بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس امر سے کوئی صاحب ِ نظر انکار نہیں کرے گا کہ اس وقت پاکستان سیاسی اور معاشی طور پر ایک شدید بحران سے دوچارہے اور اسے اس بحرانی کیفیت سے نکالنے کے لیے ایک مخلص، دیانت دار، ہر دل عزیز،محنتی،با صلاحیت اور جرأت مند قومی قیادت کی ضرورت ہے۔
یہ مخلص اور دیانت دار قیادت کہاں سے آئے گی جو قوم کی نیّا کو طوفانی موجوں کی کشاکش اور تھپیڑوں سے صحیح و سالم نکال کر کنارے پر لگا دے؟ اگر آپ پاکستان کی ۵۸ سال کی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گی کہ یہ قیادت سول اور فوجی بیوروکریسی یا ہماری اشرافیہ سے میسر نہیں ہو سکتی۔ اس طرح کی ایک مخلص اور دیانت دار قیادت کے لیے ہمیں ملک کے عوام کی طرف رجوع کرنا پڑے گااور انھیں ایک بڑی تبدیلی کے لیے تیار کرنا ہوگا۔ اللہ رب العالمین نے اپنی کتاب ہدایت میںیہ اٹل اصول بیان کیا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لَایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَابِاَنْفُسِھِمْ ط (الرعد ۱۳: ۱۱) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔
اسی بات کو مولانا ظفر علی خان نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
عوام میں اپنی حالت بدلنے کا خیال کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟ کیا پاکستانی عوام میں اپنی حالت کے بدلنے کی خواہش موجود بھی ہے یا نہیں؟
ان سوالات کا جواب یہ ہے کہ جب تک کسی قوم کی آرزوئیں اور امنگیں بیدار نہ ہوں اور جب تک ان کے دلوں میں تمنائیں انگڑائیاں نہ لیں اس وقت تک کوئی قوم عمل پر آمادہ نہیں ہوسکتی۔اسی لیے مرگِ آرزو اور زندہ تمناؤں کی موت ہی کو کسی قوم کی موت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔علامہ اقبال ؒ نے مایوسی اور نا امیدی کو زوال علم و عرفان کہاہے ؎
نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں
اقبالؒ نے رموزِ بے خودی میں اسلام کے بنیادی ارکان میں پہلے رکن توحید کے ضمن میں ایک باب درج ذیل عنوان کے تحت باندھا ہے، در معنی ایں کہ یاس و حزن وخوف ام الخبائث است و قاطع حیات ، و توحید ازالہ ایںامراضِِ خبیثہ می کند (اس معنی کی وضاحت میں کہ ناامیدی اور غم اور خوف ام الخبائث اور زندگی کا خاتمہ کرنے والے ہیںاور توحید ان امراض خبیثہ کا علاج ہے۔)
فارسی کی اس نظم میں اقبال ؒ نے بہت خوب صورتی سے قرآنی آیات سے کلمات لے کر پرو دیے ہیں۔فرمایا ؎
مرگ را ساماں ز قطعِ آرزوست
زندگانی محکم از لَاتَقْنَطُوْا ست
آرزو کا خاتمہ موت کا سامان فراہم کرتا ہے،جبکہ زندگی کو لاتقنطوا سے استحکام نصیب ہوتا ہے۔
اس شعر میں قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ o (الزمر ۳۹:۵۳) اے نبیؐ! کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ،یقینا اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے، وہ تو بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
آگے فرماتے ہیں ؎
اے کہ در زندانِ غم باشی اسیر
از نبیؐ تعلیم لَاتَحْزَنْ بگیر
اے غم کے زنداں میں قیدی کی زندگی بسر کرنے والے، نبی کریمؐ سے لاتحزن کی تعلیم حاصل کرلو۔
اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْھُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ج فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا وَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰیط وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا ط وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ o (التوبہ ۹:۴۰) تم نے اگر نبی کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں ،اللہ اُس کی مدد اُس وقت کرچکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا،جب وہ صرف دومیں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوںغار میں تھے،جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھاکہ’’غم نہ کر،اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔ اس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکونِ قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظرنہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کردیا۔ اور اللہ کا بول تو اُونچا ہی ہے، اللہ زبردست اور دانا و بینا ہے۔
اس سے آگے اقبالؒ نے فرمایا ؎
چوں کلیمے سوے فرعونے رود
قلبِ او از لَاتَخَفْ محکم شود
جب ایک کلیم ایک فرعون کی طرف جاتا ہے تو اس کا دل ’لاتخف‘ سے مضبوط ہوتا ہے۔
اس شعر میں قرآن کریم میں مذکورحضرت موسٰی ؑاور ان کے بھائی حضرت ہارون ؑ کے واقعے کا ذکر ہے ، جب ان دونوں کو فرعون کی طرف جانے کا حکم ہوا تو انھوں نے عرض کی کہ ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہمارے ساتھ زیادتی پر اتر آئے گا اور سرکشی اختیار کرے گا،تو اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا: لَا تَخَافَـآ اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَ اَرٰی (طٰہٰ ۲۰:۴۶)’’ڈرو مت، میں تمھارے ساتھ ہوں، سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں‘‘۔
دوسرے موقع پر جب فرعون کے جادوگروں کے سحر کی وجہ سے رسیاںحضرت موسٰی ؑ کو چلتے پھرتے سانپ نظرآنے لگیں تو انھوں نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا‘ تو اللہ نے کہاکہ خوف مت کھاؤ ، تم غالب رہوگے۔ قرآن مجید نے اس واقعے کی یوں منظر کشی کی ہے:
قَالُوْا یٰـمُوْسٰٓی اِمَّـآ اَنْ تُلْقِیَ وَاِمَّـآ اَنْ نَّکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰی o قَالَ بَلْ اَلْقُوْا ج فَاِذَا حِبَالُھُمْ وَعَصِیُّھُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی o فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰی o قُلْنَا لَاتَخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی o (طٰہٰ ۲۰: ۶۵-۶۸) جادوگر بولے: ’’موسٰی ؑ! تم پھینکتے ہو یا پہلے ہم پھینکیں‘‘؟ موسٰی ؑ نے کہا، ’’نہیں،تم ہی پھینکو‘‘۔یکایک ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں ان کے جادوکے زور سے موسٰی ؑ کو دوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں، اور موسٰی ؑ اپنے دل میں ڈر گیا۔ہم نے کہا ــ’’مت ڈر، تو ہی غالب رہے گا‘‘۔
اس نظم کا خاتمہ اس خوب صورت بیت پر کیا گیا ہے ؎
ہر کہ رمزِ مصطفیؐ فہمیدہ است
شرک را در خوف مضمر دیدہ است
جس نے مصطفیؐ کی تعلیم کی اصل روح کو سمجھا ہے اس نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کا خوف ’شرک‘ ہے۔
قرآن کریم کی کئی آیات میں ایمان اور عمل صالح سے آراستہ لوگوں کی صفات بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ o (البقرہ ۲: ۳۸) ’’ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا‘‘۔
تبدیلی پیدا کرنے کے لیے پوری قوم کے دلوں میں تمناؤں اور آرزوؤں کو بیدار کرنے کے لیے انھیں یاس و قنوطیت ، ناامیدی اور خوف سے نکال کر ایمان و یقین کے اسلحے سے مسلح کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے ساتھ اس سحر کا پردہ چاک کرنا پڑے گا کہ امریکا اور فوجی جرنیلوں کے ساتھ ملی بھگت کیے بغیر کوئی تبدیلی نہیں آسکتی، بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کہ حقیقی تبدیلی کے راستے میں بڑی رکاوٹ امریکا اور استعماری طاقتیں اور ان کی آلۂ کارسول و ملٹری بیوروکریسی اور ملک کا طبقۂ اشرافیہ ہے۔ ان سے نجات کا ذریعہ اللہ پر ایمان‘ اور بھروسا‘ منزل کا صحیح شعور‘ ہمہ گیر عوامی بیداری کی جدوجہد اور عوام میں سے ایسی مخلص اور باصلاحیت قیادت کو بروے کار لانے کی ہمہ جہت کوشش جو اللہ اور عوام دونوں کے سامنے جواب دہ ہو۔ اس کے لیے موجودہ حکمران ٹولے سے نجات اوّلین شرط اور ضرورت ہے اور اس یقین کے ساتھ کہ قوت کا اصل سرچشمہ اللہ تعالیٰ ہے جو حقیقی حاکم اورکارفرما ہے۔ اسباب و وسائل بلاشبہہ ہر جدوجہد کے لیے ضروری ہیں لیکن آخری فیصلہ دنیاوی اور ظاہری عوامل پر نہیں‘ اللہ کے حکم اور ارادے کے مطابق ہوتا ہے اور ہم اس کے طالب ہیں۔
قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ ز وَتُعِزُّمَنْ تَشَآئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ ط اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo (ٰاٰل عمرٰن ۳: ۲۶) کہو، خدایا، ملک کے مالک، تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے۔جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کردے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
دوسروں کے دلوں میں امید کی شمع روشن کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دعوت دینے والے کارکنوں کے اپنے سینے میں چراغِ آرزو روشن ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ روشن مستقبل کا واضح نقشہ دل و دماغ میں سجا ہوا ہو۔ اس نقشے کے بنیادی خدوخال واضح ہوں اور دعوت دینے والے کارکن میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ اپنا ذوقِ یقین دوسروں تک منتقل کرنے کے لیے انھیں اپنے اخلاص کا قائل کرسکے۔لوگوں کو کسی تحریک کی قیادت اور اس کے کارکنوں کے اخلاص کا یقین ہوگا تو وہ ایسی تحریک میں شامل ہونے اور اس کی خاطر قربانی دینے پرآمادہ ہوسکیں گے۔
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید ۵۷: ۲۵) ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
لوگوں کو یہ یقین دلانا ضروری ہے کہ وہ جس طرح معاشرتی اور معاشی طورپرظلم کی چکی میں پس رہے ہیں‘ ہم اس ظلم سے نجات دلانے کے لیے انھیں پکار رہے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں مخلص نوجوانوں، ہاتھ سے کام کرنے والے مزدوروں اور ظلم کی چکی میں پسنے والے غلاموں کو حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے برگزیدہ ساتھیوں کے بارے میں یقین ہوگیاتھا کہ یہ لوگ انھیں ان جیسے انسانوں کے ظلم اور جبر سے نکالنے کے لیے اٹھے ہیں۔ اسلامی تحریک کایہ بنیادی مقصد ایرانی فوج کے سپہ سالار کے سامنے ایک صحابی رسولؐ ربعی بن عامرؓنے ان خوب صورت اور جامع الفاظ میں بیان کیا:
جِئْنَاکُمْ لِنُخْرِجَ الْعِبَادَ مِنْ عِبَادَۃِ الْعِبَادِ اِلٰی عِبَادَۃِ رَبِّ الْعِبَادِ وَ مِنْ جَوْرِ الْاَدْیَانِ اِلٰی عَدْلِ الْاِسْلَامِ وَمِنْ ضِیْقِ الدُّنْیَا اِلٰی وَسَعَۃِ الْاٰخِرَۃِ-
ہم تمھاری طرف اس لیے آئے ہیں کہ تمھیں بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب کی غلامی میں داخل کردیں اور باطل نظاموں کے ظلم سے نکال کر اسلام کے عادلانہ نظام کے زیر سایہ لے آئیں اور دنیا کی تنگیوں سے نکال کر آخرت کی وسعتوں میں داخل کردیں۔
صحابیؓ کے اس قول میں ایرانیوں کو یہ یقین دلایا گیاتھا کہ مسلمان انھیں غلام بنانے اور ذلیل کرنے کے لیے نہیں بلکہ انھیں آزاد کرانے اور عزت دلانے کے لیے آئے ہیں اور انھیں مادی دنیا کی تنگ سوچ سے نکال کر آخرت کی ابدی زندگی کا تصور اور یقین دینے کے لیے آئے ہیں۔
زندگی کا یہی وسیع تصور اور یقین تھا جس نے صحابہ کرامؓ کی مختصر جماعت کو ایک سیلِ رواں میں ڈھال دیا اور پچاس سال سے بھی کم عرصے میںانھوں نے اس دور کی معلوم دنیا کے تقریباً نصف حصے کو اسلام کے نظامِ عدل کے پرچم تلے منظم کرلیا، اور جہاں بھی ان کے مبارک قدم پہنچے وہ جگہ آج تک عالم اسلام کا قلب تصور ہوتی ہے۔
دنیا کو آج پھر معرکۂ روح و بدن درپیش ہے۔ اس معرکے میںہماری اصل قوت اللہ پرکامل ایمان اورسچا یقین ہے۔ اسی ایمان اور یقینِ کامل سے تمنائیں زندہ و بیدار ہوتی ہیں اورآرزوئیں جنم لیتی ہیں۔ دوسری چیز عشقِ مصطفیؐ ہے اور یہ بھی قوت کا بہت بڑا خزانہ ہے اور ہمارے عوام کے دل قوت کے اس سرچشمے سے مالا مال ہیں۔ یہ قوت دلوں میں تمناؤں کو بیدار کرنے والی ہے۔ایک شاعرنے اس بات کو ان خوب صورت الفاظ میں بیان کیا ہے ؎
دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمھی تو ہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمھی تو ہو
ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو
آں کہ از خاکش بروید آرزو
یا ز نورِ مصطفیؐ او را بہا است
یا ہنوز اندر تلاش مصطفیؐ است
ہر جگہ جو آپ کو جہان ِ رنگ و بو نظر آتا ہے ،جس کے وجود سے آرزوئیں جنم لیتی ہیں یا تو وہ نور مصطفیؐ کے فیض سے سیراب ہے یا ابھی مصطفیؐکی تلاش میں ہے۔
اللہ پر کامل ایمان اور عشق مصطفیؐ کی قوت سے سرشار ہو کرہم انسانیت کی خدمت اور سارے جہاںکی تعمیر نو کے لیے اٹھنے کا پیغام دیتے ہیں۔ہم پوری انسانیت کے خیر خواہ ہیں اور اپنی قوم کی خیرخواہی میں ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیارہیں، اور مجھے یقین ہے کہ جب ہم اخلاص وخیرخواہی کا پیغام لے کراپنی قوم کے پاس جائیں گے تو ہماری یہ خیرخواہی اور اخلاص ان سے پوشیدہ نہیں رہ سکے گا۔ اگرچہ ہمارے مخالفین جھوٹے پروپیگنڈے کا طوفان اٹھا کر حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ کرنے اور باطل کو حق کا جامہ پہنانے کی کوشش کریں گے لیکن یہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ باطل کے مقابلے میں حق کی قوت کو بالآخر فتح عطا فرماتاہے۔
جماعت اسلامی نے سالِ رواں کو دعوت کا سال قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے ایک ہمہ گیر عوامی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ عوام کو استعماری قوتوں اور ان کی آلہ کار نفس پرست قیادت سے نجات دلا کر ایک مخلص اور دیانت دار قیادت کا تحفہ اور ایک عادلانہ نظام کا ہدیہ دے سکیں۔
بعض لوگوں کے خیال میں دعوت اور اس طرح کی تحریک چلانے میں تضاد ہے حالانکہ حضور نبی کریمؐ کی سیرتِ طیبہ سے عیاں ہے کہ اسلامی تعلیمات کو عوام الناس تک پہنچانے کے لیے انھوں نے عوامی تحریک کو ذریعہ بنایا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر پورے جزیرہ نماے عرب کی مسلمان آبادی کومتحرک کرنے کے بعد میدان عرفات میںجمع کرکے حج کے اس مبارک سفر کو دین کی تعلیم کو عام کرنے کا ذریعہ بنایا گیا۔ اسلام کے ابتدائی ایام تھے، جاہلی تہذیب کے مقابلے میںخالص توحید کی بناپر اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اس مرحلے پر اس کے بنیادی خدوخال کو اجاگر کرنے اور اس کے اصول و مبادی واضح کرنے کی ضرورت تھی‘ چنانچہ ایک نئی قوم کی داغ بیل رکھنے اور عوام الناس کو اس کا شعور دینے کے لیے حج کے سفر کو ذریعہ بنایا گیا۔ متعدد صحابہؓ کا قول ہے کہ انھوں نے دین کے اکثر مسائل اس سفر میں سیکھے۔عوامی تحرک کو اگر صحیح نہج اور اسلامی خطوط پر چلایا جائے تو یہ دعوتِ اسلامی کو عام کرنے کا مؤثر ترین ذریعہ بنے گا۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ہماراہرکارکن اس عوامی تحریک کا خلوص اور اسلامی جذبے کے ساتھ حصہ بنے، اس کی منصوبہ بندی کے لیے اپنی تجاویز سے مقامی قیادت کو آگاہ کرے اور ہر چھوٹی بڑی آبادی میں عورتوں اور بچوں سمیت پوری آبادی بالخصوص نوجوانوں کو متحرک کردے۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں کا فرض ہے کہ دوسری دینی جماعتوں کے کارکنوں کے ساتھ مل کر متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پرعوام کو منظم کردیں۔ اس کے لیے طلبہ اور نوجوانوں کی تنظیمیں‘ اسکولوں‘کالجوں اور دینی مدارس کے عام طلبہ کو طلبہ محاذ کے پرچم تلے منظم کردیں، شباب ملّی کی تنظیم ملک بھر کے نوجوانوں کے مسائل کو اجاگر کرنے اور نوجوانوں کو اعلیٰ مقاصد کا شعور دلانے کا بیڑا اٹھائے۔اوراساتذہ، وکلا، ڈاکٹروں، انجینیروں، تاجروں، مزدوروں اور کسانوں کی تنظیمیںاپنے اپنے طبقے کے لوگوںکو اعلیٰ مقاصد کی خاطرمتحرک کرنے کے لیے کنونشن، کارنر میٹنگ اور چھوٹی بڑی نشستوں کا اہتمام کریں۔
اسی طرح بازاروں اور گلی کوچوں میں عوام الناس کو متوجہ کرکے ان کے سامنے پانچ پانچ منٹ کی چھوٹی چھوٹی تقریریں کرنے کے لیے نوجوان عوامی مقررین کے گروپ تشکیل دیے جائیں۔ یہ مقررین عوام الناس کوموجودہ زبوں حالی سے نکال کر بلندی اور رفعت تک جانے کے سفر پر آمادہ کریں، انھیں اپنے ساتھ منظم جدوجہد میں شامل ہونے کی دعوت و تلقین کریں اور عملاً انھیں اپنے ساتھ لے کر چلیں۔ عوام کو محلوں اور گاؤں کی سطح سے اٹھا کر تحصیل اور ضلع کی سطح کے جلسوں میں اور بالآخر بڑے شہروں کے جلسوں میں لے جائیں اور ان کے جوش و جذبے کو اس حد تک بڑھا دیں کہ وہ قومی سطح کی ملک گیر تحریک کو منزل تک پہنچانے کے لیے دل وجان سے آمادہ ہوجائیں۔ تحریک چلانے والے کارکنوں کو یقین ہونا چاہیے کہ اس تحریک میں ناکامی کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔
اس تحریک کا مقصد امت کو انھی مقاصد کے لیے منظم کرنا ہوگا جس کے لیے اسے ’اُمت ِوسط‘ قرار دے کر عدل و انصاف کا پرچم بلند کرنے کا فریضہ اللہ کی طرف سے سپرد کیا گیاتھا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ط (البقرہ ۲: ۱۴۳) اسی طرح ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت ِوَسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔
یہ عوامی تحریک آئینی اور قانونی حدود کے اندر ہوگی۔اس تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ یہ مکمل طورپر پرامن ہو اور ہر طرح کی توڑ پھوڑ سے اجتناب کرکے اسے قوم کی تنظیم اور اتحاد کا ذریعہ بنایا جائے تاکہ جبر کی طاقتوں کو کوئی بہانہ نہ ملے کہ وہ تشدد کرکے اس تحریک کا راستہ روک سکیں۔ اسمبلیوں کا فلور بھی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے مفید ہے لیکن ایک موقع ایسا آسکتا ہے جب اسمبلیوں سے باہر آکر عوام کی صفوں میںشامل ہونا تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہوگا۔اس وقت تک اسمبلیوں کے اندر عوام کی ترجمانی کا حق ادا کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو متحد ہونا چاہیے لیکن ممبرانِ اسمبلی کے استعفے قیادت کے پاس جمع کرانا ضروری ہے تاکہ جب بھی مناسب موقع ہو اور جب بھی حالات کا تقاضا ہو، یہ استعفے پیش کردیے جائیں۔
پرویز مشرف کی حکومت سراسرناجائز اور غیر آئینی ہے۔ اس نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ موجودہ اسمبلیوں کے ذریعے اپنے آپ کو دوبارہ منتخب کروانا چاہتا ہے۔ یہ صراحتاً ایک غیر آئینی راستہ ہے لیکن جن لوگوں نے دنیا کے چھوٹے چھوٹے مفاد کی خاطر اپنا ضمیرو ایمان فروخت کردیا ہے اور ان کے مفادات اس غیر اخلاقی اورغیر قانونی نظام سے وابستہ ہیں، وہ کسی بھی ذلت کو گواراکر نے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ ملک و قوم کی خیر خواہی رکھنے والے تمام عناصر کا فرض ہے کہ وہ اس کھلے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔
کسی بڑی تبدیلی کے لیے ناگزیر ہے کہ قیادت اور کارکنان قربانیوں کے لیے تیار ہوں۔ جبر کے ہتھکنڈے توڑنے کے لیے ہمارے بھائی فلسطین،عراق،چیچنیا،کشمیر اورافغانستان میں لازوال قربانیاں پیش کررہے ہیں۔ پاکستان کے حالات بھی قربانیاں دینے کا تقاضاکرتے ہیں۔ یہ قربانیاں مختلف نوعیت کی ہیں، یہ جدوجہد بھی مختلف نوعیت کی ہے، اس میں ظلم و جور کی طاقتوں کے سامنے صبر،ہمت اور حوصلے کا ہتھیار لے کرپُرامن جدوجہد کے مختلف النوع طریقے آزمانے پڑیں گے۔بڑے پیمانے پرگرفتاریاںپیش کرنا اور ظالم حکمرانوں کے ظلم کے مقابلے میں سینہ سپر ہونا اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اگرعوام بڑی تعداد میں منظم ہوکر نکلیں گے تو بہت ممکن ہے کہ کسی کو لاٹھی اور گولی سے کام لینے کی ہمت نہ ہو سکے لیکن کارکنوں کو جبر کے ان ہتھکنڈوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے، اور سب سے پہلے ہر سطح کی قیادت کو قربانی دینے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔
ہم اس بات پر متفق ہیں کہ غیر ملکی استعمار اور اس کی حواری قیادت سے نجات حاصل کرنے اور سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام کے ظلم کی جگہ اسلام کا نظام عدل و انصاف نافذ کرنے کے لیے اس طرح کی تحریک کے سوا کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے۔لیکن اس تحریک کو کس انداز میں چلایا جائے، کن مراحل سے اس تحریک کو گزارا جائے اور اس کو کس انداز میں منزل تک پہنچایا جائے؟ اس کے لیے مسلسل مشاورت کی ضرورت ہے،اورخود حضور نبی کریمؐ کو اپنے ساتھیوں سے مشاورت کی تلقین کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا:
وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ - (ٰاٰل عمران ۳: ۱۵۹) اور ان کوبھی شریک مشورہ رکھو،پھر جب تمھارا عزم کسی راے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسا کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔
مشاورت کا یہ نظام الحمد للہ اسلامی تحریکوں کا خاصہ ہے اور اسی مشاورت کے نتیجے میں حکیمانہ طرز عمل سامنے آتا ہے۔ اسلامی تحریک کی قیادت پوری قوم کو یقین دلاتی ہے کہ حکمت اور دانش کے تقاضوں کو پورا کیا جائے گا اور اس کے ساتھ اللہ کے بھروسے اور توکّل پر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔
کچھ لوگ اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ بین الاقوامی قوتیں موجودہ فوجی حکمرانوں کو صاف اور شفاف انتخابات منعقد کرنے پر مجبور کریں گی۔ ضمنی انتخابات کے بعد پورے ملک میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات جس نہج پر کروائے گئے ہیں ان سے بھی اگرکچھ لوگوں کی غلط فہمی دور نہیں ہوئی تو پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یہ لوگ عوام کو موجودہ حکمرانوں کی موجودگی میں انتخابات کا راستہ دکھاکر خود اس غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر اخلاقی نظام کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور غیر ملکی آقا جن مقاصد کے لیے موجودہ حکمرانوں کی سرپرستی کررہے ہیں، یہ عناصر بھی انھی غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کے عوام دشمن اور قومی خودمختاری و سالمیت کے منافی مقاصد کے لیے آلہ کار بننے کو تیار ہیں۔عوام کو اس طرح کے عناصر کے خفیہ ہتھکنڈوں اور سازشی کردار سے باخبر رکھنا محب وطن عناصر کا فرض ہے۔
ملک کے اندر اپوزیشن کی صفوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیںجو موجودہ حکمرانوںکے لادین اور امریکا کی خواہشات سے مطابقت رکھنے والے ایجنڈے سے متفق ہیں لیکن محض اقتدار میں شراکت کی خاطراور اپنی بدعنوانی اور خیانت کو چھپانے اور قانون کی گرفت میں آنے سے بچنے کے لیے ان کی مخالفت پر آمادہ ہیں۔اس طرح کے عناصر اس وقت بھی کسی تحریک کے لیے مخلصانہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور آیندہ بھی ان کے تعاون پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
میثاقِ جمہوریت پر دستخط کرکے میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے قوم کویہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ اپنے سابقہ ادوارِ حکومت میں دونوں نے جن غلطیوں کا ارتکاب کیا تھا، اگر آیندہ انھیں موقع ملا تو وہ ان سے اجتناب کریں گے اورپاکستانی آئین کی اصل روح کے ساتھ وفا کرکے اپنے اختیارات اپوزیشن کے مشورے کے ساتھ استعمال کریں گے، فوج کو مداخلت کی دعوت نہیں دیں گے اور نہ اس کے ساتھ کسی سازباز میں شریک ہوں گے،عدلیہ کی آزادی کا احترام کریں گے اور آزاد الیکشن کمیشن کی تشکیل کا اہتمام کریں گے۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے اس عہد اور میثاق پر قائم رہنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اگرچہ ان کا سابقہ ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ آئین کا حلف اٹھانے کے باوجود انھوں نے نہ اس سے وفا کی تھی ، نہ اپنے حلیفوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کیا تھااور نہ اپنے انتخابی منشور کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی تھی، تاہم ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں توفیق دے کہ وہ ملک کوآمریت سے نجات دلانے کے لیے عوامی اسلامی قوتوں کا ساتھ دیں۔
