ڈاکٹر کوثر فردوس


مرد عورتوں پر قوّام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں ۔ پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں ۔ اور جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو انھیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو اور مارو، پھر اگر وہ تمھاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو، یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے ۔(النساء۴:۳۴)

مرد عورتوں پر قوام ہیں

’’قوام یا قیم ّاس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا نظام کے معاملات کو درست حالت میں چلانے اور اس کی حفاظت ونگہبانی کرنے اور اس کی ضروریات مہیا کر نے کا ذمہ دار ہو‘‘۔(تفہیم القرآن، اوّل، سورئہ نساء، ص ۳۴۹)

’مرد قوام ہے‘ ،بڑی بحث کا عنوان ہے ۔جدید ترقی یافتہ ،تعلیم یافتہ اور حقوق نسواں اور مساوات مرد و زن کی علَم بردار خواتین کو تو یہ بالکل ہضم نہیں ہوتا ۔ہاں، ادارے کا سربراہ ہونا ،گوارا ہے، مرد حاکم ہے تو بالکل گوارا نہیں ۔اس قسم کی عورتوں کے گروپ یا میٹنگ میں اس طرح کا بیان دینا گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا ہے۔ پورا نظام معاشرت سمجھا کر، گھر میں تقسیمِ کار کی بات کریں اور پھر اس نکتے پر آ ئیں تو سننے پر کچھ آمادگی ہو جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مرد کی فضیلت کی جو وجوہ بیان کی ہیں، ان میں سے ایک وجہ مال خرچ کرنا ہے۔ اس پر  سوال اٹھایا جاتا ہے کہ جو مرد کماتے نہیں ہیں،یا بیویاں کماتی ہیں اور کمائی شوہر سے کئی گنا زیادہ ہے ،تو اب مرد قوام تو نہیں رہے گا اور مال خرچ کرنے کی وجہ ساقط ہوگئی۔ ویسے تو مہر اور نان و نفقہ بھلے عورت مال دار ہو ، مرد کی ہی ذمہ داری ہے ۔ خیال رہے کہ مرد کی فضیلت کی دوسری وجہ ہے: ’’اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے‘‘۔لہٰذا اگر ایک وجہ نہ بھی رہے تو دوسری تو موجود ہے۔

’’یہاں فضیلت بمعنی شرف اور کرامت اور عزّت نہیں ہے، جیسا کہ ایک عام اُردوخواں آدمی اس لفظ کا مطلب لے گا،بلکہ یہاں یہ لفظ اس معنی میں ہے کہ ان میں سے ایک صنف (یعنی مرد) کو اللہ نے طبعاً بعض ایسی خصوصیات اور قوتیں عطا کی ہیں جو دوسری صنف (یعنی عورت) کو نہیں دیں یا اس سے کم دی ہیں۔اس بنا پر خاندانی نظام میں مرد ہی قوام ہونے کی اہلیت رکھتا ہے اور عورت فطرتاً ایسی بنائی گئی ہے کہ اسے خاندانی زندگی میں مرد کی حفاظت و خبرگیری کے تحت رہنا چاہیے۔

حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ بہترین بیوی وہ ہے کہ جب تم اسے دیکھو تو تمھارا جی خوش ہو جائے، جب تم اسے کسی بات کا حکم دو تو وہ تمھاری اطاعت کرے، اور جب تم گھر میں نہ ہو تو وہ تمھارے پیچھے تمھارے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے‘‘ ۔

یہ حدیث اس آیت کی بہترین تفسیر بیان کرتی ہے ،مگر یہاں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ عورت پر اپنے شوہر کی اطاعت سے اہم ایک اور اقدام اپنے خالق کی اطا عت ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شوہر خدا کی معصیت کا حکم دے، یا خدا کے عائدکیے ہوئے کسی فرض سے باز رکھنے کی کوشش کرے، اس کی اطاعت سے انکار کر دینا عورت کا فرض ہے۔ اس صورت میں اگر وہ اس کی اطاعت کرے گی تو گناہ گار ہوگی ۔بخلاف اس کے اگر شوہر اپنی بیوی کو نفل نماز یا نفل روزہ ترک کرنے کے لیے کہےتو لازم ہے کہ وہ اس کی اطاعت کرے۔ اس صورت میں اگر وہ نوافل ادا کرے گی تو مقبول نہ ہوں گے‘‘۔(تفہیم القرآن، اوّل، سورئہ نساء، ص ۳۴۹)

’’اور جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو انھیں سمجھاؤ ‘‘___ اس کا ’’یہ مطلب نہیں ہے کہ تینوں کام بیک وقت کرڈالے جائیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ نشوز کی حالت میں ان تینوں تدبیروں کی اجازت ہے ۔ اب رہا ان پر عمل درآمد،تو بہرحال اس میں قصو ر اور سزا کے درمیان تناسب ہوناچاہیے، اور جہاں ہلکی تدبیر سے اصلاح ہو سکتی ہو ،وہاں سخت تد بیر سے کام نہ لینا چاہیے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیویوں کے مارنے کی جب کبھی اجازت دی ہے ،بادلِ نخواستہ دی ہے ،اور پھر بھی اسے ناپسند ہی فرمایا ہے۔ تاہم، بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں جوپٹے بغیردرست ہی نہیں ہوتیں ۔ایسی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ منہ پر نہ مارا جائے، بےرحمی سے نہ مارا جائے اور ایسی چیزسے نہ مارا جائے جو جسم پر نشان چھوڑ جائے‘‘۔(ایضاً، ص۳۵۰)

غیب میں حفاظت کو سمجھنا بھی اہم ہے ۔ایک تو شوہر کے مال کی حفاظت کرنا ہے۔ اگر دودھ اُبلتا رہے ،لائٹس جلتی رہیں، پانی بہتا رہے وغیرہ، یہ اشیا کا ضیاع ہے۔ اس سے بچنا چاہیے۔ اسی طرح ہر فنکشن کے لیے نیا بڑھیا جوڑا اور جیولری، اپنی استطاعت سے زیادہ کی خریدی جائے ۓ اور ضروری مدات کا بجٹ کم کر دیا جائے، تو یہ بھی مال کی حفاظت کےمنافی اقدام ہیں۔

دوسری اور بڑی اہم حفاظت ہے بیوی کی عصمت جو شوہر کی عزت ہے ۔وہ اس کی غیرموجودگی میں اپنی حفاظت کر کے گویا اس کی عزت کی حفاظت کرتی ہے۔غیر مردوں، نامحرم رشتہ داروں سے بے تکلفی، ان کو بیڈ روم میں بٹھانا ،گھر میں مرد نہ ہو تو اندر بلانا ،مہمان بنانا ،خاطر تواضع کرنا وغیرہ اسی ذیل کی تفصیلات ہیں۔تیسرے شوہر کے راز، کسی بھی طرح کے ہو سکتے ہیں، نجی، کاروباری، خاندانی امور سے متعلق وہ فاش کرنے سے بھی تعلقات میں خرابی پیدا ہو سکتی ہے ۔

پھر جن عورتوں سے سرکشی کا اندیشہ ہو، یعنی اگر کسی عورت کے رویے سے ہی سرکشی، ضد اور ہٹ دھرمی ظاہر ہوتی ہو ۔شوہر کی بات مان کر نہیں دینی، ہر کام میں اپنی منوانی ہے۔ ذرا کمی کوتاہی ہو جائے تو بے جا واویلا کر کے شوہر کی کردار کشی کرنی، بچوں کو بھی نافرمان بنانے کے لیے ان کی ذہن سازی کرنا جیسے مسائل کا سامنا ہو۔ لہٰذا وہ امور جو گھر کو فساد کی طرف لے کر جانے والےہوں، ان سے روکنے کے لیے قوّام ہونے کی وجہ سے اللہ نے مرد کو تادیبی اختیارات دیے ہیں۔ مقصود مرد کی اَنا اور مَیں کی تسکین نہیں، گھر کے نظام کی اصلاح ہے۔وہ تین مراحل اور درجات ہیں۔ ان کی ترتیب یا قصور کا لحاظ رکھے بغیر ،ان کو جواز بنا نا اور فائدہ اٹھانا دین کا منشا اورمطلوب نہیں ہے۔

اصلاحِ احوال کے لیے حَکم کا تقرر

اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلّقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو، وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے ۔ (النساء۴:۳۵)

’’اس آیت میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جہاں میاں اور بیوی میں ناموافقت ہو جائے وہاں نزا ع سے انقطا ع تک نوبت پہنچنے یا عدالت میں معاملہ جانے سے پہلے گھر کے گھر ہی میں اصلاح کی کوشش کر لینی چاہیے، اور اس کی تدبیر یہ ہے کہ میاں اور بیوی میں سے ہر ایک کے خاندان کا ایک ایک آدمی اس غرض کے لیے مقرر کیا جائے کہ دونوں مل کر اسبابِ اختلاف کی تحقیق کریں اور پھر آپس میں سر جوڑ کر بیٹھیں اور تصفیہ کی کوئی صورت نکالیں۔ یہ پنچ یا ثالث مقرر کرنے والا کون ہو؟ اس سوال کو اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے تاکہ اگر زوجین خود چاہیں تو اپنے اپنے رشتہ داروں میں سے خود ہی ایک ایک آدمی کو اپنے اختلاف کا فیصلہ کرنے کے لیے منتخب کر لیں، ورنہ دونوں خاندانوں کے بڑے بوڑھے مداخلت کر کے پنچ مقرر کریں ،اور اگر مقدمہ عدالت میں پہنچ ہی جائے تو عدالت خود کوئی کارروائی کرنے سے پہلے خاندانی پنچ مقرر کر کے اصلاح کی کوشش کرے۔

 اس امر میں اختلاف ہے کہ ثالثوں کے اختیارات کیا ہیں؟ فقہا میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ ثالث فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے، البتہ تصفیہ کی جو صورت ان کے نزدیک مناسب ہو اس کے لیے سفارش کر سکتے ہیں،ماننا یا نہ ماننا زوجین کے اختیار میں ہے۔ ہاں، اگر زوجین نے ان کو طلاق یا خلع یا کسی اور امر کا فیصلہ کر دینے کے لیے اپنا وکیل بنایا ہو تو البتہ ان کا فیصلہ تسلیم کرنا زوجین کے لیے واجب ہوگا ۔یہ حنفی اور شافعی علما کا مسلک ہے۔ دوسرے گروہ کے نزدیک دونوں پنچوں کو موافقت کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہے، مگر علیحدگی کا فیصلہ وہ نہیں کر سکتے ۔یہ حسن بصری اور قتادہ اور بعض دوسرے فقہا کا قول ہے۔ ایک اور گرو ہ اس بات کا قائل ہے کہ ان پنچوں کو ملانے اور جدا کر دینے کے پورے اختیارات ہیں۔

 حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے فیصلوں کی جو نظیریں ہم تک پہنچی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں حضرات پنچ مقرر کرتے ہوئے عدالت کی طرف سے ان کو حاکمانہ اختیارات دے دیتے تھے۔ چنانچہ حضرت عقیل بن ابی طالب اور ان کی بیوی فاطمہ بنت عتبہ بن ربیعہ کا مقدمہ جب حضرت عثمانؓ کی عدالت میں پیش ہوا تو انھوں نے شوہر کے خاندان میں سے حضرت ابن عباسؓ اور بیوی کے خاندان میں سے حضرت معاویہؓ کو پنچ مقرر کیا اور ان سے کہا کہ اگر آپ دونوں کی رائے میں ان کے درمیان تفریق کردینا ہی مناسب ہو تو تفریق کر دیں ۔اسی طرح ایک مقدمہ میں حضرت علیؓ نے حَکم مقرر کیے اور ان کو اختیار دیا کہ چاہے ملا دیں اور چاہے جدا کر دیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ پنچ بطور خود تو عدالتی اختیارات نہیں رکھتے ۔البتہ اگر عدالت ان کو مقرر کرتے وقت انھیں اختیارات دے دے تو پھر ان کا فیصلہ ایک عدالتی فیصلے کی طرح نافذ ہوگا‘‘۔(ایضاً، اوّل، ص۳۵۰-۳۵۱)

ہر جھگڑے میں صلح ہو سکتی ہے۔ دونوں فریق شوہر و بیوی گوابتدا میں تو زیادہ غصے میں ہوتے ہیں مگر وقت کے ساتھ ،غصہ کم ہو جاتا ہے اور پھر وہ اپنے جھگڑے کی وجوہات اور اثرات پر غور کرتے ہیں۔انصاف سے جائزہ لیں تو ہر فریق کا ہی کچھ نہ کچھ قصور ہوتا ہے۔ اس کے اعتراف میں پہل کر لی جائے تو معاملہ بہت آسان ہو جاتا ہے ۔لیکن اگر ساری سوچ بچار فریق ثانی کو غلط ثابت کرنے کے لیے، گذشتہ واقعات کی کڑیاں بھی ملا لی جائیں تو معاملات اُلجھتے چلے جاتے ہیں۔ اگر والدین ،رشتہ دار، غم خوار اور دوست احباب بھی ایک فریق کے مظلوم اور دوسرے کے ظالم ہونے کی تائید کردیں تو سلگتی آگ بھڑک کر الاؤ بن جاتی ہے جو پھر کسی طور بجھنے کا نام نہیں لیتی۔

معاملات کو ابتدا میں ہی درست کرلینا بہتر ہوتا ہے۔ اسی وقت دو ایسے افراد جو فریقین میں اصلاح چاہتے ہو ں،ایک لڑکی اور ایک لڑکے کے خاندان میں سے’ حَکم ‘مقرر کرنا چاہیے کہ طرفین کی سن کر ان کو سمجھایا جا سکے ۔آج کے دور کا بہت بڑے المیہ یہ ہے کہ اول تو سب کھسر پھسر، ناموس کی حفاظت کی خاطر،صیغۂ راز میں رکھی جاتی ہے۔’حَکم ‘مقرر کر بھی لیا جائے تو اس سے توقع یہی ہوتی ہے کہ یہ ہمارا وکیل ہے، ہمارا مقدمہ لڑے اور جیتے ۔اگر حَکم دونوں کی سن کر ، توقع کے خلاف رائے دے تو اس پر شک کیا جاتا ہے اور علانیہ یہ بھی کہا جانے لگتا ہے کہ ہمارا معاملہ تو سلجھ جاتا مگر ان ’بیچ والو ں‘ نے جو صلح کروانے کے لیے آئے تھے، انھوں نے بگاڑا ہے۔ چنانچہ لوگ حَکم بننے سے گریز کرتے ہیں۔ مگر یہ اللہ کا حکم ہے، موقوف نہیں ہونا چاہیے۔

معاشرتی تعلیمات

اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آؤ، اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے، اور   اُن لونڈی غلاموں سے جو تمھارے قبضے میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو، یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے۔ (النساء۴:۳۶)

 پہلا حق اللہ کی بندگی کا ہے۔ اس وضاحت کے ساتھ کہ اس کا کوئی شریک نہیں۔ متصلًا بعد والدین کے ساتھ نیک سلوک کا حکم ہے اور پھر رشتہ داروں کا دائر ہ آگیا ۔معاشرے کے پسے ہوئے لوگوں کو بھی حقیر نہ جانو بلکہ ان کے ساتھ بھی،خواہ یتیم ہو یامسکین ،اچھا سلوک کرو ۔ پڑوسی کا بڑ ا مقا م ہے اور اس میں بھی درجات ہیں۔ پڑوسی رشتہ دار اور مسلمان ہے تو بڑا درجہ ، پڑوسی مسلمان ہے،رشتہ دار نہیں ہے تو درمیانہ درجہ، پڑوسی نہ رشتے دار، نہ مسلمان مگر پڑوسی ہے تو بھی اس کے تین درجو ں تک نہ سہی ایک درجے کے حقوق تو ہیں ۔ اس کے علاوہ ساتھی ،جو تھوڑے سے وقت کے لیے ساتھ رہے ،انتظار گاہ میں بیٹھا ہو،گاڑی میں آپ کے ساتھ بیٹھ جائے، خریداری کرتے ہوئے وغیرہ وغیرہ، اس کے ساتھ بھی یو ں معاملہ کرو کہ وہ اچھا ہی یاد کرے۔ مسافر کا بھی بڑا احترام ہے، اس کے ساتھ بھی اچھے سلوک کی ہدایت ہے۔ پھر جو بہت کمزور اور بے بس، معاشرے کا پسا ہوا طبقہ ہے ،ان کے ساتھ بھی برابری نہیں احسان کا معاملہ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ سارے رویے ان لوگوں کے ہیں جو متکبر نہیں ہوتے، جو اپنے آپ کو برتر نہیں سمجھتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تلقین کی ہے۔ ان سب پر عمل کر کے ہمیں معا شر ےکی اسلامی خطوط پر تعمیر کرنی ہے۔

کنجوسی کی ممانعت

اور ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انھیں دیا ہے اسے چھپاتے ہیں ۔ ایسے کافرِ نعمت لوگوں کے لیے ہم نے رسوا کن عذاب مہیّا کر رکھا ہے۔ (النساء۴:۳۷)

’’اللہ کے فضل کو چھپانا یہ ہے کہ آدمی اس طرح رہے گویا کہ اللہ نے اس پر فضل نہیں کیا ہے۔ مثلاً کسی کو اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اپنی حیثیت سے گر کر رہے ۔ نہ اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے ، نہ بندگان خدا کی مدد کرے ، نہ نیک کاموں میں حصہ لے ۔ لوگ دیکھیں تو سمجھیں کہ بیچارہ بڑا ہی خستہ حال ہے ۔ یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی سخت ناشکری ہے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ جب کسی بندے کو نعمت دیتا ہے تو وہ پسند کرتا ہے کہ اس نعمت کا اثر بندے پر ظاہر ہو ۔ یعنی اس کے کھانے پینے ، رہنے سہنے ، لباس اور مسکن ، اور اس کی داد و دہش، ہر چیز سے اللہ کی دی ہوئی اس نعمت کا اظہار ہوتا رہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۵۲)

خاندان میں خرچ کرتے ہوئے، رشتہ داروں اور عزیز وا قا رب پر خرچ کرتے ہوئے، کنجوسی کرنا بھی تعلقات میں دُوری اور سرد مہری کا باعث بنتا ہے ۔اس لیے اگلی آیات (۳۸-۴۲) میں اللہ تعالیٰ مال خرچ کرنے کی تلقین اور تفصیلات بیان کرتے ہیں۔

غسلِ جنابت

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ ۔ نماز اُس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو ۔ اور اسی طرح جَنابت کی حالت میں بھی نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ غسل نہ کر لو، اِلّا یہ کہ راستہ سے گزرتے ہو ۔ اور اگر کبھی ایسا ہو کہ تم بیمار ہو، یا سفر میں ہو، یا تم میں سے کوئی شخص رفعِ حاجت کر کے آئے، یا تم نے عورتوں سے لَمس کیا ہو، اور پھر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے کام لو اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کر لو، بے شک اللہ نرمی سے کام لینے والا اور بخشش فرمانے والا ہے ۔ (النساء۴:۴۳)

’’جنابت کے اصل معنی دُوری اور بیگانگی کے ہیں ۔اسی سے لفظ اجنبی نکلا ہے ۔اصطلا حِ شرع میں جنابت سے مراد وہ نجاست ہے جو قضاء شہوت سے یاخواب میں مادہ خارج ہونے سے لاحق ہوتی ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے ٓادمی طہا رت سے بیگا نہ ہو جاتا ہے‘‘۔(ایضاً، ص ۳۵۵)

’’فقہا اور مفسرین میں سےایک گروہ نےاس آیت کا مفہوم یہ سمجھا ہے کہ جنابت کی حالت میں مسجد میں نہ جانا چا ہیے اِلاّ یہ کہ کسی کام کے لیے مسجد میں سے گزرنا ہو۔ اسی رائےکو عبداللہ بن مسعود، انس بن مالک ،حسن بصر ی اور ابراہیم نخعی وغیرہ حضرات نے اختیار کیا ہے ۔دوسرا گروہ اس سے سفر مراد لیتا ہے۔ یعنی اگر آدمی حالت ِسفرمیں ہو اور جنابت لاحق ہو جائے تو تیمّم کیا جاسکتا ہے۔ رہا مسجد کا معاملہ ،تو اس گر وہ کی رائے میں جُنبی کے لیے وضو کر کے مسجد میں بیٹھنا جائز ہے ۔یہ رائے حضرت علی ، ابن عباس، سعید بن جبیراور بعض دوسرے حضرات نے اختیار فرمائی ہے۔ اگرچہ اس امرمیں قریب قریب سب کا اتفاق ہے کہ اگر آدمی حالت ِسفر میں ہو اور جنابت لاحق ہوجائے اور نہانا ممکن نہ ہو تو تیمّم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے ۔لیکن پہلا گروہ اس مسئلہ کو حدیث سے اخذ کرتا ہے اور دوسرا گرو ہ اس روایت کی بنیاد قرآن کی مند ر جہ بالا آیت پر رکھتا ہے‘‘۔(ایضاً، ص۳۵۵)

غسل جنابت بھی جدیدیت کے حامیان اور ماڈرن افراد کے لیے ایک اضافی عمل ہے، جس کی ان کے نزدیک کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔

’’حکم کی تفصیلی صورت یہ ہے کہ اگر آدمی بے وضو ہے یا اُسے غسل کی حاجت ہے اور پانی نہیں ملتا تو یہ تیمّم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے ۔اگر مریض ہے اور غسل یا وضو کرنے سے اس کو نقصان کا اندیشہ ہے تو پانی موجود ہونے کے باوجود تیمّم کی اجازت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

تیمّم کےمعنی قصدکرنے کے ہیں ۔مطلب یہ ہے کہ جب پانی نہ ملے یا پانی ہو اور اس کا استعمال ممکن نہ ہو تو پاک مٹی کا قصد کرو۔

 تیمّم کے طریقے میں فقہاکے درمیان ا ختلاف ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دفعہ مٹی پر ہاتھ مار کر منہ پر پھیر لیا جائے ،پھر دوسری دفعہ ہاتھ مار کر کہنیوں تک ہاتھوں پر پھیر لیا جائے ۔ امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور اکثر فقہا کا یہی مذہب ہے،  اور صحابہ و تابعین میں سے حضرت علی، عبداللہ بن عمر، حسن بصری، شعبی اور سالم بن عبداللہ وغیرہم اس کے قائل تھے۔ دوسرے گروہ کے نزدیک صرف ایک دفعہ ہی ہاتھ مارنا کافی ہے۔ وہی ہاتھ منہ پر بھی پھیر لیا جائے اور اسی کو کلائی تک ہاتھوں پر بھی پھیر لیا جائے۔کہنیوں تک مسح کر نےکی ضرورت نہیں۔ یہ عطا اور مکحو ل اور اوزاعی اوراحمد ابن حنبل ر حمہم اللہ کا کا مذہب ہے اور عموماً حضراتِ ا ہل حدیث اسی کے قائل ہیں ۔

 تیمّم کے لیے ضروری نہیں کہ زمین ہی پر ہاتھ مارا جائے ۔اس غرض کے لیے ہر گرد آلود چیز اور ہر وہ چیز جو خشک اجزاء ارضی پر مشتمل ہو کافی ہے ۔

بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس طرح مٹی پر ہاتھ مار کر منہ اور ہاتھوں پر پھیر لینے سے آخر طہارت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے؟لیکن درحقیقت یہ آدمی میں طہارت کی حِس اور نماز کا احترام قائم رکھنے کے لیے ایک اہم نفسیاتی تد بیرہے۔ اس سے فائدہ یہ ہے کہ آدمی خواہ کتنی ہی مدت تک پانی استعمال کرنے پر قادر نہ ہو،بہرحال اس کے اندر طہارت کا احساس برقرار رہے گا، پاکیزگی کے جو قوانین شریعت میں مقرر کر دیے گئے ہیں ان کی پابندی وہ برابر کرتا رہے گا ،اور اس کے ذہن سے قابلِ نماز ہونے کی حالت اور قابلِ نماز نہ ہونے کی حالت کا فرق و امتیاز کبھی محو نہ ہو سکے گا‘‘۔(ایضاً، ص ۳۵۶)

باہمی اختلافات میں فیصلہ

نہیں، اے محمدؐ، تمھارے رب کی قسم! یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں ۔ (النساء۴:۶۵)

یہ حکم ،کہ باہمی اختلافات میں تم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو فیصلہ کرنے والا مان لو اور اس پر خوشی کے ساتھ عمل کرو ، حجت بازی نہ کرو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک ہی محدود نہیں تھا۔ یہ نہ صرف ملکو ں اور قبائل کے اختلافات پر محیط ہے،بلکہ گھر میں شوہر، بیوی،بچوں اور والدین، بزرگوں اور جوانوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کے لیے بھی ہے۔

قرآن اور حدیث سے ہمیں واضح ہدایات مل جاتی ہیں۔ ان کی روشنی میں ہم اپنے درمیان سراٹھانے والے اختلافات کو خوش اسلوبی سے سلجھا سکتے ہیں۔دین کو تھوڑا بہت بھی سمجھنے والے ہوں تو دونوں فریقین بالعموم ان حوالوں پر مطمئن ہوجاتے ہیںیا چپ ہو جاتے ہیں۔اور اگر نفس اور شیطان غالب ہو تو پھر تصفیہ مشکل ہوپاتا ہے۔

خیال رہے کہ ’’خدا کی طرف سے رسول اس لیے نہیں آتا ہے کہ بس اس کی رسالت پر ایمان لے آئو اور پھر اطاعت جس کی چاہو کرتے رہو، بلکہ رسول کے آنے کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ زندگی کا جو قانون وہ لے کر آیا ہے، تمام قوانین کو چھوڑ کر صرف اسی کی پیروی کی جائے اور خدا کی طرف سے جو احکام وہ دیتا ہے، تمام احکام کو چھوڑ کر صرف انھی پر عمل کیا جائے۔ اگر کسی نے یہی نہ کیا تو پھر اس کا محض رسول کو رسول مان لینا کوئی معنی نہیں رکھتا‘‘۔ (تفہیم القرآن، اوّل، ص۳۶۸)

اور تمھاری بیویوں نے جو کچھ چھوڑا ہو اس کا آدھا حصّہ تمھیں ملے گا اگر وہ بے اولاد ہوں ، ورنہ اولاد ہونے کی صورت میں ترکہ کا ایک چوتھائی حصّہ تمھارا ہے، جب کہ وصیّت جو انھوں نے کی ہو پوری کر دی جائے، اور قرض جو انھوں نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے۔ اور وہ تمھارے ترکہ میں سے چوتھائی کی حق دار ہوں گی اگر تم بے اولاد ہو ، ورنہ صاحبِ اولاد ہونے کی صورت میں ان کا حصّہ آٹھواں ہوگا ، بعد اس کے کہ جو وصیّت تم نے کی ہو وہ پوری کر دی جائے اور جو قرض تم نے چھوڑا ہو وہ ادا کردیا جائے۔

اور اگر وہ مرد یا عورت (جس کی میراث تقسیم طلب ہے) ﴾ بے اولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ بھی زندہ نہ ہوں، مگر اس کا ایک بھائی یا ایک بہن موجود ہو تو بھائی اور بہن ہر ایک کو چھٹا حصّہ ملے گا، اور بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو کُل ترکہ کے ایک تہائی میں وہ سب شریک ہوں گے،جب کہ وصیّت جو کی گئی ہو پوری کر دی جائے، اور قرض جو میّت نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے، بشرطیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو ۔ یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ دانا و بینا اور نرم خو ہے۔(النساء۴:۱۲)

شوہر کو بیوی کی وراثت سے آدھا حصہ ملے گا اگر ان کی کوئی اولاد نہ ہو ،اگر اولاد ہو تو شوہر کا حصہ ایک چوتھائی ہوگا ۔اسی طرح بیوی کو شوہر کی جائیداد میں سے ایک چوتھائی حصہ ملے گا اگر  ان کی اولاد نہ ہو، اور اگر اولاد ہو تو بیوی کو شوہر کی جائیداد میں آٹھواں حصہ ملے گا ۔

اگر وہ عورت یامردجس کے والدین حیات نہ ہوں،اور اولاد بھی نہ ہو تو ایسے شخص کو ’کلالہ‘ کہا جاتا ہے ۔اس کی جائیداد اس کے بہن بھائیوں میں تقسیم ہو گی ۔ایک بہن اور ایک بھائی ہو تو بھائی اور بہن دونوں کو ترکہ کا چھٹا حصہ ملے گا ۔بہن بھائی زیادہ ہو ں تو ترکےکے ایک تہائی میں سب شریک ہوں گے ۔مردوں کا دوہرا اور عورتوں کا اکہرا حصہ ہوگا۔

حدود اللہ کی اہمیت

یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کر جائے گا اسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رُسوا کن سزا ہے۔ (النساء۴:۱۳-۱۴)

خاندان کی اکائی کو مضبوط کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو ہدایات دی ہیں ان کو اللہ تعالیٰ اپنی حدود کہتے ہیں۔حدود کو تجاوز نہیں کرنا ہوتا ،بلکہ ان کے اندر رہنے میں ہی اللہ کی رضا اور اجر و انعامات کے وعدے بھی ہیں۔ اور یہ بھی فرما دیا،متصلًاکہ جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے گا ،حدود کو تجاوز کرے گا ،اللہ اس کو آگ میں ڈالے گا ،اور رُسوا کن عذاب مقدر ہو گا۔

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تمھارے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو ۔ اور نہ یہ حلال ہے کہ انھیں تنگ کر کے اُس مَہر کا کچھ حصّہ اڑا لینے کی کوشش کرو جو تم انھیں دے چکے ہو ۔ ہاں، اگر وہ کسی صریح بدچلنی کی مرتکب ہوں (تو ضرور تمھیں تنگ کرنے کا حق ہے)۔ ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو ۔ اگر وہ تمھیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو ۔ (النساء۴:۱۹)

’’اس سے مراد یہ ہے کہ شوہر کے مرنے کے بعد اس کے خاندان والے اس کی بیوہ کو میت کی میراث سمجھ کر اس کے ولی وارث نہ بن بیٹھیں ۔ عورت کا شوہر جب مر گیا تو وہ آزاد ہے ۔ عدت گزار کر جہاں چاہے جائے اور جس سے چاہے نکاح کر لے‘‘ ۔(تفہیم القرآن، اوّل، سورئہ نساء، ص۳۳۴)

اگر عورت ناپسند ہو تو اس میں بھلائی سے مراد یہ ہے: ’’اگر عورت خوب صورت نہ ہو ، یا اس میں کوئی اور ایسا نقص ہو جس کی بنا پر وہ شوہر کو پسند نہ آئے ، تو یہ مناسب نہیں ہے کہ شوہر فوراً دل برداشتہ ہو کر اسے چھوڑ دینے پر آمادہ ہو جائے ۔ حتی الامکان اسے صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک عورت خوب صورت نہیں ہوتی مگر اس میں بعض دوسری خوبیاں ایسی ہوتی ہیں جو ازدواجی زندگی میں حُسنِ صورت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں ۔ اگر اسے اپنی ان خوبیوں کے اظہار کا موقع ملے تو وہی شوہر جو ابتداً محض اس کی صورت کی خرابی سے دل برداشتہ ہو رہا تھا ، اس کے حُسنِ سیرت پر فریفتہ ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح بسا اوقات ازدواجی زندگی کی ابتدا میں عورت کی بعض باتیں شوہر کو ناگوار محسوس ہوتی ہیں اور وہ اس سے بد دل ہو جاتا ہے ، لیکن اگر وہ صبر سے کام لے اور عورت کے تمام امکانات کو بروئے کار آنے کا موقع دے ، تو اس پر خود ثابت ہو جاتا ہے کہ اس کی بیوی برائیوں سے بڑھ کر خوبیاں رکھتی ہے ۔ لہٰذا یہ بات پسندیدہ نہیں ہے کہ آدمی ازدواجی تعلق کو منقطع کرنے میں جلد بازی سے کام لے ۔ طلاق بالکل آخری چارۂ کار ہے جس کو ناگزیر حالات ہی میں استعمال کرنا چاہیے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:ابغض الحلال الی اللہ الطلاق،’’ یعنی طلاق اگرچہ جائز ہے ، مگر تمام جائز کاموں میں اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند اگر کوئی چیز ہے تو وہ طلاق ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:تزوجوا ولا تطلقوا فان اللہ لا یحب الذواقین والذواقات،یعنی نکاح کرو اور طلاق نہ دو ، کیونکہ اللہ ایسے مردوں اور عورتوں کو پسند نہیں کرتا جو بھونرے کی طرح پھول پھول کا مزا چکھتے پھریں ‘‘۔(ایضاً، ص ۳۳۴-۳۳۵)

دوسری شادی

اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کر لو تو خواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو ، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا ۔ کیا تم اسے بہتان لگا کر اور صریح ظلم کر کے واپس لو گے؟ اور آخر تم اسے کس طرح لے لو گے، جب کہ تم ایک دوسرے سے لطف اندوز ہو چکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں؟ (النساء ۴:۲۰-۲۱)

یعنی پہلی بیوی کو جو مہر ،اور تحفہ تحا ئف دیے ہیں،ان میں سے کچھ واپس نہ لو۔ آخر تم جب اس کے ساتھ اَزدواجی تعلق رکھتے ہو تو یہ اموال کیوں کر واپس لو گے؟

سوتیلی ماں سے نکاح

اور جن عورتوں سے تمھارے باپ نکاح کر چکے ہوں اُن سے ہرگز نکاح نہ کرو، مگر جو پہلے ہو چکا سو ہو چکا۔ درحقیقت یہ ایک بے حیائی کا فعل ہے، ناپسندیدہ ہے اور بُرا چلن ہے۔(النساء۴:۲۲)

جا ہلیت کا ایک طریقہ سوتیلی ماں سے نکاح کا تھا ۔اسلام نے سختی کے ساتھ اس کی ممانعت فرمائی ہے ۔اسلامی قانون میں یہ فعل فوجداری جرم ہے اور قابلِ دست اندازیِ پولیس ہے۔ حضوؐر کا ارشاد ہے کہ ’’جو شخص محرمات میں سے کسی کے ساتھ زنا کرے اس کو قتل کردو‘‘۔

جن عورتوں سے نکاح حرام ہے

تم پر حرام کی گئیں تمھاری مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، اور تمھاری وہ مائیں جنھوں نے تم کو دودھ پلایا ہو، اور تمھاری دودھ شریک بہنیں، اور تمھاری بیویوں کی مائیں، اور تمھاری بیویوں کی لڑکیاں جنھوں نے تمھاری گودوں میں پرورش پائی ہے___ ان بیویوں کی لڑکیاں، جن سے تمھارا تعلق زن و شو ہو چکا ہو ۔ ورنہ اگر( ﴿صرف نکاح ہوا ہو) اور تعلق زن و شو نہ ہوا ہو تو (انھیں چھوڑ کر ان کی لڑکیوں سے نکاح کرلینے میں) تم پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے___ اور تمھارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمھاری صُلب سے ہوں۔ اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو ، مگر جو پہلے ہوگیا سو ہو گیا ، اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ (النساء۴:۲۳)

ماں کا اطلاق سگی اور سوتیلی پر ہوتا ہے ،اور دونوں حرام ہیں۔ اسی طرح دادی اور نانی بھی حرام ہیں ۔اسی طرح بیٹی کے حکم میں پوتی اور نواسی بھی آتی ہیں۔ بہن، سگی،سو تیلی اور ماں شریک بہن اس حکم میں یکساں ہیں۔

 رضائی رشتوں کی حرمت بھی نکاح کے معاملے میں سگے رشتوں کی طرح ہے۔ عورت کی پچھلے خاوند کی بیٹی بھی حرام ہے، اور اس کا حرام ہونا اس بات پر منحصر نہیں ہے کہ اس نے سوتیلے باپ کے گھر میں پرورش پائی ہے یا نہیں۔بلکہ اس پر تقریباً اجماعِ اُمت ہےکہ سوتیلی بیٹی آدمی پر حرام ہے،خواہ اس نے کہیں اور پرورش پائی ہو یا سوتیلے باپ کے گھر پر پرورش پائی ہو۔

 منکوحہ عورت سے نکاح کی ممانعت

اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں جو کسی دوسرے کے نکاح میں ہوں (محْصَنَات) البتہ ایسی عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں جو (جنگ میں) تمھارے ہاتھ آئیں۔ یہ اللہ کا قانون ہے جس کی پابندی تم پر لازم کر دی گئی ہے۔ ان کے ما سوا جتنی عورتیں ہیں انھیں اپنے اموال کے ذریعے سے حاصل کرنا تمھارے لیے حلال کر دیا گیا ہے ، بشرطیکہ حصارِ نکاح میں ان کو محفوظ کرو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو ۔ پھر جو ازدواجی زندگی کا لطف تم ان سے اٹھاؤ اس کے بدلے اُن کے مَہر بطور فرض کے ادا کرو ، البتہ مَہر کی قرارداد ہوجانے کے بعد آپس کی رضامندی سے تمھارے درمیان اگر کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، اللہ علیم اور دانا ہے ۔ (النساء۴:۲۴)

’’جو عورتیں جنگ میں پکڑی ہو ئی آئیں اور ان کے کافر شوہر دارالحرب میں موجود ہوںوہ حرام نہیں ہیں، کیوں کہ دارالحرب سے دارالاسلام میں آنے کے بعد ان کے نکاح ٹوٹ گئے ۔ایسی عورتوں کےساتھ نکاح بھی کیا جاسکتا ہےاور جس کے ملک ِ یمین میں ہوں وہ ان سے تمتع بھی کر سکتا ہے....

