۹ مارچ ۲۰۰۷ء پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن ایک جرنیل نے اقتدار کے نشے میں ملک کے چیف جسٹس کو کئی گھنٹے اپنے کیمپ آفس میں قید رکھنے کے بعد بڑی رعونت سے معطل کردیا اور دستور کے واضح احکام کے برعکس ایک قائم مقام چیف جسٹس مقرر کردیا۔ کراچی اور لاہور سے ججوں کو ہوا کے دوش پر اسلام آباد لاکر اپنی مرضی سے ایک سپریم جوڈیشل کونسل قائم کردی جسے ناشایستہ عجلت (indecent haste) کے ساتھ دستوری چیف جسٹس کے خلاف ایک ریفرنس سے بھی نواز دیا گیا اور اس کونسل نے چشم زدن میں چیف جسٹس کے غیرفعال (non functional) کیے جانے پر مہرتصدیق ثبت کردی۔ اس طرح عملاً فوجی قیادت کے ہاتھوں عدلیہ کے خلاف ایک کودِتا (coup d'e'tat) واقع ہوگیا۔
پاکستان ہی نہیں‘ مہذب دنیا کی تاریخ میں نظامِ عدل کے خلاف ایسے کمانڈو ایکشن کی مثال نہیں ملتی۔ پھر چیف جسٹس کو اس طرح من مانے طور پر معطل ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس کے ساتھ سخت ہتک آمیز رویہ اختیار کیا گیا۔ اسے زبردستی سپریم کورٹ جانے سے روک دیا گیا۔ اس کی کار اور گھر پر سے قومی اور چیف جسٹس کا جھنڈا اُتار دیا گیا۔ گھر پر پولیس اور رینجرز کی ایک بڑی نفری لگادی گئی۔ سارے راستے بند کردیے گئے‘ گھر سے لفٹر کے ذریعے گاڑیاں اٹھا لی گئیں۔ ٹیلی فون‘ ٹی وی اور انٹرنیٹ سے رشتے منقطع کردیے گئے اور ایک دہشت کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس لام بندی کے نتیجے میں فطری طور پر کچھ لمحات کے لیے پورے ملک پر سکتے کی سی کیفیت طاری ہوگئی لیکن پھر جلد ہی دکھ‘ حیرت اور افسوس اور غم و غصے کے بادل چھٹنے لگے۔
جیسے ہی عوام و خواص کو معلوم ہوا کہ چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری نے عدلیہ پر حملہ آور ہونے والوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا ہے اور اپنی اور عدلیہ کی عزت کی حفاظت کے عزم اور جرأت کا اظہار کیا ہے تو پوری قوم ایک نئے جذبے سے چیف جسٹس کے ساتھ یک جہتی کے اظہار اور عدلیہ کی آزادی‘ عزت اور وقار کی تائید‘ دستور اور قانون کی بالادستی اور فسطائی قوتوں کی دراندازیوں کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی اور یک زبان ہوکر انصاف اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے سرگرم ہوگئی___ اور ۹ مارچ کے بعد کا ہر دن گواہ ہے کہ ملک کے گوشے گوشے میں وکلا‘ سیاسی اور دینی جماعتیں‘ صحافی‘ تاجر‘ طلبہ‘ غرض سوسائٹی کے تمام ہی طبقے جرنیلی آمریت کے اس وار کا بھرپور توڑ کرنے کی ملک گیر جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور ریاستی دہشت گردی اور پولیس اور رینجرز کی گولیوں اور لاٹھیوں کا پُرامن اور پُرعزم انداز میں مقابلہ کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کو توقع تھی کہ وہ چیف جسٹس کو یوں دبوچ کر عدلیہ کو اپنی گرفت میں لے آئیں گے اور الیکشن کے اس فیصلہ کن سال میں اپنی من مانی کرنے کے لیے بگ ٹٹ کارفرمائیاں کرسکیں گے لیکن وہ اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر کچھ دوسری ہی تھی___ جو کام انھوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے اور عدالت کے مقدس ادارے کو اپنی خواہشات کے تابع کرنے کے لیے اٹھایا تھا‘ وہی ان کے زوال اور ان شاء اللہ بالآخر مکمل ناکامی کا وسیلہ بن گیا۔ وَ یَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَo (الانفال ۸:۳۰) ’’وہ اپنی چالیںچل رہے تھے‘ اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا‘ اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے‘‘۔
جس طرح عدلیہ پر جرنیلی آمریت کے اس حملے کے جواب میں وکلا برادری اور ملک کی تمام ہی دینی‘ سیاسی‘ سماجی اور تجارتی قوتیں اُٹھ کھڑی ہوئی ہیں‘ اس سے ایک اہم تاریخی واقعے کی یاد تازہ ہوگئی جس میں آج کے پاکستان اور اس میں ہونے والی اس کش مکش کے لیے جو حکمرانوں اور عوام میں برپا ہے‘ بڑا سبق ہے۔
یہ واقعہ ساتویں صدی ہجری کے وسط (۶۳۹ھ) کا ہے جب مصر پر مملوک (خاندانِ غلاماں) حکمران تھے اور محض قوت کی بنیاد پر قانونی ضابطوں اور فقہی احکام کو پامال کر رہے تھے۔ اس زمانے میں ایک صاحبِ عزیمت قاضی شمس العلماء شیخ عزالدین عبدالسلامؒ نے ایک سنہری مثال قائم کرکے اسلام کے اصولِ حکمرانی اور نظامِ عدل کو نئی زندگی عطا کی۔ شیخ کا تعلق اصلاً بلادِشام سے تھا اور اپنے علم اور تقویٰ کی وجہ سے اسلامی دنیا میں شہرت رکھتے تھے۔ جب وہ مصر آئے تو الملک الصالح نجم الدین نے ان کو قضا (عدالت) کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز کیا۔ شیخ عزالدین نے قانونی معاملات میں مملوک اربابِ اقتدار کے خلاف بڑی جرأت سے حق و انصاف کے مطابق فتوے دیے اور احکام صادر کیے جس سے اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی۔ بادشاہ نے خود شیخ کے پاس آکر فتویٰ اور عدالتی فیصلہ تبدیل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا مگر شیخ نے صاف انکار کردیا اور کہہ دیا کہ وہ عدالتی معاملات میں دخل اندازی نہ کریں ورنہ شیخ قضا کے منصب سے دست بردار ہوجائیں گے۔ نائب سلطنت نہ مانا اور ننگی تلوار لے کر اپنے سپاہیوں کے ساتھ شیخ کو قتل کرنے کے لیے ان کے گھر پہنچا اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ شیخ کے نوعمر بچے نے دروازہ کھولا تھا‘ شمشیر بدست سپاہیوں کو دیکھ کر سخت پریشان ہوا لیکن شیخ ایمان‘ عزم اور ہمت کا پیکر تھے۔ بلاخوف نائب سلطنت کے سامنے آئے اور وہ ایسا ہیبت زدہ ہوا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ شیخ نے فتویٰ تبدیل کرنے سے انکار کیا اور پوری متانت سے اپنا تمام سامان گھر سے نکال کے گدھے پر لادا اور قاہرہ چھوڑنے کا عزم کرلیا۔ سوال کیا گیا کہ کہاں جا رہے ہیں؟ تو جواب دیا گیا کہ ’’کیا اللہ کی زمین فراخ نہیں ہے کہ کسی ایسی سرزمین پر رہا جائے جہاں قانون کی پاس داری نہ ہو‘ جہاں اہلِ شریعت بے قیمت ہوجائیں اور عدالتی نظام میں اربابِ اقتدار مداخلت کریں‘‘۔
قاضی القضاۃ کے اس اقدام کی خبر قاہرہ کے طول و عرض میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور پھر کیا تھا___ مؤرخ لکھتے ہیں کہ کیا عالم اور کیا عامی‘ پورا قاہرہ گویا قاضی کی ہم نوائی کے لیے اُمنڈ آیا اور شیخ کے ساتھ ہوگیا۔ عوام الناس مصر کے قاضی کی حمایت میں گھروں سے اس طرح نکل آئے کہ بچے‘ بوڑھے‘ جوان‘ مرد‘ خواتین سب ان کے ساتھ تھیں۔ اس عوامی یک جہتی نے حکمرانوں کو ششدر کر دیا اور سلطان نے قاضی کے آگے سپر ڈال دی۔ مملوک اربابِ اقتدار شیخ کے فیصلے کو ماننے پر مجبور ہوئے اور اس طرح قانون نے اپنی بالادستی منوا لی اور عدالت کی عصمت اور وقار کا بول بالا ہوا۔ (ملاحظہ ہو‘ عبدالرحمن الشرقاوی کی کتاب ائمہ الفقہ التسعہ‘ ص ۳۶۰-۳۶۱)
اس واقعے سے اسلامی قانون‘ نظامِ عدل اور اصولِ حکمرانی کے باب میں چند بنیادی اصول بالکل کھل کر سامنے آتے ہیں:
پہلا اصول قانون کی حکمرانی اور شریعت کی بالادستی کا ہے۔ اللہ کے دین اور انبیاے کرام علیہم السلام کی دعوت کا مرکزی نکتہ اللہ کی عبادت اور بندگی کے ساتھ انسانوں کے درمیان عدل وانصاف کا قیام ہے (الحدید۵۷:۲۵)۔ مقاصدشریعت میں سرفہرست عدل اورقسط کی فراہمی ہے اور اس بارے میں کوئی سمجھوتا یا مداہنت ممکن نہیں۔
دوسرا اصول قانون کی نگاہ میں سب کی برابری ہے۔ اس سلسلے میں امیراور غریب اور طاقت ور اور کمزور میں کوئی تمیز نہیں۔ سب کے لیے ایک ہی قانون ہے جیساکہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ماضی میں قومیں اس لیے تباہ ہوگئیں کہ وہ کمزوروں پر تو قانون لاگو کرتے تھے مگر ذی اثر قانون سے بالا رہتے تھے‘ جب کہ آپؐ کے مشن کا ہدف ہی یہ ہے کہ تمام انسانوں کو ایک ہی قانون کا پابند کیا جائے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر (العیاذ باللّٰہ) فاطمہ بنت محمدؐ بھی چوری کی مرتکب ہوگی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جائے گا۔
تیسرا اصول عدلیہ کی آزادی اور قضا کے نظام کا انتظامیہ کی دراندازی سے مکمل طور پر پاک ہونا ہے۔ حاکمِ وقت پر بھی قاضی کا حکم اسی طرح نافذ ہے جس طرح کسی عام شہری پر۔ اور حکمرانوں کو قضا کے معاملات میںمداخلت یا اس پر اثرانداز ہونے کا کوئی حق نہیں۔
چوتھی چیز قوم کا عدلیہ پر اعتماد ہے ‘جو قاضی کے علم اور تقویٰ اور انصاف کے باب میں اس کے بے لاگ ہی نہیں‘ ہر اثر سے بالا ہونے پر مبنی ہے۔ عدل کی میزان کے آگے قوت کی تلوار بے اثر ہے اور تلوار کو عدل کی میزان کے خادم کاکردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب عدالت اور عدل قائم کرنے کے ذمہ دار دیانت اور اپنے منصب کے تقاضوں کو پورا کرکے عوام کا اعتماد حاصل کریں۔
پانچواں اصول اور سبق اس واقعے سے یہ بھی نکلتا ہے کہ اگر تلوار میزانِ عدل کی چاکری کرنے سے باغی ہو‘ تو پھر عوام کی قوت وہ قوت ہے جو تلوار کو قابو کرسکتی ہے اور تلوار کو حدود کا پابند اور عدل کا آلہ کار بنا سکتی ہے۔ اس کے لیے عوام کا چوکس ہونا اور نظامِ عدل کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہونے کا عزم اور آمادگی ہی نہیں‘ اس کا عملی اظہار بھی ضروری ہے۔ یہی جذبہ اور جرأت اس بات کا ضامن بن جاتا ہے کہ تلوار کمزور کے لیے خطرہ نہ بنے اور معاشرے میں انصاف اور خیر کی حفاظت اور افزایش کا ذریعہ بنے۔ نیز خود نظامِ عدل تلوار کی زد سے محفوظ رہے۔
یہ وہ اصول ہیں جن کی روشنی میں آج بھی ہمیں اپنے مقصد کا تعین اور اس کے حصول کی صحیح اور مؤثر حکمت عملی اور مناسب نقشۂ کار تیار کرنا چاہیے۔
جنرل پرویز مشرف نے ملک کے چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری کو بظاہر جبری رخصت پر بھیج کر (مگربیک بینی و دوگوش عملاً برطرف کرکے) دراصل پورے نظامِ عدل اور دستوری حکمرانی کے عمل کو چیلنج کیا ہے۔ اگر اسے برداشت کرلیا جاتا ہے تو پھر ملک پر شخصی اور فوجی آمریت کواپنی قبیح ترین صورت میں مسلط ہونے سے روکا نہیں جاسکتا۔ اور یہ سارا کھیل کھیلا بھی اسی لیے گیا کہ عدالت کو اپنی گرفت میں لے کر سیاسی دروبست اور حکمرانی (governance) کے پورے عمل کو اپنے تابع کرلیا جائے۔ جس طرح یہ کام کیا گیا‘ اس میں دستور اور قانون کی تو دھجیاں بکھیری ہی گئیں‘ لیکن افسوس ہے شرافت اور انسانیت کی ہر قدر کو بھی پامال کیا گیا اور مقصد یہ دکھانا تھا کہ فوجی حکمران جس طرح چاہیں اور جدھر چاہیں نظامِ حکومت کو ہنکا سکتے ہیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ یہ کام پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا اور مستقبل کے سیاسی نقشے کی ایک خاص سمت میں صورت گری کے مقصد سے کیا گیا۔ چیف جسٹس کی ذات کو اس لیے نشانہ بنایا گیا کہ ان کو قابو کرکے عدلیہ کے پورے ادارے (institution) کو اپنا تابع مہمل بنایا جاسکے اور یہ اس لیے ضروری تھا کہ دستور کی جو خلاف ورزیاں ہورہی ہیں اور جو مزید پیش نظر ہیں ان کو صرف اس صورت میں روا رکھا جا سکتا ہے کہ عدلیہ اس پر صاد کرے۔ فوجی حکمرانوں اور آمرانہ عزائم رکھنے والوں نے۱۹۵۴ء سے یہی راستہ اختیار کیا ہے اور بدقسمتی سے عدالتوں نے بھی نظریۂ ضرورت کا سہارا لے کر فسطائی قوتوں کی کارفرمائیوں کے لیے سندجواز فراہم کرنے کی خدمت بالعموم انجام دی ہے۔ مجبوریاں اور توجیہات جو بھی ہوں‘ نیز جب بھی کسی صاحب ِ عزم جج نے دستور سے انحراف کے اس راستے کو روکنے‘ اور قانون کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کی حفاظت کی کوشش کی ہے‘ اسے راستے سے ہٹانے کا کھیل کھیلا گیا ہے۔ کبھی یہ کام اچھے ججوں کی ترقی کا راستہ روک کر کیا گیا ہے تو کبھی ان کو راستے سے ہٹاکر‘ جس کے لیے نت نئے انداز میں عبوری دستوروں کا ڈھونگ رچا کر تازہ حلف کا مطالبہ کرکے یہ مقصد حاصل کیا گیا ہے۔
بات کسی کی ذات کی نہیں‘ اصول کی ہے اس لیے یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ جون ۲۰۰۵ء میں جسٹس افتخارمحمد چودھری کے چیف جسٹس بننے کے بعد حکمرانوں کو توقع تھی کہ چونکہ وہ ۲۰۱۳ء تک چیف جسٹس رہیں گے‘ اس لیے ان سے ایک طویل رفاقت (long partnership) کا سلسلہ استوار کیا جائے۔ لیکن ان کو اس ڈیڑھ پونے دو سال بعد یہ احساس ہوگیا کہ راوی کے لیے سب چین لکھنا ممکن نہیں۔ جسے ’عدالتی فعالیت‘(judicial activism) کہا جا رہا ہے‘ وہ حکمرانوں کے عزائم کی تکمیل میں رکاوٹ بنتی جارہی ہے۔ خاص طور پر انسانی حقوق کی حفاظت‘ دستور کے مکمل احترام‘پارلیمانی جمہوریت اور فیوڈلزم کے اصولوں کی پاس داری اور سب سے بڑھ کر سیاست میں فوج کے مستقل رول کے سلسلے میں عدالت سے جس قسم کا تعاون فوجی حکمرانوں کو مطلوب تھا‘ وہ ملنا مشکل ہو رہا تھا‘ اس لیے چیف جسٹس کے خلاف دائرہ تنگ کرنے کا اور فائلیں بنانے کا کھیل شروع کردیا گیا اور نئے انتخابی عمل کے شروع ہونے سے پہلے ہی ان سے نجات حاصل کرلینے کی منصوبہ سازی کی گئی۔
اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے فوجی اقدام اور ۲۰۰۲ء کے نام نہاد ریفرنڈم کے جواز (validation) میں جسٹس افتخار محمد چودھری کی تائیدی آواز نے ان عناصر کو غالباً ہمت دلائی ہوگی‘ لیکن ان کی توقعات پوری ہوتی نظر نہیں آرہی تھیں۔ چیف جسٹس بننے کے بعد بھی جس حد تک حکومت کا لحاظ رکھا جاسکتا تھا‘ رکھا گیا۱؎ ،گو اس بارے میں دوسری راے بھی موجود ہے لیکن جس طرح سپریم کورٹ بنیادی حقوق‘ دستور کی بالادستی اور مظلوم افراد اور طبقات کی حق رسائی کے سلسلے میں محتاط لیکن آزاد روش اختیار کر رہی تھی اس سے اقتدار کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں اور ایجنسیوں کی سکہ بند کارروائیوں کے سہارے جنرل صاحب نے بالآخر ۹مارچ کو عدالت عظمیٰ پر بڑی عجلت اور بھونڈے انداز میں بھرپور وار کردیا۔ پھر اس کے دفاع میں انھوں نے اور ان کے چند وزرا نے جو انداز اختیار کیا اس نے حق‘ انصاف‘ سچائی سب کو پرزے پرزے کردیا اور ملک اور ملک کے باہر پاکستان کے امیج کو جتنا نقصان اس جارحانہ حملے اور اس کے بعد کیے جانے والے غیردستوری‘ غیراخلاقی اور غیرمہذب اقدامات نے پہنچایا ہے‘ اتنا کبھی کسی اور نے نہیں پہنچایا۔
چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری صاحب کے خلاف جو اقدام کیا گیا ہے وہ دستور‘ قانون‘ اخلاق و آداب اور عقلِ عام ہر ایک کے خلاف ہے اور بدیہی طور پر بدنیتی (malafide) پر مبنی نظرآتا ہے۔ ہمیں توقع ہے سپریم جوڈیشل کونسل اس ریفرنس کا فیصلہ حق وانصاف اور دستور کے مطابق کرے گی۔ آج جسٹس افتخارمحمد چودھری ہی زیرسماعت (on trial) نہیں خود اس ملک کا عدالتی نظام بھی زیرسماعت (on trial) ہے اور اللہ کی عدالت کے ساتھ اب عوام کی عدالت بھی ساتھ ہی ساتھ برسرِعمل ہے۔ دنیاوی حد تک آخری فیصلہ عوام ہی کا قبول کیا جائے گا‘ اس لیے بھی کہ ؎
زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
بُرا کہے جسے دنیا ، اسے بُرا سمجھو
جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواری بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ معاملہ عدالت کے زیرسماعت ہے اور اس پر صحافتی اور عوامی سطح پر کوئی بحث نہیں ہونی چاہیے اور یہ بھی کہ ایک دستوری مسئلے پر حزبِ اختلاف اور وکلا حضرات سیاست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو قابلِ مذمت اور ناقابلِ قبول ہے۔ یہ اعلانات سنتے سنتے کان پک گئے ہیں‘ اس لیے سب سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان دعووں کے بارے میں کچھ عرض کردیا جائے۔
بلاشبہہ عدالت میں زیرسماعت معاملات کا فیصلہ عدالت پر چھوڑنا چاہیے اور کسی طرح بھی عدالت کو متاثر کرنا غلط ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ جو دستوری‘ قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی معاملات کسی بھی تنازع سے متعلق ہوں ان پر کلام نہ کیا جائے۔ عدالت کی کارروائی یا اس کو متاثر کرنے والی چیزوں پر تبصرہ معیوب نہیں‘ اصل مسائل پر بات چیت نہ صرف عدالت کے وقار کے منافی نہیں بلکہ عدالت کو حالات کو سمجھنے اور صحیح راے پر پہنچنے میں مددگار ہوتی ہے۔
قانون کی اصطلاح sub judice کے دو مفہوم ہیں: ایک under or before a
court or judge/ under judicial consideration اور دوسرے undetermined۔ یعنی ابھی اس متنازع امر کو طے کرنا باقی ہے جو کام عدالت کر رہی ہے۔ کوئی اقدام جو عدالت کے اس کام میں مخل ہو یا اسے انصاف کرنے سے منع کرنے والا ہو‘ وہ غلط ہے۔ لیکن ہر وہ کام‘ بحث‘ مدد جو انصاف کے قیام کو آسان بنانے اور مسئلے کی تنقیح میں مددگار ہو‘ وہ ممنوع نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ توہین عدالت (contempt of court) کی تعریف یہ کی گئی ہے:
ایسا عمل جو عدالت کو انصاف فراہم کرنے سے روکے‘ رکاوٹ بنے یا پریشانی کا باعث ہو‘ یا جو اس کے وقار کو نقصان پہنچائے۔ (Black's Law Dictionary‘ص ۲۸۸)
عدالت کے زیرسماعت کے نام پر دستوری اور سیاسی موضوعات پر بحث و گفتگو کا دروازہ بند کرنا یا ان تمام امور کا زیربحث لانا جن سے خود عدالت کو مسئلے کو سمجھنے اور تنازع کے منصفانہ حل میں مدد ملے‘ نہ توہینِ عدالت(contempt) کی تعریف میں آتا ہے اور نہ زیرسماعت کی قدغن ان پر لاگو ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہو تو زندگی کے ہزاروں لاکھوں امور پر اظہار راے اور بحث و مباحثے کا دروازہ بند ہوجائے۔
یہ تو تھی اصولی بات‘ لیکن جب یہ بات ان کی طرف سے کی جاتی ہے جنھوں نے چیف جسٹس کا میڈیا ٹرائل آج نہیں‘ اسٹیل مل کے فیصلے کے فوراً بعد ۲۰۰۶ء کے وسط سے شروع کردیا تھا اور جو تسلسل کے ساتھ پریس کو ایک خاص نوعیت کی معلومات خفیہ طور پر فراہم کرکے پریشر بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں تو ع
ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے
جرنیل صاحب خود ٹی وی پر دو گھنٹے لن ترانی فرماتے ہیں اور ہرجلسے میں گوہرافشانیاں کررہے ہیں۔ ان کے وزیر اور دو صوبائی وزراے اعلیٰ دن رات اسی مشق میں مبتلا ہیں اور جو وزیر خاموش ہیں جرنیل صاحب ان کو للکار رہے ہیں کہ میدان میں اترو‘ میرا دفاع کرو اور چیف جسٹس کے خلاف مہم چلائو۔ یہ سب سیاست نہیں تو کیا ہے؟ اس کے مقابلے میں ہماری سیاست شرافت‘ متانت اور دلیل کی سیاست ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ فوج کا سربراہ فوجی وردی میںسیاسی تقاریر کر رہا ہے‘ ووٹ مانگ رہا ہے۔ مخالفین کو تہس نہس کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے‘ قومی خزانے کو ہرجلسے میں بے دریغ لٹا رہا ہے۔ اگر یہ سیاست گندی سیاست نہیں تو کیا اسے فوجی پریڈ اور جنگی مشق (military exercise) کہا جائے گا؟ حکومت کا پورا اقدام اور اس پس منظر اور پیش منظر کی ہرہرحرکت سیاسی ہی نہیں‘ اوچھی سیاست بازی کی غماز ہے۔ اگر اہلِ سیاست اور قانون دان اس پر بھی ردعمل ظاہر نہ کریں تووہ اپنے فرائض منصبی کی ادایگی میں مجرمانہ کوتاہی کے مرتکب ہوں گے۔ سیاست خود کوئی برائی نہیں‘ جمہوری عمل تو عبارت ہی سیاست سے ہے۔ البتہ اوچھی سیاست نہیں ہونی چاہیے لیکن اس کا ارتکاب وکلا اور سیاست دانوں نے نہیں‘ جنرل صاحب اور ان کی حکومت نے کیا ہے۔ اس کے لیے ہماری بات نہیں‘ ان کے ان مداحوں کی سند بھی حاضر ہے جن کے بل بوتے پر فوج کے سربراہ سیاست فرما رہے ہیں۔
لندن کا روزنامہ دی ٹائمز اپنی ۱۴مارچ ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں Judicial Errorکے عنوان سے ادارتی کالم میں پاکستان کے حالات پر یوں تبصرہ کرتا ہے:
۱۹۹۹ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے صدرمشرف کا اصرار رہا ہے کہ ان کا مقصد پاکستان کے لیے حقیقی جمہوریت ہے… لیکن انھوں نے حسب وعدہ ملک میں ایک منتخب جمہوری حکومت کی واپسی کے لیے کوئی خاص سرگرمی نہیں دکھائی ہے۔
چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کی برطرفی اور اس کے خلاف عوامی ردعمل کا ذکرکرنے کے بعد دی ٹائمز فیصلہ دیتا ہے کہ:
Pakistan is literally without rule of law.
اور پھر چیف جسٹس چودھری کے ’عدالتی تحرک‘ پہلے سے جمع شدہ مقدمات کو نمٹائے اور خصوصیت سے لاپتہ ہوجانے والے افراد کے حقوق کی حفاظت کے باب میں مساعی کا ذکرکرنے کے بعد جنرل صاحب کے دوسروں پر سیاست چمکانے کے دعوے کے جواب میں بڑی مسکت انداز میں اداریے میں کہا گیا ہے کہ:
حکومت کے لیے کسی سیاسی محرک کا انکار لاحاصل ہے۔ اس کے اقدام کو تقریباً پوری دنیا میں اس سال کے انتخابات کے‘ اُن ضوابط کے تحت انعقاد سے پہلے جن کو قانونی طور پر چیلنج کرنے کی توقع ہے‘ عدلیہ کو سدھانے کی کوشش سمجھا جارہا ہے۔
اگر سیاست کا جواب سیاست سے نہ دیا جائے تو کیا کیا جائے؟ جنرل صاحب کے مقدمے کے بودے پن کا پول بھی ٹائمز نے یہ کہہ کر کھول دیا ہے کہ:
اب تک حکومت نے مسٹر چودھری کے خلاف جو کچھ کہاہے اگر ان کا مقدمہ اس سے بہت زیادہ خراب نہیں ہے تو ان کو بحال کردیا جانا چاہیے۔ اچھے جنرل جانتے ہیں کہ کب قدم پیچھے ہٹانے چاہییں۔ (ٹائمز، اداریہ‘ ۱۴ مارچ ۲۰۰۷ء)
نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، لاس اینجلز ٹائمز اور دوسرے مغربی اخبارات اور رسائل نے اپنے اپنے انداز میں یہی بات لکھی ہے کہ اصل کھیل سیاسی ہے اور جرنیل صاحب عدالت عالیہ کے دستوری اور قانونی امور اور حقوق انسانی کے معاملات میں حکومت پر گرفت سے پریشان ہیں‘ اور اس انتخاب کے سال میں اپنی وردی بچانے اور انتخاب کو من پسند انداز میں منعقد کرانے میں عدالت کی ممکنہ رکاوٹ کو دُور کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سیاست نہیں‘ بلکہ گندی اور پست سطح کی سیاست نہیں تو اور کیا ہے اور اس کا مقابلہ سیاسی تحریک سے نہیں تو پھر کس طریقے سے ہوسکتا ہے؟ ہم صرف اہم ذرائع یعنی لندن کے اخبار دی گاڑدیناور ہفت روزہ اکانومسٹ سے ضروری اقتباس دینے پر کفایت کرتے ہیں تاکہ جنرل صاحب اور ان کے میڈیا منتظمین کو اندازہ ہوجائے کہ ؎
پتّا پتّا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ توسارا جانے ہے
دی گارڈین لندن اپنے ۱۷ مارچ ۲۰۰۷ء کے اداریے Justice Deniedمیں‘ جنرل مشرف اور چیف جسٹس کی ملاقات کا حال بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے:
پاکستان ایک جوش کی کیفیت میں ہے۔ جب جنرل مشرف نے آٹھ سال قبل فوجی انقلاب کے ذریعے قبضہ کیا تھا‘ اس کے بعد مسٹر چودھری پہلے شہری ہیں جو اس کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں۔ کم قیمت پر اسٹیل مل کی نج کاری کے فیصلے کو اُلٹ دینے‘ اور ان سیکڑوں لوگوں کے مسئلے کو جنھیں انٹیلی جنس ایجنسیوں نے غائب کررکھا ہے لے کر اُٹھنے کی وجہ سے وہ حکومت کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہے تھے۔ لیکن مشرف کا وار حفظ ماتقدم کے طور پر بھی تھا۔
صدر کا انتخاب ایک پارلیمنٹ نے کیا ہے جس کی مدت اگلے سال ختم ہورہی ہے۔ مشرف کی اتنی مخالفت ہے کہ آنے والی پارلیمنٹ کا صاد کرنے کا امکان نہیں‘ خاص طور پر اس لیے کہ اس نے فوج کے سربراہ کا عہدہ چھوڑنے سے انکار کیا ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ ہی سے اپنا انتخاب کروانے کی کوشش پر بہت سے قانونی اقدام ہوں گے۔ اس لیے ضرورت ہے ایک تابع دار چیف جسٹس کو مسند پر بٹھانے کی۔
لندن اکانومسٹ پاکستان کی صورت حال کا اپنے کالم میں جائزہ لیتے ہوئے یہ لکھتا ہے:
پاکستان کے شمالی قبائلی علاقوں کو زیر کرنے کی فوج کی کوششیں جنرل کی گرتی ہوئی مقبولیت کی ایک وجہ ہیں۔ اس وجہ سے وہ لوگوں کو ایک امریکی کٹھ پتلی لگتا ہے۔ اس بات نے حال ہی میں پاکستان کے بڑے شہروں میں چھے خودکش حملوں سمیت دہشت گردی کی ایک لہر کو اٹھادیا۔ صدر کی کوشش یہ ہے کہ اقتدار پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے عدلیہ کا بازو مروڑ دیا جائے۔
اپنے اب تک کے دوسالہ دور میں مسٹر چودھری نے کم و بیش ہر وہ چیز کی ہے جس کی توقع ایک پاکستانی جج سے نہیں کی جاتی۔ انھوں نے بلوچستان میں مشتبہ باغیوں کے غائب کیے جانے پر انکوائری شروع کروا دی۔ انھوں نے حکمران سیاست دانوں اور پولیس کے سربراہوں کو‘ غریبوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینے پر سخت سرزنش کی۔ انھوں نے شادیوں کی شان و شوکت سے بھرپور تقریبات پر پابندی لگائی کہ اس سے طبقاتی امتیاز پیدا ہوتا ہے۔ انھوں نے افراطِ زر کے خلاف مقدمات سنے‘ پبلک پارکوں کو امیروں کے لیے گاف کلب بنانے کی ممانعت کی اور بچوں کی شادیوں کو غیرقانونی قرار دیا۔ گذشتہ برس انھوں نے ایک بڑی اسٹیل مل کی نج کاری کو بولیوں کے عمل میں بے قاعدگی کی وجہ سے روک کر صدر کو خاص طور پر ناراض کیا۔
اگر جنرل مشرف واقعتا مزید پانچ سال کے لیے صدر اور فوجی سربراہ رہنا چاہتے ہیں تو قانونی چیلنجوں کے ایک سیلاب کی توقع کرسکتے ہیں۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے واضح بات ہے کہ ایک آزاد ذہن کا اعلیٰ جج ان کی پسند کا نہیں ہو سکتاتھا۔ لیکن مسٹرچودھری کے معطل کرنے سے صورت حال زیادہ خراب ہوگئی ہے۔
اگر مسٹر چودھری کو برطرف کیا جاتا ہے تو جنرل مشرف کے لیے یہ دعویٰ کرنا مشکل ہوگا کہ ان کی حکومت دستوری ہے‘ اور اگر انھیں بحال کیا جاتا ہے تو وہ ان کے لیے بہت سی پریشانیوں اور دردسر کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایسے میں لوگ سوچتے ہیں: الیکشن ہوں گے بھی؟
سیاست چمکانے اور عدالت کے زیرسماعت ہونے کے بارے میں اتنی وضاحت کافی ہے۔ نیز مندرجہ بالا معروضات سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اصل مسئلہ اس ریفرنس کا نہیں جو ساری بے قاعدگیوں کے بعد بظاہر اب داخل کردیا گیا ہے بلکہ اپنے سیاسی کھیل کے ’رنگ میں بھنگ پڑنے‘ کے خطرے سے بچنے کے لیے کھیلا جا رہا ہے اور اس کھیل نے ملک کے اندر بھی جرنیل صاحب کی ساکھ کو‘ (جو پہلے ہی کون سی اچھی تھی) بالکل خاک میں ملا دیا ہے اور پوری دنیا میں پاکستان اور خصوصیت سے جرنیل صاحب نے جو سیاسی کھڑاگ کیا تھا اس کا پول بھی کھول دیا ہے۔
اس حقیقی پس منظر کی تفہیم کے ساتھ ساتھ اس بات کی ضرورت بھی ہے کہ دستوری اور قانونی اعتبار سے بھی ان اقدامات کا جائزہ لیا جائے جو ۹ مارچ اور اس کے بعد کیے گئے ہیں۔
سب سے پہلی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ملک کا دستور‘ تمام کچھ تبدیلیوں اور ترامیم کے باوجود اختیارات کی تقسیم کا ایک واضح نقشہ پیش کرتا ہے اور اقتدار کو تین متعین اداروں میں تقسیم کرتا ہے یعنی انتظامیہ‘ مقننہ اور عدلیہ۔ انتظامیہ کا سربراہ وزیراعظم ہے‘ جب کہ صدرمملکت وفاق کی علامت۔ صدر ان امور کو چھوڑ کر جن میں اسے صواب دیدی اختیارات حاصل ہیں‘ وزیراعظم اور کابینہ کی ہدایات کا پابند ہے۔ مقننہ کاکام قانون سازی‘ پالیسی ہدایات دینا اور انتظامیہ پر نظر رکھنا اور اس کا احتساب ہے‘ جب کہ عدلیہ دستور اور قانون کی محافظ اور دونوں سے آزاد اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ ہم اس وقت اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ موجودہ صدر نے اپنی فوجی وردی کی بنیاد پر پوری انتظامیہ کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے اور کابینہ بشمول وزیراعظم ان کے تابع مہمل بنے ہوئے ہیں جو دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی اور جمہوری عمل کو مسخ کرنے کا سبب بنا ہوا ہے لیکن اس سے بڑھ کر اب وہ عدالت پر بھی مکمل کنٹرول چاہتے ہیں اور اس کے لیے ۹ مارچ کا اقدام کیا گیا ہے۔ اس سے اختیارات کی تقسیم (separation of power)کا پورا نقشہ درہم برہم ہوگیاہے۔ یہی وہ چیز ہے جو آمریت اور فسطائیت کی طرف لے جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ووڈرو ولسن نے جو امریکی صدر ہونے کے ساتھ ایک قانونی ماہر بھی تھا‘ یہ اصول بیان کیا ہے کہ:
اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ طاقت کا غلط استعمال نہیں ہوگا‘ واحد راستہ یہ ہے کہ اس کو محدود کیا جائے‘ یعنی طاقت کو طاقت سے روکا جائے۔ آزادی کی تاریخ حکومت کی طاقت پر تحدیدات کی تاریخ ہے۔
اور امریکی جج جسٹس برانڈل نے ایک مشہورمقدمہ Myees vs. United States کے فیصلے میں اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا‘ جسے دستور کا ایک مسلّمہ اصول شمار کیا جاتا ہے کہ:
۱۷۸۷ء کے کنونشن میں‘ اختیارات کی علیحدگی کا ڈاکٹرائن منظور کیا گیا‘ اس لیے نہیں کہ کارکردگی کو بڑھایا جائے بلکہ من مانی طاقت کے استعمال کو محدود کرنے کے لیے۔ مقصد ٹکرائوسے بچنا نہیں تھا بلکہ تین شعبوں (مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ) میں حکومت کے اختیارات کی تقسیم کی بنا پر ناگزیر ٹکرائو عوام کو آمریت سے بچانے کا سبب بن جاتا ہے۔(ملاحظہ کیجیے:Fundamental Law of Pakistan ، اے کے بروہی‘ ص ۷۰-۷۱)
ہمارے دستور کی بھی یہی بنیاد ہے لیکن unity of command کے نام پر جرنیل صاحب نے اس کا حلیہ بگاڑدیا ہے اور ملک پر من مانے اور آمرانہ حکمرانی (arbitarary rule) کی سیاہ رات طاری کردی ہے۔
دستورکی رو سے عدلیہ‘ انتظامیہ سے مکمل طور پر آزاد ہے۔ صدر کو دستور کے مطابق اور دستوری روایات کا احترام کرتے ہوئے‘ جنھیں Judges Case میں قانون کا درجہ دے دیا گیا ہے‘ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے تقرر کا اختیار دیا گیا ہے لیکن ایک بار کسی جج کے تقرر کے بعد دستور نے صدر اور انتظامیہ سے یہ اختیار سلب کرلیا ہے کہ وہ جس طرح چاہے اور جب چاہے ایک جج کو فارغ کردے‘ رخصت پر بھیج دے‘ غیرفعال بنا دے‘ معطل کردے یا کسی اور شکل میں اس کے اختیارات میں تخفیف کرسکے۔ دستور کی دفعہ ۲۰۹ میں واضح طور پر لکھ دیا گیا ہے کہ صرف اس دفعہ کے تحت اعلیٰ عدالت کے کسی جج کے سلسلے میں کوئی کارروائی ہوسکتی ہے۔ وزیرقانون کی یہ ہرزہ سرائی کہ جسے ججوں کے تقرر کا اختیار ہے‘ اسے ان کو رخصت کرنے یا معطل کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے اس لائق ہی نہیں کہ اس پر سنجیدہ گفتگو کی جائے۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے۔
بلاشبہہ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیںاور کوئی قانون سے بالا نہیں اور اگر کسی جج نے اپنے منصب کے منافی کوئی کام کیا ہے تو اس کا بھی اسی طرح محاسبہ ہونا چاہیے جس طرح کسی اور کا۔ لیکن بنیادی اصول یہ ہیں کہ:
اوّل، ہر اقدام اور احتساب قانون کے تحت اور اس کے دائرے کے اندر ہو۔
دوم، نیز صرف اسے اقدام کرنے کا حق ہے جسے قانون یہ حق دیتا ہے۔
سوم، اس حق کا استعمال بھی قرار واقعی قانونی عمل (due process of law) ہی کے تحت ہوسکتا ہے۔
چہارم، قانون کا استعمال من پسند (selective) نہیں بلکہ سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہ جس سے آپ خوش ہیں اس کے لیے قانون کا کوئی وجود نہ ہو اور جس سے آپ ناراض ہوجائیں اس کے لیے ’قانون سب کے لیے‘ کا فرمان جاری ہوجائے۔
اور پنجم، قانون کا استعمال بدنیتی پر مبنی نہ ہو یعنی اسے نیک نیتی (bonafide) سے استعمال کیا جائے بدنیتی (malafide)سے نہیں۔
چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کے معاملے میںصاف نظر آرہا ہے کہ قانون کے ان پانچوں مسلمہ اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پوری وکلا برادری اور ملک کے تمام ہی دینی‘ سیاسی اور پروفیشنل اداروں اور دانش وروں نے اسے قانون اور انصاف کا قتل قرار دیا ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل ایک دستوری ادارہ ہے جس کی تشکیل بھی دستور میں کردی گئی ہے جسے کوئی بدل نہیں سکتا۔ صدر کو دستور یہ اختیار دیتا ہے کہ کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس اسے بھیج دے۔ الزامات کی تحقیق اور جرم کے تعین کا اختیار صدر‘ وزیراعظم یا کسی اور کو حاصل نہیں اور نہ صدر کا یہ کام ہے کہ چیف جسٹس سے سوال جواب کرے اور کہے کہ چونکہ وہ مجھے مطمئن نہیں کرسکے اس لیے میں ریفرنس بھیج رہا ہوں۔ یہ دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ہمیں ان دستوری ماہرین کی راے تسلیم کرنے میں تامل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس ہو ہی نہیں سکتا۔ دفعہ ۲۰۹ میں اس کے لیے اگر لفظی گنجایش ہے بھی‘ تو یہ عدل کے اساسی اصول کے خلاف ہے۔ ہماری نگاہ میں ریفرنس تو چیف جسٹس کے خلاف بھی دیا جاسکتا ہے لیکن یہ دستوری طور پر متعین کردہ سپریم جوڈیشل کونسل ہی کو بھیجا جاسکتا ہے۔ قانون کے ایک دوسرے اساسی اصول کہ ایک شخص اپنے معاملے میں خود جج نہیں ہوسکتا اس کی رو سے ایسی صورت میں متعلقہ جج اس ریفرنس کی حد تک کونسل میں شریک نہیں ہوگا اور دستور کے مطابق دوسرا سینیر جج اس کا رکن ہوجائے گا۔ صدر کا چیف جسٹس کو کیمپ آفس میں طلب کرنا‘ خود استفسار کرنا‘ جواب طلب کرنا اور وہ بھی فوجی وردی میں دستور اور شایستگی ہرایک کے خلاف تھا۔ اس طرح صدر نے دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے اور دستورکے ایک ستون یعنی عدلیہ کی آزادی پر ضرب لگائی ہے۔
دوسری چیز چیف جسٹس سے استعفا طلب کرنے سے متعلق ہے۔ یہ اختیار دستور نے صدر کو نہیں دیا اور انھوں نے یہ مطالبہ کرکے دستور کی خلاف ورزی اور عدلیہ کی آزادی پر ایک اور حملہ کیا ہے۔
تیسرا غیرقانونی عمل چیف جسٹس کے استعفا نہ دینے کے عندیے کے اظہار پر انھیں معطل (suspend) کرنے کا ہے جس کا کوئی اختیار صدر یا سپریم جوڈیشل کونسل کسی کو بھی حاصل نہیں۔ چیف جسٹس اس وقت تک چیف جسٹس رہتا ہے جب تک اس کے خلاف کونسل فیصلہ نہ دے دے۔ آداب عدالت کا تقاضا ہے کہ وہ خود چھٹی پر چلا جائے یا خود کو ان امور سے غیر متعلق کرلے جو فیصلے پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ لیکن اسے غیرفعال کرنا یا جبری رخصت پر بھیجنا دستور اور قانون کے خلاف ہے۔ اب ۱۹۷۰ء کے جس قانون کی بات کی جارہی ہے وہ۱۹۷۳ء کے دستور کے بعد غیرمؤثر ہوچکا ہے اور ۱۹۷۵ء کے جواز (validation) کا تعلق صرف ان امور سے ہے جو اس قانون کے تحت ۱۹۷۰ء اور ۱۹۷۵ء کے درمیان ہوئے۔ آیندہ کے لیے ۱۹۷۳ء کا دستور اصل حَکَم ہے۔
چوتھی دستوری خلاف ورزی چیف جسٹس کی موجودگی میں قائم مقام چیف جسٹس کا تقرر اور دستور کے واضح احکام میں ’available‘ کا غیرقانونی اضافہ کرکے سینیرترین جج کی جگہ اس کے جونیر جج کا اس عہدے پر تقرر ہے۔ یہ روایت خود بڑی غلط ہے اور عدلیہ کی آزادی کے لیے بڑا خطرہ اور انتظامیہ کے لیے دراندازیوں کا دروازہ کھولنے والی ہے۔
پھر یہ بھی ایک معما ہے کہ چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری ۱۱بجے صبح سے ۴بجے شام تک خاکی صدر کے کیمپ میں محصور تھے۔ جرنیل صاحب کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے جمعہ کی نماز سے قبل یعنی ایک اور دو بجے کے درمیان چیف جسٹس کو ریفرنس کی چارج شیٹ دی۔ قائم مقام چیف جسٹس کی تقریب حلف برداری ۴ بجے ہوجاتی ہے اور اس میں سندھ اور پنجاب کے چیف جسٹس حضرات نے بھی شرکت کی جو جوڈیشل کونسل کے رکن تھے اور جن کو خاص طور پر خصوصی جہاز کے ذریعے لایا گیا جس میںلازماً ۴گھنٹے لگے ہوں گے۔ پھر طرفہ تماشا ہے کہ وزارتِ قانون کا نوٹی فکیشن ۳بجے جاری ہوا ہے جس میں قائم مقام چیف جسٹس کے تقرر کا اعلان ہے اور کونسل نے ۵بجے ایک ہنگامی اجلاس میں چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کو غیرفعال کرنے کا فیصلہ کیا۔
اوّل تو یہی محل نظر ہے کہ کیا دستور‘ جوڈیشل کونسل کو یہ اختیار دیتا ہے؟ لیکن بفرض محال اگر یہ اختیار تھا بھی‘ تو صدر کے چیف جسٹس کو غیرفعال کرنے کے بعد اسے غیرفعال کرنے کی کیا ضرورت تھی۔کیا اس کے یہ معنی نہیں کہ صدر نے غیرفعال کرنے کا جو اقدام کیا وہ صحیح نہیں تھا اور اسی وجہ سے کونسل نے دوبارہ یہ اقدام کیا۔ لیکن اگر صدر کا وہ اقدام درست نہیں تھا تو قائم مقام چیف جسٹس کا تقرر اور اس کے حلف کا اقدام قانونی اور دستور کے مطابق کیسے ہوسکتے ہیں؟ خاص طور پر‘ جب کہ دستور میں سینیرترین جج کا قائم مقام مقرر کیا جانا دفعہ ۱۸۰ کے تحت ایک لازمی فرض (obligatory imperative) ہے اور availableکا اضافہ دستور میں کرنے کا کسی کو اختیار نہیں۔
یہ سب بڑے سنگین دستوری اور قانونی سوال ہیں اور ان کا سامنا کیے بغیر ملک قانون کی حکمرانی کی طرف پیش قدمی نہیں کرسکتا۔ جرنیل صاحب نے یہ سب کچھ کرکے خود کو دستوری اور قومی مواخذے کا مستحق بنالیا ہے___ دیکھیے ’قانون سب کے لیے‘ کا اصول کب حرکت میں آتا ہے۔
جس طرح یہ سارا اقدام کیا گیا ہے‘ اس کے دستوری پہلوؤں کے ساتھ اہم سیاسی اور اخلاقی پہلو بھی ہیں۔ چیف جسٹس کو کیمپ آفس میں بلانا‘ ان سے سوال جواب کا وہ عمل کرنا جو صرف جوڈیشل کونسل ہی کسی جج سے کرسکتی ہے‘ اور پھر فوج کے چیف آف اسٹاف کی وردی میں یہ عمل کرنا اور ٹی وی اور میڈیا میں اس کی تصاویر جاری اور نشر کرنا‘ پھر جب تک قائم مقام چیف جسٹس کی حلف برداری مکمل نہ ہوگئی۔ چیف جسٹس کو کیمپ آفس میں محبوس رکھنا‘ جب کہ جرنیل صاحب بقول خود اس عرصے میںیعنی ۳بجے کی فلائٹ سے کراچی روانہ ہوگئے۔ (یہ بات انھوں نے جیو کے انٹرویو میں خود کہی ہے) پھر چیف جسٹس کی کار سے جھنڈا اُتارنا‘ ان کے گھر سے جھنڈا اُتارنا‘ ان کو سپریم کورٹ نہ جانے دینا اور زبردستی ان کو گھر میں محبوس کرنا‘ ان کے گھر کی پولیس اور رینجرز کی ناکہ بندی‘ ٹیلی فون‘ ٹیلی وژن‘ اخبارات‘ ذاتی عملہ ہر چیز سے محروم کردینا‘گھر کے اندر سیکورٹی ایجنسیوں کا ہرچیز پر قبضہ کرلینا اور پورے خاندان کو ایک وقت تک صرف ایک کمرے میں بند کردینا‘ ملنے جلنے پر پابندی___ یہ کس اخلاق کا مظاہرہ ہے؟ چیف جسٹس قومی پروٹوکول میں صدر‘ وزیراعظم اور سینیٹ کے صدر کے بعد چوتھے یا پانچویں نمبر پر آتا ہے۔ آرمی کے چیف آف اسٹاف کا نمبر پھر اس کے دس نمبروں کے بعد آتا ہے۔ پھر ابھی آپ نے ریفرنس بھیجا ہے‘ اس کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں ہوا لیکن جرم کے اثبات سے پہلے ایسی گھنائونی سزا قانون‘ انصاف اور اخلاق ہر ایک کے خلاف ہے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو (خواہ وہ کیسے ہی اُونچے مراتب پر فائز ہوں) سزا نہ دینا قومی جرم ہوگا۔
یہ تو ۹مارچ کی بات ہے۔ پھر چیف جسٹس کے ساتھ ۱۳ مارچ کو جو کچھ ہوا‘ وہ اس سے بھی زیادہ شرم ناک اور مجرمانہ فعل ہے۔ اس پورے عرصے میں وکلا برادری کے احتجاج اور سیاسی جماعتوں اور عوام کی احتجاجی سرگرمیوں کو جس طرح اندھی قوت کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی ہے اور میڈیا کے ذریعے صریح جھوٹ اور دھوکے کی جو مہم چلائی گئی ہے‘ اس نے قانون اور اخلاق دونوںکی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ جو حکمران اس سطح پر اتر سکتے ہیں وہ ہر قسم کے جواز سے محروم ہوجاتے ہیں اور ان کا شمار مجرموں کی صف میں ہوتا ہے۔ کیا جرنیل صاحب اور ان کے حواریوںکو ان حقائق کا کچھ بھی شعور ہے؟ اور کیا وہ قوم اور پوری دنیا کو بالکل بے عقل سمجھتے ہیں کہ گوئبلز کو مات کرنے والے ان کرتبوں سے وہ انھیں بے وقوف بناسکتے ہیں؟ملک اور بین الاقوامی میڈیا پر جس کی نظر ہے وہ جانتا ہے کہ حکومت کی ان تمام کارستانیوں کا انجام اس سے مختلف نہیں کہ آسمان پر تھوکا منہ پر___
چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کی جو جھلکیاں سرکاری’خفیہ خبررسانی‘ (leakege) کے ذریعے سامنے آئی ہیں‘ ان کے بارے میں سب حیران ہیں کہ کیا یہی وہ چارج شیٹ ہے جس کے سہارے جرنیل صاحب نے یہ اقدام کیا ہے؟ جسٹس افتخارمحمد چودھری نے اپنے کھلے دفاع کا اعلان کیا ہے اور یہ ان کا حق ہے اور فرض بھی۔ اگر ان سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو اس کا احتساب ضرور ہونا چاہیے۔ لیکن جو کچھ اخبارات میں آیا ہے یا جو ریفرنس سے پہلے ان کے میڈیا ٹرائل کے ذریعے قوم کے سامنے لایا گیا ہے اس میں بظاہر کوئی ایسی چیز نہیں جسے دستور‘ قانون یا عدالتی آداب کی صریح اور قابلِ گرفت خلاف ورزی کہا جاسکے۔ لیکن اس سلسلے میں اصل فیصلہ انصاف اور حق کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل ہی کرسکتی ہے اور اسے ہی کرنا چاہیے۔ البتہ ’قانون سب کے لیے‘ کے علَم برداروں سے اتنی گزارش کرنے کی جسارت ہم بھی کرسکتے ہیں کہ حضرت عیسٰی ؑکا مشہور واقعہ آپ کے لیے بھی بہت کچھ پیغام رکھتا ہے کہ:
Whoever of you has committed no sin may throw the first stone.
تم میں سے جس نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے وہ پہلا پتھر پھینکے۔
اور تاریخ گواہ ہے اس مجمع میں پہلا پتھر پھینکنے والا کوئی سامنے نہ آیا۔
جیساکہ ہم نے پہلے کہا آج صرف جسٹس افتخارمحمد چودھری ہی کا مقدمہ ہی زیرسماعت نہیں‘ ہماری عدلیہ کا بحیثیت ادارہ بھی امتحان ہے اور پوری قوم ہی سخت امتحان کی گھڑی میں ہے۔ عدلیہ کی تاریخ میں روشن اور تاریک دونوں پہلو نظر آتے ہیں۔ جس طرح مختلف ادوار میں نظریۂ ضرورت کے نام پر اصول اور اداروں کے صحیح خطوط پر ارتقا کے عمل کو نقصان پہنچا ہے اب اس کی تلافی کا وقت آگیا ہے۔ نیز اربابِ اختیار کے پروٹوکول‘ مالی فوائد اور مراعات کا مسئلہ بھی اب ڈھکا چھپا نہیں بلکہ اس کا کھل کر سامنا کرنا ہوگا۔
مسئلہ ایک فرد کے کاروں اور جہازوں کے استعمال کا نہیں‘ حکمرانی کے اس پورے کلچر کا ہے جس کو ایک مخصوص طبقے نے ملک پر مسلط کردیا ہے اور ہر کوئی اس دوڑ میں شریک ہوچکا ہے۔ بات عدلیہ اور انتظامیہ کے تعلق ہی کی نہیں بلکہ ملکی اور غیرملکی تجزیہ نگاروں کے اس اضطراب پر بھی ٹھنڈے دل کے ساتھ غوروفکر کرنے کی ہے جسے military judiciary allianceتک کا نام دیا گیا ہے۔ ہرفوجی طالع آزما کے لیے جواز فراہم کرنے والوں اور ہر عبوری دستور پر حلف لینے والوں کی روش پر اب نہ صرف کھلا احتساب ہونا چاہیے بلکہ اس بُری روایت کو ختم ہونا چاہیے تاکہ ملک میں حقیقی جمہوریت‘ دستور اور قانون کے احترام‘ اداروں کے استحکام‘ اداروں کی بنیاد پر پالیسی سازی اور فیصلہ کرنے کا نظام قائم ہوسکے اور یہ قوم اور ملک جن مقاصد کے لیے جمہوری جدوجہد اور اُمت مسلمہ پاک و ہند کی بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔ آج عدلیہ اور سیاسی قیادت ہی نہیں پوری قوم کے لیے فیصلے کی گھڑی (moment of truth) ہے اور سابق جج اور نام ور وکیل فخرالدین جی ابراہیم نے ایک مجلے میں جس چیلنج کی نشان دہی کردی ہے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کا وقت ہے:
If people give up protesting now, they might as well forget about independent judiciary.
اگر لوگ اس وقت احتجاج کرنا چھوڑ دیں تو وہ بھلے آزاد عدلیہ کو بھول جائیں۔
ان کی بات سے مکمل اتفاق کے ساتھ ہم اس پر یہ اضافہ ضروری سمجھتے ہیں کہ بلاشبہہ اولین چیلنج عدلیہ کی آزادی اور اس پر فوجی حکمرانی کے شب خون سے پیدا شدہ حالات کے مقابلے کا ہے لیکن بات اس سے زیادہ ہے۔ یہ حملہ جس وجہ سے ہوا ہے وہ سیاست میں فوج کی مداخلت اور انتظامیہ پر چیف آف اسٹاف کا قبضہ ہے۔ اب عدلیہ کی آزادی بھی اسی وقت حاصل ہوسکے گی جب جرنیلی آمریت سے نجات حاصل کی جائے‘دستور کو اس کی اصل شکل میں نافذ کیا جائے‘ پارلیمنٹ کی بالادستی بحال ہو‘ دستور کی تینوں بنیادوں پر خلوص اور دیانت سے عمل ہو یعنی اسلام‘ پارلیمانی جمہوریت اور حقیقی فیڈرل نظام کا قیام۔ یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب قومی جدوجہد عدلیہ کی آزادی کے ہدف کے ساتھ عدلیہ پر حملے کے اسباب اور ان قوتوں کو بھی غیرمؤثر بنانے پر توجہ مرکوز کرے جو دستور‘ جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی کی بساط لپیٹ دینے پر تلے ہوئے ہیں۔
یہ اسی وقت ممکن ہے جب اقتدار دستور کے مطابق عوام کو منتقل کیا جائے‘ جرنیلی آمریت سے نجات پائی جائے اور حقیقی طور پر آزاد عبوری حکومت کے تحت آزاد الیکشن کمیشن کے تحت صاف اور شفاف انتخابات منعقد کیے جائیں تاکہ عوام اپنی آزاد مرضی سے اپنے نمایندے منتخب کریں جو دستور کے مطابق اور قومی احتساب کے بے لاگ نظام کے تحت اپنی ذمہ داری ادا کریں۔ فوج اپنے پروفیشنل دفاعی ذمہ داریوں تک محدود ہو اور سیاست کو سرکاری ایجنسیوں کی دست برد سے پاک کیا جائے۔ جزوی اہداف سے اصل مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے۔ اب اس جدوجہد کو مکمل جمہوریت اور دستور کے الفاظ اور روح دونوں کے مکمل نفاذ تک جاری رہنا چاہیے۔
پاکستان کی موجودہ جرنیلی حکومت کی کشمیر ’پالیسی‘ (جسے پالیسی کہنا لفظ پالیسی کے ساتھ ناانصافی ہے کہ یہ پالیسی نہیں صرف ’پسپائی ہی پسپائی‘ ہے) نے پاکستان اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو ایک خطرناک صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔ آج تک پاکستان کی کسی حکومت نے اس اصولی پالیسی سے انحراف نہیں کیا کہ کشمیر پر بھارت کا تسلط ناجائز اور غاصبانہ ہے اور مسئلے کا واحد حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ریاست کے عوام کی آزاد راے سے (عالمی نگرانی میں منعقد ہونے والے استصواب کے ذریعے) اپنے مستقبل کو طے کرنے کے سوا کوئی نہیں۔ پاکستانی قوم اپنے اس موقف پر جو ایک قومی عہد (national covenant) کی حیثیت رکھتا ہے‘ قائم ہے جس کا بھرپور اظہار اس سال ۵فروری کے یوم یک جہتی پر ایک بار پھر ہوا ہے۔ اسی طرح جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت بھی بھارت کے تسلط کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور اپنی آزادی کے لیے اب تک ۵لاکھ سے زیادہ جانوں کا نذرانہ پیش کرچکی ہے اور اب بھی مقبوضہ کشمیر کی عوامی جدوجہد پر تھکاوٹ اور اضمحلال کا کوئی سایہ نظر نہیں آتا‘ بلکہ پاکستان کی طرف سے شدید مایوسیوں کے باوجود کشمیری اپنی جدوجہد اور قربانیاں پورے جوش و خروش سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور پاکستانی قوم سے اب بھی مایوس نہیں ہوئے ہیں۔ اس کا تازہ ترین اعتراف بھارت کے موقر مجلے Economic & Political Weekly نے اپنے ۲۷جنوری ۲۰۰۷ء کے اداریے میں ان الفاظ میں کیا ہے کہ:
’’دونوں طرف خودمختار مملکتوں کے بغیر لائن آف کنٹرول کو نرم کرنا کوئی قابلِ عمل تجویز نہیں ہے۔ یہ امر اہمیت رکھتا ہے کہ پاکستان نے تو اپنے مقاصد کے لیے لائن آف کنٹرول کی حوصلہ افزائی کی اور اس سے فائدہ اٹھایا‘لیکن ۱۹۸۹ء سے وادی میں جو جنگجویانہ شدت ظاہر ہوئی‘ وہ دراصل ریاست میں جاری طرزِحکمرانی کے خلاف مضبوط کشمیری مخالفت کا نتیجہ تھی۔ اسی وجہ سے دہشت گردی نے ریاست میں جڑیں پکڑلیں۔ جوں ہی سری نگر جنسی اسیکنڈل یا افضل گوروکی سزاے موت جیسے مسائل سامنے آتے ہیں‘ احتجاج کا سلسلہ وادی کو ہلا ڈالتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بیگانگی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ‘‘۔
کشمیر کا مسئلہ محض زمین کا مسئلہ نہیں اور نہ اس کا تعلق سرحدوں کو تسلیم کرنے یا نرم کرنے سے ہے۔ اصل مسئلہ جموں و کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت اور تقسیم ہند کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کا ہے۔ موجودہ حکومت اس سے دست بردار ہونے کی تاریخی غلطی کر رہی ہے جسے نہ پاکستانی قوم تسلیم کرے گی اور نہ جموں و کشمیر کے مسلمان۔ موجودہ حکومت وہی بات کہہ رہی ہے جو بھارت چاہتا ہے اور بھارت ابھی اس سے بھی زیادہ پاکستان کو ذلیل کرنے پر تلا ہوا ہے۔ Economic & Political Weekly اپنے اس اداریے (۲۷ جنوری ۲۰۰۷ء) میں جنرل پرویز مشرف کی کشمیرپسپائی کا پول اس طرح کھولتا ہے کہ گو ابھی تک:
’’کوئی بھی واضح بات طے نہیں ہوئی ہے‘ جیساکہ وزیرخارجہ پرتاپ مکرجی کے گذشتہ ہفتے اسلام آباد کے دورے میں ظاہر ہوا‘‘۔
لیکن پھر بھی امیدوں کے چراغ جلائے جارہے ہیں۔
’’تاہم بھارت پاکستان پر نظر رکھنے والوں میں ایک نئی تقریباً ناقابلِ محسوس اُمید کی کیفیت ہے‘‘۔
لیکن اس کی وجہ اصل مسئلے کے حل کی کوئی راہ نہیں بلکہ پاکستان کی موجودہ قیادت کے دل و دماغ اور عزائم اور اہداف کی تبدیلی ہے۔ اس اداریے میں کہا گیا ہے کہ:
’’یہ بنیادی طور پر لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد تسلیم کرنے پر پاکستان کی رضامندی اور بھارت کی طرف سے اس لائن کو نرم کرنے اور جموں و کشمیر میں خودمختار حکومت کی خواہش کے لیے گنجایش پیدا کرنے پر آمادگی سے پیدا ہوتی ہے۔ اُمت کے لیے خودمختاری اور لائن آف کنٹرول کے حوالے سے مجوزہ تبدیلیاں مستقل لیکن ___سرحد کو تسلیم کرنا‘ دونوں باتیں بھارت کے مفاد میں ہیں‘‘۔
اس خطرناک پس منظر میں قوم کو ایک بار پھر دو ٹوک انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسئلے کا اصل حل کیا ہے۔ ہم اس موقع پر ذیل میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی وہ تقریر شائع کر رہے ہیں جو انھوں نے ۲۵ نومبر ۱۹۶۵ء کو مظفرآباد (آزادکشمیر) کے کالج گرائونڈ میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کی تھی۔ اس جلسے کی صدارت اس وقت کے وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم خان نے کی اور مولانا کا استقبال ان الفاظ میں کیا:’’میں حاضرین جلسہ کی طرف سے امیرجماعت اسلامی پاکستان مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ اور ان کے رفقا کا تہِ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے یہاں آنے کی تکلیف فرمائی۔۱؎ ان کی آمد ہمارے لیے باعثِ سعادت ہے۔ کشمیر کے لیے مولانا مودودی نے ناقابلِ فراموش کام کیا ہے۔ موجودہ حالات میں جماعت اسلامی کی خدمات تاریخی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ مہاجرین کشمیر کے لیے جماعت اسلامی نے جو کام کیا ہے‘ اسے ہم کبھی نہیں بھول سکتے‘‘۔
مولانا مودودی نے ۱۹۶۵ء کی جنگ کے متاثرین سے ہمدردی اور ان کی پامردی پر خراجِ تحسین پیش کرنے کے بعد جو کچھ فرمایا وہ آج ۲۰۰۷ء میں بھی مشعلِ راہ ہے۔(مدیر)
حضرات! یہ سوال آج ہر شخص کی زبان پر ہے کہ کشمیر کے اس مسئلے کا ‘جو ہمیں درپیش ہے آخر حل کیا ہے؟ ہر پاکستانی خواہ وہ مغربی پاکستان میں ہو یا مشرقی پاکستان میں‘ پوچھ رہا ہے کہ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے؟ اور جلدی سے جلدی کشمیر میں اپنے مسلمان بھائیوں کو مظالم سے کیسے نجات دلائی جائے؟ میں جہاں کہیں بھی جاتاہوں‘ جن لوگوں سے بھی ملتا ہوں وہ بار بار اس سوال کو اُٹھاتے ہیں اور یہاں بھی جب سے آیا ہوں بار بار یہی سوال سامنے آیا ہے۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اس مسئلے کو حل کرنے کی زیادہ سے زیادہ چار صورتیں ہیں۔ اگر یہ حل ہوسکتا ہے تو ان میں سے کسی ایک صورت سے حل ہوسکتا ہے۔ ہمیں جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے کہ ان صورتوں میں سے کون سی صورت اپنے اندر کتنا کچھ امکان رکھتی ہے:
فی الواقع یہ بددیانتی ہی تھی جس نے اُن کو اس بات پر آمادہ کیا کہ تقسیم کے وقت اپنے ہمسائے کے ایک حصے پر بھی قبضہ کرلیا۔ پھر اُن کے اندر اتنی انسانیت اور اتنا اخلاق بھی موجود نہیں تھا کہ اپنے قول و قرار کا پاس کرتے۔ کیوں کہ اگر تھوڑی دیر کے لیے حق اور انصاف کے سوال کو نظرانداز بھی کردیا جائے تو خود انھوں نے جس چیز کا اقرار کیا تھا وہ ڈوگرہ راج کی دستاویز الحاق کو قبول کرتے وقت ان کا اپنا یہ اعلان تھا کہ ہم اسے عارضی طور پر قبول کر رہے ہیں اور اس کا آخری فیصلہ جموں اور کشمیر کے باشندوں کی راے پر ہوگا۔ یہ خود ان کا اپنا قول و قرار تھا‘ ان کا اپنا اعلان تھا جس سے وہ منحرف ہوگئے۔
سوال یہ ہے کہ جو قوم اتنی بدعہد ہے اور جس کے لیڈر اس قدر انسانی اخلاق سے عاری ہیں کہ اپنے قول و قرار سے پھر جانے اور اپنی بات کو نگل جانے میں بھی انھوں نے کوئی تامّل نہیں کیا‘ ان سے بات چیت کس بات پر کی جائے؟ تمام دنیا کی قوموں کے سامنے بیٹھ کر اُنھوں نے یہ عہد کیا تھا اور ۱۹۴۸ء اور ۱۹۴۹ء میں مجلس اقوامِ متحدہ میں انھوں نے اس بات کو قبول کیا تھا کہ کشمیر کے باشندوں کو راے شماری کے ذریعے سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا اور اس طرح وہ خود فیصلہ کریں گے کہ وہ بھارت اور پاکستان میں سے کس کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اس قرارداد کو بھارت نے خود مانا اور ۱۹۵۸ء تک برابر اس کو مانتا رہا لیکن آج اس کے لیڈروں کو یہ کہتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں ہورہی کہ کشمیر بھارت کا غیرمنفک حصہ ہے۔ آج وہ اس کو اپنا ’اٹوٹ انگ‘ کہتے ہیں اور ان کو یہ کہتے ہوئے ذرہ برابر شرم نہیں آتی۔ نہ ان کا فلسفی صدر اس پر شرماتا ہے اور نہ ان کے شاستری صاحب (صدر ڈاکٹر رادھا کرشنن اور شاستری وزیراعظم) اس پر شرماتے ہیں۔
سوال یہ ہے جس قوم کی اخلاقی حالت یہ ہے کہ اس کا ایک ایک فرد جانتا ہے کہ کشمیر پر ان کا کوئی حق نہیں ہے۔ کشمیر مسلم اکثریت کا علاقہ ہے اور خود تقسیمِ ہند کی رُو سے اسے پاکستان ہی میں شامل ہونا چاہیے اور پھر وہ سب یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے اپنے قول و قرار اس معاملے میں کیا ہیں‘ اس کے باوجود وہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتے ہیں___ سوال یہ ہے کہ ان سے بات کرنے کا آخر کیا فائدہ ہے اور ان سے بات کرنے میں وقت آخر کیوں ضائع کیا جائے؟
جو لوگ ہم سے یہ کہتے ہیں کہ آئو اور ان کے ساتھ بات چیت سے مسئلہ طے کرو ان سے ہمیں یہ کہنے کے بجاے کہ صاحب آپ بلاتے ہیں تو ہم بات کرنے کو تیار ہیں‘ یہ کہنا چاہیے کہ پہلے دوسرے فریق سے اس بات کا اقرار تو کرا لو کہ کشمیر کے متعلق واقعی کوئی جھگڑا ہے۔ آخر جب بھارت یہ کہتا ہے کہ کشمیر کوئی متنازع فیہ علاقہ ( disputed territory) ہے ہی نہیں‘ کشمیر میں نزاع کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا اور نہ کشمیرکے متعلق بات کرنے کی ضرورت ہے تو بتایا جائے کہ اس طرح کی بات چیت سے مسئلہ کشمیر کیوں کر حل ہوسکتا ہے۔
اس معاملے میں مجلسِ اقوام متحدہ کی بے حسی بلکہ اس کی بداخلاقی کا حال یہ ہے کہ پہلے جن چیزوں کا فیصلہ وہ کرچکے ہیں اور جو فیصلے لکھتے ہوئے بھی دستاویزی صورت میں ان کے سامنے موجود ہیں آج ان فیصلوں کا اعادہ کرنے اور ان کا نام لینے میں ان کو تامّل ہے۔ انھوں نے اسی سال ۴ستمبر اور ۲۰ستمبر اور اس کے بعد اب ۵نومبر کو جتنے ریزرولیوشن پاس کیے ہیں ان میں سے کسی میں ان فیصلوں کا حوالہ تک موجود نہیں ہے۔ ان کو بار بار یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ پہلے آپ یہ فیصلے کرچکے ہیں چنانچہ اس امر کا ذکر کرنا چاہیے کہ ان فیصلوںکے مطابق اس مسئلے کو حل کیا جائے لیکن سرے سے اس بات کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دی گئی۔اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ اقوام متحدہ کو خود اپنے فیصلوں کا بھی کوئی احترام نہیں۔ اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر بھارت کے وزیرخارجہ صاحب علی الاعلان یہ کہتے ہیں کہ کشمیر تو بھارت کا ایک حصہ ہے‘ کشمیر کے متعلق ہم سرے سے کوئی بات کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ نہ اقوام متحدہ کو یا کسی اور کو کشمیر کے معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق پہنچتا ہے کیونکہ یہ بھارت کا داخلی معاملہ ہے ___ یعنی ایک قوم اس قدر بے حیائی کے ساتھ خود اقوام متحدہ میں بیٹھ کر تسلیم کیے ہوئے سارے فیصلوں کو ماننے سے انکار کردے اور سلامتی کونسل کے ممبروں میں سے کوئی نہیںجو کھڑے ہوکر اسے ٹوکے اور کہے کہ تم یہ کس طرح اور کس زبان سے کہہ سکتے ہو کہ کشمیر کا معاملہ تمھارا داخلی معاملہ ہے اور اس میں کسی کو دخل دینے کا حق نہیں ہے___ اگر کسی کو دخل دینے کا حق نہیں ہے تو ۱۹۴۸ء میں یہ اقوام متحدہ کے سامنے پیش کیسے ہوا اور آج بھی اس کے ریکارڈ پر کیوں موجود ہے؟ اگر یہ کوئی مابہ النزاع مسئلہ نہیں تھا تو یہ یہاں کیسے آیا؟ اقوام متحدہ میں اس مسئلے کا آنا خود اس بات کی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ یہ ایک مابہ النزاع مسئلہ ہے۔
لیکن سب جانتے ہیں کہ ایسی کوئی آواز اُن مہذب اقوام کے پلیٹ فارم سے سنائی نہیں دی۔ اسی سے آپ اندازہ کیجیے کہ اقوام متحدہ کی اخلاقی حالت کیا ہے اور کس حد تک ان کے ہاں دیانت اور امانت اور انصاف موجود ہے اور یہ بھی کہ کس حد تک وہ خود اپنے فیصلوں کا احترام ملحوظ رکھتے ہیں___ میرا خیال یہ ہے کہ جس طرح ہندستان سے بات چیت کرکے اس مسئلے کے طے ہونے کا کوئی امکان نہیں‘ اسی طرح اقوام متحدہ کے ذریعے اس مسئلے کو طے کرانے کی کوئی اُمید نہیں۔ یہ بالکل ہماری نادانی ہوگی‘ اگر ہم آیندہ بھی اس اُمید پر بیٹھے رہیں جس طرح ۱۷ سال سے بیٹھے ہوئے ہیں۔
ان بڑی طاقتوں میں سے ایک برطانیہ ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ مسئلہ پیدا ہی برطانیہ کی بددیانتی کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس نے تقسیم اتنے غلط طریقے سے کرائی اور ریڈکلف اوارڈ میں ایسی تحریف کی کہ اس کے نتیجے میں ایک مستقل تنازع پاکستان اور ہندستان کے درمیان پیدا ہوگیا۔ اگر یہ تقسیم غلط طریقے سے نہ ہوتی اور ہندستان کوکشمیر تک پہنچنے کا وہ راستہ ناجائز طور پر نہ دیا جاتاجو اُسے کسی صورت میں حاصل نہیں ہوسکتا تھا تو یہ مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا۔
سوال یہ ہے کہ جس طاقت نے اپنی بددیانتی سے‘ اور اس بنا پر کہ اس کے اندر کسی اخلاقی ذمہ داری کا احساس موجود نہیں تھا‘ خود اس مسئلے کو پیدا کرنے کے اسباب فراہم کیے اور اس سارے فساد کی بنیاد ڈالی‘ اس سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ وہ اب کوئی کوشش اس مسئلے کوحل کرنے کی کرے گی؟ اگر اس قوم کے اندر ذمہ داری کا احساس موجود ہوتا تو یہ مسئلہ پیدا ہی کیسے ہوتا؟
ایک دوسری بڑی طاقت روس ہے۔ میں یہ صاف صاف کہتا ہوں کہ کشمیر کے مسئلے کو اتنا پیچیدہ بنانے میں بہت بڑا دخل روس کاہے۔ جب تک روس نے ہندستان کی حمایت میں اپنا ویٹو استعمال کرنا شروع نہیں کیا تھا اُس وقت تک ہندوستان کو کبھی یہ کہنے کی جرأت نہیں ہوئی تھی کہ کشمیر کا سرے سے کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں ‘ کشمیر تو ہمارا ’اٹوٹ انگ‘ ہے۔ یہ باتیں بھارت نے اس وقت سے شروع کی جب روس نے مستقل اپنا ویٹو استعمال کر کے بھارت کو اس امر کا اطمینان دلا دیا کہ تم اب کشمیر پر آسانی سے قبضہ برقرار رکھ سکتے ہو۔ روس کے وزیراعظم نے خود کشمیر میں آکر کھلم کھلا اس ظلم کا اعلان کیا کہ ہم کشمیر کو ہندستان کا ایک حصہ مانتے ہیں۔ فی الحقیقت اس مسئلے کو اس حد تک الجھا دینے میں اس ظلم کا بہت بڑا حصہ ہے۔ روس کا ویٹو استعمال ہونے سے پہلے یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں اس حیثیت سے آتا رہا کہ استصواب کیسے کرایا جائے اور کیا کیا انتظامات کیے جائیں۔ لیکن جب سے روس نے ویٹو استعمال کرنا شروع کیا ہے اس وقت سے استصواب کا لفظ ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں سے غائب ہوگیا ہے۔
اب ایک ایسی بڑی طاقت سے ہم کیا اُمید قائم کرسکتے ہیں‘ یہ الگ بات ہے کہ کوئی ہمیں بلائے تو ہمارے اخلاق کا تقاضا ہے کہ ہم دعوت کو قبول کریں لیکن دعوت اگر کسی زہریلے پلائو کے کھانے کی ہو توایسی دعوت کو قبول کرنا مسنون نہیں ہے۔۱؎
ایک اور بڑی طاقت امریکا ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ دنیا میں امریکا سے زیادہ ناقابلِ اعتماد دوست شاید ہی کوئی ہوگا۔ اس قوم نے جس کمال کا مظاہرہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ہر ایک سے یک طرفہ دوستی چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ ہر ایک اُس کے کام آئے مگر وہ کسی کا ساتھ نہ دے۔ بلکہ جب بھی موقع پیش آئے تو اپنے دوست کے ساتھ بے وفائی کرے۔ واقعہ یہ ہے کہ امریکا ہی کی وجہ سے پاکستان نے روس کی دشمنی مول لی۔ اگر ہم سیٹو اور سنٹو میں امریکا کے ساتھ شامل نہ ہوتے تو شاید روس ہمارا اس قدر دشمن نہ بنتا کہ بار بار ویٹو استعمال کر کے کشمیر کے مسئلے کو اتنا الجھا دیتا ۔ پاکستان نے امریکا کی دوستی میں اس حد تک نقصان اٹھایا لیکن جب ہمارا معاملہ آیا تو اُس وقت اُس نے کھلم کھلا ہمارے ساتھ بے وفائی کی۔ جب اس کا حال یہ ہے تو ہم سے زیادہ نادان کون ہوگا اگر ہم یہ اُمید باندھیں کہ امریکا دبائو ڈال کر اس مسئلے کو حل کرے گا۔ میرا خیال یہ ہے کہ ہم اگر امریکا پر اعتماد کریں اور اس اُمید پر بیٹھے رہیں کہ وہ اسے حل کرائے تو وہ اسے ایسے طریقے سے حل کرائے گاکہ کشمیر کو حق خود ارادیت تو درکنار خود پاکستان کی آزادی و خودمختاری بھی باقی نہیں رہے گی۔ جو کچھ اُن کے ارادے سننے میں آتے ہیں اور جس طرح کے مضامین کھلم کھلا ان کے ہاں لکھے جاتے ہیں اور اخباروں میں شائع ہوتے ہیں‘ اُن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اسکیم کشمیر کے مسئلے کو ایسے طریقے سے حل کرانے کی ہے کہ خود پاکستان کی آزادی وخودمختاری بھی ضم ہوجائے گی۔ اس کی وجہ سے ہمارے نزدیک اس سے بڑی کوئی حماقت نہیں ہے کہ امریکا پر اعتماد کیا جائے اور اس کے ذریعے سے اس مسئلے کو حل کرانے کی اُمید باندھی جائے۔
لیکن جہاں تک اس حل کا تعلق ہے‘ بعض لوگوں کے ذہنوں میں’حساب‘ کے مختلف سوال پیدا ہوجاتے ہیں۔ جب اس مسئلے پر بات ہوتی ہے تو بعض لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ پاکستان اور ہندستان کی طاقت میں بہت بڑا فرق ہے۔ وہ کئی گنا بڑی طاقت ہے‘ اس وجہ سے ہم لڑ کر اس مسئلے کو حل نہیں کرسکتے۔ کچھ لوگ یہ بات کھل کر کہتے ہیں اور بعض لوگ دبے دبے الفاظ میںاس خیال کا اظہار کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ آج ہمارے سامنے مسئلہ زندگی اور موت کا ہے‘ غیرت اور بے غیرتی کا ہے‘ عزت اور ذلّت کا ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ہم ایک مرتبہ کشمیر کے معاملے میں دبتے ہیں تو یہ ایک مرتبہ کا دبنا نہیں ہوگا بلکہ اس کے بعد ہم کو مسلسل دبتے چلے جانا پڑے گا۔ یہاں تک کہ ہماری آزادی بھی چھن جائے گی۔ یعنی اب پاکستان کا باقی رہنا بھی اس بات پر منحصر ہے کہ پاکستان دنیا میں اس بات کو ثابت کرے کہ یہ ایک باعزت قوم کا ملک ہے‘ ایک زندہ قوم کی سرزمین ہے اور یہ قوم اپنی عزت کے لیے مرمٹ سکتی ہے‘ لیکن جھک نہیں سکتی۔
میرے بھائیو! جب تک ہم اپنے عمل سے اس بات کو ثابت نہیں کریں گے ‘ یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا اور نہ صرف یہ کہ یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ ہم ایک آزاد اور باعزت قوم کی حیثیت سے زندہ نہیں رہ سکیں گے۔
جہاںتک حساب لگانے کا تعلق ہے تو پہلی بات یہ ہے کہ مسلمان کو بتایا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ کی طاقت پر اعتماد کرتے ہیں وہ اپنے سے دس گنا طاقت سے بھی لڑکر کامیاب ہوسکتے ہیں۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ کم من فئۃٍ غلبت فئۃً کثیرۃً باذن اللّٰہِ [یعنی] ایک قلیل تعداد‘ بارہا ایسا ہوا ہے کہ اللہ کے حکم سے ایک کثیرتعداد کے اُوپر غالب آجاتی ہے۔
اور آج تو یہ محض ایمان بالغیب کی بات بھی نہیں رہی۔ پچھلے ۱۷ روز کی جنگ میں مسلسل اور پے درپے اس بات کا مشاہدہ ہوچکا ہے۔ کوئی شخص اس بات کو کیسے باور کرسکتا ہے کہ تین رجمنٹ فوج تین ڈویژن سے بھڑجائے اور وہ تین ڈویژن اس پر غالب نہ آسکیں۔ ایک بٹالین فوج پوری کی پوری تین ڈویژن کو روکے رکھے اور وہ لاہور کی طرف نہ بڑھنے پائے۔ اگر’حساب‘ کرکے دیکھاجائے تو ہماری فضائی طاقت کتنی تھی اور ہندستان کی طاقت کتنی۔ ہرشخص دیکھ سکتا ہے کہ ہم میں سے کئی گنا زیادہ تھے اور صرف یہی نہیں کہ وہ بہت زیادہ تھے بلکہ ان کے ہوائی جہاز ہمارے ہوائی جہازوں سے زیادہ بہتر نوعیت کے تھے لیکن تجربے نے آپ کو بتا دیا کہ اگر اللہ کی تائید شاملِ حل ہواور مسلمان اللہ کے بھروسے پر اُٹھ کھڑے ہوں تو اللہ کی تائید معجزے دکھا سکتی ہے اور اس زمانے میں بھی اس نے معجزے دکھائے ہیں۔ ہم سب اپنی آنکھوں دیکھ چکے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ہمیں اللہ کے بھروسے پر اُٹھنا چاہیے اور اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے ___لیکن ایک بات اچھی طرح سمجھ لیجیے۔
یاد رکھیے کہ اللہ سے تائید کی اُمید رکھنا اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی نافرمانیاں کرنا‘ یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ نہیں چلا کرتیں۔ اس جنگ سے پہلے سترہ اٹھارہ سال جو کچھ ہمارے ہاں ہوتا رہا ‘ جو فسق و فجور بپارہا‘ جس طرح اسلامی تہذیب کے گلے پر چھری چلائی جاتی رہی اور غیراسلامی ثقافت کو رواج دیا جاتا رہاوہ سب کو معلوم ہے‘ اس کی داستان کسی سے چھپی ہوئی نہیں۔ لیکن صرف اس وجہ سے کہ یہ قوم اللہ کا نام لیتی تھی اور اس قوم کے اندر خدا سے بغاوت کا ارادہ نہیں تھا بلکہ یہ فسق و فجور اس پر زبردستی مسلّط کیا جا رہا تھا‘ اللہ نے ہم پر رحم کیا اور اس آزمایش کے موقع پر اللہ کی ایسی غیرمعمولی تائید آئی کہ دشمن بھی ششدر رہ گیا۔ لیکن جان لیجیے کہ اپنے خدا کے ساتھ یہ کھیل ہم بار بار نہیں کھیل سکتے۔ اگر ہمیں اس سے تائید چاہنی ہے‘ اگر ہم یہ اُمید لگاتے ہیں کہ وہ ہماری مدد فرمائے گا تو ہمیں اس کے ساتھ بغاوت کا رویّہ چھوڑنا پڑے گا۔ یہ بات بالکل غلط ہے کہ کہ لڑنے کے وقت کلمے پڑھے جائیں‘ جنگ میں اس کی مدد کے بھروسے پر اطمینان ظاہر کیا جائے اور لڑائی ختم ہوتے ہی فوراً پھر وہ سابق فسق و فجور شروع ہوجائیں۔ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ آج ہماری فوجوں کو ورائٹی شو دکھانے شروع کر دیے جائیںاورورائٹی شو اس طرح سے کہ عین فرنٹ کے اُوپر لے جاکر آدھے سپاہیوں سے کہا جائے کہ تم مورچوں میں بیٹھو اور آدھے جاکر ورائٹی شو دیکھیں۔ گویا صلوٰۃ خوف کی طرح اب یہ آدھے جاکر وہاں رقص دیکھیں‘ العیاذ باللہ!