شنگھائی میں روس اور چین کے ساتھ ایران، پاکستان، افغانستان،تاجکستان،قازقستان اور ازبکستان کے سربراہوں کی کانفرنس علاقے کو امریکا کے چنگل سے نکالنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ پاکستان نے شنگھائی ممالک کی تنظیم میں باقاعدہ شمولیت کی درخواست بھی کی ہے لیکن پاکستان اور افغانستان دونوں اس وقت امریکا کے چنگل میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں اور دونوں کے حکمرانوں نے اس طرح کا کوئی عندیہ نہیں دیا کہ وہ واقعی اس چنگل سے نکلنا چاہتے ہیں۔ افغانستان تو عملاً نیٹو افواج کے قبضے میں ہے اور پاکستانی حکومت امریکا کے پاکستان مخالف اقدامات کے باوجود پوری ڈھٹائی سے کہہ رہی ہے کہ وہ امریکا کی صف اول کی حلیف ہے۔ نہ صرف خارجہ پالیسی بلکہ داخلہ اور تعلیمی و معاشی پالیسیوں میں بھی امریکا کے احکام اور اس کی ہدایات پر مکمل عمل درآمد ہورہا ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے وزیر اعظم نے قوم کو یہ مژدہ سنایا کہ عالمی بنک نے چار سال کے لیے پاکستان کو آسان شرائط کے ساتھ ساڑھے چھے ارب ڈالر کاقرضہ دینا منظور کرلیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ انھوں نے کشکول توڑ دیا ہے۔ قوم کواور اس کی آیندہ نسلوں کو قرضے کی یہ زنجیریں پہنانے کے بعدایک آزاد خارجہ پالیسی اور امریکی مداخلت سے نجات کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟
حکومت پاکستان کے اس رویے کے تضادات ہر صاحبِ عقل پر عیاں ہیںاور جب تک امریکی چنگل سے نکلنے کی واضح تدابیراختیار نہیں کی جائیں گی، اس وقت تک یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ حکومت پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں کوئی بنیادی تبدیلی لانے میں واقعی مخلص ہے۔
حکومت کی موجودہ پالیسی امریکا کے تابع مہمل بن کر رہنے کی ہے اور اس کے نتیجے میں پاکستانی فوج قبائلی علاقے میں ایک خوف ناک صورت حال سے دوچار ہے، اس تناظر میں وہاں غیر ملکی مداخلت کا خطرہ روزبروز بڑھتا جا رہا ہے۔ بلوچستان اور قبائلی علاقے میںہماری فوج کو جس طرح الجھا دیا گیا ہے اس سے ملکی سالمیت کو ایک فوری خطرہ درپیش ہے اور اس صورت حال کا فوری تقاضا ہے کہ ملک کی قیادت کو تبدیل کردیا جائے، لیکن ایک جرنیل کے جانے کے بعد دوسرے جرنیل کے آنے سے حقیقی اور عوامی خواہشات کے مطابق تبدیلی نہیں آسکتی اور نہ کچھ آزمائے ہوئے لوگوں کے درمیان اقتدار کی گردش سے کسی بنیادی تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ حقیقی تبدیلی ایسی قیادت کے ذریعے ہی آسکتی ہے جس کو عوام الناس اپنے اجتماعی ارادے سے اقتدار سونپیں اور منظم ہو کر ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اس کی پشت پر کھڑے ہوجائیں اور وہ قیادت ملک کے تمام اداروں میںعوامی امنگوںکے مطابق بنیادی تبدیلیاں لائے۔
اس وقت ملک کے عدالتی نظام میں بھی بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے، ایک ایسی تبدیلی جو اس کے فرسودہ ڈھانچے کو یکسر تبدیل کرکے عوام کو جلد اور مفت انصاف کی فراہمی کو یقینی بنادے اور جب تک مظلوم کو ظالم کے مقابلے میں انصاف نہ ملے اس کو حکمرانوں کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کا حق حاصل ہو۔حدودقوانین پر بحث کے دوران علماے کرام کے پینل نے برموقع صحیح نشان دہی کی کہ حدود قوانین میں سقم نہیں ہے بلکہ بنیادی خرابی عدالت اور پولیس کے نظام میں ہے جس کی فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔
ملک کے معاشی نظام کو اس طرح تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کہ ملکی وسائل پرپہلا حق غریب کا تسلیم کرلیا جائے اور جب تک ایک ایک غریب اور بے نوا آدمی کی روٹی ،کپڑے، مکان، علاج اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات پوری نہ ہوں اس وقت تک طبقۂ امراکی ضروریات کو مؤخر کردیا جائے۔
ملک کے اندر یکساں نظام تعلیم کے ذریعے پوری قوم کو یک رنگ کر دیا جائے اور اسلامی اقدار پر مبنی اخلاقی تعلیم و تربیت کو تعلیمی نظام کا جزو لاینفک بنا دیا جائے کہ قوم کی اخلاقی تعلیم و تربیت اور علم و تحقیق اور ایما و اختراع کی اعلیٰ صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے ذریعے ہی اسے عروج اور سربلندی کے سفر پر مسلسل آگے بڑھنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔
ملک سے بے روزگاری کو ختم کرکے عوام کو مفید اور مثبت سرگرمیوں میں مشغول کردینا، ملکی تعمیرنو کے لیے قوم کو ہنرمند بنانا اور اس کے علم و ہنر کو منظم منصوبوںکے ذریعے ملک کی ترقی میں استعمال کرنا ایک محب وطن اور محب قوم عوامی قیادت کا اولین فرض ہے۔
ان اعلیٰ مقاصد کاشعور دے کرپوری قوم کو بڑے پیمانے پر قومی تعمیر نو کی خاطر خوابِ گراں سے بیدار کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیجیے اور اس میں عملی طورپر ہمارا ساتھ دیجیے۔آپ اللہ کے راستے میں ایک قدم آگے بڑھیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کے لیے مزید راستے کھول دے گا۔
وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا ج (العنکبوت ۲۹:۶۹) اور جو لوگ ہماری خاطرمجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔
اور جب آپ اللہ کے کلمے کی سربلندی کی خاطر مخلصانہ جدوجہد کریں گے تو اللہ کی مدد و نصرت آپ کے شامل حال ہوگی، اور بالآخر دنیامیںکامیابی اورآخرت میں جنت کی نعمتیں آپ کے حصے میں آئیں گی۔اللہ رب ذوالجلال نے قرآن مجید میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا ط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ o (الصف ۶۱: ۱۲-۱۳) اللہ تمھارے گناہ معاف کردے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمھیںعطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبیؐ، اہل ایمان کو اس کی بشارت دے دو۔
اعداد و شمارکے سارے کھیل کے باوجود یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ پاکستان دنیا کے غریب ملکوں کی فہرست میں بھی خاصا نیچے آتاہے۔ غربت کی سرکاری تعریف اور اعدادوشمار کی تازہ ترین تزئین کے باوجود‘ جو حقیقت میں تکذیب و تحریف (falsification) کی ایک کوشش ہے‘ آبادی کا ایک چوتھائی حصہ غربت کی اس لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے کی تگ و دو کر رہا ہے جو جسم اور جان کے رشتے کو بس باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے‘ یعنی ۱۶کروڑ انسانوں میں سے ۴کروڑ افراد اس اذیت ناک صورت حال سے دوچار ہیں۔ لیکن اگر آزاد ماہرین معاشیات کے اندازوں کو لیا جائے تو یہ تعداد آبادی کا کم از کم ۳۳ فی صد بلکہ ۴۰ فی صد ہے‘ یعنی سوا پانچ سے ساڑھے چھے کروڑ نفوس۔
یونیسیف (UNICEF) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جنوبی ایشیا میں پانچ سال کی عمر سے کم کے بچوںکا تقریباً نصف اپنی عمر کے مطابق مطلوبہ وزن سے کم (under weight) ہے جو کمیِ تغذیہ (under-nourishment)کا ثبوت فراہم کرتاہے۔ پاکستان میں ان پانچ سال سے کم عمرکے کمیِ تغذیہ کا شکار بچوں کی تعداد ۸۰ لاکھ ہے جو اس عمر کے بچوں کا ۴۶ فی صد ہے (ڈان‘ ۳ مئی ۲۰۰۶ئ)۔ پورے ملک میں کچی آبادیوں کا جال پھیلا ہوا ہے اور کراچی جیسے شہر میں جہاں دولت کی ریل پیل ہے‘ کُل آباد رقبے کے ۵۵ فی صد پر کچی آبادیاں ہیں جو ہر بنیادی سہولت سے محروم ہیں اور گندگی اور بیماریوں کی آماج گاہ بنی ہوئی ہیں۔ (ڈیلی ٹائمز ‘۴ مئی ۲۰۰۶ئ)
پورے ملک میں ۶ئ۵۸ فی صد آبادی کو صاف پینے کا پانی میسر نہیں ہے اور وہ مجبور ہیں کہ جراثیم اور کثافت سے آلودہ پانی استعمال کریں بلکہ دیہی علاقوں میں تو انسان اور ڈھورڈنگر ایک ہی تالاب یا نالے سے یہ آلودہ پانی استعمال کر رہے ہیں۔ (ڈیلی ٹائمز‘ ۳۱ دسمبر ۲۰۰۵ئ)
تعلیم کا جو حال ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ نصف آبادی ناخواندگی کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی ہے اور جو اپنے کو تعلیم یافتہ سمجھ رہے ہیں ان کی ڈگریاں روزگار کے حصول کا ذریعہ بننے سے قاصر ہیں۔ ورلڈبنک کی تازہ ترین رپورٹ کا یہ دعویٰ بھی روح فرسا ہے کہ نہ صرف جنوب ایشیا میں بلکہ غیرترقی یافتہ ممالک کی پوری فہرست میں پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جو تعلیم پر قومی دولت کا سب سے کم حصہ خرچ کر رہے ہیں۔ تعلیم پر جنوب ایشیا میں اوسطاً خرچ قومی دولت کا ۶ئ۳ فی صد ہے‘ جب کہ تمام ترقی پذیر ممالک کا اوسط ۴ئ۳ ہے۔ پاکستان میں یہ حصہ صرف ۱ئ۲ فی صد ہے (سرکاری دستاویز معاشی جائزہ‘ ۰۶-۲۰۰۵ئ)‘ جب کہ ورلڈ بنک ازراہ کرم اس رقم کو قومی آمدنی کا ۳ئ۲ فی صد کہہ رہا ہے۔ (ملاحظہ ہو‘ ورلڈ بنک کی Green Data Book 2006 ‘ بحوالہ ڈان‘ ۱۲ مئی ۲۰۰۶ئ)
غربت اور محرومی کی یہ داستان بڑی طویل ہے لیکن ان چند حقائق کے پس منظر میں اب اس غریب ملک کے حکمرانوں کی اللّے تللّے شاہ خرچیوں کا بھی ایک منظر دیکھ لیں۔ جو کچھ ہم پیش کررہے ہیں وہ اس گھنائونی اور شرم ناک تصویر کی صرف ایک چھوٹی سی جھلک ہے ورنہ تفصیل میں جائیں تو ’تن ہمہ داغ داغ شد‘ کی کیفیت ہے۔
ایوانِ صدر سے بات کا آغاز کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص اس وقت ایک نہیں‘ دو گھروں پر قابض ہے یعنی ایوانِ صدر کے ساتھ ساتھ چیف آف اسٹاف کا وہ محل بھی اسی کے تصرف میں ہے جس کا سارا خرچ دفاع کے مقدس بجٹ سے کیا جاتا ہے۔ صرف اسلام آباد کے ایوانِ صدر کے انتظام اور رکھ رکھائو پر سال گذشتہ میں ۲۶ کروڑ ۱۶ لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں اور نئے سال کے لیے اس کو بڑھا کر ۲۹ کروڑ کردیا گیا ہے۔ ایوانِ صدر کے صرف باغات کی دیکھ بھال پر ۷۰ لاکھ سالانہ خرچ ہو رہے ہیں۔ ۲۰ جون ۲۰۰۶ء (ڈان‘۲۱ جون ۲۰۰۶ئ) کو سی ڈی اے نے اپنا جو نیا بجٹ شائع کیا ہے اس میں ایوانِ صدر میں نئی تعمیرات کے لیے ۲۱ کروڑ ۵۰ لاکھ کی رقم رکھی گئی جسے مرکز کے ترقیاتی بجٹ (Public Sector Development Programme) سے لیا جائے گا۔ عوام کم از کم ۵۵ لاکھ مکانات کی کمی سے دوچار ہیں اور اسلام آباد کے سرکاری عملے کے صرف دسویں حصے کو سرکاری مکانات کی سہولت حاصل ہے مگر ’غریب دوست بجٹ‘ اور ’غربت کم کرنے والے ترقیاتی پروگرام‘ پر پہلا حق صدر محترم کا ہے۔
گذشتہ سال کے بجٹ میں وزیراعظم صاحب کے گھر اور دفتر پر خرچ ۲۳ کروڑ ۴۰ لاکھ تھا جسے آیندہ سال بڑھا کر ۵۳ کروڑ ۸۷ لاکھ کردیا گیا ہے اور وجہ زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے دفتری نظام کی وسعت ہے۔ زلزلہ زدگان پر تو جو بھی گزر رہی ہے وہ معلوم ہے لیکن شاید غالب نے اسی کے لیے کہا تھا کہ ان کے نام پر
جب ایوانِ صدر اور وزیراعظم کے دفتر اور دیوان خانہ کا یہ حال ہے تو پھر قومی اسمبلی کے اسپیکر کیوں پیچھے رہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ان کے لیے جو گھر تعمیر کیا جائے وہ ۳ہزار گز کے سرکاری پلاٹ پر ۴ منزلہ ہو جس کا صرف تعمیر کا خرچ ۸ کروڑ ۴۷لاکھ ہوگا۔ اس پر پلاننگ کمیشن تک نے اعتراض کیا ہے لیکن عوام کے نمایندوں کا اصرار ہے کہ ان کے شایانِ شان مکان کے لیے کروڑوں روپے کی اس قیمتی زمین پر صرف تعمیر کے لیے ساڑھے آٹھ کروڑ کا خرچ کچھ زیادہ نہیں!
وزراے کرام کی فوج ظفر موج پر کیبنٹ ڈویژن کے بجٹ میں سال گذشتہ میں ۱۲ کروڑ رکھے گئے تھے جنھیں بڑھا کر اب ۱۴ کروڑ کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے خفیہ فنڈ (secret fund ) کے لیے ۴۰لاکھ کی رقم رکھی گئی ہے تاکہ ہر وزیر ۶لاکھ اور ہر وزیرمملکت کو ۴ لاکھ سالانہ مل سکیں جس کا کوئی حساب کتاب اس دنیا میں نہیں ہوگا۔
حکمرانوں کے بیرونی سفر بھی اس غریب ملک کے محدود وسائل کے بدترین استعمال کی شرم ناک مثال ہیں۔ ایک ایک سفر میں پانچ دس نہیں ۶۰‘ ۶۰ شرکاے سفر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کوئی مہینہ ایسا نہیں کہ صدر اور وزیراعظم رختِ سفر نہ باندھیں۔ وزرا‘ ارکانِ پارلیمنٹ اور سرکاری حکام کے بیرونی اسفار کی لین ڈوری لگی ہوئی ہے اور حاصل یہ ہے کہ پاکستان دنیا میں روز بروز تنہا ہوتا جارہا ہے۔ جن کی خوشامد کے لیے سفر پر سفر کیے جا رہے ہیں وہ صرف ہاتھ مروڑنے اور مزید محکومی اور اطاعت کے مطالبات کر رہے ہیں۔ خزانے پر اس کا کتنا مالی بوجھ ہے اس کا اندازہ اس سے لگایئے کہ سالِ رواں کے بجٹ کی دستاویز کی روشنی میں صرف صدر اور وزیراعظم اور ان کے ہمراہ جانے والوں کے کُل سفری اخراجات ایک ارب روپے سے زیادہ ہیں۔ وزارتِ خارجہ کے بجٹ میں ۰۶-۲۰۰۵ء کے لیے صرف صدراور وزیراعظم کے دوروں کے لیے ایک ارب کے مصارف بیان کیے گئے ہیں اور سابقہ بجٹ میں مختص رقم میں بھی ضمنی مطالبات زرکے مطابق ۲۵کروڑ کا اضافہ کیا گیا ہے جس میں سے ۱۰ کروڑ صدر کے لیے اور ۱۵ کروڑ وزیراعظم کے لیے ہیں جن کے کل اسفار کا خرچہ ۷۵ کروڑ سے متجاوز ہے۔ (ملاحظہ ہو‘ دی نیوز‘ ۲۱ جون ۲۰۰۶ئ)
ڈان کے کالم نگار سلطان احمد نے پورے سال کے صدر‘ وزیراعظم‘ وزراے کرام‘ ارکانِ پارلیمنٹ اور اعلیٰ سرکاری حکام کے دوروں پر مجموعی خرچ ہونے والی رقم کا تخمینہ ۴ ارب روپے سے زیادہ بیان کیا ہے۔ کوئی نہیں جوقومی دولت کے اس بے محابا ضیاع کا مؤثر احتساب کرے!
بہت زیادہ اہم شخصیت (VVIP) کے زیراستعمال جہاز کی صرف ایک سال کی دیکھ بھال اور اس کی تزئین و آرایش پر ۵۷کروڑ ۷۰ لاکھ روپے خرچ کیے گئے ہیں (بحوالہ Supplementary Demands for Grants and Appropriations 2005-06 ص ۲۱)
جس ملک کے عام شہری کو سائیکل/ موٹرسائیکل یا اچھی پبلک ٹرانسپورٹ میسر نہیں‘ اس کے حکمرانوں کی قیمتی کاروں کی ہوس کی کوئی انتہا نہیں۔ گذشتہ چند سال میں کیبنٹ ڈویژن نے اہم شخصیات (VVIPs) کے استعمال کے لیے ۵۵ لگژری کاریں درآمد کی ہیں جن پر ۲ ارب روپے سے زیادہ خرچ ہوا ہے۔ ان میں ۳۲ مرسڈیز بینز کاریں اور جیپیں ہیں۔ لگژری کاروں کی خرید میں اضافے کی رفتار اس طرح ہے کہ ۲۰۰۳ء میں ۱۰‘ ۲۰۰۴ء میں ۱۴ اور ۲۰۰۵ء میں ۳۱۔ ۰۶-۲۰۰۵ء کے حسابات میں صرف مزید ۱۰ گاڑیاں درآمد کی گئی ہیں جو ایک ارب سے زیادہ کی مالیت کی ہیں اور ان کی درآمدی ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مد میں ۳۶ کروڑ ۶۰ لاکھ کا خرچ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم کے دفتر کے لیے مزید دو گاڑیاں ایک کروڑ ۶۴ لاکھ کے صرفے سے خریدی گئی ہیں۔
شاہ خرچیوں کی ایک اور قسم وہ تحائف ہیں جو اس غریب ملک کے حکمران بڑے بڑے امیر ملکوں کے حکمرانوں اور کارندوں کو بڑی فراخ دلی سے پیش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ ان کے دل جیت رہے ہیں حالانکہ درحقیقت وہ اپنے آپ کو ان کے مضحکے کا ہدف بنانے کے سوا کچھ حاصل نہیں کرسکتے۔ اس کی تازہ مثال وہ تفصیل ہے جو امریکا کے اخبارات میں پاکستانی حکمرانوں کی طرف سے صرف ایک سال میں دیے گئے تحفوں کی شائع کی گئی ہے۔ اس میں صدربش‘ ان کی بیگم‘ امریکی وزرا‘ حتیٰ کہ سی آئی اے کے کارکنوں کو صدر‘ ان کی اہلیہ اور وزیراعظم کی طرف سے دیے گئے قیمتی قالینوں‘ شالوں‘ جواہرات‘ زیورات اور نایاب نوادرات کا تذکرہ بڑے کڑوے طنز کے ساتھ کیا گیا ہے۔ دو ایک نمونے ہماری قوم کے سامنے بھی آجانے چاہییں۔
جنرل پرویز مشرف نے دسمبر ۲۰۰۴ء میں صدر بش کو نگینوں سے مزین ایک چوبی میز تحفتاً دی جس کی قیمت ۱۴۰۰ ڈالر تھی۔ اس کے علاوہ بش صاحب کو ایک پرانی بندوق (antique muzzle loader) جو ۲۰۰ سال پرانی ہے‘ نیز پاکستان کا بنا ہوا قیمتی اُونی کوٹ اور ٹوپی بھی پیش کی گئی ہے۔ بیگم مشرف نے لورا بش کو سونے اور ہیروں بھرے قیمتی بُندے پیش کیے جسے امریکی اخبارات نے اس طرح بیان کیا ہے: "gold light and dark pink garnet and pink tourmaline chandelier ear rings"۔ اس کے علاوہ محترمہ نے موصوفہ کو ایک نیکلس بھی پیش فرمایا جس کی منظرکشی امریکی اخبارات نے ان الفاظ میں کی ہے: "17 light and dark pink tourmaline beaded necklace".
کہا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ تحفے‘ تحفہ دینے والوں کی دل آزاری سے بچنے کے لیے قبول کیے گئے۔ واضح رہے کہ جنرل پرویز مشرف اور ان کی اہلیہ کی فیاضی صرف صدربش اور لورابش تک ہی محدود نہ تھی بلکہ سیکرٹری آف اسٹیٹ کولن پاول‘ ڈپٹی سیکورٹی ایڈوائزر اسٹیفن ہیڈلے‘ ان کے ماتحت افسران‘ ارکانِ سینیٹ حتیٰ کہ سی آئی اے کے کارندوں کو بھی قیمتی تحفوں سے نوازا گیا___ اور وہ ایسا کیوں نہ کرتے؟ آخر پاکستان کے غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی کا ان آقایانِ والامدار سے زیادہ حق دار کون ہوسکتا تھا؟
خرچ کی ایک اور دل خراش مَد‘ خوش حال پاکستان کی پبلسٹی اور پاکستان کی خوش گوار تصویر (soft image) پیش کرنے کی مہم ہے جن پر علی الترتیب ۱۰ کروڑ اور ۱۲ کروڑ ۶۲ لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ اگر یہ ۲۲کروڑ روپے اور دوسری تمام رقوم جو مل کر اربوں روپے بنتے ہیں تعلیم‘ غریبوں کے علاج یا محتاجوں کی مدد کے لیے استعمال ہوتے تو پاکستان فی الحقیقت خوش حالی کی منزل کی طرف بڑھ سکتا تھا اور صرف تصویر (image ) ہی نہیں بلکہ حقیقت میں ایک ایسا ملک بن سکتا تھا جس کی نیک نامی کسی نمایشی پروپیگنڈے کی محتاج نہ ہوتی۔
اسلام نے قومی خزانے کے امانت ہونے کا جو تصور دیا ہے اور دورخلفاے راشدہ میں اس سلسلے میں جو معیار قائم کیا گیا اس کی تو بات ہی کیا‘ خود پاکستان کے بانی قائداعظم کی مثال بھی کچھ کم ایمان افروز نہیں۔ انھوں نے اپنے لیے بطور گورنر جنرل نیا جہاز حاصل کرنے سے انکار کردیا۔ ملک کے باہر اپنا علاج کرانے سے روک دیا۔ سرکاری خزانے سے کی جانے والی دعوتوں پر شدید کنٹرول رکھا‘ مہمانوں کی تواضع کے لیے بھی کھانے کی مقدار اور پھلوں تک کی تعداد مقرر کی اور جب ان کے لیے ایک باورچی کو لاہور سے زیارت لایا گیا جس کا پکایا ہوا کھانا وہ رغبت سے کھاتے تھے‘ تو فوراً اسے واپس کرا دیا اور اس کی آمدورفت کا خرچ بھی اپنی جیب سے ادا کیا۔
ایک وہ قائد تھے اور ایک آج کے حکمران۔ یہی فرق ہے کہ ان قائدین کی جدوجہد کے نتیجے میں انگریز اور ہندو کی ہمہ جہت مخالفت کے باوجود پاکستان کی جدوجہد کامیاب ہوئی اور مسلمانانِ ہند کو آزادی کی سعادت نصیب ہوئی۔ اور رہے آج کے حکمران‘ تو یہ قومی دولت کو آنکھیں بند کر کے لٹا رہے ہیں‘ ان کی عیاشیوں اور تن آسانیوں کی کوئی حد نہیں رہی ہے اور ان کے ہاتھوں ملک کی آزادی‘ حاکمیت‘ عزت اور حمیت سب دائو پر لگے ہوئے ہیں۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ قوم امانت میں خیانت کرنے والوں کا حقیقی احتساب کرے اور ایسی قیادت بروے کار لائے جو صادق اور امین ہو۔
لَوْ کَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا وَّسَفَرًا قَاصِدًا لاَّ تَّبَعُوْکَ وَلٰکِنْم بَعُدَتْ عَلَیْھِمُ الشُّقَۃُ ط وَسَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَکُمْ ج یُھْلِکُوْنَ اَنْفُسَھُمْ ج وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِنَّھُمْ لٰکَذِبُوْنَ o عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ ج لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَتَعْلَمَ الْکٰذِبِیْنَ o لاَ یَسْتَاذِنُکَ الَّذِیْنَ یُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ یُّجَاھِدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ ط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِاَلْمُتَّقِیْنَ o اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ لاَ یُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوْبُھُمْ فَھُمْ فِیْ رَیْبِھِمْ یَتَرَدَّدُوْنَ o وَلَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لاَعَدُّوْا لَہٗ عُدَّۃً وَّلٰکِنْ کَرِہَ اللّٰہُ انْبِعَاثَھُمْ فَثَبَّطَھُمْ وَقِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ o لَوْ خَرَجُوْا فِیْکُمْ مَّا زَادُوْکُمْ اِلاَّ خَبَالًا وَّلاَ ْ اَوْضَعُوْا خِلٰـلَکُمْ یَبْغُوْنَکُمُ الْفِتْنَۃَ ج وَفِیْکُمْ سَمّٰعُوْنَ لَھُمْط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِالظّٰلِمِیْنَ o لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَۃَ مِنْ قَبْلُ وَقَلَّبُوْا لَکَ الْاُمُوْرَ حَتّٰی جَآئَ الْحَقُّ وَظَھَرَ اَمْرُ اللّٰہِ وَھُمْ کٰرِھُوْنَ o (التوبہ۹: ۴۲-۴۸) اے نبیؐ، اگر فائدہ سہل الحصُول ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور تمھارے پیچھے چلنے پر آمادہ ہوجاتے‘ مگر اُن پر تو یہ راستہ بہت کٹھن ہوگیا۔ اب وہ خدا کی قسم کھاکھا کر کہیں گے کہ اگر ہم چل سکتے تو یقینا تمھارے ساتھ چلتے۔ وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔ اے نبیؐ! اللہ تمھیں معاف کرے‘ تم نے کیوں انھیں رخصت دے دی؟ (تمھیں چاہیے تھا کہ خود رخصت نہ دیتے) تاکہ تم پر کھل جاتا کہ کون لوگ سچے ہیں اور جھوٹوں کو بھی تم جان لیتے۔ جو لوگ اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو کبھی تم سے یہ درخواست نہ کریں گے کہ انھیں اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد کرنے سے معاف رکھا جائے۔ اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔ ایسی درخواستیں تو صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں رکھتے‘ جن کے دلوں میں شک ہے اور وہ اپنے شک ہی میںمتردّد ہو رہے ہیں۔ اگر واقعی اُن کا ارادہ نکلنے کا ہوتا تو وہ اس کے لیے کچھ تیاری کرتے۔ لیکن اللہ کو ان کا اُٹھنا پسند ہی نہ تھا۔ اس لیے اس نے انھیں سُست کردیا اور کہہ دیا گیا کہ بیٹھ رہو بیٹھنے والوں کے ساتھ۔ اگر وہ تمھارے ساتھ نکلتے تو تمھارے اندر خرابی کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے۔ وہ تمھارے درمیان فتنہ پردازی کے لیے دَوڑ دھوپ کرتے‘ اور تمھارے گروہ کا حال یہ ہے کہ ابھی اُن میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کی باتیں کان لگاکر سنتے ہیں‘ اللہ اِن ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ اس سے پہلے بھی ان لوگوں نے فتنہ انگیزی کی کوششیں کی ہیں اور تمھیں ناکام کرنے کے لیے یہ ہر طرح کی تدبیروں کا اُلٹ پھیر کرچکے ہیں یہاں تک کہ ان کی مرضی کے خلاف حق آگیا اور اللہ کا کام ہوکر رہا۔
سورئہ توبہ کی ان آیات میں لوگوں کے اس بڑے گروہ کا ذکر ہے جو کم سے کم قربانی دے کر زیادہ سے زیادہ فوائد و نفع سمیٹنا چاہتاہے۔ جب انھیں منزل کے حصول کے لیے محنت اور کامیابی پانے کے لیے جہاد کی طرف بلایا جاتاہے تو وہ مختلف علتوں اور حیلوں کا سہارا لیتے ہیں اور فریب پر مبنی اپنی ان حرکات پر جھوٹی قسمیں کھاتے ہوئے کہتے ہیں: خدا کی قسم! اگر ہم جاسکتے تو تمھارے ساتھ ضرور جاتے… اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں اور پھر اپنے مکروخباثت میں انتہا کو چھوتے ہوئے غلط بیانی کرتے ہوئے پیچھے رہ جانے کے لیے آپ سے اجازت و رخصت طلب کرتے ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اخلاق و مروت کی اعلیٰ مثال تھے۔ لوگوں سے نرمی‘ حسن معاملہ‘ ان کی عیب پوشی اور ان سے رحم دلانہ برتائو آپؐ کی فطرت وجبلت میں شامل تھا (اور کیوں نہ ہوتا کہ آپؐ رحمۃ للعالمین تھے)‘ اس لیے لوگ آپؐ سے معاملات کرتے ہوئے آپؐ کی ان صفات کو ذہن میں رکھتے تھے۔ ان اجازت لینے والوں کو بھی اجازت مل جانے کا یقین و اطمینان ہوتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اجازت بھی دے دی۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو پیار بھرے انداز سے توجہ دلائی اور ارشاد ہوا (عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ) آپؐ نے انھیں کیوں رخصت دے دی (آپؐ کو چاہیے تھا کہ آپؐ انھیں رخصت نہ دیتے) تاکہ آپؐ پر کھل جاتا کہ کون لوگ سچے ہیں (اور لوگ بھی ان پر اعتماد و بھروسا کرتے) اور تاکہ آپؐ جھوٹوں کو بھی جان لیتے اور آیندہ کے لیے آپؐ بھی ان سے باخبر رہتے اور آپؐ کی اُمت بھی ان سے خبردار رہتی۔ اس طرح حفاظت کا بھی اہتمام ہوتا اور سزا کے مستحق افراد کو سزا بھی مل جاتی۔ اس تنبیہہ خداوندی سے یہ امر بھی واضح ہوتا ہے کہ اہلِ دعوت و تحریک کو اپنی دعوت کی قیمت پر کسی سے رواداری نہیں برتنی چاہیے۔ انھیں سازشیوں اور منافقین کی حقیقت آشکار کردینا چاہیے تاکہ سب ان سے بچ سکیں۔
