اشارات


بسم اللہ الرحمن الرحیم

جس طرح جنگ میں دشمن کے مقابلے کے لیے صحیح حکمت عملی کے تعین کے لیے ضروری ہے کہ نقشۂ جنگ اور محرکاتِ جنگ کو ٹھیک ٹھیک سمجھا جائے‘ بالکل اسی طرح فکری اور تہذیبی جنگ میں کامیابی کا انحصار بھی نقشۂ جنگ اور محرکاتِ جنگ دونوں کے صحیح ادراک پر ہے۔ آج ڈنمارک کے اخبار یولاند پوسٹن (Jyllands Posten) کے ۱۲ کارٹونوں کے ذریعے مغرب کے سورمائوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک‘ اسلام اور مسلمانوں کو تمسخر‘ تضحیک اور اہانت کا ہدف بناکر اور دہشت گردی کا منبع اور علامت قرار دے کر جس عالمی تہذیبی جنگ کا   اعلان کیا ہے اس کی اصل نوعیت کو سمجھنا اور اس کے مقابلے کے لیے صحیح حکمت عملی بنانا فی الوقت دنیاے اسلام کا سب سے اہم مسئلہ بن گیا ہے۔

فطری طور پر مسلم عوام نے اپنے عالم گیر ردّعمل سے یہ ظاہر کردیا ہے کہ اُمت صرف مٹی کا ڈھیر نہیں ہے۔ اس میں ایمان اور غیرت کی وہ چنگاری بھی موجود ہے جو طاقت کے زعم میں بدمست اربابِ اقتدارکے متکبرانہ اقدامات کو چیلنج کرنے کا داعیہ رکھتی ہے اور جس میں ایسا شعلہ جوالہ بننے کی استعداد بھی ہے جو بڑے بڑے محل نشینوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

اُمت مسلمہ کا ردّعمل فوری بھی ہے اور فطری بھی‘ لیکن مسئلہ محض وقتی ردّعمل کا نہیں بلکہ مقابلے کی مکمل اور مربوط حکمت عملی اور ہرسطح پر اس کے مطابق پوری تیاری کے ساتھ مسلسل جدوجہد کا ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ان شیطانی کارٹونوں کے ذریعے اُمت مسلمہ کو جس تہذیبی کروسیڈ کا ہدف بنایا گیا ہے‘ اس کے اصل نقشے اور اس جنگ کے اسلوب‘ اہداف اور تمام محاذوں کو سمجھا جائے اور مقابلے کی تیاری کی جائے۔ جہاں فوری ردّعمل ضروری تھا‘ وہیں دوسرے تمام پہلوئوں کو نظرانداز کرکے محض جذباتی اظہارِ نفرت اور غیظ و غضب سے اس معرکے کو سر نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت گہرائی میں جاکر حالات کا صحیح ادراک کرے اور مقابلے کی حکمت عملی ان تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر طے کرے۔


مغرب کی استعماری قوتوں کا یہ خیال تھا کہ دوسری جنگ کے بعد جو عالمی نظام قائم ہوگا ‘وہ صرف امریکا اور یورپی اقوام کے سیاسی غلبے سے ہی عبارت نہیں ہوگا بلکہ پوری دنیا میں مغربی تہذیب‘ فلسفے‘ اقدار‘ معیشت اور اصول حکمرانی کا دور دورہ ہوگا۔ ان کا خیال تھا کہ مذہب کا دور اب ختم ہوچکا ہے اور لادینی تہذیب کو مادی اور عسکری غلبے کے ساتھ ساتھ فکری بالادستی بھی حاصل ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں وہ پوری انسانیت کو اپنے رنگ میں رنگ لے گی۔ امریکا اور روس کی سردجنگ ایک ہی تہذیب کے دو مرکزوں کی جنگ تھی جو بالآخر امریکا کی بالادستی پر منتج ہوئی اور جلد ہی روس میں بھی لبرلزم اور جمہوریت کی وہی آوازیں بلند ہونے لگیں جو امریکا اور نام نہاد آزاد دنیا کی شناخت تھیں۔ اس زمانے میں ڈیڑھ سو سے زیادہ نئے ملک دنیا کے سیاسی نقشے پر اُبھرے لیکن بظاہر ان کے پاس نہ تو کوئی اپنا نظریہ تھا اور نہ سیاسی‘ معاشی اور عسکری اعتبار سے وہ کوئی وزن رکھتے تھے اس لیے روس کے اشتراکی ڈھانچے کے تتر بتر ہوتے ہی صرف ایک نظریے اور ایک تہذیب کے عالمی غلبے کے خواب دیکھے جانے لگے___ لیکن اس میں ایک سدّراہ کی بھی نشان دہی کی جانے لگی یعنی اسلام، ’سیاسی اسلام‘ اور اُمت مسلمہ جو اپنا تہذیبی تشخص رکھے اور اس تشخص کے اظہار اور استحکام کے لیے اجتماعی نظام‘ قانون‘ معیشت‘ معاشرت‘ تمدن اور سیاسی قوت کی طلب گار ہو۔ یہی وجہ ہے کہ روس کے عالمی قوت کی حیثیت سے میدان سے باہر ہوتے ہی اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا آغاز ہوگیا۔

مغربی استعمار کے خلاف جنگ‘ بظاہر آزادی اور قوم پرستی کے نام پر ہورہی تھی اور حق خودارادیت اس کا محور تھا مگر اسلامی دنیا میں اس کی پشت پر جو سب سے قومی محرک تھا وہ اسلام اور اس کا دیا ہوا تصورِحیات تھا۔ تحریک پاکستان میں یہ پہلو زیادہ واضح اور کھلا کھلا تھا‘ جب کہ دوسرے ممالک میں اگرچہ یہ مؤثر طور پر موجود تھا۔ اصحابِ نظر اور تاریخ پر گہری نگاہ رکھنے والے بخوبی اس سے واقف تھے مگر اظہار اور اعلان کے اعتبار سے ہر جگہ اتنا نمایاں نہیں تھا۔ ولفریڈ اسمتھ اس حقیقت کا کھلا اعتراف کرتا ہے کہ:

جوں جوں آزادی کی تحریک عوام میں مقبول ہوتی چلی گئی ‘ اس کی پس پشت قوت کے طور پر مذہب سامنے آتا گیا۔ اگرچہ تحریک کے نظریات‘ ہیئت اور قائدین زیادہ تر مغربی انداز پر قوم پرستانہ خیالات کے حامل تھے‘ تاہم عام وابستگان اور ان کے اعمال اور احساسات میں نمایاں طور پر اسلامی رنگ کا غلبہ تھا۔ مسلم عوام نے قومیت کا کوئی ایسا تصور قبول نہیں کیا جو اسلام کے بندھنوں سے ماورا کسی برادری کے ساتھ وفاداری یا کسی  اور تعلق پر مبنی ہو۔ (Islam in Modern History ‘ پرنسٹن ۱۹۵۷ئ‘         ص ۷۵-۷۷)

۱۹۷۹ء کے ایران کے اسلامی انقلاب‘ ۱۹۷۹ء تا۱۹۸۹ء کے جہاد افغانستان اور ۱۹۷۳ء کے بعد مسلم ممالک میں اسلامی تحریکات اور اتحاد اسلامی کی اجتماعی مساعی نے جہاں اُمت مسلمہ میں اپنے تشخص کی حفاظت اور اپنی اقدار اور تصورات کے مطابق اجتماعی زندگی کی نقشہ بندی کا احساس پیدا کیا‘ وہیں مغربی اقوام کے لیے یہ احساس اور یہ کوشش خطرے کی گھنٹی بن گئی اور اسلام کو مغربی اقوام کے سیاسی مقاصد کے حصول کی راہ میں ایک رکاوٹ اور خطرہ بناکر پیش کیا جانے لگا۔ اس سلسلے میں صہیونی اور امریکی اہلِ قلم نے کلیدی کردار ادا کیا جن میں برنارڈ لیوس‘ سیمویل ہن ٹنگٹن‘ ڈینیل پائپس‘ ہنری کسنجر اور فرانسس فوکویاما خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ ناین الیون کے بعد اسلام کوجس بے دردی سے دہشت گردی کا مذہب اور ہرمسلمان کو ایک بالقوہ دہشت گرد (potential terrorist) کے روپ میں پیش کیا جارہا ہے اس کے فکری ڈانڈے تہذیبی جنگ کے متذکرہ بالا اوّلین قائدین کے رشحاتِ قلم سے جاملتے ہیں۔ صدربش اور ان کے نیوکونز (neo-cons) کا پورا طائفہ مختلف انداز میں کبھی بالکل کھلے طور پر اور کبھی منافقانہ انداز میں اور شاطرانہ اسلوب میں یہی بات کہہ رہا ہے۔ صدربش کے اس سال کے خطاب بہ عنوان State of the Nation (جنوری ۲۰۰۶ئ) میں کھل کر کہا گیا ہے کہ ہمارا اصل مقابلہ ’سیاسی اسلام‘ (political Islam)اور اسلامی بنیاد پرستی (Islamic fundamentalism) سے ہے۔ اور یہی وہ مرکزی نکتہ ہے جو ہن ٹنگٹن نے پوری چابک دستی کے ساتھ مغرب کے پالیسی سازوں کے ذہن میں بٹھانے کی کوشش کی ہے‘ یعنی:

مغرب کا اصل مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی نہیں‘ خود اسلام ہے۔ یہ ایک مخصوص تہذیب ہے جس کے وابستگان اپنے تمدن کی برتری کے قائل ہیں اور اور اقتدار و اختیار سے محرومی کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اسلام کے لیے مسئلہ سی آئی اے یا امریکا کا محکمہ دفاع نہیں‘ مغرب ہے۔ یہ ایک مختلف (اور متصادم) تہذیب ہے جس کے داعی اپنی تہذیب کی آفاقیت کے قائل ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ ان کی (بظاہر زوال پذیر) مگر بالاتر طاقت تقاضا کرتی ہے کہ اس تمدن کو پوری دنیا میں پھیلا دیا جائے۔ یہ وہ بنیادی عناصر ہیں جو اسلام اور مغرب کے درمیان تنازعے میں جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔ (The Clash of Civilizations ،سیمویل پی ہن ٹنگٹن)

بات بہت واضح ہے۔ تصادم کی وجہ دو تہذیبوں کا اختلاف نہیں۔ مغرب کا یہ عزم ہے کہ اس کی تہذیب بالاتر ہے اور اسے دنیا میں بالادست ہونا چاہیے۔ جو چیز کش مکش اور تنازعے کو   جنم دے رہی ہے اور پروان چڑھا رہی ہے وہ یہ تصور ہے کہ جو طاقت مغرب کو حاصل ہے‘ اس کا استعمال مغربی تہذیب کو ساری دنیا پر مسلط کرنے کے لیے ہونا چاہیے اور یہ گویا کہ ایک واجب   اور فرض ہے جسے انجام دینا مغرب کی ذمہ داری ہے۔ مغرب کی حکمت عملی میں دو تہذیبوں کی بقاے باہمی اور تعاون اور ایک دوسرے کے احترام کا کوئی مقام نہیں‘ اور یہی وہ چیز ہے جو عالمی امن کے لیے خطرے اور جنگ و جدال کی راہ ہموار کرنے کا سبب ہے۔ قوت کے عدمِ توازن کی وجہ سے کمزور ممالک اور اقوام وہ راستے اختیار کرنے پر مجبور ہوتی ہیں جو برابربرابر کی جنگ سے مختلف ہیں۔

یہ ہے وہ فکری‘ تہذیبی اور عسکری نقشۂ جنگ جس میں:

  • ۳۰ ستمبر ۲۰۰۵ء کو ڈنمارک کے اخبار یولاند پوسٹن نے ۱۲ شیطانی کارٹون شائع کیے۔
  •  اس پر مسلم دنیا کا ردّعمل نرم رہا۔
  • آگ کو تیز کرنے اور جلتی پر تیل ڈال کر‘ اُسے مزید بھڑکانے کے لیے جنوری ۲۰۰۶ء میں ۲۲ممالک کے ۷۵ اخبارات و رسائل میں انھیں شائع کیا گیا۔
  •  ۲۰۰ ریڈیو اور ٹی وی چینلوں پر اُنھیں دوبارہ بلکہ سہ بارہ نشرکیا گیا۔ اور یہ سب آزادیِ اظہار‘ آزادیِ صحافت اور سیکولر جمہوریت کے نام پر کیا گیا۔
  •  ہالینڈ کے اخبارات نے لکھا کہ ہم یہ کارٹون ہر ہفتے شائع کیا کریں گے تاکہ مسلمان ان کے عادی ہوجائیں۔
  •  اٹلی کے ایک وزیر نے ان کی ٹی شرٹ خود استعمال کی اور اسے ایک فیشن کے طور پر فروغ دینے کے پروگرام کا اعلان کیا۔

یہ محض چند کارٹون نہیں بلکہ اِن کی اشاعت ایک وسیع تر مہم کا حصہ ہے‘ پوری اسلامی دنیا کے عقیدے اور تہذیب کے خلاف برملا اعلانِ جنگ ہے اور خودپسندی اور تکبر کے مقام بلند سے استہزا‘ تذلیل اور اہانت کے ہتھیاروں سے اُمت مسلمہ کی غیرت اور عزت پر حملہ ہے۔ اگر اس کا بروقت اور مؤثر جواب نہ دیا جاتا تو اس سے بڑا سانحہ اُمت کی تاریخ میں نہ ہوتا۔ مسلم عوام نے اپنی سیاسی کمزوری کے باوجود‘ اپنی غیرتِ ایمانی کا اظہار کر کے تاریخ کا ایک نیا باب رقم کیا ہے اور وقت کے فرعونوں‘ جابر حکمرانوں اور دوسروں کی عزت سے کھیلنے والوں کو چیلنج کیا ہے اور اُمت اپنے دین‘ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور ناموس کا دفاع اور اپنی تہذیب اور اقدار کے تحفظ کے لیے پوری سرفروشی کے ساتھ میدان میں اتر آئی ہے۔ یہ جنگ طویل ہے اور فیصلہ کن بھی___ فوری احتجاج‘ جلسے اور جلوس‘ سفارتوں کا انقطاع‘ سیاسی تنائو‘ معاشی بائیکاٹ اس کا صرف پہلا مرحلہ ہیں۔ بلاشبہہ یہ ناگزیر تھے اور دشمن کے اعلانِ جنگ کے بعد دعوت مبارزت قبول کرنے کا اوّلیں اقدام___ لیکن اصل جنگ فکری‘ تہذیبی‘ معاشی اور سیاسی ہے اور بہت طویل ہے۔ اس لیے ہر سطح پر اس میں شرکت‘ مقابلے کے لیے مناسب تیاری‘ اور صحیح حکمت عملی کے ذریعے بازی سر کرنے کی نقشہ بندی اُمت مسلمہ کی اوّلیں ضرورت ہے۔ ان تمام مراحل اور ان کے لیے وسائل اور ضروری تیاری (mobilization) کے بغیر اس جنگ کا جیتنا ممکن نہیں۔ اللہ پر بھروسا ہماری قوت ہے‘ اصل سرچشمہ ہے لیکن یہ بھی اللہ ہی کا حکم ہے کہ مقابلے کے لیے ایسی قوت بھی حاصل کرو جو مدمقابل پر ہیبت طاری کردے۔

وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ لَا تَعْلَمُوْنَھُمْ - (الانفال ۸:۶۰)

اور ان کے لیے جس حد تک کرسکو فوج اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو جس سے  اللہ کے اور تمھارے ان دشمنوں پر تمھاری ہیبت طاری رہے اور ان کے علاوہ کچھ دوسروں پر بھی جنھیں تم نہیں جانتے ہو۔


یہ ۱۲ شیطانی کارٹون اتفاقی طور پر شائع نہیں ہوگئے۔ ان کا خاص پس منظر ہے۔ یولاند پوسٹن کے ثقافتی امور کے ایڈیٹر فلیمنگ روز (Flemming Rose)نے باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت اس فکری اور تہذیبی جنگ کا آغاز کیا۔ اس اقدام سے ایک سال پہلے وہ امریکا گیا اور وہاں اسلام دشمنی کی مہم چلانے والوں کے سرخیل ڈینیل پائپس سے خصوصی صلاح و مشورہ ہوا۔ ڈینیل پائپس پچھلے ۴۰ سال سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف قلمی جنگ کر رہا ہے۔ دسیوں کتابوں اور سیکڑوں مضامین کا مصنف ہے۔ صہیونی تحریک میں اونچا مقام رکھتا ہے اور فلسطینیوں کے بارے میں کھلے عام کہتاہے کہ ان کو فوجی قوت سے نیست و نابود کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں۔ صدربش نے اسے ایک ایسے تھنک ٹینک کا مشیر بنایا تھا جس کے مصارف سرکاری خزانے سے برداشت کیے جاتے ہیں۔ اس مشاورت کے نتیجے میں فلیمنگ روز نے کارٹون بنانے والے ۴۰افراد کو دعوت دی اور کہا کہ تم سب موضوعات پر کارٹون بناتے ہو اور شخصیات کا تمسخر بھی اُڑاتے ہو لیکن اسلام کو تم نے کبھی تختۂ مشق نہیں بنایا۔ تو اب اسلام کا چہرہ دکھانے کے لیے اپنے برش حرکت میں لائو۔ ان ۴۰میں سے ۱۲ افراد کے کارٹون ۳۰ستمبر ۲۰۰۵ء کی اشاعت میں The Painting of a Portrait of Islam's Prophet (پیغمبراسلام کی تصویر کا خاکہ) کے عنوان سے شائع کیے گئے اور اس دعویٰ سے کیے گئے کہ اس طرح مسلمانوں کی ’تنگ نظری‘ کا علاج ہوسکے گا۔ ان کارٹونوں کو ہر کسی نے ناخوش گوار‘ اشتعال انگیز اور توہین آمیز قراردیا۔ واشنگٹن پوسٹ نے انھیں a calculated insult (ایک نپی تلی توہین) قرار دیا مگر عالمِ اسلام کے تمام احتجاج کے باوجود ایڈیٹر‘ کارٹونسٹ‘ مغربی میڈیا کی اکثریت اوروہاں کی سیاسی قیادت نے آزادیِ صحافت‘ آزادیِ اظہار راے اور سیکولر جمہوریت کا سہارا لے کر ان کا دفاع کیا اور اب تک ان کی اشاعت کو غلطی تسلیم کرکے معذرت کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ مصلحت کے تحت جو بات کہی جارہی ہے وہ صرف یہ ہے کہ ہم نے تو جو کیا‘ وہ درست کیا تھا۔ افسوس صرف اس پر ہے کہ اس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ حالانکہ اصل مقصد ہی اسلام‘ اسلام کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو دہشت گرد دکھانا اور اُنھیں بے ہودہ جنسی مذاق کا نشانہ بنانا تھا۔ اب تک فلیمنگ روز کا دعویٰ ہے کہ I do not regret having commissioned these cartoons. (مجھے یہ کارٹون بنوانے پر کوئی افسوس نہیں ہے)۔

اسی طرح اصل کارٹونسٹ کرٹ ویسٹرگارڈ (Kurt Westergaard) کا بیان لندن کے اخبارات میں ۱۸ فروری کو شائع ہوا ہے۔ ہیرالڈ نامی رسالے کے استفسار پراس نے صاف کہا کہ کارٹونوں کا اصل محرک یہ دکھانا ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام [صلی اللہ علیہ وسلم] نعوذ باللہ دہشت گردی کی علامت ہیں۔

جب پوچھاگیا کہ کیا اسے ان کارٹونوں کی اشاعت پر افسوس ہے؟ اس نے صاف جواب دیا: نہیں۔ اس نے کہا کہ ان خاکوں کے پیچھے ایک جذبہ کارفرما تھا: دہشت گردی جسے  اسلام سے روحانی اسلحہ فراہم ہوتا ہے۔ (اے ایف پی رپورٹ‘ ڈان، ۱۹ فروری ۲۰۰۶ئ)

ڈنمارک کے وزیراعظم نے پہلے ۱۱ مسلمان سفرا سے ملنے سے انکار کیا۔ جب ۲۷ مسلمان تنظیموں کے نمایندے ۱۷ہزار مسلمانوں کے دستخطوں سے ان کے خلاف احتجاج اس کو دینے گئے تو لینے سے انکار کردیا گیا اور اب سارے عالمی احتجاج کے باوجود ان کا موقف یہ ہے کہ یہ سب ایک جمہوری ملک میں آزادیِ اظہار کا مسئلہ ہے اور اصرار کے باوجود انھوں نے کھلے طور اسے غلطی ماننے اور صاف الفاظ میں مسلمانوں سے معافی مانگنے سے احتراز کیا ہے۔ الاھرام کے ایڈیٹر نے طرح طرح سے سوالات کیے مگر ڈنمارک کے وزیراعظم ٹس سے مس نہ ہوئے اور یہی کہتے رہے کہ: جو کچھ بھی شائع ہوا ہے ‘ اس کے لیے ڈنمارک کے عوام اور حکومت کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔(ہفت روزہ الاھرام، ۱۲ فروری ۲۰۰۶ئ)

نہ صرف ڈنمارک کے وزیراعظم اور وزیرخارجہ کا رویہ تکبر اور تعصب سے بھرا ہوا ہے بلکہ مسلمانوں کو طیش دلانے اور ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے ناروے‘ جرمنی‘ فرانس‘ اٹلی‘ اسپین اور خود امریکا کے چند اخبارات نے ان کارٹونوں کو شائع کیا۔ یورپین یونین کے صدر نے مسلمانوں سے ہمدردی کے اظہار کے ساتھ آزادیِ صحافت کے نام پر ان شیطانی کارٹونوں کی اشاعت کی مذمت سے انکار کیا بلکہ خود صدربش اور ٹونی بلیر نے اپنے خبث باطن کے اظہار کے لیے ڈنمارک کے وزیراعظم کو ٹیلی فون کر کے اپنے تعاون کا یقین دلایا جس نے ڈنمارک کے وزیراعظم کو یہ کہنے کا موقع دیا کہ Islamic World must realise we are not isolated (اسلامی دنیا کو محسوس کرنا چاہیے کہ ہم تنہا نہیں ہیں۔ انٹرویو‘ ڈیلی ٹائمز‘ ۱۴ فروری ۲۰۰۶ئ)۔

سارے حالات اورحقائق سے ظاہر ہے کہ یہ محض ڈنمارک کے ایک اخبار کی شرارت نہیں بلکہ ایک عالمی مہم ہے جس میں ڈنمارک کو ذریعہ بنایاگیا ہے اور سب کا ہدف اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانا اور اسلام کی سب سے مقدس شخصیت اور اللہ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور ان کو نعوذ باللہ دہشت گرد کے روپ میں دکھاکر مسلمانوں کو دہشت گردی کا منبع قرار دینا ہے۔ اسی طرح جہاد کو‘ جو انصاف کے قیام کی ضمانت‘ آزادی کا محافظ اور ظلم اور بیرونی قبضے کے خلاف مزاحمت کا ذریعہ ہے‘ دہشت گردی کا نام دے کر مسلمانوں کو تہذیبی ہی نہیں سیاسی اور معاشی غلامی کے جال میں پھنسانا ہے___ الحمدللہ! مسلمان اس شیطانی کھیل کو سمجھتے ہیں اور مسلمان حکمران خواہ کتنے بھی غافل ہوں بلکہ ان میں سے کچھ سامراجی قوتوں کے آلہ کار ہی کیوں نہ ہوں‘ لیکن مسلمان عوام اپنے دین‘ اپنے ایمان‘ اپنے نبیؐ کی عصمت اور عزت اور اپنے نظریۂ حیات کی بنیادی اقدار کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے کو تیار ہیں اور کوئی رکاوٹ اس جہاد میں ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔ دنیا کے ہر خطے سے احتجاج اُمت مسلمہ کی زندگی کی علامت ہے اور باطل کی قوتوں کے لیے اس میں واضح پیغام ہے کہ مسلمانوں کو نرم نوالا نہ سمجھا جائے۔


اس احتجاج کے نتیجے میں پہلی فتح مسلمانوں کو یہ حاصل ہوئی ہے کہ اب سب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کارٹون نامناسب تھے‘ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والے تھے‘ اور بدذوقی ہی نہیں بدکلامی‘ تضحیک اور عزت پر حملے کے مترادف تھے___ لیکن اس اعتراف کے باوجود       دو دعوے پورے تسلسل سے اور ڈھٹائی کے ساتھ کیے جارہے ہیں اور ایک جوابی اعتراض کی شکل میں مزید داغا جا رہا ہے جن کا جائزہ ضروری ہے۔

پہلا دعویٰ یہ ہے کہ مغربی معاشرے کی بنیاد اظہار راے کی آزادی یعنی آزادیِ صحافت پر ہے اور اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔ دوسرے الفاظ میں گو ان شیطانی خاکوں سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور ایسا عالم گیر احتجاج رونما ہوا ہے جس میں بیسیوں افراد شہید ہوگئے ہیں اور اربوں کا نقصان ہوا ہے لیکن پھر بھی مغربی ممالک اور حکومتوں کے لیے اظہار راے کی تحدید ممکن نہیں اور خوداحتسابی (self-censorship) کے علاوہ کوئی راستہ ایسے شیطانی حملوںکو روکنے کا نہیں۔ اظہار راے اور آزادیِ صحافت پر پابندی مغربی معاشرے و تہذیب کی بنیادی اقدار کے منافی ہوگی۔

دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ مغربی تہذیب کی بنیاد سیکولرزم پر ہے اور مسلم معاشرہ مذہبی اقدار پر ایمان رکھتا ہے۔ سیکولرزم میں مذہب اور مذہبی شخصیات کا مذاق اڑانا ایک معمول ہے‘  جب کہ مسلمان اس کے عادی نہیں اور اسی وجہ سے یہ تصادم کی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔ یہ دو رویوں (attitudes) کا معاملہ ہے اور سوسائٹی کے بارے میں دو تصورات کا اختلاف ہے___ اور دعویٰ یہ ہے کہ سیکولرزم میں ایسا ہی ہوتا ہے اور ہوگا اور مسلمانوں کو اگر سیکولر معاشرے میں رہنا ہے تو اس کو گوارا کرنا ہوگا۔

تیسری بات کا تعلق احتجاج کی اس نوعیت سے ہے جو چند ملکوں میں رونما ہوئی ہے اور اس میں تشدد کا عنصر آگیا جس سے بہت سی جانوں اور مال کاضیاع ہوا ہے۔ نیز مغربی ممالک کے نقطۂ نظر سے معاشی بائیکاٹ بھی احتجاج کی ایک ناقابلِ قبول صورت ہے اور یورپی یونین نے اس صورتِ حال میں عالمی تنظیم تجارت (WTO)  سے دادرسی تک کی دھمکی دی ہے۔

ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں امور کا بے لاگ جائزہ لیا جائے اور مغرب کے   دانش وروں‘ اہل قلم‘ صحافیوں اور سیاسی قائدین کے ان بیانات کا علمی تعاقب کیا جائے۔

آزادیِ اظہار راے اور آزادیِ صحافت پر مغربی اقوام اپنی اجارہ داری کا کیسا ہی دعویٰ کریں‘ حقیقت یہ ہے کہ ان کا تعلق ہمیشہ سے انسانی معاشرے اور تہذیب سے رہا ہے اور یہ ان کی ایجاد نہیں۔ آج بلاشبہہ مغربی ممالک میں ان اقدار کا بالعموم اہتمام و احترام ہو رہا ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ انھی ممالک میں ان آزادیوں کا خون نہ کیا جا رہا ہو۔ دنیا کی تمام تہذیبوں میں اپنے اپنے زمانے میں آزادیِ اظہار کا ایک مرکزی مقام رہا ہے گو اس کے آداب اور اظہار کے طریقوں میں فرق رہا ہے۔اسلام نے اوّل دن سے آزادیِ اظہار کو ایک بنیادی انسانی ضرورت اور قدر کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزادی دے کر پیدا کیا ہے اور وہ اس آزادی کو اس حد تک بھی لے جاسکتا ہے کہ خود اپنے خالق کا انکار کر دے۔ بلاشبہہ اس انکارکے نتائج اس کو بھگتنے پڑیں گے مگر انکار کا حق اسے دیا گیا ہے۔ مغرب کو زعم ہے کہ روسو نے یہ کہا تھا کہ Man is born free, but is everywhere in chains.(انسان آزاد پیدا ہوا‘ لیکن ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے)۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ آزادی کا تصور وحی الٰہی پر مبنی ہے اور قرآن اس کا جامع بیان ہے۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ حجۃ الوداع (۹ہجری) تاریخ کا پہلا چارٹر ہے اور سیدنا حضرت عمررضی اللہ عنہ نے روسو سے بارہ سو سال پہلے فرمایا تھا کہ تم نے انسانوں کو غلام کب سے بنا لیا؟ ان کی مائوں نے انھیں آزاد جنا تھا۔

قولوا قولاً سدیدا کا حکم دے کر قرآن نے آزادیِ اظہار کا دستوری حق تمام انسانوں کو دیا۔ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کے اصول میں مذہبی رواداری اور حقیقی تکثیریت (genuine plurality) کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کو تسلیم کیا گیا۔ امرھم شورٰی بینھم کے ذریعے پورے اجتماعی نظام کو آزادی‘ مشاورت اور حقیقی جمہوریت سے روشناس کرایا گیا۔ حکمرانوں سے اختلاف کے حق کو فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللّٰہ ورسولہ کے فرمان کے ذریعے قانون کا مقام دے دیاگیا۔ آزادیِ اظہار پر مغرب کی اجارہ داری کا دعویٰ تاریخ کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔

لیکن آزادی کے معنی مادر پدر آزادی نہیں‘ آزادی تو صرف اس وقت ہی ممکن ہوسکتی ہے جب اس کی حدود کا واضح تعین ہو اور ایک کی آزادی دوسروں کے لیے دست درازی اور غلامی کا طوق نہ بن جائے۔ جرمن مفکر ایمانویل کانٹ (Immanul Kant)نے بڑی پتے کی بات کہی ہے جب اس نے کہا کہ:

I am free to move my hand but the freedom of my hand ends where your nose begins.

میں اپنے ہاتھ کو حرکت دینے میں آزاد ہوں‘ لیکن جہاں سے تمھاری ناک شروع ہوتی ہے‘ میرے ہاتھ کی آزادی ختم ہوجاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آزادی اور انارکی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ آزادی اگر حدود سے آزاد ہوجائے تو پھر انارکی بن جاتی ہے اور دوسروں کے حقوق پامال ہوتے ہیں۔ آزادی اور   ذمہ داری اور آزادی اور حدود کی پاس داری لازم و ملزوم ہیں۔ آزادیِ اظہار کے نام پر نہ تو دوسروں کی آزادی اور حقوق کو پامال کیا جاسکتا ہے اور نہ آزادیِ اظہار کو دوسروں کی عزت سے کھیلنے اور ان کے کردار کو مجروح کرنے کا ذریعہ بننے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نظام میں آزادی کو قانونی‘ اخلاقی اور ملکی سلامتی کی حدود میں پابند کیا جاتاہے۔ جان‘ مال‘ عزت و آبرو کی حفاظت کے فریم ورک ہی میں آزادی کارفرما ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی سلامتی‘ معاشرے کی بنیادی اقدار کا تحفظ اور شخصی عزت و عفت کا احترام ہر نظام قانون کا حصہ ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر آف ہیومن رائٹس بھی آزادی اور حقوق کو ملکی قانون اور معاشرے کی اقدار سے غیرمنسلک (delink) نہیں کرتا۔

آزادیِ اظہار کا حق غیرمحدود نہیں ہے۔ عالمی ضابطہ براے شہری اور سیاسی حقوق (International Convention on Civil and Political Rights - ICCPR)  اس آزادی کو صاف الفاظ میں تین چیزوں سے مشروط کرتا ہے‘ یعنی امن عامہ‘ صحت اور اخلاق کو قائم رکھنا (maintenance of public order, health and morals) ۔اس کے نفاذ کے لیے ہر ملک اپنا قانون بناتا ہے لیکن عالمی سطح پر بھی کچھ اہم ضوابط (conventions)   ہیں اور دنیا کے بیش تر ممالک نے ان کی توثیق کی ہے اور وہ بین الاقوامی قانون کا حصہ ہیں۔   اس سلسلے میں ایک عالمی ضابطہ نسلی امتیاز کی تمام شکلوں کے خاتمے کے لیے (International Convention on Elimination of All Forms of Racial Discrimination -ICERD ) ہے جس کے ذریعے نسلی تفاخر‘ نفرت اور نسلی تفریق کے فروغ کو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور اس قانون کے تحت لازم کیا گیا ہے کہ تمام ممالک ان لوگوں کوسزا دیں جو نسلی اور گروہی منافرت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میںعالمی سطح پر نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے ایک کمیٹی (The Committee on the Elimination of Racial Discrimination -CERD) ہے جو متذکرہ بالا قانون (ICERD) کے نفاذ کی نگرانی کرتی ہے۔ اس کمیٹی کی عمومی ہدایات  (xv of CERD) یہ ہیں کہ:

ملکی جماعتوں کے لیے لازمی ہے کہ نسلی تفاخر یا نسلی منافرت پر اُکسانے کو قابلِ تعزیر جرم قرار دیں۔ کسی بھی قسم کی قومی‘ نسلی یا مذہبی منافرت کی وکالت جسے نسلی امتیاز پر اُبھارنا قرار دیا جاسکے‘ قانوناً ممنوع ہوگی۔ اس طرح کی تعزیر اظہار راے کی آزادی سے مطابقت رکھتی ہے۔ ان فرائض کو ادا کرنے کے لیے سرکاری پارٹیاں نہ صرف مناسب قانون سازی کریں گی بلکہ اس کے نفاذ کو یقینی بنائیں گی۔ کسی شہری کا آزادی اظہارراے کا یہ حق خصوصی ذمہ داری اور فرائض رکھتا ہے۔ (عمومی سفارش نمبر۱۵‘ سی ای آر ڈی)

اسی طرح انسانی حقوق کی کمیٹی (Human Rights Committee -HRC) ہے جس نے درجنوں رپورٹیں تیار کی ہیں اور ان میں وہ رپورٹ بھی موجود ہے جس میں آزادی کے اظہار کی حدود کا واضح تعین کردیا گیا ہے اس لیے کہ اوپر مذکورہ کنونشن کی دفعہ (۲) ۲۰ میں مرقوم ہے کہ: آزادی اظہار راے کے حق کا استعمال اپنے ساتھ خصوصی فرائض اور ذمہ داریاں رکھتا ہے۔ (آرٹیکل ۲۰ [۲۵])

ایک مشہور عدالتی فیصلے Faurisson vs France میں HRC کا فیصلہ ہے کہ

ایسے بیانات پر‘ جو یہودیت دشمن جذبات کو اُبھاریں یا انھیں تقویت دیں‘ پابندیوں کی اجازت ہوگی تاکہ یہودی آبادیوں کے مذہبی منافرت سے تحفظ کے حق کو بالادست بنایا جاسکے۔

اسی طرح انسانی حقوق کے یورپی کنونشن کا فیصلہ ہے کہ:

اظہار راے کی آزادی کے اس حق کا اطلاق ان معلومات اور نظریات پر بھی ہوگا جو ریاست یاآبادی کے کسی حصے کو ناراض کریں‘ صدمہ پہنچائیں یا پریشان کریں۔ کثیرالقومیتی معاشرت اور رواداری کے یہی تقاضے ہیں جن کو پورا کیے بغیر کوئی جمہوری معاشرہ قائم نہیں ہوتا۔ (Hyndyside کیس)

اسی طرح ایک اور اہم فیصلے میں عدالت نے یہ اصول اس طرح بیان کیا ہے:

دفعہ ۹ میں کسی مذہب کے ماننے والوں کے مذہبی احساسات کے احترام کی جو ضمانت دی گئی ہے‘ بجاطور پر کہا جا سکتا ہو کہ مذہبی احترام کی علامات کو اشتعال انگیز انداز میں پیش کر کے اس کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ مذہبی احترام کی ان علامات کا اس طرح سے پیش کرنا اس رواداری کے جذبے کی بدنیتی سے خلاف ورزی قرار دی جاسکے جو  ایک جمہوری معاشرے کی خصوصیت ہونا چاہیے۔

مذہبی عقائد کی جس انداز سے مخالفت کی جائے یا انکار کیا جائے‘ اس کا جائزہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے‘ یہ ذمہ داری کہ خاص طور پر دفعہ ۹ کے تحت جس حق کی ضمانت دی گئی ہے اسے ان عقائد کے علم بردار پُرامن طور پر استعمال کرسکیں۔

عدالت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی ایسے فرد پر پابندی لگا دے جو کسی مذہب کی مخالفت یا انکار میں اس طرح کے خیالات کا اظہار کرتا ہے تاکہ جہاں تک ممکن ہو‘ ان خیالات سے بچا جاسکے جو دوسروں کے لیے اشتعال انگیز ہوں۔ (Otto Preminger Institut vs Austria)

اسی اصول کو اور بھی وضاحت کے ساتھ ایک دوسرے مقدمے کے فیصلے میں اسی عدالت نے یوں بیان کیا ہے:

مذہبی تقدس کی حامل باتوں کا اشتعال انگیز اور پُرتشدد طور پر پیش کرنا دفعہ ۹ کے تحت دیے گئے حقوق کی خلاف ورزی شمار ہوسکتا ہے۔ ریاست کا یہ فریضہ ہے کہ عقائد کے بارے میں حساس اقلیتوں کو حملے سے تحفظ دے۔ ریاست کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ کسی حق کے استعمال کو کسی قاعدے میں لانے کے لیے کسی فرد کی اظہار راے آزادی میں مداخلت کرے۔ ریاست کا یہ فریضہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ افراد اور سرکاری اداروں کے درمیان تعلقات کے دائرے میں مذہبی احترام کو یقینی بنائے۔ اس فریضے کومناسب ترقی دینے سے ہی یہ ممکن ہے کہ یورپی کنونشن برطانیہ میں اقلیتی مذاہب کو آگے بڑھانے میں اہم کردارادا کرسکے۔

بین الاقوامی قانونی اور عالمی عدالتوں کے فیصلے اس سلسلے میں بالکل واضح ہیں اور کوئی جمہوری ملک محض جمہوریت اور آزادیِ اظہار و صحافت کے نام پر مذہبی منافرت‘ مذہبی شخصیات کی تذلیل اور تضحیک اور کسی انسانی گروہ کے جذبات سے مذہبی‘ تہذیبی یا لسانی اہداف کو تحقیر اور تمسخر کا نشانہ بناکر کھیلنے کا حق نہیں رکھتا اور اس سلسلے میں معاملہ صرف خوداحتسابی کا نہیں‘ بلکہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ افراد‘ گروہوں اور برادریوں کے اس حق کا تحفظ کریں۔

خود ڈنمارک کا قانون اس باب میں خاموش نہیں ہے۔ اس ملک میں مذہبی عقائد‘ شعائر اور شخصیات کی عزت کے تحفظ کے لیے ناموسِ مذہب کا قانون (Blasphemy law) صدیوں سے موجود ہے۔ اسی طرح ہر فرد کی عزت کے تحفظ کے لیے Law of Libel and Slander موجود ہے۔ پھر ملک کے قانون فوج داری میں صاف صاف ایسی تمام حرکتوں کو قابل دست اندازی جرم قرار دیا گیا ہے جو دوسرے کی تذلیل اور ان کے جذبات کو مجروح کرنے والے اور مختلف گروہوں اور برادریوں کے خلاف امتیازی سلوک کے مرتکب ہوں۔ ڈنمارک کے ضابطۂ فوج داری کی دفعہ ۱۴۰ اس طرح ہے:

جو لوگ کسی مذہبی برادری کی عبادات اور مسلّمہ عقائد کا کھلا مذاق اڑائیں یا ان کی توہین کریں‘ ان کو جرمانے یا چار ماہ کی قید کی سزا دی جائے گی۔

اسی طرح دفعہ بی ۲۶۶ میں مرقوم ہے کہ:

کوئی بھی فرد جو کھلے عام یا وسیع تر حلقے میں پھیلانے کی نیت سے کوئی بیان دے یا کوئی اور معلومات پہنچائے جس کے ذریعے وہ لوگوں کے کسی گروہ کو ان کی نسل‘ رنگ یا   قومی و نسلی عصبیت‘عقیدے یا جنس کی بنیاد پر دھمکی دے‘ توہین کرے‘ یا تذلیل کرے وہ جرمانے‘ سادہ حراست یا دوسال سے کم قید کی سزا کا مستحق ہوگا۔

یہ خود اس ملک کا قانون ہے جس میں مسلمانوں کے ایمان کے ساتھ یہ گھنائونا کھیل کھیلا جارہا ہے اور جس کا دفاع آزادیِ اظہار کے نام پر کرنے کی جرات مغربی اقوام کے دانش ور اور سیاسی قائد کر رہے ہیں۔

بات صرف قانون اور نظری حیثیت کی نہیں‘ اگر ان ممالک کے تعامل پر نگاہ ڈالی جائے تو صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ معاملہ مذہبی امتیاز (religious discrimination) کا ہے۔ اسی اخبار کے ایڈیٹر نے ۲۰۰۳ء میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہتک آمیز کارٹون چھاپنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ قارئین ان خاکوں کو اچھا سمجھیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا خیال ہے کہ اس سے ہنگامہ برپا ہوجائے گا۔ اس لیے میں انھیں استعمال نہیں کروں گا۔

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف یہ شرمناک اور ہتک آمیز کارٹون شائع کرنے کے بعد جب احتجاج ہوا اور ایران نے جرمنی کے ہولوکاسٹ کے بارے میں کارٹون بنانے کی دعوت دی تو اس اخبار کے کلچرل ایڈیٹر فلیمنگ روز نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا عندیہ دیا کہ وہ ہولوکاسٹ پر بھی کارٹون شائع کرے گا۔ لیکن اس اعلان کے فوراً بعد اخبار کے ایڈیٹر نے اس کی تردید کی اور ساتھ ہی فلیمنگ روز کو طویل رخصت پر بھیج دیا۔ آج یورپ کے کم از کم سات ممالک میںقانونی طور پر ہولوکاسٹ کو چیلنج کرنا جرم ہے اور آسٹریا میں تاریخ کا ایک پروفیسر ڈیوڈ ارونگ (David Irving) جیل میں اس لیے بند ہے کہ اس نے برسوں پہلے ہولوکاسٹ کے بارے میں دیے جانے والے اعداد وشمار کو چیلنج کیا تھا اور اب اسے تین سال کی سزا ہوگئی ہے حالاںکہ اس نے عدالت کے سامنے بیان دیا کہ مجھے غلط فہمی ہوئی تھی اور میں نے اپنے خیالات سے رجوع کرلیا ہے___ وہ آسٹریا کا باشندہ بھی نہیں مگر اس کو آسٹریا میں سزا دی گئی ہے۔ اسرائیل میں باقاعدہ قانون ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی شخصی ہولوکاسٹ کو چیلنج کرے تو اسرائیل کو حق ہے‘ اسے اغوا کر کے لے آئے اور اس کو سزا دے۔ انگلستان کے اخبار انڈی پنڈنٹ نے کسی نبی یا یہودی مذہبی لیڈر نہیں ایک دہشت گرد جرنیل ایریل شیرون کے بارے میں ایک کارٹون شائع کیا تھا جس میں اسے فلسطینی بچوں کا خون چوستے دکھایا گیا تھاجس پر ساری دنیا میں ہنگامہ ہوگیا تھا۔ برطانوی یہودیوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا اور جرمنی کے اخبار نے اس کارٹون کو چھاپنے سے انکار کردیا تھا۔ فرانس میں حضرت عیسٰی علیہ السلام پر ایک فلم میں رکیک جنسی حوالوں کی وجہ سے ہنگامے ہوئے‘ ایک سینما کو آگ لگا دی گئی اور ایک شخص جل کر مرگیا۔ آج یورپی ممالک میں گھر میں بلندآواز سے میوزک سننا منع ہے کہ ا س سے پڑوسیوں کی سمع خراشی ہوتی ہے۔ سڑک پر ہارن بجانا خلافِ قانون ہے اور گاڑی میں زور سے گانا نہیں سنا جاسکتا مگر دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات پر نشترچلانے کی آزادی ہے اور اس کا دفاع بھی جمہوریت کے نام پر کیا جاتا ہے___ کیا آزادی کے ایسے تباہ کن تصور کو‘ جو دراصل فسطائیت کی ایک ’مہذب‘ (sophisticated) شکل ہے‘ ٹھنڈے پیٹوں قبول کیا جا سکتا ہے؟

مسلمانوں کو تحمل اور برداشت کا درس دینے والوں کوا پنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے اور سمجھ لینا چاہیے کہ ظلم کی سرپرستی اور ترویج کا اس سے بھی بہتر کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا۔ ظلم کا استیصال تو اسے چیلنج کرکے اور مزاحمت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔


دوسرا دعویٰ سیکولرزم کے نام پر کیا جا رہا ہے جو انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ تم مذہبی لوگ ہو اور ہم سیکولر ہیں۔ ہمیں مذہب کا مذاق اڑانے کا حق ہے۔ سیکولرزم کے چہرے کو بگاڑنے کی اس سے زیادہ قبیح صورت اور کیا ہوسکتی ہے۔ سیکولرزم کے اس اصول سے مسلمانوںکو ہی نہیں‘ تمام اہل مذہب بلکہ ابدی اخلاقی اقدار کے تمام ماننے والوں کو اختلاف ہے‘ وہ یہ ہے کہ  دین و مذہب‘ الہامی ہدایت اور ابدی اقدار کا سیاسی اور اجتماعی زندگی میں کوئی کردار نہیں اور محض انسانوں کے ووٹ سے ہوائوں کے رخ کو دیکھ کر حق و باطل اور خیروشر کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ یہ وہ خطرناک نظریہ ہے جو سیکولرزم کی اساس ہے اور ہمیں اس سے بنیادی اختلاف ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ جس طرح آج ہم جنسی کو محض راے عامہ کی بنیاد پر جائز قرار دے دیا گیا ہے‘ کل کچھ انسانوں کے بنیادی حقوق کو بھی باطل قرار دیا جا سکتاہے ۔ عملاً مذہب کے ماننے والوں کو تفریق اور امتیاز کا نشانہ بنایا جارہا ہے جیساکہ فرانس میں خواتین کو اسکارف استعمال کرنے کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ مذہب نے کچھ ابدی اقداردی ہیں جنھیں محض ووٹ سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں ہمارا اور سیکولرزم کا بنیادی اختلاف ہے۔ سیکولرزم کا دوسرا ستون رواداری اور خصوصیت سے مذہبی کثرتیت (religious plurality) کا تصور ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں مذہب کے ماننے والوں کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کلچر اور ملکی روایات کی بنیاد پر اپنے مذہبی شعائر سے محروم کیا جاسکتا ہے۔ مذہبی رواداری کے معنی ہی یہ ہیں کہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کے مساوی مواقع حاصل ہوں اور اس کا لازمی تقاضا دوسرے مذاہب کا احترام ہے۔ ان کے عقائد‘ شعائر‘ عبادات اور بنیادی مظاہر کو تحقیر‘ تذلیل اور تضحیک کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ علمی انداز میں ہر موضوع پر بحث و اختلاف ہوسکتا ہے۔ لیکن سیکولرزم کے نام پر دوسرے مذاہب کی تضحیک اور تمسخر سیکولرزم کا نہیں فسطائیت اور شیونزم  کا خاصا ہے اور آج سیکولرزم کے نام پر یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے جو خود سیکولرزم کے بنیادی اصولوں کی نفی ہے۔ مسئلہ نہ آزادیِ اظہار کا ہے اور نہ سیکولرزم کا‘ بلکہ ایک گہرے تہذیبی تعصب‘ طاقت کے نشے میں رعونت اور دوسروں پر اپنی اقدار اور عادات کو مسلط کرنے کی شرمناک کوشش کا ہے جو اب ایک اجتماعی جنگ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ ڈنمارک میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جس طرح اس کی پشت پناہی کی جارہی ہے وہ اس خطرناک کھیل کا حصہ ہے۔

خود مغرب کے کچھ دانش ور کس طرح اس رجحان پردل گرفتہ ہی نہیں متوحش ہیں۔ رابرٹ فسک اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھتا ہے:

یہ سیکولرزم بمقابلہ اسلام کا مسئلہ نہیں ہے۔ مسلمانوں کے لیے رسولؐ اللہ وہ شخصیت ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ سے براہِ راست کلامِ ربانی وصول کیا۔ ہم اپنے پیشوائوں اور نبیوں کو تاریخی شخصیات سمجھتے ہیں جو ہمارے انسانی حقوق کے جدید تصورات اور آزادیوں کے مدمقابل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارتے ہیں‘ ہم نہیں گزارتے ہیں۔ انھوں نے تاریخ کے اَن گنت نشیب و فراز میں اپنے عقیدے کو محفوظ رکھا ہے۔ ہم اپنا عقیدہ کھو چکے ہیں۔ اسی لیے ہم اسلام کے مقابلے پر مغرب کی بات کرتے ہیں بجاے اس کے کہ اسلام کے مقابلے پر عیسائیت کی بات کرتے۔ اس لیے کہ یورپ میں عیسائی زیادہ تعداد میں نہیں بچے ہیں۔ ہم اس بات سے باہر نہیں نکل سکتے کہ دنیا کے تمام مذاہب کو سامنے لے آئیں اور کہا جائے کہ ہمیں کیوں رسولؐ کا مذاق نہیں اڑانے دیا جا رہا ہے؟

مارٹن بورکارتھ (Martin Burcharth) جو ڈنمارک کے اخبار Information کا نمایندہ ہے‘ لکھتا ہے:

اس بات پر کچھ تعجب کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ڈنمارک کے عوام اور ان کی حکومت اس اخبار اور اس کے اس فیصلے کی کہ‘ پیغمبر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے خاکے شائع کیے جائیں‘ پشت پناہی کررہے ہیں۔ کیا ڈنمارک کے لوگوں کے بارے میں نہیںسوچا جاتا کہ وہ عموماً غیرمعمولی طور پر روادار اور دوسروں کا احترام کرنے والی قوم ہیں؟

غیرملکی جس بات کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں وہ یہ ہے کہ گذشتہ کچھ برسوں سے ہم ڈنمارک کے لوگوں میں غیرملکیوں سے نفرت و حقارت کے جذبے میں اضافہ ہو رہاہے۔ میرے خیال میں‘ کارٹونوں کی اشاعت کا خود احتسابی اور آزادیِ اظہار کی بحث شروع کرنے میں بہت کم حصہ ہے۔ اسے صرف ڈنمارک میں کسی بھی مسلم شعار کے خلاف متعدی دشمنی کی فضا کے سیاق میں سمجھا جا سکتا ہے۔

ڈنمارک میں ۲ لاکھ سے زیادہ مسلمان ہیں‘ جب کہ ملک کی کُل آبادی ۵۴ لاکھ ہے۔ چند عشرے پہلے‘ ڈنمارک میں ایک بھی مسلمان نہ تھا۔ اس پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ بہت سے مقامی لوگ اسلام کو ڈنمارک کی ثقافت و تمدن کی بقا کے لیے ایک خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

۲۰ برس قبل‘ مسلمانوں کو کوپن ہیگن میں مسجد کی تعمیر کے لیے اجازت نہ دی جاتی تھی۔ مزیدبرآں‘ ڈنمارک میںمسلمانوں کے لیے کوئی قبرستان بھی نہیں ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ وہ مسلمان جن کا یہاں انتقال ہوجائے ان کی مناسب تدفین کے لیے ان کی میتوں کو ان کے ملکوں کو واپس بھجوانا ہوتا ہے۔

اور سب سے واضح اور چشم کشا تبصرہ نیویارک ٹائمز میں اس کے مضمون نگار رابرٹ رائٹ ( Robert Wright) کا ہے جس پر سب کو ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے:

امریکا کے دائیں اور بائیں بازو کے لوگ آپس میں زیادہ باتوں پر اتفاق نہیں رکھتے۔ لیکن ہفتوں کے مظاہروں اور سفارت خانوں کی آتش زدگی نے دونوں کو ایک نکتے کی طرف دھکیل دیا ہے: اگر تہذیبوں میں تصادم نہیں ہے تب بھی کم سے کم مغربی دنیا اور مسلم دنیا میں ایک بہت بڑا خلا ہے۔

خوش قسمتی سے اس خلا کے حجم میں مبالغہ کیا جا رہا ہے۔ ڈنمارک کے ان کارٹونوں پر مسلمانوں کا شوروغوغا امریکی کلچر کے لیے اتنا اجنبی نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں۔ ایک دفعہ آپ اسے دیکھیں تو ایک معقول اور بنیادی طور پر امریکی ردّعمل سامنے آتا ہے۔ بہت سے امریکی جو کارٹون کی اشاعت کی مذمت کرتے ہیں اس موقف کو تسلیم کرتے ہیں جو ڈنمارک کے اخبار کے اب مشہورزمانہ ایڈیٹر نے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مغرب میں ہم عام طور پر مخصوص مفادات کے حامل گروہوں کو یہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ ہم کو   خوف زدہ کر کے اس بات کے لیے آمادہ کریں جسے خوداحتسابی کہا جاتا ہے۔

یہ کتنی واہیات بات ہے۔ بڑے بڑے امریکی میڈیا کے ایڈیٹر خصوصاً نسلی اور مذہبی مفادات کے حامل گروہوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے بچنے کے لیے بہت سے الفاظ‘ جملے اور تصاویر حذف کردیتے ہیں۔ مثالیں پیش کرنا مشکل ہیں اس لیے کہ ان کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا مگر آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں۔ ایک عیسائی مبلغ (ہیوج ہیوٹ) نے پیغمبرمحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کارٹونوں کے مقابلے میں ایک مناسب مثال پیش کی: اسقاطِ حمل کے ایک کلینک پر بم باری کے بعد حضرت عیسٰی ؑکے کانٹوں بھرے تاج کا کارٹون جس میں کانٹوں کو ٹی این ٹی کی سلاخوں میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ایسا کارٹون بہت سے امریکی عیسائیوں کے جذبات کو مجروح کرسکتا تھا۔ یہی ایک وجہ ہے کہ ایسا کوئی کارٹون کسی بڑے امریکی اخبار میں نہیں دیکھا گیا۔

رابرٹ رائٹ نے اس اعتراض کا بھی بھرپور جواب دیا ہے جو مغرب کے دانش ور مسلمانوں کے مظاہروں میں تشدد کے عنصر سے آجانے پر کر رہے ہیں۔ ہم بھی تشدد کو کسی اعتبار سے صحیح نہیں سمجھتے بلکہ اپنے مقصد کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ لیکن انسانی حقائق سے صرفِ نظر بھی ممکن نہیں۔ اس اعتراض کا جواب ہم خود دینے کے بجاے رابرٹ رائٹ کے مضمون کا متعلقہ حصہ دینا مناسب سمجھتے ہیں:

جوں جوں اس واقعے کے بارے میں تفصیلات ہمارے سامنے آرہی ہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک بے ساختہ اشتعال انگیزی نہیں تھا۔ کارٹونوں کے خلاف مسلمانوں کا فوری ردّعمل تشدد کا نہیں تھا بلکہ ڈنمارک میں چھوٹے چھوٹے مظاہرے ہوئے اور ڈنمارک کے مسلمانوں نے ایک مہم چلائی جو کئی مہینے چلتی رہی لیکن دنیا کی راڈر اسکرین پر اس کا پتا نہ چلا۔ ان سرگرم لوگوں کو جب ڈنمارک کے سیاست دانوں نے جھڑک دیا اور انھیں مسلم ریاستوں کے طاقت ور سیاست دانوں سے حمایت ملی تو بڑے مظاہروں کا آغاز ہوا۔ ان میں سے بعض مظاہرے پُرتشدد ہوئے لیکن بیش تر مظاہروں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکومتوں‘ دہشت گرد گروپوں اور دوسرے سیاسی عناصر نے منظم کیے۔

دوسری طرف ‘کون کہتا ہے کہ اپنی بات پہنچانے کے لیے تشدداستعمال کرنے کے لیے کوئی امریکی روایت نہیں ہے۔۱۹۶۰ء کے عشرے کے فسادات کو یاد کیجیے جو ۱۹۶۵ء کے وائس رائٹ فسادات سے شروع ہوئے جس میں ۳۴ آدمی مارے گئے (ان فسادات کے نتیجے میں سیاہ فام آبادی کو زیادہ مقام ملا)۔ سیاہ فاموں کی ترقی کی قومی انجمن ۵۰کے عشرے سے جس شو کے خلاف احتجاج کر رہی تھی ۱۹۶۶ء میں جاکر سی بی ایس نے اس پر کارروائی کی۔ کوئی رابطہ ثابت تو نہیں کیا جا سکتا لیکن اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ ۶۵ کے عشرے کے فسادات نے میڈیا میں سیاہ فام لوگوں کی تصویرکشی (اور مضحکہ خیزی) کے بارے میں حساسیت کو بڑھا دیا۔ اسی کو حساس تر خود احتسابی کہاجاسکتا ہے۔

کارٹونوں پر احتجاج کے دوران کچھ قدامت پرست کٹر عناصر نے تنبیہہ کی کہ جو شکایات تشدد کے ساتھ پیش کی جائیں‘ ان کو حل کرنا انھیں تسلی دینے (appeasement) کے مترادف ہے‘ اور اس سے زیادہ تشدد پیدا ہوگا اور مغربی اقدار کمزور ہوں گی۔ مگر ۶۰ کے عشرے میں تو تسلی دینے کے عمل نے اس طرح کام نہیں کیا۔ ۱۹۶۶ء میں صدر جانسن نے فسادات کے لیے جو کرنر کمیشن قائم کیا تھا اس نے سفارش کی کہ غیرمساوی تعلیم کے مواقع‘ غربت‘ ملازمت اور رہایش میں امتیاز کے مسائل پر زیادہ توجہ دی جائے۔ یہ توجہ فوراً دی گئی اور اس سے آنے والے عشروں میں فسادات نہیں بڑھے۔ کارٹونوں کے شوروغوغا میں یہ احساس بہت کم ہے۔ جب کہ امریکی اس سوال پر یکسو ہوکر سوچ رہے ہیں کہ ایک کارٹون کس طرح لاکھوں افراد کو مشتعل کرسکتاہے؟ جواب ہے کہ آپ کن لاکھوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ غزہ میں اصل ایندھن اسرائیلیوں سے کشیدگی نے فراہم کیا۔ ایران میں بنیاد پرستوں نے امریکا سے پرانی دشمنی کو استعمال کیا۔ پاکستان میں مغرب کی حامی حکمران حکومت کی مخالفت نے کردار ادا کیا اور اسی طرح دوسری جگہوں پر ہوا۔ غم و غصہ اور زیرزمین شکایات کا یہ تنوع چیلنج کو پیچیدہ کرتا ہے۔ ظاہراً محض مذہبی حساس امور کو چھیڑنے سے احتراز کافی نہیں ہوگا۔ پھر بھی زیربحث جرم جامع تر چیلنج کی ایک واضح علامت ہے۔ کیونکہ بہت ساری شکایات اسی احساس میں مجتمع ہیں کہ خوش حال طاقت ور مغرب مسلمانوں کااحترام نہیں کرتا (جیسے کہ فسادات برپا کرنے والے سیاہ فام سمجھتے تھے کہ خوش حال طاقت ور ‘ سفیدفام ان کا احترام نہیں کرتے)۔ ایک کارٹون جو رسولؐ کی توہین کرکے اسلام کی بے عزتی کرتا ہے وہ لبلبی کی مانند ہے اور انتہائی اشتعال دلانے والا ہے۔

جس چیزسے زیادہ اختلاف نہیں کیا جا سکتا وہ مسلمانوں کا بڑے بڑے میڈیا چینل سے خود احتسابی کا مطالبہ ہے۔ اس طرح کی خوداحتسابی صرف ایک امریکی روایت ہی نہیں ہے بلکہ ایک ایسی روایت ہے جس نے امریکا کو دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہم آہنگ ‘ کثیرنسلی اور کثیرمذہبی معاشرہ بنایا ہے۔


ان تینوں ایشوز پر پیش کردہ معروضات کی روشنی میں آیندہ کی حکمت عملی کے خطوط کار پر غور ضروری ہے۔ مسلمانوں کا ردّعمل صرف وقتی اور جذباتی نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمیں معاملے کے سارے پہلوئوں پر غور کرکے فوری اقدام اور دور رس حکمت عملی دونوں کی فکر کرنی چاہیے۔

فوری طور پر احتجاج وقت کی ضرورت تھی اور اسے پرامن قانونی ذرائع سے جاری رہنا چاہیے۔ اس کے تین محاذ ہیں:

۱- عالمی سطح پر مسلمانوں کے جذبات اور احساسات کا بھرپور اظہار اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے پُرامن جدوجہد۔ ڈنمارک کی حکومت حتیٰ کہ متعلقہ اخبار‘ اس کے کارٹونسٹ اور کلچرل ایڈیٹر کسی نے بھی کھلے انداز میں نہ اپنی غلطی تسلیم کی ہے اور نہ معذرت کی ہے۔ لفظوں کی عیّاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے محض مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونے پر افسوس کا اظہار ہے جسے کسی حیثیت سے بھی غلطی کا اعتراف اور قرارواقعی معافی نہیں کہا جاسکتا جس کے بغیر ایسے واقعات کے دوبارہ رونما ہونے کے خطرے کاسدّباب ممکن نہیں۔ اسی لیے عوامی اور حکومتی سطح پر یہ سلسلہ برابر جاری رہنا چاہیے___ البتہ اسے پرامن رکھنا اور دلیل اور اجتماعی ضمیر کی قوت کے ذریعے سے اپنے موقف کا لوہا منوانا اسی وقت ممکن ہے جب جذبات میں آکر تشدد کا ارتکاب نہ کیا جائے جس کا نتیجہ اپنے ہی جان و مال کا ضیاع اور تباہی ہے۔

۲- دوسرا محاذ معاشی اور سفارتی دبائو ہے جو ملکی اور بین الاقوامی سیاست کے معروف  طریقے (instruments) تسلیم کیے جاتے ہیں۔ اس وقت بھی تھوڑے سے معاشی دبائو کی وجہ سے‘ جس کے نتیجے میں ڈنمارک کی سات بلین کرونا کی تجارت خطرے میں پڑگئی ہے‘ ڈنمارک کی تجارتی کمپنیاں اپنی حکومت کو روش بدلنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔ یہ دبائو جاری رہنا چاہیے۔

۳- تیسرا محاذ خود مسلمان ملکوں کا اپنا اندرونی معاملہ ہے کہ حکمران بالعموم عوام کے جذبات‘ احساسات اور امنگوں سے غافل ہیں اور اپنے شخصی اور گروہی مفادات کا شکار ہیں۔ عوامی دبائو سے مجبور ہوکر ہی وہ نہایت کمزور احتجاج پر آمادہ ہوئے ہیں۔ فطری طور پر اس احتجاج کا ایک ہدف خود اپنے ملکوں میں عوام کو متحرک اور تیار کرنے کے ساتھ حکمرانوں کی روش کی تبدیلی اور جو تبدیل ہونے کے لیے تیار نہ ہو‘ اس کو تبدیل کرنے کی جدوجہد ہے۔

اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ او آئی سی اور مختلف مسلم ممالک میں مغرب میں اسلام کے خلاف جو تحریک (Islamophobia) چل رہی ہے اس کا بغور جائزہ لیا جاتا رہے اور اس کا سائنسی بنیاد پر جواب دیا جائے۔ اسی طرح مسلم اقلیتوں پر کام کرنے اور ان کو تقویت پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ اس پر بھی سنجیدگی کے ساتھ کام ہونا چاہیے کہ جس          طرح anti-semetismکے سلسلے میں عالمی معاہدے اور قانون نافذ کیے گئے ہیں‘ اسی طرح Islamophobia کے خلاف بھی قانونی ضابطے مرتب کیے جائیں۔ یہ تمام کام منظم اور مرتب جدوجہد اور سیاسی اور سفارتی کوششوں کے ذریعے انجام پاسکتے ہیں بشرطیکہ مسلم حکمراں اور او آئی سی اس کے لیے مؤثر انداز میں کام کرنے کا بیڑا اُٹھائیں۔

لیکن معاملہ محض ان فوری اہداف کا نہیں‘ اصل مسئلہ زیادہ بنیادی اور پیچیدہ ہے۔ اس کے لیے گہرے سوچ بچار اور مناسب حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے چند اہم پہلو یہ ہیں:

۱- اُمتِ مسلمہ کا انتشار‘ سیاسی اور معاشی وحدت کی کمی‘نظریاتی اور تہذیبی اعتبار سے ضعف‘ حکمرانوں اور عوام میں بُعد‘ تعلیم‘ سائنس اور ٹکنالوجی اور مقابلے کی قوت کا فقدان۔ ہم دنیا کی بالادست قوتوں سے عزت اور انصاف کی توقع اس وقت تک نہیں رکھ سکتے جب تک ہم خود مضبوط نہ ہوں___ ہر اعتبار سے نظریاتی اور اخلاقی‘ معاشی اور عسکری‘ تعلیمی اور سائنسی‘ معاشرتی اور تہذیبی۔ یہ ہماری کمزوری ہے جس کا دوسرے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور یہی وہ تاریخی حقیقت ہے جسے اقبال نے اس طرح بیان کیا ہے    ؎

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

جوبیداری اس شرمناک اور شیطانی کارٹون کی اشاعت سے اُمت مسلمہ میں پیدا ہوئی ہے‘ وہ اس کے اندر خیر اور اخلاقی قوت کی غماز ہے۔ اس کو پروان چڑھانا اور اُمت میں اتحاد‘ یکسوئی اور اخلاقی‘ مادی‘ معاشی اور عسکری قوت کا حصول اور عالمِ اسلام کی سیاسی قوت کو ایک مرکز پر جمع کرکے اُمت کی ترقی اور اس کے مفادات کے تحفظ اور انسانیت کی فلاح کے لیے استعمال کرنا ہے۔

۲- دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ ہمیں اس جنگ کو تہذیبوں کی جنگ نہیں بننے دینا ہے۔ ’تہذیبوں کے درمیان جنگ‘ کا تصور ہی ایک جاہلانہ اور فسطائی تصور ہے۔ تہذیبوں کا تنوع انسانیت کا سرمایہ ہے اور جس طرح انگریزی مقولہ ہے variety is the spice of life (زندگی کا حُسن تنوع میں ہے) اسی طرح تہذیبوں کا اختلاف بھی انسانیت کے حُسن کا باعث اور انتخاب کے مواقع فراہم کرکے ترقی اور مسابقت کا ضامن ہے    ؎

گلہاے رنگ رنگ سے ہے رونق چمن

اے ذوق! اس جہاں کوہے زیب اختلاف سے

آج انسانیت کو جو خطرات درپیش ہیں اور خصوصیت سے ایٹمی اور عالم گیر تباہی کے  دیگر ہتھیاروں کے وجود میں آنے کے بعد جنگ سراسر تباہی کا راستہ ہے۔ اسی طرح کسی ایک طبقے‘ ملک یا تہذیب کی قوت کے بل بوتے پر کسی ایک کا بالادست ہوجانا بھی سلامتی کا راستہ نہیں ہے۔ صحیح راستہ حقیقی اور مستند کثرتیت (genuine and authentic pluralism) میں پوشیدہ ہے جس میں دوسروں کو جینے دینے اور دلیل‘ افہام و تفہیم اور اعلیٰ اصولوں اور انصاف پر مبنی سماج کا نمونہ پیش کر کے اتفاق اور اختلاف میں توازن اور رد و اختیار کا موقع فراہم ہوتا ہے۔

دراصل دو قومی نظریے کی اصل بھی یہی اصول ہے کہ اقوام کو‘ خواہ وہ اکثریت میں ہوں یا اقلیت میں‘ اپنے دین و مذہب اور تہذیب و ثقافت کے تحفظ و ترقی کا حق ہے اور اس کے مناسب مواقع سب کو حاصل ہونے چاہییں۔ دوقومی نظریہ محض تقسیم کا نظریہ نہیں‘ بقاے باہمی کا نظام ہے‘ اس اصول کے ساتھ کہ جہاں اپنا مخصوص تشخص رکھنے والی قوم کو اپنے عقائد و تہذیبی اقدار کے مطابق زندگی گزارنے کے مواقع حاصل نہ ہوں اور جغرافیائی اعتبار سے ان کے ایک الگ وحدت بننے کا امکان اور موقع ہو تو وہاں سرحدوں کی ازسرنو ترتیب بھی اس کا حق ہے لیکن جہاں یہ ممکن ہو کہ مختلف قومیں تعاون اور ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکتی ہیں وہاں ریاست کو اپنا مخصوص تشخص رکھنے کے ساتھ دوسری تمام قوموں کو بھی اپنا اپنا تشخص باقی رکھنے کا موقع دینا چاہیے۔ اس لیے      قومی حکومت (Nation State) کے مقابلے میں قوموں کی حکومت (State of Nationalities) ایک بالاتر سیاسی ماڈل ہے اور آج کی دنیا میں ایک ایسے ہی سیاسی ماڈل میں انسانیت کی نجات ہے جہاں قوت اور تشدد کے مقابلے میں کثرتیت  کو مستند تسلیم کیا جاسکے۔

۳- تیسری بنیادی بات یہ ہے کہ جو شرمناک رویہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب کے چند ممالک اور کچھ طبقات نے اختیار کررکھا ہے‘ اس کا کوئی تعلق نہ آزادیِ اظہار سے ہے‘ نہ سیکولرزم سے۔ نام نہاد تہذیبوں کے اختلاف اور تصادم میں لڑائی تہذیبوںکے درمیان نہیں‘ تہذیب اور جاہلیت کے درمیان ہے‘ انصاف اور ظلم کے درمیان ہے‘ خیر اور شر کے درمیان ہے‘ انسانیت اور فسطائیت کے درمیان ہے۔ اس میں ایسا نہیں ہے کہ سارے مسلمان ایک طرف ہوں اور دوسری اقوام ان کے مدمقابل بلکہ خود مغربی ممالک میں عام انسانوں کی بڑی تعداد اور ان کے دانش وروں میں بھی ایک معتدبہ تعداد اسے تہذیبوں کی جنگ نہیں بلکہ تہذیب کے خلاف جنگ سمجھ رہی ہے۔ مذاہب اور ان کی مقدس ہستیوں کا احترام سب کا مشترک سرمایہ ہے۔ قرآن نے تو یہ اصول پیش کیا ہے کہ ایک انسان کی ناحق موت پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے اور ایک معصوم انسان (محض مسلمان نہیں) کی جان کا بچانا ساری انسانیت کو زندگی عطا کرنے کی مانند ہے۔

قرآن نے تو جھوٹے خدائوں کو بھی گالی دینے سے منع کیا ہے کیوںکہ اس طرح مخالفین اپنی جہالت میں کائنات کے حقیقی خالق اور آقا سے گستاخی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔ جس پاک ہستی صلی اللہ علیہ وسلم کو دہشت گردی کی علامت بناکر پیش کیاجا رہا ہے‘ وہ تو پوری انسانیت کے لیے رحمت بن کر آیا تھا اور اس کا لایا ہوا دین ہے ہی دین رحمت اور پیغامِ امن و انصاف۔ اس کا کردار تو یہ تھا کہ جو اس کی راہ میں کانٹے بچھاتے تھے‘ وہ ان کی بھی دادرسی کرتا تھا‘ جنھوں نے اسے اذیتیں دے کر اپنا گھربار اور وطن چھوڑنے پر مجبور کیا جب وہ ان کے درمیان فاتح کی حیثیت سے آیا تو کسی سے بدلہ نہ لیا اور نفیرعام دے دی کہ لا تثریب علیکم الیوم۔ جس نے ایک یہودی کے جنازے کی آمد پر بھی اس کا استقبال تعظیم کے ساتھ کھڑے ہوکر کیا اور اس بات پر کہ یہ ایک یہودی کا جنازہ ہے‘ فرمایا:کیا وہ انسان نہیں‘ سیدنا عمرؓ نے جب ایک بوڑھے یہودی کو محنت مزدوری کرتے دیکھا تو اس کا بیت المال سے مشاہرہ مقرر کردیا اور یہ تاریخی الفاظ ارشاد فرمائے:  تم ان انسانوں سے جب وہ جوان اور قوی تھے کام لیتے تھے اور جب ان کے قویٰ مضمحل ہوجاتے ہیں تو انھیں بے سہارا چھوڑ دیا ہے۔

ایسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرووں اور ایسے دین کے حامیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ’تہذیبوں کی جنگ‘ میں آنکھیں بند کر کے کود نہ جائیں بلکہ تہذیب کے غلبے کے لیے خود بھی اور تمام معقول انسانوں کو منظم و متحرک کریں اور اس طرح اس ایجنڈے ہی کو بدل دیں جس پر ظالم قوتیں اور مفاد پرست عناصر کارفرما ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ہم اپنے داعیانہ کردار کو سمجھیں اور اسے صحیح طریقے سے ادا کریں۔ آج بھی‘ ساری مخالفت کے باوجود‘ مغربی ممالک میں اسلام سب سے تیزی سے بڑھنے والا دین ہے۔ ہمارے لیے تہذیبی جنگ کی اس آگ میں کودنااور فریق بنناسب سے بڑی غلطی ہوگی۔ اس کے مقابلے میں ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ ہمارے لیے ایک اچھا موقع ہے: اپنے دین کا صحیح صحیح نمایندہ بننے اور اس کی تعلیمات کو انسانوں تک پہنچانے کا۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ یہ مخالفتیں آپ کے لیے نئے مواقع اور امکانات کا پیغام بن جائیں گی   ؎

تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے

۴-چوتھی بنیادی بات یہ ہے کہ اس موقع پر اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت کو خصوصیت سے اوآئی سی کو تمام مذاہب کے احترام کے بارے میں کچھ اصولوں (پروٹوکول) پر دنیا کی تمام اقوام کو متفق کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ضرورت ہے کہ واضح الفاظ میں بقاے باہمی ہی نہیں‘ تعاون باہمی کا ایک ایسا چارٹر تیار کیا جائے جس پر سب عمل پیرا ہوں اور جسے قانونی اور اخلاقی دونوں اعتبار سے ایک بالاتر ضابطے کی حیثیت حاصل ہو۔ اس کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس بھی بلایا جا سکتا ہے لیکن ضروری تیاری (home work)کے بعد۔ اس کے لیے مختلف سطح پر سیمی نار‘ مذاکرات اور تحقیقی کام کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے لیے عالمی سطح پر مکالمہ وقت کی ضرورت ہے۔ اگر ان شیطانی کارٹونوں کے نتیجے میں دنیا ایک ایسے پروٹوکول پر متفق ہوجائے تو اس شر سے ایک بڑے خیر کے نکل آنے کا امکان ہے۔ جس ڈنمارک سے یہ کروسیڈ شروع ہوا ہے اس کے ایک دانش ور اور سابق وزیرخارجہ (Uffe Ellemann Jensen) نے بڑی دردمندی سے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ:

اب‘ جب کہ پیغمبرمحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کارٹونوں پر تنازع ختم ہورہا ہے‘ یا میں اس کی امید کرتا ہوں‘ یہ بات واضح ہے کہ اس میں جیتنے والے صرف انتہاپسند ہیں‘ اسلامی دنیا میں بھی اور یورپ میں بھی۔ مجھے اس بات پر افسوس ہے کہ تنازع میرے ملک میں شروع ہوا جب ایک اخبار نے آزادیِ اظہار راے کا مظاہرہ کرتے ہوئے کارٹون شائع کیے۔ یہ گذشتہ خزاں میں ہوا اور اس وقت میں نے اس کے خلاف کھلے عام آواز اٹھائی۔ اسے میں بے حسی پر مبنی ایک اقدام سمجھتا تھا کیوں کہ یہ دوسرے لوگوں کے مذہبی جذبات کو تکلیف پہنچاتا ہے۔ یہ واقعہ غیرضروری اشتعال انگیزی تھا اور خود ہماری اس آزادی کا مذاق اڑانے کے مترادف تھا جو ہمیں ازحد عزیز ہے اور جس کی ہمارے دستور میں ضمانت دی گئی ہے۔ میرے والد بھی ایک صحافی تھے‘ وہ کہا کرتے تھے کہ آزادیِ اظہار راے ہمیں وہ کچھ (جو آپ سوچتے ہیں) کہنے کا حق تو دیتی ہے لیکن ایسا کرنا لازمی نہیں ہے۔

میری رائے میں اس منحوس واقعے کے سبق بالکل واضح ہیں۔ ہم سب کو تسلیم کرنا چاہیے کہ جدید دنیا میں یہ ضروری ہوتا جا رہا ہے کہ تمام معقول لوگ باہمی احترام‘ رواداری اور بہتر افہام و تفہیم کے لیے کام کریں۔ ہمیں ایسی صورت حال سے بچنا چاہیے جہاں مختلف اقدار ایک دوسرے کے مقابل ایسے طریقوں سے آجائیں کہ تشدد یک دم برپا ہوجائے۔ اس کے بجاے ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ مذاہب‘ اخلاق اور معمولات کے درمیان رواداری کے ذریعے پُل تعمیر کریں۔

آپ چاہیں تو اسے خود احتسابی کہہ لیں لیکن معقول لوگ ہمیشہ خوداحتسابی پر عمل کرتے ہیں۔ اگر آپ ایسے کمرے میں ٹھیرنا چاہتے ہیں جس میں دوسرے لوگ بھی ہیں تو آپ کو کوشش کرنا چاہیے کہ غیرضروری اشتعال انگیزیوں سے آپ ان کو ناراض نہ کریں۔ ہم جس کمرے کے بارے میں بات کر رہے ہیں‘ وہ مقامی تالاب نہیں بلکہ عالمی گائوں ہے‘ بقاے باہمی کی کلید ہے۔

دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں۔ موجودہ صورت حال کتنی ہی خراب اور تکلیف دہ کیوں نہ ہو اگر اصحاب خیر ہمت کر کے کوشش کریں تو اسے انسانوں کے درمیان دوستی اور اعتماد باہمی کے    پُل باندھنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

آخر میں ہم پاکستان کی اسلامی قوتوں سے بالخصوص اور تمام سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں سے یہ اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح اس فتنے کا بروقت نوٹس لینا ضروری تھا‘ اسی طرح اس شیطانی کروسیڈ کے مقابلے اور اس کی شکست کے لیے دیرپا لائحہ عمل کی تیاری اور اس پر    ہوش مندی سے عمل بھی ضروری ہے۔ یہ ایک تاریخی موقع ہے اور اس موقعے پر ذرا سی غفلت بڑی مہنگی پڑسکتی ہے۔ ملک کی اس قیادت کو بھی ہوش کے ناخن لینا چاہییں جو اپنے عوام کے جذبات اور احساسات سے غافل اور بیرونی سہاروں پر اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی کوشش کر رہے ہیں۔   یہ سہارے بڑے بودے اور دھوکا دینے والے ہیں۔ اصل سہارا اللہ کا ہے‘ اس کے دین کا ہے اور اس کے ان بندوں کا ہے جو اصول اور اقدار کے لیے جان کی بازی لگانے میں دنیا اور آخرت کی کامیابی دیکھتے ہیں۔ یہی اس قوم کا اصل سہارا ہیں اور یہی سہارا قابلِ بھروسا اور زمانے کی آزمایشوں پر پورا اُترا ہے۔ وما علینا الا البلاغ۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جمہوریت اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود دور حاضر کے دوسرے سب سیاسی نظاموں کے مقابلے میں ایک فوقیت رکھتی ہے۔ اس میں دستور اور قانون کی حکمرانی‘ عوام کی مرضی سے حکومتوں کی تشکیل اور تبدیلی‘ حکمرانوں کی جواب دہی‘ انسانی حقوق کی ضمانت‘ عدلیہ کی آزادی اور معاشرے میں آزادانہ بحث و احتساب بشمول پریس اور میڈیا کی آزادی کو سیاسی نظام کا بنیادی ڈھانچا تصورکیا جاتا ہے اور کسی نہ کسی حد تک اس کا احترام بھی کیا جاتا ہے ۔ اگر کہیں اس سے انحراف ہوتا ہے تو بالآخر وہ طشت ازبام ہوکر رہتا ہے اور اجتماعی محاسبے کا نظام حرکت میں آجاتا ہے۔ یہی وہ عمل ہے جس سے نام نہاد جمہوری قیادتوں کا پول بالآخر کھلتا ہے۔

امریکا کومغربی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ ہے اور صدربش نے دوسری بار صدارت کا انتخاب جیتنے کے بعد تو پوری دنیا میں ’جمہوریت‘ اور آزادی کے فروغ کے لیے ’کروسیڈ‘ کو اپنی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ قرار دیا ہے اور خود عراق کے خلاف فوج کشی اور وہاں برپا ہونے والے قتل و غارت گری کے لیے اب اسی دعوے کو بطور ’جواز‘ پیش کر رہے ہیں۔ اب  لے دے کے اُن کے اور اُن کے ہم نوا حکمرانوں کے‘ بالخصوص برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلیر کے پاس کہنے کے لیے بس یہی کچھ رہ گیا ہے کہ ہم نے عراق کو صدام کی آمریت سے نجات دلائی ہے اور ’جمہوری نظام‘ کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔

امریکا کے موجو دہ حکمرانوں کی پوری سفارتی اور پروپیگنڈا مہم کے باوجود‘ امریکی سفارت کاری کا یہ سال ان کی تاریخ کا ناکام ترین سال رہا ہے اور ’پبلک ڈپلومیسی‘ جس پر اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں‘ اس کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے۔ دنیا صدر بش اور امریکی قیادت کے بلندبانگ دعووں کو کوئی وقعت نہیں دے رہی بلکہ وہ ان کی پالیسیوں اور عملی اقدامات کو دیکھ رہی ہے۔ دعوے اور حقیقت میں جو تضاد اور بُعدالمشرقین پایا جاتا ہے‘ اس نے امریکا کی ساکھ کوایسا سخت نقصان پہنچایا ہے کہ اس کی تلافی ممکن نہیں___ افسوس تو امریکا کے ان حواریوں پرہے جو مسلم دنیا میں اب بھی امریکا کی کٹھ پتلیاں بنے ہوئے ہیں اور اپنے ہی عوام کے خلاف صف آرا ہیں۔ امریکا کی پالیسی کی ناکامی کا تازہ ترین اعتراف خود بش صاحب کا وہ ارشاد ہے جو ۶جنوری ۲۰۰۶ء کو واشنگٹن میںقومی زبانوں کے تحفظ کے ادارے کا افتتاح کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا ہے کہ امریکا کے امیج کو جس چیز نے بگاڑا ہے‘ وہ وہ پروپیگنڈا ہے جو دوسرے ممالک کا میڈیا کر رہا ہے۔ خصوصیت سے عرب ممالک کے ریڈیو اور ٹی وی کو نشانہ بناتے ہوئے فرماتے ہیں:

جب آپ ان میں سے کچھ ٹی وی اسٹیشن دیکھ رہے ہوتے ہیں تو آپ کے سامنے امریکا نہیں آتا۔ عرب ٹی وی ہمارے ملک کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔ بعض اوقات وہ ایسا پروپیگنڈا کرتے ہیں جوکسی بھی طرح درست نہیں ہوتا۔ یہ انصاف کی بات نہیں ہے اور یہ لوگوں کو‘ ہم جو کچھ ہیں‘اس کا صحیح تاثر نہیں دیتا۔

اس خطاب میں انگریزی کے علاوہ دنیا کی دوسری زبانوں ‘ خصوصیت سے مسلم ممالک کی زبانوں (عربی‘ فارسی اور اردو) میں بھی امریکی پروپیگنڈے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے اور ان کروڑوں ڈالر پر مستزاد جو اس وقت ’پبلک ڈپلومیسی‘ کے نام پر خرچ کیے جا رہے ہیں‘ مزید ۱۴ ملین ڈالر کا ایک نیا منصوبہ بروے کار لانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

امریکا کو حق ہے کہ وہ اپنے پروپیگنڈے پر جتنی رقم جب اور جس طرح چاہے خرچ کرے لیکن ایک بنیادی حقیقت نہ صرف امریکا بلکہ سب کے سامنے رہنی چاہیے کہ حقائق پر پروپیگنڈے کے ذریعے لمبے عرصے تک پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ اب دنیا کے ایک ’گلوبل ویلج‘ بن جانے کا    کم از کم یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ بہت کم وقت میں ایک مقام کی خبریں دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچ جاتی ہیں اور اس طرح محض حقائق کو چھپانے یا پروپیگنڈے کے بل بوتے پر اپنے موقف کو پیش (project)کرنے کی گنجایش بہت کم رہ گئی ہے۔ امریکا کی قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اب ہٹلر کے وزیر ابلاغیات جوزف گوئبلز کی وہ پالیسی نہیں چل سکتی جس میں جھوٹ کو اتنی بار نشرکیا جاتا تھا کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگتے تھے۔ اب سچ بہت جلد ظاہر ہوکر رہتا ہے۔ اب اصل مسئلہ پروپیگنڈے اور ابلاغ کا نہیں‘ امریکا کی حکومت‘ اس کی پالیسیوں‘ افواج اور ذمہ دار حکام کے کارناموں کا ہے۔ جب تک پالیسی اور اس کے اہداف‘ مقاصد اور اسلوب نہیں بدلتے اور وہ تضادات جو دعوے اور عمل میں موجود ہیں‘ ان کی اصلاح نہیں ہوتی‘ محض چرب زبانی‘ جدید ترین ابلاغی وسائل اور سیاسی ملمع سازی سے استعماری پالیسیوں اور دوسروں کو غلام اور محکوم بنانے والے اقدامات پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ ایک امریکی کالم نگار ولیم فشر (William Fisher)نے اس دوعملی اور تضاد کو بڑے نرم اور ہمدردانہ انداز میں لیکن برملا طور پر یوں ادا کردیا ہے :

عراق اورشرق اوسط میں راے عامہ کے مختلف جائزوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ امریکی محرکات اور حکمت عملی کے بارے میں شک و شبہے میں مبتلا ہیں کیونکہ امریکا جو کچھ کہتا ہے اور جو کچھ کرتا ہے اس میں تضادات پاتے ہیں۔ ( `US State Department's Mixed Messages'، دی نیوز‘ ۸جنوری ۲۰۰۶ئ‘ بحوالہ دی عرب نیوز)

امریکا جس طرح اپنا ایک خاص امیج بنانے کے لیے پانی کی طرح ڈالر بہا رہا ہے‘ صحافیوں کو خرید رہا ہے‘ تعلقات عامہ کی فرموں کو استعمال کر رہا ہے اور سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کی کوشش کر رہا ہے‘ اس کا پردہ یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا ایٹ چیکو (University of California et Chico) کے پروفیسر بِین گروس کپ (Bean Grosscup) نے اس طرح چاک کیا ہے:

وہی لوگ جو آزادیِ صحافت کو فروغ دینے کے لیے پروگرام ترتیب دیتے ہیں‘ وہی تعلقات عامہ کی فرموں‘ شور مچانے والے لوگوں اور خریدے ہوئے صحافیوں سے وابستہ تھنک ٹینکوں کو ’آزاد میڈیا‘ کے طور پر رقوم فراہم کرنے کا دفاع کرتے ہیں۔ ساری بات تعلقات عامہ اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کی ہے۔ اس پر جوزف گوئبلز بھی فخر کرے گا۔(دی نیوز‘ ۴ جنوری ۲۰۰۶ئ)

امریکا کے موجودہ حکمران‘ خصوصیت سے صدر جارج بش‘ نائب صدر ڈک چینی‘ وزیردفاع رمزفیلڈ اور ان کے تمام خفیہ اداروں کے کارپرداز جس دیدہ دلیری اور سینہ زوری کے ساتھ امریکی دستور‘ قانون‘ کانگریس کے طے شدہ ضابطوں اور بین الاقوامی قانون اور جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی کر رہے ہیں‘ اس نے مشرق سے مغرب تک ہر طرف ایک تہلکہ سا مچا دیا ہے۔ مسلم ممالک کے عوام تو ایک مدت سے چیخ ہی رہے تھے‘ اب یورپی اقوام بھی پکار اُٹھی ہیں اور خود امریکا میں بھی صدربش اور ان کی پالیسیوں سے عمومی بے زاری کے اظہار کے لیے بغاوت کی ایک لہر اُٹھ رہی ہے جس کا سب سے نمایاں مظہر امریکی کانگریس کا یہ اہم اقدام ہے کہ حب الوطنی کے قانون (Patriot Act)کی غیرمعینہ عرصے کے لیے صدر بش کی درخواست رد کرتے ہوئے صرف پانچ ہفتوں کے لیے اس کی منظوری دی ہے۔

یاد رہے کہ متذکرہ قانون کو صدر بش نے نائن الیون کے بعد کانگریس سے منظور کرایا تھا اور جسے پہلے سال مکمل اتفاق راے سے منظور کیا گیا تھا۔ اس کے تحت صدر کو اور نیشنل سیکورٹی اتھارٹی کو ایسے غیرمعمولی اختیارات دے دیے گئے تھے جن کو استعمال کر کے وہ دہشت گردی کے شبہے پر لوگوں کو گرفتار کرسکتے ہیں‘ لمبی مدت تک مقدمہ چلائے بغیر زیرحراست رکھ سکتے ہیں‘ اور اگر مقدمہ چلانے کی نوبت آئے تو ناگزیر قانونی تقاضے (due process of law) کے بہت سے معروف ضابطوں کو نظرانداز بلکہ پامال بھی کرسکتے ہیں۔ مشہور امریکی رسالےNation کے مضمون نگار جوناتھن شیل (Jonathan Schell) کے بقول اس قانون نے امریکی صدر کو آج کا ایسا ایڈمنسٹریٹر بنادیا ہے کہ اگر وہ آمریت کی مکمل تصویر نہ بھی ہو تو بھی اس میں وہ ساری خصوصیات پیدا ہوگئی ہیں جن سے آمریت کا آغاز ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ حکومت بظاہر آمریت نہیں ہے مگر اس میں آمریت کی سب ابتدائی خصوصیات صاف نظر آتی ہیں۔

اور یہی وجہ ہے کہ جوناتھن شیل یہ کہنے پر مجبور ہے کہ:

امریکی تاریخ میں صدارتی اختیارات کو سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر غلط استعمال کرنے والاشخص صدر بش ہے۔ (دی اکانومسٹ‘ لندن‘ ۷ جنوری ۲۰۰۶ئ‘ ص ۴۰)

امریکی جریدے ٹائم (۹ جنوری ۲۰۰۶ئ)میں کیرن ٹوملٹی (Karen Tumulty)  اور  مائیک ایلیو (Mike Allew) اپنے مضمون میں سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی کے رکن سینیٹر پیٹرک لی ہی (Patrick Leahy)کا یہ جملہ نقل کرتے ہیں کہ:

صدر نکسن کے بعد جس حکومت نے عدالتوں اورقانونی ضابطوں کو نظرانداز کرنے کی سب سے زیادہ کوشش کی ہے‘ وہ یہی حکومت ہے۔

یہ ہے وہ پس منظر جس میں صدر بش کے لیے کانگریس کی اس سرزنش (rebuke) کی اہمیت  کو سمجھا جاسکتا ہے کہ حب الوطنی کے جس قانون کی سال بہ سال تجدید (renewal) سے بچنے کے لیے صدربش نے کانگریس سے اس کی غیرمعین مدت کے لیے تجدید کی قانونی تجویز پیش کی تھی بلکہ یہاں تک کہہ دیا تھا کہ we cannot afford to be without this law for a single moment(ہم اس قانون کے بغیر ایک لمحے کے لیے بھی نہیں چل سکتے)‘ اسے عظیم اکثریت نے رد کر دیا اور صرف ۵ ہفتے کے لیے اس کی تجدید کی___ یعنی ۵فروری ۲۰۰۶ء تک۔ ساتھ ہی تفتیش کے دوران تعذیب‘ یعنی ٹارچر (torture) کا دروازہ بند کرنے کے لیے جو ترمیم سینیٹر میک کین (Mc Cain) نے پیش کی تھی اور جسے بش نے ویٹو کرنے کی دھمکی دی تھی‘ اسے بھی سینیٹ نے ۹ کے مقابلے میں ۹۰ ووٹ سے منظور کرکے یہ پابندی لگا دی کہ تمام امریکی ایجنسیوں کے لیے نہ صرف امریکا کی سرزمین پر‘ بلکہ دنیا میں کہیں بھی زیرحراست دشمنوں کو ایسے تمام ہتھکنڈوں کا نشانہ بنانا خلافِ قانون ہوگا جو ظالمانہ‘ غیرانسانی اور ذلت آمیزہوں۔ واضح رہے کہ آخری وقت میں ڈک چینی نے پوری کوشش کی کہ کم از کم سی آئی اے کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے مگر سینیٹ نے یہ ماننے سے انکار کردیا اور امریکا کی موجودہ حکمران ٹیم جو کھیل کم از کم چار سال سے کھیل رہی ہے‘ عالمی احتجاج کے تحت اسے اس سے روکنے کا عندیہ دیا۔ آیندہ امریکی انتظامیہ اس کا کتنا احترام کرتی ہے یہ تو مستقبل ہی بتائے گا لیکن کانگریس کے یہ دونوں اقدام بش انتظامیہ پر اس چارج شیٹ کی تصدیق کرتے ہیں جو حقوقِ انسانی کی تنظیمیں اور عالمِ اسلام اور تیسری دنیا کے دانش ور لگا رہے تھے۔


اس سلسلے میں ہم صرف چند اہم اور نمایاں حقائق ریکارڈ پر لانا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ صدربش کے تحت امریکی جمہوریت کا اصل چہرہ سب کے سامنے آجائے اور اس آئینے میں خود ان مسلمان ممالک کی قیادتوں کی شکل بھی دیکھی جا سکے جو صرف امریکا کی خوش نودی کے لیے اپنے اپنے ملکوں میں نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں شرکت کے نام پر انسانی حقوق اور آزادیوں کا خون کررہے ہیں۔

جمہوریت کا ایک بنیادی اصول دستور اور قانون کی پاسداری ہے۔ مطلق العنان بادشاہت اور آمریت میں حکمران دستور اور قانون سے بالا رہتے ہیں اور اپنی من مانی کرتے ہیں‘ جب کہ جمہوریت میں ہر صاحبِ اقتدار اپنے لیے جواز حکمرانی دستور اور قانون سے پاتاہے اور اس کا پابند ہوتا ہے۔ صدربش اور ان کی انتظامیہ نے خود کو دستور سے بالاتر کرلیا ہے اور وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دستور کی ان تمام ضمانتوں کو پامال کر رہے ہیں جو قانون کی حکمرانی‘    نجی زندگی (privacy) کی حفاظت‘ عدالت کی اجازت کے بغیر کسی شہری کی ڈاک‘ ٹیلی فون‘ انٹرنیٹ وغیرہ کی جاسوسی کی مکمل ممانعت کے بارے میں تھیں۔

یہ انتظامیہ اس سلسلے میں ایک عظیم جرم کی مرتکب ہوئی ہے۔ اس نے ہزاروں انسانوں کی نجی زندگی کو پوری بے دردی سے مجروح کیا ہے اور چار سال سے کروڑوں کی تعداد میں ان کے پیغامات کو درمیان میں روکا (intercept کیا)ہے۔ اور اس سلسلے میں غیرمعمولی حالات کے لیے جو گنجایش پیدا کی گئی تھی کہ ایسے معاملات میں خود نیشنل سیکورٹی اتھارٹی اپنی ۱۲رکنی سرکاری جوڈیشل کمیٹی سے رجوع کرے‘ اس کی پابندی نہیں کی گئی‘ محض القاعدہ کی بو سونگھنے کے لیے بے دریغ لاکھوں ٹیلی فون کالوں اور ای میل کو سی آئی اے اور دوسری ایجنسیاں درمیان میں روکتی رہیں۔ یہ اقدام دستور‘ قانون‘ بنیادی حقوق اور شایستگی ہر چیز کی کھلی خلاف ورزی تھی جس کا پوری بے باکی سے ارتکاب کیا گیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ جب اس کی سن گن لوگوں کو ملنا شروع ہوئی اور کچھ اخبارات نے اس راز کو فاش کرنے کی کوشش کی تو ان کو روکا گیاحتیٰ کہ نیویارک ٹائمز کو خود صدر بش نے ذاتی طور پر اس رپورٹ کے انکشاف سے روکا اور اس سرکاری مداخلت کے نتیجے میں جمہوری امریکا کے جمہوری پریس نے اس خبر کو ایک سال تک دبائے رکھا مگر بالآخر دسمبر۲۰۰۵ء کے وسط میں یہ خبر اخبارات میں شائع ہوگئی۔ نیویارک ٹائمز نے اپنی ۱۵دسمبر ۲۰۰۵ء کی اشاعت میں جیمز رائزر (James Riser) اور لچ بلان (Lichtblan) کی تہلکہ مچا دینے والی رپورٹ شائع کی۔ جیمزرائزر کی کتاب State of War: The Secret History of the CIA and Bush Administration کے نام سے شائع ہوگئی ہے۔ اس کی اشاعت کے بعد اب یہ تفتیش ہورہی ہے کہ یہ راز فاش کیسے ہوگیا؟ حالانکہ بش انتظامیہ کا یہ جرم تو ایسی سنگین نوعیت کا ہے کہ وہ امریکی صدر کو مواخذے (impeachment) کا سزاوار بناتاہے۔ اب دبے الفاظ میں یہ بات کہی جانے لگی ہے اور یہ امریکی جمہوریت کا امتحان ہے کہ کیا بش یہ سب کچھ کرنے کے بعد بچ نکلتا ہے یا کیفرکردار کو پہنچتا ہے؟ سینیٹر رابرٹ بائرڈ (Robert Byrd)کہتے ہیں کہ بش نے وہ لامحدود اختیارات ہتھیالیے ہیں جو بادشاہوں اور مہاراجوں کے لیے مخصوص ہوا کرتے تھے۔ اور امریکی کانگریس کے دو ارکان جان لیوس (John Lewis) اور جان ڈین (John Deen) نے کہا ہے کہ بش نے جس طرح دستور‘ قانون‘ عدالتی نظام کو پامال کیا ہے‘ اس کی پاداش میں اس کا مواخذہ ہونا چاہیے۔

بات صرف امریکی شہریوں کی آزادیوں کی پامالی کی نہیں‘ دسمبرہی کے مہینے میں ایک دوسرا بڑا اسیکنڈل وہ اطلاعات ہیں جن کا ماخذ ایک اطالوی دستاویزی فلم ہے جس سے یہ ہوش ربا انکشاف ہوا کہ امریکا دہشت گردی کے شبہے میں پکڑے جانے والے قیدیوں کوتعذیب کا نشانہ بنانے کے لیے‘ یورپ میں کم از کم آٹھ خفیہ تعذیب خانے چلا رہا ہے۔ علاوہ ازیں یورپ کے دسیوں ممالک کے ہوائی اڈوں اور فضائی حدود کو ان قیدیوں کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک منتقل کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور گذشتہ دوسال میں ایک ایک ملک میں ایسی دو دو سو پروازیں کی گئی ہیں۔ جرمنی‘ آئرلینڈ‘ پولینڈ‘ رومانیا‘ اسپین وغیرہ اس راز کے فاش ہونے پر سخت آتش زیرپا ہوئے اور امریکا کی طرف سے ان کی اجازت کے بغیر ان کی فضائی حدود اور ہوائی اڈوں کے استعمال اور تعذیب کے لیے قیدیوں کی کھلی منتقلی پر سخت احتجاج ہوا۔ برطانیہ میں بھی ایسی ۲۰۰ پروازوں کا ریکارڈ گارڈین اخبارنے فاش کیا لیکن حکومت نہ تصدیق کرتی ہے اور نہ تردید۔ سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ بہت سے عرب اور مسلمان ممالک کو اس تعذیب کے لیے استعمال کیا گیا اور خصوصیت سے مصر‘ افغانستان‘ الجزائر اور مراکش کا کردار بڑا گھنائونا اور شرمناک ہے۔ اس اسیکنڈل کے اثرات امریکا اور یورپ کے تعلقات پر بھی بڑے دُور رس ہوسکتے ہیں۔ انھیں  ٹھنڈا کرنے کے لیے امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزا رائس نے فوری طور پر یورپی ممالک کا دورہ کیا مگر آگ بظاہر سرد ہوتی نظر نہیں آتی۔

امریکا جمہوریت اور انسانی حقوق کا علم بردار بنتا ہے مگر اس کا جو کردار سامنے آیا‘ وہ یہ ہے کہ اس نے اپنے دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی‘ اپنی عدالتوں سے رجوع کرنے سے گریز کیا‘ اپنے زیرانتظام دنیا کے مختلف ممالک میں قیدخانے اور عقوبت خانے قائم کیے اور خود اپنے دوست ممالک کے قانون اور حاکمیت (sovereignty)کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی۔ نیز ٹارچر سے احتراز کے اپنے تمام دعووں کے باوجود‘ بلاواسطہ اور بالواسطہ معصوم انسانوں کو‘ جو سب ہی مسلمان تھے‘ مسلسل چار سال تک غیرقانونی اور غیرانسانی تعذیب (torture) کا نشانہ بنایا۔ اس کی کہیں کوئی دادرسی نہ ہوئی بلکہ کچھ مسلمان حکمران ظلم کے اس کھیل میں امریکا کے آلہ کار بنے اور ابھی تک وہ ہر احتساب سے بالاتر ہیں۔

ابوغریب کی جیلوں میں جو کچھ امریکا نے کیا تھا اور جس کے ۶۰۰ واقعات اتنے ہولناک تھے کہ عالمی دبائو میں امریکا کو بظاہر ان کا نوٹس لینا پڑا‘ جب کہ ہزاروں واقعات پر پردہ پڑا رہا۔ اس نے ساری دنیا میں امریکا کے دہرے معیار کا بھانڈا پھوڑ دیا اور وہ استبدادی ہتھکنڈے سب کے سامنے آگئے جو جمہوریت کے یہ علم بردار بے دریغ استعمال کر رہے تھے اور دنیا کو تہذیب کا درس دے رہے تھے‘ بلکہ کہہ رہے تھے کہ دہشت گردی اس لیے فروغ پارہی ہے کہ ان لوگوں کو ہماری آزادی اور جمہوریت بری لگتی ہے۔

پھر اسی زمانے میں اس خبر نے امریکا کے امیج کو بُری طرح مجروح کیا کہ امریکی افواج نے فلوجہ کے محاذ پر ۲۰۰۴ء میں سفید فاسفورس کا بے دریغ استعمال کیا ہے جو ایک کیمیائی ہتھیار ہے اور بین الاقوامی قانون کے مطابق اس کا استعمال انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے۔

لاس اینجلس ٹائمز کا مضمون نگار جوناتھن بی ٹکر (Jonathan B. Tucker) کیمیاوی ہتھیاروں پر سند کا درجہ رکھتا ہے‘ اور کئی کتب کا مصنف اور Monterary Institute's Center for Non-Proliferationکا سینیرفیلو ہے۔ وہ ان نام ور اہلِ قلم میں سے ہے جو اس کا کھلا اعتراف کر رہے ہیں کہ عراق میں امریکا نے کیمیاوی بم استعمال کرکے اپنا منہ کالا کیا ہے اور اس پر جو عالمی ردعمل رونما ہوا ہے وہ بالکل جائز اور امریکا کے لیے باعثِ شرم ہے:

ویت نام کی جنگ کا ایک اَن مٹ نقش بری طرح جلی ہوئی اس بے لباس ویت نامی لڑکی کِم فِک کا تھا جو سڑک پر دوڑتی ہوئی درد اور وحشت سے چیخ رہی تھی۔ یہ ۱۹۷۲ء کا واقعہ ہے۔ کِم فِک کے گھر پر ویت نام کے ہوائی جہاز نے غلطی سے نیپام بم گرا دیا تھا۔ وہ اور تو کچھ نہ کرسکی‘اس نے بے بسی کے عالم میں اپنے کپڑے پھاڑ لیے۔ معصوم شہریوں کے خلاف اس ہولناک ہتھیار کے حادثاتی استعمال نے‘ جسے اس تصویر نے لافانی بنا دیا تھا‘ عالمی راے عامہ کو جنگ کے خلاف منظم کرنے میں مدد دی۔

اب تین عشروں کے بعد نومبر ۲۰۰۴ء میں عراقی مزاحمت کاروں کے خلاف فلوجہ کی جنگ میں امریکا نے ایک دوسرا آتشیں ہتھیار‘ سفید فاسفورس استعمال کیا ہے۔ اس پر امریکا کو خصوصاً باہر کی دنیا میں تنقید کے طوفان کا سامنا ہے۔ سفیدفاسفورس جسے عرف عام میں ڈبلیوپی (wp)کہا جاتا ہے‘ ہوا میں تحلیل ہونے پر اپنے آپ بھڑک اُٹھتا ہے اور اس وقت تک خوفناک طریقے سے جلتا رہتا ہے جب تک کہ آکسیجن ختم نہ ہوجائے۔ اس کے آتشیں ذرات بیرونی کھال پر جم جاتے ہیں‘ گوشت کو ہڈیوں تک گلا دیتے ہیں اور انتہائی گہرے کیمیائی زخم پیدا کرتے ہیں جو ہلاکت خیز نہ بھی ہوں مگر شدید تکلیف دہ ہوتے ہیں اور مندمل ہونے میں بڑا وقت لیتے ہیں۔

فلوجہ میں جہاں صرف جنگجو ہی نہیں تھے‘ عام شہری بھی موجود تھے‘ آتشیں اسلحے کا استعمال تین وجوہات سے شدید غلطی تھا۔ اوّل‘یہ اخلاقی طور پر غلط تھا‘ دوسرے یہ عراق میں امریکی پالیسی کے مقاصد کے خلاف تھا‘ اور تیسرے یہ ایک منافقانہ طرزعمل تھا جو امریکا کے خلاف عالمی غم وغصے کوایندھن فراہم کرتا تھا جس سے جہادی دہشت گردوں کی بھرتی کے لیے واضح جواز فراہم ہوتا تھا۔

جوناتھن ٹکر جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ پوری دنیا کے عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس نے امریکا کے خلاف دنیا بھر میں نفرت کی آگ کو بھڑکایا ہے:

ابوغریب میں قیدیوں سے شرمناک سلوک‘ سمندرپار ممالک میں سی آئی اے کے قیدخانوں کا اسکینڈل اور فلوجہ میں سفید فاسفورس کا استعمال درحقیقت ایک ہی تصویر کے مختلف رخ ہیں۔ یہ اس حکومت کی اخلاقی حِس کے فقدان کی عکاسی کرتے ہیں جس نے امریکا کو دنیا کی نظروں میں ایک بدمعاش ریاست بنا دیا ہے۔

اسی بات کو نوم چومسکی نے نیوزویک کے مائیکل ہیسٹنگ (Michael Hasting)کو دیے گئے انٹرویو میں اس طرح بیان کیا ہے:

بش انتظامیہ امریکا کودنیا میں سب سے زیادہ خوفناک اور قابلِ نفرت ملک بنانے   میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اس باب میں ان لوگوں کی صلاحیت ناقابلِ یقین ہے۔ (نیوزویک‘ ۹ جنوری ۲۰۰۶ئ‘ ص ۵۲)

ہم یہاں اتنا اضافہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ٹارچر کے استعمال کے علاوہ ظالم اور مطلق العنان حکمرانوں اور خصوصیت سے فوجی آمروں کی پشت پناہی کے سلسلے میں امریکا کی پالیسی نئی نہیں ہے۔ بلاشبہہ بش انتظامیہ نے اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ امریکا کی تاریخی پالیسی کا شرمناک حصہ رہی ہے اور اندرونِ ملک جمہوریت اور آزادی کا اگر کچھ نہ کچھ پاس کیا گیا ہے‘ تب بھی اس سے انکار مشکل ہے کہ بین الاقوامی سطح پر جنوبی امریکا سے لے کر ایشیا اور افریقہ کے تمام ہی علاقوں تک ٹارچر اور آمریت دونوں کے فروغ میں امریکا کا   بڑا اہم کردار ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ۱۹۴۶ء سے ۱۹۸۴ء تک پانامہ اور بعد میں Fort Benning, Georgiaکے مقام پر امریکی فوج کے زیراہتمام School of the Americas کے نام سے ایک ادارہ قائم تھا جس میں امریکا اور دوسرے ممالک کے فوجیوں اور ایجنسیوں کے لوگوں کو ٹارچر اور ظالمانہ تفتیش کے طور طریقوں اور اس سلسلے میں جدید ترین   آلاتِ تعذیب کے استعمال کی باقاعدہ تربیت دی جاتی تھی۔ اسی اسکول کے تربیت یافتہ عملے نے جنوبی امریکا اور دنیا کے دوسرے ممالک بشمول عرب ممالک میں ٹارچر کے ایک سیاسی آلے کے طورپر استعمال کو رواج دیا۔ اس سلسلے کے سارے حقائق‘ اخبارات اور رسائل میں تو آتے رہے لیکن پورے دستاویزی ثبوت کے ساتھ یہ ایک تازہ ترین کتاب کی شکل میں بھی شائع ہوگئے ہیں جسے الفرڈ میکائے (Alfred McCoy) نے مرتب کیا ہے اور جو A Question of Torture کے نام سے شائع ہوگئی ہے۔ (ملاحظہ ہو‘ گارڈین‘ لندن میں نوم کلین (Noam Klein) کا مقالہ ’US has been using Torture for Decades‘ ڈان/گارڈین سروس‘ ۱۱دسمبر ۲۰۰۵ئ)

آج گوانتاناموبے کے سیکڑوں قیدیوں کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کیا جا رہا ہے‘ اور اب تک یورپ اور عرب ممالک کے تعذیب خانوں میں امریکا کے ایما پر جو کچھ کیا جاتا رہا‘ جس طرح قیدیوں کو ملک ملک بھیج کر ٹارچر کا نشانہ بنوایا گیا اور ابوغریب عراق کے دیگر قیدخانوں اور افغانستان کے متعدد قیدخانوں میں جو کچھ کیا جاتا رہا ہے وہ کوئی نئی چیز نہیں۔ امریکی وزیردفاع رمزفیلڈ نے تو صاف کہا ہے کہ تفتیش کے لیے غیرمعمولی ذرائع کا استعمال ضروری ہے۔ بات صرف رمزفیلڈ کی نہیں‘ سارے قرائن ظاہر کرتے ہیں کہ ٹارچر کی نہ صرف اجازت بلکہ اس کے کھلے استعمال کی ہدایت یا حکم کا رشتہ صدربش تک پہنچتا ہے۔ نوم کلین لکھتا ہے:

ہمیں اس بارے میں واضح ہونا چاہیے کہ کیا چیز ہے جس کی پہلے مثال نہیں ملتی: ٹارچر نہیں‘ بلکہ اس کا کھلا کھلا ذکر۔ ماضی کی حکومتیں اپنے ان سیاہ کرتوتوں کو خفیہ رکھتی تھیں‘ جرائم کی اجازت ہوتی تھی لیکن ان کا ارتکاب چھپ چھپا کر کیا جاتا تھا‘ سرکاری سطح پر اس کی تردید اور مذمت ہی کی جاتی تھی۔ بش انتظامیہ نے یہ تکلف ختم کر دیا ہے۔   نائن الیون کے بعد اس نے بلاکسی جھجک اور شرم و حجاب کے ٹارچر کرنے کے حق کا مطالبہ کیا‘ جس کو نئی تعریفوں اور نئے قوانین سے جواز فراہم کیا۔

ٹارچر‘ امریکا اگر اپنے ملک کی حدود سے باہر کر رہا ہے‘ تب بھی اس کا جواز کسی صورت فراہم نہیں ہوتا لیکن اصل اعتراض تو ٹارچر کے ارتکاب پر ہے‘ خواہ کہیں ہو۔ امریکی انتظام میں چلنے والے قیدخانوں میں‘ امریکی شہری قیدیوں کو ٹارچر کرتے ہیں اور انھیں امریکی جہازوں میں ہی دوسرے ممالک میں منتقل کیا جاتاہے۔ خفیہ کاموں کے لیے ضروری طور طریقوں کوبالاے طاق رکھنے کے عمل نے فوجی اور خفیہ سروس کی برادری کو مخالفت میں کھڑا کردیا ہے۔ بش نے یہ صورت پیدا کر دی ہے کہ کوئی بھی ایسی تردید نہیں کرسکتا جس پر یقین کیا جاسکے۔ یہ تبدیلی بے حد اہمیت کی حامل ہے۔ جب ٹارچر خفیہ طور پر کیا جائے لیکن سرکاری اور قانونی طور پر انکار کیا جائے تو امید ہوتی ہے کہ جب ظلم بے نقاب ہوگا تو انصاف میسر آئے گا۔ لیکن جب یہ قانون کے پردے میں ہو اور جو ذمہ دار ہوں وہ انکار کریں کہ یہ ٹارچر ہے تو انسان کے اندر وہ مر جاتا ہے جسے  ہنّا آرنڈٹ (Hannah Arendt) نے انسان کے اندر کا منصف قرار دیا ہے۔ جلد ہی متاثرہ لوگ انصاف کے حصول سے مایوس ہوکر اور اس کی کوشش میں خطرات کا یقین ہونے کی بنا پر اس کی کوشش ہی ترک کردیتے ہیں۔ یہ بڑے پیمانے پر وہی کچھ ہے جو کسی عقوبت خانے میں ہوتا ہے جہاں قیدیوں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ جتنا چاہیں چیخ لیں‘ کوئی ان کے چیخنے چلّانے کو نہیں سن سکتا اور نہ کوئی انھیں بچانے کے لیے آئے گا۔ (ڈان بحوالہ دی گارڈین نیوز سروس‘ ۱۱دسمبر ۲۰۰۵ئ‘ ص۱۲)

الفریڈ میک کوائے نے ٹارچر کے سلسلے میں امریکا کے تاریخی جرائم کے دستاویزی ریکارڈ کو پیش کرکے دنیا کے اور خود امریکا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے: بات اِکا دکا واقعات یا چند قانونی ترامیم کی نہیں‘ اگر حالات کو بدلنا ہے تو ظلم کے اس پورے نظام کو بدلنا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ اداروں اور حکومت کی شرکت کی تاریخ اور گہرائی کو نہیں سمجھیں گے تو آپ بامعنی اصلاحات کا آغاز نہیں کرسکتے۔ (ایضاً)


ان سنگین الزامات کے ساتھ امریکی جمہوریت پر ایک اور بدنما داغ بلکہ اس کے ایک مہلک ناسور کے بارے میں بھی انکشاف ہوا ہے جس کا تعلق صحافت کی آزادی سے ہے۔ بلاشبہہ امریکا میں صحافت اور میڈیا کو بڑی آزادی میسر ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکا کے میڈیا پر چند گروہوں کا قبضہ ہے جو اسے اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سرفہرست صہیونی لابی ہے جس کے اثرات پر ایک نہیں دسیوں کتب شائع ہوچکی ہیں۔ ایڈورڈسعید اور نوم چومسکی نے اس موضوع پر خاصا تحقیقی کام کیا ہے۔ دوسری بڑی لابی اب    نیوکونز (Neo-Cons) کی ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ چشم کشا انکشافات وہ ہیں جو خود امریکی حکومت کے کردار کے بارے میں سامنے آرہے ہیں۔

صدربش‘ ڈک چینی اور حکومت کے اہم کارپرداز بلاواسطہ پریس کو ’مشورے‘ (advice)  دیتے رہے ہیں۔ اب یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ صحافت اور میڈیا میں سرکاری ایجنسیوں کے تنخواہ دار بڑی تعداد میں کام کرتے ہیں۔ حکومت کی ہدایات پر بڑے بڑے اخبارات نے نہایت اہم خبریں دبا (kill کر)دی ہیں یا ان کی اشاعت کو مہینوں موخرکیا‘ اور پھر اسی وقت شائع کیا جب ان کے کسی نہ کسی صورت باہر آنے کا امکان صاف نظر آنے لگا۔ یہ بھی اب دستاویزی شہادتوں کے ساتھ ثابت ہوچکا ہے کہ امریکی فوج کے ساتھ جو صحافی ہوتے ہیں اور جن کو embedded journalists کہا جاتا ہے‘ وہ اپنے چشم دید حقائق کو بیان نہیں کرتے بلکہ دراصل فوج کے نقطۂ نظر کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس طرح صحافت کو بھی فوج کی مہم کا ایک حصہ بنادیا گیا ہے۔ پھر اس کی شہادتیں بھی سامنے آگئی ہیں کہ فوج نے خطیر رقم دے کر عراق ہی میں نہیں‘ہر جگہ اپنے مفیدمطلب مضامین لکھوائے ہیں اور خبروں کو خاص رنگ دلوایا ہے۔ امریکا اور برطانیہ دونوں جگہ صحافیوں کو ایک خاص انداز میں واقعات کے بیان پر آمادہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں رابرٹ فسک (Robert Fisk)نے لندن کے اخبار انڈی پنڈنٹ میں بڑا تفصیلی اور حقائق سے بھرپور مواد شائع کیا ہے۔ اب تو یہ واقعہ بھی طشت ازبام ہوچکا ہے کہ خود بش نے الجزیرہ ٹی وی پر بم باری کرنے کی بات کی تھی مگر ٹونی بلیر نے اسے روکنے کی کوشش کی۔ جب یہ خبرشائع ہوگئی تو ٹونی بلیر اور برطانیہ اور امریکا کی ایجنسیوں کو یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ یہ بات باہر کیسے نکل گئی۔ آزادیِ صحافت کے دعوے داروں کے ان کرتوتوں نے دنیا کی نگاہوں میں ان کی ہی نہیں‘    بڑے بڑے اخبارات کی ساکھ (credibility) کو بھی مجروح کیا ہے۔

امریکا کا یہی وہ دوغلا رویہ ہے جس نے دنیا کے عوام کو مایوس کیا ہے اور جمہوریت‘ آزادی اور حقوق انسانی کے امریکی دعووں کی کوئی وقعت باقی نہیں رہی ہے۔ امریکا کے مجرم ضمیر کی بہترین ترجمانی خود اس کے سابق صدر جمی کارٹر نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں کی ہے جس کا حسبِ ذیل اقتباس سنجیدہ غوروفکر کا متقاضی ہے اور خود امریکا کی موجودہ قیادت کے لیے لمحہ فکریہ ہے:

حالیہ برسوں میں میری اس تشویش میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے کہ حکومت کی انتہاپسندانہ پالیسیوں نے ہمارے ان بنیادی اصولوں کو زبردست نقصان پہنچایا ہے جن کا ماضی کی ساری ڈیموکریٹ اور ری پبلکن حکومتوں نے سختی سے تحفظ کیا تھا۔ ان میں امن‘   معاشی و سماجی انصاف‘ شہری آزادیوں اور بنیادی انسانی حقوق جیسے اصول شامل ہیں۔ موجودہ حکومتی طرزعمل نے شہریوں کو مبنی برصداقت اطلاعات فراہم کرنے‘ اختلافی آوازوں اور دوسروں کے نظریات کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنے جیسے پختہ امریکی تصورات کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ امریکی قیادت‘ یہ اندازہ کیے بغیر ساری دنیا پر سامراجی بالادستی قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ ہمیں اس کی کیا قیمت ادا کرنی پڑی ہے یا آیندہ ادا کرنی ہوگی۔ دہشت گردی کے خطرے سمیت ‘ باہمی مفادات کے مختلف امور پر دوسرے ممالک سے خوش دلانہ اتفاق رائے اور اتحاد قائم کرنے کے بجاے ہم نے اس شاہی فرمان کا سہارا لیا کہ ’’تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف؟‘‘ انسانی حقوق کے عظیم چیمپین کے طور پر اپنے تصورات کی سربلندی کے لیے کوشش کرنے کے بجاے ہم شخصی اور شہری آزادیوں کی کھلی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔ کس قدر شرم کی بات ہے کہ صدر اور نائب صدر اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ سی آئی اے کو زیرحراست افراد سے ظالمانہ‘ غیرانسانی اور توہین آمیز برتائو کی اجازت ہونی چاہیے۔ دنیا کی واحد سوپر پاور کی حیثیت سے امریکا کو امن‘ آزادی اور انسانی حقوق کا پرعزم چیمپین اور انسانی ہمدردی کے کاموں کا ہراول دستہ ہونا چاہیے۔ وقت آگیا ہے کہ سیاسی تقسیم سے قطع نظر‘ سارے امریکی اپنے اس مشترکہ عہد کو تازہ کریں کہ ہم پھر سے ان سیاسی واخلاقی اقدار کا احیا کریں گے جنھیں ہم نے ۲۳۰ سالوں سے سینے سے لگا رکھا تھا۔ (نوائے وقت‘ ۱۸ نومبر ۲۰۰۵ئ)

آخیر میں ہم ہرالڈ پنٹر (Harold Pinter) کی اس ویڈیو تقریر کے چند اقتباس دینا چاہتے ہیں جو اس نے اس سال کا نوبل پرائز وصول کرتے وقت کی اور اس نے امریکا کے حقیقی کردار کو اس عالمی فورم پر بڑے دو ٹوک انداز میں پیش کرکے پوری دنیا کے انسانوں کے جذبات کی ترجمانی کی۔ اس نے کہا:

کسی خودمختار ریاست پر براہ راست حملہ کبھی بھی امریکا کا پسندیدہ طریقہ نہیں رہا۔ اس نے ہمیشہ عام طور پر اس طریقے کو ترجیح دی ہے جسے کم شدت کا (low intensity) تصادم کہا جاتاہے۔ اس میں اگرچہ ہزاروں معصوم اور بے گناہ آدمی مرتے ہیں لیکن ان پر ایک ہی دفعہ بم برسا کر انھیں موت کے گھاٹ اُتارنے کے مقابلے میں‘ اس طرح اموات سُست رفتاری سے ہوتی ہیں۔ اس صورت میں آپ اس ملک کے قلب کو مبتلاے مرض (infect)کرتے ہیں‘ آپ ایک سرطانی پھوڑا پیدا کرتے ہیں اور گینگرین کوبڑھتا ہوا دیکھتے ہیں۔ جب آبادی شکست خوردہ ہوجائے___ یا مار دی جائے ایک ہی بات ہے___  اور آپ کے اپنے دوست‘ فوج اور بڑی کارپوریشنیں‘ آرام سے اقتدار پر بیٹھ جائیں تو آپ کیمرے کے سامنے جاکر کہتے ہیں کہ ’’جمہوریت قائم ہوگئی ہے‘‘۔ یہ امریکی خارجہ پالیسی میں ان برسوں میں عام بات تھی جن کا میں ذکر کر رہا ہوں…دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد امریکا نے دنیا میں دائیں بازو کی ہر فوجی آمریت کی حمایت کی اور اکثر صورتوں میں اسے قائم کیا۔ میرا مطلب انڈونیشیا‘ یونان‘ یوراگوئے‘ برازیل‘ پیراگوئے ‘ ہیٹی‘ ترکی‘ فلپائن‘ گواٹے مالا‘ سلواڈوار اور یقینا چلّی سے ہے۔ ۱۹۷۳ء میں امریکا نے صرف چلّی میں جو خوفناک زخم لگائے ان کا ازالہ ممکن نہیں اور اسے ہرگز معاف نہیں کیا جاسکتا۔ ان تمام ممالک میں لاکھوں آدمی مارے گئے۔ کیا ان سب اموات کو امریکی خارجہ پالیسی کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے؟ جواب ہے: ہاں۔ ان سب اموات کا سبب امریکی خارجہ پالیسی ہی تھی…

امریکا کے جرائم منظم‘ فاسقانہ‘ بے رحمانہ اور کسی قسم کی پشیمانی کے بغیر عمل میں آتے رہے ہیں مگر بہت کم لوگوں نے ان کے بارے میں کھل کر بات کی ہے۔ اس نے ’نیکی کے لیے ایک طاقت‘ کا بہروپ بھرکر، اسے نہایت کمالِ فن سے پوری دنیا میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ آپ کو امریکا کو داد دینی پڑتی ہے۔ یہ ہپناٹزم کا ایک شان دار‘ ذہانت سے بھرپور اور غیرمعمولی کھیل ہے۔

میں آپ سے کہتا ہوں کہ امریکا سب کی آنکھوں کے سامنے یہ کھیل کھیل رہا ہے۔ امریکا کا یہ ڈراما بے حد ظالمانہ‘ وحشیانہ اور نفرت انگیزہے۔ اس سے امریکا کی مکاری بھی ظاہر ہوتی ہے…

ہماری اخلاقی حِس کو کیا ہوگیا ہے۔ کیا کبھی ہماری یہ حِس تھی بھی؟ کیا ان الفاظ کے کوئی معنی ہیں؟ کیا یہ ایک ایسے لفظ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو آج کل بہت کم استعمال کیا جاتا ہے‘ یعنی ضمیر؟ صرف ہمارے اپنے افعال کے ساتھ نہیں‘بلکہ دوسرے کے افعال میں جو ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے اس میں بھی۔ کیاہماراضمیر مُردہ ہو چکا ہے؟

گوانتاناموبے کو دیکھیے‘ سیکڑوں افراد کسی الزام کے بغیر تین سال سے زائدعرصے سے قید ہیں۔ انھیں قانونی چارہ جوئی کا کوئی حق نہیں۔ ان پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا جا رہا۔ عملی طور پر وہ عمرقید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ جنیوا کنونشن کے علی الرغم کلی طور پر ناجائز یہ کارروائی جاری ہے۔ نہ صرف یہ کہ اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جا رہا ہے بلکہ جسے ہم ’عالمی برادری‘ کہتے ہیں، اسے بھی اس کی کوئی فکر نہیں۔ یہ مجرمانہ کارروائی ایک ایسا ملک کررہا ہے جو اپنے آپ کو آزاد دنیا کا قائد قرار دیتا ہے…

عراق پر حملہ ایک قزاقانہ اقدام تھا۔ یہ بین الاقوامی قانون کی حددرجے کی توہین تھی اور کھلی کھلی ریاستی دہشت گردی۔ یہ حملہ ایک فوجی حملہ تھا‘ اس کے لیے جھوٹ پر جھوٹ گھڑا گیا۔ اس حملے کا مقصد مشرق وسطیٰ میں امریکا کے فوجی اور معاشی کنٹرول کو مستحکم کرنا تھا۔ ہر طرح کی وجوہ ثابت کرنے میں ناکامی کے بعد آخری چارئہ کار کے طور پر آزادی دلانے کا بہانہ بنایا گیا۔ فوجی طاقت کے اس مظاہرے سے ہزاروں لاکھوں معصوم لوگوں کی موت اورتباہی واقع ہوئی ہے۔

ہم نے عراقی عوام کو کیا دیا ہے؟ ٹارچر‘ کلسٹربم‘ ڈپلیٹڈ یورینیم‘ بلالحاظ قتل و غارت کے لاتعداد واقعات‘ اور ان کی توہین اور تذلیل‘ مگر اس کے باوجود کہتے ہیں کہ ہم مشرق وسطیٰ کے لیے آزادی اور جمہوریت لائے ہیں۔

ایک شخص کو جنگی مجرم اور قتلِ عام کا مرتکب قرار دینے کے لیے آخر آپ کو کتنے آدمی مارنا ہوتے ہیں۔ ایک لاکھ؟ میرے خیال میں یہ کافی ہیں۔ اس لیے یہ انصاف کا تقاضا ہے کہ بش اور بلیر کو عالمی عدالت کے سامنے لایا جائے۔ لیکن بش چالاک ہے۔اس نے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ آف جسٹس کی توثیق نہیں کی ہے۔ اب اگر کوئی امریکی فوجی یا سیاست دان ہی سہی‘ کٹہرے میں لایا جائے گا تو بش نے دھمکی دے رکھی ہے کہ وہ اپنی فوجیں بھیج دے گا۔ لیکن ٹونی بلیر نے اس عالمی عدالت کی توثیق کی ہے‘ اس لیے بلیر پر تو مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ اگر عدالت کو دل چسپی ہے تو ہم اس کا پتا بتائے دیتے ہیں: مسمّی ٹونی بلیر‘ ساکن ۱۰-ڈاؤننگ اسٹریٹ‘ لندن۔

عراق میں مزاحمت کے شروع ہونے سے پہلے ہی امریکی بموں اور میزائلوں سے   کم سے کم ایک لاکھ عراقی ہلاک ہوچکے تھے۔ کیا ان لوگوں کی کوئی حیثیت نہیں؟ ان کی اموات کوئی معنی نہیں رکھتیں؟ ان اموات کا کوئی ریکارڈ بھی نہیں‘ اور ضرورت بھی    کیا ہے۔ اس لیے امریکی جنرل ٹونی فرانکس نے کہا ہے کہ ہم لاشیں نہیں گنتے۔   (دی گارڈین‘ ۸ دسمبر ۲۰۰۵ئ‘ ص ۱۰-۱۲)

ہرالڈ پنٹر نے بسترعلالت سے مظلوم انسانیت اور امریکا کے ہاتھوں زخم خوردہ اور ستم زدہ افراد و اقوام کی طرف سے کلمۂ حق کہہ کر فرض کفایہ ادا کیا ہے۔ یہ انسانیت کے ضمیر کی آواز ہے جسے کوئی آج سنے یا نہ سنے ‘کل ان شاء اللہ اسی آواز سے پوری دنیا کے دروبام گونجیں گے۔


امریکا کے جمہوری نظام کے لیے آج صدر بش‘ ان کی انتظامیہ اور نیوکون کا پورا طائفہ ایک خطرہ بن گئے ہیں۔ صدربش نے دستور کے الفاظ اور روح دونوں کی خلاف ورزی کی ہے اور اپنی راج ہٹ پر قائم ہیں۔ انھوں نے تقرریوں کے نام پر دستور کے متعین طریقے کو ترک کر کے اعلیٰ مناصب پر چور دروازوں سے اپنے پسندیدہ افراد کو مسلط کیا ہے اور اس ضمن میں کانگریس اور سینیٹ کو بھی نظرانداز کرنے میں کوئی تردد محسوس نہیں کیا۔ عام شہریوں کی جاسوسی اور ان کی      نجی زندگی کی تقدیس کو پامال کیا اور اس پر عوامی احتساب کو حقارت کے ساتھ نظرانداز کردیا ہے۔ فوج اور سی آئی اے کے ذریعے انسانیت سوز مظالم کو روا رکھا ہے بلکہ عملاً اسے سندجواز فراہم کی ہے اور اب جب دفاعی بل میں سینیٹر میک کین کی ترمیم کے ذریعے ٹارچر پر کھلی پابندی لگائی گئی ہے‘تب بھی نئے قانون پر دستخط کرنے کے بعد ایک سرکاری اعلامیے میں صدر کے امتیازی اور صوابدیدی اختیار کا اعادہ کیا گیا ہے‘ جب کہ سینیٹ نے نائب صدر ڈک چینی کی ساری کوشش کے باوجود ‘صدر کو استثنا کرنے کا اختیار دینے سے انکار کردیا تھا جس سے قانون سازوں کی نیت کسی ابہام کے بغیر واضح ہوگئی تھی۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس وقت امریکا کے ’جمہوری ڈھانچے‘ پر جو گروہ مسلط ہے وہ شہنشاہی (imperial) فکر کا حامل ہے۔ نیوزویک بالعموم صدر بش کی حمایت کی روایت پر قائم ہے‘ لیکن اس کا مدیر بھی اس ذہنیت پر گرفت کیے بغیر نہیں رہ سکا۔ امریکا کی قیادت جمہوریت کے پہلے اصول‘ یعنی قانون کی پاسداری کی خلاف ورزی تو کرہی رہی ہے لیکن جمہوریت کی روح‘ یعنی دوسرے کی بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں۔ فرید زکریا An Imperial Presidencyکے عنوان سے نیوزویک کے ۱۹دسمبر ۲۰۰۵ء کے شمارے میں لکھتا ہے کہ صدربش کے دور میں:

امریکا نے جمہوریت کا ایک شہنشاہی انداز اختیار کیا ہے۔ بیرونی ممالک کے لیڈروں سے کافی ربط و ضبط ہے مگر یک طرفہ ہے۔ جن بیرونی لیڈروں سے مشورہ کیا جاتا ہے‘ دراصل انھیں امریکی پالیسی کی فقط اطلاع دی جاتی ہے۔ ’’جب ہم امریکی افسروں سے ملتے ہیں‘ وہ بولتے ہیں‘ہم سنتے ہیں۔ ہم شاذ ہی اختلاف کرتے ہیں یا کھل کر بولتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ اسے برداشت نہیں کرسکتے‘‘۔ یہ بات ایک سینیرافسرخارجہ نے اپنے مقابل امریکی افسروں کو ناراض کرنے کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتائی۔ شہنشاہی انداز جو ناراضی پیدا کرتا ہے‘ اس سے قطع نظر بے نیازانہ رویے کا مطلب یہ بھی ہے کہ امریکی افسران غیرملکیوں کے تجربے اور مہارت سے مستفید نہیں ہوپاتے… غیرملکیوں کو امریکی افسر اُس دنیا کے بارے میں جو وہ چلا رہے ہیں بڑی حد تک بے خبر نظر آتے ہیں… شہنشاہی انداز کی اپنی خوبیاں بھی ہیں۔ یہ   خوف زدہ کرتا ہے‘ فیصلہ کن اقدام کے لیے جواز فراہم کرتا ہے اور دوسرے ممالک کو اپنے پیچھے آنے پر مجبور کرتا ہے لیکن یہ قیمتوں کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ اس لیے  جس دنیا میں ہم داخل ہورہے ہیں‘اس کے لیے تو خاص طور پر نامناسب ہے۔ (نیوز ویک‘ ۱۹دسمبر ۲۰۰۵ئ)

اور یہی وہ انداز ’جمہوریت‘ ہے جو بش کی قیادت میں امریکا نے رائج کیا ہے لیکن اس کا نتیجہ ہے کہ خود امریکا میں آج جمہوریت کو اصل خطرہ ان نام نہاد دہشت گردوں سے نہیں جن کے سایوں (shadows) کا تعاقب کیا جارہا ہے بلکہ ان جلادوں سے ہے جو جمہوریت کے نام پر جمہوریت کے ہر اصول‘ روایت اور قدر کا خون کر رہے ہیں۔

ہمیں اس سے انکار نہیں کہ امریکی دستور میں بڑی اچھی باتیں لکھی گئی ہیں۔ ہمیں اس سے بھی انکار نہیں کہ امریکی نظامِ حکومت میں بہت سی اچھی چیزیں بھی ہیں اور عام امریکیوں میں بہت سی وہ انسانی خوبیاں موجود ہیں جو شرفِ انسانیت کا حصہ ہیں۔ امریکا میں آج بھی بڑی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو موجودہ امریکی قیادت کی پالیسیوں اور اقدامات پر ناخوش ہیں یا ماضی کی اُن پالیسیوں پر جو امریکا کی مختلف قیادتیں اپنے اپنے دورِاقتدار میں کرتی رہی ہیں۔ ان مثبت پہلوئوں کے کھلے دل سے اعتراف کے ساتھ ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ امریکی حکمران خصوصیت سے   نائن الیون کے بعد جس راستے پر چل پڑے ہیں‘ وہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی نفی ہے اور عالمی امن و سلامتی کے لیے یہ راستہ بڑا خطرناک ہے۔ امریکا کی ان پالیسیوں نے دہشت گردی میں اضافہ کیا ہے اور دنیا کی مختلف اقوام ‘ خصوصیت سے مسلمان اقوام کے چین اور سکون و اطمینان کو پارہ پارہ کر دیا ہے اور امریکا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف عملاً صف آرا کردیا ہے‘ نیز دنیا کی تمام کمزور قوموں اور ان کے عوام کو ظلم اور محرومی کی آگ میں دھکیل دیا ہے۔ طاقت کی عدم مساوات نے عالمی سطح پر ایک ایسے نئے قسم کے عدمِ تحفظ کو جنم دیا ہے جو کمزور انسانوں کو ایسا راستہ اختیار کرنے کی طرف دھکیل رہا ہے جس سے دنیا میں تشدد‘ خون ریزی اور دہشت گردی میں اضافہ ہورہا ہے۔

یہ حالات سب کے لیے بڑے خطرناک ہیں اور امریکا کو اس زعم میں نہیں رہنا چاہیے کہ وہ محض قوت اور پروپیگنڈے کے بل بوتے پر اقوامِ عالم پر قبضہ کرسکتا ہے اور ان کو اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔ یہ فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ ہوش مندی کا راستہ یہ ہے کہ امریکا سے    بے زاری اور نفرت کے اسباب کا بے لاگ جائزہ لیا جائے اور وہ اسباب جو دُوری اور نفرت پیدا کررہے ہیں‘ ان کو دُور کیا جائے۔ ظلم اور ناانصافی کا خاتمہ کیا جائے اور بقاے باہمی کے اصول پر انصاف اور ایک دوسرے کی آزادی‘ حقوق اور تہذیب و روایات کے احترام کی بنیاد پر عالمی امن کے حصول کی کوشش کی جائے۔ اس کے سوا جو بھی راستہ ہے‘ وہ تباہی کا راستہ ہے اور یہ تباہی وہ ہے جس کی آگ صرف کمزوروں کو اپنی گرفت میں نہیں لیتی بلکہ طاقت ور بھی اسی طرح اس کا نشانہ بنتے ہیں جس طرح کمزور۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ طاقت کی بنیاد پر انسانی مسائل و معاملات کو حل کرنے کی حماقت نہ کی جائے بلکہ عقل و انصاف اور افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا جائے کیوں کہ یہی وہ راستہ ہے جس میں سب کی فتح ہے اور شکست کسی کی بھی نہیں۔

۸ اکتوبر کے زلزلے نے کشمیر اور پاکستان کے شمالی اضلاع کو جس تباہی اور بربادی کا  نشانہ بنایا‘ اس کی نظیر حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی‘ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ناقابلِ فراموش ہے کہ   اس آزمایش اور ابتلا کا مقابلہ ملت اسلامیہ کشمیر و پاکستان نے جس ہمت اور حوصلے سے کیا‘ اس نے غم و اندوہ کی تاریک رات میں ایمان‘ عزم اور اُمید کے ایسے چراغ جلا دیے جن سے تاریکیاں چھٹنے لگیں اور نئی زندگی کے چشمے اُبھرتے نظر آنے لگے۔ اس تباہی میں بھی ہمارے لیے بڑا سبق ہے اور تعمیرنو کی اس جدوجہد میں بھی بڑا حیات آفریں پیغام ہے۔ زندہ قوموں کا یہی شیوہ ہے کہ    ؎

تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے

طبعی زلزلوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے والی قوم کو اب ایک دوسری نوعیت کے زلزلوں سے سابقہ درپیش ہے۔ طبعی زلزلہ کسی پیشگی اطلاع کے بغیر‘ اچانک ہی زمین اور اس کے باسیوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے لیکن جو خوفناک سیاسی زلزلے اب پر تول رہے ہیں‘ ان کو آنے سے پہلے دیکھا اور پہچانا جاسکتا ہے اور ان کو روکنے کا وقت بھی ان زلزلوں کی گرفت سے پہلے پہلے ہے۔  طبعی زلزلوں کے نقصانات کی تلافی واقعے کے بعد ہوسکتی ہے مگر سیاسی زلزلوں کے جلو میں آنے  والی تباہی سے بچنے کا واحد راستہ ان زلزلوں سے پہلے پیش بندی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ کچھ عاقبت نااندیش مصیبت (calamity)کو امکانِ نو (opportunity) کا نام دینے کی کوشش کررہے ہیں‘ یہ دراصل عظیم تر مصیبت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ طبعی زلزلوں کی لائی ہوئی تباہی کا مداوا ریلیف‘ بحالی اور تعمیرنو سے ممکن ہے مگر جو سیاسی زلزلے آج کشمیر پر منڈلا رہے ہیں‘ ان سے بچنے کا راستہ مصیبت کے آنے سے پہلے اس کے لیے تیاری میں مضمر ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس سیاسی کھیل کواچھی طرح سمجھا جائے جو اس وقت اسلام آباد‘ دہلی اور واشنگٹن میں کھیلا جارہا ہے اور آنے والی تباہی سے ملک و ملّت کو بچانے کا بروقت اہتمام کیا جائے ورنہ خدانخواستہ گھر کی تباہی کے بعد واویلا کسی کام کا نہ ہوگا۔

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد تباہی کے جو طوفان اٹھے ہیں اور اُمت مسلمہ کو ایک کے بعد ایک چرکا لگا ہے‘ صرف افغانستان اور عراق ہی نہیں بلکہ فلسطین‘ کشمیر اور شیشان اور ان کے ساتھ اسلامی احیا کی تمام تحریکات اور خود اسلام کے بنیادی تصورات تک اسی طوفان کی زد میں ہیں۔ لیکن اس یلغار کا سب سے الم ناک پہلو یہ ہے کہ امریکا اور برطانیہ کی موجودہ قیادت تو اس صلیبی جنگ کی اصل سرخیل ہے ہی‘ لیکن خود مسلمان ممالک کے کچھ حکمران بھی اس کے دست و بازو بن گئے ہیں۔    یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی موجودہ قیادت اور خصوصیت سے جنرل پرویز مشرف اس مسلم کُش جنگ میں جارج بش کا دست راست بن چکے ہیں اور جس طرح افغانستان پر یوٹرن اور طالبان سے بے وفائی کر کے انھوں نے افغانستان ہی نہیں عراق کو بھی امریکا کی محکومی کا شکار ہونے میں مدد دی‘ اسی طرح اب امریکا کے نقشۂ کار پر عمل کرتے ہوئے بھارت سے دوستی اور کشمیر کے مسئلے سے گلوخلاصی کی تباہ کن پالیسی پر گامزن ہوگئے ہیں۔ اب صاف نظر آرہا ہے کہ کشمیر کی  تحریکِ مزاحمت کے سینے میں خنجر گھونپنے اور بھارت کی بالادستی کو مستقل حیثیت دینے کے لیے کشمیر سے فوجی انخلا (demilitarization)‘ خودانتظامی (self governance)‘ اور ریاست ہاے متحدہ کشمیر (United States of Kashmir) کا سہ نکاتی فارمولا سامنے لایا گیا ہے جسے مسئلے کے مستقل حل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ان میں سے کوئی بھی چیز نہ نئی ہے اور نہ مسئلے کے حقیقی حل کی طرف کسی پیش رفت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

کشمیر پر پسپائی: چہے مھلک غلطیاں

مسئلہ کشمیر پر جنرل مشرف کی پسپائی کا آغاز ۲۰۰۲ء میں ہوگیا تھا۔ جیسے ہی وہ امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی گرفت میں آئے اور ’مجبوری کے اتحاد‘ (coalition of the coerced) کا حصہ بنے کشمیر پر پسپائی کا آغاز ہوگیا۔ پہلے دہشت گردی اور جنگِ آزادی میں فرق کیا جاتا تھا‘ اب وہ فرق پادر ہوا ہوگیا اور جنرل صاحب بھی ’سرحد پار دراندازی‘ کی بھارتی قیادت کی زبان استعمال کرنے لگے جسے بالآخر ۶جنوری ۲۰۰۴ء کے بھارت پاکستان اعلامیہ کے  دہشت گردی پروٹوکول کی شکل میں ایک مستقل زنجیر کی حیثیت دے دی گئی۔ اسی دوران بڑی چابک دستی سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ایک طرف رکھ دینے کی بات شروع ہوگئی اور متبادل تجاویز کے غبارے چھوڑے جانے لگے۔ یہ سب کچھ ایک فردِواحد کے فیصلے اور اشارے پر کیا گیا اور۵۸سالہ قومی اتفاق راے‘ دستورپاکستان کے واضح لوازم اور ایک بار نہیں بار بار پارلیمنٹ میں کیے گئے اعلانات اور قراردادوں کو بالاے طاق رکھ کر کسی قومی مشاورت کے بغیر  چھے ایسے اقدام کیے گئے جن کے نتیجے میں پاکستان کی کشمیر پالیسی تار تار ہوگئی اور بھارت اور امریکا کے گٹھ جوڑ نے علاقے کے بارے میں جو نقشہ بنایا ہوا تھا اس کے لیے زمین ہموار کی جانے لگی۔

۱- خارجہ پالیسی میں کشمیر کی مرکزیت اور خصوصیت سے بھارت سے معاملات کو طے کرنے میں اس مسئلے کی اولیت کے اصول کو یک طرفہ ترک کر دیا گیا۔ بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگی گئی اور کشمیر کے مرکزی ایشو (core issue)  ہونے کو عملاً ترک کردیا گیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی کا یہ ہدف کہ اصل مسئلہ کشمیر نہیں‘ پاکستان سے تجارت‘ ثقافت اور دوسرے میدانوں میں تعاون اور تعلقات کو معمول پر لانا ہے‘ اسے خود پاکستان کی موجودہ قیادت نے قبول کرلیا اور اعتمادسازی کے اقدامات (CBM's) کے نام پر اس راستے پر بگ ٹٹ سرگرم ہوگئی۔

۲- اقوام متحدہ کی قرارداد کو ایک طرف رکھ دیا گیا ہے جو دراصل کشمیر سے دست کش ہوجانے کی طرف پہلا قدم تھا۔ مسئلہ کشمیر کی اصل بنیاد ___ قانونی‘سیاسی‘ اخلاقی‘اقوام متحدہ کی قراردادیں ہی ہیں اور اس سلسلے میں سب سے اہم قرارداد …۱۹۴۸ء کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی وہ قرارداد ہے جس میں صاف لفظوں میں کہا گیا ہے:

مسئلہ کشمیر کو پرامن طور پر حل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ریاست کو غیر فوجی علاقہ قرار دے دیا جائے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب راے منعقد کیا جائے۔

حق خود ارادیت ایک بنیادی حق ہے جسے اقوام متحدہ کے چارٹر میں تسلیم کیاگیا ہے اور وقت کے گزرنے سے اس حق پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ ۱۹۹۳ء میں ویانا میں منعقد ہونے     والی انسانی حقوق کی عالمی کانفرنس سے لے کر ۱۹۹۴ء میں کوپن ہیگن میں Social Summit‘ پھر ۲۰۰۰ء میں منعقد ہونے والی Millenium Summit اور خود ۲۰۰۵ء میں ہونے والی اقوام متحدہ کی عالمی سربراہ کانفرنس نے اس حق کے ناقابل سمجھوتہ ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ ایک مبصر کے الفاظ میں:

سب نے غیر ملکی قبضے اور بیرونی تسلط کی مذمت میں تمام انسانوں کے حق خودارادیت کی تصدیق کی۔

جموں و کشمیر کے عوام کے اس حق خود ارادیت اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں اس کے واضح اقرار سے دست کش ہونے کا اختیار کسی شخص کو نہیں تھا اور نہ ہے___ لیکن جنرل صاحب نے اہلِ کشمیر ہی نہیں‘ پوری مظلوم انسانیت کے اس حق پر ہاتھ صاف کرڈالا‘ جب کہ ان کے اس اعلان کی خبر وزیرخارجہ‘ وزارتِ خارجہ اور پارلیمنٹ کو رائٹر کی خبر سے ملی اور کسی سے مشورہ کرنے کی زحمت کرنا انھوں نے گوارا نہ کی۔ ان کے اس اعلان کی کوئی قانونی‘ سیاسی یا اخلاقی حیثیت نہیں اور پاکستانی قوم اور جموں و کشمیر کے عوام نے اسے رد کردیاہے لیکن جنرل صاحب نے پاکستان کی پوزیشن کو بری طرح مجروح کیا اور تحریکِ مزاحمت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔

۳- بیرونی اقتدار کے خلاف تحریکِ مزاحمت اور حقیقی دہشت گردی کے درمیان فرق کو نظرانداز کر کے اور امریکا‘ بھارت اور اسرائیل کی دی ہوئی لائن پر صاد کر دیا گیا ہے۔ یہ اقدام بھی خود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں اور غیروابستہ تحریک کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی ہے اور خود عالمِ اسلام کے اہلِ علم و دانش کے اس اعلامیے کی ضد ہے جو ۱۱ستمبر کی نام نہاد امریکی جنگ کے بعد مکہ مکرمہ میں چھے روزہ اجتماع کے بعد جاری کیا گیا تھا جس میں صاف الفاظ میں اعلان کیا گیا تھا کہ دہشت گردی عام انسانوں کو اپنے تشدد کا نشانہ بنانے سے عبارت ہے جس کا کوئی جواز نہ ہو اور جس کا ارتکاب خواہ کوئی فرد کرے‘ یا گروہ یا ریاست۔ البتہ بیرونی قبضے اور تسلط کے خلاف مزاحمت کی ہر وہ کوشش جو افراد یا گروہ اپنی آزادی اور مسلط قوت یا سامراجی قبضہ کاروں (colonial settlers) سے اپنی اور اپنے وطن کی گلوخلاصی کے لیے کر رہے ہوں‘ اس سے مستثنیٰ ہے۔

۴- یک طرفہ جنگ بندی کر کے یہ اعلان کر دیا گیا ہے کہ جنگ مسائل کا حل نہیں۔ حالانکہ یہ سوال ہی مہمل ہے کہ جنگ حل ہے یا نہیں۔ جنگ تو نام ہی سیاسی حل کی ناکامی کا ہے اور اس صورت میں بین الاقوامی قانون اور تعلقات کے تمام ہی مستند اہلِ علم جنگ کو خارجہ پالیسی کا ایک ہتھیار قرار دیتے ہیں۔ جس طرح ملک کے اندر امن و امان‘ جان و مال کا تحفظ اور قانون‘ حقوق اور معاہدوں کے احترام کے لیے فوجداری قانون‘ پولیس اور نظامِ احتساب ہوتا ہے‘ بالکل اسی طرح عالمی امن اور ملکی سلامتی اور دفاع کے لیے فوج کا وجود اور جنگ کا کردار ہے۔ اگر جنگ کا کوئی کردار نہیں تو پھر فوج کا کیا جواز ہے۔ سفارت کاری‘ سیاسی معاملہ بندی اور جنگ کا سدِّجارحیت (deterrent) کردار‘ سب کا عالمی سیاست میں اپنا اپنا حصہ ہے۔ بھارت کی جنگی تیاریوں اور فوجی عزائم کی موجودگی میں پاکستانی قیادت کی طرف سے اس نوعیت کے اعلانات   ذہنی شکست کی علامت ہیں اور دشمن کو شہ دینے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل صاحب کی خاکساری کی تمام باتوں اور صلح اور دوستی کے لیے منتوں کے باوجود بھارتی قیادت کا رویہ تکبر‘ غرور اور مبارزت کا ہے۔ ۱۸نومبر ۲۰۰۵ء کو بھارتی ایئرچیف مارشل ایس پی تیاگی نے پونا یونی ورسٹی میں جو ہرزہ سرائی کی ہے وہ ہماری قیادت کے منہ پر طمانچے کی حیثیت رکھتی ہے:

پاکستان اور بھارت کے مابین اعتماد کے نئے رشتے کے باوجود پاکستان بھارت کا دشمن اوّل رہے گا اور ہماری سلامتی کے لیے مسلسل خطرہ رہے گا۔ ہم پاکستان کو دشمن اوّل سمجھتے ہیں لہٰذا ہم بھارتی فضائیہ کی طاقت میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔

پھر موصوف نے وہ تفصیلات بیان کیں جو بھارتی فضائیہ کو ناقابلِ تسخیر ہی نہیں‘ علاقے کے لیے  سب سے بڑی جارح قوت بنانے کے لیے کی جا رہی ہیںجس میں ملک میں جنگی طیاروں کی  تیاری‘ ایف-۱۶ طیاروں کی خریداری اور ٹکنالوجی کا حصول‘ جدید ہیلی کاپٹروں کی خرید‘ ایئرڈیفنس میزائل کی ترقی‘ مگ ۲۱ اور ۲۷ اور جیگوار طیاروں کو جدید ٹکنالوجی سے آراستہ کرنا شامل ہے۔

۵-  پانچویں بڑی غلطی سفارت کاری کا وہ نادر طریقہ ہے جو جنرل صاحب نے شروع کر رکھا ہے‘ یعنی اپنی طرف سے نت نئی تجاویز (options) کی بارش اور پھر اپنی ہی تجویز سے ایک نئی پسپائی‘ جب کہ بھارت کی طرف سے بڑھ بڑھ کر یہ اعلان کہ زمین کے معاملے میں کوئی بات نہیں ہوسکتی‘ بھارتی دستور اور وہاں کی پارلیمنٹ کی قرارداد سے ہٹ کر کوئی اور متبادل تجویز زیرغور نہیں لائی جاسکتی‘ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور اگر کوئی بات چیت ہوگی تو وہ آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کے بارے میں ہوگی‘ اور خرابی کی ساری جڑ دہشت گردی اور سرحد پار دراندازی ہے۔ مذہب کی بنیاد پر کوئی بات چیت ممکن نہیں وغیرہ۔ بھارت کی سیاسی قیادت ہی نہیں‘ ہر سطح کی قیادت کی یکسوئی‘ ہم آہنگی اور اپنے موقف پر استقامت کے مقابلے میں ہماری سفارت کاری پسپائی اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔

۶-  اس سلسلے کی چھٹی اور بڑی ہی مہلک غلطی جو جموں و کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کے لیے ضرب کاری کی حیثیت رکھتی ہے‘ وہ آل پارٹیز حریت کانفرنس (APHC) کی تقسیم ہے۔ کشمیری عوام کی اس معتمد علیہ قیادت سے جو ایک طرف تصور پاکستان کی امین ہے تو دوسری طرف جس کی قربانیاں بے مثال اور جس کا عزم و ہمت لازوال ہے‘ بے وفائی اور اپنی پسند کے چُھٹ بھیّوں کو پروپیگنڈے کی بیساکھیوں کے ذریعے لیڈری کی خلعت سے نوازنا بے حد شرمناک ہے۔ حکومت پاکستان کی ان قلابازیوں سے کشمیری مزاحمت کی اصل قیادت پر کوئی اثر نہیں پڑا جو سید علی شاہ گیلانی‘ حزب المجاہدین اور دوسری حقیقی سیاسی اور جہادی قوتوں سے عبارت ہے۔ وہ اسی طرح اپنے اہداف کے حصول کے لیے سرگرم ہیں جس طرح پہلے تھیں لیکن حکومت پاکستان کی ساکھ اور کشمیر کے کاز سے اس کی وفاداری پر ایسے چرکے لگے ہیں کہ دوبارہ اعتماد کو بحال کرنا ایک مشکل کام بن گیا ہے۔ پاکستان کی موجودہ قیادت اور کشمیر کی تحریک مزاحمت کی حقیقی قیادت میں بڑا بُعدواقع ہوگیا ہے اور ہمیں ڈر ہے کہ یہ بُعد پاکستان کو بہت مہنگا پڑسکتا ہے۔

ان غلطیوں کا فطری نتیجہ اب یہ سامنے آیا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کی نوعیت ہی بدل گئی ہے۔  جنرل صاحب اور ان کے حواریوں کے لیے اب اصل ایشو جموں و کشمیر کے عوام کا حق خود ارادیت نہیں بلکہ صرف خود انتظامیت (self governance) ہے۔ یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ کشمیر کو پانچ یا سات علاقوں میں تقسیم کرکے‘ بھارت اور پاکستان کے تحت کچھ اختیارات دینے کی بات کی جانے لگی ہے۔ اس میں چار چاند لگانے کے لیے اس امریکی اسکیم کو جسے ۲۰۰۰ء میں امریکا کے ایک کروڑپتی بھارتی کشمیری نے چند امریکی سیاست دانوں اور دانش وروں کے ساتھ مل کر پیش کیا تھا اور سب کشمیری گروپوں اور پاکستان کے اہلِ دانش نے اسے رد کر دیا تھا‘ دوبارہ زندہ کیا جا رہا ہے۔ اسے ’یونائیٹڈ اسٹیٹس آف کشمیر‘ کے نام سے چند کشمیری رہنما اس طرح پیش کر رہے ہیں جس طرح کشمیر کی ’خودمختاری‘ (autonomy) کے خیالی نقشے خود شیخ عبداللہ نے ۱۹۵۳ء میں پیش کیے تھے اور ان کی پاداش میں وہ بیک بینی و دوگوش مسند وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کرکے زنداں کی تاریکیوں کے حوالے کردیے گئے تھے جہاں سے ان کو ’راے شماری‘ کی روشنی دوبارہ نظر آنے لگی تھی۔

کشمیر سے دست برداری

صاف نظر آرہا ہے کہ جنرل صاحب اور ان کے حواری ذہنی طور پر شکست کھاچکے ہیں اور اب کشمیر کے مسئلے سے دست کش ہونے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ امریکا کے روڈمیپ پر عمل کر رہے ہیں اور فضا سازگار کر رہے ہیں کہ کشمیر کی تقسیم مستقل شکل اختیار کرلے‘ وہ لائن آف کنٹرول کو    بین الاقوامی سرحد چاہے نہ بھی کہیں لیکن عملاً اسے مستقل سرحد ماننے پر تلے ہوئے ہیں اور نرم سرحدوں اور سرحدوں کو غیرمتعلق (irrelevant) کرنے کی طفل تسلیوں سے قوم کا دل خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کشمیر کے ایک حصے پر بھارت کی مستقل بالادستی اور دوسرے پر پاکستان کی‘ اس نقشے کا اصل حصہ ہیں جو اہل کشمیر کی پوری جدوجہد پر پانی پھیرنے اور ان کی قربانیوں کو خاک میں ملانے کے مترادف ہے۔ جنرل صاحب کے وزیراعظم اپنے ایک بیان میں یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ اب کشمیر کے مسئلے کے مستقل حل کی صورت بس فوجوں کی واپسی اور خودانتظامی میں مضمرہے:

منگل کو وزیراعظم شوکت عزیز نے کہا کہ پاکستان بھارت سے اپنے دیرینہ طویل مدت سے برقرار تنازعے کو ختم کرنے کے لیے کشمیر سے فوجی انخلا اور خودانتظامی کی تائید کرتا ہے۔ (دی ڈیلی ٹائمز‘ ۳۰ نومبر ۲۰۰۵ئ)

دیکھیے بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔ اس قیادت کی نگاہ میں اس دیرینہ مشکل مسئلے کا خاتمہ فوجوں کی واپسی اور خود انتظامی میں ہے۔ یہ کشمیر کے کاز کے ساتھ کھلی غداری اور جموں و کشمیر کے عوام کی قربانیوں کا سودا کرنے کے مترادف ہے جسے کشمیر کے عوام اور پاکستانی قوم کبھی قبول نہیں کرسکتی۔ جو بات جنرل مشرف‘ شوکت عزیزاور میرواعظ عمرفاروق فرما رہے ہیں‘ وہ صاف طور پر  حق خود ارادیت سے دست برداری اور بھارت اور پاکستان کے زیرتسلط منقسم کشمیر میں کسی قسم کی  خود انتظامی کے بھارتی اور امریکی منصوبے کے آگے سپرڈال دینے سے عبارت ہے۔ اس کا یہی وہ مفہوم ہے جو امریکا اور بھارت کے دانش ور اور پالیسی ساز سمجھ رہے ہیں‘ البتہ اسے قابلِ قبول بنانے کے لیے بھارت ذرا تغافل‘ تجاہل اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا ہے‘ ورنہ تقسیمِ کشمیر اور نام نہاد خود انتظامی اس کا اصل مقصود ہے‘ اور پاکستانی قیادت کی زیادہ سے زیادہ پسپائی کے بعد وہ اس فارمولے کو تسلیم کرے گا۔ وہ ساری مزاحمت پاکستانیوں کے لیے اسے قابلِ قبول بنانے کے لیے نمایشی طور پر کر رہا ہے۔

بھارتی روزنامہ سٹارنیوز کا سفارتی امور کا مدیر جیوتی ملہوترا ’سیلف گورننس‘کی اس پاکستانی تجویز پر اپنی خوشی کو چھپا نہیں پا رہا کہ دیکھو پاکستان کس طرح کشمیر کی آزادی کے اس ہدف سے دست بردار ہوگیا ہے جو چند سال پہلے پورا ہوتا نظر آرہا تھا:

یہ ’آزادی‘ سے کتنا بعید تصور ہے! ایک عشرے پہلے کا حقیقی پریشانی اور تراشیدہ سیاسی مکر کا مرکب‘ جب کہ بہت سے لوگ سوچنے لگے تھے کہ بھارتی قبضے کا اختتام قریب ہے۔

وہ کہتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی نرم سرحدوں کی بات اور جنرل پرویز مشرف کے خود انتظامی اور فوجوں کی واپسی کی تجویز ان خطوط کار کی نشان دہی کررہے ہیں جن کے مطابق معاملات طے ہوسکتے ہیں۔ اس کی نگاہ میں میرواعظ عمر فاروق کی یونائیٹڈ اسٹیٹس آف کشمیر کی تجویز سونے پر سہاگہ ہے۔ وہ بڑے معنی خیز انداز میں سوال کرتا ہے کہ:

سوال یہ ہے کہ آیا نرم سرحدیں اور خود انتظامی ایک ہی چیز ہیں؟

اور اپنا مضمون اس دل چسپ جملے پر ختم کرتا ہے کہ:

بالآخر آزادی کو تاریخ کے سپرد کر دینے کے بعد سیکڑوں نئے تصورات اُبھرے۔ اس بحث کا سب سے ہیجان انگیز (exciting) پہلو یہ ہے کہ بحث کا آغاز ہوگیا۔ (دی نیوز انٹرنیشنل‘ ۱۵ دسمبر ۲۰۰۵ئ)

امریکا کا مشہور کالم نگار جوناتھن پاور جس کا کالم ۵۰ اخبارات میں شائع ہوتا ہے‘ پاکستان کی طرف سے دی گئی رعایتوں کی طویل فہرست بیان کرکے کہتا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو ختم کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ اس لیے کہ:

یہ وقت ہے کہ آگے بڑھا جائے‘ جب کہ عسکری مردِ آہن مشرف پاکستان کو کچھ دے سکتا ہے۔ ایک سال کے بعد ہونے والے مجوزہ انتخابات اس کا بھرم کھول سکتے ہیں۔

وہ اعتراف کرتا ہے کہ:

یہ پاکستان ہے جس نے حساس رعایات دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے‘ جیساکہ اس پر تیار ہونا کہ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے وعدے کہ مسئلے کو استصواب رائے کے ذریعے حل ہونا چاہیے‘ کو ایک طرف ڈالنا اور یہ قبول کرنا کہ کشمیر کا بیشتر حصہ براہِ راست بھارتی حاکمیت کے ماتحت رہے۔

مزید یہ کہ مشرف نے فوج اور جہادیوں کے درمیان نال (umbilical cord)کو بالآخر کاٹ دیا ہے۔ شاید بھارت اپنے کو بہت زیادہ مطمئن محسوس کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اگر وہ انتظار کرے تو پاکستان مزید رعایتیں دے سکتا ہے۔ (دی ڈیلی ٹائمز‘ ۱۶دسمبر ۲۰۰۵ئ‘ ص ۱۳)

