بسم اللہ الرحمن الرحیم
جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا سہ روزہ اجلاس ۸،۹، ۱۰ فروری ۲۰۱۰ء کو لاہور میں منعقد ہوا۔ اس موقع پر اہم قومی اور ملّی مسائل پر متعدد قراردادیں منظور کی گئیں۔ ان میں سے چند کا متن پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس ملک کی سیاسی صورت حال کو انتہائی تشویش ناک قرار دیتاہے اور پوری قوم اور قیادت کو متنبہ کرتاہے کہ اس وقت ملک کی آزادی، سلامتی ،استحکام ،نظریاتی تشخص اور عوام کی معاشی اور سماجی بہبود، ہر چیز اور ملک کو اندرونی اور بیرونی محاذ پر جو خطرات درپیش ہیں ،وہ ہماری ۶۲سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ گمبھیر ہیں اور ملک کا وجود تک ان کی زد میں آتا نظر آرہاہے۔لیکن سب سے تشویشناک امر یہ ہے کہ حکمران صرف مجرمانہ غفلت کا شکار ہی نہیں بلکہ ملک کو تصادم اور بگاڑ کی طرف دھکیل رہے ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ اور حصول میں لگے ہوئے ہیں۔
پاکستانی قوم آج جن خطرات سے نبرد آزماہے ان میں سرفہرست امریکی سامراج کا اثرونفوذ ہے جس کی گرفت پاکستان پر ہر روزبڑھ رہی ہے، ڈرون حملے دوگنے ہوگئے ہیں اور حکومت اس شرمناک جرم میں شریک نظر آرہی ہے اور ملک کی آزادی اور عزت دونوں کی حفاظت میں ناکام رہی ہے۔اس کے ساتھ ملک کے اندرونی حالات روز بروزخراب ہورہے ہیں، لاقانونیت اپنے عروج پر ہے اور ملک کی قیادت کاحال یہ ہے کہ وہ امریکا کی حلیف بن کر خود اپنی قوم کو بیرونی غلامی اور اندرونی انتشار اور معاشی مفلوک الحالی کی طرف دھکیل رہی ہے ۔ آگ اور خون کی جوہولی کئی سال سے صوبہ سرحد ،فاٹا اور بلوچستان میں کھیلی جا رہی ہے، وہ سارے ملک کو اوراب کراچی تک کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے ۔ بھارت کی فوجی قیادت ۹۶گھنٹے میں پاکستان کے دانت توڑدینے کے دعوے کررہی ہے اور امریکا اور اسرائیل اسے تباہ کن جنگی صلاحیتوں سے آراستہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں، نیز فوج کشی کی دھمکیوں کے ساتھ بھارت پاکستان کو پانی سے محروم کرنے کے لیے خطرناک چالیں چل رہاہے ۔ کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط ترکرتاجارہا ہے،جب کہ امریکی کھیل کے مطابق پاکستانی افواج کو مغربی محاذ پر اور بھی الجھا دیا گیاہے۔ امریکا اپنا دبائو مزید بڑھا رہا ہے اور اس کے ساتھ پاکستانی قوم کی عزت سے کھیلنے کے مجرمانہ اقدام کر رہاہے جن میں سب سے شرمناک چیلنج قوم کی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اورمظلوم بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خلاف عدالتی دہشت گردی ہے جس نے امریکی عدل وانصاف کے دعوئوں کا پول کھول دیا ہے اور امریکا کی پاکستان اور اسلام دشمنی کو ایک بار پھر واشگاف کردیا ہے۔ یہ خطرناک صورت حال پوری قوم کی فوری توجہ اور نئی قومی حکمت عملی کا تقاضا کرتی ہے۔
جماعت اسلامی کی نگاہ میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اللہ کے دامن رحمت کو تھام کر ایمان، فراست مومن اور اجتماعی عوامی جدوجہد کے ذریعہ ۱۷ کروڑ مسلمانوں کو نئی غلامی ، سیاسی انتشار اور معاشی تباہی کے گڑھے سے نکال کر ایک بار پھر ان مقاصد اور عزائم کے حصول کے لیے منظم اور متحرک کیا جائے جن کے لیے اس قو م نے تاریخ کی بے مثال قربانیاں دے کر یہ آزاد خطۂ وطن حاصل کیاتھا۔
پاکستان نہ کبھی ناکام ریاست تھا اور نہ آج ہے ، البتہ اصل ناکامی اس قیادت کی ہے جس نے بار بار ملک و ملت کو دھوکا دیا ہے اور آج بھی جو توقعات ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات اور پرویزی آمریت کے خلاف کامیاب عوامی تحریک سے پیدا ہوئی تھیں، ان کو خاک میں ملا کر ذاتی، گروہی اور علاقائی مفادات کی خاطر اور سب سے بڑھ کر امریکا کے عالمی ایجنڈے کی خدمت میں ملک کو خانہ جنگی، سیاسی خلفشار، اداروں کے تصادم ،مرکز اور صوبوں میں کشیدگی، لاقانونیت اور معاشی بدحالی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ اس بگاڑ کی جتنی ذمہ داری اس فوجی قیادت پر ہے جو دستور اور قانون کو پامال کرنے اور جمہوریت پر شب خون مارنے کی مرتکب ہوئی تھی، اس سے کچھ کم ذمہ داری اس سیاسی قیادت کی بھی نہیں جس نے ۲۳مہینے کے اس قیمتی موقع کو مجرمانہ غفلت ، ناقابل فہم بے عملی اور بے تدبیری ، ذاتی اور جماعتی مفادپرستی ، بدعنوانی اور کرپشن اور نا اہلی کے باعث ضائع کیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ زندگی کے ہر میدان میں جنرل پرویز مشرف کے دور کی پالیسیاں جاری ہیں،قومی مجرم دندناتے پھر رہے ہیں یا بیرون ملک عیش کی زندگی گزار رہے ہیںاور ملک ایک بحران کے بعد دوسرے بحرانوں کی گرفت میں ہے۔ امریکا کی غلامی کی زنجیریں اور ہمارے اندرونی معاملات میں اس کی متکبرانہ مداخلت دوچند ہوگئی ہے۔ فوج اور عوام میں دوری بڑھ رہی ہے اور بیرونی آقائوں کے دبائو میں اب کسی ایک خطے کو نہیں بلکہ پورے ملک ہی کو ایک ایسی لاقانونیت اور نہ ختم ہونے والے تصادم میں جھونک دیا گیاہے جس نے امن و امان اور عوام کے چین وسکون اور معاشی اور سماجی زندگی کو درہم برہم کردیا ہے۔ حکومتی اتحاد ہی نہیں حزبِ اختلاف کی بڑی جماعتیں بھی عوام کو مایوس کررہی ہیں اور قوم کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہا کہ وہ اپنی آزادی ،عزت اور شناخت کی حفاظت اور عوام کے حقوق کے حصول کے لیے ایک بار پھر سرگرم ہوں، اور زمامِ کار مفادپرست ٹولے سے لے کر ایک ایسی عوامی قیادت کو بروے کار لائے جو ملّی مقاصد، اقدار اور اہداف کی محافظ ہو اور دیانت او ر صلاحیت کی بنیاد پر ملک اور قوم کو اس دلدل سے نکال سکے۔
جماعت اسلامی پاکستان اس امر کا برملا اعلان کرتی ہے کہ ہمارا ملک آج جن مصائب اور مشکلات کی آماجگاہ بناہوا ہے اس کی بنیادی وجہ ملی مقاصد سے بے وفائی، دستور اور قانون کی خلاف ورزی ،جمہوری عمل اور اداروں کی کمزوری ، ذاتی اور گروہی مفادات کی جنگ اور امریکا اور سامراجی قوتوں کی چاکری ہے۔ ہم دنیا کے تمام ممالک سے برابری کی بنیادپردوستی ، تعاون اوربھائی چارے کا تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن جس طرح پرویز مشرف اور زرداری حکومت نے ملک کو امریکا کی سیاسی، معاشی اور اب تو عسکری گرفت میں دے دیا ہے وہ ساری خرابیوں کی جڑ ہے اور اولیں ضرورت امریکا کی گرفت سے آزادی اور اپنے قومی اور ملّی مقاصد کے حصول کے لیے خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کی ازسرنو تشکیل ہے۔ اس کے لیے پہلی ضرورت یہ ہے کہ ان بنیادوں کو ہر لمحہ سامنے رکھا جائے جن پر یہ قوم جمع ہے اور جمع رہ سکتی ہے اور جن کے تحفظ اور حصول کے بغیر پاکستان علامہ اقبالؒ،قائد اعظمؒ اور ملت اسلامیہ پاکستان کے تصور کے مطابق ایک اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست نہیں بن سکتا۔ وہ بنیادیں یہ ہیں:
۱- پاکستان کی شناخت اور پہچان اسلام ہے جو ہمارا دین اور دنیا اور آخرت میں کامیابی کا راستہ ہے ۔ قرآن و سنت ہی ہمارا بالاترین قانون ہے اور صرف اسلامی نظام کے مکمل نفاذ ہی سے یہ ملک اپنے قیام کے اعلیٰ مقاصد کو حاصل کرسکتاہے۔
۲- پاکستان کا سیاسی نظام پارلیمانی جمہوریت کا نظام ہے جس میں ملکی دستور آخر ی اتھارٹی اور پارلیمنٹ بالاتر ادارہ ہے نیز مقننہ ،عدلیہ اور انتظامیہ بشمول سول اور فوجی سروسز کو دستور میں طے شدہ حدودکار کے اندر کام کرنا چاہیے اور اس کے تحت وہ مکمل طورپر قانون اور عوام کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اس سے انحراف ہی سارے بگاڑ کی جڑ ہے۔
۳- پاکستان کا مقصد ایک ایسے فلاحی معاشرے کا قیام ہے جو ایک طرف اسلامی اقدار و روایات کا حامل ہو تو دوسری طرف تمام انسانوں کے بنیادی حقوق کا ضامن ہو۔ اس میں فرد اور اداروں کو ترقی کے مساوی مواقع حاصل ہوں۔ نیز غیر مسلم اقلیتوں سمیت تمام شہریوں کے درمیان سماجی اور معاشی انصاف قائم کیا جائے تاکہ ایک حقیقی فلاحی ریاست وجود میں آسکے اور معاشرے کے تمام افراد عزت سے زندگی گزار سکیں۔ دولت محض چند ہاتھوں میں یا کچھ مخصوص طبقوں اور علاقوں میں محدود ہو کر نہ رہ جائے ۔
۴- پاکستان کا دستور ایک وفاقی دستور ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ صوبوں کو اپنے معاملات اور وسائل پر قدرت اور مکمل اختیار حاصل ہو جس کے لیے صوبائی خود مختاری کویقینی بنایا جائے اور ارتکاز اختیارات کو ختم کرکے حقیقی وفاقی حکمرانی کے تمام اصولوں اور ضابطوں کی مکمل پاسداری کی جائے۔یہ مقصدبھی وقتی نام نہاد پیکجز کے ذریعے سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے دستوری اور انتظامی تبدیلیوں کے ساتھ رویوں اور ذہنیت کو بدلنے کی ضرورت ہے جن کا کوئی نشان نظر نہیں آرہا۔
ان مقاصد کے حصول کے لیے جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ پوری قوم کو ایک طرف رجوع الی اللہ،’گو امریکا گو ‘ (امریکی غلامی نامنظور)کی عوامی تحریک میں بھرپور شرکت کی دعوت دیتی ہے تو دوسری طرف عدالت عالیہ کے ۳۱ جولائی ۲۰۰۹ئ، ۱۶دسمبر۲۰۰۹ء اور ۱۹جنوری ۲۰۱۰ء کے تاریخی فیصلوں پر مکمل اور فوری عمل درآمد کو ضروری سمجھتی ہے۔ زرداری صاحب اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے عدلیہ کے فیصلہ کو غیر مؤثر کرنے کے لیے جس جارحانہ رویہ کا اظہار کیا ہے وہ تباہی کا راستہ ہے اور ہم ملک کی تمام سیاسی اور دینی قوتو ں کو دعوت دیتے ہیں کہ منظم عوامی جدوجہد کے ذریعہ امریکا کی گرفت سے آزادی اور ملک میں دستور اور قانون کی بالادستی کے قیام، معاشی انصاف کے حصول اور کرپشن اور بدعنوانی کا قلع قمع کرنے کے لیے اپنا فرض ادا کریں۔
ہم ایک بار پھر اس حقیقت کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ سیاسی مسائل کا فوجی حل نہ کبھی ماضی میں ممکن ہوا ہے اور نہ آج ہوسکتاہے ۔ بلوچستان ہو یا فاٹا حالات کو قابو میں لانے کا راستہ سیاسی مذاکرات اور انصاف اور باہمی حقوق کی پاسداری کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اس لیے جماعت اسلامی پاکستان،حکومت اور تمام سیاسی اور دینی عناصر کو دعوت دیتی ہے کہ امریکی دبائو اورناجائز مطالبات سے آزاد ہو کر پاکستان اور علاقے کے معروضی حقائق کی روشنی میں باہم افہام و تفہیم کے راستے کو اختیار کریں اور تشدد اور قوت کے استعمال سے حالات کے مزید بگاڑ سے بچنے کی فکر کریں۔ وقت کی اصل ضرورت پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کا تحفظ ، امریکی مداخلت ، ڈرون حملوں اور بیرونی قوتوں کی دراندازیوں سے بچائو،دہشت گردی سے اس کی ہر شکل میں مکمل نجات، ۱۹۷۳ء کے دستورکی اس شکل میں بحالی جو ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء کوتھی، امن وامان کا قیام اور معاشی حالات کی اصلاح ہے، اور یہ سب اس وقت تک ناممکن ہے جب تک مشرف دور کی پالیسیوں سے مکمل نجات حاصل نہ کرلی جائے ۔
ہم ملک کی تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو دعوت دیتے ہیں کہ آزادی اور خودمختاری کی بازیافت، ملک میں حقیقی امن وامان کے قیام ، معاشی حالات کی اصلاح اور عوام کو انصاف اور چین کی زندگی کے حصول کی جدوجہد کے لیے پوری طرح کمر بستہ ہوجائیں اور پاکستان ، جو ایک مقدس امانت ہے اس کی حفاظت اور صحیح نظریات پر ترقی و استحکام کے لیے میدان میں اتریں اور مؤثر پُرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے قومی مقاصد کے حصول کی اپنی اپنی ذمہ داری اداکریں ۔
جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس ملک کی معاشی شہ رگ شہر کراچی میں جاری شدید بدامنی ، بم دھماکے ، ٹارگٹ کلنگ کے ساتھ ساتھ راست اقدام سے عاری بے حس حکومتی رویے کو انتہائی تشویش کی نگاہ سے دیکھتاہے ۔ یوں تو شہر کراچی ۲۳ سال سے قتل و غارت گری کے اعداد وشمار میں دنیا کا سب سے خطرناک شہر قرار دیا جاتاہے ۔۲۰۰۸ء میں موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تو کراچی کے عوام نے امید باندھی کہ اب قتل و غارت کی یہ فضا تبدیل ہو گی لیکن کراچی کے عوام کو تحفظ نہ مل سکا ۔ قاتل دندناتے رہے اورقتل عام جاری رہا۔ ۲۰۰۸ء اور ۲۰۰۹ء کی شدید خونریزیوں کے بعد ۲۰۱۰ء کے ابتدائی ۴۰ دنوں میں ۲۰۰ سے زائد معصوم انسان خون آشامی کا شکار ہو چکے ہیں ۔ سانحہ عاشورہ پر بم دھماکے میں ۴۳ معصوم افراد لقمہ اجل کا شکار ہوئے ۔ فوری طور پر خود کش قرار دیے جانے والے دھماکے بعد میںنصب شدہ بموں کی کارستانی ثابت ہوئے ۔ منظم منصوبہ بندی کے تحت دھماکے کے فوری بعد کراچی کی تھوک مارکیٹوں کو جلایا اور لوٹا گیا اور تمام بلند و بانگ دعوئوں کے برعکس سٹی گورنمنٹ کے ادارے بروقت آگ بجھانے میں قطعاً ناکام ثابت ہوئے ۔ وزیر داخلہ اور پولیس نے اصل مجرموں کو بے نقاب کرنے کا اعلان کیا لیکن جرم کے ناخدائوں نے جنوری کے آغاز میں کراچی کو تین دن میں ۵۰ مزید لاشوں کا تحفہ دے کر حکمرانوں پر دبائو ڈالا ۔ سانحہ عاشورہ جند اللہ کے سر ڈالے جانے کے اعلان کے ساتھ ہی یہ ٹارگٹ کلنگ اس طرح رک گئی جیسے کسی نے بٹن دبا دیاہو۔
جنوری کے اختتام پر بلدیاتی اداروں میں ایڈمنسٹریٹرز کی تقرری اور نئے بلدیاتی نظام کے لیے دو حکومتی جماعتوں کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوا ۔ جب مذاکرات جاری تھے تو کراچی میں پانچ دن میں ۴۷ غریب افراد کو نشانہ بنا کر دبائو بڑھانے کی کوشش کی گئی ۔ اس سے پہلے بھی کراچی اور حیدر آباد کے بلدیاتی اداروں کے آڈٹ کے مسئلے پر کور کمیٹی کے اجلاس اورقتل و غارتگری ساتھ ساتھ جاری تھے ۔ حکومت نے تمام قوانین کو بالاے طاق رکھتے ہوئے کراچی اور حیدر آباد میں آڈٹ نہ کروانے کا اعلان کیااور قتل و غارتگری یکایک ٹھیر گئی جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ گذشتہ دودہائیوں سے کراچی میں دہشت گردی کو سیاسی مفادات کے حصول کے لیے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتارہا ہے ۔
۳ فروری کو امریکا میں امت کی بیٹی کراچی کی رہائشی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مقدمے میں سیاہ فیصلہ آنے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پیدا ہوا ۔ ۵ فروری کو پوری قوم بھارتی مظالم کے خلاف کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کر رہی تھی کہ اس دن دو بم دھماکوں کے ذریعے اولاً عزاداران چہلم اور پھرہسپتال میں خون دینے والے اور عیادت کرنے والوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ ڈھائی درجن افراد نشانہ بنے ۔ یہاں بھی خود کش کیا جانے والا اعلان غلط نکلا اور بالآخر نصب شدہ بم دھماکا تسلیم کیاگیا اور جناح ہسپتال میں ٹی وی مانیٹر سے بم برآمد ہونے پر انتظامیہ ابھی تک اس سوال کاجواب دینے سے قاصر ہے کہ کلوز سرکٹ کیمروں سے بم رکھنے والوں کی نشاندہی کیوں نہیں کی جارہی ۔
بعد از خرابی ٔ بسیار جب رینجرز کو اختیارات دیے گئے تو ان کے چھاپے میں ایم کیو ایم لائنز ایریا کے سیکٹرآفس سے ۸ افراد انتہائی خطرناک اسلحہ کے ساتھ گرفتار ہوئے ۔ یہ افراد قتل کی کئی ایف آئی آرز میں نامزد ہیں لیکن سیاسی مداخلت پر ان کو اسلحے کے ساتھ رہا کر دیا گیا ۔ صوبہ سندھ کے گورنر کے بھائی بھی جدید ترین ممنوعہ اسلحے کے ساتھ گرفتار کیے گئے لیکن سیاسی مداخلت پر رہا کر دیے گئے ۔ گذشتہ دوسالوں میں پہلی مرتبہ رینجرز نے اختیارات ملنے پر ۲۴گھنٹوں میں ٹارگٹ کلنگ پر قابو پالیا لیکن ایک مرتبہ پھر گرفتارہونے والے بیشتر افراد رہا کیے جا چکے ہیں۔ چھے ماہ پہلے ایم کیو ایم جیکب آباد کا انچارج بلوچستان سے کراچی میں اسلحے کی ایک بڑی کھیپ اسمگل کرتے ہوئے گرفتار ہوا۔ اس اسلحے میں خطرناک بم اور راکٹ لانچر کے ساتھ مزید مہلک ہتھیار شامل تھے۔ اعترافی بیان میں ملزم نے ۲ افراد کے نام دیے جن کا نام ای سی ایل میں شامل کیاگیا لیکن ایک ہفتے میں ان میں سے ایک نے صوبائی مشیر کا حلف اٹھالیا۔ یہ بات بھی عوام کی یادداشت میں محفوظ ہے کہ مشرف دور میں ایم کیو ایم کے صوبائی مشیر شاکر علی کی گاڑی سے رینجرز نے خطرناک اسلحہ اور ماسک برآمد کیے تھے۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی مں صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کا بیان ٹیپ کا بند ثابت ہوا کہ مفاہمت نہ ہوتی تو قاتلوں کو لٹکا دیتا ۔ صوبائی وزیر داخلہ نے سارے دبائو کے باوجود یہ بیان واپس نہیں لیا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کراچی کے امن کو بار بار اقتدار کی دیوی کے چرنوں میں بَلی چڑھایا جاتاہے اور قاتلوں کی روک تھام کے بجاے پورا نظام ان کا پشتیبان بناہواہے ۔کراچی میں لینڈ مافیا بھی سیاسی پشتیبانی میں اربوں کی زمین پر قبضے کے لیے اپنی سیاہ کاری میں مصروف ہے۔ نارتھ ناظم آباد اور فیڈرل بی ایریا سمیت کئی علاقوں میں پارکوں پر قبضہ کیا گیا ہے ۔ مزید براں ایک بڑے خطۂ زمین گٹر باغیچہ پر قبضے کا عمل جاری ہے۔ اس قبضے کو روکنے کے لیے بننے والی شہری تنظیم کے کنوینر نثار بلوچ نے اپنے قتل سے تین دن پہلے ایم کیوایم کی طرف سے ملنے والی قتل کی دھمکیوں کا پریس کانفرنس میں تذکرہ کیا اور اپنے قتل کی ایف آئی آر ایم کیوایم کے خلاف درج کرنے کی اپیل کی۔ نثار بلوچ کے قتل کے بعد نادر بلوچ اس کمیٹی کے کنوینر بنے لیکن نثار بلوچ کے قتل کے تین دن کے اندر ان کو بھی قتل کردیا گیااور آج تک کوئی قاتل گرفتار نہ ہوسکا۔
وفاقی وزیرداخلہ رحمن ملک کے بار بار انکار کے باوجود امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے اعترافی بیان دیا کہ بلیک واٹر پاکستان میں موجود ہے ۔ آج کراچی میں بار بار مسلکی اور لسانی آگ بھڑکانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ امت کو توڑنے کے امریکی منصوبے پر عملدرآمد کیا جاسکے ۔ اسی طرح یوم یک جہتی کشمیر پر خبروں کا رخ پھیرنے کے لیے عزاداران کی بس پر حملہ کر کے ایک پنتھ کئی کاج کے مقاصد کو پورا کیا گیا ۔ کراچی میں امریکی سفیر میری این پیٹرسن ایک سیاسی پارٹی کے دفتر پر حاضری دے کر امداد کا اعلان کرتی ہیں،جب کہ برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈشدید مصروفیات میں بھی پاکستان کے کئی اہم افراد کو نظر انداز کر کے کراچی کی بلدیاتی قیادت سے ملاقات کا طویل وقت نکالتے ہیں ۔ کراچی کی بدامنی میں امریکی ، بھارتی اوران کے مقامی ایجنٹوں کی کاروائی کی واضح چھاپ دیکھی جاسکتی ہے ۔ عوام نے لسانی اور مسلکی فساد کو مسترد کر کے اپنی ذمہ داریوں کو اداکیاہے لیکن حکمرانوں کے اقدامات ابھی تک نامکمل ہیں ۔ کراچی کے عوام کو آج بھی دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاگیاہے ۔ سیاسی مصلحتوں نے کراچی کو خون سے رنگین کردیاہے ۔
اگر سانحہ عاشورہ کے ذمہ داران کو سزا دے دی جاتی تو سانحہ چہلم نہ ہوتا ۔ اگر سانحہ نشتر پارک کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جاتا تو سانحہ عاشورہ نہ ہوتا۔۱۲ مئی ۲۰۰۴ء ، ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء ، ۹؍اپریل ۲۰۰۸ء ، ۱۸ ؍اکتوبر ۲۰۰۷ء بشریٰ زیدی کیس ، سانحہ علی گڑھ ، پکا قلعہ حیدر آباد جیسے بڑے بڑے سانحات میں سے کسی بھی سانحہ کا تجزیہ کر کے مجرموں کو متعین کرنے کا کام نہیں ہوا اور اس وقت بھی شہری جنازے اٹھا رہے ہیں۔ غریب اور لاچار سیاسی مفادات کی بھٹی میں جل رہے ہیں لیکن ریاستی اقدامات تحقیق و تفتیش کے عمل کو آگے بڑھانے کے بجاے مٹی ڈالنے اور زبانی جمع خرچ کاکام کر رہے ہیں ۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سیاسی رہنما اور میڈیا تک اصل ذمہ داران کا نام نہیں لیتے۔ نومبر ۲۰۰۸ء میں وزیراعلیٰ سندھ کی اے پی سی میں تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر فیصلہ کیا تھاکہ کراچی کو اسلحے سے پاک کیا جائے گالیکن اخباری اطلاعات کے مطابق گذشتہ دس مہینوں میں ملک میں ۳۹ ہزار ۸ سو مہلک اور ممنوعہ اسلحے کے لائسنس پولیس تحقیق کے بغیر جاری کر دیے گئے ۔ اور اسلحے کے بارے میں اے پی سی کا یہ فیصلہ بھی سندھ کی سیاسی مفاہمت کی بھینٹ چڑھ گیا۔
جماعت اسلامی پاکستان کی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس کراچی کے شہریوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کراچی کے امن کو پاکستان کا امن قرار دیتاہے ۔ اس حوالے سے پورے ملک کی سیاسی جماعتوں ، دانش وروں ، اہل حل و عقد ، مؤثر افراد اور سول سوسائٹی سے کراچی کو پرامن بنانے کے لیے آگے بڑھنے ، اپنا کردار ادا کرنے اور وفاقی و صوبائی حکومت پر دبائو ڈال کر کراچی کے امن کے لیے اقدامات کروانے کی اپیل کرتا ہے ۔ شوریٰ کا اجلاس مطالبہ کرتاہے :
۱- کراچی میں امن قائم کرنے کے لیے نیک نیتی کے ساتھ کام کیا جائے ۔ قانون پر عمل درآمد کے راستے کی ہر رکاوٹ کو دور کیا جائے ۔ وہ مفاہمتی عمل جو کراچی کو بدامنی سے دوچار کرتا ہو عوام اور پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے۔ ایسے مفاہمتی عمل کو ترک کرنے کی ضرورت ہے ۔
۲- کراچی میں اداروں پر سے سیاسی دبائو ختم کیا جائے ۔ پولیس میں سیاسی بنیادپر تقرریوں سے گریز کرتے ہوئے آپریشن کے بعد قتل کیے جانے والے ۶۰ پولیس افسران کے قاتلوں کو سزادی جائے ۔ مجرموں کو سیاسی دبائو سے رہا کرانے والوں پر اعانت جرم کے مقدمات قائم کیے جائیں ۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کام کرنے کا موقع دیا جائے ۔
۳- کراچی کو اسلحے سے پاک کیا جائے ۔ ممنوعہ بو ر کے تمام اسلحے کو بلاتخصیص واپس لیا جائے ۔
۴- سانحہ بشریٰ زیدی ،سانحہ علی گڑھ اور سانحہ نشتر پارک کمیشن کے اعلانات کو روکنے والوں کو سامنے لایا جائے ۔ ۱۲ مئی ، ۹ اپریل ،۱۸؍اکتوبر، سانحہ عاشورہ اور سانحہ چہلم پر اعلیٰ عدالتی کمیشن تشکیل دے کر مجرموں کا پتا چلایا جائے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
۵- سانحہ چہلم کی طرح دو سال کے تمام شہدا کے وارثوں کو ۵ لاکھ اور زخمیوں کو ۳ لاکھ کا معاوضہ دیا جائے۔
۶- کراچی میں غیر سیاسی ، غیر جانب دار بلدیاتی ایڈمنسٹریٹرز کا تقرر کیا جائے ۔
۷- کراچی میں آزادانہ صاف ، شفاف اور اسلحے سے پاک بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا جائے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو نئے بلدیاتی نظام کے لیے شریک مشورہ کیا جائے۔
۸- میرٹ اور گڈگورننس کے ساتھ کراچی کے جملہ مسائل حل کرنے کی جانب توجہ دی جائے۔
۹- زمینوں پر قبضوں کو فوری طور پر روکاجائے۔ گذشتہ ۱۰ سالوں کی الاٹمنٹ کا جائزہ لیا جائے ۔ نثار بلوچ اور نادر بلوچ کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔ قبضہ کیے جانے والے پارکوں اور کھیل کے میدانوں کو قبضے سے آزاد کروایا جائے۔
جماعت اسلامی پاکستان مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس مقبوضہ جموںوکشمیر میں بھارتی درندگی اور انسانی حقوق کی پامالی کی تازہ لہرکی شدید مذمت کرتاہے جس کے نتیجے میں نوجوانوں بالخصوص طلبہ کو نشانہ بنا کر شہید کیا جا رہاہے۔ جس پر عالمی انسانی حقوق کے اداروں نے بھی سخت تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن بھارت ڈھٹائی کے ساتھ سارے ردعمل کونظر انداز کرتے ہوئے ریاستی تشدد میں اضافہ کرتاچلا جا رہاہے۔ بھارت کی اس نسل کشی کی پالیسی کے نتیجے میں گذشتہ ۲۰ سال کے دوران میں ایک لاکھ کشمیری مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔ جن میں سے ۱۰ ہزار گمشدہ نوجوانوں کی قبریں حال ہی میں دریافت ہوئی ہیں جنھیں وقتاً فوقتاً گھروں سے اٹھایا گیا اور بدترین تعذیب و تشدد کے بعد شہید کیاگیا۔ ظلم اور جبر کی اس لہر پر پردہ پوشی کے لیے بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں ،میڈیا اور ریلیف ایجنسیوں کے داخلے پر پابندی ہے اور دوسری طرف لاکھوں کنال زمین پر فوج نے زبردستی ناجائزقبضہ کرتے ہوئے مالک اور قابض کشمیریوں کو بے دخل کرکے بے روزگار کردیا ہے ۔ اس سلسلے میں احتجاج کی لہر کو روکنے کے لیے قائد حریت سید علی گیلانی اور دیگر حریت قائدین کی نقل و حرکت کو بھی قیدوبند کے ذریعے محدود کردیاگیاہے ۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان دل خراش حالات سے عالمی برادری بھی لا تعلق ہے اور حکومت پاکستان بھارت کے ان مظالم کو بے نقاب کرنے کے بجاے مجرمانہ سکوت اختیار کیے ہوئے ہے۔لا تعداد نام نہاد جامع مذاکرات ہمیشہ بے نتیجہ ثابت ہوئے کیونکہ حکومت پاکستان کی اپنے موقف سے پسپائی اور اعتماد سازی کے اقدامات کے باوجود بھارت مسئلہ کشمیر پر نہ صرف بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ اس کی فورسز نے سیز فائر لائن پر بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر شروع کردیا ہے اور بین الاقوامی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے حال ہی میں سیکرٹری سطح پر مذاکرات شروع کرنے کی جو پیش کش کی گئی ہے اس کے ایجنڈے میں بھی مسئلہ کشمیر کے بجاے جزوی نکات شامل کیے گئے ہیں، اور اس پیش کش سے پہلے بھارتی وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے کر واضح کردیا ہے کہ وہ مذاکرات میں کتنا سنجیدہ ہے ۔
مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس حالات کی اس سنگینی پر حکومت پاکستان کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ بھارت کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے ڈکٹیٹر مشرف کی اختیار کردہ پالیسی کے منحوس سایے سے نکلے اور قومی پالیسی کا احیا کرے جس پر قیام پاکستان سے لے کر اب تک پوری قوم کا اتفاق ہے کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ ۵فروری کو یوم یک جہتی کشمیر کے موقع پرایک بار پھر قوم نے اپنے اس موقف کی تجدید کی ہے۔ اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھے اور ہر محاذ پر پورے اعتماداور جرأت سے پاکستان کے اصولی موقف کامؤثر طور پر اظہار کرے اور بھارت کو مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے روکنے اور جموںوکشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کے حصول کے لیے عالمی راے عامہ کو متحرک کرنے کے لیے جامع حکمت عملی طے کرے، نیز بھارت سے مذاکرات اسی صورت میں کیے جائیں کہ:
۱- بھارت ریاست جموںو کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کرے ۔
۲- مذاکرات جزوی مسائل کے بجاے اصل مرکزی ایشو، یعنی مسئلہ کشمیرپر ہوں۔
۳- فوجی انخلاء اور کالے قوانین کے خاتمے کا اعلان کرے ۔
۴- ہزاروں کشمیری سیاسی قیدیوں کی رہائی کا اہتمام کرے ۔
اجلاس اقوام متحدہ، او آئی سی سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں سے بھی اپیل کرتاہے کہ وہ بھارت کو ان مظالم سے باز رکھنے اور کشمیریوں کو حق خودارادیت دلوانے میں مؤثر کردار ادا کریں۔
اجلاس ۵ فروری یوم یک جہتی کشمیر کے شان دار اہتمام پر پوری قوم کو خراج تحسین پیش کرتاہے اور اہل کشمیر کو یقین دلاتاہے کہ جماعت اسلامی پاکستان اور پوری پاکستانی قوم حق خودارادیت کی مبنی برحق جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ ہے ۔
برسرِاقتدار طبقے، خاص طور پر پاکستان کی بانی جماعت، اور اُس کے بطن سے جنم لینے والی پارٹیوں کے وابستگان کی اخلاقیات، ابتدا ہی سے محلِّ نظر رہی ہیں___ خرابیاں گوناگوں تھیں: ناجائز الاٹمنٹیں، رشوت ستانی، نااہلوں کا تقرر، ناجائز سفارشیں، انتخابات میں بدعنوانیاں، قانون کی پامالی، اقربا پروری، مقامی، مہاجر اور برادریوں کا تعصب وغیرہ وغیرہ۔ یہ خرابیاں دورِ ملوکیت اور دورِ غلامی کی پروردہ تھیں اور کسی بھی سطح کا اختیار رکھنے والے حاکم یا ماتحتوں کے شعور کا حصہ اور ایک طرح سے ان کی ’عادتِ ثانیہ‘ بن چکی تھیں___ اس دور میں زیادہ تر وزرا، ارکانِ اسمبلی اور پارٹی لیڈر طبقۂ اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے شخصی سطح پر ایک گونہ اخلاقیات کا خیال ضرور رکھتے تھے اور خود کو ایک خاص سطح سے نیچے نہیں گرنے دیتے تھے۔ گو ان کی اخلاقیات ان کی روایتی جاگیردارانہ نوعیت کی ہوتی تھی۔
انھیں یہ خوف بھی لاحق رہتا تھا کہ ان پر کوئی الزام نہ لگ جائے۔ اگر کسی شخص پر بدعنوانی کا الزام لگتا تو وہ پریشان ہوتا اور شرمندگی محسوس کرتا۔ بعض اوقات تردید یا اپنی صفائی پیش کرکے، اس الزام سے بری الذّمہ ہونے کی کوشش کرتا۔ گو کہ اس طبقے کی اخلاقیات کا اسلامی اخلاقیات سے تعلق بہت کم ہوتا تھا، وہ صرف دنیاوی یا ظاہری اخلاق کی اتنی مقدار کا قائل تھا جس سے انسان ’منہ دکھانے کے قابل‘ رہے___ مختصراً یہ کہ معاشرے، حکومت اور حکمرانی کی تمام تر خرابیوں کے باوجود، زوال پذیر ’اخلاقیات‘ ایک مستحسن ’قدر‘ کے طور پر تسلیم کی جاتی تھی۔
تاریخِ پاکستان کی پہلی ربع صدی میں سیاست اور قانون کی حکمرانی میں اخلاقیات کا گراف زوال پذیر ہی رہا، مگر پستی کی طرف اس کی رفتار نسبتاً کم کم تھی۔ اس گرتے ہوئے گراف میں پہلا ’کریش‘ اس وقت ہوا جب ہمارے پہلے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے اقتدار سنبھالا۔ انھوں نے عنانِ حکومت ہاتھ میں لیتے ہی مخالفین کی ٹانگیں توڑ دینے، زبان گُدّی سے کھینچ لینے اور ہزاروں کے ہجوم میں علی الاعلان بدکلامی اور گالم گلوچ (قذافی اسٹیڈیم، لاہور) کا نمونہ پیش کرکے ایک ’نئی سیاسی اخلاقیات‘ کی طرح ڈالی۔ چند سالہ دورِاقتدار میں اس بے چاری جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور اخلاقیات پر کیا کیا نہ ستم ہوئے۔ اُس تفصیل سے قطع نظر کرتے ہوئے صرف یہ کہنا کافی ہوگا کہ گذشتہ ۳۰؍۳۵ برسوں میں ہماری ۶۳سالہ تاریخ کے صاحبانِ اقتدار نے اخلاق و قانون کے گراف کو نیچے لے جانے میں بڑی مستعدی سے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اخلاق ایک طرح کا غیرتحریری قانون ہے، جو لوگ اخلاق کی پامالی کو جائز سمجھتے تھے، وہی قانون شکنی میں بھی آگے آگے رہے۔ قانون شکنی ملکی قوانین کی ہو یا مذہبی اصولوں کی، اُنھیں یہ کہنے میں ذرہ برابر عار نہیں رہا کہ ’’ایفاے عہد، قرآن و حدیث تو نہیں جس کی پابندی ضروری ہو‘‘۔
بداخلاقی، بدکلامی اور قانون شکنی کا یہ رجحان شجرِخبیثہ کی طرح خوب خوب برگ و بار لے آیاہے۔ مثالیں ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں، کسی بھی دن کا اخبار اُٹھا کر دیکھ لیجیے___ ارکانِ اسمبلی (مرد و زن) اپنی گفتگوئوں میں (ایوان کے اندر یا باہر) ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے، ایک دوسرے کے لتّے لیتے، ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے نظر آئیں گے___ انھی دنوں کی ایک سرخی دیکھیے: ’’پنجاب اسمبلی: سینیروزیر اور اپوزیشن لیڈر کے ایک دوسرے کو جوتے اُٹھانے کے طعنے، لوٹے لٹیرے کے نعرے‘‘(نواے وقت، ۱۱؍فروری ۲۰۱۰ئ)۔ اِنھی دنوں آپ نے ایک اور اخباری سرخی بھی ملاحظہ کی ہوگی، جو کچھ اس طرح تھی کہ ’’بسنت ضرور منائوں گا۔ عدلیہ انصاف پر توجہ دے ٹریڈ یونین نہ بنائے‘‘ (ایضاً، ۲۱ فروری)۔یہ بیان اس شخص کا ہے جو وطنِ عزیز کے سب سے بڑے صوبے کا حاکمِ اعلیٰ ہے۔ پنجاب میں پتنگ بازی قانوناً جرم ہے۔ قانون توڑنے اور علی الاعلان ارتکابِ جرم کا عزم) دیدہ دلیری کی وہ انتہا ہے، جس کے بارے میں مولانا حالی نے کہا تھا ع
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اخلاقی گراوٹ اور قانون شکنی ایک عالم گیر بیماری ہے، اسی لیے دنیا کے مختلف معاشروں میں اخلاقیات کا معیار خاصی نچلی سطح تک چلا گیا ہے۔ اگر اس مفروضے کو تسلیم بھی کرلیا جائے، تب بھی خیرِاُمت کے لیے اور ملّی تشخص کی دعوے دار قوم کے لیے، جس نے ایک ملک اسلامی احکامِ شریعت کے نفاذ کے لیے حاصل کیا ہو، یہ صورتِ حال ناقابلِ رشک ہی نہیں، انتہائی تشویش کا باعث بھی ہے۔ چند صدیاں پہلے یورپ میں سیاست، معیشت اور حکمرانی نے مذہب سے پیچھا چھڑایا، بایں ہمہ اس نے ایک درجے کی اخلاقیات کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اخلاقی ضابطوں کی پابندی، کاروبار میں ایفاے عہد، نظم و ضبط اور بعض دوسرے اصول اور ضابطے برقرار رکھے۔ اِسی اخلاقیات کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی نے انھیں زندہ رکھا ہوا ہے۔
صرف لاہور میں پانچ برسوں کے دوران ۱۷۱؍ افراد پتنگ بازی کی بھینٹ چڑھ گئے جن میں ۵۱ کم سِن بچے اپنے والدین کے ساتھ موٹرسائیکل پر جاتے ہوئے ڈور پھرنے سے جاں بحق ہوئے (نواے وقت، ۲۱؍ فروری)، مگر بڑے صوبے کے لاٹ صاحب پتنگ مافیا کے لیڈر کے طور پر قانون اور حکمرانی کو للکار رہے ہیں۔ مرزا غالب نے کہا تھا ؎
ہر اِک بات پر کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے؟
تمھی کہو یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟
اندازِ گفتگو انسان کی شخصیت کو بے نقاب کرتا ہے۔ غالب اپنے مخاطب کے ذرا سے بدلے ہوئے اندازِ گفتگو سے بدمزہ ہوئے تھے اور ہم اس نوبت کو پہنچ چکے ہیں کہ روزانہ اخبار کے ہرہرصفحے پر چھپنے والے نمونہ ہاے بدکلامی و بداخلاقی کا مطالعہ، ایک ’معمول‘ بن چکا ہے۔ قائدین کرام کی عظیم اکثریت بے بنیاد دعوے کرنے سے نہیں چوکتی۔ اگر کہیں سے گرفت کا اندیشہ ہو تو صاف جھوٹ بولتے ہوئے تردید کردیتے ہیں۔ چونکہ قانون کے رکھوالے خود قانونِ شکن بن گئے ہیں اِس لیے علی الاعلان ’پاکستان نہ کھپے‘ کہنے والے (سندھ کے وزیرداخلہ سمیت) سبھی بدستور اپنے عہدوں پر قائم ہیں۔ اگر معاشرے کا تعلیم یافتہ اور دین دار طبقہ بیدار ہوتا تو قانون شکنی کے مجرمانہ اعلان پر، صوبہ پنجاب کے حاکمِ اعلیٰ کے خلاف اتنا احتجاج ہوتا کہ آیندہ انھیں اس طرح کی بات کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔ خواجہ الطاف حسین حالی نے سوا سو سال پہلے ۱۸۸۶ء میں یہ رُباعی کہی تھی :
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ اُبھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مَد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اُترنا دیکھے
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ o تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o وَاُخْرٰی تُحِبُّونَھَا ط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ o (الصف ۶۱: ۱۰-۱۳) اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، میں بتائوں تم کووہ تجارت جو تمھیں عذابِ الیم سے بچادے؟ ایمان لائو، اللہ اور اُس کے رسولؐ پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانو۔ اللہ تمھارے گناہ معاف کر دے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمھیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔ اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہو جانے والی فتح۔ اے نبیؐ، اہلِ ایمان کو بشارت دے دو!
