بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ آج آپ زندگی کے جس شعبے سے بھی متعلق کسی شخص سے بات کریں گے تو ٹیپ کا بند یہی ہوگا: ’’حالات بڑے خراب ہیں۔ ہر طرف گھٹاٹوپ اندھیرا ہے۔ ایک مخصوص طبقے کو چھوڑ کر‘ ہر شخص شدید مشکلات اور مصائب کا شکار اور بے بسی اور مایوسی کی گرفت میں ہے‘‘۔ نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ جس چیز کا مسلمان معاشرے میں کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا‘ یعنی حالات سے بیزار ہو کر خودکشی‘ اب اس میں بھی روز افزوں اضافہ ہے۔ ان حالات میں ’’تابناک مستقبل‘‘ کی بات کیا بے وقت کی راگنی نہیں؟
اس ماحول میں بالعموم ردعمل کچھ ایسا ہی ہوتا ہے کہ ’’جسے دیکھو یہی کہتا ہے‘ ہم بیزار بیٹھے ہیں‘‘۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے ہی حالات میں مستقبل اور خصوصیت سے تابناک مستقبل کا تصور اور اس کی طرف بڑھنے کی بات وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن جاتی ہے۔ اس لیے کہ اگر مستقبل کو حال سے بہتر بنانے کا احساس اور جستجو موجود نہ ہو تو پھر تاریکی کے چھٹنے اور حالات کو تبدیل کرنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔ بگاڑ اور تاریکی ہی کا تقاضا یہ ہے کہ بنائو کی فکر ہو‘ روشنی کی تلاش ہو اور تعمیرنو کے لیے جدوجہد کی جائے۔ ترقی اور اصلاح کا راستہ حالات کے آگے سپرڈال دینے کا نہیں‘ حالات کو صحیح رخ پر موڑنے کے عزم اور عملی کوشش کا راستہ ہے۔ زندہ رہنے اور پستی سے بلندی کی طرف اٹھنے ‘ اپنی اور مظلوم اقوام کی قسمت بدلنے کا یہی راستہ ہے۔ خاص طور پر ہرمسلمان کے لیے‘ ہرمسلمان ملک کے لیے اور بحیثیت مجموعی پوری اُمت مسلمہ کے لیے تو اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ممکن ہی نہیں ہے۔ البتہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ’’تابناک مستقبل‘‘ کا صحیح تصور ہمارے سامنے ہو‘ اور مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے جن عوامل اور اقدامات کی ضرورت ہے‘ ان کا پورا پورا شعور ہو اور عملاً ایسے مستقبل کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے نہ صرف جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے بلکہ اس کے تقاضے بھی پورے کیے جائیں۔ اس لیے ہماری نگاہ میں جہاں حالات کی خرابی کا ادراک ضروری ہے‘ وہیں مستقبل کے صحیح تصور اور ایک تابناک مستقبل کے حصول کے لیے مطلوبہ لائحہ عمل کی تفہیم ازبس ضروری ہے۔
سب سے پہلا سوال ہمارے غور کرنے کا یہ ہے کہ مستقبل ہے کیا؟ جس تابناک مستقبل کی بات ہم کر رہے ہیں‘ اُس کے بارے میں سب سے پہلے ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس کی اصل وسعتیں کیا ہیں۔ یہ دنیا ایک عارضی گھرانا ہے۔ افراد ہی نہیں‘ اقوام کے لیے بھی یہ محدود امکانات سے عبارت ہے۔ البتہ اگر کوئی مستقبل ہے تو وہ صرف آخرت کا ہے‘ جو ہمیشہ کے لیے ہے۔ آخرت کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے۔ البتہ آخرت کی اس کامیابی کا انحصار اس دنیا ہی کی زندگی کی صحیح ترتیب و تنظیم پر ہے۔ دنیا ایک کھیتی کی مانند ہے‘ لیکن اس کھیتی سے تیار ہونے والی فصل یا منزلِ مقصود ہے یا آج کی کاروباری اصطلاح میں اس کی جو مارکیٹ ہے وہ آخرت ہے۔ اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ تابناک مستقبل وہ ہے جو آخرت میں تابناک ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مستقبل سے محفوظ رکھے جو آخرت میں تاریک ہو۔
جب ہم اس موضوع پر انفرادی یا اجتماعی طور پر‘ ایک گروہ یا ایک قوم کی حیثیت سے‘ پاکستانی یا اُمت مسلمہ کے فرد کی حیثیت سے غور کریں تو ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اصل تابناکی اور اصل کامیابی اور اصل روشنی آخرت کی زندگی کی ہے۔ وہی ہمارا ہدف ہونا چاہیے۔ یہاں جو مشکلات بھی ہوں‘ جو صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں‘ اور پریشانیاں اور دشواریاں پیش آئیں بلکہ بظاہر جو ناکامیاں ہوں‘ وہ سب عارضی‘ وقتی اور غیرحقیقی ہیں۔ حقیقی کامیابی صرف آخرت کی کامیابی ہے۔ اس لیے جس تابناک مستقبل کا ہم خواب دیکھ رہے ہیںاور جس کے لیے ہم دعائیں کر رہے ہیں‘ جس کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے وہ آخرت کی کامیابی ہے۔
یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہمارے اوپر ایک بہت بڑا انعام ہے کہ اس نے ہماری بشری کمزوریوں کو سامنے رکھ کر وعدہ فرمایا کہ اصل ہدف اور حقیقی کامیابی تو صرف آخرت کی کامیابی ہے لیکن تم کو دنیا میں بھی اس کی کچھ جھلکیاں دکھا دی جائیں گی ‘گویا اس کا کچھ حصہ تمھیں دنیا میں بھی میسرآسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے انقلابی پیغام اور مشن کا یہ بڑا اہم پہلو ہے کہ اس میں دنیا کی تعمیر اور اصلاحِ انسان ‘ اور یہاں انصاف اور خیر کا حصول اور غلبۂ آخرت کی کامیابی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ یہ پیغام اور مشن دوسرے مذاہب اور فلسفوں سے ہٹ کر ہے کہ اس میں وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) کی بشارت موجود ہے کہ دیکھو حوصلہ نہ ہارنا اور نہ غم کرنا‘ اگر تم مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے‘ یعنی دنیا میں بھی تم کو کامیابی ہوسکتی ہے بشرطیکہ سچے معنی میں اہلِ ایمان کا رویہ اور کردار اختیار کرو۔ یہاں بھی حالات بدل سکتے ہیں‘ یہاں بھی تاریکیاں چھٹ سکتی ہیں‘ یہاں بھی زمین اپنی نعمتیں اُگل سکتی ہے اور آسمان اپنی برکتیں نازل کرسکتا ہے اور اس طرح یہ آخرت کی کامیابی کا آغاز ہو سکتا ہے۔ انتہا تو بہرحال آخرت ہی میں ہے البتہ آغاز یہیں سے ہوسکتا ہے کیونکہ یہ ایک تسلسل ہے۔ اس پہلو سے دنیا میں مستقبل کے تابناک ہونے کی خواہش کرنا‘ اس کی تمنا اور دعا کرنا‘ اس کے لیے کوشش اور جدوجہد کرنا بھی دراصل اسلام کے مشن کا ایک حصہ ہے۔
اسی لیے ہمیں دعا کی صورت میں جو ہدف اور مشن دیا گیا وہ یہ ہے کہ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِo (البقرہ ۲:۲۰۱)’’اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا‘‘۔
وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ (الاعراف ۷:۹۶)
اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔
اللہ تعالیٰ نے حق و باطل کی کش مکش کے بارے جس سنت الٰہی کا واشگاف اعلان کیا ہے وہ تو ہے ہی یہ کہ:
وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًاo
(بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)
اور اعلان کر دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا‘ باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔
اللہ کا قانون اور تاریخ کا فیصلہ بلاشبہہ یہی ہے کہ:
بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ھُوَزَاھِقٌط (الانبیاء ۲۱:۱۸)
مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مٹ جاتا ہے۔
وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ o اِنَّھُمْ لَھُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَo وَاِنَّ جُنْدَنَا لَھُمُ الْغٰلِبُوْنَ o فَتَوَلَّ عَنْھُمْ حَتّٰی حِیْنٍ o وَّاَبْصِرْھُمْ فَسَوْفَ یُبْصِرُوْنَ o اَفَبِعَذَابِنَا یَسْتَعْجِلُوْنَ o فَاِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِھِمْ فَسَآئَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِیْنَo وَتَوَلَّ عَنْھُمْ حَتّٰی حِیْنٍ o وَّاَبْصِرْ فَسَوْفَ یُبْصِرُوْنَo (الصٰفٰت ۳۷:۱۷۱-۱۷۹)
اپنے بھیجے ہوئے بندوں سے ہم پہلے ہی وعدہ کرچکے ہیں کہ یقینا ان کی مدد کی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب ہوکر رہے گا۔ پس اے نبیؐ، ذرا کچھ مدت تک انھیں ان کے حال پر چھوڑ دو اور دیکھتے رہو‘ عنقریب یہ خود بھی دیکھ لیں گے۔
وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَاَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہٖ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo (الانفال ۸:۲۶)
یاد کرو وہ وقت جب کہ تم تھوڑے تھے‘ زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا‘ تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمھیں مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تم کو جاے پناہ مہیا کردی‘ اپنی مدد سے تمھارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمھیں اچھا رزق پہنچایا‘ شاید کہ تم شکرگزار بنو۔
وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِـنْم بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَo اِنَّ فِیْ ہٰذَا لَبَلٰغًا لِّقَوْمٍ عٰبِدِیْنَo وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَo(الانبیاء ۲۱:۱۰۵-۱۰۷)
اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے اس میں ایک بڑی خبر ہے عبادت گزار لوگوں کے لیے اور اے نبیؐ، ہم نے تم کو دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
دنیا میں کامیابی اور آزمایش دونوں ہی اہلِ ایمان کی تقدیر ہیں:
عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّھْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ o (الاعراف ۷:۱۲۹)
قریب ہے وہ وقت کہ تمھارا رب تمھارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے‘ پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔
حق و باطل کی اس کش مکش میں نشیب و فراز آتے ہیں۔ شکست و فتح دونوں سے سابقہ پڑتا ہے اور اس عمل سے گزرے بغیر منزل مقصود حاصل نہیں ہوتی لیکن استقامت اور وفاداری سے جو جدوجہد کی جائے گی‘ وہ بالآخر کامیاب ہوکر رہے گی:
اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗط وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ ج وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُھَدَآئَ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۴۰)
اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمھارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔ یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں‘ اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہیں۔
اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النُّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِیْمَانًا وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُo فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَفَضْلٍ لَّمْ یَمْسَسْھُمْ سُوْٓئٌ لا وَّاتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللّٰہِط وَاللّٰہُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِیْمٍo (اٰل عمرٰن ۳: ۱۷۳-۱۷۴)
جن سے لوگوں نے کہا کہ’’تمھارے خلاف بڑی قوتیں جمع ہوئی ہیں‘ ان سے ڈرو‘‘ تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انھوں نے جواب دیا: ’’ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے‘‘۔ آخرکار وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹ آئے‘ اور ان کو کسی قسم کا ضرر نہ پہنچا اور اللہ کی رضا پر چلنے کا شرف بھی انھیں حاصل ہوگیا‘ اللہ بڑا فضل فرمانے والاہے۔
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَo ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ o (الصف ۶۱:۸-۹)
یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں‘ اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا ط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَo(الصف ۶۱:۱۳)
اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو‘ وہ بھی تمھیں دے گا‘ اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبیؐ، اہلِ ایمان کو اس کی خوشخبری دے دو۔
مشکلات اور سختیاں ضرور آئیں گی مگر پھر اللہ تعالیٰ آسانیوں اور کامیابیوں کا سامان بھی کر دے گا بشرطیکہ اس پر توکل کر کے اپنی جدوجہد جاری رکھیں اور استطاعت بھر جدوجہد میں کمی نہ کریں۔
سَیَجْعَلُ اللّٰہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا o (الطلاق ۶۵:۷)
بعید نہیں کہ اللہ تنگ دستی کے بعد فراخ دستی بھی عطا فرما دے۔
فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o (الم نشرح ۹۴:۵-۶)
پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔ بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔
سب سے اہم چیز یہ ہے کہ کسی حالت میں بھی اللہ سے مایوس نہ ہوا جائے اور جدوجہد سے کسی صورت میں بھی پہلوتہی نہ کی جائے۔ مومن کی قوت کا سب سے بڑا ذریعہ اللہ رب العزت سے تعلق ہے اور اس کا وعدہ ہے کہ اہلِ ایمان اور اہلِ تقویٰ کا مستقبل ہر حال میں روشن ہے‘ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی‘ اور اگر اہلِ ایمان صحیح طریقے سے جدوجہد کریں توانھیں آخرت کی کامیابی کے ساتھ دنیا میں بھی کامرانی حاصل ہوگی‘ اس لیے حالات کیسے بھی مشکل اور نامساعد ہوں‘ اہلِ ایمان کے لیے مایوسی کی کوئی گنجایش نہیں‘ قرآن کے الفاظ میں مایوسی کفر ہے اور اللہ کی رحمت کا دروازہ ہر لمحے کھلا ہوا ہے۔ ہر حال میں مومن کی نظر اپنے اللہ کے وعدے‘ اس کی نصرت اور مدد‘ اس کی اعانت اور سرپرستی اور اس کی رضا اور خوش نودی پر ہوتی ہے اور یہی وہ چیزہے جو اس کی زندگی کے ہر لمحے کو روشن اور اس کے ہر قدم کو تابناک مستقبل کی طرف پیش رفت بنا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میںتابناکی اور کامیابی‘ اگر وہ آخرت کی کامیابیوں کے تسلسل کے لیے ہو‘ تو وہ خود بھی اصل کامیابی کے موثر ذریعے کی حیثیت سے ایک مطلوب شے ہے‘ نامطلوب چیز نہیں ہے‘ لیکن معیار‘ آخرت کی کامیابی ہی کو ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ اگر آخرت کی کامیابی کی بنا پر یہاں ہماری ساری زندگی صعوبتوں میں گزر جاتی ہے تو بھی یہ ناکامی نہیں۔ یہ بھی روشنی کی طرف اور تابناکی کی طرف پیش قدمی ہے۔ البتہ یہ اللہ کا ہمارے اوپر بڑا انعام ہے‘ رحم ہے اور فضل ہے کہ اس نے ہماری کمزوریوں کی بناپر ہم کو کسی ایسی آزمایش میں نہیں ڈالا جو ہماری استطاعت سے بڑھ کر ہو۔ انسان کی فطرت کا لحاظ رکھتے ہوئے اُس نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ ہمیں زمین میں خلافت اور تمکن عطا کرے گا تاکہ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ اس دین کو دوسرے تمام طریقوں کے اوپر غالب کرنا اس کی سنت اور وعدہ ہے۔ یہ ساری چیزیں بھی مسلمان کا مقدر ہیں‘ ہماری تاریخ اور جدوجہد کا حصہ ہیں۔
مستقبل کی تابناکی کے بارے میں ایک مومن کو ایک پَلکے لیے بھی شک یا خوف میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ یقینا مشکلات ہیں‘ مسائل ہیں‘ پریشانیاں ہیں‘تصادم ہے‘ مگر اس کے ساتھ ساتھ ایمان کی قوت‘ اللہ پر بھروسا اور اللہ کا یہ وعدہ لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ کہ مایوس کبھی نہ ہونا‘ ہمت نہ ہارنا اور تابناک مستقبل کا صرف خواب ہی نہیں دیکھتے رہنا بلکہ اس کے لیے سرگرم عمل ہوجانا‘ یہ مسلمان کی شخصیت کا لازمی حصہ ہے۔ تو کیسی ہی پریشانیاں اور کیسی ہی مشکلات کیوں نہ ہوں لیکن ہماری نگاہ اسلام کے روشن مستقبل ہی پر ہونی چاہیے۔
کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ جب ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ اس دعوت اور اس پیغام کا آغاز فرمایا تو حضرت ابوذر غِفاریؓ اسلام قبول کرتے ہیں اور اُن کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ ابھی آغازِ وحی کا تیسرا اور چوتھا سال ہی ہے۔ اس موقع پر ایک اِعرابی آتا ہے‘ اسلام قبول کرتا ہے اور حضوؐر اس سے یہ کہتے ہیں کہ اپنے قریے میں چلے جائو اور انتظار کرو اس وقت کا جب یہ دین غالب ہوگا۔ آپؐ قریش کے سرداروں کو مخاطب فرما کر کہتے ہیں کہ کیا میں تم کو ایک ایسا کلمہ نہ بتا دوں کہ جس کو اگر تم مان لو تو پھر عرب اور عجم تمھارے تابع ہوں گے۔ وہ وقت کہ جب مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم اور تعذیب اس مقام پر تھی کہ حضرت خبابؓ جیسے اولوا العزم صحابی بھی بے چین ہوکر کہتے ہیں: یارسولؐ اللہ! اللہ کی مدد کب آئے گی؟ تو آپؐ فرماتے ہیں کہ خباب‘ کیا تم ابھی سے تھک گئے ہو؟ کیا تم نہیں جانتے کہ تم سے پہلی قوموں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا‘ ان کے گوشت کو ان کی ہڈیوں سے لوہے کی کنگھیوں سے جدا کیا گیا تھا اور ان کے جسم کو آروں سے کاٹ دیا جاتا تھا لیکن وہ اللہ کی راہ پر قائم رہتے تھے۔ لیکن دیکھیے حضور اکرمؐ یہ بات کہہ کر رک نہیں گئے بلکہ آپؐ نے فرمایا: خدا کی قسم! وہ وقت آئے گا جب ایک سوار تنِ تنہا صنعا سے حضرموت تک بے خوف و خطر سفر کرے گا اور اللہ کے سوا اسے کوئی خوف نہ ہوگا‘ یعنی جب دین حق کو غلبہ حاصل ہوگا۔ پھر سب نے دیکھا وہ وقت آیا اور اَطْعَمَھُمْ مِّنْ جُوْعٍ لا وَّاٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍo (قریش ۱۰۶:۴) کی کیفیت پیدا ہوگئی‘ یعنی بھوک سے تحفظ اور کھانے کی فراوانی اور خوف سے نجات اور امن کی نعمت۔ پھر وہ وقت کہ جب حضوؐر مکہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ہجرت کا وقت ہے‘ بظاہر کس مپرسی کا عالم ہے۔ اپنے وطن کو چھوڑنا پڑ رہا ہے اور اس وقت جب سراقہ آپؐ کا تعاقب کر کے آپؐ تک پہنچ جاتا ہے تو آپؐ اسے کہتے ہیں کہ تمھیں کسریٰ کا کنگن دیا جائے گا۔ کیا وقت ہے لیکن کسریٰ کے کنگنوں کا ذکر کس اعتماد کے ساتھ کیا جا رہا ہے اور پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ کسریٰ کے کنگن آئے اور اس شخص کو دیے بھی گئے‘ سبحان اللہ!
تابناک مستقبل کی بات‘ میں کسی خوش فہمی یا شاعرانہ خیال آرائی کی بنا پر نہیں کر رہا بلکہ اللہ کی کتاب اور نبی پاکؐ کی سنت یہ دونوں ہمیں یہ اعتماد اور یقین دلاتے ہیں کہ جو بھی حالات ہوں اور جیسے بھی حالات ہوں وہ لوگ جنھیں اللہ نے ایمان کی دولت سے مالا مال کیا ہے وہ تابناک مستقبل کے بارے میں کبھی کسی غلط فہمی کا یا کسی مایوسی کا شکار نہیں ہو سکتے۔
اگر آپ تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ تاریخ کے نشیب و فراز‘ قوموں کا عروج و زوال‘ پستی و بلندی کے مناظر‘ کامیابی و ناکامی کی داستانیں‘ فتح و شکست کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اللہ کے اسی وعدے کا منظرنامہ پیش کرتے ہیں۔ معلوم تاریخ میں کم از کم ۳۶ عظیم تہذیبوں کے اسی سفر کی کہانی ملتی ہے اور عروج کے وقت ہر تہذیب کو یہی گمان تھا کہ اب اس کا کوئی مقابلہ کرنے والا نہیں ہے۔لیکن پھر چشمِ تاریخ نے دیکھا کہ اُسے زوال‘ انتشاراور شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری اقوام اُبھریں اورتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ کا یہ سلسلہ برابر چلتا رہا اور چلتا رہے گا۔ حضرت عیسیٰ ؑنے سچ کہا تھا کہ کتنے آگے ہیں جو پیچھے رہ جائیں گے اور کتنے پیچھے ہیں جو آگے نکل جائیں گے۔
قرآن کہتا ہے کہ اسی طرح ہم قوموں کے در میان اتار چڑھاؤ‘کامیابی وناکامیابی اور زندگی ا ور موت کے دور لاتے رہتے ہیں۔ تاریخ سے صاف نظر آتا ہے کہ کوئی بھی دور ابدی یا مستقل نہیں۔ نہ کامیابی کو دوام ہے اور نہ ناکامی کو۔ حالات برابر بدلتے ہیں ۔اس لیے کسی ایک صورت حال کے اوپر یہ سمجھ لینا کہ اَب تو ہم بس پھنس گئے ‘اب کوئی را ستہ نہیں۔ اب شکست ہمارا مقدر ہے اور دوسروں کے تابع دار بن کر ہی زندہ رہ سکتے ہیں‘ یہ ایک مغالطہ ہے۔ جس کی نگاہ تاریخ پر ہو گی وہ کبھی بھی اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہو سکتا۔
پو ری تاریخ کو چھوڑ دیجیے ۔ بہت سے لوگ آج موجود ہیں ‘میں خود بھی اپنے آپ کواِن میں شامل کر تا ہوں جنھوں نے چشمِ سر سے دیکھا کہ سلطنتِ برطانیہ کا ایک زمانے میں کیا دبدبہ تھا۔ اسے دنیا کی حکمران قوت ہونے کار زعم تھا۔ غلبہ و بالادستی کو وہ اپنا مقدر سمجھتی تھی اور غرور کا یہ حال تھا کہ اس نے انگریزی زبان میں اس محاورے کا ا ضا فہ کیا کہ:
Sun is never set in the British Empire.
چونکہ دنیا کی چو تھا ئی سرزمین پر اس کی حکمرا نی تھی‘ اس لیے اس کا دعویٰ تھا کہ ہماری حکمرانی میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا ۔ایک جگہ سے غروب ہوتا ہے تو دو سری جگہ سے اُبھر جاتا ہے۔ لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ چند ہی سالوں میں اس کی سلطنت قصۂ پارینہ بن گئی اور کیفیت یہ ہوئی کہ وہ ایک سپرپاور سے سکڑکر ‘ صرف ڈیڑھ جزیرے کی حکومت رہ گئی۔ اور اب تو عالم یہ ہے کہ ہفتوں اس کی قلمرو میں سورج طلوع نہیں ہوتا! اسی طرح دولتِ برطانیہ نے انگریزی زبان میں اس محاورے کا اضا فہ کیا کہ Britannia rules the waves ‘یعنی دنیا کے سارے سمندروں کے پانی پرہما ری حکمرانی ہے لیکن پھر ہم نے دیکھا کہBritannia had to waive the rule [یعنی برطانیہ کو حکومت چھوڑنا پڑی]اور سمندر اس کی گرفت سے نکل گیا۔ تو یہ ہیں وہ نشیب وفراز ‘ جن میں مغرور کے طلسم کا ٹوٹنا اور مظلوم کا بالاتر قوت بن جانا‘ یہ سب مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔
ابھی کل کی بات ہے کہ امریکا اور اشتراکی روس دونوں بڑی طاقتیں (super powers) تھیں اور دونوں ایک دو سرے سے برابر پنجہ آزمائی کر رہی تھیں۔ کیا آپ بھول گئے کہ روس کے سربراہ مملکت خروشچیف اقوامِ متحدہ کے ہال میں میز پراپنے جوتے رکھ کرکے کہتا ہے کہ : I have come here to bury capitalism. (میں یہاں سرمایہ داری کا جنازہ نکالنے آیا ہوں)۔
اور پھر آپ نے دیکھا کہ کس طرح روس منتشر ہو جاتا ہے۔ گویا کہ محض ایک خاص موقعے پر کسی کاحا وی ہوناکوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جس کو ابدی (everlasting) سمجھا جائے۔اقتدار‘ غلبہ اور قوت سب بڑی وقتی اور عارضی چیزیں ہیں۔ہم نے خود اس کا نظارہ کیا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ ایسے ابھی اور بہت سے تجربات اور مناظر ہم اور آپ دیکھیں گے۔ اس لیے یہ سمجھ لینا کہ اس وقت فلاں غالب ہے تو وہی غالب رہے گا‘ درست نہیں۔
اپنے ملک کی تاریخ بھی آپ دیکھ لیجیے۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ ایک سرپھرے آمر (اسکندر مرزا) نے مکمل اقتدار کے زعم میں برسرِاقتدار آنے کے بعد پہلا بیان یہ دیا تھا کہ ہم اِن مولویوں کو کشتیوں میں بٹھا کر کے سمندر پار بھیج دیں گے۔ لیکن اللہ کی قدرت کو آپ نے دیکھا کہ مو لوی تو الحمد للہ وہیں ہیں ۔ خود اس کو ایک مہینے کے اندر ملک چھوڑنا پڑا۔یہاں کون تھا جس نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ’’ہما ری کر سی مضبوط ہے اور اس کو کوئی نہیں ہلا سکتا‘‘۔ لیکن کون سی کر سی ہے جو با قی رہ گئی۔ آپ چا ہے وسیع تر تاریخ کے پسِ منظر میں دیکھیں‘ چاہے اپنے دور کے عا لمی سطح پر رونما ہو نے والے نشیب وفراز کو دیکھیں اور خواہ آپ اپنے ملک میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر غور کریں‘ کہیں بھی مایوسی کے لیے کوئی وجہِ جواز نظر نہیںآتی۔ اس سے انکار نہیں کہ تاریکی آتی ہے‘ شکستیں بھی ہوتی ہیں‘ لیکن ہر نشیب کے بعد فراز اور ہر شکست کے بعد کامیابی کا امکان بھی رونما ہوتا ہے۔ کیا خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی بلندیوں کے بعداُحد کی ہزیمت نہیں دیکھی ۔کیا حدیبیہ کے بعد فتحِ مکہ کا منظر رونما نہیں ہوا۔ کیا فتح مکہ کے بعد حنین سے سابقہ پیش نہیں آیا۔یہ نشیب و فراز زندگی کی حقیقت ہیں۔لیکن ان میں سے کسی کو لے کر یہ سمجھ لینا کہ اب کچھ ممکن نہیں اورہمت ہار جانااور مایوسی میں گرفتار ہو جانا کسی مسلمان کا شیوہ نہیں۔ جس کی نگاہ تاریخ پر ہو ‘انسانی زندگی کے نشیب وفراز پر ہو وہ کبھی بھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوسکتا۔ اس کے اوپر قرآن شا ہد ہے ‘سیرت شاہد ہے ‘پو ری تاریخ گواہ ہے اور میرا اور آپ کا تجربہ گواہ ہے۔تو پھر کیوں ایک خاص وقت کی کیفیت کو ہم مستقل اور دوام کا درجہ دینے کی غلطی کریں۔ ہمیں چیزوں کو ان کے حقیقی پسِ منظر میں دیکھنا چاہیے اور اسی کی رو شنی میں پھر ہمیں اپنا رویہ اور اپنا کرنے کاکام متعین کرنا چاہیے۔
اس پس منظر میں غور کرنا چاہیے کہ جہاں یہ ناقابلِ انکار حقائق ہیں اور جہاں اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ ان شاء اللہ حق غالب ہوگا اور باطل کو شکست ہوگی‘ وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمیں ہمیشہ پو ری دیا نت کے ساتھ حالات کا بے لاگ جا ئزہ لینا چاہیے۔ خوش فہمیوں میں رہ کر کبھی کوئی فرد یا کوئی قوم وقت کے تقا ضوں کو پورا نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ پاک میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ مبارک میں جو بھی نشیب وفراز آئے اور معرکے ہوئے‘ اُن کے اوپر خود زمین و آسمان کے مالک نے تبصرہ فرمایا ہے‘ احتساب کیا ہے‘ آیندہ کے لیے سبق سکھائے ہیں۔ یہ بھی حکمت ہے کہ اس پورے تبصرے کو ہمیشہ کے لیے قرآن کا حصہ اس لیے بنا دیا گیا تاکہ انسان خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں۔ ہمیں متنبہ کردیا گیا اس وقت بھی جب اللہ کا نبیؐ ہمارے درمیان تھا‘ اگر انسانوں نے حقائق سے صرفِ نظر کیا ‘احکام سے رو گر دانی کی یاجو ذمہ داری سونپی گئی ہے اس کو ادا نہ کیا گیا تو جیتی ہوئی با زی پلٹ سکتی ہے۔ اور اسی طرح اگر حق کے داعی کی آواز پر لبیک کہا تو ہا ری ہوئی با زی جیتی جا سکتی ہے۔ قرآنِ پاک میں یہ تمام چیزیں اسی لیے محفوظ کی گئی ہیں کہ ہم اُن سے سو چنے کا انداز ‘ غوروفکر کا اَسلوب اور ہر دور میں حالات کے جائزے ‘ اُن کا احتساب ‘ان کی تشخیص اور پھر ان کی رو شنی میں لائحہ عمل کی تیاری کاکام انجام دے سکیں۔
اس وقت ہم بڑے نازک امتحانی دور سے گزر رہے ہیں ۔ تاہم‘ اس میں کچھ بڑے مثبت پہلو ہیں اور ان مثبت پہلوؤں میںیہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ عددی اعتبار سے مسلمان آج ‘ایک ارب ۴۰کروڑ کے قریب ہیں جو دنیا کی آبا دی کا پانچواں حصہ ہیں ۔ہم ابھی اڑھائی تین سو سال کے کھلے کھلے استعماری دور کے تسلط سے نکلے ہیں ۔ پورا عالمِ اسلام پانچ بڑی مغربی استعماری قوتوں کی گرفت میں تھا اور ہمیں سانس لینے تک کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن ہمارے دیکھتے دیکھتے استعمار کی گرفت ڈھیلی پڑی‘ اور غلامی کے سائے چھٹے اور ۵۷ آزادمسلمان مملکتیں وجود میں آئیں۔ تقریباً۹۰ کروڑ مسلمان اِن آزاد مملکتوں میں ہیں۔ اور تقریباً ۴۰‘ ۴۵ کروڑ مسلمان ایسے ہیں کہ جو ۹۰‘ ۹۵ مسلم آبادیوں کی شکل میں غیر مسلم ممالک میں رہ رہے ہیں۔ یہ عددی قوت ہر ایک اعتبار سے بڑی اہم حقیقت ہے۔ معاشی ‘ عسکری اور نظریاتی ہر اعتبار سے دنیا کے مستقبل کا فیصلہ کر نے میں انسانوں کی اتنی بڑی تعداد اور ان کی یہ قوت ایک بڑا اہم کر دار ادا کر تی ہیں۔
پھران ممالک کا محلِ وقوع دیکھ لیجیے ۔ دنیا کے کل زمینی رقبے کا تقریباً۲۳ فی صد مسلمانوں کے اقتدار کے تحت ہے۔اور یہ سارا علا قہ معاشی وسائل سے مالامال ہے۔ پو ری دنیا کی توانائی کے ۸۰فی صد ذخا ئرہمارے پاس ہیں۔ مالی وسائل اور جنگی اعتبار سے اور معاشی نقطۂ نظر سے تمام اہم راستے انھی علاقوں سے گزرتے ہیں۔ معاملہ خواہ زمینی رابطوں کا ہو‘ یا سمندری اور ہوائی ‘ ان تمام میں مر کزی حیثیت مسلمان ممالک کی ہے۔
لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جسے ہم آزادی کہہ رہے ہیں‘ وہ صحیح معنوں میں مکمل طور پر آزا دی نہیں ہے۔بظاہر قانونی اور سیا سی انداز میں ہم استعمار کی گرفت سے نکل گئے ہیں‘ لیکن ان کا فکری غلبہ ‘تہذیبی گرفت ‘ عسکری اور معاشی قوت کا عدم توازن اور پھر اس وقت عالم گیریت اور گلوبل سسٹم جس انداز سے کارفرما ہیں تو اس میں ایک سوپر پاور عسکری اور سیاسی اعتبار سے ‘ اور مغربی تہذیب فکری اور سا ئنسی‘ ٹکنالوجی اور ثقا فتی اعتبار سے چھائی ہوئی ہے اور مسلمان ملکوں کی آزادی حقیقی آزادی کا رنگ اختیار نہیں کر سکی ہے۔ دوسرے الفاظ میں نوآبادیاتی تسلط ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوا۔
اس نئے دور میں نوآبادیاتی استعماری تسلط کی شکل میںبڑی جو ہری تبدیلی آئی ہے‘اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی ایک ملک کے لیے خواہ عسکری اعتبار سے وہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو‘ ممکن نہیں کہ وہ پوری دنیا کو زیادہ دیر تک اپنی گرفت میں رکھ سکے۔بش چار سوا چار سال سے جو کچھ کر رہے ہیں اس کا نشا نہ صرف ہم رہے‘اُس کی قیمت ہم ادا کر تے رہے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خواہ وہ افغانستان ہو یا عراق ہو‘ سوپرپاور جو کچھ کرنا چاہتی تھی نہیں کر سکی اور وہ مجبور ہے کہ اپنی قوت کی کم مایگی (limitations of power )کا بھی احساس کرے۔ وہ جو کچھ کرنا چاہتی ہے محض اپنی قوت کے زعم میں کرنہیں سکتی۔ اگر کہیں اسے جبر کی قوت سے غلبہ میسر آبھی گیا ہے‘ تب بھی اس کا اقتدار بڑا کمزور اور محدود ہے اور اسے اس کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ ہرجگہ مزاحمت ہے اور یہ مزاحمت ایک بہت بڑے قومی اور مؤثر عنصر کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ سوپرپاور کی قوت کا مقابلہ اس کے سامنے سر جھکا دینے اور غلامی کو قبول کر لینے سے نہیں بلکہ سامراجی قوت کی مزاحمت کرنے سے ہوتا ہے۔ نائن الیون کے واقعے سے بڑے منفی نتائج رونما ہوئے ہیں۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سوپر پاور کے لیے ہر میدان میں اپنی من مانی کرنا ممکن نہیں رہاہے۔دہشت گر دی کے خلاف جنگ کا جائزہ لیجیے۔ آج نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا اُس سے کہیں زیا دہ غیر محفوظ ہے جتنا اس واقعے سے پہلے تھی۔ طا قت کی اس ساری نمایش اور کشت وخون کے ذریعے افغانستان کو کھنڈر بنا دیا گیا ۔وہاں ۲۰ سے ۲۵ہزارمعصوم افراد شہید ہوئے۔ عراق میں ایک لاکھ سے زیا دہ عام شہری شہید ہوئے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ساری قوت اور وسائل کے بے محابا استعمال کے باوجود یہ سوپرپاور افغانستان ہو یا عراق کہیں بھی محفوظ نہیں۔
پھر آپ یہ دیکھیے کہ کس طرح عوامی بیداری کی ایک لہرسا ری دنیا میں رونما ہوئی ہے۔دنیا کے ہر سروے میں امریکا کی غیرمقبولیت بلکہ نفرت نمایاں نظر آتی ہے۔ وہ ممالک جن کی قیادتیں بظاہر اس کے ساتھ ہیں‘مثلاً خود ترکی کا ایک سروے یہ بتاتا ہے کہ۸۰ فی صد سے زیادہ آبا دی اُس سے نفرت کا اظہار کررہی ہے۔جر منی اور فرانس کے ۶۰اور ۷۰فی صد لوگ امریکا اور روس کی پالیسیوں سے بے زاری کا اظہار کر رہے ہیں۔بر طا نیہ اس کا سب سے بڑا حلیف ہے لیکن وہاں عوامی ردِ عمل کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمند ر امریکا اور برطانوی حکومت کو چیلنج کر رہا ہے۔ میں نے خوداپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح لوگوں نے احتجاج کیا۔ ۱۹ مارچ ۲۰۰۵ء کو عراق پر حملے کے دو سال بعد پورے یورپ میں اس ناجائز جنگ کے خلاف شدید عوامی مظاہرے ہوئے ہیں۔
ہما ری موجودہ فوجی حکومت بھی اس معاملے میں بش کے ساتھ ہے لیکن ملک کے کسی بھی کونے یاگوشے میں جا کر دیکھ لیجیے کہ عوام کے اس با رے میں جذ بات کیا ہیں۔نیوز ویک نے یہ دل چسپ اور عبرت آموز واقعہ ریکارڈ کیا ہے کہ افغانستان میں جس پاکستانی فوجی دستے نے ۱۰افغانوں کو شہید کیا تھا جب اس کا کما نڈر جو غالباً لیفٹیننٹ کرنل کے رینک کا تھا ‘ہلاک ہوا اور اس کا جنازہ اس کے گاؤں میں آیا تو اس کے باپ نے اپنے بیٹے کی نمازِ جنا زہ پڑھنے سے انکار کر دیا۔ نیوز ویک کے نمایندے نے اس سے پو چھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا ؟ تو اس نے کہا کہ میں نے اپنے بیٹے کو بڑی تمناؤں سے فوج میں بھیجا تھا مگر اس لیے نہیں بھیجا تھاکہ وہ جاکر مسلمانوں کو مارے ۔ اس کی نماز جنازہ بش کو پڑھنی ہے تو پڑھے‘ میں باپ ہوتے ہوئے بھی اس غدار کی نماز نہیں پڑھ سکتا۔ یہ ایک فرد کا واقعہ نہیں ہے ‘ایک باپ کا وا قعہ نہیں ہے‘یہ ایک قوم کی سوچ ہے۔ یہی پوری اُمت مسلمہ کی سوچ ہے۔
اسی طرح انڈی پنڈنٹ کے نامہ نگار رابرٹ فسک نے ایک پورا مضمون افغانستان کے بارے میں لکھا ہے جس میں وہ کہتا ہے: میں جہاں بھی گیا ہوں امریکی بم باری سے جولوگ شہید ہوئے ہیں‘ ان کے مزارلوگوں کے لیے مر جع بنے ہوئے ہیں۔ ہر جمعے کو وہاں عرس کا سماں ہوتا ہے اور امریکی فو جی تنہا با ہر نکلنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔ اس طرح دیکھیے بظاہر امریکا کا غلبہ ہے ‘خون بھی بہہ رہا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی غورطلب ہے کہ عوامی سطح پر اس کا ردِ عمل کیا ہو رہا ہے۔ ہمیں منفی اور مثبت‘ روشن اور تا ریک دونوں پہلوئوں پر نظر رکھنی چاہیے۔ صرف ایک چیز کونہ دیکھیے۔ ساری بربادی کے باوجود‘ مَیں تو اس صورتِ حال میں ایک تابناک مستقبل کے امکانات بچشمِ سر دیکھتا ہوں۔
لیکن یہ بات ضرور میں کہنا چا ہتا ہوں کہ یہ تابناک مستقبل آپ سے آپ نہیں آئے گا۔ یہ اللہ کا قانون ہے کہ تبدیلی مسلسل جدوجہد‘ قربانی اور ثابت قدمی سے آتی ہے‘ یہی اللہ کی سنت اور قانون ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے قانون اور سنت کو بدلتا نہیں۔ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًاج وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًاo (فاطر ۳۵:۴۳) ’’تم اللہ کی سنت میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائو گے اور تم اللہ کی سنت کو ٹلتی ہوئی ہرگز نہ دیکھو گے‘‘۔
قانون یہ ہے کہ آپ کو اس تابناک مستقبل کے لیے کوشش کرنی ہو گی۔آپ کو اس کے لیے جدوجہد کرنی ہو گی۔مجھے اور آپ کو اس کے لیے اپناکردار ادا کر نا ہو گا۔ پھر یہ تابناک ہو گا‘ اور کوئی چیز اس کو تابناک ہونے سے روک نہیں سکتی۔لیکن اگر ہم اپنا فرض ادا نہیں کریں گے‘ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے‘ یا ہم مایوسی کا شکار ہو جائیں گے تو پھر یہ مستقبل تابناک نہیں‘ تاریک ہوگا۔کسی بھی کاروبار میں نفع نقصان دونوں ہو تے ہیں۔بار بار نقصان ہوتے ہیں۔ آدمی دیوالیہ ہوجاتا ہے‘ دکان بند کرنی پڑجا تی ہے۔کارخانے پر قفل لگ جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ ایک حقیقت نہیں ہے کہ ایک نقصان کے بعد آپ پھر نفع کے لیے کوشش کر تے ہیں۔ایک بارکاروبار میں نقصان ہونے کے بعد آپ پھر دوسرا کاروبار شروع کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔اگر کاروباری زندگی میں آپ کا یہ رویہ ہے تو پھر سیاسی ‘تہذیبی‘ دینی اور ایمانی زندگی کے لیے آپ اِس سے ہٹ کر کے کیوں سو چتے ہیں؟
تابناک مستقبل تو ہمارا مقدر ہے۔ لیکن یہ اسی وقت ہمارا مقدر ہے جب ہم اس کا حق ادا کرد یں گے۔ اس کے لیے دو چیزیں بہت ضروری ہیں ۔پہلی چیز خود احتسابی ہے۔ آپ دیانت داری کے ساتھ جائزہ لیں کہ ہماری کمزوری کے اسباب کیا ہیں؟ پھر آپ یہ دیکھیں کہ ان حالات کا مقابلہ کر نے کے لیے صحیح لائحہ عمل کیا ہوسکتا ہے؟
جدوجہد اور اس کے نتیجے میں کامیابی کے لیے اولیں شرط ہے منزل اور مقصد کا شعور‘ یعنی انسان کا وژن‘ اس کا تصور ِ حیات۔ میں اگر اسے سے ذرازیا دہ کھل کر کہوں تو اس کا ایمان اور ایمان کی بنیاد پر اُس کا مقصدِ حیات اور زندگی کے اہداف۔ اگر یہ کمزو ری کا شکار ہو جائیں تو یہ سب سے بڑی مصیبت اور سب سے بڑی ناکامی ہے۔ آج مسلمانوں کا معاملہ یہی ہے کہ اللہ کی کتاب بھی موجود ہے ‘اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی موجود ہے‘ ہما ری تاریخ بھی موجود ہے اورصلحاے اُمت کی کوششیں اور کارنامے اور خدمات بھی موجود ہیں۔لیکن اس کے باوجود عملاََہم نے بھی زندگی کوخانوں میں بانٹ دیا ہے۔میں اُن کی بات نہیں کر رہا جو دین سے اتنے غافل ہیں کہ صرف دنیا کو اپنا ملجا اورماویٰ اور اپنا سب کچھ بنا چکے ہیں۔میں اُن کی بات کر رہا ہوں جو نمازیں پڑھتے ہیں ‘ جو روزہ رکھتے ہیں جو گڑگڑاگڑگڑا کر دعائیں بھی کر تے ہیں‘ جو صدقات وخیرات بھی دیتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں سو چتے کہ اِس نماز کے اثرات ہما ری انفرا دی اور اجتما عی زندگیوں پر بھی پڑنے چا ہییں۔کیا ہماری ذمہ داری صرف نماز پڑھ لینے کی ہے یا جس خدا نے ہمیں نماز پڑھنے کے لیے کہا ہے‘ اس نے ہمیں یہ بھی کہا ہے کہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَـنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ، یعنی نماز تو وہ ہے جو انسان کو فحش اور منکر سے روکتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں جو پوری زندگی کو اللہ کی بندگی میں لانے کا ذریعہ بنتی ہے۔
ہم بڑے اہتمام سے رمضان کا استقبال کرتے ہیں ‘سحری اور افطار کا اہتمام کر تے ہیں‘ عیدیں منا تے ہیں لیکن یہ بھول جا تے ہیں کہ یہ روزہ تو تقویٰ کے لیے ہے۔یہ رو زہ تو اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے ہے۔قرآن نے تو اس کا مقصد اور حاصل یہ بتایا ہے کہ جس ہدایت‘ یعنی قرآن سے تمھیں سرفراز کیا ہے اسی پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکرگزار بن جائو (وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo البقرہ ۲:۱۸۵)۔ گویا روزہ تو اس مقصد کے لیے ہے کہ ہم قرآن کے پیغام کو پھیلائیں‘ اللہ کی حاکمیت کو قائم کریں اور دین کی سربلندی کی جدوجہد میں مسلسل مصروف رہیں۔
ایمان کی فکر اور ایمان کے مطابق زندگی گزارنے کا عزم ہماری قوت کی پہلی بنیاد ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم اپنا جا ئزہ لے کر کے یہ دیکھیں کہ ایمان ‘ایمان کے تقاضے ‘ زندگی کا مقصد اس کے اہداف اوروژن ‘اور اِس وژن کے ساتھ ساتھ پھر اِیمان اور عمل کے تعلق کی کیا کیفیت ہے۔ اسلام میں ایسا کوئی تصور موجود نہیں ہے کہ ایمان عمل کے بغیرہو ‘ جس طرح عمل ایمان کے بغیر ممکن نہیں ہے اسی طرح ایمان بھی عمل کے بغیر نامکمل اور بے ثمر ہے‘ یہ دونوں ساتھ ساتھ ہیں۔ لہٰذا ہماری پہلی کمزوری ایمان کی‘ تصورِ زندگی کی ‘مقصودِ حیات کی‘ ہدف کی اور منزل کے شعور کی ہے۔ اگر اسے ہم درست کر لیں تو باقی تمام معاملات صحیح رُخ پر آسکتے ہیں ۔اور جب تک یہ درست نہ ہو تو تابناک مستقبل ایک خواب اور سراب رہے گا‘ وہ ہمارا مستقبل نہیں بن سکے گا۔
ایمان کے ساتھ دوسری بنیادی چیز اخلاقی قوت ہے۔اخلاقی قوت کی بنیاد ایمان ہے۔ عبادات اِس قوت کو پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ یہ وہ قوت ہے جو انسان کو سکھاتی ہے کہ وہ ظلم کو نہ برداشت کرے بلکہ اسے چیلنج کرے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے صاف کہا کہ اگر تم اخلاق کے اعلیٰ مقام پر ہو گے تو پھر تم میں سے ہر ایک دس دشمنوں کے لیے کا فی ہوگا۔اور اگر تمھا رے اخلاق کمزور ہو جائیں گے توتم دو کے لیے کافی ہوجاؤ گے۔لیکن آج معا ملہ یہ ہے کہ ہم ایک کا مقابلہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اس لحاظ سے ہماری دوسری کمزوری یہی اخلاقی قوت کی کمزوری ہے۔ اور اخلاقی قوت ایمان اور عبادات کے ساتھ پیدا ہوتی ہے‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے جلا پاتی ہے اور دعوت الی الخیر اور قربانی دینے سے اس میں نمو اور ترقی رونما ہوتی ہے۔
تیسری اہم بات ما دی قوت ہے۔اگر آپ ما دی قوت کوحاصل کر نے میں غفلت برتتے ہیں اور مقابلے کی قوت پیدا کرنے کی فکر نہیں کرتے تو صرف ایمان اور اخلاق کے ذریعے سے آپ یہ با زی نہیں جیت سکتے ہیں۔ اسلام ہم میں حقیقت پسندی پیدا کرتا ہے اور فطرت کے قوانین کے احترام کی تلقین کرتا ہے۔
اسلام کی خوبی ہی یہ ہے کہ اس کی قوت اس کے اندر ہے کہ اس نے ایمان ‘اخلاق اور مادی قوت‘اِن تینوں کو ایک وحدت میں تبدیل کردیا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس بات کاحکم نہیں دیا کہ قوت حاصل کرو‘ اتنی قوت کہ دشمن پر تمھارا خوف اور دبدبہ قائم ہوسکے اور تم اس کو منہ توڑ جواب دے سکو:
وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ ج لَا تَعْلَمُوْنَھُمْ ج اَللّٰہُ یَعْلَمُھُمْ (الانفال ۸:۶۰)
اور تم لوگ‘ جہاں تک تمھارا بس چلے‘ زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعدا کو خوف زدہ کرو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔
قرآن میں طاقت کے حصول اور گھوڑوں کو تیار رکھنے کی جو بات کہی گئی ہے وہ محض گھوڑوں تک محدود نہیں بلکہ وہ اس بات کی دعوت ہے کہ اپنے وقت کی بہترین معاشی‘ سائنسی‘ عسکری ٹکنالوجی کو اپنی گرفت میں لاؤ۔ اس بارے میں قرآن نے بڑے پیا رے انداز میںاپنی بات کہی ہے کہ یہ قوت اتنی ہو نی چاہیے کہ تمھا رے دشمن کو خوف ہو جو دراصل تمھا را دشمن ہی نہیں‘ اللہ کا دشمن بھی ہے اور یہ دشمن وہ ہیں جنھیں تم جانتے ہو اور وہ بھی جن کو تم نہیں جانتے لیکن اللہ کو ان کا علم ہے۔
اجتما عی نظام کی اصلاح کے لیے قوت کا حصول ضروری ہے۔ یہ ما دی قوت اگر اللہ کے دین کی سر بلندی کے لیے ہو ‘ اگر اُمت مسلمہ کے شہداء علی الناس کے مشن کو ادا کرنے کے لیے ہو تو یہ عبادت ہے۔ یہ دنیا پرستی نہیں ہے‘یہ ما دہ پرستی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ دیا ہی اسی لیے ہے کہ اُسے ہم مسخر کر کے اُن اخلاقی مقاصد‘اور نظر یات کے غلبے کے لیے استعمال کریں جو استخلاف کی بنیاد پرہما رے ذمے کیے گئے ہیں۔
ان تین بنیا دی چیزوں کے بعد پھر میں یہ بات کہنا چا ہتا ہوں کہ ِاس وقت جہاں انفرادی طور پر‘ الحمدللہ ہما رے معا شرے کے اندربہت خیر موجود ہے اور میری طرح جن افراد کو بھی دنیا کے گوشے گوشے میں جا نے کا موقع ملا ہے‘ وہ یہ گوا ہی دے سکتے ہیں کہ خراب مسلمان معا شرہ بھی اپنے اندر بڑا خیر رکھتا ہے۔لیکن اس اعتراف کے بعد ‘یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ آج مسلم معاشرہ ‘مسلمانوں کا اجتما عی نظامِ قانون ‘ اخلاق‘ معیشت سب زبوں حالی کا شکار ہیں۔ اس پر پردہ ڈالنے سے کوئی فا ئدہ نہیں ۔ ہمیں سمجھنا چا ہیے کہ یہ بگاڑکی گرفت میں ہیں اور خود پورے معاشرے اور ریاست کی اصلاح اور تعمیرنو تابناک مستقبل کے حصول کے لیے ضروری ہے۔ انفرادی اصلاح کافی نہیں‘ دعوت‘ نیکی کا حکم‘ برائی کو مغلوب کرنے اور معاشرے اور ریاست کو شریعت اسلامی کے مطابق منظم اور سرگرم کرنا بھی دنیا اور آخرت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔
پانچویں چیز مسلمانوں کی قیادت کا بگاڑ ہے۔اور میں یہاں ’قیادت‘ کے لفظ کو اس کے وسیع ترین مفہوم میں استعمال کر رہا ہوںجس میں گھر کا سر براہ‘ استاد اور تعلیمی ادارے کا سر براہ‘معا شی حیثیت سے قیادت کے مقام پر فائز لوگ‘ اور پھر اجتما عی اور سیاسی قوت اور سربرا ہی۔ اس وقت اُمتِ مسلمہ کا بہت بڑامسئلہ قیادت کا بگاڑ اور اسلامی معیار سے کوسوں دُور ہونا ہے۔ عوام کی خامیاں اپنی جگہ‘ مگر قیادت کا بگاڑ‘ اصل خرابی ہے۔ عوام الناس‘ عمل میں خواہ کتنے بھی گئے گزرے ہوں‘ ان کی خواہشات ‘ اور تمنائیںسب کا ہدف دورِ رسالت مآب اوردورِ خلافت را شدہ ہی ہے۔آپ کسی اَن پڑھ بڑھیا سے پو چھ لیں کہ تم کون سا نظام چا ہتی ہو؟ وہ کہے گی کہ مجھے وہ عدل چاہیے جو حضرت عمر فاروق ؓ نے دنیا کو دیا تھا۔ یہ احساس موجود ہے۔ لیکن قیادت ‘اس کا قبلہ ‘ اس کی وفاداریاں‘ اس کی ترجیحات سب بگاڑ کا شکار ہیں اور عوام اور قیادت کے درمیان ایک سمندر حائل ہے۔صرف سمندر ہی حائل نہیں بلکہ ان کے درمیان مسلسل کش مکش ہے اور اب تو عالم یہ ہے کہ اس قیادت میں ایسے بدنصیب بھی ہیں جن کو یہ تک کہنے کی جسارت ہو تی ہے کہ کیا میں لوگوں کے ہاتھ کاٹنا شروع کر دوں‘اور اس طرح پوری قوم کولنجا کر دوں۔انھیں ڈاڑھی اور حجاب کا تمسخر اُڑاتے ہوئے بھی کوئی شرم نہیں آتی۔ یہ بگاڑ بڑا بنیادی بگاڑ ہے۔
ہمیں ان پانچوں دائروں میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ ان میں سے ہم کسی ایک کو بھی اگر نظر انداز کر تے ہیں تو پھر تابناک مستقبل ایک خواہش تو ہو سکتا ہے‘ ایک حقیقت نہیں بن سکتا۔ یقین جا نیے ان میں سے کوئی مشکل اور کوئی سبب بھی ناقابلِ تسخیر نہیں ۔ہم نے آج بھی ان گئے گزرے حالات میں اپنی آنکھو ں سے دیکھا ہے کہ کس طرح افراد کی زندگیاں بدلتی ہیں؟ کس طرح قوموں کی تقدیریں بدلتی ہیں؟ میں دو واقعات آپ کو بتانا چا ہتا ہوں۔
جب ملایشیا آزا د ہوا تو اس وقت کی حکومت نے یہ طے کیاکہ انگریزوں کی حکمتِ عملی پر عمل کر تے ہوئے اسکول کے بچوں اور بچیوں کو تعلیم کے لیے بیرونِ ملک بھیجیں ۔اس کے لیے برطانیہ‘ آسٹریلیا اور امریکا ان تین ملکوں کا انتخاب کیا گیا۔اور ہزاروں کی تعدادمیں نوجوان نابالغوں اور اسکول کی عمر کے بچوں بچیوں کو بھیجا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ وہ اس طرح مغرب کے رنگ میں رنگ کرکے آئیں گے کہ پھر زندگی کی انھی رنگینیوں کو ملک میں عام کریں گے۔اور ہم اس طریقے سے ان کو آزادی دینے کے بعد بھی اپناغلام رکھ سکیں گے۔لیکن میں آپ کو بتاتاہوں کہABIM اوراسلامی تحریک وہاں پر انھیں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی وجہ سے رونما ہوئی اور بالکل فضا بدل گئی۔
اس سے بھی زیا دہ آنکھیں کھولنے والی مثال الجزائر کی ہے۔ہم نے تو بر طانوی استعمار کو دیکھا ہے۔ جس میںفرانسیسیوں کے مقابلے میں پھر بھی کچھ معقولیت تھی۔ کچھ قانون کا احترام تھا۔ کچھ مذہبی روادا ری تھی ۔فرانس کا حال تو یہ تھا کہ انھوں نے اپنے مقبو ضہ علاقوں کو سیا سی اور معاشی اعتبار سے ہی تباہ نہیں کیا‘ بلکہ اخلاق ‘ تعلیم ‘حتیٰ کہ زبان‘ کسی کو نہیں چھوڑا۔ الجزائر میں استعمار کے جارحانہ رویے کے نتیجے میں یہ قوم عربی زبان سے محروم ہوگئی تھی۔جب ۵۵/۱۹۵۴ء میں وہاں کی قومی محاذ آزادی (این ایل ایف) کے سربراہ یہاں پاکستان آئے تو اس وقت میں جمعیت کا ناظم اعلیٰ تھا۔ہم ان سے ملنے کے لیے میٹروپول ہوٹل میں گئے۔ہم اپنے ساتھ ایک عربی کا مترجم لے کر گئے۔جب ان سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ میں عربی نہیں بول سکتا ۔ کوئی فرانسیسی مترجم لائیے۔یہ کیفیت تھی وہاں کی مسلمان قیادت کی۔
اگر آپ فرانس کی میڈیا پالیسی کو دیکھیں تو سر پکڑ لیں گے کہ فرانسیسی دور اقتدار میں جو فلمیں فرانس میں نہیں دکھائی جا سکتی ہیں‘ وہ فحش پروگرام الجزائر میں پوری بے باکی سے ٹیلی کاسٹ کیے جاتے تھے۔ مقصد تھا پورے معاشرے کو بگاڑنا اور اخلاقی انارکی میں مبتلا کرنا۔ اس کا ردِعمل یہ ہوا کہ اسلامی مزاحمت اور اسلامی تحریک نے دل و دماغ میں طوفان برپا کر دیا۔ عربی زبان کا احیا ہوا‘ اسلامی نظام کی پیاس اتنی بڑھی کہ ۱۹۹۲کے انتخابات میں اسلامی فرنٹ کو تقریباً ۹۰ فی صد ووٹ ملے۔
استعمار کی منصوبہ بندی ہمیشہ سے یہی رہی ہے جس کی تلقین آج بش صاحب اور ان کی ٹیم کر رہی ہے کہ تعلیم کو تبدیل کرو‘مدرسوں کو سیکولر رنگ میں رنگو۔ جہاد کا لفظ تو آج نہیں‘ پہلے دن سے دشمنوں کا ہدف رہا ہے ۔آپ کو معلوم ہے کہ اسلام پر غالباََ دو سری صدی ہجری کے اندر پہلی تنقیدی کتاب جو ایک عیسائی عالم کی طرف سے آئی ہے‘ اُس میں اصل ہدف جہاد اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے‘یعنی نبی پاک ؐ کی ذاتِ مبارک اور جہاد کا تصور ہمیشہ سے اصل ہدف رہے ہیں۔ فرانسیسی‘ برطا نوی‘ فرانسیسی‘ اطالوی استعما ری دور کا مطالعہ کر لیجیے‘ سب کے سامنے اصل ہدف جہاد تھا۔ خواہ وہ السنوسی کی تحریک ہو‘خواہ وہ الجیریا کے عبدالقادر کی تحریک ہو‘ خواہ وہ صومالیہ کی تحریک ہو‘ خواہ برعظیم کے شاہ اسماعیل شہیدؒ کی تحریک ہو۔ہر جگہ آپ دیکھیں گے کہ جہاد ہی نے استعمار کا راستہ روکا اور جہاد ہی کو استعمار نے ہدف بنایا۔یہ نئی نہیں‘ بڑی پرا نی حکمتِ عملی ہے۔ اور بظاہر معلوم ہو تا ہے کہ پتا نہیں یہ کیا کر لیں گے لیکن جہاد کا تصور ہو یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی سنت کی مرکزی حیثیت‘ دشمن کی ساری یلغار کے باوجود ان پر کوئی دھبا نہیں آسکا اور نہیں آسکتا۔ جھوٹی نبوتیں تک برپا کی گئیں لیکن دین حق پر کوئی آنچ نہ آئی۔ اسلام کو دبانے کی جتنی کوششیں ہوئیں‘ وہ اتنا ہی مستحکم ہوا ؎
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ اُبھرے گا‘ جتنا کہ دبا دیں گے
تاریخ میں ہم پر بڑے سخت دور گز رے ہیں۔شا ید سب سے سخت دور وہ تھا جب چنگیز اورہلاکو کی فوجوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی ۔اور مسلمانوں کی مایوسی اور بے بسی کا عالم یہ تھا کہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ اگرکوئی تاتار مسلمانوں سے کہتا تھا کہ تم لیٹ جاؤ اور انتظار کرو کہ میں اپنے گھر سے اپنی تلوار لے ا ٓؤں اور اس سے میں تم کو ذبح کروں تو وہ لیٹے رہتے تھے۔ حتیٰ کہ وہ اپنا خنجر لاتے اور ان کو ذبح کر دیتے۔یہ کیفیت تھی مسلمانوں کی۔لیکن اس کے بعد دیکھیے کہ دو سوسال کے اندر اندر پھر حالات بدل گئے اور انھی تاتاریوں کے دل و دماغ کو اسلام نے مسخر کرلیا‘ جنھوں نے مسلمانوں کو فتح کیا تھا۔ اسلام نے ان کو فتح کرلیا اور بقول اقبال ؎
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
وہی تاتار جو مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھا رہے تھے اور شہدا کے سروں سے مینار بناتے تھے‘ انھی کے ذریعے سے پھر۴۰۰ سال تک مسلمانوں کی حکمرانی کا نظا رہ چشمِ تا ریخ نے دیکھا۔ لہٰذا تاریخ کے نشیب وفراز سے پریشان نہ ہوں ۔لیکن اس میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ میرا اور آپ کا ردِ عمل کیا ہو تا ہے؟ غلامی یہ نہیں ہے کہ ہمارے ہاتھوں میں زنجیریں پڑجائیں اور ہمارے پاؤں بیڑیوں سے جکڑے ہوئے ہوں‘ بلکہ غلامی یہ ہے کہ ہم ظلم کی بالادستی کو قبول کرلیںاورمزا حمت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔جہاد نام ہی مزا حمت کا ہے ۔جہاد نام ہے ظلم اور کفر کے غلبے کے خلاف جدوجہد کرنے کا۔خواہ وہ قلم سے ہو‘ زبان سے ہو‘ ذہن سے ہو‘مال سے ہو یا جان سے ہو۔یہ سب اس کی مختلف شکلیں ہیں۔اور اس وقت دشمنوں کا یہی ہدف ہے کہ مسلمانوں میں روحِ جہاد باقی نہ رہے ۔ ان کا ہدف ہماری قوتِ مزاحمت ہے‘ شر سے سمجھوتا نہ کرنے کا جذبہ ہے۔ حالات کے آگے سپر نہ ڈالنے کا داعیہ ہے‘ مقابلے کا جذبہ اور اُمنگ ہے۔ اقبال نے ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ میں ابلیس کی اس پریشانی کا اظہار بڑے واضح الفاظ میں کر دیا ہے ؎
ہے اگر مجھ خطر کوئی تو اِس اُمت سے ہے
جس کے خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو
یہ جو شرارِ آرزو ہے‘یہ جو ظلم کے آگے ہتھیار نہ ڈالنے اور حق کے لیے جدوجہد کرنے کا جذبہ ہے‘ یہ ہماری اصل طاقت ہے۔ اگر یہ جذبہ آپ میں موجود ہے تو کوئی آپ کو غلام نہیں بناسکتا‘ کوئی ہمیں مغلوب نہیں کرسکتا۔اور اگر یہاں ہم نے شکست کھا لی تو ہمارے پاس اگر سونے کے انبار ہو ں ‘بنکوں میں ڈالروں کی ریل پیل ہو‘ حتیٰ کہ اسلحے کی فراوانی ہو‘ تب بھی ہم غلامی سے نجات نہیں پا سکتے۔ اس لیے اگرآپ مجھ سے ایک لفظ میںپو چھنا چا ہتے ہیں کہ تابناک مستقبل کی ضمانت کیا ہے؟ تو وہ ہے آرزو‘ وہ ایمان ہے ‘ وہ یہ جذبہ ہے ‘ وہ یہ مزاحمت ہے‘ وہ یہ احساس ہے کہ ہمیں اللہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کو قبول کرنا ہے‘ اس کے داعی بننے کے لیے جدوجہد کرنی ہے۔ اسی سے دنیا اور آخرت دونوں میں ہمارا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔
میں بات ختم کرنے سے پہلے ایک اور امر کی طرف آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جو فتنے اورمشکلات آج ہمیں در پیش ہیں‘ اُن میں ایک ہمارا آپس کی تفرقہ با زی ‘کفر سازی‘ اور جزوی امور کو اتنی اہمیت دے دینا ہے کہ اصول پامال ہوجائیں اور باہم رواداری پارہ پارہ ہوجائے۔ اصول ‘ بنیاد اور متفق علیہ معاملات کو نظرانداز کر کے فرو عی ‘جزوی‘ غیر متعلق باتوں میں اُلجھ جانے اور ان کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کا مرض ہمارے مخالف بڑی کامیابی سے ہمارے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی حکمتِ عملی ہے جس سے ہمارے مخالف ہمیں نان ایشوز میں الجھا کراصل ایشوز سے جن کو ہمیںمل جل کر حل کر نا ہے‘ غافل رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی مثال میں آپ کو یہ دینا چا ہتا ہوں کہ عراق میں امریکی قوتوں کے غلبے کے بعد جو سب سے زیا دہ اہم ایشو اٹھایا گیا وہ یہ ہے کہ عراق میں اتنے شیعہ ہیں اتنے سنی ‘اور یہ کبھی ساتھ نہیں رہ سکتے۔اور بددیانتی کی انتہا ہے کہ کرد جو آبا دی کا پانچواں حصہ ہیں‘ وہ ۱۰۰ فی صد سنی ہیں مگر انھیں کوئی سنی نہیں کہتے ۔لیکن جو ۲۲‘۲۳فی صد عرب سنی ہیں انھیں سنی قرار دیتے ہیں اور باقیوں کو شیعہ قرار دیتے ہیں۔یہی چیز افغانستان میں آپ نے دیکھی۔پشتون اور فا رسی بولنے والے‘ سنی اورشیعہ‘یعنی یہ سارے تنازعات پیداکیے جا رہے ہیں۔ انھی کا پرتو آپ پاکستان میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
میں نے آغاز میں کہا تھا کہ ایمان کے ساتھ ساتھ دین کا صحیح وژن ضروری ہے۔ اور اس وژن کے اندر ایک بڑی چیز ہے: الاقدم فالاقدم کہ جو اہم ہے اسی کو اہم ہونا چا ہیے۔جو مرکزی ہے اسی کو مرکزی ہونا چا ہیے۔جو اصول ہے اسی پر ہما ری اصل نظرہو نی چا ہیے۔اور جو اختلاف ہے ‘ جو فرو عی ہے اس کے با رے میں ہمیں توسع ‘ رواداری کواپنانا چا ہیے ۔مکالمہ ضرور کیجیے لیکن اس میں اُلجھ کر اصل کو بھول جانا اور تر جیحات کا بگڑ جانا یہ بہت بڑی تبا ہی ہے۔میں نے جتنا مطا لعہ کیا ہے‘ میں آپ سے ایمان داری سے کہتا ہوں کہ اہلِ سنت کے درمیان جو مکاتب فکر ہیں ان میں ۹۵ فی صد ایشوز وہ ہیں کہ جن میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں۔ سا رے اختلافات صرف ۵ یا ۶ فی صد معاملات کے اُوپر ہیں۔اور اگر آپ اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کے مابین اختلافی امور کا جائزہ لیں تو یہ زیادہ سے زیا دہ بڑھ کر کے ۸ سے ۱۰فی صدامور کے بارے میں ہیں‘ جب کہ ۹۰ فی صد امور میں ہم سب مشترک ہیں۔
