اشارات


بسم اللہ الرحمن الرحیم

مشہور مقولہ ہے کہ آپ کچھ لوگوں کو بہت دیر تک اور سب لوگوں کو کچھ دیر کے لیے      بے وقوف تو ضرور بنا سکتے ہیں مگر تمام لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف نہیں بنا سکتے___ جھوٹ اور فریب کا پردہ چاک ہوکر رہتا ہے۔ یہ ایک دن بلبلے کی طرح پھٹ جاتا ہے اور اندر کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔

نائن الیون کے معاً بعد سے دہشت گردی کے نام پر پوری دنیا میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا جدید تاریخ کی طویل ترین عالمی جنگ کی آماج گاہ بن گئی ہے۔ عراق جہنم زار ہے، پوری دنیا میں عدم تحفظ اور خوف و ہراس کے بادل چھائے ہوئے ہیں، اور   اس سے بڑھ کر، اس کا اختتام دُور دُور نظر نہیں آرہا ہے۔

افغانستان امریکا اور ناٹو کی جدید عسکری ٹکنالوجی سے لیس ۶۰ ہزار افواج کی جولانیوں کا میدان بنا ہوا ہے۔ اس نام نہاد مقصد کا حصول، یعنی بن لادن اور القاعدہ کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنا، جس کے لیے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں فوج کشی کی گئی تھی وہ ایک قصۂ پارینہ اور زیبِ داستان کے لیے گھڑے ہوئے افسانے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ طالبان، جن کا کوئی کردار نائن الیون کے واقعے میں آج تک ثابت نہیں کیا جاسکا ہے، بظاہر جنگ کا عنوان بن گئے ہیں، جب کہ اصل مقصد افغانستان پر مسلسل قبضہ ہے جسے تبدیلیِ قیادت کے نام پر افغانستان پر ایک کٹھ پتلی حکومت مسلط کرکے اور جمہوریت کے قیام اور معاشی ترقی کے ایک نئے دور کی نوید سناکر حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ رہا معاملہ زمینی حقائق کا، تو جس معاشی اور تعلیمی ترقی اور جدیدیت کے انقلاب کا چرچا تھا اس کا کہیں وجود نہیں۔

امریکا اور ناٹو کے کرتا دھرتا اب اصل بات اس پر کر رہے ہیں کہ عراق سے تو واپسی کا سوچا جاسکتا ہے لیکن افغانستان سے نہیں۔ ستم یہ ہے کہ امریکا ہی نہیں، ناٹو اقوام جن کا اتحاد نارتھ اٹلانٹک کے دفاع کے لیے مخصوص تھا، وہ اب نارتھ اٹلانٹک سے ہزاروں میل دُور اپنے لیے نیا میدانِ جنگ متعین کرنے میں مصروف ہیں اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اب ناٹو کے مستقبل کا انحصار افغانستان میں اس کے مشن کی کامیابی پر ہے، حالانکہ امریکا کے سوا تمام ہی اتحادی ممالک کی افواج کا عمل گواہ ہے کہ وہ اُوپر سے جتنی چاہے بم باری کر رہے ہوں، زمین پر جنگ اور مقابلے کے لیے تیار نہیں۔ ان میں سے کچھ اپنی فوجیں واپس بلاچکے ہیں اور کچھ کے وزراے خارجہ علانیہ طور پر کہہ چکے ہیں کہ اگر ہمارے چند درجن مزید سپاہی افغانستان میں مارے جاتے ہیں تو ہمارے عوام افواج کی واپسی کا مطالبہ کردیں گے۔

اس سب کے باوجود امریکا اپنی فوجوں کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے اور دوسروں پر اضافے کے لیے دبائو ڈال رہا ہے۔ اس وقت ۷ ہزار مزید کمک کا منصوبہ ہے۔ امریکا کے تمام ہی صدارتی امیدوار عراق سے تو فوجوں کی واپسی کی بات کرتے ہیں مگر افغانستان میں اضافے ہی کا راگ الاپ رہے ہیں، اور ایران اور پاکستان دونوں پر مختلف انداز میں دبائو بڑھانے اور ایک (ایران) پر حملہ کرکے اس کی قوت پر ضرب لگانے اور دوسرے (پاکستان) کا ہاتھ مروڑ کر اس کی فوجوں کو اپنے ہی عوام کے خلاف خون آشام کارروائیوں میں مصروف رکھنے اور علاقے میں مذاکرات، امن اور سلامتی، استحکام اور ترقی کے ہر منصوبے کو درہم برہم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بلکہ گذشتہ تین مہینوں سے بار بار ایک نئے خطرے کا ڈھونگ پیٹا جا رہا ہے کہ اگلا نائن الیون جیساحملہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے متوقع ہے۔ نیگرو پونٹے سے لے کر خود بش بہادر تک یہ  شور مچا رہے ہیں اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو بلیک میل کرکے اور گاجر اور چھڑی (carrot and stick) کی روایتی پالیسی کا استعمال کرتے ہوئے اسے جنگ کی دلدل میں مزید دھکیلنے اور امن و استحکام کے حصول کی ہرکوشش کو ناکام بنانے میں مصروف ہیں۔ یہ خاص طور پر   اس لیے ہورہا ہے کہ پاکستانی عوام جن کی نگاہ میں پہلے دن سے امریکا کی افغانستان کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت، حصہ داری اور کردار پاکستان اور اُمت ِمسلمہ کے مفادات کے خلاف اور صرف امریکا کے ایجنڈے کی تکمیل کا ذریعہ تھے اور پرویز مشرف کی اس پالیسی کے خلاف تھے، اور فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے موقع پر انھوں نے پرویز مشرف کی اس امریکی جنگ میں شرکت کو یکسر رد کردیا اور اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ تسلسل نہیں، تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ امریکا کا موجودہ دبائو دراصل عوام کے اس مینڈیٹ کی نفی کرنے اور پرویز مشرف کی خون آشام اور عوام دشمن پالیسیوں کو جاری رکھنے کے لیے دبائو بڑھانے اور نئی حکومت کو اسی طرح خوف زدہ کرنے کی مہم کا حصہ ہے جس طرح نائن الیون کے بعد پرویز مشرف اور ان کے اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ کو ڈرا دھمکا کر امریکا کا آلۂ کار بنانے کا کارنامہ انجام دیا تھا۔

آج پھر ملک اور اس کی قیادت ایک ویسے ہی امتحان اور انتخاب سے دوچار ہے۔     اس لیے ضروری ہے صدر بش اور امریکا کی اس جنگ کے اصل مقاصد کا صحیح ادراک پیدا کیا جائے، سات سال میں پرویز مشرف کی امریکا کی محکومی میںاختیار کی جانے والی پالیسی کے نتائج کا پوری علمی دیانت کے اور سیاسی حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے۔ عوام کے جذبات، احساسات اور مطالبات کا بھی احترام کیا جائے اور اچھی طرح سمجھا جائے کہ فردِواحد کی بنائی جانے والی پالیسی کے مقابلے میں عوام کی منتخب سیاسی قیادت کو اپنی پالیسی کس طرح اور کن مقاصد کے لیے مرتب اور نافذ کرنی چاہیے۔

نئی حکومت کا مینڈیٹ اور اس کے بعد

آگے بڑھنے سے پہلے ایک بنیادی بات کی وضاحت ضروری ہے۔ عوام نے ۱۸ فروری کو بڑا واضح مینڈیٹ دیا ہے اور اس میں پانچ چیزیں بہت واضح ہیں:

                ۱-            پرویز مشرف کا دور حکومت تاریک اور ناکام دور تھا اور قوم ان سے اور ان کی مسلط کردہ پالیسیوں سے نجات چاہتی ہے، ان کا تسلسل نہیں۔

                ۲-            عدلیہ پر پرویز مشرف کا حملہ اور اعلیٰ ججوں کی برطرفی ایک قومی جرم اور دستور اور اس کے تحت قائم ہونے والے ادارتی نظام کو درہم برہم کرنے اور ایک تابع مہمل عدلیہ ملک پر مسلط کرنے کی باغیانہ کوشش تھی۔ نئی حکومت کی پہلی ذمہ داری تھی اور یہ ذمہ داری ابھی ختم نہیں ہوئی کہ ججوں کو بحال کرے اور عدلیہ کی آزادی اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے۔

                ۳-            ملکی سیاست میں فوج کا کردار ختم ہونا چاہیے۔ فوج کا کام ملک کا دفاع اور دستور کے تحت سول حکومت کے احکام کی پاس داری کرنا ہے۔ ملک کی قسمت کے فیصلے اور پالیسی سازی دستور، قانون اور ضابطوں کے مطابق عوام کے منتخب نمایندے کریں۔ پارلیمنٹ کو بالادستی حاصل ہو اور قیادت عوام کی مرضی کے مطابق جمہوری عمل کے ذریعے حکومت کی ذمہ داری ادا کرے، کھلے انداز میں کرے، اور ان کے سامنے جواب دہ ہو۔

                ۴-            پاکستان کے معاملات میں امریکا کا کردار جو شکل اختیار کرگیا ہے وہ قومی حاکمیت، عزت و وقار اور مفادات کے خلاف ہے۔ اس سلسلے میں سب سے تباہ کن چیز امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت اور کردار اور اس کے نتیجے میں ملک اور پورے علاقے میں جو خون ریزی ہورہی ہے اور دہشت گردی کو جو فروغ حاصل ہوا ہے وہ ناقابلِ برداشت ہے۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان، سوات، پاکستانی قانون کے زیرعمل داری (settled) علاقوں، حتیٰ کہ اسلام آباد اور لاہور میں جو حالات رونما ہوئے اور لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں ظلم اور سرکاری دہشت گردی کا جو خونیں ڈراما رچایا گیا ہے، وہ عوام کے غیظ و غضب کا سبب بنا ہے۔ نئی حکومت کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ اس جنگ میں پاکستان کی شرکت پر بنیادی نظرثانی کرے اور علاقے میں امن و سلامتی کے لیے نئی حکمت عملی پر عمل پیرا ہو۔

                ۵-            آخری چیز پرویزی دور کی دوسری تمام پالیسیوں خصوصیت سے معاشی، تعلیمی، ثقافتی پالیسیوں سے عوام کی بے زاری، بھارت کے سلسلے میں یک رخے انداز میں پسپائی اور یک طرفہ رعایات (one way concessions) اور مسئلہ کشمیر پر اُلٹی زقند (u-turn) کا رویہ ہے جس کے بارے میں انتخابی مہم کے دوران اور اس کے بعد عوام نے اپنے جذبات کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ ملک جس طرح خوراک، مہنگائی، بدامنی، بجلی، گیس اور پانی کے بحران میں مبتلا ہے، وہ مشرف کی آٹھ سالہ غلطیوں، کوتاہیوں اور غلط ترجیحات کا مجموعی نتیجہ (cumulative result) ہے، اور ان سب کے بارے میں نئی حکومت کو پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیوں اور عوام کی مشکلات کو حل کرنے اور ان کی توقعات کو پورا کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر کارروائی کی ضرورت ہے۔

یہ تو تھا عوام کا مینڈیٹ اور ان کی توقعات کا خاکہ ___ مخلوط حکومت کے قیام کو ملک کی تمام کی تمام قوتوں نے خوش آمدید کہا اور ان دینی اور سیاسی جماعتوں نے بھی جنھوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، کھلے دل سے حکومت کو موقع دیا اور اسے صحیح مشوروں سے نوازا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کچھ درپردہ اور کچھ کھلی سودے بازیوں کے پس منظر میں جو سیاسی عناصر میدان میں آئے تھے، ان کی نگاہیں عوام کے مینڈیٹ اور توقعات سے کہیں زیادہ اپنے مفادات پر تھی اور جو کام پہلے ہفتے میں ہوجانے چاہییں تھے، ان پر چھے ہفتے گزر جانے کے باوجود بھی لیت و لعل کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ حکومت کے کرتا دھرتا گومگو کا شکار ہیں، پارلیمنٹ جس کی بالادستی کے دعوے ہو رہے تھے ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کا منظر پیش کر رہی ہے اور زرداری ہائوس اور ایوانِ صدر اپنے اپنے کردار ادا کرنے میں مصروف اور ایک دوسرے کے لیے گنجایش نکالنے کا پریشان کن نقشہ بنانے میں مصروف نظر آرہے ہیں۔ وزرا گاڑیوں پر جھنڈے تو لہرا رہے ہیں اور انتقالِ اقتدار کے ڈرامے کے باوجود انتقالِ اختیارات کی صورت نظر نہیں آرہی۔ کسی بھی اہم میدان میں نئی پالیسی سازی کی کوئی جھلک دیکھنے میں نہیں آرہی بلکہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ وزیردفاع، وزیرخزانہ اور وزیرخارجہ تک پالیسیوں کے تسلسل کی بات کر رہے ہیں اور وزیرخارجہ نے تو یہاں تک فلسفہ بگھارا ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی کا انحصار اس کے اسٹرے ٹیجک مفادات (strategic interests) پر ہوتا ہے اور قیادت کی تبدیلی سے خارجہ پالیسی تبدیل نہیں کی جاتی۔ وہ بھول گئے کہ الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے معرکے میں بنیادی ایشو ہی یہ تھا کہ ملک کے اسٹرے ٹیجک مفادات کو قربان کیا جا رہا ہے اور اس ناکام پالیسی کی تبدیلی کے لیے عوام نئی قیادت کو سامنے لائے ہیں۔

وزیرخارجہ یہ بھی بھول گئے کہ پاکستان ہی کی تاریخ میں سیاسی قیادت نے ایک بار نہیں  بار بار خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کی ہیں اور وہ تبدیلیاں اسٹرے ٹیجک مفادات کے ادراک ہی کی بنیاد پر کی گئی ہیں۔ حالات کی تبدیلی سے اسٹرے ٹیجک مفادات میں تبدیلی ہوتی ہے، جیسے برلن کے انقلاب کے بعد، امریکا کی ہر کوشش کے علی الرغم پاکستان کا چین کوتسلیم کرنا اور اس کے ساتھ اسٹرے ٹیجک شراکت داری کا قیام۔ واضح رہے کہ خارجہ پالیسی کی اس تبدیلی میں خود جناب ذوالفقار علی بھٹو کا ایک اہم کردار تھا لیکن آج کی پیپلزپارٹی کی قیادت کو اس کا کوئی ادراک ہی نہیں۔ اسی طرح افغانستان پر اس کی کھلی فوج کشی اور برزنیف ڈاکٹرائن کی افغانستان کے لیے توسیع   نے پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات میں ایک جوہری تبدیلی کردی تھی اور اس کے نتیجے میں خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کرنا پڑیں۔ خود پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد جو یوٹرن لیا اس کے نتیجے میں خارجہ پالیسی کا رخ بالکل بدل گیا۔ آج نائن الیون کے سات سال بعد دنیا کا جو حال ہے، عراق میں جو کچھ ہو رہا ہے، یورپ، چین اور روس جس طرح کروٹیں لے رہے ہیں، تیسری دنیا کے ممالک عالم گیریت کے بوجھ تلے دبے جس طرح کراہ رہے ہیں اور اپنے لیے زندہ رہنے کی نئی راہیں تلاش کرنے کی جو جستجو کر رہے ہیں، اور امریکا کی سات سالہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے جو نتائج افغانستان اور اس پورے خطے (region) بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہوئے وہ اسٹرے ٹیجک مفادات میں تبدیلیوں کی نشان دہی کر رہے ہیں اور ان مفادات اور مقاصد کے حصول کے لیے خارجہ پالیسی کے ازسرنو بنیادی جائزے کی ضرورت ہے نہ کہ ضمنی تبدیلیوں کی۔ ان حالات میں تبدیلی کی جگہ تسلسل کی بات نہایت مایوس کن بلکہ تشویش ناک ہے۔ اصلاح کی توقع اسی وقت ہوسکتی ہے جب مرض کا احساس، خرابی کا ادراک اور تبدیلی کا عزم ہو___ اور پیپلزپارٹی کی حکومت کا اقتدار کے پہلے ۵۰ دن میںریکارڈ کسی اعتبار سے بھی قابلِ فخر تو کیا تسلی بخش بھی نہیں کہا جاسکتا۔

یہ ہے وہ پس منظر جس میں ہم قبائلی علاقہ جات میں جاری پالیسی، اس میں تبدیلی کی ضرورت اور کوشش اور بحیثیت مجموعی امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ یہ مسئلہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اس پر پاکستان کے نظریاتی تشخص کے ساتھ قومی یک جہتی، ملک میں امن و امان کے قیام اور فوج اور قوم کے تعلقات کا انحصار ہے۔ اس کا تعلق قومی سلامتی، ملک کی آزادی اور حاکمیت اور ہماری پوری دفاعی صلاحیت کی حکمت عملی سے ہے۔ بلاشبہہ اس کا گہرا تعلق پاک امریکا تعلقات سے بھی ہے اور ایک متوازن اور حقیقت پسندانہ پالیسی کی تشکیل ان سارے پہلوئوں کو سامنے رکھ کر ہی ممکن ہے۔ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان میں امریکا اور ناٹو کی افواج کے مقاصد اور اہداف کیا ہیں اور وہ اہداف کہاں تک خود پاکستان کے مفادات اور اس خطے میں اس کے مقاصد سے مطابقت رکھتے ہیں۔ جو پالیسی وقتی حالات، بیرونی دبائو، یا خوف اور مجبوری کے تحت بنے گی وہ کبھی بھی قومی مقاصد اور مفادات کی ضامن نہیں ہوسکتی۔

ہم اس وقت اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ نائن الیون کے بعد آزاد فیصلہ سازی کے لیے کتنی گنجایش موجود تھی اور اس وقت کن حالات میں کیا فیصلہ کیا گیا۔ ہم اس پر اپنے خیالات کا اظہار بار بار کرچکے ہیں اور اس کے اعادے کی اس وقت ضرورت نہیں۔ لیکن آج کے حالات مختلف ہیں۔ خود امریکا میں بش کی پالیسیوں کو اب وہ پذیرائی حاصل نہیں اور دنیا کے عوام، حکومتیں اور دانش ور اپنے اپنے انداز میں اس سے فاصلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ برطانیہ، اسپین، اٹلی اور آسٹریلیا کے عوام اور حکومتوں نے اپنے تعاون کی مقدار (quantum) اور شکلوں پر نظرثانی کی ہے۔ جاپان، جرمنی، فرانس، پولینڈ اور دسیوں ملک نظرثانی میں مشغول ہیں۔ خود امریکا کے تھنک ٹینک عراق اور افغانستان میں امریکی پالیسیوں کی ناکامیوں پر کھل کر بحث کر رہے ہیں اور امریکی مقتدرہ سے متعلق افراد، خصوصیت سے کلیدی مقامات پر خدمات انجام دینے والے فوجی اور سول شخصیات جو ریٹائر ہوچکی ہیں پالیسی کی ناکامیوں اور تبدیلی کی ضرورت پر کھل کر کلام کر رہے ہیں۔

ان حالات میں اور بھی ضروری ہوگیا ہے کہ امریکا کے احکام اور بلیک میل کرنے والے مطالبات پر سرِتسلیم خم کرنے کی روش ترک کی جائے،دوستی اور محکومی کے فرق کو سامنے رکھاجائے، دوسروں کے مفادات اور اپنے مفادات کا صحیح صحیح ادراک کیا جائے اور عوام کی خواہشات اور ان کو اعتماد میں لے کر پوری دانش مندی سے پالیسیوں پر نظرثانی کی جائے اور پالیسی سازی کے طریق کار کو بھی درست کیا جائے تاکہ ذاتی پسندوناپسند، شخصی مفادات اور ترجیحات کا کوئی سایہ قومی پالیسیوں پر نہ پڑے اور یہ پالیسیاں مکمل طور پر قومی مقاصد، اہداف اورمفادات کے مطابق مشاورت کے اداراتی عمل کے ذریعے بنیں اور ان پر پارلیمنٹ میں کھلی بحث ہو اور ہرسطح پر عوام کی شرکت کا اہتمام کیا جائے۔ زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے جو پالیسی بنے گی وہ خام ہوگی اور نتائج کے حصول میں ناکام رہے گی۔ صوبہ سرحد کی نئی حکومت کو سیکولر قوتوں کی فتح کہا جا رہا تھا اور اے این پی کی صوبے میں کامیابی کو دینی قوتوں کی شکست سے تعبیر کیا جا رہا تھا اور امریکی حکومت نے اے این پی کی قیادت سے بلاواسطہ تعلقات قائم کرنے اور اس کے ساتھ اشتراکِ عمل کی راہیں استوار کرنے کے لیے تمام حربے بھی استعمال کرنا شروع کردیے ہیں، لیکن صوبے کی حکومت کو طالبان اور سوات کی مقتدرہ قوتوں سے بات چیت ہی کا راستہ استعمال کرنا پڑا اور شریعت محمدیؐ کے نفاذ کو معاہدے میں سرفہرست رکھنا پڑا۔ یہ زمینی حقائق اور حقائق پر مبنی سیاست کا لازمی حصہ ہے۔ سیاسی قوتوں کو سیاسی حقائق کی روشنی میں مسائل کے سیاسی حل ہی کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یہ صرف خودپسند جرنیلوں یا مفادات کی دلدل میں پھنسے ہوئے سیاست دانوں کا رویہ ہوتا ہے کہ وہ انا ولاغیری کے زعم میں من مانے فیصلے کرڈالتے ہیں اور اس کا کوئی خیال نہیں کرتے کہ قوم اس کی کیا قیمت ادا کرتی ہے؟

امریکی منصوبے

اب یہ بات دو اور دو چار کی طرح ثابت ہوچکی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا مقصد دہشت گردی سے انسانیت کو نجات دلانا نہیں، بلکہ دہشت گردی کے نام پر اپنے عالمی منصوبوں کی تکمیل اور اہداف کا حصول ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل نکات پر غور مناسب رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

۱- دہشت گردی کی کوئی متفق علیہ تعریف نہ موجود ہے اور نہ امریکا نے اس سلسلے میں کوئی قرارواقعی کوشش کی ہے۔ اس کے برعکس ایک مبہم بات کوایک دوسرے غیرواضح مبہم وجود، یعنی القاعدہ کے شانوں پر سجا کر ایک عالمی جنگ کا عنوان بنا دیا ہے اور عملاً دنیا کو اس جنگ کی آگ میں جھونک دیا ہے جس کا کوئی اختتام نظر نہیں آرہا۔

۲- نائن الیون سے پہلے بلکہ صدیوں سے دہشت گردی کا وجود رہا ہے اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق مختلف گروہوں نے قوت کا ایسا استعمال بار بار کیا ہے جس سے خواہ ان کے سیاسی مقاصد اور اہداف توجہ کا مرکز بن گئے ہوں مگر معصوم انسانوں کی جانوں کی قربانی بھی اس کا حصہ رہی ہے۔ اسی وجہ سے ان کے مقاصد سے ہمدردی کے باوجود ان کے اس طریق کار پر گرفت کی گئی ہے اور ریاست اور قانون کی نگاہ میں ان کے یہ اقدامِ جرم    شمار کیے گئے لیکن امریکا نے اپنے سوچے سمجھے استعماری منصوبوں کی تکمیل کے لیے نائن الیون   کے واقعے کے ۲۴ گھنٹے کے اندر ایک مجرمانہ کارروائی (criminal activity) کو جنگ کا نام  دے دیا اور اس کے جواب میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عنوان سے ایک عالمی جنگ کا آغاز کردیا۔ یہ ایک جوہری تبدیلی تھی جس کے نتیجے میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے     سیاسی تدابیر اور ان کے ساتھ مجرموں سے نمٹنے کے عدالتی طور طریقوں کو ترک کر کے جنگ کے مثالیے (paradigm) کو مسئلے کے نمٹنے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا اور مسئلے کے عسکری حل (military solution) کی حکمت عملی کو ساری دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کی۔

امریکا کے اسٹرے ٹیجک مفکرین روس کے انتشار اور دیوارِ برلن کے انہدام کے بعد سے ایک ایسی عالمی حکمت عملی کا تانا بانا بُننے میں مشغول تھے جس کے ذریعے امریکا ۲۱ویں صدی کی واحد سوپر پاور رہ سکے، اس کا مقابلہ کرنے والی کوئی قوت (challenger) نہ اُبھر سکے، دنیا کے تمام اسٹرے ٹیجک پوائنٹس پر امریکا کے فوجی اڈے موجود ہوں، تیل،گیس اور خام مال کی رسد پر اس کا کنٹرول رہے، اس کی مصنوعات کے لیے عالمی منڈیاں، خصوصیت سے عرب دنیا اور تیسری دنیا کے ممالک کی منڈیاں کھلی رہیں، نیز مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کا سیاسی نقشہ اس طرح دوبارہ بنایا جائے کہ امریکا کے مفادات کو مکمل تحفظ حاصل ہو، اور اسرائیل کو نہ صرف یہ کہ کوئی حقیقی خطرہ پیش نہ آئے بلکہ اسرائیل امریکا کے نائب (surrogate) کی حیثیت سے اس پورے علاقے میں امریکی اور اسرائیلی مفادات کے حصول کے لیے ایک کلیدی کردار ادا کرتا رہے۔ اس کے لیے عراق کی کمر توڑنا، افغانستان میں اپنے قدم جمانا، ایران کو نہ صرف یہ کہ ایٹمی طاقت نہ بننے دینا بلکہ معاشی اور سیاسی اعتبار سے بھی اس کو ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھنے دینا، پاکستان پر دبائو، چین پر نگرانی اور جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر اسے ہراساں کرنے کا ہمہ گیر پروگرام اور بھارت کے ساتھ تعاون کے ذریعے اس علاقے میں اپنے اثرات کو بڑھانا، جب کہ مسلم ممالک خاص طور پر عراق، پاکستان، افغانستان کو علاقائی، فرقہ وارانہ اور اسی قسم کی دوسری عصبیتوں کی بنیاد پر ٹکڑے ٹکڑے کرکے کمزور کرنا___ وہ کلیدی اہداف تھے، جن پر ۹۰ کے عشرے سے عمل ہو رہا تھا۔ نائن الیون کے حادثے کو ایک سنہری موقع بناکر پورے بین الاقوامی قانون کو بالاے طاق رکھ کر اپنے دفاع کے نام پر دوسرے ممالک پر فوج کشی، ان کی سرحدوں کی بے دریغ خلاف ورزی کے سامراجی  فلسفے کو پالیسی کا مرکز و محور بنانا، جمہوریت کے فروغ اور تبدیلیِاقتدار (regime change ) کے نام پر دوسرے ممالک میں مداخلت اور سیاسی تبدیلیوں کا کھیل، جنگ اور قومی سلامتی کا سہارا لے کر ان تمام حقوق کی پامالی جو مہذب دنیا کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں، وہ مقاصد ہیں جن کے لیے امریکا خصوصیت سے نائن الیون کے بعد سرگرم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اس کا صرف عنوان ہے اوراصل سامراجی کھیل کے لیے قائم مقام (proxy) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں امریکا کی سرکاری دستاویزات، دنیا بھر کے اہم تھنک ٹینکس کی مطبوعات اور صدربش سے  لے کر ان کے سول اور فوجی ترجمانوں اورسابقہ کمانڈروں اور خفیہ اداروں کے ترجمانوں کے بیانات چشم کشا ہیں۔ کسی کو باہر سے الزام لگانے کی ضرورت نہیں۔ امریکا کا عمل اور اس کے    ذمہ داروں کے بیانات سیاسی شطرنج کا پورا نقشہ پیش کردیتے ہیں۔

ایک مشہور فرانسیسی مفکر ایمانیول ٹوڈ اپنی کتاب After the Empire: The Breakdown of the American Order میں لکھتا ہے:

امریکا نے اپنے آپ کو ساری دنیا میں ’کروسیڈ‘ کے قائد کی حیثیت سے پیش کرنے اور کسی بھی جگہ، کسی بھی وقت، کسی بھی مدت کے لیے مداخلت کو جائز ثابت کرنے کے لیے کچھ عرصے سے عالمی دہشت گردی کے تصور کو استعمال کیا ہے۔ (ص ۴۴)

القاعدہ اور حکومت طالبان کے خلاف جنگ کی وجہ سے امریکا نے افغانستان میں ۱۲ ہزار، ازبکستان میں ۱۵۰۰ اور جارجیا میں کم و بیش ۱۰۰ فوجی تعینات کر دیے۔ (ص۱۳۱)

تمام ظاہری محرکات سے زیادہ، امریکا نے اپنی فوجی شان و شوکت کے مظاہرے کے لیے مسلم دنیا کو بطور ہدف اور ’عذر خصوصی‘ (priveleged pretext) اس لیے منتخب کیا ہے کہ کم خرچ پر اپنی طاقت کی ہرجگہ اسٹرے ٹیجک موجودگی کو سامنے لایا جائے۔     یہ بالکل سادہ سی بات ہے کہ ایسا عالمِ عرب کی عمومی کمزوری کی وجہ سے ہوا ہے۔ امریکا عربوں کے ساتھ بدسلوکی کرے گا اس لیے کہ وہ فوجی لحاظ سے کمزور ہیں، اس لیے کہ ان کے پاس تیل ہے اور تیل اتنا اہم ہے کہ امریکا کے ہرقسم کی اشیاے تجارت پر عالمی انحصار سے توجہ منتقل کردے گا۔ (ص ۱۴۲-۱۴۳)

ایک بنگلہ دیشی نژاد برطانوی محقق نفیض مصدق احمد نے، جو برطانیہ کے ایک تھنک ٹینک Institute of Policy & Research کے ڈائرکٹر ہیں، دو تحقیقی کتب شائع کی ہیں۔ پہلی The War on Truthاور دوسری Behind the War on Terror۔ ان کتابوں میں قابلِ اعتماد حوالوں کے ساتھ امریکا کی عالمی غلبے کی حکمت عملی کے تمام ہی پہلوئوں کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ موصوف جس نتیجے پر پہنچے ہیں،وہ مختصراً یہ ہے:

حقیقت یہ ہے کہ ۱۱ستمبر کے دہشت گردی کے حملے کے بعد امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جو نئی جنگ شروع کی، یہ انھی بنیادی اصولوں اور منصوبوں کی توسیع ہے جنھوں نے دوسری جنگ کے بعد امریکی خارجہ پالیسی کی تشکیل کی اور آگے بڑھایا۔ عالمی دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے بہانے درحقیقت امریکی حکومت اپنی عالمی برتری کو توسیع دینے اور مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ ان طویل المیعاد حکمت عملیوں کے مطابق ہے جنھیں گذشتہ کئی عشروں میں غوروفکر کرکے محنت سے تکمیل تک پہنچایا گیا۔ Behind the War on Terror: Western Secret Strategies and the Struggle for Iraq این ایس احمد، Calavian Sussex  ، ۲۰۰۳ئ، ص ۳)

ایک امریکی تھنک ٹینک Project for the New American Century (PNAC) نے بڑی چشم کشا رپورٹ تیار کی ہے۔ اس کے تیار کرنے والوں میں صدر جارج بش کے چوٹی کے مشیر شامل رہے ہیں جن میں ڈک چینی (موجودہ نائب صدر) ڈونالڈ رمزفیلڈ  (سابق وزیردفاع)، لیوس لبی نائب صدر کے سابق چیف آف اسٹاف وغیرہ شامل تھے۔ اس میں صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ ہمارا مقصد ایک ایسا بلیو پرنٹ تیار کرنا ہے جس کا مقصد:

عالمی سطح پر امریکا کی برتری کو برقرار رکھنا، کسی دوسری عظیم طاقت کے بطور حریف عروج کو روکنا، اور بین الاقوامی سلامتی کے نظام کو امریکی اصولوں اور مفادات کے مطابق تشکیل دینا ہے۔

اسی قسم کے ایک اور جامع منصوبے میں جس کی تیاری میں کولن پاول اور پال ولفورٹس شامل تھے، کہا گیا ہے کہ:

یہ امریکا کی نئی قومی سلامتی کی حکمت عملی کے ذریعے اپنی آخری شکل اختیار کرے گا۔ یہ منصوبہ دنیا پر امریکا کی حکومت قائم کرنے کے لیے ہے۔ اس کا کھلا کھلا مرکزی خیال ایک ہی طاقت کا میدان میں رہنا (unilateralism) ہے لیکن یہ بالآخر غلبہ حاصل کرنے کی کہانی ہے۔ اس کا تقاضا ہے: دوستوں اور دشمنوں پر ایک جیسا غلبہ۔

امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تعلق دہشت گردی سے کم اور امریکا کے اپنے عالمی عزائم جس کا اصل ہدف دنیا پر امریکی غلبہ (Pax Americana) ہے، تیل اور انرجی کے دوسرے ذخائر پرقبضہ اور ان کی رسد کے راستوں پر حکمرانی، دنیا کے اسٹرے ٹیجک پوائنٹس پر اپنے فوجی اڈوں کا قیام اور دنیا کے اہم علاقوں خصوصیت سے مشرق وسطیٰ اور وسط افریقہ کے سیاسی نقشے کی امریکی مفادات اور اسرائیلی خواہشات کی روشنی میں تشکیلِ نو۔

سوڈان میں جو کچھ ہو رہا ہے اور عراق، افغانستان اور لبنان میں جو کچھ کیا جا رہا ہے، نیز پاکستان کے بارے میں جو نئے نئے نقشے تیار کیے جا رہے ہیں، ان سب کا تعلق اس بڑی (grand) حکمت عملی سے ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکا کی دل چسپی اس عظیم تر منصوبے کا حصہ ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ اس حکمت عملی پر عمل درآمد کا ایک پہلو ہے۔

ڈاکٹر نفیض احمد نے بڑے پتے کی بات لکھی ہے جو امریکی حکمت عملی کے سینے کے اصل راز کو فاش کرتی ہے:

اس طرح بین الاقوامی دہشت گردی امریکی بالادستی کے ماتحت ورلڈ آرڈر میں ایک  عملی کردار ادا کرتی ہے۔ دہشت گرد اسامہ صدر بش کی ضرورت ہے۔ بن لادن نہ رہے، تو بش کے پاس پوری دنیا میں کوئی مستقل ہدف نہیں رہے گا اور اس طرح نئے امریکی غلبے (New Pax Americana) کے لیے جواز ختم ہوجاتا ہے۔ (ص ۱۷)

دہشت گردی کو فروغ دینے اور اسے اپنے سیاسی پروگرام میں ایک حربے کے طور پر استعمال کرنے میں امریکا کا اپنا کردار بہت زیادہ داغ دار ہے اور اس تاریخی روایت کی روشنی میں دہشت گردی کے باب میں امریکا کے حالیہ جوش و خروش کو سنجیدگی سے لینا محال ہے۔ ڈاکٹر احمد کا یہ تبصرہ لائق توجہ ہے کہ:

مشرق وسطیٰ کے کلیدی گرم محاذ عراق کے ہمارے تفصیلی تجزیے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مغربی پالیسی نے اسٹرے ٹیجک حکومتوں کے کنٹرول اور توانائی کے کلیدی وسائل پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے ان بنیادی انسانی اصولوں کی مسلسل خلاف ورزی کی ہے جن کی وہ علَم بردار ہے۔ یہ امر بہت اہم ہے کہ اس عمل میں مغربی پالیسی ریاستی دہشت گردی میں باقاعدہ ملوث رہنے کی رہی ہے، دونوں طرح سے، بالواسطہ طور پر ان حکومتوں کو جو دہشت گردی کی مرتکب تھیں اسپانسر کرکے اور بلاواسطہ طور پر ایسے فوجی آپریشن کرکے جو دہشت گردی پر مبنی تھے۔ اس سے بنیادی طور پر نائن الیون کے نتیجے کے طور پر جاری دہشت گردی کے خلاف نئی جنگ کے درست ہونے کا تصور بلاشبہہ ختم ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں مشرق وسطیٰ میں مغربی پالیسی کی بنیاد میں یہ بات شامل ہے کہ تنازعات کو پیدا کیا جائے اور/یا بڑھایا جائے تاکہ مغربی مفادات سے ہم آہنگی ہو۔ یہ استعماری دور کی روایتی لڑائو اور حکومت کرو پالیسی کی یاد دلاتا ہے۔ (ص ۲۴۳)

امریکی پالیسی کے مقاصد بہت واضح ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ محض ایک عنوان اور نعرہ ہے۔ اصل مقصد امریکا کی بالادستی، مسلمان اور دوسرے ممالک میں اپنی مفید مطلب حکومتوں کا قیام، تیل اور دوسرے وسائل پر قبضہ اور ان کا اپنے مفادات کے لیے استعمال، اسرائیل کا تحفظ اور اسے مشرق اوسط میں کھل کھیلنے کے مواقع کی فراہمی اور اس کی جارحانہ سرگرمیوں کی سرپرستی اور حفاظت، احیاے اسلام کی تحریکوں کا راستہ روکنا اور اسلامی بنیاد پرستی، اسلامی انتہا پسندی اور اسلامی دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کو اپنے ملکوں میں اسلام کو حکمران قوت بنانے سے روکنا اور اپنی سیاسی، معاشی، نظریاتی، عسکری، ثقافتی اور ذہنی غلامی میں جکڑنا ہے۔

امریکا کے بارے میں راے عامہ

افغانستان میں امریکا اور اس کی حلیف قوتوں کا اصل مقصد مغربی استعمار کے ان ہی اہداف کا حصول ہے، اور پرویز مشرف کا امریکا کو اس کی جنگ میں پاکستان کا تعاون فراہم کرنا اور پاکستان کی سرحدات کو امریکی جولانیوں کے لیے کھول دینا پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات سے متصادم اور امریکا کے مفادات کی خدمت رہا ہے۔ پاکستانی عوام امریکا اور مشرف کے اس کھیل پر مضطرب، سرگرداں اور متفکر رہے ہیں۔ اپنی مخالفت کا اظہار ہر میدان میں کرتے رہے ہیں اور پورے خطے میں تصادم اور خون خرابے کے اضافے کاسبب بھی مشرف حکومت کی یہی پالیسی رہی ہے۔ گیلپ، World Public Opinion Survey، The Pew Global Attitudes Projectاور خود امریکی اداروں کے زیراہتمام کیے جانے والے IRI Index ،تمام سروے  راے عامہ کی مخالفت کی گواہی دیتے ہیں۔ گیلپ کے ان تمام جائزوں کے تجزیے پر مبنی کتاب Who Speaks for Islam? What A Billion Muslims Realy Think حال ہی میں گیلپ پریس نے شائع کی ہے۔ جو سروے ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۷ء تک کیے گئے ہیں، ان کا تجزیہ مشہور امریکی محقق جان ایسپوزیٹو نے کیا ہے۔ ان جائزوں کی روشنی میں مسلمان اپنے دین پر ایمان اور اعتماد رکھتے ہیں۔ وہ اپنی اجتماعی زندگی کو قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب اورمنظم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو بڑی حد تک اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کا کوئی تعلق مذہب سے نہیں، بلکہ جو بھی احتجاج امریکا کے خلاف ہو رہا ہے، اس کی بنیادی وجہ امریکا کی خارجہ پالیسیاں ہیں۔

Pew (پیو) کے گلوبل سروے کے مطابق جو جون ۲۰۰۶ء میں شائع ہوا تھا اور جس میں ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۶ء تک کے سروے کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا تھا، اس کے مطابق پوری دنیا میں اور خصوصیت سے پاکستان میں امریکا کی مقبولیت کا گراف برابر گر رہا ہے۔ ۷۰ فی صد سے زیادہ پاکستانی عوام امریکا کی پالیسیوں کے مخالف تھے اور ان کا خیال تھا کہ امریکا کی اس جنگ نے دنیا کو زیادہ خطرناک جگہ بنا دیا ہے۔

اسی طرح World Public Opinion Surveyکے سروے کی روشنی میں پاکستانی عوام کے ۹۰ فی صد کی خواہش ہے کہ ان کی اجتماعی زندگی کی صورت گری اسلام کے اصولوں کے مطابق ہو، جب کہ آبادی کے ۴۶ فی صد کی راے یہ تھی کہ اس وقت زندگی کے اجتماعی معاملات اسلام کے مطابق نہیں چلائے جا رہے۔ سیکورٹی اور معیشت کے معاملات میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے بارے میں ۴۴ فی صد کا خیال تھا کہ اس کا فائدہ صرف امریکا کو پہنچ رہا ہے، جب کہ ۹فی صد کا خیال تھا کہ یہ پاکستان کے لیے مفید رہی ہیں۔ ۲۹ فی صد نے کہا کہ یہ پاکستان کے مفادات پر ضرب لگارہی ہیں۔ ۷۲ فی صد عوام کی راے یہ تھی کہ ایشیا میں امریکا کی عسکری موجودگی پاکستان کے لیے خطرہ ہے، ایک فیصلہ کن خطرہ (critical threat ) ہے، جب کہ مزید ۱۲ فی صد نے اسے خطرہ قرار دیا اور صرف ۶ فی صد کی راے میں اس سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں۔ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے بارے میں پاکستانیوں کی تشویش اور بھی سوا ہے۔ ۶۸ فی صد کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ کن خطرہ ہے۔ اسامہ بن لادن کے لیے ہمدردی پائی جاتی ہے اور اس سوال کے جواب میں کہ اسامہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہو اور حکومت کو اس کا صحیح پتا بھی چل جائے تو کیا پاکستان کو اسامہ بن لادن کو گرفتار کر لینا چاہیے۔ ۳۹ فی صد نے کہا کہ نہیں کرنا چاہیے، جب کہ۲۴ فی صد نے اسے گرفتار کرنے کے حق میں راے دی۔

سب سے اہم سوال یہ تھا کہ امریکا کے عالمی کردار کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستانی عوام کی کیا راے ہے کہ امریکا کے اصل مقاصد کیا ہیں۔ ۵۳ فی صد نے کہا: عیسائیت کا فروغ ان کے مقاصد میں سے ایک ہے۔ تیل کے ذخائر پر قبضے کے باب میں ۷۸ فی صد کا خیال تھاکہ یہ ایک واضح ہدف ہے۔ لیکن سب سے چشم کشا جواب اس سوال کا تھا کہ کیا امریکا اسلامی دنیا کو تقسیم اور کمزور کرنا چاہتا ہے تو ۸۶ فی صد کا خیال تھا کہ ہاں، یہ امریکا کا ایک واضح ہدف ہے۔

اب ایک نظر اس سروے پر بھی ڈال لی جائے جو امریکا نے پاکستان میں انتخاب سے چند ہفتے قبل (۱۹-۲۹ جنوری ۲۰۰۸ئ) کروایا ہے اور جو IRI index کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔ اس سروے کی رو سے ۸۴ فی صد آبادی کی راے میں مشرف کی قیادت میں پاکستان جس رخ پر جارہا ہے وہ غلط ہے۔ پاکستانیوں کی نگاہ میں دہشت گردی سب سے اہم مسئلہ نہیں۔ سب سے اہم مسئلہ افراطِ زر کا ہے جسے ۵۵ فی صد نے نمبر ایک پر رکھا ہے۔ بے روزگاری کو ۱۵ فی صد سب سے اہم مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ دہشت گردی کو صرف ۱۲ فی صد نے اہم مسئلہ قرار دیا ہے لیکن عوام کی راے کاصحیح اندازہ دو دوسرے سوالوں کے جواب سے کیا جاسکتا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ صوبہ سرحد اور فاٹا میں انتہاپسندی کے خلاف فوجی کارروائی کے حق میں ہیں تو ۶۴ فی صد نے اس کی مخالفت کی اورجب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان کو امریکا سے دہشت گردی کے خلاف اس کی جنگ میں تعاون کرنا چاہیے تو ۸۹ فی صد نے عدمِ تعاون اور مخالفت کو اپنی ترجیح قراردیا۔

آزادی اور خودمختاری کا راستہ

یہ ہے عوام کی اصل سوچ___ اور اسی کا اظہار ۱۸ فروری کے انتخابات میں ہوا۔ اس کا تقاضاہے کہ نومنتخب حکومت اور پارلیمنٹ مشرف کی بنائی ہوئی پالیسی کوجلد از جلد تبدیل کرے اور عوام کی خواہش اور ملک کے اسٹرے ٹیجک مفادات کی روشنی میں فوجی آپریشن کو ختم کرکے مذاکرات اور سیاسی عمل کے ذریعے معاملات کو سلجھائے، امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ایک مناسب منصوبے کے تحت دست کش ہو، افغانستان میں مکمل عدمِ مداخلت کی روش اختیار کرے اور امریکا اور مغربی اقوام کو اس زمینی حقیقت کو پڑھ لینے کی ترغیب دے کہ افغانستان میں امریکی اور ناٹو کی فوجوں کی موجودگی فساد کا اصل سبب ہیں۔ ان افواج کو افغان عوام قابض افواج شمار کرتے ہیں اور ان کا کردار بھی قابض طاقتوں ہی جیسا ہے۔یہ انتظام اور یہ حکمت عملی مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ یہ افغانستان میں بھی ناکام ہے اور عراق میں بھی۔ اسے جاری رکھنے کا نتیجہ مزید خون خرابے کے سوا کچھ نہیں۔ عقل و دانش کا تقاضا ہے کہ اس پالیسی کو بتدیل کرانے کے لیے سرتوڑ کوشش کی جائے اور اس کا آغاز پاکستان کی شرکت اور صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں امریکا کی جنگ کے سپاہی کاکردار ختم کر کے امن و امان کے قیام کا امکان پیدا کیا جائے اور اور فوج اور عوام کی یک جہتی کے ماڈل کی طرف پیش قدمی کی جائے۔

پرویز مشرف کی پالیسی کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تواس کے نتیجے میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان اور افغانستان قریب آنے کے بجاے عملاً ایک دوسرے سے دُور ہوئے ہیں۔ پاکستان کی سرحدات کی امریکی خلاف ورزیاں بڑھی ہیں اور ہمارے معاملات میں  ان کی مداخلت اس حد تک پہنچ گئی ہے جو پاکستان کی آزادی، حاکمیت کے لیے خطرہ اور قومی  عزت و وقار کے منافی ہے۔ فوج اور قوم میں صرف دُوری ہی نہیں ہوئی، بلکہ وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ ۱۲۰۰ سے زیادہ فوجی اپنی جان گنوا چکے ہیں اور ۳ ہزار کے قریب سویلین موت کے گھاٹ اُتارے جاچکے ہیں، کوئی علاقہ محفوظ نہیں۔ محسود قبائل کے علاقے کے بارے میں امن و امان کے قیام کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ وہاں پہلی مرتبہ پاکستانی صحافیوں کو لے جایا گیا ہے اور  ان کی رپورٹ یہ ہے کہ فوج کی چوکیاں تو وہاں ہیں مگرمحسودعلاقے میں وہ کسی محسود باشندے کو  نہیں دیکھ سکے۔ پورا علاقہ انسانوں سے خالی ہے اور ایک بھوتوں کے مسکن کی تصویر پیش کر رہا ہے۔ ایسا امن قبرستان کا امن تو کہا جاسکتا ہے، انسانی بستیوں کا امن اسے نہیں کہا جاسکتا۔

پھر جس معاشی امداد کا چرچاہے بلکہ امریکی اس کے نام پر چرکے لگا رہے ہیں، اس کا حال یہ ہے کہ خود امریکی حکام کے بقول: اس کا ۳۰ فی صد امریکا کے مشیروں (consultants)  پر صَرف ہوا ہے اور ۷۰ فی صد پاکستان پہنچا ہے۔ پھر یہاں اس کا فائدہ کس نے اٹھایا ہے اور عوام کے حصے میں کیا آیا ہے؟ اس کا تذکرہ نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ البتہ جس ۱۱ ارب ڈالر کی امداد کا دعویٰ ہے، اس میں سے ۶ ارب ڈالر توفوجی خدمات کا معاوضہ ہے، کوئی مدد نہیں ہے۔ صرف ۵ارب ڈالر سات سال میں مدد کی مد میں آئے ہیں لیکن پہلے چار سال میں جو معاشی نقصان پاکستان کو ہوا ہے اور جس کا اعتراف خود امریکی فوج کے مرکز (centcom) نے کیا ہے، وہ ۱۰ ارب ڈالر ہے۔ اگر باقی تین سال کے بارے میں بھی اندازہ کیا جائے تو قرین عقل یہ ہے کہ یہ نقصان ۱۵ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اگر نفع نقصان کا میزانیہ بنایا جائے تو بات خواہ ملک کی آزادی     اور حاکمیت کی ہو، عزت اور وقار کی ہو، جانی اور مالی نقصان کی ہو، حکومت اور عوام اور فوج اور   قوم کے درمیان تعلقات کی ہو___ یہ ایک خسارے اور صرف خسارے کا سودا رہا ہے جس کا اعتراف اب عالمی سطح پر بھی ہو رہا ہے۔ پاکستانی عوام تو پہلے دن سے اس پر چیخ رہے ہیں۔ Counter Punch کے تازہ شمارے میں ایک امریکی دانش ور رچرڈ ڈبلیو بی ہان لکھتا ہے:

دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک فراڈ ہے، محض ایک لیبل جو ایک ایسی انتظامیہ کی   جعل سازی اور ڈھنڈورا پیٹنے کے مترادف ہے جو اپنی ’مستند‘ بددیانتی کے لیے معروف ہے۔ یہ لیبل بش انتظامیہ کے بلااشتعال فوجی حملوں کے جرائم کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ افغانستان اور عراق کی دو خودمختار مملکتوں پر جو حملے ہوئے وہ بش انتظامیہ اقتدار میں آنے کے پہلے ہی دن سے کرنا چاہتی تھی۔

یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں ہے۔ آج افغانستان اور عراق مقبوضہ ممالک ہیں جن کا انتظام کٹھ پتلی حکومتیں کر رہی ہیں اور جو فوجی چھائونیوں کی بنیاد پر اپنا کام، یعنی توانائی کے اثاثوں کی حفاظت کر رہی ہیں۔ یہ بش انتظامیہ کی جنگی کارروائی کا ضمنی نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ اس کا مقصد تھا… دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک تصدیق شدہ  دھوکا (certified fraud) ہے۔ (دی نیشن، ۱۱ مئی ۲۰۰۸ئ)

اس جنگ میں پاکستان کے کردار کا حاصل کیا ہے؟ یہ بھی کرسچین سائنس مانیٹر کے نمایندے  گورڈن لوبالڈ کے تازہ ترین مراسلے میں دیکھ لیجیے:

پاکستان میں انتہاپسندوں کے خلاف فوجی حملوں کو بش انتظامیہ مرکزی اہمیت دے رہی ہے۔ اس پر تجزیہ نگار تشویش ظاہر کر رہے ہیں کہ امریکا ایک ناکام پالیسی پر اپنے ایک اہم حلیف سے ایک ایسے وقت میں اصرار کر رہا ہے، جب کہ خطے میں بدلتے ہوئے حالات، یعنی پاکستان میں ایک نئی منتخب حکومت اور افغانستان میں محاذ آرائی میں اضافہ، حکمت عملی میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ (دی نیشن، ۱۳ مئی ۲۰۰۸ئ)

اس رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ امریکا پاکستان کو سابقہ پالیسی جاری رکھنے پر مجبور کر رہا ہے جب کہ سب دیکھ رہے ہیں کہ یہ پالیسی ناکام رہی ہے اور اس دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ فوجی حل کی حکمت عملی کو ترک کر کے زمینی حقائق، عوامی خواہشات، اور پاکستان کے اپنے مفادات اور مقاصد و ترجیحات کی روشنی میں سیاسی حل نکالا جائے اور خطے کو مزید عدمِ استحکام سے بچایا جائے۔

اس وقت جو جنگ قبائلی علاقوں میں ہورہی ہے اور جس سے صوبہ سرحد اور ملک کے دوسرے علاقے بھی متاثر ہو رہے ہیں، وہ نہ پاکستان کی جنگ ہے اور نہ اُمت ِمسلمہ کے مفادات کی جنگ۔ یہ صرف امریکا کے استعماری عزائم کے حصول کی جنگ۔ یہ جو خود امریکا کے عوام کے مفاد میں بھی نہیں اور اس کی وجہ سے آج امریکا کے خلاف نفرت کا لاوا ساری دنیا میں پھٹ رہا ہے اور بے چینی، بے اطمینانی اور مخالفت کی لہریں بلند تر ہورہی ہیں۔ امریکا میں عوام کی بڑی تعداد  اس جنگ سے بے زار ہے اور امریکی معیشت اس کے بوجھ کو مزید برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ دنیا بھر میں امریکا جمہوریت اور انسانی حقوق اور آزادیوں کے علَم بردار کی حیثیت سے نہیں، ایک غاصب اور استعماری قوت کی حیثیت سے پہچانا جا رہا ہے اور یہ کوئی اچھی پہچان نہیں۔ امریکا کو دنیا کا امن تہہ و بالا کرنے کا ذمہ دار گردانا جا رہا ہے اور دنیا آج نائن الیون کے مقابلے میں کہیں زیادہ غیرمحفوظ اور غیرمستحکم ہے۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ سیاسی قیادتیں اپنی آنکھیں کھولیں اور ہوش کے ناخن لیں۔ اور اگر امریکا تباہی کے راستے پر چلنے کے لیے مصر ہے تو ہمارے حکمرانوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ دن کی طرح روشن حقائق کو بھی دیکھنے کو تیار نہیں، عوام کی آواز کو سننے کے لیے ان کے  کان بند ہیں اور وہ تبدیلی کی جگہ تسلسل کی پُرفریب وادیوں میں گم نظر آتے ہیں۔ قوم صاف الفاظ میں تبدیلی کا مطالبہ کررہی ہے۔ قوم کی راے میں دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ پاکستان، پاکستانی قوم اوراُمت مسلمہ کی جنگ نہیں___ یہ امریکا کی استعماری جنگ ہے اور اس میں آلۂ کار بنے رہنا ایک اخلاقی، سیاسی اور نظریاتی جرم ہے۔ جتنی جلد اس جنگ سے ہم نکل آئیں اتنا بہتر ہے۔

ہم یہ بھی کہہ دینا چاہتے ہیں کہ یہ تو نوشتۂ دیوار ہے کہ یہ جنگ ناکام ہے اور فساد اور بگاڑ کو بڑھانے کے سوا اس کا کوئی نتیجہ نہیں۔ اسے ختم ہونا ہی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہم کتنی تباہی کے بعد اس آگ سے نکلتے ہیں؟ اب بھی بہت نقصان ہوچکا ہے۔ ہماری دعوت ہے کہ اس ملک کی سیاسی قیادت اب بھی عقل و دانش کا راستہ اختیار کرے اور امریکا کی اس جنگ سے نکلنے اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کے مفادات کے حصول کے لیے اپنی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کا بہترین استعمال کرے۔ ارباب اقتدار کو جاننا چاہیے کہ ایک بے عقل کو بھی بالآخر وہی کرنا پڑتا ہے جس کا مشورہ اصحاب دانش و بینش پہلے قدم ہی پر دے رہے ہوتے ہیں لیکن بے عقل اس فیصلے پر بڑی خرابی اور تباہی کے بعد پہنچتے ہیں    ؎

آں کہ دانا کند ، کند ناداں

لیک بعد از خرابیِ بسیار

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے ملت اسلامیہ کو درپیش جن حالات میں غلبۂ دین کی تحریک کا نقشۂ کار پیش کیا اور عملاً اس تحریک کو برپا کیا، اس دور کی دو خصوصیات خصوصی اہمیت کی حامل ہیں___ اول یہ کہ یہ نظاموں کی کش مکش کا دور تھا۔ ایک طرف مغرب کی لبرل تہذیب اور اس کا سرمایہ دارانہ نظام تھا جو اژدھے کی طرح پوری دنیا کو نگل رہا تھا اور اس نظام کی چکا چوند نے پورے عالم کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا تھا۔ دوسری طرف مشرق سے ابھرنے والا کمیونزم اور سوشلزم کا نظام تھا جو غربت کو ختم کرنے ، انسانی مساوات قائم کرنے اور سرمایہ داری کے چنگل سے لوگوں کو نجات دلانے کے خوش کن اور پرکشش نعروں اور فلسفے پر مبنی تھا لیکن یہ دراصل انسانوں کے لیے آمریت کا ایک شکنجہ تھا۔

ان دونوں نظاموں کے درمیان فکری اور نظریاتی سطح پر، اور فلسفے اور سلوگن کی سطح پر ایک آویزش تھی ،لیکن عملاً خود مغربی دنیا کی بعض اکائیاں بھی سوشلزم کی کسی نہ کسی شکل کی دلدادہ بن گئی تھیں۔ مزدور اور کسان، طالب علم اور جوان ،دانش وراور اہل قلم اور صحافی، نیز مظلوم و محروم طبقات کے دبے اور پسے ہوئے افراد ذہناً اشتراکیت کے اسیر ہو چکے تھے اور مغرب کے سرمایہ دارانہ معاشروں میں رہنے کے باوجود سوشلزم کا راگ الاپتے اور اسی کی مالا جپتے تھے۔

اس پس منظر میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے اسلام کو ایک مکمل اور مبنی برحق اور منصفانہ نظام کی حیثیت سے از سرنو پیش کیا، جو ایک طرف فرد کی سطح پر اس کو آسودگی ، سکون اور سکینت فراہم کرتا ہے، اسے انشراح صدر کی دولت سے مالا مال کرتا ہے اور ذہنی اور فکری کجی کو ہروسوسے اور شک سے پاک کرتا ہے۔ دوسری طرف افراد پر مشتمل معاشرے کو اپنے اداراتی نظام سے امن و سکون اور عدل و انصاف کی دولت سے بھی مالا مال کرتا ہے ، ضروریات زندگی بھی فراہم کرتا ہے اور بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب سے جوڑ کر انسانی مساوات، آزادی، اخوت اور انصاف پر مبنی نظام قائم کرتا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے کیپٹلزم ، نیشنل ازم ، کمیونزم اور سوشلزم کی خرابیوں اور کمزوریوں کو بھی بے نقاب کیا۔ ان کے نعروں اور دعوئوں کو کھوکھلا اور    بے وقعت ثابت کیا اور انسانی ضروریات کو انسانوں کے رب ، وحیِ الٰہی اور نبوت کی کرشمہ سازیوں سے بھی متعارف کرایا۔ اس لیے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ نظری طور پر تمام نظاموں کے مقابلے میں اسلام بحیثیت نظام زندگی کے قابل قبول ، قابل عمل اور ایک ایمانی اور اخلاقی پیکج کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب ہو گیا۔

اس دور کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ وہ عقلیت (rationalism)کا دور تھا جو چیزوں کو عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر قبول کرتا، یا رد کرتا ہے۔ اس دور کا یہ دعوٰی تھاکہ عقل ہی معراج انسانیت ہے اور اسی کو زندگی کے تمام دائروں میں فیصلہ کن حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ مولانا مودودی ؒ نے اسلامی تعلیمات ، اسلامی معاشرے اور اسلامی ریاست کے حوالے سے جس بحث کو چھیڑا اس نے عقل کو بھی دنگ کر دیا اور اسلام بحیثیت نظام کے عقل اور استدلال ، فلسفہ اور نظریہ اور انسانی ذہن میں اٹھنے والے سارے سوالات و اعتراضات کا مسکت جواب فراہم کرتا چلا گیا۔ ا س طرح سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے اس دور کے انسان کو عقلی طور پر بھی اپیل کیا اور قرآن و سنت کی تعلیم میں جو فطری کشش اور جذب و انجذاب کی خوبیاں ہیں، ان سے بھی متاثر کیا۔ مولانا مودودیؒ کی اس تحریک نے بالآخر جماعت اسلامی کا روپ دھارا اور اب اسے قائم ہوئے ۷۰ سال ہونے کو آئے ہیں۔ وقت بدلا ہے ، حالات بدلے ہیں ، کمیونزم اپنی جولانیاں دکھا کر اور چار دانگ عالم میں اپنا چرچا کرکے اور بظاہر ایک عالم کو اپنے حق میںاستوار اور متحیر کر کے ہوائوں میں تحلیل اور فضائوں میں گم ہوچکاہے، اس کی ریاست منتشر ہو چکی ہے ، اس کا فلسفہ بکھر چکاہے اور اس کا نظریاتی تار و پود ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا، اور وہ جو بیچتے تھے ۷۰ سال سے دواے دل وہ دکان اپنی بڑھا چکے ہیں۔

اس عرصے میں دنیا نے نیشنلزم کے حوالے سے بھی ان گنت تجربات کیے مگرمنہ کی کھائی ، خود اپنے پیر پر کلہاڑی ماری، اور پوری کی پوری انسانیت کو آگ اور خون کے دریا سے گزارا، اور اب نیشنلزم میں وہ اپیل ہے نہ جاذبیت اور کشش ، اور ایک نظام زندگی کی حیثیت سے ہرچند کہیں کہ ہے پر نہیں ہے والی صورت سے دوچار ہے۔ مغرب کا تہذیبی اور سرمایہ دارانہ نظام ، بلندیوں اور عروج کی ان گنت منازل سے گزرنے کے بعد اب کسی حقیقی پیغام اور مستقبل کی رفعتوں اور اُمنگوں سے عاری ہونے کا اعتراف کر رہاہے۔ اس نظام اور تہذیب کا امام امریکا اپنی اور اپنے اتحادیوں کی اور ناٹو کی فوجوں سے انسانیت پر حملہ آور ہے۔ ڈیزی کٹر اور کلسٹر بموں کی بارش ہے۔ انسانوں کی تباہی کا ہر عنوان دور تک سجا ہواہے لیکن اس نظام کے پاس انسانیت کے لیے ظلم اور بربادی کے علاوہ کوئی پیغام نہیں۔

گذشتہ کم و بیش آٹھ عشروں میں دنیا بھر میں متعدد اسلامی تحریکیں اٹھی ہیں۔ رجوع الی اللہ کے عنوان سے اٹھی ہیں ، بندوں کو بندوں کے رب کی طرف لے جانے کے پیغام کے ساتھ اٹھی ہیں، ففروا الی اللّٰہ کا مصداق بننے والوں کی تحریکیں اٹھی ہیں، اوردنیا بھر میں امریکی استعمار اور سرمایہ دارانہ تہذیب کے مظالم کے مقابلے میں دعوت، جدوجہد اور قربانی کے کلچر نے فروغ پایا ہے۔ تاریخ کے لمحۂ موجود میں     ؎

سالارِ کارواں ہے میرِحجازؐ اپنا

اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا

مصطفوی ؐ تہذیب اور مصطفویؐ کارواں منزل سے قریب تر ہو رہاہے اور تمام شیطانی اور طاغوتی قوتیں مکمل شکست اور ہزیمت سے دوچار ہوا چاہتی ہیں-

جماعت اسلامی کو اپنی ہم عصر تحریکوں میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے پہلے دن سے تنظیم جماعت کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ دی۔ مولانا مودودی ؒ نے ابتدا ہی میں یہ بات   بار بار دہرائی تھی کہ بدی ہر دائرے کے اندر منظم ہے، جب کہ نیکی منتشر ، اکیلی اور تنہا ہے لہٰذا نیکی اور بدی کے مقابلے میں ناگزیر ہے کہ نیکی اور خیر کی تمام قوتوں کو بھی منظم کیا جائے۔ انھیں پلیٹ فارم فراہم کیا جائے اور ایک سوچی سمجھی حکمت عملی سے آراستہ و پیراستہ کر کے ایک لمبی اور صبر آزما جنگ کے لیے انھیں تیار کیا جائے۔ اہداف اور مقاصد کو کھول کر بیان کیا جائے۔ منزل کا شعور اور  نشاناتِ منزل سے آگاہ کیا جائے اور قرآن و سنت کی تعلیم کو لے کر اٹھنے اور دنیا پر چھا جانے کا نقشہ اور فلسفہ دو اور دو چار کی طرح ذہنوں میں اتارا جائے۔

جماعت اسلامی نے روز اول ہی سے جہاں کرنے کے کام متعین کیے تھے، وہیں انھیں ایک منصوبے ، پروگرام اور نظام الاوقات کا آہنگ بھی دیا۔ ۲۰۰۸ء کو مرکزی مجلس شوریٰ نے دعوت کا سال قرار دیا ہے۔ شوریٰ کا اصل ہدف یہ ہے کہ کارکن کو رابطہ عوام کی طرف خصوصیت سے متوجہ کیا جائے۔ دعوت الی اللہ کی طرف لوگوں کو بلانا، فرداً فرداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی، ان کی ضروریات اور مسائل سے ہم آہنگ ہو کر بھی اور اس سے ماورا آخرت کی جواب دہی، اللہ کی رضا اور حصول جنت کے لیے بھی۔

جماعت اسلامی ایمان کی تازگی، ذہنوں کی آبیاری ، قلب و نظر کی تبدیلی ، سوچ وفکر اور زاویۂ نگاہ کی پاکیزگی کو انقلاب اور اسلامی نظام کے برپا ہونے کا پہلا قدم سمجھتی ہے۔ جس معاشرے میں تعلق باللہ کی وافر مقدار موجود نہ ہو اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق خاطر اور عشق میں ڈوبا ہوا اتباع اور پیروی کا جذبہ مفقود ہو، اس معاشرے میں اٹھنے والی انقلاب کی لہریں کسی پاکیزہ ، بابرکت اور پایدار اسلامی انقلاب کی دستک ثابت نہیں ہوتیں۔ اس اعتبار سے جماعت کی پوری تنظیم کے لیے ناگزیر ہے کہ دعوتی مہمات کو شیڈول کے مطابق مرتب کیا جائے ، ضلعوں کی سطح پر یہ مہمات چلیں ، عوامی رابطے اور ممبر سازی کاکام کریں ، صوبائی نظم ا ن کی نگرانی کریں ، صوبے کی سطح پر بننے والی دعوتی کمیٹیاں ، دعوتی مہمات کے لٹریچر اور سرگرمیوں کو قریب سے دیکھیں اور پوری جماعت اس مہم کو اوڑھنا بچھونا بنائے ، دعوت کو اپنے لیے اول و آخر قرار دے اور اس کے نتیجے میں لاکھوں بندگانِ خدا تک پہنچے ، انھیں اپنا ہم نوا بنائے اور اسلامی نظام کو برپا کرکے معاشرے کے اندر ظلم کی جتنی شکلیں ، مہنگائی ، بے روزگاری ، لاقانونیت ، بد امنی ، فحاشی اور عریانی کی صورت میں موجود ہیں، ان سب سے نجات دلائے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ بنیادی طور پر خدا کا خوف رکھنے والا ، نبی اکرم صلی اللہ  علیہ وسلم کی محبت میں ڈوبا ہوا اور آخرت کی جواب دہی کے احساس سے معمور معاشرہ ہے۔ حالات کے جبر اور ظلم و استحصال کی ان گنت شکلوں نے ان ایمانی اور اخلاقی احساسات کو جا بجا مضمحل کیا ہے، انھیں ضعف پہنچایا ہے اور معاشرے پر غفلت کی ایک چادر تان دی ہے۔ دعوت الی اللہ، یعنی لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا ، بندگی کی جوت جگانا ، دامن مصطفی ؐ میں پناہ لینا اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپنانا، ان کی شریعت مطہرہ کو لے کر اٹھنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو جدوجہد اور کش مکش ہمارے درمیان چھوڑ گئے ہیں، انھیں اس کا خوگر بنانا، اس دعوتی مہم کا مقصود ہے۔

جماعت اسلامی کے کارکن کو اپنے ہم نوائوں اور ساتھیوں سے مل کر معاشرے میں بسنے والے تمام انسانوں تک خیر خواہی اور اپنائیت کا یہ پیغام پہنچانا چاہیے کہ پاکستان کی بھلائی بھی اس دعوت اور نظریے کے ساتھ مربوط ہے اور خود پاکستان کا وجود بھی اسلام اور نظریۂ پاکستان کے ساتھ وابستہ ہے۔ کارکن ، ناظم اور ہر سطح کے ذمہ دارانِ جماعت دعوت الی اللہ کو اگر موضوعِ گفتگو بنائیں گے اور اس کے لیے مولانا مودودی ؒ کی تحریروں اور آج کے اسلامی اور تحریکی لٹریچر سے استفادہ کریں گے تو معاشرے کی فضا بدل سکتی ہے ، اس کا رخ تبدیل کیا جاسکتاہے اور سوچ اور فکر کے تمام دھاروں کو اسلامی انقلاب اور تبدیلی کے عنوانات سے سجایا جاسکتاہے۔

ہم جس تبدیلی کے خواہاں ہیں اس کی جڑ اور بنیاد دعوت الی اللہ ہے۔ ذہن و فکر کی تبدیلی کے بغیر جسم و جاں کا قبلہ و کعبہ درست نہیں کیا جاسکتا۔ پایدار اور دیرپا انقلاب اس بات کا متقاضی ہے کہ دلوں پر دستک دی جائے، ذہنوں کو جھنجھوڑا جائے، کچھ کرنے اور کر گزرنے کے لیے آمادگی پیدا کی جائے، ایثار و قربانی کی شمع فروزاں کی جائے اور ایک بدلے ہوئے انسان کو دریافت کیا جائے۔ یہ کام قرآن و سنت کی دعوت ہی سے ممکن ہے۔ انسانی فطرت کو اپیل کرنے والا پیغام ہی دلوں کی دنیا کو بدل سکتاہے، ان میں انقلاب برپا کر سکتاہے۔

۲۰۰۸ء کا منصوبہ، تحریک سے وابستہ ہر فرد کو متحرک کرنے کا منصوبہ ہے اور یہ منصوبہ دعوت کی ہمہ گیریت ، تربیت اور تزکیے کے بھی تمام اہداف اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ منصوبے نے اس بات کو واضح کیاہے کہ فکری اور نظری اعتبار سے دعوتی جدوجہد کو تقویت پہنچانے کے لیے جماعت کے تمام تحقیقی و اشاعتی اداروں کو بھی ٹاسک دیا جائے۔ یہ ادارے مختصر کتابچوں کی تیاری ، دو ورقوں اور ہینڈ بلوں کی اشاعت اور ان کی مسلسل فراہمی کی منصوبہ بندی کریں اور اس لٹریچر کو مناسب قیمت پر فراہم کرنے کا اہتمام کریں۔

یوم نظریۂ پاکستان ۱۴ ؍اگست ، یوم تاسیس جماعت ۲۶ ؍اگست، یوم اقبال ۹ نومبر ، یوم یک جہتی کشمیر ۵ فروری اور ان سب کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر افطار پارٹیاں ، شب بیداریاں اور عیدملن کے اجتماعات منعقد کیے جائیں ، ان سب پروگراموں کی اصل اکائی ضلعی جماعتیں ہیں۔ ضلعی نظم ہی ان پروگراموں کی تفصیلات طے کر ے اور ہر یونٹ کو مؤثر بنانے کی تدابیر سوچے اور اختیار کرے۔ اسی دعوت بالقرآن کا موضوع رفتہ رفتہ کارکنوں سے اتر کر عوام میں سرایت کرجائے۔ پورے ملک میں سیکڑوں مقامات پر لاکھوں افراد نے فہم دین اور دعوت بالقرآن کے اجتماعات کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور مرد و خواتین کی بہت بڑی تعداد کو ان پروگرامات میں دل چسپی لیتے اور    ؎ 

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلمان

اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار

کا مصداق اور عملی نمونہ بنتے دیکھاہے۔ ایسے تمام اجتماعات میں حدیث نبوی ؐ اور اسوۂ صحابہؓ پر تعلیمی نوعیت کے نصاب ترتیب دے کر پروگرام منعقد کیے جائیں تاکہ فہم دین اور اسلام کا حقیقی انقلابی تصور اجاگر ہو سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں موثر افراد، کلیدی شخصیات ، سربرآوردہ لوگ اور راے عامہ پر اثرانداز ہونے والوں سے خصوصی رابطے ، انھیں لٹریچر کی فراہمی ، ان کے ساتھ الگ نشستوں کا اہتمام دعوت کے فروغ میں فیصلہ کن کردار اداکر سکتے ہیں۔ برادر تنظیمات ہمارے دست و بازو ہیں۔ جہاں جہاںنظم جماعت ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ، ان کی سرپرستی کرتا اور   ان کی ضروریات فراہم کرتا ہے، وہاں یہ برادر تنظیمات اپنی کارکردگی کے جوہر بکھیرتی ہیں، اپنی صلاحیت کا لوہا منواتی ہیں اور دعوت کے فروغ میں جماعت کے ہم رکاب نظر آتی ہیں۔

گذشتہ کئی برسوں سے منصوبۂ عمل میں لائبریری کے قیام اور فروغ پر زور دیا گیاہے۔  اب ضرورت اس بات کی ہے کہ لائبریری کے کردار کو توسیع دی جائے۔ ان کو اور زیادہ مؤثر بنایا جائے۔کتب اور رسائل کے ساتھ ساتھ دینی ، علمی اور دعوتی سی ڈیز بھی فراہم کی جائیں۔ہرضلعی صدر مقام پر   اور جس مقام پر بھی ممکن ہو ایک ماڈل لائبریری قائم کی جائے جہاں بیٹھ کر پڑھنے کی جگہ بھی اور رسائل و جرائد بھی باقاعدگی سے آتے ہوں، اور حسن انتظام لوگوں کو متوجہ کرے تو امید ہے کہ علاقے کے ممتاز افراد اور علم دوست شخصیات، نیز طلبہ اور نوجوانوں کی بڑی تعداد ان لائبریریوں سے استفادہ کرسکے گی۔

بچوں اور نوجوانوں کا تناسب پاکستان کی آبادی میں نصف سے زائد ہے۔ مستقبل کا کوئی پروگرام اور کوئی منصوبہ بندی اس حقیقت کو نظر انداز کر کے ترتیب نہیں دی جاسکتی۔ صوبائی سطح پر نوجوانوں میں کام کے لیے خصوصی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ انھیں دین سے وابستہ کرنے کی شعوری کوشش درکار ہے۔ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافے کے لیے تربیتی ورکشاپوں کا اہتمام ضروری ہے، اور ان کی مجموعی قوت کو تنظیم کی مضبوطی کے لیے استعمال کرنے کا نقشۂ کار بنانا ضروری ہے۔

نوجوانوں میں تحرک اور سرگرمی پیدا کرنے اور انھیں بے مقصدیت کے اندھیروں سے نکال کر بامقصد زندگی کی طرف لانے کے لیے نظم جماعت کو زیادہ سنجیدہ کوششیں کرنی چاہییں۔ ایک طرف نوجوانوں کی سوچ و فکر ،ان کے مسائل اور ضروریات اور معاشرے کی بے راہروی کا احاطہ کرنا ہوگا، تو دوسری طرف مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کاایسا جال بچھانا ہو گا جو معاشرے پر اثرانداز ہو سکے اور نوجوانوں کی سیماب صفت شخصیت کو کردار کے سانچے میں ڈھال سکے۔ ہمیں اس سوال کا بھی سامنا کرنا چاہیے کہ نوجوانوں میں کام کے نتیجے میں بالآخر جماعت اسلامی کی  عددی قوت میں بھی اضافہ ہو اور وقت گزرنے کے ساتھ نظریاتی کارکن اور پتّا ماری سے کام کرنے والے، نیز مکمل سپردگی اور کامل حوالگی کا نمونہ بننے والے جماعت کی صفوں میں ذمہ داریوں کے مناصب پر اور نظام اسلامی کی جدوجہد میں پیش پیش نظر آئیں۔

رابطہ عوام کی دعوتی مہم کا لازمی تقاضا ممبر سازی ہے۔ اب سے کچھ پہلے کم و بیش ۵۰ لاکھ پاکستانیوں نے ممبر سازی کے گوشوارے پُر کیے تھے اور جماعت اسلامی کے مقصد اور کام سے اتفاق کا اظہار کیا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر سطح کا نظمِ جماعت ممبرسازی کے بعد کے تقاضوں کو تنظیمی سانچے میں ڈھالے۔ ممبر حضرات سے رابطے، جماعت کی پالیسیوں سے انھیں باخبر رکھنے ، مختلف سرگرمیوں میں انھیں شریک کرنے اور ان کی قوت کو جماعت کے حق میں استوار کرنے کی منصوبہ بندی، دو اور دو چار کی طرح کی جانی چاہیے۔ صوبائی جماعتیں اور ان کی صوبائی نگران کمیٹیاں ضلعی سطحوں پر اس کام کی نگرانی کریں تو فی الحقیقت معاشرے میں دعوت الی اللہ کا چلن عام ہو سکے گا اور ان گنت برائیوں کے سدّباب کے لیے اور منکرات کے استیصال کے لیے ممبر حضرات سے بڑا کام لیا جاسکے گا۔

میں یہ یاد دلاتا چلوں کہ اب سے ۳۰، ۳۵ سال پہلے تک مرکزی مجلس شوریٰ اپنے سالانہ اجلاس میں جو منصوبۂ عمل ترتیب دیتی تھی، اس میں جماعتوں کے ذمے کیے جانے والے کاموں کے اہداف اور اعداد و شمار بھی طے کیے جاتے تھے لیکن تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر شوریٰ میں اس راے کو تقویت حاصل ہوئی کہ مرکزی منصوبہ محض عمومی اور اصولی طور پر کام اور اس کی جہتوں کا تعین کرے، جب کہ نظم کی نچلی سطح پر اعداد و شمار اور سال بھر میں کی جانے والی سرگرمیاں ، ان کے اہداف وہی لوگ طے کریں جنھیں یہ منصوبہ لے کر چلناہے۔ اس لیے یہ ضروری قرار پایا کہ ہر سطح پر منصوبۂ عمل کا جائزہ لیا جاتا رہے، اور کم از کم ہر سہ ماہی یہ کام ضرورکیاجائے تاکہ جائزے کے نتیجے میں مقامی سطح پر منصوبے کے اہداف میں کمی بیش کی جاسکے۔


بطور یاد دہانی یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ جماعت اسلامی عملاً ایک تحریک ہے اور ایک تنظیم بھی۔ ماحول اور معاشرے میں ہونے والے مدو جزر اور اچانک درپیش آنے والے مسائل سے نہ ہم لاتعلق رہ سکتے ہیں، اور نہ کسی ’منصوبے‘ کے ہی اسیر ہو کر نئے اٹھنے والے طوفان کو نظر انداز کرسکتے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی رونما ہونے والی تبدیلیاں ، اسلامی تحریکوں کو پیش آنے والے واقعات اور خود اسلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر پروپیگنڈے کی دنیا میں اُچھالا جانے والا کیچڑ اور اس بارے میں امت کا جو حقیقی موقف ہوسکتا ہے، اس کا احاطہ کرنا ، اس پر احتجاجی لہر اٹھانا، اپنے حکمرانوں اور دنیا بھر کی دریدہ دہن قوتوں کو للکارنا، یہ سب ہمارے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ ہمارے ایمان کا تقاضا اور ہماری تحریکیت کا امتحان ہے۔ لہٰذا سال کے مختلف حصوں میں منصوبۂ عمل کے ساتھ ساتھ ہنگامی نوعیت کی منکرات کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کوششیں بھی جاری رہیں گی۔

جن حالات سے اس وقت ملک گزر رہاہے ، اس میں باہم مل جل کر چلنے کی ایک عمومی فضا پیدا کرنے اور اتفاقِ راے کی حکومت قائم کر کے ایجنڈے کے کم سے کم نکات پر عمل درآمد کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ قومی مفاہمت کے نام پر جہاں یہ ضروری ہے کہ کم سے کم قومی ایجنڈے کا تعین کر کے عوام کو اعتماد میں لیا جائے اور انھیں سنہرے مستقبل کی تعمیر کی دعوت میں شریک کیا جائے وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ پارٹیوں کا ٹریک ریکارڈ، ان کا ماضی اور ان کے عمومی کردار کو ہرگز نظرانداز نہ کیا جائے ، بصورت دیگر قومی مفاہمت کے نام پر اسے سبوتاژ کرنے اور آپ ہی اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کا اسلوب بھی آپ سے آپ اس میں شامل ہو جائے گا۔ کسی بھی سطح پر جماعتوں کا اتحاد یا مل جل کر چلنے کا اعلان عملاً اپنے اپنے ضعف کا اعلان بھی ہوتا ہے جو کام اکیلے اور تنہا پارٹیاں اور پلیٹ فارم انجام نہ دے سکیں، ان کے لیے مل جل کر کوشش کی جاتی ہے۔ اس لیے اتحادوں اور مفاہمت کا ایجنڈا مختصراور کم سے کم ہوتا ہے، جب کہ مفصل اور زیادہ سے زیادہ ایجنڈا ہرپارٹی کا اپنا منشور ہوتاہے۔

آنے والے دنوں میں چیف جسٹس اور ان کے ۶۰سے زائد ساتھیوں کی بحالی آزاد عدلیہ کی طرف پہلا قدم قرار پائے گا۔ اس بارے میں جتنی افواہیں اور سازشیں جنم لے رہی ہیں وہ عوام کے عزم کو شکست نہ دے سکیں گی۔ کم و بیش ۶۰ ہفتوں پر مشتمل وکلا کی تحریک، بنچ اور بار کا اتحاد،  سول سوسائٹی ، میڈیا اور سیاسی کارکنوں کی جدوجہد کو بے معنی اور بے مقصد بنانے اور انھیں غیراہم قرار دے کر، ان کو پٹڑی سے اتارنے کی جو کوششیں بھی اِدھر اُدھر سے کی جارہی ہیں بالآخر لوگوں کے عزمِ صمیم کے سامنے وہ دم توڑ دیں گی۔ وزیراعظم نے ابتدائی ۱۰۰ دن کے لیے جس پروگرام اور ترجیحات کا اعلان کیا ہے یقینی طور پر وہ نہایت خوش کن ہے، زخموں پہ پھایا اورد کھوں کے مداوے کے مترادف ہے لیکن ابھی تک ان اعلانات کو عملی جامہ پہنانے کی کوئی مؤثر کوشش دیکھنے کو نہیں ملی۔ صوبائی حکومتوں کو ہدایات جاری ہونی چاہییں۔ طلبہ یونینز کے بارے میں بھی، ٹریڈ یونین سرگرمیوں کے حوالے سے بھی اور ایف سی آر کو ختم کرنے کے بارے میں بھی مرکزی حکومت کو ایک اچھے   ہوم ورک کا ثبوت فراہم کرنا چاہیے۔

یہ بات بھی خوش آیند ہے کہ عوام نے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی تک اپنے  حقیقی معاشی مسائل کے حل کو ملتوی کر رکھا ہے۔ عوام اس بات کو رفتہ رفتہ پا گئے ہیں کہ جس معاشرے میں قانون کی فرماں روائی نہ ہو اور محمود و ایاز ایک صف میں کھڑے نظر نہ آئیں ، وہاں مہنگائی ، بے روزگاری ، لاقانونیت اور محرومیوں کا مداوا نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ مرکز میں بننے والی اتفاقِ راے کی حکومت عوام کے معاشی مسائل حل کرنے کے لیے ایک ریلیف پیکج کا بھی فوری اعلان کرے اور یہ کام اچھی تیاری اور لائحہ عمل کی مشکلات کو عبور کر کے کیا جائے۔اس سلسلے میں یہ بھی ناگزیر ہے کہ معاشیات کو جاننے والے غریب اور پسے ہوئے عوام کا درد رکھنے والے اور بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی مایوسی اور ناامیدی کو شکست دینے کا عزم رکھنے والے مل بیٹھیں اور کم سے کم وقت میں ایک ریلیف پیکج کا اعلان کریں جس پر عمل ہوتا ہوا نظر آئے اور جو کسی نہ کسی درجے میں لوگوں کے لیے واقعی سُکھ کا باعث بن سکے۔

قبائلی علاقوں اور بلوچستان سے فوج کو واپس بلانا اب دیوار پر لکھی تحریر کے مانند ہے۔ فوج کی واپسی کے ساتھ ہی مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مسائل حل کرنا ناگزیر ہے۔ جرگوں کا انعقاد ہونا چاہیے اور ہر جرگے کے فیصلے کو عمل کا روپ دینا چاہیے۔ امریکی ڈکٹیشن سے آزاد ہو کر اپنے مسائل اپنے ہی دائرے میں رہ کر اور اپنے ہی لوگوں کو اعتماد میں لے کر حل کیے جانے چاہییں۔ جتنے بڑے پیمانے پر بلوچستان اور صوبہ سرحد میں جانی اور مالی نقصان ہو چکا ہے، اس نے باہمی اعتماد کا بھی شدید بحران پیدا کیا ہے۔ مل بیٹھنے اور حسن نیت اور ارادے کی مضبوطی کے اظہار سے اور پھر فیصلے پر عمل درآمد سے اعتماد کے بحران کو شکست دی جاسکتی ہے اور اعتماد سازی اس کی جگہ لے سکتی ہے۔

صوبہ سندھ بقیہ صوبوں کے مقابلے میں جتنے بڑے پیمانے پر دہشت گردی کا سامنا کرتا رہاہے، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اس لیے اس بات کو دہرانا ضروری ہے کہ ۱۲ ربیع الاول ، نشترپارک کراچی میں ہونے والے علما کے قتل کی از سر نو تحقیقات کرائی جائیں۔ ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء کو شہر کراچی میں جس طرح ۵۰ سے زائد لوگ ہلاک کیے گئے، اس پو رے واقعے کی بھی تحقیقات کی جائیں۔ نیز ۱۲مئی ۲۰۰۴ء کو کراچی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں جس بڑے پیمانے پر دہشت گردی ہوئی اور سیاسی کارکنوں کو شہید کیا گیا، اس کا بھی نوٹس لیا جائے اور اب تازہ ترین واقعہ جو ۹ اپریل ۲۰۰۸ء کو ہوا ہے اور شہر کراچی کو آگ اور خون کے دریا میں دھکیل دیا گیاہے، اس کی بھی مکمل تحقیقات کی جائیں۔ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ بلیک میلنگ کی سیاست کو ختم کیا جائے اور بھتہ خوری اور بوری بند لاش کلچر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جائے۔ ناگزیر ہے کہ اس کام کو کرنے کے لیے سندھ کی صوبائی حکومت پر عزم ہو، مرکزی حکومت کی مکمل آشیر باد اسے حاصل ہو اور دبائو میں آکر، بلیک میل ہو کر، خواہ یہ دبائو عالمی اور بین الاقوامی ہویا مقامی اور خفیہ اداروں کی طرف سے ہو،ایسے دہشت گردوں کو ہر گز ہر گز اقتدار میں شریک نہ کیا جائے جو ہزاروں جانوں کے اتلاف اور اربوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔

سیاسی جماعتوں سے اتفاق بھی کیا جاسکتاہے اور اختلاف بھی۔ ان کے ساتھ مل کر بھی کوئی حکمت عملی بنائی جاسکتی ہے اور کبھی ان سے ہٹ کر بھی، لیکن ایک فسطائی گروہ کو سیاسی جماعت سمجھنے کا جو خمیازہ اہل کراچی اور سندھ نے پچھلے بیس برسوں میں بھگتا ہے، اس کی اب تلافی ہونی چاہیے۔ بہت ہو چکا۔ پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا اور پانی سر سے بھی اونچا ہو چکا۔ عوام کی     بڑی تعداد قومی اور صوبائی سطح پر بننے والی حکومتوں سے خوش گمان ہے اور حکومتی رویوں کو اعتماد بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔ جو اپنے ایجنڈے اور اس کی ترجیحات کا بار بار اعلان کر رہی ہیں۔ لہٰذا سید یوسف رضاگیلانی کی حکومت کو ایک بڑا امتحان درپیش ہے۔ ہماری دعائیں اور نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں، لیکن وعدوں اور اعلانات کے پورا نہ ہونے اور امیدوں کے بر نہ آنے کے جو خوفناک نتائج ہو سکتے ہیں اور جتنے بڑے پیمانے پر بپھرے ہوئے لوگوں کا غیظ و غضب اپنے آپ کو منوانے کے لیے جو کچھ کرسکتاہے، اس سے بھی بے خبر نہ رہنا چاہیے۔

موجودہ حکومت نے کشمیر کے بارے میں ابتدائی چند بیانات کچھ عجلت میں دے دیے تھے، ہمیں اپنے اصولی موقف پر قائم رہنا چاہیے۔ اہل کشمیر کی جدوجہد کو تسلیم کرنا چاہیے۔ بین الاقوامی برادری نے ان سے جو وعدے کیے ہیں، ان کے مطابق انھیں حقِراے دہی ملنا چاہیے اور پاکستان کو اپنی اخلاقی ،سفارتی اور سیاسی تائید بڑھ چڑھ کر جاری رکھنی چاہیے۔ کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور دشمن کے ہاتھ میں اپنی شہ رگ دے دینے والے بالآخر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس خود کشی سے قومی سطح پر بچنے کا واحد نسخہ یہی ہے کہ کشمیریوں کو تنہا نہ چھوڑا جائے۔ بھارت کے عزائم کو ٹھیک ٹھیک سمجھا جائے اور اس خطے میں امریکی عمل دخل کو شکست سے دوچار کیا جائے۔

اس پورے پس منظر میں جماعت اسلامی کا کارکن بھی ایک بڑی آزمایش سے دوچار ہے۔ ۲۰۰۸ء کے منصوبۂ عمل پر اس کی روح کے ساتھ عمل بھی کرنا ہے اور چاروںطرف کے حالات سے باخبر رہ کر تحریکوں ، مہمات اور عوام کی آواز بن کر بھی اٹھنا ہے۔ ہم نے ہمیشہ قانون کے دائرے میں رہ کر بڑی بڑی تحریکیں اٹھائی ہیں۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کو اپنے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا ہے۔ آیندہ بھی ہمارا ہتھیار اللہ پر ایک جیتا جاگتا ایمان ، اس کی قدرت کاملہ پر  بھروسا اور اسی کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے رہنے کا عزم ہے اور یہ سب کام اس کی رضا اور آخرت کی فلاح کے لیے کیا جانا ہے، اور کس سے یہ بات مخفی ہے کہ اللہ تک جانے کے تمام راستے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوکر گزرتے ہیں اور سنت ثابتہ کو اپنانے سے ہموار ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہرکارکن کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ کمر ہمت کس.َ  لے ، تعلق باللہ کی استواری میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے۔ سنت نبویؐ کو اپنائے ، شریعت مطہرہ کو لے کر اٹھے اور جو جدوجہد اور کش مکش نبی اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان چھوڑ گئے ہیں، اس کا خوگر بنے اور اس بارے میں کسی لیت و لعل سے کام نہ لے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ وہ ہمارے حالات کو سدھار ے گا ، ہمیں اپنی تائید سے نوازے گا ، ہماری ٹوٹی پھوٹی جدوجہد کو قبول کرے گا اور جن آرزوئوں اور تمنائوں کے ساتھ قربانیاں دے کر اسے باقی رکھا گیاہے، اس کو نتیجہ خیز بنائے گا اور ہم اپنے سر کی آنکھوں سے پاک سرزمین پر قرآن و سنت کا پاکیزہ نظام روبہ عمل دیکھ سکیں گے۔ ان شاء اللہ!


جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ نے ۲۰۰۸ء کو دعوت کا سال قرار دیا ہے اور اس کے لیے ایک جامع منصوبہ اور لائحہ عمل بھی مرتب کیا ہے۔ پوری جماعت اس منصوبے کے مطابق اپنی سرگرمیاں ترتیب دے رہی ہے، اسی مناسبت سے اس ماہ کے اشارات میں محترم قیم جماعت نے منصوبے کے اصل مقاصد و اہداف اور ان احوال ومسائل پر کلام کیا ہے جو آج ملک اور تحریک کو درپیش ہیں۔ (مدیر)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ویسے تو زندگی کا ہر لمحہ لمحۂ امتحان ہے اور زندگی اور موت کا پورا سلسلہ انسان کی آزمایش کے لیے ہے (الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ط جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوںکو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ الملک۶۷:۲)، لیکن افراد اور قوموں کی زندگی میں کچھ مواقع ایسے آتے ہیں جنھیں بجا طور پر تاریخی اور سنہری موقع قرار دیا جاسکتا ہے اور جن پر صحیح اقدام تاریخ کے رخ کو موڑنے کا ذریعہ بن سکتاہے۔ آج پاکستانی قوم کو ایک ایسا ہی سنہری موقع حاصل ہے۔ ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے نتیجے میں جو قومی اسمبلی وجود میں آئی، اس نے ۱۷ مارچ سے اپنی زندگی کا آغاز اور ۲۴ مارچ کو قائد ایوان کا انتخاب کر کے مخلوط حکومت کے قیام کی راہ کھول دی ہے۔ توقع ہے مارچ کے آخر تک نئی حکومت اپنی ذمہ داری سنبھال لے گی۔

ہم پیپلزپارٹی کے نامزد وزیراعظم مخدوم یوسف رضا گیلانی کی مخلوط حکومت کا کھلے دل سے خیرمقدم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ملک و قوم کو اس دلدل سے نکالیں جس میں پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں (خصوصاً مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم) نے پھنسا دیا ہے۔ ہم پورے اخلاص اور دردمندی کے ساتھ ان کی توجہ ملک کو درپیش اصل چیلنج کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں اور ان مسائل اور ترجیحات کی نشان دہی کر رہے ہیں جو ان کا فوری ہدف ہونا چاہییں۔ آج پاکستان کی آزادی، حاکمیت، دستور اور نظامِ زندگی کے تحفظ کے لیے حقیقی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ہم صحیح معنوں میں عرصۂ محشر میں ہیں اور یہ وقت ذاتی یا سیاسی مفادات کے حصول کا نہیں بلکہ ملک و قوم کو بچانے اور زندگی اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کا ہے۔

اوّلین ترجیح

پہلا اور سب سے اہم مسئلہ گاڑی کو پٹڑی پر ڈالنے کا ہے۔ گاڑی اپنا مطلوب سفر اسی وقت شروع کر سکے گی جب وہ پٹڑی پر ہو۔اس لیے پٹڑی پر ڈالے بغیر تیزرفتاری کی باتیں کرنا اپنے کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ اس غرض کے لیے مندرجہ ذیل اقدام ضروری ہیں:

۱- نظامِ عدل کی بحالی کہ عدل کی فراہمی کے مؤثر انتظام کے بغیر کوئی قوم اور ملک زندہ نہیں رہ سکتا۔ کفر کی نائو چل سکتی ہے مگر ظلم کی حکمرانی اور عدل سے محرومی تباہی کا راستہ ہے۔

۲- دستور اور قانون کی حکمرانی کہ مہذب معاشرے کا وجود دستوری نظام کی بالادستی اور قانون کی اطاعت پر منحصر ہے۔ جب اور جہاں دستور، قانون اور نظامِ زندگی فردِواحد کا تابع مہمل بن جائے، وہاں تباہی کے سوا کوئی اور نتیجہ رونما نہیں ہوسکتا۔ استحکام فرد سے نہیں اداروں، قانون اور ضابطے کی عمل داری سے حاصل ہوتا ہے۔ صحیح پالیسیاں مشورے اور افہام و تفہیم سے وجود میں آتی ہیں اور انصاف، استحکام و ترقی اور توازنِ قوت(balance of power) کا مرہونِ منت ہے، ارتکازِ قوت (concentration of power) کا نہیں۔ اس لیے اختیارات کی تقسیم اور تعین اور ہر ایک کا اپنے اپنے دائرۂ اختیار کا احترام ہی امن کے قیام اور ترقی کے مواقع کی فراہمی کا ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طرزِ حکمرانی، پالیسی سازی کے اسلوب اور طور طریقوں کی اصلاح اور نظامِ احتساب کو مضبوط کیے بغیر کوئی ملک ترقی اور استحکام کی منزلیں طے نہیں کرسکتا۔

یہ دو وہ بنیادی چیزیں ہیں جن کی اصلاح کے بغیر ہماری گاڑی اپنی پٹڑی پر نہیں آسکتی لیکن اس کے ساتھ ایک تیسری چیز بھی ازبس ضروری ہے اور وہ یہ کہ ٹرین کا ڈرائیور ہمارا اپنا ہو اور اس کی باگ ڈور کسی بیرونی قوت کے ہاتھوں میں نہ ہو۔ جب تک یہ تینوں چیزیں ٹھیک نہ ہوجائیں ملک اور قوم اپنی منزل کی طرف سفر نہیں کرسکتے۔ اس لیے نومنتخب اسمبلی اور مخلوط حکومت کو اولین  ترجیح ان تینوں امور کو دینا چاہیے۔ بلاشبہہ معاشی معاملات بھی بے حد اہم ہیں اور اس وقت ہمارے معاشی مسائل بڑے گمبھیر اور پریشان کن ہیں ۔ امن و امان کا مسئلہ بھی اہم ہے لیکن ہم پوری دردمندی سے عرض کریں گے کہ الاول فالاول کے اصول پر فوری طور پر اولین ضرورتوں کو پورا کیا جائے اور اس کے ساتھ باقی تمام مسائل کے حل کے لیے مؤثر اقدامات کا اہتمام ہو۔

عدلیہ کی بحالی و استحکام

سب سے پہلی ضرورت اس بگاڑ اور فساد کی اصلاح ہے جس کا آغاز ۹مارچ ۲۰۰۷ء کو ہوا اور جو ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے خلافِ دستور اقدام کے نتیجے میں اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ اس کے کم از کم   تین پہلو ایسے ہیں جن کو سمجھنا اور ان کی اصلاح اور آیندہ کے لیے ملک و ملت کو ایسے حالات سے بچانے کے لیے مؤثر تدابیر کرنا وقت کی اولین ضرورت ہے۔

اولاً، فردِ واحد کی طرف سے دستور، قانون، اسلامی اقدار اور مہذب معاشرے کی روایات کے خلاف پہلے صرف چیف جسٹس کو اور پھر عملاً عدالت عالیہ کے ۶۳ ججوں کو برطرف کر دینا، ان کے ساتھ ناروا سلوک اختیار کرنا، اپنی مرضی کے ججوں کا تعین اور اپنے مفیدمطلب فیصلے حاصل کرنے کے لیے آزادعدلیہ کا قتل۔

ثانیاً، فردِ واحد کا یہ دعویٰ کہ بندوق کی قوت سے وہ جب چاہے دستور کو معطل کرسکتا ہے، اس میں من مانی ترامیم کرسکتا ہے، ایمرجنسی نافذ کرسکتا اور اٹھا سکتا ہے، اور ملک کے پورے    نظامِ حکمرانی کو موم کی ناک کی طرح جدھر چاہے موڑ سکتا ہے۔

ثالثاً، نام نہاد عدلیہ کا فردِ واحد کو درج بالا دونوں ’حقوق‘ دے دینا، اس کے حکم پر نیا حلف لے لینا، اس کے غیرقانونی اقدام کو جائز قرار دینا اور اسے دستوری ترمیم کا وہ حق بھی دے دینا جو صرف پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کو حاصل ہے، خود سپریم کورٹ کو بھی حاصل نہیں۔

یہ تینوں جرم پوری ڈھٹائی سے کھلے بندوں ۹ مارچ اور ۳ نومبر کو ہوئے، اور پرویز مشرف کی خودساختہ عدالت عالیہ نے ان پر مہرتصدیق ثبت کرکے پرویز مشرف کے جرم میں برابر کی شریک ہونے کی سعادت حاصل کرلی۔ بلاشبہہ ماضی میں بھی یہ کھیل کھیلا گیا ہے اور غلام محمد اور  اس کے شریک کار جسٹس منیر سے لے کر پرویز مشرف اور موجودہ عدالت عالیہ نے ایک ہی جرم کا بار بار ارتکاب کیا ہے، اور پارلیمنٹ نے بھی مصالح کا شکار ہوکر دفعہ ۲۷۰، ۲۷۰ اے اور ۲۷۰ اے اے کی شکل میں اس سیاسی جرم کو دستور کا حصہ بنانے کی غلطی کی ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمدچودھری اور ۶۳ دوسرے ججوں نے اس کی مزاحمت کی، پوری وکلا برادری،  سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں نے ایک سال تک اس اقدام کے خلاف علَم بغاوت بلندکیا  بالآخر فروری ۲۰۰۸ء میں عوام نے اس پورے کھیل کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا حتمی فیصلہ دے دیا۔ اب اسمبلی اور نئی حکومت کی اولیں ذمہ داری ہے کہ اس بنیادی خرابی کا ہمیشہ کے لیے ازالہ کردے۔اس کی مناسب ترین شکل یہ ہے:

۱- ایک واضح قرارداد کے ذریعے ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو غیردستوری، غیر قانونی، غیراخلاقی اور بدنیتی پر مبنی (malafide) قراردیا جائے اور اسے اس کے نفاذ کے وقت سے کالعدم قرار دیا جائے جس کا واضح نتیجہ یہ ہوگا کہ

ا - چیف جسٹس اور تمام جج اسی حالت میں بحال ہوجائیں گے جس میں وہ ۳نومبر کی صبح تک تھے اور سات ججوں کا وہ فیصلہ جس نے ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو غیر دستوری قرار دیا تھا، بحال ہوجائے گا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے قانون کی گرفت میں آجائیں گے۔

ب- ۳ نومبر کے بعد کے تمام اقدامات بشمول دستوری ترامیم اور انتظامی احکامات اصلاً غیرقانونی قرار پائیں گے، اِلا .ّیہ کہ پارلیمنٹ حقیقی ضرورت کے تحت ان میں سے کسی یا کچھ کو   دفعِ فساد کی بنیاد پر محدود زندگی دے دے۔

۲- اس قرارداد کے چار حصے ہونے چاہییں:

اوّل: ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کی نفی اوراس کے تحت کیے ہوئے تمام اقدامات کو قانونی جواز سے محروم کرنا۔

دوم:  سابقہ صورتِ حال (status quo) کی بحالی۔

سوم: اس اصول کا برملا اعلان و تصدیق کہ دستور میں ترمیم کا اختیار نہ چیف آف اسٹاف کو ہے، نہ صدر کو اور نہ سپریم کورٹ کو، بلکہ دستور میں ترمیم کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ دفعہ ۲۳۸- ۲۳۹ میں لکھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ اس لیے پی سی او کے تحت حلف لینے والی سپریم کورٹ کے ۳ نومبر والے اقدام کو جواز دینے کی نفی، اور آیندہ کے لیے تنبیہہ کہ کوئی عدالت اس نوعیت کا اقدام کرنے کی مجاز نہیں۔

چہارم: صرف دفعِ فساد اور نظام کے تسلسل کی خاطر مندرجہ ذیل امور کے لیے ایک نیا قانونی انتظام کیا جائے جس کے خدوخال کچھ یوں ہوسکتے ہیں:

۱- جو جج پہلے سے عدلیہ میں موجود تھے، وہ بھی معزول کردہ ججوں کی طرح اپنے ماضی کے مقام پر بحال رہیں گے۔ اصولی طور پر جو نئے جج مقرر کیے گئے ہیں، وہ دستور کی دفعہ ۲۰۹ کی میزان پر احتساب کے سزاوار ہوسکتے ہیں۔ ان کو عہدوں سے فارغ کر دیے جانے کے بعد سپریم کورٹ دستور اور الجہاد ٹرسٹ کے ججوں کے فیصلے کے مطابق فوری کارروائی کر کے اور خالص میرٹ کی بنیاد پر دستور اور ضابطے کی روشنی میں عدلیہ کی بحالی کے ایک ماہ کے اندر اندر فیصلے کرکے نافذ کردے۔

۲- ۳ نومبر والی ایمرجنسی کے تحت حاصل کردہ اختیارات کے تحت جو بھی اقدام ہوئے ہیں وہ سب قرارداد کے منظور ہونے کے تین ماہ کے اندر کالعدم ہوجائیں، بجز ان کے جن کے جاری رکھنے کا فیصلہ ایک پارلیمانی کمیٹی ان تین ماہ کے اندر کرے۔ اگر یہ کمیٹی فیصلہ نہیں کرتی تو وہ اقدام آیندہ کے لیے ختم ہوجائیں گے، خواہ اس کے اثرات کچھ بھی ہوں، البتہ جن چیزوں پر عمل ہوچکا ہے، ان کو کم تر برائی کے اصول پر گوارا (condone)کیا جاسکتا ہے۔

۳- اس قرارداد کے آخر میں یہ بھی واضح کردیا جائے کہ نظریۂ ضرورت کے تحت عدالتوں کا جواز دینا (validation )اور پھر پارلیمنٹ کا توثیق کرنا (ratification) ایک غلط سلسلہ ہے جسے ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاتا ہے۔ یہ بھی مفید ہوگا کہ پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی دستور میں دفعہ ۲۷۰، ۲۷۰ اے، ۲۷۰ اے اے کے تحت ماضی میں جو جواز مہیا (validate) کیے گئے ہیں ان کے بارے میں بھی طے کرے۔ یہ پارلیمانی کمیٹی تمام قوانین اور اقدامات کا جائزہ لے اور دوسال کے اندر ان قوانین، حکم ناموں اور اقدامات کا تعین کردے جن کو جواز حاصل رہے اور باقی سب کو منسوخ کردیا جائے گا تاکہ ماضی کے اس پشتارے کی بھی تطہیر ہوجائے۔

۴- اس قرارداد کے منظور ہوتے ہی اس پر عمل شروع کردیا جائے اور انتظامی حکم کے ذریعے تمام سابقہ ججوں کو بحال کرکے عدل وا نصاف کے دستوری عمل کو متحرک کردیا جائے۔ اس قرارداد کو ۲۷۰ اے اے اے کے طور پر دستور کا حصہ بنا دیا جائے تاکہ ماضی میں ۲۷۰ کے تحت  جواز (validation) دینے کا جو دروازہ چوپٹ کھول دیا گیا تھا، وہ بھی آیندہ اس دفعہ کے ذریعے ہی بند کردیا جائے۔ اس طرح ہمیشہ کے لیے دستور میں قانونِ ضرورت کے دروازے کو بند کرنے کا کام بھی انجام دیا جاسکتا ہے۔

۵- اس کے ساتھ دستور کی دفعہ ۶ میں ترمیم کر کے یہ اضافہ کرنا بھی مفید ہوگا کہ دستور کو معطل کرنا یا غیرمؤثر (in abeyance) کرنا بھی دستور کی تخریب (subvert) کرنے کی طرح جرم ہے، اور ایسے اقدامات کو جوازفراہم کرنا بھی ایک مساوی جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔

۶- اگر ضروری محسوس کیا جائے تو ایک ترمیم دفعہ ۲۳۸/۲۳۹ میں بھی ہوسکتی ہے جو   بطور وضاحت (explanation )آسکتی ہے کہ دستور میں ترمیم کا ان دفعات میں بیان شدہ طریقے کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ معتبر نہیںاور اس کی کوئی گنجایش نہیں کہ کسی ماوراے دستور (extra constitutional)  طریقے سے کوئی بھی دستوری ترمیم کرے ،اور نہ کسی کو ایسی کوئی ترمیم کرنے کا اختیار کسی کو دینے کا حق ہے۔ اگر کوئی دستور میں اس طرح ترمیم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ دستور کی دفعہ ۶ کی زد میں آئے گا۔

’اعلانِ مری‘ کے تقاضے مندرجہ بالا اقدام کے ذریعے پورے ہوسکتے ہیں۔ ججوں کی رہائی ایک اچھا اقدام ہے لیکن اصل مسئلہ ججوں کی بحالی اور ۳نومبر کے اقدام کی مکمل نفی کرکے ملک کے دستور اور نظامِ عدل کو تحفظ دینا ہے۔یہ اصول تسلیم کیا جانا چاہیے کہ دستور کی دفعہ ۲۰۹ کے سوا کسی اور طریقے سے ججوں کی برطرفی غیرقانونی ہے، البتہ اس بات کا اظہار بھی ضروری ہے کہ جہاں ۶۳ججوں نے ایک روشن مثال قائم کی ہے اور کچھ دوسرے ججوں نے پی سی او کے تحت حلف لے کر اور اہلِ اقتدار سے تعاون کرکے بڑی بُری مثال قائم کی ہے، وہیں اس بات کی ضرورت ہے کہ نظامِ عدل کو دوبارہ معزز و محترم بنانے کے لیے سب اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ جہاں اصلاح کی ضرورت ہے، وہ ضرور کی جائے مگر صفوں کو پاٹ کر عدلیہ کی عزت اور کارفرمائی کی بحالی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ عدلیہ کے احتساب کے طریقے پر بھی ازسرنو غور کیا جائے اور عدلیہ اور انتظامیہ کے تعلقات خصوصیت سے ایک دوسرے سے ربط اور اثرانگیزی اور اثرپذیری کے نازک معاملات پر صدق دل سے غور کرکے نئے ضابطے اور قواعد بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عدلیہ حقیقت میں آزاد عدلیہ بن سکے اور اس سے انصاف کے چشمے پھوٹیں اور ہر کسی کو اس پر اعتماد ہو۔ قانونی اور انتظامی اصلاحات کے ساتھ اس پہلو کی فکر بھی ازبس ضروری ہے۔

ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ پارلیمنٹ ۳نومبر کے اقدام کی نفی کس قانونی ذریعے سے کرسکتی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک انتظامی حکم جو خودغیرقانونی تھااور قانون کی نگاہ میں اس کا  آئینی (de Jure) وجود ہے ہی نہیں، صرف امرِواقع (de facto)  ہے، ایک دوسرے انتظامی حکم نامے سے کالعدم کیوں نہیں جاسکتا۔ دنیا بھر کے ماہرین قانون نے اس اقدام کو دستور، قانون اور معروف جمہوری قواعد کے خلاف قرار دیا ہے۔ امریکی حکومت اپنے مفادات میں اندھی ہوکر خواہ کچھ بھی کہتی رہی ہو مگر امریکا کے ماہرین قانون نے اس اقدام کو غلط قرار دیا اور خود امریکی کانگرس نے تلافیِمافات کرتے ہوئے ۱۷ مارچ کی قرارداد کے ذریعے عدلیہ کی برخاستگی کو غلط اور بحالی کو اصل ضرورت قرار دیا ہے۔ نیویارک بار ایسوسی ایشن نے، جس کے ۲۲ ہزار ممبر ہیں، اسے غلط قرار دیا ہے اور خود ہمارے ملک کے چوٹی کے ماہرین قانون نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ اصل اقدام غلط اور غیرقانونی تھا۔ ۳ نومبر کو سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ نے ۳ نومبر کے ایمرجنسی کے اقدام کو غلط اور بدنیتی پر مبنی (malafide ) قرار دے دیا تھا اور عدالت عالیہ کا وہی حکم آج بھی لاگو ہے۔ ۳نومبر کے غیرقانونی اعلان کے تحت حلف لینے والی عدلیہ کاکوئی فیصلہ قانون کا مقام نہیں رکھتا۔ سابق چیف جسٹس صاحبان میں سے جسٹس اجمل میاں، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس سعید الزماں صدیقی نے کہا ہے کہ: ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کو نافذ کی جانے والی ایمرجنسی کے تحت ججوں کی معطلی غیر دستوری تھی اور ان کی بحالی کے لیے قومی اسمبلی سے منظور کردہ قرارداد ہی کافی ہوگی۔ یہی موقف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے ۳ درجن سے زائد ججوں کا ہے۔ اس کے بعد کسی اور قانونی موشگافی کے لیے کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی۔

دستور کی بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی

عدلیہ کی بحالی کے ساتھ دوسرا بنیادی مسئلہ دستور کی بحالی، پارلیمنٹ کی بالادستی، دستوری اداروں کے درمیان تقسیم اختیارات اور پارلیمنٹ کی کارکردگی کو بہتر اور مؤثر بنانے کا ہے۔

دستور کی بحالی کے سلسلے میں ایک اصولی بات تو یہ کہی جاسکتی ہے کہ جلد از جلد ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کی صورت حال کو بحال کیا جائے۔ ’میثاقِ جمہوریت‘ اور ’اعلانِ لندن‘ میں اس مسئلے پر ایک موقف اختیار کیاگیا ہے، جزوی اختلاف کے ساتھ ہم نے بھی اس کی تائید کی ہے لیکن چند دوسری بڑی اہم ترمیمات دستور میں ہونی چاہییں تاکہ صرف ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء والی صورت حال ہی بحال نہ ہو بلکہ دستور کے اسلامی، پارلیمانی، وفاقی اور فلاحی کردار کے تمام تقاضے پورے ہوسکیں۔ اس کے لیے  کم سے کم مندرجہ ذیل امور کے بارے میں مناسب دستوری ترامیم افہام و تفہیم اور مؤثر مشاورت کے ذریعے کرنے کی ضرورت ہے:

۱- پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف صدر کے ان اختیارات کو ختم کیا جائے جن کے نتیجے میں صدر اور پارلیمنٹ کے درمیان توازن ختم ہوگیا اور پارلیمانی نظام ایک قسم کا صدارتی نظام بن گیا ہے، بلکہ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ پر انتظامیہ کی بالادستی کو بھی لگام دی جائے اور پارلیمنٹ ہی اصل فیصلہ کن فورم ہو۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل ترامیم ضروری ہیں:

ا- ریاست کے رہنما اصول جو پالیسی سازی کی بنیاد ہونے چاہییں، ان کی روشنی میں تمام خارجی اور داخلی امور پر پارلیمنٹ میں بحث ہو اور بحث کے بعد پالیسی ہدایات (directives) کی شکل میں پارلیمنٹ کی ہدایات مرتب کی جائیں، اور ان کے نفاذ کی رپورٹ پارلیمنٹ میں آئے جس پر بحث ہو۔ ضروری ہے کہ اسے ایک دستوری ذمہ داری قرار دیا جائے۔

ب- بجٹ سازی کا طریقۂ کار یکسر تبدیل کیا جائے۔ بجٹ سے چار مہینے پہلے دونوں ایوانوں میں بجٹ گائیڈلائن پر بحث ہو جس کی روشنی میں بجٹ کی تجاویز مرتب کی جائیں جو ایک ماہ کے اندر دونوں ایوانوں کی متعلقہ کمیٹیوں میں زیربحث آئیں اور یہ کمیٹیاں اپنی تجاویز وزارتِ خزانہ کو دیں۔ اصل بجٹ سال کے اختتام سے تین ماہ پہلے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔ سینیٹ میں  کم از کم تین ہفتے بحث کے لیے دیے جائیں اور اسمبلی میں آٹھ ہفتے۔ اس طرح دو ماہ میں پارلیمنٹ بجٹ منظور کرے۔ دفاع کا بجٹ بھی بجٹ کے حصے کے طور پر پارلیمنٹ میں زیربحث آئے اور منظوری لی جائے۔

ج- پارلیمنٹ کو غیرمؤثر بنا دینے والی چیزوں میں سے ایک آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی ہے۔ دنیا کے بیش تر جمہوری ممالک میں ایسی کوئی گنجایش موجود نہیں ہے اور جہاں  عارضی قانون سازی (temporary legislation)کی گنجایش ہے وہاں بھی بڑی سخت تحدیدات ہیں جن میں ایک ہی قانون کے بار بار آرڈی ننس کے ذریعے نافذ کیے جانے کا دروازہ بند کیا جانا بھی ہے۔ اس طرح حقیقی ضرورت کو بھی واضح (define) کرنے بلکہ قانونی احتساب کے دائرۂ اختیار میں لانے کی ضرورت ہے۔ ہماری حکومت اور پارلیمنٹ کا ریکارڈ اس سلسلے میں بڑا پریشان کن ہے۔ موجودہ اسمبلی نے پانچ سال میں صرف ۵۰قوانین براے نام بحث کے بعد قبول کیے، جب کہ ان پانچ سالوں میں ۷۳ قوانین بذریعہ آرڈی ننس نافذ ہوئے، یعنی انتظامیہ نے پارلیمنٹ کے مشورے اور بحث کے بغیر ان کو نافذ کیا۔ دوسرے الفاظ میں عام قانون سازی کے مقابلے میں آرڈی ننس سے قانون سازی ۱۵۰ فی صد زیادہ تھی۔ بھارت میں بھی آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی کا دروازہ کھلا ہے مگر وہاں پانچ سال میں ’لوک سبھا‘ نے ۲۴۸ قوانین حقیقی بحث و گفتگو کے بعد منظور کیے، جب کہ صدارتی آرڈی ننسوں کی تعداد پانچ سال میں صرف ۳۴ تھی، یعنی پارلیمنٹ میں پاس ہونے والے قوانین کا صرف ۱۴فی صد۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بڑے اہم بل پاکستان کی اسمبلی اور سینیٹ میں زیرغور رہے مگر ان پر بحث اور منظوری کی نوبت نہیں آسکی۔

حقیقت یہ ہے کہ آرڈی ننس سے قانون سازی کا دروازہ بند ہونا چاہیے۔ لیکن اگر اسے ضروری تصور ہی کیا جائے تو یہ شرط ہونی چاہیے کہ اسمبلی کے انعقاد سے ۱۵ دن پہلے اور اس کے  التوا کے ۱۵ روز بعد تک کوئی آرڈی ننس جاری نہیں ہوسکتا۔ دو اجلاسوں کے دوران اگر غیرمعمولی حالات میں آرڈی ننس جاری کرنا پڑے تو اس کی وجوہ بھی آنی چاہییں۔ محض یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ ایسی وجوہ پائی جاتی ہیں۔ ان کو متعین کرنا ضروری ہے تاکہ پارلیمنٹ اور اگر ضرورت ہو تو خود عدالت اس کا جائزہ لے سکے۔ پھر یہ واضح ہونا چاہیے کہ ایک آرڈی ننس لفظی ترمیم کے بعد بار بار نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ انتظامیہ جان بوجھ کر پارلیمنٹ کو نظرانداز (by pass) کرنا چاہتی ہے۔ نیز یہ بھی طے ہونا چاہیے کہ سال میں      ایک خاص تعداد سے زیادہ آرڈی ننس جاری نہیں کیے جاسکتے، مثلاً ایک سال میں پانچ سے زیادہ آرڈی ننس جاری نہ ہوں۔ اس طرح پارلیمنٹ میں قانون سازی اور پالیسی سازی بڑھ سکے گی۔

د- پارلیمنٹ کو نظرانداز کرنے اور اس کے کردار کو غیر مؤثر بنانے میں مزید دو عوامل بھی اہم ہیں۔ ایک بین الاقوامی معاہدات کا پارلیمنٹ سے بالا ہی بالا منظور ہوجانا۔ برطانوی دور سے یہ کام کابینہ کر رہی ہے جو جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ سامراجی دور میں اس کا ’جواز‘ ہوگا، جمہوریت میں اس کی کوئی گنجایش نہیں۔ اس لیے تمام معاہدات کا پارلیمنٹ میں پیش ہونا اور ان میں سے اہم کا دونوں ایوانوں میں یا کم از کم سینیٹ میں توثیق (ratification ) ضروری ہونا چاہیے۔

دوسرا مسئلہ اہم تقرریوں (appointments )کا ہے۔ جو تقرریاں پبلک سروس کمیشن سے ہوتی ہیں، وہ ایک معقول طریقہ ہے لیکن جو سفارتی اور انتظامی تقرریاں انتظامیہ اپنی صواب دید پر کرتی ہے ان کی جواب دہی بھی ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹیوں یا    دونوں ایوانوں کی مشترک کمیٹیوں کا کردار ہونا چاہیے۔ امریکا میں انتظامیہ کو حدود میں رکھنے اور  اہم تقرریاں ذاتی رجحانات کے مقابلے میں اصول اور میرٹ پر کرانے کے لیے تقرری سے پہلے کمیٹی میں پیش ہونے کا طریقہ بڑا مؤثر ہے۔ اگر ہمارے ملک میں بھی اس سلسلے کو شروع کیا جائے تو یہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام کے لیے بڑا اہم اقدام ہوگا۔

ہ- اس سلسلے میں پارلیمنٹ کے ایامِ کار (working days) کا مسئلہ بھی اہم ہے۔  اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسمبلی کے لیے ۱۶۰ دن ایامِ کار قرار دیے گئے تھے جنھیں کم کر کے ۱۳۰ دن کر دیاگیا۔ پھر ایک تعبیر کے ذریعے اگر دو دن کی چھٹی درمیان میں آجائے تو وہ بھی ایامِ کار میں شمار ہونے لگی۔ بالعموم ہفتے میں تین دن اسمبلی یا سینیٹ کے سیشن ہوتے ہیں اور اسے سات دن شمار کیا جاتا ہے۔ پھر اوسطاً اڑھائی گھنٹے فی یوم کی کارکردگی رہی، جب کہ دنیا کے دوسرے ممالک میں پارلیمنٹ پورے سال سیشن میں رہتی ہے بجز دو یاتین چھٹی کے وقفوں کے۔ ہرروز بحث چھے سات گھنٹے ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کی کارکردگی کو مؤثر بنانے کے لیے اس کی بھی ضرورت ہے کہ ارکان اسمبلی و سینیٹ کو ضروری معلومات فراہم کی جائیں، ان کو مطالعے، تحقیق اور قانون سازی کے لیے معاونت ملے۔ عوام کو پارلیمنٹ کی کمیٹی میں پیش ہونے کا موقع دیا جائے۔ پارلیمانی کمیٹیوں کی کارروائی کھلی ہو،پارلیمنٹ کی کارکردگی بھی براہِ راست عوام تک پہنچے۔ وزرا کی شرکت لازمی ہو۔ وزیراعظم کم از کم ہفتے میں ایک بار نہ صرف پارلیمنٹ میں آئیں بلکہ ان کے لیے کم از کم نصف گھنٹہ سوالات کے جوابات دینے کے لیے مختص کیا جائے۔ یہ  وہ اقدام ہیں جن سے پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہوگی اور کارکردگی میں اضافہ ہوسکے گا۔

۲-  پارلیمنٹ کی بالادستی کے ساتھ دستور میں اور بھی ایسی ضروری ترامیم درکار ہیں جو گذشتہ ۳۵ سال کے تجربات کی روشنی میں دستور کے اسلامی، اور وفاقی کردار کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔ جب ہم دستوری ترامیم کے مسئلے پر غور کر رہے ہیں تو ان امور پر بحث اور تجاویز مرتب کرناضروری ہے جس کے لیے ایک کُل جماعتی پارلیمانی کمیٹی دونوں ایوانوں کے ان ارکان پر مشتمل قائم کی جائے جو قانون پر نگاہ رکھتے ہوں اور وقت کے تقاضے بھی جن کے سامنے ہوں۔

  • پہلا مسئلہ صوبائی خودمختاری کا ہے۔ اس میں مشترک فہرست ختم کر کے ان تمام امور کو صوبوں کو منتقل کرنے پر بڑی جماعتوں میں اتفاق ہے اور ہم بھی اسے ضروری سمجھتے ہیں، تاہم یہ کافی نہیں۔ وفاقی فہرست کے پارٹ بی پر نظرثانی کی ضرورت ہے اور ان میں کئی چیزیں ایسی ہیں جن میں صوبوں کا عمل دخل ضروری ہے جس کا دروازہ کھلنا چاہیے۔ اسی طرح نیشنل ایکونومک کونسل، کونسل آف کامن انٹرسٹ اور قومی مالیاتی اوارڈ کے پورے نظام کو صوبوں کے مشورے سے   مؤثر بنانے بلکہ تشکیلِ نو کی ضرورت ہے۔ ان میں سے ہرادارے میں وفاقی حکومت کو بالادستی حاصل ہے جسے بری طرح استعمال کیا گیا ہے۔  یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے اور انصاف اور برابری کی بنیاد پر فیصلوں میں شرکت اور فیصلوں کی بروقت منصفانہ تنفیذ کو یقینی بنانا ہوگا۔
  • دوسرا مسئلہ عدلیہ اور انتظامیہ کی عملاً علاحدگی کا ہے، نیز عدلیہ کو مکمل آزادی کے ساتھ، ضروری وسائل کی فراہمی اور پھر اس کا ایک مؤثر نظامِ احتساب___ اس لیے کہ زیریں سطح پر عدلیہ میں بڑی خرابیاں ہیں۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے لیے بھی احتساب کا نظام مؤثر اور شفاف ہوناچاہیے، نیز جو بگاڑ ماضی میں انتظامیہ کی مختلف شکلوں میں مداخلت سے پیدا ہوا ہے اس کی اصلاح کی بھی ضرورت ہے۔ ایک طرف عدلیہ کو مکمل طور پر آزاد ہونا چاہیے لیکن دوسری طرف اس کے ذریعے ہر شہری کو بلاتاخیر حقیقی انصاف ملنے کا اہتمام ہونا چاہیے اور عدلیہ پر عوام کو مکمل بھروسا ہونا چاہیے۔ وکلا کا کردار بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ انصاف کے حصول کا عام شہری کی دسترس سے باہر ہوجانا اور اس سلسلے میں نہ ختم ہونے والی تاخیر، یہ سب مسائل ازسرنو غوروفکر اور نظام میں مناسب تبدیلیوں کا تقاضا کرتے ہیں۔
  • تیسرا مسئلہ وفاقی شرعی عدالت کا ہے جسے ایک قسم کا دوسرے درجے کا ادارہ بنا دیا گیا ہے جہاں ججوں کو سزا کے طور پر بھیج دیا جاتا ہے، اور جس کے ججوں کو وہ تحفظ حاصل نہیں جو باقی عدلیہ کے ججوں کو حاصل ہے نیز اس عدالت کے فیصلوں کو اپیلوں کے ذریعے جان بوجھ کر غیرمؤثر بنا دیا گیا ہے۔
  • چوتھا مسئلہ ایک اور اہم دستوری ادارے اسلامی نظریاتی کونسل اور اس کی رپورٹوں کا ہے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور کا تقاضا تھا کہ سات سال کے اندر اندر تمام قوانین کو قرآن وسنت سے   ہم آہنگ کردیا جائے۔ نظریاتی کونسل نے درجنوں رپورٹیں تیار کی ہیں اور سیکڑوں قوانین پر اپنی راے کا اظہار اور ضروری ترامیم کی نشان دہی کی ہے مگر پارلیمنٹ نے ان پر غور کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی، جب کہ سینیٹ میں دو ایک رپورٹوں پر مختصر اور بے نتیجہ بحث ہوئی۔ ستم ہے کہ ان ۳۵برسوں میں پارلیمنٹ نے ان رپورٹوں پر غور ہی نہیں کیا ہے چہ جائیکہ ان کی روشنی میں قانون سازی اور پالیسی سازی انجام پاتی۔ یہ دستور کی کھلی خلاف ورزی اور قوم کے ساتھ مذاق ہے۔
  • پانچواں مسئلہ سول سروس کے کردار کا ہے جسے ایک طرف دستوری تحفظ کی ضرورت ہے تو دوسری طرف اس کو حقیقی غیر جانب دار انتظامیہ بنانے کا مسئلہ ہے۔ اس سوال کو بھی اب نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے کہ ہر آنے والے اسے اپنے لیے سواری کا گھوڑا بنالے۔

فوج کا کردار اور پرویز مشرف کا مستقبل

عدلیہ کی بحالی، دستوری نظام کی اصلاح اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام کے ساتھ ایک اور بنیادی مسئلہ سیاست میں فوج کے کردار اور خود پرویز مشرف کے مستقبل کا ہے، جو اس ناٹک کے اصل ایکٹر رہے ہیں۔ اصولی طور پر فوج کے چیف آف اسٹاف کا یہ اعلان لائق تحسین اور صحیح سمت میں قدم ہے کہ فوج صرف ایک دستوری اور دفاعی کردار ادا کرے اور سول انتظامیہ اور معاشی میدان میں جو کردار اس نے اختیار کر لیا ہے، وہ ختم کیا جائے۔

مخلوط حکومت کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ اپنے معاملات کو درست کرنے کے ساتھ ساتھ پرویز مشرف کے مستقبل کے معاملے کو بھی دو ٹوک انداز میں طے کرے۔ پرویز مشرف نے دستور کا تیاپانچا کیا، پارلیمنٹ کو غیرمؤثر بنایا، فوج کو سیاست اور انتظامیہ میں ملوث کیا۔ پرویز مشرف اور دستوری اور جمہوری نظام ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ انھوں نے باعزت رخصت ہونے کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ اب اس کے سواکوئی راستہ نہیں کہ دستوری ترامیم کے بعد ان کے مواخذے کی تیاری کی جائے۔ ان کے تاریک دور کا دروازہ اس وقت تک بند نہیں ہوگا جب تک خود ان کا مؤثر احتساب نہ ہو، تاکہ قوم اور دنیا کے سامنے یہ حقیقت آسکے کہ جو فرد بھی دستور کا خون کرے گا اور اختیارات کا     غلط استعمال کرے گا، اس کا احتساب ہوگا اور ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا نظام نہیں چل سکتا۔

انتخابات سے پہلے امریکا کی من پسند قیادت کو بروے کار لانے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے گئے۔ کیسے کیسے مفاہمت کے ڈرامے اسٹیج کیے گئے۔ اس کھیل میں پرویز مشرف اور ایم کیو ایم کا بڑا کلیدی کردار ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ قوم کو اس سلسلے میں ایک بالکل واضح راستہ اختیار کرنا ہے۔

جس طرح پرویز مشرف کا صدارت پر قابض رہنا ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ ہے، اسی طرح ایم کیو ایم کا کردار بہت مخدوش ہے جس کی حیثیت پرویز مشرف کے ایک مسلّح بازو (armed wing) کی ہے اور جس کے ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء کے خونی کھیل کو انھوں نے اسلام آباد میں مسلم لیگ (ق) کے ایک مظاہرے میں اپنا کارنامہ اور اپنی طاقت کا مظہر قرار دیا تھا۔ پانچ سال پرویز مشرف اور ایم کیو ایم کا گٹھ جوڑ رہا ہے اور اس کے باوجود رہا ہے کہ اقتدار میں آکر انھوں نے اسلام آباد میں چند چوٹی کے صحافیوں کی موجودگی میں الطاف حسین کے بارے میں کہا تھا کہ:   He is a traitor, period ، وہ ایک غدار ہے___ اور بس!

الطاف حسین نے خود بھارت کی سرزمین پر بار بار کہا ہے کہ پاکستان کا قیام ایک غلطی تھا اور برطانیہ کی شہریت لے کر تاجِ برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھایا ہے جو ریکارڈ پر موجود ہے۔   ایم کیو ایم نے قوت کے استعمال سے جس طرح کراچی اور حیدرآباد پر قبضہ کر رکھا ہے اور جس طرح اس کے سزایافتہ کارکنوں کو شریکِ اقتدار کیا گیا ہے اور اس کی خاطر قومی مفاہمتی آرڈی ننس (NRO ) میں ۱۹۸۶ء سے جرائم کرنے والوں کو بری کیا گیا، وہ کھلی کتاب ہے۔ ایم کیو ایم کو امریکا اور برطانیہ کی تائید حاصل ہے اور وہ پرویز مشرف کے ٹروجن ہارس کی حیثیت رکھتی ہے۔  مسلم لیگ (ن) کا موقف بالکل درست ہے کہ اس ریکارڈ کی موجودگی کے باوجود ان کے ساتھ اقتدار میں شرکت پرویز مشرف کو تقویت دینے اور مشرف اور امریکا کے کھیل کی سرپرستی کے مترادف ہوگی۔

اس لیے اسمبلی اور نئی حکومت کو،جن بنیادی امور کو طے کرنا ہے ان میں سے ایک     پرویز مشرف کے قانونی جوازسے محروم صدارتی تسلط سے نجات بھی ہے تاکہ اس کی دہشت گردی کی جنگ سے بھی ہم نکل سکیں اور اپنے معاملات کو اپنے مفادات کی روشنی میں اور اپنے طریقے سے  حل کرسکیں۔

امریکی مداخلت اور خارجہ پالیسی

ملک اور قوم کو پٹڑی پر لانے کے لیے چوتھا بڑا مسئلہ پاکستان کی پالیسیوں اور معاملات میںامریکا کی مداخلت کو لگام دینا ہے، جسے امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دے کر پوری دنیا میں خوف کی فضا قائم کر کے مسلمان ملکوں خصوصیت سے افغانستان، عراق، لبنان، ایران اور خود پاکستان کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہا ہے، وہ مسلمان اُمت اور پاکستانی قوم کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ پاکستانی قوم اسے اسلام، مسلمانوں اور خود پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک کے خلاف جنگ تصور کرتی ہے اور پرویز مشرف نے امریکا کے اس خطرناک کھیل میں پاکستان اور اس کی افواج کو جھونک کر جو ظلم کیا ہے اور جس کے نتیجے میں پاکستان دہشت گردی اور خودکش حملوں کی زد میں آگیا ہے، اس صورت حال کو ہرگز برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا نے پاکستان کی فضائی اور جغرافیائی حدود کی کھلے عام خلاف ورزی کی ہے، اور کر رہا ہے۔ اس کے جہاز ہماری بستیوں میں  بم باری کر رہے ہیں اور بغیر پائلٹ کے جہاز لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ امریکا کے حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ سب کچھ پرویز مشرف سے کسی معاہدے کے تحت کر رہے ہیں۔ امریکی ترجمان   بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کو یہ حق حاصل ہے اور پاکستان کی افواج اور حکومت، امریکا کے    ان تمام جارحانہ اقدامات پر نہ صرف خاموش ہے، بلکہ غیرت کا جنازہ نکال کر اس کے ترجمان یہاں تک کہنے کی جسارت کرچکے ہیں کہ کچھ حملے امریکا نے نہیں خود ہم نے کیے ہیں۔ اب ان حملوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ گذشتہ چھے ماہ میں امریکا نے سیکڑوں افراد کو ہلاک کردیا ہے اور  پاکستانی ترجمان اپنا نام چھپا کر یہ کہنے لگے ہیں کہ حملے امریکا اور ناٹو کی طرف سے ہو رہے ہیں۔ امریکا ہم پر اپنی پالیسیاں اس حد تک مسلّط کر رہا ہے کہ علاقے میں مصالحت کی ہرکوشش کو وہ  مسترد (ویٹو ) کردیتا ہے۔ صرف فوجی حل مسلط کر رہا ہے اور ہمیں مسلط کرنے پر مجبور کر رہا ہے اور ہماری فوج کی ٹریننگ اور نیوکلیر اثاثوں کی حفاظت کے نام پر ہمارے دفاعی نظام میں گھسنے اور اسے اندر سے سبوتاژ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ بات اب اس سے بھی آگے بڑھ گئی ہے اور کھل کر مطالبے کیے جارہے ہیں کہ جس طرح ۲۰۰۱ء میں ہمارے سات مطالبات مانے تھے، اب گیارہ نکات تسلیم کرو۔ ان مطالبات کی فہرست دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا کسی آزاد اور خودمختار مملکت سے اس نوعیت کے شرم ناک مطالبات بھی کیے جاسکتے ہیں (۷ مارچ ۲۰۰۸ئ)۔ اس کے ساتھ کوشش ہے کہ ملک کی حکومت سازی میں بھی کردار ادا کرے اور اپنی پسند کے لوگوں کو برسرِاقتدار لانے کا کھیل کھیلے اور یہ سب کچھ ’اعتدال پسند‘ اور لبرل قوتوں کی فتح کے نام پر ہو۔

دیگر درپیش چیلنج

ہمیں احساس ہے کہ ان چار امور کے علاوہ بھی بڑے مسائل ہیں جن میں معاشی مسائل، کرپشن، امن و امان کا مسئلہ، بے روزگاری، بجلی اور پانی کا بحران، ہوش ربا مہنگائی اور بلوچستان اور وزیرستان میں فوج کشی سرفہرست ہیں۔ ان میںسے ہر مسئلہ حل کا تقاضا کررہا ہے اور حکومت کو  اس کی طرف توجہ دینا ہوگی، البتہ گاڑی کو پٹڑی پر لانا ترجیح اول ہونا چاہیے۔

___ جہاں تک وزیرستان اور بلوچستان کا تعلق ہے، حکومت کو فوج کشی ترک کر کے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ ہمیں یقین ہے کہ تمام معاملات سیاسی طریقۂ کار سے بحسن و خوبی حل ہوجائیں گے۔ امریکا سے صاف کہنے کی ضرورت ہے کہ بہت ہوچکی (enough is enough)۔ موجودہ قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ امریکا کو ہماری ضرورت ہے، ہمیں امریکا کی اتنی ضرورت نہیں۔ اس لیے نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

___  معاشی معاملات زیادہ سنجیدہ ہیں، حکومت کو تین چیزیں ضرور کرنی چاہییں:

  • پہلی اور سب سے اہم یہ ہے کہ سارے حقائق قوم کے سامنے لائیں اور جھوٹ کی بنیاد پر جو پالیسیاں اور طفل تسلیاں دی جاتی رہی ہیں، ان کا پردہ چاک کیا جائے اور آیندہ کے لیے پالیسی کی بنیاد حقائق اور قوم کی حقیقی ضروریات اور ترجیحات ہوں۔ بیرونی قوتوں کی ریشہ دوانیاں اور متمول اور بااثر طبقات کے مفادات کا تحفظ نہ ہو۔ یہ ایک انقلابی اقدام ہوگا جو معیشت کی صحیح رخ پر تشکیل نو کے لیے نقطۂ آغاز ثابت ہوگا۔
  • دوسری بنیادی بات حکومت اور اُوپر کی ہرسطح پر حقیقی اور قابلِ لحاظ کفایت شعاری کا اختیار کیا جانا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس سے جو وسائل حاصل ہوں گے، وہ محدود ہوں گے لیکن یہ ایک انقلابی قدم ہوگاکہ قربانیاں صرف غریب نہیں دے رہے ہیں قیادت اس سے زیادہ قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔
  • تیسری چیز معاشی پالیسیوں پر کھلی بحث اور ملک کے بہترین دماغوں کو سرجوڑ کر حالات پر قابو پانے اورنئی پالیسیاں تشکیل دینے کے کام پر لگا دینا ہے۔ سب سے بڑھ کر ایک نئی اپروچ کی ضرورت ہے۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں دولت کی ریل پیل کے باوجود غربت، افلاس، فاقہ کشی اور خودکشی ہے ، جب کہ غزہ میں اسرائیل کے سارے مظالم، پابندیوں اور کاروبار کے قتل کے باوجود، گو غربت کی سطح آبادی کے ۶۰ فی صد تک پہنچ چکی ہے مگر فاقہ کشی سے موت اور معاشی اسباب سے خودکشی کی کوئی مثال نہیں۔

اس کی بنیادی وجہ غزہ کی آبادی اور وہاں کی قیادت اور متمول افراد کا یہ کردار ہے کہ جو کچھ ان کے پاس ہے اس میں تمام شہریوں کو شامل کر رہے ہیں، مسجدوں میں اجتماعی کھانے کا اہتمام ہوتا ہے اور جو جس کے پاس ہے، لے آتا ہے اور سب اس میں شریک ہوجاتے ہیں۔ غربت ہے مگر عزائم بلند ہیں اور اجتماعی کفالت کی بنیاد پر اسرائیل جیسے طاقت ور دشمن کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اگر غزہ کے مسلمان یہ مثال قائم کرسکتے ہیں تو ہم پاکستانی اس سمت میں کیوں پیش قدمی       نہیں کرسکتے؟ معاشی مسائل اور مشکلات حقیقی ہیں لیکن ان کا حل ممکن ہے بشرطیکہ ہم خود غرض، نفس پرست اور ہوس کے پجاری نہ بنیں، بلکہ اسلام کی دی ہوئی ہدایات کی روشنی میں اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔

نومنتخب اسمبلی اور مخلوط حکومت تاریخی دوراہے پر ہے۔ صحیح فیصلہ اور صحیح اقدام کرکے وہ ملک کو ایک تابناک مستقبل کی طرف لے جاسکتی ہے۔ کیا مخلوط حکومت اس چیلنج کا مقابلہ ایمان، غیرت اور حکمت سے کرنے کا عزم اور صلاحیت رکھتی ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابی نتائج پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ملک کی قیادت، خصوصیت سے نومنتخب قیادت، عوام کی واضح راے اور ان کے جذبات، احساسات اور توقعات کے مطابق اپنا کردار ادا کرتی ہے اور ملک کو اس دلدل سے نکالنے کی مؤثر کوشش کرتی ہے، جس میں شخصِ واحد کی حکمرانی کے آٹھ برسوں نے اسے پھنسا دیا ہے تو یہ  دن ایک تاریخی موڑ ثابت ہوسکتا ہے۔

اس لیے سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ عوام کی راے اور سوچ دراصل ہے کیا۔  یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان کی سوچ اور رجحان کا صحیح صحیح تعین کیا جائے اور ان انتخائی نتائج کا گہری نظر سے تجزیہ کرکے اس پیغام کا ٹھیک ٹھیک ادراک کیا جائے جو عوام نے دیا ہے۔ ایک اور پہلو آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے، اور وہ یہ کہ انسانی معاملات میں مشیت الٰہی کے بنیادی قوانین کی کارفرمائی ہے۔ انسان اپنی سی کوشش کرتا ہے مگر: ’’اللہ تعالیٰ کی اپنی تدبیر ہوتی ہے اور بالآخر اللہ کی تدبیر ہی غالب رہتی ہے‘‘ (اٰل عمرٰن ۳:۵۴)۔ حکمرانوں اور ان کے بیرونی آقائوں نے کیا نقشہ بنایا تھا اور اللہ تعالیٰ نے کس طرح اس نقشے کو درہم برہم کردیا اور ایک دوسرا ہی    نقشہ سب کے سامنے آگیا___ اگر اب بھی یہ قوم اور اس کی قیادت غیبی اشاروں کی روشنی میں نئے مواقع سے فائدہ نہیں اٹھاتی، ماضی کی غلطیوں کی اصلاح نہیں کرتی اور واضح امکانات کے حصول میں کوتاہی کرتی ہے تو یہ ناقابلِ معافی جرم ہوگا۔

انتخابی نتائج کا تجزیہ

اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ پورا انتخابی عمل (process) پہلے دن سے خاص نتائج حاصل کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا اور اس کا اعتراف اور ادراک بھی بڑے پیمانے پر ہوچلا تھا۔ عالمی مبصرین ہوں یا حقوقِ انسانی کی ملکی اور غیرملکی تنظیمیں، سب نے اعتراف کیا ہے کہ عدلیہ کی برخاستگی، میڈیا پر پابندیاں، الیکشن کمیشن کا جانب دارانہ کردار، من پسند عبوری حکومت کی تشکیل، ووٹوں کی فہرستوں میں گڑبڑ، انتظامی عملے کا تعین اور تبادلے، مقامی حکومتوں کی کارگزاریاں،  غرض ہرپہلو سے کچھ خاص نتائج حاصل کرنے کے لیے سارے انتظامات کیے گئے تھے۔ الیکشن کے دن بڑے پیمانے پر کُھل کھیلنے کا پورا پورا اہتمام تھا، مگر مختلف وجوہ سے اس کھیل کے آخری مرحلے میں بازی پلٹ گئی اور چند مقامات (خصوصیت سے کراچی اور بلوچستان وغیرہ میں مخصوص نشستیں) کے سوا نقشہ بدل گیا اور عوام نے اس انداز میں اپنی راے کا اظہار کیا کہ ’سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا‘ والی کیفیت پیدا ہوگئی۔ لیکن ناسپاسی ہوگی اگر ریکارڈ کی خاطر ان اسباب اور عوامل کا تذکرہ نہ کیا جائے جو کھیل کو اُلٹ پلٹ کرنے کا ذریعہ بنے۔

ا- کُل جماعتی جمہوری اتحاد نے جس اصولی موقف کو اختیار کیا اور انتخابی عمل کے ناقابلِ قبول ہونے کی وجہ سے انتخابات کا بائیکاٹ کیا، اس کی وجہ سے انتخابات میں دھاندلی کا ایشو مرکزی حیثیت اختیار کرگیا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے بھی اس مسئلے کو اس حد تک اٹھایا کہ دھاندلی کی صورت میں ۱۹فروری سے احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔ اس دبائو کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔

ب- بیرونی مبصرین اور صحافیوں کی موجودگی اور میڈیا کا فوکس جس میں یہ دبائو روز بہ روز بڑھتا رہا کہ انتخابات کے دن بڑے پیمانے پر دھاندلی ناقابلِ برداشت ہوگی۔ حکومتی، صحافتی اور عوامی سطح پر اس عالمی دبائو نے بھی اپنا اثر ڈالا۔

ج- فوج کے چیف آف اسٹاف کا یہ اعلان کہ انتخابات میں فوج کا کوئی کردار نہیں اور فوج صرف امن و امان میں مدد کے لیے موجود رہے گی۔

د- قواعد میں یہ تبدیلی کہ انتخابی نتائج ریٹرنگ افسر سیاسی نمایندوں کی موجودگی میں مرتب کریں گے اور ان کی تصدیق شدہ کاپی پولنگ اسٹیشن پر ہی امیدوار کے نمایندوں کو دے دی جائے گی، تاکہ انتخابی نتائج کو تبدیل نہ کیا جاسکے۔

ان چاروں عوامل کا مجموعی اثر یہ ہوا کہ ’انتخابی انجینیری‘ (engineering)اور ’قبل از انتخاب دھاندلی‘ کے باب میں جو کچھ ہونا تھا وہ تو ہوگیا، لیکن انتخابات کے روز دھاندلی میں بیش تر مقامات پر نمایاں فرق پڑا۔

  • چنیدہ دھاندلی تو ضرور ہوئی لیکن پورے انتخابی عمل کو اُلٹ پلٹ کرنے اور پہلے سے طے شدہ نتائج کو مسلط کرنے کا کھیل ناکام ہوگیا۔

عوام کا فیصلہ

دوسرا بنیادی اور اہم سوال یہ ہے کہ عوام نے جس راے کا اظہار کیا ہے اور جس شدت سے کیا ہے، وہ کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں، اس پر ہم ذرا تفصیل سے بات کرنا چاہتے ہیں۔

ملک اور ملک سے باہر اس امر کا اعتراف توسب کر رہے ہیں کہ یہ انتخاب عملاً پرویز مشرف، ان کی حکومت (اعوان و انصار) اور ان کی پالیسیوں کے خلاف ایک ریفرنڈم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ملک کے تمام ہی اخبارات اور نیوز چینلوں نے بالاتفاق اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ قوم کی جس راے کا اظہار گذشتہ ایک سال سے راے عامہ کے جائزوں کی صورت میں ہورہا تھا، انتخابات کے ذریعے عوام نے اس پر مہرتصدیق ثبت کردی اور ثابت ہوگیا کہ ملک کے ۸۲ فی صد عوام نے پرویز مشرف کی صدارت اور ان کا ساتھ دینے والی پارٹیوں کو رد کردیا ہے اور تمام     بے قاعدگیوں، سرکاری سرپرستی اور جزوی دھاندلیوں کے باوجود صرف ۱۸ فی صد آبادی نے    ان لوگوں کی تائید کی ہے جو مشرف صاحب کے ساتھ تھے۔ نیز صدرمشرف کی کابینہ کے ۲۳ وزرا  اورمسلم لیگ (ق) کے صدر سمیت سب کے تاج زمیں بوس کردیے۔ یہ وہ کیفیت ہے جسے حتمی طور پر  مسترد کرنا کہتے ہیں۔

یہی وہ کیفیت ہے جس کا اعتراف نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے الیکشن کے بعد اپنے نمایندوں کی رپورٹوں کے علاوہ اپنے ادارتی کالموں میں بھی کیا ہے کہ یہ عوام کا فیصلہ (verdict )ہے اور مشرف کو نوشتۂ دیوار کو پڑھنے کامشورہ دیا ہے کہ پاکستانی عوام نے ان کے صدارتی مینڈیٹ کو غیرآئینی (illegitmate) قرار دیا ہے: ’’انھوں نے سابق جرنیل کو بھاری اکثریت سے مسترد کرنے کا پیغام دیا ہے‘‘۔

یہی بات انگلستان کے اخبارات خصوصیت سے دی ٹائمز، دی گارجین اور دی انڈی پنڈنٹ نے لکھی۔ ان سب کا پیغام ایک ہی ہے، جسے دی انڈی پنڈنٹ نے ۲۱فروری کے اداریے کے الفاظ میں بیان کیا ہے:

پاکستان کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ کثیرجماعتی جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی طرف واپسی ہے۔ پاکستان کے گذشتہ عشرے نے اگر کوئی سبق سکھایا ہے تو وہ یہ ہے کہ آمریت انتہاپسندی کو ختم نہیں کرتی بلکہ اس کونشوونما دیتی ہے۔ فوجی حکومت استحکام کا صرف ایک فریب فراہم کرتی ہے۔ ہمارے مفاد میں ہے کہ یہ پاکستان میں واپس نہ آئے۔ (دی انڈی پنڈنٹ، ۲۱ فروری ۲۰۰۸ئ)

لیکن سب سے دل چسپ تبصرہ روزنامہ نیوزڈے کا ہے جو ریکارڈ پر لانا مفید ہوگا:

پاکستان میں ووٹرز نے اس ہفتے صدر پرویز مشرف کو ایک سراسیمہ کردینے والی شکست سے دوچار کردیا، اور اس طرح اس خطرناک ملک میں جمہوری حکومت کو بحال کرنا ممکن بنا دیا ہے۔ درحقیقت پیر کے پاکستان کے انتخابات میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے صدر جارج بش تھے۔ (نیوزڈے، ۲۲فروری ۲۰۰۸ئ)

امریکا اور یورپ کے اخبارات اور سیاسی مبصرین نے اپنے اپنے نقطۂ نظر سے بات کی ہے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے نئی چالیں تجویز کی ہیں جو اس تحریر میں زیربحث نہیں، البتہ جو بات ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ الیکشن کے نتائج کو ملک اور ملک سے باہر پرویزمشرف، ان کے سیاسی طرف داروں اور ان کے بین الاقوامی پشتی بانوں اور ان کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں سے پاکستانی عوام کی عظیم اکثریت کی طرف سے مکمل برأت کا اظہار سمجھا گیا ہے۔ اس نوشتۂ دیوار کے سوا کوئی اور نتیجہ نکالنا عقل و انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ چودھری شجاعت حسین، مشاہد حسین سید، چودھری امیرحسین، شیخ رشیداحمد، اعجازالحق بھی کھلے بندوں کہہ رہے ہیں کہ ہمیں پرویزمشرف کی پالیسیاں خصوصیت سے لال مسجد کا خونی المیہ، امریکا کی اندھی اطاعت، بلوچستان اور وزیرستان کی فوج کشی، آٹے، چینی اور بجلی کا بحران لے ڈوبے۔

ان انتخابات سے صرف ایک ہی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے اور وہ وہی ہے جس کا اظہار پاکستانی عوام بار بار عوامی جائزوں کی شکل میں کر رہے تھے کہ:

  • مارچ ۲۰۰۷ء کے بعد سے پرویز مشرف کا نام پاکستان کے آج تک کے حکمرانوں میں سب سے زیادہ نامقبول ترین شخصیت اور عوامی نفرت کی علامت بن گیا ہے، یعنی ایک ایسا حکمران جس سے عوام جلد از جلد نجات چاہتے ہیں اور اس کے اقتدار کو کسی قیمت پر قبول کرنے کو تیار نہیں۔ یہ پرویز مشرف کے دل کا چور ہی تھا جس نے دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوجی وردی میں ایسی اسمبلیوں سے جو اپنی مدت عمر پوری کرچکی تھی اپنا انتخاب کرایا اور جب عدلیہ      سے اس ڈرامے کو خلافِ دستور قرار دیے جانے کا خطرہ نظر آیا تو سپریم کورٹ ہی پر ضرب لگا دی اور عدالت عالیہ کے ۵۳ ججوں کو فارغ کردیا۔ اب عوام نے اس اسمبلی کے ارکان کو رد کر کے صدارتی الیکشن کے سارے کھیل کو ایک فراڈ قرار دے دیا اور اس انتخاب کے ناقابلِ قبول ہونے پر مہرتصدیق ثبت کردی۔
  • پرویزمشرف کی نامقبولیت اور ان سے بیزاری اور نفرت کی وجہ ان کی وہ پالیسیاں   بھی ہیں، جو انھوں نے اپنے زعم میں پاکستان کے ’مفاد‘ میں اور پاکستانی قوم کی نگاہ میں محض اپنے ذاتی مفاد اور امریکا کی غلامی میں اختیار کی ہیں جن میں سرفہرست نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں شرکت ہے۔ اس جنگ میں پاکستان کی فوج کو جھونک دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں قبائلی علاقوں میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، اور دونوں طرف سے تباہی مچائی جارہی ہے۔ فوج اپنے ہی لوگوں کے خلاف استعمال ہورہی ہے اور وہ جو قوم کے بازوے شمشیرزن تھے اب  اپنی ہی فوج، سرکاری اداروں اور عام شہریوں کے خلاف خون خرابے میں ملوث نظر آرہے ہیں۔

پرویز مشرف کا ردعمل

پرویز مشرف حقائق کو تسلیم نہ کرنے کی روش پر قائم ہیں اور جس نفسیاتی کیفیت کا مظاہرہ کررہے ہیں،وہ انتہائی خطرناک ہے۔ شاید یہ ان کی شخصیت کا خاصّہ ہے اس لیے کہ اپنی خودنوشت میں اپنے بچپن کا جو نقشہ خود انھوں نے کھینچا ہے، اس میں وہ ایک ’داداگیر‘ کے روپ میں نظر آتے ہیں۔ انھیں قوت کے جا وبے جا استعمال کا شوق ہے اور اس کھیل کو وہ اپنی حکمت عملی سمجھتے ہیں۔   ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے دوسروں کی تحقیر و تضحیک میں ان کو لطف آتا ہے۔ ان کے اس ذہن کی عکاسی اس انٹرویو تک میں دیکھی جاسکتی ہے جو الیکشن سے صرف تین دن پہلے انھوں نے جمائما خان کو دیا ہے اور جنرل (ر) پرویز مشرف کی اصل شخصیت کو سمجھنے میں مددگار ہے۔ اس انٹرویو میں    وہ اعتراف کرتے ہیں کہ جن سیاسی لیڈروں کو وہ کرپٹ اور قوم کو لوٹنے والا کہتے تھے اور جن پر گرفت اور ان کو کیفرکردار تک پہنچانے کا دعویٰ کرکے وہ اقتدار پر قابض ہوئے تھے، ان کو    معافی دینے، ان سے سمجھوتہ کرنے اور ان کے ساتھ اشتراکِ اقتدار کے لیے وہ آمادہ ہوئے تھے اور یہ صرف انھوں نے امریکا اور برطانیہ کے دبائو میں اور صرف اپنی کرسی کو بچانے کے لیے کیا ہے۔

اس انٹرویو میں انھوں نے مسلم لیگ (ق) اور  ایم کیو ایم کے بارے میں اس اعتماد کا اظہار کیا تھا کہ اگلی حکومت وہ بنائیں گے اور ساتھ ہی انھوں نے راے عامہ کے سارے جائزوں کا مذاق اڑایا تھا اور پورے میڈیا کی راے پر عدمِ اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ یہ بھی فرمایا کہ یہ سب میرے مخالف ہیں۔ اگر کوئی ان کا دوست ہے اور ان کے خلاف نہیں وہ مغربی اقوام کے لیڈر ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے، جمائما لکھتی ہیں:

درحقیقت ان کے مطابق جو لوگ ان کے مخالف نہیں ہیں، وہ صرف مغربی لیڈر ہیں جو مکمل طور پر ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں۔

یہ بات بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ انتخابی نتائج کے سامنے آنے کے بعد بھی پرویزمشرف کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں اور نہ انھیں اپنی ناکامی کا کوئی احساس ہے۔ اب بھی وہ امریکا کی بیساکھیوں کی تلاش میں ہیں، جس کا بین ثبوت وہ مضمون ہے جو موصوف نے امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا ہے۔ اس مختصر مضمون کو پڑھ کر سرپیٹ لینے کو جی چاہتا ہے کہ اس مظلوم ملک کے حکمرانوں کی سوچ کی سطح کس قدر پست ہے۔

مضمون کا عنوان ہے: A Milestone on The Road to Democracy لیکن اس مضمون میں انتخابات کا جو پیغام خود حضرت کے لیے ہے اس کا کوئی شعور اور احساس ہی نہیں بلکہ اس ہٹ دھرمی کا اظہار ہے کہ وہ صدر رہیں گے اور اپنے تین مقاصد، یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگ، جمہوریت کے استحکام اورمعاشی ترقی کے تحفظ کا پھر اعادہ کیا ہے۔ فرماتے ہیں:

میں ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے نئی منتخب حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔

 اس مضمون کا اصل مقصد امریکا کی تائید حاصل کرنا اور اپنے اور امریکا کے مقاصد کی    ہم آہنگی کا اظہار ہے:’’لیکن ہماری کامیابی کے لیے ضروری ہوگا کہ امریکا کی مسلسل حمایت  حاصل رہے‘‘۔

نہ کوئی خود احتسابی ہے، نہ عوام کے فیصلے کا کوئی احساس یا شعور ہے، نہ اپنی ناکامیوں کا کوئی ادراک ہے اور جس بیرونی مداخلت، قومی حاکمیت اور غیرت کی قربانی کے خلاف قوم اُٹھ کھڑی ہوئی اسی غلامی کو مستحکم کرنے اور اس میں امریکا کی مدد حاصل کرنے کی بھیک اس مضمون میں مانگی گئی ہے۔ خود فوج کے بارے میں ایک جملہ ایسا ہے جو ان کے ذہن کا غماض ہے:

ہماری مسلح افواج پُرعزم ہیں، پیشہ ور ہیں اور ملک میں امن و امان قائم رکھنے اور سیاسی نظام کو برقرار رکھنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔

افواجِ پاکستان کی ذمہ داری، وطن کا دفاع اور امن عامہ کے قیام میں اس وقت   معاونت ہے کہ جب دستور کے تحت سیاسی قیادت اس کو طلب کرے۔ سیاسی نظام کا تحفظ نہ فوج کی ذمہ داری ہے اور نہ فوج اس کی اہل ہے، بلکہ وہ تو سیاست میں کسی صورت میں مداخلت نہ کرنے کا عہد کرتی ہے، اس کی محافظ کیسے ہوسکتی ہے لیکن پرویز مشرف آج بھی اسے سیاسی نظام کا ضامن قرار دے رہے ہیں۔

اس مضمون کا مرکزی موضوع بھی وہی ہے جو امریکی صدر بش کا پسندیدہ مضمون ہے، یعنی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ۔ حالانکہ پاکستان کا اصل مسئلہ فوج کی بے جا مداخلت، شخصی حکمرانی کا عفریت، انصاف کا فقدان، عدالت پر جرنیلی یلغار، معاشی ناانصافی، غربت،   بے روزگاری اور مہنگائی ہے۔ علاقائی ناہمواریاں اور مرکز اور صوبوں میں تصادم کی کیفیت اور  فوجی قوت کا اپنی ہی آبادی کے خلاف استعمال ہے۔ الیکشن کا اصل ایشو اور حاصل مشرف بش کے ایجنڈے کو مسترد کرنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نیوزڈے نے ادارتی کالم میں اعتراف کیا ہے کہ ۱۸فروری کے انتخابات میں صدر پرویز مشرف ہی نہیں جارج بش بھی شکست کھا گئے ہیں۔

انتخابی نتائج کا تقاضا

اس پوری بحث کا حاصل یہ ہے اور انتخابات کے نتائج کا تقاضا ہے کہ پرویز مشرف اپنی شکست تسلیم کریں اور سیدھے سیدھے استعفا دیں۔ نیز ان کی جن پالیسیوں کے خلاف عوام نے اپنے فیصلے کا اظہار کر دیا ہے ان پر بھی بنیادی طور پر نظرثانی ہو، جس میں اہم ترین یہ ہیں:

۱- پاکستانی عوام شخصی آمریت اور سیاست میں فوج کی مداخلت کے خلاف ہیں اور وہ حقیقی جمہوری نظام کے قیام کے داعی اور طرف دار ہیں۔ پرویز مشرف نے جو طرزِ حکمرانی اختیار کیا وہ ناقابلِ قبول ہے۔ مشرف کے ساتھ ان کا دیا ہوا نظام، پالیسیاں اور ان کا اندازِ کار عوام نے رد کردیا ہے۔آئی آر آئی اور گیلپ دونوں کے سروے بھی عوام کے اس رجحان کے عکاس ہیں، یعنی ۶۹ فی صد نے کہا کہ سیاست میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے اور ۷۵ فی صد نے کہا کہ مشرف استعفا دے دیں۔

۲- الیکشن میں بنیادی ایشو چیف جسٹس اور عدالت عالیہ کی بحالی اور نظامِ عدل کو اس کی اصل دستوری بنیادوں پر مرتب اور مستحکم کرنا ہے۔ یہ تحریک ۹مارچ ۲۰۰۷ء کو شروع ہوئی ہے اور ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کو قوم نے اس تحریک کی تائید کرکے اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ ہمیں یہ بات کہنے میں ذرا بھی باک نہیں کہ جن جماعتوں کو عوام نے جتنا بھی مینڈیٹ دیا ہے، وہ بنیادی طور پر عدلیہ کی آزادی اور بحالی کے حق میں اور پرویز مشرف کے خلاف ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے حق میں تائیدی لہر کی اصل کارساز قوت یہی ہے ___ ایک مغربی صحافی نے درست لکھا ہے کہ: ’’اصل ووٹنگ تو دو ناموں پر ہوئی ہے، حالانکہ وہ بیلٹ پیپر پر لکھے ہوئے نہیں تھے۔ لیکن اصل انتخاب انھی کے درمیان تھا، یعنی ’چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری‘ اور ’صدر پرویز مشرف‘۔ عوام کی بھاری اکثریت نے جسٹس افتخارمحمد چودھری کی تائید کی اور پرویزمشرف کا پتا. ّ کاٹ دیا‘‘۔ یوں عدالت کی بحالی اور آزادی ہی اس بحث کا اصل عنوان ہے اور دستور کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی اس کا اصل مقصد اور محور ہے۔

۳- تیسرا بنیادی ایشو جو ان انتخابات میں زیربحث آیا ہے اس کا تعلق اس شرمناک صورتِ حال سے ہے جو امریکا کی بالادستی اور ملک پر کھلی اور خفی مداخلت سے پیدا ہوئی ہے اور جس کی وجہ سے اب ہماری آزادی اور حاکمیت ہی خطرے میں ہے۔ چند بلین ڈالروں کے عوض پاکستانی افواج کو عملاً امریکا کے لیے کرائے کا لشکر (mercenary) بنانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی   نام نہاد جنگ میں ہم نے اپنے کو آلودہ کرلیا ہے اور اس کے نتیجے میں ہمارے اپنے ملک میں دہشت گردی کو فروغ مل رہا ہے حالانکہ اس جنگ میں شرکت سے پہلے یہ کوئی مسئلہ نہ تھا۔    راے عامہ کے ایک عالمی ادارے کے جائزے کی رو سے عوام کی نگاہ میں اہم ترین مسئلہ مہنگائی   اور بے روزگاری ہے۔ ۵۵ فی صد افراد مہنگائی کو اور ۱۵ فی صد بے روزگاری کو اصل مسئلہ قرار دیتے ہیں، جب کہ تمام زوردار پروپیگنڈے کے باوجود دہشت گردی کو صرف ۱۲ فی صد نے اہم ترین مسئلہ قرار دیا ہے۔

