بسم اللہ الرحمن الرحیم
جمہوریت اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود دور حاضر کے دوسرے سب سیاسی نظاموں کے مقابلے میں ایک فوقیت رکھتی ہے۔ اس میں دستور اور قانون کی حکمرانی‘ عوام کی مرضی سے حکومتوں کی تشکیل اور تبدیلی‘ حکمرانوں کی جواب دہی‘ انسانی حقوق کی ضمانت‘ عدلیہ کی آزادی اور معاشرے میں آزادانہ بحث و احتساب بشمول پریس اور میڈیا کی آزادی کو سیاسی نظام کا بنیادی ڈھانچا تصورکیا جاتا ہے اور کسی نہ کسی حد تک اس کا احترام بھی کیا جاتا ہے ۔ اگر کہیں اس سے انحراف ہوتا ہے تو بالآخر وہ طشت ازبام ہوکر رہتا ہے اور اجتماعی محاسبے کا نظام حرکت میں آجاتا ہے۔ یہی وہ عمل ہے جس سے نام نہاد جمہوری قیادتوں کا پول بالآخر کھلتا ہے۔
امریکا کومغربی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ ہے اور صدربش نے دوسری بار صدارت کا انتخاب جیتنے کے بعد تو پوری دنیا میں ’جمہوریت‘ اور آزادی کے فروغ کے لیے ’کروسیڈ‘ کو اپنی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ قرار دیا ہے اور خود عراق کے خلاف فوج کشی اور وہاں برپا ہونے والے قتل و غارت گری کے لیے اب اسی دعوے کو بطور ’جواز‘ پیش کر رہے ہیں۔ اب لے دے کے اُن کے اور اُن کے ہم نوا حکمرانوں کے‘ بالخصوص برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلیر کے پاس کہنے کے لیے بس یہی کچھ رہ گیا ہے کہ ہم نے عراق کو صدام کی آمریت سے نجات دلائی ہے اور ’جمہوری نظام‘ کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔
امریکا کے موجو دہ حکمرانوں کی پوری سفارتی اور پروپیگنڈا مہم کے باوجود‘ امریکی سفارت کاری کا یہ سال ان کی تاریخ کا ناکام ترین سال رہا ہے اور ’پبلک ڈپلومیسی‘ جس پر اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں‘ اس کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے۔ دنیا صدر بش اور امریکی قیادت کے بلندبانگ دعووں کو کوئی وقعت نہیں دے رہی بلکہ وہ ان کی پالیسیوں اور عملی اقدامات کو دیکھ رہی ہے۔ دعوے اور حقیقت میں جو تضاد اور بُعدالمشرقین پایا جاتا ہے‘ اس نے امریکا کی ساکھ کوایسا سخت نقصان پہنچایا ہے کہ اس کی تلافی ممکن نہیں___ افسوس تو امریکا کے ان حواریوں پرہے جو مسلم دنیا میں اب بھی امریکا کی کٹھ پتلیاں بنے ہوئے ہیں اور اپنے ہی عوام کے خلاف صف آرا ہیں۔ امریکا کی پالیسی کی ناکامی کا تازہ ترین اعتراف خود بش صاحب کا وہ ارشاد ہے جو ۶جنوری ۲۰۰۶ء کو واشنگٹن میںقومی زبانوں کے تحفظ کے ادارے کا افتتاح کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا ہے کہ امریکا کے امیج کو جس چیز نے بگاڑا ہے‘ وہ وہ پروپیگنڈا ہے جو دوسرے ممالک کا میڈیا کر رہا ہے۔ خصوصیت سے عرب ممالک کے ریڈیو اور ٹی وی کو نشانہ بناتے ہوئے فرماتے ہیں:
جب آپ ان میں سے کچھ ٹی وی اسٹیشن دیکھ رہے ہوتے ہیں تو آپ کے سامنے امریکا نہیں آتا۔ عرب ٹی وی ہمارے ملک کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔ بعض اوقات وہ ایسا پروپیگنڈا کرتے ہیں جوکسی بھی طرح درست نہیں ہوتا۔ یہ انصاف کی بات نہیں ہے اور یہ لوگوں کو‘ ہم جو کچھ ہیں‘اس کا صحیح تاثر نہیں دیتا۔
اس خطاب میں انگریزی کے علاوہ دنیا کی دوسری زبانوں ‘ خصوصیت سے مسلم ممالک کی زبانوں (عربی‘ فارسی اور اردو) میں بھی امریکی پروپیگنڈے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے اور ان کروڑوں ڈالر پر مستزاد جو اس وقت ’پبلک ڈپلومیسی‘ کے نام پر خرچ کیے جا رہے ہیں‘ مزید ۱۴ ملین ڈالر کا ایک نیا منصوبہ بروے کار لانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
امریکا کو حق ہے کہ وہ اپنے پروپیگنڈے پر جتنی رقم جب اور جس طرح چاہے خرچ کرے لیکن ایک بنیادی حقیقت نہ صرف امریکا بلکہ سب کے سامنے رہنی چاہیے کہ حقائق پر پروپیگنڈے کے ذریعے لمبے عرصے تک پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ اب دنیا کے ایک ’گلوبل ویلج‘ بن جانے کا کم از کم یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ بہت کم وقت میں ایک مقام کی خبریں دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچ جاتی ہیں اور اس طرح محض حقائق کو چھپانے یا پروپیگنڈے کے بل بوتے پر اپنے موقف کو پیش (project)کرنے کی گنجایش بہت کم رہ گئی ہے۔ امریکا کی قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اب ہٹلر کے وزیر ابلاغیات جوزف گوئبلز کی وہ پالیسی نہیں چل سکتی جس میں جھوٹ کو اتنی بار نشرکیا جاتا تھا کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگتے تھے۔ اب سچ بہت جلد ظاہر ہوکر رہتا ہے۔ اب اصل مسئلہ پروپیگنڈے اور ابلاغ کا نہیں‘ امریکا کی حکومت‘ اس کی پالیسیوں‘ افواج اور ذمہ دار حکام کے کارناموں کا ہے۔ جب تک پالیسی اور اس کے اہداف‘ مقاصد اور اسلوب نہیں بدلتے اور وہ تضادات جو دعوے اور عمل میں موجود ہیں‘ ان کی اصلاح نہیں ہوتی‘ محض چرب زبانی‘ جدید ترین ابلاغی وسائل اور سیاسی ملمع سازی سے استعماری پالیسیوں اور دوسروں کو غلام اور محکوم بنانے والے اقدامات پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ ایک امریکی کالم نگار ولیم فشر (William Fisher)نے اس دوعملی اور تضاد کو بڑے نرم اور ہمدردانہ انداز میں لیکن برملا طور پر یوں ادا کردیا ہے :
عراق اورشرق اوسط میں راے عامہ کے مختلف جائزوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ امریکی محرکات اور حکمت عملی کے بارے میں شک و شبہے میں مبتلا ہیں کیونکہ امریکا جو کچھ کہتا ہے اور جو کچھ کرتا ہے اس میں تضادات پاتے ہیں۔ ( `US State Department's Mixed Messages'، دی نیوز‘ ۸جنوری ۲۰۰۶ئ‘ بحوالہ دی عرب نیوز)
امریکا جس طرح اپنا ایک خاص امیج بنانے کے لیے پانی کی طرح ڈالر بہا رہا ہے‘ صحافیوں کو خرید رہا ہے‘ تعلقات عامہ کی فرموں کو استعمال کر رہا ہے اور سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کی کوشش کر رہا ہے‘ اس کا پردہ یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا ایٹ چیکو (University of California et Chico) کے پروفیسر بِین گروس کپ (Bean Grosscup) نے اس طرح چاک کیا ہے:
وہی لوگ جو آزادیِ صحافت کو فروغ دینے کے لیے پروگرام ترتیب دیتے ہیں‘ وہی تعلقات عامہ کی فرموں‘ شور مچانے والے لوگوں اور خریدے ہوئے صحافیوں سے وابستہ تھنک ٹینکوں کو ’آزاد میڈیا‘ کے طور پر رقوم فراہم کرنے کا دفاع کرتے ہیں۔ ساری بات تعلقات عامہ اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کی ہے۔ اس پر جوزف گوئبلز بھی فخر کرے گا۔(دی نیوز‘ ۴ جنوری ۲۰۰۶ئ)
امریکا کے موجودہ حکمران‘ خصوصیت سے صدر جارج بش‘ نائب صدر ڈک چینی‘ وزیردفاع رمزفیلڈ اور ان کے تمام خفیہ اداروں کے کارپرداز جس دیدہ دلیری اور سینہ زوری کے ساتھ امریکی دستور‘ قانون‘ کانگریس کے طے شدہ ضابطوں اور بین الاقوامی قانون اور جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی کر رہے ہیں‘ اس نے مشرق سے مغرب تک ہر طرف ایک تہلکہ سا مچا دیا ہے۔ مسلم ممالک کے عوام تو ایک مدت سے چیخ ہی رہے تھے‘ اب یورپی اقوام بھی پکار اُٹھی ہیں اور خود امریکا میں بھی صدربش اور ان کی پالیسیوں سے عمومی بے زاری کے اظہار کے لیے بغاوت کی ایک لہر اُٹھ رہی ہے جس کا سب سے نمایاں مظہر امریکی کانگریس کا یہ اہم اقدام ہے کہ حب الوطنی کے قانون (Patriot Act)کی غیرمعینہ عرصے کے لیے صدر بش کی درخواست رد کرتے ہوئے صرف پانچ ہفتوں کے لیے اس کی منظوری دی ہے۔
یاد رہے کہ متذکرہ قانون کو صدر بش نے نائن الیون کے بعد کانگریس سے منظور کرایا تھا اور جسے پہلے سال مکمل اتفاق راے سے منظور کیا گیا تھا۔ اس کے تحت صدر کو اور نیشنل سیکورٹی اتھارٹی کو ایسے غیرمعمولی اختیارات دے دیے گئے تھے جن کو استعمال کر کے وہ دہشت گردی کے شبہے پر لوگوں کو گرفتار کرسکتے ہیں‘ لمبی مدت تک مقدمہ چلائے بغیر زیرحراست رکھ سکتے ہیں‘ اور اگر مقدمہ چلانے کی نوبت آئے تو ناگزیر قانونی تقاضے (due process of law) کے بہت سے معروف ضابطوں کو نظرانداز بلکہ پامال بھی کرسکتے ہیں۔ مشہور امریکی رسالےNation کے مضمون نگار جوناتھن شیل (Jonathan Schell) کے بقول اس قانون نے امریکی صدر کو آج کا ایسا ایڈمنسٹریٹر بنادیا ہے کہ اگر وہ آمریت کی مکمل تصویر نہ بھی ہو تو بھی اس میں وہ ساری خصوصیات پیدا ہوگئی ہیں جن سے آمریت کا آغاز ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ حکومت بظاہر آمریت نہیں ہے مگر اس میں آمریت کی سب ابتدائی خصوصیات صاف نظر آتی ہیں۔
امریکی تاریخ میں صدارتی اختیارات کو سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر غلط استعمال کرنے والاشخص صدر بش ہے۔ (دی اکانومسٹ‘ لندن‘ ۷ جنوری ۲۰۰۶ئ‘ ص ۴۰)
امریکی جریدے ٹائم (۹ جنوری ۲۰۰۶ئ)میں کیرن ٹوملٹی (Karen Tumulty) اور مائیک ایلیو (Mike Allew) اپنے مضمون میں سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی کے رکن سینیٹر پیٹرک لی ہی (Patrick Leahy)کا یہ جملہ نقل کرتے ہیں کہ:
صدر نکسن کے بعد جس حکومت نے عدالتوں اورقانونی ضابطوں کو نظرانداز کرنے کی سب سے زیادہ کوشش کی ہے‘ وہ یہی حکومت ہے۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں صدر بش کے لیے کانگریس کی اس سرزنش (rebuke) کی اہمیت کو سمجھا جاسکتا ہے کہ حب الوطنی کے جس قانون کی سال بہ سال تجدید (renewal) سے بچنے کے لیے صدربش نے کانگریس سے اس کی غیرمعین مدت کے لیے تجدید کی قانونی تجویز پیش کی تھی بلکہ یہاں تک کہہ دیا تھا کہ we cannot afford to be without this law for a single moment(ہم اس قانون کے بغیر ایک لمحے کے لیے بھی نہیں چل سکتے)‘ اسے عظیم اکثریت نے رد کر دیا اور صرف ۵ ہفتے کے لیے اس کی تجدید کی___ یعنی ۵فروری ۲۰۰۶ء تک۔ ساتھ ہی تفتیش کے دوران تعذیب‘ یعنی ٹارچر (torture) کا دروازہ بند کرنے کے لیے جو ترمیم سینیٹر میک کین (Mc Cain) نے پیش کی تھی اور جسے بش نے ویٹو کرنے کی دھمکی دی تھی‘ اسے بھی سینیٹ نے ۹ کے مقابلے میں ۹۰ ووٹ سے منظور کرکے یہ پابندی لگا دی کہ تمام امریکی ایجنسیوں کے لیے نہ صرف امریکا کی سرزمین پر‘ بلکہ دنیا میں کہیں بھی زیرحراست دشمنوں کو ایسے تمام ہتھکنڈوں کا نشانہ بنانا خلافِ قانون ہوگا جو ظالمانہ‘ غیرانسانی اور ذلت آمیزہوں۔ واضح رہے کہ آخری وقت میں ڈک چینی نے پوری کوشش کی کہ کم از کم سی آئی اے کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے مگر سینیٹ نے یہ ماننے سے انکار کردیا اور امریکا کی موجودہ حکمران ٹیم جو کھیل کم از کم چار سال سے کھیل رہی ہے‘ عالمی احتجاج کے تحت اسے اس سے روکنے کا عندیہ دیا۔ آیندہ امریکی انتظامیہ اس کا کتنا احترام کرتی ہے یہ تو مستقبل ہی بتائے گا لیکن کانگریس کے یہ دونوں اقدام بش انتظامیہ پر اس چارج شیٹ کی تصدیق کرتے ہیں جو حقوقِ انسانی کی تنظیمیں اور عالمِ اسلام اور تیسری دنیا کے دانش ور لگا رہے تھے۔
اس سلسلے میں ہم صرف چند اہم اور نمایاں حقائق ریکارڈ پر لانا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ صدربش کے تحت امریکی جمہوریت کا اصل چہرہ سب کے سامنے آجائے اور اس آئینے میں خود ان مسلمان ممالک کی قیادتوں کی شکل بھی دیکھی جا سکے جو صرف امریکا کی خوش نودی کے لیے اپنے اپنے ملکوں میں نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں شرکت کے نام پر انسانی حقوق اور آزادیوں کا خون کررہے ہیں۔
جمہوریت کا ایک بنیادی اصول دستور اور قانون کی پاسداری ہے۔ مطلق العنان بادشاہت اور آمریت میں حکمران دستور اور قانون سے بالا رہتے ہیں اور اپنی من مانی کرتے ہیں‘ جب کہ جمہوریت میں ہر صاحبِ اقتدار اپنے لیے جواز حکمرانی دستور اور قانون سے پاتاہے اور اس کا پابند ہوتا ہے۔ صدربش اور ان کی انتظامیہ نے خود کو دستور سے بالاتر کرلیا ہے اور وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دستور کی ان تمام ضمانتوں کو پامال کر رہے ہیں جو قانون کی حکمرانی‘ نجی زندگی (privacy) کی حفاظت‘ عدالت کی اجازت کے بغیر کسی شہری کی ڈاک‘ ٹیلی فون‘ انٹرنیٹ وغیرہ کی جاسوسی کی مکمل ممانعت کے بارے میں تھیں۔
یہ انتظامیہ اس سلسلے میں ایک عظیم جرم کی مرتکب ہوئی ہے۔ اس نے ہزاروں انسانوں کی نجی زندگی کو پوری بے دردی سے مجروح کیا ہے اور چار سال سے کروڑوں کی تعداد میں ان کے پیغامات کو درمیان میں روکا (intercept کیا)ہے۔ اور اس سلسلے میں غیرمعمولی حالات کے لیے جو گنجایش پیدا کی گئی تھی کہ ایسے معاملات میں خود نیشنل سیکورٹی اتھارٹی اپنی ۱۲رکنی سرکاری جوڈیشل کمیٹی سے رجوع کرے‘ اس کی پابندی نہیں کی گئی‘ محض القاعدہ کی بو سونگھنے کے لیے بے دریغ لاکھوں ٹیلی فون کالوں اور ای میل کو سی آئی اے اور دوسری ایجنسیاں درمیان میں روکتی رہیں۔ یہ اقدام دستور‘ قانون‘ بنیادی حقوق اور شایستگی ہر چیز کی کھلی خلاف ورزی تھی جس کا پوری بے باکی سے ارتکاب کیا گیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ جب اس کی سن گن لوگوں کو ملنا شروع ہوئی اور کچھ اخبارات نے اس راز کو فاش کرنے کی کوشش کی تو ان کو روکا گیاحتیٰ کہ نیویارک ٹائمز کو خود صدر بش نے ذاتی طور پر اس رپورٹ کے انکشاف سے روکا اور اس سرکاری مداخلت کے نتیجے میں جمہوری امریکا کے جمہوری پریس نے اس خبر کو ایک سال تک دبائے رکھا مگر بالآخر دسمبر۲۰۰۵ء کے وسط میں یہ خبر اخبارات میں شائع ہوگئی۔ نیویارک ٹائمز نے اپنی ۱۵دسمبر ۲۰۰۵ء کی اشاعت میں جیمز رائزر (James Riser) اور لچ بلان (Lichtblan) کی تہلکہ مچا دینے والی رپورٹ شائع کی۔ جیمزرائزر کی کتاب State of War: The Secret History of the CIA and Bush Administration کے نام سے شائع ہوگئی ہے۔ اس کی اشاعت کے بعد اب یہ تفتیش ہورہی ہے کہ یہ راز فاش کیسے ہوگیا؟ حالانکہ بش انتظامیہ کا یہ جرم تو ایسی سنگین نوعیت کا ہے کہ وہ امریکی صدر کو مواخذے (impeachment) کا سزاوار بناتاہے۔ اب دبے الفاظ میں یہ بات کہی جانے لگی ہے اور یہ امریکی جمہوریت کا امتحان ہے کہ کیا بش یہ سب کچھ کرنے کے بعد بچ نکلتا ہے یا کیفرکردار کو پہنچتا ہے؟ سینیٹر رابرٹ بائرڈ (Robert Byrd)کہتے ہیں کہ بش نے وہ لامحدود اختیارات ہتھیالیے ہیں جو بادشاہوں اور مہاراجوں کے لیے مخصوص ہوا کرتے تھے۔ اور امریکی کانگریس کے دو ارکان جان لیوس (John Lewis) اور جان ڈین (John Deen) نے کہا ہے کہ بش نے جس طرح دستور‘ قانون‘ عدالتی نظام کو پامال کیا ہے‘ اس کی پاداش میں اس کا مواخذہ ہونا چاہیے۔
بات صرف امریکی شہریوں کی آزادیوں کی پامالی کی نہیں‘ دسمبرہی کے مہینے میں ایک دوسرا بڑا اسیکنڈل وہ اطلاعات ہیں جن کا ماخذ ایک اطالوی دستاویزی فلم ہے جس سے یہ ہوش ربا انکشاف ہوا کہ امریکا دہشت گردی کے شبہے میں پکڑے جانے والے قیدیوں کوتعذیب کا نشانہ بنانے کے لیے‘ یورپ میں کم از کم آٹھ خفیہ تعذیب خانے چلا رہا ہے۔ علاوہ ازیں یورپ کے دسیوں ممالک کے ہوائی اڈوں اور فضائی حدود کو ان قیدیوں کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک منتقل کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور گذشتہ دوسال میں ایک ایک ملک میں ایسی دو دو سو پروازیں کی گئی ہیں۔ جرمنی‘ آئرلینڈ‘ پولینڈ‘ رومانیا‘ اسپین وغیرہ اس راز کے فاش ہونے پر سخت آتش زیرپا ہوئے اور امریکا کی طرف سے ان کی اجازت کے بغیر ان کی فضائی حدود اور ہوائی اڈوں کے استعمال اور تعذیب کے لیے قیدیوں کی کھلی منتقلی پر سخت احتجاج ہوا۔ برطانیہ میں بھی ایسی ۲۰۰ پروازوں کا ریکارڈ گارڈین اخبارنے فاش کیا لیکن حکومت نہ تصدیق کرتی ہے اور نہ تردید۔ سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ بہت سے عرب اور مسلمان ممالک کو اس تعذیب کے لیے استعمال کیا گیا اور خصوصیت سے مصر‘ افغانستان‘ الجزائر اور مراکش کا کردار بڑا گھنائونا اور شرمناک ہے۔ اس اسیکنڈل کے اثرات امریکا اور یورپ کے تعلقات پر بھی بڑے دُور رس ہوسکتے ہیں۔ انھیں ٹھنڈا کرنے کے لیے امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزا رائس نے فوری طور پر یورپی ممالک کا دورہ کیا مگر آگ بظاہر سرد ہوتی نظر نہیں آتی۔
امریکا جمہوریت اور انسانی حقوق کا علم بردار بنتا ہے مگر اس کا جو کردار سامنے آیا‘ وہ یہ ہے کہ اس نے اپنے دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی‘ اپنی عدالتوں سے رجوع کرنے سے گریز کیا‘ اپنے زیرانتظام دنیا کے مختلف ممالک میں قیدخانے اور عقوبت خانے قائم کیے اور خود اپنے دوست ممالک کے قانون اور حاکمیت (sovereignty)کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی۔ نیز ٹارچر سے احتراز کے اپنے تمام دعووں کے باوجود‘ بلاواسطہ اور بالواسطہ معصوم انسانوں کو‘ جو سب ہی مسلمان تھے‘ مسلسل چار سال تک غیرقانونی اور غیرانسانی تعذیب (torture) کا نشانہ بنایا۔ اس کی کہیں کوئی دادرسی نہ ہوئی بلکہ کچھ مسلمان حکمران ظلم کے اس کھیل میں امریکا کے آلہ کار بنے اور ابھی تک وہ ہر احتساب سے بالاتر ہیں۔
ابوغریب کی جیلوں میں جو کچھ امریکا نے کیا تھا اور جس کے ۶۰۰ واقعات اتنے ہولناک تھے کہ عالمی دبائو میں امریکا کو بظاہر ان کا نوٹس لینا پڑا‘ جب کہ ہزاروں واقعات پر پردہ پڑا رہا۔ اس نے ساری دنیا میں امریکا کے دہرے معیار کا بھانڈا پھوڑ دیا اور وہ استبدادی ہتھکنڈے سب کے سامنے آگئے جو جمہوریت کے یہ علم بردار بے دریغ استعمال کر رہے تھے اور دنیا کو تہذیب کا درس دے رہے تھے‘ بلکہ کہہ رہے تھے کہ دہشت گردی اس لیے فروغ پارہی ہے کہ ان لوگوں کو ہماری آزادی اور جمہوریت بری لگتی ہے۔
پھر اسی زمانے میں اس خبر نے امریکا کے امیج کو بُری طرح مجروح کیا کہ امریکی افواج نے فلوجہ کے محاذ پر ۲۰۰۴ء میں سفید فاسفورس کا بے دریغ استعمال کیا ہے جو ایک کیمیائی ہتھیار ہے اور بین الاقوامی قانون کے مطابق اس کا استعمال انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے۔
لاس اینجلس ٹائمز کا مضمون نگار جوناتھن بی ٹکر (Jonathan B. Tucker) کیمیاوی ہتھیاروں پر سند کا درجہ رکھتا ہے‘ اور کئی کتب کا مصنف اور Monterary Institute's Center for Non-Proliferationکا سینیرفیلو ہے۔ وہ ان نام ور اہلِ قلم میں سے ہے جو اس کا کھلا اعتراف کر رہے ہیں کہ عراق میں امریکا نے کیمیاوی بم استعمال کرکے اپنا منہ کالا کیا ہے اور اس پر جو عالمی ردعمل رونما ہوا ہے وہ بالکل جائز اور امریکا کے لیے باعثِ شرم ہے:
ویت نام کی جنگ کا ایک اَن مٹ نقش بری طرح جلی ہوئی اس بے لباس ویت نامی لڑکی کِم فِک کا تھا جو سڑک پر دوڑتی ہوئی درد اور وحشت سے چیخ رہی تھی۔ یہ ۱۹۷۲ء کا واقعہ ہے۔ کِم فِک کے گھر پر ویت نام کے ہوائی جہاز نے غلطی سے نیپام بم گرا دیا تھا۔ وہ اور تو کچھ نہ کرسکی‘اس نے بے بسی کے عالم میں اپنے کپڑے پھاڑ لیے۔ معصوم شہریوں کے خلاف اس ہولناک ہتھیار کے حادثاتی استعمال نے‘ جسے اس تصویر نے لافانی بنا دیا تھا‘ عالمی راے عامہ کو جنگ کے خلاف منظم کرنے میں مدد دی۔
اب تین عشروں کے بعد نومبر ۲۰۰۴ء میں عراقی مزاحمت کاروں کے خلاف فلوجہ کی جنگ میں امریکا نے ایک دوسرا آتشیں ہتھیار‘ سفید فاسفورس استعمال کیا ہے۔ اس پر امریکا کو خصوصاً باہر کی دنیا میں تنقید کے طوفان کا سامنا ہے۔ سفیدفاسفورس جسے عرف عام میں ڈبلیوپی (wp)کہا جاتا ہے‘ ہوا میں تحلیل ہونے پر اپنے آپ بھڑک اُٹھتا ہے اور اس وقت تک خوفناک طریقے سے جلتا رہتا ہے جب تک کہ آکسیجن ختم نہ ہوجائے۔ اس کے آتشیں ذرات بیرونی کھال پر جم جاتے ہیں‘ گوشت کو ہڈیوں تک گلا دیتے ہیں اور انتہائی گہرے کیمیائی زخم پیدا کرتے ہیں جو ہلاکت خیز نہ بھی ہوں مگر شدید تکلیف دہ ہوتے ہیں اور مندمل ہونے میں بڑا وقت لیتے ہیں۔
فلوجہ میں جہاں صرف جنگجو ہی نہیں تھے‘ عام شہری بھی موجود تھے‘ آتشیں اسلحے کا استعمال تین وجوہات سے شدید غلطی تھا۔ اوّل‘یہ اخلاقی طور پر غلط تھا‘ دوسرے یہ عراق میں امریکی پالیسی کے مقاصد کے خلاف تھا‘ اور تیسرے یہ ایک منافقانہ طرزعمل تھا جو امریکا کے خلاف عالمی غم وغصے کوایندھن فراہم کرتا تھا جس سے جہادی دہشت گردوں کی بھرتی کے لیے واضح جواز فراہم ہوتا تھا۔
جوناتھن ٹکر جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ پوری دنیا کے عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس نے امریکا کے خلاف دنیا بھر میں نفرت کی آگ کو بھڑکایا ہے:
ابوغریب میں قیدیوں سے شرمناک سلوک‘ سمندرپار ممالک میں سی آئی اے کے قیدخانوں کا اسکینڈل اور فلوجہ میں سفید فاسفورس کا استعمال درحقیقت ایک ہی تصویر کے مختلف رخ ہیں۔ یہ اس حکومت کی اخلاقی حِس کے فقدان کی عکاسی کرتے ہیں جس نے امریکا کو دنیا کی نظروں میں ایک بدمعاش ریاست بنا دیا ہے۔
اسی بات کو نوم چومسکی نے نیوزویک کے مائیکل ہیسٹنگ (Michael Hasting)کو دیے گئے انٹرویو میں اس طرح بیان کیا ہے:
بش انتظامیہ امریکا کودنیا میں سب سے زیادہ خوفناک اور قابلِ نفرت ملک بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اس باب میں ان لوگوں کی صلاحیت ناقابلِ یقین ہے۔ (نیوزویک‘ ۹ جنوری ۲۰۰۶ئ‘ ص ۵۲)
ہم یہاں اتنا اضافہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ٹارچر کے استعمال کے علاوہ ظالم اور مطلق العنان حکمرانوں اور خصوصیت سے فوجی آمروں کی پشت پناہی کے سلسلے میں امریکا کی پالیسی نئی نہیں ہے۔ بلاشبہہ بش انتظامیہ نے اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ امریکا کی تاریخی پالیسی کا شرمناک حصہ رہی ہے اور اندرونِ ملک جمہوریت اور آزادی کا اگر کچھ نہ کچھ پاس کیا گیا ہے‘ تب بھی اس سے انکار مشکل ہے کہ بین الاقوامی سطح پر جنوبی امریکا سے لے کر ایشیا اور افریقہ کے تمام ہی علاقوں تک ٹارچر اور آمریت دونوں کے فروغ میں امریکا کا بڑا اہم کردار ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ۱۹۴۶ء سے ۱۹۸۴ء تک پانامہ اور بعد میں Fort Benning, Georgiaکے مقام پر امریکی فوج کے زیراہتمام School of the Americas کے نام سے ایک ادارہ قائم تھا جس میں امریکا اور دوسرے ممالک کے فوجیوں اور ایجنسیوں کے لوگوں کو ٹارچر اور ظالمانہ تفتیش کے طور طریقوں اور اس سلسلے میں جدید ترین آلاتِ تعذیب کے استعمال کی باقاعدہ تربیت دی جاتی تھی۔ اسی اسکول کے تربیت یافتہ عملے نے جنوبی امریکا اور دنیا کے دوسرے ممالک بشمول عرب ممالک میں ٹارچر کے ایک سیاسی آلے کے طورپر استعمال کو رواج دیا۔ اس سلسلے کے سارے حقائق‘ اخبارات اور رسائل میں تو آتے رہے لیکن پورے دستاویزی ثبوت کے ساتھ یہ ایک تازہ ترین کتاب کی شکل میں بھی شائع ہوگئے ہیں جسے الفرڈ میکائے (Alfred McCoy) نے مرتب کیا ہے اور جو A Question of Torture کے نام سے شائع ہوگئی ہے۔ (ملاحظہ ہو‘ گارڈین‘ لندن میں نوم کلین (Noam Klein) کا مقالہ ’US has been using Torture for Decades‘ ڈان/گارڈین سروس‘ ۱۱دسمبر ۲۰۰۵ئ)
آج گوانتاناموبے کے سیکڑوں قیدیوں کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کیا جا رہا ہے‘ اور اب تک یورپ اور عرب ممالک کے تعذیب خانوں میں امریکا کے ایما پر جو کچھ کیا جاتا رہا‘ جس طرح قیدیوں کو ملک ملک بھیج کر ٹارچر کا نشانہ بنوایا گیا اور ابوغریب عراق کے دیگر قیدخانوں اور افغانستان کے متعدد قیدخانوں میں جو کچھ کیا جاتا رہا ہے وہ کوئی نئی چیز نہیں۔ امریکی وزیردفاع رمزفیلڈ نے تو صاف کہا ہے کہ تفتیش کے لیے غیرمعمولی ذرائع کا استعمال ضروری ہے۔ بات صرف رمزفیلڈ کی نہیں‘ سارے قرائن ظاہر کرتے ہیں کہ ٹارچر کی نہ صرف اجازت بلکہ اس کے کھلے استعمال کی ہدایت یا حکم کا رشتہ صدربش تک پہنچتا ہے۔ نوم کلین لکھتا ہے:
ہمیں اس بارے میں واضح ہونا چاہیے کہ کیا چیز ہے جس کی پہلے مثال نہیں ملتی: ٹارچر نہیں‘ بلکہ اس کا کھلا کھلا ذکر۔ ماضی کی حکومتیں اپنے ان سیاہ کرتوتوں کو خفیہ رکھتی تھیں‘ جرائم کی اجازت ہوتی تھی لیکن ان کا ارتکاب چھپ چھپا کر کیا جاتا تھا‘ سرکاری سطح پر اس کی تردید اور مذمت ہی کی جاتی تھی۔ بش انتظامیہ نے یہ تکلف ختم کر دیا ہے۔ نائن الیون کے بعد اس نے بلاکسی جھجک اور شرم و حجاب کے ٹارچر کرنے کے حق کا مطالبہ کیا‘ جس کو نئی تعریفوں اور نئے قوانین سے جواز فراہم کیا۔
ٹارچر‘ امریکا اگر اپنے ملک کی حدود سے باہر کر رہا ہے‘ تب بھی اس کا جواز کسی صورت فراہم نہیں ہوتا لیکن اصل اعتراض تو ٹارچر کے ارتکاب پر ہے‘ خواہ کہیں ہو۔ امریکی انتظام میں چلنے والے قیدخانوں میں‘ امریکی شہری قیدیوں کو ٹارچر کرتے ہیں اور انھیں امریکی جہازوں میں ہی دوسرے ممالک میں منتقل کیا جاتاہے۔ خفیہ کاموں کے لیے ضروری طور طریقوں کوبالاے طاق رکھنے کے عمل نے فوجی اور خفیہ سروس کی برادری کو مخالفت میں کھڑا کردیا ہے۔ بش نے یہ صورت پیدا کر دی ہے کہ کوئی بھی ایسی تردید نہیں کرسکتا جس پر یقین کیا جاسکے۔ یہ تبدیلی بے حد اہمیت کی حامل ہے۔ جب ٹارچر خفیہ طور پر کیا جائے لیکن سرکاری اور قانونی طور پر انکار کیا جائے تو امید ہوتی ہے کہ جب ظلم بے نقاب ہوگا تو انصاف میسر آئے گا۔ لیکن جب یہ قانون کے پردے میں ہو اور جو ذمہ دار ہوں وہ انکار کریں کہ یہ ٹارچر ہے تو انسان کے اندر وہ مر جاتا ہے جسے ہنّا آرنڈٹ (Hannah Arendt) نے انسان کے اندر کا منصف قرار دیا ہے۔ جلد ہی متاثرہ لوگ انصاف کے حصول سے مایوس ہوکر اور اس کی کوشش میں خطرات کا یقین ہونے کی بنا پر اس کی کوشش ہی ترک کردیتے ہیں۔ یہ بڑے پیمانے پر وہی کچھ ہے جو کسی عقوبت خانے میں ہوتا ہے جہاں قیدیوں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ جتنا چاہیں چیخ لیں‘ کوئی ان کے چیخنے چلّانے کو نہیں سن سکتا اور نہ کوئی انھیں بچانے کے لیے آئے گا۔ (ڈان بحوالہ دی گارڈین نیوز سروس‘ ۱۱دسمبر ۲۰۰۵ئ‘ ص۱۲)
