بسم اللہ الرحمن الرحیم
دورِ جدید کی سیاسی تاریخ اور تجربات کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو جمہوریت اور آمریت کا بنیادی فرق سمجھنے میں ذرا بھی مشکل پیش نہیں آتی۔ تاہم اصطلاحات، الفاظ اور اداروں کی ظاہری شکل و صورت قدم قدم پر دھوکے اور الجھائو میں جکڑ لیتی ہے۔ اس کے باوصف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آمریت، بار بار جمہوری لبادے میں خود کو قابلِ قبول بنانے کے لیے طرح طرح کے کرتب دکھاتی رہتی ہے۔
اس سلسلے کی ایک اہم مثال تو خود انتخابات کا ادارہ ہے۔ بظاہر انتخاب کا عمل جمہوریت اور آمریت دونوں میں مشترک نظر آتا ہے۔ ہٹلر کے دور کا جرمنی ہو، یا مسولینی کی گرفت میں پھڑپھڑاتا اٹلی، اسٹالن کا روس ہو یا مارشل ٹیٹو کا یوگوسلاویہ، فرانکو کا اسپین ہو یا پنوشے کا چلی، حسنی مبارک کا مصر ہو یا موگابے کا زمبابوے___ انتخابات تو ان سب ممالک میں ہوتے رہے ہیں اور بڑے بلندبانگ دعووں اور زور و شور کے ساتھ ہوتے رہے ہیں۔ بلکہ ان ممالک میں راے دہی کا اوسط (turn-out) مغرب کے بہت سے جمہوری ممالک بشمول امریکا اور برطانیہ سے کہیں زیادہ رہا ہے مگر اس کے باوجود، ان انتخابات نے ان ممالک کو نہ جمہوری بنایا اور نہ ایسے انتخابات کو کسی نے بھی عوام کی آزادانہ مرضی کے اظہار کا ذریعہ تسلیم کیا۔
ا دستور اور قانون کو بالادستی حاصل ہوتی ہے اور کوئی بھی فرد نہ دستور اور قانون سے بالا ہوتا ہے، اور نہ اسے دستور اور قانون میں دراندازی اور ترمیم و تبدیلی یا تحریف کا کسی درجے میں بھی کوئی اختیار یا موقع حاصل ہوتا ہے۔
ب ملک میں اظہار راے، تنظیم سازی، اجتماع اور بحث و اختلاف کی آزادی ہوتی ہے، سیاسی جماعتیں برابری کی بنیاد پر سیاسی عمل میں حصہ لیتی ہیں اور عوام کے سامنے اپنا پروگرام اور اپنی کارکردگی کا میزانیہ پیش کرتی ہیں۔ ذرائع ابلاغ آزادی کے ساتھ تمام نقطہ ہاے نظر کااظہار کرتے ہیں اور قوم کے ضمیر کی حیثیت سے معلومات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ محتسب کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔
ج عدلیہ آزاد اور دستوری اختیارات سے مسلح ہوتی ہے، جو پوری مستعدی اور غیرجانب داری سے دستور کی حفاظت اور نفاذ کے ساتھ بنیادی حقوق کے باب میں ہرشہری اور ہرمظلوم انسان کی داد رسی کی ذمہ داری ادا کرتی ہے، جس کے نتیجے میں کسی کے لیے بھی فرعون بننے کا خطرہ باقی نہیں رہتا۔
د الیکشن کمیشن، انتظامیہ کی گرفت سے آزاد ہوتا ہے اور دستور کے تحت پوری آزادی اور غیر جانب داری کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتا ہے۔ الیکشن کے قواعد و ضوابط اور انتظامِ کار بھی شفاف اور ہر شک و شبہے سے بالا ہوتے ہیں اور یہ ادارہ اس کا پورا عمل برسرِاقتدار جماعت اور حزبِ اختلاف دونوں کی نگاہ میں معتبر ہوتا ہے۔
ہ جہاں اس بات کا خطرہ ہو کہ حکومت انتخابی عمل میں مداخلت کرسکتی ہے، وہاں انتخاب کے دوران غیر جانب دار عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔
اس پانچ نکاتی نقشۂ کار میں منعقد ہونے والے انتخابات کو ملک اور بیرون ملک اعتماد کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، سب اسے قابلِ بھروسہ اور قانونی و اخلاقی اعتبار سے درست تسلیم کرتے ہیں۔ اگر یہ نقشۂ کار موجود نہ ہو تو پھر انتخابات ایک ڈھونگ اور تماشے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور اس کے نتیجہ میں حکومتوں کے بننے اور بدلنے کے اس عمل میں عوام کا کردار محض ایک تماشائی کا سا بن کر رہ جاتا ہے اور خود بیلٹ بکس کا تقدس ختم اور سیاسی تبدیلی کے لیے اس کا کردار دم توڑ دیتا ہے۔
بلاشبہہ جمہوری نظام میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور پورا سیاسی عمل اسی محور کے گرد گھومتا ہے۔ نیز یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے انتقالِ اقتدار ہوتا ہے، اور عوام کی آزاد مرضی سے قیادت کا چنائو عمل میں آتاہے۔ متعین وقفوں پر ایسے ہی آزاد اور شفاف انتخابات جمہوری نظام کی پہچان ہیں۔
جماعت اسلامی پاکستان نے مارچ ۱۹۴۹ء میں دستورساز اسمبلی میں ’قرارداد مقاصد‘ کے منظور کیے جانے کے بعد سے سیاسی تبدیلی کے لیے جمہوری ذرائع اور انتخابی راستے کو اختیار کیا ہے اور وہ اس پر سختی سے قائم ہے لیکن جماعت اسلامی نے پہلے دن سے انتخابی عمل کے دستور اور قانون کے مطابق اور اس پورے عمل کو قواعد و ضوابط اور انتظامِ کار کے اعتبار سے غیر جانب دار اور شفاف ہونے کو ضروری قرار دیا ہے۔ پنجاب میں ۱۹۵۱ء سے صوبائی انتخابات سے لے کر آج تک انتخابات کی ضرورت بلکہ ان کے ناگزیر ہونے کے ساتھ ان کے صحیح ماحول میں اور صحیح طریقے سے انعقاد کو بھی لازمی قرار دیا ہے اور انتخابات کے یہ دونوں پہلوباہم مربوط اور ناقابل تفریق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں میں فرق وامتیاز اور انہیں ایک دوسرے سے بھی کاٹ دینے (de-link) کی بھرپور مزاحمت کی ہے۔
آج بھی قوم کو جو امتحان درپیش ہے، اس کا تعلق نفسِ انتخاب سے نہیں، انتخاب کے پورے نظام اور انتظامِ کار سے ہے، جس کی اصلاح کے بغیر انتخابات بے معنی ہوجاتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وقت کا آمر اور اس کے حواری انتخابی ڈھونگ رچا کر ایک فسطائی نظام کے لیے سندِجواز (legitimacy) حاصل کر لیتے ہیں، جو دستور کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے پیغامِ موت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسا عمل ملک اور قوم کو شخصی آمریت، سیاسی غلامی اور ننگے استبداد کے نظام کی جہنم میں جھونکنے کے مترادف ہوتا ہے۔ اس نظام کو چیلنج کیے بغیر اور دستوری، قانونی و انتظامی نقشۂ کار کی اصلاح کے بغیر انتخابات میں شرکت کا منطقی نتیجہ نہ صرف جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے اصول کی نفی ہے، بلکہ خود اپنے ہاتھوں سے آمریت کی زنجیروں کو مستحکم کرنا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس ناپاک اور خطرناک کھیل کا پردہ چاک کرنے کے لیے مؤثر احتجاج کی ضرورت ہے اور موجودہ حالات میں اس کا بہترین ذریعہ انتخابات میں شرکت نہیں بلکہ ان کا بائیکاٹ ہے___ واضح رہے کہ بائیکاٹ خود مطلوب نہیں، وہ احتجاج کا ایک ذریعہ ہے، تاکہ اقتدار پر قابض عناصر کے اصل عزائم کو بے نقاب کیا جاسکے اور قابل قبول انتخابات کا اہتمام ہوسکے۔
قانون کی مستند کتاب Black's Law Dictionary میں اصطلاح ’بائیکاٹ‘ کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
کسی خاص فرد یا کاروبار سے اتفاقِ راے سے معاملہ یا تجارت کرنے سے انکار تاکہ رعایتیں حاصل کی جائیں یا اُن اقدامات یا طرزِعمل سے اظہارِ ناپسندیدگی کیا جائے جو معاملات میں مستعمل ہوں۔ (ص ۱۸۹)
پینگوین کی شائع کردہ Dictionary of International Relations میں ’بائیکاٹ‘ کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے: ’’اس سے کسی ریاست یا ریاستوں کا سماجی، اقتصادی، سیاسی اور عسکری تعلقات سے منظم انکار ہے، تاکہ انہیں سزا دی جاسکے یارویے کو مطلوبہ صورت کی طرف لایا جاسکے‘‘، جب کہ اوکسفرڈ لغت براے علم سیاست اسے یوں بیان کرتی ہے: ’’ناپسندیدگی کے اظہار کے لیے وضع کردہ ایک طریقہ، مثلاً کسی اجلاس میں شریک نہ ہونا، یا کسی ملک یا کمپنی کی مصنوعات نہ خریدنا، تاکہ اُسے سزا دی جاسکے یا اُس پر پالیسی، موقف یا رویہ تبدیل کرنے کے لیے دبائو ڈالا جاسکے۔ (۱۹۹۶ئ،ص ۴۲)
تجارت ہو یا سیاست، بین الاقوامی تعلقات ہوں، یا سماجی روابط و معاملات، بائیکاٹ اظہارِ احتجاج اور مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے پُرامن ذرائع سے سیاسی قوت کے استعمال کا ایک معتبر راستہ ہے۔ نیز شدید نکتہ چینی (strictures)، پابندیاں اور بائیکاٹ سب ہی اس ترکش کے مختلف تیر ہیں۔ اسرائیل اور شمالی افریقہ کی نسل پرست اور غاصب حکومتوں کے خلاف برسوں اسے استعمال کیا گیا ہے اور اس کے قرارواقعی اثرات رونما ہوئے ہیں۔ ایران اور عراق کے خلاف بھی یہ ہتھیار استعمال ہواہے اور ہم بھی اس کا نشانہ بنے ہیں۔ خود برعظیم کی سیاسی جدوجہد میں برطانوی اقتدار کے خلاف بائیکاٹ کے ہتھیار کو بار بار استعمال کیا گیا ہے اور مکمل بائیکاٹ یا جزوی بائیکاٹ کی بحثوں میں پڑے بغیردونوں ہی شکلوں میں اس کا استعمال کیا گیا ہے، جس نے بالآخر سامراجی اقتدار کی چولیں ہلا دیں۔ اس عمل کا آغاز ۱۹۲۰ء میں ناگ پور کانگریس سے ہوا، اور اس حکمت عملی کے چار ستون تھے:
وکلا اور سیاسی جماعتیں، آج کے حالات میں ان سیاسی ہتھیاروں کو استعمال کر رہی ہیں، عدالتوں کے میدان میں بھی اور اب انتخابات کے میدان میں بھی۔ انھیں کسی اعتبار سے بھی جذباتی یا منفی اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ یہ اور دوسرے پُرامن سیاسی ہتھیار جب بھی ٹھیک طرح اور استقلال کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں، ان کے اثرات لازماً نکلے ہیں۔
البتہ جو بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے، وہ یہ ہے کہ بائیکاٹ فی نفسہٖ نہ کوئی سیاسی مقصد اور ہدف ہے اور نہ اسے مستقل حکمت عملی ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہ تو موجودہ آمرانہ نظام اور ایک غاصب گروہ کے ہاتھوں قوم کو بے دست و پا کرنے جیسے اقدامات کو قانونی تحفظ دلانے کے مذموم منصوبوں کے خلاف احتجاج کا ایک ذریعہ اور سیاسی دبائو کا وہ حربہ ہے، جس سے اس نظام کی خباثت اور اس کے ناقابلِ قبول ہونے کو ظاہر و باہر کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح ملک کو لاقانونیت، فردِ واحد کی حکمرانی اور من مانی سے نجات دلانے اور اس کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے آلۂ کار بننے کے بجاے، اس ایجنڈے کو تبدیل کر کے ایک حقیقی جمہوری اور دستوری نظام کی طرف ملک کو لانے کی کوشش ہے، تاکہ بالآخر صحیح معنوں میں آزاد، غیرجانب دار، منصفانہ اور شفاف انتخابات منعقد ہوسکیں اور ملک اور قوم جمہوریت کی طرف صحیح معنی میں پیش قدمی کرسکیں۔
ایک طرف ملک کے پورے نظامِ حکومت، دستوری انتظام، بنیادی قانون اور اداروں کو پامال کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف ستم یہ ہے کہ جمہوریت کے بڑے بڑے علَم بردار اور جمہوریت کی دعوے دار سیاسی جماعتیں صرف ’میدان دوسروں کے لیے نہ چھوڑنے‘ کا سہارا لے کر ایسے انتخابات میں شرکت کر رہی ہیں۔ یہ سب اسی ’نظریۂ ضرورت‘ کا ایک نیا اڈیشن ہے جس کی تباہ کاریاں ملک اور قوم ۱۹۵۴ء سے دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی دروبست کا حلیہ بگاڑنے کے اس عمل کا آغاز ۱۹۵۴ء میں پہلی دستورسازاسمبلی کی تحلیل اور پھر پہلے قومی انتخابات سے چند ماہ قبل اکتوبر ۱۹۵۸ء میں مارشل لا کے نفاذ سے شروع ہوا۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے نظریۂ ضرورت کے نام پر دستور کے توڑنے اور لاقانونیت کو قابل قبول قرار دے کر انہیں قانونی سندجواز دینے کے جرم کا ارتکاب کیا، اور سیاسی جماعتوں نے کمزوری دکھا کر مزاحمت کے بجاے مصالحت کا راستہ اختیار کیا۔ یہی وہ پہلی ٹیڑھی اینٹ تھی جس نے پورے قومی و قانونی ڈھانچے کو اس کی بنیادوں سے ہلاکر رکھ دیا اور پھر سیاسی نظام کی دیوار ٹیڑھی ہی اٹھتی چلی گئی۔
اسی نظریۂ ضرورت کی نئی شکل کو، پرویزی آمریت کے ایک ناقابلِ اعتبار الیکشن کمیشن اور ایک ناقابلِ قبول عبوری حکومت کے ذریعے انتخابات میں شرکت کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک قوم اس ’نظریۂ ضرورت‘ سے نجات نہیں پاتی، نہ وہ اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتی ہے اور نہ جمہوریت کی روشن صبح یہاں کبھی طلوع ہوسکے گی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کے اکھاڑے میں اترنے والے بڑے بڑے پہلوان ان انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہونے کا واویلا بھی کر رہے ہیں اور اس نظام کو چیلنج کرنے کے بجاے اس میں شریک بھی ہو رہے ہیں۔ آج ہم سب امتحان کی کسوٹی پر پرکھے جا رہے ہیں۔ وقتی، ذاتی اورجماعتی مصلحتیں ایک طرف ہیں۔ دوسری طرف اصول، دستور اور نظام کی اصلاح اور خرابی کے اس عمل کو ہمیشہ کے لیے روک دینے کی خواہش اور کوشش ہے۔
جنوری ۲۰۰۸ء کے انتخابات دراصل پرویزی آمریت کے آٹھ سالہ دور کو ایک نئی شکل میں، آیندہ پانچ سالوں کے لیے وسعت دینے کا ایک منصوبہ ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس نظام کے خدوخال کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے، تاکہ قوم اور تمام سوچنے سمجھنے والے اچھی طرح جان لیں کہ اس وقت ملک و قوم کے سامنے اصل ایشو کیا ہیں؟
۱- شخصی حکومت کو دوام: اس نظام کا سب سے نمایاں پہلو عملاً ایک فرد کی شخصی حکومت کو دوام بخشنا ہے، خواہ اس پر کیسا ہی لبادہ کیوں نہ اوڑھایا جائے اور وردی زیب تن ہویا شیروانی!
پرویز مشرف کے پورے دور حکومت کا مرکزی نکتہ صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ قومی مفاد وہ ہے جسے پرویز مشرف ’قومی مفاد‘ کہیں۔ انھوں نے بار بار کہا ہے کہ نہ دستور اہم ہے اور نہ جمہوریت۔ جسے وہ ’پاکستان‘ اور ’سب سے پہلے پاکستان‘ کہتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ ’سب سے پہلے میں___ یعنی صرف پرویز مشرف! ‘
جمہوریت میں ’قومی مفاد‘ کا سب سے بڑا ترجمان قومی دستور ہوتا ہے جس پر پوری قوم کا اجماع (consensus) ہوتا ہے اور جسے بنیادی قانون کہا جاتا ہے۔ اس دستور کے فریم ورک میں قومی مفاد وہ ہے، جس کا اظہار خود قوم اپنے منتخب نمایندوںکے ذریعے کرے اور اس قومی مفاد کی کچھ لہریں عوامی جلسوں، سیاسی جماعتوں کے اظہارِ خیال، میڈیا کے ذریعے عوام کی ترجمانی اور پبلک کی راے عامہ کے دوسرے معتبر مظاہر ہیں۔ لیکن پرویز مشرف کا فلسفہ یہ ہے کہ قومی مفاد کا تعین کرنا صرف ان کا استحقاق (prerogative) ہے۔ ان کی راے اور ان کی ذات ہی دستور، قانون، ملک، جمہوریت، عدلیہ ہر چیز پر حاوی ہے۔ یہ وہی مطعون و مذموم فلسفہ ہے جس کا دعویٰ فرانس کے بادشاہ لوئی ہفتم نے کیا تھا: ’’میں قانون ہوں‘‘۔ہٹلر، مسولینی، اسٹالین، شاہ ایران، حسنی مبارک، صدام حسین سب کی ذہنیت یہی تھی۔ اور آج پرویز مشرف انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں جس کا ثبوت وہ کچھ ہے جو پرویز مشرف نے پہلے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء میں کیا اور پھر ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو جو اقدام کیا اور جس کا تازہ ترین اظہار۱۵دسمبر کے روز فردِواحد کے ہاتھوں دستور کا حلیہ بگاڑنے کے سارے عمل کو نہ صرف دستور کا حصہ قرار دے کر کیا گیا بلکہ اپنے ہی قلم سے اپنے ان تمام اقدامات کو نام نہاد ’قانونی تحفظ و جواز‘ بھی دے دیا جنھیں بین الاقوامی میڈیا کے سامنے ’غیرقانونی (illegal) اور ماوراے دستور (extra-constitutional) ہونے کا خود ہی اعتراف کیا تھا۔
گیلپ پاکستان نے ۵ اور ۶ نومبر ۲۰۰۷ء (ایمرجنسی کے لبادے میں مارشل لا ) کے دو اور تین دن بعد جو سروے کیا، وہ قوم کے جذبات کا حقیقی ترجمان ہے:
انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام کیے جانے والے راے عامہ کے جائزے کے مطابق، جو ۱۹سے ۲۸ نومبر ۲۰۰۷ء کے درمیان ہوا، یہ بتایا گیا ہے کہ بحیثیت مجموعی، ۶۶ فی صد سے لے کر ۷۵ فی صد تک آبادی مشرف ، ان کی پالیسیوں اور اقدامات کے مخالف ہے، جب کہ ان کی تائید آبادی کے صرف ایک چوتھائی تک سکڑ گئی ہے۔ ایمرجنسی کے نفاذ کے لیے مشرف کے موقف کو آبادی کے ۶۶ فی صد نے رد کیا ہے اور ان کا خیال ہے کہ یہ سارا اقدام عدلیہ کو اس خدشہ سے میدان سے ہٹانے کے لیے کیا گیا تھا کہ وہ پرویز مشرف کو صدارت کے لیے نااہل قرار دے دے گی۔ ہوا کے رخ کا اندازہ عوام کی اس راے سے کیا جاسکتا ہے جس میں انھوں نے ’ہاں‘ میں جواب دیا ہے:
’’اگرچہ اُنھوں نے باضابطہ طور پر اُس حالت کو ختم کردیا ہے جو اُنھوں نے ۶ہفتے قبل نافذ کی تھی، مگر اس کے باوجود پرویز مشرف پر تنقید کرنے کا مطلب جیل جانا ہے۔ عدالتی نظام وکلا کے بائیکاٹ کی وجہ سے مفلوج ہوچکا ہے کیونکہ مشرف نے سپریم کورٹ کے اُن ججوں کو بحال کرنے سے انکار کردیا ہے جن کو اُنھوں نے غیرقانونی طور پر برطرف کردیا تھا۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہ بارہا انتباہ کرچکے ہیں کہ صدر کا منصوبہ ہے کہ اگلے ماہ پارلیمانی انتخابات میں جعل سازی کی جائے تاکہ اُن کی اپنی پارٹی، جوبے انتہا غیرمقبول ہوچکی ہے، برسرِاقتدار رہے۔
حقیقت میں اُن کی واحد کامیابی یہ ہے کہ اُنھوں نے سپریم کورٹ کے ہاتھوں اپنی برخاستگی سے اپنے آپ کو بچایا ہے۔ اس کی قیمت یہ ادا کی گئی ہے کہ ملک کو مزید غیرمستحکم کردیا گیا ہے‘‘۔
کلدیپ نیر، مشرف صاحب کے مداح رہے ہیں، وہ اپنے مضمون میں واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے انٹرویو کی روشنی میں موصوف کی خودپسندی اور خودآرائی پر یوں اظہار کرتے ہیں:
بدقسمتی سے مارشل لا انتظامیہ کی طرف سے دستور میں بار بار ترامیم کی گئی ہیں، لیکن جس انداز سے مشرف نے اِسے مسخکیا ہے وہ سب پر بازی لے گئے ہیں۔ اُنھوں نے ایسے وقت میں عدلیہ کو برباد کردیا کہ جب اس کی آزادی کی طرف جمہوری ممالک بشمول بھارت میں رشک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا تھا۔ عدلیہ کے علاوہ مشرف نے میڈیا کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے باوجود بھی مشرف نڈر بنے ہوئے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو سے اُن کے مستقبل کے عزائم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جب اُن سے سوال کیا گیا کہ وہ وردی اُتار دینے کے بعد فرق محسوس کریں گے تو مشرف نے جواب دیا: ’’فوج کا انتظام چیف آف اسٹاف کے حوالے ہے جو اپنے کام سے انہماک رکھتا ہے اور میں پاکستان کا صدر بن جائوں گا۔ اگر دونوں ہم آہنگ رہیں تو صورت حال بہتر رہے گی‘‘۔ پھر ایک اور سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہا کہ ’’میں چیف آف اسٹاف کو مقرر کروں گا‘‘۔ اس میں وزیراعظم کا کوئی ذکر نہیں جو عوام کا منتخب نمایندہ ہے۔ ایمرجنسی کا نفاذ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ سپریم کورٹ سے اپنے آپ کو بچایا جاسکے۔ (ہندستان ایکسپریس، ۱۳ نومبر ۲۰۰۷ئ)
پاکستان میں نہ جمہوریت ہے اور نہ استحکام۔ جنرل پرویز مشرف کی یہ اُلٹی منطق ہے کہ: آرمی ڈکٹیٹر نے پاکستان کو جمہوریت عطا کی ہے اور مارشل لا کا سایہ بھی موجود ہے تاکہ دستور کی حفاظت کی جائے۔ عدلیہ پر اُنھوں نے جو تازہ ترین حملہ کیا ہے، وہ اُن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سپریم کورٹ کے انتہائی مؤثر ۱۷ میں سے ۱۲ ججوں کو یک قلم برخاست کرنا ہے۔ ان میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری گرفتار ہیں۔ ان کی جگہ فوج کے منتخب کردہ خوشامدی لگا دیے گئے ہیں۔ اسی وجہ سے جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ جمایا۔
یہ ہے شخصی حکمرانی کا وہ آہنگ، جو پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دورِ حکومت کا حاصل ہے۔ دستور مملکت جس کی پابندی کا حلف اس نے اٹھایا ہے، اس کوبار بار تارتار کرنے کا یہ انداز! مشرف صاحب جب چاہیں تلوار کی نوک سے دستور کے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالیں۔جس ادارے کو چاہیں تباہ و برباد کرڈالیں، جس کی آزادی چاہیں سلب کرلیں، بیرونی حکومتوں سے جو چاہیں عہدوپیماں کرلیں، اپنی ملازمت میں جب چاہیں اور جن مراعات کے ساتھ چاہیں توسیع کرلیں، عدالتِ عالیہ کے جس جج کو چاہیں گردن دبوچ کر باہر نکال دیں، میڈیا پر جب چاہیں من پسند قدغنیں عائد کردیں اور دستور کا حلیہ بگاڑ کر اپنے اقدامات کو خود ہی تحفظ بھی دے ڈالیں___ یہ ہے اس شخص کا طرزِ حکمرانی۔ کیا اس طرزِ حکمرانی میں جمہوریت، قانون کی بالادستی اور اداروں کے استحکام اور انتخابات کے ذریعے سیاسی قیادت کی تبدیلی کا کوئی تصور کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بالغ نظر سیاسی رہنما ہوں یا بار اور بنچ (Bar & Bench)کے سوچنے سمجھنے والے عناصر___ سب یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ پرویزمشرف کسی بھی صورت میں منظور نہیں، خواہ وردی میں ہو یا وردی کے بغیر۔ اور عدالتِ عالیہ کو اسی فیصلہ سے روکنے اور اپنی ذات کو ملک پر مسلط کرنے کے لیے ایمرجنسی اور عبوری دستور جو دراصل پرویزی دستور ی آرڈر (PCO) تھا، اس کا راستہ اختیار کیا گیا۔ اسی پی سی او کو اب پوری عیاری سے دستور کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور انتخابات کا ڈراما اسی کے تحت اسٹیج کیا جارہا ہے۔
۲- ملکی آزادی اور خودمختاری پر زد: پرویزی تلوار کی دوسری زد ملک کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری پر پڑی ہے۔ دوسرے ممالک، خصوصیت سے امریکا اور اس کے زیراثر ممالک، جس درجے میں اور جس نوعیت کی مداخلت کا نشانہ آج پاکستان کو بنا رہے ہیں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ قائداعظم نے تو لارڈ مائونٹ بیٹن تک کو عارضی طور پر گورنر جنرل ماننے سے انکار کردیا تھا۔ جب اس وقت کی پاکستانی فوج کے برطانوی کمانڈر نے سربراہ ِ مملکت کے احکام ماننے میں تردّد کا راستہ اختیار کیا تو ان سے بھی خلاصی حاصل کرلی گئی، لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ امریکا کے سفارت کار وائسراے کا سا مقام حاصل کرچکے ہیں۔ ان کے تیسرے درجے کا افسر بھی صدرِ مملکت، فوج کے سربراہ، آئی ایس آئی کے چیف اور جس سطح کے حکام سے چاہیں ملاقات کرتے ہیں اور احکام جاری کرتے ہیں۔ صدر بش سے لے جارج گیٹس تک کھلے الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ: ہم جب ضرورت سمجھیں گے پاکستان کی سرزمین پر اپنے اہداف کے حصول کے لیے بلاواسطہ فوجی کارروائی کریں گے___ اور وہ صرف یہ دعویٰ ہی نہیں کر رہے، بلکہ عملاً متعدد بار افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج پاکستان کی حدود میں کارروائیاں کرچکی ہیں اور پرویزمشرف کی حکومت کو احتجاج کی توفیق بھی نہیں ہوئی بلکہ چند مواقع پر تو غیرت و حمیت کو دفن کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا گیا:’’ وہ کارروائی امریکا نے نہیں خود ہم نے کی تھی‘‘۔
بات صرف دہشت گردی کے خلاف امریکا کی نام نہاد جنگ اور اس میں پاکستان کے کردار تک محدود نہیں، معاشی پالیسیوں سے لے کر تعلیمی پالیسی تک اور اس سے بھی بڑھ کر اب پاکستان کے لیے مستقبل کی قیادت کا اصل انتخاب اور ان کی ’رسم تاج پوشی‘ تک واشنگٹن کے دستِ شفقت کے ذریعہ ہو رہی ہے۔ پرویز مشرف کو کن کن کے ساتھ اشتراکِ اقتدار کرنا چاہیے اور امریکا کے چہیتوں کو ملک میں لانے اور اقتدار کے منصب تک پہنچانے کے لیے ان کے کن کن جرائم کو معاف کرنا اور قومی مصالحت کے نام پر کرپشن کے کن کن داغوں کو دھونے اور ملک اور ملک سے باہر مقدمات کو واپس لینا ہے؟ یہ بھی امریکا اور اس کے گماشتوں کے اشاروں پر طے ہو رہا ہے۔ امریکا ہی نہیں اب تو یورپ اور شرق اوسط کے سفرا بھی ملکی سیاست کے دروبست کو اپنے ڈھب میں ڈھالنے میں مصروف ہیں۔ امریکا نے ۲۰۰۷ء میں ایک نہیں بلکہ دو ایسے قوانین دونوں ایوانوں سے پاس کرالیے ہیں، جن کے تحت پاکستان کو دی جانے والی امداد کو صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ ہی نہیں، بلکہ ملک کی اندرونی سیاست، تعلیم اور سب سے بڑھ کر ملک میں سیکولرزم اور امریکا کی دل پسند ’روشن خیالی‘ کے فروغ سے مشروط کردیا گیا ہے۔ پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کی غیرت نے اس ظلم یا بہ الفاظ صحیح تر غلامی کو بھی گوارا کرلیا ہے اور اس لیے کرلیا ہے کہ تاکہ ہرسال چند سوملین ڈالر حاصل ہوتے رہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ بڑے ہی اہم امور پر اب ہماری خارجہ سیاست کی صورت گری امریکا اور بیرونی قرضے اور امداد دینے والے ادارے کر رہے ہیں۔ بھارت سے دوستی، کشمیر کے مسئلے پر یو ٹرن اور کشمیر کی تحریک مزاحمت سے بے وفائی، اسرائیل سے پینگیں بڑھانے کا خطرناک اور شرمناک کھیل بھی اسی قوم فروشی کے مظاہر اوراس میں پرویز مشرف اور خورشید محمود قصوری کے ساتھ بے نظیر بھٹو بھی اپنے اپنے انداز میں اور ’حسب توفیق‘ امریکا اور اسرائیل کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے شریک ہیں۔
یہ صرف پرویز مشرف کے دور میں ہوا ہے کہ پاکستان کے وزیرخارجہ نے اسرائیل کے وزیرخارجہ سے ملاقات کی ہے۔ پرویز مشرف نے امریکن جیوش کانگرس سے نہ صرف خطاب کیا ہے، بلکہ اسرائیل سے سلسلۂ کلام شروع کرنے اور اسرائیل اور فلسطینی قیادت کے درمیان کردار اداکرنے کی باتیں کی ہیں۔ پاکستان نے ۶۰سال میں پہلی بار اقوام متحدہ میں اسرائیل کے پیش کردہ ریزولیوشن کے حق میں ووٹ دیا ہے، جب کہ ان عرب ممالک نے بھی، جو ضمیر کا سودا کرکے اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں، اس راے شماری کے دوران غیرحاضر رہنے کو ترجیح دی ہے۔ پاکستانی اخبارات میں یہ خبر شائع ہونے نہیں دی گئی کہ نومبر ۲۰۰۷ء میں جان نیگروپونٹے کے دورۂ پاکستان اور پرویز مشرف سے ملاقات سے چند دن پہلے امریکی جیوش کانگرس کی ورلڈ جیوری کے چیئرمین جیک روزن نے خاموشی اور رازداری سے پاکستان کا سفر کیا اور وہ پرویز مشرف صاحب کے علاوہ اس وقت کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف جنرل کیانی اور کئی مرکزی وزرا اور اعلیٰ سرکاری حکام سے ملا۔ اس نے امریکا جاکر امریکی لابی کو پرویز مشرف کے حق میں متحرک کرنے کی کوشش کی۔ اس کی تفصیلی رپورٹ یہودی روزنامے Foreward میں شائع ہوئی ہے، جو ۲۱ نومبر ۲۰۰۷ء کے شمارے میں دیکھی جاسکتی ہے۔ (www.foreward.com/articles/12080)
بے نظیر صاحبہ بھی اسرائیلی صدر شیمون پیریس سے اور اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر سے بنفس نفیس ملی ہیں اور اقتدار میں آکر اسرائیل کوتسلیم کرنے کے اشارے بھی دے رہی ہے اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو ’ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی‘ (IAEA) کے حوالے کرنے کے عزائم کا بھی اظہار کر رہی ہیں۔
پرویز مشرف اور ان کے حالیہ اور مستقبل کے شریک اقتدار کس کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں اور امریکا کی خوش نودی کے لیے ملک کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری پرسمجھوتوں کو کہاں تک لے گئے ہیں، اس کا پورا اندازہ شاید ان کے اقتدار سے رخصت ہوجانے کے بعد ہی ہوسکے!