تفصیل میں جائے بغیر ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اب امریکا کا عمل دخل ہماری پالیسی سازی، ہماری سرحدوں کی بے حرمتی، ہماری سرزمین کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے اور پاکستان کی قیادت کی تلاش اور سیاسی جوڑ توڑ کی سرگرمیوں تک میں ہے۔ ان انتخابی نتائج نے پرویز مشرف کے اس غلامانہ رویے، خوف اور دبائو کے تحت رونما ہونے والے دروبست کو تبدیل کرنے اور پوری خارجہ پالیسی کو درست سمت دینے کا پیغام دیا ہے۔ اس انتخاب کے ذریعے عوام نے پوری قوت کے ساتھ پاکستانی قوم کے امریکی جنگ کا حصہ بننے سے اپنی براء ت کا اعلان کردیا ہے۔ پاکستانی عوام یہ چاہتے ہیں کہ اپنے مسائل کو اپنی اقدار اور روایات کے مطابق حل کریں اور دوسروں کی جنگ میں حرام موت مرنے کا راستہ اختیار نہ کریں۔

۴- قوم پرویز مشرف اور ان کی معاشی ٹیم کی مسلط کردہ معاشی پالیسیوں سے بھی نالاں ہے۔ نمایشی ترقی اور اس کے ڈھول پیٹنے سے کچھ عرصے تک تو عوام کو دھوکا دیا جاسکتا ہے، لیکن جب مغرب کے سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کے تصورات اور مفادات پر مبنی پالیسیوں کے تلخ نتائج  لوگوں کے سامنے آتے ہیں تو پھر پروپیگنڈے کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے۔ توانائی کا میدان ہو یا زرعی پیداوار کا، صنعت و حرفت کا مسئلہ ہو یا تجارتی اور ادایگی کے توازن کا، ضروریاتِ زندگی کی فراہمی  کا مسئلہ ہو یا اشیاے ضرورت کی قیمتوں کا، قرضوں کا بوجھ ہو یا افراطِ زر کے مسائل، دولت کی   عدمِ مساوات کی بات ہو یا صوبوں اور علاقوں کے درمیان تفاوت کی کش مکش___ غرض ہر پہلو سے عام آدمی کی معاشی مشکلات بڑھ گئی ہیں، کم نہیں ہوئیں اور جن ’کارناموں‘ کا شور تھا وہ سب ایک ایک کر کے پادر ہوا ہو رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اب ملک پر بیرونی اور اندرونی قرضوں کا بار ۱۹۹۹ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ مہنگائی کئی گنا بڑھ گئی ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور غربت کم ہونے کو نہیں آرہی۔ تجارتی خسارہ اب ۱۸ ارب ڈالر سالانہ کی حدوں کو چھو رہا ہے اور  جن بیرونی ذخائر کی دھوم تھی اب ان کے لالے پڑگئے ہیں۔

۵- بھارت کے تعلقات کا ڈھول تو بہت پیٹا گیا مگر حاصل کچھ نہیں ہوا، البتہ قیمت بہت بڑی ادا کی گئی ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر اصولی موقف کی تبدیلی کے نتیجے میں کشمیری عوام مایوس ہوئے ہیں اور تحریکِ مزاحمت کمزور پڑگئی ہے۔ مشرف کی افغانستان کی پالیسی بھی بری طرح ناکام رہی ہے۔ اسرائیل سے دوستی کے اشارے اور اُمت مسلمہ کے مسائل سے بے توجہی اس دور کا شعار رہی ہے۔ جس طرح امریکا سے تعلقات کے مسئلے اور خارجہ پالیسی پر قوم نے نظرثانی اور بنیادی تبدیلیوں کی خواہش کا اظہار کیا ہے اسی طرح خارجہ سیاست کے دوسرے پہلو بھی نظرثانی کا تقاضا کرتے ہیں۔ اُمت مسلمہ کی وحدت ہی پاکستان اور تمام مسلم ممالک کی قوت ہے۔

۶- نام نہاد روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر ایک طرف قوم میں نظریاتی کش مکش اور تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو دوسری طرف دینی احکام، اقدار اور آداب سے روگردانی، سیکولرزم کے فروغ کی کوشش اور مغربی تہذیب و ثقافت اور ہندوکلچر کو عام کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے، جس سے معاشرے میں تہذیبی انتشار رونما ہوا ہے۔

۷-  صوبائی حقوق کی پامالی، صوبوں کو ان وسائل سے محروم رکھنا جو ان کا حق اور ان میں پائے جانے والے معاشی ذخائر کا حاصل ہیں، نیز علاقائی، لسانی اور فرقہ وارانہ جماعتوں اور گروہوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے جن کا سب سے بڑا نقصان ملک میں  مرکز اور صوبوں کے درمیان فاصلوں کا بڑھنا ہے۔

یہ وہ سات بڑے بڑے پالیسی ایشوز ہیں، جن پر انتخابات میں قوم نے اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کیا ہے اور اب سیاسی قیادت کے سامنے اصل سوال یہ ہے کہ پرویز مشرف کی دی ہوئی پالیسیوں کو کس طرح تبدیل کریں، تاکہ ملک و قوم ان مقاصد کی طرف پیش رفت کرسکیں جن کے قیام کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا۔

انتخابی نتائج کا بنیادی پیغام تو یہی ہے البتہ ان بنیادی پہلوئوں کے ساتھ ایک اور پہلو بھی قابلِ غور ہے اور وہ یہ کہ جہاں عوام نے پرویزمشرف، ان کے ساتھیوں، ان کے بیرونی سرپرستوں اور ان کی ملکی پالیسیوں کو رد کیا ہے ، وہاں انھوں نے کسی ایک سیاسی جماعت کو حکمرانی کا مکمل اختیار (مینڈیٹ) نہیں دیا، بلکہ دو بڑی جماعتوں کو اس طرح کامیاب کیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کے بغیر مستحکم سیاسی دروبست قائم نہیں کرسکتیں۔ ہماری نگاہ میں اس کی حکمت یہ ہے کہ عوام نے ان جماعتوں کے منشور کی اس طرح تائید نہیں کی جس طرح عام سیاسی ماحول میں کسی ایک رخ کو متعین کیا جاتا ہے۔ اس منقسم اختیار (split mandate) کا تقاضا یہ ہے کہ تمام جماعتیں مل کر پہلے اس بگاڑ کی اصلاح کریں، جو پچھلے آٹھ برسوں میں واقع ہوا ہے۔اس کے ساتھ منشوروں کے مشترک نکات پر کام ہو، تاکہ بنیادی آئینی اصلاحات کے بعد پھر قوم کی طرف رجوع ممکن ہو تاکہ وہ سیاسی پارٹیوں کو ان کی پالیسیوں کی روشنی میں حکمرانی کا نیا مینڈیٹ دے سکیں۔

یہ ایک عبوری دور ہے، اور اس دور میں زیادہ سے زیادہ قومی مفاہمت پیدا کرنے اور مشترکات کے حصول کو اصل ہدف بنانے کی کوشش کی جائے۔ اس منقسم حق حکمرانی سے عوام کی راے کا یہی رخ ظاہر ہوتا ہے۔ مشرف دور کی بدانتظامی، بے اعتدالی اور لاقانونیت کی اصلاح اور مستقبل میں منصفانہ اور غیرجانب دارانہ انتخابات کے نظام کا قیام اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ اسی طرح دستور کی روشنی میں فوج کے صرف دفاعی کردار کو مستحکم بنانا اور خارجہ پالیسی کی ملّی اُمنگوں کے مطابق تشکیل نو ہے۔اس ایجنڈے پر عمل کرنے میں نئی اسمبلیوں اور سیاسی قیادت کا اصل امتحان ہے۔ ہماری توقع اور دعا ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے دونوں بڑی پارٹیاں اصل توجہ ان ترجیحات پر دیں گی جو عوام کے اس مینڈیٹ کا حاصل ہیں۔ خود ان کو بھی اس کا کچھ ادراک ہے جس کا اظہار میثاقِ جمہوریت کی متعدد دفعات سے ہوتا ہے۔ نئی قیادت کی اصل ذمہ داری ملک میں عدلیہ کی بحالی، دستوری نظام کے قیام، آزادیوں کے تحفظ اور فیصلہ سازی میں پارلیمنٹ اور عوام کی شرکت کو یقینی بنانا ہے۔ اسی میں ان کا امتحان ہے اور جو وقت ان کو حاصل ہے وہ بھی کم ہے۔

اے پی ڈی ایم کی حکمت عملی اور اثرات

ان انتخابی نتائج کے حصول میں عوام، تمام سیاسی جماعتوں اور میڈیا نے جو کردار ادا کیا ہے اس کا اعتراف اور ادراک ضروری ہے۔ اس سلسلے میں کُل جماعتی جمہوری اتحاد (APDM) نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان جماعتوں نے اصولی بنیادوں پر انتخابات کا بائیکاٹ کرکے اور اسمبلیوں میں اپنی نشستوں کی قربانی دے کر جو قومی خدمت انجام دی ہے اس کا اظہار اور اعتراف ضروری ہے۔

  • پہلی چیز یہ ہے کہ بائیکاٹ کی اس مہم کی وجہ سے ملک اور ملک کے باہر ۱۸فروری کے انتخابات میں دھاندلی کے منصوبے اور پروگرام کا پردہ چاک ہوا۔ جن جماعتوںنے حصہ لیا انھوں نے بھی اسے ایشو بنایا اور اعلان کیا کہ اگر حکمرانوں نے اپنی پسند کے نتائج قوم پر مسلط کرنے کی کوشش کی تو اس کے بڑے خطرناک نتائج ہیں۔ اس مہم نے دھاندلیوں کے لیے سدِجارحیت (deterrent ) کا کام کیا اور اس طرح جس کھیل کی پوری تیاری کی گئی تھی اور کہیں کہیں وہ ہاتھ  کی صفائی دکھائی بھی گئی مگر جس پیمانے پر خطرہ اور پروگرام تھا وہ نہیں ہوسکا۔ یوں انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے روکنے میں ایک اہم رول اس بائیکاٹ کی تحریک کا ہے جو خود ایک بڑی قومی خدمت ہے۔
  • بائیکاٹ کی تحریک کا دوسرا اور سب سے اہم نتیجہ یہ ہوا کہ ملکی سیاست اور انتخابات کا ایجنڈا تبدیل ہوگیا۔ پارٹیوں کے منشوروں کے بجاے اصل مسئلہ پرویزی آمریت اور حقیقی جمہوریت میں انتخاب کا بن گیا۔ عدلیہ کی آزادی اور ۲نومبر کی پوزیشن میں اس کی بحالی سب سے ضروری موضوع قرار پایا۔ جو جدوجہد چیف جسٹس نے ۹مارچ ۲۰۰۷ء کے پُرعزم فیصلے، وکلابرادری اور سول سوسائٹی کی ملک گیر جدوجہد سے شروع ہوئی تھی، وہ الیکشن کا اصل موضوع اور فیصلہ کن سوال بن گئی۔ بائیکاٹ کی اصل وجہ بھی یہی تھی کہ عدلیہ کی اپنی اصل شکل میں بحالی، دستور کی بالادستی اور الیکشن کمیشن کی خودمختاری کا اہتمام ہو۔ انتخابات میں عوام نے یک آواز ہوکر جس چیز کے حق میں ووٹ دیا وہ عدلیہ کی بحالی، فوج کی سیاست سے دُوری، شخصی آمریت کا خاتمہ اور انتخابی عمل کی شفافیت ہے۔ بائیکاٹ کی مہم نے سیاسی بحث کو زبان اور موضوع دیا اور قوم نے یکسوئی کے ساتھ اس پر اپنا واضح فیصلہ دے دیا، گویا    ؎

ہم نے جو طرز فغاں کی تھی قفس میں ایجاد

فیض، گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھیری ہے

  • بائیکاٹ کی مہم کا تیسرا فائدہ یہ ہوا کہ قومی اور علاقائی جماعتیں باہم شیروشکر ہوکر   اصولی بنیادوں پر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئی ہیں، اور ان کے درمیان فکری ہم آہنگی اور یگانگت کی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔ وہ قیادت جس کی حب الوطنی پر شبہہ کیا جاتا تھا، وہ پشتینی حب وطن کا دعویٰ کرنے والوں سے بھی آگے نکل گئی اور ۱۹۷۳ء کے دستور اور مرکز اور صوبوں میں انصاف اور ادایگی حقوق کی بنیاد پر اشتراکِ عمل کی بنیادیں مستحکم ہوئیں۔ محمودخان اچکزئی، قاضی حسین احمد، عمران خان، ڈاکٹر عبدالحی بلوچ، ڈاکٹر قادرمگسی، عابد حسن منٹو ایڈووکیٹ اور دوسرے رہنمائوں نے ملک کے طول و عرض میں ایک ہی زبان میں گفتگو کی اور ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ایک اسلامی، فلاحی اور جمہوری اور وفاقی پاکستان کو مستحکم کرنے کی دعوت عام دی۔ سیاست میں ایک تیسری فورس جو اصول اور انصاف کی علَم بردار ہو، پوری قوت سے روپذیر ہوئی اور جو انھی مقاصد کے حصول کی جدوجہد جاری رکھنے اور نئی قیادت کو بائیکاٹ اور انتخاب میں شرکت کرنے والی جماعتوں کے مشترک ایجنڈے پر عمل درآمد کرنے پر مجبور کرنے کی خدمت انجام دے رہی ہے۔ انتخاب کے بعد اے پی ڈی ایم کی قیادت نے ایک جملے میں سیاست کے رنگ کی اس تبدیلی کا اعلان کردیا ہے کہ جن مقاصد کے لیے ہم نے بائیکاٹ کیا اور آپ نے الیکشن میں شرکت کا دعویٰ کیا اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ان مشترک مقاصد کے لیے جدوجہد کریں اور ان کے حصول کو یقینی بنائیں، اور اگر الیکشن میں حصہ لینے والے اس معیار پر پورے نہیں اُترتے تو وہ بھی قوم کے احتساب کے لیے تیار رہیں۔

ملک کی سیاست میں اصولوں کی بنیاد پر سیاسی جدوجہد اور اشتراکِ عمل کی یہ ایک زریں مثال قائم ہوئی ہے، جس سے ہماری سیاست پر مستقل اور دُور رس اثرات مرتب ہوںگے۔

لادینی قوتوں کی کامیابی کا بے بنیاد دعویٰ

یہاں ہم ایک مسئلے پر مزید کلام کرنا چاہتے ہیں، جس کا تعلق اس سطحی بحث سے ہے جو ملک کے نام نہاد، لبرل اہلِ قلم اور خصوصیت سے بیرون ملک صحافی اور تھنک ٹینک کر رہے ہیں،  اور وہ یہ کہ: ’’ان انتخابات میں دینی قوتوں کو شکست ہوئی ہے اور لبرل اور سیکولر جماعتیں نئی طاقت کے ساتھ اُبھری ہیں‘‘۔ یہ ساری بحث ایک خاص سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی جارہی ہے اور   زمینی حقائق کو یکسرنظرانداز کرکے مفیدمطلب نتائج نکالے جارہے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی جماعت نے سیکولرزم کواپنے منشور میں بطور ہدف کے پیش نہیں کیا۔ سب نے پاکستان کے دستور پر حلف لیا ہے اور اس دستور کی بالادستی قائم کرنے کو اپنا اولین ہدف قرار دیا ہے اور یہ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور ہے۔ قرارداد مقاصد اس کا دیباچہ ہی نہیں، ایک قابلِ نفاذ (operational ) حصہ ہے۔ دستور میں اس ریاست کا ہدف قرآن وسنت کی بالادستی اور اسلام کے دیے ہوئے احکام و اقدار کے مطابق نظامِ حکومت کو چلانا قرار دیا گیا ہے اور یہی ریاست کے بنیادی اصولِ حکمرانی قرار پائے ہیں۔ بلاشبہہ ہرجماعت کا حق ہے کہ اس اسلامی فریم ورک میں اپنی سوچ کے مطابق اپنی ترجیحات اوران کے حصول کے لیے پروگرام کا اعلان کرے۔ لیکن اسے سیکولرزم اور لبرلزم اور اسلام کے درمیان انتخاب کی شکل دینا صرف خلط مبحث ہے۔ پیپلزپارٹی کے منشور کا بھی پہلا نکتہ یہی ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی اسلامی نظریۂ حیات ہی کو اپنا مقصد قرار دیا ہے۔ پھر یہ کہنا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو ووٹ ملنے سے محض لبرلزم اور سیکولرزم کی فتح اور دینی قوتوں کی شکست ہے، کیسے درست ہوسکتا ہے۔

دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ اگر کوئی چیز مسترد ہوئی ہے تو وہ پرویز مشرف اور ان کی جماعت مسلم لیگ (ق) ہے، جو روشن خیالی اور نام نہاد ’جدیدیت‘ کی خودساختہ علَم بردار تھی۔     یہ عجیب دعویٰ ہے کہ پرویزمشرف کو تو قوم نے ردکردیا مگر ان کے لبرلزم اور روشن خیالی کو رد نہیں کیا،   یہ تضاد نہیں تو کیا ہے؟

تیسری بات یہ ہے کہ دین اور دنیا اور مذہب اور سیاست کے رشتے کے اسلامی تصور اور مغربی تصور کو گڈمڈ کیا جا رہا ہے۔ مغرب کے لبرلزم میں الہامی ہدایت اور مذہبی اقدار واحکام کا تعلق فرد کی ذاتی زندگی سے ہے اور اجتماعی زندگی میں اس کا کوئی رول نہیں، جب کہ اسلام انسان کی پوری زندگی کو الہامی ہدایت کی روشنی سے منور کرتا ہے۔ شریعت کے معنی محض مغربی اصطلاح میں قانون کے نہیں، جس کے نفاذ کا انحصار ریاست کی قوت قاہرہ پر ہوتا ہے، بلکہ وہ پوری زندگی کے لیے ہدایت پر مشتمل ہے۔ وہ شریعت جو عقیدہ اور عبادات کے ساتھ انفرادی، خاندانی، اجتماعی، سیاسی، معاشی اور بین الاقوامی زندگی کے لیے بھی رہنمائی دیتی ہے۔ اس رہنمائی کے بڑے حصے پر عمل فرد اور معاشرہ کسی ریاستی قوت کے استعمال کے بغیر کرتا ہے، تاہم اس شریعت کا ایک حصہ    وہ بھی ہے جس کے لیے ریاستی قوت اور عدالت کا نظام کام کرتا ہے۔ مسلمان پوری دنیا میں    اپنے مذہب اور دین کو زندگی میں مرکزی اہمیت دیتے ہیں اور اپنی اجتماعی زندگی کو بھی شریعت کے نور سے منور کرنا چاہتے ہیں۔

راے عامہ کے وہی جائزے جو سیاسی پسند و ناپسند کے بارے میں ہوا کے رخ کو ظاہر کرتے ہیں، وہی زندگی کے اس پہلو پر بھی روشنی ڈالتے ہیں جن کا خلاصہ حال ہی میں شائع ہونے والی ایک کتاب Voice of the People 2006 میں دیا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں میں ۸۴ فی صد اپنے کو مذہبی قرار دیتے ہیں۔ گیلپ ہی نے اپنے ایک دوسرے سروے میں Gallup World Poll: Special Report on Muslim World  کی سیریز میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ان کے سروے کے مطابق آبادی کے ۴۱ فی صد نے یہ کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ شریعت ملکی قانون کا واحد سرچشمہ(only source) ہو، جب کہ مزید ۲۷فی صد نے کہا ہے کہ شریعت کو ایک سرچشمہ (one of the sources) ہونا چاہیے، اور شریعت کو قانونی ماخذ کے طور پر ضروری نہ سمجھنے والوں کی تعداد صرف ۶فی صد ہے۔ سروے کے مصنف لکھتے ہیں:

ہمارے مطالعے سے ظاہر ہونے والا ایک سب سے زیادہ واضح امر وہ غیرمعمولی اہمیت ہے جو مسلمان اپنے دین کو دیتے ہیں۔ اپنی ذاتی رہنمائی کے لیے بھی اور بحیثیت مجموعی معاشرے کی ترقی کے لیے بھی۔ اس سے بھی زیادہ (ہمارے لیے تعجب انگیز بات یہ تھی کہ) مسلمان خواتین اس بات سے متفق نظرآتی ہیں کہ پبلک پالیسی اسلامی اصولوں کی رہنمائی میں طے ہونا چاہیے۔

یہ ہیں اصل زمینی حقائق___ اور اس بات کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ مذہبی ووٹ اور مذہبی جماعتوں کا ووٹ ایک چیز نہیں۔ مسلمانوں کی عظیم اکثریت زندگی کے اجتماعی معاملات بشمول قانون، دین کی رہنمائی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اس حقیقت پر انتخابی نتائج کی سیاسی تقسیم سے پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔

چوتھی بنیادی بات یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کے ووٹ کے بارے میں بھی جو دعوے کیے جاتے ہیں، وہ مناسب تحقیق کے بغیر اور تمام ضروری معلومات کو حاصل کیے بغیر کیے جاتے ہیں۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ ماضی میں دینی جماعتوں کو ۲ سے ۵ فی صد تک ووٹ ملتا تھا حالانکہ یہ صریحاً    غلط بیانی ہے۔ مثلاً ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں تین دینی جماعتوں کو ملنے والے ووٹ کُل ووٹوں کا تقریباً ۱۵ فی صد تھے۔ کراچی میں ۱۹۷۰ء میں مذہبی جماعتوں کا کُل ووٹ ۴۵ فی صد تھا۔ صوبہ سرحد میں دینی جماعتوں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب ۱۹۷۰ء میں ۳۳ فی صد تھا۔ ۱۹۸۸ء ۱۹۹۰ء میں صرف جمعیت علماے اسلام نے شرکت کی تھی، جب کہ جماعت اسلامی آئی جے آئی کا حصہ تھے۔ تب صرف جمعیت علماے اسلام کے ووٹ ۱۹۸۸ء میں ۱۱ فی صد اور ۱۹۹۰ء میں ۲۰ فی صد تھے۔ ۱۹۹۳ء میں کُل ووٹ جو دینی جماعتوں نے حاصل کیے ۲۴ فی صد تھے، جو ۲۰۰۲ء میں متحدہ مجلس عمل کی صورت میں کُل صوبے کے ووٹوں کا ۴۵ فی صد تھا۔ (ملاحظہ ہو، گیلپ پاکستان کی رپورٹ، The Story of 8 Elections and the Calculus of Electoral Politics in Pakistan During 1970-2008)

کُل پاکستانی سطح پر یہ تناسب نکالنے میں مختلف دقتیں ہیں، جن میں سے ایک کا تعلق اس حقیقت سے بھی ہے، کہ دوسری بڑی جماعتیں پاکستان کی بیش تر نشستوں پر امیدوار کھڑے کرتی ہیں، جب کہ دینی جماعتوںنے بالعموم ایک محدود تعداد میں امیدوار کھڑے کیے ہیں اور اس طرح پورے ملک میں ان کا ووٹ اس انتخابی گنتی میں شامل نہیں ہوپاتا۔

پانچویں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل نے شرکت نہیں کی۔ اس لیے یہ کہنا بے بنیاد ہے کہ عوام نے اس کو ووٹ نہیں دیے۔ عملاً متحدہ مجلس عمل  کی صرف ایک جماعت، یعنی جمعیت علماے اسلام (ف)نے حصہ لیا، اور بلاشبہہ اسے ۲۰۰۲ء بلکہ اس سے پہلے کے ادوار کے مقابلے میں بھی کم ووٹ ملے۔ مگر اس کی بڑی وجہ من جملہ دوسری وجوہ کے یہ ہے کہ راے دہندگان نے جے یو آئی (ف) کو مشرف انتظامیہ سے منسلک سمجھا اور اسے مشرف کے بلوچستان آپریشن اور اکبربگٹی کے قتل پر اس کی طرف سے کسی بڑے عملی اقدام سے احتراز، نیز اسمبلیوں سے استعفے، سرحداسمبلی کے تحلیل کرنے میں تاخیر،  بلوچستان میں ق لیگ کے ساتھ شرکت اقتدار وغیرہ کی وجہ سے پرویز مشرف سے قرب کی قیمت اداکرنا پڑی۔ بلاشبہہ اس نے بائیکاٹ میں شرکت نہ کرکے یہ نقصان اٹھایا، اور اس کی الیکشن میں شرکت کا رشتہ برسرِاقتدار قوتوں (establishment) سے اس کے تعلق سے جوڑا گیا۔ حقیقت جو بھی ہو لیکن عملاً دوسری وجوہ کے ساتھ اسے زیادہ نقصان اس مسخ شدہ تصور کے باعث ہوا۔ تمام اہم سیاسی تجزیہ نگار اس پہلو کا کھلے بندوں اظہار کر رہے ہیں۔ مثلاً معروف تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی، ایم ایم اے کی حکومت کی ناکامی کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

ایم ایم اے کی صفوں میں غیرمعمولی انتشار کی وجہ سے بھی بہت سے لوگوں میں مایوسی کی کیفیت تھی۔ راے دہندگان صدر جنرل مشرف کے تمام اتحادیوں کو سزا دینا چاہتے تھے اور ایم ایم اے کو بھی کچھ سبق سکھایا، کیونکہ انھوں نے ان دستوری ترامیم کو آسان بنانے میں کردار ادا کیا جن سے فوجی آمر کو نجات ملی اور اس کے تمام افعال کو تحفظ ملا۔     اس کے ایک حصے جماعت اسلامی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ (دی نیوز ، ’نیوفرنٹیئر‘ رحیم اللہ یوسف زئی، ۲۴ فروری ۲۰۰۸ئ، اسپیشل رپورٹ، ص ۳۳)

رحیم اللہ یوسف زئی دی نیوز میں اپنے ایک دوسرے مضمون میں اس بات کا دوٹوک انداز میں یوں اظہار کرتے ہیں:

ایم ایم اے جو درحقیقت جماعت اسلامی کے انتخابات سے بائیکاٹ کے بعد صرف مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی (ف) ہوکر رہ گئی تھی، اسے مشرف کا ساتھ دینے اور اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں وعدوں کو پورا نہ کرنے پر سزا دی گئی ہے۔ (دی نیوز، ۲۳ فروری ۲۰۰۸ئ)

پروفیسر محمد وسیم ڈان میں اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:

جے یو آئی (ف) کو مشرف کی بالواسطہ تائید کی وجہ سے عوامی راے دہندگان کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا فضل الرحمن کے متنازع کردار اور صدارتی انتخاب سے پہلے ۶اکتوبر ۲۰۰۷ء کو سرحداسمبلی کی تحلیل کے مسئلے کی وجہ سے اسے ووٹوں اور عوام میں اپنے مقام کے حوالے سے مہنگی قیمت ادا کرنا پڑی۔ (ڈان، ۲۴ فروری ۲۰۰۸ئ)

یہ صرف چند تبصرہ نگاروں کی راے نہیں، عام تاثر اور ووٹروں کی بڑی تعداد کا یہی احساس تھا اور لفظی تاویلوں اورقانونی موشگافیوں سے اسے فرو نہیں کیا جاسکتا۔

ان حالات میں جے یو آئی (ف) کے ووٹوں اور سیٹوں کی کمی کو دینی جماعتوں سے نااُمیدی، اور ان کے صفایا کے دعوے کرنا، حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ویسے بھی انتخابی سیاست میں مختلف انتخابات میں ووٹوں میں زیادتی اور کمی سے ہرجماعت کو گزرنا پڑتا ہے اور کسی ایک انتخاب کی بنیاد پر ایسا فتویٰ دینے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں ہے کہ خود پی پی پی اور اس کے اتحادیوں کا ووٹ بنک ۱۹۷۰ء میں ۳۹ فی صد تھا جو ۱۹۹۷ء میں ۲۲ فی صد رہ گیا تھا۔ اسی طرح تمام مسلم لیگوں کا مجموعی ووٹ بنک ۱۹۷۰ء میں صرف ۲۳ فی صد تھا جو  ۱۹۹۷ء میں ۴۶ فی صد تک پہنچ گیا تھا۔ اے این پی ہر انتخاب میں ایسے ہی نشیب و فراز کا تجربہ کرتی رہی ہے۔دنیا کے دوسرے ممالک کے تجربات بھی اس سے مختلف نہیں۔ اس لیے کسی ایک انتخاب کی بنیاد پر اس طرح کے فتوے دینا علمی اعتبار سے بہت کمزور بات ہے۔

بات صرف جے یو آئی (ف) کے اس امیج اور اس کے نقصانات ہی کی نہیں۔ جہاں بھی ووٹرز نے عدلیہ کے معاملے میں اور پرویز مشرف کے لیے نرم گوشے کا احساس پایا ہے ضرور سزا  دی ہے۔ مشہور قانون دان بابر ستار دی نیوز میں اپنے ایک مضمون میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ وکلا کے بائیکاٹ کا احترام نہ کرنے والے وکلا کا کیا انجام ہوا،لکھتے ہیں کہ جب خود پی پی پی  کے ایم این اے زمردخاں نے جو چیف جسٹس کی تحریک میں پیش پیش تھے اور اعتزاز احسن کے ساتھ چیف جسٹس کی گاڑی کے ڈرائیور تک کی خدمت انجام دے رہے تھے وکلا کے فیصلے کے خلاف انتخاب میں شرکت کی تو وہ قومی اسمبلی پر اپنی سیٹ باقی نہ رکھ سکے (دی نیوز، ۲۳ فروری ۲۰۰۸ئ)۔ اس عوامی رو کو جو نہ سمجھ سکا اسے اس کی قیمت ادا کرنا پڑی۔

قیادت کا امتحان اورجھد مسلسل

آخر میں ہم یہ صاف لفظوں میں کہنا چاہتے ہیں کہ اس وقت ملک کی پوری سیاسی قیادت کا امتحان ہے اور اے پی ڈی ایم کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح اس نے قربانی دے کر ملک کی سیاست کو صحیح ایشوز سے روشناس کرایا ہے، اسی طرح نئے حالات میں ان اہداف و مقاصد کو  حاصل کرنے کے لیے مناسب حکمت عملی اختیار کرے۔ اگر نومنتخب جماعتیں ان مقاصد کے لیے کام کرنے کی نیت اور جذبہ دکھاتی ہیں تو تمام دینی اور سیاسی قوتوں کو ان سے تعاون اور ان مقاصد کے حصول کو آسان بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اگر مناسب موقع دینے کے بعد بھی یہ اس سلسلے میں پس و پیش دکھاتی ہیں تو پھر ان کی ذمہ داری ہے کہ پُرامن جمہوری   اور عوامی دبائو کے ذریعے انھیں عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرنے پر مجبور کریں۔ ججوں، وکلا،   سول سوسائٹی اور سیاسی کارکن سب کا ہدف اور منزل ایک ہے اور وہ حقیقی جمہوریت کا قیام ہے جس کے مقاصد یہ ہونے چاہییں:

  • ۲ نومبر ۲۰۰۷ء کی عدلیہ کی بحالی
  • پی سی اور اور ایمرجنسی کے نام پر دستور کا جو تیاپانچا کیا گیا،اس کی بحالی
  • پارلیمنٹ کی بالادستی کا قیام
  • فوج کی مداخلت کے راستوں کی بندش
  •  بنیادی حقوق اور خصوصیت سے اظہار راے کی آزادی کا تحفظ
  •  معاشی پالیسیوں میں تبدیلی
  •   فوجی کارروائیوں کا خاتمہ اور مذاکرات کے ذریعے تشدد کا حل
  •  پارلیمنٹ میں مکمل بحث کی روشنی میں خارجہ پالیسی کی تشکیل جدید۔

۱۸ فروری کے انتخابات میں قوم نے ایک لڑائی میں فتح پائی ہے، مگر یہ جدوجہد ابھی جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک جمہوریت کی مکمل بحالی اور دستور کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے مؤثر پیش رفت نہیں ہوتی۔ ۱۸فروری کے نتائج نے ایک نئی صبح کے طلوع کے امکانات کو روشن کردیا ہے لیکن یہ صبح اسی وقت ہماری قومی زندگی کو روشن کرسکے گی جب اس کے استقبال کے لیے قوم اس طرح کوشش نہ کرے جس طرح ۹مارچ ۲۰۰۷ء سے رات کی تاریکی کو  ختم کرنے کے لیے کرر ہی ہے۔ ابھی منزل کی طرف صرف ایک قدم اٹھایا گیا ہے۔ منزل ابھی  دُور ہے اور مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کی دعوت دے رہی ہے۔ فرد ہو یا قوم جدوجہد اور سعی مسلسل کے بغیر وہ اپنی منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکتے۔

وَاَنْ لَّـیْسَ لِلْاِِنْسَانِ اِِلَّا مَـا سَعٰیo وَاَنَّ سَـعْیَہُ سَوْفَ یُـرٰیo          (النجم ۵۳: ۳۹-۴۰) اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اُس نے سعی کی ہے، اور یہ کہ اُس کی سعی عنقریب دیکھی جائے گی۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کیا فوجی عہدہ چھوڑنے اور فوجی وردی اتارنے کے بعد بھی پرویز مشرف صاحب حسب سابق اسی طرح مطلق العنان حکمران رہیں گے اور انھوںنے فوج کی پشتی بانی سے آئین کا حلیہ بگاڑ کر فردِواحد کی شخصی حکمرانی کا جونظام قائم کیا ہے، کیا وہ مستقبل میں برقرار رہ سکتاہے ؟ یہ وہ اہم ترین سوال ہے جس کے درست تجزیے اور جواب پر پاکستان کے مستقبل کا دارومدار ہے ۔

پاکستانی افواج کے نئے چیف آف سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی طرف سے فوجی افسران کے نام ایک خط لکھا گیا ہے ۔ اس خط کے جو مندرجات عام لوگوں کے لیے افشاکیے گئے ہیں ان سے یہ خوش آیند تاثر ملتاہے کہ نئے چیف کو واقعی فوج کا امیج درست کرنے کی فکر ہے ۔ انھوںنے فوجی افسران کو سیاست سے کنارہ کش رہنے، سیاست دانوں سے تعلق نہ رکھنے اور تجارتی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی ہدایت کی ہے ،اوراعلیٰ سول عہدوںپر حاضرسروس فوجی افسران کی تعیناتی کو بھی ناپسند کیا ہے ۔اگر یہ محض دل خوش کن باتیں نہیں ہیں اورآرمی چیف واقعی ان پر   عمل درآمد کرناچاہتے ہیں تو یہ نہ صرف افواج پاکستان بلکہ پوری قومی زندگی کے لیے  ایک نئے دور کی نویدہے۔ اگر جنرل کیانی واقعی ان باتوں پر عمل درآمد کرنے میں سنجیدہ ہیں تو جلدجنرل (ر) پرویز مشرف کے ساتھ ان کا اختلاف سامنے آجائے گا کیونکہ پرویز مشرف نیشنل سکیورٹی کونسل: صدر، وزیر اعظم اور آرمی چیف پر مشتمل ’تکون‘ کے ذریعے اپنے نظام کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ انھوںنے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ تکون مل جل کر نظام چلائے گی ۔ یہ غیر دستوری تکون اسی وقت  چل سکتی ہے جب آرمی چیف کو سیاست کرنے اور قومی زندگی میں غیر دستوری طور پر مداخلت کرنے کا شوق ہو ۔ لیکن اگر آرمی چیف اپنے قول کے سچے اور اپنے دستوری عہد (oath)  کے پکّے ہیں تو بجاطورپر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ حالات بہتر رخ اختیار کریںگے، پرویز مشرف کا غیر آئینی صدارتی نظام بھی نہیں چلے گا اور اقتدار بالآخر عوامی نمایندوں کی طرف واپس آجائے گا۔

یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی راہ ہموار کی جائے گی۔ اس طرح کے انتخابات کے لیے ضروری ہے کہ پرویز مشرف کا قائم کردہ آمرانہ نظام ختم ہو اور وہ مستعفی ہوجائیں ۔ملک، غیر آئینی ایمرجنسی (۳نومبر۲۰۰۷ئ) سے پہلے والی صورت حال کی طرف واپس لوٹ جائے ۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جن ججوں کو غیر آئینی اقدامات کے ذریعے سبک دوش کردیا گیاہے، وہ بدستور اپنے عہدوں پربحال ہوجائیں ۔ اتفاقِ راے سے ایک عبوری سول حکومت اقتدار سنبھال لے اور الیکشن کمیشن کی تشکیلِ نو تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے مشورے سے ہو۔ان اقدامات کے بعد جو انتخابات ہو ں گے ان پر قوم کا اعتماد ہوگا اور اس کے نتیجے میں آزاد پارلیمنٹ کا قیام عمل میں آئے گا جو پرویز مشرف کے خود ساختہ نظام کا خاتمہ کرکے ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء سے پہلے والا آئین بحال کردے گی اور آئین اپنی بنیادی خصوصیتوں کے ساتھ نافذ ہوجائے گا ۔ اسلامی نظامِ حیات، جمہوریت اور تمام اداروں پر منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی ،صوبائی خود مختاری اور عوام کی فلاح و بہبوداس دستور کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ دستور جب ان بنیادی خصوصیتوں کے ساتھ نافذ ہوگا تو ملک کو سیاسی استحکام نصیب ہوگا، عدلیہ منصفانہ فیصلے کرنے میں آزاد ہوگی، امن وامان بحال ہوگا، عوام کو چین و سکون ملے گا اور تمام صوبو ں کو آزادی اور اقتدار میں شرکت کا احساس ہوگا جس سے ملک خوش حال اور معاشی ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہوگا۔

اس پس منظر میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ ملک و قوم پرجب تک دستور کے بجاے    سول اور ملٹری انتظامیہ کی بالادستی قائم رہے گی، عوامی نمایندے ان کے رحم وکرم پر ہوں گے اور عدالتوں کو حقیقی آزادی حاصل نہیںہوگی، اس وقت تک موجودہ انتشار کی کیفیت نہ صرف برقرار رہے گی، بلکہ اور زیادہ بڑھے گی جس سے ملک کی سالمیت کو حقیقی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔    خود موجودہ آرمی چیف نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ عوام کی تائیداور تعاون کے بغیر فوج    کے لیے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونا اور ملکی سلامتی کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرناممکن نہیںہے، اور فوج کا اصل کام ملکی دفاع ہے ۔ اگر آرمی چیف ملک کی سلامتی اور دفاع کے لیے عوام کا تعاون واقعی ضروری سمجھتے ہیں تو انھیں جان لینا چاہیے کہ یہ تعاون اسی وقت حاصل ہوسکتاہے جب ملکی پالیسیاں عوام کی مرضی کے تابع ہوںگی۔

اس وقت ملک کی غالب اکثریت پاکستان ، افغانستان اور فلسطین وعراق سمیت پوری دنیا میں امریکی پالیسیوں کے خلاف ہے اور پاکستانی عوام امریکا کوایک دوست کے بجاے استعماری اور استحصالی طاقت کی نظر سے دیکھتے ہیں، جب کہ پرویز مشرف نے پاکستان کو امریکا کا فرنٹ لائن اتحادی قرار دیاہواہے اور افواج پاکستان امریکی مفادات کے لیے خود اپنے قبائلی علاقوں ، سوات اور ملک کے دوسرے علاقوں میں استعمال کی جارہی ہیں۔ اگر جنرل کیانی واقعی چاہتے ہیں کہ فوج اور عوام ایک ہوجائیں تو عوام کی مرضی کے مطابق خارجہ پالیسی تشکیل دینی ہوگی اور وہ تبھی ممکن ہے جب عوام کے حقیقی منتخب نمایندوں کی پارلیمنٹ کی تشکیل ہو اور ملک کے تمام ادارے منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی قبول کرلیں ۔ اس کے لیے نیشنل سکیورٹی کونسل کو ختم کرنا پڑے گا اور صدر،وزیراعظم اورآرمی چیف پرمشتمل تکون کے بجاے پارلیمنٹ کو تمام پالیسیوں کی تشکیل کا منبع تسلیم کرنا پڑے گا۔  لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ پرویز مشرف نے بڑی دیدہ دلیری سے یہ بیان دیا ہے کہ وہ نئی حکومت کو پالیسیاں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیںگے ۔ اسی وجہ سے جماعت اسلامی اور اے پی ڈی ایم نے دوٹوک الفاظ میں اعلان کردیا ہے کہ پرویز مشرف کی موجودگی میں انتخاب محض ڈھونگ اور فریب ہیں۔نواز شریف صاحب بھی گو یہی بات کہہ رہے ہیںلیکن الیکشن میں پھر بھی شریک ہونے کا شوق پورا کرنا چاہتے ہیں۔

 اپوزیشن جماعتوں کی صورت حال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد حقیقی قیادت سے محروم ہوچکی ہے ۔ پارٹی کو اکٹھا رکھنے کے لیے مرحومہ کی وصیت کا سہارا لیا گیا لیکن جمہوری معاشروں میں سیاسی جماعتیں وصیتوں کی بنیاد پر زیادہ دیر تک نہیں چل سکتیں ۔ جب تک پارٹی کے اندر جمہوریت اور جمہوری روایات مستحکم نہیں ہوں گی، پارٹی کے باہر ملکی معاملات بھی جمہوری انداز میں نہیں چلائے جاسکتے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے بارے میں یہ حقیقت اب چھپی ہوئی نہیں ہے کہ وہ امریکا اور پرویز مشرف کے ساتھ افہام و تفہیم کے نتیجے میں خود ساختہ جلاوطنی چھوڑ کر پاکستان تشریف لائی تھیں اور اس باہمی مفاہمت کا ایک لازمی جزو یہ تھاکہ وہ آیندہ کی وزیراعظم ہوںگی ۔ ظاہر ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اس طرح وزیراعظم بننے پر اکتفا ہرگز نہ کرتیں جس طرح کے وزیراعظم شوکت عزیز تھے یا ان سے قبل چودھری شجاعت حسین اور میرظفراللہ خان جمالی  تھے۔ پرویز مشرف کے لیے ظفراللہ جمالی جیسا کمزور سیاسی وزیراعظم بھی قابل قبول نہیں تھا تو وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیسے گزارا کرسکتے جن کے ساتھ خود ان کی اپنی پارٹی کے فاروق احمد خان لغاری صاحب بھی مطمئن نہیں رہ سکے تھے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے مظلومانہ قتل کے گرد اسی وجہ سے شکوک وشبہات کی ایک دھند چھائی ہوئی ہے ۔ پیپلز پارٹی کو اگر انتخابات میں کوئی کامیابی حاصل بھی ہوئی تو وہ محترمہ کے بعد جمہوری اداروں کی بحالی کے سلسلے میں کوئی مضبوط کردار ادا  نہیں کرسکے گی اور فوج اوراس کے ادارے پرویز مشرف کے دور میں جس مطلق العنان اقتدار کے عادی ہوچکے ہیں، پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کے لیے یہ امر محال ہے کہ وہ انھیں آئین ،قانون اور جمہوری اداروں کے تابع کرنے میں کامیاب ہوسکے۔

دوسری اپوزیشن پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن)اگرچہ میاں محمدنواز شریف کی قیادت میں متحد ہے۔ میاںبرادران کو انتخاب لڑنے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا ہے، اس کے باوجود وہ انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں اور انھیں امید ہے کہ وہ انتخاب جیت کر حالات پر اثر انداز ہوسکیں گے۔ حالانکہ جو شخص اپنے شخصی اقتدار کی خاطر ’آخری مُکا‘چلا کر دستور کو معطل کرسکتاہے ، چیف جسٹس کو مع ۶۰ ججوں کے گھر بٹھا سکتاہے اور ملک کے پورے آئینی ڈھانچے کو متزلز ل کرسکتاہے، اس سے یہ توقع رکھنا کہ اپنے ’دست آموز الیکشن کمیشن ‘ اوراپنی خود ساختہ عبوری حکومتوں کے ذریعے ایسے الیکشن کروائے گا جن سے اس کا اپنا اقتدار خطرے میںپڑ جائے خودفریبی کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ میاں نواز شریف کو یہ غلط فہمی تھی کہ وہ انتخابی مہم کے ذریعے عوام میںبڑا تحرک پیدا کرکے انتخابات کو ریفرنڈم میں تبدیل کردیں گے لیکن تقریباً ایک ماہ تک کوشش کے باوجود وہ کوئی بڑاتحرک پیدا نہ کرسکے۔ بلاشبہہ لوگ پرویز مشرف کے خلاف ہیں اورملک کے مستقبل کو ان کے ہاتھ میں محفوظ نہیں سمجھتے۔ بلاشبہہ عوام متبادل قیادت کی تلاش میں ہیں لیکن بم دھماکو ں اور پولیس گردی کے ذریعے خوف و ہراس کی جوفضا بنادی گئی ہے اس میں عوام میں تحرک پیدا کرنا اور انھیں بڑی تعداد میں سڑکوں پر لانا دشوار ہوگیا ہے۔ سیاسی کارکن تو جان پر کھیل کر بھی باہر نکلنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں لیکن عوام الناس سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ چاروں طرف پولیس اور پیرا ملٹری فورسز بندوقیں تانے کھڑی ہوں،بڑے مجمعوں میںبم بلاسٹ کے ذریعے سیکڑوں لوگوں کو قتل کیا جارہاہو، ملک میں دہشت گردی، پولیس گردی ، آٹے گھی کی قلت اوربجلی و گیس کے بحران کے ذریعے پریشانی کی ایک فضا پیدا کردی گئی ہو، اور اس کے باوجود وہ کسی سیاسی لیڈر کی قیادت میں جان پر کھیل کر باہر نکل آئیں گے۔

عوام کے بڑے پیمانے پرمتحرک نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو قیادت میدان میں ہے، وہ ا ن کی آزمودہ ہے ۔ عوام الناس کو اس قیادت سے قطعاً یہ امید نہیں ہے کہ وہ ان کی    حالت زار کو تبدیل کرنے کے لیے کوئی بڑے اقدامات اٹھا سکے گی۔ چنانچہ بڑے پیمانے پر عوام کو متحرک کرنے سے مایو س ہو کراب میا ں برادران قومی حکومت کی بات کرنے لگے ہیں۔

قومی حکومت سے کیا مراد ہے؟اس کی وضاحت میاں صاحبان نے اپنے قریبی حلقوں میں بھی نہیں کی۔ میاں نواز شریف کو ایک اچھا موقع ملا تھا کہ ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے ان کی دعوت پرلندن کانفرنس میں شرکت کی۔ پھر آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ (اے پی ڈی ایم) کی بنیاد پڑی جس میں وہ پارٹیاں بھی شامل ہوئیں جو اس سے قبل نئے دستور کا مطالبہ کررہی تھیں ۔ آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کے فورم پر فیصلہ کیا گیا کہ فوجی آمریت کے خاتمے اور پرویزمشرف کومستعفی ہونے پر مجبور کرنے کے لیے تحریک چلائی جائے گی۔ معزول ججوں کی بحالی تمام پارٹیو ںکا ایک بنیادی مطالبہ بن گیا اور وکلا تحریک کے ساتھ ہم آہنگی کا اعلان کیاگیا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ باہر کے دبائو اور پارٹی میں انتخابی امیدواروں کے اصرار کے نتیجے میں میاں نوازشریف نے قومی قیادت سنبھالنے کے اس اہم موقعے کو ضائع کردیا اور اپنی پارٹی کی انتخابی مہم سے توقعات وابستہ کرلیں۔ اب اگر وہ اپنی انتخابی مہم سے مایوس ہوگئے ہیں تو قومی حکومت کا مطالبہ کرنے سے پہلے انھیں دوبارہ آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ سے مشورہ کرنا چاہیے تھا۔ پیپلز پارٹی کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش میں انھیں کئی باراپنا موقف تبدیل کرناپڑا جس سے ان کے امیج کو نقصان پہنچا ہے۔

بنگلہ دیش کی صورت حال کے پیش نظر قومی حکومت کی تجویز کو لوگ شک و شبہے کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ۔ بنگلہ دیش میں ایک غیر جانب دار حکومت فوج کی پشتی بانی سے برسراقتدار ہے جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ ملک میں آزادانہ الیکشن منعقد کرکے اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کردے۔ لیکن یہ حکومت دونوں بڑی جماعتوں کے خلاف مقدمات قائم کرنے اور ان کی مبینّہ بدعنوانیوں کی تحقیق میں لگ گئی ہے ۔ تیسری بڑی پارٹی جماعت اسلامی تھی جس پر بد عنوانی کا کوئی الزام نہیں تھا تو اس پر ۱۹۷۰ء میں پاکستانی فوج کے ساتھ تعاون کا الزام لگا کر اس کی قیادت کے خلاف تحقیقات کرنے کی کوشش کی گئی۔اس ساری کاوش کامقصد یہ تھا کہ فوج ایک نام نہاد قومی حکومت کے نام سے اپنااقتدار قائم کرے۔لیکن عوامی ردعمل اس انتظام کے حق میں نہیں اورعلما اور سیاسی کارکن عبوری انتظام کو اس طرح طول دینے کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں اور فضا میں نئے سیاسی ارتعاش کے آثار دیکھے جاسکتے ہیں۔

قومی حکومت ایک مبہم اصطلاح ہے ۔ اس لیے اے پی ڈی ایم نے اپنے مطالبے کو واضح طور پر بیان کیا ہے کہ:

                ۱-            پرویز مشرف فوری طور پرمستعفی ہوں۔

                ۲-            سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ان ججوں کو بحال کیا جائے جنھوںنے پرویز مشرف کی غیر آئینی نام نہاد ایمرجنسی پلس کو ماننے سے انکار کردیاتھا، اور اسے غیر آئینی قرار دیاتھا۔

                ۳-            دستور۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء کی صورت میں بحال کیا جائے۔

                ۴-            اتفاقِ راے سے ایک عبوری حکومت اور آزاد الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے جو شفاف الیکشن کروائے، اور مختصر ترین وقت میں اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کردیا جائے ۔

یہ مطالبات ہم کس سے کررہے ہیں؟یہ ایک بڑا سوال ہے ۔ ظاہرہے کہ پرویز مشرف تو یہ مطالبات تسلیم نہیں کریں گے۔ موجودہ عدلیہ سے بھی یہ توقع نہیںہے۔ سابقہ سپریم کورٹ سے  یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ ملک کو دوبارہ آئینی راستے پر ڈالنے کے لیے وہ اہم اور بنیادی آئینی فیصلے کردے لیکن اس خطرے کو بھانپ کر پرویز مشرف نے اسے راستے سے ہٹا دیا۔موجودہ سپریم کورٹ سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ اس حوالے سے انقلابی اقدامات اٹھائے۔ واحد راستہ یہ ہے کہ عوام کو ان مطالبات کے لیے متحرک کیا جائے۔ بڑے پیمانے پر عوامی تحریک ہی اس وقت تمام مسائل کا حل ہے۔

ادھرسوات میں فوجی مداخلت کرکے سردی کے موسم میں لاکھوں لوگوں کو اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا گیاہے ۔ لوگ بھوک اور خوف کی دُہری مصیبت میں گرفتار ہیں ۔ بظاہر امن وامان برقرار رکھنے کے لیے فوج بھیجی گئی ہے لیکن خودفوج کے ۲۰، ۲۵ ہزار جوان ایک مشکل صورت حال میں محصور ہوگئے ہیں اور عوام کو بھی مشکل سے نکالنے کے بجاے مزید مشکلات میں گرفتار کردیا گیاہے ۔ اشیاے ضرورت کی قلت ہے اور جماعت اسلامی کی امدادی سرگرمیوں میں بھی کرفیو کے نفاذ اور راستوں کی بندش کی وجہ سے مشکلات ہیں ۔قبائلی علاقوں میں بھی امن و امان کی صورت حال ایک عرصے سے خراب ہے، اور اب محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری بیت اللہ محسود پر ڈال کر وہاں نیا آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔ گورنر سرحد علی محمد جان اورکزئی کی تبدیلی کو بھی اسی پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

اس وقت ملک کے ۵۰ فی صد سے زیادہ لوگ بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ شہری علاقوں میں روٹی کی قیمت دُگنی ہوگئی ہے۔ دوروپے کی روٹی چار روپے میں اور چار روپے کی روٹی آٹھ روپے میں ملتی ہے۔ آٹے کی قلت کی وجہ سے تنور بند ہوگئے ہیں ۔ پہاڑی علاقوں میں برف باری ہے اور ایندھن کی کمی ہے ۔ حکمران بیانات دینے کے علاوہ کچھ نہیں کررہے۔ چودھری برادران نے اس صورت حال کی ذمہ داری شوکت عزیز پر ڈال دی ہے جس سے پرویز مشرف ناراض ہوگئے ہیں کیونکہ شوکت عزیز کے بجاے اصل ذمہ داری انھی پرعائدہوتی ہے، جنھیں فساد کی جڑ قرار دیا جارہاہے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد فوری طور پر جو ہنگامے شروع ہوئے تھے،ان کے پیچھے ایک منظم گروہ کا ہاتھ نظر آرہاہے۔ یہ منظم تخریبی گروہ جو فوری طور پر ریل کی پٹڑیاں اکھاڑنے، ریل کے انجن جلانے،بڑے پیمانے پر اموال اور ٹرانسپورٹ کو تباہ کرنے میں لگ گیا ہے، ملک کے ہر حصے، خاص طور پر کراچی اور سندھ میں موجود ہے اور ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے کسی موقع کی تلاش میں ہے۔ کراچی کی صورت حال خاص طور پر مخدوش ہے اور وہاں بڑے پیمانے پر اسلحہ جمع کیاگیا ہے ۔ کراچی پہلے بھی لسانی فسادات کی زد میں آ چکاہے،اس باراگرپھر لسانی فسادات کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی تو تباہ کن اسلحے کی وجہ سے اس کی تباہی وبربادی عام اندازوں سے زیادہ ہوگی۔ ان حالات کامقابلہ عوام کو مل جل کر کرناہے ۔ عوام کے پاس منظم جدوجہد کے سوا کوئی دوسراہتھیار نہیں ہے جس سے ملکی سالمیت کی حفاظت کی جاسکے۔ اگر موجودہ آرمی چیف جنرل کیانی اپنے بیانات پر عمل کرنا چاہتے ہیں توانھیں فوج کو آئینی حدود کا پابند کردینا چاہیے۔ اس طرح  پرویز مشرف مجبور ہوں گے کہ وہ آئین کا احترام کرکے فوری طور پر مستعفی ہوجائیں اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے معزول ججوں کو بحال کردیا جائے۔ آئین کا احترام ملک کو موجودہ خطرناک بحران سے بچا سکتاہے۔ اور یہ اس وقت ہوسکتا ہے کہ عوام وکلا اور ججوں کی پشت پر کھڑے ہوجائیں،  فوج غیر جانب دار ہوجائے اور سویلین حکومت کو پولیس گردی اور عوام کے خلاف طاقت کے استعمال سے روک دیاجائے۔

اس وقت تمام شواہد اس پر دلالت کرتے ہیں کہ پرویزمشرف اور اس کا نظام مکمل طور پرناکام ہوچکاہے۔اس کی ناکامی پر ساری دنیا گواہ ہے۔یورپ کے دورے کے موقع پر یورپین لیڈروں نے بھرے اجتماعات میں پرویز مشرف کے سامنے پاکستان میں جمہوریت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جس پر پرویز مشرف جھنجھلاہٹ کا شکار ہوئے۔ حقیقت یہی ہے کہ  بزعم خویش جمہوریت کی طرف پرویز مشرف کا سفر کامیابی کی منزلیں طے کرنے کے بجاے مسلسل حادثات کاشکار ہو رہا ہے اور ا ن کی موجودگی میں قومی حکومت سمیت کوئی بھی نسخہ کامیاب ہوتا نظر نہیں آتا۔ انتخاب ہوبھی جائیں تو خود پرویزمشرف کو اس کے بعد ایک عام بے چینی نظر آرہی ہے اور خود انھوںنے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کریں گی۔ اگر انھیں معلوم ہے کہ انتخابات کے بعد بھی سکون اور اطمینا ن کے بجاے سیاسی اضطراب اور بے چینی ہی میں اضافہ ہوگا تو عقل کی بات یہی ہے کہ وہ نوشتۂ دیوار پڑھ کر خود اقتدار سے الگ ہوجائیں اور سپریم کورٹ کو اپنی اصل شکل میں بحال ہونے دیں تاکہ ملک کو آئین کے مطابق چلا کر سیاسی استحکام کی تدابیر اختیار کی جاسکیں ۔

پاکستان کو موجودہ بحران سے نکالنے اور اس پیچیدہ صورت حال کے سدھار کے لیے بعض وکلانے نئے آرمی چیف کو مشورہ دیا ہے کہ جس طرح پرویز مشرف نے آرمی چیف کی حیثیت سے ایمرجنسی نافذ کی اور اس کے تحت غیر آئینی کارروائیاں کرکے انھیں آئین کا حصہ قرا ر دے دیا، اور پھروردی اتارنے سے پہلے ایمرجنسی اٹھانے کا اختیار صدر کو منتقل کردیا، جب کہ خود ہی ملک کے صدرا ور چیف آف آرمی سٹاف تھے۔اسی طرح موجودہ آرمی چیف صدر سے اپنا ایمرجنسی اٹھانے کا اختیار واپس لے لیں اور اس ایمرجنسی کے تحت غیر آئینی اقدامات کو کالعدم قرار دے کر ججوں کو بحال کردیں اور باقی سارے اقدامات بحال شدہ سپریم کورٹ پر چھوڑ دیں تاکہ وہ آئین اور قانون کے مطابق ملک کو واپس آئینی پٹڑی پر ڈال دے ۔اس کے حق میں ایک سینئر وکیل نے دلیل دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ایک چیف آف آرمی سٹاف کے لیے آئین کو معطل کرکے غیرآئینی اقدامات کرنے کا جواز پیدا کیاجاسکتاہے تو دوسرے چیف آف آرمی سٹاف کے لیے آئین کو بحال کرنے کے لیے کسی اقدام کا جواز کیوں نہیں بنتا۔

یہ اور اسی نوعیت کی جو آوازیں اُٹھ رہی ہیں، وہ اس بے چینی اور اضطراب کا مظہر ہیں جس کی گرفت میں پوری قوم اور اس کا سوچنے سمجھنے والا طبقہ اپنے کو محسوس کر رہا ہے اور جس کی اصل وجہ پرویز مشرف کے بار بار کے غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام ہیں۔ ہم وکلا کے اس طبقے کی پریشانی خاطر کو تو محسوس کرتے ہیں لیکن اس راے سے اتفاق نہیں کرسکتے کہ فوج کے سربراہ کو کسی ایسے اقدام کا مشورہ دیا جائے جس کا اسے دستور کے تحت اختیار نہیں۔ اگر نظریۂ ضرورت کے تحت سپریم کورٹ ماضی میں فوجی حکمرانوں کو دستور میں ترمیم کا وہ اختیار دینے کی غلطی نہ کرتی جو خود اسے بھی حاصل نہیںتھا تو ملک بہت سی تباہی سے بچ جاتا۔ اس لیے فوج کے سربراہ کو جواب خود فوج کے سیاست سے باہر رہنے کی بات کر رہا ہے، اس قسم کا مشورہ دینا صحیح نہیں۔ البتہ قومی مشاورت کے ذریعے عدالتوں اور دستور کے لیے اولین طور پر۲نومبر ۲۰۰۷ء والی اور بالآخر ۱۲اکتوبر۱۹۹۹ء والی پوزیشن کو بحال کرنے کے لیے صرف ایک بار مؤثر ہونے والا کوئی راستہ نکالا جاسکتا ہے ۔ اس قومی مشاورت میں تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے ساتھ سپریم کورٹ کے تمام ریٹائرڈ ججوں کو شریک کیا جاسکتا ہے اور اس طرح معزز بزرگوں کی مجلس (Council of Elders ) کے مشورے سے ایک راستہ نکالا جاسکتا ہے جسے بالآخر نئی اسمبلی دستور کے تحت قانونی جواز فراہم کرسکتی ہے۔

ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ کردار سینیٹ ادا کرے جو اس وقت واحد منتخب ادارہ ہے اور جو دستور کے تحت فیڈریشن کا نمایندہ اور ترمیم دستور کے اختیارات میں شریک ہے۔ اس کے علاوہ بھی راستے ہوسکتے ہیں۔ جب کوئی ماوراے دستور اقدام ناگزیر ہی ہو تو ضروری نہیں کہ اس اقدام کے لیے فوج کے سربراہوں کو ملوث کیا جائے، یہ کام سینیٹ اور اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے بھی انجام دیا جاسکتا ہے جن کا ایک رول خود دستور میں موجود ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ پاکستان ، اس کے دستور اور اس کے مفادات کے تحفظ کی آخری  ذمہ داری عوام پر آتی ہے اور اب اس سلسلے میں سب سے فیصلہ کن کردار عوام ہی کو ادا کرنا ہوگا۔ فوجی حکمرانوں اور ان کے عدالتی مشیروں اور سیاسی گماشتوں نے پاکستان کے آئین کو بازیچۂ اطفال بنادیا ہے اور قانون اور روایات سب پامال ہیں۔ ایک غلط کام پر پردہ ڈالنے کے لیے دوسرا غلط کام کرنا کب تک جاری رہے گا۔ اب اصل ضرورت عوام کی بیداری اور ۱۹۹۹ء سے اب تک دستور اور دستوری اداروں پر جو بھی شب خون مارے گئے ہیں ان کو ختم کرکے دستورکواس کی اس شکل میں بحال کرنے کی ضرورت ہے جس پر قوم کا اتفاق تھا، اور ہے۔ یہی وہ دستور ہے جسے ایک میثاقِ ملّی (National Covenant) کا مقام حاصل ہے، اور اب یہ اسی وقت ممکن ہے جب پرویز مشرف اور ان کے بنائے ہوئے نظام سے نجات پائی جائے اور قومی اتفاق کی عبوری حکومت کے ذریعے نئے الیکشن کمیشن کے توسط سے آزاد، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے ذریعے عوام اپنے نمایندے منتخب کریں اور وہ دستور اور قانون کے تمام تقاضے پورے کریں۔ نیز یہ نمایندے قوم کا اعتماد لے کر اپنے فرائض اداکریں اور خود بھی قوم کے سامنے جواب دہ ہوں تاکہ کوئی بھی اب اس قوم کی قسمت سے نہ کھیل سکے۔ اس لیے اب ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے قوم کی بیداری، اس کے تحرک اور   ان کے ذریعے دستوری عمل کو پٹڑی پر چڑھانے کی مؤثر جدوجہد___ اس ملک کو حقیقی جمہوری  اور دستوری نظامِ حکمرانی پر عامل ہونے، اور استعماری قوتوں کی آلۂ کار سول اور فوجی انتظامیہ کی دست بُرد سے نکالنے کے لیے عوام الناس کے پرامن اور پرجوش تحرک کے سوا کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے۔ اگر عوام متحرک نہیں ہوئے تو ملک کی بڑی بدقسمتی ہوگی کیونکہ اس درد کا درمان صرف اور صرف ملک کے عوام کے پاس ہے۔ مخلص سیاسی کارکنوں کا فرض ہے کہ مایوس ہونے کے بجاے متحرک ہوں اور یاس وقنوطیت کے بجاے ہر شہری کے دل میں امید کی شمع روشن کریں ۔

ہماری دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس ملک کی حفاظت اور استحکام کی خاطر ہرطرح کی قربانی دینے کے لیے خودبھی تیار ہوں اور عوام الناس کو بھی اس کے لیے تیار کرسکیں ۔


ترجمان القرآن کا پیغام پھیلایئے

ترجمان القرآن ایک پیغام کا علَم بردار رسالہ ہے۔ اس پیغام کی زیادہ سے زیادہ وسیع تر حلقے میں اشاعت ہمارے قارئین کے تعاون سے ہوتی ہے۔ آیندہ سال کے لیے ۲۵ فی صد اضافے کا ہدف طے کیا ہے۔ ہر ۱۰۰ پرچوں پر ہر ماہ ۲ کااضافہ کیا جاتا رہے تو یہ ہدف حاصل ہوجائے گا۔

کیا یہ مشکل ہے؟ ناممکن ہے؟ غالباً نہیں___ تھوڑی سی توجہ اور کوشش سے یہ کیا جاسکتا ہے اور نتیجہ؟ اشاعت میں ۱۰ ہزار کا اضافہ! یعنی ۱۰ ہزار نئے افراد بلکہ گھرانوں تک دین کی دعوت اور آج کے دور میں اس کے تقاضے پورا کرنے کا پیغام پہنچے گا۔

مجھے یقین ہے کہ اگر ہمارے قارئین واقعی اس طرف توجہ دیں تو ہم ہدف سے بہت زیادہ بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

ہم نیک نیتی اور اخلاص کے کوشش کریں، اللہ ہمارا ساتھ دے گا اور ہمیں حوصلہ افزا نتائج ملیں گے، ان شاء اللّٰہ تعالٰی!

___  مدیر    

بسم اللہ الرحمن الرحیم

دورِ جدید کی سیاسی تاریخ اور تجربات کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو جمہوریت اور آمریت کا بنیادی فرق سمجھنے میں ذرا بھی مشکل پیش نہیں آتی۔ تاہم اصطلاحات، الفاظ اور اداروں کی ظاہری شکل و صورت قدم قدم پر دھوکے اور الجھائو میں جکڑ لیتی ہے۔ اس کے باوصف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آمریت، بار بار جمہوری لبادے میں خود کو قابلِ قبول بنانے کے لیے طرح طرح کے کرتب دکھاتی رہتی ہے۔

اس سلسلے کی ایک اہم مثال تو خود انتخابات کا ادارہ ہے۔ بظاہر انتخاب کا عمل جمہوریت اور آمریت دونوں میں مشترک نظر آتا ہے۔ ہٹلر کے دور کا جرمنی ہو، یا مسولینی کی گرفت میں پھڑپھڑاتا اٹلی، اسٹالن کا روس ہو یا مارشل ٹیٹو کا یوگوسلاویہ، فرانکو کا اسپین ہو یا پنوشے کا چلی،    حسنی مبارک کا مصر ہو یا موگابے کا زمبابوے___ انتخابات تو ان سب ممالک میں ہوتے رہے ہیں اور بڑے بلندبانگ دعووں اور زور و شور کے ساتھ ہوتے رہے ہیں۔ بلکہ ان ممالک میں راے دہی کا اوسط (turn-out) مغرب کے بہت سے جمہوری ممالک بشمول امریکا اور برطانیہ سے کہیں زیادہ رہا ہے مگر اس کے باوجود، ان انتخابات نے ان ممالک کو نہ جمہوری بنایا اور نہ ایسے انتخابات کو کسی نے بھی عوام کی آزادانہ مرضی کے اظہار کا ذریعہ تسلیم کیا۔

جمہوری نظام میں انتخابات کی امتیازی حیثیت یہ ہے کہ:

                ا               دستور اور قانون کو بالادستی حاصل ہوتی ہے اور کوئی بھی فرد نہ دستور اور قانون سے بالا ہوتا ہے، اور نہ اسے دستور اور قانون میں دراندازی اور ترمیم و تبدیلی یا تحریف کا کسی درجے میں بھی کوئی اختیار یا موقع حاصل ہوتا ہے۔

                ب            ملک میں اظہار راے، تنظیم سازی، اجتماع اور بحث و اختلاف کی آزادی ہوتی ہے، سیاسی جماعتیں برابری کی بنیاد پر سیاسی عمل میں حصہ لیتی ہیں اور عوام کے سامنے  اپنا پروگرام اور اپنی کارکردگی کا میزانیہ پیش کرتی ہیں۔ ذرائع ابلاغ آزادی کے ساتھ تمام نقطہ ہاے نظر کااظہار کرتے ہیں اور قوم کے ضمیر کی حیثیت سے معلومات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ محتسب کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔

                ج             عدلیہ آزاد اور دستوری اختیارات سے مسلح ہوتی ہے، جو پوری مستعدی اور   غیرجانب داری سے دستور کی حفاظت اور نفاذ کے ساتھ بنیادی حقوق کے باب میں ہرشہری اور ہرمظلوم انسان کی داد رسی کی ذمہ داری ادا کرتی ہے، جس کے نتیجے میں کسی کے لیے بھی فرعون بننے کا خطرہ باقی نہیں رہتا۔

                د              الیکشن کمیشن، انتظامیہ کی گرفت سے آزاد ہوتا ہے اور دستور کے تحت پوری آزادی اور غیر جانب داری کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتا ہے۔ الیکشن کے قواعد و ضوابط اور انتظامِ کار بھی شفاف اور ہر شک و شبہے سے بالا ہوتے ہیں اور یہ ادارہ اس کا   پورا عمل برسرِاقتدار جماعت اور حزبِ اختلاف دونوں کی نگاہ میں معتبر ہوتا ہے۔

                ہ               جہاں اس بات کا خطرہ ہو کہ حکومت انتخابی عمل میں مداخلت کرسکتی ہے، وہاں انتخاب کے دوران غیر جانب دار عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔

اس پانچ نکاتی نقشۂ کار میں منعقد ہونے والے انتخابات کو ملک اور بیرون ملک اعتماد کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، سب اسے قابلِ بھروسہ اور قانونی و اخلاقی اعتبار سے درست تسلیم کرتے ہیں۔ اگر یہ نقشۂ کار موجود نہ ہو  تو پھر انتخابات ایک ڈھونگ اور تماشے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور اس کے نتیجہ میں حکومتوں کے بننے اور بدلنے کے اس عمل میں عوام کا کردار محض ایک تماشائی کا سا بن کر رہ جاتا ہے اور خود بیلٹ بکس کا تقدس ختم اور سیاسی تبدیلی کے لیے اس کا کردار  دم توڑ دیتا ہے۔

بلاشبہہ جمہوری نظام میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور پورا سیاسی عمل اسی محور کے گرد گھومتا ہے۔ نیز یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے انتقالِ اقتدار ہوتا ہے، اور عوام کی آزاد مرضی سے قیادت کا چنائو عمل میں آتاہے۔ متعین وقفوں پر ایسے ہی آزاد اور شفاف انتخابات جمہوری نظام کی پہچان ہیں۔

جماعت اسلامی پاکستان نے مارچ ۱۹۴۹ء میں دستورساز اسمبلی میں ’قرارداد مقاصد‘ کے منظور کیے جانے کے بعد سے سیاسی تبدیلی کے لیے جمہوری ذرائع اور انتخابی راستے کو اختیار کیا ہے اور وہ اس پر سختی سے قائم ہے لیکن جماعت اسلامی نے پہلے دن سے انتخابی عمل کے دستور اور قانون کے مطابق اور اس پورے عمل کو قواعد و ضوابط اور انتظامِ کار کے اعتبار سے غیر جانب دار اور شفاف ہونے کو ضروری قرار دیا ہے۔ پنجاب میں ۱۹۵۱ء سے صوبائی انتخابات سے لے کر آج تک انتخابات کی ضرورت بلکہ ان کے ناگزیر ہونے کے ساتھ ان کے صحیح ماحول میں اور صحیح طریقے سے انعقاد کو بھی لازمی قرار دیا ہے اور انتخابات کے یہ دونوں پہلوباہم مربوط اور ناقابل تفریق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں میں فرق وامتیاز اور انہیں ایک دوسرے سے بھی کاٹ دینے (de-link)  کی بھرپور مزاحمت کی ہے۔

آج بھی قوم کو جو امتحان درپیش ہے، اس کا تعلق نفسِ انتخاب سے نہیں، انتخاب کے پورے نظام اور انتظامِ کار سے ہے، جس کی اصلاح کے بغیر انتخابات بے معنی ہوجاتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وقت کا آمر اور اس کے حواری انتخابی ڈھونگ رچا کر ایک فسطائی نظام کے لیے سندِجواز (legitimacy) حاصل کر لیتے ہیں، جو دستور کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے پیغامِ موت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسا عمل ملک اور قوم کو شخصی آمریت، سیاسی غلامی اور ننگے استبداد کے نظام کی جہنم میں جھونکنے کے مترادف ہوتا ہے۔ اس نظام کو چیلنج کیے بغیر اور دستوری، قانونی و انتظامی نقشۂ کار کی اصلاح کے بغیر انتخابات میں شرکت کا منطقی نتیجہ نہ صرف جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے اصول کی نفی ہے، بلکہ خود اپنے ہاتھوں سے آمریت کی زنجیروں کو مستحکم کرنا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس ناپاک اور خطرناک کھیل کا پردہ چاک کرنے کے لیے مؤثر احتجاج کی ضرورت ہے اور موجودہ حالات میں اس کا بہترین ذریعہ انتخابات میں شرکت نہیں بلکہ ان کا بائیکاٹ ہے___ واضح رہے کہ بائیکاٹ خود مطلوب نہیں، وہ احتجاج کا ایک ذریعہ ہے، تاکہ اقتدار پر قابض عناصر کے اصل عزائم کو بے نقاب کیا جاسکے اور قابل قبول انتخابات کا اہتمام ہوسکے۔

  •  بائیکاٹ، پس منظر اور جمھوری روایت: بائیکاٹ کی ایک نوعیت ووٹ کا منفی استعمال ہے، جس کا مقصد ووٹ کے تقدس کی حفاظت اور بیلٹ بکس کو آمریت کی خدمت کے لیے استعمال کیے جانے سے روکنا ہے۔ انتخابی بائیکاٹ کوئی جذباتی یا منفی عمل نہیں، بلکہ احتجاج اور سیاسی مقاصد کو جمہوری طریقے سے حاصل کرنے کا ایک معروف اور جانا پہچانا طریقہ ہے۔ جو لوگ بائیکاٹ کو ایک جذباتی، منفی اور غیرمؤثر حربے کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ اس طرح ووٹ کے ضائع ہونے کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا، ہم ان کو غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں۔ وہ ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ ووٹ کو ضائع کرنے بلکہ اس کے استحصالی استعمال کا راستہ انجینیرڈ الیکشن (دھاندلی زدہ انتخابات) میں شرکت ہے یا بائیکاٹ کے ذریعے نظامِ انتخاب کو جمہوری ضوابط کا پابند بناکر انتقالِ اقتدار کے لیے صحیح فریم ورک کو وجود میں لانے کے لیے جدوجہد کرنا، مؤثر ذریعہ ہے؟

قانون کی مستند کتاب Black's Law Dictionary میں اصطلاح ’بائیکاٹ‘ کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:

کسی خاص فرد یا کاروبار سے اتفاقِ راے سے معاملہ یا تجارت کرنے سے انکار تاکہ رعایتیں حاصل کی جائیں یا اُن اقدامات یا طرزِعمل سے اظہارِ ناپسندیدگی کیا جائے جو معاملات میں مستعمل ہوں۔ (ص ۱۸۹)

پینگوین کی شائع کردہ Dictionary of International Relations میں ’بائیکاٹ‘ کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے: ’’اس سے کسی ریاست یا ریاستوں کا سماجی، اقتصادی، سیاسی اور عسکری تعلقات سے منظم انکار ہے، تاکہ انہیں سزا دی جاسکے یارویے کو مطلوبہ صورت کی طرف لایا جاسکے‘‘، جب کہ اوکسفرڈ لغت براے علم سیاست اسے یوں بیان کرتی ہے: ’’ناپسندیدگی کے اظہار کے لیے وضع کردہ ایک طریقہ، مثلاً کسی اجلاس میں شریک نہ ہونا، یا کسی ملک یا کمپنی کی مصنوعات نہ خریدنا، تاکہ اُسے سزا دی جاسکے یا اُس پر پالیسی، موقف یا رویہ تبدیل کرنے کے لیے دبائو ڈالا جاسکے۔ (۱۹۹۶ئ،ص ۴۲)

تجارت ہو یا سیاست، بین الاقوامی تعلقات ہوں، یا سماجی روابط و معاملات، بائیکاٹ اظہارِ احتجاج اور مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے پُرامن ذرائع سے سیاسی قوت کے استعمال کا ایک معتبر راستہ ہے۔ نیز شدید نکتہ چینی (strictures)، پابندیاں اور بائیکاٹ سب ہی اس ترکش کے مختلف تیر ہیں۔ اسرائیل اور شمالی افریقہ کی نسل پرست اور غاصب حکومتوں کے خلاف برسوں اسے استعمال کیا گیا ہے اور اس کے قرارواقعی اثرات رونما ہوئے ہیں۔ ایران اور عراق کے خلاف بھی یہ ہتھیار استعمال ہواہے اور ہم بھی اس کا نشانہ بنے ہیں۔ خود برعظیم کی سیاسی جدوجہد میں برطانوی اقتدار کے خلاف بائیکاٹ کے ہتھیار کو بار بار استعمال کیا گیا ہے اور مکمل بائیکاٹ یا   جزوی بائیکاٹ کی بحثوں میں پڑے بغیردونوں ہی شکلوں میں اس کا استعمال کیا گیا ہے، جس نے بالآخر سامراجی اقتدار کی چولیں ہلا دیں۔ اس عمل کا آغاز ۱۹۲۰ء میں ناگ پور کانگریس سے ہوا، اور  اس حکمت عملی کے چار ستون تھے:

  • قانون ساز اداروں کا بائیکاٹ
  • عدالتوں کا بائیکاٹ l تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ
  • مناصب اور اعزازات واپس کرنے کا اعلان۔

وکلا اور سیاسی جماعتیں، آج کے حالات میں ان سیاسی ہتھیاروں کو استعمال کر رہی ہیں، عدالتوں کے میدان میں بھی اور اب انتخابات کے میدان میں بھی۔ انھیں کسی اعتبار سے بھی جذباتی یا منفی اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ یہ اور دوسرے پُرامن سیاسی ہتھیار جب بھی ٹھیک طرح اور استقلال کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں، ان کے اثرات لازماً نکلے ہیں۔

البتہ جو بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے، وہ یہ ہے کہ بائیکاٹ فی نفسہٖ نہ کوئی سیاسی مقصد اور ہدف ہے اور نہ اسے مستقل حکمت عملی ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہ تو موجودہ آمرانہ نظام اور ایک غاصب گروہ کے ہاتھوں قوم کو بے دست و پا کرنے جیسے اقدامات کو قانونی تحفظ دلانے کے مذموم منصوبوں کے خلاف احتجاج کا ایک ذریعہ اور سیاسی دبائو کا وہ حربہ ہے، جس سے اس نظام کی خباثت اور اس کے ناقابلِ قبول ہونے کو ظاہر و باہر کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح ملک کو لاقانونیت، فردِ واحد کی حکمرانی اور من مانی سے نجات دلانے اور اس کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے آلۂ کار بننے کے بجاے، اس ایجنڈے کو تبدیل کر کے ایک حقیقی جمہوری اور دستوری نظام کی طرف ملک کو لانے کی کوشش ہے، تاکہ بالآخر صحیح معنوں میں آزاد، غیرجانب دار، منصفانہ اور شفاف انتخابات منعقد ہوسکیں اور ملک اور قوم جمہوریت کی طرف صحیح معنی میں پیش قدمی کرسکیں۔

  • موجودہ حالات کی نزاکت :مسئلے کی اصل نوعیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ آج کے انتخابات عام حالات میں منعقد نہیں ہو رہے۔ پرویزی آمریت کے آٹھ سال، ان کا اصل پس منظر ہیں اور اس سے بھی زیادہ اہم وہ پیش منظر ہے جس کا تانا بانا ۹مارچ ۲۰۰۷ء سے بُنا جا رہا ہے، اور جسے آخری شکل ۳نومبر کی ایمرجنسی (دراصل جنرل مشرف کے مارشل لا نمبر۲)، عبوری دستور اور ۱۵دسمبر کو ایمرجنسی اور پرویزی دستور کو مستقل شکل دے کر انتخابات کا جال پھیلایا گیا ہے۔ جس کے بعد اپنی من پسند عدلیہ اور اپنی تابع مہمل عبوری حکومت اور الیکشن کمیشن کے ذریعے قوم کے حق حکمرانی کو اغوا کرنے کا انتظام کیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آنکھوں دیکھے اس جال میں قدم رکھا جائے، یا اس جال کو تارتار کرنے کے لیے بائیکاٹ کاراستہ اختیار کیاجائے، اور دستوری و عوامی نظام کو بحال کرا کر ایک غیرجانب دار حکومت اور ایک آزاد اور معتمدعلیہ الیکشن کمیشن کے تحت انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایاجائے۔ انتخاب تبدیلی کا راستہ ہیں اور ان سے فرار کا تصور بھی کوئی جمہوری قوت نہیں کرسکتی، لیکن انتخابات کو صحیح معنوں میں انتخابات ہونا چاہیے، ورنہ وہ ایک ایسا جال بن جاتے ہیں جس میں گرفتار ہو کر انسان آمریت کے تسلسل کے لیے آلۂ کار بن کر رہ جاتا ہے۔

ایک طرف ملک کے پورے نظامِ حکومت، دستوری انتظام، بنیادی قانون اور اداروں کو پامال کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف ستم یہ ہے کہ جمہوریت کے بڑے بڑے علَم بردار اور جمہوریت کی دعوے دار سیاسی جماعتیں صرف ’میدان دوسروں کے لیے نہ چھوڑنے‘ کا سہارا لے کر ایسے انتخابات میں شرکت کر رہی ہیں۔ یہ سب اسی ’نظریۂ ضرورت‘ کا ایک نیا اڈیشن ہے جس کی تباہ کاریاں ملک اور قوم ۱۹۵۴ء سے دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی دروبست کا حلیہ بگاڑنے کے اس عمل کا آغاز ۱۹۵۴ء میں پہلی دستورسازاسمبلی کی تحلیل اور پھر پہلے قومی انتخابات سے چند ماہ قبل اکتوبر ۱۹۵۸ء میں مارشل لا کے نفاذ سے شروع ہوا۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے نظریۂ ضرورت کے نام پر دستور کے توڑنے اور لاقانونیت کو قابل قبول قرار دے کر انہیں قانونی سندجواز دینے کے جرم کا ارتکاب کیا، اور سیاسی جماعتوں نے کمزوری دکھا کر مزاحمت کے بجاے مصالحت کا راستہ اختیار کیا۔ یہی وہ پہلی ٹیڑھی اینٹ تھی جس نے پورے قومی و قانونی ڈھانچے کو اس کی بنیادوں سے ہلاکر رکھ دیا اور پھر سیاسی نظام کی دیوار ٹیڑھی ہی اٹھتی چلی گئی۔

اسی نظریۂ ضرورت کی نئی شکل کو، پرویزی آمریت کے ایک ناقابلِ اعتبار الیکشن کمیشن اور ایک ناقابلِ قبول عبوری حکومت کے ذریعے انتخابات میں شرکت کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک قوم اس ’نظریۂ ضرورت‘ سے نجات نہیں پاتی، نہ وہ اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتی ہے اور نہ جمہوریت کی روشن صبح یہاں کبھی طلوع ہوسکے گی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کے اکھاڑے میں اترنے والے بڑے بڑے پہلوان ان انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہونے کا واویلا بھی کر رہے ہیں اور اس نظام کو چیلنج کرنے کے بجاے اس میں شریک بھی ہو رہے ہیں۔ آج ہم سب امتحان کی کسوٹی پر پرکھے جا رہے ہیں۔ وقتی، ذاتی اورجماعتی مصلحتیں ایک طرف ہیں۔ دوسری طرف اصول، دستور اور نظام کی اصلاح اور خرابی کے اس عمل کو ہمیشہ کے لیے روک دینے کی خواہش اور کوشش ہے۔

پرویزی آمریت کے آٹھ سال اور مستقبل کا ایجنڈا

جنوری ۲۰۰۸ء کے انتخابات دراصل پرویزی آمریت کے آٹھ سالہ دور کو ایک نئی شکل میں، آیندہ پانچ سالوں کے لیے وسعت دینے کا ایک منصوبہ ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس نظام کے خدوخال کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے، تاکہ قوم اور تمام سوچنے سمجھنے والے اچھی طرح جان لیں کہ اس وقت ملک و قوم کے سامنے اصل ایشو کیا ہیں؟

۱- شخصی حکومت کو دوام: اس نظام کا سب سے نمایاں پہلو عملاً ایک فرد کی شخصی حکومت کو دوام بخشنا ہے، خواہ   اس پر کیسا ہی لبادہ کیوں نہ اوڑھایا جائے اور وردی زیب تن ہویا شیروانی!