الفریڈ میک کوائے نے ٹارچر کے سلسلے میں امریکا کے تاریخی جرائم کے دستاویزی ریکارڈ کو پیش کرکے دنیا کے اور خود امریکا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے: بات اِکا دکا واقعات یا چند قانونی ترامیم کی نہیں‘ اگر حالات کو بدلنا ہے تو ظلم کے اس پورے نظام کو بدلنا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ اداروں اور حکومت کی شرکت کی تاریخ اور گہرائی کو نہیں سمجھیں گے تو آپ بامعنی اصلاحات کا آغاز نہیں کرسکتے۔ (ایضاً)
ان سنگین الزامات کے ساتھ امریکی جمہوریت پر ایک اور بدنما داغ بلکہ اس کے ایک مہلک ناسور کے بارے میں بھی انکشاف ہوا ہے جس کا تعلق صحافت کی آزادی سے ہے۔ بلاشبہہ امریکا میں صحافت اور میڈیا کو بڑی آزادی میسر ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکا کے میڈیا پر چند گروہوں کا قبضہ ہے جو اسے اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سرفہرست صہیونی لابی ہے جس کے اثرات پر ایک نہیں دسیوں کتب شائع ہوچکی ہیں۔ ایڈورڈسعید اور نوم چومسکی نے اس موضوع پر خاصا تحقیقی کام کیا ہے۔ دوسری بڑی لابی اب نیوکونز (Neo-Cons) کی ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ چشم کشا انکشافات وہ ہیں جو خود امریکی حکومت کے کردار کے بارے میں سامنے آرہے ہیں۔
صدربش‘ ڈک چینی اور حکومت کے اہم کارپرداز بلاواسطہ پریس کو ’مشورے‘ (advice) دیتے رہے ہیں۔ اب یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ صحافت اور میڈیا میں سرکاری ایجنسیوں کے تنخواہ دار بڑی تعداد میں کام کرتے ہیں۔ حکومت کی ہدایات پر بڑے بڑے اخبارات نے نہایت اہم خبریں دبا (kill کر)دی ہیں یا ان کی اشاعت کو مہینوں موخرکیا‘ اور پھر اسی وقت شائع کیا جب ان کے کسی نہ کسی صورت باہر آنے کا امکان صاف نظر آنے لگا۔ یہ بھی اب دستاویزی شہادتوں کے ساتھ ثابت ہوچکا ہے کہ امریکی فوج کے ساتھ جو صحافی ہوتے ہیں اور جن کو embedded journalists کہا جاتا ہے‘ وہ اپنے چشم دید حقائق کو بیان نہیں کرتے بلکہ دراصل فوج کے نقطۂ نظر کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس طرح صحافت کو بھی فوج کی مہم کا ایک حصہ بنادیا گیا ہے۔ پھر اس کی شہادتیں بھی سامنے آگئی ہیں کہ فوج نے خطیر رقم دے کر عراق ہی میں نہیں‘ہر جگہ اپنے مفیدمطلب مضامین لکھوائے ہیں اور خبروں کو خاص رنگ دلوایا ہے۔ امریکا اور برطانیہ دونوں جگہ صحافیوں کو ایک خاص انداز میں واقعات کے بیان پر آمادہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں رابرٹ فسک (Robert Fisk)نے لندن کے اخبار انڈی پنڈنٹ میں بڑا تفصیلی اور حقائق سے بھرپور مواد شائع کیا ہے۔ اب تو یہ واقعہ بھی طشت ازبام ہوچکا ہے کہ خود بش نے الجزیرہ ٹی وی پر بم باری کرنے کی بات کی تھی مگر ٹونی بلیر نے اسے روکنے کی کوشش کی۔ جب یہ خبرشائع ہوگئی تو ٹونی بلیر اور برطانیہ اور امریکا کی ایجنسیوں کو یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ یہ بات باہر کیسے نکل گئی۔ آزادیِ صحافت کے دعوے داروں کے ان کرتوتوں نے دنیا کی نگاہوں میں ان کی ہی نہیں‘ بڑے بڑے اخبارات کی ساکھ (credibility) کو بھی مجروح کیا ہے۔
امریکا کا یہی وہ دوغلا رویہ ہے جس نے دنیا کے عوام کو مایوس کیا ہے اور جمہوریت‘ آزادی اور حقوق انسانی کے امریکی دعووں کی کوئی وقعت باقی نہیں رہی ہے۔ امریکا کے مجرم ضمیر کی بہترین ترجمانی خود اس کے سابق صدر جمی کارٹر نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں کی ہے جس کا حسبِ ذیل اقتباس سنجیدہ غوروفکر کا متقاضی ہے اور خود امریکا کی موجودہ قیادت کے لیے لمحہ فکریہ ہے:
حالیہ برسوں میں میری اس تشویش میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے کہ حکومت کی انتہاپسندانہ پالیسیوں نے ہمارے ان بنیادی اصولوں کو زبردست نقصان پہنچایا ہے جن کا ماضی کی ساری ڈیموکریٹ اور ری پبلکن حکومتوں نے سختی سے تحفظ کیا تھا۔ ان میں امن‘ معاشی و سماجی انصاف‘ شہری آزادیوں اور بنیادی انسانی حقوق جیسے اصول شامل ہیں۔ موجودہ حکومتی طرزعمل نے شہریوں کو مبنی برصداقت اطلاعات فراہم کرنے‘ اختلافی آوازوں اور دوسروں کے نظریات کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنے جیسے پختہ امریکی تصورات کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ امریکی قیادت‘ یہ اندازہ کیے بغیر ساری دنیا پر سامراجی بالادستی قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ ہمیں اس کی کیا قیمت ادا کرنی پڑی ہے یا آیندہ ادا کرنی ہوگی۔ دہشت گردی کے خطرے سمیت ‘ باہمی مفادات کے مختلف امور پر دوسرے ممالک سے خوش دلانہ اتفاق رائے اور اتحاد قائم کرنے کے بجاے ہم نے اس شاہی فرمان کا سہارا لیا کہ ’’تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف؟‘‘ انسانی حقوق کے عظیم چیمپین کے طور پر اپنے تصورات کی سربلندی کے لیے کوشش کرنے کے بجاے ہم شخصی اور شہری آزادیوں کی کھلی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔ کس قدر شرم کی بات ہے کہ صدر اور نائب صدر اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ سی آئی اے کو زیرحراست افراد سے ظالمانہ‘ غیرانسانی اور توہین آمیز برتائو کی اجازت ہونی چاہیے۔ دنیا کی واحد سوپر پاور کی حیثیت سے امریکا کو امن‘ آزادی اور انسانی حقوق کا پرعزم چیمپین اور انسانی ہمدردی کے کاموں کا ہراول دستہ ہونا چاہیے۔ وقت آگیا ہے کہ سیاسی تقسیم سے قطع نظر‘ سارے امریکی اپنے اس مشترکہ عہد کو تازہ کریں کہ ہم پھر سے ان سیاسی واخلاقی اقدار کا احیا کریں گے جنھیں ہم نے ۲۳۰ سالوں سے سینے سے لگا رکھا تھا۔ (نوائے وقت‘ ۱۸ نومبر ۲۰۰۵ئ)
آخیر میں ہم ہرالڈ پنٹر (Harold Pinter) کی اس ویڈیو تقریر کے چند اقتباس دینا چاہتے ہیں جو اس نے اس سال کا نوبل پرائز وصول کرتے وقت کی اور اس نے امریکا کے حقیقی کردار کو اس عالمی فورم پر بڑے دو ٹوک انداز میں پیش کرکے پوری دنیا کے انسانوں کے جذبات کی ترجمانی کی۔ اس نے کہا:
کسی خودمختار ریاست پر براہ راست حملہ کبھی بھی امریکا کا پسندیدہ طریقہ نہیں رہا۔ اس نے ہمیشہ عام طور پر اس طریقے کو ترجیح دی ہے جسے کم شدت کا (low intensity) تصادم کہا جاتاہے۔ اس میں اگرچہ ہزاروں معصوم اور بے گناہ آدمی مرتے ہیں لیکن ان پر ایک ہی دفعہ بم برسا کر انھیں موت کے گھاٹ اُتارنے کے مقابلے میں‘ اس طرح اموات سُست رفتاری سے ہوتی ہیں۔ اس صورت میں آپ اس ملک کے قلب کو مبتلاے مرض (infect)کرتے ہیں‘ آپ ایک سرطانی پھوڑا پیدا کرتے ہیں اور گینگرین کوبڑھتا ہوا دیکھتے ہیں۔ جب آبادی شکست خوردہ ہوجائے___ یا مار دی جائے ایک ہی بات ہے___ اور آپ کے اپنے دوست‘ فوج اور بڑی کارپوریشنیں‘ آرام سے اقتدار پر بیٹھ جائیں تو آپ کیمرے کے سامنے جاکر کہتے ہیں کہ ’’جمہوریت قائم ہوگئی ہے‘‘۔ یہ امریکی خارجہ پالیسی میں ان برسوں میں عام بات تھی جن کا میں ذکر کر رہا ہوں…دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد امریکا نے دنیا میں دائیں بازو کی ہر فوجی آمریت کی حمایت کی اور اکثر صورتوں میں اسے قائم کیا۔ میرا مطلب انڈونیشیا‘ یونان‘ یوراگوئے‘ برازیل‘ پیراگوئے ‘ ہیٹی‘ ترکی‘ فلپائن‘ گواٹے مالا‘ سلواڈوار اور یقینا چلّی سے ہے۔ ۱۹۷۳ء میں امریکا نے صرف چلّی میں جو خوفناک زخم لگائے ان کا ازالہ ممکن نہیں اور اسے ہرگز معاف نہیں کیا جاسکتا۔ ان تمام ممالک میں لاکھوں آدمی مارے گئے۔ کیا ان سب اموات کو امریکی خارجہ پالیسی کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے؟ جواب ہے: ہاں۔ ان سب اموات کا سبب امریکی خارجہ پالیسی ہی تھی…
امریکا کے جرائم منظم‘ فاسقانہ‘ بے رحمانہ اور کسی قسم کی پشیمانی کے بغیر عمل میں آتے رہے ہیں مگر بہت کم لوگوں نے ان کے بارے میں کھل کر بات کی ہے۔ اس نے ’نیکی کے لیے ایک طاقت‘ کا بہروپ بھرکر، اسے نہایت کمالِ فن سے پوری دنیا میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ آپ کو امریکا کو داد دینی پڑتی ہے۔ یہ ہپناٹزم کا ایک شان دار‘ ذہانت سے بھرپور اور غیرمعمولی کھیل ہے۔
میں آپ سے کہتا ہوں کہ امریکا سب کی آنکھوں کے سامنے یہ کھیل کھیل رہا ہے۔ امریکا کا یہ ڈراما بے حد ظالمانہ‘ وحشیانہ اور نفرت انگیزہے۔ اس سے امریکا کی مکاری بھی ظاہر ہوتی ہے…
ہماری اخلاقی حِس کو کیا ہوگیا ہے۔ کیا کبھی ہماری یہ حِس تھی بھی؟ کیا ان الفاظ کے کوئی معنی ہیں؟ کیا یہ ایک ایسے لفظ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو آج کل بہت کم استعمال کیا جاتا ہے‘ یعنی ضمیر؟ صرف ہمارے اپنے افعال کے ساتھ نہیں‘بلکہ دوسرے کے افعال میں جو ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے اس میں بھی۔ کیاہماراضمیر مُردہ ہو چکا ہے؟
گوانتاناموبے کو دیکھیے‘ سیکڑوں افراد کسی الزام کے بغیر تین سال سے زائدعرصے سے قید ہیں۔ انھیں قانونی چارہ جوئی کا کوئی حق نہیں۔ ان پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا جا رہا۔ عملی طور پر وہ عمرقید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ جنیوا کنونشن کے علی الرغم کلی طور پر ناجائز یہ کارروائی جاری ہے۔ نہ صرف یہ کہ اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جا رہا ہے بلکہ جسے ہم ’عالمی برادری‘ کہتے ہیں، اسے بھی اس کی کوئی فکر نہیں۔ یہ مجرمانہ کارروائی ایک ایسا ملک کررہا ہے جو اپنے آپ کو آزاد دنیا کا قائد قرار دیتا ہے…
عراق پر حملہ ایک قزاقانہ اقدام تھا۔ یہ بین الاقوامی قانون کی حددرجے کی توہین تھی اور کھلی کھلی ریاستی دہشت گردی۔ یہ حملہ ایک فوجی حملہ تھا‘ اس کے لیے جھوٹ پر جھوٹ گھڑا گیا۔ اس حملے کا مقصد مشرق وسطیٰ میں امریکا کے فوجی اور معاشی کنٹرول کو مستحکم کرنا تھا۔ ہر طرح کی وجوہ ثابت کرنے میں ناکامی کے بعد آخری چارئہ کار کے طور پر آزادی دلانے کا بہانہ بنایا گیا۔ فوجی طاقت کے اس مظاہرے سے ہزاروں لاکھوں معصوم لوگوں کی موت اورتباہی واقع ہوئی ہے۔
ہم نے عراقی عوام کو کیا دیا ہے؟ ٹارچر‘ کلسٹربم‘ ڈپلیٹڈ یورینیم‘ بلالحاظ قتل و غارت کے لاتعداد واقعات‘ اور ان کی توہین اور تذلیل‘ مگر اس کے باوجود کہتے ہیں کہ ہم مشرق وسطیٰ کے لیے آزادی اور جمہوریت لائے ہیں۔
ایک شخص کو جنگی مجرم اور قتلِ عام کا مرتکب قرار دینے کے لیے آخر آپ کو کتنے آدمی مارنا ہوتے ہیں۔ ایک لاکھ؟ میرے خیال میں یہ کافی ہیں۔ اس لیے یہ انصاف کا تقاضا ہے کہ بش اور بلیر کو عالمی عدالت کے سامنے لایا جائے۔ لیکن بش چالاک ہے۔اس نے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ آف جسٹس کی توثیق نہیں کی ہے۔ اب اگر کوئی امریکی فوجی یا سیاست دان ہی سہی‘ کٹہرے میں لایا جائے گا تو بش نے دھمکی دے رکھی ہے کہ وہ اپنی فوجیں بھیج دے گا۔ لیکن ٹونی بلیر نے اس عالمی عدالت کی توثیق کی ہے‘ اس لیے بلیر پر تو مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ اگر عدالت کو دل چسپی ہے تو ہم اس کا پتا بتائے دیتے ہیں: مسمّی ٹونی بلیر‘ ساکن ۱۰-ڈاؤننگ اسٹریٹ‘ لندن۔
عراق میں مزاحمت کے شروع ہونے سے پہلے ہی امریکی بموں اور میزائلوں سے کم سے کم ایک لاکھ عراقی ہلاک ہوچکے تھے۔ کیا ان لوگوں کی کوئی حیثیت نہیں؟ ان کی اموات کوئی معنی نہیں رکھتیں؟ ان اموات کا کوئی ریکارڈ بھی نہیں‘ اور ضرورت بھی کیا ہے۔ اس لیے امریکی جنرل ٹونی فرانکس نے کہا ہے کہ ہم لاشیں نہیں گنتے۔ (دی گارڈین‘ ۸ دسمبر ۲۰۰۵ئ‘ ص ۱۰-۱۲)
ہرالڈ پنٹر نے بسترعلالت سے مظلوم انسانیت اور امریکا کے ہاتھوں زخم خوردہ اور ستم زدہ افراد و اقوام کی طرف سے کلمۂ حق کہہ کر فرض کفایہ ادا کیا ہے۔ یہ انسانیت کے ضمیر کی آواز ہے جسے کوئی آج سنے یا نہ سنے ‘کل ان شاء اللہ اسی آواز سے پوری دنیا کے دروبام گونجیں گے۔
امریکا کے جمہوری نظام کے لیے آج صدر بش‘ ان کی انتظامیہ اور نیوکون کا پورا طائفہ ایک خطرہ بن گئے ہیں۔ صدربش نے دستور کے الفاظ اور روح دونوں کی خلاف ورزی کی ہے اور اپنی راج ہٹ پر قائم ہیں۔ انھوں نے تقرریوں کے نام پر دستور کے متعین طریقے کو ترک کر کے اعلیٰ مناصب پر چور دروازوں سے اپنے پسندیدہ افراد کو مسلط کیا ہے اور اس ضمن میں کانگریس اور سینیٹ کو بھی نظرانداز کرنے میں کوئی تردد محسوس نہیں کیا۔ عام شہریوں کی جاسوسی اور ان کی نجی زندگی کی تقدیس کو پامال کیا اور اس پر عوامی احتساب کو حقارت کے ساتھ نظرانداز کردیا ہے۔ فوج اور سی آئی اے کے ذریعے انسانیت سوز مظالم کو روا رکھا ہے بلکہ عملاً اسے سندجواز فراہم کی ہے اور اب جب دفاعی بل میں سینیٹر میک کین کی ترمیم کے ذریعے ٹارچر پر کھلی پابندی لگائی گئی ہے‘تب بھی نئے قانون پر دستخط کرنے کے بعد ایک سرکاری اعلامیے میں صدر کے امتیازی اور صوابدیدی اختیار کا اعادہ کیا گیا ہے‘ جب کہ سینیٹ نے نائب صدر ڈک چینی کی ساری کوشش کے باوجود ‘صدر کو استثنا کرنے کا اختیار دینے سے انکار کردیا تھا جس سے قانون سازوں کی نیت کسی ابہام کے بغیر واضح ہوگئی تھی۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس وقت امریکا کے ’جمہوری ڈھانچے‘ پر جو گروہ مسلط ہے وہ شہنشاہی (imperial) فکر کا حامل ہے۔ نیوزویک بالعموم صدر بش کی حمایت کی روایت پر قائم ہے‘ لیکن اس کا مدیر بھی اس ذہنیت پر گرفت کیے بغیر نہیں رہ سکا۔ امریکا کی قیادت جمہوریت کے پہلے اصول‘ یعنی قانون کی پاسداری کی خلاف ورزی تو کرہی رہی ہے لیکن جمہوریت کی روح‘ یعنی دوسرے کی بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں۔ فرید زکریا An Imperial Presidencyکے عنوان سے نیوزویک کے ۱۹دسمبر ۲۰۰۵ء کے شمارے میں لکھتا ہے کہ صدربش کے دور میں:
امریکا نے جمہوریت کا ایک شہنشاہی انداز اختیار کیا ہے۔ بیرونی ممالک کے لیڈروں سے کافی ربط و ضبط ہے مگر یک طرفہ ہے۔ جن بیرونی لیڈروں سے مشورہ کیا جاتا ہے‘ دراصل انھیں امریکی پالیسی کی فقط اطلاع دی جاتی ہے۔ ’’جب ہم امریکی افسروں سے ملتے ہیں‘ وہ بولتے ہیں‘ہم سنتے ہیں۔ ہم شاذ ہی اختلاف کرتے ہیں یا کھل کر بولتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ اسے برداشت نہیں کرسکتے‘‘۔ یہ بات ایک سینیرافسرخارجہ نے اپنے مقابل امریکی افسروں کو ناراض کرنے کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتائی۔ شہنشاہی انداز جو ناراضی پیدا کرتا ہے‘ اس سے قطع نظر بے نیازانہ رویے کا مطلب یہ بھی ہے کہ امریکی افسران غیرملکیوں کے تجربے اور مہارت سے مستفید نہیں ہوپاتے… غیرملکیوں کو امریکی افسر اُس دنیا کے بارے میں جو وہ چلا رہے ہیں بڑی حد تک بے خبر نظر آتے ہیں… شہنشاہی انداز کی اپنی خوبیاں بھی ہیں۔ یہ خوف زدہ کرتا ہے‘ فیصلہ کن اقدام کے لیے جواز فراہم کرتا ہے اور دوسرے ممالک کو اپنے پیچھے آنے پر مجبور کرتا ہے لیکن یہ قیمتوں کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ اس لیے جس دنیا میں ہم داخل ہورہے ہیں‘اس کے لیے تو خاص طور پر نامناسب ہے۔ (نیوز ویک‘ ۱۹دسمبر ۲۰۰۵ئ)
اور یہی وہ انداز ’جمہوریت‘ ہے جو بش کی قیادت میں امریکا نے رائج کیا ہے لیکن اس کا نتیجہ ہے کہ خود امریکا میں آج جمہوریت کو اصل خطرہ ان نام نہاد دہشت گردوں سے نہیں جن کے سایوں (shadows) کا تعاقب کیا جارہا ہے بلکہ ان جلادوں سے ہے جو جمہوریت کے نام پر جمہوریت کے ہر اصول‘ روایت اور قدر کا خون کر رہے ہیں۔
ہمیں اس سے انکار نہیں کہ امریکی دستور میں بڑی اچھی باتیں لکھی گئی ہیں۔ ہمیں اس سے بھی انکار نہیں کہ امریکی نظامِ حکومت میں بہت سی اچھی چیزیں بھی ہیں اور عام امریکیوں میں بہت سی وہ انسانی خوبیاں موجود ہیں جو شرفِ انسانیت کا حصہ ہیں۔ امریکا میں آج بھی بڑی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو موجودہ امریکی قیادت کی پالیسیوں اور اقدامات پر ناخوش ہیں یا ماضی کی اُن پالیسیوں پر جو امریکا کی مختلف قیادتیں اپنے اپنے دورِاقتدار میں کرتی رہی ہیں۔ ان مثبت پہلوئوں کے کھلے دل سے اعتراف کے ساتھ ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ امریکی حکمران خصوصیت سے نائن الیون کے بعد جس راستے پر چل پڑے ہیں‘ وہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی نفی ہے اور عالمی امن و سلامتی کے لیے یہ راستہ بڑا خطرناک ہے۔ امریکا کی ان پالیسیوں نے دہشت گردی میں اضافہ کیا ہے اور دنیا کی مختلف اقوام ‘ خصوصیت سے مسلمان اقوام کے چین اور سکون و اطمینان کو پارہ پارہ کر دیا ہے اور امریکا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف عملاً صف آرا کردیا ہے‘ نیز دنیا کی تمام کمزور قوموں اور ان کے عوام کو ظلم اور محرومی کی آگ میں دھکیل دیا ہے۔ طاقت کی عدم مساوات نے عالمی سطح پر ایک ایسے نئے قسم کے عدمِ تحفظ کو جنم دیا ہے جو کمزور انسانوں کو ایسا راستہ اختیار کرنے کی طرف دھکیل رہا ہے جس سے دنیا میں تشدد‘ خون ریزی اور دہشت گردی میں اضافہ ہورہا ہے۔
یہ حالات سب کے لیے بڑے خطرناک ہیں اور امریکا کو اس زعم میں نہیں رہنا چاہیے کہ وہ محض قوت اور پروپیگنڈے کے بل بوتے پر اقوامِ عالم پر قبضہ کرسکتا ہے اور ان کو اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔ یہ فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ ہوش مندی کا راستہ یہ ہے کہ امریکا سے بے زاری اور نفرت کے اسباب کا بے لاگ جائزہ لیا جائے اور وہ اسباب جو دُوری اور نفرت پیدا کررہے ہیں‘ ان کو دُور کیا جائے۔ ظلم اور ناانصافی کا خاتمہ کیا جائے اور بقاے باہمی کے اصول پر انصاف اور ایک دوسرے کی آزادی‘ حقوق اور تہذیب و روایات کے احترام کی بنیاد پر عالمی امن کے حصول کی کوشش کی جائے۔ اس کے سوا جو بھی راستہ ہے‘ وہ تباہی کا راستہ ہے اور یہ تباہی وہ ہے جس کی آگ صرف کمزوروں کو اپنی گرفت میں نہیں لیتی بلکہ طاقت ور بھی اسی طرح اس کا نشانہ بنتے ہیں جس طرح کمزور۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ طاقت کی بنیاد پر انسانی مسائل و معاملات کو حل کرنے کی حماقت نہ کی جائے بلکہ عقل و انصاف اور افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا جائے کیوں کہ یہی وہ راستہ ہے جس میں سب کی فتح ہے اور شکست کسی کی بھی نہیں۔
جنرل پرویز مشرف تضادبیانی میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ ان کا ہر انٹرویو اپنے جلو میں نئی گل افشانیاں لے کر آتا ہے اور انھیں شوق ہے کہ دنیا کے ہر مسئلے پر گوہرافشانی ضرور فرمائیں حالانکہ صاحبانِ عقل نے کم گوئی اور سوچ سمجھ کر حسب ِضرورت بات کرنے ہی کو اچھی اور مدبرانہ قیادت کا خاصّہ قراردیا ہے۔ اس مہینے جمہوریت کے تصور کے بارے میںپے در پے ان کے دو انٹرویو آئے ہیں جن کا نوٹس نہ لینا قومی جرم سے کم نہ ہوگا۔
پہلا انٹرویو ایک ترک خاتون صحافی کو دیا گیا ہے جو جیو پرائیویٹ ٹی وی چینل کے تعاون سے حاصل کیا گیا ہے اور دوسرا وہ خطاب ہے جو انھوںنے امریکا کے اسٹینفورڈ یونی ورسٹی گریجویٹ اسکول آف بزنس کے ۳۰ طلبا کے سامنے گورنر ہائوس کراچی میںفرمایا۔ ان دونوں مواقع پر جنرل صاحب نے اس بات کا اعتراف کیا کہ جمہوریت میں صدرمملکت کی وردی کی کوئی گنجایش نہیں اس لیے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن اسی سانس میں انھوں نے یہ بھی ارشاد فرما دیا کہ پاکستان کے قومی مفاد میں ان کا وردی میں رہنا ضروری ہے‘ اگر ایسا نہ ہو تو پھر یہاں جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اُتر جائے گی۔ اپنے اس متضاد دعوے کے حق میں انھوں نے دو دلائل بھی دینے کی جسارت کی۔
اوّلاً ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں قیادت کی وحدت (Unity of Command) ضروری ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب وہ خود صدرمملکت کے ساتھ فوج کے سربراہ بھی رہیں۔ اس سے ان کے زعم میں فوج‘ سیاست اور بیورو کریسی میں یگانگت اور وحدت پیدا ہوتی ہے جس کی بنیاد پر انتظامیہ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کرسکتی ہے۔ بلکہ انھوں نے یہ دلیل بھی دی ہے کہ میرے صدر اور چیف آف اسٹاف ہونے ہی کا کرشمہ تھا کہ ایک اشارے پر فوج زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے فی الفور سرگرم ہوگئی۔
دوسرا ارشاد عالی مقام یہ ہے کہ پاکستان کے دستور کے تحت قومی اسمبلی اور سینیٹ کی دوتہائی اکثریت نے انھیں خصوصی اختیار دیا ہے کہ وہ یہ دونوںعہدے اپنے پاس رکھیں اور اسے انھوں نے ایک بہت ہی اچھا فیصلہ قراردیا (I think the decision is very good)۔
جنرل صاحب کے یہ دونوں بے بنیاد دعوے کسی بھی ذی ہوش اور محب وطن پاکستانی کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتے‘ نہ خاموشی سے انھیں یوں ہی جانے دیا جاسکتا ہے۔ نہ ان پر خاموش رہنا ممکن ہے۔پہلا دعویٰ اصولی طور پر قابلِ گرفت ہے تو دوسرا واقعاتی طور پر۔ پہلے‘ دوسرے دعوے کو لیجیے جو صریح جھوٹ اور غلط بیانی پر مبنی ہے۔ جنرل صاحب نہایت دیدہ دلیری سے غلط بیانی کررہے ہیں۔ ۱۷ویں دستوری ترمیم میں جسے پارلیمنٹ نے دو تہائی اکثریت سے منظور کیا تھا‘واضح طور پر طے کردیا گیا تھا کہ ایک دستوری انحراف (deviation)کے طور پر ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء تک انھیں چیف آف اسٹاف کا عہدہ رکھنے کا موقع دیا گیا ہے جس کے بعد اس کا چھوڑنا لازمی ہوگا۔ خود جنرل صاحب نے ٹی وی پر آکر قوم سے عہد کیا تھا کہ گو مجھے قومی مفاد اور حالات کی ضرورت کی بنیاد پر دوعہدے رکھنے کا مشورہ دیا جا رہا تھا لیکن میں نے طے کرلیا ہے کہ ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء سے پہلے فوج کی سربراہی سے فارغ ہوجائوں گا۔ انھوں نے دستور کے الفاظ اور سیاسی معاہدے کے علی الرغم‘ محض عام اکثریت (simple majority) سے ایک خصوصی قانون منظور کرا کر قوم اور پارلیمنٹ سے وعدہ خلافی کی اور اس طرح دستور کو مسخ کیا اور اب دعویٰ کر رہے ہیں کہ پارلیمنٹ نے دو تہائی اکثریت سے ان کو اس کی اجازت دی۔ یہ سراسر خلافِ واقعہ ہے۔
رہا مسئلہ جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی پر چلانے کے لیے جمہوریت کے مسلّمہ اصولوں کے خلاف فوج کی سربراہی پر براجمان رہنا‘ تو اس مضحکہ خیز دلیل کو کون بقائمی ہوش و حواس تسلیم کرسکتا ہے۔ یونٹی آف کمانڈ کی بات بھی ایک انتہائی خطرناک سوچ کی غمازی کرتی ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل لغو بات ہے کہ اگر میں صدر ہونے کے ساتھ چیف آف اسٹاف نہ ہوتا تو فوج سکھر بیراج کی تعمیر بروقت نہیں کرسکتی تھی اور نہ زلزلہ زدگان کی بروقت مدد ہوسکتی تھی۔ اگر ہم دلیل کی خاطر یہ نظرانداز بھی کردیں کہ عام شہری‘اسلامی تحریکات کے کارکن اور مجاہد تنظیموں کے سرفروش زلزلوں کے چند گھنٹے کے اندر ملبے میں دبے ہوئے اپنے بھائی بہنوں بلکہ مظفرآباد میں فوجی جوانوں کو ملبے سے نکالنے کے لیے پہنچ گئے تھے‘ جب کہ یونٹی آف کمانڈ کا طرہ زیب تن کیے ہوئے جرنیل صاحب کو خود اپنے بقول زلزلے کی تباہ کاریوں کا اندازہ زلزلے کے پورے سات گھنٹے کے بعد ہوا اور فوج متاثرہ مقامات میں دوسرے‘ تیسرے‘ حتیٰ کہ ساتویں دن پہنچی۔ اس کارکردگی پر پریس اور پارلیمنٹ میں سخت تنقید بھی ہوئی ہے۔
اگر اس پہلو کو نظرانداز کر دیا جائے تب بھی سب سے بنیادی اور اصولی بات یہ ہے کہ دستور کے تحت اور پوری جمہوری دنیا کی مسلّمہ روایت کے مطابق فوج سول حکومت کے تابع ہوتی ہے اور یہی اصول پاکستان کے دستور کی دفعہ ۱۴۵ میں واضح الفاظ میں موجود ہے۔ اسی کا برملا اعلان قائداعظم نے کوئٹہ میں فوج کے جوانوں کو خطاب کرتے ہوئے ۱۹۴۸ء کے اوائل میں کیا تھا۔ دنیابھر میں غیرمعمولی حادثات کے موقع پر خواہ ان کا تعلق سیلاب اورآسمانی آفات سے ہو یا سول نظام کے درہم برہم ہونے سے‘ سول حکومت کے ایک اشارے پر فوج حکم کی تعمیل میں اپنی ذمہ داری پوری کرنے پر کمربستہ ہوجاتی ہے۔ سونامی کے موقع پر تمام متاثرہ ممالک میں اس کا منظر دیکھا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں بھی سیلاب کے موقع پر ہر دور میں فوج نے خدمات انجام دی ہیں۔ امریکا میں کترینا کے طوفان میں تباہ ہونے والوں کی مدد کے لیے فوج حرکت میں آگئی۔ کیا یہ سب یونٹی آف کمانڈ کا کرشمہ تھا یا دستوری اور قانونی نظام کے موجود ہونے اور فوج کے سول حکومت کے تابع ہونے کا۔ برطانیہ میں تو فوج کسی معمولی سی معمولی کارروائی کے لیے بھی وزیراعظم کی ہدایت کے بغیر حرکت نہیں کرسکتی۔