سورئہ صف کی ان آیات سے ایک نیا مضمون شروع ہوتا ہے۔ فرمایا گیا کہ اے ایمان والو، کیا میں تمھیں ایسی تجارت بتائوں جو تمھیں عذابِ الیم سے نجاتق دے دے۔ یہاںعذابِ الیم سے نجات دلانے والے عمل کے لیے تجارت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ تجارت اُس چیز کو کہتے ہیں جس میں آدمی اپنا سرمایہ، اپنا وقت، اپنی محنت، اپنی ذہانت اور اپنی قابلیت، غرض سب کچھ اس لیے کھپاتا ہے کہ ان کے بدلے میں اس کو نفع حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ اس استعارے کو استعمال کرکے فرماتا ہے کہ ایک تجارتیں تو وہ ہیں جوتم دنیا میں کرتے ہو اور دنیاوی منافع کے لیے اپنی محنت، اپنے سرمایے، اپنی قابلیتوں اور اپنے اوقات کو صرف کرتے ہو۔ دنیا کی ان تجارتوں کے مقابلے میں ایک تجارت ہم تمھیں بتاتے ہیں کہ یہ ساری چیزیں تم ان کاموں میں کھپائو جن کو آگے بیان کیا جارہا ہے اور ان کے نتیجے میں تمھیں ایک اور طرح کا نفع حاصل ہوگا۔ ان کاموں کی تفصیل ان الفاظ میں بیان کی گئی:
تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ (۶۱:۱۱) تم ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر، اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو اپنے مالوں کے ساتھ اور اپنی جانوں کے ساتھ۔
ایک ایمان تووہ ہے جس کا آدمی اپنی زبان سے اقرار اور اعلان کرتا ہے، اور ایک ایمان وہ ہے جو آدمی پورے خلوص اور صداقت کے ساتھ اپنے دل میں رکھتا ہے اور اس کے مطابق اس کی پوری سیرت اور پورا کردار تشکیل پاتا ہے۔ الفاظ کے اعتبار سے یہ دونوں چیزیں مختلف نہیں ہیں، لیکن اپنی روح اور اپنے معنی کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ الفاظ کے اعتبار سے تو ان کے درمیان کوئی فرق نہیں، کیونکہ جو زبانی اقرارِ ایمان کرتا ہے وہ بھی مومن ہے، اور وہ بھی مومن ہے جو سچے دل سے ایمان قبول کرتا ہے اور جس چیز کو مانتا ہے اس کے لیے جان، مال، محنت سب کچھ کھپاتا ہے۔ اس طرح لفظِ ایمان اگرچہ دونوں کے درمیان مشترک ہے، یعنی معنی اور حقیقت کے اعتبار سے ان دونوں کے درمیان فرق ہے۔
جب بات کا آغاز یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کہہ کر فرمایا اور کہا گیا کہ ہم تمھیں وہ تجارت بتاتے ہیں جو عذابِ الیم سے بچانے والی ہے، تو یہاں یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سے مراد اگرچہ وہ سارے لوگ ہیں جو ایمان کے مدعی ہوں، چاہے وہ محض زبانی اقرارِ ایمان کر رہے ہوں اور چاہے سچے دل سے ایمان لائے ہوں، لیکن آگے جو الفاظ آتے ہیں کہ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ (ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر)، تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اپنی زبان سے تم جس چیز کو مان رہے ہو، اس کو سچے دل سے مانو، اور اخلاص کے ساتھ مانو۔ اس ماننے کے اندر کوئی منافقت نہیں ہونی چاہیے۔ کوئی ضعفِ ارادہ اور کوئی ضعفِ ایمان نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ماننا ایسا ہونا چاہیے کہ جس کے نتیجے میں تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے کمربستہ ہوجائو۔ گویا سچے ایمان کے بعد جس چیز کا ظہور تمھاری طرف سے ہونا چاہیے، وہ یہ ہے کہ تُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ، اللہ کی راہ میں جہادکرو (اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے)، یعنی جس حقیقت کو تم مان رہے ہو، اس حقیقت کو دنیا میںسربلند کرنے کے لیے اُس کے مقابلے میں جتنے جھوٹ دنیا میں چل رہے ہیں، ان سب کو نیچا دکھانے کے لیے تم اپنی جانیں اور اپنے مال کھپائو۔ یہی مفہوم ہے تُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ کا۔
اگر آپ غور فرمائیں تو آپ دیکھیں گے کہ یہاں جہاد کے معنی لازماً قتال کے نہیں ہیں۔ دراصل جہاد، قتال کے مقابلے میں زیادہ وسیع لفظ ہے۔ کسی مقصد کے لیے اپنی انتہائی کوشش صرف کرنے کو جہاد کہتے ہیں۔ کسی مقصد کے لیے اپنی جان لڑا دینے (جیسے ہم اُردو زبان میں بھی جان لڑا دینا کہتے ہیں) کا مقصد لازماً یہی نہیں ہوتا کہ آدمی جاکر مارنے پیٹنے ہی کا کام کرے۔ نہیں، جان لڑانے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کسی مقصد کے حصول کے لیے اپنی پوری قوت صرف کر دے۔ یہاں اللہ کی راہ میں مجاہدہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اس راہ میں اپنی پوری محنت اور قوت صرف کرو، نہ اپنا مال اس راہ میں کھپانے سے دریغ کرو اور نہ اپنی جان اس معاملے میں کھپانے سے دریغ کرو۔ چنانچہ جہاد بالنفس، یعنی نفس کے ذریعے جہاد کرنے کا مطلب لازماً یہ نہیں ہے کہ آدمی جاکر اللہ کی راہ میں کٹ مرے۔ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ آدمی اپنی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کے کلمے کو بلند کرنے میں کھپا دے۔ اس کے لیے سفر کرے، محنتیں کرے تکلیفیں اُٹھائے اور اس راہ میں اپنے آپ کو پوری طرح فنا کردینے کے لیے تیار ہوجائے۔ یہاں تک کہ اگر خداکی راہ میں لڑنے کی ضرورت پیش آئے تو لڑے بھی۔ مرنے کی نوبت آئے تو جان بھی دے دے۔ نفس کے ذریعے جہاد کرنے میں یہ ساری چیزیں شامل ہیں۔
دیکھیے یہاں تُجَاھِدُوْنَ کے الفاظ آئے ہیں جن کا مصدر مُجَاھَدَۃ ہے، اور مجاہدہ لازماً مقابلے میں پیش آتا ہے۔ اکیلا آدمی مجاہدہ نہیں کرسکتا۔ مجاہدہ اس صورت میں ہوگا، جب کہ مقابل میں کوئی ایسی طاقت موجود ہو جو اس مقصد کی راہ میں مزاحم ہو۔ اس کے مقابلے میں جدوجہد کرنا، مجاہدہ کہلائے گا۔ راہِ خدا میں مقابل کی طاقت شیطان بھی ہے، انسان کا اپنا نفس بھی ہے، معاشرہ بھی ہے، دنیا کے کفار اور دنیا بھر کے گمراہ لوگ بھی ہیں۔ وہ خود اپنی قوم کے لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو اللہ کی راہ میں مزاحم ہوں۔ اس طرح تمام وہ طاقتیں جو اللہ کی راہ میں مزاحم ہوں اور اللہ کے کلمے کے بلند ہونے میں مانع ہوں، ان تمام طاقتوں کے مقابلے میں محنت اور کوشش کرنا، مسلسل جدوجہد کرنا اور ہمہ پہلو جدوجہد کرنا، یہ مجاہدہ ہے۔ اس کے اندر دعوت وتبلیغ سے لے کر قتال فی سبیل اللہ تک ساری چیزیں آجاتی ہیں۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ اخلاص کے ساتھ ایمان لائو اور خدا کی راہ میں مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرو، یعنی اس مجاہدے کے اندر اپنا مال بھی کھپائو اور اپنی جان بھی کھپائو۔ یہ چیز دراصل وہ تجارت ہے جس کے منافع آگے بیان کیے گئے۔ گویا ایک تجارت تو وہ ہے جس میں آدمی دنیاوی منافع کے لیے کوشش کرتا ہے اور ایک یہ تجارت ہے کہ جس کے کچھ دوسرے منافع ہیں جو تمھیں حاصل ہوں گے۔
ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ (۶۱:۱۰) یعنی پہلی چیز یہ ہے کہ اگر تم اس تجارت میں اپنا مال کھپائو تو لازمی طور پر اس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ تم عذابِ الیم سے بچ جائوگے۔
عذابِ الیم سے مراد آخرت کا عذاب ہے۔ وہ ایسا عذاب ہے کہ اگر آدمی کو دنیا میں ساری عمر بڑے سے بڑا عیش بھی میسر رہے لیکن آخرت میں اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی جہنم کا عذاب ایک لمحے کے لیے بھی بھگتنا پڑے تو وہ ایک لمحے کا عذاب اس کے عمربھر کے عیش کو ختم کردینے کے لیے کافی ہے۔ آدمی بڑا احمق ہوگا اگر وہ جہنم کے ایک بھی لمحے کے عذاب کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہوجائے جو درحقیقت اس دنیا میں ساری عمر کے عیش کے مقابلے میں بھاری ہے۔ لہٰذا اس تجارت کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کے عذابِ الیم سے بچ جائے گا۔
دنیا کی دوسری تجارتوں میں سے یقینا بعض ایسی ہیں جن کے اندر آدمی کے لیے مبتلاے عذاب ہونے کا خطرہ نہیں ہوتا۔ لیکن بہت سی تجارتیںایسی ہیں جن میں آدمی انتہائی نفع حاصل کرلیتا ہے، یہاں تک کہ ارب پتی بن جاتا ہے، لیکن آخرکار وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مستحق ٹھیرتا ہے۔ اس بنا پر اس سے بڑی کوئی احمقانہ تجارت نہیں ہوسکتی کہ آدمی دنیا میں اربوں روپیہ کمائے، لیکن آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مستحق ٹھیرے۔
دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے، خواہ کتنا نیک، صالح اور کتنا ہی بڑا ولی کیوں نہ ہو، جس سے کبھی کوئی غلطی، قصور اور گناہ سرزد نہ ہوتا ہو۔ جب تک انسان ہے اس سے قصور ضرور سرزد ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت محاسبہ ہو___ سخت محاسبے کا معنی یہ ہے کہ آدمی سے ایک ایک فعل کا حساب لیا جائے گا___ تو دنیا کاکوئی آدمی بھی اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکتا۔ اگر ایک ایک فعل کی سزا دی جائے تو اس کے بعد کوئی آدمی سزا سے نہیں بچ سکتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے ایک بڑا احسان یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں سے ہلکا حساب لیتا ہے۔ اس چیز کو حسابِ یسیر کہتے ہیں۔
حسابِ یسیر یہ ہے کہ آدمی کی بحیثیت مجموعی پوری زندگی کو دیکھا جائے گا کہ آیا یہ ایک مومن صالح کی زندگی ہے اور یہ ایک ایسے آدمی کی زندگی ہے جس نے اپنی حد تک اطاعت کی کوشش کی ہے، تو ایسے آدمی کی سب کوتاہیاں معاف کر دی جائیں گی۔ اس کی خطائوں کا کوئی حساب نہیں ہوگا۔ صرف یہ دیکھا جائے گاکہ اگر وہ اپنے رب کا ایک وفادار بندہ ہے اور اس کا باغی نہیں ہے، اس کے ساتھ غداری کرنے والا نہیں ہے، اس نے اپنی حد تک وفاداری کی کوشش کی ہے اور جان بوجھ کر اطاعت سے منہ نہیں موڑا ہے تو اس کے بعد اس کے سارے قصور معاف، اس کی غلطیوں اور کوتاہیوں اور خطائوں کا جو زیادہ سے زیادہ نتیجہ ہوسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ جتنے بڑے مراتب کا مستحق وہ ہوسکتا تھا، اتنے اُونچے مراتب اس کو نہ دیے جائیں، اگر وہ یہ قصور نہ کرتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایسے وفادار بندے کو اس کی خطائوں کی سزا دے کر چھوڑ دے۔ چنانچہ پہلے تو اس کو عذابِ الیم سے نجات کی خوش خبری دی گئی، پھر اس کے بعد اسے دوسری خوش خبری یہ دی گئی ہے کہ تمھاری فرماں برداری کے انعام میں تمھارے سارے کے سارے قصور معاف کردیے گئے ہیں۔
وَیُدْخِلْکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ (۶۱:۱۲) اللہ تعالیٰ تم کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور ایسی جگہیں رہنے کے لیے دے گا جو جناتِ عدن ہیں، ایسی جنتیں جو ہمیشہ قائم رہنے والی ہیں (وہ خود بھی ہمیشہ قائم رہیں گی اور تم بھی ان کے اندر ہمیشہ رہو گے)۔
دائمی اور ابدی زندگی میں آدمی کا جنتی ہونا اور دائمی اور ابدی طور پر جنت میں داخل ہونا اور وہاں رہنا، یہ وہ نعمت ہے جس کے مقابلے میں دنیا کی بڑی سے بڑی نفع بخش تجارتیں ہیچ ہیں۔ اگر ایک آدمی دنیا کی بڑی سے بڑی دولت حاصل کرلے اور آخرت کی جنت سے محروم رہ جائے تو درحقیقت وہ بڑے خسارے میں ہے۔ غور فرمایئے کہ دنیا کی زندگی زیادہ سے زیادہ کتنی طویل ہوسکتی ہے۔ بہت ہوگی تو سَو، سوا سَو سال ہوجائے گی۔ اس طویل سے طویل زندگی کے اندر دنیا کی جو بڑی سے بڑی دولت ہوسکتی ہے، وہ کتنی ہے۔ اگر آدمی کے پاس اربوں روپیہ بھی ہو تو اس کی اپنی ذات پر اس میں سے زیادہ سے زیادہ کتنا خرچ ہوتا ہے۔ وہ ہیرے جواہرات بھی کھائے تو کتنے کھا لے گا (حالانکہ آدمی ہیرے جواہر تو کھا بھی نہیں سکتا)۔ مراد یہ ہے کہ اس کا روپیہ جوڑ جوڑ کر رکھنے کے لیے ہوسکتا ہے، بنکوں میں جمع کرنے کے لیے ہوسکتا ہے لیکن وہ روپیہ اس کی اپنی ذات پر کتنا خرچ ہوگا۔ کتنا وہ کھا لے گا، اور کتنا وہ پی لے گا، کتنی سواریاں رکھ کر وہ ان پر سوار ہوگا اور کتنی عمارتیں بناکر وہ ان کے اندر رہ لے گا، اور پھر یہ سب کچھ کتنی مدت کے لیے ہوگا۔ ساٹھ ستّر، اسّی نوے، سَو، سوا سَو سال کے لیے۔
اب اس کے مقابلے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی جنت میں رہنا ایک ایسی عظیم ترین نعمت ہے جس کے ساتھ دنیا کی کسی بڑی سے بڑی نعمت کی کوئی نسبت نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ ایک آدمی اگر دنیا کی تجارتوں کے بجاے آخرت کی تجارت میں اپنا سرمایۂ محنت کھپاتا ہے اور اس کے بدلے میں وہ ابدی جنت حاصل کرتا ہے تووہی آدمی دراصل کامیاب ہے۔ وہ شخص کامیاب نہیں جو اس جنت سے محروم رہ جائے اور دنیا کی تجارتوں میں لگایا ہوا اس کا سارا مال یہیں رہ جائے۔ اس لیے فرمایا: ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ، یہ سب سے بڑی کامیابی ہے، یعنی دنیا میں تم جو تجارت کرتے ہو اس کے مقابلے میں اس تجارت کا نفع بہت زیادہ ہے۔ اسی بات کو اُوپر ان الفاظ میں فرمایا: ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو۔ گویا اس تجارت میں جان، مال، محنت اور وقت کھپانا زیادہ نفع کا سودا ہے، اگر تم کو فہم ہو اور علم ہو اور یہ جانو کہ اس تجارت کی حیثیت کیا ہے۔
وَاُخْرٰی تُحِبُّونَھَا نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ (۶۱: ۱۳) گویا گناہوں کی معافی اور جنتوں کے قیام کی نعمت ِعظمیٰ کے علاوہ ایک اور چیز اللہ تعالیٰ تم کو عطا کرے گا جس کی طلب تم رکھتے ہو، وہ یہ ہے کہ عنقریب اللہ تعالیٰ کی نصرت اور فتح تم کو نصیب ہوگی۔ عنقریب سے مراد ہے اس دنیا میں۔ اس سارے سلسلۂ کلام میں آخرت کے فوائد کو پہلے بیان کیا ہے، کیونکہ وہ اہم تر ہیں اور دراصل مقصود ہیں۔ اس کے بعد اس چیز کا ذکر کیا گیا جو دنیا میں حاصل ہوگی۔ اس طرح گویا مسلمانوں کی ایک فطری کمزوری کی بھی نشان دہی کردی کہ: اُخْرٰی تُحِبُّونَھَا… اگرچہ آخرت میں ملنے والی چیز بہت بڑی ہے لیکن چونکہ تم انسان ہو، اس لیے تم دنیا کی کامیابی کو زیادہ عزیز رکھتے ہو۔ تم اپنی جگہ یہ سوچتے ہو کہ اگر اس دنیا کے اندر اللہ کا کلمہ ہمارے ہاتھوں سے بلند نہ ہوا، اور اس کا دیا ہوا نظام یہاںقائم نہ ہوا، تو ہم تو گویا دنیا سے یہ منظر دیکھے بغیر ہی چلے جائیں گے کہ یہاں اللہ کا قانون جاری ہو رہا ہے، اس کادیا ہوا نظام نافذ ہو رہا ہے، اور یہاں وہ بھلائیاں فروغ پا رہی ہیں، جن کی اللہ کے دین کی بدولت حاصل ہونے کی توقع دلائی جاتی تھی، تو ہم تو اس نعمت اور خوشی سے محروم ہی رہ جائیں گے۔ ایک نیک سے نیک آدمی کے اندر بھی یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اگرچہ آخرت تو یقینا ہونی ہے اور چاہے ہم دنیا میں ناکام بھی مرجائیں تب بھی آخرت کی کامیابی تو ہمیں حاصل ہوگی ہی، مگر پھر بھی دلوں میں فطری طور پر یہ تمنا ہوتی ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے دین حق کے قیام اور اس کے نتائج کو دیکھ لیں۔ اس لیے اس بات کا لحاظ رکھتے ہوئے فرمایا کہ جو چیز یہاںدنیا میں تم چاہتے ہو وہ بھی تمھیں ملے گی۔ اگر تم اللہ کی راہ میں مجاہدہ کرو گے، اپنی جان و مال کھپائو گے تو اس دنیا کے اندر بھی تم کو نصرت اور فتح حاصل ہوگی۔
فَتْحٌ قَرِیْبٌ کے دو معنی ہیں۔ ایک معنی یہ ہیں کہ وقت کے لحاظ سے عنقریب یہ فتح جلدی تم کو مل جائے گی۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اسی دنیا میں (یعنی عاجلہ میں) تم اپنی آنکھوں سے اس نظام کو کامیاب ہوتے ہوئے دیکھ لو گے جس کو لے کرتم کھڑے ہوئے ہو اور جس کے لیے تم سے مجاہدہ کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ o (۶۱:۱۳) اور اے نبیؐ، مومنوں کو بشارت دے دو۔
یہاں اہلِ ایمان کو بشارت دی گئی ہے۔ یہ الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ یہ خوش خبری ایک امرواقع ہونے کے علاوہ مسلمانوں کے اطمینان اور تسلی کے لیے ایک ضرورت بھی تھی۔ یہ بات پہلے بیان ہوچکی ہے کہ دراصل یہ سورت اس زمانے میں نازل ہوئی تھی، جب کہ مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے کوشش کر رہی تھی اور اس کے مقابلے میں سارا عرب کفر میں مبتلا تھا، اور خود مدینہ طیبہ میں منافقین اور یہود اسلام کی شمع کو بجھانے کے درپے تھے۔ اس زمانے میں دُور دُور تک اس بات کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے کہ مدینے میں پائی جانے والی مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت کفر کے اس سیلابِ عظیم کا منہ پھیرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اس وقت بظاہر مسلمانوں کو بھی یہ محسوس ہو رہاتھا اور کفار و مشرکین بھی یہ سمجھ رہے تھے کہ سارے ملک کے کفروشرک کے مقابلے میں اس مٹھی بھر جماعت کا کامیاب ہونا بڑا مشکل ہے، اور ہوسکتا ہے کہ اگر کفار کا زبردست دبائو اور نرغہ اس کے خلاف ہوجائے تو یہ جماعت ختم ہوجائے۔
اس موقع پر یہ فرمایا :’’اے نبیؐ! مومنوں کو بشارت دے دو تاکہ ان کے دلوں میں مایوسی اور کمزوری نہ پیدا ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ان کو امیدوار بنائو، اور ان کو یقین دلائو کہ تم اگر اللہ کی راہ میں صحیح معنوں میں مجاہدہ کرو گے اور اپنی جان اور مال کھپائو گے تواللہ تعالیٰ نہ صرف یہ کہ آخرت میں تم کو کامیابی عطا کرے گا بلکہ اس دنیا میں بھی تم کو فتح سے نوازے گا، جب کہ حال یہ ہے کہ تم مٹھی بھر لوگ ہو، اور کفر وشرک کی طاقتیں تمھارے مقابلے میں ہزاروں گُنا زیادہ ہیں۔ گویا ایک بستی کا مقابلہ پورے عرب کے باشندوں سے ہے۔ اس حالت میں بھی یقینا تمھی کامیاب ہو گے بشرطیکہ تم اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا حق ادا کرو‘‘۔
ایک اصولی بات جو قرآن مجید سے ہمیں معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک گروہ اللہ کے دین کے لیے مجاہدہ کرنے والا نہیں ہے بلکہ دنیاوی اغراض کے لیے لڑنے والا ہے اور اس کا مقابلہ بھی انھی لوگوں سے ہے جو دنیوی اغراض کے لیے لڑنے والے ہیں، تو اللہ تعالیٰ کو ان کے درمیان مداخلت کرنے کی کوئی حاجت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنی تائید کافروں میں سے کسی ایک گروہ کو دے بلکہ اس کے برعکس وہ دونوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ اس کے بعد دونوں گروہوں کا مقابلہ ان کے دنیوی ذرائع و وسائل اور کامیابی کے دوسرے اسباب کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یہ بات فیصلہ کن ہوتی ہے کہ کس کے اندر زیادہ اجتہادی قوت اور مقصد کے لیے زیادہ لگن ہے۔ کس کے اندر زیادہ تنظیم ہے۔ کون ایسا گروہ ہے کہ جب قوت اور مقابلہ درپیش ہو تووہ لڑنے مرنے کے لیے میدان میں آتا ہے، اور کون ایسا گروہ ہے جو اپنی جان بچانے کی فکر میں رہتا ہے۔ اور پھر یہ کہ کس کے پاس آلاتِ جنگ اور مادی ذرائع زیادہ ہیں۔ ایسے گروہوں کے درمیان فیصلہ انھی باتوں پر موقوف ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کو اپنی تائید کسی کافر یا مشرک یا فاسق کے حق میں بھیجنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اس کے مقابلے میں اگر ایک گروہ دنیا میں ایسا ہو جو اللہ کے لیے جہاد کرنے والا اور اس کی راہ میں اپنی جان ومال اور محنت کھپانے والا، اس کے مقابلے میں دوسرا گروہ ایساہو جو دنیا کے لیے لڑنے والا ہو، تو وہاں پھر اللہ تعالیٰ کا براہِ راست تعلق اس گروہ کے ساتھ ہوتا ہے جو اللہ کے لیے لڑنے والا ہو۔ اس جگہ اگر اہلِ ایمان کے اخلاق ویسے ہی ہوں جیسے کہ ان کے ہونے چاہییں اور جو ہدایات اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ نے اس کو دی ہیں ان کے مطابق وہ گروہ کام کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی تائید اس کو حاصل ہوتی ہے۔ پھر اس تائید کے لیے اس پورے گروہ یا جماعت کا بحیثیت مجموعی صالح ہونا بھی ضروری ہے۔ یہ نہیں کہ ایک ایک آدمی تو صالح ہو لیکن جماعت ہونے کی حیثیت سے ان میں وہ خرابیاں موجود ہوں جو منافقین کی جماعت میں ہوسکتی ہیں، تو پھر اس گروہ کو اللہ کی تائید حاصل نہیں ہوسکتی۔ جماعت ہونے کی حیثیت سے اگر وہ ایک دوسرے کی کاٹ میں لگے ہوئے ہوں، تواس طرح کے لوگ فی الواقع صالح جماعت نہیں ہیں۔ ایک صالح جماعت کے صالح افراد اگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں اخلاص کے ساتھ جدوجہد کرنے والے ہوں، توپھر کفار کے مقابلے میں اگر ان کے پاس ۵ فی صد ذرائع بھی ہوں تو تب بھی وہ کامیاب ہوں گے، بلکہ بعض حالات میں تو ایک فی صد ذرائع بھی کامیابی کے لیے کافی ہوجاتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تائید ان کو حاصل ہوتی ہے۔
ان حالات میں فرمایا گیا کہ باوجود اس کے کہ اہلِ ایمان اس وقت کمزوری کی حالت میں ہیں، ان کی تعداد کم ہے،ان کے ذرائع کم ہیں اور پورے ملک کے کفار و مشرکین کے ساتھ ان کا مقابلہ ہے، مگر اے نبیؐ! تم ان کو بشارت دے دو کہ اگر تم اللہ کی راہ میں جہاد کرو اور سچے اور مخلص مسلمانوں کی طرح کرو تو تمھی کامیاب ہوگے۔ عنقریب تمھیں فتح حاصل ہوگی۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جو بات اس وقت کہی گئی تھی وہ جوں کی توں پوری ہوئی۔ جس زمانے میں یہ بات کہی گئی وہ غالباً تین چار ہجری کا زمانہ تھا۔ سورت کے مضامین خود بتا رہے ہیں کہ یہ اس زمانے کی سورت ہے، جب کہ مسلمانوں کے لیے انتہائی سخت وقت تھا۔ پھر ایسا وقت آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مسلمانوں کو عرب کے اندر پوری کامیابی حاصل ہوئی اس میں بمشکل پانچ یا چھے سال لگے۔ ان پانچ چھے برسوں کے اندر بساط بالکل اُلٹ گئی، جو کمزور تھے وہ غالب آگئے اور جو بظاہر بڑی تعداد اور بڑے سازوسامان والے تھے، مسلمانوں کے مقابلے میں مغلوب ہوگئے۔ ان کے بڑے بڑے سردار بیش تر مارے گئے۔ اس کے بعد نیا مضمون شروع ہوتا ہے:
یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَرِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِِلَی اللّٰہِ ط قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ فَاٰمَنَتْ طَّائِفَۃٌ مِّنْم بَنِیْٓ اِِسْرَآئِیْلَ وَکَفَرَتْ طَّـآئِفَۃٌ فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰی عَدُوِّھِمْ فَاَصْبَحُوْا ظٰھِرِیْنَ o (۶۱: ۱۴) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کے مددگار بنو، جس طرح عیسیٰ ابن مریمؑ نے حواریوں کو خطاب کرکے کہا تھا: کون ہے اللہ کی طرف (بلانے) میں میرا مددگار؟ اور حواریوں نے جواب دیا تھا: ہم ہیں اللہ کے مددگار۔ اس وقت بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دوسرے گروہ نے انکار کیا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی اُن کے دشمنوں کے مقابلے میں تائید کی اور وہی غالب ہوکر رہے۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی علیہ السلام اور ان کے پیروؤں کی تاریخ سے ایک سبق دیا ہے۔ فرمایا کہ: اللہ کے مددگار بنو، جس طرح عیسیٰ ابن مریمؑ نے جب حواریوں کو پکارا تھا کہ کون اللہ کی راہ میں میرا مددگار ہے تو حواریوں نے کہا تھا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب بعثت کے بعد نبی اسرائیل میں اپنی دعوت شروع کی تو جیساکہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ بنی اسرائیل دراصل ایک ایسے مسیح کے منتظر تھے جو تلوار کے ساتھ آئے اور طاقت کے زور سے فلسطین کا ملک فتح کرکے ان کے حوالے کرے، اور بنی اسرائیل کو پھر ایک فرمان روا قوم بنادے۔ اس طرح وہ عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے کئی صدیاں پہلے ایک ایسے مسیح کی آمد کے منتظر تھے۔ جب سے، یعنی تقریباً سات سو قبل مسیح کے زمانے سے بنی اسرائیل کی شامت آنی شروع ہوئی تھی، بار بار ان کا علاقہ فتح ہو رہا تھا اور دنیا کی قومیں ان کو مسلسل پیس رہی تھیں اور ان کو مار مار کر دوسرے ملکوں میں لے جایا جارہا تھا، یہاں تک کہ چودہ صدیوں کے بعد ان کے ۱۰ قبیلے دنیا سے اس طرح مٹ گئے کہ ان کے بارے میں آج کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ وہ کہاں گئے، تو اس زمانے میں بنی اسرائیل کو ایک بشارت دی گئی کہ ایک مسیح آئے گا جو تم کو اس مصیبت سے بچائے گا۔ اس بشارت سے وہ یہ سمجھے کہ جو مسیح آئے گا وہ شمشیر بکف ہوگا اور کافروں سے جنگ کرے گا۔ حالانکہ اللہ کی بشارت کے یہ الفاظ نہیں تھے۔ بس انھوں نے اپنی جگہ یقین کرلیا کہ وہ مسیح آکر ہمارے دشمنوں کے مقابلے میں تلوار کے زور سے فتوحات حاصل کرے گا اور فلسطین کی سرزمین پھر ہمیں دلادے گا۔ لیکن جب حضرت عیسٰی ؑتشریف لائے اور انھوں نے ان کو دین کی دعوت دینی شروع کی تو بنی اسرائیل کو اس پر سخت غصہ آیا کہ ہمیں تو اس مسیح کی ضرورت نہیں تھی، ہمیں تو اس مسیح کی ضرورت تھی جو ہمیں ہتھیار دے اور دشمنوں کے خلاف ہم سے جنگ کروائے، لیکن یہ مسیح تو آکر ہم سے یہ کہتا ہے کہ تم اخلاص اختیار کرو، ایمان داری اختیار کرو، ریاکاری سے بچو، جو بے ایمانیاں تم کرتے ہو اور طرح طرح سے ناجائز طریقے سے لوگوں کے مال کھاتے ہو، ان سب چیزوں کو چھوڑ دو۔ اس طرح یہ مسیح تو ہمیں ہمارے ملک کی واپسی اور غلبے کی راہ دکھانے کے بجاے ہمیں اخلاق کا راستہ دکھا رہا ہے۔ یہ ہمیں اس کٹھن راستے پر چلنے کے لیے کہہ رہا ہے کہ جس سے گریز کرنے کے لیے ہم نے اپنے انبیا کو ستایا تھا اور ان کو قتل تک کیا تھا۔
اس ذہنیت کو لے کر وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دشمن ہوگئے۔ پوری قوم نے آپ ؑ کو ماننے سے انکار کر دیا۔ اس حالت میں حضرت عیسٰی ؑبحرطبریہ کے کنارے گئے۔ وہاں کچھ مچھیرے مچھلیاں پکڑ رہے تھے۔ ان کو حضرت عیسٰی ؑ نے مخاطب کر کے اللہ کی راہ کی دعوت دی تو ۱۲آدمی ان میں سے نکل کر آگئے۔ دوسری روایات کے مطابق یہ لوگ کپڑے دھونے والے، یعنی دھوبی تھے اور غریب لوگ تھے۔ دن بھر کی محنت پر گزارا کرتے تھے اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے تھے۔ انھی میں سے ۱۲ آدمی نکل کر آپ کی طرف آگئے اور آپ کے جاں نثار ساتھی بن گئے۔ دوسری طرف پوری قومِ بنی اسرائیل آپ کا انکار کر رہی تھی۔ یہاں اللہ تعالیٰ اس واقعے کی طرف اشارہ کرکے فرماتا ہے: حواری اگرچہ ایک مٹھی بھر جماعت تھے جو ایمان لائے تھے، اور دوسری طرف بنی اسرائیل کی پوری قوم منکر ہوگئی تھی۔ ان کے علاوہ رومی بھی آپ کے مخالف تھے۔ لیکن آخرکار اللہ تعالیٰ نے سچے اہلِ ایمان کی اسی مختصر جماعت کوکامیابی دی اور جوان کے مخالف تھے، وہی آخرکار ناکام ہوئے۔
دوسرے الفاظ میں اُوپر جو بشارت دی گئی ہے کہ بَشِّرْ الْمُؤْمِنِیْنَ تو اس بشارت کے ساتھ یہ تاریخی نظیر پیش کی گئی کہ دیکھو جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ساتھ دیا، آخرکار غلبہ انھی کو حاصل ہوا۔ وہ مٹھی بھر آدمی تھے، ان کو مارا کھدیڑا گیا، طرح طرح کے مظالم ان پر کیے گئے، لیکن ان کی ثابت قدمی میں فرق نہ آیا۔ ان کی دعوت اور تبلیغ کا سلسلہ برابر جاری رہا اور پھر انھی کے پیرووں نے فلسطین، شام، مصر اور دوسرے ملکوں میں اپنی تبلیغ کا سلسلہ دو اڑھائی صدیوں تک جاری رکھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی رومی سلطنت جو ان کو مٹا دینے پر تلی ہوئی تھی۔ آخرکار وہ حضرت عیسٰی ؑکی رسالت پر ایمان لے آئی، ان کی دعوت کی مددگار ہوگئی، اور جو ظلم و ستم حضرت عیسٰی ؑ کے متبعین پر ہو رہا تھا وہ آپ کے مخالفوں کی طرف منتقل ہوگیا۔ اسی رومی سلطنت نے مشرکین کے مذہب کو مٹایا اور پھر یہودیوں کی ایسی خبر لی کہ رومی سلطنت کے نکالے ہوئے وہ دو ہزار برس کے لیے منتشر ہوگئے۔ انھوں نے یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین سے اس طرح نکالا تھا کہ بیت المقدس میں ان کا داخلہ بند تھا۔ فلسطین کی سرزمین میں وہ گھِس لگانے کو نہیں ملتے تھے۔
اللہ تعالیٰ اس تاریخی نظیر سے یہ بتا رہا ہے کہ اب بھی یہی صورت پیش آنی ہے کہ جو لوگ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں گے آخرکار وہی اس سرزمین پر باقی رہیں گے، وہی کامیاب ہوں گے، اور جو لوگ آپ کا ساتھ نہیں دیں گے، وہ عرب کی سرزمین پر نہیں رہ سکیں گے، ختم ہوجائیں گے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے والے اگرچہ اس وقت مٹھی بھر ہیں، وہی کامیاب ہوں گے اور عرب و عجم کے حکمران بنیں گے۔ ان دونوں گروہوں میں فرق یہ ہے کہ حضرت عیسٰی ؑ کے ماننے والوں کو آپ کی زندگی میں وہ کامیابی نہیں ہوئی جس کو دنیا میں کامیابی کہتے ہیں۔ یہ کامیابی ان کو دو اڑھائی سو برس کے بعد حاصل ہوئی لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرووں کو اللہ تعالیٰ نے جس زمانے میں یہ بات فرمائی تھی اس کے بعد پانچ چھے سال کے اندر ہی وہ نتیجہ دکھا دیا جو تاریخ کے اوراق پر ثبت ہے۔
یہاں جو کُونُوا اَنْصَارَ اللّٰہِ کے الفاظ ہیں اور پھر یہ جو فرمایا کہ حواریوں نے یہ کہا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں، اس کی تشریح میں پہلے بھی کئی مرتبہ کرچکا ہوں، یہاں پھر مختصراً بیان کیے دیتا ہوں۔
آدمی جس وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت کے طور پر نماز پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے، حج کرتا ہے، زکوٰۃ دیتا ہے اور دوسری نیکیاں کرتا ہے تو یہ ساری اللہ تعالیٰ کی عبادتیں ہیں۔ لیکن جب آدمی اللہ تعالیٰ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے، اپنی جان و مال اس غرض کے لیے کھپاتا ہے کہ کفر کے مقابلے میں اللہ کا کلمہ بلند ہو، اس کا دین دنیا میں سربلند ہو، اُس وقت وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے مقام سے اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کی مددگاری کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ کیونکہ دنیا میں اللہ کے کلمے کو بلند ہونا اور کفر کے مقابلے میں دین اسلام کا فروغ پانا، یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا مشن ہے۔ اس مشن کی تکمیل کے لیے آدمی جو کام بھی کرے گا، خواہ وہ اپنی زبان سے تبلیغ کر رہا ہو، خواہ وہ اپنی جان، مال اور محنتیں کھپا رہا ہو، اور خواہ وہ جنگ کر رہا ہو، ان تمام حالتوں میں وہ اس مشن میں، جو دراصل اللہ کا اپنا مشن ہے، اللہ تعالیٰ کی رفاقت کرتا ہے۔ اس طرح دوسری تمام چیزیں تو عبادتیں ہیں، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی رفاقت ہے، اس لیے یہ ان عبادات کی بہ نسبت زیادہ اُونچے مرتبے کا کام ہے۔ ایک آدمی جو گوشے میں بیٹھا ہوا اللہ کی عبادت کرتا رہا، وہ واقعی عبادت کر رہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ صالح آدمی ہے اور اپنا اجر پائے گا۔ لیکن جو آدمی اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے کام کر رہا ہے اور کفر کے مقابلے میں جدوجہد کر رہا ہے تو دراصل وہ اللہ تعالیٰ کی رفاقت اختیار کر رہا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا رفیق ہے، کیونکہ اللہ کے کلمے کو بلند کرنا عام عبادات سے زیادہ اُونچے مرتبے کا کام رہا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگ اللہ کے مددگار ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لیے اپنے نبی کو بھیجا ہے، وہ اس مقصد میں آکر اس کا مددگار بنتا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ دراصل اللہ تعالیٰ طاقت سے اپنے دین کو غالب نہیں کرتا، بلکہ انسانوں کو اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے اسے قبول کریں یا قبول نہ کریں۔ وہ ایسا نہیں کرتا کہ کفار کی گردنیں زبردستی جھکا دے اور اہلِ ایمان سے کہے کہ آئو اور آکر ان کی جگہ تم تخت شاہی پر بیٹھ جائو، نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو فکروعمل کی آزادی عطا فرمائی ہے۔ اس وجہ سے وہ ان کو مخاطب کرتا ہے کہ آئو اور اپنی رضا سے خود اپنی خواہش اور ارادے سے میری اطاعت اختیار کرو۔ اب جو شخص اپنی مرضی سے اور اپنی خواہش سے اللہ کی اطاعت اختیار کرتا ہے، وہ اللہ کی پارٹی (حزب اللہ) میں آجاتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص اپنی خواہش اور مرضی سے اللہ کی نافرمانی کا راستہ اختیار کرتا ہے، وہ شیطان کی پارٹی (حزبُ الشیطان) میں چلا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان دونوں پارٹیوں میں جو جدوجہد اور کش مکش ہوتی ہے تو اس جدوجہد اور پیکار میں حزبُ اللہ کا آدمی اللہ تعالیٰ کا رفیق ہے، اور حزبُ الشیطان کا آدمی اس جدوجہد میں شیطان کا رفیق ہے۔ یہ ہے اصل پوزیشن جس کو قرآن مجید میں ان الفاظ میں بتایا گیا کہ تم اللہ کی مدد کرو اور اس کے مددگار بنو۔ پھر جب تم اللہ کے مددگار بن جائو گے تو اللہ تعالیٰ تمھیں اپنی تائید سے نوازے گا اور کفر کی راہ اختیار کرنے والوں پر تمھیں غالب کردے گا۔ (جمع و تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)
ربیع الاول کی آمد کے ساتھ ہی ہر مسلمان کے دل کی کلی کھل اٹھتی ہے۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں مسلمان بستے ہیں خوشی اور مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی نسبت کو اجاگر کرنے، آپؐ کے دامن سے ازسر نو وابستہ ہونے، آپؐ کی سنتوں کو اپنانے اور آپؐ کی شریعت مطہرہ کو جدوجہد کا عنوان بنانے کے لیے پوری اُمت شمالاً جنوباً اور شرقاً غرباً تحرک اور سرگرمی کا عنوان دکھائی دیتی ہے۔
کسی معاشرے میںنبی کی بعثت نظاموں کی کش مکش کو جنم دیتی ہے۔ موجود نظام اور قائم شدہ معاشرہ جہالت، شرک و بت پرستی اور ظلم کے ہر عنوان کو اپنے اندر سموئے ہوتاہے، جب کہ نبی بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب کی طرف بلانے کی دعوت پیش کرتاہے۔ اس طرح نظاموں کی یہ آویزش دور و نزدیک، ہر شے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ پرانا نظام اپنے تحفظ اور بقا کی جنگ ہر مورچے اور ہرمحاذ پر لڑتاہے،اور نبی کا پیش کردہ نظام نعرے کے مقابلے میں نعرہ، فلسفے کا متبادل فلسفہ، نظریے کا توڑ نظریہ، جدوجہد کے مقابلے میں جدوجہد، نیز استقامت، اولوالعزمی اور صبر و حوصلہ کے چراغ روشن کرتاہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جس معاشرے میں بعثت ہوئی وہ معاشرہ ان تمام خرابیوں اور برائیوں کی آماجگاہ تھا جس کا تصور انسان ہونے کے ناطے کیا جاسکتاہے۔ آپؐ کی مخالفت کرنے والے آپؐ کی ذات سے تو تعلق رکھتے تھے اور نباہ بھی کرنا چاہتے تھے، صادق و امین کہتے تھے لیکن وحی الٰہی کی بنیاد پر آپؐ جس تبدیلی اور تزکیے کی طرف بلارہے تھے وہ پرانے آباو اجداد کے دین اور ہر رسم و رواج کونگل جانے والا نظام تھا، لہٰذا جو لوگ آپؐ کی مخالفت کررہے تھے،سوچ سمجھ کر کررہے تھے،جانتے بوجھتے ایسا کررہے تھے اوراپنے نظام کے ٹمٹماتے چراغ کو ہر قیمت پر تحفظ دینا چاہتے تھے۔ اسی طرح جو آپؐ کے ہم نوا بن کر اٹھے اور آپؐ پر ایمان لانے والے اور آپؐ کے جلو میں چلنے والے قرار پائے وہ بھی دل کی گہرائی سے اس کش مکش کو مول لے رہے تھے۔ تبھی تویہ ممکن ہو سکا کہ انھیں آگ کے انگاروں پر لیٹنا بھی گوارا تھا۔
اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ نظاموں کی کش مکش میں قائم شدہ نظام کا دفاع کرنے والوں کو بھی ایک ٹیم اور معاشرے کی پشتیبانی درکار ہوتی ہے،اور نیا نظام جن دعووں، مقاصد اور اہداف کے لیے اٹھا ہو، اسے بھی اپنی تائید اور اپنے مؤقف کو واشگاف کرنے کے لیے ایک ٹیم درکار ہوتی ہے۔اس لیے ہر نبی پرانے انسانوں میں سے نئے انسان تلاش کرتا ہے، پرانے معاشرے میں سے نئے معاشرے کو اٹھاتاہے، اور پرانے عمر بن خطاب میں سے نئے حضرت عمر فاروق ؓجنم لیتے ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے نتیجے میں جو نئے انسان دریافت ہوئے، پرانے اور بوسیدہ معاشرے ہی سے تازہ ہوا کے جھونکے آنے شروع ہوئے، گویا ع
’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘
تبدیلی و انقلاب کی یہ لہر جس نے پرانے سانچوں کو توڑ پھوڑ دیا، جاہلیت کے ایوانوں میں کھلبلی مچادی، افراد کی سطح پر نقطۂ نظربدلا،سوچ کے زاویے بدلے، زاویۂ ہاے نگاہ بدلے، زندگی اور اس کی ترجیحات بدلیں، اس کے ساتھ اجتماعیت کے اسلوب بدلے۔ دعوت اور طریقِ دعوت نے تربیت اور تعمیر سیرت کے نئے چراغ روشن کیے۔ آپؐ نے گئے گزرے اور ان پڑھ و ان گڑھ لوگوں کو رہتی دنیا تک آنے والے انسانوں کا رہنمااور ان کے کردار اور سیرت کو تاریخ کے ہر دور کے لیے روشنی کا مینار بنادیا۔ قرآن پاک اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ آپؐ کی طبیعت کی نرمی اور گداز اور آپؐ کے اسلوب کی خیرخواہی محیط تھی انسانوںکو انسانیت کش راہوں سے روکنے، آگ میںگرنے والے لوگوں کو فلاح اُخروی کا تصور جاگزیں کرنے، اور انھیں ایک بڑے مقصد کے لیے آمادہ و تیار کرنے کے لیے۔ قرآن پاک ایک طرف یہ بتاتا ہے کہ آپؐ کس طرح قرآن پاک کی طرف لوگوں کی بلاتے رہے، نفوس کا تزکیہ کرتے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے رہے:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo (اٰلعمران۳ : ۱۶۴) درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انھیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتاہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ (اٰلعمران۳ : ۱۵۹) (اے پیغمبرؐ!) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر تم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گرد و پیش سے چھٹ جاتے۔
گویا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت خاص سے آپؐ کے اندر نرمی ڈال دی تھی جو لوگوں کی توجہ کا مرکز اور انھیں جذب و انجذاب کے مراحل سے گزارنے کا باعث بنی۔
مکے میں اگر آپؐ کی دعوت کا محور ایمان باللہ، ایمان بالاخرت اور توحید و رسالت تھا اوربحیثیت داعی الی اللہ آپؐ گتھیوں کو سلجھانے، ایمان کی دعوت دل نشیں پیرایے میں دل میں اتارنے اور قلب و نظر کی دنیا کو فتح کرنے میں مصروف تھے، تومدینے میں اسلامی ریاست کی تشکیل کے ذریعے حکومت الٰہیہ کے قیام سے اسلام کو مقتدر اور فرماں روا بنانے کی جدوجہد میں سراپا متحرک نظر آتے ہیں۔ مکے میں اگر توحید پر مرمٹنا ، احد احد پکارنا اور اسی پر جم جانا دعوت تھی، تو مدینے میں اللہ کی سرزمین پر اللہ کی حاکمیت کا قیام اور اسی کا نظام دعوت قرار پایا تھا۔(للّٰہ الواحد القھار)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبی آخر الزماں ہیں، نبوت کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام ہوا۔اب کوئی نبی نہیں آناہے۔قرآن پاک کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے لیاہواہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور شریعت بھی محفوظ ہے۔ اب قیامت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم مقام ہے۔ فرمایا:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰلعمران۳ : ۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہوجسے انسانیت کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیاہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس مشن کو لے کر اس دنیا میں تشریف لائے اور اس کو اعلیٰ ترین صورت میں پورا کیا، پوری امت کی ذمہ داری ہے کہ اس مشن کی علمبردار بنے۔
واقعات میں آتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر سے واپس لوٹے۔حضرت فاطمہ ؓ نے بڑھ کردروازہ کھولا، آپؐ کی پیشانی کو بوسا دیا ، آپؐ کو لے کر بیٹھ گئیںاور آپؐ کا سر دھونے لگیں تاآنکہ نبی اکرمؐ کو احساس ہوا جیسے فاطمہ ؓ رورہی ہیں۔ آپ ؐاٹھ کر بیٹھ گئے اور پوچھا فاطمہؓ کیا بات ہے، کیوں روتی ہو؟ حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ ! آپؐ کے بالوں کودھول میں اٹا ہُوادیکھتی ہوں، آپؐ کے بدن پر پیوند لگے کپڑے اور وہ بھی گردآلود دیکھتی ہوں، آپؐ کے چہرہ انور پرتھکن کے آثار دیکھتی ہوں، بیٹی ہوں رونا آگیا۔ نبی اکرمؐ نے یہ سنا تو فرمایا: فاطمہؓ! گریہ و زاری نہ کر، اس لیے کہ تیرے باپ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک ایسے منصب پر مامور کیاہے، ایک ایسا مشن اس کے حوالے کیا ہے جس کے نتیجے میں یہ دین وہاں وہاں پہنچے گا جہاں جہاں سورج کی کرنوں کی پہنچ ہے، اور یہ دین غالب ہو کررہے گاخواہ کوئی عزت کے ساتھ قبول کرے یا ذلت کے ساتھ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غلبۂ دین کی بشارت بھی سنا رہے ہیں اور رہتی دنیا تک اپنی امت کو جدوجہد و کش مکش مول لینے کا خوگر بھی بنا رہے ہیں۔ لہٰذا اقامت دین یا غلبۂ دین کے اس مشن کو لے کر اٹھنا، دعوت الی اللہ کا سراپا بننا، اور بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر ان کے رب کی طرف بلانا___ یہی راستہ ہے جو ایمان کی پکار پر لبیک کہنے کا راستہ ہے اور ظلم و جور اور ناانصافی کی طویل رات کو سحر کرنے کا راستہ ہے۔
نبی کریمؐ کے مشن اور غلبۂ دین کی اس جدوجہد نے بیسویں صدی میں اس وقت ایک منظم اور ہمہ جہت جدوجہد کی صورت اختیار کرلی جب برعظیم پاک و ہند میں سیدمودودی علیہ الرحمہ کی امارت میں اسلامی تحریک کی داغ بیل ڈالی گئی، اور دوسری طرف عالمِ عرب میں حسن البنا کی قیادت میں اخوان المسلمون کی صورت میں اسلامی تحریک کو منظم کیا گیا۔ اسلام کی تعلیمات و افکار اور نبی کریمؐ کی دعوت کو قرآن وسنت کی روشنی میں علمی استدلال کے ساتھ پیش کیا گیا۔ مغرب کی طرف سے اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنج کا کسی مرعوبیت کے بغیر نہ صرف سامنا کیا گیا بلکہ مغرب کے سحر کو توڑتے ہوئے اسلام کو ایک متبادل نظریے اور مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔ علمی وفکری محاذ کے ساتھ ساتھ اُمت مسلمہ کی اصلاح اور اُمت کو اس کے فرضِ منصبی اور شہادتِ حق کی ادایگی کے لیے دعوتِ دین کی بنیاد پر تحریکِ اسلامی کی صورت میں ایک منظم قوت میں بدلنے کے لیے عملی جدوجہد کا آغاز بھی کیا گیا۔ الحمدللہ! آج تحریکِ اسلامی کی صورت میں اُمت مسلمہ نہ صرف ایک منظم قوت کی شکل اختیار کرچکی ہے بلکہ تحریکِ اسلامی اُمت مسلمہ کے روشن اور تابندہ مستقبل کی نوید ہے۔
حق و باطل کا یہ معرکہ برپا ہے۔ اسلام کو نظریاتی برتری حاصل ہے اور تہذیبی و نظریاتی سطح پر مغرب کو عملاً شکست ہوچکی ہے۔ اشتراکیت، سرمایہ داری، لادینیت یا کوئی بھی نظام دنیا کو ایک منصفانہ اور متوازن نظام پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ دُنیا چاروناچار اسلام کی راہِ اعتدال کو اپنانے پر مجبور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی آڑ میں مسلمانوں کا گھیرا تنگ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ امریکا اپنے سامراجی عزائم کے ساتھ، اسلام اور مسلمانوں سے برسرِپیکار ہے۔ افغانستان اور عراق کے غیور مسلمانوں نے جس ہمت و استقامت سے امریکی طاغوت کا مقابلہ کیا ہے اس نے امریکا کو پسپائی پر مجبور کردیا ہے۔ اہلِ پاکستان بھی امریکی غلامی اور جارحیت کے خلاف جدوجہد میں مصروف اور سراپا احتجاج ہیں۔ نبی کریمؐ کے مشن کے مصداق بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر رب کی بندگی کی طرف بلا رہے ہیں اور ظلم و ناانصافی کو مٹاکر عدل وانصاف اور امن کی سربلندی کے لیے کوشاں ہیں۔ گویا عالمِ اسلام میں بیداری کی ایک لہر پائی جاتی ہے، اور اسلامی تحریکیں اس کا ہراول دستہ ہیں، اور نبی کریمؐ کا مشن ایک تسلسل سے آگے بڑھ رہا ہے۔ مسلمانوں کی یہ جدوجہد اور قربانیاں رنگ لاکر رہیں گی اور نبی اکرمؐ کی بشارت کے مطابق یہ مشن مکمل ہوکر رہے گا اور پوری دنیا پر دین غالب ہوکر رہے گا، ان شاء اللہ!