اس آیت کے حوالے سے مفسرین نے انبیاے علیہم السلام کی عصمت پر طویل بحث و تمحیص کی ہے۔ اس امر پر اُمت کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام بندوں تک پہنچانے‘ انھیں اللہ کا دین سکھانے اور رسالت سے متعلق ہر قول و فعل میں انبیاے کرام معصومِ کامل ہیں۔لیکن جہاں بات آئے گی کسی اجتہادی ذاتی راے کی تو پھر ہم دیکھیں گے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ احد میں اپنی راے چھوڑ کر اپنے صحابہؓ کی راے مان لیتے ہیں۔ غزوئہ بدر میں حضرت خبابؓ بن المنذر کی راے کو اپنی راے پر ترجیح دیتے ہیں۔ کھجوروں کی نر و مادہ اقسام میں ملاپ کے بارے میں اپنی راے پر اس میدان کے تجربہ کار ساتھیوں کی راے اپنا لیتے ہیں۔ پھر ہم دیکھیں گے کہ ایک نابینا ساتھی کے بارے میں سورئہ عبس کی آیات کا نزول ہو رہا ہے‘ قیدیوں سے فدیہ قبول کرلینے کے بارے میں آیات نازل ہو رہی ہیں لیکن ان تمام واقعات کے بارے میں یہ نہیں کہا جائے گا کہ نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان مواقع پر کوئی گناہ یا عصمت کے منافی کوئی فعل سرزد ہوا بلکہ یہ تو وہ اجتہادی معاملات ہیں کہ اگر قرین صواب ہوئے تو دوہرا اجر‘ وگرنہ اکہرا اجر تو بہرصورت محفوظ ہے۔ یہ بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت ہی کا ایک مظہر ہے تاکہ شریعت میں اسوئہ حسنہ اور پرستش کا فرق واضح ہوجائے۔
اپنے حبیب سے خطاب کا انداز الٰہی بھی دل و دماغ کو مسحور کر دینے والا ہے۔ اس سے رب ذوالجلال کے نزدیک حبیب کی قدر و منزلت بھی واضح ہوتی ہے کہ جس بات پر توجہ دلانی مقصود ہے اس کا ذکر بعد میں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی کا ذکر پہلے… عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ ج لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ ، اللہ آپؐ کو معاف فرمائے‘ آپؐ نے انھیں کیوں رخصت دے دی۔
پھرقرآن کریم لوگوں کی دو اقسام واضح کرتا ہے: ایک گروہ تو ہے مجاہدین کا اور دوسرا ہے بیٹھ رہنے والے ناکارہ لوگوںکا۔ مجاہدین تو ہمیشہ میدانِ عمل اور پکار کی تلاش میں رہتے ہیں جیسے ہی تحریک و تحرک کا حکم ملا فوراً میدان میں آن نکلے ‘ کیونکہ وہ اللہ پر ایمان رکھتے اور اس کی راہ میں حقیقی جہاد کرتے ہیں۔ وہ روزِآخرت پر یقین رکھتے اور اس روز کی کامیابی و جزا کے متمنی و متلاشی ہوتے ہیں۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ انھوں نے اللہ کی راہ میں جان و مال میں سے جو کچھ بھی خرچ کیا ان کا اللہ انھیں اس سے کہیں بہتر اور کہیں زیادہ عطا کر دے گا۔ وہ اپنے کارِجہاد کے ذریعے خود کو اللہ کے عذاب سے بچانا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے خالق کی رضا اور اسی سے جزا کا حصول اور اس کی سزا سے نجات پانا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہم تک پہنچاتے ہیں: ’’لوگوں میں سے بہترین زندگی اس کی ہے جو ہمیشہ اللہ کی راہ اپنے گھوڑے کی باگیں تھامے رہتا ہے۔ جب بھی جہاد کی ندا یا خوف کی کوئی صدا اس کے کانوں میں پڑتی ہے تو وہ اُڑتا ہوا پہنچ جاتا ہے۔ راہِ خدا میں موت اور شہادت کا متلاشی۔
رہ گئے سُستی کے مارے گھروں میں بیٹھے لوگ تو وہ کٹ حجتی اور بودے عذر گھڑگھڑ کے رخصت و اجازت لینے کے لیے بحثابحثی میں ہی پڑے رہتے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت و دلیل ہوتی ہے کہ اللہ اور روزِ آخرت پر ان کا ایمان ابھی ادھورا ہے۔ ابھی شکوک و شبہات ان کے دلوں میں گھر کیے ہوئے ہیں ‘کیونکہ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ کسی بھی شخص کو جہاد پر اُبھارنے والی ایمان سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں اور اس راہ سے پیچھے رکھنے میں شک سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ شکوک و تردد ہی کا شکار رہتے ہیں۔
ان کے تردد کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ انھوں نے اللہ کی راہ میں نکلنے کی کوئی تیاری نہیں کی ہوتی‘ کوئی زادِ راہ نہیں حاصل کیا ہوتا۔ وہ مسلسل اسی تردد کا شکار رہتے ہیں کہ راہِ خدا میں نکلنا ہے یا نہیں نکلنا۔ یہاںتک کہ خوف‘ بزدلی اور کمزوری ان پر غالب آجاتی ہے اور وہ بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان کے اس بیٹھے رہنے اور پیچھے رہ جانے میں بھی مجاہدین کے لیے خیرکثیر پایا جاتا ہے۔ اس طرح کے بے ہمتوں کے ساتھ رہنے سے مجاہدین کی قوت کمزوری ہی واقع ہوتی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کا اپنے مخلص بندوں پر خصوصی انعام ہوا کہ اس نے ایسے عناصر سے جہاد کرنے اور غلبۂ دین کی خاطر نکل کھڑے ہونے کی توفیق سلب کرلی۔
ارشاد ہوتا ہے: اگر وہ تمھارے ساتھ نکلتے تو تمھارے اندر خرابی کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے‘ وہ تمھارے درمیان فتنہ پردازی کے لیے دوڑ دھوپ کرتے‘ یہ تمھارے ساتھ نکلتے تو بہادر اہلِ ایمان میں سازشیں‘ فتنے اور شکوک و شبہات ہی پھیلاتے۔ بات بے بات خود بھی اُکھڑجاتے‘ دوسروں کو بھی اکھاڑدیتے۔ تکلیف دہ تبصرے اور جملے بازیاں کرتے‘ تقسیم کرنے اور اتحاد و وحدت کو نقصان پہنچانے والی باتیں بناتے‘ حتیٰ کہ سب پر بزدلی طاری ہوجاتی‘ بزدلی میں وہ تنہا نہ رہتے۔ کیونکہ ہرجگہ ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو ان باتوں سے متاثرہوتے ہیں‘ پھر وہ جھوٹی باتوں کو بھی سچ جاننے لگتے ہیں۔ افواہوں پر کان دھرتے ہیں‘ یہ افواہیں اور غلط بیانیاں ان پر نفسیاتی اثر ڈالتی ہیں‘ جس سے ان کے افعال و اعمال بھی یقینی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔
اس طرح کی صورت حال غزوئہ احد میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے ان اہلِ ایمان میں فتنہ پھیلا دیا جو دشمن کا سامنا کرنے کے لیے عملاً نکل کھڑے ہوئے تھے۔ وہ ان پر اپنا جادو پھونکنے لگا اور کاناپھوسیاں کرنے لگا: ’’ہم بھلا کیوں خواہ مخواہ نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ محمدؐ نے ہماری بات ماننے کے بجاے بچوں اور کم عمر و ناتجربہ کار لوگوں کی بات مان لی ہے۔ آخر اس مقابلے اور تحرک کا فائدہ ہمیں کیا ہوگا؟ دھیرے دھیرے اس کی ان باتوں کا اثر پھیلنے لگا‘ بنوسَلمہ اورخزرج کے بعض افراد نے تو واپس جانے کا ارادہ کرلیا تھا جس سے پورا مشن ناکام ہوتا‘ لیکن بالآخر اللہ نے انھیں ثبات سے نوازا اور ان کے بارے میں یہ وحی نازل ہوئی: ’’یاد کرو جب تم میں سے دو گروہ ناکام ہونے پر آمادہ ہوگئے تھے حالانکہ اللہ ان کی مدد پر موجود تھا‘‘ (اٰل عمرٰن۳:۱۲۲) ۔اس کے باوجود وہ دشمنِ خدا خود اُلٹے پائوں واپس پھرگیا۔
اس طرح کے لوگ کسی بھی لشکر اور کسی بھی تحریک کے لیے ان کے سخت ترین دشمنوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ یہ ہزیمت کے داعی اور دشمن کے ایجنٹ کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ تحریکوں کو ایسے عناصر سے پاک کر دینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان ظالموں سے بخوبی آگاہ ہے۔ ایسے عناصر بہت خطرناک و نقصان دہ ہوتے ہیں لیکن دعوت کی راہ کھوٹی نہیں کرسکتے‘ نہ اللہ کی نصرت آنے سے ہی روک سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ اپنے ہی ساتھیوں کو ملنے والی کامیابیوں پر صدمہ محسوس کرتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ وہ کامیاب و کامران ہوں‘ اس لیے کسی بھی فوج اور جماعت کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ ایسے عناصر سے نجات حاصل کرلے۔ سیرت صحابہؓ میں مذکور ہے کہ جنگِ یمامہ میں حصولِ نصرت میں کچھ تاخیر ہوئی تو ایک صحابیؓ نے اپنے قائد خالد بن ولیدؓ کو پکار کر کہا: خالد! لوگ ہلاک ہو رہے ہیں‘ انصار اور مہاجرین کو دیگر افراد سے علیحدہ کر کے ان کے ذریعے ہلہ بولو۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے جائزہ لیا تو السابقون الاولون کی صفات رکھنے والے ۳ہزار ساتھی ملے۔ انھوں نے اسی تعداد پر بھروسا کیا اور فتح یاب ہوئے۔ ’’اللہ اپنا کام کرکے رہتاہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘(یوسف۱۲: ۲۱)۔ ( ہفت روزہ الاخوان المسلمون‘ قاہرہ‘ فروری ۱۹۴۸ئ)
سید مودودی کا ایک امتیازی پہلو یہ ہے کہ انھوں نے جمود اور تقلید کے ایک عمومی مزاج کو توڑنے کی بھرپور کوشش کی۔ اگرچہ وہ بیسویں صدی میں یہ کام کرنے والے پہلے آدمی نہیں تھے‘ لیکن انھوں نے جو کام کیا وہ اُن معذرت خواہانہ (apologetic) نقطۂ نظر رکھنے والوں سے فی الحقیقت مختلف تھا جنھوں نے اجتہاد کے نام پر علومِ اسلامی کی بعض اساسات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا‘ مثلاً یہ کہنا کہ سنت اسلامی قانون سازی کا بنیادی ماخذ نہیں ہے اور صرف قرآن کی بنیاد پر اجتہاد کرنے پر زور ہونا چاہیے۔ ان کے برعکس سید مودودی نے معذرت خواہانہ سوچ رکھنے والوں اور تقلید پسند روایتی مذہبی طبقے کو راہ اعتدال دکھائی اور قرآن و سنت کی بنیاد پر اجتہاد کی طرف توجہ دلائی اور خود بھی مختلف معاملات میں اجتہاد کیا۔ بلامبالغہ اُمت مسلمہ کے مستقبل میں اجتہاد کو ایک فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے۔
انھوں نے اُمت کے عروج و زوال میں اجتہاد کا مقام متعین کیا۔
انھوں نے جمود پر ضرب لگائی اور اہلِ علم کو جھنجھوڑا کہ وہ اجتہاد کے میدان میں آگے بڑھیں۔
انھوں نے ایک طرف غلط اجتہاد کی روک تھام کے لیے تدابیراختیار کیں‘ دوسری جانب اجتہاد کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں کی بھی مزاحمت کی۔
انھوں نے اجتہاد کے دائرے کو بہت واضح طور پر متعین کیا اور اس میں وسعت اختیار کی۔
انھوں نے اجتہاد کے اصول متعین کیے‘ جن کو مجتہدین کے لیے جدید مسائل حل کرنے میں بنیاد بننا چاہیے۔
سید مودودی نے یہ کام اپنی تحریروں میں بھی کیا اور ان مسائل کے حوالے سے بھی جن میں انھوں نے اجتہاد کیا اور اپنی راے ظاہر کی۔ بعض ماہرین کی راے میں ان کے اجتہادات کا بیش تر حصہ ترجمان القرآن کے جاری ہونے کے پہلے چار پانچ برسوں میں لکھا گیا۔ ان تحریروں میں ان کا موقف اتنا چونکا دینے والا تھا کہ علامہ محمد اقبال جن کی نظر میں فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کا کام مسلمانوں کے ایجنڈے پر سرفہرست ہونا چاہیے تھا‘ اس کے لیے ان کی نظر سید مودودی کی طرف گئی اور ان کو پٹھان کوٹ آنے کی دعوت دی۔ قرائن و شواہد بتاتے ہیں کہ اس کام کے ساتھ ساتھ سیدمودودی کی ترجیحات میںوسعت تھی۔ اس لیے کہ فقہ کسی خلا میں کام نہیں کرسکتا جب تک تہذیبی روح اور ایسے افراد نہ پیدا ہوں جو اس فقہ کو عملی جامہ بھی پہنائیں۔ اس لیے انھوں نے اپنی توجہ ایسی تحریک برپا کرنے پر مرکوز کردی جو اسلام کو غالب کرے۔ اس کوشش میں ان کے اجتہادات میں بھی پہلے برسوں کی نسبت کچھ کمی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن پہلے پانچ سال میں اصولی طور پر اجتہاد کے موضوع پر بھی اور حقوق الزوجین‘ دیہات میں نمازِ جمعہ‘ غیرعربی میں خطبۂ جمعہ‘ لائوڈ اسپیکر کا استعمال وغیرہ مسائل پر ان کا نقطۂ نظر اجتہادی شعور کا مظہر ہے۔ یہ صرف مسائل نہیں تھے بلکہ ان مسائل پراجتہاد کرتے ہوئے انھوں نے بہت سے اہم اصول بھی وضع کیے۔ یہ مباحث بہت دل چسپ ہیں اور آج بھی اگر کارِ اجتہاد درپیش ہو تو روشنی فراہم کرسکتے ہیں۔
مسلمانوں کے عروج و زوال میں‘ سید مودودی اجتہاد کو جہاد کے پہلو بہ پہلو رکھتے ہیں کہ مسلمانوں پر مایوس کن افتاد اس لیے پڑی کہ ایک جانب روح جہاد سرد پڑ گئی اور دوسری طرف مسلمان اجتہاد سے دست بردار ہوگئے۔
جمود جس کا نقطۂ آغاز شاید اتنا واضح طور پر متعین نہیں کیا جاسکتا کہ وہ چوتھی صدی سے شروع ہوا یا چھٹی صدی میں‘ یا پورا جمود کبھی طاری بھی ہوا یا نہیں‘ اور اجتہاد کا دروازہ کبھی کلی طور پر بند بھی ہوا یا نہیں___ یہ وہ مباحث ہیں جن پر ہمارے دانش ور بحث کر رہے ہیں۔ تاہم‘ بحیثیت مجموعی اُمت مسلمہ پر ایک جمود طاری تھا‘ جس پر سید مودودی نے ضرب لگائی اور شدت کے ساتھ آواز اٹھائی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے اہلِ علم کے ہاں چھٹی صدی کے بعد کیلنڈر آکر رک گیا ہو اور وہ جدید مسائل کا سامنا نہ کر پا رہے ہوں۔تاہم سید مودودی نے اس بات کو یوں واضح کیا کہ ہمارے اہلِ علم ابھی تک ماضی سے نکل کر حال کے دور میں داخل نہیں ہو سکے ہیں۔ موجودہ حالات میں نت نئی سائنٹی فک ایجادات اور ان کے نتیجے میں متعدد تہذیبی اور دینی مسائل پیدا ہورہے ہیں‘ مگر بدقسمتی سے ہمارے اہلِ علم ان سے آشنا نہیں ہیں‘ جیسے وہ اس دور میں نہیں رہتے۔
جمود اور تقلیدی رویوں کے اسباب کا تعین کرتے ہوئے سید مودودی نے کہا کہ ترتیب یہ تھی: ’’سب سے پہلے اللہ کی کتاب‘ اس کے بعد رسولؐ اللہ اور اس کے بعد اہلِ علم کا اجتہاد تھا۔ بالآخر ترتیب اُلٹ گئی اور عملاً پہلے اہلِ علم کا اجتہاد‘ پھر رسولؐ اللہ اور اس کے بعد کتاب اللہ کو مقام دیا جانے لگا۔ اس ترتیب کے اُلٹنے سے بے شمار فروعیات پیدا ہوئیں اور انھوں نے اصل اسلام کی شکل اختیار کرلی۔ پھر لوگ اس پر قانع ہوگئے کہ جب کوئی مسئلہ پیدا ہو تو اس کے لیے ان کتابوں کی طرف رجوع کریں جو کتاب اللہ کی طرح ابدی نہیں ہوسکتی تھیں اور ان افراد کی فکر ہی کو منتہا بنا لیا گیا جن کی فکر اللہ کی کتاب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور بصیرت کے برعکس تمام زمانوں پر حاوی نہیں ہوسکتی تھی۔ یہ جمود کا بنیادی سبب تھا‘‘۔ (روزنامہ جسارت‘ کراچی‘ نومبر ۱۹۹۵ئ‘ ص ۴۸-۴۹)
اس جمودی کیفیت کے اسباب کا تذکرہ وہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’’بنیادی نقص اس مسخ شدہ مذہبیت میں یہ ہے‘ کہ اس میں اسلامی شریعت کو ایک منجمد شاستر بناکر رکھ دیا گیا ہے۔ اس میں صدیوں سے اجتہاد کا دروازہ بند ہے جس کی وجہ سے اسلام ایک زندہ تحریک کے بجاے محض عہدگذشتہ کی ایک تاریخی یادگار بن کر رہ گیا ہے اور اسلام کی تعلیم دینے والی درس گاہیں آثارِقدیمہ کے محافظ خانوں میں تبدیل ہوگئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اجنبی لوگ اس چیز کو دیکھ کر زیادہ سے زیادہ تاریخی ذوق کی بنا پر اظہارِ قدر شناسی تو کرسکتے ہیں‘ مگر یہ توقع ان سے نہیں کی جاسکتی کہ وہ حال کی تدبیر اور مستقبل کی تعمیر کے لیے اس سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت محسوس کریں گے‘‘۔ (تحریک آزادی ہند اور مسلمان‘ دوم‘ ص ۱۴۹)
استعمار کے سیاسی‘ تہذیبی اور علمی غلبے کے زیراثر جب مسلمانوں کے اندر فکری و نظریاتی انحطاط میں مزید تیزی آئی تو ایمان کاسرمایہ بھی تشکیک و ریب کی نذر ہونے لگا۔
کیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھ کو
کہ تجھ سے ہو نہ سکی فقر کی نگہبانی
مثالِ ماہ چمکتا تھا جس کا داغِ سجود
خرید لی ہے فرنگی نے وہ مسلمانی
ہُوا حریف مہ و آفتاب ُ تو جس سے
رہی نہ تیرے ستاروں میں وہ درخشانی
کس درجہ یہاں عام ہوئی مرگِ تخیل
ہندی بھی فرنگی کا مقلّد‘ عجمی بھی!
مجھ کو تو یہی غم ہے کہ اس دور کے بہزاد
کھو بیٹھے ہیں مشرق کا سُرورِ ازلی بھی
سید مودودی کی تشخیص بھی یہی ہے کہ: ’’مسلمانوں پر مغربی تلوار اور قلم دونوںکا حملہ ایک ساتھ ہوا۔ جو دماغ مغربی طاقتوں کے سیاسی غلبے سے مرعوب اور دہشت زدہ ہوچکے تھے‘ ان کے لیے مشکل ہوگیا کہ مغرب کے فلسفہ و سائنس اور ان کی پروردہ تہذیب کے رعب و داب سے محفوظ رہتے… مزیدبرآں ایک مرعوب ذہنیت کے ساتھ مغربی استادوں کے سامنے زانوے ادب تہ کیا گیا تھا‘ اس لیے مسلمانوں کی نئی نسلوں نے شدت کے ساتھ مغربی افکار اور سائنٹی فک نظریات کا اثر قبول کیا۔ ان کی ذہنیتیں مغربی سانچے میں ڈھلتی چلی گئیں۔ ان کے دلوں میں مغربی تہذیب کانفوذ بڑھتا چلا گیا۔ ان میں وہ ناقدانہ نظر پیدا ہی نہیں ہوئی جس سے وہ صحیح اور غلط کو پرکھتے اور صرف صحیح کو اختیار کرتے۔ اور ان میں یہ صلاحیت ہی پیدا نہ ہوسکی کہ آزادی اور استقلال کے ساتھ غوروفکر کرتے اور اپنے ذاتی اجتہاد سے کوئی راے قائم کرتے‘ اسی کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی تہذیب جن بنیادوں پر قائم ہے وہ متزلزل ہوگئی ہیں۔ ذہنیتوں کا وہ سانچا ہی بگڑ گیا ہے جس سے اسلامی طریق پر سوچا اور سمجھا جاسکتا تھا۔ مغربی طریق پر سوچنے اور مغربی تہذیب کے اصولوں پر اعتقاد رکھنے والے دماغ کی ساخت ہی ایسی ہے کہ اس میں اسلام کے اصول ٹھیک نہیں بیٹھ سکتے‘ اور جب اصول ہی اس میں نہیں سماسکتے تو فروع میں طرح طرح کے شبہات اور نت نئے شکوک پیدا ہونا ہرگز قابلِ تعجب نہیں‘‘۔ (تنقیحات‘ ص ۱۹-۲۰)
اسی طرح سید مودودی نے اپنے ایک مضمون بعنوان ’’ملت کے تعمیرنو کا صحیح طریقہ‘‘ میں اُمت کے جمود اور افتراق و انتشار کو نہایت بلیغ اور جامع انداز میںبیان کیا ہے: ’’جب تک علماے اسلام اس ماخذ و منبع [قرآن و سنت] سے اکتسابِ علم کرتے رہے اور صحیح غوروفکر سے کام لے کر اپنے اجتہادسے علمی وعملی مسائل حل کرتے رہے‘ اس وقت تک اسلام زمانے کے ساتھ حرکت کرتا رہا۔ مگر جب قرآن میں غوروفکر کرنا چھوڑ دیا گیا‘ جب احادیث کی تحقیق اور چھان بین بند ہوگئی‘ جب آنکھیں بند کر کے پچھلے محدثین اور مفسرین کی تقلید کی جانے لگی‘ جب پچھلے فقہا اور متکلمین کے اجتہادات کو اٹل اور دائمی قانون بنالیا گیا‘ جب کتاب و سنت سے براہِ راست اکتسابِ علم ترک کر دیا گیا‘ اور جب کتاب و سنت کے اصول چھوڑ کر بزرگوں کے نکالے ہوئے فروع ہی اصل بنا لیے گئے تو اسلام کی ترقی دفعتاً رک گئی۔ اس کا قدم آگے بڑھنے کے بجاے پیچھے ہٹنے لگا۔ اس کے حامل اور وارث علم و عمل کے نئے میدانوں میں دنیا کی رہنمائی کرنے کے بجاے پرانے مسائل اور علوم کی شرح و تفسیر میں منہمک ہوگئے۔ جزئیات اور فروع میں جھگڑنے لگے‘ نئے نئے مذاہب نکالنے اور دور ازکار مباحث میں فرقہ بندی کرنے لگے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۱۵۸)
سید مودودی مسلم نوجوانوں کی سوئی ہوئی خودی اور ان کے جمود زدہ احساس کو ٹھوکر لگاکر جگانے کی کوشش کرتے ہیں‘ ان کواپنے تشخص کا شعور دیتے ہیں اوران کو اصل فساد سے آگاہ کرتے ہیں جس سے مسلم سوسائٹی اور مسلم فکر دوچار ہے۔
علامہ اقبال اورسید مودودی کے افکار و نظریات میں اس باب میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں نے مسلمانوں کے حالات و کیفیات کا انتہائی حقیقت پسندانہ تاریخی تجزیہ کیا ہے اور اس مرض کی نشان دہی کی ہے جو مسلم تہذیب کے سقوط کا سبب بنا۔ دونوں اس راے کااظہار کرتے ہیں کہ قوموں کے عروج زوال میں بلاکسی استثنا کے فطرت کا یہ اٹل قانون کارفرما رہا ہے کہ جب کوئی قوم ندرت فکروعمل‘ تحقیق و اکتشاف سے جیسی صفات سے محروم ہوجاتی ہے تو اسے میدان عمل اپنے سے بہتر قوم یا گروہ کے لیے خالی کر کے مغلوبیت اختیارکرنا پڑتی ہے۔ اس لیے کہ خالق کائنات کو جہانِ آب و گل پر زندہ لاشوں کی حکمرانی پسند نہیں۔ علامہ اقبال ارمغانِ حجاز میں فرماتے ہیں:
آزاد کی رگ سخت ہے مانندِ رگِ سنگ
محکوم کی رگ نرم ہے مانندِ رگِ تاک
محکوم کا دل مردہ و افسردہ و نومید
آزاد کا دل زندہ و پُرسوز و طرب ناک
آزاد کی دولت دلِ روشن‘ نفس گرم
محکوم کا سرمایہ فقط دیدہ نم ناک
محکوم ہے بیگانۂ اخلاص و مروت
ہرچند کہ منطق کی دلیلوں میں ہے چالاک
ممکن نہیں محکوم ہو آزاد کا ہمدوش
وہ بندۂ افلاک ہے‘ یہ خواجۂ افلاک ہے
اس موضوع کو سید مودودی اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’فطری قانون یہی ہے کہ جو قوم عقل و فکر سے کام لیتی اور تحقیق و اکتشاف کی راہ میں پیش قدمی کرتی ہے‘ اس کو ذہنی ترقی کے ساتھ ساتھ مادی ترقی بھی نصیب ہوتی ہے‘ اور جو قوم تفکر و تدبر کے میدان میں مسابقت کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ وہ ذہنی انحطاط کے ساتھ مادی تنزل میں بھی مبتلا ہوجاتی ہے۔ پھر چونکہ غلبہ نتیجہ ہے قوت کا اور مغلوبیت نتیجہ ہے کمزوری کا‘ اس لیے ذہنی و مادی حیثیت سے درماندہ اور ضعیف قومیں اپنی درماندگی اور ضعف میں جس قدر ترقی کرتی جاتی ہیں‘ اسی قدر غلامی اور محکومیت کے لیے مستعد ہوتی چلی جاتی ہیں اور طاقت ور (ذہنی‘ مادی دونوں حیثیتوں سے طاقت ور) قومیں‘ ان کے دماغ اور ان کے جسم دونوں پر حکمران ہوجاتی ہیں‘‘۔(تنقیحات‘ ص ۹-۱۰)
سید مودودی اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اُمت مسلمہ کی شکست و ریخت اور زوال جو نظر آرہا ہے وہ فی الحقیقت کمزور سیرت اور علم و عمل سے عاری قوم کی تہذیب کا‘ ایک دوسری صاحب علم‘ فعال اورباعمل قوم کے درمیان مقابلے کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے ایک معالج کی طرح اُمت کے ان امراض کا علاج شروع کیا اور جب حالت سدھرتی ہوئی نظرآئی تو مقوی ادویات سے ایمان و اسلام کو صحت مند بنانے کی کوشش میں لگ گئے۔ وہ جماعت اسلامی کا مقصد‘ تاریخ اور لائحہ عمل میں لکھتے ہیں:’’کوئی تہذیبی و تمدنی حرکت جمود کی چٹانوں سے نہیں روکی جاسکتی۔ اس کو اگر روک سکتی ہے تو ایک مقابل کی تہذیبی وتمدنی حرکت ہی روک سکتی ہے‘‘۔(ص ۹۰-۹۱)
اُمت مسلمہ کی اس بے بسی اور جمود کے خاتمے کے لیے سید مودودی نے اجتہاد پر زوردینے کے ساتھ اس بات کا اہتمام کیا اور تاکید کی کہ اجتہاد بے لگام نہ ہو اور ایسے لوگوں کے ہاتھوں انجام نہ پائے جو اس کے اہل نہ ہوں۔ وہ اس کا بھی اہتمام کرتے ہیں کہ سلف نے جو صدیوں سے فقہ کی ترتیب کا حتمی کارنامہ انجام دیا ہے اس کو نذر آتش نہ کر دیا جائے‘ یا پوری عمارت کو نہ ڈھا دیا جائے‘ بلکہ فقہ میں جوچیز زمانے کا ساتھ دے سکتی ہو اسے برقرار رکھا جائے اور جو چیز ساتھ نہ دے سکتی ہو‘ قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی متبادل چیزیں سوچی جائیں۔ یہ سارے مباحث ان کے مضامین میں بھی موجود ہیں اور ان مباحث میں بھی جو انھوں نے ان مسائل کے حل کے ضمن میں کیے‘ جن کے بارے میں انھوں نے اجتہاد سے کام لیا۔
یہ امرمسلمہ ہے کہ حالات و واقعات میں تغیر و تنوع ناگزیر ہے۔ اس لیے اجتہاد و قیاس سے کام لینا بھی ناگزیر ہے۔ علامہ عبدالوہاب شعرانی ؒ نے دسویں صدی ہجری میں اور مشہور حنفی عالم مولانا عبدالعلی نے تیرھویں صدی ہجری میں لکھا ہے کہ :اجتہاد کے ممنوع اور مسدود ہونے پر کوئی کمزور قسم کی شرعی دلیل بھی موجود نہیں ہے(ماہنامہ فاران‘ کراچی‘ مارچ ۱۹۹۵ئ‘ ص ۲۹)۔ جو احکام اَئمہ سلف اور فقہا کے درمیان اختلافی ہوں تو ان میں حالات و ضروریات کی بنا پر کسی ایک راے کو ترجیح دینے کے لیے بھی اجتہاد کیا جاسکتا ہے اور جو احکام عرف و رواج پر مبنی ہوں ان میں بھی عرف و رواج کے تغیر کی وجہ سے جدید اجتہاد کیاجاسکتاہے۔ لیکن قرآن و سنت کے قطعی اور صریحی احکام اور نصوص کی اجماعی تعبیرکے خلاف اجتہاد کرنا دین میں تحریف و ترمیم کے مترادف ہے۔
سید مودودی تفہیمات جلد سوم میں اجتہاد کا مقصد و منہاج بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اجتہاد کا مقصد چونکہ خدائی قانون کو انسانی قانون سے بدلنا نہیں بلکہ اس کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا اور اس کی رہنمائی میں اسلام کے قانونی نظام کو زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ متحرک کرنا ہے‘ اس لیے کوئی صحت مندانہ اجتہاد اس کے بغیر نہیں ہوسکتا کہ ہمارے قانون سازوں میں حسب ذیل اوصاف موجود ہوں:
۱- شریعت الٰہی (قرآن وسنت) پر ایمان‘ اس کے برحق ہونے کا یقین‘ اس کے اتباع کا مخلصانہ ارادہ‘ اس سے آزاد ہونے کی خواہش کا معدوم ہونا اور مقاصد‘ اصول اور اقدار (values) کسی دوسرے ماخذ سے لینے کے بجاے صرف خدا کی شریعت سے لینا۔