یہ چیزیں خدا کی مدد حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ہیں۔اگر ہمیں خدا کی مدد حاصل کرنی ہے تو پھر خدا کی اطاعت کی طرف آنا پڑے گا۔ اُس سے بغاوت کی راہ چھوڑنا پڑے گی۔ میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ اگر ہم خدا کی اطاعت اور فرماں برداری اختیار کریں تو جتنی تائید پچھلے سترہ روز میں خدا نے کی ہے‘ اس سے بدرجہا زیادہ تائید اس کی طرف سے پھر ہوگی اور بہت جلدی نہ صرف یہ مسئلہ حل ہوگا بلکہ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کے متعلق بھی ہمیں پوری طرح سے اطمینان حاصل ہوجائے گا جیساکہ سردار عبدالقیوم صاحب نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ اب مسئلہ صرف کشمیر کا نہیں ہے‘ مسئلہ پاکستان کا ہے اور اس بات کا کہ پاکستان کو عزت کے ساتھ جینا ہے یا نہیں؟
تو اس مسئلے کو صرف خدا کی تائید ہی حل کرسکتی ہے۔ اور کوئی طاقت ایسی نہیں ہے۔ ہرطرف سے نظریں ہٹاکر ایک خدا سے اُمیدیں باندھی جائیں۔ نہ روس کی طرف سے آپ کو کوئی امداد ملنی ہے نہ امریکا کی طرف سے‘ نہ برطانیہ کی طرف سے اور نہ اقوام متحدہ کی طرف سے۔ ہرطرف سے نظریں ہٹا کر ایک خدا کے بندے بن جایئے اور خدا کے بھروسے پر اپنے دست و بازو سے اس مسئلے کو حل کرانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ یہی آخری راستہ ہے۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے حکمرانوں کو اتنی ہمت اور اتنا عزم عطا کرے کہ وہ اُس کے بھروسے پر اُٹھ کھڑے ہوں اور اس مسئلے کو حل کرلیں۔ میں تمام مسلمانوں کے حق میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنا فرماں بردار بنائے‘ ان کو اپنی اطاعت کی توفیق بخشے اور ان کے اُوپر رحم فرمائے۔ (۵-اے ذیلدار پارک‘ جلد دوم‘ مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی‘ ص ۵۳-۶۳)
جنرل پرویز مشرف نے دستور اور صدارتی آداب‘روایات اور وقار کو یکسر بالاے طاق رکھ کر اپنے مخصوص جنگ جویانہ انداز میں ۲۰۰۷ء کی انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ اشاروں میں باتیں تو وہ ایک عرصے سے کر رہے تھے لیکن نام نہاد تحفظ خواتین بل کا دفاع کرتے ہوئے صاف لفظوں میں انھوں نے کہا کہ اب ملک میں اصل کش مکش دو قوتوں کے درمیان ہے۔ ایک ان کی روشن خیال لبرل ٹیم جس کے وہ خود سربراہ ہیں اور دوسری ملک کی اسلامی قوتیں جو ان کی نگاہ میں ترقی کی مخالف اور جدیدیت کی راہ کی اصل رکاوٹ ہیں۔ پھر بنوں اور کرک کے جلسوں میں انھوں نے کھل کر اپنی اور اپنے ساتھیوں کی انتخابی مہم کا آغاز کیا اور صاف صاف ووٹ مانگے۔ جوشِ خطابت میں اپنے مخالفین کو ’جاہل‘، ’منافق‘ اور ’جھوٹے‘ کے القاب سے نوازا اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ’’ملک آج ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف ترقی اور روشن خیالی ہے تو دوسری طرف جہالت اور انتہاپسندی‘‘۔ ان کے الفاظ میں:
There are two roads: one leading towards development, progress and prosperity and the other leading towards backwardness and destruction. The coming elections would be very crucial and the outcome would define our national sense of direction. It is a contest between religious radicalism and enlightened moderation.
اور اب تازہ ترین ارشاد یہ ہے کہ وہ خود ۲۰۰۷ء کے انتخابات میں اپنے امیدواروں کا انتخاب کریں گے اور ان کی انتخابی مہم چلائیں گے۔ جس دوراہے کا وہ اب ذکر کررہے ہیں اس کی ایک راہ جنرل پرویز کی فوجی آمریت کی راہ ہے اور دوسری جرنیلی آمریت کے مخالفین اور اسلامی فلاحی اور جمہوری پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی۔
یادش بخیر‘ جنوری ۲۰۰۷ء میں اس دوراہے کی نشان دہی کرتے وقت وہ بھول گئے کہ اس سے سواسات سال پہلے ۱۷ اکتوبر۱۹۹۹ء کو اپنے فوجی اقدام کے پانچ دن بعد انھوں نے ایسا ہی ایک ارشاد فرمایا تھاکہ:
آج پاکستان اپنی تقدیر کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایسی تقدیر جو فردِواحد کے ہاتھ میں ہے‘ خواہ سنوار دے یا برباد کر دے۔
سواسات سال تک مکمل اور غیرمشروط اقتدار اور امریکا کی بھرپور امداد کے باوجود اگر آج پھر وہ قوم کو بتا رہے ہیں کہ وہ ابھی تک قوم ایک دوراہے پر کھڑی ہے تو یہ ان کی اپنی اور ان کے بنائے ہوئے نظام کی ناکامی کا اس سے واضح اعتراف اور کیا ہوسکتا ہے۔ ان سات سال میں وہ اس منزل کی طرف کوئی پیش قدمی نہ کرسکے تو اب کس امید پر قوم کو نئی منزل کی راہ دکھا رہے ہیں۔
بالعموم جمہوری ممالک میں پارلیمنٹ کی مدت چار سے پانچ سال ہوتی ہے۔ اور ایک مدت ایک قیادت کی کامیابی و ناکامی کو واضح کرنے کے لیے کافی تصور کی جاتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو سواسات سال ایسا اقتدار ملا ہے کہ ان کے لیے کوئی چیلنج نہیں تھا۔ ۲۰۰۲ء کے انتخابات کے بعد اور من مانی دستوری ترامیم اور ان سے بھی زیادہ ہر دستور اور قانون سے عملاً بالا ہوکر اور عالمی قوتوں سے پوری مفاہمت بلکہ سپردگی کا رویہ اختیار کر کے‘ وہ ملک و قوم کو جس مقام پر لے آئے ہیں‘ وہ ہراعتبار سے ۱۹۹۹ء سے بدتر ہے۔ ہمیں ان کی اس بات سے تو اتفاق ہے کہ فی الحقیقت ملک اس وقت ایک دوراہے پر کھڑا ہے لیکن یہ دوراہا وہ ہے جہاں جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوں نے دھکے دے دے کر ملک کوپہنچایا ہے اور اب وہی سوال جو انھوں نے ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو بڑے طمطراق سے اٹھایا تھا‘ اب خود ان کی ناکامیوں اور جرنیلی آمریت کی تباہ کاریوں کے بعد بڑی گمبھیر صورت میں ملک و قوم کے سامنے ہے یعنی:
کیا یہ وہ جمہوریت ہے جس کا تصور قائداعظم نے دیا تھا؟
آج قوم کے سامنے اصل سوال یہ ہے کہ قائداعظم کی رہنمائی میں ملّت اسلامیہ نے جس اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی ریاست کے قیام کے لیے پاکستان بنایا تھا‘ جرنیلی حکمران نے اس سے ہمیں کتنا دُور کردیا ہے۔ اب قوم کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ جس طرح برعظیم کے مسلمانوں نے پاکستان کے قیام کے لیے عوامی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے سات سال کی قلیل مدت میں یہ آزاد خطہ زمین حاصل کرلیا‘ جو بدقسمتی اور ہماری اپنی غلطیوں سے آہستہ آہستہ سیاسی طالع آزمائوں اور بیوروکریسی‘ جرنیلوں‘ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ کی دراندازیوں اور کچھ عاقبت نااندیش ججوں کی مصلحت بینی سے تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے‘ اسے بچانے اور اُمت مسلمہ اور اس کے حقیقی قائدین اقبال اور قائداعظم محمدعلی جناح کے تصور کے مطابق تعمیر کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دیں۔ بلاشبہہ پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے اور انتخاب کسی نام نہاد روشن خیالی اور کسی خیالی انتہاپسندی کے درمیان نہیں بلکہ سیدھے سیدھے فوجی آمریت‘ شخصی حکمرانی‘ امریکا کی سیاسی اور معاشی غلامی اور خدانخواستہ بالآخر بھارت کی علاقے پر بالادستی اور ملت اسلامیہ پاکستان کی حقیقی آزادی سے محرومی کے مقابلے میں ملّت اسلامیہ پاکستان کے دینی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت‘ اللہ کی حاکمیت کے تحت عوام کی حکمرانی‘ پارلیمنٹ کی بالادستی اور قانون اور انصاف کے قیام کے درمیان ہے۔ ۲۰۰۷ء فیصلے کاسال ہے۔ قائداعظم کی رہنمائی میں سات برس میں ہم نے پاکستان حاصل کرلیا تھا اور جنرل پرویز مشرف کی حکمرانی میں ان سات برسوں میں پاکستان ہراعتبار سے اپنے اصل مقاصد سے دُور اور ایک نئی غلامی اور محکومی کی گرفت میں آگیا ہے جس سے نجات ہی میں اب پاکستان کی بقا اور اس کی ترقی کا امکان ہے۔
قیامِ پاکستان کا سب سے اہم حاصل ملت اسلامیہ پاکستان کی آزادی تھی یعنی مغربی سامراج سے آزادی کے ساتھ ساتھ بھارتی سامراج کی گرفت سے نکل کر خود اپنے دین وایمان ‘ تہذیب و ثقافت اور مادی اور روحانی اہداف کے حصول کے مواقع کا حصول۔ قرارداد مقاصد جو دستور کا قلب ہے‘ اس منزل کا بہترین اظہار و اعلان ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے سات سالہ دورِاقتدار میں ان تمام مقاصد پر کاری ضرب لگی ہے اور ایک ایک بنیاد کو منہدم کرنے کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ واضح اقدام کیے گئے ہیں جن سے ان کا پورا گیم پلان کھل کر سامنے آگیا ہے:
جس مغربی سامراج سے لڑکر قوم نے آزادی حاصل کی تھی‘ آج جرنیلی حکمران خوشی خوشی بلکہ اسی نوعیت کے فخر کے ساتھ جس کا مظاہرہ دورِ غلامی کے نوابوں اور راجاؤں نے کیا تھا‘ امریکا کی بالادستی ہی نہیں عملی غلامی کے طوق پہن کر ملک کو نئے سامراج کے جال میں پھنسا رہے ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد ملک امریکا اور اس کی دہشت گرد قیادت کے آگے اس طرح صف بستہ ہیں کہ ہر روز ان کی طرف سے نیا مطالبہ آرہا ہے اور ہمارے یہ فوجی جرنیل خود اپنے معصوم شہریوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں تاکہ امریکا سے داد وصول کریں حالاں کہ جو کچھ حاصل ہو رہا ہے وہ صرف جھڑکیاں‘ دھمکیاں اور ھل من مزید کے مطالبات ہیں۔ جنوری ۲۰۰۷ء کے پہلے ۱۴ دنوں میں ایک نہیں چار چار امریکی ذمہ داروں نے بڑے طمطراق کے ساتھ پاکستانی حکمرانوں کو دھمکیوں اور گھر.ُکیوں کے ساتھ دوغلے پن اور دھوکابازی کے تمغوں سے بھی نوازا ہے___ امریکی وزیرخارجہ کونڈالیزارائس‘ محکمہ سراغ رسانی کاسربراہ جان نیگروپونٹے‘ ناٹو کے ایساف کمانڈر ڈیوڈ ری چرڈ اور نائب وزیرخارجہ ری چرڈ بوچر نے اپنے اپنے انداز میں اور ایک دوسرے سے بڑھ کر پاکستان پر طالبان کی پشت پناہی‘ ان کی تنظیم نو اور تائید کا الزام لگایا ہے‘ دھمکیاں دی ہیں اور پاکستان کی سرزمین پر پیشگی حملے کے خالص جارحانہ اقدام کا عندیہ دیا ہے اور اس کا نمونہ پہلے ہی ڈمہ ڈولہ‘ باجوڑاور شوال امریکی طیارے اور میزائل پیش کرچکے ہیں۔ اس کے جواب میں ہماری طرف سے مجرمانہ پسپائی ہی اختیار نہیں کی گئی بلکہ قومی عزت و غیرت اور عسکری وقار کو مجروح کرتے ہوئے وزیرستان میں ایک سال میں دو بلکہ فی الحقیقت تین بار ہمارے علاقے پر امریکی بم باری کو خود اپنے سر لے لیا گیا ہے۔ یہ اگر غلامی کی نئی زنجیریں نہیں تو کیا ہیں؟
پاکستان کی جو تذلیل اس جرنیلی آمریت میں ہوئی ہے‘ وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ اگر اس جرنیلی کارنامے کی اصل تصویر دیکھنی ہے تو اس تازہ قانون کا مطالعہ کرلیجیے جو ابھی امریکی ایوان نمایندگان نے بڑی عجلت میں نائن الیون کمیشن کی سفارشات کو قانونی شکل دینے کے لیے منظور کیا ہے۔ اس قانون کا سیکشن ۱۴۴۲ پاکستان کے بارے میں ہے۔ اس حصے میں دہشت گردی کے مقابلے کے نام پر پاکستان کی جو تصویر دی گئی ہے اور اس کے بارے میں جو پالیسی قانون کا حصہ بنائی گئی ہے اس کا ایک ایک لفظ پڑھنے اور تجزیہ کرنے کے لائق ہے۔ حملہ کرنے والے سعودی اور مصری تھے‘ القاعدہ کا مرکز افغانستان تھا۔ مگر افغانستان پر ایک صفحہ‘ سعودی عرب پر ایک صفحہ لیکن پاکستان پر پورے چھے صفحات پر مشتمل قانون لاگو کیا گیا ہے جیسے اصل مجرم پاکستان ہے۔ یہ قانون پاکستان کے لیے کلنک کا ٹیکہ اور جنرل پرویز مشرف کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ ہے وہ مقام جس پر اس عظیم ملک کو جس نے اللہ کی مدد اور صرف اپنی کوششوں سے ایک ایٹمی طاقت بننے کی سعادت حاصل کی تھی‘ اب اس جرنیلی آمریت نے پہنچا دیا ہے۔ ہم پاکستان کے متعلقہ حصے کی چند اہم دفعات یہاں دیتے ہیں تاکہ قوم کو معلوم ہوسکے کہ ملک کو کس شکنجے میں کَس دیا گیا ہے اور کس طرح جس مدد کے لیے بغلیں بجائی جارہی ہیں اس کے سر پر پابندیوں کی تلوار کس کس شرط کے ساتھ چھائی ہوئی ہے اور اس کے لیے یہ پابندی بھی رقم کردی گئی ہے کہ وہ ہرسال امریکی صدر کے سرٹیفیکٹ کے بغیر ایک سانس بھی نہیں لے سکے۔ یہ پریسلر پابندیوں کی تازہ اور زیادہ مکروہ شکل ہے۔
۲- ایسے بہت سے مسائل ہیں جو امریکا اور پاکستان کے تعلقات کو خطرات سے دوچار کرسکتے ہیں‘ عالمی استحکام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور پاکستان کو غیرمستحکم کرسکتے ہیں‘ بشمول:
(اے) جوہری ہتھیاروں کی ٹکنالوجی کے پھیلائو کو روکنا۔
(سی) مؤثر سرکاری اداروں کی تعمیر‘ خصوصاً سیکولر پبلک اسکول ۔
(ای) پورے ملک میں طالبان اور دوسری پُرتشدد انتہاپسند طاقتوں کی مسلسل موجودگی کے حوالے سے اقدامات کرنا۔
(جی) دوسرے ملکوں اور علاقوں کی طرف جنگ جوؤں اور دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکنے کے لیے پاکستان کی سرحدات کو محفوظ بنانا۔
(ایچ) اسلامی انتہاپسندی کے ساتھ مؤثر طور پر نبٹنا۔
(بی) پالیسی کا بیان: امریکا کی پالیسیاں درج ذیل ہوں گی:
(۱) عالمی دہشت گردی‘ خصوصاً پاکستان کے سرحدی صوبوں میں‘ ختم کرنے کے لیے اور طالبان سے وابستہ طاقتوں کے لیے پاکستان کے ایک محفوظ پناہ گاہ کے استعمال کو ختم کرنے کے لیے حکومت پاکستان کے ساتھ کام کرنا۔
۳- حکومت پاکستان اور بھارتی حکومت کے درمیان تنازع کشمیر کے حل کے لیے مدد کرنا۔
(سی) حکمت عملی متعلقہ پاکستان:
۱- اس ایکٹ کے قانون بن جانے کے ۹۰دن کے اندر اندر صدر متعلقہ کانگریس کمیٹی کو ضروری ہو تو خفیہ رپورٹ پیش کرے گا جو امریکا کی طویل المیعاد حکمت عملی کو بیان کرے۔
۲- متعلقہ کمیٹی سے مراد: کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹی‘ مجلس نمایندگان کی مصارف (appropriations) کمیٹی اور سینیٹ کی بھی خارجہ تعلقات اور مصارف کمیٹی۔
(ڈی) پاکستان کو امریکا کی سلامتی کی امداد پر تحدید:
تحدید: (اے)یہ امداد منظور نہیں ہوگی جب تک کہ اس تاریخ کو ۱۵ دن نہ گزر جائیں‘ جب کہ صدر صورت حال کے بارے میں متعین معلومات حاصل کرے اور متعلقہ کانگریس کمیٹیوں کو تصدیق کرے کہ حکومت پاکستان اپنے زیراختیار علاقوں بشمول کوئٹہ اور چمن ‘ صوبہ سرحد اور قبائلی علاقے میں طالبان کو کام کرنے سے روکنے کے لیے اپنی تمام ممکنہ کوششیں کر رہا ہے۔
(بی) اس تصدیق کو غیر خفیہ ہونا چاہیے لیکن اس کا ایک ضمیمہ خفیہ بھی ہوسکتا ہے۔
۲- استثنا: صدر اس تحدید کو ایک مالیاتی سال کے لیے معطل کرسکتا ہے‘ اگر وہ کانگریس کی مصارف کمیٹیوں کو یہ تصدیق کرے کہ ایسا کرنا امریکا کی قومی سلامتی کے مفاد کے لیے اہم ہے۔
(ای) جوہری پھیلائو: (۱) کانگریس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پاکستان کا ایٹمی اور میزائل ٹکنالوجی کے پھیلائو کے نیٹ ورک کو باقی رکھنا پاکستان کو امریکا کے حلیف قرار دینے سے متغائر ہے۔
۲- کانگریس کی راے: کانگریس کی راے یہ ہے کہ امریکا کی قومی سلامتی کے مفادات بہتر طور پر حاصل ہوں گے اگر امریکا پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے لیے ایک طویل المیعاد حکمت عملی طے کرے اور اس کو نافذ بھی کرے‘ اور جوہری پھیلائو کو روکنے کے لیے حکومت پاکستان کے ساتھ کام کرے۔
واضح رہے کہ اس قانون میں حقیقی طور پر صرف تین ملکوں کا ذکر ہے یعنی افغانستان‘ پاکستان اور سعودی عرب اور جیساکہ ہم نے عرض کیا‘ سب سے زیادہ پابندیاں اور شکنجے پاکستان کے لیے ہیں۔ یہ ہے ہماری آزادی کی حقیقت۔
جرنیلی نظام کے لیے پاکستان کا دستور تو کب کا قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ اب تو امریکا کا یہ قانون موجودہ حکمرانوں کے لیے اصل ’دستور‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور انتہاپسندی‘ لبرلزم‘ طالبان دشمنی کے بارے میں جو کچھ کہا اور کیا جا رہا ہے اس کا پاکستان کے دستور‘ قانون یا مفادات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سب کچھ وہ امریکا کے فرمان کی تعمیل کے سوا کچھ نہیں۔
آج پاکستان جس دوراہے پر ہے وہ یہی امریکی غلامی یا حقیقی آزادی کا دوراہا ہے اور وقت آگیا ہے کہ پاکستانی قوم اس نئی غلامی کی زنجیروں کو پارہ پارہ کردے اور صرف اللہ کی غلامی میں حقیقی آزادی کا راستہ اختیار کرے۔
جنرل پرویز مشرف کی سات سالہ حکمرانی کا ایک اور ثمرہ یہ ہے کہ ملک میں آج فیڈریشن جتنی کمزور ہے اور مرکز اور صوبوں کے تعلقات جتنے خراب آج ہیں ۱۹۷۱ء کے سانحے کے بعد کبھی نہ تھے۔ جنرل صاحب نے اپنا جو سات نکاتی پروگرام ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۹ء میں اعلان فرمایا تھا اس میں ایک فیڈریشن کی مضبوطی اور تمام صوبوں اور مرکز میں زیادہ ہم آہنگی کا حصول بھی تھا مگر حاصل اس کے برعکس ہے۔ خود جرنیل صاحب نے اپنے حالیہ دورۂ سرحد میں اعتراف کیا ہے کہ فیڈریشن میں تعلقات کی بہتری حاصل نہیں کی جاسکی ہے۔ بلوچستان میں تین سال سے فوج کشی جاری ہے اور اس عرصے میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوچکے ہیں‘ سیکڑوںہلاک ہوئے ہیں اور پورا صوبہ ایک آتش فشاں کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
صوبہ سرحد میں مرکز صوبائی حکومت پر ہر طرح کا دبائو استعمال کر رہا ہے۔ چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو کسی مشورے کے بغیر مسلط کیا جاتا ہے۔ صوبائی اسمبلی کی قراردادوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ صوبے کے مالی حقوق ادا نہیں کیے جارہے۔ ایک تحریری معاہدے کے تحت پاکستان کے سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں جو ثالثی کمیشن بنایا گیا تھا کہ پن بجلی کے منافعے کا اس کاحصہ ادا کیا جائے ۔ اس کے متفقہ فیصلے کو بھی نافذ نہیں کیا جا رہا اور صوبے کو صف آرائی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ حِسبہ بل جوصوبائی اسمبلی نے دو بار منظور کیا ہے اسے مرکز ویٹو کرنے پر تلا. ُ ہوا ہے۔ صوبائی وزیراعلیٰ کے مکان پر آئی بی کے اہل کار دھماکا خیز مواد رکھتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ۷۰ ہزار فوج لگائی ہوئی ہے جو محض شبہے کی بنیاد پر کشت و خون کر رہی ہے۔ ۷۰۰ سے زیادہ فوجی ہلاک ہوچکے ہیں اور اس سے زیادہ عام شہری جاں بحق ہوئے ہیں۔ فوج اور ان قبائل کو جو پاکستان کے محافظ تھے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کردیا گیا ہے اور امن کے معاہدات کے ذریعے اس آ گ کو بجھانے کی جو کوشش کی گئی ہے اس کو سبوتاژ کرنے کے لیے امریکا‘ افغانستان کی حکومت‘ افغانستان میں ناٹو کی ایساف کی کمانڈ اور خود ملک کے فوجی حکمران طرح طرح کی کارروائیاں کررہے ہیں جن سے خطرہ ہے کہ امن کی فضا ختم ہوجائے اور خدانخواستہ کوئی بڑا خونی تصادم پھر سر اُٹھالے۔
پنجاب چونکہ حکمران ہے‘ اس لیے اس سے بظاہر مرکز کے تعلقات اچھے ہیں لیکن دراصل خود صوبے کے مختلف حصوں کے درمیان کھچائو اور رسہ کشی ہے اور خصوصیت سے جنوبی پنجاب میں بے زاری کی لہریں اُٹھ رہی ہیں۔ سندھ کا معاملہ کچھ اور بھی پیچیدہ ہے۔ وہاں جس پارٹی نے سب سے زیادہ ووٹ لیے تھے‘ اسے حکومت بنانے سے محروم رکھا گیا اور مصنوعی اکثریت پیدا کرکے سیاسی دروبست کا اہتمام کیا گیا۔ ایک لسانی تنظیم کو جو دراصل ایک مافیا کی حیثیت رکھتی ہے صوبے پر مسلط کردیا گیا ہے جس نے صرف کراچی ہی نہیں پورے صوبے میں تباہی مچائی ہوئی ہے۔ ایک ایسے شخص کو جو خودسزا یافتہ تھا‘ جھوٹی معافی دے کر اور سیاسی سودا بازی کے نتیجے میں گورنر مقرر کیا گیا اور وہ گورنر باقی تمام صوبوں کے گورنروں کے مقابلے میں ایک متوازی حکومت کے ذریعے اپنی من مانی کر رہا ہے۔
صوبائی خودمختاری کا مسئلہ ایسی گمبھیر شکل اختیار کرتا جا رہا ہے کہ فیڈریشن کا شیرازہ معرضِ خطر میں ہے لیکن جرنیل صاحب یونٹی آف کمانڈ کے نام پر فیڈریشن پر ایک وحدانی نظام مسلط کررہے ہیں اور یہ وحدانی نظام خاکی وردی میں ملبوس ہے۔ بگاڑ کی اصل وجہ یہ جرنیلی نظام ہے جس نے ملک کے سارے اداروں کا خانہ خراب کر دیا ہے۔
ایک دوراہا یہ بھی ہے کہ آیا اس ملک کو ایک حقیقی فیڈرل نظام کے مطابق چلنا ہے۔ آمریت اور وحدانی نظام جس کے بوجھ تلے خدانخواستہ پورا نظام درہم برہم ہو جائے۔
جنرل پرویز مشرف نے ایک وعدہ قوم سے یہ بھی کیا تھا کہ وہ ملک میں امن و امان قائم کریں گے‘قانون کی حکمرانی ہوگی اور ہر فرد کو انصاف فراہم کیا جائے گا۔ لیکن ان کے سات سالہ دورِاقتدار میں جو چیز سب سے ارزاں ہوگئی ہے ایک عام فرد کی آزادی‘ زندگی اور عزت کی پامالی ہے۔ پولیس کی اصلاحات اس دعوے کے ساتھ کی گئی تھیں اب پولیس سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہوگی اور وہ عام شہریوں کو جان‘ مال اور عزت کا تحفظ دے سکے گی۔ پولیس کے لیے مالی وسائل اور ٹکنالوجی دونوں فراہم کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا لیکن پنجاب جیسے صوبے میں جس کا پولیس کا بجٹ ۶ ارب روپے سے بڑھ کر ۲۱ ارب روپے کردیا گیا ہے۔ صوبے کا دارالحکومت تک جرائم کا مرکز بن گیا ہے اور صوبے کے کسی گوشے میں عوام کو امن اور چین میسر نہیں۔ لاہور کے مصروف ترین علاقے میں دن دہاڑے صوبے کا اعلیٰ ترین قانونی افسر اڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور اس کے ساتھی قتل کر دیے جاتے ہیں اور ملزموں کی نشان دہی کیے جانے کے باوجود وہ پولیس کی دسترس میں نہیں آتے۔ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس پولیس کی کارکردگی پر بے اعتمادی کا اظہار کرتا ہے اور اعلیٰ عدالت کے جج یہاں تک کہتے ہیں کہ پولیس کا بجٹ روک دیا جائے اور یہ اربوں روپے عوام کو ریلیف دینے کے لیے استعمال کیے جائیں۔ سپریم کورٹ بار بار پولیس کو ملزموں پر ہاتھ ڈالنے کا حکم دیتی ہے اور پولیس افسر عدالت میں آنے تک کی زحمت گوارا نہیں فرماتے۔ صوبے میں نام لے کر ڈاکوؤں کے ۴۵ گروہوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو سیکڑوں وارداتوں میں ملوث ہیں مگر کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ صوبے کا وزیراعلیٰ بھی چیخ اُٹھتا ہے مگر ان بااثر ڈاکوؤں اور اغوا کاروں کے آگے بے بس ہے۔ پنجاب میں صرف ۲۰۰۶ء میں تمام جرائم میں ۲۵ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ کراچی اور سندھ کا حال اس سے بھی خراب ہے۔ سرحد میں پہلے تین سال صورت حال بہتر تھی لیکن وہاں بھی ۲۰۰۶ء میں جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیرداخلہ خود جنرل پرویز مشرف کی تشویش کا یوں اظہار کرتے ہیں:
صدر کو ملک میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح پر خاصی تشویش ہے‘ خصوصاً دہشت گردی‘ انتہاپسندی‘ فرقہ واریت‘ اسٹریٹ کرائم کے واقعات پر۔
یہ بیان وزیرداخلہ نے آرمی ہائوس میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد دیا جو جنرل پرویز مشرف کے سات سالہ دورِاقتدار کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
لیکن بات صرف روایتی جرائم ہی کی نہیں کہ چوری‘ ڈاکے‘ آبروریزی‘ اغوا براے تاوان‘ کارچوری اور موبائل چوری ہر جرم میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس سے زیادہ خطرناک رجحان یہ ہے کہ سیکڑوں شہریوں کو سرکاری ادارے اُٹھا کر لے جاتے ہیں اور مہینوں نہیں‘ برسوں ان کا پتا نہیں چلتا۔ سیکڑوں کو کسی عدالتی کارروائی کے بغیر اور کسی جرم کو ثابت کیے بغیر امریکا کے حوالے کر دیا گیا اور بے غیرتی کی انتہا ہے کہ اسے اپنا کارنامہ بیان کیا جاتا ہے‘ حتیٰ کہ اپنی خودنوشت میں اس کا نمایاں طور پر ذکر کیا جاتا ہے اور یہاں تک دعویٰ کیا جاتا ہے کہ حکومت کو اس کے عوض کروڑوں ڈالر ملے۔ یہ اور بات ہے کہ ڈالروں والی بات کو ہر طرف سے تھوتھو ہونے کے بعد واپس لینے کی جسارت بھی کی گئی ہے۔ معصوم انسانوں کو یوں اُٹھا لینا دستور‘ قانون‘ دین‘ اخلاق ہر ایک کے خلاف ہے لیکن اس جرنیلی دور میں یہ بھی کھلے بندوں کیا جا رہا ہے اور سپریم کورٹ کے بار بار انتباہ اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود ان لاپتا افراد کا کوئی پتا نہیں مل رہا ہے۔
اگر بصیرت کی نگاہ سے حالات کو دیکھا جائے تو اس لاقانونیت کے فروغ کا ایک بنیادی سبب فوج کے جرنیلوں کا اقتدار پر غاصبانہ قبضہ‘ دستورشکنی اور اس دستورشکنی کے لیے عدالتی جواز کی فراہمی کی مکروہ روایت ہے۔ جب اعلیٰ ترین سطح پر دستور اور حلف توڑنے پر کوئی گرفت نہیں ہوگی تو پھر ہرسطح پر قانون شکنی کا دروازہ کھلے گا۔ جب طاقت ورقانون سے بالا ہوں گے تو پھر کون قانون کا احترام کرے گا۔ جب تک دستور توڑنے والوں کو دستور کی دفعہ ۶ کے تحت قرارواقعی سزا کا نظام مؤثر نہیں ہوگا‘ تو پھر کسی سطح پر بھی قانون کا احترام قائم نہیں ہوسکے گا۔
ایک دوراہا آج قوم کے سامنے یہ بھی ہے کہ اس ملک میں دستور اور قانون کی حکمرانی ہوگی۔ یا وردی اور قوت والے جو چاہے کرلیں وہ قانون کی گرفت سے باہر ہی رہیں گے۔ اگر انصاف اور امن ہمارا مقصد ہے تو پھر ہرسطح پر قانون توڑنے والے ہاتھ روکنے ہوں گے یا ایسے ہاتھوں کو کاٹنا پڑے گا تب ہی سب کی جان‘ مال‘ عزت اور آبرو محفوظ ہوسکیں گے۔
بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ملک کا ایک دستور ہے لیکن وہ صرف کاغذ کا ایک پرزہ بنادیا گیا۔ یہ درست ہے کہ اصل دستور میں من مانی تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں اور آٹھویں اور ۱۷ویں ترامیم کے ذریعے اس کا حلیہ خاصا بگاڑ دیا گیا ہے مگر اس سب کے باوجود جس دستور پر قیادت نے حلف لیا ہے اس کا بھی ان حکمرانوں کو کوئی پاس نہیں۔
دستور میں سب سے پہلے اللہ سے وفاداری اور اسلامی نظریے کی پاس داری کا حلف ہے مگر روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر اللہ کے احکام اور اسلام کی واضح تعلیمات سے انحراف کیا جارہا ہے۔ شراب جس کا استعمال دستور اور قانون کے تحت جرم ہے‘ اب کھلے بندوں منگوائی جارہی ہے اور ہوٹلوں اور دعوتوں میں جام لنڈھائے جارہے ہیں۔ زنا اب جرم نہیں رہی اور اللہ کی حدوں کو پامال کیا جارہا ہے۔ سود جسے شرعی عدالتوں نے ختم کرنے کا فیصلہ دیا تھااس کی بنیاد پر سارا نظام چلایا جارہا ہے۔ بے حیائی اور فحاشی کو عام کیا جا رہا ہے اور اس کا نام روشن خیالی رکھا گیا ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ جو فوج کا آج بھی رسمی موٹو ہے‘ اس کا ذکر بھی زبان پر لانے سے لرزہ طاری ہے اور قسمیں کھاکھا کر کہا جا رہا ہے کہ جہاد سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ہر جہادی تنظیم گردن زدنی ہے۔ نصابِ تعلیم سے بھی جہاد کا ہر ذکر خارج کیا جا رہا ہے۔ اگر بس چلے تو نعوذباللہ قرآن پاک میں بھی ترمیم کر کے ان تمام آیات کو نکال دیا جائے جو جہاد کے بارے میں ہیں۔ اسلامیات کے نصاب کو بھی بدلا جا رہا ہے اور دوسرے تمام مضامین سے اسلام اور اسلامی تاریخ و ثقافت کے ذکر کو خارج کیا جا رہا ہے اور وزیرتعلیم‘ جو ماشا اللہ سابق جرنیل بھی ہیں اور امریکا سے تعلیمی اصلاحات کے لیے سندجواز بھی لے آئے ہیں‘ فرماتے ہیں کہ ’’نصابِ تعلیم پر تنقید کرنے والے مکار اور منافق ہیں‘‘ اور’’یہ لوگ ملک کو چھٹی صدی میں دھکیلنا چاہتے ہیں‘‘۔ قرآن میں ۴۰ پاروں کی بات کرنے والے وزیرتعلیم کو کیا پتا کہ چھٹی صدی تو دورِ جاہلیت کی صدی ہے۔ سیدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا انقلاب تو ساتویں صدی میں آیا۔ دورِ رسالت مآب ؐ اور خلافتِ راشدہ ہی کا زمانہ مسلمانوں کے لیے ہمیشہ معیار اور ماڈل رہا ہے‘ رہے گا۔ اُمت کا قبلہ آج کے حکمرانوں اور ان کے امریکی آقائوں کی تمام خواہشات کے باوجود ان شاء اللہ یہی رہے گا۔ حال ہی میں وزارتِ تعلیم نے جو وائٹ پیپر شائع کیا ہے وہ اس فکر سے ذرا بھی مختلف نہیں جو اس سے پہلے سکندرمرزا اور ایوب خاں جیسے لوگ پیش کرتے رہے ہیں اور جس طرح ان کے مذموم منصوبے عوام کے دبائو میں پادر ہوا ہوئے‘ اسی طرح ان شاء اللہ آج کے جرنیلی حکمرانوں کے عزائم بھی خاک میں ملیں گے۔
ایک دوراہا یہ بھی ہے کہ اس قوم کی منزل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین اسلام ہے یا اسلام کا وہ نمونہ جو بش اور اس کے حواریوں کے لیے قابلِ قبول ہو اور جو تصوف کی کوئی ایسی شکل اختیار کرلے جس سے باطل کی قوتوں اور سامراجی طاقتوں کو کوئی خطرہ نہ ہو۔
جنرل پرویز مشرف اور ان کے ظلِّی وزیراعظم شوکت عزیز اپنی معاشی فتوحات کا بڑا دعویٰ کرتے ہیں اور اس کا رکردگی کے سہارے عوام کے دل جیت لینے کی باتیں کرتے ہیں۔ کاش‘ یہ حضرات اپنے محلات سے نکل کر زمینی حقائق کو بھی دیکھیں اور بچشم سر نظارہ کریں کہ عوام کن مشکلات سے دوچار ہیں۔ اعدادوشمار کی بازی گری نہ غربت کو مٹا سکتی ہے اور نہ بھوک کا مداوا کرسکتی ہے۔ بے روزگاری جو انھی کے اعدادوشمار کے مطابق ۱۹۹۱ء میں ۳ فی صد سے کم تھی وہ ۲۰۰۳ء میں ۳ء۸ فی صد سے تجاوز کرگئی اور ۲۰۰۶ء میں ۸ء۶ بتائی جاتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں بھوک‘ افلاس اور بے روزگاری کی وجہ سے خودکشی کسی دور میں نہیں ہوئی لیکن اس جرنیلی دور میں ہرسال سیکڑوں افراد خودکشی تک پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ایک حالیہ سروے کی روشنی میں صرف راول پنڈی میں اور صرف ۲۵ تھانوں سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر ۲۰۰۶ء میں ۵۲ افراد نے خودکشی کی ہے (جنگ، ۲۰ جنوری ۲۰۰۷ء’اسلام آباد کا جڑواں شہر اور خودکشیاں‘ منوبھائی)
یہ حال ایک شہر کا نہیں پورے ملک کا ہے۔ ان سات سالوں میں اشیاے ضرورت کی قیمتوں میں ایک سو سے لے کر چار سو فی صد تک اضافہ ہوا ہے۔ دولت کی عدم مساوات میں محیرالعقول اضافہ ہواہے۔امیر امیر تر ہو رہا ہے اور غریب غریب تر ۔موجودہ حکومت کی ساری پالیسیوں کا ہدف امیروں کو امیر تر کرنا ہے جس کا ایک اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ ملک کی کُل آبادی میں بمشکل ۱۵ فی صد ایسے ہیں جو بنکوں میں حساب رکھتے ہیں۔ ان کی تعداد ۱۹۹۹ء میں ۸ء۲۹ ملین تھی جو ۲۰۰۶ء میں کم ہو کر ۲ء۲۶ ملین رہ گئی۔ ان میں سے جو اپنے بنک کھاتے میں اوسطاً ۱۰ ہزار روپے یا اس سے کم رقم رکھتے تھے وہ ۱۹۹۹ء میں کل کھاتہ داروں کا ۵ء۵۱ فی صد تھے‘ جب کہ ان کی کُل رقم بنک کے تمام کھاتہ داروں کی رقم کا ۳ء۱۱ فی صد تھی۔ لیکن جون ۲۰۰۶ء میں ان کی تعداد ۵ء۵۱ سے کم ہوکر ۱ء۲۶ فی صد ہوگئی ‘ یعنی ۵۰ فی صد کی کمی اور ان کے کھاتوں کی رقم ۳ء۱۱ سے کم ہو کر ۸ء۰ فی صد رہ گئی یعنی اس میں کمی ۱۲۰۰ فی صد سے زیادہ ہوئی۔ اس کے برعکس اگر ان کھاتہ داروںکے کھاتوں اور ان میں رکھی ہوئی رقم کا مطالعہ کیا جائے جن کے ڈیپازٹ ایک کروڑ روپے یا اس سے زیادہ ہے تو ان کی تعداد ۱۹۹۱ء میں کل کھاتہ داروں کا صرف ۱ء۰ فی صد تھی‘ جب کہ ان کے کھاتوں میں جمع رقم کل رقم کا ۳ء۱۳ فی صد تھی لیکن ۲۰۰۶ء میں کھاتوں کی تعداد کے اعتبار سے ان کی تعداد کل کھاتوں کا صرف ۰۷ء۰ تھی‘ جب کہ ان کھاتوں میں رقم کل رقم کا ۵ء۳۴ فی صد (بحوالہ ڈان ۱۸-۲۴ دسمبر ۲۰۰۶ء‘ مضمونFailure of Monetary Policy از جاوید اکبر انصاری)
یہ تو صورت ہے عام افراد کی معاشی زبوں حالی کی‘ لیکن مجموعی معاشی صورت حال بھی کچھ کم تشویش ناک نہیں۔ افراطِ زر میں برابر اضافہ ہو رہا ہے اور اسٹیٹ بنک کے تازہ ترین اندازوں کے مطابق افراطِ زر کے بارے میں جو تخمینہ تھا کہ وہ ۲۰۰۶ء-۲۰۰۷ء میں ۵ء۶ فی صد ہوگا‘ اندیشہ ہے کہ وہ ۸ فی صد کے لگ بھگ ہوگا۔ اور جہاں تک اشیاے خوردونوش کا تعلق ہے تو دسمبر۲۰۰۵ء کے مقابلے میں دسمبر ۲۰۰۶ء میں یہ اضافہ ۷ء۱۲ فی صد ہوا ہے (بحوالہ دی نیشن ‘ ۲۱جنوری ۲۰۰۷ء)
تجارتی خسارہ ۵ بلین ڈالر سے بڑھ کر ۱۲ بلین ڈالر کی حدوں کو چھو رہا ہے اور بین الاقوامی ادایگی کا خسارہ ڈیڑھ بلین ڈالر سے بڑھ کر ۵ بلین سے تجاوز کر رہا ہے۔ گو زرمبادلہ کے ذخائر ۱۳بلین ڈالر کے لگ بھگ ہیں لیکن ۲۰۰۲ء کے مقابلے میں جب یہ ۱۱ مہینے کی درآمدات کے برابر تھے اس کے مقابلے میں اب یہ بمشکل چار مہینے کی درآمدات کے لیے کفایت کرتے ہیں۔
آزادی گروی رکھ کر جس معاشی ترقی کا شوروغوغا ہے اس کی حقیقت تلخ اور سراب کے مانند ہے۔ اور ایک دوراہا یہ بھی ہے کہ کون سی معاشی ترقی اس قوم کو مطلوب ہے۔
دوراہے اور بھی ہیں لیکن سب کا مرکزی نکتہ ایک ہی ہے___ یعنی جنرل پرویز مشرف کے سات سالہ دورِحکمرانی میں قوم کو جس جگہ پہنچا دیا گیا ہے‘ اس سے نجات کا اب ایک ہی راستہ ہے اوروہ شخصی آمریت اور فوج کے سیاسی کردار سے نجات اور حقیقی جمہوری نظام کی طرف پیش قدمی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ قوم ہمیشہ کے لیے اس امر کو طے کردے اور تمام جمہوری اور اسلامی سیاسی قوتیں یک جان ہوکر اس کے لیے سرگرم عمل ہوجائیں کہ ملک کی بقا اور ترقی کا انحصار ۱۹۷۳ء کے دستور کو اس کی اس شکل میں نافذ کرنے پر ہے جو اکتوبر ۱۹۹۹ء سے قبل موجود تھا۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ملک میں جرنیلی آمریت کے خلاف بھرپور تحریک ہو اور نئے انتخابات ایک حقیقی غیر جانب دار حکومت کے تحت کھلے اورشفاف انداز میں ہوں۔ اصل حکمران جنرل پرویز مشرف ہیں اور خود انھوں نے انتخابی مہم کا آغاز کرکے‘ کھلے عام یہ دعوت دے کر کہ ان لوگوں کو منتخب کرو جو میرے ساتھ ہیں اور ان کی آزاد خیالی کے علم بردار ہیں اور پھر یہ اعلان کر کے کہ وہ خود حکمران لیگ اور اس کے حواریوں کی لگام تھامے ہوئے ہیں‘امیدواروں کا انتخاب وہ خود کریں گے اور انتخابی مہم بھی وہ خود چلائیں گے۔ اب یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی موجودگی میں کوئی غیرجانب دار انتظام وجود میں نہیں آسکتا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس پورے دور میں کوئی فیصلہ پارلیمنٹ یا کابینہ نے نہیں کیا‘ سارے فیصلے جنرل صاحب خود کرتے ہیں‘ یا کورکمانڈر وں کی میٹنگ میں کیے جاتے ہیں۔ مرکزی کابینہ کو تو ان کی خبربھی اخبارات ہی کے ذریعے ہوتی ہے۔ ان حالات میں واضح ہے کہ اصل حکمران جنرل پرویز مشرف ہیں اور ان کی موجودگی میں کسی آزادی اور غیرجانب دار انتخاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے تین بنیادی نکات ہیں جن پر تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کو متفق ہوکر جدوجہد کرنی چاہیے:
۱- دستور کی اس کی اصل شکل میں بحالی‘ شخصی حکمرانی کا خاتمہ اور فوج کو دستور کے تحت مکمل طور پر منتخب سول نظام کے تحت کام کرنے کا پابند کرنا۔
۲- چونکہ جنرل پرویز مشرف جو اصل حکمران اور سرکاری پارٹی کے حاکم مطلق ہیں ان کی حکومت کے تحت آزاد اور غیر جانب دار انتخابات ناممکن ہیں‘ اس لیے ان کا استعفا اور صحیح معنوں میں ایک غیرجانب دار انتظام کے تحت ایک مکمل طور پر بااختیار پارلیمنٹ کی تمام سیاسی جماعتوں کے مشورے کے مقرر کردہ آزاد الیکشن کمیشن کے تحت نئے انتخابات۔
۳- انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کی غیرمشروط شرکت اور طے شدہ آداب کے مطابق انتخابی مہم کے پورے مواقع۔
اس سیاسی جدوجہد اور انتخاب میں جنرل پرویز مشرف کو بھی اسی طرح شرکت کا موقع ملنا چاہیے جس طرح باقی تمام سیاسی عناصر کو‘ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اقتدار سے فارغ ہوں‘ وردی اُتاریں تاکہ صدر کا عہدہ اور چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ دونوں دستور کے تحت بحال ہوسکیں اور وہ صدارت یا اسمبلی کی رکنیت جس کے لیے بھی حصہ لینا چاہیں برابری کی بنیاد پر حصہ لیں۔
انھیں دعویٰ ہے کہ وہ بزدل انسان نہیں۔ اگر ایسا ہے تو انھیں ہرگز زیب نہیں دیتا کہ فوج کی وردی پہن کر فوجی بیرک کے محفوظ مقام پر بیٹھ کر اس سیاسی معرکے میں شرکت کریں۔ یہ دعوے کہ وردی کا کوئی تعلق جمہوریت سے نہیں اور پانچ سال والی اسمبلی سے دس سال کے لیے صدارتی انتخابات کرانے کے منصوبے دراصل سیاسی دیوالیہ پن ہی کا مظاہرہ نہیں بلکہ خود اپنی کمزوری کا بھی اعتراف ہیں۔ اگر آپ کو اعتماد ہے کہ عوام آپ کے ساتھ ہیں تو پھر فوج کی چھتری تلے بیٹھ کر شب خون مارنے کے کیا معنی؟
فوج کو جس طرح سیاست میں ملوث کیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں جس طرح فوج متنازع بن گئی ہے اور عوام اور فوج میں فاصلے بڑھ گئے ہیں‘ یہ کھیل اب ختم ہونا چاہیے اور ہمیشہ کے لیے ختم ہونا چاہیے تاکہ جمہوریت کی گاڑی پٹڑی پرچڑھ سکے اور فوج دستور کے تحت سول نظام کی قیادت میں اپنا کردار ادا کرسکے۔۲۰۰۷ء فیصلے کا سال ہے اور اب توقع ہے کہ یہ قوم وہ فیصلہ کرے گی جس کے نتیجے میں پاکستان اپنی اصل منزل کی طرف پوری قوت اور یک سوئی سے پیش قدمی کرسکے گا۔
پاکستان اور اس کے اسٹرے ٹیجک اثاثوں پر جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں روشن خیالی‘ لبرلزم‘ لچک‘ ضرورت حتیٰ کہ ’جرأت‘ کے نام پر بجلیاں گر رہی ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا قیمتی اثاثہ‘ مفاد اور اصول اس فائرنگ کی زد (’in the line of fire‘) میں آکر مجروح ہو رہا ہے یا جان ہی سے ہاتھ دھو رہا ہے۔ لیکن اب جیسے جیسے ۲۰۰۷ء کا انتخابی معرکہ قریب آرہا ہے اور ملک ایک فیصلہ کن لمحے کی طرف بڑھ رہا ہے‘ جنرل صاحب کی جراحت کاریاں بھی تیز تر ہوتی جارہی ہیں۔ گذشتہ چند ہفتوں میں تین اہم ترین محاذوں پر انھوں نے جو حملے کیے ہیں‘ ان سے سیاسی نقشۂ جنگ بالکل کھل کر سامنے آگیا ہے۔ اب قوم اس تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے جہاں پاکستان کے نظریاتی‘ سیاسی اور جغرافیائی وجود کے تحفظ اور اصل منزل کی طرف پیش رفت یا خدانخواستہ تحریکِ پاکستان اور اس کے ذریعے حاصل کردہ سرمایۂ حیات سے محرومی اور محکومی کے نئے دور کے آغاز میں سے ایک ہمارا مقدر ہوگا:
۱- نظریاتی اعتبار سے دو قومی نظریہ‘ پاکستان کی اسلامی شناخت‘ شریعت کی بالادستی اور حدود اللہ کی پاس داری‘ اسلامی تہذیب و ثقافت کی حفاظت و فروغ اور تعلیم میں اسلامی اقدار اور اہداف کا واضح کردار سب سے اہم اور مرکزی ایشو بن گیا ہے۔ ان پر روشن خیالی اور لبرلزم کے نام پر کھل کر حملہ کیا جا رہا ہے۔
۲- اب جملہ داخلی و خارجی امور کا فیصلہ دستورکے تحت ادارے اور عوام کے منتخب نمایندے نہیں کر رہے‘ بلکہ یونٹی آف کمانڈ کے نام پر ایک فردِواحد تمام اصولی‘ تاریخی اور قومی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اورجواب دہی سے بالا ہوکر اپنے ذوق‘ خواہشات اور مخصوص مفادات کی روشنی میں کر رہا ہے اور کرنے کے استحقاق کا دعویٰ بھی کر رہا ہے۔ یہ پورے سیاسی نظام اور ملت اسلامیہ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر خط تنسیخ پھیرنے کے مترادف اور قوم کی آزادی اور عزت دونوں پر شدید ترین حملہ ہے۔
۳- نظریاتی اور سیاسی انقلابِ معکوس (counter-revolution) کے ساتھ تیسرا خطرہ اب پاکستان کے جغرافیائی وجود کو لاحق ہے۔ اس کے بڑے بڑے مظاہر یہ ہیں: (۱)مرکز اور صوبوں میں بُعد‘ جو اب تصادم کی حدوں کو چھو رہا ہے (۲) بلوچستان میں فوج کشی (۳)سندھ میں ایک لسانی مافیا کی سرپرستی (اسے کھلی چھوٹ جو لاقانونیت اور بھتہ خوری سے بڑھ کر اب پھر مہاجر‘ پختون‘ پنجابی ٹکرائو اور خون خرابے کی طرف بڑھ رہا ہے) (۴) شمالی اور جنوبی وزیرستان اور باجوڑ میں قوت کا بے محابا استعمال (۵) ایجنسیوں کے ذریعے ملک کے مختلف حصوں میں مذہبی‘ لسانی اور علاقائی عصبیتوں کا فروغ اور اسے تصادم اور خون ریزی تک لے جانے کی مساعی‘ اور اب (۶) ریاست جموں و کشمیر کے سلسلے میں جنرل صاحب‘ ان کے وزیرخارجہ اور وزارتِ خارجہ کی سرکاری ترجمانی کے ذریعے دست برداری کے اعلان کی شکل میں وہ ضرب کاری جس کے نتیجے میں خدانخواستہ برعظیم کا نقشہ ہی بدل سکتا ہے۔
بھارتی ٹی وی نیٹ ورک کو جنرل صاحب کا ۵ دسمبر۲۰۰۶ء کا انٹرویو دراصل اس پورے عمل کا ایک اہم حصہ ہے۔ اگر قوم اب بھی اس خطرناک اور تباہ کن کھیل کا راستہ نہیں روکتی تو ہمیں خطرہ ہے کہ معاملات اس کے ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہیں۔
اس انٹرویو میں بہت کچھ کہا گیا ہے مگر دو چیزیں زیادہ اہم ہیں:
اوّل: جنرل صاحب کے سارے کھیل کا انحصار ’یونٹی آف کمانڈ‘ پر ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی خاطر وہ فوج کی سربراہی چھوڑنے کو تیار نہیں۔ انھوں نے صاف کہا ہے کہ جو کچھ میں کر رہا ہوں اس کے لیے تین قوتوں کی تائید حاصل ہے اور اس لیے حاصل ہے کہ وہ خود ان کی سربراہی کررہے ہیں‘ یعنی فوج‘ اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی۔
بات بہت صاف ہے۔ عوام‘ عوامی نمایندوں اور منتخب اداروں‘ پارلیمنٹ حتیٰ کہ کابینہ تک کا اس میں کوئی ذکر نہیں اور ذکر کی ضرورت بھی نہیں کہ وہ کسی شمار قطار میں نہیں۔ یہ سیدھے سیدھے قوت کا کھیل ہے اور اس طرح ایک نوعیت کا نوآبادیاتی (colonial) نظام ہے اور اس کی بقا اور استحکام جنرل صاحب کا مقصد اور ہدف ہے۔
دوم: کشمیر کے معاملے میں پاکستان کے اصولی‘ تاریخی اور خود پاکستان کی بقا و ترقی کے لیے ناگزیر موقف سے مکمل طور پر انحراف‘ جسے یو ٹرن اور سمت کی تبدیلی (paradigm shift) کے علاوہ کسی دوسرے لفظ سے تعبیر نہیں کیاجاسکتا۔ یہ بھارت کے موقف کو کھل کر قبول کرنے کے مترادف ہے۔ اب صاف لفظوں میں یہ تک کہہ دیا گیا ہے کہ بھارت سے کشمیر کی آزادی ہمارا مقصد نہیں۔ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ اصل ایشو نہیں۔ کشمیر بنے گا پاکستان‘ کشمیریوں کا نعرہ تھا‘ پاکستان کا ہدف نہیں۔ جموں وکشمیر پر پاکستان کا کوئی حق نہیں۔ گویا ۵۹سال تک جو کچھ پاکستان کرتا رہا وہ جھک مارنے سے زیادہ نہیں تھا۔ جو قربانیاں جموں و کشمیر اورپاکستان کے مسلمانوں نے آج تک دیں اور جن میں ۶لاکھ افراد کی شہادت‘ ہزاروں خواتین کی عصمت دری‘ اربوں کی املاک کا اتلاف‘ ہزاروں نوجوانوں کی گرفتاریاں‘ تعذیب اور مستقل معذوری‘ اور بھارت سے پاکستان کی چار جنگیں اور اس پس منظر میں فوج پر کھربوں روپے کا صرف___ سب ایک ڈھونگ‘ ایک سیاسی کھیل‘ ایک خسارے کا سودا تھا۔
اب فردِواحد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ریاست جموں و کشمیر پر بھارت کے قبضے کو سندِجواز عطا کردے‘ استصوابِ راے اور حقِخود ارادیت سے دست بردار ہوجائے‘اقوام متحدہ کی قراردادوں کو دفن کردے اور وہاں سے مسئلے کو واپس لینے تک کا اعلان کردے‘ آزادی اور تحریکِ آزادی سے برأت کا اظہار کر دے اور جو نظام جواہرلعل نہرو نے ۱۹۵۱ء میں دے کر ۱۹۵۳ء میں درہم برہم کردیا تھا اور جس خودمختاری کی خیرات دینے کا اعلان نرسمہارائو نے ۱۹۹۵ء اور ۱۹۹۶ء میں بار بار کیا تھا‘ اس سے بھی کم پر کشمیریوں کا سودا کرنے کے لیے آمادگی کا اظہار کیا جائے۔ اس سے بھی بڑھ کر خود آزاد کشمیر پر بھی مشترک کنٹرول (joint control )اور مشترک انتظام (joint management) کی باتیں کی جائیں۔ سید علی شاہ گیلانی اور تحریکِ آزادیِ کشمیر کے تمام ہی مخلص اور بھارت شناس قائدین نے اسے تحریک پاکستان‘ جموں و کشمیر کے مسلمانوں اور پاکستانی قوم سے غداری قرار دیا ہے‘ اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ بھارت کی قیادت اور جنرل پرویز مشرف کے اس کھیل کو ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
بات بہت صاف ہے۔ جموں و کشمیر کی ریاست کی قسمت کا فیصلہ وہاں کے عوام کو تقسیم ہند کی اسکیم کے ایک عمل کے طور پر کرنا ہے۔ کشمیر کا قضیہ (dispute) زمین کی تقسیم یا سرحدات کی حدود میں تبدیلی کا مسئلہ نہیں۔ یہ ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے حق خودارادیت کا مسئلہ ہے جس پر ماہ و سال کے گزرنے سے فرق نہیں پڑتا۔ آزادی اور حقوق کی جنگ امروز و فردا کی حدود کی پابند نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے عوام دو صدیوں سے زیادہ عرصے سے یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ برطانیہ‘ سکھ‘ ڈوگرہ‘ بھارتی حکمران‘ ان سب کے خلاف یہ جنگ لڑرہے ہیں اور ہم اس جنگ میں ان کے حلیف اور شریک ہیں۔ اس لیے کہ وہ دینی‘ تہذیبی‘ معاشی‘ سیاسی‘ جغرافیائی ہر اعتبار سے ہمارا حصہ ہیں۔ پاکستان کی جدوجہد میں جموں و کشمیر کے مسلمان برابر کے شریک تھے اور ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کے اجتماع میں انھوں نے قائم ہونے والے پاکستان کے حصے کے طور پر شرکت کی تھی‘ اور ۱۹جولائی ۱۹۴۷ء کو پاکستان کے قیام سے قبل انھوں نے اور ان کے منتخب نمایندوں نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کردیا تھا‘ اور اس اعلان کے تحت انھوں نے لڑکر جموں و کشمیر کا ایک حصہ عملاً آزاد کروایا جو آج آزادکشمیر اور شمالی علاقہ جات کی شکل میں پاکستان سے متعلق ہے جسے ہم آزاد کشمیر کی حکومت کہتے ہیں۔ یہ محض ان علاقوں کی حکومت نہیں جو بھارت کے چنگل سے ۴۹-۱۹۴۷ء میں آزاد کرا لیے گئے تھے‘ بلکہ دراصل پورے جموں و کشمیر کی آزاد حکومت ہے جس کے تصور سے اب جنرل صاحب اور ان کے حواری توبہ کر رہے ہیں اور بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کبھی نہیں کہا۔ یہ کہ اٹوٹ انگ ایک بھارتی واہمہ ہے اور ہم نے بھارت کے قبضے کو ہرسطح پر چیلنج کیا ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس بنیاد پر؟ کیا یہ بنیاد اس کے سوا کوئی اور تھی کہ ہندستان کی تقسیم کے فارمولے کے مطابق مسلم اکثریتی خطہ ہونے کی بنا پر جموں و کشمیر پاکستان کا حق ہے۔ پاکستان کے الفاظ تک میں ’ک‘ کا تعلق کشمیر سے ہے‘ قرارداد پاکستان میں کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ الحاق پاکستان کی قرارداد سے پاکستان اور کشمیر ایک جسم بن چکے ہیںاور قائداعظمؒ نے اسی بنیاد پر اسے پاکستان کی شہ رگ کہا۔ اسی بنیاد پر جہادِ آزادی کا آغاز ڈوگرہ راج کے خلاف ہوا جو آج تک جاری ہے۔ جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے کبھی اپنے کو پاکستان سے جدا تصور نہیں کیا۔
ان کی گھڑیاں پاکستان کی گھڑیوں کے مطابق وقت بتاتی ہیں‘ پاکستان کی ہرخوشی پر وہ خوش‘ ہر کامیابی پر وہ نازاں اور ہرمشکل پر وہ دل گرفتہ ہیں۔ انھوں نے بھارت کے تسلط کو کبھی قبول نہیں کیا اور بڑی سے بڑی قربانی دے کر اس کے استبداد کا مقابلہ کیا۔ ۱۴ اگست کو وہ یومِ آزادی مناتے ہیں اور ۱۵ اگست کو یومِ سیاہ۔ بلاشبہہ تکمیل پاکستان کی اس جدوجہد کے لیے ہم نے بین الاقوامی قانون کی پاس داری کرتے ہوئے استصواب راے کے قانونی عمل کی بات کی‘ اور جو بھی حق پسند ہوگا وہ اس کا اعتراف کرے گا جیساکہ امریکا کی قیادت کی وقتی مفادات پر مبنی قلابازیوں کے باوجود امریکا کی سابق سیکرٹری آف اسٹیٹ میڈیلین آل برائٹ نے ۱۳ دسمبر ۲۰۰۳ء کو خود دہلی کی سرزمین پر برملا کہا تھا کہ: ’’کشمیری عوام کی خواہشات معلوم کرنے کا واحد راستہ استصواب راے عامہ ہے‘‘۔
ستم یہ ہے کہ آج وہ جرنیل جن کا فرض منصبی ہی یہ ہے کہ ایک ایک انچ زمین کی حفاظت کے لیے جان دے دیں‘ جموں و کشمیر کی جنت نشان زمین ہی نہیں‘ ایک کروڑ انسانوں کی مقبوضہ ریاست کو تحفتاً بھارت کی غاصب قیادت کو پیش کرنے اور اُمت مسلمہ کے ایک حصے کا سودا کرنے کو تیار ہیں۔
بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کیوں نہ خوش ہو۔ سابق وزیراعظم گجرال کس مسرت سے کشمیر پر جنرل صاحب اور وزارتِ خارجہ کی ترجمان کے بیان کو سنگِ میل قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ: ’’کشمیر پر پاکستان کا دعویٰ ختم ہونے کے بعد مسئلے کا حل جلد نکل آئے گا‘‘۔
یہ مسئلے کا حل نہیں‘ یہ پاکستان کی شہ رگ کو ہمیشہ کے لیے دشمنوں کے پنجے میں دینے اور ایک کروڑ انسانوں کو غلامی کی جہنم میں دھکیل دینے کی جسارت ہے۔ یہ آزادکشمیر اور شمالی علاقہ جات کو بھارت کی افواج اور سیاسی دراندازیوں کے لیے کھولنے کی غداری ہے۔ یہ پاکستان کے تصور‘ اور قائداعظم اور تحریکِ پاکستان کے نقشۂ پاکستان کو درہم برہم کرنے کی سازش ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ کامیاب ہوتی ہے تو ہمیں ڈر ہے کہ اس کے نتیجے میں پاکستان کا نظریاتی ہی نہیں‘ جغرافیائی وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔
یہ خطرات اب صرف نظری امکان کی حد سے بڑھ کر حقیقی تبدیلی کے دروازے تک پہنچ چکے ہیں اور جس طرح برعظیم کے مسلمانوں نے قائداعظم کی قیادت میں وقت کے حقیقی خطرات کا صحیح ادراک کرکے ۱۹۴۰ء میں برطانیہ اور کانگرس کے گٹھ جوڑ کا مقابلہ کرنے کے لیے قیامِ پاکستان کی جدوجہد کا آغاز کیا اسی طرح آج امریکا اور بھارت کے عزائم اور ان کا آلہ کار بننے والے طبقات اور قیادتوں کے مقابلے کا عزم اور پروگرام وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
آج ملت پاکستان کی جدوجہد کا ہدف تحفظِ پاکستان اور تحفظِ کشمیر ہے۔ کشمیر اور پاکستان کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔ جن کی نظر تاریخ کے حقائق پر ہے‘ وہ جانتے ہیں کہ کشمیر سے پسپائی دراصل پاکستان کے انتشار اور بربادی کا راستہ اور برعظیم کے نقشے کوایک بار پھر تبدیل کرنے اور اکھنڈ بھارت کے خواب میں رنگ بھرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ ملتِ اسلامیۂ پاکستان نے پہلے بھی اپنے نظریاتی‘ تہذیبی اور جغرافیائی تحفظ کی جنگ ساری بے سروسامانی کے باوجود لڑی ہے اور ان شاء اللہ اب بھی لڑے گی۔ وسائل کے اعتبار سے آج ہم ۱۹۴۰ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ ضرورت بیرونی سہاروں پر بھروسا کرنے کے بجاے اللہ کے بھروسے پر حق و انصاف کے موقف پر ڈٹ جانے اور ہر قربانی کے لیے آمادہ ہونے کی ہے۔
وہ قیادت جو قومی مقاصد کو ترک کرچکی ہے‘ اب قوم پر ایک بوجھ (liability) ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ملک کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ (security risk)۔ ایسی قیادت سے نجات اور ایک ایسی متبادل قیادت کو زمامِ کار سونپنا وقت کی اہم ضرورت ہے جو ذاتی‘ گروہی اور عالمی طاقتوں کے مفادات کی اسیر نہ ہو‘ بلکہ ان پر ضرب لگانے کا داعیہ اور صلاحیت رکھتی ہو‘ جس سے دین اور قوم کے مفاد پر کسی سمجھوتے اور پسپائی کا خطرہ نہ ہو‘ جو خدا کی رضا اور ملتِ اسلامیۂ پاکستان کے حقوق اور مفادات کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے کا عزم رکھتی ہو‘ جو اپنی تاریخ اور دنیا کی سامراجی قوتوں‘ خصوصیت سے امریکا٭ اور بھارت کے عزائم کاشعور رکھتی ہو اور جو قوم کو قربانیوں اور جدوجہد کے راستے پر متحرک کرنے اور اس راہ میں اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھ کر ان کی قیادت کرنے کی مثال قائم کرسکتی ہو۔
آج پاکستانی قوم کے سامنے اصل سوال صرف ایک ہے___ کیا اب یہ قوم بیرونی ایجنڈے اور مفاد کی خاطر اصولوں کی قربانی دینے والی قیادت سے نجات کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کے لیے تیار ہے؟ اگر ہمیں اپنا دین‘ اپنی آزادی‘ ملتِ اسلامیۂ پاکستان کی قربانیاں‘ اور پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ عزیز ہے تو جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی سازش کا بھرپور مقابلہ کریں۔ پاکستان اور نظریۂ پاکستان کی جنگ آج کشمیر کے محاذ پر لڑی جارہی ہے اور وہاں پسپائی کے معنی دراصل مظفرآباد‘ اسلام آباد‘ پشاور‘ کوئٹہ اور کراچی کو نشانے پر (’in the line of fire‘) لانے کے سواکچھ نہیں ع
تیرے نشتر کی زد شریانِ قیسِ ناتواں تک ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۱۵ نومبر ۲۰۰۶ء پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ دن شمار کیا جائے گا۔ اس روزِ سیاہ ملک کی قومی اسمبلی نے اسلام اور شریعت اسلامی کے خلاف امریکی اور یورپی استعمار کی کھلی جنگ میں جنرل پرویز مشرف کے حکم اور دبائو کے تحت‘ ان کے ایک آلۂ کار کا کردار ادا کرتے ہوئے ’تحفظ نسواں‘ کے نام پر’انہدام حدود اللہ‘ کے ایک قانون کو پاکستانی عوام کے شدید احتجاج کے باوجود منظورکرلیا‘ اور اس طرح اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک میں کتابِ قانون سے ایک شرعی حد اور چند دوسرے اسلامی احکام کو خارج کرنے کا ’کارنامہ‘ انجام دے کر قرآن و سنت اور اُس دستورِ پاکستان کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی جس کا حلف اُٹھا کر یہ وجود میں آئی تھی۔ پھر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کھلے احکام کے خلاف اس بغاوت پر جنرل صاحب نے سارے دستوری‘ سیاسی اور اخلاقی آداب کو بالاے طاق رکھ کر اپنے ہم رکاب‘ آزادخیال‘ ترقی پسند اور اِباحیت پرست عناصر کو نہ صرف مبارک باد دی بلکہ ایک نئی صف بندی اور سیاسی جنگ کا اعلان بھی کردیا جس سے اس قانون کے اصل مقاصد اور اہداف کے بارے میں کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہا۔ یہ بل گویا نظریاتی اور تہذیبی جنگ کا عنوان ہے اور یہی وہ خاص پہلو ہے جسے ملک اور ملک کے باہر تمام آزاد خیال اور بش کے ہم نوا عناصر پیش کر رہے ہیں۔
معاشرے کے ترقی پسند اور اعتدال پسند عناصر کو‘ جو اکثریت میں ہیں‘ اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے اور اپنی حقیقی قوت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اعتدال پسند اور ترقی پسند قوتیں غالب آئیں گی۔ بہت نازک وقت ہے۔ آپ کو بنیادپرست اور انتہاپسند طاقتوں کو مسترد کر دینا چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ آپ ترقی پسند لوگوں کو منتخب کریں گے۔ (دی نیشن‘ ۱۶ نومبر ۲۰۰۶ئ)
بدھ کو پاکستان کے ایوان زیریں نے جو قانون منظور کیا ہے وہ حقوق نسواں اور سیکولر قانون کے غلبے‘ دونوں کے لیے پیش رفت ہے۔ پوری مسلم دنیا میں اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ پاکستان کی ترقی میں مسلم دنیا کے دوسرے ممالک کے لیے بشمول ایران اور سعودی عرب جہاں حدود آرڈی ننس جیسے قوانین ہیں‘ غیرمعمولی اہمیت کا سبق ہے۔ (اداریہ، ’پاکستان میں خواتین کے حقوق‘، ۱۷ نومبر ۲۰۰۶ئ)
ٹونی بلیر اور امریکا کے وائٹ ہائوس کے ترجمان‘ دونوں نے اس بل کا خیرمقدم کیا ہے اور اپنی ھل من مزید روایت پرقائم رہتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ یہ ناکافی ہے‘ اور آگے بڑھو اور تمام مبنی بردین قوانین سے نجات حاصل کرو!