 لونڈیوں میں تمتع کے معاملے میں بہت سی غلط فہمیاں لوگوں کے ذہن میں ہیں، لہٰذا حسب ذیل مسائل کو اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے:

۱- جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوں ،ان کو پکڑتے ہی ہر سپاہی ان کے ساتھ مباشرت کر لینے کا مجاز نہیں ہے،بلکہ اسلامی قانون یہ ہےکہ ایسی عورتیں حکومت کے حوالے کر دی جائیں گی۔ حکومت کو اختیار ہے کہ چاہےان کو رہا کردے، چاہے ان سے فدیہ لے ، چاہےان کا تبادلہ  اُن مسلمان قیدیوں سے کرے جو دشمن کے ہاتھ میں ہوں، اور چاہے تو انھیں سپاہیوں میں تقسیم کردے۔ ایک سپاہی صرف اس عورت ہی سے تمتع کرنے کامجاز ہےجو حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کی ملک میں دی گئی ہو۔

۲- جو عورت اس طرح کسی کی مِلک میں دی جائے ،اس کے ساتھ بھی اُسں وقت تک مباشرت نہیں کی جا سکتی جب تک کہ اسے ایک مرتبہ ایام ماہواری نہ آ جائیں اور یہ اطمینان نہ ہولے کہ وہ حاملہ نہیں ہے ۔اس سے پہلے مباشرت کرنا حرام ہے۔ اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے بھی مباشرت ناجائز ہے ۔

۳- جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں سے تمتع کے معاملے میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب ہی میں سے ہوں۔ان کا مذہب خواہ کوئی ہو، بہرحال جب وہ تقسیم کر دی جائیں گی ،تو جن کے حصے میں وہ آئیں وہ ان سے تمتع کر سکتے ہیں ۔

۴-جو عورت جس شخص کے حصے میں دی گئی صرف وہی اس کے ساتھ تمتع کر سکتا ہے۔ کسی دوسرے کو اسے ہاتھ لگانے کا حق نہیں ہے۔ اس عورت سے جو اولاد ہوگی وہ اسی شخص کی جائز اولاد سمجھی جائے گی جس کی مِلک میں وہ عورت ہے ۔اس اولاد کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو شریعت میں صُلبی اولاد کے لیے مقرر ہیں۔ صاحب ِاولاد ہوجانے کے بعد وہ عورت فروخت نہ کی جا سکے گی اور مالک کے مرتے ہی وہ آپ سے آپ آزاد ہوجائے گی۔

۵- حکومت کی طرف سے حقوق ملکیت کا باقاعدہ عطا کیا جانا، ویسا ہی ایک قانونی فعل ہے جیسا نکاح ایک قانونی فعل ہے ۔لہذا کوئی معقول وجہ نہیں کہ جو شخص نکاح میں کسی قسم کی کراہت محسوس نہیں کرتاوہ خواہ مخواہ لونڈی سے تمتع کرنے میں کراہت محسوس کرے۔

۶- جس طرح شریعت نے بیویوں کی تعداد پر چار کی پابندی لگائی ہے، اُس طرح لونڈیوں کی تعداد پر نہیں لگائی ۔لیکن اس معاملے میں کوئی حد مقرر نہ کرنے سے شریعت کا منشا یہ نہیں تھا کہ مال دار لوگ بے شمار لونڈیاں خرید خرید کر جمع کرلیں اور اپنے گھر کو عیاشی کا گھر بنا لیں۔ بلکہ درحقیقت اس معاملہ میں عدم تعین کی وجہ جنگی حالات کا عدم تعین ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۴۰-۳۴۱)

غیرمنکوحہ عورت کے ساتھ بےتکلفی، گپ شپ، خلوت و جلوت میں ملاقاتیں جو شہوانی جذبات کو تحریک دینے والے اور آخر کار غلط کاری اور ناجائز تعلق پر منتج ہوں، اسلامی معاشرے کا چلن نہیں ہے۔ یہ حیا،دبی زبان سے بات نہ کرنے، تخلیہ میں غیر محرم کے ساتھ بات چیت نہ کرنے کی تلقین کرنےوالا، عورتوں کے لباس اوراظہار زینت کے دائرے مقرر کرنے والا دین ہے۔ جس سے ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے ۔نکاح ایک حفاظت یاحصا ر ہے،سرٹیفکیٹ نہیں ہے کہ ہرخاص وعام کے ساتھ بے تکلفانہ اور بے حجابانہ معاملے کی اجازت مل گئی۔ نکاح کرنے ،مہر ادا کرنے اور بیویوں کو نکاح کےحصار میں محفوظ کرنے کی تلقین ہے۔مرد اور عورت کو نکاح ،آزاد شہوت رانی اور گمراہی سے بچانے کے لیے ہے۔

کنیز/لونڈی سے نکاح کرنے کی سہولت

اور جو شخص تم میں سے اتنی مقدرت (طاقت) نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورتوں (محْصَنَات) سے نکاح کر سکے اسے چاہیے کہ تمھاری ان لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کر لے جو تمھارے قبضہ میں ہوں اور مومنہ ہوں۔ اللہ تمھارے ایمانوں کا حال خوب جانتا ہے ، تم سب ایک ہی گروہ کے لوگ ہو، لہٰذا ان کے سرپرستوں کی اجازت سے اُن کے ساتھ نکاح کر لو اور معروف طریقے سے ان کے مہر ادا کر دو ،تاکہ وہ حصارِ نکاح میں محفوظ (محْصَنَات) ہو کر رہیں، آزاد شہوت رانی نہ کرتی پھریں اور نہ چوری چھپے آشنائیاں کریں ۔ پھر جب وہ حصارِ نکاح میں محفوظ ہو جائیں اور اس کے بعد کسی بدچلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر اُس سزا کی بہ نسبت آدھی سزا ہے جو خاندانی عورتوں (محصنَات) ﴾ کے لیے مقرر ہے ۔ یہ سہولت تم میں سے اُن لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے جن کو شادی نہ کرنے سے بندِ تقویٰ کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہو ۔ لیکن اگر تم صبر کرو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے ، اور اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (النساء۴:۲۵)

’’سرسری نگاہ میں یہاں ایک پیچیدگی واقع ہوتی ہے جس سے خوارج اور اُن دوسرے لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے جو رجم کے منکر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اگر آزاد شادی شدہ عورت کے لیے شریعت ِاسلام میں زنا کی سزا رجم ہے تو اس کی نصف سزا کیا ہو سکتی ہے جو لونڈی کو دی جائے ؟ لہٰذا یہ آیت اس بات پر دلیل قاطع ہے کہ اسلام میں رجم کی سزا ہے ہی نہیں‘‘ ۔ لیکن ان لوگوں نے قرآن کے الفاظ پر غور نہیں کیا ۔ اس رکوع میں لفظ ’محصنت‘ ( محفوظ عورتیں ) دو مختلف معنوں میں استعمال کیا گیا ہے ۔ ایک ’شادی شدہ عورتیں‘ جن کو شوہر کی حفاظت حاصل ہو ۔ دوسرے ’خاندانی عورتیں‘ جن کو خاندان کی حفاظت حاصل ہو ، اگرچہ وہ شادی شدہ نہ ہوں ۔ آیت زیرِ بحث میں ’محصَنات‘ کا لفظ لونڈی کے بالمقابل خاندانی عورتوں کے لیے دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے نہ کہ پہلے معنی میں ، جیسا کہ آیت کے مضمون سے صاف ظاہر ہے ۔ بخلاف اس کے لونڈیوں کے لیے محصنات کا لفظ پہلے معنی میں استعمال ہوا ہے اور صاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ جب انھیں نکاح کی حفاظت حاصل ہو جائے( فَاِذَآ اُحْصِنَّ ) تب ان کے لیے زنا کے ارتکاب پر وہ سزا ہے جو مذکور ہوئی ۔

اب اگر غائر نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ خاندانی عورت کو دو حفاظتیں حاصل ہوتی ہیں ۔ ایک ، خاندان کی حفاظت ، جس کی بنا پر وہ شادی کے بغیر بھی ’محصنہ‘ ہوتی ہے ۔ دوسری ، شوہر کی حفاظت ، جس کی وجہ سے اس کے لیے خاندان کی حفاظت پر ایک اور حفاظت کا اضافہ ہو جاتا ہے ۔ بخلاف اس کے لونڈی جب تک لونڈی ہے ،’محصنہ‘@نہیں ہے ، کیونکہ اس کو کسی خاندان کی حفاظت حاصل نہیں ہے ۔ البتہ نکاح ہونے پر اس کو صرف شوہر کی حفاظت حاصل ہوتی ہے اور وہ بھی ادھوری ، کیونکہ شوہر کی حفاظت میں آنے کے بعد بھی نہ تو وہ ان لوگوں کی بندگی سے آزاد ہوتی ہے جن کی مِلک میں وہ تھی ، اور نہ اسے معاشرت میں وہ مرتبہ حاصل ہوتا ہے جو خاندانی عورت کو نصیب ہوا کرتا ہے ۔ لہٰذا اسے جو سزا دی جائے گی ، وہ غیر شادی شدہ خاندانی عورتوں کی سزا سے آدھی ہو گی ، نہ کہ شادی شدہ خاندانی عورتوں کی سزا سے ۔ نیز یہیں سے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ سورۂ نور کی دوسری آیت میں زنا کی جس سزا کا ذکر ہے ، وہ صرف غیر شادی شدہ خاندانی عورتوں کے لیے ہے ، جن کے مقابلے میں یہاں شادی شدہ لونڈی کی سزا نصف بیان کی گئی ہے ‘‘۔(ایضاً،ص ۳۴۲-۳۴۳)

جو لوگ شادی نہ کر سکنے کی وجہ سے صبر نہ کر سکتے ہوں، تقویٰ پر قائم نہ رہ سکتے ہو ں اُن کے لیے یہ سہولت دے دی گئی ہے ۔جو شخص اتنی طاقت نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورت سے نکاح کرنے کے اخراجات اٹھا سکے وہ کسی کی لونڈی سے نکاح کرلے۔(جاری)

جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدّت پوری کر لیں، تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیرِ تجویز شوہروں سے نکاح کر لیں، جب کہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر راضی ہوں۔ تمھیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہرگز نہ کرنا، اگر تم اللہ اور روز آخر پر ایمان لانے والے ہو۔ تمھارے لیے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔

جو باپ چاہتے ہوں کہ ان کی اولا د پوری مدتِ رضاعت تک دودھ پیے، تو مائیں اپنے بچوں کو کامل دو سال دودھ پلائیں۔ اِس صورت میں بچے کے باپ کو معروف طریقے سے انھیں کھانا کپڑا دینا ہوگا۔ مگر کسی پر اس کی وسعت سے بڑھ کر بار نہ ڈالنا چاہیے۔ نہ تو ماں کو اِس وجہ سے تکلیف میں ڈالا جائے کہ بچہ اس کا ہے، اور نہ باپ ہی کو اس وجہ سے تنگ کیا جائے کہ بچہ اس کا ہے___ دودھ پلانے والی کا یہ حق جیسا کہ بچے کے باپ پر ہے، ویسا ہی اس کے وارث پر بھی ہے___ لیکن اگر فریقین باہمی رضامندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں، تو ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔(البقرہ ۲:۲۳۲-۲۳۳)

یعنی دودھ پلانے کا معاملہ اس صورت میں طے ہونا ضروری ہے، جب ماں باپ میں علیحدگی ہو چکی ہو ۔اس کے لیے نان نفقہ بھی دینا ہوگا۔ باپ کا انتقال ہو جائے تو یہ حق اس کو ادا کرنا ہوگا جو باپ کی جگہ ولی ہو۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ علیحدگی اور شوہر کی وفات کی صورت میں بچہ ددھیال والے لے لیتے ہیں کہ ہمارا بچہ ہے ہم خود دیکھ لیں گے۔ عورت کی خواہش کے برعکس ایسا کرنا ممتا کےلیے تکلیف دہ ہوتا ہے ۔اس لیے ایسے افعال سے بھی بچنے کی ضرورت ہے۔

بیوہ کی عدّت

تم میں سے جو لوگ مر جائیں، اُن کے پیچھے اگر اُن کی بیویاں زندہ ہوں، تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے، دس دن روکے رکھیں۔ پھر جب ان کی عدّت پوری ہو جائے، تو انھیں اختیار ہے، اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے جو چاہیں، کریں۔ تم پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ اللہ تم سب کے اعمال سے باخبر ہے۔(البقرہ ۲:۲۳۴)

’’یہ عدّ تِ وفا ت ان عورتوں کے لیے بھی ہے جن سے شوہروں کی خلوتِ صحیحہ نہ ہوئی ہو۔ البتہ حاملہ عورت اس سے مستثنیٰ ہے۔اس کی عدّتِ وفات وضع حمل تک ہے ،خواہ وضع حمل شوہر کی وفات کے بعد ہی ہو جائے یااس میں کئی مہینے صرف ہو ں۔ ' ’اپنے آپ کو روکے رکھیں‘ 'سے مراد صرف یہی نہیں ہے کہ وہ اس مدت میں نکاح نہ کریں ،بلکہ اس سے مراد اپنے آپ کو زینت سے بھی روکے رکھنا ہے۔چنانچہ احادیث میں واضح طور پر یہ احکام ملتے ہیں کہ زمانۂ عدّت میں عورت کو رنگین کپڑے اور زیور پہننے سے، مہندی اور سُرمہ اور خوشبو اور خضاب لگانے سے، اور بالوں کی آرائش سے پرہیز کرنا چاہیے۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ وہ اس زمانے میں گھر سے نکل سکتی ہیں یا نہیں؟ائمہ اربعہ اس بات کے قائل ہیں کہ زمانۂ عدّت میں عورت کو اسی گھر میں رہنا چاہیے جہاں اس کے شوہر نے وفات پائی ہو (البتہ ضر ورت کے لیے) وہ باہر جا سکتی ہے مگر قیام اس کا اُسی گھر میں ہونا چاہیے۔ اس کے برعکس حضرت عائشہؓ اور تمام اہل الظاہر اس بات کے قائل ہیں کہ عورت اپنی عدّت جہاں چاہے گزار سکتی ہے اور اس زمانے میں سفر بھی کر سکتی ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، اوّل، حاشیہ ۲۵۹)

’عدّت‘ کے احکام سے بے خبری بھی عام ہے اور کچھ خود ساختہ آزادی یا پابندیاںہیں  جس پر عموماً معاشرے میں عمل ہوتا ہے ۔ایک رویہ یہ ہے کہ عورت کو سفید دوپٹہ اُ وڑھا دیا جائے، زیورات اتار دیئے جائیں ،قریب سے بھی آوازیں آتی ہیں 'ہائے بے چاری کیا کرے، کچھ نہیں ہوتا خوامخو ا ہ کی سختی نہ کریں ۔ملی جلی آوازوں میں، بیوہ بھی پریشان اور گومگو کی کیفیت میں چلی جاتی ہے کیونکہ خود علم نہیں ہوتا اور فوری طور پر علم حاصل کرنے کا موقع بھی نہیں ہوتا۔

عدّت کے دوران نکاح کی ممانعت

زمانۂ عدّت میں خواہ تم اُن بیوہ عورتوں کے ساتھ منگنی کا ارادہ اشارے کنایے میں ظاہر کر دو، خواہ دل میں چھپائے رکھو، دونوں صورتوں میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اللہ جانتا ہے کہ اُن کا خیال تو تمھارے دل میں آئے گا ہی۔ مگر دیکھو! خفیہ عہد و پیمان نہ کرنا۔ اگر کوئی بات کرنی ہے، تو معرف طریقے سے کرو۔ (البقرہ ۲:۲۳۵)

’عدّت‘ کے احکام کا علم نہ ہونے کی بنا پر، یا کئی اور نام نہاد مجبوریوں کی آڑ میں کبھی علانیہ اور اکثر خفیہ رکھ کر نکاح کر لیا جاتا ہے،جو کہ اللہ کے بتائے ہوئے احکامات کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اور اگر معاشرے کے سرکردہ لوگ ،اسی طرح کریں تو وہ بھی عوام الناس کے لیے وجۂ جواز بن جاتی ہے۔

رخصتی سے قبل طلاق

تم پر کچھ گناہ نہیں، اگر اپنی عورتوں کو طلاق دے دو قبل اس کے کہ ہاتھ لگانے کی نوبت آئے یا مہر مقرر ہو۔ اس صورت میں اُنھیں کچھ نہ کچھ دینا ضرور چاہیے۔ خوش حال آدمی اپنی مقدرت کے مطابق اور غریب اپنی مقدرت کے مطابق معروف طریقے سے دے۔ یہ حق ہے نیک آدمیوں پر۔ (البقرہ ۲:۲۳۶)

رشتہ جوڑ کر توڑ دینے سے عورت کی ساکھ کو نقصان تو پہنچتا ہے،اس لیے اللہ نے حسبِ استطاعت ازالے کا حکم دیا ہے۔

اور اگر تم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی ہو، لیکن مہر مقرر کیا جا چکا ہو، تو اس صورت میں نصف مہر دینا ہوگا۔ یہ اور بات ہے کہ عورت نرمی برتے (اور مہر نہ لے) یا وہ مرد، جس کے اختیار میں عقدِ نکاح ہے، نرمی سے کام لے (اور پورا مہر دے دے)، اور تم (یعنی مرد) نرمی سے کام لو، تو یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو۔ تمھارے اعمال کو اللہ دیکھ رہا ہے۔(البقرہ ۲:۲۳۷)

 یعنی نکاح ہوگیا ،رخصتی نہیں ہوئی اور مہر مقرر ہو چکا تھا تو اس صورت میں نصف مہر دینا ہوگا ۔اور اس میں شوہر اور بیوی دونوں کو فراخ دلی اور فیاضی برتنے کی تلقین کی گئی ہے، کہ انسانی معاشرے میں خوش گوار تعلقات کی اساس یہی ہے۔ اور یہی تقویٰ کا رویہ ہے۔

بیوہ کے حق میں وصیت

تم میں سے جو لوگوں وفات پائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑ رہے ہوں، اُن کو چاہیے کہ اپنی بیویوں کے حق میں یہ وصیت کر جائیں کہ ایک سال تک ان کو نان و نفقہ دیا جائے اور وہ گھر سے نہ نکالی جائیں۔ پھر اگر وہ خود نکل جائیں، تو اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے وہ جو کچھ بھی کریں، اس کی کوئی ذمہ داری تم پر نہیں ہے، اللہ سب پر غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے۔(البقرہ ۲:۲۴۰)

یہ احکامِ وراثت سے پہلے کی آیت ہے۔ بیوہ کا ورثے میں حصہ مقرر ہو جانے کے بعد، اس وصیت کر نے کا حکم منسوخ ہو گیا ،تاہم پسندیدہ یہی ہے کہ بیوہ سسرال میں ہی رہے۔ البتہ اگر سسرال میں قدرے مشکل ہو یا میکے میں آسانی ہو یا کوئی مجبوری ہو تو وہ دوسری جگہ بھی قیام کر سکتی ہے۔

علیحدگی کے وقت حسنِ معا ملہ

اِسی طرح جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، انھیں بھی مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔ اِس طرح اللہ اپنے احکام تمھیں صاف صاف بتاتا ہے۔ اُمید ہے کہ تم سمجھ بوجھ کر کام کرو گے۔(البقرہ ۲:۲۴۱-۲۴۲)

طلاق سے گو کہ شوہر اور بیوی کے تعلقات ختم ہو رہے ہیں۔ اور طلاق کا عمل بالعموم   آپس کے تعلقات کی خرابی کی وجہ سے پیش آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہاں ناراض ہونے، لڑنے یا تعلقات ختم کرتے ہوئے بھی حسن سلوک کا حکم دیتا ہے۔ تحا ئف دلوں کو نرم کرتے ہیں۔ رنج اور غصے کی کیفیت جو علیحدگی کے وقت طر فین پر طاری ہوتی ہے،کچھ دینے اور لینے سے بہتر ہوتی ہے۔

لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔(النساء ۴:۱)

آغاز اس سے کیا کہ ’تمھیں ایک ہی جان سے پیدا کیا‘۔خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا کے معنی ہیں اسی کی جنس سے۔ اگرچہ اس کے معنی لوگوں نے اور بھی لیے ہیں، لیکن جس کی بنیاد پر لیے ہیں وہ نہایت کمزور ہے۔ سورئہ نحل میں ہے: وَاللہُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا (۱۶:۷۲) کہ اللہ نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں۔ مراد یہ کہ نسلِ انسانی ایک ہی آدم کا گھرانا ہے۔ سب کو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی آدم و حوا کی نسل سے پیدا کیا ہے، اور نسلِ آدم ہونے کے اعتبار سے سب برابر ہیں، پھر یہ کہ جس طرح آدمؑ تمام نسلِ انسانی کے باپ ہیں، اسی طرح حواؑ تمام نسلِ انسانی کی ماں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حواؑ کو آدم ؑ ہی کی جنس سے بنایا ہے، اس وجہ سے عورت کوئی ذلیل، حقیر،فروتر اور فطری گنہگار مخلوق نہیں ہے، بلکہ وہ بھی شرفِ انسانیت میں برابر کی شریک ہے۔(مولانا امین احسن اصلاحی،تدبرقرآن، ج۲، ص ۲۴۵-۲۴۷)

آغاز میں یہ بھی وضاحت کردی گئی ہے کہ جس خدا کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے حق مانگتے ہو، رشتہ وقرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو ۔بہت اہم نکتہ یہ بیان کیا کہ ’’یہ یقین کرلو ،اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے‘‘ ۔یہ آیت ،یعنی سورۂ نساء ،کی پہلی آیت خطبۂ نکاح میں پڑھی جاتی ہے ۔اس میں یہ باور کرایا گیا ہے کہ اللہ، اس جوڑے کے باہمی معاملات کی نگرانی کررہا ہے۔ نکاح دُنیاداری یا رسمِ دُنیا نہیں، کچھ تقریبات ،کپڑوں اور زیورات کی نمائش نہیں ۔یہ کڑی ذمہ داری اور باہمی تعلقات کی ابتدا وعہد ہے جو رب کی رضا کے حصول کے لیے، رب کے حکم پر عمل کرنا ہے۔ کتنی بدنصیبی ہوتی ہے ،جب یہ تعلق ،اللہ کی رضا کی بجائے ،ہمارے طرزِ عمل کی وجہ سے اللہ کی ناراضی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

یتیم کے مال کی حفاظت

یتیموں کے مال اُن کو واپس دو، اچھے مال کو برے مال سے نہ بدل لو، اور اُن کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھا جاؤ، یہ بہت بڑا گناہ ہے۔(النساء ۴:۲) 

یعنی جب تک وہ بچے ہیں، ان کے مال انھی کے مفاد پر خرچ کرو، اور جب بڑے ہوجائیں تو جو ان کا حق ہے وہ انھیں واپس کر دو۔

تعدد ازدواج

اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کر لو۔ لیکن اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا اُن عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمھارے قبضہ میں آئی ہیں، بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرینِ صواب ہے۔(النساء ۴:۳)

اس کے تین مفہوم مفسرین نے بیان کیے ہیں :

۱-حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں جو یتیم بچیاں لوگوں کی سرپرستی میں ہوتی تھیں، ان کے مال اور ان کے حُسن و جمال کی وجہ سے، یا اس خیال سے کہ ان کا کوئی سر دھرا تو ہے نہیں ،جس طرح ہم چاہیں گے دبا کر رکھیں گے ،وہ ان کے ساتھ خود نکاح کرلیتے تھے اور پھر ان پر ظلم کیا کرتے تھے۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو دوسری عورتیں دنیا میں موجود ہیں،ان میں سے جو تمھیں پسند آئیں، ان کے ساتھ نکاح کر لو ۔اسی سورہ میں انیسویں رکوع کی پہلی آیت اس تفسیر کی تائید کرتی ہے۔

۲-ابن عباسؓ اور ان کے شاگرد عِکرمہ اس کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ جاہلیت میں نکاح کی کوئی حدنہ تھی ۔ایک ایک شخص دس دس بیویاں کر لیتا تھا ۔اور جب اس کثرتِ ازدواج سے مصارف بڑھ جاتے تھے تو مجبور ہو کر اپنے یتیم بھتیجوں ،بھانجوں اور دوسرے بے بس عزیزوں کے حقوق پر دست درازی کرتا تھا ۔اس پر اللہ تعالیٰ نے نکاح کے لیے چار کی حد مقرر کر دی ہے اور فرمایا کہ ظلم اور بے انصافی سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ ایک سے لے کر چار تک اتنی بیویاں کرو جن کے ساتھ تم عدل پر قائم رہ سکو۔

۳-سعید بن جُبیر اور قتادہ اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں ،کہ جہاں تک یتیموں کا معاملہ ہے اہلِ جاہلیت بھی ان کے ساتھ بے انصافی کرنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے ۔ لیکن عورتوں کے معاملے میں اُن کے ذہن عدل و انصاف کے تصور سے خالی تھے ۔جتنی چاہتے تھے شادیاں کر لیتے تھے اور پھر اُن کے ساتھ ظلم و جور سے پیش آتے تھے۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو عورتوں کے ساتھ بھی بے انصافی کرنے سے ڈرو۔ اول تو چار سے زیادہ نکاح ہی نہ کرو، اور اس چار کی حد میں بھی بس اتنی بیویاں رکھو جن کے ساتھ انصاف کر سکو۔نیز اس کامفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ ویسے انصاف نہیں کر سکتے تو اُن عورتوں سے نکاح کر لو جن کے ساتھ یتیم بچے ہیں ۔(تفہیم القرآن، ج اوّل، حاشیہ۴)

یہ بات بھی قابل غور ہےکہ یہ آیت چار بیویوں کی اجازت دینے کے لیے نہیں بلکہ تعددِ اَزواج کی تعداد کو چار تک محدود کرنے کے لیے نازل ہوئی ۔فقہائے امت کا بھی اجماع ہے کہ اس آیت کے ذریعے تعددِاَزواج کی حد مقرر کر دی گئی ۔اور یہ حکم ایک ہی وقت میں چار سے زیادہ بیویاں رکھنے سے منع کرنے کے لیے ہے۔

 دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ آیت ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کو عدل کی شرط کے ساتھ مشروط کرتی ہے۔ جو شخص بیویاں ایک سے زیادہ رکھتا ہےمگر ان کے در میا ن عدل نہیں کرتا، وہ اللہ کے اس حکم سے کہ ’ایک سے زیادہ بیویاں کرلو‘ سے تو فائدہ اٹھاتا ہے مگر عدل نہ کر کے گویا اللہ کے ساتھ دغا بازی کرتا ہے ۔

اسلامی حکومت کی عدالتوں کو ایسی بیوی یا بیو یو ں کی داد رسی کرنی چاہیے ،جن کو شوہر سے انصاف نہ ملے۔ ایک سے زیادہ بیویوں سے نکاح کرنا بعض حالات میں ایک تمدنی اور اخلاقی ضرورت بن جاتی ہے۔ اگر اس کی اجازت نہ دی جائے ،تو جو لوگ ایک بیوی پر صبر نہیں کرسکتے، دوسری عورتوں کے ساتھ صنفی تعلقات قائم کرتے ہیں اور تمدنی و اخلاقی مسائل کی وجہ بنتے ہیں، جس کے نقصانات معاشرے کو اس سے کئی گنازیادہ بھگتنے پڑتے ہیں بہ نسبت اس کے کہ ایک شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چار سے زیادہ بیویوں کی اجازت ملنا ایک استثنائی حکم ہے۔

اہل مغرب کی عیسائیت زدہ رائے کی بنا پر بعض احساسِ کمتری کا شکار قرآن کے اس حکم کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے بیویوں کی تعداد کو محدود کرنے کے لیے یہ ابتدائی حکم دیا تھا۔ گویا اصلاً ایک ہی بیوی ہونااسلام کا حکم ہے،یہ رائے غلط ہے۔(تفہیم القرآن، اوّل، حاشیہ۵)

آخر میں جو یہ فرمایا کہ ان عورتوں کو اپنی زوجیت میں لاؤ جو تمھارے قبضے میں ہیں ،تو اس سے مراد لونڈیاں ہیں۔ یہ وہ عورتیں ہیں ،جو جنگ میں گرفتار ہوکر آئیں اور حکومت ان کو علانیہ لوگوں میں تقسیم کرکے ان کی ملکیت بنا دے۔(ایضاً، حاشیہ نمبر۶)

ایک سے زیادہ نکاح کے بارے میں امت مسلمہ کے رویے مختلف ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کی عورت دوسری بیوی یا سوکن کو بہت مشکل سے گوارا کرتی ہے،اور اس گھر کے سو مسائل شروع ہوجاتے ہیں، جو مرد سنبھال نہیں پاتا۔ بقیہ دنیا میں ملا جلا معاملہ ہے ۔ مرد دوسرے نکاح تو کرلیتے ہیں مگر عدل کامعاملہ عموماً نہیں کر پاتے۔ جس پر نہ وہ خود مطمئن ہوتے ہیں اور یہاں تک کہ دین کی سمجھ رکھنے والی بیویوں کو بھی مطمئن نہیں کر پاتے۔

مہر

اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو، البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمھیں معاف کر دیں تو اُسے تم مزے سے کھا سکتے ہو۔ (النساء ۴:۴)

 بیویوں کے ’مہر‘ان کا حق ہے ۔اور اس ’مہر‘ کا ادا کیا جانا شوہر پر فرض ہے ۔نکاح کے موقع پر ہی مقررکردہ ’مہر‘ ادا کر دیا جانا اولیٰ ہےمگر ’معجل‘ اور’ غیرمعجل‘ کی رعایت بھی موجود ہے۔ بیوی شوہر کو حق مہر معاف بھی کر سکتی ہے ۔لیکن بعد ازاںاگر وہ پھر اس کا مطالبہ کرے تو شوہر کو یہ ادا کرنا ہوگا،اور عدالت عورت کو یہ دلوانے کی پابند ہوگی۔کیونکہ اس کا مطالبہ کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اپنی خوشی سے مہر یا اس کا کوئی حصہ چھوڑنا نہیں چاہتی۔

’مہر‘ کے معاملے میں ہمارے معاشرے میں بہت سی بے ضابطگیاں پائی جاتی ہیں۔ حق مہر کی ادائیگی طلاق دینے کے وقت تک مؤخرر کھی جاتی ہے ۔بہت زیادہ حق مہر لکھوائے جاتے ہیں کہ مرد لڑکی کو طلاق نہ دے سکے ۔باہم فریقین کا نباہ بھی نہیں ہوتا ،مگر تفریق کبھی نہیں ہو سکتی، کہ لڑکا لکھا ہوا حق مہر ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتا ۔

’حق مہر‘ کا ایک خود ساختہ تصور ’شرعی حق مہر‘ کا ہے جو کہ ۳۵ روپے ہے۔لوگ دین دار گھرانوں کو طعنہ دیتے ہیں کہ اب ان کی دین داری کہا ں ہےاور زیادہ مہر کیوں مقرر کر رہے ہیں؟ مہر بھی دین کا وہ حکم ہے جو دین دار حلقوں میں بھی کما حقہٗ متعارف نہیں۔ اس پر عمل ضروری ہے ،کہ اس کے بارے میں آگاہی بڑھائی جائے اور اس میں حیلے بہانے کرنے والوں کی کسی درجہ میں گرفت ہوسکے۔

وراثت کی تقسیم

 مردوں کے لیے اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔(النساء ۴:۷)

اس آیت میں واضح طور پر پانچ قانونی حکم دیے گئے ہیں:ایک یہ کہ میراث صرف مردوں ہی کا حصہ نہیں ہے بلکہ عورتیں بھی اس کی حق دار ہیں ۔دوسرے یہ کہ میراث بہرحال تقسیم ہونی چاہیے خواہ وہ کتنی ہی کم ہو، حتیٰ کہ مرنے والے نے ایک گز کپڑا چھوڑا ہے اور دس وارث ہیں ،تو اسے بھی دس حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔ یہ اور بات ہے کہ ایک وارث دوسرے وارثوں سے ان کا حصہ خرید لے۔تیسرے، اس آیت سے یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ وراثت کا قانون ہر قسم کے اموال و املاک پر جاری ہوگا، خواہ وہ منقولہ ہوں یا غیر منقولہ، زرعی ہوں یا صنعتی، یا کسی اور صنف مال میں شمار ہوتے ہوں۔چوتھے ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میراث کا حق اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مورث کوئی مال چھوڑ مرا ہو ۔پانچویں، اس سے یہ قاعدہ بھی نکلتا ہے کہ قریب کے رشتےدار کی موجودگی میں بعید تر رشتےدار میراث نہ پائے گا۔ (تفہیم القرآن، سورۃ النساء حاشیہ ۱۲)

وراثت میں حصہ مردوں اور عورتوں کا ہے اور رشتے کے لحاظ سے ہے ۔مرد بیٹا ہے ،یا باپ ہے، عورت بیٹی ہے ،یا ماں ہے ۔عملاً معاشرے میں اِلا ماشاء اللہ وراثت کی تقسیم شریعت کے مطابق ہو،تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے ۔ جہاں تقسیم ہوتی ہے وہاں صرف نقد رقم تقسیم ہو جاتی ہے۔ وہ بھی ۲۰ لاکھ بہن کے حصے میں آتا ہےتو ۱۰ لاکھ دے کر فارغ ہو جائیں گے ۔گھر بالعموم مشترکہ ہوتے ہیں، وہ تقسیم ہو تو کاروبار خراب ہوتا ہے،لہٰذا بہن کے حصے میں کچھ نہیں آ تا ہے ۔

