۸ اکتوبر کے زلزلے نے کشمیر اور پاکستان کے شمالی اضلاع کو جس تباہی اور بربادی کا نشانہ بنایا‘ اس کی نظیر حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی‘ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ناقابلِ فراموش ہے کہ اس آزمایش اور ابتلا کا مقابلہ ملت اسلامیہ کشمیر و پاکستان نے جس ہمت اور حوصلے سے کیا‘ اس نے غم و اندوہ کی تاریک رات میں ایمان‘ عزم اور اُمید کے ایسے چراغ جلا دیے جن سے تاریکیاں چھٹنے لگیں اور نئی زندگی کے چشمے اُبھرتے نظر آنے لگے۔ اس تباہی میں بھی ہمارے لیے بڑا سبق ہے اور تعمیرنو کی اس جدوجہد میں بھی بڑا حیات آفریں پیغام ہے۔ زندہ قوموں کا یہی شیوہ ہے کہ ؎
تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے
طبعی زلزلوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے والی قوم کو اب ایک دوسری نوعیت کے زلزلوں سے سابقہ درپیش ہے۔ طبعی زلزلہ کسی پیشگی اطلاع کے بغیر‘ اچانک ہی زمین اور اس کے باسیوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے لیکن جو خوفناک سیاسی زلزلے اب پر تول رہے ہیں‘ ان کو آنے سے پہلے دیکھا اور پہچانا جاسکتا ہے اور ان کو روکنے کا وقت بھی ان زلزلوں کی گرفت سے پہلے پہلے ہے۔ طبعی زلزلوں کے نقصانات کی تلافی واقعے کے بعد ہوسکتی ہے مگر سیاسی زلزلوں کے جلو میں آنے والی تباہی سے بچنے کا واحد راستہ ان زلزلوں سے پہلے پیش بندی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ کچھ عاقبت نااندیش مصیبت (calamity)کو امکانِ نو (opportunity) کا نام دینے کی کوشش کررہے ہیں‘ یہ دراصل عظیم تر مصیبت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ طبعی زلزلوں کی لائی ہوئی تباہی کا مداوا ریلیف‘ بحالی اور تعمیرنو سے ممکن ہے مگر جو سیاسی زلزلے آج کشمیر پر منڈلا رہے ہیں‘ ان سے بچنے کا راستہ مصیبت کے آنے سے پہلے اس کے لیے تیاری میں مضمر ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس سیاسی کھیل کواچھی طرح سمجھا جائے جو اس وقت اسلام آباد‘ دہلی اور واشنگٹن میں کھیلا جارہا ہے اور آنے والی تباہی سے ملک و ملّت کو بچانے کا بروقت اہتمام کیا جائے ورنہ خدانخواستہ گھر کی تباہی کے بعد واویلا کسی کام کا نہ ہوگا۔
۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد تباہی کے جو طوفان اٹھے ہیں اور اُمت مسلمہ کو ایک کے بعد ایک چرکا لگا ہے‘ صرف افغانستان اور عراق ہی نہیں بلکہ فلسطین‘ کشمیر اور شیشان اور ان کے ساتھ اسلامی احیا کی تمام تحریکات اور خود اسلام کے بنیادی تصورات تک اسی طوفان کی زد میں ہیں۔ لیکن اس یلغار کا سب سے الم ناک پہلو یہ ہے کہ امریکا اور برطانیہ کی موجودہ قیادت تو اس صلیبی جنگ کی اصل سرخیل ہے ہی‘ لیکن خود مسلمان ممالک کے کچھ حکمران بھی اس کے دست و بازو بن گئے ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی موجودہ قیادت اور خصوصیت سے جنرل پرویز مشرف اس مسلم کُش جنگ میں جارج بش کا دست راست بن چکے ہیں اور جس طرح افغانستان پر یوٹرن اور طالبان سے بے وفائی کر کے انھوں نے افغانستان ہی نہیں عراق کو بھی امریکا کی محکومی کا شکار ہونے میں مدد دی‘ اسی طرح اب امریکا کے نقشۂ کار پر عمل کرتے ہوئے بھارت سے دوستی اور کشمیر کے مسئلے سے گلوخلاصی کی تباہ کن پالیسی پر گامزن ہوگئے ہیں۔ اب صاف نظر آرہا ہے کہ کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کے سینے میں خنجر گھونپنے اور بھارت کی بالادستی کو مستقل حیثیت دینے کے لیے کشمیر سے فوجی انخلا (demilitarization)‘ خودانتظامی (self governance)‘ اور ریاست ہاے متحدہ کشمیر (United States of Kashmir) کا سہ نکاتی فارمولا سامنے لایا گیا ہے جسے مسئلے کے مستقل حل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ان میں سے کوئی بھی چیز نہ نئی ہے اور نہ مسئلے کے حقیقی حل کی طرف کسی پیش رفت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
مسئلہ کشمیر پر جنرل مشرف کی پسپائی کا آغاز ۲۰۰۲ء میں ہوگیا تھا۔ جیسے ہی وہ امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی گرفت میں آئے اور ’مجبوری کے اتحاد‘ (coalition of the coerced) کا حصہ بنے کشمیر پر پسپائی کا آغاز ہوگیا۔ پہلے دہشت گردی اور جنگِ آزادی میں فرق کیا جاتا تھا‘ اب وہ فرق پادر ہوا ہوگیا اور جنرل صاحب بھی ’سرحد پار دراندازی‘ کی بھارتی قیادت کی زبان استعمال کرنے لگے جسے بالآخر ۶جنوری ۲۰۰۴ء کے بھارت پاکستان اعلامیہ کے دہشت گردی پروٹوکول کی شکل میں ایک مستقل زنجیر کی حیثیت دے دی گئی۔ اسی دوران بڑی چابک دستی سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ایک طرف رکھ دینے کی بات شروع ہوگئی اور متبادل تجاویز کے غبارے چھوڑے جانے لگے۔ یہ سب کچھ ایک فردِواحد کے فیصلے اور اشارے پر کیا گیا اور۵۸سالہ قومی اتفاق راے‘ دستورپاکستان کے واضح لوازم اور ایک بار نہیں بار بار پارلیمنٹ میں کیے گئے اعلانات اور قراردادوں کو بالاے طاق رکھ کر کسی قومی مشاورت کے بغیر چھے ایسے اقدام کیے گئے جن کے نتیجے میں پاکستان کی کشمیر پالیسی تار تار ہوگئی اور بھارت اور امریکا کے گٹھ جوڑ نے علاقے کے بارے میں جو نقشہ بنایا ہوا تھا اس کے لیے زمین ہموار کی جانے لگی۔
۱- خارجہ پالیسی میں کشمیر کی مرکزیت اور خصوصیت سے بھارت سے معاملات کو طے کرنے میں اس مسئلے کی اولیت کے اصول کو یک طرفہ ترک کر دیا گیا۔ بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگی گئی اور کشمیر کے مرکزی ایشو (core issue) ہونے کو عملاً ترک کردیا گیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی کا یہ ہدف کہ اصل مسئلہ کشمیر نہیں‘ پاکستان سے تجارت‘ ثقافت اور دوسرے میدانوں میں تعاون اور تعلقات کو معمول پر لانا ہے‘ اسے خود پاکستان کی موجودہ قیادت نے قبول کرلیا اور اعتمادسازی کے اقدامات (CBM's) کے نام پر اس راستے پر بگ ٹٹ سرگرم ہوگئی۔
۲- اقوام متحدہ کی قرارداد کو ایک طرف رکھ دیا گیا ہے جو دراصل کشمیر سے دست کش ہوجانے کی طرف پہلا قدم تھا۔ مسئلہ کشمیر کی اصل بنیاد ___ قانونی‘سیاسی‘ اخلاقی‘اقوام متحدہ کی قراردادیں ہی ہیں اور اس سلسلے میں سب سے اہم قرارداد …۱۹۴۸ء کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی وہ قرارداد ہے جس میں صاف لفظوں میں کہا گیا ہے:
مسئلہ کشمیر کو پرامن طور پر حل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ریاست کو غیر فوجی علاقہ قرار دے دیا جائے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب راے منعقد کیا جائے۔
حق خود ارادیت ایک بنیادی حق ہے جسے اقوام متحدہ کے چارٹر میں تسلیم کیاگیا ہے اور وقت کے گزرنے سے اس حق پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ ۱۹۹۳ء میں ویانا میں منعقد ہونے والی انسانی حقوق کی عالمی کانفرنس سے لے کر ۱۹۹۴ء میں کوپن ہیگن میں Social Summit‘ پھر ۲۰۰۰ء میں منعقد ہونے والی Millenium Summit اور خود ۲۰۰۵ء میں ہونے والی اقوام متحدہ کی عالمی سربراہ کانفرنس نے اس حق کے ناقابل سمجھوتہ ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ ایک مبصر کے الفاظ میں:
سب نے غیر ملکی قبضے اور بیرونی تسلط کی مذمت میں تمام انسانوں کے حق خودارادیت کی تصدیق کی۔
جموں و کشمیر کے عوام کے اس حق خود ارادیت اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں اس کے واضح اقرار سے دست کش ہونے کا اختیار کسی شخص کو نہیں تھا اور نہ ہے___ لیکن جنرل صاحب نے اہلِ کشمیر ہی نہیں‘ پوری مظلوم انسانیت کے اس حق پر ہاتھ صاف کرڈالا‘ جب کہ ان کے اس اعلان کی خبر وزیرخارجہ‘ وزارتِ خارجہ اور پارلیمنٹ کو رائٹر کی خبر سے ملی اور کسی سے مشورہ کرنے کی زحمت کرنا انھوں نے گوارا نہ کی۔ ان کے اس اعلان کی کوئی قانونی‘ سیاسی یا اخلاقی حیثیت نہیں اور پاکستانی قوم اور جموں و کشمیر کے عوام نے اسے رد کردیاہے لیکن جنرل صاحب نے پاکستان کی پوزیشن کو بری طرح مجروح کیا اور تحریکِ مزاحمت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
۳- بیرونی اقتدار کے خلاف تحریکِ مزاحمت اور حقیقی دہشت گردی کے درمیان فرق کو نظرانداز کر کے اور امریکا‘ بھارت اور اسرائیل کی دی ہوئی لائن پر صاد کر دیا گیا ہے۔ یہ اقدام بھی خود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں اور غیروابستہ تحریک کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی ہے اور خود عالمِ اسلام کے اہلِ علم و دانش کے اس اعلامیے کی ضد ہے جو ۱۱ستمبر کی نام نہاد امریکی جنگ کے بعد مکہ مکرمہ میں چھے روزہ اجتماع کے بعد جاری کیا گیا تھا جس میں صاف الفاظ میں اعلان کیا گیا تھا کہ دہشت گردی عام انسانوں کو اپنے تشدد کا نشانہ بنانے سے عبارت ہے جس کا کوئی جواز نہ ہو اور جس کا ارتکاب خواہ کوئی فرد کرے‘ یا گروہ یا ریاست۔ البتہ بیرونی قبضے اور تسلط کے خلاف مزاحمت کی ہر وہ کوشش جو افراد یا گروہ اپنی آزادی اور مسلط قوت یا سامراجی قبضہ کاروں (colonial settlers) سے اپنی اور اپنے وطن کی گلوخلاصی کے لیے کر رہے ہوں‘ اس سے مستثنیٰ ہے۔
۴- یک طرفہ جنگ بندی کر کے یہ اعلان کر دیا گیا ہے کہ جنگ مسائل کا حل نہیں۔ حالانکہ یہ سوال ہی مہمل ہے کہ جنگ حل ہے یا نہیں۔ جنگ تو نام ہی سیاسی حل کی ناکامی کا ہے اور اس صورت میں بین الاقوامی قانون اور تعلقات کے تمام ہی مستند اہلِ علم جنگ کو خارجہ پالیسی کا ایک ہتھیار قرار دیتے ہیں۔ جس طرح ملک کے اندر امن و امان‘ جان و مال کا تحفظ اور قانون‘ حقوق اور معاہدوں کے احترام کے لیے فوجداری قانون‘ پولیس اور نظامِ احتساب ہوتا ہے‘ بالکل اسی طرح عالمی امن اور ملکی سلامتی اور دفاع کے لیے فوج کا وجود اور جنگ کا کردار ہے۔ اگر جنگ کا کوئی کردار نہیں تو پھر فوج کا کیا جواز ہے۔ سفارت کاری‘ سیاسی معاملہ بندی اور جنگ کا سدِّجارحیت (deterrent) کردار‘ سب کا عالمی سیاست میں اپنا اپنا حصہ ہے۔ بھارت کی جنگی تیاریوں اور فوجی عزائم کی موجودگی میں پاکستانی قیادت کی طرف سے اس نوعیت کے اعلانات ذہنی شکست کی علامت ہیں اور دشمن کو شہ دینے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل صاحب کی خاکساری کی تمام باتوں اور صلح اور دوستی کے لیے منتوں کے باوجود بھارتی قیادت کا رویہ تکبر‘ غرور اور مبارزت کا ہے۔ ۱۸نومبر ۲۰۰۵ء کو بھارتی ایئرچیف مارشل ایس پی تیاگی نے پونا یونی ورسٹی میں جو ہرزہ سرائی کی ہے وہ ہماری قیادت کے منہ پر طمانچے کی حیثیت رکھتی ہے:
پاکستان اور بھارت کے مابین اعتماد کے نئے رشتے کے باوجود پاکستان بھارت کا دشمن اوّل رہے گا اور ہماری سلامتی کے لیے مسلسل خطرہ رہے گا۔ ہم پاکستان کو دشمن اوّل سمجھتے ہیں لہٰذا ہم بھارتی فضائیہ کی طاقت میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔
پھر موصوف نے وہ تفصیلات بیان کیں جو بھارتی فضائیہ کو ناقابلِ تسخیر ہی نہیں‘ علاقے کے لیے سب سے بڑی جارح قوت بنانے کے لیے کی جا رہی ہیںجس میں ملک میں جنگی طیاروں کی تیاری‘ ایف-۱۶ طیاروں کی خریداری اور ٹکنالوجی کا حصول‘ جدید ہیلی کاپٹروں کی خرید‘ ایئرڈیفنس میزائل کی ترقی‘ مگ ۲۱ اور ۲۷ اور جیگوار طیاروں کو جدید ٹکنالوجی سے آراستہ کرنا شامل ہے۔
۵- پانچویں بڑی غلطی سفارت کاری کا وہ نادر طریقہ ہے جو جنرل صاحب نے شروع کر رکھا ہے‘ یعنی اپنی طرف سے نت نئی تجاویز (options) کی بارش اور پھر اپنی ہی تجویز سے ایک نئی پسپائی‘ جب کہ بھارت کی طرف سے بڑھ بڑھ کر یہ اعلان کہ زمین کے معاملے میں کوئی بات نہیں ہوسکتی‘ بھارتی دستور اور وہاں کی پارلیمنٹ کی قرارداد سے ہٹ کر کوئی اور متبادل تجویز زیرغور نہیں لائی جاسکتی‘ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور اگر کوئی بات چیت ہوگی تو وہ آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کے بارے میں ہوگی‘ اور خرابی کی ساری جڑ دہشت گردی اور سرحد پار دراندازی ہے۔ مذہب کی بنیاد پر کوئی بات چیت ممکن نہیں وغیرہ۔ بھارت کی سیاسی قیادت ہی نہیں‘ ہر سطح کی قیادت کی یکسوئی‘ ہم آہنگی اور اپنے موقف پر استقامت کے مقابلے میں ہماری سفارت کاری پسپائی اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔
۶- اس سلسلے کی چھٹی اور بڑی ہی مہلک غلطی جو جموں و کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کے لیے ضرب کاری کی حیثیت رکھتی ہے‘ وہ آل پارٹیز حریت کانفرنس (APHC) کی تقسیم ہے۔ کشمیری عوام کی اس معتمد علیہ قیادت سے جو ایک طرف تصور پاکستان کی امین ہے تو دوسری طرف جس کی قربانیاں بے مثال اور جس کا عزم و ہمت لازوال ہے‘ بے وفائی اور اپنی پسند کے چُھٹ بھیّوں کو پروپیگنڈے کی بیساکھیوں کے ذریعے لیڈری کی خلعت سے نوازنا بے حد شرمناک ہے۔ حکومت پاکستان کی ان قلابازیوں سے کشمیری مزاحمت کی اصل قیادت پر کوئی اثر نہیں پڑا جو سید علی شاہ گیلانی‘ حزب المجاہدین اور دوسری حقیقی سیاسی اور جہادی قوتوں سے عبارت ہے۔ وہ اسی طرح اپنے اہداف کے حصول کے لیے سرگرم ہیں جس طرح پہلے تھیں لیکن حکومت پاکستان کی ساکھ اور کشمیر کے کاز سے اس کی وفاداری پر ایسے چرکے لگے ہیں کہ دوبارہ اعتماد کو بحال کرنا ایک مشکل کام بن گیا ہے۔ پاکستان کی موجودہ قیادت اور کشمیر کی تحریک مزاحمت کی حقیقی قیادت میں بڑا بُعدواقع ہوگیا ہے اور ہمیں ڈر ہے کہ یہ بُعد پاکستان کو بہت مہنگا پڑسکتا ہے۔
ان غلطیوں کا فطری نتیجہ اب یہ سامنے آیا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کی نوعیت ہی بدل گئی ہے۔ جنرل صاحب اور ان کے حواریوں کے لیے اب اصل ایشو جموں و کشمیر کے عوام کا حق خود ارادیت نہیں بلکہ صرف خود انتظامیت (self governance) ہے۔ یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ کشمیر کو پانچ یا سات علاقوں میں تقسیم کرکے‘ بھارت اور پاکستان کے تحت کچھ اختیارات دینے کی بات کی جانے لگی ہے۔ اس میں چار چاند لگانے کے لیے اس امریکی اسکیم کو جسے ۲۰۰۰ء میں امریکا کے ایک کروڑپتی بھارتی کشمیری نے چند امریکی سیاست دانوں اور دانش وروں کے ساتھ مل کر پیش کیا تھا اور سب کشمیری گروپوں اور پاکستان کے اہلِ دانش نے اسے رد کر دیا تھا‘ دوبارہ زندہ کیا جا رہا ہے۔ اسے ’یونائیٹڈ اسٹیٹس آف کشمیر‘ کے نام سے چند کشمیری رہنما اس طرح پیش کر رہے ہیں جس طرح کشمیر کی ’خودمختاری‘ (autonomy) کے خیالی نقشے خود شیخ عبداللہ نے ۱۹۵۳ء میں پیش کیے تھے اور ان کی پاداش میں وہ بیک بینی و دوگوش مسند وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کرکے زنداں کی تاریکیوں کے حوالے کردیے گئے تھے جہاں سے ان کو ’راے شماری‘ کی روشنی دوبارہ نظر آنے لگی تھی۔
صاف نظر آرہا ہے کہ جنرل صاحب اور ان کے حواری ذہنی طور پر شکست کھاچکے ہیں اور اب کشمیر کے مسئلے سے دست کش ہونے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ امریکا کے روڈمیپ پر عمل کر رہے ہیں اور فضا سازگار کر رہے ہیں کہ کشمیر کی تقسیم مستقل شکل اختیار کرلے‘ وہ لائن آف کنٹرول کو بین الاقوامی سرحد چاہے نہ بھی کہیں لیکن عملاً اسے مستقل سرحد ماننے پر تلے ہوئے ہیں اور نرم سرحدوں اور سرحدوں کو غیرمتعلق (irrelevant) کرنے کی طفل تسلیوں سے قوم کا دل خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کشمیر کے ایک حصے پر بھارت کی مستقل بالادستی اور دوسرے پر پاکستان کی‘ اس نقشے کا اصل حصہ ہیں جو اہل کشمیر کی پوری جدوجہد پر پانی پھیرنے اور ان کی قربانیوں کو خاک میں ملانے کے مترادف ہے۔ جنرل صاحب کے وزیراعظم اپنے ایک بیان میں یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ اب کشمیر کے مسئلے کے مستقل حل کی صورت بس فوجوں کی واپسی اور خودانتظامی میں مضمرہے:
منگل کو وزیراعظم شوکت عزیز نے کہا کہ پاکستان بھارت سے اپنے دیرینہ طویل مدت سے برقرار تنازعے کو ختم کرنے کے لیے کشمیر سے فوجی انخلا اور خودانتظامی کی تائید کرتا ہے۔ (دی ڈیلی ٹائمز‘ ۳۰ نومبر ۲۰۰۵ئ)
دیکھیے بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔ اس قیادت کی نگاہ میں اس دیرینہ مشکل مسئلے کا خاتمہ فوجوں کی واپسی اور خود انتظامی میں ہے۔ یہ کشمیر کے کاز کے ساتھ کھلی غداری اور جموں و کشمیر کے عوام کی قربانیوں کا سودا کرنے کے مترادف ہے جسے کشمیر کے عوام اور پاکستانی قوم کبھی قبول نہیں کرسکتی۔ جو بات جنرل مشرف‘ شوکت عزیزاور میرواعظ عمرفاروق فرما رہے ہیں‘ وہ صاف طور پر حق خود ارادیت سے دست برداری اور بھارت اور پاکستان کے زیرتسلط منقسم کشمیر میں کسی قسم کی خود انتظامی کے بھارتی اور امریکی منصوبے کے آگے سپرڈال دینے سے عبارت ہے۔ اس کا یہی وہ مفہوم ہے جو امریکا اور بھارت کے دانش ور اور پالیسی ساز سمجھ رہے ہیں‘ البتہ اسے قابلِ قبول بنانے کے لیے بھارت ذرا تغافل‘ تجاہل اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا ہے‘ ورنہ تقسیمِ کشمیر اور نام نہاد خود انتظامی اس کا اصل مقصود ہے‘ اور پاکستانی قیادت کی زیادہ سے زیادہ پسپائی کے بعد وہ اس فارمولے کو تسلیم کرے گا۔ وہ ساری مزاحمت پاکستانیوں کے لیے اسے قابلِ قبول بنانے کے لیے نمایشی طور پر کر رہا ہے۔
یہ ’آزادی‘ سے کتنا بعید تصور ہے! ایک عشرے پہلے کا حقیقی پریشانی اور تراشیدہ سیاسی مکر کا مرکب‘ جب کہ بہت سے لوگ سوچنے لگے تھے کہ بھارتی قبضے کا اختتام قریب ہے۔
وہ کہتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی نرم سرحدوں کی بات اور جنرل پرویز مشرف کے خود انتظامی اور فوجوں کی واپسی کی تجویز ان خطوط کار کی نشان دہی کررہے ہیں جن کے مطابق معاملات طے ہوسکتے ہیں۔ اس کی نگاہ میں میرواعظ عمر فاروق کی یونائیٹڈ اسٹیٹس آف کشمیر کی تجویز سونے پر سہاگہ ہے۔ وہ بڑے معنی خیز انداز میں سوال کرتا ہے کہ:
سوال یہ ہے کہ آیا نرم سرحدیں اور خود انتظامی ایک ہی چیز ہیں؟
بالآخر آزادی کو تاریخ کے سپرد کر دینے کے بعد سیکڑوں نئے تصورات اُبھرے۔ اس بحث کا سب سے ہیجان انگیز (exciting) پہلو یہ ہے کہ بحث کا آغاز ہوگیا۔ (دی نیوز انٹرنیشنل‘ ۱۵ دسمبر ۲۰۰۵ئ)
امریکا کا مشہور کالم نگار جوناتھن پاور جس کا کالم ۵۰ اخبارات میں شائع ہوتا ہے‘ پاکستان کی طرف سے دی گئی رعایتوں کی طویل فہرست بیان کرکے کہتا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو ختم کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ اس لیے کہ:
یہ وقت ہے کہ آگے بڑھا جائے‘ جب کہ عسکری مردِ آہن مشرف پاکستان کو کچھ دے سکتا ہے۔ ایک سال کے بعد ہونے والے مجوزہ انتخابات اس کا بھرم کھول سکتے ہیں۔
یہ پاکستان ہے جس نے حساس رعایات دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے‘ جیساکہ اس پر تیار ہونا کہ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے وعدے کہ مسئلے کو استصواب رائے کے ذریعے حل ہونا چاہیے‘ کو ایک طرف ڈالنا اور یہ قبول کرنا کہ کشمیر کا بیشتر حصہ براہِ راست بھارتی حاکمیت کے ماتحت رہے۔
مزید یہ کہ مشرف نے فوج اور جہادیوں کے درمیان نال (umbilical cord)کو بالآخر کاٹ دیا ہے۔ شاید بھارت اپنے کو بہت زیادہ مطمئن محسوس کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اگر وہ انتظار کرے تو پاکستان مزید رعایتیں دے سکتا ہے۔ (دی ڈیلی ٹائمز‘ ۱۶دسمبر ۲۰۰۵ئ‘ ص ۱۳)
پاکستانی قیادت اپنے کو‘ اپنے عوام کو خود فریبی میں مبتلا کرنے کے لیے کچھ بھی کہے‘ جنرل پرویز مشرف کی کشمیر پالیسی کشمیر سے دست برداری سے کم کوئی چیز نہیں ہے اور پاکستانی قوم کو اس کھیل کو سمجھ کر اپنا کردار بلاتاخیر اور مؤثر ترین انداز میں ادا کرنے کے لیے کمربستہ ہوجانا چاہیے۔
مسئلہ کشمیر کی اصل حقیقت کو پراگندا کرنے کی جو ناپاک کوشش ہو رہی ہے‘ اسے سمجھنا بہت ضروری ہے۔ کشمیر کی جدوجہد آزادی تقسیمِ ملک کے بعد شروع نہیں ہوئی‘ اس سے بہت پہلے شروع ہوگئی تھی۔ قرارداد پاکستان (۱۹۴۰ئ) سے بھی ۱۰ سال پہلے کشمیر میں عوامی تحریک اور قربانیوں کا لازوال سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور اس پوری جدوجہد کا ایک ہی ہدف تھا___ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کا ظالمانہ ڈوگرہ راج اور اس کے سرپرست برطانوی سامراج سے آزادی اور ریاست کے اسلامی تشخص کی روشنی میں اس کے مستقبل کی تعمیروتشکیل۔ قرارداد پاکستان کے اختیار کیے جانے اور تحریکِ پاکستان کے شروع ہوجانے کے بعد فطری طور پر تحریک آزادی کشمیر اس وسیع تر تحریک کا حصہ بن گئی۔ تقسیم ملک کے اعلان کے ساتھ جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے تحریک الحاق پاکستان کا آغاز کر دیا۔ آزاد کشمیر کا جو علاقہ آزاد ہوا ہے وہ کسی کی عنایت سے نہیں بلکہ مجاہدین کی قربانیوں سے آزاد ہوا ہے۔ اسی طرح شمالی علاقہ جات کے عوام کا اُٹھ کھڑا ہونا اور قربانیاں اس اسٹرے ٹیجک علاقے کی آزادی اور پاکستان سے رشتہ استوار کرنے کا ذریعہ بنی۔ اس حقیقت کو بھلایا جا رہا ہے کہ آزادی کی یہ تحریک ۱۹۳۰ء سے برسرِ جہاد ہے اور ۴۸-۱۹۴۷ء میں جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے ۴ لاکھ افراد کی قربانی پیش کرکے اس علاقے کو آزاد کرایا ہے جو آج آزاد جموںو کشمیر کے نام سے تحریک آزادیِ کشمیر کا بیس کیمپ بنا ہوا ہے۔ ۱۹۸۹ء میں مقبوضہ کشمیر میں جو مزاحمت اور جہاد کی تحریک رونما ہوئی وہ اسی کا تسلسل اور سیاسی اور جمہوری ذرائع سے تبدیلی کے تمام دروازے بندکرنے کا نتیجہ ہے۔
پھر یہ بات بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ جسے آج خود انتظامی (self governance) کہا جا رہا ہے وہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ ۱۹۵۳ء تک شیخ عبداللہ کے دور میں جو نقشۂ کار بنایا گیا تھا اس میں کم از کم نظری طور پر خودانتظامی کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے دستور میں ایک خاص دفعہ ۳۷۰ اس کے لیے رکھی گئی۔ گو بعد میں بھارت نے اس شق کی دھجیاں بکھیر دیں اور پورے کشمیر پر بدترین مرکزی آمریت مسلط کی لیکن ’خود انتظامی‘ کا دلاسہ بار بار دیا گیا۔ پھر نرسیمارائو کے زمانے میں زیادہ سے زیادہ (maximum) خودمختاری کی باتیں ہوئیں اور جموں و کشمیر کی اسمبلی نے جون ۲۰۰۲ء میں ایک قرارداد بھی منظور کی۔ شیخ عبداللہ اور اندرا گاندھی کے معاہدے کا مرکزی تصور بھی خودانتظامی ہی تھا اور آج بھی بھارت کی قیادت یہ دعویٰ کررہی ہے کہ وہ کشمیر کو خود انتظامی دے چکی ہے اور اگر خود انتظامی کی کہیں کمی ہے تو وہ پاکستانی حصہ یعنی آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں ہے۔
جموں و کشمیر پہلے ہی بھارتی دستور کے تحت خودمختاری سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور آزاد اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے ایک مقبول منتخب حکومت قائم تھی۔ انھوں نے جناب عزیز کو بتایاکہ: ’’پاکستان کے زیرنگرانی کشمیر میں خودمختاری کا واضح فقدان ہے اور گلگت بلتستان میں عوام کی خواہشات اور تمنائوں کا تعین کرنے کے لیے کسی بھی طرح کے عوامی انتخابات نہیں ہوئے ہیں‘‘۔ (دی ہندو‘ دی نیشن‘ ۱۰ دسمبر۲۰۰۵ئ)