پھر جنرل صاحب کو اس حقیقت کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ فوج کے اندر کے نظام میں یونٹی آف کمانڈ ضروری ہے‘ لیکن سول حکومت اور فوج کے درمیان رشتہ‘ کمانڈ کی وحدت کا نہیں‘ فوج کا سول کمانڈ کے تحت ہونے کا ہے۔ غیرسیاسی نظام اپنا مخصوص مزاج رکھتا ہے اور یہاں یونٹی آف کمانڈ نہیں بلکہ اختیارات میں تفریق (separation of power) اور اختیارات کی تقسیم (distribution of power) کی بنیاد پر سارا نظام چلتا ہے۔ اصل حکمران قوت ملک کا دستور ہوتا ہے جو پورے نظامِ قیادت (command structure) کو دوٹوک الفاظ میں بیان کردیتا ہے۔ اور انتظامیہ‘ عدلیہ اور مقننہ کے درمیان بھی اختیارات کی تقسیم ہوتی ہے۔ مقننہ قانون سازی کرتی ہے‘ انتظامیہ ان قوانین اور فیصلوں کو نافذ کرتی اور عوام کی منتخب اسمبلی کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے اور عدلیہ قانون کی تعبیر کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ اس تقسیم اختیارات سے نظام میں توازن آتا ہے اور صحت مند کارکردگی ممکن ہوتی ہے۔ ارتکاز اختیارات مطلق العنانی اور کرپشن کا ذریعہ بنتا ہے جسے لارڈ ایکٹن (Acton) نے ایک جملے میں اس طرح ادا کیا تھا Power corrupts and absolute power corrupts absolutely (اقتدار بدعنوان بناتا ہے اور اقتدارِ مطلق مکمل پر بدعنوان بناتا ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ خود پاکستان کے دستور میں صدرمملکت‘ بجز ان اختیارات کے جہاں اسے صواب دیدی اختیار حاصل ہے‘ وزیراعظم کے مشورے کا پابند ہے۔
اسٹینفورڈ کے طلبہ کے سامنے جو وعظ جنرل صاحب نے فرمایا ہے وہ اس سے محظوظ نہیں ہوسکتے بلکہ سرپیٹ رہے ہوں گے کہ یہ کون سا سیاسی فلسفہ ہے جو جمہوریت کے سر تھوپا جا رہا ہے۔ شاید وہ دل ہی دل میں مشہور امریکی مصنف لیوس منفورڈ (Lewis Munford) کے بیان کردہ تاریخ اور علم سیاست کے اس اصول کو تازہ کر رہے ہوں گے جو اس نے اپنی کتاب The Condition of Man میں اس طرح بیان کیا ہے اور جس سے ہر فوجی آمر سبق سیکھ سکتا ہے:
ایک سیاسی معاشرہ موٹے رسّے کی مانند ہے جس میں کئی رسیاں گندھی ہوئی ہیں۔ ان رسّیوں کے باہم ملاپ سے محض اس کی مضبوطی میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی لچک بھی بڑھ جاتی ہے۔ رسّا اپنی نوعیت میں پیچیدہ ہے۔ سیاسی گرہیں اس کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہیں‘ لیکن سیاسی زندگی میں ہمارا مقام ہمیشہ برقرار رہنا چاہیے۔ گرہ کھولنے کے بجاے ننگی تلوار سے رسّی کاٹنے کا سکندراعظم کا طریقہ اختیار نہیںکرنا چاہیے۔ سیاسی عمل کے مسائل کو کوئی بھی احمق مارشل لا سے حل کرسکتا ہے مگر کوئی احمق ہی اس کو حکومت کے مصداق سمجھ سکتا ہے۔ (دی کنڈنشن آف مین‘ ص ۱۷۵)
ہماری ساری سیاسی مشکلات کی جڑ یہی غلط ذہنیت ہے کہ فردِ واحد تمام سیاسی مسائل کو قوت کے ذریعے طے کرسکتا ہے۔ آج جو کچھ بلوچستان میں ہو رہا ہے‘ وزیرستان میں ہو رہا ہے‘ باجوڑ میں ہورہا ہے‘ اس پر عوام میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ کالاباغ ڈیم بنانے کے یک طرفہ اور من مانے اعلانات کے خلاف پورا ملک جس طرح احتجاج کر رہا ہے ‘ پارلیمنٹ مفلوج ہوگئی ہے‘ عدلیہ بے دست و پا ہے‘ حتیٰ کہ بیوروکریسی جس طرح غیرموثر بنا دی گئی ہے اور نظام اور قانون کے تحت کام کرنے کے بجاے اُوپر والوں کی مرضی کو قانون کا درجہ دے دیاگیا ہے___ یہ ہے جمہوریت کا زوال اور ہماری قومی زندگی کا المیہ۔ ہم اس دلدل سے اس وقت تک نکل نہیں سکتے جب تک دستور اور قانون کی بالادستی قائم نہ ہو۔ اداروں کے استحکام کے ذریعے قومی استحکام حاصل کیا جائے‘ مرکز اور صوبوں کے درمیان اعتماد‘ تعاون اور اشتراکِ اختیارات کا نظام بحال کیا جائے ‘ فوج کو دفاع کی ذمہ داری کے لیے مخصوص کیا جائے اور سول نظام منتخب اداروں اور سول حکومت کے ذریعے چلایا جائے اورفوج بھی اس نظام کے تابع اور اس کے سامنے جواب دہ ہو۔
’باوردی جمہوریت‘ ایک متضاد اصطلاح ہے اور اس کا جاری رہنا ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے ایک عظیم خطرہ اور قوم کے لیے ایک لعنت کی حیثیت رکھتا ہے اور خود فوج کی دفاعی صلاحیت کو تباہ کرنے اور اسے قوم کی نگاہوں میںمتنازع بنانے کا ذریعہ ہے۔ ملک کی فوج ملک کے دفاع کے لیے ہے‘ نظامِ حکومت کو چلانے یا آبی بند بنانے کے منصوبے طے کرنے کے لیے نہیں۔ فوج بھی کسی شخص کی ذاتی جاگیر نہیں بلکہ دستور کے تحت ایک اہم اور محترم قومی ادارہ ہے۔ جو ذہن ’باوردی جمہوریت‘ کی بات کرتا ہے‘ وہ فوج کو بھی ایک دستوری ادارے کے بجاے سرداری نظام کی طرح ذاتی وفاداری کے مقام پر دیکھنا چاہتا ہے جس کا بڑا ہی تکلیف دہ اظہار اس انٹرویو میں ہوا ہے جو بھارتی ٹی وی چینل CNN-ABN کو دیا گیا اور جس میں یہاں تک کہہ دیا گیا ہے:
یہ ایسی ویسی فوج نہیں ہے‘ یہ مکمل طور پر میری وفادار اور تابع ہے۔
جب سوال کیا گیا کہ آپ کشمیر کے جومختلف حل پیش کررہے ہیں‘ کیا فوج اس میں آپ کے ساتھ ہے‘ تو فرمایا:
۲۰۰ فی صد بلکہ ۱۰۰۰ فی صد۔ اگر ان خیالات کے برعکس کوئی رجحان یا اختلاف راے رکھتا ہوگا تو ان کو چشم زدن میںفوج سے نکال دیا جائے گا۔ اگر وہ ہوں تو اگلے ہی دن فوج سے باہر ہوں گے۔
سوال: آپ کا مطلب ہے کہ آپ انھیں نکال باہر پھینکیں گے؟
جواب: بالکل‘ آپ سمجھیں کہ (اگر میں یہ نہ کروں تو) میں فوج کا بے حیثیت سربراہ ہوں گا۔ یہ ایسی ویسی فوج نہیں ہے۔ میں یہاں ذمہ دار ہوں۔ جنرل اور کور کمانڈر ہیں جو کور کے ذمہ دار ہیں۔ کوئی سوال ہی نہیں کہ یہاں کوئی ایسی حرکتیں کر رہا ہو۔ اگر وہ کریں گے تو اگلے ہی روز نکال باہر کیے جائیں گے۔
بلاشبہہ آرمی میں ڈسپلن ہونا چاہیے لیکن سیاسی معاملات اور طریقوں کے بارے میں اختلاف راے اور چیز ہے اور آرمی ڈسپلن دوسری شے۔ لیکن جب دفاع میں ’یونٹی آف کمانڈ‘ کے نام پر شخصی آمریت کا بھوت سوارہو تو پھر نہ سیاست کے آداب اور اسلوب کا احترام باقی رہتا ہے اور نہ خود فوج میں اختلاف راے اور اطاعتِ احکام کی حدود کی نزاکتیں___
ہماری جدوجہد کا اصل ہدف یہی ہے کہ تقسیمِ اختیارات اور تقسیمِ کار کا جو نظام دستور میں طے کیا گیا ہے‘ سارا نظام اس کے مطابق چلے اور جس طرح اس انتظام کو درہم برہم کردیا گیا ہے اوراس میں فوج کی قیادت کے علاوہ دوسرے عناصر نے بھی بڑا مذموم کردار ادا کیا ہے بشمول عالمی طاقتیں‘ ایک بار یکسو ہوکر اس انتشار کو ختم کردیا جائے‘ اور ہمیشہ کے لیے یہ اصول طے ہوجائے کہ فوج کا دائرہ کار صرف اور صرف دفاع ہے اور وہ سول نظام کے تابع ہے‘ اس پر حکمران نہیں۔ جب تک یہ واضح ہدف حاصل نہیں ہوتا پاکستان اس دلدل سے نہیں نکل سکے گا جس میں پچھلے ۵۰ سال سے دھنسا ہوا ہے۔
ہر مسلمان کامقصدِ زندگی یہ ہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہوجائے اور وہ اپنے رب کا سامنا ایسی صورت میں کرے کہ وہ اس سے راضی ہو اور اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجائے۔ رب کی رضا کا راستہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع اور اسوۂ حسنہ پر عمل ہے۔
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَـثِیْرًا o (الاحزاب ۳۳:۲۱)
درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے‘ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا بھر کے تمام لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا۔ یہ ان کی دعوت کا اصل اور بنیادی نکتہ ہے۔
قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ قف عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ ط (یوسف ۱۲:۱۰۸)
تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے‘ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں‘ میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی۔
جن لوگوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کی اور ایمان لے آئے‘ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا اور انھیں ایک منظم اُمت بنایا جسے اللہ نے خیراُمت قرار دیا۔
ھُوَ الَّذِیْ بَعَـثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰـتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ق وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ o (الجمعہ ۶۲:۲)
وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسولؐ خود انھی میں سے اٹھایا‘ جو انھیں اس کی آیات سناتا ہے‘ ان کی زندگی سنوارتا ہے‘ اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘ حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔
اس خیر اُمت کے تمام افراد کے ذمے یہ کام لگایا گیا کہ یہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلائیں‘ نیکی کا حکم کریں اور بدی سے روکیں۔
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَـاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰)
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
ان کو یہ ذمہ داری بھی سونپی گئی کہ یہ پوری دنیا میں عدل و انصاف کے علم بردار بن جائیں۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ ج (النساء ۴:۱۳۵)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو‘ اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ ز وَلَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰیز (المائدہ ۵:۸)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔
۱- تطھیر و تعمیر افکار ‘یعنی عقیدہ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کو پوری طرح ذہن نشین کرنا۔
۲- تعمیر سیرت اور تنظیم‘ یعنی دعوت قبول کرنے والے تمام لوگوں کی تربیت کا اہتمام کرنا اور انھیں ایک قوی اور منظم جماعت کی شکل دینا۔
۳- اس منظم جماعت کو اصلاح معاشرہ ‘یعنی امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور مخلوق خدا کی خدمت میں ہمہ تن مصروف رکھنا۔
۴- اس منظم جماعت کے ذریعے عام مسلمانوں کو ساتھ ملانا تاکہ انقلاب قیادت کے ذریعے معاشرے کی زمام کار ان لوگوں کے ہاتھ میں آجائے جو فساد پھیلانے والے نہ ہوں بلکہ اصلاح کرنے والے ہوں۔
جماعت اسلامی کے کارکنوں کا فرض ہے کہ اپنی یہ دعوت ملک کے ہر فرد تک پہنچائیں۔ اس کے لیے صرف زبانی تلقین کافی نہیں بلکہ کارکنوں کا خود اس دعوت کا عملی نمونہ بن جانا‘ اس دعوت کو عام کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔
جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنے سالانہ اجلاس میں اس سال کا جو منصوبہ بنایا ہے اس کا بنیادی اور اہم کام یہ ہے کہ قوم کے ہر گھر تک جماعت اسلامی کی یہ بنیادی چار نکاتی دعوت پہنچائی جائے۔ سالانہ منصوبۂ عمل کو ہر کارکن اور ذمہ دار غور سے پڑھ لے اور دیکھ لے کہ اس منصوبۂ عمل میںاس کے کرنے کا کام کیا ہے۔ اگر ہر کارکن اور ہر ذمہ دار اپنے حصے کا کام کرے تو گویا اس نے اپنی ذمہ داری پوری کرلی اور سمجھ لے کہ سالانہ منصوبے پر اس نے اپنی حد تک کام مکمل کرلیا۔ مرکزی‘ صوبائی ‘ ضلعی اور مقامی ذمہ داران پر خصوصی فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ ہاے کار کے کام پورے سال پر پھیلا کر اپنی ڈائریوں میں لکھ لیں۔ اسی طرح تمام شعبوں کے ذمہ داران بھی اپنے اپنے شعبے کے کام پورے سال پر پھیلا دیں۔
منصوبۂ عمل بناکر اس کو نظرانداز کردینے سے خدانخواستہ کہیں ہم اس آیت کے مصداق نہ ٹھیرجائیں جس کے مخاطب مومنین ہی کا گروہ ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ o کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَالَا تَفْعَلُوْنَ o (الصف ۶۱:۲-۳)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔
مجھے امید ہے کہ جماعت اسلامی کی ہر سطح کی قیادت اور اس کے تمام کارکن اس منصوبۂ عمل کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے اور اس سال کو دعوتِ اسلامی کا سال بنانے کے لیے تن من دھن کی قربانی کے لیے تیار ہوجائیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
دعوت ہمارے پیارے رسولؐ کی سب سے بڑی سنت ہے
انھوں نے ساری زندگی دعوت میں لگا دی‘ ہم بھی لگا دیں
آپ کا وقت‘ آپ کا مال‘ آپ کی صلاحیت‘ آپ کے روابط‘ رشتے و تعلقات‘ سب میں اس سال سب سے بڑا حصہ دعوت کے لیے نکالیں
نقطۂ نظر درست کرلیں‘ تجاویز خود سامنے آئیں گی‘ اللہ تعالیٰ رہنمائی فرمائے گا۔
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’جس نے میرے کسی دوست (ولی) سے دشمنی کی‘ میری طرف سے اس کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ مجھے اپنے بندے کی محبوب ترین چیز اس کا وہ فعل ہے جو میں نے اس کے اُوپر فرض کیا ہے اور نوافل کے ذریعے میرا بندہ برابر مجھ سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ حتیٰ کہ میں اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے‘ میں اس کی بصارت بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے‘ میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ کام انجام دیتا ہے اور اس کا پائوں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا پھرتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے کچھ مانگے گا تو میں اس کو دوں گا اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے گا تو میں اس کو پناہ دوں گا۔ مجھے کوئی کام کرتے ہوئے ذرہ برابر تردد نہیں ہوتا سوائے مومن کو موت دیتے ہوئے‘ جب کہ موت سے اس کو تکلیف ہو رہی ہو اور میں اس کو تکلیف دینا پسند نہیں کرتا‘‘۔(بخاری)
حضرت ابوہریرہؓ ایک حدیث قدسی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس نے میرے کسی دوست سے دشمنی کی میری طرف سے اس کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ یہ پہلی بات فرمائی گئی ہے۔ ولی یا دوست سے کیا مراد ہے؟ یہ سمجھ لیجیے۔ اس غلط فہمی میں نہ رہیے کہ ولی کے معنی کسی صاحبِ کرامت ہستی کے ہوتے ہیں۔ ولی بس وہ ہے کہ جو آپ کے دل کی بات آپ کو بتا دے اور ہوا میں اڑے۔ اس کا کوئی کام فطری طریقے سے ہوتا ہی نہ ہو۔ ہر وقت اس سے کرامتیں صادر ہوتی رہیں۔ ولی کے یہ معنی نہیں ہیں۔ قرآن مجید کو آپ پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک مخلص مومن جو اللہ تعالیٰ کی ٹھیک ٹھیک بندگی کرتا ہے اور صالح زندگی بسر کرتا ہے‘ وہ خدا کا ولی ہے۔ ہر صالح آدمی جو اخلاص کے ساتھ مومن ہے اور پاک زندگی بسر کرتا ہے‘ وہ ولی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے ارشاد کہ جو شخص میرے کسی ولی کے ساتھ دشمنی کرے‘ میری طرف سے اعلانِ جنگ ہے کا مطلب یہ ہے کہ میرے دوست کا دشمن میرا دشمن ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ محض میرے دوست کا دشمن نہیں ہے بلکہ میرے ساتھ دشمنی ہے۔
اللہ کے ولی کے ساتھ دشمنی کی دو شکلیں ہوسکتی ہیں۔ ایک شکل یہ کہ ایک آدمی اس کے دین اور اس کی فلاح اور اس کی پاکیزگی کی وجہ سے اس کا دشمن ہے۔ اس وجہ سے اس کا دشمن ہے کہ یہ کم بخت سچا مومن کیوں ہے۔ یہ صالح زندگی کیوں بسر کرتا ہے اور تقویٰ سے کیوں کام لیتا ہے۔ یہ میری خاطر جھوٹی شہادت دینے کیوں نہیں جا رہا۔ یہ میری خاطر بے ایمانی کیوں نہیں کرتا۔ یہ میری سازشوں میں کیوں شریک نہیں ہوتا۔ جس جس طرح سے میں اپنا ایمان بیچتا ہوں یہ بھی کیوں نہیں بیچتا۔ ایک تو دشمنی اس بنا پر ہے‘ یعنی اس کے ایمان‘ اس کی فلاح اور تقویٰ کی بنا پر اس سے دشمنی۔ دشمنی کی دوسری شکل اس کے ساتھ یہ ہوسکتی ہے کہ کوئی شخص اپنی ذاتی اغراض کے لیے کسی مومن کو تکلیف دینا چاہتا ہو اور اس کے حقوق مارنا چاہتا ہو‘ اس وجہ سے اس کا دشمن ہوگیا ہو۔ دونوں شکلوں میں جو شخص بھی اللہ کے کسی دوست‘ یعنی ایک سچے اور صالح مسلمان کے ساتھ دشمنی کرتا ہے تو وہ دشمنی صرف اس شخص کے ساتھ ہی نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی دشمنی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ یہ اصولی اور سیدھی بات ہے کہ اگر آپ کسی کے واقعی مخلص دوست ہیں تو جو آپ کے دوست کا دشمن ہے‘ اس سے آپ کی بھی دشمنی ہوگی۔
پھر فرمایا مجھے اگر کوئی چیز محبوب ہے تو میرے بندے کا وہ فعل ہے جو میں نے اس کے اُوپر فرض کیا ہے۔ اس سے بڑھ کر میرے ساتھ تقرب کا ذریعہ اور کوئی نہیں‘ یعنی بندہ میرے ساتھ تقرب حاصل کرنے کے لیے جتنے نیک کام کرتا ہے ان میں سب سے زیادہ محبوب مجھے وہ کام ہیں کہ جو میں نے اس پر فرض کر دیے ہیں۔ اب یہاں بعض لوگ غلطی سے فرض کو محض فرض نماز کے معنی میں لے لیتے ہیں حالانکہ فرض نماز بھی ان فرائض میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان پر عاید کیے ہیں۔ روزہ بھی فرض ہے‘ زکوٰۃ بھی فرض ہے‘ حج بھی فرض ہے۔ (تفہیم الحدیث، کتاب الدعوات‘ جلدہفتم‘ ص ۵۲۱-۵۲۲)
ان چاروں ارکانِ اسلام سے پہلے اسلام کے پہلے رکن‘ کلمۂ شہادت کا زبان سے ادا کرنا اور عملاً اس کے تقاضے پورے کرنا سب سے اہم فرض ہے۔ اور اس کا سب سے بڑا اور بھاری تقاضا یہ ہے کہ ہم تمام دنیا کے سامنے اس حق کے گواہ بن کر کھڑے ہوں جس پر ہم ایمان لائے ہیں۔
یہ گواہی دو طرح سے دینا ہوگی۔ ایک قولی جس کی صورت یہ ہے کہ ہم دنیا کو اس دین کی تعلیم سے روشناس کرائیں جو خدا نے انسانوں کے لیے مقرر کیا ہے۔ فکرواعتقاد میں‘ اخلاق و سیرت میں‘ تمدن و معاشرت میں‘ کسب معاش اور لین دین میں‘ قانون اور نظمِ عدالت میں‘ سیاست‘ تدبیرِمملکت‘ بین الاقوامی تعلقات میں اور انسانی معاملات کے تمام پہلوئوں میں اس دین نے انسان کی رہنمائی کے لیے جو کچھ پیش کیا ہے اسے ہم خوب کھول کھول کر بیان کریں اور اس کا حق ہونا ثابت کردیں۔
دوسرے‘ عملی گواہی یاشہادت۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں ان اصولوں کا مظاہرہ کریں جن کو ہم حق کہتے ہیں۔ دنیا صرف ہماری زبان سے ان کی صداقت کا ذکر نہ سنے بلکہ اپنی آنکھوں سے ہماری زندگی میں ان کی خوبیوں اور برکتوں کا مشاہدہ کرلے۔ اس شہادت کا حق صرف اس طرح ادا ہوسکتا ہے کہ ہم فرداً فرداً بھی اور قومی حیثیت سے بھی اپنے دین کی حقانیت پر مجسم شہادت بن جائیں اور دنیا ہمارے شخصی اور قومی کردار میں اس بات کا ثبوت پالے کہ جن اصولوں کو ہم حق کہتے ہیں وہ واقعی حق ہیں اور ان سے فی الواقع انسانی زندگی اصلح اور اعلیٰ و ارفع ہوجاتی ہے۔ (شہادتِ حق، ص ۶-۷)
اس طرح ہر وہ چیز جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ‘ تم یہ کرو‘ وہ فرض ہے اور جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے انسان پر فرض کردیا ہے ان سے بڑھ کر اس سے قریب ہونے کا اور کوئی ذریعہ نہیں‘ یعنی آپ نوافل چاہے کتنے ہی ادا کرتے رہیں لیکن فرائض سے اگر آپ غافل ہیں تو اللہ سے قرب کا امکان نہیں۔ گویاپہلی چیز فرائض کی ادایگی ہے۔ اگر بندہ فرائض ہی ادا نہ کر رہا ہو تو پھر اللہ تعالیٰ سے نوافل کے ذریعے تقرب کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مجھے سب سے زیادہ محبوب فرائض ہیں۔ ظاہر بات ہے اگر فرائض سب سے اہم نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کو فرض ہی کیوں کرتا‘ اور جو بندہ فرض ادا نہیں کر رہا ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے اندر حقیقت میں بندگی موجود نہیں ہے‘ اور اگر صرف نوافل ادا کر رہا ہے تو وہ اپنی مرضی کا بندہ ہے۔ اگر خدا کا بندہ ہوتا تو جس چیز کو اس نے فرض کیا ہے اس کو سب سے پہلے ادا کرتا۔
پھر فرمایا ہے کہ نوافل کے ذریعے سے میرا بندہ برابر مجھ سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ نوافل کو بھی لوگ غلطی سے صرف نفل نمازوں کے معنی میں لیتے ہیں اور عام طور پر نوافل سے قرب کا مفہوم بھی یہ لیا جاتا ہے کہ نفل نمازیں پڑھ کر قرب حاصل کرنا۔ حالانکہ نوافل اصل میں ان تمام نیکیوں کو کہتے ہیں جوفرض سے زائد ہیں اور جنھیںبندہ اپنی رضامندی اور رضا و رغبت سے ازخود کرے‘ مثلاً زکوٰۃ۔ زکوٰۃ جو آپ پر فرض ہے اگر وہ آپ باقاعدگی سے نکال دیتے ہیں‘ گویا آپ نے فرض ادا کردیا۔ اس کے بعد اگر دین کے کام کے لیے کوئی ضرورت پیش آجائے یا کوئی مصیبت زدہ بندہ سامنے آجائے‘ کوئی رشتے دار یا محلے کا آدمی غریب اور حاجت مند ہو اور اس وقت بھی اگر آپ اپنا روپیہ نکال کر دے دیں تو یہ نوافل ہیں۔ فرض ‘یعنی زکوٰۃ ادا کرچکنے کے بعد آپ جو بھی خیرات کریں گے‘ سب نوافل ہیں۔ اسی طرح فرض روزے رمضان میں رکھ لیے اس کے بعد جو روزے بھی آپ رکھیں گے‘ سب نوافل ہیں۔ تو فرمایا کہ فرض تو وہ چیز ہے جو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اسی لیے میں نے اس کو فرض کیا۔ اس کے بعد بندہ جب اپنی رضا و رغبت سے فرض سے زائد نیکی کرتا ہے تو جتنی زیادہ وہ یہ نیکی کرتا جاتا ہے اتنا ہی مجھ سے قریب ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ میرا محبوب بن جاتا ہے۔
پھر فرمایا کہ جب میں اپنے بندے سے محبت کرنے لگتا ہوں تو نوبت یہ آجاتی ہے کہ میں ہی اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے‘ اور میں ہی اس کی بینائی بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے‘ اور میں ہی اس کا وہ ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ سارے کام انجام دیتا ہے‘ اور میں ہی اس کا وہ پائوں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا پھرتا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ یہ وہی چیز ہے جس کے لیے صوفیا ’فنا فی اللہ‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اتنا گہرا اور اتنا قوی جذبہ آدمی کے دل میں پیدا ہوجاتا ہے کہ جن جن چیزوں کو بھی اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے ان کو وہ بغیر اس کے کہ فرض ہوں اپنے دل کی رضا و رغبت سے انجام دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق ایسا گہرا اور قریبی ہوجاتا ہے کہ اب اللہ ہی اس کی سماعت اور اللہ ہی اس کی بینائی بن جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے بعد اس کے کان وہی چیزیں سنتے ہیںجو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ سنیں۔ کوئی ایسی چیز جو اسے ناپسند ہے اس کے کان وہ سننے کے لیے تیار نہیں۔ اسے گانا ناپسند ہے تو وہ گانا سننے نہیں جائے گا۔ اسے گالیاں ناپسند ہیں تو وہ گالیاں رغبت سے نہیں سنے گا۔ اگر گالی کان میں پڑ بھی جائے تو اس کے دل میں اس سے اس قدر شدید نفرت پیدا ہوگی کہ یہ کیا میرے کان میں پڑ رہا ہے۔ اسی طرح بندہ وہی سننا پسند کرے گا جو اللہ کو پسند ہے اور جو چیز اللہ کو ناپسند ہے اس کو وہ سننا پسند نہیں کرے گا۔ اسی طرح فرمایا کہ میں اس کی بینائی بن جائوں گا‘ یعنی میری نگاہوں سے وہ ہر چیز دیکھے گا۔ اللہ کی نگاہ میں اگر کوئی چیز بری ہے تو اس کی نگاہ میں بھی وہ بری ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی چیز اچھی ہے تو اس کی نگاہ میں بھی وہ اچھی ہوگی۔ جس آدمی کو وہ چیز مرغوب ہے جو اللہ کو ناپسند ہے‘اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی اللہ تعالیٰ سے ضد ہے۔ جسے اللہ پسند کرتا ہے وہ اسے ناپسند کرتاہے۔ جسے اللہ ناپسند کرتا ہے اسے وہ پسند کرتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی نگاہ اور اللہ کی نگاہ یکساں نہیں ہے۔ اسی طرح ہاتھ اور پائوں بننے کا معاملہ ہے کہ یہ وہی کریں گے اور اسی راہ پر چلیں گے جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہوگی۔
اس کے بعد فرمایا کہ بندہ مجھ سے مانگے گا تو میں اس کو دوں گا‘ وہ مجھ سے پناہ مانگے گا تو میں اس کو پناہ دوں گا۔ پھر فرمایا کہ اور کوئی کام کرتے ہوئے مجھے تردد نہیں ہوتا مگر مومن کو موت دیتے ہوئے‘ جب کہ موت سے اس کو تکلیف ہو رہی ہو‘ مگر موت دیے بغیر چارہ نہیں چونکہ اس دنیا میں کوئی بھی ہمیشہ کے لیے پیدا نہیں کیا گیا۔ مومن کے لیے ہمیشہ کی زندگی آخرت میں ہے اور وہاں اس کا جانا ضروری ہے۔ اس وجہ سے موت تو میں اسے دیتا ہوں‘ مگر مجھے اپنے مومن بندے کی یہ تکلیف پسند نہیں ہے۔ یہ گویا اللہ تعالیٰ کی محبت کی انتہا ہے جو ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔
اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے قریب ہونے کے ذرائع کیا ہیں اور قریب ہونے کے ذرائع‘ یعنی فرائض اور نوافل کے ذریعے کس طرح قرب الٰہی حاصل ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں جب بندہ اللہ کا محبوب بن جاتا ہے تو پھر اس کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔
(تفہیم الحدیث، ج ۷‘ ص ۵۲۲-۵۲۴۔اخذ و ترتیب: اسامہ مراد)
تزکیہ کے لفظ کی بنیاد ’زک ۃ‘ ہیں۔اسی سے لفظ زکوٰۃ بھی ہے جس کے معنی پاک صاف کرنا‘ نشوونما دینا‘ پروان چڑھانا ہیں۔ یہ لفظ چونکہ قرآن پاک میں متعدد مرتبہ مختلف صورتوں میں وارد ہوا ہے۔ چنانچہ اس کا مفہوم ہمہ گیر اور اس کے میدان وسیع ہیں۔ کسی ایک چیز کا تزکیہ مقصود نہیں بلکہ انسانی نفس‘ افراد کا باہمی تعلق‘ خاندان کی تنظیم‘ معاشرہ‘ حیثیت‘ سماج کے رسم ورواج‘ حکومت‘سیاست‘ علوم و فنون غرض عنوانات کی ایک کہکشاں ہے جو دُور تک پھیلی ہوئی ہے اور ان سب کا تزکیہ مقصود ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہ لفظ قرآن مجید میں اکثر مقامات پر مطلقاً وارد ہوا ہے۔ چنانچہ فرمایا: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی (الاعلٰی ۸۷:۱۴)، کامیاب ہوا وہ جس نے تزکیہ کیا۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد بعثت بیان فرمائے تو چار جگہ وَیُزَکِّیْھِمْ فرمایا‘ یعنی پیغمبر انھیں پاک کرتاہے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں ذیل کی سطور میں تزکیہ کے مختلف میدانوں کی نشاندہی کی جائے گی۔
وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا o فَاَلْہَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا o قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o (الشمس۹۱:۷-۹)
اور نفس انسانی کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا‘ پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیزگاری اُس پر الہام کر دی‘ یقینا فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا۔