۳- نظریاتی اور دینی تشخص کا مجروح ھونا: پرویزی دور کا تیسرا تحفہ ملک کے نظریاتی، دینی اور اخلاقی تشخص کا بری طرح مجروح ہونا ہے۔ مغربی تہذیب و تمدن سے شیفتگی، تعلیم میں سیکولر ازم کا فروغ اور پوری اجتماعی زندگی میں عریانی اور فحاشی کی کھلی چھوٹ کی جو کیفیت آج ہے،پہلے کبھی نہ تھی۔ زندگی کے ہرشعبے کی سیکولر بنیادوں پر تشکیل کی جارہی ہے۔ رواداری اور معروضیت کے نام پر دینی تعلیمات، تہذیبی اقدار، اُمت کے جداگانہ تشخص، اپنے اخلاقی نظام اور رسم و رواج سب کو پامال کیا جا رہا ہے۔ جس قوم کی نئی نسلیں اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ سے واقف نہیں ہوںگی اور ان پر فخر نہیں کریں گی، وہ اپنی آزادی کو کیسے برقرار رکھ سکیں گی اور دنیا پر اپنا نقش کیسے قائم کرسکیں گی۔
بات صرف اس تہذیبی انتشار تک محدود نہیں۔ قوم جو پہلے ہی فرقوں میں بٹی ہوئی تھی، اس میں فرقہ واریت بلکہ فرقہ وارانہ تصادم کو فروغ دینے کا کھیل بھی کھیلا جا رہا ہے۔ اس میں بیرونی ممالک اور ان کے گماشتے (افراد اور این جی اوز) اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ تو قوم کی دینی بصیرت اور دینی جماعتوں اور خصوصیت سے متحدہ مجلس عمل کا کارنامہ ہے کہ فرقہ واریت کی آگ نہ پھیل سکی، ورنہ امریکی پالیسی سازوں اور ملکی ایجنسیوں نے اس آگ کو بھڑکانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی تھی۔
پرویز مشرف نے قوم کو انتہا پسندوں اور روشن خیالوں میں تقسیم کرکے اور ان کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے کی بھی بہت کوشش کی ہے، اور اس طرح ملک میں نظریاتی کش مکش کو فروغ دینے کی امریکی حکمت عملی کو آگے بڑھانے میں بڑا خطرناک کردار اداکیا ہے۔ اختلاف راے خواہ سیاسی ہو یا مذہبی اور نظریاتی، ہر معاشرے کا حصہ ہے اور افہام و تفہیم اور بحث و مذاکرے کے ذریعے ہی فکرانسانی کی ترویج ہوتی ہے۔ مہذب معاشرے کی بنیاد فکرونظر کے تنوع پر ہے اور اسی سے زندگی میں حُسن اور ترقی کے راستے پھوٹتے ہیں ؎
گل ہاے رنگ رنگ سے ہے زینتِ چمن
اے ذوق، اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
ہاں یہ ضروری ہے کہ اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش نہ ہو، تشدد اور قوت کا استعمال نہ کیا جائے ( لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن)۔ لیکن حدود کے اندر اختلاف اور تنوع کو انتہاپسندی اور روشن خیالی کانام دے کر، لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنا تباہی کا راستہ ہے۔ کسی کی نگاہ میں کیا انتہاپسندی ہے اور کیا روشن خیالی___ یہ حکمران طے نہیں کریںگے، قوم کا ضمیر ہی اس کا فیصلہ کرے گا۔ رواداری ضروری ہے مگر امریکا کے ایجنڈے کے مطابق مسلمان معاشرے اور قوم کو انتہاپسندی اور روشن خیالی کے نام پر تقسیم کرنا اور تصادم کی فضا بنانا، اپنی قوم کے ساتھ ظلم ہے اور یہ بھی پرویزی دور کا ایک تباہ کن تحفہ ہے اور خود انتہاپسندی اور جبر کی قوت سے اپنی بات دوسروں پر مسلط کرنے کی بدترین مثال ہے۔
۴- اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش: چوتھا کارنامہ اس دور کا یہ ہے کہ ایک ایک کر کے ملک کے تمام اداروں کو کمزور، مضمحل بلکہ تباہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اور صرف اپنی ذات کو استحکام کا ذریعہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا نشانہ دستور بنا، پھر سیاسی جماعتوں کی باری آئی۔ الیکشن کے نظام کو صدارتی ریفرنڈم اور پھر ۲۰۰۲ء کے قومی اور صوبائی انتخابات کے موقع پر من مانی اور ایجنسیوں کی دراندازی کی آماج گاہ بنا دیا گیا۔
ہم نے دل کڑا کر کے یہ صورت حال بیان کی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پرویزی دور میں ریاست کے تمام ہی ادارے مجروح اور متزلزل ہوچکے ہیں گویا ؎
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
۵- وفاق کا کمزور ھونا: اس دور کا پانچواں تحفہ فیڈریشن کی کمزوری ہے۔ اولین دومارشل لا، وہ تاریک ادوار ہیں، جب مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں بے اعتمادی اور مغائرت واقع ہوئی اور بالآخر بھارت نے اپنی پاکستان دشمنی میں اس کا فائدہ اٹھایا اور قائداعظم کا پاکستان دولخت ہوگیا۔ مشرف کے مارشل لا میں مرکز اور صوبوں کے درمیان بے اعتمادی اور دُوری کی نئی لہر اُبھری ہے اور خصوصیت سے بلوچستان اور سرحد کے صوبوں میں مرکز گریز رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ اکبربگٹی جو اپنی قوم کا سردار ہی نہیں تھا بلکہ بلوچستان میں فیڈریشن کا نمایندہ بھی تھا، فوج کے ہاتھوں قتل ہوکر مرکز کے خلاف نفرت کا عنوان بن گیا ہے۔ اصلاحِ احوال کی ہرکوشش کو حکمران ٹولے نے سبوتاژ کیا اور بلوچستان اور صوبائی مفاہمت کے لیے پارلیمانی کمیٹی نے جو محنت کی، وہ سب رائیگاں گئی۔ صوبوں کو ان کے وسائل پر اختیار حاصل نہیں ہے اور دستور کے مطابق جو رائلٹی اور ملازمتوں میں حصہ انہیں ملنا چاہیے، وہ نہیں مل رہا، اور سارے دعووں کے باوجود حالات میں سرِمو فرق واقع نہیں ہو رہا۔ مرکز کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ وزیراعظم اور صوبائی حکومت کے باہم اتفاق راے سے بجلی کے نفع میں صوبہ سرحد کے حق کے تعین کے لیے جو ثالثی ٹربیونل بنا تھا اور جس کا متفقہ اوارڈ آیا، اس تک پر عمل نہیں کیا گیا۔
۶- حقیقی معاشی ترقی سے محرومی: اس دور کا چھٹا تحفہ یہ ہے کہ معاشی اور مالیاتی وسائل کا جو سیلاب آیا اور کسی محنت اور پالیسی کے نتیجے کے بغیر ۶۵ ارب ڈالر کی جو مالی کشادگی حاصل ہوئی، اسے حقیقی معاشی ترقی اور عوام کی خوش حالی کے حصول کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔ معاشی ترقی کا سارا رخ آبادی کے ۱۰سے ۱۲فی صدطبقات کے لیے مخصوص کردیا گیا۔ باقی ملک کی عظیم اکثریت کے حصہ میں جو کچھ آیا ہے وہ بے روزگاری، افراطِ زر، اشیاے ضرورت کی کمیابی، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کا فقدان، زراعت کی ضرورتوں سے اغماض، تجارتی اور ادایگیوں کے عدم توازن میں ناقابلِ برداشت اضافہ، بیرونی دنیا پر انحصار کی محتاجی، ملکی اور بیرونی قرضوں میں بڑھوتری اور معیشت اور زندگی کی ہر سطح پر کرپشن میں محیرالعقول اضافہ___ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے اور ۸۰فی صد آبادی کے لیے حالات میں کوئی تغیر نہیں ہوا یا مزید خراب ہوگئے۔
پلاننگ کمیشن کا وہ سروے جس کی بنیاد پر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ غربت میں کمی ہوئی ہے اس میں یہ صورت حال سامنے آئی ہے کہ آبادی کے ۵۰ فی صد کا دعویٰ ہے کہ اس کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ ۲۸ فی صد آبادی کہتی ہے کہ ہمارے حالات بدتر ہوگئے ہیں اور جن کی حالت کسی درجے میں بہتر ہوئی ہے، وہ بمشکل ۲۰ سے ۲۳ فی صد ہے۔اس میں بھی اوپرکے ۱۰ فی صد ہی اصل فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ یہی بات عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کے سروے سے معلوم ہوتی ہے۔گویا معاشی ترقی کے سارے دعووں کے باوجود اس دور کا اصل تحفہ غریبوں کا غریب تر ہونا اور امیروں کا امیر تر بن جانا ہے۔
۷- فوجی مداخلت کا دائرہ اثر بڑہانا: پرویزی دور کا ساتواں تحفہ سیاست میں فوج کی مداخلت اور فوج کو سیاست، معیشت، انتظامیہ غرض ہر اہم شعبے میں ایک باقاعدہ رول اداکرنے کی کوشش ہے، جس نے دستور میں طے کردہ نظامِ کار کو درہم برہم کردیا ہے، اور فوج کے بارے میں جو تاثر عام ہے وہ سابق خارجہ سیکرٹری ڈاکٹر تنویراحمد خان کے ایک حالیہ مضمون میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:
مسلح افواج پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ۲۰ ارب ڈالر کے برابر اثاثوں اور ایک کروڑ ۲۰لاکھ ایکڑ اراضی کی مالک بن چکی ہے۔ چنانچہ وہ بدعنوانی کے معاملات میں سب سے زیادہ نمایاں ہوچکی ہے۔
اس جلتی پر تیل کا کام پرویزمشرف کے اس فلسفے نے کیا ہے کہ ملک میں اقتدار کے تین سرچشمے ہیں: صدارت، فوج کا سربراہ اور وزیراعظم جسے وہ Troika (تکونی حکمرانی) کہتے ہیں۔ وہ ان کے درمیان یک رنگی کو استحکام کی شرط قرار دیتے ہیں۔ اپنے اس فلسفے کا اظہار وہ بار بار کرتے رہے ہیں، لیکن اس کا تازہ ترین اعلان واشنگٹن پوسٹ اور بی بی سی کو انٹرویو میں کیا ہے۔ حالانکہ پارلیمانی جمہوریت میں اقتدار کا مرکز اور محور پارلیمنٹ اور ان کا منتخب کردہ وزیراعظم ہوتا ہے۔ دستور کے تحت صدر کو غیرمتنازع شخصیت کا حامل ہونا چاہیے اور وہ فیڈریشن کی علامت ہے کسی حکمرانی کی تکون کا حصہ نہیں۔
رہی فوج تو دستور کے تحت وہ سول حکومت کے ماتحت ہے، خود مرکز اقتدار نہیں۔ بلاشبہہ ’نگرانی اور توازن‘ (checks and balances )کا نظام دستوری حکومت کا خاصہ ہے، لیکن ’نگرانی اور توازن‘ کا یہ نظام مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات کے ذریعے کارفرما ہوتا ہے۔ اس میں صدر اور فوج کا کوئی آزادکردار نہیں۔ پرویز مشرف کے ’تکونی حکمرانی‘ کے تصور نے دستور کے طے کردہ نظام کو جس پر قوم کا اتفاق راے ہے اور جو ایک معاہدۂ عمرانی کی حیثیت رکھتا ہے، درہم برہم کردیا ہے اور دراصل انتشار کی یہی اصل وجہ ہے۔ پرویز مشرف کی موجودگی میں دستور اپنی اصل شان میں کارفرما ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لیے اصل مسئلہ دستور کی بحالی، عدلیہ کی ۲نومبر ۲۰۰۷ء کی حیثیت میں بحالی اور فوج کو دفاع تک محدود کرنا ہے جس کے لیے پرویز مشرف کے تصور حکمرانی کو مکمل طور پر رد کرنا اور جو بھی اس کا داعی ہو اس کو اقتدار سے فارغ کرنا ضروری ہے۔
ا- دستور میں ایسی تبدیلیاں، جن کے نتیجے میں یہ دستور پارلیمانی جمہوریت کے بجاے صدارتی اور شخصی حکمرانی کی راہ ہموار کرسکے اور کوئی ان پر گرفت کرنے والا نہ ہو۔ خصوصیت سے آزاد عدلیہ کو تباہ کرکے اپنے نامزد ججوں پر مشتمل ایسی عدلیہ کو وجود میں لانا، جو موم کی ناک ہو اور ان کے ہراقدام پر مہرتصدیق ثبت کرنے والی ہو۔
ب- عبوری حکومت اور تابع فرمان الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کے ذریعے ایسی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب جو ان کے احکام کے مطابق خدمت انجام دے سکیں۔آج خود پرویز مشرف کے اپنے سیاسی وجود کا انحصار ان کی مفید مطلب پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے وجود میں آنے پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گئی ہے۔
ج- امریکا اور مغربی اقوام سے اپنے لیے ’نئی زندگی اور ہنگامی غذا‘ کا حصول۔ اس سلسلے میں صدربش اور کونڈولیزارائس نے بالکل کھل کر تائید کردی ہے۔ بش نے ایک بار پھر پرویز مشرف کو جمہوریت پسندی کا سرٹیفیکیٹ جاری کیا ہے۔ امریکی نائب وزیرخارجہ بائوچر نے صاف کہا کہ انتخابات بے عیب نہیں ہوں گے، لیکن اس کے باوجود امریکا کے لیے قابلِ قبول ہوں گے (flawed but acceptable)۔ برطانوی ہائی کمشنر نے صراحت سے کہہ دیا ہے کہ عدلیہ کا مسئلہ پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے اور گویا عدلیہ کی آزادی اور عدلیہ کی ۲نومبر کی پوزیشن میں بحالی دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ دراصل مشرف صاحب کی شخصی آمریت کے جاری رہنے کی راہ میں سب سے بڑا خطرہ ایک تو عوامی غیظ و غضب ہے اور اس کے بعد عدلیہ کی اس شکل میں بحالی ہے جو ۲نومبر ۲۰۰۷ء کو وجود تھی اور جس عدلیہ نے دستور سے ماورا اقدامات پر احتساب کا عمل شروع کردیا تھا۔ نیز انتخابات میں دھاندلی (رگنگ) کے ذریعے من پسند (انجینیرڈ) نتائج حاصل کرنے کی راہ میں بھی سب سے بڑا خطرہ وہی عدلیہ تھی، جس نے اپنی آزادی کے مقام کو پہچان لیا تھا۔شخصی حاکمیت کے لیے دستور کی ایک محافظ عدلیہ ناقابلِ برداشت تھی، اور ہے۔ اس کا بڑا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے امریکا اور مغرب کے حکمران محض اپنے اپنے مفادات کے کھیل میں عدلیہ کی بحالی کے باب میں خاموش ہیں، اور ملک کی وہ تمام سیاسی قوتیں جو یا پرویز مشرف کے ساتھ شریکِ اقتدار رہی ہیں یا شرکت کی توقع رکھتی ہیں وہ بھی خاموش ہیں، یا کہہ مکرنیوں سے کام لے رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کا معاملہ اس سلسلے میں سب سے زیادہ مخدوش ہے ۔ ایک طرف بے نظیرصاحبہ سے ۷نومبر کو جب مشرف کی اہلیت اور نئے آرڈی ننس جیسے اہم مسائل کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’’میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ گرفتار شدہ عدلیہ اس مسئلے کا فیصلہ کرے اورجو فیصلہ بھی وہ کرے وہ اسے قبول کرلیں گی‘‘۔
پھر ۱۱نومبر کو بے نظیر صاحبہ ، سپریم کورٹ کے ججوں کے رہایشی علاقے میں گئیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے نہ مل سکیں، مگر برملا کہا:
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور وہ تمام جج حضرات جنھوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا ہے، ان کو بحال کردیا جائے اور اُن کی نظربندی کے احکامات واپس لیے جائیں۔
مگر پانچ چھے روز بعد ۱۶ نومبر ۲۰۰۷ء کو ایک سیاسی زلزلہ آیا۔ جان نیگرو پونٹے پاکستان پر نازل ہوئے۔ ۱۷ نومبر کو انھوں نے بے نظیر صاحبہ سے ٹیلی فون پر بات کی اور پھر عدلیہ کی بحالی پر ان کا موقف تبدیل ہوگیا، بلکہ چارٹر آف ڈیمانڈ کے لیے بھی سب سے اہم اختلافی نکتہ یہی بن گیا کہ پیپلزپارٹی عدلیہ کی آزادی کی بات تو کرتی ہے مگر بحالی کو قبول نہیں کرسکتی اور بالآخر ۱۳ دسمبر کو انھوں نے کراچی میں برملا کہہ دیا:
جج حضرات آتے جاتے رہتے ہیں___جسٹس سلیم الزمان صدیقی اور ناصراسلم زاہد کی طرح جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا۔ اگر کوئی جج سیاست کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی سیاسی جماعت بنا لے۔
یہ ہے وہ دل خراش داستان، جسے سمجھے بغیر انتخابات میں شرکت اور بائیکاٹ کے درمیان انتخاب کے فیصلہ کن رویہ کے بہت سے پہلو واضح نہیں ہوتے۔ پرویز مشرف کا ایجنڈا اور سیاسی جماعتوں میں سے کچھ کے بدلتے ہوئے موقف، اپنے اندر غوروفکر کے بہت سے گوشے رکھتے ہیں۔
پرویز مشرف کے اقتدار کے بچائو اور تسلسل کے عزائم کی تکمیل کا انحصار صرف ان تین چیزوں پر ہے، جس کا ہم بار بار ذکر کر رہے ہیں:
۱- عدلیہ ان کی تابع مہمل رہے، جو اسی وقت ممکن ہے جب ۲ نومبر کی عدلیہ بحال نہ ہو اور پرویز مشرف کے بنائے ہوئے دستوری عفریت (constitional monstocity)کو تحفظ حاصل رہے۔
۲- انتخابات کی منصوبہ بند دھاندلی (انجینیرڈ رگنگ) کے ذریعے ان کے مفیدمطلب پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں وجود میں آجائیں۔
۳- امریکا اور مغربی اقدام کی تائید انھیں حاصل رہے۔
اس تجزیے کا ناقابلِ انکار منطقی تقاضا یہ ہے کہ ایسے انتخابات کے جال میں نہ پھنسا جائے، جو اس ایجنڈے کی تکمیل میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اور ساری توجہ اس پر مرکوز کی جائے کہ:
۸ جنوری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے بارے میں ملک کی ہر جماعت ماسواے مشرف حکومت کے سابقہ شرکا برملا اظہار کر رہی ہے کہ انتخابات کے آزاد اور منصفانہ ہونے کا کوئی امکان دُور دُور تک نہیں۔ حد یہ ہے کہ پرویزی جماعتوں میں سے بھی کچھ چیخ اُٹھی ہیں، جیساکہ مسلم لیگ فنکشنل پنجاب کے صوبائی صدر احمدمحمود کا بیان ہے جس میں انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی اس وقت بھی عملاً وزیراعلیٰ کے طور پر کام کر رہے ہیں اور پوری انتظامی مشینری ان کے زیرتصرف ہے۔ اس پر دی نیشن نے اپنے ادارتی کالم میں یوں اظہار کیا ہے:’’احمد محمود کے بیان کا خصوصی وزن ہے کیونکہ اُن کی پارٹی صدر مشرف کی حمایت کر رہی ہے‘‘۔
تقریباً تمام عوامی سروے یہی صورت حال پیش کرتے ہیں، انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہوسکتے، اور بائیکاٹ ہی وہ راستہ ہے جس سے بالآخر انتخابات کو آزاد اور شفاف بنانے کا کوئی امکان ہوسکتا ہے۔
آئی آر آئی کے سروے کے مطابق ۶۶ فی صد عوام کی راے میں ایمرجنسی کے نظام تلے انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہوسکتے۔ گیلپ پول کے مطابق ۵۶ فی صد لوگ ۸ جنوری کے انتخابات کے بائیکاٹ کے حق میں ہیں، جب کہ ۴۱ فی صد کا خیال ہے کہ الیکشن میں حصہ لینا چاہیے۔ آئی آر آئی کے سروے کے مطابق ۶۲ فی صد افراد نے بائیکاٹ کے حق میں راے دی جب کہ ۳۷ فی صد نے اس کے خلاف راے دی۔ لطف کی بات ہے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ ن دونوں کے حامیوں میں بائیکاٹ کے حق میں راے دینے والوں کی تعداد ۷۴ فی صد تھی۔ آئی آر آئی کے سروے میں ۷۲ فی صد نے پرویز مشرف کے خلاف ووٹ دینے کا عندیہ ظاہر کیا ہے کہ ان میں سے بھی ۶۱ فی صد بہت سختی سے پرویز مشرف کے دوبارہ منتخب ہونے کی مخالف ہیں جبکہ ۶۷فی صد کی خواہش ہے کہ مشرف فوری طور پر مستعفی ہوجائیں۔ عوام پرویز مشرف اور بے نظیر صاحبہ کے اشتراک اقتدار کے بھی خلاف ہیں اور اس سروے میں۶۰ فی صد نے مشرف اور بے نظیر کی مفاہمت کی مخالفت کی ہے۔
جوں جوں ۸جنوری قریب آرہی ہے دھاندلی کے الزامات میں قوت آتی جارہی ہے۔ بدھ کے روز نیویارک میں قائم حقوق گروپ نے کہا کہ آزاد اور شفاف انتخابات ممکن نہیںہوں گے، کیونکہ حکومت نے ججوں اور وکیلوں پر کریک ڈائون کیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ایمرجنسی کے اُٹھا لیے جانے کے بعد کئی جج اور وکیل ابھی تک گرفتار ہیں۔ یہ تو ایک غیرملکی گروپ کے خیالات ہیں لیکن سیاسی جماعتیں بھی ہر روز اس خوف کا اظہار کر رہی ہیں کہ ۸جنوری کے انتخابات میں دھاندلی ہوگی۔(روزنامہ ڈان، ایڈیٹوریل ۲۱ دسمبر ۲۰۰۷ئ)
سیاسیات کے پروفیسر محمد وسیم نے لکھا: ’’اس پر کم و بیش اتفاق راے پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں ۸ جنوری ۲۰۰۸ء کو ہونے والے انتخابات اپنی نوعیت کے لحاظ سے ’مذاق‘ ہوں گے‘‘۔(روزنامہ ڈان، ۱۲ دسمبر ۲۰۰۷ئ)
واشنگٹن پوسٹ ۱۲ دسمبر ۲۰۰۷ء میں گریفے ود ھ(Griffe Withe) نے لکھا ہے کہ: ’’آزاد ماہرین کا خیال ہے کہ اس کے بہت کم امکانات ہیں کہ انتخابات آزادانہ یا منصفانہ ہوں، نیز یہ کہ انتخابی نتائج کو تبدیل بھی کیا جاسکے گا اور ان کو عدالتوں میں چیلنج بھی نہ کیا جاسکے گا‘‘۔
تمام اہم اخبارات و رسائل بشمول وال اسٹریٹ جرنل، دی گارڈین، بوسٹن گلوب، دی اکانومسٹ، فارن پالیسی بیک زبان انتخابات کے دھاندلی زدہ اور ناقابلِ اعتماد ہونے کی بات کر رہے ہیں اور یہی بات بے نظیر بھٹوصاحبہ اور نواز شریف صاحب بھی کہہ رہے ہیں۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی واضح بات کے باوجود انھوں نے اپنی ہی قائم کردہ کمیٹی کے مرتب کردہ چارٹر آف ڈیمانڈ کو کیوں نظرانداز کردیا جو انتخابات کو منصفانہ اور شفاف بنانے کے لیے تقریباً متفقہ طورپر تیار کیا گیاتھا ، اور آنکھیں بند کرکے انتخابات میں کود پڑے، اور اس تاریخی موقع کو ضائع کردیا جو بائیکاٹ کی شکل میں پرویز مشرف کے پورے کھیل کا پردہ چاک کرنے کا ان کو حاصل تھا۔
ہماری بحث کا حاصل یہ ہے کہ غلط نظام کے تحت دھاندلی زدہ انتخابات میں شرکت سے یا اس کے بعد بننے والی اسمبلی کے ذریعہ نظامِ کار کی درستی کا کوئی امکان نہیں، انتخابات کے بعد تبدیلی کا خیال محض ایک واہمہ ہے، کہ بار بار کے تجربوں کے بعد بھی ہماری سیاسی جماعتوں کی آنکھیں ابھی تک نہیں کھلیں، اور ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جانے کے لیے وہ بے چین ہیں۔ معیاری صورت صرف بائیکاٹ کی ہے، لیکن اس زریں موقع کو بیش تر سیاسی جماعتوں نے اقتدار میں شرکت کے خواب، یا اپنے جوشیلے کارکنوں کے دبائو میں ضائع کردیا۔ حالانکہ اے پی ڈی ایم،ججوں کی بڑی تعداد، پوری لیگل کمیونٹی اور سول سوسائٹی کے ذمہ داروں کے علاوہ آزاد سیاسی تجزیہ نگاروں نے بھی بروقت متنبہ کردیا تھا کہ یہ الیکشن دھوکہ ہوں گے اورصرف تماشے (fair) کے معنی میں فیئر ہوسکتے ہیں! اس لیے کہ اب آزاد عدلیہ کے بغیر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے منعقد ہونے یا انتخابی بے ضابطگیوں اور غلط کاریوں کے سدباب کی کوئی سبیل نہیں ہوسکتی۔
ہمیں اعتراف ہے کہ یہ بڑا نازک اور مشکل مرحلہ تھا اور بلاشبہہ دونوں طرف کچھ نہ کچھ دلائل اور سیاسی مصالح موجود ہیں۔ لیکن اس تاریخی لمحہ میں اصل انتخاب تو اصول اور مصلحت کے درمیان ہے۔ قوم کے سامنے مسئلہ ان دونوں میں سے کسی ایک راستے کو منتخب کرنے کا ہے۔، ہمیں خوشی ہے کہ اے پی ڈی ایم کی بیش تر جماعتوں نے اصول کی سیاست کو، مفاد کی سیاست پر ترجیح دے کر قوم کے سامنے ایک ایسی متبادل سیاست کی راہ کو روشن کردیاہے، جس کی تمنا تو ۶۰سال سے کی جارہی تھی، مگر اس طرف مؤثر اور قابلِ لحاظ قوت کے ساتھ پیش قدمی نہیں ہو پارہی تھی۔ نظریۂ ضرورت کی گرفت سے نکلنا آسان نہیں تھا اور انتخابی حلقے کے دبائو (pressure) سے بالا ہوکر ملک اور قوم کی قسمت اور مستقبل کے ایک اصولی نقشے کے مطابق تعمیر کے جاں گسل راستے کی طرف پیش رفت کا فیصلہ بھی آسان نہیں تھا ___ لیکن وقت کی اصل ضرورت یہی تھی کہ وقتی فوائد کے مقابلے میں قوم کو اس کام اور جدوجہد کے لیے تیار کیا جائے جس کے بغیر اصول، انصاف اور حق پرستی پر مبنی نظامِ سیاست وجود میں نہیں آسکتا یہ فیصلہ انشاء اللہ ملکی سیاست میںایک بالکل نئے باب کے اضافے کا موجب ہوگا۔
جن جماعتوں نے بائیکاٹ کا راستہ اختیار کیا ہے، ان کے عوام میں اثرات ہیں اور انھیں علم ہے کہ ان کے لیے ایک معتدبہ تعداد میں مرکزی اور صوبائی نشستیں جیتنا ممکن تھا، لیکن ان کی نظر صرف ۸ جنوری پر نہیں، بلکہ ملک کے مستقبل کے نظام اور عوام کے حقیقی مسائل اور ان کو حل کرنے والی قیادت اور جدوجہد پر ہے، فوری اقتدار یا اقتدار میں شرکت پر نہیں۔محض اقتدار مطلوب نہیں، اقتدار وہی مطلوب ہے اور وہی ذریعہ خیر بن سکتا ہے جو ایک حقیقی اسلامی، جمہوری، وفاقی اور فلاحی معاشرے اور ریاست کے قیام کو آسان اور ممکن بنائے۔ اس کے لیے صحیح ایشوز کا تعین، صحیح موقف کا اختیار، صحیح خطوط پر عوام کی تنظیم اور ان مقاصد کے حصول کے لیے مؤثر سیاسی جدوجہد برپا کرنا ضروری ہے۔ کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ جو لوگ نظریاتی کارکن ہیں اور برسوں سے دعوتی اور سیاسی میدان میں کام کر رہے ہیں اور جو بائیکاٹ کے باوجود عوام میں ہیں اور عوام کو اپنے ساتھ لے کر چل رہے ہیں، انھیں وقتی اور ہنگامی قوتیں میدان سے باہر کرسکتی ہیں۔ ایسی قوتیں خودرو پودوں کی طرح اُبھرتی ہیں اور مرجھا جاتی ہیں، لیکن نظریاتی بنیادوں پر کام کرنے والوں کے کام کو الحمدللہ دوام حاصل ہے، اور بالآخر وہی کامیاب ہوں گے۔
دوسری قوت پی پی پی، اے این پی، جمعیت علماے اسلام (ف) وغیرہم ہیں جو اپنے نظریاتی، سیاسی اور علاقائی اختلافات کے باوجود اشتراکِ اقتدارہی کی راہ پر گامزن ہیں۔ یہ ایک طرح پرویز مشرف کے ساتھ بھی ہیں اور اس کی مخالفت کا بھی دم بھر رہے ہیں۔مشرف کے دام سیاست میں داخل بھی ہوگئے ہیں اور اس کو توڑنے کی بھڑک کا بھی سہارا لے رہے ہیں۔ نیتوں کا حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، لیکن عملی سیاست کے نقطۂ نظر سے یہ مشرف ہی کے ایجنڈے پر اپنے اپنے انداز میں کام کررہے ہیں اور اسی کے دیے ہوئے نقشے میں اپنا مقام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان میں سے کچھ وہ بھی ہیں جو اپنی قیمت بڑھا کر اقتدار میں اپنا حصہ حاصل کرنے ہی کو اپنا اصل ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ یہ سارے تضادات ان کا اوڑھنا بچھونا ہیں۔یہ بظاہر ’اینٹی مشرف‘ ہیں لیکن فی الحقیقت ’پرو مشرف‘ کردار ادا کر رہے ہیں___ کل یہ مشرف کی ٹیم کا حصہ بھی بن سکتے ہیں اور اس سے الگ بھی راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔گویا ع
جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی
تیسرا گروہ وہ ہے جس کا مرکزی کردار مسلم لیگ (ن) ہے۔ اس نے اپنا اینٹی مشرف موقف برقرار رکھا ہے اور عدلیہ کی بحالی کو بھی اپنے ایجنڈے میں سرفہرست رکھا ہے۔ لیکن نظام باطل سے مزاحمت کے بجاے اس کے اندر جاکر تبدیلی کا راستہ چنا ہے، جس نے ان کو بھی تضادات کی دلدل میں جھونک دیا ہے اور ان کے لیے امکانات کی دنیا کو بھی محدود کردیا ہے۔ ان کا یہ رویہ فکری اور عملی یکسوئی سے بھی محرومی کا باعث ہے۔ لیکن اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ۸جنوری کے بعد یا شاید اس کے بھی پہلے یہ اپنے لیے ایک دوسرے کردار کی تلاش پر مجبور ہوجائیں ۔
رہا چوتھا گروہ تو وہ پوری یکسوئی کے ساتھ مشرف کے بنائے ہوئے نظام کو چیلنج کر رہا ہے اور دستور کی بحالی، عدلیہ کی آزادی اور ۲نومبر کی حیثیت میں عدلیہ کی بحالی اور غیرجانب دار قومی حکومت کے ذریعے نئے انتخابات اور سیاسی دروبست کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ کُل جماعتی جمہوری تحریک (اے پی ڈی ایم) اس سیاسی جدوجہد کی مرکزی قوت ہے، لیکن اس تحریک کی روحِ رواں طبقۂ وکلا، جج، طلباء صحافی اور سول سوسائٹی کے وہ تمام عناصر بھی ہیں جو ۹مارچ سے سرگرم عمل ہیں اور سب مل کر دستور کی بحالی اور حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے ایک اصولی اور تاریخی جنگ لڑرہے ہیں۔ یہ سب ایک ہی کارواں کا حصہ ہیں اور مشترکہ مقاصد کے لیے انھیں پوری ہمت اور حکمت سے اس جدوجہد کو اس وقت تک جاری رکھنا ہے، جب تک یہ مقاصد حاصل نہ ہوجائیں ۔ مجھے یقین ہے کہ کامیابی ان شاء اللہ اسی گروہ کا مقدر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم میں صحیح شعور اور بیداری پیدا کی جائے اور مسلسل جدوجہد کا اہتمام کیا جائے تاکہ عوام کو وقتی سیاسی مصالح اور مفادات کے مقابلے میں ملک کے اصل ایشوز کا ادراک حاصل ہو۔
اس کام کو انجام دینے کے لیے فوری جدوجہد کے ساتھ لمبے عرصے کی منصوبہ بندی، تنظیم اور ہمہ گیر تحریک کا لائحہ عمل تیار کرنے اور اپنی صفوں کو مضبوط رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ لوگوں، جماعتوں اور گروہوں کو شریکِ جدوجہد کرنا ضروری ہے۔ پرویز مشرف نے ۹ مارچ کو اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے جو اقدام کیا تھا، اللہ تعالیٰ کی مشیت نے اسی اقدام کو اس کے تنزل اور پسپائی کا نقشِ اوّل بنا دیا۔ پھر ۳نومبر کو جو کچھ کیا گیا، اس نے عالمی سطح پر پرویزمشرف کے پائوں تلے سے زمین کھسکا دی۔ اب ۸جنوری اور اس کے بعد جاری رہنے والی تحریک، مشرف سے نجات کے ساتھ ساتھ مفاد پرست سیاست سے بھی ملک اور قوم کی نجات کا ذریعہ بنے گی اور اصول پر مبنی سیاست کے دور کا آغاز ہو گا اوریہی وہ جوہری فرق ہے جو اشتراکِ اقتدار کے لیے کام کرنے والوں اور اصول اور نظامِ حیات کی اصلاح کے لیے جدوجہد کرنے اور قربانیاں دینے والوں میں ہے۔ بائیکاٹ اس منزل کی طرف لے جانے والا پہلا قدم ہے اور ہماری دعا ہے کہ جو قدم اس حیات بخش منزل کے حصول کے لیے اُٹھ گیا ہے، اب اپنی اسی منزل کی طرف اس کی پیش قدمی پوری مستعدی کے ساتھ جاری رہنی چاہیے اس لیے کہ جدوجہد اور قربانی کے ذریعہ ہی قومیں عزت کا مقام حاصل کرتی ہیں۔ آج کا پیغام صرف ایک ہے ___ رفتار تیز کرو اور مزید تیز کرو کہ منزل دُور نہیں! ع
تیز ترک گام زن منزل ما دُور نیست
(کتابچہ دستیاب ہے۔ منشورات، منصورہ، لاہور)
جموں و کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کااہلِ پاکستان پر جو حق ہے، وہ انسانیت، اسلام، اخلاق اور سیاسی، معاشی اور تہذیبی اوامر اور تقاضوں (imperatives) ہراعتبار سے محکم ہے۔ صدافسوس! ہماری موجودہ قیادت نے اس باب میں نہ صرف مجرمانہ غفلت برتی ہے، بلکہ عملاً فرار اور بے وفائی کی راہ اختیار کرلی ہے، جسے اللہ، ملت اسلامیہ پاکستان اور تاریخ کبھی معاف نہیں کریں گے___ لیکن سوال غلط کار حکمرانوں کو معاف کرنے یا ان کے احتساب سے کہیں زیادہ کا ہے۔ جب کوئی قوم اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کے بجاے دوسروں کے ہاتھ میں اپنی قسمت کا اختیار دے دیتی ہے تو اس کے مفادات، اس کی عزت، اس کی آزادی اور بالآخر اس کا وجود معرضِ خطر میں ہوتے ہیں۔ آج پاکستانی قوم کے سامنے ایک ایسا ہی چیلنج ہے___ ۲۱ دسمبر کو عیدالاضحی اور سنت ابراہیمی کی روشن مثال نے ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے اور اس سلسلے میں کشمیر کے قائد اور کشمیریوں کی آرزوئوں کے ترجمان سید علی شاہ گیلانی نے جو پیغام اہلِ پاکستان کو بھیجا ہے، اس پر دل کی گہرائیوں سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ پاکستانی قوم اپنی تاریخی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے ایک بار پھر کمربستہ ہوجائے اور حکمرانوں کے فرار، بے وفائی بلکہ غداری کی تلافی کا سامان کرسکے۔ سب سے پہلے اس مردِمجاہد کے بیان کا خلاصہ اس توجہ اور یکسوئی سے پڑھ لیجیے کہ ہرلفظ دل میں اُتر جائے۔ اس لیے کہ یہ پیغام جس داعیِ حق کا ہے، وہ آج اقبال کے اسی شعر کی زندہ تصویر بنا ہوا ہے ؎
ہوا ہے گو تُند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ
’’کشمیریوں کو نہ بھارت ظلم و ستم سے جھکا سکا ہے اور نہ پاکستان کے حکمرانوں کی بے وفائی ہمیں اپنی منزل سے مایوس کرسکے گی۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور افسوس اس قلعے کے محافظ مسلسل پسپائی کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ہم اول روز سے پاکستانی ہیں اور خون کے آخری قطرے تک پاکستان کی بقا، سالمیت اور تکمیل کی جنگ لڑتے رہیں گے۔ جب میرے یہ حروف آپ کی نظروں سے گزر رہے ہوں گے، تو یقینا مملکت خداداد پاکستان میں ہر جانب عید کی خوشیاں جلوہ گر ہوں گی۔ میں چشمِ تصور سے اپنے خوابوں کی سرزمین کو دیکھتا رہتا ہوں۔ قیامِ پاکستان سے قبل میں نے ابتدائی تعلیم لاہور سے حاصل کی تھی، اور ۶۰برس گزر جانے کے باوجود وہ مناظر، گلیاں، بازار اور کوچے دل و نگاہ میں بس رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم پاکستان سے جنون کی حد تک محبت کرتے ہیں اور یہ محبت کسی زمین، رنگ، نسل، زبان کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ وہ محبت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے رشتے سے ہمارے دلوں میں جاگزیں کیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ اگر اس وقت میں قومی اور ملّی اُمنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل ممکن نہیں تو اس مسئلے کا نامناسب حل مسلط کرنے کے بجاے مناسب وقت کا انتظار کیا جائے۔ ہم نہ تھکے ہیں اور نہ ہمت ہاری ہے۔ ہمارے جذبے ماند نہیں پڑے۔ ہمارے جوان، بوڑھے اور عفت مآب خواتین ہمت اور حوصلے کے ساتھ برسرِپیکار ہیں۔ عید کے موقع پر میں تمام اہلِ پاکستان کو حریت کانفرنس اور ریاست جموں و کشمیر کے وفاشعاروں کی طرف سے عیدمبارک کہتا ہوں‘‘۔
اقبال نے صرف یہ نوحہ ہی نہیں کہا تھا کہ ؎
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر
بلکہ یہ دعوت بھی دی تھی کہ ؎
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
۲۵دسمبر کو ہم نے قائداعظم کا یومِ پیدایش بھی منایا ہے، لیکن اصل ضرورت یہ ہے کہ آج ہم کشمیر کے بارے میں قائداعظم کے وِژن، عزائم اور پالیسی خطوط کار کو ایک بار پھرذہنوں میں تازہ کریں تاکہ قوم مسندِاقتدار پر براجمان ٹولے کی آزادی کش، بھارت نواز اور دینی اور ملّی تقاضوں کے شعور سے محروم پالیسیوں اور پسپائیوں کا راستہ ترک کر کے، اللہ پر بھروسے اور اپنی تاریخی ذمہ داریوں کے احساس کے ساتھ اصول اور حقیقی ملّی مفاد پر مبنی جرأت مندانہ پالیسیاں اختیار کرسکے۔
ہم کشمیر کے سلسلے میں قائداعظم کے چند بیانات، بلکہ احکام و ہدایات کو زمانی ترتیب کے ساتھ پیش کر رہے ہیں اور قوم کو یاد دلا رہے ہیں کہ قائداعظم نے وہی کہا تھا جو آج سید علی گیلانی کہہ رہے ہیں، اور کشمیر کے غیور مسلمان، جناب گیلانی اور حزب المجاہدین کی قیادت میں عملاً قائداعظم ہی کے احکام پر عمل پیرا ہیں، جب کہ قائد کا نام لینے اور ان کے مزار پر چادر چڑھانے اور گارڈز کی ڈیوٹیاں تبدیل کرانے والے حکمران ان احکام کی کھلی کھلی خلاف ورزی اور پاکستان اور مسلمانانِ جموں و کشمیر سے بے وفائی کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
میں کانگریس سے پوچھتا ہوں کہ وہ کشمیر میں کیا کر رہی ہے؟ آریہ سماجی، ہندو مہاسبھائی، کانگریسی قوم پرست اور کانگریسی اخبارات، یہ سب کشمیر کے معاملے میں کیوں چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ کیا اس وجہ سے کہ کشمیر ہندو ریاست ہے؟ یا اس وجہ سے کہ کشمیر کی آبادی میں مسلمانوں کی اکثریت ہے؟
افسوس کہ آج خود مسلمان حتیٰ کہ پاکستانی مسلمان اور خصوصیت سے وہ قیادت جس کا فرض کشمیر کی تحریک حریت کی پشتی بانی ہے، چپ سادھے بیٹھی ہے۔قائداعظم کی روح آج خود ہم سے، پاکستان کی موجودہ قیادت سے وہی سوال کر رہی ہے جو ہندوقیادت سے ۱۹۳۸ء میں کیا تھا!
مسلمان جغرافیائی حدود کے قائل نہیں ہیں۔ اس لیے اسلامی برادری کے نام پر ہندستان کے مسلمان آپ کی مدد کے لیے کمربستہ ہیں۔ اگر آپ پر ظلم ہوا یا آپ سے بدسلوکی کی گئی تو ہم بے کار تماشائی کی صورت میں نہیں رہ سکتے۔ ایسی صورت میں برطانوی ہند کے مسلمان آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوجائیں گے۔ کیونکہ بحیثیت مسلمان ہم آپ کی مدد کے پابند ہیں۔
آج ہمارے حکمران ’جہاد‘ کے لفظ سے خائف اور اس پر شرمندہ ہی نہیں ہیں، بلکہ اپنی آزادی کی جنگ لڑنے والوں اور ان کی مدد کرنے والوں کو ’دہشت گرد‘ تک قرار دے رہے ہیں۔ لیکن دیکھیے جب اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کے لیے قبائلی مسلمان، وہی قبائلی مسلمان جن پر آج امریکا کی خوش نودی کے حصول یا اس کے حکم کے تحت پاکستانی فوج کو بم باری اور آگ اور خون کی ہولی کھیلنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، ان قبائلی مسلمانوں نے کشمیر کے جہاد میں شرکت کی اور اس پر جب بھارتی گورنر جنرل نے ان کے خلاف اقدام کا مطالبہ کیا تو قائداعظم نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیا فرمایا:
’’ہم اس کی ذمہ داری لینے پر تیار نہیں اور نہ ہم قبائلیوں پر دبائو ڈال سکتے ہیں کہ وہ کشمیر کو خالی کر دیں۔ مسلمانانِ کشمیر نے ڈوگرہ آمریت سے تنگ آکر ہری سنگھ کی گورنمنٹ کو فتح کرنے کے لیے جہاد شروع کر رکھا ہے اور قبائلیوں نے مجاہدین کا ہم مذہب ہونے کی مناسبت سے ان کی امداد کی ہے۔ لہٰذا ہم اس معاملے میں کسی قسم کا دخل دینے کو تیار نہیں ہیں۔ کیونکہ مجاہدین کی یہ جنگِ آزادی ہے اور کوئی آزادی پسند ملک آزادی کی خاطر لڑنے والوں کے مخالفین کے ہاتھ مضبوط نہیں کرسکتا۔ اس لیے جن قبائلیوں کو برطانوی حکومت نہ دبا سکی، ہم انھیں کیسے روک سکتے ہیں۔ وہ ایک نصب العین کے لیے نبرد آزما ہیں‘‘۔
(۳ نومبر ۱۹۴۷ء کو قائداعظم اور مائونٹ بیٹن کے مابین ایک کانفرنس کی روداد ملاحظہ ہو: رشحات قائد، مرتبہ نجمہ منصور، العبد پبلی کیشنز، سرگودھا، ۱۹۹۲ئ، ص ۱۶۷-۱۶۸)۔
عوام نے متعدد بار راجا سے اپیل کی کہ وہ پاکستان میں شامل ہوجائیں، لیکن راجا پر اس مسئلے کا اُلٹا اثر ہوا، اور اس نے عوام کی آواز کو طاقت کے بل پر دبانے کی کوششیں کیں۔ اس پر عوام نے بھی طاقت کا جواب طاقت سے دینا شروع کردیا۔ جب راجا ان کی چوٹ برداشت نہ کرسکا تو اپنا اقتدار ختم ہوتے دیکھ کر اسے ہندستان میں شامل ہونے کی سوجھی۔ دراصل کشمیر ہندستان میں شامل نہیں ہوا، بلکہ ہری سنگھ شامل ہوا ہے۔ جب ہندستان میں ہری سنگھ کی شمولیت کے خلاف کشمیری عوام ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوگئے تو ان سے یہ راے طلب کرنے کی تجویز کہ وہ ہندستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا پاکستان میں، نہ صرف فریب بلکہ مضحکہ خیز بھی ہے۔
کسی قسم کی لگی لپٹی رکھے بغیر قائداعظم نے مائونٹ بیٹن سے یہ بھی کہا: ’’کشمیر جہاں اقتصادی اور معاشی لحاظ سے پاکستان کا ایک جز ہے۔ وہاں سیاسی اعتبار سے بھی اس کا پاکستان میں شامل ہونا ضروری ہے‘‘۔(رشحاتِ قائد، مذکورہ بالا)
’’کشمیر، سیاسی اور فوجی حیثیت سے پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کوئی خوددار ملک اور قوم اسے برداشت نہیں کرسکتی کہ وہ اپنی شہ رگ دشمن کی تلوار کے آگے کردے۔ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ ایک ایسا حصہ ہے جسے پاکستان سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ کشمیر کا مسئلہ نہایت نازک مسئلہ ہے۔ لیکن اس حقیقت کو کوئی انصاف پسند قوم اور ملک نظرانداز نہیں کرسکتا کہ کشمیر تمدنی، ثقافتی، مذہبی، جغرافیائی، معاشرتی اور سیاسی طور پر پاکستان کا ایک حصہ ہے اور جب بھی اور جس زاویے سے بھی نقشے پر نظرڈالی جائے، یہ حقیقت بھی اتنی ہی واضح ہوتی چلی جائے گی‘‘۔ (قائداعظم کے آخری ایام)
یہی پاکستان کی وہ کشمیر پالیسی ہے کہ جس پر پوری قوم کو مکمل یکسوئی رہی ہے۔ تاریخی تسلسل کے ساتھ ہم اس پر قائم رہے ہیں اور اس کے حصول کے ۱۹۴۷ء سے جموں و کشمیر کے مسلمان جدوجہد کر رہے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں نے اس پالیسی سے انحراف اور بے وفائی کی ہے اور کشمیری مسلمانوں کو مایوس کیا ہے، لیکن الحمدللہ جموں وکشمیر کے مسلمانوں کی ہمتیں اب بھی جوان ہیں___ کیا پاکستانی قوم قرآن کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنے مظلوم بھائیوں کا ساتھ نہیں دے گی؟
آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا دیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔ (النساء ۴:۷۵)
اسلام مساواتِ مرد و زن کا علَم بردار ہے ،مگر اس کا یہ تصور اس الٰہی قانون پر مبنی ہے، جس کی رُو سے خالق کائنات نے تمام انسانوں کو بحیثیت انسان ایک ہی فطرت پر پیدا کیا ہے۔ ان کے درمیان فطری صلاحیتوں اور سماجی اور تہذیبی ذمہ داریوں کے باب میں تو فرق اور تنوع ہوسکتا ہے مگر قانونی اور اخلاقی حیثیت کے اعتبار سے نہ مردوزن میں فرق ہے اور نہ کالے اور گورے اور امیر اور غریب میں۔ لقد کرمّنا بنی اٰدم کے الٰہی حکم نے سب کو مساوی عزت کا مقام دیا ہے اور اس پہلو سے کسی بھی امتیازی یا ترجیحی سلوک کی کوئی گنجایش نہیں چھوڑی۔
پاکستان کا شہریت کا قانون مجریہ ۱۹۵۱ (Pakistan Citizenship Act) اینگلو سیکسن لا کی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔ اس میں یہ سقم تھا کہ اگر ایک پاکستانی مرد کی کسی غیرپاکستانی عورت سے شادی ہو تو شادی کے بعد پاکستانی شوہر کی غیرپاکستانی بیوی کو شہریت کا حق حاصل ہوجاتا تھا۔ لیکن اس کے برعکس اگر ایک پاکستانی خاتون کی کسی غیرپاکستانی مرد سے شادی ہو تو پھر اس شوہر کو شہریت کا یہ حق حاصل نہیں تھا۔ یہ ایک ایسا امتیازی اور غیرمنصفانہ قانون تھاکہ جس کا نہ اخلاقی اعتبار سے کوئی جواز تھا، اور نہ الٰہی قانون کی رو سے ایسے امتیاز کے لیے کوئی گنجایش تھی۔ لیکن حقوقِ نسواں کے علَم بردار اس مسئلے کے بارے میں خاموش تھے۔ حالانکہ ۲۰۰۰ء میں قائم ہونے والے ایک اعلیٰ اختیاراتی ادارہ یعنی ’نیشنل کمیشن اَون دی اسٹیٹس آف ویمن‘ نے بھی اپنی رپورٹ میں اس امتیازی سلوک کی نشان دہی کی تھی اور اس سلسلے میں ضروری قانون سازی کی طرف متوجہ کیا تھا۔ نیز پاکستان، اقوام متحدہ کے Convention on Elimination of All Forms of Discrimination Against Women پر دستخط کرکے بھی عورتوں کے اس حق کو تسلیم کرچکا ہے، مگر پھر بھی اس کنونش کا اطلاق پاکستانی خاتون کے غیرپاکستانی شوہر پر نہیں کیا گیا۔
پچھلے دنوں اخبارات میں خبر آئی کہ اس قانونی سقم کی وجہ سے بہت سی پاکستانی خواتین اپنے شوہروں کو پاکستان کی شہریت نہ دلوانے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں، اور متاثرہ شوہروں کے پاکستان میں قیام کے باب میں انھیں شدید پریشانیاں درپیش ہیں۔ ’روشن خیالی‘ کے اس پرویزی دور میں نہ ’روشن خیال‘ حکومت کو اس مسئلے کا شعور تھا اور نہ ’روشن خیال‘ این جی اوز ہی کی نگاہ میں اس کی کوئی اہمیت تھی اور اس کا بڑا سبب یہ بھی تھا کہ اس قانونی سقم سے متاثر خواتین کا تعلق غالباً اُونچے طبقات سے نہیں تھا۔
وفاقی شرعی عدالت نے اس امتیازی سلوک کا ازخود (Suo Moto) نوٹس لیا اور دسمبر ۲۰۰۷ء کے دوسرے ہفتے میں شرعی عدالت کے فل بنچ نے قانون کے اس حصے کو اسلام کے قانون اور اقدار سے متصادم قرار دیا ہے اور حکومت کو ہدایت کی ہے کہ ۶ ماہ کے اندر اندر شہریت کے قانون میں ضروری ترامیم کر کے شادی شدہ پاکستانی عورت کو بھی وہی حقوق دے، جو شادی شدہ پاکستانی مرد کو حاصل ہیں۔
عدالت کا یہ فیصلہ کئی اعتبار سے اہم ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ مرد و زن کے حقیقی حقوق کا مسئلہ مغرب کا مسئلہ نہیں، ہمارا اپنا مسئلہ ہے اور ایسے تمام مسائل کو اسلام کے قانونی ڈھانچے اور اس کی روح کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔
دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ حکومت اپنے تمام دعووں کے باوجود نہ عورتوں کے حقوق کے بارے میں اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہے، اور نہ مردوں اور خصوصیت سے کمزور انسانوں اور طبقات کے حقوق کا تحفظ کرنے کو تیار ہے۔ عام عدالتیں بھی اس باب میں خاموش ہی رہی ہیں۔یہ توفیق وفاقی شرعی عدالت کو حاصل ہوئی ہے۔ جس نے اس سقم کا نوٹس لیا اور اس کی اصلاح کے لیے قانونی کارروائی کی۔ دیکھیں اب بھی حکومت اس پر کہاں تک عمل کرتی ہے۔ ہمارے علم میں وفاقی شرعی عدالت کے کئی ایسے فیصلے ہیں جن میں وہ وقت کے تعین کے ساتھ قانون میں شرعی بنیادوں پر تبدیلی کا حکم دے چکی ہے، مگر حکومت یا تو اپیل میں چلی گئی یا ان فیصلوں کو نظرانداز کردیا گیا۔ مثلاً ’زنا‘ کے قانون کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کا کم از کم ایک فیصلہ ایسا ہے، جس میں قانون کی تبدیلی کے لیے وقت کے تعین کے ساتھ ہدایات دی گئی تھیں، مگر انھیں نظرانداز کر دیا گیا۔ یہی معاملہ فیملی آرڈی ننس کے بارے میں عدالت کے احکام کے ساتھ ہوا ہے___ یہ ہے ہمارے لبرل طبقے کی مساواتِ مرد و زن اور حقوقِ نسواں کے باب میں سنجیدگی کا حال۔
تیسرا قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ مشرف حکومت جو عورتوں کی ’خود اختیاریت‘ کا بہت واویلا کرتی ہے اور اسی کے نام پر اسمبلیوں میں خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہے، لیکن ان سب کی طرف اس ضمن میں کوئی پیش قدمی نہیں کی گئی اور اگر کسی نے پہل کی بھی تو وہ وفاقی شرعی عدالت ہے۔ وہ شریعت کورٹ جسے عورتوں کے حوالے سے لبرل طبقے نے مطعون کرنے کی مذموم کوشش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
ایک چوتھا پہلو یہ بھی ہے کہ آج کل عدالتِ عالیہ کو اس طرح سے ازخود امور کو زیرغور لانے اور حقوق انسانی کے باب میں مداخلت کرنے اور اصلاح کرانے پر بڑی لے دے کی جارہی ہے، بلکہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور ان کے ساتھیوں کو تواس کی سزا دی جارہی ہے۔ حالانکہ جیساکہ حالیہ مثال سے ظاہر ہوتا ہے، عدالت اپنے ازخود سماعت کے دستوری اختیارات سے عوام کے لیے دادرسی کی مفید خدمات انجام دے سکتی ہیں اور اس طرح انتظامیہ کی غفلت کا کچھ علاج بھی ہوسکتا ہے۔
ویسے تو ہمارا لبرل اور روشن خیال طبقہ مساواتِ مرد و زن کے شب و روز نعرے لگانے کا مرغوب شغل اپنائے ہوئے ہے، لیکن تعجب ہے وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کو لبرل پریس (صرف ایک انگریزی روزنامے The News کی استثناء کے ساتھ) نے چھاپنے تک کی زحمت گوارا نہیں کی۔
اگر یہی فیصلہ کوئی لبرل کورٹ کرتی تو شادیانے بجائے جاتے۔ لیکن چونکہ یہ خدمت وفاقی شرعی عدالت نے انجام دی ہے، اس لیے ان کے لیے یہ ایک ناقابلِ ذکر اور ناقابلِ التفات قدم ہے یا کہیں ایسا تو نہیں کہ بُغض اب اس مقام تک پہنچ گیا ہے کہ ؎
واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
اقبال کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے
اسلام، نبی کریمؐ اور مسلمانوں کو آزادیِ راے، آزادیِ صحافت، انسانی حقوق اور سیکولر جمہوریت کے نام پر تضحیک، تمسخر اور تذلیل کا برابر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ اس کا پشت پناہ مغرب ہے اور وہی اس کو تحفظ بھی دیتا ہے۔ بھارتی نژاد ملعون رشدی کے بعد بنگلہ دیش کی تسلیمہ نسرین(حال ہی میں ان کی متنازعہ کتاب دوئی کھنڈت پر بھارتی مسلمانوں کے ردعمل کا سامنے آنا)، ڈنمارک کے اخبار اور دیگر اخبارات میں شیطانی خاکوں کی اشاعت، ولندیزی فلم ساز تھیووان گوخھ کی اسلام میں عورت کے مقام کے موضوع پر اشتعال انگیز فلم کی تیاری اور اس کے شدید ردعمل میں اس کی ہلاکت، جرمنی میں توہینِ رسالتؐ پر عامرچیمہ کی شہادت، اور اب سوڈان میں ایک عیسائی مشنری اسکول کی ٹیچر گلین گبنز کا اپنی کلاس کے طلبہ کو ’ٹیڈی بیر‘ کا نام (نعوذ باللہ) محمدصلی اللہ علیہ وسلم رکھنے کے لیے ورغلانے اور توہین رسالتؐ کا مرتکب ہونا ،اسی کا تسلسل ہے۔ گلین گبنزکی سزا ختم کروانے اور تحفظ دینے میں بھی برطانیہ کا ہاتھ نمایاں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مغرب کی طرف سے توہینِ اسلام اور توہینِ رسالتؐ میں کیوں شدت آتی جارہی ہے، اور دوسری جانب اس سب کچھ کو آزادیِ راے اور انسانی حقوق کے حوالے سے تحفظ دینے کی بات بھی کی جارہی ہے، نیز اُمت کے اہلِ علم اس مسئلے کا کس انداز سے جواب دیں؟
مغرب میں چند صدیاں قبل انسانی حقوق کا سوال اس وقت سامنے آیا جب یورپ میں سائنس اور مذہب میں چپقلش سامنے آئی۔ اس سے قبل یورپی تاریخ میں انسان کے بنیادی حقوق کا کوئی تصور نہیں ملتا۔ عیسائیت نے چند یونانی تصورات کو مذہبی تقدس کا مقام دے دیا اور سائنسی حقائق کو جھٹلاتے ہوئے انتہائی اقدامات اٹھائے اور ان عقائد کی خلاف ورزی کرنے پر سائنس دانوں کو پھانسی تک دے ڈالی۔ اس پر شدید ردعمل سامنے آیا اور اہلِ یورپ نے کلیسا کی بالادستی ختم کرنے کا فیصلہ کیا، نیز انسان کے بنیادی حقوق کے لیے مذہب سے ہٹتے ہوئے قانون سازی کی بنیاد رکھی۔ سائنس کو اُلوہیت کا مقام دے دیا اور تجرباتی سائنس اور تجربہ و مشاہدہ کو علم کی بنیاد ٹھیرایا۔ عیسائیت کے غلط تصورات کی بنا پر مذہب سے بے زار اور بے نیاز ہوکر انسانی زندگی کے معاملات کو طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے نتیجے میں انسان کے بنیادی حقوق کے لیے قانون سازی عمل میں آئی۔ اس کا آغاز انگلستان کے میگناکارٹا (۱۲۱۵ئ) سے ہوا ،اور مختلف مراحل سے گزرتا ہوا یہ عمل اقوام متحدہ کے منشورِ انسانی حقوق (۱۹۴۸ئ) پر منتج ہوتا ہے۔