گھر تقسیم کیسے ہوں؟ بہنوں کو حصہ کیسے دیں ؟ دے دیں تو ماں اور بیٹے کہاں رہیں ؟ لہٰذا تقسیم نہیں ہوسکتا اور نہیں ہوتا ۔رہا دوسرا سامان و غیرہ، تو وہ سب حساب میں لایا ہی نہیں جاتا ،ماں بھی بہوؤں کی ہم نوا بن جاتی ہے ، بیٹیاں اپنی قسمت کاکھا رہی ہیں ،یہاں کی چیزیں یہاں ہی رہنے دو ،یا ان چیزوں کی تقسیم کا کیا ذکر ہے؟

ماں باپ اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کر کے بیٹے اور بیٹیوں کے نام برابر ہدیہ کر دیتے ہیں کہ ہد یے میں تو برابری ہونی چاہیے ۔بعد میں بچے لڑتے نہ رہیں، بیٹیوں کو شاید حصہ نہ دیں یا یہ بھی ہوتا ہے کہ ساری جائیداد اپنی زندگی میں ہی بیٹوں کے نام کر دیں تو بیٹیاں عدالت جاپہنچیں۔ نہ بہوؤں کو اپنے میکے سے حصہ ملتا ہے، نہ وہ نندوں کو حصہ دینے کے حق میں ہوتی ہیں۔ اگر کہیں بیٹیاں خاموش رہنے کی بجائے ،زبان کھول کر مانگ لیں تو ساری عمر ان کا میکے میں داخلہ بند اور باہم لین دین ، شادی،خوشی کے موقع پر مل بیٹھنا سب ختم ہو جاتا ہے و غیر ہ ۔

قرآن میں قانونِ وراثت بڑی تفصیل سے مذکور ہے ،اس کو جاننا اور اس پر عمل کرنا ،اس کا ابلاغ کرنا، بحیثیت مسلمان ہماری سب کی ذمہ داری ہے ۔جس کے بارے میں یقیناا للہ پوچھے گا۔

یتیم کے مال کی حرمت

لوگوں کو اس بات کا خیال کر کے ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑتے تو مرتے وقت انھیں اپنے بچوں کے حق میں کیسے کچھ اندیشے لاحق ہوتے۔ پس چاہیے کہ وہ خدا کا خوف کریں اور راستی کی بات کریں۔(النساء ۴:۹)

یہاں پھر اللہ تعالیٰ خاندانوں میں رہنے والے یتیموں کے حقوق کے بارے میں یاد دہانی اور تاکید کرتا ہے ۔یتیم کا والی وارث دنیا سے چلا جاتا ہے۔ اللہ خود اس کے مال کے حوالے سے تمام مسلمانوں کو مالِ یتیم کی حرمت کے لیے یاد دہانی کراتا ہے۔

اولاد اور والدین کا میراث میں حصہ

تمھاری اولاد کے بارے میں اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے کہ: مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، اگر (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انھیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے۔ اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے۔ اگر میت صاحب ِاولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے۔ اور اگر وہ صاحب ِاولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہو ں تو ماں کو تیسرا حصہ دیا جائے۔ اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصہ کی حق دار ہوگی۔ (یہ سب حصے اُس وقت نکالے جائیں گے)، جب کہ وصیت جو میت نے کی ہو پوری کر دی جائے اور قرض جو اُس پر ہو ادا کردیا جائے۔ تم نہیں جانتے کہ تمھارے ماں باپ اور تمھاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں، اور اللہ یقیناً سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔(النساء ۴:۱۱)

’میراث‘ کے معاملے میں اصول یہ ہے کہ مرد کا حصہ عورت کے حصے سے دوگنا ہو تا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد پر ا للہ نے خا ند ا نی زندگی میں معاش کا بوجھ ڈالا ہے ،اور عورت پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ مرد عورت کے نان نفقے کا ذمہ دار ہے۔

اگر اولاد میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہو ں تو حصوں میں نسبت ۱:۲ / لڑکا :لڑکی ہو گی، لیکن اگر وارث صرف لڑکیاں ہوں تو ان کو کل ترکےکا ۳/۲ملے گا اور ۳/۱  باقی وارثوںمیں تقسیم ہوگا۔

اگر اولاد میں صرف ایک لڑکا ہو تو اس پر اجماع ہےکہ وہ کل جائیداد کا وارث ہوگا، جب کہ دوسرے وارث موجود نہ ہوں۔

والدین میں ہر ایک کا حصہ ۶/۱ ہے ،اگر میت صاحب اولاد ہو ۔اولاد نہ ہونے کی صورت میں والدین میں سے ہر ایک کو ۳/۱  حصہ ملے گا۔ آیت میں وصیت کا ذکر قرض سے پہلے کیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ قرض کا ہونا ہر میت کے حق میں ضروری نہیں ہے اور وصیت کرنا اس کے لیے ضروری ہے ۔لیکن حکم کے اعتبار سے امت کا اجماع اس پر ہے کہ قرض پہلے ادا کیا جائے گا پھر وصیت یعنی ایک تہائی وراثت کے بارے میں میت نے جو کہا ہے وہ نکالا جائے گا۔ بعد ازاں وراثت وارثوں میں تقسیم ہو گی۔ یہ بھی یاد رہے کہ وصیت کل ورثے کا ۳/۱  حصہ ہوگا۔ اس میں کسی رشتے دار، یتیم پوتا پوتی ،دیگر ضرورت مند افراد یا اداروں کے حق میں وصیت کی جا سکتی ہے۔ وصیت اُس کے حق میں نہیں ہوگی جن کا حصہ اللہ تعالیٰ نے وراثت میں مقرر کر دیا ہے۔

قرض کی ادائیگی اور وصیت پر عمل ورثاکی ذمہ داری ہے۔ جس کو خوشی خوشی ناک منہ چڑھائے بغیر پورا کیا جانا چاہیے ۔اگر مرنے والے نے وصیت میں کچھ بے جاتصرف کیا ہے ،تو ورثا باہم مشورے و رضامندی سے کسی قاضی کے ذریعے ،یہ بے ضابطگی درست کروا سکتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے جو مبنی بر حکمت ہے ۔اس کو پوری طرح سے نافذ کرنا چاہیے ۔اور اس میں اپنی ناقص عقل سے اصلاحات تجویز کرنا ،یا ہیرا پھیری کے راستے تلاش نہیں کرنے چاہییں۔

طلاق رجعی

جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، وہ تین مرتبہ ایام ماہواری آنے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں، اور اُن کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ نے اُن کے رحم میں جو کچھ خلق فرمایا ہو، اُسے چھپائیں۔ اُنھیں ہرگز ایسا نہ کرنا چاہیے اگر وہ اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتی ہیں۔ اُن کے شوہر تعلقات درست کر لینے پر آمادہ ہوں، تو وہ اِس عدت کے دوران اُنھیں پھر اپنی زوجیت میں واپس لے لینے کے حق دار ہیں۔ عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق اُن پر ہیں۔ البتہ مردوں کو اُن پر ایک درجہ حاصل ہے۔ اور سب پر اللہ غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا موجود ہے۔(البقرہ ۲:۲۲۸)

 شوہروں کو حق حاصل ہے کہ وہ عورت کی عدت کے اندر رجوع کرسکتے ہیں۔ اسے رجعیت کہتے ہیں ،لیکن تیسری طلاق کے بعد یہ حق حاصل نہیں رہتا۔ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد عدت ختم ہونے سے پہلے ،شوہر کو اس کا اختیار حاصل ہے کہ وہ رجوع کرے ،اس پر بیوی کو انکار کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ تم تو مجھے طلاق دے چکے ہو، اب میں تمھاری بات ماننے کو تیار نہیں۔

عورتوں کے لیے اسی طرح حقوق ہیں جس طرح ان پر ذمہ داریاں ہیں، ان کی مناسبت سے حقوق بھی ہیں۔ مردوں کے لیے ان پر ایک درجہ فوقیت ہے۔ اسلامی شریعت میں مرد اور عورت کے درمیان یعنی شوہر اور بیوی کے درمیان مساوات نہیں ہے ۔گھر کے ادارے میں عورت اور مرد برابر نہیں ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ کسی بھی ادارے کے اندر دو برابر کے سربراہ نہیں ہوسکتے۔ اگر آپ کسی ادارے کے دو مینیجنگ ڈائریکٹر بنا دیں تو وہ ادارہ تباہ ہو جائے گا۔ لہٰذا جب ایک مرد اور ایک عورت سے ایک خاندانی ادارہ وجود میں آئے تو اس کا سربراہ کون ہوگا؟ مرد یا عورت؟ مرد اور عورت انسان ہونے کے ناطے برابر ہیں۔ شرفِ انسانیت میں فرد کی حیثیت سے دونوں برابر ہیں لیکن جب وہ دونوں مل کر خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں تو اب یہ برابر نہیں رہے۔اسی طرح  جیسے ایک دفتر میں چپڑاسی اور افسر برابر نہیں ہیں۔ دونوں کے الگ الگ اختیارات اور فرائض ہیں۔

آج سے تقریباً ۴۰برس قبل طلاق کا لفظ بولنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔اگر کسی کی بیٹی یا کسی عورت کو طلاق ہو جاتی تو وہ منہ چھپائےپھر تے تھے۔ اپنے قریبی عزیزوں کو بھی نہیں بتاتے تھے۔ پھرا س کا چلن اتناعام ہوا کہ عورتیں محفلوں میں بیٹھ کر کہتیں کہ مجھے طلاق ہوچکی ہے، اس بات کو بلاجھجک بیان کیا جاتا ہے۔ دوسر ی با ت یہ کہ آپ کو اپنے حلقۂ احباب میں ، اپنی جائے ملازمت پر، کسی بھی تقریب میں طلاق یافتہ خاتون مل جائے گی۔اعدادو شما ر بتا تے ہیں کہ شرح طلاق میں  اضافہ حیران کن اور پریشان کن ہے۔

تیسری تبدیلی جو معاشرے میں عام ہے، وہ گھروں میں میاں بیوی کی لڑائی اور بحث میں: ’مَیں طلاق دے دوں گا‘اور ’مَیں نے تمھیں طلاق دی‘ جیسے جملے بولے جاتے ہیں۔ اور غصہ کا فورہونے کے بعد دونوں میاں بیوی کمال اطمینان کے ساتھ رشتۂ زوجیت میں منسلک رہتے ہیں۔ بیوی کہتی ہے کہ میاں تو مجھے کئی بار طلاق دے چکا ہے ،پھر بات ختم ہو جاتی ہے، پتہ نہیں ہمارا ساتھ رہنا جائز بھی ہے یا نہیں ؟اس احساسِ گناہ کے ساتھ زندگی گزارتی رہتی ہے ۔تصفیہ نہیں کروایا جاتا، خود علم نہیں ،مولوی نے فتویٰ دے دیا تو کہاں جاؤں گی؟ بچے کیسے پالوں گی ؟وغیرہ۔

طلاقِ رجعی بھی ہو تو عدت کا حساب کتنا رکھا جاتا ہے ؟عدت گزر جائے تو کیا نکاح کیا جاتا ہے؟ اگر تین طلاق ایک وقت میں دے دیں اور غصہ ختم ہوا اور ہوش ٹھکانے آئیں تو پھر ہرعالم سے فتویٰ معلوم کرنا کہ میں نے تو غصے میں کہا تھا، ایک ہی طلاق ہوئی ہے نا؟

 حسب منشا فتویٰ ، جہاں سے مل جائے تو اطمینان ہو جاتا ہے اور بیوی کا ساتھ چلتا رہتا ہے۔ اگر یہ سمجھ آ جائے کہ تین بار طلاق کے بعد ،اس بیوی کے ساتھ نکاح صرف حلالہ ہے یعنی کوئی اور آدمی نکاح کرے، رخصتی ہو اور وہ کسی وجہ سے بیوی کو طلاق دے دے، تو پہلے شوہر کے لیے یہ عورت جائز ہوجائے گی۔ اب حلالہ کے لیے بھی حرام راستے ڈھونڈ لیے جاتے ہیں ۔اپنے آپ کو اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے حیلےکیے جاتے ہیں۔

 یہ سب دین کی تعلیمات سے لاعلمی اور جہالت کی بنا پر ہوتا ہے یا علم کے باوجودخدا اور آخرت کی پیشی سے بے خوفی ہوتی ہے، یا یہ پروانہ کہ ’دین آسان ہے، یہ تو مولویوں نے مشکل بنایا ہوا ہے‘۔

عدت میں شادی کرلینا اللہ نے تو منع کیا ہے لیکن بندوں نے اپنی مجبوریوں کی فہرست بناکر اس کو جائز کر لیا ہے ۔کسی کووزارت اعلیٰ کی اُمید، کسی کو ویزے کے حصول یا تنسیخ کا خطرہ،کسی کی نوکری، خاندان کی شادی وغیرہ مجبور کر لیتے ہیں۔

تین حیض کی مدت سے واضح ہو جاتا ہے کہ عورت حاملہ تو نہیں ہے کہ آنے والے بچے کا نسب مشکوک نہ ہو ۔اس میں بھی اگر حمل ہے تو وضع حمل تک عدت ہے۔اب وہ شوہر اور سسرال جو انتہائی مبغوض ہیں، ان کا بچہ چھ آٹھ ماہ تک اٹھائے اٹھائے پھرے، انکار اور پھر جان خلاصی کا حل بھی نکال لیا جاتا ہے۔ ان سب رویوں سے بچانے والا دین کے احکامات کا علم اور اس پر عمل ہے۔

 اللہ تعالیٰ تو یہ بھی فرماتا ہے کہ دوسری طلاق کے بعد عدت ختم ہو جانے سے پہلے شوہر کو اس کا اختیار حاصل ہے ،کہ وہ رجوع کرے۔ اس پر بیوی کوانکار کا اختیار نہیں۔ وہ را ضی ہوجائے، انکار نہ کرے۔مگر آج کی عورت خود انحصاری و خودمختاری کے نعرے سن سن کر اس مقام پر پہنچ رہی ہے، کہ اس کی اَنا کو پہنچی ہوئی ٹھیس کے زخم کسی طرح مندمل نہیں ہوتے۔ نتیجہ طلاق یا خلع کی صورت میں نکلتا ہے ۔مرد کو بھی اپنے جذبات اور زبان کو قابو میں رکھ کر مردانگی کا ثبوت دینا چاہیے ۔عورت کو بھی تحمل وبرد باری کا رویہ اپنانا چاہیے،اور فریقین کے والدین کو حوصلہ بلند کرکے مفاہمت کی کوشش کرنی چاہیے کہ جائز مگر ناپسندیدہ ترین عمل طلاق سے بچا جاسکے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ آج سب رشتوں سے بڑھ کر،دوست اور سہیلیاں ،غم خوار اور قابلِ اعتماد مشیر ہیں۔ ان کو بھی مثبت کردار ادا کرنا چاہیے ۔ہر ایک کی جنبشِ ابرو ،حالات بگاڑنے یا سنوارنے میں بڑا کردار ادا کرتی ہے۔

خلع

طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے۔ اور رخصت کر تے ہوئے ایسا کرنا تمھارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انھیں دے چکے ہو، اُس میں سے کچھ واپس لے لو۔ البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو۔ ایسی صورت میں اگر تمھیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے، تو اُن دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرلے۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں، اِن سے تجاوز نہ کرو ۔اور جو لوگ حدودِ الٰہی سے تجاوز کریں، وہی ظالم ہیں۔(البقرہ ۲:۲۲۹)

یعنی ایک مرد رشتۂ نکاح میں اپنی بیوی پر حد سے حد دو ہی مرتبہ رجوع کا حق استعمال کرسکتا ہے ۔جو شخص اپنی منکوحہ کو دو مرتبہ طلاق دے کر اس سے رجوع کر چکا ہو،وہ اپنی عمر میں جب کبھی اس کو تیسری بار طلاق دے گا، عورت اس سے مستقل طور پر جدا ہوجائے گی۔ طلاق کا صحیح طریقہ جو قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے،یہ ہے کہ عورت کو حالت طُہر میں ایک مرتبہ طلاق دی جائے ۔اگر جھگڑا ایسے زمانے میں ہوا ہو،جب کہ عورت ایام ماہواری میں ہو تو اسی وقت طلاق دے بیٹھنا درست نہیں، بلکہ ایام سے اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرنا چاہیے۔ پھر ایک طلاق دینے کے بعد اگر چاہے ،تو دوسرے طُہر میں دوبارہ ایک طلاق اور دے دے،ورنہ بہتر یہی ہے کہ پہلی ہی طلاق پر اکتفا کرے ۔اس صورت میں شوہرکو یہ حق حاصل رہتا ہے کہ عدت گزرنے سے پہلے پہلے جب چاہے رجوع کرلے، اور عدت گزر بھی جائے، تو دونوں کے لیے موقع باقی رہتا ہے کہ پھر باہمی رضا مندی سے دوبارہ نکاح کرلیں۔ لیکن تیسرے طُہر میں تیسری بار طلاق دینے کے بعد نہ تو شوہر کا حق باقی رہتا ہے اور نہ اس کا ہی کوئی موقع رہتا ہے کہ دونوں کا پھر نکاح ہو سکے ۔رہی یہ صورت کہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے ڈالی جائیں، تو یہ شریعت کی رُو سے سخت گناہ ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی مذمت فرمائی ہے۔ اور حضرت عمرؓ سے یہاں تک ثابت ہے کہ جو شخص بیک وقت اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیتا تھا ،آپ اس کو درے لگاتے تھے۔ تاہم گناہ ہونے کے باوجود اَئمہ اربعہ کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور طلاق مغلظ ہوجاتی ہے،یعنی مہر اور وہ زیور اور کپڑے وغیرہ جو شوہر بیوی کو دے چکا ہو، ان میں سے کوئی چیز واپس مانگنے کا اسے حق نہیں ہے۔ یہ بات ویسے بھی اسلام کے اخلاقی اصولوں کی ضد ہے کہ کوئی شخص کسی ایسی چیز کو ،جسے وہ دوسرے شخص کو ہبہ یا ہدیہ یا تحفہ کے طور پر دے چکا ہو،واپس مانگے۔ اس ذلیل حرکت کو حدیث میں اُس کتے کے فعل سے تشبیہ دی گئی ہے، جو اپنی ہی قے کو خود چاٹ لے۔ مگر خصوصیت کے ساتھ ایک شوہر کے لیے تو یہ بہت شرمناک ہے کہ وہ طلاق دے کر رخصت کرتے وقت اپنی بیوی سے وہ سب کچھ رکھوا لینا چاہے جو اس نے کبھی اسے خود دیا تھا ۔اس کے برعکس اسلام نے یہ اخلاق سکھائے ہیں کہ آدمی جس عورت کو طلاق دے، اسے رخصت کرتے وقت کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرے۔(تفہیم القرآن،اوّل، حاشیہ ۲۵۰-۲۵۱)

شادی کے موقعے پر عورت کو حق مہر ادا کیا جانا چاہیے جو کہ اس کی ملکیت ہوتی ہے ۔حق مہر میں نقدی بھی ہو سکتی ہے یا کچھ اور مثلاً زیور، طلائی چوڑیاں یا سونے کا سیٹ حق مہر میں لکھا ہے اور اس وقت دلہن کو پہنایا بھی جاتا ہے ۔مگر بعد میں چالاکی سے کچھ نہ کچھ کہہ کر واپس لے لیا جاتا ہے اور اکثر اوقات بعد میں آنے والی بہو کو بھی دیا جاتا ہے۔ حق مہر لینا تو غلط ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ تحفے تحائف جو دلہن کو دیئے جاتے ہیں ،ان کا ذکر کر رہے ہیں، مگر اب تحائف،  زیورات، کچھ جوڑے وغیرہ دے کر واپس لے لینا تو معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا۔ حالانکہ تحفہ دے کر واپس لینا بھلے وہ چھوٹا سا ہی ہو، بُرا عمل ہے۔ جوڑوں اور خاندانوں میں بے اعتمادی کا بیج ، انھی چھوٹی چھوٹی باتوں سے جڑ پکڑتا ہے۔پھر بعد میں ان باتوں اور دیگر مسائل سے اس کو پانی ملتا رہتا ہے اور آپس کے تعلقات کی خرابی کا درخت ایسا تناور ہو جاتا ہے ،جو شادی کے اس قیمتی رشتے کو لے ڈوبتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے یہاں آیت میں اس بات کی بھی وضاحت فرما دی کہ ایسی صورت میں اگر میاں بیوی کو خدشہ ہو کہ وہ حدودِ الٰہی پر قائم نہ رہیں گے ،تو اُن دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرلے۔

’’شریعت کی اصطلاح میں اسے’ خلع‘ کہتے ہیں ۔یعنی ایک عورت کا اپنے شوہر کو کچھ دے دلاکر اس سے طلاق حاصل کرنا۔ اس معاملے میں اگر عورت اور مرد کے درمیان گھر کے گھر میں کوئی معاملہ طے پا جائے، تو جو کچھ طے ہوا ہو، وہی نافذ ہوگا۔

لیکن اگر عدالت میں معاملہ آجائے تو عدالت اس امر کی تحقیق کرے گی کہ آیا فی الواقع یہ عورت اس مرد سے اس حد تک متنفر ہو چکی ہے کہ اس کے ساتھ اس کا نباہ نہیں ہوسکتا۔ اس کی تحقیق ہو جانے پر عدالت کو اختیار ہے کہ حالات کے لحاظ سے جو فدیہ چاہے، تجویزکرے۔ اس فدیے کو قبول کر کے شوہر کو اسے طلاق دینا ہو گی ۔بالعموم فقہا نے اس بات کو پسند نہیں کیا ہے کہ جو مال شوہر نے اس عورت کو دیا ہو، اس کی واپسی سے بڑھ کر کوئی فد یہ اسےدلوایا جائے۔

خلع کی صورت میں جو طلاق دی جاتی ہے، وہ رجعی نہیں ہے، بلکہ با ئنہ ہوتی ہے ۔چونکہ عورت نے معاوضہ دے کر اس طلاق کو گویا خریدا ہے ،اس لیے شوہر کو یہ حق باقی نہیں رہتا کہ اس طلاق سے رجوع کر سکے ۔البتہ اگر یہی مرد و عورت پھر ایک دوسرے سے راضی ہو جائیں اور دوبارہ نکاح کرنا چاہیں، تو ایسا کرنا ان کے لیے بالکل جائز ہے ۔جمہور علما کے نزدیک خلع کی عدت وہی ہے جو طلاق کی ہے‘‘۔(تفہیم القرآن،اوّل، حاشیہ ۲۵۲)

آج سے ۳۰ سال قبل ’خلع‘کی اصطلاح سے کم ہی لوگ واقف تھے ۔طلاق کا تو سن رکھا تھا مگر خلع کا نہیں۔ آج خلع کی اصطلاح اور عمل اتنا ہی عام ہے جتنا طلاق کا۔اس کے کئی عوامل ہیں جن پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ شوہر اور بیوی کے دل نہ ملنا ،مرد کا اپنے حلقۂ دوستی کو بہت وقت دینا ،مال خرچ کرنا ،سیروتفریح کے لیے جانا ،کھانوں پر بلانا ،باہر کھانے کھانا ، بیوی کو بے زار کر دینا اور نہ مرد کو اس میں کوئی عیب محسوس ہوتا ہے بلکہ اُلٹا وہ بیوی کے اس تعلق میں اعتدال کی خواہش کو اپنی آزادی میں رکاوٹ جانتے ہیں اورتعلقات خراب ہوتے جاتے ہیں۔

دوسری صورت یہ ہے کہ عورت کا اپنے میکے میں ہی مگن رہنا، اپنی ملازمت کو اعلیٰ طریقے سے نبھانے کے لیے وقت بے وقت میٹنگز ،فنکشنز ، ٹریننگز، اور دفتر کی طرف سے سیروتفریح کے لیے جانا وغیرہ مرد کو بے زار کر دیتا ہے۔ بیوی کو اپنے تئیں یہ بالکل ضروری وجائز لگتا ہے۔ شوہر کی طرف سے اس بیزاری کا ادنیٰ اظہار اور ردعمل، بیوی کو خلع کا راستہ دکھادیتا ہے۔سسرال والوں کے رویے ،جملے، حجت بازیاں بھی مسائل میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے مشترکہ خاندانی نظام میں بیٹے پڑھ لکھ جاتے ہیں ۔تنخواہ شروع ہوجاتی ہے یا کبھی ملازمت نہیں ہوتی تو ماں باپ بچوں کو اچھے کھاتے پیتے گھرانوں میں بیاہ دیتے ہیں۔ کُھلا کھانے ،خرچ کرنے والی لڑکی کے لیے یہاں مال کی تنگی بھی مشکل پیدا کرتی ہے، نتیجہ خلع!

ہم سب کے رویوں کی اصلاح( شوہر، بیوی، میکہ ،سسرال ،مشیر خصوصی حلقۂ دوست و احباب وغیرہ) جوڑے کو گھر بسانے میں مدد دے سکتا ہے ۔ لہٰذا ہمیں سوچ سمجھ کرد ار اداکرنا چاہیے۔

طلاق مغلظ

پھر اگر (دو بارہ طلاق دینے کے بعد شوہر نے عورت کو تیسری بار) طلاق دے دی، تو وہ عورت پھر اس کے لیے حلال نہ ہو گی، الّا یہ کہ اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے ہو اور وہ اسے طلاق دے دے۔ تب اگر پہلا شوہر اور یہ عورت دونوں یہ خیال کریں کہ حدودِالٰہی پر قائم رہیں گے، تو ان کے لیے ایک دوسرے کی طرف رجو ع کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں، جنھیں وہ اُن لوگوں کی ہدایت کے لیے واضح کر رہا ہے، جو (اس کی حدوں کو توڑنے کا انجام) جانتے ہیں۔(البقرہ ۲:۲۳۰)

’’احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی مطلقہ بیوی کو اپنے لیے حلال کرنے کی خاطر کسی سے سازش کے طور پر اُس کا نکاح کرائے اور پہلے سے یہ طے کرے کہ وہ نکاح کے بعد اسے طلاق دے دے گا، تو یہ سراسر ایک ناجائز فعل ہے ۔ ایسا نکاح، نکاح نہ ہوگا بلکہ محض بدکاری ہوگی‘‘۔(تفہیم القرآن،اوّل، حاشیہ ۲۵۳)

روکنا یا رخصت کرنا

اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت پوری ہونے کو آ جائے، تو یا بھلے طریقے سے انھیں روک لو یا بھلے طریقے سے رخصت کر دو محض ستانے کی خاطر انھیں نہ روکے رکھنا یہ زیادتی ہو گی اور جو ایسا کرے گا، وہ در حقیقت آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرے گا۔ اللہ کی آیات کا کھیل نہ بناؤ۔ بھول نہ جاؤ کہ اللہ نے کس نعمت عظمیٰ سے تمھیں سرفراز  کیا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے کہ جو کتاب اور حکمت اُس نے تم پر نازل کی ہے، اس کا احترام ملحوظ رکھو۔ اللہ سے ڈرو اور خوب جان لو کہ اللہ کو ہر بات کی خبر ہے۔(البقرہ ۲:۲۳۱)

یعنی رجوع کرو تو اس نیت سے کرو ،کہ آئندہ حسن سلوک کرنا ہے ۔اگر ایسا نہیں کرنا تو بہتر یہ ہے کہ شریفانہ طریقے سے طلاق دے دو۔(جاری)

قرآنِ عظیم کس انداز سے انسانوں کو خاندان کے ادارے میں جوڑتا اور اس ادارے کو انسانیت کے لیے کس انداز سے پروان چڑھاتا ہے؟ اس سوال کا جواب ہم یہاںقرآن کریم کے متن کی ترتیب سے یکجا پیش کریں گے۔

قرآن کے آغاز میں ہم نے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی چاہی: اے اللہ! تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ربّ جلیل نے قرآن کے تیس پارے نازل فرما دیئے۔ زندگی کے انفرادی، اجتماعی معاملات کے لیے ہدایات کھول کھول کر بار بار مختلف پیرایۂ بیان میں واضح کر دیں۔ عائلی نظام یا خاندان اور معاشرے کی اکائی کے لیے تفصیلات بھی سمجھا دیں۔

سورۂ بقرہ: پہلا جوڑا

زمین پر پہلا جوڑا اُتارنے سے پہلے اُن کو علم عطا کیا، فرشتوں سے سجدہ کروایا، شیطان کے بارے میں متنبہ فرمایا اور جنّت میں کھانے پینے، رہنے سہنے کا سامان دیا۔ مگر ساتھ ہی چند اُمور سے خاص طور پر منع کرکے، باقی سب سے فائدہ اُٹھانے کا اذنِ عام دے دیا۔ شیطان نے انسان کو بہکانے کے لیے مہلت لی اور بہکاکر جنّت سے نکلوا دیا اور یوں حضرت آدمؑ، اماں حواؑ اور شیطان زمین پر آن آباد ہوئے۔ حضرت آدم ؑ نے اپنی غلطی پر معافی مانگ لی،مگر شیطان غلطی پر ڈٹا رہا۔ یوں انسان اور شیطان کے طرزِعمل کا فرق ظاہر ہوا:

پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمھارے ربّ نے فرشتوں سے کہا تھا کہ ’’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘۔ انھوں نے عرض کیا: ’’کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خوں ریزیاں کرے گا؟ آپ کی حمدوثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کی تقدیس تو ہم کرہی رہے ہیں‘‘۔ فرمایا: ’’میں جانتا ہوں، جو کچھ تم نہیں جانتے‘‘۔اس کے بعد اللہ نے آدم ؑ کو ساری چیزوں کے نام سکھائے۔ پھر انھیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: ’’اگر تمھارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا) تو ذرا ان چیزوں کے نام بتائو‘‘۔ انھوں نے عرض کیا: ’’نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں، جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے۔ حقیقت میں سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا، آپ کے سوا کوئی نہیں‘‘.....

پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم ؑ کے آگے جھک جائو، تو سب جھک گئے مگر ابلیس نے انکار کیا۔ وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا۔

پھر ہم نے آدمؑ سے کہا کہ ’’تم اور تمھاری بیوی دونوں جنّت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھائو، مگر اِس درخت کا رُخ نہ کرنا ورنہ ظالموں میں شمار ہوگے‘‘۔آخرکار شیطان نے اِن دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انھیں اس حالت سے نکلوا کر چھوڑا جس میں وہ تھے۔ ہم نے حکم دیا کہ ’’اب تم سب یہاں سے اُتر جائو، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمھیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھیرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے‘‘۔ اس وقت آدمؑ نے اپنے ربّ سے چندکلمات سیکھ کر توبہ کی،جس کو اس کے ربّ نے قبول کرلیا، کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔(البقرہ ۲:۳۰ تا ۳۷)

اللہ تعالیٰ نے بنی آدم ؑ ،یعنی انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر زمین پر بھیجا کہ وہ اِس دُنیا میں جس کا مالک وہ خود ہے، اس کے عطا کردہ اختیارات کو اس کے نائب کی حیثیت سے استعمال کرے۔ کائنات کا اصل حاکم اور مالک تو اللہ تعالیٰ ہے، جو غیب میں ہے۔ انسان کا خلیفہ ہونے کے ناتے کام یہ ہے کہ جو ہدایت اللہ کی طرف سے مل رہی ہے اس پر بے چون و چرا عمل کرے۔ اگر کسی معاملے میں کوئی واضح ہدایت نہیں ہے تو غوروفکر کرے، اور جو بات دین کے اصولوں سے مطابقت رکھتی ہو، وہ اختیار کرے۔ جن کاموں سے اللہ نے منع فرما دیا ہے اِن سے رُک جائے۔ یہی خلافت ہے۔

خاندان کے ادارے کے استحکام کے لیے بھی اپنی اِس ذمہ داری کو، انسان ہونے کے ناتے، ہم سب کو پورا کرنا ہے۔ سو اِس سے کماحقہٗ آگاہی حاصل کرنا، ناگزیر ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو چیزوں کے نام یعنی اِن کی حقیقت کا علم دے دیا۔ایک الہامی علم جو اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے بھیجتا ہے اور دوسرا اکتسابی علم جوا نسان خود حاصل کرتا ہے اور انسانی زندگی کے مختلف دائروں کہ جن میں ایک عائلی نظام یا خاندان اور معاشرہ ہے، ان پر عمل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار کی آزادی سے نوازا کہ کائنات کے اَن گنت وسائل اور جسمانی صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے،اللہ کی فرماں برداری کرے یا نافرمانی کرے اور پھر اس پر جزا یا سزا کا مستحق ٹھیرے، یہی اس کا امتحان ہے۔ اس امتحان کا لازمی اور اہم پرچہ خاندان میں ہمارا کردار ہے۔

والدین اور رشتہ دار

یاد کرو ، اسرائیل کی اولاد سے ہم نے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ، رشتہ داروں کے ساتھ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا، لوگوں سے بھلی بات کہنا، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃدینا، مگر تھوڑے آدمیوں کے سوا تم سب اس عہد سے پھر گئے، اور اب تک پھرے ہوئے ہو۔(البقرہ ۲: ۸۳)

پہلا جوڑا رشتۂ زوجیت میں منسلک ہوکر ماں اور باپ بن گیا۔ اس بنیادی اکائی میں بچوں کا اضافہ ہوا، پھر یہ سلسلہ آگے چلا اور نسب اور مہر کے حوالے سے نئی رشتہ داریاں وجود میں آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق کے فوراً بعد، والدین کے حقوق کا ذکر کیا ہے۔ ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا۔ نیک سلوک کیوں کریں، کون سا سلوک نیک سلوک ہے، اور کون سا سلوک درست نہیں ہے؟ اس کی تفصیل بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بتادی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ نے مزید تفصیلات اور عملی رہنمائی دی۔ اس کے ساتھ ہی رشتہ داریوں کے دائرے بنے، خاندان میں وسعت ہوئی، اللہ نے سب کے ساتھ اچھے سلوک کی ہدایت فرمائی۔

آزمایش

اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمھاری آزمایش کریں گے۔ اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں  اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘۔ انھیں خوش خبری دے دو۔ (البقرہ۲: ۱۵۵-۱۵۶)

اللہ تعالیٰ نے یہ دُنیا آزمائش گاہ بنائی ہے۔انسان اپنے بال بچوں کے ساتھ، والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ، دُنیا کے مال و اسباب کے ساتھ، خوشی خوشی زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے آزمائش کا موقع و حالات پیدا کرتا ہے۔ وہ مختلف قسم کے خوف، وبا، بیماری، بدامنی،موت، بے روزگاری، مہنگائی، کم آمدنی اور حادثاتی پریشانیوں، نقصانات سے پرکھتا ہے کہ میرے بندے کا کیا رویہ ہے؟ خود اپنی آزمائش اور خاندان کے دیگر افراد کی آزمائش پر کیا طرزِعمل ہوتا ہے؟ جو اس آزمائش کو اپنے ہاتھوں لائی ہوئی مصیبت سمجھے اور اس آزمایش کے ذریعے اللہ سے معافی چاہے، یا اللہ کی طرف سے اجر میں بڑھوتری کے لیے موقع جانے اور رویہ یہ رکھے کہ ہم اللہ کے ہیں، اس کی رضا پر راضی ہیں اور اس کی طرف ہمیں واپس جانا ہے۔ وہ انصاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ اللہ اس سے بہتر معاملہ کرے گا، اجر سے نوازے گا۔یہ وہ لوگ ہیں جو سکینتِ قلب کے ساتھ، کامل رضامندی کے ساتھ، ربّ کی بتائی ہوئی حدود میں زندگی گزارتے اور اجر کے مستحق قرار پاتے ہیں، جب کہ ناشکری اور جزع و فزع اللہ کی ناراضی کا سبب بنے گی۔