نفس کیا ہے۔ کیا یہ انسانی جسم کا نام ہے یا اندرونی خواہشات کو نفس سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں یہ لفظ جسمِ انسانی کے لیے بھی استعمال ہواہے‘ خواہشاتِ نفس کے لیے بھی اور ضمیر کو بھی نفسِ لوامہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ ط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۵)
اے نبی! (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ آپؐ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ آپؐ کہہ دیجیے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔
لہٰذا روح کثافت اور بُرائی سے پاک ہے۔ البتہ یہ جس جسم میں ہو اُس کی کثافت اور برائی اس پر ضرور اثرانداز ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موت کے وقت جب یہ روح کسی گناہ گار بندے کے جسم سے علیحدہ ہوتی ہے تو اُسے لعنت ملامت کرتے ہوئے جاتی ہے کہ اُس کی وجہ سے اسے اذیت اٹھانا پڑی۔
دوسری طرف جسم تین چیزوں سے عبارت ہے: عقل‘ قلب‘ جوارح۔
عقلِ انسانی فکر کا مسکن ہے۔ یہ سوچ سمجھ‘ غوروفکر اور تدبر کا ذریعہ ہے۔ یہی انسانیت کے لیے وجہ شرف ہے۔ عقل ہی سے انسان مختلف نظریات کو پرکھتا ہے۔ یہیں عقائد و نظریات رہتے ہیں۔ اسی کے ذریعے انسان خیروشر‘ نیک و بد‘ اندھیرے اور اُجالے میں فرق کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے اسی عقل کا تزکیہ ضروری ہے۔ اسی کو سید مودودیؒ نے تطہیرِافکار کا نام دیا ہے۔ یہ دراصل تطہیرِعقل ہے۔
ہر دور میں شیطان سب سے پہلے انسانی عقل پر حملہ آور ہوا ہے‘ بلکہ شیطان خود سب سے پہلے اسی عقل کے فریب میں مبتلا ہوکر مردود ٹھیر چکا ہے (جب اُس نے کہا تھا کہ میں آدم سے بہتر ہوں کیونکہ مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے)۔ شیطان مسلّمہ عقائد کو مشکوک بنانے کے لیے وسوسہ اندازی کرتا ہے (یہی وجہ ہے کہ اُس کے وساوس سے پناہ مانگتے رہنے کی تلقین کی گئی ہے)۔ آج پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک‘ مشنری ادارے ہوں یا مغربی پروردہ این جی اوز‘ یہ سب مسلمانوں کی فکر کو پراگندا کرنے کے لیے برسرِپیکار ہیں۔
تزکیۂ عقل کا پہلا مرحلہ اُن غیر اسلامی افکار اور نظریات کی تشخیص ہے جو عقل میں جڑپکڑ چکے ہیں یا جن کو شیطان اپنے آلہ کاروں کے ذریعے پوری قوت سے پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے اور پھر دلائل و براہین کی بنیاد پر صالح عقائد کو اس فکر میں بٹھانا‘ تزکیہ کا دوسرا مرحلہ ہے۔ ان دونوں مراحل کے لیے قرآن پاک سے زندہ تعلق‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور آپؐ کی پاکیزہ سنت اور سیرت سے اٹوٹ رابطہ اور ان دونوں مآخذ کی بنیاد پر وجود میںآنے والے لٹریچر سے تعلق بہت ضروری ہے۔ اور صرف یہی نہیں کہ صرف ایک بار چند چیزوں کامطالعہ کرنے سے بات بن جائے بلکہ جب تک جسم اور سانس کا رشتہ استوار و برقرار رہے۔ یہ مطالعہ برابرجاری رہے تو توقع ہے کہ کسی نہ کسی درجے میں تزکیۂ عقل کی منزل ہاتھ آجائے۔
قلب جذبات کا مرکز ہے۔ اس کے اندر محبت‘ خوف‘ رجا‘ رشک‘ بُغض اور نفرت جیسے جذبات جنم لیتے رہتے ہیں۔ تزکیۂ قلب یہ ہے کہ انسان دل میں پنپنے والے جذبات کا مسلسل جائزہ لیتا رہے۔ محبت کا جائزہ لے کہ دل میں محبت کی کیفیت کیاہے۔ کیا اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت غالب ہے یا دنیا کی؟قرآن پاک میں ارشاد باری ہے:
قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ ط (التوبہ ۹:۲۴)
اے نبی! (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ‘ اور تمھارے بیٹے‘ اور تمھارے بھائی‘ اور تمھاری بیویاں‘ اور تمھارے عزیز واقارب‘ اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں‘ اور تمھارے وہ کاروبار‘ جن کے ماند پڑجانے کاتم کو خوف ہے‘ اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں‘ تم کو اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اُس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے۔
یہی معاملہ خوف کا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں صراحت کے ساتھ اس کا ذکر ہے۔ فرمایا: فَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْہُ (التوبہ ۹:۱۳)’’تو اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ تم اس سے ڈرو‘‘۔ دل میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا خوف اہلِ علم کی نشانی اور دانائی کی دلیل ہے۔ فرمایا: اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا ط (فاطر ۳۵:۲۸) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: راس الحکمۃ مخافۃ اللّٰہ ، ’’دانائی کا بلند ترین مقام اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا خوف ہے‘‘۔ لہٰذا بندہ مومن کے دل میں جہاں اللہ کا خوف ہوگا وہیں اُس کا دل مخلوقات کے خوف سے خالی ہوگا کیونکہ یہ دونوں خوف ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ ایسا ہی حال قلب کے اندر جاگزیں دیگر جذبات کا بھی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:
جس نے محض اللہ کی خاطر محبت کی اور اللہ ہی کی خاطر (کسی سے) نفرت کی‘ اللہ ہی کے لیے (کسی کو) کچھ دیا اور اللہ ہی کی خاطر (کسی سے) کچھ روکا‘ تو اُس کا ایمان مکمل ہوگیا۔
جسم کی ظاہری حالت‘ ہاتھ اور پائوں‘ آنکھیں اور کان اور زبان بھی مسئول ہیں۔ اِن سے صادر شدہ اعمال کی بابت سوال کیا جائے گا بلکہ قیامت کے دن جب منہ پر مہر لگا دی جائے گی تو یہ اعضا خود اپنے جسم کے خلاف گواہی دیں گے۔ چنانچہ جوارح کا تزکیہ بھی ضروری بلکہ ناگزیر ہے۔ زبان کا تزکیہ یہ ہے کہ اس سے خلافِ حق بات نہ نکلے۔ کوئی جھوٹ‘ جھوٹی گواہی‘ بہتان‘ غیبت یا فساد کی بات برآمد نہ ہو۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہے تو یہی زبان جہنم میں لے جانے کا باعث بنے گی۔ یہی حال آنکھوں اور کانوں کا ہے۔ اللہ تعالیٰ آنکھوں کی خیانت سے باخبر ہے بلکہ یہ آنکھیں خود اس خیانت پر شاہد ہیں۔ کان جو کچھ سنتے ہیں اُس کی گواہی دیں گے۔ قرآن پاک میں دو مرتبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی محافل میں بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی آیات کا مذاق اُڑایا جاتا ہو‘ یعنی ایسی بات کا سننا بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو گوارا نہیں۔
تزکیہ کا دوسرا اہم میدان گھر اُس کا ماحول اور اُس کے مکین ہیں۔ انسان اپنے اردگرد کے ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ ماحول ہی انسان کے بنائو اور بگاڑ میں کلیدی کردارادا کرتا ہے۔ چنانچہ گھر کے ماحول کو درست رکھنا گھر کے سربراہ کی ذمہ داری ہے۔ گھر کے افراد کی تعلیم و تربیت‘ بچوں اور بڑوں میں قرآن فہمی کے لیے رغبت و مسابقت‘ نمازوں کی حفاظت‘ حلال و حرام کے حوالے سے گھر کے مکینوں پر خصوصی توجہ‘ ٹیلی ویژن‘ اخبارات‘ رسائل اور دیگر اشاعتی مواد کی مسلسل نگرانی۔ اِن سب چیزوں سے گھر کا ماحول بنتا ہے۔ بچہ اپنے گھر سے ہی سادگی‘ قناعت اور توکل کے اسباق سیکھتا ہے اور یہیں سے تعیّش و آسایش کا خوگر بنتاہے۔
قرآن پاک نے بہت شروع میں آپؐ کو یہ تاکید کی: وَاَنْذِر عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ (الشعراء ۲۶:۲۱۴) اور اے نبی! (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو (قیامت سے) ڈرائو۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اُس سے اُس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔
گھر میں بتائے جانے والے رسم و رواج‘ نشست و برخاست کے معمولات‘ لباس کا انتخاب (خصوصاً والدین کے لیے) آمدن کے ذرائع‘ خرچ کی مدّات‘ آپس کے تعلقات‘ والدین کے حقوق‘ صلۂ رحمی‘ اولاد کی تربیت‘خواتین سے سلوک‘ غرض گھر کی دنیا ایک بحرِ ناپیداکنار ہے اور ہر پہلو سے اس ماحول اور اس کے مکینوں کا تزکیہ شریعت کا عین تقاضا ہے۔
معاشرے کا تزکیہ
گھر معاشرے کا ایک یونٹ ہے۔ معاشرے کے اندر تزکیے کا عمل ہمہ جہت بھی ہے اور ہمہ وقتی اور پیہم جدوجہد کا متقاضی بھی۔ معاشرے میں نیکی پھلے اور برائی کی جڑ کٹ جائے۔ معیشت تمام مفاسد سے پاک کر دی جائے اور معاشرت کو جو عوارض لاحق ہیں اُن کا علاج کر دیا جائے اور سیاست کو تزکیے کے عمل سے گزار کر مجلّٰی و مصفّٰی کر دیاجائے تو وہ معاشرہ وجود میں آتا ہے جسے قرنِ اوّل کے مثالی اسلامی معاشرے سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے۔
تزکیہ کا دشمن
اس ضمن میں ایک بات یاد رکھنی چاہیے اور وہ یہ کہ تزکیہ کے اس سارے عمل کا دشمن شیطان ہے جو یہ قسم کھائے بیٹھا ہے کہ وہ انسانوں کو ضرور گمراہ کرے گا اور اس دنیا اور آخرت میں اُنھیں رسوا کرے گا۔ چنانچہ جب تزکیے کا عمل فرد تک محدود ہو تو شیطان بھی انفرادی طور پر حملہ آور رہتا ہے۔ لیکن جب یہ عمل معاشرے تک پھیل جائے اور کچھ لوگ مل کر یہ کام کرنا شروع کر دیں تو شیطان بھی اُن کے مقابل میں جمعیت فراہم کرنا شروع کر دیتا ہے۔ افراد کے مقابلے میں افراد لاتا ہے۔ وسائل کے مقابلے میں وسائل پیش کرتا ہے۔ قوت کے مقابلے میں قوت سے کام لیتا ہے اور پوری کوشش کرتا ہے کہ حق غالب ہونے نہ پائے‘ معاشرے کا تزکیہ نہ ہوسکے۔ چنانچہ اس مقابلے میں اہل ایمان اُسی وقت کامیاب ٹھیرسکتے ہیں جب کہ وہ اس مشن کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیں‘ منظم ہوں اور جو کچھ اُنھیں میسر آئے اس راہ میں لگا دیں پھر اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ شیطان کی تدبیروں کو اُلٹ دے گا اور اُس کے وسائل اُس کے کچھ کام نہ آسکیں گے۔
تزکیہ کے ذرائع
تزکیے کے اس ہمہ جہت پروگرام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے جو ذرائع و وسائل بتائے گئے ہیں وہ بھی بہت ہی عظیم الشان ہیں۔ فرمایا:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی o وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی o بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا o وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی o (الاعلٰی۸۷:۱۴-۱۷)
فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اوراپنے رب کا نام یاد کیا‘ پھر نماز پڑھی۔ مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو‘ حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔
ان آیات میں چار چیزوں کی نشان دہی فرمائی گئی۔ ان میں سے دو یعنی ذکر اورنماز تو وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے یہ منزل حاصل کی جا سکتی ہے‘ جب کہ بقیہ دو میں سے ایک یعنی حقیقی کامیابی کا تصور اُجاگر کیا اوردوسرے تزکیے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یعنی دنیا پرستی کا ذکر کیا گیا۔ ذیل میں اِن تمام امور پر غور کیا جائے گا۔
ذکـر
ذکر کے معنی یاد کرنے کے بھی‘یاد رکھنے کے بھی اور نصیحت اور یاد دہانی کو بھی ذکر کہتے ہیں۔ اسی نسبت سے آپؐ کو مُذَکِّر کہا گیا۔ فرمایا: جس نے رب کے نام کو یاد رکھا‘ یعنی جس نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اسماے حسنیٰ کی معرفت حاصل کی وہ تزکیہ کی اِس منزل کو حاصل کرلے گا۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ اِنھی اسماے حسنیٰ کا ذکر موجود ہے۔ جب بندہ یہ علم حاصل کرتا ہے کہ اُس کا رب رحمن ہے‘ رحیم ہے‘ کریم ہے‘ رؤف ہے‘ ودود ہے اور اِن ناموں سے اُس کی رحمت‘ شفقت‘ محبت اور کرم کا اظہار ہوتا ہے‘ تو اُس کے دل میں رب کی محبت پیدا ہوتی ہے۔ یہ صفاتِ جلیلہ بندے کے دل میں رب کی طرف رجوع‘ اُس کی رحمت کی آس‘ رجا اور اُمید کی کیفیت پیدا کردیتی ہیں۔ جب بندے کو علم ہوتا ہے کہ وہ رب عزیز ہے‘ شدید العقاب ہے‘ جبار و قہار ہے‘ مقتدر اور بادشاہِ حقیقی ہے تو اُس کے دل میں رب کا خوف اور اُس کے حضور جواب دہی کا احساس پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
بندہ جب سنتا ہے کہ اُس کا رب سمیع و بصیر ہے‘ علیم و خبیرہے تو وہ محتاط ہوجاتا ہے۔ اپنے اعمال کی برابر نگرانی شروع کر دیتا ہے۔ جب اُسے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کا رب رزّاق ہے‘ تورزق کے سلسلے میں اُس کی نگاہ مخلوقات سے ہٹ کر اُسی فاعلِ حقیقی پر جم جاتی ہیں۔ حاصل یہ کہ رب کے یہ نام رب تک پہنچنے کا بہترین ذریعہ ہیں اور تزکیے کے عمل کے لیے اکسیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
نماز
ذکر کی مکمل ترین شکل نماز ہے۔ بندہ عملی طور پر کبھی ہاتھ باندھ کر‘ کبھی رکوع کی حالت میں اور کبھی سجدے میں سرجھکا کر بندگی کا اظہار کرتا ہے۔ اسماے حسنیٰ کا ورد کرکے رب کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ دُعا و مناجات کر کے رب سے تعلق اُستوار کرتا ہے۔ چنانچہ تزکیہ کے عمل کو برابر جاری رکھنے اور اس میں ہر دم اضافے کے لیے نماز سے بہتر اور کارگر نسخہ کوئی اور نہیں۔
نماز ہی کے عمل میں دو اور اشارے بھی پوشیدہ ہیں۔ ایک یہ کہ نماز مسلمان پر ساری زندگی فرض ہے۔ سواے جنون اور بے ہوشی کے یہ فرض کبھی ساقط نہیں ہوتا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تزکیے کا عمل بھی موت کی آخری ہچکی تک جاری رہنا چاہیے۔ دوسرا اشارہ یہ کہ نماز کی اصل روح اس کی اجتماعی شان ہے۔ نماز باجماعت‘ امام کی اطاعت اور بے مثال تنظیم یہ پیغام ہے کہ معاشرے میں تزکیے کا عمل کرنے کے لیے جس بے مثال اجتماعیت‘ مثالی تنظیم اور فداکاری کی ضرورت ہے۔ اُس کی نظیر نماز میں تمھارے لیے موجود ہے۔
قرآن پاک کا ارشاد ہے:
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَـنْھٰی عَـنِ الْفَحْشَـآئِ وَالْمُنْکَـرِ ط وَلَذِکْـرُ اللّٰہِ اَکْـــبَرُ ط (العنکبوت ۲۹:۴۵)
یقینا نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کو قلعہ سے تشبیہہ دی ہے جس میں انسان دشمن سے پناہ لیتا ہے۔ چنانچہ شیطان کے حملوں سے بچائو کے لیے ذکر اور نماز بہترین ہتھیار ہیں۔
تزکیے کا نبویؐ اسلوب
’’اب دیکھیے کہ اس مقصد کی تکمیل کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کس ترتیب و تدریج کے ساتھ کام کیا: ’’سب سے پہلے آپ نے ایمان کی دعوت دی اور اس کو وسیع ترین بنیادوں پر پختہ و مستحکم فرمایا۔ پھر اس ایمان کے مقتضیات کے مطابق بتدریج اپنی تعلیم و تربیت کے ذریعے سے اہلِ ایمان میں عملی اطاعت و فرماں برداری (یعنی اسلام)‘ اخلاقی طہارت (یعنی تقویٰ) اور خدا کی گہری محبت و وفاداری (یعنی احسان) کے اوصاف پیدا کیے۔ پھر ان مخلص مومنوں کی منظم سعی و جہد سے قدیم جاہلیت کے فاسد نظام کو ہٹانا اور اس کی جگہ قانونِ خداوندی کے اخلاقی و تمدنی اصولوں پر ایک نظامِ صالح قائم کرنا شروع کردیا۔ اس طرح جب یہ لوگ اپنے دل و دماغ‘ نفس وا خلاق‘ افکار و اعمال‘ جملہ حیثیات سے واقعی مسلم‘ متقی اور محسن بن گئے اور اس کام میں لگ گئے جو اللہ تعالیٰ کے وفاداروں کو کرنا چاہیے تھا‘ تب آپ نے ان کو بتانا شروع کیا کہ وضع قطع‘ لباس‘ کھانے پینے‘ رہنے سہنے‘ اٹھنے بیٹھنے اور دوسرے ظاہری برتائو میں وہ مہذب آداب و اطوار کون سے ہیں جو متقیوں کو زیب دیتے ہیں۔ گویا پہلے مِسِ خام کو کندن بنایا پھر اس پر اشرفی کا ٹھپہ لگایا۔ پہلے سپاہی تیار کیے پھر انھیں وردی پہنائی۔ یہی اس کام کی صحیح ترتیب ہے جو قرآن و حدیث کے غائر مطالعے سے صاف نظر آتی ہے۔ اگر اتباعِ سنت نام ہے اس طرزِعمل کا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی مرضی پوری کرنے کے لیے ہدایت ِالٰہی کے تحت اختیار کیا تھا‘ تو یقینا یہ سنت کی پیروی نہیں بلکہ اس کی خلاف ورزی ہے کہ حقیقی مومن‘ مسلم‘ متقی اور محسن بنائے بغیر لوگوں کو متقیوں کے ظاہری سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جائے اور محسنین کے سے چند مشہور ومقبول عام افعال کی نقل اتروائی جائے۔ یہ سیسے اور تانبے کے ٹکڑوں پر اشرفی کا ٹھپہ لگا کر بازار میں ان کو چلا دینا‘ اور سپاہیت‘ وفاداری اور جاں نثاری پیدا کیے بغیر نرے وردی پوش نمایشی سپاہیوں کو میدان میں لاکھڑا کرنا‘ میرے نزدیک تو ایک کھلی ہوئی جعل سازی ہے‘ اور اسی جعل سازی کا نتیجہ ہے کہ نہ بازار میں آپ کی ان جعلی اشرفیوں کی کوئی قیمت اٹھتی ہے اور نہ میدان میں آپ کے ان نمایشی سپاہیوں کی بھیڑ سے کوئی معرکہ سر ہوتا ہے…
میری اس گزارش کو یہ معنی نہ پہنایئے کہ میں ظاہری محاسن کی نفی کرنا چاہتا ہوں‘ یا ان احکام کی تعمیل کو غیرضروری قرار دے رہا ہوں جو زندگی کے ظاہری پہلوئوں کی اصلاح و درستی کے متعلق دیے گئے ہیں۔ درحقیقت میں تو اس کا قائل ہوں کہ بندۂ مومن کو ہر اس حکم کی تعمیل کرنی چاہیے جو خدا اور رسولؐ نے دیا ہو‘ اور یہ بھی مانتا ہوں کہ دین انسان کے باطن اور ظاہر دونوں کو درست کرنا چاہتا ہے لیکن جو چیز میں آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مقدم چیز باطن ہے نہ کہ ظاہر۔ پہلے باطن میں حقیقت کا جوہر پیدا کرنے کی فکر کیجیے‘ پھر ظاہر کو حقیقت کے مطابق ڈھالیے۔ آپ کو سب سے بڑھ کر اور سب سے پہلے ان اوصاف کی طرف توجہ کرنی چاہیے جو اللہ کے ہاں اصلی قدر کے مستحق ہیں اور جنھیں نشوونما دینا انبیا علیہم السلام کی بعثت کا اصلی مقصود تھا۔ ظاہر کی آراستگی اوّل تو ان اوصاف کے نتیجے میں فطرتاً خود ہی ہوتی چلی جائے گی اور اگر اس میں کچھ کسر رہ جائے تو تکمیلی مراحل میں اس کا اہتمام بھی کیا جا سکتا ہے‘‘۔ (روداد جماعت اسلامی‘ سوم‘ ص ۲۵۴-۲۵۵)
تزکیے کی راہ میں بڑی رکاوٹ
تزکیہ چاہے نفس کا ہو‘ یعنی عقل و قلب کا یا جوارح کا‘ یا یہ تزکیہ خاندان‘ گھر‘ معاشرے‘ معیشت یا سیاست کا ہو‘ ہر محاذ پر اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہی ہے جس کا قرآن نے جابجا ذکر کیا ہے۔ اسی سورۂ اعلیٰ میں فرمایا:
بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا o (الاعلٰی ۸۷:۱۶)
مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔
ایک اور جگہ فرمایا:
کَلاَّ بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ o وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ o (القیامہ ۷۵:۲۰-۲۱)
ہرگز نہیں‘ اصل بات یہ ہے کہ تم لوگ جلدی حاصل ہونے والی چیز (دنیا) سے محبت رکھتے ہو اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔
یہ انسان کا عمومی رویہ ہے جس کی نشان دہی کی گئی ہے۔ انسان جلدباز‘ ظاہربین ہے‘ دنیا کے نفع کا طالب اور اسی سے خوش ہونے والا ہے‘ جب کہ آخرت کا معاملہ آنکھوں سے اوجھل ہے۔ صلہ نقد کے بجاے اُدھار ہے (یہ اور بات ہے کہ آخرت کا صلہ بجاے خود بہتر اور دینے والا سب سے زیادہ بااعتماد اور سچا ہے)۔
اسی لیے انسان اِس طرف زیادہ راغب نہیں ہوتا۔ اس لحاظ سے اگر قرآن پاک کا مطالعہ کیا جائے تو کم از کم ایک تہائی قرآن آخرت کے ذکر پر مشتمل ہے۔ گویا جب تک یہ عقیدہ بندۂ مومن کے قلب و ذہن میں اچھی طرح راسخ نہیں ہوتا اس کے لیے دین کی راہ پر ایک قدم بھی چلنا دشوار ہے اور دین کا کوئی ایک مطالبہ بھی پورا کرنا اس کے لیے مشکل ہے۔ اسی حقیقت کی طرف قرآن پاک میں یوں اشارہ کیا گیا:
وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلاَّ عَلَی الْخٰشِعِیْنَ o الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّھِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo (البقرہ ۲:۴۵-۴۶)
صبر اور نماز سے مدد لو‘ بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے‘ مگر اُن فرماں بردار بندوں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخرکار انھیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ بعض اوقات دین دار افراد بھی فکرِآخرت کا تصور پختہ نہ ہونے کی وجہ سے دنیاپرستی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنے نیک اعمال دنیا کے سستے بھائو بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات نیک اعمال صرف اسی غرض سے کیے جاتے ہیں کہ اُن کے ذریعے ذرا سا دنیاوی فائدہ مل سکے۔ کسی کو چند روپے خیرات دے کر مقصد میںکامیاب ہونے کی دُعا کرائی جاتی ہے۔ کہیں قرآن پڑھ کر مقدمہ میں کامیابی کی تمنا کی جاتی ہے حالانکہ مومن نیک اعمال آخرت میں ثواب کے حصول اور رب کی رضا اور خوشنودی کی نیت سے کرتا ہے۔ ہاں البتہ اس دنیا میں پیش آنے والے مسائل و مشکلات پر اُس سے رجوع کرتا ہے۔ اُسی سے مدد طلب کرتا ہے اور سخت وقت میں صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
شیطان بار بار انسان کو دنیا کے فریب میں اُلجھانے کی کوشش کرتا ہے اسی وجہ سے مشرکینِ مکہ سب سے زیادہ اعتراض موت کے بعد زندگی اور آخرت کے دیگر مراحل پر کیا کرتے تھے۔ طرح طرح کی کٹ حجتیاں کرتے‘ کج بحثیاں کرتے‘ ٹھٹھہ اور مذاق کرتے کہ جو ہڈیاں بوسیدہ ہوکر چورہ چورہ ہوجائیں گی اُنھیں کیسے دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اُتنے ہی زور سے بار بار قرآن انسان کو آفاق و انفس سے دلائل دے کر یہ بات باور کراتا ہے کہ یہ دنیا کی زندگی عارضی ہے۔ سب انسانوں کوکیا ‘جان داروں کو مرنا ہے۔ پھر وہ جنات اور انسانوں کو دوبارہ اٹھائے گا اور اُن سے اُن کے اعمال کا حساب لے گا۔
فلاح کا تصور
تزکیے کا یہ عمل مسلسل جاری نہیں رہ سکتا جب تک انسان کی نظر میں کامیابی اور فلاح کا تصور درست نہ ہو۔ ہر شخص اپنے ذہن میں کامیابی کا کوئی نہ کوئی تصور ضرور رکھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ تصور محدود اور مبہم ہو یا واضح اور مکمل۔ کسی کی نگاہ میں دو وقت کی روٹی کا حصول بڑی کامیابی ہے۔ کسی کی نظر میں وزارت اور صدارت معیار ہے اور کسی کے ہاں ڈگریاں اور تعلیمی اسناد وہ حد ہے جہاں تک پہنچنا کامیابی ہے۔ جب ہم یہ سوال لے کر قرآن وسنت کی طرف رجوع کرتے ہیں تو وہاں کامیابی اور ناکامی کا ایک الگ مگر واضح تصور موجود ہے۔ ہر مومن کے دل و دماغ میں یہ تصور جب تک راسخ نہ ہوگا تزکیے کی منزل ہاتھ آنا مشکل ہے۔
ایک طرف تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن پاک میں جگہ جگہ دنیا کی حقیقت کھول کر بیان فرما دی‘ فرمایا:لَا یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلَادِ o مَتَاعٌ قَلِیْلٌ قف ثُمَّ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِھَادُ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۶-۱۹۷) ’’اے نبی! (صلی اللہ علیہ وسلم) دنیا کے ملکوں میں خدا کے نافرمان لوگوں کی چلت پھرت تمھیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے۔ یہ محض چند روزہ زندگی کا تھوڑا سا لطف ہے‘ پھر یہ سب جہنم میں جائیں گے جو بدترین جاے قرار ہے‘‘۔ اور دوسری طرف فرمایا: فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ ط (اٰل عمرٰن۳:۱۸۵) ’’کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاںآتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے‘‘۔ چنانچہ اس کامیابی کے تصور میں ایک جہدِمسلسل بھی ہے‘ لگن اور چاہت بھی ہے اور اچھا انجام بھی۔ یہی وہ کامیابی ہے جس کے لیے انسان کو اپنے جان اور مال کی بازی لگادینی چاہیے۔
_____________
جہاد اسلام کی ان تعلیمات میں سے ہے جسے مغرب ہی نہیں خود مسلمانوں میں سے بعض افراد نے ہر دور میں عصری تقاضوں کے پیش نظر تعبیر کی چھلنی سے گزارنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی‘ اور اس کی ایسی ایسی نادر تعبیرات پیش کیں جو شاید قرنِ اول کے کسی مجتہد کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوں گی۔ ان خدشات‘ غلط فہمیوں‘ فکری غلطیوں اور اندیشوں میں سب سے نمایاں پہلو جہاد کو ’غارت گری‘ کے تصور کے ساتھ پیش کرنا ہے جسے گذشتہ دو عشروں میں عملی سطح پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔
یورپی کلیسا نے صدیوں قبل (۱۰۹۱ئ-۱۲۹۱ئ) مسلمانوں اور یہودیوں کو تلوار کے ذریعے عیسائی بنانے کے لیے جن صلیبی جنگوں کا آغاز کیا تھا‘ ان کی تمام غارت گری کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے دورِ جدید کے اکثر مستشرقین‘ قرآن کے تصورِ جہاد کو معروضی تحقیق و تقابل کے بغیر بیک جنبش قلم قوت کے اندھے استعمال‘ تشدد اور غارت گری سے تعبیر کربیٹھتے ہیں اور پھر تخیل کے زور پر وضع کردہ ان تعبیرات کو اتنی تکرار کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے کہ نہ صرف عامۃ الناس بلکہ غیرمسلم اور مسلم دانش ور بھی‘ بغیر ضمیر کی کسی خلش کے اکثر ان ہوائیوں پر ایمان لے آتے ہیں۔ علمی حلقوں میں اس تصور کے دو واضح ردعمل سامنے آتے ہیں:
پہلے ردعمل کا تعلق ذہنی مرعوبیت سے ہے جس میں بار بار دہرائی ہوئی ایک بات سے متاثر ہوکر معذرت پسندانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے‘ اور جہادو قتال کو ماضی کی ایک روایت قرار دیتے ہوئے اپنی ’روشن خیالی‘ کا ڈھنڈورا پیٹ کر یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم تو اصل میں بہت امن پسند بلکہ ’اہنسا‘ کے علم بردار ہیں۔ ہم ایک چیونٹی کے مارنے کو بھی حیوانی حقوق کی پامالی سمجھتے ہیں۔ اسلحے کا استعمال صرف اپنے دفاع کے لیے جائز سمجھتے ہیں۔ اگر کسی خطے میں انسانوں کے حقوق پامال ہو رہے ہوں‘ ان کا خون ناحق بہایا جا رہا ہو‘ انھیں مستضعفین فی الارض بنا دیا گیا ہو تو یہ ان کا مسئلہ ہے۔ ہم زیادہ سے زیادہ ان کے لیے صرف دعا کرسکتے ہیں۔ ان کی امداد اور انھیں ظلم سے نجات دلانا ہمارا نہیں بلکہ خالقِ کائنات کا مسئلہ ہے!