جنرل صاحب کا سیکولر ایجنڈا تو پہلے دن سے سر اُٹھا رہا تھا مگر بار بار کی کوشش کے باوجود وہ اس سمت میں کوئی بڑا قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کر پارہے تھے جو مغرب کی ان سیکولر قوتوں کو خوش کرے جو شرعی قوانین خصوصیت سے حدود‘ تحفظ ناموسِ رسالتؐ، ختم نبوتؐ اور پھر دینی تعلیم‘دینی مدارس اور اسلام کے تصورِ جہاد کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ بش کی دہشت پسندی کے خلاف نام نہاد جنگ نے جنرل صاحب کو اپنے قدم جمانے اور بیرونی سہاروں پر اپنے باوردی اقتدار کو مستحکم کرنے کا موقع دیا اور پھر وہ فیصلہ کن گھڑی آگئی جب بش اور مغربی اقوام نے ان کی وفاداری کے ثبوت کے لیے ان سے مطالبہ کیا کہ خود اپنی قوم کے نوجوانوں کو قتل کریں‘ جہاد کی ہرشکل سے برأت کا اعلان کریں‘ خصوصیت سے کشمیر کی جدوجہد آزادی سے دست کش ہوں جسے پاکستانی عوام ہی نہیں پوری اُمت اسلامیہ ایک مبنی برحق جہاد سمجھتی ہے۔ اس سلسلے کا سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ حدود قوانین کو کتابِ قانون سے ساقط کر کے اپنی روشن خیالی، مگر بالفاظ صحیح تر ’بش خیالی‘ اور آزادروی کا ثبوت دیں___اور بالآخر ارکانِ پارلیمنٹ حتیٰ کہ ان کی اپنی پارٹی کی ایک معتدبہ تعداد (آخری راے شماری میں سرکاری پارٹی کے ۴۲ ارکان نے شرکت نہیں کی جن سے جواب طلبی کی جارہی ہے) کے عدمِ تعاون کے باوجود جنرل صاحب نے پیپلزپارٹی سے بے نظیرصاحبہ کے خصوصی حکم نامے کے تحت کمک حاصل کرکے صدربش کے ’اسلام کی اصلاح‘ (reforming Islam) کے کروسیڈ میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس کے نتیجے میں ملک کا سیاسی منظرنامہ بھی متاثر ہوا۔ حزبِ مخالف نہ صرف بٹ گئی بلکہ جیساکہ بی بی سی کے مبصر نے کہا: حدود بل مستقبل میں صدرمشرف اور پیپلز پارٹی کی ورکنگ ریلیشن شب کا سنگ بنیاد ثابت ہوگا‘‘، اور سیکولر دانش وروں اور صحافیوں کے گرو‘ امتیازعالم صاحب نے اسے اس طرح بیان کیا کہ:
درحقیقت اس بل نے سیاسی قوتوں کی نئی صف بندی کے امکانات کا راستہ کھول دیا ہے اور انتخابات سے پہلے آزاد رو بمقابلہ قدامت پسند قوتوں کی محاذآرائی کے لیے فضا تیار کردی ہے۔ اس [مشرف] کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوگا کہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ لبرل پلیٹ فارم سے ملاؤںکا مقابلہ کریں۔ (دی نیوز، ۲۱ نومبر ۲۰۰۶ئ)
حدود قوانین میں تبدیلی کے اقدام کا جائزہ خالص شرعی اور اعتقادی پہلوؤں کے ساتھ‘ آج کے اس ملکی اور بین الاقوامی سیاسی پس منظر میں لیا جانا ضروری ہے۔
عراق پر حملے اور حدود اللّٰہ پر حملے کے لیے
بش اور مشرف کی یکساں حکمت عملی
ا : یہ قوانین ایک فردِواحد کے مسلط کردہ ہیں اور انھیں کوئی سیاسی حمایت حاصل نہیں۔
ب: یہ خواتین کے خلاف امتیازی سلوک پر مبنی ہیں۔
ج: زنا بالجبر (rape) کا نشانہ بننے والی خواتین کے لیے عینی گواہ لانا ضروری ہے ورنہ ان کو زنا بالرضا کے جرم میں دھر لیا جاتا ہے‘ مرد چھوٹ جاتا ہے اور عورت محبوس کر دی جاتی ہے۔
غلط بیانیاں تو اور بھی ہیں مگر ان تین باتوں کو اس تسلسل اور تکرار سے پھیلایا گیا ہے اور اس سلسلے میں حقائق کو اس طرح مسخ کیا گیا ہے کہ بش کے تباہ کن ہتھیاروں والے بڑے جھوٹ (big lie) کے علاوہ اس کی کوئی دوسری نظیر حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ ہم ان تینوں کے بارے میں اصل حقائق پیش کریں گے تاکہ اس طائفے کی دیانت اور اس کے دعوئوں کے قابلِ اعتبار ہونے کی حقیقت سامنے آسکے۔ جس مقدمے کی بنیاد ہی جھوٹ اور غلط بیانی پر ہو‘ اس کا حشر بش کی عراقی مہم جوئی سے مختلف کیسے ہوسکتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ حدود کا حقیقی نفاذ تو آج تک ہوا ہی نہیں لیکن یہ بھی گوارا نہیں کہ حدود کتابِ قانون کا حصہ ہوں کہ کہیں کل ان کا مکمل نفاذ نہ ہوجائے۔ نیز حدود پر حملہ مسلم اُمت کی اس صلاحیت کو آزمانے ( test) کے لیے ہے کہ یہ قرآن و سنت کے احکام میں تبدیلی کو کس حد تک برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اگر ایک حد کو پامال کیا جائے گا اور اسے برداشت کرلیا جائے گا تو پھر کل ایک ایک کر کے دوسری تمام حدود کو بھی پامال کرنے کی طرف پیش قدمی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ایک معمولی اقدام نہیں بلکہ اس کے دُور رس اثرات ناگزیر ہیں۔ یہ ایک نظریاتی‘ اخلاقی اور تہذیبی کش مکش کا عنوان ہے اور یہی وجہ ہے کہ مغربی اقوام کے چوٹی کے ماہرین حکمت عملی (strategists ) بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلامی دنیا کو قابو میں کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ اسلام میں تبدیلی کی جائے۔ روشن خیال اور اعتدال پسند اسلام اور بنیاد پرست اور جہادی اسلام کی تفریق اس کا مظہر ہے۔ حدود قوانین پر تازہ حملہ عورتوں کے تحفظ کے لیے ایک اقدام نہیں‘ مسلم معاشرے اور اُمت مسلمہ کو شریعت اور اسلامی اقدار کی بنیاد پر اجتماعی زندگی کا نقشہ تعمیر کرنے کے عزائم سے روکنے کا پیش خیمہ ہے۔ یہ اسلام کی اصلاح بالفاظ دیگر مرمت کرنے (reforming Islam ) اور دنیا میں اسلام کو نئی شکل دینے (restructuring) کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔
حدود قوانین میں ترمیم کرنے کی کوششوں کو حکمراں پارٹی‘ مسلم لیگ (ق) اور ملاؤں کی طرف سے سخت مزاحمت پیش آئی ہے۔ صدرمشرف نے بازو مروڑ کر یہ ممکن بنایا کہ مسلم لیگ (ق) سیلیکٹ کمیٹی کے بل کو آگے بڑھائے۔ (’حدود کی سیاست‘، دی نیوز، ۲۱ نومبر ۲۰۰۶ئ)
یہ وہی حربے ہیں جن سے بش نے اپنا نام نہاد حلیفوں کا اتحاد بنایا۔ اسی طرح جنرل مشرف نے حدود کے خلاف جنگ میں حلیفوں کو ساتھ لیا اور ملک کو ایک نظریاتی جنگ میں جھونک دیا۔
حدود قوانین کے خلاف مقدمہ سراسر جھوٹ اور غلط بیانیوں پر مبنی ہے جو اس پوری جدوجہد کوبدنیتی پر مبنی (malafide) ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
ایک بات یہ کہی جارہی ہے کہ ہم قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کرنا چاہتے اور حدود قوانین اور حدود میں فرق کرنا ضروری ہے۔ پھر بڑے دھڑلے سے کہا جاتا ہے کہ حدود قوانین انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں اور وہ مقدس نہیں‘ انھیں بدلاجاسکتا ہے۔ ان قوانین میں بہتری پیدا کرنے‘ عملی مشکلات کو دُور کرنے اور قانون کو اس کی اسپرٹ کے مطابق نافذ کیے جانے کے عمل کو مؤثر بنانے کے بارے میں ہر سوچ بچار جائز بلکہ ضروری ہے اور اس پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عملاً اس سلسلے میں کئی کوششیں ہوئی ہیں جن کا کوئی ذکر اس بحث میں نہیں کیا جاتا۔ اگر اسلامی نظریاتی کونسل کی کارروائیوں اور رپورٹوں کا مطالعہ کیا جائے تو ایک درجن سے زیادہ مواقع پر کونسل نے ان قوانین کو مؤثر بنانے کے لیے تجاویز پیش کی ہیں اور وزارتِ قانون سے ردوکد کی ہے مگر سیکولر ذہن رکھنے والی انتظامیہ کے ہاں کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
حدِ زنا آرڈی ننس ۱۰ فروری ۱۹۷۹ء کو ملک میں جاری اور نافذ ہوا۔ اس قانون میں کم ازکم پانچ ترامیم گذشتہ ۲۷ برسوں میں ہوئی ہیں جواس کا ثبوت ہیں کہ حد میں نہیں البتہ حدود آرڈی ننس میں کسی اصلاح یا تبدیلی کی ضرورت ہے تو وہ کی گئی ہے اور کی جاسکتی ہے۔
اس سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ طریق کار کے (procedural) معاملات میں اصلاح کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور آیندہ بھی اس سلسلے میں تجربات کی روشنی میں تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں البتہ ضابطے کی اصلاحات کے نام پر حدود کی تبدیلی یا ان کو غیرمؤثر بنادینا قابلِ برداشت نہیں۔
یہاں ضمناً حکومت کے منفی رویے کی عکاسی کے لیے ایک اور مثال بھی ریکارڈ پر لانا ضروری ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے ۱۹۸۹ء میں‘ زنا بالجبر کے سلسلے میں اپنے ایک فیصلے میں‘ زنا آرڈی ننس کی دفعات ۸ اور ۹ (۴) میں تین ترامیم کا فیصلہ دیا اور صدرمملکت سے گزارش کی کہ یکم فروری ۱۹۹۰ء تک مذکورہ دفعات میںترمیم کردیں ورنہ دستور کے تحت ’’مذکورہ بالا دفعات قابلِ نفاذ نہ ہوں گی اور شرعی قوانین پر عمل ہوگا‘‘۔ لیکن حکومت نے ترمیم کرنے کے بجاے سپریم کورٹ کی شریعہ بنچ میں اپیل کردی جس کا آج تک فیصلہ نہیں ہوا ہے‘ یعنی ۱۶ سال سے یہ ترامیم معلق ہیں۔
حدود قوانین میں ترمیم‘ بشرطیکہ وہ شریعت کے مطابق اور ان قوانین کے مقاصد کے حصول کے لیے ہو‘کوئی رکاوٹ نہیں۔ مخالفت ان ترامیم کے باب میں ہے جو حدود کو ختم یا غیرمؤثر کرنے کے لیے کی جائیں‘ جیساکہ حالیہ تحفظ نسواں قانون کے ذریعے کی جارہی ہیں۔
دوسری صریح غلط بیانی کا تعلق دن رات کے اس دعوے سے ہے کہ حدود قوانین جنرل ضیاء الحق کا ذاتی اقدام تھا جو سعودی عرب کے دبائو میں کیا گیا۔ جہاں تک ان کے نفاذ کے لیے صدارتی آرڈی ننس کے طریقے کو اختیار کیے جانے کا سوال ہے‘ وہ ایک حقیقت ہے لیکن اسی طرح کی ایک حقیقت ہے جیسی دوسرے سیکڑوں آرڈی ننس قوانین کی شکل میں ملک کی کتابِ قانون میں موجود ہے۔ جنرل ایوب سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک ہر فوجی حکمران نے سیکڑوں قوانین صدارتی فرمان کے ذریعے نافذ کیے ہیں اور پارلیمنٹ کی موجودگی میں بھی ۹۰ فی صد قانون سازی آرڈی ننسوں کے ذریعے ہو رہی ہے۔ اس پر اصولی تحفظات اپنی جگہ‘ لیکن صرف اسی ایک آرڈی ننس کو مطعون کرنا قرین انصاف نہیں۔
جہاں تک حدود قوانین کا تعلق ہے‘ ان کی حیثیت بہت مختلف ہے۔ یہ قوانین کسی انسان کے بنائے ہوئے نہیں بلکہ قرآن وسنت کے طے کردہ ہیں اور ان پر اُمت مسلمہ کی پوری تاریخ میں عمل ہوتا رہا ہے۔ دوررسالت مآبؐ سے لے کر مغربی استعمار کے قبضے تک یہ مسلمان ممالک میں جاری وساری تھے۔ مولانا مناظراحسن گیلانی مسلمان بادشاہوں پر تنقید کے ساتھ اس حقیقت کو بھی نمایاں کرتے ہیں کہ:
حالانکہ اور کچھ ان بادشاہوں کے عہد میں تھا یا نہ تھا لیکن قانون جہاں تک میں جانتا ہوں‘ ہر زمانے میں‘ مسلمانوں کی کسی حکومت کا کسی ملک میں‘ کوئی قانون اسلام کے سوا نافذ نہ رہا… مسلمانوں کے ہاتھ میں دنیا کی سیاست کی باگ ڈور جب تک رہی‘ اسلامی قانون کے ساتھ اس کی وفاداری مسلسل رہی۔ (مناظراحسن گیلانی‘ مقالاتِ احسانی‘ ص ۶۲-۶۳)
مسلمان بادشاہوں کی یہ خصوصیت رہی کہ ان میں جو بادشاہ متقی اور پرہیزگار تھے‘ وہ تو خیر اسلامی شعائر و حدود کا احترام کرتے ہی تھے‘ ان کے علاوہ جو سلاطین عشرت پسند اور لذت کوش ہوتے (باستثنا معدودے چند) وہ بھی اسلامی احکام کا احترام ملحوظ رکھنے میں کسی سے کم نہ تھے‘ نیز عدالتوں کے فیصلے قرآن و حدیث کی روشنی میں ہوتے تھے۔ (سعیداحمد اکبرآبادی‘ مسلمانوں کا عروج و زوال‘ ص ۳۶۵)
ہندستان میں اسلام کا قانون فوجداری صدیوں نافذ رہا۔ یہ کوئی آج کا عجوبہ نہیں۔ہندو مؤرخ وی ڈی مہاجن لکھتا ہے:
جرائم کی تین قسمیں تھیں‘ یعنی خدا کے خلاف جرائم‘ ریاست کے خلاف جرائم اور افراد کے خلاف جرائم۔ سزائوں کی چار قسمیں یہ تھیں: حد‘ تعزیر‘ قصاص‘ تشہیر۔ قرآن وہ بنیاد تھی جس پر قوانین مبنی تھے۔ اکبر تک نے فوجداری جرائم کے معاملات میں مداخلت نہیں کی جو اسلامی قانون تھا۔ (دی مسلم رول اِن انڈیا، ص ۲۰۷)
اسلامی فوجداری قوانین اور سزائیں پورے مغل دور میں نافذ رہیں‘ حتیٰ کہ اکبر نے بھی فوجداری قانون میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں کی۔ (دی ہسٹری اینڈ کلچر آف دی انڈین پـیپل‘ دی مغل ایمپائر، ممبئی‘ ۱۹۷۴ئ‘ ص ۵۴۴)
حدود کے نفاذ کا قانون کسی خلا میں نہیں بنایا گیا۔٭ ایک طویل تاریخی روایت کا تسلسل ہے اور اس کی جمہوری اساس مسلمانوں کے عقیدے اور ایمان پر ہے‘ کسی ووٹ پر نہیں۔ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں اسلامی قانون کے نفاذ کا دعویٰ بار بار ہوا اور خود قائداعظمؒ نے نصف درجن سے زیادہ مواقع پر شریعت اور اسلامی قوانین کے نفاذ کا ذکر کیا ہے۔پھر تحریک نظام مصطفیؐ کا مرکزی مطالبہ اسلامی شریعت کا نفاذ تھا جس کا آغاز خود جناب ذوالفقار علی بھٹو نے امتناع شراب کے آرڈی ننس سے کیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے حدود قوانین اسی کا تسلسل تھے۔
یہ بھی کہنا غلط ہے کہ جنرل ضیا الحق نے سعودی قانون کا چربہ یہاں نافذ کیا۔ سعودی عرب میں اس سلسلے میں کوئی باضابطہ قانون (legislation) نہیں ہے۔ وہاں ججوں کے بنائے ہوئے قانون (Judge made law)کا نظام نافذ ہے جو قرآن و سنت سے براہِ راست استفادہ کرکے قانون نافذ کرتے ہیں۔ نیز جو قوانین جنرل ضیاء الحق کے دور میں مرتب ہوئے وہ اس وقت کی اسلامی نظریاتی کونسل کے تیارکردہ مسودے پر مبنی تھے۔ جس کونسل نے یہ مرتب کیے اس میں جسٹس محمد افضل چیمہ‘ جناب خالداسحاق‘ مولانا محمد یوسف بنوری‘ خواجہ فخرالدین سیالوی‘ مفتی سیاح الدین کاکاخیل‘ مفتی محمد حسین نعیمی‘ مولانا محمد تقی عثمانی‘ مولانا ظفراحمد انصاری‘ جناب جعفرحسین صاحب مجتہد‘ مولانا محمد حنیف ندوی اور ڈاکٹر ضیاء الدین احمد‘ علامہ سید محمد رضی‘ مولانا شمس الحق افغانی اور ڈاکٹرمسز خاور خان چشتی۔ (اسلامی نظریاتی کونسل‘ سید افضل حیدر‘ دوست پبلی کیشنز‘ اسلام آباد‘ ۲۰۰۶ئ‘ ص ۷۶۵)
اس قانون کی تسوید میں کسی سعودی عالم کا کوئی کردار نہیں تھا۔ جن تین عالمی شہرت کے ماہرین قانون نے مدد کی وہ ڈاکٹر معروف دوالیبی سابق وزیراعظم شام‘ ڈاکٹر مصطفی احمد زرقا‘ پروفیسر قانون جامعہ شام‘ اور ڈاکٹر حسن ترابی سابق اٹارنی جنرل سوڈان تھے۔ ڈاکٹر معروف اور ڈاکٹر حسن ترابی فرانس کی سوبورن یونی ورسٹی سے قانون میں پی ایچ ڈی کی سند رکھتے تھے اور یونی ورسٹی پروفیسر کی خدمات انجام دے چکے تھے۔ جس کابینہ نے اس کی سفارش کی اس میں جناب اے کے بروہی‘ جناب شریف الدین پیرزادہ‘ جناب غلام اسحاق خان‘ جناب محمدعلی خان ہوتی‘ جناب چودھری ظہورالٰہی‘ جناب خواجہ محمد صفدر‘ جناب محمد خاں جونیجو تھے اوراس قانون کو مسلم لیگ‘ جمعیت علماے پاکستان‘ جمعیت علماے اسلام‘ جماعت اسلامی اور نواب زادہ نصراللہ کی پی ڈی پی کی حمایت حاصل تھی۔ بلاشبہہ اس وقت پارلیمنٹ نہیں تھی مگر تین سیاسی جماعتوں کے سوا پوری قوم نے اس کی تائید کی تھی۔ انھیں محض ایک شخص کی اختراع کہنا حقائق کی صحیح ترجمانی نہیں۔
تیسری بڑی غلط بیانی یہ ہے کہ قانون کے بننے کے بعد عورتوں پر مظالم میں اضافہ ہوگیا ہے‘ ان کے خلاف امتیازی سلوک کیا جارہا ہے‘ جیلیں عورتوں سے بھردی گئی ہیں‘ زنابالجبر کے مقدمات میں شہادت نہ ہونے پر زنابالرضا میں عورتوں کو دھرلیا جاتا ہے‘ عورتوں کو بے دریغ سزائیں دی جارہی ہیں‘ اور یہ کہ زنا کے سلسلے میں عورت کی گواہی قبول نہیں کی جاتی وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایک ناخوش گوار حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں دوسرے مظلوم طبقات کی طرح عورت ہی ناروا سلوک اور ظلم کا شکار ہے اور اس کی بڑی وجہ جاگیردارانہ نظام‘ بااثر طبقات کا قانون سے بالاہونا‘ ہرسطح پر کرپشن‘ پولیس اور عدالت کے نظام کی خرابیاں اور قانون کے احترام کی روایت کا فقدان ہے۔ اس کا تعلق محض حدود قوانین سے نہیں اور ساری خرابیوں کو ان حدود قوانین سے جوڑ دینا صریح ناانصافی ہے۔
پھر جو دعوے حدود قوانین کے سلسلے میں پورے دھڑلے سے کیے جاتے ہیں‘ وہ ذہنی اختراع سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ ہم صرف چند کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ کہ ہزاروں خواتین ان قوانین کی وجہ سے جیلوں میں ہیں‘ حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ وومن ایڈ ٹرسٹ کے ایک جائزے کے مطابق جو ستمبر۲۰۰۳ء میں ملک کے تین جیلوں کے کوائف پر مبنی ہے‘ صورت حال یہ سامنے آتی ہے: اڈیالہ جیل راولپنڈی میں کل ۱۲۵ خواتین تھیں جن میں سے ۸ئ۲۴ فی صد حدود کے تحت تھیں۔ کوٹ لکھپت جیل لاہور میں یہ تناسب ۴۹ فی صد تھا جہاں کل تعداد ۹۷ تھی۔ کراچی سنٹرل جیل میں تعداد سب سے زیادہ تھی‘ یعنی ۲۸۰ اور حدود کے تحت مقدمات میں ماخوذ کا تناسب ۲۸ فی صد تھا۔ ان تین جیلوں میں حدود کے مقدمات میں ماخوذ خواتین کا تناسب اوسطاً ۳۱ فی صد تھا۔
حال ہی میں صدارتی آرڈی ننس کے تحت جن خواتین کو جیلوں سے رہا کیا گیا ہے ان کے جو اعدادوشمار اخبارات میں آئے‘ ان سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ حدود قوانین کے تحت محبوس خواتین کا تناسب ایک تہائی سے کم تھا۔
۱۹۹۱ئ ۱۹۹۵ئ اضافہ
ہندستان میں زنا بالجبر ۹۷۹۳ ۱۳۷۹۵ ۴ئ۴۰
پاکستان زنابالجبر+ بالرضا ۱۴۸۲ ۱۶۰۶ ۷ئ۷
(ملاحظہ ہو شہزاد اقبال شام کا مقالہ’ارتکاب زنا (نفاذ آرڈی ننس ۱۹۷۹ئ) نفاذ کے ۲۵ سال___ ایک مطالعہ‘۔ انھی کی مرتب کردہ کتاب پاکستان میں حدود قوانین‘ مطبوعہ شریعۃ اکیڈمی‘ اسلامی یونی ورسٹی‘ اسلام آباد‘ ص ۸۹)
پاکستان میں زنا اور زنا بالجبر کے واقعات میں جو اضافہ ہوا ہے‘ اگر آبادی میں اضافے کے تناظر میں دیکھا جائے تو کسی اعتبار سے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ حدود قوانین کے بعد جیلیں عورتوں سے بھر دی گئی ہیں۔ زنا بالجبرکے جو واقعات رپورٹ ہوئے‘ وہ ۱۹۴۹ء میں ۵۲۱ تھے‘ ۱۹۸۰ء میں ۷۳۹ ہوچکے تھے۔ ان قوانین کے نفاذ کے بعد ۱۹۸۱ء میں یہ تعداد ۱۱۰۱ تھی جو ۲۰۰۴ء میں ۲۳۶۵ ہوگئی۔ آبادی کے تناسب سے ایک لاکھ میں ۰ئ۱ اور ۶ئ۱ کے درمیان رہی۔ مسلم معاشرے میں یہ بھی بہت شرم ناک اور افسوس ناک ہے۔ سعودی عرب میں جہاں حدود قوانین کو ٹھیک ٹھیک نافذ کیا گیا ہے جرائم میں غیرمعمولی کمی واقع ہوئی اور آج بھی یونیسکو کی رپورٹوں کے مطابق سعودی عرب میں جرائم کا تناسب دنیا میں سب سے کم ہے‘ جب کہ بھارت اور مغربی ممالک میں جہاں کوئی حدود قوانین موجود نہیں‘ زنا بالجبر نے سوسائٹی کی چولیں ہلا رکھی ہیں۔ بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ کے مطابق جسے پارلیمنٹ میں جولائی ۲۰۰۶ء میں پیش کیا جانا تھا‘ ہرآدھے گھنٹے میں ایک عورت کی جبری عصمت دری کی جاتی ہے اور ہر ۷۵ منٹ پر ایک کو قتل کیا جاتا ہے۔ نیز صرف ۲۰۰۴ء میں ۲۰۰۳ء کے مقابلے میں ملک کے ۳۵ بڑے شہروں میں جبری عصمت دری میں ۳۰ فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ (رائٹر کی رپورٹ‘ یکم جون ۲۰۰۶ئ)
برطانیہ میں برٹش کرائم سروے کے مطابق ۰۵-۲۰۰۴ء میں ۱۶ سال کی عمر سے بڑی خواتین میں سے ۲۳ فی صد نے اعتراف کیا کہ ان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایک سال میں عورتوں کی کُل آبادی کے ۳ فی صد نے اعتراف کیا کہ اس سال ان کی عصمت دری کی گئی ہے۔ پاکستان میں جنسی جرائم کا تناسب ایک لاکھ کی آبادی میں ۶ئ۱ ہے‘ جب کہ انگلستان میں یہ ۳ فی صد‘ یعنی ایک لاکھ میں ۳۰۰۰ بنتا ہے۔ امریکا میں ۱۹۸۶ء سے ۲۰۰۵ء تک اوسطاً ہرسال ایک لاکھ خواتین جبری عصمت دری کا نشانہ بن رہی ہیں‘ جسے وہاں forceable rape کہا گیا ہے۔ (بحوالہ سرکاری رپورٹ Crime in the United States 2005)۔ یہ دعویٰ کہ حدود قوانین کی وجہ سے پاکستان میں جرائم میں اضافہ ہوا ہے اور جیلیں عورتوں سے بھردی گئی ہیں‘ سرتاسر اتہام اور غلط بیانی پر مبنی ہے۔
پھر یہ دعویٰ بھی ایک سفید جھوٹ ہے کہ کسی ایسی خاتون کو جو زنا بالجبر کا نشانہ بنی ہواور الزام ثابت نہ ہونے کی صورت میں اسے زنا بالرضا کے جرم میں سزا دی گئی ہے۔ شریعت کورٹ کے ججوں اور قانونی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ایسا ایک واقعہ بھی وجود پذیر نہیں ہوا۔ امریکی محقق پروفیسر چارلس کینیڈی نے پاکستان میں حدود قوانین کے نفاذ پر جو تحقیق کی ہے اس میں پانچ سال کے تمام واقعات اورمقدمات کا تجزیہ کرکے وہ جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے روشن خیال کذب فروشوں کے لیے ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ان کے جھوٹے دعوے کی حقیقت دیکھی جاسکتی ہے چارلس کینیڈی اپنے مضمون Implementation of the Hudood Ordinance میں‘ جو اولاً امریکی جریدے Asian Survey میں شائع ہوا تھا اور پھر اس کی کتاب Islamization of Laws and Economy (مطبوعہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ اسلام آباد‘ ۱۹۹۶ئ) میں‘ لکھتا ہے:
شاید حدود آرڈی ننس کا سب سے زیادہ اہم پہلو اس قانون کا خواتین کے حقوق پر مبینہ اثر ہے۔ کئی حالیہ مطالعوں میں یہ کہا گیا ہے کہ ضیاء کا نظامِ مصطفیؐ اور خاص طور پر حدود آرڈی ننس خواتین سے امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ اسلامیانے کے عمل کے خواتین کے مقام پر جو اثرات ہوئے ہیں‘ اس کا جائزہ لینا اس مضمون کے دائرے سے باہر ہے۔ ہماری تحقیق حتمی طور پر ثابت کرتی ہے کہ حدود آرڈی ننس کے نفاذ کے محدود دائرے میں عورتوں کے خلاف کوئی واضح امتیازی رجحان نہیں ہے (دیکھیے: جدول ۳)۔ حقیقت اگر کچھ ہے تو وہ مردوں ہی کے خلاف تھوڑا بہت جنسی امتیاز ہے۔ حدود آرڈی ننس کے تحت ڈسٹرکٹ اور سیشن عدالتوں میں جو مجرم قرار دیے گئے ان کے ۸۴ فی صد مرد ہیں‘ اور جن کی سزائیں وفاقی شرعی عدالت میں برقرار رہیں ان میں ۹۰ فی صد مرد ہیں۔ سب سے زیادہ کھل کر سامنے آنے والی حقیقت تو زنا کی تعزیر کے حوالے سے یہ ہے کہ یہ جرائم کرنے میں کوئی جنسی تفریق نہیں ہے لیکن ڈسٹرکٹ اور سیشن کورٹ سے مجرم قرار پانے والوں کے ۵۶ فی صد اور وفاقی شرعی عدالت سے سزا پانے والوں میں ۹۰ فی صد مرد ہیں۔ ثانی الذکر تحقیق ویز (Weiss) کے اس دعوے کی تردید کرتی ہے جسے عام طور سے مغربی اور پاکستانی پریس درست سمجھتا ہے کہ پاکستان میں زنا کی سزا مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو زیادہ دی جارہی ہے۔ کسی کو حدود آرڈی ننس کی تنفیذ کے خلاف جائز شکایت ہوسکتی ہے۔ لیکن عورتوں کے خلاف جنسی امتیاز ان میں سے ایک نہیں۔(کتاب مذکورہ بالا‘ ص ۶۱-۶۲)
چارلس کینیڈی نے پہلے پانچ سال (۸۴-۱۹۸۰ئ) کے تمام مقدمات کا جائزہ لے کر اعداد و شمار سے اسے ثابت کیا ہے۔ زنا بالرضا کی دفعہ ۱۰ (۲) کے تحت ڈسٹرکٹ کورٹ میں ۱۴۵مردوں اور ۱۱۴ خواتین کو ملزم قرار دیا گیا لیکن وفاقی شرعی عدالت نے ۷۱ مردوں اور صرف ۳۰خواتین کو سزا دی۔ گویا ۲۵۹ میں سے ۱۵۸ کو رہا کر دیا اور ۱۰۱ کی سزا برقرار رکھی‘ جب کہ زنا بالجبر دفعہ ۱۰ (۳) کے ۱۶۵مقدمات میں جن میں سیشن کورٹ نے ۱۶۳ مردوں (یعنی ۹۹ فی صد) اور صرف ۲ خواتین (یعنی صرف ایک فی صد) کو سزا دی تھی لیکن وفاقی شرعی عدالت نے ان ۱۶۵مقدمات میں صرف ۵۹ مردوں کی زنابالجبر کی سزا باقی رکھی۔ دونوں خواتین کو رہا کردیا اور ان مردوں کو بھی جن کے بارے میں شہادت محکم نہیں تھی۔ پانچ سال میں کل ۱۶۰ افراد کوان دونوں جرائم میں سزا ہوئی اور وہ بھی تعزیری۔ (ملاحظہ ہو‘ کتاب مذکورہ‘ جدول ایک‘ دو اور تین‘ صفحات ۵۹-۶۳)
بعد کے اعداد و شمار اس تفصیل سے موجود نہیں لیکن بین الاقوامی یونی ورسٹی سے شائع شدہ کتاب پاکستان میں حدود قوانین حدود قوانین کے نفاذ کے ۲۵ سالہ جائزے میں ۲۰۰۳ء تک کے جو اعداد و شمار دیے گئے ہیں‘ وہ اس رجحان کی تائید کرتے ہیں۔ چارلس کینیڈی کے تحقیقی مقالے میں درج شدہ حاصل تحقیق کا خلاصہ اس حقائق کو سمجھنے میں مددگار ہوگا۔ چارلس کینیڈی جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ یہ ہے:
۱- حدود آرڈی ننس کے نفاذ کے نو سال بعد سب سے بڑانتیجہ یہ ظاہر ہوتا ہے: حدود آرڈی ننس کے نفاذ کا پاکستان کے فوجداری قانونی نظام پر نہایت معمولی اثر ہوا ہے۔ پاکستان اور مغرب دونوں جگہ عام خیال تھا کہ حدود کا نفاذ‘ (قطع ید اور رجم) پاکستان میں عام ہوجائیں گے۔ فروری ۱۹۸۸ء تک ملک میں حد کی کوئی سزا نہیں دی گئی ہے۔ حد کی صرف دو سزائوں کو (دونوں چوری کی) وفاقی شرعی عدالت نے برقرار رکھا ہے۔ یہ دونوں سزائیں سپریم کورٹ نے بعد میں ختم کردیں۔
۲- اسی طرح حدود آرڈی ننس کے نفاذ سے پاکستان میں عورت کی حیثیت پر کوئی مضرت رساں اثر نہیں ہوا ہے‘ جیساکہ اکثر الزام لگایا جاتا ہے۔
۳- حدود کے تحت انصاف فراہم کرنے کے عمل نے‘ زیادہ تر اعلیٰ عدالتوں پر بہت زیادہ بوجھ کی وجہ سے سول لا کے تحت طریق کار کے مقابلے میں‘ بہت کم وقت لیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے قیام نے‘ جس کا فوجداری قانون کا نہایت محدود دائرہ ہے‘ طریق کار کو رواں کیا ہے۔
یہاں یہ اضافہ مفید ہوگا کہ چارلس کینیڈی کی تحقیق کے مطابق وفاقی شرعی عدالت میں ایک مقدمہ اوسطاً چار مہینے میں ہر مرحلہ طے کر کے فیصلے پر منتج ہوتا ہے‘ جب کہ عام عدالتوں میں یہ مدت ۱۸ ماہ سے کئی کئی سال اور کچھ مقدمات میں ۱۵ اور ۲۰ سال پر پھیلی ہوئی ہے۔
۴- یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے (گو کہ اس کے لیے شہادت لانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے) کہ حدود کی سزائوں کا اندیشہ‘ متعلقہ جرائم کے ارتکاب کرنے میں ایک روک (deterrant) ثابت ہواہے۔
ان چار مثبت اثرات کے ساتھ چارلس کینیڈی کے اس تحقیقی جائزے سے تین منفی نتائج بھی سامنے آتے ہیں جو غورطلب ہیں:
۵- اس قانون کے نفاذ نے عدالتی اور سیاسی اداروں کے تعلقات میں کوئی واضح تبدیلی نہیں کی ہے‘ نہ اس نے پاکستان میں عدالتی طریق کار کو نمایاں طور پر تبدیل کیا ہے۔
اس کی بنیادی وجہ‘ جسے ہم آخر میں بتائیں گے ‘وہ دوغلا نظام ہے جوملک پر مسلط ہے‘ یعنی ایک چھوٹے سے دائرے میں شرعی قوانین اور پورا نظام دورِ استعمار کے تیار کردہ قانونی نظام اور ضابطہ فوجداری اور سول قانون کی گرفت میں!
منفی لحاظ سے دیکھا جائے تو حدود آرڈی ننس کے نفاذ نے خاندانی اور سماجی تنازعات میں ایک اضافی راستہ فراہم کیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت میں اپیل کیے جانے والے مقدمات کے ۵۰ فی صد کا تبدیل ہونا یہ حقیقت سامنے لاتا ہے کہ عدالتوں میں بہت سے مقدمات اس لیے لائے جاتے ہیں کہ سوشل کنٹرول کو روبہ عمل لایا جاسکے۔ والدین‘ شوہروں اور سرپرستوں کو معمول کے مطابق سوشل کنٹرول کے جو طریقے مہیا ہیں‘ حدود آرڈی ننس کے آنے سے ان کو اضافی طور پر یہ اختیارات حاصل ہوئے ہیں کہ اپنے بچوں یا بیویوں کو حقیقی یا مخفی دھمکیاں دے سکیں۔
آخری نکتہ بھی پاکستان کے سماج اور سیاسی اور معاشرتی نظام اور مجموعی طور پر جو طبقاتی گروہی اور اشرافیہ کے اقتدار کا نظام ہے‘ اس کو سمجھنے اور اس کی اصلاح کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے‘ یعنی:
آخری بات یہ ہے کہ حدود آرڈی ننس کی زد میں غیرمتناسب طور پر پاکستان میں معاشی طور پر کم حیثیت طبقہ رہا ہے۔ متوسط طبقے یا اعلیٰ طبقے کے پاکستانی بہت کم اس کے تحت ملزم قرار دیے گئے ہیں۔ نہ یہ عدالتوں کا قصور ہے‘ نہ قانون کا بلکہ یہ پاکستانی معاشرے کی ساخت میں موجود عدم مساوات کا عکاس ہے۔
۱- اس سماجی‘ معاشی اور قانونی نظام میں ہے جو دور استعمار کے ورثے میں ہم پر مسلط ہے۔
۲- ان بااثر طبقات کے ظلم وستم اور قانون کے غلط استعمال میں ہے جو عوام پر غلبہ پائے ہوئے ہیں۔
۳- پولیس‘ زیریں عدالتوں اور مقدمے کے طریق کار کی خرابیوں کی وجہ سے ہے جن کی اصلاح کی طرف سے غفلت برتی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ مقدمے کے طریق کار کا سارا قانون (procedural law) وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے دستوری قدغن کے ذریعے باہر کردیا گیا ہے اور اس باب میں وہ ’ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بن کر رہ گئی ہے۔
ایک اور غلط بیانی جو بڑے دھڑلے سے کی جارہی ہے‘ عورت کی گواہی کے بارے میں ہے‘ خصوصیت سے زنا بالجبر کے سلسلے میں۔ بلاشبہہ شریعت نے اس زنا کے سلسلے میں حد کے نفاذ کے لیے قابلِ اعتماد مرد گواہوں کی شرط رکھی ہے اور اس کی بڑی مصلحتیں ہیں۔ لیکن جرمِ زنا‘ اقدامِ زنا‘ تشدد‘ اغوا براے زنا و قحبہ گری ان سب کے سلسلے میں تعزیر کے لیے عورت کی گواہی نہ صرف معتبر ہے بلکہ کچھ حالات میں جیساکہ علامہ ابن قیم نے لکھا ہے ضروری ہے اورمعتبر ترین ہے۔ یہی بات وفاقی شرعی عدالت نے اپنے واضح فیصلوں میں کہی ہے اور اس پر عمل کیا ہے۔ اس پر بھی بڑا واویلا ہے کہ زنا بالجبر کی نشانہ بننے والی عورت سے گواہوں کا مطالبہ ظلم ہے حالانکہ زنابالجبر ہی وہ صورت حال ہے جس میں عورت پر زیادتی کی صورت میں فطری طور پر وہ چیخ و پکار کرے گی اور اس طرح لوگ اس کی مدد کو آسکتے ہیں جو گواہ بن سکتے ہیں۔ لیکن یہ بات صریح جھوٹ ہے کہ مظلوم عورت کی اپنی گواہی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ عورت کی گواہی اس جرم کی صورت میں بڑی اہم اور مرکزی حیثیت کی حامل ہے اور اس کے ساتھ قرائنی شہادت مجرم کے جرم کے ثبوت کا ذریعہ بنتی ہے۔ دورِ رسالت مآبؐ اور دورِ خلافت راشدہ میں اس جرم کا نشانہ بننے والی خواتین کی گواہی پر سزا ہوئی ہے اور خود پاکستان میں وفاقی شرعی عدالت عورت کی گواہی پر زنابالجبر کے مجرموں کو سزا دی ہے۔
آج تک کسی خاتون کو کسی بھی عدالت میں محض اس بنا پر گواہی دینے سے نہیں روکا گیا کہ وہ عورت ہے۔ حدِ زنا کے ہر مقدمے میں لیڈی ڈاکٹر بطور گواہ عدالتوں میں پیش ہوتی ہیں اور ان کی گواہی کی بنا پر سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔ ایسے مقدمات کی تعداد بے شمار ہے جن میں محض عورت کی اکیلی گواہی ہی پر سزائیں دی گئیں۔ اس کی صرف چند مثالیں ذیل میں پیش کی جارہی ہیں:
وفاقی شرعی عدالت نے اسی موضوع کو زیربحث لاتے ہوئے ایک مقدمہ ’رشیدہ پٹیل بنام وفاق پاکستان‘ میں درج ذیل خیالات کا اظہار کیا ہے:
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام اپنے منفرد معاشرتی نظام میں خواتین کو بار شہادت سے حتی الوسع بری الذمہ رکھنا چاہتا ہے… تاہم خصوصی حالات میں اگر کوئی واقعہ (بشمول حدود و قصاص) صرف ان کی موجودگی ہی میں درپیش ہو اور کوئی مرد موجود نہ ہو‘ یا ان کی تعداد ان کے بغیر مطلوبہ نصاب شہادت کے مطابق نہ ہو‘ یا وہ واقعہ اندرون خانہ ہی وقوع پذیر ہوا ہو‘ تو ایسی صورتوں میں ان کو شہادت سے روکنا‘ ان کی گواہی کو ناجائز سمجھتے رہنے پر اصرار کرنا اور ایسے مقدمات میں سرے سے ان کو ساقط الاعتبار ٹھیرانا قرآن مجید کے عمومی احکام سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ اس کے مثالی نظام عدل سے‘ اور نہ اسوۂ حسنہ اور عہد خلافت راشدہ سے اس کی تائید کی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر ان اداروں میں جہاں صرف خواتین کام کرتی ہیں یا رہایش پذیر ہوتی ہیں (مثلاً گرلز ہوسٹل‘ نرسنگ ہوم‘ویمن سنٹر وغیرہ)‘ یا ان اوقات میں جب ان کے مرد گھروں میں موجود نہ ہوں‘ اگر اس قسم کے جرائم کا ارتکاب ہو تو ایسی صورت میں اثباتِ جرم کا کیا طریقہ ہوگا؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ ایسے مقامات جہاںصرف خواتین ہی گواہ ہوں یا صرف غیرمسلم موجود ہوں‘ اس جرم کے ارتکاب کی شہادت دینے کون آئے؟ بہرحال ہمارے نزدیک مخصوص حالات میں خواتین کی گواہی حدود و قصاص سمیت سب معاملات میں لی جاسکتی ہے‘ البتہ ایسی شہادتوں پر حد کی سزا نہیں دی جائے گی اور صرف تعزیری سزا کے لیے انھیں قبول کیا جائے گا۔
ہمیں اس سے انکار نہیں کہ دوسرے تمام قوانین کی طرح حدود قوانین کو بھی پولیس اور مفادپرست طبقات نے‘ حتیٰ کہ کچھ حالات میں ظالم رشتہ داروں یا سابق شوہروں نے غلط استعمال کیا ہے‘ اور اس کی سب سے شرم ناک مثال حدود آرڈی ننس کی دفعہ ۱۶ کا غلط استعمال ہے جس میں عورت ملزم ہو ہی نہیں سکتی لیکن اس کے باوجود سیکڑوں خواتین کو اس دفعہ کے تحت گرفتار کیاگیا ہے‘ لیکن ان تمام زیادتیوں کا ازالہ حدود قوانین کو تبدیل کرنے سے نہیں‘ نظام کی اصلاح سے ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے بار بار اس طرف متوجہ کیا ہے مگر حکومت اور پارلیمنٹ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ہم وفاقی شرعی عدالت کے ایک فیصلے کا ایک حصہ نقل کرتے ہیں جس سے اندازہ ہوگا کہ خرابی کہاں ہے۔ غلام نبی کاٹھیو بنام سرکار ایک عبرت ناک منظر پیش کرتا ہے۔
ایک مقدمے میں ایک شخص نے حسن جونیجو ولد محرم جونیجو کے خلاف مقدمہ درج کروایا کہ اس نے اس کی بیٹی مسماۃ بے نظیر کے ساتھ زنا بالجبر کا ارتکاب کیا ہے۔ لیکن متعلقہ پولیس افسر نے مقامی زمیندار کے کہنے پر اصل ملزم کو گرفتارکرنے کے بجاے مقامی زمیندار کے ایک مخالف غلام نبی کاٹھیو ولد مہرو کاٹھیو کو نہ صرف گرفتار کیا بلکہ پورا مقدمہ اسی کے خلاف قائم کیا جس کے نتیجے میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے اسے ۱۰سال قید بامشقت اور ۲۵ ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ عدالت عالیہ نے اس مقدمے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ پولیس کا رویہ حیران کن اور متعلقہ جج کا رویہ اس سے بھی زیادہ حیران کن ہے۔ ایک سینئر جج جو سیشن جج کے مرتبے پر فائز ہے اور پورے حیدرآباد ڈویژن کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کا جج ہے ‘اس سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی جو اس نے کیا۔ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فاضل جج جناب عبدالغفور حسین نے چالان کے مندرجات کو پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی‘ ورنہ اس پر صورت حال واضح ہوجاتی۔ ملزم چونکہ غریب آدمی تھا اور وکیل کرنے کی استطاعت نہ رکھتا تھا‘ لہٰذا اس کے مقدمے کی سماعت بغیر وکیل کے ہوئی۔ وہ چونکہ غیرتعلیم یافتہ اور اَن پڑھ آدمی تھا‘ لہٰذا اپنا دفاع کرنے کے قابل نہ تھا۔ لہٰذا یہ عدالت کی ذمہ داری تھی کہ ایک ایسے شخص کو انصاف فراہم کرتی جو پولیس اور مقامی زمیندار کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہوا تھا۔
پولیس افسر سے جب اس بات کی وضاحت طلب کی گئی کہ اس نے حسن کے بجاے غلام نبی کو کیوں گرفتار کیا۔ اس نے کہا کہ حسن اصل میں غلام نبی کا بھائی تھا اور مدعی مقدمہ نے غلطی سے غلام نبی کے بجاے اس کے بھائی حسن کا نام لکھوا دیا۔ لیکن وہ یہ محسوس نہ کرسکا کہ جس فرد کا نام ایف آئی آر میں ہے وہ غلام نبی کا بھائی نہیں ہوسکتا کیونکہ حسن محرم کا بیٹا ہے اور اس کی ذات جونیجو ہے‘ جب کہ غلام نبی مہرو کا بیٹا ہے اور اس کی ذات کاٹھیو ہے۔ مختلف ذات اور مختلف ولدیت کے افراد آپس میں بھائی کیسے ہوسکتے ہیں۔ فیصلہ مکمل کرنے سے پہلے ہم کچھ سوالات اٹھانا چاہیں گے:
۱- آخر کب تک پولیس اور زمینداروں کے ہاتھوں اس ملک میں غریب اور معصوم ظلم کا شکار ہوتے رہیں گے؟
۲- آخر کب تک اصل مجرموں کو چھوڑا جاتا رہے گا اور بے گناہ لوگوں کو مقدمات کا سامنا کرناپڑے گا؟
۳- آخر کب تک یہ ناانصافیاں جاری رہیں گی اور قانونی طریق کار کو غلط طور پر استعمال کیا جاتا رہے گا؟
۴- آخر کب تک معصوم شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی واضح پامالی ہوتی رہے گی؟
۵- آخر کب تک اس ملک کے معصوم‘ اَن پڑھ اور غریب شہری جوکہ اسی طرح انسان ہیں جس طرح دولت مند نام نہاد طاقت ور اور بڑے شہری ہیں‘ ان افراد اور حکام کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہوتے رہیں گے جن کی ذمہ داری ہے کہ ان کی زندگی آزادی‘ عزت‘ جایداد اور عقائد کی حفاظت کریں۔
عدلیہ‘ انتظامیہ‘ پولیس اور تمام متعلقہ لوگوں پر ان سوالوں کا جواب قرض ہے۔
ہمارے اس جائزے سے یہ حقیقت ثابت ہوجاتی ہے کہ اصل حدود قوانین پر تنقید سرتاسر غلط اور بے محل ہے بلکہ یہ کذب‘ غلط بیانی اور بددیانتی پر مبنی ہے۔ البتہ جہاں اصلاح کی ضرورت ہے وہ حدود قوانین اور تمام قوانین کے نفاذ کے نظام: پولیس‘ انتظامی اور عدالتی مشینری‘ عوام اور سرکاری کارپردازوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے نظامِ احتساب (accountablity) میں ہے۔ تحفظ نسواں کے نام پر ان اصل خرابیوں کی طرف توجہ دیے بغیر حدود قوانین میں ایسی تبدیلیاں کرنے کی شرم ناک جسارت کی جارہی ہے جو شریعت کے مسلمہ احکام کے خلاف ہیں اور قرآن و سنت کے نصوص اور ان کی اسپرٹ سے متصادم ہیں۔ ہم برادر عزیز و محترم مولانا محمد تقی عثمانی کا مقالہ اس شمارے میں شائع کر رہے ہیں جو اس کے مختلف پہلوؤں کو مسکت دلائل کے ساتھ واضح کردیتا ہے۔ ہم صرف اختصار کے ساتھ اتمامِ حجت کے لیے اس قانون کے ذریعے قرآن و سنت کے خلاف کی جانے والی ترامیم کا ذکر کر دیتے ہیں:
۱- قرآن و سنت اور اجماع کی رُو سے زنا بالرضا کی طرح زنا بالجبر بھی حد ہے لیکن اس قانون کے ذریعے حدود قوانین کی دفعہ ۶ اور ۷ کو منسوخ کرکے زنا بالجبر کی حد کو ختم کیا جارہا ہے۔ حدود قوانین کی دفعہ ۴ اور ۵ جنھیں باقی رکھا گیا ہے‘ ان کا تعلق صرف زنابالرضا سے ہے اور زنا بالجبر ان کے دائرے سے باہر ہے۔ اور نئی دفعہ جو زنا بالجبر (rape) کے بارے میں ضابطہ فوجداری میں شامل کی جارہی ہے‘ اس میں حد کی سزا نہیں ہے بلکہ دریدہ دہنی کی انتہا ہے کہ اس قانون کے مقاصد کی تشریح کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے: ’’زنابالجبر کے جرم کے لیے حد نہیں ہے‘ اس کے لیے تعزیر ہے‘‘۔ یہ قرآن و سنت کے خلاف اتہام اور ایک جرمِ عظیم ہے اور اللہ سے بغاوت کے مترادف ہے۔
۲- زنا بالرضا کو ضابطوں کی تبدیلی کے ذریعے ریاست اور معاشرے کے خلاف جرم (crime against state and society) کی جگہ جو اسلام کے تصورِ قانون کا حصہ ہے‘ صرف فرد کے خلاف جرم کی سطح پر لے آیا گیا ہے جو اسلام کے فلسفۂ قانون کی نفی ہے۔
۳- حدود قوانین کی دفعہ ۳ کو منسوخ کر کے شرعی قوانین اور احکام کی دوسرے قوانین پر بالادستی کو ختم کردیا گیا ہے جو اسلام کے پورے نظامِ قانون پر ایک ضرب اور اس کی بے وقعتی کے مترادف ہے۔
۴- اسلامی قانون میں حدوداور تعزیرات ایک جامع نظام کا حصہ ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ حدود قوانین میں متعلقہ تعزیری احکام بھی شامل کیے گئے تھے۔ ان تمام احکام کو حدود قوانین سے نکالنا اسلام کے نظامِ قانون پر ضرب اور اسلام سے انحراف ہے اور قانون کے دوغلے نظام (dual system)کو جو ویسے بھی غلط ہے‘ ان جرائم پر بھی مسلط کرنا ہے جو حدود کے دائرے میں آتے ہیں۔ اس کے دو بڑے اہم نتائج ہوں گے: ایک یہ کہ یہ تمام جرائم وفاقی شرعی عدالت کے دائرے سے باہر ہوجائیں گے اور ہر کارروائی عام عدالتوں میں ہوگی اور دوسرے یہ کہ عام سیکولر قوانین‘ خصوصیت سے عائلی قوانین‘ جن کا گہرا تعلق ان حالات سے ہے‘ ان کو اپنے اپنے دائرے میں بالادستی حاصل ہوجائے گی اور شرعی قوانین کی ان پر بالادستی ختم ہوجائے گی۔ دستور کی دفعہ ۲۲۷ اس سلسلے میں بے کار ہے اس لیے کہ اس کے نتیجے میں کسی سیکولر قانون پر شرعی قانون کی بالادستی نافذ نہیں کی جاسکتی۔
۵- حد کے معاملے میں کسی حکومت حتیٰ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تخفیف یا معافی کا اختیار نہیں۔ اس نئے قانون کے نتیجے میں صوبائی اور مرکزی حکومت کو سزا میں تخفیف یا معافی کا اختیار مل جاتاہے جو قرآن و سنت کے احکام کے خلاف ہے۔
۶- قذف کے قانون میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں‘ وہ بھی قرآن و سنت کے احکام کے خلاف ہیں۔
۷- لعان کے بارے میں بھی شریعت کے احکام کو نظرانداز کردیا گیا ہے اور اسے صرف طلاق کا ایک سبب بنا دیا ہے‘ جب کہ شریعت کے مطابق قسم نہ کھانے کی صورت میں سزا اور اعتراف کی صورت میں حد کا اطلاق ہوتا ہے۔
یہ سات چیزیں مجوزہ قانون میں صراحتاً قرآن و سنت کے خلاف ہیں اور اگر ان کو پارلیمنٹ ملکی قانون کا درجہ دیتی ہے تو یہ قرآن وسنت سے بغاوت کے مترادف ہے۔
کہا جارہا ہے کہ کیا یہ اتنا اہم مسئلہ ہے کہ اس پر ملک گیر احتجاج کیاجائے اور اسمبلی سے مستعفی ہوجایا جائے۔ اللہ کی ایک حد کو قائم کرنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ۴۰سالوں کی بارشوں سے بہتر ہے اور ایک حد کو جانتے بوجھتے پامال کرنا تمام حدود سے بغاوت کے مترادف ہے۔ قرآن پاک کی ایک آیت یا ایک حکم کا انکار پورے قرآن کے انکار کے مترادف ہے اور انسان کو اگر وہ جانتے بوجھتے اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو کفر اور ارتداد کی طرف لے جاتا ہے۔ اور اس بارے میں مداہنت پورے دین سے مداہنت قرار پائے گی۔ نیز یہ جرم اور بھی سنگین ہوجاتا ہے کہ اگر کسی ملک میں شرعی حدود کتابِ قانون کا حصہ نہیں ہیں تو یہ ایک کوتاہی اور نافرمانی ہے لیکن ایک مرتبہ کتابِ قانون کا حصہ بنانے کے بعد اسے خارج کرنا صریح انکار‘ بغاوت اوراحکام الٰہی پر ضرب لگانے کے مترادف ہے۔
ایک معمولی مثال سے اسے یوں سمجھیے کہ روزہ نہ رکھنا ایک گناہ اور کوتاہی ہے‘ مگر روزہ رکھ کر توڑ دینا ایک جرم ہے‘ اور اس کا کفارہ ہے (اور کفارہ بھی بہت سخت کہ مسلسل ۶۰ دن تک روزے رکھے جائیں) اور روزہ کو حکم الٰہی ماننے سے انکار کفر کا درجہ رکھتا ہے اور انسان کو ارتداد کی سرحدوں پر لے جاتا ہے۔ جنرل مشرف اور ان کے حواری اس قانون کے ذریعے جو کام کر رہے ہیں وہ اللہ کے غضب کو دعوت دینے والا عمل ہے اور اُمت مسلمہ کے لیے کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ اور اگر اس پر بھرپور احتجاج نہ کیا جائے‘ اس اقدام کو روکنے کے لیے مؤثر جدوجہد نہ کی جائے اور اگر یہ مسلط کردیا گیا ہے تو اسے بدلنے کے لیے ہرممکن اقدام نہ کیا جائے تو یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بے وفائی ہوگی جو اپنی دنیا اور آخرت خراب کرنے کا راستہ ہے ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے‘ تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل‘ کوئی اگر دفتر میں ہے
(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۶ روپے‘ سیکڑے پر رعایت۔ منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آزادی اور محکومی میں بنیادی فرق کسی خاص ہیئت اور نظام سے بھی کہیں زیادہ فیصلہ سازی کے اختیار اور اسلوب کا ہے۔ معاملہ فرد کا ہو یا قوم کا___ اگر بنیادی فیصلے اور پالیسیاں خوف‘ دبائو‘ بیرونی مداخلت یا بلیک میلنگ کے زیراثر مرتب کی جارہی ہوں تو ظاہری ملمع سازی جو بھی کی جائے‘ حقیقت میں یہ سب محکومی کی شکلیں ہیں اور فرد یا قوم کی آزادی پر خط تنسیخ پھیرنے کے مترادف ہیں۔ علامہ اقبال نے اسی حقیقت کو یوں بیان کیا تھا کہ ؎
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے‘ نہ من تیرا نہ تن
جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے حادثے کے بعد جو قلابازیاں کھائی گئی ہیں‘ ان کے نتیجے میں ہماری خارجہ‘ عسکری اور داخلہ پالیسیاں امریکا کے اشارۂ چشم و ابرو کے مطابق تشکیل پا رہی ہیں اور یہ سلسلہ عالمی حالات میں جوہری تبدیلیوں کے باوجود ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر آج بھی جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ آزادی جو ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو قائداعظم کی قیادت میں لڑی جانے والی سیاسی اور جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان کی آزاد اسلامی ریاست کے قیام کی صورت میں ملت اسلامیہ پاک و ہند نے حاصل کی تھی‘ وہ نئی محکومی کے سیاہ سایوں کی زد میں ہے۔ پاکستان ایک ایسی دلدل میں دھنس گیا ہے جس سے نکلنے کی کوئی راہ موجودہ قیادت کے ہوتے ہوئے‘ نظر نہیں آرہی۔
خود کو دھوکا دینے کے لیے جو بھی خوش بیانیاں کی جائیں‘ حقیقت یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی گردن اب امریکا اور مغربی اقوام کی گرفت میں اس طرح پھنسی ہوئی ہے کہ ہاتھ پائوں مارنے کے باوجود وہ فیصلہ کرنے کی آزادی سے محروم ہوچکے ہیں___ اور اس وقت ملک کو جو سب سے بڑا خطرہ درپیش ہے‘ اس کی زد ہماری آزادی‘ قومی عزت و وقار اور اپنے حقیقی ملّی مفادات کے تحفظ کے اختیار اور صلاحیت پر ہے۔ قوم اب اس فیصلہ کن دوراہے پر کھڑی ہے جہاں ایک طرف آزادی کی بازیافت کا ہدف ہے تو دوسری طرف خوف اور بیرونی دبائو کے تحت امریکا کے نئے سامراجی جال میں امان (survival) کے نام پر دائمی محکومی کی ذلت کی زندگی۔ قوم کے سامنے ایک تاریخی لمحہ انتخاب ہے جسے انگریزی محاورے میں moment of truthکہتے ہیں۔ موجودہ قیادت تحریکِ پاکستان کے مقاصد اور اہداف سے بے وفائی کی راہ اختیار کرچکی ہے خواہ یہ کسی نام نہاد مجبوری کی بناپر ہو یا مفادات اور مخصوص اغراض کے حصول کے لیے___ بات جو بھی ہو‘ قوم کے لیے اب اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ اصل خطرات کا احساس کرے اور اپنی آزادی‘ ایمان اور عزت کے تحفظ کے لیے ایک فیصلہ کن جدوجہد کرے۔ حقائق پر اب کسی طرح ملمع سازی کارگر نہیں ہوسکتی۔
۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو حالات جیسے بھی تھے اور فوجی ڈرامے کے پیچھے جو عوامل اور جو کردار کارفرما تھے اس کی تفصیل سے قطع نظر (گو ایک دن اصلیت سے پردہ اُٹھے گا) ملک و قوم کی آزادی اور عزت و وقار کو سب سے بڑا دھچکا ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے سانحہ نیویارک و واشنگٹن کے بعد جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کے امریکا کے آگے سرتسلیم خم کرنے اور پاکستان کو ان کی چراگاہ بنا دینے کے اقدام سے لگا۔ اس واقعے کو اب پانچ سال گزر چکے ہیں اور اس زمانے میں وہ ایجنڈا‘ پروگرام اور اہداف کھل کر سامنے آگئے ہیں جن پر یہ قیادت عمل پیرا ہے۔ اس دور کے سب سے اہم پہلو تین ہیں:
اوّلاً، قوم کی قسمت کا فیصلہ ایک فردِواحد کے ہاتھوں میں ہے جو کسی ادارے‘ کسی نظام اور کسی دستوری قانون کا پابند نہیں۔ محض فوج کے ادارے کی سربراہی کے بل بوتے پر اور فوجی ڈسپلن کا فائدہ اُٹھا کر بنیادی فیصلے اپنی ذاتی مرضی‘ خواہشات اور مجبوریوں کے تحت کر رہا ہے‘ اور عملاً قیامِ پاکستان کے مقاصد اور ملت پاکستان کی تاریخی‘ نظریاتی‘ سیاسی اور تہذیبی عزائم کے برعکس اپنی خواہشات اور ترجیحات اور امریکا کے حکمرانوں کے احکام اور خواہشات کے مطابق کر رہا ہے۔ جب پارلیمنٹ نہیں تھی اس وقت بھی اور اب بھی جب بظاہر ایک پارلیمنٹ اور کابینہ ہے‘ فیصلہ سازی کا اختیار ایک فرد کو حاصل ہے۔ وہ کوئی لاگ لپیٹ رکھے بغیر برملا اعلان بھی کر رہا ہے کہ میں ہی اصل حکمران (man in command) ہوں اور باقی سب میری مرضی کے تابع ہیں۔ یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے جس نے ملک و قوم کی آزادی کو معرضِ خطر میں ڈال دیا ہے۔
دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ گو جنرل پرویز مشرف کی طاقت کا اصل منبع فوج اور اس کا ڈسپلن ہے‘ اور یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ اس عرصے میں انھوں نے خود فوج کے اعلیٰ کمانڈ اسٹرکچر کو بھی اپنی ذاتی جاگیر (feifdom) کی شکل میں ڈھال لیا ہے جس کا اعتراف خود فوج کے وہ سابق جرنیل بھی کر رہے ہیں جو جنرل صاحب کے حامی رہے ہیں جس کی سب سے اہم مثال جنرل طلعت مسعود کا وہ بیان ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ فوج کی بالائی سطح پر جنرل صاحب نے اپنے یار دوستوں کو بھر لیا ہے اور وہ خود ایک father figure(باپ)کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ خود جنرل پرویز مشرف ناین الیون سے لے کر آج تک جو بھی فیصلے کر رہے ہیں وہ حقائق‘ معروضی دلائل اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کے مفادات سے ہٹ کر خوف اور امریکی دبائو کے تحت کر رہے ہیں۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ناین الیون کے بعد جو یوٹرن پاکستان کی پالیسیوں میں آیا اور جس نے وہ خشتِ اوّل ٹیڑھی رکھی جس کے نتیجے میں ’تا ثریا می رود دیوار کج‘ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے‘ وہ امریکی دھمکی کہ ’تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے مخالف ہو‘ اور ہمارے ساتھ کے معنی ہمارے حکم کے تابع ہو ورنہ باغی اور دہشت گرد شمار کیے جائو گے اور ’پتھرکے دور کی طرف لوٹائے جائو گے‘ کا نتیجہ تھی۔ کسی خیالی وار گیمز (war games)کا جو بھی فسانہ جنرل صاحب نے اپنی خودنوشت میں کیوں نہ تراشا ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ فیصلہ پاکستانی قوم کا آزاد فیصلہ نہ تھا بلکہ ایک خوف زدہ حکمران کا واحد سوپرپاور کی دھمکی کے تحت ایک محکومانہ تعمیل ارشاد کا منظر تھا جس نے جارج بش‘ کولن پاول ہی نہیں‘ پاکستان میں امریکی سفیر نینسی پاول تک کو ششدر کر ڈالا تھا‘ اور جو کچھ نہ کچھ مزاحمت کی توقع رکھتے تھے کہ شاید سات میں سے تین چار شرائط کو پاکستان تسلیم کرے مگر باقی پر ردوکد کرے گا۔ وہ حیرت میں پڑ گئے کہ ایک ہی سانس میں ساتوں شرائط تسلیم کر کے جنرل صاحب نے طوقِ غلامی خوشی خوشی زیب تن کرلیا اور قوم کو خوش خبری سنائی کہ ’پاکستان بچ گیا‘ لیکن اس ’بچنے‘ کی کیا شکل بنی اس کا مختصر نقشہ ہم ابھی پیش کریں گے۔ اس وقت جس بنیادی بات تک گفتگو کو محدود رکھ رہے ہیں وہ آزادانہ فیصلے کا فقدان‘ اور خوف‘ دبائو اور بیرونی مداخلت کے خطرے کے تحت پالیسی کی بنیادی تبدیلی ہے۔
تیسری بنیادی چیز یہ ہے کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ دراصل امریکا کی نئی سامراجی حکمت عملی کا عنوان ہے اور اس کا مقصد نام نہاد دہشت گردی کا تعاقب نہیں‘ نئی سامراجی ملک گیری‘ عالمی سیکورٹی زونز کا قیام‘ شرق اوسط اور وسطی ایشیا کے معاشی وسائل پر تسلط اور گرفت‘ دنیا بھر کی مزاحم قوتوں اور ممالک کو اپنے قابو میں کرنا‘ خواہ تبدیلی قیادت کے ذریعے‘ یا جمہوریت کے فروغ کے نام پر سیاسی تبدیلیوںکے سہارے اور خواہ پیشگی حملے (pre-emptive strike) پر عمل پیرا ہوتے ہوئے فوج کشی کے ذریعے۔ بہانہ جو بھی ہو یہ جوع الارض‘ سیاسی غلبہ و تسلط کے قیام‘ معاشی وسائل پر گرفت اور اپنی تہذیب کو دوسروں پر مسلط کرنے کی عالم گیر جدوجہد ہے اور عملاًجنرل پرویز مشرف ناین الیون کے بعد امریکا کے اس پورے سامراجی عالمی پروگرام میں آلہ کار بن گئے ہیں‘ اور ان کی تازہ خودنوشت In The Line of Fire اس کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ امریکا کے اس پورے ایجنڈے میں اس کے شریک اور پاکستان اور مسلم دنیا میں اس امریکی نقشے میں رنگ بھرنے والے ایک کلیدی کردار ہیں۔ اس کتاب کے ذریعے انھوں نے امریکا کو یقین دلایاہے کہ میں ہی تمھارے اس پروگرام کو آگے بڑھا سکتا ہوں۔ لیکن اس کے معنی صاف لفظوں میں یہ ہیں کہ اقبال اور قائداعظم کے تصورِ پاکستان کو بھول جائو اور اُمت مسلمہ پاک و ہند نے جن مقاصد اور عزائم کے لیے جدوجہد کی تھی‘ وہ اب قصۂ پارینہ ہے‘ اب اصل منزل بش کے تصور کا محکوم اور تابع دار پاکستان ہے جسے جنرل صاحب اب ’روشن خیال میانہ روی‘ کا لبادہ پہنے قوم کے لیے قابلِ قبول بنانے کا کھیل کھیل رہے ہیں۔
فیصلے کی آزادی کی قربانی اور خودی اور بیرونی دبائو کے تحت پالیسی سازی کا آغاز ناین الیون کے بعد ہوا اور یہ عمل آج تک جاری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر ہم یہ فیصلہ نہ کرتے تو ملک تباہ ہوجاتا اور اس کے تمام اسٹرے ٹیجک مفادات قربان ہوجاتے۔ یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ ہم نے امریکا سے جنگ کے خطرے کو سامنے رکھ کر war gamesکا پورا نقشہ بنایا اور اس کے بعد امریکا کی فوجی قوت اور عزائم اور اپنے وسائل کا جائزہ لے کر امریکی شرائط تسلیم کیں۔ یقین نہیں آتا کہ ایک جرنیل کو امریکا کی فوجی قوت اور تباہ کاریوں کا اندازہ کرنے کے لیے کسی خیالی وار گیمز کی ضرورت تھی۔ عام سوجھ بوجھ کا ہرشخص اس حقیقت سے واقف ہے کہ دونوں میں کیا فرق ہے۔ مسئلہ وارگیمز کے ذریعے اپنی بے بضاعتی کی دریافت کا نہیں بلکہ اسٹرے ٹیجک حقائق کا جائزہ اور حق اور ناحق اور اپنی آزادی‘ عزت اور ایمان کے مطابق کسی موقف کے تعین اور ایک خونخوار سامراجی قوت کے عالمی عزائم‘ خصوصیت سے اپنے ہمسایہ مسلمان ممالک کے بارے میں اس کے ناجائز اور استعماری مقاصد میں آلہ کار بن جانے یا انھیں لگام دینے کی پالیسی یا کم از کم اس میں خود ذریعہ نہ بننے کا تھا۔