خاندان کے لیـے قوانین اور نکاح کے لیے انتخاب

تم مشرک عورتوں سے ہرگز نکاح نہ کرنا، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن لونڈی مشرک شریف زادی سے بہتر ہے، اگرچہ وہ تمھیں بہت پسندہو۔ اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا، جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن غلام، مشرک شریف سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمھیں بہت پسند ہو۔ یہ لوگ تمھیں آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے اذن سے تم کو جنّت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور وہ اپنے احکام واضح طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ سبق لیں گے اور نصیحت قبول کریں گے۔(البقرہ ۲: ۲۲۱)

عورت اور مرد کے درمیان نکاح کا تعلق محض ایک شہوانی تعلق نہیں ہے، بلکہ وہ ایک گہرا تمدنی، اخلاقی اور قلبی تعلق ہے۔ مومن اور مشرک کے درمیان، اگر یہ قلبی تعلق ہو، تو جہاں اس امر کا امکان ہے کہ مومن شوہر یا بیوی کے اثر سے مشرک شوہر یا بیوی پر اور اس کے خاندان اور آیندہ نسل پر اسلام کے عقائد اور طرزِ زندگی کا نقش ثبت ہوگا، وہیں اس امر کا بھی امکان ہے کہ مشرک شوہر یا بیوی کے خیالات اور طور طریقوں سے نہ صرف مومن شوہر یا بیوی بلکہ اس کا خاندان اور دونوں کی نسل تک متاثر ہوجائے گی اور غالب امکان اس امر کا ہے کہ ایسے اَزواج سے اسلام اور کفرو شرک کی ایک ایسی معجون مرکب اُس گھر اور اُس خاندان میں پرورش پائے گی، جس کو غیرمسلم خواہ کتنا ہی پسند کریں، مگر اسلام پسند کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔(تفہیم القرآن، اوّل، سورئہ بقرہ، حاشیہ۲۳۷)

آج ملک میں، اور بیرونِ ملک، اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ اوربہترین معاشی و سائل کے لیے سرگرداں، ہماری نوجوان نسل کو براہِ راست قرآن پاک سے استفادے کا موقع ملتا ہے، الاماشاء اللہ۔ تاہم، مل جل کر رہنا، دین کو ذاتی معاملہ بنا کر، اس کی بنیادی تعلیمات کو بھی غور کے قابل نہیں سمجھنا، اس دور کا المیہ ہے۔ جہالت اور احساسِ کمتری کے ساتھ، مغرب کے اُٹھائے گئے سوالات، بین المذاہب ہم آہنگی کے عنوان سے کی جانے والی بحثیں اور ان موضوعات کو ’مولوی کی سختی و تنگ نظری‘ کہہ کر آگے بڑھ جانا، موجودہ جدیدیت کا تقاضا بن گیا ہے۔ ہمارے اکثر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، اس جدیدیت پر عمل پیرا ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ان کی توجہ ، اصل ماخذ، قرآن حکیم کی طرف مبذول کروائی جائے اور دین کے احکامات کا علم اور اس پر عمل کرنے کا داعیہ پیدا کیا جائے۔

حیض کا حکم

پوچھتے ہیں: حیض کا کیا حکم ہے؟ کہو: وہ ایک گندگی کی حالت ہے، اس میں عورتوں سے الگ رہو، اور ان کے قریب نہ جائوجب تک کہ وہ پاک صاف نہ ہوجائیں۔ پھر جب وہ پاک ہوجائیں، تو اُن کے پاس جائواُس طرح جیساکہ اللہ نے تم کو حکم دیا ہے۔ اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے، جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں۔(البقرہ ۲:۲۲۲)

حیض گندگی بھی ہے اور بیماری بھی۔ طبّی حیثیت سے وہ ایک ایسی حالت ہے جس میں عورت تندرستی کی بہ نسبت بیماری سے قریب تر ہوتی ہے۔(ایضاً، اوّل، سورئہ بقرہ، حاشیہ ۲۳۸)

مختلف ہارمونز جو کہ ایک عورت کے جسم میں گردش کرتے ہیں، ان کے اُتارچڑھائو سے یہ تبدیلی آتی ہے اور ظاہر ہوتی ہے۔ یہ نہ صرف جسمانی بلکہ نفسیاتی بھی ہوتی ہے، بالعموم عورت چڑچڑی اور مایوسی کی طرف مائل ہوتی ہے۔ تھکاوٹ اور اکثر اوقات درد کی شدت کا شکار بھی ہوتی ہے۔

قرآن، ان کے قریب نہ جائو، الگ رہو، استعاروں اور کنایوں میں بیان کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرما دی کہ صرف مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیے مگر باقی تمام تعلقات برقرار رکھے جائیں۔ عورت کواچھوت نہ بنا دیا جائے جیساکہ یہود و ہنود اور بعض دوسری قوموں کا دستور ہے۔(ایضاً، سورئہ بقرہ، حاشیہ ۲۳۹)

قرآن کے اِن واضح اور صاف صاف بیان کیے گئے احکامِ دین میں تنگی نہیں ہے:

تمھاری عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں۔ تمھیں اختیار ہے، جس طرح چاہو اپنی کھیتی میں جائو، مگر اپنے مستقبل کی فکر کرو اور اللہ کی ناراضی سے بچو۔ خوب جان لو کہ تمھیں ایک دن اس سے ملنا ہے۔ اور اے نبیؐ! جو تمھاری ہدایات کو مان لیں انھیں (فلاح و سعادت کی) خوش خبری دے دو۔(البقرہ ۲:۲۲۳)

فطرۃ اللہ نے عورتوں کو مردوں کے لیے سیرگاہ نہیں بنایا ہے، بلکہ دونوں کے درمیان کھیت اور کسان کا سا تعلق ہے۔ کھیت میں کسان تفریح کے لیے نہیں جاتا، بلکہ اس لیے جاتا ہے کہ اس سے پیداوار حاصل کرے… خدا کی شریعت کا مطالبہ تم سے یہ ہے کہ جائو کھیت ہی میں،اور اس غرض کے لیے جائو کہ اس سے پیداوار حاصل کرنی ہے۔

’اپنے مستقبل کی فکر کرو‘کے دو مطلب نکلتے ہیں: ’’ایک یہ کہ اپنی نسل برقرار رکھنے کی کوشش کرو، اور دوسرے یہ کہ جس آنے والی نسل کو تم اپنی جگہ چھوڑنے والے ہو، اس کو دین، اخلاق اور آدمیت کے جوہروں سے آراستہ کرنے کی کوشش کرو۔ پھر یہ تنبیہہ بھی فرما دی کہ اگر ان دونوں فرائض کے ادا کرنے میں تم نے قصداً کوتاہی کی، تو اللہ تم سے بازپُرس کرے گا‘‘(ایضاً، سورئہ بقرہ، حاشیہ ۲۴۱-۲۴۲)۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے شوہر اور بیوی کے فطری تعلق کو ، دُنیاداری نہیں دین داری بنایا، اس کے لیے مقصد اور حدود مقرر کردیں اور اِن سے لاپروائی برتنے کو اللہ کی ناراضی کا سبب بنادیا۔ اس رشتے اور تعلق کو نبھانے کی بنیاد تقویٰ پر رکھ دی۔

ایلا - میاں بیوی کی قطع تعلقی

جو لوگ اپنی عورتوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھابیٹھتے ہیں، ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے۔ اگر انھوں نے رجوع کرلیا، تو اللہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ اور اگر انھوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی ہو، تو جانے رہیں کہ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔(البقرہ ۲: ۲۲۶-۲۲۷)

میاں بیوی کے درمیان قطع تعلقی کو شریعت کی اصطلاح میں ’ایلا ‘کہتے ہیں۔ میاں اور بیوی کے درمیان تعلقات میں اُتارچڑھائو آتا رہتا ہے۔ بگاڑ کے اسباب پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں۔ لیکن ایسے فطری اُتارچڑھائو کے نتیجے میں بڑے بگاڑ کو خدا کی شریعت پسند نہیں کرتی کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ قانونی طور پر تو رشتۂ ازدواج میں بندھے رہیں، مگر عملاً ایک دوسرے سے الگ رہیں۔ ایسے بگاڑ کے لیے اللہ تعالیٰ نے چارماہ کی مدت مقرر کر دی کہ یا تو اس دوران میں اپنے تعلقات درست کرلو، ورنہ اَزدواج کا رشتہ منقطع کردو۔(ایضاً، سورئہ بقرہ، حاشیہ ۲۴۵)

یہ حقیقت ہے کہ بیش تر میاں بیوی میں اَن بن ہوجاتی ہے، رنجشیں پیدا ہوتی ہیں مگر چند ہی روز میں صلح صفائی ہوجاتی ہے اور زندگی خوش گوار اسلوب میں گزرتی رہتی ہے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے بعد جھگڑا بڑھ جاتا ہے اور شوہر کچھ اس مفہوم کے کلمات کہہ دیتا ہے، یا بیوی ہی ایسی ناراض ہوجاتی ہے کہ وہ میکے آکر بیٹھ جاتی ہے۔ میکے آنا اور رہنا والدین کے علم اور رضا کے ساتھ ہی ہوتا ہے مگرعموماً واپس جانے ، صلح کرنے یا حتمی فیصلہ کرنے کے لیے کسی مدت کا لحاظ نہیں کیا جاتا۔ مہینے تو کیا سال بھی گزر جاتے ہیں۔ تعلقات اس مدت میں سدھرتے کم اور بگڑتے زیادہ ہیں۔ عموماً ایک دوسرے کو بدنام، بلیک میل کرنے، تنگ کرنے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ اسلام کا اصول ہے کہ جلدبازی میں فیصلے نہ کرو۔ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو۔ تعلق نبھانا ہے تو بھی اور ختم کرنا ہے تو بھی، دونوں صورتوں کے تمام پہلوئوں پر غور کرنے کے بعد، اس چارماہ کی مدت میں حتمی فیصلہ نہ کرنا سب خرابیوں، افراد اور خاندانوں کے تعلقات میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میںچار ماہ میں فیصلہ کرکے ، معاملہ نبٹا دینا ہی شریعت کے منشا کے قریب تر ہے۔(جاری)

LGBTQ: یہ مخصوص اصطلاحات کے پہلے حروف کا مجموعہ ہے ، مثلًا L برائے Lesbian  یعنی وہ عورت جو عورت ہی کو شریک حیات منتخب کرتی ہے ۔ Gیعنی Gay وہ مرد جو ایک مرد سے تعلقات رکھے۔ B سے مراد Bisexual جو مرد اور عورت دونوں کے ساتھ رغبت رکھے ۔ T یعنی Transgender جو پیدایش کے ساتھ ملنے والی جنسی شناخت کے بجائے جنس مخالف کی شناخت اختیار کرے ، جنس تبدیل کرلے ، اس کے لیے دواؤں اور آپریشن کا طریقہ اپنائے۔ Qسے مراد Queer  ہے، جو ابھی فیصلہ نہیں کرسکا کہ اس نے تبدیلی کے لیے کون سی جنس کا انتخاب کرنا ہے ۔

اس کے مقابل ایک دوسری اصطلاح Intersex ہے، جو Hermaphroditeبھی کہلاتی ہے۔ یہ دونوں میڈیکل اصطلاحات ہیں ، جو ان افراد کے لیے مخصوص ہیں، جو پیدایشی نقص کے حامل ہوتے ہیں۔ان کو بوقت پیدایش لڑکا یا لڑکی کے طور پر شناخت نہیں کیا جاسکتا۔ ان کو ہیجڑہ یا ’مخنث‘ کہتے ہیں۔ان اصطلاحات Transgender اور Intersex کو جو یکسر مختلف ہیں ، ایک دوسرے کے ساتھ گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔ انھیں مختلف پہلوؤں سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

  • تاریخ : تبدیلیٔ جنس کی تاریخ کا نکتۂ آغاز سولھویں صدی میں ولیم شیکسپیئر (م: ۱۶۱۶ء) کا ڈراما بنا، جس میں کرداروں کو لباس کی باہم تبدیلی یعنی مرد کو عورت کا اور عورت کو مرد کا لباس پہنا کر پیش کیا گیا ۔ اس دوران ۱۷۹۸ء میں انگلستان میں ہم جنسیت کے قانون میں تبدیلی کی سفارش کی گئی۔ دوسرے دور میں برطانیہ میں فوجداری جرائم کے قوانین میں ترمیم کی گئی ، اس کے لیے بھی ایک ڈراما نویس آسکر والڈ (م: ۱۹۰۰ء) نے ترامیم کے لیے کوششیں کیں ۔ اسی دوران سگمنڈ فرائیڈ (م:۱۹۳۹ء) نے ہم جنسیت کو بچپن میں سرپر لگنے والی چوٹ کا نتیجہ قرار دیا۔بعدازا ں برطانیہ میں اس کی حمایت میں سوسائٹیز بننا شروع ہوئیں ۔امریکا میں ایسی سوسائٹیز کا آغاز ۱۸۹۰ءمیں ہوا، اور اس تحریک کے تعارف اور حمایت کے لیے متعدد ناول لکھے گئے۔ ۱۹۲۲ء میں امریکا کے ضابطۂ فوجداری قوانین کی فہرست سے ہم جنسیت کو نکال دیا گیا،گویا اس جرم پر سزا نہیں ہوگی۔

تیسرے دور میں ، دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ و امریکا میں بہت سے گروپس وجود میں آگئے۔امریکا کی پہلی عوامی تنظیم ۱۹۵۷ء میں مخصوص نام سے منظم ہوئی۔قانوناً ہم جنسیت کو ۱۹۵۷ء میں جائز قرار دے دیا گیا۔ اس مرحلے (۱۹۶۸ء) میں عورت کی آزادی کی تحریک اور ہم جنسیت زدگی کی تحریک ایک ہی دھارے میں شامل ہو گئیں۔ ہم جنس زدہ عورتوں نے، آزادیٔ نسواں کی علَم بردار خواتین پر زور دیا کہ ہمیں مل کر کام کرنا چاہیے۔(un.org.lgbt.plus)

۱۹۷۲ء میں سویڈن پہلا ملک تھا، جس نے سرجری کے ذریعے اپنی جنس تبدیل کرنے کی اجازت دی اور اس کے لیے ہارمون یا دواؤں کے استعمال کو بھی جائز قرار دیا۔اسی دوران ۱۹۷۴ءمیں امریکی ماہرین نفسیات ایسوسی ایشن نے ہم جنسیت اور تبدیلیٔ جنس کو ذہنی بیماریوں کی فہرست سے نکال دیا۔اس سے جڑے برسوں میں ہم جنس زدگان اور تبدیلیٔ جنس کی انجمنوں، سوسائٹیز نے اپنے حقوق کے حصول کی تحریک کا آغاز کیا۔ برطانیہ میں ۱۹۷۴ء میں پہلی ہم جنس زدہ خاتون، پارلیمنٹ کی ممبر منتخب ہوئی۔ برطانیہ میں ان کا ایک خبرنامہ بھی شائع ہونا شروع ہوگیا۔

ہم جنس زدگان اور تبدیلیٔ جنس کے حامیوں سے امتیازی سلوک کے خاتمے کی تحریک دُنیابھر میں شروع ہوگئی۔ اسی دور میں ۱۹۸۰ء میں ایڈز سے متعلق سروے میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ یہ مرض ہم جنس زدگان میں سب سے زیادہ ہے ۔ جس سے اس تحریک کو کچھ دھچکا لگا۔

  • قانون سازی : دنیا بھر میں اس کے متعلق قانون سازی کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اقوام متحدہ کے ممبر ممالک میں سے ۳۱ ممالک ہم جنس زدگان کو شادی یا باہم مل کر رہنے کاحق دیتے ہیں ۔۴۰ ممالک بالواسطہ یا بلاواسطہ تبدیلیٔ جنس کو حرام قرار دیتے ہیں۔ ۵۷ممالک ان کو امتیازی سلوک سے متعلق کچھ نہ کچھ تحفظ دیتے ہیں۔۶۸ ممالک ہم جنسیت کو جرم قرار دیتے ہیں اور گیارہ ممالک میں ان کے لیے سزائے موت ہے (un.org.lgbt.plus)۔ایسے لوگوں کے حقوق،امتیازی سلوک کے خاتمہ ، حقوق میں برابری وغیرہ کو عدالتوں ، حکومتی ذمہ داران اور عوامی مراکز کا عنوان بنایا گیا۔ان کی تشہیر کی گئی، تسلسل سے مظاہرے کیے گئے، یادداشتیں پیش کی گئیں، عدالتوں میں کوششیں کی گئیں ، غرض چومکھی جنگ لڑی جانے لگی۔
  • اثرات: یہ تحریک آج تک پورے زور و شور سے جاری ہے اور اپنے اثرات دکھا رہی ہے۔ تعلیم کے میدان میں ، امریکا میں کیے گئے سروے کے مطابق۹۳ فی صد جونیئر اسکول اسٹوڈنٹس کےوالدین اور ۹۱ فی صد سینئر اسکول کے بچوں کے والدین صنفی تعلیم کہ جس میں ہم جنسیت، تبدیلیٔ جنس شامل ہے، اس کے بارے میں مفصل معلومات دئیے جانے کے حق میں ہیں  (www.cap.mews)۔ بہت سی آرگنائزیشنز بشمول امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن ، نیشنل ایجوکیشن ایسوسی ایشن ، امریکا کا محکمۂ صحت اور انسانی سروسز کا ادارہ بھی اس کے حق میں ہیں ۔

گلوبل انسائیکلوپیڈیا برائے ہم جنسیت، تبدیلیٔ جنس LGBT مرتب کیا گیا ۔جس میں الفاظ کو تبدیل کر کے لکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر معروف اصطلاح ’بریسٹ فیڈنگ‘ کو ’چیسٹ فیڈنگ‘ لکھا گیا ہے۔عوامی مقامات پر واش روم یا باتھ روم پر ان کے لیے مخصوص علامات آویزاں کی گئی ہیں ۔ بچوں کی کارٹون سیریز میں سالانہ کئی نئی سیریز کا اضافہ کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک معروف کارٹون سیریز ڈزنی میں ان کرداروں کو پیش کیا گیا ہے۔ بیڈن انتظامیہ نے اوباما کی پالیسیوں کے تسلسل میں ہم جنس زدگان اور تبدیلیٔ جنس کے حامیوں کو ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی پیدایش کے لیے سہولیات کی اجازت دے دی ہے(نیشنل ریویو، ۲۳جون ۲۰۲۱ء)۔ ایسےمرد، بچے کی پیدایش کے بعد ماں اور عورت ،باپ ہونے کا اعلان کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں (Kellyman.com)۔ سالانہ تقریبات میں Month Pride  (خود اعتمادی کا مہینہ) کا انعقاد کیا جاتا ہے ، جو اسکول انتظامیہ اور حکومتوں کی سرپرستی میں وسع پیمانے پر انجام پاتی ہیں ۔ اگرچہ ان سب اقدامات سے مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگ پریشان ہیں اور احتجاج کررہے ہیں۔ مثلاً ایک امریکی سروے میں بہت سے امریکی ووٹر اپنے بچوں کی سرجری کے ذریعے کی جانے تبدیلیٔ جنس کے تو خلاف ہیں، مگر خوف کی بنا پر کھلم کھلا مخالفت نہیں کر تے۔(The Cristian Post،  ۱۸مئی ۲۰۲۲ء)

۲۰۱۲ء کے اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں ۲۵ لاکھ ہم جنس زدگان موجود تھے۔ بہت سی عوامی تحریکیں ان کی حمایتی تھیں۔انڈیا کی سپریم کورٹ نے ’انڈین پینل کوڈ‘ کی دفعہ ۳۷۷ کو غیرقانونی قرار دے دیا، جو ہم جنس زدہ افراد کو شادی کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ یہ فطرت کے خلاف ہے۔ ۲۰۱۴ء میں انڈین سپریم کورٹ نے ان افراد کو تیسری جنس کے طور پر تسلیم کرلیا۔ اسی سال ایک پرائیویٹ ممبر نے ’ٹرانس جینڈر رائٹس پروٹیکشن بل‘ جنس تبدیل کرنے والے افراد کے حقوق کے تحفظ کا بل پیش کیا ، جوقانونی کمیٹی کی کچھ ترامیم کے بعد دسمبر ۲۰۱۹ء میں پاس ہوکر قانون کا حصہ بن گیا۔

  • پاکستان میں آغاز: برطانوی حکومت نے برصغیر پاک وہند میں ’انڈین پینل کوڈ‘ کے سیکشن ۳۷۷ کے تحت LGBT سرگرمیوں کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ جب ۱۹۴۷ء میں پاکستان آزاد ہوا تو اس نے اس قانون کو بطور ’پاکستان پینل کوڈ ۳۷۷ ‘ برقرار رکھا۔ ۱۹۸۰ء میں صدرجنرل محمد ضیاءالحق کے دور میں اس جرم کی سزا کو بڑھا کر عمر قید اور رجم میں تبدیل کردیا گیا۔ پھر صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کی کچھ تقریبات منعقد ہونا شروع ہوئیں۔ دینی جماعتوں کی مخالفت کے سبب ان کو علانیہ اپنے آپ کو متعارف کروانا ممکن نہ ہوسکا۔

مئی ۲۰۱۸ء میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے ہاتھوں ’ٹرانس جینڈر رائٹس پروٹیکشن ایکٹ‘ پاس ہوا۔ جس میں ٹرانس جینڈر کی تعریف میں انٹر سیکس یا ہجیڑے یا مخنث کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ لیکن نیشنل کورٹ آف جیورسٹ نے اس قانون میں ٹرانس جینڈر کی تعریف، جس کے سیکشن ۲ میں انٹرسیکس کو شامل کیا گیا ہے ، کی طرف اشارہ کیا کہ ہیجڑہ ،ٹرانس جینڈر نہیں ہے۔ مئی ۲۰۲۲ء میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں ٹرانس جینڈر بل پیش کیا گیا، اور ۵جولائی ۲۰۲۲ء کو سندھ اسمبلی نے ٹرانس جینڈرز کے لیے جاب کوٹہ مقرر کیا ہے۔ یہ اس تحریک کے مختلف مراحل کا ایک مختصر خاکہ ہے۔

یہاں پر مختصر طور پر اس موضوع پر بات کی جارہی ہے کہ عصرحاضر میں خواتین کی نمایندگی اور خواتین کی خود اختیاریت کے نام پر کی جانے والی کوششوں کو جماعت اسلامی کس طرح دیکھتی ہے؟
جماعت اسلامی پاکستان کے دستور کی دفعہ ۴ کے مطابق : ’جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس کی سعی و جدوجہد کا مقصود عملاً اقامت دین (حکومت الٰہیہ یا اسلامی نظام زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضاے الٰہی اور فلاح اُخروی کا حصول ہوگا‘۔
یہ نصب العین قرآن مجید کی اس آیت سے اخذ کیا گیا ہے :
ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۝۰ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ۝۳۳ (التوبہ۹: ۳۳)وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کر دے خواہ یہ کام مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔
’الہُدیٰ‘ سے مراد دین، دنیا میں زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ ہے جس میں انفرادی برتاؤ، خاندانی نظام ،سوسائٹی کی ترکیب، معاشی معاملات، ممکنہ انتظام، سیاسی حکمت عملی ،بین الاقوامی تعلقات، غرض یہ کہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں انسان کے لیے صحیح رویہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ دین حق یہ ہے کہ انسان دوسرے انسانوں اور خود اپنے نفس کی بندگی واطاعت چھوڑ کر صرف اللہ کے اقتدار کو تسلیم کرے اور اس کی بندگی و اطاعت کرے ‘‘۔
جماعت کے دستور کی دفعہ ۸ کے مطابق ایک رکن کو جماعت میں شامل ہونے کے بعد جوتغیرات بتدریج اپنی زندگی میں کرنے ہوں گے، وہ یہ ہیں :

- دین کا کم از کم اتنا علم حاصل کرلینا کہ اسلام اور جاہلیت (غیر اسلام) کا فرق معلوم ہو اور حدود اللہ سے واقفیت ہو جائے۔

- تمام معاملات میں اپنے نقطۂ نظر،خیال اور عمل کو کتاب و سنت کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنا ، اپنی زندگی کے مقصد، اپنی پسند اور قدر کے معیار اور اپنی وفاداریوں کے محور کو تبدیل کرکے رضاے الٰہی کے موافق بنانا۔

- اُن تمام رسومِ جاہلیت سے اپنی زندگی کو پاک کرنا، جو کتاب اللہ اور سنت ِرسولؐ کے خلاف ہوں اور اپنے ظاہر و باطن کو احکامِ شریعت کے مطابق بنانے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنا۔

- ان تعصبات اور دل چسپیوں سے اپنے قلب کو، اور اُن مشاغل اور جھگڑوں اور بحثوں سے اپنی زندگی کو پاک کرناجن کی بنا نفسانیت یا دنیا پرستی پر ہو اور جن کی کوئی اہمیت دین میں نہ ہو۔

- اپنے معاملات کو راستی، عدل ،خدا ترسی اور بے لاگ حق پرستی پر قائم کرنا۔

- اپنی دوڑ دھوپ ،سعی و جہد کو اقامت دین کے نصب العین پر مرتکز کر دینا۔

- اسی طرح دستور کی دفعہ ۹ کے مطابق: ہر رکن جماعت کے لیے لازم ہوگا کہ وہ بندگانِ خدا کے سامنے بالعموم نصب العین کو پیش کرے۔ جو لوگ اس نصب العین کو قبول کرلیں، انھیں اقامتِ دین کے لیے منظم جدوجہد کرنے پر آمادہ کرے اور جو لوگ جدوجہد کرنے کے لیے تیار ہوں ،انھیں جماعت اسلامی کے نظام میں شامل ہونے کی دعوت دے۔

- دستورِ جماعت کی دفعہ ۱۰ میں خواتین کے حوالے سے درج ہے:

- جو عورتیں جماعت اسلامی میں داخل ہوں، ان پر اپنے دائرئہ عمل میں دفعہ ۸ اور ۹ کے تمام اجزا کا اطلاق ہوگا، نیز رکن ِ جماعت کی حیثیت سے فرائض حسب ذیل ہوں گے:

- اپنے خاندان اور اپنے حلقۂ تعارف میں اس نصب العین کی دعوت پہنچائیں۔

- اپنے شوہر، والدین، بھائی ،بہنوں اور خاندان کے دوسرے افراد کو بھی تبلیغ کرے۔

- اپنے بچوں کے دلوں میں نورِ ایمان پیدا کرنے کی کوشش کرے ۔

- اگر اس کا شوہر یا بیٹے یا باپ یا بھائی جماعت میں داخل ہوں تو اپنی صابرانہ رفاقت سے ان کی ہمت افزائی کرے اور نصب العین کی خدمت میں حتیٰ الامکان ان کا ہاتھ بٹائے۔

- اگر اس کا شوہر یا اس کے سر پرست جاہلیت میں مبتلاہوں، حرام کماتے ہوں یا معاصی کا ارتکاب کرتے ہوں، تو صبر کے ساتھ ان کی اصلاح کے لیے ساعی رہے۔ ان کی حرام کمائی اور ان کی ضلالتوں سے محفوظ رہنے کی کوشش کرے۔

 دفعہ ۲۱ (ا)مجلسِ شوریٰ کی ترکیب: مجلس شوریٰ کے منتخب ارکان کی تعداد ۸۰ ہو گی، جن میں سے ۷۰ مردوں کی اور ۱۰ خواتین کی نشستیں ہوں گی۔ مردوں کی نشستوں پر مرد ارکان اور خواتین کی نشستوں پر خواتین ارکان کا براہِ راست ووٹ سے انتخاب ہوگا۔
جماعت اسلامی کے دستور کے مطابق یہ تمام دفعات اس امر کا مطالبہ کرتی ہیں کہ ایک خاتون نظامِ زندگی، انفرادی و اجتماعی معاملات میں ایک کردار ادا کرے۔ وہ کردار کہ جس میں فکر بھی ہو اور ممکن حد تک اپنے دائرے میں رہ کر قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی اور عمل بھی۔

اسلام کا اصولی موقف

عصرِحاضر میں قومی زندگی میں منتخب دستور ساز اسمبلیوں اور قانون ساز اداروں میں عورتوں کی نمایندگی اور ان کا کردر جبری طور پر لازم کردیا گیا ہے۔ یہ جبری صورتِ حال اپنے تقاضے اور سوالات رکھتی ہے۔ معاشرے میں رہتے ہوئے اس چیلنج کا جواب دینا اور اس میں کردار ادا کرنا اہلِ دین پر بھی لازم ہے۔ اس مناسبت سے جب مولانا مودودی سے سوال کیا گیا تو مولانا مودودی نے جواب دیا: [ترجمان القرآن، فروری ۱۹۵۲ء]: ان [منتخب] مجالس کا نام قانون ساز مجالس رکھنے سے یہ غلط فہمی واقع ہوتی ہے کہ ان کا کام صرف قانون بنانا ہے۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جومجالس اس نام سے موسوم کی جاتی ہیں، ان کا کام محض قانون سازی کرنا نہیں ہے،بلکہ وہ عملاً پوری ملکی سیاست کنٹرول کرتی ہیں۔وہی وزارتیں بناتی ہیں، وہی نظم و نسق کی پالیسی طے کرتی ہیں، وہی مالیات کے مسائل طے کرتی ہیں، اور انھی کے ہاتھ میں صلح و جنگ کی زمامِ کار ہوتی ہے ۔ اس حیثیت سے ان مجالس کا مقام محض فقیہ یا مفتی کا مقام نہیں بلکہ پوری مملکت کے ’قوام‘ کا مقام ہے۔
کہا جاسکتا ہے کہ: یہ حکم تو خانگی معاشرت کے لیے ہے ، نہ کہ ملکی سیاست کے لیے۔ مگر یہاں اول تو مطلقاً  اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ کہا گیا ہے۔ فِی الْبُیُوْتِ کے الفاظ ارشاد نہیں ہوئے ہیں،جن کو بڑھائے بغیر اس حکم کو خانگی معاشرت تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔
 اگر آپ کی یہ بات مان بھی لی جائے تو ہم پوچھتے ہیں کہ جس اللہ نے عورت کوگھر میں قوام نہ بنایا بلکہ قنوت  (اطاعت شعاری )کے مقام پر رکھا، کیا اسے تمام گھروں کے مجموعے، یعنی پوری مملکت میں قنوت کے مقام سے اٹھا کر قوامیت کے مقام پر لانا چاہتے ہیں ؟
 سیاست اور ملکی معاملات چلانے میں عورت کی عمل داری کو جائز ٹھیرانے والے اگر کوئی دلیل رکھتے ہیں، تو وہ بس یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا دعویٰ لے کر اٹھیں اور حضرت علیؓ کے خلاف جنگ جمل [۱۰ جمادی الثانی ۳۶ھ/ ۴دسمبر ۶۵۶ء] میں نبردآزما ہوئیں۔
حضرت عائشہؓ کے جنگ جمل میں حصہ لینے کے استدلال کوجو لوگ پیش کرتے ہیں انھیں شاید معلوم نہیں کہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اپنا خیال اس باب میں کیا تھا؟ عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے زوائد الزھدمیں ، ابن المنذر نے ابن ابی شیبہ اور ابن سعد نے اپنی کتابوں میں مسروق کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت عائشہؓ جب تلاوت قرآن کرتے ہوئے آیت قَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ پر پہنچتی تھیں تو بے اختیار رو پڑتی تھیں، یہاں تک ان کا دوپٹہ بھیگ جاتا تھا کیونکہ اس پر انھیں وہ غلطی یاد آجاتی تھی جو ان سے جنگ جمل کے دوران ہوئی تھی۔
یہ دلیل اصولاً غلط ہے۔ اس لیے کہ جس مسئلے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح ہدایات موجود ہو ں، اس میں کسی بھی صحابیؓ کا کوئی ایسا انفرادی فعل جو اس ہدایت کے خلاف نظرآتاہو ہرگز حجت نہیں بن سکتا۔ صحابہؓ کی پاکیزہ زندگی بلاشبہہ ہمارے لیے مشعل ہدایت ہے، مگر اس غرض کے لیے کہ ہم ان کی روشنی میں اللہ اور رسولؐ کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں ، نہ اس غرض کے لیے کہ ہم اللہ اور رسولؐ کی ہدایت کو چھوڑ کر ان میں سے کسی اور کی اتباع کریں جس فعل کو اسی زمانے کے اکابر صحابہؓ نے غلط قرار دے دیا تھا، اور جس پر بعد میں خود ام المومنین بھی نادم ہوئیں۔

