرت کی فکر اور مقصدِ زندگی اور حقوق و فرائض کے حوالے سے توجہ دلانا اور نماز جو خدا کی اطاعت کی عملی مشق ہے‘ اس کے لیے تیار کرنا ہونا چاہیے۔ دین کے علم کے بغیر دین کی اطاعت ممکن نہیں ہوسکتی اور ہر آن بھٹکنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ لہٰذا کمیٹی کا یہ بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔ حکومتی سرپرستی سے کمیٹی زیادہ مؤثر انداز میں کام کرسکے گی اور بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ ارکان کمیٹی کے پاس اسلام کی بنیادی تعلیمات اور نماز سے متعلق عام فہم زبان میں کتابچے اور لٹریچر بھی موجود ہونا چاہیے جو ملاقات اور گفتگو کے بعد لوگوں کو مطالعے کے لیے دیے جاسکیں۔ اس کے لیے تحریک اسلامی کا بنیادی لٹریچر: خطبات‘ دینیات‘ شہادتِ حق‘ سلامتی کا راستہ وغیرہ مفید رہے گا۔ مزید غور کے بعد ایک دعوتی سیٹ تیار کیاجاسکتا ہے جو ممبران صلوٰۃ کمیٹیوں کو فراہم کیا جائے۔ ہر صلوٰۃ کمیٹی کو ایک مختصر دارالمطالعہ یا لائبریری بھی قائم کرنی چاہیے جہاں سے مطالعے اور عام لوگوں کے مطالعے کے لیے کتب فراہم کی جاسکیں۔ دارالمطالعوں کے قیام اور تقسیم لٹریچر سے عوام میں مطالعے کے ذوق اور فہمِ دین کے حصول کے لیے ایک تحریک پیدا ہوسکے گی جو راے عامہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرے گی۔

کمیٹی ہفتہ وار اجلاس منعقد کرے جس میں علاقے کی صورت حال کا جائزہ‘ نمازیوں کی کیفیت اور کام کو مزید بہتر بنانے کے لیے تجاویز اور لائحہ عمل پر غور کیا جائے۔ اس کے علاوہ   ہفتہ وار درس قرآن یا دعوتی اجتماع منعقد کیا جاسکتا ہے جس میں دینی شعور کی آبیاری کی کوشش کی جائے اور لوگوں کی بھرپور شرکت کو ممکن بنایا جائے۔ کمیٹی کا ایک خصوصی ہدف فرقہ واریت کا خاتمہ‘ مذہبی جھگڑوں کو روکنا‘ باہمی تعاون اور اتفاق و یک جہتی کی فضا قائم کرنا اور لوگوں کو اس کش مکش کے نقصانات کا احساس دلانا ہونا چاہیے۔

صلوٰۃ کمیٹی کا فطری دفتر تو مسجد ہی ہے۔ اسلام میں مسجد بستی کا مرکز ہوا کرتی ہے۔ فکری رہنمائی‘ تزکیہ و تربیت‘ تعلیم وتدریس‘ معاشرتی مسائل کا حل‘ عدل و انصاف کی فراہمی‘ مالی معاونت‘ دارالمطالعہ‘ مسافروں کے لیے قیام گاہ‘ شفاخانہ‘ ثقافتی مرکز (کمیونٹی سنٹر) وغیرہ--- یہ تمام امور مسجد میں ادا کیے جاتے رہے ہیں اور کیے جانے چاہییں۔ تاہم‘ اب مسجد کو وہ مقام حاصل نہیں رہا جو ماضی میں اسے حاصل تھا (مزید مطالعے کے لیے: تعمیرمعاشرہ میں مسجد کا کردار‘ مولانا امیرالدین مہر‘ دعوہ اکیڈمی‘ اسلام آباد)۔ لہٰذا صلوٰۃ کمیٹی کا ایک اہم مقصد مسجد کے اس مقام و مرتبے اور حیثیت کی بحالی کی کوشش ہونا چاہیے۔ اگر کسی جگہ مسجد میں کمیٹی کے دفتر کا قیام ممکن نہ ہو وہاں صلوٰۃ کمیٹی کا دفتر الگ سے قائم کیا جانا چاہیے تاکہ کام مربوط و منظم انداز میں آگے بڑھ سکے اور مطلوبہ مقاصد کا حصول ممکن بنایا جاسکے۔

فواحش و منکرات کا خاتمہ

نماز کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد فواحش و منکرات سے روکنا اور ان کا خاتمہ  ہے:

اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِط (العنکبوت ۲۹:۴۵)

یقینا نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔

لہٰذا صلوٰۃ کمیٹی کا ایک اہم مقصد فواحش کی روک تھام اور ان کے خلاف عوامی ضمیر اور احساسِ شرافت کو بیدار کرنا ہونا چاہیے۔ اسلام میں فواحش و منکرات کا تصور کوئی محدود معنوں میں نہیں ہے۔ اس لیے فواحش کے سلسلے میں کسی ایک ہی پہلو پر نظرنہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کے تمام سرچشموں پر نگاہ رہنی چاہیے۔

فواحش کا دائرہ: قحبہ خانے‘ شراب خانے‘ سینما کی پبلسٹی‘ دکان پر عریاں تصاویر اور سائن بورڈ‘ ٹورنگ اور تھیٹریکل کمپنیاں‘سرکس‘ مخلوط تعلیم‘ اخبارت و رسائل میں فحش اشتہارات و تصاویر اور فلمی مضامین‘ ریڈیو پر فحش گانوں کے پروگرام‘ دکانوں اور مکانوں پر فحش گانوں کی ریکارڈنگ‘ ٹیلی ویژن پر فحش و بے ہودہ موسیقی کے پروگرام اور ڈرامے‘ فحش فلمیں‘ قماربازی کے اڈے‘ رقص کی مجالس‘ فحش لٹریچر اور عریاں تصاویر‘ جنسی رسائل‘ آرٹ اور کلچر کے نام سے بے حیائی پھیلانے والی سرگرمیاں‘ مینابازار‘ عورتوں میں روز افزوں بے پردگی کی وبا وغیرہ پر محیط ہے۔ (تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل‘ ص ۲۲-۲۳)

گویا فحش و منکر سے مراد تمام بیہودہ اور شرمناک افعال اور ہر وہ برائی ہے جسے انسان بالعموم برا جانتے ہیں‘ ہمیشہ سے برا کہتے رہے ہیں‘ اور تمام شرائع الٰہیہ نے جس سے منع کیا ہے (تفہیم القرآن‘ ج ۲‘ ص ۵۶۶)۔ یہ تمام پہلو بھی سامنے رہنے چاہییں۔

نظامِ صلوٰۃ کے قیام کا یہ فطری تقاضا ہے کہ معاشرے میں ہر قسم کے فواحش و منکرات کا استیصال و خاتمہ ہو۔ لہٰذا صلوٰۃ کمیٹی کی ایک اہم ذمہ داری فواحش و منکرات کے خاتمے کی کوشش ہونا چاہیے۔ اس کے لیے لوگوں میں ان کی اخلاقی ذمہ داریوں کا احساس اجاگر کرکے انھیں  معاشرتی بگاڑ کو روکنے اور فواحش و منکرات کے خاتمے کے لیے مل جل کر اجتماعی جدوجہد کے لیے تیار کیا جانا چاہیے۔ لوگوں میں اس کا احساس بھی موجود ہے لیکن منظم نہ ہونے کی وجہ سے غیر مؤثر ہیں۔ اگر لوگوں کو ان معاشرتی خرابیوں کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے اور منظم انداز میں  لے کر چلا جائے تو اس کے نتیجے میں یہ فضا قائم ہوسکتی ہے کہ جہاں کوئی غلط اقدام ہو فوری طور پر لوگ ایک دوسرے کو توجہ دلا کر اس کا سدباب کر دیں۔ اسلامی معاشرے کی یہ ایک نمایاں خصوصیت ہے کہ جہاں شریا منکر سر اٹھائے وہیں اسے دبا دیا جائے۔ اُمت مسلمہ کا مقصدِ وجود بھی یہی ہے۔ کمیٹی کے اس اقدام سے فطری انداز میں شروفساد اور بدی کے پھیلائو کا راستہ رک جائے گا اور لوگ عملاً برائی سے روکنے کے فریضے کو ادا کرنے لگیں گے۔ نتیجتاً معاشرہ اخلاقی لحاظ سے بہت بلند سطح پر لے جایا جا سکے گا اور نماز کا ایک اہم مقصد فحش و منکر کا خاتمہ بھی پوراہوسکے گا۔

جذبۂ ہمدردی اور خدمت خلق

نفسانفسی‘ خودغرضی‘ مفاد پرستی‘ دوسروں سے لاتعلقی اور صرف اپنی ذات تک محدود رہنا‘ مادیت کے شاخسانے ہیں۔ یہ اسلامی معاشرت کے لیے سم قاتل ہیں۔ اسلام اجتماعیت کو فروغ دیتا ہے۔ اُمت کا تصور‘ جسدواحد کا تصور‘ مسلمان کا مسلمان کا بھائی ہونا‘ اخوت و محبت‘ ہمدردی و خیرخواہی‘ یہ سب تصورات اسی سوچ کو آگے بڑھانے کے لیے ہیں۔ نماز فطری انداز میں اسلامی معاشرت کے اس پہلو کے فروغ کا ذریعہ ہے۔

مسلمان نماز کی ادایگی کے لیے جب اکٹھے ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کے احوال سے آگہی ہوتی ہے۔ کوئی پریشان حال ہے‘ کوئی فاقہ زدہ ہے‘ کوئی بیمار ہے‘ کوئی بے بس و لاچار ہے‘ کوئی کسی مصیبت میں پھنسا ہوا ہے‘ کوئی مالی مشکلات کا شکار ہے‘ کوئی کسی صدمے سے دوچار ہے‘ کسی عزیز کا انتقال ہوگیا ہے‘ غرض یہ سب باتیں ایک دوسرے کو قریب کرنے والی‘ ایک دوسرے سے محبت اور تعلق بڑھانے والی‘ جذبہ ہمدردی و خیرخواہی کو فروغ دینے اور ایک دوسرے کا مددگار بنانے والی ہیں۔ معاشرے کی عمومی صورت حال تو جو ہے‘ سو ہے‘ خود نمازی حضرات جو ایک عرصے سے اکٹھے نماز ادا کرتے ہیں‘اس پہلو سے غفلت برتتے ہیں۔ (مزید مطالعے کے لیے: اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر‘ مولانا مودودیؒ)

صلوٰۃ کمیٹی کو نماز کی اس روح کو بیدار کرنے‘ اجتماعیت کے فروغ‘ جذبۂ ہمدردی و خیرخواہی کے احیا کے لیے خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ اس غرض کے لیے نہ صرف لوگوں کو توجہ دلائی جائے اور اخلاقی تلقین کی جائے بلکہ آگے بڑھ کر اہلِ علاقہ کے مسائل میں بھی دل چسپی لی جائے ۔ ان کے حل کے لیے شریف وصالح عناصر کو منظم کرکے اجتماعی جدوجہد کی جانی چاہیے۔

خدمتِ خلق کے چند اہم پہلو

اس ضمن میں درج ذیل امور خصوصی توجہ چاہتے ہیں:

اخلاقی حوالے سے:

۱- غنڈہ گردی کا انسداد  ۲- ہر قسم کے فواحش کا تدارک ۳- رشوت و خیانت (کرپشن) کی روک تھام۔

معاشی حوالے سے:

۱- سرکاری محکموں اور اداروں سے عام لوگوں کی شکایات رفع کرانا اور داد رسی حاصل کرنے کے معاملے میں جس حد تک ممکن ہو ان کی مدد کرنا۔

۲-  اپنی مدد آپ کا جذبہ بیدار کرنا تاکہ لوگ خود ہی مل جل کر بستیوں کی صفائی‘ راستوں کی درستی اور حفظانِ صحت کا انتظام کرلیں۔

۳-  توخذ من اغنیاء ھم فترد علٰی فقراء ھم کے شرعی اصول پر بستیوں کے غریبوں‘ محتاجوں اور معذوروں کی باقاعدہ اعانت کا انتظام اور اس کے لیے انھی بستیوں کے   ذی استطاعت لوگوں سے مدد لینا۔ اس غرض کے لیے زکوٰۃ‘ عشر اور صدقات کی رقوم کی تنظیم اور بیت المال کے ذریعے ان کی تحصیل اور تقسیم کا انتظام کرنا۔ (تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل سے ماخوذ)

صلوٰۃ کمیٹی کے ان اقدامات کے نتیجے میں جذبہ خیرخواہی و ہمدردی کو فروغ ملے گا۔ لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے رجوع کریں گے۔ معاشرتی انتشار و ابتری میں کمی واقع ہوگی۔ وہ لوگ جو اپنے مسائل کے ہاتھوں پریشان ہوکر اور کسی پُرسانِ حال کے نہ ہونے کی وجہ سے مایوسی کے مارے خودکشی پر مجبور ہو رہے ہیں‘ انھیں ایک نیا حوصلہ‘ امید کی کرن اور زندگی کی اُمنگ ملے گی۔ حکومتی سرپرستی کے علاوہ بہت سے ہاتھ ایک دوسرے کو سنبھالنے کے لیے میسرآئیں گے۔

تنازعوں کا تصفیہ

چھوٹے چھوٹے جھگڑے ابتدا ہی میں گلی محلے کی سطح پر اگر حل کر لیے جائیں تو بڑے جھگڑوں کی بنیاد نہیں بنتی۔ ان مسائل پر توجہ دینے سے صلوٰۃ کمیٹی کے ذریعے پنچایت کے انداز میں فراہمی انصاف کی سبیل بھی پیدا ہو سکے گی اور مسجد جو کبھی عدل و انصاف کی فراہمی کا ذریعہ تھی‘ ایک بار پھر اس کا یہ مقام بھی بحال ہوسکے گا۔ اس طرح حکومتی سرپرستی سے بآسانی لوگوں کے مسائل گھر کی دہلیز پر حل ہوسکیں گے اور عدل و انصاف کی فراہمی میں بہتری اور آسانی پیدا ہوگی۔

فروغِ تعلیم و تدریس

اسلام حصولِ علم پر بہت زور دیتا ہے۔ قرآن مجید سے رہنمائی اور نماز سے صحیح استفادے کے لیے نماز کا مفہوم سمجھنا اور قرآنی و دینی تعلیمات کا جاننا بھی ضروری ہے۔ لہٰذا تعلیم کا فروغ نظامِ صلوٰۃ کا فطری تقاضا ہے۔ اسلام کی تاریخ میں سب سے پہلے مدرسہ صفّہ کے نام سے مسجدنبویؐ میں نبی کریمؐ کے ہاتھوں قائم ہوا تھا۔ مسجد ہمیشہ سے تعلیم و تدریس کا مرکز اور فروغِ دین کا ذریعہ رہی ہے۔ آج بھی بڑی تعداد میں مدارس موجود ہیں۔ لوگوں میں تعلیم کے فروغ‘  شرح خواندگی میں اضافہ‘ ذہنی شعور کی آبیاری‘ اسلامی تعلیمات سے آگہی کے لیے مسجد کو بطورِ مکتب و مدرسہ بآسانی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی یہ ناگزیر ہے۔

صلوٰۃ کمیٹی مساجد کے ذریعے مسجد مکتب اسکیم کو آگے بڑھا سکتی ہے۔ ایک مدرس کی بنیاد پر محدود پیمانے پر اسکول قائم کیا جا سکتاہے۔ حکومت سرحد تعلیم کے فروغ اور بے روزگاری کے مسئلے کے حل کے لیے ۲۰ہزار مراکزتعلیمِ بالغاں قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ مراکز بھی مساجد کی بنیاد پر بآسانی قائم کیے جا سکتے ہیں۔مساجد میں کوچنگ سنٹر قائم کر کے طلبہ کو بلامعاوضہ ٹیوشن کی سہولت فراہم کی جا سکتی ہے۔ جہاں سرکاری نصاب پڑھانے کے ساتھ دینی تعلیم و تربیت کا بھی انتظام ہو۔ اسی طرح مسجد میں دارالمطالعہ قائم کیا جا سکتا ہے جو ذوق مطالعہ کے فروغ اور تسکین کا باعث بن سکتاہے۔ تعلیم کے فروغ کے لیے یہ اقدامات صلوٰۃ کمیٹی کے ذریعے اٹھائے جانے چاہییں۔ اسی طرح شعور‘ آگہی اور تعلیم کے میدان میں بتدریج انقلاب برپا کیا جاسکتاہے۔

صحت و صفائی اور ماحول کی بہتری

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔ اسلام میں صفائی اور حفظانِ صحت کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ صحت مند مسلمان (قوی مسلمان) کو کمزور مسلمان سے بہتر کہا گیا ہے۔ نماز کی ادایگی کے لیے لباس کی صفائی اور ذوقِ جمال کا اہتمام‘ وضو اور غسل کے احکامات‘ خوشبو کا استعمال وغیرہ اسی حکمت کے غماز ہیں۔ لہٰذا نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ کا تقاضا یہ بھی ہے کہ لوگوں کو صفائی ستھرائی‘ ماحول کی بہتری اور حفظانِ صحت کے اصولوں سے آگاہ کیا جائے۔ ماحولیاتی آلودگی‘ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر‘ صاف پانی کا میسر نہ ہونا‘ کھلے ہوئے مین ہول اور گندے پانی کا بہنا‘ راستے کی مختلف رکاوٹیں‘ اسٹریٹ لائٹ کا روشن نہ ہونا‘ یا نصب نہ ہونا‘ گلی اور سڑک کے اطراف میں درختوں کے سائے کی کمی وغیرہ--- اس نوعیت کے اور بہت سے مسائل ہیں جن کا عوام کو سامنا ہے اور جو ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا باعث ہیں۔یہ حفظانِ صحت کے اصولوں کے منافی ہیں اور اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہیں۔