وسائل اور قوت کا فرق تو واضح تھا اور اس کے لیے کسی وار گیمز کی ضرورت نہ تھی۔ جنگی اور سیاسی حکمت عملی کا تعلق اس فرق کی روشنی میں جائز اور مبنی بر حق موقف کے تعین کا تھا اور یہ کام خوف کے تحت نہیں ہوش و حواس کے ساتھ مقاصد اور وسائل کی روشنی میں کرنے کا تھا۔ بلاشبہہ امریکا ایک زخمی شیر کی مانند تھا مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ بظاہر اپنی کھال بچانے کے لیے ہم اپنی آزادی‘ اپنی عزت‘ اپنے ایمان کی قربانی دے دیں۔ آخر ایران‘ ترکی حتیٰ کہ لبنان تک نے اپنے قومی مقاصد اور وقار و عزت کے مطابق ردعمل کا اظہار کیا۔ آخر ساری دشمنی کے باوجود امریکا نے ایران کو دھمکی دینے کا راستہ کیوں اختیار نہ کیا حالانکہ افغانستان تک رسائی کے لیے ایران‘ پاکستان اور وسطی ایشیا کے ممالک تینوں راستے تھے۔ امریکا پاکستان کے عدمِ تعاون کی شکل میں اس کی مرضی کے برعکس اس کی فضائی حدود (air space) کی خلاف ورزی کرسکتا تھا جیساکہ ۱۹۹۸ء میں افغانستان میں کچھ ٹھکانوں پر حملے کے لیے کرچکا تھا۔ ترکی نے اپنی پارلیمنٹ میں معاملہ رکھا اور پارلیمنٹ کے فیصلے پر قائم ہوگیا۔ امریکا جزبز ہونے کے سوا کچھ نہ کرسکا۔ امریکا نے لبنان سے مطالبہ کیا کہ حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دو اور لبنان کی حکومت نے صاف انکار کردیا۔
اوّل: یہ کہ سربراہ حکومت پوری قوم کو اعتماد میں لیتے‘ فوج کو مکمل طور پر تیاری کا حکم دیتے‘ اور جس طرح ۱۹۶۵ء میں لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے کلمے کی بنیاد پر بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے قوم کو تیار کیا تھا اسی طرح امکانی حملے کے لیے پوری قوم کو متحد کرکے مستعدومتحرک (mobilize) کیا جاتا۔ ہمیں یقین ہے کہ امریکا کے لیے یہ ایک مؤثر رکاوٹ ہوتا اور اگر افغانستان پر وہ فوج کشی کرتا بھی تو پاکستان پر فوج کشی کی جرأت نہ کرتا۔
دوم: اگر اس انقلابی فیصلے کی جرأت اور وژن نہیں تھا تو کم از کم یہ تو کیا جا سکتا تھا کہ ہم آنکھیں بند کرکے تمام شرائط ماننے کے لیے تیار نہیں البتہ بات چیت کے ذریعے کوئی قابلِ قبول صورت پیدا کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے عالمی راے عامہ کو بھی mobilizeکیا جاسکتا تھا۔ اسے No, Butکی حکمت عملی کہی جاسکتی ہے۔
سوم: اس سے بھی کم تر ایک تیسری صورت ہوسکتی تھی‘ یعنی Yes, Butکہ ہم تعاون کے لیے تیار ہیں لیکن کچھ شرائط کے ساتھ۔
چہارم: جنرل صاحب کے وارگیمز کا حاصل یہ تھا:Yes, Yes, Yes۔ انھوں نے چوتھا راستہ اختیار کیایہ کہ ہم یہ کام پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے کر رہے ہیں مگر نتیجہ برعکس نکلا۔ پاکستان کے ایک ایک مفاد پر شدید ضرب پڑی‘ یعنی ہماری آزادی‘ ہماری کشمیر پالیسی‘ استعماری جنگ کے خلاف تحریکِ مزاحمت اور دہشت گردی کا فرق‘ پاکستان کی نیوکلیر صلاحیت کی حفاظت اور ترقی اور نیوکلیر میدان میں بھارت سے برابری کا مقام۔ اور جو معاشی نقصانات ملک کو برداشت کرنے پڑے‘ ان کا اندازہ خود امریکی نارتھ کمانڈ کے اعلان کے مطابق جو خود ان کی ویب پر آیا تھا‘ صرف پہلے دو سال میں یہ نقصان ۱۲ ارب ڈالر تھا۔ جو نام نہاد معاشی امداد امریکا نے دی ہے‘ وہ اس کا ایک چوتھائی بھی نہیں۔
خوف اور بے اعتمادی کے تحت جو بھی فیصلے ہوتے ہیں‘ ان کا یہی حشر ہوتا ہے۔ آج افغانستان اور عراق دونوں جگہ امریکا کی ننگی جارحیت کی ناکامی اور دہشت گردی کی عالمی رو میں چنددرچند اضافے کے باوجود ہماری تابع داری کی پالیسی کا وہی حال ہے جس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ جو دھمکی ناین الیون کے وقت امریکی نائب وزیرخارجہ جارج آرمیٹج نے دی تھی‘ اسی نوعیت کی دھمکیاں مختلف انداز میں آج تک دی جارہی ہیں۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ پاکستان کے کان نہیں مروڑے جاتے کہ طالبان کی درپردہ مدد کر رہے ہو۔ صدربش سے لے کر ڈک چینی‘ رمزفیلڈ‘ کونڈولیزارائس‘ جنرل ابی زائد اور نکولس برنر تک ہرموقعے پر مطالبہ کرتے ہیں: do more۔ جو کہتے ہو‘ وہ کرکے دکھائو۔ جنرل صاحب کے سارے اعلانات کہ ہم نے سب سے زیادہ القاعدہ کے ارکان پکڑے ہیں‘ ان کی صفائی کے لیے کافی نہیں سمجھے جاتے‘ حتیٰ کہ اب افغانستان کے صدر حامد کرزئی صاحب بھی منہ در منہ جنرل صاحب پر دہشت گردی کی پناہ اور سرپرستی کا الزام لگارہے ہیں۔ اور صدربش کو وائٹ ہائوس کے ڈنر کے سلسلے میں کھلے بندوں کہنا پڑا کہ میں دونوں کی زبانِ حال (body language) پر نگاہ رکھوں گا۔ اس سے پہلے صدربش اسلام آباد آئے تھے تو اس موقع پر یہ طمانچا رسید کیا تھا کہ میں یہاں اس لیے آیا ہوں کہ دیکھوں جنرل مشرف جو کہتے ہیں وہ کر رہے ہیں یا نہیں؟ دوسری طرف جس دن جنرل صاحب اپنے حالیہ دورۂ امریکا سے واپسی پر لندن نازل ہوتے ہیں‘ اسی دن برطانوی فوج کی ایک نیم سرکاری رپورٹ میں آئی ایس آئی کے خلاف چارج شیٹ پیش کی جاتی ہے اور آئی ایس آئی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
اس شرم ناک یلغار کا تازہ ترین مظہر وہ رپورٹ ہے جو لندن کے اخبارات ڈیلی ٹیلی گراف اور سنڈے ٹائمز نے اکتوبر ۲۰۰۶ء کے شروع میں شائع کی ہے اور جس کا حاصل یہ ہے کہ افغانستان میں ناٹو کے کمانڈر نے ان پانچ ممالک کی حکومتوں سے جن کی فوجیں افغانستان کی ناٹو فوج کا بڑا حصہ ہیں‘ کہا ہے کہ ایک بار پھر پاکستان کو اس نوعیت کا پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ ’ہمارے ساتھ ہو یا پھر ہمارے دشمن ہو‘۔
ناٹو کے کمانڈر کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان کو پاکستان میں تربیت دی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ انھیں کسی تربیت کی ضرورت ہے؟ دراصل یہ ایک احمقانہ سوال ہے کہ وہ افغان مجاہد جو روس کے خلاف برسرپیکار رہے‘ جو خوں ریز خانہ جنگی میں ۲۰ سال سے مصروف ہیں اور جن کے رگ و پے میں عسکریت صدیوں سے جاری و ساری ہے‘ ان کو پاکستان میں کسی تربیت کی ضرورت ہے۔ اصل مسئلہ ان کی تربیت کا نہیں پاکستان کی گوشمالی اور بے عزتی کا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کی اس پالیسی کا حاصل یہ ہے کہ سب کچھ کرنے کے باوجود وہ معتبر نہیں اور امریکا‘ برطانیہ اور ناٹو کمانڈر ہی نہیں‘ بھارت کی قیادت اور افغانستان کے نمایشی حکمران تک پاکستان کے خلاف شب و روز زبان طعن دراز کر رہے ہیں۔ بھارت آج افغانستان میں معتبر اور بااثر ہی نہیں‘ وہاں سے پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے‘ اور پاکستان جس نے گذشتہ ۲۶‘ ۲۷ سال افغانستان کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دی ہیں‘ تائید و معاونت کی ہے اور آج بھی جس کی سرزمین پر ۳۰ لاکھ افغان مہاجر موجود ہیں وہ سب سے زیادہ ناقابلِ اعتماد بلکہ گردن زدنی شمار ہو رہا ہے اور جن کی خاطر جنرل پرویز مشرف دوستوں کو دشمن بنانے کی خدمت انجام دے رہے ہیں وہ ان کو ذاتی دوستی اور ان کی فوجی وردی کے تحفظ کے باب میں جو بھی کہیں لیکن سربراہ مملکت اور پاکستان کے کردار کے بارے میں بداعتمادی‘ طعنہ زنی اور تحقیر اور تذلیل کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ صدر بش نے اسلام آباد میں جنرل پرویز مشرف کے منہ پر کہا کہ نیوکلیر معاملے میں بھارت اور پاکستان برابر نہیں اور دونوں کی تاریخ اور ضرورتیں الگ الگ ہیں۔ بھارت کے لیے نیوکلیر تعاون کے دروازے کھول دیے ہیں اور پاکستان کے لیے نہ صرف ہردروازہ بند ہے بلکہ اس کی نیوکلیر صلاحیت آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے‘ اور عملاً اتنا دبائو ہے کہ نیوکلیر صلاحیت ٹھٹھر کر رہ گئی ہے اور حرکی سدّجارحیت (dynamic deterrance) کے لیے جس سرگرمی کی ضرورت ہے وہ خود جنرل صاحب کی خودپسندی اور کوتاہ اندیشی کے ہاتھوں معرضِ خطر میں ہے۔
پاکستان امریکا کی نگاہ میں کتنا ناقابلِ اعتماد ہے اس کا اندازہ اس سودے سے کیا جاسکتا ہے جو ایف-۱۶ کے سلسلے میں ہوا ہے۔ پہلے تو امریکا نے سودا کر کے رقم وصول کرنے کے باوجود ایف-۱۶ دینے سے انکار کردیا۔ پھر اب ہزار منت سماجت کے بعد جو معاملہ طے کیا ہے وہ اتنا شرم ناک اور ہماری آزادی اور وقار کے اتنا منافی ہے کہ اسے قبول کرنے کا تصور بھی گراں گزرتا ہے۔ جس حالت میں یہ جہاز ملیںگے‘ اگر ملے بھی تو‘ وہ مقابلے کی حقیقی دفاعی صلاحیت پیدا کرسکیں گے اور نہ پوری طرح ہمارے اپنے قبضہ قدرت میں ہوں گے۔ امریکی کانگریس کمیٹی میں ۲۰ جولائی ۲۰۰۶ء کو نائب وزیرخارجہ جان ہلر نے جو شرائط بیان کی ہیں اور ان کے بعد یہ اطلاع آئی ہے کہ ۳۰ستمبر کو پاکستان نے اس سودے کے بارے قبولیت کی دستاویز پر دستخط کردیے ہیں‘ انھیں پڑھ کر انسان حیرت میں رہ جاتا ہے کہ اس ملک کے فوجی حکمران‘ ملک کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہے ہیں۔ ملاحظہ ہوں وہ شرائط۔ اخباری اطلاعات کاخلاصہ یہ ہے:
ان شرائط پر بھی جب کمیٹی کے ممبران کی تسلی نہ ہوئی تو نائب وزیرخارجہ نے بتایا کہ اور بھی کچھ امور ہیں جو بند کمرے کے اجلاس میں بتائیں گے۔
یہ ہیں وہ کبوتر جو قوم کے گاڑھے پسینے کی کمائی کے ۵بلین ڈالر امریکا کو دے کر حاصل کیے جارہے ہیں۔ یہ فیصلہ کرنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ ان سے ہمارے دفاع‘ خصوصیت سے بھارت کے مقابلے کے لیے دفاعی صلاحیت میں کتنا اضافہ ہوگا اور امریکا کی فوجی سازوسامان کی صنعت کی کتنی سرپرستی ہوگی؟
جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں خود ملک کا دفاع بھی خطرات سے دوچار ہوگیا ہے۔ اس سے صرف انحراف ممکن نہیں۔ ان کی خودنوشت کا تجزیہ اس وقت ہمارا موضوع نہیں لیکن اس میں ان کی شخصیت کی جو تصویر اُبھر کر سامنے آتی ہے وہ ان کے اپنے الفاظ میں ایک ’داداگیر‘ کی ہے۔ صفحہ ۲۶ اور ۲۷ پر جو اپنی تصویر اُنھوں نے پیش کی ہے اور جو ان کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے کلید کی حیثیت رکھتی ہے انھی کے الفاظ میں یہ ہے:
ایک لڑکے کو اپنی بقا کے لیے گلی یا محلے میں نمایاں ہونا پڑتا ہے۔ لازمی طور پر میرے محلے میں بھی ایسے گینگ تھے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ میں ان میں سے ایک میں شامل ہوگیا۔ اور یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں کہ میں سخت جان (tough) لڑکوںمیں سے ایک تھا… پھر بغیر سوچے میں نے اپنی گرفت میں آئے لڑکے کو مار لگائی۔ لڑائی شروع ہوگئی اور میں نے مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیا۔ اس کے بعد لوگوں نے مجھ کو ایک باکسر قسم کا آدمی سمجھ لیا اور میری شہرت داداگیر کی ہوگئی۔ اس لفظ کا ترجمہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا مطلب ہے‘ ایک ایسا ’ٹف‘ لڑکا جس سے آپ نہیں اُلجھتے۔ (اِن دی لائن آف فائر)
بات صرف بچپن کی نہیں‘ خودنوشت کی تحلیل نفس کا حاصل اس کے سوا نہیں کہ یہ ان کی شخصیت کا طرۂ امتیاز ہے۔ البتہ وہ یہ بتانا بھول گئے کہ داداگیر اپنے سے کم تر پر‘ پریشر ہوتا ہے مگر اپنے سے قوی تر کے آگے بھیگی بلی بن جاتا ہے۔ چونکہ بش اور امریکا زیادہ بڑے داداگیر ہیں اس لیے جنرل صاحب اس کے ٹولے (gang) کے ایک چھوٹے ساتھی بن جاتے ہیں اور خود اپنے ماتحتوں اور ملک کے کمزور عوام کے لیے bully کا کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن کیا مہذب معاشرے اور اچھی حکمرانی میں بھی اس کی کوئی گنجایش ہوسکتی ہے؟
جنرل صاحب نے ناین الیون کے ضمن میں جن وار گیمز کا ذکر کیا ہے (ص ۲۰۱-۲۰۲)‘ وہ خودفریبی کا شاہکار ہے۔ اگر آزادی‘ ایمان‘ عزت اور بین الاقوامی عہدوپیمان کے دفاع کا یہی معیاری طریقہ ہے تو پھر انسانی تاریخ ازسرنو لکھنے (re-write) کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ قرونِ اولیٰ کی بات چھوڑ دیجیے‘ صرف اپنے قریبی زمانے پر نگاہ ڈالیے۔ دوسری جنگ شروع ہونے سے قبل جرمنی کی طاقت کا موازنہ اگر خود برطانیہ کے حکمران اپنی قوت سے کرتے تو جرمنی کو چیلنج کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ چیمبرلین جرمنی کی عسکری قوت سے اتنا مرعوب تھا کہ مقابلے کی جگہ اطمینان دلانے کا راستہ اختیار کرلیتا مگر چرچل نے ہارتی ہوئی بازی کو پلٹ کر رکھ دیا اور بیسویں صدی کی تاریخ نے نئی کروٹ لی۔ اگر دولت عثمانیہ کی زبوں حالی کے پیش نظر اور اس وقت کی یورپ کی تین سوپر پاورز کی ترکیہ پر یورش کے موقع پر جنرل پرویز مشرف کا ہیرو کمال اتاترک کسی ایسی ہی وارگیمز کا اسیر ہوجاتا تو آج ترکی کا کوئی وجود دنیا کے سیاسی نقشے پر نہ ہوتا لیکن قوت کے عدم توازن کے باوجود مقابلے کی حکمت عملی کامیاب رہی اور دولت عثمانیہ نہ رہی مگر ایک آزاد مسلمان ملک کی حیثیت سے ترکی نے اپنا سربلند رکھا۔ اگر فرانس کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہونے والے الجزائری مجاہدین کسی جرنیل کے وارگیمز کے اسیر ہوتے تو ڈی گال کی افواج کا مقابلہ کرنے کا تصور بھی نہ کرتے۔ اگرہوچی من کا مشیر کوئی جرنیل ایسے ہی وارگیمز کا طلسم بکھیرتا تو ویت نام کےتن آسان امریکا جیسی سوپرپاور کا مقابلہ کرنے کی حماقت نہ کرتے اور امریکا ویت نام کی فوجی شکست اور سیاسی ہزیمت سے بچ جاتا۔ اگر ماوزے تنگ کی کسانوں کی فوج چیانگ کائی شیک اور امریکا کی مشترک قوت کا حساب کتاب کسی وارگیمز سے کرتے تو چین کی تاریخ بڑی مختلف ہوتی۔
دُور کیوں جایئے اگر افغانستان اور عراق میں وہاں کے عوام کو کوئی ایسا جرنیل میسر ہوتا جو وارگیمز کی روشنی میں معاملات طے کرتا تو امریکہ چین ہی چین میں بنسری بجا رہا ہوتا اور پانچ سال کے قبضے کے باوجود افغانستان سے فوجی واپس بلانے کے لیے برطانوی فوج کے سربراہ جنرل سررچرڈ ڈرینٹ کو ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۶ء کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ ہمیں افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کی فکر کرنی چاہیے‘ اور ساڑھے تین سال کی جنگ گیری کے بعد امریکا کی ۱۶ انٹیلی جنس ایجنسیز کی یہ مشترک رپورٹ سامنے نہ آتی کہ مزاحمت روز بروز بڑھ رہی ہے اور ہمارے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ فوجی قوت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو‘ عوامی قوت کے سامنے نہیں ٹھیرسکتی۔ اور خدا بھلاکرے حزب اللہ کا کہ ان کے پاس کوئی ایسا جرنیل نہیں تھا جو وارگیمز کی مشق کرکے بتادیتا کہ دس بارہ ہزار مجاہدین کا اسرائیل کی پوری فوجی حکومت سے مقابلہ حماقت ہے اور اس طرح اسرائیل ۳۴ دن کی خوں ریزی کے بعد سیزفائر اور فوجوں کی واپسی کی زحمت سے بچ جاتا۔ باقی سب کو بھول جایئے‘ ۱۹۷۹ء کے اس دن کو یاد کرلیجیے جب روس کی سوپر پاور نے افغانستان پر کھلی فوج کشی کی تھی اور روسی سفیر نے جنرل ضیاء الحق سے‘ اس پاکستانی فوج کے ایک اور سربراہ سے‘ کہا تھا کہ اگر روس کو چیلنج کیا تو تمھاری خیر نہیں اور امریکا جیسی سوپر پاور نے بھی بس اتنا کیا تھا کہ ماسکو میں ہونے والے اولمپک میں اپنے کھلاڑی بھیجے سے انکار کردیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دفترخارجہ نے بھی شاید کسی وارگیمز کی مشق کرکے کہا تھا کہ اپنی انگلیاں نہ جلائو۔ لیکن ضیاء الحق نے مقابلے کی قوت کی فکر کیے بغیر ایک تاریخی فیصلہ کیا اور پھر خود امریکا کے صدر کے ایک نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر زبگینو برزنسکی نے افغان جہاد کی متوقع کامیابی کو بھانپ کر ۱۹۸۶ء ہی میں لندن ٹائمز میں اپنے ایک مضمون میں اعتراف کیا کہ:
افغانستان میں روس کی سیاسی اور عسکری شکست کے واحد معمار جنرل ضیاء الحق تھے۔ (لندن ٹائمز‘ ۱۸ اپریل ۱۹۸۶ء بحوالہ روزنامہ نواے وقت‘ یکم اکتوبر ۲۰۰۶ئ)
تاریخ ایسی داستانوں سے بھری پڑی ہے مگر اس کے لیے قیادت میں ایمان‘ عزم‘ بصیرت اور شجاعت کے ساتھ اللہ اور اپنے عوام کی تائید ضروری ہے۔ جہاں فیصلے خوف اور دبائو کے تحت ہوتے ہوں وہاں آزادی اور مزاحمت کی جگہ محکومی اور پسپائی لے لیتے ہیں۔
قرآن کا اپنا اسلوبِ ہدایت ہے۔ سورۂ بقرہ میں خوف کو بھی جہاد اور شہادت کے پس منظر میں آزمایش کی ایک صورت قرار دیا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی اللہ سے تعلق اور اس کی طرف واپسی کی حقیقت کی تلقین کے ساتھ جہاد‘ شہادت اور صبروصلوٰۃ کا راستہ بتایا گیا ہے۔ (البقرہ ۲:۱۵۳-۱۵۶)
اگر بہ فرض محال یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ۲۰۰۱ء میں کوئی اور چارۂ کار نہیں تھا‘ پھر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج ۲۰۰۶ء میں کیا مجبوری ہے کہ ہم صدربش کا اسی طرح دم چھلّا بنے ہوئے ہیں حالانکہ زمینی حقائق یکسر بدل چکے ہیں۔ افغانستان میں امریکا پھنس گیا ہے اور سارے عسکری کرّوفر کے باوجود نہ افغانستان کو اپنے زیرحکم لاسکا ہے اور نہ اسامہ بن لادن اور ملاعمر کو گرفتار کرسکا ہے۔ طالبان ایک ملک گیر قوت کی حیثیت سے اُبھر رہے ہیں اور ناٹو کے کمانڈر اور بین الاقوامی صحافی اور سفارت کار اعتراف کر رہے ہیں کہ کرزئی حکومت کی ناکامی‘ وارلارڈز کی زیادتیوں‘ معاشی زبوں حالی اور قابض فوجیوں کے خلاف نفرت اور بے زاری کے نتیجے میں طالبان کی قوت بڑھ رہی ہے۔ کئی صوبوں میں عملاً ان کی حکومت ہے‘ ایک صوبہ میں برطانوی افواج نے طالبان کے ساتھ معاہدہ امن تک کیا ہے اور ہرطرف سے طالبان سے معاملہ کرنے اور ان کو شریکِ اقتدار کرنے کے مشورے دیے جارہے ہیں۔
اسی طرح عراق میں امریکی فوجیں بری طرح پھنسی ہوئی ہیں۔ تشدد اور مزاحمت روزافزوں ہے۔ عراق کی تقسیم کے خطرات حقیقت کا روپ ڈھالتے نظرآرہے ہیں اور وہ سول وار کے چنگل میں ہے۔ دنیا میں دہشت گردی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ عراق کے بارے میں مشہور رسالے Lancetکے تازہ (اکتوبر ۲۰۰۶ئ) شمارے میں جو اعداد وشمار آئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ساڑھے ۶لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جو آبادی کا ڈھائی فی صد ہے اور جنگ کی آگ بجھنے کے کوئی آثار نہیں۔ اس وقت امریکا میں اس کی ۵۰ فی صد سے زیادہ آبادی جنگ کی مخالفت کر رہی ہے۔ یورپ میں یہ مخالفت ۷۰ اور ۸۰ فی صد کے درمیان ہے‘ جب کہ مسلم اور عرب دنیا میں ۹۰ فی صد سے زیادہ افراد اس جنگ کے خلاف ہیں‘ حتیٰ کہ عراق میں کیے جانے والے تازہ ترین سروے کے مطابق عراق کی ۹۳ فی صدسنی آبادی اور ۶۵ فی صد شیعہ آبادی امریکی فوجوں کی فوری واپسی کے حق میں ہے۔
امریکا میں بش مخالف تحریک تقویت پکڑ رہی ہے۔ برطانیہ میں ٹونی بلیر کی پالیسی کے خلاف کھلی کھلی بغاوت ہے۔ برطانوی فوج کے ذمہ دار افراد فوجوں کی واپسی کی بات کر رہے ہیں۔ اسپین اپنی افواج عراق سے واپس بلاچکا ہے اور اس کے بعد سے وہاں امن ہے۔ اٹلی‘ جاپان وغیرہ تخفیف کی بات کر رہے ہیں۔ یہ ہے ہوا کا رخ___ لیکن جنرل پرویز مشرف اب بھی بش کے دست راست اور پاکستان اور اس کی سیکورٹی افواج کو بش کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہراول دستہ بنائے رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔ خود اپنے وزیرستان کے تجربات سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں اور قبائلی علاقے کے طالبان اور دینی قوتوں سے معاہدہ کرنے کے باوجود اس پر طرح طرح کی ملمع سازی میں مصروف ہیں۔
امریکا کے جو بھی مقاصد تھے وہ ہمارے مقاصد اور اہداف ہرگز نہیں ہوسکتے اور اب تو امریکا خود ان مقاصد کے بارے میں شدید انتشار کا شکار ہے اور نکلنے کے راستوں کی تلاش میں ہے‘ جب کہ جنرل صاحب ’مدعی سُست گواہ چست‘ کے مصداق گرم جوشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اپنی قدروقیمت کو بڑھاچڑھا کر پیش کرنے میں مشغول ہیں۔
پاکستانی قوم کے لیے فیصلے کی گھڑی آپہنچی ہے۔ اس وقت ہماری آزادی‘ ہمارا ایمان‘ ہماری عزت اور ہمارا مستقبل سب دائو پر ہیں۔ امریکا سے اچھے تعلقات‘ اصولی اور خودمختارانہ مساوات کی بنیاد پر زیربحث نہیں۔ یہ تعلقات ہمیں ہرملک سے رکھنے چاہییں اور امریکا کے ساتھ جہاں جہاں مشترک مفادات کا معاملہ ہے‘ وہاں ہماری خارجہ پالیسی کے لیے اس کا ادراک ضروری ہے‘ البتہ صدربش کی تاریخی غلطی ___یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہونا غلط تھا اور اگر کسی بھی مجبوری کے تحت شریک ہوگئے تھے تو اس شرکت کو جاری رکھنا ملک و ملّت کے مفاد سے متصادم ہے۔ جتنی جلد ممکن ہو‘ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ موجودہ خارجہ پالیسی کو تبدیل کیا جائے اور تبدیلی کے ایک واضح راستے پر گامزن ہوکر اپنی آزادی اور عزت و وقار کو بحال کیا جائے۔ اور یہ کام اسی وقت ہوسکتا ہے جب قوم موجودہ حکمران ٹولے سے نجات پائے کہ اس کی موجودگی میں آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے کا کوئی امکان نہیں۔
اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ فیصلہ سازی کو ایک فردِ واحد کی گرفت سے آزاد کیا جائے اور قومی امور کے بارے میں سارے فیصلے جمہوری انداز میں بااختیار پارلیمنٹ کے ذریعے انجام دیے جائیں اور پارلیمنٹ اور حکومت حقیقی معنی میں عوام کے سامنے جواب دہ ہو۔ قومی بحث و مباحثے اور ہرسطح پر مشاورت کے ذریعے پالیسی سازی انجام پائے۔ اس کے لیے بھی جمہوری عمل کی مکمل بحالی اور اداروں کا استحکام اور بالادستی ضروری ہے۔
جہاں فوری مسئلہ آزادی کے تحفظ اور جمہوری عمل کی بحالی کا ہے‘ وہیں یہ بات بھی ضروری ہے کہ امریکا کا ایجنڈا صرف سیاسی اور عسکری بالادستی تک محدود نہیں۔ اس کا ہدف ایک نئے عالمی سامراج کا غلبہ ہے جس میں سیاسی اور عسکری بالادستی کے ساتھ معاشی وسائل پر امریکا اور مغربی اقوام کا تصرف اور تہذیبی‘ تعلیمی اور ثقافتی میدان میں مغربی تہذیب کا غلبہ اور حکمرانی ہے۔ آخری تجزیے میں یہ جنگ تہذیبوں اور اقدار کی جنگ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ امریکا اسلام کے اس تصور کو کہ یہ ایک مکمل دین اور نظام تہذیب و حکومت ہے اپنا اصل حریف سمجھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ جب تک مسلمانوں کے دل و دماغ سے آزادی‘ اسلامی تشخص اور اسلام کے ایک مکمل ضابطۂ حیات و تہذیب ہونے کے تصورات کو خارج نہ کردیا جائے‘ امریکا کی بالادستی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر روز نت نئے مسائل کو اٹھایا جا رہا ہے جن کا اصل ہدف اسلام کی تعلیمات اور اقدار پر ضرب اور مسلمانوں کو ان کے جداگانہ تشخص سے محروم کرنا ہے۔ تہذیبوں اور مذاہب کے تکاثر (plurality) کی جگہ مغربی تہذیب کی بالادستی اور دوسری تہذیبوں‘ مذاہب اور اقوام کے اس کے نظامِ اقدار میں تحلیل کیے جانے کا ہدف ہے۔ اس کے لیے ایک حربہ مسلمانوں کو روشن خیال اور قدامت پسند‘ لبرل اور انتہاپسندوں میں تقسیم کر کے اُمت کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا اور مسلمانوں کو آپس میں ٹکرانے اور تقسیم کرنے کی پالیسی پر عمل ہے۔ یہ ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کا تازہ اڈیشن ہے۔ اس میں بش‘ بلیر اور مشرف ایک ہی کردار ادا کر رہے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کی سرپرستی میں اور چودھری شجاعت حسین کی سربراہی میں ایک مذہبی محاذ تصوف کے فروغ کے لیے قائم کیا گیا ہے اور مقصد یہ ہے کہ اسلام کو اگر امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے پاک کردیا جائے‘ جہاد کے تصورات کو مجہول کردیا جائے‘ خیروشر اور کفرواسلام کی کش مکش کی بات ختم کردی جائے‘ تو پھر اسلام کا ایک ایسا اڈیشن تیار کیا جاسکتا ہے جس سے باطل کی قوتوں اور ظلم کے کارندوں کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ غضب ہے کہ اس کے لیے اقبال اور قائداعظم کا نام استعمال کیا جارہا ہے حالانکہ اقبال کے پورے پیغام کا حاصل حق و باطل کی کش مکش اور اس میں مسلمان کا جہادی کردار ہے۔ اقبال اور قائداعظم دونوں کو ہندو قیادت ہی نے نہیں انگریزی حکمرانوں اور ان کے قلمی معاونین نے انتہاپسند (extremist) اور فرقہ پرست (communalist) کہا تھا اور دونوں نے فخرسے کہا تھا کہ ہاں‘ ہم اپنے اصولوں پر قائم اور ان پر فخر کرتے ہیں اور اصولوں سے بے وفائی اور غداری کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ قائداعظم نے باربار کہا کہ میں تمام مسلمانوں کو متحد کرنے میں مصروف ہوں اور ان کو گروہوں میں بانٹنے والوں کو ان کا دشمن سمجھتا ہوں۔ ایک موقعے پر انھوں نے لاہور میں طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ ’’تمھاری تاریخ جہاد کی تاریخ ہے اور مسلمان کے لیے شہادت سے بڑا کوئی رتبہ نہیں‘‘۔ اقبال نے جہاد کو اسلام کے غلبے اور مسلمانوں کی قوت اور سطوت کو اپنی ساری جدوجہد کا ہدف قرار دیا اور ہر اس فتنے پر ضرب لگائی جو جہاد کے راستے سے فرار کی راہیں سمجھاتا ہے۔
آج محکومی کے جو تاریک سائے اُمت پر منڈلا رہے ہیں وہ خوف‘ دبائو اور غیروں کی کاسہ لیسی اور دراندازی کا ثمرہ ہیں اور ملّت اسلامیہ پاکستان کی آزادی‘ ایمان اور عزت اس کی زد میں ہیں۔ تحریکِ پاکستان ایسے ہی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے برپا کی گئی تھی‘ اور ملّت اسلامیہ پاک و ہند کی بیش بہا قربانیوں کے نتیجے میں پاکستان ایک آزاد اسلامی ملک کی حیثیت سے نقشے پر اُبھرا۔ ان نقوش کو مٹانے کی جو عالم گیر سازشیں ہو رہی ہیں اور جس طرح اسے کچھ آلہ کار اپنی ہی قوم سے میسر آگئے ہیں‘ اس کا مقابلہ تحفظ پاکستان کے لیے ایسی ہی ہمہ گیر تحریک سے کیا جاسکتا ہے جس تحریک کے نتیجے میں پاکستان قائم ہوا۔ آج ہم ایک بار پھر اپنی آزادی‘ اپنے ایمان‘ اپنی شناخت‘ اپنی تہذیب اور اپنی عزت کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں اور ہماری زندگی اور ہماری آنے والی نسلوں کی زندگی کا انحصار اس جدوجہد اور اس کی کامیابی پر ہے ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے فوجی انقلاب سے جنرل پرویز مشرف کی حکمرانی کا جو دورشروع ہوا تھا وہ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے جمہوری ڈرامے اور سائن بورڈوں کی تبدیلی کے باوجود جاری ہے۔ ان سات برسوں میں جہاں دستور‘ سول نظام کی حکمرانی اور تمام ہی انتظامی ادارات کا حلیہ بگاڑدیا گیا ہے‘ وہیں اپنے نتائج کے اعتبار سے ملک وقوم کو اس کی تاریخ کے خطرناک ترین حالات سے دوچار کردیا گیا ہے۔ ریاست کا ہر ستون آج لرزہ براندام ہے اور ملک کی سالمیت‘ اس کی شناخت‘ بلکہ آزادی‘ خودمختاری اور وجود تک معرض خطر میں نظر آرہا ہے۔ حکمران آنکھیں بند کیے تباہی اور ایک نئی غلامی کے جال میں پھنستے چلے جارہے ہیں‘ اور قوم کے سامنے یہ تکلیف دہ سوال اُبھر کر سامنے آگیا ہے کہ کیا قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں ملت اسلامیہ پاک و ہند کی تابناک سیاسی جدوجہد اور بے مثال قربانیوںسے قائم ہونے والا پاکستان ایک بار پھر ۱۹۷۱ء کی طرح کے ایک دوسرے تباہ کن دھماکے کی طرف بڑھ رہا ہے؟ عالمی سامراج نے امریکا کی قیادت میں عالمِ اسلام کی ٹوٹ پھوٹ اور نئی نقشہ بندی کا جو خطرناک کھیل شروع کردیا ہے اور اس خطرناک نقشے میں رنگ بھرنے اور اسے حقیقت کا روپ دینے کے لیے آج کے میرجعفر اور میرقاسم جو کردار ادا کرنے کے لیے کمربستہ ہیں‘ ان کا راستہ کس طرح روکا جائے تاکہ اس سامراجی سیلاب کے آگے‘ قبل اس کے وہ ملت اسلامیہ کو کوئی بڑا نقصان پہنچائے‘ مؤثر بند باندھے جائیں۔
جنرل پرویز مشرف کا حالیہ دورہ ایک آئینہ ہے جس میں اس کھیل کے نقش و نگار کو دیکھا جاسکتا ہے۔ حالات جس رخ پر جارہے ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ملت اسلامیہ پاکستان کے پاس اب اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے اُٹھ کھڑی ہو اور ہرمصلحت کوبالاے طاق رکھ کر ملک کی آزادی‘ سالمیت اور اسلامی تشخص کی حفاظت کے لیے صف آرا ہوجائے۔ آج ہماری قومی زندگی کا اصل چیلنج یہی ہے کہ وہ اپنی آزادی اور اپنے سیاسی اور نظریاتی وجود اور تشخص کی حفاظت کی فیصلہ کن جدوجہد ایمان‘ عزم راسخ اور حکمت بالغہ کے ہتھیاروں سے لیس ہوکر انجام دے‘ اور ایک ایسی قیادت کو زمامِ کار سونپے جو اللہ کے اس عطیّے اور اقبال اور قائداعظم کی اس امانت کی جواں مردی کے ساتھ حفاظت کرسکے اور نام نہاد دنیاوی سوپر پاورز کے دوسرے اور تیسرے درجے کے سفارت کاروں کی دھمکیوں پر ملک کی آزادی‘ عزت اور حاکمیت کا سودا کرنے والی نہ ہو‘ بلکہ وقت کے بڑے سے بڑے فرعون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا دفاع کرسکے۔
جنرل پرویز مشرف کی حکومت صرف اصولی طور پر ہی غیردستوری اور غیرقانونی نہیں بلکہ اس کا سات سالہ ریکارڈ گواہ ہے کہ ہراعتبار سے یہ پاکستان کی تاریخ کی ناکام ترین حکومت ہے اوراب اس کی وجہ سے پاکستان کی آزادی‘ عزت اور وجود کوشدید خطرہ لاحق ہے۔ اس نے پاکستان کی آزادی اورحاکمیت کا سودا کیا ہے اور محض اپنے اقتدار کی خاطر پاکستان کے نظریاتی‘ تہذیبی‘ معاشی اور سیاسی مفادات کو پامال کیا ہے۔ اسے اللہ کی خوشنودی اور پاکستانی عوام کی عزت‘ ان کے سیاسی اورسماجی عزائم اور فلاح و بہبود کے مقابلے میں صدربش کی خوشنودی اور امریکا کے استعماری پروگرام میں معاونت عزیز ہے‘ اور اس گھنائونے کھیل میں اپنی خدمات کی داد لینے کے لیے ہر کچھ عرصے بعد واشنگٹن کی یاترااس کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے جہاں ’من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو‘ کا تماشا بار بار اسٹیج کیا جاتا ہے۔
آج پاکستان ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہواہے ___ ایک طرف روشن خیالی اور لبرلزم کے نام پر امریکا کی غلامی اور نئے سیاسی اور معاشی سامراجی نظام کی چاکری کا کردار ہے‘ اور دوسری طرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے ہوئے زندگی کے پروگرام کے مطابق تحریکِ پاکستان کے اصل مقاصد کے حصول کے لیے فوجی آمریت اور مغرب پرست طبقے سے نجات اور حقیقی اسلامی جمہوری انقلاب کی راہ ہموار کرنے کی ہمہ گیر جدوجہد اور عزت کی زندگی کی دعوت ہے۔
حکیم الامت نے دل اور شکم کے استعارے میں اُمت کو اس باب میں ایک دوٹوک فیصلے کی جو دعوت دی تھی وہ آج پہلے سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کرگئی ہے ؎
دل کی آزادی شہنشاہی ‘شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے‘ دل یا شکم؟
آگے بڑھنے سے پہلے ہم یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم نے موجودہ نظام کو فوجی حکومت نہیں جرنیلی آمریت کہا ہے اور یہ اس لیے کہ آج ملک کی فوج بھی ایک مخصوص باوردی اور بے وردی ٹولے کے ہاتھوں اسی طرح یرغمال بنی ہوئی ہے جس طرح ملک کا پورا سیاسی نظام۔ جنرل پرویز مشرف کے نظام کی دو ہی خصوصیات ہیں۔ ایک یہ کہ لیبل کچھ بھی ہو‘ یہ فردِ واحد کی آمریت ہے۔ دستور‘ پارلیمنٹ‘ سول انتظامیہ حتیٰ کہ فوج سب ایک شخص کے اشارہ چشم و ابرو پر گردش کر رہے ہیں اور خود وہ شخص امریکا اور صدربش کے بل بوتے پر ملک و قوم پر مسلط ہے۔ دوسرے‘ اس کی اُچھل کود کا انحصار امریکی پشتی بانی کے بعد اس وردی ہی پر ہے‘ اور یہ وہ حقیقت ہے جس کا وہ خود بار بار اعتراف کر رہا ہے۔ اکتوبر ۲۰۰۵ء کے زلزلے کے موقعے پر جنرل پرویز مشرف نے بڑے طمطراق سے اعلان کیا تھا کہ اگر میں وردی میں نہ ہوتا تو فوج اتنی سرعت سے (یعنی تباہی کے تین سے پانچ دن بعد جب کہ کشمیری مجاہد اور پاکستان کی دینی جماعتوں کے کارکن چند گھنٹوں میں محاذ پر موجود تھے) حرکت میں نہ آتی‘ اور اب امریکا میں دعویٰ فرمایا ہے کہ اگر میں وردی میں نہ ہوتا تو حدودآرڈی ننس میں ترمیمی بل لانے کی جرأت نہیں کی جاسکتی تھی۔ اسے بھول جایئے کہ یہ وردی جناب محترم نے آج نہیں پہنی ہے اور سات سال سے اس وردی کے باوجود انھیں حدود قوانین میں ترمیمی بل لانے کی جرأت نہیں ہوئی اور اب لائے ہیں تو جو حشر اس کا ہوا ہے اور جس طرح جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے وہ مضحکہ خیز ہی نہیں‘ عبرت ناک بھی ہے۔ اس سب کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ ان کی طاقت کا منبع نہ دستور ہے‘ نہ عوام ہیں اور نہ ہی سیاسی جماعتیں ہیں___ یہ ان کی فوج کی سربراہی اور فوج کا ڈسپلن ہے جس کا قطعی ناجائز استعمال کرکے وہ قوم کے سر پرمسلط ہیں اور رہنا چاہتے ہیں اور نتیجتاً ملک اور فوج دونوں کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اسے جرنیلی آمریت کہا ہے اور یہی اس نظام کی اصل شناخت ہے۔
اس جرنیلی آمریت کا پہلا جرم یہ ہے اس نے ملک کی آزدی‘ حاکمیت اور خودمختاری پر کاری ضرب لگائی ہے اور گذشتہ پانچ سال میں ملک امریکا کی ایک ذیلی ریاست (satellite state) بن کر رہ گیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے خود اپنے تازہ ترین انٹرویو میں جو سی این این کو ۲۱ستمبر ۲۰۰۶ء کو دیا گیا ہے‘ اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد امریکی نائب وزیرخارجہ نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ
be prepared to be bombed: be prepared to go back to the stone age.
اور ہمارے بہادر جرنیل نے جو ایٹمی صلاحیت رکھنے والی فوج کے سربراہ تھے اس مطالبے کو جسے وہ خود ناشائستہ (rude) قرار دے رہے ہیں اور جس کے ساتھ بقول ان کے بہت سے دوسرے مضحکہ خیز (ludicrous) مطالبات تھے یعنی اپنی فضائی حدود کو ہمارے لیے کھول دو‘ فوجی اڈے فی الفور مہیا کرو‘ امریکی فوجوں کو ایک برادر ملک پر حملہ کرنے کے لیے اپنی زمین فراہم کرو‘ اس وقت کی افغان حکومت سے تعلق توڑ لو حتیٰ کہ پاکستان میں امریکا کے خلاف اورافغانستان پر حملے کے خلاف بے چینی کی جو لہراور مزاحمت کی تحریک ہے اسے دبانے (suppress)کی کارروائی کرو___ سب مطالبات پر سرِتسلیم خم کردیا۔ ستم یہ ہے کہ جناب جرنیل صاحب امریکا کی اس ظالمانہ کارروائی میں نہ صرف اس تمام دبائو‘ خوف اور دھمکیوں کے تحت شریک ہوگئے بلکہ اسے اپنی جنگ بنا لیا اور پھر وہ ’کارنامے‘ انجام دیے کہ بش صاحب بھی جھوم جھوم گئے۔ غلامی کی زنجیر پہننا ہی کم ستم نہ تھا کہ اسے زیور سمجھ کر نازاں ہونے کی ایکٹنگ بھی کی جانے لگی۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ ہر ’خدمت‘ کے بعد ’مزید‘ کے مطالبات ہو رہے ہیں اور ذلت کے تمغوں میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے۔
ہم نے اپنی آزادی ہی کو دائو پر نہیں لگایا‘اپنی عزت اوراپنی روایات کو بھی خاک میں ملا دیا جس کی بدترین مثال ان ۶۰۰ سے زائد بے گناہ افراد کو امریکا کی تحویل میں دینا ہے جن میں سے کسی کے خلاف کوئی جرم آج تک ثابت نہیں ہوا لیکن ان کی جانوں اور عزتوں سے امریکا کے گھنائونے کھیل میں شریک ہوکر ہم خدا اور خلق کے سامنے مجرم بنے اور اسلام کی تعلیمات اور مسلمانوں کی روایات کو پامال کیا۔ اس سلسلے کی بدترین مثال پاکستان میں اس وقت کے افغانی سفیر عبدالسلام ضعیف کی ہے جن کو سفارتی تحفظ حاصل تھا لیکن اس جرنیلی قیادت نے بین الاقوامی قانون اور اسلامی احکام کی شرم ناک خلاف ورزی کرتے ہوئے جنوری ۲۰۰۲ء میں اس سفارتی تحفظ یافتہ فرشتہ صفت بھائی کو امریکا کی تحویل میں دے دیا جو انھیں بگرام اور گوانتاناموبے لے گیا‘ بدترین تعذیب کا نشانہ بنایا اور چار سال ٹارچر کرنے کے بعد بھی ان کا کوئی جرم ثابت نہ کرسکا اور بالآخر ۲۰۰۵ء میں انھیں رہا کرنے پر مجبور ہوا۔ عبدالسلام ضعیف نے اپنی روداد اسیری رقم کی ہے جس کا ایک ایک لفظ اس جرنیلی آمریت کے خلاف فردِ جرم ہے جسے پڑھ کر پوری پاکستانی قوم کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ دل اللہ کے غضب کے خطرے سے کانپ اٹھتا ہے اور بے تاب روح سے یہ صدا بلندہوتی ہے کہ خدایا! ایسے ظلم میں شریک ہونے اوراس کا آلہ کار رہنے والوں کا احتساب کب ہوگا؟ ہم دل کڑا کر کے ان کی آپ بیتی سے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں تاکہ جرنیلی آمریت کا اصل چہرہ قوم کے سامنے آسکے:
یہ ۲ جنوری ۲۰۰۲ء کی صبح تھی۔ پاکستان میں سالِ نو کی تقریبات اختتام پذیر ہوچکی تھیں۔ میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ معمول کی زندگی گزاررہاتھا اور ہر وقت افغانستان میں رہنے والے اپنے گم شدہ بھائیوں اور شہیدوں کی فکر میں مبتلا رہتا تھا۔ میں اُن کی قسمت پر کڑھتا تھا مگر اپنی تقدیرسے لاعلم تھا۔ تقریباً ۸ بجے کا وقت تھا۔ گھر کے محافظوں نے اطلاع دی کہ چند پاکستانی سرکاری اہلکار آپ سے ملنے آئے ہیں۔ مہمانوں کو ایک چھوٹے سے کمرے میں بٹھایا‘ یہ تین افراد تھے۔ ان میں ایک پختون اور باقی دو اُردو بولنے والے تھے۔ میں نے افغان روایات کے تحت مہمانوں کا خیرمقدم کیا۔ چائے بسکٹ سے تواضع کی۔ میں متجسس تھا کہ وہ کیا پیغام لے کر آئے ہیں۔ اُردوبولنے والے ایک سیاہ رنگ کے موٹے کلین شیو شخص نے جس کے چہرے سے نفرت اور تعصب ٹپکتا تھا اوروہ کسی دوزخی کا ایلچی لگتا تھا‘ بظاہر بڑے مؤدبانہ انداز میں بات شروع کی اور پہلا جملہ اداکیا: your excellency, you are no more excellency۔ پھر وہ بولا: آپ جانتے ہیں کہ امریکا بڑی طاقت ہے اور کوئی اس کے مقابلے کی ہمت نہیں رکھتا۔ نہ ہی کوئی اس کا حکم ماننے سے انکار کی جرأت رکھتا ہے۔ امریکا کو آپ کی ضرورت ہے‘ تاکہ آپ سے پوچھ گچھ کرسکے۔ ہم آپ کو امریکا کے حوالے کرنے آئے ہیں تاکہ اس کا مقصد پورا ہو اور پاکستان کو بہت بڑے خطرات سے بچایا جا سکے۔میں نے بحث شروع کر دی اور کہا کہ چلو مان لیا امریکا ایک سپرطاقت ہے لیکن دنیا کے کچھ قوانین اوراصول بھی تو ہیں جن کے تحت لوگ زندگی گزار رہے ہیں۔ میںحیران ہوں کہ آپ لوگ کن مروجہ یا غیر مروجہ یا اسلامی یا غیراسلامی قوانین کے تحت مجبور ہیں؟ آپ کا اخلاقی فرض ہے کہ مجھے میرے سوالوں کا جواب دیں اور مجھے اتنی مہلت دیں کہ میں آپ کا ملک پاکستان چھوڑ دوں۔
لگ بھگ ۱۲ بجے کا وقت تھا جب تین گاڑیاں آئیں اورمسلح اہلکاروں نے گھرکا محاصرہ کرکے راستے اور لوگوں کی آمدورفت بند کردی۔ مجھے باہر نکلنے کو کہا گیا۔ میں ایسے حال میں گھر سے نکلا جب میرے بیوی بچے چیخ و پکار کر رہے تھے۔ میں اپنے بچوں کی طرف مڑ کے نہیں دیکھ سکتا تھا کیونکہ میرے پاس ان کے لیے تسلی کا ایک لفظ تک نہ تھا۔ ’اسلام کے محافظ‘ پاکستانی حکام سے مجھے ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ مجھے چند پیسوں کی خاطر ’تحفتاً‘ امریکا کو پیش کردیا جائے گا۔ میں یہی سوچتا ہوا گھر سے نکلا کہ مجھ پر اتنا ظلم کیوں ہو رہا ہے؟ مقدس جہاد کی باتیں کرنے والوں کو کیا ہوگیا؟ مجھے ایک گاڑی میں درمیان میں بٹھا دیا گیا۔ گاڑی کے شیشے کالے تھے جن کے آرپار کچھ نہ دیکھا جا سکتا تھا۔ آگے سیکورٹی کی گاڑی تھی جب کہ تیسری گاڑی ہمارے پیچھے تھی جس میں مسلح اہلکار تھے۔
تیسری رات ۱۱ بجے کے لگ بھگ میں نے سونے کا ارادہ کیا کہ اچانک دروازہ کھلا اور شلوارقمیص میں ملبوس چھوٹی داڑھی والا ایک شخص اندرداخل ہوا۔ اس نے کہا ہم آپ کو ایک دوسری جگہ منتقل کر رہے ہیں۔ میں نے یہ نہ پوچھا کہ مجھے کہاں لے جایا جا رہا ہے کیونکہ مجھے سچ کی امید نہ تھی۔ مجھے واش روم استعمال کرنے کے لیے صرف پانچ منٹ دیے گئے۔ رفتہ رفتہ گاڑی ہیلی کاپٹر کے قریب ہوتی گئی اور اس کی آواز کانوں کے پردے پھاڑنے لگی۔ اس دوران مجھے ایک ضرب پڑی اور میری کلائی پر بندھی قیمتی گھڑی اس ضرب سے نیچے گرگئی یا مجھ سے لے لی گئی۔ مجھے دوافراد کی مدد سے گاڑی سے اُتارا گیا اور ہیلی کاپٹر سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑا کردیا گیا۔ چندلمحوں بعد میں نے خدا حافظ کے الفاظ سنے۔ پھر میں نے کچھ لوگوں کی آوازیں سنیں جو انگریزی میں باتیں کر رہے تھے۔ اچانک وہ ریچھوں کی طرح مجھ پہ پل پڑے اور لاتوں‘ گھونسوں اور مکوں کی بارش کرنے لگے۔ کبھی مجھے اوندھے منہ لٹا دیا جاتا‘ کبھی کھڑا کر کے دھکا دیا جاتا‘ میرے کپڑے چاقوؤں کی مدد سے پھاڑ دیے گئے۔ اسی دوران میری آنکھوں سے پٹی اُتر گئی۔ میں نے دیکھا کہ پاکستانی افسر قطار میں کھڑے تھے۔ ساتھ ہی افسروں کی گاڑیاں تھیں جن میں سے ایک پر جھنڈا لگا تھا۔ امریکیوں نے مجھے مارا پیٹا‘ بے لباس کردیا مگر اسلام کے محافظ میرے سابقہ دوست تماشا دیکھتے رہے۔ یہ بات میں قبر میں بھی نہ بھول سکوں گا۔ میں کوئی قاتل‘ چور‘ ڈاکو یا قانون کا مجرم نہ تھا۔ مجھے بغیر کسی جرم کے امریکا کے حوالے کیا جا رہا تھا۔ وہاں موجود افسر اتنا تو کہہ سکتے تھے کہ یہ ہمارا مہمان ہے۔ ہماری موجودگی میں اس کے ساتھ یہ سلوک نہ کرو۔ وحشی اور بے رحم امریکی فوجیوں نے ایسی حالت میں مجھے زمین پر پٹخ دیا کہ میرا جسم ننگا ہوگیا۔ پھر مجھے ہیلی کاپٹر میں دھکیل دیا گیا۔ میرے ہاتھ پائوں کس کر زنجیروں سے باندھ دیے گئے۔ آنکھوں پر پٹی پھر باندھ دی گئی۔ میرا چہرہ سیاہ تھیلے سے ڈھانپ دیا گیا۔ میرے جسم کے اردگرد سر سے پائوں تک رسی لپیٹ کر ہیلی کاپٹر کے وسط میں زنجیر سے باندھ دیا گیا۔ (روزنامہ نواے وقت‘ ۲۲ستمبر ۲۰۰۶ئ)
پوری داستان دل خراش اور آبدیدہ کردینے والی ہے۔ لیکن یہ سب وہ خدمات ہیں جو اس جرنیلی آمریت نے‘ امریکا کی خوشنودی کے لیے انجام دی ہیں اوراس طرح اپنی آزادی اور خودمختاری کو اپنے ہی ہاتھوں تارتار کیا ہے۔ امریکا پاکستان کے ہر شعبۂ زندگی میں مداخلت کر رہا ہے۔ فوجی مشقوں کے نام پر فوج کی قیادت کو دام اسیری میں لایا جا رہا ہے۔ تعلیم میں مداخلت ہے اور نصاب تعلیم تک میں تعلیمی اصلاحات کے نام پر یو ایس ایڈ کی دراندازیاں ہورہی ہیں اور قرآن کی وہ آیات تراش و خراش سے محفوظ نہیں جو جہادکے بارے میں ہیں۔ معیشت پر گرفت تو پہلے ہی کم نہ تھی مگر اب نج کاری اور بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے مزید مداخلت کی راہیں استوارہوگئی ہیں۔ دینی مدارس کو لگام دینے کی خدمت بھی امریکی منصوبے کے تحت کی جارہی ہے اور اب حدودقوانین‘ ناموس رسالتؐ کا قانون اور احمدیوں کو غیرمسلم اقلیت قراردیے جانے والی دستوری ترمیم سب نشانے پرہیں۔ جرنیل صاحب چاہتے تھے کہ امریکا کا دورہ کرنے سے پہلے اپنی وردی کے زعم پر حدود قوانین میں ترمیم کرا لیں لیکن اللہ کی شان ہے کہ وردی کے باوجود ترمیم دھری کی دھری رہ گئی___ ان تمام خدمات اور سپردگیوں (surrenders) کے باوجود بلکہ ان کے نتیجے میں امریکا اور بھی شیر ہوتا جارہا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دورے کے موقع پر اقوام متحدہ میں خطاب کے بعد صدر بش نے سی این این کے نمایندے وولف بلٹزر (Wolf Blitzer) کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا صدر بش خفیہ ایجنسیوں کی قابلِ اعتماد معلومات پر القاعدہ کے قائدین کو پکڑنے یا ہلاک کرنے کے لیے پاکستان کی سرزمین پر امریکی فوج کے ذریعے بلاواسطہ کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ صاف الفاظ میں کہا: absolutely (بالکل یقینا)۔
یہ ہے اس جرنیلی آمریت کے زیرسایہ اب ہماری آزادی‘ خودمختاری اور اقتدار اعلیٰ (sovereignty )کی اصل حقیقت۔
پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کی اس خطرناک حد تک تحلیل اور تخفیف (erosion) کے ساتھ دوسرا مسئلہ ہماری دفاعی صلاحیت کے بری طرح متاثر ہونے کا ہے۔ دفاعی صلاحیت میں سب سے اہم چیز قوت اور وسائل میں عدم مساوات کے باوجود مزاحمت‘مقابلے اور دفاع کے عزم اور قومی مقاصد‘ آزادی اور عزت کے دفاع کے لیے جان کی بازی لگادینے کا جذبہ ہے۔ لیکن جو فوجی قیادت ذہنی شکست کھاچکی ہو‘ مفادات کے چکر میں پڑجائے اور سمجھوتوں اور سہولتوں کو شعار بنالے وہ لڑنے اور جان دینے کے جذبے سے محروم ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس فوج کو سیاست کا چسکا لگ جائے وہ پھر دفاع کے لائق نہیں رہتی۔ جنرل پرویز مشرف کی پالیسی کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ان کے دور میں فوج کو سیاست ہی نہیں‘ معیشت‘ حکمرانی‘ انتظامیات غرض ہر اس کام میں لگا دیا گیا ہے جس کا کوئی تعلق دفاع سے نہیں۔ پھر فوج کو اپنے ہی عوام کو نشانۂ ستم بنانے اور انتظامی معاملات حتیٰ کہ انتخابات کے عمل میں اس بے دردی سے استعمال کیاجارہا ہے کہ اس کے نتیجے میں فوج متنازعہ بن گئی ہے اور عوام کی عزت‘ محبت اور توقیر کی جگہ نفرت اور دشمنی کا ہدف بن رہی ہے۔ اس سلسلے میں وزیرستان اور بلوچستان میں جس طرح فوج کو استعمال کیا گیا ہے اس نے صرف جرنیلی آمریت ہی کو نہیں‘ خود فوج کو ہدف تنقید و ملامت بنائے جانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ یہ ملک کی دفاعی صلاحیت کے لیے ایک ناقابلِ برداشت دھچکا ہے۔
جرنیلی آمریت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اور اس کے ذریعے سائنس دانوں کی پوری برادری کو جو پیغام دیا ہے‘ نیز ایٹمی صلاحیت کو مسلسل ترقی دینے کے لیے جن راہوں کو کھلا رکھنا ضروری تھا انھیں جس طرح بند کردیا گیا ہے اس نے ہماری ایٹمی سدجارحیت (nuclear deterrance)کی صلاحیت کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ قابلِ اعتماد ذرائع اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہماری نیوکلیر صلاحیت کو آہستہ آہستہ کمزور اور تحلیل کرنے اور اس پر امریکی اثر کے بڑھنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جو بظاہر غیرمحسوس ہے مگر فی الحقیقت خطرناک حد تک یقینی ہوتا جا رہا ہے۔ نیز امریکا پر دفاعی سازوسامان کے لیے محتاجی کا نیا دور شروع ہو رہا ہے حالانکہ اس باب میں امریکا کا قطعاً ناقابلِ اعتماد ہونا ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ ایف-۱۶ کے بارے میں تاریخی دھوکا کھانے کے بعد ملک اور فوج کو ایک بار پھر اسی چکر میں مبتلا کیا جا رہا ہے اور جہاز بھی وہ دینے کی بات کی جارہی ہے جو نہ صرف جدید ترین سے بہت فروتر ہیں بلکہ ان کے استعمال اور نقل و حرکت پر بھی امریکا کی نگاہ رہے گی۔ ایسے جہاز امریکا کی محتاجی کی زنجیر ہوں گے‘ یہ آزادی کے شاہیں نہیں ہوسکتے۔
جرنیلی آمریت جس طرح ملک کی آزادی اور حاکمیت کو مجروح کرنے کا ذریعہ بنی ہے اسی طرح خود فوج کی دفاعی صلاحیت اور ملک کی نیوکلیر استعداد کو کمزور کرنے کی ذمہ دار ہے۔
جرنیلی آمریت کی تباہ کاری کا تیسرا میدان چھوٹے صوبوں کو ناانصافیوں اور محرومیوں کی دلدل میں دھکیل دینا ہے جس کے نتیجے میں مرکز گریز رجحانات کو فروغ حاصل ہورہا ہے۔ سندھ میں ایک طرف ایک لسانی تنظیم کی اس طرح سرپرستی کی جارہی ہے کہ صوبہ امن و چین سے محروم ہوگیا ہے‘ ہر طرف بھتہ اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ دوسری طرف فرقہ واریت کو فروغ دیا جا رہا ہے اور روزافزوں خون خرابے کے باوجود اصل مجرم محفوظ و مامون بیٹھے ہیں۔
کالاباغ ڈیم کے مسئلے کو اس بھونڈے انداز میں اٹھایا گیا کہ تین صوبے مرکز کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ قومی مالیاتی ایوارڈ کے باب میں مرکز کا کردار نہایت غیرمنصفانہ اور غیرحقیقت پسندانہ رہا جس کے نتیجے میں صوبوں کی ترقی بری طرح متاثر ہوئی ہے اور آج تک صوبوں کو ان کا حق نہیں مل سکا۔ یہ سب مسائل اپنی جگہ لیکن سب سے بڑھ کر اس جرنیلی آمریت نے جس طرح بلوچستان کے مسئلے کو بگاڑا ہے وہ ایک قومی جرم سے کم نہیں۔
بلوچستان کے مسائل حقیقی اور گمبھیر ہیں اور اس صوبے میں محرومی کا احساس بے چینی سے بڑھ کر بغاوت کی حدوں کو چھو رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے ہر دور میں نہ صرف وہاں کے مسائل کو مجرمانہ طور پر نظرانداز کیا بلکہ سیاسی مسائل کو قوت کے ذریعے اور صوبے کی سیاسی قوتوں کو بانٹ کر اور اپنے حواریوں کو اقتدار سونپ کر صوبے کے وسائل کو صوبے اور اس کے عوام کے وسیع تر مفاد کے مقابلے میں مفادپرست عناصر کے کھل کھیلنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ تعلیم‘ روزگار‘ پیداوار‘ صحت‘ انفراسٹرکچر کی ترقی‘ صنعت غرض ہر میدان میں یہ صوبہ سب سے پیچھے ہے۔ قدرتی وسائل سے مالامال مگر ان وسائل کے ثمرات سے محروم۔ جب بھی وہاں کے عوام نے اپنے حقوق کی بات کی‘ اس کا جواب بندوق اور توپ سے دیا گیا۔ اس کی سب سے نمایاں مثال وہ پارلیمانی کمیٹی ہے جو خود چودھری شجاعت حسین صاحب کی سربراہی میں قائم ہوئی تھی اور جس کی ایک سب کمیٹی نے اپنی متفقہ رپورٹ بھی پارلیمنٹ کو پیش کر دی تھی مگر عین اس وقت جب معاملات سیاسی افہام و تفہیم سے طے ہونے کے مراحل میں تھے‘ فوج کشی کا راستہ اختیار کیا گیا اور سارے کیے دھرے پر پانی پھیر دیا گیا۔ اس کا تباہ کن انجام ۲۵ اگست کو فوجی آپریشن کے نتیجے میں ۸۰سالہ نواب بگٹی اور ان کے ساتھیوں کی ہلاکت اور اس کے بعد ان کی تجہیزوتدفین کے لیے وہ سفاکانہ اور ہتک آمیز راستہ ہے جس نے پورے صوبے ہی نہیں‘ پورے ملک میں غم و غصے کی آگ بھڑکا دی ہے۔ یہ سب کچھ محض ایک شخص کی انا کی تسکین کے لیے کیا گیا جس نے کہا تھا کہ یہ ۲۰۰۶ء ہے‘ ۱۹۷۴ء نہیں ہے اور اب ایسی سمت سے حملہ ہوگا جسے دیکھا بھی نہیں جاسکے گا اور جس نے نواب اکبرخاں بگٹی کی ہلاکت کے ظالمانہ اقدام پر فوج کو کامیاب آپریشن پر مبارک باد دی جس پر بعد میں دھول ڈالنے میں عافیت محسوس کی گئی۔
اس جرنیلی آمریت نے یہ سب کچھ ایک ایسے پس منظر میں کیا جب اس حسّاس علاقے کے بارے میں بین الاقوامی سازشوں اور شرارتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارت‘ ایران‘ افغانستان اور سب سے بڑھ کر امریکہ اپنا اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور مقامی عناصر میں سے کچھ اس میں آلۂ کار بن رہے ہیں۔ پاکستان کے نقشے کو تبدیل کرنے کے منصوبے نئے نہیں۔ سابقہ امریکی صدر کے ایک یہودی مشیر پروفیسر برنارڈ لیوس (Bernard Lewis)کئی سال پہلے شرق اوسط کے لیے نیا نقشہ پیش کرچکے ہیں اور اس میں بلوچستان کو ایک آزاد ملک کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ عین نواب بگٹی کی ہلاکت سے دو ماہ قبل کولن پاول کے ایک سابق اسسٹنٹ رالف پیٹر (Col (r) Ralph Peter ) نے امریکا کے نیم سرکاری مجلے Armed Forces Journal میں ایک زہرآلود مضمون لکھا ہے جس کا عنوان Blood Bordersہے اور اس دعوے کے ساتھ لکھا ہے کہ How a Better Middle East Would Look (ایک بہتر شرق اوسط کیسا نظر آئے گا)۔
اس میں پورے شرق اوسط کی تقسیم در تقسیم کا منصوبہ پیش کیا ہے جس سے امریکا اور اسرائیل کے مقاصد حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس وقت اس منصوبے کے تمام پہلوئوں پر کلام مقصود نہیں صرف پاکستان اور بلوچستان کے سلسلے میں اس شرانگیز تجویز پر توجہ مبذول کرانا پیش نظر ہے۔ موصوف پاکستان کو ایک غیرفطری ریاست (an unnatural state) قرار دیتے ہیں اور بلوچستان اور پشتونستان کو اس سے الگ کرتے ہیں اور اس دعوے کے ساتھ کہ یہ سب کچھ موصوف کے اپنے عزائم کے مطابق نقشے کی نئی صورت گری نہیں بلکہ وہاں کے لوگوں کی خواہش کا اظہار ہے:
یہ نقشے کو ہماری پسند کے مطابق بنانا نہیں ہے ‘ بلکہ جسے علاقے کے لوگ ترجیح دیتے ہیں‘ وہ ہے۔
ہرمعاملے میں‘ یہ نئی مفروضہ حدبندیاں نسلی تعلقات اور فرقہ بندی‘ بعض صورتوں میں دونوں کی عکاسی کرتی ہیں۔
ہم موصوف کا پیش کردہ نقشہ علاقے کے موجودہ نقشے کے ساتھ پیش کرتے ہیں تاکہ اس علاقے کے بارے میں سامراجی سیاست کاری کے کھیل کا کچھ ادراک ہوسکے۔
دونوں نقشوں پر نظر ڈالیے۔ جغرافیائی سرحدوں کی ساری تبدیلی مسلم ممالک کے لیے مخصوص ہے۔ اتنا بڑا بھارت اس نقشے پر موجود ہے‘جس میں درجنوں لسانی‘ مذہبی‘ ثقافتی اور نسلی آبادیاں موجود ہیں۔ ۱۶‘ ۱۷ آزادی کی تحریکیں سرگرم ہیں‘ وہاں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ہے ؎ برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر!