خواتین کی نمایندگی کا مسئلہ

شیخ القرآن مولانا گوہر رحمٰن ، جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شورٰی کے رکن اور قومی اسمبلی کے منتخب رکن بھی تھے۔ انھوں نے ان تمام اصولی اور واضح اُمور کو سامنے رکھتے ہوئے اور پیدا شدہ صورتِ حال کے پیش نظر بیان کیا ہے:
مغربی جمہوریت کی بنیاد چونکہ ’حاکمیت عوام‘ پر رکھی گئی ہے، اس لیے اس میں مردوں کی طرح عورتیں بھی سربراہ مملکت بن سکتی ہیں اور وزیراعظم بھی بن سکتی ہیں۔ اس کے برعکس اسلامی نظام میں خواتین عملی سیاسیات، یعنی حکومت کا نظم ونسق چلانے سے سبک دوش کردی گئی ہیں۔
قومی اسمبلی یا مجلس شوریٰ ایک مشاورتی اور انتخابی ادارہ جو کہ سربراہ کا انتخاب کرتا ہے، اسے مشورہ دیتا ہے اور قانون سازی بھی کرتا ہے،اس ضمن میں یہ سوال کہ مذکورہ ادارے کی رکن کوئی خاتون بن سکتی ہے یا نہیں؟ مناسب یہ ہے کہ اس کے بارے میں فقہا عابدین کوئی اجتماعی فیصلہ کریں۔ لیکن اصولِ شریعت کی روشنی میں یہ امرواضح ہے کہ عورت مشورہ دینے کے حق سے شرعاً محروم نہیں کی گئی۔ اگرچہ قرآن و سنت میں مرد کو عورت پر ’قوام‘ بنایا گیا ہے ، لیکن مجھے اس کی دلیل نہیں مل سکی کہ عورت مشورہ نہیں دے سکتی [بلکہ] بعض خواتین، بعض مردوں سے دانائی اور ذہانت و فقاہت میں فائق بھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن عام طور پر مشاہدے کی بات ہے کہ مر د کی ذہانت عورت سے زیادہ ہوتی ہے۔
امام ابوحنیفہ کے نزدیک: ’’عورت حدود و قصاص، یعنی فوجداری مقدمات کے علاوہ دوسرے تمام مقدمات میں قاضی یا جج بن سکتی ہے‘‘۔ امام ابن جریر کے نزدیک: ’’بشمول حدودوقصاص  کے تمام مقدمات میں عورت قاضی بن سکتی ہے‘‘ اور چاروں ائمہ کے نزدیک عورت فتویٰ دے سکتی ہے۔ امام ابن حزم نے ۲۰ ایسی خواتین کے نام نقل کیے ہیں، جو دورِ صحابہؓ میں فتویٰ دیا کرتی تھیں۔ جب قاضی اور مفتی بن سکتی ہیں، تو مجلس شوریٰ کی رکن کیوں نہیں بن سکتیں؟ اس ادارے کا کام بھی تو مشورہ اور فتویٰ دینا ہے، پالیسی بنانا اور قانون سازی کرنا فتویٰ ہی کی قسم ہے۔ جب عدالت میں فریقین اور گواہوں کے بیانات سن کر فیصلہ دے سکتی ہے اور بطور گواہ عدالت میں پیش بھی ہوسکتی ہے تو کوئی معقول وجہ نہیں کہ شرعی پردے کی پابندی کرتے ہوئے مجلس کے اجلاس میں شرکت نہ کرسکے اور مشورہ نہ دے سکے۔
 اس سلسلے میں ایک روایت سننے میں آتی ہے کہ شاوروھُن و خالفوھُن ’’یعنی عورتوں سے مشورہ تو لے لیا کرو، لیکن ان کی مخالفت کرو اور ان کے مشوروں پر عمل نہ کیا کرو‘‘۔ اس روایت کے متعلق علّامہ علی قاری حنفی [م:۱۰۱۴ھ/۱۶۰۵ء]، علامہ سخاوی [م:۹۰۲ھ/۱۴۹۷ء]کی کتاب المقاصد الحسن البیان کثیر من الاحادیث المشتہرہ علی الاالسنۃ کے حوالے سے لکھتے ہیں : ’’یہ حدیث ان الفاظ میں ثابت نہیں۔سخاوی فرماتے ہیں ان کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہونا مجھے معلوم نہیں۔ سیوطی کے مطابق یہ جھوٹی روایت ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے‘‘ ۔
 انس بن مالکؓ سے اس مضمون کی ایک اور حدیث مرفوع نقل ہوئی ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں :’’تم میں سے کوئی شخص مشورے کے بغیر کام نہ کرے۔ اگر مشورہ دینے والا کوئی نہ ملے تو عورت سے مشورہ کر، لیکن اس پر عمل نہ کرے ۔اس لیے کہ عورت کے مشورے کی مخالفت میں برکت ہوتی ہے‘‘۔شمس الدین سخاوی ؒنے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ:’’اس کی سند بھی ضعیف ہے، اور درمیان میں سلسلہ بھی ٹوٹا ہوا ہے‘‘۔
 محمد بن عراق نے تنزیۃ الشریعۃ میں لکھا ہے:’’اس حدیث کو ابن لال نے حضرت انس سے نقل کیا ہے ، لیکن اس کی سند میں عیسیٰ بن ابراہیم کا نام آیا ہے، جس پر جھوٹ بولنے کی تہمت ہے‘‘۔ ابنِ لال سے مراد ابوبکراحمدبن علی بن علی بن لال الہمدانی [م:۳۹۸ ھ/۱۰۰۸ء] ہے، جس نے مکارم الاخلاق کے نام سے کتاب لکھی تھی۔
 حدیث کے لیے راوی کا ثقہ اور عادل ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس کے حافظے کا صحیح اور درست ہونا بھی ایک شرط اور سلسلہ سند کا متصل ہونا بھی لازمی شرط ہے۔ جب اس حدیث کا ایک راوی بدنام بھی ہے اور سند بھی ٹوٹی ہوئی ہے یعنی منقطع ہے، تو یہ قابل قبول حدیث نہیں ہوسکتی اور شاوروھن وخالفوھن کے بارے میں تو یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ اس کو کس نے نقل کیا ہے۔  علی قاری نے اس کو مرقات میں بغیر سند کے و قدورد یعنی اپنی دوسری کتاب موضوعات کبیر میں ’’اس روایت کو بے اصل اور باطل قرار دیا ہے‘‘۔
خود مولانا مودودیؒ بدلے ہوئے حالات کی روشنی میں لکھتے ہیں: تعلیم یافتہ خواتین پر اس وقت ایک اور فرض عائد ہوتا ہے، جو ایک لحاظ سے اپنی اہمیت میں دوسرے تمام کاموں سے بڑھ کر ہے۔ وہ یہ کہ اس وقت مغرب زدہ طبقے کی خواتین پاکستان کی خواتین کو جس طرح گمراہی ، بے حیائی اور ذہنی و اخلاقی آورگی کی طرف دھکیل رہی ہیں اور جس پر حکومت کے ذرائع و وسائل سے کام لے کر عورتوں کو غلط راستے پر ڈالنے کی کوشش کررہی ہیں ، ان کا پوری قوت سے مقابلہ کیا جائے۔ یہ کام محض مردوں کے کرنے سے نہیں ہو سکتا۔ مرد جب اس گمراہی کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کو یہ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے کہ مرد تم کو غلام رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کی تو ہمیشہ سے یہی مرضی رہی ہے کہ عورتیں چاردیواریوں میں گھٹ کر ہی مرتی رہیں اور انھیں آزادی کی ہوا تک نہ لگنے پائے۔
اس لیے ہمیں اس فتنے کا سد باب کرنے میں بھی عورتوں کی مدد کی سخت ضرورت ہے۔ اللہ کے فضل سے ہمارے ملک میں ایسی شریف اور خدا پرست خواتین کی کمی نہیں ہے، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور ان بیگمات کے علم اور ذہانت اور زبان اور قلم کی طاقت میں کسی طرح بھی کم نہیں ہیں۔ اب یہ کام ان کا ہے کہ آگے بڑھ کر ان کو منہ توڑ جواب دیں۔ وہ انھیں بتائیں کہ مسلمان عورت حدوداللہ سے باہر قدم نکالنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے ۔ وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہیں کہ مسلمان عورت اس ترقی پر لعنت بھیجتی ہے جسے حاصل کرنے کے لیے خدا اور اس کے رسولؐ کی مقرر کی ہوئی حدود توڑنی پڑیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کے کرنے کا کام یہ بھی ہے کہ منظم ہوکر اس حقیقی ضرورت کو جس کی خاطر حدود شکنی کو ناگزیر کیا جاتا ہے ،اسلامی حدود کے اندر پورا کرکے دکھائیں، تاکہ یہ گمراہ کرنے والے اور کرنے والیوں کا ہمیشہ کے لیے منہ بند ہو جائے۔
شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک صاحب نے اس ضمن میں موقف اختیار کیا ہے: ’’اجتماعی زندگی کے معاملات میں عورت کے حصہ لینے کی ہر حال میں ممانعت ،ایک محدود زاویۂ نگاہ ہے۔ اس کا تعلق ایسے حالات سے ہے، جب خواتین کو میدان میں لانے کی ضرورت اور حاجت نہ ہو، اور کوئی بلاخیز سیلابی ریلانہ آیا ہو۔ لیکن اگر سیلابی ریلا آگیا ہو تو ایسی صورت میں فقہا نے لکھا ہے کہ دفاع فرض عین ہوتا ہے ۔بیٹے کو ماں باپ اور بیوی کو شوہر سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دشمن کو دھکیلنے کے لیے باہر نکلنا ہوتاہے۔ فتاویٰ عالمگیری ، شامی اور تمام کتب فتاویٰ اس پر شاہد ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ عورت کا اصل کام گھروں کو اسلامی شریعت کے رنگ میں رنگنے اور گھروں کو آباد کرنا ہے ۔عالمی سطح پر معاشرتی و سیاسی صورتِ حال یہ ہے کہ خواتین زندگی کے مختلف میدانوں میں داخل ہوگئی ہیں۔ خصوصاً سیاست میں بھی اہم مقام حاصل کر رہی ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں ضروری ہو گیا کہ سیکولرزم، لادینیت، لبرل ازم اور اباحیت کو لگام دی جائے اور مغرب زدہ خواتین کے مقابلے میں دین کی علَم بردار اور باپردہ خواتین کو آگے لایا جائے۔ الحمدللہ، ہم اس میں کامیاب ہیں۔ شرعی حدود کو ملحوظِ خاطر رکھ کر ان خواتین میں دعوت کا کام کررہی ہیں۔

پاکستان میں خواتین کی نمایندگی

خواتین کی سیاسی نمایندگی ۱۹۵۶ء کے آئین کے مطابق آیندہ ۱۰ برس کے لیے ۱۵نشستوں کو مخصوص کر کے کی گئی۔ ۱۹۶۲ء کے آئین کی رو سے قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستیں ۸، اور ہر صوبائی اسمبلی میں ۵ رکھی گئیں۔ ۱۹۷۳ء کے آئین میں خواتین کی ۱۰نشستیں قومی اسمبلی میں اور ۵ فی صد نشستیں ہر صوبائی اسمبلی میں مختص کردی گئیں۔ اور یہ مدت ۲۰سال کے لیے تھی۔ ۱۹۹۳ء میں یہ مدت پوری ہونے پر خواتین کا مخصوص کوٹہ ختم ہوگیا۔ ۲۰۰۲ء میں ۱۷ویں ترمیم کے ذریعے خواتین کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلی میں اور سینیٹ میں۳۳ فی صد نشستیں مخصوص کردی گئیں، جب کہ لوکل گورنمنٹ میں یہ نشستیں ۵۰فی صد کردی گئیں۔
اسی طرح پاکستان میں خواتین کی نمایندگی کی تعداد ۱۹۴۹ءمیں قومی اسمبلی میں ۳، صوبائی اسمبلی میں ۱۹۵۲ءتا ۱۹۵۸ ء ۲، ۱۹۶۲ءتا ۱۹۶۵ ء۲ ،اور ۱۹۷۲ء تا ۱۹۷۷ء یہ تعداد ۵تھی۔ اپریل ۱۹۷۷ءمیں خواتین ارکان کی تعداد ۹ ہوگئی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں قومی اسمبلی میں ۲۰ اور صوبائی اسمبلی میں ۲۴ خواتین مخصوص نشستوں پر رکن اسمبلی رہیں۔ اس طرح ۱۹۴۷ءتا ۱۹۹۷ء پاکستان میں ۱۱۳ خواتین منتخب یا نامزد ہوئیں۔ ۲۰۰۲ء میں مخصوص نشستوں پر خواتین کی تعداد قومی اسمبلی میں ۶۰ اور سینیٹ میں ۱۸ تھی۔ صوبائی نشستوں پر صوبہ پنجاب میں ۶۶، سندھ میں ۲۹، خیبرپختونخوا میں ۲۲ اور بلوچستان میں ۱۱ خواتین مخصوص نشستوں پر اسمبلی میں تھیں، جب کہ  لوکل گورنمنٹ میں تعداد۴۰ہزار تھی۔

جماعت کی طرف سے نمایندگی

جماعت اسلامی میں عورت کی سیاسی نمایندگی کی تاریخ اس طرح ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان کی طرف سے ۱۹۸۵ء میں ایک خاتون مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ الیکشن ۲۰۰۲ء میں قومی اسمبلی میں صوبہ سندھ سے ایک، صوبہ پنجاب سے ایک، صوبہ سرحد سے تین، صوبہ بلوچستان سے ایک، کل ۶ کی تعداد میں خواتین اراکین اسمبلی بنیں۔ ۲۰۱۸ء کے الیکشن میں ایک خاتون جن کا تعلق صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا)سے تھا، مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کی رکن بنیں۔ سینیٹ آف پاکستان میں ۲۰۰۳ء تا ۲۰۰۶ء ایک خاتون ممبر اور ۲۰۰۶ء تا ۲۰۰۹ء دوخواتین ممبر سینیٹ رہیں۔ بعد ازاں ۲۰۰۹ء تا ۲۰۱۲ءایک خاتون ممبر سینیٹ رہیں۔
۲۰۰۲ء میں پاکستان الیکشن کمیشن کی طرف سے سیاسی جماعت کے لیے ضابطۂ انتخاب میں یہ لازم کیا گیا کہ وہ ۳۳ فی صد نشستیں خواتین کے لیے مخصوص رکھیں گے۔ یعنی اگر کوئی پارٹی ۱۰۰نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کو اسمبلی میں خواتین کے لیے مخصوص  ۳۳نشستیں مل جائیں گی، جس پر وہ اپنی نمایندہ خواتین کو اپنی پارٹی کی طرف سے ترتیب دی گئی، ترجیحی فہرست کے مطابق نامزد کریں گی۔ ان خواتین کو حلقے کے عوام کے ووٹ کی ضرورت نہیں ہوگی، بلکہ یہ پارٹی کے حاصل کردہ ووٹوں کی بنا پر اسمبلی ممبر بن جائیں گی۔ اس طرح مخصوص نشستوں پر خواتین کی ایک بڑی تعداد اسمبلیوں میں پہنچ گئی۔ دوسرے قدم کے طور پر ۲۰۱۸ء میں الیکشن کمیشن کی طرف سے سیاسی جماعتوں کے لیے لازم کیا گیا کہ وہ اپنی پارٹی کی ۵ فی صد عام نشستوں پر خواتین اُمید وار نامزد کریں گی۔ ایسے اُمیدوار کو حلقے کے تمام رجسٹرڈ مرد و خواتین کے ووٹ حاصل کرنا ہوتے ہیں۔ بہرحال، الیکشن کمیشن کی طرف سے دیے گئے اس ضابطے کی علمااور عوامی حلقوں کی جانب سے مخالفت ہوئی کہ یہ اقدام ہماری تہذیبی روایات سے متصادم ہے۔
خواتین کو پارلیمینٹ میں مخصوص نشستوں پر نمایندگی دینے کے فیصلے میں بنیادی عوامل اقوام متحدہ کے عورتوں کے لیے بنائے گئے کمیشن کی قراردادیں اور معاہدے ہیں، جن پر حکومت ِ پاکستان نے دستخط کیے ہیں۔
جماعت اسلامی ایک دینی،اصولی اور سیاسی جماعت ہونے کے ناتے، سیاسی کشاکش میں خواتین کے فعال کردار پر شدید ذہنی تحفظات رکھتی ہے۔ لیکن معاشرے اور قانون ساز اداروں، نافذشدہ ضابطوں، انتخابات اور اس کے تقاضوں سے بے نیاز نہیں ہو سکتی۔ بہتر تو یہ ہے کہ دینی جماعتوں کے سیاسی عمل میں شمولیت کی اہمیت کو سمجھنے والے علما مل بیٹھ کر کچھ فیصلہ کریں کہ ہمیں الیکشن کمیشن کے ضوابط میں تبدیلیوں کے ساتھ کس حد تک اور کس شکل میں چلنا ہے۔

  صحابہ کرامؓ اس بات کے لیے کوشاں رہتے تھے کہ یہ جان سکیں کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ بہت ساری نیکیوں میںسے کون سی نیکی آخرت میں خیر کے پلڑے میں سب سے وزنی ہو گی؟
قرآن و سنت سے جو رہنمائی ملتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے سامنے کچھ معیارات رکھے گئے ہیں جن سے ہم یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کون سے ہیں ، اور اعمال کے درجے کیا ہیں؟ پھر یہ رہنمائی بھی ہے کہ ایک ہی عمل ایک وقت میں اگر اجر کے لحاظ سے افضل ترین ہوتا ہے تو دوسرے حالات یا وقت میں اس کا وہ درجہ نہیں رہتا۔ اسی طرح بُرے اعمال جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے ، ان کے درمیان فرق کو قرآن و حدیث میں واضح کیا گیا ہے۔

دین میں ترجیحات اور ہمارا رویّہ

 ربّ کی رضا کے متلاشی اور اس کے لیے کوشش کرنے والے اور رب کی ناراضی سے بچنے والوں کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ وہ اعمال کے درجوں کے بارے میں علم حاصل کریں ۔ فرض ، واجب ، مستحب اور نفل میں کیا فرق ہے؟ یہ درجہ بندی کیوںہے اور کون سے اعمال کس زمرے میں آتے ہیں؟ ایسے ہی جن کاموں سے رُکنا ہے، ان میں بڑے گناہ یا کبائر، صغائر ، مشتبہہ اور مکروہ اعمال کون سے ہیں؟ یہی علم ترجیحات کا تعین کرتا ہے۔یہ علم نہ ہو، تو ہم عمل کریں گے،    مگر غیراہم کو اہم بنا لیں گے اور اہم کو غیر اہم سمجھ لیں گے جو کہ بہت زیادہ نقصان کا سودا ہو گا۔  جو لوگ دین سے محبت رکھتے ہیں ،پابندی سے عمل کرتے ہیں، وہ بھی اکثر اوقات ان تفصیلات اور اس ترتیب تک کو نہیںجانتے۔
دین دار اپنی انفرادی زندگی میں نفلی حج اور رمضان کے عمرے پر خرچ کرنا زیادہ اہم جانتے ہیں بہ نسبت اس کے کہ اپنے خاندان کے کسی تنگدست کی مدد کی جائے ، کسی مصیبت زدہ ملک،فلسطین یا کشمیر کے باسیوں کی بنیادی ضرورتوں کے لیے عطیہ دیا جائے ۔ کوئی دعوتی اور تحریکی مرکز قائم کریں یا اس کی کفالت کریں، جہاں تخصص حاصل کر کے ایسے افراد تیار ہوں، جو دلیل کے ساتھ اسلام کے خلاف پھیلائے جانے والے شبہات کا جواب د ے سکیں۔
 دین کا شعوری تعارف اور جذبہ بیدار ہونے کے بعد بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ کئی افراد اپنے تعلیمی میدان کو خیر باد کہہ کر ، دعوت و ارشاد کے لیے فارغ ہوجاتے ہیں۔ حالاںکہ اگر وہ اچھی نیت کے ساتھ، اپنے کام کو پوری مہارت کے ساتھ انجام دیتے، حدود اللہ کی پابندی کرتے، تو یہ عمل بڑی عبادت تصور ہوتا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے بڑے پیمانے پر یہ مطالبہ نہیں کیا کہ تم اپنے پیشے چھوڑ کر دعوت و تبلیغ کے لیے فارغ ہو جائو۔ہجرت سے پہلے ، ہجرت کے بعد بھی یہی طریقہ رہا کہ سارے لوگ اپنے اپنے پیشے سے وابستہ رہے اور دعوت کا کام بھی سرانجام دیتے رہے۔ جب جہاد کے لیے اعلان ہوتا تو اس کے لیے نکل کھڑے ہوتے۔
امام غزالی نے اپنے دور میں لوگوں کے لیے یہ بات ناپسند کی کہ ان کے اکثر طالب علم ، علم فقہ وغیرہ کی طرف متوجہ رہتے۔ دوسری طرف مسلم ممالک میں علاج معالجے کے لیے عیسائی یا یہودی طبیب ہی ہوتے، جو عورتوں اور مردوں کا علاج کرتے۔ 
۱۹۷۳ء میں فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی طالبات کا ایک وفد مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی سے ان کی رہایش گاہ پر ملا، راقمہ بھی اس وفد میں شامل تھی۔ عرض کی: ’’ہم ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ، مرُدوں کی چیر پھاڑ (ڈاسیکشن) کر کے پڑھتے ہیں ،یہ مرُدوں کی بے حرمتی میں آتا ہے۔ ہم دین پر مکمل عمل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم میڈیکل کی   تعلیم چھوڑ دیں‘‘۔مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے ہمارے اجتہاد سے اختلاف کیا اور فرمایا کہ: ’’اگر سب اس طرح سوچیں ،تو ان شعبوں میں جس اصلاح کی ضرورت ہے ، وہ کون کرے گا؟‘‘ آپ نے اس کام کو بہ کراہت مکمل کرنے اور بڑے ہدف پر نظر رکھنے کا کہا اور مثال دی کہ گلاس کے گدلے پانی کو صاف پانی سے بدلنا ہو تو اس عمل میں درمیان کا وقت ، گدلے پانی کا ہو گا، مگر صاف پانی تک پہنچنے کے لیے اس گدلے پانی سے گزرنا ، ناگزیر ہے۔ اس کے سوا چارہ نہیں ،سو آپ اپنی تعلیم جاری رکھیں اور آیندہ اس کوخلاف اسلام امور سے پاک کریں۔
علامہ یوسف القرضاوی لکھتے{ FR 644 } ہیں کہ امریکا، کینیڈا اوردوسرے یورپی ممالک میں رہایش پذیر مسلمان،ہم سے یہ مسئلہ پوچھتے ہیں کہ گھڑی دائیں ہاتھ میں پہنیں یابائیں ہاتھ میں، کوٹ پتلون پہناجاسکتا ہے یا شلوار قمیص پہننا فرض ہے؟عورتوں کامسجدوں میں جانا حلال ہے یا حرام؟
ترجیح کو نظرانداز کرنے کی روش پر چلتے ہوئے، ہم نے ان بہت سارے فرائض کفایہ کو چھوڑدیا ہے، جو مسلمان امت کو دنیا کی قیادت کے منصب پرفائز کرنے کے لیے ناگزیر تھے،مثلاً سائنسی،عسکری ،صنعتی برتری۔
بعض ایسے امور کوبھی چھوڑ دیا ہے، جو فرض عین کے درجے میں آتے ہیں، یعنی یہ کہ ہر فرد پر ان کا کرنا لازم ہے۔اگر چھوڑا نہیں تو انھیں وہ مقام نہیںدیا جودینا چاہیے تھا۔امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ بیان کرتے ہوئے ،اللہ تعالیٰ نے سورئہ توبہ کی آیت ۷۱ میں اسے نماز اورزکوٰۃ سے پہلے بیان کیاہے۔اس فریضے کے ترک پربنی اسرائیل کے لیے ان کے نبیوں کی زبان سے لعنت کی گئی ہے۔
بعض اُمور کوبعض پرزیادہ اہمیت دے رکھی ہے۔بہت سارے بے نمازی ،رمضان کے روزے شوق سے رکھتے ہیں۔بعض کے ہاں نوافل کااتنا اہتمام کہ فرائض اور واجبات کابھی وہ اہتمام نہیں ہے۔
عبادات پہ بجاطور پر توجہ ہے،مگر معاشرتی فرائض کاوہ درجہ نہیں ہے۔جن میں والدین سے حُسن سلوک،رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی،یتیموں اورمسکینوں کاخیال رکھنا،اہل خانہ کے حقوق شامل ہیں۔ دوسری طرف یہ صورت حال بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ دعوت کاکام کرنے کاایسا شوق اور مشغولیت کہ گھر میں بچوں کی تعلیم وتربیت،خانگی ضروریات اوربزرگوں کی خدمت میں کوتاہی ہونے لگتی ہے۔
ملازمت میں ایسی مشغولیت ہے کہ دین کاعلم سیکھنے اوردعوت کے کام کے لیے وقت نکالنا گراں محسوس ہوتا ہے۔مرکزومحور اپنی ذات ہے تومال بھی یہاں ہی خرچ ہوتا ہے۔کہیں اورخرچ کرنے کے لیے بچتا ہی نہیں ہے۔
چہرے کے پردے کی ایسی سختی کہ گھر میں آئے شوہر کے محرم رشتہ دار کے لیے دروازہ کھولنا اور بٹھانا تک ناممکن۔ گھر آئے مہمانوں کی مناسب میزبانی کے بجاے پردے کی بنا پر کمرے میں بند ہوجانا۔ دوسری طرف ملازمت اوراعلیٰ تعلیم کاایسا شوق اورآگے بڑھنے کی اتنی لگن کہ گھر باربچے،سب اس پر قربان کردیے جاتے ہیں۔
یہ سب خرابیاں اس بنا پر آتی ہیں کہ ہمیں ترجیحات کاتعین معلوم نہیں،کس وقت کون سا کام اہم ترین ہے،کس کوکس پرترجیح دینی ہے اورکس کوچھوڑ دیں تو خیر ہے؟ اس کے لیے یہ علم ناگزیر ہے کہ اعمال کے درجے کیا ہیں،اورحالات کے ساتھ ان کے درجے کیسے بدل جاتے ہیں؟

اعمال میں ترجیحات کی اہمیت

ترجیحات کی اہمیت، اللہ تعالی کے اس ارشاد سے بھی واضح ہوتی ہے:
کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھیرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روز آخر پر اور جس نے جان فشانی کی اللہ کی راہ میں۔ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔ اللہ کے نزدیک تو انھی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنھوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑ ے اور جان و مال سے جہاد کیا وہی کامیاب ہیں۔(التوبہ ۹:۱۹-۲۰)  
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اس بات کی وضاحت کرتا ہے۔ فرمایا:
اَلْایمَانُ بِضْعٌ وّسَبْعُونَ شُعبَۃً، اَعْلَا ھَا لَا اِلٰہ اِلَّا اللہُ وَاَدْنَا ھَااِمَاطَۃُالْائَ ذَی عَنِ الطّرِیْق (بخاری،کتاب الایمان) ایمان کے۷۰ کے لگ بھگ شعبے ہیں ان میں سے اعلیٰ شعبہ لا الٰہ الا اللہ ہے اور ادنیٰ یہ کہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹایا جائے۔ 
 قرآن و سنت میں اس حوالے سے جو تعلیمات وارد ہوئی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سامنے کچھ معیارات رکھے گئے ہیں، جن کے ذریعے ہم معلوم کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں افضل، اولیٰ اور سب سے پسندیدہ اقدار و اعمال کیا ہیں؟ یعنی فرض، واجب، مستحب اور نوافل کون کون سے ہیں؟یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے ان کے درمیان کیا فرق ہے؟ بعض احادیث میں ان کے درمیان جو نسبت ہوتی ہے وہ بیان کر دی گئی ہے جیسے: 
باجماعت نماز انفرادی نماز سے ۲۷درجے فضیلت رکھتی ہے۔(بخاری، کتاب الاذان، ابواب صلاۃ الجماعۃ ، حدیث: ۶۲۸)
اللہ کی راہ میں ایک ساعت پہرہ دینا اس سے بہتر ہے کہ آدمی لیلۃ القدر کو حجراَسود کے پاس کھڑا عبادت کرتا رہے۔ (بیہقی، باب فی المرابطۃ، حدیث: ۴۱۰۵)
اسی طرح بُرے اعمال کی بھی درجہ بندی موجود ہے۔ ان میں کچھ کبائرہیں، کچھ صغائر ہیں، پھر مکروہات اور مشتبہات ہیں۔ بعض اوقات ان کی بھی آپس میں نسبت بیان کی گئی ہے، مثلاً ایک آدمی جان بوجھ کر ایک درہم سود کھائے تو یہ اس سے شدید تر ہے کہ ایک شخص۳۶ بار زنا کا مرتکب ہو( دارقطنی، کتاب البیوع، حدیث: ۲۴۸۷)۔ لیکن اس کا مطلب زنا کو کم تر ثابت کرنا نہیں، بلکہ سود کے ناجائز ہونے کی شدت کو واضح کرنا ہے۔
 قرآن پاک میں یہ بات بھی بیان کی گئی ہے کہ سارے لوگ مرتبے کے لحاظ سے برابر نہیں ہیں بلکہ علم و عمل کے لحاظ سے لوگوں کے دمیان فرق ہوتا ہے۔ فرمایا:’’ مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں، ان دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے۔ اللہ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے۔ اگر چہ ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے، مگر اس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے۔ اُن کے لیے اللہ کی طرف سے بڑے درجے ہیں او ر مغفرت او ررحمت ہے اور اللہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ (النساء ۴:۹۵-۹۶)

ترجیحات کے درمیان موازنہ

یہ موازنہ دراصل بھلائیوں کا آپس میں موازنہ کرنا ہے۔ دوسرے برائیوں کا آپس میں موازنہ ہے، اور تیسرے بھلائیاں اور برائیاں جب دونوں موجود ہوں تو اس وقت ان کے درمیان موازنہ کر کے فیصلہ کرنا ہے۔ بھلائیوں کے موازنے کے تین درجات ہیں۔ یہ تین درجے، ضروریات، حوائج یا آسانیاں اور محسنات یا تعیشات ہیں۔
 ضروریات وہ ہیں جو زندگی کے لیے ضروری اور بنیادی ضرورتیں ہیں:
حوائج یا آسانیاں وہ ہیں، جن کے بغیر زندگی توگزر جاتی ہے مگر مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔ محسنات اور تعیشات وہ ہیں جو زندگی کو حسین و جمیل اور انتہائی آرام دہ بنا دیتی ہیں۔
 سر چھپانے کے لیے ٹھکانہ، یعنی گھر بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے اندر مہمان کے لیے کمرہ، مکین کے لیے کمرہ، کھانا پکانے کی جگہ وغیرہ وغیرہ آسانیاں مہیا کرتے ہیں، لیکن ان کو بہت کشادہ کرنا، بہت سجانا وغیرہ تعیشات میں آتے ہیں۔ ضروریات کا اہتمام کرنا فرض ہے۔ آسانیاں حاصل کرنے کی گنجایش ہے مگر تعیشات ناپسندیدہ ہیں۔ اس لیے ضروریات کو آسانیوں پر ترجیح اور آسانیوں کو تعیشات پر ترجیح دینا ضروری ہے ۔
 ضروریات میں بھی پانچ چیزیں ہیں: دین، جان ، نسل، عقل اور مال۔ ان میں دین پہلے اور سب سے اہم ہے اور باقی ضروریات پر مقدم ہے۔ یہاں تک جان پر بھی مقدم ہے اور جان باقی ضروریات پر مقدم ہے۔
بھلائیوں کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے ان باتوں کا خیال رکھائے جائے: بڑی مصلحت چھوٹی مصلحت پر مقدم ہے ، جماعتی مصلحت جس میں سب کا فائدہ ہو، انفرادی مصلحت پر مقدم ہے ، اکثریت کی مصلحت ،اقلیت کی مصلحت پر مقدم ہے، دائمی مصلحت عارضی مصلحت پر مقدم ہے۔ مستقبل کی قوی مصلحت حال کی کمزور مصلحت پر مقدم ہے، جیسے صلح حدیبیہ میں نبیؐ نے اصل اور بنیادی، مستقبل کی مصلحتوں کو ظاہر اور فوری مصلحتوں پر مقدم رکھ کر شرائط قبول کرلیں۔
 برائیوں کے درمیان موازنہ بھی ضروری ہے۔ اس لیے کہ ان کے بھی مختلف درجے ہیں۔ وہ برائیاں جو مال کے نقصان کا ذریعہ بنیں ان کا درجہ کم ہے۔ اُن سے جوجان کے نقصان کا باعث بنیں، اور جان کے نقصان والی کا درجہ دین کے نقصان کا باعث بننے والی برائیوں سے کم ہے۔
 پھر برائیاں اپنے حجم، اثرات اور خطرات کے لحاظ سے بھی مختلف درجوں کی حامل ہوتی ہیں۔ ان کے لیے فقہا نے بعض قواعدوضع کیے ہیں، مثلاً دو برائیوں میںسے کم تر کا انتخاب کیا جائے یا بڑے نقصان سے بچنے کے لیے چھوٹے نقصان کو برداشت کیا جائے۔
 اگر کسی معاملے میں بھلائیاں اور برائیاں یا فائدے اور نقصان دونوں ہوں تو ان کے درمیان بھی موازنہ کئے بغیر چارہ نہیں۔ کسی معاملے میں برائیاں زیادہ اور فائدے کم ہوں تو اس کو اختیار نہیں کیاجائے گا۔ یہی بات قرآن نے شراب کے مسئلے میں سمجھائی: ’’پوچھتے ہیں: شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ کہو: ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے۔ اگر چہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، مگر ان کا گناہ اُن کے فائدے سے بہت زیادہ  ہے‘‘۔(البقرہ۲ :۲۱۹)
ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے ، ایک اور نکتہ ایمان اور اعمال میں ترجیح کے تعین کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کرلیے یا مغرب کی طرف کرو، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے‘‘ (البقرہ۲:۱۷۷)۔ یعنی ایمان سب سے مقدم ہے اور عمل اس کے بعد ہے۔ ایمان پہلے لانا ہو گا، پھر عمل اور جتنا ایمان مضبوط ہو گا، اتنا عمل بہتر ہو گا۔
ایمان کے بعد اعمال ہیں اور اعمال میں ترتیب: فرائض ، واجبات اور مستحبات ہے۔ بنیادی فرائض میں عبادت: یعنی نماز، روزہ ، حج، زکوٰۃہیں۔ ان فرائض میں بھی فرائضِ العین ہیں اور فرائضِ کفایہ ہیں۔ فرضِ عین اہم تر ہے۔ فرضِ عین وہ ہے جس کی ادایگی ہر فرد پر لازم ہے۔ اس کے بعد فرض کفایہ ہے، یعنی کچھ لوگ کر لیں تو بقیہ پہ لازم نہیں رہتا لیکن کچھ حالات میں فرضِ کفایہ فرضِ عین بن جاتا ہے۔ اگر ایک محلے میں ۵۰فقیہہ ہیں اور ایک طبیب ہے اور وہ بھی غیرمسلم تو طب کا علم حاصل کرنا، فرضِ کفایہ نہیں ، فرضِ عین ہو گا۔ فرضِ عین میں حج پر نماز مقدم ہے، اور فرائضِ کفایہ میں والدین کی خدمت مقدم ہے جہاد پر۔ یعنی حالات کے لحاظ سے ان میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔ 
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا گورنر بنا کر روانہ کیا تو ہدایت کی: پہلے اللہ اور اس کے رسولؐ پہ ایمان کی دعوت دینا۔ پھر پانچ نمازوں کا کہنا، مان لیں تو صدقہ اور پھر زکوٰۃکا حکم دینا۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، حدیث ۱۳۴۲)
تربیتِ نبویؐ کے انداز کو سمجھنا بھی اہم تر ہے۔ جس میں پہلے ارکانِ اسلام اور اساسیات ، بنیادی امور کی تعلیم دیتے اور پھر جزئیات پر عمل کی تلقین فرماتے۔ دین کے مزاج کے مطابق یہ بات درست نہیں ہے کہ آدمی سنن اور نوافل میں مشغول رہے اور فرائض سے غفلت اور سستی اختیار کرے۔ 
بعض اوقات راتوں کو اُٹھ کر نمازِ تہجد کا اہتمام کرنے والے، صبح اپنی ملازمت کو ایسے جاتے ہیں کہ تھکاوٹ اور سستی دور نہیں ہوئی ہوتی، حالانکہ یہاں کے وقت کی وہ تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ وہ اس کا پورا پورا حق ادا نہیں کر پاتے۔ گویا  اچھے طریقے سے کام کرنا بھی فرض ہے۔ 
علامہ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں کہ: یہ کوتاہی امانت میں خیانت ہے اور مہینے کے آخر میں آدمی جو تنخواہ لیتا ہے وہ حرام کا مال ہوتا ہے۔ رات کا قیام نفل ہے ،جو اللہ نے فرض نہیں کیا۔ فقہانے یہ بات طے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی نفل کو اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک کہ فرض کو ادا نہ کیا جائے۔ 
امام راغب فرماتے ہیں کہ: جو شخص فرض کی ادایگی میں نفل سے غافل رہا، اس کو معذور سمجھا جائے گا، مگر جو شخص نفل کی ادایگی کا اہتمام کرے مگر فرض سے غافل ہوگیا، وہ دھوکے میں ہے۔ 
فرضِ عین میں حقوق العباد، حقوق اللہ پہ فوقیت رکھتے ہیں۔ علمانے کہا ہے کہ اللہ کے حقوق مسافت، یعنی نرمی و چشم پوشی پر مبنی ہیں، اور حقوق العباد مشاخت ،یعنی لڑائی جھگڑے پر مبنی ہیں۔ مثال یوں ہے کہ حج واجب ہے اور دوسری طرف قرض کی ادایگی واجب ہے، تو ان میں قرض کی ادایگی پہلے کرنا ہو گی۔ 
فرائض میں اور حقوق العباد میں جو فرائض جماعت کے حقوق سے تعلق رکھتے ہیں ، ان فرائض پر جن کا تعلق افراد کے حقوق سے ہے، ان کو ترجیح حاصل ہو گی۔ 
مثال کے طور پر حکومت کا ٹیکس لگانا بظاہر چند افراد کے مال کو نقصان پہنچانا ہے، مگر اس سے حکومت بہت سارے افراد کے لیے درکار ملکی ضروریات کو پورا کرتی ہے، تو یہ ایک افضل عمل ہے کہ یہ ملک کی حفاظت یا رفاہ عامہ کے دیگر امور کے لیے ضروری ہے۔ 