کیا ظلم ہے کہ ۹۰ فی صد اور ۹۵فی صد قدر مشترک کو تو ہم بھول جاتے ہیں‘ اور اس پانچ سات فی صد جس کے با رے میں اختلاف ہے ‘اس میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ ہم اختلاف سے انکار نہیں کرتے لیکن اگر ہم اس اختلاف کو اس کی حدود میں رکھیں‘ اختلافی امور میں روادا ری بر تیں اور جو ہما رے مشترکات ہیں اس پر ڈٹ جائیںتو ہما ری کتنی بڑی قوت ہے ۔اور یہی وجہ ہے کہ میں کہتا ہوں کہ فقہ نظامِ زندگی ہے ‘ قانون ہے ‘ ہمارا راہنما ہے۔لیکن ہما ری تر جیحات میں سب سے پہلی چیز قرآن ہو نی چا ہیے۔پھر سنتِ رسول ؐ ، پھر فقہ‘اور پھر تاریخ ۔اگر یہ تر تیب آپ رکھیں گے تو کبھی بگاڑ نہیں آئے گا۔ اس سے بڑا سانحہ کیا ہوگا کہ ہم قرآن کو بھول جائیں ‘ سنت کی ہم فکر نہ کریں ‘فقے میں بھی مشترکات کو ہم نظرانداز کر دیں اور صرف فروعات میں ہی الجھ جائیں تو پھر حالات خراب نہ ہوں تو کیا ہو؟
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی صحیح بات کہی تھی کہ لن یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما یصلح بہ اولھا ، اِس اُمت کے آخری دور کی اصلاح بھی اُسی سے ہوسکتی ہے جس سے اِس کے پہلے دور کی اِصلاح ہوئی تھی۔اور وہ ہے قرآن۔تو آئیے ! اس کتابِ ہدایت کو تھام لیں اور غلبۂ اسلام کی اُس اُمنگ کو جو ساری قوت کا سرچشمہ ہے ‘اِس جذبے کو بیدار اور اُجاگر کریں کہ ہمیں ظلم کے آگے کبھی بھی سپر نہیں ڈالنا بلکہ مزاحمت کرنا ہے۔اور اگر آپ تاریخ پر غور کریں تو آپ یہ دیکھیں گے کہ خیر اور شر کی کش مکش سے ہی قوموں میں ساری تخلیقی قوت (creativity) پیدا ہو تی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح فزکس میں رگڑ (friction) سے انرجی پیدا ہوتی ہے ۔اسی طرح انسانی زندگی میں بھی اسی کش مکش سے تخلیقی قوت پیدا ہوتی ہے اور طاقت کے نئے سر چشمے پھوٹتے ہیں۔
تو آئیے!ہم ایمان اور اُمید کا دامن تھام لیں۔ اللہ کو اپنی قوت کا ذریعہ بنائیں ۔ اور اپنے عوام کو بیدار اور منظم کریں کہ اللہ کی نصرت کے لیے یہ ضروری ہے۔ ھُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ o (الانفال ۸:۶۲ )’’وہی وہ ذات ہے جس نے اپنی مدد اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید فرمائی‘‘۔ اپنے رب سے مدد طلب کریں ۔ تاریکی سے مایوس نہ ہوں۔ بچپن میں‘ میں نے ایک قطعہ سنا تھا جسے حرزِجان بنا لیا‘ اس پر بات ختم کرتاہوں:
یوں اہلِ توکل کی بسر ہوتی ہے
ہر لمحہ بلندی پہ نظر ہوتی ہے
گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے
آغوش میں ہر شپ کے سحر ہوتی ہے
یہ اشارات اس تقریر پر مبنی ہیں جو مدیر ترجمان القرآن نے ۱۱ مارچ ۲۰۰۵ء کو فاران کلب کراچی کے ایک بڑے اجتماع میں کی جس میں کراچی کے اہل دانش اور تاجر برادری کے سرکردہ افراد شریک تھے۔ ضروری نظرثانی اور اضافوں کے ساتھ۔
(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۵ روپے۔ سیکڑے پر رعایت۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور۔ فون:۵۴۳۴۹۰۹)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آج پوری ملّتِ اسلامیہ ہر سمت سے اندرونی اور بیرونی چیلنجوں اور خطرات کا نشانہ بنی ہوئی ہے اور اس کا سینہ اپنوں اور غیروں کے تیروں سے چھلنی ہے لیکن ہماری نگاہ میں اس وقت تین ایسے بنیادی اور گمبھیر چیلنج ہیں جن کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے اور ان کا مقابلہ کرنے کی صحیح حکمت عملی مرتب اور اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور پوری اُمت مسلمہ خصوصاً ملّتِ اسلامیہ پاکستان کی بقا‘ استحکام اور ترقی اسی پر منحصر ہے۔ اسلام کی حفاظت کا بیڑا تو اس کے وحی کرنے والے نے اٹھا رکھا ہے۔ اگر ایک قوم اس کا حق ادا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو وہ قادر ہے کہ دوسری قوموں کو اس امانت کا بار اٹھانے کے لیے آگے بڑھا دے جس طرح وہ ماضی میں کرتا رہا ہے۔ اس کی ایک تابناک مثال کی طرف اقبال نے اس طرح اشارہ کیا ہے ؎
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
لیکن اصل مسئلہ اسلام کی بقا کا نہیں‘ بحیثیت قوم اور اُمت ہماری بقا اور ترقی کا ہے۔ تمام اہلِ ایمان اور اصحابِ بصیرت کی ذمہ داری ہے کہ ان چیلنجوں اور خطرات کا صحیح صحیح ادراک کریں جن کی زد میں ہمارا قومی اور ملّی وجود ہے اور اُمت مسلمہ کو بیدار‘ منظم اور متحرک کرنے کی سعی و جہد کریں تاکہ ان چیلنجوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا جا سکے۔
جن تین چیلنجوں کو ہم بنیادی اور فیصلہ کن سمجھتے ہیں ان میں دو چیلنج اندرونی ہیں‘ اور ایک بیرونی ہے۔
سب سے پہلا چیلنج ہماری اپنی داخلی صورت حال کا نتیجہ ہے جس کا تعلق ذاتی کردار سے لے کر اجتماعی زندگی اور نظامِ حیات تک سے ہے۔ آج کا مسلمان فرد اور مسلمان معاشرہ ہمارے سارے دعووں کے باوجود‘ اسلام کے کم سے کم معیار سے بھی کوسوں دُور ہے اور ہم اسلام کی جو تصویر پیش کر رہے ہیں‘ وہ دین حق کا پرتو ہرگز نہیں۔ اچھی مثالیں آج بھی موجود ہیں اور شاید انھی کے طفیل ہمیں زندہ رہنے کی مہلت ملی ہوئی ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ اپنی تمام نمازوں‘ روزوں‘ زکوٰۃ اور حج و عمروں کے باوجود‘ بحیثیت مجموعی ہم‘ انفرادی اور اجتماعی دونوں دائرہ ہاے زندگی میں جہالت‘ غفلت‘ نفاق‘ خود غرضی‘ ناانصافی‘ نفس پرستی اور دنیا طلبی کی گرفت میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ خود دین کے بارے میں ہمارا وژن دھندلا اور پراگندا ہوتا جا رہا ہے۔ زندگی کے تضادات پر ہم کوئی خلش محسوس نہیں کرتے۔ جو ملک لاکھوں انسانوں کی بیش بہا قربانیوں کے ذریعے اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا اس میں اسلام ہی سب سے زیادہ مظلوم ہے۔ اس کے احکام کی کھلی کھلی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو نظرانداز ہی نہیں‘ علی الاعلان پامال کیا جا رہا ہے اور ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
عالم یہ ہے کہ آج جان‘ مال‘ عزت بلکہ ایمان بھی محفوظ نہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اسے توڑنے میں جری ہیں۔ جرائم کی فراوانی ہے اور مظلوم کی دادرسی کرنے والا کوئی نہیں۔ غریب غریب تر ہو رہا ہے۔ اخلاقی گراوٹ اس انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ مجرم کھلے بندوں جرم کرکے دندناتے پھرتے رہتے ہیں لیکن کوئی ان کو روکنے اور قابو کرنے والا نہیں۔ مسلم معاشرے میں خودکشی کا کبھی وجود نہ تھا مگر آج یہ عفریت بھی سر اٹھا رہا ہے اور معاشرے کو تہ و بالا کرنے والے اس ’سونامی‘ سے بچانے کی کوئی فکر اہل اختیار و ثروت کو نہیں۔ انفرادی بگاڑ نے اب اجتماعی بگاڑ کی شکل اختیار کرلی ہے اور اربابِ اقتدار خوابِ غفلت میں محو اور اپنی دل چسپیوں میں گم ہیں‘ بلکہ بگاڑ کی سرپرستی کی خدمت انجام دے رہے ہیں جس کی ایک شرمناک مثال حالیہ بسنت میلہ ہے۔ جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا میں سونامی نے اور خود اپنے ملک میں بارشوں نے تباہی مچائی۔ ۵ فروری کو مظلوم کشمیری بھائیوں سے یک جہتی کا دن منایا گیا مگر عین اسی زمانے میں خالص ہندوانہ انداز میں اور عالمی میڈیا اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے زیرسایہ قومی غیرت اور ذاتی شرم و حیا کو بالاے طاق رکھ کر بسنت میلہ منایا گیا اور اسے ملک کے ذمہ دار ترین افراد کی سرپرستی حاصل رہی۔
اس بگاڑ کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اب اقدار اور پیمانے تک بدلنے لگے ہیں اور ’ناخوب‘ کو ’خوب‘ بناکر اور بڑا مفید اور دل آویز روپ دے کر پیش کیا جا رہا ہے۔ آزادی، ’روشن خیالی اور اعتدال پسندی‘ کے نام پر اصولوں‘ احکام‘قوانین اور اقدار کو سمجھوتے کی سان پر رکھ کر ٹکڑے ٹکڑے کیا جا رہا ہے۔ یہ اجتماعی فساد اس وقت ہمارا سب سے بڑا دشمن بن گیا ہے۔ اگر اپنے تصورِ دین کی حفاظت اور خیروشر کے معیارات کی تفہیم اور ان کے احیا کے باب میں کچھ بھی غفلت برتی گئی تو کوئی چیز ہمیں تباہی سے نہ بچا سکے گی کہ یہ اللہ کی سنت اور تاریخ کا فیصلہ ہے ع
چمن کی فکر کر ناداں ’’تباہی‘‘ آنے والی ہے
اس صورت حال کو پیدا کرنے‘ بڑھانے کی ذمہ دار اور اصلاح کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہماری قیادت اور حکمران قوتیں ہیں۔ یہ بات اُمت مسلمہ کے لیے بالعموم اور پاکستان کے لیے بالخصوص صادق ہے۔ افراد اُمت کی ذمہ داری اور جواب دہی بھی اپنی جگہ حقیقت ہے اور ہم اسے کسی پہلو سے بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہتے مگر بگاڑ کو اس انتہا تک پہنچانے میں سب سے زیادہ ذمہ داری اس قیادت کی ہے جس کا فرض اس کو روکنا اور صلاح و خیر کے غلبے اور فروغ کے لیے جدوجہد کرنا تھا۔ ہم ’قیادت‘ کے لفظ کو اس کے وسیع تر معنی میں استعمال کر رہے ہیں جس میں زندگی کی ہر سطح کی قیادت شامل ہے لیکن اس وقت بگاڑ کا سب سے بڑا سرچشمہ حکومت اور ملک کا بالادست طبقہ ہے جس نے دستور‘ قانون‘ ضابطہ کار‘ روایات‘ اخلاقی اقدار سب کی پامالی کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔ اس میں سرفہرست فوجی قیادت‘ معاشی اشرافیہ‘ بیوروکریسی اور نام نہاد آزاد خیال سیاسی قوتوں کا گٹھ جوڑ ہے جو قوت کے ہر منبع پر قابض ہے اور اختیار اور اقتدار کو ذاتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کر رہا ہے اور اجتماعی زندگی کو بگاڑ‘ تصادم‘ ناانصافی اور بے راہ روی کی طرف لے جا رہا ہے۔
ہم بڑے دکھ سے یہ بات کہنے پر مجبور ہیں کہ اس بگاڑ میں مرکزی کردار جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں کا ہے جو اصلاح کے بلندبانگ دعوے کرتے ہیں مگر ان کے ساڑھے پانچ سالہ دورِاقتدار میں بحیثیت مجموعی بگاڑ انتہا درجے تک پہنچ گیا ہے اور نظریاتی خلفشار‘ اخلاقی بے راہ روی‘ سماجی بے انصافی‘ معاشی ظلم و استحصال‘ سیاسی جنبہ داری‘ مفاد پرستی اور بے اصولی کا یہ حال ہوگیا ہے کہ قوم کی ایک بیٹی کی عصمت دری کی جاتی ہے اور کہا جا رہا ہے حکمران مجرموں کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔ سپریم کورٹ کے اعلیٰ ترین انتظامی افسر ۲۲گریڈ کے رجسٹرار کو بدعنوانی کے الزام میں برطرف کیا جاتا ہے۔ مرکزی وزرا میں وہ ’پارسا‘ بھی شامل ہیں جن پر نیب میں مقدمے چل رہے ہیں۔ ایک صوبے کا وزیراعلیٰ اپنے اہم ترین وزیر کو بدعنوانی کے الزام میں برطرف کرتا ہے اور وہ برطرف وزیر‘ وزیراعلیٰ پر بدعنوانی کا الزام لگاتا ہے اور پارٹی کی مرکزی قیادت دونوں کو خاموش رہنے اور فقط سیزفائر کرانے ہی میں عافیت دیکھتی ہے۔ گویا حمام میں سب ننگے ہیں۔ اور ستم بالاے ستم یہ کہ قومی احتسابی ادارے (نیب) کا ایک سینیر ڈائرکٹر (جو ریٹائرڈ فوجی افسر ہے)‘ رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے اور وہ بھی دو دوسرے ریٹائرڈ فوجیوں ہی کے کروڑوں اور اربوں کے کرپشن پر پردہ ڈالنے کے لیے۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ پولیس کے افسر اور اہل کار جرم کرتے ہوئے نہ پکڑے جاتے ہوں اور ہزاروں ہیں جو ہر قانون سے بالاتر اور ہر گرفت سے آزاد ہیں اور عام شہریوں کی زندگیوں کو عذاب بنانے میں مصروف ہیں۔ ملک کی فوج کو اپنے ہی ملک کے شہریوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اور فوج اور عوام کے درمیان فاصلے روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ غربت‘ مہنگائی اور بے روزگاری میں ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے لیکن حکمران ہیں کہ اپنے لیے مراعات اور تنخواہوں میں اضافوں کے حصول اور حفاظت کے نام پر فاقہ کش قوم کے اربوں روپے سے بلٹ پروف مرسیڈیز اور لینڈ کروزر منگوانے اور سرکاری خرچ پر عمرے کرنے میں مصروف ہیں۔
مبادلۂ خارجہ کے ذخائر میں اضافے کی خبریں سنانے والوں کو ذرہ برابر احساس نہیں کہ عام آدمی زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہے اور ہمہ پہلو بدعنوانی‘ بددیانتی اور کام چوری نے زندگی کے ہر دائرے کو مسموم کیا ہوا ہے۔ ایک طرف کشکول توڑنے کے دعوے ہیں‘ دوسری طرف بڑے پیمانے پر اس غریب قوم پر قرضوں کا نیا بوجھ لادا جا رہا ہے۔ صرف ان پانچ سالوں میں اربوں ڈالر کے نئے قرضے لیے گئے ہیں۔ اب تو اسٹیٹ بنک کی تازہ ترین رپورٹ بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ بیرونی قرضے پھر ۳۶ ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے ہیں۔ وہی ورلڈ اکانومک فورم جس کے داووس (سوئٹزرلینڈ) کے سالانہ اجلاس کے حوالے سے جنرل پرویز مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز اپنی کامیابیوں اور فتوحات کے شادیانے بجانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے‘ دیکھیے وہ پاکستان کی حالت کا کیا نقشہ کھنچ رہا ہے۔ ورلڈ اکانومک فورم گذشتہ پانچ چھے سال سے ایک رپورٹ The Global Competetiveness Index شائع کررہا ہے جس میں دنیاکے مختلف ممالک کی تین بنیادوں پر درجہ بندی کی جاتی ہے یعنی Growth Competetiveness Index ‘ Technology Index اور Public Institutions Index۔ اس میں معیشت کی کیفیت‘ اداروں کی حالت‘ بدعنوانی کی صورت حال‘ مسابقت اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول کی صورت کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ اس ادارے کی تازہ ترین رپورٹ اسی ماہ شائع ہوئی ہے: The Global Competetiveness Report 2004-05 اس کی تیاری میں ۱۰۰ سے زیادہ تحقیقی اداروں نے حصہ لیاہے اور یہ ۱۶۰اشاریوں (indicators) کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے‘ اس رپورٹ میں پاکستان کا مقام دنیا کے ۱۰۴ ملکوں میں ۹۱نمبر پر ہے یعنی ہم معاشی دوڑ میں سب سے پیچھے رہ جانے والے ۱۴ملکوں میں سے ایک ہیں۔ اس اشاریے میں بھارت کا نمبر ۵۵ پر آتا ہے اور مسلمان ملکوں میں دو ہم سے کم تر اور ۱۱ ہم سے بہتر ہیں۔ جنوب ایشیا میں بھارت اور سری لنکا دونوں ہم سے نمایاں طور پر آگے ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ شرم کی بات یہ ہے کہ ۲۰۰۴ء کی فہرست کا مقابلہ جب ۲۰۰۳ء سے کیا جائے تو پاکستان اوپر جانے کی بجاے نیچے چلاگیا ہے۔ ۲۰۰۳ء میں ہم ۱۰۱ ملکوں میں ۷۳ ویں نمبر پر تھے اور ۲۰۰۴ء میں ۱۰۴ ملکوں میں ۹۱نمبر پر آگئے ہیں۔ دعوے ترقی کے ہو رہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ مجموعی طور پر ہم ترقی کی سیڑھی پر اوپر جانے کے بجاے نیچے کی طرف لڑھک رہے ہیں۔
معروف ادارے ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کے تیار کردہ گوشوارئہ بدعنوانی (کرپشن انڈکس) میں بھی وطن عزیز کی یہی صورتِ حال نظر آتی ہے۔ ۲۰۰۳ء میں ۱۳۳ ممالک کے جائزے میں ہمارا شمار ۹۲ نمبر پر تھا اور ۱۰ میں سے ہمیں ۵ئ۲ نمبر حاصل ہوئے تھے۔ ۲۰۰۴ء میں ۱۴۵ ممالک کے جائزے میں گر کر ۱۲۹ کے شمار میں آگیا ہے اور ہمارے نمبر ۱۰میں سے ۱ئ۲ ہوگئے ہیں۔ یہ ہے ہماری کارکردگی کا اصل چہرہ جس پر جنرل پرویز مشرف یہ غلاف چڑھا رہے ہیں کہ اب ملک میں صرف معمولی نوعیت کی (tactical) کرپشن ہے یعنی اعلیٰ سطح پر بڑے پیمانے کی (strategic) کرپشن ختم ہوگئی ہے۔ چوری اور سینہ زوری اگر اس کا نام نہیں تو پھر کیا ہے؟
بگاڑ کے اسباب اور عوامل کا جائزہ لیا جائے تو افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس کا بڑا سبب پاکستان اور مسلم اُمت کی موجودہ قیادتیں ہیں جو ذات اور مفاد کے چکر میں ہیں‘ جو مدد کو دستور‘ قانون‘ ضابطے اور اخلاق ہر چیز سے بالا رکھتی ہیں‘ جو نہ عوام میں سے ہیں اور نہ عوام کے سامنے جواب دہ ہیں بلکہ جن کے مفادات اور قوم کے مفادات متصادم ہیں۔ پاکستان میں صاحبانِ اقتدار کا موجودہ سیاسی گٹھ جوڑ دراصل فوجی قیادت‘ بیوروکریسی‘ معاشی اشرافیہ اور ان سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہے جو ہر قیمت پر اقتدار پر قابض رہنے میں اپنی عافیت دیکھتے ہیں۔
تیسرا چیلنج امریکا کی عالمی سیاست ہے جس کا خصوصی نشانہ اسلام‘ اسلامی دنیا اور پاکستان اور چند دوسرے مسلمان ممالک ہیں۔ صدربش نے اپنی صدارت کے پہلے چار سال میں عالمی بساط پر امریکی تسلط کو مستحکم کرنے اور ہر متبادل قوت کو غیرمؤثر بنانے کے لیے اپنا نقشۂ جنگ خاصے تفصیلی انداز میں بنا لیا تھا اور اب دوسرے دور میں اپنی پہلی ہی تقریر اور پھر کانگریس کے سامنے State of the Nation خطاب میں اسے اور بھی نوک پلک سے درست کر کے پیش کردیا ہے۔ ۲۱منٹ کی صدارتی تقریر میں انھوں نے ۴۲ بار liberty (آزادی) اور freedom (آزادی) کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے دنیا کے ہر گوشے تک آزادی اور جمہوریت کو مسلط کرنے کے عزائم کا اظہار کیا ہے۔ درحقیقت اس طرح صدر بش نے مستقبل کے نقشۂ جنگ کو بالکل واضح کر دیا ہے۔ الفاظ پر کیسا ہی ملمع کیوں نہ چڑھایا جائے‘ دل کی بات زبان پر آہی جاتی ہے۔ صدارتی تقریر میں صدر بش نے freedom (آزادی) کو fire (آگ) سے تشبیہ دی ہے: a fire in the mind of men اور یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ’’آزادی کی جنگ دنیا کے تاریک ترین گوشوں تک پہنچانا‘‘ اس کا مشن ہے۔ درحقیقت یہ آزادی کی تحریک نہیں‘ آزادی کے نام پر دنیا کو آگ اور جنگ کے شعلوں میں دھکیلنے کا خونی کھیل ہے۔
لندن کے اخبار دی گارڈین کے مضمون نگار ٹرس ٹرام ہنٹ (Tristram Hunt) نے اپنے ایک تازہ مضمون میں صدربش کے ایک مشیر کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں جو انھوں نے ایک امریکی صحافی رون سوس کائنڈ (Ron Suskind)سے کہے۔
اب ہم ایک سلطنت ہیں۔ جب ہم کوئی اقدام کرتے ہیں تو ہم اپنے لیے حقائق خود تخلیق کرتے ہیں۔ اور جس وقت آپ اس حقیقت کا مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں‘ ہم دوبارہ اقدام کرتے ہیں‘ جس سے نئی حقیقتیں تخلیق پاتی ہیں۔ ہم تاریخ ساز ہیں۔ اب آپ کا‘ اور آپ سب کا کام محض یہ رہ جائے گا کہ ہم جو کرتے ہیں‘ اس کو پڑھتے (اور دیکھتے) رہیں۔ (گارڈین‘ ۱۸ فروری ۲۰۰۵ئ)
یہ رعونت دنیا میں آزادی اور جمہوریت کے نام پر نئے استعماری نظام کے قیام کے اصل چہرے سے پردہ اٹھادیتی ہے۔ ایسی ہی رعونت کا اظہار ۱۱؍۹ سے بہت پہلے کولن پاول نے بھی کیا تھا۔ اس وقت وہ پہلی عراق جنگ کے وقت امریکن چیف آف اسٹاف تھے‘ امریکا میں پاکستان کی سفیر سیدہ عابدہ حسین نے پاکستان کے نیوکلیر دفاعی حق کا دفاع کرتے ہوئے کولن پاول سے کہا تھا کہ جنرل صاحب‘ ہمارے پاس تو ایک دو ہی ’فٹ بال‘ ہیں، آپ کے پاس تو ہزاروں بم ہیں تو جنرل کولن پاول نے سختی سے جواب دیا:Madame! We are America (محترمہ! ہم امریکا ہیں۔)
یہ ایک حقیقت ہے کہ ’آزادی‘ کا علم بردار امریکا صرف حکم چلا رہا ہے اور ہمارے حکمران صرف اس کی آوازِ بازگشت بنے ہوئے ہیں۔ ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کے جو وعظ دیے جارہے ہیں‘ وہ امریکا کے نئے عالمی نظام میں اس کے حکم کے مطابق اپنے چہرے مہرے کو قابلِ قبول بنانے کی ایک کوشش سے زیادہ نہیں۔ صدربش‘ نائب صدر ڈک چینی‘ نئی وزیرخارجہ کونڈولیزا رائس‘ ۱۱؍۹ کمیشن کی سرکاری رپورٹ‘ امریکی تھنک ٹینکس کی درجنوں رپورٹیں‘ سی آئی اے کے تھنک ٹینک‘ نیشنل انٹیلی جنس کونسل سے لے کر امریکی کانگریس کی ریسرچ سروس کی رپورٹوں تک کو دیکھ لیجیے‘ سب میں یک زبان ہو کر یہی کہا جا رہا ہے ہمیں مسلمانوں کے ذہن کو بدلنا ہے‘ اصل خطرہ انتہا پسندی (Extremism) بنیاد پرستی (Fundamentalism) اور اس اسلامی اداراتی نظام (Islamist infrastructure)سے ہے جو جہاد کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ دہشت گردی‘ حتیٰ کہ اسلامی دہشت گردی (Islamist terrorism) تو صرف مظاہر ہیں‘ اصل منبع اسلام اور اس کا تصورِ جہاد ہے جس سے سیاسی اسلام (Political Islam) رونما ہوتا ہے اور جس کا ہدف سیکولرزم کے مقابلے میں اجتماعی زندگی اور ریاست کے نظام کو دین اور مذہب کی روشنی میں تعمیر کرنا ہے۔
ان تمام پالیسی ساز اداروں اور افراد کے تجزیے کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلم دنیا میں امریکا سے جو نفرت ہے‘ اس کا منبع اسلام اور اس کا انقلابی تصورِحیات ہے جو ریاست اور مذہب کی دوئی کے مقابلے میں ان کی ہم آہنگی اور وحدت سے عبارت ہے۔ صدربش نے ۱۱ستمبر کے واقعے کے بعد صلیبی جنگوں (کروسیڈ) کی بات کر کے مسلمانوں کو چونکا دیا تھا مگر پھرفوراً ہی وہ واشنگٹن کے اسلامک سنٹرگئے اور پہلی بات جو کی وہ یہی اعتدال پسند(moderate) اسلام کی تھی۔ اس کے بعد سے جتنی بھی اہم رپورٹیں امریکی مفکرین یا اداروں کی طرف سے آرہی ہیں‘ ان میں اعتدال پسند اور انتہا پسند (extremist) اسلام کا فرق بیان کیا جا رہا ہے اور حسبِ موقع اسلامی دنیا میں سیکولرزم کے فروغ کی بات بھی کی جارہی ہے۔ ۱۱؍۹ کمیشن امریکا کا سب سے اعلیٰ بااختیار کمیشن تھاجس نے پاکستان اور جنرل پرویز مشرف کی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کو امریکا کے مفاد میں سب سے اہم تصور قرار دیا۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ کے صفحہ ۳۶۹ پر یہ سفارش کی ہے جسے امریکی صدر نے وائٹ ہائوس سے جاری ہونے والے حقائق نامے (۳۰ جولائی ۲۰۰۴ئ) میں امریکی پالیسی قرار دیا ہے:
اگر پرویز مشرف‘ پاکستان اور اپنی بقا کی جنگ میں روشن خیال اعتدال پسندی کے عزم پر ڈٹے رہتے ہیں تو پھر امریکا کو مشکل فیصلوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اسے پاکستان کے مستقبل کے حوالوں سے طویل المیعاد تعلق استوار کرنا ہوگا۔ امریکا کو اپنی موجودہ امداد جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ‘ انتہاپسندی کے خلاف جنگ میں حکومت پاکستان کی مزید مدد کرنا ہوگی۔ یہ مدد ایک جامع کوشش کی صورت میں ہونی چاہیے جس کادائرہ فوجی امداد سے لے کر بہتر تعلیم کے لیے وسائل کی فراہمی پر محیط ہونا چاہیے اور یہ تعاون اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک پاکستانی قیادت مشکل فیصلوں کے لیے تیار رہتی ہے۔ (امریکی شعبۂ تعلقات عامہ کا خبرونظر‘ اگست ۲۰۰۴ء شمارہ۲)
امریکا اور اس کے دوستوں کو ایک اہم فوقیت حاصل ہے کہ ہم ان کو ایسا تصور دے سکتے ہیں جس سے ان کے بچوں کا مستقبل سنور سکتا ہے۔ اگر ہم عرب ممالک اور عالم اسلام کے صاحبِ فکر لیڈروں کے نظریات پر توجہ دیں تو اعتدال پر مبنی اتفاق راے حاصل ہوسکتا ہے۔ (۱۱؍۹ رپورٹ‘باب ۱۲‘ ص ۳۷۶)
کئی عشروں سے دنیا میں آزادی‘ امن و سلامتی اور ترقی کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمیں اب اس دائرے کو مزید بڑھانے کا تاریخی موقع ملا ہے تاکہ بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا انصاف اور عزت و وقار کے ساتھ مقابلہ کیا جاسکے۔
ہمیں مشرق وسطیٰ کے اصلاح پسندوں کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ وہ آزادی اور پرامن جمہوری معاشروں کی تعمیر کے لیے کوشاں ہیں۔
یہ تقریر امریکی شعبۂ تعلقات عامہ کے خبرونظر (اکتوبر ۲۰۰۴ئ‘ پہلا شمارہ) نے صدربش‘ جنرل پرویز مشرف اور صدر حامد کرزئی کی تصویر کے ساتھ شائع کی ہے۔
جنوبی ایشیائی امور کے لیے امریکا کی نائب وزیر خارجہ کرسٹینا روکا نے ۲۲ جون ۲۰۰۴ء کو ایوانِ نمایندگان کی بین الاقوامی تعلقات کمیٹی کے سامنے اپنے بیان میں فرمایا:
پاکستان کو ایک جدید اور اعتدال پسند اسلامی جمہوری ملک بنانے کے لیے اس کی مدد جاری رکھی جائے… پاکستان میں ہماری تمام پالیسیوں اور پروگراموں کا مقصد یہ ہے کہ اسے ایک اعتدال پسند اور خوش حال ملک بنانے میں مدد دی جائے۔ ہم سیکورٹی کے شعبے میں تعاون اور فروغ جمہوریت اور ترقی و خوش حالی کے اپنے پروگراموں کے ذریعے پاکستان کی مدد کر رہے ہیں۔ یہ ایسے پروگرام ہیں جو انتہا پسندی اور عدمِ استحکام کی روک تھام میں مدد دیتے ہیں… ہم حکومت پاکستان کی تعلیمی اصلاحات کی کوششوں میں بھی نمایاں مدد دے رہے ہیں۔ ان میں مدارس کی اصلاح شامل ہے… ہمارے پروگراموں سے سیاسی جماعتوں کی اصلاح میں بھی مدد ملے گی۔ ہم اساتذہ‘ میڈیا اور سول سوسائٹی کے لیڈروں‘ نوجوانوں اور متوسط طبقے کے ان پاکستانیوں پر بھی توجہ دے رہے ہیں جن کی طرف سے جمہوری اقدار کی مزاحمت ہوسکتی ہے۔ (خبرونظر‘ جولائی ۲۰۰۴ئ‘ پہلا شمارہ)
’روشن خیال اعتدال پسندی‘ پر جو وعظ ہم گذشتہ دو سال سے سن رہے ہیں‘ ان کا شجرئہ نسب صدر بش اور ان کی انتظامیہ اور امریکی تھنک ٹینکس کے اسی تجزیے اور اصلاح کے نسخے سے مل جاتا ہے۔ اس کا ہدف اسلام کا تصورِ حیات‘ دین و دنیا کی یک رندگی کا نظریہ‘ تصورِ جہاد اور امربالمعروف ونہی عن المنکر اور اجتماعی زندگی میں اسلام کا کردار ہے۔ امریکا کی نارتھ ایسٹرن یونی ورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ایم شاہد عالم کی کتاب Is There an Islamic Problem? اسی ماہ شائع ہوئی ہے۔ اس میں انھوں نے بڑی دیانت اور جرأت کے ساتھ امریکا کے اصل عزائم کو بیان کیا ہے اور نہایت مدلل انداز میں ان کا تعاقب کیا ہے۔ انھوں نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں امریکی قیادت کے اصل ہدف کو بہت صاف لفظوں میں بیان کیا ہے:
مسلمانوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلامی دنیا کے خلاف امریکی اور اسرائیلی عزائم اب اس سے کہیں زیادہ بڑھ چڑھ کر ہیں جتنے وہ ۱۱؍۹ سے پہلے تھے۔ اس وقت وہ اسلامی دنیا پر گماشتوں کے ذریعے غلبہ حاصل کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اب ان کے عزائم اس سے آگے ہیں۔ وہ اب مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسلامی دنیا‘ بلکہ خود اسلام‘ امریکی شرائط پر اپنی اصلاح کرے۔ (America's New Civilising Mission‘ڈان‘ ۱۲ فروری ۲۰۰۵ئ)
یہ کہ اسلام ہی اصل ہدف ہے اس کا اندازہ اس امر سے کیجیے کہ امریکا صرف دینی مدارس کے نظام کی تبدیلی ہی کے لیے کوشاں نہیں بلکہ پورے تعلیمی نظام کو سیکولر بنانے کا مطالبہ کررہا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے ۲۰۰۲ء میں جو تعلیمی اصلاحات شروع کیں اور جن کے تحت نصاب کی تبدیلی‘ دینی مدارس کا رجسٹریشن اور آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ آرڈی ننس ۲۰۰۲ء وغیرہ کا سلسلہ شروع کیا گیا‘ وہ سب اسی امریکی منصوبے کا حصہ ہیں۔ حال ہی میں امریکی حکومت کی جو دستاویزات سامنے آئی ہیں اور جنھیں وہاں کے قانونِ اطلاعات کے تحت حاصل کیا گیا ہے‘ ان میں ۲۰۰۲ء کا ایک پالیسی پیپر Strategy for Eliminating the Threat from Jehadist Networks of Al-Qaida: Status and Prospects سامنے آیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی حکومت جو پالیسی پاکستان میں فروغ دے رہی ہے وہ اسی نسخے کا استعمال ہے۔
ایک ایسا سیکولر نظامِ تعلیم استوار کرنا جو پاکستان کے دیہی علاقوں کے لوگوں کے بنیاد پرست مدرسوں پر مکمل انحصار کو ختم کر دے۔
تعلیمی ’’اصلاحات‘‘
امریکی حکومت آٹھ مدات کے تحت اس مقصد کے لیے پاکستان کی مدد کر رہی ہے جس میں نصاب کی تبدیلی‘ اساتذہ کی تربیت‘ اساتذہ اور طلبہ کے تبادلے‘ تعلیمی وظائف شامل ہیں۔ لیکن چونکہ امریکا کو جنرل پرویز مشرف اور پاکستانی وزراے تعلیم کے سارے تعاون کے باوجود پورا بھروسا نہیں‘ اس لیے اب امریکی کانگریس میں باقاعدہ ایک بل پیش کیا گیا ہے (HR 4818) جس کی رو سے امریکا تعلیم کی اصلاح کے لیے ۱۰۰ ملین ڈالر کی جو مالی مدد دے رہا ہے وہ اس بات سے مشروط ہوگی کہ انھیں پاکستان کی ’جنوری ۲۰۰۲ئ‘ والی تعلیمی اصلاحات کے نفاذ کے لیے استعمال کیا جائے اور اس قانون کے منظور ہونے کے بعد ۹۰ دن کے اندر سیکرٹری آف اسٹیٹ ایوان نمایندگان کو مطلع کرے گا کہ یہ رقم صرف ان اصلاحات کے لیے استعمال ہوئی ہے جو امریکا کا ہدف ہے۔ ان اصلاحات کی تعریف اس قانون میں یوں کی گئی ہے:
تعلیمی اصلاحات میں پاکستان کے سیکولر نظامِ تعلیم کی توسیع اور بہتری‘ اور پاکستان کے نجی دینی مدارس کے لیے ایک معتدل نصاب تیار کرنے اور نافذ کرنے کی کوششیں شامل ہیں۔ (دی نیوز‘ ۱۶ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)
پاکستان میں امریکا کی سابق سفیر نینسی پاول نے اس سلسلے میں بہت کلیدی کردار ادا کیا۔ آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ کے حکم نامے پر عمل کرانے کے لیے یو ایس ایڈ نے ۱۳ اگست ۲۰۰۳ء کو آغا خان یونی ورسٹی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور اخباری اطلاعات کے مطابق ۴۵ ملین ڈالر کی مدد کا وعدہ کیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس معاہدے پر دستخط تو امریکی سفیر اور آغا خان یونی ورسٹی کے نمایندہ شمس لاکھا صاحب نے کیے مگر اس تقریب میں اصل گواہ اس وقت کی پاکستانی وزیرتعلیم محترمہ زبیدہ جلال صاحبہ تھیں۔ امریکی سفیر نے یہ بھی کہا کہ آغا خان بورڈ کی مدد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک وہ اپنے پائوں پر کھڑا نہ ہو جائے۔ واضح رہے کہ عراق پر امریکی قبضے کے فوراً بعد‘ پہلے سے تیار نصاب کے مطابق درسی کتب وہاں ۱۰ اپریل ۲۰۰۴ء کو متعارف کرا دی گئی تھیں۔ یہ کتب جون ۲۰۰۲ء میں حملے سے ایک سال پہلے ہی تیار کر لی گئی تھیں۔
صدر بش نے پاکستان کے بارے میں اپنے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں صاف الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان میں نصاب کی تبدیلی میرے مشورے پر امریکی امداد کے تحت کی جارہی ہے۔ اس بیان پر راقم نے سینیٹ میں سوال بھی اٹھایا جس کے جواب میں وزیرتعلیم نے فرمایا کہ یہ سب پروپیگنڈا ہے اور ہمیں کوئی dictate (مجبور) نہیں کر رہا۔ حالانکہ دو اور دو چار کی طرح یہ حقیقت واضح ہے کہ ’روشن خیال اعتدال پسندی‘، ’بنیاد پرستی کی مخالفت‘، ’انتہا پسندی سے برأت‘ کی ساری باتیں امریکا کے مطالبے پر کی جارہی ہیں‘ بالکل اسی طرح جس طرح ۱۳ستمبر کو کولن پاول کے ایک ٹیلی فون پر افغان پالیسی کا یوٹرن لیا گیا تھا اور جس طرح اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی ہماری فوجی قیادت امریکا کی فوجی قیادت کے ہر اشارے پر تسلیم و رضا کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔
ہم بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ۱۱؍۹ کے بعد جنرل پرویز مشرف نے جن محاذوں پر پسپائی اختیار کی ہے‘ ان میں سے ہر محاذ ملک و ملّت کی سلامتی کے لیے بڑا اہم تھا یعنی افغانستان اور عالم اسلام کے عوام سے دوری بلکہ بے وفائی‘ امریکی استعمار کا آلہ کار بننا اور اس کی جنگی کارروائیوں کے لیے اپنا کندھا فراہم کرنا‘ مسئلہ کشمیر پر اپنے اصولی موقف سے پسپائی اور جہاد کشمیر کو بھارت اور امریکا کے دبائو میں پہلے سرحدی دراندازی اور پھر دہشت گردی تک سے موسوم کرنا‘ نیوکلیر محاذ پر کمزوری اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی افسوس ناک تذلیل اور امریکا کے ناجائز مطالبات کے آگے ہتھیار ڈالنا‘ تعلیم‘ میڈیا‘ حتیٰ کہ پارلیمنٹ کے ارکان تک کی تربیت کے لیے امریکی پروگراموں کو اختیار کرنا___ یہ سب محاذ پاکستان کی سیاسی‘ معاشی‘ دفاعی ‘ تہذیبی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اہم ہیں۔ ان کے بارے میں امریکا کے زیراثر پالیسی کی تبدیلی جس کا کریڈٹ کولن پاول اور اس سے زیادہ کونڈولیزا رائس نے اپنی ترغیب اور دبائو (carrot and stick) پالیسی٭ کی کامیابی کے عنوان سے لیا ہے۔
ان میں سب سے زیادہ تشویش ناک قلابازی وہ ہے جو اسلام اور نظریہ پاکستان کے سلسلے میں جنرل پرویز مشرف نے کھائی ہے۔ اس کا حسین عنوان ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ہے حالانکہ اس میں ساری زبان‘ استعارے‘ محاورے‘ موضوع اور مدعا وہی ہے جو صدر بش اور امریکی کارپرداز ان سے کہلوانا چاہتے ہیں۔ کبھی وہ انتہاپسندی اور بنیاد پرستی سے توبہ کرتے ہیں‘ کبھی دہشت گردی پر کان پکڑتے ہیں‘ کبھی جدیدیت‘ جدید کاری اور اعتدال پسندی کی بات کرتے ہیں اور اسی خوش گفتاری میں کبھی’مُلّا‘ پر برس پڑتے ہیں اور داڑھی اور حجاب کو بھی رگید ڈالتے ہیں___ اور پھر ہمت کر کے سیکولرزم کی بات بھی کرڈالتے ہیں کہ اسلام اور سیکولرزم میں گویا کوئی تضاد نہیں ہے اور ان کو متصادم قرار دینا گویا مُلّا کی سازش ہے جس سے اسلام کو آزاد کرانے کے لیے وہ نہ صرف سرگرمِ عمل ہیں بلکہ پوری او آئی سی (OIC) کو بھی متحرک کر دینا چاہتے ہیں۔ جنرل صاحب کے ان ارشادات عالیہ پر نظر ڈالنا ضروری ہے تاکہ مُلّا کے اسلام‘ بش کے اسلام اور مشرف کے اسلام کے خدوخال واضح ہوسکیں۔
ہمارا عقیدہ حرکی ہے جو اجتہاد(یا مشورے کے ذریعے تعبیر) کے عمل کے ذریعے مسلسل تجدید اور اطلاق کو تقویت دیتا ہے۔ اسلامی وژن تاریخ کے کسی ایک عہد کی گرفت میں نہیں ہے۔ یہ معتدل اور مستقبل بین ہے۔ اسلام کو چند انتہاپسندوں کی تنگ نظری کے ساتھ گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔
جنرل صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ دانستہ یا نادانستہ (غالباً نادانستہ) وہ اس جملے میں ایک ایسی بات کہہ گئے ہیں جو اسلام کی پوری تعلیم پر خط تنسیخ پھیر دیتی ہے۔ دورِرسالت مآبؐ اور دورِ خلافت راشدہ ہمارا معیاری دور ہے جو ہمیشہ کے لیے نمونہ‘ معیار‘ دلیل اور حجت ہے۔ انھوں نے trapped in any one period of historyکے الفاظ استعمال کر کے عمومی بیان (sweeping remark) کے ذریعے اس پر بھی ہاتھ صاف کر دیا ہے۔ بلاشبہہ اسلام موڈرن بھی ہے اور مستقبل بین بھی‘ لیکن مسلمانوں کے لیے ان کے ایمان کے تقاضے کے طور پر ان کا اصل حوالہ دورِرسالت مآبؐ اور دورِ خلافت راشدہؓ ہے اور سنت رسولؐ اور سنتِ خلفاے راشدہ اسلام کے اولیں‘ مستقل اور ناقابلِ تغیر مآخذہیں جنھیں ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کے نام پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
یکم جنوری ۲۰۰۴ء کو OIC - Challenges and Response کے عنوان سے خطاب کرتے ہوئے جنرل صاحب مغرب کے پروپیگنڈے کا شکار ہوکر وہی زبان استعمال کرنے لگے جو صدر بش اور اسلام کے ناقدین مغربی میڈیا میں استعمال کر رہے ہیں یعنی: اسلام کا تعلق بنیاد پرستی کے ساتھ‘ بنیاد پرستی کا انتہا پسندی کے ساتھ اور انتہا پسندی کا دہشت گردی کے ساتھ۔
بجاے اس کے کہ وہ علمی انداز میں‘ ان میں سے ہر اصطلاح اور اس کے مالہٗ اور ماعلیہ کا تجزیہ کریں‘ ایک ہی سانس میں سب کا انکار کرجاتے ہیں اور اسلام کے دفاع کے نام پر وہی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کا راگ الاپنے لگتے ہیں جس کا مطالبہ صدر بش اور کونڈولیزا رائس کر رہے ہیں۔
ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے‘ وہ ایک نشاتِ ثانیہ ہے۔ ہمیں اعتدال پسندی کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ ایک مصالحانہ طرزِعمل‘ پُرامن نقطۂ نظر تاکہ ہمارے اوپر سے یہ الزام دھل جائے کہ اسلام جنگ جُو مذہب ہے اور جدیدیت‘ جمہوریت اور سیکولرزم کا مخالف ہے۔
اگر کسی کو یہ گمان ہو کہ جنرل صاحب نے سیکولرزم کا ذکر شاید جوشِ خطابت میں اس کے اصل مفہوم کو سمجھے بغیر‘ صرف مغرب کے ناقدین کو مطمئن کرنے کے لیے کردیا ہے تو وہ اس کی گنجایش بھی نہیں چھوڑتے۔ یورپ میں Renaissance (نشاتِ ثانیہ) ایک متعین فکری‘ تہذیبی اور سیاسی انقلاب کے لیے استعمال ہوتا ہے جو خدا‘ مذہب اور روایت سے بغاوت اور اجتماعی زندگی کے لیے وحی اور دینی اقدار کی جگہ خالص عقل اوردنیاوی علم کی بنیاد پر متبادل بنیادوں کے تلاش کی کوشش تھی۔ ایسا بھی نہیں کہ سیکولرزم کا یہ حوالہ بس مغرب کی زبان بند کرنے کے لیے ہے۔ وہ مسلسل اس تصور کی تبلیغ فرما رہے ہیں کہ سیکولرزم اور اسلام میں کوئی تضاد نہیں۔ واشنگٹن پوسٹ میں جو مضمون ان کے نام سے شائع ہوا ہے اور جسے تمام پاکستانی اور اخبارات نے شائع کیا‘ اس میں بھی وہ کھل کر لکھتے ہیں کہ:
میں اپنے مسلمان بھائیوں سے کہتا ہوں: نشاتِ ثانیہ کا وقت آگیا ہے۔ آگے کا راستہ روشن خیالی کا راستہ ہے۔ ہمیں غربت کے خاتمے اور تعلیم‘ حفظانِ صحت اور عدلِ اجتماعی کے خاتمے کے ذریعے انسانی وسائل کی ترقی پر توجہات مرکوز کرنی چاہییں۔ اگر ہماری سمت یہ ہو تو یہ تصادم کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں اعتدال کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور ایک مصالحانہ روش اختیار کرنا ہوگی تاکہ اس عام خیال کا مقابلہ کیا جاسکے کہ اسلام شدت پسندی کا مذہب ہے اور جدیدیت‘ جمہوریت اور سیکولرزم سے متصادم ہے۔ (واشگٹن پوسٹ ۱-۲ جون ۲۰۰۴ئ)
اسلام اور مسلمانوں کے بارے میںمغرب کا تصور کیا ہے؟ پہلا تصور یہ ہے کہ اسلام انتہا پسندی‘ دہشت گردی‘ بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کا مذہب ہے۔ دوسرا تصور یہ ہے کہ اسلام جمہوریت‘ جدیدیت اور سیکولرزم سے متصادم ہے۔ اور تیسرا یہ ہے کہ مسلمان عالمی برادری میں جذب ہونے سے انکار کرتے ہیں۔
پھر اپنے زعم میں ان کا جواب دیا ہے کہ اسلام جمہوریت‘ سیکولرزم اور موڈرنزم کا مخالف نہیں۔ جمہوریت کی بابت تو بات زیادہ غلط نہیں کہی ہے (اگرچہ وہ یہ بھول گئے کہ خود وردی زیب تن رکھ کر اور صدارت اور چیف آف اسٹاف کے عہدے اپنی ذات میں جمع کر کے وہ کون سی جمہوریت کی بات کر رہے ہیں)۔ موڈرنزم اور سیکولرزم پر ان کے ارشادات ملاحظہ ہوں:
جدیدیت کی بات ہو تو اسلام زمانے اور ماحول کے مطابق فکر کا مسلسل جائزہ لینے کے عمل پر یقین رکھتا ہے۔ اسلام جدید ہے‘ یہ زمانے کا ساتھ دیتا ہے۔ یہ کبھی بھی ماضی سے پیوست نہیں رہا۔ اور تیسرے یہ کہ جہاں تک سیکولرزم کا تعلق ہے۔ اسلام اقلیتوں کے مساوی حقوق میں یقین رکھتا ہے۔ چنانچہ تفصیلات میں جائے بغیر‘ پاکستان جیسے ملک میں جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام کے ساتھ معروف ہے‘ لازماً یہ بات مضمر ہے کہ ہمیں اپنے تصورات میں جمہوری ہونا‘ سیکولر ہونا اور جدید ہونا ہے۔
اس کے جواب میں اس سے زیادہ کیا کہاجائے کہ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
اور موڈرنزم اور سیکولرزم کی جو تعریف جنرل صاحب نے فرمائی ہے۔اس کے بارے میں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ عالمی خاندان میں فٹ نہ ہونے کی بات کے جواب میں کٹّر(bigoted) مسلمانوں پر ہاتھ صاف کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ کچھ سرپھرے ہیں جوساتھ نہیں چل پاتے‘ نہ یہ جدید علم حاصل کرتے ہیں‘ نہ انگریزی زبان سیکھتے ہیں اور موسیقی سے بھی دل نہیں بہلاتے‘ یہ مٹھی بھر لوگ ہیں‘ ان کی فکر نہ کرو۔
اب جنرل صاحب کو یہ کون سمجھائے کہ جس طرح Renaissance(نشاتِ ثانیہ)کا ایک خاص تاریخی پس منظر ہے اسی طرح Enlightenment (روشن خیالی)بھی مغرب کی تہذیبی و فکری تاریخ کی ایک معروف اصطلاح ہے جس کے معنی ہی یہ ہیں کہ وحی کے بجاے عقل کی بنیاد پر تمام معاملات کا حل تلاش کیا جائے۔ آخرت اور روحانی پہلو غیرمتعلق ہیں اور اصل میدانِ کار صرف یہ دنیا اور اس کے امور ہیں اور سیکولرزم اس تثلیث (نشاتِ ثانیہ‘ روشن خیالی اور سیکولرزم) کا لازمی جزو ہے‘ اور سیکولرزم ضد ہے زندگی کے اس تصور کی جو دنیا کے معاملات کو دین اور وحی کے ذریعے حاصل شدہ علم و اقدار کی بنیاد پر مرتب کرنے کا داعی ہے۔ یہ کہنا کہ سیکولرزم کا تعلق محض مذہبی رواداری یا اقلیتوں سے خوش معاملگی سے ہے ‘علم سیاست اور تاریخ دونوں سے لاعلمی کا غماز ہے۔
Vergilius Ferm کی مرتب کردہ An Encyclopaedia of Relegions (مطبوعہ: دی فلاسوفیکل لائبریری‘ نیویارک) میںThe Enlightenment کی وضاحت یوں کی گئی ہے: ’’روشن خیالی اس تحریک کا نام ہے جو اٹھارویں صدی کے عمومی ماحول کو بیان کرتی ہے‘‘۔
علمی اور جمالیاتی بیداری کی لہر‘ جس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ۱۴ویں صدی میں اس کا آغاز ہوا۔ یہ اچھا ہو یا برا‘ نشاتِ ثانیہ میں ایک انقلاب کی خاصیت تھی‘ اس کا کلیدی نکتہ سیکولر انسانیت دوستی تھا جس میں انسانی اور دنیاوی اقدار کو تسلیم کیا گیا تھا بغیر کسی دین یا کلیسائی جواز کے۔ (ص ۶۵۵-۶۵۶)
سیکولرزم افادی ‘ عمرانی اخلاقیات کی ایک مخصوص شکل (جی جے ہولی اوک: ۱۸۱۷ئ- ۱۹۰۶ء نے اس کو پیش کیا)‘ جو مذہب کے کسی حوالے کے بغیر اور صرف انسانی عقل‘ سائنس اور نظمِ اجتماعی کے ذریعے انسان کی بہتری چاہتا ہے۔ (ص ۷۰۰)
چونکہ سیکولرزم ان تمام اصطلاحات میں سب سے مرکزی حیثیت رکھتا ہے اس لیے اس کے مفہوم کو بالکل محکم کرنے کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند مزید حوالے دے دیے جائیں۔
سیکولر بنانے کا مطلب ہے کہ معاشرے کی اخلاقی زندگی سے مذہبی عقائد اور رسومات اوراجتماعیت کے لیے احساس کو ختم کر دیا جائے۔ ایک سیکولر سوسائٹی میں روز مرہ کے امور کسی الہامی مداخلت کے بغیر انجام دیے جاتے ہیں۔ دراصل یہ روشن خیالی کا فلسفہ تھا جس نے سیکولر فکر کو اصل طاقت فراہم کی۔ اس نظریے کا دعویٰ ہے کہ معاشرے کو ان اخلاقی اصولوں پر مبنی ہونا چاہیے جو انسان کی اجتماعی زندگی کے آفاقی نوعیت کے بارے میں صرف عقلی بنیادوں پر حاصل کیے جائیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نظم اجتماعی کے عقلی اصولوں کو عموماً عقیدے پر مبنی مذہبی روایات کی ضد کے طور پر پیش کیا گیا۔
سیکولر کی اصطلاح کا مطلب ہے کہ وہ جو مذہبی نہیں ہے۔ یہ لاطینی لفظ sacculum سے نکلا ہے جس کا ابتدائی مطلب وقت کے حوالے سے عہد یا نسل ہے۔ بعد میں اس کی شناخت وہ تمام معاملات ہو گئے جن کا کوئی تعلق جنت کے حصول سے نہ ہو‘ یعنی اس دنیا کے معاملات سے وابستہ ہوگیا۔
سیکولرزم یا لادینی عمل یورپ کے تاریخی تجربے پر مبنی ہے۔ اس کا مطلب تھا زندگی اور فکر کے تمام پہلوئوں کا مذہب سے کسی رشتے یا کلیسائی ہدایت سے بتدریج علیحدگی۔
ہم بالکل صاف لفظوں میں یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ جہاں تک دنیاوی امور اور مسائل کا تعلق ہے‘انسانی حقوق‘ آزادی‘ انصاف‘ تعلیم‘ صحت اور معاشی ترقی اور خوش حالی کا حصول‘ یہ سب اسلام کی نگاہ میں مطلوب ہی نہیں اس کے نظامِ حیات کا لازمی حصہ ہیں۔ اسی طرح دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ رواداری‘ اقلیتوں کے حقوق کا مکمل تحفظ اور تہذیب‘ سیاست اور معیشت کے دائروں میں مختلف مذاہب‘ ثقافتوں اور مکاتبِ فکروخیال کا وجود (co-existence) اسلام کے اجتماعی نظام کا خاصہ ہیں لیکن اسلام اور سیکولرزم کا فرق___اور بڑا بنیادی اور جوہری فرق___ یہ ہے کہ اسلام زندگی کے تمام معاملات کو عقل کے ساتھ وحی الٰہی کی بالا اتھارٹی کے تابع کرتا ہے اور دنیا میں حسنات کے حصول کو آخرت میں حسنات کے حصول سے مربوط کرتا ہے۔ اسلام میں رہبانیت کا کوئی تصور نہیں۔ اسلام پوری انسانی زندگی کو دین کی فراہم کردہ ہدایت کی بنا پر حق وا نصاف کے ساتھ مرتب و منظم کرتا ہے اور اس طرح وہ تصورِ حیات جو صرف اس دنیا کی فلاح کا متلاشی ہو اور صرف عقل پر بھروسا کرے‘ اسے اسلام رد کردیتا ہے اور اس کی جگہ زندگی کا وہ تصور دیتا ہے جس میں دنیا کی تعمیروترقی کا سامان آخرت پر نگاہ رکھ کر اور اس کی کامیابی کو اصل منزل قرار دے کر نیز اللہ اور اس کے رسولؐ کی دی ہوئی رہنمائی کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ یہ سیکولرزم کی ضد ہے اور اس نظام میں اس سیکولرزم کی کوئی گنجایش نہیں جو مغرب کے نشاتِ ثانیہ اور روشن خیالی کے جلو میں رونما ہوا اور جس نے دنیا کو جنگ و جدال‘ ظلم و استحصال اور سماجی بے راہ روی اور انتشار کی آماج گاہ بنا دیا۔
اسلام نے زندگی کو خانوں میں تقسیم نہیں کیا اور دین اور دنیا کو دو الگ الگ خانے بنانے کو وہ جاہلیت اور شیطان کی پیروی قرار دیتا ہے اور ایمان لانے والوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ پورے کے پورے دین میں داخل ہوجائیں۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص وَلاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌo (البقرہ ۲:۲۰۸)
اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔
اسلام کی نگاہ میں صرف دنیا طلبی یا دنیا اور عقبٰی دونوں کی یکساں طلب زندگی کے دو مختلف نظریات ہیں جن کا مقصد‘ مزاج اور نتائج جدا جدا ہیں۔ صرف دنیاطلبی‘ سیکولرزم کا مقصود ہے اور اسلام دنیا اور آخرت دونوں کی بیک وقت فکر کا نام ہے۔ قرآن پاک میں ان دونوں نقطہ ہاے نظر کو تین متصل آیات میں بڑے جامع انداز میں بیان کر دیا گیا ہے حالانکہ یہاں اول الذکر خداکے منکر نہیں بلکہ اس کے ماننے والے ہیں البتہ وہ دنیا کے حسنات کو آخرت سے مربوط نہیں کرتے۔ اس میں یہ رمز بھی پوشیدہ ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ سیکولرزم میں مذہب کی نفی نہیں بلکہ بس اسے ذاتی معاملہ قرار دیا گیا ہے‘ ان کا جواب بھی اسی میں آگیا:
فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَـآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍo وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَـآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ o اُولٰٓئِکَ لَھُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْاط وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِo (البقرہ ۲:۲۰۰-۲۰۲)
(مگر اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں میں بھی بہت فرق ہے) ان میں سے کوئی تو ایسا ہے جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دے دے۔ ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور کوئی کہتا ہے کہ اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی‘ اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔ ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ) حصہ پائیں گے اور اللہ کو حساب چکاتے کچھ دیر نہیں لگتی۔
اسلام تو نام ہی اس دین اور مسلک کا ہے جس میں انسان پوری زندگی کو اللہ کی اطاعت کے دائرے میں لے آئے اور صرف اسی طریقے کو اللہ نے پسندیدہ قرار دیا ہے۔
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ قف (اٰل عمرٰن ۳:۱۹)
اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔
اور
وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ج (اٰل عمرٰن ۳:۸۵)
اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اُس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔
اسلام کی نگاہ میں زندگی کے تمام معاملات کے لیے حَکَم اور قانون ساز اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور وہی آخری سند ہیں۔ ہر معاملے میں‘ خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات سے‘ خاندانی تعلقات ہوں یا معاشی امور‘ سیاست ہو یا عدالت‘ ملکی زندگی ہو یا خارجی اور بین الاقوامی مسائل‘ حلال و حرام کا تعلق انسان کی زندگی کے تمام پہلوئوں سے ہے اور ان حدود کا تعین کرنے کا اختیار اللہ اور اس کے رسولؐ کو ہے۔ ایمان کے معنی اس اختیار کو اپنے رب کو سونپنا ہے اور جس نے اس نکتے کو نہیں سمجھا‘ اسے اسلام کی ہوا تک نہیں لگی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مومن وہ ہے جو اپنے ہوائے نفس کو میری لائی ہوئی ہدایت کے تابع کرلے۔ پھر بندے کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَہٗ ج (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳)
کہو‘ میری نماز ‘میرے تمام مراسمِ عبودیت‘ میرا جینا اور میرا مرنا‘ سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید ۵۷:۲۵)
ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا‘اور ان کے ساتھ کتاب (قانونِ حیات) اور میزان (عدل) نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ (الاعراف ۷:۹۶)
اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔
اسلام پوری دنیا کو اور اس کے تمام امکانات کو انسان کے لیے مسخر کرتا ہے اور یہی معنی ہیں انسان کی خلافت کے‘ لیکن ساتھ ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں اس گھوڑے کی سی ہے جو کھونٹے سے بندھا ہوا ہے اور اس کی آزادی کی حد وہ ہے جو اس کی رسی متعین کرتی ہے جس سے وہ کھونٹے سے بندھا ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ انسان آزاد ضرور ہے مگر اس کی آزادی ان حدود کی پابند ہوجائے جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے مقرر فرمائی ہیں۔ کافراور مومن میں یہی فرق ہے۔ اسلام نہ مُلّا کا اسلام ہے اور نہ اسے کسی بش اور کسی مشرف کی خواہشات کے تابع کیا جا سکتا ہے۔ وہ تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہدایت کا نام ہے اور بات وہی معتبر ہے جس کی سند اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہو۔ اہلِ ایمان اور اہلِ رحمت کی تعریف ہی قرآن یہ کرتا ہے:
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰئۃِ وَالْاِنْجِیْلِ ز یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ لا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَـانِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج لَآ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ ص فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ o (الاعراف ۷:۱۵۷-۱۵۸)
(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر‘ نبی اُمی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اورانجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے‘ بدی سے روکتا ہے‘ ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے‘ اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتاہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے‘ وہی فلاح پانے والے ہیں۔ اے محمدؐ، کہو کہ ’’اے انسانو‘ میں تم سب کی طرف اس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمان کی بادشاہی کا مالک ہے‘ اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے‘وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے: پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے‘ اور پیروی اختیار کرو اس کی‘ امید ہے کہ تم راہِ راست پالوگے۔
اس راستے کو اختیار کرنے کے بعد انسان اپنی آزادی کو اللہ کی مرضی اور اس کے حکم کے تابع کر دیتا ہے اور اسی کا نام اسلام ہے۔
فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا o (النساء ۴:۶۵)
نہیں‘ اے محمدؐ، تمھارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں‘ پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں‘ بلکہ سربسرتسلیم خم کرلیں۔
وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ق وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ o (الحشر ۵۹:۷)
جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جائو۔ اللہ سے ڈرو‘ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
جو بھی اس راستے کو اختیار کرے گا وہ اللہ کا چہیتا ہوگا اور جو اللہ کے بتائے ہوئے راستے سے انحراف کرے گا یا اللہ کی بندگی کرنے والوں کا استخفاف کرے گا‘ اس کا دل نورِایمان کا مسکن نہیں ہو سکتا۔ اسلام نہ مُلّا کا ہے اور نہ مشرف کا‘ اور نہ اسلام کو بش کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے تراش خراش کا تختۂ مشق بنایا جا سکتا ہے۔ یہ تو صرف محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کا نام ہے اور قیامت تک انھی نقوش پر چلنے کا نام اسلام ہے۔ یہ ایک ازلی اور ابدی حقیقت ہے اور کسی کے کہنے سننے سے اس حقیقت پر کوئی حرف نہیں آسکتا۔ مسلمان وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر ڈٹ جاتا ہے اور اس سے سرِموانحراف نہیں کرتا خواہ کوئی اسے انتہاپسندی قرار دے یا بنیاد پرستی۔ مسلمان اُمتِ وسط ہیں اور اسلام عدل اور اعتدال کا راستہ ہے لیکن یہ اعتدال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا متعین کردہ ہے‘ کسی دوسرے کی خواہش پر کی جانے والی تراش خراش کا نام اعتدال نہیں‘ تحریف اور ضلالت ہے۔ ان مسلمہ اصولوں اور تاریخی حقائق کی روشنی میں جنرل پرویز مشرف کی یہ جسارت بھی دیکھ لیںکہ وہ احکامِ الٰہی اور اسلام کے شعائر کا ذکر کس طرح کرتے ہیں اور اپنی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی رَو میں وہ کیا کچھ کہنے سے باک نہیں کرتے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان بشمول مسلمان اور دوسرے اعتدال پسندوں کا ملک ہے۔ انھوں نے کہا: ’’ہمیں انتہاپسند ملائوں کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ اسلام کو ان کی ضرورت ہے‘‘۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کسی کو اجازت نہیں دے گی کہ وہ پردہ کرنے‘ یا داڑھیاں رکھنے جیسی خود ساختہ اسلامی اقدار کو مسلط کریں۔ ہاں یہ بھی ہے کہ کسی کو بھی پردہ کرنے یا داڑھی رکھنے سے منع نہیں کیا جائے گا۔ پرویز مشرف نے عہد کیا کہ پاکستان میں انتہا پسندی کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔ (ڈیلی ٹائمز‘ ۱۹ دسمبر ۲۰۰۴ئ)
مُلّا پرتبّر ا کرنے کی آڑ میں‘ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح احکام اور دینی شعائر کا استخفاف کرنے والے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اسی ہرزہ سرائی کو ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ سمجھا جائے گا‘ تو ان کی عقل پر فاتحہ ہی پڑھی جاسکتی ہے۔ اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ انتہاپسندی کی تہمت کی دھول (smoke screen) میں اصول‘ احکام اور شعائر کے بارے میں ایسی لاف زنی کو قبولیت حاصل ہوسکتی ہے تو اسے امریکا کے سینیٹر بیری گولڈ وائر کے یہ الفاظ سنانا شاید بے محل نہ ہو کہ:
I would remind you that extremism in the defence of liberty is no vice. And let me remind you also that moderation in the pursuit of justice is no virtue.