پاکستانی قیادت اپنے کو‘ اپنے عوام کو خود فریبی میں مبتلا کرنے کے لیے کچھ بھی کہے‘    جنرل پرویز مشرف کی کشمیر پالیسی کشمیر سے دست برداری سے کم کوئی چیز نہیں ہے اور پاکستانی قوم کو اس کھیل کو سمجھ کر اپنا کردار بلاتاخیر اور مؤثر ترین انداز میں ادا کرنے کے لیے کمربستہ ہوجانا چاہیے۔

خود انتظامی یا خود ارادیت

مسئلہ کشمیر کی اصل حقیقت کو پراگندا کرنے کی جو ناپاک کوشش ہو رہی ہے‘ اسے سمجھنا بہت ضروری ہے۔ کشمیر کی جدوجہد آزادی تقسیمِ ملک کے بعد شروع نہیں ہوئی‘ اس سے بہت پہلے شروع ہوگئی تھی۔ قرارداد پاکستان (۱۹۴۰ئ) سے بھی ۱۰ سال پہلے کشمیر میں عوامی تحریک اور قربانیوں کا لازوال سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور اس پوری جدوجہد کا ایک ہی ہدف تھا___ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کا ظالمانہ ڈوگرہ راج اور اس کے سرپرست برطانوی سامراج سے آزادی اور ریاست کے اسلامی تشخص کی روشنی میں اس کے مستقبل کی تعمیروتشکیل۔ قرارداد پاکستان کے اختیار کیے جانے اور تحریکِ پاکستان کے شروع ہوجانے کے بعد فطری طور پر تحریک آزادی کشمیر اس وسیع تر تحریک کا حصہ بن گئی۔ تقسیم ملک کے اعلان کے ساتھ جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے تحریک الحاق پاکستان کا آغاز کر دیا۔ آزاد کشمیر کا جو علاقہ آزاد ہوا ہے وہ کسی کی عنایت سے نہیں بلکہ مجاہدین کی قربانیوں سے آزاد ہوا ہے۔ اسی طرح شمالی علاقہ جات کے عوام کا اُٹھ کھڑا ہونا اور قربانیاں اس اسٹرے ٹیجک علاقے کی آزادی اور پاکستان سے رشتہ استوار کرنے کا ذریعہ بنی۔ اس حقیقت کو بھلایا جا رہا ہے کہ آزادی کی یہ تحریک ۱۹۳۰ء سے برسرِ جہاد ہے اور ۴۸-۱۹۴۷ء میں جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے ۴ لاکھ افراد کی قربانی پیش کرکے اس علاقے کو آزاد کرایا ہے جو آج آزاد جموںو کشمیر کے نام سے تحریک آزادیِ کشمیر کا بیس کیمپ بنا ہوا ہے۔ ۱۹۸۹ء میں مقبوضہ کشمیر میں جو مزاحمت اور جہاد کی تحریک رونما ہوئی وہ اسی کا تسلسل اور سیاسی اور جمہوری ذرائع سے تبدیلی کے تمام دروازے بندکرنے کا نتیجہ ہے۔

پھر یہ بات بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ جسے آج خود انتظامی (self governance) کہا جا رہا ہے وہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ ۱۹۵۳ء تک شیخ عبداللہ کے دور میں جو نقشۂ کار بنایا گیا تھا اس میں کم از کم نظری طور پر خودانتظامی کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے دستور میں ایک خاص دفعہ ۳۷۰ اس کے لیے رکھی گئی۔ گو بعد میں بھارت نے اس شق کی دھجیاں بکھیر دیں اور پورے کشمیر پر بدترین مرکزی آمریت مسلط کی لیکن ’خود انتظامی‘ کا دلاسہ بار بار دیا گیا۔ پھر نرسیمارائو کے زمانے میں زیادہ سے زیادہ (maximum) خودمختاری کی باتیں ہوئیں اور جموں و کشمیر کی اسمبلی نے جون ۲۰۰۲ء میں ایک قرارداد بھی منظور کی۔ شیخ عبداللہ  اور اندرا گاندھی کے معاہدے کا مرکزی تصور بھی خودانتظامی ہی تھا اور آج بھی بھارت کی قیادت  یہ دعویٰ کررہی ہے کہ وہ کشمیر کو خود انتظامی دے چکی ہے اور اگر خود انتظامی کی کہیں کمی ہے تو وہ پاکستانی حصہ یعنی آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں ہے۔

روایت ہے کہ ڈھاکہ میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے پاکستانی ہم منصب  شوکت عزیز صاحب سے کہا تھا:

جموں و کشمیر پہلے ہی بھارتی دستور کے تحت خودمختاری سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور آزاد اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے ایک مقبول منتخب حکومت قائم تھی۔ انھوں نے جناب عزیز کو بتایاکہ: ’’پاکستان کے زیرنگرانی کشمیر میں خودمختاری کا واضح فقدان ہے اور گلگت بلتستان میں عوام کی خواہشات اور تمنائوں کا تعین کرنے کے لیے کسی بھی طرح کے عوامی انتخابات نہیں ہوئے ہیں‘‘۔ (دی ہندو‘ دی نیشن‘ ۱۰ دسمبر۲۰۰۵ئ)

پاکستان کی موجودہ قیادت نے خود انتظامی کی بات کر کے کشمیر کے بارے میں اپنے سارے کیس کو خود ہی تباہ کر ڈالا ہے۔ مسئلہ خود انتظامی کا نہیں‘ خود ارادیت کا ہے۔ اب ایشو ہی بدل گیا ہے اور ہم بھارت کے جال میں پھنس گئے ہیں اور جیساکہ جوناتھن پاور نے صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ جنرل پرویز مشرف اپنے اس موقف کی وجہ سے کشمیر کے بڑے حصے پر بھارت کی مستقل حاکمیت کو تسلیم کرچکے ہیں اور نتیجتاً کشمیر کی تقسیم کو مستقل حیثیت دینے پر تیار ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ عبداللہ کے بیٹے ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور اس کے پوتے اور نیشنل کانفرنس کے موجودہ صدرعمر عبداللہ نے میرواعظ اور جنرل مشرف کی اس تجویز کو ’پرانی بوتل پر نیا لیبل‘ قرار دیا ہے اور میرواعظ پر طنزکرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اگر ان کو ہمارا ایجنڈا ہی چرانا تھا تو ہزاروں افراد کو مروانے کی کیا ضرورت تھی‘‘۔

بھارت تو دراصل کسی حقیقی ’خودانتظامی ‘ کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور یہی وجہ ہے کہ دستور کی دفعہ ۳۷۰ میں بار بار ترمیم کی گئی ہے اور صدارتی حکم ناموں سے اس کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے۔ نیز مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کی ۲۶ جون ۲۰۰۰ء کی قرارداد جس میں خوداختیاری (autonomy) کا مطالبہ کیا گیا تھا وہ ۴ جولائی ۲۰۰۰ء ہی کو بھارتی کابینہ کے فیصلے کے ذریعے رد کر دیا گیا تھا اور تاریخ شاہد ہے کہ بھارت کسی شکل میں بھی حقیقی خوداختیاری دینے کے لیے نہ کبھی تیار ہوااور نہ ہوگا۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ خود انتظامی ایشو ہے ہی نہیں۔ اصل ایشو ایک اور صرف ایک ہے اوروہ ہے جموں و کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کا۔ اس کے حصول کے لیے خواہ کتنی ہی مدت لگے‘ وہاں کے عوام اس سے کم پر کبھی تیار نہیں ہوسکتے۔ وہ ۴۸-۱۹۴۷ء میں ۴ لاکھ افراد کی قربانی دے چکے ہیں اور ۱۹۸۹ء سے اب تک ایک لاکھ افراد جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں اور ان کے جذبے اور جدوجہد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ ان کو اگر کوئی مایوسی ہے تو وہ پاکستان کی قیادت سے اور اس کی روز روز کی قلابازیوں اور بے وفائیوں سے ہے۔ ورنہ ان کا حال تو یہ ہے کہ    ؎

شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا

پُر دَم ہے اگر ُتو‘ تو نہیں خطرہ افتاد

گذشتہ دو سال میں پاکستان نے جو پے بہ پے غلطیاں کی ہیں اور جنرل پرویز مشرف کی ساری پسپائیوں کے جواب میں بھارت نے جس ہٹ دھرمی‘ضد اور اپنے اٹوٹ انگ موقف پر ڈٹے رہنے کا مظاہرہ کیا ہے‘ اس پر اب خود جنرل مشرف اور وزیرخارجہ خورشید قصوری بار بار کہہ رہے ہیں کہ بھارت نے کوئی لچک نہیں دکھائی اور ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں پانچ سال پہلے کھڑے تھے___ لیکن اس کے باوجود تاریخ سے نابلد اس قیادت کی آنکھیں نہیں کھلتی ہیں اور وہ امریکا کے بھروسے پر مزید پسپائیاں اختیار کرنے پر تلی ہوئی ہے۔

امریکی منصوبہ

اس زمانے میں جو بھی بھارت یا مقبوضہ کشمیر گیا ہے‘ وہ اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ پاکستان کی اصولی اور متفق علیہ کشمیر پالیسی آج پارہ پارہ ہوچکی ہے اور پاکستان پر کشمیری عوام کا اعتماد بری طرح متزلزل ہوچکا ہے‘ جب کہ بھارت کی کشمیر پالیسی میں کوئی فرق نہیں آیا ہے اور وہ پاکستان سے مزید رعایات کا اسی طرح مطالبہ کر رہا ہے جس طرح اسرائیل مجبور فلسطینیوں سے شب و روز کررہا ہے۔ امریکا اپنا کھیل کھیل رہا ہے۔ وہ ایک طرف پاکستان کو مزید پسپائی اختیار کرنے پر زور دے رہا ہے اور دوسری طرف بھارت کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے پر تلا ہوا ہے۔ نیز اس کا مفاد اس میں ہے کہ کشمیر منقسم رہے مگر کوئی ایسی صورت نکل آئے جس سے امریکا کو اس علاقے میں مزید قدم جمانے‘ اپنی فوجوں کے قیام کے لیے کچھ اور علاقہ حاصل کرنے‘ اور پورے علاقے کی نگرانی کے لیے یہاں اپنی موجودگی کے لیے مزید سہولتیں حاصل کرنے کا موقع مل جائے۔

یونائیٹڈ اسٹیٹس آف کشمیر کی امریکی تجویز دراصل کشمیر فار یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کا ایک جال ہے۔ امریکی دانش وروں کی کشمیر اسٹڈی کا ہدف اس کے سوا کچھ نہیں۔البتہ ایک مزید پہلو مطلوب ہے اور وہ کشمیر کے اسلامی تشخص کو بگاڑنا اور وہاں ایک سیکولر نظام کا فروغ‘ نیز بالآخر خود پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنا اور پاکستان اور بھارت کو لسانی‘ معاشی‘ تہذیبی وحدت کی طرف لے جانا جو بالآخر تقسیم ہند کے تاریخی عمل کو الٹی سمت میں موڑ سکے اور پھر اکھنڈ بھارت کی کوئی شکل وجود میں آسکے۔ اس ذہن کو سمجھنے کے لیے صرف دو حوالے پیش کرنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔

امریکی اسٹڈی گروپ کا ٹیپ کا بند یہ ہے:

نئے وجود کا اپنا سیکولر جمہوری دستور ہوگا‘ اپنی شہریت‘ جھنڈا اور مقننہ ہوگی جو دفاع اور خارجہ امور کے علاوہ تمام معاملات پر قانون سازی کرے گی۔ بھارت اور پاکستان کشمیر کے وجود کے دفاع کے ذمہ دار ہوںگے۔ امید کی جائے گی کہ بھارت اور پاکستان کشمیر کے لیے مالی انتظامات کریں گے۔

کلدیپ نائر بھارت کے مشہور صحافی ہی نہیں سابق ہائی کمشنر بھی ہیں اور Track II میں ان کا بڑا کردار ہے۔ ان کے ارشادات بھی بہت ہی واضح ہیں:

بھارت کی مرکزی حکومت دفاع‘ خارجہ امور اور مواصلات کے شعبے رکھ سکتی ہے اور دوسرے تمام معاملات پر کشمیریوں کو خود اپنے اُوپر حکومت کی اجازت دی جائے گی۔  بے شک پاکستان کو بھی لائن آف کنٹرول کی اپنی طرف اسی طرح کی اجازت دینا ہوگی۔ (سیفما لیکچر‘ ڈیلی ٹائمز‘ ۱۳ دسمبر ۲۰۰۵ئ)

دی نیوز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کلدیپ نائر کے دل کی بات زبان پر آگئی:

مشہور بھارتی صحافی اور کالم نگار کلدیپ نائر نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان امن کا عمل پورے جنوبی ایشیا پر پھیل سکتا ہے اور ایک واحد ریاست وجود میں آسکتی ہے جس کی نرم سرحدیںاور معاشی خوش حالی ہو۔ (دی نیوز‘ ۱۴ دسمبر ۲۰۰۵ئ‘ ص ۱۸)

کلدیپ نائر نے ایک بار پھر بڑے شدومد سے یہ بات کہی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر مسئلے کا کوئی حل قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ ان کی تقریر کا سارا زور اس پر تھا کہ قائداعظم نے پاکستان بناکر غلطی کی اور مولانا ابوالکلام آزاد کا تصور درست تھا‘ بلکہ اپنے انٹرویو میں تو قائداعظم سے یہاں تک منسوب کرگئے کہ تقسیم کے بعد وہ اس شک میں مبتلا تھے کہ تقسیم صحیح ہوئی یا غلط۔ افسوس اس انٹرویو کے وقت کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ اس صریح دریدہ دہنی پر اس کی گرفت کرتا:

کراچی میں بحریہ کے ایک نوجوان افسرنے مسٹر جناح سے پوچھا کہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا حصول صحیح قدم تھا یا نہیں؟ نائر کے مطابق‘ قائداعظم کا جواب تھا: میں نہیں جانتا۔

قائداعظم پر اس سے بڑا الزام ممکن نہیں۔ تقسیم کے بعد ایک نہیں ان کی درجنوں تقاریر گواہ ہیں کہ انھوں نے پاکستان کے قیام کو اللہ کا کتنا بڑا انعام اور مسلمانوں کی کتنی عظیم کامیابی قرار دیا۔ لیکن بھارت اور اس کی قیادت کا جو ذہن تقسیم سے پہلے تھا‘ آج بھی وہی ہے اور اصل ہدف تقسیم کی نفی اور مذہب کی بنیاد پر اجتماعی زندگی کی صورت گری کے مقابلے میں سیکولرازم کو مسلط کرنے کا نصب العین ہے۔ سارا کھیل اسی کے لیے ہے۔ پنجاب میں لسانی وحدت اور تجارت اور تہذیب و ثقافت دونوں ہتھیاروں کا بے محابا استعمال قائداعظم اور ملت اسلامیہ پاکستان کی جدوجہد سے حاصل شدہ اس آزاد اسلامی ملک کو ایک بار پھر کسی نہ کسی شکل میں بھارت کے ساتھ نتھی کرنے کے لیے ہے۔ستم ہے کہ کچھ جواں سال دانش ور یہ مشورے دے رہے ہیں کہ تاریخ کو بھول جائو اور نئے بام و در تلاش کرو حالانکہ تاریخ کو نظرانداز کرنا ایسی سنگین غلطی ہے کہ اس کی تلافی ممکن نہیں۔ تاریخ بڑی ظالم نقاد ہے۔ یاد رکھیے‘ جو تاریخ سے خود سبق نہیں سیکھتے‘ تاریخ انھیں اپنے انداز میں بڑا سخت سبق سکھاتی ہے۔ بھارت اور امریکا کا نقشۂ کار بالکل واضح ہے۔ اس سے وہی آنکھیں بند کرسکتا ہے جو آنکھوں دیکھتے کنویں میں چھلانگ لگانے پر تلا ہوا ہو۔ ہمیں یقین ہے کہ ملت اسلامیہ پاکستان خودکشی کی اس راہ پر قوم و ملک کو دھکیلنے کی کسی کوشش کو گوارا نہیں کرسکتی۔

اصل سبب ، اصل حل

سوال یہ ہے کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی کی اس زبوں حالی کی اصل وجہ کیا ہے؟ اس کی اصل وجہ فردِ واحد کی حکمرانی‘ پارلیمنٹ کی بے بسی اور قومی احتساب کی کمی بلکہ فقدان ہے۔ ہمارا اصل سانحہ ہی یہ ہے کہ قومی امور پر فیصلے کرنے کے لیے مؤثر اداراتی نظام (institutional set-up) یا موجود نہیں یا اسے غیرمؤثر کر دیا گیا ہے۔ غلام محمد کے دَور سے لے کر جب وہ گورنرجنرل تھے جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے تک‘ کسی نہ کسی شکل میں اداروں کے انہدام کا عمل جاری رہا ہے جو جنرل مشرف کے دور میں اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ معاملہ کشمیر کا ہو یا فوج کے سیاست میں کردار کا‘ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا مسئلہ ہو یا قومی مالیاتی ایوارڈ کا‘ بھارت سے دوستی کا مسئلہ ہو یا اسرائیل سے سلسلہ جنبانی کا‘ زلزلے کے متاثرین کے لیے ریلیف اور بحالی کی بات ہو یا صوبوں کے ترقیاتی منصوبوں اور ترجیحات کا معاملہ‘ ایک فردِواحد ہے جو محض اپنی ذاتی پسند و ناپسند (sweet will)‘ ترجیحات اور تعصبات کی روشنی میں معاملات طے کر رہا ہے۔ باقی سب کا حال یہ ہے کہ ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم! سینیٹ‘ پارلیمنٹ‘ عدلیہ‘ سب غیرمؤثر ہوکر رہ گئے ہیں بلکہ ہم بربناے علم یہ بھی ریکارڈ پر لے آنا چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے نہ صرف یہ کہ بیش تر سابق سفارت کار اور خارجہ پالیسی پر گہری نگاہ والے دانش ور غیرمطمئن ہیں بلکہ خود دفترخارجہ ایک مخمصے کا شکار ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے موجودہ پالیسی کے بنانے میں خود دفترخارجہ کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اداروں کے تباہ کیے جانے کا اس سے اندوہناک منظر کیا ہوگا؟ یہی وجہ ہے کہ جب تک اداروں کو بااختیار اورمستحکم کرنے کا اہتمام نہیں ہوگا اور عوام اور سیاسی اور دینی قوتیں اپنے اختیارات کو غاصبوں سے چھین کر دوبارہ اپنے ہاتھ میں نہیں لے آتے‘ ہماری آزادی‘ سالمیت‘ نظریاتی تشخص‘ معاشی صلاحیت ہر چیز دائو پر لگی رہے گی۔ اس لیے خرابی کی اصلاح کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر موجودہ قیادت کو قومی خودکشی کے راستے سے روکا جائے‘ وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ مسائل کے مستقل حل کے لیے فردِواحد کی حکمرانی کے نظام کو لگام دی جائے اور دستور اور قانون کی بالادستی‘ پارلیمنٹ کی حکمرانی اور عوام کے حقیقی اختیارات کے لیے جدوجہد کی جائے تاکہ خرابی کی جڑ کو دُور کیا جاسکے۔

مستقبل کے لیے حکمت عملی

کشمیر کے مسئلے پر جو بات سب سے زیادہ ضروری ہے‘ وہ اصولی موقف پر استقامت اور دنیا کے حالات کو دیکھ کر ایسی حکمت عملی کی تشکیل ہے جو ہمارے اصولی اور تاریخی اہداف کے حصول کاذریعہ بن سکے۔منزل تک پہنچنے کے لیے نئے راستے اختیار کرنا تو مطلوب ہے لیکن بظاہر راستہ  نظر نہ آنے پر منزل ہی ترک کر دینا حماقت ہی نہیں قومی خودکشی بھی ہے۔

پاکستان کے دستور کی دفعہ ۲۵۷ میں قومی پالیسی کو نہایت نپے تلے الفاظ میں درج کردیا گیا ہے۔ اس کے مطابق ریاست ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے‘ اس کا وہی فیصلہ قبول کیا جائے گا جو وہاں کے عوام استصواب رائے کے ذریعے کریں گے۔ بعد میں پاکستان سے اس ریاست کے تعلقات وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق طے کیے جائیں گے۔ یہی وہ پالیسی ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں سے مطابقت رکھتی ہے اور یہی اصول انصاف اور جمہوریت کا تقاضا ہے۔

اس بنیادی پالیسی فریم ورک کی روشنی میں ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت جلدبازی سے کوئی  اُلٹا سیدھا ’حل‘ تلاش کرنا ایک عاجلانہ اقدام ہوگا جو پاکستان اور کشمیری عوام دونوں کے مفاد کے منافی ہے۔ اس وقت جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے‘ وہ صبروہمت اور حکمت کے ساتھ اپنے اصولی موقف پر قائم رہنا ہے۔ عالمی حالات میں تیزی سے تغیر آرہا ہے۔ امریکا کی     خون آشام پالیسیاں دم توڑ رہی ہیں۔ پوری دنیا کے عوام تو امریکی پالیسیوں کے مخالف تھے ہی‘ اب خود امریکا میں بھی ہوا کا رخ بدل رہا ہے اور عراق میں امریکا کی شکست نوشتۂ دیوار بن گئی ہے۔ دنیا کے دانش ور چِلّا رہے ہیں کہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں دنیا میں  دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے اور سب کا امن و سکون تہ وبالا ہوچکا ہے۔ اب یہ جنگ اور اس کے جلو میں بنائی جانے والی پالیسیاں انسانی آزادی اور جمہوری اقدار کے لیے خطرہ بنتی چلی جارہی ہیں۔ ان حالات میں سارا انحصار امریکا پر کرنا بہت بڑی حماقت ہے۔

اس وقت مسئلے کو زندہ رکھنا وقت کی اصل ضرورت ہے اور اس کے لیے تحریک مزاحمت کے ساتھ ایسی یک جہتی کا اظہار ہونا چاہیے جو پاکستان پر مقبوضہ کشمیر کے عوام کے اعتماد کو مزید پروان چڑھائے اور کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو ان کے اعتماد کو مجروح کرنے والی ہو۔ اس سے مکمل احتراز کیا جائے۔ بھارت پر نپے تلے دبائو کو بڑھانا اور وہاں انسانی حقوق کی جس بے دردی سے پامالی کی جارہی ہے اس کو عالمی سطح پر اٹھانا ہمارا ہدف ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی تحریکِ مزاحمت کی ہرممکن اخلاقی‘ مادی اور سفارتی تائید کی جائے۔

یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ جموں و کشمیر کے مسلمان بھارت کے ساتھ کسی قیمت پر اور کسی شکل میں رہنا پسند نہیں کرتے۔ انھوں نے جو قربانیاں دی ہیں اور جس عزم و ہمت کا    شب و روز مظاہرہ کر رہے ہیں‘ اسے نظرانداز کرکے محض چند مفاد پرست عناصر کے بل بوتے پر بھارتی تسلط کو کسی بھی شکل میں دوام دینے کی کسی بھی کوشش کی کسی نوعیت کی بھی تائید کشمیری عوام سے غداری اور خدا کے غضب کو دعوت دینے والی چیز ہوگی۔

آج یہ بات بھی الم نشرح ہوچکی ہے کہ کشمیر کی اصل قیادت وہ ہے جو بھارت کے تمام مظالم اور پاکستان کی تمام پسپائیوں کے باوجود بھارت کے تسلط کے خلاف صف آرا ہے اور استصواب رائے کے بنیادی اصول سے ہٹ کر کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں۔ سید علی شاہ گیلانی کی قیادت میں کل جماعتی حریت کانفرنس اور تحریکِ حریت جموں و کشمیر ہی کشمیری عوام کی اصل امنگوں کی ترجمان ہے اور تمام مجاہد قوتوں کا اعتماد بھی اسی انقلابی قیادت کو حاصل ہے۔ حزب المجاہدین تحریکِ مزاحمت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے نظرانداز کرکے کشمیر کے مستقبل کا کوئی حل ممکن نہیں۔

زمینی حقائق پر جن کی نظر ہے‘ وہ واقف ہیں کہ اس وقت پاکستان کا سرکاری میڈیا جن شخصیات اور گروہوں کو اُبھارنے کی کوشش کر رہا ہے‘ وہ حقیقی عوامی تائید سے محروم ہیں اور تمام مؤثر سیاسی اور جہادی قوتیں انھیں شبہے کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ استعماری تسلط کے خلاف تحریکوں کا مطالعہ اس امر کو بالکل واضح کردیتا ہے کہ فیصلہ کن قوتیں وہی ہوتی ہیں جو استعماری نظام کے خلاف مزاحمت کی جدوجہد کرتی ہیں۔ کشمیر میں بھی فیصلہ کن قوت موروثی گدی نشینوں کی نہیں‘ مجاہدین اور ان سیاسی قائدین کی ہے جو بے خوف و خطر بھارتی سامراج سے ٹکر لے رہے ہیں۔ پاکستانی عوام بھی جن لوگوں پر بھروسا کرتے ہیں وہ یہی مزاحمت کی قوتیں ہیں‘ بھارتی قیادت سے پینگیں بڑھانے والے نہیں۔

اس پس منظر میں پاکستان کے عوام اور یہاں کی مؤثر سیاسی اور دینی قوتوں کا فرض ہے کہ حالات کی نزاکت کو محسوس کریں اور راے عامہ کو متحرک و منظم کرکے موجودہ عاقبت نااندیش قیادت کو تباہی کے راستے سے روکنے اور بالآخر اسے اقتدار و اختیار سے ہٹاکر ایک ایسی سمجھ دار‘ معاملہ فہم اور صاحبِ بصیرت قیادت کو اختیارات کا امین بنانے کی جدوجہد کریں جو ملک و قوم کو اس کے اصل نصب العین اور اہداف کے حصول کے لیے سرگرم کرسکے‘ جو خود بھی ان مقاصد کی وفادار ہو اور قوم اور اس کے تمام وسائل کو بھی ان مقاصد کے حصول کے لیے وقف کردے۔

کشمیر اور پاکستان دو الگ الگ وجود (entities)نہیں ہیں‘ ایک دوسرے کا حصہ اور تکملہ ہیں۔ ہمارے لیے کشمیر کا مسئلہ سب سے پہلے ایک اصولی مسئلہ ہے کہ اس سے ڈیڑھ کروڑ مسلمانوں کا مستقبل وابستہ ہے اور ہمارے لیے ممکن نہیں کہ اپنے ان مظلوم بھائیوں کو بے سہارا چھوڑ کر ان کے قاتلوں سے دوستی کی پینگیں بڑھائیں۔ پھر کشمیر اور پاکستان کا جغرافیائی‘ سیاسی‘ معاشی‘ مواصلاتی‘ تہذیبی اور دینی تعلق کچھ ایسا ہے کہ ان کے درمیان یہ یا وہ کا معاملہ نہیں بلکہ دونوں کی قسمت ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔ جو پاکستان یا کشمیر کی بات کرتے ہیں‘ وہ اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں اور پاکستانی قوم کو بھی‘ اس لیے کہ کشمیر پر دوسروں کا غاصبانہ تسلط پاکستان پر تسلط کے ہم معنی ہے اور بالآخر اس کی کمزوری پر منتج ہوگا۔ اسی لیے قائداعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ اگر ہماری شہ رگ دوسروں کے قبضے میں ہے تو کیا ہم محفوظ رہ سکتے ہیں؟

یہی وجہ ہے کہ آج کشمیر پالیسی اور کشمیر کے مستقبل کے بارے میں جو بات سید علی شاہ گیلانی کہہ رہے ہیں وہی قاضی حسین احمد اور آغا شاہی اور سردار آصف احمد علی کہہ رہے ہیں۔ ہمارے لیے اپنے اصولی موقف پر ڈٹ جانے کے سوا کوئی متبادل راستہ نہیں۔

کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیر کے عوام کو اپنی آزاد مرضی سے کرنا ہے اور پاکستانی قوم اور قیادت کا فرض ہے کہ ان کے اس حق کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دے اور اس باب میں کسی کمزوری کا مظاہرہ نہ کرے۔ گذشتہ چار پانچ سال میں جس کمزوری‘ بے اعتدالی اور پسپائی کا مظاہرہ کیا گیا ہے‘ اس سے فوری طور پر رجوع کیا جائے اور پاکستان کے تاریخی اور اصولی موقف پر سختی سے قائم رہنے اور قوم کو اس کے لیے متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ عالمی سطح پر پوری تیاری کے ساتھ ایک بھرپور مہم شروع کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ عالمی ضمیر کو بیدار کیا جاسکے۔ تاریخ میں آج تک کسی قوم کو محض جبر اور قوت کے ذریعے محکوم نہیں رکھا جا سکا۔ جو قوم اپنی آزادی کے لیے جان کی قربانی دینے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی ہو ‘ پھر اسے کوئی غلام نہیں رکھ سکتا۔ کشمیری عوام نے زندگی اور بھارت کے تسلط سے آزادی کے اسی راستے کو اختیار کرلیاہے۔

اب پاکستان کا فرض ہے کہ وہ اس عظیم جدوجہد کی تقویت کا باعث بنے اور اس سلسلے میں کسی کمزوری کا مظاہرہ نہ کرے۔ اب امتحان ان کا ہے جنھیں جرأت اور حوصلہ مندی کا دعویٰ ہے۔ جرأت نام ہے اپنے نصب العین اور مقاصد کے بارے میں استقامت اور جدوجہد کا۔ جو حق کی راہ میں جدوجہد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت انھی کو حاصل ہوتی ہے۔ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔


گذشتہ شمارے میں یہ بتایا گیا تھا کہ جنوری تا مارچ ۲۰۰۶ء کی سہ ماہی میں رسالے کی توسیعِ اشاعت کے لیے غیرمعمولی کوششیں کی جائیں گی۔ ترجمان القرآن ایک پیغام کا علم بردار ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اس کو پڑھنے والے اس پیغام کو عام کرنے اور دوسروں تک پہنچانے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ آج اس کی جو غیرمعمولی اشاعت ہے اس کی وجہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے بعد ہمارے رفقا کی کوششیں ہی ہیں۔

اس سہ ماہی مہم میں ہمارا بنیادی ہدف یہ ہے کہ معاشرے کے پڑھے لکھے ہر باشعور شہری تک ایک دفعہ نمونے کا پرچہ پہنچا دیا جائے۔ اس حوالے سے اپیل کی گئی ہے اور مختلف سطح کے نظم اس میں دل چسپی لے رہے ہیں۔ جنوری کے لیے ہمیںکافی بڑی تعداد میں آرڈر موصول ہوچکے ہیں۔ فروری اور مارچ میں یقینا اضافہ ہوگا۔

مختلف پیشوں سے وابستہ ہمارے رفقا کی خصوصی کوشش ہونا چاہیے کہ یہ رسالہ ملک کے ہراستاد‘ صحافی‘ ڈاکٹر‘انجینیر‘ وکیل‘ اکائونٹنٹ‘ کمپیوٹر اور آئی ٹی کے ماہر‘ سول اور فوجی افسر‘ تاجر‘  دکان دار‘ صنعت کار‘ کارپوریشنوں کے افسر اور عام پڑھے لکھے فرد تک پہنچے۔ نہ صرف مردوں تک بلکہ ان پیشوں سے وابستہ اور گھریلو امور میں مصروف تعلیم یافتہ خواتین کے ہاتھوں میںبھی ضرور جائے۔

دوسری طرف ہماری کوشش ہے کہ رسالے کا معیار بہتر سے بہتر ہو اور یہ پڑھنے والوں کے لیے ایک مکمل راہنما رسالہ ثابت ہو اور ہر ماہ انھیں فکری غذا ہی نہیں ‘بلکہ ایمان اور عملِ صالح کے لیے جذبہ اور توانائی بھی دے تاکہ آخری فیصلے کے وقت وہ فوزِ عظیم سے ہمکنار ہوں۔

_____________(کتابچہ دستیاب ہے۔ منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء کا زلزلہ اپنے ساتھ عبرت کا بہت سارا سامان لے کر آیا۔ اس عظیم سانحے نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ آزاد کشمیر کی ایک خاتون نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ جس گھر کی ایک ایک چیز کو میںنے بڑے پیار سے مدتوں میں سجایا تھا مجھے ایسا لگا کہ اس کی دیواریں میرا پیچھا کررہی ہیں۔ جب میں کمرے کی ایک دیوار سے بچنے کے لیے بھاگی تو دوسری اور تیسری دیوار بھی میرے اوپر گرنے لگی اور بڑی مشکل سے میں جان بچاکر جب باہر نکلی تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں ساری عمر ایک سراب کے پیچھے بھاگتی رہی۔ یوں دنیا کی زندگی کی حقیقت میرے اوپر کھل گئی کہ یہ آزمایش کے چند دن ہیں اور اللہ راحت و آسایش اور تکلیف و مصیبت دونوں میں ہمیں آزماتا ہے کہ ہم کیا طرزعمل اختیار کریں۔

کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِط وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً ط وَاِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ o (انبیا ۲۱:۳۵)

ہر جان دار کو موت کا مزا چکھنا ہے‘ اور ہم اچھے اور برے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمایش کر رہے ہیں۔ آخرکار تمھیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔

مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اِلاَّ فِیْ کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَھَا ط (الحدید ۵۷:۲۲)

کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں یا تمھارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہو اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب (یعنی نوشتۂ تقدیر) میں لکھ نہ رکھا ہو۔

زندہ اور بیدار اور حقیقت شناس لوگوں کی یہ نشانی ہے کہ وہ سخت مصیبت اور المناک سانحوں کے مواقع پر بھی اپنے ہوش و حواس قائم رکھتے ہیں اور مصیبت کا مقابلہ کرتے ہیں اور اس مصیبت سے نکلنے کی تدابیر سوچتے ہیں اور ان تدابیر پر عمل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو زلزلے کے شدید نقصانات کے وقت بھی حوصلہ دیا‘ کچھ بندوں نے ہمت کر کے لاشوں اور زخمیوں کو ملبے سے نکالنے‘ فوت ہونے والوں کا جنازہ پڑھنے‘ انھیں دفنانے اور زخمیوں کا علاج کرنے کا کام فوری طور پر شروع کر دیا۔ بالاکوٹ‘ باغ اور مظفرآباد میں یہ کام فوری طور پر جماعت اسلامی‘ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت الدعوۃ کے کارکنوں نے شروع کیا۔ حزب المجاہدین کے کارکن اور پیما (پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن) کے کارکن جو موقع پر موجود تھے فوری طور پر سرگرم عمل ہوگئے۔ بعض اللہ کے بندے اپنے بیٹے بیٹیوں اور والدین کی تدفین سے فارغ ہو کر فوری طور پر اس خدمت میں لگ گئے۔ انھوں نے عزم و ہمت کی لازوال کہانیاں نقش کیں۔

بالاکوٹ کے ۸۲سالہ بزرگ رکن جماعت حاجی غلام حبیب کی پوری تیسری نسل اللہ کو پیاری ہوگئی۔ پوتے پوتیاں‘ نواسے نواسیاں سب رخصت ہوگئیں لیکن انھوں نے بچے ہوئے لوگوں کی خدمت کے لیے کمر کس لی۔ امیرجماعت اسلامی ضلع باغ‘ عثمان انور صاحب اپنی والدہ اور بیٹی دونوں کی نماز جنازہ اور تدفین کے بعد ریلیف کیمپ میں حاضر ہوگئے۔ مظفرآباد کے شیخ عقیل الرحمن صاحب اپنے بیٹے اور چودھری ابراہیم صاحب اپنی جوان بیٹی کی تدفین سے فارغ ہوکر ریلیف کیمپ کے انتظامات میں لگ گئے۔

مظفرآباد میں پیما کے ڈاکٹر محمد اقبال اپنے بہت سے قریب ترین رشتہ داروں کا غم سینے میں دبائے ہوئے فوری طور پر خیموں کے نیچے ہسپتال قائم کرنے اور زخمیوں کے آپریشن کرنے کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔ انھوں نے مظفرآباد سے سٹیلائٹ ٹیلی فون کے ذریعے پوری دنیا میں اپنے ساتھیوں کو بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی سے آگاہ کیا اور انھیں فوری طور پر مدد کے لیے پہنچنے کا پیغام دیا۔ مصیبت کی گھڑی کے دلخراش واقعات سامنے آئے۔ انھوں نے کہا کہ ایک عورت کو ملبے کے ایک بڑے سلیب کے نیچے سے زندہ نکالنے کے لیے انھیں آری سے اس کا ہاتھ کاٹنا پڑا۔ جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر کے سابق امیر عبدالرشید ترابی کے خاندان کے ۲۲افراد اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن وہ ہمہ تن اور مجسم خدمت بن گئے۔ جماعت اسلامی اور اس کی برادر تنظیموں اسلامی جمعیت طلبہ‘ جمعیت طلبہ عربیہ‘ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن‘اسلامی جمعیت طالبات‘ حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان‘ پاکستان انجینیرز فورم‘ تنظیم اساتذہ پاکستان‘ شباب ملّی اور دوسری دینی جماعتوں جماعت الدعوۃ‘ الرشید ٹرسٹ‘ ایدھی فائونڈیشن نے پوری پاکستانی قوم کی نمایندگی کی۔ پاکستان بھر کے عوام نے زخمیوں کے علاج اور زلزلے میں بچنے والے بے خانماں اور بے سروسامان لوگوں کی مدد کے لیے جس جوش و جذبے کا اظہار کیا ان تنظیموں نے اسی جوش و جذبے کو ایک مثبت سمت عطا کی اور امداد کو مستحقین تک پہنچانے کا قابلِ اعتماد وسیلہ بن گئے۔

زلزلے کے چند لمحوں کے اندر آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد کے پانچ اضلاع میں حکومت کا پورا ڈھانچا مفلوج ہوگیا۔ سرحدوں پر متعین اور کیمپوں میں مقیم فوج کے اوپر قیامت ٹوٹ پڑی۔ انتظامیہ اور فوج میں یہ سکت نہیں رہی کہ وہ کسی کی مدد کو پہنچ سکیں۔ آزاد کشمیر کے صدر اور وزیراعظم کی رہایش گاہیں کھنڈرات میں تبدیل ہوگئیں۔ پولیس کا سارا نظام تتربتر ہوگیا۔ ایسے عالم میں جماعت اسلامی کا منظم نیٹ ورک بروے کار آیا اور اچانک سانحے سے پیدا ہونے والے خلا کو اس نے پُرکردیا۔

اس سانحے نے کچھ خدشات اور اہم سوالات کو جنم دیا۔ آزاد کشمیر میں متعین فوج سرحدوں کی نگرانی کے لیے متعین ہے۔ یہ فوج چھائونیوں میں مقیم فوج کی طرح نہیں ہے بلکہ مورچہ بند (deployed army) ہے۔ اس کی گھڑی گھڑی کی خبر فوج کے ہائی کمان کو ہونی چاہیے اور فوجی ماہرین کے کہنے کے مطابق زلزلے میں فوج پر جو بیتی اس کی خبر پوری فوج کے تمام متعلقہ حلقوںتک زیادہ سے زیادہ دو گھنٹوں میں پہنچنی چاہیے تھی لیکن فوجی ترجمان میجر جنرل شوکت سلطان صاحب سانحے کے ۹ گھنٹے بعد انٹرویو میں کہتے ہیں کہ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔ پشاور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل صفدر حسین صاحب کہتے ہیں کہ میڈیا والے بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں‘ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ۴۰‘ ۵۰ تک ہے۔ کیا فوجی حکمران بے خبر تھے یا یہ ان کی پالیسی تھی؟ دونوں صورتیں عوام کو گہری تشویش میں مبتلا کرنے والی اورافواج پاکستان کی قیادت کے بارے میں بے اعتمادی پیدا کرنے والی ہیں۔ وزیراطلاعات   شیخ رشیداحمد نے بھی کہا کہ میڈیا نقصانات کو بڑھا چڑھ کر پیش کر رہا ہے۔

جنرل پرویز مشرف بیرونی امداد کے بارے میں متضاد بیانات دیتے رہے۔ انھوں نے ابتدائی دنوں میں بیرونی امداد کے بارے میں اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ کافی امداد پہنچ گئی ہے‘ جب کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل چیخ رہے تھے: نقصانات کا اندازہ سونامی سے زیادہ ہے اور امداد کی فراہمی قطعی ناکافی ہے۔ بعد کے دنوں میں خود جنرل پرویز مشرف بھی کہنے لگے کہ      بین الاقوامی برادری اور دولت مند ممالک نے اپنا فرض ادا نہیں کیا۔ اس تضاد بیانی سے بھی فوجی حکمرانوں کی نااہلی جھلکتی ہے۔

زلزلے کی مصیبت پر ۱۰‘ ۱۵ دن گزرنے کے بعد بھی ایسے گوشے موجود تھے جہاں تک فوج کے افراد نہیں پہنچ سکے۔ افواج پاکستان کے ذمہ دار افراد کا کہنا ہے کہ فوج کو جب مارچ کا حکم دیا جاتا ہے تو تیسرے دن اسے تمام مقامات تک پہنچنا چاہیے خواہ وہ کتنے ہی دُور دراز اور دشوارگزار کیوں نہ ہوں۔ دسویں روز تک دُور دراز مقامات تک نہ پہنچ سکنا بھی تشویش ناک ہے۔

حکومتی میڈیا نے اسلامی ممالک خاص طور سے سعودی عرب‘ ترکی اور متحدہ عرب امارات کے فیاضانہ اور فراخ دلانہ تعاون کو کماحقہ اُجاگر نہیں کیا حالانکہ اس موقع پر اُمت مسلمہ نے اپنے ایک جسدِواحد ہونے کا ثبوت فراہم کیا اور نہ صرف حکومتوں نے بلکہ مسلم عوام نے پاکستانی عوام کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا۔ زلزلے کے پہلے ہی ہفتے میں مصر‘ ملایشیا‘ سنگاپور‘ انڈونیشیا‘ ترکی‘ افغانستان‘ سوڈان‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ برطانیہ اور امریکا سمیت دنیا کے گوشے گوشے سے مسلمان ڈاکٹروں کے وفود زلزلہ زدہ علاقے میں پہنچ گئے۔ چارٹرڈ طیاروں میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے ادویات‘ خیمے اور کمبل پہنچ گئے لیکن اسلامی ممالک کی امداد کو اجاگر کرنے کے بجاے حکومت اور میڈیا اسرائیل اور بھارت سے امداد کی پیش کش کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے حالانکہ عملاً اسرائیل سے کوئی مدد نہیں پہنچی اور بھارت کی امداد بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔

دنیابھر کے مسلمانوں نے جس طرح پاکستانی مسلمانوں کے دکھ درد کو محسوس کیا اس میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ کی جھلک نظر آئی‘ جس میں آپؐ نے فرمایا:

اہلِ ایمان تمھیں آپس میں ایک دوسرے سے ایسی محبت کرنے والے‘ ایسے رحم کرنے والے‘ ایسے پیار کرنے والے نظر آئیں گے جیسے ایک جسدواحد ہوں جس کے ایک عضو کو جب کوئی گزند پہنچتی ہے تو پورا جسم اس کے لیے بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

ہمارے ملک کے سیکولر حکمران اور لادین طبقہ مغرب کی دوستی کے شوق میں اور اسلامی نظریۂ حیات سے جان چھڑانے کے لیے مسلسل کہہ رہا ہے کہ اُمت کہاں ہے؟ where is Ummah?

اس موقع پر اُمت نے ثابت کیا کہ وہ موجود ہے‘ زندہ جسم کی مانند ہے اور ایک دوسرے کے درد کو محسوس کرتی ہے۔ مجھے سوڈان‘ مصر‘ ترکی‘ ملیشیا‘ ایران اور دوسرے اسلامی ممالک کے وفود کے ممبران نے کہا کہ ہمارے ممالک میں عوام کا ردعمل اس طرح سامنے آیا جیسے ان کے اپنے ملک کے اندر یہ آفت نازل ہوئی ہے‘ اور اگر باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت متاثرین کی بحالی کے لیے ان ممالک کے عوام سے مدد مانگی جائے تو لوگ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔

زلزلے کے ابتدائی ایام میں خیموں کی شدید کمی تھی اور بیرون ملک سے خیمے پہنچانے کی اپیل کی جا رہی تھی۔ فوج کے باخبر حلقوں کے کہنے کے مطابق پاکستان میں فوج کے افراد کی تعداد تقریباً ۶ لاکھ ہے۔ اس تعداد کے لیے ہر ۱۲ افراد پر ایک خیمہ‘ یعنی ۵۰ ہزار خیمے ہر وقت سٹور میں موجود رہنے چاہییں۔ ۲۰ ہزار فوجی افسران کے لیے ایک بڑا خیمہ اور ایک چھوٹا خیمہ فی افسر دوخیموں کے حساب سے ۴۰ہزار خیمے مزید موجود رہنے چاہییں۔ ان کے علاوہ ریزرو کے حساب سے جوانوں اور افسروں کے لیے مزید ۴۰ ہزار خیمے ہونے چاہییں۔ اس طرح تقریباً ڈیڑھ لاکھ خیمے فوج کے سٹور میں موجود ہونا چاہییں تھے تاکہ اگر جنگ کے موقع پر کسی وقت فوج کو نکلنے کا حکم ملے تو وہ فوری طور پر میدان میں خیمہ زن ہوسکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مصیبت کے وقت یہ خیمے کہاں تھے؟

حکومتی میڈیا پر دینی جماعتوں کے کارکنوں کی خدمات کو نظرانداز کیا گیا۔ بعض سیکولر گروہوں کی معمولی امداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا‘ حالانکہ لوگوں کے جذبۂ خدمت کو مہمیز دینے کے لیے ضروری تھا کہ جو لوگ رضاکارانہ خدمات انجام دے رہے ہیں اور دُوردراز‘ دشوارگزار علاقوں تک پہنچ کر خیمے‘ گرم کپڑے‘ کمبل اور خوراک کا سامان پہنچا رہے ہیں ان کی خدمات کو زیادہ اُجاگر کیا جاتا۔ فوج کے افراد تو جو خدمت سرانجام دے رہے ہیں وہ اپنے فرض منصبی کے تحت اس کے لیے مامور ہیں اور اس کا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ اگرچہ فرض منصبی کو ادا کرنا بھی قابلِ ستایش ہے لیکن ان سے زیادہ قابلِ ستایش وہ لوگ ہیں جو خالص اللہ کی رضا اور مخلوق کی خدمت کے جذبے کے تحت گھربار چھوڑ کر بغیر کسی دنیاوی اجر اور معاوضے کے میدان میں نکل کھڑے ہوئے۔ لیکن فوجی حکمرانوں نے اس مصیبت کو بھی اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا اور قوم کی خدمت کے جذبے کو سراہنے میں کوتاہی برتی۔

۸ اکتوبر کے زلزلے کے وقت مَیں پشاور میں اپنے مکان کے ایک کمرے میں تھا۔ زلزلے کے جھٹکے محسوس ہونے کے بعد میں کھلے صحن میں نکلا۔ میرے بیٹے انس فرحان بھی اپنے چھے ماہ کے بیٹے اسامہ اور اپنی بیوی کے ہمراہ صحن میں آگئے۔ زلزلہ گزر جانے کے بعد جب ہم واپس کمرے میں آئے تو میرے بیٹے کی زبان سے نکلا کہ نہ جانے یہ زلزلہ کہاں کہاں کتنی تباہی لے کر آیا ہوگا۔ زلزلے کے جھٹکے اتنے شدید تھے کہ ان کی تشویش بجا تھی۔ چند منٹ بعد اسلام آباد کے مارگلہ ٹاور کی خبر پورے ملک میں پھیل گئی۔ میں بھی پشاور سے اسلام آباد آگیا۔ مارگلہ ٹاور جانے سے پہلے مجھے اطلاعات مل چکی تھیں کہ آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد کے وسیع علاقے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ زلزلے کے دو گھنٹے بعد صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ اکرم خان درانی اور سینیروزیر سراج الحق   ہیلی کاپٹر پر زلزلہ زدہ علاقوں کے دورے پر تھے۔ سراج الحق صاحب نے وسیع علاقوں میں زلزلے سے پیدا ہونے والی تباہ کن صورت حال سے آگاہ کیا۔ مظفرآباد سے اگلے روز پیر صلاح الدین صاحب نے فون پر اطلاع دی کہ دریاے نیلم کے دونوں جانب پہاڑ ٹوٹ کر دریاے نیلم میں گرے ہیں اور اس نے تقریباً ۲۴ گھنٹے تک دریاے نیلم کے پانی کے سامنے بند باندھے رکھا ہے۔ فوج کا نثار کیمپ ملبے میں تبدیل ہوگیا ہے اور تقریباً ۳۰۰ فوجی اس کے نیچے دب گئے ہیں۔ صدر اور وزیراعظم ہائوس کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے۔ اسکول‘ کالج‘ یونی ورسٹی‘ ہسپتال اور سرکاری عمارتیں سب زمیں بوس ہوگئی ہیں۔ مظفرآباد شہر نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ صورت حال کا جائزہ لینے اور فوری امدادی کارروائیوں کے لیے ۹ اکتوبر کو منصورہ میں جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت کا اجلاس منعقد ہوا۔ کراچی کے سابق ناظم نعمت اللہ خان صاحب کو امدادی کارروائیوں کی مہم کا انچارج بنا دیاگیاجو پیرانہ سالی کے باوجود خدمت اور محنت کی علامت ہیں۔ ملک بھر سے برادر تنظیموں اور جماعت کی اعلیٰ قیادت کا ایک اجلاس ۱۰ اکتوبر کو اسلام آباد میں بلا لیا گیا۔

چونکہ زلزلے کی وجہ سے پورے علاقے کے ہسپتال منہدم ہوگئے تھے اور جو باقی بچے تھے ان میں بھی دراڑیں پڑگئی تھیں اور مسلسل جھٹکوں کی وجہ سے ان کے اندر کام ممکن نہیں تھا‘ اس لیے ’پیما‘ کے ڈاکٹروں نے جماعت اسلامی اور الخدمت کے کارکنوں اور پیرامیڈیکل سٹاف کے تعاون سے فوری طور پر ایبٹ آباد‘ مانسہرہ‘ بالاکوٹ‘ بٹ گرام‘ مظفرآباد‘ باغ اور راولاکوٹ میں خیموں کے اندر عارضی ہسپتال قائم کر دیے تھے۔ سرکاری اور فوجی ہسپتالوں کے ڈاکٹروں نے بھی عارضی طور پر انھی ہسپتالوں میں کام شروع کر دیا تھا۔

۱۰ اکتوبر کے اجلاس میں راولپنڈی اسلام آباد میں مرکزی کیمپ قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ڈاکٹرحفیظ الرحمن‘ سید بلال اور نورالباری کو ان کا انچارج مقرر کیا گیا۔ مانسہرہ اور مظفرآباد میں صوبہ سرحد اور آزادکشمیر کے لیے دو ذیلی کیمپ بنا دیے گئے۔ مانسہرہ کے کیمپ کے ذیلی کیمپ بالاکوٹ‘ ایبٹ آباد‘ بٹگرام‘ الائی‘ تھاکوٹ‘ کوائی‘ پارس‘ شانگلہ اور بشام سمیت تقریباً ۳۰ مقامات پر بنا دیے گئے‘ جب کہ مظفرآباد کے علاوہ باغ اور راولاکوٹ میں بھی بڑے مرکزی کیمپ اور آزادکشمیر کے چپے چپے تک امداد پہنچانے کے لیے کارکنوں کی ٹیمیں متعین کر دی گئیں۔ جماعت اسلامی کے تقریباً ۱۰ہزار کارکنوں نے ان کیمپوں میں شب و روز ڈیوٹی دی اور ہماری خدمت کی شناخت کو مستحکم کیا۔

اللہ کا شکر ہے کہ ان خدمات کا اعتراف ہر اس ادارے اور ہر فرد نے کیا جس نے ان علاقوں کو دیکھا یا دورہ کیا۔ قبائلی علاقوں سے مرکزی وزیر ڈاکٹر جی جے (گلاب جمال) قومی اسمبلی میں میری نشست پر آئے اور کہا کہ انھوں نے ۱۵ روز تک متاثرہ علاقے کا دورہ کیا ہے اور جہاں بھی سڑک کھلی ہے وہاں پہنچ گئے‘ اور انھوں نے دیکھا کہ جہاں بھی وہ گئے الخدمت فائونڈیشن کے کارکن ان کے جانے سے پہلے وہاں موجود تھے اور خدمت میں ہمہ تن مصروف تھے اور پورے علاقے سے مکمل طور پر باخبر اور آگاہ تھے اور لوگوں کی اور امداد کرنے والوں کی مدد اور رہنمائی کررہے تھے۔

جنرل حمیدگل صاحب نے مجھے لکھا کہ انھوں نے الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کی برادر تنظیموں کی تنظیم اور خدمت کے جذبے کا مشاہدہ متاثرہ علاقے میں خود پہنچ کر کیا ہے اور انھیں یقین ہے کہ جماعت ملک میں بڑے سماجی انقلاب کی قیادت کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایک خط میں آزاد کشمیر پیپلز پارٹی کے رہنما نے جماعت کے کارکنوں کے جذبۂ خدمت کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور آڑے وقت میں مدد کے لیے آنے پر شکریہ ادا کیا ہے۔ ملک بھر کے انصاف پسند کالم نویسوں نے جماعت کی خدمات کا اعتراف کیا ہے اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے بعض لوگوں نے اعتراف کیا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر بعض لوگوں کو ناجائز طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور دوسروں کی خدمات کو نظرانداز کرنے کے مجرمانہ فعل پر ان کا ضمیر ملامت کر رہا ہے لیکن دبائو کے تحت یہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔

اس سے یہ خطرناک حقیقت واضح ہوگئی کہ میڈیا کے اس دور میں عوام کو حقائق سے آگاہ کرنے کے بجاے میڈیا حقائق کو چھپانے اور خلافِ حقیقت تصویر بنانے کے لیے استعمال ہوسکتا ہے‘ یعنی یہ معلومات (information) کے بجاے غلط معلومات (disinformation) کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس لیے معاشرے کے ذمہ دار افراد کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے اور درست معلومات تک رسائی حاصل کرنے کے لیے خصوصی اہتمام کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو قرآن کریم میں خبردار کیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌم بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًام بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ o (الحجرات۴۹:۶)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو‘ جب تمھارے پاس ایک ناقابل اعتماد شخص کوئی خبر لے کر آئے تو پوری طرح تحقیق کرلیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ بے خبری اور غلط معلومات کی بناپر تم کسی گروہ کو نقصان پہنچا دو اور پھر اپنے ہی کیے پر نادم ہو جائو۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس بڑے سانحے کے موقع پر نہ صرف حکومتی الیکٹرانک میڈیا بلکہ بعض پرائیویٹ نیوز چینل بھی امدادی کارروائیوں کی حقیقی صورت حال کو نمایاں کرنے میں ناکام رہے جس سے نہ صرف خدمت کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوئی بلکہ عوام کی غلط رہنمائی کی گئی اور انھیں گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح ان اداروں نے اپنی ساکھ کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا کیونکہ حقائق تو بالآخر لوگوں کے سامنے آہی جاتے ہیں۔

امدادی کارروائیوں میں تاخیر سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پوری قوم میں فوج سمیت ہنگامی صورت حال سے نبٹنے کے لیے نہ کوئی ادارہ ہے نہ کوئی لائحہ عمل (working plan) تیار ہے۔ مثال کے طور پر اسلام آباد کے مرکزی شہر میں مارگلہ ٹاور جیسی بڑی عمارت زمین بوس ہوگئی۔ پرویز مشرف اور وزیراعظم سمیت بڑی بڑی شخصیات دو تین روز تک تماشے کے لیے آتے رہے اور ملبہ اٹھانے کے لیے فقط کرایہ کے دو بلڈوزر اور کچھ رضاکار موجود تھے۔ آخری چارئہ کار کے طور پر بیرون ملک سے زندگی کے بچے کھچے آثار معلوم کرنے کے لیے کچھ کارکن آلات اور تربیت یافتہ کتے لے کر آئے جن کی مدد سے چند افراد کو زندہ نکالا جاسکا۔ اگر حکومت کے پاس کوئی Disaster Management Planموجود ہوتا تو اسلام آباد کے اندر ہی مارگلہ کے پہاڑوں میں کام کرنے والے ہزاروں ماہر مزدوروں اور پہاڑ کو کاٹنے کا کام کرنے والے ٹھیکے داروں اور ان کے پاس مہیا مشینری کی مدد سے پورے مارگلہ ٹاور کے ملبے کو چند گھنٹوں کے اندر اٹھایا جا سکتا تھا۔ جب ایک مجلس میں یہ بات سامنے آئی تو مجلس میں موجود ایک ٹھیکے دار نے اعتراف کیا کہ اگر یہ تجویز بروقت اس کے ذہن میں آتی یا کوئی فرد اس کو اس طرف متوجہ کرتا تو ہزاروں کارکنوں پر مشتمل پوری فورس کو اس کام پر لگایا جاسکتا تھا۔ مناسب رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں شہری ملبے کے نیچے دبے ہوئے لوگوں کی حالت زار کا بے بسی کے ساتھ تماشا کرتے رہے۔

مستقبل میں اس طرح کے سانحوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہزاروں کارکنوں پر مشتمل ایک ریسکیو سکواڈ بنایا جائے جو ضرورت کے وقت فوری طور پر متحرک ہوجائے۔ اس کے پاس ہر طرح کا سامان موجود ہو یا اس کے فوری حصول کا طریقہ معلوم ہو۔ حکومت کے علاوہ خدمت خلق کا کام کرنے والے اداروں کا بھی فرض ہے کہ تربیت یافتہ کارکنوں کی اس طرح کی ٹیمیں منظم کریں جو آفات سماوی اور امن اور جنگ کے وقت کام آسکیں۔

امدادی کارروائیوں کے موقع پر یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ اور امدادی سامان کو حقیقی مستحقین تک پہنچانے کے لیے منظم جماعتوں کی ضرورت ہے جو عوام میں سے ہوں اور جن کی شاخیں ہر گلی کوچے میں قائم ہوں۔ کچھ تنظیمیں جن پر لوگوں کا اعتماد تو موجود ہے اور جو دیانت دار اور مخلص لوگوں کی قائم کی ہوئی ہیں ایسی ہیں جن کا انفراسٹرکچر اور نیٹ ورک عوام میں موجود نہیں ہے۔ یہ لوگ اپنے تنخواہ دار کارکنوں کے ذریعے سامان تو پہنچا دیتے ہیں لیکن مستحقین تک سامان کو پہنچانے کا انتظام ان کے ہاں نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کا فرض ہے کہ اپنا سامان ان لوگوں کے حوالے کر دیں جن کے پاس مستحقین تک پہنچنے کا نظام موجود ہے‘ مثلاً ایدھی فائونڈیشن کے ٹرک سڑک پر کھڑے ہوجاتے تھے اور لوگوں کو سامان لے جانے کے لیے بلا لیتے تھے۔ ٹرکوں سے سامان لوگوں کی طرف پھینک دیا جاتا تھا۔ اس سے ایک تو بدنما منظر بنتا تھا کہ لوگوں کا ہجوم سامان حاصل کرنے کے لیے بے ہنگم بھکاریوں کی طرح سامان کی طرف لپک رہا ہے‘ دوسرا پیشہ ور چھیناجھپٹی کرنے والوں کو دوسروں کا حق چھیننے کا موقع ملتا تھا۔ اس صورت میں حیادار سفیدپوش مصیبت زدگان کے لیے ضروری سامان خوراک حاصل کرنا بھی ناممکن ہوجاتا ہے۔

اللہ کا شکر ہے کہ جماعت اسلامی کے کارکنوں نے پورے ملک میں بڑی حد تک یہ ضرورت پوری کر دی ہے۔ یہ ہرگلی کوچے میں موجود ہیں۔ دیانت دار اور فرض شناس مرد اور خواتین سب مل کر کام کرتے ہیں۔ ضرورت کے وقت فوری طور پر میدان میں نکل آتے ہیں۔ لیکن ابھی جماعت کو بھی اپنے اداروں کو مزید منظم کرنے پر توجہ دینا چاہیے۔ ملک کے طول و عرض کے ہر گلی کوچے میں الخدمت فائونڈیشن کی ممبرسازی کر کے عوام کو اس کا حصہ بنانا چاہیے اور پوری قوم کو مثبت سرگرمیوں میں مشغول کرنے کے لیے ہمہ جہتی اور ہمہ وقتی پروگرام بنانا چاہیے۔

اس وقت اہم ترین مسئلہ تعلیمی اداروں کی بحالی کا ہے۔ مساجد کے منہدم ہونے کی وجہ سے لوگوں کی اجتماعیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ فوری طورپر مساجد کی تعمیرنو کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مساجد میں مسجدمکتب کے ذریعے بچوں کی تعلیم کا فوری انتظام‘ بیٹھک اسکولوں کا بڑے پیمانے پر اجرا‘ تنظیم اساتذہ‘ اسلامی جمعیت طلبہ کے زیراہتمام اسکولوں کے سلسلے کا احیا‘ جمعیت طلبہ عربیہ‘ اسلامی جمعیت طالبات اور سرکاری اسکولوں کو دوبارہ منظم کرنے میں امداد کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنایاجاسکے۔

اس وقت ایک فوری ضرورت متاثرہ لوگوں کو حوصلہ اور ہمت کرکے اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی تلقین کرنے کی ہے۔ بحیثیت مسلمان کے ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا اور خاص طور پر لوگوں کو تلقین کرنا کہ مصیبت کی گھڑی میں صبر کرنے والوں کے لیے بڑا اجر ہے۔ الحمدللّٰہ الذی لا یحمد علی مکروہ سواہ، اس اللہ کا شکر ہے جس کے سوا مشکل میں کسی کی تعریف نہیں کی جاتی‘ یعنی اللہ جس حال میں بھی رکھے بندہ اس پر اپنے رب کا شکرگزار ہو۔ بقول اقبال   ؎

در رہ حق ہرچہ پیش آید نکوست

مرحبا نامہربانی ہائے دوست

اللہ کے راستے میں جو کچھ بھی آئے اچھا ہے۔ حبیب کی طرف سے اگر کوئی تکلیف بھی آئے تو اسے خوش آمدید کہتے ہیں۔

لوگوں کو نفسیاتی طور پر بحال اور اُن کی تمنائوں اور آرزوئوں کو ازسرِنو بیدار کرنے کے لیے اور انھیں رجوع الی اللہ کی تلقین کرنے کے لیے اور لغو اور فضول سرگرمیوں سے مثبت اور مفید مشاغل کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ایک سماجی تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جماعت اسلامی نے پُرعزم اور باہمت ‘خداترس کارکنوں کو متاثرہ علاقوں میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حلقہ خواتین نے لوگوں کو اِس مصیبت کی گھڑی میں عزم و ہمت سے کام لینے اور اُن کی نفسیاتی بحالی کے لیے اُمیدنو کے نام سے ایک پراجیکٹ شروع کیا ہے جسے مزید توسیع دینے کی ضرورت ہے۔

سیکولر اور لادین طبقے میں رجوع الی اللہ کے رجحان سے تشویش پیدا ہوگئی۔ استحصالی طبقے نے ہمیشہ لوگوں کے سفلی جذبات اور ہوا و ہوس کی خواہشات کو اُبھار کر لوگوں کے اخلاق و کردار اور ان کے اموال پر ڈاکا ڈالاہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے پاس اپنی اولاد کی بنیادی ضروریات ‘ چھپر‘ خوراک‘ پوشاک‘ تعلیم اور علاج کی رقم تو نہیں ہوتی لیکن جھونپڑی میں بھی ڈش انٹینا لگانے اور وی سی آر پر کرایہ کی فحش فلمیں خریدنے پر محنت کی کمائی ضائع کی جاتی ہے۔ غریب اور محنت کش طبقے میں بھی سگریٹ نوشی عام ہے۔

لاہور میں ورلڈ فیسٹیول کے نام سے عین اس وقت جب رجوع الی اللہ کے لیے تلقین کی جارہی ہے لہوولعب کے ایک بڑے میلے کی تیاری ہے۔ دنیابھر سے موسیقار اور رقص و سرود کے گروپوں کو دعوت دی گئی ہے۔ زلزلے کے صدمے سے دوچار ہونے والی قوم کو دوبارہ رقص و سرود میں مشغول کرکے غم غلط کرنے اور جھوٹی خوشیاں منانے کا مژدہ سنایا جا رہا ہے۔ مادہ پرست لوگ اپنے اس نظریے کا پرچار کر رہے ہیں کہ موسیقی روح کی غذا ہے۔ بڑے بڑے اشتہارات کے ذریعے نوجوان لڑلے لڑکیاں آلاتِ موسیقی ہاتھوں میں تھامے مغربی لباس اور مغربی شعار اپنانے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اللہ کی رضا‘ آخرت کی بھلائی اور مصیبت زدہ بہن بھائیوں کی محبت کے بجاے لوگوں کے سفلی جذبات اُبھار کر زلزلہ زدگان کی مدد کی اپیل کی جارہی ہے تاکہ خدا ترسی کے جذبے کے تحت جو مثبت دینی رجحانات پیدا ہوئے ہیں‘ اِن کا قلع قمع کیا جاسکے۔ حالانکہ مایوسیوں کے اندھیرے میں اسلام کا پیغام یہ ہے کہ اللہ کی محبت‘ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور بندگانِ خدا کی محبت کے جذبات کو مہمیز دی جائے۔

مظفرآباد میں عیدالفطر کے موقع پر ہم نے اپنی آنکھوں سے یہ روح پرور منظر دیکھا کہ مصیبت کے مارے ہوئے لوگوں کے دل شکر وسپاس کے جذبات سے لبریز ہیں۔ آنکھیں پُرنم ہیں لیکن پُرنم آنکھوں سے وہ ہمارا شکریہ ادا کر رہے ہیں کہ ہم نے اپنی عید ان کے درمیان منانے کو ترجیح دی۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اللہ کی کبریائی کی صدائیں بلند کرنے کے لیے یونی ورسٹی کے ملبے کے اوپر جمع ہیں جس کے نیچے سیکڑوں جوان‘ طلبہ اور طالبات جاں بحق ہوچکے تھے۔ لوگ آپس میں مصافحہ کر رہے ہیں‘ معانقہ کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دے رہے ہیں۔ غربا اور مستحقین میں ضرورت کی چیزیں تقسیم کر رہے ہیں۔ خیموں میں بچوں سے مل رہے ہیں‘ ان کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ یہ حقیقی خوشی کا وہ تصور ہے جو اسلام نے عطا کیا ہے۔جنسی خواہشات کو مہمیز دینے والا رقص و سرود خوشی نہیں بلکہ انحطاط کا پیغام دیتا ہے۔ بقول اقبال    ؎

میں تجھ کو بتاتا ہوں‘ تقدیر اُمم کیا ہے

شمشیر و سناں اوّل‘ طائوس و رباب آخر

جب قومیں ترقی اور عروج کی منزلیں طے کرتی ہیں تو ان کے ہاتھ میں شمشیر اور تیروتفنگ ہوتا ہے لیکن جب وہ انحطاط پذیر ہوتی ہیں تو ان کے پاس طائوس و رباب ہوتا ہے۔

آزمایش کے ان لمحات میں قوم کو متحد کرنے کا ایک سنہرا موقع ہاتھ آیا تھا۔ پوری قوم میں ہمدردی اور یک جہتی کا رجحان تھا۔ فوجی حکمران کے جذبۂ حب الوطنی کا امتحان تھا۔ ہم نے تجویز پیش کی کہ تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کے سربراہوںکا اجلاس بلایا جائے اور بحالی و امدادی سرگرمیوں کے لیے ایک جامع‘ شفاف اور متفقہ پروگرام بنایا جائے لیکن  ع  اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔

فوجی حکمران نے اس سنہرے موقع کو ضائع کر دیا اور اس موقع کو اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔ پارلیمنٹ اور دستوری اداروں کو یکسرنظرانداز کردیا گیا۔ اپنے نامزد وزیراعظم اور کٹھ پتلی کابینہ اور کٹھ پتلی حکمران جماعت کو بھی کسی قابل نہیں سمجھا گیا۔ متنازعہ سلامتی کونسل کا اجلاس بلاکر بحالی کے پورے کام کو فوج کے جرنیلوں کے حوالے کر دیا گیا۔ انھیں ہر طرح کی عدالتی چارہ جوئی سے مبرا قرار دیا گیا۔ اور غضب ہے کہ ایک ایسا ادارہ جو ملک کے پورے ترقیاتی بجٹ سے زیادہ رقم پر تصرف رکھتا ہے اسے محض ایک انتظامی حکم کے ذریعے قائم کیا گیا ہے اور یہ تکلف بھی نہیں کیا کہ یہ کام آرڈی ننس کے ذریعے کیا جاتا جسے نافذ کرنے کے بے محابا اختیارات صدر کو حاصل ہیں۔ لیکن غالباً خطرہ یہ تھا کہ اس آرڈی ننس کو بھی پارلیمنٹ کے سامنے توثیق کے لیے پیش کرنا ہوگا جو انتظامی آرڈر کے لیے ضروری نہیں۔ پارلیمنٹ کی اس سے زیادہ بے وقعتی کا تصور بھی محال ہے۔ اب تو ڈونرز کانفرنس کے موقع پر یورپی یونین نے بھی یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ریلیف اتھارٹی کو پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے۔

دوسری طرف زلزلے کو اسرائیل اور بھارت سے پینگیں بڑھانے کے لیے دوسری طرف استعمال کیا گیا۔ تمام اداروں کو نظرانداز کر کے ناٹو کی فوجوں کو بلانے کا فیصلہ فردِواحد نے اپنی مرضی سے کرڈالا اور یہ تک نہ دیکھا کہ ناٹو کا دستہ امریکی کمانڈر کے تحت کام کر رہا ہے پاکستان کی فوج کے تحت نہیں اور اس کے ایک ہزار افراد کے دستے میں ڈاکٹر اور انجینیرصرف ۱۵۰ کے قریب ہیں‘ باقی فوجی کون سے محاذ کو سرکر رہے ہیں؟ کسی کو علم نہیں۔

کنٹرول لائن کو مستقل بین الاقوامی سرحد میں تبدیل کرنے کے ناعاقبت اندیشانہ اقدامات کیے گئے جس سے ملک کی آزادی اور سالمیت کو خطرات لاحق ہوئے۔ محب وطن عناصر کو بجاطور پر تشویش لاحق ہے کہ کیا ناٹو کی فوجیں واپس جائیں گی یا یہ افواج وسیع تر مشرق وسطیٰ (Greator Middle East) کے امریکی نظریے کے تحت پورے عالمِ اسلام کو اپنی آماجگاہ بنانے کے منصوبے پر عمل درآمد کرنے کے لیے پاکستانی علاقے کو مستقر بنانے پر اصرار کریں گی۔ اگر یہ واپس جانے سے انکار کردیں تو کیا ہماری حکومت میں یہ ہمت اور طاقت ہے کہ انھیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جاسکے۔ یہ افواج ایسے علاقے میں تعینات ہیں جو ہمارے ملک کا حساس ترین علاقہ ہے۔ یہ علاقہ بھارت‘ چین اور وسط ایشیا کے سنگم پر واقع ہے۔ یہاں قریب ہی ہماری ایٹمی تنصیبات ہیں۔ یہ چند ماہ میں ساری حساس معلومات اکٹھی کر کے کسی بھی وقت حملہ کرنے کا منصوبہ بناسکتے ہیں۔ غالباً اس کا ذکر کرتے ہوئے کونڈولیزا رائس نے ایوان نمایندگان میں کہا تھا کہ ایٹمی ہتھیاروں کو پاکستان میں غیرمحفوظ ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے ان کے پاس ہنگامی منصوبہ (contingency plan) موجود ہے۔

ملک کو گوناگوں خطرناک اور مستقبل کی غیریقینی صورت حال سے نکالنے کے لیے سیاسی جماعتوں کی یک جہتی کی ضرورت ہے۔ زلزلے کے موقع پر ہنگامی صورت حال نے واضح کر دیا ہے کہ سیاست میں مداخلت نے فوج کی دفاعی صلاحیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے اور اسے فوری طور پر سیاسی ذمہ داریوں سے سبکدوش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ اپنی اصلاح کرسکے اور اپنی اصل ذمہ داریوں کی طرف کماحقہ توجہ دے سکے۔

اس مقصد کے لیے اور بھی ضروری ہوگیا ہے کہ ایک بڑی سیاسی تحریک کا آغاز کیا جائے جو قوم کو ایک سیاسی اور سماجی انقلاب کے لیے تیار کرسکے تاکہ آئینی ادارے نئے سرے سے منظم ہوسکیں‘ عدالتی نظام کی اصلاح کی جائے‘ سیاسی بنیادیں مستحکم ہوں اور آئین کے مطابق ہر ادارہ اور ہرطبقہ اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھال سکے۔ یہ وقت ہے کہ فردِ واحد کی آمریت سے ملک کو نجات دلائی جائے اور ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کو محفوظ کرنے کے لیے پوری قوم متفقہ جدوجہد کرے۔

یہاں پاکستان بھر میں مخیر حضرات تاجروں‘ صنعت کاروں اور عوام کے جذبۂ انفاق کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے جنھوں نے امدادی کارکنوں اور اداروں کی پشتیبانی کی اور ان کی ہر ضرورت کو پورا کیا۔ امدادی کام ان مخیرحضرات کے خوش دلانہ مالی تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ ہمیں کسی موقعے پر کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔ لوگوں نے خود نقد رقوم‘ خیمے‘ ترپال‘ کمبل‘ لحاف‘ گرم کپڑے‘ بستر اور سامانِ خوراک بہم پہنچایا۔ سیور فوڈ والوں نے مسلسل صبح شام ہزاروں افراد کو کھانا فراہم کیا۔ لاکھوں لوگوں کو صبح و شام ہمارے کیمپوں میں خوراک مہیا کی جاتی رہی اور اللہ کے فضل اور عوام کے تعاون سے ہمارے ہاں سے کوئی بھی فرد خالی ہاتھ یا بھوکے پیٹ واپس نہیں لوٹا۔

لاہور کے ڈاکٹرز ہسپتال کے ڈاکٹروں نے مجھے چار لاکھ روپے کا چیک متاثرین کو جاڑوں کی ٹھنڈسے بچانے کے لیے تھرمل سوٹ خریدنے کے لیے دیا۔ میں نے جب کراچی میں اپنے صنعت کار دوستوں سے تھرمل سوٹ کے لیے رابطہ کیا تو انھوں نے بغیر قیمت کے مجھے ایک ماہ کے اندر ۵۰ ہزار تھرمل سوٹ فراہم کرنے کا وعدہ کیا جس کی قیمت تقریباً ایک کروڑ روپے بنتی ہے۔ متحدہ عرب امارات میں پاکستانی تاجروں نے مقامی مخیر حضرات کے تعاون سے ساڑھے چار کروڑ روپے کی ضروری ادویات کا ایک جہاز بھیجا۔ سعودی عرب کے دوستوں نے تقریباً ۱۲ ہزار خیموں اور کروڑوں روپے کی ادویات کے علاوہ ضرورت کی ہر چیز فراہم کی۔ اسلامی تحریک کی دنیا بھر کی تنظیموں نے مصر‘سوڈان‘ امریکا اور یورپ سے امداد فراہم کی۔ یوکے اسلامک مشن نے زلزلے کے پہلے ہی روز گرانقدر عطیہ بھیجا جو باعث برکت بنا۔ اسی جذبۂ انفاق کو مسلسل جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ اس کو سات سو گنا بڑھا کر دے گا۔

پاکستانی فوج کے بجٹ کی تفصیلات پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہونے والے حسابات سے مستثنیٰ ہیں۔ سلامتی کونسل کے تحت زلزلہ زدگان کی بحالی کے لیے جو ادارہ قائم کیا گیا اور جسے مکمل طور پر فوج کے جرنیلوں کے سپرد کر دیا گیا اس کے بارے میں بھی اسی وجہ سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے کہ وہ عوامی نمایندوں اور عدالتوں کے سامنے جواب دہی سے مستثنیٰ ہے۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے پارلیمنٹ کی کسی ایسی کمیٹی میں شمولیت سے معذرت ظاہر کی جس کو سلامتی کونسل کے قائم کردہ ادارے پر مکمل بالادستی حاصل نہ ہو۔ حزبِ اختلاف کا مؤقف یہ ہے کہ سارے فیصلے سلامتی کونسل میں ہوجانے کے بعد پارلیمنٹ کی کمیٹی کے قیام کی کوئی افادیت یا مصرف نہیں ہے۔ ملک کے اندر حزبِ اختلاف کے شکوک و شبہات اور تمام معاملات میں فوجی عمل دخل اور      عوامی نمایندوں کے احتساب سے بالاتر ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ اب غیرملکی امداد دینے والے (donors)بھی کھلم کھلا فوجی حکمرانوں پر عدمِ اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ چنانچہ جاپانی حکومت کے نمایندوں نے مطالبہ کیا کہ جب تک حسابات کو شفاف نہیں بنایا جاتا اس وقت تک امداد دینے والے ممالک مدد دینے کے لیے آگے نہیں بڑھیں گے۔

ان کے مطالبے پر پرویز مشرف حکومت نے کسی تیسری ایجنسی کے سامنے حسابات رکھنے  کا عندیہ پیش کیا ہے۔ مقامِ افسوس ہے کہ اپنی قوم کے عوامی نمایندوں کے سامنے حسابات دینے سے کترانے والے اپنی افواج کے زیراہتمام خرچ ہونے والے حسابات کا آڈٹ کسی تیسری ایجنسی سے کروانے کے لیے تیار ہیں۔ فوجی حکمران جس طرح ملک کی آزادی اور خودمختاری سے بتدریج دست بردار ہو رہے ہیں یہ اس کی ایک تازہ مثال ہے۔

بحالی کے سلسلے میں اب تک جو عملی تجاویز سامنے آئی ہیں ان میں عام دیہاتی آبادی کی بحالی کی یہ تجویز فوری طور پر قابلِ عمل ہے کہ ایک خاندان کو اپنی چھت اور دیواریں سیدھی کرنے کے لیے ۲۰‘ ۲۵ ہزار روپے دیے جائیں۔ اپنی ضرورت کے لیے جنگل کی عمارتی لکڑی کاٹنے کی اجازت حکومت نے دے دی ہے۔ اگر دیہاتی علاقے میں آرے کی مشین اور مستری فراہم کیے جائیں تو لوہے کی چادروں اور لکڑی اور گرے مکان کے ملبے سے تھوڑی سی محنت اور ہمت کے ساتھ اپنے گھر کو قابلِ استعمال بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ اگر دیہاتی علاقے میں ایک گائے اور دو بھیڑیں خریدنے اور اپنی کھیتی کو کاشت کرنے کے لیے سہولت فراہم کردی جائے تو ایک اندازے کے مطابق ۶۰ہزار روپے میں ایک خاندان کو ابتدائی طور پر اپنے پائوں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ایک ہزار ڈالر اگر ایک فرد فراہم کرے تو وہ ایک غریب خاندان کو سہارا دے سکتا ہے۔ یہ مواخاۃ کی تحریک کا ایک طریقہ ہے اور دو خاندانوں کے سربراہوں کو اس طرح آپس میں ایک دوسرے سے متعارف کرایا جا سکتا ہے تاکہ ایک سربراہ دوسرے خاندان کو سہارا دے کر اسلامی اخوت اور بھائی چارے کا حق ادا کرسکے۔

پاکستان انجینیرز فورم نے اسٹیل کے فریم اور فائبر گلاس کی چھت اور دیواروں کے ایک ایسے مکان کا ڈیزائن اور ماڈل بھی پیش کیا ہے جو فوری طور پر کھڑا کیا جا سکتا ہے اور ایک کمرے اور غسل خانے‘ باورچی خانے پر مشتمل ایک چھوٹا مکان ایک لاکھ روپے میں بنایا جا سکتا ہے۔ اگر یہ کام بڑے پیمانے پر کیا جائے تو یہ رقم ۸۰ہزار روپے تک نیچے لائی جاسکتی ہے۔ بعض اداروں نے    پیش کش کی ہے کہ وہ سو دو سو مکانات‘ ایک اسکول اور ایک ہسپتال اور ایک مسجد پر مشتمل ایک چھوٹی سی کالونی بنانے کے لیے تیار ہیں۔ یورپ میں مکین ترک باشندوں کی تنظیم ملی گورش نے بالاکوٹ‘ باغ اور مظفرآباد کے علاقوں میں اس طرح کی تین کالونیاں بنانے کے لیے چار یا پانچ لاکھ یورو (تقریباً چار یا پانچ کروڑ) کا عطیہ دینے کی پیش کش کی ہے۔

ہمیں امید ہے کہ ایک منظم طریقے سے یہ کام شروع ہونے کے بعد بہت سے مخیرحضرات اور برادر تنظیموں کی طرف سے مسلسل مزید امداد کی پیش کش آئے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ الخدمت فائونڈیشن اور دوسری برادر تنظیمیں مل کر فیلڈ میں اپنے کام کو مربوط اور منظم کریں۔

اس تباہی سے خیر نکالنے کا راستہ یہی ہے کہ بحالی کا کام مربوط طریقے سے ایک منصوبے کے مطابق کیا جائے اور متاثرہ لوگوں کو بحالی کے اس پورے کام میں اس مرحلے پر شریک کیا جائے اور انھیں اصل درس یہی دیا جائے کہ بحالی کے اس کام میں اصل عنصر ان کی اپنی ہمت‘ محنت اور امداد باہمی ہے۔ باہر کے لوگ انھیں سہارا دے سکتے ہیں لیکن اپنے پائوں پر کھڑا ہونا ان کا اپنا فرض ہے۔

اگریہ کام خالصتاًاللہ کی رضا کے لیے کیا جائے تو اللہ کی نصرت شاملِ حال ہوگی اور یہ ہماری کوتاہیوں اور گناہوں کا ازالہ بنے گا۔ وما ذٰلک علی اللّٰہ بعزیز۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری حقیر خدمات کو قبول فرمائے اور ہماری کوتاہیوں کو      بخش دے۔آمین!