دوسرا ردعمل یہ سامنے آتا ہے کہ اسلام تو نام ہی مشرکین اور کافرین سے زمین کو پاک کرنے کا ہے۔ اس لیے انھیں جہاں پایا جائے بلاتکلف قتل کر دیا جائے۔ اس نوعیت کی نادر تعبیرات کو عموم کا درجہ دے کر ان پر ایک عالی شان تصوراتی محل تعمیر کر دینا زمینی حقائق اور علمی نظائر کے ساتھ ایک صریح زیادتی ہے۔
مغرب کی اصل ذھنی الجہن
کیا قرآن کا دیا ہوا تصورِ جہاد ہر دور میں تبدیل ہوتا رہا ہے؟ یہ ایک تحقیق طلب سوال ہے۔ لیکن اس پر غور کرنے سے قبل ہمیں یہ تعین کرنا ہوگا کہ معاصر مغربی مستشرقین کی اصل ذہنی الجھن کیا ہے۔ اس سلسلے میں چند سوالات‘ جنھیں وہ بار بار اٹھاتے ہیں‘ یہ ہیں:
۱- کیا اسلام قتل و غارت گری اور سوچے سمجھے تشدد (organized use of violence) کی اخلاقی اور قانونی توثیق کرتا ہے؟
۲- کیا اسلام‘ جہاد کو جنگِ مقدس (Holy War)کا درجہ دیتا ہے؟
۳- کیا جہاد کا مقصد سیاسی توسیع ہے اور یہ محض ریاست کی حدود بڑھانے کے لیے کیا جاتا ہے؟
۴- کیا اسلام اور قوت و تشدد کے استعمال میں کوئی منطقی اور فکری تعلق ہے؟
۵- کیا جہاد کا مقصد مسلم دنیا اور غیرمسلم دنیا پر شریعت کو مسلط (impose) کرنا ہے؟
۶- کیا جہاد جنت کے حصول کا آسان‘ مختصر اور یقینی راستہ ہے؟
۷- کیا اسلام‘ بڑے پیمانے پر انسانی تباہی کے آلات (WMD) کو مباح قرار دیتا ہے؟
یہ چند بنیادی سوالات ہیں جن کو معاصر مغربی مستشرقین کی تحریروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔
آغاز ہی میں یہ بات واضح کر دینا ضروری ہے کہ قرآن کریم کوئی جامد قوانین کی دستاویز نہیں ہے بلکہ یہ تین واضح انواع پر مشتمل ہے‘ یعنی احکام‘ اصول اور تعلیمات و ہدایات۔ جہاں تک احکام کا تعلق ہے وہ متعین ہیں جن میں حدود‘ معاملات اور عبادات کے حوالے سے تشریح کردی گئی ہے۔ یہ احکام قرآن کریم میں موجود بعض اصولوں پر مبنی ہیں‘ مثلاً: قصاص کے حکم کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ انسانی جان کا بچانا اصل ہے اور جو اسے ضائع کرے اس کی تعزیر اور دوسروں کی تعلیم کے لیے جان کے بدلے جان لی جائے گی۔ لیکن احکام کے ساتھ بعض اوقات تعلیم کوحکم سے ملحق اور بعض اوقات الگ بیان کر دیا گیا۔ مثلاً قتل کے حوالے سے نص کو بیان کرتے ہوئے تعلیم دے دی گئی ہے کہ اگر ایک متاثر خاندان قاتل کو معاف کر دے تو بڑے اجر کی بات ہے یا خون بہا وصول کرلے تو یہ اس کا حق ہے۔ لیکن اگر وہ اس کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے حق پر اصرار کرے اور قانونی اداروں کے ذریعے قاتل کی جان بدلے میں لینے پر قائم رہے تو یہ بھی قانونی روایت کے مطابق ہوگا۔ اس لیے بعض مغربی اور بعض مسلم مستشرقین کا یہ کہنا کہ اسلام میں precepts‘یعنی مستند قانون و ضابطے کی کمی ہے‘ قرآن شناسی سے ناواقفیت کی ایک علامت ہے۔
انسانی جان کے احترام اور تحفظ و بقا کو فقہاے اسلام نے شریعت کا پہلا مقصد قرار دیا ہے اور قرآن کریم نے متعد مقامات پر یہ بات بیان کی ہے کہ جس نے ایک انسانی جان کو ناحق ضائع کیا اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کر دیا اور جس نے کسی ایک انسانی جان کو بچایا‘ اس نے تمام انسانوں کو حیات بخشی۔ یہ مذہب‘ رنگ‘ نسل‘ ذات ہر قسم کی تقسیم سے بلند ہوکر تمام انسانوں کے لیے ایک ایسا اصول ہے‘ جس کا مانناکسی مسلمان کے مسلمان ہونے کی شرط ہے۔ اگر واقعی ’بنیاد پرست‘ کی تعریف یہ ہے کہ وہ اپنے دین کی کتاب کو لفظاً لفظاً مانتا ہو تو ہمیں یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں ہوسکتا کہ جو جتنا زیادہ ’بنیاد پرست‘ ہوگا وہ اتنی ہی شدت سے قرآن عظیم کے اس اصول پر کاربند ہوگا۔ ورنہ اس کے ایمان کے بارے میں سوال اٹھے گا کہ وہ قرآن کو مانے بغیر کس قسم کا مسلمان ہے۔
بلاشبہہ اس اصول کو دوٹوک انداز میں پیش کردینے کے ساتھ قرآن کریم نے یہ وضاحت بھی کر دی ہے کہ کون سا خون بہانا حق کی پیروی میں ہوگا۔ چنانچہ سورۃ الحج میں فرمایاگیا: ’’اجازت دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے‘ کیونکہ وہ مظلوم ہیں ‘اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادرہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے توخانقاہیں‘ گرجا‘ معبد اور مسجدیں‘ جن میں اللہ کاکثرت سے نام لیا جاتا ہے‘ سب مسمار کر ڈالی جائیں۔ اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے‘‘۔(الحج۲۲:۳۹-۴۰)
یہاں مغربی استعماری تصورات سے نمو پانے والی ’بلارو رعایت جنگ‘ کے تصور کے برعکس ایک نئی فکر انقلابی انداز میں پیش کی گئی ہے۔ معاملہ کسی ایک ’مذہب‘ کے ماننے والوں کے تحفظ یا کسی ایک مذہب کا دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے قوت کے استعمال کا نہیں ہے بلکہ کم از کم چار مذہبی روایات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بات فرمائی جارہی ہے کہ وہ عیسائیوں کے گرجے ہوں‘ یہودیوں کے معبد ہوں یا بدھ اوردیگر مذاہب والوں کی خانقاہیںیا مسلمانوں کی مساجد‘ ان تمام علاماتی مراکز ِعبدیت کے تحفظ‘ آزادی اور بلاروک ٹوک ان میں جاکر اپنے مسلک کے مطابق اپنے رب کویاد کرنے کے حق کا دفاع جہاد کا بنیادی مقصد ہے۔ یہ وہ انقلابی تصور ہے جسے ایک عیسائیت سے مرعوب ذہن اور نگاہ عموماً محسوس کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی‘ چونکہ اس کا بنیادی ذہنی ڈھانچہ کاغذی سطح پر: ’کفارہ، نجات، تلافی اور وقار‘ کے شہتیروں سے تعمیر ہوتا ہے‘ اس لیے وہ اسلام میں بھی ان تصورات کے متبادل نظریات کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔
سورۃ الحج کی مندرجہ بالا آیت سے جو اصول نکلتا ہے وہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے مقاماتِ عبادت‘ ان کی ثقافت و تہذیبی زندگی کے تحفظ کے لیے مسلمانوں کو جہاد کی اجازت دیتا ہے۔ اس سے زیادہ حقوقِ انسانی کا احترام اور دیگر مذاہب کے ساتھ رواداری کا طرزِعمل نہ تو عیسائیت نے آج تک پیش کیا ہے اور نہ کسی اور مغربی یا مشرقی مذہب نے۔ یہی سبب ہے کہ قرآن جہاد کو ایک فریضہ قرار دیتا ہے۔ اگر جہاد کے وسیع تر تصور کو‘ جس کا ایک پہلواُوپر پیش کیا گیا‘ دین سے خارج یا معطل یا ملتوی کر دیا جائے تو پھر بین المذہبی رواداری اور دینی و ثقافتی حریت کے اصول کو بھی خیرباد کہنا ہوگا۔
جہاد کی تمام تر فرضیت و اہمیت کے باوجود قرآن وحدیث نے اس کے لیے جواصطلاح استعمال کی وہ ’اپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میںانتہائی کوشش‘ کی ہے۔ اسلامی تاریخ میں کوئی ایک مثال ایسی نہیں ملتی جب کسی فقیہ یا مفسر و محدث نے جہاد کے لیے Holy War‘ یعنی حرب المقدس ’مقدس جنگ‘ کی اصطلاح استعمال کی ہو۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مقالہ نگار نے اس تصور کو خالصتاً عیسائیت سے منسوب کیا ہے اور بتایا ہے کہ پاپاے روم نے یہودیوں اور مسلمانوں کو قوت کے استعمال کے ذریعے عیسائی بنانے کے لیے تمام عیسائیوں کوحروب الصلیبی کے عنوان سے جمع کیا اور یہی صلیبی جنگیں (Holy Wars)کہلائیں۔(Macropedia‘شکاگو‘ والیم ۵‘ ۱۹۷۴ئ‘ص ۲۹۷-۳۱۰)
اسلام کے قانونِ صلح و جنگ میں کسی مقدس جنگ کا تصور نہ پہلے تھا نہ آج پایا جاتا ہے۔ چونکہ اسلام زندگی کو لادینی اور دینی خانوں میں تقسیم نہیں کرتا‘ اس لیے اس کی جنگ ہو یا رزقِ حلال کا حصول‘ شعروشاعری ہو یا صنعت وحرفت‘ ہر سرگرمی کا مقصد اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے بچنا ہے۔ اس لیے دین کا دائرۂ کار اور لادینی اعمال کا دائرۂ کار الگ الگ نہیں ہے۔ مغربی تعلیم یافتہ ذہن اور خود مغرب کا مادہ پرست تہذیب کا پیدا کردہ ذہن چوں کہ اسلام کو یورپی مذہبی عینک سے دیکھتا ہے اس لیے مسجد جانے کو مذہبی سرگرمی‘ جب کہ کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرنے کو سیکولر اور پیشہ ورانہ سرگرمی قرار دیتا ہے۔ یہ تقسیم اسلام کے لیے اجنبی ہے۔ اگرچہ بہت سے مسلمان صدیوں سے اس پر عمل کرتے چلے آرہے ہیں اور اپنے خیال میں کمالِ مہارت سے ’دین ودنیا‘ میں توازن پیدا کرکے بیک وقت مسجد جاکر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو اور کاروبار کے دائرے میں سرمایہ داری کے دیوتا کو خوش رکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ قرآن کریم نے جب یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا بہت سے الٰہ بہتر ہیں یا ایک اللہ وحدہٗ لاشریک‘ کیا بہت سے حاکمین بہتر ہیں یا حکم صرف اللہ کے لیے ہونا بہتر ہے‘ تو اس سوال کا اصل مقصد اس تقسیم کو بنیاد سے اُکھاڑ پھینکنا تھا۔ ہم یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام میں holy warیا’مقدس جنگ‘کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ یہ بنیادی طور پر ایک عیسائی تصور ہے جسے اسلام پر چسپاں کرنا قرآن وسنت کی تعلیمات کی روح کے منافی ہے۔
قرآن کریم نے جہاد کا مقصد ظلم و تعدی‘ ناانصافی‘ فتنہ و فساد‘ قتل و غارت اور بدامنی کو دُور کرنا قرار دیا ہے کیوں کہ قرآن کی نگاہ میں فتنہ قتل سے زیادہ شدید ہے۔ جب تک کسی معاشرے سے ظلم و ناانصافی دُور نہ ہو وہاں عدل کا قیام نہیں ہو سکتا۔ جہاد فی الحقیقت معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی عدل کے قیام کا ذریعہ ہے۔ جہاں ضرورت ہو یہ جہاد قلم سے ہوگا اور جہاں ضرورت پیش آئے اسلحے سے ہوگا۔ کہیں اس جہاد کا اسلحہ تعلیم و تربیت ہوںگے‘ کہیں جدید ترین عسکری ایجادات۔ گویا جہاد محض عسکری جدوجہد کا نام نہیں بلکہ اس مجموعی اوراجتماعی عمل کا نام ہے جو معاشرے کی اصلاح اور بقاے حیات کے لیے فاسد مادوں کو دُور کرکے فضا کو صحت مند‘ سازگار اور عدل و امن کا مرکز بنا دے۔
حقوق انسانی کی بحالی اور تحفظ اس کا ایک بنیادی محرک و مقصد ہے۔ قرآن کریم نے اس پہلو کو انتہائی واضح اور متعین الفاظ میں یوں بیان کیا ہے: ’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں۔ اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں‘ اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے‘‘۔ (النساء ۴:۷۵)
ظلم‘ استحصال اور حقوقِ انسانی کی پامالی کو دُور کرنا اسلام کی نگاہ میں ایک عظیم انسانی خدمت ہے۔ اس ظلم کا نشانہ بننے والے مسلمان ہوں یا غیرمسلم‘ اصلاحِ احوال کے لیے اہلِ ایمان پر جہاد کو فرض کردیا گیا ہے۔ گویا جہاد نہ صرف اہلِ ایمان بلکہ انسانوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ نتیجتاً ترکِ جہاد کا واضح مطلب طاغوت اور ظلم کے اہلکاروں کو مظلوموں کے خون‘ عزت اور مال سے کھیلنے کی آزادی فراہم کرنا ہوگا۔ اس حیثیت سے جہاد ایک تحفظ اور قوتِ مزاحمت (deterrence) فراہم کرتا ہے۔ اسی بنا پر قرآن نے یہ بات کہی ہے کہ تم اپنے گھوڑوں کو تیار رکھو اور اپنی قوت و اتحاد کو اتنا مضبوط بنالو کہ ظلم و کفر کی قوتیں تمھارے سامنے سر نہ اٹھا سکیں اور بغیر کسی قوت کے استعمال کے وہ محض اس دبائو کی بنا پر اللہ کے بندوں پر زیادتی سے باز رہیں۔
’جہاد‘ اور ’قتال‘ کی اصطلاحات اور ان کے قرآن کریم میں استعمال سے ناواقفیت کی بنا پر ان دونوں اصطلاحات کو تشدد‘ غارت گری اور انتہاپسندی سے وابستہ کر کے بعض عمومی نتائج نکال لیے گئے ہیں۔ انھیں اس کثرت سے ابلاغی ذرائع‘ علمی تحریرات اور سیاسی بیانات میں نشر کیا جا رہا ہے کہ وہ سادہ لوح افراد بھی جو قرآن سے کچھ واقفیت رکھتے ہوں ان تعبیرات کو سن کر معذرت پسندانہ رویہ اختیار کرلیتے ہیں اور جہاد کو دفاعی جنگ قرار دے دیتے ہیں۔ حالانکہ قرآن وسنت نے امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور فتنہ و فساد اور ظلم کو رفع کرنے کے لیے جہاد کو ایک فریضہ قرار دیا ہے۔ گویا یہ ایک ردِعمل پر مبنی جوابی (reactive) حکمت عملی نہیں ہے بلکہ ایک مثبت عمل کی مثبت (pro-active) تعلیم ہے‘ جس کا مقصد معاشرے میں امن کا قیام‘ عدل کی سربلندی اور بغاوت‘ سرکشی‘ عدمِ تحفظ اور ظلم کا ابطال ہے۔ یہ ایک اخلاقی اور انسانی مطالبہ ہے۔ اسی لیے مدینہ منورہ میں پہلی اسلامی ریاست کے قیام کے ساتھ ہی جو بین الاقوامی معاہدہ مسلمانوں اور یہود کے درمیان ہوا اس میں یہود نے بھی ریاست میں امن کی بقا اور بیرونی خطرے کے مقابلے کی شکل میں جہاد میں شرکت کرنے اور اخراجات میں اپنا حصہ ادا کرنے کا تحریری معاہدہ کیا تھا۔ گویا اہلِ ایمان کی طرح وہ بھی جان اور مال سے جہاد میں شرکت کے لیے آمادہ و پابند ہوئے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ یہود اور مسلمانوں کے اصولی طور پر جہاد میں شامل ہونے کا مقصد مشرکین کو بزورِ قوت مسلمان بنانا نہیں تھا بلکہ ظلم کے خلاف یک جہتی کا اظہار تھا۔
اسلام کے سیاسی کردار کو عموماً مسلح قوت کے ساتھ وابستہ کرکے ایک تصوراتی منطقی تعلق تلاش کیا جاتا ہے اور بعض مسلم ممالک کی مثال دے کر اس مفروضے کو ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ چنانچہ مصر اور الجزائر کو خصوصاً بطور مثال پیش کیا جاتا ہے کہ سادات کے قتل کا سبب مسلح بغاوت کے ذریعے اسلامی ریاست کے قیام کا خواب تھا‘ یا الجزائر میں ۹۰ کے عشرے میں جو قتل و غارت ہوا وہ مسلح قوت کے ذریعے اسلامی ریاست کے قیام کی کوشش تھی۔
اس قسم کے دعوے کرتے وقت تحقیقی دیانت کے تمام اصولوں کو نظرانداز کرتے ہوئے یہ بات فراموش کر دی جاتی ہے کہ مصری آمر انور سادات کے حوالے سے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ اور مصر اور اسرائیل کی قربت کا اس سانحے میں کیا کردار تھا‘ یا الجزائر کے بلدیاتی انتخابات میں دینی رجحان کے حامل جدید تعلیم یافتہ منتخب نمایندوں نے اعلیٰ درجے کی کامیابی کے لیے کون سا ’مسلح دستہ‘ استعمال کیا تھا۔ اس کے برعکس جب ان لوگوں کی جمہوری ذرائع سے برسرِاقتدار آنے کی امید پیدا ہوئی تو وہ ممالک جو صبح شام جمہوریت کا کورس الاپتے نہیں تھکتے اور جو خصوصاً عالمِ عرب میں جمہوریت کی درآمد کو اپنا مقدس مشن قرار دیتے ہیں‘ انھی ممالک نے بلکہ اس ملک نے بھی جو یک قطبی قوت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے‘ الجزائر میں ہونے والے جمہوری عمل کے انہدام کے لیے فوج کے بے رحمانہ استعمال کو قانونی عمل قرار دیا اور ملک میں ہونے والے جمہوری عمل کو پیچھے کی طرف لوٹا دیا۔ آج تک الجزائر جمہوریت سے محروم ہے اور اس محرومی کی ذمہ داری صرف یک قطبی قوت پر عائد ہوتی ہے۔
اب ہم دیکھیں گے کہ کیا واقعی جہاد کا مقصد مسلم اور غیرمسلم دنیا پر ’شریعت‘ کو ’مسلط‘ کرنا ہے؟ یہ بات مغربی مصنفین شدومد سے کہہ رہے ہیں۔
یہ بات کہتے وقت شریعت کا ایک مخصوص رنگ آمیز مفہوم سامنے رکھا جاتا ہے‘ جس میں دوسرے مذاہب کے افراد کو مذہبی آزادی اور اپنی تہذیب اور رسومات کی ادایگی سے محروم کرکے زبردستی مسلمان بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حقیقتِ حال اس سے بہت مختلف ہے۔ نظری حیثیت سے قرآن کی سیاسی تعلیمات میں غیرمسلموں کو نصوص کی شکل میں مذہبی اور ثقافتی آزادی کا تحفظ دیا گیا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی مسلمان گروہ شریعت کا نفاذ چاہتا ہو تو اس کے لیے قرآن کے نصوص کے خلاف پالیسی بنانا اصطلاحی اور عملی تضاد کی حیثیت رکھے گا۔ عملی زاویے سے دیکھا جائے تو غیرمسلم اکثریتی ممالک میں مسلمان مفکرین نے شریعت کے نفاذ کا مفہوم کبھی یہ نہیں لیا کہ وہاں پر خونی انقلاب برپا کرکے شریعت مسلط کر دی جائے‘ بلکہ ایک جانب مسلمانوں کو یہ یاد دہانی کراتے رہے کہ وہ اپنے معاملات کو شریعت کے مطابق سرانجام دیں‘ مثلاً نکاح‘ طلاق‘ میراث کے حوالے سے اسلامی احکام کی پیروی کی جائے اور سودی کاروبار سے اجتناب کیا جائے وغیرہ‘ اور دوسری طرف اسلام کے دعوتی پہلو کو اُجاگر کرتے ہوئے یہ بات کہتے رہے کہ اگر ایک طویل دعوتی عمل کے نتیجے میں غیرمسلم برضا و رغبت اسلام قبول کرنے کے بعد اسلامی تعلیمات کو اپنے ملک میں نافذ کرنا چاہیں تو دستوری اور جمہوری ذرائع ہی کواستعمال کیا جائے۔ قوت و تشدد کے استعمال کو ہمیشہ روکنے کی کوششیں کی گئیں۔
امریکا یا برطانیہ کے چند گنے ُچنے یونی ورسٹی کیمپس پر اگر حزب التحریر کے بعض جوشیلے نوجوانوں نے کسی اجتماع یا پوسٹر میں یہ دعویٰ کیا کہ وہ امریکا یا برطانیہ میں خلافت کا نفاذ کرنا چاہتے ہیں تو اس طرح کے انفرادی اور محدود عمل کو اُمتِ مسلمہ کی فکر نہیں قرار دیا جاسکتا اور نہ یہ اسلام اور عالمِ اسلام کی غالب فکر کی نمایندگی کہی جاسکتی ہے۔ ایک مسلم ملک میں بھی جہاں ۹۷ فی صد آبادی مسلم ہو‘ وہ اسلامی ریاست غیرمسلموں کے شخصی‘ مذہبی اور ثقافتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرسکتی اور نہ ان پر شریعت کو مسلط کرسکتی ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ بات بھی نہ صرف عدل کے منافی بلکہ مضحکہ خیز ہوگی کہ ۳ فی صد آبادی کا دل رکھنے کے لیے ۹۷ فی صد آبادی کو اپنی دینی‘ ثقافتی‘ علمی‘ قانونی اور ابلاغی روایات و نظریات کو ملک میں نافذ کرنے کے حق سے محروم کر دیا جائے۔ مغربی سیکولر جمہوریت تو ۵۱ فی صد کی رائے کا احترام کر کے جو چاہے مسلط کردے اور مسلم ممالک کے ۹۷ فی صد عوام کی خواہشات اور مطالبات کو محلے والوں کی دل شکنی کے خیال سے نافذ نہ کرنا ظلم کی بدترین شکل اور جمہوریت کے ساتھ گھنائونا مذاق ہی کہا جا سکتا ہے۔ اگر مغرب کی سیکولر جمہوریت ۹۷ فی صد عوام کی رائے کے مقابلے میں ۳ فی صد اقلیت کو زیادہ اہمیت دیتی ہے تو یہ اس کی عقل کا فتور ہے۔ خود مغربی جمہوریت کے اصول یہ تقاضا کرتے ہیں کہ اگر پاکستان یا کسی اور مسلم ممالک میں ۹۷ فی صد عوام شریعت کا نفاذ چاہتے ہوں تو اسے شریعت ’مسلط‘ کرنا نہیں کہاجاسکتا۔
جہاد کے حوالے سے یہ ہوائی بھی اڑائی جاتی ہے کہ یہ جنت کے حصول کا ایک مختصر راستہ (short cut) ہے اور بہت سے افراد جو اپنے ماضی کی زندگی میں اسلام پر عامل نہ رہے ہوں‘ اس ایک آسان ذریعے سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ نظری طور پر ممکن ہے اس خیال میں کوئی منطقی صداقت پائی جاتی ہو‘ لیکن عملاً جن لوگوں نے آج تک یہ راستہ اختیار کیا ہے ان میں تین نمایاں مثالیں مسلم دنیا سے دی جاسکتی ہیں:
ایک نکتہ یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ ’جہاد کا تصور نظری طور پر بڑی تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (WMD) یا توڑ پھوڑ کے لیے اخلاقی بنیاد فراہم کرتا ہے‘۔ شاید یہ بات کہتے وقت اس کے محرک بھول جاتے ہیں کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی کا سبب اسلام کا تصورِ جہاد نہیں تھا‘ بلکہ لادین جمہوریت کا صبح و شام ورد کرنے والی ریاست کا توسیع پسند ذہن تھا۔ خود عراق کے پس منظر میں صدام حسین کوایران کے خلاف صف آرا کروانے کے لیے مکمل حمایت اور مدد کرنے والا نہ کوئی القاعدہ کا لیڈر تھا اور نہ کسی مسلم ملک کا کوئی مفتی اعظم‘ بلکہ یک قطبی قوت کا معاشی مفاد اور واضح طور پر تیل کے ذخائر پر قابض ہونے کی خواہش تھی۔
قرآن کا تصورِ جہاد ایک اصلاحی عمل ہے جو ظلم‘ قتل و غارت اور استحصال کو ختم کرنے اور امن‘ سلامتی‘ عدل و انصاف کے قیام کے لیے ہاتھ‘ زبان اور دل و دماغ کے استعمال کو اور اپنی جان اور اپنے مال کو بازی پر لگادینے کو ایک انسانی فریضہ قرار دیتا ہے۔ یہ قرآنی تصور حقوقِ انسانی کی بحالی اور محکوم اقوام کو آزادی دلانے کے لیے قوت کے استعمال کو ایک اخلاقی فریضہ قرار دیتا ہے اور بغیر کسی معذرت کے اس کی عظمت کا اعلان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ کی نگاہ میں وہ لوگ جو سجود و رکوع کرنے کے مقامات پر مصروف ِعبادت رہتے ہیں اور وہ جو میدانِ کارزار میں اپنے مال اور جان کی بازی لگاتے ہیں برابر نہیں ہوسکتے۔ وہ جہاد کرنے والوں کے عمل کے لیے ’اعظم درجہ‘ کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ اگر معروضی طور پر غور کیا جائے تو قرآن کریم کا جہاد کے بارے میں یہ غیرمعذرت پسندانہ ‘ شفاف‘ عقلی اور مصلحانہ تصور ہی انسانیت کو فلاح‘امن‘ تحفظ‘ نجات‘ عدل و انصاف اور حقوقِ انسانی کے احترام سے روشناس کرا سکتا ہے۔ جہاد وہ ضمانت فراہم کرتا ہے جس کی بنا پر فتنہ و فساد‘ طاغوت اور مکروفریب لرزہ براندام رہتا ہے اور انسانیت جھوٹ اوردھوکے سے نجات حاصل کرکے عافیت و ترقی پذیری کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے۔
۱۴ جنوری ۲۰۰۵ء کو نیشنل بیورو آف اکنامک ریسرچ (NBER)امریکا کے تحت ایک قومی کانفرنس میں مسئلہ زیربحث تھا: ’انجینیرنگ اور سائنس کے اعلیٰ اداروں میں اور اعلیٰ مناصب پر عورتوں کی نمایندگی‘۔ امریکا کی درجہ اول کی دانش گاہ‘ ہارورڈ یونی ورسٹی کے صدر اور ممتاز ماہر معاشیات پروفیسر لارنس ایچ سمرز (Lawrence H. Summers) نے مسئلے کی نوعیت کو اپنے حسب ذیل خطبے میں واضح کرنا چاہا‘ جس پر امریکا کے طول و عرض میں حقوق نسواں کی لیڈر خواتین نے ان کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے کہ ’اسے برطرف کیا جائے، یہ عورتوں کو باورچی خانے میں دھکیلنا چاہتا ہے‘ وغیرہ وغیرہ___ عورتوں اور مردوں کے فطری میدانِ کار کے خلاف لڑنے والے مغربی معاشرے میں فطرت کا یہ اعتراف‘ پاکستان کے مغرب پرست فوجی حکمرانوں کی حکمت عملی کا بھی جواب ہے جس کے تحت‘ کسی فطری مناسبت سے نہیں بلکہ مغربی دنیا سے بھی زیادہ ’روشن خیال‘ بننے کے خبط میں وہ ہرجگہ خواتین کو آدھے یا تیسرے حصے پر فائز کرتے نظر آتے ہیں۔ حکمران تو اپنی پالیسیاں زیادہ تر‘ سیاسی مصلحتوں کے تحت مرتب کرتے ہیں___ لہٰذا اُن سے قطع نظر ‘ پروفیسر سمرز کی یہ تقریر‘ ہمارے ان دانش وروں کے لیے بھی لائق غوروفکر ہے‘ جو خواتین کے دکھ درد کو سمجھتے ہیں اور ان کے بہی خواہ کی حیثیت سے دلی طور پر اس مسئلے کو حل کرنے کے آرزومند ہیں۔ (س - م-خ)
زیربحث مسئلے کے ایسے بہت سے پہلو ہیں‘ جو قومی نقطۂ نظر سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ تاہم میں اپنی بحث کو صرف اس دائرے تک محدود رکھوں گا کہ ہمارے ہاں درجہ اول کی یونی ورسٹیوں میں سائنس اور انجینیرنگ کے شعبہ ہاے تعلیم و تحقیق کی کلیدی اسامیوں پر عورتیں کیوں بڑی تعداد میں دکھائی نہیں دے رہیں۔ اس موضوع کو میں اس لیے زیربحث نہیں لا رہا ہوں کہ یونی ورسٹی سطح کی تعلیم و تدریس میں یہ کوئی بڑا اہم مسئلہ ہے‘ یا پھر کوئی بڑا دل چسپ موضوع ہے‘ بلکہ گزارشات اس لیے پیش کر رہا ہوں کہ جن اہم موضوعات پر میں خاصے عرصے سے سوچ بچار کرتا رہا ہوں‘ یہ ان میں سے ایک حسّاس موضوع ہے۔ طے شدہ نقطۂ نظر کو پیش کرنے کے بجاے ہمیں زیربحث معاملات کو کھلے ذہن سے دیکھنا چاہیے‘ کیوں کہ اسی کے نتیجے میں ہم صنفی مساوات کے ناقابل تردید نظریے کی ایک منصفانہ اور موزوں تعبیر و تشریح کرسکتے ہیں۔
مسئلہ صرف سائنس اور انجینیرنگ میں عورتوں کی کم تر نمایندگی کا نہیں ہے۔ ہم دیگر بہت سے شعبہ جات میں مختلف گروپوں کی کم تر نمایندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر: کیتھولک عیسائی‘ بنک کاری سرمایہ کاری کے میدان میں محدود تر ہیں‘ حالانکہ ہمارے معاشرے میںیہ بہت زیادہ دولت پیدا کرنے والے شعبوں میں شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح ہماری قومی باسکٹ بال ٹیم میں گوری نسل کے کھلاڑی خال خال دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں سیاہ فام نسل کے کھلاڑی چھائے ہوئے ہیں لیکن ان کی صلاحیتِ کار کی بنیاد پر کسی کو رنگ و نسل کے حوالے سے اعتراض کا جواز نہیں ملتا۔ پھر زراعت اور فارمنگ کے شعبوں میں یہودیوں کی نمایندگی یا ان کا کردار نمایاں طور پر بہت تھوڑا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اور ان جیسے دیگر شعبہ ہاے زندگی میں کم تر نمایندگی کے مظاہر یا مثالوں کے اسباب کا تجزیہ کرنے کے لیے ہمیں ایک باقاعدہ نظامِ کار کے تحت طبّی اور نفسیاتی تحقیقات کو بھی بنیاد بناکر اصل حقیقت کا سراغ لگانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
عورتوں کی واضح طور پر کم تر نمایندگی کے اسباب کا جائزہ تین وسیع تر مفروضوں کی بنیاد پر لیا جا سکتا ہے۔ قومی ادارہ معاشی تحقیقات کی کانفرنس کی دعوتی دستاویز میں ان کا ذکر چھیڑا گیا ہے۔ اس دستاویز سے پہلا یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ: غالباً سائنس‘ انجینیرنگ اور ٹکنالوجی نہایت اعلیٰ تنخواہوں کے شعبے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس کم تر نمایندگی میں غالباً خواتین کے رجحانِ طبع (aptitude)کو چیلنج کیا گیا ہے‘ اور تیسرا یہ کہ کم تر نمایندگی دے کر سماجی سطح پر ذہین اور اعلیٰ درجے کی خواتین کا استحصال کرتے ہوئے انھیں صنفی امتیاز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
میں نے مختلف مواقع پر اس نوعیت کے بڑے نازک اور حساس موضوعات پر بڑی بڑی کارپوریشنوں کے اعلیٰ منتظمین سے‘عدل و انصاف کی فراہمی کے لیے کام کرنے والی بڑی وسیع کمپنیوں کے اعلیٰ شراکت داروں سے‘ مشہورِ زمانہ تدریسی ہسپتالوں کے ڈائرکٹروں سے‘ پیشہ ورانہ سروس فراہم کرنے والی بڑی بڑی تنظیموں کے قائدین سے اوراعلیٰ درجے میں تعلیم و تحقیق سے وابستہ اساتذہ‘ دانش وروں اور تحقیق کاروں سے مسلسل تبادلۂ خیال کیا ہے۔ ان تمام گروپوں سے مکالمے کے نتیجے میں بنیادی طور پر ایک ہی جیسی حیرت انگیز کہانی میرے سامنے آئی ہے۔
اب سے ۲۵ برس پہلے کی بات ہے سائنس اور انجینیرنگکے شعبہ ہاے تدریس و تحقیق میں ہم نے بڑے پرجوش انداز سے اور دانستہ طور پر عورتوں کی نمایندگی خاصی بڑھائی۔ جن خواتین نے ۲۵ سال پہلے ان شعبہ جات سے وابستگی اختیار کی تھی‘ وہ اس وقت ۴۵‘ ۵۰ سال کے لگ بھگ ہوں گی۔ مگر اب ان شعبہ جات میں جاکر دیکھیں تو یہ صورت سامنے آتی ہے کہ وہ فاضل خواتین جن کے بارے میں بڑی توقعات قائم کی گئی تھیں‘ ان میں سے آدھی نہیں بلکہ آدھی سے بھی زیادہ تدریس و تحقیق کا یہ شعبہ چھوڑ کر چلی گئی ہیں اور جو موجود ہیں‘وہ ان شعبہ جات میں ’عورتوں کی کم تر نمایندگی یا استحصال‘ کی علامت قرار دی جارہی ہیں۔ پھر اس میدان میں رک جانے والی ان فاضل خواتین میں بھی صورت یہ ہے کہ وہ غیر شادی شدہ ہیں یا پھر بچوں کے بغیر___ یہ ہے حقیقتِ حال‘ اور یہی بات اعلیٰ درجوں کے دوسرے متعدد پیشہ ورانہ اداروں میں خواتین کی کم تر نمایندگی کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں بہت سے پیشے اور لاتعداد ایسی باوقار سرگرمیاں ہیں جن میں کم و بیش ۴۰ سال کی عمر میں فرد بھرپور انداز سے قیادت اور رہنمائی کی جانب گام زن نظر آتا ہے۔ ہر ادارہ‘ شعبہ یا خود کام‘ اس فردسے یہی توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنے اوقاتِ کار کا بڑا حصہ اپنے دفتر کو دے گا‘ کام سے دل بستگی کے باعث ہنگامی صورت حال میں بھی دفتری اوقات کے تقاضوں کو قربان نہیں کرے گا۔ اس اُبھرتے پرجوش لیڈر سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ فارغ اوقات میں بھی اسی مقصد کے لیے اور اس راہ میں پیش آمدہ مسائل و مشکلات پر قابو پانے کے لیے اپنے ذہن‘ فکر اور توجہات کو مرکوز رکھے گا‘ بلکہ اگر کسی وجہ سے اس کی ملازمت نہ بھی رہے تب بھی اس کی فکر کا محور یہی کام ہوگا۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ تاریخی طور پر ہمارے معاشرے میں ایک شادی شدہ عورت کے برعکس ایک شادی شدہ مرد اُوپر بیان کردہ پیشہ ورانہ وابستگی کے تقاضے کہیں زیادہ بہتر انداز میں نبھاتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ ان عورتوں کی تعداد کتنی ہے جو اپنی عمر کے ۲۰ سے ۳۰ سال کے حصے میں یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ وہ ہفتے میں ۸۰ گھنٹے کام کرنے والی ملازمت اختیار نہیں کریں گی‘ اس کے مقابلے میں اسی عمر کے مردوں میں کتنے ہوں گے جو ۸۰گھنٹے فی ہفتہ کام کرنے والی ملازمت اختیار کرنے سے انکار کریں گے؟ ان دونوں کے اعداد و شمار کا تقابل کریں تو حقیقت خود واضح ہوکر سامنے آجائے گی۔ تاہم ایک اہم سوال یہ بھی اٹھائوں گا کہ کیا ہمارا معاشرہ یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہے کہ جو لوگ اہم عہدوں پر کام کر رہے ہیں وہ ۸۰‘ ۸۰ گھنٹے فی ہفتہ کام کریں۔
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مختلف نوعیت کے غیرمتوازن رویے اپنانے اور نظریات گھڑ لینے کے بعد‘ اس طرز پر سوچنا اور پھر اس پر چلنا خاصا مشکل ہوگیا ہے جسے میں غیرمعمولی اہمیت دے رہا ہوں۔ وہ کون سا ایسا سبب ہے جس کے باعث سائنس اور انجینیرنگکے شعبہ جات میں عورتیں دیگر شعبوں کی بہ نسبت کم تعداد میں فرائض انجام دے رہی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عورتوں اور مردوں کی تخلیقی صلاحیتوں میںخاصا فرق پایا جاتا ہے‘ مثلاً: قد‘ وزن‘ مجرمانہ ذہنیت‘ مجموعی طور پر ذہانت (I.Q)‘ پھر ریاضیاتی اور سائنسی امور میں صلاحیتِ کار کا فرق ہمیں مردوں اور عورتوں میں صاف نظر آتا ہے۔ یہ فرق کسی وقتی حادثے کے طور پر ظاہر نہیں ہوئے بلکہ تمدنی اور ثقافتی طور پر ہزاروں سال سے ثابت شدہ ہیں۔
سائنس اور ریاضی میں دونوں اصناف (sexes) کے رجحانِ طبع‘ فطری مناسبت اور ذہانت کے معیار کو آپ جس بھی بہترین طریقے سے ناپیں گے‘ نتیجہ یہی نکلے گا کہ جہاں دو مرد ہوتے ہیں‘ وہاں ایک عورت پہنچتی ہے۔ کسی زیادہ بہتر طریقۂ پیمایش کے ذریعے آپ اس مفروضے کو ہر پہلو سے جانچ پرکھ کر اگر کوئی دوسرا نتیجہ سامنے لاسکتے ہیں تو اس کا خیرمقدم کروں گا۔ جس چیز کو میں سائنس‘ انجینیرنگ اور اعلیٰ اختیاراتی ملازمتوں میں خواتین کی کم تر نمایندگی کا باعث سمجھتا ہوں‘ کوئی آئے اور میرے اس نتیجۂ فکر کی خامی اور سامنے نظر آنے والے نتائج کی غلطی کو ثابت کرے۔
سب سے اہم اور متنازعہ مسئلہ‘ جنسی امتیاز کے موضوع اور سمت کے گرد گھومتا ہے۔ یہ امتیازی رویہ واقعی کس قدر وسعت پذیر ہے؟ بلاشبہہ بعض حوالوں سے جنسی امتیاز پایا جاتا ہے‘ جس میں اثرپذیری اور رواج پکڑنے کے روایتی گھسے پٹے رجحانات بھی ملتے ہیں۔ جس کے تحت لوگ‘ اپنی پسند کے لوگوں کو ذمہ داریوں پر بٹھاتے ہیں اور گوری نسل کے مرد‘ اپنی ہی نسل کے مردوں کو ترجیح دے کر‘ نامناسب انداز سے آگے لاتے ہیں اور بسااوقات ایسا اقدام شہ زوری کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یونی ورسٹی سطح پر تدریس و تحقیق سے وابستہ لوگ اس مشاہدے کی تردید نہیں کرسکتے۔افسوس کہ یہ رجحان آج بھی وسعت پذیر اور غالب ہے۔
دوسرا نکتہ ہے نسلی امتیازکا‘ جسے ہم برسوں سے بھگت رہے ہیں۔ لیکن اس میں بھی ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا سبھی لوگ نسلی امتیاز کی بھینٹ چڑھ گئے یا کچھ لوگ اپنی خداداد قابلیت اور اعلیٰ درجے کی اضافی صلاحیتوں کے باعث اس بہت بڑی رکاوٹ کو بھی عبور کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یقینا اس سخت صورت حال کے باوجود جو مواقع ان اعلیٰ اداروں کی رنگارنگی (diversity) میں موجود تھے‘ جوہرِ خالص نے مضبوط قدموں سے اس میں اپنی جگہ بنالی اور علم‘ فن‘ تحقیق کے ذریعے انسانیت کو فائدہ پہنچایا۔ اگر واقعی علوم و فنون کی دنیا میں گہرائی تک سرایت کرنے والا تعصب و امتیاز پر مبنی نمونہ ہی موجود ہوتا تو کئی مؤثر رنگ دار امیدوار کبھی نہ آگے بڑھنے پاتے‘ اور نہ وہ اپنی زبردست صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتے۔ اعلیٰ مناصب پر خواتین کی بڑی تعداد کے ہونے یا نہ ہونے کو جنسی امتیاز قرار دیتے وقت اس پہلو کو بھی ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے۔
ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اور اس نوعیت کے سوالات کا کیا جواب ہو؟ہمیں جنسی یا نسلی امتیاز کی تقسیم سے بالاتر ہوکر یہ عمل کس طرح کرنا چاہیے۔ ہماری سوچ مثبت انداز سے ان پہلوئوں کو زیربحث لائے تو یہ زیادہ ثمربار ہوگا۔
اگرچہ ہمیں اقدام کرنے کی ضرورت ہے‘ لیکن قدم اٹھاتے وقت بڑے پیمانے پر احتیاط بھی کرنی چاہیے۔ یہ بات کہہ کر اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں کہ میں نے اپنی حد تک وسیع مطالعۂ لٹریچر اور متعلقہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد سے تبادلۂ خیال کی روشنی میں‘ دیانت داری سے بہترین قیاس (guess) پیش کرنے کی جسارت کی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ میری سب باتیں غلط ہوں۔ تاہم میں اسی وقت اپنے آپ کو کامیاب سمجھوں گا جب میری یہ گزارشات لوگوں کو جھنجھوڑ کر غور کرنے کے لیے بیدار کریں گی۔ ہم لوگوں کو بڑی دقّتِ نظر سے ان معاملات پر غور کرنا چاہیے‘ اور مسائل کو بے جا طور پر جذباتیت اور محض اشتعال کی کٹھالی میں ڈالنے کے بجاے بڑی سخت محنت اور احتیاط سے پرکھنا چاہیے۔ ایسے رویے سے ہماری اس جیسی کانفرنسیں کچھ نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہیں۔ (حوالہ: www.president-harvard.edu/speeches/2005)
حاشیہ: جب یہ بحث نقطۂ عروج کو پہنچی تو سٹیوسیلر (Steve Sailer)نے ۲۰ فروری ۲۰۰۵ء کو انٹرنیٹ پر بحث کرتے ہوئے لکھا: ہمارے معاشرے میں مردوں اور عورتوں کے لیے تحقیق و تعلیم کے مساوی مواقع ہیں‘ لیکن عملاً نتائج دیکھیں تو دونوں اصناف مختلف نوعیت کے مظاہر سامنے لاتی ہیں۔ سائنسی علوم میں ٹھوس تحقیقی کارہاے نمایاں کی پیمایش کے لیے نوبل پرائز کے ریکارڈ پر نظر ڈالتے ہیں۔ ہرچند کہ پہلی شخصیت جس نے دو مرتبہ نوبل پرائز حاصل کیا وہ ایک عورت مادام کیوری (Curie) تھی‘ جس نے ۱۹۰۳ء میں فزکس اور ۱۹۱۱ء میں کیمسٹری کا پرائز حاصل کیا‘ لیکن اس کے بعد ۱۹۶۴ء تک فزکس اور کیمسٹری کے میدان میں کل پانچ خواتین نے نوبل پرائز لیا۔ بعدازاں ان دونوں میدانوں میں ۱۶۰ سائنس دانوں نے نوبل پرائز حاصل کیے‘ جن میں عورتوں کا نمبر صفر ہے۔ میڈیکل سائنسز میں اگرچہ عورتوں کی کارکردگی تسلی بخش ہے لیکن‘ اس میدان میں خواتین عملاً ۳ئ۲ نوبل پرائز حاصل کرسکیں۔ فیلڈ پرائز (Fields Prize) ’نوبل پرائز‘ جیسے مقام و مرتبے کا اعزاز ہے‘ جو ریاضی (maths) میں اعلیٰ درجے کی صلاحیت کے حامل اسکالر کی خدمات کے اعتراف میں دیا جاتا ہے‘ مگر آج تک کوئی عورت یہ ایوارڈ حاصل نہیں کرسکی۔ ۱۹۶۹ء سے اب تک معاشیات میں ۴۴ نوبل ایوارڈ دیے گئے ہیں‘مگر ان میں سے ایک بھی عورت نہیں ہے۔ ہالی وڈ میں کہانی کار خواتین‘ نہایت قلیل ہیں۔ بہترین فلم ڈائریکٹروں کو ۸۴ اکیڈمی ایوارڈ دیے گئے‘ جن میںصرف تین خواتین ہیں۔ سینماٹوگرافی میں کسی عورت نے اکیڈمی ایوارڈ حاصل نہیں کیا‘ حالانکہ وہ بہت بڑی تعداد میں اس شعبے سے وابستہ ہیں۔ کام‘ صلاحیت کار اور کمال کا باہم تعلق بھی ہے اور الگ سے وجود بھی۔ (ایک اور فرد نے لکھا دراصل تحریکِ آزادیِ نسواں کا ایجنڈا (فیمی نسٹ ایجنڈا) واضح ہے‘ اور وہ ہے حد سے بڑھا ہوا ’مرد مخالف‘ معاشرہ تشکیل دینا)۔
عوامی جمہوریہ بلغاریہ جنوب مشرقی یورپ کے خطّہ بلتان میں واقع ہے۔ شمال میں رومانیہ‘ جنوب میں ترکی اور یونان‘ مغرب میں سربیا‘ مشرق میں بحراسود اور جنوب مغرب میں مقدونیہ ہے۔ اس کا صدر مقام صوفیہ ہے‘ سرکاری مذہب سیکولرازم‘ سرکاری زبان بلغارین اور (۱۹۹۲ء کی مردم شماری کے مطابق ) کل آبادی ۸۰ لاکھ ہے۔ ملک کی غالب اکثریت عیسائی ہے‘ جب کہ مسلمانوں کی آبادی ۳۰لاکھ ہے۔ عثمانی خلفا نے اسے ۱۳۶۳ء میں فتح کیا۔ بلغاریہ ۱۹۰۸ء میں سلطنتِ عثمانیہ سے الگ ہوا۔ دونوں عالمی جنگوں میں بلغاریہ نے محوری طاقتوں کا ساتھ دیا۔ عالمی جنگ کے بعد معاہدہ وارسلز میں شامل ہوا جب کمیونسٹوں نے اس پر قبضہ کرلیا تھا۔ پہلے جمہوری عوامی انتخابات ۱۹۹۰ء میں ہوئے۔ اپریل ۲۰۰۵ء میں بلغاریہ کے یورپی یونین میں شامل ہونے کے معاہدے پر دستخط ہوئے اور بلغاریہ کو شریک رکن بنا لیا گیا۔ یکم جنوری ۲۰۰۷ء سے بلغاریہ باقاعدہ طور پر یورپی یونین کا ممبر بن جائے گا۔
بلغاریہ کے مسلمان ایک طویل عرصے سے دبائو‘ تشدد اور ظلم کا سامنے کرتے چلے آرہے ہیں۔ وہ اس سے ماضی میں محفوظ تھے نہ آج ہیں۔ وہ خود کمیونسٹ دہشت گردی کا نشانہ بنے رہے___ لیکن انھیں دنیا کے دیگر مسلمانوں کی طرح ’دہشت گرد‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
مسلمانانِ بلغاریہ کو ماضی قریب میں کچھ سیاسی و دینی حقوق ملے ہیں جیسے انھیں‘ ۱۹۹۴ء میں اپنے کچھ اسکول کھولنے‘ سیاسی پارٹیاں بنانے اورالیکشن میں شرکت کی اجازت ملی‘ تاہم انھیں اب تک ازسرِنو اسلامی نام رکھنے کی اجازت نہیں۔ وہ انھی ناموں کو اپنی شناخت کے لیے استعمال کرنے پر مجبور ہیں جو کمیونسٹ آمریت نے ان پر مسلط کیے تھے۔ اسلامی ناموں سے محروم کیے جانے کے بعد وہ اپنے تشخص سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ دین اسلام کے ساتھ ان کا تعلق کمزور پڑگیا۔
کمیونسٹ دورِ اقتدار میں جو کچھ مسلمانوں پر گزری‘ اس کی تلخ یادیں وہ اب تک نہیں بھول پائے۔ پلون ڈوف میں ۴۰ ہزار سے زیادہ بلغاری مسلمان رہ رہے ہیں۔ ان سب کو کمیونزم کے پُرتشدد منحوس دور کے وہ مظالم خوب یاد ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف روا رکھے گئے۔ چنانچہ وہاں کی مقامی تنظیم کے سربراہ جوایل لیف کہتے ہیں: ’’اب تک ہماری آنکھوں کے سامنے اپنی تاریخ کے وہ المناک بھیانک صفحات کھلے پڑے ہیں جنھیں بھلانا آسان نہیں___ بالخصوص ۱۹۸۴ء سے ۱۹۸۹ء کی درمیانی مدت میں ہم پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا۔ ہمیں دبائو اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ سب کچھ ’قومی تعمیرنو‘ کے نام سے ہورہا تھا۔ کمیونسٹوں نے ہمیں اسلامی شعائر سے روک دیا‘ ہم پر غیراسلامی نام مسلط کیے۔ مسلمانوں کو ہر ممکن طریقے سے دبایا گیا اور پھرانھیں ترکِ وطن پر مجبور کیاگیا۔ ذرائع ابلاغ بلغاری مسلمانوں کو جلاوطن کردینے کے بارے میں یوں بات کرتے تھے جیسے وہ کسی ’اجتماعی سیاحت‘ کے بارے میں گفتگو کر رہے ہوں‘‘۔
۱۹۸۴ء سے ۱۹۸۹ء کی اس مدت میں ۵ لاکھ سے زائد مسلمانوں کو بلغاریہ کے حکام کے ظالمانہ حکم سے بلغاریہ سے نکال دیا گیا۔ الزام یہ تھا کہ یہ بلغاریہ کے قدیم باشندے نہیں ہیں بلکہ ترک ہیں۔ حالانکہ بلغاری مسلمان کئی صدیوں سے وہاں رہ رہے ہیں۔ بلغاریہ کے مسلمانوں کو اپنے وطن سے زبردستی جلاوطن کرنے کا آپریشن دوسری عالمی جنگ کے بعد‘ یورپ میں سب سے بڑا جلاوطنی کا اقدام تھا۔ اس جلاوطنی کے بارے میں محترم لیف نے کہا: ’’بلغاریہ سے ہمارا جبری انخلا ایک عظیم انسانی المیہ تھا۔ ہمیں کچھ معلوم نہ تھا کہ ہم نے کہاں جانا ہے؟ کمیونسٹ حکام کی طرف سے یہ الٹی میٹم ملا کہ سرزمینِ بلغاریہ چھوڑنے کے لیے آپ لوگوں کے پاس صرف ۲۴گھنٹے ہیں۔ انھوں نے ہمیں پاسپورٹ دیے۔ نہایت پریشانی کا عالم تھا۔ میری بیوی حاملہ تھی۔ ہم لوگ بلغاریہ سے نکلے تو ہمارے پاس معمولی ذاتی سامان کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس جبری جلاوطنی سے پہلے کبھی اس نوعیت کے المیے کے بارے میں سوچا بھی نہ تھا۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہمیں اپنے ہی دیس سے یوں اچانک نکال دیا جائے گا۔ یہ سب کچھ ہمارے لیے قطعاً خلافِ توقع تھا۔ ہم نے کمیونسٹ افسروں سے پوچھا کہ ہمیں اپنی سرزمین سے کیوں نکالا جا رہا ہے؟ ہمیں اپنے گھروں سے کیوں بے دخل کیا جا رہا ہے؟ ہمیں ہمارے تشخص‘ تاریخ اور اسلامی ناموں سے کیوں محروم و لاتعلق کیا جارہا ہے تو انھوں نے ہمیں کچھ جواب نہ دیا۔
مجھے بلغاریہ واپس آئے چند ہی سال ہوئے ہیں۔ بلغاری مسلمانوں کی حالت قابلِ رحم ہے۔ دیکھ کر رونا آتا ہے۔ جلاوطنی کے ایام انتہائی المناک‘ بھیانک‘ روح فرسا اور ناخوشگوار تھے۔ اس قسم کے حالات میں اگر آپ وطن سے باہر‘ سات آٹھ سال مجبوراً گزار کر واپس آتے ہیں توآپ کو یہ دیکھ کر انتہائی دلی صدمہ پہنچے گا کہ آپ کا گھر منہدم ہوچکا ہے۔ آپ کی دکانوں پر غیروں کا قبضہ ہے۔ مال و اسباب لُوٹا جاچکا ہے۔ آپ اپنے آپ کو پردیسی سمجھیں گے۔ ان چند برسوں نے ہمارے دل ودماغ پر برے اثرات‘ تلخ یادیں اور مکروہ پرچھائیں چھوڑی ہیں‘‘۔
بلغاریہ کی ایک مسلمان خاتون حکیمہ ہاس مانوفا ہیں۔ آپ ایڈوکیٹ ہیں۔ اقلیتوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنے میں دل چسپی رکھتی ہیں۔ جمہوریت کے استحکام پر یقین رکھتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ دوبارہ اس قسم کا المیہ پیش نہ آئے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ مسلمانوں کو اسلامی نام رکھنے کی اجازت دی جائے۔ کمیونزم کے خاتمے کے باوجود مسلمان اپنے ناموں کی بحالی سے محروم ہیں۔ وہ اس سلسلے میں جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس قسم کے ظلم کی پوری دنیا میں کہیں اور مثال نہیں ملتی۔ کمال یہ ہے کہ حکومتِ بلغاریہ اپنے آپ کو ’جمہوری حکومت‘ بھی کہتی ہے اور بڑے شدّومد سے اپنے جمہوری ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے اور ۲۰۰۷ء میں یورپی یونین میں شمولیت کے لیے بھی کوشاں ہے۔
محترمہ حکیمہ کا جس سیاسی پارٹی سے تعلق ہے‘ اس کے سربراہ کو کمیونسٹوں نے گرفتار کرلیا تھا۔ یہ پارٹی ۱۹۹۰ء میں بلغاریہ کے پہلے عام انتخابات میں ایک پارلیمانی گروپ کے طور پر اُبھری تھی۔ محترمہ حکیمہ کے بقول: ’’ہماری پارٹی نہ کوئی نسلی گروہ ہے نہ ہی کوئی فرقہ وارانہ تحریک۔ یہ ایک سیاسی تنظیم ہے جو دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کا نہ صرف درست متبادل ہے بلکہ ایک ایسے وقت میں ایک معتدل سیاسی پارٹی ہے‘ جب کہ مسلمانوں کے حقوق کا مطالبہ ایک طرح سے ممنوع ہے‘‘۔
بلغاریہ کے صوبہ توسبات توی کے زیرانتظام جنوبی کوہِ روڈی بیز میں واقع ایک دُورافتادہ گائوں ’سران تیزا‘ ہے۔ اس کی کل آبادی ۴ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ اس گائوں میں چندسال پہلے تین اسلامی مدرسے قائم ہوئے تھے۔ یہ مدرسے سعید موکلو اور عبداللہ سالی کے زیرنگرانی کام کررہے ہیں۔ یہ دونوں حضرات سعودی جامعات سے فارغ التحصیل ہیں۔ ان مدارس کے قیام کا بنیادی مقصد دینی تعلیمات سے روشناس کرانا ہے تاکہ خطے کے مسلمانوں کے اسلامی تشخص کو برقرار رکھا جا سکے۔ یورپ اور امریکا میں جب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ’دہشت گردی‘ کے الزامات کا آغاز ہوا تو یہ اسلامی اسکول بھی اس کی زد میں آئے۔ تاہم ان کے منتظم ان شرانگیز الزامات کی پروا کیے بغیر اپنے اسکولوں کو مستعدی و جان فشانی سے چلا رہے ہیں۔ وہ ایک طرف مسلمانوں کی نوخیز نسل کی اسلامی نہج پر تربیت کر رہے ہیں‘ انھیں اسلامی ثقافت اور قدروں سے متعارف کروا رہے ہیں‘ اور دوسری طرف ان اسکولوں میں مسلم خواتین کے لیے تربیتی کورسوں کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ مسلمان بچوں‘ بچیوں‘ عورتوں اور مردوں کو طویل و تاریک کمیونسٹ دورِ حکومت میں دینی تعلیم کے حصول سے محروم رکھا گیا تھا۔ ان اسلامی اسکولوں میں ہرعمر کے مرد و زن کے لیے تربیتی کورس چلائے جا رہے ہیں۔
بلغاریہ کے کچھ ذرائع ابلاغ ان اسکولوں کے خلاف مسلسل یہ زہریلا اور اشتعال انگیز پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ ان اسکولوں میں ’بنیاد پرست‘ تیار کیے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں فاطمہ چوچیف کہتی ہیں: ’’یہ لوگ ہمارے خلاف تعصب اور کینہ پروری سے کام لے کر عوام کے جذبات کو بھڑکاتے ہیں۔ وہ اپنے کرتوتوں کو ہمارے سرمنڈھ رہے ہیں۔ میری ایک پڑوسن حجاب اُوڑھتی ہے‘ اس پر انھوں نے ’طالبان‘ ہونے کی پھبتی کَسی ہے‘‘۔
بلغاریہ کی ایک اور مسلم خاتون نے کہا: ’’یہ لوگ ہمارے خلاف بغض و کینہ اور نفرت و عداوت کی آگ بھڑکاتے رہتے ہیں۔ ہم ایک آزاد جمہوری ملک کے باشندے ہیں۔ دراصل ’دہشت گرد‘ وہ لوگ ہیں جو ہمیں سروں پرچادریں رکھنے اور حجاب لینے سے روکتے ہیں۔ کسی شہری کو اپنے عقائد و نظریات کے مطابق زندگی نہ گزارنے دینا ہی دہشت گردی ہے‘‘۔
جنوبی بلغاریہ کے مسلمانوں کی غالب اکثریت کا دارومدار زراعت پر ہے۔ بلغاریہ کے اس خطے میں بوماک مسلمان بستے ہیں۔ ’بوماک مسلمان‘ وہ کہلاتے ہیں جنھوں نے اسلام قبول کیا ہو۔ یہ ’بومادان‘ سے مشتق ہے جس کے معنی سعادت کے ہیں۔ صرف یہاں کے لوگ ہی بوماک کہلاتے ہیں‘ یعنی دنیا کے کسی اور ملک کے مسلمان بوماک نہیں کہلاتے۔ بوماک قبیلہ اپنی مہمان نوازی و تواضع‘ عاجزی وانکساری‘ دوسروں کے عزت و احترام اور سنجیدگی میں بے مثل ہے۔ اس قبیلے کے افراد اپنے خاندانی روابط و تعلقات کی بڑے انہماک سے حفاظت کرتے ہیں۔ وہ شادی بیاہ اور خوشی و غمی کے مواقع پر اپنی تمام قدیم روایات پر کاربند رہتے ہیں۔
جنوبی بلغاریہ کے ایک گائوں میں اُن مظلوم مسلمانوں کا قبرستان ہے جنھیں ۷۰ کے عشرے (خاص طور پر ۱۹۷۳ئ) میں کمیونسٹ پولیس نے بے دردی سے شہید کیا۔ مسلم خاندان تتربتر ہوگئے۔ مسلمان اب تک سہمے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں ابھی تک متذبذب ہیں۔
دنیا سے کمیونزم کے زوال کے بعد آج بلغاریہ کے بوماک مسلمانوں کو کمیونسٹوں کی طرف سے تو کوئی اندیشہ نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ انھیں مسیحی مشنری تنظیموں سے ہروقت خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ مسیحی تبلیغی تنظیمیں مسلم نوجوانوں کو بالخصوص عیسائیت کی آغوش میں لانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہی ہیں۔ انھیں یہ جرأت اس لیے ہوئی کہ مسلمان ستم رسیدہ ہیں‘ دبائو کا شکار ہیں۔ وہ آزادی وخودداری کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ دین ِاسلام سے جڑنے کے لیے بے تاب ہیں۔
ایک دین دار مسلمان کے لیے کمیونسٹ معاشرے یا ریاست میں سرکاری خدمت کا اہل ہونا یا سماجی حیثیت کا حامل ہونا‘ ناممکن تھا۔ اُسے ایک ناپسندیدہ عنصرسمجھا جاتا تھا۔ مفتیِ بلغاریہ کے بقول: ’’کمیونسٹوں کے اس طرزِعمل نے انسانیت کو روحانی اذیت پہنچائی۔ عصرحاضر میں ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کی دینی تربیت کے لیے کچھ کرنا ہے۔ ان کے والدین‘ بزرگ اور عزیز و اقارب کئی عشروں تک دین سے غیرمربوط رہے ہیں‘‘۔
مفتی الشیخ سلیم محمد نے بتایا کہ ۱۱ستمبر کے سانحے کا ردعمل مسلمانوں کے لیے بہت نقصان دہ اور ہتک آمیز تھا۔ باحجاب مسلم مستورات کو برسرِعام گالیاں دی جاتیں کہ یہ ’طالبان‘ کی حامی ہیں۔ کئی علاقوں میں مسجدوں پر سنگ باری ہوئی۔ ہم نے بلغاریہ کے صدر سے ملاقات کی۔ ان واقعات پر اپنی تشویش سے انھیں آگاہ کیا تو انھوں نے ذرائع ابلاغ کے توسط سے اہلِ بلغاریہ کی رہنمائی کی اور خبردار کیا کہ سانحۂ ستمبر پر یہ منفی ردعمل ہرگز قابلِ قبول نہیں ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ یورپی یونین میں شمولیت کے بعد‘ اگرچہ بلغاریہ کے مسلمانوں کے جان ومال کو ماضی کی طرح کے خطرات سے نجات مل جائے گی‘ تاہم انھیں مسیحی تبلیغی جماعتوں کی یلغار کا سامنا ضرور رہے گا اور انھیں ’دہشت گردی‘ اور ’بنیاد پرستی‘ جیسے القابات سے بھی نوازا جاتا رہے گا‘ جیساکہ پورے یورپ میں ہورہا ہے۔ (مآخذ: ہفت روزہ المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۶۵۰‘ صفحات: ۳۴-۳۵۔Europe: Year Book of Da'wah, pp 110, 111)
امریکی فوج کو تاریخ کی سب سے طاقت ور فوج کہا جا رہا ہے‘ لیکن عراق میں اس طاقت ور ترین فوج کو بدترین شکست کا سامنا ہے۔ اسے ابھی خودکُش حملوں‘ بارودی سرنگوں اور کار بموں کا کوئی علاج نہیں ملا تھا کہ ایک نئی مصیبت نے پوری فوج کو سراسیمگی کا شکار کردیا ہے۔ ’قنّاص بغداد‘ بغداد کا شکاری ایک شخص ہے… بے نام… بے ٹھکانہ اورشاید بے وسیلہ۔ اس کا کل سرمایہ ایک دُوربین لگی بندوق اورحساس ویڈیو کیمرہ اٹھائے ایک ساتھی ہے۔ ’بغداد کا شکاری‘ نام اس نے خود ہی متعارف کروایا ہے۔ شہر میں کسی بھی جگہ گھات لگا کر بیٹھ جاتا ہے‘ بندوق پر سائلنسر چڑھاتا ہے۔ ساتھی کیمرہ سنبھالتا ہے تاکہ اس میں شکار کو محفوظ کرسکے اور اس کی خبر دنیا کو پہنچ سکے۔ شکاری شکار کی آنکھوںکے درمیان نشانہ باندھتا ہے اور طاقت ور ترین ہونے کا زعم لیے امریکی فوجی ڈھیر ہوجاتا ہے۔ ساتھی حیران اور سراسیمہ ہوکر اِدھر اُدھر دیکھنے لگتے ہیں تو دوسرا اور پھر تیسرا…۔ اب تک یہ فردِ واحد ۵۵ فوجی مارچکا ہے۔ اس کے بقول جب تک امریکی فوجی عراق میں رہیں گے اس کا شکار جاری رہے گا اور گاہے بگاہے اس کی تصویری جھلکیاں دنیا کو بھی ملتی رہیں گی۔
اب خبرآئی ہے کہ عراقی شہر’ القائم‘ میں بھی ایک شکاری اُٹھ کھڑا ہوا ہے جو اب تک چار امریکی فوجی مار چکا ہے۔ بغداد سے ۴۵۰ کلومیٹر دُور واقع شہر موصل کا شکاری دو‘ فلوجہ کا شکاری چھے‘ شمالی بغداد میں واقع شہر طارمیہ کا شکاری چار روزمیں چھے اور الضلوعیہ شہر کا شکاری ایک امریکی فوجی شکار کرچکا ہے۔ عراقی فوج کے ایک سابق افسر عبدالجبار سامرائی نے القدس پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ عراقی تحریکِ مزاحمت کی شکار کی پالیسی بہترین قرار پائی ہے۔ اس میں کارروائی کرنے والا پوری طرح محفوظ‘ بلکہ امریکی فوجیوں کے اردگرد ہی رہتا ہے لیکن امریکیوں کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ وہ نفسیاتی طور پر ٹوٹ پھوٹ رہے ہیں۔ ان میںسے ہرفوجی ہر لمحے اس خوف کا شکار رہتا ہے کہ کہیں قریب کسی کھڑکی یا کئی سو میٹر دُور کسی گھنے درخت کی مچان پہ بیٹھے شکاری کا اگلا شکار وہ نہ ہو۔ امریکی فوج میں ترجمان کی حیثیت سے کام کرنے والے ایک عراقی باشندے نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ خوف کا عالم یہ ہے کہ اکثر امریکی فوجی پتلون کے نیچے پیمپر استعمال کرنے لگے ہیں‘ کہ خوف کے عالم میں ساتھیوں کے سامنے جگ ہنسائی نہ ہوجائے۔
عراق میں امریکی فوج کے ایک ہزار دن پورے ہونے پر خود مغربی ذرائع ابلاغ نے امریکی فوج کے گرتے مورال اور ناقابلِ تلافی نقصانات کا ذکر کیا ہے۔ برطانوی اخبار انڈی پنڈنٹ نے اس موقع پر اپنی تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ان ہزار دنوں میں امریکی فوج ۲۰۴ ارب ڈالر جنگ میں جھونک چکی ہے۔ دیگر آزاد ذرائع کے مطابق امریکا کے جنگی اخراجات ستمبر ۲۰۰۵ء تک ۷۰۰ ارب ڈالر تک پہنچ چکے تھے۔ واضح رہے کہ ویت نام کی پوری ۱۸سالہ جنگ میں امریکا کے ۶۰۰ ارب ڈالر غارت ہوئے تھے۔
برطانیہ بھی ۳ئ۵ ارب سٹرلنگ پائونڈ خرچ کرچکا ہے اور ان اخراجات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے‘ جب کہ ورلڈبنک کی رپورٹ کے مطابق عراق کی مکمل تعمیرنو اور بحالی کے لیے صرف ۳۶ارب ڈالر درکار تھے۔ انڈی پنڈنٹ مزید لکھتا ہے کہ امریکی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہزار دنوں میں مرنے والے امریکی فوجیوں کی تعدد ۲ہزار ۳ سو ۳۹ ہے۔ اگرچہ حقیقی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ زخمیوں کی تعداد ۱۶ ہزار ہے۔ یہ تعداد بھی حقیقی سے کہیں کم ہے‘ جب کہ اس موقع پر عرب ذرائع ابلاغ پر ابومصعب الزرقاوی کی آواز میں نشر ہونے والے پیغام میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مرنے اور زخمی ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد ۴۰ ہزار سے متجاوز ہے لیکن امریکا اصل حقیقت کو چھپا رہا ہے۔
اس دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے عراقی باشندوں کی تعداد اخبار کے مطابق ۳۰ہزار اور زخمی یا اپاہج ہوجانے والوں کی تعداد دسیوں ہزار ہے‘ جب کہ آزاد ذرائع کے مطابق کم از کم ایک لاکھ عراقی شہری موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں‘ اور جو زندہ ہیں ان کی زندگی عذاب بن چکی ہے۔ اگرچہ کہنے کو تو انتخابات کے بھی کئی دُور ہوچکے ہیں‘ پارلیمنٹ اور حکومت بھی وجود میں آچکی ہے‘ لیکن عراقی عوام کی زندگی امریکیوں کی بم باری‘ نامعلوم بم دھماکوں‘ بے روزگاری کے مہیب اندھیروں‘ ابوغریب کے خوف اور مجہول و تاریک مستقبل کی بے یقینی سے عبارت ہوکر رہ گئی ہے۔ وہ مغربی ذرائع ابلاغ اور امریکی دانش ور جو تباہ کن ہتھیاروں کی تباہی کے نام پر چھیڑی جانے والی اس جنگ کے حق میں زمین و آسمان کے قلابے ملارہے تھے‘ اب وہ بھی مسلسل لکھ رہے ہیں کہ ’’ہم عراق میں خودکُشی کر رہے ہیں، ہم امریکا اور امریکیوں سے عالمی نفرت میں اضافہ کررہے ہیں، ہم عراق میں کانٹے بو رہے ہیں، عراقی صورت حال قابو سے باہر ہوچکی ہے، ہمیں اپنی فوجیں واپس بلا لیناچاہییں‘‘۔
امریکی پالیسیوں کے سابق گرو ہنری کسنجر نے بھی ۱۲ دسمبر ۲۰۰۵ء کو ٹریبیون میڈیا سروسز اور الشرق الاوسط میں چھپنے والے اپنے ایک مضمون میں عراق کی مشکل صورت حال کا اعتراف کیا ہے لیکن اس بات پر بھی اصرار کیاہے کہ فی الحال امریکا کو عراق سے نکلنا نہیں چاہیے‘ کیونکہ ایسا کرنے سے پوری دنیا میں امریکی منصوبوں کو نقصان پہنچے گا۔ صدربش نے بھی بارہا اسی موقف کا اعادہ کیا ہے کہ عراق سے فوجیں واپس بلانے کی بات ہمارے ایجنڈے سے خارج ہے۔ ان کے بقول: ’’عراق سے فوری انخلا بہت بھاری غلطی ہوگی‘ یہ دہشت گردی کی فتح امریکا کی شکست ہوگی‘‘۔ امریکی وزیردفاع رمزفیلڈ نے بھی مسلسل یہی بات دہرائی ہے۔ ۱۲دسمبر کو اس نے کہا کہ ’’فوری انخلا ہزیمت کی طرف مختصر ترین راستہ ہے‘‘۔لیکن ۲۰۰۵ء کے اختتام پر ۲۳دسمبر کو رمزفیلڈ نے اچانک عراق پہنچ کر اعلان کردیا کہ مارچ ۲۰۰۶ء سے پہلے پہلے امریکا عراق سے اپنے ۷ ہزار فوجی واپس بلا لے گا۔ اسی طرح افغانستان سے بھی ۳ہزار فوجی واپس بلا لیے جائیں گے‘ جب کہ عراقی مشیر قومی سلامتی موفق الربیعی نے بیان دیا کہ ۲۰۰۶ء کے اوائل میں امریکی فوج کا ۲۵فی صد‘ یعنی تقریباً ۳۰ ہزار فوجی عراق سے نکل جائیں گے۔ واضح رہے کہ اس وقت عراق میں امریکی فوجیوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہے اور اس پر اکثر تجزیہ نگاروں کااتفاق ہے کہ ان میں سے تقریباً ہر فوجی کل سے پہلے آج گھر واپس جانے کے لیے بے تاب ہے۔
ایک امریکی فوجی جمی ماسی (Jimmy Massey) نے عراق سے نکلنے کی کئی قانونی کوششوں میں ناکامی کے بعد وہاں سے فرار ہونے کا راستہ منتخب کیا۔ فرانس پہنچ کر اس نے کہا کہ میں اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا اور اپنی قوم اور ملک کو تباہی سے بچانے کی کوشش کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے اپنے تجربے اور مشاہدے پرمبنی ایک اہم کتاب لکھی جو اکتوبر۲۰۰۵ء میں طبع ہوکر مارکیٹ میں آئی ہے۔ کتاب کا عنوان ہی دہلا دینے والا ہے: kill …kill …kill (ماردو… مار دو… ماردو)۔ جمی نے اس کتاب میں امریکی افواج کے اخلاقی دیوالیہ پن کا ماتم کیا ہے۔ ۱۸ برس تک فوجی خدمات سرانجام دینے والا ابھی مزید سات سال تک ’قوم و ملک کی خدمت‘ کرسکتا تھا۔ لیکن اس نے اعتراف کیا کہ’ ’اب امریکی فوجیوں کا فریضہ‘ امریکی قوم کی عزت و وقار کا دفاع نہیں‘ بلکہ دوسری اقوام کی عزت و وقار خاک میں ملانا رہ گیا ہے‘‘۔