ایک طرف یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے اور دوسری طرف جرنیلی آمریت بعینہٖ وہ فضا پیدا کررہی ہے جس میں کچھ عناصر حقیقی مسائل اور محرومیوں کے ساتھ نفرت کی آگ کی آمیزش کرکے حالات کو ایسا رخ دے سکیں جن کے جلو میں سامراجی مقاصد حاصل ہوسکیں۔
ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ بلوچستان کے مسائل کو جس طرح بگاڑا جا رہا ہے‘ وہ حددرجہ خطرناک ہے۔ صوبے کے حقیقی مسائل آج بھی آسانی سے حل ہوسکتے ہیں‘ اس کے لیے سیاسی عمل‘ افہام و تفہیم اور عدل و احسان کا راستہ ہی صحیح راستہ ہے۔ فوج کشی اور عزت سے کھیلنے سے مسائل لازماً بگڑیں گے اور حل سے دُور ہوتے جائیں گے۔ جرنیلی آمریت نے جو راستہ اختیا کیا ہے‘ وہ صرف تباہی کا راستہ ہے۔ حالات کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ حکمت عملی کو یکسر بدلا جائے۔ بلوچ قبائل اور عوام کا غم پاکستان کے ہر شہری کا غم ہے اور وہاں کے مسائل ہمارے مشترکہ مسائل ہیں۔ سب کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے اور جوانصاف سے جتنا محروم رہا ہے‘ اس کا اتنا ہی زیادہ حق ہے۔ سیاسی عمل کے ساتھ ساتھ ان دستوری‘ قانونی اور انتظامی اصلاحات کی بھی ضرورت ہے جو حقیقی صوبائی خودمختاری اور صوبے کے وسائل پر اہلِ صوبہ کے حق کو یقینی بناسکے بلکہ جن صوبوں اور علاقوں کی حالت زیادہ خراب ہے‘ ان کو ملکی اوسط کی سطح تک لانے کے لیے صرف اس صوبے کے نہیں بلکہ متمول صوبوں اور علاقوں کے وسائل کوبھی پس ماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے استعمال ہونا چاہییں تاکہ سب کے ساتھ انصاف ہوسکے۔ اس مقصد کا حصول حقیقی جمہوری عمل کے قیام اور انصاف اور حق کے اصولوں کی پاسداری کے بغیر ممکن نہیں۔
مسئلہ طاقت کے استعمال کا نہیں‘ عقل کے استعمال اور انصاف اور دردمندی کے ساتھ حقیقی مسائل اور مشکلات کودُور کرنے کاہے۔ یہ تصور کہ مرکز مضبوط ہوگا تو پاکستان مضبوط ہوگا ایک فاسد نظریہ ہے۔ پاکستان کی مضبوطی کے لیے صوبوں اور علاقوں کی مضبوطی ضروری ہے۔ دیوار اتنی ہی مضبوط ہوگی جتنی وہ اینٹیں مضبوط ہوں گی جس سے یہ دیوار بنی ہے۔ آمریت کا مزاج ہی مرکزیت کا مزاج ہے اور جب وہ آمریت جرنیلی آمریت ہو تو پھر اختیارات کے ارتکاز کا عالم اور بھی گمبھیر ہوجاتا ہے اور سیاسی عمل نام نہاد کمانڈ اسٹرکچر تلے دم توڑ دیتا ہے۔ آج بلوچستان کے مسائل شعلہ فشاں ہوگئے ہیں اور قومی سطح پر ان کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ نواب بگٹی کی ہلاکت سے جو بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اسے قومی سطح پر مؤثر سیاسی حکمت عملی بناکر اوراس پر سب کی شرکت سے عمل کر کے حالات کو قابو میں لایا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ مسائل اور محرومیاں بلوچستان تک محدود نہیں۔ دوسرے صوبوں اور خود پنجاب کے کچھ پس ماندہ علاقوں میں بھی مسائل سلگ رہے ہیں۔ ان کے شعلہ بننے سے پہلے ان کے حل کی ضرورت ہے جو جرنیلی آمریت کے بس کا روگ نہیں۔
جرنیلی آمریت کا چوتھا نشانہ کشمیر کامسئلہ ہے جسے جنرل پرویز مشرف نے کمال بے تدبیری کے ساتھ تحلیل کرنے (liquidate) کرنے کی ٹھان لی ہے۔ پہلے دن سے کشمیر کا مسئلہ ایک قومی مسئلہ تھا اور سب جماعتیں اس پر متفق تھیں کہ کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے‘ اس لیے کہ یہ تقسیم ملک کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ نیز یہ مسئلہ محض پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی تنازع نہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے جس سے بھارت نے انھیں محروم رکھا ہوا ہے جو صرف فوجی قوت اور سامراجی تسلط سے ریاست کے دوتہائی حصے پر قابض ہے اور وہاں شہریوں کو جبر اور ظلم کے ذریعے زیردست رکھے ہوئے ہے اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کر ریا ہے۔ پونے پانچ لاکھ افراد ان ۶۰برسوں میں اپنی آزادی کی جدوجہد کرتے ہوئے بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں جان کی قربانی دے چکے ہیں۔ پاکستان ان کا وکیل اور ان کے حق کے حصول کی جدوجہد کا پشتی بان ہے اوران کے اس حق کے حصول کے لیے ہر قربانی دینا اپنافرض سمجھتا ہے۔ پاکستان کی فوج اور دفاعی صلاحیت کا بھی گہرا تعلق بھارت سے آنے والے خطرات کے مقابلے کی استطاعت کے ساتھ کشمیر میں حق خود ارادیت کے حصول کو ممکن بنا لینے سے ہے۔ ورنہ اتنی بڑی فوج کی جس پر قومی وسائل کا ایک معتدبہ حصہ صرف ہو رہا ہے ضرورت نہیں تھی۔
اس سارے پس منظر میں لچک کے نام پر‘ لیکن درحقیقت شکست خوردہ ذہنیت کا اسیر ہونے کے باعث‘ جنرل پرویز مشرف عملاً کشمیر سے دست کش ہوگئے ہیں اور اس طرح پاکستان کے ایک قومی ہدف کو منہدم کرنے کا ذریعہ بنے ہیں۔ فروری ۲۰۰۲ء سے ان کی پسپائی کے سلسلے کا آغاز ہوا جو اب ہوانا میں من موہن سنگھ سے ملاقات کے وقت اپنی انتہا کوپہنچ گیا ہے۔ اس قومی ہدف پر پہلی ضرب انھوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ایک طرف رکھ دینے کے اعلان کی لگائی۔ پھر جنگ ِ آزادی اور جہادکشمیر کو عملاً دہشت گردی قرار دے کر اپنی ہی نہیں ساری محکوم اقوام کی آزادی کی جدوجہد پر کالک ملنے کا جرم کیا۔ اوّل اوّل پاکستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال کیے جانے سے احتراز کی بات کی گئی۔ پھر بھارت کو باڑ بندی کا موقع دیا‘ سیزفائر کیا۔ عملاً تحریک ِ مزاحمت کی معاونت سے ہاتھ اٹھا لیا اور اب پورے مسئلے ہی سے اس اعلان کے ساتھ دست بردار ہوگئے کہ ایسا حل نکالا جائے جو دونوں فریقوں کے لیے ناقابلِ قبول نہ ہو۔ اس سے زیادہ ناانصافی کیا ہوگی کہ اب کہا جارہا ہے مسئلہ آزادی اور حق خود ارادیت کا نہیں بلکہ کسی ایسی چیز کو قبول کرلینے کا ہے جوغاصب قوت کے لیے قابلِ قبول ہو۔ اس سے مسئلے کی نوعیت ہی بدل گئی۔
اصل مسئلہ بھارت کے غیرقانونی قبضے (illegal occupation)کا تھا اور اس کا حل جو انصاف اور حق پر مبنی ہو صرف حق خود ارادیت ہی کی شکل میں ہوسکتا ہے جس طرح سامراج سے نجات حاصل کرنے کے لیے دنیا کے گوشے گوشے میں ہوا۔ لیکن اب اس مسئلے ہی سے جنرل صاحب دست بردار ہوگئے ہیں اور حق خودارادیت کی جدوجہد دہشت گردی قرار پاگئی ہے جس کا قلع قمع کرنے کے لیے دونوں ملکوں میں مشترک اداراتی نظام قائم کیا جا رہا ہے۔ بھارت کی اس سے بڑی فتح کیا ہوگی کہ اس نے جنرل صاحب سے کہلوا لیا کہ اصل مسئلہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی آزادی اور حق خود ارادیت کا نہیں بلکہ سرحدی دراندازی اور نام نہاد دہشت گردی ہے۔ مسئلہ بھارت کا ناجائز قبضہ نہیں بلکہ ناجائز قبضے کے خلاف جائز جنگ ِ آزادی اور تحریکِ مزاحمت ہے۔ یہ موقف تحریک آزادی کشمیر کے سینے میں خنجر گھونپنے اور اپنے ہاتھوں پاکستان کی شہ رگ پر چھری چلانے کے مترادف ہے جسے مسئلہ کشمیر اور کشمیری مسلمانوں کی عظیم تحریک مزاحمت ہی سے نہیں‘ پاکستان سے غداری کے سواکچھ نہیں کہاجاسکتا۔ کس نے جنرل پرویز مشرف کو کشمیر کی تحریک ِ آزادی کو اس طرح تباہ کرنے کا اختیار دیا___کشمیر کے عوام اور پاکستان کے عوام اس بے وفائی کو کبھی تسلیم نہیں کرسکتے۔
جرنیلی آمریت کا ایک اور ہدف اسلام کا وہ انقلابی اور ہمہ گیر تصور ہے جس کے تحت انسان اپنی پوری زندگی کو اللہ کی بندگی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں دیتا ہے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کو شریعت کے تابع کرتا ہے۔ وہ اسلام کی سربلندی کو اپنی زندگی کا مقصد بناتا ہے اور اس کے لیے جہاد کواپنا شعار قرار دیتا ہے۔اس تصورِ حیات کے مقابلے میں جرنیلی آمریت نے ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ (enlightened moderation) کے نام پر اسلام کا ایک ایسا مسخ شدہ تصور وضع کرنے کی کوشش کی ہے جو مغربی تہذیب و تمدن کا چربہ ہو‘ جس میں حجاب‘ داڑھی اور حیا و شرم کی گنجایش نہ ہو۔ جس میں شراب‘ زنا اور مخلوط معاشرت کے دروازے کھلے ہوں‘ جس میں جہاد کا ذکر بھی ممنوع ہو‘ جہاں رقص وسرود اور عریانی زندگی کا معمول ہوں‘ جس میں عیدین تو بس رسمی طور پر منائی جائیں البتہ بسنت‘ نیوایرز ڈے‘ ویلنٹائن ڈے اور اس قسم کی خرافات ترقی کا مظہر قرار پائیں۔ فکری اور سماجی دونوں اعتبار سے اسی تحویل قبلہ کا نتیجہ ہے کہ اخبارات‘ الیکٹرانک میڈیا‘ سرکاری تقریبات حتیٰ کہ سرکاری پارٹیوں اور فائیوسٹار ہی نہیں ان سے بہت چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں اور ریستورانوں میں اب شراب کھلے بندوں دی جارہی ہے۔ پاکستانی سفارت خانوں میں بیش تر تقریبات میں شراب دی جاتی ہے اور اسلام آباد کے ایک انگریزی روزنامے نے تو حد ہی کردی کہ اپنے صفحہ اول پر ایک چوتھائی صفحہ کا جلی اشتہار ایک کلینک کی طرف سے اس عنوان کے ساتھ شائع کیا کہ شراب نوشی کوئی قباحت نہیں‘ صرف بلانوشی نامطلوب ہے اور اس کا بھی علاج ہم سے کرالیں …اناللہ وانا الیہ راجعون!
یہ جرنیلی آمریت پہلے دن سے بے تاب رہی ہے کہ کسی طرح حدود قوانین کو منسوخ کردے اور توہینِ رسالتؐ کے قانون کو کتابِ قانون سے خارج کردے مگر ہمت نہ ہوسکی۔ اب پھر وردی کے زعم پر حدود قوانین میں ترمیم کی کوششیں ہورہی ہیں اور طرح طرح کے ڈرامے رچائے جارہے ہیں۔ بلاشبہہ حدود قوانین کا نفاذ خلوص اوردیانت سے ملک میں نہیں ہوا اور ان کی برکات سے معاشرہ محروم ہے۔ مگر عورتوں پر ظلم کی وجہ یہ قوانین نہیں‘ مغربی تہذیب و ثقافت اور وہ سیکولر‘ اخلاق باختہ اور جاگیردارانہ سماج اور رویہ ہے جو اباحت پرست طبقے کا طرۂ امتیاز ہے۔ مختاراں مائی پر ظلم کسی حدود قوانین کی وجہ سے نہیں ہوا۔ روزانہ جو ہولناک واقعات رونما ہو رہے ہیں وہ ان قوانین کی وجہ سے نہیں بلکہ اسلام کے باغی عناصر کی ظالمانہ کارروائیوں اور بااثر افراد کی قانون پر بالادستی کی وجہ سے ہیں۔ اگر یہ قوانین ٹھیک ٹھیک نافذ کیے جائیں تو معاشرہ ان جرائم سے آج بھی پاک ہوسکتا ہے لیکن جرنیلی آمریت اور اس کے آزاد خیال ہم نوائوں کا مقصد معاشرے کو جرم سے پاک کرنا نہیں جرم کو معتبر بنا دینا ہے۔ ابھی امریکا کی جوسرکاری رپورٹ بنیادی حقوق کے نام پر اس ہفتے شائع ہوئی ہے اس میں پوری بے شرمی سے کہا گیا ہے کہ زنا بالرضا کو جرم بنانا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اسے criminalization of sex کا نام دیا گیا ہے۔ اگر حدود قوانین کے خلاف کی جانے والی کی بحث کا آپ بے لاگ تجزیہ کریں تویہی اصل مسئلہ سامنے آتا ہے کہ رضامندی کے ساتھ آزاد شہوت رانی کوئی جرم ہے ہی نہیں کہ اس پر سزا دی جائے۔ برطانوی دور کے ضابطہ فوجداری میں مغربی ممالک کی طرح زنا کا فعل جرم تھا ہی نہیں۔ جسے adultery قراردیا گیا وہ صرف شادی شدہ عورت سے خاوند کی مرضی کے بغیر جنسی تعلق تھا جس کی وجہ خاوند کی حق تلفی سمجھی جاتی تھی یا پھر rape جو عورت پر جبر کی وجہ سے جرم بنتا تھا اور وہ بھی صرف تین سال کی سزا یا جرمانہ کا مستوجب!
حدود قوانین میں اصل ’ظلم‘ کیا ہی یہ گیا ہے کہ ناجائز جنسی تعلق کو‘ خواہ وہ باہمی رضامندی سے ہویا جبر کی صورت میں‘ جرم قرار دیا گیاہے اوردونوں شکلوں میں اسے مستوجب سزا قرار دیا گیا ہے۔ اس سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں کہ زنا بالجبر کے سلسلے میں عورت کی گواہی قابلِ قبول نہیں۔ فیڈرل شریعت کورٹ کے کئی فیصلے موجود ہیں جن میں چند یا صرف ایک عورت کی گواہی پر بھی سزا دی گئی ہے۔ البتہ شریعت کا حد کے باب میں ہرہر جرم کے سلسلے میں اپنا شہادت کا معیار ہے اور وہ ایک کل نظام کا حصہ ہے۔ اصل مسئلہ اسلام اور مغرب کے جداگانہ تصور اخلاق‘ نظامِ معاشرت اور جرم و سزا کے تصورات کا ہے۔ ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کے نام پر جس دین کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے‘ وہ خالص مغربی معاشرت اور تمدن ہے۔ اس کا اسلام کے نظامِ اقدار‘ اخلاق اور معاشرت سے کوئی تعلق نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ جرنیلی آمریت بھی بش اور امریکا کے کروسیڈز کے ہم زبان ہوکر اسلامی شریعت کو اپنا مدمقابل سمجھتی ہے اوراب تو جنرل مشرف صاف کہنے لگے ہیں کہ القاعدہ سے بھی بڑاخطرہ طالبان ہیں اورطالبان صرف افغانستان کے لیے نہیں طالبانائی زیشن (talibanization) پاکستان کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور اس کے لیے انتہاپسند‘ ترقی کے مخالف اور نہ معلوم کون کون سی گالیاں وضع کرلی ہیں لیکن یہ سب دراصل اسوۂ محمدیؐ اور شریعت محمدیؐ سے فرار کی راہیں ہیں‘ اس کے سوا کچھ نہیں۔ اقبال نے سچ کہا تھا :
اے تہی از ذوق و شوق و سوز و درد
می شناسی عصر ما با ما چہ کرد
عصر ما مارا ز ما بے گانہ کرد
از جمال مصطفیؐ بے گانہ کرد
اے شوق و محبت اور سوز و گداز سے خالی شخص‘ تجھے خبر ہے کہ زمانے نے ہمارے ساتھ کیا (ظلم) کردیا ہے۔ زمانے نے ہمیں اپنے آپ سے بے گانہ کردیا ہے اور محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حُسنِ کردار سے بھی بے گانہ کردیا ہے۔
جہاد سے فرار اور خانقاہی نظام کے احیا کے عزائم راہِ محمدؐ سے اُمت کو ہٹانے کے شیطانی منصوبے کا حصہ ہے___ مذہب انفرادی عمل ہے۔ سیاست‘ ریاست اور تہذیب و ثقافت سے اس کا کیا رشتہ؟ ابلیس نے یہی تو کہا تھا:
ہر نفس ڈرتا ہوں اس اُمت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات
مست رکھو ذکرو فکر صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے
اور اس شیطانی حکمت عملی کے مقابلے میں اقبال نے وہی نسخہ تجویز کیا تھا جو روحِ اسلام کا مظہرہے ؎
نکل کر خانقاہوں سے ادا کررسمِ شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دلگیری
جرنیلی آمریت کا ’اسلام‘ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیںاور یہی وجہ ہے کہ محمدؐ کا اسلام جرنیلی آمریت‘ کیتھولک پوپ اور امریکی بش سب کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے ___ اور اس میں انھیں اپنے لیے خطرہ ہی خطرہ نظر آتا ہے۔
جرنیلی آمریت نے ہر میدان میں منہ کی کھائی ہے۔ گارڈین کے نمایندے کو انٹرویو دیتے ہوئے جنرل صاحب کو خود اعتراف کرنا پڑا کہ ان کی مقبولیت برابر کم ہورہی ہے۔ جب جنرل مشرف سے پوچھا گیا کہ کس میدان میں وہ اپنے کو سب سے زیادہ کامیاب پاتے ہیں تو ارشاد ہوا___ معاشی ترقی اور اقتصادی کارکردگی کے میدان میں۔ یہ تو خود ایک طرفہ تماشا ہے کہ جرنیل صاحب نہ دفاعی میدان میں کوئی کارنامہ دکھاسکے اور نہ ملک میں امن و امان کا قیام ان کے نامۂ اعمال میں کوئی مقام پاسکا اور خود انھوں نے جس میدان کو اپنے لیے کامیاب میدان قرار دیا وہ وہ تھا جس کے بارے میں خود انھوں نے اقتدار میں آنے کے بعد کہا تھا کہ میں اس سے بالکل نابلد ہوں۔
ہم صلاحیت اور استعداد کی بحث میں پڑے بغیر ان کے اس دعوے کا جائزہ لیں تو یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ چند نمایشی پہلوئوں کو چھوڑتے ہوئے معیشت کے میدان میں بھی جرنیلی آمریت اتنی ہی تہی دامن ہے جتنی دوسرے میدانوں میں۔ محبوب الحق ہیومن ڈویلپمنٹ سنٹر کی تازہ ترین رپورٹ ہیومن ڈویلپمنٹ ان ساؤتھ ایشیا ۲۰۰۶ء ابھی اسی مہینے (ستمبر ۲۰۰۶ئ) شائع ہوئی ہے اور اس کے مطابق اگر ایک ڈالر یومیہ کو آمدنی کا معیار قرار دیاجائے تو پاکستان میں غربت کی شرح ۳۰فی صد سے زیادہ اور اگر دو ڈالر یومیہ کو بنیاد بنایا جائے تو۷۰ فی صد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ دولت کی تقسیم میں عدمِ مساوات میں برابر اضافہ ہورہا ہے۔ علاقوں کے درمیان بھی عدمِ مساوات بڑھ رہی ہے یعنی امیر امیر تر ہو رہے ہیں اور غریب غریب تر۔ افراطِ زر اور مہنگائی نے عام انسانوں کی کمر توڑ دی ہے اور اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے افراطِ زر کا جو جائزہ ستمبر ۲۰۰۶ء میں شائع کیا ہے اس کی رُو سے پچھلے سال اشیاے خوردنی کی قیمتوں میں ۱ئ۱۱ فی صد کا اضافہ ہوا ہے اور مزدوروں کی حقیقی قوتِ خرید میں برابر کمی واقع ہورہی ہے۔ (ملاحظہ ہو ڈان اور دی نیوز ۲۲ستمبر ۲۰۰۶ئ)
وزیراعظم صاحب خوش حالی کے اشاریے کے طور پر کاروں کی فروخت کا بار بار ذکر کرتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں ۱۶ کروڑ کی آبادی میں کار استعمال کرنے والے کتنے ہیں۔ لیکن جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے‘ ان کے اپنے دست ِ راست جرنیلی آمریت کی لبرل امپورٹ پالیسی پر پریشان ہیں۔ تازہ ترین سرٹیفکیٹ ان کے اپنے وزیرمملکت نے دیا ہے:
وفاقی وزیر مملکت اور منصوبہ بندی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر اکرم شیخ نے حکومت کی گاڑیوں کی درآمد کی لبرل پالیسی پر سخت تنقید کی ہے اور اسے ملکی صنعت کاروں کے مفاد کے خلاف قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر اکرم شیخ نے کہا کہ غریبوں کو روٹی چاہیے‘ نہ کہ درآمد شدہ گاڑیاں۔ (دی نیوز‘ ۲۲ستمبر ۲۰۰۶ئ)
فوجی آمریت کی معاشی پالیسی کاحاصل ہی یہ ہے کہ ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر مہنگے پٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کی ریل پیل ہے مگر پبلک ٹرانسپورٹ تباہ ہے اور عوام روٹی سے محروم ہیں۔
معاشی لبرلزم کا بڑا چرچا ہے اور جنرل صاحب اور ان کی معاشی ٹیم معاشی آزاد روی (economic liberalisation) پالیسی پر نازاں ہیں لیکن عالمی جائزے بتا رہے ہیں کہ اس میدان میں بھی ان کی کارکردگی خوش فہمی سے زیادہ نہیں۔ اسی مہینے جو عالمی جائزہ (Economic Freedom of the World - 2006 Annual Report) شائع ہوا ہے اس کے مطابق دنیا کے ۱۲۷ ملکوں کے سروے میں پاکستان کا نمبر ۹۵ ہے‘ جب کہ بھارت کا نمبر ۵۳ اورسری لنکا کا ۸۳ ہے۔ ہانگ کانگ اورسنگاپور نمبر ایک اور نمبر۲ پر آتے ہیں۔
جنرل صاحب اس دعوے سے اقتدار میں آئے تھے کہ کرپشن ختم کردیں گے مگر ان کے اردگرد سب وہی ہیں جوکرپشن میں بڑا نام پیدا کرچکے ہیں۔ جنرل صاحب کے دور میں یہ منظر بھی دیکھا گیا کہ سندھ کے وزیراعلیٰ نے اپنے ہی وزیر کے خلاف جومسلم لیگ(ق) کے صوبائی سیکرٹری بھی تھے بدعنوانی کی چارج شیٹ لگائی تھی اور خود ان وزیرصاحب نے اپنے وزیراعلیٰ صاحب پر جوابی چارج شیٹ لگائی اور ماشاء اللہ دونوں کو جنرل صاحب نے خاموش رہنے کا مشورہ دیا تھا اور وہ برابر ان کی ٹیم کا حصہ ہیں۔ اب انھی وزیراعلیٰ نے باقاعدہ بیان دیا ہے کہ کرپشن ہر حد کو پار کرگئی ہے اور اینٹی کرپشن کا شعبہ کرپشن ختم کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ پھر اپنے افسروں سے ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر کرپشن کو ختم نہیں کرسکتے تو اس میں کچھ کمی توکرا دو۔ لیکن عالم یہ ہے کہ کرپشن برابر بڑھ رہی ہے اور جرنیلی آمریت کی سرپرستی میں اس میں دن دونی اور رات چوگنی ترقی ہورہی ہے۔ نج کاری میں کرپشن اداراتی سطح پر جہاں پہنچ گئی ہے‘ اس کا ایک ثبوت اسٹیل مل کی نج کاری پر سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔ اس طرح کی کوئی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی پاکستان پر تازہ ترین رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس دور میں کرپشن تمام پہلے ادوارسے بڑھ گئی ہے۔ اس جائزے کی رو سے کرپشن کی تصویر کچھ یوں بنتی ہے:
بے نظیر کا پہلا دور ۹۰-۱۹۸۹ء
۸ فی صد
نواز شریف کا پہلا دور ۹۳-۱۹۹۰ء
۱۰ فی صد
بے نظیر کا دوسرا دور ۹۶-۱۹۹۳ء
۴۸ فی صد
نواز شریف کادوسرا دورِ ۹۹-۱۹۹۶ء
۳۴فی صد
جنرل مشرف کا دور ۰۲-۱۹۹۹ء
۶۹ئ۳۲ فی صد
جنرل مشرف کا تازہ دور ۰۶-۲۰۰۲ء
۳۱ئ۶۷ فی صد
(قومی کرپشن کا جائزہ ۲۰۰۶ئ‘ ص ۳۰)
یہ ہے جرنیلی آمریت کی حقیقی کارکردگی… پڑھتا جا‘ شرماتاجا!
حالات کے معروضی اور بے لاگ جائزے سے یہ اصولی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ آمریت کبھی بھی صحیح نظام نہیں ہوسکتی۔ آمر اچھا انسان بھی ہوسکتا ہے اور برا بھی۔ پارسا بھی ہوسکتا ہے اور بدقماش بھی۔فوجی بھی ہوسکتا ہے اورسویلین بھی‘ لیکن آمریت کبھی خیر اور صلاح کا باعث نہیں ہوسکتی۔ یہ بلبلہ جب بھی پھٹتا ہے اس میںسے کثافت اور گندگی ہی نکلتی ہے۔ یہ تاریخ کا فیصلہ اور ہمارا اپنا تجربہ ہے۔ مسائل بے شمار ہیں اور ان میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ بلکہ جیساکہ ہم نے حقائق سے ثابت کیا ہے ملک جس خطرناک صورت حال سے آج دوچار ہے پہلے نہیں تھا___ لیکن ان سب مسائل کا حل صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ جرنیلی آمریت سے عوامی جدوجہد کے ذریعے نجات پائی جائے‘ اور یہ جدوجہد اس ہدف کو سامنے رکھ کر ہو کہ ایک جرنیل کی جگہ کوئی دوسرا جرنیل اور ایک آمر کی جگہ دوسرا آمر برداشت نہیں کیا جائے گا۔
جمہوریت اپنی تمام خرابیوں کے باوجود اپنے اندر اصلاح اور تبدیلی کا ایک راستہ رکھتی ہے اور عوام کے سامنے باربار جواب دہی کے لیے آنے کا نتیجہ بالآخر بہتری کی صورت میں نکلتا ہے۔ صبر اور تسلسل کے ساتھ اس عمل کو جاری رہنا چاہیے۔ اس سلسلے میں مختصر راستے (short cut) کے دھوکے سے نکلنا ضروری ہے۔ آمریت سے نجات خود اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کو آگے بڑھانے اور کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آمریت کا خاتمہ اس سلسلے میں فتح باب کا درجہ رکھتا ہے۔ آج کی جرنیلی آمریت اس راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور جب تک یہ رکاوٹ دُور نہ ہو اسلامی نظام کے قیام کا سلسلہ شروع نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستا ن کی بقا و استحکام اور خود اقامت دین کی جدوجہد کی کامیابی کے لیے دستوری عمل کی استواری‘ غیرجانب دارانہ عبوری حکومت کے تحت انتخابات‘ آزاد اور بااختیار الیکشن کمیشن کا قیام اور اس کے ذریعے انتخابات کا انعقاد‘ فوج کی سیاست سے مکمل اور دائمی بے دخلی___ یہ سب اس منزل کی طرف پیش قدمی کے لیے ضروری اقدام ہیں اوران کا حصول اس وقت پاکستان کوانتشار سے بچانے اور اس ملک کی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ اس وقت تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذیلی مسائل اور اختلافات کو اپنی حدود میں رکھتے ہوئے مشترک قومی مقاصد کے لیے متحد ہوکر مسلسل جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت تھوڑی سی غفلت بھی بہت مہنگی پڑسکتی ہے اس لیے کہ ع
لمحوں نے خطا کی ہے‘ صدیوں نے سزا پائی
آج بھی پاکستان ایک ایسے ہی فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے اور ہم بروقت فیصلے یا صحیح اقدام کے باب میں غفلت کے متحمل نہیں ہوسکتے اس لیے کہ ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے‘ تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسرائیل نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت‘ لبنان پر حملہ کر کے ۳۴ دن رات قوت کے بے محابا استعمال اور ظلم و تشدد کی ایک نئی داستان رقم کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے (جسے خود مغرب کی انسانی حقوق کی تنظیمیں انسانیت کے خلاف جرائم (crimes against humanity) قرار دے رہی ہیں) انھی ۳۴ شب وروز میں جدید ترین اور انتہائی تباہ کن اسلحے اور آلاتِ جنگ سے لیس دنیا کی چوتھی بڑی فوج کی ہمہ گیر جنگ (ہوائی‘ بحری اور بری) کے مقابلے میں حزب اللہ کے چند ہزار مجاہدوں کی سرفروشانہ مزاحمت ایک آئینہ ہے جس میں بہت سے چہرے اپنے تمام حسن و قبح کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں۔ یوں انسان کی آنکھ دنیا ہی میں یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ ج (اس روز کچھ لوگ سرخ رو ہوں گے اور کچھ لوگوں کا منہ کالا ہوگا۔ اٰل عمرٰن ۳:۱۰۶) کا چشم کشا اور ایمان افروز منظر دیکھ رہی ہے۔ مسئلہ کے تجزیے اور حالات کے مقابلے پر بات کرنے سے پہلے‘ عبرت اور موعظت کے ان مناظر پر ایک نظر ڈالنا مسائل کی حقیقت کو سمجھنے اور رزم گاہ کے تمام کرداروں کے چہروں کے اصل خدوخال اور نقش و نگار کو پہچاننے میں مددگار ہوگا۔
سب سے پہلا چہرہ اسرائیل کا ہے اور وہی اس خونی ڈرامے کا اصل کردار بھی ہے۔ اسرائیل کوئی عام ریاست نہیں‘ مغرب کے ملمع سازوں اور تماشا گروں نے تو اسے علاقے کی ’واحد جمہوری ریاست‘ کا امیج (image) دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن اسرائیل نے خود اپنے کردار اور قوت کے نشے میں مست ہوکر انسانی تباہی‘ وسیع پیمانے پر ہلاکت خیزی اور جنگی جرائم کی نہ ختم ہونے والی حرکات کے ذریعے دنیا کو اپنی جو تصویر دکھا دی ہے‘ وہ اب کسی مصنوعی لیپاپوتی یا میڈیا کی جعل سازی سے تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ جو باتیں بالکل واضح ہو کر سامنے آگئی ہیں وہ یہ ہیں:
۱- اسرائیل کا وجود اوراس کی بقا کا انحصار کسی اصول‘ حق یا عالمی ضابطے پر نہیں‘ قوت اور صرف قوت کے بے محابا استعمال پر ہے۔ اس کا قیام بھی تشدد اور قوت کی بنیاد پر ہوا اور علاقے میں اس کا وجود بھی صرف قوت کے سہارے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ اس کے لیے کوئی قانون ہے اورنہ کوئی ریاستی حدود۔ چنانچہ جس فلسفے پر وہ عامل ہے اور اس کے پشتی بان اسی تصور پر اپنی خارجہ پالیسی اورجنگی سیاست استوار کیے ہوئے ہیں کہ اسرائیل کی عسکری قوت کوناقابلِ مقابلہ (unchallengable) ہونا چاہیے اور صرف ایک یا دو پڑوسی ملکوں یا عالمِ عربی نہیں‘ بلکہ ایران اور پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کے مقابلے میں اسرائیل کے پاس اتنی قوت ہونی چاہیے کہ وہ اس قوت کو جب چاہے اور جس موقع پر بھی وہ بزعمِ خود اپنے لیے کوئی خطرہ محسوس کرے تو بلا روک ٹوک اور جس طرح چاہے استعمال کرے۔ امریکا اور یورپ کے سامراجی ذہن نے اسے ’دفاعی اقدام‘ کا نام دیا ہے۔ جب امریکا یہ محسوس کرتا ہے کہ اسرائیل کی جارحانہ بلکہ دہشت گردانہ قوت میں کوئی کمی آرہی ہے تو آنکھیں بند کر کے اس کی قوت کو بڑھانے کے لیے جنگی سازوسامان کی ریل پیل کردی جاتی ہے۔ اسی بنیاد پر اسے نیوکلیر پاور بنایا گیا تھا۔ اس وجہ سے اسے ہرقسم کے تباہ کن اسلحے اور آلاتِ جنگ سے لیس کیا گیا‘ اسی دلیل پر ۱۹۷۳ء میں جب جنگ کا پلڑا صرف دو دن تک اس کے خلاف تھا اس کی مدد کی گئی اور اسی شرانگیز فلسفے کی وجہ سے حالیہ لبنان پر فوج کشی کے دوران امریکا نے برطانیہ کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر کے تباہ کن بم ہی نہیں بلکہ ڈیزی کٹر اور زیرزمین مضبوط پناہ گاہیں تباہ کرنے والے بم (bunker buster) تک جہازوں میں لاد کر اسے پہنچائے۔
اسرائیل نے جو تباہی مچائی ہے اور جس پر ساری دنیا کے غیر جانب دار انسان چیخ اُٹھے ہیں۔ ٭وہ بھی اسرائیل کے اس فلسفۂ جنگ اور فلسفۂ وجود پر ایک معمولی سا دھبّا بھی نہیں لگاسکے اور اسرائیل اسی بنیاد پر قائم ہے۔
۲- اسرائیل بنیادی طور پر اس علاقے کی کوئی ریاست نہیں بلکہ اس کی حیثیت ایک استعماری قوت (colonial power)کی ہے جس نے فلسطین پر صرف قوت سے قبضہ ہی نہیں کیا بلکہ اسے آبادکاروں کی نوآبادی (settler colony) بھی بنا دیا‘ یعنی استعماری قوت کو دوام دینے کے لیے نقل آبادی اور زمینی حقائق کی تبدیلی تاکہ سرزمینِ فلسطین کے اصل باشندے یا دربدر کی ٹھوکریں کھائیں (آج ۴ ملین فلسطینی اپنے وطن سے باہر زندگی گزار رہے ہیں) یا پھر محکوم اور غلام بن کر رہیں اور یورپ اور امریکا سے کاکیش نسل کے یہودیوں کو اس سرزمین پر آباد کردیا جائے اور وہ بزور اس پر قابض رہیں۔ یہ دونوں پہلو یعنی اس کا نوآبادیاتی استعماری کردار اور آبادکاروں کی حیثیت اسرائیل کی اصل شناخت ہیں۔ لیکن اس میں ایک تیسرے پہلو کا اضافہ گذشتہ ۵۰سال میں اسرائیل اور امریکا کے سیاسی گٹھ جوڑ سے نمایاں ہوگیا ہے یعنی یہ کہ اب اسرائیل ان دونوں پہلوئوں کے ساتھ عرب دنیا میں امریکا کا ایک فوجی ٹھکانا بن گیا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ پورے علاقے کو امریکا کے سامراجی مقاصد کی خاطر استعمال کرنے کے لیے وہ چوکیدار کا کردار ادا کرے۔ اسے ایک غیرجانب دار مبصر نے یوں بیان کیا ہے:
اسرائیل ایک ملک نہیں ہے بلکہ مغربی ممالک کا فوجی اڈہ ہے تاکہ شرقِ اوسط اور مسلم ممالک کے تیل کے ذخائر پر کنٹرول رکھا جا سکے۔
اسرائیل کے تمام مظالم اور خلافِ انسانیت ہلاکت کاریاں اپنی جگہ‘ اس کے اصل چہرے کا سمجھنا ازبس ضروری ہے۔
اس آئینے میں دوسرا چہرہ امریکا کا صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ امریکا اور اسرائیل کے کردار میں کوئی فرق باقی نہیں رہا ہے اور من تو شدم تو من شدی کا منظر صاف نظر آرہا ہے۔ اس لیے کہ اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے وہ امریکا کی پشت پناہی میں‘ اس کی باقاعدہ اعانت اور شمولیت سے اور اس کے علاقائی عالمی عزائم اور اہداف کے حصول کے لیے کر رہا ہے۔ یہ باہمی تعاون ایک مدت سے واضح ہے لیکن ۳۴ دن میں توہرچیز بالکل برہنہ ہوگئی ہے۔ بش اور کونڈولیزارائس نے پہلے دن سے اسرائیل کے اقدامات کی تائید کی اور صاف کہا کہ اسے حزب اللہ کو ختم کرنے اور لبنان کو سبق سکھانے کا حق حاصل ہے۔ G-8 سے لے کر روم کانفرنس تک امریکا نے تمام دنیا کی چیخ پکار اور کوفی عنان کی آہ و بکا کے باوجود فوری جنگ بندی کی پوری ڈھٹائی اور بے شرمی سے مخالفت کی‘ یورپ تک کی کوششوں کو آگے نہ بڑھنے دیا اور صاف کہا کہ اس قصے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے اسرائیل کو تین ہفتے چاہییں اور وہ اسے ملنے چاہییں لیکن جب بازی اسرائیل کے خلاف پلٹنے لگی اور ایک ایک دن میں اسرائیل کے ۳۵ فوجی ہلاک ہونے لگے تو جنگ بندکرانے کے لیے امریکا بہادر تیار ہوگیا۔ اس زمانے میں ایران کو گالیاں دی جاتی رہیں کہ اس نے حزب اللہ کو اسلحہ دیا ہے اور خود جہاز پر جہاز اسرائیل کو روانہ کیے گئے اور اس جنگ میں ایک کھلا رفیق بن گیا جس کے نتیجے میں لبنان کے ۱۲۰۰ افراد شہید‘ ۵ہزار زخمی اور ۴۰ سے ۵۰ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ پھر اسے زخموں پر نمک پاشی ہی کہا جاسکتا ہے کہ انسانی جانوں کی اس ہلاکت اور اس ہمہ گیر تباہی پر آنسو بہانے کے لیے امریکا نے ۵۰بلین ڈالر کی خطیرامداد کا اعلان کیا ہے۔ تفو برتو اے چرخ گرداں تفو۔ لبنان کے لیے واحد عزت کا راستہ یہی ہے کہ اس ۵۰بلین کی بھیک کو لینے سے انکار کردے اور ’عطاے تو بہ لقاے تو‘ کے اصول پر امریکا ہی کے منہ پر دے مارے!
یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ امریکا لبنان کا بڑا دوست بنتا تھا۔ رفیق حریری کے قتل کے بعد جو ڈراما ہوا اس کا اصل ہدایت کار امریکا ہی تھا۔ ماشاء اللہ لبنان کے کئی وزیراعظم بھی ہمارے شوکت عزیز کی طرح امریکا کے سٹی بنک ہی کا تحفہ ہیں اور شام کو بے دخل کرنے اور حزب اللہ کو غیرمؤثر بنانے کے منصوبے میں اہم کردارادا کر رہے تھے لیکن اسرائیل کی تائید میں لبنان کی امریکا نواز حکومت کو بھی بے سہارا چھوڑ دیا گیا اور اسرائیل کی جارحیت کو لگام دینے کی کوئی ظاہری کوشش بھی نہ ہوئی۔ جس نے ایک بار پھر اس حقیقت کو لبنان ہی نہیں پوری دنیا کے سامنے واضح کردیا کہ امریکا سے زیادہ ناقابلِ اعتماد کوئی ’دوست‘ نہیں ہوسکتا اور لبنان کے وہ عیسائی اور لبرل امریکا نواز بھی پکار اُٹھے کہ آزمایش کی اس گھڑی میں حزب اللہ اور حسن نصراللہ نے ہماری مدد کی اور جن کے دامن کو ہم نے تھاما تھا وہ گھر کو آگ لگانے والوں کا ساتھ دیتے رہے۔
ایک تیسرا چہرہ اقوام متحدہ کا بھی ہے۔ اس ادارے کا مقصد جارحیت کا شکار ہونے والوں کی مدد کو پہنچنا اور جارح کا ہاتھ پکڑنا ہے۔ لیکن افغانستان اور عراق پر امریکی حملوں کے وقت اس نے جو شرم ناک کردار ادا کیا‘ اس کا اظہار اس موقع پر بھی ہوا۔ ۳۴ دن تک یہ بے بسی کی تصویر بنا رہا اور امریکا کی مرضی کے خلاف کوئی اقدام نہ کرسکا۔ جب امریکا اوراسرائیل کو اپنے مقاصد میں ناکامی ہوتی نظر آئی تو جنگ بندی کی قرارداد منظور کی گئی۔
ایک چوتھا چہرہ یورپی اقوام کا بھی سامنے آتا ہے جو ایک طرف اپنے معاشی مفادات کی خاطر عرب دنیا سے قربت کا مظاہرہ کرتی ہیں اور کبھی کبھی امریکا سے کچھ اختلاف کا اظہار بھی کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود جب آزمایش کی گھڑی آتی ہے تو عملاً ان کا وزن اسرائیل اور امریکا ہی کے ساتھ ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ امریکا کھلے بندوں دل و جان سے یہ ظلم کرتا ہے اور یورپی اقوام ذرا بے دلی اور ہمدردی کے ایک آدھ بول کے ساتھ وہی کام انجام دیتی ہیں۔ ان کی دوستی اور تعاون پر بھی اعتماد دانش مندی کا تقاضا نہیں۔
اس آئینے میں ایک پانچواں چہرہ بھارت کا بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اسرائیل کی جارحیت پر خاموشی‘ لبنان اور فلسطین کی مدد اور تائید کے باب میں بے التفاتی۔ جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ امریکا اور اسرائیل سے نئی نئی دوستی پر فلسطین اور عربوں سے ساری ہمدردی سے دست برداری‘ لیکن اس سے بڑھ کر اسرائیل کو خوش کرنے اور امریکا سے دفاعی معاہدے کومستحکم کرنے کے لیے بھارت کے تمام چینلوں اور ہوٹلوں تک پر عرب چینلوں خصوصیت سے الجزیرہ کی نمایش پر پابندی تاکہ بھارت کے عوام یا بھارت میں آنے والے عرب‘ اسرائیل کے مظالم کے تصویری عکس بھی نہ دیکھ سکیں۔ یہ ہے بھارت کی ’قابلِ اعتماد دوستی‘ اور بھارت اور پی ایل او اور یاسرعرفات کی پینگوں کا حاصل!
آئینے میں ایک چھٹا چہرہ ان عرب اور مسلمان حکمرانوں کا بھی نظر آتا ہے جنھوںنے اپنے مفادات کو امریکا سے وابستہ کرلیا ہے اور اس دبائو میں اسرائیل کے ساتھ دوستی سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ان حکمرانوں میں سے تین نے تو کھل کر پوری دریدہ دہنی کے ساتھ حزب اللہ اور حماس کو موردالزام ٹھیرایا اور انھیں سرزنش بھی کی۔ اس میں مصر کے صدر بہادر‘ اُردن کے بادشاہ سلامت اور سعودی عرب کے وزیرخارجہ سب سے پیش پیش تھے۔ لیکن بات صرف ان تین کی نہیں‘ عرب لیگ جنگ بندی کے ۳۴ دن تک کوئی متفقہ موقف اختیار نہ کرسکی۔ او آئی سی نے ۲۳ دن بعد اپنے ایک ۱۱ رکنی رابطہ گروپ کا اجلاس بلایا اور پھر خالی خولی زبانی احتجاج سے آگے نہ بڑھ سکی۔ بحیثیت مجموعی تمام ہی حکمران یا خاموش رہے یا بددلی اور بزدلی کے ساتھ چند بیانات سے آگے نہ بڑھے اور اس طرح ایک بار پھر یہ بات الم نشرح ہوگئی کہ یہ حکمران اُمت مسلمہ کے حقیقی ترجمان نہیں۔ یہ اپنے مفادات کے بندے ہیں یا امریکا اور مغربی سامراج کے کاسہ لیس‘ اس سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان کے دل اُمت مسلمہ کے ساتھ نہیں دھڑکتے۔ انھیں اُمت کے مفادات کا کوئی لحاظ نہیں اور یہ عیش و عشرت کی اس زندگی کے عادی ہوچکے ہیں جسے اختیار کرنے کے بعد عزت کی زندگی کے سارے امکانات ختم ہوجاتے ہیں۔
ان چھے چہروں کے علاوہ بھی کچھ چہرے ہیں جو اسی آئینے میں نظر آتے ہیں اور بڑے روشن اور تابندہ نظر آتے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں اور سب سے درخشاں چہرہ حزب اللہ اور حماس کا ہے۔ جس چڑیا کو مارنے کے لیے اسرائیل نے توپ چلائی تھی وہ اسی طرح چہچہاتی رہی اور اسرائیل اپنی توپ و تفنگ کے ساتھ‘ ۳۴ دن تک آگ اور خون کی بارش برسانے کے باوجود اس کابال بھی بیکا نہ کرسکا۔ چند ہزار مجاہدین نے ایک عظیم مجاہد لیڈر حسن نصراللہ کی قیادت میں اسرائیل کے دانت کھٹے کردیے اور اس کے سارے غرور کا طلسم توڑ کر رکھ دیا۔ انھوں نے اللہ کے بھروسے پر جان کی بازی لگا دی۔ لبنان تباہ ہوگیا مگر ان کے عزم و ہمت پر آنچ بھی نہ آئی۔ اسرائیل نے لبنانی سرحد سے دو میل کے فاصلے پر بنت جبیل کے قصبے پر تین بارقبضہ کیا اور تینوں بار اسے پسپا ہونا پڑا۔ یہ صرف ایک معرکے کی داستان نہیں‘ یہ ۳۴ دن کے خونیں معرکے کے شب و روز کی کہانی ہے ؎
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے
اللہ کے فضل سے حزب اللہ نے اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر (invincible) ہونے کے دعوے کی قلعی کھول دی ہے۔ بے سروسامانی اور وسائل اور تعداد کے نمایاںترین بلکہ محیرالعقول فرق کے باوجود‘ اسرائیل اپنے کسی ایک ہدف میں بھی کامیاب نہیں ہوسکا۔ وہ اپنے دو فوجی چھڑانے آیا تھا‘ مگر اس نے اپنے ۲۰۰ فوجی مروا دیے اور وہ دو فوجی بدستور حزب اللہ کی قید میں ہیں‘ وہ حزب اللہ کی کمر توڑنے اور اسے صفحۂ ہستی سے مٹانے کے زعم کے ساتھ آیا تھا اور اس کی فوج ۳۴ دن کی گولہ باری اور فضائی‘ بحری اور بری جنگ کے باوجود حزب اللہ کے مقابلے کی قوت کو کم نہ کرسکی اور آخری دن میں اس نے اسرائیل پر ۲۴۶راکٹ داغے اور پہلی مرتبہ اسرائیل کو ایسے جنگی نقصانات برداشت کرنے پڑے جن سے پچھلے ۶۰سال میں بھی اس کو سابقہ پیش نہ آیا تھا۔ وہ تو سمجھتا تھا کہ عرب لڑنا نہیں جانتے اور ۶ سے ۱۷ دن میں ان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتاہے۔ اس مرتبہ اسے جنگ سے نکلنے کے لیے راستے تلاش کرنا پڑے اور پہلی مرتبہ اسرائیل کے ۲۰۰ فوجی ہلاک‘ ۵۰۰ زخمی‘ اسرائیل کے اندر ۵ہزار راکٹوں کی بارش‘ ۴ لاکھ اسرائیلیوں کا حفاظتی بنکرز میں ایک مہینہ گزارنا اور ایک ملین کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ اسرائیل پر راکٹوں کے حملے کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا ابھی اندازہ کیا جا رہا ہے لیکن ابتدائی تخمینوں کے مطابق فوجی اور سول تنصیبات کے باب میں ۵ئ۱ ملین ڈالر اور معیشت کے میدان میں ۳ سے ۵ بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ یہ مزہ اسرائیل نے پہلی بار چکھا ہے اور دنیا نے یہ منظر دیکھ لیا کہ ایمان‘ عزت و آبرو اور مناسب تیاری کے ذریعے کس طرح آج بھی وسائل کی کمی کے باوجود مسلمان دشمن کے دانت کھٹے کرسکتے ہیں ؎
فضاے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
حزب اللہ اور جہادی عزم و مسلک نے اگر اسرائیل کی قوت پر ضرب کاری لگاکر اس کے ناقابلِ شکست ہونے کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے تو وہیں ایک طرف اس نے اُمت مسلمہ کا سر اللہ کے سامنے شکرکے جذبات سے جھکا دیا ہے اور دوسری طرف مادی وسائل اور عسکری قوت کی پجاری دنیا کے سامنے عزت سے بلند کردیا ہے‘ اوروہ جنھیں کمزور سمجھ کر اہلِ قوت پامال کرنے پر تلے ہوئے تھے‘ ان کو ایک نیا عزم‘ نئی ہمت‘ نیا ولولہ اور مقابلے کی نئی اُمنگ دی ہے۔ کونڈولیزا رائس اور جارج بش دونوں نے کہا تھاکہ لبنان کوسبق سکھانے کے اس جارحانہ اقدام کے بطن سے امریکا کے حسبِ خواہش ایک نیا شرق اوسط جنم لے گا___ لیکن ان شاء اللہ ایک نیا شرق اوسط تو ضرور جنم لے گا مگر وہ امریکا کا لے پالک نہیں ہوگا بلکہ اسلامی نشاتِ ثانیہ کا پیامبر ہوگا۔ حزب اللہ اب ایک تنظیم کا نام نہیں‘ ایک عالمی تحریک کا عنوان اور تبدیلی کے رخ کا مظہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُردن کے وہی حکمران شاہ عبداللہ جس نے چار ہفتے قبل ان پر حرف زنی کی تھی وہ اب یہ کہنے پر مجبور ہوا ہے کہ:
عرب عوام کی نظروں میں حزب اللہ ہیرو ہیں‘ اس لیے کہ یہ اسرائیل کی جارحیت کا مقابلہ کر رہی ہے۔ (دی نیشن‘ ۱۲ اگست ۲۰۰۶ئ)
اور حزب اللہ کا مخالف ولید جنبلات جو دروز کمیونٹی کا لیڈر ہے اورجسے اسرائیل نے ۱۹۸۰ء کی جنگ میں حلیف بنایا ہوا تھا اب کہہ رہا ہے کہ:
آج لبنان اپنی بقا کے لیے حزب اللہ اور حسن نصراللہ کا مرہونِ منت ہے جنھوں نے اسرائیل کو شکست دی ہے۔ یہ ایک یا دوسرے حصے کو حاصل کرنے یا کھونے کا مسئلہ نہیں‘ انھوں نے اسرائیل کو شکست دی ہے۔ (دی نیشن‘ ۲۱ اگست ۲۰۰۶ئ)
یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف ہر سطح پر اور ہر حلقے میں ہو رہا ہے بجز امریکی وائٹ ہائوس کے‘ لیکن تاریخ اسے پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ حزب اللہ کے اس تابناک چہرے کے ساتھ ان ہزاروں مصیبت زدہ انسانوں کا چہرہ بھی اسی آئینے میں نظر آرہا ہے جو اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنے ہیں‘ جن کے اعزہ ہمیشہ کی نیند سلا دیے گئے ہیں‘ جن کے گھر اور کاروبار تباہ کر دیے گئے ہیں‘ جن کے ملک کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے مگر ان کا ایمان تابندہ ہے‘ ان کا عزم جوان ہے‘ جو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ رہے ہیں کہ ہمارے گھر تباہ ہوگئے ہیں لیکن ہمارا سر بلند ہے۔ سیکڑوں انٹرویو دنیا بھر کے میڈیا میں بشمول بی بی سی اس پر گواہ ہیں کہ ایک ماں جس کے جوان بچے شہید ہوگئے ہیں لیکن وہ پورے سکون سے کہتی ہے کہ ان کا غم اپنی جگہ ‘ لیکن مجھے اپنی قربانی پر فخر ہے۔
بی بی سی کا نمایندہ ایک ملبے میں تبدیل ہوجانے والے مکان کے مالک سے پوچھتا ہے: ’’آپ کو تو بڑی قیمت ادا کرنی پڑی‘‘۔ تو اس کا جواب ہے: ’’تمھیں کیا پتا نہیں‘ ہمارے ہاں ناک کی کیا اہمیت ہے۔ ٹھیک ہے‘ کچھ نہیں رہا مگر ناک تو اُونچی ہے۔ ہم سب ہیرو ہیں۔ گھر کا کیا ہے‘ وہ تو پھر بھی بن جائے گا۔ (بی بی سی‘ سیربین‘ ۱۵اگست ۲۰۰۶ئ)
یہاں سے اب کہیں اور جانا شکست ماننا ہے۔ اسرائیل اس سے زیادہ اور کر بھی کیا سکتا ہے اور گھر تباہ کردے اور بچے مار دے لیکن کیا فرق پڑتاہے۔ جو زندہ ہیں وہ ایک دن بڑے تو ہوں گے اور پھر بندوق اٹھا لیں گے۔ (ایضاً)
جس قوم میں یہ جذبات اور یہ عزائم ہوں انھیں کوئی شکست نہیںدے سکتا۔ ضرورت صحیح لیڈرشپ‘ صحیح اہداف کے تعین اور صحیح تیاری اور نقشۂ کار کے مطابق کارکردگی کی ہے۔
جن جذبات کا اظہار لبنان کے عام مسلمان ہی نہیں‘ سب مذاہب‘ مسلکوں اور قومیتوں کے لوگ کر رہے ہیں‘ وہی جذبات اور احساسات پوری دنیا کے مسلمانوں اور انصاف پسند انسانوں کے ہیں۔ اس آئینے میں عوام و خواص اور اسٹریٹ و اسٹیٹ کے درمیان جو بعدعظیم آج پایا جاتا ہے‘ اس کے ہر نقش و نگار کودیکھا جاسکتا ہے۔ استنبول کی سڑکیں ہوں یا قاہرہ کی گلیاں‘ لاہور کی شاہ راہ ہو یا جدہ اور مدینہ کے راہ گزار‘ ہر جگہ عام آدمی کے جذبات و احساسات ایک ہیں۔ اور اس فرق کو کوئی نظرانداز نہیں کرسکتا جو آج حکمرانوں اور عوام کے درمیان پایاجاتا ہے۔
یہ آٹھ چہرے اس دور کی سب سے اہم آٹھ حقیقتوں کے مظہر ہیں اور مستقبل کے نقوش کو ان کی آنکھوں کی چمک اور چہرے کے رنگ میں دیکھا جاسکتا ہے۔
معرکۂ لبنان کے اس تناظر میں اب یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جولائی کی فوج کشی کے اصل مقاصد کیا تھے؟ ۱۴ اگست کی لرزتی کانپتی جنگ بندی کے بعد اسرائیل اور امریکا کے اہداف کیا ہیں اور معرکۂ لبنان کے نتیجے میں اور اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کے مطابق وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ ط وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔ الانفال ۸: ۳۰)‘ اُمت مسلمہ کے لیے نقشۂ راہ کیا ہے؟ ان تینوں بنیادی امور کے بارے میں ہم مختصراً اپنی معروضات پیش کرتے ہیں:
جہاں تک ۱۲ جولائی سے شروع ہونے والی چھٹی اسرائیلی جنگ کا تعلق ہے‘ اس کی وجہ کا رشتہ فلسطین میں ایک اور لبنان میں دو اسرائیلی قیدیوں سے جوڑنا محض دھوکا اور سیاسی شعبدہ گری کا حربہ ہے۔ سرحدی چھیڑچھاڑ‘ فائرنگ‘ میزائل کا استعمال‘ ہوائی حملے‘ اس علاقے میں زندگی کا معمول ہیں۔ اسرائیل کے قبضے میں فی الوقت ایک ہزار فلسطینی‘ ایک سو سے زائد لبنانی جن میں سے ۳۰ کا تعلق حزب اللہ کے کارکنوںسے ہے اور ۳۰ اُردن کے باشندے ہیں۔ ماضی میں کئی بار قیدیوں کا تبادلہ ہواہے اور یہ ایک معمول کی کارروائی ہے۔ اس کا کوئی تعلق جولائی کے حملے سے نہیں۔ اس حملے کی تیاری اسرائیل دو سال سے کر رہا تھا‘ گذشتہ سال باقاعدہ اس کے لیے مشقوں کا اہتمام بھی کیا جاچکا تھا اور گذشتہ دو مہینے میں صرف جنگی سازوسامان اور رسد کی ترسیل ہی نہیں‘ امریکا کے مکمل تعاون کے ساتھ جنگ کا پورا نقشہ تیار کرلیا گیا تھا اور پوری تیاری سے یہ حملہ فوجیوں کی گرفتاری کو بہانہ بناکر کیا گیا۔ اس سلسلے میں سارے حقائق امریکا میںاور اسرائیل میں سامنے آچکے ہیں۔
امریکی رسالے دی نیویارکر کے ۲۱ اگست کے شمارے میں مشہور امریکی صحافی اور مصنف سائمورہرش (Seymour Hersh)کا مفصل مضمون شائع ہواہے جس میں پورے منصوبے کی اور اس میں امریکا کے کردار کی تفصیلات شائع ہوگئی ہیں۔ یہ اسرائیلی حملہ امریکا کے ایما پر اور اس کی اس خواہش کی تکمیل میں انجام دیا گیا کہ حزب اللہ پر بطور پیش بندی کارروائی کی جائے۔ ہرش کے الفاظ ہیں: a preemptive blow against Hezbollah
اس کا ایک مقصد ایک اہم امریکی شریک راز کے الفاظ میں یہ تھا: ہم چاہتے تھے کہ حزب اللہ کو ختم کریں‘ اب ہم دوسرے سے یہ کروا رہے ہیں‘ یعنی اسرائیل نے امریکا کے پروگرام کے تحت یہ حملہ کیا۔
اس سلسلے میں ایک بڑا اہم مضمون سان فرانسسکو کرانیکل میں ۲۱ جولائی کو حملے کے ۹ دن کے بعد شائع ہوا تھا جس میں اس چار نکاتی پروگرام کی پوری تفصیل دی گئی تھی جس میں اسرائیل نے امریکی قیادت کوا پنے منصوبے سے آگاہ کیا اور اس کی تائید اور تعاون حاصل کیا۔ امریکا کی بار اِلان (Bar-Ilan) یونی ورسٹی کے شعبۂ سیاسیات کے پروفیسر جیرالڈ سٹین برگ نے اس پوری تیاری اور منصوبے کو اس طرح پیش کیا ہے:
۱۹۴۸ء کے بعد اسرائیل نے جتنی بھی جنگیں لڑی ہیں‘ یہ ان میں سے وہ تھی جس کے لیے اس نے سب سے زیادہ تیاری کی تھی۔ ایک طرح سے ۲۰۰۰ء میں اسرائیلی فوجوں کی واپسی کے بعد سے ہی یہ تیاری شروع ہوگئی تھی۔
اس لیے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ یہ طے شدہ منصوبے کے مطابق اسرائیل کی چھٹی جنگ تھی اور اس کے متعین اہداف تھے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت سے خاک میں مل گئے۔ مگر ان کا سمجھنا ضروری ہے‘ نیز یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اس ناکامی کے باوجود اہداف نہیں بدلے ہیں اورجنگ بندی صرف تیاری اور نئی جنگ کے لیے صف بندی کا ایک وقفہ ہے‘ چین کا سانس لینے کی مہلت نہیں۔
اس وقت اسرائیل اور امریکا کا پہلا ہدف حزب اللہ کا خاتمہ‘ حسن نصراللہ کی شہادت اور لبنان کو ایک ایسی ریاست میں تبدیل کرنا تھا جو اسرائیل کی معاون بنے اور وہاں اسلامی قوتوں کے لیے زمین تنگ کردی جائے۔
حزب اللہ کے خاتمے کے ساتھ ہدف یہ بھی تھا کہ حزب اللہ کے مؤیدین کی حیثیت سے ایران اور شام پر لشکرکشی کی جائے۔ ایران پر اس کی ایٹمی صلاحیت کو تباہ کرنے کے لیے اور شام پر فلسطین کی تحریکات مزاحمت خصوصیت سے حماس اور اسلامی جہاد کی قیادت کو پناہ گاہ فراہم کرنے اور ان تحریکوں کی سیاسی مدد کرنے کے جرم میں۔ مصر اور اُردن کو قابو کرنے‘ عراق کو تباہ کرنے اور سول وار کی آگ میں جھونک دینے اور سعودی عرب اور خلیج کے ممالک کو عملاً ایک تابع مہمل بنالینے کے بعد اب ایران اور شام آنکھوں میں کانٹوں کی طرح کھٹک رہے تھے اور ساتھ ہی پاکستان اس سلسلے کا آخری ہدف ہے کہ یہ افغانستان پر امریکی قبضے کے باوجود ان کے خیال میں دہشت گردوں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔
ایک ترتیب سے اور شاید اسی ترتیب سے___ یعنی لبنان‘ایران‘ شام اور پاکستان___ نئی جنگی حکمت کی نقشہ بندی کی گئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ پہلی ہی منزل پر اسرائیل کو منہ کی کھانی پڑی ہے اور امریکا کا پورا منصوبہ طشت ازبام ہوگیا ہے لیکن یہ سمجھنا کہ اسے ترک کردیا گیا ہے‘ ہمالہ سے بڑی غلطی ہوگی۔
جنگ بندی ایک عارضی عمل ہے اور اب بھی پوری کوشش کی جائے گی کہ حزب اللہ کو غیرمسلح کرنے اور لبنانی فوج جس کی اس وقت کیفیت یہ ہے کہ اس میں عیسائیوں اور دروزی عناصر کو اکثریت حاصل ہے اور مثبت پہلو صرف یہ ہے کہ اپنے اسلحے اور تربیت کے اعتبار سے وہ کوئی بڑی قوت نہیں‘ لیکن منصوبہ یہی ہے کہ اسے اور اقوام متحدہ کی نام نہاد امن فوج کو حزب اللہ کے خلاف استعمال کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس‘ جرمنی اور اٹلی تک شاکی ہیں کہ اصل کھیل کیا ہے۔ پاکستان کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اصل نقشے کو سمجھ کر اپنی پالیسی بنائے اور اس جال میں کسی قیمت پر اور کسی شکل میں نہ پھنسے۔
مستقبل کے لیے اس نقشے میںجو توسیع کی گئی ہیں ان کو دو نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ پہلے یہ خیال تھا کہ جن ممالک میں امریکی اسرائیلی منصوبے کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے وہاں حکمرانوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن اب اس پر اضافہ یہ ہے کہ محض حکمرانوں کی تبدیلی سے دیرپا مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے اس لیے علاقوں کی حیثیت میں تبدیلی (change of region) کیا جائے یعنی عرب اور مسلم دنیا (بشمول پاکستان) کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کیا جائے جن کی نکیل بآسانی اپنے ہاتھ میں رکھی جائے۔ اس طرح اس حکمت عملی کا پہلا ستون حکمرانوں اور علاقوں کی تبدیلی ہے۔
اس کا دوسرا اور اہم ترین ستون اسلام کی تعمیرنو ہے جس کے نتیجے میں جہاد کے تصور کو نکال دیا جائے‘ اور اسلام کے سیاسی کردار کو ختم کردیا جائے۔ روشن خیال اور اعتدال پسندی کے نام پر‘ صوفیانہ اسلام کا ایک ایسا اڈیشن تیار کیا جائے کہ ظلم اور استبداد کی قوتوں کے خلاف مزاحمت کی جو عالمی تحریک اسلام کے زیراثر رونما ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی‘ اس کا دروازہ بند کردیا جائے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔
معرکۂ لبنان کی اصل اہمیت یہ ہے کہ اس نے امریکی اسرائیلی منصوبے پر اس پہلے مرحلے ہی میں بند باندھ دیا ہے۔ منصوبہ بھی کھل کر سامنے آگیا ہے اور اس کے مقابلے کا راستہ بھی کسی ابہام کے بغیر اُمت کے سامنے ہے‘ اور دشمن کو بھی اس کا پورا ادراک ہے۔
پہلی ضرورت رجوع الی اللہ کی ہے۔ مسلمان کی طاقت کا منبع اللہ کی ذات‘ ایمان کی قوت اور اخلاق و کردار کا ہتھیار‘ جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت ہے۔
دوسری بنیادی چیز اپنے اہداف اور مقاصد کا صحیح شعور اور دشمن کے اہداف اور مقاصد کا پورا ادراک ہے۔ یہ مقابلہ حقائق کے میدان میں ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ رب سے رشتہ کے ساتھ دنیاوی اعتبار سے جو نقشۂ جنگ ہے اس کا پوراشعور اور لوہے کولوہے سے کاٹنے کی حکمت عملی پر عمل ہے۔
تیسری چیز یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مسلمانوں کی قوت کا ایک بڑا سرچشمہ ان کا اتحاد ہے اور دشمن کی چالوں میں سب سے شاطرانہ چال اُمت کو قومیتوں‘ فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کرکے فاسد بنیادوں پر انھیں ٹکڑے ٹکڑے کردینا ہے۔ معرکۂ لبنان میں جس طرح شیعہ سنی مسئلے کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی‘ عراق میں جس طرح یہی خونی کھیل کھیلا جارہا ہے‘ پاکستان اور افغانستان میں جس طرح اسی حربے کو استعمال کیا جا رہا ہے‘ وہ ایک کھلی کتاب ہے۔ لیکن معرکۂ لبنان ہی کا یہ درس بھی ہے کہ معرکہ اُمت مسلمہ اور اسرائیل کے درمیان ہے‘ شیعہ سنی مسئلہ نہیں۔ یہ سارا امریکی منصوبہ ہے کہ عرب دنیا کی سنی قیادتوں کو شیعہ ہوّا دکھا کر شیعہ سنی تنازع کو ہوا دی جائے‘ ایک جنگی چال ہے جسے اُمت اور اس کی قیادتوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔
چوتھی بنیادی چیز جذباتیت سے بالا ہوکر دشمن کے مقابلے کی مؤثر صلاحیت پیدا کرنے اور صحیح منصوبہ بندی اور مقابلے کی حکمت عملی کے تحت دشمن کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔ حزب اللہ نے صرف اللہ ہی سے رشتہ نہیں جوڑا‘ اپنے عوام سے بھی قریب ترین تعلق استوار کیا‘ ان کے اعتماد کو حاصل کیا اور انھیں یہ یقین دلایا کہ وہ ان کے خادم اور محافظ ہیں اور صادق اور امین ہیں۔ ساتھ ہی وسائل کی کمی اور شدید ترین عدمِ مساوات کے باوجود‘ اپنے وسائل کے دائرے میںایسی متبادل تیاری کی جو ایف-۱۶ اور جدید ترین ٹینکوں کے نہ ہونے کے باوجود دشمن پر کاری ضرب لگانے اور ان کی فنی ٹکنالوجی کی برتری کو غیرمؤثر کرنے کا ذریعہ بن سکی۔ حزب اللہ نے اسرائیل کے ہیلی کاپٹروں‘ ٹینکوں‘ بحری جنگی جہازوں کو ناکارہ بنا دیا‘ اور گوریلا جنگ کے ذریعے اسرائیل کی اعلیٰ جنگی مشینری کو غیرمؤثر بنا دیا۔ ٹکنالوجی ہمارے لیے بھی ضروری ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ مخالف کے پاس جو کچھ ہے‘ وہ ہمارے پاس بھی ہو۔ ہاں ہمارے پاس اس کا توڑ ضرور ہونا چاہیے۔ بس یہی وہ نکتہ ہے جو معرکۂ لبنان میں بہت کھل کر سامنے آگیا ہے اور قوت اور وسائل کے شدید عدمِ تفاوت کے باوجود دشمن کو زیر کرنے کا راستہ صاف نظر آرہا ہے۔
ان نکات کی روشنی میں سب سے اہم چیز اللہ سے رجوع کے ساتھ مقابلے کی تیاری اور اس کے لیے مسلم ممالک کے اندرونی نظام کی اصلاح کو اوّلیت دینا ضروری ہے تاکہ اُمت کے وسائل اُمت کے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال ہوسکیں اور ان پر وہ قابض نہ رہیں جن کے سامنے صرف اپنی ذات کا نفع اور اپنے وسائل کو دوسروں بلکہ دشمنوں کی خدمت میں دے دینا ہو۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ جس وقت لبنان کی تباہی اور بارہ سو جانوں کی ہلاکت کے ساتھ‘ جس کی کوئی قیمت نہیں ہوسکتی‘ مادی اعتبار سے ۴۰ سے ۵۰ بلین ڈالر کا اندازہ دیا جا رہا ہے سعودی عرب برطانیہ سے دسیوں ارب ڈالر کے عوض وہ جنگی جہاز (ہوائی) کا سودا کر رہا ہے جن کا کوئی تعلق عرب ملکوں یا اسلامی دنیا کے دفاع سے نہیں ہوگا جس طرح ماضی کی ایسی تمام خریداریوں کا رہا ہے۔ خود پاکستان ۵ ارب ڈالر کے عوض ایف-۱۶ حاصل کرنے کے لیے بے چین ہے جن کا کنٹرول امریکا کے ہاتھوں میں ہوگا اور امریکا کی اجازت کے بغیر ان کو پاکستان کی حدود میں بھی حرکت میں نہیں لایا جا سکے گا۔ ان حالات کا ایک ہی تقاضا ہے کہ مسلم دنیا کے سیاسی نظام کو اُمت کی بالادستی میں لایا جائے۔ ان حکمرانوںسے نجات پائی جائے جو استعماری قوتوں کے آلہ کار ہیں اور اُمت کے وسائل میں خیانت ہی نہیں کر رہے‘ انھیں دشمن کے مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اگر حزب اللہ کو لبنان کی سیاست میں وہ حیثیت حاصل نہ ہوتی جن کی بنا پر وہ اتنا کلیدی کردار ادا کر سکی ہے تو لبنان کا معرکہ بھی تباہی کی ایک اور داستان بن جاتا لیکن اللہ سے تعلق‘ جہاد سے وفاداری‘ عوام سے رشتہ‘ مناسب تیاری اور اس کے ساتھ مؤثر سیاسی حکمت عملی نے معرکۂ لبنان کو تاریکیوں میں روشنی کی ایک تابناک کرن بنا دیا ہے___ اور یہی وہ روشنی ہے جو ہمارے مستقبل کو تابناک کرسکتی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس امر سے کوئی صاحب ِ نظر انکار نہیں کرے گا کہ اس وقت پاکستان سیاسی اور معاشی طور پر ایک شدید بحران سے دوچارہے اور اسے اس بحرانی کیفیت سے نکالنے کے لیے ایک مخلص، دیانت دار، ہر دل عزیز،محنتی،با صلاحیت اور جرأت مند قومی قیادت کی ضرورت ہے۔
یہ مخلص اور دیانت دار قیادت کہاں سے آئے گی جو قوم کی نیّا کو طوفانی موجوں کی کشاکش اور تھپیڑوں سے صحیح و سالم نکال کر کنارے پر لگا دے؟ اگر آپ پاکستان کی ۵۸ سال کی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گی کہ یہ قیادت سول اور فوجی بیوروکریسی یا ہماری اشرافیہ سے میسر نہیں ہو سکتی۔ اس طرح کی ایک مخلص اور دیانت دار قیادت کے لیے ہمیں ملک کے عوام کی طرف رجوع کرنا پڑے گااور انھیں ایک بڑی تبدیلی کے لیے تیار کرنا ہوگا۔ اللہ رب العالمین نے اپنی کتاب ہدایت میںیہ اٹل اصول بیان کیا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لَایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَابِاَنْفُسِھِمْ ط (الرعد ۱۳: ۱۱) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔
اسی بات کو مولانا ظفر علی خان نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
عوام میں اپنی حالت بدلنے کا خیال کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟ کیا پاکستانی عوام میں اپنی حالت کے بدلنے کی خواہش موجود بھی ہے یا نہیں؟
ان سوالات کا جواب یہ ہے کہ جب تک کسی قوم کی آرزوئیں اور امنگیں بیدار نہ ہوں اور جب تک ان کے دلوں میں تمنائیں انگڑائیاں نہ لیں اس وقت تک کوئی قوم عمل پر آمادہ نہیں ہوسکتی۔اسی لیے مرگِ آرزو اور زندہ تمناؤں کی موت ہی کو کسی قوم کی موت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔علامہ اقبال ؒ نے مایوسی اور نا امیدی کو زوال علم و عرفان کہاہے ؎
نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں
اقبالؒ نے رموزِ بے خودی میں اسلام کے بنیادی ارکان میں پہلے رکن توحید کے ضمن میں ایک باب درج ذیل عنوان کے تحت باندھا ہے، در معنی ایں کہ یاس و حزن وخوف ام الخبائث است و قاطع حیات ، و توحید ازالہ ایںامراضِِ خبیثہ می کند (اس معنی کی وضاحت میں کہ ناامیدی اور غم اور خوف ام الخبائث اور زندگی کا خاتمہ کرنے والے ہیںاور توحید ان امراض خبیثہ کا علاج ہے۔)
فارسی کی اس نظم میں اقبال ؒ نے بہت خوب صورتی سے قرآنی آیات سے کلمات لے کر پرو دیے ہیں۔فرمایا ؎
مرگ را ساماں ز قطعِ آرزوست
زندگانی محکم از لَاتَقْنَطُوْا ست
آرزو کا خاتمہ موت کا سامان فراہم کرتا ہے،جبکہ زندگی کو لاتقنطوا سے استحکام نصیب ہوتا ہے۔
اس شعر میں قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ o (الزمر ۳۹:۵۳) اے نبیؐ! کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ،یقینا اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے، وہ تو بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
آگے فرماتے ہیں ؎
اے کہ در زندانِ غم باشی اسیر
از نبیؐ تعلیم لَاتَحْزَنْ بگیر
اے غم کے زنداں میں قیدی کی زندگی بسر کرنے والے، نبی کریمؐ سے لاتحزن کی تعلیم حاصل کرلو۔
اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْھُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ج فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا وَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰیط وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا ط وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ o (التوبہ ۹:۴۰) تم نے اگر نبی کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں ،اللہ اُس کی مدد اُس وقت کرچکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا،جب وہ صرف دومیں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوںغار میں تھے،جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھاکہ’’غم نہ کر،اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔ اس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکونِ قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظرنہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کردیا۔ اور اللہ کا بول تو اُونچا ہی ہے، اللہ زبردست اور دانا و بینا ہے۔
اس سے آگے اقبالؒ نے فرمایا ؎
چوں کلیمے سوے فرعونے رود
قلبِ او از لَاتَخَفْ محکم شود
جب ایک کلیم ایک فرعون کی طرف جاتا ہے تو اس کا دل ’لاتخف‘ سے مضبوط ہوتا ہے۔
اس شعر میں قرآن کریم میں مذکورحضرت موسٰی ؑاور ان کے بھائی حضرت ہارون ؑ کے واقعے کا ذکر ہے ، جب ان دونوں کو فرعون کی طرف جانے کا حکم ہوا تو انھوں نے عرض کی کہ ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہمارے ساتھ زیادتی پر اتر آئے گا اور سرکشی اختیار کرے گا،تو اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا: لَا تَخَافَـآ اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَ اَرٰی (طٰہٰ ۲۰:۴۶)’’ڈرو مت، میں تمھارے ساتھ ہوں، سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں‘‘۔
دوسرے موقع پر جب فرعون کے جادوگروں کے سحر کی وجہ سے رسیاںحضرت موسٰی ؑ کو چلتے پھرتے سانپ نظرآنے لگیں تو انھوں نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا‘ تو اللہ نے کہاکہ خوف مت کھاؤ ، تم غالب رہوگے۔ قرآن مجید نے اس واقعے کی یوں منظر کشی کی ہے:
قَالُوْا یٰـمُوْسٰٓی اِمَّـآ اَنْ تُلْقِیَ وَاِمَّـآ اَنْ نَّکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰی o قَالَ بَلْ اَلْقُوْا ج فَاِذَا حِبَالُھُمْ وَعَصِیُّھُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی o فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰی o قُلْنَا لَاتَخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی o (طٰہٰ ۲۰: ۶۵-۶۸) جادوگر بولے: ’’موسٰی ؑ! تم پھینکتے ہو یا پہلے ہم پھینکیں‘‘؟ موسٰی ؑ نے کہا، ’’نہیں،تم ہی پھینکو‘‘۔یکایک ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں ان کے جادوکے زور سے موسٰی ؑ کو دوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں، اور موسٰی ؑ اپنے دل میں ڈر گیا۔ہم نے کہا ــ’’مت ڈر، تو ہی غالب رہے گا‘‘۔
اس نظم کا خاتمہ اس خوب صورت بیت پر کیا گیا ہے ؎
ہر کہ رمزِ مصطفیؐ فہمیدہ است
شرک را در خوف مضمر دیدہ است
جس نے مصطفیؐ کی تعلیم کی اصل روح کو سمجھا ہے اس نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کا خوف ’شرک‘ ہے۔
قرآن کریم کی کئی آیات میں ایمان اور عمل صالح سے آراستہ لوگوں کی صفات بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ o (البقرہ ۲: ۳۸) ’’ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا‘‘۔
تبدیلی پیدا کرنے کے لیے پوری قوم کے دلوں میں تمناؤں اور آرزوؤں کو بیدار کرنے کے لیے انھیں یاس و قنوطیت ، ناامیدی اور خوف سے نکال کر ایمان و یقین کے اسلحے سے مسلح کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے ساتھ اس سحر کا پردہ چاک کرنا پڑے گا کہ امریکا اور فوجی جرنیلوں کے ساتھ ملی بھگت کیے بغیر کوئی تبدیلی نہیں آسکتی، بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کہ حقیقی تبدیلی کے راستے میں بڑی رکاوٹ امریکا اور استعماری طاقتیں اور ان کی آلۂ کارسول و ملٹری بیوروکریسی اور ملک کا طبقۂ اشرافیہ ہے۔ ان سے نجات کا ذریعہ اللہ پر ایمان‘ اور بھروسا‘ منزل کا صحیح شعور‘ ہمہ گیر عوامی بیداری کی جدوجہد اور عوام میں سے ایسی مخلص اور باصلاحیت قیادت کو بروے کار لانے کی ہمہ جہت کوشش جو اللہ اور عوام دونوں کے سامنے جواب دہ ہو۔ اس کے لیے موجودہ حکمران ٹولے سے نجات اوّلین شرط اور ضرورت ہے اور اس یقین کے ساتھ کہ قوت کا اصل سرچشمہ اللہ تعالیٰ ہے جو حقیقی حاکم اورکارفرما ہے۔ اسباب و وسائل بلاشبہہ ہر جدوجہد کے لیے ضروری ہیں لیکن آخری فیصلہ دنیاوی اور ظاہری عوامل پر نہیں‘ اللہ کے حکم اور ارادے کے مطابق ہوتا ہے اور ہم اس کے طالب ہیں۔
قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ ز وَتُعِزُّمَنْ تَشَآئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ ط اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo (ٰاٰل عمرٰن ۳: ۲۶) کہو، خدایا، ملک کے مالک، تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے۔جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کردے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
دوسروں کے دلوں میں امید کی شمع روشن کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دعوت دینے والے کارکنوں کے اپنے سینے میں چراغِ آرزو روشن ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ روشن مستقبل کا واضح نقشہ دل و دماغ میں سجا ہوا ہو۔ اس نقشے کے بنیادی خدوخال واضح ہوں اور دعوت دینے والے کارکن میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ اپنا ذوقِ یقین دوسروں تک منتقل کرنے کے لیے انھیں اپنے اخلاص کا قائل کرسکے۔لوگوں کو کسی تحریک کی قیادت اور اس کے کارکنوں کے اخلاص کا یقین ہوگا تو وہ ایسی تحریک میں شامل ہونے اور اس کی خاطر قربانی دینے پرآمادہ ہوسکیں گے۔
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید ۵۷: ۲۵) ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
لوگوں کو یہ یقین دلانا ضروری ہے کہ وہ جس طرح معاشرتی اور معاشی طورپرظلم کی چکی میں پس رہے ہیں‘ ہم اس ظلم سے نجات دلانے کے لیے انھیں پکار رہے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں مخلص نوجوانوں، ہاتھ سے کام کرنے والے مزدوروں اور ظلم کی چکی میں پسنے والے غلاموں کو حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے برگزیدہ ساتھیوں کے بارے میں یقین ہوگیاتھا کہ یہ لوگ انھیں ان جیسے انسانوں کے ظلم اور جبر سے نکالنے کے لیے اٹھے ہیں۔ اسلامی تحریک کایہ بنیادی مقصد ایرانی فوج کے سپہ سالار کے سامنے ایک صحابی رسولؐ ربعی بن عامرؓنے ان خوب صورت اور جامع الفاظ میں بیان کیا:
جِئْنَاکُمْ لِنُخْرِجَ الْعِبَادَ مِنْ عِبَادَۃِ الْعِبَادِ اِلٰی عِبَادَۃِ رَبِّ الْعِبَادِ وَ مِنْ جَوْرِ الْاَدْیَانِ اِلٰی عَدْلِ الْاِسْلَامِ وَمِنْ ضِیْقِ الدُّنْیَا اِلٰی وَسَعَۃِ الْاٰخِرَۃِ-
ہم تمھاری طرف اس لیے آئے ہیں کہ تمھیں بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب کی غلامی میں داخل کردیں اور باطل نظاموں کے ظلم سے نکال کر اسلام کے عادلانہ نظام کے زیر سایہ لے آئیں اور دنیا کی تنگیوں سے نکال کر آخرت کی وسعتوں میں داخل کردیں۔
صحابیؓ کے اس قول میں ایرانیوں کو یہ یقین دلایا گیاتھا کہ مسلمان انھیں غلام بنانے اور ذلیل کرنے کے لیے نہیں بلکہ انھیں آزاد کرانے اور عزت دلانے کے لیے آئے ہیں اور انھیں مادی دنیا کی تنگ سوچ سے نکال کر آخرت کی ابدی زندگی کا تصور اور یقین دینے کے لیے آئے ہیں۔
زندگی کا یہی وسیع تصور اور یقین تھا جس نے صحابہ کرامؓ کی مختصر جماعت کو ایک سیلِ رواں میں ڈھال دیا اور پچاس سال سے بھی کم عرصے میںانھوں نے اس دور کی معلوم دنیا کے تقریباً نصف حصے کو اسلام کے نظامِ عدل کے پرچم تلے منظم کرلیا، اور جہاں بھی ان کے مبارک قدم پہنچے وہ جگہ آج تک عالم اسلام کا قلب تصور ہوتی ہے۔
دنیا کو آج پھر معرکۂ روح و بدن درپیش ہے۔ اس معرکے میںہماری اصل قوت اللہ پرکامل ایمان اورسچا یقین ہے۔ اسی ایمان اور یقینِ کامل سے تمنائیں زندہ و بیدار ہوتی ہیں اورآرزوئیں جنم لیتی ہیں۔ دوسری چیز عشقِ مصطفیؐ ہے اور یہ بھی قوت کا بہت بڑا خزانہ ہے اور ہمارے عوام کے دل قوت کے اس سرچشمے سے مالا مال ہیں۔ یہ قوت دلوں میں تمناؤں کو بیدار کرنے والی ہے۔ایک شاعرنے اس بات کو ان خوب صورت الفاظ میں بیان کیا ہے ؎
دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمھی تو ہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمھی تو ہو
ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو
آں کہ از خاکش بروید آرزو
یا ز نورِ مصطفیؐ او را بہا است
یا ہنوز اندر تلاش مصطفیؐ است
ہر جگہ جو آپ کو جہان ِ رنگ و بو نظر آتا ہے ،جس کے وجود سے آرزوئیں جنم لیتی ہیں یا تو وہ نور مصطفیؐ کے فیض سے سیراب ہے یا ابھی مصطفیؐکی تلاش میں ہے۔
اللہ پر کامل ایمان اور عشق مصطفیؐ کی قوت سے سرشار ہو کرہم انسانیت کی خدمت اور سارے جہاںکی تعمیر نو کے لیے اٹھنے کا پیغام دیتے ہیں۔ہم پوری انسانیت کے خیر خواہ ہیں اور اپنی قوم کی خیرخواہی میں ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیارہیں، اور مجھے یقین ہے کہ جب ہم اخلاص وخیرخواہی کا پیغام لے کراپنی قوم کے پاس جائیں گے تو ہماری یہ خیرخواہی اور اخلاص ان سے پوشیدہ نہیں رہ سکے گا۔ اگرچہ ہمارے مخالفین جھوٹے پروپیگنڈے کا طوفان اٹھا کر حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ کرنے اور باطل کو حق کا جامہ پہنانے کی کوشش کریں گے لیکن یہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ باطل کے مقابلے میں حق کی قوت کو بالآخر فتح عطا فرماتاہے۔
جماعت اسلامی نے سالِ رواں کو دعوت کا سال قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے ایک ہمہ گیر عوامی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ عوام کو استعماری قوتوں اور ان کی آلہ کار نفس پرست قیادت سے نجات دلا کر ایک مخلص اور دیانت دار قیادت کا تحفہ اور ایک عادلانہ نظام کا ہدیہ دے سکیں۔
بعض لوگوں کے خیال میں دعوت اور اس طرح کی تحریک چلانے میں تضاد ہے حالانکہ حضور نبی کریمؐ کی سیرتِ طیبہ سے عیاں ہے کہ اسلامی تعلیمات کو عوام الناس تک پہنچانے کے لیے انھوں نے عوامی تحریک کو ذریعہ بنایا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر پورے جزیرہ نماے عرب کی مسلمان آبادی کومتحرک کرنے کے بعد میدان عرفات میںجمع کرکے حج کے اس مبارک سفر کو دین کی تعلیم کو عام کرنے کا ذریعہ بنایا گیا۔ اسلام کے ابتدائی ایام تھے، جاہلی تہذیب کے مقابلے میںخالص توحید کی بناپر اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اس مرحلے پر اس کے بنیادی خدوخال کو اجاگر کرنے اور اس کے اصول و مبادی واضح کرنے کی ضرورت تھی‘ چنانچہ ایک نئی قوم کی داغ بیل رکھنے اور عوام الناس کو اس کا شعور دینے کے لیے حج کے سفر کو ذریعہ بنایا گیا۔ متعدد صحابہؓ کا قول ہے کہ انھوں نے دین کے اکثر مسائل اس سفر میں سیکھے۔عوامی تحرک کو اگر صحیح نہج اور اسلامی خطوط پر چلایا جائے تو یہ دعوتِ اسلامی کو عام کرنے کا مؤثر ترین ذریعہ بنے گا۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ہماراہرکارکن اس عوامی تحریک کا خلوص اور اسلامی جذبے کے ساتھ حصہ بنے، اس کی منصوبہ بندی کے لیے اپنی تجاویز سے مقامی قیادت کو آگاہ کرے اور ہر چھوٹی بڑی آبادی میں عورتوں اور بچوں سمیت پوری آبادی بالخصوص نوجوانوں کو متحرک کردے۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں کا فرض ہے کہ دوسری دینی جماعتوں کے کارکنوں کے ساتھ مل کر متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پرعوام کو منظم کردیں۔ اس کے لیے طلبہ اور نوجوانوں کی تنظیمیں‘ اسکولوں‘کالجوں اور دینی مدارس کے عام طلبہ کو طلبہ محاذ کے پرچم تلے منظم کردیں، شباب ملّی کی تنظیم ملک بھر کے نوجوانوں کے مسائل کو اجاگر کرنے اور نوجوانوں کو اعلیٰ مقاصد کا شعور دلانے کا بیڑا اٹھائے۔اوراساتذہ، وکلا، ڈاکٹروں، انجینیروں، تاجروں، مزدوروں اور کسانوں کی تنظیمیںاپنے اپنے طبقے کے لوگوںکو اعلیٰ مقاصد کی خاطرمتحرک کرنے کے لیے کنونشن، کارنر میٹنگ اور چھوٹی بڑی نشستوں کا اہتمام کریں۔
اسی طرح بازاروں اور گلی کوچوں میں عوام الناس کو متوجہ کرکے ان کے سامنے پانچ پانچ منٹ کی چھوٹی چھوٹی تقریریں کرنے کے لیے نوجوان عوامی مقررین کے گروپ تشکیل دیے جائیں۔ یہ مقررین عوام الناس کوموجودہ زبوں حالی سے نکال کر بلندی اور رفعت تک جانے کے سفر پر آمادہ کریں، انھیں اپنے ساتھ منظم جدوجہد میں شامل ہونے کی دعوت و تلقین کریں اور عملاً انھیں اپنے ساتھ لے کر چلیں۔ عوام کو محلوں اور گاؤں کی سطح سے اٹھا کر تحصیل اور ضلع کی سطح کے جلسوں میں اور بالآخر بڑے شہروں کے جلسوں میں لے جائیں اور ان کے جوش و جذبے کو اس حد تک بڑھا دیں کہ وہ قومی سطح کی ملک گیر تحریک کو منزل تک پہنچانے کے لیے دل وجان سے آمادہ ہوجائیں۔ تحریک چلانے والے کارکنوں کو یقین ہونا چاہیے کہ اس تحریک میں ناکامی کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔
اس تحریک کا مقصد امت کو انھی مقاصد کے لیے منظم کرنا ہوگا جس کے لیے اسے ’اُمت ِوسط‘ قرار دے کر عدل و انصاف کا پرچم بلند کرنے کا فریضہ اللہ کی طرف سے سپرد کیا گیاتھا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ط (البقرہ ۲: ۱۴۳) اسی طرح ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت ِوَسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔
یہ عوامی تحریک آئینی اور قانونی حدود کے اندر ہوگی۔اس تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ یہ مکمل طورپر پرامن ہو اور ہر طرح کی توڑ پھوڑ سے اجتناب کرکے اسے قوم کی تنظیم اور اتحاد کا ذریعہ بنایا جائے تاکہ جبر کی طاقتوں کو کوئی بہانہ نہ ملے کہ وہ تشدد کرکے اس تحریک کا راستہ روک سکیں۔ اسمبلیوں کا فلور بھی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے مفید ہے لیکن ایک موقع ایسا آسکتا ہے جب اسمبلیوں سے باہر آکر عوام کی صفوں میںشامل ہونا تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہوگا۔اس وقت تک اسمبلیوں کے اندر عوام کی ترجمانی کا حق ادا کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو متحد ہونا چاہیے لیکن ممبرانِ اسمبلی کے استعفے قیادت کے پاس جمع کرانا ضروری ہے تاکہ جب بھی مناسب موقع ہو اور جب بھی حالات کا تقاضا ہو، یہ استعفے پیش کردیے جائیں۔
پرویز مشرف کی حکومت سراسرناجائز اور غیر آئینی ہے۔ اس نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ موجودہ اسمبلیوں کے ذریعے اپنے آپ کو دوبارہ منتخب کروانا چاہتا ہے۔ یہ صراحتاً ایک غیر آئینی راستہ ہے لیکن جن لوگوں نے دنیا کے چھوٹے چھوٹے مفاد کی خاطر اپنا ضمیرو ایمان فروخت کردیا ہے اور ان کے مفادات اس غیر اخلاقی اورغیر قانونی نظام سے وابستہ ہیں، وہ کسی بھی ذلت کو گواراکر نے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ ملک و قوم کی خیر خواہی رکھنے والے تمام عناصر کا فرض ہے کہ وہ اس کھلے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔
کسی بڑی تبدیلی کے لیے ناگزیر ہے کہ قیادت اور کارکنان قربانیوں کے لیے تیار ہوں۔ جبر کے ہتھکنڈے توڑنے کے لیے ہمارے بھائی فلسطین،عراق،چیچنیا،کشمیر اورافغانستان میں لازوال قربانیاں پیش کررہے ہیں۔ پاکستان کے حالات بھی قربانیاں دینے کا تقاضاکرتے ہیں۔ یہ قربانیاں مختلف نوعیت کی ہیں، یہ جدوجہد بھی مختلف نوعیت کی ہے، اس میں ظلم و جور کی طاقتوں کے سامنے صبر،ہمت اور حوصلے کا ہتھیار لے کرپُرامن جدوجہد کے مختلف النوع طریقے آزمانے پڑیں گے۔بڑے پیمانے پرگرفتاریاںپیش کرنا اور ظالم حکمرانوں کے ظلم کے مقابلے میں سینہ سپر ہونا اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اگرعوام بڑی تعداد میں منظم ہوکر نکلیں گے تو بہت ممکن ہے کہ کسی کو لاٹھی اور گولی سے کام لینے کی ہمت نہ ہو سکے لیکن کارکنوں کو جبر کے ان ہتھکنڈوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے، اور سب سے پہلے ہر سطح کی قیادت کو قربانی دینے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔
ہم اس بات پر متفق ہیں کہ غیر ملکی استعمار اور اس کی حواری قیادت سے نجات حاصل کرنے اور سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام کے ظلم کی جگہ اسلام کا نظام عدل و انصاف نافذ کرنے کے لیے اس طرح کی تحریک کے سوا کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے۔لیکن اس تحریک کو کس انداز میں چلایا جائے، کن مراحل سے اس تحریک کو گزارا جائے اور اس کو کس انداز میں منزل تک پہنچایا جائے؟ اس کے لیے مسلسل مشاورت کی ضرورت ہے،اورخود حضور نبی کریمؐ کو اپنے ساتھیوں سے مشاورت کی تلقین کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا:
وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ - (ٰاٰل عمران ۳: ۱۵۹) اور ان کوبھی شریک مشورہ رکھو،پھر جب تمھارا عزم کسی راے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسا کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔
مشاورت کا یہ نظام الحمد للہ اسلامی تحریکوں کا خاصہ ہے اور اسی مشاورت کے نتیجے میں حکیمانہ طرز عمل سامنے آتا ہے۔ اسلامی تحریک کی قیادت پوری قوم کو یقین دلاتی ہے کہ حکمت اور دانش کے تقاضوں کو پورا کیا جائے گا اور اس کے ساتھ اللہ کے بھروسے اور توکّل پر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔
کچھ لوگ اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ بین الاقوامی قوتیں موجودہ فوجی حکمرانوں کو صاف اور شفاف انتخابات منعقد کرنے پر مجبور کریں گی۔ ضمنی انتخابات کے بعد پورے ملک میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات جس نہج پر کروائے گئے ہیں ان سے بھی اگرکچھ لوگوں کی غلط فہمی دور نہیں ہوئی تو پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یہ لوگ عوام کو موجودہ حکمرانوں کی موجودگی میں انتخابات کا راستہ دکھاکر خود اس غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر اخلاقی نظام کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور غیر ملکی آقا جن مقاصد کے لیے موجودہ حکمرانوں کی سرپرستی کررہے ہیں، یہ عناصر بھی انھی غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کے عوام دشمن اور قومی خودمختاری و سالمیت کے منافی مقاصد کے لیے آلہ کار بننے کو تیار ہیں۔عوام کو اس طرح کے عناصر کے خفیہ ہتھکنڈوں اور سازشی کردار سے باخبر رکھنا محب وطن عناصر کا فرض ہے۔
ملک کے اندر اپوزیشن کی صفوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیںجو موجودہ حکمرانوںکے لادین اور امریکا کی خواہشات سے مطابقت رکھنے والے ایجنڈے سے متفق ہیں لیکن محض اقتدار میں شراکت کی خاطراور اپنی بدعنوانی اور خیانت کو چھپانے اور قانون کی گرفت میں آنے سے بچنے کے لیے ان کی مخالفت پر آمادہ ہیں۔اس طرح کے عناصر اس وقت بھی کسی تحریک کے لیے مخلصانہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور آیندہ بھی ان کے تعاون پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
میثاقِ جمہوریت پر دستخط کرکے میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے قوم کویہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ اپنے سابقہ ادوارِ حکومت میں دونوں نے جن غلطیوں کا ارتکاب کیا تھا، اگر آیندہ انھیں موقع ملا تو وہ ان سے اجتناب کریں گے اورپاکستانی آئین کی اصل روح کے ساتھ وفا کرکے اپنے اختیارات اپوزیشن کے مشورے کے ساتھ استعمال کریں گے، فوج کو مداخلت کی دعوت نہیں دیں گے اور نہ اس کے ساتھ کسی سازباز میں شریک ہوں گے،عدلیہ کی آزادی کا احترام کریں گے اور آزاد الیکشن کمیشن کی تشکیل کا اہتمام کریں گے۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے اس عہد اور میثاق پر قائم رہنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اگرچہ ان کا سابقہ ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ آئین کا حلف اٹھانے کے باوجود انھوں نے نہ اس سے وفا کی تھی ، نہ اپنے حلیفوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کیا تھااور نہ اپنے انتخابی منشور کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی تھی، تاہم ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں توفیق دے کہ وہ ملک کوآمریت سے نجات دلانے کے لیے عوامی اسلامی قوتوں کا ساتھ دیں۔
شنگھائی میں روس اور چین کے ساتھ ایران، پاکستان، افغانستان،تاجکستان،قازقستان اور ازبکستان کے سربراہوں کی کانفرنس علاقے کو امریکا کے چنگل سے نکالنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ پاکستان نے شنگھائی ممالک کی تنظیم میں باقاعدہ شمولیت کی درخواست بھی کی ہے لیکن پاکستان اور افغانستان دونوں اس وقت امریکا کے چنگل میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں اور دونوں کے حکمرانوں نے اس طرح کا کوئی عندیہ نہیں دیا کہ وہ واقعی اس چنگل سے نکلنا چاہتے ہیں۔ افغانستان تو عملاً نیٹو افواج کے قبضے میں ہے اور پاکستانی حکومت امریکا کے پاکستان مخالف اقدامات کے باوجود پوری ڈھٹائی سے کہہ رہی ہے کہ وہ امریکا کی صف اول کی حلیف ہے۔ نہ صرف خارجہ پالیسی بلکہ داخلہ اور تعلیمی و معاشی پالیسیوں میں بھی امریکا کے احکام اور اس کی ہدایات پر مکمل عمل درآمد ہورہا ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے وزیر اعظم نے قوم کو یہ مژدہ سنایا کہ عالمی بنک نے چار سال کے لیے پاکستان کو آسان شرائط کے ساتھ ساڑھے چھے ارب ڈالر کاقرضہ دینا منظور کرلیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ انھوں نے کشکول توڑ دیا ہے۔ قوم کواور اس کی آیندہ نسلوں کو قرضے کی یہ زنجیریں پہنانے کے بعدایک آزاد خارجہ پالیسی اور امریکی مداخلت سے نجات کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟
حکومت پاکستان کے اس رویے کے تضادات ہر صاحبِ عقل پر عیاں ہیںاور جب تک امریکی چنگل سے نکلنے کی واضح تدابیراختیار نہیں کی جائیں گی، اس وقت تک یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ حکومت پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں کوئی بنیادی تبدیلی لانے میں واقعی مخلص ہے۔
حکومت کی موجودہ پالیسی امریکا کے تابع مہمل بن کر رہنے کی ہے اور اس کے نتیجے میں پاکستانی فوج قبائلی علاقے میں ایک خوف ناک صورت حال سے دوچار ہے، اس تناظر میں وہاں غیر ملکی مداخلت کا خطرہ روزبروز بڑھتا جا رہا ہے۔ بلوچستان اور قبائلی علاقے میںہماری فوج کو جس طرح الجھا دیا گیا ہے اس سے ملکی سالمیت کو ایک فوری خطرہ درپیش ہے اور اس صورت حال کا فوری تقاضا ہے کہ ملک کی قیادت کو تبدیل کردیا جائے، لیکن ایک جرنیل کے جانے کے بعد دوسرے جرنیل کے آنے سے حقیقی اور عوامی خواہشات کے مطابق تبدیلی نہیں آسکتی اور نہ کچھ آزمائے ہوئے لوگوں کے درمیان اقتدار کی گردش سے کسی بنیادی تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ حقیقی تبدیلی ایسی قیادت کے ذریعے ہی آسکتی ہے جس کو عوام الناس اپنے اجتماعی ارادے سے اقتدار سونپیں اور منظم ہو کر ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اس کی پشت پر کھڑے ہوجائیں اور وہ قیادت ملک کے تمام اداروں میںعوامی امنگوںکے مطابق بنیادی تبدیلیاں لائے۔
اس وقت ملک کے عدالتی نظام میں بھی بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے، ایک ایسی تبدیلی جو اس کے فرسودہ ڈھانچے کو یکسر تبدیل کرکے عوام کو جلد اور مفت انصاف کی فراہمی کو یقینی بنادے اور جب تک مظلوم کو ظالم کے مقابلے میں انصاف نہ ملے اس کو حکمرانوں کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کا حق حاصل ہو۔حدودقوانین پر بحث کے دوران علماے کرام کے پینل نے برموقع صحیح نشان دہی کی کہ حدود قوانین میں سقم نہیں ہے بلکہ بنیادی خرابی عدالت اور پولیس کے نظام میں ہے جس کی فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔
ملک کے معاشی نظام کو اس طرح تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کہ ملکی وسائل پرپہلا حق غریب کا تسلیم کرلیا جائے اور جب تک ایک ایک غریب اور بے نوا آدمی کی روٹی ،کپڑے، مکان، علاج اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات پوری نہ ہوں اس وقت تک طبقۂ امراکی ضروریات کو مؤخر کردیا جائے۔
ملک کے اندر یکساں نظام تعلیم کے ذریعے پوری قوم کو یک رنگ کر دیا جائے اور اسلامی اقدار پر مبنی اخلاقی تعلیم و تربیت کو تعلیمی نظام کا جزو لاینفک بنا دیا جائے کہ قوم کی اخلاقی تعلیم و تربیت اور علم و تحقیق اور ایما و اختراع کی اعلیٰ صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے ذریعے ہی اسے عروج اور سربلندی کے سفر پر مسلسل آگے بڑھنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔
ملک سے بے روزگاری کو ختم کرکے عوام کو مفید اور مثبت سرگرمیوں میں مشغول کردینا، ملکی تعمیرنو کے لیے قوم کو ہنرمند بنانا اور اس کے علم و ہنر کو منظم منصوبوںکے ذریعے ملک کی ترقی میں استعمال کرنا ایک محب وطن اور محب قوم عوامی قیادت کا اولین فرض ہے۔
ان اعلیٰ مقاصد کاشعور دے کرپوری قوم کو بڑے پیمانے پر قومی تعمیر نو کی خاطر خوابِ گراں سے بیدار کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیجیے اور اس میں عملی طورپر ہمارا ساتھ دیجیے۔آپ اللہ کے راستے میں ایک قدم آگے بڑھیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کے لیے مزید راستے کھول دے گا۔
وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا ج (العنکبوت ۲۹:۶۹) اور جو لوگ ہماری خاطرمجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔
اور جب آپ اللہ کے کلمے کی سربلندی کی خاطر مخلصانہ جدوجہد کریں گے تو اللہ کی مدد و نصرت آپ کے شامل حال ہوگی، اور بالآخر دنیامیںکامیابی اورآخرت میں جنت کی نعمتیں آپ کے حصے میں آئیں گی۔اللہ رب ذوالجلال نے قرآن مجید میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا ط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ o (الصف ۶۱: ۱۲-۱۳) اللہ تمھارے گناہ معاف کردے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمھیںعطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبیؐ، اہل ایمان کو اس کی بشارت دے دو۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کسی بھی حکومت کی کارکردگی اور اس کی کامیابی اور ناکامی کو جانچنے کے لیے پوری دنیا میں چار سے پانچ سال کی مدت کافی سمجھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے پارلیمنٹ کی مدت بالعموم زیادہ سے زیادہ پانچ سال رکھی جاتی ہے اور جہاں کسی بھی نوعیت کا صدارتی نظام ہے‘ وہاں بھی عام طور پر صدر کی ایک مدت کے لیے چار یا پانچ سال مقرر کیے جاتے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو فوجی انقلاب کے ذریعے برسرِاقتدار آئے اور ان کی معاشی ٹیم اپنی حکمرانی کے سات سال پورے کرنے کو ہے۔ اس پورے زمانے میں جنرل مشرف چیف ایگزیکٹو کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور شوکت عزیز صاحب ان کی معاشی ٹیم کے کرتادھرتا کی حیثیت سے کارفرما رہے ہیں۔ جنرل صاحب ایک عرصے سے اپنے اور اپنی ٹیم کے معاشی کارناموں کو اپنی سب سے بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ امریکا‘ برطانیہ اور بھارت تینوں کے ٹی وی چینلوں کو انٹرویو دیتے ہوئے اس چبھتے ہوئے سوال کا کہ: آپ کا سب سے بڑا کارنامہ کیا ہے؟ جواب دیتے ہوئے‘ انھوں نے بڑے فخر سے فرمایا: معاشی ترقی اور خوش حالی کا حصول۔ جناب شوکت عزیز صاحب نے اس دعوے میں مزید رنگ بھرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ملک میں فی کس آمدنی اب ۸۰۰ ڈالر سالانہ ہوگئی ہے۔ غربت میں ۷ فی صد کی کمی واقع ہوئی۔ بے روزگاری میں بھی کمی ہوئی ہے اور وہ اب ۷ئ۷ فی صد سے کم ہوکر ۵ئ۶ فی صد پر آگئی ہے۔ آخری لیبر سروے کے ذریعے حاصل کردہ معلومات کے مطابق‘ ان کا ارشاد ہے کہ ۰۴-۲۰۰۳ء میں بے روزگاروں کی تعداد ۳۵ لاکھ تھی جو ۰۵-۲۰۰۴ء میں کم ہوکر ۳۳لاکھ ۳۰ ہزار رہ گئی ہے۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ حقیقت میں شرح نمو ۶ اور ۸فی صد کے درمیان ہے اور پرائمری تعلیم میں اس درجہ اضافہ ہوا ہے کہ پرائمری تعلیم کے لائق بچوں کا ۸۶ فی صد اب تعلیمی اداروں میں داخل ہورہا ہے اور بچوں کی آبادی کا ۸۳ فی صد صحت کی ابتدائی سہولت یعنی immunization سے فیض یاب ہو رہا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ۲۰۰۷ء تک تمام دیہاتوں تک بجلی کی روشنی پہنچ جائے گی اور ملک کی پوری آبادی کو صاف پانی دستیاب ہونے لگے گا۔
جنرل صاحب کی معاشی ٹیم ان خوش نما دعووں کا اس کثرت سے اعلان کر رہی ہے کہ ہٹلر کے دروغ گوئی کے مشہور وزیر گوبلز کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ ان دعووں کا بے لاگ علمی جائزہ لیا جائے اور صحیح معاشی صورت حال بے کم و کاست قوم کے سامنے رکھی جائے۔ چونکہ جون کے مہینے میں نیا بجٹ بھی آنے والا ہے‘ اس لیے اس جائزے کے لیے اس سے زیادہ اور کوئی موزوں وقت نہیں ہوسکتا۔
ہم معاشی حالات کے جائزے سے قبل اس بات کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ حکومت کے نمایندوں کے ان دعووں پر ہم ہی انگشت بدنداں نہیں‘ ملک کے اکثر ماہرین معاشیات حیران و ششدر ہیں اور ورلڈبنک‘ ایشین ڈویلپمنٹ بنک‘ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) اور امریکا کے مشہور رسالے فارن پالیسی کی تجزیاتی ٹیم سب ہی نے ان دعووں کے برعکس اعلان کیا ہے کہ زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ اور ملک کا ہر شہری اپنے روزمرہ کے تجربے کی بنیاد پر ان حقائق پر گواہی دے رہاہے کہ اعداد و شمار کا یہ کھیل حقیقت سے کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ مرکزی حکومت کے ایک سابق سیکرٹری ڈاکٹر جیلانی نے دی نیوز میں اپنے ایک مضمون میں بڑے دل چسپ انداز میں لکھا ہے کہ میں ہی نہیں میرا ڈرائیور‘ باورچی اور خاکروب تک بازار سے جو چیز بھی لینے جاتا ہے‘ اس کا تجربہ سرکاری اعلانات کی ضد ہوتا ہے۔ ڈاکٹر شاہد جاوید برکی جو ڈان میں معاشی امور پر ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں‘ ورلڈبنک میں اعلیٰ مناصب پر فائز رہے ہیں اور ایک عبوری حکومت میں وزیرخزانہ کی ذمہ داری بھی اداکرچکے ہیں‘ حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ:
حکومت کوئی قدم اٹھا سکتی ہے بشرطیکہ وہ دو باتیں پہلے کرے۔ سب سے پہلے اسے یہ خیال جھٹک دینا چاہیے کہ معیشت میں سب اچھا ہے۔ (ڈان، ۱۸ اپریل ۲۰۰۶ئ)
ملک کے توازن ادایگی (balance of payments) میں شدید خسارے کے رجحان‘ اسٹاک ایکسچینج ہی میں نہیں پوری معیشت میں سٹہ اور سٹّے کی بنیاد پر تجارتی سرگرمی اور بنکوں کے نظام کی کمزوری کی روشنی میں موصوف نے اس طرح کے خطرے تک کے امکان کا اظہار کیا ہے جیسا میکسیکو میں چند سال پہلے رونما ہوا تھا۔
جب میں ان باتوں کی طرف دیکھتا ہوں جو میکسو کے بحران سے پہلے پیش آئیں‘ تو میں انھیں آج کے پاکستان میں موجود پاتا ہوں۔(ڈیلی ٹائمز، ۲۶ اپریل ۲۰۰۶ئ)
گو کہ نمو (growth)کے اور اسٹاک مارکیٹ کے اعداد و شمار پروپیگنڈے کے لیے اچھے نظر آتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ حقیقی معیشت پر ان کا اچھا اثر ہو‘ جیساکہ چند برس پہلے بھارت میں ظاہر ہوچکا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ غربت اور بے روزگاری میں کمی آئی ہے‘ اگرچہ اسے ابھی یہ انکشاف کرنا ہے کہ یہ اعداد و شمار اسے کہاں سے ملے۔ یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستان میں عدمِ مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ ہرکسی کو نظر آتا ہے اور پاکستان کے شہری منظرنامے سے ظاہر ہے۔ کچھ ہی صارف تسلیم کریں گے کہ افراطِ زر اتنا کم ہے‘ زیادہ تر لوگ یقین رکھتے ہیں کہ معیشت میں ’بہتری‘ کے باوجود ان کی زندگی کا معیار گرا ہے۔ (روزنامہ ڈان، ۷ اپریل ۲۰۰۶ئ)
حکومت کی معاشی کارکردگی کے تصور اور عوام کو جن معاشی حقائق کا سامنا ہے‘ ان کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے‘ جب کہ حکومت زیادہ نمو کے کارنامے کی خوشی منا رہی ہے۔ عوام کی اکثریت بنیادی ضروریات اور افراطِ زر سے حقیقی آمدنی میں کمی کے مسلسل استحصال کا شکار ہے۔ حکومت بتاتی ہے کہ بڑے پیمانے کے صنعتی سیکٹر میں ۱۹ فی صد سے زائد اضافہ ہوا ہے‘ لیکن اس میں پُرتعیش گاڑیوں کا حصہ امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے تفاوت پر بے چینی کا مظہر ہے۔(ڈیلی ٹائمز، یکم مئی ۲۰۰۶ئ)
حکومت کے دعووں‘ عام آدمی کے شدید محرومی کے تجربات اور آزاد معاشی ماہرین کے سرکاری دعووں کے بارے میں واضح تحفظات کے اظہار نے بے یقینی کی جو فضا سی پیدا کر دی ہے‘ اس کا تقاضا ہے کہ حقیقت کو جاننے کی معروضی کوشش کی جائے اور یہ جائزہ علمی بنیادوں پر اور اعداد وشمار کی صحیح تعبیر کے ساتھ لیا جائے۔ ان صفحات میں اس کی کوشش کی جارہی ہے۔
۱- پہلی بات جو ہم سب کے لیے تشویش کا باعث ہے وہ سرکاری اعدادوشمار کے قابلِ اعتماد ہونے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ ایک سانحہ ہے کہ آزادی کے ۵۸سال کے بعد بھی ہم اعدادو شمار جمع کرنے کے آزاد اور قابلِ اعتماد ادارے سے محروم ہیں۔ بلکہ اس وقت تو عالم یہ ہے کہ دو سال سے سرکاری شعبہ شماریات سیکرٹری اور شماریات کے علم میں تخصص رکھنے والے ماہرین کے بغیر چلایا جارہا ہے۔ اس ادارے کو جوائنٹ سیکرٹری اور ڈپٹی سیکرٹری کے عہدے کے افراد چلا رہے ہیں۔ افسوس ہے کہ یہ اہم ادارہ اعلیٰ فنی ماہرین کی رہنمائی سے بھی محروم ہے۔ بار بار آزاد شماریاتی مقتدرہ (statiscal authority) کے قیام کے وعدے کیے گئے ہیں لیکن اس مرکزی اہمیت کے ادارے کو مناسب بنیادوں پر قائم کرنے کے کام سے مجرمانہ تغافل برتا جا رہا ہے۔ ورلڈبنک‘ ایشین ڈویلپمنٹ بنک اور پارلیمنٹ کی کمیٹیاں برسوں سے فریاد کناں ہیں مگر کوئی پیش رفت نہیں ہوتی جو اس شبہے کو تقویت دیتی ہے کہ یہ سب کچھ اعداد وشمار کو حسب خواہش مرتب کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف بار بار متنبہ کرچکاہے کہ پاکستان کی وزارتِ خزانہ ہمیں غلط اعداد وشمار دیتی رہی ہے اور یہ بات پوری قوم کے لیے شرمندگی کاباعث رہی۔ صاف نظر آرہا ہے کہ حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اسٹیٹ بنک کی رپورٹ میں ایک جگہ نہیں نصف درجن سے زیادہ مقامات پر کہا گیا ہے کہ یا ہمیں تازہ ترین اعداد و شمار نہیں دیے جا رہے یا ہمارے اعداد و شمار اور محکمہ شماریات کے اعداد وشمار میں مطابقت نہیں۔ فنی اعتبار سے لاپروائی کا یہ حال ہے کہ صارف کے لیے قیمتوں کا اشاریہ‘ جو ہراعتبار سے ایک بنیادی اہمیت کا حامل اشاریہ ہے‘ اس کے مرتب کرنے کے لیے جن مقامات اور جن منڈیوں (markets) کا انتخاب کیا گیا ہے‘ ان میں دیہی آبادی کا ایک بھی مرکز شامل نہیں۔ صرف شہری آبادی کے ۳۵ مراکز اور ۷۱مارکیٹوں سے ساری معلومات جمع کی جاتی رہی ہیں اور باربار کی گرفت کے باوجود اس کی اصلاح نہیں کی گئی۔ اب وعدہ کیا جا رہا ہے کہ ۲۰۰۷ء میں شہری اور دیہی دونوں آبادیوں سے معلومات حاصل کی جائیں گی اور غالباً بنیادی سال بھی تبدیل کیا جائے گا۔
برآمدات میں اضافے کی بات بڑے کروفر سے کی جارہی ہے کہ اس سال کُل برآمدات ۱۷ یا ۱۸ بلین ڈالر تک پہنچ جائیں گی مگر چمڑے اور چمڑے کی مصنوعات کی برآمد کے بارے میں جواعداد و شمار سامنے آئے ہیں‘ اس پر چمڑے کے صنعت کاروں اور برآمد کنندگان کی ایسوسی ایشن کا جو سرکاری ردعمل آیا ہے وہ چشم کشا ہے۔ شماریات کے فیڈرل بیورو کے سرکاری اعداد و شمار کی رو سے اس سال میں چمڑے کی مصنوعات کی برآمدات میں ۵۷ فی صد اضافہ ہوا ہے‘ جب کہ متعلقہ صنعت کے ذمہ داروں کا کہناہے کہ اس اضافے میں بڑا دخل جھوٹے بلوں (fake invoicing) کا ہے جو صرف رعایت (rebate) لینے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ایسوسی ایشن کے نمایندوں کا کہنا یہ ہے کہ پچھلے سال کے ۲۴۴ ملین ڈالر کے مقابلے میں اس سال ۳۸۷ ملین ڈالر کی برآمدات دکھائی گئی ہیں جس کا حقیقت سے تعلق نہیں۔ جولائی تادسمبر ۲۰۰۵ء کے اعداد و شمار کو چیلنج کرتے ہوئے ایسوسی ایشن کے ذمہ دار ترجمان نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ۲۰۰۴ء کے متعلقہ زمانے میں برآمدات صرف ۷ملین ڈالر تھیں جو اس سال ۶۰ملین ڈالر دکھائی گئی ہیں حالانکہ حقیقت میں اس عرصہ میں برآمدات ۵ ملین ڈالر سے زیادہ نہیں ہوسکتیں۔ اسی طرح سعودی عرب کو ۱۰ملین ڈالر برآمدات دکھائی گئی ہیں‘ جب کہ گذشتہ سال ۲ملین ڈالر تھیں اور اس سال بھی اس سے زیادہ نہیں۔ یہی صورت حال جنوبی افریقہ اور دوسرے ممالک کی ہے۔مختلف صنعتوں کے نمایندوں کا اندازہ ہے کہ صرف زیادہ قیمت کے بلوں (over-invoicing)کی بنا پر برآمدات کے اعداد و شمار میں ۵ئ۱ بلین ڈالر سے ۲ بلین ڈالر تک مصنوعی اضافے کا امکان ہے۔ اس طرح اصل برآمدات ۱۷یا ۱۸ نہیں ۱۵ یا ۱۶بلین ڈالر ہوں گی۔ (دی نیوز‘ ساجد عزیز‘ ۱۲ مئی ۲۰۰۶ئ۔ ڈان‘ ۸مئی ۲۰۰۶ئ)
اس کے ساتھ اگر اس رپورٹ کو بھی سامنے رکھا جائے کہ سنٹرل بورڈ آف ریونیو (CBR) کے ایک سابق ملازم نے ذمہ دار حضرات سے گٹھ جوڑ کر کے موجودہ حکومت کے دور میں ۲۰۰۲ء تک ۲۰ ارب روپے refundکے ذریعے نکلوائے۔ گویا ایک طرف برآمدات کو بڑھا کر دکھایا گیا اور دوسری طرف ان کے نام پرrefund کی صورت میں اربوں روپے حاصل کیے۔ یہ بدعنوانی (corruption )اور ملی بھگت (collusion) کی صرف ایک مثال ہے۔
وزیراعظم صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۵ء میں معیشت کاحجم دگنا ہوگیا ہے لیکن اگر اقتصادی سروے اور اسٹیٹ بنک کی رپورٹوں میں اضافے کی سالانہ رفتار کا مطالعہ کیا جائے تو ۰۱-۲۰۰۰ء میں اضافہ ۸ئ۱ فی صد‘ ۰۲-۲۰۰۱ء میں ۱ئ۳ فی صد‘ ۰۳-۲۰۰۲ء میں ۱ئ۵ فی صد‘ ۰۴-۲۰۰۳ء میں ۴ئ۶ فی صد اور ۰۵-۲۰۰۴ء میں ۴ئ۸ فی صد تھا۔ اس کا مجموعی input ۲۵ فی صد سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ پھر یہ معجزہ کیسے رونما ہوا؟ یہ صرف شماریات کے لیے بنیادی سال کی تبدیلی اور افراط زر کا پیدا کردہ مغالطہ ہے۔ اسے معیشت کے حقیقی طور پر دگنا ہوجانے کا نام دینا یا صریح غلط بیانی ہے اور یا معیشت کے حقیقی نمو اور مالی شعبدہ بازی کے فرق کو نظرانداز کرکے عوام کو بے وقوف بنانا۔
جس ملک کے اعداد و شمار اور معاشی ٹیم کی ترک تازیوں کا یہ حال ہو‘ اس کی قیادت کے خوش نما دعوئوں پر کون اعتماد کرے گا۔
۲- ہم دلیل کے لیے تسلیم کرلیتے ہیں کہ صدر اور وزیراعظم صاحبان معیشت کی ترقی کی جس رفتار کا دعویٰ کر رہے ہیں‘ وہ درست ہے یعنی ۰۵-۲۰۰۴ء میں یہ رفتار ۴ئ۸ فی صد سالانہ تھی اور سال رواں میں ہدف تو ۷ فی صد کا تھا مگر توقع ۳ئ۶ سے ۸ئ۶ کے درمیان کی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس اضافے کے مآخذ (sources) کیا ہیں اور ان میں کتنا دخل حکومت کی پالیسیوں کا ہے اور کتنا بیرونی (exogenous) عوامل کا۔ ڈاکٹر شاہد جاوید برکی نے نہایت علمی انداز میں یہ تجزیہ کیا ہے اور ۰۵-۲۰۰۴ء کے ۴ئ۸ فی صد اضافے کو تحلیل کر کے انھوں نے ثابت کیا ہے کہ اس اضافے کے چار مآخذ ہیں جن میں سے دو بیرونی اور ایک اتفاقی ہے۔ رہا چوتھا ماخذ تو وہ بلاشبہہ معیشت کی پیداواری صورت ہے۔ پہلا سبب موسم اور قدرت کی کرم فرمائی ہے جس کا خصوصی اثر زرعی پیداوار پر پڑتا ہے اور اس سال کی زرعی پیداوار میں ۷ فی صد اضافے میں ان قدرتی عوامل کا بڑا دخل تھا جس کا مجموعی قومی پیداوار (GDP) اضافے پر ۵ئ۱ فی صد کی حد تک اثر متعین کیا جاسکتا ہے۔ دوسرا اہم بیرونی سبب بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات ہیں جو اس زمانے میں ایک ارب ڈالر سے بڑھ کر ۴ ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں اور بڑی حد تک ناین الیون کے اثرات کی وجہ سے ہیں۔ اس میں کوئی دخل حکومت کی کسی پالیسی کا نہیں ہے۔ اس ذریعے کا عملی اثر جی ڈی پی پر ۲ فی صد کے قریب شمار کیا جاسکتا ہے۔ ان دو عوامل کے علاوہ ایک اندرونی پہلو اور بھی تھا جو دوبارہ پیش نہیں آسکتا۔ یعنی یہ کہ ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۳ء تک آئی ایم ایف کے دبائو تلے جو پالیسی اختیار کی گئی اس کی وجہ سے stabilization کے نام پر نمو کو suppress کیا گیا۔ یہ suppressed growth ۰۳-۲۰۰۲ء کے بعد اپنا اظہار کرتی ہے اور اس طرح ۰۵-۲۰۰۴ء کے اضافے میں ۵ئ۱ فی صد اس کا دخل نظر آتاہے ۔ اگر ان ۵ فی صد کو الگ کیا جائے تو اصل اضافہ صرف ۴ئ۳ فی صد کا ہے جسے structural growth کہا جاسکتا ہے اور اس کی بنیاد پر ۷ اور ۸ فی صد مسلسل اضافے کی توقعات لگانا سائنسی اعتبارسے درست نہیں۔دوسرے معاشی ماہرین نے بھی ان پہلوؤں کو قابلِ غور قرار دیا ہے اور حکومت کے اس دعوے کو محل نظر قرار دیا ہے کہ مروجہ پالیسیوں کے پس منظر میں کُل پیداوار میں ۷ اور ۸ فی صد سالانہ اضافہ تسلسل کے ساتھ برقرار رکھنا ممکن ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیٹ بنک نے ۷ فی صد کے ہدف کو قابلِ حصول قرار نہیں دیا اور سال رواں کے لیے ۳ئ۶فی صد کے لگ بھگ اضافہ کو ممکن قرار دیا ہے اور اس میں بھی بیرونی ترسیلات کے تقریباً ۲فی صد حصہ کو بیرونی عامل کے طور پر تسلیم کرنا ہوگا۔
ہم نے یہ فنی تجزیہ صرف اس لیے پیش کیا ہے کہ عام آدمی تو ۷ اور ۸ فی صد اضافے سے مرعوب ہوسکتا ہے لیکن جن کی نگاہ تمام معاشی عوامل پر ہے‘ وہ sustained rate of growth کے نقطۂ نظر سے ایک دو سال کے رفتار اضافہ کو economic break throughتسلیم نہیں کرسکتے۔
اسی طرح فنی اعتبار سے یہ ایک معما ہے کہ معاشی ترقی کے لیے جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے وہ ملک میں بچت کی شرح (rate of domestic saving) اور سرمایہ کاری کی شرح (rate of investment) ہے۔ پاکستان میں بچت کی شرح نہ صرف یہ کہ علاقے کے تمام ہی ممالک کے مقابلے میں کم ہے بلکہ مالی سال ۲۰۰۳ء میں جو بچت کی شرح مجموعی قومی پیداوار کا ۸ئ۲۰ تھی وہ ۲۰۰۴ء میں ۷ئ۱۸ اور ۲۰۰۵ء میں ۱ئ۱۵ رہ گئی۔ اس طرح ملک میں سرمایہ کاری کی شرح مطلوب شرح سے نمایاں طور پر کم ہے۔ ۷ فی صد کی رفتار سے جی ڈی پی میں تسلسل کے ساتھ اضافے کے لیے موجودہ incrementel capital output ratio کے مطابق ۳۰فی صد شرح سرمایہ کاری مطلوب ہے جب کہ یہ شرح ۲۰ فی صد سے بھی کم ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مجموعی قومی پیداوار (GDP)کی نسبت سے domestic investment ratio میں ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں کمی آئی ہے جس کی تلافی بیرونی ترسیلات اور بیرونی سرمایہ کاری (FDI) جس میں نج کاری سے حاصل شدہ رقم بھی شامل ہے‘ نے کی ہے۔ لیکن دونوں مل کر بھی مطلوب شرح سرمایہ کاری سے نمایاں طور پر یعنی تقریباً ۳۰ فی صد کم ہیں۔
ان حالات میں جو بھی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے وہ بڑی حد تک consumption based ہے مطلوبہ حد تک investment based نہیں جو بہت fragile ہے اور لمبے عرصے کے لیے قابلِ اعتماد نہیں۔ ان بنیادی معاشی حقائق کی روشنی میں ترقی کے خوش کن دعوے اور break through اور turning the corner کے مبالغہ آمیز بیانات سیاسی نعروں اور تعلّیوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔
۳- ہم نے خالص علمی اور فنی نقطۂ نظر سے جو معروضات پیش کی ہیں ان کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ حکومت کے دعووں کی زمینی حقائق سے تائید نہیں کی جاسکتی۔ لیکن یہ تو علمی بحث ہے۔ عام آدمی کی دل چسپی مجموعی پیداوار کی شرح نمو یا زرمبادلہ کے ذخائر میں افزونی نہیں__ اسے تو اپنی ضروریات زندگی کی فراہمی‘ بنیادی سہولتوں کے حصول اور روزگار اور خوش حالی کے پیمانے پر حکومت کی معاشی پالیسیوں کی کامیابی یا ناکامی کو جانچنا ہوتا ہے اور اس اعتبار سے عام آدمی کی زندگی معاشی محرومی‘ استحصال اور ظلم کی تلخیوں سے بھری پڑی ہے۔ غربت کی شرح ۳۰ سے ۴۰ فی صد تک پہنچ چکی ہے اور حکومت کے ان دعووں میں کوئی صداقت نہیں کہ ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں ۲۰۰۵ء میں ۷ فی صد کی کمی ہوئی ہے۔ حکومت کس بنیاد پر یہ دعویٰ کر رہی ہے‘ کسی کو علم نہیں اور بار بار کے مطالبات بلکہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مالیاتی کمیٹی کے متعین مطالبے کے باوجود نہ تو تفصیلی رپورٹ فراہم کی گئی ہے اور نہ ہی اس کے طریق کار (methodolgy)کو ظاہر کیا گیا۔ ورلڈ بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک نیز ABN-Amro بنک کی رپورٹ میں غربت کو ۳۲ فی صد ہی دکھایا گیا ہے حتیٰ کہ پلاننگ کمیشن کے دس سالہ وسط مدتی منصوبے میں جو ۲۰۰۵ء میں آیا تھا اور حکومت کے غربت میں کمی کے دعوے کے بعد شائع ہوا ہے‘ غربت کی شرح کو آبادی کا ایک تہائی قرار دیا گیا ہے۔ ابھی امریکی مجلہ فارن پالیسی نے جو Failed States Index شائع کیا ہے اس میں بھی پاکستان میں ۳۲ فی صد غربت کی بات کی ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ ایکونومکس کے اپنے جائزے کے مطابق بھی غربت ۳۲ فی صد سے ۳۷ فی صد تک ہے۔
غربت کا مسئلہ اوّلین معاشی مسئلہ ہے۔ پیداوار میں وہ اضافہ جو امیروں کی ضروریات کو پورا کرے یا مبادلہ خارجہ کمانے کا ذریعہ ہو‘ عوام کے لیے غیرمتعلق ہے۔ ان کی ضرورت یہ ہے کہ زندگی کی بنیادی ضروریات اور سہولتیں قابلِ برداشت قیمت پر حاصل ہوں‘ یعنی رسد بھی کافی ہو اور قیمت بھی ان کی دسترس میں ہو___ اور اس وقت دونوں ہی مفقود ہیں۔
ایک زرعی ملک جو تقسیم سے قبل پورے ہندستان کی ضروریات پوری کر رہا تھا اور ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء میں بھی بڑی حد تک زرعی اجناس کی حد تک خودکفیل ہوگیا تھا اب گندم‘ چینی‘ پیاز‘ ٹماٹراور دالوں تک کے لیے دوسروں کا محتاج ہوگیا ہے اور تمام ہی ضرورت کی اشیا کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکستان میںقیمتیں دوسرے ممالک سے کم ہیں لیکن حقائق اس کی تائید نہیں کرتے۔ ہم صرف پاکستان‘ بنگلہ دیش اور بھارت میں چند اشیاے ضرورت کی قیمتوں کے تازہ ترین اعداد و شمار پیش کرتے ہیں جو انٹرنیٹ سے حاصل کیے گئے ہیں اور پاکستان کی کرنسی میں اپریل کے آخر اور مئی ۲۰۰۶ء کے شروع کی معلومات فراہم کرتے ہیں:
اشیا
پیمانہ
Unit
اسلام آباد
(۰۶-۰۵-۰۴)
ڈھاکہ
(۰۶-۰۴-۲۷)
نئی دہلی
(۰۶-۰۴-۲۷)
آٹا
کلوگرام
۱۶ئ۱۳
۹۴ئ۱۶
۴۴ئ۱۶
ماش کی دال
"
۵۰ئ۷۵
۵۹ئ۴۶
۲۰ئ۸۲
گائے کا گوشت
"
۵۰ئ۱۳۷
۶۰ئ۱۱۸
۳۷ئ۵۱
بکری کا گوشت
کلوگرام
۵۰ئ۲۵۷
۴۳ئ۱۶۹
۵۰ئ۲۶۵
چینی
"
۸۸ئ۳۷
۱۳ئ۴۹
۱۴ئ۳۰
سویابین تیل
لٹر
۰۰ئ۸۲
۵۹ئ۴۶
۶۵ئ۶۱
آلو
"
۵۰ئ۲۶
۸۶ئ۱۱
۷۰ئ۱۳
پیاز
"
۲۵ئ۱۹
۵۵ئ۱۳
۹۶ئ۱۰
پٹرول
"
۷۷ئ۵۷
۱۲ئ۳۸
۳۸ئ۶۱
ڈیزل
"
۸۰ئ۳۸
۴۱ئ۲۵
۵۴ئ۴۲
مٹی کا تیل
"
۰۰ئ۴۰
۶۵ئ۲۹
۳۲ئ۴۹
LPG
کلوگرام
۶۴ئ۴۳
۷۷ئ۲۲
-
CNG
کیوبک میٹر
۳۷ئ۳۱
۳۱ئ۶
۶۶ئ۲۴
DAP
کلوگرام
۰۰ئ۲۳
۷۹ئ۱۲
-
یوریا
"
۰۰ئ۱۱
۲۴ئ۴
-
سیمنٹ
فی بوری
۰۰ئ۳۲۵
۲۱ئ۲۳۷
۹۴ئ۲۲۱
اس جدول سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے عام شہری کو بحیثیت مجموعی اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بنگلہ دیش کے مقابلے میں دگنا اور بھارت کے مقابلہ ایک تہائی زیادہ قوت خرید درکار ہے‘ جب کہ عام آدمی کی اوسط آمدنی ان ملکوں میں برابر برابر ہے۔ اقبال نے صحیح کہا تھا ع
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
پاکستان میں کم سے کم اُجرت قانونی طور پر ۳۰۰۰ روپے ماہانہ ہے لیکن عملاً اس سے نصف اور دو تہائی پر بھی بڑی تعداد کو کام کرنا پڑتا ہے‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جس خاندان کی آمدنی ۵ہزار ماہانہ سے ۱۰ ہزار تک ہے وہ بھی اس آمدنی میں ضروریاتِ زندگی پوری نہیں کرسکتا۔ اور اس بنیاد پر ملک میں غربت کی سطح کی گرفت میں ۶۰ اور۷۰ فی صد آبادی آجاتی ہے۔
یہی وجہ ہے یو این کے Human Development Indexمیں دنیا کے ۱۷۷ممالک میں پاکستان کا نمبر ۱۳۵ واں ہے اور گذشتہ ۶ سال میں ہم نیچے گئے ہیں‘ اُوپر نہیں آئے ہیں۔ ڈاکٹر شاہ رخ رفیع خاں کی کتاب Hazardous Home Based Labour جسے اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس نے ۲۰۰۵ء میں شائع کیا ہے‘ اس میں بچوں کی لیبر کی جس زبوں حالی کا نقشہ کھینچا گیا ہے‘ وہ رونگٹے کھڑے کرنے والا ہے۔ کارپٹ‘ چوڑیوں کی صنعت‘ پلاسٹک‘ موم بتی بنانے کے کارخانوں میں ۸ سے ۱۲ سال کے لڑکے اور لڑکیاں تک ۱۶ گھنٹے روزانہ کام کرتے ہیں اور ۱۷۰۰ سے ۲۰۰۰روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والوں کو ایک ہزار اینٹ بنانے کے ۶۰ روپے ملتے ہیں اور یہی ہزاراینٹ منڈی میں ۴ہزار روپے میں فروخت ہوتی ہے۔ زراعت میں بھی چھوٹے کاشت کار اور مزارع کی حالت دگرگوں ہے۔ بظاہر زرعی اجناس کے لیے support price کا اعلان ہوتا ہے مگر عملاً بڑا زمین دار ہی اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے اور چھوٹے کاشت کار کو جس کے اندر اپنی پیداوار کو روک رکھنے کی سکت نہیں‘ کم دام پر فروخت کرنا پڑتی ہے۔
پاکستان قومی ترقیاتی رپورٹ ۲۰۰۳ء میں ڈاکٹر اکمل حسین نے Asymmetric Markets for Inputs and Outputs میں جو حقائق پیش کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹا کاشت کار مجبور ہوتا ہے کہ اپنی پیداوار کو بڑے زمین دار کی پیداوار کے مقابلے میں سستا بیچے اور جو زرعی ضروریات اسے درکار ہیں وہ بڑے زمین دار کے مقابلے میں مہنگی حاصل کرے جس کے نتیجے میں انھی اشیا کی خرید و فروخت پر چھوٹے کاشت کار کو بڑے زمین دار کے مقابلے میں اوسطاً ۳۳ فی صد کم آمدن ہوتی ہے یا ۳۳ فی صد زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔
شہری آبادی کے بارے میں بھی متعدد جائزے یہ حقیقت سامنے لاتے ہیں کہ گذشتہ ۱۰سال میں حقیقی اُجرت (real wages) کم ہوئی ہے اس میں اضافہ نہیں ہوا جو غربت میں اضافے کا باعث ہے۔
روزگار کے سلسلے میں حقیقت یہ ہے کہ بے روزگاری جتنی زیادہ آج ہے‘ پہلے کبھی نہیں تھی۔ نیز روزگار کی فراہمی کے جو وعدے کیے جا رہے ہیں‘ ان میں صداقت نہیں۔ ایک تو روزگار کی تعریف ہی نہایت ناقص ہے یعنی اگر ایک شخص کو ہفتے میں دس گھنٹے کا کام بھی مل جائے تو وہ برسرِروزگار ہے حالانکہ اتنے گھنٹے کا کام پیٹ بھرنے کے لیے آمدن نہیں پیدا کرسکتا۔ پھر ایک عجیب و غریب قسم برسرِروزگار کی بنائی گئی ہے یعنی unpaid house labourاور ملک میں جن ۲۳ لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے ان میں سے ۱۱لاکھ سے زیادہ کا تعلق اسی unpaid house labourسے ہے۔
تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بے روزگاری کی صورت حال لیبر سروے کے تجزیہ پر مبنی ڈاکٹر جنیداحمد کے ایک مضمون کے مطابق کچھ یوں بنتی ہے کہ ۲۰۰۲ء کے مقابلے میں ۲۰۰۶ء میں میٹرک تک تعلیم پانے والوں کی بے روزگاری میں ساڑھے دس فی صد اضافہ ہوا ہے‘ جب کہ اس عرصے میں گریجویشن یا اس سے اُوپر تعلیم حاصل کرنے میں سوا اٹھارہ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ دوسالوں کے دوران ان تعلیم یافتہ بے روزگاروں میں ۲۴ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ۳۷ لاکھ بے روزگاروں میں سے ۱۳ لاکھ بے روزگار ایسے ہیں جنھوں نے میٹرک سے زیادہ اور گریجوایشن سے کم تعلیم حاصل کی ہے۔
اُجرت کی کمی‘ قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ‘ سرکاری طور پر فراہم کی جانے والی خدمات کا فقدان یا ان کی ناگفتہ بہ حالت جیسے تعلیم‘ علاج کی سہولت‘ صاف پانی کی فراہمی‘ مکان‘ سڑکوں اور روشنی تک رسائی‘ ان سب کے مجموعی اثرات کا نتیجہ ہے کہ عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوگیا ہے اورایمان کی کمزوری اور اخلاقی زوال کے اس دور میں مسلمان معاشرے میں ان حالات کے ردعمل میں ایک طرف تخریب کاری‘ چوری‘ ڈاکا اور قتل و غارت گری طوفان کی شکل اختیار کررہے ہیں تو دوسری طرف مایوسی اور بے بسی کی وہ کیفیت رونما ہو رہی ہے جو جسم فروشی اور خودکشی کی طرف لے جا رہی ہے۔ اس صورت حال کی ذمہ داری سب سے زیادہ حکومت اور معاشرے کے متمول طبقات پر آتی ہے۔
حکومت کے کرتادھرتا کتنے ہی بغلیں بجائیں‘ حقیقت یہ ہے کہ یونیسف (UNICEF) کی تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق پاکستان اور جنوب ایشیا میں under nourished اور under weight بچوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے یعنی پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں یہ شرح ۴۶ فی صد ہے جو دنیا کے اوسط سے تقریباً دگنا ہے۔ پاکستان میں ان بچوں کی تعداد ۸۰لاکھ کے قریب ہے۔ (ڈان، ۳مئی ۲۰۰۶ئ)
تعلیم کے لیے وسائل بڑھانے کے تمام دعووں کے باوجود ورلڈبنک کی تازہ ترین رپورٹ Little Green Book 2006 کے مطابق پاکستان میں تعلیم پر اخراجات قومی پیداوار کے تناسب سے کم ہیں یعنی ۳ئ۲ فی صد‘ جب کہ جنوب ایشیا کا اوسط ۶ئ۳ فی صد اور پوری دنیا کے کم ترقی یافتہ ممالک کا اوسط ۴ئ۳ فی صد ہے (ڈان، ۱۲ مئی ۲۰۰۶ئ)۔ اور بات صرف تعلیم کے بجٹ کی نہیں اس بجٹ کا استعمال‘ کرپشن‘ اسکولوں کی زبوں حالی‘ اساتذہ کا فقدان اور بے توجہی‘ تعلیمی معیار کی پستی اور شکستہ حالی سب کے سامنے ہے۔
وزیراعظم صاحب دعویٰ کر رہے ہیں کہ پرائمری عمر کے طلبا کا ۸۶ فی صد اسکولوں میں جارہا ہے‘ جب کہ ورلڈ بنک کی یہ رپورٹ کہہ رہی ہے کہ اس عمر کے بچوں کا صرف ۵۰ فی صد تعلیم کی سہولت تک رسائی پارہا ہے یعنی ۵ سے ۹ سال کے بچوں کی موجودہ تعداد ۲کروڑ کا صرف نصف تعلیم حاصل کر رہا ہے اور ان میں سے بھی اسکول چھوڑ جانے والوں (drop outs)کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ایک جائزے کے مطابق پانچویں تک آتے آتے تعداد نصف رہ جاتی ہے۔
کراچی ملک کا امیرترین شہر ہے‘ اس کے ایک حالیہ جائزے کے مطابق شہر کا ۵۵ فی صد کچی آبادیوں پر مشتمل ہے جو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ (ڈیلی ٹائمز، ۴مئی ۲۰۰۶ئ) اور پورے ملک کے بارے میں جائزے بتا رہے ہیں کہ آبادی کا ۵۹ فی صد آلودہ پانی استعمال کر رہا ہے جو پیٹ کی بیماریوں کا بڑا سبب ہے۔ (ڈیلی ٹائمز، ۳۱ دسمبر ۲۰۰۵ئ)
یہ ہیں عام آدمی کی زندگی کے حالات ___نہ پیٹ بھر کر روٹی میسر ہے‘ نہ صاف پانی‘ نہ گھرکی سہولت حاصل ہے‘ نہ تعلیم اور صحت کی۔ اور حکومت دعوے کر رہی ہے کہ ہم آسمان سے تارے توڑ لائے ہیں اور زمین پر دودھ کی نہریں بہا دی ہیں۔
۴- معاشی صورت حال کا ایک دوسرا دل خراش پہلو دولت کی ناہمواری‘ معاشرے کی طبقاتی تقسیم‘ اور حکومت کی وہ سوچی سمجھی پالیسی ہے جس کے نتیجے میں پیداوار میں نام نہاد اضافہ‘ بیرونی تجارت کا فروغ اور زرمبادلہ کے ڈھیر اصل ہدف ہیں‘ جب کہ غربت کا خاتمہ‘ روزگار کی فراہمی‘ دولت کی منصفانہ تقسیم اور عدل و انصاف اور ضروریاتِ زندگی پر مبنی آمدنی پالیسی (income policy)کا فقدان ہے۔ سرمایہ داری اپنی بدترین شکل میں پروان چڑھائی جارہی ہے۔ آزاد معیشت‘ منڈی کا نظام‘ نج کاری (privatization) اور de-regulation کے نام پر ایک استحصالی معیشت کو فروغ دیاجا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک اشرافی معیشت (elitist economy)وجود میں آئی ہے جس میں دولت کا ارتکاز ایک محدود طبقے کے ہاتھوں میں ہورہا ہے اور عام افراد غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ چند لاکھ گھرانے ہیں جو دولت کے تمام وسائل پر قابض ہیں اور ان کا پُرتعیش طرزِ زندگی اسراف اور تبذیر کی بدترین مثال ہی پیش نہیں کر رہا بلکہ معاشرے میں طبقاتی منافرت پھیلانے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ حکومت اور اس کے کارپرداز جس طرزِ زندگی کو فروغ دے رہے ہیں اور جو مثال قوم کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور سرکاری وسائل کو جس بے دردی سے عیش و عشرت اور نام و نمود کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے‘ وہ ایک طرف قومی وسائل کے ضیاع کا باعث ہے تو دوسری طرف قوم کے محروم طبقوں میں نفرت کی آگ سلگا رہا ہے اور معاشرے کو تصادم کی طرف لے جا رہا ہے۔ صرف چند حقائق پیش کیے جا رہے ہیں جن سے اس خطرناک صورت حال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
اسٹیٹ بنک نے ملک میں بنک کاری کے نظام اور کارکردگی کے بارے میں جو تازہ ترین اعداد وشمار جاری کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جون ۲۰۰۱ء میں ملک کے تمام بنکوں میں کل کھاتہ داروں کی تعداد ۲کروڑ ۷۲ لاکھ ۷۰ہزار تھی جو جون ۲۰۰۵ء میں کم ہوکر ۲کروڑ ۶۹لاکھ ۸۰ہزار رہ گئی۔ اصل کمی ان کھاتہ داروں میں ہوئی ہے جن کے ڈپازٹ ۴۰ ہزار روپے یا اس سے کم تھے اور اس کے برعکس اضافہ ان میں ہوا ہے جن کے ڈپازٹ پانچ لاکھ روپے یا اس سے زیادہ ہیں۔ ایسے افراد کی تعداد ایک لاکھ ۸۳ ہزار سے بڑھ کر ۳ لاکھ ۹۵ ہزار ہوگئی ہے۔ بنک نج کاری کے بعد جس طرح اپنے کھاتہ داروں کا استحصال کر رہے ہیں اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ۲۰۰۱ء میں کھاتہ داروں کو جو نفع دیا جا رہا تھا اگر اسے افراط زر سے adjustکرکے real returnمتعین کی جائے تو وہ صرف ۶ئ۰ تھی مگر اب ۲۰۰۵ء اور اس کے بعد کے اعداد و شمار کی روشنی میں کھاتہ داروں کی real returnمنفی ہے یعنی ۸ئ۵-۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بنکوں کا spread یعنی جس شرح پر وہ کھاتہ داروں کو نفع/سود دیتے ہیں اور جس شرح سے advance پر سود وصول کرتے ہیں وہ ۷ اور ۵ئ۷ فی صد ہے جو دنیا میں کہیں نہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ۲۰۰۶ء کے پہلے تین ماہ میں بنکوں کے نفع میں ۲۰۰۵ء کے پہلے تین ماہ کے نفع پر۵۸ فی صد اضافہ ہوا ہے اور یہ رقم ۱۴ ارب روپے بنتی ہے۔ اس طرح اگر ۲۰۰۵ء میں بنکوں کے نفع کا جائزہ لیا جائے تو ۲۰۰۴ء کے مقابلے میں ۷ئ۹۸ اضافہ ہوا۔ ٹیکس ادا کرنے کے بعد یہ نفع ۵ئ۴۷ ارب روپے تھا۔ واضح رہے کہ بنکوں کے ٹیکس کی شرح کو بھی گذشتہ سالوں میں کم کیا گیا ہے جو ۴۵ فی صد سے کم کرکے ۳۸ فی صد کردیا گیا ہے اور دعویٰ ہے کہ آیندہ سال مزید ۳ فی صد کم کردیا جائے گا۔
بنک تو پھر بھی کچھ ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اسٹاک ایکسچینج میں جو سٹہ کا کاروبار ہو رہا ہے اور جس میں گذشتہ ۶ سال میں کراچی اسٹاک ایکسچینج کا index جو ۱۹۰۰ تک گرگیا تھا‘ بڑھ کر ۱۱۰۰۰ سے تجاوز کرگیا ہے۔ چند بڑے بڑے کھلاڑی ہیں جنھوں نے اربوں روپیہ بنالیا ہے‘ جب کہ ہزاروں عام سرمایہ کار ہیں جوبالکل لٹ گئے ہیں۔ سینیٹ کی مالیاتی کمیٹی کی تجویز تھی جسے سینیٹ نے باقاعدہ حکو مت کو بھیجا تھا کہ اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار پر capital gains taxلگایا جائے مگر سرمایہ پرست لابی نے اسے نامنظور کردیا بلکہ اسٹاک ایکسچینج کے لیے جو نگران ادارہ ہے جب اس نے بڑی مچھلیوں پر گرفت کی ہلکی سی کوشش کی تو اس کے سربراہ کو بیک بینی و دوگوش کوئی وجہ بتائے بغیر برطرف کر دیا گیا۔ اسی طرح زمینوں کی قیمتوں کا مسئلہ ہے جس میں land mafiaنے اربوں روپے کمائے اور کوئی ٹیکس نہیں‘ نگرانی کا کوئی نظام نہیں۔ چھے سال میں زمین کی قیمتیں ۱۰ سے ۲۰ گنا بڑھ گئی ہیں اور ایک عام آدمی کے لیے گھر بنانے اور سرچھپانے کا اہتمام کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے اور یہ تمام طبقات ٹیکس کی گرفت سے ہی باہر ہیں۔