جس طرح مسجد کی تزئین و آرایش اور صفائی کا خیال رکھا جاتا ہے اسی طرح اگر گلی محلوں کی صفائی اور ماحول کی بہتری پر بھی توجہ رہے اور حفظانِ صحت کے اصولوں سے بھی آگہی ہو تو بہت سی بیماریوں‘ وبائوں اور تکالیف سے بھی نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ خاص طور پر علاج معالجے پر اٹھنے والے اخراجات سے معمولی تدابیر پر عمل کر کے بچا جا سکتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ڈھائی لاکھ بچے ہیضے کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ یہ شرح صحیح طرح ہاتھ دھونے اور دیگر حفظانِ صحت کے اصولوں کو اپنانے سے ۵۰ فی صد تک بآسانی کم کی جاسکتی ہے۔ حالانکہ کھانے سے قبل ہاتھ دھونا سنت ہے۔اگر مسجد کے ساتھ ایک مختصر شفاخانہ یا ڈسپنسری بھی قائم کر لی جائے تو عوام کو علاج معالجے کی سہولت بھی میسرآسکتی ہے جہاں حفظانِ صحت کے اصولوں کے علاوہ ابتدائی طبی امداد وغیرہ کے اصول بھی سکھائے جاسکتے ہیں۔

اگر صلوٰۃ کمیٹی اس پہلو پر بھی توجہ دے اور اسلامی تعلیمات کے پیشِ نظر لوگوں کو توجہ دلائے اور ان کی اصلاح و تربیت کرے‘ اور اپنی مدد آپ کے جذبے کے تحت ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے تو اس کے نتیجے میں تھوڑے ہی عرصے میں ان مسائل کو حل کیا جا سکے گا‘ ماحول کو بہتر بنایا جا سکے گا اور ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔

نظامِ صلٰـوۃ اور خواتین

خواتین ہماری آبادی کے کم و بیش نصف پر مشتمل ہیں۔ معاشرے کی تعمیر میں خواتین کا بنیادی کردار ہے اور اسے فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اگرچہ خواتین پر نماز باجماعت کی پابندی تو عائد نہیں کی‘ تاہم نمازِ جمعہ اور عیدین کے اجتماع میں خواتین کی شرکت کی تاکیداس بات کا ثبوت ہے کہ یہ خواتین کی تربیت کے لیے ناگزیر ہے اور اس کا اہتمام بھی ہونا چاہیے۔ مجلسِ عمل کی حکومت نے اس پہلو کو بھی نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ کے وقت پیشِ نظر رکھا ہے اور خواتین کے لیے الگ وضوگاہوں اور نماز کے لیے الگ جگہ کا تعین و اہتمام اس کا ثبوت ہے۔

اسلامی تعلیمات کے فروغ و اشاعت اور تعمیر و تطہیرافکار کے لیے جس طرح مردوں پر مشتمل صلوٰۃ کمیٹیوں کے ذریعے ہفتہ وار درس قرآن اور تربیتی اجتماعات کا اہتمام کیا جانا چاہیے‘ اسی طرح خواتین کی سطح پر خواتین کی کمیٹیاں بھی قائم کی جا سکتی ہیں۔ ان کمیٹیوں کا بنیادی مقصد خواتین میں اسلامی تعلیمات کا فروغ اور جمعہ اور عیدین کی نمازوں کا اہتمام ہونا چاہیے۔ اس غرض کے لیے گلی محلے کی سطح پر ہفتہ وار درس کے حلقے بھی قائم کیے جا سکتے ہیں۔ شرکا خواتین میں لٹریچر تقسیم کیا جا سکتا ہے اور دارالمطالعوں سے کتب کے حصول اور استفادے کی کوئی سبیل نکالی جاسکتی ہے۔ طالبات میں تعلیم کے فروغ کے لیے بچیوں کے لیے مسجد مکتب اسکول قائم کیے جاسکتے ہیں اور دستکاری اور ووکیشنل تعلیم بھی دی جاسکتی ہے۔

خواتین کا نماز اور دیگر مواقع پر جمع ہونے سے ایک دوسرے کے دکھ درد میں شرکت‘ مسائل میں دل چسپی‘ مالی معاونت (صلوٰۃ کمیٹی کے تحت جمع زکوٰۃ و صدقات کی مدد سے)   جذبۂ محبت و خیرخواہی کے فروغ کا باعث بھی ہوگا جو اسلامی معاشرت کا ایک اہم تقاضا ہے۔

خواتین کی ان سرگرمیوں کا مرکز بھی مسجد کو ہونا چاہیے۔ اس طرح خطبات جمعہ‘ ہفتہ وار درس قرآن کے حلقوں‘ تقسیم لٹریچر‘ مطالعہ کتب‘ دارالمطالعوں سے استفادے اور باہمی محبت و خیرخواہی کے نتیجے میں خواتین کے لیے فہم دین‘ تعلیم و تربیت اور اخوت و محبت کا ایک مربوط‘ منظم اور ہمہ گیر نظام فطری انداز میں آگے بڑھنے لگے گا۔ یہ بھی نماز اور نظامِ صلوٰۃ کی برکتوں سے ممکن ہوسکے گا۔

رمضان میں خصوصی اہتمام

خوش قسمتی سے رمضان المبارک کے مبارک ماہ کی بھی آمد آمد ہے۔ رمضان میں فطری انداز میں بحیثیت مجموعی ماحول پر اسلامی رنگ غالب ہوتا ہے۔ لوگوںمیں خدا کی اطاعت و بندگی‘ نیکی و پرہیزگاری‘ صلہ رحمی اور برائیوں سے بچنے کا جذبہ فزوں تر ہوتا ہے۔ نیکیوں کے اس موسمِ بہار میں نظامِ صلوٰۃ کو اس کی روح اور اس کے تمام تر تقاضوں کے پیشِ نظر نافذ کرنا سہل بھی ہوگا اور عوامی تائید اور تعاون بھی بآسانی حاصل ہوسکے گا۔ لہٰذا اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ترجیحاً اہمیت دی جائے اور خصوصی اہتمام کیا جائے۔

رمضان میں خاص طور پر فواحش اور منکرات کے خاتمے اور معاشرتی برائیوں کے انسداد کے لیے نظامِ صلوٰۃ کے ذریعے باقاعدہ ایک مہم چلائی جانی چاہیے۔ جس طرح لوگ روزے کے احترام میں برسرِعام خدا کے احکامات کی نافرمانی نہیں کرتے‘ اسی طرح نماز کی پابندی کے ساتھ ساتھ لڑائی جھگڑا‘ ظلم و زیادتی‘ رشوت ستانی‘ فحاشی کے ارتکاب‘ بے حیائی و بے پردگی وغیرہ کے خاتمے کے لیے بھی اجتماعی جدوجہد کریں۔ عوام الناس کے مسائل کے حل میں دل چسپی لیں بالخصوص ماحول کو آلودگی سے بچانے‘گلی محلے کی صفائی ستھرائی پر خصوصی توجہ دیں کہ یہ بھی نماز کا ایک اہم تقاضا ہے۔ یوں بحیثیت مجموعی نیکی فروغ پائے گی اور بدی مٹے گی‘ اور معروف کا چلن عام ہوگااور منکرات دبیں گے۔جہاں خرابی سر اٹھائے گی وہیں اس کی سرکوبی ہوسکے گی‘ اور صحیح اسلامی معاشرت کا نمونہ سامنے آئے گا جس کے اثرات رمضان کے بعد بھی قائم رہ سکیں گے۔

دعوت عمل

سرحد نے تو راستہ دکھایا ہے۔ پورے ملک میں‘ سرکاری سرپرستی کے بغیر بھی‘ اہل محلہ اس نظام کو قائم کرسکتے ہیں اور بلدیاتی سطح پر یونین کونسل اور ٹائون کا نظم اسے اختیار کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے حکومت رکاوٹ نہیں۔ سماجی تنظیمیں‘ اصلاح معاشرہ کی تحریکیں‘ سیاسی و دینی جماعتیں اپنی اپنی جگہ پر نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ کے لیے کوشش کریں تو ملک گیر اصلاح معاشرہ اور ملک و ملت کی تعمیر کی ایک تحریک برپا کی جا سکتی ہے۔

نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ کے حوالے سے اگر ان امور کو پیشِ نظر رکھا جائے اور محض مراسمِ عبادت سے آگے بڑھتے ہوئے روحِ نماز اور اس کے تقاضوں پر نظر رہے تو صرف نظامِ صلوٰۃ کی برکت سے ہی معاشرے کی صورت حال کافی حد تک بدل سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اسلامی نظام کے قیام کے لیے بڑے پیمانے پر تطہیروتعمیر افکار کا عمل آگے بڑھے گا‘ اسلامی تعلیمات سے آگہی کے نتیجے میں دینی شعور عام ہوگا۔ صلوٰۃ کمیٹیوں کے قیام کے ذریعے اسلام کے لیے مخلص اور تن من دھن سے قربانی دینے والے اور معاشرے کے صالح اور شریف عنصر کو منظم کرنے میں مدد ملے گی‘ نیز فواحش و منکرات‘ شراور بدی دبے گی اور نیکی‘ خیر اور معروف کو فروغ ملے گا۔ معاشرتی بگاڑ کے اضافے میں روک لگے گی۔ جذبہ ہمدردی و خیرخواہی کے فروغ پانے سے  عوام الناس کی پریشانیوں اور مسائل میں کمی واقع ہوگی‘ اپنی مدد آپ کے تحت مسائل حل ہوں گے۔ بہت سے ہاتھ بیک وقت ایک دوسرے کو سنبھالنے اور دکھ درد بانٹنے اور سہارا بننے کے لیے موجود ہوں گے۔ مسجد مکتب‘ دارالمطالعوں اور درس کے حلقوں کے ذریعے تعلیم عام ہوگی اور شرح خواندگی اور ذہنی شعور میں اضافہ ہوگا۔ صحت و صفائی اور حفظانِ صحت کے اصولوں کو اپنانے کے نتیجے   میں ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ حل ہوگا اور بیماریوں اور وبائوں سے نجات بھی ملے گی۔ ایک طرح سے راے عامہ کی ہمواری‘ معاشرے کی تنظیم‘ معاشرتی بگاڑ کا سدباب‘ جان و مال کے تحفظ‘     عدل و انصاف کی فراہمی‘ معاشی آسودگی‘ تعلیم و صحت کی سہولت جیسے بنیادی مسائل کے حل کی طرف پیش رفت ہوسکے گی جو ایک اسلامی ریاست کے بنیادی فرائض ہیں۔

نظامِ صلوٰۃ کو اگر اس کی پوری روح کے ساتھ نافذ کیا جائے تو اس کے نتیجے میں اسلامی نظام کے قیام ‘ فریضہ اقامت دین کے مراحل (خدا کی اطاعت و بندگی‘ تنظیم معاشرہ‘ امربالمعروف ونہی عن المنکر) کی تکمیل‘ اصلاح معاشرہ اور اصلاح حکومت کا عمل فطری انداز میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے جو بتدریج پایدار اور دیرپا اثرات کی حامل تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس طرح نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ کے ذریعے دراصل اصلاح معاشرہ اور اسلامائزیشن کی ایک تحریک ہے جو جاری و ساری ہوجاتی ہے۔

خدا کرے کہ یہ مبارک اقدام اسلامی انقلاب کی منزل کو قریب لانے کا باعث بنے اور بتدریج غلبۂ اسلام کا مرحلہ بھی آجائے۔ یقینا نظامِ صلوٰۃ کی اسی اہمیت کی وجہ سے قرآن پاک نے فرمایا ہے:

اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط (الحج ۲۲:۴۱)

یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے‘ زکوٰۃ دیں گے‘ نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے۔

عام طور پر اس قسم کی باتیں سننے میں آتی ہیں کہ یہ دور نفسانفسی‘ مادیت اور مفاد پرستی کا دور ہے۔لوگوں میں بے حسی پائی جاتی ہے۔ رہی سہی کسر ثقافتی یلغار‘میڈیا اور کیبل وغیرہ نے پوری کر دی ہے۔ لوگ معاشی مسائل میں اس بری طرح جکڑے گئے ہیں کہ انھیں کسی اور کام کے متعلق سوچنے یا کرنے کی فرصت ہی نہیں۔

ایسے میں‘ گذشتہ دنوں لاہور میں فہم قرآن کلاس کے ذریعے سے ایک خوش گوار اور ایمان افروز منظر دیکھنے میں آیا۔ کیفیت یہ تھی کہ لوگ بلامبالغہ جوق در جوق فہم قرآن کلاس میں شرکت کے لیے امڈے چلے آرہے تھے‘ شدید گرمی اور حبس کے باوجود ہزاروں لوگوں نے اس میں شرکت کی۔ خواتین‘ حاضری میں سبقت لے گئیں۔

جماعت اسلامی پاکستان کے شعبہ فہم دین کے تحت ۱۰ روزہ فہم قرآن کلاسوں کا سلسلہ گذشتہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ ملک کے مختلف شہروں اور قصبات میں پروگرام ہو چکے ہیں۔ لاہور میں ۱۰ روزہ فہم قرآن کلاس کے تین پروگرام: وحدت روڈ‘ سمن آباد اور گلشن راوی میں ماہ مئی اور جون میں ترتیب دیے گئے۔ پروفیسر عرفان احمد چودھری اس کے روح رواں ہیں۔ ان پروگراموں کی تشہیر کے لیے بڑی تعداد میں دعوت نامے‘ ہینڈبل اور اشتہارات پھیلائے گئے۔ مناسب جگہوں پر بینر آویزاںکیے گئے اور بڑے پیمانے پر دعوت دی گئی۔ کارکنان جماعت متحرک ہوئے‘ عوام سے رابطہ کیا گیا اور ان پروگراموں میں ان کی شرکت ممکن بنانے کے لیے بھرپور کوشش کے ساتھ جہاں ممکن ہوا آمدورفت کی سہولت بھی فراہم کی گئی۔ ۱۰ روزہ کلاس کے لیے خصوصی نصاب میں شامل آیات اور احادیث کا انتخاب ایک خاص ترتیب اور حکمت کو پیش نظر رکھ کر کیا گیا ہے۔ تمام شرکا کو اس کا کتابچہ فراہم کیا گیا جو دوران کلاس ان کے سامنے رہا۔ کلاس کے اوقات بعد نماز فجر ۱۵:۵ تا ۳۰:۶ مقررکیے گئے‘ جب کہ عام طور پر فجر کے بعد پروگراموں میں شرکت ایک مشکل امر خیال کیا جاتا ہے۔ارزاں نرخوں پر لٹریچر کی فراہمی کے لیے اسٹال لگائے گئے اور شرکا کو حقیقت اسلام تحفے میں دی گئی۔

اس کلاس کی خاص بات یہ ہے کہ ہر روز حاضرین کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے۔ آخری پروگرام‘ حاضری اور شرکا کے اعتبار سے اپنی جگہ ایک تاریخ ساز اجتماع ثابت ہوا کہ اس نوعیت کا اتنا بڑا دعوتی اجتماع لاہور میں کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔

پروفیسر عرفان احمد نے اسلام کی دعوت اور قرآن کا پیغام نہایت موثر پیرایے میں پیش کیا۔ ان کی کوشش تھی کہ وہ مخاطبین کا تعلق قرآن سے قائم کر دیں۔ ۱۰ روزہ نصاب میں دین کے تقریباً تمام بنیادی موضوعات شاملِ گفتگو رہے۔ آخری روز غُلِبَتِ الرُّوْم کی تفسیر میں حالاتِ حاضرہ خصوصاً اُمت مسلمہ پر امریکی یلغار اور اسلام کے روشن مستقبل پر بھی خوب تبصرہ ہوگیا۔

درس قرآن کے ساتھ حدیث‘ فقہ اور تجوید کا مختصر پروگرام بھی رکھا جاتا ہے۔ یوں قرآن کی دعوت کو قرآن و حدیث‘ اسوہ رسولؐ اور سیرت صحابہؓ کی روشنی میں اس طرح سے پیش کیا گیا کہ وہ حالات کا تقاضا اور ضرورت محسوس ہوئی۔ سننے والوں کو اپنا ایمان بڑھتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ شرکا محض سامع نہ تھے بلکہ شریکِ گفتگو تھے۔ انھوں نے جانا کہ داعی دین کی حیثیت سے  ان کا فرض ہے کہ قرآن کی دعوت انھیں دوسروں تک پہنچانا ہے۔ لہٰذا سب شرکا اپنی اپنی جگہ داعی بن گئے جس کا ایک واضح اظہار حاضری میں روزانہ اضافہ تھا۔لوگوں میں اس احساس کا بیدار ہونا ہی اس تمام جدوجہد کا حاصل ہے۔

گلشن راوی میں فہم قرآن کلاس کے آخری روز قیم جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے بھی خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ اصل کش مکش معروف و منکر کی ہے۔ ہماری تمام تر توانائیاں اسی جدوجہد میں کھپنا چاہییں۔ یہ پیغام عملاً اقامت دین کا پیغام ہے اور شرکاے قرآن کلاس کے لیے ’ہوم ورک‘ بھی‘ جو اس ایمان پرور پروگرام کے اختتام کے بعد عمربھر انھیں انجام دیتے رہنا ہے۔