۲- عربی زبان اور اس کے قواعد اور ادب سے اچھی واقفیت‘ کیونکہ قرآن اسی زبان میں نازل ہوا ہے اور سنت کو معلوم کرنے کے ذرائع بھی اسی زبان میں ہیں۔
۳- قرآن اورسنت کا علم جس سے آدمی نہ صرف جزوی احکام اور ان کے مواقع سے واقف ہو‘ بلکہ شریعت کے کلیات اور اس کے مقاصد کو بھی اچھی طرح سمجھ لے۔
۴- پچھلے مجتہدین اُمت کے کام سے واقفیت‘ جس کی ضرورت صرف اجتہاد کی تربیت ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ قانونی ارتقا کے تسلسل (continuity) کے لیے بھی ہے۔
۵- عملی زندگی کے حالات و مسائل سے واقفیت‘ کیونکہ انھی پر شریعت کے احکام اور اصول و قواعد کو منطبق کرنا مطلوب ہے۔
۶- اسلامی معیار اخلاق کے لحاظ سے عمدہ سیرت و کردار‘ کیونکہ اس کے بغیر کسی کے اجتہاد پر لوگوں کا اعتماد نہیں ہوسکتا۔
اجتہاد اور اس کی بنا پر ہونے والی قانون سازی کے مقبول ہونے کا انحصار جس طرح اس بات پر ہے کہ اجتہاد کرنے والوں میں اس کی اہلیت ہو‘ اسی طرح اس امر پر بھی ہے کہ یہ اجتہاد صحیح طریقے سے کیا جائے۔ مجتہد خواہ تعبیراحکام کر رہاہو یا قیاس و استنباط‘ بہرحال اسے اپنے استدلال کی بنیاد قرآن اور سنت ہی پر رکھنی چاہیے… قرآن و سنت سے جو استدلال کیا جائے وہ لازماً ان طریقوں پر ہونا چاہیے جو اہلِ علم میں مسلّم ہیں‘‘۔ (تفہیمات‘ سوم‘ ص ۱۱-۱۳)
اس پس منظر میں ایک صاحب نے سید مودودی سے دریافت کیا تھا کہ کیا اجتہاد کے دروازے کو آج کھولنے کی شدید ضرورت نہیں ہے۔ وہ اجتہادی اصول جو آج سے ہزار سال قبل بنائے گئے تھے ان کو آج کے مسائل پر بھی بڑی سختی سے نافذ کیا جائے گا؟ اس کے جواب میں انھوں نے لکھا:’’اجتہاد کا دروازہ کھولنا جتنا ضروری ہے اتنا ہی احتیاط کا متقاضی بھی ہے۔ اجتہاد کرنا ان لوگوں کاکام نہیں ہے جو ترجموں کی مدد سے قرآن پڑھتے ہوں۔ حدیث کے پورے ذخیرے سے نہ صرف یہ کہ ناواقف ہوں‘ بلکہ اس کو دفتر بے معنی سمجھ کر نظرانداز کردیتے ہوں۔ پچھلی ۱۳ صدیوں میں فقہاے اسلام نے اسلامی قانون پر جتنا کام کیا ہے اس سے سرسری واقفیت بھی نہ رکھتے ہوں اوراس کو بھی فضول سمجھ کر پھینک دیں پھر اس پر مزید یہ کہ مغربی نظریات و اقدار کو لے کر ان کی روشنی میں قرآن کی تاویلیں کرنا شروع کر دیں۔ اس طرح کے لوگ اگر اجتہاد کریں گے تو اسلام کو مسخ کر کے رکھ دیں گے‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۰)
۱- پہلا اصول یہ [ہے] کہ آدمی اس زبان کو اور اس کے قواعد اور محاوروں اور ادبی نزاکتوں کو اچھی طرح سمجھتا ہو جس میں قرآن نازل ہوا ہے۔ (ایضاً، ص ۳۱)
۲- دوسرا اصول یہ ہے کہ آدمی نے قرآن مجید کا اور ان حالات کا جن میں قرآن مجید نازل ہوا ہے‘ گہرا اور وسیع مطالعہ کیا ہو۔
۳- تیسرا اصول یہ ہے کہ آدمی اس عمل درآمد سے اچھی طرح واقف ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدینؓ کے دور میں اسلامی قوانین پر ہوا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ قرآن خلا میں سفر کرتا ہوا براہِ راست ہمارے پاس نہیں پہنچ گیا ہے۔ اس کو خدا کی طرف سے ایک نبی لایا تھا۔ اس نبی نے اس کی بنیاد پر افراد تیار کیے تھے‘ معاشرہ بنایا تھا‘ ایک ریاست قائم کی تھی‘ ہزارہا آدمیوں کو اس کی تعلیم دی تھی اور اس کے مطابق کام کرنے کی تربیت دی تھی۔ ان ساری چیزوں کو آخر کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ ان کا جو ریکارڈ موجود ہے اس کی طرف سے آنکھیں بند کر کے قرآن کے الفاظ سے احکام نکال لینا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے۔ (ایضاً‘ ص ۳۱)
۴- چوتھا اصول یہ ہے کہ آدمی اسلامی قانون کی پچھلی تاریخ سے واقف ہو۔ وہ یہ جانے کہ… پچھلی ۱۳صدیوں میں صدی بہ صدی اس پر کیا کام ہوا ہے اور مختلف زمانوں میں وقت کے حالات پر قرآن اور سنت کے احکام کو منطبق کرنے کے لیے کیا کیا طریقے اختیار کیے گئے ہیں اور تفصیلاً کیا احکام مرتب کیے جاتے رہے ہیں… ایک دانش مند قوم اپنے اسلاف کے کیے ہوئے کام کو برباد نہیں کرتی بلکہ جو کچھ انھوں نے کیا ہے اس کو لے کر آگے وہ کام کرتی ہے‘ جو انھوں نے نہیں کیا‘ اور اس طرح مسلسل ترقی جاری رہتی ہے۔
۵- پانچواں اصول یہ ہے کہ آدمی ایمان داری کے ساتھ اسلامی اقداراور طرزِفکر اور خدا اور رسولؐ کے احکام کی صحت کا معتقد ہو اور رہنمائی کے لیے اسلام سے باہر نہ دیکھے بلکہ اسلام کے اندر ہی رہنمائی حاصل کرے۔ یہ شرط ایسی ہے جو دنیا کا ہر قانون اپنے اندر اجتہاد کرنے کے لیے لازمی طور پر لگائے گا۔ (ایضاً، ص ۳۱-۳۲)
سید مودودی نے یہ بات واضح طور پر کہی کہ جو بھی اجتہاد کیا جائے وہ ’مصلحت‘ اور ’حکمت‘ کے مطابق ہونا چاہیے۔ شریعت کا ہرحکم کسی مصلحت پر مبنی ہے اور اگر حالات اور زمانے میں تغیر ہو تو احکام کی نوعیت بھی بدلے گی۔ اس کے بعدانھوں نے اجتہاد کا دائرہ ان الفاظ میں متعین کیا: ’’اجتہاد کے لیے الفاظ اور اسپرٹ دونوں ہی کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے‘ لیکن اسپرٹ کا مسئلہ خاصا پیچیدہ ہے۔ اگر اسپرٹ سے مراد وہ چیز ہے جو بحیثیت مجموعی قرآن کی تعلیمات‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل‘ خلفاے راشدینؓ کے عمل اور بحیثیت مجموعی فقہاے اُمت کے فہم سے ظاہر ہوتی ہے‘ تو بلاشبہہ یہ اسپرٹ ملحوظ رکھنے کے قابل ہے اوراسے نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔ لیکن اگر الفاظ قرآن اور سنت سے لیے جائیں اوراسپرٹ کہیں اور سے لائی جائے تو یہ سخت قابلِ اعتراض چیز ہے اور ایسی اسپرٹ کو ملحوظ رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم خدا اور رسولؐ کا نام لے کر ان سے بغاوت کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ (تفہیمات‘ سوم‘ ص ۳۴)
سید مودودی نے اجتہاد کے دائرہ کار میں وسعت و تنوع اختیار کیا۔اجتہاد میں وہ معاملات تو آئیں گے ہی جن کے بارے میں کوئی حکم نہ پایا جاتا ہو‘ اور وہ معاملات بھی آئیں گے جن میں فقہا نے استنباط کیا ہے اور اب حالات بدل گئے ہیں۔ لیکن نصوص کے دائرے میںبھی اجتہاد کا ایک دائرہ ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی نص کا منشاکیا ہے؟ جسے پہلے لوگوں نے متعین کیا اور آج بھی کیاجاسکتا ہے‘ اور جو قرآن و سنت کی رو سے بالکل واضح احکام تھے‘ ان کی تعبیر میں صحابہ کرامؓ میں اختلاف رہا۔ بعض الفاظ تک محدود رہے اور بعض نے ان کا مفہوم لیا۔ جیساکہ حضوؐر کی زندگی میں بھی ایسا واقعہ موجود ہے۔
حدیث مبارکہ میں مذکور ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ تم غزوئہ احزاب میں فارغ ہوکر یہودیوں کے قلعوں کی طرف جائو تو بیچ میں نماز نہ پڑھو‘ تو بعض لوگوں نے اسے لفظی معنی میں لیا اور نماز عصر پڑھے بغیر قلعوں تک پہنچے۔ بعض نے کہا کہ حضوؐر کا مطلب یہ تھا کہ جلدی سے پہنچو‘ ہم نماز پڑھ سکتے ہیں‘ نماز پڑھ کے جائیں گے۔ دونوں نے ایک نص کی تعبیر کی اور حضوؐر کے سامنے پیش کی۔ آپؐ نے دونوں میں سے کسی کو غلط نہیں کہا (بخاری‘ کتاب المغازی)۔ اس کے معنی یہ تھے کہ تعبیر کے اندر بھی گنجایش موجود ہے کہ حکم کا منشا کیا ہے اور اس منشا کا مفہوم کیا ہے؟ اس کے بعد پھر یہ بھی دیکھا جائے گا کہ یہ حکم کن حالات اور کن واقعات کے لیے آیا تھا۔
سیدمودودی اجتہاد کے اصول کے ساتھ ساتھ حکمت و مصلحت پر بھی زوردیتے ہیں اور جہاں شریعت کے احکام کی مصلحت اور حکمت قائم نہ رہتی ہو وہاں اجتہاد کی بھی ضرورت ہے‘ تبدیلی اور توجہ کی بھی ۔ آپ نے اپنی کتاب حقوق الزوجین میں بہت سے ایسے مسائل پر قلم اٹھایا ہے‘ جن پر فقہا کی آرا بہت عرصے سے موجود تھیں‘ اور ایسا بھی نہیں کہ انھوں نے بہت انقلابی یا ہنگامہ خیز قسم کی تبدیلیاں ان میں کی ہوں‘ لیکن اس سے ان کا مزاج معلوم ہوتا ہے کہ مخلوق خدا کی منفعت اور مصلحت اور اس کا فائدہ دین میں کتنا اہم ہے۔
سید مودودی نے عمومی ضرورتوں اور تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عورت کے حقوق کی بازیافت کے لیے سعی کی۔ اس کی فکری و عملی تربیت کے لیے علیحدہ علیحدہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام پر زور دیا اور کہا کہ حصول علم میںاس کا حق ہے۔ حدود میں رہتے ہوئے تمام صحت مند مشاغل کی نہ صرف اجازت دی بلکہ وضاحت فرمائی کہ معاشرے کی تعلیم وترقی میں مرد سے زیادہ عورت ذمہ دار ہے۔ بایں طور کہ قدرت نے جو اس کے فرائض مقرر فرمائے ہیں ان کو پورے انہماک اور توجہ سے ادا کرے۔ ان کے نزدیک دوسرا اہم پہلو وہ فقہی قوانین ہیں جن کے ذریعے عورت کی بے بسی و مجبوری میں اضافہ کیا گیا ہے۔ سید مودودی نے دلائل و براہین کے ساتھ ان بعض فقہی آرا کو رد کرکے عورت کی حیثیت کو مستحکم کیا ہے اور قرآن و سنت نے اسے جو حقوق دیے ہیں ان کا تحفظ کیا ہے۔ اس پہلو پر ان کی تصنیف حقوق الزوجین ان کی بصیرت کی روشن دلیل ہے۔ (قادری‘ عروج احمد‘ اقامت دین فرض ہے‘ مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی ہند‘۱۹۷۰ئ‘ص ۶)
اجتہاد کا ایک اہم پہلو شورائی اجتہاد ہے۔ سید مودودی اس بارے میں فرماتے ہیں: ’’انفرادی اجتہاد سے جو آرا دی جائیں گی اُن کی حیثیت زیادہ سے زیادہ ایک فتویٰ یا ایک انفرادی راے کی ہوگی۔ اس کو قانون کی طاقت حاصل نہیں ہوسکتی۔ البتہ اس کا فائدہ یہ ہے کہ مختلف لوگ جب شرعی مسائل پر بحث کریںگے اور اپنے اپنے دلائل دیں گے تو مسائل زیادہ اچھی طرح منقح ہوتے چلے جائیں گے۔ اس کے ساتھ اگر شورائی اجتہاد بھی ہو اور اہلِ علم کی کوئی کونسل ایسی بنائی جائے جو باہمی بحث و مباحثے کے بعد بالاتفاق یا اکثریت سے اجتہادی فیصلے کرے تو یہ چیز بہت مفید ہوسکتی ہے۔ ایسی کونسل ایک ریاست میں بھی بنائی جاسکتی ہے اور اس کو ایک دستوری حیثیت بھی دی جاسکتی ہے تاکہ اس کے فیصلے قانونی طاقت حاصل کرلیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایسی ایک کونسل کی حیثیت محض ایک علمی کونسل کی ہو اور وہ علمی حیثیت سے اپنے فیصلے شائع کرے اوران فیصلوں سے رہنمائی حاصل کر کے قانون ساز ادارے صحیح قانون بنائیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تمام دنیاے اسلام کی ایک مرکزی کونسل ایسی بنائی جائے کہ جو ساری دنیا کے مسلمانوں کی ضروریات کو سامنے رکھ کر اجتہادات کرے۔ اِس علمی کونسل کو قائم کرنے میں اگر مسلمان کامیاب ہوجائیں تو یہ بڑی رحمت ثابت ہوگی۔ اس سے تمام مسلمانوں کو رہنمائی حاصل ہوگی اور کسی وقت چل کر یہ بھی ممکن ہوگا کہ ساری مسلمان حکومتیں مل کر ایک ایسی کونسل کو دستوری حیثیت بھی دے دیں تاکہ اِس کے فیصلے تمام مسلمان حکومتوں میں قانون کی طاقت حاصل کرلیں‘‘۔ (مولانا مودودی کے انٹرویو‘ ص ۶۰-۶۱)
۱- اپنے خاندان میں‘ بالخصوص بچوں کے ساتھ ممکنہ حد تک زیادہ وقت گزارا جائے۔ اپنی معاشی جدوجہد و دیگر مصروفیات کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ لازماً کچھ وقت اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ گزارا جاسکے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری ہے‘ تربیت کا تمام تر بوجھ ماں پر ڈال دینا ایک نامناسب اور غیرمعقول طریقہ ہے۔ مدرسے میں بچوں کی مصروفیات‘ دوستوں کی صحبت وغیرہ سے واقفیت کے لیے ضروری ہے کہ والدین ان کے ساتھ روزانہ کچھ نہ کچھ وقت گزاریں۔
۲- بچوں کوسخت کوشی اور محنت کا عادی بنانے کے لیے انھیں ایک درمیانے معیار کی زندگی کا عادی بنایا جائے تاکہ وہ ایک عام انسان جیسی پُرمشقت زندگی کا تجربہ حاصل کرسکیں۔
۳- اوّل تو جیب خرچ دینے سے بچا جائے اور بچوں کی ایسی ضروریات کو خود پورا کیا جائے‘ اور اگر بچوں کو جیب خرچ دیا جائے تو پھر اسے ڈسپلن کا پابندبنایا جائے۔ بچوں سے اس رقم کا حساب بھی پوچھا جائے‘ تاکہ ان میں بچپن سے ہی کفایت شعاری‘ بچت اور غیرضروری اخراجات سے پرہیز کی عادت پروان چڑھے اور جواب دہی کا احساس پیدا ہو۔ والدین کی طرف سے اپنے بچوں کو آرام پہنچانے کی خواہش بجا ہے۔ مگر ابتدا سے بغیر محنت کے آرام طلب بنانا‘ ان کے مستقبل کے ساتھ سنگین مذاق ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ان کے کپڑوں اور جوتوں پر اخراجات میں اعتدال رکھنا ضروری ہے۔ کیونکہ تعلیمی ادارے میں مختلف معاشی و سماجی پس منظر رکھنے والے طلبہ و طالبات ہوتے ہیں‘ اس طرح ان میں غیرمطلوب مقابلہ آرائی کو روکاجاسکتا ہے۔
۴- ابتدا ہی سے بچوں سے خودانحصاری (self reliance)یعنی اپنی مدد آپ کے اصول پر عمل کرایا جائے۔ اگر معاشی وسائل میں وسعت بھی حاصل ہو تب بھی بچوں کو اپنے کام کرنے یعنی جوتے صاف کرنے‘ کمرے کو ترتیب دینے کی عادت ڈالی جائے۔
۵- والدین کا یہ بھی فرض ہے کہ بچوں کو اپنے بزرگوں کی خدمت کی طرف متوجہ کرتے رہیں۔
۶- بچوں کی مصروفیات اور ان کے دوستوں کو جاننا ضروری ہے۔ جرائم کا ارتکاب اور نشہ آور چیزوں کا استعمال غلط صحبت کا نتیجہ ہوتاہے۔ اس لیے بچے کے دوستوں پر گہری نظر رکھنا والدین کی لازمی ذمہ داری ہے۔
۷- بچوں کے سامنے مدرسے یا اساتذہ یا دوسرے عزیزوں کی برائی نہ کی جائے۔ اگر جائز شکایت ہو تو متعلقہ ذمہ داران سے گفتگو کی جائے۔ مگر بچوں کے سامنے کبھی ان کے اساتذہ کی تحقیر نہیں ہونی چاہیے۔ والدین اپنے بچوں کے اساتذہ کی عزت کریں گے تو بچے بھی اس کا اچھا اثر قبول کریں گے۔
۸- اپنے بچوں کی غلطیوں اور جرائم کی صفائی نہیں پیش کرنی چاہیے۔ بچوں کو غلطی کا احساس دلانا اور حسب موقع تادیب انھیں اصلاح کا موقع فراہم کرے گی اور وہ عدل‘ انصاف اور اعتدال کے تقاضوں سے واقف ہوں گے۔
۹- ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے حوالے سے متوازن رویہ اپنانا ضروری ہے۔ اس کے لیے والدین کو خود اپنے آپ کونظم کا پابند بنانا ہوگا‘ تعلیمی اور معلوماتی پروگرام سے استفادہ اور‘ اچھے تفریحی پروگراموں پر بچوں سے تبادلہ خیال کے ذریعے مثبت اور منفی پہلوؤں کو اجاگر کرنا چاہیے۔ ٹی وی اور کمپیوٹر کو ایسی جگہ رکھنا چاہیے‘ جہاں سب آتے جاتے ہوں تاکہ لغو اور غیراخلاقی پروگرام دیکھنے کا امکان نہ رہے۔
۱۰- ٹی وی اور کمپیوٹر کتابوں کا نعم البدل نہیں بن سکتے۔ اچھی کتب اور رسالے‘ بچوں کی شخصیت سازی میںغیرمعمولی کردار ادا کرتے ہیں‘ اپنے بچوں میں مطالعے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ والدین انھیں اچھی کتابیں اور رسائل فراہم کریں اور ان کے لیے ذاتی لائبریری بنائیں‘ ان کے نصاب کے مطالعے اور دیگر کتب کے مطالعے پر نظر رکھیں۔ خود بچوں کو ترغیب دیں کہ وہ اپنے جیب خرچ سے رقم پس انداز کر کے کتابیں خریدیں۔
۱۱- بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا کیا جائے‘ تاکہ ملک و ملّت اور انسانیت کو ان کی ذات سے فائدہ ہو۔ موجودہ دور میں ہر شخص اپنے حقوق کے بارے میں بہت حساس ہے‘ مگر اپنے فرائض کی ادایگی کے بارے میں انجان بن جاتا ہے‘ اس رویے کو تعلیمی عمل کے دوران ہی تبدیل کرنا ہوگا۔
۱۲- بچوں میں عوامی املاک کی حفاظت کا احساس پیدا کرنا چاہیے۔ ملک میں پارک‘ عوامی ٹرانسپورٹ‘ راستوں اور سرکاری عمارتوں وغیرہ کا حال سب کے سامنے ہے۔ ہرکوئی اس کے نقصان پر تلا ہوا ہے۔ (پارک میں کھیلنے کا سامان چند دنوں میں ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے‘ بسوں کی سیٹیں پھاڑ دی جاتی ہیں اور اسٹریٹ لائٹس بچوں کی نشانہ بازی کی مشق کا ہدف قرار پاتی ہیں)۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ معاشرے میں قومی جایداد کا تصور بیدار نہیں ہے۔ اسلام ان املاک کے بارے میں امانت دار ہونے اور اللہ کے سامنے جواب دہی کا تصور دے کر اس کی حفاظت کراتا ہے۔
۱۳- بچوں میں سماجی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا احساس پیدا کرنا چاہیے۔ اسکول کی فیس ہو‘ میونسپل ٹیکس ہو یا انکم ٹیکس‘ اس ضمن میں والدین اپنے عمل سے بچوں کے لیے نمونہ پیش کریں اور انھیں عوامی واجبات کو بروقت ادا کرنے کی تلقین کی جائے۔
۱۴- گھر میں ایک بہتر ماحول قائم کیا جائے۔ ماں باپ کو چاہیے کہ وہ بالخصوص بچوں کے سامنے غصے اور لڑائی جھگڑے سے پرہیز کریں۔ خاندان کے بڑوں میں باہم میل جول‘ ایک دوسرے کی قدر و منزلت اور احترام بچوں پر خوش گوار اثر ڈالتا ہے۔
۱۵- قول و فعل میں تضاد سے پرہیز لازم ہے‘ بچے اپنے بڑوں کے اعمال سے غیرمحسوس طریقے سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ ماں باپ اوردیگر بڑوں کا طرزِعمل بچوں کی شخصیت کو بناتا ہے۔ والدین کو سچائی‘ امانت داری وغیرہ کے حوالے سے معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا‘ اور بظاہر نقصان ہی ہوتا نظر آرہا ہو‘ اپنے عمل کو درست رکھنا چاہیے۔
۱۶- والدین عموماً اپنے بچوں سے اُونچی توقعات وابستہ کرتے ہیں۔ مگر جب وہ اس معیار پر پورے نہیں اُترتے تو والدین مایوس ہوجاتے ہیں اور بچوں سے ناراض ہوکر جھنجھلاہٹ کا اظہار کرتے ہیں۔ اس طرح والدین اور بچے دونوں احساسِ کمتری اور چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ نامناسب رویہ ہے۔ بچوں کو ملنے والی کامیابی پر انھیں حوصلہ دینا اور مناسب انعام سے نوازنا چاہیے۔ بچوں سے توقعات وابستہ کرتے وقت ان کی صلاحیت‘ دل چسپی اور کمزوریوں کو بھی دھیان میں رکھنا چاہیے۔ والدین کو اپنی خواہشات بچوں پر تھوپنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
۱۷- ناکامی کو کامیابی کا زینہ بنانے کی تربیت دینی چاہیے۔ زندگی میں ہر فرد کو کسی نہ کسی بحران سے مقابلہ درپیش رہتا ہے اس لیے نامطلوب حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے بچوں کی ذہن سازی ضروری ہے۔ انھیں مسائل سے فرارکے بجاے ان سے نبردآزما ہونے کی تربیت دینی چاہیے۔ عزم محکم‘ عمل پیہم اور سخت محنت کامیابی کی شرائط ہیں۔ مشکلات کی صورت میں حسب موقع بچوں سے مشاورت بھی ان کی تربیت اور ان میں خوداعتمادی پیدا کرنے میں معاون ہوتی ہے۔
۱۸- بچوں کو اپنی زندگی کے مقصد کا شعور دیا جائے۔ مقصد زندگی کا واضح تصور انھیں دنیا میں اپنا مقام متعین کرنے میں مدد دے گا۔ مستقبل کے لیے بلند عزائم اور ان عزائم کی تکمیل کے لیے بچوں میں شوق‘ محنت اور جستجو کے جذبات پیدا کرنے میں والدین کاکردار نہایت اہم ہوتا ہے۔
۱۹- بچوں کی تعلیم و تربیت میں والدین تدریج سے کام لیں‘ ان کی اصلاح سے مایوس نہ ہوں۔
۲۰- بچوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے واقف کرانا اور اسوۂ رسولؐ کی پیروی کو جزوایمان بنانا‘ اسی طرح سلف صالحین کی زندگیاں مشعل راہ کے طور پر بچوں کے سامنے لانا ضروری ہے۔
۲۱- گھر میں مطالعے کا وقت متعین کرکے‘ والدین اپنی نگرانی میں تعلیمی ادارے کا کام کرواتے ہوئے بچوں کی ترقی کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
۲۲- وقت کی تنظیم اور قدر والدین خود بھی کریں اور بچوں کو ابتدا سے ہی وقت کے صحیح استعمال کی عادت ڈالیں۔ وقت کا ضیاع ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ اس قیمتی دولت کا بہترین استعمال کامیابی کی کلید ہے۔
۲۳- تعلیم و تربیت پر خرچ مستقبل کی سرمایہ کاری ہے۔ موجودہ دور کے نہایت مہنگے تعلیمی اخراجات کے پیش نظر مناسب ہوگا کہ ہرخاندان اپنی ماہانہ آمدنی کا ایک مقررہ حصہ اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت پر خرچ کرے۔ اگر بچے چھوٹی جماعتوں میں ہوں تو اس بچی ہوئی رقم کو پس انداز کرکے آیندہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ایمان کتنی بیش قیمت متاع ہے‘ اس کے حصول کے لیے صبرواستقامت کے کیسے کیسے کوہ گراں عبورکرنا ہوتے ہیں‘ اس کا اندازہ ایک نسلی مسلمان یا مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوجانے والے مسلمان کو نہیں ہوسکتا۔ اس کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب ہمیں قبولِ اسلام کا شرف حاصل ہوا۔ ہمارا تعلق ایک اعلیٰ ہندو خاندان سے تھا۔ ہمارا قبولِ اسلام کا یہ سفر جہاں اسلام کی حقانیت کا ایک ثبوت ہے وہاں بہت سے لوگوں کے لیے ایمان افروز اور ایمان پرور بھی۔ اسی جذبے کے تحت میں اپنے قبولِ اسلام کی سرگزشت بیان کر رہا ہوں۔
والدہ صاحبہ نے اسے ایک قیمتی متاع کی طرح سنبھال کر رکھ لیا اور اس کو پڑھتی بھی رہتی تھیں۔ پھر ہماری والدہ کی شادی ہوگئی۔ والدصاحب اَن پڑھ تھے۔ والدہ صاحبہ شادی کے وقت وہ مقدس کلام بھی اپنے ساتھ ہی لے آئیں‘ اور اس کو پڑھتی رہتی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے والد صاحب کو بھی ان تعلیمات سے آگاہ کرتی رہتی تھیں۔ اس دوران ان کے دو بچے بھی ہوگئے۔
ہمارے خاندانی پس منظر اور پانڈوؤں سے تعلق کی بنا پر خطیب صاحب نے کہا کہ ہمیں ہندوؤں کی طرف سے شدید ردعمل کا اندیشہ ہے‘ لہٰذا مشورے کے بعد آپ کو قبول اسلام کے اعلان کے لیے کہیں گے۔ چنانچہ کئی مرتبہ خطباتِ جمعہ کے بعد اعلان کیا گیا کہ ایک اعلیٰ ہندو خاندان نے قبول اسلام کا فیصلہ کیا ہے‘ جو عنقریب مسجد میں قبولِ اسلام کا اعلان کرے گا۔ اس طرح پورے امرتسر میں یہ بات مشہور ہوگئی۔ مسلمانوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پایا جاتا تھا۔ اس فضا میں ہندوؤں کے لیے کوئی اقدام کرنا آسان نہ تھا۔ چنانچہ ایک روز جمعے کی نماز کے بعد والدہ صاحبہ نے کرشن جی مہاراج کا کلام پڑھ کر سنایا‘ مفہوم بیان کیا اور پھر اعلان کیا کہ چونکہ کرشن جی کی تعلیمات توحید اور ایک خدا کی بندگی کی دعوت دیتی ہیں جو کہ اسلام کی تعلیمات ہیں‘ لہٰذا ہم اسلام قبول کرتے ہیں۔ اس وقت ہمارا پوراگھرانا مسجد میں موجود تھا۔ ہمارے نام تبدیل کر کے رکھے گئے۔ والدہ صاحبہ کا نام گوراں دیوی سے غلام فاطمہ اور والد صاحب کا رتن چند سے غلام حسین رکھا گیا۔ بڑے بھائی کا نام رام لال سے سیدعلی اور دوسرے بھائی کا نام روپ لال سے محمدعلی رکھا گیا۔ اس وقت تک میری پیدایش نہیں ہوئی تھی۔
اس روز بڑی تعداد میں امرتسر کے مسلمان جامع مسجد میں جمع تھے۔ ہماری والدہ کے قبولِ اسلام کے اعلان کے ساتھ ہی مسجد نعرۂ تکبیر سے گونج اٹھی۔ مسلمان جذبۂ ایمانی سے سرشار تھے۔ اگلے روز اخبارات ویربھارت‘ ملاپ‘ پرتاپ اور ٹریبون میں اس حوالے سے خبریں بھی لگیں۔ ایک ہنگامہ سا برپا ہوگیا۔ ہماری جان کو خطرے کے پیش نظر مسلمانوں نے ڈپٹی کمشنر کو تحفظ کے لیے درخواست دے دی کہ نومسلم خاندان کی حفاظت کی جائے۔ چنانچہ ایک سال تک گارڈ ہمارے گھر پر تعینات رہی۔
میری عمر اس وقت ۱۳‘ ۱۴ سال تھی۔ میں نے والدہ سے کہا کہ یہ حالت اب دیکھی نہیں جاتی۔ میں کچھ کام کرنا چاہتا ہوں۔ والدہ صاحبہ کے پاس سونے کا ایک چھلا تھا۔ وہ انھوں نے مجھے دیا کہ اسے بیچ کر کوئی کام کرنے کی کوشش کرو۔ وہ چھلا بیچ کر میں نے کپڑے کا تھان خریدا اور گلی محلے میں بیچنے کے لیے نکل جاتا‘ مگر کسی نہ کسی جگہ کوئی نہ کوئی جاننے والا مل جاتا۔ برادری کے لوگ مذاق بھی اُڑاتے۔ کئی دن کے بعد چار آنے ملے اور کچھ حوصلہ ہوا۔ مگر آئے دن لوگوں کے طعنوں‘ مذاق اور تمسخر سے تنگ آکر یہ کام چھوڑ دیا۔
والدہ صاحبہ اچار اور مربا بنانا جانتی تھیں۔ انھوں نے یہ تیار کر کے فروخت کرنا شروع کیا۔ ہمارے پیش نظر سفید پوشی بھی تھی اور خاندان کا بھرم بھی۔ کچھ دن تو یہ کام چلا مگر پھر کچھ واقف کار خواتین کے علم میں یہ بات آگئی‘ تو والدہ صاحبہ نے اس کام کو بھی ترک کر دیا۔میں نے سوچا کہ چلو کہیں دُور جاکر کچھ مزدوری کرلوں۔ چنانچہ ایک گودام پر بوریاں اٹھانے کی مزدوری شروع کر دی۔ بوریاں اٹھاتے ہوئے کچھ نہ کچھ دال چاول وغیرہ زمین پر گر جاتے تھے۔ سب مزدور انھیں اکٹھا کرکے اپنے گھروں کو لے جاتے۔ حالات کی تنگی اور فاقہ کشی کے پیش نظر ایک روز میں نے بھی زمین پر گرے ہوئے کچھ چاول جمع کیے اور گھر لے جاکر والدہ صاحبہ سے کہا کہ انھیں پکالیں۔ ان کے دریافت کرنے پر جب بتایا کہ اس طرح لایا ہوں تو انھوں نے پکانے سے انکار کردیا اور کہا کہ ان پر ہمارا کوئی حق نہیں‘ لہٰذا انھیں واپس کرکے آئو۔ فاقہ کشی میں بھی ہماری ماں نے دیانت داری کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ کتنی عظیم تھی ہماری ماں!