میں آپ کو یاد دلائوں گا کہ آزادی کے دفاع میں انتہا پسندی کوئی برائی نہیں ہے۔ اور یہ بھی آپ کو یاد دلائوں گا کہ عدل کے حصول میں اعتدال پسندی کوئی خوبی نہیں ہے۔
آخر میں ہم صرف اتنا ہی عرض کریں گے کہ اسلام ایک اور صرف ایک ہے اور وہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام ہے۔ ملّتِ اسلامیۂ پاکستان پوری اُمتِ مسلمہ کی طرح صرف اسی اسلام کو معتبر جانتی ہے۔ کسی مُلّا‘ کسی مشرف اور کسی بش کے قول یا خواہش کو اسلام کی سند حاصل نہیں ہوسکتی۔ ماضی میں بھی جس نے اسلام کا چہرہ بگاڑنے اور اسے اپنی خواہشات کا تابع بنانے کی کوشش کی‘ وہ ناکام و نامراد ہوا اور آج بھی ہر ایسی کوشش کا مقدرناکامی اور نامرادی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ ہم نے جس ذکر کو اتارا ہے‘ ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں (نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ o الحجر۱۵:۹)‘ اور یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (الصف ۶۱:۸) ’’یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں‘ اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا‘ خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔
؎ نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو فوجی حکومتوں کے طویل ادوار میں عوام کے جمہوری حقوق کی صورت حال دگرگوں نظر آتی ہے۔ آج بھی صورت حال مختلف نہیں ہے۔ جنرل پرویز مشرف صاحب نے ملک میں ایک ایسے نظام حکومت کی داغ بیل ڈالی ہے جس میں فردِ واحد کلی اختیارات کا مالک ہے ۔ وہی افواج کا سربراہ ہے‘ وہی مملکت کا بااختیار صدر ہے‘ وہی قومی سلامتی کونسل کا صدر نشین ہے ‘غرض وہ ملک و قوم کے سیاہ و سفید کا بلاشرکتِ غیرے مالک ہے۔ ہر اہم معاملے میںآخری فیصلہ اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ داخلی اور خارجی تمام امور میں حکومتی اعیان و انصار اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ وہ پارلیمنٹ سے بھی بالاتر ہے ۔ وزیراعظم اس کا ایک نمایندہ ہے ۔حکومتی پارٹیاں اس کے گرد متحدہیں اور اس کی ہر پالیسی اور ہر اقدام کی مویّد ہیں۔ اس کے علاوہ کسی فرد یا ادارے کی یہ مجال نہیں کہ کسی بھی اہم معاملے میں وہ کوئی آخری اور حتمی فیصلہ کرسکے ۔
فوجی اصطلاح میں اسے Unity of Commandکہتے ہیں ۔ پرویز مشرف کے مطابق یہ صورتِ حال ملک کے سیاسی اور معاشی استحکام کی ضمانت ہے ۔ پرویز مشرف صاحب کے ان کلی اختیارات کا منبع وہ فوجی انقلاب ہے جو پاکستانی فوج نے اس وقت برپا کیا جب پرویز مشرف صاحب ہوائی جہاز کے ذریعے بیرون ملک دورے سے واپس آ رہے تھے اور اس وقت کے وزیراعظم نے ان کے ہوائی جہازکو رُخ موڑنے کا حکم دے دیا تھا ۔ کورکمانڈروں کے اجتماعی فیصلے کے تحت وزیراعظم کا یہ حکم تسلیم کرنے سے انکار کردیا گیا اور اس طرح ایک فوجی انقلاب برپا ہوگیا ۔
بلاشبہہ حالات کو یہاں تک لانے میں میاں نوازشریف صاحب کی غلطیاں بھی شامل تھیں۔ میاں صاحب بھی کلی اختیارات کے آرزومند تھے۔ پہلی بار جب اسلامی جمہوری اتحاد آئی جے آئی کے تحت وزیر اعظم بنے تو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے مختار کل بننا چاہتے تھے۔ ہم نے انھیں مشورہ دیاکہ وہ ان عزائم کو چھوڑ کر ایک مہذب اور شائستہ جمہوری نظام کی داغ بیل ڈالیں۔ کلی اختیارات فقط اس ذات بے ہمتا کو حاصل ہیں‘جس کا علم کامل ہے‘ جو سمیع وبصیر‘جو علیم و خبیر ہے اور جس کے ہاتھ میں پوری کائنات کے اقتدار کی کنجیاں ہیں اور وہی بادشاہی کا مالک ہے۔
ہم نے اُن سے یہ بھی گزارش کی کہ ملک و ملّت کا مفاد آئینی ضابطوں کی پابندی میں ہے۔ تقسیم کار کے لیے اداروں کی تشکیل کریں اور ان پر اعتماد کریں۔ عدلیہ اور انتظامیہ کو الگ کردیں۔ انصاف اور عدل پر مبنی فیصلے کرنے کے لیے عدلیہ کی بالا دستی کو دل سے تسلیم کریں ۔ قرآن و سنت کو آخری مرجع تسلیم کرکے تنازعات کو اللہ اور رسولؐ کے احکام کے مطابق حل کرنے کے لیے دل و جان سے آمادہ ہوں ۔میاں نوازشریف یہ برادرانہ مشورہ قبول کرنے کے بجاے ہم سے ناراض ہوگئے۔ مجبوراً ہم اسلامی جمہوری اتحاد سے علاحدہ ہوگئے۔ اس کے بعد میاں صاحب کا اقتدار بھی زیادہ عرصہ باقی نہیں رہا۔ اب معلوم نہیں کہ میاں صاحب نے اس ساری صورتِ حال سے کہاں تک سبق حاصل کیا ہے۔
اپنا کام نکالنے کے لیے امریکا اور اس کے مغربی حواریوں نے پرویزمشرف صاحب کو یہ پٹی پڑھائی ہے کہ وہ عبقری صلاحیتوں کے مالک ہیں اور ان کی وجہ سے ملک کو سیاسی اور معاشی استحکام ملا ہے ۔ پرویز مشرف کے گرد جو سیاسی عناصر اکٹھے ہوئے ہیں وہ خود اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت سے محروم ہیں ‘ انھیں فوجی اقتدار کی بیساکھیوں کی ضرورت ہے ۔ یہ لوگ نواز شریف اور بے نظیر کی واپسی سے خائف ہیں اور پرویز مشرف کی وردی کے بغیر نوازشریف اور بے نظیر کو باہر رکھنا انھیں ممکن نظر نہیں آتا ۔ انھیں خوف ہے کہ جب پرویز مشرف اپنا فوجی عہدہ چھوڑ دیں گے اور ملک میں آئین بحال ہوجائے گا ‘ عدالتیں کام کرنے لگیں گی ‘ سیاسی جماعتیں مکمل طور پر آزاد ہوجائیںگی تو فوج کی چھتری کے ذریعے حاصل شدہ تحفظ باقی نہیں رہے گا اور ان کی شامت آجائے گی ۔ اس لیے یہ پرویز مشرف کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں اور ان کی ناجائز اور غیر آئینی حکومت کو قانونی جوازفراہم کرنے کے لیے ہر ذلت قبول کرنے کے لیے تیار ہیں ۔
امریکی حکومت اپنے وقتی مصالح کی خاطر نہایت ڈھٹائی سے اپنی جمہوریت پسندی کے دعووں کا مذاق اڑا رہی ہے ۔ منافقت اور دہرے معیار کا جو مظاہرہ امریکی کارپرداز ان پرویز مشرف کی فوجی آمریت کو برقرار رکھنے کے لیے کررہے ہیں‘ اس سے امریکا کی خود غرضی کھل کر سامنے آگئی ہے اور اس کے چہرے سے منافقت کا نقاب مکمل طور پر اتر گیا ہے ۔
عالمی طاقت کی حیثیت سے روس کی پسپائی کے بعد امریکا ایک ایسے عالمی نظام (New World Order) کاعلم بردار بن گیا ہے جس کی قیادت‘ وہ چاہتا ہے کہ مکمل طور پر اس کے ہاتھ میں ہو ‘ وہ پوری دنیا کے سیاہ و سفید کا مالک ہو‘ تمام اقوام اس کے تابع ہوں‘ اقوام متحدہ کا ادارہ اس کی لونڈ ی ہو اور مغربی ممالک کے ساتھ مل کر وہ باقی دنیا پر سیاسی ‘معاشی ‘ ثقافتی ‘تعلیمی اور معاشرتی ہمہ گیر غلبہ حاصل کرلے۔ اس ہمہ گیر غلبے کی خاطر وہ ہر حربے کو استعمال میں لانا اپنا حق سمجھتا ہے ۔ کسی طرف سے امریکا کو کوئی خطرہ محسوس ہو تو اس کے تدارک کے لیے وہ پیشگی حملے (pre-emptive attack) کو وہ اپنے لیے جائز سمجھتا ہے ۔
گذشتہ دنوں بین الاقوامی شہرت یافتہ آغاخان فائونڈیشن کے سربراہ کریم آغاخان ہندستان کے دورے پر آئے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ اسماعیلی خوجہ فرقہ کے روحانی پیشوا ہیں مگر دل چسپ امر یہ ہے کہ ان کا مولدومسکن ہندستان یا ایران نہیں ہے اور نہ مشرق کی کوئی سرزمین اور خطہ ء ارضی ان کی جاے رہایش و پیدایش ہے بلکہ دور دراز علاقے یعنی دیار مغرب کا ایک نہایت اہم حصہ فرانس ان کا مرکز و محور ہے ۔ یہ امر اس سے کہیں زیادہ دل چسپی کا باعث ہے کہ وہ رہتے تو فرانس یعنی مغرب میں ہیں ۔مگر ان کا دل مشرقیوں کے لیے دھڑکتا ہے ‘اس لیے کہ ان کی بیشتر معلوم سرگرمیوں اور دل چسپیوں کا مرکز یہی خطہ ہے۔ ان کی معلوم سرگرمیاں ‘دلچسپیاں اور فنون لطیفہ‘ آرٹ‘ کلچر اور تعلیم سے وابستہ رہی ہیں۔ وہ برصغیر کو اپنی کرم فرمائیوں سے اکثر نوازتے رہتے ہیں اور خاص خاص موقعوں پر نہایت خاص مقاصد کے تحت ادھر کا رخ کرتے ہیں اور جب بھی یہاں آتے ہیں‘ ان کی زبردست پذیرائی ہوتی ہے۔ سرکاری طور پر ان کا استقبال کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ ٹھیک وہی سلوک کیا جاتا ہے جو کسی سربراہِ مملکت کے ساتھ ہوتا ہے۔ گویا حکومت ِہند اور اس خطے کی دوسری حکومتوں کو ان کے مقام و مرتبے کاپورا پورا ادراک ہے ۔ وہ ان کے مقاصد اور مشن سے بھی آگاہ ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ اس بار بھی جب وہ یہاں پہنچے تو ان کا پرتپاک خیرمقدم کیاگیا۔ وہ صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے خاص مہمان رہے اور ان کے ساتھ مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔ انھیں آغاخان فائونڈیشن کی سرگرمیوں اور دل چسپیوں کے میدانوں سے آگاہ کیا اور بتایا کہ ان کی تنظیم سماجی ‘ تعلیمی اور حفظان صحت کے میدانوں میں کام کررہی ہے او راب وہ اپنا دائرہ کار بڑھاناچاہتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ آغاخان فائونڈیشن فی الحال گجرات اور مہاراشٹر میں سرگرم عمل تھا مگر اب وہ مدھیا پردیش اور چھتیس گڑھ کے قبائلی علاقوں پر خصوصی توجہ دینا چاہتا ہے۔ اسی طرح فائونڈیشن نے تعلیم نسواں کو بھی اپنی توجہ کا خصوصی ہدف بنایا ہے ۔ انھوں نے روزنامہ ٹائمز آف انڈیا کے نمایندے کو دیے گئے انٹرویو میں اپنے اہداف و مقاصد پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں جس طرح بنیاد پرستی کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے‘ وہ ان کی تشویش کا ایک مرکز ہے اور وہ چاہتے ہیں یہ سختی اور مزاج کی ناہمواری دور ہو۔ انھوں نے کہا کہ تعلیم کو عام کرنے سے یہ چیز ختم کی جاسکتی ہے ۔ علم ایک ایسا ہتھیار ہے جو کبھی ضائع نہیں ہوتا‘ ناگہانی آفتوں میں بھی یہ بڑا سہارا بنتا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ یہی ان کی اور ان کے فرقے کی اصل قوت ہے ‘ لیکن ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ تعلیم کوآج کے تقاضوں یعنی عصری تقاضوں کا جس طرح ساتھ دینا چاہیے تھا‘ ہندستان میں اس کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے ۔
گلوبلائزیشن کا عمل جس طرح زندگی کے دوسرے شعبوں میں جاری ہے اور وہاں جس رفتار کے ساتھ وہ آگے بڑھ رہا ہے تعلیم کے میدان میں بالخصوص ہندستان میں وہ چیز مفقود ہے ‘ گویا ان کے مطابق جس طرح معاشی میدان میں گلوبلائزیشن کے اصول کو اپنایا گیا ہے اور دوسرے میدانوں میں جس طرح اس کوتسلیم کرلیا گیا ہے ‘ ٹھیک اسی طرح تعلیم کے میدان میں بھی اس اصول کو نہ صرف متعار ف کرانے کی ضرورت ہے بلکہ اس پر قدم آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق اس کے بغیر دنیا کا او رخاص طور پر ترقی یافتہ دنیا کا مقابلہ ناممکن ہے ۔ اگر ہندستان اور اس جیسے دوسرے کمزور اور پس ماندہ ملکوں کو ترقی کرنی ہے تو انھیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنا پڑے گا ۔ انھوں نے ایک نہایت اہم پیغام یہ بھی دیا ہے کہ روح عصر کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ان کے مطابق روح عصر یہ ہے کہ ایک عالمی آفاقی انسانی برادری جنم لے رہی ہے جس کا منبع نظم وانصرام ایک دستور ہوگا یعنی یہ عالمی و آفاقی اور انسانی برادری ایک دستور کے ماتحت ہوگی ‘ اس میں جغرافیائی حالات اور مختلف قبائلی و نسلی تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے گا ۔ اب یہ ایک حقیقت بن چکی ہے‘ اس کا جتنا جلدادراک کرلیا جائے‘ دنیا کے لیے اتنا بہتر ہے۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اب قومی ریاستوں (Nation-States)کا دور قصۂ پارینہ ہوگیا ‘ اب عالمی حکومت ایک حقیقت بن چکی ہے ‘کوئی مانے یا نہ مانے یہ ہو کر رہنا ہے ‘ اگر ا س کوتسلیم کرلیا جائے اور اس کا ساتھ دیا جائے تو تصادم اور تخریب سے بچا جاسکتا ہے۔(سہ روزہ دعوت‘دہلی‘ یکم دسمبر۲۰۰۴ئ)
ایک یورپی ادارے(ICMG) International Crisis Management Groupنے قرآن و سنت پر مبنی تعلیما ت کو نفرت انگیز مواد (hatred material)قرار دیا ہے اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ اپنے نصاب تعلیم سے اس مواد کو خارج کردے۔ ہلیری کلنٹن نے سینٹ کی ایک کمیٹی کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف اپنے ملک کے نظام تعلیم کو تبدیل کرنا چاہتا ہے اور دینی مدارس کو مکمل طور پر حکومت کی تحویل میں لے کر اس کے نصاب کو جدید خطوط پر ترتیب دینے کے لیے تیار ہے لیکن اس کے لیے وہ ایک سوملین ڈالر کی رقم کو قطعی ناکافی سمجھتا ہے جس کی پیش کش اس وقت حکومت امریکا نے کررکھی ہے ۔ ہیلری کلنٹن نے سفارش کی ہے کہ اس مقصد کی خاطر حکومت پاکستان کو کم ازکم پانچ سو ملین ڈالر کی امداد دی جائے ۔
درج بالا گزارشات سے مقصود یہ ہے کہ قارئین کے سامنے حالات کا وہ رخ پیش کردیا جائے جن کا اس وقت عالم اسلام اور پاکستان کو سامنا ہے۔ پرویز مشرف کی آمرانہ روش جہاں پاکستان کے داخلی حالات کے پیش نظر خطرناک ہے‘ وہاں امریکا اور اس کے نظام کا اتحادی ہونے کی وجہ سے ہماری آزادی و خودمختاری اور ہمارے قومی و ملی تشخص او راسلامی نظریاتی بنیاد کے لیے بھی ایک خطرہ ہے ۔ اس وقت پرویز مشرف کی پالیسیوں کی وجہ سے امریکا کی جنگ ہمارے ملک کے اندر تک پہنچ گئی ہے ۔ وزیرستان میں قبائل اور فوج میں آویزش ہے‘جب کہ دوسرے قبائلی علاقوں میں بھی فوج پہنچ گئی ہے اور شدیدخطرہ ہے کہ فوج اور قبائل کی یہ آویزش پورے قبائلی علاقے میں پھیل جائے ۔ اس کے لیے بہانہ یہ بنایا جا رہا ہے کہ القاعدہ کے مجاہدین قبائلی علاقے میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور اگر پاکستانی فوج ان کا صفایا نہیں کرے گی تو امریکی افواج کی براہ راست مداخلت کا خطرہ ہے ۔امریکی افواج کی مداخلت کو روکنے کے لیے اپنے عوام کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کی منطق کو کوئی بھی جرات مند محب وطن فرد قبول نہیں کرسکتا ۔
پرویز مشرف صاحب نے بلوچ قبائل کو جس لہجے میں دھمکی دی ہے‘ وہ لہجہ دشمن ملک کے لیے تو مناسب ہوسکتا ہے لیکن اپنے ہی ملک کے کسی گروہ کے لیے چاہے وہ کتنا ہی منحرف ہوچکا ہو‘یہ لہجہ استعمال کرنا دانش مندی نہیں ہے ۔ داخلی مسائل ہمیشہ سیاسی گفت و شنید اور لچک دار رویے سے حل کیے جاتے ہیں لیکن فوجی آمر اس سیاسی دانش سے محروم ہوتا ہے ۔ بلوچستان کے بعض سرداروں کو حکومت کے بدعنوان کارپردازوں نے جو چھوٹ دے رکھی ہے اور قبائل کے عام افراد کو جس طرح ان کے رحم وکرم پر دے دیا گیا ہے‘ اس کے نتیجے میں بلوچ قبائل میں ایک مستحکم اور پایدار جمہوری کلچر کی نشو و نما نہیں ہوسکتی ۔ یہی حال صوبہ سرحد کے قبائلی علاقوں کا ہے ۔ اس کے نتیجے میں جو لا وا پک رہا ہے‘ وہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے ۔ فوجی آمریت کے پاس اس کا کوئی حل نہیں ہے۔
کشمیر کے مسئلے پر بھارت کے ساتھ ہنی مون ختم ہونے کے قریب ہے۔ اعتماد بحال کرنے کے اقدامات (CBM)کے حوالے سے جو مذاکرات شروع کیے گئے تھے‘ بگلیہار ڈیم کے مذاکرات ناکام ہونے سے ان کی حقیقت واضح ہوگئی ہے ۔ بھارت یہ کہنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے کہ ریاست جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے ۔وہ اب تک اسی پرانی رٹ پر قائم ہے کہ پوری ریاست بشمول شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر‘ بھارت کا اٹوٹ انگ ہے ۔پرویز مشرف صاحب امریکا کے ساتھ اپنے خصوصی تعلقات کے زعم میں اس قدر آگے بڑھ گئے ہیں کہ انھوں نے کشمیرکے سات ٹکڑے کردینے کی ایک متبادل تجویز پیش کردی‘جب کہ بھارت اپنے اٹوٹ انگ کے موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹا۔
کشمیر پر پاکستان کے موقف کی ایک تاریخ ہے اور اس موقف کی مستحکم بنیاد اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں۔ تقسیم ہند کے نامکمل حصے کے طور پر جب تک اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت یہ تنازع حل نہیں ہوپاتا‘اس وقت تک یہ ایجنڈا نامکمل ہے۔ اس قانونی بنیاد کے بغیر بھارت اسے علاحدگی پسندوں کی ایک تحریک قرار دے گا اور بھارت میں اس طرح کی بیس سے زیادہ تحریکیں موجود ہیں ۔ کشمیر کا مسئلہ ان تحریکوں سے کلی طور پر الگ نوعیت کا ہے ۔ کشمیر کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں تھا ۔ بھارت کا قبضہ ظالمانہ ‘ناجائز اور غیر اخلاقی ہے اور اس کے خلاف کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد ایک جائز جدوجہد ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق دنیا کی تمام آزاد ی پسند اقوام کا فرض ہے کہ آزادی کی جدوجہد میں کشمیریوںکا ساتھ دیں ۔ اگر اقوام عالم اس مسئلے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ ایک تو بھارت کے ساتھ ان کے تجارتی اور سیاسی مفادات کی وابستگی ہے اور دوسری وجہ خود پاکستان کے حکمرانوں کی سفارتی اور اخلاقی کمزوری ہے ۔
پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ ابتدا سے یہاں اکثر حکومتوں نے اپنے ملک کے عوام کی آزادیوں اور حقوق کو چھیننے اور دبانے کی کوشش کی ہے ۔ پرویز مشرف کی حکومت غیر جمہوری اور غیر آئینی حکومتوں کے تسلسل کا حصہ ہے ۔اس طرح کی حکومتوں میں اخلاقی جرات کا فقدان ہوتا ہے ۔ جس حکومت نے خود اپنے عوام کے حقوق کو غصب کررکھے ہوں‘ وہ کسی دوسرے ملک کی بے انصافیوں اور غاصبانہ قبضے کے خلاف کیونکر آواز اٹھا سکتی ہے۔ حکومتِ پاکستان‘ بھارت کے خلاف عالمی سطح پرایک موثر سفارتی مہم چلانے میں اسی وجہ سے ناکام رہی ہے کہ اس نے اپنے ہاں شہری آزادیاں سلب کر رکھی ہیں۔
اس وقت پاکستان کو ان مخدوش حالات سے نکالنے اور اسے ایک مستحکم سیاسی او رمعاشی بنیاد فراہم کرنے کی ذمہ داری پاکستان کے عوام پر آپڑی ہے ۔ پرویز مشرف نے فوج کے ادارے کو سیاست میں بری طرح ملوث کر دیا ہے۔جو ادارہ سیاست میں اس قدر دھنس جائے اس میں اختلافات پیدا ہونا ایک طبعی امر ہے ۔ قومی سلامتی کونسل کے ادارے کی مخالفت خود ایس ایم ظفر نے کی ہے جو ایم ایم اے کے ساتھ مذاکرات میں حکومت کے قانونی مشیر تھے۔ انھوں نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ جس ادارے میں حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے لیڈر آمنے سامنے بیٹھے ہوں اور افواج پاکستان کے سرکردہ سربراہ بھی ان کے ساتھ ہوں‘ تو اس ادارے میں ان کاایک طرف جھکائو اور اختلاف راے ایک بدیہی امر ہے ۔
جنرل پرویزمشرف کی وجہ سے عوام میں فوجی ادارے کے بارے میں بدگمانیاں پیدا ہوگئی ہیں اور عوام سمجھتے ہیں کہ فوجی حکومت ملّی اور قومی امراض کا مداوا نہیں کرسکتی۔پرویز مشرف کے خلاف تحریک صرف اس کی ذات تک محدودنہیں ہے بلکہ عوام کی طرف سے فوجی ادارے کو سیاسی ادارے کے طورپر مسترد کرنے کی تحریک ہے۔ پرویزمشرف کے بعد کسی اور جرنیل کی مداخلت بھی برداشت نہیںکی جائے گی ۔
حالیہ تحریک کے پہلے مرحلے میں ہم نے عوام کو یہ ہدف دیا ہے کہ ملکی سیاست سے فوج کوفارغ کرنے کا عزم کرلیں ۔ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی پہلے ہی سے ایک ضابطہ اخلاق پر اتفاق ہونا لازمی ہے کہ آئین کی مکمل پاسداری کا عہدکریں‘ نہ خود آئین کے کسی بنیادی کلیے کو توڑنے کی کوشش کریں اور نہ فوج کو یہ موقع دیں کہ وہ سیاسی جماعتوں کے اختلافات اور بدعنوانیوں کو بہانہ بناکر آئینی ضابطوں کو معطل کرسکیں۔ماضی میں سول حکومتوں کی ناکامی اور ان کے خلاف عوامی تحریکوں کا سبب یہی تھا کہ انھوں نے آئینی ضابطوں کو پامال کیا اور مطلق العنان حکومتیں قائم کرنے کی کوشش کی۔ذوالفقار علی بھٹو ‘بے نظیر بھٹواور نواز شریف صاحب کے خلاف اس لیے تحریکیں اٹھیں کہ انھوں نے اسی شاخ کو کاٹ ڈالا تھا جس پر وہ خود بیٹھے ہوئے تھے ۔سیاسی حکومتیں جمہورکی طاقت اور راے عامہ کی قوت سے چلتی ہیں۔ جب وہ عوامی امنگوں کو نظر انداز کرکے قانون اور آئینی ضابطوں کو توڑنے کے درپے ہوجاتی ہیں تو وہ خود اپنی بنیادوں پر کلہاڑا چلاتی ہیں اور فوج کے طالع آزما‘خود غرض اوربڑی طاقتوں کے آلہ کار جرنیل اس موقع کو غنیمت جان کر قومی وسائل کو خوانِ یغما سمجھ کر اس پر پل پڑتے ہیں ۔
مستقبل میں کسی تحریک کی کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ ہم کس حد تک عوام کو ایک مخلص قیادت کے گرد جمع کرسکتے ہیں اور کس حد تک انھیں آخری منزل تک متحرک رکھنے کا ولولہ دے سکتے ہیں ۔ماضی میں تحریک چلانے والے قائدین کی نظر بھی آخری منزل کی بجاے موجودحکمران سے نجات حاصل کرنے تک محدود رہی‘ اس لیے عوام نے ایوب خان کے خلاف تحریک چلائی تو یحییٰ خان کے اقتدار سنبھالنے پر ختم کردی ۔ قومی اتحاد نے بھٹو صاحب کی جگہ ضیاء الحق کو قبول کرلیا اور بے نظیر اور نوازشریف کے بعد وہ پرویز مشرف کے جھانسے میں آگئے ۔موجودہ تحریک اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک ایک مہذب‘ جمہوری‘ شائستہ اور آئین کی پابند اور عدالتوں کااحترام کرنے والی اسلامی جمہوری حکومت قائم نہ ہوجائے۔
تحریک ہمیشہ مختلف مراحل سے گزرکر زور پکڑتی ہے ۔ پہلے مرحلے میں قیادت یکسوئی کے ساتھ اہداف متعین کرکے عوام کو متحرک کرنے کا فیصلہ کرتی ہے ۔ وہ عوام کو ایک واضح پروگرام دے کر پکارتی ہے ۔ قیادت کی پکار پر متعلقہ سیاسی اور دینی جماعتوں کے کارکن لبیک کہتے ہیں۔کارکن اپنی قیادت کی رہنمائی میں قربانی دیتے ہیں اور پھر عوام میدان میں نکلتے ہیں ۔اس وقت ہم اس تحریک کے دوسرے مرحلے میں ہیں۔ مجلسِ عمل کے کارکن اپنی قیادت کی پکار پر میدان میں ہیں ۔حج اور عید کے بعد ان شاء اللہ قیادت اور کارکنوں کے ساتھ ہی عوام کا جم غفیر بھی پرویز مشرف کی غیر آئینی اور بلا جواز حکومت کے خلاف میدان میں آئے گا ۔ لوگ پرویزمشرف کی امریکا نواز پالیسیوں کے خلاف ہیں ۔
عراق اورافغانستان میں امریکا جو مظالم ڈھا رہا ہے اور اس نے مسلمان عوام کو نئے سرے سے سرمایہ دارانہ نظام کے چنگل میں جکڑنے کے لیے جال پھیلایا ہے‘ عوام پرویز مشرف کی ایسی حکومت کو قبول کرنے کے حق میں نہیں ہیں جو ملک کو امریکا کا طفیلی لادین ملک بنانے پر تلی ہوئی ہے۔عوام میڈیا کے ذریعے فحاشی اور عریانی کی تحریک کی مذمت کرتے ہیں ۔ جس طرح سکولوں اور کالجوں میں مخلوط معاشرے کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور جس طرح ہمارے خاندانی نظام اورہمارے معاشرتی اقدار کو پامال کیا جا رہا ہے‘ عوام اس سے اظہار بیزاری اور نفرت کرتے ہیں ۔ پرویز مشرف اور اس کے نامزد وزیراعظم کے دعوئوں کے علی الرغم ملک کے عوام غربت اور مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں‘ تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے‘ ملک میں ہرسو بدامنی ‘ڈاکا زنی اور افراتفری ہے او رعوام اس صورتِ حال کے خلاف کسی بڑی تحریک کے انتظار میں ہیں ۔
حزب مخالف کی سیاسی جماعتیں بھی باہمی اتحاد کے لیے مشترک بنیادوں کی تلاش میں ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے نقطۂ نظرکو سمجھنے کی کوشش کررہی ہیں۔ ۱۹۷۳ء کا دستور اپوزیشن جماعتوں کو مشترک بنیادفراہم کرتا ہے ۔ اگرچہ پیپلز پارٹی ‘مسلم لیگ اور بعض دوسری جماعتیں مطالبہ کر رہی ہیں کہ مجلسِ عمل سترھویں آئینی ترمیم سے اعلان بیزاری کر دے لیکن چونکہ سترھویں آئینی ترمیم کاتقاضا پورا کرنے سے خود پرویز مشرف نے راہِ فرار اختیار کی ہے اور عملاً اس دستوری عہد کے ایک حصے کو من مانے طور پر منسوخ کر دیا ہے‘ اس لیے مجلسِ عمل کو بھی قانوناً اور اخلاقاً سترھویں ترمیم سے اعلان بیزاری کرنے میں کوئی عار نہیں ہے ۔
اس وقت حزبِ مخالف کی جماعتیں ا س بات پر متفق ہیں کہ پرویز مشرف کی حکومت ناجائز‘غیر آئینی اور غیر قانونی ہے اور اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے ۔اس کی جگہ کیا ہونا چاہیے؟ ایک منتخب او رجائز حکومت کے قیام کے لیے کون سا طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے ؟ اس کے لیے عافیت کا راستہ تو یہی تھا کہ پرویز مشرف سترھویں ترمیم کو قبول کرکے اپنے عہدکا پاس کرتے اور فوج کی سربراہی سے دست بردار ہوکر جمہوریت کے راستے کی بڑی رکاوٹ دور کرتے‘ لیکن ان کواللہ نے عزت کا یہ راستہ اختیار کرنے کی توفیق نہیں دی ۔اب عوام انھیں صدر نہ چیف آف آرمی سٹاف قبول کرنے کے لیے تیار ہیں بلکہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ دونوں عہدوں سے مستعفی ہوجائیں ۔ آئین کے مطابق اس صورت میں عبوری سربراہ چیئرمین سینٹ ہوگا اور قومی اسمبلی کی اکثریتی پارٹی کا نمایندہ وزیر اعظم ہوگا ۔ لیکن کیا موجودہ حکمران پارٹی میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ پرویز مشرف کے بغیر اپنی یک جہتی کو برقرار رکھ سکے ؟
حزبِ مخالف کی جماعتیں اور خاص طورپر متحدہ مجلسِ عمل‘ حکمران جماعت کودعوت دیتی ہے کہ وہ اس امکان پر غور کرے اور اس سے قبل کہ عوامی سیلاب سب کچھ بہالے جائے‘ وہ پرویز مشرف کو فارغ کرنے کے آئینی راستے کو قبول کرے ۔ مجلسِ عمل کے ساتھ معاہدہ‘ حکمران جماعت اور فوج کے اہم سرکردہ افراد نے کیاتھا اور پرویز مشرف کے ساتھ حکمران جماعت اور فوج کے ہر اہم سرکردہ عناصر سب بد عہدی کا شکار ہوئے ہیں۔اس بد عہدی کے سبب قوم کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے عوامی جدوجہد کا وہی راستہ اختیار کرے جس کی تازہ ترین مثال یوکرائن کے عوام نے پیش کی ہے اور اس سے کچھ عرصہ قبل ارجنٹائن اور یوراگوئے میں جس کا تجربہ ہو چکا ہے۔
اس تحریک میں مسلمان خواتین کا کرداربڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ امریکی عالمی نظام کے تحت کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمان خواتین کو اسلامی قوانین کے خلاف اکسایا جائے ۔ مغربی تہذیب نے عورت کی جوگت بنائی ہے جس طرح اس کا لباس اتروا کر اس کو رسوا کیاگیا ہے اور جس طرح آزادی اور حقوق کے نام پر دھوکا دے کر اسے مردوں کے تفنن طبع اور جنسی ہوس کاذریعہ بنایا گیا ہے‘ وہ مسلمان خاتون سے چھپا ہوا نہیں ہے ۔مسلمان خواتین ہماری تہذیب اور ہماری نئی نسل کے اخلاق و کردار کی محافظ ہیں ۔مسلمان خواتین میں قرآن کریم کی تعلیمات سے آگہی حاصل کرنے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کی مجالس میں شرکت کا جو شوق آج پایا جاتا ہے‘ یہ اسلامی تہذیب کے احیا کی بڑی علامتوں میں سے ہے ۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کا بڑا ذریعہ خاندانی نظام اور گھر کی حفاظت ہے اور خواتین کاجہاد یہی ہے کہ اسلامی معاشرے کے اس بنیادی قلعے کی حفاظت کے لیے اپنی صلاحیتیں وقف کردیں اور اس کے لیے قرآن کریم کی تعلیمات کو ذریعہ بنائیں ۔
ملک اس وقت ایک نازک صورت حال سے دوچار ہے۔ غفلت اور لاپروائی کی گنجایش نہیں۔ حکمرانوں کی حکمت عملی یہ ہے کہ لوگوں کو لہوولعب میں مبتلا کر کے حقیقی مسائل سے غافل کردیا جائے۔ وہ بھول جائیں کہ یہ ملک کتنی قربانیوں سے اور کن عظیم مقاصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔ لیکن انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ قوم غافل نہیں‘ بیدار ہے۔ اسے اپنے مقاصد کا شعور اور احساس ہے۔ وہ ان مقاصد کے لیے قربانیاں دینا جانتی ہے۔ وہ متحدہ مجلس عمل کی آواز پر لبیک کہے گی۔ مرد اور عورت سب اٹھیں گے اور ایک ایسی تحریک برپا ہوگی جس کے نتیجے میں ملک صحیح سمت میں سفر شروع کرے گا اور بالآخر اپنی حقیقی منزل کو پالے گا۔ ان شاء اللہ!
اُمت مسلمہ کے مصائب اور آلام کی آج کوئی انتہا نہیں ہے۔ ہر سطح پر بگاڑ ہے اور سارا جسم زخم زدہ‘ گویا ’’تن ہمہ داغ داغ شد‘‘ کی کیفیت ہے۔ لیکن سب سے بڑا المیہ ایمان‘ معاملہ فہمی اور عوام کے جذبات اور احساسات کے ادراک کے باب میں ہماری قیادت کا افلاس اور دیوالیہ پن ہے جس نے دل و دماغ کو سوچنے اور صحیح راستہ تلاش کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے۔ جنھیں معاملات کا امین بنایا گیا تھا‘ وہ اپنی اُمت کی دولت کو خود ہی برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دلوں کا حال تو صرف اللہ ہی جانتا ہے‘ مگر انسانوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ظاہر پر حکم لگائیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوںپر حکمران بلکہ قابض قیادتوں کے اعمال اور اعلانات کو دیکھ کر انسان یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے ع
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
اس المیے کا تازہ ترین مظہر وہ بیان ہے جو جنرل پرویز مشرف نے کشمیر جیسے نازک اور اسٹرے ٹیجک اہمیت کے مسئلے پر ۲۵ اکتوبر کو اپنے ہی وزیراطلاعات کی طرف سے دی جانے والی افطار پارٹی میں اپنے ہی ملک کے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے‘ بڑی سہل انگاری بلکہ دیدہ دلیری سے‘جو زبان پر آیا بس کہہ ڈالا (off the cuff) کے انداز میں دے ڈالا اور اس کے عواقب اور مضمرات کا کچھ بھی خیال نہ کیا۔ اب خود وطن عزیز کے سنجیدہ فکر عناصر کے منفی ردعمل اور اس سے بھی بڑھ کر بھارت کی بے حسی اور سینہ زوری دیکھ کر ان کی اور ان کے حواریوں کی طرف سے عجیب عجیب تاویلات کی جارہی ہیں اور عالم یہ ہے کہ ع
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
اہلِ دانش تو بچے کو بھی یہ سکھایا کرتے تھے کہ پہلے بات کو تولو‘ پھر منہ سے بولو‘ لیکن ہماری قیادت کا عالم یہ ہے کہ منہ سے بولنے کے بعد بھی سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ اب ارشاد ہو رہا ہے کہ مجھے misrepresent ] غلط پیش[کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کس نے misrepresent کیا؟ آپ کے اپنے وزیراطلاعات نے؟ آپ کے اپنے منتخب صحافیوں نے؟ آپ نے خود ہی تو ان سے کہا تھا:
ہم کیا چاہتے ہیں؟ قوم کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ اور اس پر بحث کرنا چاہیے۔
میری نظر میں consensus ]اتفاق راے[ وہ ہوگی جو آپ debate ]بحث[ کروائیں۔ میں سن رہا ہوں گا‘ دیکھ رہا ہوں گا‘ ٹی وی پر میڈیا پر لوگ کیا باتیں کر رہے ہیںاور وہی consensus ہوتا ہے۔ کوئی ووٹنگ نہیں ہوتی ہے اس میں۔ اُسی سے میں judgment ]اندازہ اور فیصلہ[کروں گا کہ ok ] ٹھیک ہے[ یہ میرے خیال میں لوگوں کو پسند ہوگا۔ وہ لے کر پھر بات کروں گا… میری آپ سے درخواست ہے کہ اس پر بحث کا آغاز کریں‘ اس پر لکھیں‘ debate کروائیں‘ لوگوں کو بلائیں اور ان سے بات کروائیں۔ (بحوالہ ۲۵اکتوبر ۲۰۰۴ء کی تقریر کا سرکاری متن)
اگر کسی نے misrepresent کیا ہے تو وہ خود جنرل پرویز مشرف ہی ہیں‘ کوئی اور نہیں۔ پتا نہیں انھوں نے خود اپنے کو misrepresent کیاہے یا نہیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان‘ پاکستانی قوم اور اس مسئلے پر قائداعظم سے لے کر اب تک کے قومی اجماع (national consensus) کو خود انھوں نے بری طرح misrepresent کیا ہے۔ انھوں نے جس قومی جرم کا ارتکاب کیا ہے‘ اس پر ان کا بھرپور مواخذہ (impeachment) ہونا چاہیے۔
۱- جموں و کشمیر کی ریاست ایک وحدت ہے‘ اور اس کے مستقبل کا فیصلہ ایک وحدت کے طور پر کیا جانا ہے۔
۲- ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا باقی ہے‘ اس کے دو تہائی علاقے پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے‘ نام نہاد الحاق ایک ڈھونگ اور دھوکا ہے جسے کوئی دستوری‘ قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی جواز حاصل نہیں۔
۳- ریاست کے مستقبل کا فیصلہ اس کے عوام کو اپنی آزاد مرضی سے کرنا ہے جسے معلوم کرنے کے لیے بین الاقوامی انتظام میں استصواب راے کرایا جائے گا۔
۴- کشمیر کا مسئلہ نہ زمین کا تنازع ہے‘ نہ سرحد کی صف بندی کا معاملہ ہے‘ اور نہ محض پاکستان اور بھارت میں ایک تنازع ہے بلکہ اس کے تین فریق ہیں: پاکستان‘ بھارت اور جموں و کشمیر کے عوام ---جنھیں آخری فیصلہ کرنا ہے۔
۵- کشمیر بھارت کے لیے غاصبانہ ہوسِ ملک گیری کا معاملہ ہے اور پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے کیوں کہ اس کا تعلق ان بنیادوں سے ہے جن پر پاکستان قائم ہوا اور تقسیمِ ہند عمل میں آئی۔ اس کے ساتھ اس کا تعلق ریاست کے مسلمانوں کے (جن کو عظیم اکثریت حاصل ہے) مستقبل اور پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات‘ نیز معاشی اور تہذیبی وجود سے بھی ہے۔
ان پانچ امور پر قومی اجماع تھا اور ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان کا اصولی موقف یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل اقوام متحدہ کی ۱۳ اکتوبر ۱۹۴۸ئ‘ ۵ جنوری ۱۹۴۹ء اور سلامتی کونسل کی دوسری قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دوراقتدار کے اولین برسوں میں اسی موقف کا اظہار کیا اور ۱۲ جنوری ۲۰۰۲ء کی تقریر میں جنگِ آزادی اور دراندازی کے بارے میں ایک ابہام کے اظہار کے بعد‘ ۵ فروری ۲۰۰۲ء کو مظفرآباد میں آزاد کشمیر کی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے اصولی موقف کا ایک بار پھر پوری قوت اور صراحت سے اعادہ کیا اور قومی موقف پر ڈٹ جانے کے عزم کا اظہار کیا جسے موجودہ پسپائی کی اہمیت اور سنگینی کو سمجھنے کے لیے ذہن میں تازہ کرنا ضروری ہے۔
گذشتہ برسوں سے ۵ فروری ہم سب کے لیے ایک اہم دن ہوگیا ہے۔ اس لیے کہ اس دن پاکستان کی حکومت اور عوام بھارتی مقبوضہ کشمیر میں اپنے بھائیوں اور بہنوں سے یک جہتی کو تازہ کرتے ہیں‘ اور کشمیری عوام کو ان کے لاینفک حق خودارادی کی شان دار جدوجہد میں غیر متزلزل‘ واضح اور جائز حمایت کو تقویت دیتے ہیں۔ آج ہم تنازع کشمیر سے متعلق اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی تنفیذ کے لیے اپنے عہد کو تازہ کرتے ہیں‘ اور بین الاقوامی برادری خصوصاً ہندستان کو وہ حلفیہ وعدہ یاد دلاتے ہیں جو کشمیر کے عوام سے کیا گیا تھا کہ انھیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی ہم ہندستان کے غیر قانونی قبضے کے خلاف اہلِ کشمیر کی جدوجہد کے شہدا کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
گذشتہ ۱۳ برسوں میں کشمیریوں کی حق خود ارادی کی جدوجہد نے خصوصی طور پر سخت لیکن المناک منظر دیکھا ہے۔ ۷ لاکھ بھارتی افواج نے ظلم و جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ایسی روش اختیار کی جس کی کوئی مثال نہیں۔ اس عرصے کے دوران ۸۰ ہزار سے زیادہ کشمیری شہید کیے گئے ہیں۔ ہزاروں کو تعذیب کا نشانہ بنایا گیا ہے اور وہ معذور ہوگئے ہیں اور ہزاروں تعذیب خانوں اور نظربندی مراکز میں انتہائی بے بسی کی حالت میں محبوس ہیں۔
خلاصہ یہ کہ کشمیر کے نوجوانوں کو عملاً انتہائی بے رحمی اور منظم انداز سے ختم کیا جا رہا ہے۔ بھارتی قابض فوجوں کا ایک خصوصی ہدف خواتین ہیں۔ بھارتیوں کا گھنائونا ہدف یہ ہے کہ کشمیر کے عوام کو جبراً جھکا دیا جائے اور انھیں مجبور کیا جائے کہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے حق کے استعمال کا مطالبہ ترک کر دیں۔
خواتین و حضرات! مقبوضہ ریاست کے ایک کروڑ عوام کو ان کے آزادی کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا ان کا حق‘ وقت گزرنے کے ساتھ ختم نہیں ہوگیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے نفاذ کو یقینی بنانے میں بین الاقوامی برادری کی ناکامی نے ان کے جواز کو کم نہیں کر دیا۔
بھارت آزادی کی تحریک کو بدنام کرنے کی ایک بدباطن عالمی مہم میں مصروف ہے۔ وہ الزام لگاتا ہے کہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کی باہر سے پاکستان کے ذریعے سرپرستی کی جارہی ہے۔ اس نے اس کو سرحد پار دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی کے طور پر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔ وہ مغرب کے خدشات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی راے عامہ کو گمراہ کرنا چاہتا ہے۔
بھارت پاکستان پر کشمیر میں پراکسی وار کا الزام لگاتا ہے۔ یہ سوال کرنے کو دل چاہتا ہے کہ اگر کشمیر کی جدوجہد کو باہر سے منظم کیا جا رہا ہے تو وہ ۸۰ ہزار شہدا کون ہیں جو مقبوضہ کشمیر کے قبرستانوں میں دفن ہیں۔
خواتین و حضرات! کوئی بھی بیرونی عنصر کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو‘ عوام کی خواہشات کے علی الرغم کسی بھی تحریک کو اس پیمانے پر‘ اس شدت سے‘ اتنے طویل عرصے تک برقرار نہیں رکھ سکتا۔ بھارت کی بھاری بھرکم فوجی مشین کی‘ مقبوضہ کشمیر میں ریاست کی جبری طاقت کے کلّی استعمال اور قوانین کے بلاامتیاز استعمال کے باوجود‘ آزادی کی تحریک کو کچلنے میں ناکامی کشمیری جدوجہد کی مضبوطی‘ مقبولیت اور مقامی ہونے کا ثبوت ہے۔ یہ جدوجہد کشمیر کے عوام کے دل و دماغ میں پیوست ہے۔ اس کے لیے وسائل اور توانائی کا مخزن بہادر کشمیری مردوں اور عورتوں کا خون پسینہ اور ان کے قائدین کا استقلال و عزم ہے۔
بھارت چاہتا ہے کہ ’سٹیٹس کو‘ کی بنیاد پر سلامتی کونسل کی قراردادوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے قبضے کو مستحکم کرے اور فوجی حل مسلط کرے۔ اس طرح کی کوششیں دنیا میں کہیں بھی کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے اصولوں اور فیصلوں سے انحراف تنازعات اور سنگین صورت حال میں اضافے اور طوالت کا باعث ہوا ہے۔ کشمیر کوئی استثنا نہیں ہے۔دوسرے عالمی مسائل کی طرح تنازع کشمیر کو بھی اقوامِ متحدہ کے فیصلوں کی بنیاد پر اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہونا چاہیے۔
خواتین و حضرات! میں اپنے کشمیری بھائیوں کو واضح یقین دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی حکومت‘ عوام اور میں خود اپنے وعدے کی پاسداری کریں گے‘ اور ان کی منصفانہ اور عظیم جدوجہد کی مکمل سیاسی‘ سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے۔ (آزاد جموں اورکشمیر اسمبلی اور جموں اور کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب‘ ۵ فروری ۲۰۰۲ئ)
ہم نے یہ طویل اقتباس اس لیے دیا ہے کہ یہ جنرل پرویز مشرف کی زبان سے قومی اجماع کا واضح اور مکمل اظہار تھا اور قوم آج بھی اس پر قائم ہے مگر جنرل صاحب نے ایک الٹی زقند لگاکر قومی اتفاق راے کو پارہ پارہ کرنے اور پاکستان کی کشمیر پالیسی کو بھارت اور امریکا کے عزائم اور مطالبات کے تابع کرنے کی مجرمانہ جسارت کی ہے اور کچھ حاصل کیے بغیر لچک کے نام پر وہ سب کھو دیا ہے جو ہمارا سیاسی‘ قانونی اور اخلاقی سرمایہ اور کشمیر کی تحریک مزاحمت کی تقویت کا سامان تھا اور اب خود بھی جھینپ مٹانے کے لیے اصولی موقف کی طرف پلٹنے کی بات کر رہے ہیں۔
یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے ۱۲ جنوری ۲۰۰۲ء کے بیان کے بعد دیے جانے والے بیانات میں ۵ فروری کے بیان کو چھوڑ کر ایک طے شدہ انداز(pattern ) نظر آتا ہے۔ انھوں نے آہستہ آہستہ پسپائی اختیار کی۔ جنرل صاحب کی پسپائی کا نقطۂ عروج ان کا ۲۵ اکتوبر کا بیان ہے جو دائرہ پورا کر کے قومی کشمیر پالیسی کی یکسر نفی پر منتج ہوا۔
___ پہلے دبے لفظوں میں ’’سرحد پار مداخلت‘‘ کو بند کرنے کی بات کی گئی۔
___ پھر پاکستانی زمین کو بھارت کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کا اعلان ہوا (حالانکہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیں اور لائن آف کنٹرول کسی سرحد کا نام نہیں اور مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں ایک ہی قوم آباد ہے)
___ پھر کشمیر کی مزاحمتی تحریک کی عملی اعانت اور تعاون سے بڑی حد تک دست کشی اختیار کی گئی۔
___ پھر ایک انٹرویو میں رائٹر کے نمایندے سے بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بالاے طاق رکھنے ( set aside کرنے) کا مجرمانہ اعلان کسی قانونی یا سیاسی اختیار کے بغیر کرڈالا گیا۔
___ اور اب ۲۵ اکتوبر کے بیان میں جسے بظاہر غوروفکر کے لیے لوازمہ (food for thought ) کہا جا رہا ہے‘ اور جو ہر قسم کے thoughtسے عاری ہے‘ ۱۹۵۰ء سے ۱۹۹۷ء تک دس بار مختلف شکلوں میں بیان کردہ نام نہاد آپشن ( option) کو اپنے زعم میں ایک نئے راستے لیکن حقیقت میں پالیسی میں ایک بنیادی تبدیلی کے طور پر پیش کیا ۔ اس سے بھی زیادہ بات یہ کی کہ اسے ایک خود ساختہ مگر برخود غلط اصول کے نام پر پیش کیا کہ جو چیز بھارت کے لیے ناقابلِ قبول (unacceptable) ہے‘ اس سے ہٹ کر راستہ نکالنا چاہیے۔
یہ بڑی ہی بنیادی تبدیلی ہے جسے اسٹرے ٹیجک پسپائی اور بھیانک سیاسی غلطی ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہ بنیادی مفروضہ ہی ناقابلِ قبول ہے اس لیے کہ مسئلہ بھارت یا پاکستان کا قبول کرنا یا نہ کرنا نہیں بلکہ اصولی مسئلہ ہے جس کا تعلق ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے حق خود ارادیت سے ہے۔ اس اصول کا انحصار کسی کی پسند اور ناپسند پر نہیں۔ اگر اس اصول کو مان لیا جائے تو پھر دنیا بھر کی سامراجی قوتوں سے گلوخلاصی کا تو کوئی امکان ہی باقی نہیں رہتا اس لیے کہ کوئی قابض قوت کبھی بھی اپنے تسلط کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی ہے‘ حتیٰ کہ اسے مجبور کر دیا جائے اور اس کے لیے قبضہ جاری رکھنا ممکن نہ رہے۔
دوسرا انحراف یہ کیا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کی ریاست کی وحدت کو سات حصوں میں پارہ پارہ کرتے ہوئے مسئلے کا مرکزی نقطہ (focus) ہی بدل دینے کی حماقت کی گئی ہے۔ اصل مسئلہ ریاست جموں و کشمیر کے الحاق (accession) کا ہے جسے تبدیل کر کے ریاست کی تقسیم (division) کا مسئلہ بنا دیا گیا۔
تیسری بنیادی چیز ان علاقوں کی حیثیت (status)کی ہے جس میں بلاسوچے سمجھے امریکا کے عالمی کھیل کے لیے دروازے کھولنے کے لیے آزادی‘ اقوام متحدہ کی تولیت اور بھارت اور پاکستان کے مشترک انتظام کے تصورات کو مختلف امکانات کی شکل میں پیش کیا گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کا کوئی ادراک تک نہیں کیا گیا کہ ان میں سے ہر ایک کے پاکستان کی سالمیت‘ حاکمیت اور علاقے کے اسٹرے ٹیجک مفادات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور ان عوام کے دل پر کیا گزرے گی جو ۵۷ سال سے بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں۔
چوتھی چیز شمالی علاقہ جات کے مسئلے کو نہایت سہل انگاری اور عاقبت نااندیشی سے سات میں سے ایک حصے کے طور پر پیش کر دیا گیاہے حالانکہ اس سلسلے میں پاکستان کی تمام حکومتوں نے اسے استصواب کے سلسلے میں جموں و کشمیر کی ریاست کا حصہ تسلیم کرتے ہوئے ایک اسٹرے ٹیجک پردے میں رکھا تھا۔ اس کی اہم تاریخی اور علاقائی وجوہ تھیں کہ تقسیم سے قبل کشمیر کی اسمبلی میں نمایندگی کے باوجود یہ علاقہ اس طرح کشمیر کا حصہ نہیں تھا جس طرح باقی ریاست تھی اور نہ یہ اس خرید و فروخت کا حصہ تھا جس کے نتیجے میں جموں و کشمیر پر ڈوگرا حکمرانی قائم ہوئی تھی۔ نیز یہ علاقہ وہاںکے لوگوں کی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان میں شامل ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک وہ آزاد کشمیر کا حصہ نہیں شمار کیا گیا۔چین سے ہمارے سرحدی رشتے کا انحصار اس حصے پر ہے جو چین کے دو اہم صوبوں سے ملحق ہے۔ جنرل صاحب نے شوق خطابت میں ان تمام نزاکتوں کو نظرانداز کر کے اس علاقے کو بھی ’’آزادی‘‘ بین الاقوامی تولیت اور بھارت کے ساتھ مشترک کنٹرول کی سان پر رکھ دیا ہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!
سیاست‘ حکومت اور سفارت کاری کی نزاکتوں سے ناواقف جرنیل جب بھی اقتدار پر غاصبانہ قبضہ جماکر ایسے معاملات سے نبٹتے ہیں اور فردِ واحد کو اجتماعی اور اداراتی فیصلہ کاری سے ہٹ کر قوموں کی قسمت سے کھیلنے کا اختیار مل جاتا ہے تو پھر ایسی بھیانک غلطیاں اور ٹھوکریں اس قوم کی قسمت بن جاتی ہیں۔
پاکستانی قوم اور اس کے معتبر سیاسی قائدین تو اس سیاسی غارت گری( vandalism ) پر آتش زیرپا ہیں لیکن دیکھیے کہ مغربی تجزیہ نگار اور خود بھارتی سیاسی‘ صحافتی دانش ور‘ جنرل صاحب کی ان ترک تازیوں کو کس رنگ میں دیکھ رہے ہیں۔
گذشتہ ۱۸ مہینوں سے بھارت اور پاکستان اپنے ۵۷ سالہ جھگڑے کے تصفیے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بعض دفعہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امن کے دو متوازی عمل جاری ہیں۔ ایک میں رکھ رکھائو والے سفارت کار جامع مذاکرات میں مصروف ہیں۔ دوسرا پاکستان کے صدر جنرل مشرف کا انفرادی مظاہرہ (solo show) ہے۔ بعض اوقات وہ سفارتی خندقوں سے تھک کر اوپر آجاتے ہیں اور عوامی سطح پر تبادلۂ خیالات کرتے ہیں۔ ان کے ابلاغی منتظمین (media managers) کو سوچنا چاہیے کہ جو ایک دفعہ کمانڈو بن گیا وہ ہمیشہ کے لیے ایک کھلی بندوق ہے (once a commando, always a loose cannon)۔ ان کے تازہ ترین ارشادات اب تک کے سب سے زیادہ غیر سفارتی ہیں۔ بھارت سے اپنے مرکزی تنازعے‘ یعنی کشمیر کے مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہوئے جنرل مشرف اب تک عمومی اصولوں پر قائم رہے ہیں۔ کشمیر لائن آف کنٹرول کے ذریعے بھارتی اور پاکستانی انتظام کے حصوں میں تقسیم ہے۔ دونوں میں سے کوئی بھی اسے مستقل سرحد تسلیم نہیں کرتا۔ جنرل مشرف نے ہمیشہ اصرار کیا ہے کہ یہ ’سٹیٹس کو‘ کسی حل کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ وہ کہتے ہیں یہ تنازع ہے اوریہی تین جنگوں کا سبب ہے۔ تازہ ترین جنگ ۱۹۹۹ء میں ہوئی۔
بہرطور ۲۵ اکتوبر کو ایک افطار ڈنر میں جنرل مشرف اپنے خیالات کو دو قدم آگے لے گئے۔
اول : وہ یہ قبول کرتے دکھائی دیے کہ جس طرح لائن آف کنٹرول پاکستان کے لیے ناقابلِ قبول ہے‘ اسی طرح استصواب کے لیے پاکستان کا مطالبہ جس میں کشمیری بھارت یا پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کریں گے‘ بھارت کبھی بھی اس کی اجازت نہیں دے گا۔
دوم: انھوں نے دوسرے متبادلات (options) کو بیان کرنا شروع کیا۔ انھوں نے کہا کہ کشمیر کے سات علاقے ہیں‘ دو پاکستان میں اور پانچ بھارت میں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں سے کچھ یا سب کو غیر فوجی کر دیا جائے اور ان کی حیثیت تبدیل کر دی جائے۔ جس کا نتیجہ آزادی ہو سکتا ہے‘ بھارت پاکستان کے درمیان کانڈومینیم (condominium) ]ایسا علاقہ جہاں دونوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں[ ہوسکتا ہے یا اقوامِ متحدہ کا مینڈیٹ۔
بہرحال شک و شبہے کی وجوہات ہیں۔ جنرل صاحب کی تجاویز کی اس وقت جو شکل ہے اس میں ان خیالات کی بازگشت سنی جا سکتی ہے جو عرصے سے فضا میں گردش کر رہے ہیں اور جو بھارت کے لیے ناقابلِ قبول ہیں۔بدتر بات یہ ہے کہ پریس کانفرنس کے ذریعے بات چیت کا مطلب یہ ہے کہ دونوں فریقوں میں خلیج اس قدر وسیع ہے کہ اس قسم کے خیالات پر کوئی ابتدائی بات بھی نہیں ہوئی ہے۔
بھارت نے سرد مہری کے ساتھ رسمی ردعمل دیا اور کہا کہ وہ میڈیا کے ذریعے کشمیر پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مگر اس نے کم سے کم ان خطوط پر بات چیت کو یکسر خارج از امکان قرار نہیں دیا۔ شاید اس کو اندازہ ہے کہ جنرل مشرف ملک کی مذاکرات کی پوزیشن میں انقلابی تبدیلی کے لیے راے عامہ ہموار کرنے کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو اس کی ضرورت ہے۔ ان کے مخالفین نے ابھی سے ہی ان پر کشمیر کی فروخت کی سازش کا الزام لگا دیا ہے۔
اپنے اقتدار کے پانچ سال میں جنرل مشرف نے اپنی حکومت کو پالیسی کی کچھ غیرمعمولی تبدیلیوں سے گزارا ہے۔ انھوں نے پاکستان کے پروردہ طالبان کو گہری کھائی میں پھنسا دیااور ایٹمی معلومات فروخت کرنے کے الزام پر ایک قومی ہیرو عبدالقدیر خان کی توہین کی۔ اس سب پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے جس پر انھوں نے اب تک قابو پایا ہے۔ اب انھوں نے غالباً اب تک کی سب سے مشکل فروخت شروع کر دی ہے: اپنے اہلِ وطن کو اس بات پر آمادہ کرنا کہ وہ کشمیر پہ اپنے بیش تردعووں سے دست بردار ہوجائیں۔
جنرل صاحب کے ابلاغی منتظمین اور وہ خود اپنی ان تجاویز پر جو بھی روغن چڑھائیں‘ ان کا ماحصل کشمیر پر اپنی قومی پالیسی اور اہداف سے مکمل طور پر دست کش ہونا اور تحریکِ آزادی کشمیر کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے سوا کچھ نہیں۔ دیکھیے خود بھارت کے دانش وروں اور تجزیہ نگاروں نے اسے کس رنگ میں دیکھا ہے۔
جنرل مشرف کی تجویز ہے کہ ریاست میں لائن آف کنٹرول کے پار جموں و کشمیر کا ایک حصہ باہمی سمجھوتے کے تحت متعین کیا جائے‘ وہاں سے فوجیں ہٹا لی جائیں اور اس علاقے کی سیاسی حیثیت کو تبدیل کر دیا جائے۔ یہ تجویز پاکستان کے ہمیشہ سے قائم کئی مضبوط موقفوں سے انحراف کیا ہے‘ یعنی:
اول: استصواب راے کے خیال کو ایک طرف رکھنے سے جنرل مشرف نے یہ اشارہ دیاہے کہ پاکستان کا اپنا ہی پروردہ خود ارادیت کا نظریہ جموں و کشمیر میں عملاً بروے کار نہیں آسکتا۔
دوم: انھوں نے اس تصور کو ترک کر دیا ہے کہ پاکستان جموں و کشمیر کے بعض علاقوں پر قبضہ کر کے شامل کر لے۔
سوم : تیسری اور زیادہ اہم تبدیلی یہ ہے کہ نام نہاد شمالی علاقوں کو بھی معاملے کا حصہ بنا دیا ہے حالانکہ ۱۹۷۲ء کے شملہ معاہدے کے بعد پاکستان نے شمالی علاقوں(بلتستان اور گلگت) کو پاکستانی ]آزاد[ کشمیر سے انتظامی طور ر علاحدہ کر دیا تھا۔
بھارت کے سفارتی مبصرین نے جنرل مشرف کی نئی پہل کاری میں کشمیر پر پاکستان کے قدیم موقف سے انحراف کو نوٹ کیا ہے۔ پہلی دفعہ ایک پاکستانی صدرِ ریاست نے اشارہ دیا ہے کہ لائن آف کنٹرول دونوں ملکوں کے درمیان بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحد کے لیے اندازاً خدوخال فراہم کرسکتی ہے۔ انھوں نے یہ بھی اعتراف کرلیا ہے کہ آزاد کشمیر اور شمالی علاقے جو پاکستانی انتظام میں ہیں‘ متنازعہ علاقے ہیں۔
جنرل مشرف کی نئی تجویز نے استصواب کے مسئلے کو پسِ پشت ڈال دیا ہے اور اس کے بجاے منقسم جموں و کشمیر کے سات علاقوں کو متعین کیا ہے۔ جنرل مشرف نے جو خیال پیش کیا ہے‘ اس کے مطابق ساتوں علاقوں کے لوگ علاحدہ علاحدہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
جان شیرین نے سری نگر مظفرآباد بس سروس اور گیس کی پائپ لائن کا بھی ذکر کیا ہے کہ اب پاکستان ان تمام امور کا کشمیر کے ’’کور ایشو‘‘ کے بنیادی مسئلے سے تعلق توڑنے (delink) کے لیے تیار ہے اور اس قلب ماہیت میں امریکا کا خصوصی کردار ہے جس کا امریکا کے وزیرخارجہ کولن پاول صاحب نے اپنے ۱۸ اکتوبر کے ایک بیان میں کریڈٹ لے بھی لیا ہے۔
صدر (جنرل مشرف) پاکستان کے وہ پہلے صدر ریاست ہوگئے جنھوں نے کشمیر کے پیچیدہ مسئلے کی اس حقیقت کا اعتراف کیا جس پر کم بحث کی گئی ہے‘ یعنی جموںو کشمیر لسانی‘ نسلی اور جغرافیائی اور مذہبی طور پر ایک منقسم ریاست ہے اور کوئی بھی حل اس ناقابلِ تردید حقیقت سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔
پاکستانی صدر نے پہلی دفعہ اس اہم حقیقت کو بیان کیا ہے کہ پاکستانی ]آزاد[کشمیر اور وادی کشمیر میں بہت کم قدرِ مشترک ہے‘ اس لیے کہ دونوں کی مختلف نسلی اور لسانی بنیادیں ہیں… مشرف کی تجویز گیلانی کی اس پرانی تجویز کے خلاف ہے کہ جموںو کشمیر کو حق خود ارادیت ملنا چاہیے اور چونکہ یہ مسلم اکثریتی ریاست ہے‘ اس لیے پاکستان کے حق میں رائے دے گی۔
مشرف کے فارمولے کے ماخذ کے بارے میں اشارہ پاکستان کی حامی جمعیت المجاہدین کی قیادت کے ردعمل سے سامنے آتا ہے:جنرل مشرف ایک امریکی حل کو مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس طرح کشمیر کے مسئلے پر نظریاتی پسپائی دکھا رہے ہیں اور کشمیر کے عوام سے دغابازی کررہے ہیں۔
جب واقعات کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جاتا ہے تو جنرل مشرف کے نئے فارمولے کے پیچھے بین الاقوامی ڈور بہت واضح ہو جاتی ہے۔ یکم دسمبر ۱۹۹۸ء کو تاجر فاروق کاٹھواڑی (جو اصلاً وادی کشمیر کا باشندہ ہے) کی سربراہی میں کام کرنے والے کشمیر اسٹڈی گروپ نے ایک رپورٹ میں تجویز دی تھی:
’’جموں و کشمیر کی سابقہ ریاست کے ایک حصے کو (کسی بین الاقوامی تشخص کے بغیر) ایک خودمختار وحدت کے طور پر تشکیل دیا جائے جس میں پاکستان اور بھارت دونوں طرف آنے جانے کی سہولت حاصل ہو‘‘۔ دراصل یہ تجویز زمینی اور آمدورفت کی رکاوٹوں کے باوجود کشمیری زبان کے حوالے سے نئی ریاست کی تہذیبی ہم آہنگی کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا چاہتی ہے۔
آخری نتیجے کے طور پر اس گروپ نے جس کے کئی ارکان امریکی ایوانِ نمایندگان کے رکن ہیں یا دانش ور ہیں‘ بھارت اور پاکستان کے درمیان وادی کشمیر کے لیے کنڈومونیم (ایسا علاقہ جس میں دو خودمختار ریاستوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں) کا کیس پیش کر دیا تھا۔ تقریباً چھے سال بعد صدر مشرف ایک حل کے طور پر کنڈومونیم کے بارے میں بات کرتے ہیں اور اس طرح ایک متحدہ جموں و کشمیر میں استصواب راے کے پاکستان کے سخت اور اصرار کیے جانے والے مطالبے کو ایک دم ترک کر دیتے ہیں۔ صدر مشرف کے تجویز کردہ سات حصوں کی مشابہت ان سات علاقوں تک جاتی ہے جن کا تعین کاٹھواڑی رپورٹ کے دوسرے حصے میں کیا گیا ہے جو بعد میں آئی۔ (فرنٹ لائن‘ ۲۲ اکتوبر ۱۹۹۹ئ)
اس میں ایک تفصیلی نقشے کے ساتھ سات تجاویز ہیں جو امریکا کے سیاسی جغرافیے کے ماہرین کی مدد سے تیار کی گئی ہیں۔ ساتوں تجاویز میں کمیونل فالٹ لائن (مذہبی بنیادوں پر علیحدگی) واضح طور پر نظر آتی ہے۔ رپورٹ کی چھے تجاویز میں جموں و لداخ کے علاقوں کی تقسیم کی تجویز دی گئی ہے۔ تقسیم کے لیے اصل بنیاد مذہب محسوس ہوتی ہے‘ جب کہ زبان‘ ثقافت اور معیشت کے بندھنوں کو کم اہمیت دی گئی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ایک مکمل آزاد مسلم ریاست تخلیق کی جائے۔
اسی روزنامے میں ایک اور صحافی اور دانش ور مرالی دھر ریڈی‘ جنرل صاحب کے ۲۵ اکتوبر کے خطاب پر ۲۹ اکتوبر کی وزارت خارجہ کی توضیحات پر تعجب کا اظہار کرتا ہے اور صاف کہتا ہے کہ جنرل صاحب نے جو کچھ کہا‘ وہ ایک کمانڈو کے انداز کا مظہر ہے اور وہ اپنے یوٹرن کے لیے فضا بنانے کے لیے یہ سارا کھیل کھیل رہے ہیں:
تجویز پر ایک نظرڈالنا ہی اس بات کے لیے کافی ہے کہ اس کو ۱۹۴۷ء کے بعد سے پاکستانی انتظامیہ کی کشمیر پالیسی کے بارے میں ایک بالکل نئی سوچ کا عنوان دیا جائے۔ پاکستان کا بیان کردہ موقف یہ رہا ہے کہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نافذ کیا جائے اور کشمیریوں کو موقع دیا جائے کہ وہ فیصلہ کریں کہ آیا وہ بھارت کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا پاکستان کا۔
ایک ایسے موڑ پر جب بھارت کے ساتھ مکالمہ جاری ہے‘ کس چیز نے مشرف کو اپنی تجویز کو عوام کے سامنے لانے پر آمادہ کیا؟ نئی تجویز ۱۱؍۹ کے اثرات کا منطقی نتیجہ نظرآتی ہے۔ مشرف کو افغانستان پر یوٹرن اور طالبان سے لاتعلقی پر اس وقت مجبور ہونا پڑا جب ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیویارک میں جڑواں ٹاور زمین بوس ہوگئے۔ ان قوتوں کے چیلنج نے‘ جو ’’دہشت گردی ‘‘کے خلاف امریکا کے نام نہاد اتحاد میں پاکستان کی شرکت کی مخالف ہیں‘ پاکستان کے اندر اس بحث کا آغاز کر دیا ہے کہ کشمیر پر ایک نئی سوچ کی ضرورت ہے۔
ایک اور بھارتی روزنامے دی ٹربیون میں ڈیوڈ دیوداس نے کشمیر ڈائری کے عنوان سے ۱۰ نومبر کی اشاعت میں بڑی دل چسپ اور کھری کھری باتیں لکھی ہیں جن پر پاکستان کے پالیسی ساز اداروں اور سیاسی قیادت کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے بلکہ سردھننا چاہیے:
بے چارہ جنرل مشرف! کشمیر کے بارے میں انھوں نے حال ہی میں جو تجویز دی ہے‘ اس کی تاریخی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے سرحد کے اس طرف کے ردعمل سے ان کو شدید طور پر ناامید ہونا چاہیے۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ جولائی ۲۰۰۱ء میں انھوں نے آگرہ میں اہتمام کر کے میڈیا میں جو نئی اٹھان (come uppance) حاصل کی وہ انھوں نے کھلی کھلی باتیں کر کے نمبر بناکر حاصل کی۔ لیکن اس دفعہ اسی انداز کے کھلے پن نے ان کو ایک تکلیف دہ صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔ انھوں نے پاکستان کی سوداکاری کی پوزیشن کو علانیہ بیان کر کے‘ جس پر دونوں ممالک بالآخر راضی ہو سکتے ہیں‘ بے حد محدود کر دیا۔ اس کے نتیجے میں انھوں نے اپنے ملک میں اپنے مخالفین کے ہاتھ میں اپنی ٹھکائی کے لیے موٹا ڈنڈا تھما دیا ہے۔
جنرل صاحب کو خاص طور پر جسونت سنگھ کا ردعمل پڑھ کر پریشانی ہوئی ہوگی جنھوں نے بی جے پی اور نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی طرف سے کسی تصفیے کی تلاش میں سرحدوں میں تبدیلی کو مسترد کر دیا۔ مسٹرسنگھ این ڈی اے کی حکومت میں مختلف اوقات میں وزیرخارجہ‘ وزیر دفاع اور وزیر خزانہ رہے ہیں۔ صدر مشرف نے جس حل کا ذکر کیا ہے اس کے بہت قریب کے حل پر اس وقت بحث ہوئی ہے‘ جب کہ این ڈی اے کی حکومت تھی…
معلوم ہوتا ہے کہ جنرل صاحب جس چیز کو آخری پیش کش ہونا تھی‘ وہاں سے مذاکرات کا آغاز کر کے انتہائی پیچیدہ صورت حال کا شکار ہوگئے ہیں۔ بلاشبہہ یہی ایک سپاہی اور سیاست دان کا فرق ہے۔ غالباً ان کا اعتماد اس ملاقات کی بنیاد پر ہے جو انھوں نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ستمبر میں وزیراعظم من موہن سنگھ کے ساتھ کی تھی۔ یقینا وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جس آدمی سے بات کر رہے ہیںوہ سیاست کی غیریقینی دنیا سے تعلق نہیں رکھتا اور ایک دانش ور کی طرح حقائق پر انحصار کرتا ہے۔
اگر یہ سچ ہے تو صدر مشرف کو دو عوامل کے بارے میں سوچنا چاہیے تھا۔ پہلا: ڈاکٹر سنگھ نے ایک طویل مدت ایک کامیاب بیوروکریٹ کے طور پر گزاری ہے۔ دوسرا: اگر وہ سیاست دانوں کے طریقوں میں کوئی دقت محسوس کرتے بھی ہیں تو بہرحال وہ سرکاری مذاکرات کا طویل تجربہ رکھتے ہیں۔
فوجی حکمرانوں کے ملمع سازاور ابلاغی ماہرین جنرل مشرف کی ذہنی قلابازیوں اور تکے بازیوں پر جو بھی رنگ روغن چڑھانے کی کوشش کریں‘ عالمی میڈیا اور خصوصیت سے بھارتی میڈیا نے ان کی تجاویز کے اصل خدوخال کو بالکل بے نقاب کر دیا ہے اور اس آئینے میں جناب کمانڈو صدر صاحب کی الٹی زقند کا اصل چہرہ دیکھا جا سکتا ہے۔ پھر بھارتی قیادت نے جس بے التفاتی بلکہ حقارت سے اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے اور اپنے موقف سے سرمو ہٹنے سے انکار کردیا ہے‘ اس نے جنرل صاحب کی خوش فہمیوں کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے اور اب وہ بھارت سے غلط اشاروں کا گلہ کر رہے ہیں اور کسی بچے کی طرح بلبلا کر کہہ رہے ہیں کہ اگر بھارت اٹوٹ انگ کی بات کرے گا تو ہم بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بات کرنے لگیں گے۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمراں نہ برعظیم کی تاریخ کے نشیب و فراز سے واقف ہیں اور نہ ہندو قیادت کے ذہن اور عزائم کا حقیقی ادراک رکھتے ہیں۔ ان کی گرفت برہمن کی سیاست کاری‘ دھوکا دہی اور کہہ مکرنیوں پر بھی نہیں‘ اور وہ مکروفریب کے ان حربوں سے بھی ناآشنا ہیں جو کانگرس اور بھارت کی ہندو قیادت کا طّرہ امتیاز ہیں۔
پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر سیاست اور سفارت کاری کو اس کے مسلمہ آداب کے مطابق انجام نہ دیا جائے تو اس کا نتیجہ اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ جو قیادت اپنے اصولی موقف کو اس سہل انگاری کے ساتھ ترک کر دیتی ہے اس کا انجام ناکامی اور ہزیمت کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ فلسطینی قیادت نے اسرائیل اور امریکا کے ہاتھوں یہی چوٹ کھائی اور جنرل پرویز مشرف قوم کو اسی ہزیمت اور پسپائی کی طرف لے جارہے ہیں۔ لیکن ان شاء اللہ پاکستانی قوم ان کو اس راہ پر ہرگز نہیں چلنے دے گی اور جموں و کشمیر کی عظیم جدوجہد آزادی سے کسی کو غداری کرنے کا موقع نہیں دے گی۔
اولاً‘ یہ نتیجہ ہے ملک میں جمہوری اداروں کی کمزوری‘ فردِ واحد کے ہاتھوں میں فیصلے کے اختیارات کے دیے جانے اور اس کے ہر مشورے بلکہ خیال آرائی کے قانون‘ ضابطۂ احتساب اور جواب دہی سے عملاً بالاتر ہونے کا۔ یہ اس بات کا کھلا کھلا ثبوت ہے کہ شخصی نظام سے زیادہ کمزور کوئی اور نظام نہیں ہوتا اور اس میں ایسی ایسی بھیانک غلطیاں ہوتی ہیں جو تاریخ کا رخ بدل دیتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جنرل صاحب کو ایسے پالیسی بیانات دینے کا اختیار کس نے دیا؟ ان کی حیثیت ایک عام تبصرہ گو کی نہیں‘ وہ پاکستان کی پالیسی کے امین اور اس کے پابند ہیں اور ان کو ذاتی خیالات کے اس طرح اظہار کا کوئی حق حاصل نہیں۔ دستور کے مطابق پالیسی سازی‘ پارلیمنٹ اور اس کابینہ کا کام ہے جو پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہے۔ دستور میں صدر کے لیے صواب دیدی اختیارات کے تمام اضافوں کے باوجود‘ صدر کو پالیسی سازی یا طے شدہ پالیسی سے ہٹ کر بیان دینے کا کوئی اختیار نہیں۔ وہ ان تمام معاملات میں کابینہ کی ہدایت کا پابند ہے۔ لیکن کیا ستم ہے کہ نہ پارلیمنٹ سے مشورہ ہوتا ہے‘ نہ کابینہ کسی مسئلے اور تجویز پر غور کرتی ہے‘ نہ وزارتِ خارجہ کو اعتماد میں لیا جاتا ہے اور صدر مملکت ایک کمانڈو کی شان سے اتنے بنیادی امور کے بارے میں طے شدہ پالیسی سے ایسے جوہری انحراف پر مبنی خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور سرکاری پارٹی کے ارکان مواخذہ کرنے کے بجاے تاویلیں کرنے اور آئیں بائیں شائیں کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اصل وجہ ایک شخص کے ہاتھوں میں اقتدار کا ارتکاز اور قومی اور اجتماعی محاسبے کا فقدان ہے۔ نیز پارلیمنٹ کو غیرمؤثر بنا دیا گیا ہے۔
پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاست اور سفارت دونوں میں اصولی اور انتہائی (maximal) پوزیشن کے بارے میں اس وقت تک کوئی لچک نہیں دکھائی جاتی جب تک مخالف قوت اپنے پتے کھیل نہیں لیتی۔ جموں و کشمیر کے بڑے حصے پر قبضہ بھارت کا ہے اور لچک ہم دکھا رہے ہیں۔ تجویز بھارت کی طرف سے آنی چاہیے اور ردعمل ہمارا ہونا چاہیے لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے کہ قابض قوت تو اپنے موقف پر سختی سے قائم ہے‘ اور لچک ہم دکھا رہے ہیں اور ایک خیالی آخری (minimal)پوزیشن کو بات چیت کے آغاز میں پیش کر رہے ہیں۔ایں چہ بوالعجبی است۔
وقت آگیا ہے کہ اس بات کو صاف الفاظ میں بیان کیا جائے کہ اس کام کے لیے مخصوص اہلیت اور ایک ایسی سیاسی قیادت جسے تاریخی حقائق اور عالمی سفارت کاری کا گہرا ادراک ہو‘ ضروری شرط ہے۔ فوج کا اپنا ایک مزاج اور تربیت ہوتی ہے اور فوجی کمانڈ کا یہ کام نہیں کہ وہ اہم اور سنجیدہ سفارتی‘ سیاسی اور فنی معاملات پر جولانیاں دکھائیں بلکہ اصول تو یہ ہے کہ فوج بلاشبہہ دفاع کے لیے ہے‘ لیکن جنگ و صلح ایسے اہم امور ہیں کہ ان کو صرف جرنیلوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ پھر آمریت کا تو خاصّہ ہے کہ ایک شخص اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگتا ہے‘ اور خود کو ہر مشورے سے بالا سمجھتا ہے اور اپنی بات کو حق اور قانون کا درجہ دینے لگتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو تباہی کا سبب بنتی ہے اور انسانوں کو ہٹلر‘ مسولینی اور اسٹالن بنا کر چھوڑتی ہے۔ ان حالات میں خوشامد‘ چاپلوسی اور مفاد پرستی کا کلچر جنم لیتا ہے۔ فیصلے حقائق اور میرٹ کی بنیاد پر نہیں کیے جاتے اور قومی مفاد تک کو دائو پر لگا دیا جاتا ہے۔ جمہوری نظام میں فیصلے پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں۔ کابینہ بھی کچھ اصولوں اورحدود کی پابند ہوتی ہے۔ غیر ذمہ دارانہ انداز میںاعلانات اور صرف اپنی مرضی کے مطابق اتفاق راے بنوانے کے ڈرامے نہیں ہوتے۔ ادارے فیصلے کرتے ہیں اور قومی مفاد کو ذاتی ترنگ کی چھری سے ذبح کرنے کا کسی کو موقع نہیں دیا جاتا۔ دیکھیے کہ بھارتی صحافی اور سفارت کار کلدیپ نیر جس کو جنرل صاحب نے ۲۵اکتوبر سے ہی پہلے اپنے ان خیالات عالیہ سے روشناس کرا دیا تھا‘ بگاڑ کی اصل وجہ کو کس طرح بیان کرتا ہے:
مشرف کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔ ایک حکمران کو جو کچھ کرنا چاہیے وہ بس یہ ہے کہ جرأت کا مظاہرہ کرے اور لوگ اس کی پیروی کریں گے۔ مشرف کو پاکستان میں بہت سے مسائل کا سامنا نہیں رہا۔ جمہوریتیں اتفاق راے کی بنیاد پر کام کرتی ہیں نہ کہ حکم دینے پر‘ حکمران کتنے ہی جرأت مند کیوں نہ ہوں… مشرف سے ملاقات کے بعد میں نے محسوس کیا کہ انھیں بھارت کے زمینی حقائق کے بارے میں کچھ زیادہ جاننے کی ضرورت ہے۔ کوئی سیاسی پارٹی‘ حکمران کانگریس‘ بی جے پی یا کوئی دوسری جماعت لائن آف کنٹرول کو تبدیل کرنے کی جرأت نہیں کر سکتی۔ (روزنامہ ڈان‘ ۲۳ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)
پاکستان کی کمزوری کی اصل وجہ قیادت کا دستور‘ قانون‘ پارلیمنٹ‘ اجتماعی فیصلہ کاری اور ادارتی نظم و احتساب سے بالا ہونے کا تصور رکھنا اور اس کیفیت کا مسلسل برداشت کیا جانا ہے۔ جب تک اس کی اصلاح نہیں ہوگی پاکستانی قوم ۲۵ اکتوبر جیسے اعلانات کی طرح کی بھیانک غلطیوں سے محفوظ نہیں رہ سکے گی۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ قومی مفاد سے ایسا خطرناک کھیل کھیلنے والوں کا مؤثر مواخذہ کیا جائے؟ کیا پارلیمنٹ اور قوم ایسی عاقبت نااندیش قیادت کو لگام دے گی یا اس کی سواری کے لیے بدستور اپنی پشت پیش کرتی رہے گی؟
اس وقت جو عالمی حالات ہیں ان پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ۱۱؍۹ کے بعد جو فضا بنا دی گئی ہے‘ وہ ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی۔ امریکا سے دنیا بھر کے عوام کی بے زاری اور عراقی عوام کی مجاہدانہ مزاحمت اپنا رنگ دکھا کر رہے گی۔ امریکا کا جنگی بجٹ آج دنیا کے تمام ممالک کے مجموعی جنگی بجٹ کے برابر ہوگیا ہے۔ امریکا کا تجارتی خسارہ اس وقت ۵۵۰ بلین ڈالر سالانہ تک پہنچ رہا ہے جو اس کی کل قومی پیداوار کے ۷ئ۵ فی صد کے برابر ہے۔ اسی طرح اس کے بجٹ کا خسارہ ۴۰۰ ارب ڈالر سے متجاوز ہے۔ امریکا میں قومی بچت کی سطح بہت گرگئی ہے اور دنیا کی دوسری اقوام کی قومی بچت کو امریکا کے لیے استعمال کرنے پر ہی اس کی ترقی بلکہ بقا کا انحصار ہے۔ اس وقت دنیا کی بچت کا تقریباً ۸۰ فی صد یعنی تقریباً ۶ئ۲ بلین ڈالر روزانہ امریکا کی نذر ہو رہا ہے۔ نتیجتاً امریکا دنیا کا سب سے زیادہ مقروض ملک بن گیا ہے۔ امریکی قیادت اور دنیا بھر کے عوام کے درمیان خلیج روز بروز بڑھ رہی ہے۔ حالات ایک نئے رخ پر جا رہے ہیں--- مسئلہ وقت کا ہے‘ صبروہمت کا ہے‘ بصیرت اور تاریخ شناسی کا ہے۔ اور وقت ہمارے ساتھ ہے بشرطیکہ ہم حکمت اور صبر کا راستہ اختیار کریں۔
اسی طرح جموں و کشمیر کے زمینی حقائق بھی غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ بھارت ریاستی ظلم و استبداد کے تمام ہتھکنڈے استعمال کر کے بھی وہاں کے عوام کو اپنی گرفت میں رکھنے میں ناکام ہے۔ اس امر پر سب ہی کا اتفاق ہے کہ وادیِ کشمیر ہی نہیں‘ جموں تک میں بھارتی حکومت اور دہلی کے اقتدار سے مکمل بے زاری ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے جن معروف زمانہ آزاد خیال اور سیکولر صحافیوں نے مقبوضہ جموں کشمیر کا دورہ کیا تھا‘ ان میں سے ہر ایک اس پر متفق ہے کہ وہاں کے عوام بھارت کے ساتھ رہنے کے لیے کسی قیمت پر تیار نہیں۔ لبرل لابی کے ایک سرخیل کے الفاظ میں: alienation from Dehli is complete & irreversible. (دہلی سے بے زاری مکمل اور ناقابل رجوع ہے)۔
یہی وجہ ہے کہ اگر ۱۹۶۵ء کے زمانے میں پاکستان سے جانے والے کمانڈوز کو بھارتی فوج پکڑنے میں کامیاب ہوگئی تو آج کیفیت یہ ہے کہ چند ہزار مجاہدین نے سات لاکھ بھارتی فوجیوں کا ناطقہ بند کیا ہوا ہے۔ جہاد و حریت کی تمام تر جدوجہد مقبوضہ کشمیر کے جا ں نثاروں کے لہو کا ثمر ہے جس کا زندہ ثبوت ہر بستی میں وہاں کے شہیدوں کے مرقد ہیں۔ تاہم آزاد کشمیر اور پاکستان سے جو مجاہدین وہاں گئے ہیں وہ وہاں کے عوام کے ہیرو ہیں جن کو مکمل پناہ دی جاتی ہے اور شہادت کی صورت میں ۳۰‘۳۰ ۴۰‘۴۰ بلکہ ۵۰‘۵۰ ہزار افراد نماز جنازہ میں شرکت کر کے ان سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہر جنازہ بھارت کے تسلط اور قبضے کے خلاف بستی بستی ایک استصواب کا درجہ رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ مزاحمت‘ متحدہ جہاد کونسل اور حریت کانفرنس کے قائد سید علی شاہ گیلانی نے جنرل پرویز مشرف کی تجاویز کی سخت مخالفت کی ہے اور پاکستانی قوم کو یہ پیغام دیا ہے کہ جب ہم اپنی جانوں کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور استبداد کی قوتوں کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں توآپ کمزوری اور تھکن کا مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں؟ ہم اس وقت آپ سے استقامت کی توقع رکھتے ہیں۔ اسلامی تاریخ سخت سے سخت حالات میں بھی حق کی خاطر ڈٹ جانے والوں کی تابناک مثالوں سے بھری پڑی ہے اور آج بھی فلسطین‘ عراق‘ افغانستان‘ کشمیر اور شیشان ہر محاذ پر طاقت ور دشمن کا مقابلہ کرنے والے کمزور مسلمان سینہ سپر ہیں۔ پھر پاکستان کی قوم اور قیادت کیوں صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ رہی ہے۔
امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے جب مائوزے تنگ سے تائیوان کے بارے میں بات کی تو اس نے یہ کہہ کر کسنجر کی زبان بند کر دی تھی کہ’’ہم اس معاملے میں ۱۰۰ سال بھی انتظار کرسکتے ہیں‘‘۔
اہل جموں و کشمیر نے ۵۷ سال جدوجہد کی ہے اور ۱۹۸۹ء کے بعد سے تو ان کی جدوجہد دسیوں گنا بڑھ گئی ہے۔ کیا ایسی جرأت مند اور جان پر کھیل جانے والی قوم کی ہمتوں اور امنگوں کے باب میں ہم بحیثیت قوم فخر اور تائید کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کرسکتے ہیں؟ وقت ہمارے ساتھ ہے۔ بھارت اس انقلابی قوت کا تادیر مقابلہ نہیں کر سکتا۔ تاریخ میں کوئی بھی استعماری اور قابض قوت ہمیشہ غالب نہیں رہی ہے۔ جس قوم نے بھی بیرونی استبداد کے خلاف سپر نہ ڈالنے کا عزم کیا ہے‘ وہ ایک دن اپنی آزادی حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوئی ہے: تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ۔ یہی زمانے کی کروٹیں اور نشیب و فراز ہیں جن سے تاریخ عبارت ہے۔
کیا ہم تاریخ کے اس سبق اور اللہ کے اس قانون کو بھول گئے ہیں؟ آزادی‘ ایمان اور عزت کوئی قابلِ خریدوفروخت اشیا نہیں۔ کشمیری قوم نے بھارتی وزیراعظم کے ۲ئ۵ بلین ڈالر کے معاشی پیکج کا ایک ہی جملے میں جواب دے دیا: ’’ہمیں سیاسی آزادی درکار ہے‘ معاشی پیکج ہمارا ہدف نہیں‘‘۔ اہلِ کشمیر نے تو اپنا جواب دے دیا‘ سوال یہ ہے کہ پاکستانی قوم کا جواب کیا ہوگا اور پاکستانی فوج جس کا مقصد وجود ہی ملک کا دفاع‘ کشمیر کی آزادی کا حصول اور علاقے پر بھارت کی بالادستی کو حدود کا پابند کرنا ہے‘ اس کا جواب کیا ہوگا؟ کیا یہ فوج معاشی کاروبار کرنے‘ زمینوں کا انتظام کرنے‘ سول ملازمتوں اور سیاست پر قبضہ کرنے کے لیے ہے یا ملک کے دفاع‘ مظلوموں کی مدد اور پاکستان کی شہ رگ کو دشمن کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے ہے۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ فوج کے سربراہ نے اپنی دستوری‘ قانونی‘ اخلاقی ہر ذمہ داری کے برخلاف ایک ایسی تجویز پیش کر دی ہے جس کے معنی کشمیر کی تقسیم ہی نہیں بلکہ کشمیر کو اس خطے کے نقشے سے ہمیشہ کے لیے غائب کر دینے کے مترادف ہے۔ ان کی غفلت اور خوش فہمی کا یہ حال ہے کہ ع
اک نشترِ زہرآگیں رکھ کر نزدیک رگ جاں بھول گئے!