دوسری طرف مغرب اور امریکا کا اپنے مذموم مقاصد اور مفادات کے حصول کے لیے عدل و انصاف اور حقوق انسانی کی دھجیاں اڑا دینا، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں افغانستان اور عراق پر حملہ، گوانتاناموبے اور ابوغریب جیل میں تشدد کے انسانیت سوز واقعات، اور ایران پر حملے کی دھمکی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ کھلی حقیقت ہے۔ ایسے میں اقوام متحدہ کے منشورِ انسانی حقوق، عدل و انصاف اور امن و امان جیسی اقدار پر عمل درآمد ایک سوال بن کر رہ جاتا ہے۔
قانونِ توہینِ رسالتؐ ہی کو لیجیے۔ نیو انسائی کلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق اکثر مشرقی اور یورپی ممالک میں قانونِ توہینِ انبیاؑ(بلاس فیمی لا) کسی نہ کسی صورت میں قابلِ مواخذہ جرم رہا ہے۔ آسمانی صحائف کو ماننے والی اقوام جہاںبھی حکمران رہی ہیں وہاں توہینِ رسالتؐ کی سزا، سزاے موت پر عمل درآمد ہوتا رہا ہے۔ یورپ اور امریکا اور دیگر سیکولر ریاستوں میں قانونِ توہینِ مسیحؑ (بلاس فیمی لا) اب بھی موجود ہے، اور اس حوالے سے ان ملکوں کی اعلیٰ ترین عدالتوں کے فیصلے بھی موجود ہیں۔ برطانیہ میں اٹھارھویں صدی تک توہینِ مسیحؑ کی سزا، سزاے موت تھی مگر بعد میں سزاے موت ختم کردی گئی، لہٰذا اب اس کی سزا عمرقید ہے۔
اس ضمن میں ایک معروف مثال یورپی یونین حقوق انسانی کی عدالت کا ۲۵نومبر ۱۹۹۶ء کوبرطانیہ کے حق میں دیا جانے والا فیصلہ ہے۔ اس کی اہمیت اس لحاظ سے بھی ہے کہ اس سے مجموعی طور پر مغرب کے نقطۂ نظر کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس مقدمے کے مطابق ایک برطانوی شہری نیگل ونگرو نے حضرت عیسٰی ؑکے حوالے سے ایک فلم دکھانے کی اجازت طلب کی۔ مگر یورپی یونین حقوق انسانی کی عدالت نے اس کی اجازت نہ دی کہ اس سے عیسائیوں کے جذبات مشتعل ہوں گے اور توہینِ عیسٰی ؑ ہوتی ہے۔ مگر جب اس کیس میں سلمان رشدی کے خلاف توہینِ رسالتؐ کا مسئلہ اٹھایا گیا تو اسے خارج از بحث قرار دے دیا گیا (دیکھیے: ناموسِ رسولؐ اور قانونِ توہین رسالتؐ، محمد اسماعیل قریشی، ص ۲۳۴-۲۳۹)۔ یہاں مغرب کا دہرا معیار، انسانی حقوق اور اخلاقی اقدار کے تمام تر دعووں کے باوجود واضح طور پر محسوس کیا جاسکتاہے۔
اسلام میں انسانی حقوق کا تصور مغرب سے بہت پہلے ۱۴ سو سال سے موجود ہے اور اس کا خلاصہ نبی کریمؐ کا خطبہ حجۃ الوداع ہے۔ اسلام بلاامتیاز مذہب و ملّت تمام انسانوں کے حقوق کی نہ صرف ضمانت دیتا ہے، بلکہ قوتِ نافذہ رکھتا ہے، اور قانونی چارہ جوئی کا حق بھی دیتا ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے منشورِ انسانی حقوق کی حیثیت محض ایک اعلان سے بڑھ کر نہیں اور نہ اس کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے کوئی ضمانت دی گئی ہے۔
اسلام نے جہاں رنگ و نسل کے فرق کی بنیاد پر انسانی تفاوت کو مٹایا ہے، وہاں تمام انسانوں کو اولادِ آدم ہونے پر برابر قرار دیا اور نیکی اور تقویٰ کو وجۂ امتیاز ٹھیرایا ہے۔ آزادیِ اظہارِ راے کو شہریوں کا بنیادی حق ہی نہیں، بلکہ درپیش مسائل پر اظہارِ راے کو مغرب کے تصور سے بڑھ کر، حق سے زیادہ فرض ٹھیرایا ہے۔ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ بھلائی کی دعوت دے اور برائی سے روکے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ اسی کا نام ہے۔ اس سے غفلت برتنا نہ صرف نفاق ہے، بلکہ اسے ملّت کے زوال کا ایک سبب بھی بتایا گیا ہے، جیساکہ بنی اسرائیل کی روش تھی کہ انھوں نے ایک دوسرے کو برے افعال سے روکنا چھوڑ دیا تھا۔ (المائدہ ۵:۷۹)
اسلام نے ضمیر اور اعتقاد کی آزادی کا حق دیا ہے۔ ہرشخص کو حق حاصل ہے کہ وہ کفروایمان میں سے جو راہ چاہے اختیار کرلے۔ اسلام نے لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (البقرہ ۲:۲۵۶) کااصول دیا ہے۔ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ مسلمانوں نے کبھی کسی قوم کو جبراً مسلمان نہیں کیا، بلکہ ذمی کی حیثیت سے ان کو مذہبی آزادی دی ہے اور ان کا تحفظ کیا ہے۔ اسلام نے تو مذہبی دلآزاری سے بھی منع کیا ہے۔
وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ (الانعام ۶:۱۰۸) ان کو برا بھلا نہ کہو جنھیں یہ لوگ اللہ کے ماسوا معبود بناکر پکارتے ہیں۔
خیال رہے کہ جہاں مذہبی دلآزاری سے منع کیا گیا ہے وہاں برہان، دلیل اور معقول طریقے سے مذہب پر تنقید کرنا اور اختلاف کرنا آزادیِ اظہار کے حق میں شامل ہے۔ خود مسلمانوںکو ہدایت کی گئی ہے کہ اہلِ کتاب اور دیگر مذاہب کے حاملین سے اگر گفتگو کی جائے تو تحمل اور رواداری کا مظاہرہ کیا جائے اور احسن انداز اپنایا جائے:
وَ لَا تُجَادِلُوْٓا اَھْلَ الْـکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ (العنکبوت ۲۹:۴۶) اہلِ کتاب سے بحث نہ کرو مگر احسن طریقے سے۔
اسلام میں رواداری کا تصور یہ نہیں ہے کہ مختلف اور متضاد خیالات کو درست قرار دیا جائے۔ بقول سید مودودی: ’’رواداری کے معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں کے عقائد یا اعمال ہمارے نزدیک غلط ہیں، ان کو ہم برداشت کریں، ان کے جذبات کا لحاظ کر کے ان پر ایسی نکتہ چینی نہ کریں جو ان کو رنج پہنچانے والی ہو، اور انھیں ان کے اعتقاد سے پھیرنے یا ان کے عمل سے روکنے کے لیے زبردستی کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ اس قسم کے تحمل اور اس طریقے سے لوگوں کو اعتقاد و عمل کی آزادی دینا نہ صرف ایک مستحسن فعل ہے، بلکہ مختلف الخیال جماعتوں میں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ لیکن اگر ہم خود ایک عقیدہ رکھنے کے باوجود محض دوسرے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ان کے مختلف عقائد کی تصدیق کریں، اور خود ایک دستورالعمل کے پیرو ہوتے ہوئے دوسرے مختلف دستوروں کا اتباع کرنے والوںسے کہیں کہ آپ سب حضرات برحق ہیں، تو اس منافقانہ اظہارِ راے کو کسی طرح رواداری سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ مصلحتاً سکوت اختیار کرنے اور عمداً جھوٹ بولنے میں آخر کچھ تو فرق ہونا چاہیے‘‘۔ (تفہیمات، اوّل، ص ۱۱۴-۱۱۵)
حقیقت یہ ہے کہ آزادیِ راے، آزادیِ صحافت، انسانی حقوق اور لادین جمہوریت جیسی مغربی اقدار بظاہر دل کو بھاتی ہیں، عقل کو اپیل کرتی ہیں لیکن عملاً جب مفادات آڑے آئیں، نسلی و مذہبی تعصب سے واسطہ پڑے، انسانی حقوق اور عدل و انصاف پر زد پڑے تویہ اقدار غیرجانب داری کے بجاے جانب داری کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ محض عقلِ انسانی کو بنیاد بناکر آزادیِ راے اور آزادیِ صحافت جیسی اقدار کے تحت توہینِ رسالت کا ارتکاب کیا جائے، اور اس کے نتیجے میں خواہ بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان اور مسلمانوں کی دل آزاری اور فساد کا اندیشہ ہو مگر انسان کسی تحدید پر تیار نہ ہو___ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان اگر ٹھیر کر نہیں سوچتا تو قرآن کے مطابق انسان کی اس روش سے زمین میں فساد برپا ہوسکتا ہے۔ ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَـرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (الروم ۳۰:۴۱) ’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے‘‘۔ تہذیبوں کی جنگ کا واویلا بھی مچایا جارہا ہے اور اسلام کو ہدف بنایا جا رہا ہے، حالانکہ اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ تو آزادیِ اظہار کے تحت نہ صرف معقول اور منطقی انداز میں اختلافِ راے کا حق دیتا ہے، بلکہ عقیدے کی آزادی اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔
اس مسئلے کا اصولی حل یہی ہے کہ مغرب نے مذہبی تعصب کی وجہ سے عقل اور سائنس کو جس طرح خدا بنا رکھا ہے اور اسے اُلوہیت کا درجہ دے رکھا ہے، اس پر نظرثانی کرے۔ اگر یہ ماضی کے عیسائیت اور اہلِ کلیسا کے غلط نظریات کا ردعمل ہے تو اسلام کے حوالے سے ایسا سوچنا مناسب نہیں۔ اسلام ایک روایتی مذہب نہیں، بلکہ ایک دین اور ایک مکمل نظامِ حیات ہے جو ہر شعبۂ زندگی بہ شمول سائنس کے لیے ہدایات اور رہنمائی رکھتا ہے۔ اصولی طور پر بھی دیکھا جائے تو آزادیِ راے، انسانی حقوق اور انسانیت کی فلاح کے لیے اسلام کی تعلیمات زیادہ جامع ہیں جنھیں عقل تسلیم کرنے پر مجبور ہے، جب کہ عیسائیت و دیگر مذاہب کی تعلیمات اس معیار پر پورا نہیں اترتیں۔ اگرچہ روسو نے یہ کہا تھا کہ انسان آزاد پیدا ہوا مگر اسے ہرجگہ زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے، تاہم یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے ۱۴سو سال پہلے یہ فرمایا تھا کہ تم نے انسانوں کو غلام کب سے بنا لیا؟ ان کی مائوں نے تو انھیں آزاد جنا تھا۔ مگر اس جرأت کے لیے خدا سے ڈرنے والا دل اور وحیِ الٰہی پر ایمان لانے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اسلام اپنی تعلیمات اور منطقی استدلال کی بنا پر غالب نہ آجائے۔ اسلام کی نظریاتی بالادستی اور اسلامی تحریکوں کے تحت احیاے اسلام کے لیے برپا منظم جدوجہد، اور قبولِ اسلام کے بڑھتے ہوئے عالمی رجحان کی بنا پر، مغرب کو یہ خدشہ یقین میں بدلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ بقول اقبال ع
ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبرؐ کہیں
فی الواقع بکثرت لوگ اِس اُلجھن میں پڑ گئے ہیں، کہ آیا جمہوری طریقوں سے یہاں کوئی تبدیلی لائی جاسکتی ہے یا نہیں، اور ایک اچھی خاصی تعداد یہ سمجھنے لگی ہے کہ ایسے حالات میں غیرجمہوری طریقے اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ بجاے خود ہمارے حکمرانوں کی بہت بڑی نادانی ہے کہ انھوں نے لوگوں کو اِس طرح سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ لیکن ہم اس پوری صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اور اُس کی پیداکردہ تمام صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بھی اپنی اس راے پر قائم ہیں کہ اسلامی نظام، جسے برپا کرنے کے لیے ہم اُٹھے ہیں، جمہوری طریقوں کے سوا کسی دوسری صورت سے برپا نہیں ہو سکتا، اور اگر کسی دوسرے طریقے سے برپا کیا بھی جاسکے تو وہ دیرپا نہیں ہوسکتا۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ جمہوری طریقوں کا مطلب واضح طور پر جان لیں۔ غیرجمہوری طریقوں کے مقابلے میں جب جمہوری طریقوں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ نظامِ زندگی میں جو تبدیلی بھی لانا، اور ایک نظام کی جگہ جو نظام بھی قائم کرنا مطلوب ہو، اسے زور زبردستی سے لوگوں پر مسلط نہ کیا جائے، بلکہ عامۃ الناس کو سمجھا کر اور اچھی طرح مطمئن کر کے اُنھیں ہم خیال بنایا جائے اور اُن کی تائید سے اپنا مطلوبہ نظام قائم کیا جائے۔ اس کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ عوام کو اپنا ہم خیال بنا لینے کے بعد غلط نظام کو صحیح نظام سے بدلنے کے لیے ہر حال میں صرف انتخابات ہی پر اِنحصار کرلیا جائے۔ انتخابات اگر ملک میں آزادانہ و منصفانہ ہوں اور ان کے ذریعے سے عام لوگوں کی راے نظام کی تبدیلی کے لیے کافی ہو، تو اس سے بہتر کوئی بات نہیں۔ لیکن جہاں انتخابات کے راستے سے تبدیلی کا آنا غیرممکن بنا دیا گیا ہو، وہاں جبّاروں کو ہٹانے کے لیے راے عامہ کا دبائو دوسرے طریقوں سے ڈالا جاسکتا ہے، اور ایسی حالت میں وہ طریقے پوری طرح کارگر بھی ہوسکتے ہیں، جب کہ ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بھاری اکثریت اس بات پر تُل جائے کہ جبّاروں کا من مانا نظام ہرگز نہ چلنے دیا جائے گا اور اُس کی جگہ وہ نظام قائم کرکے چھوڑا جائے گا جس کے صحیح و برحق ہونے پر لوگ مطمئن ہوچکے ہیں۔ نظامِ مطلوب کی مقبولیت جب اِس مرحلے تک پہنچ جائے تو اس کے بعد غیر مقبول نظام کو عوامی دبائو سے بدلنا قطعاً غیر جمہوری نہیں ہے، بلکہ ایسی حالت میں اُس نظام کا قائم رہنا سراسر غیر جمہوری ہے۔
اس تشریح کے بعد یہ سمجھنا کچھ مشکل نہ رہے گا کہ ہم اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جمہوری طریقوں پر اس قدر زور کیوں دیتے ہیں۔ کوئی دوسرا نظام مثلاً کمیونزم لوگوں پر زبردستی ٹھونسا جاسکتا ہے، بلکہ اس کے قیام کا ذریعہ ہی جبر اور جبّاریت ہے، اور خود اس کے اَئمہ علانیہ یہ کہتے ہیں کہ انقلاب بندوق کی گولی ہی سے آتا ہے۔ اِستعماری نظام اور سرمایہ داری نظام اور فسطائی نظام بھی راے عام کی تائید کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ راے عام کو طاقت سے کچل دینا اور اس کا گلا گھونٹ دینا ہی ان کے قیام کا ذریعہ ہے۔
لیکن اسلام اس قسم کا نظام نہیں ہے۔ وہ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر لوگ خلوص کے ساتھ اُس کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چل سکتے۔ پھر وہ اپنے اُصولوں کا فہم اور اُن کے برحق ہونے پر اطمینان بھی عوام کے اندر ضروری حد تک، اور خواص (خصوصاً کارفرمائوں) میں کافی حد تک پیدا کرنا لازم سمجھتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر اُس کے اصول و احکام کی صحیح تنفیذ ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ عوام وخواص کی ذہنیت، اندازِفکر اور سیرت و کردار میں بھی اپنے مزاج کے مطابق تبدیلی لانے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ یہ نہ ہو تو اس کے پاکیزہ اور بلندپایہ اصول و احکام اپنی صحیح روح کے ساتھ نافذنہیں ہوسکتے۔ یہ جتنی چیزیں میں نے بیان کی ہیں، اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے سب کی سب ضروری ہیں، اور اِن میں سے کوئی چیز بھی جبراً لوگوں کے دل و دماغ میں نہیں ٹھونسی جاسکتی، بلکہ اِن میں سے ہر ایک کے لیے ناگزیر ہے کہ تبلیغ، تلقین اور تفہیم کے ذرائع اختیار کر کے لوگوں کے عقائد و افکار بدلے جائیں، ان کے سوچنے کے انداز بدلے جائیں، ان کی اَقدار (values) بدلی جائیں، ان کے اخلاق بدلے جائیں، اور ان کو اس حد تک اُبھار دیا جائے کہ وہ اپنے اُوپر جاہلیت کے کسی نظام کا تسلط برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ جمہوری طریقوں کے سوا اُس کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام کو عملاً برپا کردینے کے لیے کوئی اقدام اُس وقت تک نہیں کیا جاسکتا جب تک اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو اِس نوعیت کی عوامی تائید حاصل نہ ہوجائے۔
شاید آپ میری یہ باتیں سن کر سوچنے لگیں گے کہ اس لحاظ سے تو گویا ابھی ہم اپنی منزل کے قریب ہونا درکنار، اس کی راہ کے صرف ابتدائی مرحلوں میں ہیں، لیکن میں کہتا ہوں کہ آپ اَفراط و تفریط سے بچتے ہوئے اپنے آج تک کے کام کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں۔ جمہوری طریقوں سے کام کرتے ہوئے آپ پچھلے [برسوں] میں تعلیم یافتہ طبقے کی بڑی اکثریت کو اپنا ہم خیال بنا چکے ہیں، اور یہ لوگ ہر شعبۂ زندگی میں موجود ہیں۔ نئی نسل، جو اَب تعلیم پاکر اُٹھ رہی ہے، اور جسے آگے چل کر ہر شعبۂ زندگی کو چلانا ہے، وہ بھی جاہلیت کے علَم برداروں کی ساری کوششوں کے باوجود زیادہ تر آپ کی ہم خیال ہے۔
اب آپ کے سامنے ایک کام تو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقے میں اپنے ہم خیالوںکی تعداد اِسی طرح بڑھاتے چلے جائیں، اور دوسراکام یہ ہے کہ عوام کے اندر بھی نفوذ کر کے ان کو اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرنے کی کوشش کریں۔ پہلے کام کے لیے لٹریچر کا پھیلانا آج تک جتنا مفید ثابت ہوا ہے اس سے بدرجہا زیادہ آیندہ مفید ثابت ہوسکتا ہے، اگر آپ اپنے ہم خیال اہلِ علم کے حلقے منظم کرکے مختلف علوم کے ماہرین سے مسائلِ حیات پر تازہ ترین اور محققانہ لٹریچر تیار کرانے کا انتظام کریں۔ اور دوسرے کام کے لیے تبلیغ و تلقین کے دائرے وسیع کرنے کے ساتھ اصلاحِ خلق اور خدمتِ خلق کی ہرممکن کوشش کیجیے۔ آپ صبر کے ساتھ لگاتار اس راہ میں جتنی محنت کرتے چلے جائیں گے اتنی ہی آپ کی منزل قریب آتی چلی جائے گی۔
رہا یہ سوال کہ جب تمام جمہوری اداروں کی مٹی پلید کر دی گئی ہے، شہری آزادیاں سلب کرلی گئی ہیں اور بنیادی حقوق کچل کر رکھ دیے گئے ہیں، تو جمہوری طریقوں سے کام کیسے کیا جاسکتاہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کا کام کرنے کے لیے کھلی ہموار شاہراہ تو کبھی نہیں ملی ہے۔ یہ کام تو جب بھی ہوا جبروظلم کے مقابلے میں ہر طرح کی کڑیاں [سختیاں] جھیل کر ہی ہوا، اور وہ لوگ کبھی یہ کام نہ کرسکے جو یہ سوچتے رہے کہ جاہلیت کے علَم برداروں کی اجازت، یا ان کی عطا کردہ سہولت ملے تو وہ راہِ خدا میں پیش قدمی کریں۔ آپ جن برگزیدہ ہستیوں کے نقشِ پا کی پیروی کر رہے ہیں، اُنھوں نے اُس ماحول میں یہ کام کیا تھا جہاں جنگل کا قانون نافذ تھا اور کسی شہری آزادی یا بنیادی حق کا تصور تک موجود نہ تھا۔ اس وقت ایک طرف دل موہ لینے والے پاکیزہ اخلاق، دماغوں کو مسخر کرلینے والے معقول دلائل، اور انسانی فطرت کو اپیل کرنے والے اصول اپنا کام کر رہے تھے اور دوسری طرف جاہلیت کے پاس اُن کے جواب میں پتھر تھے، گالیاں تھیں، جھوٹے بہتان تھے اور کلمۂ حق کہتے ہی انسانوں کی شکل میں درندے خدا کے بندے پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ یہی چیز درحقیقت اسلام کی فتح اور جاہلیت کی شکست کا ذریعہ بنی۔
ظلم و جور کا ماحول جہاں بھی ہو اس کے مقابلے میں حق پرستی کا علَم بلند کرنے اور بلند رکھنے سے یہ تینوں نتائج لازماً رونما ہوں گے۔ اس لیے یہ تو حق کی کامیابی کا فطری راستہ ہے، آپ اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جمہوری اداروں کی مٹی پلید ہونے اور شہری آزادیاں سلب ہوجانے اور بنیادی حقوق کچل دیے جانے کا رونا خواہ مخواہ روتے ہیں۔ (تصریحات، ص ۳۲۰-۳۲۴)
اِعْمَلُوْٓا اٰلَ دَاوٗدَ شُکْرًاط وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ o (سبا۳۴:۱۳)
اے آل دائود! عمل کرو شکر کے طریقے پر، میرے بندوں میں کم ہی شکرگزار ہیں۔
سورئہ سبا میں حضرت دائود و سلیمان علیہما السلام پر اپنی نعمتوں اور احسانات کا ذکر کرنے کے بعد اللہ نے آل دائود کو شکرگزاری کے ساتھ عمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ شکر کی مختصر توضیح کے لیے اس آیت کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ قرآن میں لفظ ’شُکر‘اسی آیت میں استعمال ہوا ہے۔ اس لفظ کے مشتقات اور صیغے تو بیسیوں آیتوں میں آئے ہیں لیکن لفظ شُکر اسی آیت میں ہے۔ دوسرا لفظ ’شُکور‘ (پیش کے ساتھ) سورۃ الفرقان اور سورۃ الدھر میں آیا ہے:
وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا، ہر اس شخص کے لیے جو سبق لینا چاہے، یا شکرگزار ہونا چاہے۔ (الفرقان ۲۵:۶۲)
ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔ (الدھر ۷۶:۹)
’شکر‘قرآن کریم کا ایک وسیع المعنی اور وسیع الاطراف لفظ ہے۔ اس تشریح میں میرا مقصد تمام معانی اور تمام اطراف پر سیرحاصل گفتگو کرنا نہیں ہے، بلکہ ذیل کے چند نکات کی مختصر توضیح مقصود ہے: شکر کے معنی،شکر کی ضد ،شکر کی قسمیں ،اللہ کا شکر ،بندوں کا شکر ، شکر کی نسبت اللہ کی طرف ، شکر کی نسبت بندوں کی طرف ، صبر اور شکر کا اجتماع ، امتحان شکر ،شکر کا دنیوی صلہ۔
شکر کے معنی: ایک معنی یہ ہیں: تصور النعمۃواظھارھا ،نعمت کا تصور اور اس کا اظہار۔ اس جانور کو جو فربہ ہو دابَّۃ شَکُوْرٌ کہتے ہیںکیونکہ وہ اپنی فربہی سے اپنے مالک کی مہربانی اور اس کے احسان کا اظہار کرتا ہے، یعنی یہ کہ وہ اس کو اچھا کھلاتا پلاتا اور اس کی اچھی دیکھ ریکھ کرتا ہے۔ دوسرا معنی ہے الامتلاء من ذکر المنعم علیہ ،محسن کے ذکر سے زبان کا تر ہونا اور دل کا مملو ہونا۔ عین شکری وہ آنکھ جو آنسوئوں سے بھری ہوئی ہو۔ (مفردات راغب)
ان دونوں معنوں کے لحاظ سے اللہ کے شکر کایہ مفہوم مستنبط ہوتا ہے کہ انسان کو اللہ کی نعمت کا احساس ہو اور وہ اس کا اظہار بھی کرے۔ وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ(الضحیٰ ۹۳:۱۱) ’’اور اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرو‘‘۔ نیز یہ کہ انسان کی زبان اللہ کے ذکر سے تر اور اس کا دل اس کی نعمت کا معترف رہے۔
اگر تم کفر کرو گے تو اللہ تم سے بے نیاز ہے، لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا، اور اگر تم شکرکرو تو اسے وہ تمھارے لیے پسند کرتا ہے۔ (۳۹:۷)
اس آیت میں کفر، کفرانِ نعمت اور ناشکری کے معنی میں استعمال ہوا ہے کیونکہ اس کے بعد ہی شکر کا ذکر ہے۔ اس طرح کی متعدد آیتیں قرآن کریم میں ہیں۔
شکر کی قسمیں: شکر کی تین قسمیں ہیں: ۱- زبان کا شکر ۲- دل کا شکر ۳-اعضا و جوارح کا شکر۔ مفردات امام راغب میں ہے: شکر کی تین قسمیں ہیں: دل کا شکر، یہ نعمت کا احساس ہے، اور زبان کا شکر محسن کی مدح و ثنا ہے، اور باقی تمام اعضا کا شکر، یہ نعمت کی مکافات ہے، بقدر استحقاقِ منعم۔ مکافاتِ نعمت کا مطلب یہ ہے کہ محسن کے احسان کا حق ادا کیا جائے۔ جس درجے کا محسن ہوگا، اسی درجے کا حقِ احسان ہوگا۔
اللّٰہ کا شکر: تمام نعمتوں کا حقیقی منعم و محسن اللہ تعالیٰ ہے، اس لیے اس کا شکر ہر انسان پر واجب ہے۔ اللہ کا سب سے بڑا شکر اس پر ایمان لانا ہے اور یہ وہ شکر ہے کہ اس کے بغیر کوئی شخص اللہ کے غضب اور اس کی دوزخ سے نجات نہیں پاسکتا۔ شکر کی ضد، کفرانِ نعمت ہے اور سب سے بڑی ناشکری اس پر ایمان نہ لانا ہے۔ یہ ناشکری وہ حقیقی کفر ہے جوانسان کو ابدی لعنت میں گرفتار کردیتا ہے:
جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا اور کفر کی حالت ہی میں جان دی، ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ اسی لعنت زدگی کی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کی سزا میں تخفیف ہوگی اور نہ انھیں پھر کوئی مہلت دی جائے گی۔ (البقرہ ۲:۱۶۱-۱۶۲)
قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اللہ نے کفار و مشرکین کو اپنی نعمتیں یاد دلائی ہیں اور پھر ان سے سوال کیا ہے: اَفَلَا یَشکُرُوْنَ (پھر کیا یہ شکرادا نہیں کرتے؟) ۔سورئہ یٰس میں دو بار یہ سوال کیا ہے (یٰسٓ ۳۶:۳۵‘ ۷۳)۔ کہیں لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ کا صیغہ ہے۔ کہیں لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ کا۔ کہیں قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُوْنَ،کہیں فَلَوْلَا تَشْکُرُوْنَ اور کہیں وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوْنَ ___ ان تمام مقامات میں جو دعوت ان کو دی گئی ہے وہ دعوت توحید ہے۔ اللہ پر ایمان لانا اور اسی کو الٰہ واحد تسلیم کرنا، یہ ہے اللہ رب العزت کا وہ شکر جس کے بغیرنہ کوئی انسان دائرئہ کفروشرک سے باہر نکل سکتا اور نہ اللہ کی رحمت و جنت کا مستحق ہوسکتا ہے۔
انبیاے کرام کی دعوت کا ایک جز: انبیاے کرام علیہم السلام نے اپنی قوموں کو توحید اور بندگیِ رب کی جو دعوت دی ہے اس کا ایک جز دعوتِ شکرگزاری بھی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: ’’اللہ سے رزق مانگو اور اسی کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو، اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو‘‘۔ (العنکبوت ۲۹:۱۷)
پس اے لوگو۱ اللہ نے جو کچھ حلال اور پاک رزق تم کو بخشا ہے اسے کھائو اور اللہ کے احسان کا شکر ادا کرو۔ اگر تم واقعی اسی کی بندگی کرنے والے ہو۔ (النحل ۱۶:۱۱۴)
یہی مطالبہ مسلمانوں سے بھی کیا گیا ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تم حقیقت میں اللہ ہی کی بندگی کرنے والے ہو تو جو پاک چیزیں ہم نے تمھیں بخشی ہیں انھیں بے تکلف کھائو اور اللہ کا شکر ادا کرو‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۷۲)