پاکستان کی موجودہ قیادت نے خود انتظامی کی بات کر کے کشمیر کے بارے میں اپنے سارے کیس کو خود ہی تباہ کر ڈالا ہے۔ مسئلہ خود انتظامی کا نہیں‘ خود ارادیت کا ہے۔ اب ایشو ہی بدل گیا ہے اور ہم بھارت کے جال میں پھنس گئے ہیں اور جیساکہ جوناتھن پاور نے صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ جنرل پرویز مشرف اپنے اس موقف کی وجہ سے کشمیر کے بڑے حصے پر بھارت کی مستقل حاکمیت کو تسلیم کرچکے ہیں اور نتیجتاً کشمیر کی تقسیم کو مستقل حیثیت دینے پر تیار ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ عبداللہ کے بیٹے ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور اس کے پوتے اور نیشنل کانفرنس کے موجودہ صدرعمر عبداللہ نے میرواعظ اور جنرل مشرف کی اس تجویز کو ’پرانی بوتل پر نیا لیبل‘ قرار دیا ہے اور میرواعظ پر طنزکرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اگر ان کو ہمارا ایجنڈا ہی چرانا تھا تو ہزاروں افراد کو مروانے کی کیا ضرورت تھی‘‘۔
بھارت تو دراصل کسی حقیقی ’خودانتظامی ‘ کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور یہی وجہ ہے کہ دستور کی دفعہ ۳۷۰ میں بار بار ترمیم کی گئی ہے اور صدارتی حکم ناموں سے اس کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے۔ نیز مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کی ۲۶ جون ۲۰۰۰ء کی قرارداد جس میں خوداختیاری (autonomy) کا مطالبہ کیا گیا تھا وہ ۴ جولائی ۲۰۰۰ء ہی کو بھارتی کابینہ کے فیصلے کے ذریعے رد کر دیا گیا تھا اور تاریخ شاہد ہے کہ بھارت کسی شکل میں بھی حقیقی خوداختیاری دینے کے لیے نہ کبھی تیار ہوااور نہ ہوگا۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ خود انتظامی ایشو ہے ہی نہیں۔ اصل ایشو ایک اور صرف ایک ہے اوروہ ہے جموں و کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کا۔ اس کے حصول کے لیے خواہ کتنی ہی مدت لگے‘ وہاں کے عوام اس سے کم پر کبھی تیار نہیں ہوسکتے۔ وہ ۴۸-۱۹۴۷ء میں ۴ لاکھ افراد کی قربانی دے چکے ہیں اور ۱۹۸۹ء سے اب تک ایک لاکھ افراد جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں اور ان کے جذبے اور جدوجہد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ ان کو اگر کوئی مایوسی ہے تو وہ پاکستان کی قیادت سے اور اس کی روز روز کی قلابازیوں اور بے وفائیوں سے ہے۔ ورنہ ان کا حال تو یہ ہے کہ ؎
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُر دَم ہے اگر ُتو‘ تو نہیں خطرہ افتاد
گذشتہ دو سال میں پاکستان نے جو پے بہ پے غلطیاں کی ہیں اور جنرل پرویز مشرف کی ساری پسپائیوں کے جواب میں بھارت نے جس ہٹ دھرمی‘ضد اور اپنے اٹوٹ انگ موقف پر ڈٹے رہنے کا مظاہرہ کیا ہے‘ اس پر اب خود جنرل مشرف اور وزیرخارجہ خورشید قصوری بار بار کہہ رہے ہیں کہ بھارت نے کوئی لچک نہیں دکھائی اور ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں پانچ سال پہلے کھڑے تھے___ لیکن اس کے باوجود تاریخ سے نابلد اس قیادت کی آنکھیں نہیں کھلتی ہیں اور وہ امریکا کے بھروسے پر مزید پسپائیاں اختیار کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
اس زمانے میں جو بھی بھارت یا مقبوضہ کشمیر گیا ہے‘ وہ اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ پاکستان کی اصولی اور متفق علیہ کشمیر پالیسی آج پارہ پارہ ہوچکی ہے اور پاکستان پر کشمیری عوام کا اعتماد بری طرح متزلزل ہوچکا ہے‘ جب کہ بھارت کی کشمیر پالیسی میں کوئی فرق نہیں آیا ہے اور وہ پاکستان سے مزید رعایات کا اسی طرح مطالبہ کر رہا ہے جس طرح اسرائیل مجبور فلسطینیوں سے شب و روز کررہا ہے۔ امریکا اپنا کھیل کھیل رہا ہے۔ وہ ایک طرف پاکستان کو مزید پسپائی اختیار کرنے پر زور دے رہا ہے اور دوسری طرف بھارت کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے پر تلا ہوا ہے۔ نیز اس کا مفاد اس میں ہے کہ کشمیر منقسم رہے مگر کوئی ایسی صورت نکل آئے جس سے امریکا کو اس علاقے میں مزید قدم جمانے‘ اپنی فوجوں کے قیام کے لیے کچھ اور علاقہ حاصل کرنے‘ اور پورے علاقے کی نگرانی کے لیے یہاں اپنی موجودگی کے لیے مزید سہولتیں حاصل کرنے کا موقع مل جائے۔
یونائیٹڈ اسٹیٹس آف کشمیر کی امریکی تجویز دراصل کشمیر فار یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کا ایک جال ہے۔ امریکی دانش وروں کی کشمیر اسٹڈی کا ہدف اس کے سوا کچھ نہیں۔البتہ ایک مزید پہلو مطلوب ہے اور وہ کشمیر کے اسلامی تشخص کو بگاڑنا اور وہاں ایک سیکولر نظام کا فروغ‘ نیز بالآخر خود پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنا اور پاکستان اور بھارت کو لسانی‘ معاشی‘ تہذیبی وحدت کی طرف لے جانا جو بالآخر تقسیم ہند کے تاریخی عمل کو الٹی سمت میں موڑ سکے اور پھر اکھنڈ بھارت کی کوئی شکل وجود میں آسکے۔ اس ذہن کو سمجھنے کے لیے صرف دو حوالے پیش کرنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔
نئے وجود کا اپنا سیکولر جمہوری دستور ہوگا‘ اپنی شہریت‘ جھنڈا اور مقننہ ہوگی جو دفاع اور خارجہ امور کے علاوہ تمام معاملات پر قانون سازی کرے گی۔ بھارت اور پاکستان کشمیر کے وجود کے دفاع کے ذمہ دار ہوںگے۔ امید کی جائے گی کہ بھارت اور پاکستان کشمیر کے لیے مالی انتظامات کریں گے۔
بھارت کی مرکزی حکومت دفاع‘ خارجہ امور اور مواصلات کے شعبے رکھ سکتی ہے اور دوسرے تمام معاملات پر کشمیریوں کو خود اپنے اُوپر حکومت کی اجازت دی جائے گی۔ بے شک پاکستان کو بھی لائن آف کنٹرول کی اپنی طرف اسی طرح کی اجازت دینا ہوگی۔ (سیفما لیکچر‘ ڈیلی ٹائمز‘ ۱۳ دسمبر ۲۰۰۵ئ)
مشہور بھارتی صحافی اور کالم نگار کلدیپ نائر نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان امن کا عمل پورے جنوبی ایشیا پر پھیل سکتا ہے اور ایک واحد ریاست وجود میں آسکتی ہے جس کی نرم سرحدیںاور معاشی خوش حالی ہو۔ (دی نیوز‘ ۱۴ دسمبر ۲۰۰۵ئ‘ ص ۱۸)
کلدیپ نائر نے ایک بار پھر بڑے شدومد سے یہ بات کہی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر مسئلے کا کوئی حل قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ ان کی تقریر کا سارا زور اس پر تھا کہ قائداعظم نے پاکستان بناکر غلطی کی اور مولانا ابوالکلام آزاد کا تصور درست تھا‘ بلکہ اپنے انٹرویو میں تو قائداعظم سے یہاں تک منسوب کرگئے کہ تقسیم کے بعد وہ اس شک میں مبتلا تھے کہ تقسیم صحیح ہوئی یا غلط۔ افسوس اس انٹرویو کے وقت کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ اس صریح دریدہ دہنی پر اس کی گرفت کرتا:
کراچی میں بحریہ کے ایک نوجوان افسرنے مسٹر جناح سے پوچھا کہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا حصول صحیح قدم تھا یا نہیں؟ نائر کے مطابق‘ قائداعظم کا جواب تھا: میں نہیں جانتا۔
قائداعظم پر اس سے بڑا الزام ممکن نہیں۔ تقسیم کے بعد ایک نہیں ان کی درجنوں تقاریر گواہ ہیں کہ انھوں نے پاکستان کے قیام کو اللہ کا کتنا بڑا انعام اور مسلمانوں کی کتنی عظیم کامیابی قرار دیا۔ لیکن بھارت اور اس کی قیادت کا جو ذہن تقسیم سے پہلے تھا‘ آج بھی وہی ہے اور اصل ہدف تقسیم کی نفی اور مذہب کی بنیاد پر اجتماعی زندگی کی صورت گری کے مقابلے میں سیکولرازم کو مسلط کرنے کا نصب العین ہے۔ سارا کھیل اسی کے لیے ہے۔ پنجاب میں لسانی وحدت اور تجارت اور تہذیب و ثقافت دونوں ہتھیاروں کا بے محابا استعمال قائداعظم اور ملت اسلامیہ پاکستان کی جدوجہد سے حاصل شدہ اس آزاد اسلامی ملک کو ایک بار پھر کسی نہ کسی شکل میں بھارت کے ساتھ نتھی کرنے کے لیے ہے۔ستم ہے کہ کچھ جواں سال دانش ور یہ مشورے دے رہے ہیں کہ تاریخ کو بھول جائو اور نئے بام و در تلاش کرو حالانکہ تاریخ کو نظرانداز کرنا ایسی سنگین غلطی ہے کہ اس کی تلافی ممکن نہیں۔ تاریخ بڑی ظالم نقاد ہے۔ یاد رکھیے‘ جو تاریخ سے خود سبق نہیں سیکھتے‘ تاریخ انھیں اپنے انداز میں بڑا سخت سبق سکھاتی ہے۔ بھارت اور امریکا کا نقشۂ کار بالکل واضح ہے۔ اس سے وہی آنکھیں بند کرسکتا ہے جو آنکھوں دیکھتے کنویں میں چھلانگ لگانے پر تلا ہوا ہو۔ ہمیں یقین ہے کہ ملت اسلامیہ پاکستان خودکشی کی اس راہ پر قوم و ملک کو دھکیلنے کی کسی کوشش کو گوارا نہیں کرسکتی۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی کی اس زبوں حالی کی اصل وجہ کیا ہے؟ اس کی اصل وجہ فردِ واحد کی حکمرانی‘ پارلیمنٹ کی بے بسی اور قومی احتساب کی کمی بلکہ فقدان ہے۔ ہمارا اصل سانحہ ہی یہ ہے کہ قومی امور پر فیصلے کرنے کے لیے مؤثر اداراتی نظام (institutional set-up) یا موجود نہیں یا اسے غیرمؤثر کر دیا گیا ہے۔ غلام محمد کے دَور سے لے کر جب وہ گورنرجنرل تھے جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے تک‘ کسی نہ کسی شکل میں اداروں کے انہدام کا عمل جاری رہا ہے جو جنرل مشرف کے دور میں اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ معاملہ کشمیر کا ہو یا فوج کے سیاست میں کردار کا‘ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا مسئلہ ہو یا قومی مالیاتی ایوارڈ کا‘ بھارت سے دوستی کا مسئلہ ہو یا اسرائیل سے سلسلہ جنبانی کا‘ زلزلے کے متاثرین کے لیے ریلیف اور بحالی کی بات ہو یا صوبوں کے ترقیاتی منصوبوں اور ترجیحات کا معاملہ‘ ایک فردِواحد ہے جو محض اپنی ذاتی پسند و ناپسند (sweet will)‘ ترجیحات اور تعصبات کی روشنی میں معاملات طے کر رہا ہے۔ باقی سب کا حال یہ ہے کہ ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم! سینیٹ‘ پارلیمنٹ‘ عدلیہ‘ سب غیرمؤثر ہوکر رہ گئے ہیں بلکہ ہم بربناے علم یہ بھی ریکارڈ پر لے آنا چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے نہ صرف یہ کہ بیش تر سابق سفارت کار اور خارجہ پالیسی پر گہری نگاہ والے دانش ور غیرمطمئن ہیں بلکہ خود دفترخارجہ ایک مخمصے کا شکار ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے موجودہ پالیسی کے بنانے میں خود دفترخارجہ کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اداروں کے تباہ کیے جانے کا اس سے اندوہناک منظر کیا ہوگا؟ یہی وجہ ہے کہ جب تک اداروں کو بااختیار اورمستحکم کرنے کا اہتمام نہیں ہوگا اور عوام اور سیاسی اور دینی قوتیں اپنے اختیارات کو غاصبوں سے چھین کر دوبارہ اپنے ہاتھ میں نہیں لے آتے‘ ہماری آزادی‘ سالمیت‘ نظریاتی تشخص‘ معاشی صلاحیت ہر چیز دائو پر لگی رہے گی۔ اس لیے خرابی کی اصلاح کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر موجودہ قیادت کو قومی خودکشی کے راستے سے روکا جائے‘ وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ مسائل کے مستقل حل کے لیے فردِواحد کی حکمرانی کے نظام کو لگام دی جائے اور دستور اور قانون کی بالادستی‘ پارلیمنٹ کی حکمرانی اور عوام کے حقیقی اختیارات کے لیے جدوجہد کی جائے تاکہ خرابی کی جڑ کو دُور کیا جاسکے۔
کشمیر کے مسئلے پر جو بات سب سے زیادہ ضروری ہے‘ وہ اصولی موقف پر استقامت اور دنیا کے حالات کو دیکھ کر ایسی حکمت عملی کی تشکیل ہے جو ہمارے اصولی اور تاریخی اہداف کے حصول کاذریعہ بن سکے۔منزل تک پہنچنے کے لیے نئے راستے اختیار کرنا تو مطلوب ہے لیکن بظاہر راستہ نظر نہ آنے پر منزل ہی ترک کر دینا حماقت ہی نہیں قومی خودکشی بھی ہے۔
پاکستان کے دستور کی دفعہ ۲۵۷ میں قومی پالیسی کو نہایت نپے تلے الفاظ میں درج کردیا گیا ہے۔ اس کے مطابق ریاست ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے‘ اس کا وہی فیصلہ قبول کیا جائے گا جو وہاں کے عوام استصواب رائے کے ذریعے کریں گے۔ بعد میں پاکستان سے اس ریاست کے تعلقات وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق طے کیے جائیں گے۔ یہی وہ پالیسی ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں سے مطابقت رکھتی ہے اور یہی اصول انصاف اور جمہوریت کا تقاضا ہے۔
اس بنیادی پالیسی فریم ورک کی روشنی میں ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت جلدبازی سے کوئی اُلٹا سیدھا ’حل‘ تلاش کرنا ایک عاجلانہ اقدام ہوگا جو پاکستان اور کشمیری عوام دونوں کے مفاد کے منافی ہے۔ اس وقت جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے‘ وہ صبروہمت اور حکمت کے ساتھ اپنے اصولی موقف پر قائم رہنا ہے۔ عالمی حالات میں تیزی سے تغیر آرہا ہے۔ امریکا کی خون آشام پالیسیاں دم توڑ رہی ہیں۔ پوری دنیا کے عوام تو امریکی پالیسیوں کے مخالف تھے ہی‘ اب خود امریکا میں بھی ہوا کا رخ بدل رہا ہے اور عراق میں امریکا کی شکست نوشتۂ دیوار بن گئی ہے۔ دنیا کے دانش ور چِلّا رہے ہیں کہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں دنیا میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے اور سب کا امن و سکون تہ وبالا ہوچکا ہے۔ اب یہ جنگ اور اس کے جلو میں بنائی جانے والی پالیسیاں انسانی آزادی اور جمہوری اقدار کے لیے خطرہ بنتی چلی جارہی ہیں۔ ان حالات میں سارا انحصار امریکا پر کرنا بہت بڑی حماقت ہے۔
اس وقت مسئلے کو زندہ رکھنا وقت کی اصل ضرورت ہے اور اس کے لیے تحریک مزاحمت کے ساتھ ایسی یک جہتی کا اظہار ہونا چاہیے جو پاکستان پر مقبوضہ کشمیر کے عوام کے اعتماد کو مزید پروان چڑھائے اور کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو ان کے اعتماد کو مجروح کرنے والی ہو۔ اس سے مکمل احتراز کیا جائے۔ بھارت پر نپے تلے دبائو کو بڑھانا اور وہاں انسانی حقوق کی جس بے دردی سے پامالی کی جارہی ہے اس کو عالمی سطح پر اٹھانا ہمارا ہدف ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی تحریکِ مزاحمت کی ہرممکن اخلاقی‘ مادی اور سفارتی تائید کی جائے۔
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ جموں و کشمیر کے مسلمان بھارت کے ساتھ کسی قیمت پر اور کسی شکل میں رہنا پسند نہیں کرتے۔ انھوں نے جو قربانیاں دی ہیں اور جس عزم و ہمت کا شب و روز مظاہرہ کر رہے ہیں‘ اسے نظرانداز کرکے محض چند مفاد پرست عناصر کے بل بوتے پر بھارتی تسلط کو کسی بھی شکل میں دوام دینے کی کسی بھی کوشش کی کسی نوعیت کی بھی تائید کشمیری عوام سے غداری اور خدا کے غضب کو دعوت دینے والی چیز ہوگی۔
آج یہ بات بھی الم نشرح ہوچکی ہے کہ کشمیر کی اصل قیادت وہ ہے جو بھارت کے تمام مظالم اور پاکستان کی تمام پسپائیوں کے باوجود بھارت کے تسلط کے خلاف صف آرا ہے اور استصواب رائے کے بنیادی اصول سے ہٹ کر کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں۔ سید علی شاہ گیلانی کی قیادت میں کل جماعتی حریت کانفرنس اور تحریکِ حریت جموں و کشمیر ہی کشمیری عوام کی اصل امنگوں کی ترجمان ہے اور تمام مجاہد قوتوں کا اعتماد بھی اسی انقلابی قیادت کو حاصل ہے۔ حزب المجاہدین تحریکِ مزاحمت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے نظرانداز کرکے کشمیر کے مستقبل کا کوئی حل ممکن نہیں۔
زمینی حقائق پر جن کی نظر ہے‘ وہ واقف ہیں کہ اس وقت پاکستان کا سرکاری میڈیا جن شخصیات اور گروہوں کو اُبھارنے کی کوشش کر رہا ہے‘ وہ حقیقی عوامی تائید سے محروم ہیں اور تمام مؤثر سیاسی اور جہادی قوتیں انھیں شبہے کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ استعماری تسلط کے خلاف تحریکوں کا مطالعہ اس امر کو بالکل واضح کردیتا ہے کہ فیصلہ کن قوتیں وہی ہوتی ہیں جو استعماری نظام کے خلاف مزاحمت کی جدوجہد کرتی ہیں۔ کشمیر میں بھی فیصلہ کن قوت موروثی گدی نشینوں کی نہیں‘ مجاہدین اور ان سیاسی قائدین کی ہے جو بے خوف و خطر بھارتی سامراج سے ٹکر لے رہے ہیں۔ پاکستانی عوام بھی جن لوگوں پر بھروسا کرتے ہیں وہ یہی مزاحمت کی قوتیں ہیں‘ بھارتی قیادت سے پینگیں بڑھانے والے نہیں۔
اس پس منظر میں پاکستان کے عوام اور یہاں کی مؤثر سیاسی اور دینی قوتوں کا فرض ہے کہ حالات کی نزاکت کو محسوس کریں اور راے عامہ کو متحرک و منظم کرکے موجودہ عاقبت نااندیش قیادت کو تباہی کے راستے سے روکنے اور بالآخر اسے اقتدار و اختیار سے ہٹاکر ایک ایسی سمجھ دار‘ معاملہ فہم اور صاحبِ بصیرت قیادت کو اختیارات کا امین بنانے کی جدوجہد کریں جو ملک و قوم کو اس کے اصل نصب العین اور اہداف کے حصول کے لیے سرگرم کرسکے‘ جو خود بھی ان مقاصد کی وفادار ہو اور قوم اور اس کے تمام وسائل کو بھی ان مقاصد کے حصول کے لیے وقف کردے۔
کشمیر اور پاکستان دو الگ الگ وجود (entities)نہیں ہیں‘ ایک دوسرے کا حصہ اور تکملہ ہیں۔ ہمارے لیے کشمیر کا مسئلہ سب سے پہلے ایک اصولی مسئلہ ہے کہ اس سے ڈیڑھ کروڑ مسلمانوں کا مستقبل وابستہ ہے اور ہمارے لیے ممکن نہیں کہ اپنے ان مظلوم بھائیوں کو بے سہارا چھوڑ کر ان کے قاتلوں سے دوستی کی پینگیں بڑھائیں۔ پھر کشمیر اور پاکستان کا جغرافیائی‘ سیاسی‘ معاشی‘ مواصلاتی‘ تہذیبی اور دینی تعلق کچھ ایسا ہے کہ ان کے درمیان یہ یا وہ کا معاملہ نہیں بلکہ دونوں کی قسمت ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔ جو پاکستان یا کشمیر کی بات کرتے ہیں‘ وہ اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں اور پاکستانی قوم کو بھی‘ اس لیے کہ کشمیر پر دوسروں کا غاصبانہ تسلط پاکستان پر تسلط کے ہم معنی ہے اور بالآخر اس کی کمزوری پر منتج ہوگا۔ اسی لیے قائداعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ اگر ہماری شہ رگ دوسروں کے قبضے میں ہے تو کیا ہم محفوظ رہ سکتے ہیں؟
یہی وجہ ہے کہ آج کشمیر پالیسی اور کشمیر کے مستقبل کے بارے میں جو بات سید علی شاہ گیلانی کہہ رہے ہیں وہی قاضی حسین احمد اور آغا شاہی اور سردار آصف احمد علی کہہ رہے ہیں۔ ہمارے لیے اپنے اصولی موقف پر ڈٹ جانے کے سوا کوئی متبادل راستہ نہیں۔
کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیر کے عوام کو اپنی آزاد مرضی سے کرنا ہے اور پاکستانی قوم اور قیادت کا فرض ہے کہ ان کے اس حق کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دے اور اس باب میں کسی کمزوری کا مظاہرہ نہ کرے۔ گذشتہ چار پانچ سال میں جس کمزوری‘ بے اعتدالی اور پسپائی کا مظاہرہ کیا گیا ہے‘ اس سے فوری طور پر رجوع کیا جائے اور پاکستان کے تاریخی اور اصولی موقف پر سختی سے قائم رہنے اور قوم کو اس کے لیے متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ عالمی سطح پر پوری تیاری کے ساتھ ایک بھرپور مہم شروع کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ عالمی ضمیر کو بیدار کیا جاسکے۔ تاریخ میں آج تک کسی قوم کو محض جبر اور قوت کے ذریعے محکوم نہیں رکھا جا سکا۔ جو قوم اپنی آزادی کے لیے جان کی قربانی دینے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی ہو ‘ پھر اسے کوئی غلام نہیں رکھ سکتا۔ کشمیری عوام نے زندگی اور بھارت کے تسلط سے آزادی کے اسی راستے کو اختیار کرلیاہے۔
اب پاکستان کا فرض ہے کہ وہ اس عظیم جدوجہد کی تقویت کا باعث بنے اور اس سلسلے میں کسی کمزوری کا مظاہرہ نہ کرے۔ اب امتحان ان کا ہے جنھیں جرأت اور حوصلہ مندی کا دعویٰ ہے۔ جرأت نام ہے اپنے نصب العین اور مقاصد کے بارے میں استقامت اور جدوجہد کا۔ جو حق کی راہ میں جدوجہد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت انھی کو حاصل ہوتی ہے۔ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔
گذشتہ شمارے میں یہ بتایا گیا تھا کہ جنوری تا مارچ ۲۰۰۶ء کی سہ ماہی میں رسالے کی توسیعِ اشاعت کے لیے غیرمعمولی کوششیں کی جائیں گی۔ ترجمان القرآن ایک پیغام کا علم بردار ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اس کو پڑھنے والے اس پیغام کو عام کرنے اور دوسروں تک پہنچانے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ آج اس کی جو غیرمعمولی اشاعت ہے اس کی وجہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے بعد ہمارے رفقا کی کوششیں ہی ہیں۔
اس سہ ماہی مہم میں ہمارا بنیادی ہدف یہ ہے کہ معاشرے کے پڑھے لکھے ہر باشعور شہری تک ایک دفعہ نمونے کا پرچہ پہنچا دیا جائے۔ اس حوالے سے اپیل کی گئی ہے اور مختلف سطح کے نظم اس میں دل چسپی لے رہے ہیں۔ جنوری کے لیے ہمیںکافی بڑی تعداد میں آرڈر موصول ہوچکے ہیں۔ فروری اور مارچ میں یقینا اضافہ ہوگا۔
مختلف پیشوں سے وابستہ ہمارے رفقا کی خصوصی کوشش ہونا چاہیے کہ یہ رسالہ ملک کے ہراستاد‘ صحافی‘ ڈاکٹر‘انجینیر‘ وکیل‘ اکائونٹنٹ‘ کمپیوٹر اور آئی ٹی کے ماہر‘ سول اور فوجی افسر‘ تاجر‘ دکان دار‘ صنعت کار‘ کارپوریشنوں کے افسر اور عام پڑھے لکھے فرد تک پہنچے۔ نہ صرف مردوں تک بلکہ ان پیشوں سے وابستہ اور گھریلو امور میں مصروف تعلیم یافتہ خواتین کے ہاتھوں میںبھی ضرور جائے۔
دوسری طرف ہماری کوشش ہے کہ رسالے کا معیار بہتر سے بہتر ہو اور یہ پڑھنے والوں کے لیے ایک مکمل راہنما رسالہ ثابت ہو اور ہر ماہ انھیں فکری غذا ہی نہیں ‘بلکہ ایمان اور عملِ صالح کے لیے جذبہ اور توانائی بھی دے تاکہ آخری فیصلے کے وقت وہ فوزِ عظیم سے ہمکنار ہوں۔
_____________(کتابچہ دستیاب ہے۔ منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور)
دسمبر ۲۰۰۵ء میں مکہ مکرمہ میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم (OIC) کی سربراہی کانفرنس غیرمعمولی اہمیت کی حامل تھی۔ یہ اجلاس تنظیم کے قیام کے ۳۶ سال بعد اور نائن الیون کے بعد رونما ہونے والی صورت حال کے چار سال بعد منعقد ہو رہا تھا۔ اس کے سامنے بڑا بنیادی مسئلہ یہ تھاکہ آج کے حالات میں اُمت مسلمہ کے اصل مسائل اور چیلنجوں کی روشنی میں اُمت کی یہ مرکزی سیاسی تنظیم کہاں تک وقت کے تقاضوں کو پورا کر رہی ہے اور اس کے اہداف‘ مستقبل کے وژن اور خود تنظیم کے چارٹر‘ تنظیمی ڈھانچے اور طریق کار میں کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
اس اجلاس سے پہلے ۲۰۰۳ء میں ملایشیا میں منعقد ہونے والے اجلاس میں نئے نقشۂ کار کی تیاری کے لیے اہم شخصیات کا ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا جس کے دو اجلاس ملایشیا اور پاکستان میں منعقد ہوئے اور پھر خود مکہ مکرمہ میں ستمبر ۲۰۰۵ء میں عالمِ اسلام کے اہم مفکرین اور علما کا ایک اجتماع منعقد ہوا تاکہ اس سربراہی اجلاس میں ضروری تیاری (home work) کے بعد کوئی واضح نقشۂ عمل سامنے آسکے۔
اس سربراہی کانفرنس میں ترکی کے طیب اردگان‘ شام کے بشار الاسد‘ مصر کے حسنی مبارک اور لیبیا کے معمرالقذافی نے شرکت نہیں کی۔ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ اور ایران کے احمدی نژاد کی تقاریر بحیثیت مجموعی اچھی تھیں۔ سیکرٹری جنرل اکمل الدین اوغلو کی تقریر بھی اس لحاظ سے قابلِ ذکر تھی کہ اس میں ایک طرف وقت کی ضرورت کا ادراک تھا اور دوسری طرف خود احتسابی کی دعوت تھی۔ کانفرنس نے بہت دبے ہوئے فدویانہ لہجے میں یہ کہا کہ کسی رکن ملک پر حملے کو قبول نہیں کیا جائے گا‘ جب کہ یہ کہنے کی ضرورت تھی کہ کسی ایک پر حملہ سب پر حملہ سمجھا جائے گا اور متحدہوکر مقابلہ کیا جائے گا۔
اس پس منظر میں اجلاس کی تین اہم دستاویزات‘ یعنی اعلانِ مکہ‘ کانفرنس کا اعلامیہ اور ۱۰سالہ منصوبۂ کار سامنے آئے ہیں۔ حسب معمول اجلاس میں سربراہوں کی دھواں دھار تقاریر بھی ہوئی ہیں لیکن ان تمام تقاریر اور تینوں دستاویزات کا تجزیہ کیا جائے تو سخت مایوسی ہوتی ہے اور الحقُّ مُرٌّ(سچائی کڑوی ہوتی ہے) کے اصول کا احترام کرتے ہوئے ہم یہ سوال کرنے پر مجبور ہیں کہ اس سربراہی کانفرنس کا اعلامیہ ’اعلانِ مکہ‘ تھا یا ’اعلانِ واشنگٹن‘ کی ہی ایک شبیہہ!