منہیات میں ترجیح کا تعین

منہیات،یعنی جن کاموں سے منع کیا گیا۔ان کی اقسام اور ان میں ترجیح کا علم ہونا بھی اہم ہے۔ اس فہرست میں درج ذیل کو ذہن میں رکھنا ہو گا:

  • گناہ:اس کی بھی دو قسمیں اور درجے ہیں: گناہِ کبیرہ اور گناہِ صغیرہ۔ 
  • گناہِ کبیرہ: اس کے کرنے والے پر اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے اور وہ اللہ کی لعنت اور جہنم کی آگ کا مستحق بنتا ہے۔ یہ فہرست ان ہی وعیدوں کے مستحقین سے مرتب کی گئی ہے۔ بعض اوقات ان کی وجہ سے حد لازم آتی ہے۔ قرآن پاک نے بعض کبائر کی تعریف بھی متعین کر دی ہے۔ ان میں السبع المہلکات،یعنی سات مہلکات شامل ہیں۔ یہ ہیں شرک، اللہ کی حرام کردہ جان کو ناحق قتل کرنا، جادوکرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، پاکیزہ اور بے خبر مومنات پر الزام لگانا، میدانِ جنگ میں دشمن سے منہ موڑنا ۔ اسی طرح کا معاملہ ان گناہوں کا بھی ہے، جو صحیح احادیث میں بتائے گئے ہیں۔ ان میں والدین کی نافرمانی، قطع رحمی، جھوٹی گواہی، جھوٹی قسم، شراب نوشی، زنا، ہم جنسیت، خودکْشی، راہزنی، غصب، مالِ غنیمت میں خیانت، رشوت، چغلی کھانا۔ بنیادی فرائض نماز، روزہ، زکوٰۃ اور استطاعت کے باوجود حج نہ کرنا بھی کبائر میں آتے ہیں-ان عملی کبیرہ گناہوں میں پھر کچھ زیادہ بڑے ہیں، مثلاً حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمھیں اکبر الکبائر کے بارے میں نہ بتاؤں؟ پھر آپ ? نے شرک کے بعد والدین کی نافرمانی اور جھوٹی گواہی کو گنتی کر کے بتایا۔ (بخاری، حدیث: ۵۹۲۷)شریعت نے اس حوالے سے گناہوں کی درجہ بندی اور فرق بیان کیا ہے، کہ کچھ گناہ وہ ہیں جو آدمی کسی کمزوری کی وجہ سے کر لیتا ہے اور کچھ وہ ہیں جو سرکشی کا نتیجہ ہیں، مثلاً، زنا کمزوری اور سود سرکشی کی مثال ہے۔ سود کے ستر درجے قرار دیے گئے ہیں اور ان میں سے کم درجہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں کو بیوی بنائے۔ (ابن ماجہ ، کتاب التجارات، باب التغلیظ فی الربا، حدیث: ۲۲۷۱)ہمارے ہاں زنا، یا اجنبی فرد اور عورت کے درمیان رابطے کو بجاطور پر بہت بُرا سمجھا جاتا ہے مگر سود سے نفرت یا بچنا اور بچنے کے لیے چوکنا رہنا، گویا معمولی بات سمجھی جاتی ہے۔ کتنے سودی کاروبار ہیں ، سودی نظام پر چلنے والے ادارے ہیں ، جن میں ہم شامل ہیں۔ کتنے بنک اکاؤنٹس محض سستی کی بنا پر یا شک کی بنیاد پر ، کرنٹ یا نفع  و نقصان کے اکاونٹ میں تبدیل نہیں ہوپاتے۔ سودی بنکوں سے اسلامی بنکوں میں اکاؤنٹ منتقل کروانا بسا اوقات مہینوں ہماری فرصت کا محتاج رہتا ہے۔ 
  •  قلبی گناہِ کبیرہ:عملی کبیرہ گناہوں کے علاوہ دوسری قسم قلبی گناہِ کبیرہ ہیں۔   کبیرہ گناہ صرف ظاہری ہیں کہ جو نظر آئیں، جب کہ قلبی گناہ وہ ہیں، جو ہماری سوچ اور دل میں جگہ بنائے ہوئے ہوتے ہیں اور بسا اوقات بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس کے گناہ میں فرق یہ تھا کہ حضرت آدمؑ کی نافرمانی ظاہری اور جسمانی تھی، انھوں نے فورا توبہ کر لی۔ ابلیس کی نافرمانی کے پیچھے قلبی تکبر اور رعونت تھی کہ میں اعلیٰ ہوں اور اس قلبی کیفیت کی بنا پر وہ رجوع کرنے کے بجاے ہٹ دھرمی کی راہ پر چل پڑا۔ قلبی گناہوں کے بارے میں زیادہ سخت وعید ہے اور ان سے محتاط رہنے کی زیادہ تاکیدہے کہ یہ عملی کبائر کا محرک بھی بنتے ہیں۔ ان میں کچھ قلبی گناہ ہوں، کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے: 
  • تکبر: قرآن پاک میں اس طرف اشارہ یوں کیا گیا ہے، شیطان کا اللہ سے مکالمہ ہے:’’میں اس سے بہتر ہوں‘‘۔ (ص ۳۸: ۷۶) حدیث:’’آدمی کے لیے اتنا شر بہت ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے‘‘۔ ’’وہ ان لوگوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا جو غرورِ نفس میں مبتلا ہوں‘‘۔ ( النحل۱۶:۲۳)خود احتسابی کی ضرورت ہے کہ کہاں کہاں اور کب کب میں نے اپنے آپ کو دوسروں سے اعلیٰ سمجھا۔ علم، عمل، عبادات، تحریر، تقریر، معاملات وغیرہ وغیرہ۔ 
  • بغض اور حسد: حضرت آد م علیہ السلام کے بیٹے کے قتل کا محرک حسد تھا، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’پناہ مانگو اور حاسد کے شر سے، جب کہ وہ حسد کرے‘‘۔ (الفلق۱۱۳:۵)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی بڑی وعید ہے کہ :’’ایمان اور حسد بندے کے دل میں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے‘‘۔ (صحیح ابن حبان ، کتاب السیّر، باب فضل الجہاد، حدیث: ۴۶۷۶)
  •  طمع و لالچ : قلبی گناہوں میں جو کبائر ہیں ان کے بارے میں فرمایا کہ:’’تین مہلکات ہیں: ایک طمع و لالچ جس کی پیروی کی جائے، دوسری خواہش جس کے پیچھے چلا جائے، اور تیسرا آدمی کا اپنے آپ میں گم ہو جانا‘‘۔ (المعجم الاوسط للطبرانی ، حدیث:۵۵۵۶) شح   ،یعنی طمع و لالچ ، دو امراض بخل اور حرص کے مجموعے کا نام ہے۔ بخل صرف مال کے حوالے سے ہوتا ہے اور شح  کسی سے بھلائی کرنے یا کسی بھی عبادت میں کشادہ دلی سے روکتی ہے۔ 
  • شدید خواہشِ نفس: اللہ فرماتا ہے:’’پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کے حال پر بھی غور کیا  جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا اور اُس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اُس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ (الجاثیہ ۴۵:۲۳)خواہشِ نفس علم کے باوجود آدمی کو گمراہ کر دیتی ہیں اور اس کی بصیرت سلب کر لیتی ہے۔ 
  • خود پسندی:یہ کہ آدمی اپنے عیبوں کہ نہ دیکھے خواہ وہ کتنے ہی بڑے ہوں اور اپنے محاسن اور خوبیوں کو دور بین سے دیکھے اور انھیں بڑا کر کے ہر وقت پیش کرتا رہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ وہ برائی جو تمھیں پریشان کر دے، اس بھلائی سے بہتر ہے جو تمھیں خود پسندی میں مبتلا کر دے۔ یعنی وہ مصیبت جس پر تم اپنے آپ کو ذلیل محسوس کرو اور انکسار اختیار کرو، اس عبادت سے بہتر ہے جو تمھارے اندر خودپسندی اور استکبار پیدا کر دے۔ 
  • ریاکاری: قلبی گناہوں میں ریاکاری ایسی بیماری ہے کہ جو اعمال کو ضائع کر دیتی ہے اور اسے اللہ قبول نہیں کرتا، اگرچہ وہ عمل یا اس کا ظاہر لوگوں کے لیے کتنا ہی خوب صورت اور حسین ہو: ’’پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں، جو ریاکاری کرتے ہیں‘‘۔ (الماعون۱۰۷:۴-۶) 

ریاکاری ایک طرح کا شرک ہے۔ ریا کار کا اپنے عمل سے مقصود اللہ کی رضا نہیں ہوتا بلکہ  یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس سے راضی ہوں، اس کی تعریف کریں اور اس کی بزرگی وشرافت کا تذکرہ کریں۔ ایسے شخص کا عمل لوگوں کو راضی کرنے، ان کے درمیان اپنا مقام و مرتبہ بلند کرنے کی سعی ہوتی ہے، اور بظاہر لوگوں کو دکھاتا ہے کہ وہ رب کو راضی کرنا چاہتا ہے۔ اللہ اسے روزِ قیامت ذلیل کرے گا۔ (مختلف احادیث کا مفہوم)

  •  دنیا کی محبت اور طلب: یہ دنیا کی محبت اور اس کو حاصل کرنے کو آخرت پر فوقیت دینا ہے۔ خطرے کی بات اس کو مقصود و مطلوب بنا لینا ہے:’’جو لوگ بس اس دنیا کی زندگی اور اس کی خوش نمائیوں کے طالب ہوتے ہیں، ان کی کار گزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے‘‘۔ (ھود۱۱:۱۵-۱۶)
  • جاہ اور عہدے کی محبت: آخرت کا گھر تو ہم ان لوگوں کے لیے مخصوص کر دیں گے جو دنیا میں بڑے نہیں بنتے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامیدی بھی قلبی گناہوں میں سے ہے۔ فرمایا: ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں‘‘۔ (یوسف ۱۲:۸۷)
  • صغیرہ گناہ:کبائر کے بعد، ترجیح میں دوسرے نمبر پر یا مہلک ہونے کے حوالے سے نسبتاً کم تر صغیرہ یا چھوٹے گناہ ہیں۔ لیکن یہ امر ملحوظ ِ خاطر رکھیے کہ اگر کوئی صغیرہ گناہوں کو معمولی سمجھے اور ان پر عمل کرتا رہے، اصرار کرے تو یہ حقیر یا صغیرہ گناہ بھی کبیرہ گناہ کی طرف لے جاتے ہیں اور کبائر کفر کی طرف لے جانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان گناہوں میں اکثر آدمی کبھی نہ کبھی مبتلا ہو جاتا ہے اور ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ آدمی نے کبھی کوئی صغیرہ گناہ نہ کیا ہو۔تاہم، یہ ایسے گناہ ہوتے ہیں جو ہماری عبادات، نماز، روزہ ، قیامِ لیل وغیرہ سے بخش دیے جاتے ہیں، جب کہ کبیرہ گناہوں کا یہ معاملہ ہے کہ وہ توبۃ النصوح کیے بغیر نہیں بخشے جائیں گے۔ 

یہ بھی ذہن میں رہے کہ حالات زمانہ اور ارتکاب کرنے والے فرد کے لحاظ سے بھی گناہ میں فرق آ جاتا ہے، جیسے کنوارے ، شادی شدہ اور بوڑھے کے زنا میں فرق ہے۔ اسی طرح مسجد میں یا ہمسایے سے زنا میں فرق ہے۔ 

  • حرام: وہ محرکات جن کی حرمت قرآن پاک سے ثابت ہو وہ حرام ہیں: ’’اللہ کی طرف سے اگر کوئی پابندی تم پر ہے تو وہ یہ کہ مُردار نہ کھاؤ، خون سے اور سور کے گوشت سے پرہیز کرو، اور کوئی ایسی چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو‘‘۔ (البقرہ۲:۱۷۳)

کمائی میں تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کہا ہے۔ یعنی جس چیز کی حرمت کو قرآن و سنت میں صراحت سے بیان کر دیا گیا ہے وہ حرام ہے۔ 

  • بدعت: یہ بھی گناہ کے ساتھ ہی شامل ہے۔ بدعت وہ ہے جس کو لوگوں نے دینی معاملات میں نیا ایجاد کیا ہو۔ یہ بدعت اعتقادی بھی ہو سکتی ہے ، قولی بھی اور عملی بھی۔ اس کا کرنے والا اللہ کا قرب چاہتا ہے۔ اس کاعقیدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت کر رہا ہے، عبادت کر رہا ہے۔ 

ابلیس کو گناہ کے مقابلے میں بدعت زیادہ اچھی لگتی ہے کیوں کہ بدعت کا کرنے والا نہ توبہ کرتا ہے، نہ باز آتا ہے، بلکہ دوسروں کو بھی اس کی طرف بلاتا ہے۔ بسا اوقات اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ امور کو مزید ’معتبر‘ بنانے کی کوشش میں عملاً تحریف کردیتا ہے۔
بدعتیں بھی مختلف درجات کی ہیں۔ کچھ بدعات مغلظہ جو آدمی کو کفر تک پہنچاتی ہیں جیسے وہ فرقے جو اسلام کے اصول سے ہی نکل جاتے ہیں، اور کچھ وہ ہیں جو کفر تک تو نہیں فسق تک پہنچا دیتی ہیں۔

  • مشتبہات: مشتبہات وہ ہوتی ہیں جن کا حکم اکثر لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا اور اس کے حلال اور حرام ہونے میں اشتباہ ہوتے ہیں۔ 

ایک اَن پڑھ آدمی کو کسی با اعتماد عالم سے پوچھ لینا چاہیے۔ خود مشتبہات کے حوالے سے لوگوں کے درمیان بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض لوگ وسوسے کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور انتہائی معمولی مناسبت ہو، تب بھی، مشتبہات کی تحقیق میں وقت اور صلاحیت صرف کرتے ہیں۔ بعض تاویلات کر کے ناممکن کو ممکن بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اللہ کسی مسلمان سے اتنی گہرائی میں جانے اور اتنی نکتہ چینی کا تقاضا نہیں کرتا۔ صحابہ کرامؓ مشرکین اور اہلِ کتاب سے لین دین کرتے تھے، حالانکہ ان کے بارے میں جانتے تھے کہ وہ تمام حرام چیزوں سے اجتناب نہیں کرتے۔
اگر معاملہ مشتبہ ہو تو اس کو چھوڑ دینا بہتر ہے۔ حضرت سفیانؓ کہتے ہیں کہ مجھے اس سے کوئی رغبت نہیں، اسے اختیار کرنے کے مقابلے میں مجھے اس کا ترک کرنا زیادہ مرغوب ہے۔ 
اس کے بارے میں کئی اقوال ہیں۔ حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ ثابت ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ ایک آدمی پڑوسی ہے جو کھلم کھلا سود کھاتا ہے اور حرام لینے سے نہیں ہچکچاتا، وہ مجھے اپنے ہاں کھانے پر بلاتا ہے تو میں کیا کروں؟ انھوں نے جواب دیا کہ اس کی دعوت کو قبول کرو۔ یہ تمھارے لیے جائز ہے اور گناہ اسی کے ذمے ہے۔(مصنف عبدالرزاق، حدیث: ۱۴۱۹۰)

  • مکروہات: مکروہ وہ ہیں جس کے ترک کرنے میں اجر اور ان کے کرنے میں گناہ نہیں ہوتا۔ سب سے ادنیٰ درجہ مکروہات کا ہے۔ مکروہات میں بھی کچھ وہ ہیں جو حرام سے زیادہ قریب ہیں، جیسے مکروہ تحریمی، اور کچھ وہ ہیں جو حلال سے زیادہ قریب ہیں، جیسے مکروہِ تنزیہی، مثلاً ٹیک لگاکر کھانا کھانا، اونچی آواز نکالنا، بخار کو گالی دینا وغیرہ۔ 

اقوام متحدہ کی اکنامک اینڈ سوشل کونسل کے تحت عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے  عالمی سطح پر اُمورسرانجام پاتے ہیں۔ ۱۹۷۵ء میں عورتوں کی پہلی عالمی کانفرنس ہوئی۔ ۱۹۷۹ء میں عورتوں کے خلاف ہر طرح کے امتیاز کے خاتمے کا معاہدہ ’سیڈا‘( CEDAW)ہوا۔ اس پر ۱۲۹سے زائد ممالک نے دستخط کیے۔ ان میں پاکستان بھی شامل ہے مگر یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی روشنی میں کام کرنے سے مشروط ہے۔

اس معاہدے کی روشنی میں بیجنگ میں ہونے والی کانفرنس میں بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن طے ہوا، جس کے ۱۳ نکات تھے۔ بعد ازاں آٹھ اہداف کو ’ملینیم ڈیویلپمنٹ گولز‘(MDGs)کے  طور پر طے کر لیا گیا، تاکہ خواتین کی ترقی کی رفتار تیز تر اور جائزہ آسان تر ہو جائے۔  اہداف یہ ہیں:۱-غربت کا خاتمہ، ۲-عالمی سطح پر لڑکیوں کا ابتدائی درجۂ تعلیم میں داخلہ یقینی بنانا، ۳-عورت کی برابری کے تصور کو آگے بڑھانا اور عورت کی ترقی کے لیے کام کرنا ،۴-بچوںکی شرح اموات میں کمی، ۵-مائوں کی شرح اموات میں کمی ، ۶-ایچ آئی وی ایڈز، ملیریا اور دیگر بیماریوں سے حفاظت، ۷-ماحولیاتی استحکام کو یقینی بنانا، ۸-ترقی کے لیے عالمی برادری میں شراکت (Global Partnership)۔ ان میں سے نکات ۲،۳،۴،۵ اور ۶ عورتوں سے براہِ راست متعلق ہیں ۔ اہم ترین نکتہ تیسرا ہے، یعنی عورت کی برابری اور ترقی کے لیے کام کرنا ۔ آغاز میں جب برابری کا جھنڈا اٹھایا گیا تو نعرہ اپنے اپنے دائرۂ کار میں ترقی کا تھا۔ اب یہ ہر طرح کی برابری کا ہے۔

’کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن‘ (CSW)عورت کی برابری اور ترقی کے لیے منصوبے بناتا اور ان کا جائزہ لیتا ہے ۔ اس کمیشن کا ۵۸واںاجلاس ۱۰ مارچ تا ۲۱ مارچ ۲۰۱۴ء ، اقوام متحدہ کی کانفرنس بلڈنگ اور نارتھ لان بلڈنگ میں منعقد ہوا۔ اس میں حکومتی مشن براے اقوام متحدہ اور  اقوام متحدہ کی ’سوشل اینڈاکنامک کونسل‘ میں رجسٹرڈ این جی اوز، یعنی ’ایکوساک سٹیٹس‘ کی حامل ہیں ، نے شرکت کی۔ انٹر نیشنل مسلم ویمن یونین بھی اکنامک اینڈ سوشل کونسل میں صلاح کار تنظیم کا اسٹیٹس رکھتی ہے۔ راقمہ اس کی صدر اور ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل (ایشیا ) کی حیثیت سے اجلاس میں شریک ہوئیں۔ یہ اجلاس بنیادی طور پر مشاورتی فورم تھا جس میں گذشتہ سال کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔ اس میں حکومتی مشن کے نمایندوں اور این جی اوز نے اپنے اپنے ملک میں اہداف کے حصول کے بارے میں کارکردگی رپورٹ پیش کی اور اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کیا۔ یہ اجلاس ۲۰۱۵ء کے بعد کے ایجنڈے کی تشکیل کے لیے تھا کہ اہداف کے حصول میں رکاوٹوں کو دُور کیا جا سکے، اور ان پر کام کی رفتار کو تیز کیا جا سکے۔ اجلاس میں ۸۶۰ سول سوسائٹیز سے تعلق رکھنے والے ۶۰۰سے زائد نمایندگان نے شرکت کی۔ ۱۳۵ پروگرام اقوام متحدہ کی ایجنسیز، جب کہ ۳۰۰متوازی پروگرام این جی اوز نے منعقد کیے۔

اجلاس میں شریک حکومتی نمایندگان نے ان نکات پر رپورٹس پیش کیں:

  • ’تعلیم‘کے ذیل میں پرائمری میں لڑکیوں کا داخلہ اور تعلیم کا سلسلہ منقطع نہ ہو ’جاری رہے‘ اس میں کتنا اضافہ ہوا اور آیندہ کے امکانات کیا ہیں؟ ان میں بیش تر ممالک کی کارکردگی خاصی بہتر ہوئی ۔
  • ’صحت‘ کے عنوان کے تحت زچہ و بچہ کی صحت کے معاملات کا جائزہ پیش ہوا تو معلوم ہوا کہ مثبت طور پر صورت حال میں کچھ پیش رفت ہوئی۔ اسی طرح ماں کی صحت، دیہی علاقوں میں ہیلتھ ورکرز کی تربیت و اضافہ، مانع حمل ادویات کی فراہمی اور محفوظ اسقاطِ حمل کی کیفیت بیان ہوئی۔
  • فیصلہ سازی کے مقام تک رسائی میں ’عورتوں کی سیاسی نمایندگی کی شرح میں اضافے‘  کے لیے کیے گئے اقدامات اور اہم مناصب پر موجود خواتین کے بارے میں حکومتی نمایندوں نے اپنی کارکردگی پیش کی۔
  • عورتوں پر تشدد میں گھریلو اور جاے ملازمت پر قانون سازی کے مراحل کے بارے میں بتایا گیا۔
  • عورتوں کی بہتر معاشی مقام تک رسائی کے ذیل میں اعلیٰ تعلیم کے تمام میدانوں میں عورتوں کے داخلے پر تفصیل سامنے آئی۔ اسی طرح طب اور تعلیم کے علاوہ انجینیرنگ، آئی ٹی اور فضائیہ میں عورتوں کی نمایندگی کا جائزہ لیا گیا۔

کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن (CSW ) کا ۵۸واں سیشن صبح ۱۰ بجے شروع ہو کر شام چھے بجے تک جاری رہتا۔ درمیان میں ایک تا تین بجے کا وقفہ ہوتا۔ ہفتہ و اتوار کی چھٹی ہوتی تھی۔ متوازی پروگرام عموماً دو گھنٹے کے دورانیے کے ہوتے اور صبح ۱۰ بجے سے شروع ہو کر رات ۸بجے تک جاری رہتے۔ ایک وقت میں پانچ پانچ مختلف اجلاس ہوتے۔

 عورت پر تشدد کے ذیل میں اندرون اور بیرونِ ممالک میں عورتوں کی خرید و فروخت پر  کئی سیشن ہوئے، دستاویزی فلمیں دکھائی گئیں اور لٹریچر تقسیم کیا گیا۔ نوجوان لڑکیوں اور چھوٹی بچیوں کو غریب اور غیر ترقی یافتہ علاقوں سے لا کر گھروں میں سخت مشقت کروانے، ہراساں کرنے ، مارپیٹ اور منفی طور پر پر یشان کرنے کا عمل، کئی حکومتوں اور بااثر افراد کا ان کو سستے مزدور کے طور پر استعمال کرنا، جنگوں میں فاتح فوج کا مفتوح علاقے کی عورت کو ہوس کا نشانہ بنانے جیسے موضوعات زیربحث آئے اور ان پر رپورٹس بھی پیش کی گئیں۔

اسقاطِ حمل کی حوصلہ افزائی اور ہم جنسیت کی تائید میں نہ صرف لٹریچر تقسیم ہوا، بلکہ مباحث بھی ہوئے جن میں ایک موضوع تھا: ’’ عورتوں کو بچوں کی تعداد کے لیے فیصلے کی آزادی ہونا ضروری ہے‘‘۔ اس کے ساتھ ساتھ فیملی فورم نے خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کی طرف توجہ دلائی اور مضبوطی کے لیے اقدامات تجویز کیے۔ عورتوں کے حقوق ،کلچر اور شریعہ پر بھی ایک فورم ہوا۔

ایک فورم پر یہ تقریر کی گئی کہ اگر بیوی پر ازدواجی حقوق کی ادایگی کے لیے زبردستی کی جاتی ہے تو وہ قانونی چارہ جوئی کر سکے گی۔سوالات کے وقفے میں راقمہ نے سوال کیا کہ بیوی اس فعل پر شوہر کو جیل بھجوا دے گی۔ شوہر جب جیل سے رہا ہو کر آئے گا تو بیوی کے ساتھ اس کا سلوک کیا ہوگا؟ جس کے جواب میں مقرر خاتون نے سٹپٹا کر جواب دیا: یہ سوچنا ہمارا کام نہیں ہے۔ عورت کے حقوق اور قانون کے نفاذ نے معاشرے پر مجموعی طور پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں، محققین کو   اس پر بھی اعداد و شمار جمع کرکے حقیقت آشکارا کرنا ہوگی۔

فیملی فورم، کیتھولک کرسچن خواتین کا گروپ ہے جو سب سے زیادہ سرگرمی کے ساتھ  اسقاطِ حمل کو قانونی تحفظ دینے کے خلاف کام کرتا ہے۔ اس کے بنیادی ارکان نے آنسوئوں کے ساتھ اپنے ذاتی تجربات اور ذہنی کرب کی تفصیلات بیان کیں۔

اس نشست کے آخر میں شرکا کے تاثرات اور سوالات کے موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے راقمہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایسی ہی ایک عورت کے آنے کا واقعہ بیان کیا جو حد جاری کیے جانے کا اصرار کر رہی تھی کہ اسے دنیا میں اس گناہ کی سزا مل جائے اور آخرت میں رُسوائی سے بچ جائے۔ حضوؐر نے اس سے کہا کہ ابھی تم چلی جائو اور بچے کی پیدایش کے بعد آنا۔ بچہ پیدا ہونے کے بعد وہ پھر آئی کہ حد جاری کروا دیجیے۔ یہ حد سنگساری تاحد موت تھی جس کے لیے وہ اپنے  آپ کو پیش کر رہی تھی۔ حضوؐر اس کو دوبارہ واپس بھیج دیتے ہیں کہ اس بچے کو دودھ پلائو جب تک کہ یہ خود کھانے پینے کے قابل نہ ہوجائے۔ جب وہ تیسری بار آئی تو اس بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا جو وہ کھا رہا تھا۔ اس مثال سے دیکھیے کہ حضوؐر نے ماں کی ممتا ، اس کی نفسیات کا کتنا لحاظ کیا اور  بچے سے کتنی شفقت کا معاملہ کیا۔

اس گروپ کے ساتھ ہمارا اچھا تعارف ہے۔ سوڈان سے آنے والی ہماری یونین کی ممبران کے ساتھ بھی ان کے روابط ہیں۔ یہ اس اجلاس میں ہر سال پابندی سے شرکت کرتی، اپنے  نقطۂ نظر کو جدید تحقیق اور مؤثر دلائل سے ثابت کرتی ہیں۔ ان کا میگزین بھی باقاعدگی سے نکلتا ہے۔

عورتوں کے حقوق ٗ کلچر اور شریعہ پر بھی ایک فورم ہوا۔ اس میں عورتوں کے حقوق ،شریعت اور ممالک میں رائج کلچر کے حوالے سے لیکچر ہوئے۔ بعد ازاں سوال و جواب کی نشست میں ایک امریکی نژاد پاکستانی خاتون کھڑی ہوکر کہنے لگیں: میرے پاکستان کو شریعت نافذ کرنے والے لوگوں نے تباہ کر دیا ۔ اللہ کرے وہاں کبھی شریعت نافذ نہ ہو ۔ وہ بدامنی کا گہوارہ بن گیا ہے ۔ پاکستان سے آئی ایک دوسری خاتون نے، جن کے بارے میں ملاقات پر معلوم ہوا کہ عیسائی ہیں اور لاہور سے ہیں، ویمن اسٹڈیز پر لیکچر بھی دیتی ہیں، سوال کیا کہ پاکستان میں کئی فرقے اور مسالک ہیں، سُنّی، بریلوی، اہل حدیث، اہل تشیع، تو وہاں کس کی شریعت آئے گی؟ اس پر یہ جواب دیا گیا کہ جہاں تک شریعت اور کون سی شریعت کا تعلق ہے، یہ نہ طالبان کی شریعت ہے، نہ کسی اور گروہ کی شریعت ہے، یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور ہے جو شریعت کے تابع ہے۔ہم دستورِ پاکستان کے نفاذ اور بالادستی کے لیے کوشاں ہیں کہ یہی ہمارے اتحاد کا امین ہے۔

ان اجلاسوں کے دوران مختلف گروپس کے ساتھ تعارف اور ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنا اور سمجھانا ہوتا رہا۔ ایک دن، لابی میں ایک خاتون نے بڑی گرمجوشی سے پوچھا: کیا تم پاکستانی ہو ؟ ہم نے کہا: ہاں، اس نے کہا: میں نے تم پاکستانی عورتوں کے متعلق ایک کتاب لکھی ہے، اس کا عنوان ہے: پاکستانی عورت تو کہاں ہے ؟ یہ میرا تحقیقی مقالہ ہے جو مَیں نے بلوچستان میں رہ کر ڈیڑھ سال کے عرصے میں مکمل کیا ہے۔ ہم نے کہا: بہت خوب، یہ تو بتائیں آپ پاکستان کے دوسرے صوبوں میں بھی گئیں ؟ اس نے کہا: نہیں، عورت کو پاکستان میں گھر کی چار دیواری میں بند کر دیا جاتا ہے ۔ ہم نے اپنا تعارف کروایا کہ ہم بھی پاکستانی ہیں۔ مَیں میڈیکل ڈاکٹر ہوں،   فوج میں بھی کام کیا ہے، اور پارلیمنٹ کی ممبر بھی رہی ہوں ، تو وہ کہنے لگیں: یہ تو اِکا دُکا مثالیں ہیں۔ ہم نے پوچھا: ایک ماڈل اسلام کا ہے کہ مرد، عورت کی تمام ضروریات پوری کرنے کا پابند ہے، اور دوسرا ماڈل وہ ہے جس میں عورت اپنے لیے اور اکثر اپنے بچوں کے لیے خود کماتی ہے، ان دونوں میں سے عورت کے لیے کون سا ماڈل اچھا ہے ؟ اس نے کہا: اچھا تو اسلام والا ہے، مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ عورت کو گھر سے نکلنے ہی نہ دیا جائے ۔ ہم نے کہا: مقامی رواج، اسلام نہیں ہے ۔ اسلام میں عورت گھر سے باہر جا سکتی ہے ۔ اسلام میں اس کے گھر سے باہر نکلنے کے لیے پردے کے احکامات بیان ہوئے ہیں۔ وہ کاروبار کر سکتی ہے، اور جو کماتی ہے اس کی خود مالک ہے ۔ اس نے حیرت سے کہا: اگر یہ ایسے ہی ہے تو یہ بہترین ہے!