؎ شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے
انسانی جان کا تحفظ اور احترام کسی بھی متمدن معاشرے کے قیام، ملک و قوم کے تحفظ اور دنیا میں قیامِ امن کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر لوگوں کو اپنے جان و مال، عزت و آبرو اور گھربار کے تحفظ کا یقین نہ ہو تو متمدن زندگی کا آغاز ہی ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ایسے قوانین و ضوابط بنائے اور اقدامات اٹھائے جاتے ہیں جن سے انسانی جان کے احترام اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے، لوگوں کے حقوق غصب ہونے پر ان کی داد رسی کی جائے، اور قانون شکنی کرنے اور ظلم وستم ڈھانے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاسکے۔ دستورسازی، قانون ساز اداروں اور عدلیہ کی تشکیل اور انتظامیہ، پولیس اور فوج کا قیام اسی غرض کے پیش نظر عمل میں لایا جاتا ہے۔
ہزاروں برس کے انسانی اجتماعی شعور اور فکری کاوشوں کے بعد انسان متمدن زندگی کے تحفظ، انسانی حقوق کے تعین اور ظلم و استحصال کے خاتمے اور عدل وانصاف کی فراہمی کے لیے ملکی سطح سے لے کر عالمی سطح تک قوانین کی تشکیل اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے اداروں کا قیام عمل میں لانے کے قابل ہوا ہے۔ اقوام متحدہ، عالمی عدالتِ انصاف، امن افواج اور دیگر عالمی اداروں کی تشکیل اسی کاوش کا نتیجہ ہے تاکہ جارحیت کا سدّباب کرکے عالمی امن کو برقرار رکھا جاسکے۔ ظلم واستحصال کا خاتمہ کیا جاسکے، اور حکومت سازی اور اقتدار کی منتقلی عوام کی تائید اور جمہوری عمل کے ذریعے ممکن بنائی جاسکے، نیز آمریت اور جبر کا سدّباب کیا جاسکے۔
مہذب و متمدن زندگی اور حقوقِ انسانی کے تحفظ اور عالمی امن کے قیام کے لیے انسان کی یہ اجتماعی سعی اور جدوجہد قابلِ تحسین ہے۔ اس حوالے سے عالمی سطح پر شعور بھی پایا جاتا ہے اور دنیابھر میں ان مسلّمہ اقدار و قوانین کے نفاذ کے لیے کوششیں بھی کی جاتی ہیں۔ تاہم، انسان اپنی نفسانی خواہشات سے مغلوب ہوکر اور قومی مفاد کے پیش نظر بے لاگ عدل و انصاف کو ممکن نہیں بناپاتا۔ اس کے لیے تو ایسے قوانین و ضوابط اور اُس کردار کے حامل لوگ مطلوب ہیں جن کے پیش نظر ذاتی اور قومی مفاد سے بڑھ کر انسانیت کی فلاح ہو اور جو انصاف کریں خواہ اس کی زد ان کے اپنے اُوپر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ بلاشبہہ ایسے اصول اور ایسا کھرا کردار وہی ہستی دے سکتی ہے جو خواہشات اور مفادات کی سطح سے بلند ہوکر پوری انسانیت کے مفاد کو پیشِ نظر رکھ سکے۔ یقینا وہ ہستی خداتعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہوسکتی اور ایسے بے لاگ اصولوں اور کردار کے حامل بھی وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو خدائی اصولوں کے علَم بردار ہوں۔ اس کے لیے یقینا انسان کو خدائی ہدایت اور رہنمائی (قرآن و سنت) کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔
مقامِ افسوس ہے کہ انسانیت کی فلاح و بہبود اور عالمی امن کے لیے کی جانے والی ان کوششوں اور جدوجہد کو خود انسان ہی اپنے ہاتھوں تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ آج دنیا کی واحد عالمی طاقت امریکا اپنی طاقت کے زعم میں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے جس طرح مروجہ عالمی قوانین کی کھلی کھلی خلاف ورزی، عالمی اداروں بالخصوص اقوامِ متحدہ کی توہین اور بے توقیری اور عالمی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی کررہا ہے، اس سے عالمی اقدار و قوانین کے ساتھ ساتھ عالمی امن اور مملکتوں کی آزادی و خودمختاری اور سلامتی بھی خطرات کی زد میں ہے۔ امریکا کے سامنے مروجہ اصول و ضوابط اور عالمی اقدار و دستور کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔
امریکا نے ’دہشت گردی‘ کے نام پر ظلم و جبر، ناانصافی اور سفاکیت کے وہ وہ حربے آزمائے ہیں کہ جس سے انسانی تاریخ کے دورِ وحشت کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔بگرام، ابوغریب اور گوانتاناموبے کی جیلوں میں انسانی حقوق کی جس طرح سے پامالی کی گئی ہے وہ ’روشن خیالی‘ کے اس دور میں کسی سیاہ باب سے کم نہیں کہ انسان اپنے مفادات کے لیے اس حد تک سفاکیت پر اُتر سکتا ہے۔ گویا دنیا کو ایک بار پھر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق طاقت کے زعم میں جنگل کے قانون کی طرف دھکیلاجا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جنگ ِعظیم دوم کے بعد عالمی طاقت کی حیثیت سے اُبھرنے والے امریکا نے دنیا کو جنگ اور خوں ریزی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ۵۰ کے عشرے میں (۱۹۵۰ئ-۱۹۵۳ئ) کوریا سے جنگ میں ۲۵ لاکھ کے قریب کوریائی باشندے ہلاک یا زخمی ہوئے۔ ویت نام کی جنگ (۱۹۵۹ئ- ۱۹۷۵ئ) ۱۶ سال جاری رہی جس میں ۱۵ لاکھ سے زائد جنوبی ویت نامی، ۲۰لاکھ شمالی ویت نامی، ۷ لاکھ کمبوڈیائی اور ۵۰ ہزار لائوس کے شہری ہلاک ہوئے اور ۵۸ ہزار سے زائد امریکی فوجی مارے گئے اور امریکا شکست سے دوچار ہوا۔ ۷۰ کے عشرے میں افغانستان میں روسی جارحیت کے خلاف جنگ (۱۹۷۹ئ-۱۹۸۹ئ) میں ۱۵ سے ۲۰لاکھ افغانی شہید ہوئے۔ ۹۰کے عشرے کے آغاز میں خلیج کی پہلی جنگ کے نتیجے میں عراق پر پابندیاں عائدہوئیں اور اس کے نتیجے میں تقریباً ۱۵ لاکھ عراقی شہری جن میں ۵لاکھ بچے بھی شامل تھے، ہلاک ہوگئے۔ نائن الیون کے سانحے کے بعد ’دہشت گردی‘ کی آڑ میں افغانستان پر امریکی جارحیت اور پھر عراق پر حملے کے نتیجے میں اب تک ۱۳لاکھ عراقی، جب کہ ۵۰ ہزار افغان اور ہزاروں پاکستانی باشندے مارے جاچکے ہیں۔
’دہشت گردی‘ کے خلاف اس جنگ میں امریکا کو خود بھی بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق امریکا کا جانی نقصان ۹۰ہزار سے زائد ہے۔ ان میں ۵۷ہزار سے زائد فوجی ہلاک ہوچکے ہیں، جب کہ ۱۴ ہزار سے زائد معذور یا ناکارہ ہوکر گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔ خوف اور دہشت کی وجہ سے نفسیاتی امراض کے شکار افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ اس طرح امریکا کے جنگی جنون اور دنیا کے وسائل پر قبضے کی ہوس کی وجہ سے لاکھوں بے گناہ انسانوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے اور دنیا کا امن تہ و بالا ہوکر رہ گیا ہے۔
امریکا کے جنگی جنون کا ایک سبب اور بھی ہے۔ امریکا ان جنگوں کے ذریعے اپنا اسلحہ فروخت کرتا ہے اور وہی دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ ایکسپورٹر ہے۔ عالمی معاشی بحران کی وجہ سے امریکی معیشت بیٹھتی جارہی ہے، بنک دیوالیہ اور بے روزگاری بڑھتی چلی جارہی ہے لیکن اگر کوئی صنعت پھل پھول رہی ہے تو وہ اسلحے کی صنعت ہے۔ ۲۰۰۷ء کے ایک سال میں امریکا نے تقریباً ۷ہزار ۴ سو ۵۴ ملین ڈالر کا اسلحہ دنیا بھر میں فروخت کیا۔ دنیا میں سب سے زیادہ دفاعی بجٹ بھی امریکا ہی کا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دنیا میں کہیں نہ کہیں جنگی محاذ کا کھلا رہنا امریکا کی ضرورت ہے تاکہ اس کے اسلحے کے کارخانے چلتے رہیں۔ گویا اس جنگی جنون کی وجہ سے دنیا میں ایک فساد برپا ہے، اور دنیا ہے کہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ بظاہر کوئی قوت نہیں جو آگے بڑھ کر ظالم امریکا کا ہاتھ روک سکے۔ یہ صورت حال قرآن پاک کی اس آیت کی مصداق ہے:
ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ (الروم ۳۰:۴۱) خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کی اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزہ چکھائے اُن کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔
اللہ تعالیٰ جو اس کائنات کا خالق و مالک ہے، اس دنیا میں امن چاہتا ہے۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ اس کے بے قصور بندوں کو ستایا جائے۔ طاقت ور کمزوروں کا حق ماریں اور ان کا جینا دوبھر کردیں۔ دنیا میں ظلم و فساد اور قتل و غارت گری کا بازارگرم ہو، اور لوگوں پر جبراً اپنی مرضی مسلط کی جائے۔ دھن دولت، لالچ اور ہوس اور جہاں گیری اور کشورکشائی کے لیے انصاف کا خون کیا جائے۔ طاقت کا بے جا استعمال کرکے انسانوں کا خدا اور طاغوت بن کر اللہ کے بندوں پر اپنی خدائی چلائی جائے اور انسانی شرافت و اخلاق کا جنازہ نکال دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے فتنہ قرار دیا ہے جو انسانی قتل سے بڑھ کر ہے۔ اس لیے کہ افراد یا اقوام جب سرکشی پر اُتر آئیں تو وہ بڑے پیمانے پر فتنہ وفساد برپا کر دیتے ہیں۔ ایک فرد سے بڑھ کر ایک قوم کی سرکشی سے بے شمار انسانوں کی زندگی دوبھر ہوجاتی ہے۔ قوموں پر عرصۂ حیات تنگ ہوجاتا ہے، اور انسانی تہذیب و تمدن کا شیرازہ بکھر کر رہ جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ نے انسانی جان کو محترم ٹھیراتے ہوئے کسی انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے (المائدہ ۵:۳۲)، اور حکم دیا ہے کہ جس جان کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرو، دوسری طرف فتنہ وفساد کو قتل سے بڑھ کر سنگین جرم قرار دیا ہے(البقرہ ۲:۱۹۱)، اور اس کی سرکوبی کا حکم دیا ہے۔ اس کے لیے قتل بالحق اور ناگزیر خوں ریزی کو جائز قرار دیا ہے تاکہ ظلم کو مٹاکر عدل قائم کیا جاسکے۔ اسی لیے فرمایا:
وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ ط (البقرہ ۲:۱۹۳) ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور اطاعت صرف خدا کے لیے ہوجائے۔
اس کے ساتھ یہ بھی تاکید کی گئی ہے:
اِلَّا تَفْعَلُوْہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الْاَرْضِ وَ فَسَادٌ کَبِیْرٌ o (الانفال ۸:۷۳) اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ ہوگا اور بڑا فساد برپا رہے گا۔
بقول مولانا مودودیؒ: ’’اس ناگزیر خوں ریزی کے بغیر نہ دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے، نہ شروفساد کی جڑ کٹ سکتی ہے، نہ نیکوں کو بدوں کی شرارت سے نجات مل سکتی ہے، نہ حق دار کو حق مل سکتا ہے، نہ ایمان داروں کو ایمان اور ضمیر کی آزادی حاصل ہوسکتی ہے، نہ سرکشوں کو ان کے جائز حدود میں محدود رکھا جاسکتا ہے، اور نہ اللہ کی مخلوق کو مادی و روحانی چین میسرآسکتا ہے‘‘۔ (الجہاد فی الاسلام، ص ۳۲-۳۳)
اللہ تعالیٰ دنیا میں برپا ہونے والے اس فتنہ و فساد کا ازالہ مختلف طریقوں سے کرتا رہتا ہے۔ کبھی وہ ایک گروہ کو دوسرے گروہ سے دُور کر کے تمام انسانوں کو ظلم و زیادتی سے نجات دلاتا ہے:
وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ o (البقرہ ۲:۲۵۱) اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا تو زمین فساد سے بھرجاتی، مگر دنیا والوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے (کہ وہ دفعِ فساد کا یہ انتظام کرتا رہتا ہے)۔
ایک اور جگہ قوموں کی باہمی عداوت اور دشمنی کا ذکر کرکے ارشاد ہوتا ہے:
کُلَّمَآ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَھَا اللّٰہُ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا ط وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَo (المائدہ ۵:۶۴) یہ لوگ جب کبھی جنگ اور خوں ریزی کی آگ بھڑکاتے ہیں تو اللہ اس کو بجھا دیتا ہے۔ یہ لوگ زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ مفسدوںکو پسند نہیں کرتا۔
وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا ط (الحج ۲۲:۴۰) اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا تو صومعے اور گرجے اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا ذکر کثرت سے کیا جاتا ہے، مسمار کردیے جاتے۔
درحقیقت یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ عادل انسانوں کے ذریعے سے عام انسانوں کو دفع نہ کرتا رہتا تو اتنا فساد ہوتا کہ عبادت گاہیں تک، یعنی صوامع عیسائیوں کے راہب خانے، مجوسیوں کے معابد اور صابیوں کے عبادت خانے، اسی طرح عیسائیوں کے گرجے اور یہودیوں کے کنیسے اور مساجد بربادی سے نہ بچتیں جن سے ضرر کا کسی کو اندیشہ نہیں ہوسکتا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ دنیا کو فتنہ وفساد، ظلم و ستم اور تباہی و بربادی سے محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات اٹھاتے رہتے ہیں اور انسانی تاریخ اس پر شاہد ہے۔ برعظیم پاک و ہند میں مغلوں کی حکومت اور زوال، انگریزوں کی آمد اور انحطاط، اور قیامِ پاکستان، اسی تاریخی حقیقت کا تسلسل اور ہمارے مشاہدے کی بات ہے۔
فلاحِ انسانیت اور عدل و انصاف کے اس فریضے کو ادا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ایک طرف بنی نوع انسان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرے، اور اس کے ساتھ ساتھ اس نے ایک خصوصی اہتمام بھی کیا ہے۔ دنیا کی اُمتوں میں سے ایک اُمت کو اس نے خاص اسی مقصد کے لیے تشکیل دیا ہے اور اس کا فرضِ منصبی ہی یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی ظلم وستم ڈھایا جائے، فساد برپا ہو، سرکشی کا مظاہرہ کیا جائے اور دنیا کے امن کو خطرہ ہو، وہ آگے بڑھ کر اس کی سرکوبی کرے اور بے لاگ انصاف کا مظاہرہ کرے، یہاں تک کہ فتنہ مٹ جائے۔
یہ وہ مقصد ہے جس کے لیے مسلمانوں کو پیدا کیا گیا اور اُمت مسلمہ کو برپا کیا گیا ہے۔ اسے کسی خاص قوم یا نسل کے لیے نہیں بلکہ بنی نوع انسان کی خدمت کے لیے پیدا کیا گیاہے کہ وہ نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے، ظلم و استحصال کا خاتمہ کرے اور عدل و انصاف قائم کرے۔
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) تم ایک بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کی خدمت و ہدایت کے لیے برپا کیا گیا ہے، تم نیکی کا حکم کرتے ہو اور بدی کو روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
یہ اُمت چونکہ عدل و انصاف کے لیے کھڑی کی گئی ہے، لہٰذا اسے ہدایت کی گئی ہے: اے ایمان والو! انصاف پر سختی سے قائم رہنے والے اور خدا واسطے کی گواہی دینے والے بنو، خواہ یہ انصاف اور یہ گواہی تمھاری اپنی ہی ذات کے خلاف پڑے یا تمھارے والدین یا عزیزوں کے خلاف۔ دولت مند کی رضاجوئی یا فقیر پر رحم کھانے کا جذبہ تمھیں، انصاف اور سچی شہادت سے نہ پھیر دے، کیونکہ اللہ ان کا تم سے زیادہ خیرخواہ ہے (النساء ۴:۱۳۵)۔ اس سے بھی بڑھ کر اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ جس قوم کے ساتھ تمھاری دشمنی ہو، اس سے بھی انصاف کرو:
وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی(المائدہ ۵:۲) کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم اس سے انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو کیونکہ یہی پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے۔
اس فریضے کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کو کھڑا کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی حکم دیا ہے کہ اس اُمت میں ایک گروہ تو لازماً ایسا رہنا چاہیے جو نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے اور اس فریضے کی ادایگی کرے اور دنیا کو فساد سے محفوظ رکھے اور امن قائم کرے:
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط (اٰل عمران ۳:۱۰۴) اور تم میں ایک گروہ ایسا ضرور ہونا چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے، نیکی کا حکم دے اور بدی سے روکے۔
یہی وجہ ہے کہ جب ظلم و ستم کا بازار گرم ہواور کمزور اقوام اور مظلوم انسانوں کا استحصال ہورہا ہو تو اللہ تعالیٰ ایسے موقع پر مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اپنا فرض ادا کریں:
وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَـآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَا (النساء ۴:۷۵) ’’تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ تم خدا کی راہ میں ان مردوں اور عورتوں اور بچوں کے لیے نہیں لڑتے جنھیں کمزور پاکر دبا لیا گیا ہے اور جو دعائیں مانگتے ہیں کہ خدایا ہمیں اس بستی سے نکال جس کے کارفرما ظالم ہیں۔
اس تمام تر ترغیب کے بعد آخر میں اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کو اس فرض سے غفلت برتنے پر متنبہ بھی کرتا ہے کہ اگر تم نے اپنا فرضِ منصبی ادا نہ کیا اور ظلم کو نہ روکا اور انصاف کے قیام کے لیے جدوجہد نہ کی اور اس کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار نہ ہوئے تو پھر تم خدا کی لعنت اور ذلت اور عذاب کے مستحق ٹھیرو گے:
وَ ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ وَ بَآئُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ط (البقرہ ۲:۶۱) آخرکار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلت و خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط ہوگئی اور وہ اللہ کے عذاب میں گھِر گئے۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو ظلم و استحصال اور فتنہ وفساد سے محفوظ رکھنے اور امن و انصاف کے تحفظ اور اسے یقینی بنانے کے لیے یہ نظام وضع کیا ہے۔ اسی غرض کے لیے جہاد فی سبیل اللہ اور قتال کا حکم دیاگیا ہے۔ گویا ظلم کے خاتمے کے لیے ہرممکن تدبیر اور انتہائی جدوجہد، یعنی جہاد کیا جائے، اور اگر کوئی چارئہ کار نہ رہے تو پھر ظالم کے خلاف بندوق اُٹھانے، یعنی قتال کا حکم دیا گیا ہے، اور اس وقت تک لڑنے کا حکم ہے جب تک کہ فتنہ و فساد مٹ نہ جائے اور انصاف قائم نہ ہوجائے۔ گویا جہاد امنِ عالم کا ضامن ہے۔ لہٰذا جہاں پوری انسانیت کا فرض ہے کہ وہ ظلم کے خلاف اُٹھے اور امن و انصاف کے قیام کو یقینی بنائے، وہاں اُمت مسلمہ کا یہ منصبی فریضہ ہے کہ وہ لازماً اس فریضے کو ادا کرے، اور کوتاہی اور غفلت کے نتیجے میں وہ خدا کے غضب کا شکار ہوسکتی ہے۔
آج ’دہشت گردی‘ کے نام پر امریکی استعمار نے جس طرح دنیا کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے ظلم و ستم اور فساد کی آماج گاہ بنا رکھا ہے اور لاکھوں لوگوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ چکا ہے، اس سے پوری دنیا کا امن خطرے میں ہے۔ عالمی قوانین کو جس طرح تاراج کیا گیا ہے اور عالمی اداروں کو بے وقعت کرکے رکھ دیا گیا ہے، اس سے ملکوں کی آزادی، سلامتی اور خودمختاری دائوپر لگی ہوئی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اپنی طاقت کے زعم میں امریکا دنیا کا خدا اور طاغوت بن چکا ہے جو طاقت کے زور پر دنیا پر حکمرانی چاہتا ہے اور انسانی حقوق غصب کر رہا ہے اور دنیا میں فتنہ وفساد کا باعث ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ امریکا کو اس سرکشی اور مزید ظلم و استحصال سے روکا جائے۔ عملاً صورت حال یہ ہے کہ امریکا کسی دبائو کو خاطر میں لائے بغیر افغانستان، عراق، پاکستان کے بعد اب یمن میں نیا محاذ کھولنا چاہ رہا ہے۔
ان حالات میں انسانیت کی فلاح اور انسانی تہذیب وتمدن کے تحفظ اور عالمی امن و انصاف کے لیے پوری دنیا کو بالخصوص تمام امن پسند قوتوں کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اُمت مسلمہ کو سب سے بڑھ کر اپنا فرضِ منصبی ادا کرنے کی فکر ہونی چاہیے۔ اگر اُمت مسلمہ اس فتنے و فساد کے خاتمے کے لیے جو کہ براہِ راست اس کا نشانہ بھی بنی ہوئی ہے، اپنا کردار ادا نہیں کرتی توخدانخواستہ وہ خدا کے غضب کا شکار بھی ہوسکتی ہے اور غلامی اور ذلت و مسکنت اس کا مقدر ٹھیرسکتا ہے۔ ’پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے‘ کے مصداق وہ نئی اُمت بھی کھڑی کرسکتا ہے۔
وہ جنگ جو کل تک افغانستان تک محدود تھی آج پاکستان میں لڑی جارہی ہے۔ پاکستان براہِ راست امریکی ’دہشت گردی‘ کی زد میں ہے اور یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اس سارے فساد کی جڑ امریکا ہے جس کی بے جا مداخلت اور خودسری کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچی ہے۔ اس لیے امریکا کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنا بہت ضروری ہے۔ ماضی میں جس طرح روسی جارحیت کو افغانستان میں روکا گیا تھا اور اس کے سامراجی عزائم کو خاک میں ملا دیا گیا اور سوویت یونین صفحۂ ہستی سے مٹ گیا اور اشتراکیت دم توڑ گئی، اسی طرح امریکی سامراج کو بھی اس خطے میں روکنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کی تمام امن پسند اقوام کو اس کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
امریکا کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ اسے ظلم و استحصال کی اس روش کو ترک کر دینا چاہیے۔ عملاً وہ یہ جنگ ہارچکا ہے۔ دنیا میں اس کے مخالفین میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین اور تجزیہ نگار ’دہشت گردی‘ کی اس جنگ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ خود امریکا کے اندر سے یہ آواز اُٹھ رہی ہے۔ امریکا خود بھی مسائل سے دوچار ہے، اس کی معیشت بیٹھتی جارہی ہے اور اس کے زوال کے چرچے عام ہو رہے ہیں۔ دانش مندی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ امریکا سابق سوویت یونین سے سبق سیکھتے ہوئے جلد از جلد افغانستان سے نکل جائے اور اس جنگ سے اپنا پیچھا چھڑا لے۔
عالمی سطح پر پائے جانے والے اس ردعمل کو حکومتی، سفارتی، اداراتی، علمی و فکری حلقوں، غیرسرکاری تنظیموں، انسانی حقوق اور امن کے لیے سرگرم تنظیموں، عوامی سطح پر بیداری اور میڈیا کے بھرپور استعمال کے ذریعے مؤثر عالمی دبائو میں بدلنے کی ضرورت وقت کا تقاضا ہے۔ عالمی اسلامی تحریک کو بھی اپنے اپنے دائرے اور ممالک کی سطح پر آگے بڑھ کر منظم انداز میں امریکی جارحیت کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے، راے عامہ کو ہموار کرنا چاہیے اور امریکا مخالف قوتوں کے تعاون سے امریکا مخالف محاذ بناکر امریکا پر دبائو بڑھانا چاہیے اور اسے مزید فساد اور خون ریزی سے روکنا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں ہی پُرامن جدوجہد سے دنیا کے امن کا تحفظ اور ظلم و استحصال کا خاتمہ ،اور دنیا کو مزید خوں ریزی سے بچایا جاسکتا ہے۔ اس شعور کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
اہلِ پاکستان جنھوں نے کل افغانستان میں امریکی جارحیت کے لیے ’فرنٹ لائن اسٹیٹ‘ کا کردار ادا کیا اور معصوم انسانوں کے خون میں ہاتھ رنگے، آج امریکی جارحیت کے خلاف بھرپور مزاحمت پیش کر کے جہاں تاریخ ساز کردار ادا کرسکتے ہیں وہاں امریکی جارح کا ساتھ دینے کے جرم کی تلافی بھی کرسکتے ہیں، اور خدا کے ہاں سرخ رو ہوسکتے ہیں۔
آج جس طرح سے لوگوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے اور ایک خوف اور دہشت کی فضا پورے ملک پر طاری ہے، اور ہرشعبۂ زندگی میں بگاڑ ہی بگاڑ نظر آرہا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی نعمتیںہم سے چھنتی چلی جارہی ہیں اور ایک مایوسی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ ہم نے اللہ سے اپنا عہد وفا نہ کیا،امریکا کے سامراجی عزائم کی تکمیل کے لیے اس کا ساتھ دیا، اپنے فرضِ منصبی کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے انصاف کی علَم برداری کے بجاے افغانستان کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے لیے اپنا کندھا پیش کیا، اور آج ہم خود اس فتنہ و فساد کا شکار ہیں۔
موجودہ حکومت نے اپنے دعووں کے برعکس ملکی پالیسی میں تبدیلی کے بجاے پرویز مشرف کی پالیسی ہی کو جاری رکھتے ہوئے امریکا کے اشارے پر پے در پے ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جن کا نتیجہ پوری قوم کو امریکا کی غلامی میں دینے کے مترادف ہے۔ سوات اور قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کا آغاز، جس سے بڑے پیمانے پر تباہی کے ساتھ ساتھ پاک فوج کے خلاف نفرت اور انتقامی جذبے کا سر اٹھانا اور ملک میں دھماکے اور خودکش حملوں کا ہونا جس کا اس سے پہلے کوئی وجود نہ تھا، ڈرون حملوں کی اجازت کے نتیجے میں بے گناہ لوگوں کی بڑے پیمانے پر شہادت، کیری لوگر بل کے ذریعے امداد کا حصول اور قوم کی تذلیل، بلیک واٹر ایجنسی کو کام کرنے اور مشکوک امریکی گاڑیوں کی بلاروک ٹوک آمدورفت، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کے بجاے طاقت کے استعمال پر اصرار جس کے نتیجے میں دہشت گردی کے دائرے کا پھیلتے چلے جانا وغیرہ اسی نوعیت کے اقدامات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کے ہاتھوں آئے روز ہماری ذلت کا سامان ہورہا ہے اور دوسری طرف امریکا کی سرپرستی میں بھارت کی طرف سے آئے دن دھمکیاں دی جاتی ہیں اور جنگ مسلط کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ ہم بے وقعت اور محکوم ہوکر رہ گئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو مول لینے اور ظلم کا نتیجہ یہی نکلا کرتا ہے کہ زندگی وبال بن جاتی ہے۔ امن و سکون چھن جاتا ہے، خوف اور دہشت کے سایے سر پر منڈلاتے محسوس ہوتے ہیں، خوش حالی کے بجاے تنگ دستی، بھوک، افلاس اور خشک سالی اور قحط خدا کے غضب کو دعوت دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے کسی بڑے عذاب سے قبل قوم کو جھنجھوڑنے اور بیدار کرنے کے لیے آزمایش ہوتی ہے۔ اگر آزمایش کی اس گھڑی میں قوم اپنی اصلاح کرلے تو یہی آزمایش سربلندی کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔ اس وقت اہلِ پاکستان ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہیں۔ خدا کے اس غضب سے نجات پانے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے کہ ہم بحیثیت قوم اللہ کی طرف رجوع کریں، ظلم سے اجتناب کریں اور عدل و انصاف کی سربلندی اور امریکی طاغوت کی سرکوبی کے لیے حق کی آواز بلند کریں، اور اس راہ میں کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ یہی راہِ نجات ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ بھی ہم سے راضی ہوگا، اپنی نعمتوں کا اتمام کرے گا اور خوف سے امن بخش دے گا۔
وقت کے اس تقاضے کو سمجھتے ہوئے جماعت اسلامی پاکستان نے امن و انصاف کی بالادستی، ظلم و استحصال کے خاتمے، امریکی استعمار کے جبر اور فتنہ و فساد کوروکنے اور اُمت مسلمہ کے فرضِ منصبی کو ادا کرنے کے لیے آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا اور ’گو امریکا گو‘ کے عنوان سے امریکا مخالف تحریک کا آغاز کیا جو تسلسل سے جاری ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ پُرامن جدوجہد دنیا میں امن کے تحفظ کی جدوجہد ہے۔ یہ جدوجہد امریکا جیسے سامراج اور دنیا کی خدائی کے دعوے دار کے ظلم و استحصال اور فتنہ وفساد سے بچانے کے لیے امن و انصاف کی جدوجہد ہے۔ یہ جدوجہد خدا کے مقابلے میں دنیا کو اپنی اطاعت اور غلامی کا اسیر بنانے والے امریکی طاغوت کی غلامی کے خلاف خدا کی بندگی کی دعوت ہے۔ یہ جدوجہد آزاد دنیا کے آزاد ملکوں کی سلامتی، خودمختاری اور تحفظ کے لیے امریکا کی بے جا اور حد سے بڑھتی ہوئی مداخلت کے خلاف جدوجہد ہے۔ یہ جدوجہد اہلِ ایمان کے دین و ایمان کا تقاضا اور ان کے فرضِ منصبی کی ادایگی کی جدوجہد ہے۔ یہ وہ جہاد ہے جس کے لیے اس اُمت کو برپا کیا گیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں عالمی سطح پر امریکا مخالف تحریک کے لیے بھرپور آواز اٹھائی جائے، وہاں قومی سطح پر بالخصوص وہ صالح عنصر جو ملک و ملّت کے لیے درد رکھتا ہے آگے بڑھ کر منظم انداز میں اپنا کردار ادا کرے۔ امریکا مخالف محاذ قائم کیا جائے، ملک گیر عوامی تحریک کے ذریعے عالمی احتجاج کے ساتھ ساتھ موجودہ حکمرانوں کو منصفانہ روش اپنانے اور ملک و ملّت کے مفاد میں پالیسی بنانے پر مجبور کیا جائے، نیز امریکا کی بے جا مداخلت اور افغانستان میں جاری جنگ کو روکا جائے۔ طاقت کے استعمال کے بجاے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا منصفانہ ، پُرامن اور پایدار حل نکالا جائے۔
آزمایش کی اس گھڑی میں اہلِ پاکستان کو استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے منصفانہ موقف کی حمایت اور امریکا کی بے جا مداخلت کے خلاف بھرپور آواز اٹھانی چاہیے اور ملک میں جاری امریکا مخالف تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں ہی ہم ماضی میں کی جانے والی کوتاہیوں کی تلافی کرسکتے ہیں اور بحیثیت مسلمان اپنا فرضِ منصبی ادا کرسکتے ہیں اور امریکی طاغوت کو مزید ظلم و فساد سے روک کر نہ صرف اپنے ملک میں امن قائم کرسکتے ہیں بلکہ پوری دنیا کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔
بحیثیت قوم اگر ہم نے اس فیصلہ کن مرحلے میں غفلت برتی یا مداہنت دکھائی اور ہماری وجہ سے مزید خون خرابہ، بگاڑ اور فساد برپا ہوتا ہے تو پھر ملک کا مستقبل بھی مخدوش نظر آتا ہے۔ بھارتی بالادستی، بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک، سرحد میں نفرت اور سر اٹھاتا ہوا انتقامی جذبہ اور کراچی کی بگڑتی صورت حال، ملکی سلامتی کو درپیش خطرات کی کھلی کھلی نشان دہی کر رہے ہیں۔ اگر ہم نے اس موقع کو بھی ضائع کر دیا تو خدشہ ہے کہ کہیں خدانخواستہ اللہ کا قانون حرکت میں نہ آجائے اور اہلِ پاکستان کی مہلتِ عمل ہی ختم کر دی جائے اور فساد کے خاتمے کے لیے انتظام کسی اور کو سونپ دیا جائے۔ اس لیے کہ اللہ کو فساد اور بگاڑ نہیں بلکہ امن اور انصاف پسند ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اُمت مسلمہ جس کا فرضِ منصبی ہی یہ ہے کہ وہ دنیا میں ظلم و استحصال کا خاتمہ کرے اور انصاف کی علَم بردار بن کر رہے، اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ اس ذمہ داری کو کماحقہ ادا نہیں کرتی تو وہ کبھی سرخرو نہیں ہوسکتی۔ مسلمانوں کے لیے اللہ کا یہ خاص قانون ہے۔ اس کے بغیر وہ ترقی نہیں کرسکتے خواہ ان کا بچہ بچہ تعلیم یافتہ ہوجائے، اور ان کے پاس کتنے ہی وسائل کیوں نہ ہوں۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر مسلمان اپنی بے سروسامانی کے باوجود مخلص مومن اور اسلام کے سچے پیروکار بن کر ظلم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں اور طاغوتی قوتوں کی سرکوبی کے لیے سرتوڑ کوشش کریں اور جہاد فی سبیل اللہ کی راہ کو اپنا لیں، تو بے سروسامانی کے باوجود اللہ ان کو غالب کر دے گا۔ اُمت کی سربلندی کا راز بھی اسی بات میں مضمر ہے۔ اللہ کی سنت ہے کہ بارہا اس نے قلیل گروہ کو کثیر گروہوں پر غالب کیا ہے۔ ہماری تاریخ اس پر شاہد ہے اور آج بھی امریکی سامراج اور طاغوت کے خلاف اپنی بے سروسامانی کے باوجود اگر کوئی مزاحمت کر رہا ہے تو وہ مسلمان ہی ہیں۔
اس جدوجہد کے نتیجے میں بالآخر وہ مرحلہ بھی آئے گا جب ظلم کے خلاف اگر مدد کے لیے دنیا کسی کو پکارے گی تو وہ اُمت مسلمہ ہوگی، بے لاگ عدل وانصاف کے لیے اگر کسی طرف نظریں اُٹھیں گی تو وہ مسلمان ہوں گے، اور دنیا میں انسانی حقوق کا محافظ اور امن کا ضامن اگر کسی کو سمجھا جائے گا تو وہ مسلمانوں کو سمجھا جائے گا۔ کوئی دوسری قوم، کوئی دوسرا نظام ان کے سامنے ٹھیر نہ سکے گا۔ اسی جدوجہد کے نتیجے میں پسپائی امریکا کا مقدر ٹھیرے گی، اشتراکیت کی طرح سرمایہ داری بھی اپنے انجام کو پہنچ کر رہے گی، پھر کسی طاغوتی قوت کو ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر دنیا کے امن کو تہ و بالا کرنے کی جرأت نہ ہوسکے گی۔ بالآخر دنیا کا مستقبل ایک پُرامن اور منصفانہ عالمی نظام، یعنی اسلام ہوگا، ان شاء اللہ! اس کے لیے شرط صرف یہی ہے کہ اُمت مسلمہ اپنا فرض منصبی ادا کرنے کے لیے اُٹھ کھڑی ہو!
وَ لَا تَھِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔
بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد کے شعبہ اُردو کے مجلے معیار (جولائی-دسمبر ۲۰۰۹ئ) میں اسی یونی ورسٹی کے ریکٹر پروفیسر فتح محمد ملک نے اسٹیفن کوہن کی کتاب پاکستان کا تصور پر تبصراتی مقالہ لکھا ہے۔ اس کے کچھ حصے شکریے کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔ (ادارہ)
پاکستان کا جغرافیائی وجود علامہ اقبال کے تصورِ پاکستان سے پھوٹا ہے۔ برطانوی ہند میں الٰہ آباد کے مقام پر، کُل ہند مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں خطبۂ صدارت پیش کرتے وقت علامہ اقبال نے برعظیم میں جداگانہ مسلمان قومیت کی بنیاد پر، آزاد اور خودمختار مسلمان مملکتوں کے قیام کا تصور پیش کیا تھا۔ ۱۰ برس بعد لاہور کے مقام پر کُل ہند مسلم لیگ نے قائداعظم کی قیادت میں اقبال کے تصورِ پاکستان کو قراردادِ پاکستان کی صورت بخشی اور یوں اقبال کا یہ تصور تحریکِ پاکستان کا سب سے بڑا محرک بن گیا۔ عوامی جمہوری تحریکِ پاکستان نے صرف سات برس کے عرصے میں پاکستان قائم کر دکھایا۔ ہماری قومی آزادی اور خودمختاری کی تحریک کے آخری تین مراحل تصورِ پاکستان، تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کا ناگزیر ربطِ باہم، اختلاطِ جان و تن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس باہمی ربط کو توڑنا گویا پاکستان کے بدن سے پاکستان کے تصور کو نکال باہر پھینکنا ہے۔ جسم سے جان کو جدا کردینے کی مساعی ہے۔ زیرنظر کتاب The Idea of Pakistanاور اُس کا ترجمہ پاکستان کا تصور [وین گارڈ بکس، لاہور] ایک ایسی ہی سعی ٔ نامشکور ہے۔
امریکی سپاہِ دانش (تھنک ٹینکس) پاکستان کے خلاف نظریاتی جارحیت کا ہراول دستہ ہیں۔ مغربی حکومتوں کی مالی اور نظریاتی سرپرستی میں پاکستان کی اصل نظریاتی بنیادوں کو مٹاکر ایک نئی نظریاتی تشکیل کی سرگرمی روز بروز زور پکڑتی چلی جارہی ہے۔ وہ پاکستان مخالف سوالات جو ۱۹۴۰ء کی قراردادِ پاکستان سے لے کر قیامِ پاکستان تک، تحریکِ پاکستان کے مخالف دانش وروں نے بڑی شدومد کے ساتھ اُٹھائے تھے، پھر سے اُٹھائے جارہے ہیں۔
تحریکِ پاکستان کے دوران ہمارے آبائواجداد نے پاکستان کے تصور اور پاکستان کی تحریک کے خلاف پیش کیے گئے استدلال کی اپنی فہم وفراست کے ساتھ مؤثر طور پر تردید کر دی تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ خود اسلامیانِ ہند کی بھاری اکثریت نے ووٹ کے ذریعے پاکستان قائم کرکے اُس مخالفانہ استدلال کو باطل ثابت کردکھایا تھا۔ آج پاکستان کے اندر اُس ردکردہ اور باطل استدلال کو مغربی ممالک کے تھنک ٹینکس نئے فریب کے ساتھ پذیرائی بخشنے میں کوشاں ہیں۔ اِس کی ایک تازہ مثال اسٹیفن فلپ کوہن کی کتاب The Idea of Pakistan ہے۔
جناب اسٹیفن کوہن آج کل امریکی حکومت ہی کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے Brookings [بروکنگز] میں فارن پالیسی اسٹڈیز پروگرام میں سینیرفیلو کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ زیرنظر کتاب امریکی خارجہ پالیسی کے رہنما اصولوں کی روشنی میں تیار کی گئی ہے۔ جناب کوہن اکھنڈ بھارت کی آئیڈیالوجی پر کاربند ہیں۔ چنانچہ اُن کے نزدیک تحریکِ پاکستان کی کامیابی ایک المناک کامیابی (tragic victory) ہے۔ اپنی کتاب کے ابتدائیے میں وہ پاکستان کو ایک ناکام ریاست ثابت کرنے اور اس کے انجام سے ہمیں اور دنیا کو ڈرانے کے متعدد منظرنامے پیش کرتے ہیں۔ میں اپنی اس مختصر تحریر میں پاکستان کے تصور کی ’ناکامی‘ پر اُن کی راے سے بحث کروں گا۔ لکھتے ہیں:
بانیانِ پاکستان کو اُمید تھی کہ پاکستان کا تصور، ریاست پاکستان کی تشکیل کرے گا۔ اس کے بجاے ایک فوجی، نوکرشاہی ریاست پر حکومت کر رہی ہے، اور پاکستانی قوم کا اپنا وژن مسلط کر رہی ہے
یہ بات درست ہے کہ ہم اب تک پاکستان کے اندر تصورِ پاکستان کو مؤثر طور پر نافذ کرنے میں ناکام رہے ہیں، مگر یہ ناکامی ہماری ناکامی ہے نہ کہ تصورِ پاکستان کی۔ ایسی ہی ناکامی امریکا اور بھارت کو بھی ہوئی ہے۔ کیا آج کا امریکا تھامس جیفرسن، ابراہم لنکن اور جارج واشنگٹن اور اُن کے پیروکار امریکیوں کے خوابوں کاامریکا ہے؟ ہرگز نہیں۔ ریاست ہاے متحدہ امریکا کے بانیوں کے خواب تو جارج ڈبلیوبش نے مٹی میں ملاکر رکھ دیے ہیں۔ کیا مہاتماگاندھی کے خواب و خیال بھارت کی عملی زندگی میں جلوہ گرہوگئے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ مہاتما گاندھی کو تو عین اُس وقت تشدد کا نشانہ بناکر مارڈالا گیا تھا، جب وہ عدم تشدد کا پرچار کرنے میں مصروف تھے۔ یا جواہر لعل نہرو کا سوشلسٹ گریٹر انڈیا وجود میں آگیا ہے؟ ہرگز نہیں، تو پھر کیا امریکا اور بھارت بھی ناکام ریاستیں ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اسی اعتبار سے پاکستان بھی ایک ناکام ریاست نہیں ہے۔ مثالی تصورات کو عملی قالب عطاکرنا دشوار عمل ہے۔ خواب اور حقیقت کے درمیان مکمل ہم آہنگی کی جدوجہد جاری رہنی چاہیے۔ جب تک خوابوں سے رشتہ قائم ہے اور اُنھیں حقیقت میں ڈھالنے کی تمنا زندہ ہے، افراد اور اقوام جہدآزما رہتی ہیں۔ یہی جدوجہد اُن کی بقا اور ارتقا کی ضامن ہوتی ہے۔ ہمارے عوام تصورِ پاکستان پر یقین رکھتے ہیں اور اُسے پاکستانی زندگی میں جلوہ گر دیکھنا چاہتے ہیں مگر لیاقت علی خاں کی شہادت کے فوراً بعد ہمیں اُس قیادت سے محروم کردیا گیا، جو تحریکِ پاکستان کے خواب و خیال کو پاکستان میں حقیقت کا روپ دینے میں مصروف تھی۔ شہیدِ ملت کے جانشین برطانوی افسرشاہی کے نمایندے تھے، جنھوں نے امریکی مفادات کی چاکری کا چلن اپناکر تحریکِ پاکستان کے خواب و خیال کو فراموش کر دیا۔یہ چلن حکمران طبقے کا تھا اور ہے۔ پاکستان کے عوام اس چلن سے نفرت رکھتے ہیں اور تصورِ پاکستان سے اٹوٹ اوروالہانہ وابستگی رکھتے ہیں۔ پاکستانی عوام کے اس قومی جوش و جذبہ سے خائف بیرونی قوتیں پاکستان کے وژن کی ناکامی کا ڈھنڈورا پیٹ کر ہمارے ہاں فکری انتشار اور نظریاتی خلفشار پیدا کرنے میں کوشاں ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان کو نت نئے استدلال کے ساتھ ناکام ریاست کیوں ثابت کیا جارہا ہے؟ فقط اس لیے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست نہیں ہے۔ ہرچند تحریکِ پاکستان کے خواب و خیال پاکستان کی اجتماعی زندگی کے ٹھوس قالب میں اب تک نہیں ڈھالے جاسکے، تاہم اس امرکا قوی امکان موجود ہے کہ آیندہ ہم اُن خواب و خیال کو پاکستان میں عملاً نافذ کردیں۔ آج پاکستان عملی طور پر ایک اسلامی ریاست نہیں ہے، مگر امکانی طور پر ایک اسلامی ریاست ضرور ہے۔ امریکی اور بھارتی سپاہِ دانش اسی خوف میں مبتلا ہے۔ چنانچہ امریکی سپاہِ دانش آج پاکستان کی اصل نظریاتی شناخت کو مٹاکر امریکا اور بھارت کے مفید مطلب ایک نئی نظریاتی اساس ایجاد کرنے میں مصروف ہے۔ مستقبل قریب میں پاکستان کی ’تباہی‘ کے مختلف منظرنامے پیش کرنے کے بعد اسٹیفن کوہن پاکستان کو ممکنہ تخریب سے بچانے کا درج ذیل نسخہ تجویز فرماتے ہیں:
یہاں میں ایک بار پھر پوچھتا ہوں کہ وہ کون سی اقتصادی، سیاسی اور اسٹرے ٹیجک پالیسیاں ہیں، جو اسے بدترین نتائج سے دُور رکھنے میں ممد ثابت ہوسکتی ہیں؟ جو اس ملک کو راستے کا مسافر بناسکتی ہیں، جس پر چل کر یہ اپنے تشخص اور مفادات کا تحفظ بھی کرسکے اور امریکا اور اس کے اہم ہمسایوں کے کلیدی مفادات بھی محفوظ رہیں۔ ایک مستحکم، خوش حال اور مرحلہ وار ترقی کرتا ہوا پاکستان افغانستان اور بھارت کے ساتھ مل کر جنوبی ایشیا کی ترقی کے لیے نئی مہمیز کا کام دے سکتا ہے۔ (ص ۲)
درج بالا سطور میں ہمیں خبردار کیا گیا ہے کہ تباہی سے بچنے کی خاطر پاکستان اپنی قومی شناخت کو امریکا کے کلیدی مفادات اور اپنے اہم ہمسایہ ممالک کے مفادات سے ہم آہنگ کرنے کی راہ اپنائے۔ آخری سطر میں وضاحت کردی گئی ہے کہ اہم ہمسایہ ممالک سے مراد بھارت اور افغانستان ہیں۔ گویا چین، ایران اور روس جیسے اہم ترین ہمسایہ ممالک کو بھول جانا بھی اس نئی پاکستانی شناخت کے لیے ضروری ہے۔ اسی بحث کے دوران اسٹیفن کوہن صاحب روس کی مثال پیش کرتے ہیں، جس نے سوویت یونین کی اشتراکی نظریاتی شناخت کو مٹاکر زارشاہی کی روایات پر مبنی نئی روسی شناخت ایجاد (reinvent) کرلی ہے۔ اسٹیفن کوہن صاحب کے محاکمے کی رُو سے پاکستان کو اپنی بقا کی خاطر اپنی اصل نظریاتی شناخت مٹاکر وہ پُرانی جغرافیائی شناخت اپنا لینی چاہیے، جس سے پاکستان کے بارے میں بھارت کے تحفظات بھی ختم ہوسکیں اور امریکا اور بھارت ہردو کے کلیدی مفادات (key interests)کا حصول بھی یقینی بن سکے۔ یہ ہے وہ نیا وژن، جسے مقبولِ عام بنانے کی خاطر پاکستان کے اصل وژن کی ’ناکامی‘ کی ہوائی اُڑائی جارہی ہے۔
پاکستان کا تصور اور پاکستانی ریاست، دونوں غیر متوقع سمتوں میں ارتقا پذیر ہیں۔ دونوں پاکستانی رہنمائوں کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ نئے سیاسی اور نظریاتی علاقے دریافت کریں۔ متعدد وجوہ کی بنا پر ابتدائی نظریہ ناپید ہوچکا ہے۔ (ص ۹۳)
ہرچند حقیقی تصورِ پاکستان سے دست بردار ہوکر ایک نئی سیاسی اور نظریاتی شناخت اپنالینے کا یہ مشورہ امریکا کے ہنگامی اور وقتی مفادات کے پیشِ نظر قابلِ فہم ہے، تاہم تصورِ پاکستان کے بے اثر یا ازکارِ رفتہ ہونے کی بات ایک ایسا جھوٹ ہے، جسے اکثر مغربی دانش ور سچ کر دکھانے میں دُور کی کوڑی لانے میں مصروف ہیں۔ پاکستان کا تصور ایک زندہ تصور ہے، جسے عملی زندگی میں جاری و ساری کرنا ہماری عصری زندگی کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی اِس اہم ترین ضرورت کو ہم گذشتہ ۵۰ برس سے امریکی مفادات کی خاطر پسِ پشت ڈالتے چلے آرہے ہیں۔ ’سردجنگ‘ کے زمانے میں پاکستان کے مفادات کو امریکی مفادات سے ہم آہنگ کرنے کی خاطر ہمارے حکمران طبقے نے پاکستان کی نظریاتی اساس کی تفسیر و تعبیر میں تراش خراش کا عمل مسلسل جاری رکھا۔ اتنی طویل مدت تک تصورِ پاکستان میں ترمیم کا یہ عمل جاری رہا کہ ترمیم پسندی ہمارے حکمران طبقے کا مسلک ہوکر رہ گئی۔ اب مطالبہ ترمیم کا نہیں تنسیخ کا ہے۔ آج نوبت یہاں آپہنچی ہے کہ ہمیں اُس تصور سے دست بردار ہونے کا مشورہ دیا جا رہا ہے، جس کے اندر سے پاکستان کا جغرافیائی وجود نمودار ہوا تھا، اور جسے ترک کردینے سے پاکستان کے جغرافیائی وجود کا مٹ کر رہ جانا ایک قدرتی سی بات ہے۔ اسٹیفن پی کوہن امریکا اور پاکستان کے مابین نئے اتحادِ فکروعمل کے تقاضوں پر یوں روشنی ڈالتے ہیں:
۲۰۰۱ء میں امریکا اور پاکستان کے درمیان اتحاد کے پس پردہ کارفرما منطق، پاکستان کی ملکی سیاست میں کئی تبدیلیوں کا باعث بن گئی۔ اگر مذکورہ اتحاد کا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ تھا، تو ان گروہوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا کشیدہ ہوجانا ناگزیر تھا، جو واشنگٹن کے لیے باعثِ تفکر تھے، اور جن کے حامیوں کی بڑی تعداد پاکستان کے اندر بھی موجود تھی۔ پاکستان پر زیادہ دبائو ان دہشت گرد گروہوں کی حمایت کم کرنے کے لیے ڈالا گیا، جو بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں برسرِپیکار تھے۔ (ص ۹۱)
امریکا سے دوستی نبھانے کی خاطر پاکستان کو اب اپنے اندرونی معاملات میں بھی بھارت کی عینک سے دیکھنا اور بھارت کے ذہن سے سوچنا ہوگا۔ امریکا کے بھارت کے ساتھ نئے تعلقات کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان حریت پسندی کو دہشت گردی قرار دے۔ پاکستان نے مزاجِ یار کے سامنے سرِتسلیم خم کر دیا اور یوں ہم کل جس سرفروشانہ جدوجہد کو حریت پسندی کا نام دیتے تھے، آج وہی جہادِ آزادی ہماری لغت میں ’دہشت گردی‘ ہوکر رہ گیا ہے۔ بقول اقبال ؎
تھا جو ناخوب ، بتدریج وہی خوب ہُوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
امریکا اور بھارت خود تو دہشت گردی کی جڑوں کو مضبوط بنانے بلکہ سرسبز و شاداب رکھنے میں ہمہ تن مصروف ہیں، مگر پاکستان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اُن کے اُگائے اور پروان چڑھائے ہوئے ان زہریلے درختوں کے پھل پات کو سمیٹنے کا فریضہ سرانجام دے۔ اُن کے نزدیک دہشت گردی کے خلاف اتحاد کا بس ایک مفہوم ہے۔ اُن کے نزدیک پاکستان کی بقا فقط اُس وقت تک ضروری ہے جب تک وہ امریکا اور بھارت کے خاکروب کا یہ کردار سرانجام دیتا رہے۔ اگر پاکستان، امریکا اور بھارت کی پھیلائی ہوئی اس گندگی کو صاف کرنے میں ناکام رہا تو پھر اُس کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اسی باب کے آخر میں اسٹیفن کوہن اپنے دُکھ کا اظہار بھی کرتے ہیں اور اِس دُکھ کا علاج بھی تجویز فرماتے ہیں:
بیرونی محاذ پر پاکستان جنوبی ایشیا کا واحد ملک ہے، جو خطے میں بھارت کے تسلط اور اجارہ داری کو کھلم کھلا اور مسلسل چیلنج کر رہا ہے… لیکن دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مراسم نے اس کے حامیوں کو بھی پریشان کر رکھا ہے۔ یہ امر کسی کے لیے باعثِ حیرت نہیں کہ پاکستان بہ یک وقت اس مسئلے کا حصہ بھی ہے اور حل بھی۔ (ص ۹۵)
امریکی سپاہِ دانش کا دُکھ یہ ہے کہ پاکستان اس حال میں بھی بھارت کی بالادستی کو چیلنج کرنے پر مُصر ہے۔ اِس دُکھ سے نجات کا راستہ خود پاکستان سے ’نجات‘ ہے۔امریکا اور بھارت کے لیے پاکستان کی بس اتنی سی ضرورت ہے کہ وہ جب بھی اور جہاں کہیں بھی جن انسانی گروہوں پر ’دہشت گردی‘ کا سامراجی لیبل لٹکائیں، پاکستان اُن کے انسداد میں مشین کی سی سرگرمی دکھائے۔ ہرچند پاکستان اس اسکرپٹ کا مکمل مفہوم سمجھے بغیر اس کے حرف و معنی پر عمل پیرا ہے، تاہم امریکا اب ایسے سوالات پر غور کرنے لگا ہے کہ کیا خود پاکستان دہشت گردی کا سرچشمہ نہیں ہے؟ اور کیا دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے خود پاکستان کو ختم کردینا ضروری نہیں ہے؟
آج کل ہمیں امریکا کے کلیدی مفادات اور بھارت سے ذہنی اور قلبی ہم آہنگی کی خاطر ایک نئے خطۂ خواب کے جادو میں مبتلا کرنے کے لیے نت نئے جتن کیے جارہے ہیں۔ امریکی سپاہِ دانش بڑی سرگرمی کے ساتھ اس نئی نظریاتی سرزمین کو جانے والے راستوں کو سیکولرزم کے پتھروں سے تعمیر کرنے میں مصروف ہے۔ اسٹیفن کوہن اپنی کتاب کے باب بہ عنوان ’سیاسی پاکستان‘ کی اختتامی سطروں میں ہمارے سیاست دانوں کو یہ باور کرانے میں کوشاں ہیں کہ پاکستان میں فوجی مداخلت سے آزاد، جمہوری عمل اُس وقت تک ناممکن ہے، جب تک کسی انقلاب، فوجی شکست یا نظریاتی کایا کلپ (ideological transformation) کا سامان نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ زیرنظر کتاب میں بانیانِ پاکستان کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے انھوں نے عقل کے گھوڑے خوب دوڑائے ہیں۔
اسٹیفن کوہن کے خیال میں قائداعظم کا تصورِ پاکستان ایک سیکولر تصور تھا۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے قائداعظم کی تقاریر کی روح سیکولر تھی اور ’قراردادِ مقاصد‘ میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اُس میں سیکولر مسلمانوں اور سیکولراسلام کا ذکر تک نہیں:
یہ قرارداد، پاکستانی ریاست اور تصورِ پاکستان دونوں کا مطلب بتاتی اور انھیں تعریف فراہم کرتی ہے۔ [اس کے مطابق] پاکستان کو ایک وفاقی، جمہوری اور اسلامی تشخص کی شکل اختیار کرنا تھا، لیکن اس میں یہ درج نہیں تھا کہ پاکستان میں مسلمان ایک سیکولر زندگی گزاریں گے، یا اسلام کو سیکولر بنا لیا جائے گا۔ حتیٰ کہ اس میں ’سیکولر‘ کا لفظ بطورِ اصطلاح بھی موجود نہیں تھا۔ (ص ۵۷)
’قراردادِ مقاصد‘ جس قومی اسمبلی نے منظور کی تھی، اُس کے ممبران تحریکِ پاکستان کے قائدین اور عمائدین پر مشتمل تھی۔ قرارداد منظور کرنے والوں کو بخوبی علم تھا کہ پاکستان کا وژن کیا ہے؟ اسلامیانِ ہند نے کس خواب و خیال کو عملی زندگی میں جلوہ گر دیکھنے کی تمنا میں پاکستان قائم کیا ہے؟ اپنے خیالات، تجربات اور مشاہدات کی روشنی ہی میں انھوں نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دیا تھا۔ ’قراردادِ مقاصد‘ میں سیکولر کی اصطلاح بھی سرے سے موجود نہیں ہے۔ سیکولرزم کے خوش گوار عناصر، یعنی تھیاکریسی (شہنشاہیت+ ملائیت) سے انکار، ہرمذہب و ملّت کو اپنے عقیدہ اور مسلک کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی، وسیع النظری اور انسان دوستی تو اسلام سے مستعار ہیں۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار مدینۃ النبیؐ میں ان تصورات کا عملی ظہور سامنے آیا تھا۔ اقبال اور قائداعظم اسلام کے مفہوم سے بھی آگاہ تھے اور سیکولرزم کے مفہوم سے بھی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں نہ تو کبھی ’سیکولرمسلم‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے اور نہ ’سیکولرائزڈ اسلام‘ کی۔ بانیانِ پاکستان مسلمانوں پر ملوکیت اور ملائیت کے جبرواستبداد کے زیرسایہ صدیوں تک پنپنے والے مروجہ اسلام کے بجاے اسلام کی حقیقی روح کی بازیافت چاہتے تھے۔ ہردو بانیانِ پاکستان، اسلام کی اس حقیقی روح کو ازسرِنو دریافت کرکے اور اسے روحِ عصر سے ہم آہنگ کرکے پاکستان میں ایک حقیقی اسلامی ریاست اور معاشرے کی تشکیل و تعمیر کا فریضہ سرانجام دینا چاہتے تھے۔
---اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں سیکولرزم اور اسلام کی بحث کے دوران اسلامیانِ ہند سے سوال کیا تھا، کہ کیا وہ سیکولرسیاست کو اپناکر اسلام کا بھی وہی حشر کردینا چاہتے ہیں، جو مغربی دنیا نے عیسائیت کا کررکھا ہے؟ اقبال نے خود اس سوال کا جواب یوں دیا تھا کہ اسلامیانِ ہند، اسلام کے روحانی سیاسی مسلک پر قائم رہتے ہوئے دنیا کے سامنے روحانی جمہوریت کی مثال پیش کریں گے۔ وہ اسلام کے دینی مسلک اور سیاسی اور معاشرتی مسلک کی یک جائی پر انتہائی استقلال کے ساتھ قائم رہیں گے۔ تحریکِ پاکستان اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلامیانِ ہند نے قائداعظم کی قیادت میں پاکستان قائم کر کے اقبال کے اس اعتماد کو سچ ثابت کردکھایا تھا۔
--- امریکی سپاہِ دانش کا سب سے بڑا خوف ہی یہ ہے کہ افواجِ پاکستان کا دل ابھی تک نظریاتی سرحدوں ہی میں اٹکا ہوا ہے۔ کیوں نہ ہو، پاکستان کی جغرافیائی سرحدیں تو اُن نظریاتی سرحدوں ہی سے نمودار ہوئی ہیں جوگذشتہ ایک ہزار سال سے ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا کے درمیان قائم ودائم ہیں۔ اگر خدانخواستہ ہماری نظریاتی سرحدیں پامال کردی گئیں تو پھر جغرافیائی سرحدیں خودبخود مٹ کر رہ جائیں گی۔ اسٹیفن کوہن اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں، اسی لیے وہ امریکی حکومت کو مختلف پیرایوں میں بار بار یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں:
اس امر پر دو آرا نہیں ہوسکتیں کہ پاکستان کو اپنے تشخص کے ’اسلامی‘ جزو کی جگہ ۲۱ویں صدی کے حقائق کو دینی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ زریں اصول ترک کردیے جائیں، بلکہ ان کو جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ضروری ہے۔ (ص ۲۹۹)
یہاں ۲۱ویں صدی کے ’حقائق‘ سے مراد دنیاے اسلام کے خلاف جاری سامراجی جنگ میں امریکا، اسرائیل اور بھارت کے ناپاک اتحاد سے پھوٹنے والی حقیقتیں ہیں۔ اُن کا مطالبہ یہ ہے کہ پاکستان اپنی حقیقی نظریاتی بنیاد کو مٹاکر اُس نئی نظریاتی سرزمین کی جانب فرار کی راہ لے، جس کا قدیم نام ’اکھنڈ بھارت‘ ہے، اور جدید نام ’سائوتھ ایشین یونین‘۔ اُن کی تجویز یہ ہے کہ اگر پاکستان یہ مطالبہ ماننے سے مسلسل انکار کرتا چلا جائے تو پھر پاکستان کو دنیا کے نقشے سے ہی غائب کردینا چاہیے۔ پاکستان کے حکمران طبقے (core elite) کی آئیڈیالوجی آف پاکستان سے بیزاری سے اسٹیفن کوہن کی بہت سی خوش گمانیاں وابستہ ہیں۔ جانے اُنھیں یہ کس نے بتایا ہے کہ: ’’پاکستان کے مستقبل پر بنیادی اشرافیہ کے اعتماد میں کمی واقع ہوچکی ہے‘‘۔ (ص ۲۹۵)
چلیے، ہم اُن کا یہ مفروضہ بلاچوں وچرا مان لیتے ہیں اور اپنے عسکری وجود کی پاکستانیت اور اسلامیت سے اُن کے خوف کی بات چھیڑتے ہیں۔ موصوف امریکی حکومت کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ پاکستان کو بھارت کی غلامی پر آمادہ کرنے کے لیے گُڑ کھلانے کا گُر بھی آزمانا چاہیے اور زہر کھلانے کی متبادل حکمت ِ عملی بھی بروے کار لانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ چنانچہ اول یہ کہ:
امریکا کے لیے بہترین پالیسی یہ ہوگی کہ وہ موجودہ حکومت کی حمایت کرے، خواہ مشرف اس کا سربراہ ہو یا نہ ہو۔ مگر پاکستان پر ان سیاسی، معاشی حتیٰ کہ نظریاتی تبدیلیوں کے لیے سخت دبائو ڈالے، جن کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے، بہ شمول بھارت کی طرف ایک نیا نقطۂ نظر اختیار کرنے کے۔ (ص ۲۹۵)
اُوپر کی سطروں میں جن نظریاتی قلابازیوں کو پاکستان کی بقا سے لازم و ملزوم ٹھیرایا گیا ہے، اُنھیں افواجِ پاکستان کے لیے قابلِ قبول بنانے کی حکمتِ عملی بھی پیش کی گئی ہے۔ ص ۲۶۹ پر بدلی ہوئی صورتِ حال میں فوج کے نئے کردار کو بھی متعین کیا گیا ہے۔ افواجِ پاکستان میں نظریاتی فراموش کاری کے مقصد کے حصول کے لیے کوہن صاحب کا نسخہ یہ ہے کہ سرحدوں سے افواجِ پاکستان کی توجہ ہٹاکر اُنھیں بتدریج اندرونِ ملک انتظامی ذمہ داریوں میں اُلجھا دیا جائے۔ اسی طرح افواجِ پاکستان کے لیے اقوامِ متحدہ کے زیراہتمام قیامِ امن کی ذمہ داریوں کو ملکی سرحدوں کی حفاظت کے فریضہ سے زیادہ پُرکشش بنا دیا جائے۔ اُنھیں امید ہے کہ یہ پالیسی بالآخر افواجِ پاکستان کے خواب و خیال کو بدل کر رکھ دے گی اور یوں دارالاسلام کی بقا کی خاطر جوشِ جہاد اور شوقِ شہادت کے خواب وخیال، ہرشہر کی ہر ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی میں ایک نئے کارنر پلاٹ کے حصول کے سے خواب و خیال بن کر رہ جائیں گے۔
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اسٹیفن کوہن کو اس پالیسی کی ناکامی کے اندیشوں نے بھی گھیر رکھا ہے کہ وہ بجاطور پر اس فکر میں مبتلا ہیں کہ آزمایش کی گھڑی آنے پر ہمارے عسکری وجود کے دل میں پھر سے وہی حقیقی خواب و خیال جاگ اُٹھیں گے، جو جوشِ جہاد اور شوقِ شہادت سے آن کی آن میں سرسبز و شاداب ہوجایا کرتے ہیں۔ یہ احساس کوہن صاحب کو مسلسل بے چین رکھتا ہے کہ جہاں تک بھارت کی غلامی کا تعلق ہے ہمارا عسکری وجود امریکی دبائو کو ہرگز برداشت نہ کرے گا۔ شاید اسی لیے آج کل وہ اس وجود کی تباہی کے خواب دیکھنے میں مصروف ہیں۔ چنانچہ موصوف زیرنظر کتاب میں متعدد مقامات پر پاکستان کی فوجی شکست سے پاکستان کے عسکری وجود کی تباہی اور قومی وجود کی رُسوائی کا سامان کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی حکومت کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اگر گُڑ کھلانے سے کام نہ چلے تو پھر پاکستان کو زہر دے کر مار ڈالا جائے، کیونکہ بھارت اور امریکا کا مشترکہ مفاد اسی مہم جوئی میں مضمر ہے:
مزید غیرمعمولی راستے مثلاً: بھارت کے ساتھ مل کر ایک ایسے پاکستان کو حد میں رکھنا جو اپنی اصلاح آپ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ (ص ۳۲۵)
اور
دوسرے منظرنامے بھی دیکھے جاسکتے ہیں: پاکستان کو فوجی شکست دینے کے لیے بھارتی فیصلہ، امریکی حکومت کو اس بات پر آمادہ کرسکتا ہے کہ جنگ کو مختصر رکھنے کے لیے بھارت کا ساتھ دے۔ (ص ۳۰۸)
یہ وحشیانہ استدلال نائن الیون سے شروع ہونے والے نئے دورِ وحشت کا ناگزیر شاخسانہ ہے۔ یا تو آپ اپنی اسلامی شناخت سے رضاکارانہ طور پر دست بردار ہوجائیں اور یا پھر اپنی مکمل تباہی کے لیے تیار ہوجائیں۔ امریکی سپاہِ دانش آپ کو صرف دو راستے ہی دے سکتی ہے۔ یہاں یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ اسٹیفن کوہن صاحب ہمیں جن دو راہوں میںسے ایک راہِ عمل کے انتخاب کا حق دے رہے ہیں، وہ دونوں راہیں پاکستان کے جداگانہ قومی وجود کی فنا کی راہیں ہیں۔ پہلی راہ ’پُرامن‘ ہے اور دوسری بھارت اور امریکا کی مشترکہ فوجی جارحیت سے تباہی کی راہ ہے۔ دونوں راہیں اکھنڈ بھارت کی نام نہاد ’نئی نظریاتی سرزمین‘کو جاتی ہیں۔ اسٹیفن کوہن پہلی راہ کو ترجیح دیتے ہوئے ہمیں یہ سنائونی سناتے ہیں کہ ہماری core elite [بنیادی اشرافیہ] پاکستان کی پُرامن نظریاتی کایا کلپ کی راہ پر گامزن ہے۔
۲۰ویں صدی کے تیسرے اور چوتھے عشرے میں برطانوی ہند کے مسلمانوں کی اکثریت نے متحدہ ہندستانی قومیت کے تصور کو ٹھکرا کر جداگانہ مسلمان قومیت کے تصور کو اپنا لیا تھا۔ برعظیم میں جداگانہ مسلمان قومیت ہی کی بنیاد پر جداگانہ مسلمان مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ برطانوی حکومت اور انڈین نیشنل کانگرس کی سرتوڑ مخالفت کے باوجود اسلامیانِ ہند کی بھاری اکثریت نے جداگانہ مسلمان قومیت ہی کی نظریاتی اساس پر ایک عوامی جمہوری تحریک کے ذریعے پاکستان قائم کرلیا تھا۔ قدرتی طور پر قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی جداگانہ مسلمان قومیت کا یہی نظریہ پاکستانی قومیت کی اساس بن گیا۔ آج پاکستانی قومیت کی یہی بنیاد اور پاکستان کی یہی اسلامی شناخت ہدفِ ملامت ہے۔ امریکی سپاہِ دانش مختلف اور متنوع انداز میں اس جھوٹ کو سچ ثابت کردکھانے میں منہمک ہے کہ پاکستان کے تمام تر مصائب و مشکلات کا سرچشمہ پاکستان کی یہی اسلامی نظریاتی شناخت ہے۔ اسٹیفن کوہن کی کتاب ’تصورِ پاکستان‘اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ ایک کتاب نہیں بلکہ ایک رپورٹ ہے، اور رپورٹ بھی ایسی جو بقول مولانا الطاف حسین حالی ؎
کچھ کذب و افترا ہے ، کچھ کذبِ حق نما ہے
یہ ہے بضاعت اپنی اور یہ ہے دفتر اپنا
گذشتہ پانچ سال سے امریکی سپاہِ دانش سے سستے داموں تیار کرائی گئی اس قبیل کی رپورٹیں مسلسل و متواتر گردش میں ہیں۔ آج سے پانچ برس پیش تر ’یو-ایس ایس کمیشن آن نیشنل سیکورٹی اِن دی ٹونٹی فَسٹ سنیچری‘ میں دعویٰ کیا گیا تھاکہ ۲۱ویں صدی کے پہلے ۲۵سال کے دوران پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ اس رپورٹ پر وائٹ ہائوس نے بھی اپنی مہرتصدیق ثبت کررکھی ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان کی تباہی کے متعدد امکانات درج ہیں۔ ان میں سے ایک امکان یہ ہے کہ پاکستان اقتصادی بدحالی اور سیاسی بے عملی کے باعث اندرونی عدمِ استحکام کا شکارہوکر ٹوٹ جائے گا، اور الگ الگ بلوچ، پشتون اور مہاجر ریاستیں وجود میں آجائیں گی۔ اسٹیفن کوہن کی زیرنظر کتاب میں ’علاقہ پرستی اور علیحدگی پسندی‘ کے عنوان سے جو باب شامل ہے، اُس میں بھی پاکستان کی ممکنہ تباہی کے موضوع پر امریکی سپاہِ دانش کی ان تمنائوں کی صورت گری موجود ہے۔ بھارت نواز بلّی کے خواب میں یہ چھیچھڑے بے شک ہمارے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہیں۔ ان پر سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر کرنا چاہیے، مگر ایسا کرتے وقت ہمیں اس حقیقت کو ضرور پیشِ نظر رکھناچاہیے کہ پاکستان کی تباہی کے یہ منظرنامے امکانات کم ہیں اور عزائم زیادہ۔ اگر ہم اپنے ’دوست‘ کے ان عزائم میں پوشیدہ ’دشمنی‘ کے اسرار و رموز سے بروقت خبردار ہوجائیں تو کچھ تعجب نہیں کہ یہ امکانات معدوم ہوکر رہ جائیں۔
--- یہی وجہ ہے کہ امریکی سپاہِ دانش آج ہمیں ہندستانیت کامسلک اپناکر پاکستانی قومیت کی اسلامی سرشت سے رُوگردانی پر مجبور کر رہی ہے: ’’پاکستان کی شیرازہ بندی کے لیے ایک نئے نظریے کی ضرورت ہے، جو علاقائی قومیتوں کے لیے، اور ایک ایسے تشخص کے لیے، جو خوف سے مبرا ہو، گنجایش رکھے‘‘۔ (ص۲۲۶)