کانفرنس کی ساری کارروائی اور اعلانات کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ عالمِ اسلام کا اصل مسئلہ ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکا کی نام نہاد جنگ ہے اور اندرونی طور پر اصل مسئلہ ’انتہا پسندی‘ ہے جس کا ’روشن خیالی‘ اور ’اعتدال پسندی‘ کے ذریعے توڑ کے لیے حکمران ایک عالم گیر ’کروسیڈ‘ میں مشغول ہیں‘ اور اس کے لیے مسجد و منبر اور مدرسہ اور میڈیا سب کو وقف ہونا چاہیے۔ اس سربراہی کانفرنس نے بش اور کونڈو لیزا رائس کے ہم زبان ہوتے ہوئے مسلمان ممالک میں اس مقصد کے لیے نصابِ تعلیم کی تبدیلی کا حکم بھی صادر فرما دیا ہے۔ یہ اعلامیہ جہاں قیادت کے ذہنی افلاس اور فکری غلامی کا غماز ہے‘ وہیں سیاسی بصیرت اور ایمانی جرأت کی کمی بھی اس کی سطرسطر سے ہویدا ہے___ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!
پہلا مسئلہ دہشت گردی کا ہے جسے موجودہ امریکی قیادت نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے اور کر رہی ہے اور مسلمان ممالک کے سربراہ اپنے اپنے مفاد میں اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ کوئی صاحبِ ایمان اور بالغ نظر دانش ور اور سیاسی کارکن حقیقی دہشت گردی کا جواز پیش نہیں کرسکتا‘ لیکن آج اصل مسئلہ دہشت گردی نہیں‘ وہ حالات ہیں جودہشت گردی کو جنم دے رہے ہیں۔ جب تک ان کے بارے میں صحیح رویہ اختیار نہیں کیا جاتا‘ دہشت گردی اور عدمِ تحفظ میں اضافہ ہی ہوگا ‘کمی نہیں۔ جب تک قبضے اور ریاستی دہشت گردی کے مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا‘ دہشت گردی کے مسئلے کا حل ممکن نہیں۔ ستمبر۲۰۰۵ء میں مکہ میں علما اور دانش وروں کا جو اجتماع ہوا تھا اس نے سرکاری نمایندوں کی ناراضی کے باوجود کھل کر یہی بات کہی تھی‘ مگر سربراہوں کے اعلامیے میں اس حقیقت پسندانہ تجزیے کا کوئی پرتو نظرنہیں آتا۔ اُس دستاویز میں اہلِ علم نے صاف کہا تھا کہ:
۱- مسلم دنیا کے لیے دہشت گردی کا مقابلہ کرنا اور اس کی بنیادی وجوہات کو دُور کرنا لازمی ہے۔
۲- اپنے دفاع کے بنیادی حق‘ نیزغیرملکی تسلط کے خلاف تحریکِ آزادی اور دہشت گردی میں امتیاز ہونا چاہیے۔
۳- دہشت گردی کے بنیادی اسباب کا سامنا کرنا چاہیے اور ان کے خلاف لڑنا چاہیے۔
۴- او آئی سی کو دہشت گردی کی تعریف کرنے اور جارحیت اور غیرملکی تسلط کی مزاحمت کرنے میں‘ جس کی ضمانت بین الاقوامی معاہدوں اور اداروں نے دی ہے‘ زیادہ بڑا کردار ادا کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے ۲۰۰۲ء میں مکہ میں علما نے چھے دن دہشت گردی کے مسئلے پر غور کر کے جو مؤقف بیان کیا تھا‘ اس میں بھی جہاں حقیقی دہشت گردی کی موثر مذمت تھی‘ وہیں دفاع اور آزادی کی تحریکاتِ مزاحمت کو اس زمرے سے خارج کرنے کا واضح اعلان تھا۔ اسی طرح مصر (شرم الشیخ ) میں اگست ۲۰۰۵ء میں البرکۃ گروپ کے زیراہتمام علما اور فقہا کا جو اجتماع ہوا اس کی متفقہ قرارداد میں یہ موجود ہے کہ:
کسی بھی طرح اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ’دہشت گردی‘ کی اصطلاح میں اپنے دفاع‘ جارحیت کے خلاف اپنے تحفظ اور تسلط کے خلاف مزاحمت کرنے کو شامل کرلیا جائے۔
زمین پر قبضہ کرنے والوں اور حقوق غصب کرنے والوں کے خلاف مزاحمت ایک قانونی فریضہ ہے۔ اس صورت میں قتل ہونے کے لیے سامنے آنے کو خودکشی نہیں کہا جاسکتا خواہ کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جائے۔ دہشت گردی اور لوگوں کے اپنے دفاع‘ خودارادیت اور قابضین کے خلاف مزاحمت کے حق میں فرق ہونا چاہیے۔ یہ وہ حقوق ہیں جن کی عالمی تنظیموں کے جاری کردہ معاہدے ضمانت دیتے ہیں۔
ہمیں افسوس ہے کہ اس کانفرنس کے اعلامیے اور سربراہان کی تقاریر میںاس ریاستی تشدد اور ظلم کا کوئی ذکر نہیں جو امریکا‘ اسرائیل‘ روس اور بھارت اپنے اپنے علاقوں میں مسلمانوں پر توڑ رہے ہیں اور نہ ان جارحانہ پالیسیوں پر کوئی گرفت ہے جن کے نتیجے میں عالمِ اسلام ہی نہیں‘ ساری دنیا کے عوام ان سامراجی قوتوں کے خلاف چِلّا رہے ہیں۔ ستم ہے کہ فلسطین اور کشمیر کے سلسلے میں حق خودارادیت کی بات تو کی گئی ہے لیکن اسرائیل اور بھارت کے مظالم کے خلاف کوئی لفظ ان اعلانات میں موجود نہیں۔ عراق اور افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کا کوئی مطالبہ نہیں اور شہری آبادی پر جو وحشیانہ مظالم ہوتے رہے ہیں‘ ان کے لیے مذمت کا ایک لفظ بھی موجود نہیں ہے۔ مسلمان عوام اور حکمرانوں کے درمیان جو بُعد___ بلکہ بُعدالمشرقین ہے اس کی اس سے زیادہ اندوہناک مثال اور کیا ہوسکتی ہے؟
دوسرا بنیادی مسئلہ اسلام اور اس کے بنیادی عقائد اور تعلیمات بشمول جہاد کے سلسلے میں مغربی یلغار کا ہے۔ اس سلسلے میں سخت معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے جیسے کمزوری مسلمانوں ہی کے مؤقف میں ہے اور وہ انتہاپسندی اور تنگ نظری میں مبتلا ہیں۔ مغرب کا ہدف نہ انتہاپسندی ہے اور نہ تنگ نظری___ اس کا اصل ہدف خود اسلام اور اسلام کے تحت رونما ہونے والا وہ ذہن ہے جو دوسروں کی غلامی اور محکومی کا باغی ہو اور اپنے ایمان‘ اقدار‘ اصول اور حقیقی مفادات کے مطابق خودانحصاری کی بنیاد پر دنیا میں اپنا مقام حاصل کرنا چاہتا ہے۔ مغرب کے مطالبے پر اور بش کے تراشیدہ تصورات کو اگر مسلم ممالک کے سربراہ بھی پیش کریں گے تو اسے مسلمان اُمت کا ضمیر کبھی قبول نہیں کرسکتا۔
۱- پہلی ضرورت صحیح وژن کی ہے اور وہ وژن اسلام اور مسلم تاریخ اور روایات پر مبنی ہونا چاہیے‘ مغرب کے مطالبات اور ترغیبات پر نہیں۔
۲- اصل چیز اُمت مسلمہ کا دینی‘ اخلاقی‘ تہذیبی تشخص (identity) ہے۔ جب تک اس تشخص کو تجدید اور ترقی کی بنیاد نہیں بنایا جائے گا‘کامیابی ممکن نہیں۔ اس اجتماع میں تو یہ بات تک کہی گئی تھی کہ جب تک اس اُمت کو ہم اپنے فکروعمل کا ماخذ نہیں بناتے جو حرمِ کعبہ میںطواف و سعی میں مشغول ہے‘ محض سلطانی ضیافت کے دیوان میں بیٹھے ہوئے لوگ اُمت کے مسائل کے حل کی راہ ہموار نہیں کرسکتے۔
۳- تیسری بنیادی بات یہ کہی گئی تھی کہ اصل کمی مشوروں اور منصوبوں کی نہیں‘ عزم و ارادے (political will)کی ہے۔ جب تک یہ نہ ہو سب کارروائی کاغذی رہے گی۔
۴- اس اجتماع میں کھل کر بتایا گیا تھا کہ اصل مسئلہ حکمرانوں اور عوام میں بُعد اور خود مسلم دنیا کے نظامِ حکومت میں اسلام کی کارفرمائی اور عوام کی شرکت اور مؤثر اختیار کی کمی ہے۔ اس رپورٹ کا سب سے پہلا نکتہ ہی یہ تھا کہ:
ان تجاویز اور سفارشات کا کوئی پرتو سربراہی کانفرنس کے اعلانات میں نظر نہیں آتا اور یہی وجہ ہے کہ یہ کانفرنس اس تبدیلی کے آغاز کے بارے میں کوئی خدمت انجام نہ دے سکی جو وقت کی ضرورت اور اس تنظیم کے تن مُردہ میں جان ڈالنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
آخر میں ہم یہ وضاحت بھی کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس تنظیم کی کمزوری اور سربراہوں کی ناکامی اُمت مسلمہ کی ناکامی نہیں‘ بلکہ یہ اُمت اور اس کے حکمرانوں کے درمیان بُعد کا آئینہ ہے اور یہ اُمت اسی وقت اپنا حقیقی کردار ادا کرسکے گی جب اس کی قیادت اُمت کے عزائم کی آئینہ دار ہو اور عوام اور حکمران یک زبان ہوکر وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا کی زندہ مثال بن جائیں۔
حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے ابومنذرؓ! جانتے ہو تمھارے پاس جو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اس کی کون سی آیت سب سے بڑی (عظیم) ہے؟ میںنے عرض کیا اللہ اور اس کے رسولؐ کو زیادہ معلوم ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ارشاد فرمایا: اے ابومنذرؓ !کیا تمھیں معلوم ہے کہ تمھارے پاس اللہ تعالیٰ کی جو کتاب ہے اس کی سب سے بڑی آیت کون سی ہے؟ میں نے عرض کیا: اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ الِاَّ ھُوَالْحَیُّ الْقَیُّوْمُ (یعنی آیت الکرسی)۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر ہاتھ مارا‘ اور فرمایا: اے ابومنذرؓ! یہ علم تمھیں مبارک ہو۔(مسلم)
حضرت اُبی بن کعبؓ کی کنیت ابومنذر ہے۔ آپؐ کے ان صحابیوں میں سے تھے جو قرآن کے سب سے زیادہ جاننے والے اور قرآن مجید کے فاضل تھے اور صحابہ کرامؓ میں سے بہترین فہمِ قرآن کے حامل سمجھے جاتے تھے۔ (تفہیم الاحادیث ،سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، جلدہشتم‘ ص ۱۳)
اسی بڑی اور عظیم آیت‘ آیت الکرسی کے سلسلے میں جماعت اسلامی ہند کے ترجمان ماہنامہ زندگی نو کے اکتوبر ۲۰۰۵ء کے شمارے میں ایک مضمون کے مطالعے کے دوران خیال آیا کہ کلامِ پاک کی وہ آیات جمع کی جائیں جن کا آیت الکرسی کی طرح اسمِ ذات ’اللہ‘ سے آغاز ہوتا ہو۔ ایسی ۲۷آیات کی نشان دہی زندگیِ نو کے مذکورہ مضمون میں کی گئی تھی مگر باربار تلاوت کے نتیجے میں یہ ۳۴ نظر آئیں (اللہ تعالیٰ بھول چوک معاف فرمائے)۔ آیات کی ترتیب قرآن پاک کی ترتیب کے مطابق ہے۔ بہت معمولی رد و بدل کے ساتھ ترجمہ تفہیم القرآن سے لیا گیا ہے۔ بعض آیات میں ان سے قبل یا بعد کی آیات مل کر ہی مضمون مکمل ہو رہا تھا وہاں قوسین میں اسے بھی درج کر دیا ہے۔ عربی متن کسی بھی نسخے سے دیکھا جاسکتا ہے۔
ان آیات کی تلاوت اور ترجمے کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب آیت الکرسی کے مضامین ہی کو بار بار تازہ اور واضح کر رہی ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ جاننے کی کچھ کوشش کرتے ہیں۔
آغاز میں درج حدیث کی تشریح کے ضمن میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بقول: ’’آیت الکرسی کی یہ عظمت اور اہمیت اس بنا پر ہے کہ یہ قرآن مجید کی ان چند آیتوں میں سے ہے‘ جن میں توحید کی مکمل تعریف بیان ہوئی ہے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا صحیح تصور دلانے ہی کے لیے آیا ہے‘ اگر انسان کو اللہ تعالیٰ کا صحیح تصور حاصل نہ ہو تو باقی ساری تعلیم بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔ توحید آدمی کی سمجھ میں آجانے کا مطلب یہ ہے کہ دین کی بنیاد قائم ہوگئی۔ اس بنا پر قرآن مجید کی سب سے بڑی آیت وہ ہے جس میں توحید کے مضمون کو بہترین طریقے سے بیان کیا گیا ہے‘‘۔ (تفہیم الاحادیث، جلد ہشتم‘ص ۱۳)
تفہیم القرآنمیں مولاناؒ نے لکھا ہے کہ ’’انسانوں کے عقائد و نظریات اور مسالک و مذاہب خواہ کتنے ہی مختلف ہوں بہرحال حقیقت نفس الامری جس پر ذہن و ایمان کا نظام قائم ہے یہ ہے‘ جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔ انسانوں کی غلط فہمیوں سے اس حقیقت میں ذرہ برابر کوئی فرق نہیں آتا مگر اللہ کا منشا یہ نہیں ہے کہ اس کے ماننے پر لوگوں کو زبردستی مجبور کیا جائے۔ جو اس کو مان لے گا‘ وہ خود ہی فائدے میں رہے گا اور جو اس سے منہ موڑے گا وہ آپ نقصان اٹھائے گا‘‘۔ (جلداوّل‘ص ۱۹۶)
ایک نئی کتاب کلیدِالبقرہ میں محترم خرم مرادؒ نے سورۂ بقرہ کو مضامین کے اعتبار سے آٹھ حصوں میں تقسیم کر کے آخری حصے ’اُمت مسلمہ کے مشن کی تکمیل کے ذرائع ،جہاد اور انفاق‘ کے درمیان اس آیت کو جواہر اور موتیوں کے ہار کے وسط میں نمایاں نگینہ قراردیا ہے‘ اور لکھا ہے کہ اس آیت میں وہ سب کچھ ہے جس کی اللہ پر ایمان کی مضبوطی کے لیے ضرورت ہے‘ اور جو جہاد اور انفاق دونوں کو طاقت بخشتی ہے۔ آپ کو نہ اپنے دشمنوں کی طاقت اور دولت سے خوف کھانے کی ضرورت ہے اور نہ زندگی کھونے یا غریب ہونے سے ڈرنے کی۔ اس لیے کہ اللہ حی و قیوم ہے‘ ہمیشہ رہنے والا ہے ‘ زندگی کا سرچشمہ ہے‘ خود قائم ہے اور سب کو قائم رکھنے والا ہے۔ اس کا علم اور طاقت زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اس پر محیط ہے۔ (ص ۳۹)
سید قطب شہیدؒ آیت الکرسی کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’یہ آیت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی وہ صفات بیان کرتی ہے جن سے توحید کا عمیق ترین اور وسیع ترین مفہوم سامنے آتا ہے۔ درحقیقت یہ ایک عظیم الشان آیت ہے‘ جس کا مفہوم عمیق اور وسیع ہے۔
اللہ‘ اس کے سواکوئی الٰہ نہیں‘ زندئہ جاوید‘ (کائنات کو سنبھالنے اور) قائم رکھنے والا‘ اُسے نہ اُونگھ آتی ہے اور نہ نیند‘ اس کی ہیں وہ سب چیزیں‘ جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں‘ کون ہے جو اس کے حضور سفارش کرسکے الا یہ کہ اس کا اذن ہو۔ وہ جانتا ہے ان سب چیزوں کو جو ان (کی نظروں) کے سامنے ہیں اور انھیں بھی جو ان کے پیچھے ہیں‘ وہ اس کے علم میں سے کسی بھی شے کا احاطہ نہیں کرسکتے بجز اس کے جو وہ چاہے‘ اس کی کرسی (اقتدار) آسمانوں اور زمین (سب) پر چھائی ہوئی ہے‘ اور وہ ان کی نگہبانی سے تھکتا نہیں۔ اور وہی بلندوبالا اور صاحبِ عظمت و جلال ہے۔
مذکورہ بالا صفات میں سے ہر صفت اسلامی تصور کے کُلی اور بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول پر مشتمل ہے۔ مکی قرآن بالعموم اسلامی تصور کی تعمیر کے گرد گردش کرتا ہے۔ (اس لیے اس میں صفاتِ الٰہی کا عام طور سے ذکر ہے) مگر مدنی قرآن میں بھی (جس میں زیادہ تر احکام کی تفصیل ہے)۔ مختلف مناسبتوں کے تحت ہم اس بنیادی اور اہم موضوع کو پاتے ہیں کیوں کہ اس کی بنیاد پر پورا اسلامی نظام استوار ہوتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسلامی نظام دل و دماغ میں اسی وقت صحیح طور سے جاگزیں ہوسکتا ہے‘ جب کہ یہ بنیاد دل میں صحیح طور سے پیوست اور پوری طرح واضح و منقح ہوکر ایسے مسلّم حقائق میں تبدیل ہوجائے‘ جو واضح بھی ہوں اور یقین سے بھرپور بھی…
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفات کے دل و دماغ میں پوری طرح واضح و منقح ہونے کی غیرمعمولی اہمیت ہے کیوں کہ جاہلی تصورات سے قلبِ انسانی پر جو تہ بہ تہ پردے پڑ جاتے ہیں‘ وہ اکثروبیش تر صفاتِ الٰہی کے پوری طرح واضح نہ ہونے‘ خرافات واساطیر کے دلوں پر چھا جانے اور تاریکیوں کے--- جو عظیم فلسفیوں کے فلسفے تک میں موجود ہیں--- عام ہونے کے باعث پڑ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اسلام آیا۔ اور اس نے خدائی صفات کو منقح کر کے پوری وضاحت سے بیان کیا‘ قلوب و اذہان سے ان بھاری اور بوجھل پردوں کو ہٹایا اور انھیں اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے اور بھٹکتے پھرنے سے نجات دلائی‘‘۔ (فی ظلال القرآن‘ ترجمہ:سیدحامد علی‘ج ۱‘ ص۶۷۶- ۶۷۷)
اللہ تعالیٰ ہمیں عقیدۂ توحید کے عملی تقاضے کماحقہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
دنیا کا نظام جن الٰہی قوانین پر قائم ہے ان میں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ اشیا کو اُن کے کمالات کی طرف ترقی دینے میں‘ جس طرح مبداِ فیاض کی طرف سے علی قدرِ مراتب‘ جودوبخشش کا فیضان ہوتا ہے‘ اُسی طرح خود اشیا کو بھی کمال کے ہر نئے مرتبے میں اپنے پچھلے مرتبے کے لوازم اور مالوفات و مرغوبات کو قربان کرنا پڑتا ہے اور اس قربانی کے بغیر تحصیلِ کمالات کے سفر میں وہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتیں۔ بخار کو پانی بننے کے لیے اپنی آزادی اورہوائیت کو قربان کرنا پڑتا ہے‘ اور وہ تقیّدات قبول کرنا ہوتے ہیں جو مائیت کے ساتھ مخصوص ہیں۔ پانی کو برف بننے کے لیے پھر اپنی رہی سہی آزادی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے‘ اپنے بہت سے آبی خواص کی قربانی دینی ہوتی ہے‘ تب جاکر اُسے پتھر کی سی سختی اور شیشے کی سی صفائی اور چمک میسر ہوتی ہے۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ بخار کے لیے حالت بخار میں رہتے ہوئے اور ہوا کی سی آزادی و لطافت رکھتے ہوئے وہ کمالات بھی جمع ہوجائیں جو صورتِ مائیّہ کے ساتھ مخصوص ہیں‘ اور وہ کمالات بھی جو برف کے لیے مقدر کیے گئے ہیں۔
یہ سنت اللہ ہے جس میں کوئی استثنا اور تغیر و تبدل نہیں‘ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا (الفتح ۴۸:۲۳)۔تمام مخلوقاتِ عالم پر یہی قانون جاری ہے‘ اور سب کی طرح انسان بھی اسی کے زیراثر ہے۔ نطفہ اپنی صورتِ نطفیہ کو قربان کر کے صورتِ انسانیہ حاصل کرتا ہے‘ بچہ اپنے بچپن کو قربان کر کے جوانی حاصل کرتا ہے‘ اور جوان اپنی جوانی کھو کر بڑھاپے کی بزرگی حاصل کرتا ہے۔ پھر زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں ترقی کرنے اور اعلیٰ مراتب تک پہنچنے کے لیے انسان کو کچھ نہ کچھ قربانیاں نہ دینی پڑتی ہوں۔ بڑائی اور بزرگی کا دامن ہر میدان میں قربانی اور ایثار کے ساتھ وابستہ ہے۔ ایک بڑے فائدے کے لیے بہت سے نقصانات برداشت کرنے پڑتے ہیں‘ ایک بڑی لذت کے لیے بہت سی تلخیاں گوارا کرنی پڑتی ہیں‘ ایک اعلیٰ مرتبے کے لیے بہت سے اُن مزوں کو ہاتھ سے دینا پڑتا ہے جو ادنیٰ مراتب میں حاصل تھے۔ جس علامہ کی جلالتِ علمی پر آپ رشک کرتے ہیں اُس سے پوچھیے کہ اس نے کتنی راتیں آنکھوں میں کاٹی ہیں اور کتنا خونِ جگر تحقیق و اکتشاف کی راہ میں کھپایا ہے؟ جس مَلِکُ التُّجاّر کی دولت کو دیکھ کر آپ کے منہ میں پانی بھرا آتا ہے اس سے پوچھیے کہ روپیہ کمانے کی جدوجہد میں کس طرح اس نے دن کے آرام اور رات کے چین کو اپنے اُوپر حرام کرلیا ہے؟ جس مدبّرِسلطنت کے اقتدار اور شان و شوکت کو دیکھ کر آپ کی آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں‘ اس سے پوچھیے کہ اسے کتنی کش مکش‘ کتنی پریشانیوں‘ کتنی ٹھوکروں‘ اور کتنی روحانی و جسمانی اذیتوں کے بعد اس مقام تک پہنچنا نصیب ہوا ہے؟ غرض زندگی کا کوئی میدان لے لیجیے‘ ہر جگہ آپ یہی دیکھیں گے کہ کمال اور ترقی کا ہیولیٰ لذتوں کے خون سے تیار ہوتا ہے اور کمال کے مراتب جتنے بلند ہوتے ہیں‘ ان کے لیے قربانیاں بھی اتنی ہی زیادہ درکار ہوتی ہیں۔
دنیوی کمالات سب کے سب جزئی کمالات ہیں‘ اس لیے وہ قربانیاں بھی صرف جزئی چاہتے ہیں۔ دنیوی کمالات جتنے ہیں سب مادّی ہیں یا ان میں مادّے کی آمیزش ہے‘ اس لیے وہ قربانیاں بھی ایسی ہی چاہتے ہیں جو مادّی قسم کی ہوں یا مادّے سے لگائو رکھتی ہوں۔ دنیوی کمالات کا مقصود نفس یا تعلقاتِ نفس کے لیے فوائد کا حصول ہوتا ہے‘ لہٰذا ان کے لیے صرف وہ چیزیں قربان کی جاتی ہیں جو نفس اور اس کے محبوبات و مطلوبات سے ماسوا ہیں۔ مگر کمالِ حقیقی کا معاملہ سب سے جداگانہ ہے۔ یہ کلّی کمال ہے‘ قربانی بھی کلّی چاہتا ہے۔ مادّے سے مجرد و منزہ ہے‘ اس لیے جسم کی نہیں نفس و روح کی قربانی چاہتا ہے۔ گو ظاہری شکل کے اعتبار سے اس کے لیے بھی بہت سی ایسی قربانیاں دیناپڑتی ہیں جو مادّی قسم کی ہیں‘ یا مادّے سے لگائو رکھتی ہیں‘ لیکن دراصل وہ مادّے کی قربانیاں نہیں ہیں بلکہ ان محبتوں‘ ان دل چسپیوں‘ ان لذتوں اور ان علائق کی قربانیاں ہیں جو انسانی روح اس دنیا کی مادّی اشیا کے ساتھ رکھتی ہو۔ اس کمال کا مقصود نفس یا تعلقاتِ نفس نہیں‘ بلکہ حق ہے‘ اس لیے وہ خود نفس کی قربانی چاہتا ہے‘ اور بشرطِ ضرورت نفس کے ساتھ ہر وہ شے اس کے لیے قربان کرنی پڑتی ہے جو نفس کو مرغوب ہو۔
یہی نکتہ ہے جسے قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ:
لَنْ تَنَالُوا الْبِـرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (اٰل عمرٰن ۳:۹۲)
یعنی تم نیکی کے مقامِ رفیع تک پہنچ نہیں سکتے جب تک کہ وہ چیزیں نہ خرچ کرو جنھیںتم عزیز و محبوب رکھتے ہو۔ یہ مِمَّا تُحِبُّوْنَ کا لفظ اتنی وسعت رکھتا ہے کہ جان‘ مال‘ اولاد‘ رشتہ دار‘دوست‘وطن‘ قوم‘عزت‘ شہرت‘ ہر دلعزیزی‘ لذت و مسرت‘ عیش و آرام‘ عقائد و افکار‘ حریتِ خیال و آزادیِ عمل‘ غرض ہر محبوب شے اس میں داخل ہے‘ اور ان سب چیزوں کو مِمَّا تُحِبُّوْنکے دائرے میں لے کر حکم لگایا گیا ہے کہ اگر تم ’نیکی‘ کے اعلیٰ مراتب تک پہنچنا چاہتے ہو‘ تو تمھیں حق کی خاطر ان میں سے ہر چیز قربان کرنا پڑے گی۔ حق سب سے زیادہ اس کا مستحق ہے کہ تم اس سے محبت رکھو‘ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ (البقرہ۲:۱۶۵)جو چیز تمھارے دل میں اتنا گھر کر لے گی کہ اس کی محبت‘ حق کی محبت سے بڑھ جائے اور حق کے مقابلے میں تم اس کو عزیز رکھنے لگو‘وہی بت ہے‘ صنم ہے‘ بناے شرک و کفر ہے‘ نیکی کے مقام تک پہنچنے میں وہی سنگِ راہ ہے۔ اس کمال کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو پہلی ضرب اِسی بت پر لگائو اور اسے پاش پاش کر کے حق کی محبت کو سب محبتوں پر غالب کر دو۔
غور سے دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ اسلام میں اوّل سے لے کرآخر تک جو کچھ ہے قربانی ہی قربانی ہے۔ اسلام میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے‘ انسان کو آزادیِ فکروآزادیِ عمل کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ ’اسلام‘ لانے کے معنی ہی یہ ہیں کہ اب آپ اس کے لیے آزاد نہیں ہیں کہ جو عقیدہ چاہیں اختیار کریں اور جو راہِ عمل پسند کریں اس پر چلنے لگیں بلکہ آپ کا کام وہ اعتقاد رکھنا ہے جو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا ہے‘ اور ان احکام و قوانین کے مطابق چلنا ہے جو خدا اور اس کے رسولؐ نے مقرر کر دیے ہیں:
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ ، (الاعراف ۷:۳)
جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تمھاری جانب اُتارا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اسے چھوڑ کر ان کی پیروی نہ کرو جن کو تم نے دوست بنا لیا ہے۔
یہ ’اسلام‘ یا ’نیکی‘ کے راستے میں پہلا قدم ہے‘ اور اسی پر اتنی بڑی قربانی دینی پڑتی ہے کہ اچھے اچھے اِسی مقام پر ڈگمگا جاتے ہیں۔ یہاں زندگی کے ہر شعبے میں حلال اور حرام کے حدود ہیں‘ خبیث اور طیب کے امتیازات ہیں‘ فرائض و طاعات ہیں‘ حقوق و واجبات ہیں جن کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے مقرر کیا ہے۔ داعیاتِ نفس قدم قدم پر انسان کو اِثم وعُدوان کی طرف کھینچتے ہیں‘ مگر اسلام مطالبہ کرتا ہے کہ حدود اللہ پر نفس کی ساری خواہشوں کو بھینٹ چڑھائو‘ لذتوں کا خون کرو‘ فائدوں کو قربان کر دو۔ یہ تقویٰ اور پاکیزگی کی راہ بال سے زیادہ باریک ہے۔ اس پر ایک قدم بھی انسان اپنے جذبات و داعیات‘ اپنے لطف اور اپنے فوائد کی قربانی دیے بغیر نہیں چل سکتا۔ فضل و احسان کا مقام تو بہت بلند ہے‘ فرائض و واجبات کے ٹھیک ٹھیک بجا لانے میں حقوق کو پوری طرح ادا کرنے‘ اور گناہ کے راستوں سے بچ نکلنے ہی میں نفس پر کچھ کم جبر نہیں کرنا پڑتا۔
جیساکہ عرض کیا گیا‘ یہ تو صرف پہلا ہی قدم ہے‘ یہ پورا اسلام نہیں ہے‘ بلکہ اسے محض اسلام میں داخلے کا امتحان سمجھیے۔ اسلام صرف یہی نہیں ہے کہ آپ نماز پڑھیں‘ روزہ رکھیں‘ بشرطِ استطاعت حج اور زکوٰۃ ادا کریں‘ معاصی سے محترز رہیں اور حقوق ادا کرتے رہیں‘ بلکہ اسلام کی اصلی روح یہ ہے کہ آپ حق کو دنیا کی ہر شے سے زیادہ عزیز رکھیں اور جب موقع آئے تو کسی چیز کو بھی حق پر فدا کر دینے میں دریغ نہ کریں۔ اگر کوئی ایسا وقت آجائے کہ ایک طرف حق ہو اور اس کے ساتھ جان و مال کا زیاں ہو‘ مصیبتیں اور تکلیفیں ہوں‘ رسوائیاں اور ٹھوکریں ہوں‘ اور دوسری طرف باطل ہو‘ اور اس کے ساتھ عیش و آرام ہو‘ لطف و مسرت ہو‘ اور ہر طرح کے فائدے ہوں‘ تو مسلمان وہی ہے جو حق کے پہلو کو اختیار کرے‘ اور اس کی خاطر ان سب مصائب کو بخوشی برداشت کرلے:
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْ ٍٔ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ لا قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۵-۱۵۶)
ہم ضرور تم کو کچھ خوف اور بھوک اور جان و مال اور ثمرات کے زیاں سے آزمائیں گے‘ اور (اے نبیؐ) تو ان صبر کرنے والوں کو بشارت دے دے جن پر اگر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پھرنا ہے۔
لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ کَانُوْٓا اٰبَآئَ ھُمْ اَوْ اَبْنَآئَ ھُمْ اَوْ اِخْوَانَھُمْ اَوْ عَشِیْرَتَھُمْ-(المجادلہ ۵۸:۲۲)
ُ تو کوئی قوم ایسی نہ پائے گا جو اللہ اور یومِ آخر پر ایمان بھی رکھتی ہو اور پھر اللہ اور اس کے رسولؐ کے دشمنوں سے محبت بھی رکھے‘ چاہے وہ دشمنانِ خدا و رسولؐ ان کے باپ یا بھائی یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔
فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِیَآئَ حَتّٰی یُھَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ - (النسائ۴:۸۹)
تم ان کو ہرگز دوست نہ بنانا جب تک کہ وہ خدا کی راہ میں ہجرت نہ کریں۔
اگر کسی وقت دشمنانِ اسلام کے خلافِ جنگ کی ضرورت پیش آجائے تو مسلمان وہی ہے جو سر ہتھیلی پر لے کر مرنے اور مارنے کے لیے نکل آئے‘ اور حق کی خاطر جان قربان کر دینے میں ذرا دریغ نہ کرے۔ جس نے اس موقعے پر کوتاہی کی‘ اس کا دعویِ اسلام جھوٹا ہے خواہ کتنا ہی بڑا عابد و زاہد کیوں نہ ہو۔
وَمَآ اَصَابَکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ فَبِاِذْنِ اللّٰہِ وَلِیَعْلَمَ الْمُؤْمِنِیْنَo وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ نَافَقُوْا (اٰل عمرٰن۳:۱۶۶-۱۶۷)
جس روز دونوں جماعتوں کی مُڈبھیڑ ہوئی‘ اس دن تم پر جو مصیبت آئی وہ اللہ کے حکم سے تھی اور اس لیے تھی کہ مومنوں اور منافقوں کا فرق معلوم ہوجائے۔
غرض اسلام کچھ نہیں ہے مگر حق پر فدا ہوجانے اور ہر عزیز سے عزیز شے فدا کردینے کا ایک عاشقانہ جذبہ۔ جس شخص میں یہ جذبہ موجود نہ ہو‘ جو شخص حق کے مقابلے میں جان یا مال‘ یا اولاد‘ یا ملک و قوم‘ یا کسی اور دنیوی چیز کو عزیز رکھتا ہو‘ اس کا اسلام ادھ موا بلکہ بے جان ہے۔
قرآن مجید میں طرح طرح سے اس سچی اسلامی روح کو پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے‘ اور اسی غرض کے لیے پچھلی اُمتوں کے انبیا اور صالحین کے فداکارانہ واقعات کو مؤثر پیرائے میں دہرایا گیا ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کو حق کی طرف بلاتے ہیں‘ سالہا سال بلکہ قرنہا قرن تک شدید مصائب برداشت کرتے ہیں اور جب وہ نہیں مانتی تو خدا سے عرض کرتے ہیں کہ خدایا! ان کافروں میں سے ایک کو بھی جیتا نہ چھوڑ‘ رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا (نوح ۷۱:۲۶)۔ ان کی آنکھوں کے سامنے بیٹا غرق ہوتا ہے‘ بیوی ہلاک ہوتی ہے‘ مگر ایمان میں ذرا فرق نہیں آتا۔ حضرت لوط علیہ السلام اپنی بدکار قوم کو چھوڑ کر ہجرت اختیار کرتے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو گناہ کی طرف بلایا جاتا ہے اور قیدوذلت کی دھمکی دی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ مجھے گناہ کے مقابلے میں قید زیادہ محبوب ہے‘ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْٓ اِلَیْہِ (یوسف ۱۲:۳۳)۔ فرعون کے ساحر حق کے ظاہر ہوجانے کے بعد بے تکلف اعلان کردیتے ہیں کہ اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o رَبِّ مُوْسٰی وَھٰرُوْنَ (الاعراف۷:۱۲۱-۱۲۲) ’’ہم پروردگارِ عالم پر ایمان لے آئے جو موسیٰ اور ہارون کا خدا ہے‘‘۔ فرعون ان کو سخت عذاب دے کر ہلاک کر دینے کی دھمکی دیتا ہے تو وہ صاف کہہ دیتے ہیں کہ فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍط اِنَّمَا تَقْضِیْ ھٰذِہِ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا (طٰہٰ۲۰:۷۲) ’’تجھے جو کچھ کرنا ہے کر گزر۔ تیرا حکم تو بس اسی دنیا کی زندگی پر چل سکتا ہے‘‘۔ اصحابِ کہف اپنی قوم کے مذہب سے علانیہ تبریٰ کرتے ہیں کہ ہم خداوند ارض و سما کو چھوڑ کر کسی کی عبادت نہ کریں گے‘ رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَاْ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰھًا (الکہف ۱۸:۱۴) ’’اورجب قوم کے راستے سے ان کا راستہ الگ ہوجاتا ہے تو گھر بار عزیز اقارب سب کو چھوڑ کر ایک غار میں جابیٹھتے ہیں‘‘۔
ان سب سے بڑھ کر حضرت ابراہیم ؑکی فداکاریاں تھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے اسوئہ حسنہ فرمایا ہے۔ انھوں نے حق کی خاطر وہ سب کچھ قربان کیا جو دنیا میں ایک انسان کو عزیز ہوسکتا ہے۔ باپ دادا کے مذہب کو چھوڑا اور صاف اعلان کیا کہ تمھارے معبودوں سے مجھے کچھ سروکار نہیں‘ اِنَّنِیْ بَرَآئٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ (الزخرف۴۳:۲۶) قوم اور سلطنت اور خود اپنے باپ سے دشمنی مول لی۔ ان کے بتوں کو توڑا‘ قوم نے ان کو آگ کا عذاب دینا چاہا تو انھوں نے آگ کے گڑھے میں گرنا قبول کیا مگر حق کو چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ پھر اپنے باپ‘اپنے خاندان اور اپنی قوم سب کو چھوڑ کر وطن سے تن بہ تقدیر نکل کھڑے ہوئے اور سب سے کہہ دیا کہ ہمارا اب تم سے کچھ تعلق نہیں ‘ ہمارے اور تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی ہوگئی تاوقتیکہ تم خداے واحد پر ایمان نہ لائو، کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَآئُ اَبَدًا حَتّٰی تُوْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَحْدَہٓٗ (الممتحنہ۶۰:۴)۔ یہ سب محبتیں قربان کر دینے کے بعد ایک محبت باقی رہ گئی تھی جو حق کی محبت کے پہلو بہ پہلو دل میں جاگزیں تھی۔ حکم ہوا کہ اس بت کو بھی توڑو۔ خواب میں دکھایا گیا کہ اپنے ہاتھوں اپنے عزیز بیٹے کو جو بڑھاپے کی لکڑی تھا‘ ذبح کر رہے ہیں۔ حضرتِ حق آزمانا چاہتے تھے کہ یہ دوستی کا مدعی اولاد کی محبت کو بھی ہماری محبت پر قربان کرتا ہے یا نہیں‘ مگر وہ سچا مسلمان اس آزمایش میں بھی پورا اُترا۔ اس کا دعویٰ عشق سچا تھا۔ جو کچھ خواب میں دیکھا تھا‘ بیداری میں بھی کردکھانے پر آمادہ ہوگیا۔ اس طرح جب حق کی محبت پر ساری محبتیں قربان ہوگئیں‘ تب بارگاہِ خداوندی سے اپنے اس بندے کو ایمان کی سند دی گئی‘ اِنَّہُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ (الصّٰفّٰت ۳۷:۱۱۱) اور اسے نوع بشری کا امام بنایا گیا‘ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا (البقرہ۲:۱۲۴)۔اور تمام عالم کے مسلمانوں سے کہا گیا کہ تمھارے لیے اس کی اور اس کے ساتھیوں کی زندگی ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے‘ قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْٓ اِبْرَاھِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ (الممتحنہ۶۰:۴)۔
عیدالاضحی کا تہوار اسی روح کو سال بہ سال تازہ کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ قربانی کی ظاہری شکل‘ جانور پر چھری چلانا‘ اس کا خون بہانا فی نفسہٖ مقصود نہیں ہے‘ بلکہ ان ظاہری اعمال سے دراصل اس سب سے بڑی قربانی کی یاد تازہ کرنا مقصود ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے محبوب حقیقی کے لیے دی تھی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ فعل عبث ہے‘ ایک جانور کو ذبح کر دینے سے کیا فائدہ؟ مگر کوئی ان سے پوچھے کہ مہذب قومیں جو بڑے بڑے آدمیوں کے مجسمے نصب کرتی ہیں اور ان کی برسیاں مناتی ہیں‘ ان سے کیا حاصل ہوتا ہے؟ یہی نا کہ ان ظاہری علامتوں سے ان کے کارناموں کی یاد تازہ ہوتی ہے اور ان کی تقلید کا جذبہ دلوں میں زندہ ہوتا ہے۔ بس یہی فائدہ اس قربانی کا بھی ہے۔ خدا کو جانور کا گوشت پوست اور اس کا خون نہیں پہنچتا‘ بلکہ وہ ایثار و فدویت کی روح اس کو عزیز ہے جو اس کے پاک بندے ابراہیم ؑکے رگ و پے میں جاری و ساری تھی‘ اور وہ چاہتا ہے کہ ہر مسلمان میں یہی روح پیدا ہو‘ ہر مسلمان اسی طرح اپنی تمام محبتوں کو حق کی محبت پر قربان کرنے کے لیے آمادہ رہے۔
لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ (الحج۲۲:۳۷)اللہ کو ان کے گوشت اور ان کے خون نہیں پہنچتے بلکہ اسے تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔
(’اشارات‘، ترجمان القرآن‘جلد ۳‘ عدد ۶‘ ذی الحجہ ۱۳۵۲ھ‘ فروری ۱۹۳۴ئ‘ ص ۲-۱۰)
موسمِ حج کی آمد آمد ہے‘ چمنستانِ مکہ میں کرۂ ارض کے ہر قریے‘ ہر بستی سے رنگ برنگے‘ خوشبوؤں سے معطر ‘رنگ و نسل کی تفریق سے عاری لاکھوں پھول کھلنے والے ہیں۔ ان پھولوں میں کالے بھی ہیں گورے بھی‘ عربی بھی ہیں‘ عجمی بھی‘ چھوٹے بھی ہیں اور بڑے بھی‘ گویا کہ پھولوں کا ایک میلہ لگنے جارہا ہے۔ ایک ایسا میلہ جوہر دیکھنے والی آنکھ کو بھلا لگتا ہے اور محوِ حیرت کردیتا ہے۔ نہ جانے کتنے ہی اس میلے میں شرکت کے متمنی اپنی حسرتِ نا تمام کو سینے سے لگائے اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے‘ اور ان گنت ایسے ہیں جو آج بھی ماہیِ بے آب کی مانند تڑپ رہے ہیں ۔ ایسے میں یقینا خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنھیں ربِّ کائنات نے اپنا مہمان ہونے کا شرف بخشا۔
اللہ کا یہ ہر مہمان جب رخت سفرباندھتا ہے تو بے ساختہ ‘فرطِ جذبات سے پکار اُٹھتا ہے کہ لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ (حاضر ہوں اے اللہ‘ میں حاضر ہوں)۔ لوگ بڑے چاؤ سے اس در پر آتے ہیں‘ ساری توجہ مرکوز کرلینے کے لیے‘ زندگی کے چند لمحات کو انمول کرلینے کے لیے۔ یہاں کچھ بھی اہم نہیں اگر اہم ہے تو فقط ایک حاضری‘ حضوری کا احساس۔ لیکن ہم حاضر ہو کر بھی غیرحاضر رہتے ہیں۔ اُمت وسط کے شہسوارو! ذرا ٹھیرو …اور لمحے بھر کو سوچو کہ تم جو پکار رہے ہوکہ حاضر ہوں اے اللہ‘ میں حاضر ہوں!!! کیا اس کا ادراک رکھتے ہو؟ کیا تمھیں پتا ہے تم اپنے معبود کے حقیقی معبود ہونے کا اقرار کررہے ہو؟ کیا یہ بھی جانتے ہو کہ تم تمام باطل معبودوں کی نفی کررہے ہو؟
اگر تمھارا جواب نہیں میں ہے‘ تو سنو!
لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ ، حاضر ہوں اے اللہ‘ میں حاضر ہوں!
لفظ اللہ جس کی مالا جپتے جپتے تمھارے منہ نہیں تھک رہے‘ یہ لفظ اِلٰہ سے نکلا ہے۔ الٰہ کے معنی معبودِ کے ہوتے ہیں‘ وہ معبود جس کی پرستش کی جائے‘ جسے پوجا جائے۔ وہ خدا پوری کائنات کا مالک ہے۔ خالق وہ ہے‘ رزاق وہ ہے‘ موت اور زندگی اس کی طرف سے ہے‘ مصیبت اور راحت بھی اسی کی طرف سے ہے‘ جو کچھ کسی سے چھینا جاتا ہے اس کا چھیننے والا بھی حقیقت میں وہی ہے۔ ڈرنا چاہیے تو اس سے‘ مانگنا چاہیے تو اس سے ‘ سرجھکانا چاہیے تو اس کے سامنے‘ عبادت اور بندگی کی جائے تو اس کی۔ اس کے سوا ہم کسی کے بندے اور غلام نہیں اور اس کے سوا کوئی ہمارا آقا نہیں۔ ہمارا اصل فرض یہ ہے کہ اسی کا حکم مانیں اور اسی کے قانون کی پیروی کریں۔ یاد رکھو! اگر ہم اس کے قانون کی خلاف ورزی کریںگے توہماری زبان‘ ہمارے ہاتھ پاؤں‘ اور زمین و آسمان کا ذرّہ ذرّہ‘ ہمارے خلاف اللہ کی عدالت میں گواہی دے گا۔ ایسی بے بسی ہوگی کہ ایک گواہ بھی صفائی پیش کرنے کے لیے نہ ملے گا۔ کوئی وکیل پیروی کرنے والا نہیں ہوگا۔ وہ عدالت ایسی نہیں ہے جہاں جھوٹی گواہیاں اور جعلی دستاویزات پیش کردی جائیں اور فیصلہ اپنے حق میں کرالیں۔ وہاں رشوت بھی نہیں چلتی‘ اس لیے ناانصافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ اللہ سورۂ تین میں خود کہتا ہے: اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنِ(التین ۹۵:۸)’’کیا اللہ سب حاکموں (انصاف کرنے والوں) سے بڑا حاکم (منصف) نہیں ہے‘‘۔
مگر تم نے تو کہیں اپنی نفسانی خواہشات کو معبود بنا رکھا ہے‘ کہیں مال و متاع کو‘ کہیں اپنے سے طاقت ورکو‘ کہیں اپنی مصلحتوں کو۔ خود غور کرو‘ کس معبود سے مخاطب ہو؟ اُس سے جو ہروقت تمھارے ساتھ ہے۔ اس سے جوتمھاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے‘ یا اس سے جس کا نبیؐ ہجرت کے موقع پر اپنے ساتھی (ابوبکرؓ) کی پریشانی دیکھ کر کہتا ہے: ابوبکرؓ! ایسے دو آدمیوں کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے‘ جن کا تیسرا اللہ ہے۔
آج تک جس نے بھی اُس کی حاضری کا دم بھرا ہے اُس کے لیے یہ زمین کانٹوں کا بچھونا ثابت ہوئی ہے۔ وہ صرف اس سفرِ مقدس میں حاضر نہیں ہے بلکہ ہماری حاضری تو وہ روز بلکہ ہرلمحے لگواتا ہے ۔ دن میں پانچ بار مؤذن اس کے دربار میں حاضری کی یاد دلاتا ہے۔ جب وہ اپنی اذان میں پہلا لفظ کہتا ہے اللّٰہ اکبر (اللہ سب سے بڑا ہے)‘ یعنی اس نے بلا یا ہے جو سب سے بڑا ہے۔ اُس سے بڑا اس کائنات میں کوئی نہیں ہے‘ لہٰذا سب کام کاج چھوڑ دو‘ سب کھیل کود چھوڑ دو‘ سب سے ملنا جلنا چھوڑ دو‘ بڑے نے بلایا ہے۔ بالکل اسی طرح جب کسی کمپنی میںکوئی شخص کام کررہا ہو اوربہت زیادہ مصروف ہو‘ ایسے میں کچھ دوست آجائیں تو کہتا ہے: یار! بعد میں آجانا مصروف ہوں‘ بہت ضروری کام ہے آج ہی ختم کرنا ہے۔ اگر گھر سے بیوی یا بچے فون کرلیں تو ان سے بھی وہی کہتا ہے جو دوست سے کہاتھا کہ بعد میں فون کرلینا کیونکہ ابھی بہت مصروف ہوں۔ لیکن ایسی مصروفیت میں اگر کوئی پیغام دے کہ کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو یا مینیجنگ ڈائرکٹر‘ یا جنرل مینیجر بلا رہا ہے‘ تو ایسے میں کام کرنے والا سب کچھ ویسے ہی چھوڑ دیتا ہے جیسا کہ رکھا ہوا ہے۔ وہ اتنا انتظار بھی نہیں کرتا کہ اپنی چیزوں کو تو سمیٹ کررکھ جاؤں ‘ اور بھاگ کر جاتا ہے۔ اور ایسے ہی نہیں جاتا بلکہ اپنا حلیہ درست کرتا ہے‘ بالوں میں جلدی سے کنگھی کرتا ہے‘ نہ ہو توہاتھوں سے درست کرتا ہے‘ کپڑوں کی سلوٹیں درست کرتا ہے اور فوراً حاضر ہوجاتا ہے۔
بالکل اسی طرح جب مؤذن اذان دیتاہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اللہ نے اپنا دربار سجا لیا ہے اور اب تمھاری حاضری کا وقت ہے۔ بڑے نے بلا لیا ہے۔ پھر جب تم اپنے کاروبار میں لین دین کررہے ہوتے ہو اور کبھی ناپ تول میں ڈنڈی مار رہے ہوتے ہو تو وہ اُس وقت بھی حاضر ہوتا ہے۔ جب تم کسی کا حق دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہوتے ہو‘ تب بھی وہ حاضر ہوتا ہے۔ جب تم کسی کام کے عوض رشوت سے اپنے ہاتھوں کو ناپاک کررہے ہوتے ہو‘ تب بھی وہ حاضر ہوتا ہے۔ جب تم بات کرنے میں جھوٹ بول کر اپنی زبان کو گندا کررہے ہوتے ہو‘ تب بھی وہ حاضر ہوتا ہے۔ جب تم کسی سے وعدہ کرکے جان بوجھ کر پورا نہیں کررہے ہو تے ہو‘وہ تب بھی حاضر ہوتا ہے۔جب تم کسی قسم کی خیانت کررہے ہوتے ہو چاہے مال میںہو یا شہادت دینے میں‘ تب بھی وہ موجود ہوتا ہے۔ جب تم سود کو طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے جائز کررہے ہوتے ہو‘ تب بھی وہ دیکھ کر تمھاری عقل پر مسکرا رہا ہوتا ہے۔ جب تم کسی کو اپنے سے حقیر جان کرتکبر کے نشے میں مست ہوتے ہو اور اپنی اناکے بُت کو ٹوٹنے نہیں دیتے‘ اُسی طرح جس طرح ابلیس‘ فرعون‘ نمرود اور ان جیسے بہت سوں نے اپنی انا کو قائم رکھا تھا‘ وہ اُس وقت بھی تمھاری نادانی پر افسوس کررہا ہوتا ہے۔غرض زندگی کے ہر ہر قدم پر وہ تمھارے ساتھ سائے سے بھی زیادہ قریب ہوتا ہے۔ لہٰذا حاضری کے تصور کو آج کی طرح ہمیشہ تازہ رکھنا‘ تب ہی کامیاب رہوگے۔
لَبَّیْکَ لَا شَریِکَ لَکَ لَبَّیْکَ ،حاضر ہوں‘ نہیں کوئی شریک تیرا ‘میں حاضر ہوں!