میں اقوام متحدہ کے ایسے سیشن میں تیسری بار (۲۰۰۰ء، ۲۰۱۲ء اور ۲۰۱۴ ء) شریک ہوئی تھی۔ میرا مشاہدہ ہے کہ۲۰۰۰ ء میں عورتوں کی جو حاضری اور جوش و جذبہ براے حصولِ حقوق تھا وہ اس بار قدرے ماند پڑتا ہوا محسوس ہوا۔ حکومتیں خواتین کے حقیقی مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ نہیں۔  ۲۰۰۰ء کے اجلاس میں مرد غالباً ۱۰ فی صد ہوں گے، جب کہ بعدازاں ان اجلاسوں میں یہ تعداد بڑھ کر تقریباً ۴۰ فی صد ہو گئی ہے ۔ اس کے برعکس عورتوں کی تعداد نسبتاً کم ہوتی جارہی ہے۔

ابتداً جاری ہونے والے اعلامیے میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ ۱۵ برس گزر جانے کے باوجود کسی بھی ملک میں عورت کو حقیقی برابری اور صحت و تحفظ کے حوالے سے ترقی حاصل نہیں ہو سکی۔ عالمی ادارے عورت کی برابری اور ترقی کے لیے ، اپنی ترجیحات کے مطابق، گو   سُست رفتاری مگر مستقل مزاجی کے ساتھ اہداف کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔

اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا (ICNA)کی بہنوں کے ساتھ ان پروگراموں میں شرکت کی اہمیت پر بات چیت ہوتی رہی ہے۔ اس اجلاس میں بھی چند بہنوں نے شرکت کی۔ وہ پُرعزم تھیں کہ منصوبہ بندی کے ساتھ آیندہ اس نوعیت کے اجلاسوں میں اپنا نقطۂ نظر پہنچائیں گی۔

ایک خاتون پادری کے ساتھ تبادلۂ خیال میں انھوں نے کہا کہ چرچ میں لوگوں کا رجوع کم ہوتا جارہا ہے۔ لوگ اللہ سے تعلق کو کافی سمجھتے ہیں۔ انھوں نے ہم جنس زدہ جوڑوں کی حمایت کی جس پر حیرت ہوئی۔ تیونس کی ایک اسکارف پہننے والی خاتون نے یہ بتایا کہ اس کے ملک کی مسلمان نمایندگان نے چرچ میں ایک پروگرام کیا ہے، جس میں انھوں نے اسلام کے قانون وراثت میں مرد اور عورت کے غیر مساوی حصے کو ہدف بنایا۔ یہ بات بھی باعث ِ تشویش تھی۔ دوسری طرف خوش آیند پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں میںچرچ کو خرید کر مساجد، سکول اور کمیونٹی سینٹر بنانے کا رجحان بڑھ رہا ہے، جہاں محلے کے مسلمان باقاعدگی سے اکٹھے ہوتے ہیں۔

اسی طرح امریکی معاشرے میں بچوں کی والدین سے لا تعلقی و آزادی کی کئی پریشان کن داستانیں سنیں۔ بچے اپنے کمروں میں کسی قسم کی مداخلت پسند نہیں کرتے۔ ایک دین دار گھرانے کی بچی نے والدہ کی معمولی ڈانٹ پر گھر چھوڑ دیا اور بعد میں پتا چلا کہ اس نے اپنی کسی سہیلی کے ساتھ رہایش اختیار کر لی ہے۔ شادی کے لیے رشتہ نہ ملنا اور شادی کے بعد طلاق بہت سے گھروں کی کہانی ہے۔ امریکی انتخابات کے موقعے پر ہم جنسیت کی آزادی ملنی چاہیے یا نہیں کے ۵۸ فی صد اثبات میں جواب کے بعد، ہم جنس پسند دندناتے پھرتے ہیں۔ کوئی اشارتاً بھی کچھ کہہ دے تومعافی مانگے بغیر جان نہیں چھوٹتی۔ عدالتیں بھی ان کے حقِ آزادی کو تسلیم کرتی ہیں۔ یہ مغرب کے معاشرتی انتشار و انحطاط کا کھلا ثبوت ہے۔گھروں میں نبھائو کم ہوا ہے۔خاندانی ٹوٹ پھوٹ کے اس سمندر میں اِکادکا جزیرے بھی ہیں جہاں خاندان کے افراد ماہانہ جمع ہوتے اور اپنے مسائل کے حل کے لیے باہمی تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث کا درس بھی ہوتاہے۔ بچوں کی دوستی اور دل چسپی کا دائرہ خاندان ہے جہاں وہ اپنی صلاحیتیں نکھارتے ہیں۔

انٹر نیشنل مسلم ویمن یو نین کواقوامِ متحدہ کی معاشی اور سماجی کونسلوں اور کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کے اجلا س میں ممبر کی حیثیت سے شر کت کی دعوت ملی۔ انٹر نیشنل مسلم ویمن یونین، ۶۰ممالک کی نما یندہ خوا تین پر مشتمل تنظیم ہے جو اسلام میں عورت کو دیے گئے حقوق کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ اسی طرح یہ تنظیم دنیا کے مختلف حصوں میں مقیم خواتین کا باہم را بطہ و مشا ورت اور ایک مشترکہ پلیٹ فا رم مہیا کر تی ہے۔ مذکورہ اجلاس میں مسلم ویمن یونین کی سربراہ کی حیثیت سے میرے علاوہ سیکرٹری جنرل ڈاکٹر مطا ہر عثمان ،اپنے ملک سوڈان کی چار خواتین کے سا تھ شا مل ہوئیں ۔ اس وفد میں انٹرنیشنل اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد سے شگفتہ عمر نے بھی شرکت کی۔

یو این کمیشن آن سٹیٹس ویمن( CSW) کا اجلاس ،۲۷ فروری تا ۹مارچ ۲۰۱۲ء ہو نا قرار پا یا۔اس اجلاس میں گورنمنٹ مشن، ممبر ممالک کی حکو متوں کے اقوام متحدہ میں متعین نمایند وں اور ان حکو متوں کے نما یندوں کے علا وہ این جی اووز کے ایک ایک نما ئندے کو اجلاس میں شر کت کی اجا زت تھی۔یہ این جی اووز یو این کی اکنامک اور سو شل کو نسل میں رجسٹرڈ ہیں۔ سی ایس ڈبلیو کے اجلاس میں شر کت کے لیے،ہر این جی اوو کو ایک اور حکو متی نما ئندگان کو دو خصوصی اجا زت نامے یا پاس مل سکتے تھے۔

اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی ہال میں افتتاحی پروگرام ہوا۔ خصوصی سیشن کا مرکزی عنوان ’دیہی علا قے کی عورت کی ترقی‘ تھا۔ چار یا پانچ مقررین کے اظہار خیال کے بعد،شر کا میں سے  تبصرے یا سوال کا موقع بالعموم حکو مت کے مشن اور کسی این جی او کے نمایندوں کو دیا جاتا۔      اس اجلاس سے شہناز وزیر علی صاحبہ (پا کستان) نے خطاب کیا۔ یو سف رضا گیلانی (سابق وزیراعظم پاکستان) کی بیٹی فضہ گیلا نی صاحبہ نے اپنا بیان پڑھا۔پا کستان مشن کے نمایندے نے متعدد مواقع پر پا کستان کے حالات کی عکاسی کر تے ہوئے درست مداخلت کی۔ اس فورم کے شرکا کی اکثریتی راے یہ تھی کہ:’’دیہی عورت کی تر قی کے لیے بنیا دی ضرورت اس عورت کی تعلیم ہے۔اس کو دیہی علاقے میں کیے جا نے وا لے کام کے لیے ہنر مند بنا نا ہے،اس کو چھوٹے قرضہ جات کا اجرا کر نا ہے،اس کے لیے آگا ہی دینی ہے،اس کے لیے زمین کے ما لکا نہ حقوق کا حصول یقینی بنا ناضروری ہے۔دیہی علا قے کی عورت کی صحت کی حفاظت بھی یو این کے طے شدہ ایجنڈے کے مطا بق کی جانی چا ہیے۔اور اس کو فیصلہ سا زی کے اختیا رات میں حصہ ملنا چا ہیے۔یوں وہ مرد کے شانہ بشانہ ترقی کے عمل میں شا مل ہو سکتی ہے اور اس طرح صنفی امتیاز کا خاتمہ ہو سکتا ہے‘‘ ۔اس مر کزی موضوع سے کشید ہونے والا خیال یہ تھا کہ صنفی امتیاز ختم کر نے کے عمل میں نوجوانوں کو شامل کیا جائے، اور اس کے لیے اقدامات تجویز کیے جائیں اور عورت کو حیثیت دینے کے لیے  بجٹ کی تقسیم میں صنف کا لحاظ رکھے جا نے، یعنی Gender sensitive budget allocation کا جا ئزہ اور اقدامات طے کیے جانے چاہییں۔

چرچ بلڈنگ میںہونے والے ایک پروگرام کا عنوان ’اسلام اور تشدد‘ تھا۔یہ امر یکا میں مقیم ایرانی مسلمانوں کی ایک این جی او نے تر تیب دیا تھا۔ ایران سے آنے وا لے وفد کو ویزا نہ ملنے کی بنا پر وہاں سے نما یندگی نہ ہوسکی تھی۔ پروگرام میں ایک دستاویزی فلم دکھا ئی گئی۔ یہ مسلمان عورت کا حجاب،اسلام میں قانون وراثت کی تفصیلات پر مبنی ایک مؤثر فلم تھی، جس میں موقف پیش کرنے کے لیے آیات اور تصاویر سے مدد لی گئی تھی۔کمرے میں موجود ۶۰؍ افراد میں سے نصف مسلمان اور نصف غیر مسلم تھے۔ آخر میں سوال و جواب کا وقفہ ہوا تو ایک غیر مسلم نے کہا کہ: ’’کو ئی مسلم عورت پا رلیمنٹ تک نہیں پہنچ سکی۔ یہ حجاب کی بنا پر ہے اور حجاب دوسروں کو مرعوب کر نے کے لیے ایک طرح کا دبا ئو ہے‘‘۔میں نے اس مرد کے سوال کے جواب میں کہا:’’ میں میڈیکل ڈاکٹر، سا بقہ ممبر پارلیمنٹ، صدر انٹر نیشنل مسلم ویمن یونین، یو این اکنا مکس و سوشل کونسل ہوں۔ انٹرنیشنل پا رلیمنٹری یونین کی مرتب کردہ ترتیب کے مطابق عورتوں کی سب سے زیا دہ نمایندگی کے ساتھ روانڈا پہلے نمبر پر ہے، جب کہ پا کستان ۲۷ویں نمبر پر ہے۔ امریکا و برطا نیہ ۵۰کے لگ بھگ نمبر پر ہیں۔جس یونی ورسٹی کے ساتھ مَیں منسلک ہوں وہاں میڈیکل، ڈینٹل ، فزیوتھراپی اور فارمیسی میں ۸۰ فی صد لڑکیاں اور۲۰ فی صد لڑکے زیرتعلیم و تربیت ہیں۔یہ تاثر درست نہیں ہے کہ آج     مسلم معاشروں میں عورت کو کو ئی مقام حاصل نہیں‘‘۔

ایک پروگرام فیملی واچ انٹرنیشنل کی طرف سے اس نصب العین کے تحت کہ: ’’دنیا کے مسائل خا ندان کے تحفظ کے سا تھ حل کرو‘‘ اورجس کا نعرہ یہ تھا: ’’بچہ نعمت ہے انتخاب نہیں‘‘۔ اس طرح بچے کی مو ت ،ما ں کی نفسیات و صحت کے لیے سانحہ ہے۔ اس کی وضاحت میں دوخوا تین نے رو تے ہو ئے آپ بیتی سنا ئی کہ ہم اب تک اپنے آپ کو معاف نہیں کرسکتے۔ اس پروگرام میں دو پیپرز پڑھے گئے جن میں یہ بتا یا گیا کہ اسقاطِ حمل کرانے سے چھا تی کا سرطان بڑھتا ہے۔اس پروگرام میں اظہار خیال کر تے ہو ئے مَیں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے والی اس خاتون کا واقعہ سنا یا جو بد کرداری کے نتیجے میں حاملہ ہو چکی تھی اور رضاکارانہ طور پر سزا پانے کے لیے پیش ہوئی تھی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وضع حمل کے بعد آنا،وہ آئی تو آپؐ نے اس کو دوبارہ بھیجا کہ: اس بچے کا دودھ چھڑوانے کے بعد آنا۔وہ بچے کا دودھ چھڑوا کر آئی تو اس کو سزا دی گئی۔ عورت کی ممتا کی تسکین کے اس اقدام کی سمجھ مجھے آج آپ خوا تین کی کیفیت دیکھ کر آئی ہے کہ جرم کا کفا رہ اس بچے کی موت نہیں ہے،اس کو تو زندہ رہنا ہے۔اس پر بند با ندھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ میری راے میں اختلاط مردوزن،تعلیمی اداروں میں، اور جاے ملاز مت میں ہے، جو اس راہ پر چلانے میں محرک ہے۔اس کو بھی نا گزیر حد تک محدود کر نا ہو گا اور شا دی میں تا خیر کے بجاے جلد شا دی کو رواج دینا ہو گا،جیسے اعلیٰ تعلیم شادی کے بعد مکمل ہو تی ہے،ایسے ہی ہر تعلیم کا حصول شا دی کے بعد آسان اور ممکن بنا نا ہو گا‘‘۔

یو این لان بلڈنگ کے کانفرنس ہال سی میں ’بین المذاہب مکالمہ‘کے عنوان سے ایک سیشن یو ایس فیڈریشن برا ے مڈل ایسٹ پیس کے زیراہتمام ہوا۔ اس میں ایک یہو دی،ایک عیسا ئی اور ایک مسلمان خاتون مقرررین تھے۔ہال میں بیٹھتے ہی انتظا میہ نے شگفتہ عمر سے را بطہ کیا کہ آپ تیسری مقررہ بن سکتی ہیں کہ ہما ری مہمان مقررہ کو کچھ مسئلہ ہو گیا ہے۔انھوں نے ہامی بھر لی۔ اشتراکِ عمل کے نکات پر توجہ دلوا نے کے بعد،تینوں مقررین نے سا معین کے سوالات کے جوابات دیے۔

ایک پروگرام کا مرکزی خیال ـبچوں کی صنفی تعلیم کی روک تھام کی تحریک تھا۔ ان کا نعرہ تھا: ’’دنیا بھر میں صنفی جذبا تیت اُبھا رنے وا لی صنفی تعلیم کو بند کیا جا ئے‘‘۔ اس تعلیم میں صنف کی صحت کے بجاے،صنفی حقوق کی بات کی جا تی ہے ،جو صنفی رویوں کو اُبھا رنے کے طریقوں کی طرف رہنمائی دیتے ہیں، اوربچوں کو صنف کی پو جا پر لگا دیا جاتاہے۔اس گروپ نے ایک آن لائن رٹ کا بتا یا اوروہ شرکا کو دستخط کے لیے بھی تقسیم کی گئی۔ دیگر پروگرام عورتوں کے زمین میں مالکانہ حقوق، لڑکیوں کا موقف، دیہی عورتوں کا اغوا اور فروخت کرنے وغیرہ کے بارے میں تھے، جو دو ہفتوں کے لیے مختلف ہالوں میں جا ری رہے۔

 انٹر نیشنل ویمن ڈے کی تقریب۷ما رچ کے بجاے ۸ما رچ۲۰۱۲ء کو منائی گئی۔ یونائیڈنیشن ہیڈ کوا رٹر،جو کہ نا رتھ لان بلڈنگ کے طور پر معروف ہے، کے کا نفرنس روم نمبر چار میں یہ خصوصی تقریب ہو ئی۔ پروگرام کا آغاز ۱۰بجے ہو نا تھا مگر پو نے۱۰بجے ہال پوارا کھچا کھچ بھر چکا تھا۔اور پروگرام کے آغاز کے بعد،آنے وا لوں کو جگہ نہ ہو نے کا کہہ کر دربان معذرت کررہے تھے۔سیکرٹری جنرل یو این مسٹر با نکی مو ن،چیئر پر سن سیشن کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن مارجان کا مرا اورجنرل اسمبلی اقوامِ متحدہ کے نما یندے مسٹر مطلق الکہتا نی نے خطاب کیا۔جس کے بعد واک ہوئی۔ خوا تین کو مخصوص پیلے رنگ کی پٹیاں دی گئیں، جو وہ لباس پر پہن کر اقوام متحدہ کی مرکزی عمارت کے ایک کو نے سے چل کر دوسرے کو نے تک آئیں۔

عورت کے عنوان سے دنیا میں آنے والی اور لا ئی جا نے والی تبدیلیوں سے لا تعلق رہنا گویا معا شر تی تبدیلیوں سے لا تعلق رہنا ہے۔ حقوق اور مسا وات کے سا یے تلے، دیگر بہت سارے نعرے ہیں، جو بظاہر بے ضرر ہیں مگر فی نفسہٖ گہرے اثرات کے حامل ہیں۔ عورت کے حقوق و فرائض پر اعتدال اور توا زن نہ ہو نا،اور انسانیت کا ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف جا نا حقیقت ہے۔ اس کشاکش کے زیا دہ اثرات خاندان کے نظام پر آنے کا احتمال ہے، اعدادو شماراور سروے یہ تبدیلیاں دکھلا رہے ہیں۔

یہ دراصل ایک میلہ تھا،جو عورتوں نے اپنے اپنے مئوقف کی معلومات دو سروں تک پہنچانے کے لیے لگا یا تھا۔دوسروں کی را ے سا زی کی بالواسطہ کو ششیں تھیں،اپنے ہاں کے مسا ئل کو اُجاگر کر نے اور بعض اوقات اپنے مفادات کے لیے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا موقع پیدا کیا گیا تھا۔ گروہ بندیاں تھیں،موقف تسلیم کرا نے اور ہم نوائی حاصل کر نے کی کو ششیں تھیں۔ پھر یہ  آرا و سفارشات یو این کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن کے مر کزی اجلاس کا مشترکہ اعلا میے اور قرارداد شامل کر نے کی خاموش سعی تھی۔

معاہدے اور قانون کے نام پر افراد اور قوموں پر حکمرا نی کر نا، آج کا ایک اہم طرزِ حکمرانی ہے۔ حکمت عملی یہ ہے کہ: پہلے افرادو اقوام کو جمع کرو۔پھر ان کے مشا ورتی فورم بنا ئو۔ وہاں فیصلے ہوں۔پھر ان فیصلوں کا نفاذ ہو اوران کی عمل داری کا جائزہ ہو۔اس عمل کے لیے کچھ دبا ئو اور کچھ مالی ترغیبات ہوں۔ پھر عمل نہ کر نے پر کچھ پا بندیاں لگ جا ئیں،کچھ حما یت و امداد وغیرہ سے ہا تھ اٹھا لیے جائیں، قوموں کو اجتما عیت کے نام سے مات دی جا ئے،تنہا کر دیا جا ئے وغیرہ وغیرہ۔اگر یہ سب کچھ طاقتوں کے منفی جذبہ حکمرا نی کی تسکین کے لیے ہو، تو نظم اور مشا ورت ہو نے کے باوجود،بدنیتی کی بنا پر خیر برآمد نہیں ہو تا۔ نظام موجود ہو،اس کے اندر کچھ مشاورت اور جمہوریت بھی ہو،تو اصلاح کے لیے شامل ہو کر اپنا کردار ادا کر نے اور مثبت نتا ئج سے کلی طور پر نا امیدنہ ہونا چاہیے ۔ ایک سخت فکری دفاعی نظام کے باوجود اقوامِ متحدہ کے فیصلہ سازی کے نظام میں،داخل ہونے کے کئی را ستے ہیں۔اپنی تر جیحات کے سا تھ،ان پر کام اور مؤثر کردار ادا کر نے کی ضرورت ہے۔ ایک ایک اور دوگیا رہ بن کر،منصوبہ بندی، یکسوئی کے سا تھ جان گھلانے کی ضرورت ہے اور یہ میدان بھی بہت اہم اور مؤثر ہے۔

معا شرے کی فکری اصلاح،خدمت کے ذریعے ان کے غموں کے مداوے کی کوشش کے ساتھ،ملکی سیاست میں تبدیلی قیادت کا فلسفہ رکھنے والے گروہوں کے لیے یہ بھی سو چنے کا نکتہ ہے کہ ملک میں قانون سا زی،ملکی با شندوں کے لیے خیر کا با عث ہوگی تو دنیا میں،عالمی معاہدات،پوری انسا نیت کے لیے نفع بخش ہوں گے۔ افراد کو مختص اور میدا ن کا انتخاب کرکے،کام کا آغاز کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے صبر اور مستقل مزاجی کے ساتھ کام کر نا ناگزیر ہے۔

اسوئہ دعوت کا آغاز غارِ حرا کے اس واقعے سے ہوتا ہے کہ جبرئیل امین ؑ آکر فرماتے ہیں: ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا‘‘ (العلق:۹۶:۱) ۔ہیبت و جلال کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم معذرت کرتے ہیں کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ جبرئیل امین ؑ دوبارہ کہتے ہیں، دوبارہ عذر پیش ہوتا ہے: میں پڑھ نہیں سکتا، اور تیسری بار آپؐ سہمے ہوئے پڑھتے ہیں۔ گویا پہلا سبق اور پہلا کام پڑھنے کا، علم حاصل کرنے کا دیا گیا۔

وحی آتی ہے: راتوں کو اُٹھو، رب کو یاد کرو (المزمل ۷۳:۲)، کہ یہ داعی کے لیے ضروری    توشہ ہے۔ اگلی وحی آتی ہے: اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اُٹھو اور خبردار کرو۔ اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو… اپنے رب کے لیے صبر کرو (المدثر ۷۴:۱-۷)۔ یہ کام چونکہ رب کا ہے،    رب کے لیے ہے، اور اس کام کو رب کی پشتی بانی بھی حاصل ہے، لہٰذا رب کے راستے پر چلتے ہوئے صبر کرنا ہے۔ اس طرح داعی کو ناگزیر ضروریات اور تقاضوں سے آگاہ کر دیا گیا۔

  •  ھمہ جھت دعوت: دعوت کا آغاز قریبی حلقے میں دعوت پہنچانے سے کیا جاتا ہے۔ تین سال میں چند ساتھی میسر آجاتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں اس وقت کے مروج طریقے استعمال کرتے ہوئے دعوت کو بڑے پیمانے پر پھیلانے کا آغاز ہوتا ہے۔ کوہِ صفا سے پکارا جاتا ہے،   مجمع اکٹھا کیا جاتا ہے، جلسہ ہوتا ہے۔ خاندان اور رشتہ داروں کو کھانے پر بلایا جاتا ہے۔مکہ کے  گلی بازار ہوں یا کوئی مجمع، کوئی تقریب ہو یا عکاظ کا میلہ یا حج کا موقع، ہر موقع پر دعوت پہنچانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ دعوت، میدانِ عمل میں چلتے پھرتے مصروف و متحرک رہ کر پھیلائی جاتی ہے۔
  •  مخالفانہ پروپیگنڈا، توسیع دعوت کا ذریعہ:یہ لازم و ملزوم ہے کہ جب بھی دین کی دعوت پھیلتی ہے تو مخالفانہ پروپیگنڈا بھی سر اُٹھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نبی کریمؐ نے اسلام کی دعوت پیش کی تو مخالفانہ پروپیگنڈے کی ایک متحرک لہر پیدا ہوگئی۔ حج کا موقع ہو یا عکاظ کا میلہ، داعی سے پہلے اس کے مخالفین پہنچے، اور جاکر لوگوں کو سمجھایا گیا کہ تم ہمارے شہر میں آئے ہو،  یہاں محمد(ﷺ) کی سرگرمیاں ہمارے لیے ناقابلِ برداشت بنی ہوئی ہیں۔ اندیشہ ہے کہ کہیں تم اس کا شکار نہ ہوجائو۔ ایک صحابی طفیل دوسیؓ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے اس وقت تک سمجھایا جاتا رہا جب تک کہ میں قائل نہیں ہوگیا۔ مسجدحرام جاتا تو روئی کانوں میں ڈال کر جاتا۔ اتفاقاً ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کے لیے کھڑے ہوئے تھے، پہلی مرتبہ اللہ کا کلام سنا۔ دل میں اپنے آپ کو ڈانٹا کہ آخر عقل مند ہوں، قوتِ تمیز رکھتا ہوں چنانچہ مکان پر جاکر درخواست کی: پیغام سنایئے۔ نتیجتاً اسلام قبول کرلیا اور مکہ سے واپس جاکر پورے قبیلے تک اسلام کی دعوت پہنچائی۔ یہ پروپیگنڈا محمد(ﷺ) کے تعارف اور دعوت کی توسیع کا ذریعہ بنا___ آج بھی اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، مگر یہ پروپیگنڈا دنیا کی توجہ اسلامی تعلیمات کی طرف مبذول کرانے کا ذریعہ ہے۔
  •  ظلم و ستم کا حربہ: دوسرا حربہ ظلم وستم اور تشدد ہے۔ دعوت کی توسیع کے لیے   یہ بھی معاون ثابت ہوئے۔ حضرت عمرؓ تلوار لے کر نکلتے ہیں اور بہن اور بہنوئی پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ لہولہان بہن کہتی ہیں: عمر جو کرسکتے ہو کرلو، لیکن اب اسلام ہمارے دل سے نہیں نکل سکتا۔ ایمان، احتجاج اور عزم سے بھرپور جملہ سن کر عمرؓ مفتوح ہوجاتے ہیں۔

حضرت حمزہؓ کے سامنے چار سال کے عرصے میں کئی مواقع آئے، خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت پیش کی، مگر براہِ راست دعوت سے متاثر ہوکر اسلام قبول نہ کیا۔ حضرت حمزہؓ چچا تھے۔ ایک روز کوہِ صفا کے پاس ابوجہل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دست درازی کی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبر سے اذیت برداشت کرتے رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔ اتفاق سے عبداللہ بن جذعان کی لونڈی نے یہ سارا ماجرا دیکھا۔ جب حضرت حمزہؓ شکار سے واپس آئے تو انھیں یہ واقعہ سنایا اور کہا کہ ہائے! تم خود دیکھ سکتے کہ تمھارے بھتیجے پر کیا گزری! یہ سننا تھا کہ رگِ حمیت جاگ اُٹھی۔ سیدھے قریش کی مجلس میں جاپہنچے۔ ابوجہل سے کہا: میں محمد کے دین پر ایمان لے آیا ہوں، جو وہ کہتا ہے وہی میں کہتا ہوں، کرلو جو کرسکتے ہو___ داعیِ حق کا صبر، اذیتوں پر رویہ اور کردار، دعوت کا ذریعہ، اس کا تعارف، اور اس کے پھیلائو میں معاون بنتا رہا۔

آج بھی یہی صورت ہے کہ ایک برطانوی صحافی خاتون ایوان ریڈلے طالبان کی جاسوسی کے لیے جاتی ہے۔ اتفاق سے گرفتار ہو جاتی ہے اور قید میں طالبان کے کردار کا مطالعہ کرتی ہے۔ قید سے چھوٹنے پر قرآنِ مجید پڑھتی ہے اور نتیجتاً اسلام کی پُرجوش مبلغہ بن جاتی ہے۔ برطانیہ میں اسلام چینل کے ذریعے، اسلام کی دعوت اور اس کے بارے میں شکوک و شبہات کو دُور کرتی ہے۔ ایک مسلمان عورت ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے، جو امریکا کی قید میں صعوبتیں برداشت کر رہی ہے۔

  •  ثقافتی یلغار: رحمۃ للعالمینؐ کو بطور داعی اس کا بھی سامنا ہے جو نضر بن حارث کہا کرتا تھا کہ آخر محمد(ﷺ) کی باتیں کس پہلو سے میری باتوں سے زیادہ خوش آیند ہیں۔ یہ تو اساطیر الاولین (داستانِ پارینہ) ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ گانے بجانے والی ایک فنکار لونڈی خریدی جاتی ہے جس کو اُس شخص پر متعین کر دیا جاتا جو دعوت سے متاثر نظر آتا۔ نضر بن حارث لوگوں کو جمع کرتا، کھلاتا پلاتا، گانے سنواتا اور عیش و عشرت کا سامان کرتا___ آج کے موبائل، انٹرنیٹ، کیبل سروس اور ٹی وی چینل، کلچرل شو وغیرہ لغویات میں مشغول کرنے کا ذریعہ ہیں۔ وہ ماحول جس میں ساری توجہ کھانے پینے، جنسی تسکین، گانے بجانے، تفریحات اور فنونِ لطیفہ، بسنت،ویلنٹائن ڈے کی طرف مبذول ہوجائے وہ دعوتِ حق کے لیے سازگار نہیں رہتی۔ مگر کل بھی اس ’ثقافتی یلغار‘ کے علی الرغم دعوتِ حق پھیلی، آج بھی پھیل رہی ہے اورپھیل کر رہے گی۔
  •  نئے حربے اور نفسیاتی جنگ: علماے یہود نے داعیِ حق کو ہر وقت زچ کیے رکھا۔ داعی کی ذات کے بارے میں شکوک پیدا کرنا، ہر وقت کوئی نہ کوئی اعتراض اور سوال اُٹھائے رکھنا: اس شخص سے پوچھو کہ اصحابِ کہف کون تھے؟ ذوالقرنین کا قصہ کیا ہے؟ روح کی حقیقت پوچھو؟___ آج کے داعی کے لیے بھی ایسے ہی، ہروقت نت نئے سوال، تبصرے اور مشورے ہیں: یہ پالیسی کیا ہے؟ اس پر کیا کرنا ہوگا؟ یہ غلط فیصلہ ہے؟دعوت کو روکنے کے لیے سودے بازی،  شرائط و مصلحت: اس قرآن کو تو بالاے طاق رکھ دو۔ کوئی اور قرآن لائو۔ ’ لا الٰہ‘ کا جزو ساقط کردیجیے۔ اللہ کو الٰہ مانیے مگر ہمارے معبودوں کو بُرا نہ کہیے، مراسمِ عبادت ادا کیجیے، دعوت دیجیے مگر ہمارے بتوں کو کچھ نہ کہیے، یعنی جن باطل تصورات پر نظامِ تمدن کھڑا ہے ان کو نہ چھیڑا جائے۔ دین حق کا سیاسی جزو معطل ہوجائے اور اجتماعی نظام کو انھی بنیادوں پر قائم رکھ کر، اس کے سایے میں روحانی نوعیت کی اصلاح معاشرہ کی جاتی رہے___ آج کی اصطلاح میں ریاست کے دستور کو سیکولر ہونا چاہیے۔ یہاں دین کی ترجیحات کا ذکر نہ ہو۔ دین لوگوں کا انفرادی معاملہ ہو اور وہ ذاتی زندگی اور اصلاح تک محدود رہے۔ یہ بقاے باہمی کا فارمولا ہے۔ نصاب میں سے جہاد کا ذکر نکال دیجیے۔ تم اپنا کام کرو، دعوت دو، بڑے بڑے اجتماع کرو، صدارتی ایوانوں میں، سپرپاور کے عین مراکز میں، مساجد تعمیر کرو۔ یوں رواداری کے ساتھ دین پر عمل کریں۔

مصالحت کی راہ نکالنے کے لیے، مخالفین تحریک نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے   ایک مطالبہ یہ بھی رکھا۔ اگر آپؐ اپنے حلقے سے ہمارے معاشرے کے گھٹیا لوگوں کو، ہمارے غلاموں اور لڑکوں بالوں کو نکال دیں تو پھر ہم آپؐ کے پاس آکر بیٹھیں گے اور آپؐ کی تعلیمات کو سنیں گے۔ موجودہ حالت میں یہ ہمارے مرتبے سے فروتر ہے کہ ہم نچلے طبقے کے لوگوں کے ساتھ نشست و برخاست کریں۔ مطلوب یہ تھا کہ تحریک کو ان جان نثاروں کی خدمات سے محروم کر دیا جائے۔ غرض جو جو حربے اختیار کیے گئے، وحی کے ذریعے ان کے لیے رہنمائی آتی گئی: وَ لَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ (انعام ۶:۵۲) ’’جو لوگ اپنے رب کو رات دن پکارنے میں لگے ہوئے ہیں، انھیں اپنے سے دُور نہ پھینکو‘‘۔

جب ایک ذی اثر مخالف سے گفتگو کے دوران ایک ساتھی کی مداخلت کو ناپسند فرمایا تو  داعیِ اعظمؐ کو تنبیہہ آگئی: عَبَسَ وَتَوَلّٰی۔ٓ  ٓ o اَنْ جَآئَہُ الْاَعْمٰی (عبس ۸۰:۱-۲) ’’ترش رو ہوا اور بے رُخی برتی، اس بات پر کہ وہ اندھا اس کے پاس آگیا‘‘۔

اہلِ قریش وفد بنابنا کر آئے اور کہا کہ بادشاہ بنا لیتے ہیں، علاج کروا دیتے ہیں، دولت جمع کردیتے ہیں، کسی امیر خاتون سے شادی کرا دیتے ہیں۔ غرض انسانی فطرت کے جتنے کمزور پہلو ہوسکتے ہیں سب کے ذریعے وار کیا، اور بار بار کیا مگر داعیِ حق دعوت سے باز نہیں آئے، مداہنت نہیں برتی۔ اپنے راستے پر، پُرسکون اور کامل اطمینانِ قلب کے ساتھ چلتے رہے۔ اپنی دعوت بہ بانگِ دہل بیان کرتے رہے۔ نہ نظر جھکی، نہ زبان لڑکھڑائی، نہ پاے ثبات میں لغزش آئی___ آج کے داعی کے لیے، اس میں بڑا سبق اور رہنمائی و نمونہ ہے۔

  •  اُمید اور حوصلہ: خدا کا پیغام سنانے مکہ کی گلی کوچے میں گھومے۔ جب دعوت کے لیے کان بند کر لیے گئے تو طائف کا سفر کیا۔ ایک ماہ کی مسافت کے بعد، اس سرسبز خطے کے    خوش حال مکینوں کے پاس پہنچے اور دعوت دی۔ سرداروں نے دعوت کا تمسخر اُڑایا اور بازار کے غلاموں اور لونڈوں کو پیچھے لگا دیا جو شورمچاتے اور پتھر مارتے یہاں تک کہ لہولہان ہوجاتے ہیں اور ایک باغ میں پناہ لیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں: ’’مجھے تیری رضا اور خوشنودی کی طلب ہے۔ تو ہی میرا مالک ہے مجھے کس کے حوالے کرنے والا ہے‘‘۔

پہاڑوں کا فرشتہ حاضر ہوتا ہے۔ اشارہ کریں تو طائف کے لوگوں کو ان پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دوں، مگر اس عالم میں بھی داعی کی شفقت اور محبت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ یہ نسل تو نہیں لیکن ان کی اولاد شاید دین کو قبول کر لے۔ اسی سفر میں جنوں کی جماعت قرآن سنتی اور ایمان  لاتی ہے۔ قیامِ مکّہ کے دوران میں سورئہ یوسف نازل ہوتی ہے اور حدیث دیگراں کے پردے میں،  داعیِ حق کو بشارت دی جاتی ہے کہ حالات آج ناسازگار ہیں مگر انجامِ کار غلبہ تمھارا ہے___ آج کے داعی کے لیے بھی یہ بشارتیں قرآن پاک میں محفوظ ہیں مگر کوئی ان پر کان تو دھرے اور سمجھے تو سہی۔

انتہائی ناسازگار ماحول میں، صاف صاف الفاظ اور فیصلہ کن انداز میں، ایک نعرہ لگایا: ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے والا ہی ہے‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)۔ اگر آج کوئی کہے کہ امریکا شکست کھائے گا، روس کی طرح ٹوٹے گا اور نہتے مسلمان کامیاب ہوں گے، تو لوگ کہیں گے کہ یہ کسی دیوانے کی بڑ ہے۔ خوش فہمی میں نہ رہیں اور زمینی حقائق دیکھیں۔ اس وقت بھی یہی کہا گیا اور اُمید کا دامن تھامنے اور کوشش میں لگے رہنے کا سبق ہے جو داعی نے دیا۔

  •  ھجرت کا مرحلہ: یہ اطلاع دے دی گئی کہ اہلِ مکہ آپؐ کو مکّے سے نکال دینے کے درپے ہوں گے۔ دعاے ہجرت بھی سکھا دی گئی کہ ’’اے میرے رب! مجھ کو صدق کی راہ ہی سے نکال اور مجھے اپنی بارگاہ سے اقتدار کی صورت میں مدد عطا کر‘‘۔ دعا میں اقتدار کی طلب کو شامل کیا۔

تشدد کسی متزلزل نظام کا آخری ہتھیار ہوتا ہے۔ تمام قبائل سے نمایندے لیے جاتے ہیں اور گروہ براے حملہ تشکیل دیا جاتا ہے۔ داعیِ اعظمؐ کے گھر کا محاصرہ کرلیا جاتا ہے۔ ایک تدبیر، تدبیر کرنے والے کرتے ہیں، اور ایک تدبیر خیرالماکرین کرتا ہے___ ان تدبیر کرنے والوں کو پیدا کرنے والا اور ان سے اچھی تدبیر کرنے والا۔ پھر ان کی تدبیریں اکارت جاتی ہیں___ کل مکہ سے ہجرت کی رات یہ ہُوا اور آج بھی یہ ہوتا ہے اور یہ ہوتا رہے گا۔ اس سفرہجرت کی صعوبتوں میں بھی لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (غم نہ کر، اللہ تمھارے ساتھ ہے۔ التوبہ ۹: ۴۰) کا پیغام دیا جاتا ہے۔

داعیِ اعظمؐ مدینہ پہنچتے ہیں۔ دعوت کا اسلوب کیا ہے۔ جگہ حاصل کی جاتی ہے اور گارے اور گھاس پھونس سے مسجدنبویؐ کی تعمیر کی جاتی ہے۔ یہ مسجد محض عبادت گاہ اور معبد نہیں ہے۔ یہ حکومت کے کاروبار، مشورے کا ایوان، پارلیمنٹ، سرکاری مہمان خانہ، سپریم کورٹ، جی ایچ کیو، جمہوری دارالعوام اور قومی لیکچرہال ہے۔ یہ مرکزی دفاتر ہیں۔ یوں اسلامی ریاست کی تاسیس ہوتی ہے۔ سیاسی لحاظ سے اہم تعمیری اقدام، میثاقِ مدینہ کیا جاتا ہے۔ ریاست چلانے کے لیے مدینہ کے یہود و مشرکین اور مسلمانوں کی سوسائٹی کو ایک نظم میں پرو دیا جاتا ہے۔ ایک تحریری معاہدہ ہوتا ہے جس کو دنیا کا پہلا تحریری دستور کہا جاسکتا ہے۔

مدینہ کے منظم ہونے والے معاشرے میں خدا کی حاکمیت اور اس کے قانون کو سیاسی اہمیت حاصل ہوگئی۔ سیاسی، قانونی اور عدالتی لحاظ سے اتھارٹی، یعنی آخری اختیار، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں آگیا۔ دفاعی لحاظ سے مدینہ اور اس کے گردونواح کی پوری آبادی ایک متحد طاقت بن گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بطورِ داعی، مدینے کے معاشرے کا سب سے بڑا معاشی مسئلہ، سیکڑوں مہاجرین کی بحالی کا مسئلہ، مواخات مدینہ کے ذریعے حل کرتے ہیں۔

داعی کا کردار، صرف ایک صوفی درویش کا نہیں بلکہ اجتماعی معاملات کو سنبھالنے، سنوارنے، ماہرانہ حکمت سے پورا کرنے کا نظر آتا ہے۔ تمدنی نظام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی جزوی اصلاح چاہتے تھے یا ہمہ گیر؟ دعوت مذہبی و اخلاقی تھی یا سیاسی اہمیت بھی رکھتی تھی؟ نعرہ یہ دیا گیا اور اس کی وضاحت یہ دی گئی: ’’وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے، خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔ (الصف ۶۱:۹)