قیمتی ترین کاروں کی ریل پیل ہے۔ ہر مہینے ہزاروں کاریں سڑکوں پر آرہی ہے اور ایک سے ایک قیمتی کار درآمد کی جارہی ہے۔ گذشتہ سال صرف کاروں کی درآمد پر ایک ارب ڈالر سے زیادہ صرف ہوا ہے۔ جو کاریں ملک میںبنائی جارہی ہیں ان کے لیے مشینری اور پرزوں کی درآمد کو بھی اس میں شامل کرلیا جائے تو یہ رقم دگنی ہوجاتی ہے۔ اس پر مستزاد اسمگل شدہ گاڑیوںکی مالیت بھی اربوں میں ہے۔ سڑکوں کی جو حالت ہے‘ پٹرول کی درآمد سے جو بوجھ ملک کے زرمبادلہ پر پڑرہا ہے فضا کو خراب کرنے اور آلودگی کے جو تباہ کن اثرات ہورہے ہیں ان سب کا معاشی پالیسی بنانے والوں کو کوئی ادراک نہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بری حالت میں ہے۔ ریل کی ترقی کے لیے کوئی منصوبہ نہیں۔ شرم کا مقام ہے کہ جو ۵ ہزار کلومیٹر ریلوے لائن ۱۹۴۷ء میں تھی ۲۰۰۶ء میں بھی وہی ہے۔ اس میں چند کلومیٹر کا اضافہ نہیں ہوا‘ جب کہ بھارت میں ۳۰ ہزار کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ٹرین سروس عام آدمی کے لیے ٹرانسپورٹ کا موثر اور سستا نظام فراہم کر رہی ہے۔ پھر ان کے کرایوں میں بھی بین الاقوامی قیمتوں کا نام لے کر اضافہ روز مرہ کا معمول ہے مگر انرجی پالیسی اور ٹرانسپورٹ پالیسی کا فقدان ہے اور ایسی جامع پالیسی (comprehensive policy) کا توکوئی تصور ہی نہیں جو مواصلات کے جملہ پہلوؤں‘ وسائل اور کم سے کم لاگت کو سامنے رکھ کر بنائی جائے۔
سرکاری وسائل کو جس بے دردی سے استعمال کیا جا رہا ہے اس کا اندازہ صرف ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم کے اخراجات اور وزرا کی فوج ظفرموج پر کیے جانے والے اخراجات پر ایک نظر ڈالنے سے کیاجاسکتا ہے۔ صرف ان دو عہدوں پر فائز انسانوں پر روزانہ ۲لاکھ روپے سے زیادہ خرچ ہو رہا ہے‘ جب کہ ایک عام شہری کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ صدر‘ وزیراعظم‘ وزرا‘ ارکان پارلیمنٹ اور سرکاری عہدہ داروں کے صرف اس سال کے بیرونی سفر کے اخراجات کا جو تخمینہ سلطان احمد نے ڈان میں پیش کیا ہے اس نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ڈان کا کالم نگار لکھتا ہے کہ صرف پچھلے چھے ماہ میں ۷۰۵ملین ڈالر ان شاہانہ اسفار پر خرچ ہوئے ہیں۔ سرکاری استعمال کے لیے ۶۰ مرسڈیز سال گذشتہ میں منگوائی گئی تھیں‘ اب اسمبلی کے اسپیکر اور سینیٹ کے چیئرمین متمنی ہیں کہ ان کی پرانی مرسڈیز متروک کر دی جائیں‘ سوا سو کروڑ کی نئی مرسڈیز خریدی جائیں۔ اسپیکراسمبلی اپنے لیے ۱۰کروڑ کا مکان بنوانا چاہتے ہیں۔ نئے وزیروں کے لیے ۲۰کروڑ ۵۰ لاکھ روپے Minister's Enclosure میں اضافے کے لیے منظور کیے گئے ہیں۔ اسلام آباد میں بڑے لوگوں کے لیے ۱۱-H میں ایک سوشل کلب بنانے کے لیے ایک ارب روپے کا منصوبہ ہے۔ کراچی میں کراچی پورٹ کے سامنے سمندر میں ایک ۶۲۰فٹ اُونچا فوارہ ۲۲کروڑ ۵۰لاکھ روپے سے بنایا ہے جو کام نہیں کر رہا۔
اور اس قیادت کے ذہنی افلاس اور اخلاقی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ سنٹرل بورڈ آف ریونیو نے اپنے تازہ ترین فرمان کے ذریعے صدر مملکت‘ وزیراعظم اور چاروں گورنروں کے لیے خصوصی احکام جاری کیے ہیں کہ ان کے لیے منگوائے جانے والے غیرملکی سگریٹ اور سگار فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے مستثنیٰ ہوں گے۔ (ڈان، ۱۴ مئی ۲۰۰۶ئ)
ایک طرف غربت‘ افلاس‘ بے روزگاری‘ بے چارگی اور دوسری طرف اسراف‘ تبذیر‘ عیاشی اور دولت کی نمایش کا یہ ہولناک تفاوت ہے جو ملک کی معیشت ہی نہیں معاشرے کی تمام اقدار کو گھن کی طرح کھا رہا ہے اور بے چینی اور اضطراب کے اس لاوے کی پرورش کر رہا ہے جو نہ معلوم کب آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑے۔
۵- بین الاقوامی تجارت کا خسارہ جو اس سال بڑھ کر ۱۰ سے ۱۲ بلین ڈالر کی حدوں کو چھونے والا ہے اور سابقہ سال کے مقابلے میں دگنا ہوگیا ہے اور جس کے نتیجے میں توازن ادایگی بھی اب اتنے خسارے میں جا رہا ہے جو ۴ سے ۵ بلین ڈالر ہوسکتا ہے‘ جو سابقہ سال کے خسارے کے مقابلے میں تین گنا ہے‘ خطرے کی ایک اور گھنٹی ہے۔ بیرونی قرضوں میں کوئی نمایاں کمی نہیں ہوئی اور اندرون ملک قرضوں میں اضافہ ہوا ہے اور بجٹ کا خسارہ بھی تقریباً دگنا ہوگیا ہے۔ اپنے وسائل سے بڑھ کر رہن سہن (living beyond means) کی پالیسی تباہ کن ہے لیکن معاشی ترقی کے نشے میں مست قیادت ان تمام warning signals کو نظرانداز کیے ہوئے ہے اور ملک کو بہت ہی خطرناک صورت حال کی طرف لے جا رہی ہے۔
پانی کی قلت کا مسئلہ بڑا اہم مسئلہ ہے مگر اسے بھی سیاست کی نذر کردیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ گذشتہ ۷سال سے آپ حکمران ہیں۔ اس سلسلے میں آپ نے کیا اقدام کیے؟ ترجیحات کے تعین اور قومی اتفاق راے پیدا کرنے کے لیے کیا مساعی کی گئیں؟ پانی کے صحیح استعمال کے طریقوں کو رائج کرنے کے لیے کیا کیاگیا؟ پانی کا مسئلہ آج آپ کے علم میں آیا ہے؟ قیمتوں کے سلسلے میں بھی جنرل مشرف صاحب نے ۱۶مئی ۲۰۰۶ء کو ایک خطاب میں فرمایا ہے کہ کھانے کی اشیا کی قیمتوں میں ۵۰ فی صد کمی کر دی جائے گی۔ (ڈیلی ٹائمز، ۱۷ مئی ۲۰۰۶ئ)
سبحان اللہ! گویا صرف آپ کے حکم کی کمی تھی۔ لیکن اس فرمان کے جاری فرمانے میں اتنی تاخیر کیوں کی جارہی ہے؟
چینی کا بحران آج بھی موجود ہے اور اب جو بحث اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی اور وزیرتجارت کے درمیان اخبارات میں ہورہی ہے‘ اس نے اس حکومت کے سارے کرداروں کو بالکل بے نقاب کردیا ہے۔ کس طرح ذاتی منافع کے لیے سرکاری پالیسیوں کو تبدیل کیا گیا‘ بنکوں کو استعمال کیا گیا‘ درآمد کی جانے والی چینی کو بھی سرکار میں بیٹھے ہوئے مل مالکوں نے اپنے لیے نفع اندوزی کا ذریعہ بنایا‘نیب نے مداخلت کی تو اس کو کان پکڑ کر باہر کردیا گیا۔ آج بھی چینی ۳۷روپے کلو مل رہی ہے۔ پٹرول کی قیمتوں کا معاملہ بھی ایک اسیکنڈل سے کم نہیں۔ اس حکومت کے دور میں ۴۵ بار اس میں اضافہ کیا گیا ہے اور صارف کو آج اس قیمت سے تین گنا زیادہ قیمت دینا پڑ رہی ہے جو ۱۹۹۹ء میں دے رہا تھا اور ستم یہ ہے کہ قیمت میں ۴۲ فی صد حصہ سرکاری ٹیکسوں کا ہے۔
پانچ سال پہلے اسی حکومت کی کابینہ نے طے کیا تھا کہ قیمتوں کا تعین تیل اور گیس کی اتھارٹی (OGRA) کرے گی مگر اس پر عمل درآمد نہ کیا گیا۔ پٹرول کی قیمتیں غیرملکی کمپنیاں مقرر کرتی رہیں اور من مانی کرتی رہیں جن میں سیلزٹیکس اور ایکسائز پر بھی اپنا کمیشن لینا شامل ہے جس مد میں ساڑھے چار ارب روپے پچھلے چند سالوں میں ان کمپنیوںنے عوام سے وصول کیے۔ جب اس راز سے پردہ اُٹھا تو کمپنیوں نے یہ رقم واپس کرنے کے بجاے مزید سرمایہ کاری نہ کرنے کی دھمکیوں سے بلیک میل کرنا شروع کردیا۔ نیب نے نوٹس لیا تو نیب کے پیچھے پڑ گئے اور خطرہ ہے کہ جس طرح چینی کے معاملے میں نیب کی انکوائری کو دفن کر دیا گیا‘ اس طرح اس معاملے کو بھی ختم کردیا جائے گا۔
۶- ایک اور اہم مسئلہ صوبوں کے ساتھ سوتیلی ماں سے بھی بدترسلوک ہے۔ مرکز نے صوبوں کے وسائل پر قبضہ کرلیا ہے۔ سارے ٹیکس مرکز لگا رہا ہے اور جو ٹیکس ہمیشہ سے صوبوں کا حق تھے یعنی سیلزٹیکس‘ اسی طرح صوبے کے قدرتی وسائل کی رائلٹی وغیرہ‘ یہ سب اب مرکز کی گرفت میں ہیں اور ۱۹۷۳ء کے دستور کے تحت تقسیم کا جو نظام تجویز کیا گیا ہے اس پر عمل نہیں ہو رہا حتیٰ کہ این ایف سی ایوارڈ بھی معرض التوا میں پڑا ہوا ہے۔ ٹیکس جمع کرنے پر مرکز جو کمیشن لیتا ہے وہ سی بی آر کے اصل اخراجات سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ مرکز نے صوبوں کو نقد ترقیاتی قرضے دیے ہیںوہ بالعموم رعایتی شرح سود پر باہر سے حاصل کیے گئے ہیں مگر مرکز صوبوں سے ۱۴ سے ۱۷ فی صد سالانہ سود وصول کر رہا ہے اور یہ قرضے ۲۰۰ بلین روپے سے متجاوز ہیں۔ صوبے مطالبہ کررہے ہیں کہ ہم سے قرض واپس لے لیں اس لیے کہ مارکیٹ سے وہ اس سے نصف شرح سود پر قرض لے کر یہ رقم واپس کرسکتے ہیں لیکن ظلم ہے کہ ان کو قرض واپس کرنے کا حق بھی نہیں دیا جا رہا۔ این ایف سی کا جو من مانا (arbitrary) ایوارڈ صدر نے دیا ہے اس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ صوبوں کو ۴۴ ارب روپے زیادہ مل رہے ہیں لیکن اس کی سزا یہ دی جارہی ہے کہ سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام سے ملنے والی اس سے ۱۲ ارب زیادہ رقم یعنی ۵۶ ارب سے ان کو محروم کیا جا رہا ہے۔
خرابی کی جڑ دو چیزیں ہیں: ایک شخصی حکومت‘ پارلیمنٹ کی بے بسی‘ جمہوریت کا فقدان اور جواب دہی کا عدم وجود اور دوسرا معاشی پالیسی کے بنیادی نمونے (paradigm) کا بگاڑ‘ وژن کا افلاس اور حقائق سے بے تعلقی۔
دوسرے تمام معاملات کی طرح معاشی حالات کی اصلاح کا دارومدار بھی حقیقی جمہوری‘ عوام کی خادم اور عوام کے سامنے جواب دہ حکومت کے قیام پر ہے۔ ایسی حکومت کے ذریعے معاشی ترقی کے ایک بالکل دوسرے ماڈل کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو پاکستان کو سرمایہ دارانہ نظام کا دم چھلہ نہ بنائے بلکہ خودانحصاری کی بنیاد پر عوام کی فلاح و بہبود اور انصاف اور عدل اجتماعی پر مبنی ایک ہمہ جہتی معاشی پالیسی تشکیل دے تاکہ معاشی ترقی اور استحکام کے ساتھ تمام انسانوں کو باعزت زندگی گزارنے کا موقع ملے‘ اور ملک کے تمام باشندوں اور تمام علاقوں کے درمیان دولت کی تقسیم منصفانہ ہو اور وسائل حیات سب کے لیے یکساں طور پر اور وافر مقدار میں میسر ہوں۔ یہ اسلام کا تقاضا ہے‘ اور یہی ایک مہذب معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔اس انقلابی تبدیلی کے بغیر ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکتے جس میں سیاسی طالع آزمائوں اور سرمایہ داری کے اسیر معاشی کارپردازوں نے اس ملک کو پھنسا دیا ہے۔ بقول اقبال ؎
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات
بسم اللہ الرحمن الرحیم
’تہذیبی تصادم: حقیقت یا واہمہ؟ آج کی عالمی سیاست کا ایک نہایت اہم موضوع ہے۔ اس پر نظری بحث اور سیاسی بساط پر عملی صف بندی‘ دونوں کی روشنی میں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ تہذیبی تصادم اب ایک واہمہ نہیں‘ بلکہ ایک حقیقت کا روپ دھارتا جا رہاہے۔البتہ اس میں ذرا بھی کلام نہیں کہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو غیر فطری‘ غیر ضروری‘ نامطلوب اور تباہ کن ہے‘ لیکن اب اس سے مفر ممکن نہیں۔ اس لیے جہاں اصل چیلنج یہ ہے کہ اس صورتِ حال کا مقابلہ کیسے کیا جائے‘ اور اس کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے‘ وہاں یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ تکلیف دہ اور ناخوش گوار حقیقت موجود ہے اور محض آنکھیں بند کرلینے سے زمینی حقائق پادر ہوا نہیں ہوسکتے۔
تہذیب اور تہذیبی تصادم کا مفہوم کیا ہے؟ انسان کی مدنی زندگی اور اجتماعی زندگی کے حوالے سے تہذیب ایک فطری اور بنیادی ضرورت ہے۔ اس دنیا میں ایک بچہ دو انسانوں کے درمیان ایک تعلق سے وجود میں آتا ہے۔ ماں کی گود کے بغیر وہ پروان نہیں چڑھ سکتا‘ اس کی نشوونما کے لیے خاندان ‘ معاشرہ اور مدرسہ‘ سب کی ضرورت ہے۔ مدنیت انسان کی ضرورت ہے اور تہذیب اس کی اساس ہے۔ سویلائزیشن (تہذیب) کو آپ لفظی اعتبار سے دیکھیں یا تاریخ کے حوالے سے اس کا مطالعہ کریں‘ اس کا تعلق اجتماعی زندگی سے ہے۔ عربی میں اس کے لیے مدنیت‘ حضارۃ اورثقافت جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
انگریزی زبان میں بھی civil‘city‘ civicیہ سب civilization کے مصدر ہیں۔ یہ ایسا گہوارہ ہے جس میں انسانیت پروان چڑھتی ہے‘ انسان کا تشخص بھی قائم ہوتا ہے اور ااس کے لیے ترقی کی راہیں بھی استوار ہوتی ہیں۔ انسانوں کے درمیان خیالات‘ اقدار‘ ادارے‘ تعلقات‘ نظام‘ یہ سب اس کا نتیجہ ہیں۔ ثقافت (کلچر) اور تہذیب (سویلائزیشن) کی ا صطلاحات عمرانیات (سوشیالوجی) تاریخ اور فلسفے کے مباحث میں استعمال ہوتی ہیں۔ البتہ ان کی تکنیکی تعریف میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔ نیز ان دونوں کو ایک دوسرے کے مترادف کے طورپر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ عقیدے‘ اقدار اور اصول کی بنیادی قدریں جو کسی انسانی گروہ کی مشترک اساس ہوں اور جن کی بنیاد پر کسی قوم یا معاشرے کو ایک اجتماعی تشخص حاصل ہو‘ وہ کلچرہے۔ لیکن کلچر‘ عقیدہ‘ فکر‘ عادات اور اخلاق کے ساتھ ساتھ سیاسی‘ اجتماعی‘ معاشرتی اداروںحتیٰ کہ بین الاقوامی میدانوں میں بھی اپنا اظہار کرتا ہے۔ اس کے نتیجے کے طور پر مختلف فنون وجود پذیر ہوتے ہیں۔ آرٹ کی متنوع صورتیں سامنے آتی ہیں۔فنِ تعمیر رونما ہوتا ہے۔ معاشی ادارے تشکیل پاتے اور سیاسی نظام بنتے ہیں۔ اس مجموعی تشخص کو تہذیب (سویلائزیشن) کہا جاتا ہے۔ ایک کو علوم عمرانی کی اصطلاح میں ذہنی تشکیل (mentafacts)کہا جاتا ہے اور دوسرے کو مادی اور سماجی مظاہر (artefacts)‘ لیکن یہ دونوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔
ستم یہ ہے کہ آج تہذیبوں کے تصادم کو دنیا کا مقدر بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ اصل تصادم تہذیب اور وحشت‘ خیر اورشر‘ نیکی اور بدی اور ظلم و ناانصافی کے درمیان ہے۔ تہذیبوں کے درمیان تو تصادم ہی ضروری نہیں ہے۔ تہذیبوں میں تنوع‘ فکرونظر کا اختلاف‘ مختلف علاقوں میں اور مختلف زمانوں کے دوران ایک سے زیادہ تہذیبوں ا ور تمدنوں کا وجود فطری اور ایک تاریخی حقیقت ہے۔ نیز ان کے درمیان ربط و ارتباط‘ مکالمہ اور اتصال‘ تعاون اور مسابقت بھی ایک فطری امر ہے۔ کچھ حالات میں یہ مقابلہ اور تصادم کی شکل بھی اختیار کرسکتا ہے اور تاریخ میں کرتا رہا ہے لیکن محض تہذیبوں کے اختلاف کو لازماً تصادم پر منتج ہونے کے تصور کو ایک ناگزیر تاریخی حقیقت بنانا استعماری ذہنیت کا غماز ہے۔ ہر تہذیبی اختلاف کو تصادم بنانا اور اختلاف کے نتیجے میں تصادم کو انسانیت کا مقدر ٹھیرانا خود تہذیب کے تصور کی نفی ہے۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گو حق و باطل کی کش مکش تاریخ کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور حق کا غلبہ فطرت کا تقاضا اور انسانیت کی ضرورت ہے‘ لیکن یہ تصور صحیح نہیں کہ حق کا یہ غلبہ صرف جنگ اور خونی تصادم کے ذریعے بروے کار آسکتا ہے۔ حق انسان کی فطرت سے مطابقت رکھتا ہے اور حق کی قبولیت کا اصل محل انسان کا دل‘ اس کا ارادہ اور ایمان ہے اور ایمان جبر سے نہیں اختیار اور دل کی گہرائیوں سے قبولیت کا دوسرا نام ہے۔ وہ اپنی صداقت کو دلیل کی قوت‘ فطرت سے مطابقت‘ اور انسانی زندگی کو عدل و انصاف اور توازن و ہم آہنگی سے مالامال کرنے کی صلاحیت سے منواتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جسے لَا ٓ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قف قَدْ تَّـبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْـغَیِّ (البقرہ ۲:۲۵۶)‘کے قرآنی اصول میں بیان کیا گیا ہے۔ بلاشبہہ جب حق کو انسانوں تک پہنچنے سے روکا جائے اور ظلم اور عُدوان کی دیواریں حق اور انسانیت کے درمیان کھڑی کر دی جائیں تو پھر ان موانع کو رفع کرنے کے لیے قوت کا استعمال بھی ناگزیر ہوجاتا ہے۔اس وقت مغربی تہذیب کے علَم بردار اور خصوصیت سے امریکا کی حکمران قیادت تہذیبوں کے تصادم کے نام پر انسانیت پر ایک مخصوص تہذیب و تمدن کو مسلط کرنے کی جنگ کر رہی ہے اور دوسری تہذیبوں کے خلاف خاک و خون کی ہولی کھیل کھیلتے ہوئے ٹیکنولوجیکل بالادستی کا فائدہ اُٹھا کر انھیں صفحۂ ہستی سے مٹانا چاہتی ہے یا یہ کہ وہ کم از کم وہ مغرب کی غلام بن کر رہیں۔یہ ہے اصل نقشۂ جنگ جس کا بھرپور مقابلہ کرنے کے لیے اس کی حقیقی نوعیت کو سمجھنا ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جب اپنا خلیفہ بنایا تو فرشتوں نے اپنے اضطراب کا اظہار اس بنیاد پر کیا کہ یہ فساد پھیلائے گا اور خون خرابا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اِنِّیْ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ، (جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔) دراصل خلافت کے معنی ہی آزادی‘ اختیار اور انتخاب کے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ خیر اور شر تمھارے سامنے آئے گا‘ کچھ خیر کو قبول کریں گے‘ کچھ شر کو۔ عقیدے اور عمل کا یہ اختلاف انسانی زندگی کی ایک حقیقت کے طور پر باقی رہے گا اور اپنے اس انتخاب اور عمل کے بارے میں سارے انسان بالآخر آخرت میں جواب دہ ہوں گے۔ دنیا میں بھی اس کے کچھ نتائج ضرور رونما ہوں گے۔ سورۂ فاتحہ میں انسانیت کے دو دھاروں کاذکر ہے۔ ایک وہ جن پر اللہ کا انعام ہے‘ اور دوسرا وہ جو مغضوب اور غلط کار ہے۔ گویا وہ سب ایک جیسے نہیں ہوں گے۔ لہٰذا یہ تنوع اور یہ اختلاف کائنات کی بنیادی حقیقت ہے اور پوری تاریخ انسانی اس سے بھری پڑی ہے۔ یونانی فکر میں یہ تصور موجود ہے کہ ہم مہذب ہیں اور باقی سب وحشی۔ یہی چیز رومی سلطنت میں رہی۔ عیسائیت نے الہامی روایت سے انحراف کرتے ہوئے اس خون آشام یونانی اور رومی تصور کو قرونِ وسطیٰ میں عملاً قبول کرلیا جس کے نتیجے میں نہ ختم ہونے والی جنگیں اور مذہبی انتہاپسندی وجود میں آئی۔
آج کی جدید مغربی تہذیب بھی اسی مریضانہ سوچ کی وارث ہے اور اس کا اظہار امریکا اور برطانیہ کی سیاسی قیادت اور فکری رہنمائی کرنے والوں کے ان بیانات سے کھل کر دنیا کے سامنے آگیا ہے جن کا اس کے سوا کوئی مدعا نہیں ہوسکتا کہ صرف مغرب کی اقوام ہی مہذب اور تہذیب کی علم بردار ہیں اور دوسرے سب گویا تہذیب ہی کے دشمن ہیں۔ حالانکہ یورپ کے تاریخی کردار اور آج کے مغرب کے اس سامراجی تہذیبی ذہن کے مقابلے میں دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مصر ‘ شام ‘ چین ‘ ہندستان یا افریقہ کے ممالک‘ ہر جگہ تہذیبی تنوع اور اختلاف ایک حقیقت رہی ہے۔ مگر اختلاف کے نتیجے میں تہذیبی تصادم یا ٹکرائو لازماً انسانیت کا مقدر نہیں ہوا اور نہ یہ صورت رونما ہوئی کہ ایک دوسرے کو لازماً محکوم بنانے اور نیست و نابود کرنے کے لیے قوت آزمائی کی جائے۔ مسلمان مفکرین نے پوری دنیا کو دارالدعوۃ قرار دیا اور دارالسلام اور دارالحرب کے ساتھ دارالامن اور دارالعھد کے تصور سے بین الاقوامی قانون کو روشناس کیا‘ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہے بین الاقوامی قانون کی بنیاد ہی مسلمانوں نے رکھی جس میں صلح‘ امن اور جنگ سب کے اصول اور ضوابط کو مرتب کیا اور بقاے باہمی اور انصاف اور اصول کی بنیاد پر قوموں کے درمیان معاملہ کرنے کی بنیاد رکھی۔
مہذب دنیا میں عدمِ برداشت (intolerance) بھی خالص مغربی تصور ہے۔ یہ بات میں نہیں کہہ رہا‘ بلکہ مغربی تہذیب پر ٹائن بی‘ وِل ڈوراند حتیٰ کہ برٹرینڈ رسل کی تحریریں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ یہ عدمِ برداشت یورپ کا خاصّا رہا ہے۔ وہ آزادی کے سارے دعووں کے باوجود‘ بنیادی امور کے سلسلے میں اختلاف کو گوارا کرنے اور اسے معتبر (authentic) ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ پھر یہی چیز سیاسی اور تہذیبی میدان میں رونما ہوئی ہے‘ جس کا پہلا بڑا مظہر اندھی بہری استعماریت (امپیریلزم) کی شکل میں چودھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی کے نصف تک دنیا کے سامنے آیا‘ خود یورپ کے اندر فاشزم کا فروغ اور غلبہ بھی اسی ذہن کاثمرہ تھا اور پھر اس کا حالیہ اظہار گذشتہ تقریباً ۲۰‘ ۲۵ سال سے سامنے آرہا ہے اور اکیسویں صدی میں مغربی تہذیب بھی اسی تصور کی بنا پر دنیا کو تباہی اور خون آشامی کی آماجگاہ بنانے کی طرف بڑھ رہی ہے۔
فلسفہ تاریخ کے اہم مباحث میں انسانی تاریخ میں پائی جانے والی تہذیبوں کے متعدد مطالعے سامنے آئے ہیں‘ ان میں آرنلڈ ٹائن بی نے ۲۶ تہذیبوں کا اور پروفیسر سوروکن نے ۳۶تہذیبوں کا تقابلی مطالعہ کیاہے۔ ان کے مشاہدے کے مطابق بھی ہرتہذیب کا بنیادی تصور کسی نہ کسی حیثیت سے خالق کائنات سے کسی نہ کسی نوعیت کے تعلق کی بنیاد پر تشکیل پاتا تھا۔ خواہ وہ توحید کی بنیاد پر ہو یا شرک کی بنیاد پر‘ البتہ آفاقیت‘ مابعد الطبیعیاتی قوت سے رشتہ اور تعلق‘ کائنات کی روحانی حقیقت کا اعتراف کسی نہ کسی شکل میں ہر تہذیب میں موجود تھا۔ نیز خالق سے تعلق اور اس کائنات کا ایک اخلاقی وجود اور اس دنیا پر علاقائی نہیں بلکہ کائناتی اور پھر اخروی زندگی کا تصور کسی نہ کسی شکل میں ہر تہذیب میں موجود رہا ہے۔ انسانی تاریخ اور تہذیب میں بگاڑ ضرور ہوا ہے‘ لیکن اسے تخت یا تختے کی بنیاد نہیں بنایاگیا۔ یہ صرف جدید مغربی تہذیب ہے‘ جس نے خالق سے اس تعلق کو کاٹ دیا ہے۔ الہامی روایت اور مذہب کی رہنمائی کو ناکارہ اور غیرضروری قرار دیا ہے۔ اس کی جگہ مختلف عقلی تصورات اور مفادات کو جوڑتوڑ کر ایک نظامِ فکر کی شکل میں ڈھال دیا ہے‘ جس میں تین تصورات مرکزی حیثیت رکھتے ہیں یعنی:عقل پرستی (rationalism)‘ فردیت (indiviualism) اور انسان پرستی (humanism )۔ انھی کے مظاہر نیشنلزم‘ جمہوریت‘ سیکولرازم اور کمیونزم کے طور پر وجود میں آئے۔
یہ وہ تہذیب ہے جس نے رہنما اصول کی حیثیت سے دنیا پرستی‘ مادیت اور انسانی عقل و تجربے کو مرکزی حیثیت دی۔ پھر اس پر ظلم یہ کیا کہ اسی کا نام تہذیب رکھا گویا کہ باقی سب غیرمہذب تھے اور ہیں۔ امپیریلزم کی اس پوری تاریخ میں خواہ وہ فرانسیسی ہو یا برطانوی‘ جرمن سامراج ہویا ولندیزی‘ یا پھر ہسپانوی سامراج‘ یا اس کی تازہ ترین شکل امریکی استعمار‘ اس میں دوبڑے کلیدی تصورات دکھائی دیتے ہیں۔ ایک تہذیب سکھانے کا مشن (civilizing mission) اور دوسرا گوری نسل کا بوجھ (white man's burden)۔ گویا روے زمین پر صرف یہی تہذیب ہے‘ باقی ساری دنیا جہالت اور تاریکی میں ہے۔ اسی تہذیب کا غلبہ اور اسی کے نقشِ قدم پر سب کا چلنا تہذیب کی نشانی ہے‘ اور اس کو فروغ دینے کے لیے سامراجی طاقت اور فوجی قوت کا استعمال ناگزیر ہے‘ بلکہ غلبے کا اصل ذریعہ۔ ساڑھے تین چار سو سال انسانیت نے ظلمت کا جو دور دیکھا ہے‘ وہ اسی ذہنیت کی پیداوار تھا۔
بیسیویں صدی میں سامراجی قوتوں کا زوال ہوا۔ حالانکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہمارے اقتدار کا سورج کبھی غروب نہیں ہوگا۔ لیکن‘ فوجی قوت کے باوجود دوعالمی جنگوں اور اندرونی خلفشار‘ عدم مساوات‘ ناانصافی‘ ظلم اور اداروں کے انتشار کی وجہ سے ان کا زوال شروع ہوا۔ ۱۹۴۵ء اور ۱۹۸۰ء کے درمیان تقریباً ۱۵۰ آزاد ملک دنیا کے سیاسی نقشے پر اُ بھرے۔ جن میں مسلم ممالک کی تعداد ۵۷ہے۔ یہ تعداد اقوام متحدہ کے ارکان کی کل تعداد ۱۹۲ کے ایک تہائی سے کچھ ہی کم ہے۔
برطانیہ کبھی دنیا کے ایک چوتھائی حصے پر حکمران تھا‘ لیکن اس کے باوجود وہ نہ صرف اپنے آپ کو برطانیہ عظمیٰ کہتا تھا بلکہ یہ دعویٰ بھی کرتا تھا کہ دنیا کے سارے سمندر اس کے زیراقتدار ہیں۔آج اس کے جغرافیے پر نگاہ ڈالیں تو وہ زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا ہے جو چند جزیروں پر مشتمل ہے۔ وہ سورج جو کبھی اس پر غروب نہیں ہوتا تھا‘ نہ صرف غروب ہوا بلکہ آج عالم یہ ہے کہ جسے اب برطانیہ عظمیٰ کہا جاتا ہے‘ وہاں ہفتوں سورج طلوع ہی نہیں ہوتا۔ برطانیہ اب سکڑ کر ایک چھوٹا سا ملک بن کے رہ گیا ہے۔ گو غرورو تکبر اب بھی اس کا شعار ہے۔ رسّی جل گئی مگر بل نہ گیا۔
اس کے بعد دو سوپر طاقتوں امریکا اور روس کی کش مکش شروع ہوئی۔ یہ کش مکش بالآخر ۱۹۸۹ء میں روس کے انتشار و انہدام اور امریکا کی واحد سوپرپاور رہ جانے کی شکل میں منتج ہوئی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے استعماریت کا نیا دور شرو ع ہوتا ہے۔ یہی وہ دور ہے جس کی طرف توجہ مبذول کرانا مقصود ہے۔ اس دور کو تہذیبوں کے تصادم کا دور کہا جا رہا ہے۔ اس میں جن لوگوں نے بہت کام کیا ہے‘ ان میں سے تین‘چار اہم شخصیات کا ذکر کروں گا۔
ابھی افغانستان میں جہاد جاری تھا اور روس کا زوال نہیں ہواتھا کہ ۱۹۸۵ء میں امریکا کے مشہور رسالے فارن افیرز میں امریکا کے سابق صدر رچرڈنکسن نے ایک مضمون میں یہ بات کہی کہ امریکا اور روس افغانستان کے اندر لڑ رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ کیا ہو گا‘ میں نہیں کہہ سکتا‘ لیکن مجھے صاف نظر آرہا ہے کہ امریکا اور روس کا مفاد آپس میں لڑنے میں نہیں ہے۔ اصل خطرہ کچھ اور ہے‘ اس کا شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور وہ ہے اسلامی بنیاد پرستی کا خطرہ۔
اس وقت تک صرف تین چار چیزیں ہوئی تھیں‘ جن میں ایک ۵۷ مسلم ممالک کا آزاد ہونا تھا مگر وہاں بھی حکمرانی انھی قوتوں کے ہاتھوں میں تھی جو کسی نہ کسی شکل میں خود امریکا اور روس کی تابع تھیں۔ مسلم ممالک کی معیشت پر امریکا‘ یورپ اور کثیرالقومی اداروں کا قبضہ تھا۔ دوسرا یہ کہ ۱۹۶۹ء میں مسجد الاقصیٰ کو آگ لگانے کے نتیجے میں مسلمانوں نے اسلامی ممالک کی تنظیم (OIC) قائم کی جو خواہ کتنی ہی لولی لنگڑی ہو لیکن اتحاد اسلامی کی علامت بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسی طرح ۱۹۷۳ء میں پہلی مرتبہ مسلمانوں نے اپنی تیل کی قوت کو ایک سیاسی ہتھیار کے طورپر استعمال کرنے کی کوشش کی۔ پھر فروری ۱۹۷۹ء میں امام خمینی کی قیادت میں ایران کے انقلاب نے ’اسلامی خطرے‘ کو ایک عالمی ہوّا بنادیا۔
دراصل دوسری جنگ کے بعد امریکا اور مغرب کی استعماری طاقتوں کی حکمت عملی ہی یہ تھی کہ آزادی کے باوجود مسلمان اور عرب ممالک کو عالمی‘ سیاسی اور معاشی اداروں کے ساتھ شاہِ ایران اور اسرائیل جیسے عناصر کے ذریعے قابو میں رکھیں۔ ایران کے انقلاب اور افغانستان میں جہادی قوت کی کامیابی نے نقشہ بدل دیا۔ اکتوبر ۱۹۷۳ء میں رمضان کی جنگ میں یہ بات سامنے آئی کہ مسلمان اور عربوں کی تمام تر کمزوریوں کے باوجود اسرائیل کو چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت امریکا اگر بلیک میل ہو کر اسرائیل کو بڑے پیمانے پر ملٹری امداد فراہم نہ کرتا تو اسرائیل نے یہ کہہ دیا تھا کہ ہم ایٹم بم استعمال کریں گے۔ یہ ہے وہ پس منظر جس کی بنا پر مغرب کے یہ مفکر اور حکمت کار (strategists) ایک نئے دشمن کی تلاش میں تھے کہ جس کا ہوّا دکھا کر اور اپنے شہریوں کو خوف زدہ کر کے وہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کرسکیں۔ اور وہ دشمن انھیں اسلام اور مسلم دنیا کی شکل میں نظرآیا۔ اسی لیے امریکا کے سابق صدر اور سیاسی دانش ور نکسن نے ۱۹۸۵ء میں روس کو‘ اس کی زیرقبضہ مسلم آبادی کے بارے میں خبردار ضرور کر دیا تھا کہ سارا وسطی ایشیا‘ افغانستان اور مسلم دنیا‘ یہ تمھارے لیے خطرہ ہیں‘ امریکا کے لیے نہیں‘ اس لیے آئو! ہم تم مل کر کوئی راستہ نکالیں۔
بہرحال کوئی مشترکہ راستہ تو نہیں نکلا‘ لیکن جب ۱۹۸۸ء میں روسی حکمران میخایل گورباچوف نے ذہنی اور سیاسی شکست تسلیم کرلی اور یہ کہا کہ دوسال کے اندر ہم افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلالیں گے تو یہ وہ زمانہ ہے جب امریکا اور یورپی ممالک نے اپنی اصل حکمت عملی بروے کار لانا شروع کی۔ وہ حکمتِ عملی کیا تھی؟ یہ کہ اسلام اور مسلمان ہمارے اصل دشمن ہیں ۔ سب سے پہلے ناٹو کے سیکرٹری جنرل نے یہ بات کہی تھی کہ سرخ خطرہ ٹل گیا ہے‘ لیکن سبز خطرہ رونما ہوگیا ہے۔ اس کے بعد ایک بڑے اہم یہودی مفکر برنارڈ لیوس نے‘ جو لندن یونی ورسٹی میں پروفیسر رہا اور پھر ۱۹۸۰ء میں امریکا منتقل ہوگیا‘ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مشیر اور امریکا کے پالیسی ساز اور پوری اسرائیلی لابی کے دماغ کی حیثیت سے کام کرتا ہے‘ اس نے ۱۹۹۰ء میں‘ جب روسی فوجیں افغانستان سے واپس ہوئیں‘ امریکا کے اہم رسالے اٹلانٹک منتھلی (Atlantic Monthly) میں اپنے مضمون میں پہلی بار clash of civilizations کے الفاظ استعمال کیے۔ وہ اس مضمون میں کہتا ہے:
اب یہ بات واضح ہوجانا چاہیے کہ ہم مسائل‘ پالیسیوں اور ان کو لے کر چلنے والی حکومتوں کی سطح بلند ہونے کی کیفیت اور تحریک کا سامنا کررہے ہیں۔ یہ تہذیبوں کے تصادم سے کم بات نہیں ہے۔ غالباً یہ ہمارے یہود مسیحی ماضی‘ ہمارے سیکولر حال اور ان دونوں کی عالم گیر توسیع کے خلاف ایک قدیم دشمن کا شاید غیرعقلی لیکن یقینا تاریخی ردعمل ہے۔ (جیفرسن لیکچر ۱۹۹۰ئ‘ برنارڈ لیوس The Rage of Islam ، اٹلانٹک منتھلی‘ ستمبر ۱۹۹۰ئ)
اسپین میں مسلمانوںکی پہلی آمد سے لے کر ویانا میں دوسرے ترک محاصرے تک ایک ہزار سال کے دوران یورپ مسلسل اسلام کے خطرے کی زد میں رہا ہے۔
مقابلے کی جن دو قوتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ نام نہاد اسلامی بنیاد پرستی (islamic fundamentalism) ایک طرف اور سیکولر‘ سرمایہ دارانہ جمہوریت دوسری طرف ہیں اور موخرالذکر کو جدیدیت کی علَم بردار اور یہود مسیحی (Judo-Christian) تہذیب کی وارث کی حیثیت سے پیش کیا جا رہا ہے۔
یہ تھا دراصل وہ پہلا پتھر جو پھینکا گیا۔ پھر اس نکتے کو سیموئیل ہن ٹنگٹن نے آگے بڑھایا۔ یہ ایک اور یہودی ہے جو ہارورڈ یونی ورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کا پروفیسر ہے۔ اس نے ۱۹۹۳ء میں مشہور رسالے فارن افیرز میں ایک مضمون لکھا: The Clash of Civilizations۔ اس پر بحث کا آغاز ہوا‘ درجنوں مضامین لکھے گئے اور کتابوں کا بھی ایک طوفان آگیا۔ اپنی پوری بحث کو ہن ٹنگٹن نے پوری شرح و بسط کے ساتھ ۱۹۹۶ء میں اپنی کتاب Clash of Civilizations and Remaking of New World Order کی شکل میں پیش کر دیا ہے۔ اس وقت سے اب تک یہ کتاب تہذیبوں کے تصادم کے نظریے کی دانش ورانہ بائبل بن گئی ہے۔ اس کے بعد بیسیوں نہیں‘ سیکڑوں کی تعداد میں کتابیں‘ تقاریر‘ اسٹرے ٹیجک پیپرز اور دانش وروں اور ماہرین (تھنک ٹینکس) کی رپورٹیں اس موضوع پرآئی ہیں۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلمان حکمرانوں اور مسلما ن دانش وروں کو اندازہ تک نہیں کہ ان ۲۵ سالوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کتنا کام ہوا ہے اور کس طرح ذہنوں کو علمی مباحث ‘میڈیا اور سیاسی چالوں کے ذریعے ایک عالمی تصادم کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ یہ ہے وہ پس منظر جس میں ناین الیون رونما ہوا اور اس کے بعد جو کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ کوئی اتفاقی چیز نہیں ہے بلکہ وہ اس پورے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔
اس وقت جو نقشۂ جنگ ہے اس میں ایک طرف مسلم دنیا ہے جو ذہنی طورپر انتشار کا شکار ہے‘ سیاسی طور پر منقسم ہے‘ معاشی طور پر خود اپنے وسائل پر قدرت نہیں رکھتی‘ عسکری طور پر نہایت کمزور ہے۔ دوسری طرف چونکہ اسلام ایک تہذیبی اصول‘ ایک تحریک اور ایک متبادل قوت کی حیثیت سے ابھر رہا ہے اور اپنے اندر یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ ایک عالمی تہذیب کی بنیاد بن سکے‘ اس لیے اسے خطرہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے تاکہ ان کے الفاظ میں To nip the evil in the bud، یعنی اس کو حقیقی خطرہ بننے سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے۔
میں یہ چاہوں گا کہ سیموئیل ہن ٹنگٹن کا تجزیہ اور اس کا استدلال آپ کے سامنے رکھوں۔ اس نے اسلام اور مسلمانوں کو ہّوا بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے لیے وہ تاریخ سے بھی مثالیں لایا ہے اور حالیہ رجحانات کو بھی بحث میں کھینچ لایا ہے۔ اس کے لیے سروے کی تکنیک کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے‘۳۵ہزار افراد کی راے کو اس شکل میں پیش کیا ہے کہ دو چیزیں ہیں جو امریکیوں کی نظر میں آج سب سے بڑا خطرہ ہیں: ایک ایٹمی اسلحے کا پھیلائو ہے‘ اور دوسرا ’دہشت گردی‘۔ یہ سروے ناین الیون سے سات سال پہلے ۱۹۹۴ء کا ہے۔ پھر اس نے بتایا ہے کہ ان دونوں میں باہم کیا تعلق ہے؟ بھارت ۱۹۷۴ء میں ایٹمی تجربہ کرچکا تھا‘ اور اسرائیل ۱۹۷۰ء میں ایٹم بم بنا چکا تھا۔ ابھی پاکستان نے ایٹمی تجربہ بھی نہیں کیا تھا لیکن اس نے کہا کہ ایٹمی اسلحے کے پھیلائو کا اصل خطرہ ہمیں اسلام اوراسلامی تحریکوں سے ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ان دونوں کا منبع مسلمان ہیں۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: 60 % of American people regard Islamic revival a threat to US interests in the Middle East. (۶۰ فی صد امریکی عوام شرق اوسط میں اسلامی احیا کو امریکی مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں)۔
وہ مزید کہتا ہے کہ مسلمان آج تو کمزور ہیں لیکن اگر ان کو قابو نہ کیا گیاتو معاشی اعتبار سے یہ اپنے وسائل کو اپنے قبضے میں لے آئیں گے اور ایک بڑی معاشی طاقت بن جائیں گے۔ پھر آبادی کے اعتبار سے ان کی عالمی پوزیشن بدل رہی ہے۔ وہ مزید کہتا ہے کہ ۱۹۹۰ء میں دنیا کے عیسائیوں کی آبادی ۲۵ فی صد اور مسلمانوں کی ۲۰‘ ۲۱ فی صد تھی لیکن اب عیسائیوں کی آبادی کم ہورہی ہے اور مسلمانوں کی بڑھ رہی ہے۔ اس کے اندازے کے مطابق ۲۰۲۵ء تک مسلمانوں کی آبادی دنیا کی آبادی کا ۳۰ فی صد ہوجائے گی اور عیسائیوں کی آبادی سے بھی بڑھ جائے گی۔ اس دوران اگر مسلمانوں نے اپنی فوج اور اپنی ایٹمی قوت کو ترقی دی تو پھر وہ مغرب کی بالادستی (superamacy ) کو چیلنج کردیں گے۔ یہ ہے مغربی تہذیب کے لیے اصل خطرہ۔
مغرب کے لیے اصل مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی نہیں بلکہ اسلام ہے جو ایک مختلف تہذیب ہے‘ اور جس کو ماننے والے اپنی ثقافت کی برتری پر یقین رکھتے ہیں اور اقتدار میں اپنے کم تر حصے پر پریشان ہیں۔(The Clash of Civilizations and the Remaking of the World Order، نیویارک‘ Simon Schuster ‘ ۱۹۹۶ئ‘ ص ۲۱۷-۲۱۸)
دوسرے الفاظ میں اس کا دعویٰ یہ ہے کہ مسلمان اپنا تشخص رکھتے ہیں اور انھیں یہ یقین ہے کہ ان کی تہذیب‘ ان کی اقدار برتر ہیں‘ لیکن ساتھ ساتھ الفاظ استعمال کرتا ہے upset with the inferiority of their power ‘تو یہ ان کی بے چارگی ہے جس کی وجہ سے ان کا غصہ‘ مقابلے کی قوت پیدا کرنے کا محرک ثابت ہوگا جو دہشت گردی کی شکل اختیار کر سکتا ہے‘ اور جو بڑھتے بڑھتے ہمہ گیر تصادم کا روپ دھار سکتا ہے۔ ہن ٹنگٹن نے اسی کتاب میں ایک بڑی اہم بات یہ کہی ہے کہ: Terrorism is the weapon of the weak against the strong. (دہشت گردی کمزور کا طاقت ور کے خلاف ہتھیار ہے)۔ اس طرح اسلام اور دہشت گردی کا رشتہ جوڑنے کا شاطرانہ کھیل کھیلا گیا ہے۔ آگے چل کر وہ مزید کہتا ہے:
اسلام کے لیے مسئلہ سی آئی اے یا امریکا کا محکمہ دفاع نہیں ہے‘ بلکہ خود مغرب ہے جو ایک مختلف تہذیب ہے جس کے ماننے والے اپنی ثقافت کی آفاقیت پر یقین رکھتے ہیں‘ اور سمجھتے ہیں کہ ان کی بالاتر طاقت‘ خواہ زوال پذیر ہو‘ ان پر یہ فریضہ عائد کرتی ہے کہ پوری دنیا کو اپنی ثقافت کے سانچے میں ڈھال دیں۔ یہ وہ بنیادی عناصر ہیں جو اسلام اور مغرب کے درمیان تنازعے کا ایندھن فراہم کرتے ہیں۔(ایضاً)
دنیا میں ثقافتوں کی تقسیم‘ قوت و اقتدار کی تقسیم کا عکس ہوتی ہے۔ تجارت طاقت کے تابع ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ تاریخ میں کسی تہذیب کی طاقت کی توسیع اس کی ثقافت کی نشوونما کے ساتھ ساتھ ہوتی ہے‘ اور ہمیشہ اس طاقت کو دوسرے معاشروں میں اپنی اقدار‘ روایات اور اداروں تک پہنچانے میں استعمال کیا گیا ہے۔ ایک آفاقی تہذیب‘ آفاقی طاقت کا تقاضا کرتی ہے۔
اسلام اور مغرب دو جداگانہ تہذیبیں ہیں۔ صرف اسلام اور مغرب ہی نہیں‘ اور بھی تہذیبیں ہیں مگر ان میں اختلاف کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ تصادم لازم ہو۔ ان تہذیبوں میں تعاون بھی ہوسکتا ہے‘ مسابقت بھی اور بقاے باہمی (co-existance) بھی ہوسکتی ہے۔ اختلاف کا لازمی نتیجہ تصادم نہیں۔ انسانی تاریخ میں تہذیبوں کی ترقی کا راستہ تہذیبوں کے درمیان اتفاق‘ مکالمے‘ تعاون اور مسابقت کا راستہ ہے۔ محض اپنے تصورات‘ اقدار اور طور طریقوں کو دوسروں پر قوت کے ذریعے مسلط کرنے اور اسے تہذیبی تصادم قرار دینے کا راستہ تو تباہی کا راستہ ہے۔ بلاشبہہ جنگیں سیاسی اور معاشی وجوہ سے برپا ہوئیں اور وہ تاریخ کا حصہ بنیں۔ محض تہذیبوں کے تنوع‘ اقدار کے اختلاف اور اصولوں اور اجتماعی نظاموں کے باہم مختلف ہونے کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ تہذیبیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں۔ یہ مغرب کا استعماری تصور ہے جو اس سے کہلوا رہا ہے کہ:
[اہلِ مغرب] اپنی ثقافت کی آفاقیت پر یقین رکھتے ہیں‘ اور سمجھتے ہیں کہ ان کی بالاتر طاقت‘ خواہ زوال پذیر ہو‘ ان پر یہ فریضہ عائد کرتی ہے کہ پوری دنیا کو اپنی ثقافت کے سانچے میں ڈھال دیں۔
گویا قوت کے ذریعے سے ایک کلچر ‘ اس کے تصورات‘ اس کی اقدار‘ اس کے اصولوں‘ اس کے اداروں اور اس کے نظام کو دوسروں کے اوپر مسلط کرنا۔ یہ امپیریلزم ہے‘ تہذیبوں کا تصادم نہیں‘ اور اگر اس نوعیت کا تصادم کہیں پیدا ہوتا ہے تو وہ امپیریلزم کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔
اسلام کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے انسان کو اختلاف کا حق دیا ہے۔ ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دلیل سے بات کرے۔ تبادلۂ خیال‘ اظہار راے کی آزادی اور دعوت اسی چیز کا نام ہے۔ لیکن کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے عقائد اور تصورات کو دوسروں کے اوپر قوت سے نافذ کرے کہ یہی لااکراہ فی الدینہے۔ لہٰذا تہذیبوں کے لیے اگر کوئی راستہ ہے تو وہ مکالمہ‘ مسابقت اور تعاون ہے‘ جب کہ تصادم ایک دوسرے کو ختم کرنا یا نیست و نابود (eleminate) کرنا تہذیب کا نہیں وحشت اور استعماریت کا راستہ ہے۔ آج جس چیز کو تہذیبوں کا تصادم کہا جا رہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہی استعماری ذہن ہے۔ اس کی اصل جڑ یہ زعم ہے کہ ہم دوسروں سے زیادہ طاقت ورہیں اور محض قوت کی بنا پر یہ ہمارا حق ہے کہ ساری دنیا میں ہم اپنی تہذیب‘ اپنی معیشت‘ اور اپنے اداروں کو قائم کریں۔ یہ ہے خرابی کی اصل جڑ۔
مسلم معاشروں کا مکمل طور پر سیکولر ہوجانا اور مغربی تہذیب کے اہم پہلوئوں کو اختیار کرلینا بھی مغربی اور مسلم ممالک کے درمیان مستقل مفاہمت کی ضمانت نہیں دے سکتا‘ جب تک کہ مغربی اور مسلم ممالک کے درمیان باہمی نزاع کے اسباب باقی رہتے ہیں۔ خاص طور پر مسلم ممالک کی یہ خواہش کہ مغرب کے مقابلے میں طاقت کے عدمِ توازن کو دُور کیا جائے۔
ہمیں اس کے تجزیے سے اتفاق ہے کہ تہذیبوں کے تصادم کو دھوکے سے عنوان بنایا گیا ہے۔ اصل مسئلہ قوت کے توازن اور مسلم دنیا پر سیاسی‘ معاشی اور عسکری غلبہ اور تسلط ہے۔ بلاشبہہ سیکولرزم کا فروغ اس حکمت عملی کا حصہ ہے لیکن اصل مقصد دنیا پر غلبہ اور اسے اپنے زیرتسلط لانا ہے اور اس میں اسلام‘ مسلمان اُمت اور ان کا تصورِجہاد اصل رکاوٹ سمجھے جارہے ہیں۔
ہن ٹنگٹن نے جو حکمت عملی تجویز کی ہے اس میں پہلی چیز ہے امریکا کی عالمی بالادستی۔ اس کا کہنا ہے کہ: سیاسی‘ معاشی‘ فنی اور عسکری کنٹرول کا حصول ہی ہمارا اصل ہدف ہے۔ اس کے لیے ہمیں یہ یقینی بنانا پڑے گا کہ دوسری چیلنج کرنے والی کوئی طاقت وجود میں نہ آئے۔ یہی نقطۂ نظر برزنسکی کی کتاب The Chessboard of Nationsمیںجو کئی سال پہلے آئی تھی پیش کیا گیا ہے۔برزنسکی‘ صدر کارٹر کے دور میں نیشنل سیکورٹی کا مشیر رہا ہے اور یونی ورسٹی کا پروفیسر ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس وقت امریکا واحد سوپرپاور ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ آیندہ بھی یہی واحد سوپرپاور رہے۔ اس لیے امریکا کو اسے یقینی بنانا چاہیے کہ کم از کم آیندہ ۲۵سالوں میں کوئی اسے چیلنج کرنے والا میدان میں نہ آسکے‘ اور خاص طور پر یورپ ‘ چین اور مسلم دنیا کو نظر میں رکھا جائے۔
دوسری چیز دنیا کے دوسرے ممالک میں مداخلت کی حکمت عملی ہے(right of intervention)۔ اس کے مطابق جہاں کہیں کوئی خطرہ دیکھو‘ یا خطرے کی بو سُونگھو‘ قبل اس کے کہ وہ تمھارے لیے کوئی خطرہ بن سکے‘ مداخلت کرکے اسے نیست و نابود کردو۔ یہی پالیسی ہے جس پر بش انتظامیہ چل رہی ہے۔ اور اب انھوں نے اپنے اسٹرے ٹیجک ڈاکٹرائن میں کھل کر یہ بات کہی ہے کہ ’روکنا یا مداخلت کرنا‘ ان کا حق ہے‘ اقوام متحدہ کی مدد کے ساتھ یا اس کے بغیر۔ اسی خطرے کو وہ ’عدم برداشت‘ اور ’انتہا پسندی‘ کا نام دیتا ہے۔ اور اگر مسلم دنیا کے کچھ حکمران ان لفظوںکا بے محابا استعمال کرکے اپنے ہم وطنوں کو دھمکاتے ہیں تو درحقیقت وہ اپنے مشاہدے یا اپنے ذہن سے کام نہیں لیتے بلکہ ہن ٹنگٹن کے افکار کی جگالی کر رہے ہوتے ہیں۔
تیسری بات جسے وہ استحصال کی حکمت عملی کہتا ہے‘ یہ ہے کہ معاشی وسائل کو اپنی گرفت میں رکھو۔ اس لیے کہ تیل‘ توانائی‘ معدنی وسائل اور رسل و رسائل کے ذرائع اور راستے اسٹرے ٹیجک اثاثے ہیں اور ان پر ہمارا قبضہ ہونا چاہیے۔
چوتھی چیز میڈیا کی قوت کا استعمال ہے۔ ہرنوع کے ذرائع ابلاغ اس کا حصہ ہیں۔ یہ افکار اور اذہان پر کنٹرول‘ ان کی تشکیل یا انھیں مخصوص تہذیبی سانچے میں ڈھالنے کا عمل ہے۔
پانچویں چیز وہ یہ کہتا ہے کہ امریکا شاید ایک عرصے تک یہ کام اکیلے نہ کرسکے‘ اس لیے امریکا کو یورپ کے ساتھ سیاسی‘ معاشی اور فوجی اتحاد کرنا چاہیے۔ جس میں اب اسرائیل اور روس کے ساتھ بھارت کا اضافہ بھی کرلیا گیا ہے۔ اس کے نزدیک مقابلے میں اصل قوت مسلم دنیا اور عوامی جمہوریہ چین ہے۔ اس کے الفاظ میں: اسلامی اور چینی ممالک کی روایتی اور غیر روایتی عسکری طاقت میں اضافے کو روکنا۔
آخری چیز یہ بیان کرتا ہے کہ یورپ اور امریکا میں مسلمان تارکین وطن خود ہمارے اندر ایک خطرے کی چیز بن گئے ہیں۔ وہ کہتا ہے:
مغربی کلچر کو مغربی معاشروں کے اندر موجود گروپوں سے چیلنج درپیش ہے۔ اب ایک چیلنج ان تارکین وطن کی طرف سے ہے جو [ہمارے معاشرے میں] جذب ہونے کو مسترد کرتے ہیں اور اپنے ممالک کے کلچر‘ رسوم و رواج اور اقدار کو پھیلانے میں لگے رہتے ہیں۔ یہ موجودگی سب سے زیادہ یورپ اور امریکا میں ہے۔
ان پانچ نکات کی روشنی میں امریکا اور مغربی اقوام کے تیار کردہ نقشۂ جنگ کے اہم خدوخال دیکھے جاسکتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ تہذیبی تنوع کا نتیجہ تہذیبوں کا تصادم نہیںہے‘ نہ یہ ضروری ہے اور نہ مطلوب۔ لیکن جب ایک تہذیبی قوت جسے معاشی‘ سیاسی‘ عسکری بالادستی بھی حاصل ہو‘ یہ چاہے کہ وہ اپنے نظام کو ساری دنیا کے اوپر قوت کے ذریعے مسلط کرے‘ دوسروں کو اپنے رنگ میں رنگے اور ان کی معیشت‘ ان کی سیاست اور ان کی معاشرت کو اپنی زنجیروں میں جکڑ لے___ تب تصادم پیدا ہوتا ہے۔ اِس وقت اپنے سیاسی اہداف کے حصول کے لیے تصادم کی فضا پیدا کرنے کے لیے مغرب نے یہی راستہ اور طریقہ اختیار کیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے لیے اس کا مقابلہ کرنے کی کیا صورت ہے؟ کسی جذباتی‘ جوشیلے یا محض منفی ردعمل سے اس جنگ کو نہیں جیتا جاسکتا۔ کچھ مہم جُو حضرات ایسے اقدام کر سکتے ہیں جن سے وقتی طور پر کچھ تسلی ہو‘ اور یہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم نے دشمن کو زک پہنچا دی ہے‘ لیکن یہ راستہ اختیار کرنا بڑی کوتاہ نظری (short sighted) کی حکمت عملی ہوگی۔ اُمت مسلمہ ایک پیغام اور دعوت کی علم بردار اُمت ہے۔ ہماری تہذیبی جدوجہد محض قوت‘ محض وسائل‘ محض مادی منفعتوں اور دولت کے حصول کے لیے نہیں ہے۔ ہماری تہذیب کا بنیادی اصول اعلیٰ اخلاقی اقدار ہیں اور انسانی معاشرے کی تعمیر عدل و احسان کی بنیادوں پر کرنا ہے تاکہ دنیا میں عزت اور امن اور آخرت میں اصل کامیابی حاصل کی جاسکے۔
اسلامی تہذیب کی شناخت کے تین حوالے ہیں: سب سے پہلی چیز توحید‘ یعنی اللہ سے رشتہ جوڑناہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اپنے آپ کو خودکفیل اور دنیا سے بالکل بے نیاز نہ سمجھنا‘ اس دنیا کو ہی سب کچھ نہ سمجھناا ور صرف اللہ کو محض خالق کی حیثیت سے ہی نہیں ماننا بلکہ رب‘ حی وقیوم‘ صاحب امر‘ ہدایت کا منبع‘ قوت کا سرچشمہ تسلیم کرنا۔ توحید کے معنیٰ ہی یہ ہیں کہ پوری انسانیت کو اللہ کی بندگی کے راستے کی طرف لانے کی جدوجہد کی جائے۔ یہ ہماری پہلی بنیاد ہے۔
دوسری بنیاد یہ ہے کہ اسلام صرف ایک عقیدہ نہیں ہے۔ بلاشبہہ یہ عقیدہ ضرور ہے اس لیے کہ عقیدہ ہی نقطۂ آغاز ہے‘ لیکن اسلام ایک مکمل دین ہے۔ وہ اس عقیدے کی بنیاد پر ایک اجتماعی زندگی ہے‘ جس کا مظہر وہ تمام انسانی رشتے اور انسانی ادارے ہیں‘ خاندان‘ معاشرہ ‘معیشت اور سیاست ہے جو ایک مربوط اور مکمل نظام کی صورت میں عقیدے کے بیج سے ایک تناور درخت کی شکل میں رونما ہوتا ہے۔ اسے ہم ایک لفظ میں شریعت کہہ سکتے ہیں‘ یعنی اللہ کا دیا ہوا قانون۔ عیسائیت میں اگر بنیادی چیز تھیالوجی ہے تو اسلام میںبنیادی چیز شریعت ہے ‘یعنی اللہ کو مانو‘ اس کے دامن کو تھامو‘ اس سے رہنمائی حاصل کرو اور زندگی کے نظام کو اللہ کی بندگی اور اطاعت کے اصول پر قائم کرو جو آزادی اور انصاف کا ضامن ہے۔
تیسری بنیاد امت کا تصور ہے جو رنگ ‘ نسل ‘ جغرافیے‘ مفاد اور تاریخ سے بالاتر ہے۔ یورپ اور امریکا کے وہ لوگ جن کی تاریخ‘ تہذیب اور روایات ہم سے مختلف ہیں‘ وہ جس وقت لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کہتے ہیں اسی وقت ہمارا حصہ بن جاتے ہیں۔ کوئی بھی زبان بولنے والا‘ خواہ کسی بھی رنگ و نسل سے تعلق رکھتا ہو‘ دنیا کے کسی بھی مقام پر رہتا ہو‘ وہ یہ کلمہ پڑھ کر اُمت مسلمہ کا حصہ بن سکتا ہے۔
یہ تین بنیادی چیزیں ہیں اور ان کا لازمی تقاضا ہے کہ ایک طرف ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ان اصولوں پر قائم کریں‘ تمام وسائل کو اس مقصدکے لیے استعمال کریں اور مزید ترقی دیں۔ اجتماعی طاقت کا حصول بھی اس کا اہم حصہ ہے۔ نیز دنیا کے سامنے صحیح نمونہ پیش کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ البتہ دین کا فروغ اور اسلامی تہذیب کی ترویج ہم قوت کے ذریعے سے نہیں‘ دلیل کے ذریعے کرنے کے پابند ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ اپنا پیغام عام کریں اور دلیل سے کریں تاکہ قَدْ تَّـبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْـغَیِّ کا مقصد پورا ہو‘ یعنی ہمارا طریقہ یہ ہے کہ رشد‘ دلیل اور حکمت کے ذریعے سے پیغام کو دنیا تک پہنچانا ۔ دوسری طرف قوت سے حق کا اور اپنے نظام کا دفاع کرنا اور ظلم و جبرکے خلاف مزاحمت کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ جہاد دراصل انھی دو پہلوئوں سے عبارت ہے۔ ایک پہلو یہ کہ اللہ کی بندگی کے طریقے کو قبول کرنا‘اور دوسری طرف ظلم اور جارحیت کے خلاف مزاحمت کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاد ہمیشہ سے دشمن کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسلام کی مخالف قوتوں نے جن کے استعماری عزائم کی راہ میں مسلمانوں کا جذبۂ جہاد حائل ہے ہمیشہ تصورِ جہاد ہی کو ہدف بنایا ہے۔ خصوصیت سے پچھلے ۴۰۰سال کی تاریخ پڑھ لیجیے۔ مغربی استعمار کا جہاں بھی مقابلہ ہوا ہے‘ مسلمانوں ہی نے کیا ہے اور جہاد کی بنیاد ہی پر کیا ہے۔ مغرب کے مفکرین خواہ مستشرق ہوں یا مشنری یا حکمران‘ سب نے جہاد کو ہدف بنایا ہے۔
آج مسلم دنیا پر قابض حکمران طبقے جہاد اکبر اور جہاد اصغر کی جو بحثیں چھیڑ رہے ہیں‘ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ انیسویں صدی کا لٹریچر پڑ ھ لیجیے‘ مغربی مفکرین‘ ان کے مستشرق اور خود ہندستان میں سامراجی حکمرانوں کے ہم نوا یہی بات کہتے تھے‘ حتیٰ کہ جہاد کو منسوخ کرنے کے لیے جھوٹا نبی تک بنایا گیا‘ مختصر یہ کہ کوئی نئی چیز نہیں۔
اسلامی تہذیب محض قوت کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ قوت کی اگر ضرورت ہے تو اس کو مستحکم کرنے کے لیے ہے۔ اس کی اپنی صحیح شکل میں اس پر عمل کرنے کے لیے ہے اور اس کے دفاع کے لیے ہے۔ مسلمانوں نے قوت کے ذریعے سے کبھی بھی اپنی اقدار کو دوسروں پر نہیں ٹھونسا۔ کیوں کہ یہ طریقہ اللہ کی حکمت بالغہ کے خلاف ہے۔ ایمان‘ دل کی رضامندی سے‘ دل ودماغ کی یکسوئی سے اور انسانی اختیار کے استعمال سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ ایک اخلاقی عمل ہے اور کوئی اخلاقی عمل جبر کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ اخلاقی عمل تو آزادی و اختیار کی فضا میں اور رضامندی کے ساتھ فروغ پاتا ہے۔
اس تہذیبی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلی ضرورت ہے کہ ہم اللہ سے اپنا رشتہ جوڑیں اور اسے مستحکم کریں۔ جس طرح توحید اسلامی تہذیب کی بنیاد ہے‘ اسی طرح اسلام کی دفاعی حکمت عملی کا پہلا اصول اللہ سے تعلق‘ اللہ سے رشتے کو گہرا کرنا‘ اللہ سے استعانت طلب کرنا اور اللہ کے بھروسے پر اس سارے کام کو انجام دینا ہے۔ اگر اس میں ذرا بھی کمزوری ہے تو باقی جتنے بھی وسائل ہوں گے‘ وہ ریت کی دیوار ثابت ہوں گے۔ لہٰذا پہلی چیز ایمان ہے اور ایمان کا تقاضا ہے: کردار‘ تقویٰ اور للٰہیت۔ ایک ایک فرد اس کے اندر اہم ہے۔ جس طرح زنجیر میں ایک ایک کڑی اہم ہوتی ہے کیوں کہ اگر ایک کڑی بھی کمزور ہوتو زنجیر ٹوٹ جاتی ہے۔ اسی طرح عمارت کی اینٹیں اور بنیادیں ہیں۔ اگر وہ کمزور ہوں گی تو دیوار نہیں ٹھیرسکے گی۔ اس لیے فرد‘ اس کا کردار‘ اس کی للٰہیت اور تقویٰ خود ہماری دفاعی حکمت عملی کا بنیادی نکتہ ہے۔
دوسری چیز مسلمانوں کا اتحاد اور ان کی اجتماعیت ہے۔ اگر مسلمان متحد نہ ہوں‘ اور وہ فرقوں میں اور گروہوں میں بٹے ہوئے ہوں‘ ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوں تو ان کی قوت منتشر ہوکر کمزور پڑ جائے گی۔ اس لیے اجتماعیت اور اتحاد ہماری حکمت عملی کا دوسرا بنیادی نکتہ ہے۔
تیسری چیز دعوت ہے۔ ہم جامد نہیں ہوسکتے۔ ہم ایک دعوت کے علم بردار ہیں اور ہماری طاقت اللہ کی تائید کے بعد‘ انسانوں کی قوت سے ہے۔ اس لیے تعلیم‘ تبلیغ‘ دعوت اور انسانوں کو اپنے اندر جذب کرنا‘ ان کی تربیت کرنا‘ یہ ہمارا مستقل پروگرام ہے۔
اخلاقی قوت اس راستے کی اصل معاون ہے۔ اسی کے نتیجے میں انسانوں کے دل فتح کیے جاسکتے ہیں۔ ان انسانی وسائل کے ساتھ ساتھ مادی قوت بھی ضروری ہے۔ اگر ہم نے مادی قوت کو نظرانداز کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے لیے جو قانون بنایا ہے‘ ہم اس سے انحراف کریں گے۔ یہاں آگ جلاتی ہے‘ برف ٹھنڈک دیتی ہے‘ اور سورج روشنی دیتا ہے۔ یہ اس دنیا میں اللہ کا قانون ہے۔ اگر آپ پیاسے ہوں اور پانی کا گلاس آپ کے سامنے ہو تو آپ محض پانی پانی کہتے رہیں تو آپ کی پیاس نہیں بجھے گی۔ قدرت نے جو قوانین بنائے ہیں‘ ان کے ذریعے سے وسائل کو حاصل کرنا استخلاف کے معنی ہیں۔ آپ دنیا کے سارے وسائل کے امین بنائے گئے ہیں۔ استخلاف ایک حرکی تصور ہے جس کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کے اندر جو وسائل ودیعت کیے ہیں‘ ان کو دریافت کرنا‘ ان کو ترقی دینا اور ان کو صحیح مقاصد کی خدمت کے لیے استعمال کرنا۔ اس لیے قرآن نے سورۂ انفال میں صاف کہا ہے کہ اپنے گھوڑوں کو تیار رکھو۔ قوت تمھیں حاصل ہونی چاہیے اور قوت بھی ایسی کہ تمھارا دشمن اور اللہ کادشمن اس سے خوف محسوس کرے۔ قوت ایمان اور اخلاق سے‘ اور ٹکنالوجی‘ معیشت اور عسکری طاقت سے حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا ایمان و عمل کے ساتھ ترقی بھی اشد ضروری ہے۔ اگر اسے آپ نظرانداز کریں گے تو اِس تہذیبی یلغار کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔
ایٹمی طاقت آج کی دنیا میں ایک بہت ہی اہم ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان ملک کو تھوڑی سی ایٹمی صلاحیت حاصل ہوئی ہے تو اس پر دنیا بھر میں کتنا واویلا ہوا ہے۔ کہا گیا کہ یہ صلاحیت بلیک مارکیٹنگ کے ذریعے حاصل کی گئی ہے‘ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ امریکا سے لے کر بھارت تک جس نے بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کی ہے وہ بلیک مارکیٹ سے‘ پھیلائو (proliferation ) سے اور دوسروں کے کیے ہوئے کام سے فائدہ اٹھا کر ہی کی ہے اور جائز ناجائز‘ ہر طریقے سے کی ہے۔ کیا امریکا نے جرمن سائنس دان کو اغوا کرکے اس کی صلاحیت کو استعمال نہیں کیا؟ کیا بھارت نے امریکا اور کینیڈا سے نیوکلیئر پلانٹ حاصل کیے بغیر یہ صلاحیت حاصل کر لی؟ اسرائیل نے یہ صلاحیت کیسے حاصل کی ہے؟ ایران ہی پر آخر کیوں یہ دبائو ہے۔ اس لیے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایٹمی صلاحیت ہی طاقت کے عدم توازن کا توڑ ہے۔
ایٹمی طاقت کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر ٹکنالوجی بھی ایک بہت اہم میدان ہے۔ اس بات کا پورا امکان ہے کہ اس سلسلے میں اچھی صلاحیت سے ایک نہایت ہی ترقی یافتہ ملک کے اعلیٰ اور فنی نظام کو غیر موثر بنایا جا سکتا ہے۔ اگر ایک ۱۶ سال کا امریکی لڑکا پینٹاگون کی خفیہ معلومات کو دریافت کر کے اس کے کمپیوٹر کو جام کر سکتا ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے ذریعے کسی بھی ملک کے نظام کو تہ وبالا کیاجاسکے۔ اب دنیا سائبری جنگ (cyber warfare)کی طرف جارہی ہے اور ہم اس میں پیچھے نہیں رہ سکتے۔
آج کی دنیا میںطاقت کے عدم توازن کے معنی بدل گئے ہیں۔ اس لیے سدِّجارہیت (deterrance) ایک فنّی اصطلاح نہیں ہے بلکہ ایک حرکی تصور ہے جس کے معنی برابری نہیں اتنی قوت ہے کہ آپ مدمقابل کی قوت کو غیرموثر بناسکیں اور اسے جارحیت سے روک سکیں۔ آپ کو قطعاً اس کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ کو برابری حاصل ہو لیکن آپ کے پاس اس درجے کی قوت ہونی چاہیے کہ آپ نہ صرف اپنا دفاع کرسکیں‘ بلکہ دشمن پر کاری ضرب لگاسکیں۔اسے یہ احساس ہو کہ اس عمل اور ردعمل سے اسے کیا قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ قرآن پاک میں مقابلے کی قوت کا جو مقام بیان کیا گیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ تمھارے دشمن اور اللہ کے دشمن اس سے خائف ہوں اور یہ لازماً ہماری حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے۔ یہ قابلِ حصول ہے‘ اس کے لیے مساوات ضروری نہیں۔ اس کے لیے صرف صحیح حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
یہ کام استقامت اور حکمت کا تقاضا بھی کرتا ہے۔ استقامت نام ہے اپنے مسلک پر ایقان اور اعتماد کے ساتھ ڈٹ جانے کا‘ اپنے مقصد اور اپنی منزل کے صحیح شعور اور ادراک کا۔ یہ نام ہے اللہ کے بھروسے‘ اُمت کی تائید اور تعاون کا۔ استقامت صحیح منصوبہ بندی ‘ وسائل کی ترقی اور وسائل کے مؤثر استعمال اور حکمت اور اس خوف کا صحیح صحیح استعمال کا نام ہے۔ یہ بھی صبرواستقامت ہے کہ نفع عاجلہ سے بچنا اور ایسے اقدام سے بچنا جن سے جذبات کی تسکین تو ہوجائے لیکن پوری امت کو دیرپا نقصانات ہوں۔
تہذیبوں میں مکالمہ‘ تعاون‘ مسابقت حتیٰ کہ مثبت مقابلہ‘ سب درست لیکن تہذیبوں میں تصادم‘ جنگ و جدال‘ خون خرابا اور ایک دوسرے کو مغلوب اور محکوم بنانے کے لیے قوت کا استعمال انسانیت کے شرف اور ترقی کا راستہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تہذیبوں کا تصادم ہمارا لائحہ عمل نہیں‘ یہ مسلمانوں پر زبردستی ٹھونسا جا رہا ہے۔ یہ تباہی کا پیغام ہے لیکن اگر ایک سوپر پاور طاقت کے زعم میں اندھی ہو گئی ہے اور دنیا کو اپنی گرفت میں لینے اور اس پر بہ جبر بالادستی قائم کرنے کے لیے قوت کا استعمال کر رہی ہے تو اس کے آگے ہتھیار ڈالنے ‘ اور اپنے دفاع سے دست بردار ہوجانے سے بڑا جرم کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہماری لڑائی نہ امریکا کے عام انسانوں سے ہے‘ نہ یورپ کے نہ روس کے اور نہ ہندستان کے۔ ہماری قوت اور پہچان اسلام ہے‘ اور اسلام ساری انسانیت کے لیے پیغام رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ ہمارا اللہ‘ رب العالمین ہے اور ہمارا رسولؐ، رحمۃ للعالمین۔ ہم انسانوں کے لیے تباہی کا پیغام نہیں بن سکتے۔ اللہ کے تمام نبی انسانوں کو تباہی سے بچانے کے لیے آئے اور قوموں کو سیدھا راستہ دکھانے اور خیر کو قبول کرنے کی دعوت دینے کے لیے آئے‘ فوج دار بنا کر نہیں بھیجے گئے۔ ہمارے لیے امریکا کے عام انسان بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے پاکستان کے‘ یا مکے اور مدینے کے۔ لیکن اگر امریکی اور مادی تہذیب کی قیادت مادی قوت اور عسکری قوت کے زعم میں یہ سمجھتی ہے کہ وہ پوری دنیا کو دھوکا دے سکتی ہے اور ان کو اپنا محکوم بناسکتی ہے تو یہ ممکن نہیں‘ اور نہ یہ جائز ہے کہ اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا جائے۔
مسلمان ہی نہیں ‘ساری دنیا کے اچھے انسان اس صورت حال پر کرب محسوس کرتے ہیں اور اس مصیبت سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کے گوشے گوشے میں لاکھوں افراد نے عراق میں جنگ کے خلاف احتجاج کیا ہے اور کر رہے ہیں‘ امریکا میں بھی کر رہے ہیں۔ آج جو تازہ ترین جائزے آئے ہیں اس میں بش کی مقبولیت ۳۱ فی صد ہے‘ اور ۶۹ فی صد سمجھتے ہیں کہ اس نے انسانیت کو ایک غلط جنگ میں جھونک دیا ہے۔ وہ ۲۳۰۰امریکی فوجی جو عراق میں مارے گئے ہیں‘ ان کے خاندان احتجاج کررہے ہیں‘ عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں۔ بش کی قیام گاہ کے باہر احتجاجی ہڑتالیں ہورہی ہیں۔ امریکا کی ان پالیسیوں اور دست درازیوں کے خلاف مسلم دنیا کی ۹۰سے ۹۸ فی صد آبادی احتجاج کر رہی ہے۔ یورپ میں ۷۰ سے ۸۰ فی صد اور افریقہ میں ۷۰سے ۹۰ فی صد لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ غرض دنیا کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں بش کی انسانیت کش پالیسیوں کے خلاف نفرت نہ پائی جاتی ہو۔
میں تہذیبوں کے تصادم کو اس فریم ورک میں نہیں لینا چاہتا جس میں ہمارے دشمن اسے ہم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ میری نگاہ میں یہ تصادم تہذیب اور جاہلیت‘ تہذیب اور وحشی پن میں اور امن اور جنگ کے پجاریوں میں ہے۔ ہمیں اخلاقی اقدار‘ قانون کی حکمرانی‘ انصاف‘ انسان کا شرف اور عزت اور تمام انسانوں کے لیے اللہ کی زمین کو رہنے کے لائق بنانا اور رکھنا ہے۔ بلاشبہہ اس جنگ میں ہمارا ان سے مقابلہ ہے جو تباہی مچانے والے‘ امن کو پارہ پارہ کرنے والے اور ساری دنیا کو دہشت زدہ کرنے والے ہیں۔ ان کے مقابلے کے لیے ہمیں حلیفوں کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ ہمیں تن تنہا نہیں لڑنا چاہیے۔ بلاشبہہ ہم اس کا پہلا نشانہ ہیں لیکن دوسرے بھی نشانے پر ہیں۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اچھی سیاست خارجہ کے ذریعے سے حلیف پیدا کریں اور مل کے اس کا مقابلہ کریں۔ مجھے یقین ہے کہ حلیف صرف چین ہی میں نہیں ‘ یورپ اور امریکا میں بھی ملیں گے۔ اور یہی دراصل ایک داعی کا ذہن اور کردار ہونا چاہیے۔ ہم اصحاب دعوت ہیں‘ ہم نفرتوں کے پجاری نہیں ہیں‘ اس لیے ہمیں بتانا چاہیے کہ اصل جنگ تہذیب اور وحشت کے درمیان ہے۔
آئیے! تہذیب کا تحفظ کریں اور وحشت کا مل جل کر مقابلہ کریں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
صدر جارج بش کا افغانستان‘ بھارت اور پاکستان کا دورہ (۲۸ فروری تا ۴ مارچ ۲۰۰۶ئ) بھارت کے لیے تو بجاطور پر تاریخ ساز اور کامیاب ترین قرار دیا جا رہا ہے‘ مگر پاکستان کے لیے‘ جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کے علاوہ‘ سب ہی اسے ناکام اور ذلت اور پشیمانی کا باعث تصور کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ خود جنرل صاحب صدربش کے ساتھ ۴مارچ کی مشترکہ پریس کانفرنس میں زبانِ حال (body language)سے وہی بات کہہ رہے تھے جو اندرونِ ملک اور بیرون ملک تمام اصحابِ نظر کی زبان پر ہے۔ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون نے ایک ہی جملے میں پورے مضمون کا مفہوم سمو دیا ہے:
Bush gives Indians a hug and Pakistan a friendly pat.