رب کے لا شریک ہونے کا یہ اقرار صرف زبان سے نہ ہو بلکہ دل کی گہرائیوں سے ہو۔ اگر صرف زبان سے ہوا تو تمھیں منافقین کی صفوں میں لاکھڑا کرے گا‘ اور پھر ایک دن اسفل السافلین میں ٹھکانا پاؤ گے۔ وہ تو بلند ہے اور بلندی کے اس درجے پر ہے کہ کسی کو بھی ہم پلہ برداشت نہیں کرسکتا اور نہ اپنی ذات کے شرک کو برداشت کرتا ہے۔ وہ تو لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ (ہے)‘ نہ اُس نے کسی کو جنا اور نہ ہی وہ کسی سے جنا گیا (الاخلاص ۱۱۲ : ۳)۔ گویا نہ اس کا کوئی بیٹا یا بیٹی ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہی ہے۔ وہ اپنی صفات کے شرک کو بھی برداشت نہیں کرتا ہے۔ وہی اس کائنات کو تنہا تخلیق کرنے والا ہے بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ‘ اَنّٰی یَکُوْنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَکُنْ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْ ئٍ (الانعام ۶: ۱۰۱) ’’وہ تو آاسمانوں اور زمین کا موجد ہے‘ اُس کا کوئی بیٹا کیسے ہوسکتا ہے‘ جب کہ کوئی اُس کی شریکِ زندگی ہی نہیں ہے‘ اُس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے‘‘۔ وہی رزق فراہم کرتا ہے‘ وہی غریب نواز ہے‘ وہی داتا ہے ‘ وہی حاجت روا اور مشکل کشا ہے‘ وہی دُعاؤں کا سننے والا ہے۔ وہ خود کہتا ہے: وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌط اُجِـیْبُ دَعْوَۃَ الـدَّاعِ اِذَا دَعَانِلا (البقرہ ۲: ۱۸۶)’’جب میرے بندے میرے بارے میں تجھ سے سوال کریں تو کہہ دے کہ میں بہت ہی قریب ہوں‘ ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے میں قبول کرتا ہوں‘‘۔ لہٰذا یہ اُس کا حق ہے کہ اس کے احکامات میں کسی کو شریک نہیں کیا جائے۔ اس کی بتائی ہوئی ہدایت کے مطابق انفرادی‘ خانگی اور اجتماعی زندگی گزاری جائے ۔ وہ جس چیزسے کہہ دے رُک جاؤ تو رک جایا جائے اور جس کام کے کرنے کا وہ حکم دے دے تو بے چوں و چرا کر گزرا جائے‘ چاہے اس کے لیے پوری دنیا کی مخالفت ہی مول لینی پڑے۔ اگر اس کے احکامات سے تم روگردانی کرو گے تو گویا تم نے اس کو لا شریک نہیں مانا۔ اگر مصلحتوں کے تحت اس کی حکم عدولی کی تو سمجھو اپنی مصلحتوں کو اللہ مانا‘ اپنی خواہشات کے آگے ہتھیار ڈال کر اس کی حکم سے رو گردانی کی تو گویا خواہشات کو شریک بنا یا ‘ کسی سے ڈر کے اس کے حکم کو پسِ پشت ڈالا تو جان لو تم اس کے سوا جس سے ڈرے‘ چاہے وہ کوئی شخص ہو یا اقوام‘ اسے اللہ کا شریک بنایا۔
وہ تو یہ بھی برداشت نہیں کرتا کہ اس کا بتایا ہوا کام دوسروں کو دکھانے کے لیے کرو کیونکہ بظاہر تو وضع قطع یا حرکات و سکنات سے نظر یہ آتا ہوکہ اس کے بتائے ہوئے حکم کی پابندی کررہے ہو‘ لیکن دراصل اس کے پیچھے مقصد یہ کارفرما ہو کہ فلاں دیکھ کر میری تعریف کرے‘ مجھے پارسا کہے‘ متقی کہے‘ شجاع کہے‘ سخی کہے یا بہادر کہے‘ تو یاد رکھو تم نے جس کو دکھانے کے لیے وہ کام کیا‘ مثلاً نماز پڑھی کہ لوگ مجھے نمازی کہیں‘ خیرات دی کہ لوگ مجھے سخی کہیں‘ حج اس لیے کیا کہ لوگ حاجی صاحب کہیں ‘ زکوٰۃ اس لیے دی کہ جس کو دی وہ مرعوب رہے‘ جہاد میں حصہ اس لیے لیا کہ فوج میں ترقی ہو یا محلہ‘ گاؤں‘ قصبہ یا شہر میں بہادری کا عنوان کہلاؤ یا حکومتِ وقت سے کوئی تمغہ ملنے کی امید تھی‘ کوئی درس و تدریس کا کام محض اس لیے کیا کہ لوگ عالم کہیں‘ مفتی کہیں‘ سادہ لباس اس لیے زیبِ تن کیا کہ لوگ متقی کہیں‘ اللہ والا کہیں‘ یا اسی طرح کا کوئی اور بظاہر نیک کام کیا تو فعلاً جسے دکھانے کے لیے وہ کام کیے انھیں اس کی خدائی میں شریک کیا ور ایسے لوگوں کے لیے اُس نے ایک حدیث کے مطابق فیصلہ کردیا ہے کہ منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم میں داخل کردوں گا۔
اِنَّ الْحَمْدَ وَالْنِّعْمَۃَ،بلا شبہہ تمام تعریفیںتیرے ہی لیے ہیں اور نعمتیں سب تیری ہیں!
اللہ کو وَحدہٗ لَاشَرِیْکَ ماننے کے اقرار کے بعداب تم اس بات کا اقرار کررہے ہو کہ تمام تعریفیں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں‘ یعنی ساری بڑائی اسی کے لیے ہے اور جو بھی نعمتیں اس کائنات میں پائی جاتی ہیں سب اس ہی کی جانب سے ہیں۔ تھوڑی دیر رک کر انسان خود اپنی ہی مثال لے لے۔ اس کو زندگی کے لیے ہوا‘ پانی‘ روشنی‘ آگ ‘ غذا‘ شفا‘ غرض اس طرح کی اور بے شمار چیزیں جن کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا‘ عطا کیں۔ پھر اس کے علاوہ انسان اپنے جسم کو دیکھے۔ اللہ نے اس کو کام کرنے لیے دو ہاتھ‘ چلنے کے لیے دو ٹانگیں‘ سونگھنے کے لیے ناک‘ دیکھنے کے لیے آنکھیں‘ چکھنے اور بولنے کے لیے زبان‘ جسم کی مضبوطی قائم رکھنے لیے ہڈیوں کا ایک مکمل ڈھانچا عطا کیا۔ اگر صرف ہڈیاں ہوتیں ‘ اور اس جسم پر گوشت اور کھال نہ ہوتی تو اس کے اندر جو مشینری لگی ہوئی ہے اس کی موسمی اثرات اور دھول مٹی سے حفاظت ممکن نہیں تھی۔ رگوں میں زندگی کی رمق قائم رکھنے والا خون‘ اور اس خون کی پمپنگ کے لیے دل‘ فاضل پانی جسم سے خارج کرنے کے لیے گردوں اور مثانے کا نظام‘ خون کی پیدایش کے لیے جگر‘ کھانے کو ہضم کرنے کے لیے معدہ اور آنتوں کا جال‘ غرض جس جس چیز کی بھی ضرورت ایک جان دار کو ہوسکتی تھی سب اس نے مہیا کردیں۔ وہ فرماتا ہے: الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰکَ فَعَدَلَکَo فِیْٓ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَّاشَآئَ رَکَّبَکَo (الانفطار ۸۲: ۷-۸) ’’(اے انسان) جس (اللہ) نے تجھے پیدا کیا‘ تجھے نِک سُک سے درست کیا‘ تجھے متناسب بنایا‘ اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا‘‘۔ ایک اور جگہ فرمایا: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ(التین۹۵: ۴)’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا‘‘۔
اُس پروردگار نے صرف اتنا ہی نہیں کیا کہ انسان کو بنادیا اور بس‘ بلکہ اُس کے لیے نباتات اُگائیں تاکہ ان سے اپنی غذائی ضروریات پوری کرے‘ ان سے خارج ہونے والی آکسیجن سے روح کا رشتہ جسم کے ساتھ قائم رکھ سکے‘ اس سے حاصل ہونے والی لکڑی سے اپنی ضروریات اور آسایش کے لیے فرنیچر تیار کرسکے‘ اس کے تنے کی چھال سے کاغذ تیار کرسکے تاکہ علم کی پیاس بجھانے میں معاون و مدگار بنے‘ اس میں سے کچھ کو دوا بنادیا ۔ پھر حیوانات اس کی خدمت کے لیے بنادیے جن سے وہ اپنی غذا کے لیے گوشت میں شامل پروٹین اوروٹامن حاصل کر سکے‘ ان جانورں کی جلد سے اپنے لیے لباس تیار کرسکے ۔ آوارہ بادلوں کا ایک وسیع نظام قائم کیا جو ہر موسم میں اس انسان کے لیے سمندر سے پانی جمع کرکرکے لاتے اور برساتے ہیں۔ پھر سمندر ‘ دریا‘ پہاڑ ‘ آسمان‘ سورج‘ چاند ستارے‘ آسمان پر اوزون کی تہہ‘ غرض اسی طرح پوری کائنات میں بے شمار خزانے اس کے لیے جمع کردیے اور چیلنج کردیا کہ فبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّ بٰنِo(الرحمٰن ۵۵: ۱۳) ’’پس تم اپنے پرودگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے‘‘۔ اور ایک اور جگہ انسان کو اس کی حیثیت یاد دلادی کہ تو ایک انسان ہی ہے‘ میرا بندہ ہے‘ میرا محتاج ہے‘ میں نے علم بھی تجھ کو دیا لیکن اتنا ہی جتنا تو برداشت کرسکے۔ تو دعوے تو بڑ ے کرتا ہے لیکن ابھی تو تیرا حساب بھی اس قابل نہیں کہ اس کی نعمتوں کو گنتی کرلے۔ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَاط (ابراھیم۱۴:۳۴) ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گنو تو تم اُن کا پورا شمار نہیں کرسکتے‘‘۔
اے ضیوف الرحمن! تمھارا فرض ہے اتنے اعلیٰ رب کا شکر اپنے قول وفعل سے خود بھی اداکرو اور اس کی تلقین دوسروں کو بھی کرو۔ اگر تم انے ایسا نہ کیا تو وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ (العصر : ۱-۲)’’زمانے کی قسم! یقینا انسان خسارے میں ہے ‘‘کی تفسیر بن جاؤ گے اور اللہ نہ کرے تم اس کی تفسیر بنو کیونکہ اس کی تفسیر بننے والوں کے بارے میں فیصلہ لکھ دیا گیا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَظَلَمُوْا لَمْ یَکُنِ اللّٰہُ لِیَغْفِرَ لَھُمْ وَلَا لِیَھْدِیَھُمْ طَرِیْقًا o اِلَّا طَرِیْقَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًاط (النساء ۴: ۱۶۸-۱۶۹) ’’بے شک جن لوگوں نے کفر و بغاوت کا طریقہ اختیار کیا اور ظلم و ستم پر اُتر آئے‘ اللہ ان کو ہرگز معاف نہیں کرے گا اور انھیں کوئی راستہ بجز جہنم کے دکھائی نہ دے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔
لہٰذا یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ جس رب نے بے حساب نعمتوںسے نوازا وہی بالآخر تعریف کا مستحق ہے‘ وہی اس لائق ہے کہ اس کی پرستش کی جائے اور وہی بادشاہی کا اصل حق دار ہے۔ بادشاہ وہی ہوتا ہے جس کا قانون چلتا ہے‘ جو نظام کا بنانے والا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی کوئی نظام بنائے وہ سب اس کے نظام میں ترامیم و اضافے ہوتے ہیں۔ عقل کو دیکھیں کیا کہتی ہے؟ اس دنیا میں ہم دیکھتے ہیں جب بھی کوئی کمپنی نئی مصنوعات بناتی ہے‘ جیسے الیکٹرونکس‘ میکینکل مصنوعات وغیرہ تو اس کو فروخت کرتے وقت ہر خریدار کو ایک عدد کتابچہ فراہم کرتی ہے۔ اس میں اس کے استعمال کی تمام ہدایات درج ہوتی ہیں۔ جب تک ہم بنانے والے کی ہدایت پر عمل نہیں کریں گے کوئی بھی چیز ہمارے لیے بے کار ہے۔
اسی پر قیاس کریں کہ ایک انسان جس کو عقل بھی اللہ نے دی ‘ کام کرنے کی صلاحیت بھی اللہ نے دی‘ کار اور اس جیسی اربوں مصنوعات بنانے کا انداز اور وسائل بھی اسی نے فراہم کیے تو کیا وہ رب اتنی بڑی دنیا بناکر انسان کو اندھیرے میں چھوڑ دے گا‘ اور اس کو یہ نہیں بتائے گا کہ اس دنیا کو کس طرح استعمال کرے‘ یہاں کس طرح رہے۔ یقینا ہمارا جواب نفی میں ہوگا ۔ اُس رب نے جو دانا ہے ‘ بینا ہے‘ سب جہانوں کابادشاہ ہے‘ اسی نے اتنی بڑی کائنات کو بنایا اور اس کائنات کے چھوٹے سے حصے دنیا میں انسان کو بسایا اور اس کو اس میں رہنے کے آداب سکھانے کے لیے‘ اس دنیا کو درست انداز میں استعمال کرنے کے لیے ‘ اس سے فائدے حاصل کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً انسانوں ہی میں سے اپنے نمایندے بھیجتارہا جس طرح دنیاوی حکمران اپنے سرکاری افسروں کو بھیجا کرتے ہیں۔ یہ نمایندے مختلف اوقات میں ضرورت اور حالات کے مطابق اس وقت تک مختلف شریعتیں لاتے رہے۔ بالآخر اس نے اپنا آخری ہدایت نامہ انسانوں کو عطا کیا جسے آج دنیا ’قرآن‘ کے نام سے جانتی ہے۔
یہ قرآن رہتی دنیا تک کے لیے ایک مکمل دستور قرار پایا۔ اس میں انسانوں کے لیے چھوٹی بڑی تمام ہدایات درج کردی گئیں۔وہ تمام قانون وضع کردیے گئے جن کی ضرورت انسان کو پڑ سکتی تھی‘ جیسے اخلاقی قوانین‘ معاشی قوانین‘ عائلی قوانین‘ جنگ کے قوانین‘قانونِ شہادت‘ قانونِ قصاص ودیت‘ قانونِ وراثت ‘ قانونِ عدل‘ غرض یہ کہ جس قسم کی ہدایت اور راہنمائی انسان کو درکار تھی اس نے اپنے اس آخری دستور میں تفصیلی وضاحت کردی اور زندگی کا ایک گوشہ بھی ایسا نہیں رہنے دیا جس میں تشنگی چھوڑی ہو۔ اسی لیے اسے قرآنِ مبین کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے‘ یعنی ایک کھلی کتاب۔ جہاں کہیں ضرورت محسوس ہوئی اس کے قانونی نمایندے نے ان دفعات یا شقوں کی وضاحت کر دی اور اس وضاحت کو اسلامی اصطلاح میں حدیثِ نبویؐ کہا گیا۔ پھر حدیث بھی دو طرح کی ہوئی۔ ایک تو قانونی نمایندے حضرت محمدؐ نے قولاً تشریح کردی اور انسان کو یہ بتانے کے لیے کہ ان قوانین پر عمل ناممکن نہیں‘ عملاً قرآن کی چلتی پھرتی تصویر بن کر دکھایا۔
یہ اس رب نے اس لیے کیا کہ وہ اس دنیا کا بنانے والا ہے‘ لہٰذا اس پر حکمرانی بھی اسی کی ہونی چاہیے‘ حاکمِ بالا وہی ہے ۔ اگر کوئی اور اس کی دنیا کے قانون کو بنانے کی کوشش کرے گا وہ فطرت سے ٹکرائے گا اور فساد کا سبب بنے گا کیونکہ وہ دنیا کے تمام پیچ و خم سے واقف نہیں ہوگا۔چاہے وہ دنیاکا کوئی بادشاہ ہو‘ پارلیمنٹ ہو‘ سینٹ ہو یا کچھ اور۔ اس لیے آج لَکَ وَالْمُلْک کی گردان کرنے والو! یہ بات اچھی طرح اپنے ذہنوں میں رکھو کہ تمھارا یہ کہنا کہ بادشاہی بھی تیری (اللہ کی) ہے‘ اسے عملی طور پر اپنے اوپر نافذ کرکے دکھاؤ اور جہاں جہاں خودساختہ ربّ اس کے قانونِ فطرت کی دھجیاں بکھیر رہے ہوں‘ تمھارا فرض ہے کہ ان کا راستہ آگے بڑھ کر روک دو۔ اگر ایسا نہیں کرسکتے تو اپنے منہ اور قلم کی حد تک اس ہجت کو ضرور تمام کرو ‘اور تم ایسا بھی نہیں کرسکتے جو کہ آج کے دور میں مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں تو کم از کم ان کے ہم نوا نہ بن جاؤ اور دل سے برا جانو‘ تب ہی تم ایمان کا آخری درجہ پاسکو گے۔
اگر تم ایسا نہ کرسکے تو اللہ کو تمھارے دُور دراز سفر کرنے کی ‘ تمھاری مشقت برداشت کرنے کی‘ تمھارے مال خرچ کرنے کی ‘ بھاگ دوڑ کی کوئی حاجت نہیں وہ تو الصمد (بے نیاز) ہے۔ تمھارے اعمال کی قبولیت کی اولین شرط تمھاری نیتوں کاخالص ہونا ہے۔ جس کی نیتیں خالص نہ ہوں ان کا ابدی ٹھکانا جہنم کا بھی سب سے نچلا اوربھیانک درجہ قرار پاتاہے۔ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ج وَلَنْ تَجِدَلَھُمْ نَصِیْرًاo (النساء ۴ :۱۴۵) ’’یقین جانو کہ منافق جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں جائیں گے اور تم کسی کو اُن کا مددگار نہ پاؤگے‘‘۔ غور کرتے رہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ تم تو کہہ رہے ہو لَا شَرِیْکَ لَکَ ۔ تیرا کوئی شریک نہیں (اس بادشاہی میں) لیکن عملی دنیا میں اس کے دین کی دھجیاں بکھرتے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کررہے ہو___ خدارا لوٹ آؤ… لوٹ آؤ… لوٹ آؤ… موت کی آخری ہچکی سے پہلے لوٹ آؤ ‘اور یقین کر لو کہ وہ تَوَّابُ الرَّحِیْمْ ہے۔
دنیا کو آج بے شمار خطرات اور مشکلات کا سامنا ہے۔ دنیا اتنی تیزرفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے کہ کسی قدم پر بھی ٹھوکر کھا کر آن کی آن میں تباہی کے گہرے غاروں میں گرسکتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جدید سائنسی ترقی نے دنیا کو بے پناہ آسایشوں سے مالا مال کر دیا ہے لیکن اس ترقی نے اسے ایسی مہلک ایجادات بھی فراہم کر دی ہیں جن سے وہ چند لمحوں میں اپنی موت کے ساماں خود پیدا کرسکتی ہے۔ لہٰذا اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ دنیا میں بسنے والوں کو خوف و ہراس سے نکال کر ایسی زندگی فراہم کی جائے جس میں ہر طرف سکون‘ محبت اور اخلاق کا دور دورہ ہو اور اُسے وہ معاشرہ دیا جائے جو انسان کے شایانِ شان ہو۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
آج وقت تقاضا کرتا ہے کہ’دہشت گردی‘ کو ختم کرنے کے لیے پہلے اس کے اسباب کو ختم کیا جائے۔ غاصب اقوام کے منہ زور گھوڑوں کو لگام دی جائے۔ دنیا اچھی طرح جان لے کہ انتقام کی آگ وقتی طور پر تو ٹھنڈی ہوسکتی ہے ہمیشہ کے لیے بجھ نہیں سکتی۔
___ اسلام ہی ساری دنیا کو بھلائی دینے والا دین ہے۔
___ یہ اُمت عالم گیر امن کی دعوے دار اُمت ہے۔
___ان کی کتاب دنیا کو روشنی فراہم کرنے والی کتاب ہے۔
___ ان کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آنے والا رسول ہے۔
___مغرب کو بتایا جائے کہ خود ان کے بڑے بڑے دانش ور تسلیم کرتے ہیں کہ:
He was the only man in history who was supremely successful on both the religions and secular levels".(Dr. Michal Hart, The 100)
___ یہ بھی واضح کیا جائے کہ جن کا مزاج ہی لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (البقرہ۲:۲۵۶) ہو‘ وہ تشدد اور دہشت گردی جیسے برے راستے پر کبھی نہیں نکل سکتے۔
ان حالات میں اُمتِ مسلمہ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ سرکارِ دوجہاں‘رحمت کون و مکان صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے پیروکاروں کی سیرت کا ورق ورق دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دے اور دنیا خود دیکھ لے کہ اسلام اور اسلام کی حقیقی تعلیمات کیا ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کو ان امور میں شامل کیا ہے جن پر رشک کیا جا سکتا ہے۔ آپؐ ہمیشہ دعا فرماتے:میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔ (طٰہٰ ۲۰:۱۱۴)
اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا معاشرہ تشکیل دیا جو دلوں سے جہالت کے اندھیرے نکال کر ان کی جگہ علم کی شمعیں جلا دیتا ہے۔
عورتوں کے بھی حقوق ہیں جیساکہ مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔ (البقرہ ۲:۲۲۸)
اور ان کے ساتھ اچھی طرح رہو‘ سہو۔(النساء ۴:۱۹)
مردوں کا وہ حصہ ہے جو وہ کمائیں اور عورتوں کا وہ حصہ ہے جو وہ کمائیں۔ (النساء ۴:۳۲)
ان کا نبیؐ ان سے کہتا ہے:عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ (مسلم‘ ج ۱‘ ص ۳۹)
اسلام نے تعلیم کو کبھی ایک طبقے تک محدود نہیں رکھا۔ خواتین نے جب آپؐ سے تعلیم کے لیے ملنے کی درخواست کی تو آپؐ نے ان کے لیے علیحدہ وقت مقرر کر دیا اور الگ جگہ کا تعین فرما دیا۔(مسند احمد‘ ج ۱۳‘ ص ۸۵)
اسلام خواتین کے بارے کہیں رکاوٹ نہیں ڈالتا۔ انھیں برابری کا حق دے کر ان کی پوری حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ ہاں‘ اپنی تعلیمات کی روشنی میں اتنا ضرور تجویز کرتا ہے: ۱-اسلامی نظام تعلیم میں لڑکیوں کے لیے تعلیم کا انتظام الگ ہونا چاہیے۔ ۲- ان کے لیے نصابِ تعلیم الگ ہونا چاہیے کیوں کہ ان کی عملی زندگی مردوں سے مختلف ہوتی ہے۔ (انسانِ کامل‘ ص ۲۴۵)
اب اگر ان اصولوں کو سامنے رکھ کر اسلامی معاشرہ خواتین کو حصولِ علم کا ہر موقع فراہم کرتا ہے اور انھیں پورا تحفظ فراہم کرتا ہے تو اس کی ’روشن خیالی‘ میں کہاں کمی رہ جاتی ہے۔ البتہ یورپ اگر اہلِ ایمان کی قندیلِ ایمانی کو بے حیائی اور فحاشی کی تعلیم سے مدھم کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے ؎
دِیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت
ہے ایسی تجارت میںمسلماں کا خسارا
اس قوم کی نفرت جس نے تم کو کعبے سے روکا تھا تم کو ادھر کھینچ کر نہ لے جائے کہ تم بھی ان پر زیادتی کرو۔(المائدہ ۵:۷)
اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھرجائو۔ عدل کرو۔ یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔(المائدہ ۵:۸)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس کی فتح کے بعد جو معاہدہ لکھوایا اس کے الفاظ تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا: یہ وہ امان ہے جو خدا کے غلام امیرالمومنین عمرؓ نے ایلسا کے لوگوں کو دی‘ یہ امان ان کی جان‘ مال‘ گرجا‘ صلیب‘ تندرست‘ بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لیے ہے۔ اس طرح کہ نہ ان کے گرجوں میں سکونت کی جائے گی‘ نہ وہ ڈھائے جائیں گے‘ نہ اُن کے احاطوں کو نقصان پہنچایا جائے گا‘ نہ ان کے مالوں میں کمی کی جائے گی اور مذہب کے بارے میں ان پر کوئی جبر نہیں کیا جائے گا۔
حکمرانِ امویہ‘ عباسیہ‘ اندلسیہ و فاطمیہ کے عہد حکومت میں اقوامِ غیر کا صدیوں تک آباد رہنا مسلمانوں کی بے تعصبی کی روشن دلیل ہے۔ اورنگ زیب عالم گیر کو متعصب قرار دیا جاتا ہے لیکن اس کے دربار میں ہندو امرا کی فہرست اکبر کے دربار سے زیادہ لمبی ہے۔ سیاستِ حاضرہ کے ماہر کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی یہ بے تعصبی اور رواداری ہی ان کے زوال کا سبب بنی۔ ایک سیرچشم مسلمان یہ اعتراض تو تسلیم کرسکتا ہے لیکن یہ کبھی تسلیم نہیں کرسکتا کہ اسلا م میں تعصب ہے۔ (رحمۃ للعالمینؐ، ص ۳۷۴-۳۷۵)
اسلام انسان کی خودی کی تعمیر کرکے اسے ایسا روشن خیال بنا دیتا ہے جس کی دنیا اور دین کے درمیان فاصلے ختم ہوجاتے ہیں۔ وہ اسے معاشرے کا ایسا فرد بنا دیتا ہے جس کی زندگی کا کوئی پہلو کمزور نہیں رہتا۔ وہ اسے اپنے خالق کا سچا بندہ‘ والدین کا سعادت مند بیٹا‘ رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے والا‘ تمدن کا پورا محافظ‘ فرماں بردار‘ راست گو‘ امانت دار‘ صلح پسند‘ فساد کا دشمن اور نسلِ انسانی کا دوست بنا دیتا ہے___ اور پھر ایسے افراد مل کر جو معاشرہ تشکیل دیتے ہیں تو اس میں اعلیٰ ترین مدنیت ازخود ہر طرف سے جھلکتی نظر آتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ تعلیمات تھیں جن پر چل کر مسلمانوں نے عملاً ایک عالم گیر اور روشن خیال معاشرہ قائم کرکے دکھا دیا اور دنیا کو ماننا پڑا کہ اسلام ہی وہ دین ہے جو ہر نسل کے لوگ اکٹھے کر کے محض ایک عقیدے کی بنا پر انھیں ایک اُمت بنا سکتا ہے۔
آج زمانہ گواہی دے رہا ہے کہ انسان کے اپنے تخلیق کردہ نظریات دنیا کو فساد کے سوا کچھ نہیں دے سکے۔ گذشتہ چند صدیوں میں دنیا نے بے شمار نظاموں اور اِزموں کو آزما کر دیکھ لیا ہے۔ انسان پریشان سے پریشان تر ہوتا جا رہا ہے۔ آج پھر مجبوراً اسے اسلام ہی وہ واحد سہارا دکھائی دیتا ہے جو اس کی مشکلات اور اس کے مصائب میں اس کی دستگیری کرسکتا ہے اور اسے سُکھ اور چین فراہم کرسکتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسلام ہی وہ واحد چراغ ہے جو دنیا کے اندھیروں کو روشنیوں میں بدل سکتا ہے تواس چراغ کی لَو بڑھانے کا فریضہ کون انجام دے؟
اس سوال کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ اس چراغ کو جلائے رکھنے کا کام وہی لوگ انجام دے سکتے ہیں جو اس چراغ کے علم بردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں‘ جو اپنے آپ کو انبیا کا وارث تصور کرتے ہیں‘ جن سے ان کے نبی برحقؐ نے اپنے تکمیلِ مشن پر پوچھا تھا:کیا میںنے بات پہنچادی؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں‘ یارسولؐ اللہ! تو پھر ان کے ہادیؐ نے انھیں حکم دیا تھا: جو موجود ہے وہ ان لوگوں تک میری یہ بات پہنچا دے جو یہاں موجود نہیں۔
اب اگر اُمتِ مسلمہ حقیقت اور انصاف کی نظر سے دیکھے تو عصرِحاضر کاسب سے بڑا چیلنج اُسے اور صرف اُسے درپیش ہے۔ اسے اپنے رب اور اپنے نبیؐ سے کیے گئے وعدوں پر پورا اترنے کا ایک سنہری موقع نصیب ہو رہا ہے۔ اب تساہل سے کام لینے کی کوئی گنجایش نہیں۔ اسے اپنا کڑا احتساب کرنا ہوگا۔
___ لائوڈ اسپیکر کے بے جا استعمال کو سختی سے روکے۔
___ مناظرہ بازی کے رواج کا سختی سے سدباب کرے (مناظرہ بازی کے چسکے نے ہمیں رسوائیوں کے سوا کچھ نہیں دیا)۔
___ منافرت اور انتشار پھیلانے والے لٹریچر پر کڑی پابندیاں عائد کرے۔
___ مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے مسلم عوام کے اندر تہذیبی شعور (civic sense) بیدار کرنے کا خصوصی اہتمام کرے تاکہ ہر گھر کے اندر اور باہر طہارت‘ جو ایمان کی ایک بنیادی شرط ہے‘ پوری ہوتی نظر آئے۔
دل کی اصلاح ہی بدن کی اصلاح کی ضامن ہوسکتی ہے۔ آج انسان کے دل اور بدن میں کوئی ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ اس ہم آہنگی کا واحد ذریعہ اللہ کا ذکر اور صحیح معنوں میں عبادات کی بجاآوری ہے۔ اس سلسلے میں قرآن اور سیرت کا مطالعہ حد درجہ معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ لیکن کاش اُمتِ مسلمہ اس کا احساس کرے۔ آج ہم قرآن اور سیرت کے مطالعے کی دعوت دیتے ہوئے کیوں شرما جاتے ہیں؟ ہمیں قرآن اور سنت کے مطالعے کی اہمیت کا کیوں احساس نہیں ہوتا؟
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
پاکستان کے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں دنیا بھر سے مسلم اور مسیحی ادارے اور تنظیمیں امدادی سرگرمیوں میں شرکت کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ ان میں سے مسیحی اداروں کے ریلیف کے کاموں سے متاثر ہونے والوں میں عام آدمی سے لے کر پالیسی ساز افراد اور اہم ذمہ داریوں پر موجود شخصیات بھی شامل ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان اداروں کو بے پناہ مادی وسائل میسر ہیں جن کا ایک اظہار ان کی مالی و فنی خود کفالت سے بھی ہوتا ہے اور تکنیکی صلاحیت بھی کسی طرح سے کم نہیں ہے۔ ان میں سے ہر ادارہ کسی نہ کسی اعتبار سے مسیحیت کے فروغ سے بھی وابستہ ہے۔ بعض ادارے تو اپنے نام سے پہچانے جا سکتے ہیں کیونکہ وہ کسی چرچ کی توسیعی شاخ کے طور پر دنیا بھر میں کام کرتے ہیں۔ ان کے مشن اور سرگرمیوں کے بارے میں ان کی ویب سائٹس معلومات فراہم کرنے کا کھلا ذریعہ ہیں۔
ان کی مشنری سرگرمیاں ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ کچھ ادارے ایسے ہیں جو صرف انسانی ہمدردی کے عنوان سے میدان میں ہیں۔ ان اداروں میں بھی یہ تخصیص بہرحال موجود ہے کہ یہ سیکولر ادارے نہیں ہیں۔ اگر ہم ان تمام اداروں کے ناموں کو سامنے رکھیں اور سیکولر اداروں کو بھی پیش نظر رکھیں تو ہم پر یہ حیرت انگیز انکشاف ہوگا کہ انسانی ریلیف کا کام زیادہ تر مذہبی ادارے کرتے ہیں۔ آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد کے زلزلہ زدہ علاقوں میں ان اداروں نے بلاشبہہ کام کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ پورے امدادی کینوس کو سامنے رکھیں تو تعلیم اور علاج کے شعبہ جات میں اور وہ بھی خصوصی طور پر بچوں اور خواتین میں کام زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ صوبہ سرحد میں بالاکوٹ کا علاقہ ان سرگرمیوں کا خصوصی مرکز ہے۔ آزاد کشمیر کے علاقوں میں باغ میں زیادہ اہم سرگرمیاں ہیں۔
ایک مشنری جب کام کرتا ہے تو اس کو مکمل تربیت حاصل ہوتی ہے‘ ایک لٹریچر اس کے کام میں اس کی معاونت کرتا ہے اور مغربی دنیا کے وسائل اس کی پشت پر موجود ہوتے ہیں۔ یہ اس کے مشن کا حصہ ہے کہ وہ کبھی فارغ نہیں ہوتا۔ وہ مسلسل کام کرتا ہے۔ اسی لیے مشنریوں کے کام کے نتائج ایک غیرمسیحی کی توقعات سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ ۱۹۹۰ء کے عشرے سے قبل کمبوڈیا میں تعداد ۲۰۰ تھی جو اب بڑھ کر ایک لاکھ ہو گئی ہے۔ گویا ۱۰برسوں میں ایک لاکھ کا اضافہ ہوگیا۔ اس تیز رفتار تبدیلی مذہب کی وجہ زیر ہدف علاقے کا آفت زدہ یا مصیبت زدہ ہونا‘ وہاں کے مقامی مذہب کی گرفت کا ڈھیلا پڑ جانا‘ الہامی کتب کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ ہونا اور ان کے ساتھ ساتھ مشنری مسیحی اداروں کا مسلسل فلاحی سرگرمیوں‘ بہبود کے کاموں میں اور امدادی سرگرمیوں میں مقامی آبادی کا ساتھ دینا تھا۔ ان سرگرمیوں سے مشنری کو موقع ملتا ہے کہ وہ مقامی آبادی سے ربط پیدا کرے‘ ان کے ہاں آجا سکے‘ ان کی خوشی غمی میں شرکت کرسکے اور پھر انھیں اپنے ہاں آنے کی دعوت دے سکے۔ ایک مشنری سے کہا جاتا ہے کہ وہ شام کے اوقات کو ان سرگرمیوں کے لیے استعمال کرے۔ وہ سارا دن ریلیف اور امداد کرے گا اور شام کو تبشیری سرگرمیاں جاری رکھے گا۔
ایک مشنری کی تربیت میں شامل ہے کہ اسے افراد میں نفوذ کس طرح کرنا ہے‘ انھیں مشتعل کیے بغیر ان کے مذہب سے انھیں کس طرح الگ کرنا ہے‘ یسوع مسیحؑ سے انھیں کس طرح وابستہ کرنا ہے۔ آپ کو زلزلہ زدہ علاقوں میں بہت سے مسیحی کارکن‘ جو ان اداروں کے ساتھ آئے ہیں‘ روزے کی حالت میں ملے ہوں گے۔ رمضان المبارک میں زلزلہ آیا اور انھوں نے بھی مسلمانوں کے ساتھ روزے رکھے۔ وہ آپ کو بہت سے ایسے مقامات پر بھی باادب بیٹھے ملیں گے جہاں صرف مسلمان ہی جمع ہو سکتے ہیں۔
خاتون مشنری کی اہمیت مرد سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ زیادہ با اثر ہے۔ اس کے ہر کام کی نگرانی ہوتی ہے۔ آپ کو مسیحی مشنری خاتون صفائی کرتی نظر آئے گی‘ کبھی کھانا طلب نہیں کرے گی‘ کبھی کوئی رعایت نہیں لے گی‘ سب کام کرے گی اور خاموشی سے چلے جائے گی لیکن اپنے پیچھے اَن گنت سوالات چھوڑ جائے گی۔ یہ اس کے کام کی کامیابی ہے۔ جاپان میں مشنری تجربات سے معلوم ہوا کہ ۷۰فی صد معاملات میں خاتون مشنری کامیاب رہی۔ جنوبی کوریا میں ایک سال میں ۳۶۵ خاندانوں کو تبدیلیِ مذہب پر آمادہ کرنے والی بھی ایک خاتون تھی۔ ایک جائزہ تیار کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ عورت کی یہ صلاحیت ایک مرد کے مقابلے میں آٹھ گنا زیادہ ہے۔
مشنری ہمیشہ تعلیم یافتہ ہو گا۔ وہ اپنے مذہب کے بارے میں کیے جانے والے بیشتر سوالوں کا جواب جانتا ہو گا۔ وہ آپ کو آپ کے مذہب سے دور لے جانے کے سو نکات بیان کردے گا‘ وہ تبدیلی مذہب کے عمل کے بارے میں بالکل متانت اور سنجیدگی سے بات کرے گا‘ آپ کو کبھی شرمندہ نہیں ہونے دے گا۔ آپ کی خانگی الجھنوں کا حل پیش کرے گا‘ آپ کے بچوں کے مسائل پر بات کرے گا‘ آپ آفت زدہ ہیں تو اس آفت کے بارے میں خداوند کی بات کرے گا‘ توحید پر اشتراک کرے گا اگرچہ وہ تثلیت کا قائل ہو گا۔
مشنریوں نے مسلمانوں کے ساتھ اپنے تجربات بھی کئی ایک مقامات پر بیان کیے ہیں۔ ان تجربات کو وہ ایک دوسرے کے سامنے بیان کرتے ہیں تاکہ ان راستوں اور طریقوں کی وضاحت ہو جن سے ایک مسلمان کو آسانی سے مسیحی بنایا جا سکتا ہے۔ ایک مشنری جولی وینزل نے نیومارک سٹی میں اگست ۲۰۰۳ء میں ایک خط میں ایک تجربہ بیان کیا۔ اس کے مطابق ایک مسلم عرب ایم بی بی ایس ڈاکٹر کے گھر ڈنر میں یہ لوگ شریک ہوئے۔ جولی نے ایک حمدیہ نظم پڑھنا شروع کی جس میں نہایت پر سوز انداز میں توحید کا بیان تھا۔ جولی کا کہنا ہے کہ لبنان کے اس گھرانے کے افراد کی آنکھیں پر نم تھیں اور ان کی دو خواتین مسلمان ہونے کے باوجود سخت مضطرب تھیں اور وہ بعد میں اسلام سے مسیحیت کی جانب آ گئیں۔ اس طرح سے وہاں الجزائر کی ایک مسلم ایم بی بی ایس خاتون بھی مسیحی ہو گئی۔
مسیحیوں میں بالعموم اور مسیحی مشنریوں میں بالخصوص ریلیف سوسائٹیاں بنانے کا رواج عام ہے۔ ان سوسائٹیوں میں کام کا بنیادی اصول یہ ہوتا ہے کہ دوسرے مذہب کے لوگوں کو مشتعل کیے بغیر انھیں تبدیلی مذہب پر آمادہ کیا جائے۔ انھیں یہ شک بھی نہ ہونے دیا جائے کہ ان پر کس نوعیت کا کام ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ دوستی اور سماجی خدمت کے پردے میں ہوتا ہے اور غیر محسوس انداز میں لٹریچر کی جانب طلب پیدا کر دی جاتی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کو مسیح بنانے کے ایک ادارے کا نام دارالنجات ہے۔ اس ادارے کوGlobal Call of Hope کی سرپرستی حاصل ہے۔ یہ اسلام پر مختلف کورس کراتی ہے۔ اس منصوبے کو مسلم مسیحی فیلو شپ کا نام دیا گیا ہے۔ ایک اور ادارہ ہیلپنگ ہینڈ انٹرنیشنل ہے۔ یہ پاکستان میں بھی کام کر ہا ہے۔ یہ سکول قائم کرتا ہے‘ چلڈرن ہوم‘ دستکاری مراکز‘ کرافٹ سنٹر‘ زرعی تربیت کے ادارے‘ ریلیف تنظیمات اور طبی امداد کے ادارے بناتا اور ان سے کام لیتا ہے۔ یہ تنظیم بھی یہاں زلزلہ زدگان کی امداد میں مصروف ہے۔ بھارت کی آٹھ ریاستوں میں مسلمانوں میں تبدیلی مذہب پر کام کر رہی ہے۔
جب ایک مسلمان کو مسیحی بنایا جاتا ہے تو کتب کے مطالعے کے ساتھ ساتھ اس سے تقریباً روزانہ نصف سے ایک گھنٹہ ملاقات کی جاتی ہے۔ اس کام کے لیے ایک لائبریری ’النور‘ کے نام سے کام کرتی رہتی ہے۔ یہ ادارہ‘ یعنی ہیلپنگ ہینڈ اس مقصد کے لیے ۱۸ کتب اور ۳۷ پمفلٹ اور ایک جامع خط و کتابت کورس تقسیم کرتا ہے۔ سونامی میں ان اداروں نے بہت کام کیا۔ امریکی اخبار نیوز ڈے نے ۸ جنوری ۲۰۰۵ء کو ایک رپورٹ میں ان کی تفصیلات بیان کیں۔ عراق ان اداروں کا ایک بنیادی ہدف ہے۔ ایوانجلیکل راہنمائوں نے ان سرگرمیوں کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم امدادی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کی روحانی مدد بھی کرتے ہیں۔ ریورنڈفرینکلن گراہم نے اس کے دفاع میں کہا کہ امداد ایسی ہو جس سے یسوع مسیح کی محبت ہر دل میں پیدا ہو سکے۔ میری کوشش ہے کہ متاثرین میرے خداوند کو اپنے خداوند کے طو رپر پہچان لیں۔
مسیحی مشنری جب متاثرین میں کام کرتے ہیں تو بچوں کو گود لے لیتے ہیں۔ ریلیف کے سامان میں پمفلٹ رکھ دیتے ہیں‘ مستقل رابطوں کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں جن کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔ ایوانجلیکل مشن نامی میگزین کے ایڈیٹر سکاٹ مورائو کا کہنا ہے کہ مسیحیت کا پرچار کسی صورت بند نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ پہلے امداد دی جائے پھر اس اعتماد کی مدد سے رابطے قائم کیے جائیں تاکہ لوگوں کو تبدیلی مذہب پر آمادہ کیا جائے۔ کرسچین ریلیف ایجنسی‘ ورلڈ وژن اور کیتھولک ریلیف سروس کا بھی یہی طریقہ ہے۔
٭ Brother' Brother Foundation پاکستان میں طبی سامان بالخصوص ادویات دے رہی ہے۔ www.brothersbrother.org
(تفصیلی معلومات کے لیے ماہنامہ آئین کی نومبر اور دسمبر ۲۰۰۵ء کی اشاعت دیکھیے)
عالم اسلام
اخوان المسلمون کی شان دار کامیابی
شاہ نواز فاروقیo
مسلمانوں کی تاریخ مرکز جُو اور مرکز گریز قوتوں کا ایسا رزمیہ ہے جس نے تاریخ کے حالیہ سفر میں فکر و خیال سے عملی سیاسی جدوجہد تک کئی اسالیب پیدا کرلیے ہیں۔ ان اسالیب کا سرسری مطالعہ بھی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ مرکز جُو قوت مسلسل پیش قدمی کر رہی ہے جس سے مسلمانوںکے جہانِ معنی میں روشنی پھیلتی جارہی ہے۔ یہاں کہنے کی اہم بات یہ ہے کہ تاریخ کے اس تصور کو نظرانداز کرکے ہم مسلم دنیا میں رونما ہونے والی مختلف تبدیلیوں کی معنویت کو نہیں سمجھ سکتے۔
مصر کے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں اخوان المسلمون کی شان دار کامیابی کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بعض مبصرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اس کامیابی کو شان دار قرار دینا درست نہیں۔ ان کے نزدیک ۴۰۰ سے زائد منتخب نمایندوں کے ایوان میں ۸۸ نشستوں کی حیثیت ہی کیا ہے؟ لیکن صورتِ حال کو دیکھنے کے لیے یہ تناظر کسی طرح بھی کفایت نہیں کرتا۔ اس لیے کہ گذشتہ پارلیمنٹ میں اخوان کے نمایندوں کی تعداد صرف ۱۶ تھی۔ لیکن یہ معاملہ گنتی سے بہت آگے جاتا ہے۔ مصرکے حالیہ انتخابات بھی ماضی کے انتخابات کی طرح بدترین دھاندلیوں سے آلودہ تھے۔ انتخابات سے قبل‘ یہاں تک کہ انتخابات کے روز بھی‘ اخوان کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری رہا اور درجنوں مقامات پر راے دہندگان کو پولنگ اسٹیشنوں میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ امتیازی انتخابی قوانین اس کے علاوہ تھے۔ پھر اخوان پر پابندی تھی اور انھوں نے اپنے نام سے انتخابات میں حصہ لینے کے بجاے حسب سابق آزاد امیدواروں کو میدان میںاتارا۔ اس منظرنامے میں اخوان کا واحد حزب اختلاف بن کر ابھرنا اور ۸۸ نشستوں پر کامیاب ہونا معمولی بات نہیں۔ مصر کی سیکولر قوتوں کی ناکامی اتنی نمایاں ہوکر سامنے آئی کہ انھوں نے جھنجھلا کر اخوان کی کامیابی کو حسنی مبارک کے کھاتے میں ڈال دیا اور انھوں نے الزام لگایا کہ حسنی مبارک نے مصر کو آمریت اور مسجد کے درمیان معلق کر دیا ہے۔ اب مصری عوام یا تو آمریت کے آگے سجدہ گزاریں یا مسجد کا رخ کریں۔ مصر کے سیاسی مکالمے یا discourse میں مسجد کا یہ حوالہ نیا نہیں لیکن اس بار یہ حوالہ صرف حوالہ نہیں ایک توانا علامت بن کر ابھرا ہے۔
مصر کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا اس امر پراتفاق ہے کہ اخوان کو کام کرنے کی مزید آزادی فراہم ہوئی ہوتی‘ تو ان کی کامیابی شان دار سے آگے بڑھ کر حیرت انگیز ہوسکتی تھی۔ اس کے باوجود یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ حسنی مبارک نے اس بار انتخابی قوانین اور سیاسی فضا کو پہلے سے زیادہ نرم کیوں کیا؟
اس سوال کاایک جواب یہ ہے کہ امریکا افغانستان اور عراق میں کروز میزائلوں اور بموں کے ذریعے جمہوریت ’کاشت‘ کر رہا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ پورے مشرقِ وسطیٰ کو مشرف بہ جمہوریت کرکے رہے گا۔ اس دعوے کے مضمرات کو سمجھنا دشوار نہیں اور مصر کے صدر حسنی مبارک صدارتی انتخابات کے بعد ۱۰۰ فی صد ڈھکوسلہ پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کرکے امریکا کے لیے رسوائی تخلیق نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ اخوان کو جو تھوڑی بہت آزادی اور سہولت فراہم ہوئی وہ حسنی مبارک کی ’پسند‘ نہیں مجبوری تھی۔ تاہم‘ اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔
مسلم دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جس پر مسلط حکمران اسلام اور امت مسلمہ کے حقیقی مفادات کے تناظر میں تاریخی طور پر ازکار رفتہ نہ ہوگئے ہوں۔ مصر کا معاملہ اس سے الگ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حسنی مبارک اپنے فرزندِ ارجمند جمال کے لیے حالات سازگار بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ لیبیا کا ہے جہاں کرنل معمر قذافی اپنی جگہ اپنے بیٹے سیف الاسلام کو اقتدار پرقابض دیکھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اخوان کی شان دار کامیابی میں امریکا کے لیے یہ پیغام مضمر ہوسکتا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کا باغ لگانے کے سلسلے میں زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کرے کیوں کہ اس صورت میں ’بنیاد پرست‘ پورے مشرق وسطیٰ پر چھا جائیں گے اور صرف امریکا ہی نہیں‘ پوری مغربی دنیا کے اساسی مفادات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ اخوان کی کامیابی محض اس کی ایک جھلک ہے۔ مسلم دنیا کے آمروں کے علم الکلام کی اپنی لغت اور اس کی اپنی معنویت ہے اور یہ معنویت راز بھی نہیں۔
اخوان المسلمون پر ۱۹۵۴ء میں جمال عبدالناصر کے قتل کی سازش کا الزام لگا کر پابندی عاید کردی گئی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک اخوان نے ابتلا و آزمایش کا ایک بہت طویل دور گزارا ہے۔ اس عرصے میں ایسا وقت بھی آیا جب کہنے والوں نے یہ کہا کہ اخوان ایک بڑی تحریک کی حیثیت سے باقی نہیں رہ سکتے اور ان کی واپسی ناممکن دکھائی دیتی ہے۔ اس سلسلے میں ان کی مزاحمتی روش کو بھی موردِ الزام ٹھیرایا گیا اور اس سے دنیا کے مختلف مسلم ملکوں میں سبق وغیرہ لینے کی کوشش بھی کی گئی۔ لیکن اخوان کی اس کامیابی نے ثابت کر دیا کہ جو تحریکیں حق پر ہوں‘ مسلم تہذیب و تمدن کے مرکزی دھارے میں منسلک و مربوط ہوں اور ان کی جڑیں عوام میں ہوں‘ انھیں دو چار یا ۱۰سال کے لیے پارلیمنٹ یا سیاسی عمل سے باہر تو کیا جاسکتا ہے لیکن عوام کے اجتماعی حافظے سے نہیں نکالا جاسکتا۔ مسلم تاریخ کی مرکز جُو حرکت انھیں بالآخر مسلم عوام کی دیرینہ آرزوئوں اور تمنائوں کا مرکز بنادے گی اور استبدادی قوتوں کا کوئی ہتھکنڈا کارگر ثابت نہیں ہوسکے گا۔
اسی حوالے سے کہیں مرکز جُو قوت و حرکت صورتِ حال سے منسلک نظر آئے گی اور کہیں تبدیلی ماوراے حالات بھی وقوع پزیر ہوگی۔ اس کی مثالیں اب جگہ جگہ سے دستیاب ہیں۔ مثال کے طور پر الجزائر میں اسلامی فرنٹ کی بے مثال کامیابی علاقائی یا بین الاقوامی حالات سے ماورا تھی۔ الجزائر سیکولرازم کی تجربہ گاہ اور فوجی آمریت کا گہوارا تھا مگر اسلامی فرنٹ کی نظریاتی جہت نے سیکولرازم کے قلعوں کو مسمار کر دیا۔ یہ انقلاب حقیقی نہ ہوتا تو فوجی آمریت کی جانب سے اسلامی فرنٹ کی بے مثال کامیابی پر مارے گئے شب خون کی شاید ایسی مزاحمت نہ ہوتی جیسی کہ ہوئی۔
پاکستان میں متحدہ مجلس عمل کی انتخابی کامیابی میں زیادہ ہاتھ علاقائی اور بین الاقوامی صورت حال نے ادا کیا اور اگر مجلس عمل نے پنجاب میں بھی موثر مہم چلائی ہوتی تو اس کی کامیابی کا دائرہ زیادہ وسیع ہوسکتا تھا۔
اخوان المسلمون مصر کی سیاست میں ایک بڑی قوت بن کر ابھر چکے ہیں اور وہ ملک کی واحد حزب اختلاف ہوں گے۔ اس صورت حال نے ان پر امکانات کے در وا کر دیے ہیں مگر ان حالات میں ایک قوی اندیشہ بھی موجود ہے۔
امریکا اور اس کے مغربی و غیر مذہبی اتحادی‘ اسلام کے ابھار اور اسلامی تحریکوں سے خوف زدہ ہیں۔ چنانچہ جہاں ان سے بن پڑا ہے انھوں نے اسلامی تحریکوں کا براہ راست راستہ روکا ہے اور ممکن ہوا تو آیندہ بھی روکیں گے۔
مغربی دنیا کو جمہوریت واقعتاً عزیز ہوتی تو وہ اسلامی فرنٹ کے جمہوری انقلاب کو قبول کرلیتی اور الجزائر کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اسے سبوتاژ کرنے کی اجازت نہ دیتی‘ لیکن مغربی دنیا اس سبوتاژ پر آج تک اس طرح خاموش ہے کہ جیسے یہ سبوتاژ واقع ہی نہ ہوا ہو۔ تاہم‘ جہاںکہیں مغربی دنیا کے لیے اسلامی تحریکوں کی پیش قدمی کو روکنا ممکن نہ ہوگا وہاں کوشش کی جائے گی کہ انھیں سسٹم میں جذب کرکے ان کی نظریاتی جہت کو دھندلا دیا جائے اور انھیں اسلامی تحریکوں کے عظیم مقام سے ہٹاکر صرف سیاسی جماعت بنا کر کھڑا کردے۔ بلاشبہہ مسلم دنیا کو اچھی سیاسی جماعتوں کی بھی ضرورت ہے مگر جو کام اسلامی تحریکیں کرسکتی ہیں وہ سیاسی جماعتوں کے بس کی بات نہیں۔ سیاسی جماعتیں نظام میں اصلاح کرسکتی ہیں مگر اسے بدل نہیں سکتیں۔ یہ ان کی فکری اہلیت کے دائرے سے باہر کی چیز ہے اور مسلم دنیا پر بحیثیت مجموعی جو نظام مسلط ہے اس کی خرابیاں اتنی بڑی ہیں کہ انھیں اب اصلاح سے دور نہیں کیا جاسکتا۔ مسلم دنیا کو انقلاب کی ضرورت ہے اور انقلاب صرف تحریکیں لاسکتی ہیں۔ انقلاب کے لیے معروضی تناظر یا detached out look ضروری ہوتا ہے جو سسٹم میں جذب ہو کر حاصل نہیں کیا جاسکتا اور حاصل ہو تو سسٹم کا حصہ بنتے ہی زائل ہوجاتا ہے۔ اخوان المسلمون نہ کبھی صرف سیاسی جماعت تھی‘ نہ ہے اور نہ اسے ہونا چاہیے۔ عالم عرب میں مصر کی اہمیت اس کی آبادی‘ رقبے‘ جغرافیائی محل وقوع اور اس کے ثقافتی اثرات کی وجہ سے ویسے ہی مرکزی ہے۔ مصر منقلب ہوگیا تو اس کے اثرات دور دور تک مرتب ہوں گے۔
مسلم دنیا کی حالیہ تاریخ میں سسٹم سے مفاہمت کے کئی بڑے اور اہم تجربات ہوئے مگر ان میں سے کوئی تجربہ بھی کامیاب نہ ہوسکا۔ الجزائر میں تو خیر اسلامی فرنٹ کی کامیابی پر ڈاکا ڈال دیا گیا جس کے نتیجے میں وہاں وہ کشت و خون ہوا کہ جس کی الجزائر کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ترکی میں نجم الدین اربکان کو قبول کیا گیا مگر چلنے نہیں دیا گیا۔ اس سلسلے میں سب سے مثالی تجربہ سوڈان میں ہوا جہاں جنرل عمرالبشیرخود کو اسلامی تحریک کا کارکن اور حسن ترابی کا شاگرد کہتے تھے‘ لیکن حسن ترابی بالآخر اسپیکر کے عہدے سے معزول کیے گئے اور جیل میں ڈالے گئے اور بعض اطلاعات کے مطابق ان کے ساتھ جیل میں اچھا سلوک نہیں ہوا۔ مصر میں ایسے کسی تجربے کی فی الحال کوئی گنجایش نظر نہیں آتی لیکن سسٹم میں جذب ہونے کی صرف ایک صورت نہیں ہوتی‘ چنانچہ اخوان کو اس حوالے سے پوری مسلم تاریخ کے تناظر میں شعور کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور خود کو سسٹم کا حصہ بننے سے روکنا ہوگا۔ مسلم دنیا کی تاریخ میں ویسے بھی کوڑوں سے زیادہ توڑوں کو خطرناک سمجھا گیا ہے۔