اس خطرناک کھیل کو کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے؟ پارلیمنٹ اور قوم کی ذمہ داری ہے کہ اپنا کردار ادا کرے۔ قومی احتساب کو موثر بنائے اور اس قومی اجماع پر سختی سے قائم ہوجائے جس کی شیرازہ بندی قائداعظمؒ نے اپنے ہاتھوں سے کی تھی‘ اور اپنی ساری توجہ اصولی موقف پر مکمل اعتماد اور استقلال کے ساتھ مرکوز کرے اور کشمیری عوام کی تحریکِ مزاحمت کی بھرپور معاونت کی پالیسی اختیار کرے اور پاکستان کی معاشی‘ اخلاقی‘ عسکری اور سیاسی قوت میں اضافے کے لیے اقدامات کرے تاکہ یہ قوم اپنا حق لے سکے‘ مظلوموں کی مدد کر سکے اور ظالموں کو ظلم سے روک سکے:
وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَـآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًاo(النسائ۴:۷۵)
آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِخاکی میں جاں پیدا کرے
پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے
اور یہ اس لیے کہ ؎
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ
جوے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوے کم آب
اور آزادی میں بحر بے کراں ہے زندگی
جس میں نہ ہو انقلاب‘ موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات‘ کش مکش انقلاب
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سوداے خام خون جگر کے بغیر
اس قوم کا مقدر پسپائی نہیں‘ اپنے ملّی اور تاریخی اہداف کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنا ہے۔ یہ کم ہمت لوگوں کا شعار ہے کہ زمانے کے ساتھ بہ جاتے ہیں۔ زمانہ ساتھ نہ دے تو مسلمان کا شیوہ یہ ہے کہ وہ زمانے کو بدلنے کے لیے سرگرم عمل ہوجاتا ہے‘ اور یہی عزت اور کامیابی کا راستہ ہے۔ آج جن کے ہاتھوں میں مسلمانوں کی قیادت ہے اُن کو ہوا کے رخ پر مڑجانے والے مرغ بادنما کے مذموم کردار سے احتراز کرنا چاہیے اور اپنے مقاصد اوراہداف کے حصول کے لیے زمانے کو مسخر کرنے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے ؎
حدیث بے خبراں ہے‘ تو بازمانہ بساز
زمانہ با تو نسازد تو بازمانہ ستیز
صبح و شام اقبال اور قائداعظم کا نام لینے والے کیا اقبال اور قائداعظم کے راستے پر چلنے کے لیے تیار ہیں؟
۱۵ اکتوبر ۲۰۰۴ء کو قومی اسمبلی میں سرکاری جماعت کے ارکان اسمبلی نے حزب اختلاف کی پرزور اور شدید مزاحمت اور ہمہ جہتی مخالفت کے باوجود جس سرعت‘ دھاندلی اور منہ زوری سے صدر کے لیے دو عہدوں کے بل کو منظور کیا وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ حکمران جماعتوں کے اتحاد نے یہ بل منظور کرکے دستور اور جمہوریت کے سینے میں چھرا گھونپا ہے‘ خود اپنے اوپر اور پارلیمنٹ پر بے اعتمادی کا ووٹ دیا ہے‘ اور سب سے بڑھ کر جنرل پرویز مشرف کے پانچ سالہ دورحکمرانی کی ناکامی پر مہرتصدیق ثبت کر دی ہے۔ ان سب پر مستزاد‘ اپنے زعم میں جنرل پرویز مشرف کو پارلیمنٹ کے ایک دستور سے متصادم فاسد قانون (bad law)کا سہارا لے کر دستور کی خلاف ورزی‘ سترھویں ترمیم کے قانونی تقاضوں اور خود اپنے ۲۵ دسمبر۲۰۰۳ء کے قومی عہدوپیمان (national commitment) سے نکلنے اور بدعہدی کرنے کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔یہ عوام کے نمایندوں کے لیے سیاسی خودکشی سے کم نہیں۔
اس اقدام اور اس کے پس منظر اور پیش منظر پر جتنا بھی غور کیا جائے اسے ملک و ملت کے لیے اندوہناک ہی کہا جا سکتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف دہائی دے رہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں فوج کو کیوں نشانۂ تنقید بنایا جا رہا ہے لیکن اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری خود ان پر اور ان کے پارلیمانی حواریوں پر آتی ہے کہ ان کے ان اقدامات کی وجہ سے ملک کی وہ فوج جسے کبھی صد فی صد عوام کی تائید حاصل تھی اب اتنی متنازع بنادی گئی ہے کہ ہر سطح پرہدف تنقید بنی رہی ہے اور اس کی دفاعی صلاحیتیں بھی بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔ فوج کو سیاست میں ملوث کرنے اور اسے مستقل سیاسی کردار کا حامل قرار دینے کا اس کے سوا کوئی اور نتیجہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کے اس کردار کا ہر سطح پر پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ کے باہر احتساب ہو۔ جنرل پرویز مشرف نے محض اپنے اقتدار کی خاطر وردی کو ہدف بنوایا ہے۔ ان کی اس ہوس کی قیمت فوج کا پورا ادارہ اور قوم کی نگاہوں میں اس کے مقام کو ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ جنرل صاحب کے ایک سینیررفیق لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی نے ان کو بڑا صائب مشورہ دیا ہے کہ اب بھی وہ اپنے عہد کو جو اب ہمارے دستور کا حصہ ہے پورا کریں اور فوج کو اس بدنامی سے بچالیں جو بصورت دیگر ناگزیر ہوگی۔ ان کا مشورہ ایک عقل مند دوست کا مشورہ ہے جس پر جنرل صاحب کو سنجیدگی سے غور اور نیک نیتی سے عمل کرنا چاہیے:
لیکن ایسا کیا ہوگیا ہے کہ جس سے صرف ایک باوردی صدر ہی نبٹ سکتا ہے‘ یہ کوئی نہیں بتاتا… میں نہیں سمجھتا کہ صدر کو پیچیدہ صورت حال کو مزید پیچیدہ کرنے کی کوئی خواہش ہے۔ یہ امکان کہ کچھ لوگ سڑکوں پر آجائیں گے جن کے پُرتشدد ہونے کا خاصا امکان ہے‘ ایک پریشان کن خیال ہے۔ اس بدنظمی کا الزام لامحالہ جنرل کی وردی سے دیرپا محبت پر لگے گا جو بہت پریشان کن ہوگا۔ کیا ہوگا اگر وردی نے بھی کوئی مدد بہم نہ پہنچائی؟ نہیں‘ میں نہیں سمجھتا کہ وردی اور تمغوں سے آراستہ صدر ایک اچھا تصور ہے۔ (ڈیلی ٹائمز‘ ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)
حالات کی ستم ظریفی ہے کہ عوام کے وہ نمایندے جو پارلیمانی جمہوریت کو مستحکم کرنے اور دستور کے مطابق ملک کا نظام زندگی چلانے کے لیے منتخب ہوئے تھے--- اور مسلم لیگ (ق) کا انتخابی منشور پارلیمانی جمہوریت اور پارلیمان کو مضبوط ومستحکم اور مؤثر کرنے کے دعووں پر مشتمل تھا--- ان کی ایک تعداد دستور کے خلاف ایسا قانون منظور کرتی ہے کہ ایک شخص بیک وقت فوج کا باوردی سربراہ اور سروس آف پاکستان کا تنخواہ دار ملازم بھی ہوسکتا ہے اور ملک کا صدر بھی جو خالص سیاسی عہدہ ہے‘ جب کہ خود فوج کے ریٹائرڈ سوچنے سمجھنے والے افراد صدر کو متنبہ کر رہے ہیں کہ وہ یہ خطرناک کھیل نہ کھیلیں‘ اور دستور کے تحت انھیں جو غیرمعمولی مواقع دیے گئے ہیں ان پر قناعت کر کے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔
صدر کے دو عہدوں پر قابض رہنے کے سلسلے میں خود صدر اور ان کے ’’نورتن‘‘ گذشتہ چند مہینوں سے ڈرامے کے مختلف ایکٹ وقتاً فوقتاً اسٹیج کرتے رہے ہیں‘ اور اب دو عہدوں کے قانون کی شکل میں ابہام (suspense) کو ختم کر کے آخری ایکٹ کی طرف پیش رفت کا سماں باندھا جا رہا ہے۔ لیکن یہی وہ فیصلہ کن وقت ہے جب ایک بار پھر اس مسئلے کے سارے پہلوئوں پر غور کر لیا جائے تاکہ اب بھی ملک کو مزید بگاڑ اور تباہی سے بچانے کے لیے کوئی مؤثر اقدام ہو سکے ورنہ ہمیں صاف نظر آرہا ہے کہ ایک شخص کی ہٹ دھرمی اور مخصوص سیاسی گروہوں کی مفاد پرستی کے نتیجے میں ملک جس بحران اور خلفشار کی طرف جا رہا ہے‘ وہ کسی کے لیے بھی خیر کا پیغام نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ عمل خود جنرل پرویز مشرف اور اس سے بھی زیادہ فوج کے لیے بحیثیت ایک دفاعی ادارے کے‘ بڑے ہی مہلک مضمرات کا حامل ہے۔ ابھی وقت ہے کہ عقل کے ناخن لیے جائیں اور ملک اور فوج کو اس بحران سے بچا لیا جائے۔
’’دو عہدوں کا قانون‘‘ اگرچہ اسے پارلیمنٹ اکثریت سے منظور کرلے تب بھی یہ صرف ایک آمرانہ‘ استبدادی اور من مانی پر مبنی (arbitrary) قانون ہی نہ ہوگا بلکہ دستور کی اصطلاح میں‘ ایک اصلاً باطل اور فاسد قانون (void ab initio) ہوگاجس کی کوئی دستوری اور قانونی حیثیت نہیں ہوسکتی۔
سب سے پہلے ایک اصولی بات سمجھ لی جائے۔ بلاشبہہ ملک کی پارلیمنٹ اصل قانون ساز ادارہ ہے لیکن پارلیمنٹ بھی کوئی باطل اور فاسد قانون بنانے کی مجاز نہیں۔ اسلامی اصول فقہ کی رو سے چونکہ قرآن و سنت قانون کا اصل منبع ہیں اس لیے کوئی قانون ساز ادارہ قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتا۔ اگرخدانخواستہ کسی پارلیمنٹ کی صد فی صد اکثریت بھی شراب اور زنا کو قانون کے ذریعے جائز کرنے کا اعلان کر دے تو وہ قانون فاسد اور باطل ہی ہوگا۔ اسی طرح جن ممالک میں تحریری دستور ہے ان میں مقننہ پابند ہوتی ہے کہ دستور کے خلاف یا اس سے متصادم کوئی قانون سازی نہیں کر سکتی اور اگر وہ کوئی ایسا قانون بنا دیتی تو وہ سندجواز سے محروم رہتا ہے۔
جدید اصول قانون (jurisprudence)میں ایک بڑا بنیادی اضافہ( contribution) دوسری جنگ عظیم کے بعد نازی جرمنی کے ذمہ دار افراد کے مقدمے میں‘ جسے نیورمبرگ ٹرائل کہا جاتا ہے‘ ہوا۔ اس کے فیصلوں کو عالم گیر قبولیت حاصل ہے اس میں یہ اصول طے کیا گیا کہ کچھ اقدار اور اصول فطری انصاف اور عالم گیر صداقتوں کا درجہ رکھتے ہیں اور اگر ان کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اور انسانیت کے خلاف جرائم کاارتکاب کیا جاتا ہے‘ تومحض یہ بات اس کے لیے جوازفراہم نہیں کرسکتی کہ حکم مجاز ادارے نے دیا تھا یا یہ کہ ایسا اقدام کسی ایکٹ آف پارلیمنٹ‘ یعنی قانون کے تحت کیا گیا تھا۔ یہی وہ بنیاد تھی جس پر جرمن پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے اُن قوانین کو باطل قرار دیا گیا جو انسانی اقدار کے خلاف تھے اور نازی جرمنی کے چیف جسٹس آرنسٹ یاننگ کو بطور ملزم اس عدالت میں پیش کیا گیا اور اسے عمرقید کی سزا دی گئی۔ اس کا یہ دفاع کچھ بھی کام نہ آیا کہ اس نے ان قوانین کو نافذ کرنے کے احکام دیے تھے جن کو پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔ نیورمبرگ کی عالمی عدالت کا فیصلہ تھا کہ ایسے اقدام جو بظاہر ملکی قانون کا درجہ رکھتے ہوں اور ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے ہی کیوں نہ بنائے گئے ہوں لیکن اگر ایسے ایکٹ آف پارلیمنٹ بنیادی طور پر اخلاقی اور انسانی جمہوری قدروں سے بالاتر یا متصادم ہوں توانھیں جائز قانون اور جائز اقدام تصور نہیں کیاجاسکتا۔ ایسے قوانین اپنی پیدایش کے وقت سے ہی باطل اور فاسد ہیں اور ان کو عدالت نافذ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔
جدید اصول قانون کے اس کلیے کی روشنی میں آیئے اس امر کا جائزہ لیں کہ اگر ’’دو عہدوں کا قانون‘‘ اسمبلی میں منظور ہونے کے بعد سینیٹ سے گزر کر صدر کی منظوری (assent ) حاصل کر بھی لیتا ہے تب بھی اس کی حیثیت کیا ہوگی۔ وہ ایک باطل اور فاسد قانون (void piece of legislation) ہوگا جس کی کوئی قانونی اور اخلاقی حیثیت نہیں ہوگی۔ اس کی وجوہ مختصراً یہ ہیں:
(i) دفعہ ۴۱ کی رو سے کوئی شخص جو قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کا اہل نہ ہو‘ وہ صدر نہیں ہوسکتا۔ اور قومی اسمبلی کے رکن کی اہلیت اور نااہلیت کا تعین دفعہ ۶۲ اور دفعہ ۶۳ میں کر دیا گیا ہے جس کی رو سے:
(د) وہ پاکستان کی ملازمت میں کسی منفعت بخش عہدے پر فائز ہو ماسواے ایسے عہدے کے جسے قانون کے ذریعے ایسا عہدہ قرار دیا گیا ہو جس پر فائز شخص نااہل نہیں ہوتا۔
دستور کی دفعہ ۲۶۰ میں سروس آف پاکستان کی تعریف کر دی گئی ہے جس میں ’’فوج کی ملازمت‘‘ اپنی ہر شکل میں موجود ہے۔
اسی طرح دفعہ ۶۳ کی شق (ک) کی رو سے سروس آف پاکستان سے ریٹائر ہونے والا کوئی شخص بھی اہل نہیں ہو سکتا جب تک ملازمت سے فراغت پر دو سال نہ گزر جائیں۔
شق (د) میں قانون کے ذریعے جس عہدے کو مستثنیٰ کیے جانے کا ذکر ہے وہ دفعہ ۲۶۰ کو بے اثر (over-rule) نہیں کرسکتا۔
(ii) دستور کی دفعہ ۲۴۴ کے تحت مسلح افواج کے تمام ارکان کے لیے لازم کیا گیا ہے کہ وہ یہ حلف اٹھائیں کہ: ’’میں اپنے آپ کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوںمیں مشغول نہیں کروں گا‘‘۔
اس عہد کو محض قانون کے ذریعے نہ بدلا جا سکتا ہے اور نہ اس سے کسی کو مستثنیٰ کیا جاسکتا ہے۔
(iii) سترھویں دستوری ترمیم کے ذریعے دفعہ ۴۱ میں جو شرط عائد کی گئی تھی وہ دستوری ترمیم کا مقصد اور ہدف تھی ‘یعنی یہ کہ جنرل پرویز مشرف کو (d) (i) ۶۳ سے جو استثنا دیا گیا ہے وہ ۳۱ دسمبر۲۰۰۴ء کو ختم ہوجائے گا۔ اب دستوری ترمیم کے اس دستوری تقاضے سے فرار ممکن نہیں‘ اس لیے کہ قانون سازی کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ ترمیم کے بارے کوئی ایسی ترمیم نہیں ہوسکتی جو اصل ترمیم کے مقصد کے منافی اور اس کو کالعدم (undo) کرنے والی ہے۔
دو عہدوں کا قانون اگر تسلیم کر لیا جائے تو وہ سترھویں ترمیم کے مقصد کو کالعدم کرتا ہے‘ اس کی مکمل طور پر نفی کر دیتا ہے۔ یہ سادہ قانون کے ذریعے دستور میں تبدیلی کے مترادف ہوگا جو باطل اور فاسد ہے۔
(iv) یہ قانون دستور کے پورے ڈھانچے (structure) کو تہہ و بالا کر دیتا ہے۔ جس تقسیمِ کار پر دستور مبنی ہے اس میں صدر کا فیڈریشن کی علامت ہونا‘ پارلیمنٹ کی بالادستی‘ سول اور فوجی نظام کا الگ الگ ہونا‘ کسی ایک فرد کے ہاتھوں میں قوت کا ایسا ارتکاز نہ ہونا جو باقی اداروں کو غیرمؤثر کر دے‘شامل ہیں۔ یہ ’’قانون‘‘ ان تمام پہلوئوں سے دستور کے نظام کار سے متصادم ہے اور فردواحد کو دستوریا قانون سے بالا کرنے کی کوشش ہے جو جمہوریت کی ضد اور پارلیمانی نظام حکومت کی نفی ہے۔
میں اپنے ذاتی مفاد کو اپنے سرکاری کام اور اپنے سرکاری فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہونے دوں گا۔
حلف کی اس شق اور دو عہدوں کے قانون میں چونکہ تصادم ہے‘ اس لیے کہ یہاں مفاد کا ٹکرائو (conflict of interest) آرہا ہے۔ یہ قانون جنرل پرویز مشرف ہی کو ایک اعتبار سے دستور کے متعدد احکامات سے استثنا دے رہا ہے۔ اس لیے وہ خود اس کی منظوری نہیں دے سکتے۔ اگر وہ اس قانون کو منظوری دیتے ہیں تو اپنے ذاتی مفاد کو بالاتر رکھتے ہیں اور حلف کی خلاف ورزی کی بنیاد پر اپنے کو صدارت کے عہدے کے لیے نااہل بنا لیتے ہیں۔
(vi) یہ تو دستوری اور قانونی بحث تھی لیکن صدارت کے لیے سب سے اہم چیز ایک شخص کی صداقت‘ عہد کی پاسداری‘ دھوکادہی سے پاک ہونا اور امانت و دیانت ہے۔ دستور کی دفعہ ۶۲ میں بھی دو شقیں ایسی ہیں جو اس پہلو سے اہم ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ وہ شخص صدر نہیں بن سکتا جو:
(و) سمجھ دار‘ اور پارسا نہ ہو اور فاسق ہو‘ اور ایمان دار اور امین نہ ہو۔
(ز) کسی اخلاقی پستی میں ملوث ہونے یا جھوٹی گواہی کے جرم میں سزایافتہ ہو۔
سترھویں دستوری ترمیم کے سلسلے میں اصل جوہری شق ہی یہ تھی کہ صدر چیف آف اسٹاف کا عہدہ ۳۱دسمبر۲۰۰۴ء تک چھوڑدے گا۔ سینیٹر ایس ایم ظفر جو اس معاہدے کو انجام کار تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے تھے اپنی کتاب Dialogue on the Political Chess Board میں اس کی پوری تفصیل بیان کرتے ہیں۔ کتاب کا آغاز اس آیت ربانی سے کرتے ہیں:
وَلَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِھَا (النحل ۱۶: ۹۱)
اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو۔
ابوجندل صبر کرو‘ اللہ تعالیٰ تمھارے لیے آسانی کا سامان کرے گا۔ ہم نے ان لوگوں سے ایک معاہدہ کرلیا ہے اور انھیں اپنا عہدوپیمان دے دیا ہے اور ہم اپنے عہد سے پھر نہیں سکتے۔
میں نے صدر کو بتایا کہ ایم ایم اے نے صدر کے انتخاب کے مطالبے سے دستبردار ہونے پر رضامندی ظاہر کی ہے اور اس کے بجاے انھیں دستور کے تحت منتخب صدر تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے‘ بشرطیکہ وہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرسکیں۔ اس صورت میں وہ آپ سے دو میں سے ایک عہدہ چھوڑنے کے لیے کوئی حتمی تاریخ معلوم کرنے میں حق بجانب ہیں۔ (ص ۱۵۸)
اسی کے نتیجے میں صدر نے ایک عہدہ چھوڑنے کی شرط تسلیم کی جو معاہدے کا اصل نکتہ تھی۔
اب یہ بات طے ہوگئی کہ اس صورت میں صدر حتمی طور پر ایک قطعی تاریخ کا عندیہ دیں گے…پھر جو تاریخ بتائی جائے گی اس کا اطلاق نااہلیت کی دفعہ‘ یعنی دستور کی دفعہ ۶۳ (د) کے ذریعے ہوگا۔ (ص ۱۶۱)
دیکھیے بالکل واضح ہے کہ اصل ایشو کیا تھا۔ اور دستور کی دفعہ (d) (i) ۶۳ کو سترھویں ترمیم میں لانے کا مقصد چیف آف اسٹاف کے عہدے سے فراغت تھی۔ جب دستوری ترمیم کا مقصد ہی یہ تھا تو استثنا کا سہارا لیے جانے کی کوئی گنجایش نہیں رہتی:
چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ چھوڑنے کے بارے میں انھوں نے کہا کہ وہ اس مسلمہ اصول کو تسلیم کرتے ہیں کہ صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف کے دونوں عہدے ایک شخص نہیں رکھ سکتا۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ایک عارضی مدت کے لیے سول حکومت کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ مگر انھوں نے کہا کہ انھوں نے اس پر بھی لچک کا اظہار کیا ہے۔ (ص ۱۸۵)
اس کے نتیجے میں طے ہوا کہ ایک عہدہ‘ یعنی چیف آف اسٹاف کا عہدہ ۳۱دسمبر ۲۰۰۴ء تک چھوڑ دیا جائے گا۔ دفعہ ۶۳ (د) ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء سے نافذ العمل ہوگی جو اس تاریخ کے بعد دو مناصب پر برقرار رہنے کو نااہل قرار دے گی۔
I have decided to leave the Army Chief post before Dec 31st, 2004. But it will be upon me to decide about the timing within this period.
میں نے ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء سے پہلے آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیاہے۔ لیکن اس مدت کے دوران اس کے وقت کا تعین میں خود کروں گا۔
دفعہ ۶۳ (i) (د) کے ساتھ دفعہ ۴۳ کا ذکر کرنے کا مسئلہ بھی لیاقت بلوچ صاحب نے اٹھایا لیکن ایس ایم ظفر صاحب نے اطمینان دلایا کہ دفعہ ۶۳ اس سلسلے میں کافی ہوگی (ص ۱۹۴)۔
ایس ایم ظفر صاحب نے اپنی کتاب میں (ص ۲۲۶-۲۲۷) یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ صدر کو اعتماد کا ووٹ دینے کے سلسلے میں ایم ایم اے نے کوئی وعدہ نہیں کیا تھا‘ البتہ اس کی مخالفت نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا جسے انھوں نے پورا کر دیا۔
سترھویں ترمیم اس بارے میں امرقاطع ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی بری فوج کی سربراہی سے ۳۱دسمبر۲۰۰۴ء تک فراغت کے بعد سیاست میں فوج کی مداخلت کا دروازہ بند ہوجائے گا۔ ایس ایم ظفر صاحب نے سینیٹ میں ۲۹ دسمبر کو اپنی تقریر میں اس بات کو اس طرح ادا کیا اور اسی کو انھوں نے اپنی کتاب میں ضمیمہ نمبر۹ کی شکل میں اصل معاہدے کے حاصل کے طور پر پیش کیا ہے:
اب میںاپنے حتمی نتیجے تک آئوں گا۔ جناب عالی! وقت آگیا ہے کہ ہم آگے کی طرف دیکھیں اور ہمیں لازماً آگے کی طرف پیش رفت کرنا چاہیے۔ ہم نئے ہزاریے میں ہیں‘ اب یہ وقت ہے کہ ہم سب عہد کریں‘ تمام سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں کو عہد کرنا چاہیے‘بلکہ درحقیقت مکمل سول سوسائٹی کو‘ بشمول افواجِ پاکستان کے افسران اور تمام فوجیوں کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ آیندہ سول میں فوج کی طرف سے کوئی مداخلت نہیں ہوگی۔ (ص ۲۷۷)
یہ تھا اصل مسئلہ اور جنرل پرویز مشرف اور پوری پارلیمنٹ کا عہدوپیمان۔ یہ ایک سیاسی اور عمرانی معاہدہ تھا جسے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ توڑا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو بھی اسے توڑ رہا ہے‘ یا توڑنے کے لیے سامان فراہم کر رہا ہے وہ دستور کا باغی‘ جمہوریت کا قاتل اور قوم کا مجرم ہے اور وہ اللہ کی پکڑ سے بھی نہیں بچ سکے گا۔
اس قانون کے فاسد اور خلاف دستور ہونے کے بارے میں تمام ہی آزاد ماہرین قانون یک زبان ہیں کہ یہ دستور کے خلاف اور جمہوریت کی نفی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قرارداد پوری قانون دان برادری کے خیالات کی ترجمان ہے:
قومی اسمبلی نے ایک ایکٹ کے ذریعے‘ جو دستور کو پامال کرتا ہے اور جو ریاستی اداروں کو فرد واحد کے خبط (whim)کے تابع کرتا ہے‘ ملک کی دستوری حکومت کو ذاتی حکومت میں تبدیل کر دیا ہے۔ (ڈان، ۱۹ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)
اس بارے میں دو آرا مشکل ہیں کہ یہ قانون کتاب قانون کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا اور پارلیمنٹ کے لیے خودکشی کا پروانہ ہے۔ اس کے نتیجے میں حکمران پارٹی کی جو بھی سیاسی حیثیت تھی وہ خاک میں مل گئی ہے۔ حکومت حکمرانی کے لیے ہر جواز سے محروم ہوگئی ہے اور جنرل صاحب اور ان کی پوری ٹیم نے اپنے اعتبار (credibility ) اور سندجواز (legitimacy )‘ دونوں پر وار کر کے خود ہی انھیں تار تار کر دیا ہے۔
مسئلہ صرف قیادت کے اعتبار اٹھ جانے نہیں‘ پورے نظام امر اور اصحاب امر کی سندجواز کا ہے۔ اور جو قیادت اور جو نظام اعتبار اور جواز دونوں سے محروم ہو وہ کھوٹے سکوں کی مانند ہے اور اس کے دن گنے جاچکے ہیں۔ جس ملک کا سربراہ اور حکمران پارٹی ایسے واضح عہدوپیمان کے بعد ان کو پامال کرنے پر تلے ہوئے ہوں‘ ان کے قول و فعل کا دنیا میں کسی کو اعتبار نہیں ہوسکتا۔
ایس ایم ظفر صاحب نے سورۃ النحل کی آیت ۹۱ نقل کی ہے جو عہد کی پاسداری سے متعلق ہے۔ ہم اس کے ساتھ اگلی آیت بھی پیش کرتے ہیں جو ایک آئینہ ہے جس میں جنرل پرویز مشرف اور حکمران پارٹی اپنا پورا چہرہ دیکھ سکتی ہے اور اپنے انجام کی تصویر بھی اسے اس میں صاف نظرآجائے گی:
وَاَوْفُوْا بِعَھْدِ اللّٰہِ اِذَا عٰھَدْتُّمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِھَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰہَ عَلَیْکُمْ کَفِیْلًاط اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَo وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَھَا مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْکَاثًاط تَتَّخِذُوْنَ اَیْمَانَکُمْ دَخَلًام بَیْنَکُمْ اَنْ تَکُوْنَ اُمَّۃٌ ھِیَ اَرْبٰی مِنْ اُمَّۃٍط اِنَّمَا یَبْلُوْکُمُ اللّٰہُ بِہٖط وَلَیُبَیِّنَنَّ لَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ o (النحل ۱۶:۹۱-۹۲)
اللہ کے عہد کو پورا کرو‘ جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو‘ جب کہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ بنا چکے ہو۔ اللہ تمھارے سب افعال سے باخبر ہے۔ تمھاری حالت اس عورت کی سی نہ ہوجائے جس نے اپنی ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ تم اپنی قسموں کو آپس کے معاملات میں مکروفریب کا ہتھیار بناتے ہو تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ کر فائدے حاصل کرے حالانکہ اللہ اس عہدوپیمان کے ذریعے سے تم کو آزمایش میں ڈالتا ہے‘ اور ضرور وہ قیامت کے روز تمھارے اختلافات کی حقیقت تم پر کھول دے گا۔ (النحل ۱۶: ۹۱-۹۲)
اَوَ کُلَّمَا عٰھَدُوْا عَھْدًا نَّبَذَہٗ فَرِیْقٌ مِّنْھُمْط بَلْ اَکْثَرَھُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَo
یہاں تک کہ جب کبھی ان لوگوں نے پکا عہد کیا تو ان میں سے ایک فریق نے اس کو توڑ دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں اکثر ایمان سے عاری ہیں۔ (البقرہ ۲:۱۰۰)
فَمَنْ تَوَلّٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (اٰل عمرٰن ۳:۸۲)
اور جواس کے بعد (اپنے عہد سے) پھر جائیں تو یہی فاسق لوگ ہیں۔
اس مسئلے کے قانونی اور اخلاقی پہلو بلاشبہہ بہت اہم اور ملک کے مستقبل اور یہاں جمہوری سیاست کے فروغ کے سلسلے میں کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے بڑے دور رس سیاسی مضمرات بھی ہیں۔
جنرل صاحب اور ان کے حواری سیاسی استحکام کی خاطر وردی کی بات کرتے ہیں اور جنرل صاحب نے پانچ سال میں جو نظام قائم کیا ہے اور جسے وہ پایدار جمہوریت (sustainable democracy )قرار دیتے ہیں‘ اس کو بچانے اور آگے بڑھانے کا ذکر کرتے ہیں۔ لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ خود اس کے بارے میں اس قانون کا فتویٰ کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پانچ سال میں انھوں نے استحکام کی طرف قدم بڑھایا ہے‘ جب کہ اگر ایسے کسی قانون کی ضرورت ہے تو وہ صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب ان کا بنایا ہوا گھروندا استحکام سے محروم ہو۔ دراصل جنرل صاحب غیریقینی اور مجرم ضمیری کا شکار ہیں اور یہ قانون ان کے پانچ سالہ دور کے حاصل پر عدم اطمینان کا اظہار ہے۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ جو سیاسی نظام انھوں نے قائم کیا وہ متزلزل ہے۔ سیاسی قوت کا مرکز نہ عوام ہیں‘ نہ دستور‘ اور نہ پارلیمنٹ‘ صرف فوج قوت کا منبع ہے‘ اور انھیں خطرہ ہے کہ ان کا بنایا ہوا یہ محل بندوق کی نالی کے بغیر زمین بوس ہوجائے گا۔ اگر وہ پانچ سال میں بھی اپنے پائوں پر کھڑے ہونے والا کوئی نظام قائم نہیں کرسکے تو مزید چار سال میں کیا کر سکتے ہیں؟ ان کے ایک مداح اسٹیفن کوہن (Stephen Cohen) نے اپنی تازہ ترین کتاب The Idea of Pakistan میں جنرل صاحب اور فوج کی حکمرانی کی ناکامی کا یوں اعتراف کیا ہے:
فوج کے ہر جگہ موجود ہونے کی وجہ سے پاکستان قومی سلامتی کی ایک ایسی ریاست رہے گا جس میں ترقی اور جواب دہی کی قیمت پر سلامتی کے مقاصد فیصلہ کن ہوں گے‘ نیز جواز اور قوتِ متخیلہ کے فقدان کی وجہ سے سمت تبدیل کرنے کے قابل بھی نہ ہوگا۔ صدر اور آرمی چیف دونوں کی حیثیت سے پرویز مشرف کی کارکردگی غیراطمینان بخش ہے۔ مشکل نظر آتا ہے کہ مشرف کی قیادت کے مزید چار برس کسی طرح پاکستان کے مستقبل میں ڈرامائی تبدیلی لاسکیں۔ (بحوالہ Military's Broken Law لا از عرفان حسین‘ ڈان، ۱۶ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)
پھر بات صرف جنرل صاحب کے بنائے ہوئے نظام کے عدم استحکام ہی کی نہیں بلکہ پورے نظامِ حکمرانی کی تباہی کی ہے۔ جنرل صاحب کے پورے دور حکومت اور خصوصیت سے اس ’’دو عہدوں کے قانون‘‘ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ملک کے اداروں کو تباہ کر دیا گیا ہے اور سارے نام نہاد استحکام کی بنیاد فرد واحد کو قرار دے دیا گیا ہے۔ شخصی حکمرانی اور وہ بھی فوجی لبادے میں‘ خرابی کی اصل جڑ ہے۔ ملکوں میں استحکام اداروں کے استحکام سے آتا ہے۔ فرد تو آنی جانی چیز ہے۔ جہاں استحکام کا انحصار محض ایک فرد پر ہو وہ آمریت ہی کو جنم نہیں دیتا بلکہ خود استحکام بھی خواب و خیال سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ جمہوریت کے درخت کو جو چیز کسی گھن کی طرح کھا رہی ہے اور جس نے اسے کھوکھلا کر دیا ہے‘ وہ یہی شخصی حکمرانی‘ ارتکاز اختیارات اور فردواحد کی ناگزیریت ہے۔ وقت آگیاہے کہ خرابی کی اس اصل جڑ پر ضرب لگائی جائے اور استحکام کے لیے وہ راستہ اختیار کیاجائے جو پایدار ہو۔ یہ صرف اداروں کے استحکام سے حاصل ہوسکتا ہے اور اس کے لیے جن اداروں کا استحکام ضروری ہے وہ دستور‘ پارلیمنٹ‘ سیاسی جماعتیں‘ عدلیہ‘ قانون کی حکمرانی اور جواب دہی کا مؤثر نظام ہیں۔ بات صرف ایک فرد کی ذات کی نہیں‘ گو جنرل صاحب اپنی تمام ساکھ اور جواز کھوچکے ہیں۔ لیکن اب بھی ہمارا ہدف ان کی ذات نہیں‘ ان کی یہ کوشش ہے کہ شخصی حکمرانی کے نظام کو ملک پر مسلط کر دیں۔
اس کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ شخصی حکمرانی بھی دراصل فوجی حکمرانی (military rule) کی شکل میں ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کی راہ میں جو مشکلات اور موانع حائل رہے ہیں‘ ان میں سیاسی قوتوں کی کمزوریوں اور بے تدبیریوں کے ساتھ فوجی قیادت کے سیاسی عزائم اور سیاسی عمل میں بار بار مداخلت کا بڑا ہی بنیادی کردار ہے۔ جو بھی فوجی طالع آزما میدان میں آیا ہے اس نے استحکام اور قومی مفاد ہی کا سہارا لیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں استحکام اور قومی مفاد دونوں ہی پامال ہوئے ہیں۔
آج صورت یہ ہے کہ فوج کی دفاعی صلاحیت کمزور سے کمزور تر ہو رہی ہے اور سیاست‘ انتظامیہ‘ معیشت اور اجتماعی زندگی کے دوسرے دائروں میںاس کا کردار بڑھ رہا ہے۔ ان دائروں کے لیے نہ اس کو تربیت دی گئی ہے اور نہ اسے ان میں کوئی مہارت حاصل ہے۔ سول انتظامیہ میں آج ایک ہزار سے زیادہ ریٹائرڈ یا حاضر سروس فوجی چھائے ہوئے ہیں‘ سفارت کاری ہو یا تعلیمی اداروں کی سربراہی--- ہر جگہ ریٹائرڈ فوجیوں کی فوج ظفر موج براجمان ہے۔ پبلک سیکٹر کے اہم ترین اداروں کی سربراہی بھی فوجی عملے (personnel )کو سونپی گئی ہے اور معیشت کے میدان میں بھی فوجی ادارے اپنے ہاتھ پائوں پھیلا رہے ہیں۔ پروفیسر حسن عسکری رضوی ہیرالڈ میں اپنے ایک مضمون میں اس کا اس طرح نوحہ کرتے ہیں کہ:
The corporate interests of the military have expanded so much under General Musharuf that the army is now overwhelming all the major sectors of the state, economy and the society. And it is leading to a situation that can be declared as the colonization of the civil institutions by the military.
جنرل مشرف کے دور میں فوج کے کاروباری مفادات اتنے توسیع پذیر ہوگئے ہیں کہ فوج اب ریاست‘ معیشت اور سوسائٹی کے تمام بڑے شعبوں پر چھائی ہوئی ہے‘ اور ایسی صورت حال کی طرف بڑھ رہی ہے جس کو سول اداروں پر فوج کا استعماری قبضہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
ہمیں دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ فوجی قیادت اور خصوصیت سے جنرل پرویز مشرف کو کوئی شعور نہیں کہ فوج کو سیاست‘ معیشت اور انتظامیہ میں ملوث کر کے وہ کس طرح فوج کو قوم کے اعتماد اور محبت و عقیدت سے محروم کر رہے ہیں‘ اور اسے قوم کے مخالفانہ جذبات کا ہدف بنا رہے ہیں۔ فوج اپنے دفاعی اور پیشہ ورانہ کردار کو بھی کمزور کر رہی ہے اور عوام اور فوج میں فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ اختلافات اور بے اعتمادی اس رخ پر جارہی ہے جو بے زاری اور نفرت کا روپ دھار سکتی ہے جو ملکی دفاع کے لیے بڑا ہی خطرناک ہو سکتا ہے۔
آج وردی کی بحث کا ہدف صرف ایک فرد نہیں بلکہ یہ اصولی مسئلہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں فوج کا کیا کردار ہونا چاہیے؟ جنرل پرویز مشرف کی شخصی اور باوردی حکمرانی دراصل فوج کے سیاسی کردار کی علامت ہے۔ آج تک سیاسی عناصر بھی اور عدالتیں بھی ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت فوج کے عارضی کردار کو گوارا کرتے رہے ہیں جس نے اس کے مستقل کردار کی راہ ہموار کردی ہے۔ اب اصل ہدف فوج کا یہی کردار ہے اور نظریۂ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کردینے کی ضرورت ہے تاکہ اس باب کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔ فوج صرف دفاع وطن کے لیے مخصوص ہو اور سیاسی نظام دستور کے تحت سیاسی قوتوں کے ذریعے ہی سے چلایا جائے۔ یہی جمہوریت ہے اور یہی اسلام کا تقاضا ہے جس کا بالواسطہ اعتراف خود جنرل صاحب اپنی اس تقریر میں کرچکے ہیں کہ خلیفۂ وقت فوجی سالار کو برطرف کرنے کا حق رکھتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوںکے نتیجے میں جن کو ان کے بقول فوجی قیادت کی تائید حاصل ہے‘ ملک امریکا کے عالمی عزائم کا آلہ کار بن گیا ہے۔ امریکا اس وقت عالم اسلام ہی نہیں‘ اسلام اور اس کی احیائی تحریک کو اپنا مدمقابل سمجھ کر ہر طرح سے کمزور کرنے اور کچل دینے کے لیے سرگرم ہے۔ اس لیے اس کروسیڈ میں جنرل صاحب کے تعاون نے پاکستان کو ساری دنیا کے مسلمان عوام اور انصاف دوست انسانوں سے کاٹ دیا ہے اور سمجھا جا رہا ہے کہ ہم امریکا کے پیادہ سپاہی (foot soldier ) کا کردار ادا کررہے ہیں۔ پاکستانی عوام بھی اس پالیسی سے نالاں ہیں اور پوری دنیا میں ہماری جو تصویر ابھر رہی ہے وہ شرمناک ہے۔ امریکا کی دوستی تو کبھی بھی قابل اعتبارنہ تھی اور آج بھی نہیں ہے لیکن امریکا نوازی اور امریکا کے آگے سپرڈالنے سے‘ ہم اپنے عوام سے دُور اور اپنے دوستوں کی نگاہ میں مخدوش بن گئے ہیں۔ اور امریکا کا یہ حال ہے کہ ہر تابع داری کے بعد وہ ھل من مزید کا مطالبہ کرتا ہے اور ہمیں کمزور کرنے اور رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ بھارت اور اسرائیل کو مضبوط کرنا اور پاکستان اور مسلمان ممالک کو کمزور رکھنا اس کی پالیسی کا ہدف ہے۔ نیز مسلم ممالک کے نظام تعلیم کو خالص سیکولر رنگ دینے‘ جہاد کے جذبے کو ختم کرنے‘ مسلمانوں کے مسائل کومسلسل نظرانداز کرنے اور اُمت مسلمہ کو اپنے معاشی اور ثقافتی شکنجے میں کسنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔
حد یہ ہے کہ امریکی کانگرس نے ایک نہیں کئی کئی قوانین منظور کیے ہیں کہ پاکستان کے رویے کو ہر سہ ماہی چیک کیا جائے کہ نام نہاد دہشت گردی کے سلسلے میں وہ کیا کر رہا ہے‘ نیوکلیر عدم پھیلائو کے بارے میں اس کا عمل کیا ہے اور اب تو یہ بھی کہ سیکولر تعلیم کے فروغ اور دینی مدارس کی تعلیم کی اصلاح کے بارے میں کیا کیا جا رہا ہے۔ ہر سہ ماہی جائزے کے بعد جس مالی امداد کا وعدہ کیا گیا ہے وہ بہ اقساط جاری کی جائے گی۔ اکتوبر میں امریکی نائب وزیرخارجہ کرسٹیناروکا تشریف لائی تھیںتو ان کا اصل ہدف وزارت تعلیم کو اپنے منصوبے کے لیے مسخر کرنا اور شمالی علاقہ جات کا دورہ کر کے آغا خان فائونڈیشن کے کارناموں کا جائزہ لینا تھا۔ جس وقت محترمہ شمالی علاقہ جات کا دورہ کر رہی تھیں اس وقت ہیلری کلنٹن نیویارک میںآغا خان فائونڈیشن کے لیے عطیات جمع کرنے کی مہم کی قیادت کر رہی تھیں۔ اب پاکستانی فوج‘ پاکستانی پولیس‘ پاکستانی انتظامیہ اور پاکستانی سیاسی قیادت‘ سب کی تربیت کا ٹھیکہ امریکا یا امریکا کے فنڈ پر چلنے والی این جی اوز کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ یہ سب عوامی احتساب اور پارلیمنٹ کی نگرانی سے بالا بالا شخصی حکومت کا کرشمہ ہے۔
عوام کے حقیقی معاشی مسائل کو نظرانداز کر کے معیشت کے تمام دروازوں کو عالمی ساہوکاروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ مار کے لیے کھول دیا گیاہے۔ مبادلۂ خارجہ کے ذخائر بڑھائے جارہے ہیں لیکن ملک میں غربت بڑھ رہی ہے اور بے روزگاری میں اضافے کی رفتار دگنی ہوگئی ہے۔ دولت کی عدم مساوات میں دن دونی رات چوگنی بڑھوتری ہو رہی ہے‘ اشیاے صرف کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں‘ پانی اور بجلی کی قلت ہے۔ عوام علاج کی سہولت سے محروم ہیں اور بچوں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد کے لیے تعلیم کا حصول ناممکن بنا دیا گیا ہے۔
تعلیم کی نج کاری کے نام پر تعلیم کے استحصال کا ایک ایسا نظام ملک پر مسلط کر دیا گیا ہے کہ عام انسان کے لیے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانا ناممکن ہوگیا ہے۔ انگریزی میڈیم کا فروغ‘ اے لیول‘ مشنری تعلیمی اداروں کا احیا‘ آغا خان فائونڈیشن کو امتحانات اور بالآخر نصاب تعلیم کا ٹھیکہ وہ چیزیں ہیں جو تعلیم کو قومی دھارے اور ملک کی نظریاتی اور اخلاقی اساس سے کاٹ کر مغرب کی تہذیبی غلامی کا آلہ کار بنانے کے منصوبے کا حصہ ہیں۔ مشنری اداروں کی سرپرستی کے لیے تو یہ بے چینی ہے کہ جن اداروں کو ۱۹۷۰ء کی دہائی میں قومی تحویل میں لیا گیا تھا ان کو ان صلیبی اداروں کو واپس دیا جا رہا ہے‘ لیکن اسی زمانے میں مسلمان اداروں جیسے انجمن حمایت الاسلام کے جن تعلیمی اداروںکو قومیایا گیا تھا انھیں ان اسلامی تنظیموں کو واپس دینے یا ان کے کردار کو بڑھانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ سارا کام یک طرفہ انداز میں سیکولر اور لبرل قوتوں کے عزائم کو تقویت دینے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک بیرونی ایجنڈا ہے جس کے تحت خود اپنی قوم کو دوسروں کی سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی غلامی میں دیا جا رہا ہے اور یہ سب شخصی اور باوردی حکمرانی کا نتیجہ ہے۔
۱- ملک کی سیاست کو دستور کے تحت سیاسی قوتوں کے ذریعے کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے‘ اور جو قیادت اپنی حکمرانی کا جواز (legitimacy )کھو چکی ہے اور جس نے ہر عہدوپیمان کو پامال کیا ہے اس سے نجات ضروری ہے۔
۲- ملک کی فوج کو صرف دفاعی ذمہ داریوں کے لیے مخصوص کیا جائے اور کسی صورت میں بھی فوج کی سیاسی مداخلت کو گوارا نہ کیا جائے۔ تمام سیاسی جماعتیں عہد کریں کہ بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی صورت میں بھی سیاست میں فوج کو ملوث نہیں کریں گی اور عدالتیں بھی یکسو ہوجائیں کہ ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت کسی بھی شکل میں فوج کی مداخلت کو سندِجواز نہیں دی جائے گی۔
۳- پاکستان کی آزادی‘ نظریاتی تشخص اور تہذیبی شناخت کی ہر قیمت پر حفاظت ہوگی۔ امریکا سے دوستی صرف اپنی آزادی‘ معاشی خودانحصاری اور دینی‘ تعلیمی اور تہذیبی اقدار کی مکمل پاسداری کے ساتھ اختیار کی جائے گی اور زندگی کے تمام شعبوں میں امریکی مداخلت اور اثراندازی کو لگام دی جائے گی۔ حقیقی معنوں میں آزاد خارجہ پالیسی اختیار کی جائے گی جو پاکستان اور امت مسلمہ کے مفادات کی محافظ ہو۔ بھارت سے دوستی بھی مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل‘ برابری کے اصول اور باوقار سیاسی اور معاشی تعلقات سے مشروط ہوگی۔
۴- ملک کے معاشی وسائل ملک کے عوام کو عزت کی زندگی گزارنے کے لائق بنانے کے لیے استعمال ہوں گے‘ اور ہرشہری کو اس کی بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔
۵- ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور ہر سطح پر اور ہر طبقے کے لیے جواب دہی اور احتساب کا آزاد‘ مؤثر اور بے لاگ نظام قائم کیا جائے گا تاکہ ملک کی سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی زندگی کو مفاد پرستوں کے چنگل سے آزاد کیا جاسکے‘ اور عام آدمی عزت کی زندگی گزارنے اور ملک کے وسائل سے اپنا حق وصول کرنے کے لائق ہوسکے۔
۶- مغرب اور بھارت کی تہذیبی یلغار کے آگے بند باندھے جائیں اور پاکستان حقیقی اسلامی فلاحی ریاست کی اس منزل کی طرف پیش رفت کر سکے جس کا خواب ملت اسلامیہ پاک و ہند نے علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کی رہنمائی میں دیکھا تھا اور جس کے لیے بیش بہا قربانیاں دی تھیں۔ تقسیمِ ہند کی نفی اور مشترک ثقافت اور مفادات کے بھارتی منصوبے سے قوم کو آگاہ کیا جائے‘ اور اپنی آزادی‘ دینی تشخص‘ معاشی مفادات اور تہذیبی شناخت کی حفاظت کے لیے مؤثر عوامی تحریک برپا کی جائے۔
یہ ہیں وہ اہداف جن کو سامنے رکھ کر عوامی بیداری کی تحریک پورے نظم اور صبروتحمل سے چلانے کی ضرورت ہے۔ یہ تحریک اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک عوامی قوت کے ذریعے تمام اہداف حاصل نہ ہوجائیں۔ اس عوامی تحریک کو ہر غلط راستے سے بچایا جائے اور کسی طالع آزما کو یہ موقع نہ دیا جائے کہ وہ عوام کے جذبات اور قربانیوں کا فائدہ اٹھا کر اپنے لیے کوئی مسیحائی کا مقام حاصل کرلے۔ وقت آگیا ہے کہ ماضی کے تلخ تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور ان خطرات کے پورے ادراک کے ساتھ جن سے ماضی میں عوامی تحریکات زک اٹھا چکی ہیں‘ شخصی حکمرانی سے نجات اور عوامی حاکمیت اور اسلام کی بالادستی کی اس تحریک کو حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کے ساتھ اس کے اصل انجام تک پہنچایا جائے۔ وجاھدوا فی اللّٰہ حق جھادہ!
(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۵ روپے۔ سیکڑے پر رعایت: منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)
دنیا میں ہمیشہ غلط کار لوگوں کا یہ خاصّہ رہا ہے کہ غلط کاروں کے انجام کی پوری تاریخ ان کے سامنے ہوتی ہے مگر وہ اس سے سبق نہیں لیتے۔ حتیٰ کہ اپنے پیش رَو غلط کاروں کا جوانجام خود ان کے اپنے ہاتھوں ہوچکا ہوتاہے اس سے بھی انھیں عبرت حاصل نہیں ہوتی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خدا کا قانونِ مکافات صرف دوسروں ہی کے لیے تھا‘ اُن کے لیے اس قانون میں ترمیم کر دی گئی ہے۔ پھر اپنی کامیابیوں کے نشے میں وہ یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ دنیا میں سب احمق بستے ہیں۔ کوئی نہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے‘ نہ اپنے کانوں سے سُن سکتا ہے اور نہ اپنے دماغ سے واقعات کو سمجھ سکتا ہے۔ بس جو کچھ وہ دکھائیں گے اسی کو دنیا دیکھے گی‘ جو کچھ وہ سنائیں گے اسی کو دنیا سنے گی‘ اور جو کچھ وہ سمجھائیں گے دنیا بُزِاخفش کی طرح اس پر سرہلاتی رہے گی۔ یہی برخود غلطی پہلے بھی بہت سے بزعمِ خویش عاقل اور فی الحقیقت غافل لوگوں کو لے بیٹھی ہے‘ اور اسی کے بُرے نتائج دیکھنے کے لیے اب بھی کچھ برخود غلط حضرات لپکے چلے جارہے ہیں۔ سید مودودیؒ
پاکستان کی تاریخ بہت سے عجوبوں کے تذکرے سے مالا مال ہے لیکن اس میں تازہ ترین اضافہ دو مہینوں میں تین وزراے اعظم کا دورِ حکمرانی ہے جسے جنرل پرویز مشرف کا ’’ہیٹ ٹرک‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔
۲۵ جون ۲۰۰۴ء کو ڈیڑھ سال سے وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالے رکھنے والے جناب ظفراللہ خان جمالی نے ان افواہوں کی تردید کی جو ان کی وزارت عظمیٰ سے رخصتی کے بارے میں چند ہفتے سے گردش کر رہی تھیں‘ اور پھر اچانک ایک دن بعد ہی اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کر کے ’‘میوزیکل چیرز‘‘ کے ایک کھیل کا آغاز فرمایا جس میں چودھری شجاعت حسین کو ایک قسم کے سیاسی حلالے کے طور پر وزیراعظم مقرر کیے جانے کا اعلان کیا گیا۔ چودھری صاحب ۵۷ دن وزیراعظم رہے اور اس اثنا میں جناب شوکت عزیز کا قومی اسمبلی میں انتخاب‘ قائد ایوان کی حیثیت سے تقرر اور پھر بالآخر ۲۸ اگست ۲۰۰۴ء کو وزیراعظم کی حیثیت سے حلف برداری واقع ہوئی۔ اس طرح ۲۶ جون کو شروع ہونے والے ڈرامے کا ڈراپ سین ہوا اور دنیا کی سیاسی تاریخ میں پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہوگیا کہ اس نے دو مہینوں میں تین وزراے اعظم کے اقتدار کا نظارہ دیکھ لیا۔ اس سب کے نتیجے میں پانچ درجن سے زیادہ وزرا پر مشتمل کابینہ ملک کا مقدر بن گئی۔ اس میں ابھی مسلسل اضافے متوقع ہے۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جنرل صاحب کے الفاظ میں اس کھیل کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے most smooth and democratic transition (سب سے زیادہ ہموار اور جمہوری انتقالِ اقتدار) کا نام دیا گیا۔ اور کولن پاول صاحب نے نہلے پہ دہلا مارتے ہوئے یہاں تک فرما دیا کہ اب پاکستان کو ایک بااختیار ور وزیراعظم (empowered prime minister ) میسرآگیا ہے!اور اسی ’’دھول دھپے‘‘ میں جنرل پرویز مشرف صاحب نے بھی‘ جو کھلے عام ۳۱دسمبر۲۰۰۴ء سے پہلے آرمی چیف کی وردی اتارنے کا وعدہ قوم اور دنیا سے کرچکے تھے‘ ایک قلابازی کھائی اور اس بارے میں جو ابہام وہ اور ان کے گماشتے چند مہینوں سے پیدا کر رہے تھے‘ اسے تقریباً کھلے طور پر وردی نہ اتارنے کے ارادے کے اظہار کی شکل دے دی۔
یہ تمام واقعات ایسے ہیں کہ ان پرکھل کر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے اور جو نیا سیاسی نقشہ مرتب ہو رہا ہے اس کے ادراک اور مضمرات کا احاطہ ایک اہم قومی ضرورت کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ اس وقت کچھ اوراہم موضوعات بھی ہمارے سامنے ہیں‘ جیسے: وزیرستان میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف فوج کُشی‘ بلوچستان کے مخدوش حالات‘ عراق کی ہولناک صورت حال‘ بسلان کا سانحہ‘ شیشان میں بے پایاں ظلم اور روس کے نئے عزائم‘ فلسطین اور کشمیر کے تازہ واقعات اور امریکا کا صدارتی معرکہ‘ جن میں سے ہر ایک مفصل تجزیے و تبصرے کا متقاضی ہے لیکن ان سب کو نظرانداز کرتے ہوئے ہم ملک میں تازہ ترین سیاسی مہم کاری (political engineering) اور اس کے مضمرات پر ملک و قوم کو متوجہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ؎
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو‘ زمانہ چال قیامت کی چل گیا
سیاسی بحث میں شخصیات کا تذکرہ فطری ہے اور ناگزیربھی۔ لیکن ہماری دل چسپی کا اصل مرکز و محور ملک و قوم کے مقاصد اور مفادات ہیں اور حقیقی ہدف پالیسی اور اداروں کی اصلاح اور استحکام ہے۔ جب کوئی شخص پبلک لائف میں قدم رکھتا ہے تو گویا وہ خود کو اجتماعی احتساب کے لیے بھی پیش کرتا ہے اور اسے اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ البتہ ہماری کوشش ہمیشہ یہ رہی ہے کہ قومی امور کو زیربحث لاتے ہوئے ذاتی معاملات اور معاشرتی تعلقات سے بالا ہوکر گفتگو کریں۔ جن محترم شخصیات کا ذکر اس بحث میں آیا ہے یا آئے گا‘ ان کے بارے میں ہماری بحث کا محور ان کی ذات نہیں بلکہ ان کے افکار‘ کردار اور اجتماعی رول ہے۔ ہمارا اصل مقصد پاکستان کا نظریاتی‘ سیاسی‘ ثقافتی اور معاشی استحکام ہے اور یہی وہ قدر مشترک ہے جو اس ملک کے تمام خیرخواہوں کو تنقیدواحتساب اور تعمیروترقی کے لیے سرگرم کرتی ہے۔
جس عمل کو ہم نے سیاسی مہم کاری کہا ہے اس کا سب سے اولین اظہار سابق وزیراعظم جناب ظفراللہ خان جمالی کی فارغ خطی اور اس کے اسباب اور طریق کار ہے۔ جمالی صاحب کو ایوان نے اپنا باقاعدہ قائد منتخب کیا تھا اور وہ کابینی حکومت(cabinet government )کے سربراہ تھے۔ اگر ان کی پالیسیوں پر عدمِ اعتماد تھا تو پارٹی اور پارلیمنٹ کو ان پر بحث کرنی چاہیے تھی‘ ان کا احتساب کیا جانا چاہیے تھا اور کھلے انداز میں معروف پارلیمانی ضابطوں کے مطابق ان کو ہٹایا جا سکتا تھا‘ مگر ایسا نہیں ہوا۔ صدرصاحب اپنے پارلیمانی چیمبر میں فوجی وردی میں پہلی بار تشریف لائے اور سرکاری پارٹی کے ارکان سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں ارکان اسمبلی نے ان کے سامنے شکایات کا دفتر کھول دیا ہے۔ جنرل صاحب نے کابینہ اور اسمبلی کی کارکردگی کے بارے میں اپنے تحفظات اور تنقیدات کا کھلا اظہار کیا۔ چند وزیروں کے بدعنوان ہونے کا ذکر بھی فرمایا۔ محلاتی سازشوں کے اس پس منظر میں خود جمالی صاحب کئی دن تک وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کیے جانے کی افواہوں کی تردید کرتے رہے مگر دوسرے ہی دن اچانک اپنے استعفے کا اعلان کر دیا بلکہ متبادل وزیراعظم کی نامزدگی بھی کردی۔ اس پورے عرصے میں صدر پرویز مشرف اور چودھری شجاعت حسین بھی ان پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتے رہے۔ البتہ سیاسی حلقوں میں یہ چہ مے گوئیاں ہوتی رہیں کہ وردی کے مسئلے پر صدرصاحب کی فرمایش کے مطابق دوٹوک بات نہ کہنے‘ عراق فوج بھیجنے کے معاملے میں عوامی جذبات کے احترام کا عندیہ دینے‘ حدود قوانین اور ناموس رسالتؐ کے قانون میں تبدیلی کے بارے میں تحفظات کے اظہار اور خود قومی سلامتی کونسل کے سلسلے میں کچھ دبے دبے احساسات کی بنا پر وہ صدر صاحب کا اعتماد کھو چکے ہیں اور ’باس‘ کی ناراضی مول لے چکے ہیں جس کی قیمت انھیں ادا کرنی پڑی۔
جمالی صاحب کو جس طرح اور جس عجلت میں فارغ کیا گیا‘ اس نے تمام پارلیمانی طور طریقوں‘ ضابطوں اور روایات کو پامال کر کے رکھ دیا ہے۔ ان کو ۱۸ ماہ وزیراعظم رکھنے کے بعد دو ماہ کے لیے بھی گوارا کرنا قبول نہیں کیا گیا اور ایک عبوری وزیراعظم لاکر ایک ایسے اپنے قابلِ اعتماد شخص کو وزیراعظم نامزد کیا جو خواہ کتنا ہی اچھا ٹیکنوکریٹ کیوں نہ ہو لیکن جس کی کوئی سیاسی بنیاد(base) نہ تھی‘ کوئی حلقہ انتخاب نہ تھا‘ پارٹی کے نظام میں اس کا کوئی مقام نہیں تھا‘ کوئی سیاسی تجربہ نہیں تھا‘ اسے نامزد وزیراعظم کا مقام دے کر اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے لیے دوحلقوں سے انتخاب لڑایا اور ایک کھلے کھلے انتخابی تماشے کے ذریعے منتخب بھی کرایا گیا۔ اٹک میں جو ہوا سو ہوا‘ مگر مٹھی‘ (تھرپارکر) میں تو ایسا انتخاب ہوا کہ اس علاقے کے جو روایتی لیڈر تھے ان سے بھی دوگنے اور تین گنے ووٹ کسی طلسماتی عمل کے ذریعے ہونے والے وزیراعظم کو حاصل ہوگئے۔ اس سلسلے میں پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کے نمایندوں کی رپورٹ چشم کشا ہے جو ملک کے انتخابی عمل کے افلاس اور الیکشن کمیشن کی جانب داری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انتخابی عمل کو اس طرح پامال کیا گیا کہ اس پر لوگوں کا اعتماد جو پہلے ہی متزلزل تھا‘ پارہ پارہ ہوگیا ہے اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کا جو برا بھلا عمل شروع ہوا تھا‘ اسے بڑا دھچکا لگا ہے۔
جمالی صاحب کی فارغ خطی کے اسباب آخر ایک نہ ایک دن تو کھل کر سامنے آئیں گے ہی‘ تاہم ان کے بیانات میں بین السطور کچھ چیزیں نمودار ہونے لگی ہیں۔ لیکن جس بھونڈے اور غیرپالیمانی انداز میں یہ سارا کام ہوا‘ اس نے جمہوریت کے فروغ اور ارتقا پر بڑے منفی اثرات ڈالے ہیں۔ یہ اقدام ملک کو بہت پیچھے لے گیا ہے۔
چودھری شجاعت حسین نے عبوری وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں بحیثیت مجموعی وقار کے ساتھ انجام دیں لیکن ان جیسے جہاںدیدہ اور بااثر سیاست دان کا اس پورے عمل کو آگے بڑھانے میں ایسا نمایاں کردار اور ایک انتخابی ڈھونگ کے ذریعے نئی قیادت کو آگے لانے میں ان کا حصہ‘ کسی صورت میں بھی ان کی نیک نامی کا باعث نہیں ہوا بلکہ ان کی شخصیت کو داغ دار کرنے کا ذریعہ بنا۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان کے اقتدار کے دو مہینوں میں اس سلسلے میں جو کچھ ہوا وہ جمہوریت کے چہرے کو بگاڑنے‘ دستور کے تقاضوں کو پامال اور سول نظام اور پارلیمانی اداروں کے استحکام کو مجروح کرنے کا باعث ہوا ہے‘ اور اس میں ان کے ذاتی رکھ رکھائو کے باوجود نتائج کے اعتبار سے ہر بے لاگ مبصر اور تجزیہ نگار کی نگاہ میں ان کا رول منفی اور تکلیف دہ رہا ہے۔
دوسرا بنیادی مسئلہ پارلیمانی نظام کے دروبست کی کمزوری بلکہ اس کے نظامِ کار کا درہم برہم ہوجانا ہے۔ یہ محض نظری یا ظاہری ہیئت کا مسئلہ نہیں۔ پارلیمانی نظام میں اقتدار کا سرچشمہ پارلیمنٹ ہوتی ہے جو عوام کی منتخب کردہ اور ان کے سامنے جواب دہ ہے۔ پارلیمانی نظام کا مرکزومحور وزیراعظم بحیثیت ایوان کے قائد اور ان کی کابینہ ہے جو ایوان کے سامنے انفرادی اور اجتماعی طور پر جواب دہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمانی جمہوریت میں پارٹی نظام کے مؤثر ہونے کے باوجود پارٹی کے صدر کے مقابلے میں پارلیمانی لیڈر کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ صرف انگلستان کے ویسٹ منسٹر (westminister) ماڈل ہی کا خاصہ نہیں۔ دنیا میں جہاں بھی پارلیمانی نظام ہے وہاں وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے اور کابینہ اس کی قیادت میں کام کرتی ہے۔ اگر وزیراعظم کی مرکزی حیثیت نہ ہو اور قوت کا مرکز پارلیمنٹ اور ان کا لیڈر نہیں کوئی اور ہو تو ایسے میں پارلیمانی نظام کام نہیں کرسکتا۔ بھارت میں یہ مسئلہ آزادی کے فوراً بعد رونما ہوا اور اچاریہ کرپلانی جو کانگرس کے صدر تھے اور پنڈت جواہر لعل نہرو جو پارلیمنٹ کے لیڈر اور وزراعظم تھے کے درمیان رونما ہوا‘ اور پارلیمانی نظام کے اصول و روایات کے مطابق وزیراعظم کو مرکزی حیثیت دی گئی جو وہاں پارلیمانی جمہوریت کے استحکام کا ذریعہ بنی۔ بھارت کے سیاسی تجزیہ نگار اور تامل ناڈو کے سابق گورنر ڈاکٹر جی سی الیگزنڈر لکھتے ہیں:
وزیراعظم کے اختیارات کو کم کرنے سے روکنے کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ اس کی پارٹی کے تمام ممبر اور حامی اور اتحادی پارٹیاں پارلیمانی طرزِ جمہوریت کے بنیادی اصول یعنی ’’وزیراعظم کی نظام میں بالادستی‘‘ کو ہمہ وقت اور کسی تحفظ کے بغیر قبول کریں۔ (’’پارٹی اور پی ایم ‘‘ دی ایشین افیر‘ لندن‘ ۱۶ ستمبر۲۰۰۴ئ‘ ص ۱۴)
پاکستان میں گذشتہ چند مہینوں میں جو کچھ ہوا ہے اس کا سب سے بڑا نقصان ملک کے پارلیمانی نظام کو ہوا ہے۔ وزیراعظم کی مرکزی حیثیت ختم ہوگئی ہے۔ قوت کا مرکز پارلیمنٹ‘ پارلیمانی پارٹی اور وزیراعظم اور کابینہ سے ہٹ کر صدر اور چیف آف اسٹاف کا عہدہ اور شخصیت بن گیا ہے۔ ایک غیر سیاسی شخص کو‘ خواہ وہ اپنے میدان میں کتنا ہی لائق کیوں نہ ہو‘ بطور وزیراعظم بنیادی طور پر صدر کی خواہش اور اشارے پر لانا اور اس اہم منصب پر فائز کر دینا ایک طرح سے پارلیمنٹ‘ پارلیمانی نظام اور خود وزارت عظمیٰ کے عہدے کی تنزلی (demotion) ہے۔ اب پالیسی سازی اور قوت کا سرچشمہ صدر‘ چیف آف اسٹاف ہے جو پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ نہیں اور نہ وہ پارلیمنٹ کی بحثوں میں شریک ہوکر پالیسی سازی اور قانون سازی میں کوئی مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ وزیراعظم محض ایک ملازم نہیں‘ اصل چیف ایگزیکٹوہے۔ اب صاف نظر آرہا ہے کہ جنرل مشرف ایک بار پھر کھلے کھلے چیف ایگزیکٹو بن گئے ہیں‘ تمام پالیسی فیصلے وہی کر رہے ہیں اور وہی ان کا اعلان بھی کر رہے ہیں‘ جب کہ وزیراعظم برملا اعلان کر رہے ہیں کہ وہ جنرل صاحب کی پالیسی کو لے کر چل رہے ہیں۔ اس طرح پارلیمانی نظام کے دستوری ڈھانچے پر صدارتی نظام مسلط (superimpose)کر دیا گیا ہے جس نے دستور کے ڈھانچے کا تیاپانچا کر دیا ہے اور دستور اور قانون کی حکمرانی عملاً ختم ہوگئی ہے۔ اس میں جو بھی‘ جس درجے میں بھی‘ جن وجوہ کی بنا پر بھی شریک ہوا ہے‘ وہ اس بگاڑ کا ذمہ دارہے۔ پوری قوم اس کے تلخ نتائج کو بھگت رہی ہے اور مزید بھگتے گی۔
تیسرا پہلو صدر‘ وزیراعظم‘ کابینہ اور پارلیمنٹ کے باہمی تعلق اور رول کا ہے۔ جناب شوکت عزیز صاحب جس طرح وزیراعظم بنے ہیں وہ معروف سیاسی عمل کے حلیہ بگاڑنے کے مترادف ہے۔ کیا پوری قومی اسمبلی میں ایک شخص بھی اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لائق نہیں تھا کہ باہر سے ایک فرد کو لانا پڑا۔ پھر انتخاب میں جو کچھ ہوا وہ جمہوریت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ اپوزیشن کے نمایندے کو پارلیمنٹ میں آنے اور انتخابی مہم چلانے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ایک طرف ایک شخص کو قائدایوان کے انتخاب کے لیے اہل قرار دیا جاتا ہے اور دوسری طرف اسے اجلاس میں شرکت کے لیے نہیں بلایا جاتا۔ شوکت عزیز صاحب نے کہا ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ جاوید ہاشمی صاحب کو شرکت کا موقع دیا جائے۔ پھر کس چیز نے اسپیکرکو روک دیا؟ محض ایک تقریر کا خوف؟ کیا یہی شفاف جمہوریت ہے؟
انتخاب کے بعد شوکت عزیز صاحب نے یہ عندیہ دیا کہ ان کی کابینہ صرف میرٹ کی بنیاد پر بنائی جائے گی اور اہل ترین افراد اس میں ہوں گے۔ لیکن جمالی صاحب کی کابینہ کے سارے ارکان ان کی کابینہ کی زینت بھی بن گئے اور صدر صاحب کا کابینہ کی کارکردگی پر اظہار خیال اور چند افراد کی کرپشن کی بات‘ سب پادرہوا ہوگئی۔ پھر سیاسی جوڑ توڑ اور مختلف گروپوں کے ساتھ ملانے کا عمل شروع ہوا اور ناراض عناصر کو راضی کرنے کے کرشمے سب کے سامنے آگئے۔ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ بنی ہے اور اگر کہیں محکموں کی تبدیلی ہوئی ہے تو وہ بھی براے نام۔ پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کے ایک رکن پر الزامات اور ان کے جوابی الزامات اخبارات کی زینت بن چکے ہیں ان کا صرف محکمہ تبدیل کر دیا گیا اور ایک دوسرے صاحب کو وہ محکمہ دے دیا گیا‘ اور لطف کی بات یہ ہے کہ دونوں ہی بزرگ نیب کے مطلوبہ افراد میں سے ہیں اور وزارت بھی ان کو داخلہ کی دی گئی ہے۔ یہ بھی سوالیہ نشان ہے کہ جمالی صاحب جو اب وزیراعظم نہیں رہے اور دو وزرا کا جن کے محکموں کو تبدیل کیا گیا ہے تعلق بلوچستان سے ہے۔ کابینہ کی تشکیل اور بندربانٹ نے میرٹ کے وعدے کی دھجیاں بکھیردی ہیں۔
مبصرین کے اس خدشے کو یہاں نوٹ کیا جانا بے محل نہیں کہ کابینہ کے بنانے میں وزیراعظم اور ان کے اعلان کردہ اصولوں کا رول نہ ہونے کے برابر ہے‘ اور کابینہ ان کو ایک طرح سے ورثے میں ملی ہے اور اضافے کسی اور کے اشارے پر ہوئے ہیں‘ حتیٰ کہ لندن والوں سے رابطے کے لیے صدر کے نمایندہ خاص نے ہی جاکر معاملات طے کیے ہیں۔ اس سب کا حاصل یہ ہے کہ کابینہ جس طرح بنی ہے وہ خود پارلیمانی نظام کے اصول و ضوابط سے مطابقت نہیں رکھتا اور خطرہ ہے کہ یہ پارلیمانی نظام کے صحت مند ارتقا پر ایک ضرب کاری ثابت ہوگی۔
وزیراعظم کی گرفت کابینہ پر ڈھیلی ہوگی۔ وفاداری کامرکز کہیں اور ہوگا اور اس طرح اتنی بڑی کابینہ ایک مربوط اور ہم آہنگ ٹیم کی طرح کام نہیں کر سکے گی۔ وزیراعظم پر ایک طرف اوپر والوں کا دبائو ہوگا اور دوسری طرف سے پارٹی کے بااثر گروہوں‘ افراد اور ان کے مطالبات کا۔ ہدایت اور رہنمائی کا منبع کہیں اور ہوگا اور پارلیمنٹ ملک کو اچھی حکمرانی فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ خارجہ پالیسی ہو یا داخلہ پالیسی‘ سب اس انتشار اور رسہ کشی کا شکار ہوں گے۔ خدا کرے یہ خدشات غلط ثابت ہوں لیکن جس طرح معاملات رونما ہو رہے ہیں ان سے صاف نظرآ رہا ہے کہ حکمرانی کا نظام یک مرکزیت سے محروم اور دوہری عمل داری (diarchy) بلکہ ایک نئی قسم کی سہ نکاتی تشکیل (troika) کی طرف جا رہا ہے جسے کسی پہلو سے بھی اچھا شگون قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ٹیکنوکریٹ وزیراعظم کے لیے بھی بیک وقت کئی خدائوں کی بندگی کوئی اچھا نتیجہ نہیں نکال سکتی۔
چوتھا پہلو نئے سیاسی کلچر کا ہے جو بالکل نیا تو نہیں لیکن وہ ان خرابیوں کو مستحکم اور دائمی کرتا جا رہا ہے جو ماضی میں بگاڑ اور تباہی کا سبب رہی ہیں اور جن کی موجودگی میں صحت مند جمہوری نظام اور انصاف‘ حق اور میرٹ پر مبنی اور کرپشن سے پاک اجتماعی زندگی کا وجود ناممکن ہے۔ جنرل پرویز مشرف صاحب نے تو تبدیلی کے اس عمل پر نہ صرف اطمینان کا اظہار کیا ہے بلکہ اسے مثبت قرار دیا ہے۔ ان کا ارشاد ہے: ’’میں ملک میں ایک اچھی تبدیلی دیکھ رہا ہوں اور ایک نئے سیاسی کلچر کا آغاز ہو رہا ہے‘‘۔
یہ نیا سیاسی کلچر کیا ہے؟ وہی جاگیردار طبقے کی بالادستی‘ وفاداریوں کی چشم زدن میں تبدیلی کا وہی کھیل جو پاکستان کی تاریخ میں مسلسل کھیلا جاتا رہا ہے: وزیراعظم ناظم الدین (جو مسلم لیگ کے صدر بھی تھے) کے ارکان پارلیمنٹ کا ان کے اپنے کیمپ سے نکل کر غلام محمد اور محمدعلی بوگرہ سے جا ملنا‘ ری پبلکن پارٹی کے پرچم تلے مسلم لیگیوں کے غول کے غول کا ڈاکٹر خان اورگورمانی کی طرف منتقل ہو جانا‘ کونسل اور کنونشن لیگ کے ڈرامے--- جو افراد آج شوکت عزیز صاحب کے دست راست ہیں اور جنرل پرویز مشرف کی وردی کے گن گارہے ہیں‘ کل وہی جنرل ایوب کی قصیدہ خوانی کر رہے تھے‘ جنرل یحییٰ کے ہاتھ مضبوط کر رہے تھے‘ جنرل ضیاء الحق کی کرسی مضبوط کر رہے تھے‘ نواز شریف صاحب پر جان چھڑک رہے تھے‘ بے نظیر کی وفاداریوں کے حلف اٹھا رہے تھے‘ ظفراللہ جمالی کے آگے پیچھے پھر رہے تھے۔ ان کے لیے سیاسی قبلہ بدلنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ خوشامد اور چاپلوسی ان کی فطرت اور چڑھتے سورج کی پوجا ان کا مستقل دین ہے۔ وزارتیں اور مفادات ان کا اصل مطلوب و مقصود ہیں۔ ان کی ’’جمہوریت پسندی‘‘ ان کو فوجی قیادت کو اقتدار کی دعوت دینے اور دستور اور قانون کو بالاے طاق رکھنے سے باز نہیں رکھتی‘ اور یہ صدارت اور فوج کی سربراہی کو رشتہ ازدواج میں منسلک کرنے میں نہ صرف یہ کہ کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے بلکہ اس میں ان کو اپنا اور جمہوریت کا مفاد نظرآنے لگتا ہے۔ ہوا کے رخ کے ساتھ بدلنا ان کی نگاہ میں ترقی کی علامت ہے۔ ملک اور اس کے اداروں پر چاہے کچھ بھی گزرے!