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء کی صبح آٹھ بج کر باون منٹ پر پاکستان اور کشمیر کے طول و عرض میں اور خصوصیت سے صوبہ سرحد اور آزاد کشمیر کے شمالی علاقوں میں ایک ایسا تباہ کن بھونچال آیا جس نے ہزاروں جیتے جاگتے‘ ہنستے کھیلتے انسانوں کو چشم زدن میں موت کی نیند سلا دیا۔ ایک لاکھ کے قریب جوان‘ بوڑھے‘ مرد‘ عورتیں اور بچے زخموں سے چور ہوگئے‘ ۵۰ لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوگئے اور دسیوں شہر اور سیکڑوں دیہات دیکھتے ہی دیکھتے کھنڈروں میں تبدیل ہوگئے۔ اس ہمہ گیر تباہی کے احساس سے پاکستان اور اُمت مسلمہ ہی نہیں‘ پوری دنیا کے کروڑوں انسانوں کے دل کم از کم وقتی طور پر دہل گئے اور آنکھیں اشک بار ہوگئیں___ لیکن کیا جاگتوں کو موت کی آغوش میں سلانے والا یہ قیامت خیز زلزلہ‘ پاکستان کے ۱۵ کروڑ نیند کے متوالوں اور ان کی غافل اور حق فراموش قیادت کی آنکھیں کھولنے اور ان کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کا کارنامہ بھی انجام دے سکتا ہے؟

ساری تباہی اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے اور فوری امداد کی ہر کوشش وقت کا تقاضا اور انسانی اور قومی ضرورت ہے۔ جانیں بچانے‘ یعنی ریسکیو (rescue)‘ مدد پہنچانے یعنی ریلیف (relief) اور بحالی (rehabilitation) کی تمام مساعی ضروری اور فوری توجہ کی مستحق ہیں اور ان کے باب میں کوئی کوتاہی‘ اخلاقی اور اجتماعی ظلم کی بدترین مثال ہوگی لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مستقبل کی تاریکی یا تابناکی کا اصل انحصار اس امر پر ہوگا کہ کیا ہم اس چشم کشا انتباہ پر واقعی آنکھیں کھولتے ہیں؟ اور پھر یہ کہ اس گمبھیر آزمایش میں‘ بحیثیت قوم ہمارے رویوں اور ردعمل میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں؟

خود احتسابی‘ انفرادی اور اجتماعی رویوں کا جائزہ‘ قومی اور سرکاری پالیسیوں پر نظرثانی‘ اللہ کے غضب کو دعوت دینے والے اعمال و احوال کا ادراک‘ اپنے رب سے توبہ و استغفار اور حقیقی خدمت‘ بھائی چارے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ٹھیک ٹھیک ادایگی کی فکر ہی ہمیں زندگی کے      مصائب و آلام سے حقیقی نجات کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ اسلامی اور غیراسلامی رویے میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ غیراسلامی رویے کا سارا دروبست صرف طبعی اور وقتی امورسے عبارت ہوتا ہے یعنی ریسکیو‘ ریلیف اور بحالی ___  اور اسلامی رویہ ان کے ساتھ ساتھ ان سرگرمیوں کی اصل روح‘ جذبہ اور حقیقی ہدف اللہ کی رضا کا حصول‘ اس سے تعلق اور استعانت کی طلب اور اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق حق و انصاف کے قیام کے لیے اصلاحِ احوال سے عبارت ہوتا ہے تاکہ معاشرہ  خیر اور فلاح کا گہوارہ بن سکے اور زمین و آسمان سے اللہ کی برکتیں میسر آسکیں۔

قرآن و حدیث کا نقطہ نظر

قرآن نے انسانوں کو سوچنے سمجھنے اور غوروتدبر کرنے کا جو آہنگ دیا ہے‘ اس کا سب سے امتیازی پہلو ہی یہ ہے کہ وہ جہاں زندگی کے طبعی پہلو اور حوادثِ زمانہ کے مادی احوال و ظروف کا ادراک کرتا ہے اور انھیں نمایاں حیثیت دیتا ہے‘ وہیں ان کے پیچھے کارفرما اخلاقی‘ روحانی اور نظریاتی اسباب و عوامل کو بھی بھرپورانداز میں نمایاں کرتا ہے۔ بلکہ صحیح تر الفاظ میں ان طبعی حقائق کو زندگی کے حقیقی اور اخلاقی اسباب و اسباق کی تفہیم کا ذریعہ بناتا ہے اور اس طرح سوچ کے ان دو بنیادی زاویوں کو ایک دوسرے سے نمایاں کردیتا ہے جو اسلام اور غیراسلام کا خاصہ ہیں اور زندگی کے دو تصورات (paradigms) کے مظہر ہیں۔ زندگی کا ایک وہ رویہ ہے جو صرف طبعی پہلو پر اکتفا کرلیتا ہے اور دوسرا طبعی پہلو کے ساتھ اس کے اخلاقی‘ روحانی اور نظریاتی پہلو کو بھی اپنی گرفت میں لے آتا ہے اور اس طرح چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے ہر واقعے کو زندگی کے بنیادی تصورات‘ اقدار اور مقاصد اور کامیابی اور ناکامی کے اخلاقی اور ابدی معیار سے وابستہ کردیتا ہے۔

تَبٰرَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ ز وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْـرُ نِ o   الَّذیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ o (الملک ۶۷:۱-۲)

نہایت بزرگ و برتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں (کائنات کی) سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ اور وہ زبردست بھی اور درگزر فرمانے والا بھی۔

موت ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے اور شب و روز ہم سب ہی اس کا نظارہ کرتے رہتے ہیں‘ کبھی اپنے اعزہ اور اقارب کی جدائی کی شکل میں اور کبھی بڑے بڑے اجتماعی حادثات کی صورت میں جو اپنے اور غیر سب کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ قرآن پاک میں گزری ہوئی قوموں کی تباہی کے جو رونگٹے کھڑے کر دینے والے واقعات بیان کیے گئے ہیں‘ وہ صرف ان قوموں کے غضب ناک انجام ہی کا تذکرہ نہیں بلکہ قیامت تک سب انسانوں کے لیے اور خصوصیت سے اہلِ ایمان کے لیے انتباہ کا سامان بھی لیے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے بیان کی اصل حکمت بھی یہی ہے کہ انسانوں کو غفلت سے بیدار کریں تاکہ وہ زندگی اور موت کے ان تمام مناظر سے عبرت لے سکیں جو خواہ ماضی میں واقع ہوئے ہوں یا ان کی جھلک خود ان کے اپنے گردوپیش میں دیکھی جا سکتی ہو‘ یا جس کا تجربہ وہ اور ان کے جیسے دوسرے انسان اور اقوام وقتاً فوقتاً کرتے ہیں۔

اَفَاَمِنَ اَھْلُ الْقُرٰٓی اَنْ یَّاْتِیَھُمْ بَاْسُنَا بَیَاتًا وَّ ھُمْ نَآئِمُوْنَo اَوَاَمِنَ اَہْلُ الْقُرٰٓی اَنْ یَّاْتِیَھُمْ بَاْسُنَا ضُحًی وَّھُمْ یَلْعَبُوْنَo اَفَاَمِنُوْا مَکْرَ اللّٰہِ فَلَا یَاْمَنُ مَکْرَ اللّٰہِ اِلاَّ الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَo اَوَلَمْ یَھْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِ اَھْلِھَآ اَنْ لَّوْ نَشَآئُ اَصَبْنٰھُمْ بِذُنُوْبِھِمْ (اعراف ۷:۹۷-۱۰۰)

پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت اچانک ان پر رات کے وقت نہ آجائے گی جب کہ وہ سوئے پڑے ہوں؟ یا انھیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا؟ جب کہ وہ کھیل رہے ہوں؟ کیا یہ لوگ اللہ کی تدبیر سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی تدبیر سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔ کیا ان لوگوں کو جو سابق اہلِ زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں‘ اس امر واقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انھیں پکڑ سکتے ہیں؟

قرآن اقوامِ سابقہ کے حق سے انحراف اور ظلم و جور میں حد سے گزر جانے کے واقعات کا تذکرہ کر کے اور ان کے عبرت ناک انجام کا بار بار ذکر کر کے ہمیں سوچ کے اس انداز کی تعلیم دے رہا ہے کہ طبعی عوامل اور اخلاقی عوامل کو باہم دگر مربوط دیکھنے کی روش اختیار کریں اور ماضی سے روشنی حاصل کرتے ہوئے حال کی اصلاح کی فکر کریں۔ اللہ کی اس گرفت کی حیثیت کب عذاب کی ہے اور کب انتباہ کی‘ نیز عذاب کی بھی مختلف حیثیتیں ہیں اور ہر عذاب ایک ہی نوعیت کا نہیں‘ لیکن یہ سب علمی بحثیں ہیں جن کا یہ محل نہیں ___ جو بات ناقابلِ انکار ہے‘ وہ یہ ہے کہ طبعی عوامل اور اخلاقی عوامل دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں اورزلزلے‘ طوفان‘ سیلاب‘ تباہی پھیلانے والے جھکڑ جہاں اپنے طبعی اسباب و احوال رکھتے ہیں‘ وہیں ان کے پیچھے مضبوط اور چشم کشا اخلاقی عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں۔  کوتاہ بیں اپنی نظر کو صرف طبعی احوال تک محدود رکھتے ہیں لیکن مومن صادق ان کے اخلاقی‘ روحانی‘ مابعد الطبیعیاتی اور تہذیبی اسباب و عواقب پر بھی اپنی نگاہ کو مرکوز کرتا ہے اور اُن سے اصلاح احوال کے لیے عبرت کا درس لیتا ہے۔

پورا قرآن غوروفکر کے اس اسلوب کی تعلیم دیتا ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے پیارے اور بڑے مؤثرانداز میں اس ربط و تعلق پر انسانوں کی توجہ کو مرکوز فرمایا ہے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ کی روایت ہے کہ آپ کا ارشاد ہے:

ما من قوم یظھرُ فیھم الزنا الا اخذوا بالسنۃ وما من قوم یظھر فیھم  الرّشا الا اُخذ وبالرعب (رواۃ احمد‘ مشکٰوۃ‘ کتاب الحدود)

کوئی قوم ایسی نہیں ہے کہ اس میں بدکاری عام ہو مگر یہ کہ وہ قحط سالی میں گرفتار ہوجاتی ہے اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں رشوت پھیل جائے مگر یہ کہ اس پر خوف و دہشت طاری ہوجاتی ہے۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ جس قوم میں خیانت کا بازار گرم ہوگا‘ اس قوم میں اللہ تعالیٰ دشمن کا خوف اور دہشت پھیلا دے گا‘ جس معاشرے میں زنا کی وبا عام ہوگی وہ فنا کے گھاٹ اتر کر رہے گا‘ جس معاشرے میں ناپ تول میں بددیانتی کا رواج عام ہوگا وہ رزق کی برکت سے محروم ہوجائے گی‘ جہاں ناحق فیصلے ہوں گے وہاں خوں ریزی لازماً ہوکر رہے گی اور جس قوم نے بدعہدی کی‘ اس پر دشمن کا تسلط بہرحال ہوکر رہے گا۔ (رواہ مالک‘ مشکوٰۃ‘ باب تفسیرالناس)

اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ چشم کشا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد ہے جو حضرت ابوہریرہؓ سے ترمذی میں اس طرح روایت ہوا ہے:

جب مال غنیمت کو ذاتی مال سمجھا جانے لگے‘اور امانت کو مالِ غنیمت سمجھ لیا جائے‘ زکوٰۃ ادا کرنا جرمانہ اور چٹی بن جائے‘ اور علم حاصل کرنے کا مقصد دین پر عمل کرنا نہ ہو (محض دنیا کمانا ہو) اور مرد اپنی ماں کی نافرمانی کرتے ہوئے بیوی کی بات ماننے لگے‘ اور باپ سے دُوری اختیار کرے اور اس کے مقابلے میں دوست کی قربت چاہے۔ مسجدوں میں شور ہونے لگے (اور مسجد کے آداب کا لحاظ نہ کرتے ہوئے اونچی آواز میں بات چیت اور بحث و تکرار شروع ہوجائے) قبیلے کا سردار فاسق (اللہ رسولؐ کا نافرمان) بن جائے اور قوم کا سربراہ گھٹیا انسان بن جائے‘ اور آدمی کی عزت اس کے شرسے محفوظ رہنے کے لیے کی جانے لگے‘ آلاتِ موسیقی کثرت سے ظاہر ہوجائیں‘ شراب پی جانے لگے‘ اس اُمت کا آنے والا گروہ گزر جانے والے گروہ پر لعنت ملامت کرنے لگے (اگر ایسی صورت حال ہوجائے) تو تم انتظار کرو‘ سرخ آندھیوں کا___ زلزلوں کا___ زمین کے دھنس جانے کا___ صورتوں کے بگڑ جانے کا___ آسمان سے نازل ہونے والے عذاب کا‘اور یہ نشانیاں یکے بعد دیگرے اس طرح ظاہر ہونے لگیں گی جیسے اگر پرانی تسبیح کا دھاگا ٹوٹ جائے تو اس کے موتی مسلسل گرنے لگتے ہیں۔(ترمذی‘ حدیث ۲۱۳۶‘ کتاب الفتن)

قرآن پاک نے زمانے کے نشیب و فراز اور قوموں کے عروج و زوال کے ذکر سے جس تذکیر کا اہتمام کیا ہے‘ ارشادات نبویؐ میں انھی پہلوئوں کی طرف مستقبل کے واقعات اور حالات کی نشان دہی کرکے ہمیں انتباہ کیا گیا ہے تاکہ انسان بحیثیت مجموعی اور مسلمان بطور خاص زندگی اور موت‘ اور حوادثِ زمانہ اور طبعی احوال سے بس یونہی نہ گزر جائیں بلکہ ان میں جو اصل معنویت پوشیدہ ہے اس کو سمجھیں‘ فساد فی الارض پیدا کرنے والے اعمال سے اجتناب کریں‘ خیروصلاح پھیلانے والے اقدام کی فکر کریں اور یہ یاد رکھیں کہ اللہ کا قانون ہے کہ جب بھی اس کی گرفت واقع ہوتی ہے تو وہ خود انسانوں کے اپنے اعمال اور ظلم و طغیان کی وجہ سے ہوتی ہے اور پھر اس میں گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ ایسے حالات میں معاشرے کی تباہی کی زد میں صرف ظالم اور بدکردار ہی نہیں آتے بلکہ وہ بھی آتے ہیں جو خواہ شریکِ جرم نہ ہوں لیکن ظالم اور باغی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں۔

وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَـآصَّۃً وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ o (انفال ۸:۲۵)

اور بچو اس وقت سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُھْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّاَھْلُھَا مُصْلِحُوْنَ o (ھود ۱۱:۱۱۷)

اور تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح احوال کرنے والے ہوں۔

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا وَّ لٰکِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ o (یونس ۱۰:۴۴)

حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا‘ لوگ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔

انتباہ کے ساتھ آزمایش کا بھی ایک نظام ہے جس کا اصل مقصد تو اخلاقی اور روحانی تزکیہ اور تربیت ہے لیکن وہ بھی طبعی عمل کے ذریعے کارفرما ہوتی ہے اور کچھ کے لیے تنزل اور تباہی کا ذریعہ بن جاتی ہے اور کچھ کے لیے ترقی اور کامیابی کا زینہ ثابت ہوتی ہے۔ یہ بھی اللہ کا ایک اٹل قانون ہے اور جس طرح انتباہ‘ گرفت اور سزا اصلاح کے عمل کا ایک حصہ ہے‘ اسی طرح آزمایش اور جانچ پرکھ کا الٰہی نظام بھی اس وسیع تر عمل کا ایک لازمی پہلو ہے۔

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ o وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ o (العنکبوت ۲۹:۲-۳)

کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمایش کرچکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو یہ ضرور دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون؟

وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیٍٔ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمٰرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo اُوْلٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۵۵-۱۵۷)

اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر‘ فاقہ کشی‘ جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے‘ اور کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘ انھیں خوش خبری دے دو۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی‘ اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔

اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے جو چیز بالکل صاف ہوکر ہمارے سامنے آتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ جو مصیبت بھی انسانوں پر آتی ہے وہ بے سبب نہیں ہوتی اور اس کے پیچھے محض طبعی عوامل ہی نہیں‘ اخلاقی اور مابعدالطبیعیاتی عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں اور ہر ایسا واقعہ جہاں دلوں کو افسردہ کرنے والا ہے‘ وہیں اسے دل کی آنکھوں کو کھولنے والا بھی بننا چاہیے تاکہ انسانی زندگی سے بگاڑ‘ ظلم اور طغیانی ختم ہو اور انسان اللہ کی رحمت اور برکتوں کے مستحق بن سکیں۔

جائزے اور احتساب کی ضرورت

آج پاکستانی قوم جس آزمایش میں مبتلا ہے‘ اس میں جہاں زلزلے کے متاثرین کی مدد‘  ان کے غم اور تکلیف میں شرکت‘ مریضوں کی تیمارداری اور علاج ‘ تباہ شدہ بستیوں کو دوبارہ آباد کرنے کی کوشش ہماری ذمہ داری ہے‘ وہیں اللہ تعالیٰ سے خلوصِ دل کے ساتھ استغفارو توبہ اور انفرادی اور اجتماعی ہر سطح پر خوداحتسابی اور اجتماعی احتساب کا اہتمام بھی ضروری ہے تاکہ اللہ کے غضب سے بچا جاسکے‘ اور اس کی مغفرت اور رحمت کو دعوت دی جا سکے___ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنی طرف پلٹ کر آنے والے ہر فرد اور ہر قوم کو معاف کرنے والا‘ گنہگاروں اور خطاکاروں کو اپنی مغفرت میں ڈھانپ کر اپنے الطاف و اکرام سے نوازنے والا ہے۔

فَمَنْ تَابَ مِنْ م بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰہَ یَتُوْبُ عَلَیْہِط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (المائدہ ۵:۳۹)

پھر جو ظلم کرنے کے بعد توبہ کرے اور اپنی اصلاح کر لے تو اللہ کی نظر عنایت پھر اس پر مائل ہوجائے گی۔ اللہ بہت درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ ھُوَیَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ وَیَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَاَنَّ اللّٰہَ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ o (التوبہ ۹:۱۰۴)

کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی خیرات کو قبولیت عطا کرتا ہے اور یہ کہ اللہ بہت معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔

جن حالات سے آج ہماری قوم دوچار ہے ان میں صرف انفرادی توبہ و استغفار ہی نہیں بلکہ اجتماعی توبہ و استغفار کا اہتمام بھی ضروری ہے۔

وَتُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o (النور ۲۴:۳۱)

اے مومنو‘ تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو‘ توقع ہے کہ فلاح پائو گے۔

اس وقت جب کہ پوری قوم ۸ اکتوبر کے قیامت خیز زلزلے کے زیراثر غم اور خوف کی لپیٹ میں ہے‘ امدادی کاموں کے ساتھ ساتھ جو چیز بے حد ضروری ہے وہ رجوع الی اللہ‘ انفرادی اور اجتماعی احتساب‘ اللہ کے حضور توبہ و استغفار اور اللہ سے وفاداری اور ان مقاصد کے لیے عزم نو کے اظہار کی ضرورت ہے جن کے حصول کے لیے یہ ملک قائم ہوا تھا اور جس کا عہد ہم نے بحیثیت قوم اپنے رب سے کیا تھا کہ ہم کلمہ لا الٰہ الا اللہ کی سربلندی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے کے مطابق چلنے کے لیے یہ آزاد ملک حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔

کیا آج اس سوال پر غور کرنا وقت کی اہم ضرورت نہیں کہ ہم نے اللہ سے اپنے اس عہد کے ساتھ عملاً کیا معاملہ کیا ہے؟ اللہ نے ہمیں ایک آزاد ملک سے نوازا اور ہم نے عملاً غیراسلامی قوتوں کی سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی بالادستی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیا‘ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اُمت مسلمہ کی نشات ثانیہ کا نقیب بنایا اور ہم نے ان قوتوں کا ساتھ دیا جنھوں نے مسلمان ممالک پر  فوج کُشی کی اور ہمارے ہی کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی۔ نتیجتاً مسلمان ممالک میں خاک و خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے اور امن و چین تباہ ہیں۔ ہم نے اپنی معیشت کو سود‘ سٹے‘ رشوت خوری‘ ناجائز منافع خوری‘ اور ظلم و استحصال کی آماج گاہ بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں آبادی کا ۴۰ فی صد غربت کی زندگی گزار رہا ہے اور صرف ایک دو فی صد عیش و عشرت کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ ہم نے تعلیم کو فکری اور تہذیبی غلامی کا آلہ بنا دیا ہے اور نئی نسل کی اخلاقی اور نظریاتی تربیت کے باب میں مجرمانہ غفلت برتی ہے۔ فواحش کا بازار گرم ہے اور زنا بالجبر کے واقعات روز افزوں ہیں۔ عام انسانوں کی جان‘ مال اور عزت محفوظ نہیں اور جن کا کام عام انسانوں کی جان اور مال کی حفاظت تھا‘ وہ خود جان اور مال کے لیے خطرہ بن گئے ہیں اور جن کے ذمے دفاع وطن کا مقدس فریضہ تھا‘ وہ چوکیدار کے بجاے حکمران بن بیٹھے ہیں۔ بنیادی قومی امور پر بے دردی سے یوٹرن لیے جا رہے ہیں اور حکمرانوں اور قوم میں اعتماد اور ہم آہنگی کا تعلق ختم ہوگیا ہے۔ پھر بات صرف حکمرانوں‘ اہلِ سیاست‘ اصحابِ ثروت اور بااثر طبقات ہی کی نہیں کہ وہ تو ہر حد کو پامال کر رہے ہیں‘ اب تو بات پوری قوم کی ہے الا ماشا اللہ___ جب عموم بلوہ کی کیفیت ہو تو پھر اللہ کی گرفت کا تازیانہ کیوں حرکت میں نہ آئے۔ تاریخ کا مطالعہ کرلیں‘ یہی سنت الٰہی ہے اور اللہ کی سنت بدلا نہیں کرتی۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا o

اس لیے ۸ اکتوبر کا پہلا اور سب سے اہم پیغام یہی ہے کہ متاثرہ افراد کی فوری مدد اور تباہ شدہ بستیوں کو دوبارہ بسانے کی مطلوب کوششوں کے ساتھ استغفار‘ انفرادی اور اجتماعی توبہ اور اس کے ساتھ اعمال اور پالیسیوں کے باب میں خوداحتسابی اور اجتماعی احتساب کا اہتمام کیا جائے۔ اس سے وہ بیداری اور روشنی رونما ہوگی جس میں غفلت‘ بے راہ روی‘ اللہ سے نافرمانی‘ اللہ کے بندوں کے حقوق سے روگردانی‘ ظلم و استحصال‘ اور غیروں کی مغلوبیت اور محکومی کی تاریکیوں سے یہ قوم نکل سکے گی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت‘ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادایگی‘ امن وامان‘ صلح و آشتی‘ عدل وا نصاف‘ خوداعتمادی‘ خودانحصاری اور خودمختاری‘ عزت و وقار اور انفرادی اور اجتماعی سربلندی کی راہ پر گامزن ہوسکے گی۔

مثبت اور منفی پھلو

۸ اکتوبر کے قومی سانحے پر جو ردعمل ملک کے طول و عرض میں رونما ہوا ہے‘ وہ بھی اپنے اندر غوروفکر کے بڑے اہم پہلو رکھتا ہے۔ ایک طرف سہمی ہوئی قوم نے فوراً اپنے رب کو پکارا۔ ہم نے بچشم سر یہ منظر دیکھا کہ جس وقت زمین لرز رہی تھی اور فلک بوس عمارتیں کانپ رہی تھیں‘ خاص و عام سب قبلہ رو ہو کر اللہ کو پکار رہے تھے اور اس سے حفظ و امان کی بھیک مانگ رہے تھے۔ پھر جیسے جیسے تباہی کے آثار نمایاں ہوئے‘ فی الفور عام انسان‘ خصوصیت سے نوجوان‘ یونی ورسٹیوں‘ کالجوں‘ اسکولوں اور دینی مدارس کے طلبہ جوق در جوق اپنے تباہ حال بھائیوں اور بہنوں کی مدد کو دوڑ پڑے۔ خیبر سے کراچی تک بجلی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ عام و خاص ‘ امیر و غریب‘ جوان اور بوڑھے سب اپنے مصیبت زدہ بھائیوں اور بہنوں کی مدد کے لیے بے چین ہوگئے۔ عطیات بارش کی طرح برسنے لگے‘ ننگے ہاتھوں لوگ ملبے کو صاف کرنے‘ ملبے تلے دبے انسانوں کی جان بچانے‘ زخمیوں کو خون دینے‘ اور مر جانے والوں کی میتوں کو دفن کرنے میں کسی تخصیص کے بغیر تن من دھن سے لگ گئے۔ قوم نے آزمایش کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے ایک نئے جذبے کا اظہار کیا___ یہ روشنی کی وہ کرن ہے جس نے اس تاریک رات کو صبح نو کا پیغام دیا۔

لیکن اس ایمان افروز ردعمل کے ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ وہ جن کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور ہے اور جن کو سب سے پہلے اس قومی تباہی کا ادراک کرنا چاہیے تھا اور تمام وسائل کو بلاتاخیر حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے جھونک دینا چاہیے تھا‘ وہ تین دن تک حیص بیص کا شکار رہے۔ وزیراطلاعات فرماتے ہیں کہ کاروبار چل رہا ہے اور سب ٹھیک ہے۔ ایک کور کمانڈر کہتے ہیں کہ کیوں واویلا کرتے ہو‘ مرنے والوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ وزیراعظم بھی غصے میں کہہ ڈالتے ہیں کہ میڈیا منفی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ اسلام آباد جیسے مرکزی شہر میں پہلے دن مارگلہ ٹاور کا ملبہ اٹھانے کے لیے صرف ایک کرین میسرآسکی۔ برطانیہ اور جاپان سے تیزرفتار ایمرجنسی فورس ۲۴ گھنٹے میں پہنچ گئی مگر فرنٹیر ورکس آرگنائزیشن اور کراچی سے مدد آنے میں تین دن لگ گئے۔ اسپین کی ریسکیو ٹیم ۲۴ گھنٹے میں آگئی مگر ایئرپورٹ پر ۴۸ گھنٹے انتظار کرتی رہی۔

بحران سے نمٹنے (Crisis Management) کے باب میں اپنے قومی افلاس اور  بے بسی کا منظر ہر دیکھنے والے کے لیے سوہانِ روح تھا۔ ہمارے پاس وہ آلات نہیں جن سے کنکریٹ کو چیرا جا سکے‘ زندوں کا پتا لگایا جا سکے‘ ملبے سے انسانوں کو نکالا جا سکے۔ پولیس اور فوج تک کو ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے کوئی تربیت نہیں دی گئی۔ فائربریگیڈ دنیا بھر میں ایسی ایمرجنسی کے لیے ہر قسم کے آلات اور تربیت یافتہ افراد سے آراستہ ہوتے ہیں مگر ہمارے ملک میں اس کا کوئی وجود نہیں۔ ۱۹۵۲ء کا سول ڈیفنس ایکٹ موجود ہے‘ ۱۹۵۸ء کا مغربی پاکستان کا National Calamities (Prevention and Relief) Act کتابِ قانون کا حصہ ہے۔ ۲۰۰۰ء میں قومی بحرانوں سے نمٹنے کا ایک مرکز‘ مرکزی وزارت داخلہ میں قائم کیا گیا تھا جس کا ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر سربراہ بھی ہے۔ پانچ سال سے نیشنل ڈیفنس مینجمنٹ ایجنسی کا منصوبہ سرکاری فائلوں میں گردش کر رہا ہے جس کے لیے UNDP نے ۱۵ کروڑ ۵۰ لاکھ کا بجٹ (پانچ سال کی مدت کے لیے) طے بھی کیا ہوا ہے مگر یہ سب کاغذوں پر ہیں اور مصیبت اور آزمایش کے وقت بچائو کی معمولی کارروائی کے لیے بھی ننگے ہاتھوں پر انحصار کرنا پڑا یا بیرونی امداد پر!

یہ ہے قومی سطح پر ہماری تیاری کی کیفیت۔ اہم شاہ راہیں اگر بند ہوجاتی ہیں تو ہمیں ان کو کھولنے کے لیے ہفتوں اورمہینوں کی ضرورت ہے اور وہ انسان جو ان نامساعد حالات کی گرفت میں آجائیں ان کا انجام اس کے سوا کچھ نہیں کہ جب تک تریاق عراق سے آئے سانپ کا ڈسا اللہ کو پیارا ہوجائے!

قوم نے اربوں روپے‘ قرض کا بوجھ سر پر اٹھا کر‘ فوج پر خرچ کیے مگر اس کے پاس اتنے ہیلی کاپٹر بھی نہیں کہ کچھ علاقوں میں مؤثر امدادی کام انجام دے سکیں۔ وزیرستان میں آپریشن کے لیے تو ہیلی کاپٹروں کی کمی نہیں لیکن آزاد کشمیر اور سرحد کے متاثرہ علاقوں میں امدادی کام کے لیے چندہیلی کاپٹر سے زیادہ ہم فراہم نہیں کرسکے۔ بلاشبہہ تباہی بہت عظیم اور غیر متوقع ہے مگر کسی درجے میں تو قوم اور اس کے کلیدی اداروں کو ایمرجنسی حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے آراستہ ہونا چاہیے۔ لیکن اس حادثۂ فاجعہ نے ہماری اس کمزوری کو بالکل طشت ازبام کر دیا اور سب کہنے پر مجبور ہوئے کہ Emperor has no clothes (بادشاہ سلامت بے لباس ہیں)۔

بات صرف نظام‘ اس کے اداروں‘ اور ذمہ داری پر فائز افراد کار ہی کی نہیں___ کرایوں میں اضافے‘ اشیاے ضرورت کی قیمتوں میں اضافے‘ ملبے میں دبے ہوئے انسانوں کے بدن سے اور اجڑے ہوئے گھروں سے قیمتی سامان اور زیورات کی چوری‘ امدادی سامان کی لوٹ مار‘ حتیٰ کہ پولیس کے کارندوں کا ان قبیح کارروائیوں میں ملوث ہونا___ معاشرے کے وہ ناسور ہیں جن کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

ایک طرف خیر اور خدمت کا عوامی جذبہ‘ دوسری طرف ذمہ داروں کی غفلت اور معاشرے کے کچھ عناصر کا ان حالات میں بھی ایسے گھنائونے کردار کا مظاہرہ___  ہماری اجتماعی زندگی کے دو مختلف پہلوئوں کو نمایاں کرتا ہے۔ اس میں ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ شر کی قوتوں کو قابو کرنے اور خیر کی قوتوں کو منظم کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کر کے آج بھی حالات کو بدلا جا سکتا ہے۔ اپنوں ہی نے نہیں ‘غیروں نے بھی اس تضاد کو دیکھا اور عالمی صحافیوں نے اپنی رپورٹوں میں نمایاں کیا۔ تصویر  کے دونوں رخ سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے منفی پہلو کو اس لیے بیان کیا کہ اس سے  صرفِ نظر ممکن نہیں لیکن ہم مثبت پہلو کو روشنی کی اصل کرن سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اگر قوم کے اس جذبے اور رویے کو صحیح طریقے پر منظم اور متحرک کیا جائے تو اس عظیم تباہی سے مستقبل کے لیے خیرکثیر کے سرچشمے بھی پھوٹ سکتے ہیں۔ ہم تحدیث نعمت کے طور پر عرض کریں گے کہ عوامی سطح پر جس طرح ملک کے ہر طبقے نے ایثار و قربانی اور جوش و جذبے کا اظہار کیا اور لوگوں نے انفرادی طور پر اور دینی‘ سماجی اور پروفیشنل تنظیموں نے اپنی بساط سے بھی بڑھ چڑھ کر خدمات انجام دیں وہ ہماری تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ جماعت اسلامی اور مجاہد تنظیموں‘ خصوصیت سے حزب اسلامی اور جماعت الدعوۃ نے جس طرح اپنے دکھ کو بھول کر اپنے دکھی بھائیوںاور بہنوں کی خدمت کی‘ وہ روشنی کا مینار ہے۔

ابتدائی غفلت کے بعد سرکاری ادارے اور فوج بھی حرکت میں آگئی‘ گو اب تک ان کی کارکردگی توقعات سے بہت کم رہی ہے لیکن جتنا کام بھی وہ اب کر رہی ہیں‘ اس کا اعتراف ہونا چاہیے‘ لیکن ضرورت کا عشر عشیر بھی ابھی پورا نہیں ہو رہا۔ سب سے بڑھ کر مسئلہ جامع منصوبہ بندی کا فقدان‘ ضروری ٹکنالوجی اور صلاحیت کی کمی‘ اور فوج‘ سول حکومت‘ صوبائی اور مقامی حکومتوں اور نجی خدمتی اداروں کے درمیان مؤثر رابطے کی کمی ہے جس کا جلد از جلد تدارک ہونا چاہیے۔

بے شمار افراد نے انفرادی طور پر اور دینی اور سماجی اداروں نے‘ خصوصیت سے ان اداروں کی جن کی اساس اسلامی بنیادوں پر ہے‘ بڑی جاں فشانی سے خدمت انجام دے کر ایک روشن مثال قائم کی ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس قوم کو اٹھانے والی اصل قوت اسلام اور جذبہ خدمت ہے۔

مغربی تجزیہ نگاروں کی نظر میں

ہم نے جن دو پہلوئوں کی طرف متوجہ کیا ہے‘ ان کا مشاہدہ اور تجربہ ہزاروں انسانوں نے ان چند ایام میں کیا ہے اور ملکی اور غیرملکی صحافیوں اور تجزیہ نگاروں نے بھی ان کو بیان کیا ہے۔ اس تضاد کے چند اہم پہلوئوں کو اجاگر کرنے کے لیے ہم ملکی اور غیرملکی مبصرین کی چند آرا کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔

اکانومسٹلکھتا ہے:

یہ ۱۱؍اکتوبر کے بعد ہوا کہ فوج نے قصبوں سے باہر پھیلنا شروع کیا… اس تباہی پر حکومت کے سست ردعمل پر ایک غصے کی کیفیت تھی۔ بالاکوٹ میں جہاں ۱۰ اکتوبر کو سڑکیں کھولی جاسکیں‘ لوگوں نے شکایت کی کہ فوج نے پہلا دن اپنے کیمپ قائم کرنے میں صرف کیا۔ مظفرآباد میں ایک چار منزلہ ہوٹل کے مالک نے‘ جو اب محض ایک کھنڈر تھا‘ بتایا کہ تین دن تک فوج کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ اس تباہ شدہ ہوٹل میں اب ۵۰لاشیں دفن ہیں۔ لٹیروں نے ان کی جیبوں کو خالی کر دیا۔ صاف دکھ رہا ہے کہ فوج نے آغاز کرنے میں بہت سستی سے کام لیا۔ ۱۲ اکتوبر کو پنجاب سے تازہ دم جوانوں کی دو ڈویژن نے کشمیر اور سرحد میں آنا شروع کیا۔ بہت سے لوگوں نے فوجی اور سول اتھارٹیز کے درمیان خراب رابطے کی شکایت کی۔(۱۵ اکتوبر ۲۰۰۵ئ‘ ص ۲۳)

نوائے وقت کا نمایندہ مظفرآباد کے حالات کا نقشہ یوں کھینچتا ہے:

مظفرآباد کا پورا علاقہ قبرستان بن کر رہ گیا ہے۔ حکومت کی بے حسی‘ لاقانونیت اور ہرطرف افراتفری نے لوگوں کو عدمِ تحفظ کا شکار کر دیا ہے۔ بے گھر لوگ اپنے گھروں کے ملبے‘ سڑکوں‘چوراہوں پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ سخت سردی میں بغیر ٹینٹ کے چادروں میں گزارا کر رہے ہیں۔ ہر طرف مسلح نوجوانوں کی ٹولیاں پھرتی نظر آرہی ہیں۔ ان کے پاس کلاشنکوف‘ پستول‘ بندوقیں اور ڈنڈے ہیں۔مستحقین کا امدادی سامان جہاں نظر آتا ہے‘ لوٹ لیتے ہیں۔ مظفرآباد شہر میں ڈاکوئوں کے گروہ بھی سرگرم ہوگئے ہیں۔ گھروں سے قیمتی سامان لوٹ رہے ہیں۔ لوگوں کی عزتیں بھی محفوظ نہیں۔ شہر میں پولیس نام کی کوئی چیز نہیں‘ جب کہ فوج نے بھی ان کارروائیوں کو روکنے کے لیے ابھی تک کوئی اقدامات نہیں کیے۔ (۱۴ اکتوبر ۲۰۰۵ئ)

لندن کے دی ٹائمز نے اپنی ۱۵ اکتوبر کی اشاعت میں شائع ہونے والے اداریے میں مسائل کا یوں ذکر کیا ہے:

ٹیلی ویژن پر زلزلے کی خبر کے بعد باغ کے کسی آدمی نے حکومت کی طرف سے اگر کوئی امداد دیکھی ہے تو وہ تباہی کے تین دن بعد تھی۔ کسی وقت کے اس خوش حال چھوٹے سے قصبے کے لوگ آزاد کشمیر کی پہاڑیوں کے دامن میں تمام امیدیں کھو چکے تھے۔ باغ کے ایک دکان دار عبدالرزاق نے کہا: حکومت ٹیلی ویژن پر مدد دکھارہی ہے۔ ہم نے تو پانی کا ایک قطرہ‘ کوئی دوائی یا غلے کا ایک دانہ بھی اپنی طرف آتے نہیں دیکھا ہے۔ (روزنامہ ڈان‘ ۱۴ اکتوبر ۲۰۰۵ئ)

جہاں یہ منفی پہلو ہیں جن کا مؤثر سدباب ہونا چاہیے‘ وہیں مثبت پہلو بھی ایسے ہیں جو امید کی شمعیں روشن کرتے ہیں۔ بی بی سی اور دی نیوز کا نمایندہ اور مشہور صحافی رحیم اللہ یوسف زئی سرحد کے حالات کا یوں نقشہ کھینچتا ہے:

صوبہ سرحداور آزاد کشمیر میں زلزلے کے متاثرین کو مدد پہنچانے کے لیے اسلامی اور دوسری غیر سرکاری تنظیمیں ایک شدید لیکن بیشتر صحت مند مقابلے میں مصروف ہیں۔ بالاکوٹ میں تقریباً ۲۰ تنظیموں کے کیمپوں کی موجودگی کے بارے میں بتایا گیا اور وہ نظر بھی آتے تھے جو زلزلہ زدگان کے لیے مختلف خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان کی اکثریت‘ یعنی ۱۲ اسلامی ہیں۔ الطاف حسین کی ایم کیو ایم نے بھی تباہ شدہ بالاکوٹ کے بازار میں ایک بینر لگایا تھا لیکن ان کے رضاکار کوئی کام کرتے نظر نہ آئے۔ بالاکوٹ میں جن اسلامی تنظیموںنے کیمپ لگائے‘ ان میں جماعت اسلامی کی الخدمت اور اس کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ‘ مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی (ف) کا الرحمت ٹرسٹ‘ امہ ویلفیئر ٹرسٹ‘ جماعت الدعوۃ‘ جامعہ فریدیہ‘ لال مسجد اسلام آباد اور جہادی گروپ حزب المجاہدین اور جیش محمد شامل ہیں۔ بعض چھوٹی اسلامی تنظیموں نے بھی بینر لگائے تھے اور امدادی سامان سے بھرے ٹرکوں کے ساتھ پھر رہے تھے جو ملک کے کونے کونے سے لوگوں نے بھیجے تھے۔

الرحمت ٹرسٹ کے منتظم نوید مسعود ہاشمی نے دی نیوز کو بتایا کہ حزب المجاہدین اور جیش محمد کے ارکان ۸ اکتوبر کی صبح زلزلے کے بعد نہ صرف بالاکوٹ بلکہ آزاد کشمیر کے دوسرے مقامات پر بھی ریسکیو آپریشن کا سب سے پہلے آغاز کرنے والوں میں سے تھے۔ ان گروپوںسے وابستہ مجاہدین علاقے میں موجود تھے اور اس لیے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں دوسروں سے پہلے پہنچ پائے۔ انھوں نے تباہ شدہ مکانات میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکال کر اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچاکر جانیں بچائیں۔ اس نے بتایا کہ بالاکوٹ ہو یا مظفرآباد یا باغ‘ ہر جگہ حالات مختلف تھے۔ لیکن کوئی غیرجانب دار نمایندہ دیکھ سکتا تھا کہ زلزلے کے متاثرین کو امداد پہنچانے میں کون سب سے زیادہ سرگرم ہیں۔ دیکھنے ہی سے یقین آتا ہے‘اور ہم رپورٹروں اور سیاست دانوں اور قانون دانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں اور جائزہ لیں کہ کون متاثرین کی خدمت کر رہا ہے اور کون صرف شور مچا رہا ہے۔ اسلامی تنظیموں کے ارکان بالاکوٹ سے آگے مختلف پہاڑوں کے درمیان منتشرآبادیوں میں ان کے گائوں میں پہنچ چکے ہیں تاکہ ان کو امداد پہنچائیں۔

عوام کے اس مثبت رویے کا اعتراف سیکولر طبقے کے سرخیل The Friday Times (۱۴ اکتوبر ۲۰۰۵ئ) نے بھی اپنے ادارتی کالم میں کیا ہے اور ایک برطانوی رپورٹر کی یہ رپورٹ نقل کی ہے جو ملاحظے کے لائق ہے:

کترینا کے بعد اور نیو آرلینز سے مقابلہ و موازنہ اس سے زیادہ واضح نہیں ہوسکتا۔ امریکا میں جب حکومت کی امداد نہیں پہنچی تو مسلح لوٹ مار کرنے والے سڑکوں پر آگئے اور بچنے والوںکو اپنی جان کے لالے پڑگئے۔ دوسری طرف پاکستان میں پورے ملک سے لوگ مدد پہنچانے کے لیے آگئے۔ انھوں نے اپنے کام چھوڑ دیے‘ کچھ نے لفٹ لی اور ٹرکوں اور منی بسوں کے ساتھ خطرناک انداز سے لٹک کر انتہائی خطرناک موڑ کاٹتے ہوئے‘ جب کہ نیچے وادی میں جھانکنے پر خوف آتا تھا‘ مدد کو پہنچ گئے۔ دوسرے پہاڑوں پر سورج کی تپش میں گھنٹوں پیدل چلے‘ جب کہ وہ مسلمانوں کے روزوں کے مہینے رمضان کی وجہ سے پانی بھی نہ پیتے تھے۔ پاکستان کے عظیم عوام کو اتنے شدید حالات میں اس بڑے پیمانے پر جذبۂ انسانیت کے مظاہرے سے زیادہ خراجِ تحسین نہیں پیش کیا جاسکتا۔

عالمی برادری کی مدد بھی ایک قابلِ قدر پہلو ہے اور اس میں مسلم ممالک اور مغربی اقوام دونوں نے حصہ لیا ہے۔ امریکا کی شرکت اس کے وسائل اور اس کے لیے پاکستان کی موجودہ حکومت کی خدمات کے پس منظر میں نہایت مایوس کن ہے۔ بھارت اور اسرائیل نے بھی حالات سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔

جن اقوام اور اداروں نے کھلے دل سے مدد کی ہے‘ اس کا اعتراف ہونا چاہیے اور قوم ان سب کی شکرگزار ہے لیکن یہ پہلو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ اسلامی قوتوں کی عوامی خدمت‘ قربانی اور امتحان کی گھڑی میں تاریخی کردار کو مغربی میڈیا جس انداز میں پیش کر رہا ہے‘ وہ بڑا افسوس ناک ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ۱۶ اکتوبر کی اشاعت میں خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔ عنوان ہے: Extremists Fill Aid Chasm after Quake ۔ پورا مضمون زہرسے بھرا ہوا ہے‘ صرف چند اقتباسات دیے جا رہے ہیں جو قوم کے لیے لمحۂ فکریہ فراہم کرتے ہیں۔

مظفرآباد (پاکستان‘ ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۵ئ) فوج ردعمل دینے میں سست رہی اور بین الاقوامی امدادی ایجنسیاں بعض حالات میں ابھی آغاز ہی کر رہی تھیں‘ لیکن یہاں پاکستان کے زلزلے کے علاقے کے قلب میں ملبے اور بارش کے اندر جماعت الدعوۃ جو ملک کی سب سے نمایاں انتہاپسند گروپ ہے‘ کے پرجوش مجاہد نظر آرہے تھے۔

دریاے نیلم کے قریب ایک ڈھلوان پر اس گروپ نے ایک بڑا فیلڈ ہسپتال قائم کیا ہے جس میں ایکسرے مشین‘ شعبہ دندان سازی‘ عارضی آپریشن تھیٹر‘ حتیٰ کہ آنے والے صحافیوں کے لیے ایک خیمہ بھی موجود ہے۔ ڈسپنسریوں میں عطیہ کیے ہوئے انٹی بائیوٹک‘ دافع درد ادویات اور دوسرے طبی سامان کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ علاقے کے سب سے بڑے شہر مظفرآباد میں ہفتے کی صبح جو دوسرے گروپ موجود تھے‘ ان میں جماعت اسلامی کا خیراتی شعبہ ہے جو ایک اسلامی سیاسی پارٹی ہے جس کی فلسطین کے جنگجو گروپ حماس سے نظریاتی وابستگی ہے‘ اور الرشید ٹرسٹ‘ کراچی کا ایک خیراتی ادارہ ہے جس کے امریکی اثاثے بش انتظامیہ نے اس بنیاد پر ضبط کر لیے تھے کہ یہ القاعدہ کو فنڈ پہنچاتے ہیں۔ گروپ نے الزام کو مسترد کیا تھا اور ان کا دعویٰ تھا کہ وہ صرف سماجی بہبود تک ہی محدود ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ کے نمایندے John Lancestor کے خبثِ باطن کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ جماعت اسلامی کا ذکر حماس سے اس کے نظریاتی رشتے کے بغیر اس کے لیے ممکن نہ تھا حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ جماعت اسلامی کا اپنا طریق کار ہے اور وہ ۱۹۴۱ء سے برعظیم میں سرگرمِ عمل ہے۔

قوم کے بڑے حصے نے اور خصوصیت سے اسلامی تنظیموں اور اداروں نے جس طرح اس قومی آزمایش میں کردار ادا کیا ہے‘ وہ اچھے مستقبل کا پیش خیمہ ہے اور ضرورت ہے کہ تمام اسلامی اور اصلاحی قوتیں مل کر تعمیرنو کا کام اخلاقی جذبے اور نظریاتی تعلیم اور بیداری کے ساتھ انجام دیں۔

مستقبل کا نقشہ

آخر میں ہم مستقبل میں کرنے کے کاموں کے حوالے سے چند ضروری گزارشات کرنا چاہتے ہیں۔

ملک کی دینی اور سیاسی جماعتوں نے حکومت کی غفلت‘ کوتاہیوں اور جانب داری کے باوجود جس قومی یک جہتی اور سیاست سے بالا ہو کر خدمت اور وسیع تر ملکی اور ملّی مفاد کی خاطر ایک مثبت قومی رویے کا اظہار کیا ہے ‘وہ بہت قابلِ قدر ہے اور اسے ہر قیمت پر باقی رہنا چاہیے۔ لیکن  اسے برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور خصوصیت سے جنرل پرویز مشرف اپنا رویہ بدلیں۔ اس نازک وقت اور مصیبت کے اس لمحے میں بھی ان کی ساری مساعی اپنی ذات اور فوج کے محور کے گرد گھوم رہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی سول حکومت‘ کوئی دستوری ادارہ‘ کوئی پارلیمنٹ ملک میں موجود نہیں۔ بس جنرل صاحب اور فوج ہی ساری کرتا دھرتا ہے اور اب تو کھل کر وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ فوج ہی وہ واحد ادارہ ہے جو اس بحران سے ملک کو نکال سکتا ہے جب کہ ہر اعتبار سے‘ فوج کی سیاست اور سول معاملات میں کارکردگی نہایت مایوس کن بلکہ تباہ کن رہی ہے۔ تعمیرنو کا کام فوج کا نہیں‘ سول دستوری نظام کا ہے۔ اس بارے میں قومی سیاسی جماعتوں کا نقطۂ نظر تو بالکل واضح اور  مبنی برحق ہے۔ لیکن جنرل صاحب کے امریکی سرپرست بھی اس سلسلے میں اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں ایان بریمر (Ian Bremmer) کا تبصرہ جنرل صاحب کو آئینہ دکھانے کے مترادف ہے۔ وہ لکھتا ہے:

یونان‘ ترکی اور انڈونیشیا میں ایک بڑی بنیادی بات مشترک ہے‘ یہ جمہوریتیں ہیں۔ ان کے رہنما عوام کی مرضی سے حکومت کرتے ہیں۔ پاکستان کے صدر پرویز مشرف کو ایسا کوئی عوامی جوازحاصل نہیں ہے۔ وہ ایک فوجی جنرل ہیں جنھیں فوج کے زیرحکمرانی ریاست میں بہت زیادہ اختیارات حاصل ہیںجن کا مینڈیٹ پاکستانی عوام کے ساتھ ایک سمجھوتے پر منحصر ہے۔(۱۲ اکتوبر ۲۰۰۵ئ)

جنرل صاحب جتنی جلد ان حقیقی زمینی حقائق کا ادراک کرلیں‘ اتنا ہی ان کے لیے‘ بحیثیت ایک قومی ادارہ  فوج کے لیے اور سب سے بڑھ کر ملک اور اس کے دستوری نظام کے لیے بہتر ہے۔ اس لیے ہم تجویز کریں گے کہ فوری امداد کے کام میں فوج جو بھی مفید کردارادا کرے‘ لیکن مستقبل کے تعمیرنو کے پورے پروگرام کو پارلیمنٹ کے مشورے سے طے ہونا چاہیے۔ اسے سول نظام کے تحت انجام دیا جانا چاہیے اور سول نظام میں اس انفراسٹرکچر اور مردان کار کی تربیت (capacity building) کا پورا اہتمام ہونا چاہیے جو ایسے نظام کو مستقل بنیادوں پر چلانے کے لیے ضروری ہے۔ ہم یہ بھی تجویز کریں گے کہ مقامی اور علاقائی سیاست سے بالا رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام میں مرکز اور صوبوں کے درمیان مناسب کوارڈی نیشن (باہمی موافقت اور تعاون) ہو اور صوبائی اسمبلی اور حکومت کے توسط سے ایک بااختیار ادارہ صوبہ سرحد کے تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر کے لیے قائم کیا جائے اور دوسرا آزاد کشمیر کے لیے ۔ مستقل بنیادوں پر مرکزی سطح پر ایک نظام تشکیل دیا جائے جس میں فیڈریشن اور تمام صوبوں کو مؤثر نمایندگی حاصل ہو‘ نیز کل جماعتی بنیادوں پر اس میں پارلیمنٹ کی نمایندگی ہو۔

چند قابل توجہ امور

دیگر قابلِ توجہ امور یہ ہیں:

۱-  جو بیرونی امداد وصول ہوئی ہے یا آیندہ ہوگی‘ اس کے استعمال پر مناسب پارلیمانی نگرانی ضروری ہے جس کے لیے سرکاری جماعت کے نمایندوں کے ساتھ تمام اہم اپوزیشن جماعتوں کی نگرانی و احتساب کا اہتمام ہونا چاہیے۔

۲- سول حکومت اور عوامی سماجی اداروں کے درمیان ربط اور کوارڈی نیشن کی شدید ضرورت ہے جسے شراکت باہمی کے کسی اصول پر منظم ہونا چاہیے۔ مسلسل عوامی شرکت اور اعتماد کے بغیر اس گمبھیر چیلنج کا مؤثر جواب مشکل ہے۔

۳-  درجہ وار منصوبہ بندی ضروری ہے جس کے تین مرحلے ہیں:

پہلا مرحلہ فوری مدد کا ہے جو کم از کم تین چار ماہ پر محیط ہوگا۔ اس میں راستوں کا کھولنا اور انھیں برقرار رکھنا نیز بجلی‘ پانی اور ضروریاتِ زندگی کی فراہمی‘ رہایش کا فوری انتظام اور ہر قسم کی مناسب سہولتوں کی فراہمی شامل ہے۔

دوسرا مرحلہ تعمیرنو کا ہے یعنی کئی شہروں کو آباد کرنا‘ روزگار کے مواقع کی فراہمی‘ صحیح جگہ کا انتخاب‘ زلزلوں اور دوسرے خطرات کا اندازہ کرکے تعمیر کے لیے صحیح اصول و ضوابط کی تیاری اور ان کے نفاذ اور سختی سے جائزے کا انتظام۔ اس منصوبے میں رہایش‘ تعلیم‘ صحت‘ روزگار‘ رسل و رسائل‘ پانی اور بجلی کی فراہمی کے لیے مربوط اسکیموں کی ضرورت ہوگی جنھیں اس طرح مرتب کیا جائے کہ ان علاقوں اور ان کے متاثر افراد کی مناسب وقت میں خود کفالت اور اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کا بندوبست ہوسکے۔ نیز یہ سارا کام کم سے کم رقم میں کیا جائے۔

۴-  ایک بڑا مسئلہ زخمیوں اور خصوصیت سے ان ہزاروں افراد کا ہے جو اعضا سے محروم ہوکر مستقل معذوری کا شکار ہوگئے ہیں۔ ان کے لیے بالکل الگ منصوبہ بندی کی ضرورت ہوگی۔

۵-  اسی طرح یتیم بچوں اور بیوہ خواتین کا مسئلہ ہے۔ بچوں کا مسئلہ اور بھی گمبھیر ہے۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ ایسے بچوں کی تعداد ۵۰‘ ۶۰ ہزار تک ہوسکتی ہے۔ اس سے قومی ایمرجنسی کی سطح پر ہی نبٹا جا سکتا ہے۔

۶-  تعمیرات کا کم تر معیار ایک بڑے مسئلے کی حیثیت سے سامنے آیا ہے۔ سڑکوں کا رونا تو مدت سے رویا جا رہا تھا۔ اب سرکاری عمارتوں (اسکول‘ ہسپتال) کی کمزوری کھل کر سامنے آگئی ہے۔ صرف صوبہ سرحد میں ۸ ہائی اسکول اور ایک ہزار ہسپتال زمین بوس ہوگئے۔ اسلام آباد کے مارگلہ ٹاور کا معاملہ بھی ایک اسکینڈل بن چکا ہے۔ اس پورے مسئلے کو بہت سائنسی انداز میں لینا ہوگا اور تعمیرات کے قواعد و ضوابط کے پورے معاملے کا ازسرنو جائزہ لینے اور قواعد و ضوابط کے مطابق تعمیرات کو یقینی بنانا بہت بڑا چیلنج ہے۔

۷-  قومی سطح پر تباہی کو روکنے اور بحرانوں سے نمٹنے کا مؤثر پروگرام بنانے کی ضرورت ہے۔ فائر بریگیڈ‘ اسکائوٹس‘ این سی سی‘ سول ڈیفنس اور خصوصی دستوں  کی ٹریننگ اور ان کے لیے ضروری آلات و اوزار اور جدید ترین تکنیکی سہولتیں ضروری ہیں۔

۸-  ایسے حادثات کے بعد وبائوں کا پھوٹ پڑنا بھی ایک بڑا خطرہ ہے اور اس کی     پیش بندی نیز علاج کی سہولتوں کی فراہمی کو بھی اس منصوبے کا حصہ ہونا چاہیے۔

۹- ہمہ پہلو بدعنوانی اور کرپشن ایک قومی ناسور ہے۔ حکومت اور اس کے اداروں پر لوگوں کا اعتماد باقی نہیں رہا ہے۔ لوکل گورنمنٹ میں ۷۰ فی صد اور سول حکومتوں میں ۵۰ فی صد بدعنوانی کی بات عام ہے۔ فوج بھی اب اس بیماری سے محفوظ نہیں رہی ہے۔ تعمیرنو کے کام میں بڑا خطرہ ہے کہ کرپشن کی وجہ سے سارا منصوبہ خاک میں مل جائے۔ اس لیے اس مسئلے کا کھل کر سامنے کرنے اور مناسب نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے۔

آخر میں ہم ایک بار پھر اس طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ اس پورے معاملے میں ہر کام میں اور ہر مرحلے پر اخلاقی تربیت‘ دیانت داری کے اہتمام‘ احتساب اور نگرانی کے مؤثر نظام اور حقیقی  شفافیت کی ضرورت ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب مادی وسائل کا استعمال اخلاقی ضابطوں کی حدود میں ہو اور دیانت داری کو صلاحیت اور قابلیت کے ساتھ ضروری صفت قرار دیا جائے۔ نیز حکومت‘ سول سوسائٹی اور عوام سب اخلاقی اصولوں اور ضابطوں کی پاسداری اور سب سے بڑھ کر آخرت کی جواب دہی کے احساس کے ساتھ کام انجام دیں۔

یہ اسی وقت ممکن ہے جب قیادت کے پیمانوں کو تبدیل کیا جائے‘ قانون اور ضابطے کی حکمرانی کو حقیقت بنایا جائے‘ کھلی حکمرانی کا راستہ اختیار کیا جائے‘ ہر ادارہ اپنے اپنے دائرے کا   ذمہ دار ہو اور کسی ایک ادارے کو سب پر مسلط کرنے کی حماقت نہ کی جائے۔ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ قانونی احتساب کے ساتھ عوامی احتساب کا ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں کوئی جواب دہی سے بالا نہ ہو اور کسی غلط کار کے بچ نکلنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔

اگر ۸ اکتوبر کا زلزلہ ہمارے لیے ماضی کی ڈگر کو بدلنے اور مستقبل کے لیے صحیح راستے پر اختیار کرنے کی راہ پر ڈالنے کا ذریعہ بنتا ہے تو پھر اس شر سے خیر کے چشمے بھی پھوٹ سکتے ہیں۔  صرف یہی وہ تبدیلی ہے جو ہماری دنیا کو سنوار سکتی ہے اور آخرت میں بھی کامیابی کا امکان روشن ہوسکتا ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پاکستان کی ۵۷ سالہ تاریخ کا ایک عجوبہ یہ بھی ہے کہ یہاں ہر سربراہ ریاست یا رئیس مملکت کا ہر بیرونی دورہ ہمیشہ ’کامیاب‘ یا پھر ’بہت کامیاب‘ ہی رہا ہے اور اس کے نتائج اور ثمرات خواہ کچھ بھی ہوں‘ نہ اس کی کامیابی پر کبھی کوئی حرف آیا اور نہ تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسانے والوں میں کوئی کمی ہوئی۔ اس تاریخی پس منظر میں جنرل پرویز مشرف کا امریکا کا ان کے چھے سالہ دوراقتدار کا نواں دورہ ‘جو ۱۳ سے ۱۸ ستمبر ۲۰۰۵ء تک رہا‘ اپنی ساری تندوتیز جولانیوں‘ صحافتی مقابلوں اور کہہ مکرنیوں‘ سیاسی رہنمائوں سے مذاکرات اور ’عدو‘ سے اتفاقی ملاقات‘ روشن خیال خواتین اور   دل پسند این جی اوز کے نمایندوں سے لفظی مچیٹوں اور پاکستانی خواتین کی مظلومیت اور ’کاروباریت‘ کو طشت ازبام کرنے کی خدمات اور دوسری بے شمار جرأت مندانہ پسپائیوں کے باوجود نہ صرف ’کامیاب‘ بلکہ ’بہت ہی کامیاب‘ ہی قرار دیا جائے گا۔ سرکاری میڈیا اور لبرل دانش ور اور قلم کار    جو بھی کہیں اور لکھیں‘ آج کی دنیا میں حقیقت کو پردوں میں چھپانا ممکن نہیں رہا۔ امریکا کی     قیادت سے ان کی دوستی اور اشتراکِ مفاد اور یہودی لابی سے نیا نیا عشق اپنی جگہ‘ لیکن جمہوری معاشرے اور آزادیِ صحافت کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ حقائق سامنے آکر رہتے ہیں اور معاملہ خواہ نکسن کے واٹرگیٹ کا ہو یا کلنٹن کے مونیکا سے معاشقے کا___ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوکر رہتا ہے۔

دورے کے اھداف

جنرل پرویز مشرف کے دورے کی تمام تقاریر‘ بیانات اور ملاقاتوں کا جائزہ لیا جائے تو کلیدی موضوع پانچ ہی نکلتے ہیں:

۱-            دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کا کردار بحیثیت حلیف اور  تابع مہمل۔ ہر تقریر اور ہر ملاقات میں یہ موضوع سرفہرست رہا حالانکہ یہ نہ ہمارا مسئلہ ہے اور نہ ہمیں اب اس سے کوئی فائدہ ہو رہا ہے‘ بلکہ اسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔

۲-            پاکستان اور امریکا کے تعلقات۔ خصوصیت سے بھارت سے امریکا کے بڑھتے ہوئے اسٹرے ٹیجک شراکت (partnership) کے پس منظر میں یہ تعلق پاکستان کے لیے اب ایک فیصلہ کن مرحلے (moment of truth) میں داخل ہوگیا ہے۔ پاکستانی وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ اب صاف معلوم ہوجانا چاہیے کہ پاکستان سے امریکا کے تعلقات کا موجودہ مرحلہ حقیقی دوستی اور رفاقت کا ہے یا محض وقتی ضرورت کی آشنائی کا۔ جنرل مشرف کا ٹائم میگزین کو حالیہ انٹرویو (نوائے وقت/ ڈان‘ ۲۶ ستمبر ۲۰۰۵ئ) بھی امریکا کی سردمہری کا اعتراف ہے۔

۳-            کشمیرکے سلسلے میں کسی حقیقی پیش رفت کی کوشش۔ صدر بش کی مداخلت اور بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے نیویارک کی ملاقات اس سلسلے میں ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتی تھی۔

۴-            پاکستان کے اسرائیل سے روابط استوار کرنے کے سلسلے کو آگے بڑھانا۔ اس میں اسرائیلی وزیراعظم شارون سے طے شدہ پروگرام کے تحت ’اتفاقی ملاقات‘، ’ورلڈ جیوش کانگرس‘ سے خطاب اور امریکا کی یہودی لابیز سے راہ و رسم پیدا کرنا اور اس سلسلے میں مسئلہ فلسطین کے بارے میں پاکستان کے اصولی اور تاریخی مؤقف سے انحراف اور کسی طرح اس کا جواز پیش کرنا شامل ہے۔

۵-            پاکستان کے امیج کو درست کرنے کی کوشش اور اس سلسلے میں خصوصیت سے پاکستان میں عورتوں کے ساتھ زیادتی کے باب میں جو پروپیگنڈا ہو رہا ہے‘ اس کا توڑ کرنا۔

یہ تھے پانچ اہداف۔ ان میں سے کسی ایک کے سلسلے میں کوئی حقیقی تو کیا‘ رسمی پیش رفت بھی نہیں ہوسکی۔ بھارت کے وزیراعظم کے ساتھ ساڑھے چار گھنٹے کی ملاقات میں بھی بھارت اپنی پوزیشن سے ٹس سے مس نہیں ہوا اور صدر بش نے ہر معاملے میں سرخ جھنڈی دکھا دی۔ اسرائیلی کی یہودی لابی نے خوب خوب فائدہ اٹھایا اور مکھن لگانے کا نیا ریکارڈ قائم کیا۔ لیکن عالمِ عرب اور   عالمِ اسلام میں رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا‘ البتہ اس دورے کا نقصانِ عظیم وہ ہے جو پاکستان کے امیج کوپہنچا ہے اور اس کے ساتھ نائن الیون کی پسپائی کے بعد پہلی بار پاکستان کے ساتھ خود جنرل پرویز مشرف کے امیج پر وہ چوٹیں لگی ہیں کہ  ع

پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی!

اس سلسلے میں واشنگٹن پوسٹ کا انٹرویو‘ اس کی زبان اور گندے الزامات‘ پھر اس بیان کا انکار‘ پھر اخبار کی طرف سے اصل بیان کی اشاعت اور جنرل صاحب کی آواز میں ۹ منٹ کے اس حصے کو انٹرنیٹ پر ڈال دینا‘ جس میں وہ ساری باتیں موجود ہیں جن کا وہ انکار کر رہے تھے اور یہاںتک کہہ رہے تھے کہ:

’’مجھے پورے خلوص کے ساتھ یہ کہنے دیجیے کہ میں نے ایسا کبھی نہیں کہا‘ اور یہ غلط منسوب کیا گیا ہے۔ مشرف نے خواتین کے گروپ سے کہا ’’یہ میرے الفاظ نہیں ہیںاور میں یہ بھی کہوں گا کہ میں اس قدر احمق اور بیوقوف نہیں ہوں کہ اس قسم کا تبصرہ کروں‘‘۔

جنرل صاحب کے امیج پر یہ چاند ماری جاری تھی کہ روز ولٹ ہوٹل میں خواتین کے اجتماع میں ان کی برہمی اور خواتین کو دعوت مبارزت نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ بس چند جھلکیاں:

بی بی سی اُردو سروس اپنی ۱۸ ستمبر کی رپورٹ میں یوں تفصیل بیان کرتی ہے:

انھوں نے کچھ غیرسرکاری تنظیموں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ جو خواتین کے مسائل ملک سے باہر اٹھاتے ہیں‘ ان کے اپنے ایجنڈے ہوتے ہیں اور وہ ایسے لوگوں کو دیکھ لیں گے۔ انھوں نے غیر سرکاری تنظیموں کو تنبیہہ کی کہ ’میں ایک سپاہی ہوں اور مجھے لڑنا آتا ہے۔ میں آپ سے لڑوں گا اور اگر آپ چیخیں گی تو میں آپ سے زیادہ چیخ سکتا ہوں‘۔

صدر مشرف کے خطاب کے بعد سوال جواب کے دوران جب ایک خاتون نے کہا کہ وہ خواتین جو امریکا میں پاکستانی خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں‘ بے حد مخلص ہیں اور پاکستانی صدر کو ایسی بات نہیں کہنی چاہیے‘ تو اس بات پر جنرل مشرف برہم ہوگئے اور انھوں نے کہا کہ ’آپ جیسے لوگ قومی مفاد کے خلاف ہیں‘ [انگریزی پریس نے جو الفاظ دیے ہیں‘ وہ یہ ہیں: you are against me and against Pakistan]۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے لوگوں کے اپنے معاشی یا سیاسی مفاد ہوتے ہیں جس کی خاطر وہ ان واقعات پر خاص روشنی ڈالنا چاہتے ہیں جس سے پاکستان کے وقار کو ٹھیس پہنچے۔ اس موقع پر امریکا میں پاکستان کے سفیر جہانگیر کرامت نے اٹھ کر صدر کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور مائیک خود سنبھال لیا۔

اس تقریب میں شریک ڈاکٹر اسماء چودھری نے صدر کے خطاب پر کہا کہ ’میں شدید غصے میںہوں‘ صدر صاحب غنڈوں کی طرح باتیں کر رہے ہیں‘۔

ہمارے لیے ممکن نہیں کہ ان دونوں واقعات (واشنگٹن پوسٹ کا انٹرویو اور روز ولٹ ہوٹل میں خواتین کی کانفرنس) کے ردعمل میں عالمی میڈیا میں جو رسوائی پاکستان کی ہوئی‘ اس کا احاطہ کرسکیں۔ اس ہفتے میں جو نقصان پاکستان کو پہنچا اور جس طرح اس کا امیج مجروح ہوا وہ ہماری تاریخ کا سانحہ اور قدرت کی طرف سے جنرل صاحب کے کیے دھرے کا جواب ہے‘ جو انھی کے ہاتھوں انھیں ملا جن کی خاطر وہ پاکستان‘ اسلام‘ فلسطین‘ کشمیر ہر ایشو پر مغرب کی استعماری قوتوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔

اس ردعمل کا ایک نمونہ ہم پیش کرتے ہیں جو ان کے ایک بڑے مداح اور روشن خیال اعتدال پسندی کے عاشق ولیم می لام (Wiliam Milam)کا ہے جو پاکستان میں امریکا کے سفیر رہے ہیں اور آج کل ووڈرو ولسن سینٹر کے فیلو ہیں۔ اپنے تبصرے کا آغاز اس طرح کرتے ہیں کہ آج کل پاکستان امریکا میں اپنے امیج کو درست کرنے کے لیے مناسب مشیر (consultant) کی تلاش میں ہے جس کا اشتہار بھی دیا جا رہا ہے لیکن ضرورت پاکستان کے امیج سے کہیں زیادہ خود صدرصاحب کو صحیح مشورہ دینے کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ صدر مشرف نے اپنے کارناموں پر جن کو   وہ پہلے بھی بیان کرتے رہے ہیں‘ اپنے آپ کو خوب شاباش دی۔ لیکن مشیر کی اصل ضرورت تو مختاراں مائی جیسے مسئلے پر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ ان تنظیموں کے ہاتھ آگیا جو پاکستان کا امیج تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ امریکا میں مشرف کی اوّلین ترجیح خواتین کے مسائل تھی‘ لیکن انھوں  نے جو کچھ کہا اس نے معاملات کو مزید خراب کر دیا۔ سب‘ صرف خواتین ہی نہیں‘ پاکستان کے اندر اور باہر ناراض ہوئے۔

سابق امریکی سفیر پاکستانی اخبار ڈیلی ٹائمز سے پاکستان میںصرف ایک دن میں ہونے والے واقعات اور بلدیاتی انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں اور جمہوری عمل کو مسخ کرنے (subversion) کے شواہد کا حوالہ دینے کے بعد لکھتا ہے:

روشن خیال اعتدال پسندی یا بیرونی دنیا میں ایک بہتر امیج محض لفاظی سے اور وہ بھی   بے نقط لفاظی سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے حکومت کو زمینی حقائق کو درست کرنا چاہیے‘ انسانی حقوق کا بہتر تحفظ ہونا چاہیے‘ ایک مختلف نصاب کے تحت بہتر تعلیم ہونی چاہیے‘ دہشت گردی اور عورتوں اور بچوں کے خلاف مظالم کے لیے بہتر نفاذ قانون ہونا چاہیے۔

یہ ایک چھوٹا سا آئینہ ہے جس میں پاکستان اور جنرل صاحب کے امیج کے کچھ نقوش دیکھے جاسکتے ہیں۔ جنرل صاحب گئے تو تھے پاکستان کا وقار بڑھانے اور بلند کرنے(image building) کے لیے اور اقوام متحدہ میں اس تاریخی موقع پر پاکستان اور اُمت مسلمہ کا مقدمہ پیش کرنے کے دعوے کے ساتھ‘ مگر حاصل کیا ہوا؟

ع   بات تو سچ ہے‘ مگر بات ہے رسوائی کی

پاکستان اپنے اہداف میں سے کسی ایک کی طرف بھی ایک انچ پیش رفت نہیں کرسکا۔ اُمت مسلمہ کے تصورات اہم ترین مسائل ناگفتنی ہی رہے اور اس کا سب سے بڑا مسئلہ‘ یعنی   مسئلہ فلسطین مزید کنفیوژن‘ انتشار اور بے وقعتی کا شکارہوگیا۔ اقوام متحدہ کی تشکیل نو اور اس میں ملت اسلامیہ کے کردار کا خواب‘ خواب گراں ہی رہا اور ان سب پر مستزاد پاکستانی عورت کی جس طرح سربراہِ مملکت کے ہاتھوں برسرِعام تذلیل ہوئی‘ اس کی مثال تاریخ میں نظر نہیں آتی۔ کونڈولیزارائس جنرل صاحب کو جتنابھی ’غیرمعمولی انسان‘ (extraordinary person) قرار دیتی رہیں اور یہودی لابی انھیں ’ناگزیر انسان‘(indispensible) کہہ کر کتنا ہی مکھن لگائے‘ حقائق کی زبان پکار پکار کرکہتی ہے کہ معاملہ چاہے وردی کا ہو یا سچائی کا‘ سیاسی تدبر کا ہو یا تحمل اور بردباری کا‘ جوش کا ہو یا ہوش کا‘ پاکستان کا امیج تو اس دورے میں بری طرح مجروح ہوا ہی ہے لیکن خود جنرل صاحب کی شخصیت‘ جس کو اب تک پاکستان سے الگ کر کے تعریف و توصیف کا سزاوار سمجھا جاتا تھا‘وہ بھی بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ہے اور بقول میردرد     ؎

تہمتیں چند اپنے ذمے لے چلے

جس لیے آئے تھے سو ہم کرچلے

ہم نے تاریخ اور عمرانی علوم کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے‘ اس کی روشنی میں یہ کہنے کی جسارت کرتے ہیں کہ جنرل صاحب امریکا گئے تو اس توقع پر کہ ۲۰۰۷ء کے بعد بھی اپنے دو’تاجوں‘ کو مزید مہلت دلوالیں گے مگر ان سات دنوں میں جو کچھ خود انھوں نے اپنے ساتھ کیا‘ اس سے جس عمل کا آغاز ہوگیا ہے اسے چرچل کے الفاظ میں: ’اختتام کا آغاز‘ (beginning of the end) ہی کہا جا سکتا ہے۔ کسی فرد اور ملک کے قابلِ اعتماد ہونے اور اس کی ساکھ قائم ہونے کا انحصار اس کی بات کے سچ ہونے پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر اس معاشرے میں جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور جسے مہذب معاشرہ شمار کیا جاتا ہے قیادت کی طرف سے جھوٹ اور غلط بیانی ناقابلِ معافی جرم ہے۔ بڑی سے بڑی غلطی سے درگزر ممکن ہے مگر دروغ حلفی (perjury) ناقابلِ معافی ہے۔ امریکا میں تو اس جرم پر صدرمملکت کا مواخذہ (impeachment) کیا جاسکتا ہے اور ہوا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے جنرل صاحب کے ۱۳ ستمبر والے انٹرویو کو ان کی اپنی آواز میں انٹرنیٹ پر ڈال کر ہماری رسوائی کا جو سامان کیا ہے‘ اس کی ذمہ داری جنرل صاحب اور ان کی جرأت کے سوا کسی پر نہیں۔ ان کے  سیاسی ترجمان (spin-doctors) جو کچھ بھی کہیں‘ پاکستان کے حقیقی بہی خواہ اس صورت حال پر جتنا بھی افسوس کریں کم ہے۔

اُمت کی نمایندگی

مسلمان ملکوں کی قیادت سے یہ توقع تھی کہ اقوام متحدہ کے اس ۶۰سالہ سربراہی اجلاس کے موقع پر اُمت کے تصورات‘ عزائم اور مسائل کی مؤثر اور مدلل نمایندگی کریں گے۔ لیکن افسوس ہے کہ ایرانی صدر احمدی نژاد کے سوا کسی ایک نے بھی ایمان اور جرأت کے ساتھ ان مسائل اور امور کا کوئی ذکر نہیں کیا جو اُمت کی اصل ترجیح ہیں۔ بش سے لے کر مشرف تک کی تقاریر کو کھنگال ڈالیے‘ معلوم ہوتا ہے کہ ’دہشت گردی‘ ہی آج کی دنیا کا اصل مسئلہ ہے حالانکہ یہ امریکا کا ایجنڈا ہے۔  عالمِ اسلام یا انسانیت کا مسئلہ نہیں۔ اقوام متحدہ میں کی جانے والی تقاریر اور اس کی آخری قرارداد میں ’دہشت گردی‘ اور اس پر اُکسانے (incitment)کو وقت کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر پیش کیا گیا ہے حالانکہ دنیا دیکھ رہی ہے اور اہلِ نظر اس کا اب کھل کر اعتراف کر رہے ہیں کہ امریکا نے   دہشت گردی کو دنیا پر اپنی بالادستی (hegemony) اور تحکم قائم کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس کو بہانہ بناکر افغانستان اور عراق پر قبضہ کیا ہے اور وہاں کے وسائل کو اپنے تصرف میں لا رہا ہے‘ نیز پوری دنیا کو زیادہ غیرمحفوظ بنا دیا ہے۔۱؎

آج تک کسی نے دہشت گردی کی کوئی متفق علیہ تعریف نہیں کی۔ اس موقع پر بھی اقوام متحدہ سابقہ ۵۰ سالوں کی طرح کوئی تعریف کرنے سے قاصر رہی ہے اور اگلے سال اس کے لیے کانفرنس کا اعلان کیا ہے مگر اس بے نام (nameless) غیرمرئی (faceless) اور ناقابلِ گرفت (elusive) دشمن کے خلاف جنگ کو ہر مسئلے پر فوقیت دی ہے اور جو ممالک عملاً دنیا میں سب سے زیادہ ظلم اور دہشت گردی پھیلا رہے ہیں‘ یعنی امریکا‘ اسرائیل‘ بھارت اور روس وہ ہرمواخذے سے بالا ہیں۔ ہمارے جرنیل صاحب نے بھی دہشت گردی کے اسباب کے بارے میں تو بڑے ادب کے ساتھ چند جملے کہے ہیں لیکن سارا زور دہشت گردی اور انتہاپسندی کو قوت سے ختم کرنے پر ہے حالانکہ یہ حکمت عملی بری طرح ناکام رہی ہے۔ دنیا بھر کے عوام اس کے خلاف صداے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ اس ہفتے انگلستان میں لاکھوں افراد نے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مخالفت میں فقید المثال مظاہرے کیے ہیں۔ عالمی راے عامہ کے سارے جائزے ہواکا یہ رخ بتا رہے ہیں دنیا کے عوام کی ۷۰ سے ۹۰ فی صد آبادی اس کے خلاف ہے۔ خود امریکا میں اب ۶۱ فی صد افراد اس جنگ کو لاحاصل قرار دے رہے ہیں اور اس جنگ کے خلاف احتجاجی تحریک روز بروز مؤثر ہو رہی ہے۔

صدربش کے حامی مشہور کالم نگار تھامس فریڈمین (Thomes Freedman) نے نیویارک ٹائمزمیں ستمبر کے پہلے ہفتے میں اپنے کالم میں لکھا ہے:

موقع ایک ہی دفعہ ملتا ہے۔ اگر جناب بش کترینا سے سبق سیکھنا چاہیں تو ان کے لیے موقع ہے کہ اپنے نائن الیون کے مینڈیٹ کو کسی نئے اور بامعنی مینڈیٹ سے بدل لیں۔ اگر یہ ہوجائے تو کہا جا سکے گا کہ کترینا نے نیو آرلینز تباہ کردیا لیکن امریکا کو بحال کرنے میں مدد دی۔ اگر جناب بش اپنی سیاست حسبِ معمول جاری رکھیں تو ہر موڑ پر انھیں مخالفت کا سامنا ہوگا۔ گویا کہ کترینا نے ایک شہر اور ایک صدر کو تباہ کر دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ بش اور اس کی دہشت گردی کے خلاف جنگ دم توڑ رہی ہے لیکن جنرل پرویز مشرف اسی جرأت کے ساتھ بش کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں جس جرأت سے ۱۳ستمبر ۲۰۰۱ء کو سجدہ ریز ہوئے تھے۔

دنیا کی اب سوچ کیا ہے؟ اس کا اندازہ انگلستان کے اخبار دی گارڈین کے اس اداریے سے کیا جاسکتا ہے جو ۱۱ستمبر کی مناسبت سے چار سال کا جائزہ لیتے ہوئے جنگوں کے نتائج (Consequences of Wars ) کے عنوان سے لکھا گیا ہے:

نائن الیون کے چار سال بعد امریکا اور اس کے اتحادی دہشت گردی کے خلاف کیا کسی حقیقی کامیابی کا ایمان داری سے دعویٰ کر سکتے ہیں؟ جواب ہے: کوئی خاص نہیں۔     نہ صرف یہ کہ دہشت گردی موجود ہے بلکہ یہ بڑھ رہی ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال دنیا بھر میں دہشت گردی کے ۶۵۱ نمایاں حملے ہوئے جو ۲۰۰۳ء کی تعداد کا تین گنا ہیں۔ یہ تعداد ان دو عشروں میں سب سے زیادہ ہے جب سے واشنگٹن نے یہ اعداد و شمار جمع کرنے شروع کیے ہیں۔

اس کا نتیجہ ہے کہ:

دہشت گردی کے خلاف جنگ کا انحصار اس بات پر تھا کہ مشرق وسطیٰ میں جمہوری انقلاب کا نسخہ بروے کار آئے۔ اصل تعجب کی بات امریکی عسکری طاقت کی ناکامی ہے۔ اس نے قبضہ تو کیا ہے لیکن تعمیرنو کی صلاحیت نظر نہیں آتی۔ سخت مزاحمت کی بناپر زمینی حقائق اور مطلوبہ اہداف کی وسیع خلیج نے امریکی راے عامہ کو متزلزل کر دیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر اصل الزام یہ ہے کہ یہ جن قوتوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کرتی ہے‘ انھی کے لیے بھرتی کے اسباب فراہم کرتی ہے۔ (خلاصہ)

