مضامین کی فہرست


ستمبر۲۰۰۶

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اسرائیل نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت‘ لبنان پر حملہ کر کے ۳۴ دن رات قوت کے بے محابا استعمال اور ظلم و تشدد کی ایک نئی داستان رقم کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے (جسے خود مغرب کی انسانی حقوق کی تنظیمیں انسانیت کے خلاف جرائم (crimes against humanity) قرار دے رہی ہیں) انھی ۳۴ شب وروز میں جدید ترین اور انتہائی تباہ کن اسلحے اور آلاتِ جنگ سے لیس دنیا کی چوتھی بڑی فوج کی ہمہ گیر جنگ (ہوائی‘ بحری اور بری) کے مقابلے میں حزب اللہ کے چند ہزار مجاہدوں کی سرفروشانہ مزاحمت ایک آئینہ ہے جس میں بہت سے چہرے اپنے تمام حسن و قبح کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں۔ یوں انسان کی آنکھ دنیا ہی میں یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ ج (اس روز کچھ لوگ سرخ رو ہوں گے اور کچھ لوگوں کا منہ کالا ہوگا۔ اٰل عمرٰن ۳:۱۰۶) کا چشم کشا اور ایمان افروز منظر دیکھ رہی ہے۔ مسئلہ کے تجزیے اور حالات کے مقابلے پر بات کرنے سے پہلے‘ عبرت اور موعظت کے ان مناظر پر ایک نظر ڈالنا مسائل کی حقیقت کو سمجھنے اور رزم گاہ کے تمام کرداروں کے چہروں کے اصل خدوخال اور نقش و نگار کو پہچاننے میں مددگار ہوگا۔

معرکۂ لبنان کے کردار

اس آئینے میں ویسے تو سارے ہی چہرے موجود ہیں لیکن ہم ان میں سے آٹھ کا ذکر مسائل کی تفہیم کے لیے ضروری سمجھتے ہیں:

سب سے پہلا چہرہ اسرائیل کا ہے اور وہی اس خونی ڈرامے کا اصل کردار بھی ہے۔ اسرائیل کوئی عام ریاست نہیں‘ مغرب کے ملمع سازوں اور تماشا گروں نے تو اسے علاقے کی ’واحد جمہوری ریاست‘ کا امیج (image) دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن اسرائیل نے خود اپنے کردار اور قوت کے نشے میں مست ہوکر انسانی تباہی‘ وسیع پیمانے پر ہلاکت خیزی اور جنگی جرائم کی نہ ختم ہونے والی حرکات کے ذریعے دنیا کو اپنی جو تصویر دکھا دی ہے‘ وہ اب کسی مصنوعی لیپاپوتی یا میڈیا کی جعل سازی سے تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ جو باتیں بالکل واضح ہو کر سامنے آگئی ہیں وہ یہ ہیں:

۱- اسرائیل کا وجود اوراس کی بقا کا انحصار کسی اصول‘ حق یا عالمی ضابطے پر نہیں‘ قوت اور صرف قوت کے بے محابا استعمال پر ہے۔ اس کا قیام بھی تشدد اور قوت کی بنیاد پر ہوا اور علاقے میں اس کا وجود بھی صرف قوت کے سہارے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ اس کے لیے کوئی قانون ہے    اورنہ کوئی ریاستی حدود۔ چنانچہ جس فلسفے پر وہ عامل ہے اور اس کے پشتی بان اسی تصور پر اپنی   خارجہ پالیسی اورجنگی سیاست استوار کیے ہوئے ہیں کہ اسرائیل کی عسکری قوت کوناقابلِ مقابلہ (unchallengable) ہونا چاہیے اور صرف ایک یا دو پڑوسی ملکوں یا عالمِ عربی نہیں‘ بلکہ ایران اور پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کے مقابلے میں اسرائیل کے پاس اتنی قوت ہونی چاہیے کہ وہ اس قوت کو جب چاہے اور جس موقع پر بھی وہ بزعمِ خود اپنے لیے کوئی خطرہ محسوس کرے تو بلا روک ٹوک اور جس طرح چاہے استعمال کرے۔ امریکا اور یورپ کے سامراجی ذہن نے اسے ’دفاعی اقدام‘ کا نام دیا ہے۔ جب امریکا یہ محسوس کرتا ہے کہ اسرائیل کی جارحانہ بلکہ دہشت گردانہ قوت میں کوئی کمی آرہی ہے تو آنکھیں بند کر کے اس کی قوت کو بڑھانے کے لیے جنگی سازوسامان کی ریل پیل کردی جاتی ہے۔ اسی بنیاد پر اسے نیوکلیر پاور بنایا گیا تھا۔ اس وجہ سے اسے ہرقسم کے تباہ کن اسلحے اور آلاتِ جنگ سے لیس کیا گیا‘ اسی دلیل پر ۱۹۷۳ء میں جب جنگ کا پلڑا صرف دو دن تک اس کے خلاف تھا اس کی مدد کی گئی اور اسی شرانگیز فلسفے کی وجہ سے حالیہ لبنان پر فوج کشی کے دوران امریکا نے برطانیہ کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر کے تباہ کن بم ہی نہیں بلکہ ڈیزی کٹر اور زیرزمین مضبوط پناہ گاہیں تباہ کرنے والے بم (bunker buster) تک جہازوں میں لاد کر اسے پہنچائے۔

اسرائیل نے جو تباہی مچائی ہے اور جس پر ساری دنیا کے غیر جانب دار انسان چیخ اُٹھے ہیں۔ ٭وہ بھی اسرائیل کے اس فلسفۂ جنگ اور فلسفۂ وجود پر ایک معمولی سا دھبّا بھی نہیں لگاسکے اور اسرائیل اسی بنیاد پر قائم ہے۔

۲- اسرائیل بنیادی طور پر اس علاقے کی کوئی ریاست نہیں بلکہ اس کی حیثیت ایک استعماری قوت (colonial power)کی ہے جس نے فلسطین پر صرف قوت سے قبضہ ہی نہیں کیا بلکہ اسے آبادکاروں کی نوآبادی (settler colony) بھی بنا دیا‘ یعنی استعماری قوت کو دوام دینے کے لیے نقل آبادی اور زمینی حقائق کی تبدیلی تاکہ سرزمینِ فلسطین کے اصل باشندے یا دربدر کی ٹھوکریں کھائیں (آج ۴ ملین فلسطینی اپنے وطن سے باہر زندگی گزار رہے ہیں) یا پھر محکوم اور غلام بن کر رہیں اور یورپ اور امریکا سے کاکیش نسل کے یہودیوں کو اس سرزمین پر آباد کردیا جائے اور وہ بزور اس پر قابض رہیں۔ یہ دونوں پہلو یعنی اس کا نوآبادیاتی استعماری کردار اور آبادکاروں کی حیثیت اسرائیل کی اصل شناخت ہیں۔ لیکن اس میں ایک تیسرے پہلو کا اضافہ گذشتہ ۵۰سال میں اسرائیل اور امریکا کے سیاسی گٹھ جوڑ سے نمایاں ہوگیا ہے یعنی یہ کہ اب اسرائیل ان دونوں پہلوئوں کے ساتھ عرب دنیا میں امریکا کا ایک فوجی ٹھکانا بن گیا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ پورے  علاقے کو امریکا کے سامراجی مقاصد کی خاطر استعمال کرنے کے لیے وہ چوکیدار کا کردار ادا کرے۔ اسے ایک غیرجانب دار مبصر نے یوں بیان کیا ہے:

اسرائیل ایک ملک نہیں ہے بلکہ مغربی ممالک کا فوجی اڈہ ہے تاکہ شرقِ اوسط اور مسلم ممالک کے تیل کے ذخائر پر کنٹرول رکھا جا سکے۔

اسرائیل کے تمام مظالم اور خلافِ انسانیت ہلاکت کاریاں اپنی جگہ‘ اس کے اصل چہرے کا سمجھنا ازبس ضروری ہے۔

اس آئینے میں دوسرا چہرہ امریکا کا صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ امریکا اور اسرائیل کے کردار میں کوئی فرق باقی نہیں رہا ہے اور من تو شدم تو من شدی کا منظر صاف نظر آرہا ہے۔ اس لیے کہ اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے وہ امریکا کی پشت پناہی میں‘ اس کی باقاعدہ اعانت اور شمولیت سے اور اس کے علاقائی عالمی عزائم اور اہداف کے حصول کے لیے کر رہا ہے۔ یہ باہمی تعاون ایک مدت سے واضح ہے لیکن ۳۴ دن میں توہرچیز بالکل برہنہ ہوگئی ہے۔ بش اور کونڈولیزارائس نے پہلے دن سے اسرائیل کے اقدامات کی تائید کی اور صاف کہا کہ اسے حزب اللہ کو ختم کرنے اور لبنان کو سبق سکھانے کا حق حاصل ہے۔ G-8 سے لے کر روم کانفرنس تک امریکا نے تمام دنیا کی چیخ پکار اور کوفی عنان کی آہ و بکا کے باوجود فوری جنگ بندی کی پوری ڈھٹائی اور بے شرمی سے مخالفت کی‘ یورپ تک کی کوششوں کو آگے نہ بڑھنے دیا اور صاف کہا کہ اس قصے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے اسرائیل کو تین ہفتے چاہییں اور وہ اسے ملنے چاہییں لیکن جب بازی اسرائیل کے خلاف پلٹنے لگی اور ایک ایک دن میں اسرائیل کے ۳۵ فوجی ہلاک ہونے لگے تو جنگ بندکرانے کے لیے امریکا بہادر تیار ہوگیا۔ اس زمانے میں ایران کو گالیاں دی جاتی رہیں کہ اس نے حزب اللہ کو اسلحہ دیا ہے اور خود جہاز پر جہاز اسرائیل کو روانہ کیے گئے اور اس جنگ میں ایک کھلا رفیق بن گیا جس کے نتیجے میں لبنان کے ۱۲۰۰ افراد شہید‘ ۵ہزار زخمی اور ۴۰ سے ۵۰ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ پھر اسے زخموں پر نمک پاشی ہی کہا جاسکتا ہے کہ انسانی جانوں کی اس ہلاکت اور اس ہمہ گیر تباہی پر آنسو بہانے کے لیے امریکا نے ۵۰بلین ڈالر کی خطیرامداد کا اعلان کیا ہے۔ تفو برتو اے چرخ گرداں تفو۔ لبنان کے لیے واحد عزت کا راستہ یہی ہے کہ اس ۵۰بلین کی بھیک کو لینے سے انکار کردے اور ’عطاے تو بہ لقاے تو‘ کے اصول پر امریکا ہی کے منہ پر دے مارے!

یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ امریکا لبنان کا بڑا دوست بنتا تھا۔ رفیق حریری کے قتل کے بعد جو ڈراما ہوا اس کا اصل ہدایت کار امریکا ہی تھا۔ ماشاء اللہ لبنان کے کئی وزیراعظم بھی ہمارے شوکت عزیز کی طرح امریکا کے سٹی بنک ہی کا تحفہ ہیں اور شام کو بے دخل کرنے اور حزب اللہ کو غیرمؤثر بنانے کے منصوبے میں اہم کردارادا کر رہے تھے لیکن اسرائیل کی تائید میں لبنان کی امریکا نواز حکومت کو بھی بے سہارا چھوڑ دیا گیا اور اسرائیل کی جارحیت کو لگام دینے کی کوئی ظاہری کوشش بھی نہ ہوئی۔ جس نے ایک بار پھر اس حقیقت کو لبنان ہی نہیں پوری دنیا کے سامنے واضح کردیا کہ امریکا سے زیادہ ناقابلِ اعتماد کوئی ’دوست‘ نہیں ہوسکتا اور لبنان کے وہ عیسائی اور لبرل امریکا نواز بھی پکار اُٹھے کہ آزمایش کی اس گھڑی میں حزب اللہ اور حسن نصراللہ نے ہماری مدد کی اور جن کے دامن کو ہم نے تھاما تھا وہ گھر کو آگ لگانے والوں کا ساتھ دیتے رہے۔

یہ ہے امریکا کا اصل چہرہ!

ایک تیسرا چہرہ اقوام متحدہ کا بھی ہے۔ اس ادارے کا مقصد جارحیت کا شکار ہونے والوں کی مدد کو پہنچنا اور جارح کا ہاتھ پکڑنا ہے۔ لیکن افغانستان اور عراق پر امریکی حملوں کے وقت اس نے جو شرم ناک کردار ادا کیا‘ اس کا اظہار اس موقع پر بھی ہوا۔ ۳۴ دن تک یہ بے بسی کی تصویر بنا رہا اور امریکا کی مرضی کے خلاف کوئی اقدام نہ کرسکا۔ جب امریکا اوراسرائیل کو اپنے مقاصد میں ناکامی ہوتی نظر آئی تو جنگ بندی کی قرارداد منظور کی گئی۔

ایک چوتھا چہرہ یورپی اقوام کا بھی سامنے آتا ہے جو ایک طرف اپنے معاشی مفادات کی خاطر عرب دنیا سے قربت کا مظاہرہ کرتی ہیں اور کبھی کبھی امریکا سے کچھ اختلاف کا اظہار بھی کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود جب آزمایش کی گھڑی آتی ہے تو عملاً ان کا وزن اسرائیل اور امریکا ہی کے ساتھ ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ امریکا کھلے بندوں دل و جان سے یہ ظلم کرتا ہے اور یورپی اقوام ذرا بے دلی اور ہمدردی کے ایک آدھ بول کے ساتھ وہی کام انجام دیتی ہیں۔ ان کی دوستی اور تعاون پر بھی اعتماد دانش مندی کا تقاضا نہیں۔

اس آئینے میں ایک پانچواں چہرہ بھارت کا بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اسرائیل کی جارحیت پر خاموشی‘ لبنان اور فلسطین کی مدد اور تائید کے باب میں بے التفاتی۔ جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ امریکا اور اسرائیل سے نئی نئی دوستی پر فلسطین اور عربوں سے ساری ہمدردی سے دست برداری‘ لیکن اس سے بڑھ کر اسرائیل کو خوش کرنے اور امریکا سے دفاعی معاہدے کومستحکم کرنے کے لیے بھارت کے تمام چینلوں اور ہوٹلوں تک پر عرب چینلوں خصوصیت سے الجزیرہ کی نمایش پر پابندی تاکہ بھارت کے عوام یا بھارت میں آنے والے عرب‘ اسرائیل کے مظالم کے تصویری عکس بھی نہ دیکھ سکیں۔ یہ ہے بھارت کی ’قابلِ اعتماد دوستی‘ اور بھارت اور پی ایل او اور یاسرعرفات کی پینگوں کا حاصل!

حزب اللّٰہ کا عزم و ایمان

آئینے میں ایک چھٹا چہرہ ان عرب اور مسلمان حکمرانوں کا بھی نظر آتا ہے جنھوںنے اپنے مفادات کو امریکا سے وابستہ کرلیا ہے اور اس دبائو میں اسرائیل کے ساتھ دوستی سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ان حکمرانوں میں سے تین نے تو کھل کر پوری دریدہ دہنی کے ساتھ حزب اللہ اور حماس کو موردالزام ٹھیرایا اور انھیں سرزنش بھی کی۔ اس میں مصر کے صدر بہادر‘ اُردن کے بادشاہ سلامت اور سعودی عرب کے وزیرخارجہ سب سے پیش پیش تھے۔ لیکن بات صرف ان تین کی نہیں‘ عرب لیگ جنگ بندی کے ۳۴ دن تک کوئی متفقہ موقف اختیار نہ کرسکی۔ او آئی سی نے ۲۳ دن بعد اپنے ایک ۱۱ رکنی رابطہ گروپ کا اجلاس بلایا اور پھر خالی خولی زبانی احتجاج سے آگے نہ بڑھ سکی۔ بحیثیت مجموعی تمام ہی حکمران یا خاموش رہے یا بددلی اور بزدلی کے ساتھ چند بیانات سے آگے نہ بڑھے اور اس طرح ایک بار پھر یہ بات الم نشرح ہوگئی کہ یہ حکمران اُمت مسلمہ کے حقیقی ترجمان نہیں۔ یہ اپنے مفادات کے بندے ہیں یا امریکا اور مغربی سامراج کے کاسہ لیس‘ اس سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان کے دل اُمت مسلمہ کے ساتھ نہیں دھڑکتے۔ انھیں اُمت کے مفادات کا کوئی لحاظ نہیں اور یہ عیش و عشرت کی اس زندگی کے عادی ہوچکے ہیں جسے اختیار کرنے کے بعد عزت کی زندگی کے سارے امکانات ختم ہوجاتے ہیں۔

ان چھے چہروں کے علاوہ بھی کچھ چہرے ہیں جو اسی آئینے میں نظر آتے ہیں اور بڑے روشن اور تابندہ نظر آتے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں اور سب سے درخشاں چہرہ حزب اللہ اور حماس کا ہے۔ جس چڑیا کو مارنے کے لیے اسرائیل نے توپ چلائی تھی وہ اسی طرح چہچہاتی رہی اور اسرائیل اپنی توپ و تفنگ کے ساتھ‘ ۳۴ دن تک آگ اور خون کی بارش برسانے کے باوجود اس کابال بھی بیکا نہ کرسکا۔ چند ہزار مجاہدین نے ایک عظیم مجاہد لیڈر حسن نصراللہ کی قیادت میں اسرائیل کے دانت کھٹے کردیے اور اس کے سارے غرور کا طلسم توڑ کر رکھ دیا۔ انھوں نے اللہ کے بھروسے پر جان کی بازی لگا دی۔ لبنان تباہ ہوگیا مگر ان کے عزم و ہمت پر آنچ بھی نہ آئی۔ اسرائیل نے لبنانی سرحد سے دو میل کے فاصلے پر بنت جبیل کے قصبے پر تین بارقبضہ کیا اور تینوں بار اسے پسپا ہونا پڑا۔ یہ صرف ایک معرکے کی داستان نہیں‘ یہ ۳۴ دن کے خونیں معرکے کے شب و روز کی کہانی ہے     ؎