جنرل پرویز مشرف اصول پرستی اور سیاست میں گندگی سے نجات کے دعوے کے ساتھ برسرِاقتدار آئے تھے مگر وہ ایک ایک کر کے ہر وہ کام کر رہے ہیں جو بدنامِ زمانہ سیاست دان اور اقتدار کے بھوکے بیوروکریٹس اور جرنیل کرتے رہے ہیں۔ حلف کی خلاف ورزی‘وعدوں کونظرانداز کرنا‘ اپنی ذات کو ریاست کے مترادف بنالینا‘ پارٹیاں چھوڑنے والوں کو سینے سے لگانا‘ وزارتوں کے لیے بلیک میل ہونا اور ہر طالع آزما کو ایک ٹکڑا دے کر اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے میں کوئی باک محسوس نہ کرنا--- کیا یہی وہ مثبت تبدیلی ہے جس کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے اور اسی کا نام نیا سیاسی کلچر ہے؟ پاکستان بلاشبہہ بہت سے بیرونی خطرات سے دوچار ہے‘ لیکن اس کی سلامتی اور ترقی کو سب سے بڑا خطرہ گھر کے ان ہی لوگوں سے ہے۔ مفاد اور قوت کی پرستش کا یہی وہ کلچر ہے جس نے جمہوریت کو پراگندا کردیا ہے‘ معاشرہ فساد کا شکار ہے‘ عوام مصائب میں مبتلا ہیں اوراصحاب اقتدار دادعیش دے رہے ہیں۔ ایسے دوستوں کی موجودگی میں دشمنوں سے کیا خطرہ۔ حالیہ تبدیلی نے اس کلچر کے چہرے سے ہر پردہ اٹھا دیا ہے اور اس ڈرامے کے تمام کردار بے نقاب ہوگئے ہیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جب ایک قوم اس راستے پر چل پڑتی ہے تو پھر اسے تباہی سے اگر کوئی چیز بچاسکتی ہے تو وہ ایسا انقلاب ہے جو پورے نظام کو زیروزبر کر دیتا ہے--- کاش اس سے پہلے قوم کی آنکھیں کھل جائیں اور گاڑی کو پٹڑی پر لے آیا جائے۔
موجودہ سیاسی منظر اور پس منظر کا سب سے اہم اور سب سے تشویش ناک پہلو ملک کے سیاسی نظام میں فوج کے سیاسی کردار کا ہے اور ان دو مہینوں کی اکھاڑ پچھاڑ کا ایک مرکزی پہلو اسی مسئلے سے متعلق ہے۔ اندر اندر جو کھچڑی پکتی رہی ہے اس کا اصل ہدف فوج کی قیادت کو ایک دستوری اور سیاسی کردار عطا کرنا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی تاریخ کوئی اچھی تصویرپیش نہیں کرتی۔ اصولی طور پر فوج کا کام ملک کا دفاع ہے اور فوج کو مکمل طور پر سیاسی قیادت کے تابع ہونا چاہیے۔ یہ جمہوریت کی اصل روح ہے اور کیسی ہی ملمع سازی کی جائے‘ فوج کو دفاع سے ہٹا کر کوئی سیاسی کردار دینا اصولی اور عملی ہر دو پہلوئوں سے ناقابلِ تصور اور عملی اعتبار سے ملک کی سیاست اور دفاع دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔
قائداعظمؒ نے ۱۴ جون ۱۹۴۸ء کو کوئٹہ اسٹاف کالج کے فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ فوج سول نظام کے تابع اور اس کے احکام اور ہدایات کی پابند ہے اور یہی خود ان کے اس حلف کا تقاضا ہے جو وہ فوج میں شمولیت کے وقت اٹھاتے ہیں۔ دستورِ پاکستان میں یہی بات اعلیٰ ترین قانون کی حیثیت سے رقم کر دی گئی ہے۔ دستور کی دفعات۲۴۴ اور ۲۴۵ بالکل واضح ہیں۔ دفعہ ۲۴۵ کہتی ہے:
مسلح افواج‘ وفاقی حکومت کی ہدایات کے تحت‘ بیرونی جارحیت یا جنگ کے خطرے کے خلاف پاکستان کا دفاع کریں گی اور قانون کے تابع شہری حکام کی امداد میں‘ جب ایسا کرنے کے لیے طلب کی جائیں‘ کام کریں گی۔
اور دفعہ ۲۴۴ کے تحت حلف ان کے کردار اور ان حدود کی وضاحت کر دیتا ہے جن میں رہ کر انھیں اپنے فرائض انجام دینے ہیں:
میں ……… صدق دل سے حلف اٹھاتا ہوں کہ میں خلوصِ نیت سے پاکستان کا حامی اوروفادار رہوں گا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی حمایت کروں گا جو عوام کی خواہشات کا مظہر ہے‘ اور یہ کہ میں اپنے آپ کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں مشغول نہیں کروں گا‘ اور یہ کہ میں مقتضیات قانون کے مطابق اور اس کے تحت پاکستان کی بّری فوج (یا بحری یا فضائی فوج) میں پاکستان کی خدمت ایمان داری اور وفاداری کے ساتھ انجام دوں گا۔
ہماری عدالتوں نے اس حقیقت کو نظرانداز کر کے ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت فوج کی بار بار سیاسی مداخلت کو جو جواز فراہم کیا ہے اس نے سیاسی نظام کا حلیہ بگاڑ دیا ہے‘ اور ہر طالع آزما کو سیاسی نظام کی بساط لپیٹنے اور ’’قومی مفاد‘‘ کے نام پر فوجی اقتدار قائم کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ سیاسی قیادتوں اور خود عوام نے بھی اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کیا اور آج عالم یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف صاحب ایک نیا فلسفہ وضع فرما رہے ہیں کہ گویا فوج کو سیاست میں مداخلت کا ایک دائمی اختیار حاصل ہے۔ قائداعظم کے اس ارشاد کی ضد میں اور بالکل ان کے مدمقابل آتے ہوئے کوئٹہ ہی میں فوج کے گیریزن کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:
ہمیں اپنے ملک کا محض دفاع ہی نہیں کرنا ہے بلکہ ایک نئے وژن کے ساتھ اسے ترقی بھی دینا ہے‘ اور کوئی دوسرا ہمارے لیے اس کو نہیں کرے گا۔
جنرل صاحب کے قومی سلامتی کونسل کے تصور اور دستور کی سترھویں ترمیم کے موقع پر ان کے‘ سرکاری جماعت کی پوری قیادت کے‘ بلکہ ساری پارلیمنٹ کے عہدوپیمان کے باوجود ۳۱دسمبر ۲۰۰۴ء کے بعد بھی چیف آف اسٹاف کے عہدے سے چمٹے رہنے کے عزائم کے اظہار کی اصل حقیقت کو فوج کے اس تبدیل شدہ سیاسی کردار کے پس منظر میں ٹھیک ٹھیک سمجھا جا سکتا ہے۔ مسئلہ بالکل کھل کر سامنے آگیا ہے اور اب اسے ہمیشہ کے لیے طے ہوجانا چاہیے۔ یا فوج ایک دفاعی قوت ہوگی اور اس شکل میں اسے سیاسی قیادت کے تابع ہونا ہوگا اور سیاسی نظام کے بنانے اور چلانے میں اس کا کوئی کردار نہیں ہوسکتا۔ اور اگر فوجی قیادت کا سیاسی نظام کو بنانے اور چلانے میں کوئی کردار ہوگا تو پھر فوج ایک سیاسی پارٹی اور قوت بن جاتی ہے اور وہ پورے ملک اور پوری قوم کی امیدوں کا مرکز اور تائید کا محور نہیں رہ سکتی۔ پھر اس پر بھی اسی طرح تنقید ہوگی جس طرح تمام سیاسی قوتوں پر ہوتی ہے۔ پھر وہ بھی ایک پارٹی اور ایک گروہ کی نمایندہ بن جاتی ہے‘ پھر وہ بھی حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف میں سے ایک کی حلیف بنتی ہے‘ پھر وہ بھی سیاسی طورپر متنازع بن جاتی ہے۔ پھر وہ بھی مفادات کی جنگ میں ایک مخصوص حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔ ایسی فوج کبھی بھی پوری قوم کی تائید کی دعوے دار نہیں ہوسکتی۔ ایسی فوج کی دفاعی صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اس میں بھی اسی طرح پارٹی بازی کا دروازہ کھل جاتا ہے اور جنبہ داری کا مرض لگ جاتا ہے۔ ایسی فوج کی پیشہ ورانہ حیثیت بری طرح متاثر ہوتی ہے اور فوج کو جس ذہنی افتاد ‘جس ڈسپلن اور جس غیر جانب داری کی ضرورت ہوتی ہے وہ اس سے محروم ہوجاتی ہے۔
سب سے بڑھ کر دستوری حکومت اور خصوصیت سے جمہوری نظام میں فوج کے ایسے کردار کا تصور ممکن نہیں۔ آج ترکی کے یورپی یونین میں داخلے کے سلسلے میں جو سب سے اہم بحث ہو رہی ہے ان کا تعلق فوج کے سیاسی کردار ہی سے ہے اور اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ فوج کو غیر سیاسی کیے بغیر ترکی کے جمہوری کردار کو دنیا تسلیم نہیں کرسکتی۔ ہمارا بھی یہی مسئلہ ہے کہ فوج کی قیادت ایک سیاسی کردار بن گئی ہے اور جب تک اس باب کو واضح طور پر بند نہیں کیا جاتا‘ ملک میں سیاسی استحکام محال ہے اور ایک جمہوری ملک کی حیثیت سے نہ ملک کے عوام اس پر مطمئن ہوں گے اور نہ دنیا اسے قبول کرے گی۔
اگر ہم اپنی ۵۷ سالہ تاریخ کا جائزہ لیں تو اس میں ۲۳وزیراعظم آئے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کا اوسط اقتدار اڑھائی سال رہا ہے بلکہ صحیح تر الفاظ میں اگر فوجی اقتدار کے زمانے کو نکال دیا جائے تو یہ اوسط کم ہوکر سوا سال ہی رہ جاتا ہے۔اس کے برعکس فوج کے چیف آف اسٹاف کی صدارت کا زمانہ ۳۰ سال ہے جس میں ۴ فوجی سربراہ صدر رہے ہیں۔ گویا ان کا اوسط اقتدار ساڑھے سات سال تھا۔ ان ۵۷ برسوں میں فوج کے ۱۱چیف آف اسٹاف رہے ہیں اور ان کی چیف آف اسٹاف ہونے کی اوسط مدت قواعد کے مطابق تین سال کے بجاے ۵سال سے زیادہ آتی ہے۔ فوجی قیادت ملک کو نہ سیاسی استحکام دے سکی‘ نہ معاشی ترقی میں کوئی غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا اور دفاعی اعتبار سے بھی ۱۹۶۵ء کے معرکے کے بعد فوج اعلیٰ دفاعی صلاحیت کا ثبوت نہیں دے سکی۔ فوج کو ایک مؤثر دفاعی قوت بنانے کا ایک ہی راستہ ہے اور یہ کہ وہ خالص پروفیشنل فوج ہو‘ اس کی ہر جائز ضرورت پوری ہو‘ لیکن سیاست میں اس کی دخل اندازی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں عوام‘ پارلیمنٹ‘ سیاسی جماعتیں اور عدالت ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور خود فوج کی قیادت کو بھی یکسو ہونا پڑے گا کہ وہ بیک وقت دوکشتیوں میں سفرنہیں کر سکتی۔
ان حالات میں سترھویں ترمیم کے ذریعے یہ طے کیا گیا کہ دستوری انحراف کا یہ دروازہ ۳۱دسمبر ۲۰۰۴ء کو بند ہوجانا چاہیے اور اس کے بعد فوج اور اس کا سربراہ صرف دفاعی ضرورتوں تک اپنی صلاحیتوں کو وقف رکھے گا اور سیاسی قیادت سیاسی طریقے سے عوام کے نمایندوں اور پارلیمنٹ اور دستور کے تحت اپنا کردار ادا کرے گی۔ اس عہد سے نکلنے کی جوکوشش کی جا رہی ہے وہ قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی‘ ہر اعتبار سے مجرمانہ اقدام ہے جسے کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ اگر ہم نے اب بھی اپنے ماضی سے کوئی سبق نہ سیکھا تو اس ملک میں جمہوریت‘ قانون کی بالادستی اور عوام کے حق حکمرانی کا مستقبل مخدوش ہے اور ملک کا دفاع بھی بری طرح متاثر ہوگا۔
اس سلسلے میں بظاہر جو دلائل دیے جا رہے ہیں وہ نہایت بودے بلکہ لچر ہیں۔ بنیادی طور پر تین باتیں کہی گئی ہیں جن کا تجزیہ ضروری ہے۔
m دستور کے تحت دونوں عُہدوں کا ساتھ :پہلی بات دستور کے حوالے سے کہی جارہی ہے کہ دونوں عہدے ساتھ ساتھ رکھے جاسکتے ہیں۔ اس سے زیادہ لغو دعویٰ مشکل ہی سے کیا جاسکتا ہے۔ بلاشبہہ ہمارا دستور باربار فوجی قیادتوں کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنا ہے اور اس سے اسے بری طرح نقصان ہوا ہے لیکن ہر دستور کا ایک ڈھانچا (structure) ہوتا ہے اور اس ڈھانچے میں فوج کے سیاسی کردار کی کوئی گنجایش نہیں۔ اسی لیے جنرل ضیاء الحق نے اور پھر جنرل پرویز مشرف نے اپنے اپنے دور میں اپنے لیے دستور میں خصوصی جگہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جو عارضی تھی اور اس کی حیثیت دستور سے انحراف کی تھی جسے بہ حالت مجبوری وقتی طور پر اور ایک متعین مدت کے لیے گوارا کیا گیا جس کے بعد اسے لازماً ختم ہوجانا تھا۔ سترھویں ترمیم میں آرٹیکل ۴۱ کے تحت ترمیم کا جواز ہی یہ تھا کہ چیف آف اسٹاف کے عہدے کو صدارت کے ساتھ جمع کرنے کو ایک تاریخ کا پابند کر دیا جائے۔ اسے دستور کی اصطلاح میں Musharruf-specific بھی کہا جاسکتا ہے اور عمومی طور پر ہر چیف آف اسٹاف پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
اگر یہ مقصد نہیں تھا تو پھر اس ترمیم کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اب جو قانونی موشگافیاں کی جارہی ہیں وہ بدنیتی اور عہدفراموشی پر مبنی ہیں اور اس کے سوا ان کو کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ دفعہ d(۱)۶۳میں سروس آف پاکستان کا تصور واضح ہے اور دفعہ ۲۶۰ میں مزید وضاحت موجود ہے کہ فوجی سروس اس میں شامل ہے۔ اس سے ہٹ کر اس کی کوئی تعبیر دستوری تعبیر کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔ notwithstanding کا اطلاق پوری دفعہ ۴۱ پر ہوتا ہے۔ اس کے صرف کسی ایک حصے تک اس کو محدود نہیں رکھاجاسکتا اور قانون کے ذریعے ترمیم کے معنی یہ ہیں کہ چیف آف اسٹاف کا تعلق ’’آرمڈ سروسز‘‘ سے نہیں رہے گا‘ نیز یہ کسی ایک فرد تک محدود نہیں ہوسکتا بلکہ اس عہدے کو سروس سے باہرکرنا پڑے گا۔ لیکن کیا اس کا تصور ممکن ہے کہ چیف آف اسٹاف ’’فوجی سروس‘‘ کا حصہ نہ رہے اور پھر چیف آف اسٹاف بھی ہو--- یہ ایک مضحکہ خیز اور سیاسی نظام اور فوجی انتظام دونوں کو تہ و بالا کرنے والا تصور ہی ہو سکتا ہے۔ دستور و قانون میں اس کی کوئی گنجایش نہیں۔
m ایم ایم اے سے معاہدہ: دوسری دلیل سیاسی ہے کہ ایم ایم اے سے جو معاہدہ کیا گیا تھا وہ مؤثر نہیں رہا۔ ان کے بقول ایم ایم اے نے اس کی پابندی نہیں کی‘ اس لیے صدر صاحب بھی اس کی خلاف ورزی کرسکتے ہیں۔ یہ دعویٰ بھی غلط اور بددیانتی پر مبنی ہے۔ صدر صاحب اور ایم ایم اے میں کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ معاہدہ حکمران پارٹی اور ایم ایم اے میں ہوا جس کے نتیجے میں دستور میں ترمیم ہوئی اور وہ ایک دستوری تقاضا بن گیا جس کو کھلے طور پر صدر صاحب نے قبول کیا اور قوم سے عہد کیا کہ وہ اس کا احترام کریں گے۔ اب اصل معاملہ دستور کی اطاعت کا ہے‘ کسی خاص معاہدے کا نہیں۔
رہا ایم ایم اے کا معاملہ تو اس نے معاہدے کی مکمل پابندی کی ہے اور آج بھی اس پر قائم ہے۔ اس نے معاہدے کے تحت سترھویں ترمیم کے حق میں ووٹ دیا اور صدر‘ وزیراعظم اور حکمران پارٹی نے اس کا برملا اعتراف کیا۔ اس معاہدے کے تحت ایم ایم اے صدر کو اعتماد کا ووٹ دینے کی پابند نہیں تھی بلکہ معاہدے میں صاف لفظوں میں لکھا ہوا تھا کہ:
طے پایا کہ صدرمملکت کی پانچ سالہ جاری ٹرم کے تسلسل اور ان کے اس عہدے پر فائز رہنے کے لیے آئینی ترمیم کی حمایت کی جائے گی۔ مزیدبرآں سینیٹ‘ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں ایم ایم اے کے ممبران صدر کو اعتماد کا ووٹ دینے کے پابند نہ ہوں گے۔ ایم ایم اے کے ممبران صدر مملکت کے خلاف ووٹ نہیں دیں گے اور نہ کسی مخالفانہ فعالیت کا مظاہرہ کریں گے‘ نیز ووٹنگ کے عمل کے دوران ایم ایم اے کے تمام ممبران پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ایوانوں میں موجود رہیں گے۔
رہا مسئلہ قومی سلامتی کونسل کا‘ تو ایم ایم اے نے اس دفعہ کو دستور سے خارج کرانے کا ہدف حاصل کیا۔ جہاں تک عام قانون کے تحت ایسے ادارے کے قیام کا تعلق ہے‘ ایم ایم اے نے تعاون کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔ البتہ وہ مذاکرات کے لیے تیار تھی لیکن حکومت نے اس قانون سازی میں ایم ایم اے سے کسی بات چیت کی زحمت تک نہ کی۔ پھر بھی ایم ایم اے نے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں متعلقہ قانون میں اپنی ترامیم داخل کرائیں جو اس کے اس عندیہ کی علامت ہے کہ وہ اس معاملے میں کوئی درمیانی راہ نکالنا چاہتی تھی جسے حکومت نے درخوراعتنا نہ سمجھا۔ لہٰذاایم ایم اے کی طرف سے کوئی وعدہ خلافی نہیں ہوئی۔
آخری مسئلہ وردی تھا۔ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔ میں نے پاکستان اور بیرونی دنیا میں ہمیشہ یہ کہا کہ صدر کا وردی میں ہونا جمہوریت کا حصہ نہیں ہے۔ یہ غیرجمہوری بات ہے لیکن پاکستان کے حالات کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ میں کہتا رہا ہوں کہ مجھے اس کا احساس ہے کہ یہ جمہوری نہیں ہے اور مجھے کسی مرحلے پر یہ وردی اتارنا ہوگی۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے بہت سے خیرخواہ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں اپنی وردی نہ اتاروں کیونکہ وہ پاکستان کی سلامتی کے لیے فکرمند ہیں‘ میں بھی پاکستان کی سلامتی کے لیے فکرمند ہوں‘ مجھے پاکستان کی ترقی کی بھی فکر ہے۔
میں نے حالات پر گہرا غوروخوض کیا ہے اور ان کا جائزہ لیا ہے۔ میں نے اپنے آپ کو ایک طرف رکھ کر اس کا جائزہ معروضی طور پر لیا ہے‘ میں نے پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی سوچا اور سیاسی ہم آہنگی کے لیے بھی۔
میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس مسئلے پر صحیح وقت پر فیصلہ کرنا بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ چنانچہ میں نے محسوس کیا کہ فیصلے کا یہی وقت ہے‘ اور اس لمحے فیصلہ کرنا ضروری ہے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں دسمبر۲۰۰۴ء تک اپنی وردی اتار دوں گا اور چیف آف آرمی اسٹاف کے منصب سے دستبردار ہوجائوں گا۔ اس عرصے میں‘ میں خود ہی قطعی تاریخ کا فیصلہ کروں گا۔
آخر میں‘ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے یہ فیصلہ کرنے میں میری رہنمائی کی۔ میں اس موقع پر پاکستانی قوم کو مبارک باد دیتا ہوں اور میں اپنی طرف سے قوم کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں پاکستان کی ترقی اور خودمختاری پر کوئی آنچ نہ آنے دوں گا۔
اللہ ہم سب کی حفاظت کرے۔
۱- بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کرلیا گیا۔
۲- یہ طے ہوگیا کہ ایک عہدہ‘ یعنی چیف آف اسٹاف کا عہدہ چھوڑ دیا جائے گا۔
۳- اور یہ کام ۳۱ دسمبر تک ہوجائے گا۔
صرف ایک اختیار باقی تھا اور وہ یہ کہ ۳۱ دسمبر سے پہلے اگر اعلان کرنا چاہیں تو جنرل صاحب کرسکتے ہیں۔ یہ کوئی مشروط فیصلہ نہیں تھا کہ جب چاہیں اسے تبدیل کر دیں۔
حکمرانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ عوام کے اعتماد کا احترام کریں اور اپنے وعدوں کو پورا کریں۔
اگر افراد کو یہ حق دے دیا جائے کہ جب چاہیں اپنے عہدوپیمان سے پھر جائیں تو پھر زندگی کا نظام کیسے چل سکتا ہے اور ایسے قائدین کے قول و فعل پر کون بھروسا کر سکتا ہے۔
دستور نے صدر کو اختیارات دیے ہیں اور اس کی قوت کا سرچشمہ دستور اور قانون ہے‘ بندوق کی نالی نہیں۔ اگر استحکام کے لیے وردی کی ضرورت ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ دستور نے صدر کو جو اختیارات دیے ہیں اور ان میں وافر اضافہ آٹھویں ترمیم اور سترھویں ترمیم کے ذریعے کیا جا چکا ہے‘ وہ کافی نہیں ہیں۔ اس طرح پارلیمنٹ جو اصل خودمختار (sovereign) ادارہ ہے وہ اقتدار کا سرچشمہ نہیں بلکہ اقتدار کا اصل سرچشمہ چیف آف اسٹاف کا عہدہ اور فوج ہے۔ یہ پورے سیاسی نظام اور دستوری انتظام کی نفی کے مترادف ہے۔ پہلے ہی پارلیمنٹ اور وزیراعظم دونوں کی تنزلی اور سبکی ہوچکی ہے اور اختیارات کا خاصا ارتکاز صدر کی ذات میں ہوگیا ہے۔ برا یا بھلا یہ انتظام پھر بھی دیکھنے میں دستوری لگتا ہے۔ لیکن یہ دعویٰ کہ سیاسی اور معاشی استحکام اور ترقی کے لیے صدر کا عہدہ اور اختیارات کافی نہیں اور اس کے لیے چیف آف اسٹاف ہونا ضروری ہے‘ یہ پورے سیاسی انتظام کی نفی کرتا ہے اور خود جنرل صاحب کے پانچ سالہ ’’کارناموں‘‘ پر خط تنسیخ پھیر دیتا ہے۔
سیاست دانوں کا وردی جاری رکھنے کی بات کرنا اور پنجاب کی اسمبلی کی شرمناک قرارداد سیاسی خودکُشی کے مترادف ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص اپنی آزادی کو خود ہی فروخت کر دے اور اپنے کو غلام بنانے پر آمادگی کا اظہار کرے لیکن قانون کی دنیا میں یہی ایک چیز ہے جس کے بارے میں مکمل اتفاق راے ہے کہ کوئی شخص اپنی آزاد مرضی سے بھی خود اپنے کو فروخت نہیں کرسکتا۔
سیاسی اور دفاعی مضمرات کے ساتھ ان حالات کے کچھ بڑے اہم بین الاقوامی اثرات بھی ہیں۔ اگر کسی ملک کی قیادت عہدوپیمان کے بارے میں ایسی غیر ذمہ دارانہ روش اختیار کرسکتی ہے تو اس کے عالمی عہدوپیمان کی کیا حیثیت ہوگی۔ پاکستان نے جمہوریت کے احیا کے سلسلے میں پوری دنیا سے ایک عہد کیا ہے۔دولت مشترکہ میں ہماری واپسی اور یورپی یونین کا پاکستان کو جمہوری ملک تصور کرنا اس شرط سے مشروط تھا کہ صدر چیف آف اسٹاف کا عہدہ چھوڑدیں گے اور دستوری عمل کو مکمل طور پر بروے کار لانے کا موقع دیا جائے گا۔ امریکا کے مفادات جو کچھ بھی ہوں اور ہمیں علم ہے کہ امریکا کی جمہوریت سے دل چسپی کسی دوغلے پن اور مفاد پرستی پر مبنی ہے‘لیکن عالمی برادری میں ہمارا وقار اسی وقت بحال ہو سکتا ہے جب ہم جمہوری سفر کو جاری رکھیں اور اپنے تمام عہدوپیمان پورے کریں ورنہ ہماری اس کمزوری کا اصل فائدہ امریکا کو ہوگا جو پہلے ہی ہمیں بلیک میل کر کے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے اور صدر جنرل مشرف کو اپنا حلیف بنا کر پاکستان کو اپنی چاکری پر مجبور کر رہا ہے۔ جنرل صاحب نے بڑے طمطراق سے دعویٰ کیا ہے کہ میں کسی کے دبائو میں نہیں آتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ۱۱/۹ کے بعد جس طرح انھوں نے امریکا کے آگے گھٹنے ٹیکے ہیں اور مسلسل اس کے احکامات کی اطاعت کررہے ہیں‘ اس نے پاکستان کی آزادی‘ خودمختاری اور سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ بوب وڈورڈ کی کتاب Bush at War کا مطالعہ کرلیجیے۔ کانڈولیزا رائس کی امریکی کانگرس کے سامنے گواہی کو دیکھ لیجیے‘ صاف کہتی ہے ہم نے جنرل مشرف کے لیے گاجر اور چھڑی (carrot and stick) کی پالیسی اختیار کی۔ گاجر کم اور چھڑی زیادہ۔ بوب وڈورڈ لکھتا ہے کہ جنرل محمود احمد اور جنرل پرویز مشرف دونوں نے بلاچون و چرا امریکا کے ساتوں مطالبات اس طرح تسلیم کرلیے کہ خود جنرل پاول کو تعجب ہوا اور امریکا کی قیادت اس پسپائی اور سپردگی پر حیرت زدہ ہوگئی۔
Bush at Warکے صفحہ ۴۷ پر آرمٹیج کی جنرل محمود سے گفتگو بلکہ ڈانٹ ڈپٹ کا مطالعہ کرلیجیے جس سے ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ پھر صفحات ۵۸-۵۹کے مطالبات اور ان پرآمنا وصدَّقنا کی داستان پڑھ لیجیے اور خود امریکی قیادت کے تعجب کا حال پڑھ کر پسینہ پسینہ ہوجایئے۔ بہادری کے سارے دعوے اپنے کمزور عوام ہی کے مقابلے میں ہیں۔ کیا پاکستان‘ ایران‘شمالی کوریا اور لبنان سے بھی کمزور ہے--- لیکن ہماری قیادت نے ہمارے ملکی وقار کو جو چرکے لگائے ہیں وہ اب تاریخ کا حصہ اور ہماری غیرت اور آزادی پر بدنما داغ ہیں۔ سات مطالبات کی بات اب امریکا کے ۱۱/۹ کے سرکاری کمیشن کی رپورٹ میں بھی آگئی ہے۔ (دیکھیے صفحہ ۳۳۱)
ہم یہ ساری باتیں دل پر پتھر رکھ کر رقم کر رہے ہیں لیکن حقائق حقائق ہیں اور ان سے آنکھیں بند کر کے ہم حالات کی اصلاح کی طرف کوئی پیش رفت نہیں کرسکتے۔
جناب شوکت عزیز صاحب اب ملک کے وزیراعظم ہیں اور انھوں نے دستور کی حفاظت کا حلف لیا ہے۔ پارلیمنٹ کے سارے ارکان اس حلف کے پابند ہیں۔ شوکت عزیز صاحب نے ملک میں قومی یک جہتی اور اتفاق راے پیدا کرنے اور اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی بات بھی کی ہے۔ اب ان کا اور ان کی پارٹی کا امتحان ہے۔ وہ اس ملک کو دستور کے مطابق اور پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کر کے چلانا چاہتے ہیں یا ملک کے پارلیمانی نظام کو تہ وبالا کرنے‘ اس پر ’’خاکی صدارتی نظام‘‘ مسلط کرنے کے عمل میں آلہ کار بنتے ہیں ۔ ہمیں کوئی شبہہ نہیں کہ عوام کی مرضی ان شاء اللہ بالآخر بالاتر قوت ثابت ہوگی اور انا ولاغیری جسے آج کی سیاسی اصطلاح میں "I Syndrom" بھی کہا جا سکتا ہے‘ کی تاریک رات جلد ختم ہوگی۔ اسے آخرکار ختم ہونا ہے!
البتہ سوال یہ ہے کہ اس تاریخی جدوجہد میں کون کس کیمپ میں ہے اور کون جمہوریت‘ دستوریت اور قانون کی بالادستی کے تاروپود بکھیرنے اور ملک کی سلامتی کو دائو پر لگانے میں معاون رہا ہے‘ اور کون دستور کے دفاع‘ قانون کی حکمرانی کے قیام‘ جمہوریت کے فروغ اور اقتدار کو عوام کی مرضی کے تابع کرنے کی جدوجہد میں مثبت کردار ادا کر رہا ہے؟ تاریخ کا قاضی بڑا بے لاگ فیصلہ دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر ہماری جواب دہی اپنے رب کے سامنے ہے جس کی گرفت سے کوئی مفرنہیں۔
آیئے وہ راستہ اختیار کریں جو ملک و قوم کو تباہی سے بچانے اور خیروفلاح اور جمہوریت اور انصاف کے فروغ کا ذریعہ بنے‘ اور آخرکار ہمیں اپنے رب کے سامنے سرخرو ہونے کی سعادت بخشے۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِبولہبی
شرارِ بو لہبی اور چراغِ مصطفویؐ کی کش مکش دراصل ایمان اور جا ہلیت کی کش مکش ہے اور یہ پہلے دن سے ہے۔ اس کا نمونہ آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیجنے سے پہلے دکھا دیا گیا۔ افراد بدل جا تے ہیں‘ موضوعات تبدیل ہو جاتے ہیں ‘ایشوز بھی نت نئے سامنے آجاتے ہیں۔ زماں کی تبدیلی کے ساتھ مکان کی تبدیلی کو بھی دوام ہے۔ وہ سرزمین جہاں یہ برپا ہو اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ لیکن یہ کش مکش تاریخ کا حصہ ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ کش مکش اسلام کی دعوت کا لازمی تقاضا ہے۔ اس کش مکش کا ایک حصہ وہ ہے جو ہمارے اپنے سینے میں نفسِ امارہ اور نفسِ مطمئنہ کے درمیان پیکار سے عبارت ہے۔ پھر یہی کش مکش ہمارے ارد گرد‘ ہمارے گھروں میں ‘ ہمارے محلوں میں ‘ہمارے ملک میں اور پوری عالمی سطح پر ہو رہی ہے ۔ یہ نئی چیز نہیں‘ بالکل فطری ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ اس کش مکش کو سمجھا جائے‘اس کو جانا جائے اور اس کا مقابلہ کیا جائے۔ اس پہلو سے مغرب کی تہذیبی یلغار کے موجودہ دور میں‘ان کے اہداف‘ ان کے طور طریقے اور وہ ہماری جن چیزوں کو نشانہ بنائے ہوئے ہے‘ اس کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔
تہذیبی یلغار کی اصطلاح میں لفظ ’یلغار‘ کا استعمال بہت معنی خیز اور مغرب اور اسلامی دنیا کے موجودہ معرکے کی حقیقی کیفیت کاصحیح ترجمان ہے۔ آج جس کیفیت سے ہم گزر رہے ہیں وہ فی الحقیقت یک طرفہ حملے کی صورت ہے۔ فوجی‘ سیاسی ‘ سماجی‘ معاشی اعتبار سے قوی تر اور بالادست تہذیبی اور سیاسی قوت ہم پر حملہ آور ہے۔ یہ یک طرفہ جنگ ہے اور اسے یلغار ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ حقائق کی ٹھیک ٹھیک عکاسی ہے۔ جہاں تک تہذیبوں کے درمیان کش مکش کا اورخیالات کے ٹکراؤ کا سوال ہے‘ یہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ افکار کے میدان میں مناظرہ اور مسابقت ایک ابدی حقیقت ہے۔ اقدار کا اختلاف اور موازنہ بھی ازل سے ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ تہذیبوں کے ایک دو سرے کے اوپر اثر انداز ہو نے کایہی وہ طریقہ ہے جس سے افکار جلا پاتے ہیں‘ نئے تصورات ابھرتے ہیں اور ترقی کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ تبلیغ‘ ترقی ‘ دعوت‘شہادتِ حق یہ سب اس کے مختلف پہلو ہیں۔ تہذیبوں کے درمیان مقابلہ اورمسابقت کوئی پریشان کن چیز نہیں ہے۔ میں اس کوخوش آمدیدکہتا ہوں۔ دعوت نام ہی اس بات کا ہے کہ ہم ہر گروہ ‘ہر فرد ‘ہر تہذیب ‘ ہرملک ‘ہر قوم تک پہنچیں ۔ان کی بات کو سنیں اور اپنی بات سنائیں۔دلیل سے بات کریں ۔ ا پنی دعوت کی صداقت کو ثابت کریں اور انھیں اپنے دائرے میں شامل کر نے کی کوشش کریں : اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُط (النحل۱۶:۱۲۵) ’’اے نبیؐ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ‘ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو‘‘۔
تہذیبوں کے درمیان مسابقت اور ایک دوسرے پر اثر انداز ہو نے کی کو شش ایک فطری چیز ہے۔ یہ فطری چیز تشویش کا باعث اس وقت بنتی ہے جب جن دو تہذیبوں یا جن دو قوموں یا جن دو افراد کے درمیان یہ معاملہ ہو رہا ہے وہ دلیل کی بنیاد پر نہ ہو‘حقائق کی بنیادپر نہ ہو ‘وہ مواقع کی یکسانی کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ ایک گروہ کو بالادستی حاصل ہوکہ وہ دوسرے کی کمزوری کا فا ئدہ اٹھا کر اس پر قوت کے ذریعے سے یا اثر انگیزی کے وہ ذرائع اختیار کرکے جو عقلی اور اخلاقی اعتبار سے درست نہیں ہیں‘ اسے مغلوب کر نے کی کوشش کرے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے یہ کہہ کر ایسے عمل کا در وازہ بند کر دیا کہ لا اکراہ فی الدین۔ اقدار میںمقابلہ ہو نا چاہیے ‘ انسانوں میں مذاکرہ ہونا چاہیے ۔ تبادلہ خیال اورڈائیلاگ انسانی زندگی ا ور تہذیب کے فروغ کا ذریعہ ہیں‘ ان کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے ۔ لیکن نہ آپ ظلم و جبراورطاقت سے اپنے نظریات اور تصورات دوسروں پرمسلط کریں اور نہ کسی کو اجازت دیں کہ وہ آپ کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر محض اپنی قوت اور طا قت کا سہارا لے کر آپ کے عقائد‘ آپ کی اقدار ‘آپ کے اخلاق ‘آپ کے نظامِ زندگی ‘ آپ کے رہن سہن اور آپ کی تہذیب و تمدن پر چھاجائے ۔
یہ ہے کش مکش کی اصل نو عیت اورا سی بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ تہذیبی کش مکش اور مقابلے کے لیے مغرب کی تہذیبی ’یلغار‘کا جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ بہت صحیح ہے۔ اس کے ذریعے وہ کیفیت ہمارے سامنے آجاتی ہے جس سے ہم سب دوچار ہیں۔ آیئے دیکھیں وہ کیفیت کیا ہے؟
مغربی تہذیب سے ہمارا معاملہ اب تقریباََ ۵۰۰‘۶۰۰ سال پرانا ہے۔ کو ئی نئی چیز نہیں۔ مغربی تہذیب کا عروج چو دہویں ‘پندرہویں ‘ سولہویں صدی میں یو رپ میں ہوا اور اسی زمانے میں اسلامی دنیا سے بھی شروع میں تعارف ‘پھر تعاون ‘پھر تصادم ‘ پھر غلبہ ‘پھر اقتدار کے استحکام کے دور آئے ‘اس کے بعد آزادی کی تحریکیں چلیں‘ جوابی رد عمل ہوا‘مغربی تہذیب کی بالا دستی اور اثر ورسوخ سیاسی حد تک ختم ہوا اورآزاد مسلمان مملکتیں وجود میں آئیں ۔ ہم ان سب ادوار سے گزرے ہیں۔ میں اس وقت پو ری تاریخ میں نہیں جا رہا ہوں ‘ صرف اشارہ کر رہا ہوں۔
اس وقت ہم جس دو رپر غور کر رہے ہیں اس کا آغاز افغانستان کے جہاد سے ہو تا ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب بر پا ہوا ‘ افغانستان پر روس نے فوج کشی کی‘ اس کا مقابلہ کیا گیا اور پھر نو سال تک وہ تا ریخی جدو جہد بر پا ہوئی ‘جس کے نتیجے کے طور پر روس کی پسپائی ہوئی ۔اس سے پہلے کے دور کو ہم سردجنگ کا دور کہتے ہیں جس میں دو سوپرپاورز تھیں:امریکا اور روس۔ یہ دونوں مغربی تہذیب ہی کے مختلف مظہر تھے۔ لیکن ان کا اپنا اپنا تشخص‘ بنیاد اور عزائم تھے۔ اور یہ آپس میں بھی متصادم تھے۔
میں ان لوگوں میں سے ہوں جو شرح صدر کے ساتھ یہ بات کہتے ہیں کہ افغانستان میں جہاد اس علاقے ہی میں نہیں ‘اس دور کی تاریخ کو بدلنے میں موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُس وقت ہمارے افغان بھائی بہنوں نے اور پو ری اسلامی دنیا نے جوجدو جہد کی اور عالمی سیاست کے پسِ منظر میں دنیا کی مختلف سیاسی قوتوں نے جس میں ہمارے مخالف اور دشمن اور مغربی تہذیب کے ایک حصے کے علمبر دار امریکا اور یورپ نے بھی شر کت کی وہ صحیح ‘ بروقت اور تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑنے والی جدوجہد تھی۔ البتہ اس جہاد کے آخری دور میں ہماری اور امریکا کی راہیں مختلف ہوگئیں۔ جب امریکا نے یہ محسوس کیا کہ اب روس کے لیے پسپائی کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تو اس نے خالص اپنے تہذیبی اور سیاسی مقاصد کی خاطر اپنے کردار کوتبدیل کر ڈالا۔ اور وہ سیناریو وجود میں آیا جس کا ہدف یہ تھا کہ افغان جہاد کی کامیابی کے ثمرات سے افغان اور مسلمان امت کومحروم کیا جائے۔ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ افغانستان کی جہا دی قوتیں جہاں روس کے خلاف جہاد میں کا میاب اور سر خرو تھیں وہیں وہ اس تبدیلی کو نہ بر وقت محسوس کر سکیں اور نہ اس میں اپنا صحیح کردار ادا کرسکیں۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ تاریخ جس نئے فراز کی طرف بڑھنے والی تھی‘ نہ بڑھ سکی اور اُمت مسلمہ ایک نئی اندرونی کش مکش اور بیرونی جنگ کی گرفت میں آگئی۔
جس وقت روس نے یہاں سے پسپائی اختیار کی ہے اور ابھی کوئی آثار نمودار نہیں ہوئے تھے کہ اسلامی قوتیں افغانستان میں مستحکم ہوکر وسط ایشیا اور باقی اسلامی دنیا کو ایک نئی صبح کی طرف لے جانے والے سفر کا آغاز کر رہی ہیں‘لیکن نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے یہ شور مچانا شروع کر دیا کہ ’’ہم اب یہ صاف دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کے نقشے پر سے سرخ خطرہ ہٹ گیاہے لیکن سبزخطرہ نمودار ہورہا ہے‘‘۔ابھی توکوئی تبدیلی نمودار نہیں ہوئی تھی‘ ابھی توجہادی گروہ باہم دست و گریبان تھے لیکن انھوں نے یہ بات کہنا شروع کر دی ۔سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا دنیا کی واحد سپرپاور کی حیثیت سے ابھر آیا اور پھر اس کے بعد سے اب تک کا دور یہ وہ دور ہے جس میں نیا نقشۂ جنگ مرتب کیا گیا ہے۔ یہ نقشۂ جنگ عسکری بھی ہے‘ سیاسی بھی ہے‘ معاشی بھی ہے ‘ فکری بھی ہے اور ثقافتی بھی ہے ۔ اس کے یہ سارے پہلو ہیں۔ کبھی کسی کا پلہ بھاری ہوتا ہے ‘ کبھی کسی کو آگے بڑھایا جا تا ہے ‘کبھی کسی کو پیچھے ہٹایا جاتا ہے۔ لیکن یہ ہمہ جہتی یلغار اورحملہ جاری ہے اور ۱۱ستمبر کے بعد اپنی کیفیت اور کمیت ہر اعتبار سے گمبھیر سے گمبھیر ہو رہا ہے۔
تر جمان القرآن میں ‘میں اور میرے ساتھی اس یلغار کے مختلف پہلوؤں کی طرف مسلسل متوجہ کر رہے ہیں۔ اس پو رے زمانے میں ‘خواہ اس کا تعلق امریکا کے مفکرین سے ہو‘ جن میں فرانسس فوکو یو ما ‘سیموئیل ہنٹنگٹن ‘ڈینئل پائیس اور دسیوں دوسرے سرگرم جنگ ہیں‘ اور خواہ وہاں کے تھنک ٹینکس ہوں یا وہ این جی اوز ہوں‘ جو پو ری دنیا میں‘ خصوصاً مسلم دنیا میں‘ اس جنگ کے طبل بجا رہے ہیں‘ ان سب کا ایک ہی مرکزی خیال (theme) ہے۔اور وہ یہ ہے کہ اب اصل مقابلہ مغربی تہذیب اور اسلام ‘اسلامی تہذیب‘ مسلم دنیا اور خاص طور پر اسلامی تحریکوں کے درمیان ہونا ہے۔ آپ ان کی فکر کااندازہ اس بات سے کیجیے کہ ۱۹۸۹ ء میں جب روس نے افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلائیں‘ تو اسی سال کے اکانومسٹ نے ایک خصوصی مضمون شائع کیا اور اس میں پو ری تاریخ انسانی کے ۲۰ اہم لمحات بیان کیے۔ اور ان میں آخری لمحہ روس کی پسپائی کے بعد بننے والا نیا سیاسی اور تہذیبی نقشہ تھا۔ اس میں ایک جملہ بڑاا ہم تھا ۔اس نے کہا کہ رو س کی فو جیں تو واپس چلی گئیں ‘ دیوار بر لن بھی ٹوٹ گئی‘اشتراکیت بھی پسپاہو گئی لیکن کیا ہمارے پاس دنیا کو دینے کے لیے کوئی نیا حیات بخش نظریہ ہے جو اس خلا کو پر کر سکے۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ اس خلا کو پر نہیں کر سکتا۔ اور پھر اپنے مخصوص انداز میں یہ بات کہی کہ البتہ مسلمانوں کو یہ زعم ہے کہ ان کے پاس ایک نظریہ ہے جو اس خلا کو پر کر سکتا ہے۔ گو یا کہ یہ تنبیہ(warning) تھی کہ اب کش مکش کا جو نیاآہنگ ہے وہ کیا ہو سکتا ہے۔
اس کے دس سال کے بعد ایک اور دلچسپ چیز اکانومسٹ میں آئی اور وہ یہ تھی کہ انہوں نے یہ بتایا کہ آج سے ایک ہزار سال بعدروس کا ایک مؤرخ گزرے ہوئے ہزار سال کا جا ئزہ لیتا ہے۔دو ہزا ریے ختم ہو گئے ہیں۔ تیسراہزا ریہ شروع ہو رہا ہے۔ وہ جا ئزہ لیتا ہے اور وہ جا ئزہ لیتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ سرد جنگ کے ختم ہو نے کے بعد اور روس کی اوراشتراکیت کی پسپائی کے بعدامریکا ایک عالمی کر دارلے کرکے اٹھا لیکن اس کے بعد پھر چین اور مسلم دنیا یہ دو نئی قوتیں ابھریں۔ اور اس طرح ایک نئی خلافت قائم ہوئی ۔اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ ایسا ہو گا۔مقصد یہ تھا کہ ایسا نہ ہو نے پائے‘ہمیں اس کے لیے پیش بندی کر نی چاہیے۔یہی وہ خیالات ہیں جنھوں نے مغرب کی ذہنی اور فکری فضابنائی ہے اور آج ان کے تھنک ٹینکس اور سیاسی قیادت سب اس پسِ منظر میں کام کرتے ہیں اور حکمتِ عملی بناتے ہیں۔
ہمیں ۱۱ستمبر کا واقعہ اسی پسِ منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ واقعہ کیسے ہوا ؟کس نے کیا؟ کون کون معاون قوتیں تھیں ؟سارے واویلے کے باوجود ان سوالات کا جواب دینے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی ہے اور نہ ہورہی ہے ۔ اس کے برعکس‘ ۱۹۸۹ء سے۲۰۰۱ء تک نئے تہذیبی تصادم کی جو فضا بنائی گئی تھی‘اس واقعے کو بنیاد بنا کراس نقشے میں رنگ بھرا جا رہا ہے اور اسے ایک واضح اور متعین رخ دیا جا رہا ہے۔امریکی صدر نے نائن الیون کمیشن بڑے حیص بیص کے بعد اور بڑے دباؤ کے بعد قائم کیا تھا اور ۱۸مہینے کی کوششوں کے بعد اس کی رپورٹ گذشتہ دنوں آئی ہے۔۶۰۰ صفحات کی رپورٹ پڑھ ڈالیے ‘ اس میں ایک جملہ بھی ان سوالات کے بارے میں نہیں ہے۔ ان کی ساری تو جہ اس پر ہے کہ جسے وہ ’’اسلامک ٹیررزم‘‘ کہتے ہیں‘ اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ لطف کی بات یہ ہے کہ اس اہم ترین دستاویز میں ’دہشت گردی‘ نہیں ’اسلامی دہشت گردی‘ کومقابلے کی قوت قرار دے کر بتایاگیا ہے ہماری یعنی امریکا کی اور مغربی اقوام کی ساری قوت اور ساری فکر اورسا ری کوشش آیندہ اس سے مقابلے کے لیے کیا ہونی چا ہیے۔
پچھلے پانچ چھ مہینوں میں تین چار بڑی اہم رپورٹیں آئی ہیں۔ان میں رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ خاص طور پر اہم ہے جس کا میں نے جون ۲۰۰۴ء کے ترجمان القرآن کے اشارات میںذکر کیا ہے۔اس سے پہلے ایک اور رپورٹ آئی ہے جس کے بارے میں برادرم سلیم منصور خالد نے مارچ ۲۰۰۴ء کے ترجمان القرآن میں لکھا ہے ‘ایشیا میں اس کا مکمل ترجمہ قسط وار شائع ہو رہا ہے۔اب یہ نائن الیون کمیشن کی رپورٹ آئی ہے ۔یہ وہ تمام چیزیں ہیں جن کو بغور پڑھنے اور تجزیہ کر نے کی ضرورت ہے۔پھر اس کو اس فکری کام کے پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے جو اس پورے زمانے میں ہوا ہے۔ جہاں تک نائن الیون کمیشن کی رپورٹ کا تعلق ہے میں اس کے صرف دو تین نکات بتا دیتا ہوں۔ ان کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ آج امریکا کے لیے سب سے بڑاخطرہ دہشت گر دی ہے۔ دنیا میں جنگوں کا نقشہ اب بدل چکا ہے۔ جنگوںکا جو کر دار تاریخ میں رہا ہے اس اندازکی فوج کشی درکار تو ہو گی لیکن قوموں کے درمیان جنگ کی شکل میں نہیں بلکہ دہشت گر دی کا تعاقب کیا جائے گا۔ اور پھر وہ یہ مرکزی جملہ لکھتے ہیں کہ یہ نہ سمجھو کہ یہ صر ف دہشت گر دی ہے‘ہمارا اصل ہدف ’اسلامی دہشت گردی‘ ہے ۔اس طرح دہشت گردی کی باقی تمام شکلیں ‘اس کے مظاہر ‘حتیٰ کی خودا مریکہ کے اپنے نظام کو چیلنج کر نے کے لیے خود امریکی جودہشت گردی کے راستے اختیار کر رہے ہیں ان سب کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ واحدہدف ’اسلامک ٹیررزم‘ ہے۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اسلامک ٹیررزم تو عنوان ہے‘اصل چیز وہ نظریاتی بنیادی ڈھانچا (Infrastructure ) ہے‘جس نے ان کے خیال میں اس دہشت گر دی کو اور امریکا کے خلاف نفرت کوجنم دیا ہے اور امریکا کو چیلنج کرنے کا جذ بہ اور قوت دی ہے۔ یہاں وہ نام لے کر اسلامی تحریکات خصوصیت سے اخوان المسلمون اورسید قطب کا ذکر کرتے ہیں‘ستم ہے کہ امام ابن تیمیہؒ کو بھی اس کا منبع قرار دیتے ہیں۔ جماعت کا نام تو نہیں لیا لیکن حقیقت ہے کہ جن شخصیات اور اسلامی تحریک کا نام لیا ہے وہ امریکی استعمار کے تازہ ہدف کی نشاندہی کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ بہت اہم ہے کہ اس رپورٹ میں جس چیز کو ہدف بنایا گیا ہے وہ محض القاعدہ نہیں بلکہ وہ بنیادی ڈھانچا ہے جو ان کے زعم میں امریکا مخالف فکر اور مزاحمتی تحریکوں کو پروان چڑھا رہا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہی وہ منبع ہے جس سے یہ نیا ذہن‘ نئے جوان ‘ان کی مختلف کوششیں سامنے آئی ہیں اور انھی کوششوں میں سے ایک کوشش وہ ہے جو مسلح ہے اور جو دہشت گر دی کر تی ہے۔ یہ سارے کا سارا بنیادی ڈھانچا اب امریکا کا اصل ہدف ہے جسے وہ اپنے اقتدار کے لیے اصل خطرہ قرار دے رہے ہیں اور یہ ذہن پیدا کر رہے ہیں کہ گویا جب تک یہ باقی ہے‘ امریکا محفوظ نہیں ہے!