گارڈین کا اداریہ بھی نیویارک ٹائمز کے مقالہ نگار مارک ڈینر (Mark Danner)کی تائید کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ دنیا بھر میں "Al-Qaidaism" کا عنصر رونما ہوگیا ہے اور اس کے آسانی سے ختم ہونے کے کوئی امکانات نہیں۔ اداریے کا خاتمہ اس انتباہ پر ہے کہ:

اگر موجودہ نسل امریکی طاقت کے مقابلے میں نائن الیون واقع کر سکتی ہے تو عراق سے واپسی سے ظاہر ہونے والی امریکی کمزوری کے مقابلے پر اگلی نسل کیا کچھ کرے گی۔ ۲۰۰۱ء کے بعد بن لادن کی تنظیم کو نقصان پہنچا ہے‘ وہ منتشر ہوا ہے اور بہت سی جگہ اس کا کام غیر پیشہ ور نوآموزوں کے ہاتھوں میں ہے۔ لیکن اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ جڑواں ٹاوروں پر حملے کے چار سال بعد دنیا اس کے مقاصد کے لیے اتنی سازگار نظر آئے گی۔

گارڈین کا یہ تجزیہ منفرد نہیں۔ دنیا بھر کے اہل فکرودانش اپنے اپنے انداز میں یہی بات کہہ رہے ہیں لیکن اگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی تو وہ صدر بش‘ ٹونی بلیر اور خود ہمارے جنرل پرویز مشرف ہیں جو ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں۔ یہ سب ایک ہاری ہوئی جنگ میں اپنے اپنے ملکوں کو جھونکے ہوئے ہیں۔ جرنیل صاحب نے اُمت مسلمہ ہی نہیں‘ پوری دنیا کے عوام کو چھوڑ کر جنگ کی آگ بھڑکانے والے بش اور بلیر کا ساتھ اختیار کیا ہے اور پاکستان اور اس کی افواج کو بھی اس جنگ میں زخم خوردہ کر رہے ہیں۔ امریکا سے ہم کو نہ کچھ حاصل ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ لیکن ہم اس جنگ کی آگ میں آگے ہی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔

افغانستان جس سے ہمارے بہترین تعلقات تھے‘ آج اس میں ہمارے خلاف ہر سطح پر لاوا پک رہا ہے۔ ہماری سرحدیں غیرمحفوظ ہوگئی ہیں اور ہم جھنجھلا کر باڑ لگانے کی باتیں کر رہے ہیں___ وہ راستہ جو اسرائیل نے فلسطین میں اور بھارت نے کشمیر میں اختیار کیا ہے اور ناکام ہیں۔ ہماری فوجیں وزیرستان میں اپنے ہی بھائیوں سے لڑ رہی ہیں اور گذشتہ سال کے آپریشن میں ۲۸۰ سے زیادہ ہمارے فوجی جان دے چکے ہیں اور ۶۰۰ زخمی ہیں‘ جب کہ مقابلہ کرنے والوں میں سے بھی ۴۰۰ کے قریب ہلاک ہوئے ہیں اور امن اب بھی عنقا ہے بلکہ کور کمانڈر اور گورنر بھانت بھانت کی بولی بول رہے ہیں۔

بنیادی بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف یہ نام نہاد جنگ ایک مبنی برظلم کارروائی ہے‘ یہ صرف امریکی استعمار کا کھیل ہے جس میں ہم اپنے‘ اُمت مسلمہ کے اور پوری دنیا کے عوام سے کٹ کر صرف امریکی نیوکون (new-con)‘ وہاں کے صہیونیوں اور ان کے مقاصد کو پورا کرنے والی موجودہ امریکی قیادت کا دم چھلّا بن گئے ہیں۔ افسوس ہم کو خود امریکی عوام کے جذبات اور احساسات کا بھی ادراک نہیں جو بش کی اس جنگ گردی کے خلاف نوحہ کناں ہیں۔ امریکی عوام کے جذبات کا اندازہ کرنے کے لیے امریکا کی نامور شاعرہ شارون اولڈز (Sharon Olds) کا وہ خط پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے جو اس نے واشنگٹن کے مشہور زمانہ National Book Festival میں‘ جو ۲۴ ستمبر ۲۰۰۵ء کو واشنگٹن میں منعقد ہوا تھا‘ شرکت نہ کرنے کے اسباب بیان کرتے ہوئے لیڈی لارابش اور صدر بش کو لکھا ہے اور جس کا متن امریکی جریدہ The Nationنے شائع کیا ہے۔

شارون اولڈز کو اس اہم تقریب میں خطاب کرنا تھا اور فرسٹ لیڈی کی دعوت پر عشائیے میں شرکت کرنی تھی لیکن اس نے اس بنا پر انکار کر دیا کہ اسے ان ہاتھوں سے مصافحہ کرنا ہوگا جو عراق کے خلاف جنگ میں ہلاک ہونے والے معصوم انسانوں کے خون سے آلودہ ہیں۔ وہی ہاتھ جنھیں چومنے کے لیے ہمارے حکمران بے چین ہیں۔

امریکا کی ایک معزز شاعرہ اور ادیبہ وہ بات کہہ رہی ہے جو مسلمان حکمرانوں اور دانش وروں کو کہنی چاہیے تھی اور اقوام متحدہ کے ایوانوں کو اس کی گونج سے بھر جانا چاہیے تھا۔ لیکن مسلم ممالک پر قابض حکمران صدر بش سے مصافحہ کرنے کو سعادت سمجھتے ہیں اور خود اپنے لوگوں کے خلاف اس نام نہاد جنگ میں ان کے سپاہی بننے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہماری نگاہ میں جنرل پرویز مشرف کے دورۂ امریکا کا سب سے افسوس ناک پہلو اس نام نہاد دہشت کی جنگ کے دلدل میں پاکستان کو پھنسانا اور مزید پھنسانے کے لیے آمادگی کا اظہار ہے۔ حالانکہ یہ موقع اس جنگ کا پردہ چاک کرنے اور اس کے خلاف عالمی راے عامہ اور مسلم ممالک اور آزادی پسند اقوام کی قیادتوں کو گومنظم اور متحرک کرنا تھا۔ اگر ہم نے یہ کردار ادا کیا ہوتا تو اقوام متحدہ کا نقشہ بدلنے لگتا اور عالمی حالات کسی دوسرے ہی رخ پر مڑنے لگتے لیکن ہم تو دوسروں کے بنائے ہوئے جال میں اس بری طرح پھنس گئے ہیں کہ   ع

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

اس وقت دنیا میں ایک خاص منصوبے کے تحت اسلام اور مسلمانوں کو‘ اور ان کے بنیادی عقائد کو بالعموم اور جہاد‘ اسلامی ریاست اور اصول حکمرانی کو خصوصیت سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نیز اسلامی تعلیم اور مسلمانوں کا تاریخی اور روایتی تعلیمی نظام خصوصی ہدف ہیں۔ ضرورت تھی کہ اس اسلام فوبیا کا بھرپور رد کیا جاتا اور اس کے خلاف مؤثر اور منظم آواز اٹھائی جاتی لیکن کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی بلکہ روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر خود اسلام کی تراش خراش اور ایک معذرت خواہانہ اندازِ گفتگو اختیار کیا گیا اور ایک تاریخی موقع کو ضائع کر دیا گیا۔

امریکی استعمار کی نئی رو

عالمِ انسانی کے لیے اس وقت دو مسئلے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک امریکی استعمار کی نئی رو جو سیاسی‘ عسکری‘ معاشی‘ تہذیبی اور نظریاتی طور پر دنیا پر امریکی اور مغربی نظریات‘ تصورات اور سیاسی اور عسکری بالادستی مسلط کرنے سے عبارت ہے اور جس کے بارے میں کوئی پردہ بھی نہیں رکھا جا رہا۔ امریکی صدر نے صاف کہا ہے کہ ان کی لڑائی اپنی اقدار اور مغربی جمہوریت اور سرمایہ داری کو دنیا میں پھیلانے کے لیے ہے۔ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر نے ایک جملے میں پوری بات یوں   ادا کی ہے جسے سائمن جنکس (Simon Jenkus)نے دی گارڈین میں (بحوالہ دی نیوز ۲۲ستمبر ۲۰۰۵ئ) میں نقل کیا ہے:

لیکن ٹونی بلیر ہمیں بتاتا ہے کہ بندوق کی نالی کے ذریعے پیش کی گئی مغربی اقدار ہی  بے چارے مسلمان کو اس کے اپنے بدترین دشمن‘ یعنی خود اپنے آپ سے بچا سکتی ہیں۔

ٹونی بلیر کے اپنے الفاظ یہ ہیں:

fighting not for territory but for values

اور ہنری کسنجر نے صاف لفظوں میں صدربش کو مشورہ دیا ہے کہ نائن الیون ایک تاریخی موقع ہے جس کے تحت امریکا کو دنیا پر اپنا اقتدار اس طرح مستحکم کرلینا چاہیے کہ اسے مستقبل قریب میں کوئی خطرہ نہ رہے۔ یہی وہ ہدف ہے جس کے حصول کے لیے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ پیشگی حملے‘ حکومتوں کی تبدیلی کے نظریے پیش کیے گئے اور اب تازہ ترین نئے نیوکلیر ڈاکٹرائن ہے جس کے مطابق ہر اس ملک کے نیوکلیر اثاثہ جات تباہ کیے جاسکتے ہیں جن کے بارے میں امریکا کو یہ واہمہ ہے کہ وہ اس کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں یا وہ اس کے زعم میں کسی دہشت گرد گروہ کے ہاتھوں میں آسکتے ہیں۔

اس وقت امریکا کا یہ سامراجی ایجنڈا دنیا کے امن اور تمام اقوام کی آزادی اور حاکمیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ان حالات میں اُمت مسلمہ کی قیادت کا فرض تھا کہ اس خطرے کو مؤثر انداز میں‘ دلیل کی قوت کے ساتھ بے نقاب کرے‘ اس کے خلاف اقوام عالم کو منظم کرے اور  حکومتی اور عوامی محاذ پر وہ حالات پیدا کرے کہ اس نئے سامراج کامقابلہ کیا جا سکے اور اس کے مقابلے میں عالمی امن کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے اقوام متحدہ کو مضبوط کرے‘ اس پر پانچ ملکوں کی اجارہ داری کا خاتمہ کرانے کی تحریک کو تقویت بخشے‘ بین الاقوامی قانون کی بالادستی کے لیے تحریک چلانے اور دنیا میں ایک حقیقی تکثیری نظام (pluralistic order) کے قیام کی سعی کرے جس میں تمام ممالک‘ تمام تہذیبیں‘ تمام مذاہب‘ اور تمام اقوام عزت اور آزادی کے ساتھ باہمی تعاون اور اشتراک سے زندگی گزار سکیں۔ ایران کے صدر نے اس طرف ہلکا سا اشارہ کیا لیکن جنرل پرویز مشرف اور دوسرے مسلمان حکمرانوں کو ادنیٰ سی توفیق بھی نہیں ہوئی کہ وہ اس بنیادی عالمی مسئلے کی طرف اقوام عالم کی توجہ دلانے اور عالمی راے عامہ کو مسخر کرنے کی کوشش کریں۔

انصاف کا فقدان

عالم انسانیت کا دوسرا بڑا مسئلہ عالمی سطح پر انصاف کا فقدان اور دولت اور اقتدار کی ایسی ناہمواریاں ہیں جن کے نتیجے میں دنیا کی آبادی کا تین چوتھائی عزت کی زندگی سے محروم ہے۔ امریکا کی آبادی دنیا کی آبادی کے ۶ فی صد سے بھی کم ہے مگر دولت کا ۲۵ فی صد اور توانائی کا ۳۰ فی صد اس کے قبضے میں ہے۔ امیرملکوں میں قائم ۵۰۰ ملٹی نیشنل کارپوریشنیں‘ دنیا کی تجارت کے ۷۰ فی صد پر قابض ہیں اور ان میں ایسی کمپنیاں بھی ہیں جن میں سے ایک ایک کی دولت دنیا کے ۴۰/۵۰ ملکوں کی دولت سے زیادہ ہے۔ افریقہ کے ممالک کا حال یہ ہے کہ آج ان کی فی کس آمدنی اس سے بھی کم ہے جو ۱۹۷۰ء میں تھی‘ جب نئے معاشی عالمی نظام کی آواز بلند ہوئی۔ ان ۴۰ برسوں میں وہ ۱۹۷۰ء سے بھی خراب حالات میں ہیں۔ دنیا کے امیر ملکوں نے بین الاقوامی تجارت پر ایسے بند باندھ رکھے ہیں کہ امریکا اور یورپ کی منڈیوں تک غریب ممالک کی برآمدات کی رسائی ممکن نہیں‘ جب کہ ان کی اپنی منڈیاں ان ممالک کی چراگاہ بنی ہوئی ہیں۔

ستم ہے کہ آج دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ اسی غربت کا شکار ہے کہ اس کے رہنے والوں کو ایک ڈالر یومیہ بھی میسر نہیں ‘ جب کہ یورپ میں ہر گائے کے لیے سرکاری خزانہ سے دو ڈالر یومیہ کی سبسڈی دی جاتی ہے اور اس لیے دی جاتی ہے کہ دوسرے ممالک سے سستا دودھ‘ مکھن‘ گھی نہ منگوانا پڑے۔ امیر ممالک بیرونی امداد کے نام پر سالانہ ۵۰ ارب ڈالر دیتے ہیں‘ جب کہ اپنے ملکوں کی زراعت کو ترقی پذیر ملکوں کی زرعی مصنوعات سے بچانے کے لیے ۳۶۰ ارب ڈالر سالانہ سبسڈی دیتے ہیں اور غریب ملکوں سے آنے والی زرعی مصنوعات کا راستہ روکتے ہیں۔ دنیا میں جنگ کے کاروبار کو گرم رکھنے کے لیے سالانہ خرچ اب ایک ہزار ارب ڈالر کو چھو رہا ہے اور اس میں سے امریکا کا حصہ ۴۰فی صد سے زیادہ ہے لیکن غربت کو ختم کرنے‘ روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور زندگی کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے وسائل فراہم کرنے کی کوئی فکر نہیں۔ جس نام نہاد دوسرے ہزاریے (millenium) کے ترقیاتی پروگرام کا آغاز پانچ سال پہلے ہوا تھا اس کا حشر یہ ہے کہ اس کے اہداف کا ایک چوتھائی بھی پورا نہیں ہوسکا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر خود امریکا نے آج تک لفظی حد تک بھی اپنی اس ذمہ داری کو قبول نہیں کیا ہے کہ اپنی قومی دولت کا ۷ئ۰ فی صد ہر سال ترقی پذیر ملکوں کی معاشی ترقی کے لیے فراہم کرے گا۔

یہ ہیں وہ بنیادی مسائل جن کی طرف اقوام متحدہ کے اس ۶۱ویں اجلاس میں غور ہونا تھا مگر اسے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ ان کے ساتھ مسلم دنیا کے سلگتے ہوئے مسائل میں فلسطینیوں کا مسئلہ ہے جس کے بارے میں نہ صرف یہ کہ کوئی مؤثر آواز نہیں اٹھائی گئی بلکہ اُلٹا اسرائیل اور شارون کو غزہ کی پٹی سے انخلا کے ڈرامے کی بنیاد پر شاباش دی جارہی ہے۔ ہم اس سے تعلقات بحال کرنے کے لیے بے چین ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ یہودی لابی کے قدموں میں گرنے سے ہمیں کوئی مراعات حاصل ہوجائیں گی۔

کشمیر کا مسئلہ اُمت مسلمہ کا دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن اس کو بھی جس کمزور انداز میں اٹھایا گیا اور جہاد آزادی کو دہشت گردی قرار دینے کی بھارتی کوشش کا کوئی مؤثر جواب تک نہیں دیا گیا بلکہ ہر طرح کی دہشت گردی ختم کرنے کا وعدہ کر ڈالا گیا جو تحریکِ مزاحمت کی کمر توڑنے کے مترادف ہے۔ بھارت کے وزیراعظم سے ملاقات کی بڑی دھوم تھی مگر چار گھنٹے کی ملاقات میں کیا حاصل ہو۱___  وہی ڈھاک کے تین پات! وہی سرحدوں میں تبدیلی نہ کرنے کا اعلان! وہی سرحدپار دہشت گردی کی رٹ! وہی مزید مذاکرات کی نوید!

شیشان کا مسئلہ بھی کسی طرح کم اہم نہیں۔ اسی طرح فلپائن اور تھائی لینڈ کے مسلمانوں کے مسائل ہیں‘ لیکن کسی مسلمان حکمران کو ان مسائل کو اٹھانے اور ان علاقوں پر بیرونی قبضے‘ حکومتی ظلم و تشدد‘ حق خود ارادیت کی تحریکات کو کچلنے اور انسانی حقوق کو بے دردی سے پامال کرنے کے خلاف آواز اٹھانے کی توفیق نہیں ہوئی۔

صدر بش سے تین توقعات

جنرل پرویز مشرف نے دعویٰ تو کیا تھا مسلمان اُمت کے مقدمہ کو پیش کرنے کا لیکن وہ صرف صدر بش کے ایجنڈے پر عمل کرتے رہے اور ان کی ساری توقعات صدر بش کے ذریعے  کچھ حاصل کرنے کی تھیں مگر عملاً صدربش نے سفید جھنڈی دکھا دی جو امریکا کا پرانا وطیرہ ہے۔ جنرل صاحب اور ان کی پوری ٹیم نے صدربش سے تین توقعات کا اظہار کیا تھا‘ یعنی:

۱-            بھارت کو جو اسلحہ فراہم کیا جا رہا ہے اور خصوصیت سے ایٹمی ٹکنالوجی کے میدان میں جو معاہدہ کیا گیا ہے اور جو تازہ ترین ٹکنالوجی نئے معاہدے کے تحت دی جارہی ہے‘ پاکستان کو بھی   کم ازکم وہی سہولت دی جائے اور مساوی معاملہ کیا جائے۔ امریکا نے صاف انکار کردیا ہے کہ بھارت کا معاملہ خاص ہے‘ پاکستان کو اشک شوئی کے لیے کچھ پرانا اسلحہ دیا جاسکتا ہے مگر جو تعاون نیوکلیئر ٹکنالوجی کے سلسلے میں کیا جا تا رہا ہے اس کو پاکستان کو دینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

۲-            دوسری درخواست صدر بش سے یہ کی گئی تھی کہ کشمیر کے معاملے میں کچھ پیش رفت کرانے میں مدد دیں اور خاص طور پر بھارتی فوج میں کچھ کمی اور کم از کم دو چھوٹے سے علاقوں سے فوج کی واپسی کے لیے کچھ دبائو بھارت پر ڈالا جائے۔ لیکن بھارت نے صاف انکار کر دیا اور اس کے برعکس من موہن سنگھ نے صدر بش سے کہا کہ پاکستان سے اب بھی سرحدی دراندازیاں ہو رہی ہیں اور ان کو رکوایا جائے اور ہمارے جرنیل صاحب بغلیں بجاتے رہ گئے۔

۳-            تیسری درخواست فلسطین کے پیش پا افتادہ روڈمیپ کی بحالی کے بارے میں تھی۔ لیکن یہاں بھی صدربش نے کوئی گھاس نہ ڈالی بلکہ محض غزہ کی پٹی سے فوجوں کی جزوی اور نام نہاد واپسی ہی کو بہت بڑا کارنامہ قرار دیا اور سارا زور غزہ اور غرب اُردن کے علاقے میں حماس کا زور توڑنے کے مطالبات پر صرف کر ڈالا۔

یہ ہیں ہماری خارجہ پالیسی کی فتوحات! سب سے بڑھ کر ذلت اور فوجی غیرت کے منافی جنرل صاحب کا آخری دورہ تھا جس میں تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سربراہ مملکت فلوریڈا میں امریکی فوج کے ایک علاقائی نظام سنٹرل کمانڈ (Centcom ) کے دفتر میں بہ نفس نفیس اس کے کمانڈر ابوزید کے دربار میں حاضری دینے کے لیے گیا۔ جنرل پرویز مشرف چیف آف اسٹاف کی حیثیت سے بھی سنٹرل کمانڈر کے کمانڈر سے اونچا درجہ رکھتے ہیں چہ جائیکہ صدرمملکت کی حیثیت سے لیکن قومی وقار اور ہر protocol کے تمام آداب کو بالاے طاق رکھ کر جرنیل صاحب سنٹرل کمانڈ کے کمانڈر سے ملنے نیویارک سے فلوریڈا گئے اور دربار میں حاضری دینے کو اپنے لیے وجہِ عزت و افتخار قرار دیا۔ اس سے زیادہ قومی عزت کی پامالی کا کیا تصور کیا جا سکتا ہے۔

جنرل پرویز مشرف کا امریکا کا یہ دورہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ خدا کرے کہ یہ اس سلسلے کا آخری باب ہو۔

قومی احتساب کی ضرورت

بات ختم کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس امر کی نشان دہی بھی کر دی جائے کہ یہ ساری ناکامیاں‘ رسوائیاں اور ہزیمتیں اس لیے ہمارا مقدر ہوگئی ہیں کہ ہمارے ملک میں فیصلہ کرنے کا سارا اختیار فردِ واحد کے ہاتھوں میں مرکوز ہے۔ سارے ادارے عملاً معطل ہیں اور مشاورت اور اجتماعی فیصلہ سازی کا کوئی نظام موجود نہیں اور ایک شخص قرونِ وسطیٰ کے بادشاہوں کی طرح I am the state کے فلسفے پر عمل پیرا ہے۔ کابینہ‘ پارلیمنٹ‘ سیاسی جماعتیں‘ عوام سب غیرمتعلق ہوگئے ہیں۔ قومی احتساب کا کوئی نظام موجود نہیں۔ حالات اس وقت تک تبدیل نہیں ہوسکتے جب تک اس بنیادی مسئلے کا فوری اور مؤثر حل نہیں کیا جاتا۔ یہ وقت کی اوّلین ضرورت ہے اور اصلاح احوال کے لیے پہلی شرط کی حیثیت رکھتی ہے۔ تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو ہر دوسرے معاملے (consideration) سے بلند ہوکر اس مسئلے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہ افراد جو آج حکومتی پارٹی سے منسلک ہیں‘ ان کو بھی غور کرنا چاہیے کہ وہ ملک کو کس سمت میں دھکیل رہے ہیں اور خود اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کو کس عذاب میں مبتلا کرنے میں شریک ہیں۔ ہم سب کو ایک دن اللہ کو جواب دینا ہے کہ اس نے جو امانت پاکستان کی شکل میں ہمارے سپرد کی تھی ‘ہم نے اس سے کیا معاملہ کیا۔ تاریخ تو اپنا فیصلہ دے گی ہی‘ مگر ہم میں سے ہر ایک کو اپنی آخرت کے نقطۂ نظر سے بھی اپنا احتساب کرنا چاہیے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانِ برحق پر سنجیدگی سے عمل کرنا چاہیے کہ حاسبوا قبل ان تحاسبوا ، ’’خود اپنا احتساب کر لو قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے‘‘۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کیااُمت مسلمہ عدل و انصاف کی علم بردار ‘اُمت وسط ہے جو انسانیت پر گواہ بنا کر‘ لوگوں کی فلاح اور اللہ کی خاطر گواہی دینے کا فریضہ ادا کرنے کے لیے بھیجی گئی ہے‘ یا یہ اُمت دہشت گرد اور انتہا پسند ہے جو دنیا میں فساد اور افراتفری مچارہی ہے ؟

آج پوری دنیاکواس سوال کے جواب کی بنیاد پرتقسیم کردیاگیا ہے ۔ صہیونی لابی اور ان کے زیرکنٹرول ذرائع ابلاغ شب و روز اسلام کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مترادف قرار دینے میں مصروف ہیں۔ اس مقصد کے لیے نہ صرف تجزیاتی تبصرے ہو رہے ہیں‘ دستاویزی فلمیں ‘ ڈرامے اورناول تیار کیے جارہے ہیں‘ بلکہ عملاً بھی دہشت گردی کے بڑے واقعات کا ارتکاب کرکے انھیں اسلام اور مسلمانوں کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے تاکہ ایک عام آدمی کے ذہن میں اسلام اور مسلمان کا ایک بدنما اور خوں خوارتصور قائم کیاجائے‘ اور وہ حقیقت کو معلوم کرنے اور سچائی کو   قریب سے دیکھنے کے بجاے دُورہی سے اسلام سے متنفر ہوجائے ۔ عدل و انصاف کا علم بردار نظام جو پوری انسانیت کے لیے رحمت اور عہد حاضر کے انسان اور انسانوں کی عالمی بستی (Global Village)کے لیے امن اور راحت کا پیغام لیے ہوئے ہے‘ لوگوں کی نظر وں سے اوجھل ہوجائے‘ اس کے خوب صورت چہرے کو بگاڑ کر مکروہ بنا دیا جائے۔

مغرب صہیونی پروپیگنڈے سے اس قدر متاثر ہے کہ بقول اقبال’’ فرنگ کی رگ جاں  پنجۂ یہود میں ہے‘‘ ۔ ۱۰۰سالہ منصوبہ بندی کے تحت منظم کام کے نتیجے میں یہود نے عیسائی مغربی دنیا میں اس قدر اثر و رسوخ حاصل کرلیا ہے کہ پہلے یہودی جس مغرب میں شہروں کے مخصوص محلوں (Ghettos) میں محصور ہوکر رہتے تھے اور اپنی مخصوص ثقافت کی وجہ سے الگ کردیے جاتے    تھے بلکہ نفرت کا نشانہ تھے‘ اسی مسیحی مغرب کے باسی‘ اب اپنی ثقافت کو Judo-Christion (یہودی‘ عیسائی )کلچر قرار دے کر مسلمانوں کے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔ ہندوئوں نے بھی مغربی تہذیب و ثقافت سے رشتے جوڑ لیے ہیں اور اس طرح مسلمانوں کو پوری دنیا میں الگ تھلگ کرنے کی تحریک جاری ہے ۔

ہمارے حکمران جنھوں نے مغربی تہذیب کی آغوش میں پرورش پائی ہے‘ اس منظر سے خوف زدہ ہیں۔ ان سے یہ نہیں ہوسکا کہ وہ ہمت کرکے اس صورت حال کے سدباب کے لیے صحیح سمت میں درست منصوبہ بندی کریں اور اپنے قیمتی اسلامی ورثے کو سینے سے لگاکر‘ اسی پیغام کو عام کردیں جس کے ذریعے انھیں ایک ہزار سال تک پوری انسانیت میں پذیرائی ملی تھی اور مغرب و مشرق کے سفید فام و سیاہ فام انسانوں نے ان کی قیادت قبول کرلی تھی ۔ وہ یہ حقیقت فراموش    کر رہے ہیں کہ نَحْنُ قَوْمٌ أَعَزَّنَا اللّٰہُ بِالْاِسْلَامِ وَکُلَّمَا ابْتَغَیْنَا الْعِزَّۃَ فِی غَیْرِہِ أَذَلَّنَا اللّٰہُ،ہم وہ قوم ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے عزت و سرفرازی بخشی اور جب بھی ہم اسلام کے بغیر کسی اور چیز میں عزت کے متلاشی ہوں گے اللہ تعالیٰ ہمیں ذلت سے دوچار کر دے گا۔ مسلمانوں کے حکمران خود اُمت مسلمہ کو مغربی اقوام کی مرضی کے مطابق اپنا کلچر اور طرزِ زندگی کو تبدیل کرنے اور نام نہاد اعتدال پسندی اور روشن خیالی کے نام پر اپنی قوم کو مغربی تہذیب و ثقافت اپنانے کی تلقین کررہے ہیں ۔

اپنے دین‘اپنی ثقافت اور اپنی تہذیب کے ساتھ منسلک رہنے کو انتہا پسندی کا نام دیا جا رہا ہے۔ اکثر مسلم ممالک میں دینی مدارس کو مطعون و محصور کیا جارہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ دینی مدارس میں انتہا پسندی کی تعلیم دی جا تی ہے ۔ مسلم ممالک کو ایک دوسرے سے کاٹا جا رہا ہے۔ پاکستان جو اپنے اسلامی نظریہ مملکت اور مضبوط و منظم دینی تنظیموں کی وجہ سے اُمت مسلمہ کا مرکز بنتا جا رہاتھا‘ اسے اب اُمت کے نوجوانوں ‘ طالب علموں اور سیاحوں کے لیے شجر ممنوعہ بنا یا جارہا ہے ۔ ہندوئوں‘ سکھوں‘ عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے تمام دروازے چوپٹ کھلے ہیں لیکن کسی مصری ‘الجزائری اور سوڈانی کے لیے پاکستان کا ویزا حاصل کرنا ‘امریکا اور یورپ کا ویزا حاصل کرنے سے مشکل تر بنادیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ ایک منظم منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے تا کہ اُمت کا تصور ختم کردیا جائے‘ مسلمان اور مسلما ن کے درمیان ناقابل عبور دیواریں کھڑی کردی جائیں اور انھیں آپس میں متحد ہونے کے بجاے دوسری اقوام کی قیادت و سیادت میں ثانوی حیثیت قبول کرنے پر مجبور کردیا جائے۔

۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کو نیویارک اور واشنگٹن میں طیاروں کے اغوا کے واقعے کی پوری ذمہ داری بغیرکسی ثبوت کے‘ پہلے ہی دن سے‘ مسلمانوں اور القاعدہ پر ڈال دی گئی۔ پھر القاعدہ کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری طالبان کی حکومت پر ڈال کر افغانستان پر فوج کشی کردی گئی ۔ اب حال ہی میں لندن کے زیرزمین ریلوے سسٹم اور ٹرانسپورٹ بسوں میںدھماکے ہوئے جس میں بے گناہ اور معصوم لوگ ہلاک ہوئے۔ اس کی ذمہ داری بھی بغیر کسی ثبوت کے مسلمانوں پر ڈال دی گئی ہے اور برطانیہ ہی نہیں‘ پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نئے سرے سے اقدامات شروع ہوگئے ہیں‘ یہاں تک کہ کسی جواز و منطق کے بغیر پاکستانی مدارس سے معصوم بچوں کو اٹھا کر ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ اس طرح نائن الیون اور سیون سیون مسلمانوں کے خلاف دوحوالے بنا دیے گئے ہیں۔ اکثر مسلمان ممالک کے حکمران بھی اپنے مغربی آقائوں کے ہمنوا بن کر اُمت مسلمہ کے خلاف صہیونیوں اور مسیحی استعماری طاقتوں کی صف میں کھڑے ہوگئے ہیں اور تہذیبی جنگ میں اسلامی تہذیب کے خلاف مغرب کے صف اول کے اتحادی بن گئے ۔ اُمت مسلمہ کے سامنے ایک بڑا سوال یہ ہے کہ وہ کس طرح اس تہذیبی یلغار کا مقابلہ کرے ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صحیح اور درست راستہ  کون سا ہے؟ نائن الیون اور سیون سیون کے ذمہ داران کون ہیں؟ ان واقعات کے بارے میں اسلامی تحریکوں کا موقف کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے؟

۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کو نیویارک اور واشنگٹن کے ہیبت ناک واقعات کو ٹیلی ویژن پر پوری دنیا نے دیکھا ۔یہ واقعات بلا تفریق مذہب و ملت پوری انسانیت کے لیے صدمے ‘ خوف اور حیرت کا باعث بنے ۔ امریکی سرزمین پر امریکی قوم ہمیشہ سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہی تھی۔ نائن الیون کے واقعات سے امریکی قوم بھی ایک اچانک صدمے سے دوچار ہوئی۔ اسلامی تحریکوں نے بھی دنیا بھر کے ممالک اور تنظیموں کے ساتھ مل کر اس واقعے کی مذمت کی۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کا موقف بیان کرتے ہوئے میں نے ۱۴ستمبر ۲۰۰۱ء کو خطبہ جمعہ میں کہاتھا کہ:

اس واقعے پر ہمیں انتہائی صدمہ ہوا ہے ۔ اس میں ہر قومیت اور مذہب کے لوگ مارے گئے ہیں جن میں مسلمان اور پاکستانی بھی تھے ۔ کوئی مذہب بے گناہ افراد کے قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ واقعہ امریکا کی اپنی سرزمین پر ہوا ہے ۔ اس کے اپنے ہوائی اڈے اور اپنے ہوائی جہاز استعمال ہوئے ہیں۔ امریکا ان واقعات پر جذباتی ردعمل کے بجاے ٹھنڈے دل و دماغ سے اس کے اسباب ‘ محرکات اور وجوہات تلاش کرے ‘ یہ اس کے اپنے مفادمیں ہے ۔ پاکستان پر دبائو ڈالنا اور اس سے افغانستان پرحملے کی صورت میں ہوائی اڈے اور تعاون مانگنا خطرناک ہے ‘ یہ تباہی و بربادی کا راستہ ہے جس کا کڑوا پھل امریکا پہلے ہی چکھ رہا ہے۔ اس کی بجاے اسے عدل و انصاف اور حکمت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

اس بات پر غور کرنے کے بجاے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں‘ امریکا پاکستان کے ایئربیس  استعمال کرنا چاہتا ہے ۔امریکا مدت سے ہمارے نیوکلیئر پروگرام اور فوج کا مخالف ہے۔ ہم افغانستان پر حملے کے لیے اپنے اڈے اور سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔یہ اس کا غیر عادلانہ مطالبہ ہے ‘ خودامریکا بھی اس طرح مزید دلدل میں پھنسے گا ۔امریکا کو داخلی طور پربھی انصاف کا نظام قائم کرنا اور اخلاقی برائیوں کو دور کرنا چاہیے اور خارجی طور پر بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔دنیامیں جہاں بھی ظلم ہو رہا ہے ‘ جب تک اس کا ازالہ نہیں ہوگا ‘ امن قائم نہیں ہوسکتا ۔ کشمیر ‘ چیچنیا اور فلسطین میں ظلم ڈھایا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں ظالموں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف ردعمل پیدا ہو رہا ہے ۔

امریکا کو اپنی غلطیوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس واقعے سے یہودی کیاکیافائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ اسے مکمل غیر جانب داری سے جائزہ لینا چاہیے کہ اس سانحے کے پیچھے اس کی آڑ میںمفادات سمیٹنے والے یہودیوں کا ہاتھ کیوں نہیں ہوسکتا ۔ یوں محسوس ہوتا ہے امریکا پر اسرائیل کا ’’جن ‘‘ سوار ہے جس نے امریکا کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلی ہے۔اس وقت پوری دنیا کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ امریکا کو بتائے کہ وہ جذباتی ردعمل کا اظہار کرنے کے بجاے اصل حقائق تلاش کرے۔

ایک بڑا سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کہیں امریکا کا اپنا کیا دھرا تو نہیں؟ چند سال پہلے کئی سو امریکیوں نے زہر پی کر اجتماعی خود کشی کرلی تھی اور اوکلوہومامیں ایک امریکی نے بارود سے بھرا ٹرک ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرا دیا تھا‘جس سے سیکڑوں لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اس واقعے کے ملزم نے شہادت دی تھی کہ ہم اس نظام اور مصنوعی زندگی سے تنگ آچکے ہیں اور اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں ۔ وہاں خاندانی نظام تباہ ہے ۔ بچوں کو  اپنے باپ کام نام تک معلوم نہیں ہوتا۔ وہ آوارہ پھرتے ہیں۔ ہاسٹلوں اور اسکولوں میں ہم جماعتوں کے ہاتھوں بچوں کے قتل کے واقعات ہوتے ہیں ۔ اس طرح کے کئی گروہ امریکا میں موجود ہیں ۔

امریکا کو سپر طاقت ہونے کا زعم ہے ‘ وہ فلسطینیوں کے قتل و غارت گری کے باوجود یہودیوں کی سرپرستی کررہا ہے ۔ وہاں عدل و انصاف کا جنازہ اٹھ گیا ہے ۔ امریکا کی یہ سیاست ظلم پر مبنی ہے ۔ کمزور اقوام کوذلیل کرنے اور ان پر اپنا طرز زندگی اور تہذیب واقدار مسلط کرنے کے نتیجے میں ردعمل پیدا ہوتا ہے ۔ امریکا نے خود ہر طرح کا اسلحہ اور جراثیمی ہتھیار جمع کررکھے ہیں جن کے ذریعے ایسے ایسے امراض پھیلا ئے جاسکتے ہیں جن کا کوئی علاج نہیں ۔ کیا اس طرح کے ہتھیار جو پوری قوم کو تباہ کردیں‘ کسی کے خلاف استعمال کرنا دہشت گرد ی نہیں ہے؟ ان ہتھیاروں سے ساری دنیا پاک ہونی چاہیے۔ یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب امریکا‘ روس اور برطانیہ بھی ایسے ہتھیار تلف کردیں ۔ وہ خود تو اس کے لیے تیار نہیں ہیں ‘ لیکن جن کمزور اقوام کے پاس یہ ہتھیار اپنے تحفظ کے لیے ہیں ‘ ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ وہ ایسے ہتھیار ختم کریں۔ یہ دور ٹکنالوجی کا دور ہے ‘ اس میں جیئیں گے تو سب جیئیں گے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ طاقت ور اقوام جیئیں اور غریب قومیں مٹ جائیں ۔ عدل و انصاف کے ساتھ سب جی سکتے ہیں ‘ ظلم کے ساتھ نہیں۔

لندن بم دھماکوں کے بعد بھی تمام اسلامی تحریکوں نے اپنے اس مؤقف کا اعادہ کیا۔ اس موقعے پر اخوان المسلمون کا موقف واضح کرتے ہوئے مرشد عام محمدمہدی عاکف نے فرمایا:

لندن کے قلب میں ہونے والے دھماکوں سے جن کے نتیجے میں ۴۰ افراد ہلاک اور ۱۹۰زخمی ہوگئے ہیں‘ اخوان المسلمون کو شدید صدمہ پہنچا ہے۔ وہ اس مجرمانہ کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اسے اسلامی تعلیمات سے متصادم قرار دیتے ہیں کیونکہ اسلام نے انسانی جان کی حفاظت کا حکم دیا ہے اور شہری آبادیوں کو خوف زدہ کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔

اخوان المسلمون کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ عالمی سطح پر وسیع تر تشدد‘ عدمِ استحکام اور دہشت گردی کی یہ لہر امریکی اور برطانوی حکومتوں کی ان پالیسیوں کا براہِ راست نتیجہ ہے جن میں انھوں نے عدل و انصاف کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ انھوںنے تمام عالمی قوانین کو بالاے طاق رکھتے ہوئے طاقت کے اندھے استعمال ہی کو قانون قرار دے رکھا ہے اور دنیا کو جنگل کے قانون کی طرف دھکیل دیا ہے۔

اس سے پہلے نومبر ۲۰۰۲ئ‘ رمضان المبارک ۱۴۲۳ھ میں اخوان المسلمون اور دنیا کی دیگر اسلامی تحریکوں نے لندن ڈیکلریشن کے نام سے مغربی اقوام اور مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے اپنا اصولی مؤقف جامع انداز میں پیش کیا جس کے چند اہم نکات یہ تھے:

اللہ تبارک و تعالیٰ تمام مخلوقات بشمول بنی نوع انسان کا‘ واحد خالق‘ نگہبان اور رب ہے۔ تمام انسان آدم و حوا کی اولاد ہیں‘ لہٰذا بھائی بھائی ہیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی رنگ و نسل اور مذہب سے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد مرضی کا اختیار بخشا ہے ۔ وہ اس کو غلط بھی استعمال کرسکتا ہے۔ چنانچہ اللہ نے اپنی کمالِ رحمت سے اس کے لیے ہدایت کا سامان بھی کیا ہے جس کی روشنی میںانسان درپیش مسائل کو بخوبی حل کرسکتا ہے۔یہ ہدایت انبیا کے ذریعے انسانوں کو دی گئی ہے جس کا آغاز حضرت آدم ؑسے ہوا اور حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیم ؑ،حضرت موسٰی ؑ، حضرت عیسٰی ؑ سے ہوتا ہوا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اختتام پذیر ہوا۔

آج ۳۰ کروڑ سے زائد مسلمان مغربی ممالک میں قیام پذیر ہیں۔ ان میں سے بیش تر وہاں کی شہریت بھی رکھتے ہیں اور ترقی کے عمل میں شریک ہیں۔ وہ آگے بڑھ رہے ہیں جس کے نتیجے میں وہ اس قابل ہوں گے کہ ان ممالک میں ایک کثیرمذہبی‘ کثیرثقافتی اور کثیرنسلی معاشرے کو فروغ دے سکیں۔ لہٰذا وہ تمام حساس انسان جو امن سے محبت کرتے ہیں اور دو تہذیبوں کے اجتماعی ورثے اور انسانیت کے ایک مقدر پر یقین رکھتے ہیں‘ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان سنگین حالات میں ایک بار پھر لوگوں کو اسلام کے اصولوں کی یاد دہانی کروائیں جو تمام مذاہب کی حقیقی اساس ہیں‘ اور بنی نوع انسان کے اجتماعی مسائل سے متعلق ہیں تاکہ رواداری‘ بقاے باہمی اور کثیریت فروغ پاسکے۔

مذکورہ بالا نکات کی روشنی میں‘ اس اعلامیے پر دستخط کرنے والے تمام شرکا مغربی ممالک میں بسنے والے تمام مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان اصولوں کو اپنائیں:

۱- امن‘ بقاے باہمی اور باہمی تعاون کا انحصار‘ عقیدے کی آزادی‘ باہمی احترام اور قانون کے یکساں احترام پر ہے۔ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان بہتر تعلقات قائم کرنے اور رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر انسان اپنے حقوق اور آزادیوں سے مستفید ہو اور ملک و قوم کے اجتماعی مفاد کے حصول اور اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی یقینی بنائے۔

۲-  موجودہ مغربی معاشرے‘ دارالحرب نہیں بلکہ میدان دعوت ہیں۔ لہٰذا ہر مسلمان کو اسلامی تعلیمات کے دائرے میں رہتے ہوئے قانون کا احترام کرنا چاہیے۔ خواہ وہ وہاں کی شہریت رکھتا ہو یا عارضی طور پر رہایش پذیر ہو۔

اس عہد کے اہم ترین تقاضے حسب ذیل ہیں:

  • یہ کہ غیرمسلموں کی جان و مال اور عزت و آبرو اسی قانون کے تحت قابلِ احترام ہے جس کے ذریعے خود انھیں رہایش کا حق دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اپنا عہد پورا کرو‘‘۔ (۱۷:۳۴)
  • ملکی قوانین کا احترام کیا جائے معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا جائے اور اسے نقصان پہنچانے سے پرہیز کیا جائے۔
  • بھرپور کوشش ہو کہ تعلیمی اداروں‘ تعلیمی و ثقافتی مراکز کے قیام کے ذریعے ایک ایسی نئی نسل تیار کی جائے جو سچی مسلمان اور مفید شہری ثابت ہو۔
  • اللہ کی رسّی (دین)‘ اخوت‘ رواداری کو مضبوطی سے تھاماجائے‘ نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں تعاون کیا جائے‘ متنازع امور میں مکالمے اور موعظۂ حسنہ کو اپنایا جائے اور ان امور سے دُور رہا جائے جو مختلف قومیتوں میں نفرت کا باعث ہوں‘ ان تمام   نقطہ ہاے نظر اور طریقوں سے اجتناب کیا جائے جو دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے تاثر کو مسخ کرنے کا باعث ہوں۔
  • اس بات کی مقدور بھر کوشش کی جائے کہ نیک اور مفید کاموں میں دوسروں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون ہو‘ انسانیت کے درمیان باہمی اتفاق راے کے نکات کو رواج دیا جائے‘ مثلاً باہمی تعلقات کا فروغ‘ آزادی راے‘ انسانی حقوق‘ ماحول کی آلودگی‘ نفرت کے بجاے محبت کا فروغ اور جنگ کے اسباب کی مخالفت وغیرہ۔
  • جن ممالک میں وہ رہایش پذیر ہیں وہاں اسلام کو بطور سرکاری مذہب تسلیم کرانے کے لیے بھرپور اور متحدہ کوشش کی جائے تاکہ وہ بھی ان حقوق اور آزادیوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیں‘ جوغیرمسلموں کو مسلم ممالک میں حاصل ہیں۔
  • اسلامی تعلیمات اور مروجہ قوانین کی حدود میں رہتے ہوئے لبرل قوتوں سے بھی انسانی حقوق اور انسانیت سے متعلق امور میں مذہب اور قومیت کی تمیز کے بغیر تعاون کیا جائے۔

ان بیانات سے ظاہر ہے کہ اسلامی تحریکوں کا موقف عدل و انصاف کے سنہرے قرآنی اصولوں پر مبنی ہے ۔ انتہائی اشتعال انگیزی کے موقع پر بھی ہم نے کبھی عدل و انصاف کا دامن نہیں چھوڑا ۔ قرآن کا فرمان ہے :

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ (النساء ۴:۱۳۵)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو‘ اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (المائدہ ۵:۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو ‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔

اس وقت عالم انسانیت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ طاقت ور اقوام کی خارجہ پالیسی عدل و انصاف کے بجاے اپنے محدود قومی مفادات کے تحفظ پر مبنی ہے۔ اپنے مفاد کی خاطر ہر اخلاقی اصول کو پامال کرنا ان کی نظر میں جائز ہے ۔ خلیج کی ریاستوں میںامریکی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے امریکا کے ایک سابق سفیر اور معروف دانش ور مارٹن انڈیک اپنی کتاب International Intrest in the Gulf Region میں امریکی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتاہے کہ ’’خلیج کے بارے میں ریاست ہاے متحدہ امریکا کی سلامتی کی حکمت عملی (security strategy) کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ خلیجی ریاستوں کے تیل کے چشموں سے ضرورت کے مطابق تیل کی فراہمی‘ مناسب قیمتوں کے ساتھ جاری رہے ‘‘۔

اس مقصد کے لیے عراق پر جنگ مسلط کردی گئی‘عراقی فوج کا خاتمہ کردیا گیا۔ لاکھوں لوگ مار ڈالے گئے‘ پورے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی‘ پوری قوم فساد اور قتل و غارت کی نذر کردی گئی‘ اسے تذلیل و تحقیر کا نمونہ بنا دیا گیا‘ ابوغریب میں ’’احترام آدمیت‘‘کی اعلیٰ مثالیں قائم کی گئیں۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے کہ ہمیں تیل چاہیے، ’’ہمارا سلامتی کا منصوبہ اس کا تقاضا کرتا ہے‘‘۔ ان کے کہنے کے مطابق اس وقت سعودی عرب تیل فراہم کرنے والا ایسا واحد ملک ہے جس کی فراہمی کو ضرورت کے مطابق کنٹرول کیا جاسکتا ہے ‘ اس کی تیل کی پیدا وار کواپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ کیاجاسکتا ہے ۔ اگر عراق میں مکمل کنٹرول حاصل کرلیا جائے اور حالات میں استحکام پیدا ہوجائے تو عراق ہمیں تیل فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ذریعہ بن جائے گا ‘جس کے تیل کی سپلائی کو ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ کیا جاسکے گا ۔ اس طرح تیل کی قیمتیں مکمل طور پر امریکا کی مرضی کے مطابق متعین کی جاسکیں گی اور نہ صرف امریکا بلکہ تمام صنعتی ممالک بشمول جاپان       اور یورپ کی مشینیں بغیر کسی تشویش کے چلتی رہیں گی ۔ اس پالیسی کا اعلان کرنے میں امریکی   دانش وروں کو کوئی باک نہیں ہے۔

یہ بحث الگ ہے کہ کیا امریکا عراق میں اپنے یہ اہداف حاصل کرسکے گا یا نہیں؟ یہ بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ وہاںاس کا مالی اور جانی نقصان اسے وہاں مزید کتنی مہلت دیتا ہے۔ کیونکہ اب تو اس کے اکثر پالیسی ساز‘ عراق پر حملے کے فیصلے سے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ ۱۸ اگست کو آزادی صحافت کے نام پر تین ایسی خفیہ دستاویز جاری کی گئی ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ عراق پر حملہ خطرناک اور مہلک ہوسکتا ہے۔ ان میں سے ایک دستاویز خود امریکی وزارتِ خارجہ نے حملے سے تقریباً ایک ماہ پہلے ۷ فروری ۲۰۰۳ء کو تیار کی تھی۔

سلامتی کی حکمت عملی کے نام پر ہی عالم عرب کے عین قلب میں ایک مصنوعی یہودی ریاست کا خنجر گھونپا گیا تھا۔ فلسطین ہزاروں سال سے آباد خطہ تھا۔کوئی بیابان یا غیر آباد صحرائی علاقہ نہیں تھا۔ یہ اہم ترین انسانی تہذیبوں کو فروغ دینے والا مہذب انسانوں کا مسکن تھا ۔ ایک بین الاقوامی سازش کی خاطر استعماری ممالک نے مل کر یہاں سے فلسطینیوں کے اخراج اور یہودیوں کی آبادی اور بالآخر ایک خود مختار یہودی ریاست کے قیام کا فیصلہ کیا اور اس ریاست کو اپنے مخصوص مفادات (strategic intrests)کے تحفظ کی خاطر پڑوس کی تمام ریاستوں پر فوجی اعتبار سے بالادست بنا دیا۔ امریکا کے سابق وزیر خارجہ کولن پاول کے بقول: ’’اسرائیل کی سلامتی کی خاطر اس پر سے خوف کے سارے خطرات کو ہٹانا ریاست ہاے متحدہ امریکا کی اولین ذمہ داریوں میں سے ہے‘‘۔ چنانچہ اس غرض کے لیے کسی مسلمان ملک کے پاس ایٹمی توانائی کا وجود امریکا کو قابل قبول نہیں ہے اور کسی مسلمان ملک کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی سلامتی اور دفاع کے لیے ایسے ہتھیار رکھے جن کے ذریعے وہ دشمن کو خود سے دُور رکھ سکے‘ جب کہ اسرائیل کو دوسروں کی حدودمیں مداخلت کی کھلی اجازت ہے۔ اسرائیل اپنی ان حدود سے بھی باہر نکل گیا ہے جو اقوام متحدہ میں بڑی طاقتوں نے ناجائز طور پر اس کے لیے مقرر کی تھیں ۔ جنگ کے ذریعے دوسروں کے علاقوں پر قبضہ کرنے کو  اقوام متحدہ نے ناقابل قبول قرار دیا ہے لیکن اگر یہ علاقے مسلمانوں کے ہوں تو قابض چاہے اسرائیل ہو چاہے بھارت‘ ان کے لیے یہ قبضہ جائز قرار پاتا ہے ۔ اس لیے اسرائیل کو اپنے چاروں طرف کے علاقوں پر قبضے کا حق ہے کیونکہ اسے اپنی سلامتی کے لیے محفوظ سرحدوں کی ضرورت ہے۔

مغربی پالیسیوں کا ایک اور اہم نکتہ دنیا میں جمہوریت کی ترویج ہے۔ امریکا نے جمہوریت رائج کرنے کی خاطر وسیع تر مشرق وسطیٰ کا منصوبہ پیش کیا ہے جس کی سرحدیں پورے عالمِ اسلام کا احاطہ کرتی ہیں۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ شخصی حکومتوں کا خاتمہ کر کے اقتدار عوام کے سپرد کرے گا۔ وہ خود کوبنیادی انسانی حقوق کے علم بردارقرار دیتا ہے ۔ اس کی نظر میں جمہوریت ہی ایک مستحکم    سیاسی نظام فراہم کرتی ہے اور آزاد عدلیہ جمہوریت کابنیادی ستون ہے لیکن جن جن ممالک میں ان کے مفادات تقاضا کرتے ہیں کہ یہاں فوجی اور سول آمراپنے عوام پر مسلط رہیں‘ مطلق العنان  شخصی حکمرانی ہو‘ وہاں وہ اپنی تمام توانائیاں اسی فوجی آمر یا جابر حکمران ہی کے لیے وقف کردیتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر انھیں اپنی اقوام پر مسلط کرنے کے لیے غیر ملکی افواج کی ضرورت ہو تو   سیاسی استحکام کے نام پر یہ بھی جائز ہے۔

الغرض اپنی فوجی ‘ معاشی اور تہذیبی برتری (hegemony) قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے ہر طرح کے عسکری‘ معاشی اور ابلاغیاتی جارحانہ اقدامات مغربی ممالک کے لیے  عین انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہیں۔ ان اقدامات کی مخالفت ان کی نظر میں دہشت گردی اور انتہا پسندی ہے۔ اسلامی تحریکوں نے اشتعال کے باوجود ایک عادلانہ موقف اختیار کیا لیکن مغربی ممالک اس پر راضی نہیں ہیں ۔وہ ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم بقول ان کے ’’دہشت گردی‘‘ اور ’’انتہا پسندی‘‘ کے مقابلے میں پرویز مشرف کی طرح ان کا ساتھ دیں ۔ اس مقصد کے لیے وہ ہماری تہذیب و ثقافت ہی نہیں عقیدہ و ایمان بھی تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن کریم کو نعوذباللہ نفرت کی تعلیم دینے والی کتاب ثابت کرکے اسے نئی نسلوں کے ذہنوں سے کھرچنا چاہتے ہیں۔ ہمارے نصاب تعلیم کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں‘ اس میں قرآنی تعلیمات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات نکل کر اباحیت و آوارگی پر مشتمل مواد شامل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جہاد کو دہشت گردی کے مترادف قرار دینا چاہتے ہیں۔ دینی مدارس ہی سے نہیں‘ کالجوں اور اسکولوں کے نصاب سے بھی جہاد کے ذکر کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جہاد کی تعلیم کو دہشت گردی کی تربیت قرار دے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم بھی ان تمام اقدامات کو جائز قرار دیں جنھیں وہ اپنی سلامتی کے لیے لازمی سمجھتے ہیں۔

ان کے اس ناروا مطالبے کے جواب میں اُمت مسلمہ کے عادلانہ مؤقف کو وضاحت کے ساتھ اور یک آواز ہو کر بیان کرنے کی ضرورت ہے ۔ عالم اسلام کے تمام علما‘ دانش ور اور ماہرین اپنی حکومتوں کے اثرات سے آزاد ہو کرقرآن و سنت کے اصولوں کی روشنی میں اپنا موقف بیان کریں اور مغربی ممالک میںحق و انصاف کی بات سمجھنے والوں کو بھی اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کریں ۔ عالم انسانیت کو اس طرح کے ایک گروہ کی ضرورت ہے جو جغرافیائی ‘نسلی اور مذہبی گروہی تعصبات سے بالا تر ہو کرپوری انسانیت کی بھلائی کی سوچ رکھتے ہوں ۔ مبنی برانصاف بات کرنے والے خود مغرب میں موجود ہیں۔ وہاں کے کروڑوں لوگوں نے جنگ مخالف مظاہرے کیے ہیں۔ خود لندن کے مئیر کین لیونگسٹن نے برملا کہا ہے کہ ’’اگر برطانیہ کے لوگوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جائے جو فلسطینی اور عراقی عوام کے ساتھ کیا جا رہا ہے تو یہاں بھی خودکش حملہ آور پیدا ہوجائیں گے‘‘۔ لیونگسٹن جو خود بھی ٹونی بلئیر کی حکمران پارٹی کا اہم اور مؤثر رکن ہے سوال کرتا ہے کہ اگر برطانوی شہریت رکھنے والا کوئی مسلمان اسرائیلی فوجوں کے مظالم دیکھ کر اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے چلا جائے تو ہم اسے دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی برطانوی یہودی فلسطینیوں پر ظلم ڈھانے کے لیے جا کر اسرائیلی فوج میں بھرتی ہوجائے تو ہم اسے کیوں اس کا قانونی حق سمجھتے ہیں؟ یہ دہرے معیار ترک کرنا ہوں گے۔

اسی طرح جارج گیلوے جو برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر ہیں‘ انصاف کے علم بردار اور عراق پر جنگ مسلط کرنے کے شدید ترین مخالف کے طور پر عالمی افق پر ابھرے ہیں ۔ امریکی دانش وروں پال فنڈلے اور گراہم وولر جیسے لوگوں نے بھی امریکی پالیسیوں کو مکمل طور پر یہودی ذہنیت اور سازشوں کے تابع قرار دیتے ہوئے ان پر نظرثانی کی بات اٹھائی ہے ۔انصاف کی یہ آواز یں خود مغربی ممالک کے مفاد میں ہیں ۔ حال ہی میں انھی خیالات کے حامل کچھ دانش وروں اور مغربی ممالک کے سیاسی اور سلامتی کے مشیروں سے اسلامی تحریکوں کے کچھ افراد کو تین روز تک باہمی  تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ آج مغربی ممالک میں اچھی خاصی تعداد ایسی موجود ہے جو امریکی صدر بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی پالیسیوں کو خود امریکا اور برطانیہ کے مفادات کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اُمت مسلمہ کے ساتھ مستحکم اور دیر پا تعلق قائم کرنا عالمی امن کے لیے ضروری‘ اور پوری انسانیت کے مفادمیں ہے ۔ وہ اپنی حکومتوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہمیں دوسروں کے خلاف طاقت کے بے دریغ استعمال سے گریز کرنا چاہیے ۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں ہم ایک ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں جس سے نکلنے کے لیے مغربی ممالک کو مسلمانوں کی حقیقی ترجمان تحریکوں سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ حقیقت بخوبی جانتے ہیں کہ عالم اسلام کے موجودہ حکمران اُمت کی اکثریت کے اعتماد سے محروم ہیں۔

مغربی ممالک کی قیادت کو جلد ہی معلوم ہوگا کہ حالات کو درست طریقے سے پڑھنے کے لیے ’’صہیونی عینک ‘‘ کے بجاے انھیں اپنی نظر پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انسانیت کے مستقبل کو محفوظ کیا جاسکے ۔ مغربی ممالک کا مفاد بھی اسی سے وابستہ ہے ۔ اگر اس طرح کے حالات پیدا ہوگئے تو اسلامی ممالک اور اسلامی تحریکوں کی طرف سے انسانیت کے وسیع تر مفاد کی خاطر عالمی امن کے تحفظ کے لیے پورے دلائل کے ساتھ ایک متفقہ موقف پیش کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ اس کے لیے عالمی سطح پر ایک اعلیٰ سطحی سیمی نار کا انعقاد اور دنیا کے تمام انصاف پسند عناصر کے درمیان گفت و شنید وقت کا اہم تقاضا ہے‘ جس میں اہم مسلم شخصیات اور اسلامی تحریکوں کے نمایندوں کے علاوہ مسلمان حکام کے نمایندے بھی شامل ہوں اور مسلمان عوام کے ہر مؤثر طبقے کی نمایندگی بھی ہو۔ کئی روز تک  کھل کر اظہار خیال کیا جائے ۔ مغربی ممالک کے مبصرین کو بھی شریک کیا جائے اور واضح دلائل اور عالمی حالات کی روشنی میں ایک متفقہ موقف مرتب کرکے پوری دنیا میں پیش کردیا جائے اور اس کا کوئی لحاظ نہ رکھا جائے کہ اس کی زد کس پر پڑتی ہے۔ نہ کسی کی بے جاحمایت کی جائے‘ نہ کسی کی خواہ مخواہ مخالفت کی جائے ۔ اس طرح پوری انسانیت دیکھ لے کہ ہم عدل و انصاف کی علم بردار اُمت ہیں‘ اُمت وسط ہیں ۔ انصاف پر قائم اور اللہ کے لیے گواہ ہیں ۔ تمام علاقائی نسلی اور لسانی تعصبات سے پاک اُمت ہیں ۔ انسانیت کے خیر خواہ اور خدمت گزار ہیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کیااُمت مسلمہ عدل و انصاف کی علم بردار ‘اُمت وسط ہے جو انسانیت پر گواہ بنا کر‘ لوگوں کی فلاح اور اللہ کی خاطر گواہی دینے کا فریضہ ادا کرنے کے لیے بھیجی گئی ہے‘ یا یہ اُمت دہشت گرد اور انتہا پسند ہے جو دنیا میں فساد اور افراتفری مچارہی ہے ؟

آج پوری دنیاکواس سوال کے جواب کی بنیاد پرتقسیم کردیاگیا ہے ۔ صہیونی لابی اور ان کے زیرکنٹرول ذرائع ابلاغ شب و روز اسلام کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مترادف قرار دینے میں مصروف ہیں۔ اس مقصد کے لیے نہ صرف تجزیاتی تبصرے ہو رہے ہیں‘ دستاویزی فلمیں ‘ ڈرامے اورناول تیار کیے جارہے ہیں‘ بلکہ عملاً بھی دہشت گردی کے بڑے واقعات کا ارتکاب کرکے انھیں اسلام اور مسلمانوں کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے تاکہ ایک عام آدمی کے ذہن میں اسلام اور مسلمان کا ایک بدنما اور خوں خوارتصور قائم کیاجائے‘ اور وہ حقیقت کو معلوم کرنے اور سچائی کو   قریب سے دیکھنے کے بجاے دُورہی سے اسلام سے متنفر ہوجائے ۔ عدل و انصاف کا علم بردار نظام جو پوری انسانیت کے لیے رحمت اور عہد حاضر کے انسان اور انسانوں کی عالمی بستی (Global Village)کے لیے امن اور راحت کا پیغام لیے ہوئے ہے‘ لوگوں کی نظر وں سے اوجھل ہوجائے‘ اس کے خوب صورت چہرے کو بگاڑ کر مکروہ بنا دیا جائے۔

مغرب صہیونی پروپیگنڈے سے اس قدر متاثر ہے کہ بقول اقبال’’ فرنگ کی رگ جاں  پنجۂ یہود میں ہے‘‘ ۔ ۱۰۰سالہ منصوبہ بندی کے تحت منظم کام کے نتیجے میں یہود نے عیسائی مغربی دنیا میں اس قدر اثر و رسوخ حاصل کرلیا ہے کہ پہلے یہودی جس مغرب میں شہروں کے مخصوص محلوں (Ghettos) میں محصور ہوکر رہتے تھے اور اپنی مخصوص ثقافت کی وجہ سے الگ کردیے جاتے    تھے بلکہ نفرت کا نشانہ تھے‘ اسی مسیحی مغرب کے باسی‘ اب اپنی ثقافت کو Judo-Christion (یہودی‘ عیسائی )کلچر قرار دے کر مسلمانوں کے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔ ہندوئوں نے بھی مغربی تہذیب و ثقافت سے رشتے جوڑ لیے ہیں اور اس طرح مسلمانوں کو پوری دنیا میں الگ تھلگ کرنے کی تحریک جاری ہے ۔

ہمارے حکمران جنھوں نے مغربی تہذیب کی آغوش میں پرورش پائی ہے‘ اس منظر سے خوف زدہ ہیں۔ ان سے یہ نہیں ہوسکا کہ وہ ہمت کرکے اس صورت حال کے سدباب کے لیے صحیح سمت میں درست منصوبہ بندی کریں اور اپنے قیمتی اسلامی ورثے کو سینے سے لگاکر‘ اسی پیغام کو عام کردیں جس کے ذریعے انھیں ایک ہزار سال تک پوری انسانیت میں پذیرائی ملی تھی اور مغرب و مشرق کے سفید فام و سیاہ فام انسانوں نے ان کی قیادت قبول کرلی تھی ۔ وہ یہ حقیقت فراموش    کر رہے ہیں کہ نَحْنُ قَوْمٌ أَعَزَّنَا اللّٰہُ بِالْاِسْلَامِ وَکُلَّمَا ابْتَغَیْنَا الْعِزَّۃَ فِی غَیْرِہِ أَذَلَّنَا اللّٰہُ،ہم وہ قوم ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے عزت و سرفرازی بخشی اور جب بھی ہم اسلام کے بغیر کسی اور چیز میں عزت کے متلاشی ہوں گے اللہ تعالیٰ ہمیں ذلت سے دوچار کر دے گا۔ مسلمانوں کے حکمران خود اُمت مسلمہ کو مغربی اقوام کی مرضی کے مطابق اپنا کلچر اور طرزِ زندگی کو تبدیل کرنے اور نام نہاد اعتدال پسندی اور روشن خیالی کے نام پر اپنی قوم کو مغربی تہذیب و ثقافت اپنانے کی تلقین کررہے ہیں ۔

اپنے دین‘اپنی ثقافت اور اپنی تہذیب کے ساتھ منسلک رہنے کو انتہا پسندی کا نام دیا جا رہا ہے۔ اکثر مسلم ممالک میں دینی مدارس کو مطعون و محصور کیا جارہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ دینی مدارس میں انتہا پسندی کی تعلیم دی جا تی ہے ۔ مسلم ممالک کو ایک دوسرے سے کاٹا جا رہا ہے۔ پاکستان جو اپنے اسلامی نظریہ مملکت اور مضبوط و منظم دینی تنظیموں کی وجہ سے اُمت مسلمہ کا مرکز بنتا جا رہاتھا‘ اسے اب اُمت کے نوجوانوں ‘ طالب علموں اور سیاحوں کے لیے شجر ممنوعہ بنا یا جارہا ہے ۔ ہندوئوں‘ سکھوں‘ عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے تمام دروازے چوپٹ کھلے ہیں لیکن کسی مصری ‘الجزائری اور سوڈانی کے لیے پاکستان کا ویزا حاصل کرنا ‘امریکا اور یورپ کا ویزا حاصل کرنے سے مشکل تر بنادیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ ایک منظم منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے تا کہ اُمت کا تصور ختم کردیا جائے‘ مسلمان اور مسلما ن کے درمیان ناقابل عبور دیواریں کھڑی کردی جائیں اور انھیں آپس میں متحد ہونے کے بجاے دوسری اقوام کی قیادت و سیادت میں ثانوی حیثیت قبول کرنے پر مجبور کردیا جائے۔

۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کو نیویارک اور واشنگٹن میں طیاروں کے اغوا کے واقعے کی پوری ذمہ داری بغیرکسی ثبوت کے‘ پہلے ہی دن سے‘ مسلمانوں اور القاعدہ پر ڈال دی گئی۔ پھر القاعدہ کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری طالبان کی حکومت پر ڈال کر افغانستان پر فوج کشی کردی گئی ۔ اب حال ہی میں لندن کے زیرزمین ریلوے سسٹم اور ٹرانسپورٹ بسوں میںدھماکے ہوئے جس میں بے گناہ اور معصوم لوگ ہلاک ہوئے۔ اس کی ذمہ داری بھی بغیر کسی ثبوت کے مسلمانوں پر ڈال دی گئی ہے اور برطانیہ ہی نہیں‘ پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نئے سرے سے اقدامات شروع ہوگئے ہیں‘ یہاں تک کہ کسی جواز و منطق کے بغیر پاکستانی مدارس سے معصوم بچوں کو اٹھا کر ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ اس طرح نائن الیون اور سیون سیون مسلمانوں کے خلاف دوحوالے بنا دیے گئے ہیں۔ اکثر مسلمان ممالک کے حکمران بھی اپنے مغربی آقائوں کے ہمنوا بن کر اُمت مسلمہ کے خلاف صہیونیوں اور مسیحی استعماری طاقتوں کی صف میں کھڑے ہوگئے ہیں اور تہذیبی جنگ میں اسلامی تہذیب کے خلاف مغرب کے صف اول کے اتحادی بن گئے ۔ اُمت مسلمہ کے سامنے ایک بڑا سوال یہ ہے کہ وہ کس طرح اس تہذیبی یلغار کا مقابلہ کرے ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صحیح اور درست راستہ  کون سا ہے؟ نائن الیون اور سیون سیون کے ذمہ داران کون ہیں؟ ان واقعات کے بارے میں اسلامی تحریکوں کا موقف کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے؟

۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کو نیویارک اور واشنگٹن کے ہیبت ناک واقعات کو ٹیلی ویژن پر پوری دنیا نے دیکھا ۔یہ واقعات بلا تفریق مذہب و ملت پوری انسانیت کے لیے صدمے ‘ خوف اور حیرت کا باعث بنے ۔ امریکی سرزمین پر امریکی قوم ہمیشہ سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہی تھی۔ نائن الیون کے واقعات سے امریکی قوم بھی ایک اچانک صدمے سے دوچار ہوئی۔ اسلامی تحریکوں نے بھی دنیا بھر کے ممالک اور تنظیموں کے ساتھ مل کر اس واقعے کی مذمت کی۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کا موقف بیان کرتے ہوئے میں نے ۱۴ستمبر ۲۰۰۱ء کو خطبہ جمعہ میں کہاتھا کہ:

اس واقعے پر ہمیں انتہائی صدمہ ہوا ہے ۔ اس میں ہر قومیت اور مذہب کے لوگ مارے گئے ہیں جن میں مسلمان اور پاکستانی بھی تھے ۔ کوئی مذہب بے گناہ افراد کے قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ واقعہ امریکا کی اپنی سرزمین پر ہوا ہے ۔ اس کے اپنے ہوائی اڈے اور اپنے ہوائی جہاز استعمال ہوئے ہیں۔ امریکا ان واقعات پر جذباتی ردعمل کے بجاے ٹھنڈے دل و دماغ سے اس کے اسباب ‘ محرکات اور وجوہات تلاش کرے ‘ یہ اس کے اپنے مفادمیں ہے ۔ پاکستان پر دبائو ڈالنا اور اس سے افغانستان پرحملے کی صورت میں ہوائی اڈے اور تعاون مانگنا خطرناک ہے ‘ یہ تباہی و بربادی کا راستہ ہے جس کا کڑوا پھل امریکا پہلے ہی چکھ رہا ہے۔ اس کی بجاے اسے عدل و انصاف اور حکمت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

اس بات پر غور کرنے کے بجاے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں‘ امریکا پاکستان کے ایئربیس  استعمال کرنا چاہتا ہے ۔امریکا مدت سے ہمارے نیوکلیئر پروگرام اور فوج کا مخالف ہے۔ ہم افغانستان پر حملے کے لیے اپنے اڈے اور سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔یہ اس کا غیر عادلانہ مطالبہ ہے ‘ خودامریکا بھی اس طرح مزید دلدل میں پھنسے گا ۔امریکا کو داخلی طور پربھی انصاف کا نظام قائم کرنا اور اخلاقی برائیوں کو دور کرنا چاہیے اور خارجی طور پر بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔دنیامیں جہاں بھی ظلم ہو رہا ہے ‘ جب تک اس کا ازالہ نہیں ہوگا ‘ امن قائم نہیں ہوسکتا ۔ کشمیر ‘ چیچنیا اور فلسطین میں ظلم ڈھایا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں ظالموں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف ردعمل پیدا ہو رہا ہے ۔

امریکا کو اپنی غلطیوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس واقعے سے یہودی کیاکیافائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ اسے مکمل غیر جانب داری سے جائزہ لینا چاہیے کہ اس سانحے کے پیچھے اس کی آڑ میںمفادات سمیٹنے والے یہودیوں کا ہاتھ کیوں نہیں ہوسکتا ۔ یوں محسوس ہوتا ہے امریکا پر اسرائیل کا ’’جن ‘‘ سوار ہے جس نے امریکا کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلی ہے۔اس وقت پوری دنیا کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ امریکا کو بتائے کہ وہ جذباتی ردعمل کا اظہار کرنے کے بجاے اصل حقائق تلاش کرے۔

ایک بڑا سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کہیں امریکا کا اپنا کیا دھرا تو نہیں؟ چند سال پہلے کئی سو امریکیوں نے زہر پی کر اجتماعی خود کشی کرلی تھی اور اوکلوہومامیں ایک امریکی نے بارود سے بھرا ٹرک ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرا دیا تھا‘جس سے سیکڑوں لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اس واقعے کے ملزم نے شہادت دی تھی کہ ہم اس نظام اور مصنوعی زندگی سے تنگ آچکے ہیں اور اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں ۔ وہاں خاندانی نظام تباہ ہے ۔ بچوں کو  اپنے باپ کام نام تک معلوم نہیں ہوتا۔ وہ آوارہ پھرتے ہیں۔ ہاسٹلوں اور اسکولوں میں ہم جماعتوں کے ہاتھوں بچوں کے قتل کے واقعات ہوتے ہیں ۔ اس طرح کے کئی گروہ امریکا میں موجود ہیں ۔

امریکا کو سپر طاقت ہونے کا زعم ہے ‘ وہ فلسطینیوں کے قتل و غارت گری کے باوجود یہودیوں کی سرپرستی کررہا ہے ۔ وہاں عدل و انصاف کا جنازہ اٹھ گیا ہے ۔ امریکا کی یہ سیاست ظلم پر مبنی ہے ۔ کمزور اقوام کوذلیل کرنے اور ان پر اپنا طرز زندگی اور تہذیب واقدار مسلط کرنے کے نتیجے میں ردعمل پیدا ہوتا ہے ۔ امریکا نے خود ہر طرح کا اسلحہ اور جراثیمی ہتھیار جمع کررکھے ہیں جن کے ذریعے ایسے ایسے امراض پھیلا ئے جاسکتے ہیں جن کا کوئی علاج نہیں ۔ کیا اس طرح کے ہتھیار جو پوری قوم کو تباہ کردیں‘ کسی کے خلاف استعمال کرنا دہشت گرد ی نہیں ہے؟ ان ہتھیاروں سے ساری دنیا پاک ہونی چاہیے۔ یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب امریکا‘ روس اور برطانیہ بھی ایسے ہتھیار تلف کردیں ۔ وہ خود تو اس کے لیے تیار نہیں ہیں ‘ لیکن جن کمزور اقوام کے پاس یہ ہتھیار اپنے تحفظ کے لیے ہیں ‘ ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ وہ ایسے ہتھیار ختم کریں۔ یہ دور ٹکنالوجی کا دور ہے ‘ اس میں جیئیں گے تو سب جیئیں گے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ طاقت ور اقوام جیئیں اور غریب قومیں مٹ جائیں ۔ عدل و انصاف کے ساتھ سب جی سکتے ہیں ‘ ظلم کے ساتھ نہیں۔

لندن بم دھماکوں کے بعد بھی تمام اسلامی تحریکوں نے اپنے اس مؤقف کا اعادہ کیا۔ اس موقعے پر اخوان المسلمون کا موقف واضح کرتے ہوئے مرشد عام محمدمہدی عاکف نے فرمایا:

لندن کے قلب میں ہونے والے دھماکوں سے جن کے نتیجے میں ۴۰ افراد ہلاک اور ۱۹۰زخمی ہوگئے ہیں‘ اخوان المسلمون کو شدید صدمہ پہنچا ہے۔ وہ اس مجرمانہ کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اسے اسلامی تعلیمات سے متصادم قرار دیتے ہیں کیونکہ اسلام نے انسانی جان کی حفاظت کا حکم دیا ہے اور شہری آبادیوں کو خوف زدہ کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔

اخوان المسلمون کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ عالمی سطح پر وسیع تر تشدد‘ عدمِ استحکام اور دہشت گردی کی یہ لہر امریکی اور برطانوی حکومتوں کی ان پالیسیوں کا براہِ راست نتیجہ ہے جن میں انھوں نے عدل و انصاف کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ انھوںنے تمام عالمی قوانین کو بالاے طاق رکھتے ہوئے طاقت کے اندھے استعمال ہی کو قانون قرار دے رکھا ہے اور دنیا کو جنگل کے قانون کی طرف دھکیل دیا ہے۔

اس سے پہلے نومبر ۲۰۰۲ئ‘ رمضان المبارک ۱۴۲۳ھ میں اخوان المسلمون اور دنیا کی دیگر اسلامی تحریکوں نے لندن ڈیکلریشن کے نام سے مغربی اقوام اور مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے اپنا اصولی مؤقف جامع انداز میں پیش کیا جس کے چند اہم نکات یہ تھے:

اللہ تبارک و تعالیٰ تمام مخلوقات بشمول بنی نوع انسان کا‘ واحد خالق‘ نگہبان اور رب ہے۔ تمام انسان آدم و حوا کی اولاد ہیں‘ لہٰذا بھائی بھائی ہیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی رنگ و نسل اور مذہب سے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد مرضی کا اختیار بخشا ہے ۔ وہ اس کو غلط بھی استعمال کرسکتا ہے۔ چنانچہ اللہ نے اپنی کمالِ رحمت سے اس کے لیے ہدایت کا سامان بھی کیا ہے جس کی روشنی میںانسان درپیش مسائل کو بخوبی حل کرسکتا ہے۔یہ ہدایت انبیا کے ذریعے انسانوں کو دی گئی ہے جس کا آغاز حضرت آدم ؑسے ہوا اور حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیم ؑ،حضرت موسٰی ؑ، حضرت عیسٰی ؑ سے ہوتا ہوا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اختتام پذیر ہوا۔

آج ۳۰ کروڑ سے زائد مسلمان مغربی ممالک میں قیام پذیر ہیں۔ ان میں سے بیش تر وہاں کی شہریت بھی رکھتے ہیں اور ترقی کے عمل میں شریک ہیں۔ وہ آگے بڑھ رہے ہیں جس کے نتیجے میں وہ اس قابل ہوں گے کہ ان ممالک میں ایک کثیرمذہبی‘ کثیرثقافتی اور کثیرنسلی معاشرے کو فروغ دے سکیں۔ لہٰذا وہ تمام حساس انسان جو امن سے محبت کرتے ہیں اور دو تہذیبوں کے اجتماعی ورثے اور انسانیت کے ایک مقدر پر یقین رکھتے ہیں‘ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان سنگین حالات میں ایک بار پھر لوگوں کو اسلام کے اصولوں کی یاد دہانی کروائیں جو تمام مذاہب کی حقیقی اساس ہیں‘ اور بنی نوع انسان کے اجتماعی مسائل سے متعلق ہیں تاکہ رواداری‘ بقاے باہمی اور کثیریت فروغ پاسکے۔

مذکورہ بالا نکات کی روشنی میں‘ اس اعلامیے پر دستخط کرنے والے تمام شرکا مغربی ممالک میں بسنے والے تمام مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان اصولوں کو اپنائیں:

۱- امن‘ بقاے باہمی اور باہمی تعاون کا انحصار‘ عقیدے کی آزادی‘ باہمی احترام اور قانون کے یکساں احترام پر ہے۔ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان بہتر تعلقات قائم کرنے اور رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر انسان اپنے حقوق اور آزادیوں سے مستفید ہو اور ملک و قوم کے اجتماعی مفاد کے حصول اور اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی یقینی بنائے۔

۲-  موجودہ مغربی معاشرے‘ دارالحرب نہیں بلکہ میدان دعوت ہیں۔ لہٰذا ہر مسلمان کو اسلامی تعلیمات کے دائرے میں رہتے ہوئے قانون کا احترام کرنا چاہیے۔ خواہ وہ وہاں کی شہریت رکھتا ہو یا عارضی طور پر رہایش پذیر ہو۔

اس عہد کے اہم ترین تقاضے حسب ذیل ہیں:

  • یہ کہ غیرمسلموں کی جان و مال اور عزت و آبرو اسی قانون کے تحت قابلِ احترام ہے جس کے ذریعے خود انھیں رہایش کا حق دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اپنا عہد پورا کرو‘‘۔ (۱۷:۳۴)
  • ملکی قوانین کا احترام کیا جائے معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا جائے اور اسے نقصان پہنچانے سے پرہیز کیا جائے۔
  • بھرپور کوشش ہو کہ تعلیمی اداروں‘ تعلیمی و ثقافتی مراکز کے قیام کے ذریعے ایک ایسی نئی نسل تیار کی جائے جو سچی مسلمان اور مفید شہری ثابت ہو۔
  • اللہ کی رسّی (دین)‘ اخوت‘ رواداری کو مضبوطی سے تھاماجائے‘ نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں تعاون کیا جائے‘ متنازع امور میں مکالمے اور موعظۂ حسنہ کو اپنایا جائے اور ان امور سے دُور رہا جائے جو مختلف قومیتوں میں نفرت کا باعث ہوں‘ ان تمام   نقطہ ہاے نظر اور طریقوں سے اجتناب کیا جائے جو دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے تاثر کو مسخ کرنے کا باعث ہوں۔
  • اس بات کی مقدور بھر کوشش کی جائے کہ نیک اور مفید کاموں میں دوسروں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون ہو‘ انسانیت کے درمیان باہمی اتفاق راے کے نکات کو رواج دیا جائے‘ مثلاً باہمی تعلقات کا فروغ‘ آزادی راے‘ انسانی حقوق‘ ماحول کی آلودگی‘ نفرت کے بجاے محبت کا فروغ اور جنگ کے اسباب کی مخالفت وغیرہ۔
  • جن ممالک میں وہ رہایش پذیر ہیں وہاں اسلام کو بطور سرکاری مذہب تسلیم کرانے کے لیے بھرپور اور متحدہ کوشش کی جائے تاکہ وہ بھی ان حقوق اور آزادیوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیں‘ جوغیرمسلموں کو مسلم ممالک میں حاصل ہیں۔
  • اسلامی تعلیمات اور مروجہ قوانین کی حدود میں رہتے ہوئے لبرل قوتوں سے بھی انسانی حقوق اور انسانیت سے متعلق امور میں مذہب اور قومیت کی تمیز کے بغیر تعاون کیا جائے۔

ان بیانات سے ظاہر ہے کہ اسلامی تحریکوں کا موقف عدل و انصاف کے سنہرے قرآنی اصولوں پر مبنی ہے ۔ انتہائی اشتعال انگیزی کے موقع پر بھی ہم نے کبھی عدل و انصاف کا دامن نہیں چھوڑا ۔ قرآن کا فرمان ہے :

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ (النساء ۴:۱۳۵)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو‘ اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (المائدہ ۵:۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو ‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔

اس وقت عالم انسانیت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ طاقت ور اقوام کی خارجہ پالیسی عدل و انصاف کے بجاے اپنے محدود قومی مفادات کے تحفظ پر مبنی ہے۔ اپنے مفاد کی خاطر ہر اخلاقی اصول کو پامال کرنا ان کی نظر میں جائز ہے ۔ خلیج کی ریاستوں میںامریکی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے امریکا کے ایک سابق سفیر اور معروف دانش ور مارٹن انڈیک اپنی کتاب International Intrest in the Gulf Region میں امریکی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتاہے کہ ’’خلیج کے بارے میں ریاست ہاے متحدہ امریکا کی سلامتی کی حکمت عملی (security strategy) کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ خلیجی ریاستوں کے تیل کے چشموں سے ضرورت کے مطابق تیل کی فراہمی‘ مناسب قیمتوں کے ساتھ جاری رہے ‘‘۔

اس مقصد کے لیے عراق پر جنگ مسلط کردی گئی‘عراقی فوج کا خاتمہ کردیا گیا۔ لاکھوں لوگ مار ڈالے گئے‘ پورے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی‘ پوری قوم فساد اور قتل و غارت کی نذر کردی گئی‘ اسے تذلیل و تحقیر کا نمونہ بنا دیا گیا‘ ابوغریب میں ’’احترام آدمیت‘‘کی اعلیٰ مثالیں قائم کی گئیں۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے کہ ہمیں تیل چاہیے، ’’ہمارا سلامتی کا منصوبہ اس کا تقاضا کرتا ہے‘‘۔ ان کے کہنے کے مطابق اس وقت سعودی عرب تیل فراہم کرنے والا ایسا واحد ملک ہے جس کی فراہمی کو ضرورت کے مطابق کنٹرول کیا جاسکتا ہے ‘ اس کی تیل کی پیدا وار کواپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ کیاجاسکتا ہے ۔ اگر عراق میں مکمل کنٹرول حاصل کرلیا جائے اور حالات میں استحکام پیدا ہوجائے تو عراق ہمیں تیل فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ذریعہ بن جائے گا ‘جس کے تیل کی سپلائی کو ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ کیا جاسکے گا ۔ اس طرح تیل کی قیمتیں مکمل طور پر امریکا کی مرضی کے مطابق متعین کی جاسکیں گی اور نہ صرف امریکا بلکہ تمام صنعتی ممالک بشمول جاپان       اور یورپ کی مشینیں بغیر کسی تشویش کے چلتی رہیں گی ۔ اس پالیسی کا اعلان کرنے میں امریکی   دانش وروں کو کوئی باک نہیں ہے۔

یہ بحث الگ ہے کہ کیا امریکا عراق میں اپنے یہ اہداف حاصل کرسکے گا یا نہیں؟ یہ بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ وہاںاس کا مالی اور جانی نقصان اسے وہاں مزید کتنی مہلت دیتا ہے۔ کیونکہ اب تو اس کے اکثر پالیسی ساز‘ عراق پر حملے کے فیصلے سے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ ۱۸ اگست کو آزادی صحافت کے نام پر تین ایسی خفیہ دستاویز جاری کی گئی ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ عراق پر حملہ خطرناک اور مہلک ہوسکتا ہے۔ ان میں سے ایک دستاویز خود امریکی وزارتِ خارجہ نے حملے سے تقریباً ایک ماہ پہلے ۷ فروری ۲۰۰۳ء کو تیار کی تھی۔

سلامتی کی حکمت عملی کے نام پر ہی عالم عرب کے عین قلب میں ایک مصنوعی یہودی ریاست کا خنجر گھونپا گیا تھا۔ فلسطین ہزاروں سال سے آباد خطہ تھا۔کوئی بیابان یا غیر آباد صحرائی علاقہ نہیں تھا۔ یہ اہم ترین انسانی تہذیبوں کو فروغ دینے والا مہذب انسانوں کا مسکن تھا ۔ ایک بین الاقوامی سازش کی خاطر استعماری ممالک نے مل کر یہاں سے فلسطینیوں کے اخراج اور یہودیوں کی آبادی اور بالآخر ایک خود مختار یہودی ریاست کے قیام کا فیصلہ کیا اور اس ریاست کو اپنے مخصوص مفادات (strategic intrests)کے تحفظ کی خاطر پڑوس کی تمام ریاستوں پر فوجی اعتبار سے بالادست بنا دیا۔ امریکا کے سابق وزیر خارجہ کولن پاول کے بقول: ’’اسرائیل کی سلامتی کی خاطر اس پر سے خوف کے سارے خطرات کو ہٹانا ریاست ہاے متحدہ امریکا کی اولین ذمہ داریوں میں سے ہے‘‘۔ چنانچہ اس غرض کے لیے کسی مسلمان ملک کے پاس ایٹمی توانائی کا وجود امریکا کو قابل قبول نہیں ہے اور کسی مسلمان ملک کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی سلامتی اور دفاع کے لیے ایسے ہتھیار رکھے جن کے ذریعے وہ دشمن کو خود سے دُور رکھ سکے‘ جب کہ اسرائیل کو دوسروں کی حدودمیں مداخلت کی کھلی اجازت ہے۔ اسرائیل اپنی ان حدود سے بھی باہر نکل گیا ہے جو اقوام متحدہ میں بڑی طاقتوں نے ناجائز طور پر اس کے لیے مقرر کی تھیں ۔ جنگ کے ذریعے دوسروں کے علاقوں پر قبضہ کرنے کو  اقوام متحدہ نے ناقابل قبول قرار دیا ہے لیکن اگر یہ علاقے مسلمانوں کے ہوں تو قابض چاہے اسرائیل ہو چاہے بھارت‘ ان کے لیے یہ قبضہ جائز قرار پاتا ہے ۔ اس لیے اسرائیل کو اپنے چاروں طرف کے علاقوں پر قبضے کا حق ہے کیونکہ اسے اپنی سلامتی کے لیے محفوظ سرحدوں کی ضرورت ہے۔

مغربی پالیسیوں کا ایک اور اہم نکتہ دنیا میں جمہوریت کی ترویج ہے۔ امریکا نے جمہوریت رائج کرنے کی خاطر وسیع تر مشرق وسطیٰ کا منصوبہ پیش کیا ہے جس کی سرحدیں پورے عالمِ اسلام کا احاطہ کرتی ہیں۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ شخصی حکومتوں کا خاتمہ کر کے اقتدار عوام کے سپرد کرے گا۔ وہ خود کوبنیادی انسانی حقوق کے علم بردارقرار دیتا ہے ۔ اس کی نظر میں جمہوریت ہی ایک مستحکم    سیاسی نظام فراہم کرتی ہے اور آزاد عدلیہ جمہوریت کابنیادی ستون ہے لیکن جن جن ممالک میں ان کے مفادات تقاضا کرتے ہیں کہ یہاں فوجی اور سول آمراپنے عوام پر مسلط رہیں‘ مطلق العنان  شخصی حکمرانی ہو‘ وہاں وہ اپنی تمام توانائیاں اسی فوجی آمر یا جابر حکمران ہی کے لیے وقف کردیتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر انھیں اپنی اقوام پر مسلط کرنے کے لیے غیر ملکی افواج کی ضرورت ہو تو   سیاسی استحکام کے نام پر یہ بھی جائز ہے۔

الغرض اپنی فوجی ‘ معاشی اور تہذیبی برتری (hegemony) قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے ہر طرح کے عسکری‘ معاشی اور ابلاغیاتی جارحانہ اقدامات مغربی ممالک کے لیے  عین انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہیں۔ ان اقدامات کی مخالفت ان کی نظر میں دہشت گردی اور انتہا پسندی ہے۔ اسلامی تحریکوں نے اشتعال کے باوجود ایک عادلانہ موقف اختیار کیا لیکن مغربی ممالک اس پر راضی نہیں ہیں ۔وہ ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم بقول ان کے ’’دہشت گردی‘‘ اور ’’انتہا پسندی‘‘ کے مقابلے میں پرویز مشرف کی طرح ان کا ساتھ دیں ۔ اس مقصد کے لیے وہ ہماری تہذیب و ثقافت ہی نہیں عقیدہ و ایمان بھی تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن کریم کو نعوذباللہ نفرت کی تعلیم دینے والی کتاب ثابت کرکے اسے نئی نسلوں کے ذہنوں سے کھرچنا چاہتے ہیں۔ ہمارے نصاب تعلیم کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں‘ اس میں قرآنی تعلیمات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات نکل کر اباحیت و آوارگی پر مشتمل مواد شامل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جہاد کو دہشت گردی کے مترادف قرار دینا چاہتے ہیں۔ دینی مدارس ہی سے نہیں‘ کالجوں اور اسکولوں کے نصاب سے بھی جہاد کے ذکر کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جہاد کی تعلیم کو دہشت گردی کی تربیت قرار دے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم بھی ان تمام اقدامات کو جائز قرار دیں جنھیں وہ اپنی سلامتی کے لیے لازمی سمجھتے ہیں۔

ان کے اس ناروا مطالبے کے جواب میں اُمت مسلمہ کے عادلانہ مؤقف کو وضاحت کے ساتھ اور یک آواز ہو کر بیان کرنے کی ضرورت ہے ۔ عالم اسلام کے تمام علما‘ دانش ور اور ماہرین اپنی حکومتوں کے اثرات سے آزاد ہو کرقرآن و سنت کے اصولوں کی روشنی میں اپنا موقف بیان کریں اور مغربی ممالک میںحق و انصاف کی بات سمجھنے والوں کو بھی اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کریں ۔ عالم انسانیت کو اس طرح کے ایک گروہ کی ضرورت ہے جو جغرافیائی ‘نسلی اور مذہبی گروہی تعصبات سے بالا تر ہو کرپوری انسانیت کی بھلائی کی سوچ رکھتے ہوں ۔ مبنی برانصاف بات کرنے والے خود مغرب میں موجود ہیں۔ وہاں کے کروڑوں لوگوں نے جنگ مخالف مظاہرے کیے ہیں۔ خود لندن کے مئیر کین لیونگسٹن نے برملا کہا ہے کہ ’’اگر برطانیہ کے لوگوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جائے جو فلسطینی اور عراقی عوام کے ساتھ کیا جا رہا ہے تو یہاں بھی خودکش حملہ آور پیدا ہوجائیں گے‘‘۔ لیونگسٹن جو خود بھی ٹونی بلئیر کی حکمران پارٹی کا اہم اور مؤثر رکن ہے سوال کرتا ہے کہ اگر برطانوی شہریت رکھنے والا کوئی مسلمان اسرائیلی فوجوں کے مظالم دیکھ کر اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے چلا جائے تو ہم اسے دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی برطانوی یہودی فلسطینیوں پر ظلم ڈھانے کے لیے جا کر اسرائیلی فوج میں بھرتی ہوجائے تو ہم اسے کیوں اس کا قانونی حق سمجھتے ہیں؟ یہ دہرے معیار ترک کرنا ہوں گے۔

اسی طرح جارج گیلوے جو برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر ہیں‘ انصاف کے علم بردار اور عراق پر جنگ مسلط کرنے کے شدید ترین مخالف کے طور پر عالمی افق پر ابھرے ہیں ۔ امریکی دانش وروں پال فنڈلے اور گراہم وولر جیسے لوگوں نے بھی امریکی پالیسیوں کو مکمل طور پر یہودی ذہنیت اور سازشوں کے تابع قرار دیتے ہوئے ان پر نظرثانی کی بات اٹھائی ہے ۔انصاف کی یہ آواز یں خود مغربی ممالک کے مفاد میں ہیں ۔ حال ہی میں انھی خیالات کے حامل کچھ دانش وروں اور مغربی ممالک کے سیاسی اور سلامتی کے مشیروں سے اسلامی تحریکوں کے کچھ افراد کو تین روز تک باہمی  تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ آج مغربی ممالک میں اچھی خاصی تعداد ایسی موجود ہے جو امریکی صدر بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی پالیسیوں کو خود امریکا اور برطانیہ کے مفادات کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اُمت مسلمہ کے ساتھ مستحکم اور دیر پا تعلق قائم کرنا عالمی امن کے لیے ضروری‘ اور پوری انسانیت کے مفادمیں ہے ۔ وہ اپنی حکومتوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہمیں دوسروں کے خلاف طاقت کے بے دریغ استعمال سے گریز کرنا چاہیے ۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں ہم ایک ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں جس سے نکلنے کے لیے مغربی ممالک کو مسلمانوں کی حقیقی ترجمان تحریکوں سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ حقیقت بخوبی جانتے ہیں کہ عالم اسلام کے موجودہ حکمران اُمت کی اکثریت کے اعتماد سے محروم ہیں۔

مغربی ممالک کی قیادت کو جلد ہی معلوم ہوگا کہ حالات کو درست طریقے سے پڑھنے کے لیے ’’صہیونی عینک ‘‘ کے بجاے انھیں اپنی نظر پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انسانیت کے مستقبل کو محفوظ کیا جاسکے ۔ مغربی ممالک کا مفاد بھی اسی سے وابستہ ہے ۔ اگر اس طرح کے حالات پیدا ہوگئے تو اسلامی ممالک اور اسلامی تحریکوں کی طرف سے انسانیت کے وسیع تر مفاد کی خاطر عالمی امن کے تحفظ کے لیے پورے دلائل کے ساتھ ایک متفقہ موقف پیش کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ اس کے لیے عالمی سطح پر ایک اعلیٰ سطحی سیمی نار کا انعقاد اور دنیا کے تمام انصاف پسند عناصر کے درمیان گفت و شنید وقت کا اہم تقاضا ہے‘ جس میں اہم مسلم شخصیات اور اسلامی تحریکوں کے نمایندوں کے علاوہ مسلمان حکام کے نمایندے بھی شامل ہوں اور مسلمان عوام کے ہر مؤثر طبقے کی نمایندگی بھی ہو۔ کئی روز تک  کھل کر اظہار خیال کیا جائے ۔ مغربی ممالک کے مبصرین کو بھی شریک کیا جائے اور واضح دلائل اور عالمی حالات کی روشنی میں ایک متفقہ موقف مرتب کرکے پوری دنیا میں پیش کردیا جائے اور اس کا کوئی لحاظ نہ رکھا جائے کہ اس کی زد کس پر پڑتی ہے۔ نہ کسی کی بے جاحمایت کی جائے‘ نہ کسی کی خواہ مخواہ مخالفت کی جائے ۔ اس طرح پوری انسانیت دیکھ لے کہ ہم عدل و انصاف کی علم بردار اُمت ہیں‘ اُمت وسط ہیں ۔ انصاف پر قائم اور اللہ کے لیے گواہ ہیں ۔ تمام علاقائی نسلی اور لسانی تعصبات سے پاک اُمت ہیں ۔ انسانیت کے خیر خواہ اور خدمت گزار ہیں۔

صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے ڈھائی سال کے صبرآزما مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے اپنے اسلامی اصلاحی پروگرام کو نافذ کرنے کی مساعی کے باب میں مرکزی حکومت کے معاندانہ رویے اور اپوزیشن جماعتوں کے عدمِ تعاون سے تنگ آکر ۱۱جولائی ۲۰۰۵ء کو اسمبلی میں جیسے ہی حِسبہ بل پیش کیا‘ یوں محسوس ہوا  جیسے پورے ملک میں ایک بھونچال سا آگیا اور ایسا معلوم ہوا کہ بھڑوں کے چھتے سے سارے سورما نکل کر بیک وقت حملہ آور ہوگئے ہیں۔

مرکزی حکومت کے کارپردازوں سے لے کر صوبے کے گورنر تک‘ جن کا عہدہ ان کو پارٹی وفاداری سے بلند ہوکر صرف دستوری گورنر کا کردار ادا کرنے کا پابند کرتا ہے‘ حِسبہ بل کی مذمت میں یک زبان و یک جان ہوگئے ہیں۔ سرکاری اہل کار اور لبرل سیکولر نظام کے علم بردار سب بڑی دیدہ دلیری سے اسے دستور کے خلاف‘ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات سے متصادم‘ حقوقِ انسانی پر ضرب کاری‘ متوازی نظام کے قیام کا ذریعہ اور فسطائیت اور طالبانائیزیشن کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ملک کے سرکاری میڈیا سے لے کر تمام نام نہاد لبرل اور سیکولر قوتیں بشمول انسانی حقوق کے دفاع کی دعوے دار این جی اوز‘ اس کے خلاف صف آرا ہوگئی ہیں اور عالمی میڈیا بھی انھی کی لَے میں لَے ملا رہا ہے۔

الحمدللہ صوبہ سرحد کے عوام اور ان کی منتخب مجلس عمل کی حکومت نے اس ہمہ جہتی مخالفانہ یلغار کا سینہ سپر ہوکر مقابلہ کیا اور اپنے دستوری حق اور دینی ذمہ داری کو جرأت اور حکمت کے ساتھ ادا کیا۔ اسمبلی نے چار دن کی طویل بحث کے بعد ۱۴ جولائی کو ۳۴ کے مقابلے میں ۶۸ووٹوں کی دوتہائی اکثریت سے حِسبہ بل کو منظورکرلیا ہے اور دستور کے مطابق گورنر کو توثیق کے لیے بھیج دیا ہے جو پابند ہیں کہ ۳۰دن کے اندر اندر اس کی توثیق کر دیں یا اپنے اعتراضات کے ساتھ اسمبلی کو واپس کر دیں۔ اسمبلی مجاز ہے کہ بل پر دوبارہ غور کرنے کے بعد جس شکل میں چاہے اسے منظور کرکے دوبارہ گورنر کو بھجوا دے اور اس صورت میں گورنر کو بل پر اپنے دستخط ثبت کرنا ہوں گے۔

مرکزی حکومت کے نمایندوں نے اسمبلی کو تحلیل کرنے اور صوبے کی حکومت کو برطرف کرنے کی دھمکیاں دے کر سمجھا تھا کہ مجلس عمل کی حکومت خوفزدہ ہوجائے گی لیکن مجلس عمل نے بجاطور پر مرکزی وزرا اور گورنر کی گیدڑ بھبھکیوں کو کوئی وقعت نہ دی اور اپوزیشن جماعتوں کو اپنے نقطۂ نظر کے بیان کا پورا موقع دے کر بل کو خالص جمہوری انداز میں منظور کیا‘ جو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومت کے سرکاری بلوں کو بل ڈوز کرنے کی روش سے بڑی مختلف مثال تھی۔ صوبائی حکومت نے بل کو دستور کے مطابق منظور کر کے بال کو مرکزی حکومت اور اس کے نمایندہ گورنر کی کورٹ میں پھینک دیا۔ اب مرکزی حکومت نے نہایت عجلت کے ساتھ ۲۴ گھنٹے کے غوروفکر کی زحمت بھی گوارا کیے بغیر دستور کی دفعہ ۱۸۶ کے تحت سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے کہ اس ’’قانونی مسئلہ‘‘ پر اپنی رائے دے۔ اس بارے میں اس نے آٹھ سوال اٹھائے ہیں۔ دستور کے تحت صدر کا یہ حق ہے کہ کسی بھی قانونی سوال کو عدالت عالیہ کے مشورے کے لیے بھیج دے لیکن اس کی حیثیت مجوزہ قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے کے مترادف نہیں اس لیے کہ ابھی یہ بل اسمبلی نے صرف منظور کیا ہے اور اسے قانون کا درجہ حاصل نہیں ہوا۔

حِسبہ بل پر جو اعتراضات اٹھائے گئے ہیں ان کے مضمرات بڑے سنگین ہیں۔ ان میں سے کچھ کی طرف ہم اس مضمون میں اشارہ کریں گے۔

اس وقت مرکزی حکومت اور کچھ اپوزیشن جماعتوں نے اس بل پر جس طرح حملہ کیا ہے اور جن بحثوں کو وہ آگے بڑھا رہے ہیں‘ ان سے جو مرکزی نقطۂ نظر سامنے آتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ اصل ہدف حِسبہ بل نہیں‘ اسلام اور شریعت اسلامی کا نفاذ ہے۔ اسلامی نظام کے قیام کے خالی خولی اعلانات تو بار بار ہوئے ہیں لیکن حِسبہ بل ایک ایسے حقیقی تنفیذی ادارے کے قیام کی کوشش ہے جس کے ذریعے کم از کم ایک صوبے میں نفاذ شریعت کے عمل کا آغاز ہوسکتا ہے۔ ہماری نگاہ میں تو یہ بل اسی منزل کی طرف ایک ابتدائی لیکن عملی اہمیت کا حامل اقدام ہے اور یہی وجہ ہے کہ مخالفین کی    نگاہ میں یہ بڑی خطرناک پہلکاری (initiative) ہے کیوں کہ اگر مجلس عمل کی حکومت نفاذ شریعت کی طرف مؤثر انداز میں عملی پیش قدمی شروع کردیتی ہے تو ان کی ’’روشن خیال اعتدال پسندی‘‘ کا سارا قلعہ دھڑام سے زمین پر آگرے گا۔ اب تو یہ بات مغربی پریس نے برملا کہہ دی ہے کہ enlightened moderation (روشن خیال اعتدال پسندی) کی اصطلاح امریکا کے سابق وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے جنرل پرویز مشرف کے کان میں پھونکی تھی اور مقصد مسلمانوں کو اعتدال پسند اور انتہا پسند اور لبرل اور بنیاد پرست گروہوں میں بانٹنا تھا۔ اسلام اور سیکولرزم کے درمیان جنگ اب کھل کر سامنے آگئی ہے اور ساری سیکولر قوتیں یک جان و یک زبان ہوگئی ہیں۔ اب ہرجماعت اور ہرفرد اپنے اصل رنگ میں قوم کے سامنے آگیا ہے۔

حِسبہ بل کی حقیقت اور اس پر اعتراضات کی قدروقیمت پر کسی گفتگو سے قبل چند حقائق کا مختصر اعادہ ضروری ہے۔

مرکزی حکومت کا غیر جمھوری رویہ

سب سے پہلی قابلِ توجہ بات مرکزی حکومت کا صوبہ سرحد کی حکومت اور صوبے کے اصلاحی پروگراموں کے بارے میں معاندانہ رویہ ہے جو روز بروز مزید نمایاں ہوتا جارہا ہے۔ صوبے کے معاملات میں مرکز کی مداخلت صوبائی خودمختاری کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے اور مرکز اور صوبے کے درمیان خوش گوار تعلقات اور ہم آہنگی پر بھی ضرب کاری کی حیثیت رکھتی ہے۔ مرکز‘ صوبے کے گورنر کے ادارے کو صوبے کی حکومت کو ہراساں کرنے کے لیے بڑی عاقبت نااندیشی کے ساتھ استعمال کر رہا ہے۔ مرکزی حکومت حساس قبائلی علاقوں میں امریکا کی خوش نودی اور حکم برآوری کے لیے فوج کشی میں مصروف ہے جس میں علاقے کے کورکمانڈر کے اعتراف کے مطابق ۲۵۱ فوجی کام آچکے ہیں اور ۵۵۰ زخمی ہوئے ہیں۔ صوبے کی انتظامی مشینری پر مرکز اپنی گرفت مضبوط کیے ہوئے ہے اور اس کا ثبوت صوبائی چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کا صوبے کی حکومت کے مشورے کے بغیر تبادلہ اور نئی ٹیم کا تقرر ہے۔ این ایف سی ایوارڈ نہ دے کر‘ صوبے کی مالیاتی ناکہ بندی بھی کی ہوئی ہے۔ بجلی کی رائلٹی سے لے کر طوفانی بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں تک کے موقع پر صوبے کو امدادی کارروائیوں کے لیے اس کے مبنی برحق وسائل سے محروم رکھنا بھی اس میں شامل ہے۔

مرکز کا یہ معاندانہ رویہ دستور کی کھلی خلاف ورزی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی اعتبار سے فضا کو مکدر کرنے کا ذریعہ ہے اور صوبے کی حکومت اپنے محدود وسائل اور دستوری‘ قانونی اور انتظامی تحدیدات کے باوجود اپنے نظریاتی‘ معاشی‘ اخلاقی اور اصلاحی پروگرام پر جو عمل کرنا چاہتی ہے‘ اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ کش مکش حِسبہ بل کے سلسلے میں اس مقام پرآگئی ہے جس کے بڑے دُوررس نتائج ہوسکتے ہیں۔ صوبے کی جو اپوزیشن جماعتیں اپنے مخصوص سیاسی یا جذباتی تعصبات کی وجہ سے مرکز میں برسرِاقتدار عناصر کے اس کھیل کو نہیں سمجھ رہی ہیں اور ان کے جال میں پھنس گئی ہیں‘وہ بڑی بھیانک غلطی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔

صوبائی حکومت کا معقول رویہ

دوسری طرف صوبے کی حکومت پورے معاملے کو بہت صبروتحمل اور بردباری کے ساتھ لے کر چل رہی ہے۔ صوبے کی شریعت کونسل نے جس میں تمام مکاتب فکر (بشمول اہل تشیع) کے علما اوردانش ور شریک تھے‘ نفاذ شریعت کے لیے جو نقشۂ راہ مرتب کیا تھا‘ اس میں شریعت بل‘ حِسبہ بل‘ تعلیمی اصلاحات‘ معاشی اصلاحات اور سماجی اور معاشرتی اصلاحات کا ایک جامع پروگرام تھا۔ یہ کام صوبے کی شریعت کونسل نے حکومت کے قیام کے پہلے سال کے اندر اندر کرلیا تھا۔ شریعت بل اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کرلیا تھا اور بجٹ سازی‘ تعلیمی پالیسی‘ بنک کاری کے نظام کی تبدیلی اور چند دوسرے دائروں میں ضروری اصلاحات کے ساتھ حِسبہ بل جو دراصل عام آدمی کے لیے انصاف کے حصول اور سیاسی‘ معاشی‘ انتظامی اور دوسرے میدانوں میں رائج ظلم و استحصال کے تدارک کی ایک جامع کوشش ہے‘ متحدہ مجلس عمل کے پروگرام کا اہم حصہ تھا۔ حکومت کی کوشش تھی کہ اس پر زیادہ سے زیادہ اتفاق راے پیدا کیا جائے اور اس وجہ سے اس پر ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصے تک مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے متفق علیہ راہ نکالنے کی کوشش کرتی رہی لیکن جب یہ واضح ہوگیا کہ دوسری طرف سے تعاون کی راہوں کو مسدود کر دیا گیا ہے تو پھر اس نے سارے خطرات اور مشکلات کو جانتے بوجھتے ہوئے‘ محض اللہ اور عوام سے اپنے عہد کو ایفا کرنے کے لیے اسمبلی کے ذریعے اس قانون کو بنانے اور اس کے مطابق عمل کرنے کا تہیہ کرلیا۔

حِسبہ بل کا مسودہ ابتدا ہی میں گورنر کو اس لیے بھیجا گیا تھا کہ اس پر افہام و تفہیم کا عمل شروع ہو۔ گورنر نے بات چیت کرنے کے بجاے اسے نو تشکیل شدہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیج دیا جسے خاص سیاسی مقاصدکے لیے تشکیل دیا گیا تھا اور جس پر اس کے قیام کے وقت ہی تمام اہم دینی عناصر نے شدید عدم اطمینان کا اظہار کر دیا تھا۔ کونسل دستور کی دفعہ (۲) ۲۳۰ کے تحت پابند ہے کہ اگر صدر‘ گورنر‘ مرکزی یا صوبائی اسمبلی اسے کوئی مسئلہ اظہار راے کے لیے بھیجتی ہے تو وہ ۱۵ دن کے اندر اندر اس پر اپنی رائے دے۔ گورنر سرحد نے کونسل کو حِسبہ بل ۱۴ اکتوبر ۲۰۰۳ء کو بھیجا ہے اور کونسل نے ۱۱ مہینے کے بعد ۴ستمبر ۲۰۰۴ء کو گورنر سرحد اور وزیراعلیٰ سرحد کو اپنی رائے بھیجی‘ اور جیساکہ ہم ثابت کریں گے کہ اس میں ایک نکتہ بھی ان terms of reference کے مطابق نہیں تھا جو دستور کے تحت اس کونسل کے لیے مقرر کیا گیا ہے بلکہ ایک سابق جج صاحب نے اپنی ساری قانونی مہارت کے ذریعے اِدھر اُدھر کی باتوں کو نمبروار داخل دفترکرنے کا کارنامہ سرانجام دیا اور کونسل نے اسے کسی تبدیلی کے بغیر آگے بڑھا دیا۔

صوبہ سرحد کی حکومت نے مرکز میں برسرِاقتدار جماعت کے ذمہ داروں سے بات چیت کی اور ۵جولائی کی نشست میں اس کی تین اہم ترین شخصیات تک نے جن میں حکمران پاکستان مسلم لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین اور سیکرٹری جنرل سید مشاہد حسین شامل تھے‘ اپنے اس استعجاب کا اظہار کیا کہ اس مجوزہ بل کی اتنی مخالفت کیوں ہو رہی ہے حالانکہ اس میں دو چار چھوٹی چھوٹی باتوں کے علاوہ کوئی بات قابلِ گرفت نظر نہیں آتی۔ بلکہ ایک صاحب نے تو یہاں تک کہا کہ خرابی آپ کے بل میں نہیں‘ آپ کے انداز اظہار (failure to communicate) میں ہے۔ اسی طرح صوبائی حکومت نے صوبے کی اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو اعتماد میں لیا اور کہا کہ اگر کوئی معقول تجویز ہے تو آیئے‘ اس پر بیٹھ کر بات کرلیں لیکن دونوں محاذوں پر بالآخر مایوسی ہوئی اور غالباً اس کی وجہ دلیل کی بنیاد پر اختلاف نہیں بلکہ وہ خوف ہے جو امریکا اور مغربی اقوام کے اسلام کو ہوّا اور اصل خطرہ بناکر پیش کرنے کی مہم کا اثر ہے اور جس کا مظہر یہ مضحکہ خیز واویلا ہے کہ صوبہ سرحد ’’طالبانائیزیشن‘‘ کی زد میں ہے۔ حالانکہ جیساکہ ہم ثابت کریں گے اس بل کا کوئی تعلق افغانستان کے تجربات سے نہیں بلکہ اس کا حرف حرف دستور کے مطابق اور مسلمانوں کی ۱۴۰۰ سالہ تاریخ سے ہم آہنگ ہے اور پاکستان کے دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کمیٹی کی سفارشات‘ دستور ۱۹۷۳ء کے ریاست کے لیے رہنما اصول اور خود اسلامی نظریاتی کونسل کی اس مکمل رپورٹ کی سفارشات کے مطابق ہے جو ۱۹۹۶ء میں اس نے پیش کی تھی۔ آج جن باتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ان میں سے ہر ایک ملک کے قانونی نظام کا حصہ ہے اور ایک نہیں دسیوں قوانین میں وہی تمام دفعات من و عن موجود ہیں‘ مگر بھلا ہو تعصب کا کہ    ؎

تمھاری زلف میں پہنچی تو حُسن کہلائی

وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی

حِسبہ کی فکری اھمیت اور تاریخی روایت

آیئے سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ حِسبہ کا یہ ادارہ ہے کیا؟

ہر قوم کے لیے زندگی کا اجتماعی نظام کسی نہ کسی اصول اور نظریے پر مبنی ہوتا ہے۔ ایک تصور یہ ہے کہ مذہب ایک افیون ہے اور انسان کی زندگی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی اخلاقی ضابطے‘ کسی الہامی ہدایت اور ابدی اقدار کے کسی نظام کی ضرورت نہیں۔ اور اگر کچھ لوگ بضد ہیں کہ مذہب سے رشتہ باقی رہنا چاہیے تو پھر مذہب کا دائرہ صرف فرد کی ذاتی اور نجی زندگی اور زیادہ سے زیادہ مسجد اور گھر تک محدود ہونا چاہیے۔ اجتماعی زندگی کا نظام و نقشہ دنیوی علوم اور تجربات‘ ذاتی خواہشات اور مفادات اور قومی روایات اور تصورات کے مطابق بننا چاہیے۔ اگر ہمارا نظریۂ حیات یہی ہے تو پھر اس میں حِسبہ کے اس تصور کی کوئی گنجایش نہیں جو اسلام نے پیش کیا ہے اور جو مسلمانوں کی تاریخ کا تابندہ ادارہ اور روایت رہا ہے۔ لیکن اگر ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کے معنی ہی یہ ہیں کہ فرد اور جماعت‘ ہر کوئی ذاتی اور اجتماعی‘ ہر اعتبار سے اللہ کی بندگی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ مبارکہ کی پیروی میں اپنی دنیوی اور اُخروی نجات دیکھتا ہے تو پھر ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ان حدود کا پابند اور ان اقدار کا حامل ہونا چاہیے جو اسلامی زندگی کا طرۂ امتیاز ہیں۔ پھر انسان کی زندگی کا ہر لمحہ اس فکر میں گزرتا ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت اور حقوق العباد ادا کرنے کی راہ میں گامزن ہے یا ان سے غفلت برت کر اطاعت الٰہی سے انحراف اور بغاوت کا مرتکب ہورہا ہے۔ پھر ہرلمحہ وہ اپنا احتساب کرتا ہے اور ہر قدم شعور اور منزلِ مطلوب کی طرف پیش قدمی کے جذبے سے اٹھاتا ہے۔ پھر وہ خود بھی نیکیوں کے حصول اور برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے گردونواح میں بھی معروف کے فروغ اور منکرسے نجات کے لیے سرگرم ہوجاتا ہے۔ حِسبہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسی احساس کو مرتب اور منظم کرکے اداراتی حیثیت دینے کا نام ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز اور روزے کو بھی احتساب کے ساتھ ادا کرنے کی تلقین کی ہے اور پوری زندگی کھلی آنکھوں اور جائزہ نفس کے ساتھ گزارنے کا حکم دیا ہے (حاسبوا قبل ان تحاسبوا) ۔ گویااپنا جائزہ خود لے لو‘ اپنا حساب کتاب خود ہرلمحہ کرتے رہو قبل اس کے کہ تمھارا حساب لیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہرمسلمان مرد اور عورت اور مسلمانوں کے اجتماعی نظام___ اُمت بحیثیت مجموعی اور اسلامی ریاست جو مسلمانوں کی اجتماعی قوت اور امامت کی مظہر ہے‘ دونوں کی ذمہ داری ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنی زندگی کا شعار بنائیں۔ اہلِ ایمان اور کفار‘ منافقین اور فساق میں فرق ہی معروف اور منکر کے بارے میں ان کے رویے کا ہے۔ قرآن دونوں راستوں کو بالکل دو اور دو چار کی طرح واضح کر دیتا ہے:

اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُہُمْ مِّنْم بَعْضٍم یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَیَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَہُمْط نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَہُمْ ط اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (التوبۃ ۹:۶۷)

منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے کے ہم رنگ ہیں۔ برائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ خیر سے روکے رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے بھی انھیں بھلا دیا۔ یقینا یہ منافق ہی فاسق ہیں۔

اور اہلِ ایمان کا حال یہ ہے کہ:

وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍم  یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَیُطِیْعُوْنَ

اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ ط اُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّٰہُ ط اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ o  (التوبۃ ۹:۷۱)

مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں‘ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی۔ یقینا اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔

اور یہ ذمہ داری جس طرح ہر فرد___ مسلمان مرد اور عورت کی ہے اسی طرح یہ ذمہ داری پوری اُمت اور جب اہلِ ایمان کو زمین پر اقتدار حاصل ہو تو حکومت اور اس کی اجتماعی قوت کی ہے۔

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰)

اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

اسی سرگرمی‘ کش مکش اور جدوجہد کی طرف ہمیں پکارا گیا ہے:

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌیَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۴)

تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں‘ بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں‘ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔

اور جب انھیں اقتدار اور قوت میسر آتی ہے تو پھر وہ منظم اور ریاستی آہنگ کے ساتھ یہی خدمت انجام دیتے ہیں:

اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِo (حج ۲۲:۴۱)

یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میںاقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے‘ زکوٰۃ دیں گے‘ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

نظام حِسبہ اسی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کو ادا کرنے کی ایک منظم کوشش کا نام ہے۔ یہ انتظام دور رسالت مآبؐ سے شروع ہو کر اسلامی تاریخ کے ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس فرض کو انجام دیا اور اُمت کو مختلف انداز میں اور اپنے نمایندوں کو مختلف میدانوں میں اسی کام کو انجام دینے کے لیے مامور فرمایا۔ دور خلافت راشدہ میں ہرخلیفہ نے اسے انجام دیا‘ ہر ولایت کا گورنر اس پر مامور تھا اور پھر جیسے جیسے زندگی کے کاروبار نے وسعت اور تنوع اختیار کیا تو مختلف دائرہ کار کے افراد اور اداروں کا قیام عمل میں آیا۔

پہلی ہی صدی میں بازاروں میںنگراں (عمال السوق) مقرر ہوئے۔ قاضی اور کوتوال (شرطیٰ) کے ادارے وجود میں آئے اور پھر باقاعدہ حِسبہ کا نظام قائم ہوا جو ۱۳۰۰سال تک پوری اسلامی قلمرو میں مختلف شکلوں میں اور مختلف ناموں سے کارفرما رہا۔ امام غزالیؒ نے احیاء العلوم میں اس کے اخلاقی‘ معاشرتی اور معاشی ہر پہلو پر کلام کیا ہے۔ الماوردی نے الاحکام السلطانیہ میں ایک پورا باب اس نظام پر قائم کیا ہے اور سیاسی‘ معاشی اور انتظامی پہلوئوں کو اجاگر کیا ہے۔  ابن خلدون نے مقدمے میں اسے ایک بنیادی اجتماعی ادارے کے طور پر پیش کیا ہے۔ ابن تیمیہ  نے الرسالہ فی الحسبۃ مرتب کیا جس میں اس کا تصوراتی ہیولہ (conceptual framework) مرتب کیا ہے۔ ابن حزم نے الفصل فی الملل میں اس پر مبسوط بحث کی ہے۔ غرض ہر دور میں اور ہر علاقے میں عملاً اس ادارے کی کارفرمائی دیکھی جاسکتی ہے اور اہلِ علم نے اپنے اپنے حالات کے مطابق اس پر بحثیں کی ہیں۔ بنواُمیہ‘ بنوعباس‘ دولت عثمانیہ‘ صفوی دور‘ تغلق سلطنت اور خصوصیت سے مغلیہ دور میں اورنگ زیب عالم گیر کی حکومت میں‘ حِسبہ کا ادارہ موجود رہا ہے۔ مصر‘ شام‘ ایران‘ بلادِ غرب‘ ماوراء النہر کے علاقے‘ ہر جگہ یہ ادارہ کسی نہ کسی شکل میں اور ناموں کی کچھ تبدیلی کے ساتھ تھا___ آج یہ متحدہ مجلس عمل کی اختراع نہیں۔ یہ ہمارے فکری نظام اور ہماری تاریخی روایت کا حصہ ہے اور اپنے حالات کے مطابق ہم اس نظام اور ادارے کے احیا کی ایک حقیر کوشش کر رہے ہیں۔

اعتراضات کا جائزہ

آیئے اب ان اعتراضات کا جائزہ لیں جو اس توقع اور یقین کے ساتھ شب و روز دھواں دھار انداز میں پیش کیے جا رہے ہیں کہ غلط سے غلط بات اگر بار بار کہی جائے تو لوگ اسے سچ سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ ہٹلر کے وزیر گوئبلز کی حکمت عملی ہے جس پر حِسبہ بل کے معترضین عمل پیرا ہیں۔

  • دستور کی خلاف ورزی:پہلی بات یہ کہی جارہی ہے کہ یہ دستور کے خلاف ہے۔ اس سے بڑا جھوٹ شاید کوئی اور نہ ہوسکے۔ دستور کا دیباچہ جو قرارداد مقاصد پر مشتمل ہے اور جو اب دستور کی دفعہ ۲(الف) کا درجہ بھی رکھتا ہے‘ صاف لفظوں میں ریاست کی یہ ذمہ داری قرار دیتا ہے کہ:

جس میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حلقہ ہاے عمل میں اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق‘جس طرح قرآن پاک اور سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے‘ ترتیب دے سکیں۔

اسی بات کا اعادہ مزید وضاحت کے ساتھ دستور کی دفعہ ۳۱ میں کیا گیا ہے۔ دفعہ ۳۷ (جی) میں اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں کے سدباب کا ہدف دیا گیا ہے اور دفعہ ۳۸ (ایف) میں ربا کے جتنی جلد ممکن ہو مکمل خاتمے (elimination) کو پالیسی کا مقصد قرار دیا گیا ہے۔

دفعہ ۲۲۷ سے ۲۳۰ تک (اسلامی دفعات )بھی اجتماعی زندگی کو مکمل طور پر قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کی دعوت دے رہی ہیں۔ حِسبہ بل دستور کے انھی اہداف کو حاصل کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔

کہا گیا ہے کہ یہ بنیادی حقوق سے متصادم ہے اور دستور کی دفعہ ۱۹ اور ۲۰ کا ذکر کیا گیا ہے۔ مگر ان دونوں دفعات میں جہاں بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی وہیں یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ:

اسلام کی عظمت یا پاکستان یا اس کے کسی حصہ کی سالمیت‘ سلامتی یا دفاع‘ غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات‘ امن عامہ‘ تہذیب یا اخلاق کے مفاد سے مشروط ہے۔

حِسبہ بل میں انھی اقدار کا تحفظ کیا گیا ہے جن کا ذکر دستور کی اس دفعہ میں ہے۔ اسی طرح دفعہ ۲۰ میںبھی: قانون‘ امن عامہ اور اخلاقیات سے مشروط ہونے کی وضاحت موجود ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے جواب (ستمبر۲۰۰۴ء )میں ایک دور کی کوڑی یہ بھی لائی گئی ہے کہ یہ دستور کی دفعہ ۱۷۵ (سی)سے متصادم ہے حالانکہ اس دفعہ میں عدلیہ کے انتظامیہ سے الگ ہونے کی بات کی گئی ہے (جس پر آج تک عمل نہیں ہوا)۔ حِسبہ کا نظام بنیادی طور پر ایک انتظامی ادارہ ہے‘ جو پوری انتظامی مشینری بشمول عدلیہ کے تعاون سے کام کرے گا اور عدلیہ کا پورا نظام اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہوگا دفعہ ۲ (۳)۔

  • طریق کار پر اعتراضات: حِسبہ کے ادارے کے طریق کار کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں۔ حِسبہ بل کے تحت یہ ادارہ چار طریقوں سے کام کرے گا:

۱- تعلیم و تلقین

۲- انتظامی اعتبار سے نگرانی اور حکومت کی مشینری کے ذریعے بشمول پولیس اور انتظامی محکمے متعلقہ قوانین کے تحت اور متعلقہ اداروں کے ذریعے اقدام کرنا۔

۳- لوگوں کی شکایت پر یا ازخود تفتیش اور اس کے نتیجے میں خرابی کے تعین اور اس کی اصلاح کی کوشش ___ بذریعہ قانون۔

۴- عدلیہ اور صوبائی اسمبلی کے سوا حکومتی مشینری پر نگاہ‘ اور اختیارات کے غلط استعمال یا حق دار کو حق نہ ملنے کی صورت میں حق دار کی داد رسی ___ جس کا طریقہ متعلقہ مجاز ادارے کو اس کی غلطی پر متنبہ کرنا ہے۔ یہ خود نافذ نہیں کرسکتا بلکہ قوم کے اجتماعی ضمیر کی حیثیت سے خرابیوں پر گرفت اور اصلاح کا کام ملکی قوانین کے مطابق انجام دے گا یا انجام دیے جانے کی ہدایات جاری کرے گا‘ جو دنیا بھر میں محتسب یا انتظامی ٹریبونلوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ صوبائی حِسبہ کا نظام دستور کے تحت خصوصی طور پر صرف (exclusively) صوبائی اسمبلی کی ذمہ داری ہے۔ دستور کی فیڈرل لسٹ میں صرف  وفاقی محتسب کا ذکر ہے۔ مشترک لسٹ (concurrent list)میں محتسب کے ادارے کا ذکر موجود نہیں۔ اس لیے یہ صوبے کا خصوصی دائرہ اختیار (exclusive jurisdiction) ہے اور اس میں مرکز کی مداخلت صوبائی خودمختاری پر ایک ضرب کاری ہے جس کے بڑے دُوررس اثرات ہوسکتے ہیں۔

  • نجی زندگی میں مداخلت: یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ افراد کی نجی زندگی (privacy ) میں مداخلت ہوگی۔ لیکن حِسبہ بل کا مطالعہ کرلیجیے تمام امور کا تعلق اجتماعی زندگی اور حقوق الناس سے ہے۔ اسلام نے افراد کی نجی زندگی اور خاندان اور گھر کے تقدس کا حکم دیا ہے اور یہ بنیادی اسلامی اقدار میں سے ہے۔ حِسبہ کا نظام اس نجی زندگی اور تقدس کا محافظ ہوگا‘ اسے مجروح کرنے والا نہیں۔ بلاشبہہ اجتماعی برائیوں کی اصلاح اور اچھی اخلاقی اقدار کی ترویج اس کی ذمہ داری ہوگی لیکن اس بل کا اصل پیغام یہ ہے کہ بنیادی حقوق کی حفاظت ہو‘ مظلوموں کو ان کا حق مل سکے‘ عورتوں اور بچوں پر زیادتی نہ ہو اور سب سے بڑھ کر ہر انسان کو جہاں وہ ہے‘ وہیں بہ سہولت اور جلد انصاف مل سکے۔ اسی لیے ضلع اور تحصیل کی سطح پر خرابیوں کے ازالے کا انتظام کیا جا رہا ہے اور مقدمہ بازی کی جگہ مصالحت اور جرگے کے طریقے کو فوقیت دی جارہی ہے۔ محتسب کی خصوصی ذمہ داریوں میں یہ امور شامل ہیں:

                ۱-            پبلک مقامات پر اسلام کی اخلاقی اقدار کی پابندی کروانا۔

                ۲-            تبذیر یا اسراف کی حوصلہ شکنی‘ خصوصاً شادیوں اور اس طرح کی دیگر خاندانی تقریبات کے موقع پر۔

                ۳-            جہیز دینے میں اسلامی حدود کی پابندی کروانا۔

                ۴-            گداگری کی حوصلہ شکنی کرنا۔

                ۵-            افطار اور تراویح کے وقت اسلامی شعائر کے احترام اور ادب وآداب کی پابندی کروانا۔

                ۶-            عیدین کی نمازوں کے وقت عیدگاہوں یا ایسی مساجد کے آس پاس جہاں عیدین اور جمعہ کی نماز ہو رہی ہو‘ کھیل تماشے اور تجارتی لین دین کی حوصلہ شکنی کرنا۔

                ۷-            جمعہ اور عیدین کی نمازوں کی ادایگی اور انتظام میں غفلت کا سدباب کروانا۔

                ۸-            کم عمر بچوں کو ملازم رکھنے کی حوصلہ شکنی کرنا۔

                ۹-            غیرمتنازعہ حقوق کی ادایگی میں تاخیر کو روکنا اور مناسب داد رسی کرنا۔

                ۱۰-         جانوروں پر ظلم روکنا۔

                ۱۱-         مساجد کی دیکھ بھال میں غفلت کا سدباب کروانا۔

                ۱۲-         اذان‘ فرض نمازوں کے اوقات اور اسلامی شعائر کے احترام و آداب کی پابندی کروانا۔

                ۱۳-         لائوڈ اسپیکر کے غلط استعمال اور مساجد میں فرقہ ورانہ تقاریر سے روکنا۔

                ۱۴-         غیر اسلامی معاشرتی رسم و رواج کی حوصلہ شکنی کرنا۔

                ۱۵-         غیرشرعی تعویذ نویسی‘ گنڈے‘ دست شناسی اور جادوگری کا سدباب کرنا۔

                ۱۶-         اقلیتی حقوق کا تحفظ خصوصاً ان کے مذہبی مقامات کا اور ان مقامات کا جہاں مذہبی رسومات ادا کی جا رہی ہوں‘ تقدس ملحوظ رکھنا۔

                ۱۷-         غیر اسلامی رسومات جن سے خواتین کے حقوق متاثر ہوں خصوصاً غیرت کے نام پر قتل کے خلاف اقدام اٹھانا‘ میراث میں خواتین کو محروم رکھنے کا سدباب‘ رسم سورہ کا تدارک کرنا اور خواتین کے شرعی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا۔

                ۱۸-         ناپ تول کی نگرانی اور ملاوٹ کا تدارک کرنا۔

                ۱۹-         مصنوعی گرانی کا سدباب کرنا۔

                ۲۰-         سرکاری محکمہ جات میں رشوت ستانی کا تدارک کرنا۔

اگر ان اصلاحات پر قومی سطح پر عمل شروع ہو جائے تو اس سے انسانی حقوق کی حفاظت ہوگی یا ان کی پامالی___ اور معاشرے میں ظلم اور فساد میں کمی ہوگی یا اضافہ؟

  • طالبانائزیشن کا خدشہ: ایک اعتراض یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ یہ کوئی طالبانائزیشن نوعیت کی چیز ہے۔ یہاں طالبان کے دور کے حسن و قبح پر بحث مقصود نہیں۔ ہم صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ طالبان کے دور سے بہت پہلے کی تجاویز ہیں۔ ۱۹۴۹ء کی قرارداد مقاصد کا ہم نے ذکر کیا۔ اس کے بعد ۱۹۵۳ء میں پیش کردہ ناظم الدین کمیٹی کی رپورٹ کا مطالعہ کیجیے۔ وہ ۱۹۵۳ء میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے ادارے کے قیام کی سفارش کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں   باب دوم ریاست کے رہنما اصولوں کے بارے میں ہے۔ اس میں کہا گیا ہے:

۲- ریاستی پالیسی کے راہنما اصول درج ذیل ہوں گے:

(۱) ریاست اپنی سرگرمیوں اور پالیسیوں میں قرارداد مقاصد میں بیان کردہ اصولوں سے رہنمائی لے گی۔

(۲) حکومتی سرگرمیوں کے مختلف دائروں میں اقدامات خصوصاً وہ جو ذیل میں درج کیے  گئے ہیں‘ کیے جائیں گے تاکہ مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنی زندگیاں انفرادی اور اجتماعی طور پر قرآن پاک اور سنت کے مطابق مرتب کرسکیں۔

(ا) ان کے لیے سہولتیں فراہم کی جائیں گی تاکہ وہ سمجھیں کہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا کیا مطلب ہے‘ اور مسلمانوں کے لیے قرآن پاک کی تدریس کو لازمی کیا جائے گا۔

(ب) شراب نوشی‘ جوے اور قحبہ گری کی ان کی تمام مختلف شکلوں میں ممانعت کی جائے گی۔

(ج) ربا کا خاتمہ ‘ جتنی جلدی اس کا کیا جانا ممکن ہو۔

(د)  اسلام کے اخلاقی معیارات کو فروغ دینا اور برقرار رکھنا۔

(ح) زکوٰۃ ‘ اوقاف اور مساجد کا مناسب نظم۔

(۳) عوام کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرنے کے لیے اور امربالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے ایک تنظیم قائم کی جائے گی۔

(ماخذ: Constitutional Foundations of Pakistan ‘ڈاکٹر صفدر محمود‘ ص ۲۴)

اسلامی نظریاتی کونسل کے ۲۰۰۴ء کے تبصرے کا بار بار ذکر ہے۔ ہم اس پر گفتگو ذرا بعد میں کریں گے‘ پہلے یہ دیکھ لیجیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے دسمبر ۱۹۹۶ء میں اپنی مکمل سفارشات جو پارلیمنٹ کو دی تھیں ان میں حِسبہ کے قانون اور ادارے کی سفارش ہے اور مرکز ہی نہیں‘ صوبے کی سطح کے لیے ہے اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے ہے جس کے بارے میں اب وہ یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ معروف اور منکر کی وضاحت نہیں ہے اور اس سے قرآن و سنت کی تشریح مزید خلفشار کا باعث ہوگی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے:

ادارہ حِسبہ کے فرائض

اس حقیقت کے پیش نظر کہ ادارہ حِسبہ کا بنیادی مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے متعلق اُمت‘ نیز ریاست کی اجتماعی اور مشترکہ ذمہ داری پوری کرنا ہے اور اس کردار کو سامنے رکھتے ہوئے جو حِسبہ کے ادارے نے اسلامی ادوار میں ادا کیا ہے‘ ضروری ہوگا کہ پاکستان میں اگر موجودہ دور میں یہ ادارہ قائم کیا جائے تو اس کے مندرجہ ذیل فرائض متعین کیے جائیں:

                ۱-            ایسی برائیوں اور بدکاریوں کی روک تھام جو عام تعزیری قانون اور فوجداری ضابطے کے تحت قابلِ دست اندازی نہ ہوں۔

                ۲-            تاجروں اور بازاروں‘ مارکیٹوں میں تجارتی سرگرمیوں میں مشغول افراد سے اسلامی ضابطہ اخلاق کی پابندی کروانا۔

                ۳-            ایسی عبادتوں کی ادایگی کی نگرانی جو اجتماعی طور پر ادا کی جاتی ہیں‘ جیسے عید اور جمعہ کی نمازیں۔

                ۴-            ایسے اعمال و اقدامات کی روک تھام جو ایسی بدکاریوں اور برائیوں کی نشوونما کا سبب بنیں جن کی شریعت نے حوصلہ شکنی کی ہے۔

                ۵-            کاروباری معاملات میں روزانہ وقو ع پذیر ہونے والے افعال بد مثلاً ملاوٹ‘ دھوکادہی اور فریب کاری کے واقعات کی روک تھام۔

                ۶-            لوگوں کو اس امر سے روکنا کہ وہ اپنے زیرولایت افراد‘ ملازموں‘ جانوروں اور دیگر کمزوروں کے ساتھ ظالمانہ برتائو کریں۔

پاکستان میں حِسبہ کا ادارہ

کام میں پیچیدگی اور بے فائدہ تکرار سے بچنے کے لیے تجویز کیا گیا ہے کہ محتسب (ombudsman) اور ان کے سیکرٹریٹ کا موجودہ اُردو نام فی الوقت برقرار رکھا جائے اور حِسبہ کا ایک خودمختار اور الگ ادارہ قائم کیا جائے تاکہ وہ ایسے امور یا معمولی جرائم کی نگرانی کرسکے جن کی طرف اب تک کوئی توجہ نہیں کی گئی۔

قومی سطح پر جناب صدرمملکت کی جانب سے ایک وفاقی حِسبہ اتھارٹی قائم کی جانی چاہیے تاکہ وہ پاکستان میں حِسبہ کے کام کی نگرانی اور اس میں مطابقت و ہم آہنگی پیدا کرنے کے عمل کی  ذمہ داری پوری کر سکے۔ اس اتھارٹی کی سربراہی کسی ایسے ممتاز اور مستند عالم دین کو جو سپریم کورٹ کے شریعہ بنچ کا رکن بننے کی اہلیت کا حامل ہو یا کسی سینیرجج کے سپرد کی جانی چاہیے اور اس میں ممتاز علما نیز وفاقی حکومت کے سینیرافسران شامل ہونے چاہییں۔

صوبائی حِسبہ بورڈ

صوبائی سطح پر گورنر ہر صوبے میں وفاقی حِسبہ اتھارٹی کے مشورے سے ایک ’’حِسبہ بورڈ‘‘ قائم کرے گا تاکہ صوبے میں حِسبہ کے فرائض کی نگرانی اور ان میں تطبیق و ہم آہنگی کا عمل بروے کار لایا جاسکے‘ نیز صوبائی حکومت اور اس کی مختلف ایجنسیوں سے رابطہ استوار رکھا جاسکے۔

صوبائی بورڈ کی سربراہی کسی ایسے مستند عالم دین کے سپرد کی جائے جو وفاقی شرعی عدالت کا جج بننے کا اہل ہو اور اس میں سینیرعلما شامل کیے جائیں۔ اس طرح ہر ضلع میں ایک حِسبہ کونسل قائم کی جائے جس کے سربراہ ایک ممتاز شہری ہوں۔ انھیں ’’مہتمم حِسبہ‘‘ کہاجائے گا۔ حِسبہ کونسل ضلعی سطح پر اسلام کے معاشرتی اور اخلاقی ضابطے کے پیروکاروں کے اعمال کی نگرانی کرے گی اور گاہ بگاہ ’’معروف‘‘ کی اطاعت اور ’’منکر‘‘ کی روک تھام سے متعلق صورت حال کا جائزہ لیتی رہے گی۔ اسی طرح یہ ’’تحصیل حِسبہ کمیٹی‘‘ قائم کرسکے گی۔ صوبائی حکومت ضلعی حِسبہ کونسل کے مشورے سے ایک علاقے یا آبادی میں مناسب تعداد میں ’’ناظر حِسبہ‘‘ مقرر کرے گی۔ ناظرحِسبہ کی مدد کے لیے ضروری عملہ مقرر کیا جائے گا جس میں کچھ مسلح افراد بھی شامل ہوں گے جنھیں ’’حِسبہ فورس‘‘ کہاجائے گا۔ ناظر حِسبہ اور اس کے عملے کو ’’پبلک آفیسرز‘‘ تصور کیا جائے گا۔ ناظرحِسبہ مجسٹریٹ درجہ سوم کے اختیارات استعمال کرے گا۔ ناظرحِسبہ پاکستان کے کسی شہری کی شکایت پر کسی پبلک عہدہ دار کی اطلاع یا اپنے علم کی بنا پر دیگر چیزوں کے علاوہ مندرجہ ذیل معاملات کی نسبت اپنے قانونی اختیارات استعمال کرسکے گا۔

نظریاتی کونسل ۲۰۰۵ء کے اعتراضات

اسلامی نظریاتی کونسل کے اس ماڈل کا موازنہ حِسبہ بل سے کرلیجیے۔ جن باتوں پر آج وہ اعتراض کر رہے ہیں‘ کل انھی کا وہ حکم دے رہے تھے۔ اب آیئے ان کے تازہ اعتراضات کا جائزہ لیں:

پہلا اعتراض یہ ہے کہ مجوزہ صورت میں ادارہ حِسبہ کا قیام مقاصد شریعت کی تکمیل کے بجاے امربالمعروف ونہی عن المنکر کے بارے میں قرآن و سنت کے احکام کو متنازعہ بنانے کا باعث بن سکتا ہے اور مسائل کو حل کرنے کے بجاے مفاسد کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ اس کے لیے کوئی شرعی یا عقلی دلیل نہیں دی گئی۔ دستور کی دفعہ ۲۲۷ (۱) کی تشریح میں واضح کر دیا گیا ہے کہ ہر مکتب فکر کے لیے قرآن و سنت کے بارے میں وہی تعبیر معتبر ہوگی جو اس کی نگاہ میں معتبر ہے۔ اس کے بعد معروف اور منکر کے متنازعہ بن جانے کاکیا خطرہ ہے۔

واضح رہے کہ حِسبہ بل میں خصوصیت سے ’’غیرمتنازعہ حقوق‘‘ کی تنفیذ کی بات کی گئی ہے۔ رہا مسئلہ سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کا‘ تو اس کی واضح ترین مثال اسلامی نظریاتی کونسل کا حِسبہ بل پر موجودہ تبصرہ ہے جس میں وہ کسی دلیل کے بغیرکونسل کے ۱۹۹۶ء کے مؤقف کی تردید کررہے ہیں ___ اور اس طرح اگر موجودہ حکومت کی آواز سے ان کی آواز مل جاتی ہے تو اسے ’’توارد‘‘ ہی سمجھا جانا چاہیے جس پر سیاست کا کوئی سایہ نہیں پڑا۔

دوسرا اعتراض کونسل کے خیال میں امورحِسبہ میں ایسے امور کا اضافہ ہے جو معروف نہیں ہیں۔ لیکن کوئی نشان دہی نہیں کی گئی کہ وہ کون سی چیزیں ہیں اور کس شرعی دلیل کی بناپر وہ اس دائرے سے باہر رہنی چاہییں۔

ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ دوسرے قوانین موجود ہیں‘ ان سے فائدہ اٹھایا جائے اور نیا ادارہ نہ قائم کیا جائے۔ یہ محض ایک انتظامی مشورہ ہے جس کا شریعت سے ہم آہنگی اور تصادم سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا کام ان اداراتی یا انتظامی امور پر راے زنی نہیں‘ اس کا کام صرف یہ ہے کہ کسی قانون یا تجویز کے بارے میں یہ بتائے کہ آیا وہ شریعت سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں؟ ان کے تمام اعتراضات میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس میں شریعت کے کس حکم یا نص کی ادنیٰ سی خلاف ورزی کی بھی نشان دہی کی گئی ہو۔ جج صاحب نے اپنے زعم میں تمام امور پر عالمانہ رائے دی تھی لیکن اگر کوئی بات اس تبصرے میں نہیں ہے تو وہ شریعت سے مطابقت یا  عدمِ مطابقت کے بارے میں کوئی مبنی بر دلیل بات ہے۔ یہاں ہم یہ بھی وضاحت کردیں کہ ۱۹۹۶ء کی تجاویز میں اسلامی نظریاتی کونسل نے مرکز اور صوبوں دونوں مقام پر موجود محتسب کے ادارے کے ساتھ حِسبہ کے ادارے کا مشورہ دیا تھا۔ جہاں تک صوبہ سرحد کا تعلق ہے وہاں پہلے سے محتسب بھی موجود نہیں اور وہ حِسبہ کی شکل میں ایک جامع ادارہ قائم کرنا چاہ رہے ہیں۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ کونسل اور اس کی سفارشات مرتب کرنے والے جج صاحب کے مبلغ علم کی کیا داددیں جب وہ فرماتے ہیں کہ فقہ جعفریہ میں حِسبہ کے احکام موجود نہیں ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی ۱۹۹۶ء کی سفارشات سنّی اور شیعہ علما نے مرتب کی تھیں۔ صفوی اور اسماعیلی دور میں حِسبہ کا ادارہ اُسی طرح قائم تھا جس طرح دولت عثمانیہ اور تغلق بادشاہوں کے دور میں تھا۔ ایران اور یمن میں بھی یہ اسی طرح موجود تھا جس طرح شام‘ عراق‘ ترکیہ اور ماوراء النہر میں۔ بلادمغرب اور مصر کے ہر دور میں موجود تھا۔ جس طرح امام غزالی اور امام ابن تیمیہ نے حِسبہ کا دفاع کیا ہے اسی طرح نظام الملک طوسی نے سیاست نامہ میں کیا ہے۔ نظریاتی کونسل اس دعوے کے لیے کیا دلیل اور تاریخی شواہد اپنے پاس رکھتی ہے؟صوبہ سرحد کی شریعت کونسل میں سنی علما کے ساتھ اہلِ تشیع کے نمایندے بھی شریک تھے جنھوں نے حِسبہ بل کا مسودہ مرتب کیا ہے۔ فاعتبروا یااُولی الابصار۔

کونسل کا ایک اور اعتراض محتسب کے تقرر کے لیے گورنر کو وزیراعلیٰ کے مشورے کا پابند بنانے پر ہے جسے قرارداد مقاصد اور دستور کی دفعہ ۱۷۵ (۳)سے متصادم قرار دیا گیا ہے۔ اس سے زیادہ مضحکہ خیز اعتراض کا اور وہ بھی ایک جج کی طرف سے جسے نظریاتی کونسل کی تائید حاصل ہے‘ تصور کرنا محال ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ دستور کی دفعہ ۱۰۵ کے تحت گورنر اپنے صواب دیدی معاملات کو چھوڑ کر وزیراعلیٰ کے مشورے کا پابند ہے جو پارلیمانی نظام کا بنیادی اصول ہے۔ اگر حِسبہ بل میں یہ لکھا ہوا نہ ہو تب بھی تودفعہ ۱۰۵ کے تحت گورنر وزیراعلیٰ کے مشورے کا پابند ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان تینوں صوبوں میں جہاں محتسب کا قانون موجود ہے‘ گورنر تقرر کرتا ہے مگر دفعہ ۱۰۵ کے تحت وزیراعلیٰ کے مشورے کا پابند ہے۔ اگر وہ عدلیہ کی انتظامیہ سے علیحدگی کو متاثر نہیں کرتا تو یہاں کیسے کرے گا؟ پھر جج صاحب بھول جاتے ہیں کہ عدلیہ کے تمام ججوں کا تقرر کسی آزاد عدالتی طریقے سے نہیں ہوتا بلکہ دستور کے تحت صدر‘ وزیراعظم کے مشورے سے کرتا ہے۔ چیف جسٹس کا تقرر صدر کرتا ہے اور اس تقرری میں وہ سینیارٹی کا پابند نہیں۔ دوسرے ججوں کے تقرر میںچیف جسٹس کا مشورہ ضرور شامل ہے مگر سب کو علم ہے کہ ججوں کا تقرر کس طرح ہوا ہے۔ امریکا میں ججوں کا تقرر صدر کی تجویز پر ہوتا ہے اور سینیٹ جو خود ایک سیاسی ادارہ ہے اس کی توثیق کرتا ہے۔ اگر یہ سب عدلیہ کو انتظامیہ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتے تو پھر حِسبہ بل میں وزیراعلیٰ کا مشورہ ہی کیوں سیاسی دراندازی قرار پاتا ہے___؟

کونسل کے بیشتر اعتراضات انتظامی نوعیت کے ہیں۔ ان میں سے چند سے حِسبہ بل پر نظرثانی کے موقع پر فائدہ اٹھایا بھی گیا ہے اور مزید استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ محتسب کی برطرفی اور میعاد ملازمت میں توسیع کے بارے میں کونسل کے مشوروں پر غور ہونا چاہیے لیکن ہم پورے ادب سے عرض کریں گے کہ یہ سب سفارشات انتظامی نوعیت کی ہیں‘ جب کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا کام دستور کی دفعہ ۲۲۹ (بی) اور ۲۳۰ کے تحت صرف اتنا ہے کہ یہ مشورہ دے کہ:

ایک مجوزہ قانون اسلامی احکامات کے خلاف ہے یا نہیں؟

اور یہ رائے بھی محض کسی ضمنی تبصرے (obitor dicta) کے انداز میں نہیں دی جاسکتی۔ ہر دعوے یا اعتراض کے حق میں قرآن وسنت سے دلائل و شواہد لانا ہوں گے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ۱۱نکات پر مشتمل اس رائے میں قرآن و سنت سے ایک بھی دلیل نہیں دی گئی ہے‘ نہ صراحتاً اور نہ اشارتاً۔ کونسل کے اس رویے کو علمی کہا جائے‘ شرعی کہا جائے یا سیاسی؟ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔

اخلاقی اقدار اور احتساب

حقوق انسانی کے نام نہاد علم بردار بھی اس جنگ میں بڑے طمطراق سے کود گئے ہیں اور چلّا چلّا کر کہہ رہے ہیں کہ فرد کی آزادی خطرے میں ہے اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کے نام پر لوگوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالا جا رہا ہے۔ ہم اس سے پہلے دستور کی دفعات کے حوالے سے بتاچکے ہیں کہ بنیادی حقوق کے تمام امور اخلاق‘ شائستگی اور ملک کی سلامتی سے مشروط ہیں۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حقوقِ انسانی کی ساری دُہائی ظالموں اور مجرموں کے حقوق ہی کے لیے کیوں دی جاتی ہے۔ کیا اس مظلوم انسان کے کچھ حقوق نہیں جو چوروں‘ ڈاکوئوں اور زانیوں کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بن رہا ہے۔ حِسبہ بل کمزوروں کو طاقت وروں کی گرفت سے نکالنے کے لیے ہے اور اُن تک انصاف پہنچانے کے لیے ہے جو نہ انصاف کو خرید سکتے ہیں اور نہ ان کی رسائی اُونچے ایوانوں تک ہے۔ آج بعداز خرابیِ بسیار اخلاقی‘ سماجی اور معاشرتی امور کو قانون کی دسترس میں لانے کی کوشش ساری دنیا میں کی جا رہی ہے۔ امریکا کی کانگریس میں جہاں اور بہت سی کمیٹیاں ہیں جو اپنے اپنے دائرہ کار میں احتساب کا کام انجام دیتی ہیں‘ وہیں ایک اخلاقیات کمیٹی (Ethics Committee) بھی ہے جو ممبران کے اخلاقی رویے پر نگاہ رکھتی ہے۔ آج کرپشن ایک عالمی مسئلہ بن گیا ہے‘ اس کے نتیجے میں اخلاقی امور کو احتساب کے باب میں مرکزی حیثیت دی جا رہی ہے۔ بڑی بڑی کمپنیاں جس طرح بدعنوانی کا مظاہرہ کررہی ہیں‘ اس کے نتیجے میں تجارتی اخلاقیات (business ethics) اب تعلیم اور قانون دونوں کے سلسلے میں ایک متعلقہ موضوع بن گئی ہے۔ اور اب تو اکائونٹنٹس اور آڈیٹرز کے لیے بھی نئے اخلاقی ضابطوں اور قوانین کی باتیں ہورہی ہیں۔

آج دنیا کے ۱۲۰ ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں محتسب (Ombudsman) کا ادارہ کام کر رہا ہے۔ یہ صرف انتظامی زیادتیوں کے تدارک ہی کے لیے مصروف عمل نہیں بلکہ سماجی اور اخلاقی امور بھی اس کے دائرے میں آرہے ہیں مثلاً کینیڈا میں Federal Correctional Investigator کا قیام بحیثیت محتسب ہوا ہے جس کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں Federal Students Aid Ombudsman قائم کیا گیا ہے۔ اسی طرح تعلیم‘ صحت‘ بچوں کے تحفظ‘ کمیونٹی کے مسائل اور فیملی کے معاملات تک کے بارے میں محتسب کے مخصوص ادارے قائم کیے جارہے ہیں۔ بلاشبہہ اجتماعی خرابیوں کے تدارک کے لیے وہ راستہ اختیار نہیں کیا جانا چاہیے جو فرد کی آزادی‘ عزتِ نفس‘ چادر اور چاردیواری کی حرمت کو پامال کرنے والا ہو۔ بے جا تجسس اور عیب جوئی (witch-hunting ) ایک دوسری برائی اور انتہا ہوگی۔ توازن کا راستہ ہی معقولیت کا راستہ ہے لیکن محض یہ بات کہ اسلامی اخلاقی اقدار کا تحفظ بھی محتسب کے دائرے میں آتا ہے‘ فرد کی آزادی کے لیے خطرہ سمجھ لینا صحیح نہیں۔ آزادی کے ساتھ ذمہ داری لازم و ملزوم ہیں۔ نہ ایک انتہا درست ہے اور نہ دوسری۔ محتسب کا نظام بھی اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب وہ ان تمام نزاکتوں کو پوری طرح ملحوظ رکھے‘ اور کوئی وجہ نہیں کہ اسلامی اقدار کی حفاظت اور ترویج کے لیے جو نظام قائم کیا جائے‘ وہ ان حدود کا خیال نہ رکھے۔

محتسب کے اختیارات

ایک حلقے کی طرف سے حِسبہ بل کی ان دفعات کو نشانۂ تنقید بنایا جا رہا ہے جن میں محتسب کو   توہینِ عدالت (contempt of court) کے سلسلے میں وہی اختیارات دیے گئے ہیں جو عدالتوں کو حاصل ہیں۔ خود اپنے لیے قواعد و ضوابط بنانے پر بھی تیوریوں پر بل پڑ رہے ہیں۔ تضادات دُور کرنے کے حق پر بھی انگشت نمائی ہے۔ محتسب کے احتساب سے بالا ہونے کا دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے۔ راقم خود توہینِ عدالت کے پورے تصور کے سلسلے میں متفکر رہا ہے لیکن جو بات مضحکہ خیز ہے‘ وہ یہ ہے کہ جس نظام قانون کے تحت ہم زندگی گزار رہے ہیں یہ تمام چیزیں اس کا جانا بوجھا حصہ ہیں۔ اگر تمام مقامات پر نظرثانی کی جائے تو ایک قابلِ فہم بات ہے لیکن ایک حق ایک جگہ آپ دے رہے ہیں اور اس سے فسطائیت رونما نہیں ہوتی اور استبداد کا کوئی خدشہ وہاں نظر نہیں آتا لیکن اگر اسی نوعیت کا کوئی انتظام حِسبہ بل میں موجود ہے تو اس میں سارے کیڑے نکالے جا رہے ہیں‘ مثلاً وفاقی محتسب کے قانون مجریہ ۱۹۸۳ء کو لے لیجیے۔ اس میں دفعہ ۱۴ میں وہ تمام اختیارات ہیں جن کا تعلق معلومات حاصل کرنے اور گواہوں کی طلب اور جرح کے بارے میں ہے۔ دفعہ ۱۵  مکان کی تلاش (search of premises) کے بارے میں اور دفعہ ۱۶ توہین پر سزا کا اختیار (power to punish for contempt) سے متعلق ہے۔ دفعہ ۲۹ میں دائرہ اختیار پر پابندی (Bar of Jurisdiction) ہے جس کی رو سے کسی عدالت یا مجاز ادارے کو یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ حکم نامہ کے تحت محتسب کے کیے گئے کسی اقدام کے خلاف حکم امتناعی (stay order) جاری کرے یا کوئی اقدام کرے۔

دفعہ ۳۷ میں order to override other laws کی شق موجود ہے۔ The Punjab Office Ombudsman ۱۹۹۷ء میں بھی یہی ساری  شقیں (۱۵‘ ۱۶‘ ۱۷‘ ۱۸‘ ۲۹‘ ۳۷‘ ۳۸) موجود ہیں۔

بلوچستان اور سندھ کے قوانین بھی اس سے مختلف نہیں۔ یہ تو محتسب کا معاملہ ہے۔ ملکی قوانین میں تو بنک کاری ٹریبونل اور لیبر ٹریبونل تک میں یہ ساری دفعات کم و بیش انھی الفاظ میں موجود ہیں۔ پارلیمنٹ ہی کو نہیں اس کی کمیٹیوں کو بھی توہین پر سزا کے اختیارات حاصل ہیں۔ دسیوں قوانین ہر سال منظور کیے جارہے ہیں جن میں عدالتوں کے دائرہ اختیار سے استثنا (Exclusion of Jurisdiction of Courts) یا دائرہ اختیار کو نظرانداز کرنے (Overriding Jurisdiction) کی دفعات موجود ہیں حتیٰ کہ صدر کے لیے دو عہدوں کا جو غیرقانونی بل منظور کیا گیا ہے‘ اس تک میں موجود ہے کہ وہ دو عہدے رکھ سکتے ہیں اور دستور‘ قانون اور عدالت کے کسی فیصلے کا اس پر اطلاق نہیں ہوگا (Act No. VII of 2004)۔ دستور کی دفعہ ۲۷۰ اے اے میں صدر اپنے تمام احکامات کو اس طرح عدالتوں سے محفوظ کرتے ہیں کہ اسے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ان درجنوں نہیں سیکڑوں قوانین سے فسطائیت نہیں آتی اور استبداد کے دروازے نہیں کھلتے تو ایک حِسبہ بل ہی کے ذریعے یہ قیامت کیسے ٹوٹ پڑے گی؟

ہم نے حِسبہ بل پر کیے جانے والے اعتراضات کا جو جائزہ لیا ہے اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ یہ مخالفت دلائل کی قوت سے محروم ہے‘ نیز ملک کے دستور‘ قانونی نظام اور دوسرے متعلقہ اداروں کے بارے میں پائے والے قوانین اور ضابطوں میں اور اس قانون میں کوئی تناقض نہیں۔ بلاشبہہ اسے بہتر بنایا جا سکتا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ صوبہ سرحد کی حکومت اور اسمبلی اس سے غافل نہیں ہوگی لیکن یک طرفہ طور پر اور سارے حقائق اور شواہد کو نظرانداز کر کے صرف اس بل کو نشانۂ تنقید بنانا حق و انصاف کے منافی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ سیکولر لابی اور مرکزی حکومت حِسبہ بل کے نام پر اسلامی اصلاحی پروگرام کی طرف پیش رفت کو روکنا چاہتے ہیں۔ نیز مرکزی حکومت صوبہ سرحد میں اپنے چہیتے افراد اور جماعتوں کی شکست کا بدلہ لینا چاہتی ہے۔ ہم صاف الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں کہ دستور اور قانون سے یہ کھیل کھیلنا ان حضرات کو ان شاء اللہ بہت مہنگا پڑے گا اور متحدہ مجلس عمل اپنے اصولوں پر ہرگز سمجھوتا نہیں کرے گی اور اس قانونی جنگ اور سیاسی یلغار کا بھرپور مقابلہ کرے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ اسے کامیابی ہوگی اس لیے کہ حق اس کے ساتھ ہے ۔

چیلنج اور اس کے تقاضے

ہم اس موقع پر خود متحدہ مجلس عمل کی قیادت اور کارکنوں سے بھی یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ حِسبہ بل پر بحث کے باعث ایک بنیادی سیاسی کش مکش صوبہ سرحد ہی نہیں‘ پورے ملک میں مرکزی اہمیت اختیار کرچکی ہے جو پاکستان کی شناخت‘ اس کے حقیقی نظریاتی وجود اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی اور اسلام کی اقدار اور نظامِ حیات کو قائم کرنے میں ریاست کے کردار سے متعلق ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے مؤقف کو دلیل کی قوت سے ثابت کریں اور جو افراد کنفیوژن کا شکار ہورہے ہیں‘ ان کو اپنے مؤقف کی صداقت کا قائل کریں۔ یہ دعوتی چیلنج ہمارے اور اس ملک کے مستقبل کے لیے بڑا فیصلہ کن ہے۔

ابھی حِسبہ بل کو نہ معلوم کتنے مرحلوں سے گزرنا ہوگا اور یہ جنگ نہ معلوم کیا کیا رخ اختیار کرتی ہے‘ ہمیں اس کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ یہ جنگ علمی اور فکری جنگ بھی ہے‘ اور عملی اور سیاسی بھی___ اور صاف نظر آرہا ہے کہ دستوری اور قانونی بھی۔ ہر میدان میں اور ہر محاذ پر ہمیں اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔

دوسری بات جو ہماری نگاہ میں پہلی سے بھی زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ اگر اللہ کی مدد اور عوام کی تائید سے ہم حِسبہ بل کو کتابِ قانون کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں‘ اور ان شاء اللہ ہم ضرور ہوں گے ‘تو پھر ہماری اصل آزمایش کا دور شروع ہوگا۔ اس بل کے قانون بن جانے کے بعد اس ادارے کاصحیح خطوط پر وجود میں آنا اور اس کے نتیجے میں صوبہ سرحد کے عوام کی زندگی میں مثبت تبدیلی کا نظر آنا بے حد ضروری ہے۔ یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم مندرجہ ذیل اہداف کے حصول کے لیے پوری دیانت سے کام کریں۔

۱-  اس کام کے لیے صوبائی‘ ضلعی اور تحصیل کی سطح پرعلمی‘ اخلاقی اور عوامی شہرت کے اعتبار سے بہترین افراد کا انتخاب صرف میرٹ کی بنیاد پر ہو‘ جو ایمان‘ علم ‘تقویٰ اور خدمتِ خلق کے جذبے سے اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے سرگرم ہوجائیں۔ صحیح افراد کا انتخاب ہمارا پہلا بڑا چیلنج ہوگا اور دراصل ہمارا امتحان بھی۔

۲-  پوری محنت کے ساتھ صوبائی‘ ضلعی اور بالآخرتحصیل کی سطح تک کام کرنے کے لیے مفصل قواعد و ضوابط (Rules of Business)کی تیاری۔ یہ اس ادارے کے صحیح خطوط پر وجود میں لانے اور عوام کو اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لائق بنانے کے لیے ضروری ہے۔

۳-  ایک  چیز جس کا تجربہ حالیہ بحث کے دوران بھی ہوا ہے‘ وہ یہ ہے کہ ہمارے اپنے کام میں پیشہ ور انداز کے اضافے کی ضرورت ہے۔ خلوص اولین ضرورت ہے لیکن خلوص کے ساتھ زمینی حقائق اور حالات کا ادراک اور انسانی زندگی کی پیچیدگیوں کو سامنے رکھتے ہوئے تجربات کی روشنی میں قابلِ عمل حل تلاش کرنے ہی سے حالات بدل سکتے ہیں۔ اس کام میں اعتماد کے ساتھ مشورہ اور جماعتی سوچ سے بالا ہوکر اور پوری قوم کو ساتھ لے کر چلنے کے جذبے کے ساتھ ہی کام صحیح معنی میں ثمرآور ہوسکتا ہے۔ یہ سارا کام دیانت اور للہیت کے ساتھ قاعدے اور قانون کے مطابق اور بہترین معیار کی مہارت کے ساتھ انجام دینا ہماری اولین ذمہ داری ہے۔

۴-  حِسبہ کے اصل اسلامی تصور کو اس کی تفصیلات کے ساتھ اور اس کی اصل روح کے ساتھ سمجھنا اور اس سے بھی بڑھ کر دوسروں کو سمجھانا نہایت ضروری ہے۔ ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم اپنے اچھے اچھے منصوبوں کو بھی مناسب انداز میں اور بروقت ٹھیک طور پر نمایاں نہیں کرپائے۔ اگر تجارت کی زبان استعمال کی جائے تو مارکیٹ میں کامیابی کے لیے مال کا اچھا ہونا ہی کافی نہیں‘ برانڈ‘ پیکنگ‘ مارکیٹنگ اور تشہیر و ابلاغ سب اہم ہیں اور کسی ایک کا غیرمعیاری ہونا یا اس میں کوئی کسر رہ جانا‘ باقی سب کو متاثر کرتا ہے۔