شکر: حکمت کا اولیں ثمرہ : اللہ نے حضرت لقمان کو حکمت عطا کی اور ساتھ ہی اپنا شکر ادا کرنے کا حکم دیا۔ ’’ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ اللہ کا شکرگزار ہو۔ جو کوئی شکر کرے اس کا شکر اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے۔ اور جو کفر کرے تو حقیقت میں اللہ بے نیاز ہے اور آپ سے آپ محمود ہے‘‘۔ (لقمان ۳۱:۱۲)
حضرت سلیمانؑ کی توفیق شکر کی دعا: اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو جو محیرالعقول نعمتیں عطا فرمائی تھیں، ان میں ایک یہ تھی کہ وہ حشرات الارض کی زبان سمجھتے تھے۔ چیونٹیوں کے سردار کی گفتگو سن کر انھوں نے یہ دعا مانگی:
اے میرے رب! مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عمل صالح کروں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر۔(النمل ۲۷:۱۹)
اللّٰہ کی بے شمار نعمتیں: قرآن کریم نے یہ حقیقت بھی انسانوں کے سامنے رکھ دی ہے کہ اللہ کی نعمتیں اور اس کے احسانات ناقابلِ شمار ہیں: ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو کرنہیں سکتے‘‘(ابراھیم ۱۴:۳۴)۔ ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی درگزر کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔ (النحل ۱۶:۱۸)
ان آیات میں غفور اور رحیم کی دو صفتیں قابلِ غور ہیں۔ کچھ ایسا سمجھ میں آتا ہے کہ یہ ناشکروں کی تنبیہہ کے لیے بھی ہیں اور شکرگزاروں کی تسکین کے لیے بھی۔ تنبیہہ یہ ہے کہ جس مالک کے اپنے بندوں پر اتنے احسانات ہیں کہ وہ ان کا احاطہ نہیں کرسکتے، جن کی زندگیاں گود سے گور تک اس کے احسانات میں ڈھکی ہوئی ہیں اور جس نے ان کے بقا و ارتقا کے تمام سامان مہیا کررکھے ہیں، کیا ان کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ ایسے مہربان مالک کی بغاوت پر آمادہ ہوں‘ اس کے حقوق میں دوسروں کو شریک کریں اور ناشکری کے رویے پر اڑے رہیں۔ ان کومتنبہ رہنا چاہیے کہ وہ غفور اوررحیم ہے، اس لیے وہ ان کو توبہ و اصلاح کی مہلت دے رہا ہے۔ شکرگزاروں کی تسکین یہ ہے کہ اگرچہ وہ اس کی بے شمار نعمتوں کا شکریہ ادا نہیں کرسکتے لیکن وہ غفور اور رحیم ہے، اس لیے ان کی کوتاہیوں سے درگزر کرے گا اور انھیں اپنے دامنِ رحمت میں چھپالے گا۔
ھر نیکی شکر ھے: پہلے گزر چکا کہ شکر کی تین قسمیں ہیں اور نیکی کا ہر کام اللہ کی نعمت ہے خواہ اس کا تعلق قلب سے ہو یا زبان سے یا دوسرے اعضا و جوارح سے۔ اس نعمت کا شکریہ اس کو انجام دینا ہی ہے۔ اس لیے تمام عبادتیں، شکر ہیں اور ہر نیکی جو مسلمان خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہے، شکرہے۔ رمضان کے روزوں کو نعمت قرآن کا شکریہ، خود اللہ تعالیٰ نے قرار دیا ہے: وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (اور تاکہ تم شکرگزار بنو)، یعنی اللہ تعالیٰ نے تمھیں قرآن کی جو عظیم الشان نعمت عطا کی ہے۔ رمضان کے روزے اس کا شکریہ بن جائیں۔ عبدالرحمن سلمیٰ نے کہا: ’’نماز شکر ہے، روزے شکر ہیں اور ہرنیک کام جو تم اللہ کے لیے کرتے ہو، شکر ہے، اور افضل شکر اللہ کی حمد ہے‘‘۔ (مختصر تفسیر ابن کثیر بحوالہ ابن جریر)
بندوں کا شکر: اللہ تعالیٰ کی بہت سی نعمتیں ایسی ہیںجو بندوں کو دوسرے بندوں کے واسطے اور ذریعے سے ملتی ہیں۔ اس لیے ان واسطوں اور ذریعوں کا بھی علی قدر مراتب (جس کا جو درجہ و مرتبہ ہو) شکریہ ادا کرنا ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بندوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے۔ کیونکہ ہر انسان کو اس کے وجود اور ہستی کی نعمت، والدین ہی کے واسطے سے ملتی ہے۔ والدین ہی کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ ان ہی دونوں کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے:
اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسانوں کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے، اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اُس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ (اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔ (لقمان ۳۱:۱۴)
والدین کے حقوق اور ان کا شکریہ، ایک مستقل موضوع ہے۔ اس لیے اس کی تفصیل ہم یہاں پیش نہیں کرتے اس کے لیے سورئہ لقمان اور سورئہ بنی اسرائیل کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ احادیث نبوی میں بھی اس کی تفصیل موجود ہے۔
بندوں کا شکر ادا کرنے کی اھمیت: ایک انسان جب دوسرے انسان پر کوئی احسان کرتا ہے تو شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ محسن کا شکریہ ادا کیا جائے۔ دین میں اس کی اہمیت یہ ہے کہ جو شخص انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا، اللہ اس سے اپنے شکریے کو بھی قبول نہیں کرتا۔ امام ترمذی نے ابواب البر والصلۃ میں حضرت ابوہریرہؓ کی یہ روایت نقل کی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگوں کا شکرگزارنہیں، وہ اللہ کا شکرگزاربھی نہیں۔ حضرت ابوسعید خدریؓ کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں: جس نے لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کیا، اس نے اللہ کا شکر ادا نہیں کیا۔
اس باب میں اشعث بن قیس اور نعمان بن بشیرؓ کی حدیث بھی ہے۔ ان حدیثوں سے لوگوں کے شکریے کی اہمیت پوری طرح واضح ہو گئی۔ قرآن کریم میں ایک کلید کے طور پر کہا گیا ہے: ھَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلاَّ الْاِحْسَانُ (الرحمٰن ۵۵:۶۰) ’’نیکی کا بدلہ، نیکی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے‘‘۔ جانور بھی اپنے محسن کا احسان مانتے ہیں۔ اب اگر انسان اپنے محسن کا احسان نہ مانے تو وہ جانورسے بھی بدتر ہوا۔
شکریہ ادا کرنے کے طریقے: کسی کے احسان کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ احسان کیا جائے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی کے یہاں ہدیتاً کوئی چیز بھیجے تو جواب میں ہدیتاً اس کے یہاں کوئی چیز بھیجنی چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول فرماتے تھے اور ہدیہ دینے والے کو اس کا صلہ بھی دیا کرتے تھے۔ اگر آدمی احسان کا بدلہ اسی طرح کے احسان سے نہ دے سکے تو زبان سے اپنے محسن کی تعریف کرے اور لوگوں میں اس کے احسان کا تذکرہ کرے۔ اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شکریے کی ایک مختصر دعا بھی سکھائی ہے۔
حضرت اسامہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے ساتھ کوئی نیکی کی جائے اور وہ نیکی کرنے والے سے کہے: جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا ’’اللہ تمھیں اس کا اچھا بدلہ دے، اس نے مبالغہ کے ساتھ اپنے محسن کی ثنا کی۔ (جمع الفوائد بحوالہ ترمذی)
دوسری احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محسن کی مدح و ثنا کو اس کا شکریہ قرار دیا ہے۔ جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا کی مختصرسی دعا کو اگر کوئی سمجھے تو یہ اتنا بڑا بدلہ ہے کہ قیمتی سے قیمتی دنیوی ہدیہ بھی اس کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول فرما لے اور اپنی طرف سے اس کا بدلہ دے تو اس کی قیمت کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔
شکر کی نسبت اللّٰہ کی طرف: شاکر اور شکور، اللہ تعالیٰ کی صفت بھی ہے۔ شکر کی نسبت جب اللہ کی طرف ہوتی ہے تو اس کا مطلب ’قدردانی اور ثواب رسانی‘ہوتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ فرماں برداری اور نیک کام کی قدر کرتا اور اس کا انمول صلہ دیتا ہے۔ سورۃ البقرہ میں ہے:
یقینا صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ لہٰذا جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے، اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ ان دونوں پہاڑوں کے درمیان سعی کرلے اور جو برضا و رغبت کوئی بھلائی کا کام کرے گا، اللہ کو اس کا علم ہے اور وہ اس کی قدر کرنے والا ہے۔ (۲:۱۵۸)
آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمھیں خواہ مخواہ سزا دے اگر تم شکرگزار بندے بنے رہو اور ایمان کی روش پر چلو۔ اللہ بڑا قدردان ہے اور سب کے حال سے واقف ہے۔(۴:۱۴۷)
اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَکُوْرٌ o (فاطر ۳۵:۳۴) یقینا ہمارا رب معاف کرنے والا اور قدر فرمانے والا ہے۔
شکر کی نسبت بندوں کی طرف: بندوں کو شاکر اور شکور کہنے کا مطلب ’اعتراف نعمت اور احسان مندی‘ ہوتا ہے یعنی بندہ اپنے مالک کی نعمتوں اور اس کے احسانات کا معترف اور جذبۂ شکروسپاس سے سرشار ہے۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم اپنی ذات سے ایک پوری اُمت تھا، اللہ کا مطیع فرمان اور یک سو۔ وہ کبھی مشرک نہ تھا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا۔ اللہ نے اس کو منتخب کرلیا اور سیدھا راستہ دکھایا۔ (النحل ۱۶:۱۲۰-۱۲۱)
حضرت نوحؑ کے بارے میں فرمایا: ’’اور نوح ایک شکرگزار بندہ تھا‘‘۔ (بنی اسرائیل ۱۷:۳)
بیک وقت صبروشکر کا اجتماع: صبر کا تعلق عام طور پر بلاومصیبت سے ہوتا ہے اور شکر کا عافیت و آرام سے۔ لیکن ایک چیز دو مختلف اعتبارات سے بیک وقت مصیبت بھی ہوتی ہے اور نعمت بھی۔ ایک مومن و مسلم پر اللہ کی طرف سے جو مصیبت آتی ہے، وہ دنیا کے لحاظ سے مصیبت ہوتی ہے اور اجرِ آخرت کے اعتبار سے نعمت ___ ایسے موقع پر صبر اور شکر کا اجتماع ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ کے بعض ایسے بندے بھی ہوتے ہیں جو غلبۂ محبت الٰہی میں مصیبت سے لذت حاصل کرنے لگتے ہیں۔ اسی کیفیت کے اظہار کے لیے کہا گیا ہے: ع ہرچہ از دوست می رسد نیکواست، یعنی دوست [اللہ] کی طرف سے جو چیز بھی پہنچے، وہ اچھی ہے۔ قرآن کریم میں صبّار اور شکور کا اجتماع شاید اسی کی طرف اشارہ ہے:
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ o (ابراھیم ۱۴:۵) ان واقعات میں بڑی نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو۔
یہ بات ایک حدیث میں صراحت کے ساتھ کہی گئی ہے۔ ابن ماجہ نے اپنی سنن میں، ابویعلیٰ نے اپنی مسند میں اور حاکم نے اپنی مستدرک میں ابوسعید خدریؓ سے مرفوعاً یہ روایت کی ہے کہ سخت ترین مصیبتیں انبیا ؑپر آتی ہیں۔ اس کے بعد اللہ کے نیک بندوں (صالحین) پر۔ اس حدیث کا یہ ٹکڑا قابلِ غور ہے۔
تم میں کوئی فرد عطاء و نعمت سے جتنا خوش ہوتا ہے، ان میں کا ایک فرد اس سے زیادہ بلاومصیبت سے خوش ہوتا تھا۔ (مسندامام اعظم مع شرح ملا علی قاری)
بلاومصیبت انبیاے کرام علیہم السلام کے لیے رفع درجات کا موجب اور اولیا کے لیے کفارۂ سیئات کا وسیلہ ہے۔ امام غزالیؒ نے احیاء العلوم باب الشکر میں حضرت عمرؓ کا یہ قول نقل کیا ہے:
ہر مصیبت جو مجھ پر آئی اللہ تعالیٰ کے چار انعامات اپنے ساتھ لائی۔ ایک یہ کہ اس کا تعلق میری دنیا سے تھا، دین سے نہ تھا، دوسرا یہ کہ اس مصیبت سے کوئی بڑی مصیبت بھی آسکتی تھی مگر اللہ کے کرم سے چھوٹی آئی۔ تیسرا یہ کہ میں قضا و قدر پر راضی رہا، اور چوتھا یہ کہ میں اس پر اجروثواب کا امیدوار ہوں۔
امتحانِ شکر: شکر کی آزمایش ، صبر کی آزمایش سے زیادہ کٹھن ہوتی ہے۔ اس تشریح کی ابتدا میں سورۂ سبا کی جو آیت پیش کی گئی ہے اس کا دوسرا فقرہ یہ ہے: وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُo (۳۴:۱۳) ’’اور میرے بندوں میں کم ہی شکرگزار ہیں‘‘۔
اس فقرے کے بارے میں امام راغب نے لکھا ہے: اس میں تنبیہہ ہے اس بات کی کہ شکرالٰہی کا پورا حق ادا کرنا بہت مشکل ہے، اس لیے قرآن میں صرف دو نبیوں کو اس صفت سے متصف قرار دے کر اللہ تعالیٰ نے ان کی مدح کی ہے، یعنی حضرت نوح اور حضرت ابراہیم علیہما السلام۔
حضرت نوح ؑکو سورئہ بنی اسرائیل میں عَبْدًا شَکُوْرًا (شکرگزار بندہ) اور حضرت ابراہیم ؑ کو سورئہ نحل میں شَاکِرًا لّاِ.َنْعُمِہٖ (اللہ کی نعمتوں کے شکرگزار) کہا گیا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ دوسرے انبیاے کرام کی شکرگزاری کم تھی، بلکہ اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ ان دونوں نبیوں کی اس صفت کا ذکر کر کے انھیں ایک ’امتیاز‘ عطا کیا گیا ہے۔ قومِ لوطؑ پر جب عذاب آیا تو اللہ نے آلِ لوط ؑ کو عذاب سے بچا لیا۔ اس کو اللہ نے اپنا فضل قرار دیا اور اس کے بعد کہا:
کَذَالِکَ نَجْزِیْ مَنْ شَکَرَ o (القمر ۵۴:۳۵) یہ جزا دیتے ہیں ہم ہر اُس شخص کو جو شکرگزار ہوتا ہے۔
اس فقرے کی تشریح میں مولانا امین احسن اصلاحی نے لکھا ہے:’’ کَذَالِکَ نَجْزِیْ مَنْ شَکَرَ میں حضرت لوط ؑکی غیرمعمولی صفت شکر کی غیرمعمولی داد بھی ہے اور اس کا اعلانِ عام بھی کہ اللہ تعالیٰ کی یہ عنایت صرف حضرت لوطؑ ہی کے لیے خاص نہ تھی بلکہ آج بھی جو لوگ اس کے شکر کرنے والے ہوں گے، وہ اس کی عنایتِ خاص کے حق دار ہوں گے۔ اس کا دامن رحمت بہت وسیع ہے‘‘۔ (تدبرقرآن، ج ۷، ص ۱۰۸)
شکر کا دنیوی صلہ: اللہ تعالیٰ آخرت میں اپنے شکرگزار بندوں کو جو اجر عطا فرمائے گا اور جن انعامات سے نوازے گا، وہ تو اپنی جگہ ہیں، دنیا میں اس کا صلہ یہ ہے کہ اللہ کی نعمتوں کا حقیقی شکریہ ادا کرنے سے اس کی نعمتوں اور افضال و عنایات میں اضافہ ہوتا ہے۔ نعمتوں کا حقیقی شکر یہ ہے کہ انھیں اللہ تعالیٰ کی مرضیات میں صرف کیا جائے، اس کی معصیتوں اور نافرمانیوں میں صرف نہ کیا جائے۔سورۂ ابراہیم میں ہے:
اور یاد رکھو، تمھارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔ اور موسٰی ؑنے کہا کہ ’’اگر تم کفر کرو اور زمین کے سارے رہنے والے بھی کافر ہوجائیں تو اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے‘‘۔ (۱۴:۷-۸)
شکرگزاری پر انعامات میں اضافے کا یہ وعدہ قیامت تک تمام شکرگزاروں کے لیے ہے، اور ناشکری پر سخت عذاب کی یہ دھمکی بھی قیامت تک تمام ناشکرگزاروں کے لیے ہے۔
اللہ کی سب سے بڑی نعمت اس کی دی ہوئی شریعت ہے۔ اس کا شکر یہ ہے کہ اس پرعمل کیا جائے، اس کی حفاظت کی جائے، اور اس کے نفاذ کی جان توڑ کر کوشش کی جائے۔ اس وقت دنیا میں پھیلا ہوا گھنگور اندھیرا اس کے بغیر چھٹ نہیں سکتا:
گھنگور اندھیرا چھایا ہے
یہ دھندلی شمعیں تیز کرو
منزل ہے کٹھن اور دُور بھی ہے
گھوڑوں کو ذرا مہمیز کرو
ہماری زندگیوں میں ایک ایسا موڑ، ایسا مرحلہ اور ایک ایسا لمحہ بھی آتا ہے جو ہمیں ماضی کی یاد دلا دیتا ہے۔ ایک ناگوار اور اذیت بھری صورت حال جو ہم پر اس خاص لمحے کی بدولت واقع ہوئی ہو، یا پھر ایسا کوئی غیرمعمولی لفظ، اپنی وحشت ناکی کے سبب ہمارے ذہن سے چپک کر رہ گیا ہو، یا پھر کوئی ایسا دل خراش واقعہ جس کا ہم نے اپنی جاگتی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہو۔ ہم واضح طور پر محسوس کرتے ہیں کہ وقت تیزی سے ہمارے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے اور ہم کفِ افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں سے کیا فائدہ اٹھایا اور مجموعی طور پر ہمارا حاصل کیا ہے؟ ہم نے اپنی زندگیوں کو کس نہج پر ڈھالا ہے؟
ہم کبھی اوجِ کمال پہ تھے لیکن اب وہ سوتے خشک اور بنجر پڑے ہیں جہاںسے علم و عرفان کے چشمے اُبلتے تھے، ہماری خوابیدہ اور پوشیدہ صلاحیتیں کہیںدفن ہوچکی ہیں۔ اب ہمارا مقصدِحیات صرف اور صرف اِسی عارضی دنیا کی نمود و نمایش کا حصول ہے۔ ہمارے اذہان میں اُس وقت کی یاد بھی سر اٹھا رہی ہے جب ہم خالقِ کائنات کے سچے اور فائز المرام خادم اور غلام تھے اور اس وقت ہماری حالت یہ ہے کہ ہم تفکر ، پریشانی اور ندامت کے عمیق گڑھے میں گرے روحانی طور پر کمزور سے کمزور تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم لاعلم ہیں بلکہ ہم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ ہم نے اپنے مقصد، اپنے ہدف کی جانب پیش رفت نہیں کی ہے۔
ہم اپنی اصلاح کے خواہاں ہیں___ اور ہمیں بخوبی علم ہے کہ ہم میں یہ صلاحیت موجود ہے۔ آیئے، ہم ذاتی اصلاح کا آغاز دوبارہ کریں۔ آیئے، ہم اپنے منتشر خیالات و احساسات کو مجتمع کریں اور اپنے عہد پر عمل پیرا ہونے کا عزمِ صمیم کریں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اب کی بار نہ تو ہم اسلامی تعلیمات کو فراموش کریں گے اور نہ اپنے ارادوں میں ناکام ہی ہوں گے۔ ہم زیادہ سے زیادہ روزے رکھیں گے، نمازکے قیام میں مزید پابندی لائیں گے، تلاوتِ قرآن پاک کا معمول زیادہ کریں گے___ ہم دنیا کو بدل دیں گے اور اسے ایک بہتر مقام بنا دیں گے۔
ہم اس کام کی ابتدا تو اعلیٰ عزم اور انتہائی جوش و خروش کے ساتھ کرتے ہیں لیکن جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے، ہمارے عزائم وارادے متزلزل ہوتے چلے جاتے ہیں اور بالآخر وقت کی دبیز تہوں میں معدوم ہوجاتے ہیں، ہم اپنے اہداف و مقاصد کو طاقِ نسیان پر رکھ دیتے ہیں۔ ہم ایک بار پھر ارادوں، وعدوں اور اصلاح احوال کے حسین تصور میں کھو جاتے ہیں، حتیٰ کہ ہم دوبارہ اپنا جائزہ لیتے نظر آتے ہیں۔
ہم اس غفلت سے کیسے نجات پاسکتے ہیں؟ ہم اپنے نیک ارادوں کو مستقل عملی شکل کیسے دے سکتے ہیں؟___ میں یہ نہیں کہتی کہ ان تمام استفسارات کے جواب میرے پاس موجود ہیں۔ تاہم، اپنے ان تجربات و مشاہدات کی روشنی میں اپنی روز مرہ زندگی کو اسلامی تعلیمات و عقائد و اخلاقیات کے مطابق ڈھالنے کے لیے چند رہنما نکات پیش ہیں:
ہمارا ہر فعل، ہر عمل اور ہر لفظ، صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہونا چاہیے جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
کہو، میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں ۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِ اطاعت جھکانے والا میں ہوں۔ (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳)
یہ کتاب ہم نے تمھاری طرف برحق نازل کی ہے ، لہٰذا تم اللہ ہی کی بندگی کرو دِین کو اُسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ خبردار ، دین خالص اللہ کا حق ہے ۔(الزمر ۳۹:۲-۳)
نیک نیتی اور اخلاص کے بغیر افعال و اعمال ایسے ہی ہیں جیسے ایک مسافر کے پاس پانی والے برتن میں مٹی ہی مٹی ہو۔ یہ وزن اس کے لیے سراسر بوجھ ہے اور اسے اس سے قطعی کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبرؐ کو آگاہ کیا ہے کہ وہ اپنے بندے کے دل سے نکلنے والی ہردعا اور عرض کو سنتا ہے اور پکارنے والے کو اس کا جواب بھی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ (البقرہ ۲:۱۸۶)
بلاشبہہ جب ہم تفکرات و پریشانیوں میں گھِر جاتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو ہماری خبرگیری کی قدرت رکھتی ہے۔ اس ضمن میں فرمانِ الٰہی ہے:
کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے، جب کہ وہ اسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟ (النمل ۲۷:۶۲)
ہم میں سے کسی شخص کے لیے اپنے مقاصد و اہداف کے حصول کو آج ہی سرانجام دینے کے بجاے کل پر ٹال دینا نہایت ہی آسان ہے ،کیونکہ اس طور ہم اپنی نااہلی اور بے قاعدگی کو منطق کی دبیز تہہ میں دفن کرسکتے ہیں۔ ہماری زبان پر اکثر یہی کلمات ہوتے ہیں: ’’ان شاء اللہ میں کل اپنی زندگی میں تبدیلی لائوںگی‘‘ لیکن یہ ’کل‘ کبھی نہیں آتی اور آپ کا یہ ارادہ بھی کبھی پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ قرونِ وسطیٰ کے کسی عالم نے کہا تھا:
اپنی تساہل پسندی آج کا کام کل پر ٹالنے کے خطرناک اصول کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیجیے۔ یہ شیطان کی فوج کا سب سے طاقت ور سپاہی ہے۔ وہ بات نہ کیجیے، وہ ارادہ نہ باندھیے جس کے لیے آپ دلی طور پر تیار نہیں ہیں۔ اس عمل کے باعث آپ کسی اور کو نہیں، بلکہ خود کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ اپنے ارادوں اور اپنے عزم کو ذوق و شوق اور مثبت انداز فکر عطا کیجیے۔
عام طور پر ہم ابتدا ہی سے بڑے بڑے منصوبوں کے خواب دیکھنے لگتے ہیں لیکن جب یہ عملی طور پر تکمیلی شکل اختیار نہیں کرتے تو ہم حوصلہ ہار دیتے ہیں۔ ہم مایوس ہوجاتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ کوئی بھی معمولی یا ادنیٰ کام چھوٹا نہیں ہوتا۔ ایک دن نبی کریمؐ سے کسی نے پوچھا کہ کون سا کام اللہ تعالیٰ کو بہت مرغوب ہے، تو آپؐ نے فرمایا: ’’وہ کام جو باقاعدگی اور تسلسل سے کیا جائے، اگرچہ وہ چھوٹا سا ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ (بخاری، فتح الباری)
بڑے بڑے، بے فائدہ اور اندھا دھند ڈگ بھرنے کے بجاے، چھوٹے چھوٹے مفید اور مسلسل قدم، عظیم کامیابیوں کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں محاورتاً ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نوالہ اتنا لیں جتنا چبا سکیں اور نگل سکیں۔ ہمیشہ ابتدا چھوٹے چھوٹے کاموں سے کیجیے۔ چھوٹے چھوٹے منصوبے بنایئے تاکہ آپ اپنے ارادوں کو مستقل اور آسانی کے ساتھ جاری رکھ سکیں اور پھر اس کے بعد ذرا مشکل کام میں ہاتھ ڈالیں۔ یہ لائحہ عمل آپ کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہوگا، اور آپ مزید کامیابی سے ہم کنار ہوسکیں گے۔ ان شاء اللہ وقت گزرنے کے ساتھ آپ محسوس کریں گے کہ آپ کی زندگی، آپ کے معمولات میں عظیم انقلاب رونما ہوچکا ہے۔
جو فرد آپ پر تنقید کرتا ہے وہی آپ کا دوست ہے، اور جو آپ کی غلطیوں کو اُچھالتا ہے اسے آپ سے قطعی محبت وہمدردی نہیں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ نصیحت ان کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے جو اسے اپنی گرہ سے باندھ لیتے ہیں، لہٰذا ان افراد کو اپنا دوست بنایئے جو اچھے ساتھی ثابت ہوں۔ اچھے ساتھی ہی آپ کو صحیح مشورہ دیں گے اور یہ سچے دوست ہی آپ کے ارادوں کی تکمیل میں آپ کے مددگار ثابت ہوںگے۔ ان افراد کی صحبت سے پرہیز کیجیے جو آپ کے عزم کو متزلزل کرنے کی یا آپ کے پاے استقلال میں لرزش لانے کی کوشش کریں۔ حضرت علیؓ کے اس فرمان کو ہمیشہ مدنظر رکھیے:
ہمیشہ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرو، تم ان جیسے ہی ہوجائو گے، اور بُرے لوگوں کی صحبت سے بچو تاکہ تم ان کے شر سے محفوظ رہ سکو۔
اپنے اہداف و مقاصد کی ایک فہرست بنا لیں اور اسے اپنے سامنے دیوار پر لٹکا دیں۔ اس فہرست کو اپنی ڈائری میں بھی لکھ لیجیے۔ اسے اپنے بٹوے میں بھی رکھیں اور یا پھر اسے اپنے لاکر کے اندر چسپاں کردیں۔ پھر آپ یہ بھی کرسکتے ہیں کہ اپنے اہداف و مقاصد کی تکمیل کے لیے کیے جانے والے کاموں کو ترتیب وار اپنی نوٹ بک میں تحریر کرتے جائیں، حتیٰ کہ آپ کمپیوٹر پر بھی اپنے نام سے بنائی گئی فولڈر/فائل پر ان اقدامات کو درج کرسکتے ہیں۔ اپنے آپ کے ساتھ مخلص رہیے کہ اپنے اہداف و مقاصد پر تنقیدی نظر ڈالتے رہیے۔ اس عمل کے ذریعے آپ سُست نہیں ہوں گے۔ مسلم میں بیان کردہ ایک حدیث کے مطابق جب نبی کریمؐ کسی کام کا آغاز کرتے تو اسے ختم کردیتے۔ حدیث قدسی ہے:
میرے بندے میری قربت اور وصل حاصل کرنے کے لیے اس وقت تک خفیہ طور پر نوافل ادا کرتے رہتے ہیں، جب تک میں ان کی طرف متوجہ نہیں ہوجاتا۔ (بخاری)
مَایَازَلُو یہ خاص لفظی اصطلاح، وصلِ الٰہی کے حصول و جستجو کی سعی کے لیے تسلسل اور تواتر کا اشارہ ہے۔ حضور نبی کریمؐ نے بھی فرمایا: ’’حج اور عمرہ بار بار کرتے رہو‘‘۔