جمی نے لکھا ہے کہ وہ ۲۰۰۳ء میں عراق میں داخل ہونے والی امریکی افواج میں شامل تھا اور ہمیں کہا گیا تھا کہ ہم نے بڑی تعداد میں عراقی جرنیلوں اور فوجی افسروں کو خرید لیا ہے اور اب جلد ہی جنگ ختم ہوجائے گی۔ ہمیں باور کروایا گیا تھا کہ عراق میں ہماری موجودگی صرف پٹرول کی خاطر نہیں ہے۔ اگرچہ یہ بھی ایک اور حساس و قیمتی ہدف ہے لیکن ہم یہاں امریکا کے وسیع تر اور دُور رس اہداف کے حصول کے لیے آئے ہیں۔
تربیتی مراحل کا ذکر کرتے ہوئے وہ امریکی فوجیوں کی نفسیات کی حقیقی تصویرکشی کرتا ہے: ’’ہم نے اپنے فوجی اسکولوں میں پیشہ ورانہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اصل سبق یہ یاد کیا کہ ہمیں اپنی تمام تر صلاحیتیں اور توانائیاں اپنی قوم و ملک کے دفاع کے لیے وقف کرنا ہیں‘‘۔ ہمیں مخاطب کرتے ہوئے ہمارے انسٹرکٹر کہتے تھے: سنو تم امریکی فوج ہو‘ وہ سوپرپاور کہ جسے کبھی شکست نہیں دی جاسکتی‘ جس سے زیادہ طاقت ور اور کوئی فوج نہیں۔ اس لیے تمھیں ہمیشہ یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ تم امریکی ہو‘ تم سب سے طاقت ور ہو… ہاں‘ سب سے طاقت ور ہو۔ ہمیں یہ سبق بار بار‘ ایک ایک دن میں کئی کئی بار دیا جاتا‘ یہاں تک کہ ہم واقعی یہ سمجھنے لگے کہ ہم سب سے برتر‘ سب سے طاقت ور ہیں۔ ہمارے لیے یہ تصور بھی محال تھا کہ کوئی ہم سے بھی برتر ہوسکتا ہے۔ ہم دنیا کی ہر شے کو خود سے حقیر اور ہر انسان کو زمین پر رینگنے والا کیڑا مکوڑا سمجھنے لگے‘‘۔
اس احساس تفاخر و تعلّی کے ساتھ امریکی افواج عراق میں داخل ہوئیں اور جب آغاز ہی سے انھیں عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو افسروں کے دماغ اُلٹ گئے۔ جمی کے بقول: ’’ہمارے افسر ہمیں حکم دیتے کہ ہر متحرک شے کو بھون ڈالو‘‘۔ اس کا مطلب ہے ہر بچے ‘بوڑھے‘ خاتون اور بے گناہ شہری کو قتل کرڈالو۔ ہمیں بار بار یہی حکم ملتا:ہرمتحرک شے کو بھون ڈالو۔ مجھے بھی ایسی کئی کارروائیوں میں شریک ہونا پڑا۔ ہم عمداً قتل میں ملوث ہوتے چلے گئے۔ ہم بچوں کو بھی قتل کرنے لگے… احکامات جاری رہے: مار دو… مار دو… ماردو۔ یہاں تک کہ ہم انسانیت سے عاری ہوگئے‘‘۔ شاید یہی وہ لمحہ تھا جب جمی کے ضمیر نے سوال اٹھایا : ’’امریکا اس جنگ سے کیا حاصل کرے گا؟ ہم بے گناہ بچوں‘ خواتین اور کمزور بوڑھوں کو کیوں قتل کر رہے ہیں؟‘‘
جمی اعتراف کرتا ہے کہ ’’امریکی فوج کے لیے لمبی جنگ لڑنا ممکن ہی نہیں ہے۔ امریکی فوجی اپنے عسکری وسائل‘ ٹکنالوجی‘ سیٹلائٹ کے جال‘ جاسوسی معلومات اور مٹھی بھر ڈالروں کے عوض اپنا ضمیر و وطن بیچنے والوں کے سہارے کسی بھی ملک کو تباہ تو کرسکتا ہے‘ لیکن وہ کوئی بھی ایسی طویل جنگ نہیں لڑسکتا جو دھیرے دھیرے تمام وسائل کو راکھ میں بدل دے۔ خاص طور پر اجنبی شہروں میں لڑی جانے والی ایسی گوریلا جنگ لڑنا تو کسی بھی امریکی فوجی کے بس کی بات نہیں کہ نہ تو وہ ان کی زبان سمجھتا ہو اور نہ اس کے راستوں سے پوری طرح آشنا ہو‘‘۔ اس نے ایک پورا باب اس نکتے پر لکھا ہے کہ امریکی افواج اپنی اس کمزوری کو اسرائیلی فوجیوں کے ذریعے دُور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ ان کی اٹھان ہی ملکوں کو فتح کرنے کے بجاے شہروں کے اندر لمبی لڑائی لڑنے پر ہوتی ہے۔ لیکن یہ پالیسی بھی اپنے منفی اثرات مرتب کررہی ہے۔ سب سے برتر ہونے کا زعم رکھنے والے امریکی فوجی یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کہ ان پر کوئی اور حکم چلائے اور کوئی دوسرا فوجی ان سے بہتر ہوسکتا ہے۔ بالآخر وہ اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ عراق پرحملہ دراصل تھا ہی اسرائیلی مفادات کی خاطر اور اسرائیلیوں نے ہی ہمیں اس جنگ میں کھینچا ہے۔ وہ لکھتا ہے: ’’لیکن ہم فوجیوں کو یہ بات تب سمجھ آئی جب ہماری کارروائیاں صرف تشدد پر ہی مبنی ہوکررہ گئی تھیں‘ ہم آزادی کے علَم بردار سپاہیوں سے دہشت گردوں میں بدل گئے‘ امریکی فوجی وردی میں ملبوس دہشت گرد‘‘۔
کتاب کے تمام ابواب بہت اہم اور حساس ہیں‘ جو کسی مسلم بنیاد پرست یا جنگ مخالف لکھاری نے نہیں لکھے‘ بلکہ اس پوری جنگ میں شریک امریکی فوجی نے لکھے ہیں۔ کتاب لکھنے کے بعد اس سے ایک فرانسیسی اخبار لومانیٹی نے انٹرویو لیتے ہوئے پوچھا کہ ’’یہ سب کچھ لکھنے کے بعد آپ کوئی خوف محسوس نہیں کرتے؟ اس نے جواباً کہا: ’’میں نے ایک حقیقت بیان کی ہے تاکہ دنیا اس سے آگاہ ہوجائے۔ میں نے اپنے ضمیر کی تسکین کا سامان کیا ہے۔ اب مجھے سکون سے نیند آسکے گی۔ مجھے اس امر کی کوئی پروا نہیں کہ امریکی فوج کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ میں نے کتاب میں صراحت سے لکھا ہے کہ امریکا عراق میں آزادی یا جمہوریت نہیں پھیلا رہا بلکہ موت‘ تباہی اور خونی سیاست کو رواج دے رہا ہے۔ امریکا انسانی ضمیر کی آوازوں پر کان نہیں دھر رہا۔ یہ ایک حقیقت ہے اور میں اس حقیقت کی خاطر موت بھی قبول کرنے کو تیار ہوں تاکہ پوری دنیا اس سے آگاہ و باخبر ہوجائے‘‘۔
امریکی ذمہ داران کو یہ سوچنا ہوگا کہ اگر اس کا اپنا بازوے شمشیر زن‘ امریکی پالیسیوں کی مخالفت میں موت تک قبول کرنے پر آمادہ ہے تو وہ لوگ جن کے ملک پر وہ قابض ہے یا قابض ہونا چاہتا ہے وہ کیونکر سکون سے بیٹھیں گے۔ بغداد کا شکاری ایک فرد ہوسکتا ہے لیکن کیا اس ایک فرد سے نجات پاکر (اگر پاسکے)‘ امریکی فوج سُکھ کا سانس لے سکتی ہے۔
امریکا کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہر انسانی جان قیمتی اور ہر انسان محترم و مقدس ہے۔ اسے بالآخر نہ صرف عراقی و افغانی یا باجوڑ اور وزیرستان کے انسانوں کی جان و مال کا بھی احترام کرنا ہوگا بلکہ خود اپنے فوجیوں کو بھی موت کی وادیوں سے نکالنا ہوگا۔ آخر انسانیت بھی کوئی چیز ہے۔ اگر امریکا اس تلخ حقیقت پر کان نہیں دھرتا اور تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا تو یقینا وہ وقت بہت زیادہ دُور نہیں رہے گا جب دنیا ’سابق سوویت یونین‘ کی طرح امریکا کا نام بھی ’سابق ریاست ہاے متحدہ امریکا‘ کے الفاظ میں لکھا کرے گی۔ تب ’جمی ماسی‘ کے الفاظ میں: ’’مٹھی بھر ڈالروں کے عوض اپنا ضمیر و وطن بیچ ڈالنے والوں‘‘ کو بھی اپنے ایک ایک جرم کا حساب دینا ہوگا۔
سوال: موجودہ دور میں انشورنش ایک ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔ ایک محدود مالیت کی قسط اداکر کے ایک بڑی رقم یک مُشت میسر آجاتی ہے۔ اگر خدانخواستہ پالیسی ہولڈر کا انتقال ہوجائے تو رقم اس کے ورثا کو مل جاتی ہے اور واجب الادا اقساط بھی معاف ہوجاتی ہیں۔ ناگہانی حالات میں یہ بڑا سہارا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی سہولتیں میسر آجاتی ہیں‘ مثلاً علاج معالجے کی سہولت‘ بچوں کے لیے ماہانہ وظیفہ وغیرہ۔ کیا موجودہ حالات میں اس کا جواز ہے؟ اگر نہیں‘ تو اس کا متبادل بھی کوئی ہے؟
جواب :پاکستان اور باہر کے ملکوں میں انشورنس اور لائف انشورنس کمپنیاں سودی نظام پر عمل کرتی ہیں اور اس بنا پر ان سے پالیسی لینا سودی نظام کو تقویت پہنچانے کے مترادف ہے۔ بعض ممالک میں قانون یہ مطالبہ کرتا ہے کہ جب تک ایک کار انشورنس نہ کرا لی جائے اسے سڑک پر نہیں لایا جاسکتا۔ جہاں پر پابندی ہے وہاں اضطرار کے اصول کی بناپر اسے گوارا کیا جائے گا لیکن جہاں قانون اجازت دیتا ہو کہ ایک معمولی رقم ادا کر کے تھرڈ پارٹی انشورنس کرا لی جائے اور کوئی مستقل قسط ادا نہ کی جائے تو اس پر عمل کرنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن بیمۂ زندگی(لائف انشورنس) اس سے بہت مختلف ہے۔
بیمۂ زندگی میں ایک کمپنی ایک شخص کی صحت‘ خاندانی کوائف اور دیگر اندازوں کی بنا پر اسے ایک پالیسی آفر کرتی ہے جس میں وہ ہر ماہ ایک متعین رقم کمپنی کودیتاہے اور اگر اسے کوئی حادثہ یا کمپنی کے اندازے کے برخلاف جلد موت واقع ہوجائے تو جو رقم اس نے ہر ماہ جمع کرائی تھی اور اس پر ایک مزید رقم جسے ’منافع‘ کہاجاتا ہے ادا کر دی جاتی ہے۔ اسے ہمارے فقہا نے حرام قراردیا ہے۔ جس کی دو واضح وجوہات ہیں۔ اوّلاً: انشورنس کمپنی جو رقم بھی لیتی ہے اسے عموماً سودی کاروبار ہی میں لگایا جاتا ہے جس سے وہ کمپنی دوسروں کی رقم پر اپنے قصر تعمیر کرتی رہتی ہے اور یہ استحصال کی واضح شکل ہے۔ ثانیاً: زندگی اور موت ہرشکل میںاللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی پرورش کا ذمہ لیا ہے اور ایک اہلِ ایمان کو یہ بات سمجھا دی ہے کہ وہ غیرمتوقع حالات کے لیے اپنی رقم کا ایک حصہ محفوظ رکھے تاکہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجاے وہ خود اپنے مسائل کا حل کرسکے۔ ایک معروف صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں چاہتا ہوں میں اپنی تمام دولت اللہ کی راہ میں قربان کر دوں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا تمھاری اولاد ہے اور جب انھوں نے بتایا کہ ہاں میں صاحبِ اولاد ہوں تو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنی اولاد کو ایسے حال میں نہ چھوڑیں کہ وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔ گویا اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اورانفاق ایک اہم عبادت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ توازن برقرار رکھتے ہوئے اولاد کے لیے اتنی رقم بچارکھنا کہ وہ بعد میں کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے‘ بھی اللہ کے رسولؐ کی سنت ہے۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ غیرمتوقع یا متوقع حالات کے لیے ایک حصہ الگ کرنا خود مسلمان کی منصوبہ بندی میں شامل ہونا چاہیے۔ فرض کرلیا جائے کہ ایک شخص نہ خود اتنا کماتا ہے کہ اپنی تمام ضروریات پوری کرسکے اور نہ اس قابل ہے کہ پس انداز کر کے اپنے پیچھے اپنی اولاد کے لیے کچھ چھوڑ کر جائے تو اس کا کیا حل کیا جائے گا؟ اسلام نے اپنے فقہی نظام میں جہاں وراثت کے اصول متعین کر دیے ہیں وہیں کفالت کے حوالے سے بھی یہ کوشش کی ہے کہ خاندان کے اندر رہتے ہوئے ضرورت مند حضرات کی ذمہ داری اٹھائی جائے۔ نہ صرف یہ بلکہ ریاست پر بھی یہ ذمہ داری عائد کردی گئی ہے کہ وہ صدقات‘ اوقاف اور زکوٰۃ کی رقوم سے ایسے افراد کی امداد اس حد تک کرے کہ وہ اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکیں۔ مثلاً ایک شخص کا تمام سامانِ تجارت نذرآتش ہوگیا‘ سیلاب یا زلزلے سے تباہ ہوگیا تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے اتنا معاوضہ دے کہ اس کے نقصان کی تلافی ہوجائے۔
انشورنس کمپنیاں جس شرح سے پالیسی لینے والوں کو ’منافع‘ دیتی ہیں اگر اس کا مقابلہ ان کے مجموعی ’منافع‘ سے کیا جائے تو ان کا بظاہر ’عملِ خیر‘ ایک کھلا استحصال نظر آئے گا۔
لائف انشورنس اور عمومی انشورنس کے ناجائز ہونے پر بڑی حد تک ہمارے فقہا کا اجماع ہے۔ رہا یہ سوال کہ پھر متبادل طور پر کیا کیا جائے تو اگر غور کیا جائے تو ہر معاشرے میں ایسے باہمی امداد کے ادارے corperativesقائم کیے جاسکتے ہیں جو بغیر کسی سودی کاروبار کے اپنے ممبران کے لیے مشکلات اور حادثات میں امداد فراہم کرنے کے لیے مختلف پراجیکٹ بناسکتے ہیں اور اس طرح اس مسئلہ کا اسلامی حل نکالا جا سکتا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س : بنک افسران اور دیگر بنک ملازمین کے لیے پیشگی تنخواہ اسکیم کا اجرا کیا گیا ہے۔ اس کے تحت مطلوبہ رقم پر تقریباً ۷ فی صد سروس چارجز کاٹے جاتے ہیں اور آسان اقساط میں رقم واپس کرنا ہوتی ہے۔ ایک ملازم پیشہ فردکے لیے اس میں بہت سہولت ہے۔ قرض لے کر مکان کی تعمیر جیسی ناگزیر ضرورت پوری ہونے کی سبیل نکل سکتی ہے۔ بہت سے لوگوں نے اسے اسلام کے مطابق قرار دیا ہے اور اس سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سودی اسکیم ہے‘ تاہم حالتِ اضطرار کے تحت ہم اس سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ ہماری مشکلات اور حالات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے رہنمائی فرمایئے کہ کیا میں اس اسکیم سے فائدہ اٹھا سکتا ہوں؟ میں اپنی آخرت برباد کرکے دنیا نہیں بنانا چاہتا۔
ج: آپ نے ایڈوانس تنخواہ لینے پر سروس چارجز کے بارے میں جو سوال اٹھایا ہے وہ ایک اہم عملی مشکل کی نشان دہی کرتا ہے۔ہم جس ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام میں زندگی گزار رہے ہیں اس میں سب سے زیادہ مظلوم طبقہ غالباً ملازمت پیشہ افراد ہیں جو اپنی محدود آمدنی اور بڑھتے ہوئے اخراجات کی بنا پر بعض بنیادی ضروریات ِ زندگی کے حصول سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ مکان ایسی ہی ایک بنیادی ضرورت ہے اورایک جدید اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ہے لیکن چونکہ ہمارے ہاں ۵۸سال گزرنے پر بھی وہ اسلامی ریاست جس کے لیے اس ملک کو حاصل کیا گیا تھا قائم نہیں کی جا سکی‘ اس لیے آپ کو اور بہت سے دیگر شہریوں کو سخت عملی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سروس چارجز کی اصطلاح سے اگر مراد یہ ہے کہ آپ نے ایک کارکرائے پر لی اور ایک دن کے استعمال کرنے کے عوض آپ نے اس کے مالک کو ۸۰۰ روپے ادا کر دیے تو یہ ایک جائزعمل کہلائے گا۔ لیکن اگر آپ ایک بنک سے رقم قرض لیں اور واپسی کی ہر قسط پر ۷ فی صد سروس چارجز دیں تو نام بدل دینے کے باوجود یہ سود کی تعریف میں آئے گا کیونکہ کوئی بھی متعین رقم جو اصل سے زائد وصول کی جائے سود یا ربا قرار دی جائے گی۔
حالت اضطرار میں ایک حرام چیز سے وقتی طور پر استفادے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ چیز حلال ہوگئی بلکہ یہ اجازت صرف اس بنا پر ہے کہ ایک حرام کام کا کیا جانا جان کے ضائع ہونے سے کم درجہ رکھتا ہے اس لیے جان کو بچانے کے لیے اس کی اجازت دی گئی ہے اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ ایسا کرنے میں نہ تو اللہ تعالیٰ کے کسی حکم سے بغاوت و سرکشی مقصود ہو اور نہ ایسے عمل کو معمول بنایا جائے۔
اگر آپ زمین کے مالک ہیں تو آپ اس زمین کی بنیاد پر بنک سے ایک معاہدہ کریں جس میں وہ مطلوبہ رقم بطور سرمایہ کاری مکان کی تعمیر میں لگائے اور بازار میں اس قسم کے مکان کا جو کرایہ رائج ہو وہ آپ اسے ہر ماہ ادا کریں یہاں تک کہ بنک نے جو سرمایہ لگایا ہے وہ اسے واپس مل جائے۔ آپ نے بالکل صحیح بات تحریر کی ہے کہ اس دنیا کی زندگی میں اپنی سہولت کے لیے ایک ناجائز ذریعے سے مکان بنا لینا اور آخرت کو خراب کر دینا ایک بہت خسارے کا سودا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی حدود کی حفاظت کرنے اور اللہ کے لیے ہر آزمایش استقامت سے گزارنے کی توفیق دے۔(ا-ا)
س : میرے شوہر ملک سے باہر ہیں۔ انھوں نے بنک اکائونٹ صرف میرے نام سے کھلوایا ہے تاکہ مجھے رقم نکلوانے میں دشواری نہ ہو۔ انھوں نے خرچ کا تقریباً کُلی اختیار مجھے دیا ہوا ہے۔ اب اگر میںان سے پوچھے بغیر فی سبیل اللہ کچھ خرچ کروں تو کیا گناہ ہوگا‘ جب کہ میری خواہش ہے کہ میں اپنے ہاتھ سے بھی راہِ خدا میں خرچ کروں؟ واضح رہے کہ وہ گھر میں خرچ کے متعلق تو کچھ نہیں بولتے مگر شاید صدقہ خیرات کو بہت زیادہ پسند نہ کریں۔ یہاں پر یہ بات بھی بتاتی چلوں کہ وہ خود الحمدللہ فی سبیل اللہ کافی خرچ کرتے ہیں مگر میرا خرچ کرنا انھیں برا لگتا ہے۔ اس کے علاوہ میں نے کچھ رقم ان سے چھپاکر پس انداز کی ہوئی ہے۔ اگر میں اسے گھر میں خرچ کردوں اور بعد میں انھیں بتائوں تو انھیں برا نہیں لگے گا بلکہ وہ خوش ہوں گے اور اگر ان کو بتا کر فی سبیل اللہ دے دوں تو ایک تو انھیں شاید اعتراض بھی ہو اور دوسرے یہ کہ ہوسکتا ہے وہ خود خیرات کرنے سے اپنا ہاتھ روک لیں جو میں نہیں چاہتی۔ کیا ان حالات میں‘ میں انھیں بتائے بغیر یہ رقم فی سبیل اللہ خرچ کرسکتی ہوں؟
ج: مالی معاملات میں اور وہ بھی خصوصاً جب ان کا تعلق قریبی رشتہ داروں کے ساتھ ہو غیرمعمولی احتیاط کرنا ایمان کا تقاضا ہے اور آپ کو اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ نے آپ کو نہ صرف اس معاملے میں باشعور بنایا بلکہ آپ کے شوہر کے دل میں آپ کے لیے اتنا اعتماد پیدا کیا کہ وہ گھر کے خرچ میں آپ سے کوئی حساب طلب نہیں کرتے۔ ایسی صورت حال میں آپ کی فکرمندی قابلِ فہم ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان میں مزید اضافہ کرے اور آپ پر آپ کے شوہر کے اعتماد کو ہمیشہ قائم رکھے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث صحیح میں یہ بات فرمائی گئی ہے کہ سربراہِ خاندان گھرکا امیر ہے اور اس بنا پر جواب دہ بھی ہے (اصل الفاظ مسئول کے ہیں)۔ اس کی غیرموجودگی میں مسئولیت ’امارت‘ کی ذمہ داری بیوی کی ہے اور بیوی کی غیرموجودگی میں جو ملازم گھرکا نگراں یا محافظ بنایا جائے اس کی ہے۔ اس حدیث سے جو اصول نکلا وہ بڑا اہم ہے یعنی سربراہ کی حیثیت سے جو فیصلے ایک شوہر یا باپ کو کرنے ہوتے ہیں اس کی غیرموجودگی میں یہی منصب اور مسئولیت اس کی بیوی کی ہوجائے گی۔ ظاہر ہے یہ مسئولیت محض اولاد کی تربیت تک محدود نہیں ہے بلکہ گھر کے تمام معاملات کی ہے جس میں مالی معاملات بھی شامل ہیں۔ فقہ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جب تک ایک مباح کام سے روکا نہ جائے اس کے کرنے کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ آپ کے سلسلے میں چونکہ آپ کے شوہر نے آپ کو خود یہ اختیار دیا ہوا ہے کہ آپ جس طرح چاہیں خرچ کریں اس لیے اس سلسلے میں آپ کو مزید پوچھنے کی ضرورت نہیں۔
یہ بات بھی قرآن و حدیث سے واضح ہوتی ہے کہ اللہ کے راستے میں دینے کی ذمہ داری محض شوہر کی نہیں بلکہ بیوی کی بھی ہے۔ جہاں کہیں بھی قرآن کریم مومن مردوں اور عورتوں کی خصوصیات بیان کرتا ہے وہاں دونوں کا الگ الگ ذکر کرنے کے بعد کہتا ہے کہ وہ مومن مرداور وہ مومن عورتیں جو نماز میں خشوع‘ زکوٰۃ پر عامل‘ لغویات سے پرہیز اور عزت کی حفاظت کرنے والے ہیں اور امانتوں اور عہدوں کا پاس کرتے ہیں وہ وراثت میں یعنی بطور انعام کے فردوس پائیں گے۔ (المومنون ۲۴:۱-۱۰)
یہاں پر زکوٰۃ اور دیگر معاملات میں مومن مردوں اور عورتوں کو انفرادی طور پر ذمہ دار اور جواب دہ بتایا گیا ہے۔ اگر ایک بیوی صاحبِ نصاب ہے تو محض شوہر کی جانب سے اپنے اثاثے پر زکوٰۃ دینے سے وہ بری الذمہ نہیں ہوجاتی۔ ایسے میں جب آپ کے شوہر نے گھر کے خرچ میں آپ کو مکمل اختیار دیا ہے تو اب مسئولیت آپ کی ہے اور آپ کوخود اللہ تعالیٰ کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرنے ہوں گے۔
یہ بات بہت خوشی کا باعث ہے کہ آپ کے شوہر الحمدللہ خود اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں لیکن کسی وقت یہ غور کریں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والا اور کون ہوسکتا ہے۔ اس کے باوجود جب آپؐ ایک مرتبہ گھر تشریف لاتے ہیں اور اُم المومنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ کہیں سے گوشت تحفتاً آیا تھا‘ انھوں نے اس کا بیش تر حصہ اللہ کی راہ میں دے دیا اور صرف ایک دست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بچاکر رکھا ہے تو شارعِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات فرمائی اس سے بہت سے اصول نکلتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم نے جو اللہ کی راہ میں دے دیا وہی تو بچ گیا۔ گویا اللہ کی راہ میں جتنا دیا جائے گا وہ دینے والے کے حساب میں سات سو گنا یا اس سے بھی زائد بڑھا کر جمع ہوگیا۔ کیا آپ اور آپ کے شوہر یہ پسند نہیں کریں گے کہ جو کچھ وہ دیں اس کا اجر تو انھیں ملے ہی‘ ساتھ میں جو آپ اس طرح دیں کہ دوسرے ہاتھ (یعنی آپ کے شوہر کو) کو اس کی خبر نہ ہو وہ بھی ان کے اور آپ کے حساب میں اللہ تعالیٰ کے ہاں محفوظ ہوجائے؟
اگر کبھی آپ ضرورت محسوس کریں تو شوق سے اس کا ذکر بھی شوہر سے کرسکتی ہیں لیکن اگر ناراضی کا خطرہ ہو تو ذکر کرنا ضروری نہیں۔ ایک مرتبہ ملکیت جب آپ کے ہاتھ میں منتقل ہوگئی تو اب آپ کی صواب دید زیادہ معتبر ہوگی۔(ا-ا)
علامہ طنطاوی مصر کے ایک روشن خیال اور جید عالمِ دین‘ مفسرِقرآن اور ایک ایسے مفکر تھے جو کائنات کی وسعتوں پر قرآن کی روشنی میں غوروفکر اور تدبر کیا کرتے تھے۔
علامہ نے قرآن کی مشہور تفسیر الجواہر لکھی جو ۲۵ اجزا اور ایک ملحق پر مشتمل ہے۔ زیرنظر کتاب اسی ملحق کا اُردو ترجمہ ہے۔ پون صدی قبل لکھی گئی اس تحریر میں اُس وقت دستیاب سائنسی معلومات کو قرآن سے ثابت کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔ مغرب کے مادی سیلاب کا راستہ روکنے کے لیے نسلِ نو کو خوابِ غفلت سے جگانا اور سائنس اور ٹکنالوجی کی تعلیم کے حصول پر زور دینا اس کتاب کا خاصہ ہے۔ علامہ صاحب نے جہاں بھی سائنسی انکشافات اور حقائق بیان کیے ہیں وہاں عام فہم انداز میں تحصیلِ علم اور تحقیق و جستجو کی ترغیب بھی دی ہے۔
اس کتاب میں انسانی جسم کے مختلف اعضا اور نظاموں:دورانِ خون‘ دل کی ساخت‘ شریانوں اور وریدوں کے افعال‘ اور دانتوں کی ساخت پر درست اور تفصیلی بحث موجود ہے۔ اسی طرح حشرات الارض میں سے ہشت پا (آکٹوپس) کی ساخت اور دفاعی نظام پر بھی درست معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں سمندری مخلوق‘ مختلف پودوں اور بیجوں کے متعلق مفید معلومات‘ جس انداز میں پیش کی گئی ہیں اس سے علامہ صاحب کے ذوق‘ وسعت ِمطالعہ اور شوق و جستجو کو داد دینی پڑتی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے کائنات اور موجودات کے بارے میں بہت سی آیات میں اشارے بیان فرمائے ہیں جو آج کی سائنس کے حوالے سے بہت اہم ہیں لیکن قرآنی آیات کی توضیح و تفسیر سائنسی انکشافات اور صنعتی عجائبات کی روشنی میں اس طرح سے کرنا کہ قرآن سائنس کی ایک کتاب بن کر رہ جائے‘ بے اعتدالی ہے۔ کیونکہ سائنسی انکشافات کا دارومدار مفروضات پر ہوتاہے جو آج کچھ اور کل کچھ اور بھی ہوسکتے ہیں‘ جب کہ قرآن ایک قطعی علم‘ اٹل حقیقت اور لاریب کتاب ہے۔ علامہ صاحب اکثر مقامات پر ایسی ہی بے اعتدالی اور افراط و تفریط کا شکار نظر آتے ہیں۔
حرفِ آغاز میں صحیح کہا گیا ہے کہ آنے والے علما کا کام تھا کہ وہ قرآن کی روشنی میں سائنس کی پوزیشن واضح کرتے اور ان [علامہ طنطاوی] سے سرزد ہونے والی غلطیوں کو نہ دہراتے بلکہ اصلاح کرتے ہوئے اس کام کوآگے بڑھاتے۔ ترجمے میں بعض عربی الفاظ کو جوں کا توں رہنے دیا گیا ہے جس کی وجہ سے روانی متاثر ہوئی ہے۔ (پروفیسر وقار احمد زبیری)
توحید‘ عقیدہ اسلام کا بنیادی رکن ہے اور شرک عقیدہ توحید کی ضد ہے۔ ہم کو زندگی میں اس مسئلے کے گوناگوں پہلوئوں سے کسی نہ کسی موڑ پر سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی اس کا اظہار سیدھا سیدھا بت پرستی کی سی شکل میں‘ کسی نئے معبود کی صورت میں ہوتا ہے اور کبھی عقیدتوں میں غلو اور مبالغے کی صورت میں شرک راستہ بناتا ہے۔
مولانا عامر عثمانی نے: ’’اس مقصد عظیم کے پیش نظر‘ اپنے پورے ماحول حتیٰ کہ شیوخ اساتذہ تک سے اختلاف و مخالفت میں بھی کوئی تامل و تساہل نہیں برتا‘‘ (ص ۶)۔ بدعت اور طریقت نے عقیدت اور نیکی کی تلاش میں اس نوعیت کی بہت سی بحثوں کو اٹھایا کہ جن کا قرآن و سنت میں کوئی مقام نہ تھا‘ مگر زورِ کلام اور ندرتِ تخیل نے اُمت کی وحدت پر ضرب لگانے کے لیے ایسی موشگافیوں کو خوب غذا فراہم کی۔ یہ کتاب اپنے متن‘ لہجے اور سنجیدہ زبان میں‘ علمی گفتگو کو سلیقے سے پیش کرنے کا ایک نمونہ ہے۔ دلیل کو دلیل سے کاٹنے اور قرآن و سنت کی تعلیمات کو ان کے اصل رنگ اور مزاج و مذاق کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سوالات گوناگوں ہیں اور جوابات دلیل و برہان سے بھرپور ہیں۔فاضل مرتب جناب سید علی مطہر نقوی شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے یہ مباحث شائع کیے۔(سلیم منصور خالد)
اس حقیقت سے انکار بہت مشکل ہے کہ مختلف ادوار میں بدطینت‘ دروغ گو لوگوں‘ زندیقوں اور اسلام دشمن عناصر نے دین حنیف میں تحریف اور تشکیک‘ دراندازی اور رخنہ اندازی کے مذموم مقاصد کو پروان چڑھانے کی غرض سے ایسی ایسی روایتیں گھڑیں جس سے دین میں تشکیک کی راہیں کھلیں اور کافی حد تک بے عملی نے رواج پایا۔
اس روش کے سدّباب کے لیے علماے حق میدان میں آئے جنھوں نے کمال محنت اور شب و روز کی عرق ریزی سے وہ احادیث کے ایسے مجموعے منظرعام پر لے آئے جن میں ضعیف اور خودساختہ اور من گھڑت روایات کو چھانٹ کر صحیح روایات سے الگ کرکے رکھ دیا اور صحیح احادیث کو شفاف آئینے کی طرح دنیا کے روبرو پیش کر دیا۔
شیخ احسان بن محمد العتیبی نے جو‘ جناب ناصرالدین البانی صاحب کے شاگرد رشید ہیں ۱۰۰مشہور ضعیف اور خودساختہ احادیث کو ایک ہی جگہ جمع کردیا ہے جنھیں اس معاشرے کے کم علم خطبا اور بے عمل واعظین اپنی تقریروں میں بڑے زوردار انداز میں بیان کرتے ہیں۔ اس طرح غیرحقیقت‘ حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے اور غیرمصدقہ ضعیف اور موضوع روایات عملی زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں اور عوام بدعت اور غیربدعت میں امتیاز نہیں کرسکتے۔ اس مشکل کو حل کرنے میں یہ کتاب بڑی معاون اور مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ ہر خاص و عام کے لیے ضعیف روایات کی پہچان‘ معرفت اور بدعات سے تحفظ اوربچائو کا بہت اچھا ذریعہ بن سکتی ہے۔ ہرمسلمان کو اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔ بڑی مفید کتاب ہے۔ مفید اس پہلو سے بھی ہے کہ مترجم نے ابتدا میں ضعیف حدیث کی تعریف‘ ان کی اقسام‘ ان کو گھڑنے کے اسباب‘ ان کو بیان کرنے کے طریقے کے ساتھ ان کتابوں کا بھی ذکر کردیا ہے جن میں ضعیف اور موضوع روایات جمع کی گئی ہیں۔ نیز اصطلاحات احادیث پر بھی خاطرخواہ روشنی ڈالی گئی ہے۔ (عبدالوکیل علوی)
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے بعد صحابیات طیباتؓ کی سوانح حیات تقدیسِ فکر اور تزکیۂ نفس کے لیے خواتین کے حوالے سے زیادہ مفید اور کارآمد ہے۔ ان ولولہ انگیز واقعات کے مطالعے سے نہ صرف تعلق باللہ اور عشقِ رسول محکم ہوتا ہے بلکہ خواتین کو اپنے اخلاق و کردار کو بہترین ساخت پر ڈھالنے کے لیے ایک سانچہ مہیا ہوجاتا ہے۔ مسلمان خواتین ان نشانات پر اپنا جادۂ حیات طے کرنے کے لیے عزم اور رہنمائی حاصل کرسکتی ہیں۔ صحابہ کرامؓ پر تو ہمیں بہت سی تصانیف ملتی ہیں لیکن صحابیاتِ اسلام کی حیاتِ مقدسہ اور کارہاے نمایاں پر اتنا نہیں لکھا گیا جتنا کہ اس کا حق ہے۔ زیرِتبصرہ کتاب اس صنف میں قابلِ قدر اضافہ ہے جس میں صحابیاتؓ کی پاکیزہ سیرت اور ان کے کارناموں کو خوب صورتی سے بیان کیا گیا ہے۔
مصنف نے ۷۰ صحابیات طیباتؓ کے حالات و واقعات یکجا کر کے ایک ایسا مرقع تیار کیا ہے جس کے مطالعے اور مشاہدے سے ایمان تازہ ہوجاتا ہے اور عمل کے لیے تڑپ پیدا ہوتی ہے۔ عہدنبوی کی ان جلیل القدر صحابیات کے سوانحی خاکوں میں عبادات و معاملات کا تذکرہ بھی ملتا ہے‘ حکمت و اخلاق کے موتی بھی اور تعلیم و تربیت کے انداز بھی۔ مصنف نے بالخصوص یہ پہلو بھی مدنظر رکھا ہے کہ ہرصحابیہؓ کے بارے میں رسول اکرمؐ کی خصوصی محبت و شفقت و رافت کے اظہار و واقعات کو حسنِ ترتیب کے ساتھ جمع کردیا جائے۔ اس طرح صحابیہؓ اور حضور اکرمؐ کے مابین محبت و رفاقت کا تعلق واضح ہوکر سامنے آجاتا ہے۔ ان نفوسِ قدسیہ کے حالاتِ زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شانِ استقامت و عزیمت کیا ہے‘ ایثار و وفا اور عزم و ہمت کسے کہتے ہیں‘ شیوہ تسلیم و رضا کیا ہے‘ قربانی کیسے دی جاتی ہے اور مقام فقروعشق کیا ہے اور خدمتِ دین کیسے کی جاتی ہے!