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے

اتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے

اللہ کے فضل سے حزب اللہ نے اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر (invincible) ہونے کے دعوے کی قلعی کھول دی ہے۔ بے سروسامانی اور وسائل اور تعداد کے نمایاںترین بلکہ محیرالعقول فرق کے باوجود‘ اسرائیل اپنے کسی ایک ہدف میں بھی کامیاب نہیں ہوسکا۔ وہ اپنے دو فوجی چھڑانے آیا تھا‘ مگر اس نے اپنے ۲۰۰ فوجی مروا دیے اور وہ دو فوجی بدستور حزب اللہ کی قید میں ہیں‘ وہ حزب اللہ کی کمر توڑنے اور اسے صفحۂ ہستی سے مٹانے کے زعم کے ساتھ آیا تھا اور اس کی فوج ۳۴ دن کی گولہ باری اور فضائی‘ بحری اور بری جنگ کے باوجود حزب اللہ کے مقابلے کی قوت کو کم نہ کرسکی اور آخری دن میں اس نے اسرائیل پر ۲۴۶راکٹ داغے اور پہلی مرتبہ اسرائیل کو ایسے جنگی نقصانات برداشت کرنے پڑے جن سے پچھلے ۶۰سال میں بھی اس کو سابقہ پیش نہ آیا تھا۔ وہ تو سمجھتا تھا کہ عرب لڑنا نہیں جانتے اور ۶ سے ۱۷ دن میں ان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتاہے۔ اس مرتبہ اسے جنگ سے نکلنے کے لیے راستے تلاش کرنا پڑے اور پہلی مرتبہ اسرائیل کے ۲۰۰ فوجی ہلاک‘ ۵۰۰ زخمی‘ اسرائیل کے اندر ۵ہزار راکٹوں کی بارش‘ ۴ لاکھ اسرائیلیوں کا حفاظتی بنکرز میں ایک مہینہ گزارنا اور ایک ملین کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ اسرائیل پر راکٹوں کے حملے کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا ابھی اندازہ کیا جا رہا ہے لیکن ابتدائی تخمینوں کے مطابق فوجی اور سول تنصیبات کے باب میں ۵ئ۱ ملین ڈالر اور معیشت کے میدان میں ۳ سے ۵ بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ یہ مزہ اسرائیل نے پہلی بار چکھا ہے اور دنیا نے یہ منظر دیکھ لیا کہ ایمان‘ عزت و آبرو اور مناسب تیاری کے ذریعے کس طرح آج بھی وسائل کی کمی کے باوجود مسلمان دشمن کے دانت کھٹے کرسکتے ہیں    ؎

فضاے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

حزب اللہ اور جہادی عزم و مسلک نے اگر اسرائیل کی قوت پر ضرب کاری لگاکر اس کے ناقابلِ شکست ہونے کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے تو وہیں ایک طرف اس نے اُمت مسلمہ کا سر اللہ کے سامنے شکرکے جذبات سے جھکا دیا ہے اور دوسری طرف مادی وسائل اور عسکری قوت کی پجاری دنیا کے سامنے عزت سے بلند کردیا ہے‘ اوروہ جنھیں کمزور سمجھ کر اہلِ قوت پامال کرنے پر تلے ہوئے تھے‘ ان کو ایک نیا عزم‘ نئی ہمت‘ نیا ولولہ اور مقابلے کی نئی اُمنگ دی ہے۔ کونڈولیزا رائس اور جارج بش دونوں نے کہا تھاکہ لبنان کوسبق سکھانے کے اس جارحانہ اقدام کے بطن سے امریکا کے حسبِ خواہش ایک نیا شرق اوسط جنم لے گا___ لیکن ان شاء اللہ ایک نیا شرق اوسط تو ضرور جنم لے گا مگر وہ امریکا کا لے پالک نہیں ہوگا بلکہ اسلامی نشاتِ ثانیہ کا پیامبر ہوگا۔ حزب اللہ اب ایک تنظیم کا نام نہیں‘ ایک عالمی تحریک کا عنوان اور تبدیلی کے رخ کا مظہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُردن کے وہی حکمران شاہ عبداللہ جس نے چار ہفتے قبل ان پر حرف زنی کی تھی وہ اب یہ کہنے پر مجبور ہوا ہے کہ:

عرب عوام کی نظروں میں حزب اللہ ہیرو ہیں‘ اس لیے کہ یہ اسرائیل کی جارحیت کا مقابلہ کر رہی ہے۔ (دی نیشن‘ ۱۲ اگست ۲۰۰۶ئ)

اور حزب اللہ کا مخالف ولید جنبلات جو دروز کمیونٹی کا لیڈر ہے اورجسے اسرائیل نے ۱۹۸۰ء کی جنگ میں حلیف بنایا ہوا تھا اب کہہ رہا ہے کہ:

آج لبنان اپنی بقا کے لیے حزب اللہ اور حسن نصراللہ کا مرہونِ منت ہے جنھوں نے اسرائیل کو شکست دی ہے۔ یہ ایک یا دوسرے حصے کو حاصل کرنے یا کھونے کا مسئلہ نہیں‘ انھوں نے اسرائیل کو شکست دی ہے۔ (دی نیشن‘ ۲۱ اگست ۲۰۰۶ئ)

یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف ہر سطح پر اور ہر حلقے میں ہو رہا ہے بجز امریکی وائٹ ہائوس کے‘ لیکن تاریخ اسے پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ حزب اللہ کے اس تابناک چہرے کے ساتھ ان ہزاروں مصیبت زدہ انسانوں کا چہرہ بھی اسی آئینے میں نظر آرہا ہے جو اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنے ہیں‘ جن کے اعزہ ہمیشہ کی نیند سلا دیے گئے ہیں‘ جن کے گھر اور کاروبار تباہ کر دیے گئے ہیں‘ جن کے ملک کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے مگر ان کا ایمان تابندہ ہے‘ ان کا عزم جوان ہے‘ جو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ رہے ہیں کہ ہمارے گھر تباہ ہوگئے ہیں لیکن ہمارا سر بلند ہے۔ سیکڑوں انٹرویو دنیا بھر کے میڈیا میں بشمول بی بی سی اس پر گواہ ہیں کہ ایک ماں جس کے جوان بچے شہید ہوگئے ہیں لیکن وہ پورے سکون سے کہتی ہے کہ ان کا غم اپنی جگہ ‘ لیکن مجھے اپنی قربانی پر فخر ہے۔

صرف ایک دو مثالیں:

بی بی سی کا نمایندہ ایک ملبے میں تبدیل ہوجانے والے مکان کے مالک سے پوچھتا ہے: ’’آپ کو تو بڑی قیمت ادا کرنی پڑی‘‘۔ تو اس کا جواب ہے: ’’تمھیں کیا پتا    نہیں‘ ہمارے ہاں ناک کی کیا اہمیت ہے۔ ٹھیک ہے‘ کچھ نہیں رہا مگر ناک تو اُونچی ہے۔ ہم سب ہیرو ہیں۔ گھر کا کیا ہے‘ وہ تو پھر بھی بن جائے گا۔ (بی بی سی‘ سیربین‘ ۱۵اگست ۲۰۰۶ئ)

ایک باپردہ مگر باعزم ماں جس کی اولاد شہید اور گھر تباہ ہوگیا تھا اسی ملبے پر بیٹھی ہے اور کہہ رہی ہے:

یہاں سے اب کہیں اور جانا شکست ماننا ہے۔ اسرائیل اس سے زیادہ اور کر بھی کیا سکتا ہے اور گھر تباہ کردے اور بچے مار دے لیکن کیا فرق پڑتاہے۔ جو زندہ ہیں وہ ایک دن بڑے تو ہوں گے اور پھر بندوق اٹھا لیں گے۔ (ایضاً)

جس قوم میں یہ جذبات اور یہ عزائم ہوں انھیں کوئی شکست نہیںدے سکتا۔ ضرورت صحیح لیڈرشپ‘ صحیح اہداف کے تعین اور صحیح تیاری اور نقشۂ کار کے مطابق کارکردگی کی ہے۔

جن جذبات کا اظہار لبنان کے عام مسلمان ہی نہیں‘ سب مذاہب‘ مسلکوں اور قومیتوں کے لوگ کر رہے ہیں‘ وہی جذبات اور احساسات پوری دنیا کے مسلمانوں اور انصاف پسند انسانوں کے ہیں۔ اس آئینے میں عوام و خواص اور اسٹریٹ و اسٹیٹ کے درمیان جو بعدعظیم آج پایا جاتا ہے‘ اس کے ہر نقش و نگار کودیکھا جاسکتا ہے۔ استنبول کی سڑکیں ہوں یا قاہرہ کی گلیاں‘ لاہور کی   شاہ راہ ہو یا جدہ اور مدینہ کے راہ گزار‘ ہر جگہ عام آدمی کے جذبات و احساسات ایک ہیں۔ اور اس فرق کو کوئی نظرانداز نہیں کرسکتا جو آج حکمرانوں اور عوام کے درمیان پایاجاتا ہے۔

یہ آٹھ چہرے اس دور کی سب سے اہم آٹھ حقیقتوں کے مظہر ہیں اور مستقبل کے نقوش کو ان کی آنکھوں کی چمک اور چہرے کے رنگ میں دیکھا جاسکتا ہے۔

امریکی صھیونی عزائم

معرکۂ لبنان کے اس تناظر میں اب یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جولائی کی فوج کشی کے اصل مقاصد کیا تھے؟ ۱۴ اگست کی لرزتی کانپتی جنگ بندی کے بعد اسرائیل اور امریکا کے اہداف کیا ہیں اور معرکۂ لبنان کے نتیجے میں اور اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کے مطابق وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ ط وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔ الانفال ۸: ۳۰)‘  اُمت مسلمہ کے لیے نقشۂ راہ کیا ہے؟ ان تینوں بنیادی امور کے بارے میں ہم مختصراً اپنی معروضات پیش کرتے ہیں:

جہاں تک ۱۲ جولائی سے شروع ہونے والی چھٹی اسرائیلی جنگ کا تعلق ہے‘ اس کی وجہ کا رشتہ فلسطین میں ایک اور لبنان میں دو اسرائیلی قیدیوں سے جوڑنا محض دھوکا اور سیاسی شعبدہ گری کا حربہ ہے۔ سرحدی چھیڑچھاڑ‘ فائرنگ‘ میزائل کا استعمال‘ ہوائی حملے‘ اس علاقے میں زندگی کا معمول ہیں۔ اسرائیل کے قبضے میں فی الوقت ایک ہزار فلسطینی‘ ایک سو سے زائد لبنانی جن میں سے ۳۰ کا تعلق حزب اللہ کے کارکنوںسے ہے اور ۳۰ اُردن کے باشندے ہیں۔ ماضی میں کئی بار قیدیوں کا تبادلہ ہواہے اور یہ ایک معمول کی کارروائی ہے۔ اس کا کوئی تعلق جولائی کے حملے سے نہیں۔ اس حملے کی تیاری اسرائیل دو سال سے کر رہا تھا‘ گذشتہ سال باقاعدہ اس کے لیے مشقوں کا اہتمام بھی کیا جاچکا تھا اور گذشتہ دو مہینے میں صرف جنگی سازوسامان اور رسد کی ترسیل ہی نہیں‘ امریکا کے مکمل تعاون کے ساتھ جنگ کا پورا نقشہ تیار کرلیا گیا تھا اور پوری تیاری سے یہ حملہ فوجیوں کی گرفتاری کو بہانہ بناکر کیا گیا۔ اس سلسلے میں سارے حقائق امریکا میںاور اسرائیل میں سامنے آچکے ہیں۔

امریکی رسالے دی نیویارکر کے ۲۱ اگست کے شمارے میں مشہور امریکی صحافی اور مصنف سائمورہرش (Seymour Hersh)کا مفصل مضمون شائع ہواہے جس میں پورے منصوبے کی اور اس میں امریکا کے کردار کی تفصیلات شائع ہوگئی ہیں۔ یہ اسرائیلی حملہ امریکا کے ایما پر اور اس کی اس خواہش کی تکمیل میں انجام دیا گیا کہ حزب اللہ پر بطور پیش بندی کارروائی کی جائے۔ ہرش کے الفاظ ہیں: a preemptive blow against Hezbollah

اس کا ایک مقصد ایک اہم امریکی شریک راز کے الفاظ میں یہ تھا: ہم چاہتے تھے کہ  حزب اللہ کو ختم کریں‘ اب ہم دوسرے سے یہ کروا رہے ہیں‘ یعنی اسرائیل نے امریکا کے پروگرام کے تحت یہ حملہ کیا۔

اس سلسلے میں ایک بڑا اہم مضمون سان فرانسسکو کرانیکل میں ۲۱ جولائی کو حملے کے ۹ دن کے بعد شائع ہوا تھا جس میں اس چار نکاتی پروگرام کی پوری تفصیل دی گئی تھی جس میں اسرائیل نے امریکی قیادت کوا پنے منصوبے سے آگاہ کیا اور اس کی تائید اور تعاون حاصل کیا۔ امریکا کی بار اِلان (Bar-Ilan) یونی ورسٹی کے شعبۂ سیاسیات کے پروفیسر جیرالڈ سٹین برگ نے اس پوری تیاری اور منصوبے کو اس طرح پیش کیا ہے:

۱۹۴۸ء کے بعد اسرائیل نے جتنی بھی جنگیں لڑی ہیں‘ یہ ان میں سے وہ تھی جس کے لیے اس نے سب سے زیادہ تیاری کی تھی۔ ایک طرح سے ۲۰۰۰ء میں اسرائیلی فوجوں کی واپسی کے بعد سے ہی یہ تیاری شروع ہوگئی تھی۔

اس لیے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ یہ طے شدہ منصوبے کے مطابق اسرائیل کی چھٹی جنگ تھی اور اس کے متعین اہداف تھے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت سے خاک میں مل گئے۔ مگر ان کا سمجھنا ضروری ہے‘ نیز یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اس ناکامی کے باوجود اہداف نہیں بدلے ہیں اورجنگ بندی صرف تیاری اور نئی جنگ کے لیے صف بندی کا ایک وقفہ ہے‘ چین کا سانس لینے کی مہلت نہیں۔

اس وقت اسرائیل اور امریکا کا پہلا ہدف حزب اللہ کا خاتمہ‘ حسن نصراللہ کی شہادت اور لبنان کو ایک ایسی ریاست میں تبدیل کرنا تھا جو اسرائیل کی معاون بنے اور وہاں اسلامی قوتوں کے لیے زمین تنگ کردی جائے۔

حزب اللہ کے خاتمے کے ساتھ ہدف یہ بھی تھا کہ حزب اللہ کے مؤیدین کی حیثیت سے ایران اور شام پر لشکرکشی کی جائے۔ ایران پر اس کی ایٹمی صلاحیت کو تباہ کرنے کے لیے اور شام پر فلسطین کی تحریکات مزاحمت خصوصیت سے حماس اور اسلامی جہاد کی قیادت کو پناہ گاہ فراہم کرنے اور ان تحریکوں کی سیاسی مدد کرنے کے جرم میں۔ مصر اور اُردن کو قابو کرنے‘ عراق کو تباہ کرنے اور سول وار کی آگ میں جھونک دینے اور سعودی عرب اور خلیج کے ممالک کو عملاً ایک تابع مہمل بنالینے کے بعد اب ایران اور شام آنکھوں میں کانٹوں کی طرح کھٹک رہے تھے اور ساتھ ہی پاکستان اس سلسلے کا آخری ہدف ہے کہ یہ افغانستان پر امریکی قبضے کے باوجود ان کے خیال میں دہشت گردوں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔

ایک ترتیب سے اور شاید اسی ترتیب سے___ یعنی لبنان‘ایران‘ شام اور پاکستان___ نئی جنگی حکمت کی نقشہ بندی کی گئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ پہلی ہی منزل پر اسرائیل کو منہ کی  کھانی پڑی ہے اور امریکا کا پورا منصوبہ طشت ازبام ہوگیا ہے لیکن یہ سمجھنا کہ اسے ترک کردیا گیا ہے‘ ہمالہ سے بڑی غلطی ہوگی۔

جنگ بندی ایک عارضی عمل ہے اور اب بھی پوری کوشش کی جائے گی کہ حزب اللہ کو غیرمسلح کرنے اور لبنانی فوج جس کی اس وقت کیفیت یہ ہے کہ اس میں عیسائیوں اور دروزی عناصر کو اکثریت حاصل ہے اور مثبت پہلو صرف یہ ہے کہ اپنے اسلحے اور تربیت کے اعتبار سے وہ کوئی   بڑی قوت نہیں‘ لیکن منصوبہ یہی ہے کہ اسے اور اقوام متحدہ کی نام نہاد امن فوج کو حزب اللہ کے خلاف استعمال کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس‘ جرمنی اور اٹلی تک شاکی ہیں کہ اصل کھیل کیا ہے۔ پاکستان کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اصل نقشے کو سمجھ کر اپنی پالیسی بنائے اور اس جال میں کسی قیمت پر اور کسی شکل میں نہ پھنسے۔

مستقبل کے لیے اس نقشے میںجو توسیع کی گئی ہیں ان کو دو نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ پہلے یہ خیال تھا کہ جن ممالک میں امریکی اسرائیلی منصوبے کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے وہاں حکمرانوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن اب اس پر اضافہ یہ ہے کہ محض حکمرانوں کی تبدیلی سے دیرپا مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے اس لیے علاقوں کی حیثیت میں تبدیلی (change of region) کیا جائے یعنی عرب اور مسلم دنیا (بشمول پاکستان) کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم  کیا جائے جن کی نکیل بآسانی اپنے ہاتھ میں رکھی جائے۔ اس طرح اس حکمت عملی کا پہلا ستون حکمرانوں اور علاقوں کی تبدیلی ہے۔

اس کا دوسرا اور اہم ترین ستون اسلام کی تعمیرنو ہے جس کے نتیجے میں جہاد کے تصور کو نکال دیا جائے‘ اور اسلام کے سیاسی کردار کو ختم کردیا جائے۔ روشن خیال اور اعتدال پسندی کے نام پر‘ صوفیانہ اسلام کا ایک ایسا اڈیشن تیار کیا جائے کہ ظلم اور استبداد کی قوتوں کے خلاف مزاحمت کی جو عالمی تحریک اسلام کے زیراثر رونما ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی‘ اس کا دروازہ بند کردیا جائے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔

معرکۂ لبنان  کی اصل اہمیت یہ ہے کہ اس نے امریکی اسرائیلی منصوبے پر اس پہلے مرحلے ہی میں بند باندھ دیا ہے۔ منصوبہ بھی کھل کر سامنے آگیا ہے اور اس کے مقابلے کا راستہ بھی کسی ابہام کے بغیر اُمت کے سامنے ہے‘ اور دشمن کو بھی اس کا پورا ادراک ہے۔