پرویز مشرف کے پورے دور حکومت کا مرکزی نکتہ صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ قومی مفاد وہ ہے جسے پرویز مشرف ’قومی مفاد‘ کہیں۔ انھوں نے بار بار کہا ہے کہ نہ دستور اہم ہے اور نہ جمہوریت۔ جسے وہ ’پاکستان‘ اور ’سب سے پہلے پاکستان‘ کہتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ ’سب سے پہلے میں___ یعنی صرف پرویز مشرف! ‘

جمہوریت میں ’قومی مفاد‘ کا سب سے بڑا ترجمان قومی دستور ہوتا ہے جس پر پوری قوم کا اجماع (consensus) ہوتا ہے اور جسے بنیادی قانون کہا جاتا ہے۔ اس دستور کے فریم ورک میں قومی مفاد وہ ہے، جس کا اظہار خود قوم اپنے منتخب نمایندوںکے ذریعے کرے اور اس قومی مفاد کی کچھ لہریں عوامی جلسوں، سیاسی جماعتوں کے اظہارِ خیال، میڈیا کے ذریعے عوام کی ترجمانی اور پبلک کی راے عامہ کے دوسرے معتبر مظاہر ہیں۔ لیکن پرویز مشرف کا فلسفہ یہ ہے کہ قومی مفاد کا تعین کرنا صرف ان کا استحقاق (prerogative) ہے۔ ان کی راے اور ان کی ذات ہی دستور، قانون، ملک، جمہوریت، عدلیہ ہر چیز پر حاوی ہے۔ یہ وہی مطعون و مذموم فلسفہ ہے جس کا دعویٰ فرانس کے بادشاہ لوئی ہفتم نے کیا تھا: ’’میں قانون ہوں‘‘۔ہٹلر، مسولینی، اسٹالین، شاہ ایران،  حسنی مبارک، صدام حسین سب کی ذہنیت یہی تھی۔ اور آج پرویز مشرف انہی کے نقش قدم پر   چل رہے ہیں جس کا ثبوت وہ کچھ ہے جو پرویز مشرف نے پہلے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء میں کیا اور پھر ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو جو اقدام کیا اور جس کا تازہ ترین اظہار۱۵دسمبر کے روز فردِواحد کے ہاتھوں دستور کا حلیہ بگاڑنے کے سارے عمل کو نہ صرف دستور کا حصہ قرار دے کر کیا گیا بلکہ اپنے ہی قلم سے اپنے ان تمام اقدامات کو نام نہاد ’قانونی تحفظ و جواز‘ بھی دے دیا جنھیں بین الاقوامی میڈیا کے سامنے ’غیرقانونی (illegal) اور ماوراے دستور (extra-constitutional) ہونے کا خود ہی اعتراف کیا تھا۔

  • عوامی ردعمل: پاکستان میں عوامی راے کے جتنے بھی جائزے لیے گئے ہیں، وہ سب یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پرویز مشرف کی کسی بات پر قوم کو اعتبار نہیں اور آج وہ سب سے زیادہ ناپسندیدہ سیاسی حکمران ہیں۔ وہ ’درمدح خود‘ خواہ کچھ بھی کہیں لیکن دنیا بھر میں آج کوئی ان کے ایسے شیخی پر مبنی دعووں کو کوئی وزن نہیں دیتا اس لیے کہ یہ سارا کھیل ان کی اپنی ذات کے گرد گھومتا ہے۔ پاکستان، جمہوریت یا قومی مفاد سے اس کا دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔

گیلپ پاکستان نے ۵ اور ۶ نومبر ۲۰۰۷ء (ایمرجنسی کے لبادے میں مارشل لا ) کے دو اور تین دن بعد جو سروے کیا، وہ قوم کے جذبات کا حقیقی ترجمان ہے:

  • ایمرجنسی کی مخالفت ۶۷ فی صد… تائید ۱۹ فی صد۔
  • کیا ایمرجنسی پاکستان کے مفاد میں ہے؟ ۶۸ فی صد نہیں… ۱۸ فی صد ہاں
  • کیا چیف جسٹس کی برطرفی صحیح تھی؟ ۷۰ فی صد نہیں… ۱۴ فی صد ہاں۔
  • ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ ایمرجنسی کا نفاذ پاکستان کے مفاد میں تھا جب کہ دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ یہ مشرف کے اپنے مفاد میں تھا___ آپ کیا کہتے ہیں؟ پاکستان کے مفاد میں ۱۸ فی صد … مشرف کے مفاد میں ۶۸ فی صد۔

انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام کیے جانے والے راے عامہ کے جائزے کے مطابق، جو ۱۹سے ۲۸ نومبر ۲۰۰۷ء کے درمیان ہوا، یہ بتایا گیا ہے کہ بحیثیت مجموعی، ۶۶ فی صد سے لے کر ۷۵ فی صد تک آبادی مشرف ، ان کی پالیسیوں اور اقدامات کے مخالف ہے، جب کہ ان کی تائید آبادی کے صرف ایک چوتھائی تک سکڑ گئی ہے۔ ایمرجنسی کے نفاذ کے لیے مشرف کے موقف کو آبادی کے ۶۶ فی صد نے رد کیا ہے اور ان کا خیال ہے کہ یہ سارا اقدام عدلیہ کو اس خدشہ سے میدان سے ہٹانے کے لیے کیا گیا تھا کہ وہ پرویز مشرف کو صدارت کے لیے نااہل قرار دے دے گی۔ ہوا کے رخ کا اندازہ عوام کی اس راے سے کیا جاسکتا ہے جس میں انھوں نے ’ہاں‘ میں جواب دیا ہے:

  • دستور کی معطلی غلط تھی ۷۱ فی صد
  • سپریم کورٹ کے ججوں کی حراست غلط تھی   ۷۷ فی صد
  • ٹی وی نیوز چینلوں پر پابندی غلط تھی              ۷۶ فی صد
  • سپریم کورٹ کے ججوں کا نیا حلف غلط تھا      ۷۳ فی صد
  • سیاسی جلسوں اور جلوس پر پابندی غلط تھی     ۷۰ فی صد
  • وکلا، سول سوسائٹی، سیاسی قائدین کی نظربندی غلط تھی ۷۶ فی صد
  • بین الاقوامی ردعمل: صاف ظاہر ہے کہ ملک کی عظیم اکثریت، پرویز مشرف کے اقدامات کو غلط اور قومی مفاد کے خلاف سمجھتی ہے۔ ان کا اپنا دعویٰ یہ ہے کہ انھوں نے فیاضی کا ثبوت دیتے ہوئے ملک کو جمہوریت کا ’تحفہ‘ دیا ہے اور پریس اور الیکٹرانک میڈیا کو آزادی سے نوازا ہے۔ لیکن ان کے دعووں کو نہ ملک کی عظیم اکثریت تسلیم کرتی ہے اور نہ ان کے بیرونی سرپرست، جن کی بیساکھیوں پر انھوں نے اپنی بساط بچھائی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے: ’’گذشتہ دوہفتوں میں جنرل پرویز مشرف نے جو بھی اقدام اٹھایا ہے اُس کا ایک ہی مقصد ہے کہ اقتدار پر اپنے کنٹرول کو استحکام بخشا جائے‘‘۔ (دی نیشن، ۳دسمبر ۲۰۰۷ئ)

واشنگٹن پوسٹ ہی نے اپنے ۱۹دسمبر کے اداریے میں ان کے اس دور کے کارناموں کا یوں احاطہ کیا ہے:

’’اگرچہ اُنھوں نے باضابطہ طور پر اُس حالت کو ختم کردیا ہے جو اُنھوں نے ۶ہفتے قبل نافذ کی تھی، مگر اس کے باوجود پرویز مشرف پر تنقید کرنے کا مطلب جیل جانا ہے۔ عدالتی نظام وکلا کے بائیکاٹ کی وجہ سے مفلوج ہوچکا ہے کیونکہ مشرف نے سپریم کورٹ کے اُن ججوں کو بحال کرنے سے انکار کردیا ہے جن کو اُنھوں نے غیرقانونی طور پر برطرف کردیا تھا۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہ بارہا انتباہ کرچکے ہیں کہ صدر کا منصوبہ ہے کہ اگلے ماہ پارلیمانی انتخابات میں جعل سازی کی جائے تاکہ اُن کی اپنی پارٹی، جوبے انتہا غیرمقبول ہوچکی ہے، برسرِاقتدار رہے۔

حقیقت میں اُن کی واحد کامیابی یہ ہے کہ اُنھوں نے سپریم کورٹ کے ہاتھوں اپنی برخاستگی سے اپنے آپ کو بچایا ہے۔ اس کی قیمت یہ ادا کی گئی ہے کہ ملک کو مزید غیرمستحکم کردیا گیا ہے‘‘۔

کلدیپ نیر، مشرف صاحب کے مداح رہے ہیں، وہ اپنے مضمون میں واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے انٹرویو کی روشنی میں موصوف کی خودپسندی اور خودآرائی پر یوں اظہار کرتے ہیں:

بدقسمتی سے مارشل لا انتظامیہ کی طرف سے دستور میں بار بار ترامیم کی گئی ہیں، لیکن جس انداز سے مشرف نے اِسے مسخکیا ہے وہ سب پر بازی لے گئے ہیں۔ اُنھوں نے ایسے وقت میں عدلیہ کو برباد کردیا کہ جب اس کی آزادی کی طرف جمہوری ممالک بشمول بھارت میں رشک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا تھا۔ عدلیہ کے علاوہ مشرف نے میڈیا کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے باوجود بھی مشرف نڈر بنے ہوئے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو سے اُن کے مستقبل کے عزائم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جب اُن سے سوال کیا گیا کہ وہ وردی اُتار دینے کے بعد فرق محسوس کریں گے تو مشرف نے جواب دیا: ’’فوج کا انتظام چیف آف اسٹاف کے حوالے ہے جو اپنے کام سے انہماک رکھتا ہے اور میں پاکستان کا صدر بن جائوں گا۔ اگر دونوں ہم آہنگ رہیں تو صورت حال بہتر رہے گی‘‘۔ پھر ایک اور سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہا کہ ’’میں چیف آف اسٹاف کو مقرر کروں گا‘‘۔ اس میں وزیراعظم کا کوئی ذکر نہیں جو عوام کا منتخب نمایندہ ہے۔ ایمرجنسی کا نفاذ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ سپریم کورٹ سے اپنے آپ کو بچایا جاسکے۔ (ہندستان ایکسپریس، ۱۳ نومبر ۲۰۰۷ئ)

لندن کا ہفت روزہ دی اکانومسٹ لکھتا ہے:

پاکستان میں نہ جمہوریت ہے اور نہ استحکام۔ جنرل پرویز مشرف کی یہ اُلٹی منطق ہے کہ: آرمی ڈکٹیٹر نے پاکستان کو جمہوریت عطا کی ہے اور مارشل لا کا سایہ بھی موجود ہے تاکہ دستور کی حفاظت کی جائے۔ عدلیہ پر اُنھوں نے جو تازہ ترین حملہ کیا ہے، وہ اُن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سپریم کورٹ کے انتہائی مؤثر ۱۷ میں سے ۱۲ ججوں کو یک قلم برخاست کرنا ہے۔ ان میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری گرفتار ہیں۔ ان کی جگہ فوج کے منتخب کردہ خوشامدی لگا دیے گئے ہیں۔ اسی وجہ سے جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ جمایا۔

یہ ہے شخصی حکمرانی کا وہ آہنگ، جو پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دورِ حکومت کا حاصل ہے۔ دستور مملکت جس کی پابندی کا حلف اس نے اٹھایا ہے، اس کوبار بار تارتار کرنے کا یہ انداز! مشرف صاحب جب چاہیں تلوار کی نوک سے دستور کے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالیں۔جس ادارے کو چاہیں   تباہ و برباد کرڈالیں، جس کی آزادی چاہیں سلب کرلیں، بیرونی حکومتوں سے جو چاہیں عہدوپیماں کرلیں، اپنی ملازمت میں جب چاہیں اور جن مراعات کے ساتھ چاہیں توسیع کرلیں، عدالتِ عالیہ کے جس جج کو چاہیں گردن دبوچ کر باہر نکال دیں، میڈیا پر جب چاہیں من پسند قدغنیں عائد کردیں اور دستور کا حلیہ بگاڑ کر اپنے اقدامات کو خود ہی تحفظ بھی دے ڈالیں___ یہ ہے اس شخص کا طرزِ حکمرانی۔ کیا اس طرزِ حکمرانی میں جمہوریت، قانون کی بالادستی اور اداروں کے استحکام اور انتخابات کے ذریعے سیاسی قیادت کی تبدیلی کا کوئی تصور کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بالغ نظر سیاسی رہنما ہوں یا بار اور بنچ (Bar & Bench)کے سوچنے سمجھنے والے عناصر___ سب یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ پرویزمشرف کسی بھی صورت میں منظور نہیں، خواہ وردی میں ہو یا وردی کے بغیر۔ اور عدالتِ عالیہ کو اسی فیصلہ سے روکنے اور اپنی ذات کو ملک پر مسلط کرنے کے لیے ایمرجنسی     اور عبوری دستور جو دراصل پرویزی دستور ی آرڈر (PCO) تھا، اس کا راستہ اختیار کیا گیا۔ اسی  پی سی او کو اب پوری عیاری سے دستور کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور انتخابات کا ڈراما اسی کے تحت اسٹیج کیا جارہا ہے۔

۲- ملکی آزادی اور خودمختاری پر زد: پرویزی تلوار کی دوسری زد ملک کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری پر پڑی ہے۔ دوسرے ممالک، خصوصیت سے امریکا اور اس کے زیراثر ممالک، جس درجے میں اور جس نوعیت کی مداخلت کا نشانہ آج پاکستان کو بنا رہے ہیں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ قائداعظم نے تو لارڈ مائونٹ بیٹن تک کو عارضی طور پر گورنر جنرل ماننے سے انکار کردیا تھا۔ جب اس وقت کی پاکستانی فوج کے برطانوی کمانڈر نے سربراہ ِ مملکت کے احکام ماننے میں تردّد کا راستہ اختیار کیا تو ان سے بھی خلاصی حاصل کرلی گئی، لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ امریکا کے سفارت کار وائسراے کا سا مقام حاصل کرچکے ہیں۔ ان کے تیسرے درجے کا افسر بھی صدرِ مملکت، فوج کے سربراہ، آئی ایس آئی کے چیف اور جس سطح کے حکام سے چاہیں ملاقات کرتے ہیں اور احکام جاری کرتے ہیں۔ صدر بش سے لے جارج گیٹس تک کھلے الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ: ہم جب ضرورت سمجھیں گے پاکستان کی سرزمین پر اپنے اہداف کے حصول کے لیے بلاواسطہ فوجی کارروائی کریں گے___ اور وہ صرف یہ دعویٰ ہی نہیں کر رہے، بلکہ عملاً متعدد بار افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج پاکستان کی حدود میں کارروائیاں کرچکی ہیں اور پرویزمشرف کی حکومت کو احتجاج کی توفیق بھی نہیں ہوئی بلکہ چند مواقع پر تو غیرت و حمیت کو دفن کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا گیا:’’ وہ کارروائی امریکا نے نہیں خود ہم نے کی تھی‘‘۔

بات صرف دہشت گردی کے خلاف امریکا کی نام نہاد جنگ اور اس میں پاکستان کے کردار تک محدود نہیں، معاشی پالیسیوں سے لے کر تعلیمی پالیسی تک اور اس سے بھی بڑھ کر اب پاکستان کے لیے مستقبل کی قیادت کا اصل انتخاب اور ان کی ’رسم تاج پوشی‘ تک واشنگٹن کے  دستِ شفقت کے ذریعہ ہو رہی ہے۔ پرویز مشرف کو کن کن کے ساتھ اشتراکِ اقتدار کرنا چاہیے اور امریکا کے چہیتوں کو ملک میں لانے اور اقتدار کے منصب تک پہنچانے کے لیے ان کے کن کن جرائم کو معاف کرنا اور قومی مصالحت کے نام پر کرپشن کے کن کن داغوں کو دھونے اور ملک اور ملک سے باہر مقدمات کو واپس لینا ہے؟ یہ بھی امریکا اور اس کے گماشتوں کے اشاروں پر طے ہو رہا ہے۔ امریکا ہی نہیں اب تو یورپ اور شرق اوسط کے سفرا بھی ملکی سیاست کے دروبست کو اپنے ڈھب میں ڈھالنے میں مصروف ہیں۔ امریکا نے ۲۰۰۷ء میں ایک نہیں بلکہ دو ایسے قوانین دونوں ایوانوں سے پاس کرالیے ہیں، جن کے تحت پاکستان کو دی جانے والی امداد کو صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ ہی نہیں، بلکہ ملک کی اندرونی سیاست، تعلیم اور سب سے بڑھ کر ملک میں سیکولرزم اور امریکا کی دل پسند ’روشن خیالی‘ کے فروغ سے مشروط کردیا گیا ہے۔ پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کی غیرت نے اس ظلم یا بہ الفاظ صحیح تر غلامی کو بھی گوارا کرلیا ہے اور اس لیے کرلیا ہے کہ تاکہ ہرسال چند سوملین ڈالر حاصل ہوتے رہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ بڑے ہی اہم امور پر   اب ہماری خارجہ سیاست کی صورت گری امریکا اور بیرونی قرضے اور امداد دینے والے ادارے کر رہے ہیں۔ بھارت سے دوستی، کشمیر کے مسئلے پر یو ٹرن اور کشمیر کی تحریک مزاحمت سے بے وفائی، اسرائیل سے پینگیں بڑھانے کا خطرناک اور شرمناک کھیل بھی اسی قوم فروشی کے مظاہر اوراس میں     پرویز مشرف اور خورشید محمود قصوری کے ساتھ بے نظیر بھٹو بھی اپنے اپنے انداز میں اور ’حسب توفیق‘ امریکا اور اسرائیل کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے شریک ہیں۔

یہ صرف پرویز مشرف کے دور میں ہوا ہے کہ پاکستان کے وزیرخارجہ نے اسرائیل کے وزیرخارجہ سے ملاقات کی ہے۔ پرویز مشرف نے امریکن جیوش کانگرس سے نہ صرف خطاب کیا ہے، بلکہ اسرائیل سے سلسلۂ کلام شروع کرنے اور اسرائیل اور فلسطینی قیادت کے درمیان کردار اداکرنے کی باتیں کی ہیں۔ پاکستان نے ۶۰سال میں پہلی بار اقوام متحدہ میں اسرائیل کے پیش کردہ ریزولیوشن کے حق میں ووٹ دیا ہے، جب کہ ان عرب ممالک نے بھی، جو ضمیر کا سودا کرکے اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں، اس راے شماری کے دوران غیرحاضر رہنے کو ترجیح دی ہے۔ پاکستانی اخبارات میں یہ خبر شائع ہونے نہیں دی گئی کہ نومبر ۲۰۰۷ء میں جان نیگروپونٹے کے دورۂ پاکستان اور پرویز مشرف سے ملاقات سے چند دن پہلے امریکی جیوش کانگرس کی ورلڈ جیوری کے چیئرمین جیک روزن نے خاموشی اور رازداری سے پاکستان کا سفر کیا اور وہ پرویز مشرف صاحب کے علاوہ اس وقت کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف جنرل کیانی اور کئی مرکزی وزرا اور اعلیٰ سرکاری حکام سے ملا۔ اس نے امریکا جاکر امریکی لابی کو پرویز مشرف کے حق میں متحرک کرنے کی کوشش کی۔ اس کی تفصیلی رپورٹ یہودی روزنامے Foreward میں شائع ہوئی ہے، جو ۲۱ نومبر ۲۰۰۷ء کے شمارے میں دیکھی جاسکتی ہے۔ (www.foreward.com/articles/12080)

بے نظیر صاحبہ بھی اسرائیلی صدر شیمون پیریس سے اور اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر سے بنفس نفیس ملی ہیں اور اقتدار میں آکر اسرائیل کوتسلیم کرنے کے اشارے بھی دے رہی ہے اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو ’ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی‘ (IAEA) کے حوالے کرنے کے عزائم کا بھی اظہار کر رہی ہیں۔

پرویز مشرف اور ان کے حالیہ اور مستقبل کے شریک اقتدار کس کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں اور امریکا کی خوش نودی کے لیے ملک کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری پرسمجھوتوں کو کہاں تک لے گئے ہیں، اس کا پورا اندازہ شاید ان کے اقتدار سے رخصت ہوجانے کے بعد ہی ہوسکے!

۳- نظریاتی اور دینی تشخص کا مجروح ھونا: پرویزی دور کا تیسرا تحفہ ملک کے نظریاتی، دینی اور اخلاقی تشخص کا بری طرح مجروح ہونا ہے۔ مغربی تہذیب و تمدن سے شیفتگی، تعلیم میں سیکولر ازم کا فروغ اور پوری اجتماعی زندگی میں عریانی اور فحاشی کی کھلی چھوٹ کی جو کیفیت آج ہے،پہلے کبھی نہ تھی۔ زندگی کے ہرشعبے کی سیکولر بنیادوں پر تشکیل کی جارہی ہے۔ رواداری اور معروضیت کے نام پر دینی تعلیمات، تہذیبی اقدار، اُمت کے جداگانہ تشخص، اپنے اخلاقی نظام اور رسم و رواج سب کو پامال کیا جا رہا ہے۔ جس قوم کی نئی نسلیں اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ سے واقف نہیں ہوںگی اور ان پر فخر نہیں کریں گی، وہ اپنی آزادی کو کیسے برقرار رکھ سکیں گی اور دنیا پر اپنا نقش کیسے قائم کرسکیں گی۔

بات صرف اس تہذیبی انتشار تک محدود نہیں۔ قوم جو پہلے ہی فرقوں میں بٹی ہوئی تھی، اس میں فرقہ واریت بلکہ فرقہ وارانہ تصادم کو فروغ دینے کا کھیل بھی کھیلا جا رہا ہے۔ اس میں بیرونی ممالک اور ان کے گماشتے (افراد اور این جی اوز) اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ تو قوم کی دینی بصیرت اور دینی جماعتوں اور خصوصیت سے متحدہ مجلس عمل کا کارنامہ ہے کہ فرقہ واریت کی آگ نہ پھیل سکی، ورنہ امریکی پالیسی سازوں اور ملکی ایجنسیوں نے اس آگ کو بھڑکانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی تھی۔

پرویز مشرف نے قوم کو انتہا پسندوں اور روشن خیالوں میں تقسیم کرکے اور ان کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے کی بھی بہت کوشش کی ہے، اور اس طرح ملک میں نظریاتی   کش مکش کو فروغ دینے کی امریکی حکمت عملی کو آگے بڑھانے میں بڑا خطرناک کردار اداکیا ہے۔ اختلاف راے خواہ سیاسی ہو یا مذہبی اور نظریاتی، ہر معاشرے کا حصہ ہے اور افہام و تفہیم اور    بحث و مذاکرے کے ذریعے ہی فکرانسانی کی ترویج ہوتی ہے۔ مہذب معاشرے کی بنیاد فکرونظر کے تنوع پر ہے اور اسی سے زندگی میں حُسن اور ترقی کے راستے پھوٹتے ہیں    ؎

گل ہاے رنگ رنگ سے ہے زینتِ چمن

اے ذوق، اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے

ہاں یہ ضروری ہے کہ اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش نہ ہو، تشدد اور قوت کا  استعمال نہ کیا جائے ( لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن)۔ لیکن حدود کے اندر اختلاف اور تنوع کو انتہاپسندی اور روشن خیالی کانام دے کر، لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنا تباہی کا راستہ ہے۔ کسی کی نگاہ میں کیا انتہاپسندی ہے اور کیا روشن خیالی___ یہ حکمران طے نہیں کریںگے، قوم کا ضمیر ہی اس کا فیصلہ کرے گا۔ رواداری ضروری ہے مگر امریکا کے ایجنڈے کے مطابق مسلمان معاشرے اور قوم کو انتہاپسندی اور روشن خیالی کے نام پر تقسیم کرنا اور تصادم کی فضا بنانا، اپنی قوم کے ساتھ ظلم ہے  اور یہ بھی پرویزی دور کا ایک تباہ کن تحفہ ہے اور خود انتہاپسندی اور جبر کی قوت سے اپنی بات دوسروں پر مسلط کرنے کی بدترین مثال ہے۔

۴- اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش: چوتھا کارنامہ اس دور کا یہ ہے کہ ایک ایک کر کے ملک کے تمام اداروں کو کمزور، مضمحل بلکہ تباہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اور صرف اپنی ذات کو استحکام کا ذریعہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا نشانہ دستور بنا، پھر سیاسی جماعتوں کی باری آئی۔ الیکشن کے نظام کو صدارتی ریفرنڈم اور پھر ۲۰۰۲ء کے قومی اور صوبائی انتخابات کے موقع پر من مانی اور ایجنسیوں کی دراندازی کی آماج گاہ بنا دیا گیا۔

  • دستور کی پامالی: ۲۰۰۲ء میں پارلیمنٹ وجود میں آئی، مگر اس طرح کہ پہلے سال تو صرف احتجاج ہوتا رہا۔ باقی چار برسوں کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی ہے۔ صدر نے پارلیمنٹ کو خطاب کرنے کی دستوری ذمہ داری چار سال تک پوری نہیں کی اور پارلیمنٹ کو ’غیرمہذب‘ کہہ کر نظرانداز کردیا۔ قانون سازی کے لیے صدارتی فرمان کا راستہ اختیار کیا اور ۷۵ فی صد قانون سازی آرڈی ننس کے ذریعے ہوئی۔ سیاسی جماعتوں کو توڑ پھوڑ اور ضمیروں کی کھلی خریدوفروخت کے ذریعے اپنی گرفت میں رکھا گیا۔ قومی اسمبلی کے پانچ سال پورے کرنے کو ایک کارنامے کے طور پر تو پیش کیا جا رہا ہے لیکن اس کا کوئی ذکر نہیں کیا جا رہا کہ اسمبلی نے کتنے دن کام کیا؟ کتنے گھنٹے اپنے فرائض منصبی پورے کرنے کے لیے صرف کیے، کتنی بار کورم ٹوٹا، کُل ارکان میں سے کتنے ایسے ہیں جنھوں نے پانچ سال میں کوئی ایک تقریر بھی نہیں کی، ایک سوال نہیں پوچھا، ایک تحریک نہیں پیش کی؟ اور پھر اسمبلی نے آخری ایام میں ایک نااہل شخص کو صدر منتخب کر کے اور ایمرجنسی اور دستور کی معطلی کی تائید کرکے اپنے منہ پر کتنی کالک ملی؟ پارلیمنٹ کے ادارے کو نیم جان کرنے کے ساتھ ریاست کے دوسرے بنیادی ستون عدلیہ کے ساتھ جو کچھ کیا گیا، وہ عبرت ناک ہے۔ اپنی مرضی کے لوگوں کو عدالت میں مقرر کرنے، چیف جسٹس کو دو بار اوردوسرے ۵۴ ججوں کی برطرفی (جو کُل اعلیٰ عدالتی ججوں کا ۶۰ فی صدہیں) ایک ایسا مجرمانہ فعل ہے جو تاریخ میں سیاہ ترین باب کی حیثیت رکھے گا، اور جس کی مذمت پوری دنیا میں ہوئی ہے۔
  • انتظامیہ کی بے توقیری: انتظامیہ کو اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کا تابع بنانا، سرکاری ملازمین کے تبادلے، برطرفی اور ان سے وہ کام لینا جو ان کے منصب سے مطابقت نہیں رکھتا، انتظامیہ کوتباہ کرنے کا نسخہ ہے۔ پھر پبلک سروس کمیشن کو اس زمانے میں عضو معطل بنا دیا گیا۔    اس کے دائرہ کار کو محدود، اس کے ارکان کی مدت کی تخفیف ، اس کو نظرانداز کرکے بلکہ اس کی سفارشات کے برعکس تقرریاں، فوج کے حاضرسروس اور ریٹائرڈ افراد کا تقرر ___ کس کس بات کا رونا رویا جائے۔
  • آزادیِ اظھار پر قدغن: میڈیا ریاست کاایک چوتھا ستون ہے اور اس کی آزادی اور چینلوں کی ترویج کو اپنے ’بڑے کارناموں‘ میں پیش کیا جاتا ہے، مگر جس طرح میڈیا کو لگام دی گئی، ویج بورڈ کے ساتھ جو کچھ کیا گیا، ’پیمرا‘ نے کس طرح اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو اپنے شکنجے میں کسا، پولیس نے کس طرح آزاد میڈیا پر یورش کی، ضمیر خریدنے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلے گئے، براہِ راست ٹیلی کاسٹنگ کا کس طرح گلا گھونٹا گیا، صحافیوں پر قیدوبند اور ظلم و تشدد کے کون کون سے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے___ اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اس دور میں ایک دو نہیں ۲۴صحافیوں کواپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ یہ ہے میڈیا کی ’آزادی‘ کی حقیقت جسے پرویزی دور کا کارنامہ بناکر پیش کیا جاتا ہے۔
  • فوج بحیثیت ادارہ کی چیرہ دستی:مسلح افواج کا محترم ادارہ جس نے اس دور کے حکمران کو اصل قوت فراہم کی، وہ بھی اس دور کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہ رہا۔ جو فوج دفاع وطن کے لیے تیار کی گئی تھی اسے ان دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا، جن کے لیے وہ بنائی ہی نہیں گئی تھی اور نہ اس کی اہلیت رکھتی تھی۔ نائن الیون کے بعد فوج کو آنکھیں بند کر کے امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف‘ نام نہاد جنگ میں جھونک دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں فوج کے اقدامات اور قوم کے احساسات کے درمیان دُوری رونما ہوئی۔ بلوچستان، وفاقی قبائلی علاقوں اور دوسرے مقامات پر فوج کے استعمال کی قوم ہی نے نہیں خود فوج نے بھی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ ایک ہزار سے زیادہ فوجی جوانوں اور افسروں اور اس سے دوگنا یا اس سے بھی زیادہ سویلین افراد بشمول خواتین اور بچوں کی ہلاکت ایک قومی سانحہ ہے۔ اس سے کچھ کم سانحہ یہ نہیں کہ فوج کا جو وقار، اس سے جو محبت قوم کو تھی، اس میں نمایاں کمی آئی ہے۔ راے عامہ کے جائزوں کی رو سے ۱۹۹۹ء میں ۸۰ فی صد آبادی فوج کو سب سے محترم اور قابلِ اعتماد ادارہ قرار دیتی تھی جو ۲۰۰۷ء میں گر کر    ۵۴ فی صد پر آگئی ہے۔ یعنی فوج کے وقار میں ۴۰ فی صد کمی واقع ہوئی ہے، جو بڑا قومی خسارہ ہے۔ بے اعتمادی اب یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ وزارتِ داخلہ کو چند ماہ قبل باقاعدہ یہ تحریری ہدایت جاری کرنی پڑی اور فوجی عام پبلک مقامات پر تنہا فوجی وردی میں نہ جائیں، انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون!

ہم نے دل کڑا کر کے یہ صورت حال بیان کی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پرویزی دور میں ریاست کے تمام ہی ادارے مجروح اور متزلزل ہوچکے ہیں گویا   ؎

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں

تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں

۵- وفاق کا کمزور ھونا: اس دور کا پانچواں تحفہ فیڈریشن کی کمزوری ہے۔ اولین دومارشل لا، وہ تاریک ادوار ہیں، جب مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں بے اعتمادی اور مغائرت واقع ہوئی اور بالآخر بھارت نے اپنی پاکستان دشمنی میں اس کا فائدہ اٹھایا اور قائداعظم کا پاکستان دولخت ہوگیا۔ مشرف کے مارشل لا میں مرکز اور صوبوں کے درمیان بے اعتمادی اور دُوری کی نئی لہر اُبھری ہے اور خصوصیت سے بلوچستان اور سرحد کے صوبوں میں مرکز گریز رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ اکبربگٹی جو اپنی قوم کا سردار ہی نہیں تھا بلکہ بلوچستان میں فیڈریشن کا نمایندہ بھی تھا، فوج کے ہاتھوں قتل ہوکر مرکز کے خلاف نفرت کا عنوان بن گیا ہے۔ اصلاحِ احوال کی ہرکوشش کو حکمران ٹولے نے سبوتاژ کیا اور بلوچستان اور صوبائی مفاہمت کے لیے پارلیمانی کمیٹی نے جو محنت کی، وہ سب رائیگاں گئی۔ صوبوں کو ان کے وسائل پر اختیار حاصل نہیں ہے اور دستور کے مطابق جو رائلٹی اور ملازمتوں میں حصہ انہیں ملنا چاہیے، وہ نہیں مل رہا، اور سارے دعووں کے باوجود حالات میں سرِمو فرق واقع نہیں ہو رہا۔ مرکز کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ وزیراعظم اور صوبائی حکومت کے باہم اتفاق راے سے بجلی کے نفع میں صوبہ سرحد کے حق کے تعین کے لیے جو ثالثی ٹربیونل بنا تھا اور جس کا متفقہ اوارڈ آیا، اس تک پر عمل نہیں کیا گیا۔

فیڈریشن آج جتنی کمزور ہے اتنی کبھی نہ تھی___ یہ ہے اس دور کا حاصل!

۶- حقیقی معاشی ترقی سے محرومی: اس دور کا چھٹا تحفہ یہ ہے کہ معاشی اور مالیاتی وسائل کا جو سیلاب آیا اور کسی محنت اور پالیسی کے نتیجے کے بغیر ۶۵ ارب ڈالر کی جو مالی کشادگی حاصل ہوئی، اسے حقیقی معاشی ترقی اور عوام کی خوش حالی کے حصول کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔ معاشی ترقی کا سارا رخ آبادی کے ۱۰سے ۱۲فی صدطبقات کے لیے مخصوص کردیا گیا۔ باقی ملک کی عظیم اکثریت کے حصہ میں جو کچھ آیا ہے وہ بے روزگاری، افراطِ زر، اشیاے ضرورت کی کمیابی، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کا فقدان، زراعت کی ضرورتوں سے اغماض، تجارتی اور ادایگیوں کے  عدم توازن میں ناقابلِ برداشت اضافہ، بیرونی دنیا پر انحصار کی محتاجی، ملکی اور بیرونی قرضوں میں بڑھوتری اور معیشت اور زندگی کی ہر سطح پر کرپشن میں محیرالعقول اضافہ___ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے اور ۸۰فی صد آبادی کے لیے حالات میں کوئی تغیر نہیں ہوا یا مزید خراب ہوگئے۔

پلاننگ کمیشن کا وہ سروے جس کی بنیاد پر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ غربت میں کمی ہوئی ہے  اس میں یہ صورت حال سامنے آئی ہے کہ آبادی کے ۵۰ فی صد کا دعویٰ ہے کہ اس کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ ۲۸ فی صد آبادی کہتی ہے کہ ہمارے حالات بدتر ہوگئے ہیں اور جن کی حالت کسی درجے میں بہتر ہوئی ہے، وہ بمشکل ۲۰ سے ۲۳ فی صد ہے۔اس میں بھی اوپرکے      ۱۰ فی صد ہی اصل فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ یہی بات عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کے سروے سے معلوم ہوتی ہے۔گویا معاشی ترقی کے سارے دعووں کے باوجود اس دور کا اصل تحفہ غریبوں کا غریب تر ہونا اور امیروں کا امیر تر بن جانا ہے۔

۷- فوجی مداخلت کا دائرہ اثر بڑہانا: پرویزی دور کا ساتواں تحفہ سیاست میں فوج کی مداخلت اور فوج کو سیاست، معیشت، انتظامیہ غرض ہر اہم شعبے میں ایک باقاعدہ رول اداکرنے کی کوشش ہے، جس نے دستور میں طے کردہ نظامِ کار کو درہم برہم کردیا ہے، اور فوج کے بارے میں جو تاثر عام ہے وہ سابق خارجہ سیکرٹری ڈاکٹر تنویراحمد خان کے ایک حالیہ مضمون میں کچھ     اس طرح بیان کیا گیا ہے:

مسلح افواج پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ۲۰ ارب ڈالر کے برابر اثاثوں اور ایک کروڑ ۲۰لاکھ ایکڑ اراضی کی مالک بن چکی ہے۔ چنانچہ وہ بدعنوانی کے معاملات میں سب سے زیادہ نمایاں ہوچکی ہے۔

اس جلتی پر تیل کا کام پرویزمشرف کے اس فلسفے نے کیا ہے کہ ملک میں اقتدار کے تین سرچشمے ہیں: صدارت، فوج کا سربراہ اور وزیراعظم جسے وہ Troika (تکونی حکمرانی) کہتے ہیں۔ وہ ان کے درمیان یک رنگی کو استحکام کی شرط قرار دیتے ہیں۔ اپنے اس فلسفے کا اظہار وہ بار بار کرتے رہے ہیں، لیکن اس کا تازہ ترین اعلان واشنگٹن پوسٹ اور بی بی سی کو انٹرویو میں کیا ہے۔ حالانکہ پارلیمانی جمہوریت میں اقتدار کا مرکز اور محور پارلیمنٹ اور ان کا منتخب کردہ وزیراعظم ہوتا ہے۔ دستور کے تحت صدر کو غیرمتنازع شخصیت کا حامل ہونا چاہیے اور وہ فیڈریشن کی علامت ہے کسی حکمرانی کی تکون کا حصہ نہیں۔

رہی فوج تو دستور کے تحت وہ سول حکومت کے ماتحت ہے، خود مرکز اقتدار نہیں۔ بلاشبہہ ’نگرانی اور توازن‘ (checks and balances )کا نظام دستوری حکومت کا خاصہ ہے، لیکن ’نگرانی اور توازن‘ کا یہ نظام مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات کے ذریعے کارفرما ہوتا ہے۔ اس میں صدر اور فوج کا کوئی آزادکردار نہیں۔ پرویز مشرف کے ’تکونی حکمرانی‘ کے تصور نے دستور کے طے کردہ نظام کو جس پر قوم کا اتفاق راے ہے اور جو ایک معاہدۂ عمرانی کی حیثیت رکھتا ہے، درہم برہم کردیا ہے اور دراصل انتشار کی یہی اصل وجہ ہے۔ پرویز مشرف کی موجودگی میں دستور اپنی اصل شان میں کارفرما ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لیے اصل مسئلہ دستور کی بحالی، عدلیہ کی ۲نومبر ۲۰۰۷ء کی حیثیت میں بحالی اور فوج کو دفاع تک محدود کرنا ہے جس کے لیے پرویز مشرف کے تصور حکمرانی کو مکمل طور پر رد کرنا اور جو بھی اس کا داعی ہو اس کو اقتدار سے فارغ کرنا ضروری ہے۔

  • سیاسی جماعتوں کے بدلتے موقف:ایمرجنسی کے نفاذ، دستور معطل کرنے، عبوری دستور نافذ کرنے، عبوری دستور کے نام پر اصل دستور میں ایسی بنیادی تبدیلیاں کرنے سے اس دستور کا حلیہ خراب ہوگیا ہے اور اس پر ایک  ’تکون‘ کو مسلط کردیا گیا ہے اور پھر اس مسخ شدہ دستور (vandalized constitution) کے تحت ان کی پسند کی عبوری حکومت اور ان کے انگوٹھے تلے کام کرنے والے الیکشن کمیشن کے ذریعے انتخابات کا ناٹک رچا کر اپنے نظام کو چلانے والے لوگوں کو منتخب کرانا ان کا ایجنڈا ہے۔ پرویز مشرف کی اصل ضرورت ایک ایسی تابع مہمل پارلیمنٹ اور ایسی تابع فرمان مرکزی اور صوبائی اسمبلیاں ہیں، جو اُن مذموم آمرانہ، غیر جمہوری اور غیرقانونی مقاصد کو پورا کرسکیں۔اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر وہ اپنے اصطبل میں کچھ اور گھوڑوں کا اضافہ تو کرنے کو تیار ہیں اور اس کے لیے امریکا کے اشارے یا حکم پر، کچھ دوسری لبرل اور سیکولر قوتوں کو اپنی شرائط پر شریکِ اقتدار کرنے کوبھی تیار ہیں، مگر وہ اپنے اندر دستور کی پاس داری کا کوئی داعیہ نہیں پاتے اور نہ عوام کے حقیقی نمایندوں کے اقتدار سنبھالنے کی ان کے نظام میں کوئی گنجایش ہے، اس لیے انھوں نے تین کام کیے ہیں:

ا- دستور میں ایسی تبدیلیاں، جن کے نتیجے میں یہ دستور پارلیمانی جمہوریت کے بجاے صدارتی اور شخصی حکمرانی کی راہ ہموار کرسکے اور کوئی ان پر گرفت کرنے والا نہ ہو۔ خصوصیت سے آزاد عدلیہ کو تباہ کرکے اپنے نامزد ججوں پر مشتمل ایسی عدلیہ کو وجود میں لانا، جو موم کی ناک ہو اور ان کے ہراقدام پر مہرتصدیق ثبت کرنے والی ہو۔

ب- عبوری حکومت اور تابع فرمان الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کے ذریعے ایسی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب جو ان کے احکام کے مطابق خدمت انجام دے سکیں۔آج خود     پرویز مشرف کے اپنے سیاسی وجود کا انحصار ان کی مفید مطلب پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے وجود میں آنے پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گئی ہے۔

ج- امریکا اور مغربی اقوام سے اپنے لیے ’نئی زندگی اور ہنگامی غذا‘  کا حصول۔ اس سلسلے میں صدربش اور کونڈولیزارائس نے بالکل کھل کر تائید کردی ہے۔ بش نے ایک بار پھر پرویز مشرف کو جمہوریت پسندی کا سرٹیفیکیٹ جاری کیا ہے۔ امریکی نائب وزیرخارجہ بائوچر نے صاف کہا کہ انتخابات بے عیب نہیں ہوں گے، لیکن اس کے باوجود امریکا کے لیے قابلِ قبول ہوں گے (flawed but acceptable)۔ برطانوی ہائی کمشنر نے صراحت سے کہہ دیا ہے کہ عدلیہ کا مسئلہ پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے اور گویا عدلیہ کی آزادی اور عدلیہ کی ۲نومبر کی پوزیشن میں بحالی دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ دراصل مشرف صاحب کی شخصی آمریت کے جاری رہنے کی راہ میں سب سے بڑا خطرہ ایک تو عوامی غیظ و غضب ہے اور اس کے بعد عدلیہ کی اس شکل میں بحالی ہے جو ۲نومبر ۲۰۰۷ء کو وجود تھی اور جس عدلیہ نے دستور سے ماورا اقدامات پر احتساب کا عمل شروع کردیا تھا۔ نیز انتخابات میں دھاندلی (رگنگ) کے ذریعے من پسند (انجینیرڈ) نتائج حاصل کرنے کی راہ میں بھی سب سے بڑا خطرہ وہی عدلیہ تھی، جس نے اپنی آزادی کے مقام کو پہچان لیا تھا۔شخصی حاکمیت کے لیے دستور کی ایک محافظ عدلیہ ناقابلِ برداشت تھی، اور ہے۔ اس کا بڑا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے امریکا اور مغرب کے حکمران محض اپنے اپنے مفادات کے کھیل میں عدلیہ کی بحالی کے باب میں خاموش ہیں، اور ملک کی وہ تمام سیاسی قوتیں جو یا      پرویز مشرف کے ساتھ شریکِ اقتدار رہی ہیں یا شرکت کی توقع رکھتی ہیں وہ بھی خاموش ہیں، یا کہہ مکرنیوں سے کام لے رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کا معاملہ اس سلسلے میں سب سے زیادہ مخدوش ہے ۔ ایک طرف بے نظیرصاحبہ سے ۷نومبر کو جب مشرف کی اہلیت اور نئے آرڈی ننس جیسے اہم مسائل کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’’میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ گرفتار شدہ عدلیہ اس مسئلے کا فیصلہ کرے اورجو فیصلہ بھی وہ کرے وہ اسے قبول کرلیں گی‘‘۔

پھر ۱۱نومبر کو بے نظیر صاحبہ ، سپریم کورٹ کے ججوں کے رہایشی علاقے میں گئیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے نہ مل سکیں، مگر برملا کہا:

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور وہ تمام جج حضرات جنھوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا ہے، ان کو بحال کردیا جائے اور اُن کی نظربندی کے احکامات واپس لیے جائیں۔

مگر پانچ چھے روز بعد ۱۶ نومبر ۲۰۰۷ء کو ایک سیاسی زلزلہ آیا۔ جان نیگرو پونٹے پاکستان پر نازل ہوئے۔ ۱۷ نومبر کو انھوں نے بے نظیر صاحبہ سے ٹیلی فون پر بات کی اور پھر عدلیہ کی بحالی پر ان کا موقف تبدیل ہوگیا، بلکہ چارٹر آف ڈیمانڈ کے لیے بھی سب سے اہم اختلافی نکتہ یہی بن گیا کہ پیپلزپارٹی عدلیہ کی آزادی کی بات تو کرتی ہے مگر بحالی کو قبول نہیں کرسکتی اور بالآخر ۱۳ دسمبر کو انھوں نے کراچی میں برملا کہہ دیا:

جج حضرات آتے جاتے رہتے ہیں___جسٹس سلیم الزمان صدیقی اور ناصراسلم زاہد کی طرح جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا۔ اگر کوئی جج سیاست کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی سیاسی جماعت بنا لے۔

یہ ہے وہ دل خراش داستان، جسے سمجھے بغیر انتخابات میں شرکت اور بائیکاٹ کے درمیان انتخاب کے فیصلہ کن رویہ کے بہت سے پہلو واضح نہیں ہوتے۔ پرویز مشرف کا ایجنڈا اور سیاسی جماعتوں میں سے کچھ کے بدلتے ہوئے موقف، اپنے اندر غوروفکر کے بہت سے گوشے رکھتے ہیں۔

موجودہ حالات کا تقاضا

پرویز مشرف کے اقتدار کے بچائو اور تسلسل کے عزائم کی تکمیل کا انحصار صرف ان تین چیزوں پر ہے، جس کا ہم بار بار ذکر کر رہے ہیں:

                ۱-            عدلیہ ان کی تابع مہمل رہے، جو اسی وقت ممکن ہے جب ۲ نومبر کی عدلیہ بحال نہ ہو اور پرویز مشرف کے بنائے ہوئے دستوری عفریت (constitional monstocity)کو تحفظ حاصل رہے۔

                ۲-            انتخابات کی منصوبہ بند دھاندلی (انجینیرڈ رگنگ) کے ذریعے ان کے مفیدمطلب پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں وجود میں آجائیں۔

                ۳-            امریکا اور مغربی اقدام کی تائید انھیں حاصل رہے۔

اس تجزیے کا ناقابلِ انکار منطقی تقاضا یہ ہے کہ ایسے انتخابات کے جال میں نہ پھنسا جائے، جو اس ایجنڈے کی تکمیل میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اور ساری توجہ اس پر مرکوز کی جائے کہ:

  • عدلیہ اپنی اصل شکل میں بحال ہو اور پرویز مشرف کا بنایا ہوا یہ گھروندا زمین بوس ہوجائے تاکہ دستور کی اس شکل میں بحالی ہوسکے جو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو اس کی تھی۔ خصوصیت سے جو اقدامات ۳نومبر ۲۰۰۷ء سے ۱۵ دسمبر تک کیے گئے ہیں وہ کالعدم ہوںاور کسی شکل میں بھی ان کو تحفظ نہ دیا جائے، اس کے بغیردستور کے تحت سیاسی نظام بحال نہیں ہو سکتا۔
  • انتخابات کا انعقاد دستور کے مطابق ہو اور اس صورت میں ہو کہ انھیں آزاد، منصفانہ اور شفاف قرار دیا جاسکے۔ اس کے لیے غیر جانب دار عبوری حکومت کی تشکیل، آزاد، بااختیار اور اعتماد کا حامل الیکشن کمیشن بشمول چیف الیکشن کمشنر اور اس کے ماتحت کام کرنے والی پوری انتخابی مشینری کا شکوک و شبہات سے بالاتر ہونا ہے۔ نیز فہرستوں سے لے کر پولنگ اسٹیشنوں کی درستی، پولنگ کے انتظامات، بوگس ووٹ اور بوگس اسٹیشنوں کا سدباب اور صحیح گنتی وغیرہ تمام امور کا صحیح خطوط پر طے ہونا اور شفاف انداز میں ان پر عمل درآمد اور انتخابات کے موقع پر امن و امان اور قوت کا استعمال کرنے والے عناصر خصوصیت سے ایم کیو ایم اور وڈیروں اور چودھریوں کی پرائیویٹ افواج کے مقابلے کا انتظام شامل ہے۔
  • تیسری چیز انتخابی عمل میں بیرونی قوتوں اور ایجنسیوں کی دراندازی کا مکمل خاتمہ اور خصوصیت سے امریکا کے پاکستان کے اندرونی معاملات میں کردار کی نفی ___ امریکا اپنی نام نہاد جنگ کی خاطر پاکستان سے اپنی کالونی کے طورپر معاملہ کررہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے عوام جن کی ۹۴ فی صد آبادی امریکی کھیل پر سخت برہم ہے ، اسے لگام دینا چاہتی ہے اور اپنی قسمت کے فیصلے اپنے ہاتھوں کرنا چاہتے اور ان افراد سے نجات کے لیے کوشاں ہیں جو واشنگٹن سے احکامات لے رہے ہیں یا لینے کے لیے تیار ہیں۔

۸ جنوری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے بارے میں ملک کی ہر جماعت ماسواے مشرف حکومت کے سابقہ شرکا برملا اظہار کر رہی ہے کہ انتخابات کے آزاد اور منصفانہ ہونے کا کوئی امکان دُور دُور تک نہیں۔ حد یہ ہے کہ پرویزی جماعتوں میں سے بھی کچھ چیخ اُٹھی ہیں، جیساکہ مسلم لیگ فنکشنل پنجاب کے صوبائی صدر احمدمحمود کا بیان ہے جس میں انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی اس وقت بھی عملاً وزیراعلیٰ کے طور پر کام کر رہے ہیں اور پوری انتظامی مشینری ان کے زیرتصرف ہے۔ اس پر دی نیشن نے اپنے ادارتی کالم میں یوں اظہار کیا ہے:’’احمد محمود کے بیان کا خصوصی وزن ہے کیونکہ اُن کی پارٹی صدر مشرف کی حمایت کر رہی ہے‘‘۔

تقریباً تمام عوامی سروے یہی صورت حال پیش کرتے ہیں، انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہوسکتے، اور بائیکاٹ ہی وہ راستہ ہے جس سے بالآخر انتخابات کو آزاد اور شفاف بنانے کا کوئی امکان ہوسکتا ہے۔

آئی آر آئی کے سروے کے مطابق ۶۶ فی صد عوام کی راے میں ایمرجنسی کے نظام تلے انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہوسکتے۔ گیلپ پول کے مطابق ۵۶ فی صد لوگ ۸ جنوری کے انتخابات کے بائیکاٹ کے حق میں ہیں، جب کہ ۴۱ فی صد کا خیال ہے کہ الیکشن میں حصہ لینا چاہیے۔ آئی آر آئی کے سروے کے مطابق ۶۲ فی صد افراد نے بائیکاٹ کے حق میں راے دی جب کہ ۳۷ فی صد نے اس کے خلاف راے دی۔ لطف کی بات ہے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ ن دونوں کے حامیوں میں بائیکاٹ کے حق میں راے دینے والوں کی تعداد ۷۴ فی صد تھی۔ آئی آر آئی کے سروے میں ۷۲ فی صد نے پرویز مشرف کے خلاف ووٹ دینے کا عندیہ ظاہر کیا ہے کہ ان میں سے بھی ۶۱ فی صد بہت سختی سے پرویز مشرف کے دوبارہ منتخب ہونے کی مخالف ہیں جبکہ ۶۷فی صد کی خواہش ہے کہ مشرف فوری طور پر مستعفی ہوجائیں۔ عوام پرویز مشرف اور بے نظیر صاحبہ کے اشتراک اقتدار کے بھی خلاف ہیں اور اس سروے میں۶۰ فی صد نے مشرف اور بے نظیر کی مفاہمت کی مخالفت کی ہے۔

ملک اور ملک کے باہر تجزیہ نگاروں کی بڑی اکثریت بھی کھلے بندوں اس راے کا اظہار کررہی ہے کہ انتخابات دھاندلی زدہ اور ناقابلِ اعتماد ہوں گے، اور نتیجتاً سیاسی صورت حال کے  حل کے لیے غیر مؤثر ثابت ہوں گے۔ صرف چند آرا ملاحظہ فرمائیں:

جوں جوں ۸جنوری قریب آرہی ہے دھاندلی کے الزامات میں قوت آتی جارہی ہے۔ بدھ کے روز نیویارک میں قائم حقوق گروپ نے کہا کہ آزاد اور شفاف انتخابات   ممکن نہیںہوں گے، کیونکہ حکومت نے ججوں اور وکیلوں پر کریک ڈائون کیا ہے۔  ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ایمرجنسی کے اُٹھا لیے جانے کے بعد کئی جج اور وکیل ابھی تک گرفتار ہیں۔ یہ تو ایک غیرملکی گروپ کے خیالات ہیں لیکن سیاسی جماعتیں بھی ہر روز اس خوف کا اظہار کر رہی ہیں کہ ۸جنوری کے انتخابات میں دھاندلی ہوگی۔(روزنامہ ڈان، ایڈیٹوریل ۲۱ دسمبر ۲۰۰۷ئ)

سیاسیات کے پروفیسر محمد وسیم نے لکھا: ’’اس پر کم و بیش اتفاق راے پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں ۸ جنوری ۲۰۰۸ء کو ہونے والے انتخابات اپنی نوعیت کے لحاظ سے ’مذاق‘ ہوں گے‘‘۔(روزنامہ ڈان، ۱۲ دسمبر ۲۰۰۷ئ)

واشنگٹن پوسٹ ۱۲ دسمبر ۲۰۰۷ء میں گریفے ود ھ(Griffe Withe) نے لکھا ہے کہ: ’’آزاد ماہرین کا خیال ہے کہ اس کے بہت کم امکانات ہیں کہ انتخابات آزادانہ یا منصفانہ ہوں، نیز یہ کہ انتخابی نتائج کو تبدیل بھی کیا جاسکے گا اور ان کو عدالتوں میں چیلنج بھی نہ کیا جاسکے گا‘‘۔

تمام اہم اخبارات و رسائل بشمول وال اسٹریٹ جرنل، دی گارڈین، بوسٹن گلوب، دی اکانومسٹ، فارن پالیسی بیک زبان انتخابات کے دھاندلی زدہ اور     ناقابلِ اعتماد ہونے کی بات کر رہے ہیں اور یہی بات بے نظیر بھٹوصاحبہ اور نواز شریف صاحب بھی کہہ رہے ہیں۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی واضح بات کے باوجود انھوں نے اپنی ہی قائم کردہ کمیٹی کے مرتب کردہ چارٹر آف ڈیمانڈ کو کیوں نظرانداز کردیا جو انتخابات کو منصفانہ اور شفاف بنانے کے لیے تقریباً متفقہ طورپر تیار کیا گیاتھا ، اور آنکھیں بند کرکے انتخابات میں کود پڑے، اور اس تاریخی موقع کو ضائع کردیا جو بائیکاٹ کی شکل میں پرویز مشرف کے پورے کھیل کا پردہ چاک کرنے کا ان کو حاصل تھا۔

ملکی مستقبل پر نظر رکہنے کی ضرورت

ہماری بحث کا حاصل یہ ہے کہ غلط نظام کے تحت دھاندلی زدہ انتخابات میں شرکت سے یا اس کے بعد بننے والی اسمبلی کے ذریعہ نظامِ کار کی درستی کا کوئی امکان نہیں، انتخابات کے بعد تبدیلی کا خیال محض ایک واہمہ ہے، کہ بار بار کے تجربوں کے بعد بھی ہماری سیاسی جماعتوں کی آنکھیں ابھی تک نہیں کھلیں، اور ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جانے کے لیے وہ بے چین ہیں۔ معیاری صورت صرف بائیکاٹ کی ہے، لیکن اس زریں موقع کو بیش تر سیاسی جماعتوں نے اقتدار میں شرکت کے خواب، یا اپنے جوشیلے کارکنوں کے دبائو میں ضائع کردیا۔ حالانکہ اے پی ڈی ایم،ججوں کی بڑی تعداد، پوری لیگل کمیونٹی اور سول سوسائٹی کے ذمہ داروں کے علاوہ آزاد سیاسی تجزیہ نگاروں نے بھی بروقت متنبہ کردیا تھا کہ یہ الیکشن دھوکہ ہوں گے اورصرف تماشے (fair) کے معنی میں فیئر ہوسکتے ہیں! اس لیے کہ اب آزاد عدلیہ کے بغیر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے منعقد ہونے یا انتخابی  بے ضابطگیوں اور غلط کاریوں کے سدباب کی کوئی سبیل نہیں ہوسکتی۔

ہمیں اعتراف ہے کہ یہ بڑا نازک اور مشکل مرحلہ تھا اور بلاشبہہ دونوں طرف کچھ نہ کچھ دلائل اور سیاسی مصالح موجود ہیں۔ لیکن اس تاریخی لمحہ میں اصل انتخاب تو اصول اور مصلحت کے درمیان ہے۔ قوم کے سامنے مسئلہ ان دونوں میں سے کسی ایک راستے کو منتخب کرنے کا ہے۔، ہمیں خوشی ہے کہ اے پی ڈی ایم کی بیش تر جماعتوں نے اصول کی سیاست کو، مفاد کی سیاست پر ترجیح دے کر قوم کے سامنے ایک ایسی متبادل سیاست کی راہ کو روشن کردیاہے، جس کی تمنا تو ۶۰سال سے کی جارہی تھی، مگر اس طرف مؤثر اور قابلِ لحاظ قوت کے ساتھ پیش قدمی نہیں ہو پارہی تھی۔ نظریۂ ضرورت کی گرفت سے نکلنا آسان نہیں تھا اور انتخابی حلقے کے دبائو (pressure) سے بالا ہوکر ملک اور قوم کی قسمت اور مستقبل کے ایک اصولی نقشے کے مطابق تعمیر کے جاں گسل راستے کی طرف پیش رفت کا فیصلہ بھی آسان نہیں تھا ___ لیکن وقت کی اصل ضرورت یہی تھی کہ وقتی فوائد کے مقابلے میں قوم کو اس کام اور جدوجہد کے لیے تیار کیا جائے جس کے بغیر اصول، انصاف اور حق پرستی پر مبنی نظامِ سیاست وجود میں نہیں آسکتا یہ فیصلہ انشاء اللہ ملکی سیاست میںایک بالکل نئے باب کے اضافے کا موجب ہوگا۔

جن جماعتوں نے بائیکاٹ کا راستہ اختیار کیا ہے، ان کے عوام میں اثرات ہیں اور انھیں علم ہے کہ ان کے لیے ایک معتدبہ تعداد میں مرکزی اور صوبائی نشستیں جیتنا ممکن تھا، لیکن ان کی نظر صرف ۸ جنوری پر نہیں، بلکہ ملک کے مستقبل کے نظام اور عوام کے حقیقی مسائل اور ان کو حل کرنے والی قیادت اور جدوجہد پر ہے، فوری اقتدار یا اقتدار میں شرکت پر نہیں۔محض اقتدار مطلوب نہیں، اقتدار وہی مطلوب ہے اور وہی ذریعہ خیر بن سکتا ہے جو ایک حقیقی اسلامی، جمہوری، وفاقی اور فلاحی معاشرے اور ریاست کے قیام کو آسان اور ممکن بنائے۔ اس کے لیے صحیح ایشوز کا تعین، صحیح موقف کا اختیار، صحیح خطوط پر عوام کی تنظیم اور ان مقاصد کے حصول کے لیے مؤثر سیاسی جدوجہد برپا کرنا ضروری ہے۔ کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ جو لوگ نظریاتی کارکن ہیں اور برسوں سے   دعوتی اور سیاسی میدان میں کام کر رہے ہیں اور جو بائیکاٹ کے باوجود عوام میں ہیں اور عوام کو اپنے ساتھ لے کر چل رہے ہیں، انھیں وقتی اور ہنگامی قوتیں میدان سے باہر کرسکتی ہیں۔ ایسی قوتیں خودرو پودوں کی طرح اُبھرتی ہیں اور مرجھا جاتی ہیں، لیکن نظریاتی بنیادوں پر کام کرنے والوں کے کام کو الحمدللہ دوام حاصل ہے، اور بالآخر وہی کامیاب ہوں گے۔

  • بائیکاٹ، میدان چہوڑنا نھیں: بائیکاٹ کے معنی میدان چھوڑنا نہیں، بلکہ میدان میں اور زیادہ سرگرمی کے ساتھ مصروفِ کار ہونا ہے۔ جیسا ہم نے عرض کیا یہ احتجاج کا ایک ذریعہ اور اصل مقاصد کی طرف لوگوں کو دعوت دینے کا اسلوب اور پروگرام ہے۔ اس کے ذریعے عوامی رابطے کی مہم اور زیادہ مؤثر بنائی جاسکتی ہے اور ۸جنوری کو بھی کامیابی سے مسخر کیا جاسکتا ہے۔ ۸جنوری کے بعد جو حالات رونما ہونے والے ہیں اور جو فیصلہ کن دور اس کے بعد شروع ہوگا، اس میں بھرپور کردار ادا کرنے کا آغاز اس بائیکاٹ کی مہم کا حصہ ہے۔ اس امر میں شبہے کی کوئی گنجایش نہیں کہ ۸جنوری کے انتخابات ایک دھوکا ہوں گے اور جو آج بڑے شوق سے ان میں حصہ لے رہے ہیں، وہ بھی اس ڈرامے کے بعد اپنی غلطی کو محسوس کر رہے ہوں گے۔ ان کے نتیجے میں جو پارلیمنٹ بنے گی وہ نہ قانونی طور پر جائز ہوگی اور نہ ملک کو قابلِ اعتماد رہنمائی ہی دے سکے گی۔ جن سات چیلنجوں کی ہم نے نشان دہی کی ہے وہ اور بھی زیادہ گمبھیر شکل اختیار کرلیں گے۔ حالات اشارہ کر رہے ہیں کہ دھاندلی کے باوجود اسمبلی میں غالباً کسی کو بھی واضح اکثریت حاصل نہیں ہوسکے گی جس کے بعد ایک طرف حکومت سازی کے لیے سیاسی انجینیرنگ کا نیا دور شروع ہوگا تو دوسری طرف شخصی آمریت کے خلاف اور حقیقی جمہوریت کے قیام، عدلیہ کی بحالی اور حقوق کے تحفظ اور سماجی انصاف کے حصول کی جدوجہد نئی قوت سے اُبھرے گی۔
  • سیاسی قیادت کا امتحان: اس وقت ملک کی تمام سیاسی قوتیں اور جماعتیں چار گروپوں میں قوم کے سامنے آچکی ہیں۔ ایک گروپ وہ ہے جو پرویز مشرف کی اصل سیاسی فوج ہے اور جس میں مسلم لیگ ق، پیپلزپارٹی شیرپائو اور ایم کیو ایم شامل ہیں۔ یہ مشرف کے اصل ساتھی ہیں اور مشرف کے ساتھ ہی ان کا بھی زوال مقدر ہے۔

دوسری قوت پی پی پی، اے این پی، جمعیت علماے اسلام (ف) وغیرہم ہیں جو اپنے نظریاتی، سیاسی اور علاقائی اختلافات کے باوجود اشتراکِ اقتدارہی کی راہ پر گامزن ہیں۔ یہ ایک طرح پرویز مشرف کے ساتھ بھی ہیں اور اس کی مخالفت کا بھی دم بھر رہے ہیں۔مشرف کے دام سیاست میں داخل بھی ہوگئے ہیں اور اس کو توڑنے کی  بھڑک کا بھی سہارا لے رہے ہیں۔ نیتوں کا حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، لیکن عملی سیاست کے نقطۂ نظر سے یہ مشرف ہی کے ایجنڈے پر اپنے اپنے انداز میں کام کررہے ہیں اور اسی کے دیے ہوئے نقشے میں اپنا مقام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان میں سے کچھ وہ بھی ہیں جو اپنی قیمت بڑھا کر اقتدار میں اپنا حصہ حاصل کرنے ہی کو اپنا اصل ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ یہ سارے تضادات ان کا اوڑھنا بچھونا ہیں۔یہ بظاہر ’اینٹی مشرف‘ ہیں لیکن فی الحقیقت ’پرو مشرف‘ کردار ادا کر رہے ہیں___ کل یہ مشرف کی ٹیم کا حصہ بھی بن سکتے ہیں اور اس سے الگ بھی راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔گویا  ع

جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی

تیسرا گروہ وہ ہے جس کا مرکزی کردار مسلم لیگ (ن) ہے۔ اس نے اپنا اینٹی مشرف موقف برقرار رکھا ہے اور عدلیہ کی بحالی کو بھی اپنے ایجنڈے میں سرفہرست رکھا ہے۔ لیکن نظام باطل سے مزاحمت کے بجاے اس کے اندر جاکر تبدیلی کا راستہ چنا ہے، جس نے ان کو بھی تضادات کی دلدل میں جھونک دیا ہے اور ان کے  لیے امکانات کی دنیا کو بھی محدود کردیا ہے۔ ان کا یہ رویہ فکری اور عملی یکسوئی سے بھی محرومی کا باعث ہے۔ لیکن اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ۸جنوری کے بعد یا شاید اس کے بھی پہلے یہ اپنے لیے ایک دوسرے کردار کی تلاش پر مجبور ہوجائیں ۔

رہا چوتھا گروہ تو وہ پوری یکسوئی کے ساتھ مشرف کے بنائے ہوئے نظام کو چیلنج کر رہا ہے اور دستور کی بحالی، عدلیہ کی آزادی اور ۲نومبر کی حیثیت میں عدلیہ کی بحالی اور غیرجانب دار قومی حکومت کے ذریعے نئے انتخابات اور سیاسی دروبست کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ کُل جماعتی جمہوری تحریک (اے پی ڈی ایم) اس سیاسی جدوجہد کی مرکزی قوت ہے، لیکن اس تحریک کی روحِ رواں طبقۂ وکلا، جج، طلباء صحافی اور سول سوسائٹی کے وہ تمام عناصر بھی ہیں جو ۹مارچ سے سرگرم عمل ہیں اور سب مل کر دستور کی بحالی اور حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے ایک اصولی اور تاریخی جنگ لڑرہے ہیں۔ یہ سب ایک ہی کارواں کا حصہ ہیں اور مشترکہ مقاصد کے لیے انھیں پوری ہمت اور حکمت سے اس جدوجہد کو اس وقت تک جاری رکھنا ہے، جب تک یہ مقاصد حاصل نہ ہوجائیں ۔ مجھے یقین ہے کہ کامیابی ان شاء اللہ اسی گروہ کا مقدر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم میں   صحیح شعور اور بیداری پیدا کی جائے اور مسلسل جدوجہد کا اہتمام کیا جائے تاکہ عوام کو وقتی سیاسی مصالح اور مفادات کے مقابلے میں ملک کے اصل ایشوز کا ادراک حاصل ہو۔

اس کام کو انجام دینے کے لیے فوری جدوجہد کے ساتھ لمبے عرصے کی منصوبہ بندی، تنظیم اور ہمہ گیر تحریک کا لائحہ عمل تیار کرنے اور اپنی صفوں کو مضبوط رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ لوگوں، جماعتوں اور گروہوں کو شریکِ جدوجہد کرنا ضروری ہے۔ پرویز مشرف نے ۹ مارچ کو اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے جو اقدام کیا تھا، اللہ تعالیٰ کی مشیت نے اسی اقدام کو اس کے تنزل اور پسپائی کا نقشِ اوّل بنا دیا۔ پھر ۳نومبر کو جو کچھ کیا گیا، اس نے عالمی سطح پر پرویزمشرف کے پائوں تلے سے زمین کھسکا دی۔ اب ۸جنوری اور اس کے بعد جاری رہنے والی تحریک، مشرف سے نجات کے ساتھ ساتھ مفاد پرست سیاست سے بھی ملک اور قوم کی نجات کا ذریعہ بنے گی اور اصول پر مبنی سیاست کے دور کا آغاز ہو گا اوریہی وہ جوہری فرق ہے جو اشتراکِ اقتدار کے لیے کام کرنے والوں اور اصول اور نظامِ حیات کی اصلاح کے لیے جدوجہد کرنے اور قربانیاں دینے والوں میں ہے۔ بائیکاٹ اس منزل کی طرف لے جانے والا پہلا قدم ہے اور ہماری دعا ہے کہ جو قدم اس حیات بخش منزل کے حصول کے لیے اُٹھ گیا ہے، اب اپنی اسی منزل کی طرف اس کی پیش قدمی پوری مستعدی کے ساتھ جاری رہنی چاہیے اس لیے کہ جدوجہد اور قربانی کے ذریعہ ہی قومیں عزت کا مقام حاصل کرتی ہیں۔ آج کا پیغام صرف ایک ہے  ___ رفتار تیز کرو اور مزید تیز کرو کہ منزل دُور نہیں!  ع

تیز ترک گام زن منزل ما دُور نیست


(کتابچہ دستیاب ہے۔ منشورات، منصورہ، لاہور)

۲ نومبر ۲۰۰۷ء کو جماعت اسلامی کا کُل پاکستان اجتماع ارکان شروع ہوا تو ہمیں قطعاً یہ اندیشہ نہیں تھا کہ اگلے ہی روز ہمیں نام نہاد ایمرجنسی، بالفاظِ دیگر مارشل لا کے نفاذ کی مکروہ خبر سننی پڑے گی۔ ہمارا اندازہ تھاکہ فوج ،بحیثیت مجموعی اپنی کمزوریوں کے باوجود، پرویز مشرف کو ملک میں دوبارہ مارشل لا‘ یا ماوراے آئین اقدامات کی اجازت اور مشورہ نہیں دے گی اور انھیں اس طرح کاکوئی اقدام کرنے سے باز رکھے گی لیکن افسوس کہ ہمارے اندازے غلط ثابت ہوئے۔

پرویز مشرف کو چونکہ اصل تشویش آئین کی بالادستی اور سپریم کورٹ کے ججوں کے آزادانہ فیصلوں کے بارے میں تھی، اس لیے انھوں نے صدر کے بجاے چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے اقدام کرکے آئین کو معطل کردیا ،چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو گھر بھیج دیا‘ اور کچھ من پسند ججوں سے عبوری آئینی حکم نامے (PCO)کے تحت حلف اٹھوا کر ایک ایسی سپریم کورٹ بنالی جسے تمام دنیا کے سیاسی اور قانونی تجزیہ کار ایک بوگس اور جعلی ادارہ قرار دے رہے ہیں اور جس کا قیام دستور اور قانونی حکمرانی کے ہر ضابطے کے خلاف ہے۔ ملک میں اس وقت عملی طور پر عدالت عظمیٰ اور چاروں صوبوں کی عدالت ہاے عالیہ معطل ہیں۔ ماتحت عدالتوں میں بھی وکلا تحریک کی وجہ سے کماحقہ کام نہیں ہورہا۔ اس صورت حال میں یہ سوال شدت سے سر اٹھائے ہمارے سامنے کھڑا ہے کہ ایسا ملک کیسے چل سکتا ہے جہاں عدالتیں کام کرنا چھوڑ دیں،اور تمام قوانین فرد واحد کی خواہشات کے تابع بن کر رہ جائیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں اصل اقتدار ابتدا ہی سے سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ہاتھ میں رہاہے۔ دورِ غلامی میں برطانوی حکومت بھی غیرمنقسم ہندستان میں بیوروکریسی پر    نظر رکھتی تھی،تاہم وہ غلاموں کے ساتھ سلوک میں قواعد و ضوابط کی پابندی کرتی تھی لیکن آزادی کے بعد پاکستان میں بیوروکریسی ہر طرح کی بندشوں سے آزاد ہوگئی‘ اور اس کے رویے کو حدود کا پابند رکھنے کا کوئی ادارہ نہیں بن سکا جس سے مطلق العنان سول اور ملٹری بیوروکریسی خودسر ہوتی گئی۔

سپریم کورٹ اورچیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ انھوںنے اکڑی ہوئی گردنوں والے ان افسروں کو قانون اور آئین کے سامنے جھکانے اور انھیں ضابطے کا پابند بنانے کی کوشش کی۔ انھوںنے مفقود الخبرافراد( missing persons)کے بارے میں فوج کی خفیہ ایجنسیوں کو حکم دیا کہ انھیں عدالت میں پیش کریں۔ سپریم کورٹ نے وفاقی سیکرٹریوں اور جرنیلوں میں اسلام آباد کے پلاٹو ں کی بند ر بانٹ کے بارے میں بھی سوال اٹھایا کہ کس قاعدے اور ضابطے کے مطابق یہ لوگ کروڑو ں روپے کی جایدادیں اونے پونے داموں سے اپنی ملکیت میں لے رہے ہیں؟

پاکستان میں بار بار کے مارشل لا کے ذریعے جمہوریت کی جو درگت بنی ہے اور آئینی ضابطوں کو جس طرح پامال کیا جاتار ہاہے‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ اس پر کچھ زیادہ کہنے یا لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ فوجی جرنیل تو کیا‘ فوج کا کوئی معمولی افسر بھی اپنے  آپ کو ہر قانون اور ضابطے سے بالا تر سمجھنے لگا ہے۔ پرویز مشرف نے اپنی پریس کانفرنس میں ’ایمرجنسی پلس‘ یا مارشل لا لگانے کی بڑی وجہ یہی بتائی ہے کہ سپریم کورٹ کے بعض ججوں کا رویہ ناقابل قبول تھااور وہ اعلیٰ افسران کی توہین کے مرتکب ہو رہے تھے۔ بقول ا ن کے انھوں نے ماوراے قانون و دستور ’اختیارات‘ استعمال کیے، اور ان کی نگاہ میں معاملات کو درست کرنے کے لیے ایمرجنسی لگانا ضروری تھا۔

مگر حقیقی صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے۔آئین میں صدرِ پاکستان کو وزیراعظم کے مشورے پر مشکل صورت حال میں ایمرجنسی لگانے کا اختیار دیا گیا ہے لیکن پرویز مشرف نے  یہ قدم چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے اٹھایا ہے ،اور ملک میں ’ایمرجنسی پلس‘کے نام سے مارشل لا نافذ کردیا ہے۔یاد رہے کہ وہ پاکستان کے پہلے حکمران ہیں جنھوں نے دوسری دفعہ دستور کو معطل کرنے کے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ ستم یہ ہے کہ وہ پہلے قابض حکمران ہیں جنھوں نے خود اپنے آٹھ سالہ دور اقتدار کے خلاف مارشل لا لگایا ہے اور صرف اپنی کرسی کو بچانے کے لیے یہ کھیل کھیلا ہے۔ واضح رہے کہ آئین کے تحت ایمرجنسی کے نفاذ سے اگرچہ شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کرلیے جاتے ہیں لیکن حکومت کو چیف جسٹس کو برطرف کرنے کا اختیار پھر بھی نہیں ملتا۔ پرویز مشرف کو بتانا چاہیے تھا کہ آئین کی وہ کون سی دفعہ ہے جو چیف آف آرمی سٹاف کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ سپریم کور ٹ کے رویے کو درست کرنے کے لیے مارشل لا لگادے ،اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے تقریباً ۶۰ ججوں کو خودساختہ عبوری آئین کے تحت حلف نہ اٹھانے کے جرم میں عدلیہ سے نکال باہر کرے۔ دستور تو بہ صراحت حکومت کے تمام اداروں اور کارندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ عدالت کے فیصلوں کی بے چون و چرا تعمیل کریں۔ پرویز مشرف کا  یہ اقدام وہی ماوراے آئین آخر ی مکّا(final punch)ہے جس کی دھمکی وہ سپریم کورٹ کو  دے رہے تھے کہ اگر فیصلہ ان کے حق میں نہیں ہوا تووہ آخری مکّا رسید کردیں گے۔

حیرت ہے کہ پرویز مشرف نے اپنی پریس کانفرنس میں مقامی اور غیر ملکی میڈیا کے سامنے بڑی ڈھٹائی سے کہہ دیا کہ یہ کارروائی انھوںنے آئین اور قانون کے مطابق کی ہے‘ حالانکہ     یہ سب کچھ انھوں نے چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے کیااور آئین معطل کرکے چیف جسٹس کو ان کے منصب سے ہٹا دیا۔ نیز ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ کے ججوں کو پی سی او کے تحت حلف لینے کا پابند کردیا‘ اور حلف نہ لینے والوں کو گھروں میں نظر بند کردیا گیا۔ یہ پوری کارروائی ہرقانون اور آئین سے بالاتر بلکہ ان سے متصادم ہے،اور آئین کی دفعہ ۶کے تحت High Treason ‘یعنی بغاوت اور غداری سمجھی جائے گی۔

سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس پوری کارروائی میں فوج بحیثیت ادارہ شریک کرڈالی گئی ہے۔فوج جیسے اہم ادارے کا آئین کے خلاف کارروائی میں شریک ہونا‘ پوری قوم کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ جس ادارے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے غریب قوم اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر قربانی دیتی رہی ہے اورجسے عوام کی روٹی ،کپڑے ،مکان اور تعلیم اور علاج جیسی بنیادی ضروریات پر فوقیت دی گئی ہے، اس ادارے کے نام پر اس کا سربراہ اب اپنی قوم کے حقوق چھیننے پر تل گیا ہے۔ ان حالات میں ملک ہی نہیں‘ بیرونِ ملک کے سیاسی تجزیہ نگار بھی انگشت نمائی کررہے ہیں کہ فوج کے اعلیٰ افسروں نے ایک استحصالی طبقے کی شکل اختیار کرلی ہے جس کا ہر فرد کروڑوں روپے کی جایداد کا مالک ہے۔ اس طبقے نے پوری قوم کو غربت اور جہالت کے گہرے غار میں دھکیل کر اسے غلامی اور دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس طبقے کا غرور اور تکبر اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی بنچ ان سے باز پرس کرنے کی ہمت کرے تو یہ اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ چنانچہ پرویز مشرف نے اپنی پریس کانفرنس میں    چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور کچھ دوسرے ججوں پر الزام لگایا ہے کہ مفقود الخبرافراد کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے سپریم کورٹ نے بعض اعلیٰ افسروں کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے کر ان کی توہین کی ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے سندھ کے چیف سیکرٹری کا ذکر کیا جیسے کسی اعلیٰ افسر کو عدالت میں بلانا ہی کافی جرم ہے جس کی بنیاد پر عدالت عظمیٰ کے ججوں کو برطرف کیا جاسکتاہے ،اور یہ کام چیف آف آرمی سٹاف کرسکتا ہے حالانکہ آئین کے مطابق اس کا درجہ کسی صورت میںچیف جسٹس کے برابر نہیں ہوسکتا۔

ایک اورخطرناک پہلو یہ ہے کہ مارشل لا کے نفاذ کے ساتھ ہی آرمی ایکٹ میں ترمیمی آرڈی ننس جاری کردیا گیا جس کے مطابق کسی سویلین کوبھی آرمی ایکٹ کے مطابق سزا دی جاسکتی ہے۔ اس طرح کسی بھی شہری پر دہشت گردی کا الزام لگا کر اس کا کورٹ مارشل کرنے کا راستہ کھول دیا گیاہے۔ اٹارنی جنرل نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے یہ ضروری تھالیکن دہشت گردی کا الزام تو اس ملک میں ہر سیاسی کارکن پر بہت آسانی سے لگادیا جاتاہے۔ موجودہ حالات میں سیاسی کارکنوں کو دبائو میں رکھنے کے لیے سب سے آسان حربہ یہی ہے۔