آخری روز سب شرکا نے بآواز بلند ایک عہدنامے: ’عزم و دعا‘ کو پڑھا اور اس پر دستخط کیے جس میں ہر ایک نے یہ عزم کیا اور خدا سے استعانت کی دعا مانگی کہ:

میری زندگی کا واحد نصب العین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کے مطابق اللہ کی بندگی‘ اقامت دین اور اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کے ذریعے اس کی رضا اور جنت کا حصول ہے۔

میں‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت‘ وفاداری کو ہر چیز پر مقدم رکھوں گا۔ فرائض کا پابند اور کبائر سے دُور رہوں گا۔ عدل و احسان اور صلہ رحمی کے رویے پر قائم رہوں گا‘ اور ہر قسم کے کھلے اور چھپے فواحش اور ظلم و زیادتی کے کاموں سے بچوں گا۔

سوچنے کی باتیں

اس دعوتی تجربے سے فکروعمل کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں:

  • قرآن کی کشش: قرآن مجید کی کشش آج بھی اسی طرح ہے‘ جس طرح پہلے دن تھی۔ قرآن جس طرح اپنے پہلے سننے والوں کو متاثر کرتا تھا‘ ان پر اثرانداز ہوتا تھا‘ دلوں کی کیفیت کو بدل دیتا تھا‘ لوگ لرز جاتے تھے‘ آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے تھے‘ آج بھی یہ اسی طرح اثرانداز ہوسکتا ہے‘ دلوں کی دنیا کو بدل کر آن کی آن میں ایک نیا انسان بنا سکتا ہے۔ کل بھی لوگ قرآن سننے کے منتظر رہتے تھے اور مخالفین رسولؐ بھی چھپ چھپ کر قرآن سنا کرتے تھے کہ اس کی اپنی ایک لذت ہے۔ آج بھی یہ کیفیت موجود ہے‘ بشرطیکہ قرآن کو اس طرح سے پیش کیا جائے جس طرح کہ اسے پیش کرنے کا حق ہے۔

انسان جن مسائل سے دوچار ہے‘ وہ ان سے نجات کے لیے کسی پایدار حل کی تلاش میں ہے۔ قرآن مجید مختصر جملوں میں ان کا ایسا حل پیش کرتا ہے کہ دل ٹھک کر رہ جاتا ہے۔ یہ قرآن کی تعلیمات ہیں جو انسان کو اس کی اصل حیثیت یاد دلاتی ہیں‘ اس کی کمزوریوں سے اسے آگاہ کرتی ہیں اور پھر اس کو سیدھے راستے کی طرف رہنمائی بھی دیتی ہیں۔ دراصل قرآن انسان کی فطرت کی پکار کا جواب ہے۔ یہی اس کی کشش کا راز ہے۔

  • مدرس کا انداز: اس دعوتی تجربے کی کامیابی کا بڑا سبب پیغام کو پیش کرنے کا مدرس کا مؤثر انداز ہے۔ قرآن کا اسلوب خود تقریری ہے اور اگر سامعین کی نفسیات‘ ذہنی کیفیت‘ علمی سطح‘ دل چسپی‘ پریشانیوں و الجھنوں اور درپیش مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے عام فہم لیکن جدید اسلوب میں قرآنی تعلیمات پیش کی جائیں تو وہ لازماً اثرانداز ہوتی ہیں۔ سامعین اپنے آپ کو قرآن کا براہِ راست مخاطب سمجھیں‘ اور آیاتِ قرآنی موجودہ حالات پر منطبق ہوں‘ بلکہ یوں محسوس ہو کہ جیسے قرآن آج ان کے لیے نازل ہو رہا ہے‘ یہ کیفیت پیدا کرنے میں مقرر کا انداز بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
  • عملی جدوجہد میں شرکت: یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جو بڑی تعداد ذوق شوق سے قرآن فہمی کے پروگراموں میں آئی ہے وہ قرآن سن کر اور واہ واہ کر کے نہ رہ جائیں‘ بلکہ یہ دعوت ان کی زندگیوں میں انقلاب برپا کرے۔ نہ صرف ذاتی کردار کی اصلاح ہو‘ معاملات درست ہوں‘ حقوق کی ادایگی ہو‘ بلکہ اسوہ رسولؐ کی پیروی میں اقامت دین کی منظم جدوجہد میں ان کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔ مقامی نظم پر یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ اس بڑی تعداد کو ساتھ لے اور اپنے ساتھ چلائے۔
  • دعوت عمل: کیا اسی انداز سے قرآن کا پیغام آبادی کے بڑے حصے تک نہیں پہنچایا جا سکتا؟ ہم جانتے ہیں کہ اس اُمت کو عروج اگر نصیب ہونا ہے تو قرآن کے ذریعے ہی ہونا ہے۔ یہی ہمارے مسائل کے حل کی شاہ کلید ہے۔ پھر کیوں نہ قرآن سے شغف رکھنے والے اعلیٰ درجے کے مقرر نوجوان‘ اپنی زبان و بیان کی صلاحیت کو قرآن کا پیغام اپنی قوم تک پہنچانے میں لگائیں‘ اور اسے اپنی زندگیوں کا مشن بنائیں۔ قوم نے قرآن سے تعلق قائم کر لیا‘ توحید و آخرت زندہ تصورات بن گئے تو معاشرے کی خرابیاں بھی دُور ہوں گی اور افراد کو زندگی کا چین اور سکھ بھی ملے گا۔
  • خیر کا عنصر : اس پروگرام میں جس ذوق و شوق سے لوگ بالخصوص خواتین اور نوجوان شریک ہوئے ہیں وہ اس کا ثبوت ہے کہ معاشرے میں‘ ہر طرح کے مفاسد کے باوجود خیر کا عنصر موجود لیکن منتشر ہے۔ ضرورت صرف اسے منظم کرنے اور قوت بنانے کی ہے تاکہ منکر کو شکست دی جائے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ منکر کو پھیلانے میں جس طرح بزور مصروف ہیں‘ اس سے حوصلہ شکنی ہوتی ہے‘ لیکن ایسے پروگرام امید کا پیغام ہیں۔ خیر کے علم بردار گھروں میں بیٹھ کر حالات پر تبصرے کرنے کو کافی نہ سمجھیں‘ میدان میں آئیں اور خیر کو منظم اور طاقت ور کریں۔
  • وسائل کی قلت کا مسئلہ : دعوت دین اور فریضہ اقامت دین کی ادایگی کے لیے وسائل کی کمی کو ایک رکاوٹ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے‘ جو اپنی جگہ ایک حقیقت بھی ہے۔ اس پروگرام میں یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ دعوت کے کام کے لیے وسائل کی کمی کوئی ایسا بڑا مسئلہ نہیں۔ فہم قرآن کلاس کے لیے وسیع پیمانے پر انتظام و اہتمام کیا گیا‘ دعوت نامے‘ ہینڈبل‘ اشتہارات‘ بینر‘ شامیانوں اور کرسیوں وغیرہ کا انتظام‘ ٹرانسپورٹ کا اہتمام‘ لٹریچر اور اسناد و تحائف وغیرہ کی تقسیم--- لاکھوں روپے کے اخراجات تھے جن کے لیے بظاہر وسائل کی فراہمی عملاً ناممکن نظر آتی تھی۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے شرکاے کلاس و دیگر اہل ثروت نے خود سے دل کھول کر عطیات دیے اور وسائل کی فراہمی کا انتظام غیرمحسوس طور پر خود بخود ہوگیا۔ لہٰذا اصل ضرورت دعوتی منصوبہ عملاً برپا کرنے کی ہے۔ اگر کام ہوتا ہوا نظر آئے تو وسائل بھی من جانب اللہ فراہم ہو جاتے ہیں۔

قرآن سے تعلق کی اصل بنیاد تو مسلم معاشرے کی یہ روایت ہے کہ ہر بچے کو ابتدا میں ہی قرآن ضرور پڑھایا جاتا ہے۔ لیکن بعد میں عموماً عملی زندگی میں اس سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔ روز کا مطالعہ بھی کم خوش نصیبوں کے حصے میں آتا ہے۔ فہم قرآن کا یہ پروگرام‘ اور اس نوعیت کے ہونے والے دوسرے تمام پروگرام جو مختلف افراد‘ تنظیموں اور اداروں کی جانب سے ہو رہے ہیں‘ انتہائی قابلِ تحسین اور وقت کی ضرورت ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ ایک عام مسلمان قرآن کو خود سمجھے اور اسے اپنی زندگی کا راہنما بنائے۔ مکہ کے باشندوں نے جب قرآن کی یہ دعوت قبول کی تو عرب و عجم ان کے زیرنگیں آگئے‘ آج ہم قرآن کے نام لیوا تو ہیں لیکن ضرورت ہے کہ اس کی دعوت کو قبول بھی کیا جائے۔

ملک میں خواتین پر بڑھتے ہوئے گھریلو تشدد کے انسداد کے پیشِ نظر پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے لیے ’’مسودہ قانون انسداد گھریلو تشدد پنجاب مصدرہ ۲۰۰۳ئ‘‘ پیش کیا گیا ہے تاکہ شادی کے تقدس اور عورتوں اور بچوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے اور متاثرہ فرد کے لیے کوئی کارگر قانونی دادرسی کی صورت نکل سکے۔

ہمارے معاشرے میں خواتین پر تشدد ایک حقیقت ہے۔ آئے دن اخبارات میں اس حوالے سے خبریں دیکھنے میں آتی ہیں۔ معمولی معمولی باتوں پر جھگڑا‘ گالم گلوچ‘ تضحیک‘ مارپیٹ‘ روز مرہ استعمال کی ضروریات کو پورا نہ کرنا یا ہاتھ تنگ رکھنا ‘ مرضی کے بغیر یا کم عمری میںشادی کرنا‘دولت اور جایداد کے لیے بڑی عمر کے مرد سے نکاح‘ غیرت کے نام پر قتل‘ کاروکاری‘ قرآن سے شادی‘ وراثت سے محروم رکھنا--- ایک طویل فہرست بنائی جاسکتی ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا ایک کرب ناک پہلو ہے‘ اس پر جتنا بھی دکھ کا اظہار کیا جائے کم ہے۔ خواتین پر روا رکھا جانے والا یہ تشدد اسلام کی تعلیمات کے بھی صریحاً خلاف ہے۔ اس کا کوئی جواز نہیں۔ گھریلو تشدد کے انسداد کے بل کا بنیادی محرک بھی غالباً یہی جذبہ ہے کہ اس ظالمانہ اور غیر اخلاقی رویے کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ گھریلو تشدد کا ایک پہلو خواتین کے ہاتھوں مردوں کو مختلف قسم کے معاشی و ذہنی دبائو کا سامنا بھی ہے جو ان کی زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے۔ البتہ یہ بات غور طلب ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے جو طریق کار وضع کیا جا رہا ہے وہ کس حد تک قابلِ عمل ہے اور آیا اس کے نتیجے میں گھریلو تشدد کا خاتمہ ہو سکے گا اور گھریلو اور ازدواجی زندگی سکون کا باعث بن سکے گی‘ یا ایک مسئلے کا حل نکالتے نکالتے کوئی نیا بگاڑ یا انتشار پیدا ہوجائے گا۔

یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ محض قانون سازی سے اگر معاشرتی فساد کا خاتمہ ہو سکتا تو جدید تہذیب کے حامل ترقی یافتہ ممالک یورپ اور امریکہ میں خواتین پر تشدد کا خاتمہ ہو جانا چاہیے تھا جہاں خواندگی کی شرح تقریباً۱۰۰ فی صد اور قانون کی بالادستی معاشرے کا شعار ہے۔ عملاً صورت حال کیا ہے؟ اس کا اندازہ امریکہ کے محکمہ سراغ رسانی کی اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ میں ہر تیسری بیوی شوہر سے مار کھاتی ہے۔یہاں تک کہ حاملہ بیوی کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ ہر دوسری حاملہ عورت پٹتی ہے اور ایک تہائی بچے مار کا اثر لیے پیدا ہوتے ہیں (نواے وقت‘ ۱۲ نومبر ۲۰۰۳ئ)۔ یہ وہ ملک ہے جہاں ایک ٹیلی فون کال پر پولیس گھرپہنچ کر خاوند کو گرفتار کرکے لے جاتی ہے‘ جیل میں بند کر دیا جاتا ہے اور قید یا جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔

پنجاب اسمبلی میں پیش کیا جانے والا انسداد گھریلو تشدد بل بھی کچھ اسی نوعیت کی قانون سازی چاہتا ہے۔ اس بل کے تحت تجویز کیا گیا ہے کہ ہر تھانے کی سطح پر پروٹیکشن افسر کی تعیناتی کی جائے جس کا عہدہ پولیس انسپکٹر یا گزٹیڈ افسر کے برابر ہو۔ دیہی اور شہری علاقوں کے لیے فیملی مصالحتی کونسل تشکیل دی جائے گی جو پانچ ممبران پر مشتمل ہوگی جن میں سے ایک ممبرخاتون ہوگی۔ گھریلو تشدد کی اطلاع ملنے پر یا ازخود پروٹیکشن افسر فوری طور پر موقع پر پہنچے گا۔ اسے اختیار حاصل ہوگا کہ متاثرہ فرد کو کسی ’’محفوظ جگہ‘‘ (رشتے دار‘ فیملی فرینڈ یا خدمات فراہم کنندہ کی طرف سے تیار کردہ محفوظ مقام یا دارالامان) منتقل کر دے۔ خیال رہے کہ ازخود اقدام کا اختیار تو مغرب میں بھی نہیں دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں نجی زندگی کا تصور بری طرح مجروح ہوجائے گا۔

مصالحتی کونسل مصالحت کے لیے اقدام کرے گی اور معاملہ جوڈیشل مجسٹریٹ درجہ اول کے سپرد کرسکتی ہے۔ مجسٹریٹ دیگر اقدامات کے علاوہ‘ مجوزہ بل کی شق ۶-ii اور ۶-iii کے تحت اگر وہ گھریلوتشدد کا محض شائبہ پائے تو ضمانت طلب کر سکتا ہے اور پروٹیکشن آرڈر کے ذریعے مجرم کو اپنی ہی رہایش گاہ یا کسی دیگر حصے میں داخل ہونے سے منع کر سکتا ہے اور متاثرہ فرد کو گھر اور گھریلو اشیا کے استعمال کا حق دلوائے گا۔ اس قسم کے ’’محفوظ مقام‘‘ کا تعین اور اس پر عمل درآمد کی نوعیت‘ جھگڑے کے تصفیے کے دوران اہلِ خانہ کی ضروریات پورا کرنا یا بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات وغیرہ جیسے پہلو بھی بہت اہم ہیں۔ یہ اقدامات بجاے بہتری کے گھرکے انتشار کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ یہ بل اسلام کے قانون ازدواج اور اس کی روح مودت و رحمت سے بھی کئی حوالوں سے متصادم ہے۔ اس کی شرعی حیثیت کا تعین بھی ایک اہم پہلو ہے۔البتہ بظاہر یہ تشدد سے بچائو کے لیے ایک اچھا اقدام لگتا ہے لیکن اس کے دُور رس اثرات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔

دُور جانے کی ضرورت نہیں خود مغرب کا تجربہ اس کا کھلا ثبوت ہے۔ مغرب نے اپنے تمدن کی بنیاد مرد و عورت کی مساوات‘ عورت کے معاشی استقلال‘ مردوزن کا آزادانہ اختلاط اور عورت کے قانونی تحفظ پر رکھی۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گھر جو تمدن کی بنیاد ہے بکھر کر رہ گیا ہے اور خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اگرچہ عورت کو قانونی تحفظ حاصل ہے مگر اس کے باوجود خواتین کا مردوں کے ہاتھوں پٹنا‘ طلاق کی کثرت‘ جنسی تشدد‘ فواحش کی کثرت‘ شہوانیت اور بے حیائی کا فروغ‘ سرے سے نکاح کرنے سے اجتناب اور بلانکاح ساتھ رہنے کا رجحان‘ نسل کشی اور تحدید آبادی‘ بچوں اور نئی نسل کی بے راہ روی‘ جسمانی قوتوں کا انحطاط‘ ذہنی و نفسیاتی امراض کا اضافہ جیسے مسائل کا مغرب کو سامنا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ مرد اور عورت کے باہمی تعلق یا قانون ازدواج کی بے اعتدالی ہے۔ ہمارے ہاں بھی مادیت کے اثرات اور دیگر عوامل کی بنا پر رشتۂ ازدواج متاثر ہو رہا ہے۔ اس کا اندازہ فیملی کورٹس میں طلاق‘ خلع اور بچوں کے مسائل کے حوالے سے پیش ہونے والے مقدمات میں روز افزوں اضافے سے لگایا جا سکتاہے۔    انسدادِ گھریلوتشدد کے اس بل کے حوالے سے معاشرتی انتشار کا یہ پہلو خاص طور پر غورطلب ہے۔

معاشرے کی پایدار بنیادوں پر اصلاح کے لیے ایک ٹھوس اساس و بنیاد اور متوازن و معتدل نظریۂ حیات اور لائحہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر اس کو معاشرے کا چلن بننا چاہیے اور ان اصول و ضوابط سے انحراف کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ امیروغریب سب کے لیے اصول ایک ہو‘ خلاف ورزی تادیب کی مستحق ٹھیرے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہمارے لیے نمونہ ہے۔ آپ ؐ نے جب اصلاح معاشرہ کی تحریک کا آغاز کیا تو قانون سازی کو بنیاد نہیں بنایا تھا بلکہ ایک کلمے کے اقرار کو بنیاد بنایا تھا جو اس بات کا اعلان تھا کہ ایک خدا کے سوا ہم کسی کی اطاعت نہ کریں گے۔ پسند وناپسند کا معیار اور کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی بنیاد خدا کی ذات اور رسولؐ اللہ کا طریقہ ہوگا۔ یہ محض ایک اعلان نہیں تھا بلکہ ایک عہد وپیمان تھا کہ اگر کوئی معیار یا اصول ہے تو وہ قرآن و سنت ہیں۔ یہ وہ اصول اور ضابطہ تھا جس پر آپؐ نے معاشرے کی اصلاح کی بنیاد رکھی‘ اور اسلام کی متوازن اور ابدی تعلیمات وہ لائحہ عمل تھا جس پر عمل کرنا ایمان‘ حبِ رسولؐ اور قانون ٹھیرا۔

اس کے نتیجے میں وہ معاشرہ قائم ہوا جہاں گھر کی بنیاد مودت و رحمت تھی نہ کہ ظلم و تشدد اور جبر۔ اچھا خاوند وہ شمار ہوتا جو اہل خانہ کے ساتھ بہتر رویہ رکھتا ہو‘ ان کے جذبات کا احترام کرتا ہو اور ان کی ضروریات کو اپنا فرض جان کر پورا کرتا ہو۔خاوند اپنے فرائض خوشدلی سے ادا کرے اور بیوی خاوند کے حقوق۔ اگر کسی کو فکر تھی تو یہ کہ کسی کوتاہی کے مرتکب ہوکر خدا کے ہاں پکڑ نہ ہو جائے۔ میاں بیوی کے تنازعات کے حل کے لیے ایک منصفانہ اورمعتدل قانون ازدواج تھا۔ زوجین ہزار کوشش کے باوجود ساتھ نہ رہ سکیں اور حدود اللہ ٹوٹنے کا خدشہ ہوتا تو خوشدلی سے الگ ہو جاتے اور عدالتی چارہ جوئی کے لیے مواقع یکساں تھے۔ فرائض کی ادایگی اور جواب دہی کا احساس ہی وہ محرک تھا جو لوگوں کو حدود کا پابند بناتا تھا نہ کہ محض پولیس مداخلت یا قانون سازی۔

لہٰذا اصلاحِ معاشرہ کے لیے اور گھریلو تشدد کے انسداد کے لیے ہمارے لیے بھی بنیاد اسی اصول کو بننا چاہیے‘ یعنی خدا کی اطاعت‘ فرائض کی ادایگی اور جواب دہی کا احساس!

پہلی ضرورت شعور کی بیداری ہے کہ ہم خدا کے بندے ہیں اور ایک مسلمان مرد اور عورت کے یہ یہ فرائض اور ذمہ داریاں ہیں جنھیں ادا کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے ذرائع ابلاغ کے ذریعے وسیع پیمانے پر ’’اصلاح اخلاق‘‘ کی مہم چلائی جانی چاہیے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا‘ رسائل و جرائد‘ سماجی تنظیمیں‘ سب کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اُبھارا جانا چاہیے۔   نظامِ تعلیم اسی فکر کو پروان چڑھانے اور تربیت کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ اس کے لیے حکومت اقدامات اٹھائے۔ معاملات کی بنیاد ذاتی پسند ناپسند نہیں بلکہ قرآن و سنت اور دین کی تعلیمات کو ٹھیرایا جانا چاہیے۔ یہ بہت مضبوط بنیاد ہے۔

اسلام چاہتا ہے کہ گھریلو تنازعات گھر کی سطح پر ہی حل ہوں۔ اس لیے خاندان کے بزرگوں اور بڑے بوڑھوں کو اپنا کردار خوش اسلوبی سے نبھانا چاہیے۔ اس کا احساس اُجاگر کرنے‘ نیز بزرگوں کے احترام کی معاشرتی قدر کو بھی مضبوط بنانے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

محلے کی سطح پر کمیٹی یا معززین کی پنچایت کے ذریعے محلے اور علاقے کے تنازعات کوحل کرنا پہلی ترجیح ہونا چاہیے۔ بلدیاتی سطح پر مصالحتی عدالت ایک منتخب فورم ہونے اور اہلِ علاقہ کے معاملات سے باخبر ہونے کے لحاظ سے زیادہ موثر کردار ادا کر سکتی ہے اور پولیس تھانے میں جانے سے پہلے مصالحت کی بنا پر معاملات بخوبی نمٹائے جا سکتے ہیں۔ مقامی سطح پر کیے جانے والے فیصلوں کو قانونی حیثیت دی جانی چاہیے اور عدالت ان کو تسلیم کرے تو عدلیہ پر بڑھتا ہوا دبائو بھی کم ہو سکتا ہے۔ مصالحتی عدالت کے ہوتے ہوئے مجوزہ بل کے تحت ’’فیملی مصالحتی کونسل‘‘ کا قیام اضافی امرہے۔

سب سے اہم پہلو جو توجہ چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ بے حسی ختم ہونا چاہیے۔ اگر کہیں بھی کسی کی حق تلفی ہو‘ کسی قسم کی زیادتی کی جائے ‘ تو اس پر خاموش تماشائی نہ بنا جائے۔ گھر کے افراد‘ خاندان کے بزرگ‘ برادری‘ ہمسایہ‘ اہلِ محلہ و علاقہ‘ معززین علاقہ‘ منتخب کونسلر‘ سماجی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران‘ سب سماجی و اخلاقی دبائو کے تحت زیادتی کرنے والے کا آگے بڑھ کر ہاتھ روکیں اور اس کو اخلاقی ذمہ داری اور فرائض سے کوتاہی کی طرف توجہ دلا کر اصلاح کی بھرپور کوشش کریں۔ ماضی کی طرح آج بھی یہ سماجی دبائو بہت سی اخلاقی خرابیوں کے سدّباب کے لیے موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔ اسلام برائی کو دیکھ کر اسے برداشت کرنے کی نہیں بلکہ حسب ِ استطاعت قوت کے ذریعے مٹانے پر زور دیتا ہے۔ اس سب کے باوجود اگر گھریلو تشدد کا راستہ نہ رکے تو پھر قانون ازدواج کے تحت عدالت کا دروازہ بھی کھلا ہے۔

جس معاشرے میں خرابی اور بگاڑکا سدّباب نہ ہو اور بہتری کی کوشش ساتھ ساتھ جاری نہ رہے تو بگاڑ بالآخر انحطاط اور اجتماعی خودکشی پر منتج ہوتا ہے۔ لہٰذا معاشرے کی اصلاح اور گھریلو تشدد کے انسداد کے لیے جہاں قانونی اقدامات کو موثر بنانے کی ضرورت ہے‘وہاں عوامی سطح پر شعور کی بیداری اور اخلاقی خرابیوں کے سدّباب کے لیے اپنا فرض ادا کرنے کی فکر اور تڑپ کے چلن کو عام کرنا بھی ناگزیرہے۔ حکومت کو اپنی اس ذمہ داری کو بھی محسوس کرنا چاہیے۔

وسطی ایشیا کے مسلمان آزمایش کے مرحلے میں

وسطی ایشیا‘ پانچ ریاستوں(قازقستان‘ کرغیزستان‘ ازبکستان‘ترکمانستان اور تاجکستان) پرمشتمل ۱۵ کروڑ سے زائد مسلمان آبادی کا یہ خطہ تیل‘گیس اور قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے۔ امریکہ اور یورپ کی حریص نگاہوں کا مرکزبنا ہوا ہے جو کسی نہ کسی طور جلد از جلد یہاں رسائی حاصل کرکے اس کے قدرتی وسائل کو من مانے طریقے پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت کے اس خطے میں ان کے عزائم کی راہ میں اگر کوئی بڑی رکاوٹ ہے تو وہ اسلام پسند مسلمان ہیں جو ان کی نگاہوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں۔

۱۹۹۱ء میں سابق سوویت یونین سے رسمی آزادی حاصل کرنے کے بعد سے یہ ریاستیں جمہوری لبادے میں کمیونسٹ آمریت کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہیں۔ مقتدرطبقے کو روس کی پشت پناہی حاصل ہے۔ آج بھی یہ خطہ باقی دنیا اور اس کی مارکیٹوں سے زمینی رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے کٹا ہوا ہے‘ اور اس کی معیشت کا بڑی حد تک انحصار روس پر ہی ہے۔ ۱۹۹۵ء اور ۲۰۰۲ء کے درمیان باقی دنیا کے مقابلے میں ان کی برآمدات بہت ہی محدود ہیں۔ قازقستان کی صورتِ حال استثنائی ہے ‘اس لیے کہ بحیرئہ کیسپین سے تیل کی برآمد سے اس کی معیشت میں تیزی سے بہتری آئی ہے لیکن یہاں کے عوام کو جابرانہ آمریت کا سامنا ہے۔ (رپورٹ‘ یورپین بنک فار ری کنسٹرکشن اینڈ ڈویلپمنٹ‘ برطانیہ‘  امپیکٹ انٹرنیشنل‘ جون- جولائی ۲۰۰۳ئ)

مسلمانوں کی دلی خواہش نفاذِ اسلام ہے۔ آزادی کے بعد ہی سے اس پورے خطے میں احیاے اسلام کی ایک لہر پائی جاتی ہے اور اس کا ثبوت بڑے پیمانے پر مساجد کا قیام اور دین اسلام کو سیکھنے کا جذبہ اور اسلام سے بڑھتی ہوئی دل چسپی ہے۔ مگر اس جذبے کے علی الرغم ایک اجنبی کلچرمسلط کیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے ظلم و تشدد‘ ریاستی جبر‘قیدوبند اور ہر طرح کا جبرواستبداد روا رکھا جا رہا ہے۔ عوام کو اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے کی آزادی نہیں۔ احتجاج کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ اس طرح وسطی ایشیا میں ایک مسلسل جدوجہد اور کش مکش جاری ہے۔

ازبکستان : ازبکستان وسائل سے مالا مال ہے لیکن اس کی کیفیت عملاً ’’جیلستان‘‘ کی سی ہے۔ صدر اسلام کریموف کے دورِ امارت میں ایک اندازے کے مطابق ۵۰ ہزار سے زائد افراد قیدوبند سے دوچار ہیں۔ ان میں سے بیش تر اسلام پسند ہیں اور اپنے مذہبی و سیاسی نظریات کی بنا پر گرفتار ہیں۔ حزب التحریر خلافت کی علم بردار اسلامی تحریک ہے۔ ازبک جیلوں میں پابندسلاسل ۶ ہزار ۵سو افراد میں سے نصف کا تعلق اسی تحریک سے ہے۔ بیش تر کا قصور یہ ہے کہ وہ پمفلٹ تقسیم کر رہے تھے یا ان کے گھر سے عربی عبارت پر مبنی اوراق ملے ہیں۔ تحریک اسلامی ازبکستان(IMU) کو۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد سے شدید دبائو کا سامنا ہے۔ کارکن خوف و ہراس کی بنا پر منتشرہیں‘ سامنے آنے کی جرأت نہیں کرپاتے۔ حکومتی جبر اور آزادی اظہار کا یہ عالم ہے کہ ’’آزادی مذہب آرڈیننس‘‘ کے تحت باپردہ خواتین کو تو پابندسلاسل کر دیا جاتا ہے‘ جب کہ مسیحی راہبات اپنے مذہبی لباس میںامن و آزادی کے ساتھ گھومتی پھرتی ہیں۔ ازبکستان کے مفتی محمد صادق کا کہنا ہے کہ غیر حکومتی اسلام کی اجازت نہیں ہے۔

کرغیزستان اور ترکمانستان: کرغیزستان کس ابتری کا شکار ہے اور اس سے اس کی عملاً صورتِ حال کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہاں ۲۰ فی صد عوام فقروفاقہ کی حالت سے دوچار ہیں‘ جب کہ نصف آبادی کو قحط و افلاس کا سامنا ہے۔ ترکمانستان بھی کم و بیش ایسی ہی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ اس کی معاشی ترقی کا بڑی حد تک انحصار گیس کی برآمد پر ہے۔

تاجکستان: تاجکستان میں بظاہر جمہوریت ہے مگر روس نواز صدر امام علی رحمانوف کی ذات میں تمام اختیارات مرتکز ہیں۔ آزادی کے پہلے روز ہی سے مسلمانوں نے اس جبر کے خلاف آواز اٹھائی اور بتدریج یہ تحریک مسلح جدوجہد میں بدل گئی۔ بالآخر ۱۹۹۷ء میں ایک معاہدے کے تحت اسلامک ریوائیول پارٹی (IRP)کو قانونی جواز دیا گیا۔ انتخابات کے ذریعے حکومت کا قیام عمل میں لایاگیا۔ لیکن صدر اختیارات کے ارتکاز کے لیے جو دستوری ترامیم کر رہے ہیں اس پر اپوزیشن کو تشویش ہے اور وہ جمہوریت کی بحالی‘ آزادی اظہار اور بنیادی حقوق کی بازیابی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔


وسطی ایشیا کے مسلمان فی الواقع کن حالات سے دوچار ہیں اور عملاً انھیں کس قسم کے مسائل کا سامنا ہے‘ اس کی ایک واضح تصویر قازقستان کے حوالے سے دیکھی جا سکتی ہے۔

بحیرئہ کیسپین کے کنارے واقع قازقستان میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں ۱۰ بلین ٹن تیل اور ۲ ٹریلین کیوبک میٹر گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ یہ کل ذخائر کا ایک حصہ ہے (روس کے کل تیل کے ذخائر ۶.۷ بلین ٹن ہیں)۔ گیس کے کل معلوم ذخائر ۷.۵ ٹریلین کیوبک میٹر ہیں‘ جب کہ نامعلوم کا اندازہ ۳۰ ٹریلین کیوبک میٹر ہے (ترکمانستان میں تیل کے ذخائر ۳۷ بلین بیرل ہیں)۔ انھی ذخائر پر امریکہ‘ مغرب اور روس کی نظریں ہیں۔

قازقستان آزادی کے بعد ۱۹۹۱ء سے مسلسل سیاسی بحران کا شکار ہے۔ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا استحصال عام ہے۔ صدر نورسلطان نذربایوف کا دورِ حکومت اس کی بدترین علامت ہے۔ ظلم و جبر‘ قیدوبند‘ اذیت‘ غیرقانونی گرفتاریاں‘ ماوراے عدالت قتل‘ اپوزیشن رہنمائوں پر حملے اور میڈیا کو مختلف حربوں سے خوف و ہراس میں مبتلا رکھنا‘ روز مرہ کا معمول ہے۔

صدر نذربایوف کی شہرت ایک بدعنوان‘ نااہل اور غیرمقبول صدر کی ہے۔ ایک عالمی سروے کے مطابق قازقستان کو دنیا کے ۲۰ کرپٹ ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔

وسطی ایشیا کی دیگر ریاستوں کی طرح یہاں بھی آمریت کا دور دورہ ہے۔ حکومت کو اگر کسی سے کوئی خطرہ ہے تو وہ اسلام پسند ہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صدر نے مسلمانوں اور اسلام کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومتی سطح پر بہت سے اقدامات کیے ہیں۔ قومی سطح پر حکومت کی طرف سے نامزد کردہ مفتی کی سربراہی میں ایک نیشنل باڈی بنائی گئی ہے۔ اس باڈی کے دائرے سے باہر اسلامی تنظیموں کو حکومتی غضب اور قہر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کے اس رویے کے ہاتھوں تنگ آکر جون ۲۰۰۱ء میں نیشنل باڈی کے سربراہ نے استعفا دے دیا۔

ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد حکومت نے بیرونی اشارے پر کئی اقدامات اٹھائے۔ دہشت پسندوں کی گرفتاری کی آڑ میں مقدس مقامات اور مساجد کی توہین کی گئی۔ بیرونِ ملک دینی تعلیم پانے والے تمام قازق طلبہ کو ملک واپس بلا لیا گیا۔ نومبر ۲۰۰۲ء میں سنٹرل ایشین کوآپریشن آرگنائزیشن سے خطاب کرتے ہوئے صدر نذر بایوف نے مذہبی انتہاپسندی اور بنیاد پرستی کے نام پر اسلام پسندوں کے خلاف خفیہ ایجنسیوں اور فوج کے ذریعے مزید اقدامات کرنے کا اعلان کیا۔

اسلامی تحریک کو قازقستان میں کن مصائب کا سامنا ہے‘ اس کا کچھ اندازہ ان واقعات سے ہو سکتا ہے۔

۱۹۹۹ء میں‘ تاراز میں پولیس نے ایک اسلامی تنظیم کے ان ۷۰ ارکان کو تشدد کا نشانہ بنایا جنھیں عارضی طور پر گرفتار کیا گیا تھا۔ گذشتہ دو برسوں میں حزب التحریر کے ۲۵ سے زائد کارکنان کو محض پمفلٹ تقسیم کرنے پر گرفتار کر لیا گیا۔ انھیں چار سال تک سزا سنائی گئی اور بھاری جرمانے کیے گئے۔ ازبکستان سے وابستگی رکھنے والی تنظیموں کے کارکنان کو گرفتار کر کے ازبکستان بھیج دیا گیا جہاں انھیں قیدوبند اور جبروتشدد کا سامنا ہے۔

قید کیے جانے والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جاتا ہے‘ اس کا اندازہ نومبر ۲۰۰۱ء میں حزب التحریر کے ایک کارکن Kanat Beiembetov کی تشدد کی وجہ سے ہسپتال میں ہلاکت ہے۔ خود Beiembetovکے بیان اور اس کے اہل خانہ کے دستخط شدہ بیان کے مطابق اس کی موت کا سبب KNB (خفیہ ایجنسی)کے اہل کاروں کا تشدد ہے۔ اب بھی کے این بی والے اس کے گھر والوں کی نگرانی کرتے ہیںاور اس کے بچوں کو ہراساں کرتے ہیں۔

ملکی وسائل کو نذر بایوف اور ان کے اہل خانہ کے ہاتھوں اس بے دردی سے لوٹا جا رہا ہے کہ قازقستان کو ’’نذربایوف اینڈ سنز لمیٹڈ‘‘کا نام دیا جا سکتا ہے۔ تمام اہم سرکاری محکموں اور عہدوں پر اس کے گھرانے کے افراد یا اقربا متمکن ہیں۔ سرکاری ٹیلی وژن اور کانگرس آف قازقستان جرنلسٹ کی سربراہ صدر کی بیٹی ڈوریگو ہیں۔ اس طرح انکم ٹیکس‘کسٹم دیگر اہم سرکاری ادارے بھی اقربا پروری کے کھلے ثبوت ہیں۔

ملکی سرمایہ بیرونِ ملک میںکس طرح منتقل کیا جا رہا ہے‘ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ امریکی تیل کمپنی Exxon Mobil سے وصول کردہ تیل اور گیس کے ایک ارب ڈالر ریونیو کو نذربایوف اور ان کے رشتے داروں کے سوئس بنک اکائونٹس میں خاموشی سے منتقل کر دیا گیا۔ کچھ سوئس اکائونٹس منجمد کیے جانے پر صدر نذر بایوف نے خود دورہ کیا اور کہا جاتا ہے کہ سرکاری خرچ پر کیا جانے والا یہ دورہ دراصل اکائونٹس کی بحالی کے لیے کیا گیاتھا۔ اسے ’’قازق گیٹ‘‘ سکینڈل کہا جاتا ہے۔

اپوزیشن کو ہراساں کرنا معمول ہے۔ اپوزیشن رہنمائوں کی نگرانی کی جاتی ہے اور فون ٹیپ کیے جاتے ہیں۔ مخالفین کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے اور نمایاں رہنمائوں کو جلاوطن کر دیا گیا ہے۔ ۱۹۹۹ء کے انتخاب میں صدر دوبارہ منتخب ہوئے لیکن کھلی دھاندلی سے۔

اپوزیشن کو غیرمستحکم کرنے کے لیے بھی صدر نذر بایوف نے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ ۱۹۹۸ء میں انتخابی ضابطے میں تبدیلی کی گئی جس کے نتیجے میں نمایاں اپوزیشن رہنمائوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا۔ اسی سال آرٹیکل ۷ کے تحت مذہبی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اکتوبر ۱۹۹۹ء میں پارٹی رجسٹریشن کے قانون میں تبدیلی کردی گئی۔ نمایندوں کے لیے قازق زبان کا ایک امتحان لازم قرار دے دیا گیا۔ رجسٹریشن کے لیے بہت بھاری فیس عائد کر دی گئی۔ ۲۰۰۲ء میں سیاسی پارٹیوں کے قانون میں مزید تبدیلی کر کے پارٹی کی رجسٹریشن کے لیے ۵۰ ہزار ممبران کی شرط لازم قرار دے دی گئی۔ اس طرح ملک کی نمایاں جماعتوں‘ جیسے ڈیموکریٹک چوائس آف قازقستان اور ری پبلکن نیشنل پارٹی آف قازقستان پر عملاً پابندی عائد ہو گئی۔ اس کے علاوہ مختلف حربوں اور دبائو سے جماعتوں اور ان کے سربراہوں کو ہراساں کیا گیا‘ جرمانے عائد کیے گئے‘جیل میں ڈالا گیا اور قاتلانہ حملے کیے گئے۔ سابق وزیراعظم اور RNPK کے سربراہ پر ہتھیار رکھنے کا الزام لگایا گیا اور انھیں بھاری جرمانہ کیا گیا۔

اپوزیشن کی سرگرمیوں کو جبراً روکا گیا۔ اپوزیشن رہنمائوں کو گھروں میں نظربند کر دیا گیا اور گھروں پر حملے کروائے گئے۔ ۱۹۹۹ء میں اپوزیشن رہنما الیکسی مورٹینوف کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انھیں قتل کی دھمکیاں دی گئیں ‘ مجبوراً انھیں ملک چھوڑنا پڑا۔ قازقستان کے پریس اور میڈیا کو ہراساں کرنے کا حکومتی ریکارڈ بھی اچھا خاصا طویل ہے۔

ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت نے جرنلسٹ ایڈوائزری کونسل تشکیل دی تاکہ آزاد میڈیا کو کنٹرول کیا جا سکے۔ گذشتہ چند سالوں میں کئی اخبارات‘ پرائیویٹ ٹی وی چینل اور ریڈیو اسٹیشن پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ معروف صحافی لوزی مفک ایک ٹریفک حادثے کی نذر کر دیے گئے اور ان کی جان چلی گئی۔ محض اس لیے کہ وہ ’’قازق گیٹ‘‘ سکینڈل کے کئی رازوں سے واقف تھے۔ صحافیوں کا اغوا‘ تشدد‘ قتل اور مختلف پابندیوں کی ایک طویل فہرست ہے جو اس ضمن میں بیان کی جا سکتی ہے۔

قازقستان انٹرنیشنل بیورو فار ہیومن رائٹس اور رول آف لا کی رپورٹس کے مطابق پولیس گردی اور قید میں جبروتشدد بہت عام ہے۔ امن و امان کی صورت حال دگرگوں ہے۔ حکومت توجہ دلانے کے باوجود کوئی قدم نہیں اٹھاتی۔ ۲۰۰۱ء میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تسلیم کیا کہ نصف سے زیادہ گرفتاریاں غیرقانونی تھیں۔ ۲۰۰۱ء کے ابتدائی چند ماہ میں ۳ ہزار ۵ سو افراد کو بغیر کسی جرم کے قید کر دیا گیا۔ اسی طرح ۴ ہزار ۳ سو افراد کو ابتدائی تفتیشی مراکز میں گرفتار کر لیا گیا۔

حکومت کی اس تمام تر غیر جمہوری‘ غیرانسانی اور غیر اخلاقی روش کو امریکہ کی مکمل   پشت پناہی حاصل ہے۔ حکومت پر کسی قسم کا کوئی بیرونی دبائو نہیں ہے۔ نذر بایوف نے امریکی نائب صدر ڈک چینی سے ملاقات کے بعد کہا: ’’انھوں نے ہماری کامیابی کو سراہا ہے اور ہمیں امریکی حکومت کی تائید حاصل ہے‘‘۔ امریکہ نے حکومت سے کئی معاہدے بھی کیے ہیں۔ اسے امریکہ کا مکمل فوجی تعاون حاصل ہے۔ امریکہ نے وسطی ایشیا میں اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے قازقستان میں مستقل اڈے بنا رکھے ہیں‘ فوجی مشقیں کی جاتی ہیں۔ اکتوبر۲۰۰۲ء میں پنٹاگون نے کئی ملین ڈالر کی فوجی امداد کا اعلان بھی کیا ہے۔ نومبر ۲۰۰۲ء میں امریکی کامرس سیکرٹری اور قازقستان کے ڈپٹی وزیراعظم کے درمیان ایک ملاقات بھی ہوئی جس میں تیل کے معاہدے‘ امریکی تیل کمپنی Charron Texaco Corp کا قازقستان میں کردار بھی زیربحث آیا۔

قازقستان میں نذر بایوف حکومت کی امریکہ کی مکمل پشت پناہی بہت سے خدشات کو جنم دے رہی ہے۔ اس نوعیت کی پالیسیاں دنیا بھرمیں بگاڑ اور عدمِ توازن کا باعث بن رہی ہیں۔ یہ روش زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔ وسطی ایشیا کے مسلمان اپنے حقوق کی جنگ بڑی ہمت‘ صبرواستقامت اور ثابت قدمی و پامردی سے لڑ رہے ہیں۔ ان کی یہ جدوجہد ایک روز ضرور رنگ لائے گی۔ ان شاء اللہ! (ماخوذ:  کریسنٹ انٹرنیشنل‘ ۱۶-۳۰ جون ۲۰۰۳ئ‘ اکانومسٹ ۱۷مئی ۲۰۰۳ئ)

ملکی سیاست میں فوج کا کردار اس وقت ہمارے ملک میں ایک گرم موضوع ہے۔ اس حوالے سے ہمارے لیے انڈونیشیا سے آنے والی یہ خبرآنکھیں کھولنے والی ہونا چاہیے کہ وہاں کے دستور میں سے فوج کا کردار ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ کردار اس سے بہت زیادہ تھا جتنا ہمارے ہاں اس بہانے تجویز کیا جا رہا ہے کہ فوج کو بار بار مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ انڈونیشیا میں تو منتخب اسمبلی میں فوج کے نامزد نمایندے بطور ممبر بیٹھتے تھے اور صدر کے انتخاب میں فیصلہ کن ووٹ ڈالتے تھے۔۳۰ سال کی سہارتوکی فوجی حکومت کے بعد جب جمہوری حکومتوں نے اقتدار سنبھالا تو ملک کی اصل تصویر عوام کے سامنے آئی۔ خوش حالی کے دعوئوں اور  پٹرولیم‘ گیس‘ ٹیکسٹائل‘ سیمنٹ‘ لکڑی‘ربڑ اور سیاحت کی وسیع صنعتیں موجود ہونے کے باوجود‘ غربت اور  بے روزگاری عام ہے اور ملک کے شہری پریشان حال ہیں۔ عوام آج بھی راہ نجات کی تلاش میں ہیں۔

عبدالرحمن واحد کی ناکامی کے بعد انڈونیشیا پر اس وقت سوئیکارنو کی بیٹی میگاوتی بطور صدر حکومت کررہی ہیں جو سیکولر ہیں اور جمہوری پارٹی کی سربراہ ہیں۔ ۱۹۹۹ء کے انتخابات میں ان کی جمہوری پارٹی نے ۱۵۴ اور سہارتوکی سابق حکمران گولکر پارٹی نے ۱۲۰ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ دائیں بازو کی اسلام پسند پارٹی یونائٹیڈڈویلپمنٹ پارٹی کے سربراہ حمزہ حاذ اس وقت ملک کے نائب صدر ہیں۔ اس نے ۵۸نشستیں حاصل کی تھیں۔ یہ سیکولر پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرتی ہے۔ ابھی حال ہی میں جب انڈونیشیا میں جعفر عمرطالب اور ابوبکر بشیر کو القاعدہ سے رابطے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو حمزہ حاذ نے بلاتکلف جیل جاکر ان سے ملاقات کی۔ اسمبلی کے اسپیکر امین رئیس کی قومی بیداری پارٹی نے ۳۵ نشستیں حاصل کیں۔ یہ دونوں پارٹیاں اور نہضۃ العلما اسلامی قوتوں کی ترجمان ہیں۔ سہارتو کے خلاف تحریک میں ان کا نمایاں کردار تھا اور اب بھی دستور میں ترامیم کے وقت انھوں نے ملکی قوانین میں اسلامی شریعت کی بالادستی کے لیے منظم کوشش کی لیکن یہ ترمیم دستور میں نہ ہو سکی۔ اس پر نیوزویک نے یہ تبصرہ بھی دیا کہ: ’’دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک کی اکثریت نے اسلام کو بحیثیت ملک کے قانون کو مسترد کر دیا‘‘۔

نظام حکومت میں شریعت اسلامی کی بالادستی کی علم بردار ایک پارٹی انصاف پارٹی ہے۔ جس کو سات نشستیں ملی تھیں۔ اس نے نوجوان نسل کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ اس کے ۳ لاکھ ممبر ہیں۔ اس کے سیکرٹری جنرل لطفی حسن اسحاق گذشتہ دنوں پاکستان آئے تو انھوں نے ایک ملاقات میں بتایا کہ ۵ فی صد چینی النسل آبادی نے ملک کی معیشت کو جکڑ رکھا ہے۔

مشرقی تیمور کی آزادی کے بعد وہاں آچے‘ پاپوا‘ ایم بون‘ سلاویسی میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ آچے کے عوام اسلامی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی خبریں برابر آتی رہتی ہیں۔ ایک عنصرعیسائی مسلم فسادات کا بھی ہے۔ سہارتو کے دور میں عیسائیوں نے بہت پیش رفت کی۔ ۱۹۵۵ء میں جو مسلمان۹۵ فی صد تھے‘ ۱۹۸۰ء میں ۸۷ فی صد رہ گئے۔ کلیسا اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہے اور انڈونیشیا ان کا سوچا سمجھا ہدف ہے۔

۲۰۰۴ء میں صدارتی انتخاب ہونے ہیں۔ نئی دستوری ترمیم کے مطابق یہ اب براہِ راست ہوں گے۔ پہلے کی طرح اسمبلی کے ذریعے بالواسطہ نہیں۔اس موقع پر یقینا اسلام اور سیکولر قوتوں کا پولرائزیشن ہوگا۔ نیوزویک نے اس سال سنٹر فار انٹرنیشنل کارپوریشن کے حوالے سے ایک سروے رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق۵۸ فی صد آبادی نے یہ پسند کیا تھا کہ انڈونیشیا کے تمام جزائر میں شریعت کی بالادستی بالفعل ہونا چاہیے۔ ملک کے حالات ابتر ہیں‘ اقتصادیات تباہ ہیں۔ اگر اسلامی قوتیں ایک پلیٹ فارم بناکرعوام کے سامنے آئیں تو بالکل ممکن ہے کہ آیندہ انتخاب میں حمزہ حاذ بطور صدرمملکت کامیاب ہو جائیں۔

امریکہ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے عالمی تجارتی مرکز پر حملوں کی آڑ میں دنیا بھر میں رفاہی کام کرنے والی مسلم تنظیموں اور اداروں تک کو مفلوج کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ دہشت گردی کے نام پر القاعدہ قرار دے کر ہر کسی کو پکڑا جا رہا ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کے خدمت خلق اور رفاہی ادارے‘ جو پریشان حال مسلمانوں کوکسی نہ کسی طور پر سنبھالے ہوئے ہیں‘ ان کے دفاتر بند کرنے اور اثاثے منجمد کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور دفاتر سے وابستہ کارکنوں کو تفتیش کے ذریعے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر داڑھی والے اور عرب رہن سہن کے حامل افرادان کا نشانہ ہیں۔ اس کا ایک مقصد فعال مسلمانوں کا گھیرائو ہے اور دوسرا یہ کہ رفاہی اداروں کو بند کر کے ‘ وسائل کی فراہمی کو منقطع کر کے مسلمانوں کو بے یارومددگار اور بے بس و لاچار کردیا جائے‘ اور بڑی جدوجہد کے بعد مسلمانوں نے امداد باہمی اور فلاح و بہبود کا جو نظام وضع کیا ہے‘ اسے برباد کر دیا جائے۔ مزید برآں امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے دنیا بھر کے ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع بھی مل رہا ہے۔

پکڑ دھکڑ کا یہ عمل افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے دنیا بھر میں جاری ہے۔ امریکہ‘ یورپی ممالک‘ عرب ممالک‘ جنوبی ایشیا‘ وسطی ایشیا‘ فلپائن اور دیگر ممالک کے بارے میں ایسی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ امریکہ کے دبائو پر حال ہی میں پاکستان میں فیصل آباد اور لاہور میں بھی القاعدہ سے وابستہ افراد کے نام پر پکڑ دھکڑ میں بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ معصوم اور بے گناہ افراد کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ لاہورسے کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا کہ وہ عربی بول رہے تھے۔ بعد میں پتا چلا کہ ان کا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عدل و انصاف اور قانون اور ضابطے کی یوں سرعام پامالی کی جا رہی ہے۔ کچھ ایسا ہی منظر بلقان کی ریاستوں میں بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔

بلقان کے خطے میں ۱۱ ستمبر کے بعد ہی سے اسلام پسندوں اور فلاحی اداروں سے وابستہ ارکان کے خلاف امریکہ کے زیرنگرانی کریک ڈائون کا عمل جاری ہے۔ ۱۸ جنوری ۲۰۰۲ء کو اس ضمن میں ایک اہم واقعہ اس وقت پیش آیا جب بوسنیا کی حکومت نے امریکی حکام اور خفیہ اداروں کے کہنے پر چھ الجزائری باشندوں کو گرفتار کرلیا اور ان کے بارے میں اس شبہے کا اظہار کیا کہ ان کا تعلق القاعدہ سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق دو اسلامی مسلح گروپوں: الجزائر آرمڈ اسلامک گروپ اور مصر کے الجمعیہ الاسلامیہ کے ساتھ ہے۔ لیکن کھلا تضاد یہ ہے کہ انھیں امریکی حکام کے حوالے بوسنیا کی سپریم کورٹ کے فیصلے کے صرف ایک روز بعد ہی رہا کر دیا گیا جس میں انھیں کسی ثبوت کے نہ ہونے کی وجہ سے بے گناہ قرار دے کر رہا کر دیا گیا تھا۔ گمان ہے کہ ان چھ افراد کو بھی گنٹانامو میں دیگر افغان قیدیوں کے ساتھ منتقل کر دیا گیا ہے۔

اس سے قبل بھی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے تین عرب باشندوں کو کوسووا میں نیٹو کی سربراہی میں کے-فار (K-For) آپریشن کے تحت گرفتار کیا گیا۔ یہ گرفتاری گلوبل ریلیف فائونڈیشن کے دفتر کوسووا میں عمل میں آئی اور اسے ۱۴ دسمبر ۲۰۰۱ء کے آپریشن کے تحت گرفتاریوں کے تسلسل کا ایک حصہ قرار دیا گیا۔ کے-فار کے نمایندے کے بیان کے مطابق ایک مشترکہ سرچ آپریشن اقوام متحدہ کی پولیس کے تعاون سے پریسٹینا اور ڈی جیکوویکا میں گلوبل ریلیف فائونڈیشن کے دفاتر میں بھی کیا جا چکا ہے جس کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا اور بہت سی دستاویزات اورسامان بھی پکڑا گیا۔ گرفتار شدہ ان تین افراد کے نام تک نہیں بتائے جا رہے بلکہ صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ یہ عرب باشندے ہیں جن سے مشکوک مواد برآمد ہوا ہے۔ مقامی پریس کے مطابق تین میں دو عراقی ہیں‘ جب کہ تیسرا شخص کوئی عرب ہے۔

کے-فار کے مطابق ان کے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں کہ فائونڈیشن کے ملازمین عالمی دہشت گردی کی سرگرمیوں میں براہِ راست ملوث ہیں۔ ترجمان کے مطابق گلوبل ریلیف فائونڈیشن مبینہ طور پر امریکہ اور یورپ کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی میں بھی شامل ہے۔ البتہ کے-فار القاعدہ سے وابستگی یا کسی دوسری سرگرمی میں تنظیم کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت پیش کرنے کے لیے تیار نہیں۔انسانی حقوق کی علاقائی تنظیمیں اس اقدام کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کے مطابق اس بیان میں کوئی حقیقت نہیں۔

کوسووا میں ان اقدامات سے قبل ایف بی آئی نے شکاگو کے نزدیک گلوبل ریلیف اور بینوویلنس انٹرنیشنل کے مرکزی دفاتر پر چھاپہ مارا۔ دونوں اداروںنے جو ہر سال لاکھوں ڈالر جمع کر کے عالم اسلام میں مختلف فلاحی امور میں تقسیم کرتے ہیں‘ ان الزامات کو غلط قرار دیا اور اس بات کی قطعی تردید کی کہ ان کا القاعدہ یا کسی بھی دوسرے ایسے گروپ سے کوئی تعلق ہے۔ ربیح حدید کو جو لبنانی ہیں‘ گلوبل ریلیف کے صدر ہیں اور مشی گن میں رہایش پذیر ہیں‘ ۱۴ دسمبر کو ٹورسٹ ویزے کی مقررہ میعاد سے زیادہ قیام کرنے پر یوایس امیگریشن ڈیپارٹمنٹ نے گرفتار کرلیا۔

امریکی دبائو کے تحت بوسنیا کی حکومت نے بھی سرچ آپریشن کیا اور اس کے تحت دو فلاحی تنظیموں گلوبل ریلیف اور Talibah انٹرنیشنل کے دفاترپر سراجیوو میں چھاپہ مارا‘ اہم دستاویزات کو قبضے میں لے لیا اور سات ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی۔

بلقان کی دیگر حکومتوں کی طرح البانیہ نے بھی امریکہ کا’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ البانوی وزیرداخلہ Ilir Gjoni نے ۱۵ ستمبر کو ایک اعلامیے کے تحت پولیس کو حکم دیا کہ وہ ملک بھر میں مقیم عرب باشندوں پر کڑی نگاہ رکھے اور ملک میں داخل ہونے والے اسلام پسند دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کے لیے ہرممکن اقدام کرے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے البانوی پولیس ایف بی آئی کے ساتھ مکمل تعاون کر رہی ہے۔ اکتوبر میں ایک قانون کے تحت امریکی حکام کو دہشت گردوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ملک بھر میں اقدامات کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔ ۶ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو تِرانہ میں پانچ عرب باشندوں کو جن میں دو مصری‘ دو عراقی اور ایک اُردنی شامل ہے‘ ۱۱ ستمبر کے واقعے کی تحقیقات کے سلسلے میں گرفتار کر لیا گیا۔

۲۲ جنوری ۲۰۰۲ء کو البانوی حکومت نے یسین القادی کو جو ایک سعودی تاجر اور موافق فائونڈیشن کا سرپرست تھا‘ گرفتار کر لیا۔ ۱۳ البانوی بنکوں میں موجود لاکھوں ڈالر کے اس ادارے کے اثاثے منجمد کردیے۔ موافق ان رفاہی اداروں میں سے ایک ہے جس پر امریکہ نے الزام لگایا ہے کہ اس کا القاعدہ سے تعلق ہے۔ قادی اسلامک ڈویلپمنٹ بنک کے اشتراک سے بننے والی ایک تعمیراتی کمپنی کا پارٹنر ہے۔ البانیہ میں اس کے بہت سے تعمیراتی منصوبے جاری تھے۔

۱۱ ستمبر کے بعد امریکی حکام نے بوسنیا کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کی تحقیق کرے کہ ۱۹خودکش ہوا بازوں میں سے کس کا تعلق بوسنیا سے ہے۔عملاً ناکامی کے بعد مزید کچھ ناموں کی فہرست بھی دی گئی جن کا تعلق دہشت گردی سے جوڑا گیا تھا‘ البتہ نام ظاہر نہیں کیے گئے۔

مختصر اًیہ کہ بلقان کے خطے میں امریکی حکام نے مختلف بیانات اور اقدامات کے ذریعے مسلسل ایک خوف و ہراس کی فضا قائم کر رکھی ہے۔ کبھی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو بند کرنے کے احکام جاری کیے جاتے ہیں کہ دہشت گردی کا خدشہ ہے۔ Carla del Ponte نے جو کہ ہیگ میں بین الاقوامی   جنگی جرائم ٹریبونل کی وکیل ہیں‘ نے ایک بیان میں کہا کہ القاعدہ سے وابستہ گروپ پورے بلقان میں منظم ہیں اور ٹربیونل ان کی سرگرمیوں کی تفصیلات جمع کر رہا ہے لیکن وہ کسی قسم کی سرگرمی کی نشان دہی نہیں کر سکیں۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل‘ جارج رابرٹسن نے اعلان کیا کہ کوسووا میں القاعدہ کے سیل دریافت ہو چکے ہیں۔  سرب وزیر داخلہ نے ایک بیان میں کہا کہ کوسووا میں بن لادن سے وابستہ مسلمان مجاہدین کے بارے میں اس نے امریکہ کو معلومات فراہم کی ہیں جو کوسووا‘ بوسنیا اور البانیہ میں تربیتی کیمپ چلا رہے ہیں۔ سرب نائب وزیراعظم Nebojsa Covic نے کہا کہ کوسووا میں سیکڑوں بن لادن پائے جاتے ہیں مگر ابراہیم روگوا‘ صدر ڈیمو کریٹک الائنس آف کوسووا نے اسے محض سرب پروپیگنڈا قرار دیا۔

سرب اور مقدونیا میڈیا اس پروپیگنڈے کو خوب اُچھال رہا ہے۔ اس قسم کی رپورٹیں شائع کی جارہی ہیں کہ بلقان میں ۱۰ ہزار کے قریب عرب اور مسلمان مجاہدین موجود ہیں جو بن لادن کے حمایتی ہیں اور کچھ القاعدہ سے مالی امداد بھی وصول کرتے رہے ہیں۔ ان رپورٹوں میں اس بات کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ مسلمان مجاہدین اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے رفاہی اداروں کی آڑ لیے ہوئے ہیں۔

ان حالات کے پیش نظر ۱۱ ستمبر کے بعد بلقان کی ریاستوں کی صورت حال دنیا کے دیگر مسلمان ممالک سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آتی۔ امریکہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ’’دہشت گردی کے خاتمے‘‘کی آڑ میں مسلمانوں‘ اسلامی تحریکوں اور مسلم رفاہی اداروں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گیا ہے اور اس مقصد کے لیے اسے کسی بھی طرح کے اقدامات کرنے میں کوئی تامل نہیں ہے۔ اس کڑے وقت میں اُمت مسلمہ کو اپنے وجود اور زندگی کا ثبوت دینا چاہیے۔ دنیا میں صرف مسلمان ہی امن و انصاف کی یقینی ضمانت کے نظریے کے حامل ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکہ کی غیر منصفانہ اور غیر معتدل پالیسی کے مقابلے کے لیے حکمت عملی وضع کی جائے‘ رائے عامہ کو ہر سطح پر ہموار کیا جائے‘ امریکی پالیسی سے خائف مغربی ممالک سے رابطہ کیا جائے‘ سفارتی کوششیں تیز کی جائیں‘ انسانی حقوق کی تنظیموں کا تعاون حاصل کیا جائے اور ایک بھرپور‘ پرامن مہم چلائی جائے۔ ظلم کے خلاف اور امن و انصاف کے لیے جدوجہد کے نتیجے میں دنیا میں ایک نئی لہر دوڑائی جا سکتی ہے۔ (ماخوذ: کریسنٹ انٹرنیشنل‘ کینیڈا‘ ۲۸ فروری ۲۰۰۲ء)

 

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ تم پر روزے فرض کر دیے گئے‘ جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔ چند مقرر دنوں کے روزے ہیں۔ اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو‘ یا سفر پر ہو تو دُوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے۔ اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں) تو وہ فدیہ دیں۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے‘ تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے لیکن اگر تم سمجھو‘ تو تمھارے حق میں اچھا یہی ہے کہ روزہ رکھو۔ (البقرہ ۲:۱۸۳-۱۸۴)

اللہ تعالیٰ اِس اُمت کے ایمان داروں کو مخاطب کر کے انھیں حکم دے رہا ہے کہ روزے رکھو۔  روزے کے معنی اللہ تعالیٰ کے فرمان کی بجاآوری کی خالص نیت کے ساتھ کھانے پینے اور جماع سے رُک جانے کے ہیں۔ اس سے فائدہ یہ ہے کہ نفس انسان پاک صاف اور طیب و طاہر ہو جاتا ہے ۔ اور واہی ]بے ہودہ[اخلاق سے انسان کا تنقیہ ]تزکیہ [ہو جاتا ہے۔ اس حکم کے ساتھ ہی فرماتا ہے کہ اس حکم کے ساتھ تم تنہا نہیں بلکہ تم سے اگلوں کو بھی روزے کا حکم تھا۔ اس بیان سے یہ بھی مقصود ہے کہ یہ اُمت اس فریضہ کی بجاآوری میں اگلی اُمتوں سے پیچھے نہ رہ جائے جیسے اور جگہ ہے لِکُلِّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجًا  ‘ یعنی ہر ایک کے لیے ایک طریقہ اور راستہ ہے اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ایک ہی اُمت کر دیتا لیکن وہ تمھیں آزما رہا ہے۔ تمھیں چاہیے کہ نیکیوں میں سبقت کرتے رہو۔ یہی یہاں بھی فرمایا کہ تم پر بھی روزے اسی طرح فرض ہیں جس طرح تم سے اگلوں پر تھے۔ روزے سے بدن کی پاکیزگی ہے اور شیطانی راہ کی روک ہے۔صحیحین میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اے جوانو! تم میں سے جسے نکاح کی طاقت ہو وہ نکاح کر لے اور جسے طاقت نہ ہو وہ روزے رکھے۔ اس لیے کہ یہ شہوت کو کمزور کرتا ہے۔ پھر روزوں کی مقدار بیان ہو رہی ہے کہ یہ چند دن ہی ہیں تاکہ کسی پر بھاری نہ پڑے اور ادایگی سے قاصر نہ رہ جائے بلکہ ذوق وشوق سے اس خدائی فریضے کو بجا لائے۔ پہلے تو ہر ماہ میں تین روزوں کا حکم تھا۔ پھر رمضان کے روزوں کا حکم ہوا اور اگلا حکم منسوخ ہوا۔ (تفسیرابن کثیر‘ ج ۱‘ ص ۱۸۹)

روزہ

صیام جمع ہے صوم کی۔ صوم اور روزہ اصطلاحِ شریعت میں اسے کہتے ہیں کہ انسان طلوع فجر سے غروب آفتاب تک اپنے کو کھانے پینے اور عملِ زوجیت سے روکے رہے۔ جو روزے فرض ہیں وہ ماہِ رمضان کے ہیں۔ غیبت‘ فحش‘ بدزبانی وغیرہ زبان کے تمام گناہوں سے روزے میں بچے رہنے کی سخت تاکیدیں حدیث میں آئی ہیں۔ جدید و قدیم سب طبیں اس پر متفق ہیں کہ روزہ جسمانی بیماریوں کے دُور کرنے کا بہترین علاج اور جسم انسانی کے لیے ایک بہترین مصلح ہے۔ پھر اس سے سپاہیانہ ہمت اور ضبط نفس کی رُوح جو ساری اُمت میں تازہ ہو جاتی ہے‘ اُس کے لحاظ سے بھی مہینہ بھر کی یہ سالانہ مشق ایک بہترین نسخہ ہے۔ (تفسیر ماجدی‘ مولانا عبدالماجد دریابادیؒ، ص ۶۸)

صوم اور صیام مصدر ہیں۔ صوم کے لغوی معنی کسی شے سے رک جانے اور اس کو ترک کرنے کے ہیں۔ صام الفرس صومًا کے معنی ہیں گھوڑے نے چارہ نہیں کھایا۔ نابغہ کا شعر ہے    ؎

خیل صیام وخیل غیر صائمۃ
تحت العجاج واخری تعلک اللجما

بہت سے بھوکے اور بہت سے آسودہ گھوڑے میدانِ جنگ کے غبار میں کھڑے تھے اور دوسرے بہت سے اپنی لگامیں چبا رہے تھے۔

مولانا فراہی ؒ لفظ صوم کی تحقیق کے سلسلے میں اپنی کتاب اصول الشرائع میں فرماتے ہیں: ’’اہل عرب اپنے گھوڑوں اور اُونٹوں کو بھوک اور پیاس کا عادی بنانے کے لیے باقاعدہ ان کی تربیت کرتے تھے تاکہ مشکل اوقات میں وہ زیادہ سے زیادہ سختی برداشت کرسکیں۔ اسی طرح وہ اپنے گھوڑوں کو تند ہوا کے مقابلے کی بھی تربیت دیتے تھے۔ یہ چیز سفر اور جنگ کے حالات میں‘ جب کہ ہوا کے تھپیڑوں سے سابقہ پیش آجائے‘ بڑی کام آنے والی ہے… جریر نے اپنے ایک شعر میں ان دونوں باتوں کا حوالہ دیا ہے‘ وہ کہتا ہے    ؎

ظللنا بمستن الحرور کاننا
لدی فرس مستقبل الریح صائم

ہم لُو کے تھپیڑوں کی جگہ جمے رہے گویا ہم ایک ایسے گھوڑے کے ساتھ کھڑے ہوں جو بادِ تند کا مقابلہ کر رہا ہو اور روزہ رکھے ہوئے ہو

اس شعر میںاس نے اپنے اور اپنے ساتھیوں کے حال کی تشبیہ ایک ایسے شخص سے دی ہے جو اپنے گھوڑے کے ساتھ کھڑا ہو اور اس کو بھوک اور بادِ تند کے مقابلے کی تربیت دے رہا ہو۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ اہل عرب تشبیہ کے لیے انھی چیزوں کو استعمال کرتے ہیں جو ان کے عام تجربے میں آئی ہوں۔ ان کو نادر چیزوں کی تلاش زیادہ نہیں ہوتی… الغرض گھوڑوں کے صوم کے بارے میں اشعار بہت ہیں‘‘۔

اسی سے صائم ہے جس کے معنی وہ شخص جو کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے رک جائے۔ اس کے لیے کچھ مخصوص شرعی حدود و قیود ہیں جن کی تفصیل قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ (تدبر قرآن‘ مولانا امین احسن اصلاحیؒ، ج ۱‘ ص ۴۰۰-۴۰۱)

روزہ دوسری اُمتوں میں

روزہ کسی نہ کسی صورت میں تو دنیا کے تقریباً ہر مذہب اور ہر قوم میں پایا جاتا ہے‘ جیسا کہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا‘ طبع چہاردہم کی جلد ۹‘ ص ۱۰۶ اور جلد ۱۰‘ ص ۱۹۳ سے ظاہر ہے لیکن قرآن کو مشرکانہ مذہبوں سے بحث نہیں۔ الذین من قبلکم سے اس کی اصل مراد اہل کتاب ہی سے ہو سکتی ہے۔ چنانچہ روزہ شریعت موسوی کا ایک اہم اور مشہور جزو ہے۔ مذاہب عالم سے اِتنی گہری واقفیت‘ کہ صاف صاف اُن میں روزے کے جزو مذہب ہونے کی خبر دے دی‘ ڈاک اور ریل کے زمانے سے صدیوں قبل اور اخبارات اور کتب خانوں کے دَور سے ہزار بارہ سو سال پیش تر عرب جیسے دُور افتادہ اور دنیا کے ہر ملک سے بے تعلق جزیرہ نما میں ایک اُمّی کے لیے کسی طرح ممکن نہیں--- بجز وحی الٰہی کے توسط کے۔ (تفسیر ماجدی‘ ص ۶۸)