مقابلے کی حکمت عملی

اگر یہ نقشۂ جنگ ہے تو پھر مقابلے کی حکمت عملی کیا ہونا چاہیے؟ جیساکہ ہم نے عرض کیا معرکۂ لبنان میں اس کے تمام خدوخال دیکھے جاسکتے ہیں۔ ہم صرف ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

پہلی ضرورت رجوع الی اللہ کی ہے۔ مسلمان کی طاقت کا منبع اللہ کی ذات‘ ایمان کی قوت اور اخلاق و کردار کا ہتھیار‘ جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت ہے۔

دوسری بنیادی چیز اپنے اہداف اور مقاصد کا صحیح شعور اور دشمن کے اہداف اور مقاصد کا پورا ادراک ہے۔ یہ مقابلہ حقائق کے میدان میں ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ رب سے رشتہ کے ساتھ دنیاوی اعتبار سے جو نقشۂ جنگ ہے اس کا پوراشعور اور لوہے کولوہے سے کاٹنے کی حکمت عملی پر عمل ہے۔

تیسری چیز یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مسلمانوں کی قوت کا ایک بڑا سرچشمہ ان کا اتحاد ہے اور دشمن کی چالوں میں سب سے شاطرانہ چال اُمت کو قومیتوں‘ فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کرکے فاسد بنیادوں پر انھیں ٹکڑے ٹکڑے کردینا ہے۔ معرکۂ لبنان میں جس طرح شیعہ سنی مسئلے کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی‘ عراق میں جس طرح یہی خونی کھیل کھیلا جارہا ہے‘ پاکستان اور افغانستان میں جس طرح اسی حربے کو استعمال کیا جا رہا ہے‘ وہ ایک کھلی کتاب ہے۔ لیکن معرکۂ لبنان ہی کا یہ درس بھی ہے کہ معرکہ اُمت مسلمہ اور اسرائیل کے درمیان ہے‘ شیعہ سنی مسئلہ نہیں۔ یہ سارا امریکی منصوبہ ہے کہ عرب دنیا کی سنی قیادتوں کو شیعہ ہوّا دکھا کر شیعہ سنی تنازع کو ہوا دی جائے‘ ایک جنگی چال ہے جسے اُمت اور اس کی قیادتوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔

چوتھی بنیادی چیز جذباتیت سے بالا ہوکر دشمن کے مقابلے کی مؤثر صلاحیت پیدا کرنے اور صحیح منصوبہ بندی اور مقابلے کی حکمت عملی کے تحت دشمن کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔ حزب اللہ نے صرف اللہ ہی سے رشتہ نہیں جوڑا‘ اپنے عوام سے بھی قریب ترین تعلق استوار کیا‘ ان کے اعتماد کو حاصل کیا اور انھیں یہ یقین دلایا کہ وہ ان کے خادم اور محافظ ہیں اور صادق اور امین ہیں۔ ساتھ ہی وسائل کی کمی اور شدید ترین عدمِ مساوات کے باوجود‘ اپنے وسائل کے دائرے میںایسی متبادل تیاری کی جو ایف-۱۶ اور جدید ترین ٹینکوں کے نہ ہونے کے باوجود دشمن پر کاری ضرب لگانے اور ان کی فنی ٹکنالوجی کی برتری کو غیرمؤثر کرنے کا ذریعہ بن سکی۔ حزب اللہ نے اسرائیل کے      ہیلی کاپٹروں‘ ٹینکوں‘ بحری جنگی جہازوں کو ناکارہ بنا دیا‘ اور گوریلا جنگ کے ذریعے اسرائیل کی  اعلیٰ جنگی مشینری کو غیرمؤثر بنا دیا۔ ٹکنالوجی ہمارے لیے بھی ضروری ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ مخالف کے پاس جو کچھ ہے‘ وہ ہمارے پاس بھی ہو۔ ہاں ہمارے پاس اس کا توڑ ضرور ہونا چاہیے۔ بس یہی وہ نکتہ ہے جو معرکۂ لبنان میں بہت کھل کر سامنے آگیا ہے اور قوت اور وسائل کے   شدید عدمِ تفاوت کے باوجود دشمن کو زیر کرنے کا راستہ صاف نظر آرہا ہے۔

ان نکات کی روشنی میں سب سے اہم چیز اللہ سے رجوع کے ساتھ مقابلے کی تیاری اور اس کے لیے مسلم ممالک کے اندرونی نظام کی اصلاح کو اوّلیت دینا ضروری ہے تاکہ اُمت کے وسائل اُمت کے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال ہوسکیں اور ان پر وہ قابض نہ رہیں جن کے سامنے صرف اپنی ذات کا نفع اور اپنے وسائل کو دوسروں بلکہ دشمنوں کی خدمت میں دے دینا ہو۔

کتنے افسوس کی بات ہے کہ جس وقت لبنان کی تباہی اور بارہ سو جانوں کی ہلاکت کے ساتھ‘ جس کی کوئی قیمت نہیں ہوسکتی‘ مادی اعتبار سے ۴۰ سے ۵۰ بلین ڈالر کا اندازہ دیا جا رہا ہے سعودی عرب برطانیہ سے دسیوں ارب ڈالر کے عوض وہ جنگی جہاز (ہوائی) کا سودا کر رہا ہے جن کا کوئی تعلق عرب ملکوں یا اسلامی دنیا کے دفاع سے نہیں ہوگا جس طرح ماضی کی ایسی تمام خریداریوں کا رہا ہے۔ خود پاکستان ۵ ارب ڈالر کے عوض ایف-۱۶ حاصل کرنے کے لیے بے چین ہے جن کا کنٹرول امریکا کے ہاتھوں میں ہوگا اور امریکا کی اجازت کے بغیر ان کو پاکستان کی حدود میں بھی حرکت میں نہیں لایا جا سکے گا۔ ان حالات کا ایک ہی تقاضا ہے کہ مسلم دنیا کے سیاسی نظام کو اُمت کی بالادستی میں لایا جائے۔ ان حکمرانوںسے نجات پائی جائے جو استعماری قوتوں کے آلہ کار ہیں اور اُمت کے وسائل میں خیانت ہی نہیں کر رہے‘ انھیں دشمن کے مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اگر حزب اللہ کو لبنان کی سیاست میں وہ حیثیت حاصل نہ ہوتی جن کی بنا پر وہ اتنا کلیدی کردار ادا کر سکی ہے تو لبنان کا معرکہ بھی تباہی کی ایک اور داستان بن جاتا لیکن اللہ سے تعلق‘ جہاد سے وفاداری‘ عوام سے رشتہ‘ مناسب تیاری اور اس کے ساتھ مؤثر سیاسی حکمت عملی نے معرکۂ لبنان کو تاریکیوں میں روشنی کی ایک تابناک کرن بنا دیا ہے___ اور یہی وہ روشنی ہے جو ہمارے مستقبل کو تابناک کرسکتی ہے۔

تقویٰ ہے کیا چیز؟ تقویٰ حقیقت میں کسی وضع و ہیئت اور کسی خاص طرزِ معاشرت کا نام نہیں ہے بلکہ دراصل وہ نفس کی اس کیفیت کا نام ہے جو خدا ترسی اور احساس ذمہ داری سے پیدا ہوتی ہے اور زندگی کے ہر پہلو میں ظہور کرتی ہے۔

حقیقی تقویٰ یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کا خوف ہو‘ عبدیت کا شعور ہو‘ خدا کے سامنے اپنی ذمّہ داری و جواب دہی کا احساس ہو‘ اور اس بات کا زندہ ادراک موجود ہو کہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے جہاں خدا نے ایک مہلتِ عمر دے کر مجھے بھیجا ہے اور آخرت میں میرے مستقبل کا فیصلہ بالکل اس چیز پر منحصر ہے کہ میں اس دیے ہوئے وقت کے اندر اس امتحان گاہ میں اپنی قوتوں اور قابلیتوں کو کس طرح استعمال کرتا ہوں۔ اس سروسامان میں کس طرح تصرف کرتا ہوں جو مشیت الٰہی کے تحت مجھے دیا گیا ہے‘ اور ان انسانوںکے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہوں جن سے قضاے الٰہی نے مختلف حیثیتوں سے میری زندگی متعلق کر دی ہے۔

یہ احساس وشعور جس شخص کے اندر پیدا ہوجائے‘اس کا ضمیر بیدار ہوجاتا ہے‘ اس کی   دینی حس تیز ہوجاتی ہے‘ اس کو ہر وہ چیز کھٹکنے لگتی ہے جو خدا کی رضا کے خلاف ہو۔ اُس کے مذاق کو ہر وہ شے ناگوار ہونے لگتی ہے جو خدا کی پسند سے مختلف ہو۔ وہ اپنے نفس کا آپ جائزہ لینے لگتا ہے کہ میرے اندر کس قسم کے رجحانات و میلانات پرورش پا رہے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کا خود محاسبہ کرنے لگتا ہے کہ میں کن کاموں میں اپنا وقت اور اپنی قوتیں صرف کر رہا ہوں۔ وہ صریح ممنوعات کو تو درکنار‘ مشتبہ امور میں بھی مبتلا ہوتے ہوئے خود بخود جھجکنے لگتا ہے۔ اس کا احساسِ فرض اسے مجبور کردیتا ہے کہ تمام اوامر کو پوری فرماں برداری کے ساتھ بجا لائے۔ اس کی خدا ترسی ہر اس موقع پر اس کے قدم میں لرزش پیدا کردیتی ہے جہاں حدود اللہ سے تجاوز کا اندیشہ ہو۔ حقوق اللہ اور   حقوق العباد کی نگہداشت آپ سے آپ اس کا وتیرہ بن جاتی ہے اور اس خیال سے بھی اس کا ضمیر کانپ اُٹھتا ہے کہ کہیں اس سے کوئی بات حق کے خلاف سرزد نہ ہوجائے۔