اس وقت قومی وبین الاقوامی دبائو بڑھ رہا ہے اور پرویز مشرف سے ’ایمرجنسی پلس‘ یا مارشل لا ہٹانے کا مطالبہ کیا جارہاہے لیکن پرویز مشرف نے اپنی مرضی کا ایک اور قدم اٹھا کر سینیٹ کے چیئرمین محمد میاں سومرو کو عبوری وزیراعظم مقرر کردیا ہے۔ ایک طرف وہ سینیٹ کے چیئرمین ہیں جو صدر کی عارضی یا مستقل غیر حاضری کی صورت میں دستور کے مطابق قائم مقام صدر کی حیثیت سے چارج سنبھال سکتے ہیں‘ اور دوسری طرف انھی کو عبوری وزیراعظم بنا کر ایک دستوری سوال پیدا کردیاگیا ہے کہ ایک شخص بیک وقت سینیٹ کا چیئرمین اور وزیراعظم کیسے بن سکتاہے۔ حکومت کے نمایندے اٹارنی جنرل ملک قیوم کا کہنا ہے کہ چونکہ دستور معطل ہے اس لیے وہ عبوری وزیراعظم بن سکتے ہیں اور ساتھ ہی سینیٹ کے چیئرمین کے عہدے پر بھی برقرار رہ سکتے ہیں۔یہ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ پرویز مشرف کے عہد میں نہ کوئی دستور ہے اور نہ کوئی ضابطہ اور قانون۔

اگر مغربی ممالک کے اس مطالبے کو تسلیم کرلیا جاتاہے کہ ایمرجنسی کو ہٹا دیاجائے اور دستور بحال کرکے انتخابات کرادیے جائیں تو یہ سوال پیدا ہوگا کہ اس دوران جو آرڈر اور ضابطے جاری کیے گئے ہیں‘ ان کا کیا بنے گا؟ کیونکہ اس وقت تو قومی اسمبلی بھی نہیں ہے کہ آٹھویں یا سترھویں ترمیم کی طرح کے کسی دستوری حیلے کے ذریعے مارشل لا کے ضابطوں کو سند جواز مل سکے اور غیرآئینی فعل کو جو دستور کے آرٹیکل ۶کے مطابق غداری اور بغاوت ہے‘ تحفظ (indemnity) فراہم کرسکے۔ یہ صورت حال عملاً جان بوجھ کر پیدا کی گئی ہے تاکہ جمہوری سویلین حکومت قائم کرنے کے دستوری راستے بند کردیے جائیں اور ایک نئے تازہ دم جرنیل کے لیے راستہ ہموار کیا جائے‘ یا دستور سے بالا تر ایک سویلین حکومت قائم کی جائے جس طرح یحییٰ خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنادیا تھا۔

پرویز مشرف نے ۱۵نومبر کو قومی اسمبلی اور۲۰نومبر کو صوبائی اسمبلی کو برخاست کرنے اور ۸جنوری ۲۰۰۸ء سے پہلے انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا ہے لیکن انھوںنے آئین کی بحالی کی تاریخ نہیں دی اور ججوں کو بحال کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔

اس وقت ایک اہم سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں جب کہ ملک میں مارشل لا ہے، دستور معطل ہے، اعلیٰ عدالتوں کو مفلوج کردیا گیاہے اور ملک میں عدل و انصاف کے ادارے اور انتخابات کا انتظام فوجی آمر کی مرضی کے تابع ہیں ، کیا انتخابات میں حصہ لینا چاہیے؟ اس کا فیصلہ تو سیاسی و دینی جماعتوں کی مجالس مشاورت کو گہرے غور و خوض کے بعدباہمی مشورے سے کرنا ہے لیکن اگر اپوزیشن کی تمام جماعتیں، بشمول پیپلز پارٹی اور جمعیت علماے اسلام (ف) جعلی الیکشن میں حصہ لینے کے بجاے عدلیہ کی بحالی کے لیے مشترک جدوجہد کے کسی لائحہ عمل پر متفق ہوجائیں تو اس میں ملک و قوم کی بہتری ہے۔ حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں کو متفق کرنے کے لیے متحدہ مجلس عمل نے ایک قومی مجلس مشاورت بلانے کا فیصلہ کیا جس میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے لیڈروں اور وکلا کی تنظیموں کے نمایندوں کو بھی دعوت دینے کا ارادہ تھا۔ لیکن میاں محمد نواز شریف کی خواہش کے احترام میںکہ یہ کانفرنس آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کی دعوت پر ہو، مولانا فضل الرحمن صاحب اور ایم ایم اے کی دوسری جماعتوں کے مشورے کے بعد اسے ملتوی کردیاگیا۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کی دعوت پر لوگ ان کے گھر پر کراچی میں جمع ہوں تو انھیں بھی ہم نے مل کر یہ مشورہ دیا کہ مناسب ہوگا کہ کسی غیر جانب دار شخصیت کے ہاں غیررسمی طور پر ہم سب مشورے کے لیے جمع ہوجائیں۔ اس کے لیے جسٹس (ر) وجیہہ الدین صاحب کا نام بھی ہم نے اور نواز شریف صاحب نے تجویز کیا ہے لیکن تاحال اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔

اس پریشان کن منظر میں ایک خوش آیند بات یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ اورہائی کورٹ کے ججوں کی ایک بڑی تعداد(۶۰ کے قریب) نے چیف آف آرمی سٹاف کی غیر آئینی مداخلت کو ناجائز قرار دیا ہے اور مارشل لا کے نفاذ کو چیلنج کرکے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کیا ہے۔اس وقت قوم کا فرض ہے کہ ان بہادر اور زندہ ضمیر رکھنے والے ججوں کی پشت پر کھڑے ہوکر ان کی بحالی کی تحریک چلائیں کہ ان کی بحالی ہی آئین کی بالادستی اور حقیقی عدل و انصاف کو فراہم کرنے کا ذریعہ بنے گی۔ ایک آزاد عدلیہ کی بحالی تمام اداروں کی بحالی کا راستہ ہے اور عدلیہ کی آزادی کے لیے ضروری ہے کہ چیف جسٹس سمیت تمام جج زندہ ضمیر کے مالک ہوں۔

ہمارے خیال میںوطن عزیز کوان حالات سے نکالنے کے لیے صرف عوامی تحریک ہی کافی نہیں ہے‘ بلکہ ایک متفقہ متبادل پر اتفاق بھی ضروری ہے۔ کیا موجودہ سیاسی اور مذہبی زعما اس غیرمعمولی صورت حال کا ادراک کرکے ایک ہی فارمولے پر جمع ہوسکتے ہیں؟ ہمارے خیال میں چیف جسٹس افتخار محمدچودھری سمیت ان تمام ججوں کو جنھوںنے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کرکے ایک روشن مثال قائم کی ہے ، بحال کرکے دستوری راستہ تلاش کیا جاسکتاہے۔ لیکن   اس حل پر متفق ہو کر اس کی خاطر عوام کو ساتھ لے کر پُرامن جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔  پُرامن جدوجہد کے لیے ایسے طریقے اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ فوج اور پولیس سے تصاد م کی نوبت نہ آئے اور پرامن عوامی احتجاج بھی مسلسل جاری رہے۔ جیسے گھروں پر سیاہ جھنڈے لہرانا اور متعین اوقات میں گھروں اور دکانوں سے نکل کر ایک گھنٹے کے لیے سامنے کی گلی اور سڑک پر پُرامن دھرنا دینا‘ یا بینر لے کر خاموش مظاہرے کرنا اور ان سرگرمیوں کے لیے محلے اور بازار میں انفرادی رابطے کے ذریعے لوگوں کو تیار کرنا۔ خطبوں اور تقریروں میں حالات پر تبصرہ کرکے لوگوں کو ملک و قوم کی اجتماعی بہتری کے لیے انفرادی آرام کو نظرانداز کرکے تھوڑی بہت مشقت اُٹھا کر کام کے لیے تیار کرنا، اور امت کے معاملات میں دل چسپی لینے کی شرعی ضرورت کا احساس دلانا، مساجد کے باہر بینرلے کر خاموش مظاہروں کے لیے کھڑے ہوجانا،وہ چند پُرامن طریقے ہیں جنھیں عام کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی مرحلے پر گرفتاریاں پیش کرنا اور جیل بھرو تحریک بھی کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے رضاکاروں کو تیار کرنا اورجیل جانے والے ساتھیوں کے گھر والوں اور ان کے بچوں کی نگہداشت کا مناسب نظام بنانے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے آئین کو اپنی روح اور الفاظ کے ساتھ پوری طرح سے بحال کرنے کے لیے اس کی چار بنیادی خصوصیتوں کو سامنے رکھنا چاہیے :

۱-  پاکستان کے آئین کا پہلا اصول اسلامی نظریۂ حیات کی پابندی ہے۔ قرار داد مقاصد میں جو پاکستان کے آئین کی بنیاد ہے، اللہ رب العالمین کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اورمقننہ اور عدلیہ اور انتظامیہ سمیت ریاست کے تمام اداروں کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ قرآن و سنت کی حدود میں رہ کر کاروبار حکومت چلائیں گے اور قانون ساز ی کریں گے۔

۲-  پاکستان کا آئین جمہوری اور پارلیمانی طرزِ حکومت قائم کرتا ہے۔ عوام کے منتخب نمایندوں کو ریاستی نظام چلانے کا حق دیا گیا ہے اور تمام معاملات میں پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کی گئی ہے۔ آئین میں ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں کی دوتہائی اکثریت حاصل کرنا ضروری ہے۔

۳-  پاکستان کا آئین وفاقی ہے اور ایوان بالا میں وفاق کی چار اکائیوں کو برابر کی  نمایندگی حاصل ہے۔ قانون سازی میں صوبائی اسمبلیاں اپنے دائرۂ کار میں آزاد ہیں۔ دستور وفاق کی چار اکائیوں کو یہ اطمینان دلاتاہے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں خود مختار ہیں، اور ان کے اختیارات کے بارے میں انھیں مطمئن کرنااور حسب ضرورت ان میں اضافہ کرنا وفاق کے لیے ضروری ہے۔

۴- پاکستان کا آئین فلاحی ہے، اور عوام کے تمام طبقات کو بنیادی ضروریات روٹی کپڑا، مکان ، تعلیم اور علاج کی سہولتیں اور مواقع فراہم کرنا ریاست اور معاشرے کا فرض ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کی کوئی حکومت اس آئین کو اس کی اصل روح کے ساتھ نافذ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس کے اسلامی اصولوں کو ہمیشہ پامال کیاگیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات عرصۂ دراز تک صیغۂ راز میں رکھی گئیں اور جب ضیاء الحق کے زمانے میں پارلیمنٹ میں مطالبہ کیاگیا کہ آئین کے تقاضے کے طور پر اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کردیا جائے تو مجبوراً بند الماریوں سے انھیں نکالنا پڑا‘ لیکن ان سفارشات پر عمل درآمد کی کوئی سبیل نکالنے کے بجاے اسے محض گفتگو کا موضوع بنا کر دوبارہ طاق نسیاں پر   رکھ دیا گیا۔ ایک بار جنرل ضیاء الحق صاحب نے علماے کرام کا کنونشن منعقد کرکے اسلامی نظام  کے نفاذ کے بارے میں سفارشات طلب کیں تو جسٹس تنزیل الرحمن صاحب نے ہمت کرکے اسلامی نظریاتی کونسل کی ۲۸ جلدوں پر مشتمل سفارشات کا پلنداان کے سامنے رکھ دیا کہ آپ پہلے ان سفارشات کو عملی جامہ پہنا دیں‘ پھر مزید سفارشات طلب کریں تو ضیاء الحق صاحب بدمزہ ہوگئے۔

صوبائی خود مختاری و اختیارا ت نچلی سطح تک تقسیم کرنے (devolution of power) کے بہانے صوبو ں سے اختیارات واپس لے لیے گئے اور بلدیاتی اداروں کو براہ راست مرکز سے کنٹرول کیا جانے لگا۔ صوبوں میں چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کی تقرری کا قاعدہ یہ ہے کہ ان دونوں عہدوں کے لیے صوبائی حکومت سے تین تین نام طلب کرکے ان میں سے ایک کی تقرری مرکزی حکومت کردیتی ہے لیکن صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کے تجویز کردہ تینوں ناموں کو چھوڑ کر اپنی پسند کے لوگوں کی تقرر ی کی گئی اور جب چاہاپرویز مشرف نے چیف سیکرٹری اور آئی جی کو براہ راست بلا کر احکامات صادر کیے اور جسے چاہا بیک بینی و دوگوش تبدیل کردیا۔ سرحداسمبلی کے منظور کیے ہوئے شریعت ایکٹ کو مسترد کروادیا گیا اور انھیں کوئی ضابطہ نافذ کرنے نہیں دیا گیا جس سے صوبہ سرحد میں دوسرے صوبوں کی نسبت اسلام کے نفاذ کے سلسلے میں کوئی امتیازی علامت ظاہر ہوسکے۔ بجلی کی رائلٹی کے سلسلے میں صوبہ سرحد کو کھلم کھلا اپنے حق سے محروم  رکھا گیا ہے اور اس سلسلے میں ٹربیونل کے فیصلے کو بھی نظر انداز کردیاگیا۔ بلوچستان کے ساتھ     بھی یہی سلوک روا رکھا گیا‘ بلکہ تین سال سے اسے کھلی فوج کشی کی آماج گاہ تک بنا دیا گیا ہے اور  بے دردی سے عام انسانوں کو قتل کیا جا رہا ہے‘ یا نقل مکانی پر مجبور کردیا گیا ہے حالانکہ صوبے کی اسمبلی نے متفقہ طور پر فوجی ایکشن بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس طرح آئین کو نظراندا ز کرکے صوبو ں کی حق تلفی کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ چھوٹے صوبوں میں بے چینی اور بے اطمینانی بڑھتی جار ہی ہے اور لوگ قوت کے استعمال کے ذریعے شریعت کے نفاذ اور ظلم و ناانصافی کا تدارک کرنے کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔

آئین میں حکومت پاکستان کو ایک فلاحی ریاست (welfare state)قرار دیا گیا ہے جہاں تمام شہریوں کو بنیادی ضروریا ت فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میںجو معاشی پالیسیاں آج تک نافذ رہی ہیں ان کے نتیجے میں یہاں ایک بد ترین قسم کا استحصالی معاشرہ وجود میں آگیا ہے جہاں مسلسل غریب‘ غریب تر اور امیر‘ امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ ترقی اور خوش حالی کے بلند بانگ دعووں کے باوجود عام شہری بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ آبادی کا ایک تہائی غربت کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مہنگائی کا عفریت پوری آبادی اور خصوصیت سے غریب اور متوسط طبقات کو مسلسل ڈس رہا ہے اور آٹا، دال، سبزیاں اور گھی جیسی بنیادی اشیا بھی لوگوں کی پہنچ سے باہر ہورہی ہیں۔ ایک اوسط درجے کے خاندان کا صرف آٹے اور دال کا خرچ ماہانہ ایک ہزار روپے سے بڑھ جاتاہے۔ جس نے ہفتے میں ایک دن بھی گوشت کھانا ہو اور اوسطاً دوبچے زیر تعلیم ہوں اور مکان،بجلی، گیس کے بل بھی ادا کرنے ہوں اور کپڑے اورجوتے بھی استعمال کرنے ہو ں تو حساب لگالیجیے کہ کیا ۱۵ہزار روپے میں بھی   یہ ضروریات پوری ہوسکتی ہیں، اور کیا اوسط درجے کا خاندان مہینے میں۱۵ ہزار روپیہ کمابھی سکتاہے۔

پاکستان کو ایک حقیقی فلاحی ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے جن انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے‘ ان کی توقع موجودہ استحصالی حکمران طبقے سے قطعاً نہیں ہے۔ پاکستان کے موجودہ مسائل کا حل عوامی بیداری کے ذریعے ایک ایسی حکومت کا قیام ہے جو آئین اور قانون کی بالادستی کو خوش دلی سے تسلیم کرے، اور قانونی حدود کے اندر رہ کر اختیارات استعمال کرنے کو بنیادی اصول کے طور پر اختیار کرے جو اقتدار اور وسائل دونوں کو امانت سمجھ کر حکمرانی کے فرائض انجام دے اور قانون‘ عوام اور خدا کے سامنے جواب دہ ہو۔

آئین اور قانون کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کا خواب اسی وقت شرمندہ تعبیر ہوسکتاہے جب ججوں کی تقرری میں بنیادی وصف جج کی امانت و دیانت ہو۔ جج کو صاحب ضمیر اور جرأت مند ہونا چاہیے۔ بزدل آدمی کبھی بھی انصاف فراہم نہیں کرسکتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں جرأت و بہادری اور امانت و دیانت کے بجاے جج کا معیار یہ قرار پایا ہے کہ وہ حکمرانوں کے مفادات کا محافظ اور حکمرانوں کا وفادار ہو۔ اسی لیے ایک ہردلعزیز اور بہادر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ہٹاکر ایسے لوگوں کو جج بنا دیا گیا ہے جنھوںنے آئین کی بالا دستی اور حفاظت کے حلف کو توڑ کر ایک غاصب فرد کی وفاداری کا حلف اٹھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔

اس وقت تمام اپوزیشن جماعتوں کے پاس ایک ہی سیدھا اور انصاف کا راستہ موجود ہے کہ پیپلز پارٹی سمیت اے پی ڈی ایم میں شامل تمام پارٹیاں مل کر پرویز مشرف کے انتخابی ڈھونگ کا پردہ چاک کریں۔ اس جال میں پھنسنے اور جمہوریت کو مزید پانچ سال کے لیے آمرمطلق کی  لونڈی بننے سے روکنے کا بروقت اقدام کریں اور انتخابات میں اسی وقت حصہ لیں جب سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کا وہ نظام بحال ہو جو ۳نومبر سے پہلے موجود تھا۔ منصفانہ انتخابات اور جمہوری عمل کے برسرکار آنے کی پہلی صورت یہ ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے کے بجاے سپریم کورٹ اور      ہائی کورٹوں کے دیانت دار اور باضمیر ججوں کی بحالی اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والی عدالتوں کے خاتمے کے لیے ملک گیر عوامی مہم چلائی جائے۔ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی موجودہ بحران کو ختم کرنے کی شہ کلید ہے۔ وہی سپریم کورٹ یہ فیصلہ کرے کہ مارشل لا پی سی او، جس کو ’ایمرجنسی پلس‘ کا نام دیاگیاہے‘ کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ پرویز مشرف کیا آرمی چیف آف سٹاف اور صدر بن سکتے ہیں یا نہیں؟ عبوری حکومت کی آئینی شکل کیا بن سکتی ہے‘؟اورآزاد الیکشن کمیشن کی تشکیل کیسے ہو سکتی ہے؟ اگر تمام اپوزیشن جماعتیں اس پر متفق ہوجائیں تو اس پروگرام کو بین الاقوامی تائید بھی حاصل ہوسکتی ہے ،اور ملک کے اندر لاقانونیت اور آمریت کی لہر کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے۔

(یہ تحریر ۱۸نومبر کو لکھی گئی)

 

آج پاکستانی قوم سوگوار ہے اور ایک گونہ سکتے کے سے عالم میں ہے___  کراچی میں ۱۲مئی کے بعد ۱۸ اکتوبر کا کشت و خون‘ بلوچستان اور وزیرستان میں گذشتہ تین سال سے فوج کشی اور اس کے نتیجے میں ہزاروں افراد کی ہلاکت‘ جولائی میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا خونیں حادثہ اور معصوم بچوں‘ بچیوں‘ اساتذہ اور طالبان علم کے خون کی ارزانی‘ ۲۷ رمضان المبارک کو لیلۃ القدر کے موقع پر ڈھائی تین سو کلمہ گوؤں کا قتل اور وہ بھی ’ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ‘ کا موٹو رکھنے والی فوج اور جہاد کا علَم بلند کرنے والے قبائل کے باہم تصادم کے نتیجے میں ___  یہ سب کیا ہے؟

سوچتے سوچتے ذہن ماؤف ہونے لگتا ہے۔یہ قوم کن خطرناک وادیوں میں گم ہوگئی ہے؟ جن کے ہاتھوں میں ملک کی زمامِ کار ہے وہ ہمیں کہاں لیے جارہے ہیں اور کس کا کھیل کھیل رہے ہیں؟ انتہاپسند کون ہے؟دہشت گردی کا مرتکب کون ہو رہا ہے؟ جمہوریت کی بحالی کے نام پر جو ڈراما رچایا جا رہا ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟___  اور حقیقی جمہوریت کی طرف یہ قوم کیسے گامزن ہوسکتی ہے۔ یہ سوالات محض نظری اور علمی موضوع نہیں۔ پاکستانی قوم کے لیے زندگی اور موت کا ایشو بن چکے ہیں جسے انتہاپسندی اور اعتدال پسند روشن خیالی کی کش مکش بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ جنرل مشرف نے قوم کو تصادم‘ تشدد اور تباہی کی جنگ میں جھونک دیا ہے۔ اس کا اصل مقصد آمریت اور اپنے شخصی اقتدار کا تحفظ ہے اور عالمِ اسلام پر مسلط کی جانے والی امریکا اور مغربی اقوام کی دم توڑتی ہوئی جنگ کو سہارا دینا ہے۔ پاکستان ایک امانت ہے اور اس کے اصل امین پاکستان کے ۱۶ کروڑ عوام ہیں۔ ہر ادارہ خواہ اس کا تعلق پارلیمنٹ سے ہو یا عدالت سے‘ فوج سے ہو یا سول نظام سے‘ سیاسی جماعتیں ہوں یا دینی ادارے اور قوتیں___  ان سب کی اس وقت اصل ذمہ داری یہ ہے کہ پاکستان کو اس تباہی سے بچائیں جس کی آگ میں عالمی ایجنڈے کے تحت اسے جھونکا جارہا ہے___  پاکستان کی آزادی اور حاکمیت‘ اس کی سلامتی اور استحکام‘ اس کا تشخص اور وجود ہرچیز دائو پر لگی ہوئی ہے۔ اگلے چند مہینے بڑے فیصلہ کن ہیں اور اگر عوام اور تمام سیاسی‘ دینی اور اداراتی قوتوں نے جن میں فوج‘ عدلیہ اور میڈیا مرکزی اہمیت کی حامل ہیں‘ نے اپنا اپنا فرض ادا نہ کیا تو ہمیں ڈر ہے کہ ایک لحظہ کی غفلت صدیوں کی منزلوں کو کھوٹا کرسکتی ہے۔

جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے اور ملک کے ہر ادارے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے جس خطرناک کھیل کا آغاز ۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو چیف جسٹس آف پاکستان کی برطرفی (دراصل عدالت عالیہ پر حملہ) سے کیا تھا‘ ۱۲ مئی کا خونیں ڈراما‘ ۲۹ستمبر کا شاہراہِ دستور پر پولیس ایکشن‘ ۵ اکتوبر اور پھر ۱۸ اکتوبر کو ایک اور سابق وزیراعظم کی بش-مشرف ’مفاہمت‘ کی چھتری تلے ملک میں آمد‘ ملک بھر سے ایک سیاسی جماعت کو استقبال کے لیے ہر موقع اور سہولت کی فراہمی۔ پھر اس استقبالی ریلی میں دہشت گردی کے ایک ایسے واقعہ کا ظہور جس سے سیاست کا نقشہ اور انتخابات کے طریق واردات ہی کو تبدیل کیا جاسکے، یہ سب ایک ہی سنگین کھیل کی کڑیاں اور ایک ہی ڈرامے کے مختلف ایکٹ معلوم ہوتے ہیں جو تمام سیاسی قوتوں کو بشمول پیپلزپارٹی حالات کا ازسرنو جائزہ لینے کی دعوت دے رہے ہیں۔ ہم قومی زندگی کے اس فیصلہ کن اور نازک ترین موقع پر پوری دل سوزی کے ساتھ تمام اہلِ وطن کو چند بنیادی امور کی طرف متوجہ کرنا اپنا دینی اور قومی فرض سمجھتے ہیں اور زمین و آسمان کے مالک سے اس دعا کے ساتھ یہ گزارشات پیش کررہے ہیں کہ اگر یہ حق ہیں تو سب کے دل ان کے لیے کھول دے۔


سب سے پہلے ہم اس اصولی بات کا اعلان اور اعادہ کرنا چاہتے ہیں کہ اجتماعی معاملات کے حل کا اصل راستہ صرف ایک ہے اور وہ ہے شوریٰ اور دلیل کے ذریعے سیاسی مسائل اور اختلافات کا حل۔ انسانی زندگی اور سیاسی نظام میں قوت کے استعمال کا ایک متعین مقام ہے اوروہ ملکی دفاع‘ شر اور فساد سے معاشرے کو پاک کرنے‘ قانون کی بالادستی اور انصاف کے قیام کے لیے ہے اور قانون اور ضابطے کے مطابق ہے۔ کسی کو یہ اختیار نہیں کہ قانون اپنے ہاتھ میں لے یا سیاسی مسائل و معاملات کو قوت‘ جبر اور گولی کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرے۔ ریاست‘ حکومت‘ جماعتیں‘ گروہ‘افراد سب قانون اور ضابطے کے تابع ہیں اور شریعت نے ظلم کی تعریف بھی یہ کی ہے کہ وَضْعُ شَیْ ئِ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ ___  یعنی جہاد اور دہشت گردی میں فرق ہی یہ ہے کہ جہاد ایک واضح مقابلے اور قانون کا پابند ہے جب کہ دہشت گردی قوت کے ناحق اور غلط استعمال سے وجود میں آتی ہے۔ بقول اقبال    ؎

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضامیں
کرگس کا جہاں اور ہے‘ شاہیں کا جہاں اور

اس اصولی بات کی روشنی میں ہم یہ بات بالکل صاف الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں کہ ۱۸اکتوبر کو جو کچھ کراچی میں ہوا‘ جس میں ۱۴۰ جانیں تلف ہوئیں اور کئی سو زخمی ہوئے‘ دہشت گردی کی بدترین مثال ہے۔ یہ انسانیت‘ سیاست اور شرافت اور تہذیب پر حملہ تھا اور اسلام اور مہذب معاشرے کی ہر قدر کی نفی ہے‘ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ سیاسی سرگرمی ایک جمہوری معاشرے کی جان ہے اور تہذیبی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ اختلاف راے اور سیاسی اور دینی مسالک کا تنوع انسانی معاشرے کے لیے رحمت ہے‘ اور سیاسی یا مذہبی اختلاف کو قوت اور تشدد  کے ذریعے سے مٹانے کی کوشش فساد اور فتنے کا راستہ کھولنے کے مترادف ہے جو شوریٰ کی ضد اور لَااِکراہَ فِی الدّین کے قرآنی حکم سے بغاوت اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت کی توہین ہے کہ میری امت میں اختلاف راے ایک رحمت ہے۔

جہاں ہم ۱۸ اکتوبر کی دہشت گردی کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور تمام ہی جاں بحق ہونے والوں کے لیے دعاے مغفرت کرتے ہیں‘ زخمیوں کے لیے صحت و زندگی کی دعاگو ہیں اور تمام ہی متاثرین اور خصوصیت سے پیپلزپارٹی کی قیادت اور کارکنوں سے تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں‘ وہیں اس امر کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اس واقعے کی آخری ذمہ داری  جنرل پرویز مشرف کی حکومت اور ان کی سیاسی پالیسیوں اور حکمت عملی پر عائد ہوتی ہے جس کی پوری پوری جواب دہی ایک نہ ایک دن انھیں قوم کے سامنے کرنی ہوگی۔ تمام واقعات کی اعلیٰ ترین سطح پر آزاد اور غیرجانب دار تحقیقات ضروری ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کے قتل پر پردہ ڈالنے سے جو روایت شروع ہوئی ہے‘ وہ آج تک جاری ہے اور جنرل پرویز مشرف کے دورمیں تو ڈھٹائی کا عالم یہ ہوگیا ہے کہ ۱۲ مئی کی کھلی کھلی دہشت گردی اور ۴۰ سے زیادہ جانوں کے اتلاف کے بارے میں نہ صرف آزاد تحقیقات سے صاف انکار کیا گیا بلکہ اسے اپنی قوت کے اظہار تک کا نام دیا گیا۔ جولائی کے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے کربلاے ثانی کے بارے میں بھی یہی رویہ اختیار کیا گیا۔ بلوچستان اور وزیرستان میں خون آشامی کے باب میں بھی کسی آزاد تحقیق تو کیا آزاد رپورٹنگ تک کا راستہ بند کیا ہوا ہے۔ اور اب کراچی کے واقعے کی بھی آزاد تحقیق کے مطالبات کو پوری رعونت کے ساتھ نظرانداز کیا جا رہا ہے‘ حالانکہ خود پیپلزپارٹی کی قیادت نے اس کا مطالبہ کیا ہے اور پولیس کی تفتیشی ٹیم پر عدمِ اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ملکی اور غیرملکی میڈیانے بڑے سنگین سوال اٹھائے ہیں کہ ۲۰ہزار پولیس اور رینجرز کی موجودگی میں جن کے بارے میں دعویٰ تھا کہ سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کر لیے گئے ہیں‘ اتنا بڑا حادثہ کیسے ہوگیا؟ سڑکوں کی بجلیاں کیوں بند ہوگئیں؟ ’خودکش حملے‘ کے مجرب نسخے کا پروپیگنڈا پہلے ہی لمحے سے کیوں کیا جانے لگا جب کہ ابھی تک کوئی واضح ثبوت اس کا نہیں ملا ہے بلکہ عینی شاہدوں اور ملکی اور بین الاقوامی صحافیوں کے مطابق پہلا دھماکا ایک شعلے کی شکل میں دیکھا گیا‘ دو گاڑیوں سے آگ نکلی‘ اور جو ایک سر ملا ہے اس کے بارے میں بی بی سی نے اپنی ۲۳ اکتوبر کے سیربین پروگرام میں پولیس ذرائع سے اس شبہہ کا اظہار کیا ہے کہ یہ سر ایک پولیس اہل کار کا ہے اور ایسا ہی ایک واقعہ کراچی ہی میں اس سے پہلے سندھ مدرسے میں بھی ہوچکا ہے کہ جسے خودکش حملہ کہا گیا تھا وہاںسر پولیس اہل کار کا نکلا۔ اس صورت حال کو اس سے تقویت ملتی ہے کہ خود پیپلزپارٹی کی قیادت نے خصوصیت سے محترمہ بے نظیرصاحبہ اور ان سے زیادہ ان کے شوہر جناب آصف زرداری نے صاف کہا ہے کہ ہمارا شبہہ طالبان یا کسی جہادی گروپ پر نہیں بلکہ حکومت میں شامل کچھ عناصر پر ہے۔

ایک اور بڑا سنگین سوال وہ ہے جو خود محترمہ نے اٹھایا ہے اور جسے عالمی پریس نے نمایاں شائع کیا ہے حالانکہ پاکستان میں اسے دبا دیا گیا ہے۔ لندن کے اخبار دی انڈی پنڈنٹ نے اپنے رپورٹر Andrew Buneombeکے حوالے سے جو محترمہ کے ساتھ تھا‘ لکھا ہے کہ:

انھوں نے یہ بھی کہا کہ حملے کے دوران ان کی گاڑی پر کئی گولیاں چلائی گئیں‘ جب کہ ایک آدمی جو پستول سے مسلح تھا اور دوسرا جس نے خودکش بیلٹ باندھ رکھی تھی‘ اس سے پہلے گرفتار کیے گئے تھے۔

سوال یہ ہے کہ ان دونوں افراد سے کیا معلومات ملیں‘ یہ کہاں ہیں اور ان کا تعلق کس سے تھا؟ اس سلسلے میں یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ اصل واقعہ کے چند گھنٹے کے اندر موقع واردات سے تمام شہادتوں کو ختم کردیا گیا اور راستہ کھول دیا گیا حالانکہ دنیابھر میں یہ ایک مسلّمہ اصول مانا جاتا ہے کہ موقع واردات کو تحقیقات مکمل ہونے تک محفوظ رکھا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں تو جہاں ایسا حادثہ ہو اسے فوری طور پر گھیر دیا جاتا ہے اور کئی دن تحقیق کرنے والوں کے سوا کسی کو ان مقامات کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا جاتا۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اتنے بڑے حادثے کے سارے آثار و کوائف کو چند گھنٹے میں رفع دفع کردیا گیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح کراچی اسٹاک ایکسچینج کے ۲۰۰۵ء کے اسیکنڈل کے سارے کوائف حتیٰ کہ کمپیوٹر ریکارڈ تک تلف کردیے گئے اور دیگر کے لیے تمام شہادتوں کو تباہ کرنے کے بعد ایک امریکی کمیشن کو بلایا گیا جس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ شہادتوں کے تلف ہوجانے کے بعد ہم اسباب کی نشان دہی نہیں کرسکتے۔ نیویارک کے جڑواں ٹاوروں کے سلسلے میں بھی یہی حکمت عملی اختیار کی گئی جس پر آزاد تحقیق کرنے والے آج تک واویلا کر رہے ہیں۔

اس پورے معاملے میں انٹیلی جنس کی ناکامی کے پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور خصوصیت سے اس پس منظر میں کہ ایک طرف بڑے یقین کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ اتنے خودکش بمبار بھیجے گئے ہیں اور دوسری طرف ایک نہیں‘ سیکورٹی کے تین تین حصاروں کے باوجود یہ واقعہ ہوجاتا ہے۔ حالانکہ بتایا گیا تھا کہ پہلا حصار پیپلزپارٹی کے ۲ سے ۵ ہزار جاں نثاروں کا ہے۔   اس کے بعد ۱۰سے ۲۰ہزار پولیس اور رینجرز کا ہے۔ پولیس کی گاڑیاں ہر چارسمت میں موجود ہیں جو اعلیٰ ترین ٹکنالوجی سے لیس ہیں۔

حکومت اور خصوصیت سے سیکولر اور امریکی لابی کے سرخیل آنکھیں بند کرکے الزام جہادی تنظیموں اور طالبان پر تھوپ رہے ہیں۔ اس کے لیے ۱۸ اکتوبر سے قبل ہی ایک فضا بنائی جارہی تھی اور طرح طرح کی جھوٹی گمراہ کن اطلاعات (dis-information) سے ذہنوں کو آلودہ کیا جا رہا تھا‘ حالانکہ طالبان کے ذرائع اس کی بار بار تردید کرچکے ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ ان کو اس میں ملوث کیا جائے‘ البتہ امریکا اور یورپ حتیٰ کہ آسٹریلیا کے سرکاری حلقوں نے بھی اس واقعے کے فوراً بعد حسبِ عادت طالبان کو اس کا ذمہ دار ٹھیرانے میں بڑی مستعدی دکھائی ہے۔ پاکستان میں امریکی اور سیکولر لابی کے سرخیل ڈیلی ٹائمز نے پوری تحدی کے ساتھ ادارتی کالم میں فتویٰ صادر کردیا تھا کہ:

القاعدہ نے کراچی میں ۱۳۸ معصوم لوگوں کو قتل کیا ہے اور ۵۰۰ سے زیادہ کو زخمی کیا ہے۔ (ڈیلی ٹائمز‘ ۲۰ اکتوبر ۲۰۰۷ء)

اداریہ نویس کو شکایت ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت کیوں اس سلسلے میں پس و پیش کا مظاہرہ کر رہی ہے اور وزارتِ داخلہ کے سیکرٹری نے یہ کیوں کہہ دیا کہ اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کے کیمپ پر حملے کا ہدف پیپلزپارٹی نہیں‘ پولیس تھی۔ اسے یہ بھی دکھ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کو امریکی جنگ اور اس میں معاونت سے کیوں مربوط کیا جا رہا ہے اور اس پورے معاملے کو جمہوریت کے فقدان کا نتیجہ کیوں قرار دیا جا رہا ہے۔ اصل مسئلہ جمہوریت نہیں‘ مذہبی دہشت گردی ہے۔ امریکی سیکولرلابی کے ذہن اور عزائم کو سمجھنا بے حد ضروری ہے اور یہی مشرف کی تباہ کن پالیسیوں کی مدافعت کرنے والے عناصر ہیں۔

حزبِ اختلاف یہ نتیجہ نکالتی رہی ہے کہ حکومت ایک دفعہ امریکی ڈیزائن ترک کرنے کا اعلان کردے تو ساری دہشت گردی فی الفور ختم ہوجائے گی۔ یہ بھی کہنا چاہیے کہ پیپلزپارٹی کے بعض رہنما بھی سینیٹ میںاپنے امریکا دشمن جذبے میں یہی بات کہتے رہے ہیں… پاکستان میں یہ فرض کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں مقابلہ اور مزاحمت جمہوریت کی خدمت ہے جس کی غیرموجودگی کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ غلط ہے‘ غلط ہے‘ غلط ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ جمہوریت نہیں‘ بلکہ دہشت گردی اور ریاست کی داخلی خودمختاری کا ختم ہوجانا‘ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

یہ ہے وہ سیکولر ذہن جو اپنے سوچے سمجھے کھیل کے مطابق حالات کو ایک خاص رخ دینا چاہتا ہے۔ اسی اداریے کے آخری جملے کو غور سے پڑھیے کہ کس طرح خود پیپلزپارٹی کو سبق پڑھایا جارہا ہے___ ہم محترمہ کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن پیپلزپارٹی کی قیادت کے ان افراد کو جو آزاد سوچ رکھتے ہیں اور اس کے کارکنوں اور ہمدردوں کو اس اقتباس پر غوروفکر کی خصوصی دعوت دیتے ہیں:

آخری بات یہ کہ پیپلزپارٹی نے ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے ’بدمعاش (rogue) عناصر‘ پر مسزبھٹو کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا ہے اور آئی بی کے ڈی جی کی معطلی کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ غلط موقع پر متعین بات کہنا ہے۔ ان اداروں کی ماضی کی بدمعاشی کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے ریاستی اداروں میں بدمعاش عناصر کی موجودگی کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن   آئی بی کے ڈی جی کو نشانہ بنانا‘ ایک واہیات بات ہے۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے خود جنرل مشرف پر الزام لگایا جائے۔ آئی بی کے ڈی جی پر جو بھروسا اور اعتماد مشرف رکھتے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے اور اس بات کے پیش نظر کہ وہ ان کے ایک اچھے ذاتی دوست بھی ہیں‘ زیادہ مناسب ہوتا اگر صاف صاف القاعدہ کے عناصر کوالزام دیا جاتا جنھوں نے کھلے عام جنرل مشرف اور مسزبھٹو دونوں کو ختم کر دینے کا اعلان کیا ہے۔ آخری بات جو جنرل مشرف اور مسزبھٹو چاہ سکتے ہیں وہ اُن لوگوں کے ہاتھوں میں کھیل جانا ہے جو ان دونوں کے درمیان خلیج پیدا کردینا چاہتے ہیں اور جو لبرل جمہوری اتحاد زیرتشکیل ہے‘ اس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

ہم نے کراچی کے سانحے کے ان پہلوؤں کی طرف اس لیے قدرے تفصیل سے توجہ دلائی ہے کہ قوم‘ ملک کی سیاسی اور دینی جماعتیں اور خود فوج‘ انتظامیہ اور میڈیا کے سوچنے سمجھنے والے عناصر اس حقیقت کو جان لیں کہ اصل مسئلہ وہ نہیں ہے جسے سیکولر اورامریکی لابی اور آمریت اور سیاست میں فوجی مداخلت کے ہم نوا پیش کر رہے ہیں یعنی اصل مسئلہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کا ہے۔ جمہوریت‘ دستور کی بحالی‘ قانون کی حکمرانی‘ فوج کے سیاسی کردار کی مکمل نفی اور سیاسی مسائل کا سیاسی عمل کے ذریعے حل کا نہیں۔ انتہاپسندی اور دہشت گردی دونوں اپنی اپنی جگہ ناپسندیدہ ہیں اور اسلام اور ہرمہذب معاشرے کو ان سے پاک ہونا چاہیے لیکن استعماری تسلط اور سامراجی ثقافت‘ تہذیب اور مداخلت پر گرفت اور تنقید کو انتہاپسندی قرار دینا اور بیرونی قبضے اور تسلط کے خلاف مزاحمت کو دہشت گردی قرار دے کر استعماری عزائم کو تحفظ بلکہ تقویت دینا ایک مجرمانہ فعل ہے۔ ہمارے سارے سیاسی خلفشار کی جڑ ہے اور جب تک ان اسباب کا سدباب نہیں ہوتا اور ان پالیسیوں کو قوت اور جبر کے ذریعے بیرونی ایجنڈے کو قوم پر مسلط کرنے کا کھیل ختم نہیں ہوتا‘ حالات کی اصلاح ممکن نہیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب تمام سیاسی اور دینی قوتیں اور ریاست کے تمام اداروں کے ذمہ دار افراد ٹھنڈے دل سے حالات کا تجزیہ کرکے آمریت اور ملک پر بیرونی عناصر کی گرفت کے مقابلے کے لیے سینہ سپر نہیں ہوتے‘ ملک تباہی سے نہ بچ سکے گا۔


دنیا کے وہ اہلِ نظر اور اصحابِ تحقیق جنھوں نے امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بے لاگ تجزیہ کیا ہے‘ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جسے انتہاپسندی اور دہشت گردی کہاجارہا ہے‘ وہ نتیجہ ہے امریکا اور مغربی اقوام کی سامراجی‘ ظالمانہ اور نوآبادیاتی پالیسیوں اور تیسری دنیا کے خودساختہ اور امریکا کے پروردہ حکمرانوں کا‘ جو ان ممالک میں امریکی ایجنڈے پر عمل درآمد کرکے ان کے آلۂ کار کا کردار ادا کر رہے ہیں‘ پاکستان کی اس کیفیت کی منظرکشی ایک سابق سفیر شمشاداحمد نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں اس طرح کیا ہے:

ایک فوجی حکومت کے لیے اس وقت مقابلے کے لیے کھڑے ہونا آخری بات تھی جو وہ کرسکتی تھی۔ نائن الیون کے بعد پاکستان کی پالیسی میں تیزی سے آنے والی تبدیلی نے اسے دہشت گردی کے خلاف امریکا کی عالمی جنگ میں اہم کھلاڑی بنادیا اور اسے عالمی برادری میں اہمیت دے دی جس نے فوجی حکومت کو اپنے جواز کی تلاش میں مدد دی۔ جنرل مشرف کے لیے یہ ایک فرد کا اسٹرے ٹیجک اتحاد تھا لیکن پاکستان کے لیے یہ اس کی تلاطم خیز تاریخ کا ایک نیا تکلیف دہ باب تھا۔ پلک جھپکتے میں پاکستان نے اپنی آزادی اور خودمختاری چھوڑ دی۔ ایک پراکسی وار میں ایک تابع دار فریق بن گیا جس میںاس کا فیصلہ سازی میں کوئی کردار نہ تھا۔ اس نے اپنے آپ کو ایک کرایے کی (mercenary) ریاست کے طور پر بھرتی ہونے کی اجازت دی جس کی ہم نے خوشی خوشی قیمت قبول کی۔ لیکن اب پاکستان کے عوام اس اسٹرے ٹیجک تعلق کی بڑی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ ہم امریکا کی افغانستان کی طالبان کے خلاف جنگ کو پاکستان میں لے آئے ہیں۔ وزیرخارجہ قصوری نے کھلے عام قبول کیا کہ ہم یہ جنگ امریکی قیادت میں ۳۷ رکنی طالبان دشمن اتحاد کی طرف سے افغانستان میں لڑ رہے ہیں۔ ان کا مطلب یہ تھاکہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے پھر بھی ہم اپنے لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ اس جاری مہم میں بہت بڑے پیمانے پر ضمنی نقصان کے طور پر ہمارے شہری اورفوجی ہلاک ہو رہے ہیں۔ سب سے بڑا نقصان پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کا خاتمہ ہے۔

اس پالیسی کا نتیجہ کیا ہے؟ آج ہم ہر طرف سے معتوب ہیں اور جنرل پرویز مشرف    ان لوگوں کو شریکِ اقتدار کرنے کے لیے مجبور کردیے گئے ہیں جن کو کل تک وہ خود چور‘ ڈاکو‘   خزانہ لوٹنے والے اور سیکورٹی رسک قرار دے رہے تھے۔ رہی بین الاقوامی اہمیت تو اس کا حال سابق سفیر شمشاد احمد کے الفاظ میں یہ ہے:

ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان نے اس پراکسی وار میں سب کچھ دائو پر لگادیا ہے اور اپنے ہزاروں افراد کو قتل کردیا ہے‘ اور پھر بھی اس پر الزام لگ رہا ہے کہ اس نے کافی نہیں کیا۔ قوم کو یہ صدمہ بھی ہے کہ خطے میں اپنے کردار اور اہمیت کے حوالے سے اب    ہم بھارت نہیں بلکہ افغانستان کے ساتھ بریکٹ کیے جاتے ہیں۔ اکتوبر ۹۹ء سے پہلے ایسا ہرگز نہ تھا جب ایک سویلین قیادت کے تحت پاکستان بھارت کے برابر ایک   ایٹمی طاقت بن گیا اور ایک ذمہ دار علاقائی اور عالمی طاقت کے طور پر آگے بڑھ رہا تھا۔ اب ہم کو ایک ذمہ دار علاقائی طاقت نہیں سمجھا جاتا۔ جنرل مشرف کو پاکستان کے مسائل اور چیلنجوں کے بہت زیادہ ہونے کا ادراک ہونا چاہیے اور غور کرنا چاہیے کہ  یہ حالات لانے میں خود ان کا کردار کیا ہے۔ آٹھ سال قبل انتہاپسندی‘ تشدد‘ جرائم   اور کرپشن اس پیمانے کی اتنی سنگین ہرگز نہ تھی۔ آج دنیا پاکستان کو صرف امریکا کی دہشت گردی کی جنگ کا گرائونڈ زیرو اور مذہبی انتہاپسندی اور تشدد کا واحد مقام سمجھتی ہے جہاں یہ پرورش پاتی ہے___ یہ کس کا ورثہ ہے!

انتہاپسندی اور دہشت گردی کے بارے میں پاکستان اور امریکا کے ہم نوا مسلم ممالک ہی نہیں خود امریکا کی پالیسی حالات کے غلط تجزیے پر مبنی ہے اور اس پالیسی کی ناکامی کا اعتراف حکمران تو کھل کر نہیں کر رہے لیکن تمام عوامی جائزے خواہ وہ امریکا اور یورپ کے ممالک میں کیے جارہے ہوں یا پاکستان اور مسلم دنیا میں کھلے الفاظ میں کر رہے ہیں۔ امریکا میں اب ۷۹ فی صد آبادی بش کی پالیسیوں سے غیرمطمئن ہے۔ یورپ میں بھی بے اطمینانی کی یہ کیفیت ۷۰‘ ۸۰ فی صد آبادی کی ہے‘ جب کہ اسلامی دنیا میں یہ ۸۰ اور ۹۰ فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی ہے‘ یا مفادات کا کھیل کہ جنرل پرویز مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو ابھی تک یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ اصل مسئلہ انتہاپسندی اور دہشت گردی ہے‘ اور اصل کش مکش آمریت اور جمہوریت اور فوجی حکمرانی اور عوامی حکمرانی میں نہیں‘ انتہاپسندی اور روشن خیالی ہی ہے۔ ’خودکش حملے‘ انسانیت کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہیں‘ لیکن یہ اسی وقت ختم ہوسکتے ہیں جب ان حالات پر قابو پایا جائے جو ریاستی ظلم اور تشدد کے ستم زدہ انسانوں کو جان سے کھیل جانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ مغرب کے آزاد محقق اس بات کو محسوس کر رہے ہیں اور پکار پکار کر اپنی اندھی قیادتوں کو ان حقائق کو دیکھنے اور ان پر غور کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں اور سیاسی اور عسکری قیادت کو اس سے ہوش کے ناخن لینے چاہییں۔


دہشت گردی اور خودکش حملوں کے اسباب و عوامل کے بارے میں متعدد تحقیقی کتب گذشتہ چند برسوں میں شائع ہوئی ہیں۔ ان میں کرسٹوف ریوٹر کی کتاب My Life is a Weapon: A Modern History of Suicide Bombing ،پرنسٹن یونی ورسٹی‘ ۲۰۰۴ء بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس میں وہ لکھتا ہے:

مغربی میڈیا میں خودکش حملوں کی جو سادہ وجوہات بیان کی جاتی ہیں‘ ان سے نئے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ان حملوں کو انقلابی اسلام سے جوڑ دیا جائے تو پھر یہ پچھلے ۲۰سال ہی میں کیوں ہوئے ہیں؟ اگر غربت‘بدحالی ہی فیصلہ کن عوامل ہیں تو ہم اس حقیقت کی کیا توجیہہ کریں گے کہ ۱۱ستمبر کے تمام حملہ آور جہاں تک ہم جانتے ہیں پُرآسایش اور متوسط طبقے کے خاندانوں سے آئے‘ اور اگر مسلم حملہ آور اپنے آپ کو اس لیے اڑا دیتے ہیں کہ ۷۲دوشیزائیں ان کو جنت میں ملیں گی تو ہم اس کی کیا وجہ بتائیں گے کہ یہی اقدام غیرمسلم بھی کرتے ہیں‘ عورتیں بھی کرتی ہیں یا کوئی بھی جسے جنسی فوبیا ہو؟ یہ اسباب مخصوص حالات میں ان حملوں کی کثرت کی وجہ نہیں بتاپاتے۔ شاید سب سے پریشان کن سوال یہ ہے کہ ایک معاشرہ کس طرح ایک ایسے عمل کو برداشت کرسکتا ہے بلکہ مریضانہ حد تک بڑھا سکتا ہے جو بقا کی حِس کے مخالف ہو۔ ہم ان ماؤں اور باپوں کے بارے میں کیا کہیں گے جو اپنے اس بیٹے یا بیٹی پر فخر کرتے ہیں جس نے دوسروں کو مارنے کے لیے اپنے آپ کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ کس چیز نے ایک ایرانی ماں کو ۱۹۸۰ء کی ایران عراق جنگ کے ابتدائی دنوں میں یہ اعلان کرنے پر آمادہ کیا کہ وہ خوش ہے کہ اس کے پانچ بیٹے شہید ہوئے اور بس یہ افسوس ہے کہ اس کے پاس پیش کرنے کے لیے اور بیٹے نہیں ہیں۔ آج ۲۰سال بعد وہ کیا کہتی ہوگی۔(ص ۱۱)

دوسرا محقق جس کی کتاب نے امریکا اور یورپ میں تہلکہ مچا دیا ہے‘ وہ شکاگو یونی ورسٹی کے پروفیسر رابرٹ پاپ کی Dying To Winہے۔ مصنف کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ:

بہرکیف خودکش دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی کے درمیان مفروضہ تعلق گمراہ کن ہے‘ اور اس سے ان داخلی اور خارجی پالیسیوں کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے جو امریکا کے حالات خراب کر رہی ہیں اور خواہ مخواہ بہت سے مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔

رابرٹ پاپ اپنے طریق کار اور نتائج تحقیقی کو یوں بیان کرتا ہے:

میں نے ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۳ء تک پوری دنیا میں ہونے والے خودکش بمباریوں کے‘ جن کی تعداد ۳۱۵ ہے‘ ہر ایک کے اعدادو شمار جمع کیے ہیں۔ اس میں ہر وہ حملہ شامل ہے جس میں کسی مرد یا خاتون دہشت گرد نے دوسروں کو مارنے کی کوشش میں اپنے آپ کو مار لیا۔ اس میں وہ حملے شامل نہیں کیے گئے جن کی کسی قومی حکومت نے اجازت دی‘ مثلاً شمالی کوریا کے خلاف جنوبی کوریا کے۔ یہ ڈیٹابیس دنیا بھر میں خودکش حملوں کی پہلی مکمل تفصیل ہے جو میں نے جمع کی ہے اور تمام متعلقہ معلومات کی تصدیق کی ہے جو انگریزی‘ عربی‘ روسی یا تامل زبانوں میں بذریعہ انٹرنیٹ یا مطبوعہ ملتی ہیں۔ یہ معلومات خودکش دہشت گرد گروہوں سے حاصل کی گئی ہیں‘ یا ان بڑی تنظیموں سے جو متعلقہ ملک میں ایسی معلومات جمع کرتی ہیں‘ اور پوری دنیا کے نیوزمیڈیا سے۔ یہ ڈیٹابیس خودکش حملوں کا ایک فہرست سے زیادہ جامع ترین اور قابلِ اعتماد سروے ہے جو اس وقت دستیاب ہے۔ یہ ڈیٹا بتاتاہے کہ خودکش دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی یا دنیا کے کسی مذہب کے درمیان بہت کم تعلق ہے۔ خودکش حملوں کے سب سے بڑے ذمہ دار سری لنکا کے تامل ٹائیگر ہیں جو ایک مارکس نواز گروپ ہیں جس کے ارکان اگرچہ ہندو خاندانوں سے ہیں لیکن وہ مذہب کے سخت مخالف ہیں۔ اس گروپ نے ۳۱۵ میں سے ۷۶ حملے کیے‘ حماس سے بھی زیادہ۔ تقریباً تمام خودکش دہشت گرد حملوں میں جو چیز مشترک ہے وہ ایک مخصوص سیکولر اور اسٹرے ٹیجک ہدف ہے: جدید جمہوری طاقتوں کو مجبور کرنا کہ وہ اس علاقے سے اپنی افواج واپس بلائیں جن کو دہشت گرد اپنا وطن سمجھتے ہیں۔ مذہب شاذ ہی اصل وجہ ہوتا ہے‘ گو کہ اسے اکثر دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے بھرتی کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر اور وسیع تر اسٹرے ٹیجک مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ (ص ۳-۴)

رابرٹ پاپ کا کہنا ہے کہ ۱۹۸۰ء سے لے کر ۲۰۰۳ء تک جن حملوں کا انھوں نے مطالعہ کیا ہے‘ اس میں مسلمانوں کا تناسب ۵۰ فی صد ہے‘ یعنی یہ محض مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ تمام ہی مذاہب اور سیکولر عناصر اس میں کارفرما نظر آتے ہیں۔ نیز یہ کسی خاص تعلیمی پس منظر یا سماجی اور معاشی حالت کی پیداوار نہیں۔ ان کا کہنا ہے:

مسلمانوں میں بھی خودکش حملے ایک تہائی سیکولر گروپوں نے کیے ہیں۔ کردوں کی تنظیم ’پی کے کے‘ جس نے خودکش حملہ آوروں کو کرد خودمختاری حاصل کرنے کے لیے حکمت عملی کے ایک جزو کے طور پر استعمال کیا ہے‘ اسلام کے بجاے اپنے لیڈر عبداللہ ادکلان کے سیکولر مارکس لینن کے نظریے کو مانتی ہے۔ ان تنازعات میں بھی جن پر اسلامی بنیاد پرستی کی چھاپ ہے‘ خودکش حملوں کی ایک بڑی تعداد سیکولر نظریوں کے حامل گروپوں کی طرف سے ہوتے ہیں۔ فلسطین کی آزادی کے لیے پاپولرفرنٹ (مارکس لینن گروپ)‘ اور الاقصیٰ شہدا بریگیڈ جس کا تعلق یاسرعرفات کی سوشلسٹ الفتح موومنٹ سے ہے‘ دونوں مل کر اسرائیل کے خلاف کیے جانے والے ۹۲ حملوں میں سے ۳۱ کے ذمہ دار ہیں‘ جب کہ کمیونسٹ اور سوشلسٹ گروپ جیسے لبنانی قومی مزاحمتی فرنٹ‘ لبنانی کمیونسٹ پارٹی اور شام کی قومی سوشلسٹ پارٹی ۸۰ کے عشرے میں ہوئے ۳۶ حملوں میں سے ۲۷ کے ذمہ دار ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ نفسیاتی اسباب اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے کہ خودکش حملے صرف چند مخصوص معاشروں میں صرف مخصوص مواقع پر کیوں ہوتے ہیں۔ خودکش حملوں کی تعداد میں ایک معاشرے سے دوسرے معاشرے میں فرق ہوتا ہے لیکن یہ اتنا زیادہ نہیں ہوتا کہ یہ معلوم ہوسکے کہ کیوں معاشروں کی اکثریت میں___ حالانکہ ان میں سے بہت سے معاشرے سیاسی تشدد سے گزر رہے ہیں___ کسی خودکش دہشت گردی کا مظاہرہ نہیں ہوتا۔ لیکن معاشروں کی ایک تعداد میں‘ ہر ایک میں درجنوں ہوجاتے ہیں۔ اس سوال کا سیاسی یا عمرانی جواب چاہیے۔ اسی طرح خودکش حملے کرنے والے افراد کی فراہمی میں ایک خاص مدت میں کچھ فرق پڑسکتا ہے۔ اس کا کوئی نفسیاتی سبب نہیں معلوم ہوتا کہ کیوں خودکش حملوں کے ۹۵ فی صد منظم مہموں میں ہوتے ہیں جو ایک خاص وقت میں مرکوز ہوتے ہیں۔ پھر یہ کہ خودکش حملہ آوروں کی شخصیت خودکشی کرنے والوں کے ساتھ نہیں ملتی۔ ابھی تک خودکش حملہ آوروں کی نفسیاتی شخصیت کے بارے میں ماہرین کا کہنا تھا کہ غیرتعلیم یافتہ‘ بے روزگار‘ معاشرے میں تنہا‘ غیرشادی شدہ‘ ۱۷/ ۱۸ سے ۲۲/۲۳ برس کی عمر کے ہوتے ہیں۔ اس مطالعے میں خودکش حملہ آوروں کی شخصیت کے بارے میں جامع ڈیٹا جمع کیا گیا ہے (دیکھیے‘ باب ۱۰) جو بتاتا ہے کہ وہ کالج کے تعلیم یافتہ اور غیرتعلیم یافتہ‘ شادی شدہ غیرشادی شدہ‘ مرداور عورت‘ معاشرے سے تنہا اور معاشرے میں مربوط‘ ۱۵ سے ۵۲ برس کی عمر تک کے رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں‘ لائف اسٹائل کے ایک وسیع پس منظر سے آتے ہیں۔

اسی طرح موصوف ثابت کرتے ہیں کہ غربت اس کا اصل سبب نہیں جیساکہ کچھ حلقوں میں دعویٰ کیا جاتا ہے (ص ۱۸-۱۹)۔ پروفیسر پاپ کی تحقیق جس طرف اشارہ کرتی ہے وہ بڑی بنیادی حقیقت ہے یعنی سیاسی ظلم و استبداد اس کا اہم ترین سبب ہے:

خودکش دہشت گردی کی حکمت عملی کا مقصد سیاسی دبائو ہے۔ خودکش حملوں کی بڑی اکثریت چند جنونیوں کے اتفاقی یا غیرمربوط افعال نہیں ہے بلکہ ایک منظم گروہ کی طرف سے کسی مخصوص سیاسی ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ایک بڑی مہم کے حصے کے طور پر  کئی کئی ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں خودکش دہشت گرد گروپوں کے بنیادی مقاصد عموعی طور پر اسی دنیا سے متعلق ہوتے ہیں۔ یہ مہمیں بنیادی طور پر قوم پرست ہوتی ہیں‘ مذہبی نہیں ہوتیں اور خاص طور پر نہ اسلامی ہی۔

گذشتہ دو عشروں میں‘ جس گروپ نے بھی خودکش مہم چلائی‘ لبنان میں حزب اللہ سے لے کر مغربی کنارے میں حماس تک‘ اور سری لنکا میں تامل ٹائیگرز تک‘ ہر ایک کا ایک مرکزی مقصد رہا ہے: ایک بیرونی ریاست کو مجبور کرنا کہ وہ اپنی فوجیں وہاں سے نکالیں جسے یہ گروپ اپنا وطن سمجھتے ہیں۔

پروفیسر پاپ امریکی پالیسی کے یک رخے پن کا نوحہ کرتا ہے‘ اور ایک ایسی حکمت عملی کی بات کرتا ہے جو محض عسکری قوت پر انحصار نہ کرے‘ بلکہ اصل اسباب اور پالیسی کے پہلوؤں کو توجہ کا مرکز بنائے۔

آخری نتیجہ یہ ہے کہ خودکش دہشت گردی دراصل غیرملکی قبضے کے خلاف ردعمل ہے۔ دیگر حالات میں متفرق واقعات ہوئے ہیں‘ مذہب کا بھی ایک کردار ہے لیکن جدید خودکش دہشت گردی کو قومی آزادی کے لیے ایک انتہاپسند حکمت عملی کے طور پر بہتر سمجھا جاسکتا ہے۔ قومی آزادی ان جمہوریتوں سے جن کی افواج ان علاقوں کے کنٹرول  کے لیے ایک فوری خطرہ ہیں جن کو دہشت گرد اپنا وطن سمجھتے ہیں۔

خودکش دہشت گردی کے اسٹرے ٹیجک‘ سوشل اور انفرادی اسباب کو سمجھنے کے امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے اہم مضمرات ہیں۔ ہمارا پالیسی پر حالیہ بحث و مباحثہ صحیح سمت میں نہیں ہے۔ فوجی طاقت سے حملے اور محض رعایتیں طویل مدت تک کام  نہ آئیں گی۔ (ص ۲۳)

اس لیے جس نئی حکمت عملی کی طرف وہ امریکی قیادت کو متوجہ کرتا ہے‘ وہ دوسرے ذرائع سے امریکا کے تیل کی ضرورت پر توجہ مرکوز کرنے سے عبارت ہے‘ نہ کہ قبضہ (occupation) اور عسکری قوت کے ذریعے مسلم دنیا کو اپنے زیرتسلط رکھنا۔

یہ سمجھنے کے کہ خودکش دہشت گردی اسلامی بنیاد پرستی کا نتیجہ نہیں بلکہ غیرملکی قبضے کا ردعمل ہے‘ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے اہم مضمرات ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کس طرح کریں کیونکہ خودکش دہشت گردی کا اصل سبب مسلمانوں میں بھی کسی نظریے میں نہیں ہے۔بحیرۂ فارس میں جمہوریت کو پھیلانا امرت دھارا ثابت نہیں ہوگا جب تک کہ غیرملکی افواج جزیرہ نما عرب میں موجود ہیں۔

خلیج فارس کے تیل میں دنیا کی دل چسپی کو ایک طرف رکھ دیں تو واضح حل‘ جیساکہ رونالڈ ریگن کے لیے تھا جب امریکا کو لبنان میں خودکش دہشت گردی کا سامنا تھا‘ یہ ہوسکتا ہے کہ علاقے کو بالکلیہ چھوڑ دیں۔ یہ بہرحال ممکن نہیں ہے‘ یقینا مستقبل قریب میں بھی نہیں۔ اس طرح اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم خودکش دہشت گردی کا کوئی ایسا مستقل حل تلاش کرسکتے ہیں جو ہمارے بنیادی مفاد‘ یعنی دنیا کے تیل پیدا کرنے والے بڑے علاقوں میں سے ایک پر ہماری رسائی کو متاثر نہ کرے۔ اس کا جواب ایک مشروط ہاں میں ہے۔ گو کہ اِکا دکا خودکش حملے ہوتے ہیں‘ امریکا اور اس کے اتحادی فتح کے لیے ایک ایسی حکمت عملی اختیار کرسکتے ہیں جو ہماری عالمی سلامتی کو قربان کیے بغیر خودکش دہشت گردی کی مہموں کو کم کردیں۔ یہ کرنے کے لیے ہمیں فوجی حملوں اور رعایتوں دونوں کی حدود کو پہچاننا ہوگا اور ساتھ ہی اپنے ملک میں سلامتی کی بڑھتی ہوئی کوششوں کی حدود کو بھی۔ ہمیں اپنی خلیج فارس میں آف شور بیلنسنگ (off shore balancing)کی روایتی پالیسی خوبیوں کو یاد کرنا چاہیے اور اسی حکمت عملی کی طرف واپس آنا چاہیے۔ یہی حکمت عملی دنیا کے تیل پیدا کرنے والے علاقوں میں دہشت گردی کو مزید اُبھارے بغیر ہمارے مفادات کے تحفظ کے لیے بہترین راستہ ہے۔(ص ۲۳۵-۲۳۶)

اسی ماہ پرنسٹن یونی ورسٹی کے عالمی شہرت کے ماہرمعاشیات پروفیسر ایلان کروٹیگر کی کتاب What Makes a Terroristشائع ہوئی ہے جس میں وہ برسوں کی تحقیق کے بعد یہ ثابت کرتا ہے کہ دہشت گردی کا تعلق نہ غربت سے ہے اور نہ مذہبی تعلیم یا تعلیم کی کمی سے اور صاف کہتا ہے کہ:

مجھے یقین ہے کہ مغرب کی غلطی یہ ہے کہ وہ یہ سمجھنے میں ناکام ہے کہ ہماری پالیسیاں منفی یا تشدد آمیز نتائج کی طرف لے جاسکتی ہیں۔ (ص ۵۱)

اسی طرح مذہب کے عنصر کو بھی اس نے غیر اہم قرار دیا ہے:

ہماری تحقیق کے نتائج نے دنیا کے بڑے مذاہب کے درمیان کوئی اہم فرق ظاہر نہیں کیا۔ ان نتائج کی میری تعبیر یہ ہے کہ مذہبی اختلافات ان بہت سے امکانی ذرائع میں سے ہیں جن سے دہشت گردی بڑھتی ہے۔ یہ اس طرح کی شکایات کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے‘ اور کسی ایک مذہب سے وابستہ نہیں ہے۔ اگرچہ آج کل دنیا کی توجہ   اسلامی دہشت گرد تنظیموں کی طرف ہے‘ یہ کسی بھی طرح دہشت گردی کا منبع نہیں ہیں۔ دہشت گردی پر کسی مذہب کی اجارہ داری نہیں ہے۔

پروفیسر کروٹیگر نے انھی خطبات کے بعد سوال جواب کے موقع پر ایک بڑی عجیب بات کہی ہے جس سے جسے دہشت گردی کہا جاتا ہے اس کے عقلی جواز پر روشنی پڑتی ہے۔ سوال اور جواب ملاحظہ ہو:

سوال: آپ نے اپنے لیکچر کے آغاز میں کہا کہ دہشت گردی ایک حکمت عملی ہے‘ ایک مقصد حاصل کرنے کا ذریعہ۔ آپ نے اس بات پر اختتام کیا کہ دہشت گردی کے مقاصد حاصل نہیں ہوئے۔ کیا آپ ہمیں ذرائع اور مقاصد کی معاشی اصطلاحات میں دہشت گردی کے طریقے اور اس کے نتائج کا شروع سے آخر تک کا ایک قیمت اور نفع کا تجزیہ (cost benefit analysis) دے سکتے ہیں؟

جواب: میں آپ کو ایک مکمل طور پر معاشی تخمینہ نہیں دے سکتا لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں یقین رکھتا ہوں کہ اکثر دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے دہشت گردی ایک عقل میں آنے والا اقدام ہوتا ہے۔ قیمت اور نفع کے جو حساب وہ لگا رہے ہوتے ہیں غالباً درست ہوتے ہیں۔ یہ ہمیشہ ٹھیک نہیں ہوتا۔ اس لیے دہشت گردی بعض اوقات بے وقت اور مقاصد کے برعکس کام کرتی ہے۔ دہشت گرد تنظیموں کی اہلیت کو سامنے رکھا جائے تو میرے خیال میں وہ بہترین طریقے استعمال کرتے ہیں جو انھیں دستیاب ہوتے ہیں۔ میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ تنظیمیں جس انداز سے صنعتوں کو نشانہ بناتی ہیں یا دہشت گردوں کے کام سپرد کرتی ہیں وہ سوچا سمجھا ہوتا ہے۔ مجھے یہ بھی نظر آتا ہے کہ ان حملوں کے اوقات بھی اکثر سوچے سمجھے ہوتے ہیں اس لحاظ سے کہ یہ اپنے ہدف کو بہ نسبت اپنی قربانی کے بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔(ص ۱۶۱)

بات لمبی ہو رہی ہے لیکن دنیا میں جو آزاد تحقیق ہو رہی ہے‘ وہ بڑی اہمیت کی حامل ہے اور ہمارے یہاں جو بے سروپا دعوے کیے جا رہے ہیں اور جس طرح مذہبی جنونیت اور جہادی کلچر کی بات کر کے اصل مسائل کو الجھایا جا رہا ہے‘ وہ افسوس ناک تو ہے ہی مگر خطرناک‘ نتائج کے اعتبار سے مہلک اور اپنے مقصد کو آپ شکست دینے والا (self defeating) ہے۔ مشرف صاحب اور بے نظیر صاحبہ دونوں ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سلسلے میں ایک چوٹی کے مؤرخ اور محقق Eric Hobsbawm کی تازہ ترین کتاب Globalisation, Democracy and Terrorism جو ان کے مضامین کے انتخاب پر مشتمل ہے‘ بڑی دل چسپ رہنمائی کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ۲۱ویں صدی میں عالمی سطح پر قوت کے استعمال کو فروغ امریکا کی پالیسیوں کی وجہ سے ہوا ہے اور یہ کہ دہشت گردی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے والے پڑھے لکھے لوگ ہیں‘ مذہبی جنونی یا فاقہ زدہ عوام نہیں۔

تیسرے مرحلے میں جسے موجودہ صدی کے آغاز پر غلبہ حاصل ہے‘ سیاسی تشدد جارج بش کے تحت امریکا کی پالیسیوں اور اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے منظم طور پر عالمی ہوگیا ہے‘ ۱۹ویں صدی کی انارکیت کے بعد شاید پہلی مرتبہ۔

دو باتیں ان نئی تحریکوں کی خاصیت ہیں۔ یہ چھوٹی اقلیتوں پر مشتمل ہیں گو کہ ان اقلیتوں کو عام لوگوں کی خاموش ہمدردی حاصل ہے جن کی خاطر یہ عمل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کا مخصوص طریقۂ کار چھوٹے گروپ ایکشن کا طریقۂ کار ہے۔

پرویژنل آئی آر اے کی نام نہاد سرگرم یونٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک وقت میں اس میں دو یا تین سو سے زیادہ لوگ نہیں ہوتے تھے اور میرا خیال ہے کہ اٹلی کی ریڈبریگیڈ اور باسک ای ٹی اے میں بھی اس سے زیادہ نہیں تھے۔ عالمی دہشت گرد تنظیموں اور تحریکوں میں سب سے بڑی القاعدہ میں افغانستان کے دنوں میں بھی ۴ہزار سے زیادہ لوگ نہیں تھے۔ ان کی دوسری خاصیت یہ تھی کہ عام طور پر وہ بہ نسبت اپنی برادری کے دوسرے لوگوں کے زیادہ تعلیم یافتہ تھے‘ اور اعلیٰ سماجی پس منظر سے تعلق رکھتے تھے۔ افغانستان میں جن لوگوں نے القاعدہ سے تربیت حاصل کی وہ متوسط اور اعلیٰ طبقوں کے لوگ تھے جو مستحکم خاندانوں سے آئے تھے‘ زیادہ تر کالج کے تعلیم یافتہ تھے اور سائنس اور انجینیرنگ کے طالب علم تھے‘ جب کہ دینی مدارس سے بہت کم آئے تھے۔ فلسطین میں بھی خودکش حملہ آوروں میں سے ۵۷ فی صد ہائی اسکول سے زیادہ تعلیم یافتہ تھے‘ جب کہ آبادی میں یہ تناسب ۱۵ فی صد سے کم تھا۔ (ص ۱۳۲-۱۳۳)

Eric Hobsbawm جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ بہت اہم ہے اور اس میں ہمارے لیے  بڑا سبق ہے:

ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی عالمیت اور ایک فوجی طاقت کی جانب سے مسلح بیرونی مداخلت کے احیا نے‘ جس نے ۲۰۰۲ء میں‘ بین الاقوامی تنازعات کے اب تک کے تسلیم شدہ ضوابط کو سرکاری طور پر مسترد کیا ہے‘ حالات کو بدتر کردیا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں مستحکم ریاستوں کی حکومتوں کو اور ایشیا میں بھی‘ نئی عالمی دہشت گرد تنظیموں کا حقیقی خطرہ ناقابلِ ذکر ہے۔ لندن یا میڈرڈ میں شہری ٹرانسپورٹ میں چند درجن یا چند سو زخمی بمشکل ایک بڑے شہر کی کارکردگی میں چند گھنٹوں کا تعطل ڈالتے ہیں۔ نائن الیون کا حادثہ کتنا ہی ہولناک سہی‘ یہ امریکا کی عالمی طاقت اور اس کے اندرونی نظام کے حوالے سے بالکل بے اثر رہا۔ اگر حالات بدتر ہوئے ہیں تو یہ دہشت گردوں کی کارروائی سے نہیں‘ بلکہ حکومتِ امریکا کی کارروائی سے ہوئے ہیں۔ (ص ۱۳۵)


ہماری معروضات کا حاصل یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں خاص طور پر اور عالمِ اسلام بلکہ پوری دنیا میں بالعموم انتشار‘ تصادم اور خون ریزی کا اصل سبب وہ ظلم و تشدد‘ وہ ریاستی جبر اور تسلط‘ اور حکمرانوں کا قانون اور انصاف سے بالا ہونا ہے جس کے نتیجے میں مزاحمت رونما ہوئی ہے اور مزاحمت کے سوا کوئی اور ردعمل نہیں ہوسکتا۔ اسے انتہاپسندی کا نام دینا غلط ہے‘ اور اسے دہشت گردی قرار دے کر عسکری قوت سے دبانا مسئلے کو بگاڑنے اور تشدد اور خون خرابے کو وسیع کرنے کا نسخہ ہے۔ عالمی صف بندی میں ایک طرف امریکا اور اس کے حلیف ہیں جو ظلم اور استبداد کے مرتکب ہیں‘ اور دوسری طرف عوام ہیں جو اپنے حقوق‘ اپنی آزادی اور اپنے تہذیبی تشخص کے لیے جمہوری جدوجہد کرنا چاہتے ہیں اور جب اس کے دروازے بند پاتے ہیں تو بم کا جواب پتھر سے دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ قوت کا بے محابا استعمال اس صورت حال کو اور بگاڑ رہا ہے اور اب دونوں ہی طرف سے کیے جانے والے اقدامات بگاڑ کو بڑھانے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔

پاکستان میں اصل مسئلہ جنرل پرویز مشرف کا آمرانہ نظام‘ فوج کی قیادت اور فوج کا سیاسی استعمال‘ جمہوری عمل اور دستور اور قانون کی بالادستی کو درہم برہم کرنا اور نظامِ حکومت کو ایک اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے غلط طور پر استعمال کرنا ہے‘ اور گرتی ہوئی دیوار کو سہارا دینے کے لیے امریکا اور برطانیہ کے تعاون سے ایک سیاسی پارٹی کو شریکِ اقتدار کرنا اور حزبِ اختلاف کو بانٹنے اور ان کے درمیان تفریق اور بے اعتمادی پیدا کرنا ہے اور ان ہتھکنڈوں کے استعمال میں اس حد تک چلے جانا ہے‘ وہ جو قتل‘ لُوٹ مار‘ قومی دولت کے خردبرد‘ بھتہ خوری اور کرپشن کے ذریعے جسے اپنے نام نہاد صدارتی انتخاب سے چند گھنٹے پہلے بڑی بول تول اور بیرونی قوتوں کی مداخلت کے بعد مرتب کیا گیا تھا‘ عام معافی تک دینے کے گھنائونے جرم تک کا کاروبار کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی۔ اصل مسئلہ یہ غاصب قیادت‘ اور ان کا بنایا ہوا یہ نظام اور سیاسی کھیل ہے جسے دوست دشمن سب دیکھ رہے ہیں‘ مگر مفاد کے پجاری ملک میں بھی اور باہر بھی اس کھیل کو جاری رکھنا اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اسے کامیاب بنانا چاہتے ہیں‘ حالانکہ مجرم ضمیر ’جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا‘ کے مصدق اپنی کوئی نہ کوئی جھلک دکھا دیتا ہے۔ نیویارک ٹائمز اور گارڈین دونوں نے جنرل مشرف اور محترمہ بے نظیربھٹو کی پیٹھ ٹھونکی ہے‘ مگر یہ کہے بغیر بھی نہیں رہ سکے کہ یہ کھیل کتنا گھنائونا ہے۔

نیویارک ٹائمز نے مشرف-بے نظیر معاہدے کو جسے امریکا نے ممکن بنایا dubious dealقرار دیا ہے اور لکھا ہے:

بے نظیر کی واپسی کو جمہوریت کی فتح سمجھنا مشکل ہے‘ خاص طورپر اس لیے کہ یہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ایک مشکوک ڈیل کا نتیجہ ہے جو اس کو مزید پانچ سال کے لیے صدارت دیتی ہے۔ نہ یہ قانون کی حکمرانی کے لیے کوئی بڑی فتح ہے کیونکہ جنرل کے ساتھ بال کھیلنے کے بدلے میں مسزبھٹو کو ایک مناسب معافی دی گئی ہے جو ان کی وزارتِ عظمیٰ کے دور کے سنگین کرپشن کے الزامات سے ان کو بری کردیتی ہے۔

جنرل صاحب کی عزت امریکا میں کیا ہے اور ہمارے داخلی معاملات اور اپنے مطلب کی سیاسی قیادت کو بروے کار لانے میں امریکا کیا کردار ادا کررہا ہے‘ وہ بھی نیویارک ٹائمز ہی کے الفاظ میں یہ ہے:

ایک طویل عرصے تک اس نے جنرل مشرف کو اس کی مفروضہ طور پر طالبان اور القاعدہ کے خلاف پالیسیوں کی وجہ سے اپنی تائید سے نوازا۔ لیکن اب حال ہی میں وہ پالیسیاں اس کے جمہوریت اور قانون قبول کرنے یا شفاف انتخابات کرانے کے اس کے ایک کھوکھلے وعدے سے زیادہ قابلِ اعتماد نہیں رہیں۔ تاخیر سے یہ احساس ہونے کے بعد کہ جنرل کی پالیسیاں خطرناک طور پر انتہاپسندقوتوں کو کمزور نہیں مضبوط کر رہی ہیں۔ واشنگٹن نے اس ڈیل کے ہونے میں مدد دی جس سے مسزبھٹو کی واپسی ممکن ہوئی۔ اس سے پاکستان اور اسے جمہوریت کی طرف واقعی پیش قدمی کرنے میں مدد ملنا چاہیے۔

گارڈین کا تبصرہ بھی قابلِ غور ہے۔ سارا کھیل مفادات کی سیاست کا ہے‘ ورنہ جنرل مشرف اور محترمہ بے نظیر دونوں کی پارسائی کا حال سب کو معلوم ہے:

مسزبھٹو نے نہ حکومت پر اور نہ جنرل پرویز مشرف پر کراچی کے سانحے میں جس میں ۱۴۰افراد ہلاک ہوگئے‘ ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ انھوں نے پاکستان کے سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق‘ جنھوں نے ان کے والد کی حکومت کو ختم کیا اور ان کے باپ کو پھانسی چڑھایا‘ ان کے حامیوں کی طرف اشارہ کیا۔

ان میں سے کوئی بات بھی اسے خارج از امکان نہیں کرتی کہ آئی ایس آئی کے اندر بدمعاش عناصر یا اس کے سابقہ ممبروں نے اسلامی عسکریت پسندوں کے فراہم کیے ہوئے خودکش حملہ آور مسزبھٹو سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرنے کے لیے استعمال کیے ہوں۔ اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ ایک حقیقی معنوں میں سویلین مقبول سیاسی رہنما پاکستان کے ارب پتی جنرلوں کی طاقت کے لیے خطرہ ہے۔ مسزبھٹو اور ان کے شوہر پر جو بھی کرپشن کے الزامات ہوں (انھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا) لیکن ان کی غیرحاضری میں سینیر آرمی جرنیلوں نے جو مال اور جایداد جمع کی ہے اس کے مقابلے میں وہ ایک ہلکا سا عکس ہے۔ وہ پاکستانی جو ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پرآئے بھٹوؤں کے سروں پر کرپشن کے چھائے ہوئے بادلوں سے آگاہ تھے لیکن حکومت کا آٹھ سالہ پروپیگنڈا اور متعدد عدالتی اقدامات سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ ان کی اپنی پارٹی میں ان کے مقام کو جو نقصان پہنچا ہے وہ مشرف سے آٹھ ہفتے کی پس پردہ ڈیلنگ سے ہوا ہے۔ اسی کے نتیجے میں واپسی ہوئی اور ان کی واپسی کا راستہ صاف ہوا۔ اس سے ہی معلوم ہوجانا چاہیے کہ عوام کی ہمدردیاں کہاں ہیں۔ ایک سیاسی لیڈر کی حیثیت سے جنرل مشرف کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ ان کے لیے اب واحد قابلِ عمل راستہ یہ ہے کہ وہ ایک براے نام صدر بن جائیں اور وزیراعظم اور فوج کے درمیان رابطہ کاری کریں۔ (گارڈین‘ ۲۰ اکتوبر ۲۰۰۷ء)

یہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ کچھ جرنیل اور سیاست دان اس ناپاک کھیل میں شریک ہیں اور ملک کو مزید تباہی کی طرف لے جارہے ہیں‘ لیکن یہ ملک ۱۶کروڑ عوام کا ہے‘ کسی جرنیل یا کسی خاندان کی جاگیر نہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اصل مسائل کو سمجھا جائے اور جو کچھ معرضِ خطر میں ہے‘ اس کے حقیقی ادراک کے ساتھ ملک کو بچانے اور اصل دستور کے مطابق حقیقی جمہوری نظام قائم کرنے کی جدوجہد کی جائے۔ اس سلسلے میں عدالت‘سیاسی اور دینی جماعتیں‘ عام فوجی‘ انتظامیہ‘ میڈیا‘ وکلا برادری‘ دانش ور اور عوام اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ    نظریۂ ضرورت کو اس کی ہرشکل میں اور روح اور جسد دونوں کے ساتھ ہمیشہ کے لیے دفن کردیا جائے اور اتنا گہرا گاڑا جائے کہ پھر اس سے باہر آنے کا خطرہ باقی نہ رہے۔ ملک عزیز کو جتنا نقصان نظریۂ ضرورت نے پہنچایا ہے کسی اور نظریے‘ حکمت عملی یا پالیسی نے نہیں پہنچایا‘ اور اس میں ساری ذمہ داری کسی ایک ادارے پر نہیں۔ عدالتیں‘ سیاسی جماعتیں‘ پارلیمنٹ‘ میڈیا سب ہی کسی نہ کسی درجے میں اس ذمہ داری میں شریک رہے ہیں اور اس سے نجات کی جدوجہد میں بھی ہر ایک کو   اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہم اپنی تاریخ کے اس نازک لمحے پر جب ایک طرف عدالت بہت ہی اہم دستوری‘ سیاسی اور اخلاقی امور پر غور کر رہی ہے اور ایسے فیصلے کرنے جارہی ہے جن کے دُوررس اثرات ہوںگے‘ اور دوسری طرف ملک نئے انتخابات کے دروازے پر کھڑا ہے اور    ایک طرف یہ امکان ہے کہ عدالت‘ دستور اور قانون کی بالادستی کو اولیت دے اور عوام‘ سیاسی اور  دینی جماعتیں اور میڈیا جمہوریت کی بحالی کے لیے سیاست میں فوج کی بلاواسطہ اور بالواسطہ مداخلت کا ہردروازہ بند کرنے اور آزاد‘ غیر جانب دار اور شفاف انتخابات کے ذریعے عوام کے  حقیقی نمایندوں کو زمامِ کار سونپنے کی خدمت انجام دیں‘ اور دوسری طرف یہ خطرہ ہے کہ ایک بار پھر نظریۂ ضرورت کا سہارا لے کر خدانخواستہ غلام محمد ‘ جنرل ایوب خان‘ جسٹس منیر‘ جسٹس انوارالحق‘ ضیاء الحق اور جسٹس ارشاد کے دکھائے ہوئے تباہی کے راستے کی طرف رجعت قہقہری کا ارتکاب کیا جائے‘ یا ایمرجنسی اور مارشل لا کے جہنم میں ملک کو جھونکنے کی خودکشی کی راہ اختیار کی جائے۔

یہ سب تباہی کے راستے ہیںاور ہمیں یقین ہے کہ باربار دھوکا کھانے والے عوام اب اس سنگین مذاق کو گوارا نہیں کریں گے۔ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اب ملک کو نظریۂ ضرورت کے نام پر آمروں اور مفاد پرستوں کی گرفت سے نکالنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ آخر یہ ملک کب تک اس ظالمانہ تصور کی کسی نہ کسی شکل کی زنجیروں میں پابہ جولاں رہے گا۔ غاصبوں کو اس کے ذریعے تحفظ ملا ہے۔ بیرونی دبائو اور مداخلت کو اس کے نام پر قبول کیا گیاہے۔ نائن الیون کے بعد یو ٹرن کو اس نظریۂ ضرورت کے سہارے جواز فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وزیرستان میں فوج کشی کے لیے بھی یہی بھونڈا جواز دیا جا رہا ہے کہ اگر ہم نہیں کرتے تو امریکا خود کرڈالے گا۔ یہ سب نظریۂ ضرورت ہی کے مختلف مظاہر ہیں جن کے نتیجے میں ملک کا ہر ادارہ اور اب ملک کی آزادی خطرے میں ہے۔ نظریۂ ضرورت ہی کا ایک مظہر یہ دلیل ہے کہ اگر جنرل پرویز مشرف کو صدر نہیں بنایا جاتا تو ایمرجنسی یا مارشل لا آسکتا ہے۔ عارضی دور (transition) اور تدریجی عمل کے ذریعے فوج کے تسلط اور مداخلت سے نجات کا فلسفہ بھی اسی کا شاخسانہ ہے‘ اس لیے اب اسے پورے  شرح صدر کے ساتھ ختم ہونا چاہیے۔

۱- ہمیں عدالت عالیہ سے توقع ہے کہ وہ دستور‘ قانون‘ انصاف اور میرٹ پر فیصلے کرے گی اور نظریۂ ضرورت کا کسی شکل میں سہارا نہیں لے گی۔

۲- فوج سے توقع ہے کہ وہ اپنے دستوری فرائض پر قانع ہوگی اور سول نظام کی بالادستی کو کھلے دل سے قبول کرے گی‘ اور کسی نظریۂ ضرورت کا سہارا لے کر کسی غیردستوری اور ماوراے دستور انتظام کا خواب نہیں دیکھے گی۔

۳- سیاسی جماعتیں سمجھوتے کے راستے کو ترک کریں گی اور ڈیل اور شراکت اقتدار کے گرداب سے نکلیں گی۔ نیز فوج کی مداخلت کو مکمل طور پر ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا راستہ اختیار کریں گی۔ ماضی میں خواہ آٹھویں ترمیم ہو یا سترھویں ترمیم‘ فوج کو راستہ دینے اور فوجی حکمرانوں کو  جواب دہ کرنے کی کوششیں تھیں اور یہ حکمت عملی ناکام رہی ہے۔ اب دوٹوک انداز میں پوری قوم کو یک زبان ہوکر اعلان کردینا چاہیے کہ دستوری‘ پارلیمانی اور وفاقی نظام کی بحالی کے سوا کوئی راستہ نہیں اور اس کا نقطۂ آغاز ۱۹۷۳ء کا دستور ہے جیساکہ وہ ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء کو تھا۔ یہ عمل ضروری ہے اور اس کے تحت حقیقی آزاد‘ شفاف انتخاب ہی تبدیلی کا صحت مند راستہ ہیں۔ باقی سب نظریۂ ضرورت کے شاخسانے ہیں جن کے لیے اب کوئی گنجایش نہیں۔

اس لیے وقت کی سب سے اہم ضرورت نظریۂ ضرورت سے نجات ہے اور اس کے لیے عدالت‘ سیاسی جماعتوں‘ میڈیا اور خود فوج کو یک سو ہوجانا چاہیے‘ اور ان چاروں کو ایک ہی ہدف کے حصول کے لیے کارفرما ہونا چاہیے۔ نیز جنرل پرویز مشرف کے کسی بھی حیثیت سے صدر ہوتے ہوئے آزاد اور غیر جانب دار انتخاب ممکن نہیں‘ اس لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی قوتیں مل کر طے کریں کہ ایک غیرجانب دار اور حقیقی عبوری نظام قائم ہو جس کے تحت ایک آزاد‘ خودمختار اور باہم مشورے سے قائم کیا جانے والا الیکشن کمیشن جلداز جلد نئے انتخابات کا انعقاد کرے جس میں تمام سیاسی قوتوں اور شخصیات کو برابر کے مواقع حاصل ہوں۔

یہی وہ راستہ ہے جس سے ملک اس دلدل سے نکل سکتا ہے جس میں جرنیلی آمریت نے اسے پھنسا دیا ہے۔ یہ مقصد مؤثر سیاسی جدوجہد اور بنیادی نکات پر حقیقی قومی اتفاق راے پیدا کیے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ وقت کم ہے اور چیلنج بہت عظیم۔

زندہ قوموں کا شیوہ یہی ہے کہ وہ بڑے سے بڑے چیلنج کا مردانہ وار مقابلہ کرتی ہیں اور اپنی آزادی‘ اپنی حاکمیت‘ اپنی شناخت اور اپنی قسمت پر حرف نہیں آنے دیتیں۔ آج پھر ملّت پاکستان کو ایک ایسا ہی معرکہ درپیش ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس امانت کی حفاظت کی توفیق بخشے جو پاکستان کی شکل میں ہمارے پاس ہے۔

 

امتحان اور آزمایش کی وہ گھڑی جو کئی مہینے سے سروں پر منڈلا رہی تھی‘ اب قوم کے سامنے ہے اور صدارت پر قابض جنرل پرویز مشرف نے دستور‘ قانون ‘ آدابِ سیاست اور اصولِ اخلاق کو بالاے طاق رکھ کر پورے فوجی کروفر کے ساتھ موجودہ اسمبلیوں سے وردی میں صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کردیا ہے اور سپریم کورٹ تک کو ایک دھمکی آمیز بیان سے نوازا ہے کہ ’’اگر میں صدر منتخب ہوگیا تو ۱۶ نومبر ۲۰۰۷ء تک چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے سے فارغ ہوجائوں گا‘‘۔

الیکشن کمیشن نے بھی ۱۹۸۸ء کے انتخابی قواعد میں ۱۰ستمبر یہ تبدیلی کر کے (اس تبدیلی کی منظوری بھی جنرل پرویز مشرف ہی سے لی گئی ہے) کہ صدر کے انتخاب پر دستور کی دفعہ ۶۳ کا  اطلاق نہیں ہوگا‘اپنی تابع داری کا بھرپور اظہار کردیا ہے۔سپریم کورٹ میں یہ مسئلہ زیرغور    (sub judice) ہے کہ صدر دو عہدے رکھ سکتا ہے یا نہیں اور کیا فوج کا چیف آف اسٹاف صدارت کا امیدوار بن سکتا ہے یا نہیں‘ لیکن عدالت کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب کا شیڈول جاری کردیا ہے اور دستور کی دفعہ ۶۳ کی بے دخلی کے ساتھ ایک اور ترمیم یہ بھی کردی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے سوا کوئی اور ریٹرننگ آفیسر کسی امیدوار کے کاغذات کو رد یا قبول نہیں کرسکتا۔ .ُ

جنرل صاحب نے جس آخری مُکے کی دھمکی دی تھی‘ اس کا بھرپور استعمال شروع ہوگیا ہے۔ اس کاآغاز ۱۰ستمبر کو جناب نواز شریف کے ساتھ بدسلوکی‘ سپریم کورٹ کے ۲۳ اگست کے فیصلے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے انھیں اپنے ملک میں واپس آنے کے حق سے محروم کرنے‘ نیز ان کے اغوا اور ملک بدری سے کیا گیا‘ اور اب ہر ممکن ہتھکنڈے سے جمہوری سیاسی جدوجہد کا راستہ قوت سے روکنے اور ریاست کی مشینری کو حزبِ اختلاف کے قائدین اور سیاسی کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاری‘ راستوں کی بندش‘ اور جمہوری احتجاج کے ہر عمل کو ناکام بنانے کا عمل زورشور سے پورے ملک میں جاری ہے۔

اس وقت قوم کو اور اس کے ساتھ‘ قوم اور دستور کی حفاظت کرنے والے اعلیٰ ترین ادارے __سپریم کورٹ __ دونوں کو ہماری تاریخ کے نازک ترین امتحان سے سابقہ ہے۔ سپریم کورٹ کا امتحان یہ ہے کہ اس نے بڑی عظیم قربانی اور جدوجہد کے بعد ۲۰ جولائی کو جو آزادی اور عزت حاصل کی ہے‘ وہ اس کی حفاظت کرپاتی ہے یا’نظریۂ ضرورت‘ کے جس دیو استبداد کو دفن کرنے کی بشارت دی گئی تھی اسے اور بھی گہرا دفن کیا جاتا ہے یا خدانخواستہ نئی زندگی دینے کا سامان کیا جاتا ہے؟

صدارتی انتخاب اور اس کے لیے اہلیت کے سلسلے میں جو مقدمات اس وقت سپریم کورٹ کے زیرسماعت ہیں‘ ان کا فیصلہ چند دن میں آنے کی توقع ہے اور ہم یہ امید رکھتے ہیں اور یہی دعا کرتے ہیں کہ عدالت پوری آزادی اور دیانت کے ساتھ دستور کے مطابق حق و انصاف کی روشنی میں خالص میرٹ پر فیصلہ کرے۔ ہم کوئی بدگمانی نہیں کرنا چاہتے لیکن کسی خوش فہمی کی بھی گنجایش نہیں۔ اصل مسئلہ ملک اور قوم کے مستقبل کا‘ اس کی آزادی اور حاکمیت کا‘ اور اس ملک کے آیندہ کے نظامِ حکمرانی کا ہے کہ یہ ملک جمہوریت اور دستور اور قانون کی بالادستی کا گہوارہ بنتا ہے یا خدانخواستہ آمریت اور سیاست میں فوج کی مداخلت کی دلدل میں گھرا رہتا ہے اور ایک تباہی کے بعد دوسری تباہی کا سفر شروع کر دیتاہے؟

اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اس نازک لمحے پر قوم اور عدالت دونوں کی توجہ ایک بار پھر نہایت اختصار سے اصل مسائل (issues) پر مرکوز کرا دیں۔ عدالت جو بھی فیصلہ کرے‘ دستوری نظام کا تقاضا ہے کہ اس کا احترام کیا جائے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے اور پاکستان کی ۶۰سالہ تاریخ اس پر گواہ ہے کہ سیاست دانوں اور پارلیمنٹ کی طرح عدالت نے بھی بودے سہاروں کے     بل بوتے پر ’نظریۂ ضرورت‘ کے تحت دستوری اور جمہوری نظام کو فروغ دینے اور اس کے تحفظ کرنے کے باب میں ہمیشہ وہ کردار ادا نہیں کیا جس کی قوم کو ان سے توقع تھی اور جو بے لاگ  عدل و انصاف کی اعلیٰ روایات سے مطابقت رکھتا ہو۔ بلاشبہہ قانون کے مسلمہ اصول courts' right to revisit کی بنیاد ہی یہ ہے کہ انسانوں کا اعلیٰ ترین ادارہ بھی غلطی کرسکتا ہے اور اس کی اصلاح کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے ___اس لیے کہ اصل فیصلہ تو پھر تاریخ کے قاضی ہی کا ہوتا ہے اور تاریخ بڑی بے لاگ نقاد ہے۔ نیز درست فیصلہ وہی ہوتاہے جو قوم کے ضمیر کی آواز ہو‘ اس لیے کہ ملک کے اصل نگہبان ۱۶ کروڑ عوام ہیں‘ جو قرارداد مقاصد کے واضح الفاظ میں اللہ کی حاکمیت کے تابع حکمرانی کے اختیارات کے اصل امین (trustee) ہیں اور ان کے دیے ہوئے اختیار کے تحت جس کا اظہار ایک طرف دستور اور قانون کی شکل میں ہوتاہے تو دوسری طرف ان کی آزاد مرضی سے منتخب ہونے والے افراد اور ادارے انجام دیتے ہیں اور ان سے بار بار متعین وقفوں سے مینڈیٹ (اختیار) حاصل کرتے ہیں۔ قانون کسی کی ذاتی مرضی کا نام نہیں بلکہ اس پورے دستوری نظام اور اداراتی انتظام سے عبارت ہے اور عدلیہ کا اس میں بڑا اہم مقام اور کردارہے۔ بات نامکمل رہے گی اگر اس امر کی تذکیر بھی نہ کی جائے کہ عوام اور تاریخ دونوں اپنا فیصلہ دیتے ہیں اور وہ بڑا کھرا فیصلہ ہوتا ہے لیکن ایک آخری فیصلہ جو سب سے بھاری ہے‘وہ ہے جو خود اللہ تعالیٰ فرمائے گا اور اس فیصلے سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ عدالت اور عوام سب کو اس آخری فیصلے کے پورے احساس اور شعور کے ساتھ اپنا اپنا کردار اداکرنا چاہیے کہ کامیابی کا یہی راستہ ہے۔


اس وقت عدالت اور قوم دونوں کے سامنے اصل سوال ایک اور صرف ایک ہے ___ یعنی ملک کا مستقبل کا نظام کیساہوگا ___آمریت یا جمہوریت‘ شخصی حکمرانی یا دستور اور قانون کی بالادستی‘ انصرامِ حکومت کا عوام کے حقیقی نمایندوں کے ہاتھوں میں ہونا یا جبر اور قوت سے مسلط کیے جانے والے افراد کی حکمرانی‘ اور واضح الفاظ میں سیاسی نظام میں فوج کی مداخلت بلکہ بالادستی یا فوج کے کردار کا دستور کے مطابق سول قیادت کے ماتحت صرف دفاعی ذمہ داریوں تک محدود ہونا۔ عدالت کے فیصلے کا اصل موضوع یہی ایشو ہے‘ مجوزہ صدارتی انتخاب کامرکزی نکتہ بھی یہی مسئلہ ہے‘ ملک میں سیاسی جماعتوں‘ وکلا اور سول سوسائٹی کی جدوجہدکا محور بھی یہی چیز ہے‘ اور آنے والے قومی اور صوبائی انتخابات کی جدوجہد کا محور بھی یہی چیز ہے‘اور آنے والے قومی اور صوبائی انتخابات کا مرکزی موضوع بھی یہی فیصلہ کن امر ہے۔

عدالت میں جس مرکزی سوال پر بحث ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ:

کیا موجودہ اسمبلیاں نیا صدر منتخب کرسکتی ہیں‘ یا اس کا سیدھا راستہ غیر جانب دار نظام کے تحت‘ آزاد اور معتمد علیہ الیکشن کمیشن کے ذریعے‘ شفاف انتخابات ہیں جن کے ذریعے قوم نیامینڈیٹ دے اور اس کی روشنی میں صدر‘ پارلیمنٹ اور انتظامیہ سب اپنا اپناکردار ادا کریں۔

دوسرا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کیا کوئی شخص فوج کے چیف آف اسٹاف کے عہدے پر فائز ہوتے ہوئے صدارتی انتخاب میں حصہ لے سکتا ہے اور کیا کوئی قانون یا ضابطہ کسی فردکو یہ ’حق‘  دے سکتا ہے؟

تیسرا مسئلہ جو ماضی کے کچھ عدالتی فیصلوں کی بنا پر پیدا کردیا گیا ہے‘ یہ ہے کہ کیا صدر کے انتخاب کے لیے دستور کی دفعہ ۶۳ لاگو ہوتی ہے یا نہیں؟ دستور میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی اہلیت کے لیے دو شقیں ہیں یعنی دفعہ ۶۲ اور دفعہ ۶۳۔ لیکن کیا صدر کے لیے صرف دفعہ ۶۲ لاگو ہوتی ہے اور دفعہ ۶۳ کا اس انتخاب سے کوئی تعلق نہیں‘ جیساکہ سرکاری حلقے دعویٰ کررہے ہیں اور الیکشن کمیشن سے انھوں نے اس تعبیر کے مطابق ضوابط کار میں تبدیلی کرا لی ہے۔

چوتھا مسئلہ جو نسبتاً ٹیکنیکل نوعیت کا ہے یہ ہے کہ کیا اس مرحلے پر عدالت عظمیٰ کو اس باب میں مداخلت کرنی چاہیے؟

عدالت جو بھی فیصلہ کرے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ عوام کی تفہیم کے لیے ان چاروں امور کے بارے میں چند اہم گزارشات پیش کردیں:

سب سے پہلے یہ بات سامنے رہنی چاہیے کہ دستور کے تحت ہمارے ملک کا نظام پارلیمانی نظام ہے اورآٹھویں ترمیم اور سترھویں ترمیم میں جو بھی اختیارات صدر کو دیے گئے ہیں اور اس کے نتیجے میں توازن اختیارات میں جو بھی سقم رونما ہوا ہے ‘اس کے علی الرغم نظامِ حکومت پارلیمانی ہے اور چند صواب دیدی اختیارات (discretionary powers) کے سوا صدر‘ وزیراعظم کے مشورے کا پابند ہے جو چیف ایگزیکٹو کی حیثیت رکھتا ہے۔ صدر‘ حکومت کا سربراہ نہیں’’مملکت کا سربراہ اور جمہوریہ کے اتحاد کی نمایندگی کرتا ہے‘‘۔ دفعہ ۴۱ کی اس حیثیت کا تقاضا ہے کہ صدر غیر جانب دار ہو‘ جماعتی سیاست سے بالا ہو‘ اور غیرمتنازع شخصیت کا حامل ہو۔ عدالت نے متعدد فیصلوں میں اس اصول کو بیان کیا ہے کہ جس نے صدر کی اس حیثیت کو ایک قانونی تقاضے (settled law) کا درجہ دے دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ’میاں نواز شریف بنام صدر پاکستان‘ (PLD 1993 SC 473) کے فیصلے میں اس اصول کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

بلاشبہہ وفاق کے اتحاد کی علامت کے طور پر صدر کو دستور میں غیر جانب دار مقام حاصل ہے‘ اور اس حیثیت میںاس کو ریاست کے تمام عمّال میں سب سے زیادہ احترام اورعزت کا حق حاصل ہے۔ لیکن یہ بھی اتنا ہی اہم ہے کہ اس اعلیٰ منصب کے وقار کی حفاظت وبقا کے لیے اور دستورکے تحت غیر جانب دار حیثیت سے صدرکو سیاسی جھگڑوں سے اپنے کو الگ رکھنا چاہیے۔ اگر صدر سیاسی کھیل کی کشش سے اپنے کو دُور نہ رکھ سکے یا وہ اسمبلی میں دوسرے سیاسی عناصر کے ساتھ فریق بنے تو قومی معاملات میں ایک غیرجانب دار ثالث اور وفاق کے اتحاد کی علامت کے طور پر اس کی حیثیت مجروح ہوجائے گی۔

سپریم کورٹ کی طرف سے دستور کے اس واضح تقاضے کی نشان دہی کی موجودگی میں جنرل پرویز مشرف جو کردار ادا کر رہے ہیں‘ وہ دستور کے الفاظ اور روح دونوں کے منافی بلکہ دستور کو مسخ (subvert) کرنے کے مترادف ہے جو ان کے اس عہد کے بھی خلاف ہے جو بطور صدر دستور کی اطاعت اور فرماں برداری کے لیے وہ ایک نہیں دو بار لے چکے ہیں اور اس باب میں صرف ان کے یہی کارہاے نمایاں انھیں آیندہ انتخاب کے لیے نااہل بنا دیتے ہیں‘ اس لیے کہ دستور کی دفعہ ۴۷(۱) کے تحت ’’دستور کی خلاف ورزی یا فاش غلط روی کے کسی الزام میں اس کا مواخذہ کیا جاسکتا ہے‘‘۔ بلاشبہہ مواخذے کا ایک خاص طریق کار ہے مگر دستور کی خلاف ورزی دستور کے تحت عہدہ صدارت کے لیے نااہل بنا دینے والا ایک جرم ہے۔

جنرل پرویز مشرف کو صدارت کے لیے نااہل بنا دینے والی دوسری بات ان کا چیف آف اسٹاف کا عہدہ ہے۔ اگر یہ تسلیم کربھی لیا جائے کہ سترھویں ترمیم کے ذریعے انھیں دوعہدے رکھنے کی رخصت دے دی گئی تھی تب بھی یہ تو ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ یہ حد ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء کو ختم ہوگئی اور پارلیمنٹ سے جس قانون کا سہارا لے کر اسے آج تک توسیع دی گئی ہے‘ وہ خود سترھویں ترمیم کی ضد ہے اور ایک فاسد قانون (bad law) ہے۔ نیز یہ توسیع اس معاہدے (covenant) کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء تک کے لیے یہ رخصت دی گئی تھی۔اس معاہدے کا عوام کے سامنے اقرار جنرل صاحب ۲۴ مارچ ۲۰۰۳ء کو اپنے خطاب میں کیا ہے جسے سترھویں ترمیم کے ساتویں نکتۂ اقرار (seventh point of agreement) کے طور پر انھوں نے تسلیم کیا ہے۔ یکم جنوری ۲۰۰۵ء سے دو عہدوں کے باعث ان کی صدارت امرواقع (de facto) تو قرار دی جاسکتی ہے لیکن امر جائز (de jure) کسی پہلو سے تسلیم نہیں  کیا جاسکتا۔ لیکن اب ان کا دعویٰ ہے کہ وہ آیندہ پانچ سال کے لیے وردی میں صدارت کے امیدوار بن سکتے ہیں‘ خواہ منتخب ہونے کے بعد وردی اتارنے کا وہ وعدہ ایک بار پھر کیوں نہ کر رہے ہوں۔ جس نے پہلا وعدہ وفا نہ کیا ہو‘ اس کے دوسرے وعدے پر اعتبار کون کرے گا۔ لیکن مسئلہ آیندہ پانچ سال کے لیے اپنے آپ کو صدارت کے لیے پیش کرنے والے امیدوار کی الیکشن کے وقت اہلیت کا ہے اور وہ جنرل صاحب کو حاصل نہیں۔ اس لیے کہ دستور اور کسی بھی قانون کے تحت ایک حاضرسروس جرنیل کو کسی سیاسی عہدے کے لیے اپنے کو امیدوار بناکر پیش کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا بلکہ یہ ایک جرم ہے جس کی سزا ملک کے قانون کے تحت ۱۰ سال قید ہے‘ اور وہ تمام افراد بھی اس سزا کے مستوجب ہوسکتے ہیںجو کسی فوجی افسر کو ایک سیاسی عہدے کے لیے نامزد کریں۔

اسی نااہلیت سے فرار کی خاطریہ ڈراما رچایا جا رہا ہے کہ دستور کی دفعہ ۶۳ کا اطلاق صدارتی امیدوار پر نہیں ہوتا۔ دیکھیے عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے لیکن عقل و تجربے دونوں اس بارے میں کسی ابہام کی گنجایش نہیں چھوڑتے۔ دستور کی دفعہ ۴۱ (۲) صاف الفاظ میں کہتی ہے کہ:

کوئی شخص اس وقت تک صدر کی حیثیت سے انتخاب کا اہل نہیں ہوگا تاوقتیکہ وہ کم از کم ۴۵ سال کی عمر کا مسلمان نہ ہو اور قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کا اہل نہ ہو۔

انگریزی میں الفاظ shall not be qualified for election ہیں اور پھر    قومی اسمبلی کی رکنیت کے سلسلے میں بھی is qualified to be elected ہیں۔

اب جو بقراطی نکتہ لایا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ دفعہ ۶۲ qualifications بیان کرتی ہے اور دفعہ ۶۳disqualifications۔ساتھ ہی اعتراف کیا جاتا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے رکن کے لیے تو ۶۲ اور ۶۳ دونوں لاگو ہیں لیکن صدر کے لیے ۶۳ لاگو نہیں۔

اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ ۶۲ اور ۶۳ دونوں مل کر اہلیت کا تعین کرتی ہیں اور یہ دونوں دفعات composite ہیں‘ separable نہیں۔ دوسرے الفاظ میں اہلیت کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ ’عدم اہلیت‘ کی کوئی بات اس میں نہ پائی جاتی ہو۔ یہ منفی پہلو ہے۔ جس میں کوئی بھی عدم اہلیت کی بات پائی جائے گی‘ وہ پہلے ہی مرحلے میں اہلیت کی دوڑ سے باہر ہوجائے گا۔ البتہ جس میں عدم اہلیت کی کوئی کیفیت نہ ہو‘ وہ بھی آپ سے آپ اہل نہیں بن جاتا بلکہ اس میں مزید اہلیت کی کچھ مثبت صفات ہونی چاہییں۔ اس طرح منفی اور مثبت دونوں پہلوؤں کے تناظر میں کسی شخص کی اہلیت کا تعین ہوسکتا ہے۔ ان میں سے ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔

بھارت کی سپریم کورٹ نے بھی ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کی صدارت کے سلسلے میں دائر کیے جانے والے ایک مقدمے میں یہی فیصلہ دیاتھا کہ ’نااہلیت‘ اور ’اہلیت‘ کے بارے میں دستور کی دفعات کو ملا کر لیا جائے گا۔ یہی عقل کا تقاضا ہے لیکن ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ کیسے کیسے لائق فائق حضرات یہ فرما رہے ہیں کہ منفی صفات (دفعہ ۶۳) کا اہلیت اور اس کی مثبت صفات (دفعہ ۶۲) سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن وہ ایک لمحہ اس بات پر بھی غور نہیں کرتے کہ جس سترھویں ترمیم کا اتنا شور ہے‘ خود اس میں صاف الفاظ میں لکھا گیا ہے کہ دفعہ ۴۷ (۷ بی):

بشرطیکہ آرٹیکل ۶۳ کی دفعہ ۱ کا پیراگراف د: دسمبر ۲۰۰۴ء کے ۳۱ویں دن سے نافذ ہوگا۔

ساری بات بھول جائیے اور اسے بھی نظرانداز کردیجیے کہ دفعہ ۶۳ میں کیا گنجایش ہے اور کیا نہیں ہے‘ صرف یہ بات کہ دستور کی اس شق میں صدر کے لیے دفعہ ۶۳ کے operative ہونے کا واضح اقرار موجود ہے اس دلیل کے تار وپود بکھیر دیتا ہے کہ دفعہ ۶۳ کا تعلق صرف رکن اسمبلی سے ہے‘ صدر سے نہیں۔

رہا یہ مسئلہ کہ کیا موجودہ اسمبلیاں اگلے پانچ سال کے نئے صدر کا انتخاب کرسکتی ہیں یا نہیں‘ اس کا تعلق دستور اور علم سیاست کے ایک بنیادی اصول سے ہے۔ معاملہ اسمبلی کا ہو یا صدر کا‘ ایک خاص مدت کے بعد انتخاب کی ضرورت صرف ایک وجہ سے ہوتی ہے اوروہ یہ ہے کہ عوام‘ جو اصل حکمران ہیں اور جن کی تائید اور اعتماد کے بغیر نظام کو جواز (legitimacy) حاصل نہیں ہوتا‘ ان سے زندگی میں صرف ایک بار استصواب کافی نہیں بلکہ وقفہ وقفہ سے ان سے نیا مینڈیٹ لیے بغیر نظامِ حکمرانی جمہوری اور دستوری قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نیا انتخاب دراصل نیا مینڈیٹ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو اسمبلی اپنا مینڈیٹ ختم کرچکی ہو وہ آیندہ کے لیے کسی اور کو مینڈیٹ کیسے دے سکتی ہے؟ اتنی صاف بات اور ایسے مسلمہ اصول کو نظرانداز کرکے قانونی موشگافیاں کی جارہی ہیں اور بظاہر پڑھے لکھے لوگ یہ کھیل کھیل رہے ہیں اور بڑی ڈھٹائی سے یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر صوبائی اسمبلیاں‘ سینٹ کے ارکان کو ۹ سال کے لیے منتخب کرسکتی ہیں تو قومی اسمبلی‘ سینٹ اور صوبائی اسمبلیاں صدر کو ۱۰ سال کے لیے کیوں منتخب نہیں کرسکتیں حالانکہ یہ صریح خلط مبحث ہے۔ سینٹ ناقابلِ تحلیل ہے اور اس میں نیا مینڈیٹ حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر تین سال کے بعد نصف ارکان کا نیا انتخاب ہوتا ہے اور اس پورے عمل میں سینٹ اور صوبائی اسمبلیاں فطری تبدیلی کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ رہا معاملہ صدر کے انتخاب کا تو وہ الیکٹرول کالج کے ہر بار نئے مینڈیٹ کا تقاضا کرتا ہے اوریہ مینڈیٹ مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے نئے انتخاب ہی سے حاصل ہوسکتا ہے ورنہ اسے صریح انتخابی دھاندلی کے کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔

البتہ اس سلسلے میں ایک اعتراف ضروری ہے۔ ایل ایف او کے ذریعے دستور کی دفعہ ۲۲۴ میں ایک لفظ کی تبدیلی سے قومی اسمبلی کے انتخاب کے دورانیے کو تبدیل کردیا گیا جس نے موجودہ دھاندلی کے لیے گنجایش پیدا کی ورنہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے سے ۶۰ دن پہلے نئے انتخاب کے لیے آپ سے آپ تحلیل ہوجاتیں۔ ہمیں اس غلطی کا اعتراف کرنا چاہیے کہ سترھویں ترمیم کے موقعے پر ایم ایم اے کی مذاکراتی ٹیم نے اس دُور رس تبدیلی کا نوٹس نہیں لیا۔ اصل دفعہ یہ تھی:

"A general election to the National Assembly or a Provincial Assembly shall be held within a period of sixty days immediately PRECEDING the  day on which the term of the Assembly is due to expire".

ایل ایف او کے ذریعے لفظ PRECEDING کو تبدیل کر کے FOLLOWING لکھ دیا گیا۔ اس کی آج implication یہ ہے کہ اسمبلیوں کا انتخاب ۱۶ اکتوبر کے ۶۰دن بعد تک کیا جاسکتا ہے‘ جب کہ اصل دستوری شق کی روشنی میں یہ انتخاب ۱۶ اکتوبر سے پہلے ۶۰ دن قبل  ہوجانا چاہیے تھا۔ اس طرح صدر کی مدت (پانچ سال) ختم ہونے سے پہلے اسمبلیوں کے انتخابات لازماً ہوچکے ہوتے۔ کمال ہوشیاری بلکہ عیاری سے یہ یک لفظی ترمیم دستور میں کی گئی اور ’انتہاے سادگی سے کھا گیا مزدورمات‘ کے مترادف ہم سب یہ دھوکا کھا گئے۔ ضمناً یہ بھی عرض کردیں کہ دستور کی دفعہ ۴۱ (۷ بی) میں بھی اگر ۶۳ (۱ڈی) کے ساتھ دفعہ ۴۳ کا اندراج کرا لیا جاتا تو پھر ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء کے بعد باوردی صدارت کے لیے آگے بڑھنے کا کوئی چور دروازہ باقی نہ رہتا۔ خود احتسابی کا تقاضا ہے کہ ان پہلوؤں پر بھی نگاہ ڈالی جائے اور دستوری اور قانونی معاملات کو جس قانونی مہارت اور عرق ریزی سے انجام دینے کی ضرورت ہے‘ اس کا پورا پورا اہتمام کیا جائے۔ جو دھوکا حکمرانوں نے دیا‘ وہ صریح وعدہ خلافی تھی اور دو عہدوں کا قانون دستور اور معاہدہ دونوں کے خلاف تھا مگر کچھ کوتاہیاں ہماری طرف سے بھی رہیں جن کے بارے میں آیندہ سبق سیکھنا ضروری ہے۔

رہا معاملہ ان امور کے بارے میں عدالت کی مداخلت کی ضرورت کا‘ تو ہم صرف اتنا ہی عرض کریں گے کہ عدالت عظمیٰ کی ذمہ داری دستور کے تحت قانون کی تعبیر اور دستور کی حفاظت کی ہے اور اس وقت دستور اور اس کے تحت وجود میں آنے والا پورا نظام معرضِ خطر میں ہے۔ اگر اس وقت عدالت عظمیٰ اپنے فرض منصبی کو ادا نہیں کرتی تو تاریخ اور یہ قوم اسے کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اس موقعے پر ہم عدالت عظمیٰ اور قوم دونوں کو اپنے الفاظ میں نہیں‘ سپریم کورٹ کے جج جسٹس محمدیعقوب علی (جو بعد میں چیف جسٹس بنے) کے اس تاریخی ارشاد کی طرف متوجہ کریں گے جو انھوں نے عاصمہ جیلانی کے مشہور زمانہ کیس میں رقم کیے تھے:

میونسپل کورٹس کے جج جنھوں نے دستور کے تحفظ‘ بقا اور دفاع کاحلف اٹھایا ہے‘ حلف نہیں توڑیں گے اور نہ اعلان کریں گے کہ غاصب کی بالاتر قوت کی وجہ سے وہ اپنے قانونی فرائض سے فارغ ہوگئے ہیں۔ اگر ججوں کو معلوم ہو کہ ریاست کے انتظامی عہدے دار ان کے احکامات نافذ کرنے کے لیے رضامندنہیں ہیں تو ان کے لیے صرف یہی راستہ کھلا ہے کہ اپنا منصب چھوڑ دیں۔ جو لوگ غاصب کی خدمت کرنے کے خواہش مند ہوں وہ اس کے مسلط کردہ لیگل آرڈر کے تحت عہدہ سنبھال سکتے ہیں لیکن یہ ججوں کے ذاتی فیصلے اور صواب دید پر منحصر ہے‘ اس کا کوئی قانونی اثر نہیں ہوگا۔ اگر وہ دوسرا راستہ اختیار کریں تو وہ یہ تسلیم کر رہے ہوں گے کہ ’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘ اور یوں غاصب کے شریک کار ہوجائیں گے۔ یہی نتیجہ ہوگا اگر وہ اپنے حلف کو نظرانداز کردیں‘ قومی نظام کی تباہی کو جائز تسلیم کرلیں اور غاصب کے غیر قانونی‘ انتظامی اقدامات کو تسلیم کریں۔

آج جنرل پرویز مشرف کی پوزیشن جنرل یحییٰ خان کی پوزیشن سے سرِمُو بھی مختلف نہیں۔ کیاآج کی عدالت اپنا فرض ادا کرے گی اور حقیقی فراست اور جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدل و انصاف کا بول بولا کرکے اس ملک میں عدلیہ کی عزت اور وقار اور اس پر عوام کے اعتماد کو نئی بلندیوں سے ہم کنار کرنے کا کارنامہ انجام دے گی؟


بلاشبہہ عدالت دستور اور قانون کے دائرے میں ہی اپنافیصلہ دے گی اور یہی اس کی ذمہ داری ہے لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عدالت دستور اور قانون کے الفاظ کے ساتھ اصولِ قانون‘ تعبیر ِدستور کے مسلمہ قواعد اور اپنے فیصلوں کے سیاسی اور اخلاقی مضمرات سے صرفِ نظر نہیں کرسکتی۔ یہ ’نظریۂ ضرورت‘ کی قبیل کی کوئی شے نہیں بلکہ اس کا تعلق مقاصدِ قانون اور روحِ دستور سے ہے___ یعنی ملک میں دستور کا بنیادی ڈھانچا اور نظامِ حکومت کے اصول اور فریم ورک۔ دستور کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو اس کے چار ہی بنیادی ستون ہیں:

1  قرارداد مقاصد اور دستور کا اسلامی کردار

2  پارلیمانی جمہوریت

3  وفاقی نظام

4 عوام دوست فلاحی معاشرے کا قیام

ان چاروں بنیادی ستونوں کی روشنی میں اگر حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت جنرل مشرف اور ان کے صدارتی انتخاب کا تعلق محض ایک فرد کی ذات سے نہیں بلکہ وہ اب عنوان ہیں اس پورے سیاسی‘ نظریاتی اور تہذیبی کش مکش کا جس میں آج ملک اور قوم مبتلا ہیں۔ اس کے پانچ پہلو ایسے ہیں جن پر توجہ مرکوز کیے بغیر اس کش مکش کا صحیح شعور و ادراک ممکن نہیں جو آج درپیش ہے۔

  •  پہلی چیز آمریت اور جمہوریت میں سے ایک کا انتخاب ہے۔جمہوریت اور شخصی حکمرانی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘ یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔جنرل پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دور سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ان کا مزاج‘طریق کار‘ اندازِ حکمرانی شخصی آمریت کی بدترین شکل ہے۔ انھوں نے ملک کے دستور کو ہر سطح پر مسخ کر دیا ہے۔ پارلیمانی نظام پر صدارتی نظام کو مسلط کردیا ہے۔ وزیراعظم‘ کابینہ اور پارلیمنٹ ان کے مُہرے ہیں اور تابع مہمل۔ وزیراعظم شامل باجا ضرور ہیں لیکن ملک کے چیف ایگزیکٹو کا کردار جنرل صاحب ادا کر رہے ہیں اور نظامِ حکومت ان کے اشارے پر اور ان کے معتمد علیہ ساتھیوں کے ذریعے (جو فوجی اور سول بیورو کریسی کا ایک مخصوص ٹولہ ہے) چلایا جا رہا ہے۔ اس کا سب سے واضح مظاہرہ پیپلز پارٹی کی رہنما محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ سے صدر کی مذاکراتی ٹیم کی شکل میں ہوا‘ جو صدر‘ ان کے چیف آف اسٹاف‘ آئی ایس آئی کے حاضر سروس جرنیل اور قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری اور صدر صاحب کے معتمدعلیہ بیورو کریٹ پر مشتمل تھی۔

یہی وجہ ہے کہ جنرل صاحب وردی اتار کر نئے انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی قومی و صوبائی اسمبلیوں سے عام شہری کی طرح دستور کے تحت صدارت کے حصول کے لیے مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔وہ چاہتے ہیں کہ وردی سمیت اپنے کو قوم پر مسلط کردیں اور پھر اپنے زیرانتظام اور صرف اپنی مرضی کے مطابق انتخابات کا ڈھونگ رچائیں۔ موجودہ اسمبلیوں سے اور وردی کے ساتھ صدارت کا انتخاب جمہوریت کا گلا گھونٹنے اور جمہوریت کو بیخ و بُن سے اُکھاڑنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ یہ کھلی کھلی شخصی آمریت کے لیے راہ ہموار کرنے کی سازش ہے ۔ اور اگر اس کا راستہ اس پہلے قدم پر نہ روکا گیا تو پھر دستور کی بالادستی اور عوام کی ان کے حقیقی نمایندوں کے ذریعے حکمرانی کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

  •  دوسرا بنیادی مسئلہ (issue) ملک کی سیاست میں فوج کے کردار کا ہے اور فوج کے ساتھ ہیئت حاکمہ (establishment) کے گٹھ جوڑ کا ہے۔ جس کے دوسرے شریک سول انتظامیہ کا ایک بااثر گروہ اور سیاسی میدان کے مفاد پرست عناصر ہیں۔ یہ وہ ہیئت حاکمہ ہے    جو ملک پر قابض ہے اور کسی صورت اقتدار پر اپنی گرفت چھوڑنے اور ملک کے عوام کو اپنی قسمت   کا مالک ہونے کا موقع نہیں دینا چاہتی بلکہ عوام کی حاکمیت میںاپنے اقتدار کی موت دیکھتی ہے۔ مسلم لیگ (ق) جو ق نہیں دراصل پرویز مشرف لیگ (PML)بن چکی ہے اور ایم کیو ایم اس کے کلیدی کردار ہیں۔ آیندہ انتخاب اس سلسلے میں ایک فیصلہ کن مرحلے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیا یہی پیران تسمہ پا ملک پر مسلط رہتے ہیں یا عوام کے حقیقی نمایندے منصفانہ سیاسی عمل کے ذریعے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس فوجی سول ہیئت حاکمہ سے نجات طویل اور   دانش مندانہ حکمت عملی کے ذریعے ہی حاصل کی جاسکے گی لیکن اس کا پہلا قدم آزاداور منصفانہ انتخاب کے ذریعے ایسی اسمبلیوں کا وجود میں آنا ہے جو فوج اور انتظامیہ (بشمول لوکل گورنمنٹ اور پولیس) کی بیساکھیوں اور ایجنسیوں کی سیاست سے آزاد ہوں اور عوام کے حقیقی نمایندوں کا کردار ادا کرسکیں۔
  •  تیسرا بنیادی مسئلہ اس وقت پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج ہماری خارجہ سیاست‘ ہماری معیشت‘ حتیٰ کہ ہمارا نظامِ تعلیم اور ہماری تہذیبی زندگی پر امریکا اور اس کا سامراجی ایجنڈا اس حد تک حاوی ہوگیا ہے کہ اب حکمران نہ صرف بیرونی قوتوں کے دبائو میں ہیں بلکہ ان کے آلۂ کار بن گئے ہیں۔ جس طرح ملک کی فوج کو اپنی قوم کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے‘ جس طرح پورے قبائلی علاقے کو سول وار کی آگ میں دھکیل دیا گیا ہے‘ جس طرح بلوچستان میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کر دی گئی ہے‘ جس طرح اسلام آباد میں مسجد اور مدرسے کی تقدیس کو پامال اور معصوموں کے خون سے ہولی کھیلی گئی ہے ‘ جس طرح دینی تعلیمی نظام کو تباہ و برباد کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں‘ جس طرح قومی تعلیمی پالیسی کو بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر بدلا جا رہا ہے‘ جس طرح کراچی جیسے شہر کو فسطائی قوتوں کی گرفت میں دے دیا گیا ہے‘ جس طرح عدالتوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے‘ جس طرح پاکستان کی نیوکلیر صلاحیت کو منجمد کیا گیا ہے اور ملک کی خارجہ اور داخلہ ہر پالیسی کو امریکا کے نئے قانون بسلسلہ نائن الیون کمیشن کی زد میں دے دیا گیا ہے اور ہر قسم کی بیرونی امداد کو اس سے نتھی کردیا گیا ہے___ وہ ملک کی آزادی اور حاکمیت پر ضربِ کاری ہے۔

اب تو یہ مداخلت اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ امریکا‘ برطانیہ اور اس کے اشاروں پر چلنے والے دوسرے حکمران آیندہ کے سیاسی دروبست کی صورت گری فرما رہے ہیں۔ سیاسی اتحاد بنانے کا کام ان کے اشارے پر اور ان کی عملی شراکت سے ہو رہا ہے‘ اور کسے ملک میں آنے دیا جائے گا اور کسے اغوا کرکے ملک بدر کردیا جائے گا‘ اس کام میں بھی حکمران‘ بیرونی ایجنسیاں‘ برطانیہ کا دفترخارجہ اور امریکا کا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ‘ سب ملوث (involve) ہیں۔اس کے بعد ہماری آزادی اور خودمختاری کی کیا حیثیت رہ گئی ہے۔

اس وقت قوم کے سامنے یہ بنیادی سوال ہے کہ آیندہ اس کے حکمران امریکا اور برطانیہ کے مقرر کردہ اور پسندیدہ افراد ہوں گے یا وہ جو پاکستانی قوم کے معتمدعلیہ‘ صرف اپنی ملت کے مفاد اور عزائم کے ترجمان ہوں اور اس کے سامنے جواب دہ ہوں۔ بھارتی کالم نگار پرافل بیدوائی (Praful Bidwai) جس کے مضامین پاکستانی اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں‘ کتنا لطف لے کر ہماری قیادت کے امریکا کے کٹھ پتلیوں کا کردا ر ادا کرنے کا ذکر کرتا ہے:

امریکا پاکستان کے معاملات میں جارحانہ طور پر مداخلت کر رہا ہے اور اس کی فوجی حکومت کو خفیہ لیکن مضبوط حمایت فراہم کر رہا ہے۔ اگرچہ امریکا کا کہناہے کہ نوازشریف کی جلاوطنی پاکستان کا داخلی مسئلہ ہے‘ سب کو معلوم ہے کہ جنوبی وسطی ایشیا کے اسسٹنٹ سکرٹری آف اسٹیٹ رچرڈ بائوچر خاص اس موقع پر‘ جب کہ نواز شریف کے اخراج کا ڈراما روبۂ عمل تھا‘ اسلام آباد میں موجود تھے۔ رچرڈ بائوچر نے عملاً واشنگٹن کے وائس راے کی حیثیت سے کام کیا ہے اور اس مفروضے پر کہ طالبان اور القاعدہ کے خلاف امریکا کی جنگ میں وہ ایک قابلِ اعتماد حلیف ہے‘ حکومت کو مشورہ دینے اور اس کی بقا یقینی بنانے کے لیے ہر چھٹے ہفتے اوسطاً ایک چکر لگاتے رہے۔ اسلام آباد میں ڈپٹی سکرٹری آف اسٹیٹ اور سابق نیشنل انٹیلی جنس ڈائرکٹرجان نیگرو پونٹے بھی     ان کے ساتھ شریک تھے۔ واضح رہے کہ امریکا چاہتا ہے کہ مشرف اور پاکستان کی سیاسی طاقتوں خصوصاً مسز بھٹو کی پیپلز پارٹی کے درمیان شراکت اقتدار کے نظام کی  براہِ راست نگرانی کرے۔ گذشتہ مہینے ہی پرویز مشرف ایمرجنسی لگانے کا ارادہ کر رہے تھے لیکن رات کو ۲ بجے سکرٹری آف اسٹیٹ کونڈولیزارائس نے ۱۷منٹ کی طویل ٹیلی فون کال میں انھیں اس سے متنبہ کیا۔ ہر کوئی اندازہ لگاسکتا ہے کہ موجودہ حالات میں امریکا کا رویہ کیا ہوگا۔ اگر وہ اپنے مخصوص فوری مقاصد کے حصول کے طریقے کے مطابق، یعنی ’کسی بھی قیمت پر دہشت گردی کے خلاف‘اس کی اصل دل چسپی ہوئی تو پرویز مشرف کے ان مہم جویانہ اقدامات کا ساتھ دے گا جو وہ پُرتشدد ہنگاموں کو   محدود رکھنے کے لیے اور کسی طرح اس ڈیل کو بچانے کے لیے کرے جو وہ مسزبھٹو سے کرنا چاہ رہا ہے…

امریکا بے نظیر بھٹو کی شراکت اقتدار کی ڈیل صرف اس لیے نہیں چاہتا ہے کہ انھوں نے امریکا کا کہا پورا کرنے کا وعدہ کیا ہے‘ بلکہ اس لیے بھی کہ اسے اندیشہ ہے کہ نوازشریف معتدل اسلامی ایم ایم اے سے پھر مل جائیں گے۔

بھارت ہی کی ایک دوسری کالم نگار سیما مصطفی ایشین ایج میں لکھتی ہے:

یہ بالکل واضح ہے کہ انھوں نے مکمل کنٹرول کی پوزیشن حاصل کرلی ہے۔ وہ پاکستان آتے جاتے ہیں اوربہت مدت ہوئی کہ ان کے بیانات نے اس ملک کی خودمختاری کی مقدس حد کو پار کرلیا ہے  جسے انھوں نے اپنا اتحادی کہا ہے‘ اور جس کی اندرونی سیاست میں انھیں غیرمعمولی دل چسپی ہے۔صدر مشرف کو پھر امریکا سے کھلی اجازت مل گئی ہے۔ بش انتظامیہ کی طرف سے ان کی حمایت بالکل واضح الفاظ میں کی جارہی ہے…

کسی کو بھی پاکستان میں حقیقی جمہوریت واپس آتی نظر نہیں آرہی۔ امریکا سترپوشی (figleaf) کے طور پر اسے استعمال کر رہا ہے تاکہ علاقے میں اپنی مسلسل موجودگی برقرار رکھے اور دہشت گردی کے خلاف اپنی حامی قیادت کو برسرِاقتدار لاسکے۔ موت کا بوسہ اپنا زہر قوم میں پھیلا رہا ہے‘ جب کہ کسی کے پاس بھی مطلوبہ تریاق نہیں ہے۔

لندن کے اخبار گارجین میں Declan Walsh رقم طراز ہے:

مشرف کے سیاسی عزائم کے لیے بھی گھڑی کی سوئیاں آگے بڑھ رہی ہیں۔ وہ موجودہ پارلیمنٹ سے ۱۵ستمبر اور ۱۵ اکتوبر کے درمیان صدر منتخب ہونا چاہتے ہیں۔ طاقت ور حلیف ان کی پشت پر ہیں‘ خاص طور پر برطانیہ اور امریکا۔ وہ پرویز مشرف کو ایک نیوکلیر اسلحے سے مسلح ملک کو مستحکم کرنے کے لیے اپنا محفوظ ترین بہترین خیال کرتے ہیں۔

سعودی انٹیلی جنس چیف کی ایک ایسی مداخلت کے بعد‘ یعنی ان کا گذشتہ ہفتے پاکستان آنا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی‘ اب نواز شریف جدہ میں بے بس ہیں۔ پاکستان کے خفیہ ادارے کے سربراہ لیفٹیننٹ کرنل اشفاق کیانی نے بھی حالیہ بھٹو مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کیا۔ صرف یہی بات کہ مسلم دنیا میں امریکا اور برطانیہ کے اہم ترین حلیفوں کے معاملات میں خفیہ سربراہوں کو بالادستی حاصل ہے‘ جمہوریت کی نازک صورت حال کی نشان دہی کرتی ہے--- (گارجین‘ ۱۱ستمبر ۲۰۰۷ء)

  •  بیرونی مداخلت اور غیرملکی آقائوں کی خوشنودی کی تلاش ہی کا ایک شاخسانہ وہ نظریاتی  کش مکش ہے جس میں غیرفطری طور پر ملک کو جھونک دیا گیا ہے اور قومی اتفاق راے پیدا کرنے کے بجاے قوم کو دو بڑے دھاروں میں بانٹنے اور ان کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ہمارا اشارہ ہے ایک طرف نام نہاد انتہا پسندی اور مذہبی شدت پسندی کا کیمپ اور دوسری طرف روشن خیال‘ میانہ رو اور لبرل عناصر کا اکٹھ۔کبھی مُلّا ملٹری اتحاد کی بات کی جاتی ہے اور کبھی ملٹری اور لبرل عناصر کے الائنس کی‘ حالانکہ اصل کش مکش مفاد پرست عناصر اور  عوام الناس اور ملک کی عظیم اکثریت کے درمیان ہے۔ اس سے توجہ ہٹانے اور اپنے مفادات کو مستحکم کرنے کے لیے ہر جرم معاف اور ہر گناہ ثواب بن جاتا ہے اور جن کو جنرل صاحب نے اپنی کتاب میں چور‘ لٹیرے اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیاتھا‘ ان ہی سے سیاست کی پینگیں بڑھائی جاتی ہیں‘ شراکت اقتدار کی بساط بچھانے کے لیے بھاگ دوڑ کی جاتی ہے۔ حالانکہ نہ تو انتہاپسندی ہمارا مسئلہ ہے اور نہ نام نہاد روشن خیالی۔ یہ سب امریکا کے شاطروں کے کھیل ہیں اور ہمارے جرنیل اور نام نہاد لبرل اس کے مہرے بنے ہوئے ہیں۔ شیعہ سُنّی کی کش مکش کا ڈراما بھی اس کھیل کا حصہ ہے۔

قوم کو اس نظریاتی کش مکش سے نکالنے اور پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کی روشنی میں قومی یک جہتی اور مفاہمت پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس کی راہ میں جرنیلی قیادت اور امریکا سے حکمرانی کی پرچیاں حاصل کرنے والے سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

  •  ایک پانچواں مسئلہ جسے بہت سوچ سمجھ کر نہایت ماہرانہ انداز میں اٹھایا جا رہا ہے وہ دو حکمت عملیوں کے درمیان مقابلے کا ہے جس میں سے ایک کو تصادم خیز (confrontationist) اور دوسرے کو تدریجی تبدیلی (transitionalist) کے داعی کے روپ میں پیش کیا جا رہا ہے اور تصادم انگیزی کی تہمت دینی قوتوں اور مسلم لیگ (ن) پر لگائی جارہی ہے‘ جب کہ مشرف لیگ‘ ایم کیو ایم اور پی پی پی کو تدریجی تبدیلی کے علَم بردار بناکر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ اندازِ بیاں صرف امریکا اور جنرل پرویز مشرف ہی نے اختیار نہیں کیا بلکہ خود محترمہ بے نظیر بھٹو بھی اسی زبان میں کلام فرما رہی ہیں اور اپنے مضامین میں یہی ہّوا کھڑا کررہی ہیں۔ لطف یہ ہے کہ دعوے تو یہ کیے جارہے ہیں لیکن تصادم کا راستہ مُکے دکھا کر خود جرنیل صاحب اختیار کر رہے ہیں۔ وکلا اور سول سوسائٹی کے پُرامن احتجاج کا راستہ ۱۲ مئی کو ایم کیو ایم کے مسلح دستوں (armed squads) نے روکا     اور جنرل صاحب نے ادھر اسلام آباد میں ہاتھ اٹھا کر اسے عوامی قوت کی فتح قرار دیا۔سپریم کورٹ کے میاں نوازشریف کے حق واپسی اور ملک میں محفوظ داخلے کے حکم کے پرخچے اڑانے اور  عدالت کی کھلی کھلی خلاف ورزی کرنے اور سینہ زوری کا رویہ اختیار کیاگیا۔ اے پی ڈی ایم کے پُرامن جمہوری احتجاج کو قوت کے ذریعے روکنے‘ ہزاروں کارکنوں اور قائدین کو گرفتار کرنے اور اظہار راے پر پابندیاں لگانے کا کام کیا جا رہا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر صدارتی اعلان کا نامناسب عجلت (indecent haste) سے اہتمام کیا جا رہا ہے اور مقابل کی جمہوری قوتوں کو تصادم انگیزی کے عنوان سے اُچھالا جا رہا ہے۔

یہ پانچ بڑے بڑے مسائل ہیں جو اس وقت قوم کے سامنے ہیں اور آنے والے انتخابات ہی وہ میدان ہیں جن میں ان تمام مسائل اور چیلنجوں کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ راستہ صرف ایک ہے ___ منظم اور پُرامن عوامی قوت کے ذریعے صدارتی انتخاب کے ڈھونگ کو روکنا اور آزاد اور شفاف انتخابات کو حقیقت بنانا ہے۔ اس کے لیے ضروری اقدام یہ ہیں:

  • جنرل پرویز مشرف اور موجودہ حکومت کا استعفا اور ایک مکمل طور پر غیرجانب دار قومی حکومت کا قیام جس کی اولین ذمہ داری انتخابات کا انعقاد ہو۔
  • آزاد اور بااختیار الیکشن کمیشن کا قیام جو تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے مشورے سے ہو اور جو ووٹروں کی صحیح فہرستوں کے مطابق مکمل غیر جانب داری کے ساتھ قومی اور صوبائی انتخابات کا اہتمام کرے۔
  •  سب جماعتوں اور قائدین کو مساوی بنیاد پر سیاسی سرگرمیوں میں شرکت اور انتخابات میں حصہ لینے کا موقع۔
  • فوج اور فوج اور سول نظام سے متعلق تمام ایجنسیوں کا سیاست سے مکمل احتراز اور    ان کے فرائض کو ان کے اپنے پیشہ ورانہ دائرے تک سختی سے محدود کرنا۔
  • عدلیہ اور میڈیا کی آزادی۔
  •  ملکی پالیسیوں کی تشکیل میں بیرونی مداخلت کا خاتمہ ۔
  • انتخابات کے عمل کے عالمی میڈیا کو بلاکسی رکاوٹ cover کرنے کے مواقع ۔

اگر حکومت اس خالص دستوری اور جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرے تو اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی مشترکہ حکمت عملی کے ذریعے آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا‘ اسمبلیوں سے استعفے‘ عوام کو متحرک کرنا اور عوامی جدوجہد کے ذریعے آزاد اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد‘ یہی وہ راستہ ہے جس سے ملک کو غیروں کی گرفت سے محفوظ رکھا جاسکتاہے اور اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں کی گرفت سے بھی نکالا جاسکتا ہے۔ ایک ملک گیر پُرامن لیکن مؤثر عوامی جدوجہد ہی کے راستے سے تبدیلی لائی جاسکتی ہے اور اس سلسلے میں غفلت‘ کوتاہی‘ اور سمجھوتوں کی تلاش سمِ قاتل کی حیثیت رکھتی ہے    ؎

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جن  دِیوں میں جان ہوگی وہ دِیے رہ جائیں گے

جنرل پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دورِاقتدار میںزندگی کے ہر شعبے میں خرابی اور بگاڑ میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے لیکن اس کا سب سے خطرناک پہلو وہ ضرب کاری ہے جو ملک کی آزادی اور حاکمیت‘ سلامتی اور استحکام اور نظریاتی اور تہذیی شناخت پر لگی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے آزادی کی ۶۰سالہ تاریخ میں یومِ آزادی کے موقع پر سوگواری‘ بے یقینی اور اضطراب کا جو عالم اس سال تھا   وہ کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ قوم کے سر شرم سے جھک گئے جب یہ خبر آئی کہ قبائلی علاقوں میں  سیاہ جھنڈے تک لہرائے گئے اور اسلام آباد میں وزیراعظم کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ کھلی فضا میں  قومی پرچم کی رونمائی کریں۔ اس تقریب کا اہتمام بھی کانفرنس ہال کی پختہ چھت تلے کیا گیا!

اس یومِ آزادی پر لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خونی المیے کا سایہ تھا اور معصوم بچوں اور بچیوں کی دل گداز چیخیں اور قران پاک کے انسانوں کے خونی لوتھڑوں میں گڈمڈ اوراق نوحہ کناں تھے۔ وزیرستان‘ سوات‘ ہنگو‘ بنوں‘ کوئٹہ اور کوہلو میں بندوقوں کی گھن گرج اور بموں کی بارش اور انسانی لاشوں کے کشتے تھے۔ اور ان سب پر مستزاد امریکی انتظامیہ اور صدارتی امیدواروں کی دھمکیاں اور اعلانات تھے کہ اپنی آزادی اور خودمختاری کی اوقات پہچانو‘ سیدھے سیدھے ہمارے احکام کی تعمیل کرو اور ساتھ ہی تیار رہو کہ’قابل اعتماد‘ معلومات ملنے پر ہم خود تمھارے علاقوں پر بھی فوج کشی سے دریغ نہیں کریں گے۔ یہ کچھ توافغانستان میں امریکا اور ناٹو کے کمانڈر اور واشنگٹن میں ترجمان کہہ رہے تھے‘ جب کہ صدربش خود بھی گول مول انداز میں یہی پیغام دے رہے تھے مگر وہاں کے ایک صدارتی امیدوار نے تو تمام حدود کو پھاند کر صرف پاکستان ہی نہیں‘ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر بھی بم باری اور لشکرکشی کی دھمکیاں دے ڈالیں۔

امریکی کانگریس نے ۲۷ جولائی کو نائن الیون کمیشن کی سفارشات پر وہ قانون منظور کرلیا جس کے نتیجے میں پاکستان کے لیے امریکی امداد کو شرم ناک اور ذلت آمیز شرائط اور سالانہ    سرٹی فکیٹ کے اجراسے مشروط کر کے پاکستانی قیادت کو آئینہ دکھایا گیا ہے کہ تمھاری چھے سالہ ’گراںقدر خدمات‘ اور امریکا کی خوش نودی کے لیے خود اپنے مسلمان بھائیوں‘ بہنوں اور بچوں کا خون بہانے کا یہ ہے صلہ۔ ساتھ ہی بھارت سے نیوکلیر تعاون کے معاہدے کو قانون کا درجہ دے دیا گیا تاکہ علاقے پر بھارت کی بالادستی کے قیام‘ پاکستان پر نیوکلیر دبائو میں اضافے اور اس کی توانائی کی ضروریات کے بارے میں ہتک آمیز تمسخر کا مظاہرہ‘ اور پاکستان کے سب سے قابلِ اعتماد دوست چین کے گرد ائرہ تنگ کرنے کا امریکی منصوبہ آگے بڑھایا جاسکے۔

نائن الیون کمیشن کی سفاشات پر مبنی قانون صرف ہماری آزادی اور حاکمیت پر ہی ضرب نہیں لگاتا بلکہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کے لیے ایک قانونی بنیادی ڈھانچا (infra-structure) وضع کردیتا ہے۔ یہ پاکستان اور اس کی قیادت پر کھلی بے اعتمادی کا اظہار ہے اور پاکستان کو دائمی غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کا انتظام بھی۔ اس میں یہ لازم کیا گیا ہے کہ ہرسال صدرِ امریکا کو یہ سرٹی فکیٹ جاری کرنا ہوگا کہ پاکستان امریکی احکام پر قرارواقعی عمل کر رہا ہے اور ان احکام میں صرف نام نہاد دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لیے فوج کشی‘ گرفتاریاں اور دوسری تمام کارروائیاں ہی شامل نہیں‘ بلکہ پاکستان اور قبائلی علاقوں میں طالبان کے اثرورسوخ کو ختم کرنا‘ اور پاکستان میں ’سیکولر تعلیم‘ کا فروغ اور ’اسلامی شدت پسندی‘ کے خلاف مستقل کارروائی بھی سرفہرست ہے۔

غلامی کی اس دستاویز کو امریکی کانگریس نے بھاری اکثریت سے منظورکیا ہے اور اس پر عمل کے لیے نہ صرف جنرل پرویز مشرف پر دبائو ہے بلکہ دوسری لبرل قوتوں کو بھی ان کا حلیف اور شریک کار بنانے کے لیے سارے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر ملک کے اندرونی نظام میں ہرطرح کی مداخلت کا راستہ استوار کیا جا رہا ہے جس کا کھلا ثبوت برطانیہ میں جیک اسٹراکے ذریعے پیپلزپارٹی کی قیادت کو مشرف سے تعاون پر تیار کرنا‘ امریکی انتظامیہ اور میڈیا کی مشرف بے نظیر اتحاد بنانے کی کوششیں‘ اور ۹ اگست کو امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزارائس کی جنرل پرویز مشرف سے ۱۷منٹ کی ٹیلی فون کال ہے جس کے نتیجے میں ایمرجنسی کے اعلان کوروکا گیا اور انکار کے بعد سجدۂ سہو کرتے ہوئے کابل یاترا اختیار کرلی گئی۔

۲۰۰۷ء کا یومِ آزادی قوم نے آزادی‘ حاکمیت‘ عزت و وقار اور نظریاتی تشخص پر حملوں کی اس فضا میں منایا ہے___ لیکن غم و اندوہ اور اضطراب اور بے چینی کے ساتھ ساتھ اس نئے احساس  اور اس عزم کے ساتھ منایا ہے کہ قوم کو اپنی آزادی اور اپنی شناخت کے تحفظ کے لیے ایک نئی جدوجہد کرنا ہوگی۔ ۲۰جولائی کے بعد عدلیہ کی آزادی سے جس دور کا آغاز ہواہے‘ اس کی تکمیل جرنیلی آمریت سے مکمل اور مستقل آزادی کے حصول اور بیرونی استعمار کی نئی زنجیروں سے گلوخلاصی کے ذریعے اپنے انجام تک پہنچانا ہوگا ___ عزت اور آزادی کی زندگی کا صرف اور صرف یہی ایک راستہ ہے۔ اس موقع پر ذرا سی کمزوری بھی بہت مہنگی پڑسکتی ہے۔

جنرل پرویز مشرف کا اقتدار فوج اور امریکا کی بیساکھیوں پر قائم ہے‘ لیکن وقت آگیا ہے کہ ان دونوں بیساکھیوں سے نجات حاصل کی جائے۔ سیاست میں فوج کی مداخلت کے باب کو یک سربند کردیا جائے‘ اور امریکا سے تعلقات کو ازسرنو اپنی حاکمیت اور نظریاتی شناخت کی بنیاد پر استوار کیاجائے۔ خصوصیت سے نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے جس طرح خارجہ پالیسی اورداخلی سیاست دونوں کو امریکی ایجنڈے کے تابع کردیاہے‘ اس کو یک سر تبدیل کیا جائے تاکہ ملک ایک بار پھر ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے عزت سے سر اُٹھاکر اپنا سفر جاری رکھ سکے۔

پاک امریکا تعلقات: ایک جائزہ

امریکا سے پاکستان کے تعلقات کے ابتدائی خطوطِ کار قائداعظم اور قائدملّت لیاقت علی خان کے دور میں مرتب ہوئے لیکن جلد ہی اس آزاد اور باوقاردوستانہ تعلق کو سردجنگ کے پس منظر میں امریکا کی چھتری تلے آنے کے نام پر ایک نئی محکومی اور محتاجی کی شکل دے دی گئی‘ اور خارجہ سیاست کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارنے اور اس نئی سمت میں ڈالنے میں کلیدی کردار غلام محمد‘ سرظفراللہ خاں اور جنرل محمد ایوب خان کا تھا۔ قائداعظم نے برملا کہا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست اور دنیا کی پانچویں بڑی مملکت ہے اور ہم برابری کی بنیاد پر اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں امریکا سے دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ لیاقت علی خان نے بہت کھل کر پاکستان کی آزاد پالیسی اور نظریاتی کردارکا اعلان و اظہار کیا تھا اوریہاں تک کہہ دیا تھا کہ پاکستان کی آزادی اور ہماری روحانی شناخت کوئی قابلِ فروخت شے نہیںہے۔ لیکن بعد کی قیادتوں نے ان دونوں ہی کا لحاظ نہ رکھا اور امریکی سیاست کے جال میں پھنس گئے۔ امریکا نے خاص طور پر اپنے تعلقات اور اثرات کو محکم کرنے کے لیے فوج سے بلاواسطہ تعلقات کو ذریعہ بنایا اور پاکستانی قوم اور پارلیمنٹ کو کبھی بھی سارے حقائق سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ اس سے انکار نہیں کہ معاشی اور عسکری اعتبار سے کچھ مثبت فوائد بھی حاصل ہوئے لیکن جن بنیادوں کو محفوظ نہ رکھا جاسکا‘ وہ آزادی‘ حاکمیت اور نظریاتی تشخص ہیں جس کی بڑی بھاری قیمت ہر دور میں اور سب سے زیادہ جنرل پرویز مشرف کے دورِاقتدار میں قوم کو ادا کرنا پڑی۔

اس سب کے باوجود پاکستان اور امریکا کے تعلقات پراگر نظر ڈالی جائے تو ان میں بڑے نشیب و فراز صاف دیکھے جاسکتے ہیں۔ کبھی دوستی کی پینگیں بڑھائی جاتی ہیں اور کبھی صاف پیٹھ دکھا دی جاتی ہے۔ یہ تجربہ بار بار ہوا اور یہ صرف پاکستان ہی کے ساتھ نہیں‘ امریکا کی خارجہ سیاست کا طریق واردات یہی ہے۔ ایک اسرائیل کو چھوڑ کر کوئی ملک ایسا نہیںہے جس کے ساتھ امریکا نے مستقل دوستی نبھائی ہو۔ ضرورت پڑنے پر ساتھ ملانے کے لیے ہرحربہ استعمال کیا ہے جسے carrot and stick ،یعنی چارہ اور چابک کی پالیسی کہا گیا ہے۔ اگرچارے (political bribe) سے کام چل گیا تو فہوالمراد‘ورنہ چابک اور ڈنڈا بے دریغ استعمال کیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکا  گاہک(client) اور غلام (serf)تو حاصل کرسکا ہے مگر کبھی دوسروں کو وہ دوست اور ساتھی نہیں بناسکا۔ پاکستان کو اس کا تجربہ ۱۹۶۵ء میں‘ پھر ۱۹۷۱ء میں‘ پھر ۱۹۷۶ء میں‘ پھر ۹۰-۱۹۸۸ء میں‘ پھر ۱۹۹۸ء میںہوا‘ مگر مجال ہے جو ہماری قیادتوں نے اس سے کوئی سبق سیکھا ہو۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ  ع

ٹھوکریں کھا کر تو کہتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ

لیکن افسوس صد افسوس کہ اس ملک کی قیادتوں نے تو ٹھوکریں ہی نہیں‘ جوتے کھانے کے بعد بھی سبق نہیں سیکھا۔

پاک امریکا تعلقات کا سب سے ذلت آمیز دور پرویز مشرف کا دورِاقتدار ہے۔ اس کا آغاز بل کلنٹن کے دورۂ جنوبی ایشیا سے ہوتا ہے جس میں بھارت کو اسٹرے ٹیجک پارٹنر بنایا گیا‘ پانچ دن وہاں شادیانے بجائے گئے اور پانچ گھنٹے کے لیے پاکستان میں اس انداز میں آئے کہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کوئی تصویر نہیں کھنچوائی‘ کوئی مشترک پریس کانفرنس نہیں کی‘ اور بلاواسطہ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے پاکستانی قوم سے خطاب فرمایا۔ وردی پوش جنرل صاحب نے یہ سب ذلت بخوشی قبول کی اور شکریہ ادا کیا کہ انھیں اس لائق توسمجھا گیا! لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ وہ اس سے بھی زیادہ ہے۔

۹ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد امریکی رعونت اپنے عروج پر تھی اور پاکستان کی گوشمالی کا بدترین دور ۱۲ستمبر کی اس ٹیلی فون کال سے شروع ہوتا ہے جو جنرل کولن پاول نے جنرل پرویز مشرف کو کی۔  یہ گفتگو اس دھمکی کے زیرسایہ ہوئی تھی جو پہلے ہی امریکی نائب وزیرخارجہ رچرڈ آرمی ٹیج نے پاکستانی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل محمود کو واشنگٹن میں دے دی تھی‘ اور بش صاحب کا فرمان شاہی پہنچا دیا تھا کہ یا ہمارا ساتھ دو ورنہ تمھیں پتھر کے دور میں پھینک دیاجائے گا۔ اس کی پوری تفصیل امریکی صحافی باب ووڈورڈ نے اپنی کتاب Bush at Warمیں دی ہے اور دسیوں کتابوں میں وہ پوری صورت حال آچکی ہے جس میں دھونس‘ دھمکی اور ننگی جارحیت کی تلوار دکھا کر پاکستان کی فوجی قیادت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکیا گیا‘ اور جس کا اعتراف ’محکوم کی دانش مندی‘ کی مغالطہ آمیز منظرکشی کے روپ میں خود جنرل پرویز مشرف نے اپنی خودنوشت In the Line of Fire میں کیا ہے۔

آج جو ہتک آمیز سلوک امریکا‘ جنرل صاحب اور پاکستان سے کر رہا ہے‘ وہ نتیجہ ہے اس ہمالیہ کے برابر غلطی کا جو ستمبر۲۰۰۱ء میں جنرل صاحب نے کی۔ اس کے بعد سے مسلسل امریکا کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں‘ غلامی کی زنجیروں کو زیور بنا کر پیش کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب اس شیطانی گرفت سے نکلنے کی ان کوکوئی سبیل نظر نہیں آرہی ہے۔

نائن الیون کے بعد

بحیثیت سوپر پاور روس کے خاتمے کے بعد سے امریکا کی خارجہ پالیسی کا ایک ہی ہدف ہے اور وہ پوری دنیا پر اپنی سیاسی‘ عسکری‘ معاشی اور تہذیبی بالادستی کا قیام‘ دنیا کے دوسرے ممالک کے وسائل اور خصوصیت سے توانائی کے ذخائر پر قبضہ‘ اور نیوکلیر اثاثوں پر کنٹرول اور اس امر کو  واقعی بنانا ہے کہ امریکا کی اس بالادستی کو چیلنج کرنے والی کوئی قوت کسی شکل میں بھی اُبھر نہ سکے۔ نائن الیون دراصل اس سامراجی عمل (hubris)کا ایک حصہ ہے اور اس کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر انھی مقاصد کو زیادہ بھونڈے اور زیادہ خون آشام انداز میں حاصل کرنے کی عالم گیر جدوجہد کاآغاز ہوا ہے۔ البتہ اس فرق کے ساتھ کہ اب ایک فوری ہدف چند مسلمان ممالک (خصوصیت سے افغانستان‘ عراق‘ ایران‘ شام اور پاکستان)‘ اور اسلام کا وہ تصور قرار پایا جسے سیاسی اسلام‘ اسلامی بنیادپرستی‘ جہاد اور زیادہ اکھڑاور صاف الفاظ میں اسلامی دہشت گردی اور اسلامی فاشزم کہا جا رہا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کو ترغیب اور ترہیب کا ہرحربہ استعمال کرکے اپنا شریک کار بنایا گیا ہے اور یہی وہ جال ہے جس میں جنرل پرویز مشرف بخوشی قدم افروز ہوئے ہیں اور چھے سال تک ذلت آمیز خدمات انجام دینے کے بعد بھی ھل من مزید (more, more and more)کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔

صدربش نے اپنے عالمی دہشت گردی کے مقاصد کوکسی پردے میں نہیں رکھا۔ بقول  باب ووڈ ورڈ امریکا نے اپنا ہدف بہت صاف لفظوں میں دنیا کو بتا دیا ہے کہ:

ہم اپنی عظیم قوم کے دفاع میں دنیا کے کونے کونے میں موت اور تشدد پھیلائیں گے۔ (Bush At War،باب وڈ ورڈ‘ سائمن اینڈ شوسٹر‘ نیویارک‘ ۲۰۰۲ء‘ ص ۳۵۲)

دیکھیے پاکستان کے جنرل پرویز مشرف کو قابو میں کر کے کس طرح اس شکنجے میں کساگیا ہے۔ بش صاحب نے نائن الیون کے فوراً بعد اپنی پالیسی کو ان الفاظ میں بیان کیا: ’’ہمیں طاقت کا استعمال کر کے ملکوں سے فیصلے کروانا ہوں گے‘‘۔(ص ۳۳)

آرمی ٹیج نے جنرل محمود سے کہا:

پاکستان کو ایک اہم فیصلہ کرنا ہے ___ یا وہ ہمارے ساتھ ہے یا نہیں ہے۔ یہ سفیداور سیاہ میں سے کسی ایک کا انتخاب ہے۔ درمیان میں کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ الفاظ کہ ’’مستقبل آج شروع ہورہا ہے‘‘ پاکستانی صدر جنرل مشرف کو بتا دو: ’’ہمارے ساتھ یا ہمارے مخالف‘‘۔ (ص ۴۷)

جنرل کولن پاول نے صدربش سے کہہ دیا تھا کہ افغانستان پر حملہ اور بن لادن اور القاعدہ پر گرفت پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں‘ اس لیے :

پاکستانیوں کو نوٹس دینے کی ضرورت ہے… مشرف پر بہت زیادہ دبائو ڈالنے میں اندیشہ ہے‘ لیکن بالکل دبائو نہ ڈالنے میںزیادہ اندیشہ ہے۔(ص ۵۸)

۱۲ ستمبر کورات کو ۳۰:۱۲ بجے کولن پاول نے جنرل پرویز مشرف سے "As one general to another"بات کی اور ’’یا ہمارے ساتھ ہو، یا ہمارے مقابلے میں ہو‘‘ کی دھمکی دی‘ نیز سات مطالبات کیے جن کے نتیجے میں پاکستان امریکا کے جنگی پشتے (war base)میں تبدیل ہوگیا۔ کولن پاول نے باب ووڈ ورڈ سے کہا اور پھر اپنی خودنوشت میں اعتراف کیا ہے کہ وہ سمجھتا تھا کہ مشرف سات میں سے ایک دو مطالبات مان لے گا لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ہمارے جنرل صاحب نے ساتوں مطالبات بے چون وچرا ں مان لیے۔ ووڈ ورڈ لکھتا ہے:

پاول کو حیرت ہوئی جب مشرف نے کہا کہ پاکستان امریکا کے ساتوں میں سے ہر ایک اقدام میں حمایت کرے گا۔ (ص ۵۹)

بعد میں صدر بش سے جنرل پرویز مشرف نے دو درخواستیںکیں۔ ایک یہ کہ: ’’افغانستان کے بارے میںانھیں خدشہ ہے کہ شمالی اتحاد جسے امریکا بھی مانتا ہے کہ وہ قبائلی ٹھگوں کے گروہ سے زیادہ نہیں‘ افغانستان پر قابض ہوجائے گا‘‘۔ جس کے جواب میں صدربش نے خسروان شاہی سے فرمایا کہ: ’’شمالی اتحاد کے بارے میں آپ کی تشویش کا مجھے بخوبی احساس ہے‘‘۔

ملاقات کے بعد پریس کے سامنے بش نے وعدہ کیا کہ:

ہم اپنے دوستوں کی جنوب میں شامالی میدان کی طرف پیش قدمی کی حوصلہ افزائی کریں گے نہ کہ شہر کابل پر قبضہ کے لیے‘ بش نے کہا۔ (ص ۳۰۴)

اور پھر ہوا کیا؟ پورا افغانستان طشتری میں سجا کر شمالی اتحاد کی خدمت میں پیش کردیا گیا اور جنرل صاحب دیکھتے رہ گئے۔ دوسری گزارش جنرل صاحب نے صدربش سے یہ کی کہ پاکستان کے نیوکلیر اثاثہ جات کو اسرائیل سے خطرہ ہے‘ آپ ان کے تحفظ کا یقین دلائیں۔ بش نے بات کو مذاق میں اڑا دیا اور جنرل صاحب خوش ہوگئے کہ امریکا پاکستان کی ایٹمی صلاحیت پر دست درازی نہیں کرے گا۔

جنرل صاحب نے بڑی ہمت کر کے افغانستان میں روس کے خلاف جہادکے خاتمے پر امریکا کے آنکھیں پھیر لینے کے پاکستانی احساس کا ذکر کیا تو بش نے پوری ڈھٹائی سے کہا: ایسا نہیں ہوگا۔ ملاحظہ فرمایئے:

مشرف نے کہاکہ اس کو یہ خطرہ ہے کہ امریکا آخر میں پاکستان کو چھوڑ دے گا اور دوسرے مفادات دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اہمیت کم کردیں گے۔ بش نے اپنی نگاہ مرکوز کرکے کہا: پاکستانی عوام کو بتا دیں کہ امریکی صدر نے آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بتایا ہے کہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔ (ص ۳۰۳)

حسب عادت امریکا نے وہی کیا اور کر رہا ہے‘ یعنی آنکھیں پھیر لینا۔ بدعہدی اور طوطا چشمی کے علاوہ اس سے کوئی توقع رکھنا خوش فہمی ہی نہیں حماقت ہے۔ اس موقع پر صدر نکسن کی دل چسپ مگر عبرت آموز گواہی بھی ریکارڈ پر لانا مفید ہوگی جس میں امریکا کا ساتھ دینے والے چار کرداروں کا ذکر ہے جن میں سے دو کا تعلق پاکستان سے ہے۔ رچرڈ نکسن نے اپنی کتاب In the Arena: A Memoir of Victory, Defeat and Renewalمیں جو ۱۹۹۲ء میں شائع ہوئی تھی‘ لکھا ہے:

بیرونی سفر میں میرا سب سے زیادہ افسوس ناک تجربہ جولائی ۱۹۸۰ء میں‘قاہرہ میں‘  شاہِ ایران کے جنازے میں شرکت تھی۔ واشنگٹن سے کوئی بھی امریکا کی نمایندگی کے لیے ایک ایسے لیڈر کے جنازے میں نہیں بھیجا گیا جو ہمارے نہایت وفادار اور گہرے دوستوں میں سے تھا۔ مجھے پاکستان کے صدر ایوب خان کا ایک جملہ یاد آیا جو انھوں نے ۱۹۶۴ء میں‘ جنوبی ویت نام کے صدر ڈیم کے قتل میں امریکا کی شرکت پر تبصرہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا تھا کہ اس واقعے نے ثابت کردیا ہے کہ امریکا کا دوست ہونا خطرناک ہوتا ہے۔ غیرجانب دار ہونے کا فائدہ ہوتا ہے‘ اور بعض وقت دشمن ہونے سے کام نکلتا ہے۔ یہ بات میرے ذہن میں اس وقت پھر آئی جب امریکا کے ایک اور گہرے دوست پاکستان کے صدر ضیاء الحق کی پُراسرار موت کی اطلاع ملی جو ہوائی جہاز کے حادثے میں ہوئی جو بظاہر سبوتاژ کا نتیجہ تھی۔

قومی عزائم سے بدترین بے وفائی

یہ ہے امریکا کا ٹریک ریکارڈ۔ اس کے باوجود جنرل پرویز مشرف نے امریکا کا دامن تھاما اور اس کی چاکری کی خدمات انجام دیں‘ جن میں افغانستان کے اپنے دوست حکمران طالبان سے نائن الیون کے واقعے میں ان کے ملوث ہونے کے کسی واضح ثبوت کے باوجود بے وفائی‘ افغانستان پرفوجی یلغار اور اس کو تباہ و برباد کرنے کی امریکی اور بعد میں ناٹو کی جنگ میں شرکت‘ خود اپنے ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان میں امریکا اور ناٹو کی مشترک ۴۰ہزار کی فوج کے مقابلے میں ۸۰ ہزار سے ایک لاکھ فوج کو قبائلی علاقوں میں جھونک دینا‘ ۸۰۰ پاکستانی افسران اور جوانوں اور ایک ہزار سے زیادہ قبائلی مسلمانوں کی جانوں کا اتلاف اور سیکڑوں افراد کو کسی ثبوت اور کسی عدالتی کارروائی کے بغیر گرفتار کر کے امریکا کی تعذیب کا نشانہ بنانے کے لیے ان کی تحویل میں دے دینا شامل ہیں۔ پھر اس کے نتیجے میں پاکستان کے اندرونی معاملات حتیٰ کہ سیکولر تعلیمی نظام کو فروغ دینے اور ملک میں امریکا کی مرضی کی سیاسی قیادت کو برسرِاقتدار لانے کے معاملات میں امریکی ایجنڈے کی تعمیل کی راہیںاستوار کیں۔ یاد رکھیے جو پالیسی مالی منفعت یا    بہ الفاظ صحیح تر سیاسی رشوت یا بیرونی دبائو‘ بلیک میل‘ ہاتھ مروڑنے اور تازیانہ بازی کا نشانہ بننے کے نتیجے میں بنے گی‘ یا ان دونوں کے امتزاج کا نتیجہ ہوگی وہ کبھی قومی مفاد میں نہیں ہوسکتی۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے امریکا کے حکم اور مطالبے کے تحت قومی مفاد کو جس طرح قربان کیا ہے اور ملک کی خارجی اور داخلی پالیسیوں میں جو بنیادی تبدیلیاں کی ہیں وہ قوم‘ اور اس کے عزائم سے بدترین بے وفائی اور قیامِ پاکستان کے مقاصد اور دستورِ پاکستان کے تقاضوں سے متصادم ہیں۔ اور یہ سب کچھ چند بلین ڈالر حاصل کرنے اورامریکا کے دبائو اور ڈنڈوں کے سائے تلے   کیا گیا ہے۔ اس کی چند مثالیں ریکارڈ کی خاطر پیش کی جاتی ہیں۔

امریکا کی ناردرن کمانڈ کا سربراہ (۲۰۰۳ء-۲۰۰۰ء) جنرل ٹامی فرینک اپنی خودنوشت میں جو ۲۰۰۴ء میں American Soldier کے نام سے شائع ہوئی ہے‘ لکھتا ہے:

میں نے ارادہ کیا کہ سفر جاری رکھتے ہوئے پاکستان میں صدر مشرف سے مل لوں۔  اس لیے کہ اگر بازو مروڑنے کا کوئی موقع تھا تو یہی تھا۔ انھیں فیصلہ کرنا ہوگا‘ اور بہت جلدی فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کس طرف ہیں۔

اسی کتاب میں جنرل ٹامی فرینک انکشاف کرتا ہے کہ افغانستان پر امریکا کی یورش میں بھارت کی سیاسی‘ سفارتی اور فوجی شرکت بھی تھی جس پر جنرل پرویز مشرف کو اصولی اختلاف نہیں تھا البتہ صرف اس لیے پریشان تھے کہ اس سے ان کی سیاسی پوزیشن خراب ہوتی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ معاملہ اس پر طے ہواکہ بھارت کی شرکت کو نمایاں نہیں کیا جائے گا۔ یہ دل خراش داستان  انھی کی زبان میں سن لیجیے:

مشرف نے درخواست کی کہ مہم کے منصوبے میں بھارتی حکومت یا بھارتی فوج کی شرکت نہ ہو۔ خاص طور پر کسی بھی صورت میں اس طرح کہ بھارتی فوجیں پاکستان کے بحری اور فضائی حدود میں داخل ہوں۔ انھوں نے یہ بھی چاہا کہ اتحادی بھارت کی  سیاسی شرکت کوبھی بہت نمایاں نہ کریں جس سے پاکستان میں جذبات بھڑک سکتے ہیں۔ میں نے امریکی سفیر وینڈی سے کہا کہ وہ صدر مشرف کو میرا ذاتی شکریہ پہنچا دیں اور انھیں بتائیں کہ میں بھارتی شرکت کا مظاہرہ کم سے کم کرنے کی کوشش کروں گا۔ (ص ۲۷۳)

جنرل ٹامی فرینک اپنی افغان جنگ کے پورے تجربے کا تجزیہ کرتے ہوئے فخریہ انداز میں بیان کرتا ہے کہ:

علاقے میں اپنے ساتھی تلاش کرنے کے لیے اپنے ۳۰ سے زیادہ دوروں میں‘ مَیں نے بہت زیادہ چارہ اور چند ہی چابک استعمال کیے۔

اور پھر جنرل پرویز مشرف کی تابع داری کا بیان یوں رقم کرتا ہے:

اور گو کہ دنیا کو اس جنگ میں پاکستان کے فوجی کردار کا کم پتا ہے لیکن پرویز مشرف نے اپنا کہا پورا کیا‘ اور آج بھی وہ اسی طرح ہے۔ پاکستان کے گیارھویں کور کے تجربہ کار فوجیوں نے بھاگنے والے سیکڑوں القاعدہ کے دہشت گردوں کو قتل کیا اور پکڑااور وہ آج بھی وزیرستان کے پہاڑوں میں ان دہشت گردوں کو تلاش کرتے ہیں‘ جب کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز شہروں میں ان کا پتا چلاتی ہیں۔ حال ہی میں القاعدہ دہشت گردوں کی گرفتاریاں جاری مہم کی تازہ کامیابیاں ہیں۔ جب صدر بش نے کہا تھا کہ دنیا کی قومیں یا ہمارے ساتھ ہیں یاہمارے مخالف تو پاکستان نے ٹھیک ٹھیک سمجھ لیا (کہ اب اسے کیا کرنا ہے)۔

ٹامی فرینک کی گواہی کافی نہیں۔ تصویر مکمل کرنے کے لیے سی آئی اے کے ڈائرکٹر  جارج ٹی نٹ (Tenet)کی شہادت بھی ملاحظہ فرمالیجیے۔ یہ نومبر ۲۰۰۱ء کا واقعہ ہے اور پس منظر میں پاکستان کی نیوکلیر ٹکنالوجی کے افغانستان جانے کا خطرہ ہے۔صدربش نے خصوصی طیارے سے سی آئی اے کے سربراہ کو پاکستان بھیجا۔باب ووڈ ورڈ نے اپنی دوسری کتاب Plan to Attack میں اس کی اس طرح منظرکشی کی ہے۔ پہلے صدربش کی ہدایت دیکھیے:

بش نے ٹی نٹ سے کہا: میں چاہتا ہوں کہ تم ابھی وہاں جائو اور جو چاہیے وہ حاصل کرلو۔ اپنا جہاز پکڑو اور ابھی پاکستان چلے جائو۔

جارج ٹی نٹ پہلے آئی ایس آئی کے سربراہ سے ملتے ہیں۔ ذرا زبان اور عزائم ملاحظہ فرمائیں:

وہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ سے خوب خبر لینے (raising holy hell) کے ارادے سے ملنے گیا۔ اگر امریکا میں کوئی ایٹمی ہتھیار ہوا اور یہ چل گیا تو ذمہ داری تمھاری ہوگی‘ مشرف کے بارے میں اس نے کہا۔ ہم نے اس پر خوب دبائو ڈالا۔ ایک اہل کار نے کہا: ہم گوشمالی کرتے رہے (we were turning the screws) یہاں تک کہ اس کے ساتھ ہم اس مقام پر پہنچ گئے کہ پاکستانی ہمارے ساتھ کام کرنے لگے۔ (ص ۴۷)

جنرل پرویز مشرف اور ان کے وزیرخارجہ بار بار اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے کسی کے اشارے پر یا دبائو کے تحت کچھ نہیں کیا۔ اس سے بڑا جھوٹ آسمان تلے نہیں ہوسکتا۔ قوم نے جس فوج کو ملک کی آزادی اور قوم کی عزت کی حفاظت کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر تیار کیا تھا‘ اس کی قیادت نے چند ڈالروں کے لیے اور دوسروں کی دھمکیوں کے تحت خود مسلمانوں کا خون بہایا اور امریکا کی بالادستی کے قیام کے لیے خود اپنی جانیں اور عزت قربان کی۔ اقبال نے تو کشمیر کا نوحہ کیا تھا‘ کیا خبر تھی کہ پاکستان کے بارے میں بھی کہنا پڑے گا کہ اس کے جرنیلوں نے  ع

قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند!