یہ ایک ناگزیر حقیقت ہے کہ بعض اوقات ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارا ایمان متزلزل ہو رہا ہے، یا ہم میں جہدِ مسلسل کی اُمنگ اور جوش و جذبہ ماند پڑ رہا ہے۔ اس ضمن میں رسولؐ اللہ کا فرمان ہے:
جس طرح جسم پر لباس پہنتے پہنتے پتلا اور بوسیدہ ہوجاتا ہے، اسی طرح دل میں بھی ایمان کا ضعف پیدا ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اللہ سے دعامانگو کہ وہ تمھارے دل میں ایمان تازہ کردے۔ (الحاکم)
عبادتِ الٰہی اور نیک افعال سرانجام دینے کا مطلب یہ نہیں کہ بندہ کسی اور طرف توجہ نہ کرے۔ ان افعال کا تسلسل تو ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ جب ہم میں قوت اور آمادگی اور خواہش موجود ہوتی ہے تو ہم جان توڑ کوشش کرتے ہیں، اور جب ہم ان قوتوں سے محروم ہوتے ہیں، تو جو کچھ ہمارے بس میں ہوتا ہے، وہ کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دین میں بہت آسانی ہے اور جو دین میں اپنے لیے غیرمعمولی مشکلات پاتا ہے، وہ دین کے مطابق نہیں چل سکتا۔ لہٰذا تمھیں دین کے معاملے میں انتہاپسندی سے بچنا چاہیے، بلکہ صحیح ترین چیز اپنانا چاہیے۔(بخاری)
ایک دوسری حدیث کے مطابق رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’اپنے اعمال و افعال میں اعتدال پیدا کرو، پھر تم اپنا مقصد حاصل کرسکو گے‘‘۔ (بخاری)
بہتر زندگی گزارنے کے لیے اپنے جذبے کو تحریک دیجیے۔ اس کے بہترین ذرائع قرآن عظیم، نبی کریمؐ، آپؐ کے صحابہ کرامؓ، آپؐ کے متقی جانشین اور علماے کرام ہیں۔
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کی زندگی پر نظر دوڑایئے۔ اپنی عمر کے آخری حصے میں ان کی عبادت کے معمول میں بہت شدت پیدا ہوچکی تھی۔ کسی نے ان سے کہا کہ وہ عبادتِ الٰہی میں کمی کیوں نہیں کرتے اور خود کو آرام کیوں نہیںپہنچاتے؟ آپ نے جواب دیا: ’’جب گھڑدوڑ شروع ہوتی ہے تو اختتامی نقطے کے قریب پہنچ کر گھوڑے اپنی تمام تر توانائی صرف کرڈالتے ہیں، اور میری زندگی میں جو کچھ بھی باقی بچا ہے،وہ اس سے کہیں کم ہے‘‘۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی وفات تک اسی تندہی سے عبادتِ الٰہی میں مصروف رہے۔
عامر بن عبداللہ کی زندگی کو بھی پیش نظر رکھیے۔ ایک دفعہ آپ سے کسی نے پوچھا: آپ ساری ساری رات کیسے جاگ لیتے ہیں اور شدید گرمی و تپش میں پیاس کیسے برداشت کرتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا: کیا اس سے بھی بہتر کوئی چیز ہے کہ صبح کا کھانا رات تک ملتوی کردیا جائے، اور رات کی نیند دن پر قربان کردی جائے۔ جب رات آتی تو وہ کہتے: ’’دوزخ میں دہکتی آگ کا تصور مجھے سونے نہیں دیتا‘‘ اور وہ پھر صبح تک جاگتے رہتے۔
پھر الرابی ابن خزائم کی زندگی کی تصویر ملاحظہ کیجیے۔ ابوحیان نے بتایا کہ ان کے والد نے کہا: الرابی ابن خزائم ٹانگوں سے معذور تھے اور باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے ان کو اٹھا کر لے جایا جاتا تھا۔ بعض لوگوں نے ان سے کہا: آپ کی معذوری کے سبب آپ کو تو مسجد میں نماز کے لیے آنے کی چھوٹ ہے۔ آپ نے جواب میں ایک حدیث سے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’نماز کے لیے بلاوے کی آواز حی علی الصلٰوۃ میرے کانوں میں سنائی دیتی ہے، لہٰذا تمھیں اگر نماز کے لیے رینگتے ہوئے بھی جانا پڑے تو اسی طرح جائو‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ پر بے انتہا لطف و کرم کرتے ہوئے مسلمانوں کو عبادت کے متعدد طریقے مرحمت فرمائے ہیں۔ ان میں سے کچھ جسمانی حرکات و سکنات پر مشتمل ہیں، مثلاً نماز، کچھ مالی ہیں، مثلاً زکوٰۃ و صدقہ، کچھ الفاظ پر مشتمل ہیں، مثلاً دعا اور ذکر۔
ان مختلف آسان طریقوں میں پوشیدہ حکمت، مختلف افراد کی آمادگی اور صلاحیتوں کی نوعیت میں امتیاز کو ظاہر کرتی ہے۔ بعض لوگ دیگر افراد کی بہ نسبت عبادت الٰہی کا فرض کی حیثیت سے زیادہ اہتمام کرتے ہیں جس میں عذر کی گنجایش نہیں۔ اسی طرح بعض کا رجحان راہِ خدا میں مال خرچ کرنے اور انفاق کی طرف زیادہ ہوتا ہے، اور بعض کا ذکر اذکار میں۔ اس میں شک کی گنجایش نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عبادت کی مختلف اقسام کے مطابق جنت کے مختلف دروازے متقیوں کے لیے وا کردیے ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ کی بیان کردہ ایک حدیث مبارکہ کے مطابق حضور نبی کریمؐ نے فرمایا:
جو شخص رضاے الٰہی سے منسلک کام، اللہ کی رضا کی خاطر سرانجام دے گا، وہ جنت کے دروازوں (منسلکہ دروازوں) میں سے بلایا جائے گا۔ اے اللہ کے بندے، یہ تو انعامِ خداوندی ہے، تم میں سے جو شخص نمازی ہوگا، اسے جنت میں نماز کے دروازے سے پکارا جائے گا۔ تم میں سے جو شخص جہاد کرتاہوگا، اسے جنت میں جہاد کے دروازے سے پکارا جائے گا۔ تم میں سے جو شخص روزے کا پابند ہوگا، اسے جنت میں الریان کے دروازے سے پکارا جائے گا۔ تم میں سے جو شخص خیرات و صدقہ کرتا ہوگا، اسے جنت میں خیرات و صدقہ کے دروازے سے پکارا جائے گا۔ (بخاری)
جیساکہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے، متعدد اقسام کے کام اور افعال سرانجام دیے جاسکتے ہیں۔ روزمرہ کے معمولات میں گھریلو، دفتری، کاروباری، خاندانی اور دوستی کے امور شامل ہیں جنھیں نہایت ذمہ داری کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ خیال رہے کہ دنیاوی امور میں مگن ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے روزمرہ معمولات میں اسلامی تعلیمات، عقائد اور اخلاقیات کو داخل کرنا بھول جائیں اور اپنی زندگی کو احکامِ الٰہیہ اور سنتِ رسولؐ کے مطابق ڈھالنے سے گریز کریں۔ جیساکہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے، اللہ تعالیٰ نے عبادت کے نہایت آسان طریقے مرحمت فرمائے ہیں۔ کھانا پکاتے ہوئے ذکر کیا جاسکتا ہے، بس کا انتظار کرتے ہوئے دعا کے الفاظ دہرائے جاسکتے ہیں، دفتر سے گھر آتے ہوئے گاڑی میں اسلامی تعلیمات و احکامات پر مبنی لیکچر سنا جاسکتا ہے، آسان عبادات کی فہرست نہایت ہی طویل ہے۔ بہرحال، حاصل کیا ہے، حاصل یہ ہے کہ آپ جو کچھ جب بھی کرسکتے ہیں، کریں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ثابت قدمی اور استقلال عطا فرمائے اور ہمیں دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں سرخ رو فرمائے۔ آمین! (ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ (WAMY)کا ترجمان، Muslim Youth، ریاض، مارچ ۲۰۰۶ئ)
’نظریۂ ضرورت‘ کے سہارے پاکستان کے دستوری اور سیاسی نظام کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے اور ہر طالع آزما کی زورآوری اور دستورشکنی کو اس کے ذریعے جوازفراہم کیا گیا ہے جو ہماری ۶۰سالہ تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ ۲۰۰۷ء میں سپریم کورٹ نے اس بدنامِ زمانہ ’نظریۂ ضرورت‘ کے شکنجے سے قوم کو نجات دلانے کی جرأت مندانہ کوشش کی اور عدالت نے صاف الفاظ میں اپنے اس عندیے کا اظہار کیا کہ اب نظریۂ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن ہوجانا چاہیے، لیکن ایک بار پھر اس منحوس نظریے کا سہارا لے کر ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو فوج کے اس وقت کے سربراہ نے دستور کے ساتھ عدالت عالیہ ہی پر ضرب کاری لگائی اور تاریخ کے دھارے کو ایک بار پھر پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی۔ من پسند عدلیہ جو بھی کہے لیکن اب قوم بیدار ہے، اور حقیقی عدلیہ اور سول سوسائٹی بشمول پریس اور سیاسی جمہوری قوتوں کے اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہیں۔ آج قوم ایک تاریخی جدوجہد میں مصروف ہے۔ سپریم کورٹ کے ۲۸ستمبر ۲۰۰۷ء کے فیصلے میں (جو امیرجماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد،جماعت اسلامی اور چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان وغیرہ کی طرف سے دائر کردہ مقدمے کے بارے میں تھا) اگرچہ چھے محترم ججوں نے تکنیکی بنیاد پر مقدمہ خارج کر دیا، مگر تین محترم ججوں نے مقدمے میں اٹھائے جانے والے سوالات کو درست قرار دیتے ہوئے نہ صرف اسے قابلِ سماعت قراردیا، بلکہ ان ایشوز پر اپنی راے بھی دی، جس کا حاصل یہ تھا کہ اس وقت کا فوجی سربراہ صدارت کے انتخاب میں شرکت کا حق نہیں رکھتا اور نظریۂ ضرورت کے تحت دستور کے واضح احکام کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اکثریت کی راے سے اختلاف کرنے والے ججوںمیں محترم جسٹس سردار محمد رضا نے بڑے اختصار کے ساتھ لیکن بڑے محکم انداز میں نظریۂ ضرورت پر بحث کی ہے جو اب ہماری تاریخ کا حصہ اور قوم کی امانت ہے۔ ہم محترم جسٹس سردار محمد رضا صاحب کے اسی فیصلے کا ترجمہ ذیل میں پیش کر رہے ہیں۔ (مدیر)
میں نے اپنے فاضل بھائی جسٹس رانا بھگوان داس کا دیا ہوا فیصلہ پڑھ لیا ہے۔ یہ ۲۸ستمبر ۲۰۰۷ء کے مختصر فیصلے کے دلائل تھے جس میں ہم نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے یہ قرار دیا تھاکہ درخواستیں دستور کی دفعہ ۱۸۴ (۳) کے تحت قابلِ سماعت (maintainable) ہیں۔ اس لیے کُل کی کُل قبول کی جاتی ہیں۔ درج بالا فیصلے کے استدلال سے میں اتفاق کرتا ہوں لیکن چاہوں گا کہ عدالت کے فاضل مشیر مسٹر حفیظ پیرزادہ کے موقف پر کچھ تفصیل سے عرض کروں۔
انھوں نے مقدمے کے میرٹ کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔حاجی سیف اللہ کیس (پی ایل ڈی ۱۹۶۸ء ایس سی ۱۶۶) پر ان کے انحصار کرنے کے معنی یہ تھے کہ اگر درخواست دہندگان میرٹ پر اچھا مقدمہ رکھتے ہیں تب بھی ان کے حق میں رٹ جاری کرنا حالات کے لحاظ سے مناسب نہ ہوگا، اس لیے کہ یہ فوجی حکومت سے خالص جمہوریت کی طرف منتقلی میں رکاوٹ ڈالے گا۔ اس طرح کا موقف اختیار کرنا اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ اس بات کو بالکل فراموش کرکے کہ ماضی میں یہ طرزِفکر کوئی مفید نتیجہ برآمد نہ کرسکا ، ایک بار پھر ریاست کی ضرورت کے نظریے کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے۔ اس طرح کا انتقال ایک نئی فوجی حکومت کے لیے ایک حیات افروز وقفہ فراہم کرتا ہے اور قوم کو باربار زیرو پوائنٹ پر لے آتا ہے ___نظریۂ ضرورت کا عجوبہ!
نظریۂ ضرورت نہ قانون ہے نہ کوئی ضابطہ اور نہ کوئی قاعدہ۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جس میں دیے ہوئے حالات میں ایک ناانصافی کو مصلحت کے نام پر جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ مغرب کے بہت سے فلسفی، اسکالر اورنام نہاد دانش ور وقتاً فوقتاً مختلف نظریات پیش کرتے رہتے ہیں جن پر پوری دنیا میں مباحثے ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں حقیقی چیزیں اختیار کرلی جاتی ہیں اور آگے بڑھائی جاتی ہیں، جب کہ پس ماندہ اقوام کو غیرحقیقی اوہام کا فریب دیا جاتا ہے جن کی بدقسمتی سے مقدس احکامات کی طرح پیروی کی جاتی ہے۔ دوسری قسم میں ہینس کیلسن کا نظریۂ ضرورت اور میکاولی کا پرنس شامل ہے جو پاکستان جیسے پس ماندہ ملک میں تباہ کن حد تک منافقانہ ہونے کے باوجود بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ یہ نظریات نہ عام طور پر دنیا بھر میں قبول کیے جاتے ہیں نہ وہ جدید قانون کی بنیاد ہیں۔ چیف جسٹس حمود الرحمن (جیسے کہ وہ اس وقت تھے) کے الفاظ مستعار لیتے ہوئے جنھوں نے چیف جسٹس محمدمنیر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’انھوں نے نہ صرف ہینس کیلسن کے نظریے کا غلط اطلاق کیا، بلکہ انھوں نے یہ بھی غلط کہا کہ یہ جدید قانون کا عام طور پر تسلیم شدہ نظریہ ہے۔ کیلسن کے شاگرد بھی وہاں تک جاتے ہوئے ہچکچائے جہاں تک کیلسن گیا تھا…‘‘۔
میرے ذہن کو جو چیز پریشان کرتی ہے وہ کیلسن یا میکاولی کے غیرمعمولی خیالات ہیں، ان کا حقیقی ہونا، یا نہ ہونا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں تو یہ خیالات ختم ہوچکے ہیں لیکن تیسری دنیا میں یہ پھل پھول رہے ہیں۔ اب ہم لوگ بحیثیت مسلمان کیوں ان کی پیروی کریں، کیوں نہ ہم انھیں مسترد کردیں۔ میرا ایمان ہے کہ ہم مسلمانوں کو اپنی آخری رہنمائی وحی کے علم، یعنی قرآن کی دانش سے حاصل کرنا چاہیے۔
ایک ایسی کتاب جو تمام زمانوںپر محیط ہے، اسے جزوی امور سے احتراز کرنا چاہیے اور اصولوں کو بیان کرنا چاہیے۔ یہ بات قرآن کے لیے بدیہی طور پر سچ ہے۔ اس کتاب سے رہنمائی حاصل کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ ضرورت یا میکاولی کے نظریات کیا ہیں۔ مختصراً، یہ حضرات کہتے ہیں کہ سچ اور جھوٹ، حلال اور حرام ان کی کوئی ایسی حدیں نہیں ہیں جو کسی بھی حال میںتوڑی نہ جاسکتی ہوں۔ اگر مصلحت کا تقاضا ہو تو اچھا برتائو، اچھا اخلاق، اصول یا اقدارِحیات سے قطع نظر حرام کو حلال کیا جاسکتا ہے اور جو مقاصد حاصل کیے جائیں وہ ذرائع کو جواز فراہم کرتے ہیں۔ دوسری طرف قرآن انسان کے طرزعمل پر کچھ حدود عائد کرتا ہے جن کو تبدیل یا مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے انحراف درج ذیل آیت کے خلاف ہے:
وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ (الانعام ۶: ۱۱۵) تمھارے رب کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے، کوئی اس کے فرامین کو تبدیل کرنے والا نہیں ہے۔
نظریۂ ضرورت انسان کا بنایا ہوا چیستاں ہے جسے ہمیشہ اللہ کی عطا کی ہوئی اعلیٰ انسانی اقدار کے تابع ہونا چاہیے۔ بعض احکامات افراد کے لیے ہیں جن کا انکار بظاہر پورے معاشرے کو متاثر کرتاہے۔ جب سچائی کا حکم اور جھوٹ کی مذمت کی جائے تو دراصل یہ اس آیت کے مطابق ہوتا ہے:
وَلاَ تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o (البقرہ ۶:۴۲) باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بنائواور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو۔
اللہ تعالیٰ نے سچائی کو جھوٹ سے ملانے کی بھی مذمت کی ہے۔ مصلحت کے لیے کوئی گنجایش نہیں چھوڑی۔ اس سے بھی زیادہ واضح حکم سورئہ نساء میں ہے جہاں حق و انصاف کی اعلیٰ اقدار کے مقابلے میں نہایت ضروری مصلحتوں کو نظرانداز کر کے ایک طرف رکھ دیا گیا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَا قف فَلَا تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا وَ اِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًاَ o (النساء ۴:۱۳۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر، یا تمھارے والدین اور رشتے داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریقِمعاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا توجان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْاط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَ اتَّقُوْا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (المائدہ ۵: ۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھرجائو۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
وقت کی کمی کی وجہ سے قرآن پاک کے فقط چند حوالوں پر اکتفا کیا جا رہا ہے ورنہ اس موضوع پر کہ قرآن نے سچائی کے مقابلے پر مصلحت کی مذمت کی ہے، کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ یہ بدترین قسم کا نفاق ہے جو ان قوموں کا طریقہ رہا ہے جن کو تباہ کر دیا گیا اور ان کی جگہ وہ قومیں لائی گئیں جنھوں نے اللہ کے حکم کی پیروی کی۔ عمل میں دو رنگی مذموم افراد کا نشان رہا ہے۔ تاریخ اس پر گواہ ہے۔ اس کی سچائی سورۂ عصر سے عیاں ہے جہاں صحیح راہ پر نہ چلنے والوں کو خسران میں مبتلا قرار دیا گیا ہے۔ مختصراً قرآن کا ہرلفظ جھوٹ، نفاق، کردار کے دوغلے پن، مصلحت، یعنی نظریۂ ضرورت کی مذمت کرتاہے۔ اسے وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے اور پورے معاشرے پر اس کا اطلاق کیا جائے تو نظریۂ ضرورت ہی ریاست کی ضرورت کا نظریہ بن جاتا ہے۔ جو بھی منظر ہو، اجتماعی یا انفرادی، یہ نظریہ ہر طرح سے تباہ کن ہے۔ ریاست کی سطح پر یہ پوری قوم کے لیے تباہ کن ہے۔ یہ ہم سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ کردار کا دوغلاپن ہمیشہ جھوٹ کے ساتھ وابستہ کیا جاتا ہے۔ سچے لوگ ڈانواں ڈول نہیںہوتے۔ سچائی اور برائی کو ملانا خدائی فیصلے کی نفی ہے۔
اس موقع پر میں علامہ اقبال کاایک شعر پیش کیے بغیر نہیںرہ سکتا جن کی قرآن پر گہری نظر ان کی شاعری سے نمایاں ہے ؎
باطل دوئی پسند ہے ، حق لاشریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول
بت پرستی کے آج کل متنوع اظہار ہیں۔ نظریات، عقائد، مفروضے ایجاد کیے جاتے ہیں۔ ضرورت کے مطابق تراشے جاتے ہیں اور اللہ کے بجاے انسانوں کو خوش کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایک شے کے دوسری شے سے تبادلے (quid pro quo) پر سیاست میں تو عمل ہوسکتا ہے لیکن موجودہ حالات میں، انصاف کرتے ہوئے عدالتی معاملات میں کام میں نہیں لایا جاسکتا۔ یہ مناسب وقت ہے کہ مصلحت کے بجاے زندگی کی اعلیٰ اقدار کو اختیار کیا جائے۔ ہمیں اپنے آپ کو اس الزام سے بچانا چاہیے کہ ع خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں۔
جو مختصر وضاحت کی گئی ہے، گو موضوع کا مکمل احاطہ کرنے سے قاصر ہے، تاہم میں یہ قرار دیتا ہوں کہ نظریۂ ضرورت قرآنی احکامات کے خلاف ہے اور میرٹ کی بنیاد پر جو فیصلہ ہو رہا ہو، اسے روکنا تاکہ ریاستی ضرورت کے تحت انتقال اقتدار ہو، نہ انصاف پر مبنی ہوگا نہ جائز نہ قانونی۔ درخواستیں قابلِ سماعت ہیں، ہمارے مختصر حکم نامے ۲۸ستمبر ۲۰۰۷ء کے مطابق، قبول کی جاتی ہیں۔
اپنا سب کچھ امریکی مفادات کی بھینٹ چڑھا دینے کے باوجود، آج پاکستان کو امریکا سے وہ دھمکیاں مل رہی ہیں جو ماضی میں کبھی نہیں ملی تھیں۔ امریکی دانش ور پاکستان کو سابقہ سوویت یونین جیسے دشمن کا ’مرتبہ‘ دے رہے ہیں۔ کھلم کھلا تجاویز آرہی ہیں کہ اسلام آباد پر امریکی افواج اتار دینا چاہییں۔ پاکستان کے ایٹمی اسلحے کو ’محفوظ‘ ہاتھوں میں لیتے ہوئے اسے میکسیکو یا کسی قریبی محفوظ و خفیہ مقام پر منتقل کردینا چاہیے۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان پر قبضہ کرلینا چاہیے۔
عراق پر امریکی فوج کُشی کے ایک اہم نقشہ گر، ممتاز عسکری مؤرخ، بش انتظامیہ سے مضبوط نظریاتی وابستگی رکھنے اور امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ جیسے تھنک ٹینک میں کام کرنے والے امریکی دانش ور فریڈرک کاگان (Frederick Kagan) نے صدربش کو پاکستان کے بارے میں بھی نقشۂ کار پیش کردیا ہے۔ کاگان کی اس دستاویز کے حوالے سے برطانوی اخبار گارڈین اپنے یکم دسمبر ۲۰۰۷ء کے شمارے میں سرخی جماتا ہے: ’’پاکستانی ایٹمی اسلحہ قبضے میں لینے کا منصوبہ بش کے سپرد کردیا گیا‘‘۔ کاگان اپنی تجاویز پیش کرتے ہوئے کہتا ہے:’’سیدھی بات یہ ہے کہ پاکستانی ایٹمی ہتھیار مایوس عناصر کے ہاتھ میں جاتے دیکھ کر امریکا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہیں رہ سکتا‘‘۔ خود گارڈین ایک عسکری ماہر اور امریکی وزارتِ خارجہ کے سابق اعلیٰ عہدے دار کے حوالے سے لکھتا ہے: ’’اگرچہ حکومتوں کو بعض اوقات ناقابلِ تصور امور پر بھی سوچ بچار کرنا ہوتی ہے، لیکن یہ خیالات اور تجاویز واشنگٹن کے عسکری کیمپ پر نمایاںاثر ونفوذ رکھنے والے ایک ایسے شخص کی طرف سے آئی ہیں، جس کے مشوروں پر عمل کر کے امریکی افواج کو عراق میں اپنی مشکلات کم کرنے میں مدد ملی ہے‘‘۔ اس لیے انھیں نظرانداز کرنا نادانی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
کاگان نے پاکستان پر فوج کشی کی بات کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے بارے میں بھی تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے اور پاک فوج کو تقسیم کرنے کی ناپاک خواہش کا اظہار کیا ہے۔ وہ کہتا ہے:’’ہمیں [پاکستان کی] صورت حال کا مکمل اور ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانا ہوگا۔ ہمیں اس بحران کا مقابلہ کرنا ہوگا جو ہمارے لیے اسی طرح ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے جس طرح کبھی سوویت ٹینک ہمارے لیے خطرہ تھے‘‘۔ وہ جانتا ہے کہ پاکستان پر حملہ بہت مہنگا سودا ہوگا، لیکن جو راستہ وہ منتخب کرنا چاہتا ہے، وہ حملے سے بھی زیادہ مہلک ہے، کہتا ہے: ’’ہم حملہ نہیں کرسکتے، ہم صرف پاکستانی فوج کے بعض عناصر کے اشتراک سے کارروائی کرسکتے ہیں… وزیرستان اور شمال مغربی سرحدی علاقے میں لڑتے لڑتے پاکستانی فوج نفسیاتی طور پر شکست خوردہ ہوچکی ہے۔ ہوسکتا ہے وہ وہاں سے شکست کھاکر نکل آئے، اپنے پیچھے ایک خلا چھوڑ آئے اور وہاں انتہاپسند آجائیں۔ ایک خراب صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ فوج تقسیم ہوجائے اور اس کا انتہاپسند گروہ ایٹمی اسلحے پر قبضہ کرلے… یہ ٹھیک ہے کہ فوجی افسروں اور حکمرانوں کی ایک بڑی تعداد اعتدال پسند ہے، واضح رہے کہ امریکا کی یہی سوچ شاہِ ایران کی حکومت کے بارے میں بھی تھی، مگر دیکھو وہاں ۱۹۷۹ء میں کیا ہوا‘‘۔
عراق کے ایٹمی اور کیمیائی اسلحے کا ہو.ّا کھڑا کر کے اس پر تباہی مسلط کردینے، ایران پر ایٹمی اسلحے کی تیاری کے الزامات کی آڑ میں دھمکیوں اور پابندیوں کے طوفانوں کے بعد اب پاکستانی ایٹمی اسلحہ انتہاپسندوں کے ہاتھ لگ جانے کی احمقانہ بات کو اپنی منصوبہ بندیوں کا مرکز و محور بنایا جارہا ہے۔ کاگان اور کئی امریکی دانش ور اس سے پہلے بھی متعدد بار ایسے ہی مسموم و مذموم خیالات کا اظہار کرچکے ہیں۔ ۱۸نومبر۲۰۰۷ء کے نیویارک ٹائمز میں’پاکستان کی تباہی، ہمارا اصل مسئلہ‘ کے عنوان سے کاگان اور مائیکل ہینلون (Michael Hanlon)نے لکھا ہے کہ ایک تباہ ہوتے ہوئے پاکستان کو استحکام بخشنے کا ہدف حاصل کرنا امریکا اور اس کے حلیفوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ ۱۶ کروڑ کی آبادی اور عراق سے پانچ گنا زیادہ رقبے پر مشتمل پاکستان کے خلاف کوئی عسکری کارروائی کرنے کے لیے تقریباً آدھی دنیا کا سفر طے کرنا ہوگا، جو طویل وقت کا متقاضی بھی ہوگا اور پھر جب تک ہمارے پاس اس بارے میں دقیق معلومات نہ ہوں کہ پاکستان کا ایٹمی مواد کہاں کہاں ہے، ہم بمباری کرنے اور اسپیشل فورس استعمال کرنے پر بھروسا نہیں کر سکتے۔ سرسری اندازہ یہ ہے کہ ہمیں پاکستان جیسے ملک کے خلاف عسکری کارروائی کرنے کے لیے تقریباً ۱۰ لاکھ فوجی درکار ہوں گے۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود اگر ہمیں کامیابی کی امید نظر آئے تو ہمیں پاکستانی حکومت کی مکمل تباہی سے پہلے پہلے کارروائی کرنا ہوگی اور اس کے لیے ہمیں ’اعتدال پسند‘ قوتوں کا تعاون درکار ہوگا۔
اعتدال پسند قوتوں کے تعین اور ان سے تعاون کے بارے میں امریکی انتظامیہ کے خودساختہ پیمانے سب پر عیاں ہیں۔ اب تک اکلوتی بااعتماد اعتدال پسند ’طاقت‘ جنرل (ر) پرویز مشرف اور ان کے حواری تھے، لیکن اب کئی دیگر پارٹیاں بھی طائفے میں شامل کی جارہی ہیں۔ پرویز مشرف کے بارے میں ان کی راے جاننے کے لیے مارون جی وائن بوم کے ایک تازہ انٹرویو سے چند جملے پیش خدمت ہیں۔ موصوف پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے اتھارٹی ہیں۔ وہ ۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۳ء تک امریکی وزارتِ خارجہ میں باقاعدہ ذمہ دار بھی رہے ہیں، کہتے ہیں: ’’بنیادی حقیقت یہ ہے کہ مشرف ہم سے جتنے بھی مخلص ہوں، وہ القاعدہ و طالبان کے خلاف امریکا سے تعاون کے لیے جتنے بھی پُرعزم ہوں لیکن اب وہ عملاً ایسا کر دکھانے کی صلاحیت کھو چکے ہیں… ’’صدر پرویز مشرف نے وردی اُتار کر سیاسی لحاظ سے کچھ وقت مزیدحاصل کرلیا ہے، لیکن رہے گا وہ ایک کمزور مشرف‘‘۔