کوہن صاحب کا ارشاد یہ ہے کہ ہم روحانی یگانگت کی پاے دار بنیاد کو چھوڑ کر رنگ و نسل کی ناپاے دار بنیاد پر پاکستانی قومیت کی نئے سرے سے تعمیر کریں۔ اُن کے خیال میں پاکستان کی سالمیت اور پاکستانیوں کے اتحاد کا یہ نیا تصور (new organizing idea) بھارت اور امریکا ہردو کے لیے پسندیدہ ٹھیرے گا۔ پاکستان کے حقیقی تصور کو ترک کردینے اور اس نئے تصورِ پاکستان کو اختیار کرنے کی فضا تیار کرنے کے لیے وہ پاکستان میں علاقہ پرستی اور علیحدگی پسندی کی تحریکوں کا ذکر کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں علاقہ پرستی اور علیحدگی پسندی کی کوئی تحریک موجود ہی نہیں۔ صوبوں کو مرکزسے جائز شکایات ہیں۔ صوبائی خوداختیاری کی حدود کو وسیع سے وسیع تر کرنے کے مطالبات زور پکڑتے چلے جارہے ہیں۔ ان برحق مطالبات پر پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان گفت و شنید جاری ہے۔ ان میں سے کوئی بھی گروہ پاکستان سے علیحدگی کی تمنا نہیں رکھتا۔ بھارت میں جس طرح علیحدگی کی متعدد تحریکیں جداگانہ ممالک کے قیام کی خاطر سرگرمِ عمل ہیں، پاکستان میںاُس طرح کی کوئی تحریک موجود نہیں۔اس کا اعتراف اسٹیفن کوہن صاحب کو بھی ہے۔ چنانچہ بالآخر انھوں نے پاکستان کے دیگر صوبوں سے مایوس ہوکر پنجاب کو اپنی تخریبی تمنائوں کامرکز و محور بنا لیا ہے۔
امریکی سپاہِ دانش امریکا اور بھارت کے مشترکہ ’کلیدی مفادات‘ کے تحفظ کی خاطر پاکستان کو بھارت کی ایک ذیلی ریاست کا مقام دینا چاہتی ہے۔ پاکستان کے عوام اور پاکستان کی فوج یہ مقام قبول کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔ چنانچہ کوہن صاحب کی زیرنظر کتاب میں پاکستان اور افواجِ پاکستان کی تقسیم کے خوابوں کو روبہ عمل لانے کی خاطر متعدد خاکے پیش کیے ہیں۔ اگر متحدہ پاکستان بھارت کی بالادستی قبول کرنے سے انکاری ہے تو پھر پاکستان کوعلاقہ پرستی کی بنیاد پر متعدد چھوٹی چھوٹی خودمختار ریاستوں میں بانٹ دیا جائے۔ یہ چھوٹی چھوٹی کمزور ریاستیں بھارت کی بالادستی قبول کرنے پر مجبور کردی جائیں گی۔ پاکستان کی یہ مجوزہ تقسیم دیوانے کا خواب ہے، اس لیے کہ پاکستان کا کوئی بھی صوبہ پاکستان سے علیحدگی نہیں چاہتا، بلکہ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے صوبائی خودختیاری کے لیے جہدآزما ہے۔ عوام کی یہ پاکستانیت امریکی سپاہِ دانش کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ چنانچہ کوہن صاحب کی عیار عقل انھیں افواجِ پاکستان کی شیعہ سُنّی کی فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم سے پاکستان کی تقسیم کی راہ سُجھاتی ہے۔ اس راہ پر چند قدم چلتے ہیں تو کھلتا ہے کہ ع ایں خیال است و محال است و جنوں۔
پاکستان کو توڑنے کے ان منصوبوں کے بے اثر ہونے کا احساس انھیں پھر سے پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کی جانب متوجہ کرتا ہے۔ پاکستانی قومیت کی اسلامی سرشت کو بدل کر رکھ دینے کا خیال آتا ہے۔ پاکستان کے لیے نئے امریکی نصابِ تعلیم کی بحث چھڑتی ہے، مگر یہ کام آن کی آن میں سرانجام نہیںپاسکتا۔ نہ پاکستان کو مغربی بنگلہ دیش، پنجابستان، نیا پنجاب اور آزاد پنجاب کے سے اسماے تحقیر سے موسوم کرنے سے پاکستانیوں کی اسلامیت کی نفی ممکن ہے۔ مایوسی کے اس عالم میں اسٹیفن کوہن سوچتے ہیں کہ فوری نتائج کے حصول کی خاطر پاکستانی قیادت کو ترغیب دی جائے کہ وہ روس کی مثال کو اپنا لے۔ اُن کی تجویز یہ ہے کہ جس طرح سوویت یونین، کمیونسٹ آئیڈیالوجی اور سوویت یونین کی غیر روسی ریاستوں سے دست بردار ہوکر پھر سے روس بن گیاہے، اسی مثال کو اپناتے ہوئے پاکستان کا بھلا اس میں ہے کہ وہ اپنی اسلامی آئیڈیالوجی کو ترک کرکے پاکستان کے بجاے پنجابستان ہوجائے:
سوویت تاریخ، پاکستان کو دوبارہ منظم کرنے کے لیے ایک تیسرا راستہ دکھاتی ہے۔ سوویت یونین اس لیے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی کہ اس کی غالب جمہوریہ (روس) نے حساب لگایا کہ وہ اپنی بعض غیریورپی جمہوریائوں کے بغیر زیادہ بہتر رہے گا، اور یہ کہ روس کا مستقبل ایک جدید روسی ریاست بننے میں ہے۔ کیا پاکستان کی ارتقا یافتہ شکل پنجابستان ہوسکتی ہے جو ایک چھوٹی، جوہری اسلحے سے لیس، زیادہ مؤثر اور عمومی طور پر مستحکم ریاست ہو؟ (ص ۲۹۲)
کوہن صاحب بھی کیا سادہ ہیں؟کس اعتماد کے ساتھ ہمیں سمجھانے آئے ہیں کہ ہمارا فائدہ اس میں ہے کہ تاریخِ اسلام کے بجاے روسی تاریخ کو اپنا سرچشمۂ فیضان بنا لیں؟ اُن کاخیال ہے کہ ترکِ اسلام کی یہ راہ اپناکر پاکستان کی مجوزہ جانشیں ریاست پنجابستان، پاکستان سے زیادہ خوش حال، طاقت ور، ترقی یافتہ اور محفوظ ریاست بن کر اُبھرے گی۔ اُن کے اس استدلال نے اس حقیقت پر ایک اور مہرتصدیق ثبت کردی ہے کہ سندھی، بلوچی اور پٹھان اسلامیت اور پاکستانیت پر غیرمتزلزل ایمان رکھتے ہیں۔ اُنھیں امریکی کھلونے دے کر پنجابیوں کی طرح نہیں بہلایاجاسکتا۔ چنانچہ بھارتی امریکی لابی کی تمام تر توجہ پنجابستان پر ہے۔ ننکانہ صاحب کو خالصہ وَیٹی کن اور لاہور کو لاہُو کے مندروں کا شہر بنانے کی خاطر رات دن ایک کردیے گئے ہیں۔ فکری اور نظریاتی محاذ پر اسلام اور سیکولرزم… دین اور لادینیت کی بحث کا بازار گرم کردیاگیا ہے، مگر کیا غم کہ اقبال جاگ رہا ہے ؎
دُنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو پکارا
اسلامی ریاست اور اس کے شہریوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں بیت ا لمال کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔امت مسلمہ جب اپنے اجتماعی نظام کو برقرار نہ رکھ سکی اور حہاں بہت سے ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے وہاں مغربی سرمایہ داری نظام وجودمیںآیا اور مالی معاملات ریاست کے بجاے افراد کے ہاتھوںطے ہونے لگے جو آخرکار رائج الوقت بنکاری کے نظام کا حصہ بن گئے اور ریاست کا کردار مالی معاملات میں محدود سے محدود تر ہوتا گیا۔ اسلام کے معاشی نظام کا تصور مسلمانوں کے دلوں سے اوجھل ہوگیا، اور وہ مجبوراً مغربی بنکاری نظام کے پابند بن کر رہ گئے۔ تاہم ۱۹۷۵ء میں موجودہ اسلامی بنکاری کی ابتدا دبئی سے ہوئی اور ۳۵ سال کے مختصر سے عرصے میں بیش تر مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ برطانیہ میں اب تک پانچ اسلامی بنک قائم ہو چکے ہیں۔ امریکا جہاں پرانے بنک راتوں رات دیوالیہ ہو گئے ہیں، وہاں پر اسلامک بنک نہ صرف اس بحران کا شکارنہیں ہوئے بلکہ بدستور اچھی حالت میں کام کر رہے ہیں۔
بنکوں کی طرح انشورنس کا روایتی کاروبار بھی چونکہ سود پر مبنی نظام کا ایک حصہ ر ہا ہے اور مسلمان تاجروں نے اس طرف توجہ نہیں دی، تاہم اسلامی بنکاری کے نظام کے پھلنے پھولنے سے انشورنس کی ضرورت محسوس کی گئی۔ آج بیش تر مسلم ممالک میں یہ ادارے تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں۔
بین ا لاقوامی سطح پر پہلی تکافل کمپنی ۱۹۷۹ء میں سوڈان میں قائم ہوئی اور اس کے بعد ملا یشیا نے ۱۹۸۷ میں تکافل کے قوانین کا اجرا کیا ۔ پاکستان کے حکمرانوں کو عدالت عا لیہ کے فیصلے باوجود سود پر مبنی نظام کو بدلنے کی توفیق تو نہ ہوسکی، البتہ اسلامی بنکوں کے اجر کی ابتدا سے اب تک چھے اسلامی بنک قائم ہو چکے ہیں جن کی سیکڑوں شاخیں پورے ملک میںکام کر رہی ہیں۔ اسلامی بنکوں کے لیے اسلامی انشورنس کی ضرورت اور عدالت کے فیصلے کے مطابق بالآخر ۲۰۰۵ء میں تکافل (اسلامی انشورنس) رولزکا اجرا ہوا۔ اس وقت سے اب تک پاک کویت تکافل، تکافل پاکستان لمیٹڈ،پاک قطرفیملی تکافل، پاک قطر جنرل تکافل اور فرسٹ داؤد تکافل وغیرہ جیسے ادارے قائم ہوچکے ہیں۔ ذیل میں تکافل کمپنیوں کے طریق کار کے متعلق مختصر معلومات دی جارہی ہیں:
مال و متاع کا حصول اور سامان زیست جہاں انسانی فطرت کا عین تقاضا ہے وہاں ان اثاثہ جات کے تحفظ اور خود انسانی زندگی کو لاحق خطرات سے نبردآزما ہونا بھی ایک انسانی ضرورت رہی ہے۔ آئے دن حادثات کے نتیجے میں موت یا بحری مال بردار جہازوں کی غرقابی، مکان و کارخانوں کو آگ کا لگنا، زندگی کی گاڑی کو مکمل طور پر روک تو نہیں سکتا، تاہم اس کی رفتار میں کمی اور سفر میں دشواریوں کا باعث ضرور بنتا ہے ۔ ان خطرات کے ازالے کے لیے مختلف ادوارمیں مختلف طور طریقے رائج ہوئے، جس میں ایک طریقہ عام روایتی انشورنس کا ہے۔ مراد یہ ہے کہ جس میں کچھ رقم (پریمیئم) کے بدلے ان ممکنہ خطرات کو انشورنس کمپنیوں کو منتقل کی جاتی ہے۔ روایتی انشورنس نے ان ’ممکنہ خطرات‘ (risk) کو کم یا ختم تو کرلیا لیکن بنیادی طور پر اس طریقے میں غیرشرعی طریقِ کار اور خرابیوں، یعنی سود، قمار اور غرر (دھوکا)کی بنا پرفقہاے کرام نے ہر دور میں اس طریقۂ کار کی مخالفت کی اور اس کا حصہ بننے سے منع کیا۔
’تکافل‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو کفالت سے نکلا ہے، اور کفالت ضمانت اور دیکھ بھال کو کہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں باہم ایک دوسرے کا ضامن بننایا باہم ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرنا مراد ہے۔
’تکافل‘ کی بنیاد بھائی چارے، امدادِ باہمی اور ’تبرع‘ کے نظریے پر ہے، جو شریعت کی نظر میں پسندیدہ ہے۔ دورِ جدید میں تکافل کو روایتی انشورنس کے متبادل کے طور پر بطور اسلامک انشورنس کے استعمال کیا جارہا ہے۔اس نظام میں تمام شرکا باہم رسک شیئر کرتے ہیں اور شرکا باہمی امداد و بھائی چارے کے اس طریقے سے مقررہ اصول و ضوابط کے تحت ممکنہ مالی اثرات سے محفوظ ہوجاتے ہیں ۔ روایتی انشورنس کے مقابلے میں تکافل کا نظام ایک عقدِ تبرُع ہے کہ جس میں شرکا آپس میں ان خطرات کو تقسیم کرتے ہیں ، تکافل نظام کے عقد تبرع کے نتیجے میں بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی قسم کا سود کا عنصر موجود نہیں ۔
ہمارے معاشرے میں بھی تکافل کے مفہوم کی بہت سی صورتیں رائج ہیں ، مثلاً مشترکہ خاندانی نظام یا جیسا کہ کوآپریٹو سوسائیٹیز ہیں۔ ان طریقوں سے بھی ارکان / ممبر رسک او ر مالی خطرات کو آپس میںتقسیم کرتے ہیں ، اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے اصول کے مطابق مدد کرتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کو مالی اثرات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی طریقہ روایتی انشورنس کے مطابق نظامِ تکا فل میں اختیار کیا گیا ہے۔
تکافل کا تصور کوئی نیا ایجاد کردہ تصور نہیں ہے ،بلکہ واضح طور پر قرآنِ کریم اور احادیث مبارکہ میں یہ تصور موجود ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیث مبارکہ میں باہمی امداد اور تعاون کی بڑی ترغیب دی گئی ہے اور یہی باہمی امداد ہی تکافل کی بنیاد ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ِ باری ہے:
وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی(المائدہ ۵:۲) نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔
اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ (الحجرات ۴۹: ۱۰) مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
اس تعاون اور باہمی بھائی چارے کا تقاضا یہی ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور ایک دوسرے کے لیے سہارا بن جائیں ، اور مصیبت میں کام آئیں جیسا کہ بھائی آپس میں کرتے ہیں ۔ انھی اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے سے دنیا میں بھائی چارے ، اخوت، ہمدردی اور باہمی تعاون کی خوش گوار فضا قائم ہو سکتی ہے اور یہی نظریہ تکافل کی بنیا د ہے۔یہ بات بھی ملحوظ خاطررہے کہ تکافل صرف مسلمانوں کے لیے نہیں۔ کوئی بھی فرد جو اس کا ممبر بنے گا وہ اس سے استفادہ کر سکے گا۔ ملایشیا میں مسلمان ہی نہیںبلکہ غیر مسلم بھی اسلامی بنکوں اور تکافل کمپنیوں کے ساتھ معاملات کرتے ہیں۔ یہ معاہدہ باہمی تعاون و تناصر پر مبنی ہے ، چنانچہ اس میں ایک دفعہ یہ بھی ہے کہ ’’ہر گروہ کو عدل ا نصاف کے ساتھ اپنی جماعت کا فدیہ دینا ہوگا‘‘ یعنی جس قبیلے کا جو قیدی ہوگا، اس قیدی کے چھڑانے کا فدیہ اسی قبیلے کے ذمے ہوگا۔
یہ اسلام میں باہمی امداد و بھائی چارے کی اوّلین مثال ہے۔ اس کے بعد بھی اس طرح کے معاہدے مختلف خلفاے اسلام اپنے دورِ حکومت میں کرتے رہے، اگرچہ وہ تکافل کے نام سے نہیں تھے لیکن تکافل کی رو ح ان میں موجود تھی۔
بعض لوگوں کے نزدیک انشورنس یا تکافل اسلام کے تصورِ توکل کے خلاف ہے ۔ یہ خیال غلط فہمی پر مبنی ہے ا ور درست نہیں۔ توکل کے معنی ترکِ اسباب کے نہیں ، بلکہ اسباب کو اختیار کرتے ہوئے اس کے نتائج کو اللہ کے حوالے کرنے کا نام توکل ہے، لہٰذا اسباب کو اختیا ر کرنا، اور اس کے نتائج و ثمرات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا ہی توکل ہے۔ جیساکہ حدیث شریف میں ہے کہ ایک بدوی نے اُونٹ کو باندھے بغیر چھوڑا اور اس کو توکل سمجھا ، چنانچہ آنحضرتؐ نے اس کو تنبیہ فرمائی:
ایک صحابی نے نبی کریمؐ سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسولؐ! میں اپنے اونٹ کو باندھ کر اللہ پر توکل کروں یا اس کو چھوڑ دوں، پھر اللہ پر توکل کروں ؟ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ایسانہ کرو ، بلکہ پہلے اونٹ کو باندھو ، اور پھر اللہ تعالیٰ پرتوکل کروـ۔(ترمذی ۲۷۷۱)
اسی طرح آنحضرتؐ اور صحابہ کرامؓ نے اسباب اختیار فرمائے ہیں ، بیماری میں علاج اختیار فرمایا ہے جیساکہ ایک روایت میں آتا ہے:
حضرت اسامہ بن شریک سے روایت ہے کہ صحابہ کرامؓ نے نبی کریمؐ سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ!( جب ہم بیمار ہوں تو ) کیا ہم علاج کروائیں؟ جناب رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: اے اللہ کے بندو ، ہاں ، علاج کروائو۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے کے علاوہ تمام بیماریوں کا علاج پیدا کیا ہے۔ (مشکوۃ ۲:۳۸۸، رواہ احمد و ترمذی و ابوداؤد)
اپنی اولاد کے لیے ورثے کے طور پر کچھ مال وغیرہ چھوڑنا، تاکہ وہ بعد میں دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں ، اور ذلیل نہ ہوں، اس کو شریعت نے افضل قرار دیا ہے ، جیسا کہ حدیث شریف میں آتاہے:
آپ اپنی اولاد کو مال دار چھوڑیں ، یہ زیادہ بہتر ہے اس سے کہ آپ انھیں فقر و فاقے کی حالت میں چھوڑیں اور وہ لوگوں سے مانگتے پھریں ۔(بخاری ۱/۳۸۳)
قرآن کریم اور حدیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات عیاں ہے کہ اس نظام کے جائز ہونے بلکہ مستحسن ہونے میں کوئی شبہہ نہیں ، بشرطیکہ یہ اپنے صحیح اصولوں کے مطابق ہو ، اور اخلاص کے ساتھ ہو۔
ممکنہ خطرات سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنا (یعنی رسک مینجمنٹ) اورمالی اثرات کو ختم یا کم کرنے کا خیال کوئی نیا تصور نہیں ہے، خود شریعت نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے۔ اگر جائز طریقۂ کار کے مطابق ایسی تدابیر اختیار کی جائیں تو یہ اسلام کے خلاف نہیں۔ چنانچہ اسلام میں بھی رسک مینجمنٹ کی مثالیں پائی جاتی ہیں ۔ اس کی سب سے خوب صورت مثال وہ ہے جو سورئہ یوسف میں قحط سالی سے نبٹنے کے لیے سیدنا یوسف ؑ کے اٹھائے گئے اقدامات کی صورت میں بیان ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں حسب ذیل مثالیں بھی زیر نظر رہیں:
ممکنہ خطرات سے بچاؤ کی تدابیر (رسک مینجمنٹ )کی یہ مثالیںمحض امدادِ باہمی اور تعاون پر دلالت کرتی ہیںاسی لیے شرعاً جائز ہیں۔
موجودہ دور میں خصوصاً ’ممکنہ خطرات کی پیش بندی کرنا‘۔ ایک اہم ضرورت بن گیا ہے۔ اسی بنا پر فقہاے امت نے غور و خوض کے بعدتکافل کے اس طریق کار کو جو غیر شرعی طریقوں اور خرابیوں سے پاک ہے، روایتی انشورنس کے متبادل کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔
تکافل کے نظام میں کمپنی کی حیثیت وکیل یا مینیجر کی ہوتی ہے۔ ’تکافل نظام‘ میںسب سے پہلے کمپنی کے شیئر ہولڈر کچھ رقم باقاعدہ وقف کرتے ہیں۔ اس رقم سے ایک وقف پول یا فنڈ (Participant's Takaful Fund )قائم کیا جاتا ہے۔جہاںان شیئر ہولڈروں کی حیثیت وقف کنندہ کی ہوتی ہے۔ وقف فنڈ سے ممبران کا تعلق محض ’عقدِ تبرع‘ کا ہوتا ہے۔ وقف فنڈ کی ملکیت وقف کنندہ سے وقف کی طرف منتقل ہوجاتی ہے، البتہ اس وقف کے منافع سے وہ استفادہ کرتے ہیں ۔اس وقف فنڈ کو PTF کا نام دیا گیا ہے۔
فقہ کا مشہور اصول ہے کہ شرط الواقف کنص الشارع ، یعنی وقف کرنے والے کی شرط صاحب ِ شریعت کے فرمان کی مانند ہے ۔ اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے واقف ، وقف فنڈ میں کچھ شرائط عائد کرتے ہیں ۔ جس میں ایک شرط یہ بھی ہوتی ہے کہ جو شخص بھی اس وقف فنڈ کو عطیہ دے گا ، اس وقف فنڈ سے وقف شرائط کے مطابق وہ فوائد کا مستحق ہوگا۔
وقف کے اندر چوں کہ اس بات کی گنجایش ہے کہ وہ مخصوص طبقے یا افراد کے لیے ہو ، مثلاً کوئی شخص اپنے باغ کو اس شرط کے ساتھ وقف کرے کہ اس کا پھل صرف فلاں شخص کو یا میری اولاد کو دیا جائے یا میری زندگی میں مجھے ملتا رہے، وغیرہ تو یہ شرائط لگا نا نہ صرف جائز بلکہ مندرجہ بالا اصول کی روشنی میں ان کی پابندی بھی لازمی ہے۔اسی طرح تکافل سسٹم میں وقف کرنے والا، وقف کے مصالح کے پیش نظر وقف کے دائرے کو مخصوص افرا د تک محدود اور وقف فنڈ سے استفادہ کرنے کی مخصوص شرائط مقرر کرسکتا ہے۔
لوگ اس فنڈ کی رکنیت حاصل کرنے کے بعد باقاعدہ اس فنڈ کو بطور تبرع ایک خاص مقدار میں حسبِ شرائط وقف نامہ عطیات دیتے ہیں ،اور جن شرکا کو بھی کوئی نقصان پہنچے تو وہ وقف فنڈ سے فوائد کے اصول کے مستحق ہوتے ہیں ۔جو عطیات اس فنڈ میں آتے ہیں،وہ محض تبرعات ہوتے ہیں ، بذاتِ خود وقف نہیں ہوتے بلکہ مملوکِ وقف ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ کسی بھی وقف میں دیا گیا چندہ وقف نہیں ہوتا ، بلکہ مملوکِ وقف ہوتا ہے۔یہ عطیات چوں کہ شرکا کی ملکیت سے خارج ہوتے ہیں ، اسی لیے ان پر نہ زکوٰ ۃ واجب ہوتی ہے اور نہ ان میں میراث کے احکام جاری ہوتے ہیں اور نہ اس کی بنیاد پر وہ سرپلس کے مستحق ہوتے ہیں (کمپنی مالکان اس رقم کو اپنے تصرف میں نہیں لاسکتے)۔ یہ تبرعات مکمل طور پروقف پول کی ملکیت میں چلے جاتے ہیں ، اور وقف پول قواعد و ضوابط کے مطابق ان رقوم کو استعمال کرتا ہے۔پھر جب ان کو نقصان پہنچتا ہے، تو پھر اس کے نتیجے میں وہ اس وقف پول سے فوائد کے حصول کے مستحق ٹھیرتے ہیں ۔
مذکورہ وقف فنڈ کو شرعی طریقے کے مطابق کاروبار میں لگایا جاتا ہے ، اور اس سے حاصل شدہ نفع کا مالک یہی وقف فنڈ ہوتا ہے۔اس فنڈ سے شرکا کو جو فوائد حاصل ہوتے ہیں ، یہ فوائد ان کے وقف فنڈ کو دیے گئے تبرعات کی بنیاد پر نہیں ہوتے بلکہ یہ فوائد عطاے مستقل ہوتے ہیں ، یعنی اس لحاظ سے کہ عطیہ دینے والے بھی موقوفِ علیم میں داخل ہوتے ہیں ۔ کیوں کہ واقف میں وقف فنڈ سے استفادے کا حق اس کو دیا ہے جو اس کی رکنیت حاصل کرے۔ اس لحاظ سے ہر ممبر موقوفِ علیہ ہوگیا ( موقوفِ علیہ: اس کو کہتے ہیں جس پروقف کیا گیا ہو)۔
اس کا طریقۂ کار یہ ہے:
شریک تکافل کی جانب سے ادا کر دہ زر تعاون دو مدات میں تقسیم ہوتا ہے۔ رقم کا کچھ حصہ بطور تبرع وقف فنڈمیں چلا جاتا ہے اور باقی ماندہ حصہ سر ما یہ کاری میں لگا یا جاتا ہے:
۱- شرکاے تکافل سے وصول شدہ زر تعاون ۲- ری تکافل آپریٹر سے حاصل شدہ کلیمز ۳-فنڈز کی سرمایہ کاری سے حاصل شدہ نفع ۴- پول کے فنڈ میں خسارے (Deficit) کی صورت میں وکیل سے حاصل شدہ قرضِ حسنہ ۵- اس فنڈ میں دیا جانے والا کوئی بھی عطیہ۔
۱- شرکاے تکافل کے کلیمز کی ادایگی ۲- ری تکافل کے اخراجات ۳- تکافل آپریٹر کی فیس ۴-فنڈز کی سرمایہ کاری کے نتیجے میں تکافل آپریٹرز کا نفع میں حصہ۵- سرپلس کا وہ حصہ جو ممبران میں تقسیم کیا جاتا ہے۔۶- قرضِ حسنہ کی واپسی ۷- عطیات / خیرات کی مد میں ادا کی گئی رقم۔
تکافل نظام میں کمپنی کی اصل حیثیت وکیل یا منیجر کی ہوتی ہے۔ کمپنی وقف فنڈ کی دیکھ بھال کے لیے ’وکالہ فیس‘ وصول کرتی ہے۔ یہ فیس وقف فنڈ کے لیے دیے گئے عطیات سے وصول کی جاتی ہے، نیز کمپنی وقف فنڈ میں موجود رقم کو اسلامی اصولوں کے مطابق سرمایہ کاری میں لگاتی ہے۔ اس حیثیت سے کمپنی چونکہ مضا رب ہوتی ہے اور فنڈ رب المال ہوتا ہے، لہٰذا کمپنی مضاربہ کے نفع میں سے متعین حصہ وصول کرتی ہے، نیز اس فنڈ میں موجود رقم کی انویسٹمنٹ کے لیے اس کو شرعی کاروبار میں لگاتی ہے ، جس کی مختلف شرعی شکلیں اور صورتیں ہوتی ہیں۔ اس میں فنڈ رب المال ہوتا ہے ، اور کمپنی مضارب ہوتی ہے، جب کہ نفع کا خاص تناسب طے ہوتاہے۔ اس تناسب سے کمپنی کو بحیثیت مضارب اپنا حصہ ملتا ہے، اور باقی نفع و قف فنڈ میںجاتا ہے ،جو فنڈ کی اپنی ملکیت میں جاتا ہے۔
لہٰذا یہ واضح ہوا کہ رویتی انشورنس عقد معاوضہ ہونے کی وجہ سے سود ، قمار اور غرر سے مرکب ہے، جب کہ تکافل کی بنیاد محض تبرع ہے۔ جس میں ربا کا تصور ہی نہیں اور غرر اگر ہے تو عقد تبرع میں مؤثر نہیں۔ (مضمون نگار قطر انٹرنیشنل اسلامک بنک دوحہ سے وابستہ ہیں۔)
قاہرہ کی معروف خاتون ڈاکٹر امیرہ دسوقی بتا رہی تھیں، رات ۲ بجے پولیس کی بھاری نفری نے ہمارے گھر اور ملحقہ علاقے کو ہر جانب سے گھیرلیا۔ پھر پولیس والے گھر کے اندر بھی آگئے، تلاشی لیتے اور پوچھ تاچھ کرتے رہے۔ میں نے محسوس کیا کہ پولیس والوں کا رویہ خلافِ معمول بدتمیزی سے پاک اور مؤدبانہ ہے۔ ان کا سربراہ آفیسر بھی بار بار معذرت کر رہا تھا۔ میں نے اپنے شوہر ڈاکٹر محمد الدسوقی سے اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا کہ اس آفیسر کی والدہ شدید بیمار ہے، اور وہ اس کا علاج مجھ سے کروا رہا ہے۔ کچھ دیر تلاشی کے بعد وہ میرے شوہر کو گرفتار کرکے لے گئے۔
۸ فروری کی شب صرف ڈاکٹر محمد ہی نہیں مصر کے مختلف شہروں سے اخوان المسلمون کے ۱۶ اہم رہنمائوں کو گرفتار کیا گیاتھا۔ ڈاکٹر الدسوقی کی طرح ان کی اکثریت معاشرے کے نمایاں ترین اور خدمت گزار افراد پر مشتمل تھی۔ ڈاکٹر محمود عزت طویل عرصے سے اخوان المسلمون کے سیکرٹری جنرل رہ چکے ہیں۔ ڈاکٹر محمدالبر.ّ حدیث میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں۔ حدیث کے مختلف موضوعات پر ان کی ۱۳ کتب شائع ہوچکی ہیں۔ یونی ورسٹی میں تدریس کے دوران وہ خود اپنے طلبہ کی بڑی تعداد کو پی ایچ ڈی اور ایم اے کے شان دار مقالہ جات لکھوا چکے ہیں۔ اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح ان کا قصور بھی صرف یہ ہے کہ وہ اخوان المسلمون سے منسلک ہیں اور اخوان کے ۱۶ رکنی مکتب ارشاد کے منتخب رکن ہیں۔ ان کے ہمراہ گرفتار ہونے والے دیگر حضرات میں احمدعباس معروف انجینیر ہیں، ڈاکٹر محمد سعد پروفیسر ڈاکٹر اور شعبہ امراض البول (یورالوجی) کے سربراہ ہیں۔ ڈاکٹر محمد عبدالغنی آئی اسپیشلسٹ ہیں، ولید شلبی معروف دانش ور اور لکھاری ہیں، ڈاکٹر ایہاب ابراہیم میڈیکل کالج میں پروفیسر ہیں، ڈاکٹر علی عبدالرحیم اسیوط یونی ورسٹی کی کلیہ ہندسہ (انجینیرنگ) میں استاد ہیں، مسعد علی قطب انجینیر ہیں اور جیساکہ پہلے ذکر گزر چکا ،محمدالدسوقی ڈاکٹر ہیں۔ یہی حقیقت مصر کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ اخوان کا علم و مرتبہ اور ان کی خدمت گزاری سب پر عیاں ہے، لیکن چونکہ وہ ’اخوان‘ یعنی بھائی بھائی ہیں اور حکومت کی غلط پالیسیوں کی اصلاح چاہتے ہیں، اس لیے قابلِ گردن زدنی ہیں۔
اخوان المسلمون کے نومنتخب مرشدعام ڈاکٹر محمد البدیع بتا رہے تھے کہ گذشتہ ۱۰ برسوں میں اخوان کے ۳۰ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا اور اگر ان سب کی گرفتاری کی مدت کو جمع کیا جائے تو وہ مجموعی طور پر ۱۵ ہزار سال سے متجاوز ہوجاتی ہے۔ گذشتہ تقریباً تین عشروں سے اقتدار پر قابض مصری صدر حسنی مبارک، اپنی قوم کے ان بہترین ۱۵ ہزار برسوں کو جیلوں کی نذر کردینے کا جواب اپنے رب کو تو جو دے گا سو دے گا لیکن اس نے اپنے قریب ترین ساتھیوں کو بھی ضمیر کا مجرم بنا دیا ہے۔ ایک سابق وزیراعظم عزیز صدقی، اپنی اس خلش کا اظہار پوری قوم سے معذرت کرتے ہوئے کرچکے ہیں۔ مرشدعام کے بقول وزیراعظم صدقی نے کہا: ’’ہم نے اخوان المسلمون کے ساتھ جو بھی زیادتیاں کی ہیں، ہم پورے مصر سے اس کی معذرت چاہتے ہیں۔ ہم نے مصر کو ایسے شہ دماغ افراد سے محروم رکھا کہ جو اسے ترقی اور بلندی کی اعلیٰ منزلوں تک پہنچا سکتے تھے‘‘۔
مرشد و بانی امام حسن البناشہید اور صاحب ِ تفسیر قرآن سید قطب سے لے کر موجودہ مرشدعام اور ان کے ساتھیوں تک کسی بھی شخصیت کا جائزہ لے لیجیے، یکے بعد دیگرے آنے والے ہر فرعون مصر نے دنیا کو ان تمام نابغۂ روزگار ہستیوں سے محروم رکھا۔ ۱۹۹۹ء میں مصر کی طرف سے سرکاری سطح پر شائع ہونے والی سائنسی انسائیکلوپیڈیا میں پورے عالمِ عرب کی چوٹی کی ۱۰۰ علمی شخصیات کا ذکر ہے۔ نومنتخب مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع ان ۱۰۰ میں سے ایک ہیں۔ عالمِ عرب میں، پتھالوجی میں ان کے پاے کی کوئی اور شخصیت ملنا محال ہے۔ پوری دنیا میں وٹرنری سائنسز کے ماہرین کی فہرست بنی تو ان کا شمار چوٹی کے پہلے دس افراد میں سے ہوا۔ ایسی اعلیٰ علمی شخصیت اور اخوان سے تعلق…؟ اُٹھا کر جیل میں پھینک دو۔ فرعونِ مصر نے فیصلہ صادر کیا۔ انھیں سب سے پہلے ۱۹۶۵ء میں سیدقطب کے ہمراہ گرفتار کیا گیا۔ سیدصاحب کو تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا اور ڈاکٹر محمد بدیع کو ۱۵سال قیدبامشقت کی سزا سنائی گئی۔ نو سال کی سزاے بے جرم کے بعد رہا کردیے گئے۔ پھر چندماہ کے لیے متعدد بار گرفتار کیے گئے، لیکن ۱۹۹۹ء میں دوبارہ جو گرفتار ہوئے تو سوا تین سال گرفتار رہے۔ ایک وہی نہیں اخوان کی پوری تاریخ میں جو جتنا بلند پایہ عالم… جتنا زیادہ ذمہ دار … جتنا فعال و مخلص و مصلح کارکن تھا، معاشرے کو اس کے خیر سے اتنا ہی زیادہ محروم رکھا گیا۔
ان تمام عقوبتوں، مظالم اور قیدوبند کی صعوبتوں کے باوجود نومنتخب مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع نے ۱۶ جنوری کو اپنے انتخاب کے بعد پہلے خطاب میں کہا: اخوان کبھی بھی حکومت کے حریف اور دشمن نہیں رہے۔ ہم کبھی بھی مخالفت براے مخالفت پر یقین نہیں رکھتے۔ خیر میں تعاون اور شر کی مخالفت کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے اور ہم اسی بنیاد پر حکومت کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔ اس خطاب کو ابھی ایک ماہ بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ تین ہفتے کے اندر اندر مکتب ارشاد کے تین بزرگ ارکان سمیت مزید درجنوں رہنما و کارکنان گرفتار کرلیے گئے۔ ساتھ ہی ساتھ نومنتخب مرشدعام اور اخوان کے خلاف پروپیگنڈا عروج پر پہنچا دیا گیا۔ اخوان میں اختلافات کی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ مرشدعام کو سیدقطب کے ہمراہ گرفتار ہونے پر قطبی کہہ کر پکارا جا رہا ہے اور اس سے مراد یہ لی جارہی ہے کہ وہ تشدد پر یقین رکھتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سید قطب کو القاعدہ سمیت تمام مسلح تنظیموں اور دوسروں پر تکفیر کے الزامات لگانے والوں کا اصل فکری رہنما ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ خود پاکستان میں بھی کئی حضرات کو یہی جادوئی چھڑی تھما دی گئی ہے۔ وہ سید قطب شہید کی تحریروں کی قطع و برید کرکے اور کئی جملوں کو توڑ مروڑ کر اپنی مرضی کی تفسیروتشریح کا جامہ پہناتے ہوئے ان پر تبرابازی کر رہے ہیں۔ یہ سارا ہنگامہ اور الزامات بے بنیاد ہونے کا اندازہ صرف اسی بات سے لگا سکتے ہیں کہ عالمِ عرب میں کئی حضرات سید قطب کے ساتھ ہی ساتھ، اس ضمن میں سیدابوالاعلیٰ مودودی کا نام بھی لے رہے ہیں۔ کچھ لوگوں سے اس بارے میں گفتگو ہوئی تو عرض کیا کہ اگر آپ پاکستان میں جاکر اپنا یہی دعواے باطل دہرائیں گے کہ مولانا مودودی تکفیر و تشدد کے داعی تھے، تو لوگ آپ کی عقل پر شک کرنے لگیں گے۔ جس طرح سیدمودودی کو پُرامن دعوت و اصلاح کے بجاے بندوق اور دھماکوں کے ذریعے تبدیلی کا الزام نہیں دیاجاسکتا، اسی طرح سید قطب شہید پر بھی یہ الزام سراسر ظلم اور صریح زیادتی ہے۔
مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع نے بھی اپنے اولیں انٹرویو میں اس موضوع پر تفصیل سے بات کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ سیدقطب کی تحریروں اور ان تشدد آمیز جماعتوں کے مابین کوئی ربط پیدا کرنا قطعی بلاجواز ہے۔ الاخوان المسلمون خاص طور پر جناب حسن الہضیبی (سید قطب کے زمانے میں مرشدعام) نے اس راستے کی شدید مخالفت کی تھی۔ انھوں نے ان تمام لوگوں کو اخوان کی صفوں سے خارج کر دیا تھا کہ جنھوں نے تبدیلی کے لیے پُرتشدد راہ چھوڑنے سے انکار کیا۔ انھوں نے اس ضمن میں ایک شاہکار کتاب لکھی دعاۃ لاقضاۃ(جج نہیں داعی) اور میں ان چار افراد میں سے ایک تھا کہ جنھوں نے اپنے ہاتھوں سے اس کتاب کے قلمی نسخے تیار کیے۔ مرشدعام محمد بدیع نے مزید کہا: ’’یہ سراسر بہتان اور جھوٹ ہے کہ الاخوان المسلمون نے حکمرانوں میں سے کسی کے خلاف تکفیر کے فتوے جاری کیے ہیں۔ یہ بات اخوان کی طے شدہ منہج سے متصادم ہے۔ سیدقطب کو کسی متشدد یا تکفیری نہج کا ہم نوا قرار دینا کسی طور درست نہیں ہوسکتا۔ آج اگر سید قطب زندہ ہوتے تو وہ یقینا خود ان تمام لوگوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے اور انھیں اس فکروعمل سے واپس لانے کی سعی کرتے‘‘۔ مرشدعام نے کہا: میں نے ایک امریکی دانش ور مسٹر روگن کی کتاب The Arab پڑھی ہے۔ اس میں وہ لکھتا ہے: ’’سیدقطب کو ڈکٹیٹر حکومتیں اور ظالم شخصیتیں اس لیے ناپسند کرتی تھیں کہ وہ ان کے ظلم و استبداد کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے تھے۔ وہ پُرامن جہاد اور عوام کو خوابِ غفلت سے بیدار کر کے ان کا مقابلہ کررہے تھے‘‘۔ مرشدعام نے حکمرانوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ: ’’جب بھی ہمیں اسلام کی میانہ رو اور مبنی براعتدال دعوت پھیلانے سے روکا گیا تو یہاں ہر جانب خاردار جھاڑیاں اُگ آئیں اور مصر میں دہشت گردی نے جنم لیا۔ ہم آج بھی حکمرانوں کو خبردار کر رہے ہیں کہ اگر وہ اسی طرح شخصی اقتدار پر اصرار کرتے رہے، اور کسی دوسرے کی نصیحت پر کان نہ دھرنے کی پالیسی پر گامزن رہے تو مصر ایک ایسے بند کمرے میں بدل جائے گا کہ جس میں گیس بھر گئی ہو، ایسے میں کہیں سے کوئی ادنیٰ سا شرارا بھی سب کچھ بھسم کر کے رکھ دیتا ہے‘‘۔
اخوان اور ان کی قیادت پر تشدد کے الزامات اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے، لیکن خود مصری عوام نے اس پورے پروپیگنڈے کو مسترد کردیا ہے۔ حال ہی میں ایک امریکی ادارے نے مصر میں سروے کروایا تو ۶۹ فی صد عوام نے کہا کہ ’’اخوان المسلمون جمہوریت اور پُرامن جدوجہد پر یقین رکھنے والی جماعت ہے‘‘۔ ۷۵ فی صد عوام نے ملک میں حقیقی جمہوری نظام کو ترقی اور خوش حالی کا اصل راستہ قرار دیا۔ اخوان المسلمون کے حالیہ جماعتی انتخابات نے اخوان کی حقیقی جمہوری شناخت کو مزید واضح کیا ہے۔ خود اخوان کے لیے بھی یہ انتخابات کئی نئی روایات کا باعث بنے۔ اخوان کی ۸۱ سالہ تاریخ میں پہلی بار ایک مرشدعام کی زندگی میں، خود ان کی بااصرار معذرت کے بعد نئے مرشدعام کا انتخاب ہوا۔ اس سے پہلے بانی مرشدعام امام حسن البنا کو تو شہید کردیا گیا تھا۔ پھر حسن الہضیبی (۱۹۵۱ء سے نومبر ۱۹۷۳ء تک)، عمرالتلمسانی (۱۹۷۴ء سے ۲۲ مئی ۱۹۸۶ء تک)، محمد حامد ابوالنصر (مئی ۱۹۸۶ء سے ۲۰جنوری ۱۹۹۶ء تک)، مصطفی مشہور (فروری ۱۹۹۶ء سے ۱۷؍اکتوبر ۲۰۰۲ء تک) اور مامون الہضیبی (۲۶ نومبر ۲۰۰۲ء سے ۹جنوری ۲۰۰۴ئ) اپنی وفات تک مرشدعام رہے۔ تب اخوان کے بعض احباب یہ ذاتی سوچ بھی پیش کیا کرتے تھے کہ مشاورت اور اجتماعی جدوجہد تو یقینا اسلامی تحریک کا خاصہ ہے، لیکن سربراہ کو باربار بدلنا مناسب نہیں ہے۔ اس لیے منتخب مرشدعام ہی دوبارہ منتخب ہوجاتا۔ محمد مہدی عاکف اخوان کی تاریخ میں پہلے مرشدعام ہیں، جنھوں نے اپنی زندگی ہی میں خود اپنا جانشین منتخب کروایا۔ اس موقعے پر بعض ایسے واقعات بھی ہوگئے کہ جنھیں ذرائع ابلاغ نے خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ خاص طور پر سابق نائب مرشدعام ڈاکٹر محمد حبیب صاحب کی طرف سے مکتب ارشاد کے بعض اندرونی اختلافات کو ذرائع ابلاغ میں دینے کے واقعے کو اخوان کے دودھڑوں میں تقسیم ہوجانے کا رنگ دیا گیا۔ اسی طرح مرشدعام کو ’قطبی‘ اور بنیاد پرست ہونے کا بے جا لقب دے دیا گیا اور نائب مرشدعام ڈاکٹر محمد حبیب اور ڈاکٹر عبدالمنعم ابوالفتوح جیسے سرکردہ احباب کو اصلاح پسند دھڑا کہا جانے لگا، حالانکہ یہ دونوں اصطلاحات، صرف الزامات کا درجہ رکھتی ہیں۔ مرشدعام نے کہا کہ مجھے اپنے عزیز و محترم بھائی سے الگ کرنے کا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے حالانکہ میرا ان سے اس طرح کا تعلق خاطر ہے کہ میں نے اپنے پوتے کا نام، انھی کے نام پر حبیب رکھا ہوا ہے۔
اخوان کے حالیہ انتخابات اس حوالے سے بھی منفرد تھے کہ جب ذرائع ابلاغ میں اخوان کے بارے میں پروپیگنڈا عروج پر تھا تو اخوان نے اپنے اس تنظیمی دستور اور طریق کار کا بھی کھلم کھلا اعلان کر دیا کہ جو امن و امان کی مخصوص صورت حال کے باعث، اس سے پہلے صرف تنظیمی ذمہ داران کی حد تک محدود رہتا تھا۔ اس دستور میں مصر کے اندر بھی اخوان کی تنظیم و طریق کار کو واضح کیا گیا ہے اور اخوان کی عالمی تنظیم کا نظام بھی۔ اس اعلان کردہ طریق کار کے مطابق اخوان کے ارکان، مجلسِ شوریٰ کا انتخاب کرتے ہیں، مجلسِ شوریٰ مکتب ارشاد کا انتخاب کرتی ہے اور مکتب ارشاد، مرشدعام کا انتخاب کرتا ہے۔ یہی مکتب، شوریٰ کے طے شدہ طریق کار کے مطابق جماعت کے اکثر فیصلے اور پالیسیاں نافذ کرتا ہے۔ نئے مرشدعام کے اعلان کے وقت منعقد کی گئی پریس کانفرنس میں، مکتب ارشاد کے تمام ارکان بھی وہاں موجود رہے، جن کے ناموں کا اس سے پہلے یوں اعلان نہ کیا جاتا تھا۔ اخوان کا یہ نیا پن اور کھلا پن، نظام کو چیلنج کرنے سے زیادہ تمام تر مشکل حالات کے باوجود کھل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار ہے۔ گذشتہ تین سال میں اخوان کے ساڑھے سات ہزار سے زائد کارکنان گرفتار کیے گئے۔ تقریباً اڑھائی سو کارکنان کے پورے کے پورے کاروبار، جایدادیں اور کمپنیاں ضبط کرلی گئیں۔ اس سب کچھ کے باوجود اب مزید کھل کر کام کرنے کا جذبہ کسی روحانی اور الوہی توفیق کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
ملک کی عمومی صورت حال دیکھیں تو مصری عوام اس وقت شدید مایوسی کے عالم میں ہیں۔ آیندہ برس کے آغاز میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ سب تجزیہ نگار یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اخوان کے مزید قائدین و کارکنان گرفتار کیے جاسکتے ہیں۔ اخوان کے خلاف پروپیگنڈے کا محاذ بھی گرم تر کیا جا رہا ہے۔ اخوان ہی نہیں اسلام کی بنیادوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایاجا رہا ہے۔ دیگ کے چند دانوں کے طور پر اور ’نقل کفر، کفر نباشد‘ کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ جملے ملاحظہ فرمایئے: ’’اخوان جو نظام لانا چاہتے ہیں وہ اسے خلافتِ راشدہ کی طرز پر قائم نظامِ خلافت کا نام دیتے ہیں، یعنی ماضی کی ایک ریاست نہ کہ حاضرومستقبل کی۔ ان کی ریاست میں حاکمیت اعلیٰ کے نام پر فیصلہ کرنے کا حق اللہ کے پاس ہوگا جس کے بارے میں لمبی چوڑی گفتگو اس کے دو فرشتے البنا اور قطب کرچکے ہیں‘‘۔ ’’اخوان المسلمون کا اصل مخمصہ وہی ہے جو تمام دینی جماعتوں کا ہوتا ہے، یعنی دنیا اور آخرت کے ناممکن اتحاد کو، دین اور سیاست جمع کرکے ممکن بنانا، ان کا مخمصہ مقدس متن (یعنی قرآن وسنت) ہے جو کسی صورت تبدیل نہیں ہوسکتا۔ ان کا مخمصہ ، یہی متن کا مخمصہ ہے کہ جس نے ساتویں صدی عیسوی میں تو زندگی کی باگ ڈور سنبھال لی تھی لیکن جو کسی بھی صورت نئے میلینیم اور دوہزار عیسوی کے زمانے کے تقاضے پورے نہیں کرسکتا۔ اب انسانیت نے بہت سفر طے کرلیا۔ اب وہ پرانے زمانے کی طرف واپس نہیں جاسکتی‘‘… ایک طرف یہ اور اس طرح کا ہذیان ہے اور دوسری جانب حکومتی جبروتشدد لیکن اخوان کے لیے ان میں سے کوئی بھی بات نہیں۔ ان کے حالیہ جرأت مندانہ اور مبنی برحکمت اقدامات روشنی کی اطلاع دے رہے ہیں۔
عالمی استعماری طاقتیں اعتراف کر رہی ہیں کہ ان کے لیے حسنی مبارک کی ڈکٹیٹرشپ یا اسلامی تحریک کی ’بنیاد پرستی‘ کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ اب اس ’مشکل‘ کا حل وہ یوں نکالنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ کسی نئی شخصیت کو متعارف کروایا جائے۔ بین الاقوامی ایجنسی براے ایٹمی توانائی (IAEA) کے سربراہ محمد البرادعی دو مرتبہ اس کے چیئرمین رہنے کے بعد حال ہی میں ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ۱۵فروری کو پہلی بار مصر واپس آئے، تو ان کے بھرپور استقبال کا انتظام کیا گیا۔ انھیں ایک متبادل کے طور پر پیش کیا گیا۔ عالمی ذرائع ابلاغ انھیں ایک نجات دہندہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ البرادعی صاحب نے بھی آتے ہی بیانات اور انٹرویوز کا سلسلہ شروع کردیا ہے کہ ہاں، میں آیندہ صدارتی انتخاب میں امیدوار ہوسکتا ہوں۔ ان کی سب سے بڑی ’خوبی‘ یہ ہے کہ ایٹمی ایجنسی کا مسلمان سربراہ ہونے کے ناطے سے انھوں نے عراق اور ایران کے خلاف ایٹمی ہتھیار رکھنے کے الزامات سچ ثابت کرنے کی جدوجہد میں بھرپور کردار ادا کیا۔ صدام حسین کے محلات اوران کی ایٹمی تنصیبات کی تلاشی میں ان کا کردار قائدانہ رہا، انھوں نے کبھی اپنا دامن اس الزام سے آلودہ نہیں ہونے دیا کہ وہ اسرائیلی ایٹمی ہتھیاروں پر کوئی اعتراض رکھتے ہیں۔
تمام عالمی سرپرستی اور بین الاقوامی امور پر مہارت تجربات کے باوجود، مصری سیاست میں حصہ لینا برادعی صاحب کے لیے کوئی بازیچۂ اطفال نہیںہوگا۔ حسنی مبارک نے اپنے اور اپنے وارث کے اقتدار کے لیے ’مضبوط‘ انتظامات کیے ہیں۔ مصری دستور کے مطابق کسی بھی صدارتی اُمیدوار کے لیے تقریباً ناممکن الحصول اور کڑی شرطیں رکھی گئی ہیں۔ اُمیدوار اگر کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتا ہے تو شرط ہے کہ وہ کسی باقاعدہ رجسٹرڈ پارٹی کی مرکزی قیادت میں سے ہو اور اسے اس ذمہ داری پر انتخاب سے پہلے کم از کم ایک سال کی مدت گزارنا چاہیے۔ خود اس سیاسی پارٹی کو بھی انتخاب سے کم از کم پانچ سال پہلے رجسٹرڈ ہونا چاہیے۔ واضح رہے کہ اخوان سمیت کسی بھی قابلِ ذکر جماعت کو رجسٹرڈ نہیں کیا گیا، بلکہ اخوان کو تو ویسے ہی کالعدم قرار دیا ہوا ہے۔ اور امیدوار اگر آزاد ہو تو اس کے لیے شرط ہے کہ وہ کم از کم ۲۵۰ ارکانِ پارلیمنٹ یا ضلعی کونسلوں کے تائیدی دستخط حاصل کرے اور ظاہر ہے کہ ان نام نہاد منتخب اداروں میں دوتہائی سے زائد اکثریت حکمران پارٹی کی ہے۔
محمد البرادعی کے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ انتخاب سے پہلے دستوری ترمیم کے لیے اخوان کے عوامی دبائو کا ساتھ دیں۔ واپسی کے بعد پہلے ہی ہفتے میں انھوں نے اخوان کے پارلیمانی سربراہ ڈاکٹر سعدالکتاتنی سے مفصل ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد ڈاکٹر سعد کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات عالمی شہرت رکھنے والے ایک مصری شہری کو مزید قریب سے جاننے کی خاطر تھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم صدارتی انتخابات میں ان کی مدد کریں گے یا ان کی مخالفت کریں گے۔ ہم مجموعی طور پر انتخابات کے بارے میں اپنی پالیسی وضع کر رہے ہیں اور اس کا اعلان مناسب وقت پر ہی کیا جائے گا۔ البتہ اخوان ایک اصلاحی ہدف رکھتے ہیں اور ہر اس فرد و جماعت کی طرف دستِ تعاون بڑھاتے ہیں جو اصلاح کی سعی کرنا چاہتا ہو۔ طویل عرصے تک ایک جماعتی اقتدار کے بعد اب مصری سیاست شاید ایک نیا موڑ لے رہی ہے۔
اسلامی چھاترو شبر کے تین کارکن شہید اور:’’ سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ گرفتاریاں ڈھاکہ، سلہٹ، چٹاگانگ، راج شاہی، پبنہ، تنگائل، برہمنا باڑیہ، چاندپور، رنگ پور وغیرہ سے عمل میں لائی گئیں‘‘ (دی ڈیلی اسٹار، ۱۳ فروری۲۰۱۰ئ)۔ فروری کا مہینہ بنگلہ دیش میں طالب علموں کی اسلامی تحریک اور جماعت اسلامی کے لیے ابتلاو آزمایش کا کڑا موسم لے کر آیا۔
اگرچہ گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران میں عوامی لیگ کا بنیادی ہدف بنگلہ دیش جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر ہی رہی ہے، لیکن یہ ساری یلغار منفی پروپیگنڈے، بیانات اور دھمکیوں تک محدود تھی۔ تاہم فروری ۲۰۱۰ء کے پہلے عشرے میں لیگی حکومت نے ان پر دائرۂ حیات کو تنگ کرنے کے لیے گوناگوں اقدامات شروع کیے۔ ان واقعات کے ذکر سے ذرا پیچھے نظر دوڑاتے ہیں تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں۔
بھارت کا تھنک ٹینک سائوتھ ایشین اینلسز گروپ (SAAG) اپنی ۲۷ جون ۲۰۰۷ء کی تحقیقی رپورٹ نمبر۲۲۷۵ میں بھارت اور بنگلہ دیش کی حکومتوں کو ’خبردار‘ کرتا ہے: ’’بنگلہ دیش میں جمہوریت کے لیے خطرہ: اسلامی چھاترو شبرہے‘‘۔ بھارت کی سرزمین سے اس نوعیت کی پروپیگنڈا رپورٹ میں لکھا ہے: ’’۱۹۷۱ء میں جب بنگالی عوام نے پاکستان کے خلاف مسلح جدوجہد کے لیے ہتھیار اُٹھا لیے تھے، تو اسلامی چھاتروشبر کی پرانی تنظیم اسلامی چھاترو شنگھو (اسلامی جمعیت طلبہ) نے اس کی مزاحمت کی تھی… اسلامی چھاترو شبر فروری ۱۹۷۷ء کوڈھاکہ یونی ورسٹی کی جامع مسجد میں تشکیل دی گئی، اور اس نے ۱۹۸۲ء میں چٹاگانگ یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کا الیکشن جیت کر تعلیمی اداروں میں اسلامی فکر کی ترویج کا کام شروع کیا۔ آج وہ بنگلہ دیش میں جمہوریت اور سیکولرزم کے لیے خطرہ بن چکی ہے‘‘___ اس طرح بھارت کی طرف سے واضح ہدف دیا گیا کہ آیندہ کیا کرنا مطلوب ہے، یعنی شبر اور جماعت اسلامی کو نشانہ بنانا۔ یہ ہے وہ کھیل جوقدم بہ قدم آگے بڑھتا ہوا آج کے بنگلہ دیش کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک دوسرا منظر بھی دیکھیے۔ ۲۰۰۸ء سے بنگلہ دیش جماعت اسلامی اور چھاترو شبر مسلسل عوامی لیگ کے نہایت زہریلے بلکہ گالیوں اور بے ہودہ الزامات سے آلودہ پروپیگنڈے کی زد میں رہیں، کیونکہ وہ سال انتخابات کا سال تھا۔ اسی سال الیکشن کمیشن نے جماعت اسلامی سے مطالبہ کیا کہ وہ اسلامی نظام کے نفاذ سے متعلق اپنے دستور، منشور اور لائحہ عمل میں تبدیلی کرے۔ یہ نفسیاتی، ابلاغی اور اداراتی سطح پر عجیب نوعیت کا دبائو تھا، جس نے جماعت اور اس کی برادر تنظیمات کے لیے پریشانی پیدا کی۔
۱۹ جنوری ۲۰۱۰ء کو جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمن نظامی نے ’بنگلہ دیش- بھارت مشترکہ اعلامیے‘ کو اہلِ بنگلہ دیش کی معاشی زندگی کے لیے بُری طرح نقصان دہ معاہدہ قرار دیا اور اعلان کیا کہ ’’جماعت اسلامی: بھارت-بنگلہ دیش معاہدے، آئین میں پانچویں ترمیم کی منسوخی اور مجوزہ تعلیمی پالیسی کے منفی پہلوئوں کے خلاف عوام میں بیداری پیداکرنے کی مہم چلائے گی‘‘(دی ڈیلی اسٹار، ۲۰ جنوری ۲۰۱۰ئ)۔ اس بیان کے صرف پانچ روز بعد، یعنی ۲۴ جنوری کو ’’بنگلہ دیش الیکشن کمیشن نے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل کو خط لکھا کہ وہ جماعت اسلامی کا چارٹر تبدیل کریں، اپنے پروگرام میں سے اس نکتے کو حذف کریں کہ جماعت، بنگلہ دیش میں منظم جدوجہد کے ذریعے اسلامی نظام کا نفاذ چاہتی ہے۔ پھر جماعت اسلامی کے دستور کی ان بہت سی دفعات کو ختم کیا جائے جو اپنے وابستگان کو اسلامی نظام کے نفاذ کی راہیں دکھاتی ہیں، ایسا لائحہ عمل ریاستی دستور کے مزاج کے یک سر منافی ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی نے اپنے دستور میں اور تمام تنظیمی سطحوں پر قائم شدہ کمیٹیوں میں عورتوں کو ۳۳ فی صد نمایندگی دینے کا بھی اہتمام نہیں کیا ہے۔ پھر جماعت اسلامی نے غیرمسلموں کو پارٹی ممبرشپ دینے کے اعلان کے باوجود انھیں پارٹی پروگرام کا پابند بنایا ہے، اور وہ پروگرام اسلامی نظام کا نفاذ ہے، یہ بات ان غیرمسلموں سے امتیازی سلوک روا رکھنے کی دلیل ہے۔ ان تمام نکات کی روشنی میں اگر جماعت اسلامی نے اپنے معاملات کو دی گئی ہدایات کے مطابق درست نہ کیا توری پریزنٹیشن آف دی پیپلزآرڈر (RPO) کے تحت جماعت اسلامی کی موجودہ حیثیت تحلیل کر دی جائے گی‘‘ (ایضاً، ۲۵ جنوری ۲۰۱۰ئ)
ابھی الیکشن کمیشن کے اس نادر شاہی حکم کی صداے بازگشت ختم نہیں ہوئی تھی کہ آناً فاناً ۳فروری کو ڈھاکہ یونی ورسٹی میں ایم اے کے طالب علم اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکن ابوبکر صدیق کو قتل کر دیا گیا۔ ۱۱فروری کو پولیس ہی کی موجودگی میں اسٹوڈنٹس لیگ کے غنڈا عناصر نے راج شاہی یونی ورسٹی میں اسلامی چھاترو شبر کے کارکن اور ایم اے فائنل کے طالب علم حفیظ الرحمن کو گردن میں گولی مار کر قتل کیا، اور دیر تک میت کو گھیرے رکھا مگر پولیس نے کوئی کارروائی نہ کی۔ ۱۲فروری کو چٹاگانگ یونی ورسٹی میں اسلامی چھاترو شبر کے کارکن محی الدین کو قتل کر دیا گیا، اور تادمِ تحریر تدفین کے لیے میت نہیں دی گئی۔ ساتھ ہی اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو چٹاگانگ میڈیکل کالج، چٹاگانگ یونی ورسٹی اور محسن کالج سے گرفتار کرنا شروع کیا ،اور پہلے ہی ہلے میں ۹۶کارکنوں کو جیل میں دھکیل دیا گیا۔ ۹فروری کو راج شاہی یونی ورسٹی میں چھاترولیگ کا حامی جاں بحق ہوا، اور اس واقعے کو بنیاد بناکر پورے ملک میں جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کی اندھادھند گرفتاریوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سرکاری ٹیلی ویژن، اخبارات، وزرا اور پولیس افسران کے بیانات نے فضا کو مزید دھواںدار بنا دیا۔ داخلہ امور کے وزیرمملکت شمس الحق ٹوکو نے کہا: ہم راج شاہی یونی ورسٹی اور راج شاہی شہر سے اسلامی چھاترو شبر اور جماعت اسلامی کو ختم کر کے دم لیں گے‘‘۔ اس کے پہلو بہ پہلو یہ خبر بڑے تسلسل کے ساتھ نشر کرنا شروع کی گئی: ’’امریکا، اسلامی چھاترو شبر کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا فیصلہ کر رہا ہے‘‘۔
جماعت اسلامی کے امیرمطیع الرحمن نظامی اور جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنے بیانات میں مطالبہ کیا کہ ’’راج شاہی یونی ورسٹی کے الم ناک واقعے کے ساتھ دیگر تعلیمی اداروں میں قتل و غارت گری کے تمام واقعات کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں تاکہ ذمہ داران کا تعین ہوسکے، اور اس منفی پروپیگنڈے سے پیدا شدہ فضا کو صاف اور حقائق کو منظرعام پر لایا جاسکے۔ جماعت اسلامی پُرامن، جمہوری، عوامی اور دعوتی پروگرام پر یقین رکھتی ہے، جس میں تشدد کا راستہ اپنانے کی کوئی گنجایش نہیں۔ (ایضاً، ۱۲فروری ۲۰۱۰ئ)
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمن نظامی نے اس کرب ناک صورت حال پر ۱۷فروری کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا: ’’جوں ہی مَیں نے ’بنگلہ دیش بھارت معاہدے‘ پر نقدو جرح کی تو بنگلہ دیش کی اسلامی قوتوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو قتل کیا گیا، جماعت اسلامی اور شبر کے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، کالجوں اور ہاسٹلوں سے پکڑ کر جیل خانوں میں پھینکا گیا ہے۔ حکمران عوامی لیگ نے اپنی پارٹی کے مسلح غنڈوں کو من مانی، پُرتشدد کارروائیاں کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے‘‘۔ اس مضمون میں بیان کردہ دیگر واقعات کا تذکرہ کرنے کے بعد جناب نظامی نے یہ بھی بتایا کہ: ’’۱۱فروری کو جہاں ایک طرف اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو مارا گیا، وہاں دوسری جانب راج شاہی میں جماعت اسلامی کے امیر اور اسکول ٹیچر عطاء الرحمن کو کمرۂ امتحان سے تشدد کرتے ہوئے گرفتار کیا، اور پانچ روزتک ٹارچر سیل میں رکھا گیا۔ ۱۲ فروری کو جماعت اسلامی چٹاگانگ کے امیر اور ممبر پارلیمنٹ شمس الاسلام کو پُرامن احتجاجی جلوس کی قیادت کرنے پر اس حالت میں گرفتار کیا کہ عوامی لیگ کے مسلح کارکنوں نے پولیس کی موجودگی میں جلوس پر دھاوا بول دیا اور ۱۰۰ سے زیادہ کارکنوں کو مارتے پیٹتے ہوئے جیل میں دھکیل دیا۔ ۱۲ فروری ہی کو جماعت اسلامی سلہٹ کے پُرامن اجلاس پر لاٹھی چارج کیا گیا اور عوامی لیگ کے مسلح افراد نے حملہ کرکے بیسیوں کارکنوں کو پکڑپکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔ مسلح غنڈوں نے جماعت اسلامی اور اسلامی شبر کے کارکنوں کے گھروں پر حملے کیے، دکانوں اور تعلیمی اداروں میں گھس کر کارکنوں کو سڑکوں پر لایا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس موقعے پر پولیس خاموشی سے تماشا دیکھتی رہی۔ یہ واقعات فسطائیت کی تصویر اور جمہوریت کی توہین اور انسانیت کی تذلیل ہیں، جنھیں کوئی باشعور فرد برداشت نہیں کرسکتا‘‘۔
۱- سیکولر قوتیں، موجودہ عالمی فضا سے فائدہ اُٹھا کر، دینی قوتوں کو میدان سے باہر نکالنے کے لیے ہرمنفی حربہ استعمال کریں گی۔
۲- اس شاطرانہ عمل کے لیے امریکا اور بھارت سے ہمدردی کا دم بھرتے ہوئے ، ان کی ڈپلومیٹک حیثیت سے فائدہ اٹھائیں گی۔
۳- مسلم دنیا میں چونکہ ایسی پٹھو حکومتوں کو امریکا، بھارت اور اسرائیل وغیرہ کی پشت پناہی حاصل ہے، اس لیے ان کے لیے فسطائی ہتھکنڈے استعمال کرنا سلامتی کونسل کی نظر میں جائز تصور ہوں گے۔
۴- اسلام اور اسلامی پروگرام کی اشاعت و ترویج کے جملہ اداروں کے خاتمے کے لیے مسلم قومی حکومتیں کسی بھی انتہا تک جاسکتی ہیں۔
۵- یہ حکومتیں، اسلامی پارٹیوں کے پروگرام کے چھوٹے سے چھوٹے جملوں تک کے خاتمے کی کوشش کریں گی۔ جہاں جہاں اسلامی تحریک، مقتدر قوتوں کے لیے سیاسی چیلنج بنیں گی، وہاں پر انھیں اسی نوعیت کے اقدامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
۶- مسلم اُمہ میں اس صورت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا گیا تو یہی ماڈل دیگر مسلم ممالک میں بھی روبۂ عمل آسکتا ہے۔
اندریں حالات بنگلہ دیش میں اسلامی تحریک کے مظلوم کارکنوں اور حامیوں سے یک جہتی کے ساتھ اس سوال پر غوروفکر کی ضرورت ہے کہ ایسے کسی خطرے کا مداوا کس طرح کیا جائے؟___ اس سوال کا جواب ایک ہی ہے: اور وہ یہ کہ: ’’ایمان اور کردار کی مضبوطی، تنظیم کی پختگی، دعوتِ دین کا شوق، علم و فضل میں گہرائی اور اپنے دائرے میں سمٹنے کے بجاے معاشرے کے اندر پھیل جانے کا جذبہ‘‘۔ اگر یہ چیزیں وافر مقدار میں موجود ہوں گی تو یقینا ایسی یلغار کو روکا بلکہ پسپا ہونے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔
سوال: میں ایک طالب العلم اور دینی ذوق رکھنے والا مسلمان ہوں، مگر کچھ عرصے سے ایک عجیب اُلجھن پیدا ہوگئی ہے جو حل ہونے میں نہیں آتی۔ متعدد اہلِ علم سے رجوع کیا مگر تسلی نہ ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا قرآن اور کتب ِ حدیث میں اس قسم کی آیات و روایات آئی ہیں، جن سے نماز روزہ اور دیگر اعمالِ صالحہ کی اہمیت کم ہوجاتی ہے، مثلاً مسلم اور ترمذی وغیرہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یومِ عاشور کا روزہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفّارہ ہے۔ عشرۂ ذی الحجہ کے روزوں کے بارے میں احادیث ہیں کہ ہر روزے کا ثواب سال بھر کے روزوں کے برابر ہے۔ حضرت ابوقتادہؓ کی روایت ہے کہ اس سے دو سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ یومِ عرفہ کے روزے کا ثواب بھی اتنا ہی مذکور ہے۔ اگر واقعی یوں ہی ہے، تو پھرکیا اِس سے گناہوں سے بچنے کی کیا ضرورت رہی؟ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ جس نے لاالٰہ الا اللہ کہہ دیا، وہ جنت میں داخل ہوگیا۔ مشکوٰۃ میں نمازِ تسبیح کے فضائل بیان ہوئے ہیں کہ اس سے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ ابوداؤد اور مسنداحمد میں بیان کیا گیاہے کہ چاشت کی نماز سے ساری زندگی کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ مشکوٰۃ میں ہے کہ اس کے بعد گناہوں سے کون بچے گا اور نیکی کی تکلیف اٹھائے گا؟ سورئہ رحمن میں فرمایا: وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ۔ کیا جو شخص رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے، مگر کوئی اچھا عمل نہ کرے اُسے دو جنتیں یا دو باغ مل جائیں گے؟ سورئہ حم سجدہ میں آیا ہے کہ جو لوگ کہہ دیں کہ ہمارا رب اللہ ہے، پھر جم جائیں،اُنھیں فرشتے جنت کی بشارت دیتے ہیں۔ اس طرح کی بہت سی آیات و روایات ہیں جو آپ کی نظر میں ہوںگی۔ ان سے جو غلط فمی اور تہاون [بے پروائی] پیدا ہوسکتا ہے، اُس کا سدّباب کیسے ہوسکتا ہے اور جو اعتراضات و سوالات سامنے آتے ہیں اُن کا کیا جواب دیا جائے گا؟
جواب: آپ کے سوال کا جواب دینے کے لیے خاصی طویل بحث کی ضرورت ہے۔ سرِدست مختصر جواب دیا جا رہا ہے۔ خدا کرے کہ موجب ِ تشفی ہو۔ آپ نے قرآن وحدیث کا مطالعہ کرتے ہوئے جو نقطۂ نظر اختیار کیا ہے اُس میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ اپنے سامنے صرف ایک پہلو اور ایک رُخ کو رکھا ہے اور صرف اُن آیات و احادیث کو مرکز ِ توجہ بنا لیا ہے جن میں بعض اعمالِ حسنہ کے نتائج بیان کیے گئے ہیں، اور اُن نصوص کتاب و سنت سے بالکل نظر ہٹا لی ہے جن میں اعمالِ سیئہ کے نتائج بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ایک مومن کا صحیح مقام بین الخوف والرجاء (اُمید وبیم کے درمیان) ہے۔ جو شخص شارع کے ان دونوںقسم کے ارشادات میں سے صرف ایک ہی پر اپنی نگاہ جما لے گا، وہ لازماً یا تو خوش فہمی یا پھر مایوسی کا شکار ہوجائے گا۔ اسی طرح جو شخص ان دوگونہ نصوص کو آپس میں ٹکرانے اور ان میں تضاد تلاش کرنے کی کوشش کرے گا اُس کے حصے میں بھی گمراہی و حیرانی کے ماسوا کچھ نہیں آئے گا۔
مزیدبرآں اس سلسلے میں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کی صحیح تاویل معلوم کرنے اور حقیقت ِ نفس الامری تک پہنچنے کے لیے بعض ایسے کلّیات و مسلّمات اور اُصولِ اوّلیہ جو قرآن و حدیث ہی میں مذکور ہیں یا اُن سے ماخوذ ہیں اور جن پر علماے سلف کا اتفاق ہے، وہ بھی نظر سے اوجھل نہیں ہونے چاہییں، مثلاً فرائض کا اجروثواب بہرحال نوافل سے زیادہ ہے۔ فرائض و مکتوبات کی نیابت اور تلافی و تدارک نوافل سے ممکن نہیں ہے، اور ترکِ فرائض کی صورت میں تطوعات عنداللہ قبول نہیں ہوسکتے۔ جو شخص فرض نماز کا تارک ہے، اُس کے نوافل کس کام کے ہیں؟ جو زکوٰۃ یا عشر ادا نہیںکرتا، اُس کے نفلی صدقات و خیرات کیا معنی رکھتے ہیں؟ جو شخص فرض روزے کی طاقت رکھنے کے باوجود اُس کا تارک ہے، اُس کا عاشورہ، ذوالحجہ یا عرفہ کا روزہ سال بھر کے گناہ تو کیا معاف کرائے گا، خود ہی ھیائً منثوراً بن کر ہوا میں اُڑ جائے گا۔جس شخص کو صلوٰۃِ مفروضہ کی ادائی نصیب نہیں ہوتی، اُس کی صلوٰۃ التسبیح دوسرے کبائر و صغائر تو کیا معاف کرائے گی، اُسے ترکِ نماز کے جرمِ کبیرہ سے بھی بری الذّمہ نہیں کرا سکے گی۔ترکِ صلوٰۃ اور ترکِ زکوٰۃ پر دنیا و آخرت میں جو شدید وعیدیں مذکور ہیں، وہ کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نماز کے تارکین کو گھروں سمیت جلا دینے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ زکوٰۃ نہ دینے والوں کے لیے قرآن و حدیث میں عذابِ جہنم کی وعید ہے اور دنیا میں صحابہ کرام نے اُن کے خلاف مرتدین کی طرح قتال بالسیف کیا ہے۔ کیا اس کے بعد بھی اس امر میں کوئی شک باقی رہ جاتا ہے کہ نفلی عبادات تارکینِ فرائض کے لیے کفّارہ نہیں بن سکتیں اور نوافل و تطوعات کے لیے جو بشارتیں وارد ہیں اُن کے مستحق وہی مسلمان ہیں جو اوامر و فرائض کی پابندی حتی الوسع کرتے ہیں۔ ان ارشادات کا یہ مقصود و مدّعا ہرگز نہ تھا کہ لوگ ان پر بھروسا کرکے فرائض سے تغافل و تساہل برتیں اور منکرات و نواہی کے ارتکاب پر جری ہوجائیں۔ صحابہ کرام جو اِن فرمودات کے اوّلین مخاطب تھے اُن میں ہمیں کوئی مثال ایسی نہیں ملتی کہ اُنھوں نے ایسی بشارتیں سُن کر اُن پر غلط تکیہ کیا ہو جس سے اوامر و نواہی کی پابندی میں ڈھیل پیدا ہوئی ہو۔