امریکا کی کہلی مداخلت

امریکا کس طرح ہمارے معاملات میںمداخلت کر رہا ہے‘ وہ صرف افغانستان کے لیے کندھا فراہم کرنے اور وزیرستان میں فوج کشی کرنے تک محدود نہیں۔ چند اور مثالیں مشتے نمونہ ازخروارے پیش خدمت ہیں۔

امریکا اور برطانیہ کے اشاروں پر کشمیر کی جدوجہد آزادی سے دست برداری اختیار کی گئی اور نہ صرف عملاً تحریک آزادیِ کشمیر کی ہر مدد بند کردی‘ بلکہ اسے آزادی کی جنگ بھی کہنے سے توبہ کرڈالی۔ افسوس کہ بالآخر جنوری ۲۰۰۴ء میں یہاں تک اعلان کردیا کہ کشمیر کی کنٹرول لائن جسے پاکستان نے کبھی بین الاقوامی سرحد تسلیم نہیں کیا تھا‘ اسے کشمیری مجاہدین کے لیے بند کردیا جائے گا اور ان کے سرحدپار کرنے کو دہشت گردی کی ایک صورت تسلیم کرلیا۔

اس سلسلے میں ٹونی بلیئر نے صدربش کے کارندے کی خدمات انجام دیں اور جنرل پرویز مشرف کوقائل کرلیا کہ کشمیر کی تحریکِ آزادی کو تحریکِ آزادی بھی نہ کہیں۔ ابھی چند ہفتے قبل     ہی سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کے ایڈوائزر اور پالیسی کے شعبے کے مدیر الیسٹیرکیمپبل کی کتاب  The Blair Years شائع ہوئی ہے۔اس میں ٹونی بلیئر کے کارنامے اور پاکستانی جرنیل کا   ’تیرا مجبور کردینا، مرا مجبور ہوجانا‘ کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے‘ عبرت کے لیے اس کا جاننا ضروری ہے۔ جنرل صاحب سے یہ ملاقات ۷جنوری ۲۰۰۲ء میں‘ اسلام آباد میں ہوتی ہے اور اس کے بعد ۱۲فروری ۲۰۰۲ء کو وہ کشمیر کی جنگ آزادی سے دست برداری کا اعلان فرما دیتے ہیں۔الیسٹیر کیمپبل لکھتا ہے کہ:

بلیئر کا پہلا قدم یہ ہونا تھا کہ مشرف دہشت گرد گروہوں کے ساتھ سخت ہوجائے۔ بلیئر نے مشرف سے کہا کہ مذاکرات شروع ہونے کے لیے دہشت گردی کی حمایت ختم  ہونی چاہیے۔ مشرف نے حیران ہوکر دیکھا۔ بلیئر نے کہا: یہ اس لیے ٹھیک نہیں ہے کہ  اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی حکومت دہشت گردی کی حمایت کر رہی ہے۔ ہم نے اسے سمجھایا کہ اس کے لیے بہترین راستہ یہ ہے کہ وہ بڑھ چڑھ کر یہ کہے کہ وہ دہشت گردی کی ہرشکل کا مخالف ہے۔ ہم نے اسے اس پر قائل کرلیا کہ کشمیر کے بارے میں وہاں ہونے والی جدوجہد کو جنگِ آزادی نہ کہاجائے۔ اس لیے کہ یہ ہم اور امریکی راے عامہ نہیں سمجھیں گے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ اسے ایک مقامی جدوجہد کہا جائے۔ ہمیں اس پر بہت وقت خرچ کرنا پڑا لیکن بالآخر وہ مان گیا۔ (The Blair Years‘ ص ۵۹۹)

امریکا کی نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ ہو یا پاکستان کی کشمیرپالیسی‘ نیز بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اور دوستی کی پینگیں___ سب کچھ امریکا کے اشارۂ چشم و ابرو پرہوا لیکن الفاظ و معانی اپنا مفہوم کھو چکے ہیں۔ بقول جنرل صاحب یہ سب ’قومی مفاد میں ہوا‘، اور     یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

لال مسجداور جامعہ حفصہ کے خلاف جو فوجی آپریشن ہوا وہ بھی امریکا اوراس کے حواریوں کے مطالبات اور مغربی میڈیا اور خود پاکستان میں لبرل قیادت کے شوروغوغا اور اس کی سرخیل  محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہہ پر ہوا۔ صدربش‘ گورڈن برائون (برطانوی وزیراعظم) آسٹریلیا کے وزیراعظم اور خود بے نظیر صاحبہ نے باقاعدہ اس اقدام کی تحسین فرمائی اور معصوم بچوں اور بچیوں کے کشت و خون اور مدرسے کی مسماری پر مبارک باد کے پیغامات بھیجے۔ اب اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ امریکا نے ایکشن سے ایک دن پہلے باقاعدہ ہدایات جاری کیں‘ اس فرق کے ساتھ ان کا مطالبہ تھا کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے مکینوں کو گرفتار کیا جائے‘ جب کہ جنرل پرویز مشرف کی حکمت عملی یہ تھی ان کو نیست و نابود کیا جائے‘ بلکہ جامعہ حفصہ کو بھی اس طرح مسمار کیا جائے کہ بقول چیف جسٹس آف پاکستان اس آپریشن کے بارے میں ساری معلومات اور شہادتیں بھی ختم ہوجائیں۔ امریکی ہدایات ریکارڈ کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔ ۹جولائی ۲۰۰۷ء کے The Nation کے مطابق فوجی ایکشن سے ایک دن قبل(واضح رہے کہ یہی وہ دن ہے جب مصالحت کی کوششیں اپنے عروج پر تھیں‘ معاملات طے ہورہے تھے کہ ان کو سبوتاژ کردیا گیا) یہ ہدایات نازل ہوئیں:

امریکا نہیں چاہتاکہ ان درجنوں خطرناک جنگجوؤں کو جو لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں ہیں‘ محفوظ راستہ دیا جائے بلکہ سخت اقدام چاہتا ہے تاکہ وہ گرفتار ہوں۔ بش انتظامیہ کا پیغام یہ تھا کہ مولانا عبدالرشید غازی کے مطالبے کے مطابق مسجد خالی کرنے اور  لڑکیوں کے متصل مدرسے کو خالی کرنے کی شرط پر جنگجوؤں کو محفوظ راستہ نہ دیا جائے… واشنگٹن کو ان جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کے مقابلے میں گرفتار کرنے میں زیادہ دل چسپی تھی‘ اس لیے کہ اسے یقین تھا کہ ان سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم سراغ ملیں گے… انھوں نے کہا کہ امریکا کے اعلیٰ سیکورٹی اہل کار پاکستانی دارالحکومت کے واقعات کو مانٹیر کر رہے تھے اور اپنی حکومت کو باقاعدگی سے تازہ اطلاعات پہنچا رہے تھے۔

اسی طرح جنوبی اور شمالی وزیرستان میں جو امن معاہدہ ہوا اس سے امریکاسخت ناخوش تھا۔  اس نے اپنا سارا اثرورسوخ اور بازو مروڑنے (arm-twisting) کے حربے استعمال کرکے  شمالی وزیرستان اور اس سے بڑھ کر صوبہ سرحد کے چند اہم مقامات خصوصیت سے سوات‘ بنوں اور دوسرے علاقوں میں فوج بھیجنے کے لیے پاکستان پر دبائو ڈالا اور بالآخر اس علاقے میں ایک بار پھر خون ریزی اور تصادم کا سماں پیدا کردیا۔ واشنگٹن سے ڈان کے نمایندے کی ۱۶جولائی کی رپورٹ قابلِ غورہے:

امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر نے بتایا کہ امریکا پاکستان کو وہ تمام آلات فراہم کرے گا جن کی انھیں صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں جنگجوؤں کے لیے ایک مجوزہ کریک ڈائون کے لیے ضرورت ہوگی۔ اسٹیفن رِڈلے نے اے بی سی نیوز کو بتایا کہ جنرل مشرف نے قبائلی علاقوں میں مزید افواج بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے اور امریکا اس اقدام کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ ہمیں اس ملک کو اس حالت میںلاناہے جہاںاس کے پاس دہشت گردی کے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے تمام ضروری آلات ہوں‘ جو بدقسمتی سے ہمارے ساتھ طویل مدت تک رہے گا۔

بھارت کے جریدے فرنٹ لائن نے اپنی ۱۰ اگست ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں پاکستان پر تفصیلی کور اسٹوری شائع کی ہے جس میں جان شیریں (John Cherian) نے اپنے دو مضامین میں حالات کی یوں عکاسی کی ہے:

جب انھیں یاد دلایا گیا کہ قبائلی سرداروں نے گذشتہ سال ستمبر کا معاہدہ ختم کردیا ہے تو انھوں نے کہا کہ معاہدے نے اس طرح کام نہیں کیا جس طرح صدرمشرف چاہتے تھے‘ بلکہ اس طرح بھی نہیں کیا جس طرح ہم چاہتے تھے۔ اس ہفتے کے آغاز میں امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری رچرڈ بائوچر نے کانگریس کو بتایا کہ امریکا قبائلی پٹی اور سرحد کی نگرانی کے لیے پاکستانی فوج کو ہرمہینے ۱۰۰ ملین ڈالر ادا کرتا ہے۔

اگر امریکی احکام پر عمل کیا جائے تو پاکستانی فوج افغانستان سے متصل اپنے سرحدی علاقے میں پشتون قبائل کے ساتھ عملاً حالت ِ جنگ میں ہوگی…

امریکی میڈیا کی حالیہ رپورٹوں کے مطابق ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد بش انتظامیہ نے پاکستان پر دبائو ڈال کر اسے اپنے ساتھ ملا لیا۔ مشرف کو بتایا گیا کہ اگر اس نے طالبان کی حمایت ترک نہ کی تو واشنگٹن بم باری کرکے پاکستان کو پتھر کے دور میں پہنچا سکتا ہے‘ اور نئی دہلی کو اشارہ کرے گا کہ پاکستانی کشمیر کے متنازع علاقے پر قبضہ کرلے۔

پاکستانی صدر پرویز مشرف کی حالیہ پریشانیوں کی بڑی وجہ پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان کا احیا ہے۔ امریکا اور ناٹو کی افواج کی طالبان کو شکست دینے میں ناکامی نے پاکستان میں اس کے حامیوں کا حوصلہ بڑھا دیا ہے۔ بش انتظامیہ کو سیاسی طور پر یہ مناسب لگتا ہے کہ طالبان اور اس کے عسکری حلیفوں کو افغان سرحدی علاقوں میں قابو کرنے کے لیے کافی کچھ نہ کرنے کے الزام پاکستان پر رکھ دے‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ طالبان کے احیا کی حقیقی ذمہ داری واشنگٹن اور اس کے حلیفوں پر ہے۔

بش انتظامیہ حکومتِ پاکستان پر دبائو ڈال رہی ہے کہ قبائلی علاقوں میں پھر بھرپور حملہ کرے۔ اپنے علانیہ بیانات میں سینئر امریکی اہل کار کہہ چکے ہیں کہ اگر پاکستانی فوج آگے بڑھ کر اقدام نہیں کرتی تو امریکا خود اقدام کرسکتا ہے۔ ماضی میں کئی موقعوں پر امریکی فضائیہ نے القاعدہ کے اہداف کو پاکستانی حدود میں نشانہ بنایا ہے۔ امریکی اسپیشل فورسز بھی محدود پیمانے پر آپریشن کر رہی ہیں۔

امریکی مداخلت کی تازہ ترین مثال مشرف بے نظیر مفاہمت کی کوششیں اور اس کے لیے  کی جانے والی طرح طرح کی سازشیں ہیں۔ ایمرجنسی کی بات اور پھر امریکی وزیرخارجہ کی مداخلت اس کی تازہ ترین نظیر ہیں۔ نیویارک ٹائمز ۱۱اگست ۲۰۰۷ء کے اداریے میں امریکا کے کردار کویوں بیان کرتا ہے:

وزیرخارجہ کونڈولیزارائس نے جمعرات کی رات کو ۲ بجے صدرمشرف کو فون کر کے ایک سیاسی طوفان کو دُور کرنے میں مدد دی‘ اور پارلیمنٹ کو معطل کرنے‘ عدالتوں کو بے اختیار کرنے‘ مظاہروں پر پابندی لگانے اور اس کے لیے ایک نئی صدارتی مدت کے سلسلے میں بات کی۔

لیکن یہ بحران شاید صرف ملتوی ہوا ہے۔ آٹھ سال کی مطلق العنان حکومت اور عہدشکنیوں کے بعد مشرف نے وہ حمایت کھو دی ہے جو اسے عام پاکستانیوں میں‘ تعلیم یافتہ پروفیشنل طبقے میں‘ حتیٰ کہ ساتھی فوجی افسروں میں کبھی حاصل تھی۔ مشرف کو صرف یہ بتانا کہ وہ مزید اختیارات حاصل نہ کرے کافی نہیں۔ واشنگٹن کو اسے یہ بتانا چاہیے کہ تاخیر ہونے سے قبل مذاکرات کے ذریعے جمہوریت کی طرف جلدواپس ہونا چاہیے۔

واضح رہے کہ یہاں جمہوریت کے معنی امریکا کی پسندیدہ قیادت کو برسرِاقتدار لانا ہے‘ ورنہ سب کو معلوم ہے کہ امریکا کوجمہوریت کا کتنا پاس ہے۔

اثرات و نتائج

اس دل خراش داستان کی کوئی انتہا نہیں۔ ہم نے صرف چنددستاویزاتی شہادتیں پیش کی ہیں تاکہ ’قومی مفاد‘ کی بات کرنے والوں کااصل چہرہ سامنے آسکے۔ امریکا کے ایجنڈے کے مطابق جنرل پرویز مشرف نے قوم‘ پارلیمنٹ‘ حتیٰ کہ کابینہ اور دفترخارجہ تک کو نظرانداز کرکے وحدت اقتدار (unity of command) کے نام پر خارجہ پالیسی کا جو تیاپانچہ کیا ہے‘ اس سے ملک اور اُمت مسلمہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اس کے چند اہم پہلوئوں کی نشان دہی کی جاتی ہے:

۱- صدر بش کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ نہ بین الاقوامی قانون کے اعتبار سے جنگ ہے اور نہ اس کا ہدف حقیقی دہشت گردی ہے۔ اس لیے کہ دہشت گردی کا تو سب سے زیادہ ارتکاب خود امریکا نے کیا ہے یا اس کے حلیفِ خاص اسرائیل اور پھر بھارت نے۔ اس وقت خود امریکی اور یورپی اہلِ علم ’وار آن ٹیررزم‘ کے پورے paradigmکو چیلنج کررہے ہیں‘ اور   صاف کہہ رہے ہیں کہ جنگ کا لفظ صرف اس لیے استعمال کیا جا رہا ہے کہ سویلین افراد کو    محارب (combatant) قرار دے کر قانون سے بالابالا ختم کیا جاسکے۔ ان کے بقول جن پر دہشت گردی کا شبہہ ہو جب تک الزام عدالت کے نظام کے تحت ثابت نہ ہو‘ انھیں دہشت گرد قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور جو فی الحقیقت دہشت گرد ہیں وہ بھی محارب نہیں صرف ’مجرم‘ (criminal) ہیں اور ایک مجرم کو جرم کی حد تک قانون کے عام پروسس کے ذریعے ہی سزا دی جاسکتی ہے۔   ’وار آن ٹیررزم‘ ایک قانونی فراڈ ہے اور جنرل پرویز مشرف صدر بش کے ساتھ اس فراڈ میں‘ جو  اب انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم (crime against humanity) بن چکا ہے‘ شریک ہیں اور پاکستانی فوج کو اس نے اس میں ملوث کر کے پاکستانی فوج اور پاکستانی قوم دونوں کوسخت عذاب میں مبتلا کردیا ہے۔ یہاں تو یہ ہو رہا ہے‘ جب کہ دنیا کی سوچ اب اس طرح بدل رہی ہے کہ برطانیہ کے نئے وزیراعظم گارڈن برائون نے دو ہفتے قبل یہ ہدایت جاری کی ہے کہ آیندہ کوئی برطانوی وزیر اسے ’وار آن ٹیرر‘ نہ کہے۔

۲- پاکستان کی کشمیر پالیسی کو یک سر بدل کر اور تحریک حریت کشمیر سے غداری کرکے پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات پر ضرب کاری لگائی ہے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کشمیر کے عوام کو پاکستان سے مایوس اور بددل کرکے نہ صرف ۵لاکھ شہیدوں کے خون سے بے وفائی کی ہے بلکہ جموںو کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کو بھارت کے استبداد کا نشانہ بننے اور ان کی زندگی کو جہنم بنانے کا سامان کیا ہے۔ اس کے جو دُور رس اثرات خود پاکستان کی سلامتی‘ معاشی خودانحصاری اور نظریاتی تشخص پر پڑیں گے دل ہلا دینے والے ہیں۔

۳-  بھارت سے دوستی کے سراب کے تعاقب میں بھارت کی طرف سے تمام خطرات کو نظرانداز کردیا ہے جو وہ پاکستان اور اس پورے علاقے کے لیے پیدا کر رہا ہے۔ یہاں بھارت اور امریکا کی اسٹرے ٹیجک پارٹنر اور ایٹمی سمجھوتے کی وجہ سے جو مسائل اور خطرات پاکستان‘ چین‘ ایران کو پیش آنے والے ہیں‘ ان سے آنکھیں بند کرلینا اپنے اندر بڑے مہلک امکانات رکھتا ہے۔ ان سارے پہلوؤں کا جنرل پرویز مشرف کی خارجہ پالیسی میں کوئی شعور نظر نہیں آتا۔

۴- افغانستان میں جو آگ لگی ہوئی ہے‘ بلاشبہہ اس کی اوّلین ذمہ داری امریکا اور ناٹو کی فوجوں پر ہے لیکن پاکستان بھی اس ذمہ داری میں شریک ہے‘ اور یہی وجہ ہے افغان عوام پاکستان سے دُور سے دُور تر ہوتے جارہے ہیں۔ شمالی اتحاد تو اوّل روزسے پاکستان کے خلاف اور بھارت کا حلیف اور آلۂ کار تھا لیکن وہ تمام قوتیں جو پاکستان کے لیے محبت‘ ہمدردی اور احسان مندی کے جذبات رکھتی تھیں‘ وہ بھی نائن الیون کے بعد ہم سے نالاںاور دُور ہوگئی ہیں۔ یہ دُوری اب بداعتمادی اور نفرت کی سرحدوں کو چھو رہی ہے۔ ہم نے اپنے دوستوں کو دشمن بنالیا اور دشمن اور زیادہ شیر ہوگیا۔ نیز افغانستان میں بھارت نے بڑی مضبوطی اور عیاری سے اپنے قدم جما لیے ہیں جن کا ہدف بالآخر پاکستان ہے۔ بلوچستان میں اس کے اثرات نظر آنا بھی شروع ہوگئے ہیں۔

۵- ہم اسے تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ چین اور ایران میں بھی اب پاکستان کے لیے وہ گرم جوشی نہیں جو ایک تاریخی حقیقت اور ہمارا بڑا قیمتی اثاثہ تھی۔ آج ہمارے تمام ہمسایہ ملک پہلے کے مقابلے میں ہم سے دُور اور شاکی ہیں۔یہ سب نتیجہ ہے ایک تباہ کن  خارجہ پالیسی کا جو امریکا کے مفاد میں ہے یا اس کا فائدہ ذاتی طور پر گنے چنے افراد کو پہنچ رہا ہے۔

۶- دینی اورتہذیبی اعتبار سے بھی یہ سودا بڑے خسارے کا سوداہے۔ مسلم معاشرے کو محض امریکا کو خوش کرنے کے لیے لبرل اور انتہاپسند طبقوں میں تقسیم کیاگیا ہے اور ان کو باہم تصادم کے راستے پر ڈالا جا رہا ہے۔ سیاسی مسائل کو ننگی قوت کے ذریعے حل کرنے کی احمقانہ پالیسی پر بگ ٹٹ دوڑ لگی ہوئی ہے۔ دینی مدارس اور دینی تعلیم کو ہدف بنایا جا رہا ہے جس سے معاشرے میں تصادم اور تشدد پرستی کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔ قوم اور اس کے حکمرانوں کے درمیان جنگ کی کیفیت ہے جو سیاسی اور تہذیبی عدمِ استحکام کی طرف لے جا رہی ہے۔

۷- اس پالیسی کا ایک اور بڑا ہی نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ قوم اور فوج میں نہ صرف مغائرت پیدا ہوئی ہے بلکہ یہ بے اعتمادی اب نفرت کو جنم دے رہی ہے۔ وہ فوج جسے قوم اپنی آنکھ کا تارا قرار دیتی ہے اور جس پر عقیدت اور محبت کے پھول نچھاور کرتی تھی آج وہ عوام کے غصے کا نشانہ بنتی جارہی ہے۔ اس سے بڑا سانحہ کیا ہوگا کہ ۲۹ جولائی کے اخبارات میں وزارتِ داخلہ کی یہ ہدایت شائع ہوئی ہے اور ہماری اطلاع ہے کہ فوجی ذرائع نے بھی اپنے اپنے گیریژن کو ایسی ہی ہدایات دی ہیں‘ حتیٰ کہ جنرل پرویز مشرف سے بھی یہ بات منسوب کی جارہی ہے کہ انھوں نے ہدایت کی ہے کہ فوجی افسر اور جوان بسوں میں‘ بستیوں میں اپنی وردی میں نہ گھومیں کہ ان پر حملوں کا خطرہ ہے۔

ڈیلی ٹائمز میں ۲۹ جولائی کو اس سرخی کے ساتھ یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ: ’’فوجی اور قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں کو عوام میں وردی پہن کر جانے سے متنبہ کیا گیا ہے‘‘۔ خبر کا صرف یہ جملہ سرپیٹ لینے کے لیے کافی ہے کہ: ’’وزارتِ داخلہ نے پاکستانی فوج‘ فرنٹیئرکانسٹیبلری‘ الائیٹ فورس‘ اینٹی رائٹ فورس‘ پنجاب کانسٹیبلری اور پنجاب رینجرز کے افسران اور سپاہیوں کو متنبہ کیا ہے کہ پبلک مقامات پر وردی میں نہ آئیں اور نہ نجی گاڑی وردی میں چلائیں‘‘۔ انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون

سپریم کورٹ کے محترم جج جناب جسٹس خلیل الرحمن رمدے جو ۲۰ جولائی کے فیصلے سے عالمی شہرت حاصل کرچکے ہیں اورجن کی راے کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں‘ انھوں نے ناروے میں وہاں کے وزیرخارجہ کی موجودگی میں پاکستانی قوم کے جذبات اور احساسات کی کتنی سچی ترجمانی کی ہے:

پاکستان مغرب کے مفادات کے لیے لڑ رہا ہے مگر اس سب کے باوجود شرمندگی کا سامنا ہے۔ وہ دوست جن کے لیے ہم یہ سب کر رہے ہیں‘ ہمیں دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ ایک سفارت کار نہیں بلکہ ایک جج ہیں لیکن پھر بھی وہ یہ کہیں گے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت کچھ قربانی دی ہے اور اب بھی دے رہا ہے مگر اس کی قدر نہیں کی جارہی۔

جنرل صاحب کے وردی سے چمٹے رہنے کا حاصل یہ ہے کہ اب یہ وردی محبت کے بجاے نفرت کا اور حفاظت اور آشتی کی جگہ عدم تحفظ کا نشان اور تصادم اور انتقام کی دعوت کی علامت بن گئی ہے۔

جنرل پرویز مشرف کو حقیقی قانونی جواز تو کبھی بھی میسر نہ تھا اور اس کے حصول کا ایک موقع جو ان کو ۱۷ویں ترمیم نے دیا تھا‘ اسے انھوں نے وردی نہ اتار کر ختم کردیا۔ ان کی آٹھ سالہ کارکردگی نے ان کی ساکھ (credibility)کو تار تار کردیا ہے اور رہی ان کی اور فوجی حکمرانی کے نظام کی کارکردگی (competence) تواس کا بھانڈا بھی اب پھوٹ چکا ہے۔ جولائی کے آخری ہفتے اور اگست کے پہلے ہفتے میں ڈان‘ ڈان نیوز اور سی این این نے جو سروے کیاہے‘ اس کی رو سے پاکستان کے عوام کی عظیم اکثریت (۲ء۶۵ فی صد) ان سے نجات پانے کا اعلان کر رہی ہے اور چاہتی ہے کہ وہ صدارت سے فوراً دست کش ہوجائیںاور ۵ء۵۴فی صد کہتی ہے کہ فوج کا سیاست میں عمل دخل ختم کیا جائے۔ بی بی سی کے سروے میں چھے ناموں میں میاںنواز شریف سب سے اوّل مقام پر آئے ہیں اور مشرف صاحب سب سے آخر میں۔ یہ پاکستان کے عوام کی دل کی آواز ہے اور ہم بڑے دکھ اور کرب کے ساتھ ٹائم میگزین کے تازہ شمارے سے یہ جملہ نقل کررہے ہیں جو افغانستان کے حالیہ جرگے کے بعد وہاں کے حالات پر مبنی رپورٹ میں درج کیا گیا ہے کہ افغانستان میں ’مشرف‘ کا نام اب کتوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے(ٹائم‘ ۲۷ اگست ۲۰۰۷ء)۔ جنرل ایوب تو صرف بچوں کی زبان سے یہ لفظ سن کر اقتدار چھوڑنے پر آمادہ ہوگیا تھا لیکن روے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ؟

آخر میں ہم صرف ایک بات اور کہنا چاہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کے اس تمام  ناکامی کی بڑی وجہ ملک میں جمہوریت کا فقدان‘ فوج کی سیاست میں مداخلت‘ فردِواحد کی حکمرانی‘ پارلیمنٹ کے کردارکا فقدان‘ قومی احتساب کی کمزوری اور عوام کی حکمرانی سے دُوری ہے۔ اداروں کے ذریعے فیصلہ سازی میں بڑاخیرہے اور جہاں یہ نہ ہو وہاں پالیسی سازی کا وہی حشر ہوتا ہے جو جنرل صاحب کے دورِاقتدار میں پاکستان میں ہواہے۔ حالات کی اصلاح کی راہ بھی ایک ہی ہے: یعنی جمہوریت کی بحالی‘ پارلیمنٹ کی بالادستی‘ اداروں کے ذریعے پالیسی سازی‘ حکمرانوں اور ان کی پالیسیوں کا قومی احتساب‘ اور کسی کے لیے بھی من مانی کرنے کے راستوں کو مسدود کر دینا۔

آیندہ چند مہینے پاکستان کے لیے بڑے اہم ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ قوم اپنا حق حکمرانی غاصبوں سے چھین لے‘ اور دستور اور قانون کی حقیقی بالادستی کا نظام قائم کرے جس میں ایک طرف لوگوں کو عزت اور انصاف مل سکے تو دوسری طرف ملک کی خارجی اور داخلی پالیسیاں عوام کی مرضی کے مطابق اور ان مقاصد کی روشنی میں تشکیل پاسکیں جن کے لیے پاکستان قائم ہواتھا۔

 

جولائی ۲۰۰۷ء نے پاکستان کی تاریخ میں ایک منفرد حیثیت اختیار کرلی ہے۔ اس مہینے میں تین اہم واقعات رونما ہوئے۔ یہ تینوں واقعات اپنے موضوع اور نوعیت کے اعتبار سے خواہ کتنے ہی مختلف ہوں‘ لیکن ان کا پیغام ایک ہی ہے۔ ہمارا اشارہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خونیں المیے‘ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے بارے میں تاریخی فیصلے‘ اور کُل جماعتی کانفرنس لندن کے نتیجے میں قائم ہونے والی ’آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ‘ (APDM)کی طرف ہے۔

اسے ایک قومی المیے کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ حصولِ آزادی کے ۶۰ویں سال میں ایک بار پھر پاکستانی قوم کو اپنی آزادی اور اپنے نظریاتی و تہذیبی تشخص کی حفاظت کی جنگ لڑنا پڑرہی ہے۔ ستم بالاے ستم کہ اب یہ جنگ بیرونی حکمرانوں کے خلاف نہیں‘ بلکہ اپنی ہی مملکت کے سپوتوں (زیادہ صحیح الفاظ میں:کپوتوں) اور اپنی ہی فوج کی اس قیادت سے لڑی جارہی ہے‘ جو نہ صرف قیامِ پاکستان کے مقاصد کو بالاے طاق رکھ کر بلکہ دستور‘ قانون‘ اجتماعی اخلاقیات اور ہراصول اور ضابطے کو پارہ پارہ کرتے ہوئے تمام حدود کو پھلانگ چکی ہے۔ اسی لیے اہلِ نظر کی راے ہے کہ یہ قیادت عملاً آج کی سب سے بڑی سامراجی اور فرعونی قوت کے اشارۂ چشم و آبرو اور دھمکی آمیز مطالبات کے آگے سپرڈالتے ہوئے خود ملک اور قوم کی آزادی اور شناخت کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔

ملکی صورت حال

اس خطرناک کھیل کا آغاز تو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء ہی کو ہوگیا تھا‘ لیکن اس کا اصل چہرہ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کو رونما ہونے والے الم ناک واقعے کے بعد ہی سامنے آیا‘ جب اسلام اور مسلم دنیا کے خلاف امریکی صدر جارج بش نے نئی صلیبی جنگ (crusade) کا آغاز کیا‘اور جنرل پرویز مشرف نے ان کی ایک ہی دھمکی پر اپنا قبلہ تبدیل کرکے پاکستان کی مقدس سرزمین کو ایک مسلمان ملک کے خلاف فوج کشی کے لیے استعمال کرنے کے مواقع فراہم کردیے۔ پھر جنرل موصوف: امریکی حکمرانوں کے عزائم کی برآوری کے لیے خود اپنی قوم اور اس کے دوستوں کے خلاف صف آرا ہوکر معصوم انسانوں کے خون بہانے اور چند کوڑیوں کے لیے ان کو پکڑپکڑ کر وقت کے جلادوں کے حوالے کرنے میں مصروف ہوگئے (جنرل مشرف نے اپنے اس اقدام کا اعتراف اپنی خودنوشت میں بھی کیا ہے)۔اس طرح اپنے حلیفوں کو دشمن بناڈالا‘ اور جو علاقے ہمارے محفوظ قلعے کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان وفاشعاروں کو امریکی افواج کی مسلط کردہ جنگ کی آگ میں جھونک کر خود اپنے قومی مفادات تک سے عملاً دست برداری اختیار کرلی۔ اس ضمن میں تحریک آزادی کشمیر سے عملاً  دست برداری‘ ملک کی ایٹمی صلاحیت کی تحدید اور اپنے محسن سائنس دانوں کو مجرم بناکر نشانۂ ظلم و ستم بنانا بھی شامل ہے۔

اس پسپائی اور پالیسی کے باب میں اُلٹی زقند (u-turn) ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ ’روشن خیالی‘ اور ’انتہاپسندی‘ کی مخالفت کے نام پر اسلام کے مسلمہ اصولوں اور تعلیمات تک پر سمجھوتا‘ دینی تعلیمی نظام کی ناکہ بندی کرنے‘ اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے‘ ناچ گانے کے کلچر کی آبیاری کرنے اور سیکولر نظامِ زندگی اور معاشرت کے جبری فروغ کی باغیانہ راہ اختیار کی جارہی ہے۔ ملک کے اقتدار پر قابض گروہ کے اس شیطانی کھیل نے قوم کو نظریاتی طور پر شدید دبائو کا شکار کردیا ہے۔ ریاست کے وہ سارے وسائل جو ایک مقدس امانت کے طور پر ان کے سپرد تھے‘ حکمران طبقے کے ہاتھوں اپنے ذاتی مفادات کے حصول اور امریکی ایجنڈے کو قوم پر مسلط کرنے کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔ اس ناپاک کھیل میں پاکستان کے غیرمتنازع ادارے مسلح افواج کو ملوث کرکے قومی دفاع‘ عالمی تشخص اور ملکی وحدت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اس دفاعی ادارے کو گروہی سیاسی مہم جوئی کے لیے استعمال کرتے ہوئے‘ گذشتہ تین سال سے اپنی ہی قوم کو دبانے اور سیاسی مسائل کو قوت کے ذریعے حل کرنے کے خونیں کھیل میں اسے بے دریغ جھونک دیا گیا ہے۔ صوبہ بلوچستان اور پاکستان کے قبائلی و شمالی علاقہ جات میں پاکستانی فوج کے بے دردانہ استعمال کے بعد جولائی میں‘ اسلام آباد میں مسجد‘ مدرسہ اور ماں‘ بہن اور بیٹی تک کے تقدس و احترام کو نہ صرف پامال کیا گیا ہے‘ بلکہ انھیں گولیوں سے بھون کر قوم اور قوم کی اپنی ہی دفاعی قوت کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ عدالت اور صحافت دونوں کو راستے کی رکاوٹ تصور کرتے ہوئے انھیں مکمل طور پر اپنے قابو میں لانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جس نے پوری اجتماعی زندگی کو خطرات کی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ آج عالم یہ ہے ہرطرف خون ہی خون بہتا نظر آرہا ہے: اپنے ہی جگرگوشوں اور اپنی ہی بیٹیوں کی شہ رگوں کا خون۔ اسلام آباد کے نالوں میں معصوم بچوں اور بچیوں کی نعشوں کے ٹکڑے اور غلیظ پانی پر قرآن پاک کے بکھرے اور تیرتے ہوئے اوراق‘ استغفراللّٰہ۔

اگر صدربش نے افغانستان اور عراق کی سرزمین کو خون کی ندیوں سے سیراب کر دیا ہے تو انھی امریکی حکمرانوں کے ممدوح جنرل مشرف نے یہاں پاکستان میں خون کی ندیاں بہا دی ہیں۔ ایک سیاسی تجزیہ نگار اور مؤرخ ڈاکٹر صفدرمحمود نے بجاطور پر مشرف کے دور کی شناخت کو ’خون کی ارزانی‘ سے تعبیر کیا ہے۔ مہنگائی‘ غربت‘ انتخابات میں دھاندلی‘ پارلیمنٹ کی بے توقیری‘ آمرانہ اندازِ حکومت‘ سب کا ذکر کرنے کے بعد وہ بڑے درد و کرب کے ساتھ لکھتے ہیں کہ: ’’ان [جنرل مشرف] کے عہد کی صرف ایک ہی پہچان نمایاں طور پر اُبھرتی نظر آتی ہے‘ جو ان کے باقی کارناموں کو  دھندلا دے گی اور نہ صرف عوامی حافظے بلکہ تاریخ کے صفحات پر بھی باقی رہ جائے گی اور وہ    پہچان ہے ’خون‘۔ وزیرستان سے لے کر پشاور‘ اسلام آباد‘ لاہور‘ ملتان‘ کوئٹہ اور کراچی تک بہتا ہوا خون ...معصوم پاکستانیوں کا خون جو کبھی بھی اتنا ارزاں نہ تھا اور جو گذشتہ کئی برسوں سے بہہ رہا ہے: وانا‘ باجوڑ‘ کھپران‘ گلگت‘ فاٹا‘سرحدی علاقوں‘ پشاور‘ اسلام آباد خودکش حملوںسے لے کر لال مسجد تک اور پھر کوئٹہ اور کراچی میں بہنے والا خون۔ معصوم شہریوں اور طلبہ پر بم باری اور حملوں نے ملک میں نہ صرف انتقامی فضا پیدا کردی ہے اور پولیس اور فوج کو انتقام کا نشانہ بنا دیا ہے‘ بلکہ پاکستانی معاشرے میں لاقانونیت‘ عدم تحفظ اور خوف و ہراس بھی پیدا کردیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان پر ’ناکام ریاست‘ کا لیبل لگ رہا ہے۔ اس لیے میں محسوس کرتا ہوں کہ مستقبل میں موجودہ دور کی پہچان ’خون‘ ہوگی، اپنے ہی شہریوں کا خون!‘‘ (روزنامہ جنگ ‘۱۵جولائی ۲۰۰۷ء)

اس خون آشامی کا ایک اور بھی کرب ناک پہلو یہ ہے کہ معصوموں کا یہ خون وقت کی سب سے بڑی سامراجی قوت امریکا کی قیادت کو خوش کرنے کے لیے بہایا جا رہا ہے۔ جس کا اصل ہدف (target) مسلم دنیا کی قوت کو پارہ پارہ کرنا‘ اُمت مسلمہ کو آپس میں دست و گریباں کرکے پورے علاقے کو جغرافیائی طور پر محکوم بنانا‘ ان کے معدنی و قدرتی وسائل پر قبضہ جمانا اورپوری دنیا پر اپنی بالادستی قائم کرنا ہے۔

بلوچستان میں فوج کشی‘ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں خون کی ہولی‘ اسلام آباد میں مسجدوں کا انہدام اور آرمی کیمپ میں بلاکر چیف جسٹس سے بدسلوکی‘ ان کا حبس بے جا میں رکھنا‘ بدنیتی پر مبنی ریفرنس اور معطلی وغیرہ‘ ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اس ضمن میں ایک طرف جنرل مشرف اور ان کے چند ساتھی ہیں‘ جو اپنا کھیل کھیل رہے تھے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی تدبیر اپنا کام کر رہی تھی۔ 

لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر جس طرح فوج کشی کی گئی‘ جس بے دردی اورسفاکی سے اساتذہ‘ طلبہ اور طالبات کا قتلِ عام کیا گیا۔ پھر جس رعونت سے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کیا گیا‘ جس انداز سے مسجد اور مدرسے کو ’دہشت گردی کے قلعے‘ کی شکل دے کر ملک کے اندر اور ملک کے باہر پوری دنیا کے سامنے پیش کیا گیا‘ اور جس فریب کاری کے ساتھ دروغ گوئی اور دھوکادہی کا مظاہرہ کیا گیا‘ اور جس ڈھٹائی سے حقائق کو چھپایا گیا___ اس رویے نے مدرسے کی انتظامیہ یا طلبہ کی ابتدائی غلطیوں اور طفلانہ حرکتوں کو فی الحقیقت غیرمتعلق بناکر رکھ دیا ہے۔ یوں اپنے نتائج اور اثرات کی شکل میں اس خونیں واقعے کے اصل مقاصد‘ کردار اور اہداف کو بے نقاب کرکے ثابت کردیا ہے کہ اصل مقصد تو فردِواحد کی آمریت کے اصول کو منوانا‘ فوجی قوت کے سیاسی استعمال  اور عسکری دبدبے اور اس کے فیصلہ کن رول کی بالادستی قائم کرنا اور امریکا کی خوشنودی کے حصول کے لیے اپنے ہم وطن معصوم انسانوں کا خون بہاکر تمام اہلِ وطن کو دہشت زدہ کرنا تھا۔

اصل مسئلہ کیا ھے؟

مسئلہ ریاست کی رٹ (writ)کا نہیں تھا‘ بلکہ فوجی آمریت اور بش کی سامراجیت کا   بول بالا کرنا تھا___ یہی ایشو اب قوم کے سامنے ہے کہ اس ملک کے نظامِ حکومت کو کسی دستور‘ قانون‘ ضابطے‘ نظامِ اخلاق اور عوامی حکمرانی کی بنیاد پر چلنا ہے یا فردِواحد کے آمرانہ استبداد اور فوج کے سیاسی استعمال کے ذریعے قوم کو غلامی میں جکڑنا ہے؟___ مطلب یہ کہ اس ملک کی قسمت کا فیصلہ اس قوم کے منتخب اور اس کے سامنے جواب دہ نمایندوں کو دستور اور قانون کے مطابق کرنا ہے یا امریکی قیادت کی خوشنودی کے حصول اور ان کی دھمکیوں کے زیرسایہ قائم رہنے والی فوجی حکومت کو یہ حق حاصل رہنا ہے؟

اگر بصیرت کی نظر سے دیکھا جائے تو چیف جسٹس کی معطلی‘ نام نہاد ریفرنس اور ملازمینِ ریاست کے ناقابلِ اعتبار بیاناتِ حلفی کی بھرمار میں بھی اصل ایشو یہی ہے___ یعنی دستور اور قانون کی حکمرانی یا قابض حکمران کا یہ زعم باطل کہ وہ جس فرد یا ادارے کو اپنے عزائم کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ سمجھے‘ اسے دستور اور قانون کو بالاے طاق رکھ کر حقارت کے ساتھ اپنے راستے سے اٹھاکر پرے پھینک دے۔ ایشو یہی ایک ہے: آمریت یا جمہوریت‘ من مانے حکم یا دستور اور قانون کی حکمرانی‘ عوام اور پارلیمنٹ کی عمل داری اور اداروں کا استحکام یا فوجی قیادت کی حکومت اور خفیہ ایجنسیوںکی دھونس کے ذریعے حکمرانی کی روایت؟ سپریم کورٹ کے فیصلے کی اصل اہمیت یہی ہے کہ بات صرف چیف جسٹس کی بحالی کی نہیں‘ وہ تو بلاشبہہ ایک ضروری امر تھا‘ لیکن اصل مسئلہ دستور کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کا ہے اور جس میں اصل الاصول یہ ہے کہ کسی کو بھی ایسے  شاہانہ اختیارات حاصل نہیں ہیں کہ وہ وردی یا اقتدار کے رعب میں جس کے خلاف جو چاہے  اقدام کرڈالے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔

ہم سمجھتے ہیں کہ لال مسجد کے خونیں المیے اور معصوم انسانوں کے قتلِ عام اور عدالت عظمیٰ پر یورش اور اس کے سربراہ کے اداراتی قتل  میں ایک گہرا ربط ہے۔ ان دونوں اقدام کی پشت پر وہ بنیادی مسئلہ ہے جس کی جڑیں قوم کی آزادی اور شناخت کے تحفظ‘ دستور اور قانونی بالادستی اور جمہوری نظامِ حکمرانی میں پیوست ہیں۔ اسی لیے ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ لال مسجد اور سپریم کورٹ دونوں کے بارے میں ہونے والی کارروائی اور اس پر عوامی ردعمل اور بالآخر عدالتی فیصلے (verdict) نے آزادی‘ شناخت‘ دستور کی حکمرانی‘ جمہوریت اور فوج کے سیاسی کردار کے مسئلے کو قومی زندگی کا سب سے مرکزی مسئلہ بنا دیا ہے۔

اسی تسلسل میں ’کُل جماعتی جمہوری تحریک‘ (آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ) کے قیام نے یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ آیندہ چند مہینے اس جدوجہد کے لیے کتنے اہم اور فیصلہ کن ہیں۔ پاکستانی قوم آج ایک بار پھر اسی نوعیت کی جدوجہد کے ذریعے اپنی قسمت اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں مصروف ہے‘ جیسا اس نے تحریکِ پاکستان کے دوران کیا تھا۔ فرق   یہ ہے کہ اس وقت جدوجہد کا ہدف پاکستان کا قیام تھا‘ اور اب پاکستان کی بقا‘ اس کے استحکام  اوراس کی اصل منزل کی طرف پیش قدمی کا چیلنج درپیش ہے۔ تب مقابلہ بیرونی غاصب اور    استعماری حکمرانوں سے تھا اور اب ان اندرونی اور غاصب و جابر قوتوں سے ہے‘ جنھوں نے ملک کے اقتدار پر قبضہ کرکے عوام کو ایک تاریخی جدوجہد کے ذریعے حاصل کی جانے والی آزادی‘ خودمختاری اور حق حکمرانی سے محروم کردیا ہے۔ اسی المیے کے ادراک پر ہی مستقبل کی تعمیر کا انحصار ہے۔

گویا کہ آج ملّی اور قومی سطح پر جدوجہد کا اصل ہدف حقیقی اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی اور وفاقی نظام کا قیام ہے۔ یہی وجہ ہے فوج کا سیاسی کردار‘ اس تحریک کے ایجنڈے میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک فوج کو دستور کے تحت سول نظام کے ماتحت اپنے دفاعی کردار تک محدود نہ کردیا جائے۔

اس مسئلے ہی کی تفہیم کے لیے ہم لال مسجد کے خونیں المیے اور عدالت عالیہ کے تازہ فیصلے کے کچھ اہم پہلوؤں پر اہلِ وطن کو غوروفکر کی دعوت دینا چاہتے ہیں۔

سانحہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ

لال مسجد‘ اسلام آباد اور جامعہ حفصہ کا مسئلہ اب ایک مسجد اور ایک مدرسے کا مسئلہ نہیں رہا ہے اور نہ دوبھائیوں کے صحیح یا غلط اقدام ہی اس کا محور اور مرکز ہیں۔ یہ بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں پہنچی؟ اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جائے گا۔ ہم اس کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے‘ بلکہ اس مطالبے کی بھرپور تائید کرتے ہیں کہ اس پورے مسئلے اور سانحے کی آزاد‘ بااختیار اور  اعلیٰ ترین عدالتی سطح پر تحقیق ہونی چاہیے‘ اور یہ تحقیق کھلی عدالت کے اصول پر ہونی چاہیے۔ جہاں ہرشخص کو گواہی دینے کا موقع ملے تاکہ پورے حقائق قوم کے سامنے آجائیں اور دودھ کا دودھ   پانی کا پانی ہوجائے۔ یہی وقت کی ضرورت اور انصاف کا تقاضا ہے۔

جیساکہ ہم اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ ایک بڑے اور گمبھیر مسئلے کا سر عنوان معلوم ہوتا ہے۔ لال مسجد آج نہیں بنی اور جامعہ حفصہ ۲۰۰۷ء میں منصہ شہود پر نہیں آئی۔ البتہ جنوری ۲۰۰۷ء سے جو قضیہ شروع ہوا اور ۱۰‘ ۱۱ اور ۱۲جولائی ۲۰۰۷ء کو جس خونیں تباہی پر منتج ہوا‘ وہ جرنیل شاہی اور امریکی سامراج کے نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے وسیع کینوس کا ایک اہم حصہ اور اس جنگ کا ایک نہایت اہم پلاٹ اور ایک گہری سازش ہے۔ ایسی سازش کہ جس کا اصل ہدف اسلام‘  اُمت مسلمہ‘ مسلمانوں کا دینی تعلیمی نظام اور پاکستان کا اسلامی کردار ہے‘ جب کہ عالمی سطح پر امریکا اور مغربی تہذیب کی بالادستی کے خلاف مسلمانوں کی تحریک مزاحمت کو ختم کرنا ہے۔ نیتوں کا حال    اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور فیصلہ کرنے والی اصل قوت بھی صرف وہی ہے اور یہ بھی وہی پروردگار جانتا ہے کہ کون سادہ لوحی میں الجھ کر دشمن کے کھیل کا حصہ بنا ہے یا واقعی ایسا نہیں ہوا ہے۔ بہرحال‘ یہاں ہم ذاتیات اور ضمنی واقعات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے جن اصولی اور مرکزی امور کی وضاحت اور تفہیم ضروری سمجھتے ہیں‘ ان میں سے چند ایک کی طرف‘ قوم اور اس کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں:

  •  اسلام کے بارے میں مغرب کا مخصوص تصور: سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کا ایک خاص پیکر (امیج) پوری قوت‘ مہارت اور چابک دستی سے دنیا بھر میں اُبھارا اور پھیلایا جا رہا ہے۔ سردجنگ کے خاتمے اور اشتراکی سلطنت کے انہدام (دسمبر ۱۹۹۲ء) کے بعد‘ اسلام کے اس تصورِ جہاد اور مسلمانوں کی سرفروشانہ سرگرمیوں سے خائف ہوکر امریکا کی سیاسی اور فکری قیادت نے بڑی عیاری سے ایک نیا محاذ کھولا ہے۔ جس کے تحت خاص طور پر مغربی اقوام نے بڑی حد تک اسلام اور مسلمانوں کو‘ ان کی ساری بے سروسامانی اور معاشی اور عسکری کمزوریوں کے باوجود اپنا مدّمقابل اور بالفاظ صحیح تر مستقبل کا اصل حریف اور دشمن باور کرانا شروع کیا۔ یہ کام ۸۰ کے عشرے میں ہی شروع ہوگیا تھا‘ اور افغانستان سے اشتراکی روس کی پسپائی کے بعد پورے زوروشور سے اسے انجام دیا جا رہا ہے: علمی‘ سیاسی‘ معاشی‘ تہذیبی‘ عسکری غرض یہ کہ ہرمحاذ پر___ چونکہ مغربی تہذیب کی بنیاد مذہب اور سیاست کی تفریق پر ہے‘ اس لیے جس چیز کو مغرب کے غلبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اور مغربی سامراج کے لیے سب سے بڑا خطرہ تصور کیا جا رہا ہے‘ وہ اسلام کا یہی تصور ہے کہ: ’’دین اور سیاست میں ایک ناقابلِ انقطاع ربط اور گہرا تعلق ہے۔ ریاست اور قانون‘ دین‘ الہامی ہدایت اور اس کے ذریعے حاصل ہونے والی اقدار‘ اصول اور اہداف سے غیرمتعلق نہیں ہوسکتے۔ اخلاق اور اقتدار دوالگ دنیائوں سے متعلق نہیں بلکہ اقتدار اور سیاست کو بھی اخلاق کا اسی طرح پابند ہونا چاہیے‘ جس طرح دین اسلام‘ افراد کی ذاتی زندگی اور محرکات کی صورت گری کرتا ہے‘‘۔

مغربی اقوام اور مفکرین کے بقول: ’’دین اسلام کا یہی جامع تصور مغربی تہذیب کے لیے اصل خطرہ ہے کہ یہ فکرونظر اور تہذیب و تمدن کا ایک بالکل دوسرا مثالیہ (paradigm) پیش کرتا ہے‘‘۔ جو مذہب‘ مغرب کے تصورِ حیات و اقدار کی بالادستی قبول کرنے‘ اس کے زیرسایہ ویسی ہی زندگی گزارنے کے لیے تیار ہو کہ جس سے مغرب کے مفادات پر ضرب نہ پڑے، وہی فرد، معاشرہ اور نظام فکر ’روشن خیالی اور اعتدال پسندی‘ کا علَم بردار ہے۔ اس کے بالمقابل جس دین کا اپنا تصورِ حیات اور تہذیب و تمدن اور معاشرت‘ معیشت اور سیاست کا نظام ہو‘ وہ اس مغربی تہذیب کے لیے خطرہ ہے۔ مغربی جنگجو حکمرانوں اور متعصب پالیسی سازوں کے نزدیک اس خطرے سے نمٹنے کا طریقہ بس یہی رہ گیا ہے کہ اس تصورِ حیات کو ہوّا اور بھوت (demon) بناکر پیش کیا جائے۔ پھر اس کو نیست و نابود کرنے کے لیے ہرممکن حربہ استعمال کیا جائے۔ اسلام کے لیے ’ریڈیکل اسلام‘ (انقلابی اسلام)، ’اسلامک فنڈامنٹلزم‘ (بنیادپرست اسلام)، ’پولیٹیکل اسلام‘(سیاسی اسلام) اور پھر ’اسلامک ٹیررازم‘ (اسلامی دہشت گردی) اور بالآخر ’اسلامک فاشزم‘ (فسطائی اسلام) کی مضحکہ خیز‘خودساختہ اور توہین آمیز اصطلاحات کا استعمال اسی سلسلے کی سوچی سمجھی کارروائی ہے۔ مسلمانوں کی دینی تعلیم کو اسی لیے ہدف بنایا جا رہا ہے اور دینی مدارس اور مساجد کو بھی اسی حوالے سے نام نہاد دہشت گردی کے مراکز قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ ساری منظرکشی (image building) اس لیے ہے کہ نظریاتی‘ سیاسی اور جہاں ممکن ہو مسلمانوں کے خلاف عسکری کارروائیوں کے لیے جواز فراہم کیا جاسکے۔ اسے بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ نادانستگی میں‘ یا مفادات کی اسیری میں کچھ مسلمان بھی دشمنوں کے اس کھیل میں آلۂ کار بن جاتے ہیں‘ اور پھر ایسے جعلی دانش وروں کی بھی کمی نہیں ہے کہ جن کی تحریروں اور فدویانہ گفتگوؤں میں مغرب کے نکتہ سازوں (spin doctors) ہی کی صداے بازگشت سنائی دیتی ہے۔

  •  ناجائز تجاوزات کا واویلا: اس پس منظر میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے واقعات ایک غیرمعمولی اہمیت اور معنویت اختیار کرلیتے ہیں۔ لال مسجد‘ اسلام آباد کی پہلی جامع مسجد ہے جو اوقاف کے نظام کے تحت ۴۰‘۴۵سال سے دینی خدمات انجام دے رہی ہے۔ جامعہ حفصہ کی کارکردگی تقریباً دو عشروں پر محیط ہے۔ اس پورے عرصے میں لال مسجد کی زمین کے بارے میں کبھی کوئی تنازع پیدا نہ ہوا تھا۔ جامعہ حفصہ کے بھی صرف ایک حصے کو تجاوزات میں شمار کیا گیا۔ اس بارے میں گفت و شنید اور مذاکرات کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی کوششیں ہورہی تھیں۔ یہ کوئی نیا یا منفرد مسئلہ بھی نہیں ہے۔ اسلام آباد میں کسی گلی اورمحلے میں‘ کسی نہ کسی صورت میں کیا  اسی نوعیت کا بڑا یا چھوٹا تنازع موجود نہیں ہے؟ پھر بات صرف اسلام آباد تک محدود نہیں ہے۔   وطنِ عزیز کا کون سا گوشہ ایسا ہے جہاں ناجائز تعمیرات‘ کچی آبادیاں‘ غیرقانونی فوجی تنصیبات‘ سرکاری اور غیرسرکاری زمینوں پر تصرفات کے مسائل موجود نہیں ہیں!

روزنامہ ڈان کراچی (۲۲ جولائی ۲۰۰۷ء) میں اردشیر کاؤس جی کا مضمون‘ کراچی کے مرکزی تجارتی علاقے آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ڈھائی ایکڑ کے قطعہ زمین کے بارے میں بڑی چشم کشا معلومات پر مشتمل ہے۔ یہ پلاٹ سندھ حکومت نے ریلوے کے استعمال کے لیے دیا تھا‘ مگر فوج کے کوارٹر ماسٹر جنرل‘ لیفٹیننٹ جنرل افضل مظفر کے ایما پر‘ وزیراعلیٰ سندھ ارباب عبدالرحیم نے اپنے قانونی اختیارات سے تجاوز کرکے اور سرکاری طور پر قائم ۱۴ رکنی کمیٹی کی سفارشات کو نظرانداز کرتے ہوئے ‘۴۳ منزلہ دوہرے مینار کے ’کراچی فنانشل ٹاور‘ کو تعمیر کرنے کی اجازت  عطا فرمائی ہے۔ جس کا انتظام و انصرام ایک فوجی ادارے نیشنل لاجسٹک سیل (NLC) کے سپرد ہوگا اور سرمایہ کاری احسان ہولڈنگ دوبئی کے تعاون سے ہوگی۔ اس تعمیراتی منصوبے پر کراچی کے عوام اور انتظامیہ سراپا احتجاج ہیں‘ مگر فوجی قیادت اور اس کی شریک کار نام نہاد سیاسی انتظامیہ نے اس احتجاج کو پرکاہ کی حیثیت نہیں دی۔

دوسری خبر ۲۵ جولائی کے ڈیلی ٹائمز لاہور کی ہے ‘جس میں بتایا گیا ہے کہ صرف لاہور میں ۳۵اسکول کئی سال سے چیخ رہے ہیں کہ ان کی زمینوں پر لینڈمافیا قابض ہے ‘جن کے سامنے حکومت اور قانون بے بس ہیں___ صاف ظاہر ہے کہ جامعہ حفصہ کا مسئلہ محض چند گز زمین کا مسئلہ نہیں تھا‘ کہ جس کے لیے یہ چنگیزی ڈراما رچایا جاتا۔

دوسرا ایشو جامعہ حفصہ کے طلبہ و طالبات کی ان سرگرمیوں کو قرار دیا جاتا ہے‘ جو پچھلے چند ماہ میں رونما ہوئیں (واضح رہے کہ جامعہ کے قیام سے سے اس سال کے آغاز تک ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا تھا اور نہ اسلام آباد کے ۸۰ دوسرے مدارس میں اور پاکستان کے سرکاری اعلان کے مطابق ۱۷ ہزار سے زائد مدارس کے طلبہ نے کبھی کوئی ایسا اقدام کیا تھا)۔ اس جامعہ کے طلبہ اور طالبات کے چند ایسے اقدام جن کے بارے میں ملک کے تمام ہی دینی قائدین اور تعلیمی اداروں کے ذمہ داران اپنے ذہنی تحفظات کا اظہار کرتے رہے‘ انھیں جس طرح پاکستان ہی میں نہیں پوری دنیا میں اُبھارا (project) گیا‘ وہ بڑا معنی خیزہے۔

جس ملک میں جرائم روز افزوں ہوں‘ اغوا براے تاوان کے واقعات عام ہوں‘ پولیس اور انتظامیہ قانون نافذ کرنے میں ناکام ہو‘ افراد اور ادارے پرائیویٹ سیکورٹی کے حصول کے لیے اپنے آپ کو مجبور پاتے ہوں‘ جہاں ایم کیو ایم جیسی تنظیمیں بھتہ خوری اور قتل و غارت گری کا    بازار گرم کیے رکھیں اور کوئی ان سے پوچھنے والا نہ ہو‘ بلکہ مسلح افواج کا سربراہ ببانگ دہل ان کی  پشت پناہی کر رہا ہو___ وہاں چند طالبات کا دینی جوش و جذبے ہی میں سہی ایسے چند اقدام کرنا اتنا بڑا جرم کیسے بن گیا؟ وہ اقدام کہ جن کے نتیجے میں کسی جان کا ضیاع تو دُور کی بات ہے کسی کی نکسیر بھی نہ پھوٹی ہو اور نہ کوئی دست و گریباں ہی ہوا ہو‘ وہاں ایسی فوج کشی کی جائے کہ مسجد کا تقدس پامال ہو‘ مدرسے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے اور اسے بالآخر منہدم کر دیا جائے‘ سیکڑوں افراد شہید کردیے جائیں اور فوج کے کمانڈوز (ایس ایس جی) کا اس طرح استعمال کیا جائے کہ جیسے دشمن کے بہت بڑے قلعے کو فتح کیا جا رہا ہو۔ حکمران طبقے نے ساری دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی کہ جامعہ حفصہ میں بارودی سرنگیں ہیں‘ توپیں‘ میزائل اور خطرناک اسلحے کے انبار ہیں اور نہ معلوم کون سی تربیت یافتہ فوج ہے جو وہاں قلعہ بند ہے۔

چاروں طرف سے گھر جانے اور پانی‘ بجلی‘ سوئی گیس کی ناکہ بندی ہوجانے کے بعد  چند طلبہ آخری مرحلے میں بہرحال غیرقانونی ہتھیاروں سے اپنا دفاع کررہے تھے۔ اگر فی الحقیقت ان کے پاس وہی اسلحہ موجود تھا کہ جس کا شور ہر طرف بپا کیا گیا تھا‘ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان محصور‘ مجبور اور موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنے والوں نے اسے استعمال کیوں نہیں کیا؟پھر جس اسلحے کی بعد میں نمایش کی گئی‘ اس کے بارے میں ملکی اور غیرملکی صحافیوں سب نے لکھا کہ ان کا کوئی تعلق جامعہ کے طلبہ یا محافظوں سے ثابت نہیں کیا جاسکا۔ رہا چند دن کی مزاحمت کا مسئلہ تو روزانہ کشمیر میں دو دو اور تین تین مجاہد کئی کئی گھنٹے نہیں‘ کئی کئی دن صرف ایک دو کلاشنکوفوں کے ذریعے بھارت کی باقاعدہ فوج کے بڑے بڑے دستوں کو مصروف رکھتے ہیں۔

مسجد اور مدرسے کی انتظامیہ سے انتظامی اور اصولی سطح پر جو غلطیاں ہوئیں اور طلبہ و طالبات نے اچھے مقاصد کے لیے جو غیرمتوازن طریقے استعمال کیے‘ ان پر ناپسندیدگی اور گرفت کا اظہار دینی اور تعلیمی حلقوں نے بروقت کیا اور اصلاح احوال کی کوشش بھی کی (دیکھیے: جامعہ حفصہ کا سانحہ، مولانا زاہد الراشدی)۔ لیکن حکومت‘ اور مدرسے کی انتظامیہ دونوں ہی معاملات کو طول دیتے رہے۔

  •  خفیہ ایجنسیوں کا کردار: ان چھے مہینوں میں رونما ہونے والے واقعات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اور اس کی ایجنسیاں ایک خاص کھیل کھیل رہی تھیں۔ مسجد اور مدرسے کی انتظامیہ اس جال میں پھنسی ہوئی تھی لیکن اصل کھیل صرف اسلام آباد کے علاقے جی-۶ میں نہیں‘ کسی اور ہی محاذ پر کھیلا جا رہا تھا‘ اور وہ تھا دنیا کے سامنے پاکستان میں ’طالبانایزیشن‘ (Talibanization) کے نام پر اسلامی دہشت گردی اور اس کے لیے مسجد اور مدرسے کی مرکزیت کو ہدف بنانا۔ جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوں نے اور ان کے پہلو بہ پہلو سیکولرمیڈیا نے‘ حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کی سربراہ نے دسیوں تقاریر اور بیانات میں اسے ’اسلامی دہشت گردی‘ کی مثال کے طور پر پیش کیا۔ افہام و تفہیم کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی تمام کوششوں کو پہلے طول دے کر اور پھر جب وہ کامیاب ہوتی نظر آئیں تو انھیں سبوتاژ کرکے مسجد‘ مدرسہ اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کر کے اپنی ’آزاد خیالی‘ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کارکردگی کا تمغہ لینے کے لیے سیکڑوں اساتذہ‘ طلبہ اور طالبات کو شہید کردیا گیا۔ اپنی ہی فوج کے کمانڈروں کو اس خونیں کھیل میں استعمال کیا گیا‘ جس کے نتیجے میں فوج کے جوانوں کی قیمتی جانیں بھی اس المیے کی نذر ہوئیں۔ اس سازش میں جرنیلی ٹولے کے ساتھ نام نہاد آزاد خیال اور لبرل طبقے بھی برابر کے شریک تھے اور جس طرح صدربش‘ برطانوی وزیراعظم گورڈن برائون‘ یورپی یونین کے نمایندے‘ آسٹریلیا کے وزیراعظم‘ بے نظیر بھٹو‘ ایم کیو ایم کے الطاف حسین یا ترکی کے فوجی صدر اور مغربی میڈیا نے جنرل پرویز مشرف کو شاباش دی ہے‘ وہ پورے کھیل سے پردہ اٹھانے کے لیے کافی ہے۔

اس آپریشن کی تمام تر بنیاد جھوٹ‘ مبالغے اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مسجد‘ مدرسے اور اس کے طلبہ کے بارے میں ایسی تصویرکشی پر مبنی ہے جو بش کے عراق پر حملے سے    پہلے عراق کے ایٹمی ہتھیاروں کے واویلے کی یاد دلاتی ہے۔ جس طرح وہ فضا بنائی گئی تھی‘ بالکل     وہی طریقہ اسلام آباد اور پاکستان کے دینی اداروں کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ جو  اصل حقائق تھے‘ ان کو جاننے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور اگر کسی نے ان کی طرف توجہ بھی دلائی تو اسے نظرانداز کردیا گیا۔ ہم مسجد اور مدرسے کی انتظامیہ کے اقدامات کی تائید نہ کرنے کے باوجود  یہ سمجھتے ہیں کہ جرنیلی آمریت‘ لبرل فسطائی قوتوں اور عالمی میڈیا نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کو  اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

  •  عدل پسند لبرل نقطۂ نظر: ہم تصویر کے اس رخ کو سامنے لانے کے لیے جسے حکومت‘ لبرل اہلِ قلم اور مغربی میڈیا نے کُلی طور پر نظرانداز کیا ہے‘ ایک لبرل دانش ور ڈاکٹر مسعودہ بانو کے مضمون سے اقتباس دیتے ہیں جو پاکستان کے ایک لبرل اخبار دی نیوز (مئی ۲۰۰۷ء) میں شائع ہوا تھا۔ڈاکٹر مسعودہ بانو اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں پوسٹ ڈاکٹریٹ تحقیق کر رہی ہیں اور دینی تعلیمی ادارے ان کے مطالعے کا خصوصی موضوع ہیں:

اپنے تحقیقی تجربے کے پورے دورانیے میں‘ مجھے کبھی ایسا معاملہ درپیش نہیں آیا کہ انسان نے جو کچھ میدان میں دیکھا ہو وہ عام عوامی تاثر میں یک سر مختلف ہو۔ جامعہ حفصہ کی  طالبات اور لال مسجد کے قائدین و طلبہ کے اقدامات‘ ذرائع ابلاغ میں شدید تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں کہ وہ ملک میں اپنی تعبیر اسلام نافذ کرنے کی کوشش کرکے دوسرے لوگوں کی آزادیوں پر دست اندازی کے مُرتکب ہورہے ہیں۔ تاہم‘ انھی لبرل حلقوں سے نسبت رکھنے کے باوجود‘ میرا تجربہ اور مشاہدہ مختلف ہے۔ عبدالرشید غازی کے مجھے دیے گئے متعدد انٹرویو اور جامعہ حفصہ کے کئی بار دورے کا تجربہ اس خوف ناک تصور کو سہارا دینے میں مددگار ثابت نہیں ہوا۔ دوسروں کے ردعمل دیکھ کر‘ میں باربار حیران ہوتی ہوں کہ ایسا ردعمل کیوں ہے؟ میں جب اس مدرسے کی حدود میں داخل ہوئی تو مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ کسی لڑکیوں کے کالج کا ہوسٹل ہے۔ لڑکیاں اسلام کی انتہائی کٹر اور سخت گیر تعبیر کرتی ہیں‘ لیکن جو کچھ وہ کہتی ہیں اُس میں شعور موجود ہوتا ہے۔ گفتگو اور بحث و مباحثے کے دوران وہ: قبائلی علاقوں میں حکومت کے غیرقانونی اقدامات یا فوجی آپریشنوں‘ لاپتا لوگوں کے معاملات‘ الیکٹرانک میڈیا کو بہت زیادہ چھوٹ دینے اور ریاستی نظام کے عمومی انتشار کے احوال (جہاں حکومتی اداروں سے کوئی بھی عام شہری کام نہیں کراسکتا‘ جب تک اُس کے [بڑے لوگوں سے] تعلقات نہ ہوں) جیسے موضوعات پر بڑے اعتماد کے ساتھ اور جم کر بات کرتی ہیں۔ وہ سیاہ برقعوں میں نہیں‘ بلکہ اپنے گرد لپیٹے ہوئے دوپٹوں میں ہنستی اور ایک دوسرے سے خوش گوار گفتگو کرتی ہیں۔ وہ آپ میں دل چسپی لیتی ہیں اور یوں لگتا ہے کہ وہ عام کالج کی لڑکیوں جیسی ہی لڑکیاں ہیں‘ تاہم قدامت پرست ذہنی رجحان کے ساتھ۔

بہرحال اپنے ٹی وی انٹرویو کے دوران وہ جس معاملے کو پیش پیش رکھتی ہیں‘ کیا یہی اُن کا اصل رُوپ ہے؟میرے خیال میں‘ اس تاثر کا بہت زیادہ تعلق اُن کے لباس سے ہے۔ مدرسے میں کئی بار جانے کے دوران میں‘ مَیں نے ایک تقریب میں بھی شرکت کی۔ یہ نعت گوئی یا مذہبی موضوع پر تقریری مقابلہ تھا۔ مدرسے کے کھچاکھچ بھرے صحن میں ۳ ہزار لڑکیاں تو ضرور موجود ہوں گی اور کچھ لڑکیوں کی مائیں بھی وہاں موجود تھیں۔ اس پروگرام میں حکومت کے خلاف انتہائی ظریفانہ خاکے (skits) پیش کیے گئے۔ مدرسے کی طالبات پرویز مشرف یا اعجازالحق یا دیگر وزرا اور ذرائع ابلاغ کے نمایندوں کا روپ دھارے ہوئی تھیں۔ ان خاکوں میں حکومت کی کارکردگی پر بڑے لطیف پیرایے میں تنقید کی گئی تھی۔ اس تقریب کا منظرنامہ‘ ان پروگراموں کی یاد دلا رہا تھا جو پاکستان کے عمومی کالجوں میں ہوتا ہے۔

اسی طرح ڈھائی مہینے پاکستان کے چپے چپے پر پھیلے مدرسوں میں انٹرویو کرنے کے بعد جب مجھے عبدالرشید غازی سے انٹرویو کا موقع ملا تو وہ یقینی طور پر نفرت پھیلانے والے بنیاد پرست نظر نہیں آئے۔ اُن تک پہنچنا آسان ہے۔ وہ آپ کو وقت دیتے ہیں اور جدید دنیا کی حقیقتوں سے بھی خوب آگاہ ہیں۔ ہاں‘ یہ بات درست ہے کہ مدرسے میں ایک بندوق بردار [گن مین] بھی موجود ہے‘ لیکن ایک ایسے ملک میں کہ جہاں علما کا قتل ایک معمول ہو‘ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اُنھوں نے اپنے اردگرد سیکورٹی کے مزید انتظامات کیوں نہیںکیے ہیں‘ خصوصاً ایک ایسے وقت میں کہ جب وہ سرفہرست نشانے پر ہیں۔ مجھے ان ملاقاتوں اور رابطوں کے بعد جس چیز نے پریشان کیا‘     وہ یہ تھی کہ ذاتی طور پر دورہ کرنے کے بعد جامعہ حفصہ سے جو تصور بنتا ہے وہ کسی    تشدد پسند (militant) ادارے سے یک سر مختلف ہے۔ مجھے کئی لوگوں نے بتایا کہ  اس مدرسے میں داخل ہونے کے لیے تمھیں دل گُردے کی ضرورت ہوگی۔ لیکن       اس مدرسے کا پُرامن ماحول دیکھ کر مجھے لوگوں کے اس تبصرے پر حیرت ہوئی۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ غازی برادران نے اپنے بارے میں انتہائی پُرتشدد ہونے کا تاثر کیوں پیدا کیا؟کیونکہ جب آپ اُن سے ملنے کے لیے جاتے ہیں‘ تو اُس سے بالکل مختلف تصور پیدا ہوتا ہے۔ اس بات کو دو طریقوں سے سمجھا جاسکتاہے: اوّل‘ اگر یہ حقیقتاً خفیہ ایجنسی کا آپریشن تھا تب تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے‘ کیونکہ خفیہ ایجنسیاں یہی چاہتی ہیں کہ وہ انتہاپسند اور تشددپسند کا تصور اُبھاریں اور اُنھوں نے ان بھائیوں سے کہا ہوگا کہ وہ انتہاپسندانہ رویہ اختیار کیے رکھیں۔ دوم: اگر یہ ایجنسی کا آپریشن نہیں تھا اور مدرسے کے ساتھ کئی بار رابطہ رکھنے کے بعد میرے خیال میں یہی معاملہ تھا (اگرچہ کوئی بھی فرد یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا)‘ تب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھائیوں نے اس قدر انتہاپسند موقف کیوں اختیار کیا؟ کیا وہ حقیقت پسندانہ طور پر سمجھتے تھے کہ واقعی وہ حکومت پر کنٹرول حاصل کرکے شریعت نافذ کرسکتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ اُنھوں نے اس قدر انتہائی اقدامات اس لیے اٹھائے تاکہ اپنا وجود برقرار رکھ سکیں‘ نہ کہ حقیقی طور پر شریعت نافذ کرنے کے لیے۔ اس معاشرے میں میرے ساتھی جو لبرل طبقات سے تعلق رکھتے ہیں‘ وہ کسی تحقیق کے بارے میںاسے معقول دلیل قرار دیں گے کہ آپ اپنے مطالعے کے ہدف کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اُسے سمجھنے کی کوشش کریں۔