اس سب کچھ کے باوجود وائن بوم اور کئی دیگر امریکی ذمہ داران کی آرا اور امریکی پالیسی کا نچوڑ یہ ہے کہ امریکا فی الحال اسی کمزور پرویز مشرف کو حکمران دیکھنا چاہتا ہے۔ ’وہ بے بس ہے‘، ’وہ مزید اقدامات کی استعداد نہیں رکھتا‘، ’وہ کمزور تر ہوچکا ہے‘ جیسے بیانات کے چابک، اس کمزور لیکن مطلق العنان حکمران سے اپنی مرضی کے مزید اقدامات کروانے کا بہانہ ہیں۔ کمزور حکمران کو اقتدار میں رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے مزید ’روشن خیال‘ عوامی طاقت بھی فراہم کر دی جائے۔ انتخابات میں بظاہر برسرپیکار پارٹیوں کو انتخابات کے بعد یکجا کر دیا جائے اور اس طرح اعتدال پسند طاقت کا ایک نیا فارمولا تخلیق کرنے کی آخری کوشش کی جائے۔
امریکی عسکری ماہرین اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے حوالے سے امریکی دوستی کا دم بھرنے والے پاکستانی بھی بہت سے تحفظات رکھتے ہیں۔ ان سے اپنی مرضی کے مزید اقدامات کروانا کوئی بہت آسان ہدف نہیں ہوگا۔ لیکن مختلف متبادل تجاویز کے بعد زیادہ تر آرا اسی پر مجتمع ہوتی ہیں کہ براہِ راست فوج کشی کی تیاریاں کی جائیں، محدود فوجی کارروائیاں جاری رکھی جائیں، کمزور حکمرانوں کو اپنی دست نگر سیاسی قیادت کی کرم خوردہ بیساکھی فراہم کی جائے، پھر مزید دھمکیوں کے ذریعے پاکستان کی وحدت اور ایٹمی اسلحے سمیت پاکستان کے تمام ملّی مفادات کو ایک ایک کر کے خاک میں ملا دیا جائے۔ اس حکمت عملی میں بوقت ضرورت بھارت کو بھی آزمودہ ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان پر امریکی حملے کی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ بھارت کی تعریفوں کا سلسلہ بھی عروج پر ہے۔ مثال کے طور پر سابق نائب وزیرخارجہ کارل انڈرفرتھ (Karl Inderfurth) کا یہ مضمون ملاحظہ فرمایئے: India and the United States: A rare Stable Partnership (بھارت اور امریکا ایک منفرد مستحکم اشتراکِ کار)۔ ۱۸ نومبر ۲۰۰۷ء کو شائع شدہ اس مضمون میں وہ آیندہ سال آنے والی نئی امریکی انتظامیہ کو رہنمائی دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’نئی امریکی انتظامیہ کے لیے اصل چیلنج یہ ہوگا کہ صدر کلنٹن اور صدر بش نے بھارت امریکا تعلقات کی جو مضبوط بنیاد قائم کی ہے، وہ ان تعلقات کو اگلے مراحل تک لے جائیں‘‘۔ امریکی بھارتی مشترکہ مفادات کی فہرست گنواتے ہوئے تان اس بات پر توڑتے ہیں:’’ہم دونوں جہادی دہشت گردی کو شکست سے دوچار کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
ان مشترکہ مفادات کو حاصل کرنے اور دوستی کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ممکنہ اقدامات میں وہ جہاں یہ تجویز دیتے ہیں کہ بھارت کو سیکورٹی کونسل کا مستقل رکن بنانے کے لیے امریکا کھل کر اس کی مدد کرے ، امریکا بھارت عسکری تعاون میں بے محابا اضافہ ہو، دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں ایک دوسرے کی پشتیبانی ہو، وہیں یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکا اور بھارت مل کر پاکستان کو ایک ’محفوظ‘، ’جمہوری‘ اور’ مستحکم‘ ریاست بنانے کی جدوجہد کریں۔ حالیہ سیاسی بحران کی وجہ سے اگر شدت پسند عناصر نے پاکستان کے جوہری اسلحے پر قبضہ کرلیا تو ’’امریکا اور بھارت کے لیے اس سے بڑا خطرہ کوئی اور نہیں ہوسکتا‘‘۔ ان خیالاتِ ’عالیہ‘ کی روشنی میں بھارتی حکمرانوں کا یہ فرمان بھی اذہان میں تازہ کرلیجیے جو انھوں نے پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں کے محفوظ ہاتھوں میں ہونے کے بارے میں دیا ہے۔ گویا یہ ہتھیار محفوظ ہونے یا نہ ہونے کا سرٹیفیکٹ بھارت کو دینا ہے۔
اپنے اس مقالے میں امریکی دانش ور بھارت کے ساتھ اپنے اکلوتے اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’بھارت نے ہمارے کہنے کے باوجود ابھی تک جوہری پھیلائو کو روکنے کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے، لیکن اس طرح کے مسائل حل کرنے کے لیے مزید وقت اور صبروتحمل کی ضرورت ہے‘‘۔
ظاہر ہے کہ صبروتحمل پر مشتمل پالیسی تو صرف بھارت یا اسرائیل جیسے اپنوں کے لیے ہوسکتی ہے، رہے پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک تو یہ دہشت گرد گنوار فوج کشی کے علاوہ کوئی زبان نہیں سمجھتے۔ اس لیے اس کی تیاریاں ہی نہیں، عملی اقدامات بھی جاری ہیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا مسلم اُمت اور پاکستانی قوم ان خطرات سے پوری طرح آگاہ ہے؟ جن تازہ دم اعتدال پسندوں کو قریب المرگ اعتدال پسند کی مدد کے لیے لایا جا رہا ہے، کیا وہ خود بھی جانتے ہیں کہ ان کی گردن پر کون سا جوا لادا جا رہا ہے؟ کیا بے نظیر جانتی ہیں کہ جس ایٹمی پروگرام کی سزا ان کے والد کو دی گئی، اب انھی کے ہاتھوں اس کے گرد اپنا مکروہ جال تنگ سے تنگ کرنے کے خواب دیکھے جا رہے ہیں؟ اور کیا ’سب سے پہلے پاکستان‘ والے ریٹائرڈ جنرل صاحب اور ان کے ہم نوا یہ جانتے ہیں کہ اپنی قوم اور اپنے ضمیر سے غداری کرنے والے میرجعفر اور میرصادق کا دنیا و آخرت میں کیا انجام ہوتا ہے؟ ایک اور سوال ہم میں سے ہر شخص کو خود سے پوچھنا ہے کہ اب، جب کہ خطرات گھر کی منڈیروں سے جھانک رہے ہیں، ہم ان کے مقابلے کے لیے کیا تیاری کر رہے ہیں؟کیا رب سے لو لگاتے ہوئے، منظم اجتماعیت سے وابستہ ہوکر مؤثر منصوبہ بندی کے ذریعے، ہر قربانی کے لیے تیار ہوکر میدانِ عمل میں اُترنے کا وقت نہیں آن پہنچا؟ رہیں امریکی دانش وروں کی دھمکیاں تو وہ خاطر جمع رکھیں۔ امریکی عوام کی غالب اکثریت سمیت دنیا کا ہر باشعور شخص جانتا ہے کہ یہ دھمکیاں نہیں خودکشی پر اصرار ہے اور اگر کسی کو یہ حقیقت سمجھ نہ آئے تو عراق یا افغانستان میں موجود کسی امریکی فوجی یا اس کے خاندان سے دریافت کر لے۔
ڈی این اے (DNA ) کی معلومات تک پہنچنا سائنس کی تاریخ کا بڑا اہم سنگ میل ہے۔ مادے پر مبنی کائنات کی تعبیر جو جدید دور کا بڑا اہم حصہ بن گئی تھی، اب جدید دور کے بعد، مابعد الجدید یا (post modern) دور میں خود سائنس کے ذریعے اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ انجام کار وہ سائنس جو خدا کی منکر ہوگئی تھی اب خدا کا اقرار کیا چاہتی ہے۔ دنیاے سائنس نے مان لیا ہے کہ چارلس ڈاروَن کے تصورِ ارتقا نے انسانیت کے ۱۵۰ سال خراب کیے ہیں۔ اس تصور کے تحت بے جان ایٹموں (atoms) نے کسی مبہم طریقے سے اپنے آپ کو اس طرح استوار کرلیا کہ وقت گزرتے یہ ایٹم زندگی کی متعدد قسموں کو اختیار کرتے گئے اور جان دار شکلیں دھارتے گئے اور آخرکار بندر کی شکل سے گزرتے ہوئے انسان کے وجود کا باعث ہوگئے۔ قدیم ترین تہذیبوں، یونان میں سقراط سے پہلے اور مصر اور بابی لون میں بھی انسانوں کی زندگی کو تغیرپذیر توہم پرستانہ منزلوں (stages) میں تقسیم کیا گیا تھا۔
اس سے پہلے کہ ڈی این اے کی تفصیل بتائی جائے کہ اس دریافت نے کس طرح خدا کے قریب ہونے کا راستہ ہموار کیا ہے، ہم یہ بتاتے چلیں کہ ۱۹ویں صدی میں تین بڑی طاقت ور آوازیں گونجتی رہی ہیں جس میں سے ہر آواز کے لاکھوں پیروکار پیدا ہوئے۔ ان میں ایک آواز کارل مارکس کی تھی جس نے تمام دنیا کے محنت کشوں اور کاری گروںکو یک جہتی کا پیغام دیا۔ اس کے تصورات اتنے جامع قرار پائے کہ تاریخ، معاشیات ومالیات، سیاست اور معاشرے کے مکمل احاطے کے ساتھ علم و دانش کی بے اندازہ شقوں کو متاثر کرگئے۔ یہ انقلاب برپا کرنے اور اپنی دنیا آپ تبدیل کرنے والے خیالات تھے جو اپنی ابتدائی شکل میں ۱۹۴۸ء میں اشتراکی منشور (Communist Manifesto) کی شکل میں سامنے آئے۔ یہ مادہ پرست پس منظر میں صرف دولت کی تقسیم پر سماج کی تعمیر کا وہ خواب تھا جس کی تعبیر روس میں بڑے پیمانے پر آزمائی گئی۔ روے زمین پر اس تصور کے کروڑوں پیروکار پیدا ہوئے اور اس کی ہم نوائی میں زندگی کی تعبیر پھر سے کی جانے لگی، خدا ناشناس علمی عنوانات: روشن خیالی، ترقی پسندی، آزاد خیالی، عورتوں کے حقوق جیسے سیکڑوں خوب صورت الفاظ تراشے گئے جو عام آدمی کو خوش کرنے اور ایک معیاری انصاف پسند دنیا بنانے کا ولولہ انگیز طوفان تھا جو بڑے بڑوں کو بہا لے گیا۔ روس کے خاتمے کے ساتھ یہ اپنے انجام کو پہنچا۔ اس کے تمام ہم نوا اور پیروکار اپنے اپنے ملبوں میں واپس جانے کے راستے تلاش کرنے پر مجبور ہوگئے۔
دوسری آواز فرائڈ کی تھی جو ۱۸۸۲ء میں شعور اور تحت الشعور کی بحث کے ساتھ اُبھری، اس نے تجربات سے ثابت کیا کہ بھولی ہوئی یادیں اور تجربات تحت الشعور میں محفوظ ہوجاتے ہیں اور ان کو واپس یاد دلایا جاسکتا ہے۔ ان تجربات کو کرنے کے لیے اس نے نفسیاتی تجزیے (psychoanalysis) کا وہ تجرباتی طریقہ پیش کیا کہ رومانی دنیا کے انسانی ذہن کے لیے لامحدود وسعتوں تک ترقی کرسکنے کے امکانات وا کردیے۔ یورپ، امریکا اور دنیا بھر میں نفسیاتی تجزیے کی تجربہ گاہیں کھل گئیں۔ فرائڈ کی سب سے زیادہ مشہور تشریح اس کا لبیڈو (Libido) نظریہ تھا جس کے لاتعداد ہم نوا اور بے اندازہ مخالفین بھی سارے عالم میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ لبیڈو نظریہ کے تحت انسان اپنی تمام نشوونما میں پیدا ہوتے ہی ماں کا دودھ مانگنے کے وقت سے موت کی آخری ہچکی تک ایک جنسی تسکین کا متمنی رہتا ہے۔ جنسی لذت کی کمی اور زیادتی کے تجربات کے تحت ہی انسان کی تمام جسمانی، ذہنی، دماغی، عملی اور دانش مندی کی کارفرمائیاں وجود پاتی ہیں۔ اس نظریے کو انسان کے تمام اوامر زندگی پر محیط کرنے کی کوشش عالمی پیمانے پر کی گئی۔ یہ خودپسندی (Narcissism) تھی، یعنی وہ نفسی کیفیت جس میں انسان اپنی ہی ذات کو کامل اور خود اپنے ہی عشقِ ذات میں محو رہنا کافی سمجھتا ہے۔ اپنی جسمانی لذتوں کے پانے میں گم ہوجانے اور اسی کو مرکزحیات اور مقصد کائنات سمجھنے اور سمجھانے والوں کی ایسی شدید گونج تھی جو مختلف ناموں سے ۱۹ویں صدی میں اٹھی اور پوری ۲۰ویں صدی میں گونجتی رہی اور ۲۱ویں صدی کے آتے آتے غلط اور بے بنیاد ثابت کردی گئی۔
تیسری آواز ڈاروَن کی تھی جس نے انسان کو بندر کا رشتے دار بتایا اور فلسفۂ ارتقا کے دیوانے گھر گھر نظر آنے لگے۔
۲۰۰۰ء میں یہ ثابت ہواکہ جب روشنی کی رفتار کو کئی گنا بڑھایا گیا تو اس تجربے کے دوران سائنس دان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس تجربے میں تاثیر (effect) اس کے سبب (cause) سے پہلے ہوئی۔ ایک اخبار نے لکھا کہ یہ ثابت ہوا ہے کہ کسی سبب سے پہلے اس کی تاثیر کا ہونا ممکن ہے۔ اب تک خیال تھا کہ کسی بھی اثر، انجام، نتیجہ یا حاصل کو پانا اس کے سبب، وجہ یا علّت کے ہونے کے بعد ہی ممکن ہے۔ یہ تجربہ ثابت کرتا ہے کہ کسی واقعے کی انتہا اس کی ابتدا سے پہلے بھی ممکن ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ واقعہ خود اپنے آپ میں ایک تخلیق (creation) ہے۔ یہ کسی دوسرے واقعے کا ردعمل نہیں ہے۔ اب تک جو کہا جاتا رہا ہے کہ ہرعمل کسی عمل کا ردعمل ہے یا یہ کہ There is reaction to every action، یہ غلط ثابت ہوتا ہے۔ ۲۵ جون ۲۰۰۰ء کو یہ بھی ثابت ہوا کہ ایک قدیم چڑیا کا فوسل (fossil) جو لاکھوں سال بعد دریافت ہوا وہ بھی چڑیا ہی تھا یعنی لاکھوں سال پہلے سے اب تک اس چڑیا میں کوئی ارتقا (evolution) نہیں ہوا۔ آج کی چڑیا بھی بالکل وہی چڑیا ہے جو لاکھوں سال پہلے تھی۔ ابھی ۲۰۰۱ء میں انسانی جینوم (genome) پراجیکٹ مکمل ہوا ہے جس میں زندگی کے حیاتیاتی میک اپ (biological makeup) کا مکمل نقشہ تیار کیا گیا جو اس صدی کا بڑا سائنسی کارنامہ ہے۔ اس پراجیکٹ کے نتیجے میں یہ بات اور واضح ہوگئی ہے کہ خدا کی تخلیق جو انسان کی شکل میں ودیعت کی گئی ہے وہ زندہ اشیا میں سب سے عظیم تخلیق ہے۔ ماہرین ارتقا کوشش کر رہے ہیں کہ انسانی جین (gene) اور جانوروں کے جین میں مشابہت کی افواہ پھیلا کر کچھ مواد اپنے مطلب کا نکالنے میں کامیاب ہوجائیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دانش وروں اور سائنس دانوں کی بڑی تعداد نظریۂ تخلیق کی حامی (creationist) ہوتی جارہی ہے جن کا یہ اعتراف ہے کہ دنیا کسی عظیم قوت کی قوتِ تخلیق سے وجود میں آئی ہے۔ بتدریج ترقی کے مراحل سے گزرتی ہوئی اپنی موجودہ حالت کو نہیں پہنچی ہے۔ آیندہ جو مختصر تفصیلات بیان ہوں گی ان کی روشنی میں آپ خود اندازہ لگا سکیں گے کہ خدا ناشناس سائنس اب اپنے اختتام کو پہنچنے والی ہے اور ۲۱ویں صدی انسان کو اپنے کھوئے ہوئے خدا سے پھر ملا دے گی۔
ڈی این اے میں موجود فرمانِ الٰہی جب سائنس کی سمجھ میں آنے لگا تو سب سے پہلے یہ مانا جانے لگا کہ زندہ اشیا ایسی مکمل اور پیچیدہ ترتیب و ترکیب کا مرکب ہیں کہ یہ حادثاتی طور پر کسی اتفاق کے تحت وجود میں نہیں آسکتیں جب تک یہ کسی بڑے ماہر اور قادر مطلق بنانے والے کی کارگزاری نہ کہی جائے۔ اگر کسی مقام پر اینٹ، پتھر، گارا، مٹی، قالین،ایرکنڈیشنر، ٹی وی اور ریفریجریٹر اور تمام رہایشی سامان موجود ہو اور پھر اچانک ایک حادثہ یا اتفاقی واقعہ ایسا ہوجائے کہ یہ سب مل کر بادشاہ سلامت کا محل بن کر اُبھر آئے، یہ جادو کی کہانی تو ہوسکتی ہے ایک سائنسی حقیقت کبھی نہیں ہوسکتی۔ اب ڈی این اے میں چھپے ہوئے تین بلین (۱۰۹x۳) یا ۳ ارب کیمیائی حروف کو decodeکرنا اور انسانی ڈی این اے میں موجود ۸۵ فی صد ڈاٹا صحیح ترتیب و سلسلے (sequence) میں لانا ممکن ہوگا۔ اتنا اہم اور کامیاب پراجیکٹ بھی اس کے لیڈر ڈاکٹر فرانسس کولنز (Francis Collins) کے بقول ابھی پہلا قدم ہے جو ڈی این اے میں چھپی معلومات حاصل کرنے کی طرف اٹھایا گیا ہے۔ معلومات کے اس ذخیرے کو حاصل کرنے میں اتنا زمانہ کیوں لگا اس سوال کا جواب ملے گا اگر ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ڈی این اے میں کس نوعیت کی معلومات پوشیدہ ہیں۔
ڈی این اے ہمارے جسم کے ۱۰۰ ٹریلین (۱۰۱۴، یا ۱۰۰ کھرب) خلیوں میں سے ہر ایک خلیے کے مرکزے (nucleus) میں بڑی حفاظت سے موجود ہوتا ہے۔ ہر خلیے کا قطر ۱۰مائی کرون (micron) ہوتاہے۔ مائی کرون m۶-۱۰ کو کہتے ہیں۔ گویا میٹر کا دس لاکھ واں حصہ یا ملی میٹر کا ایک ہزارواں حصہ۔ اتنے چھوٹے خلیے کے درمیان ڈی این اے محفوظ ہوتا ہے۔ اس ڈی این اے میں انسانی جسم کی ساخت اور بناوٹ کی تمام تر تفصیلات اتنی وسعت، گیرائی اور گہرائی کے ساتھ لکھی ہوئی ہیں کہ اس کا وجود اللہ رب العزت کی صناعی کی اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ اپنے سمجھنے کے لیے ان معلومات کو صرف سلسلۂ ترتیب میں لاکر انسان پھولا نہیں سما رہا ہے۔ اس علم کو ایک عظیم الشان شعبۂ علم سے وابستہ کر کے اس کو جینیات (genetice )کا نام دیا گیا ہے۔ ۲۱ویں صدی کی یہ علمی شق ابھی گھٹنوں چلنے کی عمر میں ہے۔ اس میدان میں ابھی اور نہ جانے کیا کیا انکشافات ہونے ہیں۔
آج مثلاً ۲۵ سال کی عمر میں ہم اپنا سراپا آئینے میں دیکھیں تو یہ بے داغ جسم، یہ حسین و پُرکشش شکل و شباہت، یہ صحت و تندرستی، یہ علم و دانش سے آراستہ ذہن و عقل کس طور ترقی کرتے ہوئے اس حال کو پہنچیں گے، یہ علم ۲۵ سال اور ۹ماہ پہلے اس ڈی این اے میں لکھ دیا گیا تھا جو ماں کے پیٹ میں سب سے پہلے بارآور شدہ بیضے (fertilized egg) کے خلیے کی شکل میں نمو پایا تھا۔
اتنا ہی نہیں ہماری لمبائی چوڑائی،وزن، ناک نقشہ، چہرہ مہرہ، بالوں اور آنکھوں کا رنگ، جلد کی رنگت، خون کی قسم وغیرہ نطفہ ٹھیرنے سے شروع ہوکر موت تک روز بروز ماہ بہ ماہ، سال بہ سال تبدیلیوں کا حال ایک مکمل تسلسل کے ساتھ ڈی این اے میں موجود رہتا ہے۔ مثلاً اس میں لکھا رہتا ہے کہ کب کب خون کا دبائو زیادہ ہوگا اور کب کم رہے گا۔ کب سر کا پہلا بال سفید ہوگا اور کب دُور کی اور قریب کی نظر کمزور ہو جائے گی۔
ہم معلومات کے ذخیروں کو انسائی کلوپیڈیا کی طرز پر جانتے ہیں۔ ڈی این اے میں پوشیدہ معلومات کا ذخیرہ کوئی معمولی ذخیرہ نہیں۔ ایک ڈی این اے میں موجود معلومات کو اگر کتابی شکل میں منتقل کیا جائے تو یہ برطانوی انسائی کلوپیڈیا کے ۱۰ لاکھ صفحات پر مکمل ہوگا۔
ذرا تصور کریں کہ انسانی جسم کے ۱۰۰ ٹریلین خلیوں میں سے ہر خلیے کے مرکزے کے اندر ایک مالیکیول (molecule) جس کانام ڈی این اے ہے، ملتا ہے۔ اس کا سائز ایک ملی میٹر کا ایک ہزارواں حصہ ہے اور اس میں وہ معلومات درج ہیں جو دنیا کے سب سے بڑے انسائی کلوپیڈیا بریٹانیکا سے ۴۰ گنا زیادہ ہیں جو اسی انسائی کلوپیڈیا جیسی ۹۲۰ جلدوں میں سما سکے گا، جس میں متعدد معلومات کی ۵ بلین (۱۰۹x ۵) قسمیں یا جزئیات (pieces) محفوظ ہیں۔ اگر ہر ایک جز کو پڑھنے پر صرف ایک سیکنڈ صرف کیا جائے اور ۲۴گھنٹے متواترپڑھنے کا سلسلہ رہے تو اسے ایک بار پڑھنے کے لیے ۱۰۰ سال لگ جائیں گے۔ ۹۲۰ جلدوں کی ان کتابوں کو اگر ایک دوسرے کے اُوپر سجایا جائے گا تو ۷۰ میٹر اونچا کتابوں کامینار تیار ہوجائے گا۔ یہ سب معلومات اس ذرے میں سما دی گئی ہے جو پروٹین، چربی اور پانی کے چند مالیکیولوں سے مرکب ہے۔
جی جی تھامسن نے لکھا تھا کہ ہماری زمین پر کل جان دار اشیا ایک ہزار ملین ہیں۔ ان تمام اشیا کی معلومات ڈی این اے کی شکل میں جمع کی جائے تو چائے کے ایک چمچے میں آجائیں گی اور پھر بھی جگہ خالی رہے گی۔
جسمِ انسانی کے سارے ۱۰۰ ٹریلین خلیے عجب حکمت اور دانش مندی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ یہ بظاہر بے جان ایٹموں کا مجموعہ ایک بے روح شے ہونا چاہیے۔ ہم اگر تمام عناصر کے ایٹم جمع بھی کرلیں، ان کو کسی بھی ترتیب سے لگا لیں مگر وہ دماغ، وہ سمجھ بوجھ اس ذخیرئہ ایٹم سے حاصل نہیں کرسکتے جو کسی عمل کو سلیقے، سلسلے اور ترتیب کے ساتھ انجام دینے کے لیے ضروری ہے۔ جس طرح ہر عقل و سمجھ بوجھ والے کام کے لیے ضروری ہے کہ کسی دانش مند نے اس کام کو انجام دیا ہو، وہ کمپیوٹر ہو یا کوئی اور کام ہو، اسی طرح ڈی این اے بھی اپنے بنانے والے سے عقل و دانش اور سمجھ بوجھ لے کرآیا ہے۔
ہماری زبان میں ’الف‘ سے ’ے‘ تک حروف تہجی ہیں۔ انگریزی زبان A سے Z تک ۲۶حروف سے بنتی ہے۔ ڈی این اے کی زبان میں صرف چار حروف ہیں: A-T-G-C ۔ان میں سے ہر ایک حرف ان خاص بنیادوں (bases ) میں سے ایک ہے جو نیوکلیوٹائیڈس (nucleotides) کہلاتے ہیں۔ دسیوں لاکھ bases ایک ڈی این اے میں قطار در قطار ایک بامعنی ترتیب اور سلسلے کی کڑی بنائے رکھتے ہیں اور یہ سب مل کر ایک ڈی این اے کا مالیکیول بناتے ہیں۔
A،T،G اور C میں سے کوئی بھی دو مل کر ایک اساسی جوڑا بناتے ہیں جسے اساسی جوڑا (base pair ) کہا جاتا ہے۔ یہی اساسی جوڑے اُوپر تلے جمع ہوکر جین بن جاتے ہیں۔ ہر جین جو کسی مالیکیول ڈی این اے کا ایک حصہ ہوتا ہے، انسانی جسم کے کسی نہ کسی حصے کے بارے میں معلومات محفوظ کیے ہوئے ہوتا ہے۔ یہ اس جسمانی حصے کی نمایاں خصوصیات، وضع قطع، ڈیل ڈول، ہیئت، خدوخال، صورت، شکل، حلیہ، رنگ و روپ جو کسی فردِ خاص کی انفرادیت سے متعلق مفصل کیفیت کہی جاسکتی ہے، اس جین میں درج ہوتی ہے۔ اب انسان کی لاتعداد خصوصیات ہیں۔ یہ لمبائی ہو، آنکھوں کا رنگ ہو، ناک بھوں کی ندرتیں ہوں یا کان بڑا یا چھوٹا ہو، یہ سب جین میں موجود پروگرام کے مطابق بنتے اور سنورتے جاتے ہیں اور جسم کا ہر ہر حصہ جین کے حکم کے مطابق پروان چڑھتا ہے۔
ایک انسانی خلیے کے ایک ڈی این اے میں ۲ لاکھ جین ہوتے ہیں۔ ہر جین مخصوص نیوکلیوٹائیڈس کے بالکل انفرادی سلسلۂ ترتیب سے بنا ہوتا ہے۔ ان نیوکلیوٹائیڈس کی تعداد اس پروٹین کی قسم پر منحصر ہوتی ہے جس سے یہ وجود پاتا ہے۔ پروٹین کی یہ تعداد ۱۰۰۰ سے ایک لاکھ ۸۶ ہزار تک ہوسکتی ہے۔ اس جین میں جسم انسانی میں موجود ۲لاکھ قسموں کی پروٹین کا کوڈ بھی چھپا ہوتا ہے اور وہ نظام بھی موجود رہتا ہے جس کے تحت یہ تمام پروٹین ضرورت کے مطابق جسم میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
خیال رہے کہ ایک جین بے چارہ ڈی این اے کا صرف ایک معمولی سا حصہ ہے۔ ۲ لاکھ جینز میں محفوظ معلومات یا کوڈ ڈی این اے میں موجود کل معلومات کا صرف ۳ فی صد ہی ہوتی ہیں۔ ۹۷فی صد دفتر علم ابھی ہماری بساط آگہی کے لیے پردئہ راز میں ہے۔ یہ بات تو مان لی گئی ہے کہ یہ ۹۷ فی صد علم جس تک ابھی انسان کی رسائی ممکن نہیں ہوسکی ہے، انسانی خلیے کی بقا اور ان مکانیات (mechanisms) سے متعلق جو انسانی جسم میں انتہائی پیچیدہ عوامل کے کنٹرول کا باعث ہوتے ہیں بڑی ناگزیر معلومات رکھتے ہیں۔ صرف ۳ فی صد معلومات کا پتا ملنے پر عقل انسانی حیران ہے، دانش و فکر پر سکتہ طاری ہے، ابھی مزید ۹۷ فی صد پوشیدہ معلومات تک پہنچنا ایک لمبا سفر ہے جو جاری ہے۔
جین خود بھی کروموسوم (chromosomes) میں واقع ہوتے ہیں۔ جنسی خلیے کے علاوہ ہر انسانی خلیے میں ۴۶ کروموسوم ہوتے ہیں۔ ہر کروموسوم ایک کتاب علم کی طرح ہے کہ ایک انسان کے متعلق تمام معلومات ۴۶ جلدوں کی کتابوں میں بند رہتی ہے، اور یہ سب بسیط معلومات کا وہ خزانہ ہے کہ جسے ورقِ کتاب پر لایا جائے تو برطانوی انسائی کلوپیڈیا کی ۹۲۰ جلدوں تک پھیل جائے۔
ہر انسان کے ڈی این اے میں حروف A، T ، G اور C کا سلسلہ (sequence ) مختلف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روے زمین پر جتنے انسان پیدا ہوچکے ہیں اور قیامت تک جو اسی طرح پیدا ہوتے رہیں گے، وہ تمام کے تمام ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
ذرا سوچیں کہ ہر انسان کے تمام اعضا کا نام مختلف نہیں ہے، یعنی آنکھ، ناک، منہ، دل، گردہ وغیرہ سب کے پاس ہے۔ پھر بھی ہر شخص کچھ ایسے خاص انفرادی اور بڑے تفصیلی طریقے پر پیدا ہوا ہے کہ سب کے سب ایک خلیے کے تقسیم در تقسیم ہونے کے عمل سے پروان چڑھنے کے باوجود ایک ہی بنیادی بناوٹ رکھتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
ہمارے تمام اعضا ایک منصوبے کے تحت پروان چڑھے ہیں جو ہماری جین میں لکھا ہوا ہے۔ سائنس دانوں نے جو خاکہ مکمل کیا ہے اس کے تحت جسم کے مختلف اعضا کو کنٹرول کرنے والی جین کی تعداد مختلف ہے۔مثلاً ہماری کھال کو جو جین کنٹرول کرتی ہیں ان کی تعداد ۲۵۵۹ ہے۔ اسی طرح دماغ کو ۲۹۹۳۰، آنکھ کو ۱۷۹۴، لعابِ دہن کو ۱۸۶، دل کو ۶۲۱۶، سینے کو ۴۰۰۱، پھیپھڑوں کو ۱۱۵۸۱، جگر کو ۲۳۰۹، آنتوں کو ۳۸۳۸، دماغی پٹھوں کو ۱۹۱۱، اور خون کے سیل کو ۲۲۹۲ جین کنٹرول کرتی ہیں۔
ڈی این اے کے حروف کا سلسلۂ ترتیب انسانی بناوٹ کی تمام تر تفصیلات طے کرتا ہے۔ معمولی سے معمولی تفصیل بھی اس کے احاطے میں ہے۔ صرف آنکھ، ناک، چہرہ مہرہ اور ظاہری حسن و جمال ہی نہیں، ایک سیل میں نصب ڈی این اے انسانی جسم میں موجود ۲۰۶ ہڈیوں، ۶۰۰ پٹھوں (muscles) اور ۱۰ہزار auditory muscles (کان سے متعلق پٹھے) کے نیٹ ورک اور ۲۰ لاکھ optic nerves (آنکھ سے متعلق) اور ۱۰۰ بلین nerve cells اور تمام کے تمام ۱۰۰ٹریلین خلیوں کا مکمل ڈیزائن اپنے اندر سمائے ہوئے ہوتا ہے۔
اس وسیع سمندر کا اندازہ لگایئے اور علم کی کائنات کی سب سے پیچیدہ مشین ’آدمی‘ کے جسم و عقل اور فہم و ادراک کے پروان چڑھنے کا علم حیرت انگیز طور پر ایک ڈی این اے میں قطار در قطار جمع کردیا گیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر ڈی این اے کے حروف کے سلسلۂ ترتیب (sequence ) میں ذرا بھی نقص رہ جائے تو ممکن ہے آپ کی آنکھیں چہرے پر ہونے کے بجاے آپ کے گھٹنے پر نمودار ہوجائیں اور آپ کے ناک، کان، ہاتھ پائوں، سر اور کمر اپنے موجودہ مقام سے ہٹ کر کسی بے ہنگم جگہ پر وارد ہوجائیں، ڈی این اے کا یہ مکمل نظام آپ کے بے داغ ڈیل ڈول اور ہراعتبار سے مکمل انسان ہونے کا ضامن ہے۔