ضروری ہے کہ ہمارے کارکن اور قائدین‘ سب ان تمام امور کا خیال رکھیں۔ اسلام نے جو تعلیم ہمیں دی ہے‘ اس میں اللہ سے وفاداری کے ساتھ انسانوں کے ساتھ انصاف اور مجبوروں اور کمزوروں کا ہم دم اور ہم ساز بننا مطلوب ہے۔ ایک مسلمان کی بنیادی حیثیت اللہ کے خلیفہ اور اسلام کے داعی کی ہے۔ اور داعی ایک ڈاکٹر کے مانند ہوتا ہے جس کی ساری لڑائی مرض سے    ہوتی ہے تاکہ مریض کو بچاسکے۔ ہمارا رویہ اپنے مخالفین کے ساتھ بھی داعیانہ ہونا چاہیے اور ان کو بھی  جیتنا ہمارا اصل ہدف ہے۔ اس لیے ہمیں انصاف کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور جس کا جو حق ہے‘ خواہ اس کا تعلق کسی بھی گروہ اور جماعت سے ہو‘ اسے اس تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ حِسبہ کی ذمہ داری خود احتسابی اور اجتماعی احتساب دونوں کے بغیر ٹھیک ٹھیک ادا نہیں ہوسکتی۔ ہم نے اس میدان میں قدم رکھ کر بہت بڑی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ اب ہم سب کا امتحان ہے۔

آیئے‘ اللہ پر بھروسا کرکے‘ خلوص‘ محنت اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے اس امتحان میں کامیابی کے لیے جدوجہد کریں کہ ہماری اصل منزل تو عوام کی خدمت اور انسانوں کے درمیان انصاف کے قیام کے ذریعے اپنے رب کی رضا کا حصول اور آخرت کی کامیابی ہے۔ اگر ہماری نگاہ اپنی اصل منزل پر ٹھیک ٹھیک جمی رہے تو ان شاء اللہ اس امتحان میں بھی ہم کامیاب ہوں گے۔وماتوفیقی الا باللّٰہ۔


نوٹ:  حِسبہ کے نظری‘ عملی‘ تاریخی اور انتظامی پہلوئوں پر درجنوں کتابیں موجود ہیں۔ لیڈن‘ ہالینڈ سے شائع ہونے والی مستشرقین کی انسائیکلوپیڈیا آف اسلام ‘ پنجاب یونی ورسٹی سے شائع ہونے والی اُردو دائرہ معارف اسلامیہاور ترکی سے شائع ہونے والی تازہ ترین انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں اس موضوع پر مبسوط مقالے دیکھے جاسکتے ہیں۔

اس ادارے کی تاریخ اور تصور کی وسعت کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل کتب کا مطالعہ مفید ہوگا۔

۱- احیاء العلوم ، غزالی‘ جلد دوم

۲- الفصل فی الملل، ابن حزم‘ جلدچہارم

۳- الرسالہ فی الحسبہ‘ ابن تیمیہ

۴- الحسبۃ والمحتسب فی الاسلام از زیادۃ‘ مطبوعہ مصر‘ ۱۹۶۳ء

۵- اسلامی ریاست میں محتسب کا کردار از ڈاکٹر ایم ایس ناز‘ ادارہ تحقیقات اسلامی‘ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی‘ اسلام آباد‘ ۱۹۹۹ء

6. The Financial and Administration Organization and Development in Othman Egypt, 1517-1798 by Stanford J. Shaw, 1962.

7. The Social Structure of Islam by R. Levy, Cambridge, 1957.

8. The Administration of Justice in Medieval India by M.B. Ahmad, 1941.

9. Administration of Justice in Delhi Sultanate  by M.B. Hew.

(کتابچہ دستیاب ہے‘ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور۔ قیمت: ۶ روپے)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ تاریخ سے سبق کم ہی لیا جاتا ہے اور ہر دور میں مغرور اور خودسر حکمران وہی غلطیاں دہراتے چلے جاتے ہیں‘ جن کے سبب ان کے پیش رو عبرت کا نشان بنے تھے۔ یہ مقولہ کہ ’’جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجانے میں مشغول تھا‘‘ضرور ضرب المثل بن گیا چنانچہ ہر دور کے نیرو اپنی اپنی دل چسپی کے شغل میں منہمک نظر آتے ہیں اور جلتے در و دیوار انھیں اپنے خوابِ غفلت سے بیدار کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ہماری اپنی خودپسند قیادت کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔

مشرقی پاکستان میں جب آئینی اداروں کے کردار کو تسلیم کرنے سے انکار کے نتیجے میں محرومی اور بے چینی کا لاوا پک رہا تھا‘ تو اس وقت کا فوجی حکمران اسے ’’چند شرپسندوں کی بغاوت‘‘ قرار دے کر اعلان کر رہا تھا کہ ’’میں ہتھیاروں کی زبان استعمال کرکے سب کو سرنگوں کر لوں گا‘‘۔ جن اہلِ دانش نے اس کو مشورہ دیا کہ ہتھیاروں کی زبان نہیں‘ دلیل کا ہتھیار استعمال کرو تو اس نے اسے کمزوری اور بزدلی قرار دے کر رد کر دیا اور پھر اسی سال ۱۶ دسمبر کو قائداعظم کے پاکستان کے دوٹکڑے ہوگئے۔ آج ایک دوسرا فوجی حکمران پھر طاقت کی زبان استعمال کرنے کی باتیں کر رہا ہے اور ’’شرپسندوں کو سخت کارروائی کا انتباہ‘‘ دے رہا ہے‘ اور جو سیاسی قیادت جو حالات کی نزاکت کو محسوس کرتی ہے اور مسئلے کا سیاسی حل نکالنا چاہتی ہے افسوس ہے کہ وہ کمزوری‘ غفلت اور وقت گزاری کی مرتکب ہو رہی ہے۔ پارلیمنٹ موجود ہے مگر اسے اس مسئلے پر بحث کرنے اور اس کا   حل نکالنے کی اجازت نہیں۔ ایک پارلیمانی کمیٹی نے تین چار مہینے کی تگ و دو اور تمام متعلقہ عناصر سے کامیاب مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل کی کچھ واضح راہیں تلاش کیں‘ مگر اس کا کام بھی معرضِ خطر میں ہے___ آخر اس دلدل سے نکلنے کی کیا راہ ہے؟مستقبل پر بات کرنے سے پہلے صحیح صورت حال‘ اصل مسائل اور ان کے حل کے نقشۂ راہ پر مختصر گفتگو ہوجائے تو پھر شاید سنگ ہاے راہ سے نجات کا راستہ بھی نکالا جا سکے۔

بلوچستان پاکستان کے رقبے کا ۴۵ فی صد اور آبادی کے تقریباً ۶ فی صد پر مشتمل ہے۔ تقریباً ۹۰۰ کلومیٹر کا ساحلی علاقہ اور ایران اور افغانستان سے سیکڑوں کلومیٹر کی مشترک سرحد ہے۔ تیل‘ گیس‘ کوئلے اور دوسری قیمتی معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود اس وقت یہ ملک کا غریب ترین صوبہ ہے۔ بلوچ اور پشتون‘ آبادی کا تقریباً ۸۸ فی صد ہیں اور آپس میں برابر برابر ہیں‘ جب کہ باقی ۱۲ فی صد وہ آبادکار (settlers) ہیں جو آہستہ آہستہ اس سرزمین کا حصہ بن چکے ہیں۔ قبائلی نظام اب بھی مضبوط ہے اور اس کی روایات معاشرے کی شناخت ہیں۔ معاشی ڈھانچا  نہ ہونے کے برابر ہے اور آبادی کے دُور دراز علاقوں تک پھیلے ہونے کی وجہ سے مواصلات اور سہولتوں کی فراہمی کا کام مشکل اور نسبتاً مہنگا ہے۔ جو سہولت دوسرے صوبوں میں مثال کے طور پر ایک کروڑ روپے کے خرچ سے میسر آسکتی ہے صوبہ بلوچستان میں تین سے چار گنا زیادہ اخراجات درکار ہیں۔ اس بنیادی حقیقت کو کسی حکومت نے محسوس نہیں کیا۔ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ وسائل کی فراہمی کا کام کبھی بھی اس صوبے کے لیے انصاف اور ضروریات کی بنیاد پر نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں‘ دیہی علاقے میں غربت پاکستان کی اوسط غربت سے تقریباً دگنی ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وہ گیس جو سوئی سے نکل کر کراچی سے پشاور تک روشنی اور حرارت فراہم کر رہی ہے خود سوئی کی ۹۹ فی صد آبادی اور بلوچستان کی ۹۵ فی صد آبادی اس کی روشنی اور تمازت سے محروم ہے۔

موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس صوبے کے لیے کئی بڑے منصوبے (mega projects) اور ڈھائی ہزار کے قریب دوسرے ترقیاتی منصوبے زیرتکمیل ہیں اور چھے سال میں ۱۲۰ارب روپے اس کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ میرانی ڈیم‘ گوادر پورٹ اور مکران ہائی وے پر کام اس کا کارنامہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود بلوچستان میں نفرت اور بے چینی کی لہریں کیوں اٹھ رہی ہیں؟ عالم یہ ہے کہ ۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۴ء کے دو سال میں ۱۵۲۹ راکٹ فائر کیے گئے ہیں‘ ۱۱۳ بم دھماکے ہوئے ہیں‘ تین چینی انجینیرہلاک ہوئے ہیں اور اس کے علاوہ ۱۰۰ سے زیادہ افراد اب تک جاں بحق ہوچکے ہیں اور کئی سو زخمی۔بگتی علاقے کا محاصرہ ہے‘ ڈاکٹر شازیہ کا المناک واقعہ رونما ہوا ہے اور جب سوئی گیس کی رسد متاثر ہوتی ہے‘ اور یہ بار بارہوئی ہے تو ملک کو روزانہ نقصان ۱۵ سے ۲۰ کروڑ روپے کا ہوتا ہے۔ انسانی جانوں کا ضیاع سب سے بڑا المیہ ہے جس کی کوئی قیمت نہیں ہوسکتی۔

یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ کیا یہ محض چند سرداروں کی سرکشی شرارت ہے جو اپنے ذاتی فائدے کی خاطر صوبے کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں؟ کیا اس میں بیرونی ہاتھ ہے کہ بھارت کے اپنے عزائم ہیں اور وہ گوادر بندرگاہ کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ امریکا کی اپنی سوچ ہے اور بلوچستان میں چین کے عمل دخل پر وہ مضطرب ہے۔ گوادر ہو یا سینڈک‘ ہر جگہ اسے چینیوں کا کردار نظرآتا ہے۔ ایران کے حوالے سے امریکا کے خفیہ اداروں کا کردار اور بلوچستان کی سرزمین سے خلق کے مجاہدین کے احیا کے اشارے مل رہے ہیں جن کو قوم پرست کہا جاتا ہے‘ ان کے اپنے اہداف ہیں اور ہوسکتے ہیں۔ ان سب نظریات اور تصورات میں کچھ نہ کچھ صداقت بھی ہوسکتی ہے لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ مخالف قوتیں حالات کو اسی وقت استعمال کر سکتی ہیں جب ان کے لیے حالات سازگار ہوں اور بگاڑ موجود ہو اور مسائل کو بروقت اور صحیح طریقے پر حل کرنے کی کوشش نہ کی جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ بس قوت کے ذریعے سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔

مجھے پچھلے سال بلوچستان کے حالات کا زیادہ گہرائی سے مطالعہ کرنے اور صوبے کے چند اہم مقامات کا تفصیلی دورہ کرنے‘ بچشم سر حالات کا مشاہدہ کرنے اور درجنوں ذمہ دار افراد سے حقائق کو جاننے اور مسائل کو سمجھنے کا موقع ملا۔ جہاں مجھے یقین ہے کہ آج بھی تمام معاملات سیاسی عمل اور افہام و تفہیم کے ذریعے حل ہوسکتے ہیں‘ وہیں میرا یہ احساس اور بھی قوی ہوگیا ہے کہ    کچھ برسرِاقتدار قوتیں مسائل کو حل کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتیں بلکہ انھیں مزید الجھانے  اور بگاڑنے کے درپے ہیں۔ اس کی نمایاں ترین مثال وہ پارلیمانی کمیٹی ہے جس کا اعلان   چودھری شجاعت حسین نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے مختصر دور میں کیا تھا اور جو اس حیثیت سے ایک منفرد کمیٹی تھی کہ اس میں پارلیمنٹ کی تمام سیاسی جماعتیں شریک تھیں بشمول قوم پرست جماعتیں‘ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس میں برسرِاقتدار جماعتیں اور اس کے حلیفوں کے نمایندوں کی تعداد ۱۶ تھی‘ جب کہ حزب اختلاف سے متعلق نمایندوں کی تعداد ۲۲ تھی۔ یہ کمیٹی ۷ اکتوبر ۲۰۰۴ء کو قائم ہوئی اور اسے ۹۰ دن میں اپنا کام مکمل کرلینا تھا۔

اِس پارلیمانی کمیٹی نے مزید دو کمیٹیاں قائم کیں: ایک سینیٹر وسیم سجاد کی سربراہی میں جس کا کام دستوری معاملات پر سفارشیں پیش کرنا تھا اور دوسری سینیٹر مشاہد حسین سید کی سربراہی میں جسے سیاسی اور معاشی معاملات پر سفارشات مرتب کرنا تھا۔ مجھے دوسری کمیٹی میں کام کرنے کا موقع ملا اور مجھے خوشی ہے کہ اس کمیٹی نے کھلے دل سے اور صرف ملک کے مفاد میں اپنی پوری کارروائی کی اور جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر‘ ملک کے مفاد اور انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر اپنی متفقہ سفارشات مرتب کیں جن کو ۵ جنوری ۲۰۰۵ء کو آخری شکل دے دی گئی لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ سفارشات آج تک پارلیمنٹ کے سامنے باضابطہ طور پر نہیں آسکی ہیں‘ ان پر عمل درآمد کی بات تو دُور کی چیز ہے۔ اس عرصے میں (مارچ ۲۰۰۵ئ) کے سنگین واقعات رونما ہوئے جن کے نتیجے میں حالات مزید بگڑ گئے اور اس وقت طوفان کچھ تھما ہوا ہے مگر لاوہ پک رہا ہے اور حکمران اپنی ’’راج ہٹ‘‘ پر نازاں اور کمیٹی کا ارکان اس تغافل پر نالاں ہیں۔

یہ کہنا محال ہے کہ کمیٹی اپنی رپورٹ کب اور کس طرح پیش کرپاتی ہے لیکن ہماری نگاہ میں وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری پر اس نقطۂ نظر اور ان سفارشات کے جوہر کو بیان کر دیں جو کمیٹی کی اکثریت کی سوچ کی نمایندگی کرتی ہیں اور جس کو ایک متعین شکل دینے میں دوسرے ارکان کے ساتھ راقم نے بھی ایک واضح کردار ادا کیا ہے۔ ہمیں اس بات کو بھی ریکارڈ پر لانے میں کوئی تردد نہیں کہ سینیٹر مشاہد حسین سید اور خود چودھری شجاعت حسین کا رویہ مثبت رہا‘ البتہ ہمارے بار بار کے اصرار کے باوجود‘ وہ معاملات کو آگے بڑھانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں‘ معلوم نہیں کیوں؟

ہماری نگاہ میں مسئلے کے حل کے لیے سب سے پہلے چند بنیادوں کا تعین اور چند حقائق کا ادراک ضروری ہے اور ہم نے یہی چیز کمیٹی سے تسلیم کروانے کی کوشش کی:

۱-            مسئلے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔ مسئلہ سیاسی ہے اور اس کا حل بھی سیاسی ہی ہوسکتا ہے۔

۲-            مسئلے کے حل کے لیے تمام متعلقہ عناصر کو افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور کوشش کرنا ہوگی کہ مکمل اتفاق راے اور بصورت دیگر اکثریت کے مشورے سے معاملات کو طے کیا جائے۔

۳- یہ اصول تسلیم کیا جانا چاہیے کہ محض ’’مضبوط مرکز‘‘ کا فلسفہ غلط اور انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔ ’’مضبوط مرکز‘‘ اسی وقت ممکن ہے جب صوبے مضبوط ہوں اور کامل ہم آہنگی سے ایک دوسرے کے لیے مضبوطی کا ذریعہ اور وسیلہ بنیں۔ اب توجہ کے اصل محور کو مرکز سے صوبوں کی مضبوطی سے اس انداز سے منتقل ہونا چاہیے کہ مضبوط صوبے مضبوط مرکز کی راہ ہموار کریں۔ مرکز اور صوبوں میں dichotomy کی جگہ مفاہمت‘ ہم آہنگی اور mutuality کا رشتہ ہونا چاہیے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور کا بھی یہی تقاضا تھا جسے پورا نہیں کیا گیا۔

۴-            چوتھا بنیادی اصول یہ ہے کہ جس طرح زنجیر کی مضبوطی کا انحصار اس کی کمزور ترین کڑی پر ہوتا ہے‘ اسی طرح ملک کی مضبوطی کے لیے بھی ضروری ہے کہ کمزور اور غریب طبقے کو اتنا مضبوط کیا جائے اور اس سطح پر لایا جائے کہ سب برابر کی مضبوطی اور خوش حالی کے مقام پرآجائیں۔ دوسرے الفاظ میں سب انصاف کے حصول کمزور کو مضبوط بنانے کی پالیسی پر عمل آرا ہوں۔ انصاف نام ہی توازن اور برابری کا ہے اور یہی چیز آج تک ہماری معاشی منصوبہ بندی اور سیاسی پالیسی میں مفقود رہی ہے۔

۵-            اس پورے عمل میں اصل اہمیت افراد‘ علاقے‘ صوبے اور پوری قوم کے حقوق کا تحفظ اور سیاسی اور معاشی عمل میں تمام عاملین کی بھرپور شرکت اور کارفرمائی کو حاصل ہے۔ فردِواحد کی حکومت یا محض ایک خاص گروہ اور مقتدر گروہ کے ہاتھوں میں قوت اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا ارتکاز خرابی کی جڑ ہے۔ مسئلہ معاشی ہے مگر اس سے بھی زیادہ صوبوں کے اپنے وسائل پر اختیار اور سیاسی اور معاشی فیصلوں میں شرکت اور ترجیحات کے تعین کی قدرت کا ہے۔ منہ بند کرنے کے لیے کچھ گرانٹس یا مراعات کے دے دینے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ ملکیت‘ اختیار اور اقتدار اور فیصلوں میں شرکت کے انتظام کو ازسرِنو مرتب کرنا اصل ضرورت ہے۔

۶-            اس سلسلے میں فوج کا کردار بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ فوج کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف اور صرف دفاع وطن کی ذمہ داری سول حکمرانی کے تحت انجام دے۔ ساری خرابیوں کی جڑ سیاسی اور اجتماعی معاملات فوج کی مداخلت اور ایک مقتدر سیاسی قوت بن جانا ہے۔ چھائونیوں کی ضرورت اگر ملک کے دفاع اور سلامتی کے لیے ہے تو وہ مسئلہ میرٹ پر طے ہونا چاہیے لیکن اگر لوگوں کو یہ خطرہ ہو کہ یہ چھائونیاں سول نظام کو اپنے قابو میں کرنے کے لیے ہیں تو پھر اس کے نتیجے میں سول عناصر اور فوجی قوت کے درمیان کش مکش ناگزیر ہوجاتی ہے۔ فوج کے سوچنے کا انداز (mind-set) سول نظام سے بہت مختلف ہے اور دونوں کا اپنے اپنے حدود میں رہ کر تعاون ہی ملک کے نظام کی صحت کی ضمانت ہوسکتا ہے۔ تحکمانہ انداز بگاڑ پیدا کرتا ہے‘ اس سے خیر رونما نہیں ہوسکتا‘ اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ کمیٹی فوجی چھائونیوں کے قیام کے بارے میں احتیاط کا مشورہ دے رہی ہے مگر فوج کے ترجمان کیا زبان استعمال کر رہے ہیں‘ جب کہ ۲۷ جنوری ۲۰۰۵ء کے  ڈان میں فوج کے ایک کرنل صاحب کا سوئی میں فوجی چھائونی کے بارے میں اس طرح کا اعلان اصلاح احوال کا ذریعہ کیسے  بن سکتا ہے؟

ہم یہاں آئے ہیں اور ہم نے پاکستان آرمی کو الاٹ شدہ ۴۰۰ ایکڑ زمین پر قبضہ حاصل (WE HAVE TAKEN OVER) کر لیا ہے۔ ہم یہاں جلد ہی ایک چھائونی تعمیر کریں گے جو اس علاقے کی ضرورت ہے۔ آج آپ کو یہاں صرف ریت کے ٹیلے نظر آئیں گے لیکن ایک بہت ہی مختصر مدت میں چھائونی کی تعمیر کی جائے گی اور ریت کے تودے سرسبز زمین میں تبدیل ہوجائیں گے۔

یہ وہی منطق ہے جس کا اظہار برطانوی سامراج کی افواج اور حکمران کیا کرتے تھے کہ ہم نے مقبوضہ علاقوں کو ترقی سے ہمکنار کر دیا ہے۔ ترقی بلاشبہہ مطلوب ہے مگر اس انداز میںکہ رشتہ ْحاکم اور محکوم کا نہ ہو بلکہ سب کے فیصلے سے اور سب کی شراکت سے معاملات طے ہوں۔ وسائل پر اختیار بھی آزادی کا لازمی حصہ ہے۔ محض سبزہ اُگانا اور روٹی دینا ترقی کا معیار نہیں۔

ان اصولوں کی روشنی میں کمیٹی کے ارکان کی اکثریت نے جو تجاویز دی ہیں‘ ان میں چند اہم یہ ہیں۔ اوّل: حقیقی صوبائی خودمختاری کے تقاضے پورا کرتے ہوئے دستور میں مرقوم مشترک فہرست (concurrent  list) کے ۴۶موضوعات میں سے ۲۹ کو فی الفور صوبوں کے سپرد کردیا جائے‘ باقی ۱۷ اگلے پانچ سال کے اندر اندر منتقل کر دیے جائیں۔ دستور کی مرکزی فہرست کے دوسرے حصے میں جو موضوعات ہیں وہ آیندہ کے لیے مشترک فہرست میں شامل کر دیے جائیں۔ نیز مشترک معاملات کی کونسل (Council of Common Interest) کو ایک مؤثر ادارہ بنایا جائے اور اس کی شش ماہی نشستوں کو دستوری طور پر لازم قرار دیا جائے۔ اس کا اپنا سیکرٹیریٹ ہو تاکہ یہ دوسروں کی مہربانی پر زندہ نہ رہے۔

دوم: سیاسی فضا کو خوش گوار بنانے کے لیے ہر طرح کے عسکری تشدد کا راستہ بند کیا جائے‘ مذاکرات سے معاملات طے کیے جائیں‘ اور جو سیاسی کارکن گرفتار ہیں‘ ریاستی اور سیاسی ان کی رہائی کا اہتمام کیا جائے۔

سوم: صوبے کو اپنے وسائل پر اختیار دیا جائے اور مرکز سے جو وسائل منتقل ہوتے ہیں‘ ان میں انصاف اور ضرورت کو ملحوظ رکھا جائے۔ اس سلسلے میں گیس اور معدنیات کی رائلٹی کو نئے فارمولے کی روشنی میں انصاف کے مطابق مقرر کیا جائے۔

چہارم: معاشی ترقی کے ثمرات کو علاقے کے عوام تک پہنچانے کا بندوبست ہو۔ اس کے لیے تجویز کیا گیا ہے کہ معدنی وسائل کو دریافت کرنے اور ترقی دینے والی کمپنیوں کے لیے لازم کیا جائے کہ وہ اپنی کل سرمایہ کاری (investment) کا کم ازکم پانچ فی صد علاقے کے لوگوں کی تعلیم‘ صحت اور دوسری سہولتوں کی فراہمی کے لیے استعمال کیا جائے‘ نیز معدنیات کی ترقی کے بعد ان کمپنیاں کے نفع کا ۱۵ فی صد اس علاقے کی ترقی کے لیے صرف کیا جائے۔

پنجم: نیز صوبے میں تعلیم‘ صحت‘ پانی کی فراہمی‘ بجلی اور گیس کی فراہمی وغیرہ کا خصوصی اہتمام کیا جائے اور ملازمتوں پر مقامی آبادی اور صوبے کے لوگوں کو ترجیح دی جائے‘ اور یہ سب کام میرٹ کی بنیاد پر انجام دینے کے لیے مقامی آبادی کی تعلیم‘ پیشہ ورانہ تربیت اور ہنر سکھانے کا انتظام  کیا جائے۔

ششم: فرنیٹر کور اور کوسٹل گارڈ کو صرف ساحلی علاقوں اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے مختص کیا جائے اور ان کا سول کردار ختم کیا جائے۔ نیز اسمگلنگ روکنے کے نام پر جو ۵۰۰سے زیادہ چوکیاں قائم کر دی گئی ہیں‘ ان کو ختم کیا جائے۔ اسمگلنگ روکنے کا کام فرنٹیرکانسٹیبلری اور کوسٹل گارڈ سے نہ لیا جائے بلکہ یہ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری ہو۔ اسی طرح فوجی چھائونیوں کا معاملہ  سیاسی بحث و مناقشے کا حصہ نہ ہو اور صرف دفاعی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر میرٹ پر فیصلہ کیا جائے۔  فی الحال ان کے قیام کو ملتوی کر دیا جائے تاکہ بہتر فضا میں صحیح فیصلے ہوسکیں۔

ہفتم: گوادر پورٹ کی اتھارٹی کو فوری طور پر کراچی سے گوادر میں منتقل کیا جائے۔ اس میںصوبے کو مناسب نمایندگی دی جائے‘ اس کی ترقی کے پورے پروگرام میں صوبے کی ضرورتوں کو ملحوظ رکھا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ علاقے کے لوگوں کو ان کا حق ملے‘ زمینوں پر باہر والے قبضہ کر کے علاقے کی شناخت کو تبدیل نہ کر دیں اور جو متاثرین ہیں ان کو قریب ترین علاقے میںآباد کیا جائے۔ نیز اراضی کے بڑے بڑے قطعے جس طرح فوج‘ نیوی اور دوسرے بااثر افراد اور اداروں نے ہتھیا لیے ہیں ان کو سختی سے روکا جائے اور انصاف پر مبنی شفاف انداز میں پورے علاقے کا ماسٹر پلان ازسرِنو تیار کیا جائے۔

ہشتم: بلوچستان میں بلوچوں اور پشتونوں کے درمیان توازن اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبے کے تمام علاقوں اور باسیوں کی منصفانہ اور متوازن ترقی کے تقاضے بہرصورت پورے ہونے چاہییں۔ خصوصیت سے خشک سالی کی بنا پر جو علاقے گذشتہ آٹھ برس سے متاثر ہیں ان کی ترقی اور تلافی کا اہتمام کیا جائے۔

نہم: بلوچستان میں نظم و نسق کے روایتی انتظام کو جس میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت مقامی لیوی کو حاصل ہے‘ برقرار رکھا جائے اور اس کی ترقی کا اہتمام کیا جائے نہ کہ اس کو ختم کرکے پولیس کے نظام کو ان پر مسلط کیا جائے جو اس علاقے میں بھی ناکام ہے جہاں اس وقت اسے قدرت حاصل ہے۔

ہمارا مقصد کمیٹی کی مکمل سوچ کا احاطہ اور اس کی تمام سفارشات کا بیان نہیں۔ ہم سوچ کے اس رخ کو سامنے لانا چاہتے ہیں جو پارلیمنٹ کی اس کمیٹی نے پیش کیا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے بلوچستان ہی نہیں‘ تمام صوبوں اور ملک کے سب علاقوں اور متاثرہ افراد کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ یہ سب صرف اسی وقت ممکن ہے جب اصل فیصلے پارلیمنٹ میں ہوں‘ عوام کے مشورے سے ہوں۔ مکالمے کے ذریعے سیاسی معاملات کو طے کیا جائے۔ مخصوص مفادات اور فوجی اور سول مقتدرہ (military - civil establishment) کی گرفت کو ختم کیا جائے‘ اور عوام اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جمہوری اداروں کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں۔

صوبائی قیادت کی بھی بڑی ذمہ داری ہے۔ بلوچستان کی صوبائی قیادتیں بھی حالات کے بگاڑ کے سلسلے میں ایک حد تک ذمہ دار رہی ہیں لیکن زیادہ ذمہ داری مرکزی قیادت اور خصوصیت سے حکمران طبقے پر عائد ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شاید یہی وہ طبقہ ہے جو پارلیمانی کمیٹی کے کام کے آگے بڑھنے کی راہ میں حائل ہے۔ مسئلے کا حل پارلیمنٹ‘ سیاسی جماعتوں اور عوام کے اپنے کردار کو مؤثر بنانے میں ہے‘ بقول اقبال    ؎

ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ

ُتو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قائداعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا تھا اور بھارت نے پاکستان کو بے دست و پا کرنے کے لیے آزادی کے فوراً بعد اس شہ رگ پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے سازش‘ دھوکے‘ فوج کشی‘ بدعہدی غرض ہر حربے اور ہتھکنڈے کا بے دریغ استعمال کیا اور بالآخر ریاست جموں و کشمیر کے دوتہائی حصے پر ناجائز اور غاصبانہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

بھارت کے اس ناجائز قبضے کو نہ صرف پاکستان اور کشمیری عوام نے کبھی تسلیم نہیں کیا بلکہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے بھی قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی‘ ہر اعتبار سے ریاست کی حیثیت (status ) کو متنازعہ قرار دیا اور جموں و کشمیر کے باشندوں کے اس حق کو تسلیم کیا کہ انھیں اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے جس کے عملی اظہار کا ان کو موقع ملنا چاہیے۔

برطانوی محقق الیسٹرلیمب (Alastair Lamb)نے تو دو اور دو چار کی طرح یہ ثابت کردیا ہے کہ قانونی طور پر بھارت سے ریاست جموں و کشمیر کا الحاق کبھی ہوا ہی نہیں تھا لیکن یہ بات بھی کچھ کم اہم نہیں ہے کہ جب بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنا مقدمہ اس بنیاد پر لے کر گیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر اس کا حصہ ہے جس پر پاکستان اور اس کے قبائل نے دراندازی کی ہے تو سلامتی کونسل نے ایک نہیں سات بار اس امر کا اظہار کیا کہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ اس کے عوام استصواب راے کے ذریعے کریں گے ___ اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی مسئلہ کشمیر    اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے اور اقوامِ متحدہ کے مبصرین لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب ڈیوٹی دے رہے ہیں۔تقسیمِ ہند سے لے کر آج تک پاکستانی قوم کا متفقہ مؤقف یہی رہا ہے کہ کشمیر‘ تقسیمِ ہند کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ تحریک پاکستان کے نظریاتی‘ سیاسی اور جغرافیائی ہر پہلو کا تقاضا ہے کہ وہ پاکستان کا حصہ ہو اور اسی حقیقت کا اظہار جموں و کشمیر کے معتبر نمایندوں نے جولائی ۱۹۴۷ء میں الحاقِ پاکستان کی قرارداد کی شکل میں کردیا تھا۔ جس کی باقاعدہ توثیق اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کے ذریعے کی جانی تھی جسے بھارت نے آج تک نہیں ہونے دیا۔

جھاد آزادی کی نازک صورت حال

جموں و کشمیر کے عوام اپنے اس حق کو استعمال کرنے کے لیے ۵۷ سال سے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس جہادِ حریت میں پانچ لاکھ سے زیادہ کلمہ گو جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ ہزاروں عصمتیں لٹ گئی ہیں‘ بستیوں کی بستیاں تباہ ہوچکی ہیں‘ ہزاروں افراد اس وقت بھی جیلوں میں محبوس ہیں۔ لیکن جموں و کشمیر سے مسلمانوں کی والہانہ وابستگی کے جذبے اور جدوجہد میں کوئی کمزوری نہیں آئی ہے‘ البتہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے بعد معاہدۂ تاشقند اور ۱۹۷۱ء کی جنگ کے بعد شملہ معاہدے کی شکل میں پاکستان نے اپنے اصولی مؤقف پر اصرار اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی پاسداری کے عہد کے ساتھ مسئلے کو دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کی راہ قبول کرنے کی جو غلطی کی اس کا فائدہ اٹھا کر بھارت نے مسئلے کو آج تک معلّق رکھا ہوا ہے اور اپنی گرفت کو مضبوط کرنے اور مقبوضہ جموں و کشمیر کو سیاسی‘ معاشی‘ عسکری ہر اعتبار سے بھارت میں ضم (integrate) کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے لیے اس نے ایک طرف جبر اور ظلم کے ہر ہتھکنڈے کا بے محابا استعمال کیا ہے تو دوسری طرف وہ پاکستان کو بار بار لایعنی مذاکرات کے جال میں پھنسانے اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ’’کامیاب سیاست‘‘ کے کرتب دکھاتا رہا ہے۔

انھی حالات سے مجبور ہوکر جموں و کشمیر کے غیور اور آزادی پسند مسلمانوں نے بھارت کے استبدادی تسلط کے خلاف سیاسی جدوجہد کو ایک نیا رخ دیا اور جہاد کا راستہ اختیار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ  ۱۹۸۹ء سے پوری ریاست عملاً حالتِ جنگ (state of war) میں ہے اور بھارتی اقتدار کی عملداری فوج کی بندوقوں کے سایے تک محدود ہوگئی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت کی سات لاکھ فوج کے جارحانہ اقدامات کے باوجود بھارت کی سامراجی حکومت اور اس کے شریکِ جرم مقامی کٹھ پتلی حکمران اپنے اقتدار کو مستحکم نہیں کر سکے۔ آزاد مبصرین کی نگاہ میں اس بارے میں آج بھی کوئی دو رائے نہیں کہ جموں و کشمیر کے مسلمان بھارت کی حکمرانی اور تسلط پر کسی شکل میں بھی راضی نہیں اور وہ دہلی کی حکومت سے مکمل طور پر بے تعلق (alienated) ہیں۔ یہ جموں و کشمیر کی سب سے بڑی زمینی حقیقت (ground reality) ہے جسے نظرانداز کرکے بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں کے درمیان کشمیر کے مستقبل کے بارے میں کسی معاملہ بندی (understanding) کا تصور ہمالہ سے بھی بڑی غلطی (Himalyan blunder) کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ بھارت کا مشہور صحافی اور سفارت کار کلدیپ نیر بھارت کی کشمیر پالیسی کا بڑا ہوشیار مؤید اور علم بردار ہے اور پاکستانی قیادت کو لچک کے وعظ دیتا رہتا ہے لیکن وہ بھی باربار یہ اعتراف کرچکا ہے کہ کشمیری عوام دہلی کی حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔ بھارت کے مشہور اخبار انڈین ایکسپریس میں دفاع اور سلامتی کے امور کا ایک تجزیہ نگار اجائے شکلا (Ajai Shukla)اپنے ۵ مئی ۲۰۰۵ء کو شائع ہونے والے مضمون میں اعتراف کرتا ہے:

کشمیری دل کی گہرائیوں سے آزادی چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا خواب ہے جسے سیاسی عزم نے اور جن لوگوں نے اس کے لیے جانیں دی ہیں‘ ان سے وفاداری کے احساسات نے پرورش کیا ہے۔

پاکستان کے جو لبرل اور روشن خیال صحافی چند ماہ قبل کشمیر کے دورے پر گئے تھے وہ سب اس بات پر متفق تھے کہ کشمیر کے عوام بھارت کے ساتھ رہنے کو کسی صورت تیار نہیں خواہ پاکستان سے الحاق کے بارے میں اختلاف ہی کیوں نہ ہو اور ان میں ایک تعداد پاکستان سے اس کی پالیسیوں کے انتشار اور ژولیدہ فکری کی بنیاد پر مایوس ہو۔ ایک اور لبرل صحافی خالد حسن (ڈیلی ٹائمز کے واشنگٹن کے نمایندے) ابھی کشمیر ہوکر آئے ہیں اور وہ فرائی ڈے ٹائمز (شمارہ ۶سے۱۲ مئی ۲۰۰۵ئ) میں لکھتے ہیں کہ:

بھارت سے علیحدگی کا احساس مکمل ہے۔ کوئی بھی کشمیری اپنے آپ کو بھارتی نہیں سمجھتا۔ جب میں کشمیری کہتا ہوں تو میری مراد وادی کے مسلمان ہوتے ہیں۔ نہ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں جیسا کہ کبھی پہلے چاہتے تھے۔ پاکستان نے کشمیریوں کی قیمت پر جو پالیسیاں اختیار کیں‘ اس سے لوگ دل برداشتہ ہیں۔ جس سے بھی بات کرو‘ ایک ہی جواب ملتا ہے: آزادی۔ آج کے کشمیر کی حقیقت شہدا کے وہ قبرستان ہیں جہاں تقریباً تمام قبریں ان نوجوانوں کی ہیں جن کی فصل جوانی کی پہلی بہار ہی میں کاٹ دی گئی۔ (دی فرائی ڈے ٹائمز‘ ۶-۱۲ مئی ۲۰۰۵ئ)

جنرل پرویز مشرف نے اپنی دلّی کی ملاقاتوں کے بعد جن توقعات کا اظہار کیا ہے اور پھر سفما(South Asian Free Media Association) کے زیراہتمام جنوبی ایشیا کی پارلیمانی کانفرنس کے آخری اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جس ’’سنہری لمحے‘‘ کی بات کی ہے اس کا زمینی حقائق سے دُور کا بھی تعلق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملّت اسلامیہ پاکستان اور اس کی حقیقی قیادت کے لیے سب سے بڑی ضرورت حالات کے بے لاگ جائزے اور صحیح حکمت عملی مرتب کرنے اور اس پر ڈٹ جانے کی ہے۔ موجودہ حکومت اپنی خوش فہمیوں کے خمار میں ایک ایسے راستے پر چل پڑی ہے جو ملک کے لیے تباہی کا راستہ ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم خدانخواستہ ہمیشہ کے لیے اپنی شہ رگ سے محروم ہوسکتے ہیں۔ اس وقت کشمیر پالیسی پر مسلسل قلابازیوں پر مبنی جنرل صاحب کے غیر ذمہ دارانہ بیانات جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گئے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ بھارت سے کچھ حاصل کرسکیں گے۔ یہ ایک تاریخی مغالطہ ہے۔ دراصل پاکستان کے اصولی مؤقف کی قربانی اور کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر یہ حکمران کشمیری عوام کی قربانیوں سے بے وفائی ہی کے مرتکب نہیں ہو رہے بلکہ اپنے سوا کروڑ بھائیوں اور بہنوں کو دھکے دے کر بھارت کے تسلط اور امریکا کی گرفت میں دینے میں معاونت کررہے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر پاکستان کی نظریاتی اساس پر ضرب کاری لگانے اور پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کو قربان کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ آج پاکستان کا نظریاتی تشخص‘ اس کی قومی سلامتی اور اس کے وسیع علاقوں کے لیے مناسب مقدار میں پانی کی فراہمی کے امکانات سب دائو پر لگ چکے ہیں۔

ضروری ہے کہ مسئلے کے تمام ضروری پہلوئوں پر کھل کر بات کی جائے اور قوم کو بیدار کیا جائے کہ اس کے ساتھ کیا ظلم ہو رہا ہے۔ اس وقت ملک کو ایک خطرناک راستے پر لے جانے کی کوشش ہو رہی ہے‘ اگر خدانخواستہ یہ کامیاب ہوجاتی ہے تو دراصل یہ اقبال اور قائداعظم کی قیادت میں برپا کی جانے والی تحریکِ پاکستان کی نفی اور اس جدوجہد کے نتیجے میں قائم ہونے والے پاکستان کو ایک انقلابِ معکوس (counter revolution) کے ذریعے دوبارہ جنوب ایشیا میں ضم کرنے پر منتج ہوسکتی ہے۔ نئے نقشہ جنگ کو سمجھنے کے لیے کشمیرپالیسی کی تبدیلی‘ پاک بھارت دوستی کے نئے آہنگ اور جنوبی ایشیا کی نئی شیرازہ بندی کا صحیح ادراک ضروری ہے۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ یہ ایک نیا سیاسی‘ معاشی اور نظریاتی منصوبہ ہے جس میں اس علاقے کے بارے میں امریکا کی نقشہ بندی‘ اس میں بھارت کا کردار اور اس منصوبے کو روبہ عمل لانے میں کشمیر کی جدوجہد آزادی کی تحلیل (liquidation) ‘ علاقے کی اسلامی قوتوں کی کمرشکنی اور پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنا شامل ہے تاکہ ایک ’’سیکولرپاکستان‘‘ کا فروغ ہو جو ’’سیکولرانڈیا‘‘ کے ساتھ مل کر جنوب ایشیا کا ایک پیادہ بن جائے اور بالآخر امریکا اور بھارت کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ (strategic partnership) کا ایک دم چھلّا بن کر رہ سکے۔ جنرل پرویز مشرف امریکا کے جس کھیل کا ایک کردار بن گئے ہیں اس میں بات کشمیر سے چل کر‘ بھارت دوستی اور جنوبی ایشیا کے نئے وژن تک پہنچتی ہے جو سب اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ آج کشمیر پالیسی کی تبدیلی کا تعلق کشمیر سے تو ہے ہی‘ مگر یہ کشمیر پر ختم نہیں ہوجاتی‘ بلکہ کشمیر کی تحریک آزادی کو قربانی کا بکرا بناکر پاکستان کے اس تصور اور کردار کو ختم کرنا بھی اس کا ہدف ہے جو اقبال اور قائداعظم کی قیادت میں ملّت اسلامیہ پاک و ہند کے مسلمانوں کا تصور تھا اور پاکستان کا قیام جس منزلِ مقصود کی طرف پہلا قدم تھا۔ اس لیے کشمیرپالیسی کی تبدیلیوں اور اس کے مضمرات پر بات کرنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ بھارت اور خود امریکا کا اصل ہدف سامنے رہے تاکہ جنرل صاحب کی کشمیر پالیسی کے خطرناک رخ کا صحیح صحیح ادراک ہوسکے۔

بہارتی حکمت عملی اور صدر مشرف

کلدیپ نیر نے دہلی مذاکرات اور پاکستان کی کشمیرپالیسی کی تبدیلی پر کھل کر جو کچھ لکھا ہے اسے قوم کے سامنے لانا بہت ضروری ہے۔ ڈان کے ۱۶ اپریل اور ۲۶ اپریل ۲۰۰۵ء کے شماروں میں کشمیر کے مسئلے پرموصوف کے دو مضامین بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور بین الاقوامی بساط پر کھیلے جانے والے کھیل کے خدوخال کو سمجھنے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ ۱۶ اپریل کو No Halfway Stop for Musharaf کے عنوان سے‘ چودھری شجاعت حسین کے جامع مسجد دہلی کے خطاب کے پس منظر میں‘ پاک بھارت دوستی کے اصل اہداف کو نمایاں کرتے ہوئے‘ موصوف کا ارشاد ہے کہ پاکستان کا اصل تصور ‘جو ان کی نگاہ میں قائداعظم کا تصور تھا___ اسلامی نظام نہیں سیکولرزم تھا۔

He wanted it to be a secular polity not mixing religion with politics. He died an unhappy man because during his lifetime he saw the country being mutilated and deformed in the name of Islam.

وہ چاہتے تھے کہ یہ ایک سیکولر معاشرہ ہو‘ جس میں مذہب کو سیاست سے نہ ملایا جائے۔ وہ اپنی موت کے وقت ایک ناخوش انسان تھے اس لیے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں اپنے ملک کو اسلام کے نام پر مسخ اور بدہیبت ہوتے دیکھا۔

شکر ہے کہ کلدیپ نیر صاحب اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام کے اس ’’تخریبی عمل‘‘ کا اظہار قائداعظم کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا ورنہ ہمارا لبرل طبقہ تو سارا الزام جنرل ضیاء الحق کے دور کو دیتا ہے۔

پھر ارشاد ہوتا ہے:

پاکستان میں کیوں ایسا جمہوری نظام قائم نہیں ہو سکتا جیسا کہ بھارت میں ہے۔

پھر کھل کر ارشاد ہوتا ہے کہ:

ان کو جان لینا چاہیے کہ وادی صرف اس لیے پاکستان کو نہیں مل سکتی کہ یہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ دو قومی نظریہ اب صرف تاریخ ہے۔ جناح‘ مذہب کو سیاست سے الگ کرنا چاہتے تھے۔ صدر مشرف وادی میں جناح کی منطق کا اطلاق نہ کر کے آدھے رستے میں رک گئے۔ درحقیقت اسلام آباد نے کشمیریوں کی مقامی جدوجہد کو اخلاقی و سفارتی حمایت کے نام پر اسلامی قرار دے کر‘ اس کو بہت نقصان پہنچایا۔

موصوف اس کے بعد اس بھارتی ضد کا اعادہ کرتے ہیں کہ کشمیر کو پاک بھارت دوستی کے مذاکرات میں اولیت کا مقام نہیں دیا جا سکتا۔

میں اب تک نہیں سمجھ سکا ہوں کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات کشمیر کا یرغمال کیوں ہوں؟ اگر کشمیر سے ان کا تعلق توڑ دیا جائے تو حل تک پہنچنا آسان ہوگا۔

جب ۱۰ سابق پاکستانی سفارت کاروں نے بھارت کا دورہ کیا اور بھارتی سفارت کاروں کے سامنے کشمیر کی مرکزیت پر اصرار کیا تو کلدیپ نیر صاحب اس پر برافروختہ ہوئے اور فتویٰ دے دیا کہ:

پاکستان کے سابق سفرا نے مجھے کبھی متاثر نہیں کیا کیونکہ انھیں کشمیر کا خبط تھا۔ وہ کہتے یہی تھے کہ سارے مسائل کا حل صرف کشمیر کے مسئلے کے حل پر مبنی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ سفارت کار پاکستان کے اصولی مؤقف کی مؤثر ترجمانی کر رہے تھے مگر کلدیپ نیر صاحب بھارت کے مؤقف پر انھیں لانا چاہتے تھے‘ اور سرحدوں کو غیرمؤثر بنانے کو مسئلے کا حل قرار دے رہے تھے۔ ارشاد ہوتا ہے:

اصل حل یہ ہے کہ سرحدوں کو نرم ہونا چاہیے تاکہ انھیں پار کرنا ایسا ہوجائے جیسے ایک گلی سے دوسری گلی میں جانا۔ ’’شجاعتوں‘‘ اور ’’مشاہدوں‘‘ کو اس مقصد کے لیے کام کرنا چاہیے‘ نہ کہ اس طرف یا اس طرف مسلمانوں کے علاقوں کے نقشے بنانا۔

دہلی میں مشرف موہن سنگھ مذاکرات کے بعد جو ’’روشنی‘‘ ان کو نظر آئی ہے اور جو پسپائی پاکستان کے مؤقف میںرونما ہوئی ہے ‘اس کا ادراک بھی کلدیپ نیر ہی کے الفاظ میں ضروری ہے جسے وہ عالمِ انبساط میں بالآخر ہری جھنڈی (Green Light Finally) کے عنوان سے ۱۶اپریل کی اشاعت میں پیش کرتے ہیں۔ وہ اپنے احساسات کا اظہار جس زبان میں کرتے ہیں اس میں ان کی خوشی ہی پھوٹی نہیں پڑتی بلکہ پاکستان کی بے بسی اور بے حسی دونوں کی تصویر بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

صدر مشرف کے دہلی کے دورے کے کئی دن گزرنے کے بعد بھی یہاں یہ بحث گرم ہے کہ کیا وہ تبدیل ہوگئے ہیں؟ اور ہوگئے ہیں تو کیوں۔

میں نے سابق وزیراعظم اِندر گجرال سے پوچھا کہ کیا مشرف بدل گیا ہے؟ گجرال نے جواب دیا: اس کے پاس کیا راستے ہیں؟ اس کے ملک کو اَن گنت مسائل کا سامنا ہے۔ اسے دِکھ رہا ہے کہ بھارت بڑے سے بڑا ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے امریکی دوستوں نے اسے بتا دیا ہے کہ کشتی کو نہ ڈبوئے۔ (وزیر خارجہ نٹورسنگھ نے‘ مشرف کی دہلی میں آمد سے دو روز قبل اپنے واشنگٹن کے دورے میں اس بات کو محسوس کرلیا تھا)۔

بھارتی ایڈیٹروں سے ملاقات میں مشرف نے پہلے تو ہنستے ہوئے کہا کہ وہ ایک نئے دل کے ساتھ آئے ہیں (مطلب تھا کہ آگرہ کی ناکام سربراہی کانفرنس کے بعد)۔ پھر انھوں نے سنجیدہ لہجے میں کہا کہ امریکا میں نائن الیون کے حملوں نے انھیں تبدیل کر دیا ہے۔ ظاہر تھا کہ امریکا نے اسے واضح الفاظ میں (in no uncertain terms) بتا دیا تھا کہ واشنگٹن سرحد پار دہشت گردی کو سنجیدگی سے لے گا (take serious note)۔

مشرف نے من موہن سنگھ کو جو یقین دہانی کروائی تھی‘ اسے دہرایا کہ دہشت گردوں کو امن کے عمل کو ناکام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ وہ جنگجوئوں کو پاکستان کا کوئی علاقہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ (کہا جاتا ہے کہ اسلام آباد نے اس بارے میں دہلی کو تحریر بھی دی ہے)

اس امر کی کافی شہادت ہے کہ دہلی کے بارے میں اسلام آباد کی پالیسی تبدیل ہوگئی ہے۔ کشمیر اعتماد سازی کے اقدامات میں سے ایک قدم ہوگیا ہے‘ نہ کہ مرکزی مسئلہ (core issue)‘ یا ایجنڈے کی پہلی شق۔ پاکستان نے بھارت کی اس یقین دہانی کو بھی تسلیم کرلیا ہے کہ وہ کسی مرحلے پر کشمیریوں کو بھی‘ یقینا آخری فیصلے سے قبل‘ مذاکرات میں شریک کرے گا۔

مشرف یقین رکھتا ہے کہ اگر سرحدیں اور لائن آف کنٹرول تبدیل نہیں کی جا سکتیں‘ تو سرحدوں کو نرم اور غیرمتعلق بنانا (جیساکہ وہ اسے کہتے ہیں) بہتر ہے۔

کلدیپ نیر کی یہ تحریر ہزار تقریروں اور بیانات پر بھاری ہے اور بھارت اور پاکستان دونوں کی کشمیر پالیسی کے بارے میں تازہ ترین صورت حال کی عکاس ہے۔

اقبال نے شاید کسی ایسی ہی صورت حال کے بارے میں کہا ہوگا کہ   ؎

دیکھ مسجد میں شکستِ رشتۂ تسبیحِ شیخ

بت کدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ

’مشرف ھمارا بھترین ساتہی‘

جنرل پرویز مشرف کی کشمیر پالیسی کی حالیہ تبدیلی‘ پاک بھارت دوستی اور بھارت کی ثقافتی یلغار اور سیکولر نظام کے فروغ کی باتوں میں کلدیپ نیر تنہا نہیں‘ ہر طرف سے یہی آواز اٹھ رہی ہے۔ عین اس زمانے میں‘ غالباً بھارت کی تاریخ میں پہلی بار‘ قائداعظم کی دریافتِ نو (rediscovery) کا ایک شرانگیز سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ قائداعظم پر ایک بھارتی دانش ور پروفیسرآسیانیندا (Asiananda) کی ایک کتاب Jinnah - A Corrective Reading of Indian History شائع ہوئی ہے۔ اس کی تقریب رونمائی اپریل ۲۰۰۵ء کے وسط میں جنرل پرویز مشرف کی دلّی یاترا   سے دو دن پہلے بھارت کے وزیردفاع پرناب مکرجی اور وزیر پٹرولیم مانی شنکرآرگر کی موجودگی    اور سرپرستی میں منعقد ہوئی تھی۔ کتاب کا مرکزی خیال ہے کہ محمد علی جناح اسی درجے کے ایک "great secular" لیڈر تھے جیسے پنڈت نہرو (دی ہندو‘ ۱۵اپریل ۲۰۰۵ئ)

بھارت کے ایک اور دانش ور رفیق دوسانی کی تازہ ترین کتاب: Prospects for Peace in South Asia حال ہی میں امریکا سے شائع ہوئی ہے اور یہ صرف انھی کی نہیں‘ بلکہ بھارت اور امریکا کے دانش وروں کی مشترک سوچ کا ماحصل ہے۔ دوسائی خود بھی امریکا کی مشہور اسٹینفورڈ یونی ورسٹی سے وابستہ ہیں اور اس کتاب میں ان کے علاوہ امریکا کے کلیدی ادارے  ووڈرو ولسن سنٹر کے ڈائرکٹر رابرٹ ہتاوے اور ایک دوسرے پالیسی ساز ادارے اسٹمسن سنٹر کے پروفیسرمائیکل کریپن سب کا تجزیہ شامل ہے۔ ان کی نگاہ میں مسئلہ کشمیر کی وجہ سے حسبِ ذیل رجحانات پروان چڑھے ہیں۔ m علاقے میں مذہب کے کردار کا فروغ(اسے وہ مذہبی انتہاپسندی کہتے ہیں)

  •  بھارت اور پاکستان کے نیوکلیر طاقت بننے کا عزم‘ داعیہ اور سانحہ
  • پاکستان کی آرمی کا سیاست میں کود جانا
  • قومی شناخت کی مرکزیت۔

اس کتاب میں بھارت کے عالمی عزائم اور اس کے لیے پاکستان سے کسی نہ کسی شکل میں معاملات طے کرنے کی ضرورت اور دوسری طرف پاکستان کی اس مجبوری کو بھی نمایاں کیا گیا ہے کہ بھارت کی بڑھتی ہوئی فوجی‘ سیاسی اور معاشی قوت کی وجہ سے بہرحال پاکستان کو بھی کہیں نہ کہیں سمجھوتا کرنا ہے اور ان کی نگاہ میں اس کے لیے سب سے مناسب وقت یہی ہے۔ لیکن اس کتاب کا بھی ٹیپ کا بند یہی ہے کہ جنرل مشرف اس کام کو انجام دینے کے لیے بہترین شخص ہیں اور یہ اس لیے کہ وہ اور جنرل جہانگیر کرامت دونوں ایک ’’سیکولر پاکستان‘‘ کے علم بردار ہیں۔

ہماری نگاہ میں اس منظرنامے کی سب سے مؤثر ترجمانی بھارت کے ایک اور دانش ور سوبا چندرن نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ مگر نہایت کھلے انداز میں کی ہے۔ موصوف بھی اس وقت امریکا کے علمی اور پالیسی ساز حلقوں ہی میں سرگرم ہیں اور دہلی کے Institute of Peace and Conflict سے وابستہ ہیں۔ان کے ارشادات بڑے گہرے غوروفکر کے متقاضی ہیں اور کشمیر کے بارے میں امریکا اور بھارت کی حکمت عملی کو سمجھنے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ واشنگٹن میں ان کا ارشاد ہے کہ اس وقت بھارت کے اصل اہداف یہ ہیں:

(ا) امن کی بات چیت کے عمل کو بہرصورت برقرار رکھا جائے۔

(ب) کشمیر کے بارے میں یہ سمجھوتا کہ سرحد پار دہشت گردی حد سے نیچے رہے‘ خواہ مکمل طور پر ختم نہ بھی ہو۔

(ج) مستحکم اور سیکولر پاکستان۔

موصوف کانٹے کی بات یوں کہتے ہیں:

اگر جنرل مشرف ان تین عنوانات سے بھارت کے مطالبے کو پوراکرسکیں‘ تو ان سے معاملہ کرنا بھارت کے مفاد میں ہوگا۔ بھارت کو جو مسئلہ طے کرنا ہے‘ وہ یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی اور فوجی صورت حال میں کیا وہ بہترین رفیق کار ہیں۔

اور ان کا مشورہ یہی ہے کہ:

ہوسکتا ہے کہ جنرل مشرف صحیح آدمی نہ ہوں‘ لیکن وہ پاکستان میں بھارت کے بہترین  ساجھی ہیں۔ وہ قابلِ اعتماد ہوں یا نہ ہوں‘ نتائج صرف وہی دے سکتے ہیں۔

پروفیسر سوبا چندرن ان وجوہ کی طرف بھی واضح اشارہ کر دیتا ہے جن کی وجہ سے وہ بھارت کے منصوبے کے لیے جنرل پرویز مشرف کو بہترین ساجھی سمجھتا ہے۔

بھارت نے آج تک کسی متبادل (option) کی بات نہیں کی۔ وہ اٹوٹ انگ اور ناقابلِ تغیر سرحد کی بات کرتا ہے مگر جنرل صاحب کا ذہن کیا ہے:

حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اتنے حل پیش کیے ہیں‘ کہ اب اس میں کوئی شک نہیں وہ کسی نہ کسی سمجھوتے پر آمادہ ہوجائیں گے۔

مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے مؤقف سے اتنا ہٹ گئے ہیں کہ مزید سمجھوتوں کی انھی سے توقع ہے۔ نیز جو بھارت کا اصل مقصد اور فوری ہدف ہے‘ یعنی کشمیر میں تحریکِ مزاحمت ختم ہوجائے‘ یا کمزور ہوجائے اور منقسم رہے وہ صرف اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے کہ جہادی تحریک دم توڑ دے۔ یہاں بھی موصوف کی نگاہ میں جنرل صاحب کا کردار ہی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ سوبا چندرن کہتے ہیں:

وہ واحد آدمی ہیں جو سرحد پار دہشت گردی کو کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں۔ یہ بھارت کے مفاد میں ہوگا کہ مسلح جدوجہد قابلِ برداشت حد سے نیچے رہے‘ تاکہ نئی دہلی اور سری نگر کے درمیان کسی عمل کا آغاز ہوسکے اور لائن آف کنٹرول پر باڑ لگانے کے کام کو مکمل کیا جاسکے۔

موصوف کی نگاہ میں جنرل پرویز مشرف ہی وہ شخصیت ہیں جو اس ہفت آسمان کو سر کیے جانے کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ غور کیجیے کہ اصل ہدف سری نگر اور مظفرآباد میں راہداری نہیں‘ لائن آف کنٹرول پر اپنی گرفت مضبوط کر کے سفر کو آسان بنانا ہے جیساکہ کلدیپ نیر نے کہا کہ ایک گلی سے دوسری گلی میں جاسکیں‘ لیکن اصل مقصد سری نگر اور دہلی کے رشتوں کو مضبوط کرنا ہے تاکہ کشمیر بدستور بھارت کے نقشے کے مطابق ہی رہے۔

پھر سب سے اہم اسٹرے ٹیجک ہدف یہ ہے کہ پاکستان کی فوج اس معاملے میں اس طرح ملوث ہو کہ بھارت کے اہداف حاصل ہوسکیں اور پاکستانی عوام بھی کوئی منفی تحریک نہ اٹھا سکیں اور جو بات یا جو حل بھی امریکا‘ بھارت اور جنرل صاحب طے کرلیں‘ اسے ملک کے عوام پر مسلط کیا جاسکے۔ سوباچندرن اپنے تجزیے میں صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ:

پاکستان میں سیاسی قیادت کمزور ہے اور مستقبل قریب میں بھی ایسی ہی رہے گی۔ دوطرفہ سطح پر جو کچھ طے کیا گیا ہے‘صرف مشرف وہ فرد ہیں‘ جو اسے نافذکرسکتے ہیں۔ ۱۹۹۷ء کے انتخابات میں بہت اکثریت حاصل کرنے کے باوجود نواز شریف لاہور پروسس کو آگے نہ بڑھا سکے۔ اگر یہ ایک حقیقت ہے‘ تو فوج سے براہِ راست معاملہ طے کرنا بھارت کے مفاد میں ہے۔ اگر مشرف آج اسے کنٹرول کرتے ہیں تو بھارت کو ان سے معاملہ کرنا چاہیے۔ جنرل میں اتنا حوصلہ تھا کہ اس نے تسلیم کیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں اب غیرمتعلق ہوگئی ہیں۔ اور ایک نرم سرحد کو عارضی حل سمجھا جاسکتا ہے۔

اور ٹیپ کا بند بھی ملاحظہ فرمالیجیے۔ جنرل صاحب خواہ ویسے بھارت کو پسند نہ ہوں لیکن اس لیے ضرور پسند ہیں کہ:

حقیقت یہ ہے کہ صرف جنرل مشرف ہی بھارت سے کیے گئے سمجھوتے کو پاکستان میں زبردستی نافذ (impose) کر سکتے ہیں۔

اس جملے کا ایک ایک لفظ اہم ہے۔ جنرل صاحب ایک ’’ناگزیر برائی‘‘ ہیں لیکن مطلب براری کے لیے ضروری ہیں۔ جو بات بھارت سے طے ہو وہ پاکستان کے عوام کے وژن تصورات‘ احساسات اور مفادات کے خلاف ہوگی اور اسے ملک پر مسلط (impose) کرنا ضروری ہوگا اور یہ جنرل صاحب اور فوج کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس لیے جنرل صاحب امریکا اور بھارت دونوں کے لیے بہترین مہرے ہیں یا کھل کر بات کی جائے تو ترپ کا پتہ ہیں! اور یہی وہ مجوزہ کردار ہے جس کے لیے ان کی وردی بھی ضروری ہے۔ امریکا اور بھارت کی جمہوریت نوازی اپنی جگہ‘ لیکن اس سیاسی نقشے میں رنگ بھرنے کے لیے جس کردار کی ضرورت ہے‘ اُسے فوجی لباس ہی میں ہونا چاہیے اور فوج کی قیادت بھی اسی کے پاس ضروری ہے‘ اور اسے اس روشن خیال اعتدال پسندی کا علم بردار ہونا چاہیے جو دراصل سیکولرزم کا دوسرا عنوان ہے اور جس کا اصل ہدف پاکستان کو اسلامی تشخص‘ اور جہاد فی سبیل اللہ سے محروم کرنا ہے۔

امریکا بہارت ملی بہگت

کشمیر کے سلسلے میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے‘ اسے اس علاقے کے بارے میں امریکا کے عزائم اور امریکا‘ بھارت اور اسرائیل کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ اور خود اقوام متحدہ کی ساختِ نو (restructuring ) کے پس منظر سے الگ کر کے نہیں سمجھا جاسکتا۔ اگر آپ امریکا کے سابق وزیرخارجہ سٹروب ٹالبوٹ کی کتاب Engaging India کا بغور مطالعہ کریں اور خصوصیت سے کارگل کے واقعے کے سلسلے میں‘ اور پھر اس کے نتیجے میں بھارت اورامریکا میں جو فکری اور سیاسی  ہم آہنگی ہی نہیں بلکہ اعتماد باہمی‘ اور مفادات کا اشتراک رونما ہوا‘ اس نے اس اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کی راہ ہموار کی‘ جو اَب جارج بش کے دور میں ایک حقیقت بن چکی ہے۔ جسونت سنگھ نے ٹالبوٹ اور کلنٹن کے کردار اور تعاون کا صرف اعتراف ہی نہیں کیا بلکہ امریکا کے اس کھیل پر مہرتصدیق ثبت کر دی جو وہ پاکستان اور بھارت کے تنازع کا فائدہ اٹھا کر بھارت سے دوستی اور نئی پارٹنرشپ کے حصول کے لیے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ جسونت سنگھ کا بیان غور کرنے کے لائق ہے:

ہمارے اور ہمارے پڑوسیوں کے درمیان گذشتہ چند مہینوں میں کچھ خوفناک باتیں ہوچکی ہیں۔ لیکن اس اختتام ہفتہ میرے اور آپ کے ممالک کے درمیان کچھ نئی اور بہت اچھی چیزیں واقع ہوئی ہیں جو بھروسے اور اعتماد سے تعلق رکھتی ہیں۔ میں اور میرے وزیراعظم اس کے لیے آپ کے صدر کے شکرگزار ہیں۔

اب یہی وہ اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ ہے جو مسئلہ کشمیر کو تحلیل (liquidate) کرنے‘ سرحدوں کو غیرمؤثر بنانے‘ تحریکِ جہاد کو ختم کرنے اور پاکستان اور بھارت کو نئے سیاسی‘ معاشی‘ ثقافتی رشتوں میں جکڑنے کے ایک نئے قسم کے ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے احیا کے لیے سرگرمِ عمل ہے اور اس کا اصل اور آخری ہدف اسلامی احیا کے راستے کو روکنا ہے۔ دیکھیے ہنری کسنجر کس چابک دستی سے اس مقصد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اپنے ایک تازہ مضمون Implementing Bush's Vision  میں وہ یوں رقم طراز ہے:

"Now India, in effect a strategic partner, not because of compatible domestic structures but because of parallel security interests in South East Asia and the Indian ocean and vis-a-vis the radical Islam" (The Nation May 17th, 2005).

اب بھارت اسٹرے ٹیجک پارٹنر ہے‘ ایک جیسے داخلی نظام کی بنا پر نہیں‘ بلکہ جنوبی مشرقی ایشیا اور بحرہند میں انقلابی اسلام کے مقابلے میں سلامتی کے متوازی مفادات کے حصول کے لیے۔

سیاست کا نقشہ اب بالکل واضح ہے۔ امریکا اور بھارت کے تعاون کا مقصد چین کے خلاف محاذ آرائی ہی نہیں‘ بلکہ بھارت کو ایک علاقائی قوت سے بڑھ کر ایک عالمی قوت بنانا ہے جس کے بارے میں گذشتہ ایک سال میں ایک درجن سے زائد امریکی رپورٹیں شائع ہوچکی ہیں اور تازہ ترین رپورٹ مئی کے دوسرے ہفتے میں شائع ہونے والی کارنیگی انڈوومنٹ کی رپورٹ ہے یعنی  South Asian Seesaw: A New US Policy on the Subcontinent جسے اس ادارے کے ایک سینیر اسکالر ایشلے جے ٹیلنگ نے مرتب کیا ہے اور جو اپنی رپورٹ کو امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزارائس کے افکار کا پرتو قرار دیتا ہے۔ اس رپورٹ میں اس بات کا بھی صاف اعتراف ہے کہ امریکا کی طرف سے پاکستان کو ایف-۱۶ طیّاروں کی پیش کش پر بھارت کی طرف سے جو بس واجبی سی تنقید کی گئی ہے‘ وہ اسکیم کا حصہ اور امریکی بھارت ملی بھگت ہے جو نئی امریکی حکمت عملی کا نتیجہ ہے:

علاقے کی تشکیل کے لیے امریکا کی غیرعلانیہ نئی حکمت عملی کا نتیجہ: ایک عالمی قوت (global power) کے طور پر بھارت کو آگے بڑھانا‘ جب کہ پاکستان کو بھی ایک کامیاب ریاست ہونے کے لیے مدد پہنچانا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے بھارت کی توانائی کی ضرورتوں کو پورا کرنا‘ اسے ایک عسکری قوت بنانا اور اسے ایک نیوکلیر قوت کی حیثیت سے عالمی نظام کا حصہ بنانا اس حکمت عملی کا حصہ ہے۔ گویا بھارت ایک عالمی طاقت ہوگا اور پاکستان اس کی ایک باج گزار اور طفیلی ریاست!

قومی کشمیر پالیسی سے انحراف

جنرل مشرف کہتے ہیں کہ وہ اہلِ کشمیر کے مفادات سے بے وفائی کے مرتکب نہیں ہوئے مگر صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کا یہ دعویٰ بالکل کھوکھلا اور خلافِ حقیقت ہے۔ جو کچھ وہ عملاً کررہے ہیں‘ وہ امریکا اور بھارت کی حکمت عملی کے فریم ورک کے بالکل مطابق ہے۔

ذرا ذہن میں تازہ کرلیں کہ انھوں نے اس سلسلے میں کیا کیا ہے:

۱-  روشن خیال اعتدال پسندی کے نام پر پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یہ کہا ہے کہ سیکولرزم اسلام سے متصادم نہیں اور پاکستان کو اپنے سیکولر امیج کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنا چاہیے۔

۲-  امریکا کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں اس طرح شرکت کی ہے کہ امریکا سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ امریکا کے جتنے سپاہی افغانستان میں ہلاک ہوئے ہیں ان سے زیادہ پاکستان کے فوجی‘ خود پاکستان کی سرزمین پر ایسے لوگوں کے تعاقب میں مارے گئے ہیں جو امریکا کو جتنے بھی مطلوب ہوں لیکن وہ پاکستان کے لیے کبھی خطرہ نہ تھے اور اگر آج وہ جنرل مشرف کے مخالف ہوگئے ہیں تو محض اس لیے کہ جنرل صاحب محض امریکا کی محبت میں ان کے خون کے پیاسے ہیں اور انھوں نے اپنی فوج کو ان کے خلاف اعلانِ جنگ کرکے انھیں آگ اور خون کی ہولی میں دھکیل دیا ہے۔ ناردرن ایریا کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل صفدر حسن کے بقول (دی ڈیلی ٹائمز‘ ۲۳ مئی ۲۰۰۵ئ) شمالی علاقہ جات میں ۷۰ ہزارپاکستانی فوجی ۶۶۹ چوکیوں پر سرگرم ہیں جو اب تک ۴۸ آپریشن کرچکے ہیں جن میں ۳۰۶ افراد مارے گئے ہیں بشمول ۱۵۰ غیرملکی‘ جب کہ خود پاکستانی فوج کے ۲۵۱ جوان اور افسر ہلاک ہوچکے ہیں اور ۵۵۰ زخمی ہوئے ہیں۔ یہ تعداد ساڑھے تین سال میں افغانستان میں مرنے اور زخمی ہونے والے امریکی فوجیوں سے زیادہ ہے۔ کیا ملک میں کوئی فرد یا ادارہ ایسا نہیں جو احتساب کرے اور پوچھے کہ کس کی جنگ کون لڑ رہا ہے اور کس قیمت پر؟

۳- کشمیر جس کے بارے میں فروری ۲۰۰۲ء تک کہا جا رہا تھا کہ یہ ہماری خارجہ پالیسی اور پاک بھارت تعلقات کے باب میں مرکزی ایشو (core issue) ہے اور اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کے عوام کی آزاد مرضی سے حل کیے بغیر‘ بھارت سے کوئی سیاسی یا تجارتی معاملہ نہیں کیا جاسکتا اور کشمیر کی تحریکِ جہاد‘ آزادی کی جنگ ہے جسے کسی اعتبار سے دہشت گردی قرار نہیں دیا جاسکتا‘ ایک ایک کر کے ان سب پر مؤقف کو تبدیل کرلیا گیا۔ بھارت کی cross-border infiltration اور cross-border terrorism کی زبان ہم بھی استعمال کرنے لگے ہیں۔ بھارت کے ساتھ دہشت گردی کے پروٹوکول پر دستخط کر دیے گئے اور پاک بھارت مذاکرات کو نہ صرف بھارتی مطالبے کے مطابق‘ اس نام نہاد دہشت گردی کے خاتمے سے مشروط کر دیا گیا ہے جس کا اعادہ بھارتی قیادت دن رات کر رہی ہے اور کشمیر کے اپنے اٹوٹ انگ ہونے کے دعوے کے ساتھ کر رہی ہے بلکہ بھارت کے دوستی کے عمل میں پیش رفت کو کشمیر کے مسئلے کے حل سے بے تعلق (delink) بھی کر دیا گیا۔ نیز اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی ہم نے اٹھا کر رکھ دیا۔ متبادل حل کے طور پر تقسیمِ کشمیر کی تجویز پر بھی غور ہونے لگا اور وہ بھی مشترک کنٹرول اور محدود خودمختاری کی باتوں کے ساتھ۔ اب اصل مسئلہ ہی بدل گیا ہے‘ بھارت کے ناجائز قبضے سے جموں و کشمیر کی نجات اور جموں و کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کا مطالبہ جو اوّل دن سے پاکستان کا اصول اور قومی مؤقف تھا اور ہے اور جسے دستور کی دفعہ ۲۵۷ میں ملک و قوم کا وہ مؤقف قرار    دیا گیا ہے جس پر کوئی فرد سمجھوتا کرنے کا مجاز نہیں‘ اب اس کا ذکر غائب ہے اور بات صرف     نرم سرحدوں (soft border) اور سرحدات کو غیرمتعلق بنانے (making borders irrelevant ) کی ہو رہی ہے جس کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ امریکا اور بھارت کے مجوزہ ’’حل‘‘ پر سمجھوتا کرلیا جائے جس کے اہم اجزا یہ ہیں:

(ا) کشمیر کی مستقل تقسیم

(ب) دونوں حصوں میں کسی خاص شکل کی ’’خودمختاری‘‘

(ج) بھارت کے عمل دخل اور دراندازی کے لیے مستقل گنجایش

(د) امریکا کے لیے علاقے میں داخلے کی کھڑکی کھولنا۔

اور یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب کشمیر کی تحریکِ آزادی کا گلا گھونٹ دیا جائے‘ یا وہاں کی قیادت کو اس نئے نظام کا حصہ بنا لیا جائے یا پھر ان کو بے یارومددگار چھوڑ کر بھارتی فوج کے ہاتھوں ختم ہوجانے‘ یا مجبوری کے عالم میں غلامی کی کسی نئی شکل پر آمادہ ہوجانے کا سامان کیا جائے۔

آپ سات متبادلات (seven options) کا جائزہ لیں‘ یا تیسرے حل (third option) کی بات کریں‘ یا امریکی اسٹڈی گروپ اور فاروق کٹھواری جیسے لوگوں کی پیش کردہ اسکیموں کو دیکھیں‘ سب کا مرکزی خیال یہی ہے اور اب جنرل صاحب جو نقطہ نظر پیش فرما رہے ہیں وہ اس امریکی بھارتی ایجنڈے سے مختلف کوئی چیز نہیں۔ بھارتی اخبار دی ہندو کے نائب مدیر  سدھارتھ وراداراجن نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں جنرل مشرف اور من موہن سنگھ کی دلّی ملاقات کے بعد حالات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ اس میں اپنے اصولی مؤقف سے پاکستان کی پسپائی اور بھارت کے اپنے ایجنڈے کے مطابق معاملات کو آگے بڑھانے کی پوری تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ (ملاحظہ ہو‘ Slaying the Demons of Distrust ‘نیوزلائن‘ مئی ۲۰۰۵ئ)

اور جس اعتماد (trust) پر اب سارا کاروبار مملکت چلانے اور بھارت سے کشمیر سمیت سارے معاملات طے کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں اس کا حاصل تو صرف یہ نظر آرہا ہے کہ مقصد اور ترجیح بھارت کا اعتماد حاصل کرنا ہے۔ پاکستان کے اہداف‘ مقاصد اور مفادات‘ پاکستانی عوام کی تمنائیں اور عزائم اور سب سے بڑھ کر انصاف اور عدل کے تقاضے‘ کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے حقوق اور ان کی آزادی سب ثانوی بلکہ غیرمتعلق ہوکر رہ گئے ہیں۔ دیکھیے بھارت کے اخبار انڈین ایکسپریس نے اپنی ایک تازہ اشاعت میں اس صورت حال کو کس طرح پیش کیا ہے:

"Now that the April Foreign Policy euphoria is over, the party poopers are out with full force. The question is again being asked : Can we trust Gen Musharraf?