میں جامعہ حفصہ کی طرف ایک اور انداز سے دیکھتی ہوں۔ میں نے ملک بھر کے ۷۰سے زائد مدارس کے دوروں اور مصاحبوں (انٹرویوز) کے بعد جامعہ حفصہ کا دورہ کیا۔ میرے خیال میں ان تمام ہی مدرسوں میں حکومت کی امریکا نواز پالیسیوں‘ قبائلی پٹی میں حملوں‘ لاپتا لوگوں کے مسئلے‘ مدرسوں اور اسلام کو تحقیری لہجے میں پیش کرنے اور ذرائع ابلاغ کو بے حدوحساب چھوٹ دینے کے بارے میں تشویش کااظہار کیا گیا۔ اُن کی راے میں یہ ملک اسلام کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔

جب آپ دیکھتے ہیں کہ معاشرے کی اتنی بڑی تعداد چند اُمور پر تشویش کا اظہار کرتی ہے‘ تب سمجھ لینا چاہیے کہ یہ چند افراد کا خلجان نہیں ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم اور معاشرے کے چند دیگر طبقات کی طرف سے جامعہ حفصہ کو دبانے کے لیے قوت کے استعمال کے مطالبے غیرحقیقت پسندانہ ہیں۔ قدامت پرست اقدار رکھنے والے یہ لوگ بھی تو بہرحال آپ کے معاشرے کا حصہ ہیں اور اُن کی تعداد بہت بڑی ہے۔ پُرتشدد اسلام پسندی کے ایسے مظاہر کو روکنے کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ حکومت ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی پالیسیوں کی اندھی پشتی بان نہ بنے‘ کیونکہ ان کی وجہ سے علما کو یہ قوت مل جاتی ہے کہ وہ بڑی تعداد میں اپنے پیروکاروں کو حرکت میں لے آئیں۔(The Puzzle of Jamia Hafsa ،دی نیوز انٹرنیشنل، ۴مئی ۲۰۰۷ء)

ہم نے ڈاکٹر مسعودہ بانو کے مضمون سے طویل اقتباس اس لیے دیا ہے کہ ایک غیر جانب دار  لبرل دانش ور خاتون بھی ان حقائق کی طرف متوجہ کر رہی ہے جنھیں یک سر نظرانداز کر کے سیاسی طالع آزما اور لبرل دانش ور آنکھیں بند کرکے استعماری قوتوں اور فوجی آمروں کی ہاں میں ہاںملانا اپنی معراج سمجھ رہے ہیں۔

جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے خونیں انجام کے دو روز بعد ڈاکٹر مسعودہ بانو کا تبصرہ بھی اس لائق ہے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ وہ دی نیوز میں لکھتی ہیں:

واہ! نام نہاد لبرل جیت گئے۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر بے رحمی سے حملہ کیا گیا‘ [عبدالرشید] غازی‘ ان کی والدہ اور ان کے سیکڑوں شاگرد [طلبہ و طالبات] مارے گئے۔ حکومت نے دارالحکومت کے عین قلب میں انتہائی سفاکانہ قتلِ عام کیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہی لبرل جو امن کی بات کرتے ہیں اور عراق پر جارحیت اور جنگ پر احتجاج کا علَم بلند کرتے ہیں‘ نہ صرف یہ کہ انھوں نے اس [فوجی آپریشن] کی حمایت کی حتیٰ کہ حکومت کو اس پر مبارک باد بھی دے رہے ہیں۔ لیکن کم از کم وہ لوگ جو اس حوالے سے خامہ فرسائی کرتے رہتے ہیں‘ ان کو اس قسم کے مطلق دعوؤں سے اجتناب کرنا چاہیے کہ اکثریت اس سے خوش ہے (یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جو ایک اخبار نے کیا)۔مجھے بطور محقق اس دوران غازی اور مدرسے کے اندر موجود لوگوں کے متعلق [بہت کچھ] جاننے کا موقع ملا‘ اور میں ایک ایسی عورت کی حیثیت سے کہ جو برداشت پر یقین رکھتی ہے اور جو انسانی جان کا احترام کرتی ہے‘ یہ کہنا چاہتی ہوں کہ میں اس تمام آرمی ایکشن کو ایک جرم کی طرح دیکھتی ہوں‘اور میں ایسے بہت سے لوگوں کو جانتی ہوں جو اسی طرح دیکھتے ہیں۔ اس وقت پاکستان ایک بٹے ہوئے گھر کی طرح ہے۔محض اغوا اور حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے جیسے جرائم کی بنا پر کس نے حکومت کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے ہی عوام کا یوں قتلِ عام کرے؟ انھوں نے‘ غازی برادران اور ان کے شاگردوں نے‘ نہ کسی کو قتل کیا اور نہ جسمانی طور پر نقصان پہنچایا‘ تو پھر کس طرح ان کی سزا اس قدر شدید ہوسکتی ہے۔  یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس تمام خوں ریزی سے بآسانی بچا جاسکتا تھا‘ اگر جنرل مشرف کا ایک ایسے وقت میں مغرب کو اپنی وفاداری کا ثبوت فراہم کرنے جیسا مخصوص مقصد  نہ ہوتا‘ جب کہ وہ انتہائی کمزور ہوچکے ہیں اور انھیں مغرب کی حمایت کی شدید ضرورت ہے۔ دوسری صورت میں‘ قتلِ عام کے بغیر مسئلے کو حل کرنے کے لیے بہت سے ایسے اقدامات ممکن تھے جو اٹھائے جاسکتے تھے۔ بجلی‘ پانی اور گیس کاٹ دینے سے کم از کم لڑکیوں کو جلد یا بدیر باہر آنے پر مجبور کیا جاسکتا تھا۔ اسی طرح اگر مذاکرات کے لیے مزید کچھ دن دے دیے جاتے تو یقینا پاکستان کے وجود کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہوسکتا تھا۔ (What a Victory!‘دی نیوز‘ ۱۳جولائی ۲۰۰۷ء)

وہ اپنے فکرانگیز تبصرے کے اختتام پر لکھتی ہیں:

لال مسجد کے باب کو ختم کرنے سے پہلے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کس چیز نے [عبدالرشید] غازی کو (جس نے پوسٹ گریجویٹ ڈگری لے رکھی تھی) اور اُن کے طالب علموں کو (جن کی اکثریت متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی اور جو میٹرک یا ایف اے کے بعد وہاں آئے تھے) اس مزاحمت پر مجبور کیا۔ ذرائع ابلاغ میں اُن کے حوالے سے ہونے والی بحث کا ارتکاز اُن کی جانب سے عوامی اخلاقیات سنوارنے کی مہم پر تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ انتہائی بنیادی انسانی حقوق کے مطالبات کی بنا پر حرکت پذیر ہوئے تھے۔ وہ قبائلی علاقوں میں ان ملٹری آپریشنوں کے خاتمے کے لیے دلائل دے رہے تھے‘ جو عام شہریوں کی ہلاکت کا باعث بن رہے تھے۔ وہ ملک میں مقدمہ چلائے بغیر لوگوں کو امریکا کے حوالے کرنے کی مخالفت کر رہے تھے۔ ہم میں سے جن لوگوں نے مدرسے میں جانے اور اُن سے اور اُن کے طلبہ سے بات چیت کرنے کی زحمت کی‘ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ بہ تکرار قانون کی بالادستی کی بات کرتے تھے۔ اپنے اہداف کو کامیاب بنانے کے لیے اُنھوں نے جو راستہ اختیار کیا‘ بلاشبہہ وہ درست راستہ نہ تھا‘ لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ کس چیز نے اُنھیں اور اُن کے پیروکاروں کو اس جدوجہد پر آمادہ کیا‘ کیونکہ حتمی طور پر اخلاقی خیالات و نظریات کی مُدلل قوت ہی لوگوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی زندگی نچھاور کردیں۔ کوئی بھی شخص‘ حتیٰ کہ انتہائی غریب شخص بھی کسی معمولی بات کے لیے اپنی جان نہیں دے سکتا۔ (دی نیوز‘ ۱۳ جولائی ۲۰۰۷ء)

سانحے کے بعد کے تقاضے

ہم سمجھتے ہیں کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا مسئلہ کوئی منفرد واقعہ نہیں‘ بلکہ امریکا اور   جنرل مشرف کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تحت دہشت گردی کے نام پر جرنیلی آمریت کو مستحکم کرنے اور عالمی سامراج کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا مذموم کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اسی لیے جہاں ہم ایک طرف اس پورے کھیل کا پردہ چاک کرنے کو اوّلیت دیتے ہیں اور اسے وسیع تر تناظر میں دیکھتے ہیں‘ وہیں ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سانحے کی تحقیق کے لیے اعلیٰ ترین سطح پر عدالتی کمیشن قائم کیا جائے‘ جو سارے پہلوؤں کاجائزہ لے اورخصوصیت سے ان سوالوں کا جواب دے کہ:

                ۱-  لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی انتظامیہ اور طلبہ و طالبات پر جو الزامات لگائے جارہے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے‘ اور حالات کو اس مقام تک لانے میں کون کون سی قوتیں کس درجے میں شریک تھیں___ ہر ایک کا کردار اور رول بالکل کھل کر سامنے آئے۔

                ۲-  جنوری ۲۰۰۷ء سے پہلے کوئی مسئلہ کیوں پیدا نہیں ہوا ‘اور وہ کیا خاص حالات اور اسباب ہیں جن کی وجہ سے جنوری سے جولائی تک مختلف واقعات رونما ہوئے؟

                ۳-   انتظامیہ اور طلبہ و طالبات کی اصل شکایات کیا تھیں اور ان کو رفع کرنے کے لیے کیا کیا گیا؟

                ۴- انتظامیہ اور طلبہ و طالبات سے کیا غلطیاں سرزد ہوئیں اور حالات کی اصلاح اور افہام و تفہیم کے ذریعے معاملات کو طے کرنے کی کیا کوششیں ہوئیں‘ کیا معاہدے ہوئے‘ کس نے ان معاہدوں کو سبوتاژ کیا اور مصالحت کا عمل کیوں کامیاب نہ ہوا؟

                ۵-  اس پورے معاملے میں حقیقی تشدد کا کتنا حصہ ہے اور کون اس کا ذمہ دار ہے؟

                ۶- کیا حکومت کے پاس کوئی مذاکراتی حکمت عملی اور اختیار تھا؟ اور کیا عالمی تجربات کی روشنی میں قوت کے استعمال کے بغیر مسئلے کا حل ممکن نہیں تھا؟ اگر ایسا تھا تو کیا ضروری حد تک قوت کا استعمال ہوا یا قوت کا بے رحمانہ‘ بے محابا اور سفاکانہ استعمال کیا گیا؟

                ۷- یہ سوال بھی اہم ہے کہ قوت کے استعمال کے لیے جس دستوری اور قانونی جواز کی ضرورت ہے‘ وہ پورا کیا گیا؟ اسلام آباد میں سول اتھارٹی کون ہے؟ پولیس کے ذریعے مسئلے کو کیوں حل نہیں کیا گیا؟ پولیس اور رینجرز کو کئی مہینے اسلام آباد کس اتھارٹی کے تحت لایا گیا‘ اور  ان کو کیوں واپس کیا گیا؟ آخری فوجی آپریشن کا فیصلہ کس نے کیا اور کس دستوری اختیار کے تحت کیا گیا؟ اس میں سول انتظامیہ‘ کابینہ‘ چیف آف آرمی اسٹاف ہرایک کا کیا کردار ہے؟

                ۸- سپریم کورٹ کے بنچ نے مفاہمت کے ذریعے مسئلے کے حل کے لیے ہدایات جاری کی تھیں‘ ان کا کیا بنا؟ عدالت کا کیا رول رہا اور انتظامیہ نے عدالت کے احکام کے الفاظ اور اسپرٹ کی کہاں تک پیروی کی؟

                ۹- مسجد اور مدرسے میں موجود افراد اور اسلحے وغیرہ کے بارے میں حکومت کے دعوے کیا تھے اور حقیقت کیا نکلی؟ فوجی آپریشن کے لیے جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ کہاں تک ضروری تھا؟ جانی اور مالی نقصان کی صحیح پوزیشن کیا ہے؟ فی الحقیقت کتنے اساتذہ‘  طلبہ و طالبات اور دوسرا عملہ مسجد و مدرسے میں تھا؟ کُل اموات کتنی ہوئیں؟ قرائن و شواہد بتاتے ہیں کہ طالبات‘ طلبہ اور اساتذہ کو اس سے کہیں زیادہ تعداد میں قتل کیا گیا کہ جتنی تعداد حکومتی ترجمان بتاتے ہیں۔ اس قتلِ عام کی باقاعدہ اعلیٰ سطحی تحقیقات ہونی چاہییں۔

                ۱۰- فوج نے جو ہتھیار استعمال کیے‘ وہ کون کون سے تھے؟ مدرسے کے طلبہ کی طرف سے  کون سے ہتھیار استعمال ہوئے؟ انٹرنیٹ پر موجود مضامین اور روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والی تصاویر میں ’سفید فاسفورس‘ کے سفاکانہ استعمال کے شواہد کی کیا حقیقت ہے؟۱؎ کیمیکل اسلحے کے استعمال کا کس نے حکم دیا تھا؟ عمارت کے اندر آگ لگنے‘ لاشوں کے جھلسنے اور اس کے اسباب کا تعین ضروری ہے‘ نیز کس قسم کی گیسوں کا استعمال اس آپریشن میں کیا گیا اور ان کے کیا اثرات رونما ہوئے؟

                ۱۱-         جس اسلحے کی نمایش کی گئی ہے‘ اس کی حقیقت کیا ہے؟

                ۱۲-         مسجد میں طلبہ اور طالبات کو یرغمال بنائے جانے کے دعوے کی کیا حقیقت ہے؟ محاصرے کے دوران علما‘ صلح کاروں اور میڈیا کے نمایندوں کو مسجد اور مدرسے میں جانے سے


۱-  یاد رہے کہ حکومت کے فوجی اور سول ترجمان اس امر سے مسلسل انکار کرتے رہے‘ تاہم ۲۶ جولائی کو وفاقی وزیر مذہبی امور اعجازالحق نے اعتراف کیا: ’’لال مسجد آپریشن میں فاسفورس بم استعمال کیے گئے تھے‘‘۔ (روزنامہ نوائے وقت‘ لاہور‘ ۲۷ جولائی ۲۰۰۷ء)

                                                کس نے روکا؟ آپریشن کے بعد بھی دو دن مسجد اور مدرسے میں میڈیا کو داخل ہونے سے کیوں روکا گیا؟ اس زمانے میں اندر کیا کچھ ہوا؟ چار سو کفن منگوانے کے بعد صرف ۹۲لاشوں کی تدفین کا معما کیا ہے؟ بی بی سی کے نمایندے کو گورکن نے بتایا کہ ایک ایک قبر میں دو دو لاشیں ہیں۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟

                ۱۳-  مسجد کی بے حُرمتی‘ قرآن پاک اور دینی کتب کی بربادی اور مسجد میں جوتوں سمیت جانا اور فوجی ترجمان کا یہ فتویٰ نشر کرنا کہ آپریشن کے دوران اس جگہ کی حیثیت مسجد کی نہیں رہی ہے‘ کہاں تک صحیح ہے؟ قرآن پاک کے جلائے جانے اور قرآن کے اوراق کی بے حُرمتی کے بارے میں سپریم کورٹ کے بنچ نے بھی سوال اٹھائے ہیں۔ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے اور اس سلسلے میں سارے حقائق قوم کے سامنے آنے چاہییں۔

یہ اور متعدد دوسرے سوالات ایسے ہیں جن کے مبنی برحق جواب قوم کے سامنے آنا ضروری ہیں‘ اور پھر ان جوابات کی روشنی میں جس نے جس حد تک دستور‘ قانون اور اصولِ انصاف سے انحراف کیا ہے‘ اس کی ذمہ داری کا تعین اور قرارواقعی سزا کا اہتمام۔

ہم پوری ذمہ داری سے یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے۔ جو کچھ ہوا ہے وہ ہماری تاریخ کے الم ناک ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح برطانوی استعمار کے ایک کارندے جنرل ڈائرنے ۱۹۱۹ء میں امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں کئی سو ہندستانیوں کو گولیوں سے بھون کر رکھ دیا تھا‘ پاکستان کی تاریخ میں ایک سیکولر اور نام نہاد روشن خیال جرنیل نے صدربش اور مغرب کے سامراجی حکمرانوں کی  خوش نودی اور انھیں اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر یورش اور  خون کی ہولی کھیل کر ویسا ہی بدترین اقدام کیا ہے۔ تاریخ تو اس ظلم برپا کرنے والوں کو معاف نہیں کرے گی، لیکن ملّت اسلامیہ پاکستان کا بھی فرض ہے کہ وہ اس کشت و خون کے ذمہ داروں کا احتساب کرے‘ اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ احتساب بھی دستور اور قانون کے مطابق ہو___ ایک سفاکیت کا جواب دوسری لاقانونیت سے نہ دیا جائے___ لاقانونیت اور دہشت گردی کو روکنے  کا اصل ذریعہ سب کے لیے قانون کی حکمرانی اور کھلے انداز میں احتساب اور انصاف کا قیام ہے۔ یہی راستہ معقول بھی ہے اور خیر اور صلاح بھی صرف اسی کے ذریعے رونما ہوسکتی ہے۔

عدلیہ کی بالادستی کے لیے سنگ میل

سپریم کورٹ کے ۱۳ رکنی بنچ کے ۲۰جولائی ۲۰۰۷ء کے فیصلے نے قوم کو یہ اُمید دلائی ہے کہ اعلیٰ عدالت نظریۂ ضرورت کے شیطانی چکر سے نکلنے کی طرف بڑھ رہی ہے اور عوام کو یہ اعتماد حاصل ہو رہا ہے کہ اس ملک کے کمزور اور مظلوم انسانوں کے لیے بھی انصاف کا حصول ممکن ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے ملک اپنی حقیقی منزل کی طرف گامزن ہوسکے گا۔

۲۰ جولائی ۲۰۰۷ء کا فیصلہ گہرے غوروخوض کا متقاضی ہے مگر اس کا حق اسی وقت ادا ہوسکے گا جب عدالت اپنا تفصیلی فیصلہ دے گی۔ البتہ مختصر فیصلے نے جو تاریخی خدمت انجام دی ہے‘ اس کا ادراک ضروری ہے۔ ہماری نگاہ میں درج ذیل پہلو غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں:

                ۱-  عدالت نے کوئی مبہم یا نیمے دروں نیمے بروں راستہ اختیار نہیں کیا‘ بلکہ دوٹوک الفاظ میں ایک واضح فیصلہ دیا ہے‘ جس نے قوم کو اُمید کی نئی کرن دکھائی ہے۔ اس پر عدالت پوری قوم کی طرف سے ہدیۂ تبریک کی مستحق ہے۔ ظلمتوں کی ماری اس قوم کے لیے یہ فیصلہ روشنی کا پیغام اور مستقبل پر بھروسے کی نوید کی حیثیت رکھتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔

                ۲-  پاکستان کی تاریخ میں‘ عدالت نے پہلی مرتبہ فوجی حکمرانی ہی کے دور میں ایک فوجی حکمران کے فیصلے کے خلاف دستور اور قانون کے مطابق فیصلہ دیا ہے‘ اور اس طرح طاقت پر قانون کی بالادستی کے اصول کو قائم کیا ہے۔ سیکولرزم اور نام نہاد جدیدیت کے علَم بردار جسٹس محمدمنیر نے تمیزالدین خان کیس سے ’نظریۂ ضرورت‘ کے بل پر دستور اور انصاف کی خلاف ورزی کا جو دروازہ کھولا تھا اور جس کے نتیجے میں آمریت کا عفریت دندناتا ہوا قومی زندگی میں داخل ہوا‘ اس نے جمہوریت کو پنپنے ہی نہ دیا۔ بلاشبہہ جسٹس حمودالرحمن نے جنرل آغا یحییٰ خان کو غاصب (usurper) قرار دیا تھا لیکن یہ فیصلہ جنرل یحییٰ کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد آیا تھا‘ اور یہی وجہ ہے کہ یہ بعد کے طالع آزمائوں کا راستہ نہ روک سکا۔ حالیہ فیصلہ اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اگر قوم اس کی پشت پر مضبوطی سے قائم رہتی ہے توآیندہ یہ جمہوریت کے لیے فتح و کامرانی کے دروازے کھول دے گا‘ اور ان شاء اللہ فوجی آمریت قصۂ پارینہ بن جائے گی۔

                ۳-  اس فیصلے کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس میں دستور اور قانون کی بالادستی کے اصول کو بنیاد بنایا گیا ہے اور صدر (چیف آف اسٹاف) کا وہ اقدام صریحاً غیرقانونی تھا‘ جس کے تحت اس نے وردی کا سہارا لے کر چیف جسٹس کو بلاجواز‘ دستور کے واضح تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے غیرفعال کیا تھا یا جبری رخصت پر بھیجا تھا۔ اس فیصلے کو کالعدم قرار دینے سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ چیف جسٹس اس پورے زمانے میں دستوری اور قانونی طور پر چیف جسٹس تھے‘ قائم مقام چیف جسٹس کا تقرر غیرقانونی تھا ۔

                ۴- اس فیصلے میں تین کے مقابلے میں ۱۰ کی اکثریت نے یہ بھی فیصلہ دیا ہے کہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دستور کے مطابق نہیں اور اس طرح اسے بھی حرفِ غلط کی طرح منسوخ کردیا گیا اور چیف جسٹس کسی داغ کے بغیر اپنے مقام پر بحال ہوگئے۔

                ۵- ضمناً اس فیصلے نے اس بات کو بھی واضح کردیا کہ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں اور کوئی بھی احتساب سے بالا نہیں‘ بشمول چیف جسٹس لیکن احتساب‘ قانون اور دستور کے مطابق ہی ہوسکتا ہے۔ من مانے اور اندھادھند (arbitrary) انداز میں نہیں۔

                ۶- اس فیصلے میں خود عدلیہ کا بھی احتساب موجود ہے‘ خصوصیت سے جس طرح سپریم جوڈیشل کونسل نے کچھ ایسے اختیارات اپنے لیے حاصل کرنے کی کوشش کی‘ یا ایسے انداز میں اپنے کام کا آغاز کیا جو دستور اور اصول انصاف کے مطابق نہیں۔ ان تمام چیزوں پر بھی فیصلے میں گرفت کی گئی ہے اور غلط اقدام کو غیرمؤثر کردیا گیا ہے۔

ان تمام اعتبارات سے یہ فیصلہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے لائق ہے اور عدلیہ کی آزادی اور اس کے اعتبار (credibility)کی بحالی کی راہ پر ایک عظیم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ یہ صرف پہلا قدم ہے‘ ہراعتبار سے اہم اور تاریخی قدم___  لیکن پھر بھی صرف پہلا قدم۔ ابھی ماضی کے ملبے کو صاف کرنے اور دستوریت اور قانون کی حکمرانی کی منزل کو پانے کے لیے عدالت‘ انتظامیہ اور خود قوم کو بہت کچھ کرنا ہوگا۔ جہاں یہ فیصلہ خالص دستور اور قانون کے مطابق ہے اور کسی سیاسی مصلحت کا سایہ اس پر نہیں‘ وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسا صاف ستھرا اور   مبنی برعدل فیصلہ ممکن ہی اس لیے ہوا کہ قوم نے‘ اور خصوصیت سے وکلا برادری نے بے لاگ انداز اور بالکل دوٹوک طریقے سے عدالت کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ قوم انصاف اور اصول کی بالادستی چاہتی ہے نہ کہ مصلحت پر مبنی کوئی فیصلہ۔ جس عدالت کو یہ یقین ہو کہ قوم انصاف چاہتی ہے اور انصاف کے لیے قربانی دینے کا عزم رکھتی ہے‘ وہ پھر پوری مضبوطی سے دستور اور انصاف کی علَم بردار بن سکتی ہے اور لاقانونیت اور قوت کے پجاریوں کو چیلنج کرسکتی ہے۔ اس بار الحمدللہ یہی  ہوا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اس انداز میں ہوا۔ اب عدالت اور قوم دونوں پر ذمہ داری ہے کہ اس راستے پر استقامت اور حکمت کے ساتھ آگے بڑھے۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ عدالت کو کسی ایسی آزمایش میں نہ ڈالا جائے جس میں اس کے قدم ڈگمگانے کا خطرہ ہو۔ سیاسی فیصلے سیاست کے میدان میں ہوں اور قانون اور دستور کی تعمیر اور تنفیذ کے معاملات عدالت میں طے ہوں۔      یہ توازن ضروری ہے اور اس نزاکت کو سامنے رکھ کر ہی ہم ملک میں جمہوریت کی آگے کی منزلیں سر کرسکتے ہیں۔

تاریخ ساز فیصلے کے دو اھم تقاضے

البتہ دو باتوں کی طرف توجہ دلانا ہم ضروری سمجھتے ہیں: پہلی یہ کہ اس فیصلے کے کچھ اخلاقی اور ایک حد تک خود قانونی تقاضے ہیں جن کو پورا کیا جانا چاہیے اور ان کا تعلق صدر‘ وزیراعظم‘ وزیرقانون اور ان اداروں کے سربراہوں سے ہے جن کا چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس سے بلاواسطہ تعلق تھا۔ انھیں اپنی ذمہ داری کا اعتراف کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس اور قوم سے معافی مانگنی چاہیے اور اپنے عہدے سے استعفا دے دینا چاہیے تاکہ اس فیصلے کے منطقی تقاضے پورے ہوں۔ واضح رہے کہ وزیراعظم شوکت عزیز نے فیصلے سے پہلے یہ بات کہی تھی کہ اگر فیصلہ حکومت کے خلاف ہوتا ہے تو وزیراعظم کو مستعفی ہوجانا چاہیے۔ معاملہ صرف وزیراعظم کا نہیں‘ ان کے ساتھ جنرل مشرف کا استعفا بھی ضروری ہے۔

ریفرنس کے اصل ذمہ دار جنرل مشرف ہیں‘ جنھوں نے فوجی وردی میں چیف جسٹس کو ریفرنس کا نشانہ بنایا‘ استعفے کا مطالبہ کیا‘ کئی گھنٹوں تک حبسِ بے جا میں رکھا‘ تین مہینے تک پریس اور میڈیا میں ریفرنس کے حق میں دلائل دیتے رہے‘ مزید حقائق بیان کرنے کی دھمکیاں دیں‘ اور  طرح طرح کے الزامات لگانے سے بھی گریز نہ کیا۔ ۱۲مئی کے کراچی کے قتلِ عام اور اسلام آباد کے بھنگڑے کے جشن کو عوامی تائید‘ اپنی فتح اور چیف جسٹس کی شکست کا عنوان دیا‘ اور یہاں تک ارشاد فرمایا کہ اگر جھوٹ سچ پر غالب رہا تو وہ روئیں گے___  رونا تو بلاشبہہ ان کے مقدر میں   اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا تھا مگر بات رونے پر ختم نہیں ہوسکتی۔ سب سے زیادہ اس ریفرنس کے اور اس ریفرنس کے سلسلے میں جو کچھ کیا گیا‘ اس کے ذمہ دار جنرل مشرف ہیں اور ان کا استعفا پہلا تقاضا ہے۔ ان کے ساتھ وزیراعظم‘ وزیرقانون‘ سیکرٹری قانون اور ان تمام افراد کا استعفا اور احتساب ضروری ہے جنھوں نے جنرل مشرف اور وزیراعظم کے موقف کی تائید میں بیان حلفی دائر کیے۔

دوسرا بنیادی مسئلہ جو اس ریفرنس اور مختلف حلفی بیانات سے سامنے آیا ہے وہ کاروبار حکومت میں ایجنسیوں کے کردار سے متعلق ہے‘ جو اپنے اصل فرائض منصبی سے ہٹ کر جاسوسی اور     خلافِ قانون سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ جن کا منہ بولتا ثبوت ان کے اپنے بیانات اور وہ معلومات اور ان معلومات کے ذرائع ہیں جن سے یہ بیانات بھرے ہوئے ہیں۔ حکومت پاکستان اور اس کے اداروں کی بڑی ہی کریہہ تصویر ہے جو ان بیانات میں قوم کے سامنے آئی ہے۔ اگر ان اداروں کا احتساب نہیں ہوتا اور ان سرگرمیوں کو لگام نہیں دی جاتی تو ہم کبھی بھی قانون اور ضابطے پر مبنی ایک ملک اور مہذب معاشرہ نہیں بن سکتے۔ جن حضرات نے قانون کی خلاف ورزی یا محض اثرورسوخ کی بناپر قانون اور ضابطے کے خلاف کام کا اعتراف کیا ہے‘ انھیں اس کی قرارواقعی سزا ملنی چاہیے‘ اور جنھوں نے برسرِاقتدار افراد کی تائید میں غلط بیانی اور فسانہ سازی سے کام لیا ہے‘ انھیں ان کی قیمت ادا کرنا چاہیے۔ ان بااثر مجرموں کو ایسے ہی چھوڑ دینے کے معنی یہ ہیں کہ ملک میں قانون کی حکمرانی محض ایک سراب ہوگی۔ یہ اقبالی مجرم ہیں اور ان کو اس کی ایسی سزا ملنی چاہیے جس میں دوسروں   کے لیے عبرت کا سامان ہو اور ملک کے نظامِ حکمرانی سے ان خرابیوں کاہمیشہ کے لیے ازالہ ہوسکے۔

۲۰جولائی کے فیصلے کے یہ دو کم سے کم تقاضے ہیں جو فوری طور پر پورے ہونے چاہییں۔

اُمید کا پیغام

آخر میں ہم اس پورے معاملے میں کُل جماعتی تحریک جمہوریت کے رول کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ امر باعث افسوس ہے کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں اس میںشریک نہیں ہوئیں اور ایک بڑی جماعت جس نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے تھے وہ اس میثاق کے عہدوپیمان کے   علی الرغم فوجی حکومت سے معاملات طے کرنے میں مصروف رہی اور اس فیصلہ کن مرحلے پر بھی پیچھے رہ گئی۔ اس امر پر تاَسف کے اظہار کے ساتھ ہم اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں جو باقی تمام جماعتوں نے اس نئے محاذ کے قیام کی شکل میں اختیار کیا ہے‘ اور اسے ۲۰جولائی ۲۰۰۷ء کے فیصلے کی طرح جمہوریت کے قیام اور دستور اور قانون کی حکمرانی کی جدوجہد کا ایک سنگ میل قرار دیتے ہیں۔

قرارداد مقاصد سے لے کر ۱۹۷۳ء کے دستور تک جن چار باتوں پر قوم کاکامل اتفاق (consensus ) ہے‘ وہ یہ ہیں:

                ۱-   پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اس کے وجود اور بقا کا انحصار اسلام کے احکام‘ اقدار اور اصولوں کے مطابق مبنی برعدل نظام کا قیام ہے۔ اقتدار ایک امانت ہے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وفاداری کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔

                ۲-  پاکستان کا نظامِ حکومت جمہوری ہوگا جس میں عوام کے حقوق کی حفاظت‘ پارلیمنٹ کی بالادستی‘ عدلیہ کی آزادی‘ صاف شفاف انتخابات‘ اور عوام کی مرضی کے مطابق اور ان کے سامنے جواب دہی کے اصول پر حکومت کا قیام اور تبدیلی واقع ہوگی۔

                ۳-  پاکستان ایک فلاحی ریاست ہے جس میں تمام شہریوں کو بلاتفریق نسل‘ زبان اور مذہب زندگی کی ضروری سہولتیں حاصل ہونی چاہییں اور ترقی کے مساوی مواقع میسر ہوں تاکہ مہذب زندگی گزار سکیں۔

                ۴-  پاکستان کا سیاسی نظام وفاق کی بنیاد پر قائم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تمام صوبوں کو اپنے وسائل پر تصرف کا اختیار ہو اور دستور کے دائرے میں تمام صوبوں کو مکمل خوداختیاری حاصل ہو۔ پاکستان کی مضبوطی اور خوش حالی کا انحصار تمام صوبوں کی مضبوطی اور خوش حالی پر ہے۔

ان اصولوں کا واضح تقاضا یہ ہے کہ ہر ادارہ اپنے اپنے دائرے میں دیانت داری سے کام کرے اور دوسرے اداروں میں دخل اندازی سے احتراز کرے۔ فوج کی اصل ذمہ داری دفاعِ وطن اور سول حکومت کے تحت خدمات انجام دینا ہے۔ سیاست میں فوج کی مداخلت دستور کی خلاف ورزی‘ سیاسی نظام کی بربادی کا ذریعہ اور خود فوج کی دفاعی صلاحیت اور قوم کی نگاہ میں غیرمتنازع حیثیت کو مجروح کرنے کا باعث ہوتی ہے۔ اس لیے فوج کو سیاست میں ملوث کرنا فوج اور ملک دونوں کے مفاد کے خلاف ہے۔

عوام کی مرضی کی حکومت اسی وقت قائم ہوسکتی ہے جب سب کو انتخاب میں شرکت کے مساوی مواقع حاصل ہوں اور انتخاب کا نظام ہرقسم کی دراندازی اور جانب داری سے پاک ہو۔ اس کے لیے راے دہندگان کی فہرستوں کا درست ہونا‘ الیکشن کمیشن کی مکمل آزادی اور غیر جانب داری اور پورے انتخابی عمل کا صاف اور شفاف ہونا ضروری ہے۔ صحافت کی آزادی بھی اس کے لیے ایک ضروری عمل ہے تاکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا صحیح حقائق سے قوم کو آگاہ کرسکے۔ انتخابی عمل کو ہربدعنوانی سے پاک ہونا چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب انتخابات ایک غیر جانب دار حکومت کی نگرانی میں منعقد ہوں۔

کُل پاکستان جمہوری تحریک کا قیام انھی مقاصد کے حصول کے لیے ہے۔ ہرجماعت کا  اپنا منشور اور پروگرام ہے‘ لیکن ان مشترکہ نکات پر سب کا اتفاق ہے اور سب مل کر ان کے حصول کے لیے سیاسی جدوجہد کا عہد کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کی معطلی کے خلاف وکلا اور عوام کی تحریک نے جمہوریت کی بحالی کے لیے عوامی تائید اور تحرک کی اہمیت کو ایک بار پھر واضح کردیا ہے۔ کُل جماعتی جمہوری تحریک‘ اپوزیشن کی جماعتوں کے اس عزم کا مظہر ہے کہ مشترک مقاصد کے حصول کے لیے وہ فیصلہ کن عوامی تحریک کا راستہ اختیار کر رہے ہیں اور یہ جدوجہد دستور کی مکمل بحالی اور جمہوریت کے قیام اور اسلامی نظام کے نفاذ پر منتج ہوگی‘ ان شاء اللہ!


(کتابچہ دستیاب ہے، منشورات، منصورہ، لاہور)

پاکستان کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ بار بار کی فوجی مداخلت سے ملک میں سیاسی عمل کو پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ یہاں براہِ راست سول اور ملٹری انتظامیہ حکمران رہی یا ان کی پسند کے لوگوں کو محدود وقت کے لیے محدود دائرے میں حکومت کرنے کا موقع دیا گیا۔ حقیقی جمہوریت، دستور اور قانون کی بالادستی‘ عدلیہ کی آزادی کے فقدان اور سیاست میں فوجی مداخلت کی وجہ سے ملک دولخت ہوگیا اور باقی ماندہ ملک بھی مسلسل بحرانوں کا شکار ہے۔

امریکا میں ۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کے واقعے کے بعد مسلمانوں کو بالعموم اور افغانستان و پاکستان کو بالخصوص ہدف بنا لیا گیا۔ امریکی سرکردگی میں نام نہاد دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز ہوا تو پرویز مشرف نے اس جنگ میں صف اول کا اتحادی بننے کا اعلان کردیا۔ اس طرح امریکی جنگ کو پرویز مشرف کی حکومت پاکستان کے اندر لے آئی‘ جس کے نتیجے میں ہمارا ملک ایک بڑے بحران سے دوچار ہوگیا۔ یہ بحران آئے دن پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا جا رہا ہے۔سیکڑوں لوگوں کو پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر امریکی دباؤ پر عقوبت خانوں میں رکھا گیاہے۔ اپنے جگر گوشوں اور بزرگوں اور سرپرستوں سے محروم ورثا مسلسل احتجاج کے باوجود ان کی خیریت سے لاعلم ہیں اور اعلیٰ عدالتوںکی مداخلت اور حکم کے باوجود حکمران مفقود الخبرسیکڑوں شہریوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے سے انکاری ہیں۔ جو لوگ پاکستان کے اندر ان عقوبت خانوں سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں، وہ اپنے گزرے ایام کی رونگٹے کھڑے کردینے والی داستانیں سناتے ہیں۔

باجوڑ اور وزیرستان میں براہ راست امریکی میزائل حملوں اور بمباری کے نتیجے میں سیکڑوں معصوم لوگ جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، شہید ہوچکے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ امریکا کی کاسہ لیسی میں اس جرنیلی قیادت نے امریکی جرائم کو بھی اپنے کھاتے میں ڈال لیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج نے اپنے بازوے شمشیر زن قبائلی علاقے کو اپنا مدمقابل بنا لیا ہے۔ جن مجاہدین نے افغانستان میں روسی اورکشمیر میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف تحریک مزاحمت کی مدد کی ہے، ان پر عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے اور ان سربکف مجاہدین کو دہشت گردی کا ملزم گردانا جا رہا ہے۔ پرویز مشرف کی امریکا نوازپالیسی کی وجہ سے پاکستان نہ صرف داخلی انتشار سے دوچار ہے بلکہ اس کی سرحدیں بھی غیر محفوظ ہو گئی ہیں ، خاص طور پر مغربی سرحد جس سے پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم نے افواج پاکستان کو واپس بلا لیا تھااور جہاں سے پرویز مشرف کی حکومت سے قبل ہمیں کوئی خطرہ نہیں تھا، آج انتہائی غیر محفوظ ہو گئی ہے۔

ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت متحدہ مجلس عمل سمیت تمام دینی اور مذہبی گروہوں کو پرویز مشرف انتہاپسندی کا طعنہ دے رہے ہیں اورعوامی جلسوں میںکھلم کھلا ان کے مقابلے میں نام نہاد اعتدال پسندوں کے لیے ووٹ مانگ رہے ہیں، حالانکہ اس طرح کی سیاسی مداخلت کی اجازت دستور پاکستان نہ آرمی چیف کو دیتا ہے اور نہ صدرِ پاکستان ہی اس کا مجاز ہے۔دستورِ پاکستان اور قانون کو بالاے طاق رکھ کر پرویز مشرف مسلسل اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ اہم فیصلے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں سے باہر کور کمانڈروں کی میٹنگوں اور نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں فردِ واحد اپنی مرضی سے کر لیتا ہے۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیاں محض نمایشی کاموں کے لیے رکھی گئی ہیں۔ اس سب کے باوجود پرویزمشرف اس خوف میں مبتلا ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ انھوں نے کئی عوامی جلسوں میں اس کااظہار کیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ سازش کرنے والے کون ہیں۔

چیف جسٹس کی معطلی کیوں؟

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کراچی اسٹیل مل کے کیس میں حکومت کی مرضی کے خلاف آزادانہ فیصلہ صادر کیاتھا۔ اسی طرح انھوں نے مفقود الخبرافراد (missing persons) کے بعض لواحقین کی درخواستوں پر ہمدردانہ رویہ اختیار کیا، کئی اور معاملات میں بھی انھوں نے آزاد انہ فیصلے کیے جس کی وجہ سے پرویز مشرف نے طے کیا کہ ان کی جگہ کسی ایسے شخص کو لایا جائے جس کے بارے میں انھیں اس حوالے سے مکمل اطمینان ہوکہ وہ ان کے لیے کوئی مسئلہ کھڑا نہیں کرے گا۔ ان کے لیے یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ نومبر میں ان کی صدارت کی میعاد ختم ہورہی ہے۔ وردی میں صدر رہنے کا نام نہاد قانون بھی اس کے ساتھ ختم ہو جائے گا۔ چیف آف آرمی سٹاف کے صدر بننے کے لیے دستور کی جن دفعات کومعطل کیا گیا تھا‘وہ بھی نومبر میں بحال ہوجائیں گی۔ موجودہ الیکٹورل کالج سے صدر منتخب ہونے کی خواہش کو پورا کرنے میں بعض آئینی دفعات حائل ہیں جن کی تعبیر کا مسئلہ بھی سپریم کورٹ میں اٹھایا جا سکتا ہے۔

 سپریم کورٹ اور اعلیٰ عدالتوں کو زیر کرنے کے لیے اپنی مرضی کا چیف جسٹس ضروری ہے، اس لیے انھوں نے چیف آف آرمی سٹاف کی وردی پہن کر چیف جسٹس آف پاکستان کو آرمی ہاؤس میں رام کرنے کی کوشش کی اور خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں کی موجودگی میںان سے استعفے کا مطالبہ کیا۔ افتخار محمد چودھری کے مستعفی ہونے سے انکار نے پرویز مشرف کے لیے ایک نیا عدالتی بحران پیدا کیا اور ملک و قوم کے لیے عدالتوں کی آزادی کی تحریک کا ایک راستہ کھل گیا۔ وکلا برادری نے آگے بڑھ کرچیف جسٹس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے فوری طور پر چند بڑے سیاسی اور دینی رہنماؤں سے مشورے کے بعداسلام آباد میں ۱۲ مارچ کو ایک قومی مجلس مشاورت منعقد کی۔ اس میں ایم ایم اے، اے آرڈی اور پونم کے علاوہ تحریک انصاف اور اے این پی کے رہنماؤںنے بھی شرکت کی۔ اس اجلاس میں وکلا ، سول سوسائٹی اور مفقود الخبر افراد کے ورثا کی نمایندگی بھی تھی۔ ۹مارچ کے بعدچیف جسٹس کو اپنے گھر میں محبوس کردیا گیا تھا اور ان سے ملاقات پر پابندی تھی لیکن حکومت پابندی کا انکار کر رہی تھی۔حکومت کے اس جھوٹ کی قلعی کھولنے کے لیے ہم لوگوں نے اپنے اجلاس کے فوراً بعد چیف جسٹس کے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ ہمیں زبردستی وہاں جانے سے روکا گیا اور اس طرح عدلیہ کی آزادی کی تحریک عملی طور پر شروع ہو گئی۔ عدلیہ کی آزادی کی اس تحریک میں خود وکلا کی خواہش پر سیاسی جماعتوں نے بھرپور حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔

عدلیہ کی آزادی

عدل و انصاف انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔ جہاں عدل و انصاف ہوگا وہاں سارے مسائل خود بخود حل ہوتے رہیں گے اور تمام ادارے اپنی اپنی جگہ پر درست کام کرتے رہیں گے۔جہاں عدل و انصاف کا ادارہ ٹوٹے گا وہاں ہر ادارہ انتشار اور افراتفری کا شکار ہو جائے گا۔ اللہ رب العالمین نے تمام رسولوں اور کتابوں کے بھیجنے کا مقصد یہی بیان کیا ہے کہ تمام لوگوں کو انصاف پر کھڑا کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید۵۷:۲۵)ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔

اللہ تعالیٰ نے اللہ کے لیے کھڑے ہونے اور انصاف کی علَم برداری‘ اللہ کے لیے گواہ بننے اور انصاف کے لیے گواہ بننے کو برابر قرار دیا ہے۔فرمایا:

یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَج (النساء۴:۱۳۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔

اسی لیے عدلیہ کی آزادی کی تحریک میںمتحدہ مجلس عمل اور جماعت اسلامی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا فیصلہ کیا کہ عدلیہ کی آزادی کے ساتھ تمام اداروں کی آزادی اور عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے مسائل وابستہ ہیں، اور پھر عدل و انصاف کے قیام کے لیے کھڑے ہونا ایک دینی فریضہ بھی ہے۔

عدلیہ کی بالادستی کی تحریک

فوج جب سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی ہے تو وہ دستور اور دستور میں شامل اپنے  اس حلف کی خلاف ورزی کرتی ہے جس کے تحت وہ دستور کی پابندی اور سیاست میں مداخلت نہ کرنے کی مکلف ہے۔نام نہاد اور بدنام زمانہ نظریۂ ضرورت کے تحت سپریم کورٹ نے ہمیشہ فوج کی اس مداخلت کے لیے جواز فراہم کیا ہے حالانکہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان نہ صرف دستور کی پابندی بلکہ اس کی ’حفاظت‘ کا حلف لے کر جج بنتے ہیں‘ اور عدلیہ کا فرض منصبی ہی یہ ہے کہ وہ دستور کی حفاظت اور دستور کے مطابق سب کو انصاف فراہم کرے۔ جب اعلیٰ عدالتوں کے جج اپنے حلف سے منحرف ہو کرپی سی او کا حلف اٹھا کر دستور کے بجاے فوجی سربراہ کے وفادار بن جاتے ہیں تو ملک کے ادارے تباہ اور ملک کا پورا نظام تلپٹ ہو جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان اسی حالت سے دوچار ہے اور سپریم کورٹ جن مسائل پر غور کررہی ہے اس سے ملک کا مستقبل وابستہ ہے۔اسے بجا طور پر ’فیصلہ کن مرحلہ‘ قرار دیا گیا ہے۔ اگر سپریم کورٹ مصلحتوں کا شکار ہونے کے بجاے آزادانہ فیصلہ کرتی ہے تو ہماری قومی زندگی سے تذلیل کے وہ سارے داغ دھل جائیں گے جو جسٹس منیر کے وقت سے بار بار کی فوجی مداخلت کو نظریۂ ضرورت کے تحت جواز عطاکرنے کی وجہ سے لگے ہوئے ہیں۔ ایک اچھے فیصلے سے ہمیں نئی زندگی مل جائے گی۔

عدلیہ کی آزادی کے ساتھ دستور کی بالا دستی، قومی حاکمیت، بنیادی انسانی حقوق، پارلیمنٹ کی بالادستی، صوبائی خود مختاری اور عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے سے سارے اعلیٰ مقاصد حاصل اور سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اگر اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان دستور کے مطابق قرآن و سنت کی پابندی کرنے کے عہد کو پورا کریں گے تو اسلامی نظام زندگی اور اسلامی قوانین کے احیا کی قومی آرزو بھی آزاد عدلیہ اور صاحب ضمیر جج صاحبان کے ذریعے سے پوری ہو سکتی ہے۔ تاہم عدلیہ کی آزادی کا مقصد اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان  اعلیٰ و ارفع کردار کا مظاہرہ کریں گے اور اس ضابطۂ اخلاق کی مکمل پاس داری کریں گے جسے ان  اعلیٰ مناصب کے حامل افراد کے لیے شریعت، قانون، اخلاق اور صحت مند روایات نے معتبر قرار دیا ہے۔ ملک بھر کے عوام جس طرح وکلا کے شانہ بشانہ چیف جسٹس کی حمایت میں کھڑے ہوگئے ہیں، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام فوجی ڈکٹیٹر شپ کے مقابلے میں آزاد عدلیہ اور دستور کی پابندی کے حامی ہیں اور امریکی دباؤ اور ذاتی خواہشات کے تحت بنیادی انسانی حقوق کو پاکستان میں جس طرح پامال کیا جا رہا ہے، اس سے نفرت کرتے ہیں۔

حکومت کی بدحواسی ، ایم کیو ایم کی غنڈا گردی

آزاد عدلیہ کے حق میں عوامی حمایت کے مظاہرے سے گھبرا کرحکومت بدحواسی میں غلطی پر غلطی کر رہی ہے۔ چیف جسٹس کے راولپنڈی سے لاہور تک پرجوش عوامی استقبال کے بعد کراچی میں حکومت نے چیف جسٹس کے استقبال کو ناکام بنانے کا فیصلہ کیا۔ پرویز مشرف نے اس سلسلے میں ایم کیو ایم کا سہارا لیا اور اسے (free hand)‘ یعنی کھلی آزادی دے دی گئی کہ وہ کراچی میں اپنی تنظیمی قوت اور گروہی تائید و حمایت کے ذریعے طاقت کا متوازی مظاہرہ کرکے چیف جسٹس کی کراچی آمدکو روک دے۔ لیکن پرویز مشرف کو شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ کراچی میں ایم کیو ایم کی طاقت کا اصل منبع عوامی پذیرائی نہیںبلکہ گولی اور دہشت گردی کی قوت ہے۔

ایم کیو ایم کراچی میں اپنی قوت کا لوہا منوانے کے شوق میںاپنی پوری قوت سے میدان میں اتری۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور خفیہ اداروں کی مکمل سرپرستی اسے حاصل تھی۔ رینجرز اور پولیس نے ’اُوپر والوں‘ کی ہدایت پر خاموش تماشائی کا کردار اختیار کرکے اسے کھل کھیلنے کا ہرموقع فراہم کیا۔ الیکٹرانک میڈیا کو دہشت زدہ کرکے اسے اپنے حق میں کرنے کی پوری منصوبہ بندی  کی گئی۔ائیرپورٹ تک جانے والے سارے راستے مکمل طور پر سیل کردیے گئے اور ان راستوں پر ایم کیوایم کے مسلح تربیت یافتہ دہشت گرد کارکنوں نے مورچے سنبھال لیے۔اس کے ساتھ وہ راستے کھلے رکھے گئے جہاں سے ایم کیوایم کے جلوسوں نے گذر کر اپنی جلسہ گاہ میں پہنچنا تھا۔ دہشت کی فضا اتنی خوف ناک تھی کہ عوام کی بڑی تعداد اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئی اور ایم کیو ایم کی  عوامی قوت کا مظاہرہ بھی فلاپ ہو گیا۔ سیاسی جماعتوں کے پرجوش کارکن قربانی کے جذبے کے ساتھ مختلف مقامات پر جمع ہوئے تو ایم کیو ایم کے مسلح دہشت گردوں نے انھیں روکنے کے لیے خون کی ہولی کھیلی۔ الیکٹرانک میڈیا کو دباؤ میںرکھا گیا لیکن اس کے باوجود کراچی کے ساتھ جو خونی کھیل کھیلا جا رہا تھا وہ چھپائے نہیں چھپ سکتا تھا۔’’آج‘‘ چینل کے دفتر کے اوپر جو کیمرے لگے ہوئے تھے، ان کے ذریعے پوری دنیا مسلح غنڈا گردی اور فوج، رینجرز اور پولیس کی بے حسی کا تماشااپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ غنڈا گردی اور تشدد کی سیاست تو پہلے دن سے ایم کیو ایم کا شعار رہی ہے لیکن ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء کو پہلی دفعہ ایم کیو ایم کی غنڈا گردی برہنہ ہو کر قوم اور پوری دنیا کے سامنے آگئی۔

ادھر اسلام آباد میںجنرل پرویز مشرف کی قیادت میں ’ق‘ لیگ عوامی طاقت کے مظاہرے کا جشن منا رہی تھی۔ میلے کا سماں تھا، سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے بے دریغ خرچ کر کے لائے ہوئے کرائے کے لوگوں کو پورے ملک سے جمع کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن وہ ایک جگہ بیٹھ کرتقریر سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ کچھ لوگ تو کراچی کے قتل عام سے باخبر تھے اور حاضری لگوا کر واپس جا رہے تھے اور کچھ لوگ اسلام آباد کی سیر کے لیے مختلف مقامات میں بکھرے ہوئے تھے۔ جلسہ گاہ سے بڑھ کر حاضری فیصل مسجد کے اطراف میں نظر آرہی تھی۔پرویز مشرف نے اسلام آباد میں اپنی تقریر میں بڑھک ماری کہ کراچی میں’عوامی طاقت‘ سے ہم نے چیف جسٹس کے دورے کو ناکام بنا دیا۔ انھیں شاید اندازہ نہیں تھا کہ کراچی میں ایم کیوایم کی عوامی طاقت کا جنازہ نکل چکا تھا۔ پوری قوم کے سامنے وہ ایک فاشسٹ اور دہشت گرد تنظیم کے طور پر برہنہ ہو چکی تھی اور ایم کیوایم کی کھلی سرپرستی کے مظاہرے سے خود پرویزمشرف بھی دہشت گرد تنظیم کے سرپرست کے طور پر عریاں ہو چکے تھے۔تقریباً ۵۰شہدا اور سیکڑوں زخمیوں اور ایم کیوایم کے ظالمانہ رویے سے پوری قوم سوگوار تھی۔چنانچہ ۱۳ مئی کو یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا گیالیکن ہم نے عوام کے صدمے اور غم و جذبات کے اظہار کے لیے قومی رہنماؤں کے مشورے سے ۱۴ مئی کو پورے ملک میں عام ہڑتال کی اپیل کی،جس کا قوم نے مثبت جواب دیا اور ۱۴ مئی کو پورے ملک کے بازار اور سڑکیں سنسان ہو گئیں۔

ایم کیو ایم ۱۲ مئی کے واقعات کے بعد منہ چھپاتی پھر رہی ہے اور اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہر ہ کرنے میں بھی ناکام ثابت ہوچکی ہے ۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے مغربی دنیا میں اپنے تعارف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانیہ کے ایوانوں میں الطاف حسین کا اصل چہرہ دکھانے کی کوشش کی ہے اور اگر وہ الطاف حسین کو برطانیہ کی عدالتوں میں لانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان کی دہشت گردی کا شکار ہونے والے مظلوموں کی فریاد سننے کا دروازہ کھل جائے گا ۔ ان کی دہشت گردی کا شکار ہونے والے ہزاروں افراد میں ان کے سیاسی مخالفین کے علاوہ ایک بڑی تعداد خود ان کی اپنی پارٹی کے کارکنوں کی بھی ہے جو اپنی فریاد کے لیے کسی موقع کے منتظر ہیں ۔

 عوام نے وکلا کے ساتھ تحریک میں پوری طرح اپنی شمولیت کا برملا اظہار کیاتو میڈیا نے اس حقیقت کو چھپانے کے بجاے اس کی بھرپور کوریج کا اہتمام کیا۔ اس پر ’آج‘، ’جیو‘ اور     ’اے آروائی‘ پر خصوصی دباؤ پڑنے لگا اور اس کے ساتھ کیبل کے مالکان کو دھونس اور دھمکی کے ذریعے آزاد چینلوں کو بلیک آئوٹ کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس سب کے باوجود جب ان اداروں کے خلاف غنڈا گردی کا ہر حربہ ناکام ہوچکا تو پھر ایک نیاوار پیمرا کے قوانین میں ترمیمی آرڈی ننس کی مکروہ شکل میں کیا گیا۔ یہ حکومت کی بدحواسی کا ایک اور مظاہرہ تھا۔، اس کے بعدوکلا کے ساتھ صحافی برادری بھی کھل کر میدان میں نکل آئی۔

مجلسِ عمل کی تحریک

اس فضا میں متحدہ مجلس عمل کی پوری مرکزی قیادت نے راولپنڈی سے گوجرانوالہ، گوجرانوالہ سے فیصل آباد اور فیصل آباد سے لاہور تک کا تین روزہ تاریخی ’روڈکارواں‘ چلایا، جس کی عوامی پذیرائی کا مظاہرہ پوری قوم کے سامنے آگیا۔موجودہ عوامی تحریک کے دو بڑے مراحل ہیں۔ پہلے مرحلے میں اپوزیشن کی تمام جماعتیں متفقہ طور پر مطالبہ کررہی ہیں کہ:

۱۔   پرویز مشرف اور حکمران ٹولہ استعفا دے۔

۲۔   قومی اتفاق راے سے ایک عبوری حکومت قائم ہو۔

۳۔  دستور کو اکتوبر۱۹۹۹ء کے پہلے والی صورت میں بحال کردیا جائے۔

۴۔  آزاد الیکشن کمیشن کی تشکیل کر کے منصفانہ انتخابات کی راہ ہموار کی جائے۔

دوسرے مرحلے میں انتخابات میں ہر جماعت اپنے اپنے منشور کے ساتھ انتخاب لڑے اور انتخابات جیتنے والی اکثریت کو حکومت کرنے کا موقع دیا جائے جو آئین و قانون کی حدود میں رہ کر حکومت کرنے کا حق استعمال کرے۔

ان مطالبات کو روبۂ عمل لانے کے لیے متفقہ جدوجہد کی ضرورت ہے لیکن بوجوہ اب تک پیپلزپارٹی اس طرح کے اتحاد کا حصہ بننے سے کترا رہی ہے ۔ لیکن اس کا یہ رویہ نہ عوام میں مقبول ہے اور نہ پیپلز پارٹی کے کارکن ہی کھل کر اس رویے کی حمایت کرسکتے ہیں ۔ اگر پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے اس رویے پر قائم رہتی ہے تو عوا م اس کو پرویز مشرف کے ساتھ خفیہ ڈیل کا حصہ سمجھیں گے۔ متحدہ مجلس عمل اور پیپلزپارٹی کے پروگرام اور داخلہ و خارجہ پالیسیوں میں بنیادی اختلاف ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کھل کر امریکا کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے اور پرویز مشرف کے ساتھی جرنیلوں پر ’اسلامی دہشت گردوں‘ کاساتھ دینے کا الزام عائد کررہی ہے ۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ امریکا اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے آئینے میں اپنے مستقبل کا اقتدار دیکھ رہی ہیں اور ان دونوں طاقتوں کو ابھی سے یقین دلانے کی کوشش کررہی ہیں کہ وہ پرویز مشرف سے بھی بہتر اتحادی ثابت ہوسکتی ہیں لیکن اس طرح وہ عوامی تائید سے محروم ہو رہی ہیں۔ اگر بے نظیر صاحبہ نے اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کی بار بار کی دعوت کو نظر اندار کرتے ہوئے اپنا الگ راستہ بنانے کی کوشش جاری رکھی تو خود ان کی پارٹی کے لیے یہ رویہ نقصان دہ ثابت ہوگا۔

عدلیہ، وکلا، صحافی برادری اور سیاسی اور دینی جماعتوں کے تحرک کے نتیجے میں پرویز مشرف اور ان کی حکومت بد حواسی کا شکار ہے ۔ پرویز مشرف نے برسرعام حکمران جماعت سے شکایت کی ہے کہ انھیں میدان میں اکیلاچھوڑ دیا گیا ہے اور حکمران جماعت خود اپنی بقا کے لیے بھی میدان میں اترنے سے کترا رہی ہے ‘ جب کہ وزیراعظم شوکت عزیز نے کہاہے کہ حکمران جماعت کے بعض ارکان اپوزیشن کے ساتھ ملے ہوئے ہیں‘ نیز سپریم کورٹ میں حکومتی وکیل ملک قیوم نے کہاہے کہ ریفرنس کا فیصلہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے حق میں ہوجائے تو وزیر اعظم شوکت عزیز کو استعفا دے دینا چاہیے ۔ یہ رویہ ظاہر کرتاہے کہ پرویز مشرف حکومت کا چل چلائو ہے اور انھیں اپنے چاروں طرف سازشیں اور سازشی عناصر نظر آرہے ہیں۔ ایسے وقت میں کور کمانڈروں کا اجلاس طلب کرکے آئی ایس پی آر کی طرف سے سیاسی بیا ن جار ی کروانا کمزوری کی علامت ہے ۔ فوجی کمانڈروں کا اس نوعیت کا ایک بیان ذوالفقار علی بھٹو کے آخری ایام میں بھی جاری ہواتھا لیکن کسی ڈکٹیٹر کے آخری ایام میں اس طرح کے بیانات سے کوئی بھی مرعوب نہیں ہوتا۔

ملک میں ایمرجنسی یا نیا مارشل لا نافذ ہونے کے خطرے کااظہار کیا جارہا ہے لیکن ملک کی موجودہ بحرانی کیفیت کا علاج مارشل لا یا ایمرجنسی نہیں ہے کیونکہ ملک میں پہلے ہی فوجی آمریت ہے اور بحران کا بڑا سبب بھی یہی ہے۔ اگر کوئی فوجی جرنیل نئے مارشل لا کے نفاذ کی حماقت کرے گا تویہ خود فوج کے حق میں سمِ قاتل ثابت ہوگا اور فوج اور عوام میں جو خلیج حائل ہوچکی ہے اس میں اضافے کا سبب بنے گا۔

مجلسِ عمل سرحد کی کارکردگی

عام انتخابات کے حوالے سے صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کی کارکردگی ہر مجلس میں موضوع سخن رہتی ہے۔ اگرچہ فوجی حکومت کی وجہ سے آئین عملاً معطل ہے اور صوبوں کو آئین کے عطاکردہ اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ چیف سیکرٹری اور آئی جی پی کے دو بڑے اور اہم مناصب پر مرکز اپنی صواب دید سے اشخاص کی تعیناتی کرتا ہے اور انھیں مرکز سے براہ راست ہدایات بھی ملتی رہتی ہیں۔ واپڈا کے ذمے صوبائی حکومت کے رائلٹی کے واجبات کی ادایگی سے کھلم کھلا پہلوتہی کی جارہی ہے لیکن اس کے باوجود صوبہ سرحد نے ہرمیدان میں ترقی کی ہے۔

 صحت اور تعلیم کے دو اہم شعبوں کا سابقہ ادوار کی کارکردگی سے موازنہ کیا جائے تو مجلس عمل کی حکومت کی اچھی کارکردگی بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ بچیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ خواتین کے لیے الگ میڈیکل کالج قائم کیا گیا ہے اور الگ اسکولوں کی سہولت کے پیش نظر اسکول جانے والی بچیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ہرضلعی ہیڈکوارٹر میں اعلیٰ درجے کی سہولتوں کے ساتھ ایک بڑا ہسپتال تعمیر کرنے کا کام جاری ہے۔ ایک آسان اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ صحت پر سالانہ ترقیاتی اخراجات سابقہ ادوار میں ۳۰ کروڑ روپے سے آگے نہیں بڑھ سکے تھے‘ جب کہ مجلس عمل کی حکومت میں صحت کے شعبے کا ترقیاتی بجٹ ۳ ارب ۱۳ کروڑ تک پہنچ گیا ہے۔ صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت سے قبل کالجوں کی کل تعداد ۱۳۴ تھی‘ جب کہ گذشتہ چارسالوں میں ۸۰ نئے کالج تعمیر کیے گئے۔

سب سے اہم اور نمایاں تبدیلی حکومتی ایوانوں میں کلچر اور ثقافت کی تبدیلی ہے۔ گورنمنٹ ریسٹ ہائوس سابقہ ادوار میں عیاشی کے اڈے ہواکرتے تھے۔ اب یہ سادگی اور پاکیزگی کا نمونہ ہیں۔ وزرا باقاعدہ مساجد میںحاضری دیتے ہیں۔ لوگوں کے ساتھ گھلے ملے ہوئے ہیں۔ دفاتر میں عوام کا آزادانہ آنا جانا ہے اور حکومتی ایوانوں میں صوم و صلوٰۃ کی پابندی کی وجہ سے عوام اور خواص میں حائل پردے ہٹ گئے ہیں۔ دینی جماعتوں کی باہمی آویزش ختم ہونے کی وجہ سے عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کے مقابلے میں کسی علاقائی یا سیکولر سیاسی تنظیم کی کوئی حیثیت نہیںہے۔ ایم ایم اے اگر داخلی طور پر مضبوط اور مستحکم ہو تو کوئی دوسری جماعت انتخابات میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔

ایم ایم اے کی اس کارکردگی سے گھبرا کر عالمی قوتوں نے صوبہ سرحد میں بدامنی اور انتشار پھیلانے کی مذموم سازشیں شروع کردی ہیں۔ پہلے مرحلے میں قبائلی علاقوں میں میزائل حملوں اور بم باریوں کے ذریعے معصوم اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ خاص طور پر باجوڑ اوروزیرستان میں بم باری کی گئی۔ خیبر ایجنسی میں عوام کو تقسیم کرنے کے لیے پیر اور مفتی کا جھگڑا کھڑا کیا گیا۔ ہنگو‘ پاراچنار اور ڈیرہ اسماعیل خان میں شیعہ سنی کی تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی‘ اور بعض علاقوں میں کچھ دینی عناصر کے ذریعے متشدد طالبان کا رنگ اُبھارنے کی کوشش کی گئی جو بم دھماکوں‘ دھمکی آمیز خطوط اور تشدد کی کارروائیوں کے ذریعے صوبے میں بدامنی اور افراتفری کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ جو افراد ان کارروائیوں میں ملوث ہیں ان کا بعض حکومتی ایجنسیوں کے ساتھ تعلق صوبائی حکومت پر واضح ہے‘ اور اس کے شواہد موجود ہیں کہ ان کی سرپرستی مرکزی حکومت کی ایجنسیوں کی طرف سے ہو رہی ہے۔

ایم ایم اے کے گرد تمام مسلمانوں کے متحد ہونے کے خدشے کے پیش نظر عالمی طاقتوں اور پرویز مشرف کی حکمت عملی ہوگی کہ خود مذہب کی بنیاد پرایم ایم اے کے لیے دوسرے حریف پیدا کیے جائیں اور انھیں منظم کیا جائے۔ ان گروہوں میں ایک گروہ وہ ہے جو لوگوں کو ووٹ دینے اور انتخابی عمل میں شریک ہونے سے منع کرتا ہے۔ ایک گروہ کو فرقہ وارانہ بنیاد پر منظم کرکے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش ہورہی ہے۔ اسی طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود متحدہ مجلس عمل کے گرد لوگ اکٹھے ہورہے ہیں اور صوبہ سرحد کے بعد اب پنجاب کے عوام میں ایم ایم اے کو پذیرائی مل رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں پنجاب میں کامیاب علما و مشائخ کانفرنسوں کا انعقاد اور مجلس عمل کے مرکزی رہنمائوں کا تین روزہ کارواں ایک روشن مستقبل کا اشارہ دے رہے ہیں۔

مجلسِ عمل پر اعتراضات

گرینڈ اپوزیشن الائنس کے لیے جب اپوزیشن جماعتوں کو دعوت دی جاتی ہے تو مجلس عمل پر مخالفین کی طرف سے دو اہم اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔ پہلا اعتراض ۱۷ویں آئینی ترمیم میں حکومت کا ساتھ دینے کا ہے‘ اور دوسرا اعتراض بلوچستان کی حکومت میں ’ق ‘ لیگ کا حلیف ہونے کا ہے ۔

سترھویں ترمیمی بل پر حکومتی پارٹی سے مفاہمت اور بلوچستان میں ق لیگ سے اتحاد بنیادی طور پر اس کمزوری کی علامت ہیں جو ملٹری سویلین اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے باہمی گٹھ جوڑ کی وجہ سے سیاسی اور دینی جماعتوں کو لاحق ہے۔ جب تک عوامی بیداری کے نتیجے میں عدل وانصاف پر مبنی بنیادی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ہمارا ملک اس نوعیت کی مشکلات اور الجھنوں سے دوچار رہے گا ۔ ہم نے سترھویں ترمیمی بل کے موقع پر جو مفاہمت کی تھی‘ اس وقت ہمارا خیال تھا کہ اس طرح ہم نے پرویز مشرف کو آئینی طور پر چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے سے دستبردار کرکے جمہوریت کی طرف قدم آگے بڑھایا ہے‘ لیکن جو لوگ طاقت کے بل بوتے پر حکمران بن جاتے ہیں وہ اپنی مرضی سے نہیں جاتے۔ انھیں قانون اور عہدوپیمان کا کوئی پاس نہیں ہوتا‘ اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے وہ بڑی سے بڑی بدعہدی سے بھی باز نہیں رہتے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور سترھویں ترمیم کے باب میں بھی ہمیں اور پوری قوم کو یہی تجربہ ہوا۔

 ہم نے نیک نیتی سے ایک کام کیا تھا مگر فی الحقیقت ہمیں اور پوری قوم کو بلکہ پوری دنیا کو دھوکا دیا گیا۔جب ہم نے دھوکا کھانے پر معذرت کی تو ہمارے کچھ ساتھیوں نے دلیل پیش کی کہ دھوکا کھانا گناہ نہیں ہے بلکہ دھوکا دینا گناہ ہے۔ اس لیے ہم کس بات کی معذرت پیش کریں لیکن دھوکا دینے والوں کے ساتھ بلوچستان حکومت میں شریک رہنے کی ہمارے پاس کوئی قوی دلیل نہیں ہے۔ اگرچہ اس بارے میں بھی کہا جاتاہے کہ اگر ہم حکومت سے نکل آئیں تو گویا گورنر راج ہوگا یا نیشنلسٹ قوتیں شریک اقتدار ہو کر مزید مشکلات پیدا کریں گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر سیاسی مسئلے کے کئی رخ ہوتے ہیں اور جس رخ کو بھی اختیار کیا جائے اس کے لیے دلائل فراہم کیے جاسکتے ہیں۔ اگر ہم عدلیہ اور فوجی ٹولے کے درمیان موجودہ آویزش میں عوام کو منظم کرکے عدلیہ کی آزادی کا راستہ کھول سکیں تو ہمیں اس طرح کے جوڑ توڑ (compromises)کرنے کی ضرورت    باقی نہیں رہے گی۔ اللہ پر بھروسے اور صراط مستقیم پر چل کر ہر طرح کی مشکلات کا مقابلہ کرنا اور   حق و باطل کے درمیان ہر طرح کی شراکت سے گریز کرنا ہی سیدھا راستہ ہے جس کی نشان دہی علامہ اقبال ؒنے اپنی اس دل نشیں نظم میں کی ہے :

تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم
گزر اس دور میں ممکن نہیںبے چو ب کلیم

عقل عیار ہے‘ سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ زاہد ہے نہ ملا نہ حکیم

عیش منزل ہے غریبان محبت پہ حرام
سب مسافر ہیں بظاہر نظر آتے ہیںمقیم

ہے گراں سیر غم راحلہ و زادسے تو
کوہ و دریا سے گزر سکتے ہیں مانند نسیم

مرد درویش کا سرمایہ ہے آزادی ومرگ
ہے کسی اور کی خاطر یہ نصاب زر و سیم

عزیمت کے اس راستے پر چلنے کے لیے ایم ایم اے کے سب ساتھیوں کو آمادہ کرنا ضروری ہے ۔ وقتی اختلاف راے پر علیحدگی اختیار کرنے یا کسی کو علیحدہ کرنے کے بجاے صبراور حکمت سے معاملات کو سلجھانا بہتر ہے اور یہی جماعت اسلامی اور ایم ایم اے کی دوسری جماعتوں کی پالیسی ہے۔ اس راستے میں مشکلات ہیں لیکن ہر مشکل کو حل کرنے کے لیے راستہ موجود ہے   ؎

مشکلے نیست کہ آساں نہ شو د
مردباید کہ ہراساں نہ شود

(ایسی کوئی مشکل نہیں ہے جو آسان نہ ہوسکے۔ مرد کو چاہیے کہ ہروقت حوصلہ مند رہے۔)

پشتو میں مثل ہے کہ ’’پہاڑ کی چوٹی اگرچہ بلند ہے لیکن اس کے اوپر راستہ ہے‘‘۔ ان شاء اللہ وقت آرہاہے کہ مومنانہ بصیرت ،باہمی اتحاداور اللہ پر توکل کے ذریعے دشمنوں کے مکر و فریب کا پردہ چاک ہوجائے گا اور اسلامی قوتیں کامیاب و کامران ہوں گی‘ کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے :

جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُط  اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا o

(بنی اسرائیل۱۷:۸۱)  اور اعلان کردو کہ ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘۔

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ھُوَ زَاھِقٌ ط (الانبیاء۲۱:۱۸) مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے مِٹ جاتا ہے۔

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَo (الصف ۶۱:۸) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں‘ اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو   یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

اس آیت کا حوالہ دے کر علامہ اقبال ایمان کامل کے ساتھ فرماتے ہیں :    ؎

تاخدا اَنْ یُّطْفِئُوْا فرمودہ است
از فسردن ایں چراغ آسودہ است

(جب اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا ہے کہ یہ اللہ کا روشن کردہ چراغ ہے تو اس چراغ کو بجھنے کا کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے)

کچھ لوگ درحقیقت ایم ایم اے کے اتحاد کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس معذرت کو  بنیاد بناکر ایم ایم اے کی یک جہتی پر ضرب لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ  ایم ایم اے کی دو بڑی جماعتوں کی سیاسی حکمت عملی میں کچھ امور پر اختلاف موجود ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی ان وقتی اختلافات کی بنیاد پر ایم ایم اے کے اتحاد کو توڑنا نہیں چاہتی ہے ۔ اگر ایم ایم اے کے فوائد اور اس کی مشکلات کا موازنہ کیا جائے تو اس کے فوائد کہیں زیادہ اور دور رس مثبت نتائج کے حامل ہیں اور دینی جماعتوں کی یہ یکجہتی پورے مسلم معاشرے کو اغیار کی سازشوں سے بچانے اور اسے اصل چیلنج کی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے ۔ ایم ایم اے کی دعوت پر کامیاب قومی مجلس مشاورت کے بعددرج ذیل چھے افراد پر مشتمل ایک قومی رابطہ کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیاگیا جو آگے کی سیاسی تحریک کا نقشہ بنائے گی اور ان شاء اللہ عوامی تحریک کی رہنمائی کرے گی: قاضی حسین احمد‘ راجا ظفر الحق‘ مولانا فضل الرحمن‘ عمران خان‘ اسفند یار ولی خان‘ محمود خان اچکزئی۔

تبدیلی کی حکمت عملی

۷ اور۸جولائی کو اے آرڈی کی طرف سے میاں نوازشریف نے لندن میں اپوزیشن جماعتوں کی ایک کانفرنس بلائی ہے ۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی طرف سے ابھی سے شرکت سے معذرت آئی ہے ۔ پیپلز پارٹی کا وفد شرکت کرے گا لیکن اب تک کے تجربے سے یہ ثابت ہے کہ بے نظیر صاحبہ کی عدم موجودگی میں پیپلز پارٹی کا کوئی بھی وفد فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کو نظرانداز کرکے فیصلے کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔مسلم لیگ (ن) عرصے سے پیپلز پارٹی کے ساتھ چلنے میں مشکلات سے دوچار ہے لیکن اسے چھوڑ کر الگ راستہ اختیار کرنا بھی اس کے لیے بوجوہ مشکل ہے ۔ اپوزیشن اور ملک کے سیاسی مستقبل کے لیے بھی مفید راستہ یہ ہے کہ دستور کی بالادستی ،عدلیہ کی آزادی اور فوجی آمریت سے نجات کی جدوجہد میں زیادہ سے زیادہ قومی اتفاق راے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے ۔ اس کی ایک بار پھر پوری کوشش ہونی چاہیے لیکن وقت اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ اب فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے اور انتظار اور مزید کوشش کے لیے کوئی گنجایش باقی نہیں رہی ہے۔ اس لیے اب یکسوئی اختیار کرنا اور عملی جدوجہد کو مہمیز دینا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

ایک مستحکم اسلامی سیاسی جمہوری پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ دستور اور قانون کی بالادستی قائم کی جائے۔ عدلیہ کی آزادی یقینی بنا دی جائے اور عوام کو دینی تشخص رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستہ کیا جائے۔ عوام کی تنظیم کے بغیر دستور کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ممکن نہیں ہے۔ متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتوں کی جڑیں عوام میں گہری ہیںلیکن مشترکات پر متحدہونے کے باوجودجماعت اسلامی کے سوا باقی جماعتیں اب تک اپنے اپنے مسلک کے دائرے سے اوپر نہیں اٹھ سکیں۔جماعت اسلامی اگرچہ اپنی تنظیمی قوت اور کارکنان کی اعلیٰ مقاصد کے ساتھ وابستگی کے سبب ایک مضبوط سیاسی جماعت ہے اور الحمدللہ عوام میں اچھی شہرت اور پذیرائی رکھتی ہے لیکن بڑے پیمانے پر عوام کو اپنے ساتھ وابستہ کرنے اور عام آدمی کو یہ یقین دلانے میں کہ ’جماعت اسلامی اس کی ہے اور وہ جماعت اسلامی کا ہے‘ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام کچھ مدت پیش تر ممبر سازی مہم اور محلہ وار رابطہ کمیٹیوں کے قیام کے ذریعے شروع کیا گیا تھا لیکن نامکمل رہ گیا تھا۔ اب جماعت نے نئے سرے سے اس کا آغاز کردیا ہے۔

اگر ہم ۱۵ کروڑ کی آبادی میں ۱۰ فی صد یعنی ڈیڑھ کروڑ مرد اور خواتین کو ممبر بنا کر رابطہ کمیٹیوں کے ذریعے منظم کر سکیںاور مجلس عمل کی دوسری جماعتیں بھی اپنے اپنے دائرے میںمنظم اور عوامی پذیرائی حاصل کرلیں‘ اور ساتھ ہی ہم اس میں کامیاب ہوجائیں کہ مجلس عمل میں شامل جماعتوںکے افراد کو قدر مشترک اور درد مشترک پر جمع کرکے ایک جماعت ہونے کا احساس ابھار سکیں‘ اور دین کے ساتھ وابستگی رکھنے والے تمام افراد میں’ترجیحات‘ کے بارے میں صحیح فہم اور یکسوئی پیدا کرسکیں کہ وہ فروعی اختلافات سے اٹھ کر اعلاے کلمۃاللہ کے مقصد پر متحد ہوجائیں اور قرآن و سنت کی مشترک بنیاد کو مرکز و محور بنا کر آپس میں ایک دوسرے کی تعبیر کو تسلیم کر لیں‘ اور ایک دوسرے کے لیے دل میں جگہ پیدا کر لیں تو متحدہ مجلس عمل ایک مستحکم اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی اور وفاقی پاکستان کی تعمیر میں اہم کردار اداکرسکتی ہے۔ اس کے لیے قیادت اور کارکنوں کا اخلاص اور للہیت سب سے بڑا وسیلہ ہے۔ اخلاص اور للہیت سے ہی قربانی کا جذبہ اور محنت شاقہ کی عادت پنپ  سکتی ہے۔

پوری اسلامی دنیا میں ہر جگہ عوام دینی طور پر بیدار ہو رہے ہیں اور اغیار کی سازشوں سے باخبر بھی ہورہے ہیں کیونکہ میڈیا کے اس دور میںکوئی بھی بات چھپی ہوئی نہیں رہ سکتی۔ امریکی دانش ور جس طرح مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے منصوبے پیش کررہے ہیں اور مسلمانوں ہی میں سے اپنے ڈھب کے لوگوں کو منظم کرنے اور انھیں مسلمانوں کے خلاف میدان میں لانے کی تیاری کررہے ہیں‘ وہ انفارمیشن ٹکنالوجی کے عام ہونے کی وجہ سے مسلمان نوجوانوںسے مخفی نہیں ہیں۔ اگرچہ فحش اور بے حیائی عام کرنے اور مسلمانوں کی نئی نسل کو اس کے ذریعے بے ہمت اور بودہ بنانے کی کوششیں بھی بڑے منظم انداز میں اور بڑے پیمانے پر ہورہی ہیں لیکن مسلمانوں کی بڑی اکثریت حالات حاضرہ اور سیاسی تجزیوں پر مشتمل پروگراموں میں دل چسپی لینے لگی ہے۔

اس رجحان کی وجہ سے آمرانہ فوجی حکومت کو پیمرا آرڈیننس میں ایسی ترامیم کرنی پڑی ہیں جو اظہار راے اور پریس کی آزادی کے منافی ہیں۔ اس ترمیمی آرڈی ننس کے خلاف جو   شدید ردعمل صحافی برادری میں نمودار ہوا‘ حکومت اس سے گھبرا گئی اور پرویز مشرف کو پسپائی اختیار کرکے اس ترمیم کو واپس لینا پڑا۔ تاہم حالیہ عوامی بیداری اور خاص کر ۱۲ مئی کو ایم کیو ایم اور   پرویز مشرف کا دہشت گرد چہرہ لوگوں کو دکھانے میں میڈیا نے جو کردارادا کیا ہے اور اب تک بڑی حد تک میڈیا اپنے اس آزادانہ کردار پر قائم ہے‘ وہ عوامی بیداری کے ایک نئے دور کی نوید سنا رہا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے ۱۹۰۷ء میں اسلام کے روشن مستقبل کی جو خوش خبری سنائی تھی‘ اس میں بھی ’بے حجابی‘ اور تمام حقائق کے آشکارا ہونے کا ذکر ہے:

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا

سنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھاگیا تھا پھر استوار ہوگا

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

ان حالات میں ہمارا پیغام صرف ایک ہے۔ اس نازک اور فیصلہ کن لمحے میں کوئی باشعور مسلمان خاموش تماشائی نہیں بن سکتا۔ یہ وقت اپنی آزادی‘ اپنے ایمان‘ اپنی شناخت‘ اپنی  تہذیب و ثقافت اور اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی حفاظت کی جدوجہد میں سردھڑ کی بازی لگادینے کا وقت ہے۔ یہ وقت فیصلہ‘ یکسوئی‘ جدوجہد اور قربانی کا وقت ہے‘ اور اللہ سے اپنے کیے ہوئے عہدوفا کو پورا کرنے کا وقت ہے۔ جماعت اسلامی اور متحدہ مجلس عمل پوری قوم کو اس ملک عزیز کی بقا‘ استحکام اور اس کے نظریاتی کردار کی ادایگی کی اس تاریخی جدوجہد میں بھرپور شرکت کی دعوت دیتی ہے    ؎

یہ گھڑی محشر کی ہے‘ توعرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے