مضامین کی فہرست


۲۰۰۸ فروری

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کیا فوجی عہدہ چھوڑنے اور فوجی وردی اتارنے کے بعد بھی پرویز مشرف صاحب حسب سابق اسی طرح مطلق العنان حکمران رہیں گے اور انھوںنے فوج کی پشتی بانی سے آئین کا حلیہ بگاڑ کر فردِواحد کی شخصی حکمرانی کا جونظام قائم کیا ہے، کیا وہ مستقبل میں برقرار رہ سکتاہے ؟ یہ وہ اہم ترین سوال ہے جس کے درست تجزیے اور جواب پر پاکستان کے مستقبل کا دارومدار ہے ۔

پاکستانی افواج کے نئے چیف آف سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی طرف سے فوجی افسران کے نام ایک خط لکھا گیا ہے ۔ اس خط کے جو مندرجات عام لوگوں کے لیے افشاکیے گئے ہیں ان سے یہ خوش آیند تاثر ملتاہے کہ نئے چیف کو واقعی فوج کا امیج درست کرنے کی فکر ہے ۔ انھوںنے فوجی افسران کو سیاست سے کنارہ کش رہنے، سیاست دانوں سے تعلق نہ رکھنے اور تجارتی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی ہدایت کی ہے ،اوراعلیٰ سول عہدوںپر حاضرسروس فوجی افسران کی تعیناتی کو بھی ناپسند کیا ہے ۔اگر یہ محض دل خوش کن باتیں نہیں ہیں اورآرمی چیف واقعی ان پر   عمل درآمد کرناچاہتے ہیں تو یہ نہ صرف افواج پاکستان بلکہ پوری قومی زندگی کے لیے  ایک نئے دور کی نویدہے۔ اگر جنرل کیانی واقعی ان باتوں پر عمل درآمد کرنے میں سنجیدہ ہیں تو جلدجنرل (ر) پرویز مشرف کے ساتھ ان کا اختلاف سامنے آجائے گا کیونکہ پرویز مشرف نیشنل سکیورٹی کونسل: صدر، وزیر اعظم اور آرمی چیف پر مشتمل ’تکون‘ کے ذریعے اپنے نظام کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ انھوںنے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ تکون مل جل کر نظام چلائے گی ۔ یہ غیر دستوری تکون اسی وقت  چل سکتی ہے جب آرمی چیف کو سیاست کرنے اور قومی زندگی میں غیر دستوری طور پر مداخلت کرنے کا شوق ہو ۔ لیکن اگر آرمی چیف اپنے قول کے سچے اور اپنے دستوری عہد (oath)  کے پکّے ہیں تو بجاطورپر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ حالات بہتر رخ اختیار کریںگے، پرویز مشرف کا غیر آئینی صدارتی نظام بھی نہیں چلے گا اور اقتدار بالآخر عوامی نمایندوں کی طرف واپس آجائے گا۔

یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی راہ ہموار کی جائے گی۔ اس طرح کے انتخابات کے لیے ضروری ہے کہ پرویز مشرف کا قائم کردہ آمرانہ نظام ختم ہو اور وہ مستعفی ہوجائیں ۔ملک، غیر آئینی ایمرجنسی (۳نومبر۲۰۰۷ئ) سے پہلے والی صورت حال کی طرف واپس لوٹ جائے ۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جن ججوں کو غیر آئینی اقدامات کے ذریعے سبک دوش کردیا گیاہے، وہ بدستور اپنے عہدوں پربحال ہوجائیں ۔ اتفاقِ راے سے ایک عبوری سول حکومت اقتدار سنبھال لے اور الیکشن کمیشن کی تشکیلِ نو تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے مشورے سے ہو۔ان اقدامات کے بعد جو انتخابات ہو ں گے ان پر قوم کا اعتماد ہوگا اور اس کے نتیجے میں آزاد پارلیمنٹ کا قیام عمل میں آئے گا جو پرویز مشرف کے خود ساختہ نظام کا خاتمہ کرکے ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء سے پہلے والا آئین بحال کردے گی اور آئین اپنی بنیادی خصوصیتوں کے ساتھ نافذ ہوجائے گا ۔ اسلامی نظامِ حیات، جمہوریت اور تمام اداروں پر منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی ،صوبائی خود مختاری اور عوام کی فلاح و بہبوداس دستور کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ دستور جب ان بنیادی خصوصیتوں کے ساتھ نافذ ہوگا تو ملک کو سیاسی استحکام نصیب ہوگا، عدلیہ منصفانہ فیصلے کرنے میں آزاد ہوگی، امن وامان بحال ہوگا، عوام کو چین و سکون ملے گا اور تمام صوبو ں کو آزادی اور اقتدار میں شرکت کا احساس ہوگا جس سے ملک خوش حال اور معاشی ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہوگا۔

اس پس منظر میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ ملک و قوم پرجب تک دستور کے بجاے    سول اور ملٹری انتظامیہ کی بالادستی قائم رہے گی، عوامی نمایندے ان کے رحم وکرم پر ہوں گے اور عدالتوں کو حقیقی آزادی حاصل نہیںہوگی، اس وقت تک موجودہ انتشار کی کیفیت نہ صرف برقرار رہے گی، بلکہ اور زیادہ بڑھے گی جس سے ملک کی سالمیت کو حقیقی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔    خود موجودہ آرمی چیف نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ عوام کی تائیداور تعاون کے بغیر فوج    کے لیے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونا اور ملکی سلامتی کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرناممکن نہیںہے، اور فوج کا اصل کام ملکی دفاع ہے ۔ اگر آرمی چیف ملک کی سلامتی اور دفاع کے لیے عوام کا تعاون واقعی ضروری سمجھتے ہیں تو انھیں جان لینا چاہیے کہ یہ تعاون اسی وقت حاصل ہوسکتاہے جب ملکی پالیسیاں عوام کی مرضی کے تابع ہوںگی۔

اس وقت ملک کی غالب اکثریت پاکستان ، افغانستان اور فلسطین وعراق سمیت پوری دنیا میں امریکی پالیسیوں کے خلاف ہے اور پاکستانی عوام امریکا کوایک دوست کے بجاے استعماری اور استحصالی طاقت کی نظر سے دیکھتے ہیں، جب کہ پرویز مشرف نے پاکستان کو امریکا کا فرنٹ لائن اتحادی قرار دیاہواہے اور افواج پاکستان امریکی مفادات کے لیے خود اپنے قبائلی علاقوں ، سوات اور ملک کے دوسرے علاقوں میں استعمال کی جارہی ہیں۔ اگر جنرل کیانی واقعی چاہتے ہیں کہ فوج اور عوام ایک ہوجائیں تو عوام کی مرضی کے مطابق خارجہ پالیسی تشکیل دینی ہوگی اور وہ تبھی ممکن ہے جب عوام کے حقیقی منتخب نمایندوں کی پارلیمنٹ کی تشکیل ہو اور ملک کے تمام ادارے منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی قبول کرلیں ۔ اس کے لیے نیشنل سکیورٹی کونسل کو ختم کرنا پڑے گا اور صدر،وزیراعظم اورآرمی چیف پرمشتمل تکون کے بجاے پارلیمنٹ کو تمام پالیسیوں کی تشکیل کا منبع تسلیم کرنا پڑے گا۔  لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ پرویز مشرف نے بڑی دیدہ دلیری سے یہ بیان دیا ہے کہ وہ نئی حکومت کو پالیسیاں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیںگے ۔ اسی وجہ سے جماعت اسلامی اور اے پی ڈی ایم نے دوٹوک الفاظ میں اعلان کردیا ہے کہ پرویز مشرف کی موجودگی میں انتخاب محض ڈھونگ اور فریب ہیں۔نواز شریف صاحب بھی گو یہی بات کہہ رہے ہیںلیکن الیکشن میں پھر بھی شریک ہونے کا شوق پورا کرنا چاہتے ہیں۔

 اپوزیشن جماعتوں کی صورت حال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد حقیقی قیادت سے محروم ہوچکی ہے ۔ پارٹی کو اکٹھا رکھنے کے لیے مرحومہ کی وصیت کا سہارا لیا گیا لیکن جمہوری معاشروں میں سیاسی جماعتیں وصیتوں کی بنیاد پر زیادہ دیر تک نہیں چل سکتیں ۔ جب تک پارٹی کے اندر جمہوریت اور جمہوری روایات مستحکم نہیں ہوں گی، پارٹی کے باہر ملکی معاملات بھی جمہوری انداز میں نہیں چلائے جاسکتے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے بارے میں یہ حقیقت اب چھپی ہوئی نہیں ہے کہ وہ امریکا اور پرویز مشرف کے ساتھ افہام و تفہیم کے نتیجے میں خود ساختہ جلاوطنی چھوڑ کر پاکستان تشریف لائی تھیں اور اس باہمی مفاہمت کا ایک لازمی جزو یہ تھاکہ وہ آیندہ کی وزیراعظم ہوںگی ۔ ظاہر ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اس طرح وزیراعظم بننے پر اکتفا ہرگز نہ کرتیں جس طرح کے وزیراعظم شوکت عزیز تھے یا ان سے قبل چودھری شجاعت حسین اور میرظفراللہ خان جمالی  تھے۔ پرویز مشرف کے لیے ظفراللہ جمالی جیسا کمزور سیاسی وزیراعظم بھی قابل قبول نہیں تھا تو وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیسے گزارا کرسکتے جن کے ساتھ خود ان کی اپنی پارٹی کے فاروق احمد خان لغاری صاحب بھی مطمئن نہیں رہ سکے تھے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے مظلومانہ قتل کے گرد اسی وجہ سے شکوک وشبہات کی ایک دھند چھائی ہوئی ہے ۔ پیپلز پارٹی کو اگر انتخابات میں کوئی کامیابی حاصل بھی ہوئی تو وہ محترمہ کے بعد جمہوری اداروں کی بحالی کے سلسلے میں کوئی مضبوط کردار ادا  نہیں کرسکے گی اور فوج اوراس کے ادارے پرویز مشرف کے دور میں جس مطلق العنان اقتدار کے عادی ہوچکے ہیں، پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کے لیے یہ امر محال ہے کہ وہ انھیں آئین ،قانون اور جمہوری اداروں کے تابع کرنے میں کامیاب ہوسکے۔

دوسری اپوزیشن پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن)اگرچہ میاں محمدنواز شریف کی قیادت میں متحد ہے۔ میاںبرادران کو انتخاب لڑنے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا ہے، اس کے باوجود وہ انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں اور انھیں امید ہے کہ وہ انتخاب جیت کر حالات پر اثر انداز ہوسکیں گے۔ حالانکہ جو شخص اپنے شخصی اقتدار کی خاطر ’آخری مُکا‘چلا کر دستور کو معطل کرسکتاہے ، چیف جسٹس کو مع ۶۰ ججوں کے گھر بٹھا سکتاہے اور ملک کے پورے آئینی ڈھانچے کو متزلز ل کرسکتاہے، اس سے یہ توقع رکھنا کہ اپنے ’دست آموز الیکشن کمیشن ‘ اوراپنی خود ساختہ عبوری حکومتوں کے ذریعے ایسے الیکشن کروائے گا جن سے اس کا اپنا اقتدار خطرے میںپڑ جائے خودفریبی کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ میاں نواز شریف کو یہ غلط فہمی تھی کہ وہ انتخابی مہم کے ذریعے عوام میںبڑا تحرک پیدا کرکے انتخابات کو ریفرنڈم میں تبدیل کردیں گے لیکن تقریباً ایک ماہ تک کوشش کے باوجود وہ کوئی بڑاتحرک پیدا نہ کرسکے۔ بلاشبہہ لوگ پرویز مشرف کے خلاف ہیں اورملک کے مستقبل کو ان کے ہاتھ میں محفوظ نہیں سمجھتے۔ بلاشبہہ عوام متبادل قیادت کی تلاش میں ہیں لیکن بم دھماکو ں اور پولیس گردی کے ذریعے خوف و ہراس کی جوفضا بنادی گئی ہے اس میں عوام میں تحرک پیدا کرنا اور انھیں بڑی تعداد میں سڑکوں پر لانا دشوار ہوگیا ہے۔ سیاسی کارکن تو جان پر کھیل کر بھی باہر نکلنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں لیکن عوام الناس سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ چاروں طرف پولیس اور پیرا ملٹری فورسز بندوقیں تانے کھڑی ہوں،بڑے مجمعوں میںبم بلاسٹ کے ذریعے سیکڑوں لوگوں کو قتل کیا جارہاہو، ملک میں دہشت گردی، پولیس گردی ، آٹے گھی کی قلت اوربجلی و گیس کے بحران کے ذریعے پریشانی کی ایک فضا پیدا کردی گئی ہو، اور اس کے باوجود وہ کسی سیاسی لیڈر کی قیادت میں جان پر کھیل کر باہر نکل آئیں گے۔

عوام کے بڑے پیمانے پرمتحرک نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو قیادت میدان میں ہے، وہ ا ن کی آزمودہ ہے ۔ عوام الناس کو اس قیادت سے قطعاً یہ امید نہیں ہے کہ وہ ان کی    حالت زار کو تبدیل کرنے کے لیے کوئی بڑے اقدامات اٹھا سکے گی۔ چنانچہ بڑے پیمانے پر عوام کو متحرک کرنے سے مایو س ہو کراب میا ں برادران قومی حکومت کی بات کرنے لگے ہیں۔

قومی حکومت سے کیا مراد ہے؟اس کی وضاحت میاں صاحبان نے اپنے قریبی حلقوں میں بھی نہیں کی۔ میاں نواز شریف کو ایک اچھا موقع ملا تھا کہ ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے ان کی دعوت پرلندن کانفرنس میں شرکت کی۔ پھر آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ (اے پی ڈی ایم) کی بنیاد پڑی جس میں وہ پارٹیاں بھی شامل ہوئیں جو اس سے قبل نئے دستور کا مطالبہ کررہی تھیں ۔ آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کے فورم پر فیصلہ کیا گیا کہ فوجی آمریت کے خاتمے اور پرویزمشرف کومستعفی ہونے پر مجبور کرنے کے لیے تحریک چلائی جائے گی۔ معزول ججوں کی بحالی تمام پارٹیو ںکا ایک بنیادی مطالبہ بن گیا اور وکلا تحریک کے ساتھ ہم آہنگی کا اعلان کیاگیا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ باہر کے دبائو اور پارٹی میں انتخابی امیدواروں کے اصرار کے نتیجے میں میاں نوازشریف نے قومی قیادت سنبھالنے کے اس اہم موقعے کو ضائع کردیا اور اپنی پارٹی کی انتخابی مہم سے توقعات وابستہ کرلیں۔ اب اگر وہ اپنی انتخابی مہم سے مایوس ہوگئے ہیں تو قومی حکومت کا مطالبہ کرنے سے پہلے انھیں دوبارہ آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ سے مشورہ کرنا چاہیے تھا۔ پیپلز پارٹی کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش میں انھیں کئی باراپنا موقف تبدیل کرناپڑا جس سے ان کے امیج کو نقصان پہنچا ہے۔

بنگلہ دیش کی صورت حال کے پیش نظر قومی حکومت کی تجویز کو لوگ شک و شبہے کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ۔ بنگلہ دیش میں ایک غیر جانب دار حکومت فوج کی پشتی بانی سے برسراقتدار ہے جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ ملک میں آزادانہ الیکشن منعقد کرکے اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کردے۔ لیکن یہ حکومت دونوں بڑی جماعتوں کے خلاف مقدمات قائم کرنے اور ان کی مبینّہ بدعنوانیوں کی تحقیق میں لگ گئی ہے ۔ تیسری بڑی پارٹی جماعت اسلامی تھی جس پر بد عنوانی کا کوئی الزام نہیں تھا تو اس پر ۱۹۷۰ء میں پاکستانی فوج کے ساتھ تعاون کا الزام لگا کر اس کی قیادت کے خلاف تحقیقات کرنے کی کوشش کی گئی۔اس ساری کاوش کامقصد یہ تھا کہ فوج ایک نام نہاد قومی حکومت کے نام سے اپنااقتدار قائم کرے۔لیکن عوامی ردعمل اس انتظام کے حق میں نہیں اورعلما اور سیاسی کارکن عبوری انتظام کو اس طرح طول دینے کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں اور فضا میں نئے سیاسی ارتعاش کے آثار دیکھے جاسکتے ہیں۔

قومی حکومت ایک مبہم اصطلاح ہے ۔ اس لیے اے پی ڈی ایم نے اپنے مطالبے کو واضح طور پر بیان کیا ہے کہ:

                ۱-            پرویز مشرف فوری طور پرمستعفی ہوں۔

                ۲-            سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ان ججوں کو بحال کیا جائے جنھوںنے پرویز مشرف کی غیر آئینی نام نہاد ایمرجنسی پلس کو ماننے سے انکار کردیاتھا، اور اسے غیر آئینی قرار دیاتھا۔

                ۳-            دستور۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء کی صورت میں بحال کیا جائے۔

                ۴-            اتفاقِ راے سے ایک عبوری حکومت اور آزاد الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے جو شفاف الیکشن کروائے، اور مختصر ترین وقت میں اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کردیا جائے ۔

یہ مطالبات ہم کس سے کررہے ہیں؟یہ ایک بڑا سوال ہے ۔ ظاہرہے کہ پرویز مشرف تو یہ مطالبات تسلیم نہیں کریں گے۔ موجودہ عدلیہ سے بھی یہ توقع نہیںہے۔ سابقہ سپریم کورٹ سے  یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ ملک کو دوبارہ آئینی راستے پر ڈالنے کے لیے وہ اہم اور بنیادی آئینی فیصلے کردے لیکن اس خطرے کو بھانپ کر پرویز مشرف نے اسے راستے سے ہٹا دیا۔موجودہ سپریم کورٹ سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ اس حوالے سے انقلابی اقدامات اٹھائے۔ واحد راستہ یہ ہے کہ عوام کو ان مطالبات کے لیے متحرک کیا جائے۔ بڑے پیمانے پر عوامی تحریک ہی اس وقت تمام مسائل کا حل ہے۔

ادھرسوات میں فوجی مداخلت کرکے سردی کے موسم میں لاکھوں لوگوں کو اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا گیاہے ۔ لوگ بھوک اور خوف کی دُہری مصیبت میں گرفتار ہیں ۔ بظاہر امن وامان برقرار رکھنے کے لیے فوج بھیجی گئی ہے لیکن خودفوج کے ۲۰، ۲۵ ہزار جوان ایک مشکل صورت حال میں محصور ہوگئے ہیں اور عوام کو بھی مشکل سے نکالنے کے بجاے مزید مشکلات میں گرفتار کردیا گیاہے ۔ اشیاے ضرورت کی قلت ہے اور جماعت اسلامی کی امدادی سرگرمیوں میں بھی کرفیو کے نفاذ اور راستوں کی بندش کی وجہ سے مشکلات ہیں ۔قبائلی علاقوں میں بھی امن و امان کی صورت حال ایک عرصے سے خراب ہے، اور اب محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری بیت اللہ محسود پر ڈال کر وہاں نیا آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔ گورنر سرحد علی محمد جان اورکزئی کی تبدیلی کو بھی اسی پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

اس وقت ملک کے ۵۰ فی صد سے زیادہ لوگ بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ شہری علاقوں میں روٹی کی قیمت دُگنی ہوگئی ہے۔ دوروپے کی روٹی چار روپے میں اور چار روپے کی روٹی آٹھ روپے میں ملتی ہے۔ آٹے کی قلت کی وجہ سے تنور بند ہوگئے ہیں ۔ پہاڑی علاقوں میں برف باری ہے اور ایندھن کی کمی ہے ۔ حکمران بیانات دینے کے علاوہ کچھ نہیں کررہے۔ چودھری برادران نے اس صورت حال کی ذمہ داری شوکت عزیز پر ڈال دی ہے جس سے پرویز مشرف ناراض ہوگئے ہیں کیونکہ شوکت عزیز کے بجاے اصل ذمہ داری انھی پرعائدہوتی ہے، جنھیں فساد کی جڑ قرار دیا جارہاہے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد فوری طور پر جو ہنگامے شروع ہوئے تھے،ان کے پیچھے ایک منظم گروہ کا ہاتھ نظر آرہاہے۔ یہ منظم تخریبی گروہ جو فوری طور پر ریل کی پٹڑیاں اکھاڑنے، ریل کے انجن جلانے،بڑے پیمانے پر اموال اور ٹرانسپورٹ کو تباہ کرنے میں لگ گیا ہے، ملک کے ہر حصے، خاص طور پر کراچی اور سندھ میں موجود ہے اور ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے کسی موقع کی تلاش میں ہے۔ کراچی کی صورت حال خاص طور پر مخدوش ہے اور وہاں بڑے پیمانے پر اسلحہ جمع کیاگیا ہے ۔ کراچی پہلے بھی لسانی فسادات کی زد میں آ چکاہے،اس باراگرپھر لسانی فسادات کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی تو تباہ کن اسلحے کی وجہ سے اس کی تباہی وبربادی عام اندازوں سے زیادہ ہوگی۔ ان حالات کامقابلہ عوام کو مل جل کر کرناہے ۔ عوام کے پاس منظم جدوجہد کے سوا کوئی دوسراہتھیار نہیں ہے جس سے ملکی سالمیت کی حفاظت کی جاسکے۔ اگر موجودہ آرمی چیف جنرل کیانی اپنے بیانات پر عمل کرنا چاہتے ہیں توانھیں فوج کو آئینی حدود کا پابند کردینا چاہیے۔ اس طرح  پرویز مشرف مجبور ہوں گے کہ وہ آئین کا احترام کرکے فوری طور پر مستعفی ہوجائیں اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے معزول ججوں کو بحال کردیا جائے۔ آئین کا احترام ملک کو موجودہ خطرناک بحران سے بچا سکتاہے۔ اور یہ اس وقت ہوسکتا ہے کہ عوام وکلا اور ججوں کی پشت پر کھڑے ہوجائیں،  فوج غیر جانب دار ہوجائے اور سویلین حکومت کو پولیس گردی اور عوام کے خلاف طاقت کے استعمال سے روک دیاجائے۔

اس وقت تمام شواہد اس پر دلالت کرتے ہیں کہ پرویزمشرف اور اس کا نظام مکمل طور پرناکام ہوچکاہے۔اس کی ناکامی پر ساری دنیا گواہ ہے۔یورپ کے دورے کے موقع پر یورپین لیڈروں نے بھرے اجتماعات میں پرویز مشرف کے سامنے پاکستان میں جمہوریت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جس پر پرویز مشرف جھنجھلاہٹ کا شکار ہوئے۔ حقیقت یہی ہے کہ  بزعم خویش جمہوریت کی طرف پرویز مشرف کا سفر کامیابی کی منزلیں طے کرنے کے بجاے مسلسل حادثات کاشکار ہو رہا ہے اور ا ن کی موجودگی میں قومی حکومت سمیت کوئی بھی نسخہ کامیاب ہوتا نظر نہیں آتا۔ انتخاب ہوبھی جائیں تو خود پرویزمشرف کو اس کے بعد ایک عام بے چینی نظر آرہی ہے اور خود انھوںنے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کریں گی۔ اگر انھیں معلوم ہے کہ انتخابات کے بعد بھی سکون اور اطمینا ن کے بجاے سیاسی اضطراب اور بے چینی ہی میں اضافہ ہوگا تو عقل کی بات یہی ہے کہ وہ نوشتۂ دیوار پڑھ کر خود اقتدار سے الگ ہوجائیں اور سپریم کورٹ کو اپنی اصل شکل میں بحال ہونے دیں تاکہ ملک کو آئین کے مطابق چلا کر سیاسی استحکام کی تدابیر اختیار کی جاسکیں ۔

پاکستان کو موجودہ بحران سے نکالنے اور اس پیچیدہ صورت حال کے سدھار کے لیے بعض وکلانے نئے آرمی چیف کو مشورہ دیا ہے کہ جس طرح پرویز مشرف نے آرمی چیف کی حیثیت سے ایمرجنسی نافذ کی اور اس کے تحت غیر آئینی کارروائیاں کرکے انھیں آئین کا حصہ قرا ر دے دیا، اور پھروردی اتارنے سے پہلے ایمرجنسی اٹھانے کا اختیار صدر کو منتقل کردیا، جب کہ خود ہی ملک کے صدرا ور چیف آف آرمی سٹاف تھے۔اسی طرح موجودہ آرمی چیف صدر سے اپنا ایمرجنسی اٹھانے کا اختیار واپس لے لیں اور اس ایمرجنسی کے تحت غیر آئینی اقدامات کو کالعدم قرار دے کر ججوں کو بحال کردیں اور باقی سارے اقدامات بحال شدہ سپریم کورٹ پر چھوڑ دیں تاکہ وہ آئین اور قانون کے مطابق ملک کو واپس آئینی پٹڑی پر ڈال دے ۔اس کے حق میں ایک سینئر وکیل نے دلیل دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ایک چیف آف آرمی سٹاف کے لیے آئین کو معطل کرکے غیرآئینی اقدامات کرنے کا جواز پیدا کیاجاسکتاہے تو دوسرے چیف آف آرمی سٹاف کے لیے آئین کو بحال کرنے کے لیے کسی اقدام کا جواز کیوں نہیں بنتا۔

یہ اور اسی نوعیت کی جو آوازیں اُٹھ رہی ہیں، وہ اس بے چینی اور اضطراب کا مظہر ہیں جس کی گرفت میں پوری قوم اور اس کا سوچنے سمجھنے والا طبقہ اپنے کو محسوس کر رہا ہے اور جس کی اصل وجہ پرویز مشرف کے بار بار کے غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام ہیں۔ ہم وکلا کے اس طبقے کی پریشانی خاطر کو تو محسوس کرتے ہیں لیکن اس راے سے اتفاق نہیں کرسکتے کہ فوج کے سربراہ کو کسی ایسے اقدام کا مشورہ دیا جائے جس کا اسے دستور کے تحت اختیار نہیں۔ اگر نظریۂ ضرورت کے تحت سپریم کورٹ ماضی میں فوجی حکمرانوں کو دستور میں ترمیم کا وہ اختیار دینے کی غلطی نہ کرتی جو خود اسے بھی حاصل نہیںتھا تو ملک بہت سی تباہی سے بچ جاتا۔ اس لیے فوج کے سربراہ کو جواب خود فوج کے سیاست سے باہر رہنے کی بات کر رہا ہے، اس قسم کا مشورہ دینا صحیح نہیں۔ البتہ قومی مشاورت کے ذریعے عدالتوں اور دستور کے لیے اولین طور پر۲نومبر ۲۰۰۷ء والی اور بالآخر ۱۲اکتوبر۱۹۹۹ء والی پوزیشن کو بحال کرنے کے لیے صرف ایک بار مؤثر ہونے والا کوئی راستہ نکالا جاسکتا ہے ۔ اس قومی مشاورت میں تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے ساتھ سپریم کورٹ کے تمام ریٹائرڈ ججوں کو شریک کیا جاسکتا ہے اور اس طرح معزز بزرگوں کی مجلس (Council of Elders ) کے مشورے سے ایک راستہ نکالا جاسکتا ہے جسے بالآخر نئی اسمبلی دستور کے تحت قانونی جواز فراہم کرسکتی ہے۔

ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ کردار سینیٹ ادا کرے جو اس وقت واحد منتخب ادارہ ہے اور جو دستور کے تحت فیڈریشن کا نمایندہ اور ترمیم دستور کے اختیارات میں شریک ہے۔ اس کے علاوہ بھی راستے ہوسکتے ہیں۔ جب کوئی ماوراے دستور اقدام ناگزیر ہی ہو تو ضروری نہیں کہ اس اقدام کے لیے فوج کے سربراہوں کو ملوث کیا جائے، یہ کام سینیٹ اور اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے بھی انجام دیا جاسکتا ہے جن کا ایک رول خود دستور میں موجود ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ پاکستان ، اس کے دستور اور اس کے مفادات کے تحفظ کی آخری  ذمہ داری عوام پر آتی ہے اور اب اس سلسلے میں سب سے فیصلہ کن کردار عوام ہی کو ادا کرنا ہوگا۔ فوجی حکمرانوں اور ان کے عدالتی مشیروں اور سیاسی گماشتوں نے پاکستان کے آئین کو بازیچۂ اطفال بنادیا ہے اور قانون اور روایات سب پامال ہیں۔ ایک غلط کام پر پردہ ڈالنے کے لیے دوسرا غلط کام کرنا کب تک جاری رہے گا۔ اب اصل ضرورت عوام کی بیداری اور ۱۹۹۹ء سے اب تک دستور اور دستوری اداروں پر جو بھی شب خون مارے گئے ہیں ان کو ختم کرکے دستورکواس کی اس شکل میں بحال کرنے کی ضرورت ہے جس پر قوم کا اتفاق تھا، اور ہے۔ یہی وہ دستور ہے جسے ایک میثاقِ ملّی (National Covenant) کا مقام حاصل ہے، اور اب یہ اسی وقت ممکن ہے جب پرویز مشرف اور ان کے بنائے ہوئے نظام سے نجات پائی جائے اور قومی اتفاق کی عبوری حکومت کے ذریعے نئے الیکشن کمیشن کے توسط سے آزاد، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے ذریعے عوام اپنے نمایندے منتخب کریں اور وہ دستور اور قانون کے تمام تقاضے پورے کریں۔ نیز یہ نمایندے قوم کا اعتماد لے کر اپنے فرائض اداکریں اور خود بھی قوم کے سامنے جواب دہ ہوں تاکہ کوئی بھی اب اس قوم کی قسمت سے نہ کھیل سکے۔ اس لیے اب ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے قوم کی بیداری، اس کے تحرک اور   ان کے ذریعے دستوری عمل کو پٹڑی پر چڑھانے کی مؤثر جدوجہد___ اس ملک کو حقیقی جمہوری  اور دستوری نظامِ حکمرانی پر عامل ہونے، اور استعماری قوتوں کی آلۂ کار سول اور فوجی انتظامیہ کی دست بُرد سے نکالنے کے لیے عوام الناس کے پرامن اور پرجوش تحرک کے سوا کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے۔ اگر عوام متحرک نہیں ہوئے تو ملک کی بڑی بدقسمتی ہوگی کیونکہ اس درد کا درمان صرف اور صرف ملک کے عوام کے پاس ہے۔ مخلص سیاسی کارکنوں کا فرض ہے کہ مایوس ہونے کے بجاے متحرک ہوں اور یاس وقنوطیت کے بجاے ہر شہری کے دل میں امید کی شمع روشن کریں ۔

ہماری دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس ملک کی حفاظت اور استحکام کی خاطر ہرطرح کی قربانی دینے کے لیے خودبھی تیار ہوں اور عوام الناس کو بھی اس کے لیے تیار کرسکیں ۔


ترجمان القرآن کا پیغام پھیلایئے

ترجمان القرآن ایک پیغام کا علَم بردار رسالہ ہے۔ اس پیغام کی زیادہ سے زیادہ وسیع تر حلقے میں اشاعت ہمارے قارئین کے تعاون سے ہوتی ہے۔ آیندہ سال کے لیے ۲۵ فی صد اضافے کا ہدف طے کیا ہے۔ ہر ۱۰۰ پرچوں پر ہر ماہ ۲ کااضافہ کیا جاتا رہے تو یہ ہدف حاصل ہوجائے گا۔

کیا یہ مشکل ہے؟ ناممکن ہے؟ غالباً نہیں___ تھوڑی سی توجہ اور کوشش سے یہ کیا جاسکتا ہے اور نتیجہ؟ اشاعت میں ۱۰ ہزار کا اضافہ! یعنی ۱۰ ہزار نئے افراد بلکہ گھرانوں تک دین کی دعوت اور آج کے دور میں اس کے تقاضے پورا کرنے کا پیغام پہنچے گا۔

مجھے یقین ہے کہ اگر ہمارے قارئین واقعی اس طرف توجہ دیں تو ہم ہدف سے بہت زیادہ بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

ہم نیک نیتی اور اخلاص کے کوشش کریں، اللہ ہمارا ساتھ دے گا اور ہمیں حوصلہ افزا نتائج ملیں گے، ان شاء اللّٰہ تعالٰی!

___  مدیر    

بش اور مشرف کا بس چلے تو اقبال کو بھی دہشت گرد قرار دے کر اس کے سارے سرمایۂ فکرونظر کو اپنی جنگی کارگزاریوں کا ہدف بنا ڈالیں کہ شاعر مشرق نے یہ کیوں کہا کہ   ؎

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

مشرف کی آٹھ سالہ معاشی ترقی کی ترک تازیوں کا حاصل یہ ہے کہ آج پاکستانی عوام خصوصیت سے غریب اور متوسط طبقے کی ۷۰، ۸۰ فی صد آبادی آٹے کے بحران میں گرفتار اور دو وقت کی روٹی کو ترس رہی ہے۔ پورے ملک کی شہری آبادی اور صوبہ سرحد کے تمام ہی باسی آٹے کی کمیابی اور قیمت کی گرانی دو طرفہ شکنجے کی گرفت میں ہیں۔ آٹا جو پچھلے سال تک ۱۵روپے کلو تھا، آج ۳۰ روپے کلو ہے اور پھر بھی نایاب۔ یوٹیلٹی اسٹوروں کی بڑی دھوم ہے لیکن وہ آبادی کے ۵ فی صد سے زیادہ کی ضرورت پوری نہیں کرسکتے اور اس میں امیرغریب کی کوئی تفریق نہیں بلکہ زیادہ تر یوٹیلٹی اسٹور غریبوں کی بستیوں اور شہروں کی کچی آبادیوں میں نہیں، متمول طبقات کے رہایشی علاقوں میں قائم ہیں۔ عوام اب احتجاج کرنے پر مجبور ہیں اور حکومت اپنی مسلسل ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوششوں کے بعد، اب اپنے نیم حکیموں کے پیش کردہ ایک نادر نسخے کا سہارا لے رہی ہے، یعنی ____ راشن کارڈ کا اجرا اور ان کے ذریعے یوٹیلٹی اسٹوروں سے غریب اور متوسط طبقات کو اشیاے ضرورت خصوصیت سے آٹے اور دالوں کی مناسب قیمت پر فراہمی۔ بظاہر یہ ایک     دامِ تزویر (gimmick) سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کے باوجود چند ضروری پہلوؤں پر غوروفکر کی ضرورت ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ آٹے کی یہ قلت کیوں رونما ہوئی اور اس کی اصل ذمہ داری کس پر ہے؟ بظاہر گندم کی پیداوار بہت اچھی تھی۔ حکومت کا دعویٰ تھا کہ اس سال ۳ئ۲۳ ملین ٹن پیداوار ہوئی ہے، جب کہ ملک میں کُل ضرورت ۲۱ ملین ٹن کی ہے جس کے معنی ہیں کہ دو سوا دو ملین ٹن پیداوار فاضل ہوگی۔ اس توقع پر فصل کے منڈی میں آنے سے پہلے ہی ۵لاکھ ٹن گندم سرکاری گوداموں سے بیرون ملک برآمد کرنے کا اقدام کر ڈالا گیا اور وہ بھی اس عجلت سے کہ گندم کی عالمی منڈیوں میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کو نظرانداز کر کے ۲۰۰ اور ۲۵۰ ڈالر ٹن کے حساب سے بیچ دیا گیا، جب کہ اب عالمی منڈیوں میں گندم کی قیمت ۴۰۰ اور ۴۵۰ ڈالر فی ٹن ہے اور اسی نرخ سے اس وقت ملک میں درآمد کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس اسیکنڈل کی ذمہ داری کس پر ہے؟ اور کس کس نے پہلے سستی برآمد اور پھر مہنگی درآمد سے فائدہ اٹھایا ہے؟ پالیسی بنانے والوں اور عملاً فائدہ اٹھانے والوں دونوں پر گرفت ضروری ہے۔ ورنہ یہ کھیل جس طرح ماضی میں کھیلا جاتا رہا ہے اسی طرح آیندہ بھی جاری رہے گا۔

اُوپر کے حلقوں میں کرپشن کو ختم کرنے کے دعوے داروں کا اپنا کردار کیا ہے، اب یہ مخفی نہیں اور نہ صرف یہ کہ اسے مخفی نہیں رہنا چاہیے بلکہ تمام ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس حکومت کے دو ستون ایک سابق مرکزی وزیر اور پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ ایک دوسرے پر کھلے عام الزام لگا رہے ہیں، جب کہ حقیقت غالباً یہ ہے کہ دونوں ہی ذمہ دار ہیں اورکچھ دوسرے ارباب اقتدار بھی۔

دوسرا بنیادی سوال ملک میں زرعی پالیسی سازی، اس کے صحیح وقت، اس کے مناسب انتظامات کے پورے نظام کے جائزے کا ہے کہ ملک بار بار مختلف اشیاے ضرورت کے باب میں بحران در بحران سے دوچار ہو رہا ہے اور پورے تسلسل سے انھی غلطیوں کا بار بار ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ شکر کے سلسلے میں پچھلے سال یہی ڈراما ہوا، اس سال گندم نے ناطقہ بند کردیا۔ روئی کے بارے میں بھی اطلاعات بہت مختلف نہیں۔ خوردنی تیل کی کہانی بھی اس سے بہت قریب قریب ہے۔ قوم ہے کہ ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسی جارہی ہے اور اقتدار میں مست حکمران ہیں کہ بانسری بجائے جارہے ہیں!

گندم کی پالیسی سازی میں جن عوامل پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ان میں ایک اہم چیز اعداد و شمار کی صحت اور معلومات کا صحیح طریقے سے جمع کرنا اور بروقت پالیسی ساز اداروں تک پہنچنا ہے۔ یہ پہلو بے حد کمزور ہے۔

دوسری چیز ضرورت کا صحیح صحیح تعین ہے۔ ضرورت کے تعین کے لیے ایک تخمینہ (rule  of thumb )یہ ہے کہ ہر آبادی کے ہر فرد کی سالانہ ضرورت ۱۲۵ کلوگرام کی بنیاد پر مقرر کر لی جائے۔ مگر اس میں آبادی کے صحیح اعداد وشمار کے ساتھ ہربات ملحوظ نہیں رکھی جاتی کہ آمدنی کے اضافے سے بھی استعمال میں اضافہ ہوتا ہے۔ نیز بات صرف آبادی کی نہیں بلکہ ملک میں گلہ بانی (livestock) اور پولٹری کی ترقی کے نتیجے میں بھی چارے کی ضروریات کے لیے مانگ بڑھتی ہے۔ اس کے ساتھ علاقائی حالات اور اسمگلنگ کے حقائق کو بھی نظرانداز نہیں کیاجاسکتا، خصوصیت سے جب کہ افغانستان اور وسطی ایشیا میں گندم کی مانگ کہیں زیادہ اور وہاں کی قیمت پاکستان کی قیمتوں سے دگنی یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ پھر خود ملک میں ذخیرہ اندوزی کے مسائل ہیں اور ملوں کی اپنی ذخیرہ اندوزی، ملوں کے لیے صوبائی اور مرکزی اسٹاک سے ترسیل اور خود ملوں کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے کارکردگی، یہ اور دسیوں دوسرے معاملات ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور جب تک پالیسی سازی اور پالیسی مینجمنٹ میں ان تمام پہلوئوں کا احاطہ نہ کیا جائے اور ان کے باہمی ارتباط (linkage) کو ملحوظ نہ رکھا جائے، صحیح نتائج رونما نہیں ہوسکتے۔

یہ تو طلب کے پہلو ہیں، اسی طرح رسد کے بھی بے شمار پہلو ہیں جن کا احاطہ ضروری ہے۔ پانی، بجلی، بیج کی فراہمی، کھاد، قرض ہر ایک اپنی جگہ اہم ہے اور ان سب کی بروقت فراہمی اور صحیح قیمت پر فراہمی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ بین الاقوامی منڈیوں، خصوصیت سے پڑوسی ملکوں میں قیمت کا رخ اور ملک میں سرکاری قیمت خرید کا درست ہونا اور اس کا بروقت اعلان اور اس سے بڑھ کر منصفانہ تنفیذ۔ بدقسمتی سے ان سارے ہی پہلوئوں کو ایک جامع پالیسی کی شکل میں ملحوظ نہیں رکھا جا رہا اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک بار بار مختلف اشیاے ضرورت کے باب میں بحران کا شکار ہورہا ہے۔ جب تک ہرسطح پر ایک مربوط اور جامع انداز میں معاملات طے نہیں کیے جاتے،     ملک بحران سے نہیں نکل سکتا۔

بحران سے نکلنے کا آسان نسخہ جو راشن کارڈ کی شکل میں تجویز کیا گیا ہے وہ بوکھلاہٹ اور بدحواسی کا مظہر تو ضرور ہے مگر مسئلے کے حل کی کوئی صورت نہیں بلکہ اس سے صورتِ حال اور ابتر ہونے کا خدشہ ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک عبوری حکومت جس کی عمر چند ہفتے ہے، اسے کس نے یہ اختیار دیاکہ ایک ایسی پالیسی کا آغاز کردے جو بڑی دیرپا ہو اور جس کے اثرات دُور رس ہوں گے۔ دوسری بات یہ ہے اور ہمارے موجودہ کارپردازانِ حکومت یہ معمولی بات بھی نہیں سمجھتے کہ راشن کا نظام صرف اس معیشت میں کارفرما ہوسکتا ہے جہاں ریاست ایک اہم معاشی عامل کی حیثیت سے مؤثر ہو، اور پوری معیشت نہ سہی اس کو ایک بڑے حصے خصوصیت سے تقسیم کے نظام کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔ جہاں آزاد منڈی کا رواج ہو وہاں راشن کا نظام کس طرح آبادی کے بڑے حصے کی ضرورت کو پورا کرسکتا ہے___ ایک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا!

راشن کے نظام کو بالعموم جنگ کے زمانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جب رسد لمبے عرصے کے لیے محدود ہوتی ہے اور طلب کو قابو میں کرنے کے سوا کوئی چارئہ کار نہیں ہوتا۔

غیرجنگی ادوار میں تابع حکومت معیشتوں (command economies) کے سوا کہیں اور یہ نظام کارفرما نہیں ہوسکا۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے نیم اشتراکی دور میں اس کا تجربہ کیا گیا جو بری طرح ناکام رہا، بالآخر اس نظام کو ختم کرنا پڑا۔ اس دور پر جو بھی تحقیقی کام ہوا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ سرکاری خزانے پر ناقابلِ برداشت بوجھ پڑا اور جو سبسڈی حکومت دے رہی تھی اس کا ۸۰ فی صد وزارتِ خوراک اور آڑھتیوں کی جیب گرم کرنے کا ذریعہ بنی اور عوام تک اس رقم کے بمشکل ۲۰ فی صد فوائد پہنچ سکے۔ ایسے ناکام تجربے کی روشنی میں عبوری حکومت کی طرف سے دو ہفتے کے اندر اندر راشن کارڈ کے نظام کے اجرا کا اعلان کسی بڑے اسکینڈل کا عنوان تو ہوسکتا ہے، کسی عوامی سہولت کی اسکیم کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ ہوسکتا ہے کہ مجوزہ راشن کارڈ کی طباعت تک ہی یہ عبوری حکومت اپنی مدت عمر پوری کرلے اور عوام تک کوئی خیرات پہنچ ہی نہ سکے۔

اعلان کیا گیا ہے کہ یوٹیلٹی اسٹور اس کا ذریعہ ہوں گے لیکن وہ تو پہلے سے یہ خدمت انجام دے رہے ہیں اور اس کا حشر سب کے سامنے ہے۔ بمشکل ۵ فی صد آبادی کی ضرورت وہ پوری کرسکتے ہیں اور اس کے لیے بھی جو لمبی لمبی قطاریں ہیں اور محرومیوں کی جو داستانیں ہیں وہ کیا  امید دلا سکتی ہیں، جب کہ راشن کے اصل مستحق غریب عوام اور کچی آبادیوں کے لوگ ہیں جن کی ان تک رسائی نہیں۔

راشن کارڈ اور راشن ڈپو مسئلے کا حل نہیں۔ ویسے بھی یہ آغاز پر ہی ناکام ہوجانے والے (non-starters ) ہیں۔ اصل ضرورت صحیح زرعی پالیسی، اور ذخیرہ اندوزی اور نظامِ ترسیل کی اصلاح ہے۔ نیز حکومت کا جو اصل رول ہے یعنی پالیسی سازی، پالیسی مینجمنٹ اور مارکیٹ کا استحکام اور قواعد و ضوابط کا بے لاگ اطلاق، نیز جہاں منڈی کی ناکامی کے خطرات ہیں وہاں ایسا انتظام کہ منڈی کا عمل ٹھیک ٹھیک کام کرتارہے، بروقت حکومتی ایجنسیاں اشیا حاصل کرسکیں اور   صحیح قیمت ادا کرسکیں اور ضرورت کے مطابق سرکاری ذخائر سے گندم ملوں اور مارکیٹ میں لانے کا اہتمام کیا جاسکے۔ اس کے ساتھ زرعی ضروری اشیا کی بروقت اور صحیح قیمت پر فراہمی کا اہتمام ضروری ہے۔ اگر حکومت اس باب میں اپنی ذمہ داری ادا کرے اور نفع خوری، ذخیرہ اندوزی، اسمگلنگ کرنے والوں کی سرپرستی نہیں سرکوبی کا راستہ اختیار کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ منڈی کے عمل کے ذریعے تمام انسانوں کی ضروریات انصاف کے ساتھ پوری نہ ہوسکیں۔ حکومت کی ذمہ داری راشن کی تقسیم نہیں، ایسا نظام قائم کرنا اور ایسے انتظامی اقدامات کرنا ہیں کہ غذائی قلت کا مسئلہ صرف وقتی بنیادوں پر نہیں مستقل طور پر حل ہوسکے۔

موجودہ تہذیب جس پر آج دنیا کا پورا فکری، اخلاقی، تمدنی،سیاسی اور معاشی نظام چل رہا ہے دراصل [جن] تین بنیادی اصولوں پر قائم ہے، ان میں سے پہلا اصول سیکولرزم یعنی لادینی یا دنیاویت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’خدا اور اس کی ہدایت اور اس کی عبادت کے معاملے کو ایک ایک شخص کی ذاتی حیثیت تک محدود کردیا جائے اور انفرادی زندگی کے اس چھوٹے سے دائرے کے سوا دنیا کے باقی تمام معاملات کو ہم خالص دنیوی نقطۂ نظر سے اپنی صواب دید کے مطابق خود   جس طرح چاہیں طے کریں۔ ان معاملات میں یہ سوال خارج از بحث ہونا چاہیے کہ خدا کیا کہتا ہے اور اس کی ہدایت کیا ہے اور اس کی کتابوں میں کیا لکھا ہے‘‘۔ ابتداء ً یہ طرزِعمل اہلِ مغرب نے عیسائی پادریوں کی اس خودساختہ دینیات (Theology) سے بے زار ہوکر اختیار کیا تھا جو ان  کے لیے زنجیرِپا بن کر رہ گئی تھی لیکن رفتہ رفتہ یہی طرزِعمل ایک مستقل نظریۂ حیات بن گیا اور  تہذیب.ِ جدید کا پہلا سنگِ بنیاد قرار پایا۔ آپ نے اکثر یہ فقرہ سنا ہوگا کہ ’’مذہب ایک پرائیویٹ معاہدہ ہے خدا اور بندے کے درمیان‘‘۔ یہ مختصر سا فقرہ دراصل تہذیب.ِ  حاضر کا ’کلمہ‘ ہے۔ اس کی شرح یہ ہے کہ اگر کسی کا ضمیر گواہی دیتا ہے کہ خدا ہے اور اس کی پرستش کرنی چاہیے تووہ اپنی انفرادی زندگی میں بخوشی اپنے خدا کو پوجے، مگر دنیا اور اس کے معاملات سے خدا اور مذہب کا کوئی تعلق نہیں۔ اس ’کلمہ‘ کی بنیاد پر جس نظامِ زندگی کی عمارت اُٹھی ہے اس میں انسان اور انسان کے تعلق اور انسان اور دنیا کے تعلق کی تمام صورتیں خدا اور مذہب سے آزاد ہیں۔ معاشرت ہے تو اس سے آزاد، تعلیم ہے تو اس سے آزاد، معاشی کاروبار ہے تو اس سے آزاد، قانون ہے تو اس سے آزاد پارلیمنٹ ہے تو اس سے آزاد، سیاست اور انتظامِ ملکی ہے تو اس سے آزاد، بین الاقوامی ربط و ضبط ہے تو اس سے آزاد، زندگی کے ان بے شمار مختلف پہلوئوں میں جو کچھ بھی طے کیا جاتا ہے اپنی خواہش اور دانست کے مطابق طے کیا جاتا ہے اور اس سوال کو نہ صرف ناقابلِ لحاظ، بلکہ اصولاً غلط اور انتہائی تاریک خیال سمجھا جاتا ہے کہ ان امور کے متعلق خدا نے بھی کچھ اصول اور احکام ہمارے لیے مقرر کیے ہیں یا نہیں۔ رہی انفرادی زندگی، تو وہ بھی غیر دینی تعلیم اور بے دین اجتماعیت کی بدولت اکثروبیش تر افراد کے معاملے میں نری دنیاوی (سیکولر) ہی ہوکر رہ گئی ہے اور ہوتی چلی جارہی ہے کیونکہ اب بہت ہی کم افراد کا ضمیر واقعی یہ گواہی دیتا ہے کہ خدا ہے اور اس کی بندگی کرنی چاہیے۔ خصوصاً جو لوگ اس وقت تمدن کے اصلی کارفرما اور کارکن ہیں ان کے لیے تو مذہب اب ایک پرائیویٹ معاملہ بھی باقی نہیں رہا ہے، ان کا ذاتی تعلق بھی خدا سے ٹوٹ چکا ہے...

یہ نظریہ کہ خدا اور مذہب کا تعلق صرف آدمی کی انفرادی زندگی سے ہے، سراسر ایک مہمل نظریہ ہے جسے عقل و خرد سے کوئی سروکار نہیں۔ ظاہر بات ہے کہ خدا اور انسان کا معاملہ دوحال سے خالی نہیں ہوسکتا۔ یا تو خدا انسان کا اور اس ساری کائنات کا جس میں انسان رہتا ہے، خالق اور مالک اور حاکم ہے، یا نہیں ہے۔ اگر وہ نہ خالق ہے نہ مالک اور نہ حاکم، تب تو اس کے ساتھ پرائیویٹ تعلق کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ نہایت لغو بات ہے کہ ایک ایسی غیر متعلق ہستی کی خواہ مخواہ پرستش کی جائے جس کا ہم سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔ اور اگر وہ فی الواقع ہمارا اور اس تمام جہانِ ہست و بود کا خالق، مالک اور حاکم ہے تو اس کے کوئی معنی نہیں ہیں کہ اس کی عمل داری (jurisdiction) محض ایک شخص کی پرائیویٹ زندگی تک محدود ہو اور جہاں سے ایک اور ایک___ دو آدمیوں کا اجتماعی تعلق شروع ہوتا ہے وہیں سے اس کے اختیارات ختم ہوجائیں۔ یہ حدبندی اگر خدا نے خود کی ہے تو اس کی کوئی سند ہونی چاہیے۔ اور اگر اپنی اجتماعی زندگی میں انسان نے خدا سے بے نیاز ہوکر خود ہی خودمختاری اختیار کی ہے تو یہ اپنے خالق اور مالک اور حاکم سے اس کی کھلی بغاوت ہے۔ اس بغاوت کے ساتھ یہ دعویٰ کہ ہم اپنی انفرادی زندگی میں خدا کو اور اس کے دین کو مانتے ہیں صرف وہی شخص کرسکتا ہے جس کی عقل ماری گئی ہو۔ اس سے زیادہ لغو بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک ایک شخص فرداً فرداً تو خدا کا بندہ ہو مگر یہ الگ الگ بندے جب مل کر معاشرہ بنائیں تو بندے نہ رہیں۔ اجزا میں سے ہر ایک بندہ اور اجزا کا مجموعہ غیربندہ، یہ ایک ایسی بات ہے جس کا تصورصرف ایک پاگل ہی کرسکتا ہے۔ پھر یہ بات کسی طرح ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر ہمیں خدا کی اور اس کی راہ نمائی کی ضرورت نہ اپنی خانگی معاشرت میں ہے، نہ محلے اور شہر میں، نہ مدرسے اور کالج میں، نہ منڈی اور بازار میں، نہ پارلیمنٹ اور گورنمنٹ ہائوس میں، نہ ہائی کورٹ اور نہ سول سیکرٹریٹ میں، نہ چھائونی اور پولیس لائن میں اور نہ میدانِ جنگ اور صلح کانفرنس میں،   تو آخر اس کی ضرورت ہے کہاں؟ کیوں ایسے خدا کو مانا جائے اور اس کی خواہ مخواہ پوجا پاٹ کی جائے جو یا تو اتنا بے کار ہے کہ زندگی کے کسی معاملے میں بھی ہماری راہ نمائی نہیں کرتا، یا معاذ اللہ ایسا نادان ہے کہ کسی معاملے میں بھی اس کی کوئی ہدایت ہمیں معقول اور قابلِ عمل نظر نہیں آتی؟

یہ تو اس معاملے کا محض عقلی پہلو ہے۔ عملی پہلو سے دیکھیے تو اس کے نتائج بڑے ہی   خوف ناک ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کی زندگی کے جس معاملے کا تعلق بھی خدا سے ٹوٹتا ہے اس کا تعلق شیطان سے جڑ جاتا ہے۔ انسان کی پرائیویٹ زندگی درحقیقت کسی چیز کا نام نہیں ہے۔ انسان ایک متمدن ہستی ہے اور اس کی پوری زندگی اصل میں اجتماعی زندگی ہے۔ وہ پیدا ہی ایک ماں اور ایک باپ کے معاشرتی تعلق سے ہوتا ہے۔دنیا میں آتے ہی وہ ایک خاندان میں آنکھیں کھولتا ہے، ہوش سنبھالتے ہی اس کو ایک سوسائٹی سے، ایک برادری سے، ایک بستی سے، ایک قوم سے، ایک نظامِ تمدن اور نظامِ معیشت و سیاست سے واسطہ پیش آتا ہے۔ یہ بے شمار روابط جو اس کو دوسرے انسانوں سے اور دوسرے انسانوں کو اس سے جوڑے ہوئے ہیں، انھی کی درستی پر ایک ایک انسان کی اور مجموعی طور پر تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کا انحصار ہے۔ اور وہ صرف خدا ہی ہے جو انسانوں کو ان روابط کے لیے صحیح اور منصفانہ اور پایدار اصول و حدود بتاتا ہے۔ جہاں انسان اس کی ہدایت سے بے نیاز ہوکر خودمختار بنا، پھر نہ تو کوئی مستقل اصول باقی رہتا ہے اور نہ انصاف اور راستی۔ اس لیے کہ خدا کی راہ نمائی سے محروم ہوجانے کے بعد خواہش اور ناقص علم و تجربہ کے سوا کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہتی جس کی طرف انسان راہ نمائی کے لیے رجوع کرسکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جس سوسائٹی کا نظام لادینی یا دنیاویت کے اصول پرچلتا ہے، اس میں خواہشات کی بنا پر روز اصول بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ انسانی تعلقات کے ایک ایک گوشے میں ظلم،     بے انصافی ، بے ایمانی اور آپس کی بے اعتمادی گھس گئی ہے۔ تمام انسانی معاملات پر انفرادی، طبقاتی، قومی اور نسلی خود غرضیاں مسلط ہوگئی ہیں۔ دو انسانوں کے تعلق سے لے کر قوموں کے تعلق تک کوئی رابطہ ایسا نہیں رہا جس میں ٹیڑھ نہ آگئی ہو۔ ہر ایک شخص نے، ہر ایک گروہ نے، ہر ایک طبقے نے، ہر ایک قوم اور ملک نے اپنے اپنے دائرۂ اختیار میں، جہاں تک بھی اس کا بس چلا ہے، پوری خودغرضی کے ساتھ اپنے مطلب کے اصول اور قاعدے اور قانون بنا لیے ہیں اور کوئی بھی   اس کی پروا نہیں کرتا کہ دوسرے اشخاص، گروہوں، طبقوں اور قوموں پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔   پروا کرنے والی صرف ایک ہی طاقت رہ گئی ہے، اور وہ ہے جوتا۔ جہاں مقابلے میں جوتا یا جوتے کا اندیشہ ہوتا ہے، صرف وہیں اپنی حد سے زیادہ پھیلے ہوئے ہاتھ اور پائوں کچھ سکڑ جاتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ جوتا کسی عالم اور منصف ہستی کا نام نہیں ہے۔ وہ تو ایک اندھی طاقت کا نام ہے اس لیے اس کے زور سے کبھی توازن قائم نہیں ہوتا۔ جس کا جوتا زبردست ہوتا ہے، وہ دوسروں کو صرف   اتنا ہی نہیں سکیڑتا جتنا سکیڑنا چاہیے،بلکہ وہ خود اپنی حد سے زیادہ پھیلنے کی فکر میں لگ جاتا ہے۔   پس لادینی اور دنیاویت کا ماحصل صرف یہ ہے کہ جو بھی اس طرزِ عمل کو اختیار کرے گا، بے لگام، غیرذمہ دار اور بندۂ نفس ہوکر رہے گا، خواہ وہ ایک شخص ہو یا ایک گروہ یا ایک ملک اور قوم یا مجموعۂ اقوام۔ (اسلامی نظام اور مغربی لادینی جمہوریت، ص ۱۱-۱۲، ۱۵-۱۸)

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ انصار کا ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سائل  بن کر آیا۔ آپؐ نے پوچھا کیا تمھارے گھر میں کوئی چیز بھی نہیں ،اس نے عرض کیا ،کیوں نہیں؟میرے گھر میں ایک موٹا کمبل ہے جس کے ایک حصے کو ہم بچھونا بناتے ہیںاور ایک حصے کو اوڑھتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں۔آپؐ نے فرمایا!جاؤ،ان دونوں چیزوں کو میرے پاس لے آو،وہ چلا گیا اور دونوں چیزوں کو لے کر حاضر ہوگیا۔ آپؐ نے دونوں کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور حاضرین سے پوچھا،ہے کوئی جو اِن دونوں چیزوں کو خریدے؟اس کے جواب میں ایک صحابیؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں انھیں ایک درہم میں خریدتا ہوں۔اس پر آپؐ نے پوچھا کہ کوئی ہے جو اس سے زیادہ پر خریدے ؟آپؐ نے تین مرتبہ سوال کیا۔ اس پر ایک صحابیؓ نے عرض کیا یارسولؐ اللہ ! میںانھیں دو درہم میں خریدتا ہوں۔آپؐ نے دونوں چیزیں اسے دے دیں اور دو درہم اس سے لے کرسائل کو دے دیے اور فرمایا جاؤ، ایک درہم سے گھرکے لیے کھانے پینے کا سامان خریدو اور دوسرے درہم سے کلہاڑا خرید کر لے آؤ۔ وہ کلہاڑا لے کر آگیا،آپؐ نے اس میں لکڑی کا دستہ پیوست کیا اور فرمایا: جاؤ،اس سے لکڑیاں کاٹ کر لاؤ اور فروخت کرو۔اس کے بعد ۱۵دن تک میں تجھے نہ دیکھوں۔وہ آدمی چلا گیا اور لکڑیاں کاٹ کر فروخت کرنا شروع کردیں،اس کاروبار سے اسے ۱۰ درہم مل گئے۔کچھ رقم سے کپڑے خریدے اور کچھ سے کھانے پینے کا سامان۔ پھر رسولؐ اللہ کی خد مت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے فرمایا یہ محنت اور کاروبار تیرے لیے اس ذلت سے بہتر ہے جو قیامت کے روز تمھارے چہرے پر زخم کی صورت میں نمایاں ہوگی۔

سوال صرف تین ا ٓدمیوں کے لیے درست ہے ایسے تنگ دست کے لیے کہ تنگ دستی نے اسے زمین سے لگادیاہو،ایسے مقروض کے لیے جس پر قرض کا ہولناک بوجھ ہو ،ایسے شخص کے لیے جس کے ذمے دیّت کی اتنی رقم واجب ہو جس نے اسے دکھ میں مبتلا کر دیا ہو۔(ابوداؤد،ترمذی، ابن ماجہ، نسائی)

حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ سے روایت ہے کہ ہم نو،آٹھ یاسات افراد کی تعداد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ آپؐنے فرمایا: تم رسولؐ ا للہ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کر لیتے۔ ہماری بیعت کچھ عرصہ پہلے ہوئی تھی۔ ہم نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم توپہلے سے بیعت کر چکے ہیں۔ آپؐ نے دوبارہ فرمایا: کیا تم رسول ؐاللہ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کر لیتے ؟ ہم نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم بیعت کر چکے ہیں۔پھر فرمایا: کیا تم رسولؐ اللہ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرلیتے، کہتے ہیں پھر ہم نے اپنے ہاتھ پھیلا دیے اور عرض کیا: یارسول ؐاللہ!ہم نے آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کرلی ہے،اب کس چیز پر بیعت کریں؟ آپؐ نے فرمایا: ان باتوں پر کہ اللہ کی عبادت کرو گے ،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے ،پانچ نمازیں پڑھو گے،اطاعت کرو گے اورپھر ایک بات آہستہ سے فرمائی: لوگوں سے کوئی سوال نہ کرو گے۔

میں نے ان آدمیوں میں سے بعض کو دیکھا کہ اگر ان کے ہاتھ سے کوڑا گر جاتا تھا تو کسی سے اٹھا کر دینے کے لیے بھی سوال نہیں کرتے تھے،خود گھوڑے سے اتر کر اٹھاتے تھے(مسلم)

انسان عزت کی زندگی اسی صورت میں گزار سکتا ہے کہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو،اپنے حصے کا کام خود کرے، اپنی گزر اوقات کے لیے دوسروں سے مانگنے کے بجاے خود محنت کرے۔اس وقت مسلمان معاشروں میں گداگری اور دوسروں کے سہارے جینے کا کلچر رواج پا گیا ہے۔ شہروں، دیہاتوں، بازاروں، مساجدکے دروازوں پر مانگنے والوں کی لائنیں لگی ہوتی ہیں۔صحت مند اور جسمانی صلاحیتوں سے بھرپور لوگوں نے بھی گداگری کو پیشہ بنایا ہوا ہے۔حکومتیں اپنے بجٹ اور منصوبے غیر ملکی امدادکو بنیادبنا کر تیار کرتی ہیں۔اس کے عوض مدد دینے والے ملکوں کے منصوبوں اور ایجنڈے کو عملی جامہ پہناتی ہیں۔ان کی ناجائز خواہشات کو پورا کرتی ہیں۔اپنے بھائیوں کا خون بہاتی ہیںاورملکی آزادی اور خود مختاری کو  داؤ پرلگا دیتی ہیں۔

آج اس امداد کی بدولت مسلمان ممالک ذلت و رسوائی سے دوچار ہیں ۔استعماری طا قتوں کی طرف سے مداخلت کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔نبی کریمؐ کے ان ارشادات کی روشنی میںمسلمان اپنا انفرادی اور اجتماعی نظام تشکیل دے دیں ۔دوسروں کے سامنے دستِسوال دراز کرناچھوڑدیں،امداد کے نام سے دیے جانے والے غیر ملکی سودی قرضوں کا انکار کر دیں،ان کی غلامی ترک کردیں توکھوئی ہوئی عزت دوبارہ بحال ہو سکتی ہے۔

o

حضرت انسؓ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں ایک کھجور کے پاس سے گزرے۔ آپؐ نے فرمایا: اگر مجھے اس بات کا خدشہ نہ ہوتا کہ کھجور کا یہ دانہ صدقے والی کھجوروں میں سے ہے،تو میں اسے کھا لیتا۔(متفق علیہ)

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس گھر تشریف لائے، آپؐ نے دیکھا کہ روٹی کا ایک ٹکڑا زمین پر پڑا ہوا ہے، آپؐ نے اسے اٹھایا،صاف کیاپھر کھالیا، اور فرمایا: عائشہ! اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں تمھاری پڑوسی بن جائیں، ان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ (حسن سلوک سے پیش نہ آؤ گے تو بھاگ جائیں گی)اور جس قوم سے یہ بھاگ جاتی ہیں،ان کی طرف واپس لوٹ کر نہیں آتیں۔(ابن ماجہ)

حضرت جابرؓ سے روایت ہے شیطا ن تمھارے پاس ہر کام کے وقت آجاتاہے۔ یہاں تک کہ کھانے کے وقت بھی آجاتا ہے۔پس جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اسے اٹھا لے۔ اس کے ساتھ جو مٹی لگ گئی ہو اسے دور کردے، پھراسے کھا لے اور اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے۔ جب فارغ ہوجائے تو اپنی انگلیاں چاٹ لے،پتا نہیں کھانے کے کس حصے میں برکت ہے۔(مسلم)

آپؐ نے پیالے ،پلیٹ کو صاف کرنے کا حکم دیا اور فرمایا : تم نہیںجانتے کہ برکت کس حصے میں ہے۔ (مسلم)

آج صبح،دوپہر،شام کے معمول کے ناشتوںاورکھانوں،دعوتوں اور ضیافتوں میں رزق کی جو ناقدری، اسراف اور ضیاع ہوتا ہے،اس کی طرف کسی کی توجہ نہیں۔نبیؐ کے سامنے کھانا آتا،آپؐ کاجی چاہتا تو کھالیتے،چاہت نہ ہوتی تو واپس کردیتے،لیکن کھانے کی کبھی برائی بیان نہ کی۔آج اگرہم اپنے گھروں، ہوٹلوں،دعوتوںاور تقریبات میں کھانے کو ضائع کرنا چھوڑ دیں،ضرورت کے مطابق کھانا پکائیں اور ضرورت کے مطابق پلیٹ میں ڈال کر کھائیں تو ہرگھراور کھانے کی ہرتقریب میں رزق کی اتنی بچت ہوجائے کہ ایک ایک گھر سے دو،دو اور تین تین آدمیوں کو کھانا دیا جاسکے،کھانا ضائع ہونے کے بجاے کسی بھوکے کے کام آجائے گا۔گھروں میں بھی احتیاط نہیں ہوتی،پلیٹوں میں کھانا بچ جاتا ہے،جسے کوئی دوسرا آدمی کھانے کے لیے تیار نہیں ہوتا،نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسے گٹر میں پھینک دیا جاتا ہے۔ روٹیاں بھی ضرورت سے زائد ہوتی ہیں ،انھیں بھی ڈھیر پر پھینک دیا جاتا ہے،اور تقریبات میں  تو بعض اوقات سوآدمیوں کے لیے اتنا کھانا پکایا جاتا ہے جو دو سو،تین سو کے لیے کافی ہو،نتیجتاً بہت سارا کھانا بچ جاتا ہے اورضائع کر دیا جاتا ہے۔ نبیؐ نے اس نامعقول عمل پر نکیر فرمائی،زمین پر کھجور کے ایک دانے،روٹی کے ایک معمولی ٹکڑے،پلیٹ میں بچے ہوئے تھوڑے سے سالن کو چھوڑ کر ضائع کرنے پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا،اسے نعمت کی ناقدری اور ناشکری قرار دیتے ہوئے، اس سے محرومی کاسبب قرار دیا۔

آج حکمران طبقہ دولت کا جو ضیاع کرتا ہے، ان کے محلات میںکھانے کی جس طرح اسراف و تبذیر ہوتی ہے،وہ عذابِ الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ایک طرف لوگوں کا حال یہ ہے کہ انھیں اتنی روٹی نہیں ملتی کہ اپنا پیٹ بھر سکیں، آٹے کے حصول کے لیے سٹوروں پر لوگوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں، ملک میں آٹے ،بجلی،گیس کا بحران ہے اور دوسری طرف ایک ایک آدمی کے کھانے پر ہزاروںروپے خرچ ہورہے ہیں۔ سرکاری افسران،حکومتی عہدے دار، بیوروکریٹ، فوجی جرنیل، سرمایہ دار ،مل مالکان کے پیٹوں کوبھرنے کے لیے لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اللہ کی دی ہوئی اس دولت کے ضیاع کو روکنا چاہیے،تعلیم وتربیت اورقانون سازی کے ذریعے اس عمومی وباکے آگے بند باندھنا چاہیے۔جو لوگ اسلامی تعلیمات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ناآشنا ہیں،ان کو تواس کا ہوش نہیں ہے،لیکن اسلام کو سینے سے لگانے والوں کو اس کی فکر کرنی چاہیے۔اپنے گھروںمیں نبی کریمؐ کی سیرت کی روشنی میں ،اپنی معیشت میں رزقِ حلال کی قدر اور اسے ضیاع سے بچانے کا ضروری اہتمام کرنا چاہیے،کہ یہ شکر گزاری کا تقاضا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پھر معاشرے اور اونچی سوسائٹی کی عیاشی،پیٹ پرستی اور شہوت پرستی کے فتنے سے امت مسلمہ کو نجات دلانے کے لیے بڑے پیمانے پر مہم چلائی جائے۔ اللہ اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

o

حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے آپ کو بددعا نہ دو،اپنی اولاد کو بددعانہ دو،اپنے خادموں کوبددعا نہ دو،اپنے مال مویشی کو بددعا نہ دو،کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ وہ بددعا ایسی گھڑی میںہو جس میں دعائیں قبول ہوتی ہیں تو وہ بددعا قبول ہو جائے(مسلم ،ابوداؤد )

لوگ پریشانی اور غصے میں بے قابو ہوجاتے ہیں۔ اپنے آپ کو، اولاد، اہل خانہ اور نوکر چاکر وںکو برابھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔بعض اوقات بددعائیں بھی دے دیتے ہیں۔تو مرجائے،تیرا خانہ خراب ہو، اے اللہ! آج سے مجھے اس کی شکل نہ دکھا،ان کے ہاتھ پاؤں ٹوٹ جائیں وغیرہ وغیرہ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں تنبیہ فرمائی کہ غصے اور پریشانی کی حالت میں اپنی زبان کو قابو میں رکھو،گالی گلوچ اوربددعاؤں سے پرہیز کرو،اس لیے کہ بددعا لگ بھی سکتی ہے اور اگربددعا لگ گئی تو پھررونادھونا کام نہ آئے گا۔بعض لوگ غصے میں بے قابو ہوکر بیوی کو طلاق دے دیتے ہیں،جس سے ہنستا بستا گھر اجڑ جاتا ہے۔ اس قسم کے جذباتی لوگوں کے لیے اس حدیث میں بہت   بڑا درس ہے ۔صبر، بعد کی پریشانیوں سے بچنے کا بہترین سامان ہے۔

ترجمہ: طارق محمود زبیری

قناعت سچے مسلمان کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔مومن اللہ تبارک وتعالیٰ کے دیے ہوئے رزق پر راضی ہوتا ہے اور اس حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہے کہ تھوڑی چیز جو (ضروریات کے لیے )کافی ہو، بہتر ہے اُس چیز سے جو زیادہ ہو اور غافل کر دینے والی ہو۔یہ ان کامیاب لوگوں کی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے جنھیں اللہ تعالیٰ نے اسلام کی طرف ہدایت دی اوراپنی طرف سے ایسارزق عطا کیا جو ان کی ضروریات کے لیے کافی ہے اور غفلت میں مبتلا کرنے والا نہیں ہے ،اور اللہ تعا لیٰ نے انھیں جو کچھ دیا اس پر وہ راضی ہو گئے۔

حضرت فضالہؓ بن عبیداللہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو       یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’یقینا کامیاب ہو گیا وہ شخص جسے اسلام کی طرف ہدایت دی گئی، اورجو کچھ  اللہ تعالیٰ نے اسے دیا اس پروہ راضی ہو گیا‘‘۔

  • قناعت: قناعت کے معنی ہیں اللہ کی تقسیم پر راضی ہونا۔
  • اسوۂ رسولؐ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے دعا کیا کرتے تھے کہ وہ انھیں قناعت کی دولت عطا فرمائے، اور آپؐ ہمیشہ اللہ کے دیے ہوئے رزق پر راضی رہتے تھے۔آپؐ  نے اپنے صحابہؓ میں بھی یہی عادت پروان چڑھائی۔

حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے ہمارے درمیان نو کھجوریں تقسیم کیں،چونکہ ہم نو افراد تھے،اس لیے آپؐ نے ہر ایک کو ایک ایک کھجور دے دی۔

کھجور جیسی معمولی سی چیز جس کی طرف کسی کو رغبت نہ تھی لیکن صحابہ کرام ؓنے اسی پر قناعت کی اور خو شی خو شی اسے قبول کر لیا۔ان کی عادت ہی یہ تھی کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے جو کچھ انھیں ملتاتھا، اس پر وہ راضی ہو جاتے تھے۔

حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے کہتا ہے: اے ابن آدم! تیرے پاس اتنا کچھ ہے جو تیرے لیے کافی ہے لیکن تو وہ کچھ طلب کرتا ہے جو تجھے سرکشی میں مبتلا کر دے۔ اے ابن آدم! تو تھوڑی چیز پر قناعت نہیں کرتااور زیادہ سے تیرا پیٹ نہیں بھرتا‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ جب آدمی خطرات سے محفوظ ہو،اس کا جسم صحیح سلامت ہو ، اسے کسی قسم کی کوئی بیماری لاحق نہ ہو،بلا خوف وخطر پُرامن زندگی بسر کر رہا ہو اور اس کے پاس روز مرہ ضروریات کی اشیا موجود ہوں، تو اسے اور کیا چاہیے!

نبی اکرمؐ ،اللہ تعالیٰ سے قناعت کی دعاکیاکرتے تھے ۔انھوں نے صحابہ کرامؓ اور ہمیں بھی یہی تعلیم دی ہے کہ ہم اپنے رب سے قناعت طلب کیا کریں۔

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے:

اَللّٰھُمَّ قَنِّعْنِیْ بِمَا رَزَقْتَنِیْ وَبَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَاخْلُفْ عَلَیَّ کُلَّ غَائِبَۃٍ لِیْ بِخَیْرٍ ، اے اللہ! جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے اس پر مجھے قناعت نصیب فرما اور اس میں میرے لیے برکت پیدا کر،اور میری وہ تمام چیزیں جو میری آنکھو ں سے اوجھل ہیں ان کی حفاظت فرما۔

نبی کریم ؐ کی خدمت میں ایک آدمی حاضر ہوا اوردرخواست کی:اے اللہ کے رسولؐ !مجھے کوئی مفید دعا سکھائیے۔آپؐ نے فرمایا کہ یوں دعا کرو:

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ذَنْبِیْ وَوَسِّعْ فِیْ خُلُقِیْ وَبَارِکْ لِیْ فِیْ کَسْبِیْ وَقَنِّعْنِیْ بِمَا رَزَقْتَنِیْ ، اے اللہ! میری مغفرت فرما،میرے اخلاق میں وسعت پیدا کر،میری کمائی میں برکت عطا کر اور جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے اس پر قناعت نصیب فرما۔

  • قناعت کے حصول میں معاون اسباب:  ۱-آدمی کے دل میں یہ بات اچھی طرح رچ بس جائے کہ وہ اس دنیا میں مہمان ہے ،بہت جلدوہ اسے چھوڑ کر چلا جائے گا۔ جیسا کہ نبی کریمؐ فرمایا کرتے تھے:’’بے شک میں بشر ہو ں،بہت جلد میرے پاس اللہ کا پیغام آئے گا اور میں اس کا جواب دوںگا‘‘۔

جب ہمیں یہ پختہ یقین ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جو کچھ ہے درحقیقت وہی خیروبھلائی ہے تو دنیا کی زندگی کی حیثیت ایک مہمان خانے سے زیادہ نہیں رہے گی،اور مہمان کو مہمان خانے میں موجود اشیا سے کوئی خاص دل چسپی نہیںہوتی۔ وہ محض اپنی ضرورت پوری کرنے کی حد تک بڑے قرینے اور قناعت سے ان چیزوں کو استعمال کرتا ہے،اور اپنی منزل کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ دنیا کی زند گی کے بارے میںانسان کایہ پختہ یقین قناعت کے حصول میں اسے مدد دیتا ہے۔

حضرت سلمان فارسی ؓ کاشمار کبار صحابہ میں ہوتا ہے۔ ان کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ان کے بارے میں نبی مہرباںؐ نے فرمایا:ـ’’سلمان ہمارے اہلِ بیت میں سے ہے‘‘۔ آپؓ  خلفاے راشدینؓ کے دور میں اور ان کے بعد کے ا دوار میں مختلف اہم حکو متی مناصب پر فائز رہے۔ جب آپ ؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے رونا شروع کر دیا۔پوچھا گیا ،اے ابوعبداللہ ! روتے کیوں ہو؟آپ ؓنے جواب دیا:مجھے خدشہ ہے کہ ہم نے نبی کریم ؐکی اس وصیت کی حفاظت نہیں کی کہ تمھیںمسافر کے زادِ راہ کی مانند دنیا سے اپنا حصہ وصول کرنا چاہیے، جو صرف اپنی انتہائی ضرورت کی چیزیں ہی اپنے ساتھ لے کر جاتا ہے۔

جب حضرت سلمان فارسیؓ اس دنیا سے رخصت ہو ئے اور لوگوں نے ان کے ترکے میں موجود اشیا کا جائزہ لیاتو ان کی قیمت ۳۰ درہم بھی نہیں بنتی تھی ۔اس کے باوجود آپؓ نبی کریمؐ کی وصیت پر عمل درآمد نہ ہونے سے ڈرتے تھے ۔ یہ مثال ہمیں عملی نمونہ فراہم کرتی ہے کہ کس طرح  نبی اکرمؐ نے اپنے صحابہؓ کی تربیت کی تھی۔

۲۔انسان کے ذہن میں یہ تصور پختہ ہو جائے کہ اُس مال کو جمع کرنے کا کیا فائدہ جس سے وہ خودمستفید نہ ہو سکے۔

ایک عقل مند آدمی جب غور وفکر کرتا ہے تو اپنے آپ سے یہ سوال کرتا ہے کہ ضروریات سے زائد ایسا مال جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے، جسے نہ میں کھاسکتا ہوں نہ پی سکتا ہوں، نہ اس سے لطف اندوزہو سکتا ہوں اور نہ اسے کسی مفید کام میں خرچ کر سکتا ہوں؟

ہمارے پیارے نبیؐ نے فرمایا: ’’جب بھی سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کے دونوں اطراف پر دو فرشتے کھڑے ہوکر منادی کرتے ہیںاور ان کی آواز کو جن و انس کے سوا زمین میں موجود تمام اشیا سنتی ہیں۔وہ کہتے ہیں :اے لوگو! اپنے رب کی طرف آئو، تھوڑی چیز جو(ضروریات کے لیے) کافی ہو، بہتر ہے اس چیز سے جو زیادہ ہو اور غافل کر دینے والی ہو۔

اے ابن آدم، تیرا (مال) توصرف وہی ہے جسے تو نے کھایا اور ختم کردیا، یا پہن کر بوسیدہ کردیا یا خرچ (صدقہ) کر کے آگے بھیج دیا۔ اس کے علاوہ جو مال بھی ہے اسے اکٹھا کرنے میں تم تھک جاتے ہو اور اس کے خرچ نہ کرنے پر تمھارامحاسبہ کیا جائے گا، اور اللہ کے سامنے اس کے بارے میں تجھ سے پوچھا جائے گا‘‘۔

دل کو قناعت سے سرشار کرنے والی بات یہ ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ اس مال کو جمع کرنا جس میں کوئی فائدہ اور نفع نہیں ہے، بے فائدہ تھکاوٹ ہے اور یہ کہ وہ اللہ کی دی ہوئی چیزپر راضی اور قانع ہو۔

  • قناعت کے فوائد: قناعت کے عظیم الشان فوائد ہیں:

۱- قناعت کرنے والا شخص سب سے زیادہ غنی ہوتا ہے۔اس لیے کہ نبی کریمؐ کی حدیث کے مطابق غنی وہ نہیں ہوتا جس کے پاس زیادہ مال و دولت ہو،بلکہ غنی وہ ہے جو دل کا غنی ہو۔     وہ غیراللہ سے حاجت روائی کی امید نہیں رکھتا،لوگوں سے اور ان کے مال سے مستغنی ہوتا ہے۔    یہ حقیقی غنی ہوتاہے ، پس قناعت کرنے والا شخص سب سے بڑا غنی ہے۔

روایت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب سے سوال کیا :اے میرے رب! تیرے بندوں میںسے تجھے سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:جو ان میں سے سب سے زیادہ میرا ذکر کرتا ہے ۔ آپ ؑ نے پوچھا :تیرے بندوں میں سے سب سے زیادہ غنی کون ہے؟اللہ تعالیٰ نے فرمایا:میرے عطا کردہ مال پر ان میں سے سب سے زیادہ قناعت کرنے والا۔ آپ ؑ نے پوچھا :ان میں سے سب سے زیادہ عادل کون ہے ؟اللہ تعا لی نے جواب دیا:جس نے اپنے نفس کو (بری خواہشات سے)بچا لیا۔

۲- قناعت پسندآدمی مال ودولت والو ں ،جاہ وحشمت والوں اور بادشاہو ں کے سامنے ذلیل بن کر کھڑا ہونے سے مستغنی ہوتا ہے۔یہ ہے وہ عزت نفس جو قناعت کرنے والوںکو قناعت کے نتیجے میں ملتی ہے۔

بنی امیہ کے ایک بیٹے نے ایک عابد وزاہد انسان ابی حاتم کوخط لکھا کہ وہ اپنی ضروریا ت کے بارے میں اسے آگاہ کریں۔ابی حاتم نے اس خط کا جواب یوں دیا :حمدوثنا کے بعد ،آپ کا خط مجھے ملا،جس میں آپ نے میری ضروریات جاننے اور انھیں پورا کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔یہ بہت بعید ہے ۔میں نے اپنی ضروریات اپنے پیارے رب کے سامنے پیش کر دی ہیں،ان میں سے جو اس نے مجھے عطا کر دیں میں نے انھیں قبول کر لیا، اور جو نہیں عطا کیں ان سے میں نے قناعت کر لی___ یہ ہے صالحین کا عمل۔

۳- انسان کو آزادی نصیب ہوتی ہے۔

آدمی جب قناعت کرتا ہے تواسے آزادی ملتی ہے، جب وہ حرص وطمع میں پڑجاتا ہے تو غلام بن جاتا ہے___ درہم ودینار کا غلام،لباس کا غلام،جو چیز بھی اسے اچھی لگے اس کا غلام،جو چیزیں اسے دی گئی ہیں ان کا بھی غلام اور جو نہیں دی گئی ہیں ان کا بھی غلام۔

جب آدمی ان تمام غلامیوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے تو اسے قناعت کی دولت نصیب ہوتی ہے اور وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے سوا کسی کا غلام نہیں رہتا۔

  • قناعت کا غلط تصور: آخر میںمیں قناعت کے ان غلط معانی کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں جوبعض لوگ مراد لیتے ہیں۔
  • ان کا خیال ہے کہ قناعت حالات و واقعات پر راضی ہونے،ان کو نہ بدلنے اور    بہتر بنانے کی کوشش نہ کرنے کانام ہے ۔جو کچھ ہو رہا ہے، ہوتا رہے، انھیں اس سے کوئی غر ض  نہیں کیونکہ ان کے خیال میں قناعت اسی کا نام ہے۔یہ غلط فہمی کی انتہا ہے۔ درحقیقت قناعت    حالات و واقعات پر راضی ہونے کانام نہیں ہے، بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی عنایات اور اس کی تقدیر پر راضی ہونے کا نام ہے۔جہاں تک برے حالات و واقعات کا تعلق ہے تو قناعت کا مطلب یہ ہے کہ انھیں بدلنے کی کوشش کی جائے۔
  • قناعت یہ نہیں ہے کہ تو منکر کو دیکھے اور خاموش رہے، اور تیرا خیال یہ ہو کہ مجھے تو ہرحال میں اللہ کی تقدیر پر راضی رہنا ہے۔
  • قناعت یہ نہیں ہے کہ تو معروف کو دیکھے اور اس میں سبقت لے جانے اور آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرے،اورتو اس زعم باطل میں مبتلا رہے کہ میں تو قانع ہوں۔
  • قناعت یہ نہیں ہے کہ تیرے لیے حلال رزق کا دروازہ کھولا جائے اور تو اسے لینے کی بجاے اس خیال سے ہاتھ باندھ کر بیٹھا رہے کہ یہ قناعت ہے۔
  • مال جمع کرنا تیرے لیے ضروری نہیں ہے لیکن مال کمانے کی کوشش کرنا، اس لیے  ضروری ہے کہ تو اللہ کے عطاکردہ مال سے فقرا و مساکین کی مدد کرے، اور دینِخداوندی کی   دعوت عام کرنے اور اسے سربلند کرنے کے لیے اسے خرچ کرے۔
  • باطل پر مطلقاً راضی ہو جانااور نامساعد حالات پر آنکھیں موندھ کر اور ہاتھ پہ ہاتھ  دھر کے بیٹھ رہناقناعت نہیں ہے۔ قناعت کے معنی یہ ہوئے کہ تو اللہ کی عطاکردہ چیزوں پر راضی ہوجائے اور اس کی عنایات پر ناگواری کا اظہار نہ کرے، حلال رزق کمانے کی کوشش کرے، برائیوں کی اصلاح اور نیکیوں کو پھیلانے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کرے۔ (ہفت روزہ المجتمع، کویت، ۱۰ نومبر ۲۰۰۷ئ)

دنیا کی سیاسی لغت میں نائن الیون کی اصطلاح ایک منفرد اضافہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں اضافہ ایک لفظ کا نہیں، بلکہ اب تو ایک اصطلاح کا ہے جو ایک مخصوص عالمی جنگ یعنی وار آن ٹیرر  (war on terror) کا عنوان بن گیا ہے۔ بلاشبہہ یہ وہ دن ہے جب نیویارک میں امریکا کے تجارتی مرکز ٹوئن ٹاورز اور واشنگٹن میںامریکی وزارت دفاع کے ہیڈکوارٹر پینٹاگان پر ہوائی حملہ ہوا اور چشمِ زدن میں بش کی قیادت میں امریکا کسی تحقیقات کا انتظار کیے بغیر دہشت گردی کے خلاف ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں کود پڑا۔ چھے سال گزرجانے کے بعد بھی یہ ایک معمّا ہے کہ۱۱ستمبر کو جو کچھ ہوا، وہ کیسے ہوا؟ کس نے کیا؟اور وہ اصل اہداف کیا تھے جن کے حصول کے لیے یہ خونی کھیل کھیلا گیا؟-- امریکا اس کا ہدف تھا یا خود امریکا اور اس کے ایک ساجھی ملک نے اپنے اپنے سیاسی عزائم کے حصول کے لیے ایسے ہولناک اقدام کا اہتمام کیا؟ یہ عجیب اتفاق ہے کہ ۲۰ویں صدی کی دوعظیم جنگوں کو کسی خاص تاریخ (date) سے نسبت نہیں دی جاتی لیکن اکیسویں صدی کی دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کا عنوان نائن الیون بن گیا ہے اور اب لغت میں باقاعدہ اس ایک نئے لفظ کااضافہ ہو گیا ہے۔

ایک نظریہ یہ ہے کہ اس واقعے کے پیچھے اسامہ بن لادن اورالقاعدہ کا ہاتھ ہے۔ جو    نام نہاداسلامی شدت پسندی اور دہشت گردی کے سرخیل ہیں اور انھی کی سرکوبی کے لیے امریکا کی قیادت میں افغانستان ، عراق اور کسی نہ کسی شکل میں تمام دنیا میں جنگ کی جارہی ہے۔

ایک دوسرا نظریہ یہ ہے کہ نائن الیون کے پیچھے دراصل امریکا اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کا کردار ہے اور دونوں ممالک کی قیادت ہی اس کی beneficiaryہے یعنی اس سے فائدہ اٹھا رہی ہے اور اپنے اپنے عزائم کے حصول کے لیے اسے استعمال کر رہی ہے۔

بظاہر یہ دونوںنقطہ ہاے نظر ہی اپنے اپنے انداز میں سازشی نظریوں(conspiracy theories ) کی حیثیت رکھتے ہیں اور صرف پروپیگنڈے کی قوت ہے جس کے ذریعے ایک کو حقیقت اور دوسرے کو واہمہ اور سازش بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ مگر اصل حقیقت کیا ہے، اب تک ایک معمّا بنا ہوا ہے___ لیکن کیا یہ ہمیشہ معمّا ہی رہے گا اور اصل حقیقت کبھی بھی سامنے نہیں آئے گی--؟

نائن الیون کے بارے میں چبھتے ہوئے سوالات اور ٹھوس سائنسی حقائق اور اصولوں پر مبنی اشکالات تو تواتر کے ساتھ اٹھائے جاتے رہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی ایسا دھماکا نہیں ہوا تھا جو اُوپر کے حلقوں کو چونکا سکے۔ اہل علم وفکر کی ساری سرگوشیوں پر امریکا کی انتظامیہ اور میڈیا کا وِژن بری طرح چھایارہا ہے۔ بی بی سی کے پروگرام پنوراما کی چار قسطیں اور Michael More کی ڈاکومنٹری Fahrenheit 9/11 بھی ذہنوں میںسوال اٹھانے کے باوجود عالمی حلقوں میں کوئی بڑا ارتعاش پیدا نہ کرسکیں۔ اب تک بیسیوں کتابیں بڑی دیدہ ریزی کے ساتھ کی جانے والی تحقیق کی بنیاد پر شائع ہو چکی ہیں لیکن یہ بھی بس ساحل پر ہی کچھ جنبش پیدا کرسکی ہیں اور جس سنجیدگی سے اس معمّے کو سلجھانے کی کوشش اور امریکا کی فکری یلغار کے پوسٹ مارٹم کی ضرورت ہے اس کی طرف کوئی پیش قدمی نہیں ہوسکی۔ البتہ دسمبر ۲۰۰۷ء میں ایک بیان ایسا آیا ہے جس نے یورپ کے  حلقوں میں ہلچل مچادی ہے اس کے باوجود کہ امریکا میں اسے بالکل  ہی دَبا (kill کر)  دیاگیا ہے اور مسلم دنیا میں بھی اسے قرار واقعی اہمیت نہیںملی، حالانکہ وہ بیان ایسا ہے جس سے اب تک کے علمی، سیاسی اور صحافتی حلقوںمیں امریکی اسرائیلی وِژن کو چیلنج کرنے والوں کے کام کو بڑی تقویت حاصل ہوئی ہے اور عالمی سطح پر ایک نئی بیداری کی ضرورت سامنے آئی ہے۔

یہ بیان اٹلی کے سابق صدر فرانسیسکو کوسی گا (Francesco Cossiga)  کا ہے جو اس نے اٹلی کے سب سے مقبول اخبار Corriere della Sera کو دسمبر ۲۰۰۷ء کے پہلے ہفتے میں دیا ہے۔ اس بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ نائن الیون دراصل ایک خود کیا ہوا کام (Inside Job) تھا اور اس کی اصل ذمہ داری امریکی سی آئی اے اور اسرائیلی موساد پر آتی ہے اور اب یہ حقیقت ایک نہ ایک دن پوری دنیا کے سامنے آکر رہے گی۔ اٹلی کے سابق صدر کے بیان کے بنیادی نکات یہ ہیں:

[Bin Laden supposedly confessed] to the Qaeda September [attack] to the two towers in New York [claiming to be] the author of the attack of the 9/11, while all the [intelligence services] of America and Europe... now know well that the disastrous attack has been planned and realized from the CIA American and the Mosad with the aid of the Zionist world in order to put under accusation the Arabic Countries and in order to induce the western powers to take part .. in Iraq [and] Afghanistan.

بن لادن نے مفروضہ طور پر نیویارک کے دو ٹاوروں پر القاعدہ کے ستمبر حملے کااعتراف کیا، اور دعویٰ کیا کہ وہ نائن الیون کے حملے کا ذمہ دارہے، جب کہ امریکا اور یورپ کی تمام خفیہ ایجنسیاں اب یہ بات اچھی طرح جانتی ہیں کہ صہیونی دنیا کے تعاون سے امریکی سی آئی اے اور موساد نے  اس تباہ کن حملے کی منصوبہ بندی کی اور اس پر عمل کیا تاکہ عرب ممالک پر الزام لگایا جاسکے اور مغربی دنیا کو عراق [اور] افغانستان پر حملے کے لیے آمادہ کیا جاسکے۔

کوسی گایورپ کے واقفانِ راز میں سے ہے۔ اسے ایک جرأت منداورسچ بولنے والے سیاست دان کی شہرت حاصل ہے۔ اس نے ۱۱/۹ کے واقعے کے فوراً بعد بھی مجملاً اپنے خدشات کا اظہار چند نظری مسلّمات کی بنیاد پر کیا تھا جس کا ذکر کئی مصنفین نے بشمول Webster Tarpley نے اپنی کتا ب میں کیا تھا کہ کوسی گاکے تجزیے کی روشنی میں :

The mastemind of the attack must have been a sophisticated mind, provided with ample means not only to recruit fanatic kamikazes, but also highly specialized personnel. I add one thing: it could not be accomplished without infiltrations in the radar and flight security personnel.

اس حملے کا ماسٹر مائنڈ ایک انتہائی منظم اور اعلیٰ درجے کا ذہن ہونا چاہیے جس کو جنونی فدائیوں بلکہ انتہائی خصوصی تربیت یافتہ عملے کے بھرتی کرنے کے وافر مواقع حاصل ہوں۔ میں ایک بات کا اضافہ کرتا ہوں کہ یہ حملے راڈار اور فضائی سلامتی کے ذمہ دار عملے میں سرایت کیے بغیر تکمیل کو نہیں پہنچ سکتے تھے۔

لیکن اب چھے سال بعد اس نے پورے یقین سے یورپ کے بیش تر خفیہ ایجنسیوں کے تجزیے کی بنیاد پر کہا ہے کہ یہ کارنامہ سی آئی اے اور موساد کے سوا کسی اور کا نہیں ہوسکتا۔

کوسی گانے یہ بھی کہا ہے کہ بحیثیت صدر اٹلی اس کو یہ علم تھا کہ یورپ، امریکا اوراسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں کس طرح ہر دور میں افراد اور ممالک کے خلاف دہشت گردی کے واقعات کا ارتکاب کرتی رہی ہیں، اور کس طرح ان کے ذریعے ان حکومتوں نے اپنے مخصوص سیاسی اہداف حاصل کیے ہیں۔ اس سلسلے میں اس نے خودنیٹو کے ایک بڑے کارنامے Operation Gladio کا ذکر کیا ہے جس کے بارے میں اٹلی کی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے سارے حقائق ۲۰۰۰ء میں آئے اور جس سے ثابت ہوا کہ یہ سارا آپریشن امریکی جاسوسی ایجنسی کی سرپرستی میںخود نیٹو کی ایجنسیوں نے انجام دیا تھا۔

واضح رہے کہ فرانسیسکو کوسی گا جولائی ۱۹۸۳ء میں اٹلی کے سینیٹ کا صدر منتخب ہوا تھا اور ۱۹۸۵ء میں اٹلی کا صدر منتخب ہوا اور اپریل ۱۹۹۲ء تک اٹلی کی صدر کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔  کوسی گا کو یورپ کے صاحب نظر سیاسی اکابرین میں شمار کیا جاتا ہے۔  

یہاں اس امرکا اعادہ بھی مفیدہوگا کہ امریکا کے لیے اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے صریح جھوٹ اور غلط بیانی کی بنیاد پر پالیسیاں بنانا اور اقدام کرنا کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بارے میں بعد کی تحقیقات نے ثابت کر دیا ہے کہ پرل ہاربر پر حملہ ردعمل تھا ایک جاپانی آب دوز کوہوائی کے پانیوں میں بلااشتعال نشانہ بنانے کا ۔ اسی طرح اب یہ حقیقت پوری دنیا کے سامنے ہے کہ عراق پر حملہ کے لیے وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں (WMD) کا ڈھونگ رچایا گیا اور بعد میں خود کولن پاول نے معذرت کی کہ اس کو صحیح معلومات نہیں دی گئیں۔ اس ہفتے امریکا کی دوممتاز صحافتی تنظیموں نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں ثابت کیا ہے کہ امریکی صدر بش اور ان کی انتظامیہ نے ۱۱/۹ کے بعد کے دوسالوں میں عراق میں وسیع پیمانے کی تباہی کے ہتھیاروں کی موجودگی کے سلسلے میں ۵۳۲بار جھوٹ پر مبنی اعلانات کیے اور عراق میں القاعدہ کی موجودگی اور عراق- القاعدہ تعاون کے سلسلے میں جھوٹ بولنے کا اسکور ۹۳۵ تک پہنچ جاتا ہے۔ جھوٹ، دھوکا اورغلط دعووں کی بنیاد پر پالیسی سازی مغربی اقوام کا وطیرہ ہے لیکن جھوٹ کی نائو ایک نہ ایک دن ڈوب کر رہتی ہے۔

امریکا اور یورپ میں بھی ۱۱/۹ پر اب نئی تحقیق اور تنقیدی کتب کا انبار لگتا جا رہا ہے لیکن افسوس ہے کہ مسلم ممالک میں عام آدمی کا احساس خواہ کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہولیکن علمی حلقوں اورپالیسی ساز اداروں کو اس کا کوئی احساس نہیں کہ پروپیگنڈے کے دھوئیں کو چھانٹ کر حقیقت کو جاننے کی کوشش کریں اور آنکھیں بندکرکے امریکا اوراسرائیل کے مفاد کی دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ کی حقیقت کو سمجھیں اور جس جنگ کا اصل ہدف اسلام اور مسلمان ہیں، اس میں  آلۂ کار نہ بنیں۔

یہ بات امر واقع کے طور پر عرض کر رہا ہوں کہ مدیر ترجمان القرآن کو پہلے دن سے ۱۱/۹ کی امریکی توجیہہ کوتسلیم کرنے میں بڑا تردّد تھا جس کا بار بار اظہار ۹ستمبر کے بعد لکھے جانے والے اشارات میں کیا گیا ہے، جن کامجموعہ امریکا سے مسلم دنیا کی بے اطمینانی، ۹ستمبر سے پہلے اور اس کے بعد (۲۰۰۳ئ) انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ، اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔     اسی طرح اس حادثے کے صرف۷ ہفتے بعد برطانیہ میں مسلم تنظیموں کے ایک اہم اجتماع میں  اظہار خیال کرتے ہوئے میں نے بڑے بنیادی سوال اٹھائے۔ یہ تقریر امریکا سے شائع ہونے والی ایک کتاب The Blackwell Companion  to Contemporary Islamic Thought (مطبوعہ ۲۰۰۶ئ) میں شائع ہو چکی ہے۔۱ ؎

امریکا اور یورپ میں پہلے ایک دوسال تو اتنا ذہنی دبائو تھا کہ اختلافی آرا حلق سے باہر نہیں آرہی تھیں مگر آہستہ آہستہ بحث وگفتگو کا دروازہ کھلا اور ایک فرانسیسی تجزیہ نگار اور محقق Thierry Meyssan وہ پہلا معروف مصنف ہے جس نے اس موضوع پر کھل کر امریکی نظریے کو چیلنج کیا اور متبادل نظریہ پیش کیا۔ اس کی اہم ترین کتاب 9/11: The Big Lie پہلے فرانسیسی زبان میں اور پھر انگریزی میں ۲۰۰۲ء میں ہی شائع ہوئی تھی جسے نیویارک ٹائمزنے ایک چیلنج قرار دیا اور لکھا ہے کہ یہ کتاب: challanges the entire offical version of the Sept. 11 attacks۔

اسی مصنف کی دوسری کتاب Pentagate لندن سے ۲۰۰۲ء میں شائع ہوئی جس میں پینٹاگان پر جہازی حملے کا پول کھولا گیا ہے۔ مسلمان محققین میں سب سے قیمتی اور مدلل کتاب پروفیسر نفیس مصدق احمد کی ہے جو ۲۰۰۵ء میں شائع ہوئی ہے یعنی The War on Truth: 9/11, Disinformaton and the Anatomy of Terrorism"۔

موصوف کی ایک اور کتاب بھی بڑی قیمتی کاوش ہے گو اس کا مرکزی موضوع عراق کی امریکی جنگ ہے یعنی Behind the War on Terror: Western Strategy and the Struggle for Iraq

دواو ر کتابیں جو دونام ور صحافیوں کی محنت کا حاصل ہیں قابل ذکر ہیں۔ پہلی کتاب 9/11 Revealed ہے جو ۲۰۰۵ء میں لندن سے شائع ہوئی ہے اور اس کے لکھنے والے ایان ہینشال اور رونالڈ مارگن (Ian Henshall and Ronald Morgan)ہیں اور دوسری رونالڈ مارگن کی کتاب Flight 93 revealed ہے جو واشنگٹن میں پینٹاگان پر حملے کے پوسٹ مارٹم پر مشتمل ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اب تحقیقی کام میں کہیں اضافہ ہورہا ہے۔کئی ادارے نائن الیون کے بارے میں سچ کی تلاش کے مقصد سے تحقیق کا کام انجام دے رہے ہیں اور یورپ اور امریکا    کے چند چوٹی کے مفکرین اور سائنس دانوں نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ اس سلسلے میں


1- Khurshid Ahmed: "The World Situation after September 11, 2001", in The Blackwell Companion to Contemporary Islamic Thought, edited by Ibrahim M.Abu-Rabi, Blackwell Publishing, USA, 2006, pp 408-422

نوم چومسکی کے بعد سب سے وقیع کام کلیرمونٹ گریجویٹ یونی ورسٹی کے فلسفہ و الٰہیات کے پروفیسر ڈیوڈ رے گریفین (David Ray Griffin) کا ہے جن کی دوکتابیں علمی حلقوں میں تہلکہ مچاچکی ہیں یعنی:The New Pearl Harbour: Disturbing Questions about the Bush Administration and 9/11 (2004)   اورThe 9/11 Commission Report: Omissions and Distortions 2005

پروفیسرگریفین کی تازہ ترین کتاب جو ان کے اپنے متفرق مضامین کا مجموعہ ہے ۲۰۰۶ء میں شائع ہوئی ہے یعنی Christian Faith and the Truth about 9/11 اور ان کی تازہ ترین علمی کاوش ان کی مرتب کردہ کتاب 9/11 and American Empire: Intellectuals Speak Out ہے جو ۲۰۰۷ء میں شائع ہوئی ہے اور جس میں امریکا، کینیڈا اور یورپ کے ۱۱ مفکرین اور سائنس دانوں کے مضامین شائع کیے گئے ہیں جواپنے اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر ۱۱/۹ کے بارے میں امریکی وژن کی دھجیاں بکھیرتے ہیں۔

ایک اور اہم مجموعہ مضامین ہالینڈ سے شائع ہوا ہے جس کا مؤلف Paul Zarmenlke ہے جو The Hidden History of 9-11-2001 کے نام سے ایمسٹرڈم سے ۲۰۰۶ء میں شائع ہوئی ہے۔ نیز اس سے خاصا پہلے رسائل اور اخبارات میں شائع شدہ مضامین پر مشتمل ایک مجموعہ لندن سے شائع ہوا تھا  Beyond September 11: An Anthology of Dissent (مرتبہ فل اسکریٹن) لیکن اس نے زیادہ تر اصولی مباحث اور استعماری عزائم پر گفتگو کی ہے اور نائن الیون کے واقعاتی پہلوئوں کو اس طرح چیلنج نہیںکیا جیسا حالیہ دنوں میں شائع ہونے والے لٹریچر میں کیا گیا۔ بہرحال اس مختصر مضمون میں سارے لٹریچر کا احاطہ تو ممکن نہیں، نہ فی الوقت یہ مقصود ہے، صرف ضروری مآخذ کی نشان دہی کی گئی ہے تاکہ یہ حقیقت سامنے آسکے کہ اب پردہ آہستہ آہستہ اٹھ رہا ہے اور امریکا اور اسرائیل کا اصل کردار کھل کر سامنے آنے لگاہے۔ ۲؎ بلّی آخر کب تک تھیلے میں رہ سکتی ہے؟ لیکن کیا مسلمان دنیا کے بصیرت سے محروم قائدین کی آنکھیں بھی کبھی کھلیں گی اور وہ دوسروں کے مفاد کی خدمت کرنے کی بجاے امت مسلمہ کے مفاد کے محافظ بن سکیں گے؟


۲-            چند اہم ترین کتابوں کا پورا حوالہ دیا جارہا ہے تاکہ جو حضرات اس موضوع پر کام کرنا چاہتے ہوں، وہ ان مآخذ کی طرف رجوع کر سکیں:

1- 9/11: The Big Lie by Thierry  Meyssan, Carnot Publishing, London, 2002.

2-  Pentںagate: by Thierry Meyssan, Carnot Publishing, London, 2002

3- Beyond September 11: An Anthology of Dissented. By Phil Scranton, Pluto Press, London, 2002.

4-9.11 Revealed: Challenging the Facts Behind the War on Terror, by Ian Henshall and Rowland Morgan, Constable and Robinson, London, 2005

5- Flight 93 Revealed: What Really Happened on the 9/11 'Let's Roll' Flight? By Rowland Morgan, Constable and Robinson, London, 2006.

6- Behind the War on Terror: Western Strategy and Struggle for Iraq, by Nafees Mossadiq Ahmad. New Society Publications, Gabriele, 2002

7- The War on Truth: 9/11, Disinformation and the Anatomy of Terrorism, by Nafez Mussadiq Ahmed, Olive Branch, Northampton, MA., 2005,

8.-The New Pearl Harbour: Disturbing Questions about the Bush Administration and 9/11, by David Ray Greffin, Olive Branch, Northampton, 2005, 

9- The 9/11 Commission Report: Omissions and Distortions, by David Ray Griffin, Olive Branch Press, Northampton, 2005.

10-Christian Faith and the Truth Behind 9/11, by David Ray Griffin, Westminster, John Knox, Louisville, 2006.

11- Painful Questions: An Analysis of the September 11 Attack, by Erie Hufschmid, Endpoint Software, Golete C.A. 2002.

12- 9/11 Synthetic Terror: Made in USA, by Webster Griffin Tarpley, Progressive Press, Joshua Tree, 2005

13- 9/11 and American Empire: Intellectuals Speak Out.  Ed. By David Ray Griffin and Peter Dale Scott, Arris Books, Glostanshire, 2007.

_________________

۲۱ویں ویں صدی کا آغاز ہو چکا اور عالم انسانیت تیسرے ہزاریے میں داخل ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی ہماری دنیا چونکا دینے والے نئے نئے دعووں، اضطراب انگیز وسوسوں اور خدشات کے طوفان کی زد میں آچکی ہے۔

ایک طرف تو کمیونزم کے انہدام اور سرد جنگ کے خاتمے کے دعوے کیے جا رہے ہیں، اور اس کے ساتھ مغرب کی آزاد روی (liberalism) ، معیشت اور سیاست کی آخری فتح کے نقارے بجا کر ’تاریخ کے خاتمے، کا اعلان کیا جا رہا ہے۔۱  لیکن دوسری جانب عالمی سطح پر مذہبی احیا اور ’بنیاد پرستی، کا شور برپا ہے ، جس میں ایک نئے دور کی آمد آمد کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے جو مختلف تہذیبوں کے درمیان تصادم سے عبارت ہوگا۔۲

چنانچہ وقت آگیا ہے کہ متوازن سوچ کے حامل دانش ور، خصوصاً وہ جو مسلم اُمّہ کی نمایندگی کرتے ہیں، ان افکار و مسائل کی طرف متوجہ ہوں جو: علم و دانش کی دنیا اور قوت و اقتدار کی غلام گردشوں میں زیربحث ہیں۔ ان چیلنجوں کے مقابلے کے لیے اسلام اور مسلم اُمّہ کی حکمت عملی پر ازسرنو غور کریں۔ آج کے چند بڑے مسائل، جن پر انسانیت کو تشویش لاحق ہے اور جو خصوصاً مسلم اُمّہ سے براہِ راست متعلق ہیں، ان میں: عالم گیریت(globalisation) ،زندگی کے ہر شعبے (مذہب سمیت) میں آزاد خیالی(liberlisation)جمہوریت، نج کاری (privatisation) اور لادینیت (secularisation) شامل ہیں۔ ان میں مذہبی احیا  اور بین الاقوامی دہشت گردی کے آسیب بھی شامل ہیں۔

میں اس مقالے میں، جمہوریت کے حوالے سے جاری مباحث کا جائزہ لوں گا۔

اس مقالے کا استدلال یہ ہے کہ وہ جمہوریت ، جو مغربی تہذیب اور سیاست کی رُو سے فروغ پا چکی ہے، نہ تو مکمل طور پر کوئی یکساں نوعیت کا نظریہ ہے اور نہ ایسا نظریہ ہی ہے کہ جسے چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ، یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ جمہوریت تو ایک ایسا کثیر جہتی مظہر ہے جس کے نظریاتی اور عملی اعتبار سے کئی پہلو ہیں۔ چنانچہ یہ فرض کر لینا کہ: ’’جمہوریت کا کوئی مخصوص مغربی نمو نہ پوری انسانیت اور خاص طور پر مسلم اُمّہ کے لیے مثالی نظام سیاست کے طور پر تسلیم کر لیا جانا چاہیے‘‘۔علمی طور پر ناقابل قبول اور ثقافتی اعتبار سے ناقابل مدافعت ہے۔ مسلم اُمّہ کی تو اپنی الگ اخلاقی اور نظریاتی پہچان ہے، اور مسلمان تاریخی و ثقافتی اعتبار سے اپنا الگ تشخص رکھتے ہیں۔ ہاں، عالم گیریت اپنی موجودہ شکل میں تاریخ کے رواں دور کا ایک رجحان ضرور ہے، لیکن اسے نئی استعماریت کا پیش خیمہ بننے کی  ہرگزاجازت نہیں دی جا سکتی جس کا بڑا خدشہ ہے۔

میرے نزدیک مغرب کی جمہوری فکراور تجربہ، اپنی افادیت اور تنوع کے باوجود، گہری سوچ بچار اور منطقی تجزیے کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتے بلکہ ان میں کئی نقائص ہیں اور وہ عملی تضادات، تصوراتی خامیوں اور ناکامیوں سے عبارت ہیں۔ ڈبلیو جی گیلی نے بجا طور پر مغربی جمہوریت کو ’’بنیادی طور پر قابل حجت تصور‘‘ قرار دیا ہے۔۳ عالم اسلام اور تیسری دنیا کے ممالک کو ، مغربی جمہوریت کی ’برآمد، (export) کوئی حقیقت پسندانہ طرزِ عمل نہیں۔چنانچہ امریکا اور دوسری مغربی طاقتوں کی خارجہ پالیسی کے واضح ہدف کے طور پر دبائو، دھاندلی، سازشوں یا براہِ راست قوت کے ذریعے کسی ملک میں مغربی سیکولر جمہوریت کو بلاامتیاز ٹھونسنے کی کوشش انتہائی نامناسب ہوگی۔

بہتر ہوگا کہ جمہوریت کی دو اہم جہتوں کے درمیان خط امتیاز کھینچ لیا جائے۔ پہلی جہت یہ کہ جمہوریت کی فلسفیانہ بنیاد: عوامی خود مختاری کا تصور اور اس کے نتیجے میں عوامی حمایت پر مبنی حکومت کے جواز کا اصول ۔ دوسری یہ کہ اس نظام کو چلانے کے طریقے، تاکہ کاروبار مملکت میں عوام کی شرکت یقینی بنائی جائے ، اور حکمرانوں کے انتخاب میں اور حکومتی پالیسیوں کی تشکیل اور منصوبوں میں عوام کی شمولیت ممکن ہو سکے ۔ میرا یہ موقف بھی ہے کہ اسلامی عقاید، ثقافت، تاریخ اور فی زمانہ تجربات کے حوالے سے ایسے رہنما خطوط موجود ہیں جو ایک واضح اور منفرد سیاسی ڈھانچے کی شکل متعین کرتے ہیں۔ جسے صحیح معنوں میں روح (spirit) اور عمل، دونوں لحاظ سے حقیقی عوامی شرکت کا حاصل قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کے مطابق ایک ایسا سیاسی نظام قائم کیا جاسکتا ہے، جو عدل و انصاف اور شوریٰ و مشاورت دونوں مقاصد کو پورا کرے۔ جو کسی بھی برسرِکار جمہوریت کی حقیقی روح ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ نقطۂ نظر مغربی سیکولر جمہوریت کے کئی دیگر تضادات، نزاعات اور ناکامیوں کے لیے بھی تریاق ثابت ہو سکتا ہے۔ خود یہ بات بڑی اہم ہے کہ مسلم اُمّہ پر سیکولر جمہوریت زبردستی ٹھونسنے کی کوشش صرف جابر حکومت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ حقیقی جمہوری عمل، جس میں عوام کو یہ آزادی حاصل ہو کہ وہ اپنے تصورات اور خواہشات کے مطابق اپنے معاملات چلا سکیں۔ بس دین و دنیا کی تفریق اور سیکولر جمہوریت کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہوسکتی۔ مسلم دنیا میں حقیقی جمہوری عمل جہاں اور جب بھی کارفرما ہوگا آخرکار یہ عمل اسلامی نظام ہی کی طرف رہنمائی کرے گا، کیونکہ اُمت مسلمہ کے کینوس پر اسلام اور جمہوریت ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔

اسلامی سیاسی نظام کی بنیاد نظریۂ توحید پر ہے اور یہ نظام عوامی خلافت کی صورت میں  برگ و بار لاتا ہے ۔جس کے تحت منتخب حکمران (خلیفہ)، شوریٰ کے ذریعے امور حکمرانی بجا لاتا ہے، جو انسانوں میں مساوات کے اصول پر قائم ہوتی ہے۔ اسی نظام میں قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ، حکمرانوں کا احتساب، سیاسی عمل کا صاف شفاف ہونا اور نظام کے قانونی، سیاسی، سماجی، اقتصادی اور بین الاقوامی پہلوئوں میں عدل اور صرف عدل کی بالادستی ہی اوّلیں ترجیح ہوتی ہے۔ اسلامی شریعت ایک ایسا وسیع نظم ِریاست پیش کرتی ہے جس کے اندر رہتے ہوئے عوام، وحی الٰہی کی رہنمائی میں:ایک مہذب معاشرے اور اس کے معاشرتی ادارے، جن میں ریاست کے تمام شعبے (organs) بھی شامل ہوتے ہیں، تشکیل دیتے ہیں۔ اسلامی طرز حکومت کثیر جہتی اجتماعی اور سیاسی نظام قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چنانچہ ایسے معاشرے میں مختلف مذاہب اور نسلی اور لسانی گروپوں کے درمیان صحت مندانہ بقاے باہمی کا جذبہ پروان چڑھتا ہے اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کے درمیان باہمی تعامل کی فضا کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ اسلامی نظام کے تحت معاشرے میں ہر طرح کی ہم آہنگی اور اتحاد و اتفاق پیدا ہوتا ہے۔ جس کے باعث، موجودہ دور میں ، جب کہ پوری دنیا ایک عالمی شہر کی شکل اختیار کر چکی ہے، امن کے قیام اور تمام انسانوں کے لیے ایک منصفانہ سماجی و سیاسی نظام کے قیام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

جمھوریت --- مغربی تناظر میں

جمہوریت (democracy)کا لفظ انگریزی زبان میں ۱۶ویں صدی میں فرانسیسی زبان کے لفظ democratie سے اخذ کیا گیا۔یہ لفظ اپنے اصل کے اعتبار سے یونانی ہے، جو یونانی زبان کے لفظ demokratie سے مشتق ہے۔اس لفظ کی اصل دو الفاظ demos یعنی ’عوام‘ اور krato ’حکمرانی‘ ہیں۔ گویا یہ لفظ دویونانی الفاظ کا مجموعہ ہے۔

جہاں تک مسلم لٹریچر کا تعلق ہے، ’جمہوریت‘ کی اصطلاح پہلی بار ۱۸ ویں صدی میں ترکی زبان میں استعمال کی گئی۔ یہ لفظ عربی کے لفظ ’جمہور‘ سے نسبت رکھتا ہے ،جس کے معانی عوام یا اسمبلی یا عوامی اجتماع ہیں۔یہ اصطلاح ’فرانسیسی جمہوریہ‘ کے حوالے سے استعمال کی گئی تھی۔۴

جمہوریت ایک ایسا طرز حکومت ہے، جس میں طبقۂ امرا، یا خواص کی حکومت، بادشاہت، آمریت یا استبدادی حکومت کے برعکس عوام ہی کو اقتدار کا حقیقی سرچشمہ تصور کیا جاتا ہے۔ حکومتی اصولوں اور طرزِ حکمرانی کا محور عوام تصورکیے جاتے ہیں، بلکہ تمام اقدار، تصورات اور پالیسیوں کا اصل منبع سمجھے جاتے ہیں۔ عوام ہی کو اقتدار اعلیٰ کا حامل تصور کیا جاتا ہے ۔جنھیں یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ ملک پر حکومت کریں اور ان کے حکمران بھی ان کے سامنے ہی جواب دہ تصور کیے جاتے ہیں۔

جمہوریت کی اصطلاح سے ان تصورات اور اصولوں کے علاوہ ایک سیاسی نظام بھی مراد ہے جس کے تحت حکمرانی کا نظم قائم ہوتا ہے اور ایک سیاسی و قانونی نظام معرض وجود میں آتا ہے۔ جمہوریت کا اصل امتحان تو ’جواز‘ (legitimacy)کا اصول ہے ،جس کے تحت یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ اقتدار صرف اور صرف اس وقت جائز ہوتا ہے جب یہ عوامی قوت سے حاصل کیا گیا ہو اور اس کی بنیاد عوام کی مرضی پر رکھی گئی ہو۔

یورپ کی تاریخ میں ’نشاتِ ثانیہ‘ (renaissance)کے بعد کے دور میں بادشاہوں کے حق حکمرانی کے ’مقدس دعووں، کو چیلنج کیا گیا۔ یورپ کی بادشاہتوں کے خلاف عوامی بغاوت برپا ہوئی۔ عوام، خواص کی حکمرانی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے کلیسا کی اتھارٹی کو بھی   چیلنج کیا اور پادریوں کی حکمرانی (divine right to rule)کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ اسی تناظر میں عوام کی حکمرانی کا اصول وضع کیا گیا ہے، جس کے تحت مذہب اور بادشاہوں کی تقدس مآبی سے سیاست کا رشتہ منقطع کر دیا گیا، عوام کو سیاسی قوت کا اصل منبع اور اپنی قسمت کا حقیقی معمار تسلیم کیا گیا۔ تمام اقدار کی تشکیل اور اختیارات کے استعمال کا تاج ان کے سر پر سجا دیا گیا اور ہرنوع کی سیاسی جدوجہد کا اصل مقصد عوام کا اقتدار اور ان کی فلاح وبہبود قرار پایا۔

سیکولر جمہوریت کی فلسفیانہ جڑیں عوام کے اقتدارِ اعلیٰ کے نظریے میں پوشیدہ ہیں۔ جمہوریت ایک طرف تو دائمی مذہبی رہنمائی سے انکار، یا کم از کم ایسی رہنمائی سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے اور سیاسی حکمرانی میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کو بھی تسلیم نہیں کرتی، جب کہ دوسری طرف اس بات پر اصرار کرتی ہے کہ عوام اور عوام کی مرضی اور راے ہی کو ہر نوع کے اختیارات اور اقتدار کا حقیقی منبع تسلیم کیا جائے۔ مختصر یہ کہ جمہوریت کے تحت قانونی اور سیاسی اقتدار اعلیٰ، عوام کے پاس ہے، جس کے تحت جمہوری سیاست کی متعدد شکلیں سامنے آچکی ہیں۔ جن میں: براہِ راست، بذریعہ نمایندگی، پارلیمانی، متناسب نمایندگی،ری پبلکن، وفاقی اور پرولتاری جمہوریت وغیرہ شامل ہیں۔

رچرڈ جے کا دعویٰ ہے : ’’۱۹ویں صدی کے دوران جمہوری مطالبات کوآگے بڑھانے والا مرکزی اصول عوام کا اقتدار اعلیٰ ہی رہا‘‘۔۵ بہرحال ’حاکمیتِ عوام، کا نظریہ، عملی اور نظریاتی طور پر جتنا بھی مبہم اور غیر واضح ہو لیکن مغرب کی لادینی جمہوریت کی اساس یہی نظریہ ہے۔ اسلام کا تصورِ سیاست بنیادی طور پر اس سے مختلف ہے۔ حاکمیت زمین و آسمان کے مالک اور خالق کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ الہامی ہدایت اور قانونِ الٰہی کو بالادستی حاصل ہے، البتہ اس قانون کے عملی نفاذ کے لیے ذمہ دار انسان پر ہے جو ’عمومی خلافت‘ کے تصور سے عبارت ہے۔ فلسفیانہ اور فکری بنیادوں کے اعتبار سے مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت میں یہی جوہری فرق ہے۔

جمہوریت کے دوسرے رُخ کا تعلق عوامی حکومت کی مختلف اشکال اور سیاسی فیصلوں میں عوام کی شرکت، مثلاً ریاست کے معاملات کو چلانے کے لیے عوام کی مرضی معلوم کرنے کا سیاسی طریق کار طے کرنے اور اسے ترقی دینے سے ہے۔ جمہوریت کے عملی نمونوں کی بنیاد انسانی مساوات اور آزادی کے اصولوں، آئین و دستور کی پابندی، قانون کی حکمرانی، حکومت کے مختلف شعبوں، یعنی انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے درمیان تقسیم اختیارات، بنیادی انسانی حقوق جن میں اقلیتوں کے حقوق، مذہبی آزادی، اظہارِ راے کی آزادی، انجمن سازی کی آزادی، پریس اور ابلاغ کی آزادی پر ہے۔ جمہوریت کی حقیقی روح کا اظہار اس حکومت کے وِژن میں ہوتا ہے جسے لوگ منتخب کرتے ہیں، جو عوام کی خواہشات اور ترجیحات کے مطابق ان کی خدمت کرتی ہے اور ان کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے۔

مغربی جمہوریت کا نظام مذہب اورسیاست کے درمیان مکمل علیحدگی کے تصور پر مبنی ہے۔ چنانچہ اس کا تعلق لوگوں کی دنیاوی فلاح و بہبود تک محدود ہے۔ اس جمہوریت کے تحت قانون اور انسانی حقوق کے پورے نظام میں یہی جذبہ کارفرما ہے۔ اس امر سے انکار نہیں کہ مغربی ممالک نے حکومت میں عوام کی شرکت کا نظام وضع کرنے میں نہایت قیمتی تجربات کیے ہیں۔ کئی جماعتوں پر مشتمل نظام، ایک مخصوص مدت کے لیے سیاسی قیادت کا انتخاب، مختلف النوع انتخابی طریقے، انتظامیہ سے عدلیہ کی مکمل علیحدگی، قانون سازی کے لیے اداروں کا نظام جو یک ایوانی یا دو ایوانی ہوسکتا ہے، اس سیاسی نظام کے بڑے نمایاں پہلو ہیں۔

مغرب کے جمہوری تجربات کی برکتیں بغیر ملاوٹ کے نہیں تھیں۔ بعض تاریخی کامیابیاں ضرور حاصل کی گئیں لیکن مضبوط اخلاقی بنیادیں نہ ہونے کی وجہ سے ناکامیاں اور خرابیاں بھی ان جمہوریتوں کے حصے میں آئی ہیں۔ چونکہ اس نظام میں مطلق اقدار کا کوئی مقام نہیں ہے، لہٰذاکسی بات کے صحیح یا غلط ہونے کا معیار عوام کی ترنگ پر چھوڑ دیا گیا ہے، جنھوں نے اخلاقی اقدار میں بھی اسی طرح تبدیلی شروع کر دی جس طرح وہ اپنا لباس یا فیشن تبدیل کرتے ہیں۔ چنانچہ اسی طرزِعمل کے نتیجے میں بڑی بڑی غیر اخلاقی سرگرمیوں اور اخلاقی برائیوں کو گناہ یا جرم قرارنہ دینے کا چلن شروع ہو گیا، جس کے نتیجے میں انسانی معاشرہ اخلاقی پستی میں گرتا چلا گیا۔ اکثریت کی حکومت کے نظریے سے پیدا ہونے والے ذہنی اور اخلاقی رویے، نسلی، لسانی اور طبقاتی کشیدگی،اقتصادی چشمک، استحصال اور سب سے بڑھ کر ان بنیادی خوبیوں کا زوال ہے، جنھوں نے انسانی معاشرے کو باہم منضبط کر رکھاتھا۔ یہ اخلاقی بحران اور خانگی انتشار مغربی سیکولر جمہوریت کا ثمرہے۔

مغربی جمہوریت نے خوبی و معیار کی جگہ محض تعداد اور افراد کے بدلتے ہوئے رجحانات کو دے دی۔ خیر، سچ اور عدل کے مستقل معیار کے بجاے ہاتھوں کی گنتی کو شعار بنا لیا۔ تنگ دلی پر مبنی جماعتی نظام کی سیاست، جمہوری نظام کے انحطاط کا باعث بنی۔ بعض ممالک میں یک جماعتی نظام متعارف کرا دیا گیا جس کے نتیجے میں جمہوریت کے نام پرایک پارٹی کی آمریت وجود میں آگئی۔ جمہوریت کے بعض بنیادی اصولوں میں اس قدر ملاوٹ کر دی گئی کہ جمہوریت کا تصور ہی دھندلا گیا۔ جمہوری عمل اپنے بنیادی نظریات کی پٹڑی سے اُتر گیا اور ایک مذاق بن کر رہ گیا۔

گیووانی سارتوری کا کہنا ہے:

کم از کم معیار کے مطابق بھی دیکھا جائے توتقریباً آدھی دنیا جمہوریت کے دائرہ عمل  (realm) میں ہے۔ اوسط معیار کی رُو سے دنیا میں جمہوری ممالک کی تعداد میں کمی ہوئی ہے اور اعلیٰ معیار کے مطابق تو ایک درجن یا اس کے لگ بھگ ممالک ہی اطمینان بخش جمہوری معیار کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اس بات کا تصور کرنے کے لیے کچھ زیادہ تردد کی ضرورت نہیں کہ کسی بھی ملک پر سے جمہوریت کا لیبل کس قدر آسانی کے ساتھ ’غیر جمہوری‘ میںتبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے صرف ایک معیار سے دوسرے معیار میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ مغربی ممالک تو جمہوری طرزِ حکومت میں اتنا وقت گزار چکے ہیں کہ اب وہ جمہوری التباس سے گلو خلاصی کے مرحلے سے   گزر رہے ہیں…ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ جمہوریت کیا ہے، ایک جمہوری اور غیرجمہوری نظام کی حدفاصل آج بھی بالکل واضح ہے ۔لیکن جونہی ہم لفظ جمہوریت کا اطلاق تیسری دنیا، خاص طورپر نام نہاد ترقی پذیر اقوام پر کرتے ہیں،تو جمہوری معیار اتنا گرا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ انسان حیرت سے سوچنے لگتا ہے کہ کیا لفظ ’جمہوریت‘ آج بھی اپنے اصل معانی کے ساتھ موجود ہے۔۶

معروف جریدہ  فارن افیئرز کے ایک حالیہ شمارے میں تھامس کیروتھرز نے اس بات پر اظہارِ افسوس کیا ہے کہ ’’دنیا بھر میں برپا ہونے والا جمہوری انقلاب، اب ٹھنڈا پڑرہا ہے‘‘۔ تھامس نے لکھا ہے:

چند سال قبل جو بات بعض جوشیلے افراد کو متحد کر دینے والی ایک عظیم تحریک محسوس ہوتی تھی، وہ آیندہ چند عشروں میں مغربی دنیا (جس میں لاطینی امریکا، شمالی یورپ اور سابق سوویت یونین کے بعض علاقے شامل ہیں) اور غیر مغربی دنیا کے درمیان سیاسی تقسیم کو بڑھا سکتی ہے۔یہ تہذیبوں کے درمیان تصادم کی کوئی پیش گوئی نہیں بلکہ سہل پسندانہ آفاقیت (یونی ورسل ازم) کے خلاف ایک انتباہ ہے۔۷

سی بی میک فرسن نے’اژدہام کی قابل نفرت حکومت‘ سے اس وقت ’عالمی محبوب‘ کا درجہ حاصل کرنے تک کے جمہوریت کے سفر کا حال اس طرح بیان کیا ہے:

جمہوریت ایک بُرا لفظ سمجھا جاتا تھا۔ ہر کوئی، وہ کوئی بھی ہو، یہ جانتا تھا کہ: جمہوریت اپنے حقیقی معنوں میں، عوام کی اکثریت کی مرضی کے مطابق حکومت، ایک بُری بات ہوگی جو فرد کی انفرادی آزادی اور مہذب زندگانی کی تمام خوبیوں کے لیے زہرقاتل ہے۔ جمہوریت کے بارے میں یہ راے، ابتدائی تاریخی دَور سے کوئی ایک سو سال تک، ہر دانش مند فرد کی راے رہی ۔لیکن اس کے بعد صرف نصف صدی کے عرصے میں جمہوریت بہت اچھی چیز بن گئی۔۸

اگرچہ اب، خصوصاً اشتراکی روس کے انہدام کے بعد، جمہوریت بہت اچھی چیز قرار پا چکی ہے لیکن زیرک مبصر، جمہوری قراردیے جانے والے نظام حکومت کی خامیوں، تضادات، اصولوں سے انحراف اور دوسری خرابیوں سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے ،جو اب اس نظام کا خاصا بن چکی ہیں۔

تاریخ نگار ای ایچ کیر نے جمہوریت کے بارے میں ۵۰ کے عشرے میں جو کچھ کہا تھا، ۲۰ویں صدی کے آخری عشرے کے دوران بھی اس کی بازگشت سنائی دیتی رہی ۹ اور آج ۲۱ویں صدی میں قدم رکھتے وقت اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ ایک اور مبصر انتھونی اور بلاسٹر تو اس تکلیف دہ نتیجے پر پہنچا ہے کہ: ہر نوع کے بلند بانگ دعووں اور بعض کامیابیوں کے باوجودجمہوریت جدید سیاست کے ایجنڈے کی ایک نامکمل کارروائی ہے۔۱۰ ووٹ کا حق مل جانے کے باوجود خواتین اور مردوں کو اقتدار میں اپناصحیح حصہ نہیں مل سکا۔ ’بورژوا جمہوریت‘ بڑی حد تک ایک مصنوعی چہرہ ہے جس کے پیچھے رہ کر سرمایہ دار طبقہ معاشرے پر حکومت کر رہا ہے۱۱ اور اسی نے اپنی بالادستی قائم کر رکھی ہے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں خواتین کے حقوق کی تحریک کے احیا سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خواتین، مردوں کے مقابلے میں مساوی مقام اور اصناف کے درمیان مساوات کے حصول میں ناکام رہی ہیں بلکہ وہ ’جمہوری، معاشروں میں خواتین کے خلاف بدترین امتیازات کو ختم بھی نہیں کرسکیں۔۱۲یہی مصنف اس بات پر بھی افسوس کرتا ہے کہ ’’سیاسی اقتدار میں مساوات کا اصول جو ہرشہری کے ووٹ میں شامل ہے، سیاسی اقتدار کی تقسیم میں ناانصافی اور بدترین عدم مساوات کا شکار بن چکا ہے‘‘۔۱۳ چنانچہ اربلاسٹر بھی جمہوریت کے بارے میں اس نتیجے پر پہنچا ہے جو ای ایچ کیر نے اخذ کیا تھا۔ وہ کہتا ہے: ’’اس لیے ہمیں کم از کم یہ نتیجہ ضرور نکالنا چاہیے کہ عام شہری جس مقصد کے لیے سیاسی جمہوریت کے طالب تھے، یا ووٹ کا حق حاصل کرنا چاہتے تھے، وہ مقصد کسی بھی ذریعے سے پورا نہیں ہو رہا۔۱۴ اس نے بالکل صحیح طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’’یہ تصور کرنا نری حماقت ہوگی کہ مغربی جمہوریت کو ہی تمام متعلقہ بامقصد تجربات پر اجارہ داری حاصل رہے‘‘۔۱۵

میری راے میں مغربی سیکولر جمہوریت کااپنا مخصوص مزاج ہے۔ چنانچہ اس جمہوریت کی دنیا کے دوسرے خطوں کو بلاامتیاز ’برآمد‘ سے منصفانہ جمہوری اور مستحکم سیاسی نظام معرض وجود میں نہیں آسکتا۔ دنیا کے مختلف حصوں میں جو مختلف جمہوری تجربات کیے گئے ہیں، بلاشبہہ ان سے متعدد سبق سیکھے جا سکتے ہیں، لیکن مغرب کے سوا دنیا کے دیگر خطوں کے عوام، خصوصاً مسلم اُمّہ کو جمہوریت کے کسی بھی مغربی ماڈل کی اندھا دھند تقلید نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے بجاے انھیں خود اپنے نظریاتی اور تاریخی مآخذ کو کھنگالنا چاہیے اور ایسے ادارے قائم کرنے چاہییں جو ان کی دینی اقدار اور نظریات کے حامل ہوں۔ بنی نوع انسان نے جو تجربات حاصل کیے ہیں، ان سے سبق سیکھنے میں کوئی حرج نہیں اور مغربی دنیا سے بھی ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، لیکن صرف وہ نظام ، جس کی جڑیں ہماری تاریخ میں ہوں، جو ہمارے تجربات کا ماحصل ہوں، ہماری اقدار کے ڈھانچے کے اندر اور ہمارے قومی ثقافتی مزاج سے ہم آہنگ ہوں، ہمارے ممالک میں حقیقی معنوں میں کامیاب اور ثمرآور ہو سکتے ہیں۔

اسلام کا سیاسی نظام

اسلام مغربی فلسفہ اور مذہبی لٹریچر میں استعمال ہونے والی مخصوص اصطلاح : مذہب کے محدود معانی کے مطابق مذہب نہیں ہے۔ ’اسلام، کے لفظی معانی ہی تسلیم و رضا ہیں۔ اسلامی عقیدے کے تحت بندہ خود کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دیتا ہے اور اس عہد کے نتیجے میں اللہ کی مرضی کے تابع ہو جاتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور ہدایت پر عمل کرنے کا پختہ ارادہ کرتا ہے۔ چنانچہ اوّلین اور بہترین بات یہ ہے:

اسلام، انسان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ایک رشتے کا مظہر ہے۔

یہ ایک عہد ہے کہ بندہ اس ہدایت پر عمل کرنے کا پابند ہے جو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے نازل کی ہے اور جس کا بہترین نمونہ اللہ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی حیات طیبہ کی صورت میں موجود ہے۔

مسلمان اللہ تعالیٰ کو ماننے والوں کی جماعت، یعنی اُمہ کا رکن ہے۔ وہ جماعت جو بنی نوع انسان کو سچائی کے راستے کی طرف بلانے کے لیے قائم ہوئی ہے، حق کا کلمہ بلند کرتی ہے اور غلط باتوں سے روکتی ہے۔

اسلام ایک مکمل ضابطۂ اخلاق ہے، یہ ایک جامع اور ہمہ گیر طرزِحیات ہے۔ یہ ایک ’دین، ہے جو انسانی وجود کے تمام انفرادی اور عوامی، اخلاقی اور دنیاوی، مادی اور روحانی، قانونی اور سماجی، معاشی اور تعلیمی، قومی اور بین الاقوامی پہلوئوں پر محیط ہے۔ دین ہی اس وفاداری اور تشخص کی بنیاد ہے اور شریعت وہ مقررہ راستہ ہے جو عبادت ، سماجی اور اقتصادی پالیسیوں تک زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلامی نظام سیاست کوئی آزاد رو نظم نہیں ہے، بلکہ یہ اسلامی طرز حیات کا ایک حصہ ہے اور اسے دین کے دوسرے پہلوئوں سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔

دین اسلام کے تحت زندگی ایک مکمل اکائی ہے، جب کہ ایمان ایک بیج اور نقطۂ آغاز ہے۔ اس بیج سے جو درخت پیدا ہوتا ہے اس کا سایہ انسانی وجود کے تمام پہلوئوں پر محیط ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحی جو قرآن و سنت کی شکل میں موجود ہے ، ازلی و ابدی، قطعی اور آفاقی ہے۔ یہ ایک ایسا نظم اور ڈھانچا فراہم کرتی ہے جس کے اندر زبردست قوت موجود ہے۔ یہ نظم اتنا وسیع و ہمہ گیر ہے کہ ہر زمانے کے درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ دین اسلام، انسانی نقطۂ نظر کو انتہائی وسعت بخشتا  اور ایک تصور عطا کرتا ہے۔ ہمہ جہتی اقدار فراہم کرتا اور مختلف مقامات پر اور مختلف اوقات میں تفصیلات طے کرنے کے مواقع تفویض کرتا ہے۔ اسلام کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول اور آنے والی ابدی زندگی میں کامیابی کی تمنا ہے۔

دین اور معاشرہ (سوسائٹی) اور دین اور ریاست اسی طرح باہم جزولاینفک ہیں، جس طرح دین میں تقویٰ اور عبادت۔ توحید، دین کا عظیم ترین اصول ہے جس پر اسلامی زندگی کا دارومدار ہے۔ اس طرح زندگی کے ہر شعبے میں خواہ اس کا تعلق خاندان سے ہو، معاشرے سے ہو، معیشت سے ہو، سیاست سے ہو، یا بین الاقوامی تعلقات سے ہو، دین کی اصولی رہنمائی ہر شعبۂ زندگی کی رہنما اور صورت گر ہے۔ دین کی اصطلاح کا یہی جامع مفہوم ہے، جو مذہب کے محدود تصور سے یکسر مختلف ہے۔

اس بنیادی اصول کی روشنی میں اسلام کے سیاسی نظم کے کلیدی عناصر یہ ہیں:

۱- اقتدار اعلیٰ کا مالک صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ خالق، مالک، پالنے والا (رب)، قانون دینے والا اور رہنما ہے۔ انسان اس کی مخلوق، اس کا عبد اور خلیفہ ہے۔ زمین پر انسان کا مشن اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنا ہے، شریعت پرمبنی نظام قائم کرنا ہے جو انسان کی رہنمائی کے لیے بذریعہ وحی نازل کی گئی ہے، تاکہ انسان، اس کائنات میں اور اپنے خالق و مالک کی رہنمائی میں حسن و خوبی کے مطابق زندگی بسر کرے۔ ایساکرنے سے اس کو دنیا میں امن، انصاف، روحانی مسرت اور ترقی حاصل ہو گی اور آنے والی دنیا (آخرت) میں صحیح معنوں میں نجات ملے گی۔

۲- اللہ کے ہاںتمام انسان برابر ہیں اور اسی قانون کے تابع ہیں جو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ اسلامی نظام سیاست کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے اقتدار اعلیٰ اور شریعت کی بالادستی پر ہے۔ اس نظام کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی بندگی، اس سے وفاداری اور اس عزم و عہد سے عبارت ہے کہ شریعت کی پیروی کی جائے گی اور اس کو نافذ کیا جائے گا۔ قرآن حکیم کا اس بارے میں فرمان نہایت واضح اورغیر مبہم ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

خبردار رہو! اُسی کی خلق ہے اور اُسی کا امر ہے (الاعراف ۷: ۵۴)

فرماںروائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے ۔ اُس کا حکم ہے کہ خود اُس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے۔ (یوسف ۱۲:  ۴۰)

اے نبیؐ، ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ جو راہِ راست اللہ نے تمھیں دکھائی ہے، اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو۔(النسائ۴: ۱۰۵)

جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں… اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں اور وہی فاسق ہیں۔(المائدہ  ۵:۴۴-۴۵)

۳- انسان کا مرتبہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ کا ہے۔ یہ منصب ان سب لوگوں کو بخشا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کو ہی اپنا رب اور حاکم اعلیٰ تسلیم کرتے ہیں۔ ’خلافت‘ کا تصور عام نیابت کا تصور ہے اور اس میں سبھی مسلمان شامل ہیں، یعنی ہر مسلمان خدا کا نائب ہے۔ نیابت کا یہ بھی مطلب اور مقصد ہے کہ عوام کو محدود اتھارٹی تفویض کی گئی ہے تاکہ کاروبارِ حیات کو چلا سکیں۔ اللہ تعالیٰ کی یہ نیابت کسی مخصوص فرد کو تفویض نہیں کی جاتی اور نہ کسی خاندان، قبیلے یا گروہ کو اس کا سزاوار قرار دیا جاتا ہے، بلکہ یہ نیابت ہر مسلمان مرد و زن کو تفویض کی گئی ہے۔ چنانچہ انھی لوگوں (مسلمانوں )کویہ اختیار شوریٰ کے اسلامی اصول کے مطابق استعمال کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی آخری الہامی کتاب میں ارشاد فرماتا ہے:

اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے۔(النور۲۴:۵۵)

قرآن حکیم کے اسی حکم اور دوسرے احکامات کے مدّنظر ریاست کا جو نظریہ اُبھر کر سامنے آتا ہے، اس کے مطابق قرآن حکیم نے دو بنیادی اصول پیش کیے ہیں۔ پہلا اصول اللہ تعالیٰ کا اقتدار مطلق اور دوسرا مسلمانوں کی عوامی ’نیابت‘ (خلافت) ہے۔ چنانچہ اسلامی سیاسی نظام کی بنیاد اولاً: اللہ تعالیٰ کو قادر مطلق تسلیم کرنے اور اس کے قانون، شریعت کو بالاترین قانون تسلیم کرنے، اور ثانیاً: معاشرے پر حکومت عوام کی مرضی کے مطابق کرنے پر استوار ہے۔ جو لوگ برسرِاقتدار ہوں انھیں اُمّہ کی اور مسلمانوں کی حمایت اور تائید حاصل ہونی چاہیے کہ جو خلافت کے اصل امین ہیں۔ درج بالا قرآنی آیت سے ظاہر ہے کہ زمین پر حکومت کا وعدہ مسلمانوں کی پوری جماعت (اُمّہ) سے کیا گیا ہے،کسی خاص فرد، طبقے ، خاندان یا گروہ سے نہیں۔مسلمانوں کو جو خلافت بخشی گئی ہے، وہ عمومی نیابت کی طرح ہی ہے اور اسی کے تحت ہر مسلمان کو اور سب کو یہ فرض سونپا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُمّہ کے لیے فیصلے کرنے کے طریق کو ’شوریٰ‘ قرار دیا گیا ہے، یعنی مسلمانوں کے معاملات باہمی مشاورت سے چلائے جائیں گے۔ (امرھم شوریٰ بینھم) معاشرے کے ارکان کے طور پر تمام مسلمان برابر ہیں۔ ان کے معزز ہونے اور قیادت پر سرفراز ہونے کی کسوٹی ان کی اعتماد، تقویٰ اور اہلیت کی خوبیاں، یعنی اللہ پر مکمل ایمان، فرض شناسی اور احتساب کا شعور ہیں۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:

درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ (الحجرات ۴۹: ۱۳)

اللہ تعالیٰ کے آخری رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: تم میں سے ہر ایک گلہ بان کی طرح ہے اور ہر شخص سے اس کی زیرنگرانی لوگوں کے بارے میں احتساب ہوگا۔

ذات پات ، رنگ و نسل اور قبائلی امتیازات ختم کر دیے گئے ہیں اور انسانوں کے درمیان حقیقی مساوات قائم کر دی گئی ہے (ہم نے اولاد آدم کو عزت بخشی ہے)۔

قرآنحکیم کے مطابق فضیلت کا انحصار تو پاک بازی اور نیکی پر ہے، جس میں علم، جسم (عمدہ صحت بدنی قوت) اور تقویٰ (خوفِ خدا اور پاک بازی)شامل ہیں۔

۴- اسلامی سیاسی نظام میں حقوق اور فرائض کے حوالے سے اطاعت کے دو نمایاں پہلو ہیں۔ اول: اللہ اور اس کے رسولؐ کی فرماں برداری اور دوم: عوام کا آزادیِ تقریر، بحث و مباحثہ، اختلافِ راے اور شرکت کا حق جس میں کسی امر میں اختلاف راے اور صاحبانِ اقتدار پر نقد و جرح کا حق شامل ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو ، اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ (النساء ۴: ۵۹)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: بہترین جہا د جابر حکمران کے سامنے  کلمۂ حق کہنا ہے۔ نبی کریمؐ نے مزید فرمایا: اگر تم میں سے کوئی کسی برائی کو دیکھتا ہے تو ہاتھ سے اسے درست کرنا چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہ کر سکتا ہو تو اسے زبان سے بُرا کہے اور اگر وہ ایسا بھی نہ کر سکے تو  وہ دل میں اس کی مذمت کرے۔ مگر آخری عمل ایمان کی کمزور ترین صورت ہے۔ (مسلم)

ان رہنما خطوط سے اسلامی نظام سیاست کی جو تصویر ابھرتی ہے وہ بالکل واضح ہے۔ مسلمانوں کے معاشرے کی بنیاد اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان سے عبارت ہے۔ اس کا سب سے بڑا ستون اللہ اور اس کے رسول پاکؐ سے وفاداری ہے۔ مسلم معاشرے میں فیصلے ان اقدار، اصولوں اور احکامِ الٰہی کے تحت ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رہنمائی اورشریعت کی صورت میں موجود ہیں۔ اس نظام میں کسی مراعات یافتہ طبقے یا پاپائیت کے لیے کوئی گنجایش نہیں۔ دنیاوی طاقت و اقتدار میں معاشرے کے تمام افراد شریک ہوتے ہیں، جو قانون کی نظر میں بالکل برابر ہوتے ہیں۔ ان سب کے حقوق اور ذمہ داریاں بھی مساوی ہیں۔ ہر فرد کے ذاتی، شہری، سیاسی، سماجی، ثقافتی  اور اقتصادی حقوق کی الوہی قوانین کے تحت ضمانت دی جاتی ہے۔ حکمرانوں کو کوئی یک طرفہ استحقاق و اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ قانون کے سامنے سب یکساں ذمہ دار اور جواب دہ ہیں۔ درحقیقت حکمرانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ ان تمام حقوق کی فراہمی کی ضمانت دیں، خصوصاً معاشرے کے کمزور افراد کے حقوق کا خاص خیال رکھیں۔ شریعت میں بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے اور کسی کو ان حقوق سے صرفِ نظر کرنے یا انھیں نظرانداز کرنے کاہرگز کوئی اختیار نہیں ہے۔ آزادی اور مساوات اسلامی معاشرے کی روح رواں ہیں۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر اس کا زندگی بھر کا مشن ہیں۔ شوریٰ (مشاورت اور فیصلوں میں شرکت) اس معاشرے کا طرزِ عمل ہے، فیصلے کرنے کا عمل ہر سطح پر اور ہر معاملے میں جاری و ساری رہتا ہے، خواہ یہ فیصلے سماجی ہوں یا اقتصادی، سیاسی ہوں یاکسی بھی دوسرے امور کے بارے میں ہوں۔ حکمرانوں کو عوام کا اعتماد حاصل ہونا ضروری ہے اور وہ عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ سیاسی اقتدار و اختیار کی بنیاد شریعت کی بالادستی، عوام کی مرضی اور عوامی اعتماد پر ہے۔ حاکم صرف خدا کے سامنے ہی جواب دہ نہیں، بلکہ وہ قانون اور عوام کے سامنے بھی جواب دہ اور قابل احتساب ہے۔ کسی بھی نوع کے سیاسی انتظامات ممکن ہیں لیکن یہ شریعت کی قائم کردہ اقدار اور اصولوں کے اندر ہی ہوں گے۔ چونکہ اسلام کی رہنمائی مکمل، قطعی، آفاقی، عالم گیر اور الوہی ہے، چنانچہ اُمّہ کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنے معاشروں کی معاشرتی و تاریخی ضروریات کے مطابق مختلف ادارے اور نظام (مشینری) قائم کریں اور انھیں ترقی دیں۔ اسلام نے سیاسی نظام کا جو ڈھانچا فراہم کیا ہے، اس کے اندر رہتے ہوئے مختلف النوع انتظامات بالکل ممکن ہیں۔ بعض ایسے انتظامات کا ماضی میں تجربہ کیا جا چکا ہے۔ آج یا کل، نئے انتظامات اور نئے تجربات روبہ عمل لانا ممکن ہے کہ یہی اسلام کی خوبی اور آزادیِ عمل کی امتیازی شان ہے۔ مسلمانوں کے تاریخی تجربات کے یہی وہ روشن پہلو ہیں، جو ۱۴ صدیوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔

مسلمانوں کے تجربات

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اپنی ذاتی زندگی میں بندے اور خداکے درمیان مضبوط روحانی رشتے کا قابلِ تقلید نمونہ پیش کیا ،بلکہ انھوں نے ایک ایسامعاشرہ، اور ایک ایسی ریاست بھی قائم کی، جو مسلمانوں کے سیاسی و تاریخی تجربات کے لیے ایک مثال اور نمونہ بنی رہی۔ بیعت عقبہ ثانی اور میثاق مدینہ نے وہ مضبوط بنیادیں فراہم کیں جن پر مدینہ کا معاشرہ اور ریاست کی تعمیر ہوئی۔ اُمّہ کی نظر میں، اسلامی سیاسی ماڈل حضور نبی کریمؐ اور ان کے بعدچاروں خلفاے راشدین  کے ادوار میں بھی پیش کیا گیا۔ اس سیاسی نمونے کے بعض نمایاں پہلو یہ ہیں:

۱- قانون کی حکمرانی اور قانون کے سامنے مساوات ، جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے۔

۲- قرآن و سنت کی بالادستی اور جو معاملات ان دونوں مآخذ کی ذیل میں نہ آتے ہوں، ان کے بارے میںاجتہاد کرنا (نئے قانونی نکات اور مسائل کے حل کے لیے شریعت کے عمومی اصولوں کی روشنی میں فیصلہ کرنے کا نام اجتہادہے)۔

مسلم قوانین کا مجموعہ’فقہ‘ ایک عوامی، جمہوری اور شعوری عمل کے تحت تشکیل پایا ہوا ہے، جس کے دوران علما اور متعلقہ اصحاب نے علمی بحث و مباحثہ، عملی مسائل و مشکلات کے ادراک اور تجزیہ اور باہم افہام و تفہیم کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کیا۔ انفرادی فتووں اور قاضیوں کے فیصلوں کے ساتھ اجتماعی بحث ونظر کے ذریعے فقہ کا یہ سنہری اثاثہ وجود میں آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی تہذیب و تمدن کی تاریخ میں اسلامی قانون، مسلمانوں کا شاید سب سے بڑا تحفہ ہے۔   اُمت مسلمہ نے اس طرح جو قانون سازی کی، اسے رضاکارانہ طور پر تسلیم کرنے اور اس کا احترام کرنے ہی سے قانون کے مختلف مکاتبِ فکر وجود میں آئے۔ یہ تاریخ کا ایک عظیم اور منفرد پہلو ہے کہ مسلم معاشرے میں رواج اور نفاذ پانے والا قانون کبھی بھی حکمران کی مرضی سے نہیں بنایا گیا، جیسا کہ دوسرے معاصر غیر مسلم معاشروں اور ثقافتوں کا دستور رہا ہے۔ اسلام کا پورا نظام قانون، سیاسی قوت و اقتدار کی غلام گردشوں سے باہر ہی ارتقا پذیر ہوا۔ اہلِ علم و تقویٰ کے بنائے ہوئے اس قانون کے نفاذ کے بعد حکمران بھی ایک عام آدمی کی طرح اس قانون کے پابند بن گئے۔ حکمرانوں کے جابرانہ اختیارات پر اسلامی قانون ایک زبردست تحدید ثابت ہوا، اور اسی کی بنا پر مسلمان معاشروں میں ایسی سیاست روبہ عمل آئی، جس میں سب لوگ واقعی شریک تھے۔

جان ایل ایسپوزیٹو اور جان وول نے اپنی (مشترکہ) تصنیف اسلام اور جمہوریت میں لکھا ہے: ’’مشرق میں مطلق العنانی کا جو تصور عرصہ دراز سے موجود ہے، اس میں طاقت اور اقتدار کی تقسیم یا حکمران کے اختیارات پر قدغن کا کوئی تصور نہیں۔ لیکن قدیم مسلم معاشروں میں اس نوع کے غیر محدود اختیارات کا کوئی وجود نہیں ملتا۔ یہ صورت احوال سیاسی ڈھانچے کے بارے میں اسلامی قانون اور حقیقی تاریخی تجربات دونوں میں پوری طرح موجود ہے۔ اسلامی معاشرے میں کسی خلیفہ یا حکمران کے احکام یا قواعد سے نہیں، بلکہ مسلم علما کے درمیان اتفاقِ راے سے قوانین مرتب کیے جاتے تھے۔ کوئی حکمران، قانون سے بالاتر تصور نہیں کیا جاتا تھا اور تمام حکمرانوں کا احتساب بھی قانون کے مطابق کیا جاتا تھا‘‘۔ ۱۶

۳- ہرسطح پر سیاسی قیادت کے اسلامی قانون کے ارتقا اور نفاذ کے اس منفرد پہلو کا ذکر اور مختلف فیصلوں کے لیے شورائی نظام سے استفادہ کیا جاتا تھا۔ پہلے چاروں خلفاے راشدین کا انتخاب (مسلمانوں کی) جمعیت ہی نے کیا تھا، اگرچہ انتخاب کا طریق کار اور پھر اس کی توثیق کا طریقہ مختلف تھا۔ اس انتخاب میں مشترکہ اصول عوام کی منظوری اور ان کا اظہارِ اعتماد ہی تھا اور   خلفا عوام کے سامنے جواب دہ تھے۔ جب عوام کے مشورے اور معاونت سے انتخاب کا طریقہ ترک کردیا گیا اور خاندانی حکومت کا طریقہ در آیا تو بھی بیعت (عوام کی طرف سے حکمران کی قبولیت)کا تصور موجود رہا۔ نصیحت، شوریٰ ، اختلافِ راے، امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور احتساب کے ادارے ہر دور میں، مختلف النوع طریقوں سے اہم کردار ادا کرتے رہے۔

۴- انسانی حقوق اور عوام سے کیے گئے وعدوں، خصوصاً اقلیتوں، ہمسایہ ممالک اور دوست جماعتوں، قبائل وغیرہ کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر پوری طرح عمل کیا گیا۔ یہ عمل مسلم سیاست کا مستقل عنوان رہا۔

۵- مسلمانوں کے حکومتی تجربے میں انتظامیہ سے عدلیہ کی علیحدگی، اور ہر سطح پر عدلیہ کی مکمل آزادی ایک نمایاں پہلو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قانون کی حکمرانی اور ایوانِ عدل تک ہر شخص کی آسانی کے ساتھ رسائی مسلم معاشروں کا جزو لاینفک رہی ہے۔ اسی وجہ سے ، بڑی حد تک، مسلم مملکتوں میں من مانی حکمرانی کے مظالم سے لوگ محفوظ رہے۔ اقتدار اور اختیارات کی علیحدگی کا اصول جو خلفاے راشدینؓ کے ادوار میں شروع ہوگیا تھا۔ بعد کے ادوار میں بھی قائم رہا اور اس نظام میں بعض خرابیاں دَر آنے کے باوجود قائم رہا۔ آئین، یعنی اسلامی شریعت کی بالادستی مسلمانوں کی حکمرانی کا ناگزیر حصہ رہی۔

پروفیسر ایسپوزیٹو اور پروفیسر وول نے اس کے ایک اہم پہلو کا سلطنت عثمانیہ کے  حوالے سے ذکر کیا ہے۔ شاہی نظام سے منسلک علما کا یہ حق تسلیم شدہ تھا کہ وہ سلطان کے کسی بھی ایسے حکم کو کالعدم قرار دے سکتے تھے جسے وہ اسلامی قانون کے مطابق درست تصور نہیں کرتے تھے۔ اگرچہ اس اختیار کا استعمال، سیاسی وجوہ کی بنا پر ، عام نہیں تھا۔ سلطنت میں علما کے نظام کا سربراہ،  شیخ الاسلام، اسلا م کے بنیادی قوانین کی خلاف ورزی کے جرم میںسلطان کی معزولی کا حکم جاری کرسکتا تھا۔ اگرچہ یہ اختیار کم کم ہی استعمال کیا گیا، تاہم سلطان ابراہیم (۱۶۴۸ئ) سلطان محمود چہارم (۱۶۸۷ئ) سلطان احمد ثالث (۱۷۳۰ئ) اور سلطان سلیم ثالث (۱۸۰۷ئ) کو ان کے ادوار کے شیخ الاسلام نے معزول کیا تھا۔ ان رسمی کارروائیوں سے حکمران کے اختیارات کی تحدید اور یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ علما ہی اسلامی آئین کے نمایندہ تھے ۔ اس سے اسلامی ورثے میں اختیارات کی مکمل اور موثر علیحدگی کا بھی اظہار ہوتا ہے۔۱۷

۶- مسلم تجربے کا ایک اہم پہلو سماجی تحفظ سے تعلق رکھتا ہے ۔جس کی بنیاد زکوٰۃ ، صدقات، وقف، انفاق، وصیت، وراثت کے تحت ترکہ چھوڑنا اور ہبہ ہے۔ اس سے مسلم معاشرے میں انسانی مساوات پر مبنی سماجی و اقتصادی نظام روبہ عمل آیا ۔جس کے باعث معاشرے کے تمام افراد کے لیے باعزت زندگی گزارنے کی سبیل پیدا ہو گئی۔ معاشرے کا اقتصادی نظام ایسا تھا کہ مستضعفین اپنے پائوں پر کھڑے ہو گئے اور سیاسی و اقتصادی عمل میں حصہ لینے لگے۔

۷- مسلم تجربے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں انفرادی اور اجتماعی طور پر اختلاف اور مخالفت کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس عمل کو کوئی اجنبی چیز تصور نہیں کیا گیا۔ ہاں، اختلاف اور فتنے میں فرق ضرور روا رکھا گیا۔ یہ بات بے حد اہم ہے کہ اسلامی قانون کے بعض اہم مکاتب فکر میں، بعض مخصوص صورتوں یا مواقع پر، پہلے سے معروف شرائط کے تحت، اختلاف بلکہ مسلح بغاوت (خروج) تک کو بھی جواز بخشا گیا ہے۔ پروفیسر ایسپوزیٹو اور پروفیسر وول تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن و سنت کی حتمی اور مطلق اتھارٹی کے باعث پوری اسلامی تاریخ میں موجود حالات پر نقد و جرح کی بنیاد فراہم ہوئی۔ اسلامی بنیاد پر مخالفت کی تحریکوں، اصلاحات اور تجدید کے عمل کو اسی بنیاد پر جواز اور وجوب ملا۔ دورِحاضر میں یہی خوبیاں آئین و دستوریت کی بنیاد بن سکتی ہیں جوریاست کی تعریف اور حزب اختلاف کو تسلیم کیے جانے کا جواز پیش کرتی ہیں۔۱۸

یہ سات اصول اسلامی حکمرانی کی بے مثال روایات کا مظہر ہیں اور اس بات کی طرف بلیغ اشارہ کرتے ہیں کہ اسلام کے تحت جمہوری حکمرانی کا ایک جداگانہ اور عمدہ نمونہ وجود میں لایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ یہ رہنما اصول عصرِحاضر کی دنیا میں اسلامی جمہوری ماڈل وجود میں لانے کے لیے تحرک اور رہنمائی کا بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔(جاری)


حواشی

۱-  فرانسس یوکوہاما ، The End of History and the Last Man ،(نیویارک، ۱۹۹۳ئ)

۲- سیموئل پی ہن ٹنگٹن The Clash of Civilizations? ،جریدہ فارن افیرز، ج ۷۲، شمارہ ۳ (موسم گرما ، ۱۹۹۳ئ،ص ۲۲-۴۹)۔ اسی طرح ’تہذیبوں کے تصادم‘ پر مباحثے کے لیے دیکھیے: جریدہ فارن افیرز، ج ۷۲، شمارہ ۴ اور ۵۔ ہن ٹنگٹن  کی کتاب The Clash of Civilization and the Remaking of World Order   (نیویارک، ۱۹۹۶ئ)

۳- ڈبلیو بی گیلی Philosophy and the Historical Understanding (لندن، ۱۹۶۴ئ)، ص ۱۵۸۔

۴- انسائی کلوپیڈیا آف اسلام

۵- رچرڈ جے کامقالہ ’ڈیموکریسی‘ Political Ideologies: An Introduction مرتبہ: رابرٹ اکلیشل، (لندن ، ۱۹۹۴ئ)، ص ۱۲۴۔

۶- انسائی کلوپیڈیا آف سوشل سائنسز، ج ۳، (میک ملن) ، ص ۱۱۳-۱۱۸

۷- تھامس کیروتھرز ،  Democracy without illusion مجلہ، فارن افیرز، (جنوری ۱۹۹۷ئ)، ص ۹۰۔

۸- سی بی میک فرسن ،  The Real World of Democracy (اوکسفرڈ ، ۱۹۹۶ئ)

۹- ’’آج اگر جمہوریت کے تحفظ کی بات کی جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم ایک ایسی بات کا دفاع کر رہے ہیں جسے ہم جانتے ہیں اور جو اگرچہ عشروں اور صدیوں پر محیط ایک حقیقت ہے مگر ایک خود فریبی اور دھوکا ہے۔ اصول یا ضابطے کا تعین کیا جاناچاہیے۔محض روایتی اداروں کے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ اس بات کے پیش نظر کہ قوت کا منبع کہاں ہے اور کس طرح سے اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں جمہوریت ایک متنازع مسئلہ (matter of degree ) ہے۔اگر جمہوریت کے کسی اعلیٰ پیمانے پر پرکھا جائے تو آج کچھ ممالک دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ جمہوری ہیں لیکن کوئی بھی مثالی جمہوری نہیں ہے‘‘۔ (ای ایچ کار،The New Society  لندن، میک ملن، ۱۹۵۱ئ،ص ۷۶)۔

۱۰- انتھونی اربلاسٹر Democracy (اوپن یونی ورسٹی، ۱۹۹۴ئ) ، ص ۹۶۔

۱۱- ایضاً، ص  ۹۶۔

۱۲- ایضاً، ص ۹۷۔

۱۳- ایضاً، ص ۹۸۔

۱۴- ایضاً، ص ۹۸۔

۱۵- ایضاً، ص ۱۰۰

۱۶- جان ایسپوزیٹو، جان وول، Islam and Democracy (نیویارک،  ۱۹۹۶ئ) اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ص ۴۱۔

۱۷- ایضاً ، ص ۴۸-۴۹۔

۱۸- ایضاً،  ص  ۴۱۔

مغربی جمھوریت اور اسلامی شوریٰ : ایک موازنہ

مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں بہتر ہوگا کہ دونوںنظاموں کے درمیان بعض بنیادی اختلاف اور فاصلوں کا تعین کر لیا جائے اور ایسے شعبوں اور مشترکہ امور کی بھی نشان دہی کر لی جائے جن میں ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

اسلام کی حکمت عملی بے مثال ہے۔ اسلام انسان کو، اس کے روحانی اور اخلاقی وجود اورشخصیت کو مرکز بناتا ہے۔ یہ ہر فرد کی ، مرد ہو یا عورت، روحانی بالیدگی، اخلاقی ترقی اور سعادت کی زندگی ہی اسلامی نظام کا اصل مقصد رہے۔ تبدیلی کا عمل فرد کے اپنے کو تبدیل کرنے سے داخلی سطح پر شروع ہوتا ہے۔ اس کا آغاز ایک فرد میں اخلاقی حس بیدار ہونے سے ہوتا ہے جو ایک باکردار اور منصفانہ معاشرے کے قیام میں اپنا کردار ادا کرتا یا کرتی ہے۔ مسلم اُمّہ ایک عالم گیر برادری ہے۔ اسی وسیع تر اُمّہ میں چھوٹے گروپ، بستیاں اور ریاستیں بھی ہو سکتی ہیں، اس کے باوجود وہ سب ایک ہی تسبیح کے دانے ہیں۔ اسلام ایک ایسے مہذب معاشرے کی تعمیر کرتا ہے، جو صحت مند اور فعال اداروں سے عبارت ہوتا ہے۔ ریاست انھی اداروں میں سے ایک ہے۔ یہ نہایت اہم اور کئی اعتبار سے دوسرے سب اداروں سے بلند تر ہے لیکن یہ واضح رہے کہ اسلام میں سب سے بالا ادارہ اُمت مسلمہ کا ہے اورباقی سب ادارے ہر ہر مسلمان (فرد) کی تقویت کے ساتھ اُمت مسلمہ کے استحکام کے ستون ہیں۔

اسلامی معاشرے کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی اصولوں میں مکمل ہم آہنگی ہوتی ہے اور یہ سب مل کر ایک ایسے معاشرے کی تخلیق کرتے ہیں جو نظریاتی سطح پر توحید و ایمان، اتباعِ سنت، فکری یگانگت اور عدل اور احسان کے حسین امتزاج کا مظہر ہوتا ہے۔ یہ معاشرہ انسانی مساوات، اخوت، باہمی تعاون، سماجی ذمہ داری، انصاف اور سب کے لیے مساوی مواقع کی روایات کے خیر سے تعمیر کیا جاتا ہے۔ یہ قانون کا پابند معاشرہ ہوتا ہے جس میں ہررکن کے حقوق اور فرائض، جن میں اقلیتوں کے حقوق بھی شامل ہوتے ہیں، کا احترام کیا جاتا ہے۔ ریاست کا مقصد معاشرے کے ہر رکن کی خدمت اور انسانوں کے درمیان عدل کا قیام ہے۔ اسلامی معاشرے میں آمریت، جوروجبر اور استبدادی مطلق العنان حکومت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔

اسلامی ریاست سیکولر جمہوریت سے بالکل مختلف ہوتی ہے، کیونکہ اسلامی ریاست عوام کے اقتدار اعلیٰ کے نظریہ تسلیم نہیں کرتی۔ مسلم ریاست میں اللہ تعالیٰ ہی قانون ساز ہے اور شریعت ہی ریاست کا قانون ہے۔ جو بھی نئے نئے مسائل درپیش ہوں، ان سے نمٹنے کے لیے شریعت کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے حل دریافت کیے جاتے ہیں۔ یہ بات سیکولر جمہوریت اور مسلم ریاست کے درمیان سب سے بڑا اختلاف ہے۔

جہاں تک قانون کی حکمرانی کے اصول، بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ، عدلیہ کی آزادی، اقلیتوں کے حقوق، ریاست کی پالیسیوں اور حکمرانوں کے عوام کی خواہش کے مطابق انتخاب کا تعلق ہے، اسلام اپنے دائرۂ کار کے اندر رہتے ہوئے ان سب امور کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ ان میں سے بعض امور کے متعلق اسلام اور مغربی جمہوریت کے درمیان بعض مشترکہ بنیادیں موجود ہیں اور ان تمام میدانوں میں مسلمان اپنے معاصر مغربی ممالک کے تجربات سے استفادہ کر سکتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی مسلمانوں کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن دونوںنظاموں کے قوانین کے منابع اور فطرت میں چونکہ بنیادی اختلاف ہے لہٰذا ان اساسی امور میں دونوں نظام ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں اور اپنا اپنا جداگانہ تشخص اور مزاج رکھتے ہیں۔

اسلامی ریاست میں شریعت کو بالادستی حاصل ہے۔ اس کے باوجود یہ کوئی مذہبی حکومت (تھیاکریسی) نہیں ہوتی، جیسی کہ تاریخ میں مذکور فرعونوں، بابلیوں، یہودیوں، مسیحیوں، ہندوئوں یا بودھوں کی حکومتیں گزرچکی ہیں۔

ان مذہبی حکومتوں اور اسلامی حکومت میں بنیادی فرق ہے۔ یہ مذہبی حکومتیں اگرچہ’خدائی حکومت‘ کی دعوے دار تھیں، لیکن وہ ’خدائی حکومت‘ ایک مخصوص مذہبی طبقے کی حکومت ہوتی تھی،جس کے حکمران کا ہر لفظ قانون تھا، جسے نہ تو کوئی چیلنج کر سکتا تھا اور نہ اس کے خلاف آواز بلند کر سکتا تھا۔ مگر اسلام میں ایسا کوئی حاکم مذہبی طبقہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی اقتدار اعلیٰ کا مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے اور جواس کی مرضی ہے، وہ قرآن و سنت کی صورت میں موجود ہے۔ شریعت کا سبھی کو علم ہے۔ یہ کوئی ایسا خدائی راز نہیں ہے جس کاعلم صرف پادریوں کی طرح صرف مفتی یا مذہبی رہنما کو ہو۔ اسلام میں ایساہرگز کوئی امکان نہیں کہ لوگوں کا کوئی گروہ دوسروں پر اپنی ذاتی مرضی ٹھونس سکے یا اللہ کے نام پر دوسروں پر اپنی ترجیحات کو نافذ کر سکے۔ اسلامی نظام میں قوانین کھلے بحث و مباحث کے بعد ہی تشکیل دیے جاتے اور نافذ کیے جاتے ہیں۔ سب لوگ اس عمل میں شریک ہوتے ہیں۔

ان دونوں نظاموں کے درمیان اختلافات مختصراً یہ ہیں:

ا -  شریعت جو اللہ تعالیٰ کی مرضی اوررضا کی حامل اور اس کا مظہر ہے، بالکل اصل صورت میں محفوظ اور موجود ہے۔ اس میں کسی نوع کی کوئی آمیزش نہیں ہوئی اور نہ بدلے ہوئے حالات میں کسی تبدیلی یا کسی کی مداخلت سے اس میں کوئی تبدیلی ممکن ہے۔

ب- اسلام میں مذہبی متوسلین کا کوئی طبقہ نہیں اور محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ترجمان ہے۔ اللہ کی رہنمائی مکمل ہو چکی، اب یہ اُمّہ کا کام ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کو سمجھیں، اس کا ادراک کریںاور انسانی معاشرے کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اس پر عمل پیرا ہوں۔

ج- فرد معاشرے کا بنیادی عنصر ہے۔ اسلام، فرد کی آزادی، قانون کی حکمرانی ، مخالفانہ آرا اور مخالفوں کی توقیر کی ضمانت خود دیتا ہے۔ اہل دانش اور عوام آزادی کے ساتھ اپنے مسائل پر بحث مباحثہ کر سکتے ہیں اور باہم مشاورت کے ذریعے ان کا حل نکال سکتے ہیں۔ پوری اسلامی فقہ ایک ایسے عمل کے ذریعے فروغ پذیر ہوئی ہے، جس کے دوران اُمّہ اور اس کے نمایندوں نے عام بحث مباحثہ میں حصہ لیا۔ اسلامی ریاست اور معاشرے کا انسانوں کی طبیعی اور دنیاوی مشکلات و مسائل سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور وہ انصاف اور سماجی بہبود کے اصولوں کے مطابق ان مشکلات و مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔

بلاشبہہ جسے زندگی کا سیکولر (دنیاوی) حصہ کہا جاتا ہے اس سے اسلام اور مسلمانوں کا تعلق ہے لیکن اسلامی اور سیکولر رویوں میں ایک بنیادی فرق ہے۔ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ دنیا کی ساری زمین میرے لیے مسجد کی مانند ہے۔ چنانچہ اسلام کا دنیا کے تمام حصوں، علاقوں سے گہرا تعلق ہے۔ اسلام نہ شرقی ہے اور نہ غربی، بلکہ صحیح معنوں میں ایک عالم گیر اور آفاقی نظام ہے۔ اسلامی نظام انسانی زندگی کے تمام روحانی اور دنیاوی معاملات پر محیط ہے۔ اس حد تک اسلام کاسیکولرزم سے کوئی تنازع نہیں ہے۔ مغرب میں سیکولرزم کے غلبے کی وجہ مذہب کا سیکولر معاملات سے لاتعلق ہوجانا اور دنیاوی زندگی کو شیطانی قوتوں کے حوالے کر دینا تھا۔ یہ پوری تحریک دراصل ان مذہبی روایات کا رَدّعمل تھی جن کی رو سے سیکولر دنیا کو نظرانداز کیا گیا اور اپنا دائرہ عمل کو صرف روحانی دنیا تک ہی محدود رکھا گیا تھا۔

اسی طرح سیکولرزم کی تحریک کو تقویت دینے والا ایک دوسرا سبب مذہبی عدم رواداری تھی جس میں جبر کے ذریعے ایک مذہب بلکہ ایک فرقے کے نظریات کو دوسرے تمام فرقوں پر مسلط کیا جاتا تھا اور ایک سے زیادہ نقطہ ہاے نظر کو کفر اور بغاوت قرار دیا جاتا تھا۔ اس کے برعکس اسلام تکثیر (pluralism) اور رواداری کے اصول کو تسلیم کرتا ہے (قرآن حکیم کا ارشاد ہے: ’’دین میں کوئی جبر نہیں)۔ تمام انسانوں کو پیشہ اور مذہب کے معاملے میں انتخاب کا حق دیتا ہے۔ اسلام ثقافتی کثرت اورکسی بھی سماج کے اندازِ حیات کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ سب کچھ اسلام کے منشا کے مطابق ہے۔

سیکولرزم سے اسلام کا بنیادی اور جوہری اختلاف اس کے اس دعوے کے باعث ہے کہ سیکولرزم، مذہب سے کسی نوع کے تعلق، اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی اور مطلق اخلاقی اقدار کے بغیر تمام انسانی مسائل کا حل پیش کرتا ہے، یہ بات زندگی کے بارے میں اسلامی رویے کے بالکل برعکس ہے۔ انھی وجوہ کی بنا پر اسلام اور سیکولرازم، دو بالکل مختلف دنیائوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔

اگرچہ اب کمیونزم اور فاشزم کوئی غالب سیاسی نظریات نہیں رہے، لیکن ایسے لوگ آج بھی موجود ہیں جو ان دونوں نظریات کے مختلف پہلوئوں سے اتفاق رکھتے ہیں۔ یہ دونوں نظریات مغربی تہذیب و تمدن کے تناظر میں بعض تاریخی اور سماجی و سیاسی حالات کی پیداوار ہیں۔ ان کی تہ میں ریاست کی مطلق العنانیت کا تصور کارفرما رہا ہے۔ مگر یہ دونوں نظریات بھی مختلف النوع آمریت کے ہی نمایندہ تھے اور ان کے تحت بھی مطلق العنان حکومت ہی قائم ہوتی رہی۔ اگرچہ ان دونوں نظاموں میں انتخابات اور پارلیمنٹ کے قیام کاڈھونگ بھی رچایا جاتا رہا۔

اسلام میں یک طرفہ یا مطلق العنان اقتدار کا کوئی تصور نہیں۔ اسلام میں ریاست تو اُمت کا ہی ایک ادارہ اور شعبہ ہوتا ہے۔ وہ فرد کی مرکزیت، اس کے حقوق اور سیاسی فیصلوں میں فرد کے کردار کی توثیق کرتا ہے۔ اسلامی ریاست، قانون کی تخلیق ہوتی ہے۔حکمران، ریاست کے دوسرے شہریوں کی طرح ہی قانون کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی ریاست اپنے عمال اور کارپردازوں کو وہ خصوصی مراعات اور تحفظات بھی فراہم نہیں کرتی جو کئی مغربی ملکوں کے عمال کو عام طور پر حاصل ہوتی ہیں۔

اسلام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض کردہ مقدس امانت ہیں۔ فرد کو معاشرے کی بنیادی اکائی اور ایک پاک باز مخلوق تصور کیا جاتا ہے، جو اپنے اعمال کے لیے آخرکار اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ ہر انسان ایک قابل احترام وجود ہے اور اخلاقی طور پر اپنے تمام اعمال اور پسند و ناپسند کے لیے دنیا اور آخرت میں بھی جواب دہ ہے۔ فرد کو معاشرے میں عقل و دانش اور سماجی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ اپنا رویہ متعین کرنا ہوتا ہے، لیکن وہ ریاست کی مشین کا کوئی بے جان پرزہ نہیں ہوتا۔ اس اعتبار سے اسلام کے سیاسی نظم اور ہمارے دور کے مطلق العنان اور آمرانہ نظاموں کے درمیان بے حد فرق ہے۔

اسی تقابلی تجزیے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اسلام کا سیاسی نظام ، دوسرے سیاسی نظریات کی بعض باتوں میں مماثلت اور مشابہت کے باوجود، بے مثال ہے۔ اسلام، اساسی اعتبار سے ایک مکمل نظام ہے۔ اس کا مقصد ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جس میں رہتے ہوئے ایک اچھے اور نیک انسان کو یہ محسوس نہ ہو کہ وہ تو کسی اجڈ معاشرے میں پھنس گیا ہے یا انسانوں کو یہ احساس نہ ستائے کہ وہ تو جانوروں کے کسی باڑے میں دھکیل کر بند کر دیے گئے ہیں۔ اسلام تمام انسانوں کی ذہنی اور مادی نشوونما، ساتھ ساتھ، چاہتا ہے تاکہ انسان امن اور انصاف کے ساتھ زندگی گزارسکیں۔ زندگی کی اعلیٰ اقدار و نظریات کی پرورش کر سکیں، جن کے نتیجے میں وہ اس دنیا اور پھر آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور الوہی سعادت کے حق دار ٹھہرسکیں۔ اسلامی ریاست ایک نظریاتی، تعلیمی اور مشاورتی بنیادوں پر مبنی ریاست ہوتی ہے جو ایک ایسا سماجی و سیاسی ڈھانچہ فراہم کرتی ہے جس میں حقیقی جمہوریت پھل پھول سکتی ہے۔ اس میں ایک طرف مستقل اقدار کا دائمی فریم ورک ہے جس میں پوری سیاسی اور اجتماعی زندگی مرتب ہوئی ہے تو دوسری طرف اجتہاد کے ذریعے وقت کی بدلتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کابھرپور سامان ہے۔

مجھے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کہ مسلمان اپنی تاریخ میں اس نظریے پر مکمل طور پر عمل کرسکے ہیں۔ بلاشبہہ خلافت راشدہ اس کا عملی نمونہ اور ایک مکمل paradigm کا مظہر تھا مگر بعد کے ادوار میں اصل ماڈل سے انحراف اور انحراف کے بعد اصل کی طرف مراجعت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا ہے۔ البتہ اصل ماڈل ہی تمنائوں کا محورو مرکز رہا ہے اور آج بھی اسی آورش کی روشنی میں تعمیرنو کی جدوجہد مطلوب ہے۔

احیاے اسلام اور جمھوریت

معاصر مسلم دنیا کو، تاریخ میں پہلی بار، ایک منفرد چیلنج کا سامنا ہے۔ مسلمانوں کو اقتدار اور بالادستی حاصل نہیں رہی اور پوری مسلم دنیا نوآبادیاتی حکمرانوں کے پائوں تلے دبے ہوئی ہے۔ نوآبادیاتی اور سامراجی غلبے کی اس طویل، اندھیری رات کے دوران، جو تقریباًدو صدیوں پر محیط ہے، مسلمانوں کو ذہنی، اخلاقی، معاشی اور ثقافتی طور پر بھی سخت نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ اس طویل ابتلا کا بدترین نقصان یہ ہوا کہ وہ اسلامی ادارے بتدریج ٹوٹ پھوٹ اور انحطاط کا شکار ہو گئے، جن کے باعث مسلم دنیا تقریباً ۱۲ صدیوں تک اپنے پائوں پر کھڑی رہی اور اندرونی و بیرونی چیلنجوں کاکامیابی سے مقابلہ کرتی رہی۔ سامراجی حکومتوں کے ادوار میں ہی مغرب سے درآمدشدہ کئی ادارے اسلامی مملکتوں میں رائج کیے گئے۔ اسے دوسروں کو نام نہاد تہذیب سکھانے کے مشن کاحصہ  (white man's burden) قرار دیا گیا لیکن درحقیقت یہ سامراج کا بدترین استحصالی عمل تھا۔ چنانچہ اس استحصال کی وجہ سے قانون، عدلیہ، معیشت، تعلیم، انتظامیہ، زبان و ادب، فنون لطیفہ، فن تعمیر غرض معاشرے کے تمام عناصر کو زبردستی مغربیت کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی گئی۔

نوآبادیاتی ، سامراجی نظام کے دوران مسلم معاشرے کے اندر سے ایک نئی قیادت پیدا کی گئی، جسے مورخ آرنلڈ ٹائن بی نے ’بابو کلاس‘کا نام دیا ہے۔ یہ لوگوں کا ایک ایسا طبقہ تھا جس کی جڑیں اپنے مذہب، ثقافت اور تاریخ میں نہیں تھیں اور جس نے نوآبادیاتی حکمرانوں کے سائے میں اپنا نیا تشخص بنانے کی کوشش کی۔ اس طبقے نے نہ صرف حکمرانوں کی اقدار اور اخلاقی طرزِ عمل اپنانے کی سعی کی، بلکہ مقامی اور بیرونی مفاد پرستوں سے مل کر حکمرانوں کے مفادات کا تحفظ بھی کیا۔ غیر ملکی غلامی سے نجات کے لیے عوامی تحریک بنیادی طور پر، آزادی کے تصور اور ایمان کی قوت سے عبارت تھی۔ مسلم دنیا میں نیشنلزم کی قوتوں نے بھی اسلامی تشخص قائم کر لیا تھا لیکن اس  ’بابو طبقہ‘ اور اس کے زیراثر حلقوں نے مغربی اقدار کو ہی حرزِ جاں بنائے رکھا اور شعوری یا غیر شعوری طور پر سامراجی قوتوں کے ایجنٹوں کا کردار ادا کیا(۲۱)۔ آزادی کے بعد، ان ملکوں میں قیادت بڑی حد تک اسی مغرب زدہ قیادت کے ہاتھ میں آئی یا لائی گئی جن کی سیاسی تربیت بھی سامراجی دور میں ہوئی تھی۔ اس قیادت کا تعلق مغرب کی ثقافت اور ان کے سیاسی عزائم سے ہی برقرار رہا۔ یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ عالم اسلام میں صرف سرحدوں کا تعین ہی غیر ملکی سامراجی آقائوں نے نہیں کیا تھابلکہ نئے ادارے اور نئی قیادت بھی سامراجی دور کی ہی پیداوار تھی۔عالم اسلام میں اس وقت جو بحران اور بے اطمینانی محسوس کی جا رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہی صورت احوال ہے۔

احیاے اسلام اور سیاسی عمل میں عوامی شرکت اور ان کے ذریعے تبدیلی کا عمل جو جمہوریت کی روح ہے ایک ہی صورت حال کے دو پہلو ہیں۔ اقتدار میں موثر عوامی شرکت اور اسلامی تصورات کے مطابق معاشرہ، نیز مسلم سیاست کی تشکیل نو بھی اسی عمل کا حصہ ہیں۔ یہ کام صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ عوام اور حکمرانوں کے درمیان باہمی اعتماد، ہم آہنگی اور تعاون موجود ہو۔ لیکن جن حکمرانوں نے سامراجی آقائوں سے ہی اقتدار کی وراثت پائی ہے ان کی اور عوام کی نظریاتی،اخلاقی اور سیاسی سوچ ایک جیسی نہیں ہے۔ حکمران معاشرے اور اس کے اداروں کو مغربی اقدار و نظریات اور مغرب کے نظریاتی نمونوں، سیکولرزم ، قوم پرستی، سرمایہ داری اور نوآبادیاتی نظم کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے ’زیرتسلط‘ ملکوں میں ایسے قوانین، ادارے اور پالیسیاں روبہ عمل لانا چاہتے ہیں جو مغربی نمونوں سے اخذ کی گئی ہیں مگر عوام یہ سب کچھ اپنے ایمان (معتقدات) اقدار اور امنگوں کے منافی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر حصولِ آزادی کے باوجود حکومتی نظام بعض استثنائوں کے ساتھ جابرانہ اور مطلق العنانیت پر مبنی رہا۔

تاریخ کا سبق تو بڑا ہی واضح ہے اور وہ یہ کہ: مسلمان ممالک کو سیکولر مملکت بنانا اور مغربی رنگ میں رنگنا، یک طرفہ اور جابرانہ قوت کے بغیر ممکن نہیں۔ اقتدار میں عوام کی شرکت اور حصے پر مبنی حقیقی جمہوری نظام اور اسلام میں کوئی عدم مطابقت نہیں۔ اس کے برعکس عوام کی آزادی، بنیادی حقوق، اقتدار میں عوام کی شرکت پر مبنی جمہوریت اور اسلامی نظام فطری حلیف ہیں۔ اصل تصادم تو عوام کی اسلامی امنگوں اور حکمران طبقے کے سیکولر مغربی نظریات اور پالیسیوں کے درمیان ہے۔ چنانچہ مسلمانوں پر جابرانہ اور استبدادی قوت کے بغیر غیر اسلامی نظریات و تصورات اور قوانین مسلط نہیں کیے جا سکتے۔ اصل تضاد ان دونوں (اسلامی اور مغربی) تصورات میں ہے اور حقیقی جمہوریت مغربی سیکولر بلڈوزر کا پہلا شکار ہے۔ امریکا کے ایک ماہر عمرانیات فلمر ایس سی نارتھ روپ (F.C. Northrop) نے گہرے شعور کے ساتھ کہا ہے: ’’مجھے یقین ہے کہ یہی وجہ ہے جو اس قسم کے (مثلاً سیکولر) قوانین عام طور پر پہلے آمر حکمران ہی نافذ کرتا ہے۔ ایسے قوانین کسی عوامی تحریک کا نتیجہ تو ہو نہیں سکتے کیونکہ عوام تو پرانی روایات کے حامل ہوتے ہیں‘‘(۲۲)۔

پروفیسر ویلفرڈ کینٹ ول اسمتھ نے پاکستان کی صورت حال کے حوالے سے نہایت دل چسپ بات کہی ہے: ’’ایک مشرقی ملک کی حیثیت میں کوئی مملکت جب صحیح معنوں میں جمہوری مملکت بن جاتی ہے تو وہ اپنی فطرت کا اظہار کرتی ہے، چنانچہ وہ جتنی جمہوری ہو گی، اتنی ہی مغربی رنگ سے دُور ہوتی چلی جائے گی… یہاں تک کہ اگر پاکستان ایک حقیقی جمہوری ملک ہو، محض دکھاوے کا نہیں، جس حد تک وہ جمہوری ہو گا اسی حد تک اسلامی بھی ہوگا، مغربی نہیں‘‘(۲۳)۔

کینٹ ول اسمتھ نے تو بڑے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ اسلام کے بغیر جمہوریت محض ایک بے معنی نعرہ ہے جو کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ یوں جمہوریت اپنے اسلامی ہونے کے حوالے سے ان (یعنی مسلم اُمہ) کی اسلامی ریاست کی تعریف کا حصہ بن جاتی ہے(۲۴)۔

ایسپوزیٹو اوروال بھی معاصر مسلم ریاستوں کے حوالے سے اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ موجودہ دور کی مسلم ریاستوں میں دونوں رجحانات، یعنی احیاے اسلام اور جمہوریت ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور یہ ان ریاستوں کے کردار کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ وہ معاصر مسلمانوں کے ذہن کا مطالعہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

بہت سے مسلم (اسکالر) اسلامی جمہوریت کو کھول کر بیان کرنے میں سرگرمی سے مصروف ہیں۔ ان کو یقین ہے کہ عالمی سطح پر مذہبی احیا اور جمہوری عمل، مسلم ریاستوں کے تناظر میں، ایک دوسرے کی تکمیل کر رہے ہیں۔(۲۵)

حال ہی میں دواسکالروں ڈیل ایکل مین اور جیمز پسکا ٹوری نے ’مسلم سیاست‘ کے حوالے سے ایک مطالعاتی رپورٹ میں تجویز کیا ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت جمہوریت کے بارے میں جو خیالات پائے جاتے ہیںاور جو ان کی اپنی اقدار اور امنگوں کے مطابق ہیں، ان پر نئے زاویوں سے غور کیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں میں، اسلامی ریاستوں پر مغربی طرز کی جمہوریت کا پیوند لگانے کے خلاف جو نفرت پائی جاتی ہے ، اسے بھی پیش نظر رکھا جانا ضروری ہے۔ ان دونوں اسکالروں نے اپنی بات اس طرح ختم کی ہے:

مسلم سیاست کے خصوصی تناظر میں طے شدہ مثالوں پر زور نہ دینے اور ان چیلنجوں کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے، جو مستقبل قریب میں پالیسی سازوں کو درپیش ہو سکتی ہیں۔ اس ضمن میں ضروری ہے کہ صرف مغرب زدہ اشرافیہ کی بات نہ سنی جائے بلکہ بہت سی دیگر مسلم آوازوں پر بھی توجہ دی جائے۔ اس جانب پہلا قدم، یہ معلوم کرنا ہے کہ مسلمانوں میں سندجواز اور عدل کے تہذیبی تصورات کیا ہیں؟ یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ مذہبی یا غیر مذہبی منصفانہ حکومت کا تصوربھی متعین نہیں  ہے۔ مسلمانوں کے ان تصورات کی تفہیم بعض لوگوں کے اس ناروا تاثر کو دُور کرنے میں ممد ثابت ہو گی کہ دوسری اقوام کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات اکثر معاندانہ ہی ہوتے ہیں اور مسلمانوں کا طرزِ حکومت لازماً جابرانہ اور آمرانہ ہوتا ہے(۲۶)۔

اسلام اور مسلم اُمہ نے آمرانہ اور جابرانہ حکومت کو کبھی پسند کی نظر سے نہیں دیکھا۔ جہاں کہیں مسلمانوں میں آمرانہ یا استبدادانہ حکومتیں ہیں، وہ نوآبادیاتی سامراج اور مغرب زدگی کا نتیجہ ہیں۔ ان کا مسلمانوں کے تصورات، تاریخ یا مسلمانوں کی آج کی امنگوں اور آرزوئوں سے کوئی تعلق نہیں۔ مسلمان، مغرب کی سیکولر جمہوریت کو اپنے اصولوں، اقدار اور روایات سے بیگانہ تصور کرتے ہیں۔ لیکن جمہوریت کی ان شان دار روایات سے ہم آہنگی محسوس کرتے ہیں جس کا تعلق اقتدار میں عوام کی شرکت جس کے نتیجے میں انصاف کی حکمرانی، ہر سطح پر مشاورت کا عمل، فرد کے حقوق اور اختلاف کے حق کی ضمانت سے ہے ۔ وہ اس کو اشد ضروری سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی اور سیاسی ثقافت میں تکثیر کا تسلسل یقینی ہو، ان کے بارے میں ان کے اپنے تصورات اور تاریخی روایت ہے۔ چنانچہ اسلام اور جمہوریت کی اس حقیقی روح میں کوئی تصادم یا تضاد نہیں۔ بعض مسلم ممالک میں جو آمرانہ اور جابرانہ حکومتیں نظر آ رہی ہیں،وہ ان غیر ملکی اور اوپر سے بذریعہ طاقت ٹھونسی گئی روایات کا حصہ ہیں، جن کے خلاف جدوجہد میں احیاے اسلام کی قوتیں مصروف ہیں۔ اسلام اور حقیقی جمہوریت ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔ چنانچہ استبدادانہ اور جابرانہ حکومتوں کا قیام اور فروغ، ایسی حکومتیں خواہ شہری ہوں یا فوجی آمریت، منتخب شدہ ہوں یا وراثتی، یہی جمہوریت کی نفی اور بنیادی انسانی حقوق غصب کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ ایسی حکومتیں مغربیت اور لادینیت کا ثمرہ ہیں، اسلام کا نہیں۔ اسی طرح عوامی جمہوریت سے انکار اور اسے دبا کر رکھنے کا عمل اسلام کا نہیں، لادینیت اور مغرب زدگی کا ایجنڈا ہے۔ اسلامی احکام اور عوام کی مرضی، خواہشات اور امنگیں تو ایک ہی ہیں۔ جمہوری عمل یقینا نفاذ اسلام میںناگزیر پیش رفت ہے۔ اسلامی امنگوں کی تکمیل جمہوری عمل کو آگے بڑھنے سے ہی ممکن ہے۔ نوآبادیاتی دور کے بعد کے عالم اسلام کی حالیہ تاریخ میں آمرانہ نظام، سیکولرزم یاسوشلزم ایک ساتھ آگے بڑھے ہیں، جب کہ احیاے اسلام، آزادی جمہور اور اقتدار میں عوام کی شرکت ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔

نوآبادیاتی طاقتوں کے تسلط سے آزادی کے باوصف مسلم اُمہ آج بھی اپنے جمہوری حقوق، اپنی سیاست کو اپنے انداز میں آزادانہ طور پر ترقی دینے، اپنے تصورات، امنگوں اور نظریات کی روشنی میں اپنے عوام کی اقتصادی حالت بہتر بنانے اور اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے مصروف ِ جہد ہے۔ مسلم اُمہ ایسے احکام، نظریاتی جبر اور ایسے جمہوری نمونوں کے تحت زندگی گزارنے سے انکاری ہے جو اس کے دین سے متصادم ہوں، اس کی اقدار کے منافی ہوں۔ اس کی تاریخ سے لگا نہ کھاتے ہوں، اور اس کی روایات کے علی الرغم ہوں۔ اگر جمہوریت کا مطلب کسی قوم کا حق خود ارادیت اور اپنے بل پر تکمیل خودی ہے، تو یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے اسلام اور مسلمان روزِ اوّل سے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ وہ نہ تو اس سے زیادہ کچھ چاہتے ہیں اور نہ اس سے کم پر راضی ہوںگے۔


۲۱- ایچ اے آر گب، Modern Trends in Islam میں لکھتے ہیں کہ ’’نیشنلزم … اپنی مغربی توضیح میں صرف ان دانش وروں تک محدود ہے جن کا مغربی افکار سے براہِ راست یا گہرا ربط ہے۔ مگر قوم پرستی کے اس نظریے کی جب عام ذہن تک رسائی ہوئی تو اس کی ہیئت میں تبدیلی واقع ہوئی اور اس تبدیلی سے قدیم جبلی محرکات اور مسلم عوام کے قوت محرکہ کے دبائو کی وجہ سے بچنا ممکن بھی نہ تھا‘‘ ( Modern Trends in Islam شکاگو، شکاگو یونی ورسٹی پریس، ۱۹۴۷ئ، ص ۱۱۹)۔ ولفرڈ سی اسمتھ Islam in Modern History میں لکھتے ہیں: ’’مسلمانوں میں کبھی قومیت کی سوچ نے ارتقاء نہیں پایا جس کا مفہوم وفاداری یا کسی ایسی قوم کے لیے تشویش کا پایا جانا ہو، جو اسلام کی حدود کو پامال کر رہی ہو… ماضی میں صرف اسلام نے ہی لوگوں کے اندر اس قسم کے نظم و ضبط، تحریک اور قوت پیدا کی ہے‘‘۔ (Princeton N.J ۱۹۵۷ئ، ص ۷۷)۔

۲۲-  فلمر ایس- سی نورتھروپ، Colloquium on Islamic Culture (پرنسٹن، ۱۹۵۳ئ) ، یونی ورسٹی پریس، ص ۱۰۹۔

۲۳- ولفرڈ- سی اسمتھ، Pakistan as an Islamic State (لاہور، ۱۹۵۴ئ) ، ص ۵۰۔

۲۴- ایضاً، ص ۴۵۔

۲۵- جان ایسپوزیٹو ، جان وول، op.cit  ص ۲۱۔

یہ مضمون ہارٹ فورڈ سمینری امریکا کے مجلے The Muslim World  (جنوری تا مارچ ۲۰۰۰ئ) میں شائع ہوا جس کا ترجمہ جناب نذیر حق نے بڑی محنت اور خوب صورتی سے کیا ہے جس کے لیے مقالہ نگار ممنون ہے۔ صاحبِ مضمون نے ترجمہ پر نظرثانی کرتے ہوئے چند اضافے کیے ہیں۔

بہت ہی کم مسلمان ہیں جنھیں اس میں شک ہو گا کہ مسلمانوں کو اس وقت جن اہم چیلنجوں کا سامنا ہے اُن میں سے ایک مسلم معاشروں سے سامراجی دور کے اثرات کو ختم کرنا ہے۔ ان اثرات کی وسعت کی شاید ہی کبھی پروا کی گئی۔ یوسف الخبّاز نے یہاں مسلم اذہان کو استعماری اثرات سے آزاد کرانے پر گفتگو کی ہے۔ یہ ایک نقطۂ نظر کے طور پر پیش ہے۔ (ادارہ)

نوآبادیت یا سامراجیت (colonialism) کو اب عام طور سے تاریخ کا وہ عہد خیال کیا جاتا ہے جب یورپی و امریکی طاقتیں اُن سرزمینوں کو زبردستی اپنے قبضے میں لے کر ان کے مادی استحصال میں مصروف تھیں جنھیں آج تیسری دنیا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس تیسری دنیا سے اُن قوتوں نے بے پناہ دولت حاصل کی۔ مغربی طاقتوں کے ذریعے منظم لوٹ کھسوٹ اسپین سے شروع ہوئی۔ پورے امریکی براعظم میں اسپین کی مہم جوئی کی مالی سرپرستی اس مسروقہ سونے سے ہوئی تھی جو اسلامی خلافت سے چوری کیے گئے تھے، وہی اسلامی خلافت جسے اسپین نے اندلس میں دفن کر دیا۔ اسپین کے سامراج نے جلد ہی دوسری سامراجی طاقتوں کو راستہ دے دیا اور ۱۹ویں صدی کے اختتام تک دنیا کے بیش تر علاقے یورپی اور امریکی طاقتوں کے ہاتھوں نوآبادیا لیے گئے اور پھر ان کا استحصال ہوتا رہا۔

امریکا خود ایک سابق برطانوی نوآبادی تھا جو بعد میں سامراجی قوت بن گیا۔ نوآبادیانے کے پیچھے ہمیشہ سے جو لالچ کارفرما رہا ہے، وہ واضح طور سے لوٹ کھسوٹ ہے۔ اگرچہ لالچ اور  نسلی برتری کا خدشہ ہمیشہ وہاں موجود رہا اور اس کا آخری نتیجہ لوٹ کھسوٹ ہی رہا، تاہم دوسرے عوامل نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا۔ عیسائی مشنریوں کو نوآبادیت نے غیر اہلِ کتاب تک رسائی دی جو پہلے اُن کو میسر نہیں تھی۔ اس طبقے کے متعلق یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ان کا ذہن مشنریوں کے تہذیبی مشن کو قبول کرنے کے لیے پوری طرح آمادہ ہے اور وہ مغربی طرز کی عیسائیت کو اپنانے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیں گے۔ سیاحوں کے لیے ایڈونچر جسے آج سیاحت کے نام سے جانا جاتا ہے، سامراجی مقاصد کا ایک اہم جز تھا۔

درحقیقت سامراجی طاقتوں کے مختلف اوقات میں مختلف محرکات رہے ہیں۔ یہ شاید صحیح نہیں ہو گا کہ یہ تمام محرکات نوآبادیت ہی کے پس منظر میں بیان کیے جائیں جس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ تمام مختلف اوقات میں اور مختلف مقامات پر یکساں نوعیت کے حامل رہے ہیں، جب کہ حقیقی ضرورت ہے کہ نوآبادیت کا اس کے زمان و مکان کے لحاظ سے جائزہ لیا جائے۔ مثال کے طور پر جاپان نوآبادیاتی کھیل میں بہت دیر سے داخل ہوا اور اس میں اس کا انداز ذرا مختلف رہا (اگرچہ کسی طرح سے بھی کم ظالمانہ نہیں تھا)۔ جاپان کا مقابلہ دوسری نوآبادیاتی قوتوں کے ساتھ کلیدی اہمیت کا حامل ہے جسے دوسری جنگِ عظیم (۴۵۔۱۹۳۹) کا مشرقی ایشیائی تھیٹر بننا تھا۔ بیسویں صدی میں دو عظیم تباہ کن عالمی جنگوں نے حقیقتاً یورپ اور جاپان کو مسمار کر دیا تھا اور سامراجی قوتوں کو کمزور کر دیا تھا (سواے امریکا کے جو مضبوط ہوا اور اپنی سامراجی حیثیت کو ایک طویل عرصے تک برقرار رکھنے میں کامیاب ہوا)۔

ذھنی غلامی

۱۹۴۵ء کے بعد ’آزادی‘ کی تحریکوں کی ایک لہر پیدا ہوئی۔ آزادی سے عام طور سے وہ وقت مراد ہے جب سامراجی طاقتوں نے نوآبادیت کو جسمانی گرفت سے آزاد کر دیا۔ بہرحال نوآبادیاتی طاقتوں نے جسمانی گرفت کی جگہ نوآبادیاتی نظام مسلط کر دیا۔ اس ضمانت کے لیے کہ سابقہ نوآبادیوں میں صحت، تعلیم، سائنس، ٹکنالوجی، قانون اور دیگر شعبوں میں نوآزاد شدہ لوگ کوئی ایسی پیش رفت نہ کرسکیں جو سامراجی طاقتوں کے اوّلین ہدف سے مختلف ہو، اور وہ پہلا ہدف یہ تھا کہ تیسری دنیا ہمیشہ مغربی دنیا کی محتاج اور باج گزار ہے۔ جن پالیسیوں اور طرزِ زندگی کو سامراجی طاقتوں نے تیسری دنیا میں براہِ راست مسلط کیا تھا، ان کا ایک دوسری شکل میں ان ممالک میں جاری رہنے کے عمل کوہنوز ’ذہنی غلامی‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اس مضمون کا عنوان Ngugi Wa Thiongo کی کتاب Declonising the Mind (ذہن کو سامراجیت کے اثرات سے پاک کرنا)سے ماخوذ ہے۔ تھیونگو کینیا کے ایک فعّال و سرگرم ماہرِتعلیم ہیں۔ انھوں نے افریقی ادبیات کے سیاق و سباق میں نوآبادیت کی شناخت کی کوشش کی ہے اور انھوں نے مقامی زبانوں اور مقامی علوم کے احیا کے لیے بھی کام کیا ہے۔ تھیونگو ردِ اثراتِ نوآبادیت کی ایک وسیع البنیاد تحریک کے ایک اہم جز ہیں، جس کی ابتدا ۵۰ کی دہائی کے اوائل میں ہوئی اور جو ۷۰ کی دہائی کے اواخر تک سرگرم رہی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب قومی آزادی کی تحریکیں اپنے بامِ عروج پر تھیں۔ اس دور کی بہت سی اہم کتابیں اب بھی ہمارے زمانے سے مطابقت رکھتی ہیں۔ الجزائر کے ماہرِ نفسیات Albert Memmi اپنی کتاب Coloniser and the colonised میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ سامراجیت سامراج اور نوآبادی دونوں کو تباہ کر دیتی ہے اور انجامِ کار دونوں ہی اس سے خسارے میں رہتے ہیں۔ ایران کے جلال آلِ احمد کی شاہکار کتاب غرب زدگی (Westoxication) ان تمام کیفیات کو بیان کرتی ہے جس کا مشاہدہ آج ذہنی غلامی کی شکل میں کیا جاسکتا ہے۔ آلِ احمد ایران کے تناظر میں لکھتے ہیں کہ تیسری دنیا کے لوگ ایک ایسی بیماری کا شکار ہوئے جس نے انھیں مجبور کر دیا کہ وہ خود اپنی تاریخ، ثقافت، روشِ حیات اور روایات کو فراموش کر کے مغرب کے ساتھ والہانہ طریقے سے وابستہ ہو جائیں۔ اس کے علاوہ دوسری بہت سی تصانیف ہیں جو اس دور سے متعلق ہیں اور یہ سب اسی کیفیت کا تجزیہ کرتی ہیں جسے ذہنی غلامی کہا جاتا ہے۔ آج سے ۴۰سال قبل ان کتابوں میں جو کچھ بیان کیا گیا تھا، صورتِ حال آج اس سے مختلف نہیں ہے، بلکہ بعض پہلوئوں سے مزید ابتر ہوچکی ہے۔ (دیکھیے: Multiversity Group کی ویب سائٹ groups.msn.com/multiversity )

ذہن کو غلامی کے دور کے اثرات سے نکالنا ہر اُس شخص کے لیے اہم ہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ نوآبادیت تیسری دنیا (جس میں مسلم دنیا بھی شامل ہے) کے مفاد میں کسی طرح سے بھی نہیں ہے۔ بہرحال ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنھیں برطانوی، امریکی یا دیگر سامراج سے کوئی شکایت نہیں ہے، اس لیے اُن کے لیے یہ ساری بحث ناقابلِ فہم ہے۔ سامراج کی کامیابی کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس نے مقامی اشرافیہ کے ساتھ مل کر کام کیا اور آزادی کے بعد کے دور پر  اپنی گرفت اس طرح مضبوط کی جیسے وہ مقامی لوگوں کے مفادات کے محافظ ہیں۔ چنانچہ یہ پورا طبقۂ اشراف سامراج کے مفادات کی حفاظت میں لگا رہا جو ماضی کی طرح اپنی سابقہ نوآبادیات میں بھی لوٹ مار مچاتا رہا۔ چونکہ مقامی طبقۂ اشراف کو بھی سامراج کی اس لوٹ کھسوٹ سے حصہ ملتا رہا، لہٰذا اُن کے لیے سامراج سے آزادی حاصل کرنے میں کوئی کشش نہیں تھی۔ لیکن آج جب ایک آدمی دنیا کے اطراف پر نظر ڈالتا ہے تو ردِ نوآبادیت کی ایک دوسری لہر کا مشاہدہ کرتا ہے جس نے مغرب کے لیے مشکل سوالات کو جنم دیا ہے، اگرچہ اس نے اپنے آپ کو ’ترقی‘ اور ’تہذیب‘ کے علَم بردار کے بہروپ میں پیش کیا ہے۔

مغرب نے حقیقتاً جو کچھ کیا ہے، وہ یہ ہے کہ ایک ایسا نظام اختراع کیا جو تیسری دنیا پر  اس کے تسلّط کو یقینی بنائے۔ نوآبادیاتی نظام نے مقامی ثقافتوں اور مقامی طرزِ زندگی، نیز مقامی علم و ہنر کو تباہ کر دیا جن میں زراعت، طب، پیداواری صلاحیت اور تعلیم سبھی شامل تھے۔ تیسری دنیا کے لوگ آج اس چیز کو چیلنج کرنے کی فکر میں ہیں جس نے ان کے دیسی نظاموں کی جگہ لے لی ہے اور خود اپنے منفرد علمی نظام کی ازسرِ نو تشکیل کے لیے راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ کوئی نئی تحریک نہیں ہے۔ ردِ نوآبادیت کی تحریک دنیا میں اگرچہ آج جاری ہے لیکن اس تحریک کا آغاز بہت طویل عرصہ پہلے ہوا۔ نوآبادیت مزاحم تحریک مقامی استعداد و صلاحیت کی جانب مراجعت کی تحریک ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس گلوبلائزیشن کے دور میں کوئی چیز مکمل طور سے مقامی نہیں ہوسکتی، لہٰذا ایک وسیع تر تناظر کو بھی پیشِ نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ درحقیقت جسم و ذہن کی آزادی کی ابتدا کے لیے قومی حکومتوں اور قومی آزادی کے دامِ تزویر سے اُوپر اٹھ کر سوچنا ایک یقینی راستہ ہے۔

  • غلامی کے تین درجات: تاریخ سے جو تجربات سامنے آئے ہیں، وہ یہ ہیں کہ اگر قومیں سامراج کے چنگل سے جسمانی طور سے آزاد ہو بھی گئیں تو پھر بھی نئی ’آزاد‘ ریاستیں ٹھیک انھی خطوط پر چل پڑیں جو سامراج کے کشیدہ تھے۔ یہ وہی بات ہے جسے امریکی فلسفی جون موہاک (John Mohawk)  نے غلامی کے تین درجات کے طور پر بیان کیا ہے۔

اس کے مطابق پہلا درجہ ’اچھے غلام‘ ہونا ہے اور اچھے غلام سے مراد بغیر کوئی سوال اٹھائے زندگی گزارنا ہے اور فکر و عمل کی اسی روش پر گامزن رہنا ہے جو سامراج نے اُن کے لیے مقرر کر دی ہے۔ دوسرا درجہ ’خراب غلام‘ ہونا ہے، یعنی وہ لوگ جو نوآبادیاتی چنگل سے جسمانی آزادی تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن زندگی کے بیش تر معاملات میں، وہ اسی نہج پر سوچتے اور عمل کرتے ہیں جیسا کہ سامراج کے زیرِ کنٹرول سوچتے اور عمل کرتے تھے۔ وہ ٹھیک اسی سائنس، اقتصادیات، صحت اور تعلیمی نظام کا استعمال کرتے ہیں جو سامراج نے انھیں اپنے راست اقتدار کے دور میں دیا تھا۔ قومی آزادی کی بیش تر تحریکیں اسی درجے کی حامل رہی ہیں، یعنی ان کا مقصد محض کنٹرول حاصل کرنے، دیگر چیزوں سے متعلق تھوڑی شکایت کرنا لیکن حقیقتاً کسی چیز کو بہت زیادہ تبدیل نہیں کرنا تھا۔ آخری درجے کی شناخت موہاک اس طرح کرتا ہے کہ اس میں لوگوں کی حیثیت Non-Subjects (ناغلام افراد) کی ہوتی ہے جس کا مطلب مغربی فریم ورک، یعنی سامراجی اثر سے آزاد ہو کر سوچنا اور عمل کرنا ہے۔ یہ طریقِ فکر و عمل ممکن ہے مغرب کے لیے ناقابلِ فہم ہو جسے موہاک ایک مثبت بات خیال کرتا ہے۔ باقی پہلے دو امکانات مغرب کے   محور کے گرد طواف کرتے ہیں، جب کہ تیسرا اور آخری امکان خود اپنے دائرے کے اندر گردش  کرتا ہے۔

مغرب کی تعلیمی برتری کا ھـوّا

مغربی تعلیم، نوآبادیت زدہ ذہن کو برقرار رکھنے میں کلیدی عامل ہے اور یہ ذہن کو اس حد تک مسحور کر دیتی ہے کہ لوگ رسمی مغربی تعلیم کے بغیر اپنے وجود (انفرادی یا قومی) کو برقرار رکھنا محال تصور کرتے ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ ’تعلیم کا مقصد کیا ہے؟‘ اس سوال کا جواب کئی سوالات کو جنم دیتا ہے، مثلاً یہ کہ ’’میں کس قسم کی شخصیت کا حامل ہونا چاہتا ہوں؟‘‘ بعض لوگ امریکی یا فرانسیسی یا برطانوی ہونا پسند کرتے ہیں، چنانچہ وہ درس گاہ کے اسی نظام کا انتخاب کرتے ہیں جو ان کے اس مقصد کی تکمیل کرتا ہو۔ ممکن ہے یہ تدریسی درسگاہی نظام (schooling system) ذاتی طور سے انھیں بہت فائدہ دیتا ہو لیکن ضروری نہیں ہے کہ بطور مقصد یہ کسی دوسرے شخص کے بھی مفاد میں ہو۔ اس کے علاوہ یہ حتمی طور سے ہٹ دھرمی پر مبنی نوآبادیت کا پُرفریب دعویٰ ہے کہ جس قسم کے تدریسی ادارے مغرب میں لوگوں کو میسر ہیں، وہ ان اداروں سے بہتر ہیں جو لوگوں کو دوسری جگہ میسر ہیں۔ تعلیم کے مقصد پر غور آدمی کو سامراجی منتر "West is best" (مغرب بہترین ہے) سے اوپر اٹھ کر سوچنے میں مدد دیتا ہے، اور یہ اکثر لوگوں کو اعتراف کرنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ حقیقتاً جو کچھ ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ نوآبادیاتی نظام نے بڑے ہی منظم طریقے سے علم و ادراک کے دوسرے تمام طریقوں کو بے وقعت کر دیا تاکہ استعمار زدہ لوگوں کی نظر میں علم و معرفت کے لیے مغرب کی طرف دیکھنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔

ذرائع ابلاغ کا منفی کردار

خبر رسانی کے بیش تر ذرائع نے بھی استعمار زدہ ذہنیت کے ساتھ زندگی گزارنے کے رجحان کو دوام بخشنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حقیقتاً انھوں نے عام طور پر دو کام کیے۔ ایک یہ کہ انھوں نے اس قسم کی سوچ اور ناانصافیوں کو دوام بخشا جو نوآبادیاتی نظام کے زیرِ سایہ دنیا پر حکمران رہیں۔ دوسرا یہ کہ انھوں نے سامراج کی نئی شکلیں متعارف کروائیں جن کا سامراج کی اصل شکل سے تعلق بہت ہی کم ہوتا ہے لیکن مضرت رسانی میں وہ کسی بھی طرح ان سے کم نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر میڈیا نے صارفیت (بہت زیادہ خریدنے اور خرچ کرنے کا رجحان) کو پروان چڑھایا جو کہ نوآبادیت ہی کی ایک شکل ہے، کیونکہ یہ ایک ایسے اقتصادی نظام کو سامنے لاتا ہے جو عالمی کارپوریشنوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ ان کارپوریشنوں میں سے بیش تر کی بنیاد سابقہ نوآبادیاتی ڈھانچے پر ہے اور جو آج مختلف پہلوئوں سے استعمار زدگی کو پروان چڑھانے کے لیے بطور ایجنٹ کام کر رہی ہیں۔ لہٰذا میڈیا اور نوآبادیاتی نظام کو سمجھنے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آج کس طرح میڈیا صارفیت اور کارپوریٹ کی قوت کو فروغ دے رہا ہے، اور یہ کہ کس طرح صارفیت بیش تر معاملات میں کارپوریشنوں کے توسط سے سابقہ نوآبادیاتی قوتوں کو فائدہ پہنچاتی ہے، مزید یہ کہ میڈیا کس طرح دوسروں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ایک بہت ہی محدود اور پُرفریب انداز میں ان فوائد میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ان امور سے متعلق تجزیے کے بے شمار طریقے ہیں اور یہاں صرف چند ہی کا ذکر ممکن ہے۔

پہلی بات یہ کہ یہ ایک فریب ہے کہ علاقائی ’آزاد‘ نیوز میڈیا، مثلاً الجزیرہ اور العربیہ مغربی نیوز میڈیا، مثلاً بی بی سی اور سی این این سے بہت زیادہ مختلف ہیں۔ یہ علاقائی میڈیا بنیادی طور سے ’خراب غلام‘ (Bad Subjects) کے زمرے میں آتے ہیں جو تھوڑی بہت شکایتیں کرتے ہیں لیکن سامراجی نظام کی بنیادوں سے متعلق حقیقتاً کوئی سوال نہیں اٹھاتے۔ یقیناً یہ میڈیا مسخ شدہ مسلمان لاشوں کی تصاویر مغربی میڈیا کے مقابلے میں زیادہ دکھاتے ہیں لیکن بالآخر یہ بھی عالَم کا مشاہدہ ٹیلی ویژن کے ذریعے ہی جاری رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور بحث و گفتگو کے اسی طریقے کو منعکس کرتے ہیں جو حقیقتاً مغربی میڈیا کے مشابہ ہے۔ بعض منتخب مواد پر یہ کبھی کبھار اختلاف کرتے ہیں۔ کیا یہ نوآبادیاے جانے کا عمل نہیں ہے؟ کیا یہ اطلاعات رسانی کے دوسرے طریقوں کے امکان کو ختم کرنے کا عمل نہیں ہے؟ کیا ماس میڈیا، کمیونی کیشن کے دوسرے ذرائع کی جگہ نہیں لے رہا ہے؟

ماس میڈیا جس میں تفریح اور اشتہار شامل ہیں اس چیز کا حصہ ہیں جسے ’ذہنی ماحول‘ (mental environment) سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور اس حد تک کہ یہ ذہنی ماحول چند قوتوں کے ذریعے تشکیل دیا اور کنٹرول کیا جارہا ہے جو بنیادی طور سے اسی انداز میں سوچتے ہیں، یعنی دوسرے طریقوں کی قیمت پر، اور یہی نوآبادیاے جانے کا عمل ہے۔ بیش تر’آزاد‘ حکومتیں جو سابقہ تیسری دنیا پر حکمراں ہیں جن میں مسلم دنیا بھی شامل ہے، میڈیا کی پروردہ غلام سازی کی مہم میں شریک ہو کر اپنے نوجوانوں کو ذہنی غلامی سے دوچار کر رہی ہیں۔ یہ مغرب سے نشر ہونے والے تفریحی پروگراموں کی یلغار کو راستہ فراہم کرتی ہیں جو ٹیلی ویژن اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے  ذہنی ماحول کو سیلاب زدہ کر رہی ہیں۔ یہ حکومتیں اتنی قدرت نہیں رکھتی ہیں کہ لذت پرستی کی اس ثقافت کو پروان چڑھنے سے روک سکیں جسے پوری دنیا میں فروغ دیا جارہا ہے بشمول شمالی افریقہ کی مسلم آبادی، مشرقِ وسطیٰ، پاکستان، ملیشیا و دیگر ممالک۔ مقامِ افسوس ہے کہ مسلمانوں کی نوجوان نسل آج گلوکاروں اور اداکاروں کے بارے میں سب کچھ جانتی ہے لیکن اگر انھیں کسی چیز کا علم نہیں ہے تو وہ فلسطینی مزاحمت یا عراق کے نوآبادیاے جانے کا جاری عمل ہے۔

اس مسئلے کے حل کے لیے حکومتوں کی جانب دیکھنا خود ایک مسئلہ ہے۔ تقریباً تمام ہی حکومتیں آج نوآبادیاتی نظام کا حصہ ہیں، خواہ ’اچھے غلام‘ کی حیثیت سے یا ’خراب غلام‘ کی حیثیت سے۔ اب اگر کسی سے اُمید وابستہ ہے تو وہ ’ناغلاموں‘ سے ہے، یعنی ان لوگوں سے جن کی سوچ اور عمل نوآبادیاتی نظام، جدیدیت، عالم گیریت اور اُن تمام نظاموں کے دائرے سے باہر ہے جنھوں نے آج غیرمعمولی معاشروں کو اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومتیں، فوج اور معیشت پر کنٹرول بھی رکھتی ہیں، اس حد تک کہ انھیں مکمل طور سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ بہرحال یہ نوآبادیاتی نظام کا کتنا سنگ دلانہ مذاق ہے کہ جوں ہی مقامی حکومتیں قدرے محدود جمہوریت کی جانب پیش رفت کرتی ہیں اور عوامی سیاسی شمولیت کی راہیں نمودار ہونے لگتی ہیں، سامراجی نظام اقتصاد اور عالم گیریت کے راستے مقامی حکومتوں کی صلاحیتوں کو مستقلاً نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی اقتصادیات کے لیے کوئی بامعنی اور آزادانہ فیصلے نہ کرسکیں۔

زبان کا ذھنی غلامی میں کردار

زبان کا بھی ذہنی غلامی میں ایک کردار ہوتا ہے۔ اگرچہ اس موضوع کو چھیڑنا قدرے مشکل ہے، کیونکہ انگریزی وہ زبان ہے جو آج کے نوآبادیاتی نظام سے عمومی طور سے وابستہ ہے اور یہ بہت تیزی سے عالمی زبان بن رہی ہے اور اکثر مقامی زبانوں کی قیمت پر۔ تمام زبانیں حقیقت کو ایک مخصوص انداز میں پردۂ اِخفا (code) میں سمونے کا سلیقہ رکھتی ہیں۔ اس کے لیے وہ استعارہ، کنایہ اور محاوروں کا استعمال کرتی ہیں اور ساتھ میں مؤثر پیرایۂ بیان کا ایک ایسا ڈھانچا رکھتی ہیں جو مادّی مقاصد اور زندگی کے تجربات کی ترجمانی کرتا ہے۔ انگریزی اس سے کوئی مختلف نہیں ہے۔ پورے طور سے نوآبادیاتی اثر سے آزاد ہونے کے لیے پھر ایک آدمی کو دوسری زبان سیکھنے یا دوبارہ سیکھنے کی ضرورت ہو گی، یہی وہ نکتہ ہے جس کا تھیونگو نے کئی سال  پیش تر ادراک کر لیا تھا۔ اس نے انگریزی میں لکھنے کا سلسلہ روک دینے کا فیصلہ کیا اور اس کے بجاے اپنے عوام کی مقامی افریقی زبان کا استعمال شروع کیا۔ وہ کینیا میں ایسے اسکولوں کے قیام میں سرگرم ہو گیا جو مقامی زبانوں کے فروغ کا وسیلہ تھے۔ مسئلہ یہ ہوا کہ کینیا کی حکومت اگرچہ اس وقت اپنے سابق استعماری آقائوں سے ’آزاد‘ ہو چکی تھی لیکن پھر بھی اس نے تھیونگو کی تحریک کو قومی بالادستی کے لیے خطرے کے طور پر دیکھا، لہٰذا اسے ملک سے نکال دیا گیا۔

اس کے حالات سے دو نکات سامنے آتے ہیں۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ زبان بالآخر نوآبادیاتی نظام کا کلیدی خدوخال ہے اور اس حوالے سے کام کرنے کا تہیہ کرتے ہیں۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ مقامی حکومتیں اگرچہ وہ ’آزاد‘ ہی کیوں نہ ہوں نوآبادیت کے حقیقی انسداد سے خوف کھاتی ہیں۔ آج یہ واضح طور سے ایک افسوس ناک حقیقت ہے۔ ان ریاستوں کی حکومتیں جہاں مسلمان رہتے ہیں، امریکی خواہشات کی تکمیل کے لیے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش میں ہیں، اس طرح کہ اسکول کے نصاب کو ازسرِنو ترتیب اور احمقانہ تفریحی پروگرام کو فروغ دے رہی ہیں، اور یہ سب کچھ اپنی مقامی زبانوں اور ثقافت کو قربان کر کے کر رہی ہیں۔ چنانچہ اظہارِ بیان کے طریقے کے معاملے میں بھی ہمارے اذہان زیرِ تسلط ہیں، ٹھیک اسی طرح جس طرح ہماری سرزمینیں اغیار کے زیرِ تسلط ہیں۔

یہ وہ مسائل ہیں جن سے باخبر رہنے اور غوروفکر کے نتیجے میں حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

ردِّ نوآبادیت

  • بلند تر حقائق پر نظر: ردِ نوآبادیت کی سمت میں ایک اہم قدم یہ ہو گا کہ ہم اپنے اذہان کو بلند تر حقائق پر مرکوز کریں، اُن حقائق پر جن کی تعلیم تمام مذاہب دیتے ہیں، جب کہ سامراج کا مطمحِ نظر اس دنیا کی زندگی ہے۔ اسے آسان طریقے سے یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ استعمار زدہ ذہن وہ ہے جو یہ سوچتا ہے کہ جو کچھ دنیا پر حکمراں، حریص، مراعات یافتہ طبقے کے مفاد میں ہے وہی درحقیقت ہر ایک کے مفاد میں ہے۔ یہ وہ خیال ہے جو پہلے پہل اس دنیا سے وابستگی کے دروازے سے داخل ہوتا ہے۔ یہ مفادات کس طرح کام کرتے ہیں اور ان کی تحریصات سے کیسے بچا جائے، اس بات کو جاننے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ یہ سوال اٹھایا جائے کہ معمولی ترین سرگرمیوں سے بھی ’فائدہ کس کو ہوتا ہے‘؟ اس سوال کو مختلف طریقوں سے پوچھا جاسکتا ہے اور مختلف طریقوں سے اس کا جواب دیا جاسکتا ہے جس میں اس بات کا جائزہ لینا بھی شامل ہے کہ کس طرح روز مرہ  سرگرمیاں نجات کے حصول کو جو بہت سارے مذاہب کا مشترکہ مقصد ہے، متاثر کرتی ہیں۔  ایک آدمی قبائلی عوام سے بھی سبق لے سکتا ہے  جن کو مسئلے کی شناخت ہے۔ بعض مقامی امریکی قبائل (مثلاً نیویارک اور اونٹیریو کے Haudenosaunee کے درمیان یہ سوال اٹھانے کی ضرورت ہے کہ ’’کس طرح میرے  آج کے اقدامات ان نسلوں کو متاثر کریں گے جو آج سے سات پشتوں بعد آئیں گی؟‘‘ مقصد جو بھی ہو، آخرت میں نجات یا آیندہ نسلوں کی اس دنیا میں فلاح و بہبود، ایسے سوالات ہیں جنھیں استعمار زدہ اذہان پر توجہ مرکوز کرنے جیسے چیلنج کو قبول کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
  • اعتماد کی بحالی: تیسری دنیا کے بہت سارے لوگ جن میں مسلمان بھی شامل ہیں کیوں اس انداز سے نہیں سوچتے جو اذہان کو سامراجی اثرات سے پاک کرنے کے لیے ضروری ہیں؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی روایات کا احترام نہیں کرتے ہیں۔ اس مسئلے کا ایک جز ہمارے نوآبادیاے جانے کا نتیجہ ہے۔ ہم اپنا اعتماد کھو چکے ہیں۔ خود اپنے حوالے سے غیریقینی کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ حتیٰ کہ جو کچھ ہم ہیں اس پر بھی نادم و شرمندہ ہیں۔ اس لیے کہ ہمارے متعلق مسلسل یہ شور بلند ہو رہا ہے کہ ہم پس ماندہ ہیں، ظالم ہیں، شدت پسند ہیں اور اسی طرح کے دوسرے کئی الزامات سے ہم دوچار ہیں۔ لیکن کون ہم پر یہ الزامات عائد کررہا ہے؟ انسانیت کی تاریخ میں کوئی ان سے زیادہ پس ماندہ، ظالم اور شدت پسند نہیں رہا ہے جو آج ہمیں اِملا دے رہے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے، یعنی مغربی تہذیب کے حامیان۔ گذشتہ صدی میں انھوں نے جنگِ عظیم میں اپنے کتنے افراد کو قتل کیا؟ ۱۰ کروڑ؟ ۱۵ کروڑ؟ قبل اس کے کہ وہ مسلمانوں پر کوئی الزام عائد کریں، انھیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے۔ بہرحال وہ کریں یا نہ کریں، ہمیں اپنی جانب توجہ ضرور دینی چاہیے۔
  • اسلام کی جامع دعوت: جیسا کہ اکثر مسلمان آگاہ ہیں کہ اسلام محض مذہب نہیں ہے بلکہ ایک طریقِ زندگی ہے، ضابطۂ اخلاق اور مجموعۂ قوانین ہے۔ اس کے اندر مختلف صورتیں ایسی ہیں جو استعمار سے آزاد طرزِ زندگی کے ساتھ جینے کا جزو بن سکتی ہیں۔ اسے بہرحال دعوت پر مبنی ایک سادہ نسخے کے طور پر پیش نہیں کرنا چاہیے اور نہ صرف حلال و حرام کے پیرایے میں بیان کرنا چاہیے جیسا کہ بدقسمتی سے بہت سارے مسلمان کرتے ہیں۔ اس سارے سیاق سے ہٹ کر اسلام آزادی کے طلب گاروں کو پیش کرنے کے لیے بہت کچھ رکھتا ہے، مثلاً یہ کہ ہم باریک بینی سے اپنے طرزِ خورد و نوش، طرزِ بود و باش پر نگاہ رکھیں اور یہ کہ ہم جس گھر میں رہتے ہیں اُسے کیسا ہونا چاہیے، اس پربھی سوچیں۔ اگر ہم حلال اور حرام کے پیرایے میں ان چیزوں کو دیکھیں تو ممکن ہے وہ ہمارے لیے قابلِ قبول ہوں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے کھانے پینے، لباس اور گھر اس طرزِ زندگی سے جو اسلام ہمارے لیے تجویز کرتا ہے کس قدر قریب ہیں؟ حلال و حرام سے اوپر اٹھ کر افراد اور خاندان کے لیے آج مسلمان ہونے کا کیا مطلب ہے؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم جس صورتِ حال میں اپنے آپ کو پائیں اس سے ہم آہنگی پیدا کریں اور پھر اس کے جواز کے لیے چند احادیث کہیں سے ڈھونڈ نکالیں، یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ’جدیدیت‘، ’تہذیب‘ اور ’ترقی‘ پر طویل و عمیق غور و فکر سے کام لیں اور ان پر مجموعی نظام کے تناظر میں سوال اٹھائیں جو اسلامی حکمتِ عملی کا تقاضا ہے؟

ذہن کو استعمار زدگی سے آزاد کرنا ایک بہت بڑا منصوبہ ہے۔ اس کے لیے کثیر الجہت حکمتِ عملی طے کرنے کی ضرورت ہے اور ہر کوئی اس کے لیے حسبِ استطاعت کام کرے۔ اگر حکومتیں اور دیگر بڑے ادارے اس میں مددگار ہو سکتے ہیں تو بہت خوب۔ اگر نہیں، تو پھر ہم ازخود استعمار زدگی کی روش سے باہر نکلنے کی کوشش کریں۔ اس صورت میں ہم سے جس قدر ممکن ہو، اس استعماری روش سے نظرِ التفات پھیر لیں۔ اس ضمن میں کھانے اور لباس پر نظرثانی ردِّ نوآبادیت کی سمت آغاز کا ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ بہت سارے مفکرین کا خیال ہے کہ جو غذا ہم کھاتے ہیں اور جو لباس ہم پہنتے ہیں، وہ ہماری ذہنی، جسمانی اور روحانی کیفیت پر اثرانداز ہوتے ہیں (ایک اچھا مضمون لباس، استعمار زدگی اور روحانیت کے تعلق سے ملٹی ورسیٹی گروپ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے)۔

  • دوسروں کے تجربات سے استفادہ: دوسروں کے تجربات سے بھی سیکھنا اہم ہے جنھوں نے استعمار زدگی سے نجات پانے کی کوشش کی ہے اور ہمیں بھی اپنے تجربات سے دوسروں کو آگاہ کرنا چاہیے جو ہم نے اپنی سرگرمیوں سے حاصل کیے ہیں۔ پھر میں کہوں گا کہ ضروری نہیں کہ یہ کام دعوت کے مقصد سے انجام دیا جائے بلکہ اس طور پر انجام دیا جائے کہ مسلمانوں کو اپنے اندر دیکھنے اور اس صورتِ حال کو جس میں کہ وہ رہ رہے ہیں، سمجھنے میں اُن کی مدد ہو سکے، اور اس راہ کے دوسرے راہیوں کے ساتھ جن کا تعلق مختلف مذاہب، ثقافتوں اور روایات سے ہے، مسلمان اپنے آپ کو جوڑ سکیں۔

ذہن کو استعمار زدگی سے آزاد کرنے کا مرحلہ راتوں رات مکمل نہیں ہو گا بلکہ مسئلے کی نوعیت کو صحیح طور پر سمجھنے پر ہی صحیح نہج پر کچھ کیا جاسکے گا۔ ہم میں تمام لوگ یا بیش تر لوگ ایسے راستوں پر سوچ رہے ہیں اور عمل کر رہے ہیں جو تباہ کن ہیں اور منطقی نہیں ہیں لیکن جس سے  ایک چھوٹے سے عالمی طبقۂ اشراف کو فائدہ ہو رہا ہے۔ ہمیں استعمار زدہ رہنے پر مجبور کرنے کی غرض سے ہمیں اپنی انسانیت، اپنے ماحول، اپنی روایات اور اپنے مذہب سے ترقی، تہذیب، عالم گیریت اور استعمار کے اختراع کردہ اس طرح کے دوسرے نعروں کے نام پر جدا کر دیا گیا ہے۔ یہ کنٹرول کرنے والے عالمی طبقۂ اشراف کے مفاد میں ہے کہ ہم اس مسئلے کی نوعیت کے  فہم سے عاری رہیں اور اس کی وسعت کا اندازہ نہ لگا سکیں جو کچھ کہ ہمارے اور ہمارے معاشرے کے ساتھ کیا گیا ہے۔

  • استعمار کی شناخت: اس ضمن میں پہلا اہم قدم یہ ہے کہ ہم شناخت کرنا سیکھیں کہ کس طرح استعمار زدگی ہماری روز مرہ کی زندگی کو متاثر کر رہی ہے۔ آپ کم وقت ٹیلی ویژن   دیکھ سکتے اور زیادہ واقعات بیان کر سکتے ہیں۔ آپ زیادہ نامیاتی غذا کھا سکتے ہیں اور مشین کی تیار کردہ غذائوں سے پرہیز کرسکتے ہیں۔ آپ ہاتھ کے تیار کردہ کپڑے پہن سکتے ہیں اور   فیشن ایبل لباس سے گریز کر سکتے ہیں۔ آپ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ سکتے ہیں اور لکھ سکتے ہیں یا کلاس روم کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہیں اور لوگوں کو تاکید کر سکتے ہیں کہ وہ استعمار کی سُلائی ہوئی نیند سے بیدار ہوں۔ جو لوگ اجتماعی اقدام کو ترجیح دیتے ہیں، وہ کسی تحریک میں شامل ہو سکتے ہیں جس کا مطلب ہے ماحول کی طرف سے اقدام، یا پھرووٹ کے حق سے محروم رہ سکتے ہیں۔ بہت سے کام کرنے کے ہیں اور ایک آدمی سبھی کام نہیں کر سکتا ہے۔ لیکن کام کا آغاز کرنا اور کم از کم کسی ایک سرگرمی کا اپنے لیے انتخاب کرنا ضروری ہے، اور یہ بھی ضروری ہے کہ آپ دل کی پوری آمادگی کے ساتھ اپنے آپ کو اس کے لیے وقف کریں۔ ممکن ہے یہ اُن لوگوں کے لیے ہضم کرنا مشکل ہو جو استعمار زدہ ذہن رکھتے ہیں۔
  • بچوں کی تعلیم، ایک انقلابی اقدام: استعمار زدگی سے نجات کی سمت دوسرا اہم قدم یہ ہے کہ آپ اپنے بچوں کو اسکول سے جلد از جلد نکال لیں۔ ’علم کی جستجو‘ سے متعلق تمام خیالی حماقتوں کو بھول جائیں جو ’اسکول جانے‘ اور ’تعلیم حاصل کرنے‘ کی تاکید کرتی ہیں۔ یہ علم کے حصول کے بہت ہی محدود ذرائع ہیں اور بہت سارے لوگ اس کا اعتراف کر چکے ہیں، مثلاً بھارت میں ’اسکول واک آئوٹ‘ کی تحریک روز بروز پنپ رہی ہے۔ (دیکھیے: ملٹی ورسٹی گروپ کی ویب سائٹ)

یہ ایک تنظیم ہے جو بھارت کے صوبہ راجستھان میں یہ تحریک پوری سرگرمی کے ساتھ چلا رہی ہے۔ ’معاشرے کو اسکول سے جدا کرنے کا عمل‘ Deschooling the Society،        آئیوان ایلچ(Ivan Illich )کی کتاب جو کہ آن لائن بھی دستیاب ہے، بھی ایک اہم کوشش ہے، اپنی انسانیت کو لٹیروں سے واپس لینے کی سمت میں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ہمارے وسائل کو لوٹ رہے ہیں،جب کہ ہم اُن کے اسکولوں اور اداروں کے ہالوں میں بھٹک رہے ہیں (واضح رہے کہ بھارت کے سابق وزیراعظم آنجہانی راجیو گاندھی نے بھی اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں Delinking education from degree کا نعرہ لگایا تھا جو آئیوان ایلچ کے خیال سے کافی مشابہ ہے۔ م ف س)۔

  • میدان صحت کے تقاضے:صحت و توانائی کا احساس شاید دوسرا اہم ترین ٹاسک ہے، ان کے لیے جو اپنے اذہان کو استعمار زدگی سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔ ہومیوپیتھی اور روایتی ادویات کی بعض دوسری قسمیں پیچیدہ امراض، مثلاً عارضۂ قلب، ہائی بلڈ پریشر اور حتیٰ کہ کینسر کے علاج میں اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کر چکی ہیں۔ روز مرہ کے چھوٹے موٹے درد کا کیا ذکر جس کے لیے ہم میں سے اکثر لوگ ڈاکٹر کے پاس دوڑ پڑتے ہیں اور وہ انھیں نسخہ تھما دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہائی ٹیک مغربی میڈیسن ایک عالمی کاروبار ہوتا جارہا ہے جس میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ لہٰذا یہ بات ناممکن معلوم ہوتی ہے کہ کارپوریٹ مفاد کسی متبادل میڈیسن کو متعارف و مقبول ہونے دے گا، خاص طور سے، جب کہ یہ سستی اور سادہ بھی ہوں۔ کارپوریٹ مفاد تو اسی کی حمایت کرے گا جو روپے پیدا کر سکتے ہوں۔

ایک مفید پہلو یہ ہے کہ امیر ترین آدمی ذہن اور جسم دونوں کی بیماری میں اکثر مبتلا ہوتے ہیں۔ ہم میں سے باقی لوگ متبادل ادویات یا ہومیو پیتھی یا علاج کا روایتی طریقے کا استعمال عالمی کارپوریشنوں سے بے نیاز ہو کر کرسکتے ہیں۔ شاید سب سے اہم بات ان روایات اور ادویات کو دوسروں کے ناروا استعمال سے بچانا اور اس کا تحفظ ہے۔ اس کے لیے تیسری دنیا میں بہت سارے دانش وروں نے بہت ہی انہماک سے مطالبہ کیا ہے جن میں سے ایک نام وندھنا شیوا (بھارت) کا لیا جاسکتا ہے۔ اس میں دل چسپی رکھنے والے قارئین Third World Network اور Consumer Association of Penang (Malaysia) سے ان سرگرمیوں کے بارے میں معلوم کرسکتے ہیں۔ دونوں ہی کے پاس پروگراموں اور کتابوں کی ایک ورائٹی ہے جو اذہان کو نوآبادیاتی چنگل سے آزاد کرانے کا مفید وسیلہ ہے۔

  • اقوامِ متحدہ سے بے جا توقعات: استعمار زدہ ذہن کے ساتھ رہنے کی ایک علامت یہ ہے کہ مسلمان اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور قانون کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے، جب کہ ہم خود اپنا قانون، اصول، اخلاق رکھتے ہیں اور اپنی ترجیحات بھی رکھتے ہیں جو ہمیں اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ، اس کے رسولؐ، قرآن اور اسلامی روایات سے ملی ہیں۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں ہر ایک آدمی مسلمان نہیں ہے اور جہاں تمام مسلمان اپنی عقل کی پیروی نہیں کرتے ہیں، اقوامِ متحدہ اور اس طرح کی دیگر عالمی تنظیمیں عالمی اقدام کے لیے بعض امکانات رکھتی ہیں بالخصوص اگر یہ سکیورٹی کونسل کے چنگل سے آزاد ہو جاتا ہے، کیونکہ سلامتی کونسل ہی ہمیشہ سامراجی قوتوں کے مفاد میں کام کرتی ہے، جب کہ بارہا ایسا ہوا ہے کہ اقوامِ متحدہ کو اسلام دشمنوں نے استعمال کیا ہے اور تیسری دنیا کے مفادات کے خلاف یہ ادارہ استعمال ہوتا رہا ہے۔ ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کی دہائی میں اقوامِ متحدہ پر تیسری دنیا کا تقریباً کنٹرول رہا ہے۔ بعض مسلمان اب بھی اُمید کرتے ہیں کہ مؤثر عالمی اسلامی تنظیموں کی عدم موجودگی میں اقوامِ متحدہ کے ذریعے کام کیا جاسکتا ہے۔ پہلے سے مستحکم بین الاقوامی اداروں کو جن میں اقوامِ متحدہ بھی ایک ہے اگرچہ امریکیوں اور دوسری سامراجی طاقتوں نے بڑانقصان پہنچایا ہے لیکن بالآخر یہ اپنے نعروں کے مطابق کام کرنے کی ابتدا کریں گے۔

آخری بات یہ ہے کہ مسلمان اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے حیرانی میں مبتلا ہیں کہ کہیں دنیا کا آخری وقت تو نہیں آن لگا ہے۔ دنیا کے اختتام یا قیامت کے حوالے سے متعدد گوشوں سے بے شمار پیش گوئیاں ہیں جو آج انٹرنیٹ پر گردش کر رہی ہیں۔ لیکن تاریخ میں لوگوں نے ہمیشہ یہی خیال کیا ہے کہ اُن کی بدتر صورتِ حال دنیا کے اختتام کی واضح علامت ہے۔    ہم صرف ایک بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ہی کو اس کا علم ہے کہ وہ آخری دن یا مہدیِ منتظر کی آمد یا دوسری بشارتوں کے پورے ہونے کا دن کب آئے گا۔ چونکہ مغربی تہذیب عراق اور فلسطین میں اپنی تمام سفّاکیت کے ساتھ بے نقاب ہو چکی ہے، کسی کے جرائم میں شرکت کے سبب یا براہِ راست اقدام کے سبب یا محض اس وجہ سے کہ عالمی اقتصادیات متزلزل ہے یا اس وجہ سے کہ امریکیوں کو سمجھ میں آگیا ہے کہ وہ ایک پولیس ریاست میں المناک صورتِ حال میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یقینا یہ ہمارے استعمار زدہ اذہان کی علامت ہے کہ ہم نہیں سمجھتے ہیں کہ ان تمام باتوں کا مطلب ہر ایک کے لیے یا کسی کے لیے لازمی طور سے دنیا کا اختتام نہیں ہے۔ درحقیقت یہ انتہائی مناسب لمحہ ہے پریشان حال مغرب سے، اس کے اثرات کے دائرے سے اور خاص طور سے اس کے شدید مسائل سے باہر دیکھنے کا کہ، جہاں متبادل اور اُمید ہنوز ہمارے منتظر ہیں کہ ہم ان کی جانب دیکھیں۔ (بہ شکریہ: کریسنٹ انٹرنیشنل، کینیڈا بحوالہ معارف فیچر سروس، کراچی، ۱۶ نومبر ۲۰۰۷ئ)

بے نظیر بھٹو کے سانحے کے بعد پاکستان بھر میں ہونے والے ردّعمل نے بہت سے سوالات کو اہل فکر و عمل کے سامنے رکھا ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ ردّعمل متشدد اور بے قابو کیوں کر  ہوتا گیا؟ اس امر سے کسی کو اختلاف نہیں ہو گا کہ اس بڑے واقعے پر ردّعمل کا رونما ہونا بھی    بڑے پیمانے پر ہی متوقع تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یوں بھی محسوس ہوا کہ یہ متوقع کے ساتھ ساتھ مطلوب بھی تھا۔ اس میں فطری ردّعمل کو غیر فطری ردّعمل سے الگ کرنا، تشدّد اور تخریب کو سمجھنا،  ان کے محرکات پر غور کرنااور مستقبل کے لیے ایسا لائحہ عمل بھی تیار کرنا اسی طرح سے ضروری ہے جس طرح اس نوعیت کے واقعات کا سدّباب کرنا، ملک بھر میں جاری دہشت گردی کی لہر کو سمجھنا اور روکنا اور امن قائم کرنا لازمی ہے۔

یہاں ان واقعات، بیانات اور ان سے پیدا شدہ نتائج کو بیان کرنے اور زیر بحث لانے سے کہیں ضروری ہے کہ ہم متعین انداز میں تجزیہ کریں کہ یہ سب کیا ہوا، کس نے کہاں اپنے فرائض سے پوری طرح انصاف نہیں کیا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے اس بڑے واقعے کے قومی و بین الاقوامی مضمرات کا سامنا کرنے سے قاصر حلقے بھی چاہتے تھے کہ قتل سے توجہ کہیں اور مبذول ہو، دبائو کی نوعیت تبدیل کی جائے اور اس وقفے میں ان مضمرات کا جائزہ لے کر حکمت عملی تیار ہو جس سے تزویراتی مقاصد حاصل ہو سکیں۔ بظاہر حالات ان مقاصد کی تائید کرتے ہیں۔ اگر ہم نقصانات کی نوعیت پر ایک نگاہ ڈالیں تو چیدہ چیدہ نکات یوں مرتب کیے جا سکتے ہیں:

  • احتجاج کی لہر اچانک تھی، اس کے نتائج غیر متوقع تھے۔
  •  ردّعمل اس طرح سے سامنے آیا کہ سیاسی قوتوں کا احتجاج پر کنٹرول نہ رہا۔
  •   بڑے بڑے نقصانات میں احتجاج نہیں بلکہ تشدد اور تخریب کاری زیادہ نمایاں تھی۔
  • منظم اور مجرمانہ حملوں کا نشانہ ایسی املاک، عمارتیں اور افراد بنائے گئے جن کا اس احتجاج سے کسی طرح سے کوئی تعلق اور جواز نہ تھا۔
  •  سیاسی، لسانی اور گروہی وابستگیوں کے اثرات بھی مرتب ہوئے لیکن قومی دھارے کی سیاسی حیثیت والی کسی پارٹی نے احتجاج کے سوا دوسرے مجرمانہ اقدامات کیے، نہ ان کی حوصلہ افزائی کی۔

ان نکات کو سامنے رکھیں تو یہ بات سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ غم و غصے کی لہر کو بعض متعین مقاصد کی طرف موڑنے والوں کو مطلوبہ اثرات مرتب کرنے میں واضح مدد ملی۔ بے نظیر بھٹو کے اپنے والد کی طرح جان دینے کے تصور کو عام کرنے والوں نے پنجاب سے ایک اور سندھی وزیراعظم کی لاش پر سیاست کی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے نوڈیرو چلے جانے سے بے نظیر بھٹو کے  غم میں نڈھال وابستگان کو اپنے جذبات کے اظہار کے لیے کسی فوری اور سنجیدہ رہنمائی کی ضرورت تھی۔ یہ ضرورت پوری طرح سے اپنے تقاضوں کے ساتھ موجود تھی۔ ان تقاضوں کو پورا کرنے والی قیادت میسر نہ رہی۔ جہاں پر قیادت موجود تھی، وہاں احتجاج اپنے فطری انداز سے آگے نہ بڑھ سکا،تاہم اِکَّا دُکَّا واقعات ضرور ہوئے۔

ملکی سیاسی فضا ایسے بڑے سانحے کے لیے ’سازگار‘ تھی جس کا ردّعمل بڑے پیمانے پر ہوتا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ پورے ملک میں سیاسی کارکن پوری طرح سے متحرک تھے۔ انتخابی مہم میں حصہ لینے والے اپنے انداز میں کام کر رہے تھے۔ بائیکاٹ کی مہم چلانے والے اس انداز سے متحرک نہ تھے لیکن عام حالات کی نسبت بہرحال ان میں تحرک موجود تھا۔ اس فضا میں بے نظیر بھٹو کا قتل ہوجانا ایک شدید دھچکا تھا۔

بے نظیر بھٹو کے قتل پر امریکا کا ردّعمل پیپلز پارٹی کے لیے بھی غیر متوقع تھا۔ اگرچہ اس کا براہِ راست احتجاج اور تشدد سے تعلق نہیں ہے لیکن پیپلز پارٹی کے کارکن کو واضح پیغام مل رہا تھا کہ بے نظیر بھٹو کے بعد اسے اب امریکی اشیرباد نہیں ملے گی۔ یہ نکتہ اس لیے اہم ہے کہ بے نظیر کے وطن واپسی کے بعد حالات، بے نظیر بھٹو کے بیت اللہ محسود سے رابطے، عبدالقدیر خان کے بارے میں تبدیل شدہ رویے (یاد رہے کہ بیان نہیں)، اور اپنی نجی گفتگوئوں میں بیان کردہ حکمت عملی سے الگ راستے کے اشارے، غیر اہم نہیں تھے۔ پیپلز پا رٹی نے مخدوم امین فہیم کو وزارتِ عظمیٰ کے لیے نامزد کیا تھا تاکہ امریکی رویوں کا انتظار نہ کرنا پڑے۔ میاں محمد نواز شریف سے امریکی سفارت کاروں کے رابطوں نے تبدیلی کا اشارہ دے دیا تھا۔ اگر ہم یہ محسوس کر سکیں کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے   تین دنوں کے اندر ہی بہت سے نشانات نظر آ رہے تھے تو بے جا نہ ہو گا۔

احتجاجی ردّعمل کو جب ہم فطری اور غیر فطری میں تقسیم کرتے ہیں تو اسے ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ کراچی میں پیپلز پارٹی کی قیادت موجود نہیں تھی۔ حالات اس کے کنٹرول میں  نہیں تھے۔ سب لاڑکانہ اور نوڈیرو میں تھے۔ پورا شہر ایم کیو ایم کے لیے ایک کھلا میدان تھا۔ اگر  ٹی وی چینلوں پر نوڈیرو سے براہِ راست نشر ہونے والے پروگراموں کو دیکھا جائے تو کراچی کے بڑے بڑے راہ نما وہاں موجود تھے۔ کارکن بھی کثیر تعداد میں شہر چھوڑ گئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ فطری ردّعمل کو غیر فطری ردّعمل میں تبدیل کرنے والے عناصر کون تھے۔ گھیرائو جلائو میں کون شریک تھا، تنصیبات کو کون تباہ کر رہا تھا، ٹرانسپورٹروں سے پرانی خلش کسے تھی، بنکوں، محکمہ جات کے دفاتر کو، پٹرول پمپوں کو تباہ کرنے والے کہاں سے آئے۔ یقینا یہ پیپلز پارٹی کے لوگ نہیں تھے۔ یہ جرائم پیشہ گروہ تھے، یہ منظم ٹولیاں تھیں، یہ احتجاج کرنے والے عام لوگ ہرگز نہیں تھے۔ عام لوگ تونشانہ بنے۔

اس صورتِ حال سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ملک کے اندر ایسے منظم گروہ، مخصوص انداز میں مخصوص حلقوں کے پروردہ، بھتہ خور اور مافیا موجود ہیں جو کسی بھی وقت بڑے پیمانے پر اس نوعیت کی پُرتشدد کارروائیاں کر سکتے ہیں جن کا سامنا پوری قوم کو کرنا پڑا۔ ریلوے، بنک، کارخانے، پٹرول پمپ جلانا عام سیاسی کارکنوں کا کام ہے، اور نہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ اگر  عامر چیمہ شہیدؒ کے سانحے میں ۱۴ فروری کو لاہور میں ہونے والے احتجاج کے ہائی جیک ہو جانے کا واقعہ ذہنوں میں تازہ ہو تو یہ معلوم کرنا مشکل نہیں کہ پُر امن احتجاج کرنے والوں کو اگر یہ شناخت نہ رہے کہ ان کی صفوں میں کون گھس رہا ہے تو پھر نتائج کنٹرول نہیں کیے جا سکتے۔

اس سارے رد عمل میں حکومت کا کردار بھی حیرت انگیز رہا۔ یہ کردار بہت سے سوالات چھوڑ گیا۔ تین دن کے سوگ کا اعلان کیا گیا۔ تین دن کے سرکاری بیانات، الیکٹرانک میڈیا اور اقدامات کو دیکھیں تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ایک بڑے پیمانے پر رد عمل کا حکومت کو بہرحال علم تھا۔   یہ محض اندازہ نہیں تھا۔ اس ردّ عمل کے فطری اور غیر فطری، پُر امن اور پُر تشدد کے مراحل میں داخل کرنے میں حکومت بھی برابر کی ذمہ دار تھی۔ کراچی شہر میں ۳۰ ہزار پولیس اور رینجرز کے اہل کار  کس کے ایما پر خاموش رہے۔ اندرون سندھ ریل گاڑیوں پر حملے روکے کیوں نہ جا سکے۔ جواب یہ ہے کہ روکنے والا کوئی نہ تھا۔ ماضی کے واقعات کو دہرائیں تو یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ ریلوے ٹریک پراحتجاج ٹرین روک دینے تک محدود رہا۔ اس مرتبہ ریل گاڑیاں جلا دی گئیں، ٹریک اُکھاڑ دیا گیا، ریلوے اسٹیشن جلا دیے گئے۔ روکنے والے کہاں تھے۔ حکومت نے سوگ کے دنوں کو مجرموں کے لیے کھل کھیلنے کا موقع دیا۔ لاہور میں احتجاج کو لیجیے۔ جہاں انتظامیہ متحرک تھی وہاں محض ٹائر جلائے گئے۔ اس کیفیت کو پیدا کرنے کامقصد بے نظیر بھٹو کے قتل سے پیدا ہونے والے دبائو کا رخ تبدیل کرنا تھا۔

ایک اور عجیب فیصلہ یہ سامنے آیا کہ جن کا نقصان ہوا ہے، ان کو معاوضہ دیا جائے۔    اس کے لیے کمیشن بنا دیا گیا کہ وہ نقصان کا اندازہ لگائے۔ درست ہے ایسا ہونا چاہیے تھا۔ لیکن نقصان کیوں ہوا، احتجاج کیوں بے قابو ہو گیا، پورے ملک میں شدید بد نظمی، بد امنی اور عام آدمی کی   بے بسی کن وجوہات کی بنا پر سامنے آئی، اس کا احاطہ کرنا ضروری تھا، یہ کام نہیں کیا گیا۔ فساد کرنے والوں سے سختی سے نپٹنے کا حکم بھی دیر سے آیا۔

یہ صورت حال خود بتا رہی ہے کہ یہ خود پیدا نہیں ہوئی۔ اسے بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد فطری ردّ عمل سے بڑھ کر ایک بڑے غیر فطری ردّ عمل کی صورت میں تخلیق کیا گیا۔ ایک ایسے کمیشن کا مطالبہ اب وہ حیثیت نہیں رکھتا جو سوگ کے خاتمے کے ساتھ ہی ہونا چاہیے تھا۔

آخری نکتہ یہی رہ جاتا ہے کہ ہم آئندہ ایسے حالات سے کس طرح ملک و قوم اور خود کو  محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ اس بارے میں چند گزارشات ہیں۔ تفصیلی جائزہ اور لائحہ عمل کی تیاری سیاسی جماعتوں اور حکومت کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

___        ملک میں موجود سیاسی قیادت کے خلا کا برقرار رہنا محض ایک سیاسی خطرہ ہی نہیں ہے، بلکہ ایک حقیقی اور فوری خطرہ ہے۔ اس کا ازالہ ضروری ہے۔ اس کے لیے جملہ اقدامات  سیاسی جماعتوں کے مطالبات کی صورت میں موجود ہیں، اس لیے تذکرہ ضروری نہیں۔

___        خودکُش حملوں، دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام اور خاتمے کی حکمت عملی اسی صورت میں کارگر ہو سکتی ہے کہ پاکستان امریکا کی مسلط کردہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے الگ ہو جائے۔

___        حکومت کے انٹیلی جنس اداروں کے سیاسی کردار کو ختم کیا جائے۔ ان میں قائم سیاسی، صحافتی اور دیگر حسّاس شعبہ جات کو، جن کا براہ راست عوامی نمایندگی سے کسی طور سے تعلق ہے، ختم کیا جائے۔

___        حکومت کے انتظامی اداروں کو ان کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں میں خود مختار بنایا جائے تاکہ وہ ایسے حالات میں منتخب اداروں کو جواب دہ ہوں اور ان کا احتساب کیا جا سکے۔

___        سیاسی جماعتوں کے اندرقائم مافیا، جرائم پیشہ افراد کے گروہوں اور بھتّہ خوروں کا خاتمہ کرنے کے لیے خود سیاسی قیادت کردار اداکرے۔

___        ۲۷ دسمبر۲۰۰۷ء کے بعد کے واقعات میں تشدد اور تخریب کے در آنے کی وجوہات کا تعین کیا جائے اور آیندہ ان کی روشنی میں اقدامات کیے جائیں۔

یقینا ہمارے معاشرے میں بہت بنیادی اور اہم تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ہماری  معاشرتی زندگی ایک بے ہنگم اور غیر حقیقی زندگی ہے۔ اس میں انصاف، قانون کا احترام اور رواداری کی قلّت کو عدلیہ پر شب خون مارنے کے واقعات نے دوآتشہ کر رکھا ہے۔ ہمیں ایک نظریے   ایک منزل کا تعین کرنا ہو گا۔ ہم محض نعروں سے دل بہلاتے رہے تو آنے والا سورج ہمیں زندگی کی تمازت دینے سے انکارکر دے گا۔

ہاشمی نسب جناب ہاشم بن عبدِمَناف سے شروع ہوتا ہے۔ بلندکردار قریشی سردار، ذہانت و جرأت میں ہی نہیں صداقت و امانت میں بھی اپنی مثال آپ تھا۔ قریشِ مکہ ہرسال موسم گرما میں اپنے تجارتی قافلے شام بھیجا کرتے۔ یہ قافلے سرما میں واپس لوٹتے۔ ان رِحْلَۃَ الشِّتَائِ وَالصَّیْف میں سے ایک قافلہ جناب ہاشم کی قیادت میں جاتا۔ ۲۵ برس کی عمر تک یہ سردار نمایاں ترین مقام حاصل کرچکا تھا۔ لوگ انھیں التَّاجِرُ الصَّدُوق ’انتہائی سچا تاجر‘ کہہ کر پکارنے لگے۔ ۲۵سال کی عمر میں ہاشم بن عبدِمناف تجارتی قافلہ لے کر شام جا رہے تھے کہ وادیِ سینا سے ملحق علاقے غزہ میں انھیں اچانک بیماری نے آن لیا۔ یہ بیماری مرض الموت ثابت ہوئی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جدِّامجد ہاشم بن عبدِمناف غزہ میں انتقال فرما گئے۔ غزہ کے محلے ’الدرج‘ میں آج بھی ان کی قبر موجود ہے۔ قبر کے پڑوس میں ایک شان دار تاریخی مسجد، مسجدِسیدہاشم واقع ہے۔ یہ مسجد ممالیک کے عہد میںتعمیر کی گئی۔ سلطان عبدالحمید نے ۱۸۵۰ء میں اس کی تجدید کی، غزہ کو اسی حوالے سے  غزۂ ہاشم کہہ کر پکارا جاتا ہے۔

مصر کی وادیِ سینا سے منسلک اور بحرمتوسط کے ساحل پر پھیلی ہوئی ۴۰کلومیٹر لمبی اور ۱۰کلومیٹر چوڑی غزہ کی پٹی میں ۱۵ لاکھ فلسطینی بستے ہیں۔ ۱۹۴۸ء میں سرزمینِ فلسطین پر قبضہ کر کے جب صہیونی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تو غزہ کی پٹی مصر کے زیرانتظام آگئی۔ مصری انتظام ۱۹ سال تک قائم رہا۔ ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں دیگر وسیع علاقوں کے ساتھ ہی ساتھ غزہ پر بھی صہیونی افواج نے قبضہ کرلیا اور غزۂ ہاشم پر ابتلا کا نیا دور شروع ہوگیا۔ ۱۹۴۸ء کے بعد دیگر فلسطینی علاقوں سے بھی مہاجرین کی بڑی تعداد غزہ منتقل ہوگئی تھی، آٹھ مہاجر خیمہ بستیاں وجود میں آئیں۔ یہودیوں نے بھی یہاں اپنی ۲۵ جدید بستیاں تعمیر کیں اور غزہ کی یہ مختصر سی پٹی کثافتِ آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے گنجان انسانی آبادی بن گئی۔

مفلوک الحال آبادی سسک سسک کر جی رہی تھی کہ وہاں جہاد و مزاحمت سے آشنا ایک  نئی نسل نے جنم لیا۔ شیخ احمد یاسین، ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی اور انجینیریحییٰ شہید جیسے راہ نمائوں نے اس نسل کی تربیت کا بیڑا اٹھایا۔ اسلامی یونی ورسٹی غزہ جیسے شان دار تعلیمی ادارے قائم کیے اور  بالآخر ۱۹۸۷ء میں اسلامی تحریک مزاحمت (ح: حرکۃ م: المقاومۃ اس: الاسلامیۃ حماس ،یعنی جوش و جذبہ) وجود میں آگئی۔ آغازِکار میں پتھروں اور غلیلوں سے ٹینکوں کا مقابلہ کیا گیا، معصوم بچوں نے کنکریوں سے دیوقامت ٹینکوں اور جدید ترین ہتھیاروں کا مقابلہ کیا۔ ابابیل صفت بچے گھروں سے نکلتے ہوئے باوضو ہوکر آتے، مساجد میں نوافل ادا کرتے اور صہیونی درندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نکل آتے۔ بظاہر صہیونی اسلحے کے انباروں اور بے وسیلہ بچوں کا کوئی تقابل نہیں تھا لیکن دنیا نے دیکھا کہ ہزاروں شہدا، زخمیوں اور قیدیوں کا نذرانہ دینے کے بعد بالآخر بے وسیلہ تحریکِ انتفاضہ  ہی کامیاب ہوئی اور ۱۹۶۷ء سے غزہ پر قابض صہیونی افواج ۲۰۰۵ء میں انخلا پر مجبور ہوئیں۔

صہیونی اور امریکی منصوبہ یہ تھا کہ اسرائیلی انخلا کے بعد غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی  آپس ہی میں لڑتے لڑتے ختم ہوجائیں۔ صہیونی استعمار کے ساتھ مذاکرات و مصالحت کرنے والی الفتح تحریک خودکو فلسطینی عوام کا اکلوتا نمایندہ قرار دیتی رہی ہے۔ وہی۱۹۹۳ء کے بعد سے لے کر غزہ اور مغربی کنارے میں قائم فلسطینی اتھارٹی کے سیاہ و سفید کی مالک تھی۔ صہیونی اور امریکی منصوبہ ساز اس اتھارٹی کے ذریعے فلسطینی مجاہدین کو فلسطینی ’حکمرانوں‘ کے ہاتھوں نیست و نابود کروانا چاہتے تھے۔ اربوں ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا اور یہ جاننے کے باوجود کہ یہ خطیر امدادی رقم چند جیبوں میں جارہی ہے اس کرپشن پر کوئی اعتراض نہ کیا گیا، مزید امداد کے لیے اکلوتی شرط یہی رکھی گئی کہ مزید دہشت گردوں، یعنی مجاہدین کا قلع قمع کرو۔

یہ منصوبہ اور سازش شاید کامیاب ہوجاتی لیکن جنوری ۲۰۰۶ء میں پورا نقشہ ہی بدل گیا۔ انتخابات ہوئے اور حماس نے پہلی بار انتخابات میں شرکت کا فیصلہ کرلیا۔ امریکا، اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی نے لاکھ دھمکیاں دیں کہ اگر حماس کو منتخب کیا گیا تو امداد بند کردی جائے گی… اسرائیل پھر فوج کشی کردے گا… محاصرہ کردیا جائے گا… لیکن فلسطینی عوام نے بھاری اکثریت سے حماس ہی کو اپنا نمایندہ منتخب کیا۔ امریکا، اسرائیل اور ان کی پسندیدہ فلسطینی اتھارٹی سب ایک مخمصے کا شکار ہوگئے۔ اپنے وضع کردہ نظام کو باقی رکھتے ہوئے حماس کو حاصل دو تہائی اکثریت تسلیم کرلیں یا سب کچھ لپیٹ کر، واپس ۱۹۹۳ء سے پہلے کی صورت حال میں جاپہنچیں۔ طویل لیت و لعل کے بعد   صدر محمود عباس کو پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے، منتخب ارکانِ اسمبلی اور ارکانِ حکومت سے حلف لینے کی ہدایات دی گئیں۔ وزیراعظم اسماعیل ھنیہ اور ان کے ساتھیوں نے کام کرنا شروع کردیا۔

کہنے کو تو ایک منتخب حکومت اور پارلیمنٹ وجود میں آگئی لیکن عملاً یہ زہریلے کانٹوں سے بھرا ایک تاج تھا جو حماس حکومت کے حصے میں آیا۔ کہنے کو تو صہیونی انخلا کے بعد غزہ سے اسرائیلی قبضہ ختم ہوگیا تھا لیکن عملاً پورا علاقہ نہ صرف صہیونی گھیرے میں ہے، بلکہ غزہ کے اندر بھی اسرائیلی افواج کی نمایندگی کرنے والے دندناتے پھرتے تھے۔ منتخب حکومت کو ایک دن بھی سُکھ کا سانس نہیں لینے دیا گیا۔ ۱۹۹۳ء میں صہیونی انتظامیہ کے ساتھ اوسلو معاہدے کے نتیجے میں متعارف کروائی جانے والی فلسطینی اتھارٹی کی بنیاد ہی بیرونی مالی امداد اور اسرائیلی شراکت داری پر رکھی گئی تھی، حماس کی حکومت آتے ہی تمام بیرونی امداد یکسر بند کردی گئی۔ اسرائیلی انتظامیہ نے تعاون کے بجاے عداوت کے نئے مورچے کھول لیے اور ان سے یہی توقع تھی۔ حماس نے چیلنج قبول کیا اور کہا کہ امداد بند ہے تو بند رہے ہم اپنا جہاں خود پیدا کریں گے۔ پورے عالمِ اسلام کے عوام نے ان کے لیے مالی امداد جمع کرنا شروع کی، ایک خطیر رقم جمع ہوگئی، بعض حکومتوں نے بھی دست تعاون بڑھایا اور دنیا کو ’خطرہ‘ لاحق ہوگیا کہ حماس حکومت کامیاب ہوسکتی ہے۔ مسلمان ملکوں کے بنکوں پر پابندی عائد کردی گئی کہ کوئی بنک فلسطینی حکومت کے اکائونٹ میں ایک پیسہ بھی منتقل نہ کرے۔ کئی بنکوں نے منتخب فلسطینی حکومت کے لیے جمع شدہ رقوم ضبط کرنے کا اعلان کردیا لیکن حماس نے پھر بھی ہمت نہ ہاری اور ذمہ دارانِ حکومت خود مالی اعانت لے کر غزہ جانے لگے۔

غزہ کو باقی دنیا اور خود فلسطین کے دیگر مقبوضہ علاقوں سے ملانے والے راستوں کی تعداد چھے ہے۔ ان میں سے پانچ تو براہِ راست اسرائیلی انتظام میں ہیں اور غزہ کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے ملاتے ہیں جب کہ ایک راستہ (رَفح گیٹ وے) غزہ کو مصر سے ملاتا ہے۔ وزیراعظم ھنیہ، وزیرخارجہ محمود الزھار اور دیگر کئی ذمہ داران حکومت کو رَفح کے راستے جمع شدہ مالی اعانت غزہ لے جانے سے روکنے کی کوشش کی گئی، لیکن ہربار فلسطینی مجاہدین نے باقاعدہ مزاحمت کرتے ہوئے یہ امداد اندر پہنچائی۔ تقریباً ڈیڑھ برس کا عرصہ یوں ہی گزرا۔ عالمی امداد بند، تمام بّری راستے جزوی طور پر بند، صہیونی فوجی کارروائیوں کا وسیع پیمانے پر دوبارہ آغاز اور سب سے بڑھ کر یہ کہ الفتح تنظیم اور صدارتی افواج کے ذریعے حماس کے ساتھ باقاعدہ مڈبھیڑ کا اہتمام، آئے روز ذمہ داران قتل، مجاہدین گرفتار… صہیونی دشمن کے ہاتھوں نہیں، اپنے ہی بھائی بندوں کے ذریعے۔ اس دوران کئی مصالحتی کوششیں ہوئیں۔ مکہ مکرمہ میں حماس اور الفتح کے درمیان کعبے کے سایے میں ایک تفصیلی معاہدہ طے پایا۔ معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ صدارتی افواج اور الفتح کے مسلح عناصر کے ذریعے منتخب حکومت اور حماس کے خلاف جارحانہ کارروائیاں پھر شروع ہوگئیں۔ اغوا، قتل اور جلائوگھیرائو کی یہ کارروائیاں عروج پر پہنچیں تو بالآخر ۱۴ جون ۲۰۰۷ء کو حماس کے جوانوں نے غزہ سے صدارتی کیمپ کے تمام دفاتر خالی کروا لیے۔ چند گھنٹوں کے اندر اندر غزہ میں صرف حماس ہی کی عوامی و عسکری قوت باقی رہ گئی۔ حماس نے اعلان کیاکہ یہ صرف ایک عارضی اورانتظامی کارروائی ہے، ہم معاہدۂ مکہ کی اصل روح کے ساتھ اپنے تمام فلسطینی بھائیوں سے اشتراکِ عمل چاہتے ہیں، لیکن ۱۴ جون کے واقعات کو بنیاد بناکر غزہ کو مکمل گھیرے میں لے لیا گیا۔

اس محاصرے کو سات ماہ سے زائد عرصہ گزر گیا ہے۔ غزہ آنے جانے کے تمام راستے مکمل طور پہ بند ہیں۔ کوئی گاڑی، کوئی سواری، کوئی شخص غزہ آسکتا ہے، نہ وہاں سے جاسکتا ہے۔ اس مکمل بندش سے زندگی معطل ہوکر رہ گئی۔ ایندھن، پانی، ادویات، سامانِ خوردنوش فلسطینی مقبوضہ علاقوں سے آتا تھا، وہ بند ہوگیا۔ غزہ سے کچھ سامانِ تجارت خصوصاً فرنیچر ملبوسات اور زیتون کی مصنوعات باہر جاتی تھیں وہ بند، غزہ میں موجود ۱۸ہزار سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بند۔ غزہ سے لاکھوں افراد روزانہ محنت مزدوری کے لیے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جاتے تھے، ان کے جانے پر پابندی۔ غزہ میں علاج کی سہولت محدود ہونے کے باعث سنگین امراض کے شکار افراد علاج کے لیے رَفح کے راستے مصر لے جائے جاتے تھے۔ گذشتہ سات ماہ میں کئی افراد کو انتہائی مجبوری کے عالم میں مصر لے جانے کی کوشش کی گئی لیکن انھیں کئی کئی روز راستے ہی میں روکے رکھا گیا جس کی وجہ سے ۸۲افراد راستے ہی میں دم توڑ گئے۔ کئی مریض ایسے تھے کہ حصار سے پہلے مصری ہسپتالوں میں داخل تھے، انھیں علاج کے بعد واپس اپنے اہلِ خانہ کے پاس نہیں جانے دیا گیا۔ ان میں کئی خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

۲۰ جنوری ۲۰۰۸ء محاصرے کی ہلاکت خیزیوں کے عروج کا دن تھا۔ غزہ کی ۱۵ لاکھ آبادی بجلی کے حصول کے لیے مقبوضہ فلسطینی علاقوں اور مصر سے آنے والی سپلائی کے رحم و کرم پر تھی۔    ۵ فی صد بجلی جنریٹروں کے ذریعے غزہ ہی سے فراہم ہوجاتی تھی۔ مقبوضہ علاقوں اور مصر سے آنے والی بجلی پہلے ہی بند کر دی گئی تھی۔ ۵ فی صد پر کسی نہ کسی طرح گزارا ہورہا تھا لیکن یہ جنریٹر بھی تیل سے چلتے ہیں اور ایندھن کی سپلائی گذشتہ سات ماہ سے بند تھی۔ ۲۰ جنوری کو پاکستانی وقت کے مطابق رات ساڑھے گیارہ اور غزہ کے وقت کے مطابق رات ساڑھے آٹھ بجے آخری جنریٹر بھی تیل نہ ملنے کی وجہ سے بند ہوگیا۔ ۱۵ لاکھ افراد پر مشتمل آبادیاں مکمل اندھیرے میں ڈوب گئیں۔ غزہ مکمل طور پہ تاریک ہوگیا۔ صرف تاریکی ہوتی تو اسے برداشت کیا جاسکتا تھا لیکن برقی رَو نہ ہونے کے باعث ٹیوب ویل بند ہوگئے، پانی ناپید ہوگیا۔ ہسپتالوں میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے حسّاس طبی آلات نے کام چھوڑ دیا، جن مریضوں کے آپریشن ضروری تھے یا جن کے آپریشن ہوچکے تھے، موت و حیات کی کش مکش سے دوچار ہوگئے۔ ٹیلی فون ایکسچینج اور موبائل فون کی بیٹریاں ختم ہوگئیں، ذرائع ابلاغ و مواصلات معطل، نقل و حرکت کے وسائل مفلوج، زرعی اجناس کھیت سے منڈی منتقل کرنا محال۔ اسی پر اکتفا نہیں، ساتھ ہی ساتھ اسرائیلی بم باری شروع۔ حماس کے ذمہ داران اور نوجوانوں کو چُن چُن کر میزائلوں کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ منتخب وزیرخارجہ محمود الزھار کا کڑیل جوان بیٹا بھی شہید کردیا گیا (ان کا ایک بیٹا ۲۰۰۳ء میں اس وقت شہید ہوگیا تھا جب خود انھیں میزائلوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ تو محفوظ رہے ہمراہ جانے والا بیٹا شہید ہوگیا)۔ حصار و تاریکی کے تین روز کے اندر اندر ۴۰ کے قریب افراد کو شہید کردیا گیا۔ شہدا اور زخمیوں کی جو فہرست غزہ سے جاری ہوئی ہے اسے دیکھیں توان میں سے صرف تین افراد ایسے ہیں کہ جن کی عمر بالترتیب ۴۲، ۵۴ اور ۵۹ سال ہے۔ باقی سب نوجوان یا بچے ہیں۔

۱۵ لاکھ انسانوں کو اب بھی پوری دنیا کے سامنے روزانہ موت کے گھاٹ اُتارا جا رہا ہے۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ فلسطینی ہیں، اپنے نبیؐ کے قبلۂ اول اور مقام اسراء و معراج پر صہیونی قبضہ تسلیم کرنے سے انکاری فلسطینی۔ لاکھوں افراد کے سامنے جب کوئی راستہ نہ بچا تو ۲۲جنوری کی شام سیکڑوں خواتین رفح کے سرحدی پھاٹک پر جمع ہوگئیں، انھوں نے زبردستی پھاٹک کھولنے کی کوشش کی لیکن مصری انتظامیہ نے ان پر آنسو گیس اور گولیاں چلا دیں۔ اگلے روز، یعنی ۲۳جنوری کو ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی نوجوان اکٹھے ہوئے اور انھوں نے بلڈوزر کے ذریعے غزہ اور مصر کے مابین حائل جنگلے اور آہنی دیوار مسمار کر دی۔ پھر وہاں سے لاکھوں فلسطینیوں کے قافلے مصری شہر عَرِیش اور رَفح کی جانب چل دیے۔ سب کا ہدف صرف یہ تھا کہ تیل، کھانے پینے کا سامان اور لالٹینیں، موم بتیاں خرید کر واپس جاسکیں۔ جب اتنی بڑی تعداد کو روکنا مصر کے لیے ممکن نہ رہا تو صدر حسنی مبارک نے اعلان کیا کہ ہم نے سرحد کھول دی ہے، فلسطینی سامان خوردونوش خریدنے    کے لیے آسکتے ہیں۔ مصری دکان دار اور تاجر ایک انوکھی سرشاری کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ معمول سے بھی کم قیمت پر جو کچھ ہے اپنے محصور بھائیوں کو پیش کر دیتے، بعض اوقات قیمت خرید سے بھی کم پر۔

یہ منظر ایک بڑا سوالیہ نشان بھی ہے۔ ایک ہی قوم، ایک زبان، ایک ہی علاقے کے ساجھی ایک ہی نبیؐ کے اُمتی لیکن چند فٹ کی دیوار اور خاردار تاروں سے یوں تقسیم کردی گئی کہ ایک طرف ۱۵لاکھ انسانی جانیں موت کی دہلیز پر کھڑی ہیں اور دوسری جانب کے حکمران صرف امریکا و اسرائیل کے خوف سے انھیں روٹی، پانی، دوا یا تیل دینے سے انکاری ہیں۔ سرحدی دیوار روند دیے جانے پر امریکا بہادر نے خبردار کیا ہے کہ یہاں سے دہشت گرد اسلحہ اور مجاہدین غزہ جاسکتے ہیں۔ اسرائیل نے بھی دھمکی دی ہے کہ مصر یہ راستہ بند کردے وگرنہ براہ راست کارروائی کریں گے۔ اور مصر نے آمنا وصدقنا کہتے ہوئے یہ سرحدی شگاف بند کردیا۔ اب غزہ سے کسی کو مصر جانے کی اجازت نہیں البتہ فی الحال  مصر کی طرف آئے ہوئے فلسطینیوں کو واپس غزہ کی سب سے بڑی انسانی جیل میں جانے کی آزادی ہے۔ سرحدی شگاف بند کردیا گیا لیکن اس اقدام سے اُمت کے جسد میں جو شگاف ڈالا جا رہا ہے  اس کی کسی کو پروا نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مظلوم کے سامنے جب سب راستے بند کردیے جائیں  تو پھر وہ کسی طرح سرحدیں مسمار کردیتا ہے۔ دنیا نے اس کا  عملی مظاہرہ دیکھ لیا۔

اہلِ غزہ پر توڑی جانے والی اس قیامت پر اُمت نے بیداری و زندگی کا ثبوت دیتے ہوئے پورے عالمِ اسلام میں اس پر احتجاج کیا ہے۔ موریتانیا سے لے کر انڈونیشیا تک ہر جگہ مظاہرے اور مذمتی بیانات جاری ہوئے ہیں۔ سب سے بڑے مظاہرے مصر اور اُردن میں اخوان المسلمون نے کیے ہیں۔ ایران اور لبنان میں بھی بڑے مظاہرے ہوئے ہیں۔ موریتانیا میں خواتین کے مظاہرے میں ایک خاتون رکن پارلیمنٹ وضع حمل کے تیسرے روز بیماری کے باوجود مظاہرے کی قیادت  کے لیے نکل آئی۔ خلیجی ریاستوں بحرین، قطر اور متحدہ عرب امارات کے شہر شارقہ میں بھی مظاہرہ ہوا ہے حالانکہ وہاں کسی سیاسی سرگرمی کی اجازت نہیں ہے۔ دمشق میں ایک بڑی قومی کانفرنس ہوئی ہے۔ کئی عرب ممالک میں مظاہرین نعرے لگا رہے تھے: وَلَایَھُـمُّک فِلَسْطِین - کُلنُّا صَلاحُ الدِّین ’فلسطین فکر نہ کرو ہم سب صلاح الدین ہیں‘۔ اہلِ غزہ نے بھی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بینر بلند کیے: شعب غزہ ما بینھار ’غزہ کے باسی کبھی شکست خوردہ نہیں ہوں گے‘۔ عالمی سروے بتارہے ہیں کہ اہل غزہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ حماس کا ساتھ دے رہے ہیں۔

جب رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے تمام ساتھیوں کو اہلِ خانہ سمیت شعبِ ابی طالب میں محبوس کردیا گیا اور وہ خشک چمڑا اور درختوں کی چھال تک کھانے پر مجبور کردیے گئے تو ایک روز زہیر بن امیہ تڑپ اٹھا، اپنا شان دار جبہ زیب تن کرکے حرم میں آیا، بیت اللہ کا طواف کیا اور کہا: ’’ہم تو انواع و اقسام کے کھانے کھائیں، طرح طرح کے کپڑے پہنیں اور بنوہاشم ہلاک ہوتے رہیں، ان سے ہر طرح کی خرید و فروخت بند ہو…؟ نہیں، خدا کی قسم! نہیں۔ میں تب تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک بنوہاشم سے بائیکاٹ کی ظالمانہ دستاویز پھاڑ نہیں دی جاتی‘‘۔ آج خود ہاشم بن عبدِمناف کے میزبانوں کے لیے غزہ کو شعبِ ابی طالب بنا دیا گیا ہے۔ غزہ اور دیگر فلسطینی آبادیوں کے گرد ۶۵۰ کلومیٹر لمبی اور ۲۵ فٹ اُونچی جدید ہتھیاروں سے آراستہ آہنی دیوار کھڑی کی جارہی ہے۔ (دیوار برلن ۱۵۵ کلومیٹر لمبی اور ۱۱ فٹ ۸ انچ اُونچی تھی) تمام راستے مسدود کر دیے گئے ہیں۔ رسولِ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے جدِّامجد کا میزبان غزہ دہائی دے رہا ہے کہ: کیا دنیابھر میں پھیلے اربوں انسانوں میں سے کوئی بھی زہیر بن اُمیہ نہیں ہے؟

دنیا واقعی ایک عالمی گائوں کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ دنیا کے کسی بھی خطے میں کوئی اہم واقعہ یا حادثہ رونما ہوجائے، ہر شہر اور قصبے بلکہ گائوں اور گوٹھ میں ذرائع ابلاغ پوری تفصیلات و تصاویر بروقت پہنچا دیتے ہیں۔ اس وقت عالمی خبروں میں ایک نمایاں ترین خبر مشرقی افریقہ کے ملک کینیا کے صدارتی انتخابات اور ان کے مابعد کے حالات و واقعات ہیں۔ موجودہ صورت حال کو سمجھنے  کے لیے کینیا کے سیاسی و معاشرتی پس منظر کا مختصر مطالعہ مفید رہے گا۔

کینیا، براعظم افریقہ کا اہم اور مرکزی کردار کا حامل ملک ہے جہاں انتخابات باقاعدگی سے ہوتے رہے ہیں اور فوج کبھی ایوانِ اقتدار پر قابض نہیں ہوسکی۔ اس ملک نے انگریزی استعمار سے سخت جدوجہد اور گوریلا جنگ کے بعد ۱۲دسمبر ۱۹۶۳ء کو آزادی حاصل کی تھی۔ اس وقت کینیا کی آبادی ساڑھے تین کروڑ سے متجاوز ہے۔ خوب صورت ساحلوں، قابلِ دید جزائر اور انتہائی دل فریب پہاڑی مقامات کے علاوہ گھنے جنگلوں اور ہر طرح کے جنگلی جانوروں (wild life)کی وجہ سے یہ ملک دنیا بھر کے سیاحوں کا بھی مرکز ہے۔ پھر موسم اتنا پُرکشش کہ ۱۲ مہینے نہ شدت کی گرمی نہ یخ بستہ سردی، یہاں کے دن اور رات تقریباً سال بھر برابر رہتے ہیں۔

ملک کی آزادی کے بعد پہلا سربراہِ مملکت باباے قوم، مزے جوموکنیاٹا(Mzee Jomo Kenyatta) منتخب ہوا، جسے پوری قوم کا اعتماد اور قابلِ رشک مقبولیت حاصل تھی جو اس کے آخری لمحے تک برقرار رہی۔ وہ اپنی وفات (۱۹۷۸ئ) تک بلاشرکت غیرے ملک کا سربراہ رہا۔ دستور کے مطابق ہر پانچ سال بعد صدارتی اور پارلیمانی انتخاب ہوتے رہے لیکن ملک میں کثیرالجماعتی سیاست ممنوع تھی۔ ایک ہی پارٹی کینیا افریقن نیشنل یونین (KANU) حکمران رہی۔ صدر کنیاٹا کے مقابلے پر کبھی کسی نے کاغذات نامزدگی داخل ہی نہیں کیے تھے، البتہ پارلیمان میں کانو کے ارکان آپس میں مقابلہ کرتے اور تقریباً آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے ذریعے پارلیمان میں پہنچتے تھے۔

آزادی کے بعد ملک کا پہلا نائب صدر، موجودہ اپوزیشن لیڈر رائیلا اوڈنگہ (Raila Odinga) کا باپ اوڈنگہ اوگِنگہ (Oginga) تھا۔ آزادی کے کچھ ہی عرصے بعد صدر اور نائب صدر کے درمیان تنازعات شروع ہوگئے، جس کے نتیجے میں اوڈنگہ کو پس دیوارِ زنداں بھیج دیا گیا۔ کنیاٹا نے زندگی کے آخری برسوں میں اپنے حریف کو جیل سے رہا کردیا مگر وہ مؤثر شخصیت ہونے کے باوجود بدلے ہوئے حالات میں سیاسی میدان میں کوئی خاص مقام حاصل نہ کرسکا۔ کنیاٹا کی اچانک وفات (۱۹۷۸ئ) کے بعد نائب صدر ڈینیل ارپ موئی (Daniel Arapmoi) دستور کے مطابق قائم مقام صدر بن گیا، جو کنیاٹا کے زمانے میں محض ایک نمایشی نائب صدر کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔ موئی نے آہستہ آہستہ اپنی گرفت اتنی مضبوط کرلی کہ نہ صرف حکمران سیاسی پارٹی کانو بلکہ تمام حکومتی اور نیم حکومتی اداروں پر بھی اپنے قبیلے اور من پسند لوگوں کو مسلط کردیا۔ کرپشن اس قدر بڑھی کہ لوگ بلبلا اُٹھے۔ صدر موئی کے خلاف ۱۹۸۲ء میں جونیر افسروں کی طرف سے ناکام فوجی بغاوت ہوئی، جسے اس وقت کے مسلمان آرمی چیف جنرل محمود محمد کی طرف سے کچل دیا گیا تھا۔ اس سے موئی کے حوصلے اور من مانی مزید بڑھ گئی۔

۱۹۹۳ء میں صدر موئی کے چوتھی بار منتخب ہونے کے بعد ملک کے اندر بڑھتی ہوئی بے چینی بالآخر ناقابلِ برداشت ہوگئی۔ لوگوں نے کثیرالجماعتی سیاست کے لیے مظاہرے شروع کردیے۔ ان مظاہروں کو سختی سے کچلنے کی حکومتی کوشش کے باوجود، ان میں مسلسل شدت آتی چلی گئی اور ملک کا بڑا قبیلہ (کیکویو(Kikuyu)، پہلے صدر کنیاٹا اور موجودہ صدر کیباکی (Kibaki) کا قبیلہ)   پوری طرح حکومت کے خلاف منظم ہوگیا۔ موجودہ صدر شروع میں موئی کے ساتھ نائب صدر کے فرائض ادا کرتا رہا تھا۔ موئی نے اسے برخاست کردیا اور نسبتاً چھوٹے قبائل کو اپنے ساتھ ملاکر حکومت بچانے کی پالیسی اختیار کی۔ ۱۹۹۹ء میں احتجاجی تحریک کامیاب ہوگئی اور کثیرالجماعتی سیاست کا آغاز ہوا، مگر انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے حکمران پارٹی ہی برسرِاقتدار رہی۔

صدر موئی کا تعلق کالن جین (Kalenjin) قبیلے سے تھا، جو آبادی کا ۱۲ فی صد ہے۔ کینیا میں ۵۰ سے زائد قبائلی اور لسانی گروپ ہیں لیکن تقریباً ۷۵ فی صد آبادی پانچ بڑے قبائل پر مشتمل ہے۔ باقی چھوٹے چھوٹے گروپ مل کر ۲۵ فی صدبنتے ہیں۔ سب سے بڑا قبیلہ موجودہ صدر موائی (Mwai) کیباکی کا ہے (

۲۲ فی صد)، دوسرے نمبر پر لوہیا (Luhya)، ( ۱۴ فی صد)، تیسرے نمبر پر اپوزیشن لیڈر رائیلا اوڈنگہ کا قبیلہ لوئو (Luo) ( ۱۳ فی صد)، چوتھے نمبر پر کالن جین (۱۲ فی صد) اور پانچویں نمبر پر کامبا (Kamba) ( ۱۱ فی صد) ہے۔ موائی کیباکی  ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں حکمران کانو پارٹی کے صدارتی امیداوار اوصرو کنیاٹا (باباے قوم کا بیٹا) کے مقابلے پر رائیلہ اوڈنگہ اور دیگر گروپوں کی مدد سے جیتا تھا۔ اس نے اپنے مختصر دورِ حکومت میں اپنے پیش رو سے بھی زیادہ کرپشن کی مگر اسے امریکا کی اشیرباد حاصل رہی۔ اس نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی اور کانو کو بھی اپنا حلیف بنا لیا۔ مگر اس کے قریبی ساتھی اس کا ساتھ چھوڑ گئے۔ انھوں نے اس کے خلاف نئی پارٹی، اورنج ڈیموکریٹک موومنٹ بناکر تحریک شروع کردی۔

۲۷ دسمبر ۲۰۰۷ء کے انتخابات میں تین امیدوار حصہ لے رہے تھے جن میں نمایاں دو ہی تھے یعنی موائی کیباکی (حکمران نیشنل یونٹی پارٹی) رائیلا اوڈنگہ (اورنج ڈیموکریٹک موومنٹ) ملک کی سابقہ حکمران پارٹی کانو، موائی کیباکی کی حلیف ہے لیکن وہ اب بے اثر ہوچکی ہے۔ انتخابات میں واضح طور پر اوڈنگہ جیت رہا تھا۔ تمام سروے رپورٹس اور مبصرین کے مطابق اس کی جیت یقینی تھی مگر انتخابات میں بے پناہ دھاندلی اور جھرلو استعمال کیا گیا۔ الیکشن اتھارٹی نے خود بھی نتائج کو مشکوک بنا دیا ہے۔ چیف الیکشن کمیشن صحافیوں کے سامنے بے بس نظر آرہے تھے۔ وہ سارے سوالات کے جواب ہی نہ دے سکے۔ اپوزیشن نے نتائج مسترد کرکے احتجاجی تحریک شروع کر دی۔

انتخابات کے بعد فوری طور پر امریکا نے کینیا کے معاملات میں مداخلت شروع کر دی اور امریکا کی نمایندہ جنڈائی فریزر (Jenday Frazer) حکومت اور اپوزیشن میں مصالحت کرانے کے لیے نیروبی پہنچ گئی اور اب تک اس کام میں سرگرمِ عمل ہے۔ اسی طرح سے آرگنائزیشن آف افریقن یونٹی (OAU) کے سربراہ اور گھانا کے صدر جان کفور (John Kufour) بھی مصالحت کنندہ کے طور پر نیروبی پہنچے۔ نیلسن منڈیلا اور بشپ ڈسمنڈ ٹوٹو جنوبی افریقہ سے نیروبی وارد ہوئے۔ ان سب لوگوں نے حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات کی کوشش کی مگر تاحال کوئی کامیابی نہیں ہوسکی۔ صدر کیباکی کے خلاف عوامی لہر اتنی مضبوط ہے کہ امریکی دبائواور دیگر سفارت کاروں کی کوششوں کے باوجود حزبِ اختلاف اور عوام دھاندلی سے جیتنے والے صدر کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔صدر کیباکی نے متنازعہ انتخابات کے بعد اپنی صدارت برقرار رکھنے کے لیے قومی حکومت کے قیام کا بھی اعلان کردیا، کابینہ میں دیگر پارٹیوں کو نمایندگی دینے کا وعدہ بھی۔ انھوں نے ایک کابینہ کا تقرر بھی کردیا مگر ان کے مدّمقابل رائیلا اوڈنگہ نے اسے جعلی صدر کی جعلی کابینہ کہہ کر مسترد کردیا۔ اپوزیشن کا موقف واضح، دوٹوک، یک نکاتی اورحتمی ہے کہ غاصب اور انتخابی نتائج کے چور سے کسی قسم کے مذاکرات کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ملک کے حالات دگرگوں ہیں اور تمام افریقی ممالک کے لوگ ان کا تجسس سے مطالعہ کررہے ہیں۔ محتاط اندازوں کے مطابق اب تک ایک ہزار سے زائد لوگ ہنگاموں کے دوران پولیس کی گولیوں سے، یا عوامی بلووں کے نتیجے میں مارے جاچکے ہیں، جب کہ کینیا کے وزیرخزانہ ایموس کیمونیا (Amos Kimunya) کے بقول مالی نقصان کا تخمینہ ایک بلین ڈالر ہے اور اربوں شلنگ کی جایدادیں نذرِ آتش ہوچکی ہیں۔ اقوام متحدہ کے اداروں کے تازہ ترین سروے میں تین لاکھ لوگ گھروں سے بے گھر بتائے گئے ہیں اور ابھی تک بڑے شہروں میں زندگی معمول پر نہیں آئی۔ رائیلا اوڈنگہ انقلابی ذہن رکھنے والا ہنگامہ پرور لیڈر ہے، جب کہ موائی کیباکی، امریکا کا منظور نظر۔ ارپ موئی کے خلاف کیباکی کا بڑا حامی رائیلا ہی تھا۔ کیباکی نے گذشتہ پانچ سالوں میں امریکی اشاروں پر جنرل پرویز مشرف کی طرح نام نہاد دہشت گردی کے خلاف ملک میں کئی کریک ڈائون کیے ہیں۔

ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ تمام چھوٹے قبائل بالخصوص سواحلی اور شمال مشرقی علاقوں میں بسنے والے مسلمان پوری طرح اپوزیشن کے ساتھ ہیں۔ مسلمانوں کی حقیقی آبادی کو ہمیشہ گھٹاکر بیان کیا گیا ہے۔ عملاً اس ملک میں مسلمان ۲۵ سے ۳۰ فی صد ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کیباکی امریکی کٹھ پتلی ہے۔ یہ حقیقت تو بالکل عیاں ہے کہ دنیا بھر میں بالخصوص تیسری دنیا کے ممالک میں امریکا کے خلاف شدید عوامی نفرت پائی جاتی ہے۔ مسلم اُمہ میں جو عمومی بیداری نظر آتی ہے، افریقی ممالک میں بھی اس کی ایک نمایاں لہر محسوس کی جارہی ہے۔ نوجوان اسلام کی طرف رجوع کر رہے ہیں اور اپنے اپنے ملکوں میں بحیثیت مسلم کمیونٹی فعال کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔

حزبِ اختلاف کی پارٹی اورنج ڈیموکریٹک موومنٹ میں ساحلی علاقوں سے ایک اُبھرتا ہوا نوجوان نجیب بلالہ بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ وہ اپوزیشن لیڈر اوڈنگہ کے قریب ترین ساتھیوں میں شمار ہوتا ہے اور بعض سیاسی مبصرین کی راے میں اگر اوڈنگہ منتخب ہوجاتا ہے تو نجیب بلالہ یا کسی دوسرے مسلمان لیڈر کے نائب صدر یا کم از کم اہم وزارتوں میں سے کسی وزارت پر آنے کے امکانات خاصے روشن ہیں۔ کینیا کی اپوزیشن اس لحاظ سے قابلِ تحسین ہے کہ مقامی طور پر حکومت کی پُرتشدد کارروائیوں اور بیرونی طور پر سفارتی دبائو کے باوجود وہ کسی ناروا ڈیل یا دبائو کے ذریعے اپنے حق سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ نعرہ اب کینیا میں ہر بچے بوڑھے کی زبان پر ہے کہ غاصب حکومت نامنظور، غاصب سے مذاکرات نامنظور۔ اس نعرے میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے لیے بھی پیغام پنہاں ہے۔

اسلامی ریاست اور مسلم طرزِ حکومت، محمد اسد، مترجم: محمد شبیرقمر۔ ناشر: بیت الحکمت، لاہور۔ ملنے کا پتا: ۱-کتاب سراے، الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ ،اُردو بازار، لاہور۔ ۲-فضلی بک ، سپرمارکیٹ، اُردو بازار، کراچی۔ صفحات: ۱۸۳۔ قیمت: ۱۱۰ روپے۔

قیامِ پاکستان کے بعد اہم ترین مسئلہ یہ تھا کہ اس ملک میں آئین و قانون کیا ہونا چاہیے۔ معروف نومسلم محمداسد اُس زمانے میں یہاں موجود تھے، اُنھوں نے متعدد مضامین کے ذریعے واضح کیا کہ اسلامی مملکت میں شورائیت کا کیا مقام ہے، عوام کو کیا حقوق حاصل ہیں اور عوام و حکومت  مل کر اسلامی فلاحی مملکت کس طرح تشکیل دے سکتے ہیں۔ ان مضامین کو کتابی شکل دی گئی جو   The Principles of State and Government in Islam کے نام سے شائع ہوئی۔ متعدد زبانوں میں اس کے تراجم شائع ہوئے۔ اُردو ترجمہ محمدشبیرقمر نے کیا ہے۔

محمد اسد کے نزدیک اسلام میں دین اور نظامِ سیاست متصادم نہیں ہیں، نیز یہ کہ معاشی آزادی، کمیونزم، نیشنل سوشلزم اور عمرانی جمہوریت جیسے مغربی طرزِ فکر، اُس منزل تک نہیں پہنچ سکے ہیں کہ جسے ’نظام‘ کہتے ہیں (ص ۲۹)۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہم تیزی سے تغیر آشنا اس دنیا کے مکین ہیں اور ہمارا معاشرہ بھی اس سنگ دل قانون کی زد میں ہے (ص ۳۰)۔ کہتے ہیں کہ معیشت، آرٹ، سماجی بہبود جیسے مسائل پر قانونی بیان دینے کے بجاے اس کے عملی اطلاقات کو زیربحث لانا چاہیے تاکہ قرآن و سنت، اِجماع و قیاس پر مبنی نظامِ حکومت عملی زندگی میں بھی کارگر نظر آئے۔

عوامی راے پر مبنی طرزِ حکمرانی اور مجلس شوریٰ میں وہ برملا اظہار کرتے ہیں کہ معقول افراد پر مشتمل ایک مجلس جب کسی مسئلے کو زیربحث لاتی ہے تو ان کی اکثریت جس فیصلے پر پہنچے گی وہ غالباً درست ہوگا (ص ۸۷)۔ مابعد حصے میں ’حاکمہ اور مقننہ‘ کے مابین ربط و ضبط اور ان کے فرائض اور حقوق کی حدود بیان کی گئی ہیں۔ آخری باب ’حاصلاتِ فکر‘ میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ ’’اگر اسلام کے حقیقی خدوخال کو دیکھنے کی تمنا ہے تو پوری ملتِ اسلامیہ کو اپنی زندگیاں اسلام کے معاشرتی اور معاشی اصولوں سے ہم آہنگ کرلینی چاہیے۔ اس ضمن میں حکومتِ پاکستان کو ’محکمہ احیاے ملت اسلامیہ‘ کے قیام کے ذریعے کوشش کرناچاہیے کہ ہمارے کالج اور اسکول اس نئی زندگی کا پورا پورا نمونہ بن سکیں جو اَب ملت کے سامنے ہے۔

محمد شبیر قمر نے انگریزی زبان سے اس کتاب کو اُردو میں منتقل کیا ہے، تاہم کئی مقامات پر بعض اصطلاحات پیچیدہ محسوس ہوتی ہیں۔ اگر عام فہم زبان استعمال کی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔ اسلامی نظامِ حکومت کے قیام کے متمنی اور سرگرم داعیانِ دین کے لیے اور خصوصاً علمِ سیاسیات کے طلبہ کے لیے یہ کتاب ایک تحفہ ہے۔ (محمد ایوب منیر)


کرۂ ارض کے آخری ایام، محمد ابومتوکل،مترجم: رضی الدین سید۔ ناشر: دارالاشاعت،    ایم اے جناح روڈ، اُردوبازار، کراچی۔ صفحات: ۲۹۶۔ قیمت: درج نہیں۔

مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہ جہان فانی ہے اور ایک دن اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے، مگر انجام کیا ہے اور اس سے پہلے کرئہ ارض پر کیا حالات و واقعات رونما ہوں گے؟ اس بارے میں حدیث جبریل ؑ میں تفصیلات موجود ہیں۔ مصنف نے یہی تفصیل اس کتاب میں بیان کی ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے انجینیر ہیں اور انگریزی زبان کے ممتاز اسلامی اسکالر ہیں۔ دراصل یہ ان کی انگریزی کتاب Milestone to Eternity کا جزوی ترجمہ ہے۔

کتاب میں عالمی سرکش اور باغی قوتوں کی مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں اور ہتھکنڈوں کا ذکر کرتے ہوئے قیامت کی بہت سی نشانیوں پر بحث کی ہے، مثلاً زمین سے ٹڈیوں کا خاتمہ،  قتل و خون ریزی کا حد سے بڑھنا، خودکشی کے رجحانات، امانت و دیانت کا خاتمہ، زنا کی کثرت، شراب نوشی، زلزلے، وقت کا مختصر ہونا، جھوٹے انبیا، دخان، دجال، امام مہدی کا دور، ملحۃ الکبریٰ، دابۃ الارض، زمین کے تین دھنسائو، صلیبی جنگیں، سورج کا مغرب سے طلوع وغیرہ شامل ہیں۔ کتاب میں پندونصائح بھی ہیں اور اپنی حالت سدھارنے کا عزم و ہمت اور حوصلہ پیدا کرنے کا سامان بھی۔ (عمران ظہورغازی)


The Reluctant Fundamentalist [مخمصے کا شکار بنیاد پرست]، محسن حامد۔ ناشر: اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس‘ نمبر ۳۸‘ سیکٹر۱۵‘ کورنگی انڈسٹریل ایریا‘ پی او بکس ۸۲۱۴‘ کراچی۔ صفحات: ۱۱۱۔ قیمت: ۱۹۵ روپے۔

ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد امریکا نے دہشت گردی کے نام پر اپنے مذموم مقاصد کے پیش نظر جس جنگ کا آغاز کیا‘ اس کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ مذہب پسند طبقے نے اس کی مخالفت کی۔ زیرنظر ناول میں‘ ناول نگار اس معاشرتی تاثر کو سامنے لایا ہے کہ وہ طبقہ جسے مغرب پرست اور آزاد خیال کہا جاتا ہے، وہ بھی امریکا مخالفت میں اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ محسن حامد ایک پاکستانی ہیں جنھوں نے پرنسٹن یونی ورسٹی اور ہارورڈ لا اسکول سے تعلیم حاصل کی اور نیویارک ہی میں ملازمت اختیار کی۔

اس ناول میں ایک ایسے نوجوان کی کہانی پیش کی گئی ہے جو دہشت گردی کے نام پر جنگ میں امریکی رویے سے دل برداشتہ ہوکر امریکا سے پاکستان لوٹ آتا ہے‘ اور یہاں ایک امریکی کو اپنی کہانی سنا کر پیغام دینے کی کوشش کرتا ہے۔

افغانستان پر امریکا کی شدید بم باری سے اسے پہلی بار اپنے مسلمان بھائیوں کے دکھ درد اور بے چارگی کا احساس ہوتا ہے ۔ایک تجارتی سفر کے موقع پر اسے احساس ہوتا ہے کہ جیسے وہ امریکا کا زرخرید غلام ہے، جسے امریکا اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے‘ افغانستان میں اس کے مسلم بھائیوں کا خون کر رہا ہے‘ اور خود اس کا ملک حالتِ جنگ میں ہے۔ شدتِ احساس سے وہ اسی وقت اپنی ملازمت ختم کرنے اور پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اگرچہ ایک لمحے کے لیے وہ اپنے مستقبل اور کیریر کے بارے میں بھی سوچتا ہے، مگر پھر اس خیال کو جھٹک دیتا ہے۔ اس ناول کے مرکزی کردار کا نام چنگیز ہے، جو وطن واپسی پر بطور لیکچرار ملازمت اختیار کرلیتا ہے۔ مگر اب وہ نوجوانوں کو امریکا کے سامراجی عزائم سے آگاہ کرتا ہے۔

یہ ناول ایک طرف مغرب کی جانب سے اسلام کی توہین پر مبنی سوچ کا ردعمل ہے اور دوسری طرف مغرب بالخصوص امریکا کو دعوتِ فکر دیتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ چنگیز جیسے نوجوان بھی نہ صرف امریکا مخالف ہوجاتے ہیں، بلکہ اُنھی کی اصطلاح میں ’بنیاد پرست‘ بن جاتے ہیں۔ (امجد عباسی)


اقتصادی غارت گر ، (Confessions of An Economics Hit Man) جان پرکنز، مترجم: صفوت علی قدوائی۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈیمی، کراچی۔ تقسیم کنندہ: مکتبہ معارف اسلامی ، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا ، کراچی-۷۵۹۵۰۔صفحات: ۲۳۲۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

مغربی تہذیب ایک سیکولر تہذیب ہے جس کی بنیاد دین سے ماورا، خودساختہ نظریات پر ہے۔ یہ ایک سفاک تہذیب ہے جوانسانیت کا ہر طرح سے خون چوسنے کو روا قرار دیتی ہے۔ زیرنظر کتاب میں ایک اکنامک ہٹ مین (اقتصادی دہشت گرد) نے عالمی اقتصادی لوٹ کھسوٹ کے ایک گوشے کو بے نقاب کیا ہے۔ اکنامک ہٹ مین (ای ایچ ایم) خطیر معاوضے پر خدمات انجام دینے والے وہ پیشہ ور افراد ہیں جن کا کام ہی دنیا بھر میں ملکوں کو دھوکا دے کر کھربوں ڈالر سے محروم کرنا ہے۔ یہ لوگ عالمی بنک، امریکا کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے (یو ایس ایڈ) اور دیگر غیرملکی امدادی اداروں سے ملنے والی رقوم بڑی بڑی کارپوریشنوں کے خزانے اور اس کرئہ ارض کے قدرتی وسائل پر قابض چند دولت مند خاندانوں کی جیبوں میں منتقل کردیتے ہیں۔ یہ ایک سچی کہانی ہے جو طلسم ہوش ربا کی طرح دل چسپ اور رونگٹے کھڑے کردینے والی ہے۔ اس کتاب کا یہ شگفتہ ترجمہ پہلے روزنامہ جسارت کراچی میں قسط وار چھپتا رہا اور یہ سلسلہ بہت مقبول ہوا۔ ادارہ معارف نے اسے کتابی شکل میں شائع کردیا ہے۔ تمام سیاسی کارکنوں اور اقتصادیات سے تعلق رکھنے والوں کو ضرور پڑھنی چاہیے۔(ملک نواز احمد اعوان)


… سورج کو ذرا دیکھ، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی۔ ناشر: کتاب سراے، غزنی سٹریٹ، اُردوبازار، لاہور۔ صفحات: ۲۷۸۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔

زیرنظر سفرنامہ چڑھتے سورج کی سرزمین، جاپان میں گزرے ہوئے چار ہفتوں کی داستان ہے۔ اس کے مصنف مارچ ۲۰۰۲ء میں دائتوبنکا یونی ورسٹی جاپان کی دعوت پر بطور وزٹنگ اسکالر جاپان گئے تھے۔

سفرنامہ عام فہم، سادہ اور سلیس زبان میں قلم بند کیا گیا ہے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کا دوسرا سفرنامہ ہے۔ اس سے پہلے وہ پوشیدہ تری خاک میں …(سفرنامۂ اندلس) بھی شائع کرچکے ہیں جسے نقوش اوارڈ کا اعزاز ملا تھا۔

… سورج کو ذرا دیکھ میں ’جدید‘ سفرنامے کی طرح مہمات سر کرنے کی فرضی کہانیاں بیان نہیں کی گئیں، بلکہ حقائق اور مشاہدات پر توجہ رہی ہے۔ مصنف نے جاپانیوں کے رسوم و روایات، تہذیب و تمدن، رہن سہن اور وہاں کی سیاسی و معاشی حالت، اسی طرح ان کی عادات و خصائل اور وضع داری کا عمدہ نقشہ کھینچا ہے۔ مناظرِ فطرت کا بیان بھی عمدہ اسلوب میں کیا گیا ہے۔ فطرت کے ساتھ انسان کا قلبی لگائو تو ہوتا ہی ہے لیکن اس سفرنامے سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ مصنف فطری مناظر سے غیرمعمولی دل چسپی رکھتے ہیں۔ خاص طور پر ’فوجی سان‘ اور ساکورا کا ذکر تو والہانہ انداز میں کیا گیا ہے۔

یہ سفرنامہ مشاہدے اور تحقیق کا ایک امتزاج ہے جس میں جاپانی مساجد، مندروں، پگوڈوں، پارکوں، پہاڑوں اور اہم تاریخی جگہوں کا تاریخی پس منظر اور تعارف اختصار اور جامعیت سے کرایا گیا ہے۔ مصنف نے جاپانیوں کے بعض مسائل، مثلاً زمین (land) کی قلت، شرحِ پیدایش میں کمی، افرادی قوت میں کمی اور امریکا کے دست نگر ہونے پر بصیرت افروز تبصرے کیے ہیں۔ اسی طرح ہیروشیما پر امریکا کی وحشیانہ دہشت گردی اور اس کے دُور رس اثرات کا ذکر بھی کیا ہے۔ کتاب میں تصاویر اور بعض جاپانی اُردو دانوں کی تحریروں کے عکس بھی شامل ہیں۔ آخر میں اشاریہ بھی دیا گیا ہے جو سفرنامے کی روایت میں اختراع اور ایک خوش گوار اضافہ ہے۔

سفرنامہ پڑھتے ہوئے قاری اپنے آپ کو جاپان کی فضائوں میں سیر کرتا ہوا محسوس کرتا ہے، بلکہ جاپان جانے کا شوق بھی پیدا ہوتا ہے۔ اگر آپ جاپان جانے سے پہلے یہ سفرنامہ پڑھ لیں تو وہاں آپ کو کسی طرح کی اجنبیت محسوس نہیں ہوگی۔ (قاسم محمود احمد)


۱- سفر انقلاب، ۲-قاضی حسین احمد، ۳- اے دخترانِ اسلام، ۴- قاضی اور غازی،  مرتبہ: سمیحہ راحیل قاضی۔ناشر: مکتبہ خواتین میگزین بالمقابل منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ صفحات: (۱) ۲۰۸، (۲) ۸۰ (۳) ۸۰، (۴) ۱۰۴۔ قیمت (علی الترتیب): ۱۶۰، ۶۰ روپے فی کتاب۔

ان چار کتابوں میں سمیحہ راحیل قاضی نے محترم قاضی حسین احمد کی شخصیت، کردار اور   افکار و خدمات کو مختلف زاویوں سے تاریخ کے ریکارڈ کے لیے محفوظ کردیا ہے۔ ملکی اور عالمی حالات کے پس منظر سے اس دور کی تاریخ کا ایک مطالعہ بھی سامنے آجاتا ہے۔ پہلی کتاب میں جماعت اسلامی پاکستان کے مختلف اجتماعات کی روداد پیش کی گئی ہے۔ دوسری کتاب میں امارت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد کی پانچوں تقاریر کو یکجا کردیا گیا ہے۔ تیسری کتاب میں وہ تقاریر پیش کی گئیں، جو خواتین کو مخاطب کر کے کی گئی ہیں۔ آخری کتاب میں قومی سیاست میں قاضی صاحب کے کردار پر اہلِ قلم کی تحریروں کو جمع کیا گیا ہے۔(ا- ع)


سوے حرم ،خصوصی اشاعت نورالقرآن، مرتب: محمد صدیق بخاری۔ پتا: ۵۳- وسیم بلاک، حسن ٹائون، ملتان روڈ، لاہور۔ صفحات: ۳۱۹۔ تحفتاً دستیاب بعوض ۱۰ روپے ڈاک ٹکٹ۔

اُردو زبان میں تفسیر قرآن پر جتنا کام ہوا ہے، عربی زبان کے بعد شاید ہی کسی زبان میں اتنا وقیع اور معتبر کام ہوا ہو۔ ماہنامہ سوے حرم کی اس خصوصی اشاعت میںاُردو مترجمین و مفسرین کے تراجم اور تفسیری آرا کو یک جا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

زیرنظر اشاعت میں سورئہ فاتحہ مکمل اور سورئہ بقرہ آیت ۱ تا ۱۴۱ سے متعلق آرا کو ترتیب سے جمع کیا گیا ہے۔ دو تین آیات کا عربی متن لکھنے کے بعد پانچ چھے مترجمین کے تراجم الگ الگ رقم کردیے ہیں۔ پھر ہر آیت کے اہم مضامین اور اہم الفاظ کی وضاحت میں مختلف تفسیری آرا اس ترتیب سے بیان کی ہیں کہ اہم لفظ یامضمون کی پہلے ایک سرخی قائم کی ہے اورپھر اس سے متعلقہ تفسیری آرا بیان کردی ہیں۔ ہر تفسیر کی عبارت کی تکمیل پر اس کا پورا حوالہ بین السطور بریکٹ میں درج ہے۔ مرتب نے برعظیم کے تمام مسالک کی نمایندگی، ان کے دلائل کے ساتھ جمع کر دی ہے جس سے فہمِ قرآن کے طالب علموں کے لیے قرآنی مطالب تک رسائی میں سہولت پیدا ہوسکتی ہے۔ (اخترحسین عزمی)


یدِ بیضا، ترجمہ و تحقیق: عبدالستار گریوال۔ ناشر: دارالکتاب، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۶۷۲۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

زیرنظر کتاب یدِبیضا ۲۹ مضامین و مقالات پر مشتمل ہے جنھیں مسلم و غیرمسلم دانش وروں نے انگریزی میں تحریر کیا۔ مقالات کی اہمیت کے پیش نظر عبدالستار گریوال نے انھیں اُردو کا روپ دیا ہے۔ یہ مضامین خالصتاً علمی نوعیت کے ہیں۔ بعض مضامین کے مباحث صوفیانہ اور فلسفیانہ ہیں اس لیے عام قاری کے لیے قدرے ثقیل معلوم ہوتے ہیں۔ البتہ بعض مضامین عمومی دل چسپی کے بھی ہیں، مثلاً اسلامی سیاست کے محرکات، اسلام اور مغرب، آج اور کل، دنیاے مغرب اور اس کا اسلام کو چیلنج اور یورپ کا بھولا بسرا ورثہ وغیرہ۔

بعض مضامین میں تحاریک اور اشخاص کو موضوعِ سخن بنایا گیا ہے جیسے صوفی ازم، وہابی تحریک، مولانا مودودی، سید قطب، احمد وبیلو اور علی شریعتی وغیرہ، اور ایک مضمون دارالعلوم دیوبند پر بھی ہے۔ ان مضامین میں سے چند ایک کو ذیلی سرخیاں دے کر زیربحث لایا گیا ہے۔ ترجمہ رواں ہے اور مترجم نے محنت سے کام لیا ہے۔ مقالہ نگاروں کا مختصر تعارف ہر مقالے کے شروع میں دے دیا جاتا تومناسب تھا۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


قصص النسائ، احمد جاد، ترجمہ: ابوضیا محمود احمدغضنفر۔ ناشر: دارالابلاغ پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز، الفضل مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۴۲۹۔قیمت: ۲۵۰ روپے۔

قصے، کہانیوں سے دل چسپی انسان کی فطرت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انسان کی اس فطرت کو پیش نظر رکھا ہے۔ ہمیں قرآن پاک میں جابجا توحید و رسالت، عقائد ومعاملات اور دیگر امور سمجھنے کے لیے قرآنی قصص سے واسطہ پڑتا ہے جس میں اخلاقی و روحانی پہلو خاص طور پر نظر آتا ہے۔ مصنف نے احادیث مبارکہ شامل کرکے کتاب کی افادیت کو دوچند کردیا ہے۔

کتاب میں مختلف موضوعات کے تحت مختلف صفات سے مزین خواتین کے قصے دل نشین پیرایے میں بیان کیے گئے ہیں اور ان کے پسندیدہ، دل کش اور دل آویز پہلوؤں کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ یہ قصے بامقصد ،سبق آموز، عبرت ناک اور ایمان افروز ہیں۔ عبارت سلیس اور عام فہم ہے۔ واقعات کو مربوط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ قاری کی راہ نمائی صراطِ مستقیم کی طرف کرتا ہے۔ خصوصاً خواتین ان مومن اور پاک باز بیبیوں کی سیرت کے مطالعے سے اپنے سیرت و کردار سنوارنے کے لیے راہ نما اصول منتخب کرسکتی ہیں، اور کافر عورتوں کی سوانح عمریاں پڑھ کربرائی اور بدی سے بچنے کا اہتمام کرسکتی ہیں۔ (ربیعہ رحمٰن)


تعارف کتب

  • ڈاکٹر جمیل جالبی: شخصیت اور فن، ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر۔ ناشر: اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد۔ صفحات: ۱۲۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔[معروف ادبی محقق،نقاد، ادیب، مترجم اور کراچی یونی ورسٹی کے سابق  وائس چانسلر ڈاکٹر جمیل جالبی کی ادبی خدمات کا ایک تعارف۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے سلسلے ’پاکستانی ادب کے معمار‘ کی ایک تازہ پیش کش، جس میں جالبی صاب کے سوانح، شخصیت اور فن کے جملہ پہلوؤں کا احاطہ بڑے توازن اور عمدہ تنقیدی صلاحیت کے ساتھ کیا گیاہے۔ تصانیف اور تحریروں کی مکمل فہرست اور سوانحی خاکہ بھی شامل ہے۔]
  • یہ ہے مغربی تہذیب ، ڈاکٹر عبدالغنی فاروق۔ناشر: بیت الحکمت، لاہور۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے،   غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۳۳۳۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔ [۱۹۸۵ء سے ۲۰۰۶ء تک (۲۰ سال) کے اخبارات کے تراشے جن سے مغربی تہذیب کا اصل چہرہ (خاندانی زندگی کی تباہی، عورتوں اور بچوں کی حالت زار، اخلاقی اور دیگر ہر طرح کے جرائم کی کثرت وغیرہ) بے نقاب ہے۔ یہ احساس ہوتا ہے کہ تمام تر خرابیوں کے باوجود ہم خوش قسمت ہیں کہ مغربی تہذیب کے رنگ میں ابھی پوری طرح رنگے نہیں گئے۔]
  • پاکستان کے نعت گو شعرا (تذکرہ)، دوم، سید محمد قاسم۔ ناشر: حرا فائونڈیشن پاکستان (رجسٹرڈ) کراچی۔  تقسیم کار: فضلی سنز، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۲۲۱۲۹۹۱۔ صفحات: ۴۱۶۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ [ہر شاعر کا ایک یا پون صفحے کا سوانحی تعارف اور ایک ایک نمونے کی نعت۔ ڈاکٹر حسرت کاس گنجوی، طاہر سلطانی اور ڈاکٹر عزیز احمد نے تحسین کی ہے۔ ریسرچ اسکالر شہزاد احمد نے نعتیہ تذکرہ نگاری کی روایت بیان کی ہے۔]
  • ۳۶۵ کہانیاں حصہ دوم، محمد ناصر درویش۔ناشر: مکتبہ بیت العلم، ST-9E بلاک ۸، گلشن اقبال ، کراچی۔ صفحات: ۲۱۸۔قیمت: ۱۵۰ روپے۔[قرآن، حدیث، تفسیر، تاریخ، سیرت و سوانح اور اُردو ادب سے جمع کیے گئے دل چسپ اور سبق آموز واقعات اور کہانیاں۔بچوں کی ذہن سازی اوراسلامی خطوط پر تعلیم و تربیت کے پیش نظر کہانیوں کے سلسلے کا یہ دوسرا حصہ ہے۔ دین کی بنیادی تعلیمات کے ساتھ ساتھ گھر، مدرسے اور اسکول میں ایک اچھی زندگی گزارنے کے لیے آداب کو ملحوظ رکھ کر کہانیاں ترتیب دی گئی ہیں۔ قدیم و جدید علمی ورثے کو منتقل کرنے کی ایک کاوش۔]

عمران ظہور غازی ‘لاہور

’انتخابی تماشا: شرکت یا بائیکاٹ‘ (جنوری ۲۰۰۸ئ) کارکنان تحریک کے لیے، بائیکاٹ کے سلسلے میں قدیم و جدید اور تاریخی لوازمے پر مبنی ہیں جس میں الیکشن بائیکاٹ کا مدلل تجزیہ پیش کیا گیا ہے جو اطمینان اور شرح صدر میں اضافے کا باعث بنے گا۔ ’آزادی راے اور تضحیکِ مذہب‘، ’نظریۂ ضرورت: قانون اور انصاف کا خون‘ وقت کا اہم تقاضا ہیں۔ یہ زندہ موضوعات اچھے لگے۔ نیا سرورق بہت خوب ہے۔


عبداللّٰہ ‘کراچی

’امریکی دھمکیاں اور ملکی سلامتی‘ (جنوری ۲۰۰۸ئ) بروقت ہے اور اسی نقشے پر عمل ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس چیلنج کا بھرپور جواب دینے کی ضرورت ہے۔ ’ڈی این اے، تخلیق الٰہی کا کرشمہ‘ اپنے موضوع پر عمدہ تحریر ہے۔ ’سائنس اور مشاہدۂ فطرت پر مبنی مزید تحریریں دینا مفید ہوگا۔ شیخ فرغلی شہیدؒ کے تذکرے سے ماضی کی یادیں تازہ ہوئیں اور تحریکی کردار بھی اُجاگر ہوکر سامنے آیا، تاہم ان کے عہد کا حوالہ ضروری تھا۔


ڈاکٹر راشد محمود ‘لاہور

سیدمودودی کی تحریر: ’جب انتخابات کے ذریعے تبدیلی ناممکن بنا دی جائے‘ (جنوری ۲۰۰۸ئ) سے   نہ صرف برموقع رہنمائی میسر آئی، بلکہ انتخاب یا انقلاب کی بحث کے حوالے سے ایک اہم پہلو بھی سامنے آیا۔ درحقیقت تبدیلی کے لیے فیصلہ کن عامل راے عامہ کی تائید ہے۔ اس حوالے سے غوروفکر کی ضرورت ہے کہ راے عامہ کی ہمواری کے لیے کس حد تک عوامی شعور کو اُجاگر کرنے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔ انتخاب یا انقلاب تو ان مساعی کا حتمی نتیجہ ہے۔

’کامیاب زندگی: چند عملی پہلو‘ میں مفید رہنمائی دی گئی ہے، البتہ عبادات کے ساتھ ساتھ ایفاے عہد اور ہمسایے کو اذیت سے محفوظ رکھنا جیسے عملی پہلو اس لحاظ سے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں کہ ان سے غفلت کے نتیجے میں ایمان تک ضائع ہوسکتا ہے۔ اس پہلو پر توجہ کی ضرورت ہے۔


عبدالرؤف‘منچن آباد، بہاول نگر

’اشارات‘ میں بائیکاٹ کے جماعتی فیصلے اور ملکی صورت حال پر تجزیہ اہلِ وطن کے لیے چشم کشا ہے۔ ’حکمت مودودیؒ ،میں واضح اشارہ موجود ہے کہ کوئی چیز بھی جبراً لوگوں پر ٹھونسی نہیں جاسکتی، جب تک عقائد و افکار نہ بدلے جائیں۔ نیز لوگوں کے دلوں میں اخلاص، قربانی اور جذبۂ ایمانی کے بغیر یہ جدوجہد اپنے نتائج حاصل نہیں کرسکتی۔ انھی چیزوں پر بنیادی توجہ مرکوز کر کے ۱۰ سالہ مؤثر لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔


حکیم محمد یحیٰی عزیز ڈاہروی‘قصور

’انتخابی تماشا، شرکت یا بائیکاٹ‘، ’آزادیِ راے اور تضحیکِ مذہب‘ اور ’ڈی این اے، تخلیق الٰہی کا کرشمہ، خاصے کی چیزیں ہیں۔ بالخصوص ڈی این اے کی معلومات میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر پختگی اور  صاحب ِ بصیرت انسانوں کے لیے رہنمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات اور اس میں جو مخفی خزانے رکھے ہیں انھیں نہ تو مکمل طور پر کسی دور میں دریافت کیا گیا، نہ ہوسکتا ہے بلکہ یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا۔


لیفٹیننٹ کرنل (ر) محمد اکبر خاں ‘راولپنڈی

’نظریۂ ضرورت، قانون اور انصاف کا خون‘ (جنوری ۲۰۰۸ئ) میں جسٹس سردار محمد رضا کے   اختلافی نوٹ کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ مجھے جج کے اختلافی نوٹ پر کوئی اعتراض نہیں یہ اُن کا قانونی حق ہے۔ مجھے صرف اُن کے قرآنی آیات سے نظریۂ ضرورت کی نفی کا پہلو نکالنے اور قرآنی آیات سے اپنے مطلب کے معنی نکالنے پر اختلاف ہے۔ قرآن پاک سے جو چند حوالے دیے گئے ہیں ان میں سے کسی حوالے سے بھی نظریۂ ضرورت کی نفی ہرگز نہیں ہوتی۔ متعدد آیات سے نظریۂ ضرورت کا اثبات ہوتا ہے۔ حالت ِ اضطرار میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو حرام کے استعمال کی محدود اجازت دی ہے (بحوالہ البقرہ ۲:۱۷۳، المائدہ ۵:۳)، تو پھر اپنے ملک کے نظام اور اسلامی شناخت کو بچانے کے لیے انسان کے بنائے ہوئے قانون اور آئین سے انحراف کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ اسی مجبوری کا نام نظریۂ ضرورت ہے۔


ڈاکٹر سید ظاہر شاہ ‘پشاور

’انسانی وسائل کی ترقی، اسلامی نقطۂ نظر، (دسمبر ۲۰۰۷ئ) ایک اہم موضوع پر قیمتی کاوش ہے۔ شاید پہلی مرتبہ اس مسئلے کو اسلامی نقطۂ نظر سے پیش کیا گیا ہے۔ تعلیم و تربیت ہی دراصل ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ (ایچ آر ڈی) ہے جو اسلامی نظامِ زندگی کا جزوِلاینفک ہے۔ اس اہم کام سے مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں  مسلم معاشرے اخلاقی بحران کا شکار ہیں۔ مغرب کے پیشِ نظر صرف دنیاوی مفاد ہے، اس لیے نصابِ تعلیم سے دینی عنصر کو خارج کردیا گیا ہے۔ مصنف نے اصل مرض کی نشان دہی بھی کی ہے کہ ہمارے ملک میں صلاحیت اور مہارت کا فقدان نہیں، بلکہ اصل اور بنیادی مسئلہ بددیانتی (کرپشن)، بے ایمانی، خیانت اور   دھوکا دہی ہے جو سرطان کی طرح افراد، اداروں اور پورے معاشرے میں سرایت کرچکا ہے۔ مرض کی تشخیص کے ساتھ علاج بھی بتا دیا گیا ہے کہ ’’مہارتوں کو اعلیٰ اقدار کے تابع ہونا چاہیے‘‘۔ مصنف نے صحیح کہا ہے کہ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کا اصل مطلوب وہ متوازن شخصیت ہے جو دنیا میں مؤثر کردار ادا کرنے کی صلاحیت و استعداد بھی رکھتی ہو اور ساتھ ہی آخرت میں جواب دہی کی فکر بھی۔ اس موضوع پر مزید کام اور بحث کی ضرورت ہے۔

 

اخلاقی گراوٹ

ہم میں کتنے فی صدی آدمی ایسے پائے جاتے ہیں جو کسی کا حق تلف کرنے میں، کوئی ناجائز فائدہ اٹھانے میں، کوئی ’مفید‘ جھوٹ بولنے اور کوئی ’نفع بخش‘ بے ایمانی کرنے میں صرف اس بنا پر تامل کرتے ہوں کہ ایسا کرنا اخلاقاً بُرا ہے؟ جہاں قانون گرفت نہ کرتا ہو، یا جہاں قانون کی گرفت سے بچ نکلنے کی اُمید ہو وہاں کتنے فی صدی اشخاص محض اپنے اخلاقی احساس کی بنا پر، کسی جرم اور کسی برائی کا ارتکاب کرنے سے باز رہ جاتے ہیں؟ جہاں اپنے کسی ذاتی فائدے کی توقع نہ ہو وہاں کتنے آدمی دوسروں کے ساتھ بھلائی، ہمدردی، ایثار، حق رسانی اور حسنِ سلوک کا برتائو کرتے ہیں؟ ہمارے تجارت پیشہ لوگوں میں ایسے تاجروں کا اوسط کیا ہے جو دھوکے اور فریب اور جھوٹ اور ناجائز نفع اندوزی سے پرہیز کرتے ہوں؟ ہمارے صنعت پیشہ لوگوں میں ایسے افراد کا تناسب کیا ہے جو اپنے فائدے کے ساتھ کچھ اپنے خریداروں کے مفاد اور اپنی قوم اور اپنے ملک کی مصلحت کا بھی  خیال رکھتے ہوں؟ ہمارے زمین داروں میں کتنے ہیں جو غلّہ روکتے ہوئے اور بے حد گراں قیمتوں پر بیچتے ہوئے یہ سوچتے ہوں کہ اپنی اس نفع اندوزی سے وہ کتنے لاکھ بلکہ کتنے کروڑ انسانوں کو فاقہ کشی کا عذاب دے رہے ہیں؟ ہمارے مال داروں میں کتنے ہیں جن کی دولت مندی میں کسی ظلم، کسی حق تلفی اور کسی بددیانتی کا دخل نہیں ہے؟ ہمارے محنت پیشہ لوگوں میں کتنے ہیں جو فرض شناسی کے ساتھ    اپنی اُجرت اور اپنی تنخواہ کا حق ادا کرتے ہیں؟ ہمارے سرکاری ملازموں میں کتنے ہیں جو رشوت    اور خیانت سے، ظلم اور مردم آزاری سے، کام چوری اور حرام خوری سے، اور اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال سے بچے ہوئے ہیں؟ ہمارے وکیلوں میں، ہمارے ڈاکٹروں اور حکیموں میں، ہمارے اخبار نویسوں میں،ہمارے ناشرین و مصنفین میں، اور ہمارے قومی ’خدمت گزاروں‘ میں کتنے ہیں جو اپنے فائدے کی خاطر ناپاک سے ناپاک طریقے اختیار کرنے اور خلقِ خدا کو ذہنی، اخلاقی، مالی اور جسمانی نقصان پہنچانے میں کچھ بھی شرم محسوس کرتے ہوں؟ (’بنائو اور بگاڑ‘، ابوالاعلیٰ مودودی، جلد ۳۱، عدد۵، ذی القعدہ ۱۳۶۷ھ، ستمبر ۱۹۴۸ئ، ص ۳۱۵-۳۱۶)