اس خطرے کے مقابلے کے لیے کیاحکمتِ عملی اختیار کی جائے؟ اس سلسلے میں ایک بڑی اہم کتاب آئی ہے :Imperial Hubris: Why the West is Loosing War on Terror جس کے لکھنے والے کا نام نہیں دیا گیا اسےanonymous یعنی گمنام کے نام سے لایا گیا ہے۔ یہ چند ہفتے پہلے آئی ہے۔دل چسپ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ جسے گمنام بنایا گیا ہے وہ سی آئی اے کا حاضر سروس آفیسرہے اور اسے باقاعدہ سی آئی اے نے اجازت دی ہے کہ اپنا نام بتائے بغیر یہ کتاب لکھے اور شائع کرے۔ اس اہم کتاب کے ساتھ ہی برطانیہ سے ایک اور کتاب Collosus: The Price of American Empireشائع ہوئی ہے‘ اس کا مصنف وہاں کا مشہور مورخ Niall Fergusonہے۔ دونوں کتابیں ایک ہی طرز کی ہیں۔ گمنام کی کتاب میں جو نقشۂ جنگ بنایا گیا ہے وہ اس اعتراف پر مبنی ہے کہ امریکا کے خلاف جو نفرت عالم اسلام میں ہے وہ امریکا کی پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔یہ بات کھل کر پورے دھڑلے سے کہی گئی ہے اور اس میں یہ متعین کیا گیا ہے کہ اس نفرت کی وجہ وہ پالیسی ہے جو امریکا نے اسرائیل کی مکمل تائید میں اختیار کی ہے اور اسرائیل کی جو مدد وہ کر رہا ہے‘ ثانیاً مسلم ممالک کے حکمران جوظالم وجابر (tyrant) ہیں‘ وہ ہمارے ساتھ ہیں اورہم ان کی تائید کر رہے ہیں لیکن مسلمان عوام ان سے ناخوش ہیں ۔ تیسرے‘ چین‘ روس اور انڈیا جو مسلمانوں کی آزادی کی تحریکوں کو کچل رہے ہیں‘ لیکن ہماری تائید ان تینوں ممالک کو حاصل ہے۔ اسی طرح افغانستان اور عراق پر قبضہ اور تیل کے ذخائر کو امریکی تسلط میں لانے پر مسلمان اور عرب برافروختہ ہیں۔
اس تمام اعتراف کے بعد وہ کہتاہے کہ ہمارے سامنے چار سیناریو ہیں۔پہلا راستہ جس پر صدر بش کار بند ہیں یہ ہے کہ ہم محض قوت کے ذریعے سے ‘ فوج کشی کے ذریعے سے ‘ ان ’’دہشت گردوں‘‘کو بھی اور ان کو پناہ دینے والوں کو بھی ختم کر دیں۔ یہ کام محض انھیں ختم کرنے سے پورا نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے ہمیں قوت کا ایسا استعمال کر نا پڑے گا جس کے نتیجے کے طور پر ہزاروں لاکھوں انسانوں کی جا نیں جا ئیں گی‘ بستیاں تباہ ہوں گی‘نقل مکانی ہوگی اور بالآخر ان ملکوں پر فوجی قبضہ ہوگا۔ دو سرا را ستہ یہ ہے کہ ہم اپنی پالیسیاں تبدیل کریں ۔ ان سے بات چیت کریں اور کوئی را ستہ نکالیں ۔اس کا کہنا یہ ہے کہ پہلا ہم کرسکتے ہیں لیکن اس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ اور یہ بھی ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ آیا اس سے فی الحقیقت تمام خطرات ختم ہوجائیں گے ۔البتہ اس سے جو کچھ حاصل ہو گا وہ یہ ہے کہ امریکا کو دنیا میں مسلم دنیا میں ایک نئی قابض قوت بننا پڑے گا۔ گو یا کہ جس طرح سترھویں‘ اٹھارھویں‘ انیسویں اوربیسویں صدی کے وسط تک سامراج قابض تھا وہ را ستہ ہمیں اختیار کر نا پڑے گا۔کیا ہم یہ کر سکتے ہیں ؟ اور کیا یہ قبضہ بہت عرصے چل سکتا ہے؟ اور کیا امریکی قوم اس کے لیے مسلسل قربانی دینے کو تیار ہے؟ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ موصوف یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ دوسرا راستہ بھی ہم اختیار نہیں کرسکتے کہ ہم اپنی پا لیسیاں بد ل لیں۔ یہ بھی ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ پھر کیاکریں ؟
وہ کہتا ہے کہ پھر تیسرا را ستہ یہ ہے کہ ہم مسلم دنیا میں ’قوم سازی‘ (nation building) کریں ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ وہاں کے نظامِ تعلیم کو‘میڈیا کو‘نو جوانوں کو ‘حکمرانوں کو ‘ان سب کو اپنے زیرِ اثرلائیں ۔ یہ کام جمہو ریت ‘ آزاد روی(لبرلزم) اور Globalizationیعنی عالم گیریت کے نام پر کیا جائے۔ اس کا دائرہ کار بڑا وسیع اور متنوع ہے۔ اس میں معیشت ہے ‘اس میں کلچر ہے‘ اس میں افکار ہیں ‘اس میں پارلیمنٹیرینز کی تر بیت ہے ‘اس میں طلبا کے تبادلے ہیں ‘اس میں میڈیا کو ہر قیمت پر استعمال کر نا ہے۔ یہ ’قوم سازی‘ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک چوتھی چیز اور چا ہیے‘ اور وہ یہ ہے کہ امریکا ایک نئی قسم کی سلطنت (imperial power) بنے۔جس کے لیے اس نے Liberal Empire کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ قابض تو نہ ہوں ‘لیکن ذہنوں پرقبضہ کریں ‘معیشت کو گرفت میں لائیں‘بین الاقوامی تجارتی کمپنیوں اور این جی اوز کے ذریعے سے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے آئیںاور اپنے اثر ورسوخ کو اتنا بڑھا لیں کہ ان ممالک کی قیادتیں اور ان کے کارفرما عناصر آپ ہی کے مطلب کی کہیں۔ ساتھ ہی یہ پیغام بھی دے دیا جائے کہ اگر ہمارے نقشے کے مطابق کام نہیں کرو گے اور ’’لبرل میانہ روئی‘‘ اختیار نہیں کرو گے تو قوت استعمال کی جا ئے گی،’سزا دی جا ئے گی‘۔ لفظ استعمال کیا ہے punishmentکا اور اس punishment میںدو چیزیں ہیں ۔ پیش بندی کے طور پر حملہ (preemptive strike) جس کے معنی یہ ہیں کہ جہاں خطرہ محسوس ہو وہا ں فوج کشی کر ڈالو۔ کوئی ثبوت ہو نہ ہو‘جیسا عراق اور افغانستان میں کیا ہے۔اورregime changeیعنی حکمران مفید مطلب نہ ہوںتو ان کو بدل کرمفید مطلب لوگوں کو اوپرلاؤ ۔ یہ وہ نیا ماڈل ‘نیا نمونہ اور نیا نقشہ ہے جس کے مطابق عمل کر کے وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے اقتدار کو قائم رکھیں گے۔
ہم جس مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں وہ یہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے ؟اس کا مقا بلہ کر نے کا ایک طریقہ تو یہ ہے۔ اور یہ میں اس مفروضے پر کہہ رہا ہوں کہ ۱۱ستمبر کا واقعہ مسلمانوں نے کیا تھااور جسے وہ القاعدہ کہتے ہیںوہ اس کے ذمہ دار تھے ۔گو اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس وا قعے کے بعد بن لادن نے‘ القاعدہ نے‘ officially انکار کیا تھا کہ ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب امریکا نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ بن لادن کو گر فتار کر کے دے دوتو طالبان نے یہ کہا کہ ہمارے پاس ثبوت لاؤ۔اور اگر تم ہمیں ثبوت نہیں دینا چا ہتے ہو تو کوئی بین الاقوامی عدالتی کمیشن قائم کر دو جس مین تین مسلمان ممالک کے جج ہوں‘ان کے سا منے شہادتیں لاؤ ۔اگر وہ طے کرتے ہیں کہ یہ حملہ بن لادن نے کیا ہے تو ہم اسے آپ کو دے دیں گے۔
جو تحقیق آزاد ذرائع سے ہوئی ہے وہ حیران کن ہے ۔ خود امریکا کے تجزیہ نگاروں نے یہ بات کہی ہے کہ اگر ان چار حملوں میں صرف یہ ۱۹ ہائی جیکر شریک تھے تو یہ کام ہو نہیں سکتا‘ جب تک کہ ان کے ۵۰‘۶۰ معا ونین امریکا میں زمین پر مو جود نہ ہوں اور خصوصیت سے ان ہوائی اڈوں پر جہاں سے یہ جہاز گئے ہیں ۔اس لیے کہ جس precision کے ساتھ ‘جس چابک دستی سے‘ ٹھیک ٹھیک نشانے پر اور بڑے مؤثر طریقے سے یہ اقدام ہوا ہے وہ کمپیوٹرائزکیے بغیر ہو نہیں سکتا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ۷۴۷جہاز کو ایسے لوگ جن کو Executive Plan چلانے کی تربیت دی گئی ہووہ فضا میں اس جہاز پر قبضہ کر سکیں‘پا ئلٹ کو ہٹا دیں ‘ اسٹیرنگ پر آجائیں۔ اور پھر نیویارک جہاں دو ہزارفلک بوس عمارتیں تھیں اس میں سے متعین طور پر ایک خاص ٹاورکو اور وہ بھی ایک خاص مقام پر جا کر ہٹ کریں ۔ پھراس کے اٹھارہ منٹ کے بعد دوسرا ٹاور۔ اس کے چالیس منٹ کے بعدپینٹاگون ۔ یہ سب ممکن نہیں ۔ پینٹاگون کی عمارت تو صرف تین منزلہ تھی۔ اس کے بارے میں جو کتابیں آئی ہیں ان سے معلوم ہو تا ہے کہ خودپہلا اعلان جو وہاں ہواوہ یہ کہا گیا ہے کہ یہ ایک میزائل حملہ تھا۔ عمارت کو اگر آپ دیکھیں تو اس میں ایک بہت بڑاسوراخ ہے اور جہاز کا کوئی ملبہ وہاں نہیں پایاگیا۔ اور جس طرح ٹاور پر حملہ کرنے والے جہازوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ جہاز ساراکا سارا تحلیل ہو گیا ‘پینٹاگون میں یہ ممکن نہیں تھا۔ لیکن ۴۸گھنٹے کے اندرپینٹاگون نے چھ بار اپنے سر کاری بیان کو بدلا ہے۔ اور بالآخر اسے جہاز قرار دیا۔
اس بارے میںاتنی چیزیں آئی ہیں ‘میں ان سب کو نظر انداز کر تا ہوں‘ میں کہتا ہوں مان لیجیے کہ انھوں نے یہ اقدام کیا ہے اور اگر فی الحقیقت انھوں نے ہی کیا تھا‘تو میں آپ سے صاف کہنا چاہتا ہوں کہ ان کی جرأت اورسوچ کا فیصلہ تو اللہ کرے گا‘ لیکن بحیثیت مجموعی مسلمانوں کو اور اسلام کو اس سے نقصان پہنچا ہے۔ اور اس کے نتیجے کے طور پرتاریخ تہذیبی مکالمے کے جس رخ پر جا سکتی تھی وہ متاثر ہو ئی ہے۔ اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مقابلہ کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے تو نتائج کے اعتبار سے‘ اسلام کے مزاج کے اعتبار سے ‘ اسلامی احیا کے امکانات کے اعتبار سے ‘ اسلامی دعوت کے اعتبار سے ‘ اسلامی تہذیب وثقافت کے اعتبار سے یہ را ستہ مقصد حاصل کر نے کا راستہ نہیں ہے۔ میں فلسطین اور کشمیر کی جہادی تحریک کی بات نہیں کر رہا‘ میں ٹریڈ ٹاور اور اس قسم کے واقعات پر بات کر رہا ہوںاور یہی وجہ ہے کہ تمام اسلامی تحریکات کے قائدین نے اس کی مذمت کی اور۱۲ستمبر۲۰۰۱کو منصورہ سے ایک بیان جاری ہوا جس میں یہ کہا کہ ہم اس دہشت گر دی کے اس واقعے کی مذمت کر تے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ اعلان بھی کر تے ہیں کہ دہشت گردی افراد کی طرف سے ہو ‘گروہوں کی طرف سے ہو یا حکومتوں کی طرف سے ہو‘ مساوی طور پر قابلِ مذمت ہیں۔ اصل مسئلہ دہشت گر دی نہیں‘ بلکہ وہ اسباب ہیں ‘ وہ نا انصافیاں ہیں ‘وہ ظلم ہیں اوروہ مسائل ہیںجو لوگوں کو دھکیل دھکیل کر غلط راستے کی طرف لے جا رہے ہیں۔ اور جب تک ان معاملات کو حل نہیں کیا جائے گا دنیا میں امن اور سلامتی کا وجود عنقا رہے گا۔
تحریکِ اسلامی کا یہ ذہن ہے اوریہی ذہن حق پر مبنی ہے۔ جہاں مظلوم مجبور ہو کر تشدد کا راستہ اختیار کر تا ہے ‘دنیا بھر کی تحریکاتِ اسلامی اس کی کیفیت ‘اس کے احساسات ‘ اس کے جذبات کو محسوس کر تی ہیں۔ لیکن تبدیلی اور اسلامی انقلاب اور اسلامی احیا کا راستہ تشدد اور دہشت گردی کا راستہ نہیں ہے ۔ را ستہ وہی ہے جو اسلامی تحریکات نے سنت نبوی ؐاور قرآنی منہج کو سامنے رکھ کر مرتب کیا ہے۔ جہاد کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ جہاد تو انصاف کے قیام‘ اللہ کے کلمہ کی بلندی اور اخلاقی اقدار کے احیا کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔
اس پس منظر میں ‘میں اپنی بات کو سمیٹتے ہو ئے یہ کہوں گا کہ سب سے پہلی چیز دشمن کو جانناہے۔دشمن کے ہتھیاروں کو جاننا ہے‘دشمن کے اسالیب اور طریقوں سے واقفیت حاصل کرنا ہے‘ اور ان راستوں اور طریقوں کی تفہیم ہے جن سے یہ یلغار ہو رہی ہے۔ یہ ہمہ جہتی یلغار ہے‘ یہ فکری بھی ہے ‘یہ تعلیمی بھی ہے ‘ یہ ٹکنالوجیکل بھی ہے‘یہ معا شی بھی ہے ‘ یہ سیا سی بھی ہے ‘یہ فوجی بھی ہے۔ اس میں میڈیا بڑا اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ہمارے گھروں کونشانہ بنا یا جا رہا ہے۔ ہماری ماؤں‘بہنوں اوربیٹیوں اور بچوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔
یہ بات بھی غور کر نے کی ہے کہ کھلے دشمن کا مقابلہ آسان ہو تا ہے لیکن جب دشمن آپ کے اندر سے ایسے عناصر کو استعمال کرے جن کانام اورچہرے آپ جیسے ہوںتو یہ خطرہ اور یہ لڑائی زیادہ گمبھیر اور زیا دہ مشکل ہو جا تی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے کفار کے بارے میں جتنی باتیں کہی ہیں ان سے زیادہ منافقین کے بارے میں کہی ہیں۔ہماری یہ جنگ تصادم و یلغار صرف با ہر سے نہیں‘ یہ اندر ونی سبوتاژ بھی ہے۔ آپ دیکھیے کہ مدارس کو نشا نہ بنایا جارہا ہے۔ نظامِ تعلیم کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وہ مسلم دنیا کو چار گروہوں میں پیش کر رہے ہیں۔ ایک کو وہ کہتے ہیں بنیاد پرست۔ جو ان کی نگاہ میںدہشت گرد ہیں۔ دوسرے کو وہ کہتے ہیں قدامت پر ست۔جو ہیں توروایت اور اسلامی اقدار کے حامی لیکن وہ کوئی بڑا چیلنج نہیں ہیں۔بس وہ اپنی روایات کے علم بردار ہیں۔ تیسرے ہیں ماڈرنسٹ‘لبرل اورچوتھے ہیں کھلے کھلے سیکولرسٹ ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ان کو آپس میں لڑانا چا ہیے۔سا ری قوت ہماری اس پرصرف ہو نی چا ہیے کہ اسلام کو ایک روشن خیال میانہ روی کے مذہب کے طور پرپیش کیا جائے ۔ہم ان کی تا ئید کریں اوران کی تقویت کاذریعہ بنیں ۔ ان کے ذریعے ہم مسلمان معاشرے کو اندر سے تباہ کریں۔
تو یہ حملہ با ہر سے بھی ہے اور اندر سے بھی ہے۔ اور مسلمانوں کی سیاسی اور معا شی قوتوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس کا مقابلہ کر نے کے لیے سب سے پہلی چیزیہ ہے کہ ہم دشمن کو سمجھیں۔ دو سری چیزیہ ہے کہ ایک ہمہ جہتی حکمت عملی بنائیں‘محض کسی ایک ٹارگٹ کونہ لیں۔اور تیسر ی چیز یہ ہے کہ ہم ہر میدان میں مقابلہ کریں اوراس کی تیاری کریں ۔ مقابلے کے ساتھ ساتھ ڈائیلاگ اور مذاکرہ بھی کریں۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ آخری حل مذاکرات سے نہیں ہوگا۔ اپنے صحیح وقت پر ایک ہمہ گیر معرکے کے لیے آپ کو تیار ہو نا ہے۔ لیکن وہ تیاری دہشت گر دی کے اقدامات کے ذریعے نہیں ہوسکتی اور نہ یہ اس کے ممدومعاون ہوسکتے ہیں۔اس کا راستہ یہ ہے کہ عوامی جدوجہد کے ذریعے اپنے اپنے ملک میں اسلامی قیادت کو اوپر لائیں اور پھر ان ممالک کو اسلام کا حقیقی قلعہ بنائیں۔ یہی وہ جنگ ہے جو پاکستان میں ہم لڑرہے ہیں۔ اور یہی وہ جنگ ہے جو تحریکِ اسلامی ہر ملک میں لڑ رہی ہے اور یہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم اس تہذیبی تصادم کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ یہ کوئی وقتی جنگ نہیں ہے یہ کوئی شارٹ ٹرم جنگ نہیں ہے۔ بلا شبہ اس کے وقتی تقاضے بھی ہیں اور شارٹ ٹرم تقاضے بھی ہیں لیکن اصل جنگ لمبی ہے اور ہمیں اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرنا ہے اور پوری بالغ نظری کے ساتھ اس کام کو انجام دینا ہے ۔
اس سلسلے میں سب سے اہم چیز اُمت کو اسلام کی بنیاد پر فکری‘ عملی‘ اخلاقی‘ نظریاتی‘ تعلیمی‘ معاشی‘ تہذیبی ہر اعتبار سے مضبوط تر کرنا ہے۔ اس کے رشتے کو ایک طرف اللہ تعالیٰ سے اس طرح جوڑنا ہے کہ صرف اس کی مدد پر ہمارا بھروسہ ہو تو دوسری طرف اس کے فراہم کردہ وسائل کو اس کے بتائے ہوئے دین کی سربلندی اور اہداف کے حصول کے لیے منظم اور مرتب کرنا ہے۔ جن کو دنیا میں بڑی طاقتیں کہا جاتا ہے وہ عارضی اور بالآخر فنا ہونے والی ہیں۔ باقی رہنے والی قوت صرف حق کی قوت ہے۔ اللہ پر بھروسا اور اُمت کی صحیح خطوط پرتیاری ہی وہ راستہ ہے جس سے اس یلغار کا مؤثر مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ایمان‘ مادی اور اخلاقی قوت‘ اتحاد اور باہمی تعاون اور سب سے بڑھ کر مسلسل اور صبرآزما جدوجہد درکار ہے۔ اقبال نے مسجد قرطبہ کے سائے میں جو پیغام اُمت مسلمہ کو دیا تھا وہ اسی جدوجہد کا پیغام تھا ؎
جس میں نہ ہو انقلاب‘ موت ہے وہ زندگی
روحِ امم کی حیات‘ کش مکشِ انقلاب
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
یہی وہ صحیح حکمتِ عملی ہے جس سے مغربی تہذیب کی اس یلغار کا مقا بلہ کیا جا سکتا ہے ۔
کیا حقیقی اقتدار موجودہ جمہوری اداروں کی طرف منتقل ہوجائے گا؟ کیا پرویز مشرف صاحب سترھویں ترمیمی بل کی منظوری کے بعد‘ دستوری تقاضے پورے کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ ۳۱دسمبر کی آخری تاریخ سے قبل چھوڑدیں گے یا کلی اقتدار سے چمٹے رہنے پر اصرار کریں گے ؟ کیا پاکستان کو ایک دیانتدار‘اہل اور ملک و ملت کا حقیقی دردرکھنے والی قیادت میسر آسکے گی ؟ کیا امریکا ‘بھارت اور اسرائیل کی ملی بھگت کے مقابلے میں ہم اپنی قومی مصلحتوں کی حفاظت کرنے کے اہل ہیں؟ کیا ہم امریکا کے ساتھ نتھی ہونے پر مجبور ہیں یا امریکا سے جان چھڑا کر آزاد داخلہ اور خارجہ پالیسی اپنانے کے مواقع موجود ہیں ؟
ہم کوشش کریں گے کہ ان اہم سوالات سے متعلق مسائل کے بارے میں اپنی پالیسی کی وضاحت کریں۔
برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بظاہر تو اقتدار مسلم لیگ کی طرف منتقل ہوا لیکن قائد اعظم اور لیاقت علی خاں کی رحلت کے بعد مسلم لیگ کی تنظیمی کمزوری کی وجہ سے اقتدار کلی طور پر سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ (انتظامیہ)کے ہاتھوں میں مرتکز ہوگیا ۔ گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑی اور بالآخر یہ نوبت آئی کہ جنرل محمد ایوب خاں نے اسکندرمرزا کے ساتھ مل کر فوجی قبضے کے ذریعے سیاسی بساط ہی لپیٹ دی۔ایوب خان کے بعد یحییٰ خان اور یحییٰ خان کے بعد مشرقی پاکستان گنوا کے ذوالفقار علی بھٹو کو بھی فوج ہی نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنایا۔ذوالفقار علی بھٹو سے اقتدار پھر جنرل ضیاء الحق کے ذریعے فوج کی طرف منتقل ہوگیا اور اسی فوجی دورِ حکومت میں نواز شریف کو متعارف کرایا گیا ۔ بے نظیر اور نوازشریف کے تجربات کے بعد فوج نے پرویز مشرف کے ذریعے ایک بارپھر اقتدار براہ راست سنبھال لیا۔
اس طرح پاکستان کی پوری تاریخ پر نظرڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار کی حقیقی مالک پاکستان کی فوجی اور سول انتظامیہ (establishment)ہے جو وقتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً سیاستدانوں میں سے پسند کے کچھ لوگوں کو بھی شریکِ اقتدار کرلیتی ہے لیکن اس کے لیے تیار نہیں ہے کہ حقیقی اقتدار عوام کے نمایندوں کی طرف منتقل ہو ۔ موجودہ حکمران پارٹی بناتے وقت بھی اس کا انتظام کیا گیا ہے کہ اس کی قیادت میں کوئی ایسا لیڈر سامنے نہ آسکے جو فوجی قیادت سے آزاد ہو کر ملک و قوم کی رہنمائی کی اہلیت رکھتا ہو۔ چودھری شجاعت حسین علالت کی بنا پر اس قابل نہیں ہیں کہ ملک و قوم کی قیادت کا بوجھ اٹھا سکیں ۔ اسی لیے انھوں نے محض چند مہینے کی وزارت عظمیٰ پر بخوشی اکتفا کرلیا ۔ اس سے قبل وہ اپنی علالت ہی کی وجہ سے میر ظفر اللہ خاں جمالی کی وزارت عظمیٰ پر رضا مند ہوگئے تھے۔
شوکت عزیز صاحب بنیادی طور پر ایک ٹیکنوکریٹ ہیں ۔ ساری زندگی ملک سے باہر گزاری ہے ۔ ان کا سیاسی میدان کا تجربہ پرویز مشرف کے دور تک محدود ہے ۔وہ پہلی مرتبہ عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور جن حلقوں کو ان کے انتخاب لڑنے کے لیے پسند کیا گیا ہے وہاں ان کی کامیابی کا انحصار جاگیرداروں اور وڈیروں کی حمایت پر ہے ۔ یہ امر محل نظر ہے کہ کیا وہ پرویز مشرف کی سرپرستی کے بغیر بھی سیاسی قیادت کی اہلیت رکھتے ہیں ۔
پرویز مشرف صاحب نے ایک منصوبے کے تحت مسلم لیگ (ق) کو کسی حقیقی عوامی اور سیاسی قیادت سے محروم رکھا ہے ۔ مسلم لیگ (ق) کے اتحادیوں میں اگرایک دوشخصیات ایسی ہیں بھی کہ وہ ذاتی لحاظ سے قیادت کی اہل ہیں تو وہ مسلم لیگ کو قابل قبول نہیں ہیں ۔البتہ چودھری شجاعت حسین صاحب علالت کے باوجود اپنی برادری کے اثرات‘ وسائل‘ اور اپنے طویل سیاسی تجربے کی بنا پر اس بات کے اہل ضرور ہیں کہ اپنے کسی سیاسی حریف کو موجودہ اسمبلی میں اقتدار تک پہنچنے سے روک سکیں ۔
ان حالات میں فوجی وردی اتارنے کے باوجود‘ اقتدار پرویز مشرف کے پاس رہے گا۔ شوکت عزیز ان کی وفاداری اورا طاعت پر مجبور ہوںگے اور چودھری برادران دونوںکو سیاسی پشتیبانی مہیاکرتے رہیں گے ۔امریکی سرپرستی حاصل کرنے کے لیے پرویز مشرف اور شوکت عزیزقومی مصلحتوں اور مفادات پر سودا بازی کرتے رہیں گے ‘جس کے نتیجے میں عوام کی بے چینی بڑھے گی اور عوام کی طرف سے اپوزیشن پر خصوصاً ایم ایم اے پر‘ پرویز مشرف حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے لیے دبائو بڑھے گا ۔
ان حالات میں ملک کو کسی ہیجانی صورت حال سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ مسائل کا آئینی اور قانونی حل نکالنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں اور حکومتی گروہ میں مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے۔ طرفین ایسا رویہ اختیار کرنے سے گریز کریں جس کے نتیجے میں تصادم ناگزیر ہوجائے ۔ اس کے لیے سب سے پہلی ضرورت اس بات کی ہے کہ پرویز مشرف صاحب خوش دلی سے آئین کاتقاضا پورا کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ چھوڑ دیں ۔ اس سے فوج میں بھی اطمینان پیدا ہوگا اور پرویز مشرف صاحب کو بھی ان خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جس کی شکایت انھوں نے خود اپنے ایک انٹرویو میں کی ہے کہ ان پر حملے میں فوج کے نچلی سطح کے کچھ لوگوں کاہاتھ تھا ۔ اس کے برعکس اگر آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ فوجی عہدہ برقرار رکھنے پر اصرار کریں گے تو تشدد کا راستہ اختیارکرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ ۳۱دسمبرکے بعد فوجی عہدہ برقرار رکھنا آئین کو پس پشت ڈال کر اپنے ہی قائم کردہ جمہوری نظام پر وار کرنے کے مترادف ہوگا جس کے بعد جمہوری قوتوں کے پاس پرویز مشرف کے خلاف ایجی ٹیشن کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہے گا۔ اس ایجی ٹیشن کا نتیجہ جو بھی نکلے‘ لیکن اتنا تو یقینی ہے کہ اس کے بعد پرویز مشرف صاحب کے لیے اقتدار پر قائم رہنا ممکن نہیں رہے گا اور ایوب خان اور یحییٰ خان کی طرح ان کے اپنے ہی ساتھی ان سے معذرت کرسکتے ہیں کہ ان کا یہ رویہ نہ قوم کے لیے قابل قبول ہے اور نہ ملک کے دوسرے اداروں کے لیے۔ چنانچہ ملک و قوم اور خود پرویز مشرف کے لیے عافیت کا راستہ یہی ہے کہ وہ وردی اتار کر ایک سویلین صدر بننے پر اکتفا کرلیں ۔ اگر شوکت عزیز وزیراعظم بن جائیں تو دونوں مل کر باہمی ہم آہنگی کے ساتھ ۲۰۰۷ء تک آئین کی حدود میں رہتے ہوئے حکومتی ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں اور اپوزیشن جماعتیں ۲۰۰۷ء کے انتخابات کے لیے تیاری کریں۔
اس صورت میں پرویز مشرف اور شوکت عزیز کی حکومت عا فیت کے ساتھ اسی وقت چل سکتی ہے کہ وہ حساس معاملات میں قومی جذبات کا احترام کریں۔ حساس معاملات میں نیوکلئیر پروگرام سب سے اہم ہے اور اس پر ملک و قوم کی سلامتی کا انحصار ہے۔ بھارت کے مقابلے میں اپنی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کے لیے ہمارا دار و مدار اسی صلاحیت پر ہے۔یہ ملک و قوم اور ہماری فوج کے لیے بین الاقوامی برادری میں افتخار کا باعث ہے ۔
امریکا نے کھلم کھلا ہمیں ایک ایٹمی طاقت ماننے سے انکار کیا ہے ۔ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہے ۔ ہماری اس صلاحیت کو اسرائیل نے بھی اپنے لیے خطرہ قرار دیا ہے اور بین الاقوامی صہیونی لابی اس پروگرام کے خلاف سرگرم ہے۔ عبدالقدیر خان سمیت ہمارے بہت سے سائنس دانوں کو اس ایٹمی پروگرام کو پروان چڑھانے کے جرم میں اپنی ہی حکومت کے ہاتھوں ذلیل کرایا گیا ہے اور ایٹمی پھیلائو (nuclear proliferation)کا الزام لگا کر پاکستان کو بھی غیر ذمہ دار ملک قرار دینے کی کوشش کی جار ہی ہے ۔ایٹمی پروگرام پر دبائو میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ پرویز مشرف کی وفاداری اور دہشت گردی کے خلاف امریکی اتحاد میں شامل ہونے کے باوجود‘ اور اس امر کے باوجود کہ پاکستا ن کو نیٹوسے باہر امریکا کا اہم اتحادی قرار دیا گیا ہے‘ اس اتحادی پر اس وقت تک اعتماد نہیں کیا جائے گا جب تک کہ پرویز مشرف صاحب ایٹمی پروگرام کو امریکا کے معائنے کے لیے کھول نہ دیں اور اس پر بین الاقوامی کنٹرول کو قبول نہ کرلیں ۔ لیکن پرویز مشرف صاحب ایٹمی پروگرام پر ایک حد سے زیادہ مفاہمت نہیں کرسکتے۔ اگر کشمیر یا ایٹمی پروگرام پر قومی پالیسی سے انحراف کیاجائے گا یا اسرائیل کوتسلیم کرنے ‘عراق اور افغانستان میں امریکی مفادات کے لیے اپنی فوجوں کو ملوث کرنے‘ یا قبائلی علاقوں میں امریکی دبائو کے تحت عریاں فوجی قوت استعمال کرنے کے قبیل کے اقدامات کیے جائیں گے تو حکومت کو اندرونی سیاسی ایجی ٹیشن اور بڑی عوامی تحریک کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکا خارجہ پالیسی سے آگے بڑھ کر اب تعلیمی اور ثقافتی اور تہذیبی میدان میں بھی اپنی مرضی منوانے پر تلا ہوا ہے ۔پرویز مشرف کے مطلق العنان دور حکومت میں جب ابھی پارلیمنٹ وجود میں نہیں آئی تھی‘ زبیدہ جلال صاحبہ کی معرفت امریکی آشیر باد کے ساتھ اہم تعلیمی شعبوں میں آغاخان فائونڈیشن کو عمل دخل دینے کے لیے ایک معاہدہ کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق ۲۰۰۶ء میں ملک بھر میں ہر تعلیمی ادارے کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اپنے ادارے کا آغاخان فائونڈیشن کے قائم کیے ہوئے تعلیمی بورڈ سے الحاق کر لے۔ آغاخان فائونڈیشن کے بورڈ کو یوایس ایڈ (U.S. Aid)کی مالی پشتیبانی حاصل ہوگی جس کی شہ پر وہ خود سے منسلک اداروں کو بظاہربہتر سہولتیں مہیا کرکے انھیں مغربی تہذیب و ثقافت اور اقدار اپنانے اور بچوں کو اسلامی تہذیب سے نا آشنا کرکے مغربی تہذیب کا خوگر بنانے پر آمادہ کرسکے گا ۔ اس طرح نظام تعلیم کو سیکولر بنانے اور نئی نسل کو اسلامی نظریے کے بجاے سیکولر نظریات کی طرف دھکیلنے کی امریکی پالیسی پر عمل درآمد کرنے کا پروگرام ہے ۔
اس کا راستہ ہموار کرنے کے لیے ابھی سے پرویز مشرف صاحب اپنی تقریروں اور انٹرویوزمیں اظہار خیال فرمارہے ہیں کہ اسلام سیکولرازم کے ساتھ متصادم نہیں ہے۔پرویز مشرف صاحب کے اعتدال پسند اسلام (Moderate Islam)کی تو یہ توجیہہ کی جاسکتی ہے کہ خود قرآن کریم نے امت مسلمہ کو امت وسط (اعتدال والی قوم ) قرار دیا ہے مگر ان کے اس ارشاد کی کوئی توجیہہ ممکن نہیں ہے کہ اسلام میں سیکولرازم کی گنجایش ہے کیونکہ سیکولرازم نام ہی اجتماعی اور سیاسی زندگی سے دین کے اخراج کا ہے ‘ جب کہ اسلام مکمل نظام زندگی ہے ‘ زندگی بسر کرنے کا سلیقہ ہے اور بقول اقبال دین دنیا کے دروازے کی کنجی ہے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی چابی سے دنیا کا دروازہ کھولا ہے:’’از کلیددین دردنیا کشاد‘‘۔
اسلام کا مطالبہ ہے کہ اسے قبول کرنا ہے تو پورے کاپورا قبول کرلو۔اسلام کے بعض حصوں کو قبول اور بعض کو رد کرنے کی کوئی گنجایش دین اسلام میں نہیں ہے ۔اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍج فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلاَّ خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِط (البقرہ ۲:۸۵) ’’توکیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں‘ ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں؟‘‘
حدود قوانین اور توہین رسالت ؐکے قانون کو مغربی اقوام کے دبائو کے تحت تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ لیکن پرویز مشرف صاحب پر یہ واضح رہنا چاہیے کہ اگر انھوں نے پسپائی اختیار کی اور اسلام کے راستے کو چھوڑکر اپنے نظام تعلیم اور تہذیب و ثقافت اور قوانین کو مغربی تہذیب کے رنگ میںرنگنے کے راستے پر چل پڑے تو وہ خود اپنے خلاف احتجاج اور ایجی ٹیشن کو دعوت دیں گے ۔
مغربی اقوام اور خصوصاً امریکا کا ایک مطالبہ دینی مدارس کے آزادانہ نظام کو ختم کرکے ان کو حکومتی کنٹرول میں دینا ہے ۔مغربی میڈیا میں دینی مدارس کے خلاف زبردست مہم چلائی جارہی ہے اور دینی مدارس کو دہشت گردی اور تشدد کا منبع قرار دیا جا رہا ہے ۔ دہشت گردی اور جہاد کو ہم معنی قرارد یا جارہا ہے اور اس بہانے قرآنی تعلیمات کو نصاب تعلیم سے خارج کرنے کے لیے دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ یہ ایسا مطالبہ ہے کہ پاکستانی قوم کو اس کے لیے آمادہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ جو حکومت بھی اس حد تک امریکا کو خوش کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوگی اسے اپنی قوم کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکا کے دبائو کے تحت اس طرح کی پالیسی بنانے والی حکومت ملک کے امن و امان کو تہ و بالا کرنے کی خود ذمہ دار ہوگی اور امن و امان کی خرابی کے ساتھ اقتصادی ترقی کا خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ اقتصادی ترقی کے لیے سیاسی استحکام اور امن و امان بنیادی ضرورت ہے ۔ آج دنیا میں ہزاروں ارب ڈالر اس انتظار میں ہیں کہ انھیں کسی ترقی پذیر ملک میں امن و امان کی بہتر صورت حال اور سیاسی استحکام ملے تو یہ پورا سرمایہ وہاں منتقل کردیا جائے ۔ خود پاکستانی شہری اپنا سرمایہ اور اپنی مہارت (skill)اپنے ملک کی طرف اس وقت منتقل کریں گے جب ا ن کو یقین ہوگا کہ ملک سیاسی طور پر مستحکم ہے اور امن و امان کی صورت حال بہتر ہے ۔ یہ حالات اس وقت پیداہوسکتے ہیں جب حکومت اور عوام میں ہم آہنگی ہو اور باہمی اعتماد کی فضا قائم ہو۔جو حکومت اپنے عوام کی خواہشات اور امنگوں کو نظر انداز کرکے طاقت کے استعمال کے ذریعے امن قائم کرنے پرتل جائے‘ وہ امن کی بجاے بد امنی کو دعوت دے گی ۔ چنانچہ وزیر ستان میں طاقت کے استعمال کانتیجہ حکومت نے دیکھ لیا ۔ اب پاکستانی فوج اپنے آپ کو خود اپنی قوم میں اجنبی محسوس کررہی ہے ۔ چھائونیوں کے گرد دیواروں کو اونچا کیا جا رہا ہے اور فوجی افسران حفاظتی دستوں کی نگرانی کے بغیر اپنے گھرسے باہر نہیں نکلتے ۔ پرویز مشرف صاحب جس راستے سے گزرتے ہیں‘ اس پورے راستے پر گاڑیوں کے چلنے پر پابندی عائد کردی جاتی ہے اور عملاً کرفیو کا سماں ہوتا ہے۔ یہ سب عوام کی مرضی کے خلاف پالیسیاں بنانے کے شاخسانے ہیں۔ ان حالات میں ملک نہ اقتصادی طور پر ترقی کرسکتا ہے‘ نہ اس میں سیاسی استحکام پیدا ہوسکتا ہے‘ نہ اس کی امن و امان کی صورت حال کو درست کیا جاسکتا ہے۔
اب ہم اپنے سوالات کے اصل جواب کی طرف آتے ہیں۔ اگرپاکستان کی فوج‘ یہاں کے سیاست دان اور قومی دانش ور خلوصِ نیت کے ساتھ ملک و ملّت کو موجودہ گمبھیر صورت حال سے نکالنا چاہتے ہیں تو درج ذیل اقدامات کے ذریعے قوم کی کشتی بھنور سے نکالی جاسکتی ہے:
۱- پرویز مشرف صاحب چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ چھوڑتے ہوئے اسے فوج کے کسی مستحق اور اہل جنرل کے سپردکردیں جو سیاسی عزائم کی بجاے قومی دفاع پر پوری توجہ مرتکز کردے‘ اور فوج کو ملک کی اندرونی صورت حال میں فریق بنانے کی بجاے سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الگ کردے ۔
۲- نیوکلئیرپروگرام کی حفاظت اور اسے ترقی دینے کی پالیسی پر سختی سے پابندی کا اعلان کیاجائے۔
۳- پارلیمنٹ کی خود مختاری کو تسلیم کرکے اقتدار اس کی طرف منتقل کردیا جائے اور پارلیمنٹ سے بالا تر اداروں کا خاتمہ کرکے صدر اور سکیورٹی کونسل کے ادارے اور فوج سمیت تمام اداروں کو پارلیمنٹ کے ماتحت کردیا جائے ۔ اس بنیادی اصول کو قوم ‘ سیاست دان‘ حکومتی پارٹی اور اپوزیشن دل سے تسلیم کرلیں اور اس کا احترام کریں۔
۴- پرویز مشرف صاحب اور حکمران پارٹی کوئی ایسا اقدام کرنے سے گریز کریں جو ملک کے اسلامی نظریے کے منافی ہو‘ جس کو ملک کے عوام خوش دلی سے قبول کرنے سے انکار ی ہوں اور جو قومی پالیسی اور قومی امنگوں کے منافی ہو ۔
۵- کشمیر کی قومی پالیسی پر سختی سے کاربند رہیں اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے علاوہ کسی دوسرے حل کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا جائے۔
۶- فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کا اعلان و اقرارکیا جائے اور بیت المقدس سمیت فلسطین پر اسرائیل کی بالادستی تسلیم کرنے سے انکار کردیا جائے۔
۷- عراق اور افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت کو ختم کرکے عراق اور افغانستان کی آزادی اور خود مختاری کوبحال کرنے کا مطالبہ کیا جائے۔ کسی بھی صورت پاکستانی فوج یا نمایندے عراق نہ بھیجے جائیں۔
۸- دینی مدارس میں ناجائز حکومتی مداخلت کا سلسلہ بند کیا جائے اور امریکی دبائو کے تحت تعلیمی منہج کو تبدیل کرنے سے احترازکیاجائے۔
۹- حدود قوانین اور توہین رسالتؐ کے قوانین کو چھیڑنے سے احترازکیا جائے۔
۱۰- آیندہ انتخابات کو آزادانہ اور منصفانہ بنانے کے لیے ایک آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری اپوزیشن کے مشورے سے عمل میں لائی جائے۔ جس الیکشن کمیشن پر اپوزیشن عدم اعتماد کا اظہار کرے‘ اسے تبدیل کردیا جائے تاکہ انتقال اقتدار عوام کی آزادمرضی سے عمل میں آئے اور عوام کا حق حکمرانی تسلیم کرلیا جائے ۔
اگر حکومت ان تجاویز پر خوش دلی سے عمل کرنے پر آمادہ ہو جائے تو قدرتی طور پر اپوزیشن سے بھی مثبت رویے کی توقع کی جاسکتی ہے بلکہ وہ اقتصادی‘ اخلاقی اور سیاسی میدان میں ترقی کے کاموں میں حکومت سے تعاون کرے گی۔ اس صورت میں ملک و قوم کی کشتی نئے آنے والے طوفانی دور میں بحفاظت پار ہوسکتی ہے اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعاون کے راستے کھل سکتے ہیں ۔ ملک کے ہر بہی خواہ کا فرض ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو عافیت کا یہ راستہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے اثر و رسوخ استعمال کرے ۔حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اگر قومی مفادپر مبنی اس پالیسی پر اتفاق ہوجائے تو ہم بھارت ‘اسرائیل اور امریکی گٹھ جوڑ کے باوجود خطرات کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور قومی مصلحتوں کی حفاظت کی خاطر آزادخارجہ اور داخلہ پالیسیاں بناسکتے ہیں اور ملکی دفاع کی خاطر عوام ‘فوج اور حکومت کا مل اتفاق اور ہم آہنگی کے ساتھ ایک ساتھ چل سکتے ہیں ۔جمہوری طرز حکومت کا حسن یہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن قومی مفادکی خاطر اکٹھی ہوجاتی ہیں اور قومی سلامتی کو درپیش خطرات کا مل کر مقابلہ کرتی ہیں ۔
کسی بھی جمہوری معاشرے میں ہر پارٹی کا اصل ہدف اپنی قوم کی فلاح و بہبود ہوتی ہے۔قومی فلاح و بہبود کے لیے قومی سلامتی اولیں ضرورت ہے اور قومی سلامتی کی خاطر حکومت‘ فوج اور عوام میں ہم آہنگی ضروری ہے ۔ یہ ہم آہنگی اس وقت حاصل ہوسکتی ہے جب ملک کے تمام ادارے صدق دل سے پاکستان کے آئین اور قرارداد مقاصد میں بیان کردہ بنیادی اصولوں کی پاسداری کریں ۔ ان بنیادی اصولوں میں سب سے اہم ہمارا اسلامی نظریہ ہے ۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے غیر مسلم ممبران سمیت ملک کے تمام اہم اداروں کے افراد پاکستان کے اسلامی نظریے کے ساتھ وفاداری کا حلف لیتے ہیں ۔ دستور کی پابندی اور اس کی حفاظت کرنے کا حلف ہماری افواج کے سربراہان ‘ہمارے صدر‘ وزیراعظم اوراعلیٰ عدالتوں کے تمام جج صاحبان لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود دستور کی پابندی نہ کرنے کے نتیجے میں ہمارا سیاسی نظام کئی بار تلپٹ ہوچکا ہے ۔
ہماری افواج میں بھی اب یہ احساس پایا جاتا ہے کہ قومی سلامتی کے لیے اپنی تاریخ اور اسلامی نظریے سے وابستگی‘ مضبوط اقتصادی ڈھانچا اور مضبوط اداروں کا قیام ضروری ہے ۔ یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہے جب ہم دستور کی پابندی کا عہد کریں جس کی بنیاد نظریہ اسلام ‘ جمہوریت ‘وفاقیت اور عدلیہ کی آزادی پر رکھی گئی ہے ۔
اس وقت پوری قوم میں اپنے مستقبل کے بارے میں جو فکرمندی پائی جاتی ہے‘ اس فکرمندی اور تشویش کو امید کی شمع روشن کرکے یقین محکم میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔یاس اور حزن‘ مایوسی اور ناامیدی تمام برائیوں کی جڑ ہے اور یہ انسان کی قوت عمل کو مفلوج کردیتی ہے‘ جب کہ امیداور یقین مضمحل قوتوں میں بھی جان ڈال دیتی ہے ۔اس لیے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے: یسرواولا تعسروا بشروا ولاتنفروا’’آسانیاں پیدا کرو اور تنگیاں مت پیدا کرو‘خوشخبریاں سنائو اور لوگوں کو متنفرمت کرو‘‘۔
لاتقنطوامن رحمۃ اللّٰہ ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ‘‘۔لاتیئسوامن روح اللّٰہ،’اللہ کے رحم سے ناامید نہ ہوں‘۔لاتخافواولاتحزنوا ،’نہ خوف کرو اور نہ غم کرو‘۔لاتخف،’ خوف مت کرو‘۔ لاتحزن، ’غم مت کرو‘۔
یہی تعلیم ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال نے دی ہے ۔ وہ امید کے شاعر تھے ۔ یاس اور حزن کوانھوں نے مثنوی اسرارخودی میں ام الخبائث قرار دیا ہے اور فرمایا ہے ؎
نہ ہو نومید‘ نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں
’’روشن خیالی‘‘ اور ’’اعتدال پسندی‘‘ بڑ ے خوش نما الفاظ ہی نہیں‘ بڑے دل پذیر تصورات بھی ہیں۔ اگر مسلمان تہذیب و ثقافت‘ معاشرت اور شریعت پر اسلام کے فکری‘ نظریاتی اور اخلاقی تناظر میں غور کیا جائے‘ تو یہ اس دین اور تہذیب کی امتیازی خصوصیات میں سے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاملہ عقیدے کا ہو یا عمل کا‘ فرد کی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی‘ عبادت ہو یا معیشت‘ حتیٰ کہ دوستی کے امور ہوں یا دشمنی اور جنگ کے‘ ان سب میں اسلام نے عدل کا حکم دیا ہے جو اعتدال اور توازن کی علامت ہے۔ اسلام نے ہر سطح پر ہراقدام کے لیے احتساب کی شرط لگائی ہے جو شعور‘ اختیار اور روشن خیالی پر منحصر ہے اور تعصب‘ جہل اور جانب داری سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اُمت مسلمہ کو خیراُمت اور اُمت وسط قرار دیا ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام امور میں میانہ روی اور وسط کی راہ کو بہترین راستہ اور طریقہ قرار دیا ہے (خیر الامور اوسطہا)۔ اس لیے اگر روشن خیال اعتدال پسندی کی بات کی جائے تو اس پر تعجب یا اعتراض کچھ بے محل معلوم ہوتا ہے۔ لیکن مشکل یہ آپڑی ہے کہ آج جس ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی بات کی جا رہی ہے اس کا پس منظر ہمارا اپنا دین‘ ہماری اپنی تہذیب‘ ہماری اپنی روایت اور ہماری ضرورت نہیں بلکہ وہ ایک خاص تاریخی عمل کا حصہ بن گئی ہے اور دنیا کے‘ خصوصیت سے‘ مسلم دنیا کے لیے جس نئے سیاسی اور تہذیبی نقشے میں رنگ بھرا جارہا ہے‘ اس کا اہم رنگ ہے۔ عالمی حالات اور رجحانات کا جائزہ لیجیے تو صاف نظر آ رہا ہے کہ اس کا تعلق بیرونی دبائو اور مطالبات سے ہے۔
جو نیا عالمی نظام وضع کیا جا رہا ہے وہ استعمار کی سب سے جامع اور گمبھیر صورت (version) ہے جس میں عسکری‘ سیاسی‘ معاشی اور ثقافتی پہلو مساوی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کا ہدف دنیا کے تمام ممالک اور اقوام کو ایک سوپر پاورامریکا کی صرف سیاسی اور عسکری چھتری تلے لانا نہیں بلکہ فکری‘ معاشی‘ مالیاتی اور ثقافتی طور پر بھی ایک ہی نظامِ اقدار (value system) سب پر مسلط کرنے کا منصوبہ ہے۔ اسے جبر واختیار اور ترغیب و ترہیب کے ہر ممکنہ ذرائع کے استعمال سے کامیاب کرانا مقصود ہے۔ اس ہمہ جہتی حکمت پر سرد جنگ کے دور کے ختم ہونے کے بعد سے‘ بڑی چابک دستی سے عمل کیا جا رہا ہے اور ۱۱ستمبر کے بعد کے اقدامات اس وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ اسے سمجھے بغیر روشن خیالی اور میانہ روی کی جو آوازیں آج اٹھ رہی ہیں‘ ان کی حقیقت اور مضمرات کو سمجھنا ممکن نہیں۔ اس ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کا کوئی تعلق ہماری اپنی ضروریات سے نہیں‘ یہ ہمارے اپنے تہذیبی لنگر سے مربوط اور وابستہ نہیں بلکہ یہ عنوان ہے اس تبدیلی کا‘ جو اسلام اور مسلم معاشرے اور تہذیب کو‘ اس کی اپنی اساس سے ہٹاکر‘ مغرب سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کی جا رہی ہے اور آج سے نہیں سامراج کی یلغار کے پہلے دور ہی سے کی جا رہی ہے۔ البتہ استعمار کی تازہ یورش میں اس کو ایک زیادہ مرکزی کردار دیا گیا ہے۔
گذشتہ ربع صدی میں امریکی دانش ور‘ پالیسی ساز اور میڈیا ایک نئی تہذیبی جنگ میں مصروف ہے اور اس کا ہدف مغرب کے لبرل‘ معاشی اور سیاسی نظام کو پوری دنیا پر مسلط کرنا ہے۔ ہم انھی صفحات میں اس سلسلے میں دسیوں کتب اور تحقیقی اور تجزیاتی رپورٹوں کا ذکر کر سکتے ہیں۔ اس پوری حکمت عملی کو مشہور امریکی رسالہ فارن پالیسی (Foreign Policy) کے ایڈیٹر جوزف نائی (Joseph Nye) نے اپنے ایک مضمون میں کسی تکلف کے بغیر مختصر طور پر بیان کردیا ہے۔ وہ کہتا ہے:
عالمی سیاست میں طاقت کی نوعیت میں تبدیلی آ رہی ہے۔ طاقت کا مطلب یہ ہے کہ آپ جو حاصل کرنا چاہتے ہیں حاصل کریں۔ اور اگر ضروری ہو تو اسے امر واقع بنانے کے لیے دوسروں کے رویوں کو تبدیل کر دیں۔
(Re-Ordering the World: The Long-term implications of 11th Sept. ed. by Mark Leonard. Foreword by Tony Blair, The Foreign Policy Centre, London 2002)
جنگ وہ آخری اور قطعی کھیل ہے جس میں عالمی سیاست کے کارڈ کھیلے جاتے ہیں اور طاقت کا تناسب ثابت کیا جاتا ہے۔
البتہ اب نیوکلیر اسلحے کے ایک کارفرما قوت بن جانے سے حالات کروٹ لے رہے ہیں۔ نیز دنیا کی مختلف اقوام میں قومیت کے تصور کے جاگزیں ہوجانے سے عالمی سیاست کے دروبست میں تبدیلی آگئی ہے۔ اسی طرح عالمی سرمایہ داری کی موجودہ شکل جس میں معاشی فوائد کا حصول‘ دنیا کے ممالک کی منڈیوں پر قبضے کے ذریعے ان سے فائدہ اٹھانے کے اسلوب‘ کثیرالقومی کمپنیوں کا کردار یہ سب جنگ اور محض قوت کے ذریعے دوسروں کو قبضے میں رکھنے کو اگر مشکل نہیں تو مہنگا (too costly)بنائے جا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں فوجی اورمعاشی قوت جسے وہ Hard Power کہتا ہے مؤثرتو ہیں لیکن اب جن عوامل کا کردار بڑھ رہا ہے انھیں جوزف نائی Soft Powerکہتا ہے:
اس صورت میں یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ عالمی سیاست کا ایجنڈا ترتیب دیا جائے اور دوسروں کو فوجی اور اقتصادی ہتھیاروں کی دھمکی یا استعمال کے ذریعے بزور طاقت اس طرف لایا جائے۔ طاقت کا یہ پہلو کہ دوسرے وہ چاہنے لگیں جوآپ چاہتے ہیں‘ نرم طاقت (Soft Power)کہا جاتا ہے۔ نرم طاقت کا انحصار سیاسی ایجنڈے کو اس طرح ترتیب دینے کی قابلیت پر ہوتا ہے جو دوسروں کی ترجیحات کا تعین کرے۔
اس حکمت عملی پر مؤثر عمل کے لیے ابلاغ کی قوت کا استعمال مرکزی اہمیت رکھتا ہے اور اقتصادی قوت کا ہدف افکار‘ اقدار‘ کلچر کی تبدیلی ہے۔ اس نئی جنگ میںاصل مزاحم قوت مقابل تہذیب کا عقیدہ‘ نظریہ‘ اصول اور اقدار بن جاتے ہیں۔ اسلامی دنیا میں عوام کی اسلام سے وابستگی اور اپنی تہذیب اور اقدار کے بارے میں استقامت--- مغرب کے لیے سب سے بڑا دردسر بنی ہوئی ہے۔ جوزف نائی اعتراف کرتا ہے کہ:
یقینی طور پر ایسے علاقے ہیں‘ جیسے شرق اوسط‘ جہاں امریکی کلچر کے حوالے سے گومگو یا مکمل مخالفت کی کیفیت اس کی ’نرم طاقت‘ کو محدود کر دیتی ہے۔
یہ ہے اصل مخمصہ! اور اس کا حل تجویز ہوا ہے مسلم ممالک میں ’روشن خیالی‘ اور ’اعتدال پسندی‘ کی حکمت عملی کا فروغ کہ اس طرح مسلم دنیا کو اس کی اپنی بنیادوں سے ہلا کر مغرب کے رنگ میں رنگنے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے مسلمان عورت کا حجاب بھی توپ اور میزائل کی طرح خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ اسلام سے مسلمانوں کی وابستگی اور اپنی ثقافت اور روایت سے محبت مغرب کی نگاہ میں اس کے عزائم کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسلام میں دین و سیاست کا ناقابلِ تقسیم ہونا اصل سدِّراہ ہے۔
جہاد کا جذبہ جو دفاع کا مؤثر ترین ذریعہ ہے‘ ان کی آنکھوں کا کانٹاہے۔ مسئلہ بنیاد پرستی نہیں‘ اسلام کا ایک مکمل نظامِ زندگی ہونے کا تصور ہے۔ یہ مغرب کی نگاہ میں اصل سنگِ راہ ہے۔ ایک جرمن مستشرق خاتون ایندریا لوئیگ (Andrea Lueg) اپنے ایک مضمون The Perception of Islam in Western Debate میں صاف الفاظ میں مغرب کے دانش وروں کے اس یقین کو یوں پیش کرتی ہے:
مغرب اسلام کو ایک ایسے مذہب کے طور پر زیربحث لاتا ہے جو اسلامی ممالک کے بے شمار سیاسی‘ ثقافتی اور سماجی مظاہرکا ذمہ دار ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ اسلام ایک مذہب کی حیثیت سے مغربی ممالک میں خوف پیدا کرتا ہے۔ مذہب کا وہ خوف جو ہمارا خیال ہے کہ ہم نے اپنے روشن خیال معاشروں سے ختم کر دیا ہے۔
The Next Threat: Perception of Islam, ed. by Jochen Heppila and Andrea Lueg, Pluto Press, London 1995, p27)
مغرب اسلام کی بڑھتی ہوئی سیاسی مقبولیت کو خطرناک‘ یک رخی اور عجیب قرار دیتا ہے۔ جنگجو اسلام کے فروغ نے اس شدید بحث کا آغاز کر دیا ہے کہ مغرب اس کے بارے میں کیا کچھ کر سکتا ہے یا کرنا چاہیے۔ کچھ امریکی سرکاری افسران اور مبصرین نے پہلے ہی جنگجو اسلام کو مغرب کا اگلا دشمن قرار دے دیا ہے جس کو اسی طرح قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے جس طرح سرد جنگ میں کمیونزم کو کیا گیا تھا۔ (ص ۱۳۱)
اس پس منظر میں امریکی اور یورپی دانش وروں اور پالیسی ساز اداروں کی کوشش ہے کہ اسلامی دنیا کو بنیاد پرست‘ جنگجو اور لبرل‘روشن خیال اور اعتدال پسندوں میں تقسیم کریں۔ جسے وہ بنیاد پرست‘ جہادی‘ اور مزاحم قوت سمجھتے ہیں اسے ختم کیا جائے اور اس کی جگہ اسلام کے ایک لبرل ورژن کو فروغ دیا جائے۔ نیوزویک کے مدیر بھارت نژاد امریکی فرید زکریا اسی حکمت عملی کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
اوّلین طور پر ہمیں عرب اعتدال پسند ریاستوں کی مدد کرنی چاہیے لیکن اس شرط پر کہ وہ فی الواقع اعتدال پسندی کو مکمل طور پر اختیار کریں۔ ہم مسلمان اعتدال پسند گروہ اور اہل علم تیار کر سکتے ہیں اور ان کی تازہ فکر عرب دنیا میں نشر کرسکتے ہیں جن کا مقصد یہ ہو کہ بنیاد پرستوں کی طاقت کو توڑا جائے۔ (Re Ordering The World ‘ ص ۴۷)
یہ ہے وہ پس منظر جس میں جنرل پرویز مشرف صاحب کی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی تازہ حکمت عملی کی اصل معنویت اور مناسبت (relevance) کو سمجھا جا سکتا ہے۔ نیتوں کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے‘ لیکن انسانی جائزوں کا انحصار ظاہری عوامل ہی پر ہوتا ہے۔ جنرل صاحب نے اپنے اقتدار کے اولیں ایام میں اتاترک کی بات کی‘ پھر عوامی دبائو میں تاویلیں کیں‘ جب موقع ملا حدود قوانین اور اہانتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا۔ موقع بے موقع اسلام میں لبرلزم کا ذکر کیا۔ پھر جہاد اور جنگِ آزادی اور دہشت گردی کے فرق کو یکسر نظرانداز کرنا شروع کیا اور اب کھل کر روشن خیال اعتدال پسندی کے نام سے اسلام میں نشات ثانیہ اور دہشت گردی کی تباہ کاریوں پر دل گرفتگی کا اظہار کرتے ہوئے اور تصادم کے مضراثرات سے خائف کرتے ہوئے نہ صرف روشن خیال اعتدال پسندی اور لبرلزم کا درس دے رہے ہیں بلکہ پہلی بار کھل کر کہہ رہے ہیں کہ اسلام کا جدت پسندی اور سیکولرازم سے کوئی تصادم نہیں‘ یہ ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔ سیکولرازم کی اتنی کھلی تائید انھوں نے پہلی بار کی ہے اور اس طرح روشن خیالی کی بلی تھیلی سے باہرآگئی ہے۔ اب ان کے پورے وعظ و تلقین کی شان نزول اور روشنی کا منبع بھی کسی پردے میں نہیں رہا۔ نیز یہ بھی کہ یہ آواز نئی نہیں‘ بلکہ بار بار اٹھائی جاتی رہی ہے۔ لبرلزم کے ایسے ہی وعظ ہم سو سال سے سن رہے ہیں۔ اقبال نے مغرب کے مقاصد کی تکمیل کرنے والے دانش وروں اور حکمرانوں کے فکری اور تہذیبی دیوالیہ پن کا بہت پہلے ماتم کر کے ان سے اُمت کو ہوشیار کیا تھا:
ترا وجود سراپا تجلیِ افرنگ
کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر
مگر یہ پیکر خاکی خودی سے ہے خالی
فقط نیام ہے تُو زر و نگار و بے شمشیر
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید
مشرق میں ہے تقلیدِ فرنگی کا بہانہ
اسلام پر حملہ کبھی باہر سے ہوتا ہے ‘ کبھی اندر سے‘ کبھی کھل کر ہوتا ہے اور کبھی چھپ کر‘ اور کبھی تحریف کے ذریعے ہوتا ہے تو کبھی تعبیر کے نام پر۔ کبھی دشمنی کے انداز میں ہوتا ہے اور کبھی اصلاح کے نام پر۔ چراغ مصطفویؐ اور شرار بولہبی بہرصورت ہر دور میں اور ہر میدان میں برسرِپیکار رہے ہیں اور رہیں گے۔
روشن خیالی اور اعتدال پسندی وہی مطلوب ہے جو اللہ کی بندگی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے وابستہ ہو۔ ایمان‘ تقویٰ‘ عبادت‘ شریعت سے وفاداری‘ اُمت کے حقوق کی ادایگی اور آخرت کی جواب دہی کا احساس وہ فریم ورک فراہم کرتے ہیں جس میں اسلام کی انصاف‘ اعتدال اور توازن پر مبنی مثالی تہذیب کی صورت گری ہوتی ہے۔ یہ ہدایت پر مبنی اور ہویٰ (خواہشِ نفس) سے پاک روشن خیالی اور اعتدال پسندی ہے۔ جو روشن خیالی اور اعتدال پسندی اسلام میں معتبر ہے۔ اس کی بنیاد وہ دعا ہے جو ہر مسلمان نماز کی ہر رکعت میں اپنے رب سے مانگتا ہے یعنی:
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ
اے رب! ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا‘ جو معتوب نہیں ہوئے‘ جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔
ہدایت کوئی مبہم اور غیرمتعین شے نہیں‘ وہ اللہ کی وحی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے عبارت ہے اور روشنی کا اصل منبع یہی رہنمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روشن خیالی کا ماخذ اس سے ہٹ کر کوئی دوسری شے نہیں ہوسکتی۔ اللہ ہی کائنات کا نور ہے (اللّٰہ نور السموات والارض) اور اللہ کی کتاب ہی انسانوں کو تاریکیوں سے نور کی طرف لاتی ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمْ بُرْھَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا (النساء ۴:۱۷۴)
لوگو! تمھارے رب کی طرف سے تمھارے پاس دلیل روشن آگئی ہے اور ہم نے تمھاری طرف ایسی روشنی بھیج دی ہے جو تمھیں صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے۔
فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَاعْتَصَمُوْا بِہٖ فَسَیُدْخِلُہُمْ فِیْ رَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَفَضْلٍ وَّیَہْدِیْہِمْ اِلَیْہِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا (النساء ۴:۱۷۵)
اب جو لوگ اللہ کی بات مان لیں گے اور اس کی پناہ ڈھونڈیں گے ان کو اللہ اپنی رحمت اور فضل و کرم کے دامن میں لے لے گا اور اپنی طرف آنے کا سیدھا راستہ ان کو دکھا دے گا۔
یَّہْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہ‘ سُبُلَ السَّلٰمِ وَیُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہٖ وَیَہْدِیْہِمْ اِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (المائدہ ۵:۱۶)
تمھارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اُجالے کی طرف لاتا ہے اور راہِ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے۔
واضح رہے کہ راہ راست ہی اعتدال کی راہ ہے۔ اسی لیے اس اُمت کو اُمت وسط (البقرہ ۲:۱۴۳) اور انصاف اور عدل کو‘ جو توازن‘ حسن‘ ہم آہنگی اور میانہ روی کا جامع ہے‘ اس اُمت کا مشن اور اس کی امتیازی شان قرار دیا (النساء ۴:۱۳۵‘ المائدہ ۵:۸‘ الاعراف ۷:۲۹‘ النحل ۱۶:۹۰) اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی زندگی کے لیے یہ زریں اصول مقرر فرما دیا کہ خیرالامور اوسطھا --- تمام معاملات میں میانہ روی اور اعتدال پسندی ہی بہترین طریقہ ہے۔
حقیقی روشن خیالی اور اعتدال پسندی قرآن و سنت کی مکمل اطاعت اور پاسداری سے عبارت ہے جو ہمارے نظام زندگی میں پہلے سے موجود (built-in) ہے اسے کہیں باہر سے لانے اور دوسروں کی خواہشات اور مطالبات کی روشنی میں کسی انتخاب و اختیار (pick and choose) اور کسی تراش خراش کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ کی نگاہ میں اس کے دین میں کمی بیشی اور دوسروں کی خواہشات کی روشنی میں رد و قبول سے بڑا کوئی جرم نہیں۔ اس پر دنیا میں خسارے اور آخرت میں بدترین عذاب کی وعید ہے۔
اسلام میں روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا جو مقام ہے‘ وہ شریعت کے اس کلّی مثالیے (paradigm) کا حصہ ہے‘ اس سے جدا کوئی جز نہیں۔ اس میں تحریف‘ غلو‘ قطع و برید اور جاہلانہ تعبیرات سے تحفظ اور الفاظ و معانی اور قانون اور روحِ قانون کا ناقابلِ انقطاع رشتہ ہے۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو ہمیشہ صحیح راستے پر قائم رکھنے کے لیے جو نسخۂ کیمیا تجویز فرمایا ہے‘ وہی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے حدود اربعہ کو طے کر لیتا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:
عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ الْعُذْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَحْمِلُ ھَذَا الْعِلْمَ مِنْ کُلِّ خَلَفٍ عُدُوْ لُہٗ یَنْفُوْنَ عَنْہٗ تَحْرِیْفَ الْغَالِیْنَ وَاِنْتِحَالَ الْمُبْطِلِیْنَ وَتَاْوِیْلَ الْجَاھِلِیْنَ (مشکوٰۃ)
اس علم کے حامل ہر نسل میں وہ لوگ ہوں گے جو دیانت و تقویٰ سے متصف ہوں گے وہ اس دین کی غلوپسندوں کی تحریف‘ اہلِ باطل کی غلط نسبت و انتساب اور جاہلوں کی تاویلات سے حفاظت فرمائیں۔
یہ ہے اسلام کی کھلی شاہراہ۔ لیکن جس لبرلزم‘ ماڈرنزم‘ روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی بات امریکی دانش ور اور پالیسی ساز کر رہے ہیں اور جس کی بازگشت خود ہمارے کچھ حکمرانوں اور دانش وروں کی تحریروں اور تقریروں میں سنی جاسکتی ہے اُس میں اور اس میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
چراغ مصطفویؐ سے جو روشن خیالی اور اعتدال پسندی رونما ہوتی ہے‘ وہ شریعت اسلامی کے بے کم و کاست اتباع سے عبارت ہے۔ اس کے مقابلے میں ’شراربولہبی‘ کا جو تقاضا اور مطالبہ ہے وہ یہ ہے کہ وقت کی جابر اور بالادست قوتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کے دین‘ اقدار اور تصورِ زندگی کو قبول کیا جائے‘ ان کے تصور ترقی کو اختیار کیا جائے‘ ان کے رنگ میں اپنے کو رنگ لیا جائے اور ان کے دیے ہوئے معیار کے مطابق اور ان کے پسندیدہ پیمانوں میں اللہ کے دین کو ڈھال دیا جائے۔ گویا جس طرح اکبر بادشاہ نے اپنے دور کے باغیوں کو خوش کرنے کے لیے ایک ’’دین الٰہی‘‘ بنانے کی جسارت کی تھی‘ اسی طرح آج امریکہ اور مغرب کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے ایک نیا ’اسلام‘ وضع کیا جائے جو اُمت کے مرکز سے ہٹ کر ملک اور مقامی مفادات کو مرکز بنائے اور جس کا اصل ہدف شریعت کو عملاً معطل کرکے دین و دنیا کی تفریق اور ماڈرنائزیشن کے نام پر مغربیت کے لیے راہ ہموار کرے۔ اس طرح اسلام کا نام باقی رکھ کر ایک سیکولر نظامِ زندگی پروان چڑھایا جائے تاکہ اسے امریکہ اور مغرب کے حکمران اور دانش ور ’روشن خیال اور اعتدال پسند‘ تسلیم کریں‘ جس کو وہ فنڈامنٹلزم اور انتہاپسندی قرار نہ دیں بلکہ اس ’اسلام‘ میں وہ اپنی تہذیبی اقدار اور عادات و اطوار کی جھلک دیکھ سکیں اور اس پر ’ترقی پسندی‘ کی مہر لگا سکیں۔
’چراغ مصطفویؐ ،اور ’شرار بولہبی‘ کی دائمی ستیزہ کاری اور اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلام اور اکبری دین الٰہی کی پیکار کی یاد دہانی کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ۱۱ستمبر کے بعد مسلم دنیا اور خصوصیت سے پاکستان پر امریکی اثرات بلکہ تسلط کا جو آغاز عسکری تعاون اور سیاسی تابع داری سے ہوا تھا‘ وہ اب نظریاتی‘ تعلیمی اور ثقافتی غلامی کے دائروں تک وسیع ہوتا جارہا ہے۔ اب اس کے لیے ایک تصوراتی خاکہ (conceptual framework) بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ جس کی خصوصی سعادت ہمارے جنرل پرویز مشرف کو حاصل ہو رہی ہے۔ پہلے انھوں نے اپنی تقریروں میں اور اپنے مختلف سیاسی حلیفوں سے ملاقاتوں میں ایک نئے وژن اور ایک تصوراتی ہیولا کی طرف اشارے کیے‘ پھر او آئی سی کے کولالمپور میں منعقد ہونے والے سربراہی اجلاس میں اس ادارے کی تشکیلِ نو کے عنوان سے اُمت مسلمہ کے لیے ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی ایک حکمت عملی پیش کرنے کی سعی بلیغ فرمائی اور اب ۲ جون ۲۰۰۴ء کو امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ کے ایک مضمون کی شکل میں اپنے اس نئے فلسفے کو‘ غالباً اپنی پہلی تحریر کے طور پر پیش کیا ہے جسے پاکستان کے تمام اخبارات نے بھی نمایاں طور پر شائع کیا ہے۔ او آئی سی کے وزراے خارجہ کے اجلاس منعقدہ استنبول میں ان کی پیش کردہ حکمت عملی (روشن خیال اعتدال پسندی- Enlightened Moderation)کو خود او آئی سی کے ہدف کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس تصوراتی خاکے اور حکمت عملی کا معروضی جائزہ لیا جائے اور اس کے حسن و قبح کو علمی تجزیے کے ذریعے واضح کیا جائے تاکہ اُمت کے رہے سہے گلشن کو شرار بولہبی کی آتش زنی سے محفوظ کیا جا سکے۔
دنیا ۹۰ء کے عشرے کے آغاز سے لے کر اب تک‘ ایک انتہائی ابتری اور افراتفری کے دور سے گزر رہی ہے اور اس تشویش ناک صورت حال میں بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ انتہاپسندوں‘ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے ہاتھوں معصوم افراد جس المناک صورت حال سے دوچار ہیں اور خاص طور پر میرے ہم مذہب مسلمان بھائی جس عذاب سے گزر رہے ہیں اس نے مجھے اس بات پر مائل کیا ہے کہ میں اس ابتری اور انتشار سے بھری دنیا کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کروں۔
دہشت گردی اور انتہا پسندی کے جرائم میں ملوث افراد بھی مسلمان ہیں اور ان کا نشانہ بننے والے بدنصیب بھی اسلام ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔
اور ان کی نگاہ میں اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ’’غیر مسلموں میں‘ غلط فہمی کی بنیاد ہی پر سہی مگر ایک عمومی تاثر یہ قائم ہو رہا ہے کہ اسلام عدم رواداری‘ انتہاپسندی اور دہشت گردی کا مذہب ہے‘‘۔
جنرل صاحب ان بے بنیاد تہمتوں سے اتنے خائف اور مرعوب ہیں کہ پہلے ہی شکست تسلیم کرلیتے ہیں یعنی ’’ہم اپنی دلیلوں کے ذریعے ذہنوں میں بیٹھے ہوئے اپنے خلاف تاثرات کو ختم کرنے کی جنگ جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے‘‘۔ اور یہ سب کچھ اس لیے کہ ’’مسلمان آج دنیا میں بہت غریب‘ سب سے زیادہ غیرتعلیم یافتہ‘ سب سے زیادہ بے بس اور سب سے زیادہ عدم اتحاد و استحکام کے شکار گروہ کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں‘‘۔
اس تجزیے کے بعد جنرل صاحب مسئلے کا حل یہ بتاتے ہیں کہ مسلمان اور غیرمسلم دنیا دونوں ان کی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی حکمت عملی کو قبول کرلیں تو سب ٹھیک ہو سکتا ہے۔
جنرل صاحب نے تلقین تو مغربی اقوام کو بھی یہی کی ہے اور بہ کمالِ شفقت مغربی دنیا اور بالخصوص امریکا کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ ’’مسلم دنیا کو درپیش تمام سیاسی تنازعات کو عدل و انصاف کے ساتھ مل کرحل کرنا ہوگا اور محروم اور پسماندہ مسلم دنیا کی سماجی اور معاشی ترقی کے لیے معاونت کرنا ہوگی‘‘۔ لیکن ان کا سارا زور اسلام کی ’اصلاح‘ اور مسلمانوں کے رویوں اور عمل کو تبدیل کرنے پر ہے۔ جنرل صاحب نے اسلام اور مسلمانوں کے لیے جو وژن پیش فرمایا ہے ‘ اس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ:
ہمیں اعتدال کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور ہمیں کشادہ نظری کے ساتھ ایک ایسے رویے کو فروغ دینا ہوگا جو اس غلط تصور کو باطل قرار دے سکے کہ اسلام ایک جارحیت پسند دین ہے اور اسلام جدت پسندی‘ جمہوریت اور سیکولرازم سے متصادم ہے۔
اور اس سب کے باوجود جنرل صاحب متنبہ فرما رہے ہیں کہ:
یہ سب کرتے ہوئے یہ بات بھی ہمیں پیشِ نظر رکھنا ہوگی کہ جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں‘ ضروری نہیں ہے کہ ہر وقت ہمارے ساتھ پوری طرح وہی سلوک روا رکھا جائے جو حق و انصاف کے اصولوں کے عین مطابق ہو۔
جنرل پرویز مشرف صاحب نے اسلامی دنیا کی جہادی تحریکوں کو‘ ایک ایسے ڈھکے چھپے انداز میں جو ان کی سوچ اور دل کی کیفیت کی غمازی کرتا ہے‘ افغانستان میں روس کے استعماری حملے کے خلاف تحریکِ مزاحمت کا نتیجہ قرار دیا ہے اور ۱۹۹۰ء کے بعد رونما ہونے والی نام نہاد دہشت گردی کو اس سلسلے کی ایک کڑی قرار دیا ہے۔ وہ جہاد اور آزادی کی تحریکات اور دہشت گردی کے فرق کو سمجھنے اور بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے اور امریکی دانش وروں اور پروپیگنڈے کے ماہرین کی تیار کردہ نئی تثلیث یعنی ’بنیاد پرستی، انتہاپسندی اور دہشت گردی‘ کو سارے مسائل کی جڑ قرار دے کر ’روشن خیال‘میانہ روی اور اعتدال پسندی‘ کے داعی بن کر اسلامی دنیا میں نشاتِ ثانیہ کی ضرورت کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ مضمون میں ایک پیراگراف اسلام کے اولین دور اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ماڈل کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ہے مگر اس کے بعد نہ مسلمانوں کے عروج اور عالمی قوت بننے کے اسباب پر کوئی روشنی ڈالی ہے اور نہ موجودہ حالت زار کا کوئی علمی تجزیہ کیا ہے۔ بس تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ معاشی ترقی اور سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں ہم پیچھے رہ گئے ہیں‘ مقابلے کی سکت ہم میں نہیں ہے۔ خرابی کی جڑ بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی ہے اور ہمارے لیے نجات کی کوئی راہ اس کے سوا نہیں کہ مغرب سے ہم آہنگی اختیار کریں اور ’’کشادہ نظری کے ساتھ ایک ایسے رویے کو فروغ دیں جو اس غلط تصور کو باطل کر دے کہ اسلام ایک جارحیت پسند دین ہے اور اسلام جدت پسندی‘ جمہوریت اور سیکولرازم سے متصادم نہیں۔
۱- جسے مغرب بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کہتا ہے اسے ترک کر دو اور روشن خیال اعتدال پسندی اختیار کرو۔
۲- ساری توجہ معاشی ترقی‘ تعلیم‘ غربت کے خاتمے‘ صحت اور عدل و انصاف کے حصول پر مرکوز کر دو اور اس کے لیے جدت پسندی‘ جمہوریت اور سیکولرازم کا راستہ اختیار کرو۔
۳- اسلامی کانفرنس کی تنظیم کو مؤثر اور فعال بنائو اور اس میں نئی روح پھونکو تاکہ مسلم دنیا اکیسویں صدی کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے۔
جنرل پرویز مشرف کے اس مضمون میں دو باتیں ایسی ہیں جن کو ہم مثبت سمجھتے ہیں۔ ایک‘ خواہ کتنے ہی ادب سے انھوں نے کہا ہو لیکن ان کا یہ ارشاد کہ ’’مغربی دنیا کو اور بالخصوص امریکا کو مسلم دنیا کو درپیش تمام سیاسی تنازعات کو عدل و انصاف کے ساتھ حل کرنا ہوگا اور محروم اور پس ماندہ دنیا کی سماجی اور معاشی ترقی میں معاونت کرنا ہوگی‘‘ اور دوسری یہ کہ مسلم دنیا کو اپنے گھر کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے اور اس کے لیے ’’اپنی ساری توانائیاں غربت کو دُور کرنے‘ تعلیم اور صحت اور عدل و انصاف کے مثالی نظام کے ذریعے اپنے افرادی وسائل کو فروغ دینے کے لیے‘‘ صرف کرنی چاہییں۔ ان دونوں باتوں سے کسی کو اختلاف نہیں لیکن جس پس منظر میں انھوں نے روشن خیال اعتدال پسندی کی اپنی حکمت عملی کو پیش کیا ہے اور جن دلائل اور شواہد کے بل بوتے پر کیا ہے‘ وہ بڑا خام اور حالات کی بڑی غلط عکاسی کرنے والا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اُمت مسلمہ کا مقدمہ پیش کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں اور عملاً ان کی اس تحریر سے اسلام اور مسلمانوں پر مغرب کے تمام غلط اور ناروا اعتراضات کی بالواسطہ یا بلاواسطہ تائید ہوتی ہے۔ ہم خود ان کے اور تمام سوچنے سمجھنے والے اہل فکرودانش کے غور کے لیے چند گزارشات پیش کرتے ہیں:
۱- دہشت گردی نہ ۱۹۹۰ء کے عشرے سے شروع ہوئی ہے اورنہ اس کا تعلق محض مسلمانوں سے ہے جیسا کہ زیربحث مضمون سے ظاہر ہوتا ہے۔ اول تو دہشت گردی کی تعریف ضروری ہے کیوں کہ قوت کے استعمال کی ہر کوشش کو دہشت گردی نہیں کہا جا سکتا۔ پھر دہشت گردی صرف افراد یا گروہوں کی طرف سے ہی نہیں ہوتی حکومتوں کی طرف سے بھی ہوتی ہے۔ آج دہشت گردی کا زیادہ ارتکاب حکومتوں ہی کی طرف سے ہو رہا ہے بلکہ عوامی سطح پر رونما ہونے والی دہشت گردی بالعموم نتیجہ ہوتی ہے تبدیلی کے سیاسی اور پُرامن مواقع کے مسدود کیے جانے اور ریاستی تشدد اور قومی اور بالاتر قوتوں کے طاقت کے بے محابا اور بے جواز استعمال سے۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کے نام پر جو دہشت گردی حکومتیں اور ریاستی ایجنسیاں انجام دیتی ہیں‘ وہ اس کی بدترین شکل ہے جسے آج دہشت گردی کہا جا رہا ہے۔ وہ دراصل ریاستی ظلم اور استبداد اور بالاتر قوتوں کا اپنے کو قانون‘ انصاف اور جمہوری روایات سے آزاد قرار دے لینے اور طاقت ور عناصر کی کمزوریوں پر دست درازیوں کی پیداوار ہے۔ یہ سیاسی مسائل کو سیاسی طریق کار سے حل نہ کرنے اور محض قوت سے حل کرنے کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
جنرل صاحب کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ جسے وہ اور امریکا دہشت گردی کہہ رہے ہیں وہ ۱۹۹۰ء میں افغانستان میں جہادی جدوجہد‘ روس کی پسپائی اور بعد میں امریکا کے تغافل سے پیدا ہوئی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ جہادی سرگرمیوں کا آغاز افغانستان میں روس کی فوج کشی سے ہوا اور نہ دنیا میں دہشت گردی کا آغازمسلم دنیا سے ہوا۔ بنیادی طور پر دہشت گردی یورپ کی استعماری اور فسطائی حکومتوں کے خلاف عوامی ردعمل کی ایک شکل کو قرار دیا گیا ہے جس میں غیر ریاستی عناصر مسلح سیاسی مقاصد کے لیے جدوجہد پر مجبور ہوئے ہیں۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اورخصوصیت سے مغربی دنیا میں گذشتہ ڈیڑھ سو سال میں اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بیرونی استعماری قوتوں کی مزاحمت کی مختلف تحریکوں نے اس راستے کو اختیار کیا ہے۔
یہ دورِ جدید کی تاریخ کا ایک خاص پہلو ہے جس کا کسی مذہب یا علاقے سے تعلق نہیں۔ سیکڑوں کتابیں اور ہزاروں مقالات اس کے مختلف پہلوئوں پرلکھے گئے ہیں۔ ہم صرف ایک کتاب کا حوالہ دیتے ہیں جسے مارتھا کرنسٹارڈ (Martha Crenstard )نے مرتب کیا ہے اور Terrorism in Context کے نام سے امریکا کی پینسلوانیا اسٹیٹ یونی ورسٹی پریس نے شائع کیا ہے۔ یہ کتاب ۱۱ستمبر کے واقعہ سے ۶ سال پہلے شائع ہوئی ہے اور اس میں مغرب اور مشرق کی درجنوں دہشت گرد تحریکوں کی پوری تاریخ بیان کی گئی ہے۔ نیز مغرب کے سیاسی مفکرین نے‘ خاص طور پر یورپ‘ لاطینی امریکا اور افریقہ کے دانش وروں نے ظالم حکمرانوں اور سامراجی حکومتوں کے خلاف مسلح جدوجہد کا کیا کیا جواز پیش کیا ہے اور اس بحث کو یورپ اور امریکا کے تاریخی تناظر میں انقلابی دہشت گردی (Revolutionary Terrorism) اور انارکسٹ دہشت گردی کے زمروں (Categories) میں بیان کیا ہے۔ شاید ہی دنیا کا کوئی حصہ ہو جہاں گذشتہ ڈیڑھ سو سال میں ایک نہیں‘ کئی کئی تحریکیں ایسی نہ اٹھی ہوں جنھیں آج کی اصطلاح میں دہشت گرد تحریک کہا جاتا ہے۔ ان کے کیا اسباب تھے‘ ذمہ داری کن عناصر پر تھی‘کن تحریکوں کے مثبت نتائج نکلے اور ان کے برپا کرنے والے قومی ہیرو ہی نہیں تاریخی کردار شمار کیے گئے۔ اگر جنرل صاحب اس پورے پس منظر سے واقف نہیں تو انھیں ایسے موضوع پر قلم نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔
۲- جہادی تحریک کو بھی افغانستان سے وابستہ کردینا حقائق سے ناواقفیت ہے یا مسئلے کو الجھانے کی کوشش۔ جہاد اسی ماڈل کا ایک حصہ ہے جسے جنرل صاحب نے ضمنی طور پر اسلام کے ابتدائی دور کے نام سے پیش کیا ہے۔ دورِ جدید میں مغرب کی تمام استعماری قوتوں کا مقابلہ ہر مسلمان ملک میں جہاد ہی کے ذریعے سے کیا گیا اور اسی وجہ سے مغربی اقوام کا خصوصی ہدف جہاد کا تصور رہا جسے ’منسوخ‘ کرانے کے لیے ان کو جھوٹی نبوت تک کا کھیل کھیلنا پڑا۔ الجزائر کی جہادی تحریک جدید تاریخ کا ایک تابناک باب ہے۔ فلسطین میں صہیونی قوت کے خلاف جہاد کا آغاز جدیدانتفاضہ سے نہیں ۱۹۴۸ء کی جدوجہد سے ہوتا ہے جو آج تک جاری ہے۔ کشمیر میں بھی جہاد کا آغاز افغانستان سے روس کی پسپائی سے شروع نہیں ہوتا بلکہ ۱۹۴۷ء میں ڈوگرہ راج اور اس کے مظالم کے خلاف منظم انداز میں ہوا اور آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کسی سیاسی خیرات یا اتفاقی حادثہ کی بنا پر بھارت سے آزاد نہیں ہوئے‘ یہ منظم جہادی جدوجہد سے آزاد کرائے گئے۔
جنرل صاحب نے جو تاریخی پس منظر بیان کیا ہے‘ وہ حقائق پر مبنی نہیں۔ اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ انھوں نے دہشت گردی کا سارا ملبہ مسلمانوں پر گرا دیا ہے۔ نہ اس کے عالمی پس منظر کاذکر کیا ہے‘ نہ ان حقیقی تاریخی‘ سیاسی اور تہذیبی اسباب و عوامل کا تجزیہ کیا ہے اور نہ مغربی اقوام کے اس کردار کی طرف کوئی اشارہ کیا ہے جو اس صورت حال کو پیدا کرنے کا ذریعہ بنے ہیں۔ کاش انھوں نے جرمن محققہ ایندریا لوئیگ ہی کا مطالعہ کر لیا ہوتا جو The Next Threat کے آخری باب میں اپنے نتائج تحقیق بیان کرتے ہوئے اعتراف کرتی ہے کہ:
ان بہت سی خوفناک چیزوں کا اسلام سے بہت کم تعلق ہے‘ بلکہ ان کی بنیادیں کچھ دوسری ہیں۔ اور ان دل دہلا دینے والے (shocking) کاموں میں سے کئی جدید مغربی معاشروں میں بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ‘ انتہا پسندی کی لادینی جڑیں بھی ہوسکتی ہیں‘ چاہے اس کے علم بردار اس کا انکار کریں۔ اس سے پہلے کہ ہم دوسروں کی انتہاپسندی کے بارے میں غضب میں آجائیں‘ ہمیں اپنے کلچر کی انتہاپسندی کا انکار نہیں کرنا چاہیے۔ جب جرمن نوجوان تارکینِ وطن کے ہوسٹل جلا ڈالنا چاہتے ہیں تو ان کا تعلق بھی انتہاپسندی اور غیرمعقولیت سے ہوتا ہے‘ صرف شراب نوشی اور فہم و فراست کے فقدان سے نہیں۔ لیکن شاید ہم میں سے کوئی ان جرائم کی بنیاد مذہب میں بتانے کا نہ سوچے یا یہ کہے کہ ان کا سرچشمہ مغرب کی عیسائی روایات ہیں۔ پس شرق اوسط کے لوگوں کی انتہاپسندی یا غیرمعقولیت کا تعلق ہمیشہ مذہب سے نہیں ہوتا۔ (ص ۱۵۷)
کاش ہمارے اہلِ قلم حقائق کی گہرائی تک جانے کی کوشش کریں اور ان گمبھیرمسائل کی گہرائی میں جاکر سیاسی‘ عمرانی اور نفسیاتی عوامل کی روشنی میں تجزیہ کریں۔ جنرل صاحب کا مضمون اس پہلو سے یک طرفہ‘ سطحی اور ملامتیہ انداز کا حامل ہے۔ ؎
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے
۳- جنرل پرویز مشرف نے مسلمانوں کو بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور ان کے درمیان ایک عارضی تعلق (causal relationship)بھی دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بنیاد پرستی ایک مبہم اور خالص امریکی تصور ہے جس کا اسلام سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہ انیسویں صدی کے آخر میں اور بیسویں صدی کے آغاز کی ایک عیسائی تبلیغی تحریک کی پیداوار تھا جسے گذشتہ چند برسوں سے مسلمانوں پر تھوپا جا رہا ہے۔ جنرل صاحب نے بے سوچے سمجھے اسے مسلمانوں سے وابستہ کردیا۔
انتہاپسندی ایک انسانی کمزوری ہے جو اہلِ مغرب میں بھی ہو سکتی ہے ‘ سیاست دانوں میں بھی‘ فوجیوں میں بھی اور کسی بھی گروہ یافرد میں۔ اس کا رشتہ نام نہاد بنیاد پرستی اور دہشت گردی سے جوڑنے کا کوئی منطقی جواز نہیں۔ دہشت گردی کے اپنے اسباب ہیں اور انتہاپسندی ایک بالکل دوسری شے ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر دہشت گردی انتہا پسندی کا نتیجہ ہو اور ہر انتہا پسندی دہشت گردی پر منتج ہو۔ جنرل صاحب کی یہ ساری بحث محض مغالطوں پر مبنی ہے اور پاکستان اور اسلام دونوں کی بڑی غلط نمایندگی کا ذریعہ بنی ہے۔ تعجب ہے کہ انھوں نے ایک لمحے کے لیے یہ بھی نہیں سوچا کہ اسلام اور مسلمانوں پر بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کا لیبل لگانے میں مغرب اور امریکا کے دانش وروں اور خصوصیت سے‘ صہیونی اہلِ قلم کا کیا کردار اور ان کے کیا مفادات وابستہ ہیں۔ کس طرح اسرائیل کے مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے وہ اسلام‘ عربوں اور مسلمانوں کی ایک خاص انداز میں منظرکشی کر رہے ہیں اور اس میں سیاسی مبصروں‘ دانش وروں اور صحافیوں کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا بلکہ ہالی وڈ کی فلموں نے کیا کردار ادا کیا ہے۔ اگر ان تمام حقائق پر کسی کی نگاہ نہیں تو کیا ضروری ہے کہ جن موضوعات پر آپ کی گرفت نہیں ان پر آپ گوہر افشانی کریں۔ اسلام کے بارے میں مغرب کے خود ساختہ تصورات اور فضا کو خراب کرنے میں ان کے کردار کے بارے میں جوشین ہپلر اور ایندریا لوئیگ کا یہ جملہ قابلِ غور ہے کہ:
یہ کتاب اسلام کا نہیں ‘بلکہ اسلام کے بارے میں مغرب کے دشمنانہ رویے کا جائزہ لے گی] یا مزعومہ ’اسلامی خطرے‘ کا[۔ ہمارا ایک نظریہ ہے کہ اس وقت اسلامی خطرے کے بارے میں عوامی لٹریچر کا جو فیشن ہے‘ مفروضہ خطرے یعنی اسلام سے اس کا بہت کم سروکار ہے۔ اس کا زیادہ تعلق مغرب کے اندازِ فکر سے ہے جس کا ایک جزو سرد جنگ کے اختتام کی وجہ سے ہماری شناخت میں پایا جانے والا خلا ہے۔ یہ پہلو ہمارے اندر دل چسپی پیدا کرتا ہے۔ (ص -۱)
ان مصنفین نے یہ بھی کہا ہے کہ خود بنیاد پرستی کی ساری بحث پر بھی ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی نگاہ میں:
ہمارا استدلال یہ ہے کہ اگرچہ بنیاد پرستی خراب ہے لیکن اس کے ناقد لامحالہ اچھے نہیں ہیں اور ضرور کچھ کے درپردہ محرکات ہو سکتے ہیں۔(ص -۳)
یورپ کے کچھ دانش ور اتنا غور کرنے کو تیار ہیں لیکن ہمارے اپنے ذمہ دار حضرات آنکھیں بند کر کے وہی بات کہنے اور لکھنے میں عار محسوس نہیں کرتے جس کا اظہار مغرب کے متعصب حکمران اور دانش ور کر رہے ہیں! اور جن کے اخلاقی اور ذہنی افلاس کا یہ حال ہے کہ جب ان سے کسی دعوے کے لیے دلیل طلب کی جاتی ہے اور شواہد کی عدم موجودگی پر احتساب ہوتا ہے تو ان کے پاس اس کے سوا کہنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا کہ بس میں یہ کہہ رہا ہوں۔
ہمارے پاس کوئی قابلِ اعتماد شہادت نہیں ہے کہ عراق اور القاعدہ نے امریکا پر حملوں میں تعاون کیا۔
تو اس کے جواب میں امریکی صدر جارج بش صاحب نے جو جواب دیا وہ گنیزبک میں درج کیے جانے کے لائق ہے :
The reason I keep insisting that there was a relationship between Iraq and Saddam and Al-Qaeeda is because there was a relationship between Iraq and Al-Qaeeda.
اس کی وجہ کہ میں برابر اصرار کرتا رہاہوں کہ عراق‘ صدام اور القاعدہ میں تعلق تھا یہ ہے کہ عراق اور القاعدہ میں تعلق تھا۔ (ٹائم ۲۸ جون ۲۰۰۴ئ)
دہشت گردی اور مسلمانوں کے سلسلے میں ہمارے جنرل صاحب اور جارج بش کے اسلوبِ استدالال میں بھی کوئی زیادہ فرق نہیں!
۴- جنرل پرویز مشرف کے مضمون میں دہشت گردی کے سارے منظر اور پیش منظر میں نہ ریاستی دہشت گردی کا کوئی ذکر ہے اور نہ دہشت گردی کے ارتکاب‘ فروغ اور دوام بخشنے میں امریکہ کے کردار پر کوئی گرفت بلکہ اس کا کوئی تذکرہ میں نہیں۔ امریکی قیادت کی بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا کوئی تذکرہ ان کی تحریر ہی نہیں۔ افغانستان اور عراق میں امریکہ جس دہشت گردی کا ارتکاب کر رہا ہے‘ اس پر ان کے ضمیر کی کسی خلش کا کوئی سایہ ان کی تحریر پر نہیں پڑا حالانکہ یہ ایک اہم موقع تھا کہ وہ امریکی قوم سے خطاب کر رہے تھے اور کچھ ان کو بھی آئینہ دکھانے کی خدمت انجام دیتے۔
امریکی دانش وروں اور عوام کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد امریکا کی اپنی دہشت گردی پر نالہ کناں ہے۔ چومسکی جیسے مفکر تو پہلے سے کہہ رہے ہیں کہ امریکا آج ایک غنڈہ ریاست (rogue state)بن چکا ہے۔ سابق امریکی اٹارنی جنرل ریمزے کلارک نے امریکا کے وحشیانہ مظالم پر کئی کتابیں لکھی ہیں اور عراق کی ۱۹۹۱ء کی جنگ سے پہلے‘ جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد کے جنگی جرائم پر ایک بین الاقوامی ٹربیونل کی رپورٹ بھی موجود ہے جو ریمزے کلارک نے جنگی جرائم (War Crimes)کے نام سے قانونی مطالعوں اور ضروری شہادتوں کے ساتھ شائع کی ہے۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کو فروغ دینے میں امریکہ کیا کردار ادا کر رہا ہے‘ اس پر درجنوں کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں۔ لیکن جنرل پرویز مشرف صاحب کی تحریر‘ امریکہ کے اس کردار کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں کرتی۔ اس موقع پر شالمرز جانسن کی تحقیقی کتاب Blowback: The Costs and Consequences of American Empire سے دو اقتباس اصل حقیقت کے ادراک کے لیے مفید ہوں گے۔
ایک آدمی کی نظروں میں جو دہشت گرد ہے‘ بلاشبہہ وہی دوسرے کی نظروں میں آزادی کے لیے لڑنے والا ہے۔ جس چیز کو امریکی اہلکار اپنے معصوم شہریوں پر بلااشتعال دہشت گردحملے کہہ کر مذمت کرتے ہیں ‘ وہ اکثر سابقہ امریکی استعماری کارروائیوں کا ردعمل ہوتا ہے۔ دہشت گرد بے گناہ شہریوں اور غیرمحفوظ امریکی اہداف پر حملہ کرتے ہیں ‘ صرف اس وجہ سے کہ امریکی سپاہی اور ملاح اپنے بحری جہازوں سے کروز میزائل فائر کرتے ہیں اور آسمان کی بلندیوں پر بی-۵۲ طیاروں میں بیٹھ کر بم باری کرتے ہیں اور واشنگٹن سے جابر و استبدادی حکومتوں کی حمایت کی جاتی ہے۔ ڈیفنس سروس بورڈ کے اراکین نے اپنی ۱۹۹۷ء کی رپورٹ میں جو ڈیفنس کے انڈر سیکرٹری کو دی گئی‘ لکھا تھا: تاریخی حقائق عالمی حالات میں امریکا کی شرکت اور امریکا کے خلاف دہشت گرد حملوں میں اضافے کے درمیان واضح تعلق ظاہر کرتے ہیں۔ مزیدبرآں فوجی طاقت میں فرق کی وجہ سے قومی ریاستیں امریکا پر کھلم کھلا حملہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتیں اور یوں وہ سمندر پار عامل استعمال نہیں کر سکتیں۔ (ص-۹)
دہشت گردی کی تعریف یہ ہے کہ جس طاقت پر حملہ نہیں کیا جا سکتا اس کے جرائم پر توجہ دلانے کے لیے بے گناہوں کو نشانہ بنایا جائے۔ ۲۱ویں صدی کے بے گناہ‘ حالیہ عشروں کی استعماری مہمات کے مابعد اثرات کی تباہیوں کی غیرمتوقع فصل کاٹیں گے۔ اگرچہ بیشتر امریکی اس امر سے ناواقف ہیں کہ ان کے نام پر کیا کچھ کیا جاچکا ہے اور کیا جا رہا ہے‘ سب ہی انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی قوم کی عالمی منظر پر غلبہ پانے کی مسلسل کوششوں کی گراں قیمت ادا کریں گے۔ (ص ۳۳)
خدا کرے مسلمان قیادتوں کو کبھی یہ توفیق حاصل ہو کہ وہ بھی امریکا کی قیادت کو بتا سکیں کہ دنیا میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے وہ اس کی کن پالیسیوں اور اقدامات کا ردعمل ہے اور آخری ذمہ داری کس پر ہے ع
اٹھا زمانہ میں جو بھی فتنہ اٹھا تیری رہ گزر سے پہلے!
۵- جنرل پرویز مشرف نے اسلام کے تاریخی کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آج کی زبوں حالی کا ذکر کیا ہے اور اس سے نکلنے کے لیے روشن خیال اعتدال پسندی کا درس دیا ہے اور ساتھ ہی معاشی اور تعلیمی ترقی کی بات کی ہے۔ بلاشبہہ معاشی اور تعلیمی ترقی اُمت کی بڑی ضرورت ہے لیکن ہمارا عروج اور ہمارا زوال محض مادی اسباب کی وجہ سے نہ تھا۔ اسلام کی اصل قوت اس کی دعوت‘ اس کے پیغام‘ اس کے اصول اور اس عملی نمونے میں تھی جو اسلاف نے پیش کیا۔ وہ اخلاقی قوت ان کا اصل سرمایہ تھی۔ دین و دنیا کی وحدت‘ انسانی مساوات‘ قانون کی بالادستی‘ حکمرانوں کی جواب دہی‘ شریعت کی پابندی‘ انصاف کی فراوانی‘ معاشرتی اور معاشی مساوات--- علم اور وسائل کے ساتھ عقیدہ‘ اخلاق‘ سیرت و کردار‘ اداروں کا استحکام اور احتساب کا موثر نظام ہماری قوت کا راز تھا۔ جب ان اصولوں اور اقدار کو فراموش کیا جانے لگا‘ جب عیش و عشرت اور سہولت کی زندگی اختیار کر لی گئی‘ جب جہاد اور اجتہاد کو ترک کر دیا گیا تو ہم دوسروں کے لیے تر نوالہ بن گئے‘ کمزور سے کمزور تر ہوتے گئے‘ غلامی اور محکومی کا نشانہ بنے اور آج بھی آزادی کے حصول کے باوجود دوسروں پر محتاجی اور ان کی سیاسی اور معاشی بالادستی کے تحت جینے کی مہلتیں مانگنے میں مصروف ہیں۔ اقبال نے مرض کی صحیح تشخیص کی تھی کہ:
اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات
جو فقر سے ہے میسر‘ تونگری سے نہیں
اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور
قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں
سبب کچھ اور ہے‘ تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں
اگر جہاں میں مرا جوہر آشکار ہوا
قلندری سے ہوا ہے‘ تونگری سے نہیں
لیکن ہمارا کیا حال ہے؟ ہم کاسہ گدائی سے ترقی کی منزلیں طے کرنا چاہتے ہیں اور خداشناسی اور جہاد کا راستہ ترک کر کے عزت کے حصول کے خواب دیکھ رہے ہیں اور اقبال ہی کی اس بات کو بھول گئے ہیں کہ ؎
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے‘ نہ من تیرا نہ تن
عنقریب ایک وقت آئے گا جب دوسری قومیں اکٹھی ہو کر تم پر ٹوٹ پڑیں گی‘ جس طرح کھانے والے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کسی نے پوچھا کیا ہم اس وقت قلیل تعداد میں ہوں گے؟
آپؐ نے فرمایا: تمھاری تعداد تو بہت زیادہ ہوگی لیکن تم سیلاب کے اوپر بہنے والے خس و خاشاک کی مانند ہوگے۔ اللہ تمھارے دشمن کے سینے سے تمھارا رعب چھین لے گا اور تمھارے دلوں میں ’وہن‘‘ ڈال دے گا۔
پوچھا: اللہ کے رسولؐ! یہ وہن کیا ہے؟ فرمایا: دنیا کی محبت اور موت (شہادت) سے نفرت۔
مسلمانوں کی تاریخ کے نشیب و فراز اور ان کے عروج و زوال کے جس تذکرے میں تجزیے کا یہ رخ موجود نہ ہو‘ اسے حقیقت پسندانہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
۶- جنرل مشرف نے معاشی ترقی‘ انصاف کی فراہمی‘ تعلیم کے فروغ اور جمہوریت کی بات بھی کی ہے لیکن کیا اس سوال سے اغماض برتا جا سکتا ہے کہ ان سب سے محرومی کے اسباب کیا ہیں اور وہ کون سے مفاد پرست طبقات ہیں جو وسائل پر قابض ہیں اور قوم کو ان سے محروم رکھے ہوئے ہیں؟ جمہوریت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مفاد پرست عناصر اور خود فوجی حکمرانوں کا کیا کردار ہے؟ انصاف سے کون محروم رکھے ہوئے ہیں؟ اداروں کے استحکام کی راہ میں کون رکاوٹ ہے؟ اس ملک کے حکمران طبقوں نے کون سی میانہ روی اختیار کی ہے۔ ساری مسلم دنیا کا جائزہ لے لیجیے۔ جن طبقات نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے وہ وہی ہیں جن پر لبرل کا لیبل ہے‘ جو ماڈرنزم کے علم بردار ہیں‘ جو سیکولر نظام کے حامی ہیں۔ یہی سامراجی قوتوں کے رفیقِ کار تھے اور یہی آزادی کے بعد اپنی ہی قوم کا خون چوسنے میں مصروف ہیں۔ ماڈرنزم کی قوتوں نے یورپ میں تو کچھ اچھے کام بھی کیے ہیں لیکن مسلم دنیا میںتو اصل ناکامی نام نہاد لبرل اور سیکولر لیڈرشپ کی ہے۔ کمال اتاترک اور شاہِ ایران اس ماڈرنزم کی علامت تھے۔ جمال عبدالناصر‘ صدام حسین‘ حافظ اسد‘ معمر قذافی‘ حبیب بورقیبہ‘ حواری بومدین‘ کس کس کا نام لیا جائے‘ یہ سب لبرل اور سیکولر قیادت تھی جس نے اسلامی دنیا کو ذلیل او ررسوا کیا۔ پاکستان میں کون سی قیادت ناکام ہوئی--- یہی لبرل سیکولر قیادت: جنرل ایوب سے جنرل پرویز مشرف تک۔ اقبال نے صحیح ہی کہا تھا ؎
زندہ کر سکتی ہے ایران و عرب کو کیونکر
یہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لبِ گور
اور ؎
نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
۷- جنرل مشرف نے یہ بھی کہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ان اسباب کی فکر کرنا ہوگی جو ناانصافی پیدا کر رہے ہیں اور لوگوں کو انتہاپسندی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ کیا جنرل صاحب بتا سکیں گے کہ خود اپنے ملک میں جسے وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کہتے ہیں اس کے ازالے کے لیے اسباب کی تلاش اور ناانصافیوں اور محرومیوں کو دُور کرنے کے لیے انھوں نے کیا کیا؟ اور کیا وہ بھی صدر بش کی طرح محض قوت کے استعمال سے ان خرابیوں کا قلع قمع کرنے کی پالیسی پر گامزن نہیں جن کا حل صرف حقوق کی ادایگی‘ انصاف کے قیام‘ جمہوری عمل کے استحکام‘ مذاکرات اور سیاسی طریقے ہی سے کیا جا سکتا ہے۔
۸- جنرل مشرف نے سیکولرزم کے اسلام سے متصادم نہ ہونے کی بات بھی کی ہے جو اسلام کے تصورِ حیات اور پاکستان کے مقصدِ وجود کی نفی کے مترادف ہے۔ اگر یہ بات سیکولرازم کے تصور اور اس کے مضمرات سے عدمِ واقفیت کی بنا پر کی گئی ہے تو افسوس ناک ہے اور اگر جان بوجھ کر یہ شوشہ چھوڑا گیا ہے تو جنرل صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ سکندر مرزا اور ایوب سے لے کر آج تک جس نے یہ بات کہی ہے‘ اس نے بالآخرمنہ کی کھائی ہے۔ اُمت مسلمہ لادینی نظریۂ حیات کو کبھی قبول نہیں کرسکتی۔ امریکی دین الٰہی کا اصل ہدف اسلامی دنیا میں دین و دنیا اور مذہب و سیاست کی تفریق کے نظام کو رائج کرنا اور اسلام کا ایک ایسا راہبانہ تصور فروغ دینا ہے جس میں دین گھر اور مسجد تک محدود ہو جائے اور دنیا کا نظام شیطانی نظریات کی پیروی میں چلایا جائے۔ شریعت معطل رہے اور جہاد منسوخ ہو جائے۔ لیکن یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف ہے۔
استعماری دور میں بیرونی حکمران ایسی دسیوں کوششیں کرکے ناکام رہے ہیں اور اب وہ اپنے دیسی ساجھیوں کے ذریعے یہ کرانا چاہتے ہیں تو ان شاء اللہ اسی طرح اب بھی ناکام رہیں گے البتہ اس سے بہتوں کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ کر دیں گے۔ ماضی میں نہ دین اکبری چل سکا اور نہ اب دین امریکی کے پنپنے کا کوئی امکان ہے۔ اللہ نے اپنے دین کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور اس دین سے ٹکر لینے کی جس نے بھی کوشش کی ہے بالآخر پاش پاش ہوا ہے۔ ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ یہ راستہ اختیار نہ کریں۔ ؎
مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں‘ کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سرِّ کلیمؑ و خلیلؑ
اور مسلمان فرد اورقوم دونوں کے لیے عزت اور زندگی کا ایک ہی راستہ ہے یعنی ؎
حدیث بے خبراں ہے‘ تو بازمانہ بساز
زمانہ با تو نہ سازد‘ تو بازمانہ ستیز
ہر دور میں جنگ‘ جنگ کا اسلوب اور جنگی ہتھیار بدلتے رہے ہیں اور نئے نئے ہتھیار اسلحہ خانے کی زینت اور انسانیت کے لیے مصیبت بنتے رہے ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے اختتام پر اگست ۱۹۴۵ء میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا کے ایٹمی حملے نے اجتماعی تباہی کے ہتھیار Weapons of Mass Destruction (WMD)کی اصطلاح کو عالمی سیاست اور جنگ و صلح کی لغت میں ایک خاص مقام دے دیا۔ کیمیاوی‘ حیاتیاتی اور گیس پر مبنی اسلحے کے لیے یہ لفظ اس سے پہلے بھی استعمال ہوتا تھالیکن دورِ جدید میں ڈبلیو ایم ڈیز نے بڑی اہمیت اختیار کرلی ہے۔
۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد ’دہشت گردی‘ اور ’خودکش حملوں‘ کو بھی ایک قسم کا ڈبلیو ایم ڈی ہی بناکر پیش کیا جا رہا ہے اور ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے نام پر دنیا کو نہ صرف دہشت گردی کے ایک بدترین عفریت کی آماجگاہ بنا دیا گیا ہے‘ بلکہ اس نام نہاد جنگ کے پردے میں کچھ دوسری ہی قسم کے اجتماعی تباہی کے ہتھیاروں سے دنیا کے مختلف ممالک اور تہذیبوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان میں میڈیا کی ثقافتی یلغار اور مسلم ممالک کے تعلیمی نظام پر ایک کاری وار خصوصیت سے اہمیت اختیار کرگئے ہیں‘ جن کو ہم ڈبلیو ایم ڈیز ہی کی تازہ ترین شکل سمجھتے ہیں۔ اجتماعی تباہی کے ہتھیار جس طرح انسانوں اور شہروں کو جسمانی طور پر تباہ کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں‘ اسی طرح یہ نئے علمی اور فنی ہتھیار قلب و نظر کو مسخر کرنے‘ افراد‘ معاشروں اور تہذیبوں کے تشخص کو تہ وبالا کرنے اور ایک نوعیت کی نظریاتی نسل کشی (ideological genocide) کا مقصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ویسے تو استعماری قوتوں نے ایسے حربے ہمیشہ ہی استعمال کیے ہیں اور اکبرالٰہ بادی نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ع
دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے!
لیکن اپنی کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار سے تعلیم پر جدید حملے تباہی کے مہلک ہتھیار کی شکل اختیارکرگئے ہیں۔ اس حملے کے اہداف کیا ہیں؟ علامہ اقبال نے اس خداداد صلاحیت کی بنیاد پر جو فراست ایمانی اور تاریخی اور تہذیبی شعور کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ان کو دی تھی‘ اُن سے اُمت مسلمہ کو بہت پہلے متنبہ کر دیا تھا۔ ضربِ کلیم میں ’نصیحت‘ کے عنوان سے شیطان کے اس حربے کو وہ یوں بیان کرتے ہیں:
اک لُردِ فرنگی نے کہا اپنے پسر سے
منظر وہ طلب کر کہ تری آنکھ نہ ہو سیر
بیچارے کے حق میں ہے یہی سب سے بڑا ظلم
بَرّے پہ اگر فاش کریں قاعدۂ شیر
سینے میں رہے رازِملُوکانہ تو بہتر
کرتے نہیں محکوم کو تیغوں سے کبھی زیر
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے‘ اسے پھیر
تاثیر میں اِکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب
سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر
امریکا کی سامراجی اور صلیبی قیادت اس وقت عالمِ اسلام اور خصوصیت سے اس کی احیائی تحریکوں اور جہادی قوتوں کو زیر کرنے کے لیے جس حکمت عملی پر عمل پیرا ہے‘ اس میں فوجی قوت‘ معاشی دبائو اور پروپیگنڈے کی نفسیاتی جنگ کے ساتھ جو سب سے خطرناک ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے وہ تعلیم کے نظام کو تبدیل کرواکے ذہنوں کو مسخر کرنے کے ذریعے اُمت کو غلامی کے نئے شکنجوں کی گرفت میں لینا ہے۔ فوجی قوت سے بلاشبہہ کچھ تھوڑے عرصے کے لیے مقابل قوت کو قابو میں کیا جا سکتا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ہر استعمار اور قبضے کے خلاف تحریک مزاحمت جلد یا بدیر رونما ہوتی ہے۔ معاشی دبائو بھی ایک عرصے تک چلتا ہے اور نفسیاتی حربے اور پروپیگنڈے کی تاثیر بھی محدود ہے۔ البتہ ذہنی غلامی‘ تعلیم کے ذریعے دل و دماغ کو مسخر کرنا‘ سوچنے کے انداز اور نفع و نقصان‘ خیروشر اور مطلوب اور نامطلوب کے پیمانوں کو بدل دینا ہی وہ حربہ ہے جس سے محکومی کو دوام دیا جاسکتا ہے--- اور اس وقت امریکی دانش ور اور سیاسی قیادت اور اس کے ’مراکز دانش‘ (think tanks)عوامی تباہی کے جس ہتھیار کواستعمال کرنے کے لیے سب سے زیادہ بے چین ہیں‘ وہ نظام تعلیم کی تبدیلی اور نصاب تعلیم میں ایسے تغیرات ہیں جو سوچنے کے انداز کو بدل سکیں اور اسلام کے انقلابی پیغام کو کسی ایسی شکل میں تبدیل کرسکیں کہ مذہبی حِس بھی تسکین پالے اور اسلام کا جہاں بانی اور تاریخ سازی کا کردار بھی ختم ہوجائے۔
اصل ہدف اسلام کا تصور‘ اس کا تاریخی کردار اور وہ احیائی قوتیں ہیں جو اسلام کو محض گھر اور مسجد تک محدود نہیں کرتیں بلکہ زندگی کے پورے نظام کو اس کے تابع لانا چاہتی ہیں‘ اور اس سے بھی بڑھ کر دنیا میں ظلم کے ہر نظام کو چیلنج کر کے انسانوں کو انصاف اور عزت کے حصول کے راستے کی دعوت دیتی ہیں۔ استعمار کا یہ وہی حربہ ہے جسے اقبال نے یوں بیان کیا تھا:
بہتر ہے کہ شیروں کو سکھا دیں رمِ آہُو
باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہٗ
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند
تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ
سارا ہدف یہ ہے کہ اسلام ایک اجتماعی قوت کی حیثیت اختیار نہ کرے‘ دین و سیاست میں تفریق ہو‘ اور اہل ایمان کفر اور ظلم کی قوتوں کے خلاف ایک تحریک اور ایک چیلنج بن کر نہ ابھر سکیں‘ آپس میں بٹ جائیں اور ہر ملک اور ہر گروہ صرف اپنے آپ میں مگن ہو (’سب سے پہلے پاکستان‘ میں اس کی بازگشت سنی جاسکتی ہے)‘ اور ایک دوسرے کا معاون و مددگار بن کر انصاف کے حصول اور ظلم کے خلاف جدوجہد سے پہلوتہی کرلے--- اقبال نے متنبہ کیا تھا کہ:
ہے زندہ فقط وحدتِ افکار سے ملّت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
وحدت کی حفاظت نہیں بے قوتِ بازو
آتی نہیں کچھ کام یہاں عقلِ خداداد
اے مردِ خدا تجھ کو وہ قوت نہیں حاصل
جا بیٹھ کسی غار میں اللہ کو کر یاد
مسکینی و محکومی و نومیدیِ جاوید
جس کا یہ تصوف ہو وہ اسلام کر ایجاد
مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
اور یہ اہل کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
اُس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف
۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد جس نقشۂ جنگ کو ترتیب دیا گیا ہے اس میں فوج کشی‘ معاشی دبائو اور نفسیاتی اور ابلاغی جنگ کے ساتھ مسلمانوں کے دینی تعلیمی نظام کو سبوتاژ کرنا اور اسے دنیاوی علوم اور عصری مسائل کے نام پر اپنی جڑوں سے اکھاڑدینا ہے۔ جدید تعلیمی نظام میں جس حد تک بھی اسلام کے انقلابی تصورِ حیات اور خصوصیت سے حق و باطل کی کش مکش میں مسلمانوں کے کردار اور اجتماعی مقاصد اور وحدت اُمت کے تصورات پائے جاتے ہیں‘ ان کو تار تار کرنا اور محض دنیاطلبی‘ عیش پرستی‘ ہوس رانی‘ اور طائوس و رباب کی زندگی کا رسیا بنانا ہے۔اس کے لیے اصل ہدف اسلام کا یہ تصور زندگی ہے کہ مسلمان ایک نظریاتی اُمت ہیں‘ ایک جسم کے اعضا کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کا اپنا اخلاقی‘ معاشی‘ سیاسی‘ تہذیبی‘ مالیاتی اور ثقافتی نظام ہے۔ وہ ایک نظامِ نو کے داعی اور تہذیب و تمدن کے ایک منفرد تصور کے مطابق انفرادی اوراجتماعی زندگی کی تشکیل کی جدوجہد میں اپنا مستقبل دیکھتے ہیں۔ یہ تصور آج کی امریکی قیادت کی نگاہ میں اس کے مفادات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور وہ اسے ’خطرہ‘ بناکر ایک طرف مسلمانوں کی عسکری قوت کو غیرمؤثر بنانے‘ ان کے معاشی وسائل کو گلوبلائزیشن کے نام پر اپنی گرفت میں لانے اور سب سے بڑھ کر فکری یلغار اور تعلیم کے بطور ایک مہلک ہتھیار کے بے محابا استعمال سے ان کو اپنی غلامی میں لانے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ کام سرکاری ذرائع کے ساتھ مسلمان ملکوں کے اپنے حکمرانوں‘ لبرل طبقات اور بیرونی سرمایے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے ذریعے انجام دینا چاہتے ہیں جس کے لیے سرمایہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے اور مفید مطلب حکمرانوں کو آلۂ کار بنایا جا رہا ہے۔
اسلام کے تصورِحکومت‘ ملّت کی وحدت‘ جہاد اور ظلم کے خلاف جدوجہد کے جذبے کو اصل ہدف بنایا گیا ہے۔ بنیاد پرستی‘ عسکریت‘ تشدد‘ انتہاپرستی اور اس نوعیت کے تمام اتہامات مسلمانوں پر اور خصوصیت سے دینی قوتوں پر لگائے جا رہے ہیں۔ مسلم دنیا میں حکمرانوں اور عوام میں کش مکش برپا کرنے اور ان کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراکرنے کے لیے نت نئے حربے استعمال کیے جارہے ہیں‘ اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اس کے لیے چھتری کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اگر ایک طرف حفظ ماتقدم حملے(pre-emptive strike) اور حکومتوں کی تبدیلی (regime change)کی حکمت عملی پر عمل ہو رہا ہے تو دوسری طرف دینی تعلیم کے نظام کو تبدیل کرنے‘ اسے سرکاری گرفت میں لانے‘ اور ملکی تعلیمی نظام میں نصاب اور تعلیمی اہداف کو تبدیل کرانے اور ذہنوں کو تبدیل کرنے اور اپنا ہم نوا بنانے کے منصوبوں پر پوری شدومد کے ساتھ عمل کیا جا رہا ہے۔ افغانستان اور عراق کو تو مکمل طور پر اپنے زیرتسلط لے آیا گیا ہے لیکن اس تہذیبی اور تعلیمی جنگ کا ہدف پورا عالمِ اسلام ہے جس میں خصوصیت سے اس وقت سعودی عرب‘ مصر اور پاکستان نشانہ ہیں۔
امریکا کی اس حکمت عملی کی یہ جھلکیاں صدربش سے لے کر ان کے دفاع کے وزیررمزفیلڈ‘ قومی سلامتی کی مشیر کنڈولیزا رائس اور وزیرخارجہ کولن پاول کے بیانات میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ لیکن اس کا بہت واضح اور مکمل اظہار حال ہی میں شائع ہونے والی دو اہم رپورٹوں میں ہوا ہے جس میں جنگ کا پورا نقشہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک رپورٹ وہاں کے مشہور تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کے قومی سلامتی کے تحقیقی شعبے نے تیار کی ہے اورCivil Democratic Islam: Partners, Resources and Strategiesکے عنوان سے حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ اسےCheryl Benardنے مرتب کیا ہے۔ اس کی تیاری میں آٹھ دوسرے دانش وروں نے شرکت کی ہے جن میں کابل میں امریکی سفیر زلمے خلیل زاد بھی شریک ہیں۔
رپورٹ کا بنیادی تصور یہ ہے کہ آج اسلام ایک دھماکا خیز شکل اختیار کرگیا ہے جو اندرونی اور بیرونی جدوجہد میں مصروف ہے تاکہ اپنی اقدار اور اپنے تشخص کو ابھارسکے اور ان کی روشنی میں دنیا میں اپنا مقام حاصل کرسکے۔ اس پس منظر میں امریکا اور مغربی دنیا کا مفاد اور ہدف یہ ہونا چاہیے کہ اسلامی دنیا ایک ایسی صورت اختیار کرے جو مغرب کے ساتھ ہم آہنگ ہو--- یعنی جمہوری اس معنی میں کہ سماجی اعتبار سے ترقی پسند (socially progressive) ہو اور بین الاقوامی طور پر قابلِ قبول رویہ اختیار کرے۔ اس کے لیے امریکی پالیسی کیا ہو؟ رپورٹ کہتی ہے:
اس لیے دانش مندی کی بات یہ ہے کہ اسلامی دنیا میں ان عناصر کی حوصلہ افزائی کی جائے جو عالمی امن اور عالمی برادری سے ہم آہنگ ہیں اور جمہوریت اور جدیدیت کو پسند کرتے ہیں۔
۱- بنیاد پرست (fundamentalists)جو مغربی تہذیب کے خلاف ہیں اور اسلامی قانون اور اخلاقیات کا وہ تصور رکھتے ہیں جو رپورٹ کے مصنفین کی نگاہ میں جدیدیت سے متصادم ہے۔ یہ مغرب کے لیے سب سے بڑا خطرہ اور نتیجتاً اہم ترین دشمن ہیں۔
۲- دوسراگروہ قدامت پسندوں (traditionalists)کا ہے جو تبدیلی‘ تجدد اور جدیدیت سے خائف ہیں اور روایت کے اسیر رہنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ یہ بھی ہمارے دشمن ہیں مگر نمبر ایک کے مقابلے میں غنیمت ہیں۔
۳- تیسرا گروہ جدیدیت پسندوں (modernists)کا ہے جو اسلامی دنیا کو آج کی مغربی دنیا (جسے رپورٹ عالمی برادری global community قرار دیتی ہے)سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے اسلام کو جدید بنانے کے خواہاں ہیں۔ یہ ہمارے لیے قابلِ قبول ہیں باوجودیکہ یہ گروہ اسلام سے رشتہ باقی رکھنا چاہتا ہے۔
۴- چوتھا گروہ جو مغرب کے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ ہے وہ لادینیوں (secularists)کا ہے جو دین و دنیا اور مذہب اور سیاست کی علیحدگی کے کھلے کھلے قائل ہیں‘ اور مغرب کے ماحول کی مکمل پیروی کرتے ہوئے مذہب کو ذاتی مسئلے اور اجتماعی امور کو مغربی صنعتی جمہوریوں کے طور طریق پر چلانا چاہتے ہیں۔
اصل رپورٹ میں ان چاروں کے درمیان بھی تقسیم در تقسیم کی نشان دہی کی گئی ہے جن میں سب سے ’فسادی‘ اور خطرناک وہ بنیاد پرست ہیں جو ان کی نگاہ میں تشدد کے طریقے اختیار کرتے ہیں۔ تمام بنیاد پرست دہشت گرد نہیں خطرناک ضرور ہیں۔ اسی طرح قدامت پسندوں‘ جدیدیت پسندوں اور لادینیوں میں بھی کم از کم دو دو گروہ ہیں۔
۱- قائدین اور رول ماڈل تیار کرنا۔ وہ جدیدیت پسند جن کے ستائے جانے کا اندیشہ ہے ان کو شہری حقوق کے حوصلہ مند قائدین کے طور پر سامنے لایا جائے جو وہ فی الحقیقت ہیں۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ یہ مفید مطلب ہے۔
۲- سیاسی حد رسائی (out reach)کے معاملات میں جدیدیت پسند عام مسلمانوں کو شامل کیا جائے تاکہ آبادی کی بنیاد پر حقیقی صورت حال کی صحیح عکاسی ہو۔ مسلمانوں کی اسلامیت کو مصنوعی طور پر ابھارنے سے احتراز کیا جائے۔ اس کے بجاے ان کو اس بات کا عادی بنایا جائے کہ اسلام ان کی شناخت کا بس ایک حصہ ہو سکتا ہے۔
۳- اسلامی دنیا میں سول سوسائٹی کی حمایت کی جائے۔ یہ بحرانی حالات‘ میں مہاجروں کی دیکھ بھال میں اور تنازعے کے بعد کی صورت حال میں خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے۔ اس صورت میں ایک جمہوری قیادت سامنے آسکتی ہے اورمقامی این جی اوز اور دوسری شہری انجمنوں کے ذریعے عملی تجربہ حاصل کر سکتی ہے۔ دیہی اور پڑوسی کی سطح پر بھی یہ انجمنیں ایک ایسا انفراسٹرکچر ہیں جو سیاسی شعور بیدار کرسکتی ہیں اور معتدل جدیدیت پسند قیادت ابھار سکتی ہیں۔
۴- مغربی اسلام ‘ جرمن اسلام اور امریکی اسلام وغیرہ کو تشکیل دینا۔ اس کے لیے ان معاشروں کی ہیئت کا اور ان کے ہاں رائج فکروعمل کے ارتقا کا بہتر فہم حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ان کے نظریات کا استنباط کرنے‘ اظہار کرنے اور ان کو قانونی شکل دینے (codifying)میں مدد دی جائے۔
۵- انتہاپسند اسلام سے وابستہ افراد اور موقفوں کو بے جواز قرار دیا جائے۔ بنیاد پرست خودساختہ قائدین کے غیراخلاقی اور منافقانہ افعال کو عام کیا جائے۔ مغرب پر بداخلاقی اور سطحیت کے الزامات‘ بنیاد پرستوں کے اسلحہ خانے کا پرکشش حصہ ہیں‘ جب کہ انھی نکات پر وہ خود بہت زیادہ حملے کی زد میں ہیں۔
۶- عوامی ذرائع ابلاغ میں عرب صحافیوں کی حوصلہ افزائی کرنا کہ وہ بنیاد پرست قائدین کی زندگیوں‘ عادات و اطوار اور بدعنوانیوں پر تفتیشی رپورٹنگ کریں۔ ان واقعات کی تشہیر کی جائے جو ان کی بے رحمی کو ظاہر کرتی ہے‘ مثلاً حال ہی میں آتش زنی کے واقعے میں سعودی اسکول میں لڑکیوں کی اموات‘ جب کہ مذہبی پولیس نے آگے بجھانے والوں کو جلتے ہوئے اسکول کی عمارت سے لڑکیوں کو نکالنے سے ہاتھ پکڑ کر روکا کیونکہ وہ باپردہ نہ تھیں۔ اور ان کی منافقت جس کا اظہار اس سے ہوتا ہے کہ سعودی مذہبی انتظامیہ تارک وطن کارکنوں کو اپنے نئے پیدا ہونے والے بچوں کی تصویریں منگوانے سے اس بنیاد پر روکتی ہے کہ اسلام میں تصویر بنانا منع ہے‘ جب کہ ان کے اپنے دفاتر میں شاہ فیصل وغیرہ کی بڑی بڑی تصاویر آویزاں ہیں۔
۷- دینی سرگرمیوں کی مالی معاونت کے نظام کو درہم برہم کیا جائے‘ اس لیے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو وسائل فراہم کرنے میں خیراتی اداروں کا کردار ۱۱ستمبر کے بعد زیادہ واضح طور پر سمجھا جا رہا ہے۔ ضروری ہوگیا ہے کہ سرکاری سطح پر تحقیقات ہوں اور مسلسل جاری رہیں۔
۸- خوش حال اور معتدل اسلام کے نمونے کے طور پر مناسب نظریات رکھنے والے ممالک اور علاقوں یا گروپوں کی شناخت کرکے اور ان کی سرگرمی سے مدد کرکے تشہیر کی جائے۔ ان کی کامیابیوں کو شہرت دی جائے۔
۹- تصوف کے مقام ومرتبے کو بلند کیا جائے۔ مضبوط صوفی روایات کے حامل ممالک کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ اپنی تاریخ کے اس حصے کو اہمیت دیں اور اسے اپنے اسکول کے نصاب میں شامل کریں۔ صوفی اسلام پر زیادہ توجہ دی جائے۔
۱۰- انقلابی اسلامی تحریکوں کے بڑی عمر کے وابستگان کے نظریات تبدیل ہونے کی آسانی سے توقع نہیں کی جاسکتی۔ لیکن اگر جمہوری اسلام کا پیغام متعلقہ ممالک کے اسکول نصابات میں اور سرکاری میڈیا میں داخل کر دیا جائے تو ان کی نوخیز نسل پر اثرانداز ہوا جا سکتا ہے۔ انقلابی بنیاد پرستوں نے تعلیم میں رسوخ حاصل کرنے کے لیے بہت بڑی کوششیں کی ہیں اور اس کا امکان بہت کم ہے کہ وہ کسی لڑائی کے بغیر اپنی قائم شدہ جڑیں چھوڑ دیں۔ یہ میدان ان سے واپس حاصل کرنے کے لیے ایک بھرپور کوشش کی ضرورت ہوگی۔
اس ۱۰ نکاتی حکمت عملی کو بروے کار لانے کے لیے ایک مفصل پروگرام اور ترجیحات ہی نہیں بلکہ پورے سیاسی اور نظریاتی کھیل کا نقشۂ کار بھی رپورٹ کی زینت ہے۔ میکاولی کی سیاست تو مشہور تھی ہی‘ مگر بش کے امریکا نے میکاولی کی سیاست کا جو اکیسویں صدی کا ایڈیشن مرتب کیا ہے‘ اس کے خدوخال ہی دیکھ لیں اور اس آئینے میں غیروں ہی کے نہیں اپنوں کے بیانات‘ عزائم اور اعلانات کی تصویر بھی دیکھ لیں کہ کس طرح ماڈرن اور ماڈریٹ اور روشن خیال اسلام کا تانابانا بنا جا رہا ہے:
مجموعی حکمت عملی کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ضروری ہوگاکہ درج ذیل خصوصی سرگرمیاں بھی کی جائیں:
___ ان کے افکار کی توسیع واشاعت کی جائے۔
___ ان کی عوام اور نوجوانوں کے لیے لکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے۔
___ اسلامیات کے نصاب میں ان کے افکار کو متعارف کروایا جائے۔
___ ان کو عوامی پلیٹ فارم مہیا کیا جائے۔
___ مذہب کے بنیادی تصورات کے بارے میں ان کے افکار ونظریات کو ان بنیاد پرستوں اور روایت پسندوں کے مقابلے میں عام کیا جائے جو پہلے سے ہی اپنے نظریات کی اشاعت کے لیے ویب سائٹس‘ اشاعتی ادارے‘ تعلیمی ادارے اور دیگر ذرائع استعمال کرتے ہیں۔
___ غیرمطمئن مسلم نئی نسل کے لیے جدیدیت کو متبادل ثقافت کے طور پر پیش کیا جائے۔
___ قبل از اسلام اور غیر اسلامی تاریخ اور ثقافت سے متعلق بیداری کو سہولت پہنچاکر اور حوصلہ افزائی کرکے متعلقہ ممالک کے میڈیا اور نصاب کے ذریعے عام کیا جائے۔
___ لادینی شہری اور ثقافتی اداروں اور پروگراموں کی حوصلہ افزائی اور امداد کی جائے۔
___ روایت پسندوں کی بنیاد پرستوں کے تشدد اور انتہاپسندی پر تنقید کو عام کر کے‘ اور روایت پسندوں اور بنیاد پرستوں کے درمیان اختلاف کو ہوا دے کر۔
___ روایت پسندوں اور بنیاد پرستوں کے درمیان اتحاد کی روک تھام کرکے۔
___ ان جدیدیت پسندوں اور روایت پسندوں کے درمیان تعاون کو فروغ دیا جائے جو اس تناظر میں ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ روایت پسندوں کے اداروں میں جدیدیت پسندوں کی موجودگی اور حیثیت کو بڑھا یا جائے۔
___ روایت پسندوں کے مختلف حلقوں کے درمیان امتیاز برتا جائے۔
___ ان عناصر کی حوصلہ افزائی کی جائے جو جدیدیت سے قریب تر ہیں--- جیساکہ دوسروں کے مقابلے میں فقہ حنفیہ۔ ایسے فتاویٰ جاری کیے جائیں جو قبولیت عام حاصل کرکے دقیانوسی وہابی فتووں کی حیثیت کو کمزور کریں۔
___ صوفی ازم کی شہرت اور مقبولیت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
___ اسلامی تعبیرات کے سوال پر ان کے نقاط نظر میں پائے جانے والے اختلافات کو چیلنج کرکے اور بے نقاب کر کے۔
___ غیرقانونی گروپوں اور سرگرمیوں سے ان کے تعلقات کو بے نقاب کر کے۔
___ ان کی پُرتشدد سرگرمیوں کے نتائج کو عام کر کے۔
___ اپنی اقوام کی فلاح و بہبود کے صحیح رخ پر تعمیروترقی کرنے کی نااہلیت کو ظاہر کرکے۔
___ ان پیغامات کوبالخصوص نوجوانوں‘ نیک روایت پسند آبادی‘ مغرب میں مسلم اقلیتوں اور خواتین کو پہنچاکر۔
___ انتہا پسند بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں کے کارہاے نمایاں کی تعریف کرنے اور انھیں احترام دینے سے اجتناب کرکے اور اس کے بجاے انھیں خبطی اور بزدل‘ نہ کہ بدی کے ہیرو کے طور پر پیش کر کے۔
___ صحافیوں کی حوصلہ افزائی کر کے کہ وہ بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں کے حلقوں میں تفتیشی رپورٹنگ کے ذریعے بدعنوانی‘ منافقت اور اخلاقی گراوٹ کے معاملات کو سامنے لائیں۔
___ بنیاد پرستی کو بطور مشترکہ دشمن تسلیم کرنے کی حوصلہ افزائی کر کے‘ قوم پرستی اور بائیں بازو کے نظریات کی بنیاد پر امریکا مخالف قوتوں کے ساتھ لادینی عناصر کے اتحادوں کی حوصلہ شکنی کر کے۔
___ اس نظریے کی حمایت کر کے کہ مذہب اور ریاست اسلام میں بھی جدا جدا ہوسکتے ہیں اور اس سے ایمان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ (ص ۶۱-۶۶)
تہذیبی‘ فکری اور تعلیمی جنگ کا پورا نقشۂ کار آپ کے سامنے ہے۔ اگر اب بھی کسی کو امریکی سامراج کی تازہ ترین صلیبی جنگ کے اصل اہداف‘ مقاصد اور مضمرات کو سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے تو اس کی وجہ امریکی دانش وروں کی صاف گوئی کی کمی نہیں‘ اپنی کج فہمی یا تغافل جاہلانہ ہوسکتی ہے۔ رہے ہمارے حکمران اور لبرل دانش ور‘ تو ذرا امریکا بہادر کے ان ارشادات کا موازنہ اپنے حکمرانوں‘ وزراے تعلیم بلکہ کچھ ’علماے کرام‘ کی گوہرافشانیوں سے کرکے دیکھ لیجیے۔ صاف نظر آجائے گا کہ ؎
انھی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں‘ زباں میری ہے بات ان کی
انھی کی محفل سنوارتا ہوں‘ چراغ میرا ہے رات ان کی
دوسری طرف اس سے بھی زیادہ اہم رپورٹ وہ ہے جو ایک اعلیٰ اختیاراتی مشاورتی گروپ نے مرتب کی ہے جس میں ۱۴ اہم سابق سفیر اور چوٹی کے دانش ور تھے اور جس کے صدر سابق سفیر ایڈورڈ پی ڈجرجن(Edward P. Djerejan) تھے اور جسے امریکی ایوان نمایندگان کی Committee on Appropriationنے مرتب کرایا ہے۔ اس گروپ نے مسلم دنیا کے اہم ممالک کا دورہ کیا اور جہاں نہ جا سکا وہاں ٹی وی کانفرنس کے ذریعے وہاں کے اہم لوگوں سے رابطہ کیا۔ مدیر ترجمان القرآن کو بھی ایک ایسی ہی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ رپورٹ اکتوبر ۲۰۰۳ء میںChanging Minds Winning Peace: A New Strategic Direction for U.S. Public Diplomacy in the Arab and Muslim World کے نام سے شائع ہوئی ہے‘ اور امریکی کانگریس کی متعلقہ کمیٹیوں اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اس سے استفادہ کیا ہے۔۱؎
اس رپورٹ کا مثبت پہلو تو یہ ہے کہ اس میں امریکا کے بارے میں عالمِ اسلام اور عرب دنیا میں پائی جانے والی بے چینی بلکہ نفرت کا واضح اعتراف موجود ہے۔ البتہ اصلاحِ احوال کے لیے امریکا کی پالیسیوں پر نظرثانی کا تو بالکل ضمنی طور پر ذکر کرتی ہے لیکن اصل توجہ اس پر ہے کہ دنیا ہمیں صحیح طور پر سمجھ نہیں رہی‘ اس لیے خوب وسائل خرچ کر کے امریکی نقطۂ نظر کو دنیا کو سمجھانے اور عرب اور اسلامی دنیا کے تعلیمی‘ سیاسی اور سماجی نظام میں ایسی تبدیلیوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جو امریکا کی ساکھ کو بڑھانے اور ان کو امریکا کا ہم نوا بنانے میں موثر ہوسکیں۔ سرمایے کا بے محابا استعمال‘ نظام تعلیم کو متاثر کرنا‘ ریڈیوا ورٹی وی کا موثر استعمال‘ وفود کے تبادلے‘ طلبہ قیادتوں‘ فوجی ذمہ داروں کے تبادلہ پروگراموں‘ امریکی لٹریچر کی ان ممالک کی زبانوں میں فراہمی‘ امریکی سینٹرز کا قیام‘ امریکا میں ان ملکوں کی زبانوں کے جاننے والوں کا خصوصی پروگرام وغیرہ بھی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔ اس خدشے کا بھی اعتراف ہے کہ جمہوریت کے فروغ سے کہیں مذہبی انتہاپسند ان ممالک میں غلبہ نہ حاصل کرلیں۔
ہم ان تمام اخباری مضامین اور بیانات سے صرفِ نظر کر رہے ہیں جن میں مدرسے کی تعلیم‘ جہادی کلچر کی فسوں کاریوں اور نام نہاد بنیاد پرست تنظیموں کی سرگرمیوں کو ہدف تنقیدوملامت بنایا گیا ہے اور جس نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں پیالی میں طوفان (storm in a cup of tea) کا سماں پیدا کر دیا ہے۔ امریکا کے کارفرما عناصر کے ذہن کو بنانے اور خود پالیسی ساز اداروں کو متاثر کرنے میں اس کا بھی بڑا دخل ہے۔ پالیسی ساز اداروں اور ’مراکز دانش‘ کی رپورٹوں کے جائزے سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم اس وقت خاص ہدف ہیں۔
اس پس منظر میں پاکستان میں جنرل پرویز مشرف اور ان کی ٹیم کے ذریعے جو تبدیلیاں نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم میں لائی جا رہی ہیں‘ ان کے بے لاگ جائزے کی اشد ضرورت ہے۔ اس لیے کہ سرکاری اعلانات برأت کے علی الرغم یہ ایک حقیقت ہے کہ ان نام نہاد اصلاحات کے ڈانڈے امریکی پالیسی اور مطالبات سے ملتے ہیں جس کا اعتراف امریکی وزیرخارجہ جناب کولن پاول نے امریکا کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے سامنے اپنے ایک بیان میں ۱۰ مارچ ۲۰۰۴ء کو ان الفاظ میں کیا کہ: ’’پاکستانی مدارس دہشت گردوں کی آماجگاہ ہیں جس کے لیے ہم مشرف اور دیگر اسلامی ممالک کے سربراہوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں‘‘۔ اسی طرح امریکا کی سلامتی کی مشیر کونڈولیزارائس کا یہ بیان بھی ایک جہانِ معنی اپنے اندر رکھتا ہے کہ ’’اسلامی ممالک بشمول پاکستان کا تعلیمی نصاب بڑا مسئلہ تھا اور ہم اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی مشاورت سے بڑی تبدیلیاں کررہے ہیں‘‘۔
ہماری وزیرتعلیم خواہ کتناہی یہ کہتی رہیں کہ: ’’نصاب میں تبدیلی اور اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی منصوبہ بندی ہماری اپنی ہے‘ کوئی امریکی یا بیرونی دبائو کا شاخسانہ نہیں‘‘۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس کے پیچھے امریکا کی عالمی حکمت کا دبائو موجود ہے اور ایک موقع پر تو کونڈاولیزارائس نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ: ’’پاکستان میں تعلیمی نصاب میں تبدیلی کے پیچھے ہماری ہدایات کارفرما ہیں‘‘۔اب تو ’زبانِ خنجر‘ اور ’آستیں کا لہو‘ دونوں پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ تعلیمی نظام اور تعلیمی نصاب دونوں میں کی جانے والی تبدیلیوں کی اصل شان نزول کیا ہے؟
بلاشبہہ یہ تبدیلیاں ۱۱ستمبر کے واقعے کے بعد ہی شروع ہوگئی تھیں اور ان میں سے کچھ جنرل پرویز مشرف کے اپنے سیکولر اور لبرل رجحانات کے زیراثر بھی ہوسکتی ہیں لیکن تعلیم کو سیکولرائز کرنے کی مہم میں تیزی ۱۱ستمبر کے بعد کی امریکی پالیسیوں کے نتیجے میں آئی ہے۔
اس پس منظر میں کچھ تبدیلیاں تو وہ ہیں جو خاموشی سے وزارتِ تعلیم کے ذریعے لائی جارہی تھیں لیکن ایک دھماکا اس رپورٹ کی اشاعت سے ہوا جسے مغربی سرمایے کے بل بوتے پر ایک این جی او نے سیکولر اور لبرل دانش وروں کے ایک گروہ سے تیار کروایا اور The Subtle Subversionکے نام سے یہ رپورٹ اے ایچ نیر اور احمدسلیم کی ادارت میں Sustainable Development Policy Institute (SDPI)نے شائع کی جس پر وزارت تعلیم کی ایک کمیٹی نے باقاعدہ غور کیا۔ خدا بھلا کرے ان اہلِ قلم اور پارلیمنٹ کے ارکان کا جنھوں نے اس پر بروقت گرفت کی اور وزارتِ تعلیم کو ایک دفاعی پوزیشن میںڈال دیا۔ یہ رپورٹ اس ذہن کی کھلی عکاسی کرتی ہے جو تعلیم کے نظام کو کلی طور پر غیراسلامی بناکر مغرب کے لبرل فریم ورک میں لانا چاہتا ہے اور جو امریکا کے اصل اہداف کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔ اس گروہ نے کوشش تو یہ کی تھی کہ وزارتِ تعلیم کے ذریعے اپنے مذموم اہداف کو حاصل کر لے لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک سنت ہے کہ وہ شر سے کبھی کبھی خیر بھی نمودار کرتا ہے‘ اسی طرح جس طرح رات سے دن رونما ہوتا ہے۔ اس رپورٹ کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مخالف قوتوں کا پورا کھیل سامنے آگیا اور قوم جو ایک حد تک غفلت کا شکار تھی‘ چونک اٹھی اور جو تبدیلیاں خاموشی سے لائی جارہی تھیں وہ ایک دم سب کے سامنے آگئیں۔ اس سلسلے میں روزنامہ نواے وقت و روزنامہ انصاف اور اسلامی جمعیت طلبہ ‘ اسلامی جمعیت طالبات اور تنظیم اساتذہ نے بھی بہت کلیدی کردار ادا کیا۔
اس طرح نظام تعلیم اور نصابِ تعلیم کا مسئلہ قومی بحث اور پارلیمنٹ میں احتساب کا موضوع بن گئے۔ ہم نے جو پس منظر پیش کیا ہے اس میں اس بحث کی اصل معنویت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ہم آیندہ شمارے میں ان شاء اللہ‘ ایس ڈی پی آئی کی رپورٹ اور وزارتِ تعلیم کے مختلف اقدامات کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔
بیسویں صدی میں اسلامی فکر کی تشکیل نو اور اسلامی احیا کی جدید تحریکیں ایک زندہ حقیقت ہیں۔ ان تحریکوں کے ظہور اور نشووارتقا کی تاریخ میں چند شخصیات بہت نمایاں نظر آتی ہیں‘ اور ہر معروضی اور منصفانہ جائزے میں ان کی حیثیت مرکزی اور کلیدی ہے‘ ان میں سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کو ایک منفرد اور ممتاز مقام حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ربع صدی میں مشرق اور مغرب‘ برعظیم پاک و ہند‘ عالمِ عربی‘ جنوب مشرقی ایشیا‘ یورپ اور امریکا سے اسلام اور عالمِ اسلام کے بارے میں جو بھی اہم کتاب یا تحقیقی مقالہ شائع ہوا ہے‘ اس میں سید مودودیؒ کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس تحقیق و تالیف کا مقصد کیا ہے؟ سید مودودیؒ کی عظمت و خدمات اور ان کے کارناموںکا اعتراف یا انھیں تنقید و ملامت کا ہدف بنانا۔
۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے واقعے کے جلو میں کتابوں کا جو ریلا آرہا ہے یا پھر ’اسلامی بنیاد پرستی‘، ’مسلم انتہا پسندی‘، ’سیاسی اسلام‘، ’عسکری اسلام‘ حتیٰ کہ ’اسلامی دہشت گردی‘ کے حوالوںسے جوفکری یورش جاری ہے‘ اس میں بھی ہر صاحب ِ قلم اپنے اپنے مقاصد اور تجزیوں اور جائزوں کے مطابق سید مودودی کو نشانہ بنانے میں کوئی کوتاہی نہیں کر رہا۔یہاں مقصد ان فکری حملوں اور قلم کاریوں کا احتساب کرنا نہیں ہے بلکہ صرف اس طرف توجہ دلانا ہے کہ آج اسلام کی تہذیبی قوت اور مسلمانوں کی احیائی تحریکوں پر یلغار کرنے والے حلقے عالمِ اسلام کی جن شخصیات کو بحث کا مرکز و مداربنا رہے ہیں‘ان میں سید مودودیؒ سرفہرست ہیں۔ ایک طرف مغربی یا مغرب زدہ مخالفین ان کے افکار کو فتنے کی جڑ قرار دے رہے ہیں‘ تو دوسری طرف اسلام کے بہی خواہ جس تبدیلی پر فخرکررہے ہیں اور جس سرمایے کی حفاظت کے لیے کوشاں ہیں ‘وہ گواہی دیتے ہیں کہ اس قیمتی امانت کو اُمت کے لیے حرزجاں بنانے میں سید مودودیؒ کی خدمات کتنی بھرپور اور فیصلہ کن ہیں۔
ترجمان القرآن کی اس اشاعت ِ خاص کی مناسبت سے ہم نے مناسب سمجھا کہ کچھ وقت اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں صرف کریں کہ بیسویں صدی میں احیاے اسلام کی جدوجہد میں دوسرے احیائی مفکرین اورمصلحین کے ساتھ‘ سید مودودیؒ کا اصل کارنامہ کیا ہے۔ وہ کارنامہ کہ جس نے اِس صدی کے آغاز اور اس کے اختتام کے حالات میں اتنا بنیادی اور انقلابی فرق پیدا کر دیا کہ دشمن جس اُمت کو بیمار اور بے کار سمجھ کر اس کی ’تجہیزوتکفین‘ کی تیاریاں کررہے تھے‘ وہ ایک بار پھر ایک ’عالمی خطرہ‘ تصور کی جا رہی ہے۔ جن سامراجی قوتوں نے سمجھ لیا تھا کہ اب دنیا ان کی چراگاہ ہے۔ انھیں اب ’تہذیبوں کے تصادم‘ کاخطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ چنانچہ وہ نئی استعماری یلغار اور صلیبی جنگوں (Crusades)کا آغاز کرتے ہوئے‘ بارود‘ جھوٹ اور تباہی کی پوری قوت کے ساتھ عملاً میدان میں کود پڑے ہیں۔
وَمَا عَلَی اللّٰہِ بِمُسْتَنکَرٍ
اَن یَجْمَعَ العَالَمَ فِی وَاحِدٖ
اللہ کی ذات سے بعید نہیں کہ وہ ایک عالم ]کی ساری خوبیاں [کسی فردِ واحد میں جمع کر دے۔
ہمارے دور میں سیدمودودیؒ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص کرم تھا جس کے نتیجے میں اُمت کو نئی زندگی ملی۔
فکری میدان میں ان کے کام پر بہت پیش رفت ہوئی ہے اور اس سے زیادہ مستقبل میں ہوگی۔ بحیثیت مفسرقرآن (تفہیم القرآن ‘ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘ رسائل و مسائل)‘ حدیث کے خادم (سنّت کی آئینی حیثیت‘ تفہیم الحدیث‘تفہیمات) سیرت نگار (سرورِعالمؐ، نشری تقریریں) فقیہ (تفہیم القرآن‘ رسائل ومسائل) متکلم اور عصرحاضر کے اجتماعی علوم کے ناقد اور ان میدانوں میں اسلامی فکر کے شارح اور ترجمان کی حیثیت سے انھوں نے سیکڑوں چراغ روشن کیے ہیں۔ اس کے ساتھ انھوں نے اپنے عہد کی فکر کو صرف متاثر ہی نہیں کیا‘ بلکہ ایک نیا رخ دینے کی کامیاب کوشش کی ہے‘ جس کے نتیجے میں آج دنیا کے گوشے گوشے سے ان کے افکار کی صداے بازگشت سنی جا سکتی ہیں۔
اس وقت مقصد ان پہلوئوں پر گفتگو نہیں‘ بلکہ سیدمودودیؒ کے پورے لٹریچر کو سامنے رکھ کر ہم ان کے مرکزی کارنامے (contribution ) پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔ اس مناسبت سے صرف چند کلیدی امور پر اور وہ بھی ان کے مجموعی وژن اور اس نئے مثالیے (paradigm ) کا تعین و تشریح موضوع ہوگا‘ جس کی تشکیل اور ترویج میں سید صاحب کا مرکزی کردار رہا ہے۔ بلاشبہہ بیسویں صدی میں علامہ اقبال ؒ،مولانا ابوالکلام آزادؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ سے لے کر حسن البناؒ، سید قطب ؒاور مالک بن نبیؒ تک مفکرین نے اپنے اپنے انداز میں اس وژن‘ اس فکر اور اس مثالیے کی تشکیل و تکمیل میں اپنا اپنا حصہ بٹایا‘ لیکن سچی بات یہی ہے کہ ع
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
اس مطالعے میں ہم پہلے مختصراً یہ تعین کریں گے کہ سید مودودیؒ نے فکری میدان میں اصل کارنامہ کیا انجام دیا‘ تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ ان کے اصلاحی کام کے بنیادی خدوخال کس فکری اساس کے برگ و بار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی پس منظر میں یہ دیکھیں گے کہ اکیسویں صدی اور خصوصیت سے ۱۱ستمبر کے بعد کی دنیا اور اس میں اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنجوںسے عہدہ برآ ہونے کے لیے سید مودودی کے روشن کردہ چراغ کیا روشنی فراہم کرتے ہیں اور اسلامی تحریکات اور ان کے قائدین کو بالخصوص جو مسائل درپیش ہیں۔ سیدمودودیؒ کے فکر اور اصلاحی حکمت عملی کی روشنی میں انھیں کس طرح اور کس رخ پر آگے بڑھتے ہوئے حل کیا جاسکتا ہے۔ سیدمودودی کے خیالات حرفِ آخر نہیں ہیں اور ہماری یہ کوشش بھی ایک جسارت سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ہے۔ اس کے باوصف ہم یہ متعین کرنے کی ایک طالب علمانہ کاوش کررہے ہیں کہ بیسویں صدی میں تو سید مودودی نے جو کچھ خدمت انجام دی ہے اس کی عظمت اپنی جگہ‘ لیکن ان کی فکر اور تجربے سے بھرپور رہنمائی (inspiration) لیتے ہوئے ہمیں اکیسویں صدی میں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
ہم ابتدا ہی میں یہ بات کہہ دینا چاہتے ہیں کہ مولانا مودودی ایک انسان تھے اور کسی انسان کی فکر یا عمل ہمیشہ کے لیے نمونہ نہیں بن سکتے۔ یہ مقام تو صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے جن کی رہنمائی اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں: وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی o اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی - (النجم: ۵۳:۳-۴)،’’وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا‘ یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے‘‘۔اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ خود مولانا مودودی نے جو تربیت ہمیں دی‘ اس میں سب سے نمایاں پہلو یہی تھا کہ انھوں نے نہ خود کو تنقید واحتساب سے بالا رکھا اور نہ ہمیں شخصیت پرستی کی راہ پر ڈالا۔
شروع ہی میں یہ وضاحت کر دینا بھی ضروری ہے‘ کہ ’فکرمودودی‘ خود کوئی مستقل بالذات چیز نہیں ہے‘ بلکہ مولانا مودودیؒ کی اصل کوشش یہ تھی کہ قرآن و سنت کی تعلیم کو اس کی اصل روح کے مطابق عصری حالات و ظروف کے پس منظرمیں پیش کریں اور اُمت کا رشتہ قرآن وسنت سے جوڑیں۔
مولانا مودودیؒ کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے قرآن و سنت کو تحریک اور اُمت کے لیے ہدایت اور روشنی کے منبع کے طور پر پیش کیا اور اس کسوٹی پر حال اور ماضی کی ہر کوشش کو پرکھنے کا درس دیا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ اسلامی کوئی مذہبی فرقہ یا مسلک نہیں ہے‘ بلکہ اس نے سب فرقوں اور مسلکوں کو قرآن و سنت کی بنیاد پر ایک متحرک قوت میں ڈھال دینے کی کوشش ہے۔ بلاشبہہ‘ اللہ تعالیٰ ہر دور میں انسانوں ہی کو اپنے پیغام کی تجدید اور تنفیذ کے لیے ذریعہ بناتا ہے۔ چنانچہ اس حد تک ان ایسے برگزیدہ انسانوں کا ذکر اور ان کی خدمات کا اعتراف بھی فطری امر ہے جو اس کارعظیم میں انسانوں کو اٹھانے‘ منظم و متحرک کرنے اور پھر ایک متعین راہِ عمل پر گامزن ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس لیے ہماری توجہ کا مرکز بھی ان رجال کار کی ذات سے زیادہ دین اسلام کی تفہیم‘ اس کے مقام اور سربلندی کے لیے ان کی کوششیں ہوں گی۔
مولانا مودودیؒ کے اس علمی اور فکری کام کے لیے چار پہلو اہم ہیں: پہلا دین کا وہ تصور جسے انھوں نے اجاگر کیا۔ دوسرا وہ ’طرزِفکر‘ جس کے ذریعے اس کام کو انجام دیا گیا۔ تیسرے تبدیلی احوال اور احیاے دین کے لیے وہ ’حکمت عملی‘ جو اپنے زمانے کے حالات کی روشنی میں انھوں نے مرتب کی۔ چوتھے وہ عملی جدوجہد‘ اس کے اصول وضوابط اور تنظیمی ڈھانچے اور راستے جن پر عملاً انھوں نے اپنی جدوجہد کو مرکوز کیا۔
ہم اس مضمون میں زیادہ توجہ مولانا مودودی کے ’طرزِفکر‘ پر مرکوز کرنا چاہتے ہیں اور باقی تینوں کے بارے میں صرف مختصر اشارات پر اکتفا کریں گے اور یہ اس لیے کہ اکیسویں صدی کے لیے مولانا مودودی کے پیغام کا استنباط کرنے کے لیے توجہ کا مرکز ’فکر‘ سے بھی زیادہ ’طرزِفکر‘ ہی کو ہونا چاہیے۔
۱- حق‘ حق ہے اور اسے کسی دوسرے سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اللہ حق ہے‘ اللہ کا رسولؐ حق ہے‘ اللہ کی کتاب حق ہے‘ اللہ کا دین حق ہے‘ اوراللہ کا وعدہ یعنی آخرت ‘جنت اور جہنم حق ہیں۔ ان سب کو ہمیں صرف حق ہونے کی حیثیت ہی سے قبول کرنا چاہیے۔ یہ ان کے حق ہونے کا تقاضا ہے۔ اس لیے کہ حق خود سب سے بڑی طاقت ہے--- ایمان حق کو حق تسلیم کرنے ہی سے عبارت ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ اسے یکسوئی کے ساتھ قبول کیا جائے اور زندگی کی تمام وسعتوں میں یک رنگی اور وفاداری کا ثبوت پیش کیا جائے‘ اور حق کے غلبے کی جدوجہد میں تن‘ من‘ دھن سے جُت جائیں: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لاَ شَرِیْکَ لَہٗج (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳)، ’’کہو‘ میری نماز‘ میرے تمام مراسمِ عبودیت‘ میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں‘‘۔ گویا حق کے غلبے کی جدوجہد بھی حق ہی کا ایک حصہ ہے جسے صاحبِ حق کے بتائے ہوئے طریقے ہی سے جاری و ساری رکھا جاسکتا ہے۔ یہ طریقہ اسوہ انبیا علیہم السلام اور منہج رسالتؐ ہے اور اس کا آخری اور مکمل ترین ماڈل محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ کامل ہے۔
۲- تاریخِ انسانی میں انسان کے سامنے صرف دو ہی راستے ہوسکتے ہیں--- ایک اللہ کی ہدایت اور اللہ کے رسولوں اور انعام یافتہ پیروکاروں کا راستہ‘ اور دوسرا انسانوں کا اپنا اختراع کردہ راستہ‘ خواہ اس کا نام‘ شکل اور زمانہ کچھ بھی ہو۔ بنی نوع انسان کا اصل مسئلہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ وہ اللہ کا ہدایت کردہ راستہ اختیار کریں یا انسان کا اپنا خودساختہ راستہ--- آج بھی انسان کا بنیادی مسئلہ یہی ہے اور ہمیشہ رہے گا: ’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے‘ تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے‘ اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا‘ اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے‘ وہ آگ میں جانے والے ہیں‘ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔( البقرہ ۲:۳۸-۳۹)
۳- انبیا علیہم السلام کے بتائے ہوئے طریقے کا نام دین اسلام ہے۔ کائنات کا پورا نظام اللہ کے قانون کے مطابق چل رہا ہے‘ لیکن اس فرق کے ساتھ کہ کائنات کی ہر شے اللہ کے قانون کی پابند ہے۔ البتہ انسانوں کو آزادی کی نعمت سے نوازا گیا ہے اور ان کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ بہ رضا و رغبت اللہ کے قانون (دین) کو قبول کر کے اپنی فطرت اور کائنات کے نظام سے ہم آہنگ ہوجائیں--- یہ سپردگی ہی اسلام ہے اور اسی کے ذریعے دل کا چین اور زندگی اور کائنات میں امن و سکون میسرآسکتا ہے۔
۴- زندگی ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے‘ اور دین اسلام نام ہے زندگی کے پورے نظام کو اللہ کی بندگی میں لانے کا۔مراسم عبادت سے لے کر انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کو اللہ کے رنگ میں رنگا ہونا چاہیے: (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط (البقرہ۲:۲۰۸)، ’’اے ایمان لانے والو‘ تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو‘‘۔ اور صِبْغَۃَ اللّٰہِج وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃًز (البقرہ۲:۱۳۸)، ’’کہو:اللہ کا رنگ اختیار کرو۔ اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہوگا‘‘۔ یہ ہدایت زندگی کے ہر شعبے اور سرگرمی کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ دین کامل اور مکمل ہے۔ اس ابدی ہدایت کا ایک معجزاتی پہلو یہ ہے کہ جہاں اس میں ہر زمانے کے لیے زندگی کی جملہ ضروریات کے لیے رہنمائی موجود ہے‘ وہیں اس کے نظامِ کار میں وہ گنجایش بھی موجود ہے جو مرورزمانہ کی تبدیلیوں اور ضروریات کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔ گویا ثبات اور تغیر کا ایک حسین امتزاج ہے جو اس کے نظام کا حصہ ہے۔ جو تبدیلی اور تسلسل کے لیے ایک خودکار انتظام کا بندوبست کر دیتا ہے۔
۵- یہ دین اعتدال‘ انصاف‘ توازن اور راہِ وسط کی نشان دہی کرتا ہے: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ (البقرہ۲:۱۴۳) ، ’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو‘‘۔دین اسلام فطرت سے ہم آہنگ ہے‘ عدل اورفلاح کا ضامن ہے‘ حشووزوائد سے پاک ہے‘ آزادی اور ترقی کا علم بردار ہے۔ یہ دین جسم و جاں‘ روح و بدن‘ مادی اور روحانی‘ اخلاقی اور دنیوی ہر ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ یہ ’وسطیہ‘ اس کی شان ہے (خیرالامور اوسطھا) جو اس کا حصہ (built-in) اور شناخت ہے اور کہیں باہر سے نہیں لائی جاتی۔ خود ساختہ اعتدال کے نام پر کسی تراش خراش کی اسے حاجت نہیں۔ اعتماد‘ رواداری‘ استقامت اور حکمت اس کے اپنے اصول اور شناخت کے ذرائع ہیں۔
یہ حق‘ یہ ہدایت‘ یہ دین بھی آپ سے آپ نافذ نہیں ہوتا‘بلکہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایمان‘ عمل اور جدوجہد کا راستہ تعلیم فرمایا ہے اور انبیاے کرام ؑنے اپنے عمل اور اپنی تحریک سے اس کے لیے نقشہ راہ (road map) فراہم کر دیا ہے‘ جو یہ ہے:
۱- اسے پورے یقین کے ساتھ قبول کرو (ایمان)
۲- اس پر خود عمل کرو اور استقامت کے ساتھ کرو۔ (اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا - الاحقاف ۴۶:۱۳)
۳- تمام انسانوں کو اس کی دعوت دو۔ (وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحاً- حم السجدہ ۴۱:۳۳)
۴- اس دین کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیرنو کرو--- اسے پوری زندگی پر غالب اور حکمران کر لو۔ (ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّـہٖ - الصف ۶۱:۹)
ایمان اس کا نقطۂ آغاز ہے‘ عمل اس ایمان کا اولین تقاضا ہے‘ عبادت اور اللہ کی اطاعت اور بندگی اس کا فطری مظہر اور اللہ کی رضا اس کا مطلوب و مقصود ہے۔ یہ عبادت محض مراسم عبادت تک محدود نہیں بلکہ پوری زندگی کو اللہ کے قانون اور ہدایت کے مطابق ڈھالنے اور سنوارنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ پھر ایمان ہی کا یہ تقاضا ہے کہ اس شمع کو روشن کیا جائے اور اس نور کو پھیلانے کے لیے انفرادی اور اجتماعی جدوجہد کی جائے ایک مسلسل‘ جاں گسل‘ نہ ختم ہونے والی جدوجہد۔
اسی جدوجہد کا نام جہاد ہے‘ جو نفس کے خلاف جہاد سے شروع ہو کر اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کے قیام اور اس کے دیے ہوئے قانونِ حیات کے نفاذ کے ہر کوشش اور ہر قربانی سے عبارت ہے اور یہی عبادت کی معراج ہے۔ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمھیں عذاب الیم سے بچا دے؟ ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر‘ اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو‘‘۔(الصف ۶۱:۱۰-۱۱)
دعوت اور جہاد ایک ہی جدوجہد کے مختلف رخ ہیں۔ اس میں جبر اور دہشت گردی کا کوئی شائبہ بھی نہیں۔ (لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِلا،دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔البقرہ ۲:۲۵۶) یہ پیغام دلیل‘ مباحثے اور مجادلے‘ دعوت اور ڈائیلاگ‘ محبت‘ دردمندی اور خدمت سے انسانوں تک پہنچایا جاتا ہے لیکن اگر اسے قوت سے دبانے اور روکنے کی کوشش کی جائے تو پھر ظلم اور طغیان کا مردانہ وار مقابلہ اور جان اور مال کی قربانی بھی اسی جدوجہد کے اعلیٰ مراحل میں شامل ہے۔ اسی دعوت اور جدوجہد کے نتیجے میں مسلمان فرد (مرد و عورت) مسلم خاندان‘ مسلم معاشرہ‘ اسلامی ریاست و حکومت اور انصاف پر مبنی عالمی نظام وجود میں آتے ہیں۔