  •  منافقین کا کردار: تاریخِ اسلام کا ایک عجیب المیہ ہے کہ اس وقت کے گدی نشین اہلِ مذہب یہود اور مشرکینِ مکّہ مخالفت میں سب سے آگے تھے۔ مکاری و عیاری کی سرگرمیاں جاری تھیں، نجویٰ اور سازش تھی اور پھر اس میں منافقین بھی شامل ہوگئے۔ مدینے کے اس دور میں یہ دو قوتیں آستین کا سانپ بنی رہیں۔ ہجرت کے ایک سال بعد بدر کا معرکہ آتا ہے۔ پھر اُحد کا میدان سجتا ہے۔ ایک ہزار کا لشکر ہے ایک تہائی منافقین چلے جاتے ہیں۔ نبی کریمؐ کی تربیت کردہ اُمت میں، اس کردار کے حامل تھے___ مگر اس کے علی الرغم یہ دعوت پھیلتی رہی ہے۔

یہ بھی کہا گیا کہ ’’اگر قیادت کے اختیارات میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہوتا تو ہم نہ مارے جاتے، اگرہمارے مشورے پر عمل کیا ہوتا تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا‘‘۔ غزوئہ احزاب شروع ہوتا ہے، ۱۷روز سے محاصرہ جاری ہے، طرفین پڑائو ڈالے بیٹھے ہیں۔ سارا عرب اکٹھا ہوکر اُمڈ آیا ہے۔ گویا اس وقت ناٹو کی مانند اتحادی فوجیں، آخری ضرب لگانے کے لیے آئی تھیں۔ اس موقع پر یہود کی ریشہ دوانیاں اور غداریاں عروج پر ہیں۔ غزوئہ تبوک سے واپسی پر واقعۂ افک پیش آتا ہے۔    اُم المومنین حضرت عائشہؓ پر رکیک الزام لگتا ہے، اور جب معاملہ داعی، تحریک کے قائد کی بیوی سے متعلق ہو تو اس کی نوعیت اور بھی سنگین ہوجاتی ہے۔ اس بہتان اور الزام تراشی کا معاملہ ایک ماہ تک چلتا رہا۔ اس ہنگامہ خیز طوفان سے گزرتے ہوئے حضرت عائشہؓ کے ساتھ ساتھ بڑی مظلوم ذات داعیِ حق، نبیِ رحمتؐ کی تھی۔ داعیِ اعظم کی اعلیٰ ظرفی، حوصلہ مندی اور صبروتحمل کا عظیم مظاہرہ ہوتا ہے۔ نبی کریمؐ نے غیرجذباتی اور پُروقار طرزِعمل اختیار کیا۔ قصور کیا تھا کہ وہ انسانیت کا نجات ہندہ، ان کو ان کے رب کی طرف بلاتا تھا۔

  •  پختہ یقین اور اعتماد: داعیِ اعظمؐ کی شخصیت کا ایک اور اہم پہلو ہے جو آج کے داعیانِ دین کی تربیت کے لیے اختیار کیا گیا۔ مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم امیرالمومنین تھے۔ مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ اردگرد کے قبائل کے ساتھ بھی میثاقِ مدینہ کے بعد، سیاسی اعتبار سے فیصلے کا آخری اختیار نبی کریمؐ کے پاس ہی تھا۔ ان پر اپنے ساتھیوں کو ایسا اعتماد تھا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ میں آج رات سفرمعراج میں آسمانوں پر گیا ہوں تو کسی نے جاکر حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ: لو آج تو تمھارے ساتھی یہ دعویٰ کر رہے ہیں، یعنی ایسی مافوق الفطرت، عجیب و غریب بات! حضرت ابوبکرؓ ایک لمحے توقف کیے بغیر فرماتے ہیں: اگر وہ یہ کہہ رہے ہیں تو  ٹھیک کہہ رہے ہیں۔
  •  مشاورت سے فیصلے: اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی کہ معاملات باہم مشورے سے طے کریں۔ اس طرح مشاورت کا راستہ دکھایا اور آمریت کا راستہ روکا گیا۔ یہ بھی ہوا کہ ساتھیوں سے غلطیاں ہوئیں، ان کے رویوں سے دل گرفتگی بھی ہوئی، مگر حکم ہوا کہ ان کو شریکِ مشورہ رکھو، اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگتے رہو۔ جب مشاورت سے فیصلہ ہوجائے تو پھر اللہ تعالیٰ پر بھروسا رکھو۔ اسی بنا پر یہی سکھانے کے لیے، احد میں، احزاب میں، بنونضیر کا فیصلہ کرتے ہوئے اور کئی مثالیں ہیں، کہ مشورہ اپنی راے کے علی الرغم قبول کیا___ جس کا مطلب یہ ہے کہ آج بھی فیصلے مشاورت کے ذریعے کرنا اور پھر مطمئن و ثابت قدم رہنا ہوگا۔
  •  دعوت کی وسعت کا تسلسل: دعوت کا ایک میدان، مدینہ میں سیاسی قیادت کا منصب حاصل ہونے کے بعد، ملحقہ سلطنتوں کے حکمرانوں کو اسلامی نظام کا پیغام بھجوانا تھا۔ ان حکمرانوں کو خطوط لکھتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف تو مروجہ آداب کا اہتمام کیا، ہرقل قیصر، رومی سلطنت کا تاج دار تھا۔ پرویز کسریٰ ایران کی بہت بڑی سلطنت کا حکمران تھا۔ بحرین، عمان، یمامہ، سکندریہ کے بادشاہوں کو خطوط بھجوائے کہ عالمی سطح پر ایک تسلسل سے دعوت دی جاسکے۔
  •  غلبہ دین کی ترجیح: اُمہات المومنین اور صحابیات کے ساتھ سلوک اور ان کے ذریعے ۵۰ فی صد آبادی میں دعوت کا نفوذ ہوا۔ معاشی تعلیمات دیں اور سود کے خاتمے، وراثت، زکوٰۃ، معاشرے کے یتیم و مسکین افراد کی ضرورتوں کو پورا کروانے کی تلقین دعوت کا حصہ رہا ہے۔ حج وِداع ہوا۔ انسانوں کا جمِ غفیر تھا۔ دعوت کے اس تکمیلی مرحلے پر، اپنی خدائی جمانے کے ادنیٰ اظہار کے بجاے، پہلے سے بڑھ کر شکروحمد کے ترانے تھے۔ انسانیت کے نام پیغام دیا۔ بین الاقوامی انسانی منشور پیش کیا اور یہ بھی فرما دیا کہ جو موجود ہے، اس دعوت کو اس تک پہنچائے جو موجود  نہیں، یعنی دعوت کے اس کام کو جاری رکھا جائے۔ یہ داعی کی فکر کی توسیع تھی اور جہدِ مسلسل کی دعوت۔ پُرفتن دور میں یہی اسوئہ دعوت ہے___ بلاشبہہ آج کے ہرداعی کے لیے داعیِ اعظمؐ رہنما ہیں:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ(الاحزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت  تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے۔

 

یہ ۱۹۴۵ء کی بات ہے‘ جب اقوام عالم میں پنچایت کا کردار ادا کرنے کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ تشکیل پایا۔ اسی ادارے کے تحت ۱۹۴۶ء میں انسانی حقوق کمیشن اور پھر اس کے بعد خواتین حقوق کمیشن بنا‘ جب کہ خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس ۱۹۷۵ء میں میکسکو میں ہوئی اور مساوات‘ ترقی اور امن جدوجہد کے لیے نعرہ قرار پایا۔

بعدازاں ہر پانچ سال بعد کوپن ہیگن (۱۹۸۰ئ) ‘نیروبی (۱۹۸۵ئ) ‘بیجنگ (۱۹۹۵ئ)‘ نیویارک (۲۰۰۰ئ) میں یہ خواتین عالمی کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔ تاہم‘ ۱۹۹۰ء میں نہیں ہو سکی اور اب ۲۰۰۵ء نیویارک میں ہونی ہے۔ دسمبر ۱۹۷۹ء میں حقوقِ نسواں کے لیے ایک عالمی معاہدہ کنونشن فار الیمی نیشن آف ڈسکریمی نیشن اگینسٹ ویمن جسے ’سیڈا‘ (CEDAW) کہا جاتا ہے‘ ہوا۔اس میں یہ طے پایا کہ عورت اور مرد کو مساوات اور برابری کے مقام پر لانے کے لیے ہر طرح کے امتیاز کو ختم کیا جائے۔ اس کی ۳۰ دفعات ہیں جن میں ۱۶دفعات خواتین کے مختلف حقوق سے متعلق ہیں اور بقیہ انتظامی نفاذ سے متعلق۔

اس معاہدے کی دفعہ ۲۹ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے بارے میں ہے۔ اس کا مطلب امریکا کے ایک دانش ور رچرڈ نے راولپنڈی کے ایک میڈیکل کالج میں لیکچر دیتے ہوئے یوں سمجھایا تھا کہ: کوشش جاری ہے کہ عورت کو یہ حق دلایا جائے کہ اولاد کی پیدایش کا فیصلہ وہ کرے۔ اگر کسی مرحلے پر وہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ میں یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتی اور وہ ایک ڈاکٹر کے پاس جاتی ہے کہ مجھے اس بوجھ سے نجات دلا دی جائے۔ اگر ڈاکٹر انکار کرتا ہے کہ وہ اس عمل کو درست نہیں سمجھتا تو خواتین کے حقوق کے مطابق یہ علاج مہیا نہ کرنے والا ڈاکٹر مجرم تصور کیا جائے گا‘ اُس عالمی عدالت میں اس پر مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔

۱۹۷۹ء کے ’سیڈا‘ معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ۱۳ دائرہ کار طے کیے گئے۔ انھی نکات کو آیندہ جائزوں کے لیے بنیاد قرار دیا گیا۔ اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ایک فریق حکومت ہے اور دوسری این جی اوز۔ حکومتوں کو امداد دینے والے عالمی اداروں کی مراعات کئی پہلوئوں سے اس معاہدے پر عمل درآمد کے ساتھ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر مشروط ہیں۔ عالمی ایجنڈے کی علم بردار اور بالخصوص عالمی امداد حاصل کرنے والی این جی اوز بھی اپنے کام کے ساتھ‘ حکومتی اقدام کی نگرانی اور محاسب کا کردار ادا کرتی ہیں۔ ہر چار سال بعد حکومت کو یہ رپورٹ دینی ہوتی ہے ۔ رپورٹ کے لیے نکات‘ تفصیلی جزئیات کے ساتھ اقوام متحدہ کی طرف سے بھجوائے جاتے ہیں۔

’سیڈا‘ پر اب تک ۱۵۰ ممالک دستخط کرچکے ہیں۔ اس میں بھی اہم پہلو یہ ہے کہ کئی یورپی ممالک اور خود امریکا نے ابھی تک اس پر دستخط نہیں کیے۔ پاکستان کی طرف سے وزیراعظم   بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں صدر فاروق خان لغاری نے کچھ تحفظات کے ساتھ اس پر دستخط کیے تھے کہ ہم اپنے ملکی آئین کے منافی ضوابط پر عمل درآمد کے پابند نہیں ہوں گے۔

مساوات‘ ترقی اور امن کے نام پر بنایا جانے والا خواتین حقوق کمیشن ہو‘ یا وقتاً فوقتاً کی جانے والی خواتین عالمی کانفرنسیں ‘ یہ عالمی حقوق نسواں تحریک کے مختلف شاخسانے ہیں۔ اسی طرح بیجنگ پلیٹ فارم آف ایکشن کے ۱۳ نکاتی عنوانات سے بظاہر اختلاف ممکن نہیں۔ اس لیے کہ وہ عورت کی فلاح و ترقی کے لیے جامع منصوبے کی تصویر پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اس بظاہر صورت حال سے فریب کھانے کے بجاے گہرائی میںجاکر جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ یہ ردعمل کی ایک عالمی تحریک ہے جس میں بہت سے پیغامات مضمر ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں خواہ مغرب ہو یا مشرق‘ غیرمسلم معاشرہ ہو یا مسلم معاشرہ‘ عورت کے ساتھ کئی حوالوں سے دوسرے درجے کے شہری کا سلوک کیا جاتا ہے۔ اسلام کے مسلمہ اصولوں پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے نام نہاد اسلامی معاشروں میں بھی کئی ایسے رویے مروج  ہیں۔

  • عورت اور اسلام: اسی ایجنڈے کے تحت‘ اسلام میں عورت کے حقوق اور کردار کے حوالے سے اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔ حالانکہ اس کی بڑی وجہ اسلام سے لاعلمی ہے۔

اسلام‘ عورت کے کردار کے لیے جو نمونہ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے‘ اُس نے پستیوں میں گری ہوئی عورت کو عملاً اٹھا کر معاشرے کی ایک قابلِ احترام ہستی بنا کر اعلیٰ مقام سے نوازا۔ قرآنی تعلیمات‘ احادیث نبویؐ اور خود اسوۂ رسولؐ آج بھی نشانِ راہ و منزل ہیں۔ بیٹی کے قتل کی ممانعت‘ پرورش میں برابری‘ بچیوں اور بچوں کی تعلیم کے لیے ہدایات‘ بچیوں کی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی‘ کفالت‘ بلوغت کے بعد نکاح میں بیٹی کی مرضی کا لحاظ رکھتے ہوئے رخصتی کا اہتمام کرنا اور باپ کے ترکے میں حصہ دار ہونا اس کا حق ٹھیرا۔ شادی کے وقت مہر کی ادایگی اور وہ بھی کوئی لگابندھا ۳۲ روپے کے شرعی مہرکا تصور نہیں ہے‘ بلکہ عورت کے خاندان کی مناسبت سے مہر کا تعین ہونا قرار پایا۔ جب حضرت عمرؓ نے مہر کی رقم مقرر کرنے کے لیے مشورہ چاہا تو ایک عورت کھڑی ہوگئی اور کہا: قرآن نے تو ڈھیروں مال بھی عورت کو دیا ہو تو واپس نہ لینے کی نصیحت کی ہے‘ آپ کیسے اس رقم کو مقرر کر سکتے ہیں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے اپنی رائے سے رجوع کیا۔

نان نفقہ‘ یعنی خوراک‘ لباس‘ مکان اور استطاعت ہو تو خادم کا انتظام کرکے دینا بھی شوہر کی ذمہ داری اور بیوی کا حق ٹھیرا۔ حضرت عائشہؓ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشیوں کا تماشا دکھا کر بیویوں کے لیے تفریح کی نظیر بھی قائم کی۔ شوہر کے ترکے سے آٹھویں حصے کی بیوی حق دار  ٹھیری۔ بحیثیت ماں حق خدمت باپ سے تین گنا زیادہ دیا گیا۔ سعی ہاجرہ کو حج کا لازمی رکن قرار دے کر بچے کی پرورش کے لیے کی جانے والی دوڑدھوپ کو اعزاز بخشا گیا‘ بیٹے سے بھی وراثت دلوائی گئی۔ بحیثیت آزاد شہری عورت جان‘ مال اور عزت میں برابر کی محترم ٹھیری۔ حق ملکیت تسلیم کیا گیا‘ کاروبار و ملازمت‘ رائے‘ مشورے و محاسبے کا حق بھی ملا۔حضرت ام سلمیٰؓ کے مشورے پر خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر عمل کیا۔

فرائض میں اولاد کی پیدایش و پرورش‘ شوہر کی فرماں برداری و شکرگزاری ضروری  قرار پائی۔ عورت اور مرد کے نکاح کے ذریعے وجود میں آنے والے معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان میں‘ تقسیمِ کار میں مرد بیرون خانہ معاشی سرگرمیوں کے لیے اور عورت اولاد کی پرورش کے لیے گھر کی نگران ٹھیری۔ یوں باہم تعاون کے لیے ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ کے مصداق ایک دوسرے کی کمزوریوں کے ساتھ نبھائو‘ اور خوبیوں کی قدردانی کی تلقین کے ساتھ گھر کے ادارے کو پُرسکون گہوارہ بنایا گیا۔ اگر کبھی غلط فہمی پیدا ہوجائے تو خاندان کے حَکم تصفیہ اور صلح کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کی گئی۔ طلاق جائز مگر ناپسندیدہ گردانی گئی اور اگر نبھا نہ ہوپائے تو آخری چارہ کار کے طور پر مرد طلاق دے سکتا ہے اور عورت خلع کے ذریعے علیحدگی اختیار کرسکتی ہے۔

اسلام کی تعلیمات اور اس کے نتیجے میں بننے والے معاشرے کے مقابلے میں حقوقِ نسواں کے لیے کی جانے والی کوششیں معاشرے پر ایک دوسری طرح سے اثرانداز ہوئی ہیں۔     نتیجتاً معاشرہ بہت سے مسائل سے دوچار ہے اور انسانی زندگی عدم توازن اور انتشار کا شکار ہوکر رہ گئی ہے۔

اس حوالے سے نئے درپیش چیلنج یہ ہیں:

  • خاندان کی نئی تقسیم: آج کا ایک بڑا چیلنج عورت کے سماجی کردار کی وجہ سے خاندان کو درپیش ہے۔ قرآن کی رو سے اَلرِّجَالٌ قَوَّامُوْنَ میں قوام کی تعبیر و تفسیر کا تعین ہے۔ ایک خیال یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ جب عورت کما رہی ہو اور شوہر اُس کا کفیل نہ ہو تو پھر مرد قوام کیوں ٹھیرے‘ عورت ہی قوام کیوں نہ ہو___گھر کے ادارے میں کسی ایک کو نگران و منتظم کی ذمہ داری سونپی جانی تھی‘ اللہ نے وہ ذمہ داری مرد کو سونپی۔ قرآن کے مطابق قوام بنانے کی   دو وجوہ میں سے اگر ایک ساقط بھی ہوجائے تو بھی مرد ہی قوام ہوگا۔ بنیادی طور پر نان نفقہ کی ذمہ داری مرد کی ہے اور عورت اگر کماتی بھی ہو‘ مرد سے زیادہ مال بھی رکھتی ہو‘ تب بھی مرد کا یہ حق برقرار رہتا ہے‘ جب کہ اپنے مال پر عورت آزادانہ تصرف کا اختیار رکھتی ہے۔ اگر وہ اپنی خوشی سے گھر پر خرچ کرتی ہے تو یہ اُس کی نفلی نیکی ہے۔

عورتوں کی برابری کے ایجنڈے اور ہر طرح کی تفریق ختم کرنے کی کوششوں کے ساتھ‘ یہ تقسیم ذہنوں کو پراگندا کررہی ہے۔ پہلے ۵ فی صد کوٹہ ملازمت خواتین کے لیے مخصوص ہوا‘ اب اس کو ۵۰ فی صد تک لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر ملازمتوں پر ۵۰ فی صد کوٹے پر اور ۱۵ سے ۲۰ فی صد میرٹ پر خواتین آجائیں‘ تو تقریباً ۷۰ فی صد ملازمتیں عورتوں کے پاس اور ۳۰فی صد مردوں کے پاس ہوں گی۔ اس طرح مردوں کی بے روزگاری میں اضافے اور گھر میں تعاون اور ذمہ داری کی تقسیم پر اصرار سے معاشرے کا ایک نیا نقشہ بنے گا۔ معاشی میدان میںعورتیں سرگرم اور مرد گھر کے نگہبان ہوں گے۔ ماں کے اندر ممتا کے روپ میں اولاد کی پرورش کے لیے عطاکردہ تحمل‘ نرمی‘ الفت کی جگہ باپ لے گا جس کو بیرونی محاذکے لیے زیادہ طاقت ور اور سخت جان بنایا گیا۔ اس طرح توازن کے بگڑنے سے اولاد اور خاندان پر اس کے منفی اثرات آئیں گے۔

ان ممکنہ خدشات کے باوجود مغرب سے ذہنی مرعوبیت کی بنا پر عورت کی معاشی ترقی کے لیے‘ ہر میدان میں مخصوص نشستیں‘ قرضہ جات کا نظام‘ ہر شعبۂ زندگی میں بلاتفریق تعلیم و ملازمت‘ مرد کے ساتھ شانہ بشانہ دوڑ اور اعتدال پسند اور روشن خیال ثابت کرنے کے لیے‘ عالمی اور ملکی سطح پر کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف ملک میں مہنگائی‘ غربت اور بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے‘ جب کہ میڈیا کے ذریعے مادہ پرستانہ تہذیب کی یلغار ہے۔

  • دوھری مظلومیت: اگر پہلے عورتوں کو گھروں میں بند کرکے‘ جائز ضرورتوں اور حقوق کے لیے بھی بیرون خانہ نقل و حرکت پر قدغن ایک انتہا تھی‘ تو اب میڈیا کی تحریک‘ کوٹہ سسٹم‘ عورتوں کے لیے رعائتوں وغیرہ کے ذریعے بیرونِ خانہ سرگرمیوں کے لیے ایک طرح کا ریاستی جبر ہے جو دوسری انتہا ہے۔ عورت پہلے ایک انتہا پر مظلوم تھی تو اب دوسری انتہا پر مظلوم ہے۔

معاشی ترقی اور خودانحصاری کے نام پر مرد کی کفالت سے محروم کرنے‘ اور عورت کی کمائی کے لیے عوامل و حالات پیدا کرنا عورت کے ساتھ خیرخواہی نہیں ظلم ہے۔ اگرچہ موجودہ مسلم معاشرے کسی بھی جگہ اپنی اصل روح کے مطابق اسلامی قدروں کی آبیاری نہیں کر رہے‘ تاہم ۹۹فی صد مرد خواہ دین کا کوئی فہم رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں‘ یہ جانتے ہیں کہ بیوی کو کما کر کھلانا ان کی ذمہ داری ہے۔

گھر کے اندر عورت کے کردار کو معاشی ترقی کے عوامل کے طور پر تسلیم کیا جانا‘ وراثت کی تقسیم اور منتقلی‘ حق مہر کی ادایگی اور حق ملکیت کے آزادانہ استعمال‘ اسلام کے دیے گئے ماڈل کی روشنی میں عورت کی معاشی ترقی کا حصہ تھے مگر ان سے صرفِ نظر کیا گیا۔ ضرورت ہے کہ ان پر پوری دلجمعی کے ساتھ‘ تمام معاشرے میں اخلاقاً و قانوناً عمل درآمد ہو۔

معاشی کفالت کے حوالے سے جہاں مرد حقیقی مجبوری‘ بیماری یا نشے وغیرہ کی بری عادات کی وجہ سے نہ کماتے ہوں یا کم کماتے ہوں‘ وہاں بھی عورت کو کمائی کے لیے دھکیل دینے کے بجاے ریاست کو ایسا نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے کہ خوش حال رشتہ دار اور ریاست اُس کی کفالت کا بوجھ اُٹھائے۔

۲۰۰۰ء میں نیویارک میں ہونے والی بیجنگ پلس فائیو کانفرنس کے دوران ایک امریکی خاتون‘ ہم پاکستانی خواتین کے وفد کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور بتایا کہ میں تین سال پاکستان رہی اور میں نے پاکستانی عورتوں پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ہے: ’’پاکستانی عورتو!    تم کہاں ہو؟‘‘

اُس سے جب یہ پوچھا گیا :بتائو عافیت کس میں ہے‘ مرد عورت کے لیے کما کر لائے یا عورت خود اپنے لیے کمائے؟ اُس نے کہا: عافیت تو اسی میں ہے کہ عورت گھر بیٹھے اور کمانے کی پابند نہ ہو‘ مگر یہ غلط ہے کہ اُس کو باہر نکلنے نہ دیا جائے۔ اُسے بتایا گیا کہ اسلام عورت کو اپنی آزاد مرضی و منشا پر چھوڑتا ہے چاہے تو باہر جاکر ملازمت و کاروبار کرے‘ چاہے گھر بیٹھے مگر اُس کی کفالت کی ذمہ داری ہر دو صورت میں مرد ہی پر ہے۔ اُس نے تسلیم کیا: اگر ایسا ہے تو یہ بہترین ہے۔ پھر مغرب کی عورت کی وہ قابلِ رحم حالت بھی زیربحث آئی‘ جس کے کئی ساتھی تو ہوتے ہیں مگر کوئی شوہر یا کفیل نہیں ہوتا۔ اُس کے اپنے بچے ہونے نہیں پاتے‘ اگر ہوں تو ریاست پالتی ہے یا وہ خود نہ صرف اپنے لیے بلکہ اُن کے لیے کماتی اور انھیں پالتی بھی ہے۔

عورت مخصوص میدانوں کا انتخاب کرے یا ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں سے معاشرے کی خدمت و فلاح کے لیے کام کرنا چاہے‘ اُس کو اُس کے لیے میدان کار مہیا کیا جانا چاہیے۔ باہم مسابقت ہو مگر وہ صرف عورتوں کے مابین۔ مرد اور عورت کو مکمل مخلوط ماحول میں یا تحفظ فراہم کیے بغیر ملازمت و معاشی ترقی میں ساتھ ساتھ کھڑا کیا گیا تو کئی واقعات ہوں گے۔ لہٰذا ہرہر سطح پر مخلوط ماحول جہاں اسلام کی روح اور اقدار کے منافی ہے وہاں خود عورتوں کے لیے بھی غیرمحفوظ اور مسائل کا باعث ہے۔

  • خواتین کی سیاسی نمایندگی: سیاسی نمایندگی میں خواتین کے لیے ابتداً ۳۳فی صد اور پھر ۵۰ فی صد تک نشستیں مخصوص کروانا بیجنگ پلیٹ فارم آف ایکشن کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ پاکستان نے اِس ۳۳ فی صد نمایندگی کی روشنی میں مقامی حکومتوں میں خواتین کو ۳۳فی صد نمایندگی دی‘ جس کے مطابق ۴۰ ہزار کی تعداد میں خواتین کونسلر میدان میں آئیں۔ قومی اسمبلی میں ۲۲ فی صد اور سینیٹ میں ۱۷فی صد خواتین نمایندگان ہیں۔ پاکستان اس کو اپنی اہم کارکردگی کے طور پر پیش کرتا ہے کہ اُس نے خطے کے کئی بڑے ممالک سے بڑھ کر عورتوں کو نمایندگی دی ہے اور اسے خواتین کے حقوق کے حصول کا بڑا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔ انٹرنیشنل پارلیمنٹری یونین کی مرتب کردہ فہرست کے مطابق سیاسی نمایندگی میں تناسب کے لحاظ سے پہلے نمبر پرروانڈا‘ ۳۲ویں پر پاکستان‘۵۹ پر امریکا‘ ۹۰ پر بھارت‘ ۱۱۴ اور ۱۱۵ پر ترکی اور ایران ہیں۔ یوں معاشرتی اقدار و روایات کے منافی‘ سیاسی نمایندگی کے لیے ایک بڑا قدم اٹھایا گیا‘ جو مغربی تہذیب کے نمایندہ ممالک بھی نہیں اٹھا سکے۔

اس نمایندگی کے ذریعے خواتین کے حقوق کے حصول کے بارے میں کئی طبقے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں کہ جب ملک کی نصف صدی سے زائد پر محیط تاریخ میں‘ ۹۸ فی صد مرد نمایندگان مردوں کی ترقی کی ضمانت نہیں بنے تو یہ اقدام مروجہ نظام کی اصلاح کے دیگر اقدامات کے بغیر کتنا فائدہ مند ہوگا۔ مگر اس سے عورتوں کو مشاورت کے فورم تک رسائی ضرور ملی ہے‘ تاہم بچوں پر اثرات‘ شوہر بیوی کے مابین غلط فہمیوں‘ عورت پر گھر اور سیاست کے بوجھ کے باعث خاندان کا ادارہ متاثر ہونے کے شواہد سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام عورت کے مشورے کو اہمیت دیتا ہے۔ اُس کو راے دینے اور محاسبہ کرنے کی بھی آزادی ہے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ اپنی اقدار و روایات کی روشنی میں جائزہ لیا جائے اور اس چیلنج سے نبٹنے کے لیے حکمت عملی اختیار کی جائے۔ پارٹی نشستوں پر متناسب نمایندگی عورت کو ایک مرد امیدوار کی طرح تمام تر انتخابی جدوجہد سے بچانے اور نمایندگی دلوانے کا ذریعہ ہے۔ اگرچہ  این جی اوز ’سیڈا‘ کی روشنی میں اس طریق کار کو عورتوں کا قومی دھارے میں شامل کیا جانا نہیں گردانتی اور مردوں کی طرح انتخابی امیدوار بننے کی حامی ہیں۔ خواتین کی نمایندگی کے حوالے سے یہ امور توجہ طلب ہیں: پارٹی نامزدگی میں عمر‘ دیگر گھریلو حالات کا لحاظ اور پھر پارلیمنٹ میں الگ نشستیں‘ کارروائی میں حصہ لینے اور تیاری کے لیے کچھ ضوابطِ کار‘ خاندان کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے لیے کچھ رعایتیں‘ مثلاً شوہر و بچوں کا مقام اسمبلی پر تبادلہ و داخلہ‘ ہر محفل و استقبالیے و عشایئے میں شامل کیا جانا وغیرہ۔

  • مغرب زدہ تعلیم: عورت کی تعلیم بھی ایک اہم عنوان ہے۔ آغا خان بورڈ کے نظام امتحانات کے ساتھ الحاق‘ نصاب میں تبدیلی‘ ٹیکسٹ بک بورڈز کی نج کاری‘ غیرملکی امداد کا جنسی امتیاز ختم کرنے کے ساتھ مشروط ہونا‘ مخلوط تعلیم کی ترویج‘ جنس کی تعلیم کی بابت سوال ناموں اور ورکشاپوں کا این جی اوز کی طرف سے اہتمام‘ فیڈرل گورنمنٹ کی طرف سے سیکنڈری اسکول کی طالبات و طلبہ کوYES (youth exchange studies) اور IEARN (International Education and Resource Network) پاکستان کے تحت براے سال (۲۰۰۵ئ-۲۰۰۶ئ) کے لیے امریکا بھجوانا اور مخصوص خاندانوں کے ساتھ قیام کے لیے پیش رفت وغیرہ ایسے اقدام ہیں جو تعلیم کے سیکولر ایجنڈے کی آڑ میں تہذیبی تبدیلی کے لیے تسلسل سے اٹھائے جا رہے ہیں۔

بلوغت کی تبدیلیاں و اثرات‘ ازدواجی زندگی کے مقتضیات‘ ایڈزبچائو کے طریقوں کی ضرورت پر بحث کرتے ہوئے جنسی تعلیم دی جانے پر بعض باشعور طبقات کی طرف سے اصرار کیا جاتا ہے۔ مغربی طرز تعلیم سے بچانے کے لیے اپنی اقدار و اخلاقیات کے حدودِکار میں رہتے ہوئے‘ مناسب انداز میں اس کو حدیث و فقہ کے مطابق ترتیب دیا جائے یا چھوڑ دیا جائے‘ یہ بھی ایک چیلنج ہے۔

  • امتیازی قوانین کا خاتمہ: قانون سازی بھی اس ایجنڈے کا ایک اہم نکتہ ہے۔ اس کے تحت جو ملکی قوانین عورت اور مرد میں کسی امتیاز کو روا رکھتے ہوں‘ اُن کو بدلنے کی طرف پیش رفت ہونی چاہیے۔ اس قانون سازی کے لیے پہلے قدم کے طور پر‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے جائزے کے لیے نیشنل کمیشن آف اسٹیٹس آف ویمن‘ چیف آف آرمی اسٹاف نے ۲۰۰۲ء میں بنایا۔ جس نے آئین کا جائزہ لے کر سفارشات کی ایک ضخیم کتاب مرتب کی ہے‘ جس میں سرفہرست حدود قوانین کے خاتمے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس کمیشن کو جو اس وقت وزارتِ خواتین کے تابع ہے‘ ایک خودمختار وزارت دینے کے لیے ہر موثر فورم پر آواز اٹھائی جا رہی ہے۔

بچوں کی دیکھ بھال کے لیے آیا کا انتظام اور خود دن رات یا کئی کئی روز بیرون شہر یا بیرون ملک ملازمت‘ میٹنگوں‘ سیمی ناروں‘ ورکشاپوں‘ اجلاسوں میں شرکت یا دورے اور فنکشنوں میں غیرمحرم مردوں کے ساتھ مصروف عمل رہنا‘ جہاں آیندہ نسلوں کی تربیت پر اثرانداز ہوگا وہاں گھروں میں غیرمحرم نوکرانی یا آیا اور شوہر کی موجودگی بھی معاشرے میں کئی کہانیوں کو جنم دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بچوں کو کارٹون‘ انٹرنیٹ‘ سی ڈی پروگراموں میں مصروف کرکے‘ یا کئی کئی چینلوں کے ٹی وی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے یا معاشی ترقی میں حصے کے فوائد و نقصانات کا موازنہ کر کے ایک بہتر لائحہ عمل ترتیب دیا جائے؟

  • ازدواجی زندگی میں مداخلت: مغرب نواز حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ بھی ہے کہ بنیادی انسانی حقوق اور فیصلوں کی آزادی میں یہ بھی شامل کیا جانا چاہیے کہ عورت اگر عورت کو ہی زندگی کا ساتھی منتخب کرنا چاہے تو کر سکے‘ تولیدی صحت (reproduction health)میں یہ اختیار بھی حاصل ہونا چاہیے کہ اولاد کی تعداد کا فیصلہ عورت خود کرے‘ اور اگر  وہ قبل از ولادت فراغت چاہے تو قانوناً اس کا حق اُس کو حاصل ہو‘ گھریلو تشدد میں شوہر‘ بیوی کی مرضی کے خلاف ’عمل‘ کرے تو اُس کو اس جرم کی سزا ملنی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔یہ ۲۰۰۰ء میں   بیجنگ پلس فائیو میں سفارشات تھیں‘ جن کو معاہدے میں شامل کروانے کی کوشش تھی‘ اس میں  گذشتہ پانچ سالہ کوششوں اور دلائل کا اضافہ ہوا ہے۔

عورت کی ترقی کے ایسے فورموں پر‘ یہ موقف بھی بغیر رو رعایت کے کھل کر بیان کیا جاتا ہے کہ ’سیڈا‘ پر عائد تحفظات ختم کر دیے جانے چاہییں‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو صرف پاکستان ہونا چاہیے‘ دستور میں شامل قرارداد مقاصد کی حامل دفعہ کوحذف کردیا جانا چاہیے___  کچھ نہیں کہاجاسکتا کہ کس وقت کیا فیصلہ کر لیا جاتا ہے!

حقوق نسواں کی عالمی تحریک اس حد تک آگے بڑھ چکی ہے کہ’سیڈا‘ اس وقت ملک کی ترقی ناپنے کا پیمانہ بنا دیا گیا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی امداد کو اس پر عمل درآمد کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے‘ این جی اوز کی صورت میں منظم قوتیں سیکولر ایجنڈے کو مؤثر انداز میں آگے بڑھا رہی ہیں‘ حکمران وقت سامراجی قوتوں کے آلۂ کار بن چکے ہیں‘ تعلیم کے سیکولر ایجنڈے کے ذریعے تہذیبی تبدیلی کا عمل جاری ہے‘ اور روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر اسلام کو تحریف کا نشانہ بنایاجا رہا ہے۔ ان مسائل کے ہوتے ہوئے آج کے دور کی تہذیبی جنگ میں اپنی شناخت قائم رکھنا ایک بڑا چیلنج ہے‘ نیزعالمی برادری کے ساتھ بھی رہیں اور اپنی اقدار و روایات کی حفاظت بھی کریں‘ یہ کیسے ممکن ہو۔ ان تمام چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے اور عورت کو اس کا حقیقی مقام دینے کے لیے ایک بھرپور جدوجہد اور ٹھوس لائحہ عمل کے ساتھ ساتھ بالخصوص خواتین میں دینی شعور کی آبیاری اور احیا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔

_____________