اعمال کی جزا و سزا کے معاملے میں ایک اُصول کتاب وسنت میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ تمام اچھے اور بُرے اعمال کا بحیثیت مجموعی موازنہ و محاسبہ اللہ کے ہاں ہوگا۔ جس کا اچھے اور وزنی اعمال کے لحاظ سے پلڑا بھاری ہوگیا وہ جنت کا مستحق ہوگا، اور جس مسلمان کے اچھے اعمال وزن میں ہلکے ثابت ہوئے وہ دوزخ کا مستحق ہوگا۔ اس کے بعد اللہ چاہے تو ایسے مومن کو معاف کر دے اورچاہے تو معاف کرنے سے پہلے اُسے سزا بھگتنے کے لیے دوزخ میں بھیج دے۔ پھر وہاں اعمال کی ظاہری شکل و صورت کونہیں، بلکہ باطنی جذبے اور نیت کو دیکھا جائے گا۔ صحیح احادیث میں وارد ہے کہ بعض عبادت گزاروں اورروزے داروں کو سواے رات جاگنے اور بھوک پیاس کے کچھ نہیں ملتا۔ یہاں فرض یا نفل نماز اور روزے کی تخصیص بھی مذکور نہیں جس سے معلوم ہوا کہ بعض موانع ایسے ہیں جن کی موجودگی میں فرض نماز روزہ بھی ردّ ہوسکتا ہے۔ تا بنوافل چہ رسد۔ کوئی شخص عبادات و صدقاتِ نافلہ اگر اس غرض کے لیے انجام دے کہ اُسے فرائض میں چھوٹ اور کبائر کی آزادی مل جائے، تو ایسے اعمال نہ صرف مردود ہوں گے، بلکہ ایسے زعمِ باطل پر عنداللہ مواخذہ ہوگا۔
اس کے علاوہ کتاب وسنت میں بہت سے ایسے ہلاکت خیز اعمال گنوائے گئے ہیں جو بہت سارے دوسرے اعمال کو بھی ضائع اور خبط کردیتے ہیں۔ ریاکاری کو شرکِ اصغر کہا گیا ہے، جس سے مالی اِنفاق، قتال اور دوسرے اچھے اعمال بے کار ہوجاتے ہیں۔ خیانت و غلول سے جہاد اور شہادت کا اجر مارا جاتا ہے اور اُن کا مرتکب اُلٹا دوزخ میں جاتا ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے: ’’قیامت کے روز ایک شخص بہت اچھے اعمال کے ساتھ پیش ہوگا، مگر اُس کے ساتھ اُس نے حقوق العباد کو تلف کیا ہوگا، کسی کا مال چھینا ہوگا، کسی کو گالی دی ہوگی یا دوسری طرح خلقِ خدا کو نشانۂ ستم بنایا ہوگا، تو اُس شخص کی ساری نیکیاں ان مظلوموں میں بانٹ دی جائیں گی اور مظلوموں کی بُرائیاں اُس ظالم کے سر پر لاد کر جہنم میں دھکیل دیا جائے گا‘‘۔
ایسی بے شمار وعیدات کیوں آپ کی نظر سے اوجھل ہوگئی ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر فرمایا ہے کہ میری شفاعت اہلِ کبائر کے لیے ہے تو اُس سے یہ کیسے لازم آگیا کہ ہر مرتکب کبیرہ مستحقِ شفاعت ہوگا اور بلامواخذہ بخشا جائے گا؟ اللہ کے ہاں جس کے لیے اذن ہوگا، اُسی کے حق میں شفاعت ہوگی۔ بہت سے اہلِ ایمان کا بھی ایک مرتبہ دوزخ میں داخل کیا جانا احادیثِ صحیحہ میں مذکور ہے۔ اُن لوگوں کے لیے یا تو شفاعت نہ ہوگی یا پھر سزا پانے کے بعد ہوگی۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جھوٹی گواہی دینے والا میری شفاعت سے محروم ہوگا۔ بعض مجرمین کے متعلق فرمایا کہ میں اُن کے خلاف مدعی بن کر مخاصمت کروں گا۔ غوروعبرت کا مقام ہے کہ خود آنحضوؐر، شافعِ محشرؐ جس کے خلاف صاحب ِ دعویٰ ہوں گے اُس کا شفیع کون ہوسکتا ہے اور وہ مؤاخذہ سے کیسے بچ سکتا ہے؟
مَیں آخر میں ایک عام فہم تمثیل پر جواب کو ختم کرتا ہوں۔ فرض کیجیے کہ ایک طبیب حاذق اپنے ایک نسخے میں قوت و توانائی کے لیے بعض مفید اور مجرب ادویہ و اجزا کے نام لکھ دیتا ہے۔ پھر اپنی ایک مجلس میں بعض غذائوں کے نفع بخش اثرات اور حفظانِ صحت کے بعض اُصول بیان کرتا ہے اور کسی دوسری مجلس میں بعض زہریلی اشیا اور سمّیات کا بھی ذکر کردیتا ہے کہ اُن کے کھانے سے انسان بیماری یا موت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اب یہ ساری باتیں اپنی اپنی جگہ پر درست اور برمحل ہیں، لیکن کوئی نادان اگر کرتا یہ ہے کہ مقوّیات کے ساتھ سمّیات کو بھی نوشِ جان کرلیتا ہے اور اس کے بعد تنومند ہونے کے بجاے مرض الموت میں مبتلا ہوجاتا ہے، تو کیا یہ کہا جائے گا کہ طبیب حاذق نہ تھا یا اُس کی کچھ باتیں صحیح اور کچھ غلط تھیں؟ اس سلسلے میں بہتر ہوگا کہ مولانا مودودیؒ کی کتاب تفہیمات حصہ اوّل کا وہ مضمون بھی پڑھ لیں جس کا عنوان ہے: ’’کیا نجات کے لیے کلمۂ طیبہ کافی ہے؟‘‘
اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات اپنی جگہ پر اٹل اور برحق ہے، مگر مشکل یہ ہے کہ آج مسلمان صرف آسانیوں اور رخصتوں کے طالب اور سستی نجات کے خواہاں بن کر رہ گئے ہیں۔ جس طرح اہلِ کتاب کہتے ہیں کہ: سَیُغْفَرُلنا (توقع ہے کہ ہم بخشے جائیں گے) اسی طرح مسلمان بھی یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہر بے عملی، بلکہ بدعملی کے باوجود بلامؤاخذہ سیدھے جنت میں جاداخل ہوں گے، ترکِ اوامر اور ارتکابِ معاصی پر اُن سے پُرسش کا سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مگر یہ ایک مہلک غلط فہمی بلکہ گمراہی ہے جو اُن کی اپنی کج رَوی اور کج فہمی کی پیداوار ہے۔ اللہ اور اُس کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بَری ہوں۔ جو شخص دنیا میں دعواے ایمان کرتا ہے، ہم تو بلاشبہہ اُسے مسلمان کہیں گے کیونکہ یہاں ظاہر احوال ہی پر سارے احکام مرتب ہوتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ جس کا علم ظاہر وباطن دونوں پر حاوی ہے اُس کے ہاں ہر زبانی دعویٰ تسلیم کیے جانے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ اگرایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ یوںکیوں فرماتا:
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَo (البقرہ ۲:۸) اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور یومِ آخرت پر حالانکہ وہ مومن نہیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہر مسلمان کو کتاب و سنت کے ہر قول کے استماع [غور سے سننے] اور بطریق احسن اتباع کی توفیق بخشے، آمین! (جسٹس ملک غلام علی، رسائل و مسائل، ششم، ص۳۸۰-۳۸۶)
دورِحاضر میں تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا اور منظرِ جہاں (سنیاریو) نے ایک طرف تو تہذیب اور مذہب کی مسلّمہ اصولوں اور روایات کو ایک نئے زاویے سے دیکھنا اور پرکھنا شروع کردیا ہے، دوسری طرف جدیدیت اور عالم گیریت نے اپنے ہی کچھ ’اصول‘ وضع کرلیے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بہت سے مسائل کی نئی تعبیرات اور نئی صورت حال میں اجتہاد کی ضرورت بالکل فطری ہے۔ ایک طبقہ اپنی تہذیب اور مذہب پر ایمان رکھتا ہے اور دوسرا طبقہ ’’مسلّمات‘‘ سے جان چھڑا کر ’نئے تقاضوں‘ اور مذہب کی نئی تعبیرات میں کشش محسوس کرتا ہے۔ اسی لیے گذشتہ نصف صدی سے اجتہاد کی ضرورت اور عملاً اجتہاد کو بروے کار لانے کی طرف توجہ بڑھ گئی ہے۔
زیرنظر فقہی مباحث میں اسی صورتِ حال کے پیش نظر کتاب و سنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں متعدد مسائل پر بحث و مباحثے اور مطالعے کی کوشش کی گئی ہے، مثلاً lجدید عالمی پس منظر دارالاسلام اور دارالحرب کا تصور
مولانا سید جلال الدین عمری (پ: ۱۹۳۵ئ) بھارت کے ایک جیّد عالمِ دین اور ممتاز محقق اور اسکالر ہیں۔ ایک طرف انھیں قرآن وسنت اور علومِ اسلامیہ کے تفسیری اور فقہی ذخیرے پر دسترس حاصل ہے اور دوسری طرف وہ جدید اصولِ تحقیق سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ (وہ علی گڑھ کے ایک ممتاز تحقیقی ادارے ’ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی‘ اور دہلی کی ’تصنیفی اکادمی‘ کے صدر کے فرائض انجام دے رہے ہیں)۔ اس وقت جماعت اسلامی ہند کی امارت کی ذمہ داری چونکہ انھی پر ہے، اس لیے فقہی مسائل پر مباحث میں ان کا قلم بہت محتاط ہے۔ مولانا عمری اصولی مباحث میں ائمہ اور اکابر علما کی آرا اور قدیم علوم سے نظائر کو تو بڑی خوبی سے پیش کردیتے ہیں لیکن موجودہ (خصوصاً بھارت کی) صورت حال میں ان اصول و نظائر کا عملی اطلاق کیسے ہوگا؟ اس سلسلے میں وہ کوئی واضح اور دوٹوک بات نہیں کرتے، مثلاً: غیرمسلموں سے ازدواجی تعلقات کے ضمن میں بھارت میں ہندومسلم شادیوں کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے، عمری صاحب نے اہلِ کتاب سے شادی پر تو اظہارِ خیال کیا ہے مگر ہندو مسلم شادیوں کے مسئلے کو نہیں چھیڑا۔ غالباً اس لیے کہ بہت سی پیچیدگیاں ہونے کا احتمال تھا۔ ایک اور سبب یہ ہوسکتا ہے کہ وہ مولانا مودودی کے مکتب ِ فکر کے پیروکار ہیں، اس لیے ایسی کوئی بات کرنے سے گریزکرتے ہیں جو فتوے سے قریب تر ہو۔
خوبی کی ایک بات یہ بھی ہے کہ مصنف علّام نے زیرنظر فاضلانہ مقالات کو ’ایک طالب علم کے قلم سے‘ اور ’موضوعات کے تعارف‘ کے طور پر پیش کیا ہے، اور قارئین سے خامیوں اور فروگذاشتوںکی نشان دہی کرنے کی درخواست کی ہے۔ اُردو کی علمی دنیا میں اس کتاب کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مصنف نے پتے کی بات کہی ہے کہ ’’انسانوں کی اکثریت اپنی فطری کاہلی کی وجہ سے چیزوں کو گہرائی میں دیکھنے کی عادی نہیں ہوتی‘‘۔ شاید اسی وجہ سے وہ گانے بجانے اور موسیقی کو محض تفریح کا ذریعہ اور ’مقامی ثقافت کا اظہار‘ سمجھتے ہیں۔ کیلے فورنیا کی ایک مسجد کے امام طاہرانور کے نزدیک اخلاق اور معاشرت پر موسیقی کے منفی اثرات، منشیات، جنسی بے راہ روی اور خودکشی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ (ص ۱۰)
ڈاکٹر گوہر مشتاق نہ تو معروف معنوں میں عالمِ دین ہیں، نہ انھوں نے علومِ دینیہ میں کوئی سند حاصل کی ہے، مگر قرآن و حدیث کے عالمانہ مطالعے کی بنیاد پر، انھوں نے موسیقی کی حلت و حرمت کے موضوع پر ایک قابلِ لحاظ مفید اور عمدہ کتاب تیار کی ہے۔ موسیقی سے مختلف آیاتِ قرآنی اور احادیث نبویؐ جمع کی ہیں اور سائنسی تحقیقات کی روشنی میں انسانی جسم پر موسیقی کے اثرات بتائے ہیں۔ پھر معاشرے پر موسیقی کے مہلک اور دُوررس اثرات کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے موضوع سے متعلق مغربی مصنفین کی تحقیقات کو بھی کھنگالا، نتیجہ یہ سامنے آیا کہ موسیقی اکثر صورتوں میں سفلی جذبات کو اُبھار کر بدکاری، نشے اور خودکشی کی طرف لے جاتی ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے بہت سے واقعات حوالوں کے ساتھ درج کیے ہیں۔ یہ بھی بتایا ہے تحت الشعور کی گمراہی میں موسیقی کا کیا کردار ہے۔ پھر موسیقی کی حرمت سے متعلق صحابہ کرامؓ، چاروں ائمہ اور قدیم و جدید علماے اسلام کی آرا پیش کی ہیں۔خلاصہ یہ ہے: سواے دف کے آلاتِ موسیقی کے لیے اسلام میں کوئی گنجایش نہیں ہے۔ (ص ۱۲۰)
کچھ لوگوں نے ’اسلامی موسیقی‘ کا شوشہ چھوڑا ہے۔ مصنف نے اسی گمراہی کو بھی بہ دلائل رد کیاہے اور اسی رد میں صوفیاے کرام کی اسلامی موسیقی (سماع) بھی شامل ہے۔ تائید میں (حدیث میں مہارت رکھنے والے) صوفیہ ہی کے دلائل پیش کیے ہیں۔ اس طرح مؤلف نے ’’موسیقی روح کی غذا ہے‘‘ کے مقبولِ عام تصور کو بھی رد کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ موسیقی ہماری روح میں ایک خلا اور بے حسِی اور لاپروائی پیدا کرتی ہے۔ اور یہ نتیجہ انھوں نے قرآن حکیم اوربعض واقعات کی روشنی میں نکالا ہے۔ کتاب کے آخری حصے میں مصنف نے ناجائز اور حرام تفریحات (جوا، شراب نوشی، موسیقی، فحش میڈیا اور لٹریچر، ناچ، جانوروں اور پرندوں کی لڑائی) کے مقابلے میں جائز اور حلال تفریحات (پیدل دوڑ، گھڑسواری، کشتی، تیراکی، تیراندازی، قراء تِ قرآن کا سننا، دوستوں کے ساتھ پکنک پر جانا، اسلامی نظمیں سننا، دوستوں اور اہلِ خانہ کے ساتھ مزاحیہ اور ہلکی پھلکی گفتگو کرنا وغیرہ) کا ذکر بھی کیا ہے۔ مصنف نے اپنے دلائل کو اس طرح ختم کیا ہے: ’’آج مسلمانوں کا موسیقی میں استغراق ایک بیماری نہیں، بلکہ ایک بڑی وَبا کی علامت ہے، یعنی حُبِّ دنیا اور حُبِّ نفس۔ یہ مسلمانوں کی قرآن وسنت سے دُوری کا نتیجہ ہے۔ اگر سوسائٹی کی اکثریت بُرائی کررہی ہے تو یہ بات اس برائی کو جائز نہیں بنادیتی‘‘ ( ر - ہ)
امریکی دانش ور جیریمی سکاہل نے ’مہذب‘ ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کے چہرے سے نقاب سرکاتے ہوئے اس کتاب میں دنیا کے بہت سے منظم اور مسلح کرائے کے ان قاتلوں کا تذکرہ کیا ہے جو ریاستی اداروں، قانون اور اخلاقیات سے بالاتر رہتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ یہ پرائیویٹ آرمی ہے جس کا خیال امریکی وزیردفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ نے نائن الیون کے واقعے سے پہلے پیش کیا تھا اور جس کو ایک متعصب عیسائی ایرک پرنس نے امریکا میں قائم کیا۔ دنیا کی واحد سوپرپاور کے غلبے کو قائم رکھنے کے لیے بنائی جانے والی اس پرائیویٹ آرمی کا مرکز امریکی ریاست نارتھ کیرولینا میں ہے اور ۷ہزار ایکڑ پر قائم اس مرکز میں ہزاروں انسانوں کو مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے معصوم انسانوں کا خون بہانے کی تربیت دینے کی صلاحیت موجود ہے۔ بلیک واٹر انٹرنیشنل نے بعد میں اپنا نام تبدیل کرلیا اور آج ورلڈ وائڈ اور کئی ذیلی کمپنیوں کے نام سے کام کررہی ہے۔ دنیا بھر کے سفّاک قاتلوں، ماہر دہشت گردوں، بم دھماکوں کے ذریعے موت کی نیند سلانے والوں اور امریکیوں کے لیے مسلمانوں کی مخبری کرنے والے مسلمانوں کو اپنی صفوں میں بڑی رقومات کے عوض شامل کرتی ہے۔ یہ ایک قوم کے لوگوں کو دوسری قوم کے خلاف ہی نہیں ایک قوم کے افراد کو اسی قوم کو غلام بنانے اور غلام رکھنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ ایرک پرنس اپنے انٹرویو میں دنیا بھر سے اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے عزم کا اظہار کرتا ہے۔ ترقی و تعمیر کے معصوم ٹھیکوں کی آڑ میں امریکی بجٹ سے اس کو اربوں ڈالر کے مالی وسائل فراہم کیے جاتے ہیں۔ امریکی سی آئی اے کے اہداف حاصل کرنے کے لیے یہ تنظیم دانش وروں، صحافیوں اور اینکرپرسنز کو بھی بھاری مشاہرے پر خریدتی ہے اور ان کی مناسب تربیت بھی کی جاتی ہے۔
بلیک واٹر امریکی سامراجی منصوبے کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے عراق، افغانستان، افریقہ، جنوبی امریکا، ہونڈراس اور ایل سلواڈور کے بعد اب پاکستان میں کام کر رہی ہے۔ یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ امریکی بالادستی اور امریکی ہتھیاروں کی صنعت کی ترقی کے لیے دنیا میں کہیں نہ کہیں جنگ جاری رہنا امریکی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے بلیک واٹر کے ذریعے ایک نئی حکمت عملی ترتیب دی گئی ہے۔
جیریمی سکاہل کی زیرنظر کتاب کی اشاعت کے بعد، اس کے چند مضامین دی نیشن میں چھپے ہیں جن کا زیادہ تفصیل سے پاکستان میں اس تنظیم کی کارروائیوں کا ذکر ملتا ہے۔ ایرک پرنس نے بھی ایک میگزین میں چھپنے والے انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا کہ اس کی تنظیم سی آئی اے کے حکم پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قتل کرنے کے لیے ان کے قریب پہنچ چکی تھی۔ گو کہ کتاب کا ترجمہ مزید سلیس اور رواں کیا جاسکتا تھا، بایں ہمہ، موجودہ صورت میں بھی یہ ایک مفید کاوش ہے۔ (معراج الہدیٰ صدیقی)
زیرنظر کتاب معروف صحافی ڈاکٹر فیاض عالم کے کالموں کا مجموعہ ہے جو بالخصوص پاکستان کی تاریخ کے ایک سیاہ باب اور ایک فوجی آمر جنرل پرویزمشرف کے دورِ جبر کا احاطہ کرتے ہیں اور اسی حوالے سے یہ کالم، پاکستان کی ایک تاریخ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
کسی زمانے میں صحافت، شخصی صحافت پر مبنی تھی۔ ہماری صحافتی تاریخ اس پر شاہد ہے اور مولانا محمدعلی جوہر، مولانا ظفرعلی خاں اور شورش کاشمیری کے نام اس حوالے سے معروف ہیں۔ اب، جب کہ صحافت صنعت بن چکی ہے مگر مشنری جذبہ بھی موجود ہے، شخصی صحافت نے ’کالم نگاری‘ کی صورت اختیار کرلی ہے۔ بہرحال کالم بھی جرأتِ اظہار اور مؤثر ابلاغ کا ایک اہم ذریعہ بن چکے ہیں۔ اس لیے قارئین، اپنے پسندیدہ کالم نگاروں کی تحریروں کے منتظر رہتے ہیں۔
کتاب کی ایک نمایاں خصوصیت موجود تناظر کو تاریخ کے آئینے میں دیکھتے ہوئے حالات کا تجزیہ کرنا ہے۔ ایک کالم ’حرفِ غلط‘ میں حقوقِ نسواں بل کی مذمت میں اکبر کے دین الٰہی کے انجام سے بات شروع کرتے ہیں۔ عدالتی طاقت بیان کرنے کے لیے وہ فلپائنی صدر السٹراڈا کی مثال دیتے ہیں۔ عوامی طاقت کے بیان میں ۲۲ فروری ۱۹۸۶ء کو فلپائن کے دارالحکومت منیلا میں دیے جانے والے عوامی دھرنے کی مثال لاتے ہیں۔ یہ انداز و اسلوب قارئین کی دل چسپی کا باعث ہے اور عوام کے لیے بیداری کا سبب بھی۔ ان مثالوں سے اس تاریک دور میں اُمید کی کرن دکھائی دیتی ہے۔ ملکی حالات بالخصوص کراچی کے حالات کا خاص طور پر تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اداروں کی کمزوری، ان کے کھوکھلے پن اور ان کے اندر ہونے والی منفی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہوئے عوام کو اصل حقائق سے روشناس کروایا گیا ہے۔ تحریر شُستہ ورواں اور اسلوبِ نگارش عمدہ ہے۔ ایک افسانوی تجسّس کالم کی دل چسپی کو برقرار رکھتا ہے۔ مجموعی طور پر کتاب فکرانگیز ہے اور پوشیدہ حقائق کو بے نقاب کرتی ہے۔ (قاسم محمود احمد)
دورِ جدید میں جدید ٹکنالوجی اور انٹرنیٹ کی بدولت فاصلے سمٹ گئے ہیں اور کاروبار وسعت اختیار کرچکے ہیں، اور باہمی لین دین کی نت نئی شکلیں اور طورطریقے سامنے آرہے ہیں۔ بعض ممالک میں اثاثوں کی ملکیت اور مختلف قسم کے حقوق کے حوالے سے قانون سازی کی جارہی ہے۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) نے بھی قواعد و ضوابط تیار کیے ہیں، اور اس ضمن میں پاکستان میں بھی قانون سازی ہوچکی ہے۔ کیا یہ سب قوانین اور قواعد و ضوابط شریعت کے تقاضوں کے مطابق ہیں؟ یہی جائزہ، محاکمہ اور تجزیہ زیرنظر کتاب کا موضوع ہے۔
حقوق کے معانی، قرآن و حدیث میں لفظ ’حق‘ کا استعمال دیگر اصطلاحات کی لغوی اور اصطلاحی تشریحات کے بعد، حق سے متعلق احکام، اس کی مثالیں اور حق کی منتقلی (transfer of rights) وغیرہ سے بحث کی گئی ہے۔ ایک باب کا عنوان ’حقوق کی خریدوفروخت‘ ہے۔ اس باب میں فاضل مصنف نے ’بیع حقوق، مسئلہ کا تعارف‘ کا عنوان باندھا ہے۔ بیع، مال، منافع(مراد شے کی منفعت)کی بیع کے حوالے سے مسالکِ اربعہ کا نقطہ ہاے نظر پیش کیا ہے۔ مزیدبرآں ’خدمت اور تعلیم و تربیت‘، ’حق تعلّی‘، ’حق پگڑی‘، ’حق شرب‘ وغیرہ کے حوالے سے بحث کی گئی ہے اور قدما اور عصرِحاضر کے اہلِ علم کی آرا کا احاطہ کیا گیا ہے۔
’حقوق کے قابل معاوضہ ہونے اور نہ ہونے کے حوالے سے حقوقِ اصلیہ، حقوقِ ضروری اور حقوقِ عرضیہ کے بارے میں بحث کی گئی ہے، جب کہ مروجہ حقوق جن کی خرید وفروخت ہوتی ہے، وہ بھی زیربحث آئے ہیں۔ ان میں گزرنے کا حق، پانی کی نکاسی، روڈ ٹیکس، پُلوں پر ٹیکس، فضا سے گزرنے کا حق، پینے کے پانی پر ٹیکس، گیس سپلائی اور اس کی خرید وفروخت، حقوق تعلّی، ٹریڈمارک، تجارتی لائسنس، پگڑی، زرِضمانت ایجادات اور حق تصنیف و تالیف وغیرہ شامل ہیں۔ اپنے موضوع پر یہ کتاب پڑھنے اور سوچنے والوں کے لیے بنیاد کا کام کرسکتی ہے۔ (میاں محمداکرم)
بچوں کو باصلاحیت، مہذب، پُراعتماد اور عزتِ نفس کا حامل بنانے کے لیے ان کی نفسیات اور اُن کی ضروریات کو سمجھنا بے انتہا ضروری ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے کیے گئے کئی اقدامات، منفی نتائج بھی پیدا کردیتے ہیں۔ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو کہ جہاں بچوں کے حوالے سے مسائل نہ ہوں، اسی لیے والدین کو احتیاط، توجہ اور منظم زندگی کی ضرورت ہے۔
فاضل مصنف نے اس کتاب میں بچوں کو سمجھنے اور اُن کے مسائل کا سائنٹفک انداز میں حل پیش کرنے کی کوشش کی ہے، ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ بہتر الفاظ اور بہتر رویے سے بچے کی قسمت بدلی جاسکتی ہے۔ اس پہلو پر تفصیلی بحث کی گئی ہے کہ جب تک بچوں کو سنا اور قبول نہیں کیا جاتا، تب تک بچہ اپنے اندر تبدیلی لانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اُن کی یہ بھی تجویز ہے کہ بچوں کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے دھماکے سے پھٹ پڑنے کی دہشت ختم کر دیں۔ بچوں کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنی ناکامیوں کے بارے میں سوچیں اور اس کا جائزہ لیں۔ بچوں کو غم برداشت کرنے کی تربیت بھی دیں۔ چین میں یہ کہاوت عام ہے: ’’غم کو طاقت میں تبدیل کردو‘‘۔
اسی طرح توجہ دلائی گئی ہے کہ گھر ایسی یونی ورسٹی ہے کہ جہاں سکھائی جانے والی بات، تادمِ مرگ اعمال میں شامل رہتی ہے۔ اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ بچے کے مثبت اقدامات کی بھرپور تائید کی جائے اور اس سے بے جا توقعات باندھ کر دبائو نہ ڈالا جائے۔ بچوں کو مکالمے میں براہِ راست شریک کیا جائے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ جن بچوں کے لیے ۲۴گھنٹے محنت کی جاتی ہو اُن سے والدین ۲۴منٹ روزانہ بات کرنے کی فرصت نہیں پاتے۔ اس کتاب کے مطالعے کے دوران ایسے درجنوں قیمتی مشورے ملیں گے۔ اسلامک ریسرچ اکیڈمی کی جانب سے خاندان سیریز کی یہ پہلی کتاب ہے۔ کہیں کہیں واقعات کی طوالت کھٹکتی ہے۔ (محمد ایوب منیر)
ترجمان القرآن کا نیا سرورق دل کش ہے۔ تزکیہ وتربیت کے تحت مولانا امیرالدین مہر کی تحریر ’بچے شگفتہ پھول‘ (فروری ۲۰۱۰ئ) معلوماتی اور نصیحت آموز ہے۔ ’محمدیؐ انقلاب‘ (فروری ۲۰۱۰ئ) میں دریا کو کوزے میں بند کردیا گیا ہے اور سیرتِ رسولؐ کا پیغام اُجاگر ہوکر سامنے آتا ہے۔ محترم سیدجلال الدین عمری نے ’دین میں ترجیحات‘ کے عنوان کے تحت دین کے ایک اہم مسئلے کو مختصراً اور جامع انداز میں پیش کیا ہے اور ترجیحات کے دائرے کی نشان دہی بھی کی ہے۔ ’رسائل و مسائل‘ کی کمی محسوس ہوئی۔ یہ پرچے کا مفید اور دل چسپ سلسلہ ہے۔
’کلامِ نبویؐ کے سایے میں‘ (فروری ۲۰۱۰ئ) میں نبی اکرمؐ کے جو فرامین پیش کیے گئے وہ موجودہ حالات کے تناظر میں پیدا ہونے والی انسانی کمزوریوں کی اصلاح کے لیے معاون ثابت ہوں گے، اور اُن کی مختصر تشریح احادیث کے مفہوم کو مزید اُجاگر کرنے میں مددگار ہے۔ عبدالغفار عزیز صاحب نے صحیح نشان دہی کی ہے کہ آج شیطانی دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار فحاشی وعریانی اور مالی واخلاقی کرپشن ہے، بجاطور پر فرمانِ رسولؐ کے مطابق اس سے بچنے کے لیے اصل ڈھال: تقویٰ، کھلے اور چھپے ہر حال میں اللہ کا خوف، اور ذکرِ الٰہی ہے۔
’مردکی قوامیت: مفہوم اور ذمہ داری‘ (جنوری ۲۰۱۰ئ) جامع تحریر ہے۔ اس اعتراض کا مدلل جواب دیا گیا ہے کہ خاندانی نظام میں مرد کو عورت پر برتر حیثیت کیوں دی گئی ہے۔ اس کے مطالعے سے یہ یقین اور بھی پختہ ہوجاتا ہے کہ واقعی اسلام دین فطرت ہے۔ اس تحریر سے نام نہاد مسلم دانش وروں کی آنکھیں کھل جانی چاہییں جو یہ کہتے ہیں کہ عورت رشتۂ نکاح میں بندھنے کے بعد ہر طرح سے اپنے شوہر کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ شوہر کو اس پر حاکمانہ اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے اس پر حکومت کرتا، اسے مشقت کی چکّی میں پیستا ہے مگر وہ کسی صورت میں اس پر احتجاج نہیںکرسکتی۔ اس تحریر کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔
’عریاں دہشت گردی‘ (فروری ۲۰۱۰ئ) نظر سے گزرا۔ مضمون کا عنوان ’انسدادِ دہشت گردی کی آڑ میں عریانی‘ ہونا چاہیے تھا۔ لائحہ عمل کے طور پر مضمون نگار نے لکھا ہے کہ عوام الناس کو وسیع پیمانے پر آگاہ کیا جائے اور عالمی سطح پر شدید احتجاج کیا جائے۔ جب معاملہ غیرت کا ہو اور اُس کا تعلق بھی غیرت کے انتہائی اور جسمانی پہلو سے ہو تو اس کا جواب احتجاج نہیں ہوتا، احتجاج تو دوستوں کے سامنے کیا جاتا ہے۔ مضمون نگار نے شاید پچھلے دوچار سال کے اُس عالمی احتجاج کے نتائج کو مدّنظرنہیں رکھا جو شانِ رسالتؐ کے حوالے سے کیا گیا اور جس کا نتیجہ خاکوں کی دوبارہ بلکہ سہ بارہ اشاعت کی شکل میں سامنے آیا۔ جدیدیت اور بے جا امن پسندی نے ہمیں حمیت کے فطری جذبات سے بھی محروم کر دیا ہے۔
ملک پاکستان کے لیے جو خارجی اور داخلی محرکات کسی بھی طرح اثرانداز ہوتے نظر آتے ہیں، ان کا فکرانگیز تجزیہ ’اشارات‘ میں مل جاتا ہے، اور اگر اپنی مہم ’گو امریکا گو‘ کو فراموش نہیں کیا گیا تو امریکی استعمار کے پروپیگنڈے کو بے نقاب کرنے کے لیے ان صفحات میں مؤثر دلائل فراہم کیے جاتے ہیں جن سے فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے۔فروری کے شمارے میں ’دین غالب کیوں نہیں؟‘، ’محمدیؐ انقلاب‘، ’ترجیحاتِ دین‘ اور ’بچے شگفتہ پھول‘ کا مطالعہ ایک نئی توانا سوچ کا باعث اور فکروفہم کے صیقل کرنے کا ایک مفید اورکارآمد ذریعہ ہیں۔
محمد فاروق ناطق صاحب نے ’سیکولرزم، لبرلزم اور اسلام‘ (جنوری ۲۰۱۰ئ) کے تحت عمدہ تجزیہ پیش کیا ہے۔ مذہب کے عیسائی تصور کے حوالے سے سیکولرزم اور لبرلزم کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ عہدِحاضر میں اس کے اثرات اور تسلسل کی حقیقت کو کھول کر رکھ دیا ہے، جب کہ اسلام کو مذہب کی حقیقی تعلیمات کی روشنی میں بخوبی پیش کیا ہے۔
۱- ایک یہ کہ اسلامی سوسائٹی کے ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ خود اپنے اندر بھی اور سوسائٹی کے دوسرے لوگوں کے اندر بھی یہ احساس زندہ اور بیدار رکھے کہ اسلام نے خالق کی اطاعت کے خلاف کسی مخلوق کی اطاعت کو جائز نہیں رکھاہے۔
۲- دوسری یہ کہ ہر برائی جو سوسائٹی کے اندر پھیلتی ہے اس کی ذمہ داری جس طرح اس کے پھیلانے والوں پر ہے اسی طرح ان لوگوں پر بھی ہے جو اس کو برائی جانتے ہوئے اس کو پھیلنے دیں، اور وہ سارے وسائل جو ان کو حاصل ہوں، اس کام میں نہ لگا دیں۔
اِن دونوں باتوں کی اصل اہمیت اور ان کی نتیجہ خیزی کی پوری وسعت کا اندازہ اس امر سے ہوگا کہ یہ واجباتِ شریعت میں سے ہیں، یعنی اسلام نے اِن دونوں باتوں کو شہری حقوق کی فہرست میں نہیں رکھا ہے، بلکہ ان کو شہریوں کے فرائض میں شمار کیاگیاہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حکومت کے جبروظلم کے باوجود خدا کی رضا ان کے ادا کرنے میں ہے نہ کہ ان سے دستبردار ہوجانے میں۔ یہ ہمارے اپنے حقوق نہیں ہیں کہ اگر ہم ان پر صبر کرجائیں اور ان کے لیے اربابِ اقتدار سے کوئی مطالبہ نہ کریں تو اللہ تعالیٰ کے ہاں ہم کو اس صبر کا صلہ ملے۔ یہ خدا کے حقوق ہیں جن کی ادایگی ہمارے ذمے ہے اور جن کے معاملے میں اصلی صبر یہی ہے کہ تمام مزاحمتوں اور مخالفتوں کے باوجود یہ ادا کیے جائیں ، اور پھر اللہ تعالیٰ سے یہ اُمید رکھی جائے کہ اس کے حقوق کی ادایگی کی راہ میں جو دکھ اٹھائے گئے ہیں وہ ان کا صلہ عطا فرمائے گا۔ (’اسلامی ریاست: اطاعت کے شرائط و حدود‘ مولانا امین احسن اصلاحی، ترجمان القرآن، جلد۳۳، عدد ۴، ربیع الثانی ۱۳۶۹ھ، مارچ ۱۹۵۰ئ، ص ۵۲)