۶- یہ ساری جدوجہد انفرادی ذمہ داری بھی ہے اور اجتماعی بھی۔ ہرمسلمان‘ اُمت مسلمہ کا حصہ ہے ۔ یہ اُمت ایک صاحب مشن اور صاحب شریعت اُمت ہے۔ جس کا مقصد وجود اور فرضِ منصبی ہی دین حق کی شہادت‘اللہ کی بندگی کی دعوت‘ امربالمعروف اور نہی عن المنکر‘ قیام انصاف‘ مظلوموں کی مدد و اعانت اور پوری انسانیت کو اس کے رب کی بندگی کی طرف بلانا اور بندگی رب کے نظام کو قائم کرنا ہے۔ (کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط- اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔(اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰)
۷- اس مشن (قولی اور عملی شہادت‘ انفرادی اور اجتماعی شہادت‘ اقامت دین) کے لیے جو راستہ ‘اللہ کے رسولؐ نے طے کر دیا ہے وہ ہے:
اپنی اصلاح --- اجتماعیت کی اصلاح--- اخلاق و کردار اور علم و تقویٰ کی قوت کے ساتھ وسائل و ذرائع کا موثر ترین استعمال‘ قوت کے منبع کی تسخیر‘ بہترین صلاحیت اور استطاعت کا حصول اور طاقت کی ہر شکل کو اللہ کا مطیع اور اس کے پیغام کو پھیلانے کی خدمت کا آلہ کار بنانا‘ تاکہ عدل و انصاف قائم ہوسکے‘ حق حق دار کو مل سکے اور ظلم و استحصال کا خاتمہ ہو سکے۔ چنگیزیت سے انسانیت کو محفوظ رکھنے کا یہی طریقہ ہے اور یہ بھی عبادت ہی کی ایک شکل ہے۔ (وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ - الانفال ۸:۶۰‘ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبِ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِج - الحدید۵۷:۲۵)
اولاً: ایمان‘ اخلاقی برتری‘ اعلیٰ کردار اور تقویٰ اور خدا ترسی کی زندگی۔
ثانیاً: فکری قوت اور قیادت۔
ثالثاً: اجتماعی قوت--- اخلاقی‘ معاشی‘ مادی‘ سیاسی‘ سائنسی‘ عسکری--- مقابلے کی قوت‘ تاکہ وقت کے تقاضوں اور عصری حالات کا مقابلہ کیا جا سکے۔
یہ کام اللہ سے تعلق‘ فکری گہرائی اور اجتماعی طاقت تینوں کے بیک وقت حصول اور مقابلے کی طاقت کی فراہمی ہی سے انجام دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے ایمان‘ اجتہاد اور جہاد ہی وہ ستون ہیں جن پر دین کی عمارت کی تعمیر ممکن ہے اور انھی پر اس کے استحکام کا انحصار ہے۔
سیاسی مغلوبیت‘ ذہنی انتشار‘ اخلاقی خلفشار‘ اور تہذیبی پراگندگی کے ماحول میں سیدابوالاعلیٰ مودودی کی یہ آواز ایک نئے وژن کا پیغام دیتی تھی۔ سید مودودیؒ کی یہ پکار قرآن کی طرف رجوع کرنے (back to the Quran) اور قرآن کی صداقت پر کامل ایمان کے ذریعے پیش قدمی کرنے (forward with the Quran)کی دعوت تھی۔ سید مودودی کی یہی وہ فکر تھی جس نے اُمت کی مضطرب روحوں کو روشنی کا پیغام دیا‘ دلیل اور تعین کے ساتھ دین کا اصل وژن پیش کیا۔ یہی وہ دعوت تھی جس نے اُمت کونئے اعتماد‘ ولولے اور اُمید سے شادکام کیا۔ ایک طرف اسلام کی شاہراہ عمل کو صاف لفظوں میں پیش کیا تو دوسری طرف انھیں انفرادی اور اجتماعی جدوجہد کا راستہ دکھایا۔ اسلام کو مسلم معاشرے کی ایک کارفرما قوت بنانے کی دعوت دی اور اسلام کو ایک عالمی پیغام اور زندگی کے دھارے کو بدلنے والی تحریک کے طور پر صرف روشناس ہی نہیں کرایا‘ بلکہ فکری اور عملی و تنظیمی جدوجہد کے ذریعے ایک ملک گیر اور بالآخر عالمی جدوجہد میں منظم کر دیا۔
سید مودودیؒکے کارنامے پر نگاہ ڈالی جائے تو صاف نظرآتا ہے کہ انھوں نے پہلے دن سے یہ محسوس کر لیا تھا کہ ان کے دور کے مسلمانوں کی سب سے پہلی ضرورت تصورِ دین کی اصلاح ہے۔ مختلف داخلی اور خارجی اسباب کے نتیجے میںخود مسلمانوں نے بھی زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ انھوں نے دین کو گھر‘ مسجد اور زیادہ سے زیادہ مدرسے اور چند مذہبی رسوم و رواج تک محدود کر لیا تھا اور اسی پر قانع ہوگئے تھے۔ دین کے اس تصور پر ضرب کاری لگانا وقت کی اہم ضرورت تھی‘ تاکہ قرآن کا تصورِ دین اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برپا کردہ انقلاب کا تصور ایک بار پھر کسی کمی بیشی کے بغیر ان کے سامنے رکھا جا سکے اور انھیں توحید اور عبادت کا صحیح مفہوم سمجھایا جا سکے۔
پھر قول و فعل کا تضاد مسلمانوں کو کھائے جا رہا تھا‘ جس نے اسلام کی برکتوں سے ان کی زندگیوں کو محروم کر دیا تھا۔ سید مودودیؒ نے ایمان اور عمل‘ عبادت اور زندگی کے تمام شعبوں سے اس کے ربط کو واضح کیا۔ اسی طرح اجتماعی زندگی اور نظام کا بگاڑ‘ قیادت کا غلط ہاتھوں میں چلا جانا اور مسلمانوں کا قوت اور اقتدار سے محروم ہو کر‘ ایک محکوم قوم بن جانا تھا۔ یہ وہ اسباب تھے جن کے نتیجے میں مسلمان اپنے اصل مشن اور کردار سے غافل ہوگئے تھے اور چھوٹے چھوٹے مفادات کے پجاری بن گئے تھے۔ سید مودودی نے زوال اور کمزوری کے ان تمام اسباب کو ٹھیک ٹھیک متعین کرکے ان کا موثر سدباب کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اپنی اور اُمت کی ساری توجہ کو جزوی اور وقتی مسائل اور معاملات سے ہٹاکر چند مرکزی نکات پر مرکوز کیا‘ جنھیں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے:
یہ چھ نکات ہیں جن پر سیدمودودی علیہ الرحمہ نے اُمت مسلمہ کو جمع کرنے اور بیسویں صدی کی اسلامی جدوجہد کو ان کے مطابق مرتب کرنے کی سعی کی۔
میں جس چیز کو سید مودودی کی ’طرزِفکر‘ کہتا ہوں اس کا پہلا نکتہ دین کا یہ تصور‘ دین کی دعوت اور اقامت کا یہ وژن اور اس وژن کے مطابق اُمت کو متحرک کرنے کے لیے وہ تنظیمی اقدام ہے‘ جو جماعت اسلامی اور اس کی برادر تنظیموں کی شکل میں‘ ان کی قیادت اور رہنمائی میں وجود میں آئیں۔ لیکن سیدمرحوم کے ’طرزِفکر‘ کا پورا احاطہ صرف اس مرکزی نکتے کی شکل میں نہیں کیاجاسکتا۔ اس کے لیے ان اصولوں اور ضابطوں کی نشان دہی بھی ضروری ہے جو سید مودودیؒ کو اس مرکزی نکتے تک لائی اور جس کے لیے انھوں نے اپنی ساٹھ سالہ جدوجہد میں اپنے ساتھیوں ہی کو نہیں‘ پوری اُمت کو بھی تلقین اور وصیت کی۔ اس رہنمائی کے مرکزی نکات یہ ہیں:
ا - اسلامی فکروعمل کی آبیاری کہ اُمت اور اس کے ایک ایک فرد کی قوت کا اصل منبع اللہ سے تعلق اور ایمان‘ رب کی پہچان ہے۔ صرف اسی خالق و مالک کے دامن کو تھامنے کا نام ایمان کامل ہے۔ عقل اور وسائل کا اپنا مقام ہے اور بہت اہم مقام ہے‘ لیکن اولین چیز اللہ پر ایمان اور اس کے صحیح تقاضوں کا شعور ہے۔ پھر اللہ پر بھروسا اور صرف اس سے استعانت ہی مسلمانوں کی قوت کا اصل منبع ہے۔ توحید کی حقیقت کو پانا زندگی کے تمام معاملات کے حل کے لیے شاہ کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔
ب- قرآن و سنت اس اُمت کی رہنمائی کا اصل سرچشمہ ہیں۔ فقہ‘ تاریخ‘ مسلمانوں کے افکار‘ اجتہادات اور تجربات سب اپنے اپنے مقام پر ضروری ہیں۔ ماضی سے رشتہ اور روایت کا احترام‘ تہذیبی شناخت اور تسلسل کے لیے ضروری ہیں‘ لیکن ہدایت کے ماخذ کی ترتیب میں قرآن سب سے اولین ہے اور سنت اس کا لازمی حصہ۔ اسلاف سے محبت‘ ان سے تعلق‘ ان کا احترام ازبس ضروری ہے‘ لیکن حق کا معیار صرف اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اور طریقہ ہے۔ اولین دور میں مسلمانوں کی ترقی کا اصل سبب اللہ سے رشتہ اور اللہ کی کتاب سے تعلق اور اللہ کے رسولؐ کو یہ مرکزی حیثیت دینا تھا۔ افسوس کہ بعد میں یہ ترتیب بدل گئی۔
فقہ کا بڑا اہم کردار ہے اور رہے گا‘ لیکن ہر دور میں اور خصوصیت سے آج کے دور میں تمدن کے احوال و ظروف کی ہر سطح پر ایسی بنیادی تبدیلیاں واقع ہوگئی ہیں کہ زندگی سے دین کی مفید مطلب مطابقت (relevence )کو دوبارہ منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام اسی وقت ممکن ہے کہ الاول فالاول کے اصول پر قرآن و سنت کو مرکزی حیثیت دی جائے اور ان کے سائے تلے فقہ اور روایت سے استفادہ کیا جائے ‘اور خصوصیت سے نئے مسائل کے حل کے لیے اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولؐ کی سنت ہی کو اولین سرچشمہ بنایا جائے۔ اجتہاد اور فکری آزادی پر جو خودساختہ اور ناروا پابندیاں لگ گئی ہیں‘ ان سے چھٹکارا پایا جائے۔ یہ کام نہ درایت سے بغاوت کے انداز میں ہو اور نہ روایت کا اسیر بن کر کیا جائے۔ فکری اور عملی جدوجہد کے لیے بھی اور تعلیم کے پورے نظام میں بھی اعتدال کے ساتھ صحیح ترتیب کا احیا ضروری ہے۔
ج- اس کام کو انجام دینے کے لیے اصول اور فروع‘ مقصد اور پالیسی کے فرق‘ نصب العین اور اقدار اور ضابطوں اور طریق کار کا تعلق‘ بنیاد اور تفصیل میں تمیز‘ منصوص اور غیرمنصوص اور مسنون اور غیرمسنون کے مراتب کا لحاظ اور سنت اور بدعت کی حقیقی تفہیم ضروری ہے۔ تقلید کے لمبے دور میں ان ترجیحات‘اور بنیادی اصولوں اورضابطوں کو نظرانداز کر دیا گیا تھا اور آج تجدید و احیا کا کام انجام دینے کے لیے ان کی پاس داری ضروری ہے۔
ان تمام پہلوئوں پر کھل کر بحث ہو‘ ترجیحات کا صحیح تعین ہو اور تقدیم و تاخیر اور راجع ]رجوع کرنے والی[ اور غیر راجع کی حدود اور شکلوں کا صحیح شعور پیدا کیا جائے۔ نیز عصری حالات کے مطابق لیکن قرآن وسنت سے مکمل وفاداری کے ساتھ‘ روایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ وقت کے تقاضوںکے مطابق اسلام کو زندگی کا رہنما بنایا جائے‘ تاکہ جمود کو توڑ کر صحت مند حرکت کو پھر حقیقت کا روپ دیا جائے۔ ایسی ہی حرکت میں برکت ہے۔
د- اس کام کو انجام دینے کے لیے زمانے کے حالات‘ مسائل اور ان تبدیلیوں کا تنقیدی مطالعہ اور تجزیہ بھی نہایت ضروری ہے۔ درحقیقت یہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا اپنے اصل نصب العین‘ اصول و اقدار‘ قانون واحکام‘ ترجیحات اور مطلوبہ خطوط کار کے تنفیذی عمل کا اطلاق۔ ایک طرف اُمت مسلمہ کی موجودہ حالت (status quo) اور روایت پر ہونا چاہیے تو دوسری طرف دورِحاضر کی غالب تہذیب اور اس کے زیراثر پوری دنیا کے نظام اور طریق واردات کا محاکمہ ہونا چاہیے۔ہماری اپنی تہذیبی ترقی کے سلسلے کا جو انقطاع واقع ہوا ہے‘ اسے بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور جو خلا واقع ہوا ہے‘ اسے پورا کرنے کے لیے اجتہادی بصیرت کی ضرورت ہے‘ جو نہ غالب تہذیب کی نقالی سے ممکن ہے اور نہ خود اندھی تقلید پر انحصار کرنے سے کچھ خیر رونما ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے خیروشر میں تمیز اور اپنے تجربات میں سے مفید کو جاری رکھنا اور راہ کی رکاوٹوں کو دُور کرنا اور غالب تہذیب کا بھی ایسی ناقدانہ نگاہ سے مطالعہ کرنا کہ اس کے ان پہلوئوں سے استفادہ ممکن ہو جو ترقی کے اصل اسباب ہیں اور ان تمام برائیوں اور خباثتوں سے اجتناب کرنا کہ جو انسانی زندگی کو بگاڑ اور فساد کی جہنم میں دھکیل رہے ہیں۔ خذما صفا ودع ما کدر۔
ہ- اس پورے کام کو انجام دینے میں ایک اور پہلو کی فکر ضروری ہے۔ وہ پہلو‘ وہ مقصد اور نظریے سے حقیقی معنوں میں مکمل وفاداری (کمٹ منٹ) کے ساتھ حقیقت پسندی (realism) اور اپنے دین کے اصولوں کا نئے حالات میں اطلاق اور اس کے لیے جس دانش و بصیرت (practical wisdom) کی ضرورت ہے‘ اس کا ٹھیک ٹھیک استعمال ہے۔ سید مودودی نے اس سلسلے میں بار بار حکیم حاذق کی مثال دی ہے جو بزرگوں کے نسخوں کا آنکھیں بند کر کے استعمال نہیں کرتا‘ بلکہ مریض کے حال اور دوائوں کی خاصیت کو سامنے رکھ کر طب کے ابدی اصولوں کا ہر ہر مریض پر الگ الگ اطلاق کرتا ہے۔ سید مودودی نے صاف لفظوں میں کہا تھا :’’ حقیقی مصلح کی تعریف یہ ہے کہ وہ اجتہاد وفکر سے کام لیتا ہے اور وقت اور موقعے کے لحاظ سے جو مناسب ترین تدبیر ہوتی ہے‘ اسے اختیار کرتا ہے‘‘۔ یہ زاویہ نظر سید مودودیؒ کے ’طرزِفکر‘ کا اہم حصہ ہے۔
یہ وہ مرکزی نکات ہیں جن سے سید مودودی کا ’طرزِفکر‘ عبارت ہے۔ اس میں مقصد کا شعور‘ اور دین کے سرچشموں سے وفاداری بھی ہے اور اس کے ساتھ آزادی فکر‘ شوریٰ‘ نئے تجربات‘ عصری ضروریات کا شعور‘ مقابلے کی قوت کی فراہمی اور مردان کار کی تیاری سب شامل ہیں۔ سید مودودی نے نئے حالات میں نئی حکمت عملی اختیار کرنے اور نئے تجربات کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اور یہ بھی ان کے ’طرزِفکر‘ کا ایک اہم پہلو ہے۔
سیدمودودیؒ کے طرزِفکر کے مختلف گوشوں پر کلام کرنے کے بعد‘ اس موضوع پر بات کرنا مناسب ہوگا کہ اکیسویں صدی کے اوائل میں پاکستان ہی نہیں‘ پوری دنیا میں آج تحریکِ اسلامی کس مرحلے میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فکری میدان میں اسلام کے ایک مکمل اور جامع دین اور نظریۂ حیات ہونے اور اس نظریے کو غالب کرنے کے لیے انفرادی جدوجہد کے ساتھ اجتماعی تحریک کی ضرورت تو اب روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔
اسلامی تحریکوں کے مؤسسین نے (اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں بارش کرے) یہ کام بڑی خوبی کے ساتھ انجام دیا ہے اور ان کے اخلاص سے اجتماعی جدوجہد کا آغاز ہوگیا ہے--- لیکن ہمارے خیال میں یہ صرف آغاز ہوا ہے‘ تکمیل کی منزل ابھی بہت دُور ہے اور ہمیں اور پوری اُمت کو مسلسل دعوت عمل دے رہی ہے۔ اس آغاز نے جہاں مسلمانوں کو نیاجذبہ‘ نئی روشنی‘ نئی اُمنگ اور زندگی کے لیے ایک خوب صورت ہدف فراہم کیا ہے‘ وہیں مخالفین کے لیے بھی خطرے کی گھنٹیاں بج گئی ہیں۔ اسی لیے وقت کے فرعونوں اور ہامانوں کی زبان سے ’کروسیڈ‘ کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور مختلف عنوانوں سے اسلامی احیا کو اصل نشانہ اور خطرہ بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ ہاروڈ یونی ورسٹی کے امریکی پروفیسر سیموئیل ہنٹنگٹننے اپنی کتاب The Clash of Civilizations (تہذیبوں کا تصادم) میں بہت صاف الفاظ میں مغرب کے نقشۂ جنگ کو پیش کر دیا ہے:
مغرب کا حقیقی مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی نہیں ہے‘ بلکہ خود اسلام ہے۔ اسلام جو ایک مختلف تہذیب ہے جس کے ماننے والے اپنے تشخص کی فوقیت کے علاوہ طاقت کی کمزوری کا شکار ہیں۔ ادھر اسلام کے لیے‘ سی آئی اے یا امریکی محکمہ دفاع اصل مسئلہ نہیں ہیں‘ بلکہ خود مغرب مسئلہ ہے‘ جو ایک مختلف تہذیب ہے۔ ایسی تہذیب‘ جس کے ماننے والے اپنی ثقافت کی آفاقیت کے قائل ہیں‘ اور اپنی ثقافت کو پوری دنیا پر حاوی کرناچاہتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی عوامل ہیں‘ جو اسلام اور مغرب کے درمیان تصادم کو فروغ دے رہے ہیں۔(حوالہ بالا‘ ص ۲۱۷-۲۱۸)
مغربی مفکرین اسلام کو ہوّا اور دشمن بناکر پیش کر رہے ہیں اور اس کی روشنی میں نقشۂ جنگ بنانے میں مصروف ہیں‘ جب کہ مسلمان اُمت اور اسلامی تحریکوں کا اصل مسئلہ کسی سے جنگ یا مقابلہ نہیں‘ بلکہ اپنے گھر کی اصلاح اور تعمیرہے۔ افکار و نظریات کا تبادلہ اور رد و قبول انسان کا بنیادی حق ہے‘ جسے جنگ سے منسلک نہیں کرنا چاہیے۔ اہلِ مغرب کے دانش وروں اور ان کے اہلِ حل و عقد کا مرض بھی اس اقتباس سے واضح ہے کہ وہ طاقت کی بنیاد پر یہ اپنا حق سمجھتا ہے کہ اپنے تصورات اور کلچر کو دوسروں پر مسلط کرے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ بگاڑ کی جڑ اسلام یا مسلمانوں کی بے بسی نہیں‘ مغرب کا یہ فاسد نظریہ ہے۔ لیکن آج مسلمان اس سے غافل ہیں کہ اپنی پوزیشن کو دلیل کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں اور مغربی میڈیا نے عام لوگوں کے ذہنوں کو جس طرح مسموم کر دیا ہے‘ اس کا بھرپور مقابلہ کر سکیں۔
یہ مقابلہ کسی ادھورے عمل اور قریبی یا مختصر راستے (shortcut) سے نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے تو وہی طریقہ اختیار کرنا پڑے گا‘ جو بیسویں صدی کے آغاز میں ساری کمزوریوں کے باوجود احیاے اسلام کی تحریکات کے مؤسسین نے اختیار کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بیسویں صدی کے آغاز اور اکیسویں صدی کے اوائل میں بہت سی مماثلتیں دیکھ رہے ہیں۔ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد افغانستان اور عراق پر امریکا کی وحشیانہ فوج کشی اور ساری دنیا میں نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر فکری‘ ابلاغی‘ سیاسی اور عسکری میدانوں میں خونیں جارحیت نے صورت حال کو اور بھی گمبھیر بنا دیا ہے۔ اس وقت محض جذباتی انداز میں کوئی فوری انتقامی کارروائی اسلام اور مسلمانوں کے حقیقی مقاصد اور اہداف کی خدمت نہیں کرسکتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ بیسویں صدی کے فکر اور تجربات کی روشنی میں‘ اکیسویں صدی کے لیے مسلمان اور خصوصیت سے اسلامی تحریکیں اپنی حکمت عملی وضع کریں۔
اس وقت جو بنیادی چیلنج مسلم اُمہ کو درپیش ہیں ان کے دو بڑے بڑے محاذ ہیں: ایک دفاعی اور دوسرا تعمیری۔ ان دونوں کے بارے میں کچھ معروضات پیش کی جا رہی ہیں:
جس طرح بیسویں صدی کے آغاز میں یورپی استعمار‘مسلم دنیا پر مسلط تھا‘ اسی طرح اب اکیسویں صدی کے آغاز میں ہمارا واسطہ امریکی استعمار سے ہے‘ لیکن جوہری فرق کے ساتھ۔
اس وقت امریکا عسکری اعتبار سے واحد سوپر پاور ہے۔ اس کا جنگی بجٹ باقی تمام دنیا کے تمام ممالک کے مجموعی بجٹ کے برابر ہے۔ اس کی معاشی صلاحیت دنیا کی معیشت کا ایک چوتھائی ہونے کے باوجود ایسی نہیں ہے کہ بہت لمبے عرصے تک وہ محض عسکری قوت کے بل پر دنیا کے بڑے حصے کو اپنے قابو میں رکھ سکے۔
ہرچند کہ امریکا کی کوشش ہے اور یہی اس کی موجودہ قیادت کا اعلان شدہ ہدف بھی یہ ہے کہ وہ آیندہ پچیس پچاس سال تک واحد سوپر پاور رہے اور کوئی مدمقابل اُبھرنے نہ پائے۔ لیکن یہ دھونس اور دعویٰ‘ قدرت کے قانون کے خلاف ہے۔ البتہ عسکری قوت کے ساتھ ابلاغی قوت ایک ایسے مقام پر ہے کہ دنیا کی آبادی کے بڑے حصے کے ذہنوں کو اس سے مسموم اور خائف کیا جاسکتا ہے اور کیا جا رہا ہے۔ تاہم‘ اس میدان میں بھی یہ قوت اور اختیار غیرمحدود نہیں ہے اور صحیح معلومات کو چھپانے اور دنیا کو دھوکے میں رکھنے کی ایک حد ہے--- جیساکہ عراق پر حملے کے اسباب کے سلسلے میں سامنے آیا ہے۔ پھر دنیا کے دوسرے ممالک‘ خصوصیت سے یورپ کے بڑے ملک‘ چین اور ایک حد تک روس ابھی امریکا کو چیلنج نہیں کر رہے‘ لیکن پوری طرح اس کے ساتھ بھی نہیں ہیں۔ امریکا کی اس کھلی دھونس کے خلاف ان معاشروں میں اضطراب اور بے چینی کی لہریں ابھر رہی ہیں۔بے اطمینانی کی یہ لہر ساری دنیا میں اور خاص طور پر یورپ حتیٰ کہ امریکا میں عوامی قوت کی صورت میں ابھر رہی ہے۔
عالم گیریت(globalization) کے بہت سے نقصانات اور خطرات ہیں‘ لیکن اس کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں اور ان میں سے ایک گہرا جذبہ بغاوت ہے جو روز بروز بڑھ رہا ہے اور عالمی سطح پر ایک مثبت پہلو ہے ۔ آج کی دنیا کا سب سے پریشان کن پہلو عسکری‘ سیاسی‘ معاشی اور فنی سطح پر قوت کی عدمِ مساوات ہے--- لیکن اس کے خلاف متبادل اضطرابی لہروں (countervailing powers) کا رونما ہونا بھی ایک فطری عمل ہے۔ اس کے لیے صبر اور حکمت سے کام کرنے‘ فوری تصادم سے بچنے‘ صحیح تیاری کرنے‘ عالمی سطح پر اقدام کے لیے مناسب امکان کو تلاش کرنا ضروری ہے۔
۱- اکیسویں صدی کا سب سے اہم پہلو ’عالم گیریت‘ ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں‘ کہ تمام ناہمواریوں کے باوجود اب پوری دنیا ایک اکائی بنتی جا رہی ہے اور کسی کے لیے بھی اس سے الگ تھلگ رہنا ممکن نہیں رہا۔ اب صرف اپنی دنیا میں بند رہنے کا راستہ قابلِ عمل نہیں رہا۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں‘ دنیا کا ہر واقعہ آپ کو متاثر کر رہا ہے۔ تجارت اور سرمایہ کاری ہی نہیں‘ سرمایہ‘ اشیا‘ انسانوں اور معلومات کی برق رفتار نقل و حرکت کی وجہ سے حالات میں جوہری فرق واقع ہوچکا ہے‘ جس نے بے شمار خطرات اور مسائل کو جنم دیا ہے‘ اور ساتھ ہی بے پناہ امکانات کا دروازہ بھی کھول دیا ہے۔
ماضی میں تحریکِ اسلامی کے لیے ممکن تھا کہ اس کے اولین اور اصل مخاطب صرف مسلمان ہوں‘ لیکن آج یہ ممکن نہیں رہا۔ اس لیے جو کچھ مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے‘ اسے ساری دنیا میں سنا جا رہا ہے اور نتائج اخذ کیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہوگیا ہے کہ اسلام کے علم بردار صرف خود کلامی تک دعوت کو محدود نہ رکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ فکری سرحدیں بہت دُور دُور تک پھیل گئی ہیں۔ اس لیے غیرمسلموں سے خطاب اور ان تک دعوت کو موخر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بڑا بنیادی فرق ہے جسے ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
۲- مشرق اور مغرب اس طرح شیروشکر ہوگئے ہیں کہ دونوں کے الگ الگ مسائل ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے جملہ پہلوئوں سے صرفِ نظر کرکے کلام ممکن نہیں رہا۔ بلاشبہہ مسلم دنیا کا مسئلہ یہ ہے کہ خدا پر ایمان‘ اللہ کے رسولؐ سے وابستگی اور اسلام سے ایمانی‘ جذباتی اور ثقافتی تعلق موجود رہے ‘مگر دین کے صحیح اور مکمل تصور اور دین کے انفرادی اور اجتماعی تقاضوں کی تکمیل اور احترام میں کمی کے نتیجے میں یہ ہدف نہیں پایا جاسکتا۔ اس لیے اسلامی احیا کے ساتھ ایمان کا تعلق اجتماعی نظام زندگی کے لیے حقیقی چیلنج بن جاتا ہے۔
دوسری طرف مغربی دنیا میں اجتماعی زندگی متعدد خوبیوں اور وسائل سے مالا مال ہے‘ جن میں قانون کی حکمرانی‘ رائے کی آزادی‘ انصاف کے حصول میں سہولت‘ دولت کی فراوانی‘ تعلیم و تحقیق‘ اور ایجاد و اختراع کا عام ہونا قابل ذکر ہیں۔ لیکن دولت اور وسائل کی ارزانی میں اخلاقی اقدار کی پامالی‘ انسانی تعلقات کی تباہی‘ خاندانی نظام کا انتشار‘ جرائم اور ظلم واستحصال کی بہتات اور سب سے بڑھ کر دل کا چین‘ روح کا سکون اور اللہ سے تعلق کا فقدان‘ زندگی کو اجیرن بنائے ہوئے ہے۔ اس پس منظر میں بات صرف نظام کے اصلاح و احوال کی نہیں‘ دل کی اصلاح اور اللہ سے تعلق کی یافت کی ہے۔ ہر اس تعلق کی بنیاد پر اخلاقی اقدار کے احیا اور ہر سطح پر انصاف کے حصول کی خواہش کا جذبہ ہے۔ یہ دونوں پس منظر اب دو الگ الگ دنیا میں نہیں ہیں‘ بلکہ ایک ہی میدان کے دو محاذ ہیں۔ تحریکِ اسلامی اس جوہری فرق کو نظرانداز نہیں کرسکتی۔
۳- پھر اس نئے عالمی تناظر میں ایک عالمی طاقت کا ہمہ پہلو غلبہ ہے اور اس کے نتیجے میں سیاسی‘ مادی اور تہذیبی میدانوں میں وسائل‘ قوت اور اختیارات میں ایک شدید عدمِ توازن رونما ہوگیا ہے۔ یہ ایک ایسے معاشی اور سیاسی نظام کا غلبہ ہے جو ساری دنیا کے وسائل کو ایک محدود اقلیت کی خدمت اور چاکری کے لیے وقف کر رہا ہے۔ سرمایہ داری کا نیا روپ اور منڈی کی معیشت (مارکیٹ اکانومی) کے نام پر مغربی اقوام اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا دنیا پر غلبہ آج ایک دوسرے میدانِ جنگ کا منظر پیش کرتے ہیں۔ مخصوص استعماری مقاصد کی حامل نام نہاد این جی اوز کا ایک خاص کردار ہے اور ریاستی قوت (state power)کے ساتھ ملٹی نیشنل کارپوریشن اور این جی اوز اس معاشی اور نظریاتی عالمی میدان کے اصل کردار ہیں‘ جن سے معاملہ کرنا وقت کا اہم چیلنج ہے۔
۳- ماضی کے سامراج کے لیے صحیح لفظ نوآبادیت (colonialism )تھا‘ جس میں سامراجی قوتیں دوسرے ممالک پر قبضے (occupation )کے ذریعے ان کے وسائل پر تسلط جماتی تھیں۔ آج کے سامراج نے بالکل ایک دوسرا روپ دھار لیا ہے۔ اب قبضہ بھی ایک حربہ ہے لیکن اصل حربہ وسائل کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا اور عملاً دوسرے ممالک پر قبضے کے بغیر ان کے وسائل اور مردانِ کار کو اپنی گرفت میں لے لینا ہے۔ جس کے لیے میڈیا سے لے کر معاشی تسلط اور سیاسی دخل اندازی‘ دھوکا دہی اور وفاداریوں کی خرید کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ بالادستی حاصل کرنے کے سامراجی ہدف نے نقشۂ جنگ کو بالکل بدل دیا ہے۔
۵- فکری غلبہ اور ثقافتی اور تہذیبی تسلط ہمیشہ سے اہم تھے مگر آج کے میڈیا اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے انقلاب میں ابلاغ کے ذرائع اور مائیکروچپ (micro-chip) نے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اثروتاثیر کی یہ قوتیں غالب اقوام کو وہ مدد دے رہی ہیں جو اس سے پہلے کبھی حاصل نہیں تھیں۔ اب اس نئے حربے سے فوج کشی کے بغیر ملکوں‘ علاقوں اور قوموں کو فتح کیا جاسکتا ہے اور ان کی سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی زندگی ہی کو متاثر نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان کے ذہنوں کو بھی مسموم ‘ مفلوج اور محکوم بنایا جا سکتا ہے۔
۶- اس تناظر میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس وقت مغربی اقوام اور خصوصیت سے امریکا کی قیادت ان عناصر کے ہاتھوں میں ہے جو ایک نئی قدامت پسند تحریک(neo-con) سے وابستہ ہیں۔ جس میں عیسائی مذہبی قوتوں کے ساتھ عالمی صہیونی طاقت بھی شریک ہے (اور اسے برہمنیت کی بھی تائید حاصل ہے)۔ اس قوت کا گٹھ جوڑ امریکا کے بم باز اور ہلاکت پرور حکمرانوں سے ہوگیا ہے۔ یہ اتحاد عالمی دراندازیوں کی حکمت عملی وضع کر رہا ہے۔ یہ اسلام اور مسلمانوں کو اپنے اصل ہدف اور مقابل کی حیثیت سے سامنے رکھے ہوئے ہیں۔ اصل ہدف جیساکہ ہم نے سیموئیل ہنٹنگٹن کے اقتباس سے پیش کیا ‘اسلام ہے‘ محض نام نہاد دہشت گردی نہیں۔ جنگ صرف سیاسی محاذ پر نہیں‘ فکری اور تہذیبی محاذ پر بھی مسلط کی گئی ہے۔
یہ ہے اکیسویں صدی کا وہ تناظر جس میں اسلامی تحریکات کو اپنی داخلی اور عالمی حکمت عملی وضع کرنی ہے۔ ان حالات کا صحیح اور گہرا ادراک اولین ضرورت ہے۔
آج ’زمانہ شناسی‘ یا وقت کی نبض اور رفتار کو سمجھنے کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ یہ کام پوری دیانت‘ علمی گہرائی‘ حقیقت پسندی اور انصاف کے ساتھ کیا جائے اور ہر تعصب سے بالا ہوکر کیا جائے۔ تنقید کرنے سے پہلے تفہیم کی ضرورت ہے۔ تفہیم ہی سے یہ متعین ہوسکے گا کہ کیا قابلِ قبول ہے اور کیا ناقابلِ قبول۔ کہاں کوئی اشتراک ممکن ہے اور کہاں مقابلہ ناگزیر ہے۔ اور مقابلہ بھی مناسب تیاری‘ صحیح حکمت عملی ‘ طویل اور مختصر مدت کی ترجیحات کے تعین اور اپنی قوت کے صحیح اندازے کے ساتھ ہونا چاہیے۔
ان حالات سے خوف زدہ ہونے یا امریکا اور وقت کی غالب قوتوں کا کاسہ لیس بن جانے اور ان کی چھتری تلے پناہ لینے سے اُمت مسلمہ کو احتراز کرنا چاہیے۔ تصادم نہ اس وقت ممکن ہے اور نہ مطلوب۔ لیکن حاشیہ برادری بھی کوئی غیرت مندانہ راستہ نہیںہے۔ عزت اور وقارکا راستہ ہی محتاط مزاحمت کا راستہ ہے‘ اور مقابلے کے لیے اس جنگ میں تمام ہی حلیفوں سے سیاسی ‘ریاستی اور عوامی سطح پر تعاون ضروری ہے۔ مسلمان اُمت اور ممالک کے لیے تنہائی (isolation) سے بچنا ضروری ہے۔ آپس کے تعاون اور اتحاد کی بھی اشد ضرورت ہے۔ موثر ڈپلومیسی ہی کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ اور مستقبل کی منصوبہ بندی ہوسکتی ہے۔ ہمیں خود اور دوسروں سے مل کر انسانی حقوق‘ آزادی اور قانون کی حکمرانی کے لیے کھلے دل سے کام کرنا چاہیے۔ بین الاقوامی قانون کے احترام‘ حقیقی جمہوری قدروں کے تحفظ اور انصاف کے حصول کے لیے عالمی جدوجہد میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان سب قوتوں سے تعاون کرنا اور تعاون حاصل کرنا چاہیے جن سے جزوی طور پر ہی سہی مقاصد کا اشتراک ممکن ہے۔
۱- حکومتوں سے بات چیت اور افہام و تفہیم
۲- ان ممالک کے عوام اور اہل دانش تک رسائی اور اپنی بات پہنچانے کی کوشش
۳- پھر ان ممالک میں ایسے تمام عناصر سے ربط اور تعاون کی راہوں کی تلاش‘ جن سے کلی یا جزوی اشتراک عمل ممکن ہے۔
یہ نہ توسمجھوتے کا راستہ ہے اور نہ کسی کمزوری کی علامت ہے۔ یہ حقیقت پسندی کا تقاضا‘ اور دعوت کا راستہ ہے۔
اس سلسلے میں مسلمان حکمرانوں سے بھی ربط کی ضرورت ہے اور ان میں برے اور کم برے میں تمیز کرنا ہوگا۔ بلاشبہہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اُمت کے عوام اور حکمرانوں میں بعدالمشرقین ہے اور ان کے درمیان نہ صرف ایک خلیج حائل ہے ‘بلکہ دونوں کے عزائم‘ جذبات‘ اہداف اور مفادات تک میں ایک واضح تفاوت بلکہ تضاد ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ کے ہم نوا‘ اس پر اعتماد کرنے والے اور اس کے حلیف حکمران بھی دل کے کسی نہ کسی گوشے میں یہ احساس رکھتے ہیں کہ کسی وقت بھی وہ ان کو دھوکادے سکتا ہے۔ ان حالات میں ان حکمرانوں کا اپنا مفاد بھی اسی میں ہے کہ اپنے عوام سے قریب ہوں اور ان سے تصادم کی جگہ ایسا رشتہ قائم کریں کہ مل جل کر سب کے مفاد کا تحفظ ہوسکے۔ یہ نازک اور مشکل کام ہے لیکن اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اسلامی تحریکات کو سمجھنا چاہیے کہ ان کی اصل طاقت اللہ پربھروسے کے بعد عوام کی طاقت ہی ہوسکتی ہے اور انھیں وہ راستہ اختیار کرنا چاہیے جس سے وہ عوام کو ساتھ لے کر اپنے ملک اور اُمت مسلمہ کے مفاد کا بھی تحفظ کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے جس حد تک اور جس طرح مسلمان حکمرانوں پر اثرانداز ہونا ممکن ہو‘ اس کی فکر کرنی چاہیے۔
اس کے ساتھ ان عالمی مسائل پر ایک واضح موقف اختیار کرنا ضروری ہے جو آج انسانیت کے مرکزی مسائل ہیں۔ ان میں انسانی حقوق‘ عدل اجتماعی‘ معاشی ترقی اور دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم‘ خاندان کے نظام کا انتشار‘ طبقاتی تصادم‘ مظلوم اقوام کی دادرسی اور دنیا کو ظالم حکمرانوں اور سرمایہ پرستوں کی گرفت سے نجات سرفہرست مسائل ہیں۔
عالمی سطح پر ہماری نگاہ میں آج سب سے بڑا مسئلہ ’ورلڈ میڈیا‘ میں مسلمانوں اور خصوصیت سے اسلامی تحریکات کے لیے جگہ حاصل کرنا اور اپنی بات کو دنیا تک پہنچانے کے لیے راستہ نکالنا ہے۔ آج میڈیا کی قوت‘ عسکری قوت سے کسی طرح کم نہیں۔ اسلامی تحریکات نے حرف مطبوعہ (printed word)کو تو ذریعہ بنایا ہے‘ لیکن جدید ابلاغی ذرائع میں جو چیزیں سب سے اہم ہیں‘ یعنی الیکٹرانک میڈیا اور ڈیجیٹل پاور بڑی حد تک یہ ذرائع ابھی ہماری دسترس سے باہر ہیں اور یہ ہماری بہت بڑی کمزوری ہے۔ اس میدان میں خلا کو پُر کرنا اولین اہمیت کا حامل ہے۔
اسی طرح ساری کمزوریوں اور مشکلات کے باوجود‘ مسلمان ملکوں کا اتحاد‘ ان کا مشترک محاذ‘ اور متعین مسائل کے بارے میں ایک مشترک موقف‘ معاشی اور سرمایہ کاری کے میدان میں تعاون اور بالآخر عسکری تعاون اور ہم آہنگی بھی وقت کی ضرورت‘ اور سب کے مفاد میں ہیں۔
مسلم ممالک کا تعاون اسلام اور اُمت کے تصور کا تقاضا تو ہے ہی‘ لیکن آج تو یہ ہر ملک‘ حتیٰ کہ اس کے حکمرانوں کی بھی ایک ضرورت بن گیا ہے۔ اس لیے اسلامی تحریکات کو عالمی سطح کی حکمت عملی بناتے وقت ان پہلوئوںکو سامنے رکھنا چاہیے۔
دین کا مجموعی تصور اور بنیادی اصولوں کی تشریح کے باب میں مؤسسین نے بڑا قیمتی اور راہ کشا کام کیا ہے‘ لیکن اس سلسلے میں چند اہم کام ہیں جن کی طرف توجہ وقت کا تقاضا ہے۔
مولانا مودودیؒ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا ایک اہم ذریعہ اس علمی کام کو جاری رکھنا‘ آگے بڑھانا اور نئے تقاضوںکو پورا کرنا ہے جس کا آغاز انھوں نے ۸۰ سال پہلے کیا تھا۔
پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اصولی اور مرکزی تصورات تو مؤسسین نے واضح کردیے ہیں‘ لیکن ان میں مزید وسعت پیدا کرنا‘ تفصیلات کا تعین کرنا‘ خصوصیت سے زندگی کے مختلف شعبوںمیں اسلام کی رہنمائی کو فکری (conceptional) پہلو کے ساتھ اطلاقی (applied) شکل میں مرتب کرنا جو ایک متوازن پالیسی کی صورت گری کر سکے‘ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ نیز ہر میدان میں نئے علمی چیلنجوں کا موثر مقابلہ بھی علمی اور تحقیقی پروگرام کا حصہ ہونا چاہیے۔
اس کے ساتھ یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ مؤسسین کے مخاطب بالعموم مسلمان تھے اور وہ بھی اپنے اپنے ملک اور خطے کے لوگ‘ جیسا کہ ہم نے پہلے اشارہ کیا۔ آج دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ اسلام‘ مشرق اور مغرب میں موضوعِ گفتگو ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ غیرمسلموں کی ذہنی اور تہذیبی سطح سامنے رکھ کر اور دنیا کے تمام انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے اسلام کے پیغام کو آج کی زبان میں اور آج کے ایشوزکی روشنی میں پیش کیا جائے۔ یہ پیغام ان زبانوں میں پیش کیاجائے جن کے ذریعے ہم دنیا کی بڑی آبادی تک پہنچ سکیں۔ اس سلسلے میں انگریزی زبان نے خصوصی اہمیت اختیار کر لی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
مغربی تہذیب اور اس کی اہم تحریکوں‘ سوشلزم اور سرمایہ داری کے بارے میں مؤسسین نے بڑی وقیع علمی تنقید اور احتساب کا اہتمام کیا ہے۔ لیکن انسانی علوم کی اسلامی بنیادوں پر تشکیلِ نو اور آج کے سیاسی‘ معاشی‘ سماجی‘ سائنسی مباحث کی روشنی میں اسلام کی تعلیمات کی صحیح ترجمانی اور خصوصیت سے سیکولرزم اور موڈرنزم کی نئی تشکیلات‘ سرمایہ داری کی جدید شکل‘ لبرلزم اور تحریک نسواں کی جدید شکل اور مسلم ممالک کے معاشی‘ سیاسی‘ سماجی‘ علاقائی‘ لسانی مسائل اور اقلیتوں کے کردار کے سلسلے میں بے شمار امور اور معاملات ہیں‘ جن پر غوروفکر‘ تحقیق و جستجو اور بحث و مباحثے کے بعد مثبت طور پر ہمیں اپنا موقف پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ساری ضرورتیں صرف مؤسسین کی علمی خدمات کی تحسین اور صرف انھی کے آثار کی طباعت سے پوری نہیں ہوسکتیں۔ اس کے لیے تووہی کام جاری رکھنا ہوگا جو اسلامی تحریک کے مؤسسین نے شروع کیا تھا۔
اس سلسلے میں جو تجربات اب تک ہوئے ہیں‘ ان کے جائزے اور احتساب کی ضرورت ہے۔ اتحاد اور الحاق کے فوائد اور مضمرات پر بھی غوروفکر کی ضرورت ہے۔ ایران‘ پاکستان‘ ملایشیا‘ ترکی‘ الجزائر‘ سوڈان‘ یمن جہاں بھی مفید تجربات ہوئے ہیں‘ ان کے گہرے اور ناقدانہ مطالعے اور تجزیے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہہ تبدیلی کے عمومی عمل کی تو نشان دہی کر دی گئی ہے‘ مگر اس کی عملی تفصیلات اور اس کے گوناگوں تقاضوں پر کام کی ضرورت ہے۔ اقتدار کو متاثر کرنا‘ اقتدار میں بامعنی شرکت‘ اقتدار پر دسترس‘ غرض کتنے ہی پہلو ہیں جن کے بارے میں اسٹرے ٹیجک غوروفکر کی اشد ضرورت ہے۔ اسی طرح مختلف ملکوں میں سیاسی تجربات کے جو نتائج نکلے ہیں اور جو مسائل و مشکلات سامنے آئی ہیں‘ وہ بڑے وسیع پیمانے پر مطالعے‘ بحث مباحثے‘ شوریٰ اور نئے اقدامات کے متقاضی ہیں۔
ہمارا مقصد بیرونی اور اندرونی‘ دفاعی اور داخلی‘ تعمیری میدانوں کے تمام مسائل کا احاطہ نہیں ہے۔ ہم صرف یہ توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ ان دونوں میدانوں میں جو مسائل اور معاملات آج درپیش ہیں‘ ان کے حل کے لیے بیسویں صدی کی اسلامی فکر میں ایک اصولی رہنمائی تو موجود ہے لیکن وقت کی اصل ضرورت اس ’طرزِفکر‘ کی روشنی میں آج کے مسائل کے لیے فکری اور عملی جدوجہد ہے۔ اس کام کی انجام دہی کے لیے ضروری ہے کہ قرآن و سنت ہی کو اصل ماخذ بنایا جائے۔ مؤسسین کی فکر سے اسی طرح استفادہ کیا جائے جس طرح انھوں نے اپنے پیش رووں کے قیمتی کام سے استفادہ کیا ‘لیکن اسی پر قناعت کیے رکھنا خود ان کے ساتھ بڑی ناانصافی ہوگی۔
ہماری نگاہ میں سید مودودیؒ کا اصل پیغام اکیسویں صدی کے لیے یہ ہے کہ وژن‘ مقصد اور اصول پر یکسوئی کے ساتھ قائم رہا جائے۔ اپنے پیش رووں کی فکر اور خدمات سے احترام اور وفاداری کے ساتھ استفادہ کرتے ہوئے‘ جدید اور نئے مسائل اور معاملات سے صرفِ نظر نہ کیا جائے بلکہ پوری قوت سے ان سے نبردآزما ہونے کی سعی کی جائے۔ فکر کے ساتھ ’طرزِفکر‘ کو توجہ اور نئی جدوجہد میں مرکزی اہمیت دی جائے۔ جس روش اور طریق کار (methodology) سے مؤسسین نے کام کیا اس میں بہتری اور تازگی پیدا کی جائے‘ نئے حالات اور مسائل کے لیے پوری شدومد سے اسے روبہ عمل بھی لایا جائے۔ اس فکر کو وسعت اور عمق دونوں میدانوں میں آگے بڑھایا جائے۔ لیکن اس کے ساتھ نئی فکر‘ نئی ٹکنالوجی ‘ نئی مہارت‘ اور نئے تجربات کے بارے میں اسی شوق اور جذبے سے جدوجہد کی جائے جس سے پیش رووں نے اپنے زمانے میں کی تھی اور ہمارے لیے روشن نقوشِ راہ مرتب کیے تھے --- کہ آگے بڑھنے اور نئی دنیا تلاش کرنے کا یہی طریقہ ہے ؎
شاید کہ زمیں ہے وہ کسی اور جہاں کی
تو جس کو سمجھتا ہے فلک اپنے جہاں کا
پاکستان کے مستقبل کا منظر اس وقت دھندلا گیا جب ستمبر ۲۰۰۱ء کی ایک رات جنرل پرویز مشرف نے امریکی صدر بش کو یقین دہانی کرا دی کہ پاکستان‘ انٹیلی جنس‘ لاجسٹک سپورٹ اور فضائی حدود کے آزادانہ استعمال کے ذریعے افغانستان کی طالبان حکومت کے خلاف امریکی جارحیت کے ساتھ ہے۔ پرویز مشرف نے اس طرح امریکا کا فرنٹ لائن حلیف بننے کا اعلان کر دیا اور اس کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح انھوں نے پاکستان کو بچالیا اور ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘کا نعرہ لگایا۔
ان سے سوال کیا گیا کہ اگر کل کشمیر کے مجاہدین کی حمایت ترک کرنے کے لیے اسی طرح کی دھمکی کا سامنا کرنا پڑے تو ان کا ردعمل کیا ہوگا تو انھوں نے کہا کہ ’’کشمیر ہمارا خون ہے۔ ہم کسی طرح بھی کشمیری مجاہدین کی حمایت سے دست کش نہیں ہوں گے‘‘۔ لیکن جو یوٹرن (u-turn) افغانستان پر امریکی حملے کے وقت لیا گیا تھا‘ اس کے نتیجے کے طور پر حکومت پاکستان کشمیری مجاہدین کی جدوجہد کو بھی بالآخر’’سرحد پار دہشت گردی‘‘ تسلیم کرنے پر مجبور ہوئی اور اب عملاً حکومت کشمیری مجاہدین کی حمایت سے دستبردار ہوگئی ہے۔ اس یوٹرن یا قلابازی کے نتیجے ہی میں اب حکومت پاکستان نے اپنے سائنس دانوں کی تذلیل کی ہے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔
۱- پاکستان پر الزام ہے کہ وہ افغانستان میں اتحادی فوجوں کی مزاحمت کرنے والوں یا القاعدہ کو پناہ دے رہا ہے۔
۲- پاکستان ایران‘ لیبیا اور شمالی کوریا کو ایٹمی ٹکنالوجی کے پھیلائو کا ذمہ دار ہے۔
۳- پاکستان‘ بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں سرحد پار دہشت گردی کا مرتکب ہے۔
۴- پاکستانی معاشرہ ایک انتہا پسند مذہبی معاشرہ ہے۔
جنرل پرویز مشرف اپنی پالیسیوں کے ذریعے دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان میں اتحادی فوجوں کا حلیف اور پشتی بان ہے‘ اور یہ باور کرانے کے لیے وہ ان تمام عناصر کے خلاف فوجی آپریشن کرنے کے لیے تیار ہے جن پر افغانستان میں مزاحمت کی حمایت کا الزام ہے۔ ان میں وزیرستان اور مہمند کے قبائل اور پاکستان میں واقع دینی مدارس بھی شامل ہیں۔ اس طرح پرویز مشرف صاحب امریکا اور اس کے اتحادیوں کے محض ایک مبہم الزام کو رفع کرنے کی خاطر پاکستان کی فوج کو مغربی سرحد پر آباد قبائل اور پاکستان کے محب اسلام اور محب وطن عوام سے لڑانا چاہتے ہیں۔ اس سے امریکا کا الزام تو رفع نہیں ہوگا لیکن پاکستان کے اندر انتشار پھیل جائے گا اور فوج اپنے فطری حلیفوں کی حریف بن جائے گی۔ یہ دشمن کا کھیل ہے جو پاکستان کی فوج کو عوام‘ قبائل اور دینی جماعتوں کی تائید سے محروم کر کے اس کے عزم و حوصلے اور مورال کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔
ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی کے بارے میں مبینہ طور پر حکومت پاکستان کو امریکی‘ برطانوی جاسوسی اداروں اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی اتھارٹی (IAEA) نے ثبوت فراہم کیے ہیں کہ لیبیا‘ ایران اور شمالی کوریا کو ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی میں پاکستان کا ہاتھ ہے۔ افغانستان پر حملہ کرتے وقت بھی امریکا نے الزام لگایا تھا کہ نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن کے پینٹاگان کے حملوں میں افغانستان کی طالبان حکومت کا ہاتھ ہے۔ اسی طرح عراق پر حملے سے قبل امریکا کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس ثبوت ہے کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ لیکن عراق کا چپہ چپہ چھان مارنے کے باوجود آج تک عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے کیمیائی ہتھیاروں یا ایٹمی ہتھیاروں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا جس کی وجہ سے برطانوی حکومت اس وقت شدید تنقید کا سامنا کر رہی ہے ‘اور برطانوی وزیراعظم مسٹر ٹونی بلیر یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اگر ان کو یقین ہوتا کہ عراق میں تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود نہیں ہیں تو وہ عراق پر حملے کی حمایت نہ کرتے۔ خود صدر بش کو اس سلسلے میں غلط بیانی کرنے اور قوم اور کانگریس کو گمراہ کرنے کے الزام سے سابقہ درپیش ہے۔
جارحانہ عزائم رکھنے والی استعماری طاقتیں کمزور اقوام کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرنے سے پہلے ہمیشہ اُلٹے سیدھے بہانے تراشتی ہیں۔ پاکستان کے حکمران‘ بالخصوص پرویزمشرف صاحب‘ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی کو حکومت ِ پاکستان اور افواجِ پاکستان کی بجاے چند سائنس دانوں کی ذاتی حرص کا نتیجہ قرار دے کر بین الاقوامی نظروں میں سرخرو ہوجائیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ اسی کے نتیجے میں خود پاکستان کے انگریزی پریس میں افواجِ پاکستان اور حکومتِ پاکستان کے خلاف مہم شروع ہوگئی ہے اور یہ برملا کہا جا رہا ہے کہ سائنس دانوں کے لیے تنہا یہ کام کرنا ممکن نہیں تھا‘ اور اگر محض سائنس دانوں نے یہ کام کیا ہے تو یہ پاکستان اور اس کے سلامتی کے نظام کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ اس بنیاد پر خود پاکستان کو ایک غیرذمہ دار ملک قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ ایٹمی ٹکنالوجی جیسے حساس اداروں کی حفاظت کرنے کے قابل نہیں ہے۔
پاکستان کے حکمرانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ امریکا نے اسے ایٹمی طاقت کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا ہے اور وہ اسے نیوکلیئر کلب کا ممبرنہیں بنائے گا۔ اسرائیل اور بھارت کا معاملہ بالکل الگ ہے۔ اسرائیل کی حفاظت امریکی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔ بھارت کو امریکا نے اپنی حکمت عملیوں کا حلیف (strategic partner)قرار دیا ہے اور وہ اسے چین کی طاقت کو روکنے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ پاکستان یہ یقین دہانیاں کرا رہا ہے کہ اس کا ایٹمی ہتھیار خالصتاً دفاعی نوعیت کا ہے اور بھارت کے مقابلے کے لیے اگر اس کے پاس یہ دفاعی ہتھیار موجود نہ ہو تو طاقت کا توازن بگڑ جائے گا اور جنوبی ایشیا کا امن برقرار نہیں رہے گا۔ اس کے باوجود امریکا اور مغربی طاقتیں اسے ’’اسلامی بم‘‘ قرار دے کر کہہ رہی ہیں کہ یہ اسرائیل کے سر پر منڈلانے والا ایک مستقل خطرہ ہے۔ کولن پاول نے واضح اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو ہر طرح کے خطرات سے آزاد اور بے فکر کرنے کا پابند ہے۔
پاکستان کی حکومت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے پوری دنیا کے سامنے ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی کے ’’جرم‘‘ کا ’’اعتراف‘‘ کروا کر خود پاکستان کے خلاف ناقابلِ تردید شہادت فراہم کی ہے۔ امریکا کو جب بھی افغانستان سے فراغت ملے گی اور اسے پاکستان کی حمایت کی ضرورت نہیں ہوگی‘ تو وہ اسی شہادت کو بنیاد بنائے گا اورپاکستانی فوج اور پاکستانی حکومت کو ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی میں فریق ٹھیرا کر اسی بنیاد پر پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کے بعد بھی ہم امریکا کے حلیف رہیںگے؟ کیا ہم امریکا کے اس طرح کے مطالبے کے سامنے بھی ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا جواز پیش کر کے سرتسلیم خم کر دیں گے؟ اس وقت حکمرانوں سے فوری طور پر اس بنیادی سوال کا جواب طلب کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ سوال کسی مفروضے پر مبنی نہیں ہے۔ یہ سوال ایک عملی صورت حال سے اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ کیا ہم امریکا‘ بھارت‘ اسرائیل گٹھ جوڑ کے سامنے واقعی بے بس ہیں؟ یا ہم نے اپنی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کرنے کے لیے کوئی متبادل راستہ سوچ رکھا ہے؟ ہمارے حکمرانوں نے کئی بار کہا ہے کہ ہم کشمیر اور ایٹمی پروگرام پر کوئی سودے بازی نہیں کریں گے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیوکلیئر طاقت کے طور پر پاکستان کو اپنی خودمختاری اور آزادی سے محروم کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن جو راستہ سائنس دانوں کی تذلیل کرکے ہم نے اختیار کیا ہے‘ یہ ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کا راستہ نہیں ہے بلکہ ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کا راستہ ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوچکا ہے۔ پاکستان کی کوشش ہوگی کہ کشمیر کے مسئلے کو مرکزی نکتے کے طور پر لیا جائے کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان معمول کے تعلقات بحال ہونے میں یہی سدراہ ہے۔ دوسرے نکات میں سیاچین‘ وولر بیراج‘ سرکریک‘ تجارتی تعلقات کی بحالی اور ثقافتی وفود کا تبادلہ شامل ہے۔ سیاچین‘ وولر بیراج‘ سرکریک ’دریائوں کا مسئلہ‘ سب مسئلۂ کشمیر کے شاخسانے ہیں۔ کشمیر پر پاکستان کا قومی موقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ یہ تقسیمِ ہند کے ایجنڈے کا باقی ماندہ حصہ ہے اور اس کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کی مرضی سے کیا جائے‘ جب کہ بھارت مصر ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے اور اگر کوئی مسئلہ ہے تو صرف اتنا ہے کہ اس کے ایک حصے پر پاکستان کا قبضہ ہے۔ اب تک کا تجربہ تو یہی ہے کہ جب بھی پاکستان اور بھارتی وفود آمنے سامنے بیٹھے ہیں‘ پاکستانی وفد نے تو انتہائی ذمہ داری کے ساتھ پوری تیاری کر کے کشمیر کے مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لیے تجاویز فراہم کی ہیں‘ لیکن بھارتی وفود نے انتہائی غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اٹوٹ انگ والے موقف ہی کو دہرایا ہے۔
جنوری ۲۰۰۴ء میں سارک کانفرنس‘ اسلام آباد کے موقع پر دونوں ممالک کے ذرائع ابلاغ اور حکومتوں نے کشمیر کے مسئلے پر ’’جمود ٹوٹنے‘‘ کی جو فضا پیدا کی ہے‘ بظاہر اس میں کامیابی کے امکانات نظر نہیں آئے۔ حکومت پاکستان نے اپوزیشن کو اپنی خوش فہمی کی وجوہ کے بارے میں بھی کچھ نہیں بتایا۔ دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کے قیام میں اصل رکاوٹ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے بھارت کا انکار ہے۔ اگر بین الاقوامی دبائو کے تحت اس بنیادی مسئلے کو نظرانداز کر کے باہمی اعتماد بحال کرنے کے بہانے دوسرے امور کو اولیت دی جائے گی تو اسے قومی مفادات اور مصلحتوں کے خلاف اور کشمیریوںسے بے وفائی قرار دیا جائے گا۔ جب تک کشمیر کے مسئلے کا منصفانہ حل تلاش نہیں کیا جاتا‘ اس وقت تک مظفرآباد‘ سری نگر روڈ کھولنا اور اس پر بس چلانا کنٹرول لائن کو بین الاقوامی سرحد میں تبدیل کرنا ہے‘ اور کشمیر کے مستقل تقسیم اور مسلم اکثریت کے ایک بڑے اور خوب صورت علاقے اور پورے پاکستان کی شہ رگ کو بھارت کے حوالے کرنے کے مترادف ہے۔ کشمیر کے مسئلے کا یہ ’’حل‘‘ نہ کشمیریوں کو قبول ہے‘ نہ پاکستانیوں کو‘ اور نہ اس طرح مسئلہ حل ہی ہوسکے گا۔ نہ امن قائم ہوگا‘ نہ تعلقات بحال ہوں گے‘ البتہ حکومت پاکستان ایک بار پھر اپنی کوتاہ اندیشی‘ بے ہمتی اور بودے پن کا ثبوت فراہم کرے گی۔ یہ امریکا کے اور بھارت کے سامنے بھی اپنی بے بسی کا مظاہرہ ہوگا اور اس کے بعد پاکستانی فوج اپنے موجودہ حجم کا جواز ہی کھو دے گی۔
ہمیں اندیشہ ہے کہ دنیا کو یہ باور کرانے کے لیے کہ ’’پاکستان انتہاپسند مذہبی معاشرہ نہیں ہے‘‘ پرویز مشرف حکومت کہیں پاکستان کے بنیادی نظریہ اسلام ہی سے دستبردار نہ ہو جائے۔ حال ہی میں انھوں نے حدود قوانین پر نظرثانی کرنے کی ضرورت پر اظہارخیال کیا ہے۔ پاکستان میں عورت کے مقام کے حوالے سے جو کمیشن بنا ہے ‘اس میں ایسے لوگوںکو شامل کیا گیا ہے جو مسلمہ اسلامی قوانین کو متنازعہ بنانے کی شہرت رکھتے ہیں۔ پرویز مشرف نے اپنی ترقی پسندی اور ماڈرن ازم کے اظہار کے لیے پارلیمنٹ میں ۲۰ فی صد نشستیں خواتین کے لیے مخصوص کر دی ہیں اور ہماری دیہی کونسلوں میں بھی خواتین کی نمایندگی کو لازمی قرار دیا ہے۔
اسی طرح اقلیتوں کو نہ صرف مخلوط انتخاب کے ذریعے عمومی نمایندوں کے انتخاب پر اثرانداز ہونے کا موقع دیا ہے بلکہ ساتھ ہی دہری نمایندگی کے طور پر مخصوص نشستوں پر اسمبلیوں میں ان کی موجودگی کو بھی یقینی بنا دیا ہے۔ یہ عمل خود مغرب کے مسلمہ معروف جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔ دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک (امریکا‘ برطانیہ‘ فرانس وغیرہ) میں اس کی مثال موجود نہیں ہے۔ امریکا میں تقریباً ۷۰لاکھ مسلمان بستے ہیں لیکن ان کی کانگریس میں ایک بھی مسلمان ممبر نہیں ہے۔ فرانس میں مسلمانوں کی تعداد وہاں کی کل آبادی کا تقریباً ۶ فی صد ہے لیکن ان کی پارلیمنٹ میں کوئی مسلمان موجود نہیں ہے‘ جب کہ پاکستان میں ۳فی صد اقلیتوں میں سے ہر ایک اقلیت کو قومی اسمبلی میں نمایندگی کا حق دیا گیا ہے اور ساتھ ہی جداگانہ طرزانتخاب کو منسوخ کرکے مخلوط طرزانتخاب بھی رائج کر دیا گیا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود بین الاقوامی طور پر مغرب میں پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ برے سلوک کا واویلا کیا جا رہا ہے‘ اور اس کے لیے قرآنی حدود کے قوانین اور توہین رسالتؐ کے قانون کے تحت عورتوں اور اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کا جھوٹا پروپیگنڈا زوروں پر ہے۔
پرویز مشرف صاحب کا معذرت خواہانہ رویہ مغرب کو یہ باور کرانے میں ناکام رہا ہے کہ پاکستانی معاشرہ اعتدال پسند ہے۔ دراصل مغربی میڈیا نے بدنیتی کی بنا پرحقائق کو نظرانداز کرکے یہ جھوٹا پروپیگنڈا کیا ہے کہ ہم انتہاپسند ہیں (اسلام کا تو بنیادی مزاج ہی اعتدال و توازن کا ہے)۔
ارسطو اور افلاطون جیسے فلسفیوں نے غلام کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ غلام وہ ہوتا ہے جو اپنے لیے سوچنے اور عمل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ انھوں نے یہ بات شاید اس لیے کہی تھی کہ غلام خود تو فکروعمل کی صلاحیت سے محروم ہیں‘ اس لیے اب یہ آزاد لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ غلاموں کے لیے سوچیںاور منصوبہ بندی کریں۔ مگر وقت گذرنے کے ساتھ‘ آزاد لوگوں کی یہ ذمہ داری‘ سفیدفام لوگوں کی ذمہ دار بن گئی اور اب نئے عالمی نظام کے تحت یہ ’’ذمہ داری‘‘ امریکا کو منتقل ہوگئی ہے۔ شاید اسی لیے مسلمان ممالک کے حکمران امریکی آقائوں کے اشاروں پر چلتے ہیں کہ اس طرح انھیں مزید برسرِاقتدار رہنے اور اپنی قوموں کا استحصال کرنے کے لیے کچھ مزید مہلت مل جائے گی۔
امریکا کی علانیہ پالیسی ہے کہ اسے کسی ملک میں مداخلت کرنے کے لیے کسی سے پوچھنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ وہ کسی ملک سے بزعم خویش کوئی خطرہ محسوس کرے تواس خطرے سے محفوظ ہونے اور اس کا سدباب کرنے کے لیے حفظ ماتقدم کے طور پر حملہ (pre-emptive strike) کرسکتا ہے‘ اور اس طرح کرنے کے لیے اسے اقوامِ متحدہ یا کسی دوسرے ادارے سے پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اصل میں سرکش ریاست (rougue state)کی صحیح تعریف یہی ہے کہ وہ ہرطرح کے بین الاقوامی ضابطوں کی پابندی سے آزاد ہوتی ہے۔ اس تعریف کے مطابق آج صرف امریکا ہی ایک حقیقی سرکش ریاست ہے۔ افغانستان اور عراق پر جارحانہ قبضہ کرنے کے بعد اب اس نے ایران کو بھی مارچ کے آخر تک اپنے ایٹمی پروگرام کو کلیتاً ختم کرنے کا نوٹس دے دیا ہے۔ اس کے جواب میں ایرانی وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ ایران ایٹم بم بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا لیکن اس کے پاس ایٹمی ایندھن بنانے کی صلاحیت موجود ہے اور وہ نہ صرف اس صلاحیت کو برقرار رکھے گا بلکہ بین الاقوامی منڈی میں ایٹمی ایندھن کو فروخت بھی کرے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایٹمی پروگرام ایران کے لیے ایک اعزاز اور باعث افتخار ہے اور کوئی بھی ملک اپنے اعزاز اور اپنے مفاد اور مصلحت سے دستبردار نہیں ہوتا۔
ایرانی وزیرخارجہ کے اس بیان کے بعد ہمارے سامنے مستقبل کا خطرناک نقشہ بالکل واضح ہے۔ ایک اہم سوال تو یہ ہے کہ اگر امریکا پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے قبل ایران میں مداخلت کرنے کا ارادہ ظاہر کرے تو پاکستان کا رویہ کیا ہوگا؟ کیا وہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند کرکے افغانستان کی طرح اپنے اس مسلمان پڑوسی کے خلاف بھی فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کے لیے تیار ہوگا؟ (اور پھر اپنی باری کا انتظار کرے گا) ‘یا آنے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایران سمیت خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر باہمی دفاع کا کوئی اہتمام کرے گا؟ امریکا نے چین پر بھی ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی کا الزام عائد کرکے پاکستان‘ ایران اور چین میں تعاون کا راستہ پیدا کر دیا ہے۔
بڑھتے ہوئے امریکی استعمار سے انسانیت کو بچانے کے لیے تیاری کرنے اور سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ نئے راستوں کی تلاش‘ ملکی دفاع اور سلامتی کی خاطر تمام سیاسی قوتوں کو مفاہمت کی دعوت دے اور انتقامی رویے چھوڑ کر (تمام سیاسی رہنمائوں سمیت) وسیع ترمشاورت کا اہتمام کرے‘ تاکہ باہمی اعتماد و مفاہمت کے ذریعے بڑے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تدابیر سوچی جا سکیں۔
سترھویں ترمیمی بل کے پاس ہونے پر یہ پروپیگنڈا مہم شروع کردی گئی ہے کہ متحدہ مجلس عمل کا حکمرانوں کے ساتھ سمجھوتا ہوگیا ہے اور مجلس عمل نے وردی میں صدر کو قبول کرکے فوجی مداخلت کو آئینی جواز فراہم کر دیا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مجلس عمل نے سترھواں ترمیمی بل پاس کیا ہے‘ ایل ایف او کو آئین کا حصہ تسلیم نہیں کیا۔
جنرل پرویز مشرف اور ان کے ہم نوائوں کا ابتدا سے یہ دعویٰ تھا کہ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کا حق دیا ہے‘ اس لیے انھوں نے ایل ایف او کی صورت میں آئین میں جو ترامیم کی ہیں‘ وہ آئین کا حصہ بن گئی ہیں اور پارلیمنٹ سے انھیں منظور کرانا کوئی آئینی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے ان کا یہ موقف تسلیم نہیں کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ صرف وہی ترامیم آئین کا حصہ متصور ہوں گی جو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی دو تہائی اکثریت سے پاس ہوجائیں گی۔ وزیراعظم ہائوس میں تمام پارٹیوں کے سربراہوں کے اجلاس میں (جس میں اپوزیشن پارٹیوں کے سربراہ بشمول اے آرڈی بھی شریک تھے) ایل ایف او کے سات متنازعہ نکات کی نشان دہی کی گئی:
۱- ایل ایف او آئین کا حصہ نہیں ہے۔
۲- ریفرنڈم کے ذریعے صدر کا انتخاب آئینی نہیں ہے۔
۳- آئینی دفعات کو معطل کرکے ایل ایف او کے ذریعے چیف آف آرمی سٹاف اور صدر کے عہدے کو یکجا کرنے کی گنجایش نکالی گئی ہے۔ یہ غیر آئینی بات ہے۔ آئین کی متعلقہ دفعات کا بحال ہونا آئین کی بحالی کا لازمی تقاضا ہے۔
۴- ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں توسیع ناقابلِ قبول ہے۔
۵- بلدیاتی انتخاب اور پولیس آرڈر ۲۰۰۲ء صوبائی دائرہ کار ہے‘ اسے واپس صوبوں کے حوالے کر دیا جائے۔
۶- قومی سلامتی کونسل کے ادارے کو آئین سے نکال دیا جائے۔
۷- ۵۸-۲‘بی کے تحت صدر کو اسمبلیاں توڑنے کا غیرمشروط اختیار نہیں ہونا چاہیے۔
تقریباً چار ماہ تک مذاکرات ہوتے رہے۔ ان مذاکرات میں آخری دو تین نشستوں کے علاوہ اے آر ڈی کی جماعتوں نے بھی پوری دل چسپی سے حصہ لیا اور جو سمجھوتہ ہوا ہے‘ بڑی حد تک ان کے مندوبین کو بھی اس سے اتفاق تھا۔ ہم نے اپنے سمجھوتے کے نکات کسی مرحلے پر بھی چھپاکر نہیں رکھے اور مذاکرات کی نشستوں کے بعد پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے تمام ممبران کو باقاعدہ باخبر کرتے رہے اور پریس کے سامنے بھی اپنا موقف واضح کرتے رہے۔
چنانچہ سترھویں آئینی ترمیم کے ذریعے ہم نے بڑی حد تک حکومت سے اپنا موقف منوالیا ہے اور اس سال کے آخر تک جب جنرل پرویز مشرف چیف آف آرمی سٹاف نہیںرہیں گے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ فوج کا عمل دخل سیاست میں باقی نہیں رہا۔ کچھ لوگ یہ شبہہ ظاہر کر رہے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف آئینی تقاضے کو پورا نہیں کریں گے اور آئین کو نظرانداز کرکے دونوں عہدوں پر بدستور براجمان رہیں گے‘ لیکن اگر پرویز مشرف یہ کرنے کی کوشش کریں گے‘ تو یہ ایک نیا مارشل لا ہوگا اور نئے مارشل لا کی صورت میں پرویز مشرف کو خود دست بردار ہونا پڑے گا۔ اس کا امکان اس لیے بھی نہیں ہے کہ فوج پہلے ہی کافی بدنام ہوچکی ہے‘ اور ماضی میں فوج کی مداخلت اس مرحلے پر ہوئی ہے جب سیاست دان اپنی ناقص کارکردگی کی بنا پر لوگوں کی نظروں سے گر گئے اور لوگ خود فوج کی مداخلت کا مطالبہ کرنے لگے۔
اس وقت صورت حال برعکس ہے۔ فوج کی مداخلت سے لوگ تنگ آچکے ہیں اور ان کی واپسی کا پرزور مطالبہ کر رہے ہیں۔ اب جوں جوں وقت گزر رہا ہے‘ یہ بات لوگوں کے سامنے کھل کر آرہی ہے کہ داخلی اور خارجہ پالیسی پر رائے کے لحاظ سے ملک میں اصل حزبِ اختلاف متحدہ مجلس عمل ہی ہے جس کا اختلاف‘ نہ ذاتیات پر مبنی ہے‘ نہ اقتدار کے حصول تک محدود ہے ‘اور نہ کسی کی جلاوطنی یا عدالتی مقدمات کی بناپر ہی ہے بلکہ اصولی طور پر حکومت کی داخلی اور خارجہ پالیسیوںسے بنیادی اختلاف کی بنا پر ہے۔ یہ اختلاف رفتہ رفتہ لوگوں پر واضح ہو رہا ہے اور مخالفانہ جھوٹے پروپیگنڈے کی قلعی کھل رہی ہے۔