اب اگر کوئی کہے کہ ڈی این اے کا منظم سلسلہ کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ ہے یا ناگہانی واقعہ ہے تو کوئی کم عقل بھی یہ بات نہ مانے گا۔ اتفاقات کا امکان یا احتمال، ریاضی میں امکان (probability) کے حساب سے معلوم کیا جاتا ہے۔ یہ وہ نسبت ہے جو کسی اغلب حالت کو جملہ ممکنہ حالات سے ہو۔ آج ریاضیات نے یہ بھی حساب لگا دیا ہے کہ محض اتفاق سے ایک ڈی این اے کے ۲ لاکھ جین میں سے کسی ایک جین کی بھی ترتیب اس مخصوص سلسلے سے ہموار ہوجانے کی نسبت صفر کے برابر ہے۔
فرینک سالسبری (Frank Salisbury ) جو خود ایک ارتقا کو ماننے والا سائنس دان ہے، کہتا ہے کہ: ایک درمیانی درجے کے پروٹین میں ۳۰۰ کے قریب amino acids ہوتے ہیں۔ اس کو کنٹرول کرنے والے ڈی این اے جین میں تقریباً ۱۰۰۰ نیوکلوٹائیڈ کی ایک کڑی ہوگی۔ چونکہ ایک ڈی این اے کڑی میں چار قسم (C،G،T،A) کے نیوکلوٹائیڈ ہوتے ہیں، اس لیے ۱۰۰ link والی کڑیاں ۴۱۰۰۰ قسموں کی ہوں گی۔ الجبرا کے ذریعے logrithms کے استعمال سے ۴۱۰۰۰ کا مطلب ہوا ۱۰۶۰۰ ،یعنی ۱۰ کو ۱۰ سے ۶۰۰ مرتبہ ضرب کرنے سے ایک کے بعد ایک ۶۰۰صفر لگانے سے جو ہندسہ بنے گا۔ یہ وہ عدد ہے جس کا صرف تصور کیا جاسکتا ہے۔
مزید وضاحت اس طرح کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ تمام ضروری نیوکلوٹائیڈ بھی کہیں موجود ہیں اور ان کو مجتمع کرنے والے تمام پیچیدہ مالیکیول اور خامرے (enzymes ) بھی سب مہیا کردیے گئے ہیں تو ان نیوکلوٹائیڈکا خاطرخواہ sequence میں ترتیب پا جانے کا امکان ۱۰۶۰۰ میں سے ایک بار ہے، یعنی ڈی این اے کے خود بخود وجود میں آجانے کی probability ۱۰۶۰۰ میں سے صرف ایک دفعہ کی ہے۔ ناممکن کہیں توکم ہے۔
فرانسس کرِک (Francis Crick)کو ڈی این اے کی ریسرچ پر نوبل انعام سے نوازا گیا۔ یہ خود بڑا پکا حامی ارتقا تھا مگر کہتا ہے کہ: ’’ایک انصاف پسند انسان، اس معلومات کی روشنی میں جو اب تک ہمارے پاس ہے، صرف اتنا کہہ سکتا ہے کہ ایک خاص معنی ہیں، انسانی زندگی کی ابتدا اس وقت تو ایک کرشمہ ہی معلوم ہوتی ہے‘‘۔
خیال رہے کہ بچوں میں (Haemophilia Leukemia) ڈی این اے کے کوڈ میں خرابی واقع ہوجانے سے ہوتا ہے۔ کینسر کی تمام قسمیں اسی نازک توازن کے بگڑ جانے سے ہوتی ہیں۔ یہ خرابی کسی بھی ایک ڈی این اے کے کسی ایک اساسی جوڑے میں توازن نہ ہونے سے ہوجاتی ہے۔ یہ خرابی C ،G،T،A حروف میں مثلاً ایک بلین ۶۱۸ ملین ۴۵۷ ہزار اور ۶۳۲ویں اساسی جوڑوں میں ہوسکتی ہے۔ اتنی کثیر تعداد میں اساسی جوڑے ،ہر خلیے میں ڈی این اے اور تمام ٹوٹتے بنتے اور تقسیم در تقسیم ہوتے خلیوں میں توازن برقرار رکھنے کا نظام بھی ڈی این اے کے کوڈ میں چھپا ہوتا ہے۔
ڈی این اے کی تحیر خیز دنیا میں اپنی ہی نقل یا خودساختہ نقشِ ثانی بنانے (self replication) کا عمل انتہائی تیزی سے جاری رہتاہے، سب جانتے ہیں کہ انسانی جسم کی ابتدا ماں کے پیٹ میں ایک خلیے سے ہوتی ہے۔ پھر یہ خلیہ تقسیم ہوجاتا ہے اور نئے خلیے وجود میں آتے جاتے ہیں جو کہ ایک سے دو، دو سے چار، اور اسی طرح ۴-۸، ۱۶-۳۲، ۶۴-۱۲۸ کی نسبت سے تقسیم ہوکر جنم لیتے جاتے ہیں۔
خلیہ تقسیم ہوکر دوسرا خلیہ بناتا ہے اور ہر خلیے کو ایک ڈی این اے چاہیے اور ڈی این اے کڑی خلیے میں ایک ہی ہوتی ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہر تقسیم ہوتا ہوا خلیہ اپنا ہم شکل خود پیدا کرتا ہے۔ ہر خلیہ ایک خاص سائز کا ہوتا ہے۔ تقسیم ہوکر دوسرا خلیہ بنانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ خلیے میں شعور اور یہ ایقان کہاں سے آیا، خلیے کے ساتھ ساتھ ڈی این اے کی تقسیم کا خفیہ عمل بڑے دل چسپ طریقے پر ہوتا جاتا ہے۔
ڈی این اے کا مالیکیول جو شکل میں ایک چکردار زینے کی طرح ہوتا ہے تقسیم ہوکر دو حصوں میں zip کی طرح کھل جاتا ہے۔ یہ دونوں طرف سے غائب ادھورے حصے اسی اطراف میں موجود مادہ سے اپنی انوکھی تکمیل کو پہنچتے ہیں اور ایک سے دوسرا ڈی این اے وجود میں آجاتا ہے۔ تقسیم کے ہر دور میں خاص پروٹین اور خامرہ کسی ماہر روبوٹ (robot) کی طرح کام کرتے رہتے ہیں۔ تمام تفصیل کا ذکر ممکن ہے مگر اس کے لیے بہت سے صفحات بھی ناکافی ہوں گے۔
خامرے (enzymes) وہ کارندے ہیں جو ہر قدم پر یہ چیک کرتے ہیں کہ کوئی غلطی اگر ہوگئی ہے تو فوری طور پر اس کی اصلاح ہوجائے۔ ہر منٹ میں ۳ہزار اساسی جوڑے پیدا ہوجاتے ہیں اور نگرانی کرنے والے خامرے ضروری ترمیم، اصلاح اور ردوبدل بھی کرتے جاتے ہیں تاکہ نئے پیدا ہوئے ڈی این اے میں غلطی کا امکان نہ رہے۔ اس لیے ڈی این اے کے حکم سے مرمت کرسکنے والے زیادہ خامرے پیدا ہوتے ہیں۔ گویا ڈی این اے میں خود اپنی حفاظت کا، اپنی افزایشِ نسل کا اور نسلوں کو محفوظ اور برقرار رکھنے کا مکمل پروگرام کوڈ کیا ہوا ہوتا ہے۔
اب دیکھیے کہ خلیے پیدا ہوتے ہیں اور مرتے جاتے ہیں۔ آپ کے جسم میں جو خلیے چھے ماہ پہلے تھے ان میں سے آج ایک بھی باقی نہیں ہے۔ ان کی عمر بہت کم ہوتی ہے، میرے سب خلیے مرچکے ہیں مگر میں زندہ ہوں اس لیے کہ ہر خلیے نے بروقت اپنا ہمزاد پیدا کرنے کا عمل مکمل کرلیا تھا۔ یہ عمل انتہائی مہارت سے مکمل ہوتا ہے کہ کسی غلطی کا امکان ۳بلین اساسی جوڑوں میں سے صرف ایک میں ہوسکتا ہے اور یہ غلطی بھی بڑے اعلیٰ تکنیکی انداز میں سنوار دی جاتی ہے۔
سب سے زیادہ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ خامرے جو پل پل ٹوٹتے بنتے بکھرتے اور سنورتے ڈی این اے کو پیدا کرنے کی ذمہ داری نبھاتے ہیں وہ دراصل مختلف قسم کی پروٹین ہیں جن کے پیدا ہونے کی ترتیب اورسلسلہ بھی اسی ڈی این اے میں کوڈ کیا ہوا ہے اور اسی ڈی این اے کے حکم کے تابع ان کا نظام عمل چلتا ہے جس کی افزایش کی دیکھ بھال ان کو کرنی ہے ؎
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صداے کن فیکون
فلسفہ ارتقا کہتا ہے کہ انسان درجہ بہ درجہ کچھ فائدہ مند اتفاقات کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ خامرے اور ڈی این اے کا بیک وقت وجود میں آتے جانا اور ان کا انوکھا تال میل کسی بڑے تخلیق کار (Creator) کا کارنامہ ہے اور وہ ہستی اللہ کی ہے، دنیا بھر کے دانش ور یہ حقیقت جانتے جارہے ہیں۔
سائنس کے پاس جواب نہیں ہے کہ ڈی این اے میں یہ معلومات کہاں سے آئیں، ہرزندہ شے، مچھلی، کیڑے مکوڑے، چرند و پرند اور انسان کے ڈی این اے مختلف کیوں ہوتے ہیں، خود ڈی این اے کا وجود اور ابتدا کیسے ہوئی۔ اس عمل کو سمجھنے کے لیے آر این اے کی ایک علیحدہ دنیا کا پتا چلا کہ خامرے کو آر این اے چلاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
خلاصہ یہ کہ زندگی دینے والے عناصر در عناصر مالیکیول، خلیہ، ڈی این اے، آر این اے، خامروں اور ہزاروں پروٹین سب جمع کرلیے جائیں تو بھی زندگی نہیں ملتی۔ تھک ہار کر ماننا پڑتا ہے کہ زندگی صرف تخلیق (creation) کے ذریعے ممکن ہے اور یہ خالق (Creator) کون ہے؟
اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں… وہ اس کے علم میں سے کسی کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر جتنا وہ چاہے… وہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۵۵) ۔(بہ شکریہ ماہنامہ الفرقان، لکھنؤ ،نومبر ۲۰۰۷ئ)
شیخ محمد فرغلی شہیدؒ کا شمار اخوان المسلمون مصر کے اولین قائدین میں ہوتا ہے۔ آپ عالم و مجاہد اور ایک مثالی داعی تھے۔ آپ کی پوری زندگی جہدِمسلسل کا مظہر تھی اور شہادت پاکر حیاتِ جاوداں پائی۔ آپ اخوان کے ان اولیں چھے شہدا میں سے ہیں جنھیں جمال عبدالناصر کے ابتدائی دور میں شہید کیا گیا۔ آپ کی زندگی میں ایسے پہلو بھی ملتے ہیں جن میں کارِ انبیاؑاور تحریک اسلامی کے مشن کو آگے بڑھانے والے داعیانِ اسلام کے لیے تزکیہ و تربیت اور رہنمائی کا سامان ہے۔ فرغلی شہیدؒ عمر بھر ان اصولوں کی پاس داری کرتے رہے حتیٰ کہ راہِ خدا میں اپنا خون دے کر صبرواستقامت اور عزیمت کی ایک عظیم تاریخ رقم کی۔
یہ سن کر شیخ فرغلیؒ نے بڑے سکون سے جواب دیا: ’’موسیو فرانسو! میں نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ میں الجباسات البلاح کمپنی کا ملازم ہوں۔ اگر میں نے ایسا سمجھا ہوتا تو میں کبھی اس کے ساتھ کام کرنے کے لیے آمادہ نہ ہوتا۔ میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں اسماعیلیہ کی اخوان المسلمون کا ملازم ہوں۔ میں آپ کے بجاے ان سے تنخواہ کا مطالبہ کروں گا۔ مجھے اگر یہ کام چھوڑنا ہوا تو ان سے بات کرکے چھوڑ دوں گا۔ یہ معاملہ چونکہ آپ سے غیرمتعلق ہے لہٰذا میں آپ سے تنخواہ قبول کرتا ہوں نہ بقایا جات لیتا ہوں۔ نہ ہی میں مسجد میں اپنی خدمت کو ترک کروں گا خواہ آپ اس کے لیے طاقت ہی کیوں نہ استعمال کریں۔ ہاں جس جماعت نے مجھے یہاں بھیجا ہے اگر اس کا سربراہ مجھے حکم دے تو میں یہاں سے چلا جائوں گا۔ وہ صاحب اسماعیلیہ میں موجود ہیں۔ آپ ان سے بات کرلیں۔
کمپنی کے لوگ بڑے حیران اور پریشان ہوئے۔ انھوں نے چند روز تک صبر کیا کہ شاید‘ شیخ فرغلیؒ ان سے تنخواہ مانگیں گے۔ مگر شیخ نے اسماعیلیہ میں راقم الحروف سے رابطہ کیا۔ ہم نے انھیں کہا کہ وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہیں اور کسی بھی صورت میں اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ شیخ فرغلیؒ کا موقف درست تھا‘ اس لیے وہ کمپنی کے ملازم تھے، نہ ان سے تنخواہ لیتے تھے۔ مجبور ہوکر اس کمپنی کی انتظامیہ نے پولیس سے مدد مانگی۔ کمپنی کے ڈائرکٹر ’موسیوماینو‘ نے کینال کے منتظم اعلیٰ سے رابطہ کیا‘ اُس نے اسماعیلیہ کے اعلیٰ پولیس افسر کو حکم دیا کہ وہ اس مہم سے عہدہ برآ ہونے کے لیے طاقت کا استعمال کرے‘ چنانچہ اعلیٰ پولیس افسر‘ پولیس کی نفری سمیت فیکٹری کے ڈائرکٹر کے پاس پہنچ گیا۔ وہاں سے اُس نے شیخ فرغلیؒ کو طلب کیا۔ آپ مسجد میں تھے۔ آپ نے قاصد کو کہا: مجھے نہ تو پولیس افسر سے ملنے کی ضرورت ہے نہ ڈائرکٹر سے۔ میرا کام تو مسجد میں ہوتا ہے۔ اگر کوئی مجھ سے ملنا چاہتا ہے تو وہ میرے پاس آجائے‘‘۔ یہ جواب سن کر پولیس افسر آپ کے پاس آیا اور آپ سے کہنے لگا کہ آپ ڈائرکٹر کی بات مان لیجیے اور یہاں کا کام چھوڑ کر واپس اسماعیلیہ چلے جایئے۔ شیخ فرغلیؒ نے وہی جواب دیا جو وہ ڈائرکٹر کو اِس سے پہلے دے چکے تھے۔
جب یہ خبر کمپنی کے کارکنوں تک پہنچی کہ شیخ فرغلیؒ کو مسجد کی امامت و خطابت سے معزول کرنے کی کوشش ہو رہی ہے تو انھوں نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر ہڑتال کر دی۔ انھوں نے جلوس نکالا اور جوش و جذبے سے معمور ہوکر شیخ کے حق میںنعرے لگائے۔ پولیس افسر نے جب یہ محسوس کیا کہ طاقت کا استعمال خطرناک ہوگا تو وہ فوراً وہاں سے اسماعیلیہ چلا گیا۔ یہاں اُس نے مجھ سے رابطہ کیا تاکہ اس مسئلے کا کوئی حل نکل آئے۔ بعد میں‘ میں نے کمپنی کے ڈائرکٹر سے ملاقات کی اور پوچھا کہ وہ کیوں شیخ کو ہٹانا چاہتے ہیں تو اُس کے پاس اِس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہ وہ کوئی ایسا فرد چاہتے ہیں جو ان کی بات مانے۔ اس ڈائرکٹر کی ایک بات مجھے اب تک یاد ہے:’’بہت سے مسلمان قائدین کے ساتھ میری دوستی ہے۔ میں نے الجزائر میں ۲۰سال گزارے ہیں‘ مگر مجھے شیخ فرغلی ؒجیسا شخص کبھی نہیں ملا۔ یہ شیخ تو یہاں ہم پر اس طرح حکم چلاتا ہے جیسے یہ کوئی فوجی جرنیل ہو‘‘۔
رحمت عالم خاتم الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی تمام صفات و کمالات کی جامع اور انسانیت کی معراجِ کمال ہے ع آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہاداری۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت نگاری ایک ایسا پاکیزہ موضوع ہے جس پر ہر مکتبِ فکر کے اہلِ قلم گذشتہ چودہ صدیوں میں نہایت وقیع اور قابلِ قدر تصانیف پیش کرچکے ہیں۔ زیرنظر کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ مدینہ منورہ کے ایک فاضل محقق ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری کی کاوشِ فکر وتحقیق کا نتیجہ ہے۔ اصل کتاب السیرۃ النبویہ الصحیحۃ کے نام سے عربی زبان میں ہے۔ اسے محترم خدابخش کلیار نے اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ کتاب چار فصلوں پر مشتمل ہے جن کے عنوانات یہ ہیں: رسولؐ اللہ مکہ میں، رسولؐ اللہ مدینہ میں، مشرکین کے خلاف جہاد، رسالت اور رسولؐ۔
فاضل مصنف نے جہاں یہ خیال رکھا ہے کہ موضوع اور ضعیف روایتیں کتاب میں نہ آنے پائیں، وہاں بعض مشہور لیکن مشتبہ روایتوں کا تنقیدی جائزہ بھی لیا ہے۔ انھوں نے حیاتِ نبوی کے مکی اور مدنی دونوں ادوار کے اہم واقعات اختصار مگر جامعیت کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ وہ ان واقعات کے صرف ناقل ہی نہیں بلکہ جگہ جگہ تفکروتعمق سے کام لے کر قارئین کو بھی سوچنے اور غور کرنے کی دعوت دی ہے، ساتھ ہی سیرتِ نبویؐ سے فکرانگیز نتائج بھی اخذ کیے ہیں۔ اس کتاب میں فاضل مصنف کی ایک اور تصنیف المجتمع فی عھد النبوۃ کا ایک نظرثانی حصہ بھی شامل ہے۔ اس کے انگریزی ترجمے کا اُردو ترجمہ محترمہ عذرا نسیم فاروقی (م:۲۰۰۴ئ) نے کیا تھا۔ اس سے یقینا کتاب کی افادیت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ بلاشبہہ زیرتبصرہ کتاب کتبِ سیرت میں گراں قدر اضافہ ہے۔ البتہ یہ کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ مختلف مقامات، غزوات و سرایا اورافراد کے اسما پر اعراب اور اضافت کی علامات لگانے کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ قارئین کو غلط تلفظ سے بچانے کے لیے ایسا اہتمام کرنا بہت ضروری ہے۔ (طالب الہاشمی)
زیرنظر کتاب میں قیامِ پاکستان کا مقصد، اسلام اور مغرب، قوموں کا عروج و زوال، تجدید واحیاے دین اور احیاے خلافت جیسے اہم موضوعات کو زیربحث لایا گیا ہے۔
آغاز میں قیامِ پاکستان کے مقاصد، تحریکِ پاکستان میں مختلف لوگوں کے کردار اور نفاذ اسلام کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان کی تقاریر سے اقتباسات پیش کر کے ان لوگوں کا موقف غلط ثابت کیا گیا ہے جن کو یہ وہم ہوگیا ہے کہ قائداعظم پاکستان کوسیکولر اسٹیٹ بنانا چاہتے تھے۔ علاوہ ازیں مؤلف نے قیادت کے بحران، دینی قوتوں کے انتشار اور نوآبادیاتی ورثے کو نفاذ اسلام کی راہ میں رکاوٹیں قرار دیا ہے۔
اسلام اور مغرب کے تعلقات کے تحت ساتویں صدی عیسوی سے لے کر اب تک کی تاریخ بیان کی گئی ہے جس میں صلیبی جنگوں، مغربی استعماریت، نوآبادیاتی نظام اور موجودہ صورت حال کا تفصیل سے جائزہ لیاگیا ہے۔مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی ایک وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ مغرب اپنے ممالک میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور دنیا بھر میں اسلام کے تیزی سے پھیلتے ہوئے اثرات سے خوف زدہ ہے۔ (ص ۱۳۴)
قوموں کے عروج و زوال کے دائمی اور معروضی اصول بیان کرنے کے ساتھ ساتھ تجدید و احیاے دین کے زیرعنوان تشکیل معاشرہ کے اصول، اجتہاد کی ضرورت، مجدد کے مقام، تجدید کی ضرورت اور روح پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ ۱۹ویں صدی کے عظیم مجدد عثمان فودیو (۱۷۵۴ئ-۱۸۱۷ئ) کی جدوجہد اور اس کے نتیجے میں سکوٹو (جمہوریہ نائیجیریا) میں خلافت کے قیام کا شان دار تذکرہ بھی سامنے آتا ہے۔ کتاب مسلمانوں کو اقامت دین کی جدوجہد پر اُبھارتی ہے۔(حمیداللّٰہ خٹک)
سائنس وہ علم ہے کہ جس کی بنیاد خیال، مشاہدے اور بالآخر تجربے سے منسوب ہے۔ یہ علم، اللہ کی نشانیوں کو پرکھنے کی انسانی کوشش اور ان کوششوں کے ثمر سے انسانوں کو ثمربار کرنے کا وہ علم ہے جس نے حیرتوں کے باب کھولے اور سہولتوں کے خزانوں کا انبار لگا دیا ہے۔
سائنس کا علم انسانیت کی مشترکہ میراث ہے کہ اس اہرام کی تعمیر میں مختلف اوقات میں معروف اور گم نام اہلِ دانش نے اپنے اپنے حصے کا پتھر نصب کیا۔ بلاشبہہ ان سائنسی ایجادات کے پس منظر میں مسلمان سائنس دانوں کی کاوشوں، تحقیقات اور تجربات کا بھی حصہ ہے لیکن آخرکار جس ایجاد یا جس سائنسی کلیے کو حل کرنے کا اعزاز جن مغربی سائنس دانوں کو حاصل ہوا، یہ کتاب ان میں سے ۲۵ محسنوں کے احوال پر مشتمل ہے۔
اس کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے کتنی محنت کی۔ کس قدر بڑے سماجی، معاشی، مذہبی چیلنجوں کا سامنا کیا۔ آج ہم جن آسایشوں کو یوں برت رہے ہیں کہ شاید یہ آفرینش آدم کے عہد سے جوں کی توں میسر تھیں تو واقعہ یہ ہے کہ ایسا نہیں تھا۔ اس کے لیے دنیاے علم کو بڑی مشکلات کو عبور کرنا پڑا ہے۔ فاضل مصنف نے عام فہم انداز میں ان سائنس دانوں کی داستانِ حیات اور کارنامۂ علم کو پیش کیا ہے۔ ان رجال میں: راجر بیکن، گوٹن برگ، ٹرے ویژن، کوپرنیکس، پیراسیل، ٹامیکوبراہے، گلیلیو، جان کیپلر، ولیم ہاروے، رابرٹ یو ایل، جوشم باشر، لیون ہک، آئزک نیوٹن اور دیگر ۱۲ سائنس دان شامل ہیں۔ اس سے قبل مجلسِ ترقیِ ادب نام ور مسلم سائنس دان بھی شائع کرچکی ہے۔ (سلیم منصور خالد)
’ووٹ کی شرعی حیثیت‘ (دسمبر ۲۰۰۷ئ) ایک اہم مسئلہ ہے۔ پاکستان میں بہت سے لوگ ووٹ کے ذریعے تبدیلی کو کارِلاحاصل اور مغربی طریقہ سمجھتے ہیں۔ راے عامہ ہموار کیے بغیر بزورِ طاقت شریعت نافذ کرنے کی سوچ کبھی ’لال مسجد تحریک‘ اور کبھی ’تحریکِ نفاذِ شریعت محمدی‘ کی شکل میں سامنے آرہی ہے۔ نتائج سب کے سامنے ہیں۔ ’مغربی دانش وروں کا احساسِ شکست‘ (دسمبر ۲۰۰۷ئ) میں خوش کُن اور اُمید افزا پہلو سامنے آیا ہے لیکن ناول نگاروں کا مقصد یورپ و امریکا میں خوف و ہراس پھیلانا معلوم ہوتا ہے اور راے عامہ کو اِس بات پر آمادہ کرنا کہ اسلامی انقلاب کی تحریک کو ابھی سے کچل ڈالو۔ اِس قسم کی تحریریں اورفلمیں کس قسم کے اثرات مرتب کر رہی ہیں اور اسلام کے بارے میں کیا کیا منفی تاثرات پھیلا رہی ہیں ان کا مطالعہ و تجزیہ بھی آنا چاہیے۔
’ووٹ کی شرعی حیثیت ‘ (دسمبر ۲۰۰۷ئ) کے مسئلے پر تاحال اس چیز کی ضرورت ہے کہ تفصیل سے بحث کی جائے۔ اس موضوع پر اجتہادی آرا میں اختلاف ایک فطری امر ہے۔ بایں ہمہ ووٹ کے کلچر یا جمہوری عمل کے موجودہ چلن کی مخالفت کرنے والوں کو گمراہ کن قرار دینا بھی سوچ کا نمایندہ حریت فکر کے منافی ہے۔
’اقبال اور جوانانِ ملّت‘ (دسمبر ۲۰۰۷ئ) میں راہِ عمل متعین کرنے کے لیے رہنمائی ہے۔ اس مضمون میں علامہ اقبال کے اکبر الٰہ آبادی کے نام ایک خط کا ذکر کیا گیا ہے جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ کوئی قابل نوجوان جو ذوقِ خداداد کے ساتھ قوتِ عمل بھی رکھتا ہو مل جائے جس کے دل میں اپنا اضطراب منتقل کر دوں۔ معروف مسلم لیگی رہنما اور کالم نگار م-ش نے ایک موقع پر یہی عبارت نقل کرنے کے بعد لکھا تھا: ’’اور وہ نوجوان انھیں مولانا مودودی کی صورت میں مل گیا، جسے انھوں نے لاہور آنے کی دعوت دی‘‘۔
’اقبال اور جوانانِ ملت‘ (دسمبر ۲۰۰۷ئ) کے مطالعے سے اقبال کی نوجوانوں سے توقعات اور ان کے لیے پیغام توسامنے آتا ہے مگر تشنگی باقی رہتی ہے۔ ضرورت ہے کہ عصرِحاضر میں اقبال کے افکار، شاعری اور نثر سے نوجوانوں کو آگاہ کرنے کے لیے انتخاب پر مبنی ایک جامع، مؤثر اور مختصر کتاب تیار کی جائے۔
’انسانی وسائل کی ترقی، اسلامی نقطۂ نظر‘ (دسمبر ۲۰۰۷ئ) کے حوالے سے عرض ہے کہ اساتذہ کرام دورانِ تدریس سیرت سازی کو پیش نظر رکھیں تو نئی نسل کی تربیت کے لیے مزید راہیں کھل سکتی ہیں۔
’جدیدیت، سائنس اور الہامی دانش‘ (دسمبر ۲۰۰۷ئ) میں بہت سے مشکل الفاظ تھے۔ تحریر عام فہم ہونی چاہیے۔ کوشش کیجیے کہ تحریریں عام فہم ہوں اور آسان الفاظ استعمال کیے جائیں۔
’کتاب اللہ کا نفاذ: اہمیت و ضرورت‘ (نومبر ۲۰۰۷ئ) میں اُمت مسلمہ کے اہم ترین مقصدِحیات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ درحقیقت موجودہ دور میں کتاب اللہ کے نفاذ کی راہ میں دو بڑی رکاوٹیں حائل ہیں۔ اوّلاً، جن لوگوں پر کتاب اللہ کے نفاذ کا فریضہ عائد ہوتا ہے وہ محوِ غفلت ہیں اور دو رنگی کا شکار ہیں۔ ثانیاً، عالمی طاقتیں مسلم ممالک کو لادین اور سیکولر بنانے کے عالمی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور ان ممالک کے حکمران اُن کے دستِ راست بنے ہوئے ہیں۔
’ایفاے عہد اور مومنانہ صفت‘ (نومبر ۲۰۰۷ئ) اخلاقی اور عملی پہلو کے حوالے سے اچھی تذکیر ہے۔ ’ازواجِ مطہراتؓ کے اسلوبِ دعوت‘ سے جذبۂ دعوت و تحریک کو مہمیز ملی اور اک ولولۂ تازہ ملا۔
نومبر کا شمارہ اول تا آخر پسند آیا خصوصاً ’ازواجِ مطہراتؓ کا اسلوبِ دعوت‘ (نومبر ۲۰۰۷ئ) کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنالیا۔
ڈاکٹر رئیس احمد نعمانی ‘علی گڑھ‘ بھارت
ترجمان القرآنمسلسل باصرہ نواز ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو تاقیامت جاری رکھے۔ بعض مضامین تو بے حد چشم کشا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مسلمانوں کو مکمل استفادے کی توفیق عطا فرمائے۔
[نظام بدلنے کی] یہ کوشش ہمیں صرف اسی لیے نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا کی خیرخواہی ہم سے اس کا مطالبہ کرتی ہے۔ نہیں، ہم خود اپنے بھی سخت بدخواہ ہوں گے اگر اس سعی و جہد میں اپنی جان نہ لڑائیں۔ کیونکہ جب اجتماعی زندگی کا سارا نظام فاسد اصولوں پر چل رہا ہو، جب باطل نظریات و افکار ساری دنیا پر چھائے ہوئے ہوں، جب خیالات کو ڈھالنے اور اخلاق و سیرت کو بنانے کی عالم گیر طاقتوں پر فاسد نظامِ تعلیم، گمراہ کن ادبیات، فتنہ انگیز صحافت اور شیطنت سے لبریز ریڈیو اور سنیما [ٹی وی چینلز اور کیبل] کا تسلط ہو، جب رزق کے تمام وسائل پر ایک ایسے معاشی نظام کا قبضہ ہو جو حرام و حلال کی قیود سے ناآشنا ہے، جب تمدن کی صورت گری کرنے اور اس کو ایک خاص راہ پر لے چلنے کی ساری طاقت ایسے قوانین اور ایسی قانون ساز مشینری کے ہاتھ میں ہو جو اخلاق و تمدن کے سراسر مادہ پرستانہ تصورات پر مبنی ہیں، اور جب قوموں کی امامت اور انتظام دنیا کی پوری زمامِ کار اُن لیڈروں اور حکمرانوں کے ہاتھ میں ہو جو خدا کے خوف سے خالی اور اس کی رضا سے بے نیاز ہیں اور اپنے کسی معاملے میں بھی یہ دریافت کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ ان کے خالق کی ہدایت اس معاملے میں کیا ہے، تو ایسے نظام کی ہمہ گیر گرفت میں رہتے ہوئے ہم خود اپنے آپ کو ہی اس کے بُرے اثرات اور بدتر نتائج سے کب بچا سکتے ہیں۔
یہ نظام جس جہنم کی طرف جا رہا ہے اسی طرف وہ دنیا کے ساتھ ہمیں بھی گھسیٹے لیے جا رہا ہے۔ اگر ہم اس کی مزاحمت نہ کریں اور اس کو بدلنے کی کوشش میں ایڑی چوٹی کا زور نہ لگائیں تو یہ ہماری اور ہماری آیندہ نسلوں کی دنیا خراب اور عاقبت خراب تر کر کے چھوڑے گا۔ لہٰذا محض دنیا کی اصلاح ہی کے لیے نہیں بلکہ خود اپنے بچائو کے لیے بھی یہ فرض ہم پر عائد ہوتا ہے___ اور یہ سب فرضوں سے بڑا فرض ہے کہ ہم جس نظامِ زندگی کو پوری بصیرت کے ساتھ فاسد و مہلک جانتے ہیں اُسے بدلنے کی سعی کریں اور جس نظام کے برحق اور واحد ذریعۂ فلاح و نجات ہونے پر ایمان رکھتے ہیں اُسے عملاً قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔ (’جماعت اسلامی کی دعوت‘، سیدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد ۳۱، عدد۵، ذی القعدہ ۱۳۶۷ھ، ستمبر ۱۹۴۸ئ، ص ۱۷-۱۸)