مزدوری کبھی ملتی تھی اور کبھی نہیں۔ ہمارے محلے میں ایک بوڑھا آدمی ریڑھی ڈھوتا تھا۔ کبھی سامان زیادہ ہوتا تو اس سے ریڑھی کھینچی نہ جاتی۔ مجھے بھی مزدوری کی تلاش تھی۔ چنانچہ میں نے بابا جی کے ساتھ مزدوری شروع کردی۔ دو آنے مزدوری ملتی تھی۔ کچھ نہ کچھ گزارا ہوجاتا۔
ایک بار دو دن سے فاقہ تھا۔ ماں نے گھر کے برتن دیے کہ انھیں بیچ کر کچھ لے آئو۔ چنانچہ برتن بیچ کر شہر سے دو ڈھائی کلومیٹر کے فاصلے پر چھائونی کے نزدیک سے گائے کی دو اوجھڑیاں خرید کر لایا۔ دو دن کا فاقہ تھا مگر بھوک مٹانے کے لیے ۳۰‘۳۲ کلو وزنی اوجھڑیاں بوری میں ڈال کر کاندھے پر لاد کر گھر لایا۔ پائوں میں جوتی تک نہ تھی۔ راستے میں کانٹے بھی تھے جس سے پائوں لہولہان ہوگئے۔ ماں نے اوجھڑی پکائی اور پھر ہم نے رات گئے کھائی۔ہمیں یہ کھانا دو دن کے فاقے کے بعد میسر آیا تھا۔
ایک روز میں نے اپنی والدہ سے عرض کیا:اس طرح تو گزربسر نہیں ہوپا رہی۔ آپ مجھے اجازت دیں کہ میں کسی دوسرے شہر جاکر قسمت آزمائوں۔ خدا کرے کہ کوئی بہتری کی صورت پیدا ہوجائے۔ ماں نے اجازت دے دی تو میں نے ممبئی اپنے ہندو چچا دیوان چند کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے قبولِ اسلام کے باوجود وہ ہم سے ہمدردی رکھتا تھا۔
ماں نے گُڑ والی روٹی دے کر رخصت کیا۔ چونکہ پیسے نہ تھے لہٰذا بغیر ٹکٹ ٹرین پر سوار ہوگیا۔ پائوں میں جوتی تک نہ تھی۔ تین دن کا سفر تھا۔ راستے میں ٹکٹ چیکر نے پکڑلیا۔ میں نے انگریزی بولی تو پڑھا لکھا سمجھ کر کچھ دھیما پڑگیا۔ شرمندگی کے مارے میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اسے ترس آگیا اور ممبئی پہنچنے میں میری مدد کی۔ دورانِ سفر ایک سِکھ سے ملاقات ہوئی۔ اتفاق سے وہ میرے ہندو چچا کے واقف کار تھے۔ اس طرح چچا تک پہنچنے میں سہولت ہوگئی۔ ممبئی پہنچا تو اس حال میں تھا کہ میلے کچیلے کپڑے تھے اور پائوں میں جوتی تک نہ تھی۔ بہرحال چچا سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے خیریت دریافت کی اور میرے آنے کا مقصد پوچھا۔ میں نے کہا کہ مزدوری کے ارادے سے آیا ہوں۔
چچا کے پاس فوری طور پر تو کوئی کام نہ تھا۔ تاہم‘ اس سِکھ نے لوہے کی چادروں کی کٹائی کی مزدوری کا کام دے دیا۔ کھلے آسمان تلے سوتا اور دن بھر مزدوری کرتا تھا۔ ۱۰ آنے مزدوری طے پائی۔ کچھ عرصے کے بعد پانچ روپے والدہ کو منی آرڈر کیے اور لکھا کہ کام مل گیا ہے۔ پھر میں وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ پیسے گھر بھجوانے لگا۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ کس طرح ممبئی پہنچنے میں اس نے مدد کی‘ اسباب فراہم کیے اور روزگار کی صورت نکالی۔
چچا سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ میٹرک کرلو تو تمھیں آرٹ کالج آف پونا میں داخل کروا دوں گا‘ جہاں سے تمھاری اچھی تربیت ہوجائے گی۔ چنانچہ شام کی کلاس میں داخلہ لینے کے لیے اسکول کی تلاش ہوئی۔ اتفاق سے ایک اسکول میں داخلہ مل گیا۔ صبح مزدوری کرتا اور شام کو تعلیم حاصل کرتا۔ ایک روز استاد نے میرے ہاتھوں میں پڑے ہوئے چھالے دیکھ کر پوچھا کہ کیا وجہ ہے؟ جب میں نے بتایا کہ دن بھر مزدوری کرتا ہوں تاکہ فیس اور دیگر اخراجات پورے کرسکوں تو میری محنت مزدوری سے وہ متاثر ہوئے۔ انھوں نے ایک سیٹھ صاحب کے نام خط لکھا اور کہا کہ ان سے ملو۔ تمھاری فیس وغیرہ کی کوئی صورت نکل آئے گی۔
سیٹھ صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ان کے بحری جہاز چلتے تھے اور سامان آتا جاتا تھا۔ خط پڑھنے کے بعد انھوں نے مجھے حساب کتاب کے کام پر لگا لیا اور ۳۰ روپے ماہانہ تنخواہ مقرر کردی۔ اس طرح رہایش‘ کھانے پینے اور تعلیم کا بندوبست ہوگیا۔ میں نے اپنے استاد کا شکریہ اداکیا۔ انھوں نے بھی مجھے محنت سے پڑھایا۔ چنانچہ میں نے سیکنڈ ڈویژن میں میٹرک پاس کرلیا۔ رزلٹ آنے کے بعد چچا مجھے آرٹ کالج پونا میں داخلے کے لیے لے گئے۔ آرٹ اور دست کاری کے حوالے سے یہ معروف کالج تھا۔ بڑی مشکل سے داخلہ ملتا تھا۔ مگر ہمارے خاندانی پس منظر آبائی پیشے اور چچا کی کوششوں سے بالآخر مجھے داخلہ مل گیا۔ یہ دو سال کا کورس تھا۔ اس دوران کالج میں ڈیکوریشن پیس مرمت کے لیے آتے یا مختلف ٹرافیاں وغیرہ بنانے اور مرمت کے لیے آتی تھیں جو میں بناتا اور مرمت کرتا تھا۔ یوں کالج کی طرف سے الگ پیسے مل جاتے تھے۔
کالج سے فراغت کے بعد مجھے ملازمت کی تلاش ہوئی۔ اس موقع پر بھی چچا دیوان چند نے تعاون کیا۔ ممبئی کی مشہور فرم پارکر برادرز تھی جہاں سونے اور چاندی کا کام بڑے پیمانے پر ہوتا تھا اور پارکر نامی انگریز اس کا مالک تھا۔ چچا نے پارکر سے ملاقات کی۔ پارکر نے کہا کہ کارکردگی اپنی جگہ لیکن ہم ٹیسٹ کے بعد فیصلہ کریں گے۔ برطانیہ سے ایک ڈربی ٹرافی مرمت کے لیے آئی ہوئی تھی۔ ہندستان کے مختلف کاریگر مرمت کرچکے تھے مگر نقص دُور نہ ہوتا تھا۔ چنانچہ پارکر نے مجھے وہ مرمت کے لیے دی۔ میں نے اسے اس مہارت سے ٹانکا لگایا‘ وہ اس پر بہت متاثر ہوا اور اس زمانے میں ۳۰۰ روپے میری تنخواہ مقرر کردی جو غیرمعمولی رقم تھی۔
اب اللہ کے فضل سے ہمیں معاشی آسودگی میسر آگئی اور ہمارے حالات بہتر ہونے لگے۔ والد صاحب نے بھی امرتسر میں ایک دکان لے لی اور برتن مرمت کا کام شروع کردیا۔ یوں ہماری بھوک‘ افلاس اور فاقہ کشی کی طویل آزمایش بالآخر ختم ہوئی۔ ایمان قبول کرنے کی پاداش میں ۱۲برس کی یہ طویل اور جاں گسل آزمایش اور کڑا امتحان جس صبرواستقامت سے ہم نے کاٹا‘ یہ خدا کا خصوصی فضل و کرم ہی کا نتیجہ تھا وگرنہ یہ ہمارے بس کی بات نہ تھی!
اب تُلسی رام کو لالچ بھی ہوا۔ اس نے اپنی پوتی شکنتلہ سے کہا کہ تم اس سے دوستی لگائو اور اسے شدھی کرلو (دوبارہ ہندو بنالو)۔ یہ بہت اچھا کاریگر ہے‘ مال داربھی ہے۔ شکنتلہ ایم اے کی طالبہ تھی۔ اس نے میرے ہاں آنا جانا شروع کردیا۔ ایک روز باتوں ہی باتوں میں اس نے کہا کہ اسلام قبول کرنے کا تمھارے گھرانے کا فیصلہ محض جذباتی عمل لگتا ہے۔ کیا تم اسلام کے بارے میں کچھ جانتے بھی ہو؟ اس نے کئی سوالات بھی اٹھائے جس پر مجھے احساس ہوا کہ مجھے اپنے دین کو باقاعدہ سیکھنا چاہیے نہ کہ محض رسمی تعلیمات پر اکتفا کرلوں۔ اس طرح میں نے دین اسلام کا مطالعہ کرنے اور سیکھنے کا عزم کرلیا۔
اب میں نے دین سیکھنے کے لیے مختلف لوگوں سے رابطہ کیا۔ ممبئی کی جامع مسجد کے خطیب سے ملا اور اپنی قبولِ اسلام کی روداد سنائی اور طلب علم کے بارے میں رہنمائی چاہی۔ انھوں نے مجھے مشورہ دیا: ہندستان میں ایک ہی مستند ادارہ ہے اور وہ ہے دارالعلوم دیوبند‘ آپ کو وہاں جانا چاہیے۔ چنانچہ انھوں نے ایک خط لکھ کر میرے حوالے کردیا اور مجھے کہا کہ آپ جمعیت العلما کے مرکزی دفتر دہلی چلے جائیں وہ آپ کی صحیح رہنمائی کریں گے۔
مولانا حسین احمد مدنی نے ڈیڑھ گھنٹہ تک میری بات سنی۔بہت حوصلہ افزائی اور ستایش کی کہ آپ کے خاندان نے قبولِ اسلام کے لیے کس استقامت اور صبر کا مظاہرہ کیا۔ پھر کہنے لگے کہ آپ کو مدرسے کی باقاعدہ سند کی ضرورت تو نہیں ہے۔ آپ کو عمومی فہم دین اور اسلام سے متعلق مختلف سوالات اور اعتراضات کے جوابات درکار ہیں۔ لہٰذا آپ ہمارے مدرسے کی عمومی کلاسیں بھی پڑھیں لیکن میں ایک استاد بھی مقرر کر رہا ہوں جو آپ کی ضرورت کے مطابق آپ کو تعلیم دیں گے۔ چنانچہ ایک بہاری استاد کو میری تعلیم کے لیے مقرر کر دیا گیا۔ انھوں نے مجھے دین کی بنیادی تعلیمات سکھائیں۔ قرآن پڑھایا اور نماز درست طریق پرادا کرنا سکھائی‘ نیز سوال جواب کی صورت میں تبادلۂ خیال کرتے اور اسلام پر اعتراضات کے جواب دیتے۔ اس طرح مجھے دین باقاعدہ سیکھنے کا موقع ملا۔ توحید کا تصور اجاگر ہوا اور قرآن و حدیث کا فہم ملا۔
دیوبند میں میرا قیام تقریباً پانچ ماہ تک رہا۔ وہاں دین کے لیے شغف‘ دین سیکھنے سکھانے کے لیے ایک لگن اور تڑپ اور سادگی نے مجھے بہت متاثر کیا۔ یہ ایمان پرور منظر بھی دیکھنے میں آیا کہ کس طرح ہندستان کے مسلمان اہلِ دیوبند کا احترام کرتے اور ان کے مقاصدِ جلیلہ کے پیش نظر طرح طرح سے خدمت کرتے ہیں۔ ان دنوں ۴۰۰ طلبہ مدرسے میں زیرتعلیم تھے۔ ان کا کھانا اور رہایش مفت تھا۔ لوگ بڑی تعداد میں غلہ اور روز مرہ استعمال کی اشیا محض خدا کی رضا اور خوشنودی کے لیے بھجواتے تھے۔ مجھے بھی کچھ خدمت کا موقع ملا۔ طلبہ کے لیے کھانا پکانے کی بڑی بڑی دیگچیاں تھیں۔ ان کے پیندے خراب ہوگئے۔ انھیں مرمت کے لیے شہر لے جانے کی ضرورت تھی جس میں خاصی دقت تھی اور وقت بھی لگنا تھا۔ میں نے کہا کہ میں یہ کام کرسکتا ہوں۔ مجھے بھی کچھ خدمت کا موقع دیں۔ میرے لیے تو یہ کوئی مشکل کام نہ تھا۔ یہ تو ہمارا آبائی پیشہ تھا۔ چنانچہ میں نے تانبے کی چادریں خریدیں‘ وہیں بھٹی بنائی اور ان دیگچیوں کے نئے پیندے لگا دیے۔ الغرض دیوبند کے قیام نے جہاں میرے فہم دین میں اضافہ کیا وہاں اسلامی معاشرت‘ اخوت و محبت اورسادگی کے مظاہرنے ایمان کو بڑی تقویت پہنچائی۔
میں نے اس کا طرح طرح سے علاج کروایا لیکن وہ جاں بر نہ ہوسکی۔ آخری وقت اس نے مسلمان ہونے کی خواہش کا اظہار کیا۔ میں نے مولوی صاحب کو بلوایا۔ انھوں نے اسے کلمہ پڑھایا اور وہ مسلمان ہوگئی۔اس نے کہا کہ میری ایک آخری خواہش بھی پوری کردو۔ میں تم سے نکاح کرنا چاہتی ہوں۔ چنانچہ میرا اس سے نکاح بھی ہوگیا۔ اس کا نام شمائلہ حسن رکھا گیا اور پھر چند گھنٹے بعد وہ انتقال کرگئی اور خدا کے فضل سے وہ ایک مسلمان کی حیثیت سے خدا کے حضور حاضر ہوئی۔
لاہور پہنچ کر ہم نے گوال منڈی میں ایک گھر لے لیا۔ میں کئی ماہ تک فارغ رہا۔ ایک روز ایک شخص کچھ پرانی انگوٹھیاں فروخت کر رہا تھا۔میں نے اس سے وہ خرید لیں۔ کچھ عرصے کے بعد تانبے کے برتن بنانے کا کام شروع کیا۔ اتفاق سے ایک دوست مل گیا جو کویت آئل کمپنی میں کام کرتا تھا۔ اس نے کویت آنے کے لیے کہا کہ وہاں زیورات کا اچھا کام ہے۔ کسی نہ کسی طرح کرایے کا انتظام کرکے ۱۹۵۰ء میں کویت چلا گیا۔
سید مودودیؒ کی شخصیت بہت سحرانگیز تھی۔ میں اس بات سے ہی بہت متاثر ہوا کہ یہ شخص زندگی میں پہلی بار مجھ سے مل رہا ہے مگر کس تپاک‘ محبت اور اپنائیت سے پیش آ رہا ہے کہ جیسے میں اس کااپنا ہی ہوں۔ میرا دل چاہا کہ میں مزید کچھ دیر ان کے ساتھ ٹھیروں۔ چنانچہ گھر واپسی پر ان کے ساتھ ہولیا۔ پیراڈائز اسٹریٹ کچھ ٹوٹی پھوٹی تھی۔ میں نے کہا: نام تو اس کا پیراڈائز (جنت) ہے مگر ہے ٹوٹی پھوٹی۔ انھوں نے مسکرا کر جواب دیا: بھئی! جنت کی راہ بھی تو کوئی ایسی آسان نہیں۔ اس راہ میں بہت سی رکاوٹیں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ تب جاکر کہیں جنت ملتی ہے‘ لوگ اسے آسان سمجھتے ہیں۔ ان خوش گوار جملوں میں بھی ایک سبق پوشیدہ تھا۔ مجھے ان کا یہ انداز بہت بھایا۔
سید مودودیؒ کے گھر پہنچ کر ہم نے اکٹھے چائے پی۔ اس دوران تفصیلی تعارف کا موقع بھی میسر آیا۔ جب میں نے انھیں بتایا کہ ہمارا تعلق پانڈو خاندان سے تھا۔ ہندستان کے معروف رائٹر مُلک راج آنند میرے چچا ہیں۔ پھر مختصراً بتایا کہ کس طرح ہماری والدہ نے اسلام قبول کیا اور کن کن مراحل سے ہمیںگزرنا پڑا تو ان کا اشتیاق مزید بڑھ گیا۔ انھوں نے پوچھا کہ آپ کہاں ٹھیرے ہوئے ہیں؟ میں نے بتایا کہ ایک دوست کے ہاں ٹھیرا ہوں تو کہنے لگے کہ آپ میرے ہاں بطور مہمان ٹھیریں۔ میں تفصیل سے آپ کے قبولِ اسلام کی روداد سننا چاہتا ہوں۔ پھر اصرار سے مجھے تین روزتک اپنے ہاں ٹھیرایا۔ بڑی تواضع سے پیش آئے‘ خود چائے بنا کر پلاتے اور جو موجود ہوتا اصرار کر کے کھلاتے۔
باتوں باتوں میں نہرو سے میری ملاقات کا تذکرہ بھی آگیا: میں نے اپنے چچا مُلک راج آنند سے کہا کہ نہرو سے میری ملاقات کروا دیں۔چنانچہ ایک روز ان سے ملاقات کے لیے گیا۔ وہاں مِتھرا سے ایک ہندو وفد بھی ملاقات کے لیے آیا تھا۔ وہ گائوماتا کاٹنے پر مسلمانوں کو لعن طعن کر رہے تھے۔ یہ سن کر مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے کہا کہ پورا یورپ گائوماتا کو کاٹتا ہے مگر انگریز تو ہم پر حکمران ہے۔ وہ چپ ہوکر رہ گئے۔ سیدمودودیؒ اس بات سے بہت محظوظ ہوئے۔
سید مودودیؒ میں بھی بڑی عمدہ حسِ مزاح پائی جاتی تھی۔ عام طور پر بڑے لوگوں کے حوالے سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ سنجیدہ اور خشک مزاج ہوتے ہیں‘ لیکن میں نے ان کو مختلف پایا۔ وہ دورانِ گفتگو اس انداز میں بات کرتے تھے یا نکتہ نکالتے تھے کہ آدمی محظوظ ہوئے بغیر اور لطف اٹھائے بغیر رہ نہیں سکتا تھا۔ ان سے ملاقات کے دوران اُکتاہٹ کا احساس تک نہ ہوتا تھا۔
میں نے ان سے یہ بھی عرض کیا کہ دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ میں نے خدمت خلق کو ایک اہم ذریعے کے طور پر اپنے سامنے رکھا۔ میں نے ایک واقعہ انھیں سنایا۔ ایک بار میں روم کے سفر پر تھا۔ کینز سے بذریعہ بس چار گھنٹے کا سفر تھا۔ رات کے وقت اچانک ایک شخص کی مارے تکلیف کے کراہنے کی آوازیں آنے لگیں۔ جب درد کی شدت میں کچھ کمی واقع ہوئی تو میں نے آگے بڑھ کر خیریت دریافت کی۔ وہ گھٹنوں کے شدیددرد میں مبتلا تھا۔ اس کا نام گھنی شیام تھا اور بہت امیر شخص تھا۔ شیل آئل کمپنی ممبئی کا مالک تھا مگر اپنی تکلیف سے بہت تنگ تھا۔
جب میں نے ممبئی کی بولی میں کہا کہ تمھاری تکلیف دُور ہوسکتی ہے؟ وہ بہت خوش ہوا کہ میں نے دنیا جہان کے علاج کروا لیے ہیں‘ پانی کی طرح پیسہ بہایا لیکن آرام نہ آیا اور تم کہتے ہو کہ آرام آسکتا ہے۔ میں نے کہا کہ بالکل آرام آسکتا ہے لیکن ایک کام کرنا ہوگا‘ اور وہ یہ کہ اپنی دولت کم کرو اور غریب غربا کی امداد کرو۔ اس نے کہا کہ تم بھی عجیب آدمی ہو۔ سب لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ بڑھائو اور تم کہتے ہو کہ پیسہ کم کرو۔ پھر میں نے اسے سمجھایا کہ ممبئی میں بے شمار لوگ غربت کے ہاتھوں تنگ ہیں‘ ان کی مدد کرو۔ کچھ فلیٹس بنوائو اور برسات میں جب لوگوں کی جھگیاں ڈھے جاتی ہیں‘ ان کو لاکر بسائو۔ اسی طرح بہت سے کام ہوسکتے ہیں۔ جب یہ لوگ تمھارے حق میں دعائیں کریں گے تو اللہ تم پر کرم کرے گا۔ اس نے ہامی بھرلی کہ اچھا میں تمھارے نسخے پر بھی عمل کروں گا۔
کچھ عرصے بعد جب میں مصر میں دریاے نیل کے کنارے سیر کرر ہا تھا توگھنی شیام سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ وہ گرم جوشی سے ملا۔ اس نے کہا کہ میں تمھارا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ تم نے میرے گھٹنوں کے درد کا جو علاج بتایا تھا‘ میں نے اس پر عمل کیا اور اب میں ٹھیک ہوں۔ اب‘ چونکہ اس کا رجحان خدا کی طرف تھا‘ میںنے فوراً کہا کہ خدا کا شکر ادا کرو کہ جس نے تمھیں صحت بخشی۔ ہم سب کا مالک خدا ہے‘ لہٰذا ایک خدا کی بندگی کرو۔ یہی اسلام ہے۔ اس نے کہا کہ میں یہ بات سمجھ گیا ہوں۔ بندوں کی خدمت کے ذریعے جس طرح خدا نے میرا لاعلاج مرض دُور کردیا‘ یقینا وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں لیکن اس میں کچھ وقت لگے گا۔ اس طرح وہ شخص خدا کی راہ پر آگیا۔ سید مودودیؒ نے یہ واقعہ سن کر کہا کہ: جس طرح آپ نے خدا پر بھروسا کرتے ہوئے اور اس شخص کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر ایک حکمت سے اسے خدا کے راستے پر ڈالا‘ یہ بھی خدا کی دین ہے‘ اور تبلیغ کی حکمتوں میں سے ایک حکمت ہے۔
میں نے انھیں جہاں تفصیل سے قبولِ اسلام کی روداد سنائی وہاں ہندی کے بہت سے توحید پر مبنی اقوال سنائے۔ صوفیاے کرام کا سندھی اور دوسری زبانوں میں عارفانہ کلام بھی سنایا۔ میں نے کہا کہ آپ تو خودعالم ہیں‘ بہت علم رکھتے ہیں پھر مجھ سے کیوں سن رہے ہیں۔ کہنے لگے: اس حوالے سے مجھے آپ سے کچھ نئی باتیں ملی ہیں‘ لہٰذا جاننے والے سے سیکھنا چاہیے۔ میرے دل میں ان کی عظمت دوبالا ہوگئی۔
میری روداد سن کر بہت متاثر ہوئے اور کہا کہ آپ نے اور آپ کے خاندان نے اسلام قبول کرنے کے لیے فی الواقع بڑی قربانیاں دی ہیں اور صبرواستقامت کا مظاہرہ کیا۔ پھر یہ کہ نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ اپنے دین کو سیکھا اور آپ دین کو پھیلانے کے لیے ایک تڑپ بھی رکھتے ہیں۔ انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ آپ کو اللہ نے صلاحیت بھی بخشی ہے اور وسائل بھی دیے ہیں۔ آپ دین کو مزید سیکھیے‘ دین کے جدید تقاضوں کو بھی سمجھیے‘ اور پھر تبلیغ دین کا کام کریں۔ اس کے لیے جامعہ ازہر میں داخلہ لے کر مبلغ کا کورس کریں۔ انھوں نے لیبیا کے معروف عالمِ دین کا حوالہ دیا کہ ان سے رابطہ کریں‘ یہ جامعہ ازہر میں داخلے کے لیے آپ کی رہنمائی کریں گے‘ اگرچہ وہاں داخلہ ملنا آسان نہیں۔چنانچہ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور جامعہ ازہر میں داخلے کا ارادہ کرلیا۔
نیاگرا فال کی سیاحت اور سید مودودیؒ سے اتفاقی ملاقات نے میری زندگی کا رخ بدل کر رکھ دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری زندگی کا حاصل ہے۔ یہ سید مودودیؒ کی شفقت اور حوصلہ افزائی تھی جس نے مجھے تبلیغ دین اور خدمتِ خلق کی راہ دکھائی اور عملی رہنمائی بھی دی۔
کورس مکمل کرنے کے بعد دوبارہ لیبیا میں اپنے کاروبار کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس طرح کاروبار بھی جاری رہا اور جہاں جہاں جیسے جیسے مجھے موقع ملتا میں دعوتِ دین کا فریضہ بھی انجام دیتا رہا اور خدا کے بندوں کی جہاں تک ممکن ہوسکا خدمت بھی کرتا رہا۔ یہ مجھ پر اللہ کا خصوصی فضل رہا کہ کئی غیرمسلم مرد اور خواتین میری کوشش کے نتیجے میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔
آج بھی جب کبھی پلٹ کر ماضی کی طرف دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ ہم پر اللہ کی کتنی کرم نوازی تھی کہ دین حق قبول کرنے کے لیے کس طرح سے راہیں کھول دیں۔ ہرن کی کھال پر کرشن مہاراج کی تعلیمات کے ذریعے کس طرح ہماری والدہ صاحبہ نے تصورِ توحید کو پایا‘ قبولِ اسلام کے بعد طویل آزمایش کی کٹھن منزلیں کس طرح سے طے کروائیں‘ فہم دین کے لیے مواقع پیدا کیے‘ سید مودودیؒ سے اتفاقی ملاقات نے جس طرح زندگی کا رخ متعین کردیا اور جامعہ ازہر سے دین کے جدید تقاضے اور مبلغ کے کورس کی توفیق ملی___ ہم اس کے احسانات کا شکر ادا کرنا بھی چاہیں تو بلاشبہہ نہیں کرسکتے۔
آج بھی اس پیرانہ سالی میں‘ میں سید مودودیؒ کی ہدایت کے مطابق دعوتِ دین اور بندوں کی خدمت کے مشن پر گامزن ہوں۔ خدا ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے جاری کردہ مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے اور مجھے بھی اپنی راہ میں استقامت بخشے۔ میری قبولِ اسلام کی یہ روداد میرے حق میں حجت ثابت ہو‘ اور لوگوں کے حق میں اسلام کی حقانیت کو اُجاگر کرنے‘ دین جیسی متاعِ عظیم کی حقیقی قدر پیدا کرنے اور اسے عام کرنے کا ذریعہ بنے۔ آمین!