پہلی اُمتوں میں سے نصاریٰ پر روزہ فرض ہونے کا بیان ایک حدیث میں اس طرح آیا ہے کہ نصاریٰ پر ماہِ رمضان کا روزہ فرض ہوا تھا ۔اُن کا کوئی بادشاہ بیمار ہوا تو اُس کی قوم نے نذر مانی کہ اگر بادشاہ کو شفا ہو جائے تو ہم ۱۰ روزے اور اضافہ کر دیں گے۔ پھر اور کوئی بادشاہ بیمار ہوا اُس کی صحت پر سات کا اور اضافہ ہوا۔ پھر تیسرا بادشاہ ہوا سو اُس نے تجویز کیا کہ ۵۰ میں ۳ ہی کی کسر رہ گئی ہے لائو تین اور بڑھا لیں اور ایام بیع میں سب رکھ لیا کریں۔ (بیان القرآن‘ مولانا اشرف علی تھانویؒ ‘ ج ۱‘ ص ۱۰۲)

حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے سے ہر مہینے میں تین روزوں کا حکم ہوا جو حضورؐ کی اُمت کے لیے بدلا اور ان پر اس مبارک مہینہ کے روزے فرض ہوئے۔ حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ اگلی اُمتوں پر بھی ایک مہینے کامل کے روزے فرض تھے۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ رمضان کے روزے تم سے اگلی اُمتوں پر بھی فرض تھے۔ حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ اگلی اُمتوں کو یہ حکم تھاکہ جب وہ عشا کی نماز ادا کر لیں اور سو جائیں تو اُن پر کھانا پینا‘ عورتوں سے مباشرت کرنا حرام ہو جاتا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیںاگلے لوگوں سے مراد اہل کتاب ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر‘ ص ۱۸۹)

روزہ تعمیل ارشادِ خداوندی میں تزکیۂ نفس ‘ تربیت ِجسم دونوں کا ایک بہترین دستورالعمل ہے۔ اشخاص کے انفرادی اور اُمت کے اجتماعی ہر دو نقطۂ نظر سے۔ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ کے ارشاد سے اسلامی روزے کی اصل غرض و غایت کی تصریح ہو گئی کہ اس سے مقصود تقویٰ کی عادت ڈالنا اور اُمت و افراد کو متقی بنانا ہے۔ تقویٰ انفس کی ایک مستقل کیفیت کا نام ہے جس طرح مضر غذائوں اور مضر عادتوں سے احتیاط رکھنے سے جسمانی صحت درست ہو جاتی ہے اور مادی لذتوں سے لُطف و انبساط کی صلاحیت زیادہ پیدا ہو جاتی ہے‘ بھوک خوب کھل کر لگنے لگتی ہے‘ خون صالح پیدا ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح اس عالم میں تقویٰ اختیار کر لینے سے (یعنی جتنی عادتیں صحت روحانی و حیاتِ اخلاقی کے حق میں مضر ہیں‘ ان سے بچے رہنے سے) عالم آخرت کی لذتوں اور نعمتوں سے لطف اُٹھانے کی صلاحیت و استعداد انسان میں پوری طرح پیدا ہو کر رہتی ہے۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں اسلامی روزے کی افضلیت تمام دوسری قوموں کے گرے پڑے روزوں پر علانیہ ثابت ہوتی ہے‘ اور خیر مشرک قوموں کے ناقص ‘ ادھورے اور براے نام روزوں کا تو ذکر ہی نہیں‘ خود مسیحی اور یہودی روزوں کی حقیقت بس اتنی ہے کہ وہ یا تو کسی بلاکو دفع کرنے کے لیے رکھے جاتے ہیں‘ یا کسی فوری اور مخصوص روحانی کیفیت کے حاصل کرنے کو۔ یہود کی قاموس اعظم جیوش انسائیکلوپیڈیا میں ہے: قدیم زمانے میں روزہ یا تو بطور علامت ِ ماتم کے رکھا جاتا تھا ‘ اور یا جب کوئی خطرہ درپیش ہوتا تھا ‘ اور یا پھر جب سالک اپنے میں قبولِ الہام کی استعداد پیدا کرنا چاہتا تھا‘‘ (جلد ۵‘ ص ۳۴۷)۔ (تفسیر ماجدی‘ ص ۶۸۰)

تقویٰ : روزے کی غرض و غایت

یہ ایک فطری بات ہے کہ جس اُمت پر اللہ کے نظام کو دنیا میں قائم کرنے ‘ اور اس کے ذریعے نوعِ انسانی کی قیادت کرنے اور انسانوں کے سامنے حق کی گواہی دینے کے لیے جہاد فی سبیل اللہ فرض کیا جائے‘ اُس پر روزہ فرض ہو۔ روزے ہی سے انسان میں محکم ارادے اور عزم بالجزم کا نشوونما ہوتا ہے۔ روزہ ہی وہ مقام ہے جہاں بندہ اپنے رب سے اطاعت و انقیاد کے ساتھ مربوط ہوتا ہے۔ پھر روزہ ہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے انسان تمام جسمانی ضرورتوں پر قابو پاتا اور تمام دشواریوں اور زحمتوں کو--- جو وہ صرف اس لیے اٹھاتا ہے کہ اُس کا خدا اُس سے راضی ہو اور خدا کے یہاں جو اجر ہے‘ وہ اُسے حاصل ہو --- برداشت کرنے کی قوت حاصل کرتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اِس راہ کی‘ جو گھاٹیوں اور کانٹوں سے بھری ہوئی ہے‘ جس کے اطراف و جوانب میں مرغوبات و لذائذ بکھرے پڑے ہیں‘ اور جس پر چلنے والوں کو بہکانے والی ہزارہا صدائیں مسلسل اٹھتی رہتی ہیں--- مشقتوں اور صعوبتوں کو برداشت کرنے کے لیے نفوسِ انسانی کی تیاری کے مقصد کے لیے یہ عناصر لازمی و ناگزیر ہیں۔

اللہ تعالیٰ روزے کے ذکر کی ابتدا اُس ندا سے کرتا ہے جو اہل ایمان کو محبوب ہے۔ اس طرح وہ انھیں ان کی اصل حقیقت یاد دلاتا ہے۔ پھر وہ انھیں بتاتا ہے کہ روزہ ایک قدیمی فریضہ ہے جو ہر خدائی شریعت میں اہل ایمان پر فرض رہا ہے۔ اِس فریضے کا اوّلین مقصود تقویٰ‘ صفاے قلب‘ احساسِ ذمہ داری اور خشیت الٰہی کے لیے دلوں کو تیار کرنا ہے۔

آیت سے روزے کی عظیم غایت سامنے آتی ہے۔ یہ تقویٰ ہے! تقویٰ دل میں زندہ و بیدار ہو تو مومن اِس فریضے کو اللہ کی فرماں برداری کے جذبے کے تحت‘ اُس کی رضاجوئی کے لیے ادا کرتا ہے۔ تقویٰ ہی دلوں کا نگہبان ہے۔ وہی معصیت سے روزے کو خراب کرنے سے انسان کو بچاتا ہے--- خواہ یہ دل میں گزرنے والا خیال ہی کیوں نہ ہو۔ قرآن کے اوّلین مخاطب جانتے تھے کہ اللہ کے یہاں تقویٰ کا کیا مقام ہے اور اس کی میزان میںتقویٰ کا کیا وزن۔ یہی اُن کی منزلِ مقصود تھی‘ جس کی طرف ان کی روحیں لپکتی تھیں۔ روزہ اُس کے حصول کا ذریعہ اور اس تک پہنچانے کا راستہ ہے۔ قرآن اس تقویٰ کو منزلِ مقصود کی حیثیت سے اُن کے سامنے رکھتا ہے تاکہ روزے کے راستے سے وہ اِس منزل کا رخ کر سکیں۔ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ’’امید ہے کہ تم خدا ترس بنو گے!‘‘

رخصت اور عزیمت

مرض اور سفر کے سلسلے میں آیت کے الفاظ مطلق ہیں‘ اُن میں کوئی قید اور تحدید نہیں ہے۔ کوئی بھی مرض اور کوئی بھی سفر ہو‘ اُس میں روزہ چھوڑا جا سکتا ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ مریض صحت پانے پر اور مسافر مقیم ہونے پر روزے ادا کر لے۔ اِس مطلق آیت کا یہی مفہوم زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے اور یہی تنگی اور مشقت سے بچانے کے‘ اسلامی مقصد سے زیادہ قریب ہے۔ یہ حکم مرض کی شدت یا سفر کی مشقت سے نہیں‘ مطلق مرض اور سفر سے متعلق ہے‘ تاکہ لوگوں کو سہولت ہو اور وہ دشواری میں نہ پڑیں۔

یہ بات باقی رہ جاتی ہے کہ اس رائے کو بیان کیا جائے تو رخصتوں کے متلاشی رخصتوں کے پیچھے دوڑ پڑیں گے اور معمولی معمولی باتوں کے بہانے فرض عبادات ترک کر دی جائیں گی--- اور یہی وجہ ہے کہ فقہا نے اس معاملے میں شدت برتی اور شرطیں عائد کی ہیں--- لیکن میرے نزدیک یہ بات صحیح نہیں ہے کہ  نصِ قرآنی نے جس حکم کو مطلق اور عام رکھا ہے‘ اُسے اِس اندیشے سے مقید اور خاص کر دیا جائے۔ دین لوگوں کو طوق و سلاسل میں جکڑ کر خدا کی اطاعت کی طرف نہیں لاتا۔ وہ تقویٰ اور خوفِ خدا سے اپنی طرف کھینچتا ہے‘ اور اِس عبادت کی تو غایت خصوصیت سے تقویٰ ہی ہے۔ جو شخص کسی رخصت کی آڑ لے کر فریضے کی ادایگی سے کتراتا ہے‘ اُس میں شروع ہی سے کوئی خیر نہیں ہے۔ اُس میں فریضے کی ادایگی کی اوّلین غایت ‘ تقویٰ کا وجود نہیں ہے۔

یہ دین انسانوں کا نہیں‘ خدا کا دین ہے۔ خدا خوب جانتا ہے کہ اُس نے کس طرح رخصتوں کے مواقع اور شدت کے مواقع کو ملا کر اس دین کو ایک وحدت کی شکل دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی موقع پر رخصت کے پیچھے کوئی مصلحت ہو سکتی ہے جو اُس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ نہیں‘ نہیں! ضروری ہے کہ ایسا ہی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ لوگ اللہ کی بخشی ہوئی رخصتوں کو قبول کریں۔ اگر کسی دَور میں لوگ بگڑ جائیں تو اُن کی اصلاح کا طریقہ یہ نہیںہے کہ احکام میں شدت پیدا کر دی جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ان کی اور ان کے دلوں کی اصلاح اور اُن کی اچھی تربیت کی جائے اور اُن کے باطن میں تقویٰ کا شعور زندہ و بیدار کیا جائے۔ اس میں شک نہیں کہ لوگ بگڑ جائیں تو اُن کے بگاڑ کے علاج اور سدباب کے ذریعے کے طور پر معاملات میں شدت برتی جا سکتی ہے لیکن عبادات کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ عبادت خدا اور بندے کے درمیان کا معاملہ ہے۔ عبادات سے بندوں کے مصالح کا--- جن میں ظاہری حالات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے--- براہِ راست کوئی تعلق نہیںہے۔

عبادات میں اُس ظاہر کی‘ جس کی بنیاد تقویٰ پر نہ ہو‘ کوئی قیمت نہیں۔تقویٰ موجود ہو تو کوئی شخص راہِ فرار اختیار نہ کرے گا۔ وہ رخصتوں سے اُسی وقت فائدہ اٹھائے گا ‘ جب کہ اُس کا دل اس پر مطمئن ہو‘ وہ دیکھے کہ یہی صورت اولیٰ ہے اور وہ محسوس کر رہا ہو کہ جس صورت حال سے وہ دوچار ہے اُس میں خدا کی اطاعت اِس میں ہے کہ اس رخصت کو اختیار کیا جائے۔ عبادات کے احکام میں شدت پیدا کرنا اور جن رخصتوں کو نصوص نے مطلق اور بلاقید رکھا ہے‘ ان میں تنگی پیدا کرنا بعض لوگوں کے لیے تنگی پیدا کرنے کا موجب ہو سکتا ہے‘ جب کہ راہِ فرار اختیار کرنے والوں کو درست کرنے کے لیے یہ عمل بہت زیادہ سودمند نہیں ہوسکتا۔ ہر حال میں یہی بہترہے کہ ہم امور کو اُس شکل میں اختیار کریں جس شکل میں اللہ انھیں چاہتا ہے۔ اُس کے دین میں جو رخصتیں ہیں اور جن معاملات میں عزیمت کی راہ اختیار کرنی ہے‘ اُن دونوں میں جو دُور و قریب کی مصلحتیں مضمر ہیں‘ اللہ انھیں ہم سے زیادہ جانتا ہے اور وہ ہم سے زیادہ صاحب حکمت و دانش ہے --- یہ ہے اس معاملے میں خلاصۂ کلام۔ (فی ظلال القرآن‘ سید قطب شہیدؒ ، ترجمہ: سید حامدعلیؒ، ج ۱‘ ص۴۲۶-۴۲۹)

روزے کے حکم میں تدریج

روزوں کی تبدیلیاں سنیے:

اول‘ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں آئے تو ہر مہینے میں تین روزے رکھتے تھے اور عاشورے کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آیت کُتِبَ عَلَیْکُمْ الصِّیَامُ …الخ نازل فرما کر رمضان کے روزے فرض کیے۔

دوم ‘ ابتداً یہ حکم تھا کہ جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے اور فدیہ دے دے۔ پھریہ آیت اُتری: فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ ‘تم میں سے جو شخص رمضان کے مہینے میں قیام کی حالت میں ہو وہ روزہ رکھا کرے۔ پس جو شخص مقیم ہو‘ مسافر نہ ہو‘ تندرست ہو‘ بیمار نہ ہو‘ اس پر روزہ رکھنا ضروری ہو گیا۔ ہاں‘ بیمار اور مسافر کے لیے رخصت ملی اور ایسا بوڑھا پھوس جو روزے کی طاقت ہی نہ رکھتا ہو‘ اُسے بھی رخصت دے دی گئی۔ تیسری حالت یہ ہے کہ ابتدا میں کھانا پینا عورتوں کے پاس آنا سونے سے پہلے پہلے جائز تھا۔ سو گیا تو پھر گو رات کو ہی جاگے لیکن کھانا پینا اور جماع اس کے لیے منع تھا۔ پھر صرمہ نامی ایک انصاری صحابیؓ دن بھر کام کاج کر کے رات کو تھکے ہارے گھر آئے‘ عشاء کی نماز ادا کی اور نیند آگئی۔ دوسرے دن کچھ کھائے پئے بغیر روزہ رکھا لیکن حالت بہت نازک ہو گئی۔ حضورؐ نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ تو انھوں نے سارا واقعہ کہہ سنایا۔ اِدھر یہ واقعہ تو ان کے ساتھ ہوا اُدھر حضرت عمرؓ نے سو جانے کے بعد اپنی بیوی صاحبہؓ سے مجامعت کر لی اور حضورؐ کے پاس آکر حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے اس قصور کا اقرار کیا۔ جس پر آیت اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمْ ط  سے ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ ج (البقرہ ۲:۱۸۷) تک نازل ہوئی اور مغرب کے بعد سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے تک رمضان کی راتوں میں کھانے پینے اور مجامعت کرنے کی رخصت دے دی گئی۔ (تفسیر ابن کبیر‘ ج ۱‘ ص ۱۹۰)

شریعت اسلامی رسولؐ اللہ کی حیاتِ رسالت میں بتدریج نازل ہوئی۔ کہیں تو ایسا کلام ہوا کہ احکام شروع میں نرم تھے۔ رفتہ رفتہ سخت کیے گئے‘ مثلاً شراب نوشی‘ کہ پہلے صرف ناپسند کی گئی ‘ اور پھر ہوتے ہوتے اُس کی حرمت کا حکم آگیا‘ اور کہیں اس کے برعکس ہوا ہے‘ یعنی ابتداً قانون سخت تھا‘ رفتہ رفتہ اس میں سہولتیں اور رعایتیں زیادہ ہوتی گئیں۔ چنانچہ یہی روزے کا معاملہ ہے کہ پہلے صحبت رات میں بھی حرام تھی‘ بعد کو جائزکر دی گئی۔ رَفَثُ کے لفظی معنیٰ شہوت انگیز کلام کے ہیں۔ لیکن جب صیغۂ متعدی میں اسے لایا جاتا ہے تو اس سے مراد صحبت یا مباشرت ہوتی ہے۔ چنانچہ یہاں الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمْ ہے۔ … یہیں سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ بیوی کی طرف میل و رغبت ذرا بھی کمالِ رُوحانیت و تزکیۂ نفس کے منافی نہیں‘ جیسا کہ بہت سے مشرکانہ اور جاہلی مذہبوں نے سمجھ لیا ہے‘ اور ماہِ صیام کی طاعت و عبادت‘ اور بیوی سے خلوت و صحبت کے درمیان منافقت ذرا بھی نہیں‘ جیسا کہ مذہب کے جوگیانہ اور راہبانہ تخیل نے دلوں میں بٹھا دیا ہے۔ شریعت اسلامی نے جس چیز پر سخت پہرہ بٹھا رکھا ہے ‘ وہ شہوتِ حرام اور اس کے مبادی و مقدمات ہیں‘ نہ کہ نفسِ شہوت--- بھوک‘ پیاس‘ نیند کی طرح جنسی بھوک بھی اگر اپنے حدود کے اندر ہے تو ایک طبعی اور بے ضرر خواہش ہے۔ (تفسیر ماجدی ‘ ص ۷۱)