بش نے بھارت کو تو کو گلے لگا لیا اور پاکستان کو فقط ایک دوستانہ تھپکی پر ٹرخا دیا۔
یہ بالکل سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے کہ کیا مسٹربش نے آدھی دنیا کے گرد سفر صرف اس لیے کیا کہ اپنے سب سے اہم حلیفوں میں سے ایک کے ساتھ کھڑے ہوں اور اس کو شرمندہ کریں۔
صدربش نے جنرل صاحب کے منہ پر کہا کہ میں تو صرف یہ دیکھنے کے لیے آیا ہوں کہ تم کتنے پانی میں ہو___ دہشت گردی کے خلاف میرے ساتھ تعاون کے بارے میں جو کہہ رہے ہو‘ عملاً کچھ کر بھی رہے ہو؟ اس سے پہلے کابل میں حامدکرزئی کی ہم زبانی میں فرمایا کہ میں جنرل پرویزمشرف سے سرحدوں کی خلاف ورزی اور دراندازی کے بارے میں پوچھوں گا۔ پھر دہلی میں کشمیر کے پس منظر میں یہی بات کہی۔ اور بالآخر ۴مارچ کو اسلام آباد میں جنرل صاحب کو مخاطب کرکے‘ ٹی وی کے کیمروں کے سامنے‘ خسروانہ شان سے فرمایا: میرے مشن کا ایک حصہ یہ طے کرنا تھا کہ آیا صدر (پرویز مشرف) ان دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے اتنے ہی سنجیدہ ہیں جتناکہ وہ پہلے تھے؟
تعلقات کو متلاطم لہروں کا سامنا ہے۔ دونوں رہنما اپنی گفتگو کے اصل موضوعات پر مختلف راے رکھتے تھے۔ بش انتظامیہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں مشرف کے مرکزی مقام کا ازسرنو جائزہ لے رہی ہے‘ جب کہ جوہری پھیلائو ہمیشہ سے زیادہ دکھتی رگ ہے… پاکستان‘ دہلی اور واشنگٹن دونوں جگہ ہار رہا ہے۔ اس لیے بش کا دورئہ اسلام آباد دہشت گردی کے خلاف پاک امریکا شراکت کے لیے ایک اہم لمحہ تھا‘ اور اسی طرح یہ مشرف کے اپنے سیاسی مستقبل کے لیے بھی اہم تھا۔ بش انتظامیہ کی نظروں میں اس کے آہنی ہاتھ کی بڑی قدروقیمت تھی‘ مگر اب تو اس کے اُلٹے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ طالبان کی باقیات افغانستان میں شکست سے دوچار ہوتی نظر نہیں آتی۔ اسامہ بن لادن اور اس کے صف اوّل کے رہنما ئوں نے اپنی گرفتاری کو مسلسل ناممکن بنا رکھا ہے۔ مسئلہ کشمیر ایک کھلا زخم ہے۔ اسلام آباد کے بعض باخبرسفارتی ذرائع کو اندیشہ ہے کہ بش انتظامیہ اس یقین تک پہنچ رہی ہے کہ اب ایک کمزور پاکستانی فوج اتنی ہی ضروری ہے جتنی ایک طاقت ور فوج ناین الیون کے بعد اس وقت ضروری تھی‘ جب امریکا کو افغانستان پر حملے کے لیے اس کی حمایت کی ضرورت تھی۔ پاکستان چاہتا ہے کہ امریکا کے ساتھ اس کی ایک منافع بخش اسٹرے ٹیجک شراکت قائم رہے مگرفی الحقیقت مشرف کا پاکستان‘ بھارت کے مقابلے میں تیزی سے بازی ہاررہا ہے۔ بش کے دورے نے پانچ سالہ پرانی شراکت میں بڑھتی ہوئی دراڑوں کو مزید نمایاں کردیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ واشنگٹن اب جنرل کے اس موقف کوتسلیم نہیں کرتا کہ وہی ملک کا واحد سیکولر لیڈر ہے جو ملاؤں اور جہادیوں سے جو پاکستان کے لیے طاعون ہیں‘ نمٹ سکتا ہے۔ (Debka File، ۵مارچ ۲۰۰۶ئ)
صدربش نے کل افغانستان کا اچانک دورہ کیا تاکہ اس کی نئی جمہوریت کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کریں۔ انھوں نے بالکل درست کہا کہ ساری دنیا کی نظریں اس جمہوریت پر لگی ہوئی ہیں۔ پھر وہ بھارت گئے جہاں ان کے دورے کا مرکزی نکتہ امریکا اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت [بھارت] کے تیزی سے بڑھتے ہوئے مشترک مفادات تھے۔ دورے کے تیسرے مرحلے میں وہ پاکستان پہنچے۔ بھارت [کی جمہوریت] اور پاکستان کے فرق کو نظرانداز کرنا مشکل ہے‘ جہاں پرویز مشرف نے ۱۹۹۹ء میں ایک منتخب حکومت کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کیا‘ اور اِس وقت بھی وہ اقتدار کے واحد مالک ہیں۔ گذشتہ ہفتے مسٹربش نے اپنے پاکستانی دوست کے بارے میں کہا کہ مجھے یقین ہے وہ آزاد اور غیر جانب دارانہ انتخابات کے انعقاد کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ اگر مسٹر بش واقعی یہ یقین رکھتے ہیں تو وہ بہت سے پاکستانیوں سے زیادہ سادہ لوح ہیں جنھوں نے بہت عرصہ قبل ایک ایسے لیڈر کے برسرِعام کیے گئے وعدوں پر یقین کرنا چھوڑ دیا ہے‘ کیوں کہ اس نے اپنے وعدوں کو ایک سے زیادہ دفعہ توڑا ہے۔ جنرل مشرف اقتدار پر اپنے قبضے کے بعد جمہوریت بحال کرنے کا وعدہ کرتے آرہے ہیں لیکن جب سے وہ اقتدار میں آئے ہیں انھوں نے پاکستان کی سیکولرجمہوری پارٹیوں کو دبانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے اپنی مدت کو ۲۰۰۷ء تک بڑھانے اور صدر اور فوج کے لیے نئے دستوری اختیارات کے بدلے میں ۲۰۰۴ء کے اختتام تک آرمی چیف آف اسٹاف کا عہدہ چھوڑنے کا وعدہ کیا تھا۔ بعدازاں وہ اس سے منحرف ہوگئے۔
اب جنرل مشرف کے ساتھی یہ کہہ رہے ہیں کہ آیندہ سال جن انتخابات کا وعدہ ہے‘ وہ ان کو ملتوی کردیں گے اور پارلیمنٹ جو ۲۰۰۲ء کے انتہائی بے قاعدہ انتخابات میں منتخب ہوئی تھی‘ ان کو ازسرنو منتخب کرلے گی۔ مختصر یہ کہ جنرل مشرف کو واضح طور پر امید ہے کہ وہ اپنی فوجی حکومت کو غیرمعینہ مدت تک طول دے لیں گے‘ جب کہ امریکی صدر کی سیاسی و معاشی حمایت انھیں حاصل رہے گی۔ دوسری طرف امریکی صدر نے اپنی انتظامیہ کو مسلم دنیا میں جمہوریت کی پیش رفت کے لیے وقف کردیا ہے۔مسٹربش کو داددینی چاہیے کہ وہ جنرل کے کھیل کو سمجھتے ہیں اور اسے روکنے کی کم سے کم ایک چھوٹی سی کوشش کر رہے ہیں۔
اس میں پاکستان کی سیکولر سیاسی پارٹیوں کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے اور ۲۰۰۷ء کے انتخابات کے لیے حقیقی طور پر تیار کرنے کے لیے کوششیںشامل ہونی چاہییں۔ مشرف کے بہت سے وعدوں کے باوجود‘ پاکستان ایک انتہائی غیرمستحکم ملک ہے جہاں اسلامی انتہاپسندی کا خطرہ بہت بڑا ہے اور بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ جنرل اس خطرے کے خلاف امریکا کا تدبیراتی (tactical) اتحادی ہے‘ ملک میں جمہوریت بحال کرنے کے ان کے انکار نے صورت حال کو محض خراب تر کیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ امریکا اس ناقابلِ اعتبار جنرل پر انحصار کرنا چھوڑ دے اور اس کی جگہ لینے والی جمہوری حکومت کے لیے منصوبہ بندی کا آغاز کرے۔
جارج بش کے بھارت کے ’تاریخی‘ دورے کے بعد ۳‘۴ مارچ کو پاکستان میں ان کے قیام کو لازماً ایک ضدِّعروج (anti climax) ہونا تھا۔ لیکن یہ اس سے بھی زیادہ خراب ثابت ہوا۔ اس نے پاکستان کی امریکا مخالف بڑی لابی کو تضاد‘ تلون اور بے وفائی کے الزامات کے لیے بہت زیادہ لوازمہ فراہم کیا۔ پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے جو امریکا کے ساتھ اتحاد کے چیمپین ہیں اور جنھیں صدربش ’اپنا یار‘ کہتے ہیں‘ خود کو ہمیشہ سے زیادہ مشکلات میں گھِرا ہوا پایا۔
بش نے بھارت میں اپنے میزبانوں کے لیے نیوکلیر طاقت اور اسلحے کے بارے میں عالمی قواعد میں استثنا مہیا کرکے تاریخی اقدام کیا۔ اس کے برعکس پاکستان جس نے بھارت کی طرح ۱۹۹۸ء میں ایٹمی دھماکا کیا اور عالمی عدم پھیلائو کے معاہدے میں شریک نہیں ہوا‘ اسے اس طرح نہیں نوازا گیا۔
امریکا نے بھارت سے اسٹرے ٹیجک شراکت اور اسے ۲۱ویں صدی کے لیے ایک عالمی طاقت (global force)اور عالمی شریک کار (global partner) قرار دیا اور دفاع‘ تعلیم وتحقیق‘ تجارت و معیشت‘ مشترک سرمایہ کاری‘ فوجی مشقوں میں شراکت‘ اور چین کا راستہ روکنے والی مزاحمتی قوت بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصدکے لیے امریکا نے بھارت سے نیوکلیر ٹکنالوجی اور مشترک دفاعی پیداوار کے میدانوں میں بھرپور بلکہ بے قید تعاون کے جو معاہدے کیے‘ انھوں نے عالمی سیاسی نقشے میں بھارت‘ امریکی‘ اسرائیلی گٹھ جوڑ پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے۔ اس سے بھارتی قیادت کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا ہے۔ اس کا کچھ اندازہ کلدیپ نائر کے تازہ ترین مضمون سے بھی کیاجاسکتا ہے جس میں پاکستان اور جنرل مشرف کو‘ جو خود کو امریکا کا بہترین حلیف اور ناٹو کا غیررکن شریک کار سمجھتے ہیں (بش اور مشرف ایک دوسرے کو اپنا یار ’buddy‘کہتے ہیں)‘ یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ جس طرح کبھی چین سے تعلق استوار کرنے کے لیے اسلام آباد کا راستہ اختیار کیا گیا تھا‘ اب امریکا سے دوستی کے لیے دہلی کا رخ کرنا پڑے گا۔ ان کا مشورہ یہ ہے:
پاکستان کے حق میں بہتر یہی ہے کہ وہ نیویارک پہنچنے کے لیے دہلی کا راستہ اختیار کرے۔ لیکن بھارت یہ چاہے گا کہ پہلے جہادیوں کے تربیتی کیمپ ختم کردیے جائیں‘ اور آئی ایس آئی دراندازی کے منصوبے کو ایک آپشن کے طور پر استعمال کرنا ترک کردے۔ دہلی میں بش اس کے قائل ہوگئے تھے کہ بھارت کے ساتھ پاکستان کی پالیسی کا ایک اہم جز سرحدپار دہشت گردی ہے۔
پاکستان کی اصل پریشانی کشمیر ہونی چاہیے۔ اسلام آباد سے جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں امریکا نے اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ ایک پاکستانی صحافی کے سوال کے جواب میں بش نے یہ کہتے ہوئے اپنے پہلے موقف کو دہرایا: یہ ان دو ممالک کا معاملہ ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے کا تصفیہ کریں‘ اگر مطلوب ہو تو امریکا کی مدد سے۔
صدربش کے دورے کا اگر کوئی ناقابلِ تردید پیغام ہے تو وہ یہ ہے کہ امریکا نے اپنی عالمی سیاست میں پورے سوچ بچار اور ۱۵ سال پر پھیلی ہوئی تیاری کے ساتھ بھارت سے اسٹرے ٹیجک شراکت پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے اور اسرائیل کے بعد اب بھارت اس کا سب سے معتمدعلیہ حلیف ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواری اپنی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا اصل چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ اگر وہ اب بھی اس حقیقت کوتسلیم کرنے کو تیار نہیں اور دہشت گردی میں تعاون کے تنکوں کا سہارا لینے پر تلے ہوئے ہیںتو اس کے علاوہ کیا کہاجاسکتا ہے کہ تاریخ ان کا شمار ایسے لوگوں میں کرے گی جن کے بارے میں کتاب الٰہی کا فیصلہ ہے کہ ان کی آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں‘ کان ہیں مگر سنتے نہیں اور قلب ہیں جو تفکر سے محروم ہیں۔
بش کے اس دورے کے حوالے سے بھارت اور امریکا کے نیوکلیر معاہدے کو مرکزی اہمیت دی جارہی ہے اور وہ اس کا مستحق ہے۔ لیکن یہ حقیقت سامنے رکھنی چاہیے کہ امریکا‘ بھارت سے اپنے تعلقات اسٹرے ٹیجک بنیادوں پر استوار کرنے کا مدت سے خواہاں تھا۔ ۱۹۶۲ء میں بھارت چین تصادم کے موقع پر امریکا نے بھارت کی بھرپور مدد کی۔ بھارت کو اپنے نیوکلیر اداروں کے تشکیلی دور میں امریکاسے مدد ملی۔ سردجنگ کے خاتمے کے بعد بھارت اور امریکا کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہوگئے۔ دوطرفہ افادیت کی حامل‘ تجارت اور انفارمیشن ٹکنالوجی کا حصول راجیوگاندھی کے ۱۹۹۵ء کے دورے سے شروع ہوا تھا جو پچھلے ۱۰ برسوں میں مستحکم سے مستحکم تر ہوتا گیا۔ اسرائیل نے بھی اس سلسلے میں خصوصی کردار ادا کیا۔ کلنٹن کے دورحکومت میں اسٹرے ٹیجک شراکت استوار کرنے کی ابتدا ہوئی (تفصیل کے لیے دیکھیے: کلنٹن کے مشیر ٹالبوٹ کی کتاب Engaging India)‘ ناین الیون کے بعد یہ تعلقات تیزی سے آگے بڑھے۔ رینڈ کارپوریشن کے ایک اہم مطالعے میں جو امریکی فضائیہ کے لیے کیا گیا‘ بھارت اور پاکستان دونوں کے بارے میں ’ردِّدہشت گردی‘(counter terrorism) کے سلسلے کی تفصیل موجود ہے اور پاکستان کی ساری خدمات کے مقابلے میں بھارت کے تعاون کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرا نہایت اہم مطالعہ عالمی امن کے لیے کارنیگی وقف کے زیراہتمام ایک اہم امریکی مفکر ایشلے جے ٹیلیز نے کیا ۔ اس کا عنوان ہی اس کے مقصد کا عکاس ہے: India: As a New Golbal Power - An Action Agenda for the United States. [بھارت‘ ایک نئی گلوبل قوت: امریکا کے لیے منصوبۂ عمل]۔
جو کچھ ۱۸جولائی ۲۰۰۵ء کے بش ‘من موہن سنگھ اعلامیے میں کہا گیا اور جسے ۲مارچ ۲۰۰۶ء کے دہلی معاہدے میں آخری شکل دی گئی‘ وہ ان کوششوں کا نتیجہ ہے جو ۱۰ سال سے خاموشی سے کی جارہی تھیں اور جس کے لیے بھارتی سفارت کار‘ بھارت کے لیے مہم چلانے والے پیشہ ور افراد اور ادارے اور سیاسی قیادت سرگرم عمل تھی۔
اس معاہدے نے این پی ٹی کو عملاً غیرموثر کر دیا ہے اور اب امریکا کھلے بندوں بھارت کو نیوکلیر میدان میں ہرمدد دینے کا اعلان کر رہا ہے۔ نام پُرامن استعمال کیا گیا ہے مگر حقیقت میں وہ وہ تمام ری ایکٹر جو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں‘ اپنے تصرف میں رکھنے اور انھیں عالمی معائنے سے باہر رکھنے کا حق دیا گیا ہے۔ گویا اس کو عملاً ایک نیوکلیر اسلحہ رکھنے والا ملک تسلیم کرلیاہے اور اس کے اپنے افزود کردہ پلوٹونیم کو مزیداسلحہ سازی کے لیے کھلاچھوڑ دیا گیا۔ اس کارنیگی سنٹر کی ایک محقق اور سائنس دان جوزفن سِرِن کیون (Josphen Cirincion) نے کہا ہے:
اس کے ایک تہائی ری ایکٹروں کا کسی قسم کا کوئی معائنہ نہیں کیا جاسکے گا‘ اور یہی اصل مسئلہ ہے۔ درحقیقت اس سودے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت ہرسال جتنی مقدار میں ایٹمی ہتھیار بناسکتا ہے‘ وہ اسے دگنا یا تین گنا کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ اس وقت وہ ۶سے ۱۰ تک بنا سکتا ہے۔ غیرعسکری ری ایکٹروں کو امریکی ایندھن کی فراہمی سے اس کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ وہ اپنے ملٹری ری ایکٹروں کی پیداوار کو تین گنا کردے۔ اس سے ایٹمی ہتھیاروں کی ایک دوڑ شروع ہوجائے گی‘ اس لیے کہ پاکستان یہ سب کچھ ہوتے دیکھ کر‘ خاموشی سے نہیں بیٹھ سکتا‘ نہ چین یہ دیکھ سکتا ہے‘ اور جاپان کیا کرے گا؟ یہ خطے کے لیے مسئلہ ہے اور حکومت کے لیے بھی۔
امریکا کو خود اپنے چھے سے زیادہ قوانین کو تبدیل کرنا ہوگا تاکہ بھارت کو نیوکلیر ری ایکٹر اور دوسرا مواد فراہم کرسکے۔
بھارت اور امریکا کا یہ گٹھ جوڑ فقط نیوکلیر میدان ہی میں نہیں بلکہ دفاع‘ تجارت‘ سرمایہ کاری اور ٹکنالوجی کی منتقلی‘ غرض ہرمیدان میں ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ یہ ایک وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اسی لیے اسے اسٹرے ٹیجک شراکت کہا گیا ہے اور کُھل کر اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ یہ بھارت کو اکیسویں صدی کی ایک عالمی قوت بنانے اور امریکا اور بھارت کے مل کر عالمی سیاسی بساط کا نقشہ بنانے کے لیے ہے۔ وہ نقشہ کیا ہے؟ اس کے چار بڑے بڑے اہداف ہیں:
۱- پہلا ہدف یہ ہے کہ امریکا اکیسویں صدی میں سب سے بالاتر عالمی قوت رہے اور کوئی اس کی طاقت کو چیلنج کرنے والا نہ اُبھر سکے۔ اس کام کو انجام دینے کے لیے امریکا نے دو حلیف منتخب کیے ہیں: ایک اسرائیل جو شرق اوسط میں اس کا نقیب ہوگا‘ اور دوسرا بھارت جسے ایشیا کی چودھراہٹ سونپی جارہی ہے۔
۲- دوسرا بنیادی ہدف چین کا محاصرہ ہے‘ اس لیے کہ امریکا یہ سمجھتا ہے کہ وہ یورپ کو ناٹو کی وجہ سے اپنے دائرے میں رکھ سکتا ہے‘ البتہ چین اس کے لیے اصل مدِّمقابل (challenger) بن سکتا ہے اور اس کا راستہ روکنے کے لیے ایشیا ہی سے ایک طاقت کو میدان میں لانا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کے چین سے اسٹرے ٹیجک تعلقات ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ بھارت اور پاکستان کو الگ الگ سلوک کا سزاوار سمجھا جائے۔
۳- تیسرا ہدف یہ ہے کہ اسلام اور عالمِ اسلام کو ایک منظم قوت بن کر اُبھرنے کا موقع نہ دیا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہدف بھی اسلامی احیا کا راستہ روکنا‘ مسلم ممالک کو فوج کشی اور معاشی مقاطعے کے ذریعے کمزور کرنا‘ اور اسلامی اتحاد کی جگہ مسلم ممالک کو مزید تقسیم در تقسیم کا شکار کرنا ہے۔
۴- چوتھا ہدف گلوبلائی زیشن‘ کھلی منڈی اور آزاد تجارت اور آزاد سرمایہ کاری کے ذریعے‘ نیز کثیرقومی کارپوریشنوں اور این جی اوز کے توسط سے معاشی طور پر پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لینا اور ٹکنالوجی اور فوجی قوت کے میدانوں میں امریکا اور اس کے حلیف ممالک کی ایسی بالادستی کو دوام بخشنا ہے کہ مقابلے کی قوتیں اور تہذیبیں اُبھر نہ سکیں اور اس طرح امریکا کی قیادت میں ایک نئے سامراجی دور کو مستحکم کیا جا سکے۔
اپنی بالادستی کو قائم کرنے کے لیے معاشی اور سیاسی حربوں کے ساتھ فوجی قوت کا استعمال اور اس کے لیے ایک نئے فلسفے اور خارجہ پالیسی کے ایک نئے آہنگ کو فروغ دیا جا رہا ہے‘ جس کے ذریعے عالمی ادارے اور بین الاقوامی قانون کے مسلمہ اصولوں کو نظرانداز کر کے اپنی من مانی کی جاسکے۔ یک طرفہ کارروائی‘ پیش بندی کی بنیاد پرحملے‘ حکومت کی تبدیلی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر صدمے اور رعب کی حکمت عملی (shock and awe strategy) اس کا اہم حصہ ہے۔ عالمی امن کے لیے اصل خطرہ اگر آج کسی سے ہے تو اسی ذہن اور اسی منصوبۂ کار سے ہے۔
نیوکلیر پیش رفت سے آگے بڑھ کر‘ امریکا اور بھارت کچھ اور حوالوں سے بھی‘ ایک دوسرے کو ہم خیال سمجھ رہے ہیں۔ دونوں جمہوریتیں ہیں‘ دونوں کے پھلتے پھولتے اور اضافہ پذیر باہم مربوط ٹکنالوجی کے سیکٹر ہیں۔ دونوں انگریزی بولتے ہیں‘ ایک ہی جیسے یوگا کے گروؤں کو مانتے ہیں‘ نیز فلموں میں ایک جیسی فراریت‘حتیٰ کہ ایک جیسی غذا سے محظوظ ہوتے ہیں۔ بش نے ایشیا سوسائٹی کو بتایا کہ بھارتی نوجوان ڈومینو اور پیزاہٹ کے پیزا کے ذائقے کو پسند کرتے ہیں۔ واشنگٹن اور بھارت دونوں اسلامی عسکریت سے برسرِجنگ ہیں اورچین کی بڑھتی ہوئی طاقت سے یکساں طور پر پریشان ہیں۔ بھارت کے سیکرٹری خارجہ شیام سرن نے ٹائم کو بتایا کہ اس کے امریکی ہم منصب بہت واضح طور پر ایک ایسے مضبوط اور دیرپا اتحاد کی خواہش رکھتے ہیں جو شرق اوسط سے ایشیا تک اسلامی عدمِ استحکام کی قوس کے خلاف کام کرے‘ اور ایشیا میں بہت زیادہ توازن پیدا کرے‘ یعنی دوسرے الفاظ میں بھارت چین کا ہم پلّہ(counterweight) ہو۔
اپنے قریبی پڑوسیوں اور بھوٹان‘ سِکم‘ نیپال‘ سری لنکا اور بنگلہ دیش تک جیسی چھوٹی ریاستوں کے لیے بھارت کی پالیسی کا موازنہ مغربی نصف کرّے میں امریکی مونرو ڈوکٹرائن سے کیاجاسکتا ہے‘ یعنی بھارتی بالادستی کو برقرار رکھنے کی کوشش میں‘ اگر ضرورت پڑے توطاقت کے استعمال سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ شمال میں بھارت کا مقابلہ ہمالیہ اور تبت کے پار چینی دیو سے ہے۔ یہاں بھارت اپنے حریف سے مقابلے کے لیے کلکتہ اور سنگاپور کے درمیان علاقے میں اپنی معاشی‘ سیاسی اور اسٹرے ٹیجک اہمیت کے مطابق کردار چاہتا ہے۔
ممبئی اور یمن کے درمیانی علاقے میں بھارت اور امریکا کے مفادات انقلابی اسلام کو شکست دینے کے لیے تقریباً ایک جیسے ہیں۔ ناین الیون تک اسلامی دنیا میں حکومت عام طور پر مطلق العنان حکمرانوں کے ہاتھ میں تھی۔ بھارتی قیادت مسلم مطلق العنان حکمرانوں سے تعاون کر کے غیرجانب داری کو اپنی مسلم اقلیت کو خوش کرنے کے لیے استعمال کرتی تھی۔ یہ صورت حال اب باقی نہیں رہی ہے۔ بھارتی قیادت جانتی ہے کہ بنیاد پرست جہاد‘ دہشت گردی کے اقدامات کے ذریعے سیکولر معاشروں کی بنیادیں ڈھاکر مسلم اقلیتوں کو انقلابی بنارہا ہے۔
موجودہ بھارتی قیادت یہ بات سمجھ چکی ہے کہ عالمی بے چینی کا یہ مظاہرہ اگر پھیل گیا تو بھارت جلد یا بدیر ایسے ہی حملوں کا شکار ہوگا۔ چنانچہ دہشت گردی کے خلاف امریکی کوشش کا نتیجہ بھارت کی طویل المدت سلامتی سے بنیادی طور پر متعلق ہے۔ امریکا بھارت کی کچھ جنگیں لڑ رہا ہے۔ جہاں تدابیر میں فرق ہے‘ وہاں بھی دونوں ملکوں کے مقاصد متوازی ہیں۔
آزادی کے وقت برطانوی ہندستان کو پاکستان اور بھارت میں تقسیم کردیا گیا۔ چونکہ تقسیم سے ہندومسلم آبادیاں مکمل طور پر الگ نہ ہوسکیں‘ اس لیے آج بھی بھارت میں ۱۵کروڑ مسلمان رہتے ہیں۔ قوم پرستوں کے نزدیک پاکستان ان کے تاریخی ورثے سے علیحدہ کیا ہوا حصہ ہے۔ یہ بھارتی ریاست کے لیے ایک مستقل چیلنج ہے‘ کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ہندو بالادستی کے تحت اپنا تشخص برقرار نہیں رکھ سکتے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار اور بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی شراکت میں توازن رکھنے کے لیے غیرمعمولی حساسیت اور اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے۔
چین کے ساتھ ساتھ اسلام اور عالم اسلام کو حصار میں رکھنا اس حکمت عملی کا ایک اہم حصہ ہے جسے خود صدربش کی تقاریر میں دیکھا جاسکتا ہے اور امریکا کے درجنوں مفکر اور میڈیا کے مبصر اس لَے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ناین الیون کمیشن کی رپورٹ سے لے کر فرانسس فوکویاما کی حالیہ تحریروں تک میں اسے صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے اسلامی بنیاد پرستی‘ سیاسی اسلام اور انقلابی اسلام کی اصطلاحات استعمال کی جارہی ہیں۔ مارچ ۲۰۰۶ء میں امریکا نے قومی سلامتی کی حکمت عملی کی جو دستاویز شائع کی ہے‘ اس میں دہشت گردی کے ساتھ اس کا رشتہ an aggressive ideology of hatred and murder (نفرت اور قتل کا ایک جارحانہ نظریۂ حیات) کے عنوان سے مسلمانوں سے جوڑا گیا ہے البتہ ذرا پردہ رکھ کر بات کو یوں کہاگیا ہے:
دہشت گردی کے خلاف جنگ نظریات کی جنگ ہے‘ مذاہب کی جنگ نہیں۔ ہمارے مقابلے پر آئے ہوئے مختلف اقوام کے دہشت گرد اسلام جیسے قابلِ فخر مذہب کا استحصال کرتے ہیں کہ وہ ایک پُرتشدد سیاسی وژن کے طور پر کام کرے۔ وہ دہشت گردی اور تخریب کاری کے ذریعے ایک ایسی سلطنت کا قیام چاہتے ہیں جو ہرطرح کی سیاسی اور مذہبی آزادی کا انکار کرے۔ یہ دہشت گرد جہاد کے تصور کو مسخ کرکے اسے ان لوگوں کے خلاف قتل کی دعوت میں تبدیل کردیتے ہیں جن کو وہ کافر سمجھتے ہیں‘ بشمول عیسائی‘ یہودی‘ ہندو‘ دیگر مذہبی روایات کے حامل‘ اور وہ سب مسلمان جو ان سے متفق نہیں۔ بلاشبہہ ۱۱ستمبر کے بعد بیش تر دہشت گرد حملے مسلمان ملکوں میں ہوئے ہیں اور زیادہ تر ہلاک ہونے والے بھی مسلمان ہی تھے۔
بھارت اور امریکا کے حالیہ معاہدات اور صدربش کے دورے کے مقاصد اور چیلنجوں کو اس پس منظر میں دیکھنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔
عالمی تناظر میں امریکا اور بھارت کی مشترکہ حکمت عملی کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لینے کے بعد ضروری ہے کہ صدربش کے حالیہ دورے کے ان مضمرات کو بھی سمجھا جائے جن کا تعلق پاک بھارت تعلقات سے ہے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ۱۹۵۴ء میں جب سے پاکستان کھلے طور پر امریکا کے حلقۂ اثر میں آیا اور دفاع اور سیاست دونوں میدانوں میں اشتراکی اور روس کی تحدید کے فلسفے کے تحت ان معاہدوں اور اداروں کا رکن بنا جو اس سلسلے میں امریکا نے قائم کیے تھے۔ امریکا کی طرف سے باربار کی بے وفائیوں کے باوجود چار چیزیں ایسی ہیں جن کا ایک حد تک امریکا کی حکومتوں نے‘ خواہ ان کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے ہو یا ڈیموکریٹس سے‘ احترام کیا۔
اوّل: پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں ایک توازن اور برابری کا رویہ اختیار کیا۔ ان دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات میں ایک سے معاملہ کرتے وقت دوسرے پر اس کے اثرات اور ردّعمل کو ملحوظ رکھا گیا۔ سیاسی معاملات‘ معاشی تعلقات اور فوجی ضرورت کے لیے اسلحے کی ترسیل میں ایک درجے کا توازن قائم رکھنے اور اس میں اس پالیسی کو بنیادی اہمیت حاصل رہی۔ گویا پاکستان اور بھارت سے پالیسی کے امور کی ایک جڑواں حیثیت ہے۔
دوم: پاکستان سے دوستی اور بنیادی امور پر ہم آہنگی کا رویہ اختیار کرنے کا دعویٰ کیا گیا‘ تاہم ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء میں یہ توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ اس کے باوجود مذکورہ تصور کا خمار (hang over) باقی رہا اور افغانستان پر روس کی فوج کشی اور اس کی مزاحمت کی تحریک میں پاکستان کے کردار نے اسے مزید تقویت دی۔ حتیٰ کہ اس خودفریبی (make believe)کی چھتری میں پاکستان ساری پابندیوں اور مخالفتوں کے باوجود اپنے ایٹمی پروگرام کو ترقی دے سکا۔ یہ ایک پردہ سا تھا جو ہمیشہ رہا اور اس کا سہارا لے کر ناین الیون کے بعد دوستی کے نام پر زیردستی کا دور شروع ہوگیا۔
سوم: پاکستان کے دفاع اور سلامتی میں خصوصی دل چسپی اور اس سلسلے میں فوجی اور معاشی امداد اور تعاون کو مرکزی اہمیت دی گئی۔ بھارت اسے پاکستان کے ساتھ امریکا کا امتیازی سلوک قرار دیتا رہا اور برابر احتجاج کرتا رہا لیکن ساری اُونچ نیچ کے باوجود یہ سلسلہ جاری رہا‘ اور اس کے نتیجے میں پاکستان کا دفاعی نظام امریکی سسٹم کا حصہ بن گیا جس کے مثبت اور منفی دونوں ہی پہلو ہیں ___حقیقت میں منفی پہلو کہیں زیادہ ہیں‘ کیوں کہ اس سے ہم خطرناک حد تک امریکا کے محتاج ہوگئے ہیں۔ منفی پہلو کا اندازہ ایف-۱۶ کے سلسلے میں امریکا کی بدعہدی سے کیا جاسکتا ہے۔
چہارم: کشمیر کے معاملے میں امریکا کی دل چسپی اور اصولی طور پر پاکستان کے اس موقف کی تائید کہ جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جو عالمی امن کے لیے خطرہ (flash point) بن سکتا ہے۔ شروع میں تو امریکا بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہی مسئلہ کشمیر کے فیصلے کی بات کرتا تھا‘ جب کہ روس کُھلے طور پر بھارت کے موقف کی تائید کر رہا تھا۔ اس طرح اقوام متحدہ میں روس کے ویٹو کے مقابلے میں امریکا پاکستان کی حمایت کرتا رہا اور کشمیر میں مسلح تحریکِ مزاحمت کو (پچھلے دو تین سالوں میں رونما ہونے والے انحرافی رویے کے برعکس) تحریکِ آزادی ہی تصور کرتا رہا۔ جہادی تحریک ۱۹۸۹ء سے جاری ہے اور ناین الیون کے بعد بھی امریکا نے اس کے خلاف کبھی بیان نہیں دیا۔ امریکی پالیسی میں تبدیلی کا آغاز دسمبر ۲۰۰۱ء میں دہلی کی پارلیمنٹ پرہونے والے حملے یا ڈرامے سے ہوا جو آہستہ آہستہ پختہ ہوتی گئی۔
صدربش کے حالیہ دورے نے ان چار بنیادی مقدمات (premises) میں تبدیلی پر مہرتصدیق ثبت کردی۔ اب پاکستان سے دوستی اور تعلق صرف ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا ایک پہلو ہے‘ جب کہ بھارت سے دوستی ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہے اور مشترکہ عالمی حکمت عملی کا حصہ۔
پہلی بنیاد کی جگہ اب دونوں کے بارے میں الگ پالیسی بنانے کے اصول کو مسلمہ بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ اس تصور پر عرصہ ۱۰‘ ۱۵ سال سے کام ہو رہا تھا۔ صدربش نے صاف لفظوں میں واشنگٹن‘دہلی اور پھر اسلام آباد میں یہ اعلان کرکے کہ بھارت‘ بھارت ہے اور پاکستان‘ پاکستان اور دونوں کی ضروریات اور دونوں کی تاریخ الگ الگ ہے‘ اس نقطۂ اتصال کو بھی پارہ پارہ کردیا جو ۵۰سال سے پاکستان کی قیادتوں کی نگاہ میں بھارت کے جارحانہ عزائم کے خلاف ایک ٹوٹی پھوٹی ڈھال بنا ہوا تھا اور اب اسے پے درپے ضربوں سے اڑادینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
یہ نہایت عیاری مگر ایک گونہ شایستگی کے ساتھ کچھ اسی قسم کا یوٹرن ہے جو ناین الیون کے بعد پاکستان کی موجودہ قیادت نے افغانستان کی حکومت کے بارے میں بڑے بھونڈے اور بے دردانہ انداز میں لیا تھا۔ انسانوں کو سبق سکھانے اور ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے قدرت کے طریقے بھی عجیب و غریب ہیں۔ رہی پاکستانی قوم‘ تو وہ نہ پہلے مطمئن تھی اور نہ اب خائف اور دل گرفتہ۔
یہ اس جوہری تبدیلی کا کرشمہ ہے کہ اب قوم کو بتایا جارہا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی بھارت کے محور کے گرد (India Centric) نہیں گھومنی چاہیے۔ حالانکہ جنرل پرویز مشرف نہ معلوم‘ کب کے اپنی پالیسی کا محور بدل چکے ہیں۔ ان کے دور میں ہماری پالیسی خاص طور پر صرف ایک محور کے گرد گھوم رہی ہے اور وہ ہے امریکا کا حکم اور امریکا کا مفاد۔ اب امریکا کا فلسفہ یہ ہے کہ پاکستان عملاًغیرمتعلق (irrelevent) ہے‘ اسے بھارت کے حلقۂ اثر میں رہ کر ہی اپنا مستقبل سوچنا چاہیے اور بھارت کو ایک عالمی قوت بنانا ہے تاکہ وہ چین کے دائرۂ اثر کو روک سکے۔
امریکا اور بھارت کا ایٹمی معاہدہ اسی مقصد کے حصول اور کامیابی کی منزل کے لیے ایک زینے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی کو امریکی سفارت کار کہہ رہے ہیں کہ: It is no more a zero sum game (اس میں کسی کے لیے تخت یا تختے والی بات نہیں ہے)۔ اس لیے کہ اب بھارت امریکا کے لیے امریکی نائب وزیرخارجہ نکسن برن کے الفاظ میں singularly important (واحد اہم) ملک ہے اور بین الاقوامی امور کے بھارتی ماہرین بھی صاف سمجھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ: اس ہفتے سب سے بڑا جیتنے والا بھارت ہی نظر آرہا تھا۔ پاکستان کے حصے میں پشت پر ایک ہلکی سی تھپکی سے زیادہ کچھ نہیں آیا۔ (سومینی سین گپتا‘ نیویارک ٹائمز)
بھارت اور امریکا کے لیے بلاشبہہ یہ بہت بڑی کامیابی ہے___ لیکن پاکستان کے لیے بھی یہ ایک انداز میں ایک حقیقی کامیابی بن سکتی ہے بشرطیکہ اس آئینے میں پاکستان کی موجودہ قیادت اپنا اصل چہرہ دیکھنے کی زحمت کرے اور سمجھ جائے کہ نئے زمینی حقائق کیا ہیں اور کس نوعیت کی متبادل حکمت عملی کا تقاضا کرتے ہیں۔ اگر اب بھی ہم حالات کا معروضی جائزہ لے کر اپنا راستہ خود متعین کریں تو پھراس ناکامی سے حقیقی کامیابیوں اور سرفرازیوں کے کئی دَر وَا ہو سکتے ہیں۔ شکست کو فتح بناکر پیش کرنے والے تباہی کے غار میں جاگرتے ہیں اور شکست کو شکست سمجھ کر نئے عزم کے ساتھ اپنی منزل کی طرف گامزن ہونے والے تاریخ کے رخ کو بدلنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس وقت پاکستان ایک ایسے ہی فیصلہ کن لمحے (moment of truth) سے گزر رہا ہے۔
امریکا ایک سوپر پاور ضرور ہے لیکن کوئی سوپر پاور ہمیشہ سوپر پاور نہیں رہی۔ تاریخ بیسیوں سوپرپاورز کا قبرستان ہے اور امریکا تو اپنی قوت کے نقطۂ فراز سے نشیب کے سفر پر چل پڑا ہے۔ صدربش دنیا کی نگاہ میں اس وقت امریکی تاریخ کے سب سے ناکام اور ناپسندیدہ حکمران ہیں۔ خود امریکا میں ان کی شرح مقبولیت زمین کو چھو رہی ہے۔ اس وقت ۶۸ فی صد سے زیادہ امریکی ان کی کارکردگی سے غیرمطمئن ہیں۔ ادھر امریکا کا پبلک قرض مجموعی قومی پیداوار سے بڑھ گیا ہے۔ بیرونی قرضوں کا بوجھ ۴ ہزار بلین ڈالر سے متجاوز ہے۔ صرف بجٹ کا سالانہ خسارا ۲۲۰ بلین ڈالر اور تجارتی خسارا ۷۰۰ بلین ڈالر سے متجاوز ہے۔ افغانستان اور عراق میں وہ بری طرح پھنس گیا ہے اور نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا۔ جسے حقیقی معنی میں عالمی برادری کہاجاسکتا ہے وہ اس سے متنفر ہے اور ابھی ۱۸مارچ کو عراق پر حملے کے تین سال مکمل ہونے پر دنیاکے کونے کونے میں بشمول امریکا بش انتظامیہ کے خلاف بھرپور مظاہرے ہوئے ہیں۔
امریکا اور بھارت کے اپنے عزائم ہیں‘ لیکن پاکستان اور اُمت مسلمہ کے لیے اس کی گرفت سے آزاد ہوکر ایک خارجہ پالیسی اور ریاستی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے جو ایک ہی طاقت کی تابع فرمان بنے رہنے کے بجاے آزادی کے تصور پر مبنی ہو۔ اس میں یورپ‘ چین‘ لاطینی امریکا اور عالمِ اسلام کا بڑا اہم کردار ہوسکتا ہے۔ جاپان اور روس بھی اس میں اہم کارفرما قوتیں ہوں گی۔ محض ردّعمل (reactive)کی نہیں‘ پیش قدمی (pro-active) پر مبنی خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔ ملک کے لیے سب سے زیادہ خطرناک اور ناکام خارجہ پالیسی وہ ہے جو ذہنی مرعوبیت‘ مجبوری اور خوف کی بنیادوں پر استوار کی جائے۔ چھوٹا یا بڑا ملک ہونا کوئی مسئلہ نہیں۔ شمالی کوریا اور لبنان کوئی بڑے ملک نہیں۔ شام‘ ایران اور بیلاروس ہم سے بڑے ملک نہیں۔ سوئٹزرلینڈ‘ بلجیم‘ ہالینڈ‘سویڈن اور ناروے کوئی سوپر پاور نہیں لیکن اپنے اپنے قومی مفاد اور عزائم کی روشنی میں خارجہ پالیسی تشکیل دیتے ہیں۔ آخر ہم کیوں خوف اور مجبوری کے تحت اپنی پالیسیاں بنائیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو درحقیقت اس کی داخلہ پالیسیوں اور نظامِ حکمرانی کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں۔
ہماری خارجہ پالیسی ہو یا داخلہ پالیسی‘ اصل سانحہ ہی یہ ہے کہ ملک کے دستور کے تحت اداروں کے ذریعے پالیسی سازی کے بجاے‘ فردِواحد کی پریشان فکری اور کھلنڈرانہ افتادِ طبع کے تابع ہیں۔ فوج جس کا کام سول نظام کے تحت خدمت انجام دینے کا ہے‘ اس کی قیادت سیاست‘ معیشت‘ تعلیم‘ خارجہ پالیسی‘ ہر ایک میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کرگئی ہے۔یہ بھی ایک تلخ اور الم ناک حقیقت ہے کہ امریکا کا بلاواسطہ ربط فوج کی قیادت سے ۱۹۵۴ء سے کسی نہ کسی شکل میں ہے۔ امریکا کے جو پانچ صدر پاکستان آئے ہیں‘ فوجی حکمرانوں کے دور ہی میں آئے ہیں۔ وائٹ ہائوس اور شعبہ دفاع (پینٹاگون) کو جو کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے وہ جی ایچ کیو کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔ جنرل زینی اور جنرل فرینک کی خودنوشت پڑھ لیجیے۔ جس دور میں بھی جو کام امریکا کو کروانا ہوتا ہے وہ چیف آف اسٹاف کے توسط سے کراتا ہے‘ حتیٰ کہ ایمل کاسی کے بطور مجرم حوالگی (extradition ) کو بھی اسی راستے سے حاصل کیا گیا تھا۔ خارجہ پالیسی کی تشکیل میں نہ دفترخارجہ کا کلیدی کردار ہے‘ نہ کابینہ کا‘ اور نہ پارلیمنٹ اور سیاسی قیادتوں کا___ ڈورصرف ایک مقام سے ہل رہی ہے جسے MWA (ملٹری وہایٹ ہائوس الاینس)ہی کہا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلے اس کی اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ قوم کے نمایندے‘ قومی مشاورت اور گہرے سوچ بچار کے بعد‘ محض سلامتی کے نام پر نہیں بلکہ ملک و قوم کے مقاصد‘ عزائم‘ مفادات اور دیرپا ضروریات اور تقاضوں کی روشنی میں پالیسی سازی کرسکیں۔
پالیسی سازی کے طریق کار کی اصلاح کے ساتھ پالیسی کے خدوخال کو بھی ازسرنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکا سے دوستی اور ربط و تعلق ایک حقیقی ضرورت ہے اور اس سے نہ صرف کسی کو انکار نہیں بلکہ اسے خارجہ سیاست میں ایک مقام حاصل ہے اور ہونا چاہیے۔ البتہ صرف امریکا کو محور مان کر بنانے والی پالیسی تباہی کا راستہ ہے جس سے جلدازجلد نجات ضروری ہے۔
ہم اُلٹے پائوں بھاگنے کے بجاے صرف سمت کی ایسی تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ جس میںبجاطور پر پالیسی کا محور پاکستان ہو۔ ہماری پہلی ضرورت ہے: ذہن‘ سمت اور پالیسی کے پورے پس منظر کی تبدیلی۔ خارجہ پالیسی کے جن بنیادی پالیسی امور پر گہرے غوروخوض‘ کھلے مباحثے اور تمام متاثر ہونے والے عناصر (stake holders) بشمول فوجی قیادت کی سرگرم شرکت سے‘ نئے فیصلوں کی ضرورت ہے‘ وہ یہ ہیں:
۱- دہشت گردی کے خلاف امریکا کی نام نہاد جنگ میں پاکستان کا کردار۔ آج تک پاکستان کی ساری خارجہ پالیسی اسی ایک محور پر گھوم رہی ہے جس چکر میں امریکا نے ہمیں ڈال دیا ہے‘ اس سے نکلنا ضروری ہے۔ حقیقی دہشت گردی کے ہم خلاف ہیں لیکن کیا چیز دہشت گردی ہے اور کیا نہیں ہے اور جن اسباب‘ عوامل اور حالات کی اصلاح کے بغیر سیاست میں قوت کے استعمال کو قابو نہیں کیاجاسکتا ‘ان کے بارے میں موثر حکمت عملی کا بنایا جانا اور اس پر عمل ضروری ہے ورنہ پوری دنیا تباہی کی دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے اور عام انسانوں میں عدم تحفظ کا احساس تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ امریکا کے اشارے پر رقصِ بسمل کرنے کے بجاے سوچ سمجھ کر قومی و ملّی مفادات کے حصول کے لیے نئی پالیسی وضع کرنا ضروری ہے۔
۲- پاکستان کی افغان پالیسی آج تارتار ہے۔ مقتدر طبقے نے دوستوں کو دشمن بنالیا ہے اور جو محاذ محفوظ تھے ان کو غیرمحفوظ کردیا ہے۔ جو قربانیاں پاکستان نے گذشتہ ۲۵سال میں دیں‘ وہ رایگاں جارہی ہیں اور ہاتھ میں ہزیمت اور اتہامات کے سواکچھ نہیں۔ افغان پالیسی پر مکمل نظرثانی کی ضرورت ہے اور اسے مکمل طور پر عدم مداخلت کی بنیاد پر مرتب ہونا چاہیے۔ آج بھارت‘ افغانستان میں ایک ’سخت پاکستان دشمن‘ کردار ادا کر رہا ہے اور امریکا بھارت کے اس کردار کی تحسین کر رہا ہے۔ اسلام آباد اور کابل الزامات کا تبادلہ کر رہے ہیں اور معصوم پاکستانی سرحد کے اِس پار اور اُس پار مارے جارہے ہیں۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ اس ناکام اور نامراد پالیسی کو ختم کیا جائے اور حالات کے مطابق نئی پالیسی بنائی جائے ۔
۳- بھارت کے بارے میں بھی پالیسی کی تشکیلِ نو ضروری ہے۔ بھارت امریکا گٹھ جوڑ اور اس علاقے میں اسرائیل کے ایک کارفرما قوت بن جانے کے بعد ہماری پالیسی کے پرانے خطوط بے کار ہوگئے ہیں۔ کشمیر کے معاملے میں جو قلابازیاں فوجی حکمرانوں نے کھائی ہیں‘ اس نے کشمیر کے عوام اور مزاحمتی تحریک کو مایوس کیا ہے۔ تاہم ابھی وقت ہے کہ سنبھل کر بھارت سے تعلقات اور مسئلہ کشمیر پر ایک جامع پالیسی وضع کی جائے اور فوری نتائج سے زیادہ اصل مقاصد اور اہداف کی روشنی میں وسطی مدت اور طویل مدت کی حکمت عملی تیار کی جائے تاکہ پوری قوم اس کی پشت پر ہو۔
۴- ایران کے بارے میں بھی پالیسی کو واضح کرنے اور پاک ایران اتحاد کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ایران پر امریکی حملہ پاکستان پر حملے کا پیش خیمہ ہی نہیں‘ پاکستان پر ایک بھرپور وار ہوگا۔ اس وقت اس کی پیش بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس محاذ پر بھی پیش اِقدامی (pro-active) پالیسی کی ضرورت ہے۔
۵- چین سے ہمارے تعلقات استوار رہے ہیں۔ اگر کوئی ہمارا اسٹرے ٹیجک شراکت دار ہے تو وہ چین ہی ہے۔ اس کے ساتھ پالیسی کو زیادہ موثرانداز میں مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح یورپ‘ روس‘ جاپان اور جنوبی امریکا کے ممالک سے روابط اور پالیسیوں میں ہم آہنگی ضروری ہے۔
۶- سب سے بڑھ کر مسلم ممالک کی تنظیم (OIC) کو متحرک و منظم کرنا اور اسے موثر بنانا ضروری ہے۔ اس کے لیے بہترین حکمت عملی وہ ہے جسے ۱۰سال پہلے ترکی کے اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر نجم الدین اربکان نے ڈی-۸ کے منصوبے کے تحت پیش کیا تھا۔ آٹھ مسلمان ملک عالمِ اسلام کی طاقت کے مراکز ہیں۔ ان کا منظم ہونا‘ مل کر سیاسی‘ تعلیمی‘ معاشی اور دفاعی حکمت عملی تیار کرنا سب کی قوت کا ذریعہ ہوگا اور وسیع تر اسلامی اتحاد اور دنیا میں امن کا ذریعہ بنے گا۔
۷- توانائی اور پانی دو بڑے مسئلے ہیں جن پر مستقبل کی ترقی اور ملک کی آزادی کا انحصار ہے۔ ان کے بارے میں دُور رس پالیسی بنانا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں اُمت مسلمہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ دنیا کے توانائی کے وسائل کا ۸۰ فی صد مسلم دنیا کے پاس ہے۔ صحیح توانائی پالیسی سے ہم عالمی سیاست میں بڑا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
یہ سب کام اسی وقت ممکن ہیں جب پاکستان کا اندرونی نظام حکمرانی درست ہو۔ اپنے گھر کی اصلاح اور تنظیم نو کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں۔ ملک میں دستور کے تحت حقیقی جمہوری نظام کا قیام ازبس ضروری ہے۔ فوج کی بالادستی کے ذریعے جو نظام‘ پاکستان میں مسلط کیا گیا ہے‘ وہ ملک کے استحکام‘ فوج کی قوت اور عوام کی فلاح و بہبود کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ آج وزیرستان اور بلوچستان جس آگ میں جل رہے ہیں‘ اسے بجھائے بغیر اور سیاسی مسائل کو سیاسی حکمتِ عملی سے حل کیے بغیر‘ کوئی خیرحاصل نہیں کیاجاسکتا۔ اس لیے ملکی نظام کی اصلاح خود خارجہ سیاست کو درست کرنے کے لیے ضروری ہے۔
اسی طرح معیشت کا استحکام اور ترقی‘ تعلیم و تحقیق کا فروغ‘ جدید ٹکنالوجی کا حصول اور اسے مزید ترقی دینے کی مساعی اندرونی اصلاح کا اہم حصہ ہیں۔ یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب ایک مخصوص ٹولے کی بالادستی کو ختم کرکے ملک کے تمام دستوری اداروں کو متحرک کرنے‘ استحکام بخشنے اور ان کے ذریعے ملک کی ترقی کی راہیں ہموار کی جائیں۔
آج اگر پاکستانی قوم اور اس کی موجودہ قیادت صدر جارج بش کے دورے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ہزیمت اور بدنامی سے صحیح سبق سیکھ لے اور اپنا قبلہ درست کرلے‘ تو پھر یہ چرکا کوئی زخم نہیں چھوڑے گا بلکہ اصلاح اور بلندی کی طرف سفر کے لیے تازیانہ بن جائے گا۔ ایسے تازیانے قوموں کی زندگی میں بڑا تاریخی کردار ادا کرتے اور شکست کے مقابلے میں فتح کے دروازے کھول دیتے ہیں۔
کیا پاکستانی قوم اور قیادت اس شکست کو فتح میں تبدیل کرنے کے لیے تیار ہے؟