یہ کیفیت کسی ایک شکل یا کسی مخصوص دائرۂ عمل میں ہی ظاہر نہیں ہوتی بلکہ آدمی کے پورے طرزِفکر اور اس کے تمام کارنامۂ زندگی میں اس کا ظہور ہوتا ہے اور اس کے اثر سے ایک ایسی   ہموار و یک رنگ سیرت پیدا ہوتی ہے جس میں آپ ہر پہلو سے ایک ہی طرز کی پاکیزگی و صفائی پائیں گے۔ بخلاف اس کے جہاں تقویٰ اس چیز کا نام رکھ لیا گیا ہے کہ آدمی چند مخصوص شکلوں کی پابندی اور مخصوص طریقوں کی پیروی اختیار کرلے اور مصنوعی طور پر اپنے آپ کو ایک ایسے سانچے میں ڈھال لے جس کی پیمایش کی جاسکتی ہو‘وہاں آپ دیکھیں گے کہ وہ چند اشکالِ تقویٰ جو   سکھادی گئی ہیں‘ ان کی پابندی انتہائی اہتمام کے ساتھ ہو رہی ہے مگر اس کے ساتھ زندگی کے     دوسرے پہلوئوں میں وہ اخلاق‘ وہ طرزِ فکر اور وہ طرزِعمل بھی ظاہر ہورہے ہیں جو مقامِ تقویٰ تو درکنار‘ ایمان کے ابتدائی مقتضیات سے بھی مناسبت نہیں رکھتے‘ یعنی حضرت مسیحؑ کی تمثیلی زبان میں   مچھر چھانے جارہے ہیں اور اُونٹ بے تکلفی کے ساتھ نگلے جارہے ہیں…

میری ان باتوں کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وضع قطع‘ لباس اور معاشرت کے ظاہری پہلوئوں کے متعلق جو آداب و احکام حدیث سے ثابت ہیں‘ میں ان کا استحفاف کرنا چاہتا ہوں‘ یا انھیں غیرضروری قرار دیتا ہوں۔ خدا کی پناہ اس سے کہ میرے دل میں ایسا کوئی خیال ہو۔  دراصل جو کچھ میںآپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اصل شے حقیقت ِتقویٰ ہے نہ کہ یہ مظاہر…

پہلی چیز دیر طلب اور صبرآزما ہے‘ بتدریج نشوونما پاتی اور ایک مدّت کے بعد برگ و بار لاتی ہے‘ جس طرح بیج سے درخت کے پیدا ہونے اور پھل پھول لانے میں کافی دیر لگا کرتی ہے۔ اسی لیے سطحی مزاج کے لوگ اس سے اُپراتے ہیں۔ بخلاف اس کے دوسری چیز جلدی اور آسانی سے پیدا کرلی جاتی ہے‘ جیسے ایک لکڑی میں پتے اور پھل اور پھول باندھ کر درخت کی سی شکل بنا دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ تقویٰ کی پیداوار کا یہی ڈھنگ آج مقبول ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ جو توقعات ایک فطری درخت سے پوری ہوتی ہیں‘ وہ اس قسم کے مصنوعی درختوں سے کبھی پوری نہیں ہوسکتیں۔ (روداد جماعت اسلامی‘ سوم‘ ص ۲۴۳-۲۴۸)

مولانا صدرالدین اصلاحیؒ کا نام تحریک اقامت دین سے وابستہ افراد اور قرآن کے طالب علموں کے لیے جانا پہچانا نام ہے۔ آپ کی سورۃ الفاتحہ اور البقرہ کی تفسیر تیسیرالقرآن کے نام سے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز‘ دہلی نے شائع کی ہے۔ اس کی پہلی قسط ستمبر ۱۹۵۰ء کے  ماہنامہ زندگی رام پور میں اور آخری قسط ستمبر ۱۹۵۳ء کے شمارے میں شائع ہوئی ‘اور اب ۵۳ برس بعد ان کے صاحبزادے رضوان احمد فلاحی نے نہایت محنت سے آیات و احادیث کے حوالے فراہم کیے ہیں اور مصنف کی دیگر کتب سے بھی وضاحتیں ضمیموں کی شکل میں جمع کر دی ہیں۔ اب یہ کتاب ایک جدید طرز کی کتاب ہوگئی ہے۔ مولانا جلال الدین عمری نے اس پر ایک طویل مقدمہ لکھا ہے۔ ہم اس کا ایک حصہ شائع  کر رہے ہیں جس سے اس تفسیر کے نمایاں پہلو سامنے آتے ہیں۔ (ادارہ)

مولانا فراھیؒ کا طریقِ تفسیر

دورِ حاضر میں علامہ حمید الدین فراہیؒ کو علوم قرآن میں امامت کا مقام حاصل تھا۔ انھوں نے تفسیر قرآن کی نئی راہیں نکالیں اور قرآن مجید کو اصلاً قرآن ہی سے سمجھنے کی غیر معمولی کوشش کی۔ دیگر ذرائعِ تفسیر کو معاون ذرائع کی حیثیت دی اور اسی حیثیت سے ان سے فائدہ اٹھایا۔ انھوں نے قرآن مجید کے نظم کو صرف ایک اصول کے طور پر ہی تسلیم نہیں کیا بلکہ اسے بہت ہی قوی دلائل   سے ثابت کیا۔ ان کے نزدیک قرآن مجید کی ہر سورت کا ایک مرکزی موضوع ہے جس سے       پوری سورت کے مضامین مربوط ہیں۔ پھر ان سورتوں کے درمیان بھی ربط ہے۔ اس ربط نے پورے قرآن کو از اول تا آخر ایک مسلسل کلام کی حیثیت دے دی ہے۔

فکر فراھی کی ترجمانی

مولانا صدر الدین اصلاحیؒ، فراہی اسکول کے ایک نمایاں فرد ہیں۔ انھوں نے تیسیر القرآن میں مولانا فراہیؒ کے طریقۂ تفسیر کی پابندی کی ہے اور انھی کے وضع کردہ خطوط پر اسے مرتب کیا ہے۔ مولانا صدر الدین اصلاحیؒ کی تصنیفات کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے سامنے مولانا فراہیؒ کی اس وقت تک کی تمام مطبوعہ تحریریں رہی ہیں اور غیر مطبوعہ مواد سے واقفیت کے بھی انھیں مواقع ملتے رہے ہیں اور انھوں نے اس سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ مولانا نے اپنے مقدمے میں استاذ الاساتذہ علامہ حمید الدین فراہیؒ کا بڑے ہی احترام سے ذکر کیا ہے اور ترجمہ و تفسیر میں جو نئے نکات بیان ہوئے ہیں انھیں ان کا بالواسطہ فیض قرار دیا ہے۔

فراھی اسکول کی پھلی تفسیر

علامہ حمید الدین فراہیؒ کی دو ایک تحریروں کے علاوہ تمام تصنیفات عربی زبان میں ہیں۔ ان میں سے بعض رسائل کا ترجمہ مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے قلم سے بہت پہلے شائع ہوچکا تھا۔ ان میں آخری پاروں کی بعض چھوٹی سورتوں کے ترجمے بھی شامل ہیں۔ مولانا فراہیؒ کے تلامذہ بھی اپنے مقالات اور مضامین میں ان کے خیالات کی ترجمانی کرتے رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود اردو داں طبقے میں مولانا فراہی کے خیالات عام نہیں ہوسکے تھے۔ تیسیر القرآن مولانا فراہی کے نہج پر لکھی گئی پہلی اردو تفسیر ہے۔ اس کے ذریعے کم از کم سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی حد تک مولانا فراہیؒ کے خیالات کا باقاعدہ تعارف ہوا۔ اس میں شک نہیں کہ مولانا امین احسن کی تفسیر تدبر قرآن میں مولانا فراہیؒ کے خیالات زیادہ تفصیل سے پیش ہوئے ہیں اور وہ قرآن مجید کی مکمل تفسیر ہے۔    یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تدبر قرآن کے ذریعے ایک بڑے حلقے میں اس نہج پر باقاعدہ غوروفکر کا آغاز ہوا، مولانا فراہی کی غیر مطبوعہ تحریریں سامنے آئیں اور ان کے تراجم اور خلاصے شائع ہوئے، لیکن مولانا صدر الدین اس سے بہت پہلے باقاعدہ تفسیر کا آغاز کرچکے تھے۔ اس لحاظ سے     اسے شرف تقدم حاصل ہے۔ تدبر قرآن اور تیسیر القرآن میں بعض نکات مشترک بھی ملیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مولانا فراہی کی تحقیقات پر مبنی ہیں اور دونوں ہی بزرگوں نے ان سے استفادہ کیا ہے۔