اسلام کے اکثر احکام کی طرح روزے کی فرضیت بھی بتدریج عائد کی گئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں مسلمانوں کو صرف ہر مہینے تین دن کے روزے رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی ‘ مگر یہ روزے فرض نہ تھے۔ پھر ۲ ہجری میں رمضان کے روزوں کا یہ حکم قرآن میں نازل ہوا‘ مگر اس میں اتنی رعایت رکھی گئی کہ جو لوگ روزے کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہوں اور پھر بھی روزہ نہ رکھیں‘ وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں۔ بعد میں دوسرا حکم نازل ہوا اور یہ عام رعایت منسوخ کر دی گئی۔ لیکن مریض اور مسافر اور حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت اور ایسے بڈھے لوگوں کے لیے جن میں روزے کی طاقت نہ ہو‘ اس رعایت کو بدستور باقی رہنے دیا گیا اور انھیں حکم دیا گیا کہ بعد میں جب عذر باقی نہ رہے تو قضا کے اتنے روزے رکھ لیں جتنے رمضان میں اُن سے چھوٹ گئے ہیں۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ ص ۱۴۱)

سفر میں روزہ

سفر کی حالت میں روزہ رکھنا یا نہ رکھنا آدمی کے اختیارِ تمیزی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو صحابہ سفر میں جایا کرتے تھے ‘ اُن میں سے کوئی روزہ رکھتا تھا اور کوئی نہ رکھتا تھا اور دونوں گروہوں میں سے کوئی دوسرے پر اعتراض نہ کرتا تھا۔ خود آنحضرتؐ نے بھی کبھی سفر میں روزہ رکھا ہے اور کبھی نہیں رکھا ہے۔ ایک سفر کے موقع پر ایک شخص بدحال ہو کر گر گیا اور اس کے گرد لوگ جمع ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حال دیکھ کر دریافت فرمایا: کیا معاملہ ہے؟ عرض کیا گیا روزے سے ہے۔ فرمایا: یہ نیکی نہیں ہے۔ جنگ کے موقع پر تو آپؐ حکماً روزے سے روک دیا کرتے تھے تاکہ دشمن سے لڑنے میں کمزوری لاحق نہ ہو۔ حضرت عمرؓ کی روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو مرتبہ رمضان میں جنگ پر گئے۔ پہلی مرتبہ جنگ بدر میں اور آخری مرتبہ فتح مکہ کے موقع پر‘ اور دونوں مرتبہ ہم نے روزے چھوڑ دیے۔ ابن عمرؓ کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر حضورؐ نے فرما دیا تھا کہ انہ یوم قتال فافطروا۔ دوسری روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ  انکم قددنوتم من عدوکم فافطروا اقوی لکم‘یعنی دشمن سے مقابلہ درپیش ہے‘ روزے چھوڑ دو تاکہ تمھیں لڑنے کی قوت حاصل ہو۔

عام سفر کے معاملے میں یہ بات کہ کتنی مسافت کے سفر پر روزہ چھوڑا جا سکتا ہے‘ حضورؐ کے کسی ارشاد سے واضح نہیں ہوتی اور صحابۂ کرام کا عمل اس باب میں مختلف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ جس مسافت پر عرفِ عام میں سفر کا اطلاق ہوتا ہے اور جس میں مسافرانہ حالت انسان پر طاری ہوتی ہے‘وہ افطار کے لیے کافی ہے۔

یہ امر متفق علیہ ہے کہ جس روز آدمی سفر کی ابتدا کر رہا ہو‘ اُس دن کا روزہ افطار کر لینے کا اُسے اختیار ہے‘ چاہے تو گھر سے کھانا کھا کر چلے‘ اور چاہے تو گھر سے نکلتے ہی کھا لے۔ دونوں عمل صحابہؓ سے ثابت ہیں۔

یہ امر کہ اگر کسی شہر پر دشمن کا حملہ ہو‘ تو کیا لوگ مقیم ہونے کے باوجود جہاد کی خاطر روزہ چھوڑ سکتے ہیں‘علما کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ بعض علما اس کی اجازت نہیں دیتے۔ مگر علامہ ابن تیمیہؒ نے نہایت قوی دلائل کے ساتھ فتویٰ دیا تھا کہ ایسا کرنا بالکل جائز ہے۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ ص ۱۴۲-۱۴۳)

(اداے فدیہ کے باب میں) یعنی]ایک شخص کو کھانا کھلائے[‘ اس قدر مقدار تو بہرحال واجب ہے۔ اب اگر اس میں کوئی زیادتی کرنا چاہے‘ یعنی ایک شخص کے بجائے دو شخصوں کو کھلا دے‘ کھانے کی تعداد بڑھا دے‘ کھانے کی قسم بہتر کر دے‘ فدیے کے ساتھ روزے کو بھی جمع کر لے تو اور بہتر ہے۔ خیر‘ خیرات‘ فیاضی و سیرچشمی‘ حسن سلوک و حسن معاشرت کی تاکید تو اسلام میں ہمیشہ اور ہر حال کے لیے موجود ہے۔ لیکن رمضان کے ماہِ مبارک میں اس کی اہمیت اور زیادہ ہے۔ چنانچہ ماہِ مبارک کے ختم پر‘ یا ختم سے ذرا قبل جو صدقہ فطرواجب بتایا گیا ہے کہ آس پاس کا کوئی کلمہ گو بھوکا نہ رہنے دیا جائے وہ اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ رسول ؐاللہ فیاضی‘ سخاوت‘ جودوکرم میں اپنی نظیر آپ تھے ‘ تاہم متعدد حدیثوں میں آتا ہے کہ اس ماہ مبارک میں آپؐ کا جوش کرم اور بڑھ جاتا تھا اور آپؐ فیاض سے فیاض تر ہو جاتے تھے۔ (تفسیر ماجدی‘ ص۶۹)

رمضان اور قرآن

رمضان وہ مہینہ ہے ‘جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے‘ جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے‘ اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔ اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو‘ تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے‘ سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے یہ طریقہ تمھیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمھیں سرفراز کیا ہے‘ اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکرگزار بنو۔ (البقرہ ۲:۱۸۵)

قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت اُوپر والی آیت کے کچھ عرصہ بعد نازل ہوئی جس میں ایک حقیقت تو یہ واضح کی گئی کہ رمضان کے مہینے کو اللہ تعالیٰ نے روزوں کے لیے کیوں منتخب فرمایا۔ دوسری یہ کہ اب تک سفر یا بیماری کے سبب سے قضا شدہ روزوں کے لیے فدیہ کی جو اجازت تھی وہ اجازت منسوخ ہوئی۔ اب روزوں کی تلافی روزوں ہی کے ذریعے سے ضروری قرار دے دی گئی۔ (تدبر قرآن‘ ج ۱‘ص ۴۰۶)

ماہِ رمضان شریف کی فضیلت و بزرگی کا بیان ہو رہا ہے کہ اسی ماہِ مبارک میں قرآن کریم اترا۔ مسنداحمد کی حدیث میں ہے: رسولؐاللہ نے فرمایا ہے کہ ابراہیمی صحیفہ رمضان کی پہلی رات اترا اور تورات چھٹی تاریخ‘ انجیل تیرھویں تاریخ اور قرآن چوبیسویں تاریخ نازل ہوا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ زبور بارھویں کو اور انجیل اٹھارھویں کو۔ اگلے تمام صحیفے اور تورات و انجیل و زبور جس جس پیغمبر پر اتریں ایک ساتھ ایک ہی مرتبہ اتریں لیکن قرآن کریم بیت العزۃ سے آسمانِ دنیا تک تو ایک ساتھ ایک ہی مرتبہ نازل ہوا اور پھر وقتاً فوقتاً حسب ضرورت زمین پر نازل ہوتا رہا۔ یہی مطلب ہے: انا انزلنہ فی لیلۃ القدر اور انا انزلنہ فی لیلۃٍ مبارکۃٍ اور انزل فیہ القرآن کا‘ کہ قرآن کریم ایک ساتھ آسمان اول پر رمضا ن المبارک کے مہینے میں لیلۃ القدر کو نازل ہوا اور اسی کو لیلۂ مبارکہ بھی کہا ہے۔ ابن عباسؓ وغیرہ سے یہی مروی ہے۔ آپ سے جب یہ سوال ہوا کہ قرآن کریم تو مختلف مہینوں میں برسوں میں جا کر اُتر چکا‘ پھر رمضان میں اور وہ بھی لیلۃ القدر میں اُترنے کے کیا معنی؟ تو آپ نے یہی مطلب بیان کیا (ابن مردویہ وغیرہ)۔ آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ آدھے رمضان میں قرآن کریم آسمانِ دنیا کی طرف اُترا ‘بیت العزۃ میں رکھا گیا پھر حسب ضرورت وقائع اور سوالات پر تھوڑا تھوڑا اُترتا رہا اور ۲۰ سال میں کامل ہوا۔ اس میں بہت سی آیتیں کفار کے جواب میں بھی اتریں۔ کفار کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ یہ قرآن کریم ایک ساتھ سارے کا سارا کیوں نہیں اُترا جس کے جواب میں فرمایا گیا: لنثبت بہ فوادک ورتلنہُ ترتیلا … الخ یہ اس لیے کہ تیرے دل کو برقرار اور مضبوط رکھیں وغیرہ۔

پھر قرآن کریم کی تعریف میں بیان ہو رہا ہے کہ یہ لوگوں کے دلوں کی ہدایت ہے اور اس میں واضح اور روشن دلیلیں ہیں۔ تدبر اور غوروفکر کرنے والا اس سے صحیح راہ پر پہنچ سکتا ہے۔ یہ حق اور باطل‘ حرام و حلال میں فرق ظاہر کرنے والا ہے۔ ہدایت و گمراہی اور رشد و برائی میں جدائی کرنے والا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر‘ ج ۱‘ ص ۱۹۱)

یہی مبارک مہینہ ہے جس میں دنیا کی ہدایت کے لیے قرآن کے نزول کا آغاز ہوا۔ اس ہدایت کے متعلق فرمایا کہ یہ ہدایت بھی ہے اور اس میں ہدایت اور فرقان کی بینات بھی ہیں‘ یعنی یہ صراط مستقیم کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ عقل کی رہنمائی اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کے لیے وہ واضح اور قاطع حجتیں بھی اپنے اندر رکھتا ہے جو کبھی کہنہ ہونے والی نہیں ہیں… بینات سے مراد واضح‘ دل نشین اور ہر اُلجھن کو دُور کر دینے والے براہین و حجج ہیں۔ قرآن صرف حلال و حرام بتانے کا ضابطہ ہی نہیں ہے بلکہ حجج و حکمت کے بینات کاکبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ بھی ہے۔ اس وجہ سے یہ رہتی دنیا تک عقلِ انسانی کی رہنمائی کے لیے کافی ہے۔

 اس عظیم نعمت کی شکرگزاری کا تقاضا یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی مہینے کو روزوں کے لیے خاص فرما دیا تاکہ بندے اس میں اپنے نفس کی خواہشات اور شیطان کی ترغیبات سے آزاد ہو کر اپنے رب سے زیادہ سے زیادہ قریب ہو سکیں اور اپنے قول و فعل‘ اپنے ظاہر و باطن اور اپنے روز و شب ہر چیز سے اس حقیقت کا اظہار و اعلان کریں کہ خدا اور اس کے حکم سے بڑی ان کے نزدیک اس دنیا کی کوئی چیز نہیں ہے۔

غور کرنے والے کو اس حقیقت کے سمجھنے میں کوئی الجھن نہیں پیش آ سکتی کہ خدا کی تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت عقل ہے اور عقل سے بھی بڑی نعمت قرآن ہے۔ اس لیے کہ عقل کو بھی حقیقی رہنمائی قرآن ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ نہ ہو تو عقل سائنس کی ساری دُوربینیں اور خردبینیں لگا کر بھی اندھیرے ہی میں بھٹکتی رہتی ہے۔ اس وجہ سے جس مہینے میں دنیا کو یہ نعمت ملی وہ سزاوار تھا کہ وہ خدا کی تکبیر اور اس کی شکرگزاری کا خاص مہینہ ٹھہرا دیا جائے تاکہ اس نعمت عظمیٰ کی قدروعظمت کا اعتراف ہمیشہ ہمیشہ ہوتا رہے۔ اس شکرگزاری اور تکبیر کے لیے اللہ تعالیٰ نے روزوں کی عبادت مقرر فرمائی جو اس تقویٰ کی تربیت کی خاص عبادت ہے جس پر تمام دین و شریعت کے قیام و بقا کا انحصار ہے اور جس کے حاملین ہی کے لیے درحقیقت قرآن ہدایت بن کر نازل ہوا ہے جیسا کہ اس سورہ کی بالکل پہلی ہی آیت میں اس نے خود یہ حقیقت واضح فرما دی ہے۔ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لاَرَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (یہ آسمانی کتاب ہے‘ اس کے آسمانی ہونے میں کسی شبہے کی گنجایش نہیں ہے‘ یہ متقیوں کے لیے ہدایت بن کر نازل ہوئی ہے)۔

گویا اس حکمت قرآنی کی ترتیب یوں ہوئی کہ قرآن حکیم کا حقیقی فیض صرف ان لوگوں کے لیے خاص ہے جن کے اندر تقویٰ کی روح ہو اور اس تقویٰ کی تربیت کا خاص ذریعہ روزے کی عبادت ہے۔ اس وجہ سے رب کریم و حکیم نے اس مہینے کو روزوں کے لیے خاص فرما دیا جس میں قرآن کا نزول ہوا۔ دوسرے لفظوں میں اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ قرآن اس دنیا کے لیے بہار ہے اور رمضان کا مہینہ موسم بہار اور موسم بہار جس فصل کو نشوونما بخشتا ہے وہ تقویٰ کی فصل ہے۔ (تدبرقرآن‘ ج ۱‘ ص ۴۰۶-۴۰۷)

حقیقت یہ ہے کہ روزہ ایک ایسی نعمت ہے جس پر خدا کی بڑائی کرنا اور اُس کا شکر ادا کرنا چاہیے: ’’اور تم اللہ کی کبریائی کا اعتراف کرو اِس بات پر کہ اُس نے تمھیں ہدایت سے نوازا  اور امید ہے کہ تم (اُس کا شکر ادا کرو گے!‘‘)

یہ اِس فریضے کی ایک غرض و غایت ہے کہ اہل ایمان اُس ہدایت کی قدروقیمت کا احساس کریں جو اللہ نے انھیں عطا کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ روزے کے زمانے میں اہل ایمان ہر زمانے سے زیادہ اِس ہدایت کی قدروقیمت کو اپنے نفوس میں محسوس کرتے ہیں۔ روزے کی حالت میں اُن کے دل خدا کی نافرمانی کے لیے سوچ بچار سے‘ اور اُن کے اعضا و جوارح معصیت کے ارتکاب سے رکے‘ ہوتے ہیں۔ انھیں خدا کی ہدایت کا اِس طرح زندہ احساس ہوتا ہے گویا کہ وہ اُسے اپنے ہاتھوں سے چھو رہے ہوں!--- اور یہ سب اس لیے کہ وہ اِس ہدایت پر اللہ کی کبریائی کا اعتراف اور اس عظیم نعمت کی بخشش پر اُس کا شکر ادا کریں اور روزے کی اِس اطاعت کے ذریعے ان کے دل خدا کی طرف رجوع ہوں‘ جیسا کہ روزے پر گفتگو کے آغاز ہی میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ’’امید ہے کہ تم خدا ترس بنو گے‘‘۔

اس تفصیل سے واضح ہے کہ روزہ‘ جو جسم اور نفسِ انسانی پر شاق ہے ‘ اللہ کی عظیم نعمت ہے اور اُس کی غرض و غایت مومن کی تربیت ہے اور اُمت مسلمہ کو اُس رول کے ادا کرنے کے لیے تیار کرنا ہے جسے ادا کرنے کے لیے وہ برپا کی گئی ہے۔ اِس رول کی ادایگی کی حفاظت تقویٰ‘ اللہ کے نگراں و نگہبان ہونے کے شعور اور ضمیر کے احساسِ ذمہ داری سے ہوتی ہے۔ (فی ظلال القرآن‘ ج ۱‘ ص ۴۳۷)

یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ رمضان کے روزوں کو صرف عبادت اور صرف تقویٰ کی تربیت ہی نہیں قرار دیا گیا ہے ‘ بلکہ اُنھیں مزیدبرآں اُس عظیم الشان نعمت ِ ہدایت پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ بھی ٹھیرایا گیا ہے جو قرآن کی شکل میں اُس نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک دانش مند انسان کے لیے کسی نعمت کی شکرگزاری اور کسی احسان کے اعتراف کی بہترین صورت اگر ہو سکتی ہے‘ تو وہ صرف یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس مقصد کی تکمیل کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرے‘ جس کے لیے عطا کرنے والے نے وہ نعمت عطا کی ہو۔

قرآن ہم کو اس لیے عطا فرمایا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کا راستہ جان کر خود اس پر چلیں اور دُنیا کو اس پر چلائیں ۔ اس مقصد کے لیے ہم کو تیار کرنے کا بہترین ذریعہ روزہ ہے۔ لہٰذا نزول قرآن کے مہینے میں ہماری روزہ داری صرف عبادت ہی نہیں ہے‘ اور صرف اخلاقی تربیت بھی نہیں ہے‘ بلکہ اس کے ساتھ خود اس نعمت ِقرآن کی بھی صحیح اور موزوں شکرگزاری ہے۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ ص ۱۴۳)