کہنے کو فلسطین کے مخصوص حالات اور جغرافیے اور آبادی کے اعتبار سے اس کا ماڈل چھوٹا ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کے لیے سب سے اچھا ماڈل فلسطین میں تخلیق ہوا ہے۔ یہ ماڈل خدمت اور مزاحمت کے امتزاج پر مشتمل ہے۔ بلاشبہہ اس ماڈل کے تحت پوری مسلم دنیا میں خدمت کے معنی تو وہی رہیں گے لیکن مزاحمت کا مفہوم ہر ملک کے معروضی حالات کے مطابق بدل جائے گا‘ تاہم مزاحمت کا وسیع تر مفہوم باقی رہے گا۔ امریکا میں ۱۱ ستمبر کا واقعہ نہ ہوتا تو بھی فلسطین کا یہ ماڈل پوری مسلم دنیا کے لیے بہترین ہوتا لیکن۱۱ ستمبر کے بعد کے حالات نے اس ماڈل کو عالمِ اسلام کے لیے ناگزیر بنا دیا ہے۔ پوری مسلم دنیا میں مغرب کی فکری یا اخلاقی برتری کا طلسم ٹوٹ چکا اور پوری مسلم دنیا چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر کے تجربے کا عالمی سطح پر مشاہدہ کررہی ہے۔ عراق کی بے مثال مزاحمت نے طاقت کے عدم توازن کے مضمرات کے خوف کو تحلیل کر دیاہے اور ثابت ہوچکا ہے کہ جنگیں صرف بی ۵۲ طیاروں اور کروز میزائلوں سے نہیں لڑی جاتیں۔ غاصبین کو بالآخر آسمان سے زمین پر آنا پڑتا ہے اور یہاں جذبے کی عمل داری ہے۔مسلم دنیا کی کم و بیش نصف آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جسے صرف مزاحمتی روح سے متحرک اور منظم کیا جاسکتا ہے اور بروے کار لایا جاسکتا ہے۔ نیند میں چلنے والے لوگ ان نوجوانوں کے لیے کوئی کشش نہیں رکھتے۔ اسلامی تحریکوں کو ان حقائق کے ساتھ ساتھ اس امر کا بھی ادراک کرنا چاہیے کہ مسلم دنیا پر مسلط حکمران ان گندے انڈوں کی طرح ہیں جن سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوسکتا۔
_____________
جب ہمیں کہیں سے کسی ایک شخص کے بھی قبولِ اسلام کی خبر ملتی ہے تو بے حدخوشی ہوتی ہے‘ مگر جب ایک ایک‘ دو دو نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اسلام قبول کریں تو کس قدر خوشی اور مسرت ہوگی! ایسی ہی ایک مثال جنوبی کوریا کی ہے۔ جنوبی کوریا میں ۵۰سال قبل حق کے متلاشی چند اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا اسلام قبول کرنا اور اس کے بعد اپنی زندگیاں اسلام کو پوری طرح سمجھنے اور اشاعتِ اسلام کے لیے وقف کر دینا ایسی نادر مثال ہے کہ وہ ملک جہاں نصف صدی قبل کوئی ایک مسلمان یا کوئی مسجد تک نہ پائی جاتی تھی‘ اب وہاں ۵۰ ہزار کے قریب نومسلم آباد ہیں۔ سیول شہر میں ایک خوب صورت اور عالی شان مرکزی مسجد کے علاوہ مختلف شہروں میں مزید آٹھ عالی شان اور ۵۰ سے زائد چھوٹی مساجد ہیں۔ مزیدبرآں زندگی کے مختلف شعبوں میں ایک لاکھ کے قریب غیرملکی مسلمانوں کے وجود نے اس ملک میں اسلام کو ایک مؤثر قوت بنا دیا ہے۔
حال ہی میں (۲۵ تا ۲۷ نومبر ۲۰۰۵ئ) کوریا مسلم فیڈریشن نے کوریا میں اشاعتِ اسلام کے ۵۰ سال مکمل ہونے پر ۵۰ سالہ تقریبات منعقد کیں۔ ان تقریبات میں ۳۰مسلم ممالک کے نمایاں اسکالر‘ اور کوریا میں مقیم اسلامی ممالک کے سفیروںنے شرکت کی۔ کوریا سے اپنے ۵۰ سالہ دعوتی تعلق کی بنا پر پاکستان سے راقم الحروف نے خصوصی دعوت پر شرکت کی‘ جب کہ ڈاکٹر انیس احمد‘ وائس چانسلر رفاہ یونی ورسٹی اور الطاف حسن قریشی‘مدیر اُردو ڈائجسٹ بطور اسکالر مدعو تھے۔
تقریب کا آغاز ۲۵ نومبر۲۰۰۵ء کو جمعۃ المبارک کے دن ہوا ۔ نماز جمعہ سے قبل افتتاحی تقاریر اور سیول کی مرکزی مسجد میں اس ملک میں اسلام کی آمد کی ۵۰سالہ تاریخ پر روشنی ڈالی گئی‘ اور بعدازاں مرکزی مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کی گئی۔ تین دن کی اس تقریب میں مختلف ممالک کے معزز شرکا نے اسلام‘ اشاعتِ اسلام اور دنیا میں خلوص و محبت کے ساتھ بقاے باہمی کے موضوعات پر تقاریر کیں جن کو فیڈریشن نے ایک ضخیم کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ چند موضوعات:
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ترک فوجی دستے کے امام زبیرقوج کو بھی اس شان دار تقریب میں شرکت کا اعزاز بخشا گیا جو اپنی اہلیہ کے ساتھ مدعو تھے۔ آپ کے ہاتھوں پہلے اور دیگر ۲۰۰کے قریب کوریائی لوگوں کو دائرۂ اسلام میں داخل کرنے کابیج بویا گیا تھا‘ اب اُسے ایک تناور پھل دار درخت کی شکل میں آپ دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے انگریزی میں ایک مختصر افتتاحی تقریر بھی کی۔ راقم الحروف کو بھی اس ترک امام کے ذریعے اس ملک میں مراسلت اور ترسیلِ لٹریچر کے ذریعے دعوت کے کام کے حوالے سے گفتگو کا اعزاز بخشا گیا۔
اس موقع پر کوریا میں اشاعتِ اسلام کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا گیا کہ اُس کورین نومسلم چونگ جِن‘ جس نے سب سے پہلے قبولِ اسلام کی سعادت حاصل کی‘ ۱۹۵۶ء میں تُرک فوجی دستے کے کیمپ میں چونگ جِن مدرسے کی بنا ڈالی‘ جس میں بلاتفریق مذہب اسلام کی تعلیم کے ساتھ نادار اور غریب گھرانوں کے بچوں کی تعلیم کا انتظام کیا گیا جس کے نتیجے میں بہت سے بچوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ۱۹۵۷ء میں ترک فوجی دستے کی وطن واپسی کے بعد ایک دوسرے اعلیٰ تعلیم یافتہ کورین نومسلم صابری سوہ جنگ کِل کی ہمراہی میں ۱۹۵۹ء میں ملایشیا‘پاکستان اور سعودی عرب کا دورہ کیا اور ایک سال ان ممالک میں رہ کر اسلام کا علم حاصل کرنے کے ساتھ بہت سے افراد کے ساتھ ملاقاتوںکے بعد اپنے وطن میں اشاعتِ اسلام کی راہ ہموار کی۔ اسی دوران حج کی سعادت حاصل کرکے پہلے کوریائی حاجی کہلائے۔ چنانچہ اس دورے کے نتیجے میں ۱۹۶۱ء میں ملایشیا کی سینیٹ کا ایک وفد کوریا میں اشاعتِ اسلام کا جائزہ لینے کے لیے کوریا آیا اور اپنے ہاں ۱۱مردوں اور تین خواتین کی اعلیٰ اسلامی تعلیم کا انتظام کیا‘ جوایک سال بعد واپس ہوئے۔
ملایشیا کی حکومت نے خاص طور پر اشاعتِ اسلام کے کام میں دل چسپی لی۔ چنانچہ ۱۹۶۲ء میں نائب وزیراعظم جناب عبدالرزاق اور ۱۹۶۳ء میں اسپیکر پارلیمنٹ حاجی نوح کوریا آئے۔ اُن کی سفارش پر وزیراعظم ملایشیا تنکو عبدالرحمن نے مسجد کی تعمیر کے لیے ۳۳ہزار ڈالر کا عطیہ دیا جو مسجدکی تعمیر کے لیے ناکافی تھا‘ اس لیے مسجد تعمیر نہ ہوسکی۔
۱۹۶۵ء میں کورین اسلامک سوسائٹی کو تحلیل کر کے کوریا مسلم فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا۔ اسے خاص عنایتِ خداوندی کہنا چاہیے کہ اس تنظیم میں اس ملک کا وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ شامل ہے‘ جس نے امریکا کی معروف یونی ورسٹیوں میں مختلف شعبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اسلام کو اپنے دل کی آواز سمجھ کر قبول کیا‘ اور اپنے آپ کو روایتی مسلمان کہلانے کے بجاے اس ملک میں دعوتِ اسلام کے وسیع کام میں منہمک ہوگئے۔ انھوں نے اپنی کوششوں سے اسلام کو مؤثر قوت بنادیا‘ جس کا مظاہرہ حالیہ تقریبات میں ہوا‘ جس کا اہتمام بڑے تزک و احتشام سے کیا گیا۔
جیساکہ اُوپر بیان کیا گیا ہے کہ اس وقت اس ملک میں ۵۰ ہزار نومسلم یہاں کے اصل باشندے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد نومسلموں کی دوسری بلکہ تیسری نسل ہے‘اور فیڈریشن کی دعوتی سرگرمیوں سے نہ صرف اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے بلکہ نصف صدی قبل جن عیسائی مشنریز کی سرگرمیاں مقامی لوگوں کو عیسائی بنانے میں بڑے زوروں پر تھیں اور انھوں نے عیسائیت کو ایک زبردست مؤثر اقلیت بنا دیا تھا‘ اب اسلام کی آمد اور کوریا مسلم فیڈریشن کی دعوتی سرگرمیوں اور روز افزوں قبولِ اسلام کی رفتار کی وجہ سے عوام میں تقریباً ختم ہوگئی ہیں‘ جس سے عوام میں قبولِ عیسائیت کا رجحان بھی قریب قریب ختم ہوگیا ہے۔
بلامبالغہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت جنوبی کوریا دنیا میں نہ صرف انتہائی پُرامن ملک ہے‘ بلکہ مثالی‘ ترقی یافتہ اور بہت پھیلا ہوا ہے۔ سیول شہر کی آبادی ایک کروڑ ۲۰ لاکھ ہے اور کوئی شخص رہایش کے مسئلے سے دوچار نہیں۔ یہ ایک ساحلی شہر ہے‘ اور جگہ جگہ سمندر کا ایک ٹکڑا دوسرے ٹکڑے کو جدا کرتا ہے‘جنھیں شان دار‘ مضبوط‘ خوب صورت پُل ایک دوسرے سے ملاتے ہیں۔ آٹومیٹک ٹریفک کا بہترین نظام ہے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر ۱۸ ۱۸‘ ۲۰ ۲۰ منزلہ سیکڑوں رہایشی مضبوط اپارٹمنٹس ہیں‘ جنھیں آج سے ۴۰‘ ۵۰ سال قبل ملک کے مخلص دیانت دار حکمران طبقے نے قابلِ عمل منصوبے کی شکل دے کر کامیابی سے ہم کنار کیا اور موجودہ اور آیندہ کئی نسلیں اس سے مستفید ہوتی رہیں گی۔ سب سے بلند تعمیر ۶۳ منزلہ اپارٹمنٹ ہے جس کا نام بھی ۶۳منزلہ سٹوری ہے۔
یہاں چار دن کے قیام میں ہمیں یہ احساس تک نہ ہوا کہ ہم کسی اجنبی غیراسلامی ملک میںمقیم ہیں۔ مرکزی مسجد اور اُس کے قریب کوریا مسلم فیڈریشن کے دفاتر میں کئی بار جانے کا موقع ملا۔ دوسری منزل پر خواتین کی مسجد ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کے لیے وسیع قطعۂ زمین کوریا کی غیرمسلم حکومت نے ۱۹۶۹ء میں عطیہ دیا اور ۱۹۷۶ء میں کوریائی اور کوریا میں مقیم غیرملکی مسلمانوں کی مالی امداد کے علاوہ بعض دوسرے ممالک کی مدد سے اس مرکزی مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی اور مئی ۱۹۷۶ء میں اس کا باقاعدہ افتتاح ہوا۔ اس مسجد کے سینئر امام جناب سلیمان لِی ہیں‘ یہ کورین ہیں اور انھیں بڑی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کے ایک نائب تھائی لینڈ کے جناب عبدالرشید اور دوسرے نائب ترکی کے جناب فاروق زُمیل ہیں۔
۵۰ سالہ تقریبات کے موقع پر پوچیان (Pocheon) کے شہر میں نویں خوب صورت مسجد کا افتتاح کیا گیا‘ اور نمازظہرادا کی گئی۔ اس کی تعمیر میں کوریا میں مقیم بنگلہ دیشی مسلمانوں کا زیادہ حصہ ہے‘ جن کی ایک کثیرتعداد یہاں رہ رہی ہے‘ جب کہ کویت کے وزیر اوقاف جناب عبدالرزاق عبدالغنی سابق سفیر قطر مقیم کوریا‘ کویت کے جناب الشیخ عبداللہ علی المطوع‘سوڈان کے سفیرجناب ابابکرالخلیفہ اور کویت یونی ورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر بدرالماسی کی مساعی خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ یہ شہر شمالی کوریا کی سرحد کے قریب ہونے کی وجہ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ کوریا مسلم فیڈریشن کا خیال ہے کہ اس شہر سے شمالی کوریا میں دعوتِ اسلام کے کام کو کافی آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس مسجد کی تعمیر اور کوریا اور بنگلہ دیش سمیت دیگر کئی ممالک کے مسلمانوں کی ملی جلی آبادی شمالی کوریا میں دعوت کے کام کو پھیلا سکتی ہے۔
اس موقع پر مختلف اہم شخصیات سے ملاقات کاموقع بھی میسر آیا جن میں اسلامک سنٹر جاپان کے عرب سربراہ جناب ڈاکٹر محمد صالح السامرائی‘ مفتی اعظم فلسطین عکرمہ سعید شامل ہیں۔ بیجنگ (چین) سے چائنا اسلامک ایسوسی ایشن کے جناب شمس الدین ین چانگ سے ملاقات رہی۔ آپ نے بتایا کہ اس وقت بیجنگ میں ۱۸ مساجد ہیں۔ انھوں نے اس تقریب کو اہم قرار دیا کہ اس طرح عالمِ اسلام اور دنیا میں اشاعتِ اسلام کے حوالے سے پیش رفت جاننے کا اچھا موقع میسر آیا۔ سب سے زیادہ دل آویز شخصیت اسلامک سنٹر جاپان کے سربراہ جناب نعمت اللہ خلیل ابراہیم کی تھی جو باریش‘ معمر لیکن صحت مند اور کئی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں اور اُردو بھی سمجھتے ہیں۔ آپ نے خلافتِ عثمانیہ اور اُمت مسلمہ کا زوال انتہائی کرب سے بیان کیا۔
کوریا میں اشاعتِ اسلام کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے دو امور خاص طور پر قابلِ توجہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایک بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ افراد نے اسلام قبول کیا ہے اور اپنی زندگی کو بدلا ہے اور وہ معاشرے میں اعلیٰ مقام اور رسوخ رکھتے ہیں مگر انھوں نے اپنے قبولِ اسلام کے واقعات کو تحریری شکل میں محفوظ نہیں کیا۔ ان ایمان افروز واقعات کو اگر کتابی صورت میں شائع کیا جائے تو یہ اشاعتِ اسلام کے لیے بہت مفید ہوگا۔ دوسری کمی کوریا میں اسلامی اسکولوں کی محسوس ہوتی ہے۔ سیول کے علاوہ دو تین اہم شہروں میں اسلامی اسکول قائم کیے جانے چاہییں تاکہ نومسلموں اور مسلم سفارت کاروں اور دیگر مسلم تارکینِ وطن کے بچوں کی صحیح خطوط پر تعلیم و تربیت کا مستقل بنیادوں پر انتظام ہوسکے۔ کوریا مسلم فیڈریشن کو ان پہلوئوں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
ایک چھوٹے سے غیرمسلم ملک میں ۳۰ سال سے بھی کم عرصے میں ۵۰ ہزار کوریائی باشندوں کا قبولِ اسلام اور تقریباً ایک لاکھ غیرملکی مسلمانوں کی موجودگی‘ آٹھ بڑی خوب صورت اور ۵۰ سے زائد چھوٹی مساجد کی تعمیر اور اشاعتِ اسلام کی تیزرفتاری یہ شہادت دیتی ہے کہ دنیا میں اسلام تیزی سے قبول کیا جانے والا دین ہے‘ اور اسلام کے خلاف جس صلیبی جنگ کا آغاز امریکا کے حکمرانوں نے اپنے غرورِ طاقت کے نشے میں کیا ہے وہ بھی ان شاء اللہ جلد شکست سے دوچار ہوگی‘ بالآخر اسلام غالب آکر رہے گا!
سوال: نماز میں خشوع اور توجہ کے لیے میں ایک الجھن کاشکار ہوں۔ رمضان میں نماز تراویح کے دوران ایک تجربے سے گزرا۔ جرمنی کے ایک اسلامک سنٹر میں تراویح کی نماز سے قبل‘ تراویح میں پڑھی جانے والی سورتوں کا مفہوم تفہیم القرآنسے دیکھ کر جاتا اور دورانِ نماز توجہ‘ انہماک اور خشوع وخضوع کے لیے قرآن کے ایک جیبی نسخے سے متن اور ترجمہ پر بھی نظر ڈالتا اور ساتھ ساتھ عربی قرأت سے بھی محظوظ ہوتا۔ اس دوران خشوع و خضوع کی جو کیفیت حاصل رہی وہ بیان سے باہر ہے۔ میں نے ایک عالم دین سے بھی رجوع کیا کہ آیا یہ عمل درست ہے؟ مگر انھوں نے کہا کہ چاروں ائمہ کرام میں سے کسی کا مسلک اس طرح قرآن کا ترجمہ دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اگرچہ وہ میری کسی بھی بات کا منطقی جواب نہ دے سکے‘ تاہم میں کنفیوژن کا شکار ہوگیا کہ یہ بدعت ہے یا کوئی شرعی اقدام ہے۔ میں ان احکامات سے بھی آگاہ ہوں جن کے تحت نماز عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں ادا نہیں ہوسکتی اور قرآن کی قراء ت کے اہتمام کی تاکید کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ نماز میں اس کی اجازت نہیںلیکن نمازِ تراویح میں متن و ترجمۂ قرآن دیکھنے سے خشوع و خضوع کی جو کیفیت ہوتی ہے اور فہمِ قرآن کا جو موقع میسر آتا ہے وہ اس کے بغیر ممکن نہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
جواب :صلوٰۃِ تراویح کے دوران قرآن کریم کے ترجمہ یا قرآن کریم کے متن کے پڑھنے کے بارے میں آپ نے جس تشویش کا اظہار کیا ہے وہ بہت قابلِ قدر ہے۔ جب تک ہم اپنے اعمال کا احتساب کرتے رہیں گے ان شاء اللہ صراطِ مستقیم سے دُور نہیں جائیں گے۔
اس مسئلے کو نہ تو اس بنا پر حل کیا جا سکتا ہے کہ بعض خِطوں یا بعض ممالک کے ماننے والے کیا کرتے ہیں نہ اس کی بنیاد یہ ہوسکتی ہے کہ عربی دان حضرات کسی عمل کو کس طرح کرتے ہیں۔ پانچوں معروف اور دیگر غیر معروف فقہی مسالک کے بانی ائمہ عربی داں ہی تھے۔ وہ امام شافعیؒ ہوں یا امام مالکؒ، امام ابوحنیفہؒ ، امام جعفرؒ یا امام احمد بن حنبلؒ ان میں سے کسی نے بھی قرآن و حدیث کے ترجمے کی مدد سے دین کو نہیں سمجھا تھا۔ اس کے باوجود ان کی بعض تعبیرات و تشریحات اپنے ہم پلہ علما سے مختلف تھیں اور آج ان کے پیروکار اسی بنا پر ایک سے زائد تعبیرات پر عمل کرتے ہیں۔
آپ کے سوال میں بنیادی فکر یہ نظر آتی ہے کہ اگر محض قرآنی تلاوت سنی جائے تو غیرعربی داں کے لیے ذہن کے بھٹکنے کے امکانات زیادہ ہیں‘ جب کہ نماز میں قرآن کریم کو سننے کے ساتھ اس کے معانی پر غور کرنا صحیح معنی میں ایک شخص کو نماز کی حلاوت و خشیت سے زیادہ قریب کرسکتا ہے۔ گویا یہ راے قائم کرتے وقت ہم یہ تصور کر رہے ہیں کہ ہر وہ شخص جو عربی زبان سے آگاہ ہوگا وہ شیطان کے ذہن کو بھٹکانے کی حکمتِ عملی کا شکار نہیں ہوگا۔ میرے خیال میں یہ مفروضہ درست نہیں ہے۔ عربی زبان سے واقف بے شمار افراد قرآن کی تلاوت سننے کے باوجود اس کے مفہوم سے غیرآگاہ رہ سکتے ہیں اور بہت سے افراد عربی زبان کے کماحقہ واقفیت کے بغیر بھی قرآن کریم کی آیات کی تلاوت سن کر خشیت کی کیفیت سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔
بلاشبہہ قرآن کریم تقریباً ہر صفحے پر بار بار اپنے پڑھنے اور سننے والوں کو غوروفکر‘ توجہ‘ تفقہ اور تدبر پر اُبھارتا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ایک شخص قرآن کریم کے معانی و مفہوم سے آگاہ ہو۔ آپ کا تراویح کے لیے جانے سے قبل‘ تفہیم القرآنیا کسی اور تفسیر یا ترجمۂ قرآن کا مطالعہ کرنا ایک انتہائی مطلوب و مستحسن فعل ہے۔ جو حضرات براہِ راست قرآن کے معانی کو نہ سمجھ سکتے ہوں ان کے لیے ہی نہیں‘ بلکہ جو سمجھتے بھی ہوں ان کے لیے بھی‘ تراویح میں شرکت سے قبل متعلقہ اجزا کا مطالعہ پیشگی کرلینا بے حد فائدہ مند ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تراویح کے دوران یا پنج وقتہ نماز کے دوران جو حصہ تلاوت کیا جا رہا ہے اس سے مکمل طور پر آگاہ ہونے اور توجہ کو مرکوز رکھنے کے لیے ترجمہ کا ساتھ ساتھ پڑھنا کہاں تک قرآن و حدیث کی تعلیمات سے قریب ہے۔ اس سلسلے میں اصل بات تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ قرآن کریم نے اپنے بارے میں جہاں یہ بات کہی ہے کہ وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ o (الاعراف ۷:۲۰۴)، یعنی جب قرآن تمھارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو شاید کہ تم پر رحمت ہوجائے۔ وہاں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ خاموش رہنے اور سننے کے ہیں‘ پڑھنے کے نہیں ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ یہ چاہتے کہ لوگ تلاوت سننے کے ساتھ ساتھ کتابِ عزیز کا مطالعہ بھی کرتے رہیں تو اس کی طرف اشارہ کرنے میں کوئی تکلف نہ کیا جاتا۔ اب قرآن تو یہ کہے کہ مجھے سنو اور خاموش رہو اور میرا دل یہ چاہے کہ میں سنتے وقت پڑھتا رہوں‘ تو کیا جو دل چاہتا ہے وہی قرآن کا مدعا بھی ہے؟
اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خاموش رہنے میں خود بخود تفہیم کا پہلو یعنی سمجھنے کا عمل توجہ اور یکسوئی شامل ہیں اور سننے کے عمل میں کانوں کا استعمال واضح ہے‘ جب کہ ان دو اعمال کے ساتھ تیسرا عمل‘ یعنی بصارت کا استعمال غیرضروری اور اضافی ہے جس کی طرف قرآن نے اشارہ نہیں کیا ہے۔
اس اصولی اور قرآن کے حوالے سے وضاحت کے بعد دوسری قابلِ غور بات یہ ہے کہ کیا دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یا دور خلافتِ راشدہؓ یا تابعین و تبع تابعین کے زمانے میں اُمتِ مسلمہ میں تمام مسلمان صرف وہ تھے جو براہِ راست قرآن کو سمجھتے تھے یا ایسے بھی تھے جن کی مقامی زبان عربی نہیں تھی۔ ان حضرات نے ۱۵۰۰ سال میں کیا طریقہ اختیار کیا اور کیا ان میں سے کسی کو شیطان نے وسوسے میں ڈال کر ذہنی طور پر بھٹکانے کی کوشش نہیں کی۔
بالکل واضح بات ہے کہ شیطان کوئی جزوقتی کارکن نہیں ہے کہ ویک اینڈ پر چھے سات گھنٹے کے لیے لوگوں کو ورغلا کر خود کو خوش کرلے کہ میں نے اپنا فریضۂ اقامتِ منکر ادا کردیا۔ وہ تو ہمہ وقتی کارکن ہے اور ہر دور میں ہر نمازی اس کا پہلا ہدف ہے۔ وہ نہ صرف غیرعربی خواں بلکہ قرآن و حدیث کے عالم مفسر و فقیہہ کو بھی نہیں بخشتا بلکہ جو لوگ کتاب و سنت کا زیادہ گہرا علم رکھتے ہوں ان کی تاک میں زیادہ رہتا ہے کہ انھیں گمراہ کر کے وہ ایسے ہزاروں افراد کو گمراہ کر سکتا ہے جو شاید اس کی بات نہ سنیں لیکن ایک عالم و مفسر کے ایک قول کو معتبر مان کر فوراً قبول کرلیں۔
اس لیے توجہ کا ہٹنا‘ دل و دماغ میں وساوس کا آنا دو باتوں کی غمازی کرتا ہے۔ ایک یہ کہ شیطان ایک اللہ کے بندے کے اچھے عمل سے‘ وہ نماز ہو یا کوئی اور عبادت‘ اتنا پریشان ہے کہ اس کی عبادت میں خلل ڈال کر اس کے اجر کو ضائع کرانا چاہتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ انسان خود اپنی پاسبانی نہیں کر سکتا چنانچہ اس کا حل یہ بتایا گیا کہ حالتِ نماز ہو یا کوئی اور حالت‘ فوری طور پر دل میں یا زبان سے ایک بندہ خود کو شیطان کے دائرہ اثر سے نکال کر تعوذ کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی پناہ میں آجائے۔ گویا توجہ کی کنجی‘ محض ترجمہ کا پڑھنا نہیں بلکہ شعوری طور پر اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے میں ہے۔