کتاب کا عربی سے اُردو ترجمہ ایسا رواں ہے کہ اس پر ترجمے کا گمان ہی نہیں ہوتا۔ آسان سلیس اور قابلِ فہم زبان‘ دل نشیں اسلوب علمی نکات‘ تلفظ کی احتیاط اور نادر کتب کے حوالے کتاب کی جامعیت میں اضافہ کرتے ہیں۔(ربیعہ رحمٰن)
آج کی گلوبل ویلج کی دعوے دار دنیا میں ہر پانچواں شخص انتہائی غربت کا شکار ہے۔ دنیابھر میں ڈیڑھ ارب لوگ صاف پانی اور ۲ ارب افراد بجلی سے محروم ہیں۔ روزانہ ۳۰ ہزار بچے غربت کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں چند سو امیر لوگوں کی دولت‘ دنیا کے ڈھائی ارب افراد کی دولت کے مساوی ہے۔ یورپ میں لوگ آئس کریم پر ۱۱ ارب ڈالر اور خوشبوئوں پر ۱۲ ارب ڈالر خرچ کرڈالتے ہیں۔ پاکستان جہاں ۹۰ کے عشرے میں ۲۲ فی صد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے تھے‘ اب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۳۲ فی صد سے زائد انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
زیرتبصرہ کتاب عالمِ اسلام کے معروف مفکر علامہ یوسف القرضاوی کی کتاب مشکلۃُ الفقرِ وکَیْفَ عَالَیھَا الاسْلَامُ کا اُردو ترجمہ ہے۔ اس کتاب میں علامہ موصوف نے غربت کے خاتمے کی تدابیر کے سلسلے میں دین اسلام کی حکمت عملی اور طریق کار کو وضاحت سے پیش کیا ہے۔
کتاب نو ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں مختلف مذاہب کا غربت کے بارے میں نقطۂ نظر پیش کیا گیا ہے‘ مثلاً: مسیحی موقف‘ جبریہ کا موقف‘ سرمایہ داروں کا موقف‘ کمیونسٹوں کا نظریہ وغیرہ ۔ دوسرے باب میں ان مذاہب کے بالمقابل اسلام کے نقطۂ نظر کی وضاحت کی گئی ہے اور قناعت و توکل اور خیرات کے غلط تصور کی وضاحت کے ساتھ ساتھ صحیح اسلامی تصور کو واضح کیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ خیرات و امداد کے بجاے اسلام غربت کا مستقل علاج تجویز کرنے پر زور دیتا ہے جس کے چند پہلوئوں پر تیسرے باب میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ چوتھے باب میں ان تدابیر کو پیش کیا گیا ہے جن پر عمل کر کے کسی معاشرے سے غربت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ پانچویں باب میں زکوٰۃ اور نظامِ زکوٰۃ کے جدید مسائل اور عملی پہلو پر مفید بحث کی گئی ہے‘جب کہ چھٹے باب میں بیت المال کے اسلامی تصور اور غربت کے خاتمے کے لیے اس کے کردار اور نظامِ احتساب کو واضح کیا گیا ہے۔ ساتویں باب میں اسلام کے ان اقدامات کا جائزہ لیا گیا ہے جن کے نتیجے میں ایک فرد کو اپنی دولت میں دوسروں کو شریک کرنے کے لیے ہدایات دی گئی ہیں۔ اسی طرح آٹھویں باب میں وقف کے اسلامی تصور اور تعمیرمعاشرہ میں اس کے کردار کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب کا آخری باب اسلامی ریاست اور اسلامی معاشرے کے اسی ماحول کو پیش کرتا ہے جو باہمی اخوت اور مؤدت کی بناپر تشکیل پاتا ہے۔ حکمرانی دراصل خدمتِ خلق سے عبارت ہوتی ہے‘ اور کفالتِ عامہ اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے جس کے نتیجے میں کسی بھی معاشرے سے غربت و افلاس کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے اور لوگ آسودہ حال زندگی گزارنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔
معاشیاتِ اسلام پر یہ کتاب ایک مفید علمی اضافہ ہے‘ اور اہلِ علم ‘معاشیات کے اساتذہ وطلبہ‘ علماے کرام اور حکمرانوں کے لیے ایک رہنما کتاب ہے۔ (میاں محمد اکرم)
سرمایہ داری اور اشتراکیت کی کش مکش کے دور میں ہماری توجہات کا زیادہ مرکز اشتراکیت رہا۔ اس کا خطرہ سر پر نظر آیا تو کتابچوں کے سلسلے بھی نکلے اور رسالوں نے ضخیم نمبر بھی نکالے۔ عالمی منظرنامے سے اشتراکیت رخصت ہوئی تو سرمایہ داری اپنے حقیقی رنگ وروپ میں سامنے آئی۔ یہ ہماری زندگیوں میں خوب دخیل ہے اور ہم خود اس کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ غالباً اسی لیے اس کی خطرناکی کا شعور گہرا نہیں۔ ادارہ معارف اسلامی لاہور نے اس ضرورت کو محسوس کیا اور اس کے ریسرچ اسکالر محترم فیض احمد شہابی نے سرمایہ داری کے پھندے سیریز تیار کی۔ مذکورہ بالا عنوانات کے تحت ان تحقیقی مقالوں میں کیا ہے‘ عنوان بتا دیتا ہے۔ ان موضوعات پر نہایت قیمتی تحقیقی مواد جو بڑی محنت سے مرتب کیا گیا ہے‘ شائقین کے لیے موجود ہے‘ اور اہم علمی ضرورت پوری کرتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کنواں کھودنا کافی نہیں‘ پانی پہنچانا بھی ہے۔ ضرورت مندوں کو پیاس کا احساس بھی دلانا ہے۔ یہ کام کون کرے؟ (مسلم سجاد)
جماعت اسلامی پاکستان کی سرگرمیوں کی تفصیلات کو اس کی ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اکثر ویب سائٹس کی طرح یہ بھی انگریزی میں ہے‘ تاہم اس میں کچھ چیزیں اُردو میں بھی دستیاب ہیں۔ اس سائٹ میں Overview کے تحت ایک عمومی جائزے میں جماعت اسلامی کے اغراض و مقاصد اور طریق کار‘ جماعت کے وِژن اور تبدیلی کے لیے طریق کار سے متعلق تحریریں اور جماعت کا دستور موجود ہے۔ جماعت کے بارے میں بنیادی معلومات بھی دستیاب ہیں۔ آخر میں بانیِ جماعت سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی حیات و خدمات پر ایک تحریر ہے۔ اس سیکشن کے تحت قومی ‘ ملّی اور بین الاقوامی موضوعات پر جماعت کے نقطۂ نظر پر مبنی تحریریں بھی موجود ہیں۔ پھرJI Media-News کے زیرعنوان دنیا کے مختلف ایشوز پر جماعت کے نقطۂ نظر کی وضاحت مختلف مضامین کی صورت میں ہے‘ جو جماعت کے ذمہ داران اور قیادت کی جانب سے تحریر کیے گئے ہیں۔
اس ویب سائٹ میں سب سے اہم حصہ Q&A‘ یعنی سوالات و جوابات کا ہے۔ بذریعہ ای میل دنیا کے کسی بھی حصے سے جماعت کی قیادت/ ذمہ داران سے جماعت‘ اسلام‘ پاکستان اور عالم اسلام سے متعلقہ کوئی بھی سوال پوچھا جاسکتا ہے جس کا جواب سوال کے ساتھ درج کر دیا جاتا ہے۔ ای-میل ایڈریس: qa@jamaat.org پر سوالات پوچھے جاسکتے ہیں۔
جماعت اسلامی کی ۵۰ سالہ سرگرمیوں اور خدمات سے متعلق ایک سیکشن میں مختلف تحریریں موجود ہیں جو بنیادی طور پر ترجمان القرآن میں ’اشارات‘ (اداریہ) کے عنوان سے شائع ہوتی رہی ہیں۔ جماعت کے قائدین کا تفصیلی تعارف باتصویر بھی دیا گیا ہے۔ دعوتِ دین کے حوالے سے آٹھ مختلف تحریریں موجود ہیں (بچوں کے لیے اسلام‘ اسلام اور خواتین‘ اسلام اور انسانی حقوق‘ اسلام اور عائلی زندگی‘ اسلامی طرزِ حیات‘ محمدؐ کون ہیں؟ اسلام کے سماجی اصول اور حسن البنا شہیدؒ کے مسلمان طالب علم کوخطوط)۔
’Isharat‘ کے تحت ترجمان القرآن میں ۲۰۰۳ء سے اب تک شائع ہونے والے ’اشارات‘ کا انگریزی ترجمہ موجود ہے‘ نیز انڈیکس بھی ہے جس کے ذریعے مختلف مہینوں کے اشارات دیکھے جاسکتے ہیں۔ مناسب ہوگا کہ اسے ماہنامہ ترجمان القرآن کی ویب سائٹ سے بھی لِنک کر دیا جائے۔ The Founder سیکشن میں بانیِ جماعت کے بارے میں ایک تفصیلی تحریر دستیاب ہے۔ اس ویب سائٹ میں ایک دل چسپ موضوع Digest کے عنوان سے ہے جس میں بیش تر انگریزی‘ جب کہ کچھ تحریریں اُردو میں بھی ہیں۔
آڈیو سیکشن میں مختلف قائدین کی تقریروں‘ انٹرویو اور مرکز جماعت میں جمعہ کے خطبات کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ صوتی ریکارڈ بذریعہ انٹرنیٹ آپ سماعت فرما سکتے ہیں۔ وڈیو سیکشن میں آخری کُل پاکستان اجتماع عام کی مکمل کوریج موجود ہے۔ Feed Back کے تحت انٹرنیٹ کے استعمال کنندگان سے اگر وہ چاہیں توا پنی راے دینے کے لیے ایک فارم بنایا گیا ہے۔ ایک سیکشن Useful Linksکا ہے جس میں جماعت کے ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ برادر تنظیمات نیز‘ جسارت‘ نوائے وقت اور جنگ کے Links بھی شامل ہیں اور یہاں سے آپ ان اخبارات کی ویب سائٹس تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔ News Update کے نام سے ایک اور سیکشن ہے جہاں سے جماعت سے متعلقہ تازہ ترین خبریں حاصل کرسکتے ہیں۔ تاہم ایک کمی اس سائٹ میں یہ محسوس ہوتی ہے کہ اس میں تازہ ترین تفصیلات دستیاب نہیں ہیں جن سے ہی کوئی دیکھنے والا اس کے ان خزانوں تک راستہ پاسکتا ہے۔(محمد الیاس انصاری)
محترم شاہنواز فاروقی نے ’اخوان المسلمون کی شان دار کامیابی‘(جنوری ۲۰۰۶ئ) میں جو کچھ لکھا ہے علامہ اقبال بھی بہت عرصہ قبل یہ لکھ چکے ہیں ؎
رنگ گردُوں کا ذرا دیکھ تو عُنّابی ہے
یہ نکلتے ہوئے سورج کی اُفق تابی ہے
علامہ اقبال نے مجملاً یہ بات کہی تھی لیکن شاہنواز فاروقی نے اس بات کو کھول کر بیان کیا ہے کہ عراق میں امریکا کو ہزیمت سے دوچار کرنے والے کوئی تنخواہ دار بریگیڈیئر‘ کرنل‘ جنرل یا فیلڈمارشل نہیں‘ اور نہ کوئی بکتربند فوج ہے بلکہ صرف اور صرف چند افراد کی قوتِ ایمانی اس کے مدِّمقابل ہے___ اور وہ بھی غیرمنظم۔ اگر اسلام منظم ہوکر مدِّمقابل آجائے تو …
لبیک اللھم لبیک (جنوری ۲۰۰۶ئ) قلب کی گہرائی سے نکلے ہوئے یہ کلمات بہت پُراثر اور ضیوف الرحمن کے لیے نادر تحفہ ہیں۔ اس سے بہتر‘ جامع اور مدلل تشریح اس سے قبل نظر سے نہیں گزری۔ اسے باربار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ اس کا خوب صورت پہلو اس کا دعوتی رنگ ہے۔ تاہم‘ تلبیہ میں ان الحمد والنعمۃ کے بعد لک والملک کو علیحدہ کرکے عنوان بنا دینے کے بجاے متصل ہی دینا مناسب تھا۔
’قربانی اور فلسفۂ قربانی‘ (جنوری ۲۰۰۶ئ) ایک خوب صورت اور دل کش تحریرہے۔ سید مودودیؒ نے تسلیم و رضا اور فدویت کے فلسفے کو ایسے کیف زا اسلوب میں پیش کیا ہے کہ بار بار مطالعے کو جی چاہتا ہے۔ اسلام کی اصل روح یہی ہے کہ بندئہ مومن اپنی تمام محبتوں کو حق کی محبت پر قربان کرنے کے لیے آمادہ رہے۔ آیت الکرسی کا مطالعہ اچھی کاوش ہے مگر اس کی براہِ راست تشریح و توضیح بھی مقصود تھی جس سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔ کشمیر واقعی خطرناک سیاسی زلزلوں کی زد میں ہے۔ ’پیرانِ پارسا‘ اسے جھٹکوں پہ جھٹکے دیے چلے جارہے ہیں۔ پروفیسرخورشیداحمد کا تجزیہ اور نقد یقینا فکرافروزہے اور چراغِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
’امدادی سرگرمیوں کی آڑ میں‘ (جنوری ۲۰۰۶ئ) مرزا محمد الیاس کی مختصر مگر جامع تحریر ہے اور اس میں چونکا دینے والے حقائق کا انکشاف کیا گیا ہے۔ آج اُمتِ محمدیہ کو محوِ خواب دیکھ کر مسیحی مشنریوں اور صہیونی تنظیموں نے امدادی سرگرمیوں کی آڑ میں مجبور اور بے کس لوگوں کو منظم طریقے سے بہلانا پھسلانا شروع کر دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تنظیموں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ متاثرہ علاقوں میں زخمی اور بے سہارا کم سن بچوں کو گود لینے پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے اداروں اور تنظیموں کو تشکیل دیا جائے جو متاثرہ علاقوں میں ریلیف اور بحالی کا کام کریں تاکہ اہلِ ایمان اور معصوم بچے مسیحی وصہیونی تنظیموں کے ناپاک مقاصد سے محفوظ رہ سکیں۔
مولانا امیرالدین مہر کے خط (جنوری ۲۰۰۶ئ) کے حوالے سے خوشی کی بات ہے کہ قارئین‘ ترجمان میں لفظوں اور املا کی چھوٹی بڑی غلطی کو بھی نوٹ کرتے ہیں۔ ذال اور زے کی بحث کے سلسلے میں ایک بنیادی حقیقت پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ جب الفاظ‘ اصل زبان سے کسی دوسری زبان میں جاتے ہیں تو بعض اوقات جوں کے توں برقرار نہیں رہتے بلکہ املا اور تلفظ حتیٰ کہ کبھی کبھی معانی کے اعتبار سے بھی وہ لفظ تبدیل ہوجاتے ہیں۔ عربی‘ فارسی‘ انگریزی اور دیگر زبانوں کے صدہا الفاظ ایسے ہیں جنھوں نے اُردو میں آکر اپنا املا اور تلفظ بدل لیا۔ اور اُردو والوں‘ بشمول ماہرین لغت و املا‘ نے اُنھیں قبول کرلیا۔ اب اُردو میں ان کی یہی تبدیل شدہ صورت ہی صحیح ہے (طوالت کے خوف سے مثالوں سے احتراز کرتا ہوں)۔ اس لیے یہ اصرار بے جا ہے کہ فارسی میں ذال نہیں ہے‘ اس لیے ہم اُردو میں بھی فارسی الاصل لفظوں کو ذال سے نہ لکھیں۔
پھر یہ بھی ایک مفروضہ ہے کہ فارسی میں ذال نہیں ہے۔ متعدد نام ور اورمسلّمہ ماہرین لغت و املا‘ مثلاً ڈاکٹر شوکت سبزواری‘ جناب رشید حسن خاں‘ پروفیسر نذیراحمد‘ سید قدرت نقوی اور بہت پہلے خان آرزو ثابت کرچکے ہیں کہ فارسی میں ذال ہے۔ ایرانیوں کے ہاں‘ خصوصاً لغت نامہ دہخدامیں اس کی مثالیں مل جاتی ہیں۔ قاضی عبدالودود مرحوم اور ڈاکٹر عبدالستار صدیقی بھی ذالِ فارسی کے قائل تھے۔ بھارت میں اُردو کے سب سے بڑے اشاعتی ادارے ترقی اُردو بیورو دہلی کی املاکمیٹی (مشتمل بر: مالک رام‘ پروفیسر نثاراحمد فاروقی‘ ڈاکٹر سیدعابد حسین ‘ پروفیسر مسعودحسین خاں‘ پروفیسر خواجہ احمد فاروقی‘ پروفیسر گیان چندجین‘ پروفیسر گوپی چند نارنگ‘ وغیرہ) کی مطبوعہ سفارشات میں ’دل پذیر‘ ، ’اثر پذیر‘ وغیرہ کو صحیح قرار دیاگیا ہے۔ افسوس کہ یہاں اس سے زیادہ بحث و تفصیل کی گنجایش نہیں۔ مولانا امیرالدین مہر نے آخر میں لکھا ہے کہ’ ’ع س مسلم صاحب کو داد دینا چاہیے کہ انھوں نے ایک صحیح تلفظ اور رسم الخط کو باقی رکھنے کی کوشش کی ہے‘‘۔ عرض ہے کہ ذال اور زے کے استعمال کا مسئلہ املا کا ہے‘ نہ کہ تلفظ یا رسم الخط کا۔
آپ کے مضامین ایک کوشش ہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکی۔ دراصل ہماری سیاست اور صحافت کا طریقہ امربالمعروف کے سوا اور کچھ نہیں ہونا چاہیے۔ مگر صورت حال اس کے برعکس ہے۔اس وقت عدل و انصاف کی اتنی شدید ضرورت ہے جیسے زندگی کی بقا کے لیے ہوا اور پانی کی۔ ظالم اور بااثر مجرم لوگ ایسے طاقت ور ہوچکے ہیں کہ ان کا کچھ نہیں بگاڑا جا سکتا۔ پولیس کے مظالم کی داستانیں ہر روز عالم آشکار ہیں۔ انصاف مانگنے سے بھی نہیں ملتا۔ لہٰذا یہ ناگزیر ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے سے غفلت کی طرف بھرپور توجہ دلائی جائے‘ بلکہ ایک بڑی تحریک کی ضرورت ہے کہ منکرات دب جائیں‘ معروف عام ہو اور عدل قائم ہو۔
الحمدللہ دسمبر ۲۰۰۵ء کا شمارہ بہت متوازن تھا۔ ’حکمتِ مصائب‘ میں ملک عطا محمد نے بڑے دل نشیں انداز میں قرآن وسنت کی روشنی میں ایک اہم موضوع کی وضاحت کی ہے۔ اگر ’اشارات‘ کو عموماً ۱۰‘۱۲ صفحات دیے جائیں اور باقی صفحات میں دوسرا مواد‘ مثلاًمولانا مودودی کے لٹریچر سے اقتباس‘ فہم قرآن و حدیث‘ نومسلموں کے حالات یا دوسرے معاشرتی یا نفسیاتی مسائل وغیرہ میں رہنمائی‘ حتیٰ کہ اشتہارات کو دیے جائیں‘ تو یہ تبدیلی اشاعت میں اضافے اور مالی معاونت کا باعث ہوسکتی ہے۔
ہم کچھ دوست ’خیرخواہ‘ اور ’سنابل العلم‘ اور مختصر مضامین فوٹوکاپی کروا کے تقسیم کرتے ہیں‘ جب کہ کچھ کو بذریعہ ڈاک ارسال کرتے ہیں۔ ہمارا مقصد شہادتِ حق کی ذمہ داری کو کسی نہ کسی طرح ادا کرنا ہے اور یہ ایک آسان ذریعہ بھی ہے۔ کوشش یہی ہے کہ اس طرح یہ لوگ اچھے اور سنجیدہ علمی جرائد پڑھنے لگیں اور ان کے معاون بنیں۔ ع صلاے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے !
آج کل ایرانی صدر اور نمایندوں کے بیانات پڑھ کر اور سن کر دل میں خیال گزرتا ہے کہ کاش! میں ایرانی قوم کی ایک فرد ہوتی تو سر اُٹھا کر تو چلتی۔ محمود احمدی نژاد آج ملّت کا ترجمان بن کر اُبھرا ہے جو امریکی استعمار کی دھمکیوں اور بلیک میلنگ کے سامنے مردانہ وار کھڑا ہے۔ انڈونیشیا کے کسی دُور دراز جزیرے سے لے کر افریقہ کے کسی کونے میں بسنے والے مسلمان تک‘ سب کی دعائیں اُس کے ساتھ ہیں۔ ایک دفعہ اس حقیقت کو سمجھ لیا جائے کہ یہ چند روزہ زندگی ہی سب کچھ نہیں ہے تو سچ کے لیے کھڑا ہوا جاسکتا ہے۔ ایک پاکستانی کی حیثیت سے تو میرا سر جھکا ہوا ہے۔ کہنے کو تو ہم ایٹمی طاقت ہیں لیکن آج ساری دنیاکے مسلمان گھرانوں میں ہم پر لعنت بھیجی جاتی ہے۔ خیال آتا ہے کہ کیا ہم اتنے بُرے ہیں‘ کیا ہمارے گناہ اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ہمیں ذلت کی سزا دینے کے لیے مشرف جیسا شخص ہم پر مسلط کیا گیا ہے!
مطالعہ روح کی غذا ہے‘ اسے محدود نہ کیجیے۔ تحریکی رسائل و جرائد حصول علم کا مفید ذریعہ ہیں۔ ترجمان القرآن‘ جسارت اور فرائیڈے اسپیشل کا پیغام اپنے تک محدود رکھنے کے لیے نہیں ہے۔ پڑھنے کے بعد ردی کی ٹوکری کی نظر نہ کیجیے۔ اللہ نے استطاعت دی ہے تو محلے میں دفتراور کاروبار کے ساتھیوں‘ رشتہ داروں کو دیجیے‘ ان کو باقاعدہ خریدار بنائیے۔ خود بھی اجر سمیٹیں گے‘ آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بنیں گے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ وقت اور سرمائے کا اس سے بہتر مصرف اور کوئی نہیں!
آپ نے لکھا ہے کہ میں جماعت میں شامل ہونے ہی والا تھا کہ یہ دو چیزیں [علم حدیث اور ڈاڑھی سے متعلق] میرے سامنے آگئیں اور انھیں دیکھ کر میں رُک گیا۔ اس رُک جانے کو آپ شاید کوئی تقویٰ کا فعل سمجھتے ہوں گے‘ لیکن آپ ذرا غور کریں تو آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ فی الواقع آپ نے تقویٰ کا مفہوم غلط سمجھا ہے اور اسی وجہ سے ایک غیرمتقیانہ فعل کو متقیانہ فعل سمجھ کر آپ کرگزرے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ یہ جماعت اُس دین کی اقامت کے لیے بنی ہے جو ہرمومن کے لیے عین ایمان کا مقتضا ہے۔ آپ خود فرماتے ہیں کہ ’’اس دور میں ایمان کو سلامتی کے ساتھ لے چلنے کے لیے صرف جماعت اسلامی ہی کی راہ اختیار کی جا سکتی ہے‘‘، اور یہ کہ ’’اس نظریے کو قبول کرنا اور اسے پھیلانا ہر مسلمان کا فرض ہے‘‘۔ اب سوال یہ ہے کہ اس تقاضاے ایمان اور اس فرض کی طرف بڑھتے بڑھتے آپ کا صرف اس لیے رُک جانا کہ ایک علمی مسئلے کی تعبیر اور ایک جزوی فقہی مسئلے کی تحقیق میں آپ جماعت کے خادم کی رائے کو غلط پاتے ہیں‘ آخر کس قسم کا تقویٰ ہے؟
فقہی و علمی اختلاف تو خیر بہت چھوٹی چیز ہے کہ اس کے لیے فریقین کے پاس شریعت سے دلائل موجود ہوتے ہیں‘ میں ثابت شدہ سنتوں کے متعلق آپ سے پوچھتا ہوں کہ ان کی خلاف ورزی دیکھ کر بھی اگر آپ فرض سے اجتناب کرجائیں تو کیا یہ پرہیزگاری ہے؟ مثلاً آپ دیکھیں کہ امام نے مسجد میں داخل ہوتے وقت بایاں قدم پہلے رکھا اور یہ دیکھتے ہی آپ جماعت چھوڑ کر مسجد سے پلٹ آئیں‘ یا آپ دیکھیں کہ اسلامی فوج کے جنرل نے اُلٹے ہاتھ سے پانی پیا یا چھینک آنے پر الحمدللہ نہ کہا اور اس خلاف سنت حرکت سے متنفر ہوکر آپ میدانِ جہاد سے پلٹ آئیں‘ توکیا واقعی اس کو آپ پرہیزگاری سمجھیں گے؟ آپ کو موازنہ کر کے دیکھنا چاہیے کہ اس نے کیا چھوڑا تھا اور آپ نے کیا چھوڑ دیا۔ وہ بڑا غلط کار تھا کہ اس نے ایک پیسہ ضائع کیا‘ مگر آپ نے تو اس کے جواب میں خزانہ برباد کر دیا‘ پھر بتایئے کہ زیادہ بڑا غلط کار کون ہوا؟ تاہم ‘یہ آپ کا قصور نہیں ہے بلکہ آج کل دین داری کا عام ڈھنگ یہی ہے کہ اشرفیاں لٹیں اور کوئلوں پر مُہر۔ (’رسائل و مسائل‘، سیدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن‘ جلد ۲۸‘ عدد ۳‘ربیع الاول ۱۳۶۵ھ‘ فروری ۱۹۴۶ئ‘ ص ۶۲-۶۳)