’اسلامی بنک‘ بنگلہ دیش کا قیام ۱۹۸۳ء میں عمل میں لایا گیا۔ اس بنک کو جنوب مشرقی ایشیا میں پہلا اسلامی بنک ہونے کا شرف حاصل ہے۔ بنگلہ دیش میں نجی شعبے میں سب سے زیادہ شاخوں پرمشتمل سب سے بڑا نیٹ ورک ہے جو اسلامی شریعت کے تقاضوں کے مطابق بنک کاری کر رہا ہے۔ یہ بنگلہ دیش کی سماجی و معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
اسلامی بنک بنگلہ دیش کے قیام کے بنیادی مقاصد میں غیر سودی بنک کاری کا فروغ‘ قرض کے بجاے شراکت پرمبنی بنک کاری کا آغاز‘ اسلامی شریعت کے مطابق سرمایہ کاری‘ نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر لوگوں سے امانتوں کی وصولی‘ فلاحی مقصد کے پیش نظر بنک کاری کا نظام‘ غریب‘ بے کس اور کم آمدنی والے لوگوں کی حالت میں تبدیلی لانا‘ انسانی ترقی اور روزگار کے نئے مواقع کی فراہمی‘ کم ترقی یافتہ علاقوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے ملکی ترقی میں حصہ لینا اور اسلامی معاشی نظام کے قیام کے لیے جدوجہد میں اپنا حصہ شامل کرنا ہیں۔
ان کھاتوں میں سے الودیعہ کرنٹ اکائونٹ پر کوئی منافع نہیں دیا جاتا‘ جب کہ بقیہ اقسام کے کھاتوں پر کُل منافع کا ۶۵ فی صد کھاتہ داروں میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔
مضاربہ حج بچت کھاتہ کا مقصد ایسے لوگوں کو سہولت بہم پہنچانا ہے جو حج کرنے کی غرض سے اپنی بچتیں جمع کرنا چاہتے ہیں۔
مضاربہ بچت بانڈ اسکیم میں سرمایہ کاری پانچ یا آٹھ سال کے لیے کی جا سکتی ہے۔ مضاربہ پنشن اکائونٹ میں کھاتہ دار ہر ماہ اپنی تھوڑی تھوڑی بچتیں جمع کروا سکتے ہیں اور ایک مدتِ مقررہ کے بعد اس پر منافع حاصل کرسکتے ہیں یا ایک خاص عرصہ تک ماہانہ آمدنی حاصل کرسکتے ہیں۔
مضاربہ ماہانہ منافع ڈیپازٹ اسکیم میں کھاتے دار اپنی رقم جمع کروانے کے ۳۰ دن کے بعد منافع حاصل کرتا ہے‘ اس منافع کو بنک کے مالی سال کے اختتام پر کُل منافع میں جمع و تفریق (adjust) کرلیا جاتا ہے۔
مضاربہ مہربچت اسکیم (MMSS) کا مقصد خواتین کے حقوق کا تحفظ اوران لوگوں کے لیے مواقع کی فراہمی ہے جو اپنی بیویوں کا حق مہر یک مشت ادا نہیں کرسکتے۔ ایسے افراد ۵ یا ۱۰سال کے لیے اپنی تھوڑی تھوڑی بچت بنک میں جمع کرواتے رہتے ہیں اور مدت کے اختتام پر رقم مع منافع ان کو مل جاتی ہے۔
مضاربہ وقف کیش ڈیپازٹ اکائونٹ (MWCDA) کا مقصد ان صاحبِ حیثیت لوگوں کو سہولت بہم پہنچانا ہے جو اپنی دولت میں سے ضرورت مند لوگوں پر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔ بنک اس اکائونٹ کے ذریعے وقف کے اسلامی تصور کوبھی فروغ دے کر ملک کے اندر مختلف مذہبی‘ تعلیمی اور سماجی خدمات کی فراہمی کے لیے لوگوں کو ترغیب دینا چاہتا ہے۔ اس قسم کے اکائونٹ پر منافع کی شرح زیادہ رکھی جاتی ہے اور صاحبِ خیر حضرات کی ہدایات کے مطابق ان رقوم کو انسانی بھلائی کی خاطر استعمال کیا جاتا ہے۔
رقوم کو اسلامی شریعت کے عین مطابق سرمایہ کاری کے لیے استعمال کرنا‘ مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری‘ بنک سرمایہ کاری کے ذریعے اپنے اور اپنے سرمایہ کار شرکا کے حقوق و فرائض پر گہری نظر رکھتا ہے۔ اس مقصد کے لیے پیشہ ورانہ انداز میں سرمایہ کاری کی تجاویز کی منظوری دیتا ہے اور منصوبوں کی مسلسل نگرانی کرتا ہے۔ سرمایہ کاری کرتے ہوئے ملک کی سماجی و معاشی ضروریات کو پیش نظر رکھتا ہے۔ بنک شراکتی سرمایہ کاری کے ذریعے کاروبار کو فروغ دیتا ہے۔ اسی طرح غربت کے خاتمے اور ملک میں روزگار کے زیادہ مواقع کی فراہمی بھی بنک کے مقاصد میں شامل ہے۔ نقد سرمایہ کاری کے بجاے بنک اشیا وغیرہ کی صورت میں سرمایہ فراہم کرتا ہے۔
سرمایہ کاری کے ضمن میں جو بات اہم ہے وہ یہ کہ صرف منافع کمانا ہی بنک کا مقصدِ وحید نہیں ہے بلکہ سماجی بھلائی اور روزگار کے مواقع کی فراہمی بھی اس کے پیش نظر ہے۔ سرمایہ کاری کرتے ہوئے کاروبار کے حجم‘ کاروباری شعبہ‘ علاقہ‘ معاشی مقاصد اور سیکورٹی کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔
اسلامی بنک بنگلہ دیش ۱۹۸۵ء میں ڈھاکہ اسٹاک ایکسچینج اور ۱۹۹۶ء میں چٹاگانگ اسٹاک ایکسچینج میں لسٹ ہوا۔ ۲۰۰۱ء سے ڈھاکہ اسٹاک ایکسچینج نے اسلامی بنک کو اس کی کارکردگی کی بنا پر ۲۰ بلیوچپس کمپنیوں اور چٹاگانگ ایکسچینج نے اسے ۲۰۰۰ء سے ۳۰ بلیوچپس کمپنیوں میں شمار کیا ہے۔ نیویارک کے معروف میگزین گلوبل فنانس (Global Finance)نے اسلامی بنک بنگلہ دیش کو ۱۹۹۹ئ‘ ۲۰۰۰ء اور ۲۰۰۴ء کے لیے بنگلہ دیش کا بہترین بنک قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں اسلامی بنک نے گذشتہ ۲۳ سالوں میں بنگلہ دیش کے تمام بنکوں سے زیادہ انکم ٹیکس حکومتی خزانے میں جمع کروایا ہے جو کہ ۴۰۰۰ ملین ٹکہ (۴ کروڑ امریکی ڈالر) کے برابر ہے۔
۲۰۰۵ء تک بنک کی شاخوں کی تعداد ۱۶۹ تک پہنچ چکی ہے‘ جب کہ ۲۰۰۴ء میں یہ تعداد ۱۵۱تھی۔ بنک کا ہدف ہرتھانے کی سطح پر ایک شاخ (branch) قائم کرنا ہے‘ جب کہ ۲۰۰۶ء میں مزید ۲۵ شاخیں قائم کی جائیں گی۔ اسی طرح اس سال دو شاخیں بیرون ملک قائم کی جائیں گی۔ بنک کی تمام شاخوں کو کمپیوٹرائزڈ کردیاگیا ہے‘ جب کہ ۳۷ برانچیں آن لائن خدمات بھی فراہم کررہی ہیں۔ہدف یہ ہے کہ تمام شاخوں کو جلد از جلد آن لائن کردیا جائے۔
بنک کا ادا شدہ سرمایہ ۸ئ۲۷۶۴ ملین ٹکہ (۴۰ ملین ڈالر) ہے اور منظور شدہ سرمایہ ۵۰۰۰ ملین ٹکہ (۷۳ ملین ڈالر) ہے‘ جب کہ بنک کے حصہ داران (share holders) کی تعداد ۱۶ہزار ہے۔ ۰۴-۲۰۰۳ء میں بنک نے اپنے حصہ داران کو ۲۰ فی صد کی شرح سے منافع تقسیم کیا‘ جب کہ بورڈ نے سال ۲۰۰۵ء کے لیے منافع کی شرح ۲۵ فی صد طے کی ہے۔
۲۰۰۵ء تک بنک کھاتوں میں جمع ہونے والی رقوم ۲۶۱,۱۰۸ ملین ٹکہ (۱۵۷۰ ملین ڈالر) ہیں‘ جب کہ کھاتہ داروں کی تعداد ۳۰ لاکھ تھی‘ جب کہ ۲۳ اپریل ۲۰۰۶ء تک کھاتہ داروں کی تعداد ۳۳لاکھ ۴۱ ہزار اور جمع شدہ رقوم ۶۰۲,۱۱۱ ملین ٹکہ ہوچکی ہیں‘ جب کہ گذشتہ پانچ سالوں میں جمع شدہ رقوم میں ۲۸ فی صد اضافہ ہوا ہے۔
۲۰۰۵ء میں بنک نے ۱۴۵,۱۰۲ ملین ٹکہ کی سرمایہ کاری اور ۲۳ اپریل ۲۰۰۶ء تک سرمایہ ۵۷۹,۱۱۰ ملین ہوچکی ہے۔ سرمایہ کاری کرنے والے کھاتہ داروں کی تعداد ۵ لاکھ ہے جس میں گذشتہ پانچ سالوں میں ۲۹ فی صد اضافہ ہوا ہے‘ جب کہ بنک نے سرمایہ کاری کے ذریعے ۳لاکھ لوگوں کو روزگار فراہم کیا ہے۔ سرمایہ کاری کا ۴۵ فی صد صنعتی شعبے میں‘ ۳۹ فی صد تجارتی شعبے میں‘ ۸فی صد تعمیرات‘ ۳فی صد تحتی ڈھانچا (infra structure)‘ ۲ فی صد زراعت اور بقیہ ۳ فی صد سرمایہ کاری دیہی ترقی (rural development)‘ چھوٹے پیمانے کی صنعتوں‘ طبی شعبہ‘ اشیاے صارفین‘ دودھ اور مرغبانی کے شعبوں میں ہوئی ہے۔
۲۰۰۵ء کے اختتام پر گارمنٹس سیکٹر کے ۲۱۹‘ ٹیکسٹائل کے ۱۳۶‘ زرعی شعبہ کے ۷۵‘ اسٹیل اور انجینیرنگ کے ۵۴‘ پرنٹنگ کے ۲۸ اور دیگر شعبوں کو ملا کر ۸۲۱ منصوبوں میں سرمایہ کاری کی گئی۔ دیہی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے بنک نے ۱۹۹۵ء میں ’’رورل ڈویلپمنٹ اسکیم‘‘شروع کی‘ جس کا مقصد چھوٹے پیمانے پر سرمایہ کاری کی فراہمی کے ذریعے دیہات کے لوگوں کو کام اور روزگار کے مواقع فراہم کرنا اور ان کی آمدنیوں میں اضافے کے ذریعے غربت کا خاتمہ تھا۔ اس اسکیم میں رقوم کی واپسی کی شرح ۹۹ فی صد ہے۔ اگلے دو سالوں میں اس اسکیم کے تحت سرگرمیوں میں دگنا اضافے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
درآمدی و برآمدی کاروبار کے لحاظ سے اسلامی بنک ملک کا تیسرا بڑا اور بیرون ملک کے ترسیلات کے حوالے سے دوسرا بڑا بنک ہے۔ اس مقصد کے لیے بنک نے ۷۲ملکوں میں ۲۳۵بنکوں اور زرمبادلہ کے اداروں سے ۸۵۰ معاملات طے کیے ہیں۔ ۲۰۰۵ء میں گذشتہ سال کی نسبت ۳۱ فی صد اضافے کے ساتھ بنک کا زرمبادلہ کا کاروبار ۲۱۳۹ ملین ڈالر کا رہا۔
اسلامی بنک بنگلہ دیش کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ بنک کی سرگرمیوں کا رخ معاشرتی فلاح و بہبود کی طرف ہے۔ معاشرتی فلاح و بہبود‘ غریبوں اور ضرورت مند لوگوں کو مالی امداد کی فراہمی کے لیے ’اسلامی بنک فائونڈیشن‘ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ اس فائونڈیشن کا مقصد پس ماندہ لوگوں کی ترقی‘ عام لوگوں کو تعلیمی سہولتوں کی فراہمی دیہی اور شہری علاقوں میں محروم لوگوں کے لیے صحت کی سہولتوں کی فراہمی‘ انسانی ذرائع کی ترقی‘ ادب اور فن و ثقافت کی صحت مندانہ ترویج‘ سائنس و ٹکنالوجی‘ کھیلوں‘ تحقیق اور اسلامی تعلیمات کا فروغ ہے۔ پورے بنگلہ دیش میں اس مقصد کے لیے فائونڈیشن کی سرگرمیاں جاری ہیں۔
پانچ جدید ’اسلامی بنک ہسپتال‘ اور چار ’اسلامی بنک کمیونٹی ہسپتال‘ قائم کیے گئے ہیں۔ اسلامی بنک انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی کے نام سے پانچ پیشہ ورانہ ادارے‘ نفسیاتی و جسمانی معذوری کی بحالی کا ادارہ‘ آفات سے متاثرہ خواتین کی بحالی کا ادارہ ’اسلامی بنک انٹرنیشنل اسکول اینڈ کالج‘، ’اسلامی بنک میڈیکل کالج‘ پانچ سروس سنٹر کے علاوہ غریب اور ذہین طلبا کے لیے وظائف‘ طبی مقاصد کے لیے مالی امداد اور ضرورت مند لوگوں کی بچیوں کی شادی کے لیے امداد فراہم کی جارہی ہے۔ اس طرح اسلامی بنک بنگلہ دیش نہ صرف ملکی ترقی میں بھرپور حصہ لے رہا ہے‘ بلکہ سماجی و معاشرتی سطح پر خدمت عامہ کے لیے بھرپور جدوجہد کر رہا ہے۔ دن رات کی محنت شاقہ اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ (جناب عبدالرقیب‘ ایگزیکٹو صدر‘ اسلامی بنک بنگلہ دیش کی تحریر سے ماخوذ)
آج امریکا بزعم خویش ایک سوپر پاور ہے۔ دنیا بھر کی سیاست پر اس کی گہری چھاپ ہے‘ پالیسیاں اس کے اشارۂ ابرو سے تشکیل پذیر ہو رہی ہیں‘مگر عملاً امریکی معاشرہ کس اخلاقی گراوٹ‘ معاشرتی انتشار‘ کھوکھلے پن اور انحطاط و زوال سے دوچار ہے‘ اس کی ایک کھلی گواہی خود امریکا کے سابق صدر جمی کارٹر پیش کر رہے ہیں۔ انھوں نے امریکا کو تباہی سے بچانے اور آیندہ نسلوں کے مستقبل کے تحفظ و بقا کے لیے صداے احتجاج بلند کی ہے اور اہل علم و فکر کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے غوروفکر اور بروقت اقدام کے لیے توجہ دلائی ہے۔درحقیقت یہ امریکی تہذیب کے خلاف ایک صداے احتجاج ہے۔ مادر پدر آزادی نے ’فیملی یونٹ ‘کو جس طرح توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہے ، پھر بے رحم سرمایہ داری نے ان رشتوں کو اپنے اوپر بوجھ قرار دے کر ان سے جس طرح جان چھڑائی ہے‘ اس رویے پر ایک طنز کے ساتھ ساتھ ایک افسردگی و تاسف بھی ہے کہ کوئی قوم جب اخلاق سے محروم ہو جاتی ہے تو اس کی اجتماعیت کس طرح بکھر کر رہ جاتی ہے۔
اس حوالے سے حال ہی میں ان کی کتاب Our Endangered Values (خطرات کی زد میں آئی ہوئی ہماری اقدار) سامنے آئی ہے۔ یہ کتاب ۱۶ ابواب پر مشتمل ہے۔ ہر باب چونکا دینے والے حقائق سے معمور ہے اور اپنی جگہ ایک اہمیت رکھتا ہے‘ تاہم چند عنوانات تو ’فرد جرم اور سلطانی گواہ ‘کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پہلے باب میں ’واشنگٹن میں بنیاد پرستی ‘کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: آج کل واشنگٹن کا منظر مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے اور تقریباً ہر معاملے میں سخت جانب دارانہ بنیادوں پر فیصلے کیے جاتے ہیں ___بنیادی معاہدے لابی کاروں اور قانون ساز لیڈروں کے مابین ہوتے ہیں___بنیاد پرست رجحانات عروج پر ہیں اور مذہب و سیاست پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔(ص۲۴)
’سب سے زیادہ قتل امریکا میں ہوتے ہیں ‘کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: امریکا میں آتشیں اسلحے سے قتل کی شرح‘ ۳۵زیادہ آمدنی والے ملکوں میں آتشیں اسلحے سے قتل کی مجموعی شرح سے ۱۹گنا زیادہ ہے ۔اس سال امریکا میں ۳۰ ہزار ۴ سو ۱۹ افراد کو ہینڈگنوں سے قتل کیا گیا۔(ص ۲۹)
’طلاق اور ہم جنس پرستی کے گناہ ‘ کے تحت لکھتے ہیں : ہمارے ہاں طلاق اب خطرناک حد تک عام ہو چکی ہے۔ تمام امریکی بالغوں میں سے ۲۵ فی صد میں کم از کم ایک مرتبہ طلاق ہوچکی ہے (ص ۷۵)۔گویا خاندان کا نظام امریکا میں بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہے۔ کینیڈا اور یورپ کے مقابلے میں امریکا کے اندر جنسی بے راہ روی زیادہ ہے۔ یہاں اسقاط حمل بھی زیادہ ہوتا ہے‘ سوزاک اور ایڈز جیسی خطرناک بیماریوں کی شرح بھی زیادہ ہے۔(ص ۸۰)
’سزاے موت‘ کے تحت وہ لکھتے ہیں: ایک ہزار امریکیوں میں سے سات جیل میں ہیں___ یہ دنیا میں قید کی سب سے زیادہ شرح ہے ۔بہت سی امریکی ریاستوں میں تعمیراتی صنعت کی سب سے بڑی مصروفیت جیلوں کی کو ٹھڑیاں بنانا ہے ___میرے بعد جارجیا کے گورنر رہنے والے ایک سیاست دان نے میری بیوی کے سامنے فخریہ کہا کہ اس کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ اس نے تقریباً ۴۵مربع میل رقبے پر جیل کی کوٹھڑیاں تعمیر کروائیں ہیں (ص ۸۴)۔ دنیا میں سب سے زیادہ بالغ مردوں و بچوں میں سزاے موت امریکا میں دی جاتی ہے۔(ص ۸۴)
’بنیاد پرستی حکومت میں ‘ کے تحت انھوں نے برملا اعتراف کیا ہے کہ: اب بعض نیو کونز حکومت کے اعلیٰ ترین مشاورتی مناصب پر فائز ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے پوری دنیا پر امریکی تسلط قائم کرنے کا تہیہّ کر رکھا ہے اور انھوں نے اس استعماری ہدف کو پانے کے لیے پیش بندی کی جنگ کو قابل قبول قرار دیا ہے۔ نائب صدر ڈک چینی اور اس کے دوستوں نے ناین الیون سے پہلے یا فوری بعد عراق کو پہلے ہدف کے طور پر چن لیا تھا ۔جس کا بظاہر مقصد اسرائیل کو لاحق خطرے کا تدراک کرنا‘ نیز عراق کو مشرق وسطیٰ میں ہمارا مستقل فوجی ‘معاشی اور سیاسی اڈا بنانا ہے۔(ص ۱۰۱)
مختلف النوع اسلحہ و میزائل بنانے کے الزام محض نمایشی تھے ،اصل منصوبہ پہلے سے طے شدہ تھا۔ وہ آگے مزید لکھتے ہیں: ۲۰۰۰ء کے صدارتی انتخابات کے فوراََ بعد یہ واضح ہو گیا کہ ہمارے بعض نئے لیڈروں نے عراق پر حملہ کرنے کا تہیہ کررکھاہے۔ ناین الیون کے بعد جھوٹے اور مسخ شدہ دعوئو ں کے ذریعے انھوں نے امریکی کانگرس اور امریکی عوام کو یہ یقین دلا کر گمراہ کیا کہ صدام حسین ورلڈ ٹریڈٹاور اور پینٹا گان پر حملوں کا ذمہ دار ہے‘ اور یہ کہ عراق ایٹمی اسلحے اور دوسرے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کر رہا ہے اور امریکا کی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ بن چکاہے ۔ اگرچہ بعد میں ان بیانات کی فریب کا ری عیاں ہوگئی ، تاہم وہ اپنا کام کر چکے تھے اور ہمارے بھروسا کرلینے والے شہری جنگ کے حامی بن چکے تھے ۔وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے غیر موجود ہتھیار وںکے حوالے سے بڑھا چڑھا کر کیے جانے والے اعلانات نے خوف کو برقرار رکھا ۔ نائب صدر ڈک چینی مسلسل جھوٹے بیانات دیتے رہے۔ (ص ۱۴۱)
امریکی خارجہ پالیسی کے تحت وہ لکھتے ہیں : اگرچہ امریکا کی خارجہ پالیسی پر بہت سے دوسرے پیچیدہ اساسی عناصر نے منفی اثر ڈالا ہے‘ تاہم بنیاد پرستوں نے جذباتی معاملات پر شعلہ بیانی کر کے اور مخالفوں سے مذاکرات سے گریز کرکے امریکی خارجہ پالیسی کی صورت کو بگاڑ دیا ہے (ص ۱۰۳)۔ امریکا کی مشرق وسطیٰ میں پالیسی پر کچھ عیسائی بنیاد پرستوں کا بھرپور اثر ہے۔ امریکا میں تقریباًہر شخص ۱۲ کتابوں پرمشتمل Left Behind سیریز سے واقف ہے جس کے مصنف ’ٹم لااورجیری بی جنیکنس ہیں ۔ان کتابوں نے فروخت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ انھوں نے یہ کتابیں بائیبل کی احتیاط سے منتخب کردہ عبارتوں خصوصاً ’بک آف ریویلیشن‘سے لی گئی عبارتوں کی اساس پر لکھی ہیں اور ان میں دنیا کے ختم ہونے کی منظرکشی کی گئی ہے… امریکی حکومت کی پالیسیوں میں ایسے نظریات کا پایا جانا تشویش کا سبب ہے ۔ انھی نظریات کو سامنے رکھتے ہوئے چند عیسائی لیڈرعراقی جنگ کو بڑھانے میں پیش پیش رہتے ہیں‘ اور بار بار اسرائیل کے دورے کرتے رہتے ہیں۔ وہ اس کی مدد کے لیے اسے چندے دیتے رہے ہیں اور فلسطینی علاقے کو نو آبادی بنانے کے لیے واشنگٹن میں لابی کرتے رہے ہیں (ص ۱۱۱-۱۱۲)۔مسلم دنیا کو بنیاد پرستی کا طعنہ دینے والے خود کس قدر متشدد‘انتہا پسند ‘مذہبی جنونی ہیںکہ اپنے چند عقائد کی بنا پر دنیا کو جنگ میں جھونکنے کے لیے تلے بیٹھے ہیں۔
’حقوق انسانی پر نہیں دہشت گردی پر حملہ؟ ‘کے تحت کہتے ہیں : افغانستان اور عراق میں جنگوں کے دوران بالغ مردوں کے علاوہ بہت سے کم عمر لڑکوں کو گرفتارکر کے گوانتا نامو ،کیوبا میں واقع ایک امریکی قید خانے میں منتقل کر دیا گیا۔ اس قید خانے میں ۴۰ملکوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً۵۲۰ افرادکو رکھا گیا ہے۔انھیں اس قید خانے میں تین سال کا عرصہ گزر گیا ہے‘ جب کہ نہ تو ان پر باقاعدہ کوئی الزام عائد کیا گیا ہے اور نہ انھیں قانونی مشاورت حاصل کرنے کا موقع ہی دیا گیا ہے۔ کئی امریکی اہل کاروں نے تصدیق کی ہے کہ ان قیدیوں پر جسمانی تشدد بھی کیا جا رہا ہے(ص۱۱۶)۔ پینٹاگون کے ایک اہل کار نے کہا کہ ’’قید کرتے ہوئے عمر کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا‘‘ (ص۱۱۷)۔جو فوج عراق میں لاکھوں دودھ پیتے بچوں کی فخریہ قاتل ہو‘ اس کے لیے بالغ و نابالغ کی تمیزچہ معنی دارد!
ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق باب میں سابق امریکی صدر فرماتے ہیں : اس وقت دنیا بھر میں تقریباً۳۰ ہزار ایٹم بم موجود ہیں جن میں سے ۱۲ ہزار ایٹم بم امریکا کے پاس ہیں ۔روس کے پاس۱۶ ہزار‘ چین کے پا س ۴۰۰، فرانس کے پاس ۳۵۰، اسرائیل کے پاس ۲۰۰، برطانیہ کے پاس ۱۸۵ اور ہندستان اور پاکستان کے پاس ۴۰‘ ۴۰ ایٹم بم ہیں… امریکا ایٹمی عدم پھیلائو کے تمام معاہدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور ایٹمی اسلحے کے عالم گیر پھیلائو کا سب سے بڑا مجرم بن چکا ہے(ص ۱۲۹)۔ ایسا ’مجرم ملک ‘جب عالمی لیڈر بن جائے تو دنیا میں امن وآشتی کیسے قائم ہوسکتی ہے؟اﷲکا قانون یہ ہے کہ ایسی قوم اپنے انجام ہلاکت سے نہیں بچ سکتی۔ ہمیں ان سے مرعوب ہونے کے بجاے اپنے قومی کردار کی تشکیل کرنی چاہیے اور ہر قسم کے خوف سے قوم کو بچانا چاہیے۔
ایک باب ’امریکا کی ماحولیات دشمنی ‘ہے۔ اس ضمن میں کارٹرہمت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس وقت امریکا دنیا میں سب سے زیادہ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والا ملک ہے۔ہماری حکومت کی طرف سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے انکار عالمی ماحول کے تحفظ کے تاریخی وعدوں سے انحراف کے سلسلے کی محض ایک اور المناک کڑی ہے ۔خداوند کی دنیا کا تحفظ ہماری ایک ذاتی اور سیاسی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔(ص ۱۶۴)
یہ امریکی معاشرے کا ایک آئینہ ہے۔ یہ ایک دل خراش حقیقت ہے کہ کوئی بھی فرد چاہے وہ سابق امریکی صدر ہی کیوں نہ ہو‘ امریکا کی بنیادی سرمایہ دارانہ، استعماری پالیسیوں میں تبدیلی نہیں لا سکتا ۔ اس پہلو سے خود صدر کارٹر کے عہد حکومت کا ریکارڈ بھی بہت اچھا نہیں ہے۔تاہم‘ ان کاجرأت مندانہ اقدام ہے کہ انھوں نے ٹھوس حقائق کو بنیاد بنا کر امریکا کی داخلہ و خارجہ پالیسیوں پر تنقید کی ہے۔ یوں تو امریکی دانش ور نوم چومسکی وغیرہ بھی اس طرح کے سوالات پیش کرکے امریکی پالیسی سازوں کو متوجہ کرتے رہتے ہیں‘لیکن جمی کارٹر چونکہ صدارت عظمیٰ تک پہنچے ہیں‘ لہٰذا ان کی بات ایک خاص وزن رکھتی ہے ۔کتاب چونکا دینے والے حقائق سے پُر ہے ۔اس میں اعدادوشمار کی زبان میں بھی اور استدلالی و استقرائی ہر پہلو سے امریکا کی متعدد پالیسیوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔
امریکی حکمرانوں‘سرمایہ داروں‘نام نہاد جمہوریت پسندوںاور دیگر ’پردہ نشینوں ‘ کے چہرے سے جب نقاب اترتا ہے تو ان کا چہرہ انتہائی بھیانک نظر آتا ہے۔ کروڑوں لوگوں کے خون ناحق سے ان کا دامن داغ دارہے۔ قتل و غارت گری میں بیرون امریکا و اندرون امریکا کا ریکارڈ ساری دنیا سے’شان دار‘ ہے۔عصمت فروشی ، زنا بالجبر ،ہم جنس پرستی ،اسقاط حمل و طلاقوںکی شرح کے اعتبار سے بھی ’اولیت ‘ کا شرف انھیں حاصل ہے۔قید خانوں کی وسعت‘ سزاے موت کا خبط اور نابالغ بچوں تک کو اس کی بھینٹ چڑھانے میں یہ ’مثالی کردار‘کے مالک ہیں۔ عالمی انسانی حقوق و ماحولیات کی پامالی کے جرائم میں بھی بقول کارٹر امریکی پالیسی ساز انسانیت کے سب سے بڑے مجرم ہیں۔ عراق و افغانستان سے گوانتا نامو تک جبروقتل‘اور انسانیت کی تحقیر و تذلیل بھی ان کے ضمیر کو بیدار نہیں کرتی۔ان ہوش ربا حقائق سے جمی کارٹر نے دنیا کے سامنے امریکی پالیسی سازوں کا حقیقی تعارف کروایا ہے ۔کتاب تیسری دنیا کے دانش وروں کی اُس سوچ کی تصدیق کرتی ہے جو وہ امریکی استعمار کے متعلق بیان کرتے آئے ہیں۔ ’مذہبی جنونیت ‘کا واویلا کرکے مسلم دنیا پر یلغار کرنے والے اپنے جنون کی خاطر لاکھوں انسانوں کی جانوں سے کھیلتے دکھائی دیتے ہیں ۔
امریکی معاشرے میں جن اخلاقی ،روحانی اور مثبت معاشرتی قدروں کو پامال کیا جا رہا ہے اس کے خلاف یہ ایک نوحہ اور ایک صداے احتجاج ہے۔ امریکی معاشرہ ‘ابراہام لنکن کا دیس اور اقوام متحدہ کو اپنے عظیم شہر میںسمونے والا ملک بہت سی مثبت اقدار بھی رکھتا ہے۔ آزادی اظہار وہاں کی روایت ہے جو اگرچہ اب مختلف قوانین کے تحت پہلے جیسی توانائی سے محروم ہو چکی ہے‘ تاہم غنیمت ہے کہ کارٹر جیسے لوگ اپنا مقدمہ اپنے عوام کی خدمت میں پیش کر دیتے ہیں ۔
اس تجزیے سے امریکا کی مرعوبیت ختم ہو جاتی ہے۔ اس عفریت کا خوف نہیں رہتا اور اس کی انسانیت کش پالیسیوں کے خلاف احتجاج کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔ تاہم‘ اس کے پاس ایک مہیب جنگی مشینری ہے جس کے بل پر اس کا نظام جبر آخری ہچکیوں کے باوجود اپنا دبدبہ رکھے ہوئے ہے ۔اخلاقی اقدار کے فقدان ،آمریت کی حوصلہ افزائی اور ہرظالم کی سرپرستی کرنے کے سبب یہ نظامِ ظلم ختم ہونے کو ہے ۔انسانیت کا ضمیر بیدار ہو رہا ہے۔ عراق پر جنگی یلغار سے قبل ایک مثالی عالمی احتجاج نے بتا دیا ہے کہ انسانیت ظلم کو برداشت نہیں کرسکتی! (جمی کارٹر کی کتاب کے اقتباسات اس کے ترجمے امریکا کا اخلاقی بحران ‘محمد احسن بٹ‘ دارالشعور‘ لاہور سے لیے گئے ہیں۔)
اس سال ۱۲ ربیع الاول کے موقع پر دنیا بھر میں پھیلے لیبیا کے سفارت خانوں نے سیکڑوں افراد‘ اداروں اور تنظیموں کو لیبیا کے شہر طرابلس (ٹریپولی) میں سیرت رسول اعظمؐ کانفرنس میں مدعو کیا۔ ڈنمارک میں شائع ہونے والے توہین آمیز خاکوں کے تناظر میں اس کانفرنس کی ایک خاص اہمیت تھی۔ سو لاطینی امریکا سے لے کر ملایشیا‘ انڈونیشیا تک اور یورپی ممالک سے لے کر بنگلہ دیش و مالدیپ تک ہرجگہ سے سیکڑوں وفود لپکے چلے آئے تھے۔ دنیابھر کی طرح پاکستان سے بھی ۳۶ذمہ دار افراد اس سیرت کانفرنس میں شریک تھے‘ جن میں پاکستان سے تقریباً سب دینی جماعتوں اور دینی مدارس کے مرکزی ذمہ داران و نمایندگان شامل تھے۔ ارکان پارلیمنٹ میں سے بھی مولانا عبدالمالک‘ مولانا عبدالغفور حیدری‘ حافظ حسین احمد اور مولانا سمیع الحق موجودتھے۔ پروفیسر ساجدمیر کی نمایندگی عبدالغفور راشد کرر ہے تھے‘ جب کہ جمعیت علماے پاکستان کی نمایندگی صاحبزادہ ناصرجمیل ہاشمی نے کی۔