جہاں تک سوال توجہ اور مفہوم سمجھ کر اپنے آپ کو محظوظ کرنے کا ہے تو اگر واقعی ترجمے کا کوئی تعلق توجہ یا استحضار سے ہے تو پھر اسے تراویح تک کیوں محدود کیا جائے۔ پھر تو یہی ’حل‘ تمام نمازوں میں بھی ہونا چاہیے۔ مختصر یہ کہ تراویح سے قبل مطالعہ کرنے کے بعد اگر توجہ اور خاموشی سے امام کی قراء ت کو سنا جائے تو یہ عمل سنت اور قرآن سے زیادہ مناسبت رکھے گا اور ایک ایسے کام کا کرنا جو عبادت کا حصہ نہیں ہے بدعت ہی کہا جائے گا۔
البتہ کسی ایسے مقام پر جہاں کوئی حافظِ قرآن نہیں ہے‘ تراویح میں کسی ایسے امام کا امامت کرنا جسے مکمل قرآن یاد نہیںہے وہ جتنا قرآن اس کے حافظے میں محفوظ ہے اس کی تلاوت کرکے تراویح پڑھا سکتا ہے۔ جہاں یہ بھی ممکن نہیں ہے وقتی طور پر صرف اس وقت تک کے لیے کہ جب کوئی حافظِ قرآن مل جائے‘ امام دیکھ کر تلاوت کرے تو مجبوری کی بنا پر ایسا کرنا ایک اضطراری عمل ہوگا۔(ڈاکٹر انیس احمد)
اس کتاب کے مصنف حکیم محمود احمد برکاتی‘ بقول معین الدین عقیل: ’اس کتاب کے موضوع پر ایک استناد کا درجہ رکھتے ہیں‘۔ کئی سال پہلے ان کی ایک فاضلانہ تصنیف شاہ ولی اللّٰہ اور ان کا خاندان شائع ہوئی تھی۔ کم و بیش اسی موضوع پر حکیم صاحب نے اپنے نئے پرانے مضامین یکجا کردیے ہیں۔ پرانے مضامین ترمیم وتصحیح اور اضافے کے بعد شامل کیے گئے ہیں۔
ابتدا میں شاہ ولی اللہ کا حیات نامہ (سنینِ حیات)‘شاہ صاحب اور ان کے خاندان کے سلسلے میں چند مآخذ (کی فہرست)‘ شاہ صاحب کی ۵۳ تصانیف و تالیفات اور پھر ان کے تلامذہ و مسترشدین کے نام دیے گئے ہیں۔
’شاہ ولی اللہ اور ان کے خاندان کی تحریرات میں تحریفات‘ میں وہ بتاتے ہیں کہ شاہ صاحب کی وفات کے ۴۰ سال بعد ہی ان کی کتابوں میں ترمیم و تحریف و اضافے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اس طرح ان کے بیٹوں کی تصانیف بھی تحریف اور غلط انتساب کا ہدف بنیں۔ اس مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ مشاہیر کی تحریروں کو الحاقات و اغلاط سے پاک رکھنا اور ان کے متن کی حفاظت کرنا کس قدر ضروری ہے۔
’تحریک ولی اللّہی: کیا وہ کامیاب رہی؟‘ ایک اور اہم تحقیقی و تجزیاتی مضمون ہے۔انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ شاہ صاحب کی تحریک قبولِ عام حاصل نہیں کرسکی کیونکہ ان کے اخلاف و تلامذہ میں سے کوئی بھی ان کا پورا پورا ہم زبان اور ہم نوا نہیں (حتیٰ کہ شاہ عبدالعزیز بھی نہیں) ۔ پھر شاہ صاحب احناف کے اصولِ فقہ کو صحیح نہیں سمجھتے تھے۔ ان کا اندازِ فکر غیرجانب دارانہ اور ’غیرفرقہ وارانہ‘، غیر مقلدانہ اور مجتہدانہ تھا۔ اسی طرح وہ توافق و تطبیق کے قائل تھے۔ برکاتی صاحب کہتے ہیں: سو‘اُن جیسے اعتدال پسند‘ تطبیق کوش اور خود فکرِعالم کی تحریک ہم جیسے‘ عہدزوال کی تمام خصوصیات سے بہرہ ور‘ انتہا پسندوں میں کس طرح رسوخ و رواج پا سکتی تھی۔
حکیم محمود احمد برکاتی کے بقول: ’شاہ صاحب کی تالیفات کی طرف جب ان کے حلقے کے علما نے توجہ نہیں کی تو بدیگراں چہ رسد۔دیوبند جیسے ولی اللّٰہی مدرسے میں شاہ صاحب کی کوئی کتاب داخل نہیں کی گئی تو دوسرے مدارس کا کیا تذکرہ؟‘ (ص ۸۷)۔ ’مدرسہ رحیمیہ‘ اور ’مدرسہ رحیمیہ کا نصاب تعلیم‘ بھی عمدہ تحقیقی مضامین ہیں۔ اسی طرح شاہ صاحب کے ابنا و اخلاف کے حالات بھی نہایت کاوش و تدقیق سے مرتب کیے گئے ہیں۔اپنے موضوع پر عالمانہ تحقیق کا یہ ایک بلندپایہ نمونہ ہے جس سے حضرت شاہ ولی ؒاللہ کی شخصیت‘ ان کی تصانیف اور ان کے اصحاب کے بارے میں بہت سی نئی باتوں کا پتا چلتا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
تاریخ سے مسلمانوں کی دل چسپی ہمیشہ گہری رہی ہے‘ کیوں کہ ہدایت و گمراہی کے حوالے سے قرآن مجید بار بار اقوامِ ماضی کا ذکر کرتا ہے۔ مسلم مؤرخین میں ابن خلدون یوں ممتاز ہیں کہ انھوں نے ماضی کے احوال اور اقوام کی سرگزشت ہی کو اپنی تاریخ کا موضوع نہیں بنایا‘ بلکہ مختلف قوموں کے طبائع‘ عادات اور خصوصیات سے متعلق بھی دل چسپ معلومات فراہم کی ہیں۔
زیرنظر کتاب محمد عبداللہ عنان کی عربی زبان کی تصنیف کا ترجمہ ہے۔ مصنف نے ابن خلدون کی سوانح بڑی تفصیل سے بیان کی ہے۔ ابن خلدون موجودہ تیونس میں پیدا ہوئے اور شمالی افریقہ کی ریاستوں میں مختلف عہدوں پر فائز ہوتے ہوئے اندلس پہنچے۔ شرقِ اوسط اور مصر کے نہ صرف سفر کیے بلکہ وہاں بھی بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ جوڑ توڑ کی سیاست میں انہماک کے ساتھ وسیع پیمانے پر تصنیف و تالیف میں ان کی مشغولیت حیرت انگیز ہے‘ کیوں کہ اسی وقیع کام کی بنیاد پرانھیں بقاے دوام حاصل ہوا۔
عام مؤرخین کے برعکس انھوں نے سیاسی اور غیرسیاسی اداروں کی تشکیل‘ ان کے ارتقا‘ اقتصاد‘ رسوم و رواج‘ صنعت و حرفت‘ علوم و فنون‘ قبائل اور ان کے آداب و اطوار سے متعلق اپنے مشاہدات پر مبنی وسیع معلومات کا ذخیرہ سات جلدوں میں مہیا کیا۔ لیکن ان کی اصل شہرت اور بقاے دوام اس ’مقدمۂ تاریخ‘ کی بنا پر ہے‘ جس میں وہ تاریخ کی حرکیات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس فلسفۂ تاریخ میں انھوں نے سیاسی قوتوںاور اقوام کے عروج و زوال کی وجوہ‘ ان کے کردار کو تشکیل دینے اور متعین کرنے والے عوامل اور عمرانیات کے بنیادی اصول و قوانین سے بحث کی ہے۔یہ وہ میدان ہے‘ جس میں وہ ہیگل‘ مارکس‘ اسپنگلر اور ٹوائن بی کے پیش رو نظر آتے ہیں۔ البتہ ابن خلدون کے اسی اصل کارنامے کے بارے میں اس کتاب میں تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ کتابیات میں مصنف عنان نے جرمن اور فرانسیسی مصادر کی تفصیلی فہرست دی ہے‘ مگر انگریزی میں ابن خلدون سے متعلق جو وسیع ذخیرئہ معلومات ہے اس سے آگاہی نہیں ہوتی۔ تاہم‘ اُردو کے قارئین کے لیے ابن خلدون کی سوانح پر یہ ایک مفید معلوماتی کتاب ہے۔ (پروفیسرعبدالقدیرسلیم)
اسلام میں ہفتہ وار (جمعۃالمبارک) اور سالانہ (عیدین) تہوار بھی دراصل عبادات کی ایک اجتماعی شکل اور تذکیر کی ایک بازآید (بار بار آنے والی) صورت ہے۔ عید کا ایک لفظی مطلب بار بار لوٹ کر آنے والا دن بھی ہے۔ چنانچہ خطبۂ جمعہ اور خطبات عیدین بھی حالاتِ حاضرہ اور مقامی ثقافتی پس منظر میں عام مسلمانوں کی توجہ عصری مسائل اور سماجی برائیوں کی طرف دلانے کا ایک مناسب موقع ہوسکتا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے ناظم دینیات ڈاکٹر محمدمسعود عالم قاسمی کے ۱۹خطبات عید پر مشتمل یہ کتاب عیدین کے فلسفے کے کئی پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے۔ ہر خطبہ خواہ وہ عیدالفطر کا یا عیدالاضحی کا‘ ایک اچھوتے موضوع پر محیط ہے۔
یہ خطبات بہت متنوع‘ برعظیم کی مسلم ثقافت کے لحاظ سے برمحل علمی اضافہ بھی ہیں اور ایک عام قاری کے لیے بہت اثرانگیز بھی۔ ان میں حالاتِ حاضرہ کے متعلق خوب صورت اور بلیغ اشارے اس انداز سے موجود ہیں کہ خطبہ‘ خطبہ ہی رہا ہے اور سیاسی تقریر سے بہت خوب صورتی سے پہلو بھی بچایا گیا ہے۔ مسلمانوں کی عام سماجی زندگی‘ اُن کی اقدار‘ تشخص‘ اسلام کا تصورِ اخوت و اجتماعیت‘ خوشی اور غم کا تصور اور عیدین کا پیغام انقلاب ان سب کے متعلق علمی حوالوں سے بات کی گئی ہے۔ غالب رنگ خطیبانہ ہے لیکن عیدین کے روحانی‘ سماجی اور اجتماعی پہلوئوں پر عام ڈگر سے ہٹ کر نئے اور مصدقہ لوازمے کی شمولیت نے اسے عیدین پر ایک اچھی حوالے کی کتاب بھی بنادیا ہے۔ اس کتاب کو خطیب حضرات کے نصابِ تربیت کا حصہ ہونا چاہیے۔ (احمد جمیل تُرک)
آج کا مغرب محض ایک جغرافیائی وجود کا نام نہیں ہے‘ بلکہ اس کے دامن میں مشرق کے ہنود اور مسلم دنیا کی صفوں میں موجود مغرب کے ذہنی غلاموں کی بڑی وافر کھیپ بھی شامل ہے۔ سیاسی‘ مادی‘ ابلاغی اور افرادی قوت پر مشتمل ایک فوج بدمست ہاتھی کی طرح عدل‘ راستی‘ انسانیت اور انصاف کے پیمانوں کو توڑتی پھوڑتی نظر آتی ہے۔ مجلہ مغرب اور اسلام میں اسی یلغار کے مختلف پہلو (formations) پیش کیے جاتے ہیں۔ اس اشاعت خاص کا موضوع: ’انتہا پسندی‘ دہشت گردی اور جہاد‘ ہے۔
ڈاکٹر انیس احمد نے اپنے ادارتی مضمون ’اندیشۂ جہاد‘ میں جہاد کے حوالے سے مغرب کے خدشات اور بہت سارے بنیادی سوالات کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ مسئلے کی نوعیت واضح ہوجاتی ہے۔ اس مضمون کے اختتام پر وہ لکھتے ہیں: ’قرآن کریم کا جہاد کے بارے میں غیرمعذرت پسندانہ‘ شفاف‘عقلی اور مصلحانہ تصور ہی انسانیت کو فلاح‘ امن‘ تحفظ‘ نجات‘ عدل و انصاف اور حقوق انسانی کے احترام سے روشناس کرا سکتا ہے‘۔(ص ۱۳)
انتہاپسند اسلام کا شجرۂ نسب‘ ازکوینٹان وکٹروز
آخری مضمون: ’مغرب اور اسلام: تہذیبوں کا تصادم‘ ڈاکٹر عبدالقدیر سلیم کے ایک تجزیے پر مشتمل ہے‘ جس میں انھوں نے ڈاکٹر مراد ہوف مین کے خیالات پر نقد کیا ہے۔ مجلے کی مجلس ادارت کو مبارک باد پیش کی جانی چاہیے کہ اس نے مغرب کی سوچ کو کسی کم و کاست کے بغیر‘ اُردو خواں طبقے کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس طرح کا مجلہ ہر مجلس تحقیق اور ہر تحقیق کار کی ضرورت ہے۔ (سلیم منصور خالد)
زیرتبصرہ کتاب فاضل مصنف کے ان نو لیکچرز کے ابتدائی دو لیکچرز پر مشتمل ہے جو انھوں نے الفوز اکیڈمی کے زیراہتمام معرفت علمِ حدیث کے سلسلے میں دیے تھے۔ ان کا بنیادی مقصد تعلیم یافتہ افراد کو انتہائی سائنٹی فک طریقے سے نہایت سہل اور آسان انداز میں دین و شریعت کے اہم مآخذ سے متعارف کرانا ہے۔ اس مقصد کے حصول میں چشتی صاحب کامیاب نظر آتے ہیں۔
اس کتاب میں انفرادی اور اجتماعی سنتیں‘ سنت کاقانونی اور آئینی مقام‘ مختصر تاریخ روایت حدیث‘ قرآن وسنت کا باہمی تعلق‘ علم حدیث کی بنیادی اصطلاحات اور آخر میں منکرین حدیث کے اعتراضات کے جوابات دیے گئے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ قرآن اور سنت (حدیث) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ انھیں ایک دوسرے سے جدا اور الگ نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن وحی جلی ہے اور حدیث وحی خفی۔ قرآن مجید کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے سنت کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس ضرورت کو یہ کتاب احسن طریقے سے پورا کرتی ہے۔ توقع ہے کہ یہ کتاب جدید تعلیم یافتہ طبقے میں صحیح اور مستند احادیث پر اعتماد بحال کرنے‘ موضوع اور خودساختہ احادیث سے بچنے میں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ ارشادات پر بلاتردد ایمان لانے میں ممدومعاون ثابت ہوگی۔ اعراب اور الفاظ کی غلطیوں پر مزید توجہ کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود کتاب علمِ حدیث کا خزینہ ہے۔(عبدالوکیل علوی)
مصنف نے اس کتاب میں اسلام کے سیاسی نظام کا تعارفی اور تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ ۱۹۷۵ء کے بعد یہ ترمیم شدہ ایڈیشن ۲۰۰۴ء میں شائع ہوا ہے۔ کل ۱۰ ابواب پر مشتمل اس کتاب میں اہم ترین موضوعات کو شامل کیا گیا ہے۔ آٹھویں باب میں کمیونزم‘ سوشلزم‘ سرمایہ داری‘ سامراجیت‘ فسطائیت‘ نازیت کے اثرات‘ نقائص اور حقائق کو مختصراً پیش کر کے قارئین کو بہترین معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ ساتویں باب میں دورحاضر کے سب سے زیادہ زیربحث موضوع جہاد کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ مصنف نے واضح کیا ہے کہ دہشت گردی اور جہاد دو مختلف اور متضاد چیزیں ہیں اور کہا ہے کہ مستشرقین کا یہ تصور کہ ’’کلمہ پڑھو ورنہ قتل کردیے جائو گے‘‘ بہت ہی گمراہ کن اور اسلامی تعلیم کے منافی تھا۔ لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ دہشت گردی کی کوئی متفقہ تعریف سامنے نہیں آئی۔
اسلام اور مغرب کے سیاسی نظام پر بحث تشنہ ہے‘ جب کہ یہی نکتہ آج سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ امید ہے کہ مصنف اس کمی کو اگلے ایڈیشن میں پورا کردیں گے۔ آخری باب میں مسلمانوں کے ماضی‘ حال اور مستقبل کا خوب صورت‘ مختصر اور جامع خلاصہ موجود ہے جس میں مسلمانوں کو مایوسی کے بجاے روشن مستقبل کی امید دلائی گئی ہے۔ اگرچہ پروف خوانی توجہ طلب ہے‘ تاہم پیش کش عمدہ ہے۔ حوالہ جات کا مناسب اہتمام کتاب کی اہمیت میں اضافے کا باعث ہوتا ہے جس کا خیال رکھا گیا ہے۔ (محمد الیاس انصاری)
اسلام نے جس قدر تعلیم و تعلم پر زور دیا ہے اس کی نظیر کسی دوسرے مذہب میں ملتی ہے اور نہ کسی دوسری تہذیب میں۔ اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا ؎
کورس تو لفظ ہی سکھاتے ہیں
آدمی آدمی بناتے ہیں
استاد کی حیثیت کورس اور نصابات سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے۔ قرآن مجید کے ساتھ نبی کریمؐ کی بعثت اور آپؐ کا اس پیغامِ ربانی کو پہنچانے کا انداز استاد کی کامل اور اکمل ترین صورت ہے۔ زیرنظر کتاب میں مثالی استاد کی خوبیوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ استاد کی شخصیت‘ اس کے علم‘ تجربہ‘ اخلاق اور انداز نشست و برخاست‘ غرض ہر چیز میں طلبہ کے لیے عملی نمونہ ہونا چاہیے۔ جس سادہ انداز میں اس کتاب میں قرآن و حدیث اور اکابرین اُمت کی زندگی سے مثالیں دی گئی ہیں وہ نہ صرف قابلِ قدر ہیں بلکہ زندگیوں کے دھارے کو موڑنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔
مجموعی طور پر یہ کتاب معاشرے کو سنوارنے اور اس میں تعمیری سوچ کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ نہ صرف طلبہ و اساتذہ کے لیے مفید ہے بلکہ عام آدمی بھی اس سے علم و حکمت کے بیش قیمت جواہر ریزے اکٹھے کر سکتا ہے اور انھیں اپنی زندگی میں اپناکر مثالی انسان بن سکتا ہے۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)
’زلزلے کے بعد…!‘ (دسمبر ۲۰۰۵ئ) محترم قاضی حسین احمد کی دردِ دل سے لکھی ہوئی تحریر ہے۔ ’زلزلے کے بعد بحالی اور جماعتِ اسلامی‘ سے ملک بھر میں جاری بحالی کے کام کا بخوبی اندازہ ہوا۔ ’حکمت مصائب‘ وقت کی ضرورت ہے مگر مصیبت کی اس گھڑی میں بھی بعض عاقبت نا اندیش غفلت کا شکار ہیں اور عبرت نہیں پکڑ رہے۔ ضرورت اجتماعی توبہ ‘منکرات کو دبانے اور معروف اور خیر کو غالب کرنے کے لیے بھرپور جدوجہد کی ہے۔
’زلزلے کے بعد…!‘ (دسمبر ۲۰۰۵ئ) جہاں جماعت اسلامی کی برادر تنظیموں اور دوسری دینی جماعتوں کی کارکردگی کا خوب صورت پیرائے میں بیان ہے‘ وہاں اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے کہ کس طرح حکومتی میڈیا کو دینی جماعتوں کی خدمات کو نظرانداز کرکے حقائق کو چھپانے اور خلافِ حقیقت تصویر سامنے لانے کے لیے استعمال کیا گیا۔
’قیادت کا معیارِ مطلوب‘ (دسمبر ۲۰۰۵ئ) پڑھا‘ بار بار پڑھا۔ مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے اقتباسات اور مصنف کے تبصرے سے اندازہ ہوا کہ تحریکِ اسلامی میں قیادت کا حقیقی معیار اور تقاضے کیا ہیں۔
ترجمان القرآن میں پروف کی اغلاط وہ بھی ایک نہیں‘ کئی کئی دیکھ کر دل کو تکلیف ہوتی ہے۔ غیروں کے رسالوں میں ایک بھی غلطی برسوں میں نہیں دیکھی۔ ایسا کیوں ہے؟
دسمبر ۲۰۵ء کے شمارے میں پروف کی اغلاط اور درست املا ملاحظہ کیجیے: لڑلے / لڑکے (ص ۱۴)‘ جو چپ رہے گی زبانِ خنجر… مصرعے کو شعر کی طرح لکھا گیا (ص ۲۳)‘ مستعبد/مستبد (ص ۵۲)‘ رجعت قہقری/رجعت قہقریٰ (ص ۵۹)‘ اشعار غلط لکھے گئے: نگہہ /نگہ (ص ۶۴)‘ کہ میرِکارواں…/کہ امیرِ کارواں (ص ۶۴)‘ Dairy/Diary (ص ۶۶)‘ مگس بانی (شہید)/شہد (ص ۸۴)‘ الیگزندر سولز نٹبین/ الیگزنڈر سولزنٹسین (ص ۸۷)‘ weak/week (ص ۸۸)‘ بدلہ/بدلا (ص ۱۰۰)‘ نظریئے/نظریے (ص ۱۰۰)‘ سینٹر/سنٹر (ص ۱۰۲)‘ صفحات: ۵۴/۵۴۰ (ص ۱۰۶)۔
’زلزلے کے بعد بحالی اور جماعت اسلامی‘ (دسمبر ۲۰۰۵ئ) میں جمعیت طلبہ عربیہ کا تذکرہ تشنہ رہا۔ جمعیت نے الخدمت فائونڈیشن کے تحت کام کا آغاز کیا‘ افرادی قوت مہیاکی‘ جب کہ مانسہرہ کو مرکزی کیمپ بنایا۔ متاثرہ اضلاع میں بحالی و دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیا۔ آزاد کشمیر کے متاثرہ علاقوں میں پانچ مساجد اور ان سے ملحق مدارس قائم کیے۔ سیکڑوں بچوں کی کفالت کی جارہی ہے۔ مجموعی طور پر ۱۰ مدارس میں حفظ و ناظرہ کا اہتمام کیا گیا‘ جہاں پر ۶۵۰ بچے قرآن کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ بڑی تعداد میں طلبہ کو مدارس میں داخلہ دلوایا گیا۔ تعمیرمساجد منصوبے پر بھی کام کا آغاز ہوچکا ہے۔
مولانا مودودیؒ کا مضمون ’علامہ اقبالؒ کا اصل کارنامہ‘ (نومبر ۲۰۰۵ئ) نظر سے گزرا۔ بلاشبہہ ہزاروں مضامین پر بھاری ہے۔
’رسائل و مسائل‘ کے تحت ’اسلامی نظام معاشرت کے بعض اہم بنیادی مسائل‘ (نومبر۲۰۰۵ئ) اور ’مشترکہ خاندانی نظام: چند عملی مسائل‘ (دسمبر ۲۰۰۵ئ) میں حقیقی خاندانی مسائل پر اسلامی نقطہ نظر پیش کیا گیا ہے۔ ضرورت اپنا جائزہ لینے اور اپنے رویوں میں اصلاح کی ہے۔
’رسائل و مسائل‘ (نومبر ۲۰۰۵ئ) میں ایک محترم بہن نے جو کسی گورنمنٹ کالج میں ملازم ہیں نہایت اہم معاملے کی طرف توجہ دلوائی ہے۔ ان اداروں کی جائز ضروریات کے لیے وسائل مہیا کرنا حکومت کا اولین فرض ہے۔ تعلیمی اداروں میں خصوصاً طالبات کے اور مخلوط تعلیمی اداروں میں مختلف حیلوں بہانوں سے غیراسلامی تقریبات کا انعقاد ایک بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ ’روشن خیالی‘ اور ’اعتدال پسندی‘ کی گردان اور مسلسل ترغیب قوم کو گمراہی کی طرف لے جا رہی ہے۔ حال ہی میں آنے والے زلزلے کی تباہ کاریوں سے اگر ہم یہی سبق سیکھ کر اپنی اصلاح کرلیں تو یہ خوش قسمتی ہوگی۔
ابوالامتیاز ع س مسلم کی کتاب لمحہ بہ لمحہ پر جناب رفیع الدین ہاشمی کا تبصرہ (نومبر ۲۰۰۵ئ) پڑھا۔ اس تبصرے کے آخر میں لکھا گیا ہے: ’ترقی پزیر اور تنزل پزیر‘ جیسی تراکیب میں پذیر کی جگہ پزیر لکھا گیا ہے۔ یہ لفظ ذال (ذ) سے ہونا چاہیے نہ کہ زے (ز) سے (ص۱۰۴)۔
میں نے گذشتہ ایک سال سے صرف ذال (ذ) پر تھوڑا سا مطالعہ کیا تومعلوم ہوا کہ ذ حرف اُردو‘ فارسی اور ہندی کا ہے ہی نہیں۔ یہ حرف صرف عربی زبان کا ہے۔ چنانچہ فوری طور پر دستیاب اُردو لغات میں سے نسیم اللغات دیکھا تو اس میں ذ سے بننے والے کل کلمات ۳۴ ہیں اور یہ سب کے سب عربی زبان سے ماخوذ ہیں۔ اس طرح میرے سامنے ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی سندھی لغات پانچ ضخیم جلدوں میں موجود ہے‘ اس میں ذ سے مرکب اتنے ہیں یا اس سے قدرے زیادہ اور سب عربی سے آمدہ ہیں۔
جو اہلِ علم گزشتہ‘ پزیر‘ گزرگاہ اور گزرا ہوا وغیرہ کلمات ذ سے لکھنے کا کہتے ہیں‘ انھیں ان کلمات کا اصل اور ان کی اصل اور ان کی اصلی زبان جس سے یہ نکلے ہیں وہ دیکھنی چاہیے اور وہ فارسی ہے جس میں ذال (ذ) کا حرف ہی نہیں ہے جس کے یہ کلمات‘ جیسے گزشتن‘ گزاشتن وغیرہ ہیں۔ اگرچہ یہ رسم الخط اتنا عام ہوگیا ہے اور رواج پا گیا ہے کہ شاید اس سے رجوع نہ کیا جا سکے‘ تاہم صحیح رسم الخط کو تسلیم کرنا تو چاہیے‘ محترم ابوالامتیاز ع س مسلم کو داد دیناچاہیے کہ انھوں نے ایک صحیح تلفظ اور رسم الخط کو باقی رکھنے کی کوشش کی ہے۔
ترجمان القرآن ماہ دسمبر ۲۰۰۵ء پڑھنا شروع کیا تو ختم کیے بغیر رکھنے کو جی نہ چاہا۔ ’زلزلے کے بعد‘، ’حکمت الٰہی‘ اور دیگر مضامین بلاشبہہ آپ کی محنت و کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اختتام پر یہ کہے بغیر نہ رہ سکا کہ یہ ایک بہترین رسالہ ہے! اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ کو صحت کاملہ عطا فرمائے تاکہ آپ اپنے نیک مقصد کے لیے ترجمان القرآن کی اشاعت جاری رکھیں۔ اس طرح مجھ سمیت بہت سے لوگ اس رسالے کے ذریعے آپ کے علم سے مستفید ہوسکیں گے۔
تمام قیاسی فلسفوں کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے سامنے جو مسائل آتے ہیں ان کووہ محض تخیل اور منطق اور اٹکل سے کسی ایسے طور پر حل کرلینے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ان کو اپنی حد تک اپنے پیشِ نظر مسائل کا اطمینان بخش اور دل کو لگتا ہوا جواب مل جائے‘ قطع نظر اس سے کہ علم‘ تجربہ‘ مشاہدہ اور آثارِ کائنات سے اس کی کوئی شہادت ملے یا نہ ملے۔ قیاسی فلسفی اِس شہادت کی سرے سے کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔ اُسے تو فقط اپنے پیش نظر سوالات کا ایسا جواب درکار ہوتا ہے جس پر وہ اور اس کے طرز پر سوچنے والے لوگ مطمئن ہوجائیں۔ مگر یہ ظاہر ہے کہ ایسے قیاسات کا امرواقعی اور حقیقت نفس الامری کے مطابق ہونا کچھ ضروری نہیں ہے‘ بلکہ اس کی بہت کم توقع کی جاسکتی ہے۔ یہ تو ایک تیر ہے جو اندھیرے میں اٹکل سے چلایا جاتا ہے‘ نشانے پر لگے یا نہ لگے۔ تیر چلانے والے کو خود بھی اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی‘ بلکہ وہ اس کی بھی پروا نہیں کرتا کہ کسی جگہ اس کے لگنے سے ’کھٹ‘ کی آواز بھی آتی ہے یا نہیں۔ اس کو مطمئن کرنے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ اپنے قیاس سے اس نے جس کو نشانہ کا صحیح رخ سمجھا ہے اُدھر اس نے اپنی حد تک ٹھیک ٹھیک شست باندھ کر تیر چلا دیا۔ ایسی تیراندازی کا نشانہ پر لگنا جتنا کچھ متوقع ہوسکتا ہے اتنی ہی کچھ قیاسی فلسفوں کے مطابق حقیقت ہونے کی بھی توقع کی جاسکتی ہے۔ (’رسائل و مسائل‘، سید ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن‘ جلد ۲۸‘ عدد ۲‘ صفر۱۳۶۵ھ‘ جنوری ۱۹۴۶ئ‘ ص ۴۹)