اب‘ جب کہ خارجہ پالیسی کا اپریل کا سرخوشی کا عالم گزر چکا ہے‘ پارٹی کے ڈھنڈورچی پوری طاقت سے میدان میں آگئے ہیں‘ یہ سوال پھر پوچھا جا رہا ہے: کیا ہم جنرل مشرف پر بھروسا کرسکتے ہیں؟

یہ سوال اٹھانا ظاہر کرتا ہے کہ ہم نے واقعتا کوئی چیز دی ہے۔ لیکن سادہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قطعاً کوئی رعایت نہیں دی۔ سرحد کے ردوبدل‘ کشمیر میں سی بی ایم کی ترجیح‘ سب پر ہماری پوزیشن پہلے جیسی ہے۔ اس وقت تو ہم سے زیادہ پاکستان کو ایڈجسٹمنٹ کرنا ہے۔

اس کے بعد موصوف کہتے ہیں کہ بھارت کے لیے سلامتی اوّلین اہمیت کی حامل ہے اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔ نیز پاکستان پر امریکی دبائو شدید ہیں اور وہ پاکستان کو یہ بھی خوف دلاتے ہیں کہ زمینی حالات بدل گئے ہیں اور اب کشمیر میں پاکستان کی تائید بہت کم ہے‘ لکھتے ہیں:

کشمیر کے اندر پاکستان کی حمایت اپنی زیریں ترین سطح پر ہے۔ پاکستان پر امریکی دبائو بھی اپنی کاٹ دکھا رہا ہے اس لیے کہ ان کا دہشت گردی کے بارے میں تصور تبدیل ہوچکا ہے۔ (دی نیشن‘ ۱۷ مئی ۲۰۰۵ئ)

ان تمام امور کے ساتھ اس بات پر بھی غور کریں کہ جنرل صاحب نے تازہ ترین دعویٰ یہ بھی کر دیا ہے کہ:

میرا خیال ہے کہ حل موجود ہے۔ مجھے اس پر یقین ہے اور میں وہ حل جانتا ہوں کہ جو بھارت‘ پاکستان اور کشمیری عوام کے لیے قابلِ قبول ہونا چاہیے۔ (ڈان‘ ۲۱ مئی ۲۰۰۵ئ)

اس میں وہ بھارت کی ’’سیکولر حساسیت‘‘ (secular sensitivity) کے آگے بھی سپرڈالتے نظر آرہے ہیں اور دو قومی نظریہ‘ حق خود ارادیت اور حاکمیت کے تمام اصولوں کو ترک کرکے یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ:

اس لیے ضروری ہے کہ یہ عوام کی بنیاد پر‘ علاقے کی بنیاد پر ہو۔ علاقہ متعین کیا جائے لوگوں کو سیلف گورننس دی جائے‘ غیرفوجی علاقہ بنایا جائے اور کچھ ایسے کام کریں کہ سرحدوں کا سوال غیرمتعلق ہوجائے۔

اس پوری تقریر میں زیادہ سے زیادہ اپنی حکمرانی (maximum self governance) اور سرحدوں کو غیرمتعلق بنانا کلیدی تصورات ہیں جن کے صاف معنی یہ ہیں کہ اب آزادی اور حق خود ارادیت کا مسئلہ تو باقی ہی نہیں رہا۔ بھارت جوچاہتا تھا کہ جموں و کشمیر کے علاقے دونوں ملکوں کے زیراثر رہیں‘ ان کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دے دی جائے (جو خود بڑا دھندلا تصور ہے اور جس کا تجربہ مقبوضہ کشمیر میں شیخ عبداللہ کے زمانے میں ہوچکا ہے) اور یہ اضافہ کردیا جائے کشمیر کے تمام حصوں کے درمیان سرحد غیرمتعلق ہوجائے۔ سرحد محض ایک سرحدی لکیر کا نام نہیں‘ یہ کسی ملک یا علاقے کی حاکمیت کی علامت ہے۔ اور اگر یہی غیرمتعلق ہوجائے تو پھر سیاسی آزادی اور علاقائی سلامتی دونوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔

واضح رہے کہ من موہن سنگھ نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف لینے کے بعد جو پہلی بات کی‘ وہ نرم سرحدوں کی تھی۔ اسی بات کو اب جنرل صاحب دہرا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ دہلی میں ان کے اس ارشاد کو بھی شامل کر لیجیے کہ کشمیر کے مستقبل کے نظام میں حریت کانفرنس کی قیادت کے ساتھ عمرعبداللہ اور محبوبہ مفتی کا بھی کردار ہوگا۔ اور شاید اس نہلے پر دہلا لگاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ پانی کے مسائل کا حل یہ ہوسکتا ہے کہ بگلیہار اور کشن گنگا کے ڈیم وغیرہ کے سلسلے میں مشترک نگرانی کا نظام قائم کیاجائے۔

اس سارے معاملے  کا ایک اور تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ متبادل حلوں کے اس سارے کھیل نے خود کشمیری قیادت کو بانٹ دیا ہے اور ان کے درمیان شدید کنفیوژن کی کیفیت ہے۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس منقسم ہے اور اب ایک طرف میرواعظ عمر فاروق اور عمرعبداللہ (نیشنل کانفرنس) کے ساتھ ایک محاذ پر جمع ہونے کی باتیں کر رہے ہیں تو دوسری طرف سردار عبدالقیوم اپنی تاریخی پوزیشن تبدیل کرکے سات حلوں کے گن گانے لگے ہیں اور کشمیریوں کو ’’کسی بھی قسم کی خودمختاری‘‘ مل جانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ البتہ مجاہدین اور وہ کشمیری لیڈر جو اپنی اصولی پوزیشن پر مردانہ وار ثابت قدم ہے اور ہر خطرہ مول لینے کو تیار ہے‘ سید علی شاہ گیلانی ہے جو پاکستان کا سب سے مضبوط قلعہ ہے لیکن وہ اب یہ کہنے پر مجبورہوگیا ہے کہ ’’ہم نہ تھکے ہیں اور نہ دبے ہیں لیکن پاکستان کی قیادت غالباً تھک گئی ہے اور وہ اب کشمیر کی تحریکِ حریت کی وکالت ترک کر کے بھارت کے مؤقف کی وکالت پر اتر آئی ہے‘‘۔ وہ ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ کہتے ہیں:

آج کشمیر ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اب بگلیہار اور کشن گنگا ڈیم کے مسائل اہم ہوگئے ہیں۔ صحافیوں‘اداکاروں‘ گلوکاروں اور عوامی وفودکی آمدورفت شروع ہوگئی ہے۔ پاکستان اور بھارت باہم شیروشکر ہورہے ہیں اور یہ سب کچھ اس کے باوجود ہورہا ہے کہ کشمیر پر بھارت کا قبضہ برقرار ہے اور یہاں ظلم و ستم کا بازار اسی طرح گرم ہے‘ بلکہ فوجی مظالم میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

جہاں تک ہمارا تعلق ہے‘ ہم زنجیرغلامی کو کاٹنے کے لیے اپنا کام کرتے رہیں گے‘   بے وفائی کرنے والوں کی اپنی منزل تاریک ہے۔

ذھنی شکست خوردگی

جنرل پرویز مشرف اپنی خطرناک قلابازی (u-turn) کے باوجود قوم سے یہی کہہ رہے ہیں کہ ان پر بھروسا کیا جائے‘ وہ کشمیر کے کاز سے کبھی بے وفائی (betray) نہیں کریں گے۔ قوم ان کے اس اعلان پر کیسے بھروسا کرسکتی ہے؟ قوم یہ دیکھ رہی ہے کہ تین سال سے کشمیر کے مسئلے پر وہ مسلسل پسپائی اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں اور اس طرح وہ قول و قرار کے معاملے میں سخت ناقابلِ اعتبار ثابت ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ میں ایوب‘ یحییٰ اور ضیاء کی طرح نہیں ہوں کہ اپنے اقتدار کو دوام دینے کی کوشش کروں لیکن عملاً انھوں نے ایوب اور ضیاء ہی کے نقش قدم پر چلنا پسند کیا‘ ریفرنڈم کا ڈھونگ بھی رچایا اور جس طرح ضیاء الحق نے ۹۰ دن کا وعدہ کر کے وعدہ خلافی کی‘ اسی طرح جنرل پرویز مشرف نے بھی دسمبر ۲۰۰۴ء میں وردی اتارنے کا عہدوپیمان کرکے عہدشکنی کی۔ دستور کی حفاظت کا حلف لے کر دستور کو پامال کیا‘ سیاست میں فوج کی عدم مداخلت کا عہد کرکے فوج کو سیاست میں ملوث کیا اور اب اسے بدستور ملوث رکھنے پر مصر ہیں۔ اس ریکارڈ کی موجودگی میں ان کے عہدوپیمان پر کون بھروسا کرسکتا ہے۔ اور ان کے الفاظ اور حقیقت کے فرق کو کون نظرانداز کرسکتا ہے کہ موصوف نے کوئٹہ میں اسٹاف کالج میں خطاب کرتے ہوئے‘ یہاںتک کہہ دیا ہے کہ ملک میں جمہوریت قائم ہے‘ نظامِ حکومت وزیراعظم چلا رہے ہیں اور فوج کا سیاست میں کوئی دخل نہیں! کیا دن کو رات اور رات کو دن کہنے اور چوری اور سینہ زوری کی اس سے تابناک مثال بھی مل سکتی ہے؟

پھر وہ کہتے ہیں کہ میں کسی کے دبائو میں فیصلے نہیں کرتا حالانکہ جس طرح امریکا کے    دبائو میں وہ ۲۰۰۱ء سے مسلسل اقدامات کر رہے ہیں اور اب بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں (واضح رہے کہ ۶ جنوری ۲۰۰۱ء کے پاک بھارت اعلامیے کے بارے میں امریکا کے     سابق وزیرخارجہ کولن پاول کا یہ اعلان اب ریکارڈ کا حصہ ہے کہ اس کا مسودہ ان کا تیار کردہ تھا (ملاحظہ ہو‘ ڈان ۱۱ مئی ۲۰۰۵ء کے شمارے میں سابق خارجہ سیکرٹری شمشاد احمد کا مضمون CBMs:not a final solution) وہ بالکل واضح ہے۔ اور باب ووڈ ورڈ کی کتاب    Bush at War میں پاکستان کے جنرل پرویز مشرف کے ذلت آمیز طریقے سے ہتھیار ڈالنے (abject surrender) کی جو تفصیلات ملتی ہیں اس کی روشنی میں کون اس بات پر یقین کرے گا کہ جنرل پرویز مشرف کے بنیادی فیصلے واشنگٹن میں نہیں‘ اسلام آباد میں ہوتے ہیں۔ خود ان کے وزیر کہتے ہیں کہ اگر ہم نے بش کا ساتھ نہ دیا ہوتا تو ہمارا حشر بھی افغانستان اور عراق جیسا ہوتا۔ کیا اس کے بعد بھی کسی ثبوت کی ضرورت ہے کہ یہاں فیصلے بیرونی دبائو کے تحت ہو رہے ہیں یا ملکی حاکمیت اور قومی وقار اور مفادات کے مطابق۔

جنرل صاحب بار بار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ دنیا کے حالات بدل گئے ہیں‘ اورنائن الیون کے بعد اب قوت کے استعمال سے سیاسی فیصلے نہیں ہو سکتے‘ حالانکہ نائن الیون کا اگر کوئی سبق ہے تو صرف یہ کہ اس کے بعد صرف قوت ہی کے ذریعے فیصلے ہو رہے ہیں۔ جو کمزور ہے یا قوت کا استعمال کرنے کا عزم اور داعیہ نہیں رکھتا‘ اس کے مقدر میں محکومی کے سوا کچھ نہیں۔ نیز یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قوت کا جواب قوت ہی سے دیاجاسکتا ہے اور امریکا اپنی ساری عسکری اور ٹکنالوجیکل برتری کے باوجود‘ نہ پورے افغانستان پر اپنا اقتدار مسلط کرنے میں کامیاب ہے اور نہ عراق پر‘ بلکہ پوری دنیا نائن الیون کے بعد‘ پہلے سے زیادہ غیرمحفوظ ہوگئی ہے۔ دہشت گردی کو دہشت گردی سے ختم کرنے کی حکمت عملی یکسر ناکام ہوگئی ہے‘ نیز دہشت گردی کے اسباب دُور کرنے کے بارے میں زبانی جمع خرچ کے باوجود‘ اس سمت میں کوئی مؤثر اقدام دنیا میں کسی جگہ بھی‘ (بشمول فلسطین‘ کشمیر‘ شیشان‘ فلپائن‘ تھائی لینڈ) نہیں کیا گیا۔ بدقسمتی سے کشمیر میں امریکا اور بھارت کے دبائو میں جنرل پرویز مشرف نے تو تحریکِ آزادی سے براء ت کا اعلان کر دیا ہے اور اسے دہشت گردی کے خانے میں رکھ دیا ہے لیکن بھارت کی ریاستی دہشت گردی اسی طرح جاری ہے بلکہ روز افزوں ہے۔ دوسری طرف حق خودارادیت ہی سے دست برداری کا راستہ اختیار کر کے ’’زیادہ سے زیادہ خودمختاری‘‘ علاقائی تقسیم اور کھلی سرحدوں کی باتیں ہورہی ہیں جو تنازع کے اسباب دُور کرنے کے بجاے‘ ان کو دائمی شکل دینے اور نہ ختم ہونے والی پنجہ آزمائی کا سامان فراہم کرنے کے مترادف ہے۔

سیدھی اور واضح بات یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف ذہنی شکست قبول کرچکے ہیں اور اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کے لیے سیاسی ملمع آرائی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سیاسی‘ معاشی اور عسکری قوت میں عدمِ مساوات کوئی نئی بات نہیں اور دنیا میں سیاسی نقشے اس عدمِ مساوات کے باوجود بدلے ہیں اور بدلتے رہیں گے۔ کیا آج افغانستان میں امریکی افواج اور نہتے عوام کے درمیان قوت کی مساوات ہے؟ کیا عراق میں یہ مساوات ہے؟ کیا دنیا کے ۱۴۰ ممالک جو گذشتہ ۵۰سال میں عظیم اور طاقت ور استعماری قوتوں کے چنگل سے جنگِ آزادی لڑکر آزاد ہوئے ہیں عسکری مساوات کے ساتھ جدوجہد کر رہے تھے؟ کیا بھارت کو ۱۹۸۹ء کے بعد کشمیر میں جس مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ عسکری مساوات پر مبنی ہے؟ آج بھی جس جہادی تحریک سے بھارت پریشان ہے اور تلملا رہا ہے اس کے بارے میں اس کے اپنے چیف آف اسٹاف کا قول ہے کہ زیادہ سے زیادہ ۱۰ ہزار مجاہد (جنھیں وہ دہشت گرد کہتا ہے) میدان میں ہیں اور بھارت کی ۹ لاکھ فوج ان کو قابو نہیں کر پا رہی ہے۔بات مساوات کی نہیں‘ اصل مسئلہ ایمان‘ عزائم اور اپنے اہداف کے حصول کے لیے استقلال اور پامردی کا ہے۔ کارگل کے معرکے میں بھی اصل فاتح بھارتی فوج نہیں وہ شہید کرنل ہے جس نے تن تنہا بھارتی فوج کو خون کے آنسو رلا دیے اور جس کی شجاعت اور استقامت پر بھارتی فوج نے بھی رشک کیا!

پاکستان کوئی کاغذی مملکت (banana republic) نہیں۔ یہ ریاست الحمدللہ ایک نیوکلیر پاور اور ایک عظیم قوم کی روایات کی امین ہے جو اپنے ایمان‘ عزت اور آزادی کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے باب میں شاندار ریکارڈ رکھتی ہے۔ پاکستانی قوم نے گذشتہ ۵۷ برسوں میں اپنا پیٹ کاٹ کر فوج کو جو وسائل فراہم کیے ہیں اور جسے آپ خود ناقابلِ تسخیر دفاعی قوت کہتے ہیں وہ کس لیے ہے۔ کیا بین الاقوامی تعلقات کا یہ ایک مسلمہ اصول نہیں کہ جنگ خارجہ پالیسی کا ایک آلہ ہے (war is an instrument of foreign policy)۔ اگر جنگ امریکا‘ برطانیہ‘ روس‘ اسرائیل‘ بھارت کے لیے خارجہ سیاست کا ایک آلہ کار ہے تو دوسروں کے لیے کیوں ممنوع ہے۔ بلاشبہہ جنگ نہ مطلوب ہے  اور نہ محمود‘ لیکن اگر ضرورت پڑے تو آزادی اور  حاکمیت کی حفاظت کے لیے یہی مؤثر ترین راستہ ہوتا ہے۔ اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں اور پہلے سے اس دروازے کو بند کردینا دراصل اپنی آزادی اور حاکمیت کو دائو پر لگانے کے مترادف ہے۔ یہ مذہبِ گوسفنداں تو ہو سکتا ہے‘ اسے کیشِ مرداں قرار نہیں دیاجاسکتا۔

پھر ایک دعویٰ یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے بس یہ نادر موقع ہے جسے اگر ہم نے گرفت میں نہ لیا تو ہمیشہ کے لیے ضائع ہوجائے گا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت سے زیادہ ناسازگار وقت اس مسئلے کے حتمی حل کے لیے کبھی نہ تھا۔ اس وقت تو ضرورت اس کی ہے کہ تحریکِ آزادی کی حفاظت کی جائے‘ مناسب تیاری ___ عسکری اور معاشی اور سب سے بڑھ کر ملک میں قومی مفاہمت اور یک رنگی ___ جاری رکھی جائے اور صحیح وقت کا انتظار کیا جائے۔ بھارت کے لیے قبضے کی قیمت (cost of occupation) کو جتنا بڑھایا جا سکتا ہو‘ بڑھایا جائے‘ لیکن پورے تحمل اور حکمت و تدبیرکے ساتھ۔ یہ وقت دوستی کی پینگیں بڑھانے کا نہیں‘ مسئلے کو زندہ رکھتے ہوئے رکھ رکھائو کے ساتھ مناسب وقت کے انتظار کا ہے۔ نیز ہر اس اقدام سے مکمل اجتناب کیا جائے جو جموں و کشمیر کے عوام اور ان کی قومی تحریکِ مزاحمت کو کمزور کرنے والی یا ان کی توقعات پر اوس ڈالنے والی ہو۔ اور یہی رائے ان تمام افراد کی ہے جن کی نگاہ دنیا کے حالات‘ پاکستان کے لیے کشمیر کی اہمیت اور بھارت کے اپنے حالات پر ہے۔ جنرل صاحب کی یہ      بے قراری کہ ان کے عہدِحکومت اور من موہن سنگھ کے عہدحکومت میں مسئلے کا آخری حل نکل آئے‘ خودغرضی اور بے بصیرتی کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان کی خارجہ سیاست کے تمام اہم کردار متنبہ کر رہے ہیں کہ یہ وقت جلدبازی میں کوئی اقدام کرنے کا نہیں ہے۔

تجربہ کار سفارت کاروں کا اضطراب

آغا شاہی اور حمید گل تو بار بار کہہ چکے ہیں لیکن اب تو وہ لوگ بھی بولنے پر مجبور ہوگئے ہیں جو خاموش سفارت کاری سے آگے کبھی نہ بڑھتے تھے۔ مثلاً:

سابق خارجہ سیکرٹری شمشاد احمد جو کارگل کے وقت بھی اس عہدے پر فائز تھے ڈان میں اپنے مضمون: CBMs: Not a Final Solution (۱۱مئی ۲۰۰۵ئ) میں متنبہ کرتے ہیں کہ یہ وقت فیصلے کا نہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

ہر صورت میں‘ دونوں ملکوں کے تعلقات کی اشتعال انگیز تاریخ اور ماضی کے تجربات کے پیش نظر غیرحقیقی امیدیں قائم کرنے یا نتائج نکالنے میں محتاط ہونا چاہیے۔ دونوں طرف بداعتمادی اور اندیشوں کی گہری جڑیں ہیں‘ اور محض شعلوں پر پھونکیں مارنے یا نیک خواہشات کرنے سے یہ تحلیل نہ ہوجائیں گے۔ بھارت اور پاکستان دونوں کو اس کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے گہرائی میں جانا ہوگا۔

اعتماد سازی کے اقدامات بہتر ماحول پیدا کرنے کے لحاظ سے اس عمل میں معاون ہوسکتے ہیں لیکن یہ تنازعات حل کرنے کا متبادل نہیں ہیں۔ یہ حیرانی کی بات نہیں کہ لچک کی یک طرفہ پیش کشوں کے باوجود صدرمشرف متنبہ کرتے رہے ہیں کہ جب تک تہ میں پوشیدہ مسائل حل نہ پیش کیے جائیں گے‘ تنازعات پھر بھڑک اٹھیں گے۔ جو کام پیش نظر ہے‘ وہ آسان نہیں ہے۔ متعلقہ مسائل کی پیچیدگی کے بارے میں کوئی فریب نظر نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں ان کی مزید ضرورت ہے اور اسے برقرار رکھنا چاہیے لیکن جلدبازی میں ایسے فیصلوں کی طرف نہیں جانا چاہیے جو دونوں ممالک میں داخلی طور پر حکومت یا شخصیات کی تبدیلی کے بعد برقرار نہ رہ سکیں۔

ہمیں ضرورت ہے کہ پاکستان میں بھارت کے لیے اپنی تبدیل شدہ پالیسی کے بارے میں قومی اتفاق راے پیدا کریں۔ اس کے لیے شفافیت اور داخلی محاذ پر حقیقی قومی کوشش کے ذریعے اعتماد سازی کی ضرورت ہوگی‘ بحث اور اتفاق کے لیے ہوٹلوں کی لابیوں میں نہیں بلکہ پارلیمنٹری چیمبرز میں تمام متعلقہ سیاسی عناصر کے اشتراک کے ساتھ۔

ایک سابق سفیر جاوید حسن ڈان (۱۸ مئی ۲۰۰۵ئ) میں Kashmir: The  Time Factor کے عنوان سے اپنے مضمون میں حالات کی سنگینی پر قوم اور قیادت کو متنبہ کرتے ہیں اور صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ یہ وقت آخری حل کے لیے سب سے زیادہ ناموزوں ہے۔ اس وقت بہترین حکمتِ عملی اس مسئلے پر holding on operation (برقرار رکھنے کا عمل) ہے نیز آخری فیصلے کے لیے تیاری کی جائے جو ان کے خیال میں اگلے ۲۵ سال میں ہوسکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

اگر ہم ربع صدی کے اس طویل وقفے کے بعد بھارت کے مقابلے میں مضبوط پوزیشن میں ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں داخلی سیاسی استحکام کو مضبوط کرنا چاہیے۔ قومی سطح پر ایک منظور شدہ سیاسی فریم ورک کے اندر جس میں نمایندہ اداروں کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے‘ افراد پر انحصار کے بجاے ادارے تعمیر کیے جائیں‘ قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنایا جائے اور میرٹ پر فیصلے کرنے کے اصول پر عمل کیا جائے۔

اس کے ساتھ ہی ہمیں ملک کی معاشی ترقی میں اضافہ کرنا چاہیے۔ اس کے لیے قومی وسائل کا زیادہ بڑا حصہ معاشی ترقی کے لیے مختص کر کے تعلیم‘ سائنس اور ٹکنالوجی کو اپنی معاشی منصوبہ بندی میں زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ اس کا تقاضا ہوگا کہ ہم اپنے دفاعی اخراجات پر سخت کنٹرول کریں اور ممکنہ کم ترین قیمت پر قابلِ لحاظ سدّجارحیت برقرار رکھیں۔

کشمیر کے تنازعے کے عاجلانہ آخری حل کی توقع یا تو موجودہ حقائق کے بارے میں شدید غلط فہمی پر مبنی ہے یا اس مفروضے پر مبنی ہے کہ پاکستان کا مستقبل اس کے ماضی سے بہتر نہیں ہوگا۔ یہ مفروضہ اتنا مایوس کن اور شکست خوردہ ہے کہ قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارا گذشتہ ایک دو سال کا تجربہ بتاتا ہے کہ بھارت کشمیر کے آخری حل کے لیے ہماری  بے صبری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم سے یک طرفہ رعایتیں حاصل کرے گا۔

سابق سفیر اور خارجہ سیکرٹری اقبال اخوند اپنے مضمونKashmir: denouement or sell out  ( ڈان ‘۲۹ اپریل ۲۰۰۵ء )  میںاپنے شدید اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے متنبہ کرتے ہیں کہ جلدی میں کوئی اقدام نہ کریں۔ وہ لکھتے ہیں:

کشمیر کے تنازعے کا معاملہ تو ایک طرف رہا‘ مشرف من موہن سنگھ معاہدہ ایسا ہے جو سیاچن یا بگلیہار یا تنازعے کے دوسرے ضمنی مسائل تک کے بارے میں کچھ نہیں کہتا۔ یہ سری نگر مظفرآباد بس سروس‘ ٹرکوں کے ذریعے تجارت کے اضافے اور منقسم ریاست کے دوسرے علاقوں اور شہروں کے درمیان بھی ایسی ہی سروس کے اجرا کی تجویز دیتا ہے۔ کیا لائن آف کنٹرول کی یہ نرمی (ایک طرح کا جواز فراہم نہ بھی کرے تب بھی) عملاً اس کو استحکام دینے کے مصداق نہیں ہے؟

اس طرح ہمارے آپشن کم ہوجاتے ہیں‘ (اور کافی عرصے سے کم ہیں) کہ اپنی پوزیشن پر کھڑے رہیں یا میدان جیسا بھی ہے‘ اس میں کھیلیں۔ لیکن جب کوئی کشمیر پر ہمارے اصولی مؤقف پر قائم رہنے کی بات کرتا ہے تو اس کے ٹھیک ٹھیک کیا معنی ہوتے ہیں؟مسئلہ کشمیر کا اساسی غیرمتبدل اصول (صرف اس لیے نہیں کہ یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں لکھا ہوا ہے) حق خود ارادیت کا اصول ہے اور یہ کشمیری عوام کو نظرانداز کر کے کنٹرول لائن پر سمجھوتے کو خارج از بحث قرار دیتا ہے۔ شروع ہی سے بھارت اس بات کے حق میں رہا ہے کہ ’’جس کو ملے وہی پائے‘‘ کے اصول پر تقسیم کرلی جائے لیکن اب اس ملک میں کچھ امن کے حامی ایسے ہیں جو آگے جانے کے لیے تیار ہیں۔ یقینا پاکستان کے پاس کشمیر پر بھارت کے قبضے کو قبول کرنے اور جائز قرار دینے کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز نہیں ہے‘ اور نہ کوئی عملی سیاسی دلیل ہے کہ وہ اپنا حصہ رکھنے کے تبادلے میں ایسا کرے۔

بلاشبہہ معاہدئہ دہلی پر خاصا شور شرابا ہے مگر یہ ماحول دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی اہمیت کے بغیر نہیں ہے جہاں کے عوام جذباتی ہنگامہ آرائی کی لہروں کے ساتھ ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف بہہ جانے کے عادی ہیں۔ کشمیر میں بس سروس اور تجارتی راستے کھولنے سے کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ یہ ایسا آغاز ہیں جن کے حتمی نتیجے کی کوئی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی۔ منقسم کشمیریوں کا باہم ملنا جلنا خود اپنی ایک حرکیات پیدا کرسکتا ہے۔ بھارت کو بھی زمینی حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا اور اس کے مضمرات کو تسلیم کرنا ہوگا۔ بھارت کا کشمیر کو ۵۰برس سے اپنا اٹوٹ انگ کہنے نے اس حقیقت کو تبدیل نہیں کیا ہے کہ بھارت کا کشمیر پر قبضہ ہمیشہ کی طرح غیریقینی رہے گا۔

کسی بھی صورت میں کشمیر پر پیش رفت خط مستقیم پر نہیں ہوگی۔ یہ تسلیم کرنا چاہیے بھارت سے مذاکرات میں پاکستان کسی ہموار میدان میں نہیں کھیل رہا۔

سفارتی میدان میں آپ کا کھیل کرکٹ نہیں ہوتا۔ آپ اس پر انحصار نہیں کرسکتے کہ کوئی انضمام نامی سفارت کار آخری گیند پر چوکا لگائے اور ٹرافی جیت لائے۔

قائداعظم یونی ورسٹی کے سابق ڈین پروفیسر اعجاز حسین کی بات بھی ریکارڈ پر لانے اور اس پر غوروفکر کی ضرورت ہے‘ وہ لکھتے ہیں:

مشترکہ اعلامیے میں جنگ بندی پر کوئی دفعہ نہیں ہے‘ وادی سے بھارتی افواج کو واپس بلانے پر کوئی وعدہ نہیں ہے اور بھارتی سکیورٹی فورسز کے ریاستی دہشت گردی کے اقدامات کو روکنے کا کوئی وعدہ نہیں ہے۔ اسی طرح اس میں سیاچن‘ سرکریک یا بگلیہار پر کسی پیش قدمی کا کوئی بیان نہیں ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر اُمیدوں سے بھی زیادہ کامیابی کے وعدے حیران کن ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ انھوں نے جو مبالغہ آمیز دعویٰ کیا ہے‘ اس کی کیا بنیاد ہے؟ انھوں نے اسے کشمیر کے تنازعے کو حل کرنے کی تلاش میں بھارتی قیادت کے خلوص کے حوالے سے بیان کیا۔ واہ‘ کیا سادگی ہے!

مشترکہ بیان کے مطابق امن کا عمل ناقابلِ واپسی ہے۔ یہ مشرف کے اس سابقہ دعوے سے بہت نیچے اترنا ہے کہ کشمیر کے تنازعے کو حل کرنے میں ناکامی امن کے عمل کو روک دے گا۔ اس پسپائی کے بعد ایک اور پسپائی آئی۔ صدر نے اپنی سابقہ پوزیشن کی جو گذشتہ سال کئی موقعوں پر بیان کی تھی کہ کشمیر کا تنازع حل کرنے کے لیے ایک حتمی تاریخ کا تعین کیا جائے‘ خود ہی تردید کردی۔ ان قلابازیوں پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ان کی بھارت پر عنایات کا تسلسل ہے۔ بشمول اقوام متحدہ کی قراردادوں سے دستبرداری‘ کشمیر کے حل کے لیے نارملائزیشن کی اہمیت اور کشمیر میں روا مسلح جدوجہد کو دہشت گردی قرار دینا۔ کہا جا سکتا ہے کہ امن کے عمل کو ناقابلِ واپسی قرار دے کر کشمیر پر یوٹرن کو مکمل کرلیا گیا۔

پس کشمیر کی پالیسی جس پر صدر عمل پیرا ہیں اور جس کی مغرب اور بھارت حمایت کر رہے ہیں‘ امن کے عمل کی کامیابی کے لیے خوش آیند نہیں۔ کشمیر پر کوئی امن دیرپا ہونا ممکن نہیں ہے جو کشمیر پر قومی اتفاق راے کی مضبوط بنیادوں پر نہ ہو۔ صدر کو یاد رکھنا چاہیے کہ کشمیر پاکستان کی کئی حکومتوں کا قبرستان بن چکا ہے۔

فیصلے کی گہڑی

یہ ہے پاکستانی تجربہ کار سفارت کاروں اور دانش وروں کی سوچ جو قوم کی اجتماعی سوچ کی نمایندگی کرتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف اسے یکسرنظرانداز کرکے جس ایجنڈے پر بگٹٹ رواں دواں ہیں‘ وہ صرف ہزیمت اور تباہی کا راستہ ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ان کو اس میں مزید پیش قدمی سے روکا جائے اور قوم اپنے تشخص‘ آزادی‘ اسٹرے ٹیجک مفادات اور اپنے ڈیڑھ کروڑ کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہو۔ جس مشکل مقام پر جنرل صاحب نے ہمیں پہنچا دیا ہے‘ اس کی بڑی وجہ ملک میں فردِ واحد کا اقتدار اور قومی اداروں کے ذریعے اور قوم کو اعتماد میں لے کر قومی امور پر فیصلے نہ کرنے کا رجحان ہے جو ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ یہی جمہوریت اور آمریت کا بنیادی فرق ہے۔ جمہوریت میں اگر ایک طرف دستور کی بالادستی ‘ قانون کی حکمرانی اور قومی احتساب اور جواب دہی کا نظام مؤثر ہوتا ہے تو دوسری طرف فیصلہ سازی کے لیے اداروں پر انحصار کیا جاتا ہے‘ اور بحث و مشاورت کے نتیجے میں قومی امور پر فیصلہ قومی اتفاق راے سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود کشمیر پالیسی کے صحیح خطوط پر مرتب ہونے اور چلائے جانے کا انحصار جمہوریت کی مکمل بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی میں ہے۔ جنرل صاحب جو کچھ کر رہے ہیں اس میں نہ انھوں نے کابینہ کو اعتماد میں لیا ہے‘ اور نہ پارلیمنٹ کو‘ حتیٰ کہ پارلیمنٹ کی کشمیرکمیٹی تک کو کسی معاملے میں شریکِ مشورہ نہیں کیا گیا۔ بس ایک شخص حالات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اس پالیسی سے انحراف کر رہا ہے جس پر پوری قوم کا اتفاق رہا ہے اور جو خود دستور میں مرتسم ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ایک بار پھر قوم کے تمام ذمہ دار عناصر پاکستان کی اصولی پالیسی کا اعادہ کریں اور قوم کو بیدار کریں تاکہ انحراف کرنے والے ہر قدم کو روک دیا جائے اور تحریکِ آزادی کشمیر کے شہیدوں کے خون سے بے وفائی نہ کرنے دی جائے ‘خواہ اس کے لیے جدوجہد کتنی ہی طویل اور صبرآزما کیوں نہ ہو۔

سب کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی سرحدی تنازع نہیں جیسا کہ چین اور بھارت کے درمیان ہے۔ ہمارے سامنے اصل ایشو ریاست جموں و کشمیر کے حق خود ارادیت کا ہے جس کی پشت پر انصاف کے مسلمہ اصول‘ بین الاقوامی قانون‘ اقوام متحدہ کی قراردادیں اور جمہوریت کی متفق علیہ روایات ہیں اور جن کا تقاضا ہے کہ ریاست کے ڈیڑھ کروڑ انسان اپنی آزاد مرضی سے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کریں۔ یہی وہ حق ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے وہ جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ جغرافیہ‘ تاریخ‘ عقیدہ‘ ثقافت‘ معیشت ہر اعتبار سے ان کی تقدیر پاکستان سے وابستہ ہے اور انھوں نے ہر ممکن طریقے سے اس کا اظہار بھی کردیا ہے خواہ اس کا تعلق گھڑی کے وقت سے ہو‘ یا قومی ترانے سے‘ کھیل سے ہو یا سیاست سے‘ تہواروں سے ہو یا رسوم و رواج سے___ ان کے قومی ہیرو پاکستان کے اکابر ہیں‘ بھارت کے نہیں___  لیکن اس حقیقت کے باوجود پاکستان اور خود اہلِ کشمیر کا مؤقف یہ ہے کہ ان کو اپنی رائے کے اظہار اور اپنے مستقبل کو طے کرنے کا باقاعدہ موقع ملنا چاہیے۔

پاکستان ان کے اس حق کا وکیل ہی نہیں‘ اس پورے معاملے میں ایک بنیادی فریق ہے۔ گوجھگڑا زمین کا نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے اور اس طرح زمین کا مسئلہ بھی ریاست کے باسیوں کے مسکن ہونے کی حیثیت سے متعلق ہے کہ مکین اور مکان لاینفک ہیں۔ لیکن واضح رہے کہ اصل ایشو بھارت کے ناجائز قبضے سے نجات اور اہلِ کشمیر کا اپنی آزاد مرضی سے تقسیمِ ہند کی اسکیم کے تحت اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا ہے‘ زمین کی بندربانٹ اصل ایشو نہیں۔

پھر یہ بھی ایک مغالطہ ہے کہ کشمیر کے لوگ آسانیاں مانگ رہے ہیں۔ وہ تو اپنی آزادی اور شناخت کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور روزانہ شہادتیں پیش کر کے اور ہر ہر شہید کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد کی صورت میں خراجِ تحسین پیش کر کے‘ اپنے عزم اور مستقبل پر اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ مسئلہ ریلیف نہیں بھارت کے تسلط سے آزادی ہے۔

پاک بھارت دوستی کی کوئی بھی کوشش اسی وقت مفید ہوسکتی ہے جب وہ عزت اور برابری کے مقام سے ہو اور وہ اسی وقت بارآور ہو سکتی ہے جب اس کا ہدف بنیادی تنازع کے حق وا نصاف کے مطابق طے کیا جانا ہو جو تمام بگاڑ اور تصادم کا باعث رہا ہے۔ جو کچھ اس وقت کیا جا رہا ہے‘ وہ سراب ہے اور دھوکا___  اس سے کبھی بھی حقیقی دوستی جنم نہیں لے سکتی اور نہ کشمیر کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ ہم یہ کہنا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ حق و انصاف سے ہٹ کر جو بھی عارضی حل تلاش کیا جائے گا‘ وہ مزید تصادم اور تفرق کو جنم دے گا۔ پاکستانی قوم کسی ایسے انتظام کو کبھی قبول نہیں کرے گی جو کشمیری عوام کی تحریک آزادی سے بے وفائی پر مبنی ہو اور محض وقتی مفادات کے حصول کو سب کچھ سمجھ کر کیا گیا ہو۔ نیز کشمیری عوام بھی اپنی جدوجہد کو بے ثمر ہوتا نہیں دیکھ سکتے اور نہ وہ اپنے شہیدوں کے لہو سے غداری کے لیے تیار ہیں۔ ان کی جدوجہد بہرحال جاری رہے گی۔ اس لیے پاکستانی حکمرانوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ سراب کی تلاش میں وقت ضائع نہ کریں اور اصل حقائق کی روشنی میں مسائل کے حل کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔ سب سے زیادہ اپنی قومی یک جہتی کی فکر کریں اور وسائل کے صحیح استعمال کے ذریعے وہ قوت حاصل کریں جس کے بغیر ہم نہ اپنی آزادی کو محفوظ رکھ سکتے ہیں اور نہ اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے حق و انصاف کے حصول کو ممکن بنا سکتے ہیں‘ اس لیے کہ ع

ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات


(کتابچہ دستیاب ہے‘ قیمت: ۵ روپے‘ سیکڑہ پر رعایت۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جمہوری ممالک میں چار سے پانچ سال ایک ایسی مدت ہے جس میں ایک حکومت یا قیادت کی کارکردگی‘ پالیسیوں کی صحت و عدمِ صحت اور قبولیت یا غیر مقبولیت کو جانچنے کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو پاکستان کا بلاشرکت غیرے حکمران بنے‘ اب ساڑھے پانچ سال سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ اگرچہ ان کی اور ان کے امریکی سرپرستوں کی نگاہیں ۲۰۰۷ء اور ۲۰۱۲ء پر لگی ہوئی ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کے پائوں کے نیچے سے زمین تیزی کے ساتھ سرک رہی ہے۔ جن بلند بانگ دعوئوں کے ساتھ وہ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو فوج کی طاقت استعمال کرتے ہوئے اقتدار پر قابض ہوئے تھے وہ ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ ہوا کے رخ کا اندازہ لاکھوں افراد کے چار مظاہروں اور ۲ اپریل کی ملک گیر ہڑتال سے کیا جا سکتا ہے جو ساری سرکاری مخالفت‘ میڈیا کے ہیجانی طوفان‘ ملک کے طول و عرض میں متحدہ مجلس عمل کے ہزاروں کارکنوں کی پیش از ہڑتال گرفتاری اور پیپلز پارٹی کی زبانی ہمدردی لیکن ہڑتال سے مکمل عدم تعاون کے باوجود ایک مکمل اور مؤثر ترین عوامی احتجاج اور مجلس عمل پر عوامی اعتماد کا اظہار تھی۔

یہ عوامی جدوجہد مجلس عمل کی قیادت میں قانون کی پابندی اور جمہوری روایات کے مطابق ملک کی سیاست میں ایک نئی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ اس میں مجلس عمل کے کارکنوں کے ساتھ عوام کی بڑھتی ہوئی شرکت زمینی حقائق کی صحیح تصویرکشی کرتے ہیں۔ مجلس عمل نے تمام سیاسی قوتوں کو بشمول مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی اس قومی احتجاج میں شرکت کی دعوت دی لیکن  عمران خان (تحریکِ انصاف) کے سوا کسی نے بھرپور شرکت نہیں کی۔ اس طرح مجلس عمل کو تن تنہا اپنی عوامی قوت اور تائید کا اندازہ کرنے اور اسے کامیابی کے ساتھ متحرک کرنے کا بھی ایک   تاریخی موقع حاصل ہوگیا جس کا اعتراف ان تمام سیاسی تجزیہ نگاروں اور کالم نویسوں نے کیا ہے جو مجلس عمل کے مؤید نہ ہوتے ہوئے بھی سیاسی حقائق کا اعتراف کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے اور جن کا کام بقول سیکرٹری جنرل مسلم لیگ (ق) صرف ’’سرکاری سچ‘‘ کی تشہیر نہیں۔ رہا مجلس عمل کے احتجاج کا پُرامن اور جمہوری کردار اور منظم انداز کار‘ تو اس کا اعتراف تو جنرل پرویز مشرف تک کو  رائٹر کے نمایندے کو دیے جانے والے ایک حالیہ انٹرویو میں کرنا پڑا:

ان اجتماعات میں نظم و ضبط کا خیال رکھا گیا۔ (دی نیوز انٹرنیشنل‘ لندن‘ ۵اپریل ۲۰۰۵ئ‘ ص ۳)

حقیقی جمہوریت کے احیا‘ پاکستان کی آزادی اور حاکمیت کے دفاع‘ اس کے اسلامی تہذیبی تشخص کی حفاظت اور عوام کے مسائل کے حل اور مصائب سے نجات کے لیے جو عوامی تحریک اب شروع ہوگئی ہے‘ وہ اگر ایک طرف پاکستان کے مستقبل کے رخ کو متعین کرنے میں تاریخی  سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے تو دوسری طرف اس کے ذریعے وہ ایشوز بھی کھل کر قوم کے سامنے آگئے ہیں جو حکومت اور اس کو چیلنج کرنے والی عوامی قوت (مجلس عمل ) کے درمیان باعث نزاع ہیں۔ چونکہ یہ تحریک اب عوامی احتجاج کے دور میں داخل ہوگئی ہے اور صرف سیاسی کارکن ہی نہیں بلکہ  عام شہری‘ تاجر‘ دانش ور‘ علما اور طلبہ‘ سب اس میں شریک ہو رہے ہیں اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس تحریک کے مثبت قومی اہداف کو بالکل وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا جائے اور حکومت کے ترجمان اور ان کے حواری قلم کار حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کر کے اور جھوٹی خبروں سے کنفیوژن پھیلانے کی جو مہم چلا رہے ہیں اس کا پردہ پوری طرح چاک کر دیا جائے ۔

کہا جا رہا ہے کہ وردی کوئی مسئلہ نہیں‘ اصل مسئلہ تو معاشرتی ترقی اور میگا پروجیکٹس کی تکمیل کا ہے اور گویا حزب اختلاف ان کی مخالف ہے‘ جب کہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھی معاشی ترقی‘ ہمسایوں سے دوستی اور عالمی برادری سے ہم آہنگی کے لیے ساری دوڑ دھوپ کر رہے ہیں۔

آیئے اس امر کا جائزہ لیں کہ اصل مسئلہ ہے کیا؟

اقبال اور قائد کا تصور پاکستان

سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر ہم نے انگریز اور ہندو قیادت دونوں کے خلاف جنگِ آزادی کن مقاصد کے لیے لڑی تھی؟ اگر مسئلہ صرف معاشی ترقی اور میگا پروجیکٹس ہی کا تھا اور عالمی قوتوں سے ہم آہنگی اصل منزل مراد تھی تو پھر برطانیہ سے‘ جو اس وقت کی سوپر پاور تھی‘ اور جس کے استعماری راج کا ہدف ہی ترقی اور مغرب کے نمونے پر ملک کی تعمیر تھا‘ لڑائی کس بات کی تھی؟ ریل کی پٹڑی اور سڑکوں کا جال تو انگریز کے دور میں بچھا دیا گیا تھا۔ صنعتی انقلاب بھی اس دور میں شروع ہوگیا تھا‘ نیا تعلیمی نظام بھی انھی کا مرہونِ منت تھا۔ ان کا دعویٰ تھا ہی یہ کہ ہم ساری دنیا میں ترقی اور تہذیبِ نو کے پرچارک ہیں۔ پھر مخالفت اور تصادم کس لیے تھا؟

حالات کا جتنا بھی تجزیہ کیا جائے‘ یہ بات بالکل نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ اصل لڑائی آزادی‘ حاکمیت‘ اپنے دین‘ اپنی اقدار‘ اپنی تاریخ اور اپنے قومی و ملّی تشخص کی حفاظت اور ترقی کی تھی۔ معاشی ترقی وہی معتبر ہے جو قوم و ملک کی آزادی اور اقدارِ حیات کے مطابق اور ان کو تقویت دینے والی ہو۔ عالمی قوتیں ہوں یا ہمسایہ ممالک‘ سب سے دوستی اور تعاون صرف اس فریم ورک میں مطلوب ہے جس میں ملک و ملّت کی آزادی اور نظریاتی و تہذیبی تشخص مضبوط اور محفوظ ہو۔ صرف معاشی اہداف تو برطانیہ کی حکمرانی میں بھی حاصل ہوسکتے تھے اور آزادی کی صورت میں ملک کی تقسیم کے بغیر بھی مشترک مقاصد کی حیثیت اختیار کر سکتے تھے۔ پاکستان کے قیام کا اصل جواز (raison de'tere) تو یہ صرف یہ تھا کہ نہ صرف ملک آزاد ہو بلکہ مسلمان بھی آزاد ہوں اور وہ اپنے دین و ایمان‘ اپنے اصول و اقدار اور اپنے تہذیبی تشخص کی مناسبت سے ترقی کی منزلیں طے کر سکیں۔

علامہ اقبال ؒ نے آخری زمانے (مارچ ۱۹۳۸ئ) میں واضح کر دیا تھا کہ انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے سے ہمارا مقصد یہی نہیں کہ ہم فقط آزاد ہو جائیں‘ بلکہ ہمارا اول مقصد یہ ہے کہ اس آزادی کا نتیجہ اسلام کی بنیاد پر ایک دارالسلام کی صورت میں ظاہر ہو اور مسلمان طاقت ور بن جائیں لیکن اگر یہ نتیجہ حاصل نہ ہو سکے تو پھر ایسی آزادی پر ہزار مرتبہ لعنت۔ (مقالاتِ اقبال، مرتبہ عبدالاحد معین‘ ص ۳۳۷-۳۳۸)

قائداعظمؒ نے قرارداد لاہور سے بھی پہلے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ:

وہ لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہوجائیں اور اپنے مطالبات پیش کرنے میں خوف و خطر کو پاس نہ پھٹکنے دیں۔ نیز اپنے ملّی‘ مذہبی‘ معاشرتی اور روایاتی حقوق کی حفاظت کے لیے نبردآزما رہیں۔ میں کانگریس سے یا ہندوئوں سے مساوات کے اصول پر آبرومندانہ مصالحت کرنے پر آمادہ ہوں لیکن میں مسلم قوم کو ہندوئوں یا کانگریس کا حاشیہ بردار نہیں بنا سکتا۔ (خطاب جبل پور‘ ۷ جنوری ۱۹۳۸ئ‘ بحوالہ گفتار قائداعظم‘ مرتبہ احمد سعید‘ قومی کمیشن براے تحقیق تاریخ و ثقافت‘ اسلام آباد‘ ص ۱۹۱)

علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے اقتصادی ترقی کے سراب کا پردہ چاک کرتے ہوئے بتایا کہ ہندو قیادت کا مقصد مسلمانوں کو دینی‘ اخلاقی اور تہذیبی اعتبار سے اپنا محکوم بنانا ہے۔ انھوں نے فرمایا:

وہ ہمیں بندے ماترم جیسے مشرکانہ اور ملحدانہ گیت گانے پر مجبور کر رہی ہے۔ مجھے بحیثیت مسلمان‘ دوسری اقوام کے تمدن‘ معاشرت اور تہذیب کا پورا احترام ہے لیکن مجھے اپنے اسلامی کلچر اور تہذیب سے بہت زیادہ محبت ہے۔ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ ہماری آنے والی نسلیں اسلامی تمدن اور فلسفے سے بالکل بے بہرہ ہوں۔ مسلمانوں کے لیے یہ امر قطعاً ناقابلِ قبول ہے اور ناقابلِ برداشت ہے کہ وہ اپنی حیات اور ممات‘ زبان‘ تہذیب و تمدن ایک ایسی اکثریت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں کہ جس کا مذہب‘ تہذیب اور تمدن اس سے قطعاً مختلف ہے اور جن کا موجودہ سلوک مسلمانوں کے ساتھ نہایت برا ہے بلکہ مذموم اور غیرمنصفانہ ہے۔ (گفتار قائداعظم‘ ص ۲۰۶)

میمن چیمبر آف کامرس اور میمن مرچنٹس ایسوسی ایشن کے ایک استقبالیے میں قائداعظمؒ نے وضاحت سے اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے فرمایا تھا:

مسلمانوں کے لیے پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے پاس تو تیرہ سو برس سے ایک مکمل پروگرام موجود ہے اور وہ قرآن پاک ہے۔ قرآن پاک ہی میں ہماری اقتصادی‘ تمدنی و معاشرتی اصلاح و ترقی کے علاوہ سیاسی پروگرام بھی موجود ہے۔ میرا اس قانونِ الٰہیہ پر ایمان ہے اور جو میں آزادی کا طالب ہوں وہ اسی کلامِ الٰہی کی تعمیل ہے۔ قرآن پاک ہمیں تین چیزوں کی ہدایت کرتا ہے: آزادی‘ مساوات اور اخوت۔ بحیثیت ایک مسلمان کے‘ میں بھی انھی تین چیزوں کے حصول کا مستحق ہوں۔ تعلیمِ قرآن میں ہی ہماری نجات ہے اور اس کے ذریعے سے ہم ترقی کے تمام مدارج طے کر سکتے ہیں۔ (ایضاً،ص ۲۱۶)

قراردادِ لاہور کے بعد ۲۱ دسمبر ۱۹۴۰ء کو احمدآباد میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے فرمایا:

دونوں قوموں کی آزادی کے لیے پاکستان بہترین ذریعہ ہے۔ مسلمانوں کو ہندو صوبوں میں پِس جانے کا خوف نہیں کرنا چاہیے۔ مسلم اقلیت والے صوبوں کے مسلمانوں کو اپنی تقدیر کا مقابلہ کرنا چاہیے لیکن مسلم اکثریت والے صوبوں کو آزادی دلانی چاہیے تاکہ وہ اسلامی شریعت کے مطابق اپنی زندگی بسر کر سکیں۔ (ایضاً،ص ۲۵۴)

حیدر آباد دکن میں راک لینڈ کے سرکاری مہمان خانے میں نوجوانوں کے اجتماع میں سوال جواب کی محفل میں پاکستان کے لیے اسلامی نظام کی بحث میں بڑے بنیادی نکات کی وضاحت کی:

سوال: مذہب اور مذہبی حکومت کے کیا لوازم ہیں؟

قائداعظم:جب میں انگریزی زبان میں مذہب کا لفظ سنتا ہوں تو اس زبان اور قوم کے محاورے کے مطابق میرا ذہن خدا اور بندے کی باہمی نسبتوں اور رابطے کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ میں بخوبی جانتا ہوں کہ اسلام اور مسلمانوں کے نزدیک مذہب کا یہ محدود اور مقید مفہوم یا تصور  نہیں ہے۔ میں نہ تو کوئی مولوی ہوں نہ مُلّا‘ نہ مجھے دینیات میں مہارت کا دعویٰ ہے‘ البتہ میں نے قرآن مجید اور اسلامی قوانین کے مطالعے کی اپنے تئیں کوشش کی ہے۔ اس عظیم الشان کتاب میں اسلامی زندگی سے متعلق ہدایات کے باب میں زندگی کے روحانی پہلو‘ معاشرت‘ سیاست‘ معیشت‘ غرض انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو قرآن مجید کی تعلیمات کے احاطے سے باہر ہو۔ قرآن کی اصولی ہدایات اور اس کا سیاسی طریقۂ کار نہ صرف مسلمانوں کے لیے بہترین ہے بلکہ اسلامی سلطنت میں غیرمسلموں کے لیے بھی سلوک اور آئینی تحفظ کا اس سے بہتر تصور ممکن نہیں۔

س: ترکی ایک سیکولر اسٹیٹ ہے۔ اسلامی حکومت اس سے مختلف ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے؟

قائداعظم: ترکی حکومت پر میری نظر میں سیکولر اسٹیٹ کی سیاسی اصطلاح اپنے پورے مفہوم میں منطبق نہیں ہوتی۔ اب اسلامی حکومت کے تصور کا یہ بنیادی امتیاز پیش نظر رہے کہ اطاعت اور وفاکیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے اس لیے تعمیل کا مرکز قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ کسی پارلیمان کی‘ نہ کسی شخص یا ادارے کی۔ قرآن کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کے حدود متعین کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول اور احکام کی حکمرانی ہے۔ آپ جس نوعیت کی بھی حکمرانی چاہیں‘ بہرحال آپ کو سلطنت اور علاقے کی ضرورت ہے۔

س: وہ سلطنت ہمیں ہند میں کیسے نصیب ہوسکتی ہے؟

قائداعظم: مسلم لیگ‘ اس کی تنظیم‘ اس کی جدوجہد‘ اس کا رخ اور اس کی راہ___ سب اسی سوال کے جواب ہیں۔ (ایضاً،ص ۲۶۱-۲۶۲)

ہم نے قدرے تفصیل سے قائداعظمؒ کے تصور پاکستان کے چند پہلو اس لیے بیان کیے ہیں کہ یہ بات واضح ہو جائے کہ بلاشبہہ ہمیں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے معاشی استحکام مطلوب ہے لیکن اصل ہدف مسلم اُمت کی آزادی‘ حاکمیت اور تہذیبی و دینی تشخص کی حفاظت اور ترقی ہے۔ معاشی ترقی اسی کُل کے ایک حصے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے آج بھی پاکستان کی بقا‘ ترقی اور استحکام کا انحصار صرف معاشی عوامل پر نہیں بلکہ سیاسی‘ تہذیبی اور معاشی ‘سب عوامل کے ہم آہنگ اور ہم رنگ ہونے پر ہے۔

جنرل پرویز مشرف کے خلاف جو تحریک آج ملک کے طول و عرض میں پروان چڑھ رہی ہے‘ اس کا تعلق محض ان کی ذات سے نہیں بلکہ اصل چیز وہ نظامِ حکومت‘ وہ طرزِ حکمرانی اور وہ ملکی اور بین الاقوامی پالیسیاں ہیں جن کا وہ عنوان بن گئے ہیں۔ ساڑھے پانچ سال میں ان کے عزائم  کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اگر ان کے اس نظامِ حکومت کو دو اور دو چار کی طرح واضح الفاظ میں بیان کیا جائے تو اس کے سات اجزا نمایاں ہو کرسامنے آتے ہیں۔ یہ نکات ان کے بیانات ہی نہیں‘ ان کی حکومتی پالیسیوں اور عملی اقدامات سے واضح ہوتے ہیں۔ عوامی احتجاجی تحریک ان ہی کے خلاف ہے۔

m فردِ واحد کی حکومت: ان کے نظامِ حکومت کی پہلی خاصیت فردِ واحد کی حکومت ہے۔ وہ دستور‘ قانون‘ ضابطوں اور روایات کسی کا بھی احترام نہیں کرنا جانتے اور خود اپنے بنائے دستور اور ضابطے کے بھی قائل نہیں۔ انھوں نے شخصی حکمرانی کا راستہ اختیار کیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دستور ایک غیرمتعلق کتاب اور پارلیمنٹ غیر مؤثر ادارہ بن کر رہ گئے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی  اپنی بنائی ہوئی حکومت بھی اس کھیل میں ایک بے بس تماشائی ہے۔ بظاہر وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہے لیکن اس کی عملی حیثیت چیف آبزور (معزز ترین تماشائی) اور من کہ ایک فدوی(most obedient servant) سے زیادہ نہیں۔ پالیسی کے معمولات ہوں‘ یا عالمی رہنمائوں سے مذاکرات اور معاہدات کے معاملات یا نظامِ حکومت کو چلانے کے لیے انتظامی اقدامات‘ حتیٰ کہ معمولی معمولی تقرریاں اور تبادلے___ سب کا انحصار ایک فردِ واحد پر ہے۔ ادارے مضمحل اور غیرمؤثر ہوکر رہ گئے ہیں اور قوانین اور ضابطے کاغذ پر بے جان‘ بے معنی اور بے توقیر الفاظ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ یہ جمہوریت اور اسلامی اصول حکمرانی کی ضد ہے اور موجودہ احتجاجی تحریک کا پہلا ہدف  اس شخصی حکمرانی کو چیلنج کر کے دستور‘ قانون اور اداروں کی بالادستی کا قیام ہے۔

  • فوج کی بالادستی: دوسرا نکتہ ملک کے نظامِ حکمرانی میں دستور کے مطابق سیاسی اور سول قوتوں کی بالادستی کا قیام ہے۔ وردی دراصل عنوان ہے ملک کے سیاسی نظام پر فوجی قیادت کے غیرقانونی تسلط کا۔ مخالفت وردی کی نہیں‘ وردی کے غلط استعمال کی ہے۔ فوج کی وردی فوج کی قیادت اور سپاہ کو زیب دیتی ہے۔ مملکت کی صدارت اور حکمرانی پر فائز تمام افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ دستور کے مطابق جمہوری ذرائع سے برسرِاقتدار آئیں اور ان اوصاف کے حامل ہوں جو دستور نے بیان کیے ہیں۔

دستور نے فوج کے تمام افسروں اورجوانوں کے لیے لازم کیا ہے کہ وہ سیاست میں ملوث نہ ہوں اور فوج پوری قوم کی معتمد علیہ اور صرف اور صرف دفاع وطن کے لیے مخصوص ہو۔ فوج کی قیادت کی تربیت اس خاصی قسم کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے ہوتی ہے اور وہ سیاست اور نظامِ حکمرانی کو چلانے کی اہلیت اور ذہنیت دونوں سے عاری ہوتے ہیں۔ پھر فوج کے سیاست میں آجانے سے وہ ایک متنازعہ قوت بن جاتی ہے جس سے اس کی دفاعی صلاحیت بری طرح مجروح ہوتی ہے۔ جنرل مشرف نے جو پالیسی اختیار کی ہے‘ اس کی وجہ سے فوج کا عمل دخل سیاست اور حکمرانی کے ہر شعبے میں اس طرح ہوگیا ہے کہ اب ان تمام میدانوں میں اسے حریف تصور کیا جانے لگا ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ خطرناک کیفیت پیدا ہو رہی ہے کہ عوام چند جرنیلوںہی کو ہدف تنقید و ملامت نہیں بنا رہے بلکہ فوج بحیثیت ایک ادارے کے اپنی عزت و احترام کھو رہی ہے اور اس کے خلاف بے اعتمادی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اب اس کی طرف نگاہیں قوم اور وطن کے محافظ کی حیثیت سے نہیں اٹھ رہیں۔ وہ بگاڑ اور لوٹ کھسوٹ میں شریک اداروں میں ایک   شریک کار کی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ یہ صورت حال دفاع وطن اور خود فوج کی عزت اور وقار کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ وردی پر اصرار کرکے جنرل پرویز مشرف نے اپنی ساکھ ہی کو خاک میں نہیں ملایا‘پوری فوج کے وقار اور عزت کو بھی پامال کیا ہے۔ جس طمطراق سے وہ دفاعی حصار میں منعقد کیے جانے والے سیاسی جلسوں میں فوجی وردی میں  شرکت کر رہے ہیں اور ایک مخصوص سیاسی ٹولے کے لیے مہم چلا رہے ہیں‘ اس نے فوج کو بحیثیت ادارہ‘ سیاست کی دلدل میں گھسیٹ لیا ہے اور یہ مقدس وردی اس بری طرح داغ دار کر دی گئی ہے کہ اسے محض فوجی وردی قرار دینا ایک  سنگین مذاق بن گیا ہے۔

جمہوری احتجاجی تحریک کا دوسرا ہدف فوج کو ایک بار پھر ایک مضبوط اور مؤثر دفاعی ادارہ بنانا‘ اسے سیاست کی آلایش سے پاک کرنا‘ اور پورے فوجی نظام کو دستور کے مطابق سول نظام کے تابع اور اس کا معاون بنانا ہے‘ حکمران رکھنا نہیں۔

  • قومی وقار کی پامالی: جنرل پرویز مشرف یہ کہتے ہوئے آئے تھے کہ قومی وقار اور عزت کو بحال کریں گے لیکن عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ ان ساڑھے پانچ سالوں میں اور خصوصیت سے نائن الیون کے بعد کے ان کے اقدامات اور پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان امریکا کا     تابع مہمل بن گیا ہے۔ دنیا بھر میں آج امریکا کی غیرمنصفانہ اور ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف نفرت کا لاوا پک رہا ہے۔ مغربی دنیا میں ۷۰سے ۸۰ فی صد عوام اور عالم اسلام میں ۹۰ سے ۹۵ فی صد آبادی اسے ایک سامراجی قوت‘ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نبردآزما ایک جارح فریق اور عالمی امن کو تہ و بالا کرنے اور انصاف اور انسانی حقوق کو پامال کرنے والی ایک استبدادی طاقت قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان کی حکومت ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکی جنگ میں اپنے کردار پر اتنا فخر کررہی ہے کہ اسے‘ خصوصیت سے جنرل پرویز مشرف کو امریکا کے سب سے تابع دار حلیف اور خدمت گزار کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے۔ پوری اُمت مسلمہ کی نگاہوں میں ہم نفرت اور حقارت کا ہدف بن گئے ہیں۔ دوسری طرف اس کے نتیجے میں ملک میں بدامنی اور بے چینی پھیل رہی ہے۔ تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد امریکی اور دوسرے اتحادی سفارت خانوں کو  معرضِ خطر میں دکھایا جاتا ہے اور پاکستان سفر کرنے والوں کے لیے تنبیہ جاری کی جاتی ہے۔

کبھی پاکستان کو عالم اسلام میں عزت اور وقار کا مقام حاصل تھا اور آج عالم اسلام کے عوام پاکستان کی قیادت کو صرف امریکا کا بغل بچہ سمجھ رہے ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی جتنی بے آبرو آج ہے‘ اتنی کبھی نہ تھی۔ اور اب تو صاف کہا جا رہا ہے کہ ہماری کوئی خارجہ پالیسی نہیں‘ ہم اپنے  قومی مفادات کی قیمت پر بھی امریکا کے مفادات بخوشی پورا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم اس کے کارندے کا کردار ادا کرنے میں کوئی تکلف نہیں۔ بھارت سے دوستی بھی امریکا کے زیرہدایت کی جارہی ہے‘ اور عوامی ردعمل جاننے کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنے تک کے محاسے (feeler) اس کے اشارے پر دیے جا رہے ہیں۔ ایران پر امریکی دبائو میں ہم بھی کردار ادا کررہے ہیں اور نوبت بہ اینجا رسید کہ یہ تک کہہ رہے کہ ایک ہمسایہ مسلمان ملک پر ایک صریح ظالمانہ حملے کی صورت میں ہم مظلوم کا ساتھ دینے والے نہیں بلکہ خاموش تماشائی ہوں گے جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب کل یہی کچھ ہمارے ساتھ ہو تو کوئی ہمارے حق میں آواز اٹھانے والا بھی نہ ہو۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!

اسلام کی ’روشن خیال‘ تعبیر

بات صرف سیاسی آزادی اور حاکمیت کے باب میں سمجھوتے تک محدود نہیں‘ اس دورحکومت میں خطرناک رجحانات کو ہوا دی جا رہی ہے: نظریاتی انتشار‘ دو قومی نظریے کے بارے میں شدید ژولیدہ فکری و مغرب کی آبرو باختہ تہذیب و ثقافت کا فروغ‘ بھارت کی مشرکانہ اور ہندو تہذیبی یلغار کے لیے خوش آمدید کا رویہ___ یہ سب باتیں پاکستان کے وجود اور اس کی تہذیبی شناخت کے لیے شدید خطرے کا باعث ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ مسلم لیگ (ق) کی قیادت عام حالات میں اسلام اور مسلمانوں کی اقدار ہی کی باتیں کیا کرتی تھی‘ اب وہ بھی بھارت کے ساتھ مشترک تہذیب کے راگ الاپ رہی ہے۔ کوئی مشترک پنجابی تہذیب کی بات کرتا ہے تو کوئی اپنے ماتھے پر تلک لگاکر‘ ہندو جنونیوں کے لیڈر شری ایل کے ایڈوانی کو لاہور کے قلعے میں مندر کا سنگِ بنیاد رکھنے کی دعوت دے رہا ہے    ؎

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں

تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں

اسی لَے میں ایک آواز ’’اعتدال پسندی اور روشن خیالی‘‘ کی بلند کی جارہی ہے جس کے نام پر کبھی داڑھی اور حجاب کا مذاق اڑایا جاتا ہے‘ کبھی چوروں کے ہاتھ کاٹنے کو وحشت اور ظلم   قرار دیا جاتا ہے‘ کبھی حدود قوانین کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے تو کبھی توہین رسالتؐ کا قانون کانٹا   بن کر چبھنے لگتا ہے۔ کبھی بسنت کے نام پر شراب و شاہد اور فحاشی کا بازار گرم کیا جاتا ہے‘ کبھی   مخلوط میراتھن ریس کا ڈراما رچایا جاتا ہے‘ کبھی دینی تعلیم اور مدارس کو زیرِعتاب لایا جاتا ہے اور کبھی انتہاپسندی کے نام پر ہر اصول و ضابطے اور تمام اقدار و روایات کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے اور   سمجھا جاتا ہے کہ ترقی نام ہے بے حجابی‘ عریانی اور فحاشی کو فروغ دینے کا۔

یہ سب کچھ اقبال اور قائد اعظم کے تصورِجدیدیت کے نام پر کیا جا رہا ہے حالانکہ قائداعظم نے جس پاکستان کے لیے جدوجہد کی تھی اور مسلمانوں نے قربانیاں دی تھیں وہ اسلامی تہذیب و معاشرت کی حفاظت اور فروغ کے ہدف کے لیے تھی‘ مغربی تہذیب اور ہندو ثقافت کے فروغ کے لیے نہیں۔ اور رہا اقبال‘ تو اس نے تو ساری زندگی ہی جس کارعظیم کے لیے وقف کی اس میں ترقی اور روشن خیالی کے اس فتنے کا پردہ چاک کرنے کو مرکزیت حاصل تھی۔ جاوید نامہ میں کس   بالغ نظری اور کس صاف گوئی اور راست فکری کے ساتھ وہ کہتا ہے:

شرق را از خود برد تقلیدِ غرب

باید ایں اقوام را تنقیدِ غرب

قوتِ مغرب نہ از  چنگ و رباب

نے زرقصِ دخترانِ بے حجاب

نے ز سحرِ ساحرانِ لالہ روست

نے ز عریاں ساق ونے از قطعِ موست

محکمی او را نہ از لا دینی است

نے فروغش از خطِ لاطینی است

حکمت از قطع و بریدِ جامہ نیست

مانعِ علم و ہنر عمّامہ نیست

علم و فن را اے جوانِ شوخ و شنگ

مغز می باید نہ ملبوسِ فرنگ

اندریں رہ جز نگہ مطلوب نیست

ایں کُلہ یا آں کُلہ مطلوب نیست

فکرِ چالا کے اگر داری بس است

طبعِ درّا کے اگر داری بس است

گر کسے شبہا خورد دودِ چراغ

گیرد از علم و فن و حکمت سراغ

ملکِ معنی کس حدِ او را نہ بست

بے جہادِ پیہمے ناید بدست

مشرق کو مغرب کی تقلید نے اپنا آپ بھلا دیا ہے۔ ان اقوامِ مشرق کو چاہیے کہ وہ مغرب کو تنقید کی نظر سے دیکھیں۔ مغرب کی قوت چنگ و رباب سے نہیں‘ نہ یہ بے پردہ لڑکیوں کے رقص کی وجہ سے ہے۔ نہ یہ سرخ چہرہ‘ محبوبوں کے جادو کی وجہ سے نہ یہ ان کی عورتوں کی ننگی پنڈلیوں اور بال کٹانے سے ہے۔ نہ اس کا استحکام لادینی کی وجہ سے ہے اور نہ اس کی ترقی رومن رسم الخط کے باعث ہے۔ افرنگ کی قوت ان کے علم اور فن کے سبب سے ہے۔ ان کا چراغ اسی آگ سے روشن ہے۔ ان کی حکمت لباس کی قطع و برید کے سبب سے نہیں‘ عمامہ علم و ہنر سے منع نہیں کرتا۔ اے شوخ و شنگ جوان علم و فن کے لیے مغز چاہیے نہ کہ مغربی لباس۔ اس راہ میں صرف نگاہ مطلوب ہے‘ یہ ٹوپی یا وہ ٹوپی مطلوب نہیں۔ اگر تیرے اندر زود و رس فکر اور تیزبین طبع ہے تو یہ دونوں چیزیں علم و فن کے لیے کافی ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی راتیں فکر اور مطالعہ میں بسر کرتا ہے تو وہ علم و فن اور حکمت کا سراغ پالیتا ہے۔ معانی کی سلطنت جس کی حدود کا تعین کوئی نہیں کرسکا‘ کوشش پیہم کے بغیر ہاتھ نہیں آتی۔

آج کی جمہوری تحریک کا چوتھا ہدف پاکستان کی نظریاتی شناخت کا تحفظ اور اسلامی تہذیب و ثقافت پر اس حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھنے والی تہذیبی اور تمدنی یلغار کی بھرپور مزاحمت اور پاکستان کے اصل تصور کے مطابق اس کی تعمیرنو کے لیے اجتماعی جدوجہد اور نئی قیادت کو بروے کار لانے کی کوشش ہے۔

بہارت سے دوستی لیکن کس قیمت پر؟

بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے نام پر قومی غیرت اور پاکستان کے حقیقی مفادات کی قیمت پر بنیادی پالیسی کے معاملات میں ایسی قلابازیاں (U-turns) کھائی جارہی ہیں جن کے نتیجے میں نہ صرف ملک کی سلامتی اور استحکام معرضِ خطر میں ہے بلکہ پورے علاقے کا نقشہ ہی تہ و بالا ہوسکتا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ محض کوئی سرحدی تنازع نہیں‘ یہ ڈیڑھ کروڑ انسانوں کی آزادی اور       حقِ خودارادیت کا مسئلہ ہے اور پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کے ساتھ ساتھ تقسیمِ ہند کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ کسی فردِ واحد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اسے اپنے کھلنڈرانہ رویوں اور اپنی طالع آزمائیوں کا نشانہ بنائے۔ کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ قوم کے تاریخی موقف کو محض اپنے زعم میں تبدیل کر دے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں جہاں ایک اخلاقی اور قانونی معاہدہ ہیں‘ وہیں وہ ایک عالمی میثاق کی حیثیت رکھتی ہیں جس کے تین بنیادی فریق ہیں: پاکستان‘ بھارت اور جموں و کشمیر کے عوام۔ اقوام متحدہ اور پوری عالمی برادری اس میثاق کی ضامن ہے۔ تعجب کا مقام ہے کہ ایک فوجی جسے عالمی سفارت کاری اور بین الاقوامی قانون اور آداب کے باب میں کوئی مہارت حاصل نہیں‘ کسی مشورے اور مجاز اداروں کے کسی فیصلے کے بغیر‘ ترنگ میں آکر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بارے میں عالمی میڈیا کے سامنے یہ کہنے کی جسارت کرتا ہے کہ انھیں ایک طرف رکھا (set aside) جاسکتا ہے۔ صدافسوس یہ ہے کہ ایسا کہنے والے کا کوئی احتساب نہیں ہوتا‘ اور اقتدار کے پجاری نہ صرف اس کی تاویلیں کرنے لگتے ہیں بلکہ پوری کشمیر پالیسی کا رخ ہی بدل دیتے ہیں۔

اس قیادت کی سیاسی سوجھ بوجھ کے بارے میں کیا کہا جائے جو اسی پسپائی‘ عاقبت نااندیشی اور قومی مفادات سے بے وفائی کو اپنی ’’جرأت اور بہادری‘‘ کا نام دیتی ہے اور پھر خود اپنی تعریف کے راگ الاپتی ہے۔ ’’جرأت و فراست‘‘ کا عالم یہ ہے کہ جب امریکا بہادر کہتا ہے کہ ہمارا ساتھ دو‘ ورنہ ہماری دشمنی کے لیے تیار ہوجائو تو غیر مشروط ہتھیار ڈال دیتی ہے۔ لبنان اور شمالی کوریا جیسے کمزور اور چھوٹے ممالک سفارت کاری میں جوہر دکھاتے ہیں‘ ہم اس کے گردِراہ کو بھی نہیں پاسکتے۔ ۱۹۷۱ء کی شکست کے بعد بھی‘ شملہ معاہدے کے موقع پر سیاسی قیادت نہ صرف اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کے اصولوں کا ذکر شامل کرا لیتی ہے بلکہ جو بات بھی کرتی ہے وہ ’’دونوں حکومتوں کے اصولی مؤقف پر کسی اثر کے بغیر‘‘کے فریم ورک میں کرتی ہے اور کشمیر کے مسئلے کے آخری حل (final solution) کو ایجنڈے میں رکھتی ہے۔ لیکن ہمارے فوجی حکمران ان تمام قانونی اور سفارتی نزاکتوں کا کوئی ادراک نہیں رکھتے اور بس جرأت کا صرف یہ مفہوم سمجھتے ہیں کہ مستعدی سے دوسروں کے مطالبات کے آگے سپر ڈال دیں اور اپنے مؤقف کو چشم زدن میں ترک کر دیں۔

جمہوری جدوجہد کا پانچواں ہدف کشمیر کے معاملے میں قوم کے جذبات اور عزائم اور پاکستان کے حقیقی مفادات کی روشنی میں ایک ایسے محکم اور مبنی برحق موقف کا اعادہ ہے جو جموں و کشمیر کے عوام کے عزائم اور اہداف سے مطابقت رکھتی ہو‘ جو ان کی تاریخی جدوجہد کی قربانیوں کی     لاج رکھنے والی ہو اور جو پاکستان اور جموں و کشمیر کے عوام کے بہترین مفاد میں ہو۔ پاکستانی قوم بھارت سے دوستی ضرور چاہتی ہے لیکن غیرت اور ملکی اور ملّی مفادات پر کوئی سمجھوتہ کیے بغیر۔

m غربت اور مھنگائی: عوامی احتجاج کا ایک اور ہدف وہ معاشی مشکلات ہیں جو اس حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں اور جن کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ زرِمبادلہ کے ذخیرے میں اضافہ بجا‘ لیکن جس زرمبادلہ کا کوئی فائدہ عوام کو اور خصوصیت سے مجبور اور    پسے ہوئے طبقات کو نہیں اس کا کیا حاصل؟ غربت کی شرح بڑھ رہی ہے اور آج ۵ کروڑ سے زیادہ افراد دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ اگر ۱۹۹۰ء میں خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی آبادی  کُل آبادی کا ۲۰-۲۲ فی صد تھی تو ۲۰۰۴ء میں ان کی تعداد ۳۲-۳۴ فی صد ہوگئی ہے۔ اگر ۱۹۹۹ء میں بے روزگاری کا تناسب صرف ۵ فی صد تھا تو ۲۰۰۴ء میں وہ بڑھ کر ۸ فی صد سے بڑھ گیا ہے۔ تیل اور گیس کی قیمتوں میں ان پانچ سالوں میں ۸۰ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ پٹرول ۱۹۹۹ء میں ۲۶ روپے لٹر تھا جو آج ۴۶ روپے لٹر ہے۔ آٹا ۹روپے کلو تھا‘ اب ۱۹ روپے کلو ہے۔ چینی ۱۳ روپے کلو تھی ‘   اب ۲۰ روپے کلو ہے۔ عوام چیخ رہے ہیں‘ اور جنرل پرویز مشرف اور ان کے ارب پتی معاشی مینیجر مبادلہ خارجہ کے ذخائر کے اضافے پر شادیانے بجا رہے ہیں اور کل تک جس اسٹاک ایکسچینج کی ہوش ربا ترقی پر نازاں تھے‘ اب مہینے بھر میں ہی اس میں ۴۰ فی صد کمی پر بغلیں جھانک رہے ہیں۔ جنرل مشرف اور ان کی حکومت بے شک ’ابن مریم‘ ہونے کا دعویٰ کریں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام کے دکھوں کا مداوا کون کرے‘ ان کے زخموں پر مرہم کا پھاہا کون رکھے؟

عوامی جدوجہد کا ایک اہم ہدف اس معاشی استحصال اور ظلم کا خاتمہ اور ملک کی معاشی ترقی کا وہ آہنگ اختیار کرنا ہے جس کے نتیجے میں ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچ سکیں‘ بے روزگاری ختم ہوسکے‘ مہنگائی کا عفریت قابو میں لایا جاسکے‘ دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کو حدود کا پابند کیا جا سکے۔ اشیاے ضرورت عام آدمی کی دسترس میں ہوں‘ معاشی ترقی کے مواقع سب کو حاصل ہوں۔

  • صوبوں کی بے اطمینانی: جنرل مشرف نے اکتوبر ۹۹ء کے خطاب میں ایک ہدف صوبوں کے درمیان ہم آہنگی اور مرکز اور صوبوں کے تعلقات میں سدھار کو قرار دیا تھا مگر آج مرکز اور صوبوں میں جتنا بُعد ہے اور چھوٹے صوبے جس بے چینی اور اضطراب میں مبتلا ہیں‘ وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے پہلے کے پُرآشوب حالات سے گہری مماثلت رکھتا ہے اور تمام  محبِّ وطن عناصر کے لیے شدید پریشانی کا باعث ہے۔ مشترکہ مفادات کی کونسل ایک دستوری ادارہ ہے‘ اس کا ایک بھی اجلاس گذشتہ پانچ سال میں نہیں ہوا۔ نیشنل فنانس ایوارڈ پر صوبوں کے مالیات اور ترقی کا انحصار ہے‘ اس پانچ سال میں کوئی ایوارڈ نہیں دیا جاسکا۔ صوبہ سرحد اپنے حق کے لیے  چیخ رہا ہے‘ بلوچستان کے عوام محرومیوں اور امتیازی سلوک کا شکار ہیں‘ سندھ میں بھی بے چینی کی لہریں اٹھ رہی ہیں۔ پانی کی تقسیم اور آبی ذخائر کی تعمیر کے مسئلے کو اتنا الجھا دیا گیا ہے کہ اب وہ ایک فنی مسئلے سے بڑھ کر ایک پیچیدہ سیاسی مسئلہ بن گیا ہے۔ شمالی علاقہ جات اور بلوچستان کے حساس علاقوں میں تصادم کی آگ پارلیمانی کمیٹی بجھانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن جنرل صاحب کے اندازِکلام میں کوئی فرق نہیں اور وہ اپنے  اذیت ناک اور توہین آمیز لب و لہجے میں کوئی تبدیلی لانے کو تیار نہیں جس کی وجہ سے حالات مزید بگاڑ کی طرف جا رہے ہیں۔ وہ ابھی تک مضبوط مرکز ہی پاکستان کی مضبوطی سمجھتے ہیں‘ جب کہ مضبوط صوبوں اور مطمئن صوبوں کے بغیر پاکستان کی مضبوطی کا تصور ہی ناممکن ہے۔

عوامی جمہوری تحریک کا ایک ہدف حقیقی وفاقی نظام کا قیام اور مرکز اور صوبوں میں اختیارات کی ایسی تقسیم اور اس کا نفاذ ہے جو صوبوں کی مضبوطی اور ترقی کا باعث ہو اور صوبوں کی مضبوطی اور ترقی کے ذریعے پاکستان مضبوط اور مستحکم ہو سکے۔

جو سیاسی تحریک متحدہ مجلس عمل کی قیادت میں مارچ ۲۰۰۵ء میں شروع ہوئی ہے اور جس کو ۲اپریل ۲۰۰۵ء کو ہڑتال نے مہمیز دی ہے وہ انھی اہداف کے حصول کے لیے ہے اور ان کے مکمل حصول تک ان شاء اللہ جاری رہے گی۔

ویب سائٹ پر راے عامہ

یہ اہداف عوام کے اصل جذبات اور عزائم کے آئینہ دار ہیں۔ مجلس عمل نے ان کو زبان دی ہے اور انھیں حاصل کرنے کے لیے جمہوری اور عوامی تحریک شروع کی ہے۔ تاہم یہ بھی ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ جس طرح چاروں ملین مارچ اور ۲ اپریل کی ہڑتال میں یہ اہداف اور مقاصد ہرکسی کی زبان پر رہے ہیں‘ ایک تازہ جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنرل مشرف کی ذاتی ویب سائٹ پر بھی سوالات کی شکل میں انھی کی بارش ہو رہی ہے اور جنرل صاحب جو الٹے سیدھے جوابات دے رہے ہیں‘ وہ ان کی بوکھلاہٹ کے غماز ہیں۔ دی نیوز انٹرنیشنل لندن میں ۸ اپریل ۲۰۰۵ء کو شائع ہونے والے ایک جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ سوالات اور اعتراضات مہنگائی کے مسئلے پر آئے ہیں اور دوسرے نمبر پر آنے والے سوالات کا تعلق    جنرل صاحب کی نام نہاد ’’روشن خیال اعتدال پسندی‘‘ پر لوگوں کے احساسات اور اضطرابات ہیں۔ تجزیہ نگار لکھتا ہے کہ: جہاں تک روشن خیال اعتدال پسندی کا تعلق ہے‘ بظاہر عوام زیادہ   آزاد روی سے خوش نہیں ہیں جو الیکٹرانک میڈیا کے بعض چینلوں میں ظاہر ہو رہی ہے۔

جنرل صاحب نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ وہ خود بھی حد سے زیادہ مغرب زدگی (over westernization) کے حق میں نہیں لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ مسئلہ محض الیکٹرانک میڈیا کا نہیں‘ ان کی ملک گیر پالیسی کا ہے اور پھر اصل مسئلہ حد سے زیادہ مغرب زدگی کا نہیں بلکہ جدیدیت (modernization) کے نام پر مغرب زدگی ہے جو اُمت مسلمہ کے عقیدے‘ تہذیب‘ تاریخ اور روایات کے خلاف ہے اور جسے ایک مفاد پرست طبقہ بیرونی میڈیا‘ این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی معرفت جنرل صاحب کی سرپرستی میں فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔

تیسرے نمبرپر آنے والے سوالات کا تعلق پاکستان کی آزادی اور حاکمیت سے ہے اور عوام نے امریکا کے بڑھتے ہوئے اثرات اور اس کی کاسہ لیسی کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ چوتھے نمبر پر پاکستان کے نیوکلیر اثاثوں کی حفاظت اور ڈاکٹر عبدالقدیر خاں سے کیے جانے والے سلوک کے بارے میں عوام کا اضطراب ہے۔ جائزے میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ عوام کے ایک حصے کا خیال ہے کہ: Pakistan is selling its sovereignity cheaply (پاکستان اپنی خودمختاری اور حاکمیت کو کوڑیوں کے دام فروخت کر رہا ہے)۔

جنرل صاحب اس پر بہت برافروختہ ہیں اور جس نوعیت کے جوابات دے رہے ہیں  اس میں دلیل سے زیادہ غصہ‘ اور حقائق کی بنیاد پر بات کرنے کے بجاے اپنی ذات پر اعتماد اور بھروسے کا سہارا زیادہ ہے۔ اس ویب سائٹ سے جنرل صاحب یا پالیسی سازی کے ذمہ دار کوئی فائدہ اٹھاتے ہیں یا نہیں‘ لیکن اس سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ جو بات ایم ایم اے کے ملین مارچوں میں کہی جا رہی ہے اور جس کا اظہار ۲ اپریل کی عوامی ہڑتال میں ہوا ہے‘ وہی اصل عوامی جذبات‘ احساسات اور مسائل کا آئینہ ہے۔ جنرل صاحب کی ویب سائٹ پر بھی اسی کا پرتو دیکھا جاسکتا ہے۔ اسے دی نیوز کے جائزے میں Let this be a wakeup call for all(اس سے سب لوگوں کی آنکھیں کھل جانا چاہییں)کہا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وی وی آئی پی کلچر سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ نقارۂ نقارہ

طلبہ کنونشن : نوشتۂ دیوار

انھی دنوں راے عامہ کا ایک فیصلہ کن اظہار ۹ اپریل ۲۰۰۵ء کو جناح کنونشن سنٹر میں منعقد ہونے والے قومی طلبہ کنونشن میں جنرل مشرف کی موجودگی میں ہوا۔ اس کنونشن کے مقررین اور حاضرین سب چھلنیوں سے گزر کر پہنچے تھے لیکن اس کے باوجود جب کچھ دبنگ طلبہ مقررین نے وردی پر وعدہ خلافی‘ وانا میں ترقیاتی کاموں کے نام پر فوج کے استعمال‘ بلوچستان والوں کو وہاں سے ہِٹ (hit)ہونے کی دھمکی جہاں سے وہ سوچ بھی نہیں سکتے‘ فوج کے اقتدار سنبھالنے‘ اور    بسنت منانے جیسے پروگراموں پر عوام کا نقطۂ نظر پیش کیا تو بھرا ہوا ہال تالیوں سے گونج گونج اٹھا۔ جنرل مشرف نے جواب میں اپنی گھسی پٹی باتیں دہرائیں لیکن وہ بھی جانتے تھے کہ وہ اپنے سوا کسی کو قائل نہیں کررہے۔ اگر اس پر بھی وہ نوشتۂ دیوار نہ پڑھیں تو ان کی بالغ نظری کو کیا کہا جائے۔


متحدہ مجلس عمل نے ایک بڑی قومی خدمت بروقت انجام دی ہے کہ اس نے عظیم عوامی تحریک کے ذریعے قوم کے اصل مسائل اور اس کے حقیقی عزائم اور اہداف پر سب کی توجہ کو مرکوز کیا ہے۔ یہ المیہ ہے کہ بہت سی احزاب اختلاف ساحل سے نظارۂ طوفان کر رہی ہیں اور اپنی اپنی مخصوص ترجیحات میں گرفتار ہیں۔ ملک کی ضرورت آج یہ ہے کہ سب محب وطن اور جمہوری قوتیں مل کر ملک کو بحران سے نکالنے کی اجتماعی جدوجہد کریں اور امریکا کے اس کھیل کا پردہ بھی چاک کردیں کہ جنرل صاحب کسی روشن خیال اعتدال پسندی کے داعی ہیں اور دوسری نام نہاد لبرل قوتوں کو ان کا حلیف ہونا چاہیے۔ آج مسئلہ نام نہاد روشن خیالی اور اعتدال پسندی نہیں‘ یہ تو جنرل صاحب کی انتہاپسندی اور شخصی حکومت کو دوام بخشنے کے لیے محض ایک حربہ اور دھوکا ہے۔ پاکستان کی بنیاد اور پاکستان کے دستور کے ستون اسلام‘ پارلیمانی جمہوریت اور اصول وفاق ہیں۔ یہی     تین ستون عوامی جمہوری جدوجہد کی بنیاد ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان سب کا حاصل پاکستان کی آزادی اور حاکمیت کے تحفظ کے ساتھ‘ اس کی اسلامی تہذیبی شناخت کی ترقی اور استحکام اور سب کے لیے عدل و انصاف کا قیام ہے۔ یہی آج عوام کے دل کی آواز ہے اور پاکستان کی ترقی اور استحکام کا اصل نسخہ ہے۔