طرابلس میں کانفرنس کے دو ابتدائی سیشن ہی ہوئے تھے کہ اعلان کیا گیا کہ صدر قذافی صاحب (جنھیں وہاں ہر چھوٹا بڑا الاخ القائد/قائد بھائی کے لقب سے پکارتا ہے) سمیت بہت سے ذمہ داران افریقی ممالک کے دورے پر ہیں وہ ۱۲ ربیع الاول کو افریقی ملک مالی کے قدیم ثقافتی مرکز‘ ٹمبکٹو پہنچیں گے۔ اس لیے کانفرنس کے سب شرکا بھی وہیں چلیں گے اور پھر چارٹرڈ پروازوں کا سلسلہ اس صحرا گزیدہ شہر کی طرف چل نکلا۔ بحرمتوسط کے کنارے واقع شہر طرابلس سے ٹمبکٹو جنوب مغرب کی طرف واقع ہے اور وہاں پہنچنے کے لیے جہاز کو ساڑھے تین گھنٹے درکار تھے۔ گویا یہ مسافت اتنی تھی جتنی اسلام آباد سے دبئی کی ہے۔ عصر کے کچھ بعد طرابلس سے روانہ ہوئے۔ کچھ ہی دیر بعد جہاز کی کھڑکی سے نیچے دیکھا تو سفیدی مائل سرخ ریت کا سمندر‘ بارھویں کے چاند کی کرنیں آغوش میں سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پاکستان اور ٹمبکٹو کی توقیت (مقامی وقت) میں پانچ گھنٹے کا فرق ہے۔ ہم عشاء کے وقت وہاں پہنچے تب پاکستان میں رات بھیگ رہی تھی۔ ہم ایرپورٹ کی مختصر سی عمارت سے بغیر کسی کارروائی کے باہر آگئے‘ گاڑیاں آرہی تھیں اور مسافروں کو سمیٹتے ہوئے‘ ایرپورٹ سے شہر کا قلب چیرتی شہر کی اکلوتی پختہ سڑک پر روانہ ہو رہی تھیں۔ چند کلومیٹر چلنے کے بعد ایک کیمپ میں پڑائو ڈالا گیا‘ تمبو قناتیں لگے‘ اس کیمپ میں ناہموار لیکن نرم ریت پر پلاسٹک کی چٹائیاں بچھی تھیں۔ کیمپ کے باہر قذافی صاحب کی قدآدم تصاویر سجی تھیں۔ بڑے بڑے بورڈوں پر براعظم افریقہ کا نقشہ بنا تھا جو مکمل طور پر سیاہ تھا‘ اُوپر بحرمتوسط کے کنارے واقع لیبیا میں سیاہی مائل سبز رنگ تھا جہاں سے ایک سورج طلوع ہوتا دکھائی دیتا تھا‘ گویا اس سورج نے پورے افریقہ کی سیاہی کو روشنی میں بدلنا ہے۔
کیمپ میں نمازوں کی ادایگی اور اجتماعی کھانے کے بعد کہ جس میں عرب روایت کے مطابق ایک ایک بڑے پیالے میں چار چار‘ پانچ پانچ افراد کھاناکھا رہے تھے‘ مختلف ممالک کے قافلوں کو ان کی رہایش گاہوں پر لے جایا جانے لگا۔ سب حیرت زدہ تھے کہ عازمِ سفر ہوتے ہوئے جس جگہ کا خواب بھی نہ دیکھا تھا‘ دنیا بھر سے آئے قافلے وہاں جمع ہو رہے تھے۔ یہاں اپریل میں بھی درجہ حرارت ۴۷ تک پہنچ جاتا ہے۔ رات کے وقت ۲۷ تھا‘ ہوائوں کے جھونکے انتہائی خوش گوار لگتے‘ لیکن گاہے تیز جھونکا ہوتا تو ریت کو بھی ساتھ شامل سفر کرلیتا۔ حافظ حسین احمد پکارے : ٹمبکٹو تو ’تم بھگتو‘ میں بدل چکا ہے۔
رہایش گاہ لے جایا گیا تو وہ ایک شکستہ حویلی تھی۔ فوم کے گدے قالینوں پر ڈالے گئے تھے۔ اگلے روز معلوم ہوا کہ یہ اصل میں سعودی عرب کے ایک رفاہی ادارے مؤسسۃ الحرمین کا دفتر تھا جو ٹمبکٹو اور گردونواح میںمفلوک الحال لوگوں کی بہبود کے لیے کام کر رہا تھا۔ ناین الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں‘ متعدد رفاہی تنظیموں پر دہشت گردوں کی مدد کے الزام میں پابندی لگائی گئی تو اسے بھی تحلیل کر دیا گیا۔دنیا بھر میںاس کے دفاتر اُجاڑ دیے گئے اوران کے جاری رفاہی منصوبے روک دیے گئے۔ یہ دفتر بھی اسی آندھی کی نذر ہوا تھا اور اب اس حویلی کے ایک شکستہ کمرے میں ۱۶/۱۷ سالہ نوجوان چوکیدار ’مولود‘ کے علاوہ کوئی اس کا پرسانِ حال نہیں ہے۔ البتہ وسیع و عریض دالان میں نیم اور جنگلی کیکر کے خود رو درخت تروتازہ تھے۔ لق و دق صحرا میں قدرت کا شاہکار اور اُجڑے دیار میں اُمید کی کرن۔
اس حویلی میں سب بزرگانِ دین اور خادمینِ قوم برابر تھے۔ نوجوان علما نے بزرگوں کی تکریم و احترام یہاں بھی ملحوظ خاطر رکھی لیکن بالآخر سب ہی یکساں کیفیات سے دوچار تھے۔ نصف شب کے قریب یہاں پہنچے تھے‘ پہنچتے ہی نیند میں ڈوب گئے۔ حالانکہ کئی کمروں میں پنکھا بھی نہیں تھا۔ صبح دم افریقی بدوانہ آواز میں اذانِ فجر‘ روحانیت سے معمور لمحوں کو منفرد سحر بخشنے لگی۔ حویلی سے نکل کر اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ آواز کس طرف سے آرہی ہے ‘شاید مسجد قریب ہو۔ اچانک نظر پڑی کہ حویلی سے عین متصل مسجد کی عمارت ہے اور اس کی چھت پر ایک ادھیڑ عمرافریقی بدو‘ اپنے مخصوص لباس میں ملبوس‘ اپنے پورے جسم کو دائیں بائیں زور زور سے جھلاتے ہوئے‘ کڑاکے دار آواز میں اللہ اکبر کی صدائیں ہفت آسمان تک پہنچا رہا ہے۔
مسجد کی عمارت پختہ تھی‘ ہال کمرے میںاینٹوں کا فرش تھا‘ جس کی درزوں سے ریت نکل نکل کر چٹائیوں تک بھی پہنچی ہوئی تھی۔ باہر صحن کچا تھا‘ یعنی اُونچی کرسی کے صحن میں صرف ریت بھری ہوئی تھی‘ اُوپر چٹائیاں بچھی تھیں۔ نماز فجر میں آس پڑوس سے ۲۰‘ ۲۵ نمازی آگئے تھے۔ سب لوگ گھروں سے وضو کر کے آرہے تھے۔ مسجد میں وضوخانے کا انتظام نہیں تھا۔ مجھے وضو کرنا تھا‘ ایک نمازی بھاگ کر اپنے گھر سے پلاسٹک کے جگ میں پانی لے آیا اور مسجد کے دروازے کی سیڑھیوں میںرکھتے ہوئے اشارہ کیا: ’’یہاں بیٹھ کر وضو کرلو‘‘۔
ٹمبکٹو کے باسیوں کا لباس بھی پورے صحراے اعظم میں پھیلے مختلف قبائل کے لباس سے ہم آہنگ ہے۔ گہرے رنگ کے سوتی کپڑے کا لمبا چولا‘ اس کے اوپر ایک کوٹ نما کھلی چادر‘ اور سرپر بڑا پگڑ‘ جس سے صرف سر ہی نہیں گردن اور منہ کو بھی ڈھانپا جاتا ہے۔ کئی لوگوں نے اکٹھے دو دو تین تین پگڑ باندھے ہوئے تھے۔ کچھ قبائل اپنے لیے مخصوص رنگوں کے پگڑوں کا اہتمام کرتے ہیں‘ مثلاً پورا قبیلہ سیاہ‘ سفید اور نیلا پگڑ اُوپر تلے باندھے ہوئے ہوگا۔ اس پگڑ کے اور بھی بہت فوائد ہوں گے لیکن چلچلاتی دھوپ اور کھلی فضا میں ہر دم تیرتی ریت‘ جو نتھنوں اور حلق میں جا بسیرا کرتی ہے‘ سے بچنے کی صرف یہی سبیل ہے۔ کچھ قبائل میں مرد حضرات اپنے خیموں اور اپنے گھروں میں بھی دوسروں کے سامنے چہرہ کھولنا معیوب سمجھتے ہیں۔ بعض لمبے قد اور اُونچے اُونچے پگڑوالوں کے سامنے ایک درازقد انسان بھی پست قد محسوس ہوتا ہے۔
شام کے وقت ایک کھلے میدان میں جلسۂ عام تھا۔ قذافی صاحب کے علاوہ پانچ پڑوسی ملکوں کے سربراہانِ مملکت بھی شامل تھے۔ خود مالی کے سربراہ اور کچھ عرصہ قبل فوجی انقلاب کے ذریعے برسرِاقتدار آنے والے موریتانیا کے صدر بھی ان میں شامل تھے۔ قذافی صاحب نے پہلے ان سب سربراہوں‘ مختلف ملکوں سے آئے مہمانوں اور صحراے اعظم کے مختلف قبائل کے سرداروں سمیت تقریباً ۵۰ ہزار کے مجمعے کو مغرب کی نماز باجماعت پڑھائی‘ پھر تفصیلی خطاب کیا اور عشاء کی جماعت کروا کے پروگرام کا اختتام کیا۔ ایک شہر میں اچانک دنیا بھر سے چنیدہ مہمانوں کو لابسانے سے شہر اور کانفرنس کی انتظامیہ کو جو مشکلات درپیش تھیں‘ ان کا ایک مظہر یہ تھا کہ پاکستان سے جانے والا پورا وفد صدرقذافی کے اس اجتماع عام میں شریک نہ ہوسکا اور اپنے ساتھ موجود لیبین نمایندے کے ہمراہ اپنی حویلی ہی میں شرکت کے لیے تیار بیٹھا انتظار کرتا رہا۔ اجتماع عام کے بعد رات کے کھانے کا وقفہ تھا اور رات تقریباً ۱۲ بجے ایک وسیع و عریض پنڈال میں ایک اور کنونشن کا آغاز ہوگیا۔ صحراے اعظم کے مختلف سردارانِ قبائل نے خطابات کیے جن میں سے ہر ایک نے اپنے لیے اپنی پسند کے القاب رکھے ہوئے تھے‘ کچھ کا نام سلطان السلاطین‘ یعنی شہنشاہ تھا اور کچھ کا شیخ المشائخ‘ یعنی پیرانِ پیر۔
خیرسگالی کے کلمات اور مختلف جذباتی‘ لیکن عربی ادب کے حسین مرصع قصائد کے بعد قذافی صاحب کا خطاب شروع ہوا۔ انھوں نے کسی بھی طرح کے تمہیدی کلمات کے بغیر براہِ راست گفتگو شروع کردی۔ صحراے اعظم کی عظمت و تاریخ کا ذکر کیا۔ ٹمبکٹو کے تہذیبی کردار کو واضح کیا۔ دریاے نائیجر(نائیجریا نہیں) سے ٹمبکٹو تک آنے والی نہر کا ذکر کیا جو اب ریت سے پاٹ دی گئی ہے اور تالیوں کی گونج میں اعلان کیا کہ آپ کے لیبین بھائیوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ یہ نہر دوبارہ کھودیں گے اور ٹمبکٹو دوبارہ ایک شان دار و خوب صورت نخلستان میں بدل جائے گا۔
واضح رہے کہ ٹمبکٹو دریاے نائیجر سے تقریباً ۱۵ کلومیٹر پر واقع ہے۔ دریاے نائیجر صحراے اعظم کے انتہائی مغربی کنارے سے جنوب مشرق کی طرف بہتا ہوا متعدد افریقی ملکوں سے گزرتا اور صحرا کو گلزار میں بدلتا ہے۔ دریاے نائیجر سے ایک نہر ٹمبکٹو تک بہتی تھی جو یہاں کے شہریوں کو ہریالی‘ شادابی و خوش حالی بخشتی تھی۔ یہ نہر بند کر دی گئی اور وقت کا پہیہ چلنے کے ساتھ ساتھ ٹمبکٹو ریت میں ڈوبتا چلا گیا۔ شادابی کو صحرا میں بدلنے کا یہ کارخیر فرانسیسی استعمار کے ہاتھوں تکمیل کو پہنچا تھا۔ اگرچہ استعمار کا مطلب ’تعمیر کی خاطر‘ بیان کیا جاتا ہے لیکن اس علمی و تہذیبی جھرنے کے سوتے خشک کرنے کا سہرا فرانس ہی نے اپنے سر پرسجایا۔
فرانس کو اس شہر تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔ فرانس کے بعض جنگ جو اور مہم جو ٹمبکٹو کے رازوں سے پردہ اُٹھانے کی کوششوں میں جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے‘ لیکن کوئی وہاں تک رسائی حاصل نہ کرسکا۔ پورا شہر مسلم آبادی پر مشتمل تھا۔ بالآخر ۱۸۲۸ء میں ایک فرانسیسی مہم جو ’رینیہ کاییہ‘ جان جوکھوں میں ڈال کر ٹمبکٹو پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ وہاں اس نے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے معززین شہر میں سے ایک کے گھر پناہ لی اور تقریباً دو ہفتے وہاں رہ کر وہاں پہنچنے کا آسان تر راستہ تلاش کیا اور فوج کشی کے لیے دیگر ضروری معلومات جمع کیں۔
فرانسیسی اس جاسوس کو اپنا قومی ہیرو قرار دیتے ہیں۔ فرانسیسی صدر فرانسواں میتراں جب ٹمبکٹو کے دورے پر آئے تو انھوں نے احترام و عقیدت سے اس گھر کا دورہ کیا جہاں ’رینیہ کاییہ‘ مہمان کے روپ میں ٹھیرا تھا اور اس شہر تک پہنچنے کے لیے فرانسیسی افواج کی رہنمائی کی جسے صحراے اعظم کا نگینہ کہا جاتا تھا۔
صدر معمرالقذافی اسی ٹمبکٹو میں صحراے اعظم کے قبائل کو ایک ہوجانے کی دعوت دیتے ہوئے کہہ رہے تھے:’’ہم سب اس ایک گھر کے باسی ہیں‘ ہمارا باہمی تعلق اہلِ خانہ کے باہمی تعلق کی طرح مضبوط ہونا چاہیے اور یہ جو مختلف ممالک کی سرحدوں کے ذریعے ایک ایک قبیلے کو ۱۰‘۱۰ٹکڑیوں میں بدل دیا گیا ہے ہمیں اس استعماری تقسیم کو ختم کردینا چاہیے‘‘۔ انھوں نے اعلان کیا کہ ہم نے اور ہمارے کئی پڑوسی ممالک نے فیصلہ کیا ہے کہ آیندہ صحراے اعظم کے ایک قبیلے کے فرد کو اپنے قبیلے کے دوسرے افراد سے ملنے کے لیے‘ کسی پاسپورٹ یا ویزے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ استعماری ممالک اب بھی ہمارے صحرا پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن ہم انھیں خبردار کرتے ہیں کہ اگر انھوں نے ہمارے صحرا کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو صحراے اعظم کا ہرذرہ ان کے لیے انگارہ بن جائے گا‘ ہر فرد ایک خونخوار شیر بن جائے گا اور صحرائوں کی تپتی ہوائیں ان کے لیے آگ کی لپٹیں ثابت ہوں گی‘‘۔
فجر سے پہلے تقریباً تین بجے یہ خطاب اور تقریب اختتام کو پہنچی اور پھر سب مہمان پنڈلیوں تک ریت میں ڈوبتے ہوئے‘ شہر کی اکلوتی سڑک اور وہاں سے اپنی اپنی رہایش گاہوں کی جانب چل دیے۔ ہمیں نماز فجر کے بعد دوبارہ گاڑیوں میں بٹھاکر ایرپورٹ لے جایا گیا‘ جہاں سے طرابلس جانے کے لیے چارٹرڈ جہاز آنے کی نوید سنائی گئی تھی‘ لیکن یہ ایک بہت جاں گسل انتظار پر مشتمل‘ طویل دن تھا۔ تمام غیرملکی مہمان جن میں کئی حکومتی ذمہ داران اور ترکی کے ایک نائب وزیر بھی تھے‘ دن بھر جہاز کے انتظار میں ایرپورٹ پر بیٹھے رہے۔ سربراہانِ مملکت کے جہاز آئے بھی اور چلے بھی گئے لیکن مہمانوں کے لیے دو جہاز تاخیرکا وقت آگے بڑھاتے بڑھاتے رات ڈیڑھ بجے رن وے پر اترے۔ اس دوران طعام و آرام‘ نشست و برخواست کے حوالے سے کئی شکایات کا تبادلہ بھی ہوا اور اس سارے اجتماع‘ اوقات اور وسائل سے زیادہ بہتر استفادے کے امکانات کے بارے میں بھی تبادلہ خیال ہوا۔ صبح اڑھائی بجے کے قریب ہمارے جہاز نے ٹمبکٹو کی سرزمین کو خیرباد کہتے ہوئے زقند بھری اور صبح ۹بجے کے لگ بھگ واپس طرابلس پہنچے۔
ٹمبکٹو قیام کے دوران وہاں کے قبائل اور ان کی روایات کے بارے میں کئی بہت دل چسپ معلومات بھی حاصل ہوئیں‘ مثلاً ایک ۱۵سالہ بچے سے تعارف ہوا تو وہ بہت فصیح عربی میں گفتگو کررہا تھا۔ اس نے بتایا کہ ہمارے قبیلے کا نام آل عثمان ہے اور ہماری تاریخ کے بارے میں روایت ہے کہ جب مدینہ منورہ میں حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد ایک فتنہ عظیم اُٹھ کھڑا ہوا تو ہمارے آباواجداد وہاں سے ہجرت کر کے شمالی افریقہ میں آبسے اور پھر پھیلتے پھیلتے صحراے اعظم کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔ ہمارا قبیلہ بہت صلح جو ہے‘ لیکن صحرائی روایات کے مطابق قبیلے کا ہر فرد‘ اپنی تلوار بھی اپنی زینت و لباس کا حصہ سمجھتا ہے۔ ایک سرخی مائل گہری اور چمکتی سیاہ جلد اور غیرمعمولی لمبے قد والے صاحب سے تعارف ہوا‘ کہنے لگے کہ صحرا اپنے باسیوں کو کبھی بھوکا نہیں رہنے دیتا۔ مجھے اگر کبھی اپنی اُونٹنی کے ہمراہ تنہا بھی یہ پورا صحرا عبور کرنا پڑے تو میں کسی آزمایش کا شکار ہوئے بغیر عبور کرسکتا ہوں۔ پڑوس میں واقع مسجد کے امام محمد ابراہیم سے تعارف ہوا‘ کہنے لگے: ٹمبکٹو کے اکثر لوگ دریاے نائیجرکے کنارے واقع اپنی زمینوں میں کھیتی باڑی سے گزارا کرتے ہیں‘ ویسے یہ شہر ایک اہم تجارتی مرکز بھی ہے۔ ایک زمانہ تھا یہاں نمک سونے سے بھی زیادہ مہنگا تھا لیکن اب یہاں کی معدنی ثروت سے استفادے کی راہیں مسدود کر دی گئی ہیں۔ وہ کہنے لگے ہم پاکستان سے آنے والی تبلیغی جماعتوں (جن کی آمد ناین الیون کے بعد تقریباً معدوم ہوچکی ہے) کے ذریعے آگاہ ہیں۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کا نام بھی میرے لیے بہت آشنا و محترم ہے اور میں ان کی کتب پڑھنا چاہتا ہوں۔
ہم ۱۲ اپریل کی صبح واپس طرابلس پہنچے تھے‘ جب کہ ۱۳تاریخ کو وہاں سے تہران کی القدس کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا تھا۔ اس لیے پاکستان آنے کے بجاے سیدھا تہران چلے گئے۔ لیبیا میں تقریباً ڈیڑھ دن قیام کے دوران سیرت کانفرنس کے دو سیشنوں میں شرکت کے علاوہ خود لیبیا کی مختلف پالیسیوں کے بارے میں بھی استفسارات زیربحث آئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کے حوالے سے شروع کی جانے والی بحث میں لیبیا کا نام بھی لیا جاتا رہا ہے کہ اس نے پاکستان کے بارے میں وعدہ معاف گواہ کا کردار ادا کیا ہے۔ لیبین اعلیٰ ذمہ داران اس الزام کی مکمل نفی کررہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ عالمی استعمار اس طرح ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتا ہے۔ ایک تو ڈاکٹر عبدالقدیر اور پاکستان کے خلاف فردِ جرم کی تکمیل‘ دوسرا خود لیبیا پر الزامات کی تصدیق کہ تم بھی بالفعل ایٹمی ہتھیار بنا رہے ہو‘ اور تیسرا پاکستان و لیبیا کے درمیان غلط فہمیاں اور اختلافات پیدا کرنا۔
لیبیا پر ان الزامات اوراس کی طرف سے کی جانے والی نفی کی حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے کیونکہ ابھی بہت سے اہم رازوں سے پردہ اُٹھنا باقی ہے۔ ان میں سے ایک راز یا معمہ یہ بھی ہے کہ صدر قذافی کا لہجہ اور عالمی استعمار کے خلاف ان کی گفتگو تو اب بھی سابقہ شان رکھتی تھی۔ لیکن عین انھی دنوں کونڈولیزا رائس نے اعلان کیا کہ لیبیا کے ساتھ سفارتی تعلقات مکمل بحال کیے جارہے ہیں۔ وہ لیبیا کے ساتھ دشمنی کے بجاے دوستی کے نئے عہد کی نوید بھی دے رہی تھیں اور دعویٰ کر رہی تھیں کہ لیبیا نے ’دہشت گرد‘ تنظیموں کی مدد بند کر دی ہے۔
یہودی روزنامہ یدیعوت احرونوت نے ۱۶مئی کے شمارے میں لیبیا کی اس مذکورہ تبدیلی کو بنیادی طور پر برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی-۶ کا کارنامہ قرار دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ برطانیہ میں تعلیم پانے والے صدر قذافی کے صاحبزادے نے اس ضمن میں بنیادی کردارادا کیا ہے‘ لیکن پاکستان اور اہلِ پاکستان کے لیے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ جب جنرل پرویز مشرف خود ملک و قوم کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جائیں اور کہیں کہ ’’ڈاکٹر عبدالقدیر ان کی اجازت کے بغیر خفیہ پروازوں سے ایران جاتے تھے‘‘ تو کیا یہ سوال بے معنی نہیں ہوجاتا کہ لیبیا اور ایران کے ایٹمی پروگراموں کے حوالے سے پاکستان کو کس نے کٹہرے میں کھڑا کیا ہے!
صومالیہ براعظم افریقہ کے عین مشرق میں انتہائی اسٹرے ٹیجک اہمیت کا حامل ملک ہے۔ خلیجِ عدن اور نہرسویز کے ذریعے بحیرۂ احمر کو بحرہند سے ملانے والی عظیم بحری تجارتی گزرگاہ پر واقع صومالیہ ۱۰۰ فی صد راسخ العقیدہ مسلمانوں کا ملک ہے۔ اس کے دیگر ہمسایوں میں ایتھوپیا‘ کینیا اور جیبوتی شامل ہیں۔ اپنے منفرد محل وقوع کی بنا پر تاریخ کے مختلف اَدوار میں استعماری طاقتوں کا اکھاڑا بنا رہا۔ اس کے ایک حصے پر اگر برطانیہ قابض تھا تو دوسرے پر اطالیہ براجمان۔ تیسرا حصہ جیبوتی فرانسیسی استعمار کی چیرہ دستیوں کا شکار رہا اور اب عرصے سے امریکا للچائی ہوئی نظروں سے سرزمینِ صومالیہ کی طرف دیکھ رہا ہے۔
اس غریب افریقی ملک کو ۱۹۶۰ء میںبرطانیہ اور اطالیہ کے پنجۂ استبداد سے رہائی نصیب ہوئی۔ ۱۹۶۱ء میں آئین نافذ ہوا لیکن آٹھ برس ہی گزرے تھے کہ فوجی آمریت کا شکار ہوگیا۔ ۱۹۶۹ء میں ایک خونی انقلاب کے دوران ملک کے صدر علی شرمارکے قتل کردیے گئے اور جنرل سیدبرے اقتدار پر قابض ہوگئے۔ سوشلسٹ رجحانات کے حامل جنرل برے پہلے تو روس کے زیراثررہے اور بعدازاں ایتھوپیا کے خلاف جنگی امداد حاصل کرنے کے لیے امریکی کیمپ میں جابیٹھے۔ امریکا جو عرصے سے صومالیہ کے یورینیم‘ خام لوہے‘ تیل اور دیگر قیمتی معدنیات پر نظریں جمائے بیٹھا تھا‘ فوراً مدد پر آمادہ ہوگیا اور چند ڈالروں کی فوجی امداد کے عوض اس نے صومالیہ میں تیل کی تلاش‘ یورینیم کے ذخائر اور بربیرہ کی مشہور بندرگاہ اور ہوائی اڈے پر تصرف کے حقوق حاصل کرلیے۔
یہیں سے جنرل کے زوال کا آغاز ہوا جو بالآخر فوج کے اندر پھوٹ پڑنے اور خانہ جنگی کا آغاز ہونے پر منتج ہوا‘اور ۱۹۹۱ء میں جنرل سیدبرے کو اقتدار چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کرنا پڑی۔ اب صومالیہ جنرل فرح عدید اور علی مہدی کی باہم برسرِپیکار ملیشیا کے رحم و کرم پر تھا۔ ۱۹۹۲ء میں امریکا اپنے ریاستی مفادات کی حفاظت کے لیے خود میدان میں کود پڑا۔ واضح رہے کہ پاک فوج بھی اس کارخیر میں حصہ لینے کے لیے کیل کانٹے سے لیس صومالیہ میں موجود تھی۔
صومالیہ میں امریکی افواج کے آتے ہی نئے استعمار کے خلاف باقاعدہ عوامی مزاحمت کا آغاز ہوگیا۔ ۳ اکتوبر ۱۹۹۳ء امریکی تاریخ کا سیاہ ترین دن بن کر طلوع ہوا جب صومالی گوریلوں نے ایک امریکی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر گرا لیا اور امریکی فوجی تفاخر کی علامت ۱۸ مرینز قتل کر کے مقدیشو کی سڑکوں پر گھسیٹے۔ عوامی جذبات کا بروقت اندازہ کرتے ہی امریکا بہادر اپنے خواب اور عزائم ادھورے چھوڑ کر صومالیہ سے بھاگ کھڑا ہوا۔
امریکا کے جاتے ہی خانہ جنگی کو اور بڑھاوا ملا‘ حتیٰ کہ امریکا مخالف مزاحمت کی نمایاں ترین علامت جنرل فرح عدید بھی ۱۹۹۶ء میں اسی خانہ جنگی کی نذر ہوکر راہیِ ملکِ عدم ہوگئے۔ بڑے کمانڈروں کے ہٹتے ہی ملک مختلف الخیال‘ مفاد پرست چھوٹے چھوٹے کمانڈروں کے زیرسایہ انتہائی ابتری کی حالت میں خانہ جنگی کا شکار رہا۔ اپنے زیرقبضہ علاقوں میں جگہ جگہ بیریر لگائے رکھنا‘ عوام کی جابجا تلاشی‘ ہرگزرگاہ پر بھاری رشوتیں اور امن و امان کی قطعی نایابی‘ طوائف الملوکی کی عمومی صفات ہوا کرتی ہیں اور یہی سب کچھ مقدیشو کا مقدر ٹھیرا۔ ایک اندازے کے مطابق یہ نام نہاد فوجی کمانڈر‘ تجار اور عام شہریوں سے سالانہ ۱۰۰ ملین ڈالر بٹورا کرتے تھے۔
صومالیہ میں براہِ راست قبضہ جمانے میں ناکامی کے بعد امریکا نے علاقے کے لیے نئی پالیسی تشکیل دی جس کا مرکزی ہدف عسکری قوت استعمال کیے بغیر صومالیہ کو اپنے زیرتسلط لانا تھا۔ اس مقصد کے لیے شمالی اتحاد کی طرز پر خانہ جنگی میں مصروف وار لارڈز کا ایک اتحاد تشکیل دیا گیا اور اس اتحاد کو بھرپور مالی معاونت فراہم کی جانے لگی۔ اطلاعات کے مطابق اس فرنٹ کو اب تک براہِ راست ۸۰ ملین ڈالر کی امداد مل چکی تھی۔ جائزہ لیں تو مذکورہ فوجی کمانڈروں کی امریکا نوازی اظہر من الشمس ہے۔ اس اتحاد کے رکنِ رکین عبداللہ احمد عدو سابق فوجی افسر اور واشنگٹن میں صومالی سفیر کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ یہ کسی بھی نئے حکومتی سیٹ اَپ کے لیے مغرب کے انتہائی پسندیدہ نمایندے قرار دیے جاتے تھے۔ حسین عدید اپنے مقتول والد کے جانشین تھے۔ موصوف امریکی شہریت کے حامل تھے اور انھیں موجودہ عراقی جنگ میں بطور میرنیز امریکی چاکری کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ نیم خودمختار علاقے بونٹی لینڈ کے سربراہ عبداللہ یوسف بھی واشنگٹن کے قریبی اتحادیوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ فرنٹ کے دیگر دو اراکین عبدالنور احمد درمان اور رشید محمد ھوری بھی اپنی امریکا نوازی کی وجہ سے بدنام تھے۔
اکتوبر ۱۹۹۳ء کے واقعے کے بعد اور عراق اور افغانستان میں پھنسے ہونے کی بنا پر امریکا کی اوّلین ترجیح تو یہی تھی کہ براہِ راست فوجی مداخلت سے بچتے ہوئے کسی طرح مذکورہ جنگی کمانڈروں کو صومالی عوام کی گردنوں پر مسلط کیا جاسکے لیکن یہ حکمت عملی عملاً ناکام ہوکر رہ گئی۔
ملک کی ابتر صورت حال کو ریاستی اداروں بالخصوص عدلیہ کی کسی بھی سطح پر عدم موجودگی بھیانک تر بنا رہی تھی۔ اپنوں ہی کی چیرہ دستیوں کا شکار مظلوم عوام اپنے آپ کو بالکل بے دست و پا محسوس کر رہے تھے کہ علما کی جانب سے تشکیل دی جانے والی عدالتوں کی صورت میں انھیں امیدونجات کی ایک صورت دکھائی دی۔
ابتدائی طور پر شرعی عدالت کا قیام ۱۹۹۷ء میں ایک قبائلی جھگڑے کو نبٹانے کی خاطر عمل میں آیا تھا۔ پھر دیکھا دیکھی مقدیشو میں موجود تمام قبائل کے اندر اپنے اپنے قبیلے کے لیے شرعی عدالت کے قیام کا تصور مقبول ہونا شروع ہوا۔ جن علاقوں میں یہ عدالتیں قائم ہوتی گئیں وہاں امن و امان کی صورت حال بتدریج بہتر ہوتی چلی گئی۔ قتل اور لوٹ مار کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی۔ جہاں کہیں اس قسم کی واردات ہوتی قبیلے کے جوانوں پر مشتمل شرعی عدالت کی اپنی فورس عدالت کے احکامات کی تنفیذ کے لیے حرکت میں آجاتی۔
۲۰۰۵ء میں مختلف قبائل میں قائم شرعی عدالتوں پر مشتمل ایک یونین تشکیل پائی۔ ایک نوجوان عالمِ دین شیخ شریف شیخ احمد اس کے سربراہ قرار پائے۔ اتحاد کے نتیجے میں ایک طرف ان عدالتوں کے اثرونفوذ میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف ان کے فیصلوں میں یک رنگی دکھائی دینے لگی۔
عامۃ الناس میں شرعی عدالتوں کی وقعت اور ان عدالتوں کی سربراہی مجلس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہاںتک کہ گذشتہ فروری میں دارالحکومت پر قابض مختلف جنگجوئوں نے ان عدالتوں کے احکامات کی تنفیذ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی تو عامۃ الناس نے ازخود شہر کی تمام بڑی بڑی شاہراہوں پر شرعی عدالتوں کے اتحاد کے حق میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور عوام عدالتی احکامات کی تنفیذ کے لیے مسلح ہوکر سڑکوں پر نکل آئے۔ جنگجو ملیشیاؤں کے ساتھ ایک مسلح تصادم میں طرفین کے ۲۰۰ کے قریب افراد جاں بحق ہوئے لیکن بالآخر شرعی عدالتوں کے اتحاد کودو ہفتے بیش تر دارالحکومت مقدیشو پر مکمل کنٹرول حاصل ہوگیا۔
گذشتہ ماہ جنگجو ملیشیاؤں کے آخری مضبوط گڑھ جوہر اور مھدیٰ پر قبضے کے بعد اگرچہ شرعی عدالتوں کے اتحاد کو پورے صومالیہ پر کنٹرول حاصل ہوچکا ہے‘ تاہم نوزائیدہ اسلامی انتظام کو ابھی بہت سے بیرونی و اندرونی چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونا ہے۔ تاحال امریکی رویہ بے حد جارحانہ ہے۔ مقدیشو پراسلام پسندوں کے قبضے کے فوراً ہی بعد صدربش نے وہائٹ ہائوس میں پریس کانفرنس کے دوران واضح کیا کہ وہ صومالیہ کو دہشت گردوں کی محفوظ جنت کبھی نہیں بننے دیں گے۔ غالب گمان یہی ہے کہ امریکا ماضی کی غلطی سے اجتناب کرتے ہوئے اس مرتبہ ایتھوپیا کی پیٹھ تھپتھپائے گا تاکہ وہ صومالیہ پر فوج کشی کرے۔ اس پر اتحاد کے سربراہ شیخ شریف شیخ احمد نے امریکا کو متنبہ کیا کہ صومالیہ افغانستان نہیں ہے اور نہ امریکا ہی موہوم دہشت گردوں کے تعاقب میں سابقہ غلطی کو دہرائے۔
دوسری طرف اسلامی شرعی عدالتوں کے اتحاد میں ابھی تک تمام قبائل کی مؤثر نمایندگی نہیں ہے۔ انھیں کسی بھی ممکنہ بیرونی جارحیت سے نبردآزما ہونے کے لیے اپنی صفوں میں وسعت پیدا کرنی پڑے گی۔اغلب گمان یہی ہے کہ صومالی عوام برسوں بعد ملنے والے امن کو کسی قیمت پر بھی قربان کرنا پسند نہ کریں گے اور ہر طرح کے اندرونی و بیرونی چیلنجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔
مولانا اسلم صدیقی کا نام دینی اور تحریکی حلقوں میں محتاجِ تعارف نہیں۔ جامعہ پنجاب کے شعبۂ مساجد کے صدر اور خطیب کی حیثیت سے آپ نے سرگرم زندگی گزاری ہے۔ آپ کے خطبات سننے والوں کے ذہن و قلب‘ دین اسلام کی تعلیمات کی پیروی کے لیے راغب ہوتے ہیں۔ گذشتہ چند برسوں میں انھوں نے قرآن کا سلسلے وار درس شروع کیا جو کیسٹ پر محفوظ کیا گیا اور اب ان دُروس کو لکھ کر کتابی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ سورۂ اعراف تک کے درس درج بالا آٹھ کتابوں کی شکل میں شائع ہوچکے ہیں (دروس قرآن‘ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرہ ‘جلد اوّل پر ترجمان القرآن میں تبصرہ اکتوبر ۲۰۰۵ء میں شائع ہوچکا ہے)۔
مولانا اسلم صدیقی بنیادی طور پر خطیب ہیں اور بہت اچھے خطیب۔ ان کی تقاریر سن کر حاضرین ولولے اور جوش سے بھر جاتے ہیں لیکن وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ وہ تصنیف کے مرد میدان نہیں۔ ان کے جو دروس نقل کیے گئے اور ایک نظر ڈال کر شائع کر دیے گئے‘ اس کام میں انھیں بعض احباب کا تعاون حاصل رہا ہے۔ مرتب کرتے ہوئے اسٹائل تبدیل نہیں کیا گیا۔ اس لیے خطیبانہ رنگ برقرار ہے اور پڑھنے والے پر اثر ڈالتا ہے۔ وہ تفسیری مباحث میں نہیں گئے اور نہ اختلافی مسائل میں الجھے ہیں بلکہ قرآن کے پیغام کو پُرزور استدلال سے پیش کردیا ہے۔ قرآن کا پیغام‘ جو اللہ کی بندگی اور اس کی کامل اطاعت کا پیغام ہے‘ عصرِحاضر کے پس منظر میں کھل کر سامنے آتاہے اور قاری کو عمل پر اُبھارتا ہے۔ یہ سلسلۂ دروس مکمل ہوگا تو تفسیری لٹریچر میں اپنی نوعیت کا ایک اضافہ ہوگا۔ مثبت طرز اختیار کیا گیا ہے۔ قرآن کے لانے والے نے قرآن کو جس طرح پیش کیا ہے اسے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے‘ چنانچہ سیرت کے حوالے جابجا نظر آتے ہیں۔
آج کل دینی کتب بھی بہت اہتمام سے اور خوب صورت شائع کی جارہی ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ یہ کتب بھی اس معیار پر طبع ہوں کہ دیکھ کر دل خریدنے اور پڑھنے کو چاہے۔ اس کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ کوئی ماہر مدیر خطیبانہ رنگ برقرار رکھتے ہوئے اس کی تدوین نو کرے تو اس کے فائدے اور تاثیر میں اضافہ ہو۔(مسلم سجاد)
مصنف علمی حلقوں میں ایک معروف شخصیت ہیں۔ زیرنظر کتاب کی وجۂ تالیف یہ جذبہ ہے کہ سیرت و کردار کی تعمیر اور عہدحاضر کے مسائل کے لیے حقیقی رہنمائی قرآن ہی سے میسرآسکتی ہے۔ فی الواقع قرآن ہردور کے لیے رہنما ہے۔ مصنف نے عقائد‘ عبادات‘ معاملات‘ اخلاقیات‘ معاشرت اور دیگر موضوعات پر قرآن و سنت کی روشنی میں جدید اسلوب میں رہنمائی فراہم کی ہے اور عہدِ جدید پر انطباق کیا گیا ہے۔
عہدحاضر کے حوالے سے جہاد کا تصور‘ جنگ و امن کے قرآنی اصول‘ اسلام کا نظریۂ مال و دولت‘ قرآن اور بین الاقوامی معاملات‘ ناین الیون کا واقعہ اور یہودیت و عیسائیت اور قرآن اور میڈیا کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ خواتین کے حقوق اور دیگر مسائل بھی زیربحث آئے ہیں۔
ہر موضوع پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ قرآنی آیات کے ساتھ ساتھ حسبِ ضرورت احادیث‘ صحابہ کرامؓ کے واقعات‘ جدید دور کی امثال اور اشعار بھی پیش کیے گئے ہیں۔ زبان شُستہ‘ رواں اور اسلوب عام فہم ہے۔ مصنف نے فکری و عملی زندگی قرآنی اصولوں پر استوار کرنے کی دعوت دی ہے اور قرآن کو حقیقی معنوں میں رہنما بنانے پر زور دیا ہے۔ بنیادی طور پر کتاب خطبات (لیکچرز) کا مجموعہ ہے جسے نظرثانی اور اضافوں کے ساتھ پیش کیا گیاہے۔ (سعید اکرم)
رجوع الی القرآن کے رجحان میں اضافے کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ قرآنی مضامین پر کتب کا سلسلہ جاری ہے اور لکھنے والے علماے کرام کے علاوہ جدید تعلیم یافتہ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی محنت اورمطالعے میں دوسروں کو شریک کرنا چاہتے ہیں۔ زیرنظر کتاب میں بھی مؤلف نے ہرسورہ کے مختصر تعارف کے بعد‘ ایک ایک یا زیادہ آیات کا مطلب سلیس اُردو میں سلسلہ وار بیان کردیا ہے۔ انھوں نے تفسیر ابن کثیر کو بنیاد بنایا ہے۔ ساتھ ہی اشاریہ بھی ہے جس میں مختلف موضوعات پر الف بائی ترتیب سے آیات کے حوالے دیے ہیں اور اکثر مختصر تشریح بھی دی گئی ہے۔ عربی سے ناواقف لوگوں کے لیے قرآن سے آگاہی کی اچھی اور مفید کوشش ہے لیکن حقیقی مفہوم سے آگاہی کے لیے متن کو برابر زیرمطالعہ رکھنا اور عربی سے واقفیت حاصل کرنے کی کوشش بھی لازمی سمجھنا چاہیے۔ (م - س)
معروف ادیب‘ شاعر اور مصنف جناب گوہر ملسیانی کے پیشِ نظر اس کتاب کا مقصدِتالیف نوجوان نسل (بالخصوص طلبہ و طالبات اور کم تعلیم یافتہ افراد) کو رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات اطہر سے اس انداز میں روشناس کرانا ہے کہ یہ اُن کی ذہنی اور عملی زندگی کی تہذیب و تشکیل کا وسیلہ بن سکے۔ فاضل مؤلف کااسلوب نگارش نہ صرف شُستہ و رُفتہ اور عام فہم ہے بلکہ اتنا دل کش اور دل نشیں ہے کہ قاری کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔ انھوں نے ہادیِ برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے وقائعِ حیات کو احاطۂ تحریر میں لاتے ہوئے اپنی استطاعت کی حد تک کوشش کی ہے کہ ضعیف اور مشکوک روایتیں کتاب میں نہ آنے پائیں اور صرف مستند مصادر و مآخذ ہی سے استفادہ کیا جائے۔ اس کوشش میں وہ خاصے کامیاب نظر آتے ہیں‘ تاہم کتاب میں کمپوزنگ اور سہوقلم کے تسامحات بعض مقامات پر کھٹکتے ہیں‘ مثلاً: ’ابن اُم مکتوم‘ کی جگہ ’ابن مکتوم‘ (ص ۱۴۸‘ ۱۴۹) لکھا گیا۔ کتاب ہمارے دینی ادب میں خوش گوار اضافہ ہے اور اس کا مطالعہ کرنے والے یقینا روح میں تازگی اور بالیدگی محسوس کریں گے۔(طالب الہاشمی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم ایک ایسا موضوع ہے جس پر مختلف پہلوئوں سے بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ زیرنظر کتاب اس موضوع پر انفرادیت کی حامل ہے۔ مصنف نے تعلیم و تربیت کے حوالے سے ۴۵ عنوانات کے تحت تمام ممکنہ پہلوئوں پر احادیث کو جمع کردیا ہے اور حسبِ موقع معروف علما کی شرح بھی دی گئی ہے۔ تعلیم کے لیے وقت اور جگہ کا تعین‘ تعلیم کا دائرہ‘ تعلیم کے ذرائع‘ طلبہ کی نفسیات‘ مخاطب کا رویہ اور مزاج‘ شاگردوں سے تعلق‘ اندازِگفتگو‘ اشاروں‘ لکیروں اور شکلوں کا استعمال‘ طلبہ سے استفسار‘ سوال کرنے پر رہنمائی‘ طلبہ کی صلاحیتوں کا ادراک‘ اپنی موجودگی میں شاگرد کو تعلیم و تدریس کا موقع دینا‘ نظم و ضبط‘ سرزنش اور حوصلہ افزائی‘ اخلاقی تعلیم‘ طلبہ کی ضروریات کا خیال رکھنا‘ تعلیم میں سہولت و ترغیب‘ غرض تعلیم سے متعلق تمام اہم موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔یہ لوازمہ ایک اہم تعلیمی ضرورت پوری کرتا ہے اور جدید تعلیمی نظریات و رجحانات کی روشنی میں ماہرین تعلیم کو دعوتِ تحقیق دیتا ہے۔ (محمد الیاس انصاری)
کبھی کبھی کوئی ایسی کتاب نظرپڑتی ہے کہ یقین نہیں آتا کہ ہمارے معاشرے میں کسی سرکاری سرپرستی یا مالی اعانت کے بغیر کوئی فرد محض اپنے ذاتی شوق سے اتنا بڑا علمی کام کرسکتا ہے۔ غلامی کے موضوع پر میاں محمد اشرف کی ۷۰۰ صفحات کی ایک بھرپور اور جامع کتاب ایسی ایک کاوش ہے۔ وہ ایک ریٹائرڈ پروفیسر ہیں‘ لیکن جب انھیں غلامی کے موضوع پر اُردو میں لوازمہ نہ ملا تو انھوں نے اس خلا کو پُر کرنے کا خود ارادہ کیا اور تین چار سال کی محنت شاقہ سے مسئلۂ غلامی کی پوری تاریخ‘ مختلف معاشروں اور تہذیبوں میں اس کی صورت حال خصوصاً استعماری طاقتوں نے دنیا کے مختلف ملکوں کی پوری پوری آبادیوں پر جس وحشیانہ انداز میں غلامی مسلط کی‘ اسے اصل مآخذ سے حاصل کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس آئینے میں ‘ روشن خیال اور مہذب تہذیبوں کی اتنی بھیانک تصویر سامنے آتی ہے کہ انسان کانپ اُٹھتا ہے اور سوچتا رہ جاتا ہے کہ کیا انسان اتنا زیادہ گرسکتا ہے کہ اپنے ہی بھائیوں کا بدترین استحصال کرے اور انھیں نت نئے طریقوں سے تعذیب دے۔ اس کتاب میں اس کی تمام تفصیلات مطالعے کے لیے موجود ہیں۔
غلامی کے حوالے سے اسلام پر بھی اعتراضات کیے جاتے ہیں۔ فاضل مصنف نے ایک الگ باب میں اس کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ اسلام نے کس تدریج اور حکمت سے اس مسئلے کو حل کیا۔ غلام آزاد کرنے کو بہت بڑی نیکی بتایا۔ انھیں معاشرے میں باعزت مقام دیا۔ ان کے حقوق کا تحفظ کیا‘ یہاں تک کہ مسلم تاریخ میں ایسے حکمران بھی ملتے ہیں جو غلاموں میں سے تھے۔ مصنف نے غلامی کے مسئلے پر مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جو کچھ لکھا ہے‘ اسے کتاب میں ضمیمے کے طور پرشامل کیا ہے تاکہ اسلام کا موقف کھل کر سامنے آجائے۔
فاضل مصنف نے اس کتاب کے ابواب کو چھے الگ الگ کتابوں کی شکل میں بھی پیش کیا ہے: ۱- یورپ اور غلامی‘ صفحات: ۱۲۷۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔ ۲-امریکا اور غلامی ‘ ۹۲/:۲۰۰ روپے۔ ۳-اشتراکیت اور غلامی‘ ۱۲۶/۲۷۵روپے۔ ۴-ہندو معاشرہ اور غلامی‘ ۱۰۵/۳۰۰روپے۔ ۵- اسلام اورغلامی‘ ۱۶۸/۳۵۰روپے۔
جیساکہ عنوانات سے ظاہر ہے‘ مصنف نے ان سب عنوانات کے تحت تحقیقی کاوش کر کے اُردو زبان میں وہ لوازمہ پیش کیا ہے جو اس سے پہلے دستیاب نہ تھا اور اس موضوع پر معلومات کا ایک خزانہ جمع کر دیا ہے۔ اگر ہمارے معاشرے میں حقیقی قدرافزائی کی روایت ہو‘ تو مصنف کو اس کام پر ضرور کوئی اعزاز ملنا چاہیے۔ (م - ا - ا)
جناب قاضی حسین احمد گذشتہ ۳۵ برس سے وطنِ عزیز میں دینی و سیاسی سطح پر فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ اوائلِ جوانی سے تحریکِ اسلامی سے وابستہ ہیں اور تقریر وخطابت ان کا خاص میدان ہے۔ حال ہی میں مضامین قاضی حسین احمد منظرعام پر آئی ہے۔ ترجمان القرآن اور دیگر اخبارات و جرائد میں شائع شدہ مضامین‘ نیز جماعتِ اسلامی پاکستان کے اہم اجتماعات میں ان کی تقاریر میں سے چند ایک کو اس مجموعے میں شامل کیا گیا ہے۔جن موضوعات پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے ان میں ’سیرت رسولؐ کا پیغام‘ ، ’امریکا‘ ، ’عالمِ اسلام‘ ، ’اسلامی تحریکات‘ ، ’پاکستان کو درپیش حقیقی خطرات‘ ، ’مختلف ممالک کے دوروں کے تاثرات‘ اور ایک اہم خطاب ’آیئے حالات دُرست کریں‘ شامل ہے۔ بانیِ تحریک سید ابوالاعلیٰ مودودی اور شاعرِانقلاب علامہ اقبال کے حوالے بکثرت موجود ہیں۔
ان تحریروں کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ صاحبِ تحریر عزم و یقین سے سرشار ہیں اور پوری قوم کو میدانِ جدوجہد میں اُتار کر وطنِ عزیز کو اسلامی ریاست میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں تجزیہ بھی ہے‘ مستقبل کی روشنی بھی اور حالات کو سُدھارنے کے لیے اسلامی تحریکات کا دست وبازو بننے کی اپیل بھی۔ استعمار‘ اسرائیل‘ امریکی جبروستم اور پاکستان میں انگریزوں کے شاگردوں کا ذکر کرتے ہوئے مجاہد کی سی گھن گرج کے ساتھ جلوئہ نما نظرآتے ہیں‘ جب کہ دنیابھر کے مظلوم طبقات اور پاکستان کے بے بس عوام کا ذکر کرتے ہوئے ایک خاص گداز کی کیفیت سے گزرتے محسوس ہوتے ہیں۔ اُن کی تحریر بتاتی ہے کہ وہ نظامِ فرسودہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔
مضامین کی عنوان وار درجہ بندی کرلی جاتی تو کتاب مزید مؤثر ہوجاتی۔ یہ ذکر بھی مناسب ہوتا کہ یہ تقریر کس مقام پر کی گئی‘ انٹرویو کس رسالے کے لیے لیا گیا اور تحریر کس روزنامے/ ماہنامے میں کب شائع ہوئی۔ (محمدایوب منیر)
اسلام کی ۱۴۰۰ سالہ تاریخ میں ایسی بے شمار تحریکوں کا ذکر ملتا ہے جو ملوکیت کے خلاف اٹھیں‘ اہلِ اقتدار کے خلاف جدوجہد کی اور تاریخ کے صفحات پر اَن مٹ نقوش چھوڑ گئیں۔ زیرنظر کتاب میں ایسی ہی تحریکوںکا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ان میں تحریک علویہ‘ عباسیہ‘ باطنیہ‘ قرامطہ‘ مہدویہ‘ صلاحیہ اور وہابیہ شامل ہیں۔ یہ جائزہ مؤرخانہ دیانت سے پیش کیا گیا ہے اور حالات و واقعات ایک تلاش و جستجو اور تحقیق کے بعد پیش کیے گئے ہیں۔ ایک قاری کو باطنیہ کے بارے میں مؤلف کی آرا عام مؤرخین کی آرا سے مختلف نظر آتی ہیں لیکن مولانا علم الدین سالک کے بقول مؤلف نے جو کچھ لکھا ہے اس سے ’’ان غلط فہمیوں کا ازالہ ہو جاتا ہے جو ایک مدت سے دانستہ یا نادانستہ اس فرقے کے خلاف پیدا ہوچکی ہیں‘‘۔
ایک باب ’کاذبیہ‘ میں نبوت کے جھوٹے مدعیوں اسود‘ مسیلمہ‘ سجاح اور طلیحہ کی فتنہ انگیزیوں کا جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ آخر میں اس طبع ثانی میں دو ابواب ’یورشِ تاتار‘ اور ’محمدعلی‘ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ مؤلف کے ایسے مضامین ہیں جو پہلی اشاعت میں شامل نہ تھے۔
کتاب کے مؤلف خدابخش اظہر امرتسری اپنے دور کے نام ور شاعر‘ صحافی اور ادیب تھے جو ۲۰ سال تک روزنامہ زمیندار کے ایڈیٹر بھی رہے۔ ۱۹۴۰ء میں پہلی دفعہ یہ کتاب شائع ہوئی اور اب ۶۵ سال بعد اس کی طبعِ جدید منظرعام پر آئی ہے۔ اس کا پیش لفظ مولانا علم الدین سالک اور مصنف کا تعارف شورش کاشمیری نے لکھا‘ جو اس طباعت میں بھی شامل ہیں۔ طبعِ جدید کا تعارف جناب طالب الہاشمی نے تحریر کیا ہے۔ اسلامی تاریخ اور تحریکوں سے دل چسپی رکھنے والے قارئین کے لیے نہایت معلومات افزا کتاب ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
اسلام کے علمی ذخیرے پر نیش زنی‘ کفار اور مشرکین کا وطیرہ تو تھا‘ لیکن گذشتہ تین صدیوں کے دوران‘بالخصوص مغربی علم الکلام سے متاثرہ ایک گروہ نے اپنی علمی کمزوری کے ہاتھوں مجبور ہوکر‘ خود اسلام ہی کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کا راستہ منتخب کیا۔ اس گروہ میں ایک نمایاں عنصر منکرین حدیث کا ہے‘ جو اپنی علمی سطح کو بلند کرنے یا ملاحدۂ مغرب کی فکری یاوہ گوئی کا شافی جواب دینے کے بجاے‘ خود دشمن ہی کی بارودی سرنگوں کو اُٹھا اُٹھا کر اسلامیانِ عالم کے سپرد کرنے کو ’فکرِ قرآنی‘ کا مغز پالینے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فضل الرحمن کے بعد اسلم جیراج پوری‘ عنایت اللہ مشرقی‘ نیاز فتح پوری اور ایک دور میں اس کے کرتا دھرتا‘ جناب غلام احمد پرویز [م:۱۹۸۵ئ] رہے۔ موصوف نے فتنۂ انکارحدیث کو ایک تحریک کی شکل دینے کے لیے خودساختہ ’مرکز ملت‘ ملک غلام محمد اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ایوب خان کی مدد حاصل کی (اکبربادشاہ سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک کو ایسے ابوالفضل‘ فیضی اور شیخ مبارک بہ سہولت ملتے رہے ہیں۔ جنرل مشرف کو آج کل ایسے ہی اساتذہ روشن خیالی اور مداہنت پسندی کا درس دے رہے ہیں)۔
زیر نظر کتاب ’قرآنی لغت کے خودساختہ ماہر‘ پرویز صاحب کی ان فکری قلابازیوں‘ کلامی یاوہ گویوں‘ اتہام بازیوں اور تضاد بیانیوں کا دفتر ہے۔ پرویز ایک جانب فکر اسلامی پر تیشہ زنی کرتے رہے تو دوسری جانب اسلام پر براہ راست حملہ کرنے کی ہمت نہ پاتے ہوئے‘ مولانا مودودی مرحوم کے منہ کو آتے رہے اور علامہ اقبال کے نام کا سہارا لے کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہے‘ جس کا پورا ریکارڈ‘ طلوعِ اسلام میں موجود ہے۔
ماہ نامہ طلوعِ اسلام کے تمام فائلوں سے فکرِپرویز کا بڑی باریک بینی بلکہ بڑے حوصلے سے مطالعہ کرنے کے بعد‘ جناب پروفیسر محمد دین قاسمی نے تحقیق و تدوین کا یہ مرقع مرتب کیا ہے۔ جس کا ہرصفحہ پرویز صاحب کی قلمی رکاکت و فکری کثافت‘ مولانا مودودی کی بیانیہ شایستگی اور مولف کی تجزیاتی سنجیدگی کا نمونہ ہے۔
جو لوگ فتنۂ انکارحدیث کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں‘ یا جو لوگ اس فتنے کے تاروپود کی کمزوری اور حکمت عملی کے دجل و فریب کو جاننا چاہتے ہیں‘ ان کے لیے یہ کتاب ایک قیمتی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایسی سنجیدہ تحقیق کاری اور تقابلی تجزیہ کاری کی روایت ہمارے ہاں ناپید ہوتی جارہی ہے‘ لیکن پروفیسر محمد دین قاسمی کی اس پیش کش نے نوجوان محققین کو کارِ تحقیق کا درس بھی دیا ہے اور حوصلہ بھی۔(سلیم منصورخالد)
’پاکستان کی معاشی ترقی اور خوش حالی ‘ (جون ۲۰۰۶ئ) پاکستان کی معاشی بدحالی پربے لاگ تبصرہ ہے۔ ’تحریک اور رکنیت‘ سے تحریک اسلامی کی فکر‘ اس کے تصورات‘ اہداف اور رکنیت کے اہم تقاضوں کی اچھی تذکیر ہوئی اور بجا توجہ دلائی گئی کہ اس راہ میں اصل قوت داعیانہ اضطراب اور بے چینی ہے۔ ’مجلس عمل کی پارلیمانی جدوجہد کے چارسال‘ میں پارلیمانی جدوجہد کا اچھے انداز سے احاطہ کیا گیا ہے۔
’امریکا: اسرائیل نواز لابی کی گرفت میں‘(جون ۲۰۰۶ئ) اپنی نوعیت کی منفرد رپورٹ اور اہم ترین موضوع ہے جس پر اطہروقار عظیم نے قلم اٹھایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب امریکا میں بھی یہ تشویش بڑھتی جارہی ہے کہ اسرائیل نے امریکا کو یرغمال بنایاہوا ہے۔ صہیونیت کے مذموم عزائم اب ڈھکے چھپے نہیں رہے اور ان کے خلاف آواز توانا ہو رہی ہے۔
’تہذیبوں کا تصادم، حقیقت یا واہمہ؟‘ (مئی ۲۰۰۶ئ) میں آپ نے جو منظرنامہ پیش فرمایا‘ واقعتا وہ ہمارا آنے والا کل ہے۔ اس کے لیے بھرپور تیاری کی ضرورت ہے۔ سیاسی میدان کی جزوی جدوجہد کے ساتھ ساتھ اجتماعی و انفرادی سطح پر زندگیوں میں ’اللہ کا رنگ‘ بھرنے کی ازحد ضرورت ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا‘ انفارمیشن ٹکنالوجی اور علم کا ہر جدید میدان خصوصی توجہ کا متقاضی ہے۔
’تہذیبوں کا تصادم، حقیقت یا واہمہ؟‘ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔مارچ کے اشارات ’شیطانی کارٹون: تہذیبی کروسیڈ کا زہریلا ہتھیار‘ کو سامنے رکھیں تو اس مضمون کی افادیت دوچند ہوجاتی ہے۔ بحیثیت مجموعی تجزیے سے اختلاف مشکل ہے‘ تاہم اتنا عرض کرنے کی جسارت کروں گا کہ یہ بعداز وقت مشورہ ہے۔ اس لیے کہ یہ جنگ مغربی و امریکی ساہوکاروں نے تہذیبوں کی جنگ بنا دی ہے اور اُمت اب اس جنگ میں ایک فریق کی حیثیت رکھتی ہے۔ جنگ کا آخری معرکہ ’مغرب اوراسلام‘ کے درمیان ناگزیر ہے۔ ہمیں اس وقت کے لیے اپنی قوتوں کو مجتمع کرنا ہے۔
ترجمان القرآن کے قارئین کے لیے یہ تجویز بھی مفید رہے گی کہ وہ ایک دعوتی حلقہ بنا لیں جو ۱۰‘ ۱۵ افراد پر مشتمل ہو۔ یہ دعوتی حلقہ گھر‘ مسجد‘ ادارہ یا محلے کی سطح کا ہوسکتا ہے۔ ہفتے میں ایک دو مرتبہ باقاعدگی سے ترجمان القرآن کے مضامین کا اجتماعی مطالعہ کیا جائے۔ تھوڑے ہی عرصے میں آپ دیکھیں گے کہ شرکا کی علمی سطح بلند ہو رہی ہے‘ دین کے فہم میں اضافہ‘ اُمت کے لیے تڑپ اور احیاے دین کی جدوجہد کے لیے جذبہ بیدار ہو رہا ہے۔ اس دعوتی حلقے کی بنیاد پر قرآن کلاسز جیسے ہمہ پہلو نوعیت کے پروگرام کا آغاز نسبتاً زیادہ مؤثر ثابت ہوگا۔
مسلم دنیا میں عیسائی ایک معمولی سی اقلیت ہیں لیکن انھیں ہر جگہ بے پناہ سہولتیں میسر ہیں‘ اور ہمارے حکمران انھیں مزید بہت کچھ عطا کیے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف ان لوگوں کی جمہوریت اور اسلام دشمنی کی کیا کیفیت ہے‘ اس کی عکاسی ذیل کے واقعے سے بخوبی ہوتی ہے۔
برلن کے علاقے Panko Heinerspor(سابقہ ایسٹ برلن) میں کچھ لوگوں نے ایک پرانی فیکٹری جو اَب بالکل کھنڈر ہوچکی ہے خریدی تاکہ وہاں مسجد کی تعمیر کی جاسکے۔ اس سے پہلے کہ تعمیر شروع ہو‘ مسجد کمیٹی نے وہاں کے قرب و جوار کے رہنے والوں کے ساتھ تبادلۂ خیال کا اہتمام کیا۔ مقامی پولیس کا ایک بڑا افسر بھی وہاں موجود تھا۔ کم و بیش ۸۰۰ لوگ جمع تھے جو وہاں مسجد بننے کے خلاف زبردست احتجاج کر رہے تھے۔ مظاہرین میں ہرعمر کے لوگ شامل تھے۔ جرمن ٹیلی ویژن کی ٹیم وہاں موجود تھی۔ یہ ۹ اپریل ۲۰۰۶ء کا واقعہ ہے۔ اس نے مظاہرین سے مختلف سوال جواب کیے۔ ایک ۵۰ سالہ شخص کہنے لگا: یہ لوگ دہشت گرد ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ ہمارے علاقے میں مسجد بن سکے۔ مسجد کی آڑ میں یہ القاعدہ کے تربیتی کیمپ کھولیں گے۔ ایک نوجوان لڑکی کہنے لگی کہ ہماری کوشش ہے کہ جرمنی میں جو خواتین اسکارف لیتی ہیں ان کے سروں سے بھی اسکارف اتارا جائے‘ اور یہ لوگ ہمارے علاقے میں مسجد بنانا چاہتے ہیں۔ اب تو ہم انھیں جرمنی میں رہنے بھی نہ دیں گے۔ ایک نے کہا: میرے لیے یہ ناممکن ہے کہ میں ہائی وے Auto Bahnسے اپنے گھر آنے کے لیے نیچے اُتروں اور سب سے پہلے میری نظر اس مسجد کے میناروں پر پڑے‘ ایسا کبھی نہ ہوگا۔ دوسرے نے کہا: اگرمسجدبن گئی تو ہم اس کو جلا دیں گے۔
ٹیلی ویژن کی ٹیم نے مسجد کمیٹی کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو ان کے نمایندے نے جواب دیا کہ ہم جرمنی کے رہایشی اور شہری ہونے کے ناطے اپنی عبادت گاہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں جس کی ہمیں جرمن آئین اجازت دیتا ہے ‘ اور اس کے مطابق جرمنی کے ہرباشندے کو اپنے مذہب پر چلنے کا پورا حق حاصل ہے۔ آخر ہمیں یہ حق کیوں نہیں؟ آپ خود فیصلہ کریں کہ کون ’بنیاد پرست‘ ہے؟ البتہ پولیس کے ذمہ دار افسر کا کہنا تھا کہ مسجد کو پولیس کی حفاظت میں بنایا جاسکتاہے۔
اور موسیٰ کو ہم نے اپنی نشانیوں اور کھلی کھلی سند ماموریت کے ساتھ فرعون اور اس کے اعیانِ سلطنت کی طرف بھیجا‘ مگر انھوں نے فرعون کے حکم کی پیروی کی حالانکہ فرعون کا حکم راستی پر نہ تھا۔ قیامت کے روز وہ اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا اور اپنی پیشوائی میں انھیں دوزخ کی طرف لے جائے گا‘ کیسی بدتر جاے ورود ہے یہ جس پر کوئی پہنچے! اور ان لوگوں پر دنیا میں بھی لعنت پڑی اور قیامت کے روز بھی پڑے گی‘ کیسا برا صلہ ہے جو کسی کو ملے![ھود ۱۱:۹۶-۹۹]
اس آیت سے اور قرآن مجید کی بعض دوسری تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ دنیا میں کسی قوم یا جماعت کے رہنما ہوتے ہیں وہی قیامت کے روز بھی اس کے رہنما ہوں گے۔ اگر وہ دنیا میں نیکی اورسچائی اور حق کی طرف رہنمائی کرتے ہیں تو جن لوگوں نے یہاں ان کی پیروی کی ہے وہ قیامت کے روز بھی انھی کے جھنڈے تلے جمع ہوں گے اور ان کی پیشوائی میں جنت کی طرف جائیں گے۔ اور اگروہ دنیا میں کسی ضلالت‘ کسی بداخلاقی یا کسی ایسی راہ کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں جو دین حق کی راہ نہیں ہے‘ تو جو لوگ یہاں ان کے پیچھے چل رہے ہیں وہ وہاں بھی ان کے پیچھے ہوں گے اور انھی کی سرکردگی میں جہنم کا رخ کریںگے۔ اسی مضمون کی ترجمانی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں پائی جاتی ہے کہ امرؤ القیس حامل لواء شعراء الجاھلیہ الی النار ،یعنی قیامت کے روز جاہلیت کی شاعری کا جھنڈا امرؤالقیس کے ہاتھ میں ہوگا اور عرب جاہلیت کے تمام شعرا اسی کی پیشوائی میں دوزخ کی راہ لیں گے۔ اب یہ منظر ہرشخص کا اپنا تخیل اس کی آنکھوں کے سامنے کھینچ سکتا ہے کہ یہ دونوں قسم کے جلوس کس شان سے اپنی منزل مقصود کی طرف جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ جن لیڈروں نے دنیا میں لوگوں کو گمراہ کیا اورخلافِ حق راہوں پر چلایا ہے ان کے پیرو جب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ یہ ظالم ہم کو کس خوف ناک انجام کی طرف کھینچ لائے ہیں تو وہ اپنی ساری مصیبتوں کا ذمہ دار انھی کو سمجھیں گے اور ان کا جلوس اس شان سے دوزخ کی راہ پر رواں ہوگا کہ آگے آگے وہ ہوں گے اور پیچھے پیچھے ان کے پیرؤوں کا ہجوم ان کو گالیاں دیتا ہوا اور ان پر لعنتوں کی بوچھاڑ کرتا ہوا جا رہا ہوگا۔ بخلاف اس کے جن لوگوں کی رہنمائی نے لوگوں کو جنت ِنعیم کامستحق بنایاہوگا ان کے پیرو اپنا یہ انجام خیر دیکھ کراپنے لیڈروں کو دعائیں دیتے ہوئے اور ان پر مدح و تحسین کے پھول برساتے ہوئے چلیںگے۔ (تفہیم القرآن‘ سورۂ ہود‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۹‘ عدد ۲‘ شعبان ۱۳۶۵ھ‘ جولائی ۱۹۴۶ئ‘ ص ۳۰-۳۱)