مولانا مودودیؒ سے استفادہ

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اسلام کا وسیع اور جامع تصور پیش کیا۔ غیر اسلامی     افکار و نظریات کی کم زوری واضح کی اور اسلام کو دین حق ثابت کرنے کی بڑی مؤثر کوشش کی۔  مولانا مودودیؒ کو اللہ تعالیٰ نے منطقی ذہن، استدلالی قوت اور جان دار قلم عطا کیا تھا۔ انھوں نے وقت کے نمایاں مسائل سے تعرض کیا اور اسلامی فکر کو دلائل کے ساتھ پیش کیا۔ مولانا مودودیؒ کا فکر ان کی تفسیر تفہیم القرآن میں سمٹ آیا ہے۔ وہ اپنی بعض ممتاز خصوصیات کی وجہ سے اس دور کی اُردو زبان میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی تفسیر ہے۔ اس کا ترجمہ بھی متعدد زبانوں میں ہوچکا ہے۔

مولانا صدر الدین اصلاحی کو مولانا مودودیؒ کی رفاقت حاصل رہی، انھوں نے مولانا کی وسیع فکر ہی کو نہیں اپنایا بلکہ ۲۶ اگست ۱۹۴۱ء کو مولانا مودودیؒ کی قیادت میں جماعت اسلامی کی تشکیل ہوئی تو انھوں نے آگے بڑھ کر اس کا ساتھ دیا۔ ان کا شمار جماعت کے بالکل ابتدائی ارکان میں ہوتا ہے۔ تقسیم ملک کے بعد وہ جماعت اسلامی ہند کے ایک ممتاز فکری رہنما کی حیثیت سے متعارف تھے۔ انھوں نے تفہیم القرآن سے اپنی تفسیر تیسیر القرآن میں بھرپور استفادہ کیا ہے۔ اس طرح تیسیر القرآن میں فکرِ فراہی اور فکر مودودیؒ کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ مولانا صدر الدین نے بعض مسائل کی وضاحت کے لیے تفہیم القرآن کے الفاظ مستعار لیے ہیں۔

مولانا صدر الدین مرحوم نے تفہیم القرآن کے طویل اقتباسات بھی اپنی تفسیر میں لیے ہیں،ان میں تھوڑی بہت ترمیم بھی کی ہے اور کہیں صرف چند جملے اخذ کیے ہیں۔ ان کی کل تعداد  ۳۲ ہے اور یہ تیسیر القرآن کے زیادہ سے زیادہ  ۱۰،۱۲ صفحات پر مشتمل ہوں گے، لیکن مولانا نے جس فراخ دلی سے اپنے مقدمے میں اس کا اعتراف کیا ہے وہ ان کی عظمت کی دلیل ہے۔

تیسیر القرآن کا اسلوب

۱- مولانا صدر الدین اصلاحیؒ جب تفسیر لکھ رہے تھے تو ان کے پیشِ نظر غیرمسلموں کی اکثریت بھی تھی۔ اس لیے انھوں نے، جیسا کہ خود صراحت کی ہے، بہت سے ان مباحث سے گریز کیا ہے، جو عام طور پر تفسیر کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ ان مباحث سے کسی ایسے شخص کو تو دل چسپی ہوسکتی ہے جو قرآن پر ایمان رکھتا ہو، لیکن ایک غیر مسلم کے لیے ان کی کوئی خاص اہمیت نہ ہوگی اور وہ اس کے لیے دل چسپی کا باعث نہ ہوں گے۔

۲- مولانا کاقلم بڑا ہی شائستہ اور مہذب ہے۔ کہیں بھی ثقاہت اور سنجیدگی کے منافی کوئی تعبیر بلکہ کوئی لفظ نہیں ملتا۔ ساتھ ہی ان کے ہاں زبان و بیان کا حسن اور شگفتگی پائی جاتی ہے۔ انھوں نے قرآن کے منشا اور مقصد کو صاف ستھرے اور واضح الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں وہ کامیاب ہیں۔مولانا صدر الدین کے سامنے قرآن مجید کے تراجم رہے ہوں گے، ان سے فائدہ بھی اٹھایا ہوگا، لیکن انھوں نے جو ترجمہ کیا ہے اس میں قرآن کے الفاظ کی پوری پوری رعایت بھی ہے اور مفہوم کی وضاحت بھی بخوبی ہو رہی ہے۔ اس طرح اس میں ایک انفرادیت پائی جاتی ہے۔ اس مضمون میں آیات کے ترجمے تیسیر القرآن ہی سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اس سے ترجمے کے حسن و خوبی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

۳- مولانا کے نزدیک نظم قرآن کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ انھوں نے آیات کے ترجمے میں اس کی پوری رعایت کی ہے۔ ترجمے کا مطالعہ کرتے وقت یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم ایک مربوط اور مسلسل مضمون کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ کہیں کوئی نیا مضمون شروع ہوتا ہے یا سابقہ مضمون اور بعد کے مضمون میں بہ ظاہر خلا نظر آتا ہے تو توضیحی کلمات اور حواشی کے ذریعے ربط کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کی ایک عمدہ مثال سورۂ بقرہ کی آیت (۱۷۸) کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُکا حاشیہ ہے۔

اس آیت کے مطالعے سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اچانک قصاص کے احکام بیان ہونے لگے ہیں۔ سابقہ مباحث سے ان کا کوئی ربط و تعلق نہیں ہے۔ مولانا نے تفصیل سے بتایا ہے کہ اس کا تعلق پوری سورت کے مضمون سے ہے اور اس میں ایک معنوی ترتیب ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے خانۂ کعبہ کی تعمیر کے وقت اپنی ذریت میں ایک ایسے پیغمبر کی بعثت کی دعا کی تھی، جو انھیں اس کی آیات پڑھ کر سنائے، اس کے احکام کی تعلیم دے، حکمتِ دین سمجھائے اور ان کا تزکیہ کرے۔ اس دعا کے عین مطابق رسولؐ اللہ کی بعثت ہوئی۔ اس سورت کے مضامین کی ترتیب بھی وہی ہے جو حضرت ابراہیمؑ کی دعا میں ہے۔ ’’اس آیت سے پہلے جو کچھ گزر چکا ہے وہ آیات کی تلاوت کا باب تھا، یعنی اس میں توحید اور قیامت اور رسالت کے بنیادی مسائلِ دینی پر دلیلیں دی گئی ہیں اور اب تعلیمِ احکام کا باب شروع ہو رہا ہے۔ حاشیہ (۳۱۳)

۴-  مولانا نے سورۂ بقرہ کا مرکزی موضوع اثبات رسالت محمدی قرار دیا ہے اور سورہ کے تمام مضامین کو اس سے مربوط دکھایا ہے۔

۵-  مولانا نے اپنے مدعا کی وضاحت کے لیے حسبِ ضرورت قرآن کی آیات اور احادیث سے استشہاد کیا ہے، لیکن بالعموم وہ ان کے اصل الفاظ نقل نہیں کرتے، صرف ترجمہ یا ان کا مفہوم پیش کرتے ہیں۔

۶-  مولانا نے کتبِ تفسیر میں سے کسی مفسر اور محقق کا حوالہ نہیں دیا ہے۔ اسی طرح قرآن کے الفاظ و اصطلاحات کی تحقیق بھی کتب لغت کے حوالے سے پیش نہیں کی ہے۔ اس لیے کہ پیش نظر مقصد کے لیے یہ کچھ زیادہ سود مند نہ تھی، البتہ کہیں کہیں مفسرین کی مختلف آرا کا ذکر کیا ہے۔ ذیل میں اس کی مثالیں دی جا رہی ہیں:

۱-  سورۂ بقرہ کی آیت (۷۳) میں ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص کا قتل ہوا۔ قاتل کا پتا نہیں چل رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا:

فَقُلْنَا اضْرِبُوْہُ بِبَعْضِھَا ط کَذٰلِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتٰی وَ یُـرِیْکُمْ اٰیٰتِـــہٖ لَعَلَّــکُمْ تَعْقِلُوْنَ o (البقرہ ۲:۷۳)ہم نے حکم دیا کہ اس کو اس کے ایک حصہ سے ضرب لگاؤ۔ (دیکھو) یوں اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کر دیتا ہے اور تمھیں اپنی نشانیاں دکھاتا رہتا ہے تاکہ تم سمجھو۔

مولانا فرماتے ہیں: اس مجمل جملے کی تفصیل کافی دشوار ہے، البتہ اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ جس گائے کے ذبح کرنے کا اوپر ذکر آیا ہے یہاں اسی کا ذکر ہے۔ وہ اسی حادثے کے سلسلے میں ذبح کرائی گئی تھی۔ اس کے ایک ٹکڑے سے مقتول کو ضرب لگانے کا حکم تھا۔ اس سے تھوڑی دیر کے لیے مردہ میں جان آگئی اور اس نے اپنے قاتل کا نام بتا دیا۔ حاشیہ (۱۳۳)

۲-  ہاروت و ماروت کے ذیل میں ارشاد ہے:

وَمَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَ ماَرُوْتَ ط وَمـَــا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوْلاَ اِنَّمــَـا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلاَ تَکْفُرْ ط فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْھُمـــَا مَا یَفَرِّقُوْنَ بِــہٖ بَیْنَ الْمَـــرْئِ وَ زَوْجِــــہٖ ط (البقرہ ۲:۱۰۲) نیز اس چیز کی پیروی میں (منہمک ہوگئے) جو بابل میں ہاروت و ماروت نامی دو فرشتوں پر نازل کی گئی تھی۔ (ان فرشتوں کا حال یہ تھا کہ) جب بھی کسی کو اپنا یہ فن سکھلاتے تو پہلے سے اس کو متنبہ کردیتے کہ ’’دیکھو! ہم تو آزمایش ہیں سو تم ہمارا (یہ آزمایشی فن سیکھ کر ہرگز) کفر کی راہ نہ اختیار کرنا‘‘ (مگر اس تنبیہہ کے باوجود یہ کج فطرت لوگ) ان سے وہ چیز سیکھتے رہے جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈالنے لگے۔

ہاروت و ماروت کو جو علم دیا گیا تھا مولانا نے ترجمہ و تشریح کے ذریعے اس کو تفصیل سے واضح کیا ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں : ہمارے اکثر مفسرینِ قرآن نے اس علم کو بھی جو ان دونوں فرشتوں کے ذریعے بنی اسرائیل کو سکھایا گیا تھا، جادو ہی کا علم قرار دیا ہے۔ مگر یہ بات متعدد وجوہ سے صحیح نہیں۔ ایک تو یہ کہ واو عطف کے ذریعے دو الگ الگ چیزیں بیان کی گئی ہیں۔ دوسرے یہ کہ جادوگری کی وبا تو یوں ہی ان میں پھیلی ہوئی تھی، پھر اس جدید اہتمام کی کیا حاجت تھی؟ تیسرے فرشتوں کو ایک کارِ حرام کے لیے بھیجا جانا کچھ غیر مناسب سی بات ہے۔ چوتھے فتنے کا اصل مفہوم جس کی توضیح ہم اوپر کرچکے ہیں، کسی طرح جادو اور شعبدے کی تاویل کو قبول نہیں کرتا۔ حاشیہ(۱۷۸)

۳- حج کے سلسلے میں ایک ہدایت یہ کی گئی ہے:

فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ ج وَلاَ تَحْلِقُوْا رُئُ وْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْھَدْیُ مَحِلَّہٗ ط (البقرہ۲:۱۹۶)  لیکن اگر (کہیں راستے ہی میں) گھِرجاؤ تو جو قربانی کا جانور میسر آئے (اللہ کی جناب میں پیش کرو) اور (اس وقت تک) اپنے سروں کو نہ منڈواؤ جب تک کہ وہ جانور اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔

اس کے ذیل میں مولانا فرماتے ہیں: جگہ سے مراد بعض علما کے نزدیک کعبہ کے ارد گرد کی وہ زمین ہے جہاں حج میں قربانیاں کی جاتی ہیں، اور بعض کے خیال میں یہ وہی جگہ ہے جہاں آدمی گھِر گیا ہو۔ پہلا خیال زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ورنہ ’’پہنچنے‘‘ کا لفظ کیوں استعمال کیا جاتا۔ اب جو جانور اسے میسر آیا ہو خواہ اونٹ یا گائے یا بھیڑیا بکری، اس کو کعبہ تک بھیجنے کی شکل یہ ہوگی کہ کسی جانے والے کے ہم راہ کردے یا اس کو قیمت دے کر کہہ دے کہ وہاں پہنچ کر جانور خرید لینا اور میری طرف سے ذبح کر دینا۔ ذبح کرنے کا وقت بھی بتا دے اور جب یہ وقت آجائے تو سرمنڈا کر احرام کھول لے۔ اب آیندہ سال اس حج کو، جس کی نیت کی تھی مگر موانع کی وجہ سے ادا نہ کرسکا، ازسرنو ادا کرے۔ حاشیہ (۳۷۰)

علمی مباحث

تیسیر القرآن میں جگہ جگہ بڑے قیمتی مباحث اور خوب صورت تشریحات ملتی ہیں:

۱-  تفسیر کے شروع ہی میں ’اللہ‘ کا تعارف ان الفاظ میں کرایا گیا ہے: ’اللہ‘ اسم ذات ہے اس ہستی کا جو تمام کائنات کی پیدا کرنے والی‘ دیکھ بھال کرنے والی اور براہ راست سب پر فرماں روائی کرنے والی ہے۔ وہ ہر کمال سے متصف اور ہر جمال کا سرچشمہ ہے۔ وہ اپنی صفات میں یکتا اور بے مثل ہے۔ اس کو کسی چیز سے، کسی حیثیت سے بھی تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔ وہ نہ تو جسم رکھتا ہے، نہ کوئی جسمانی قالب اختیار کرتا ہے، نہ کوئی چیز اس سے، یا وہ کسی چیز سے متحد ہوتا ہے۔ وہ ہر جگہ موجود، ہر شے سے واقف، ہر امر پر قادر ہے۔ ذرے سے لے کر آفتاب تک، ہر چھوٹی بڑی چیز اسی کی، اور صرف اسی کی محکوم ہے اور سب اس کے سامنے یکساں طور پر عاجز اور بے بس ہیں۔ حاشیہ(۱)

اس کی مزید وضاحت ایک اور جگہ ہمیں ملتی ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیت (۱۳۳) میں کہا گیا ہے کہ حضرت یعقوبؑ نے انتقال کے وقت اپنی اولاد سے سوال کیا مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْم بَعْدِیْ؟ اس کے جواب میں ان کی اولاد نے کہا: نَعْبُدُ اِلٰھَکَ وَ اِلٰـہَ آبَائِکَ ’’ہم آپ کے اور آپ کے بزرگوں کے معبود کی بندگی کریں گے‘‘۔

مولانا نے ’الٰہ‘ کا پورا مفہوم، ان الفاظ میں بیان کیا ہے:وہ جس کے آگے جھکا جائے، جس کی پرستش کی جائے، جس سے دعائیں مانگی جائیں، جس سے حاجتیں طلب کی جائیں، جس کی پناہ ڈھونڈی جائے، جسے نفع اور نقصان کا مالک سمجھا جائے اور جو اپنے بالاتر اقتدار کی بنا پر اس کا مستحق ہو کہ انسان اس کی بندگی و اطاعت کرے اور اس کے آگے اپنا عجز و نیاز پیش کرے۔ حاشیہ (۲۳۱)

۲- ابلیس نے حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ (البقرہ۲:۳۴)

مولانا فرماتے ہیں: ابلیس کے معنی ہیں انتہائی مایوس۔ آگے چل کر فرماتے ہیں: اس کا دوسرا نام شیطان بھی ہے، جس کے لفظی معنی ہیں ’ہلاک و نابود ہونے والا‘ یا ’دور ہونے والا‘۔

شیطان کے بارے میں ایک غلط خیال یہ ہے کہ اس کا کوئی متعین وجود یا شخصیت نہیں ہے بلکہ وہ انسان کے اندر پائی جانے والی سرکش قوتوں کا نام ہے۔ مولانا کے نزدیک شیطان اور ابلیس کے الفاظ ہی اس غلط خیال کی تردید کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں:ان الفاظ کے بعد غالباً یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ابلیس یا شیطان محض کسی مجرد قوت کا نام ہے بلکہ ایک ایسی ہستی ہے جو اپنی مستقل شخصیت رکھتی ہے۔ حاشیہ(۵۳)

ابلیس کا حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار واضح ہے۔ مولانا فرماتے ہیں: ابلیس کے اس واقعے سے اسلام کے تصور توحید کے متعلق ایک بڑی اہم حقیقت روشنی میں آتی ہے۔ عموماً لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا اور اس کے سوا کسی کو سجدہ نہ کرنا ہی توحید کا کل مفہوم ہے۔ لیکن اگر ایسا ہوتا تو ابلیس سے بڑا موحد کون ہوسکتا تھا کہ فرمانِ خداوندی کے بعد بھی اس نے غیر اللہ کو سجدہ نہ کیا۔ مگر ہمیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اسی ’موحدانہ‘ کارنامے پر فاسق اور کافر قرار دے دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے تشریعی احکام کی اطاعت بھی جزوِ توحید ہے۔ اگر عقل کی نگاہ سے دیکھا جائے تو اس کا بدیہی فیصلہ بھی یہی ہوگا۔ حاشیہ( ۵۳)

۳- اللہ تعالیٰ نے سینا کے چٹیل میدان میں بنی اسرائیل پر بدلیوں کا سایہ کیا اور  من و سلویٰ اتارا۔ (البقرہ۲:۵۷)

اس پر بحث کے ذیل میں مولانا نے اللہ کی رحمت کے ایک خاص پہلو کی طرف توجہ دلائی ہے جو بالعموم نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے۔ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے سورۂ ذاریات میں فرمایا ہے کہ انسان کا کام میری بندگی کرنا ہے اور اس کی روزی فراہم کرنے کا بار مجھ پر ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی افکار کا مرکز اللہ کی بندگی اور رضا جوئی ہونی چاہیے نہ کہ معاشی ضروریات و مادی ذرائع کی فراہمی۔ یہ کام در اصل دنیا کے پالنہار کا ہے کہ اپنی چاکری کے کاموں میں مشغول بندوں کو روزی مہیا کرے۔ پس جو شخص یا گروہ خدا کی رضا جوئی میں جس حد تک منہمک ہوگا مخلوق کا پالنے والا روزی کمانے کی ذمہ داریاں اسی حد تک اس پر سے ساقط کردے گا، یہاں تک کہ اس سلسلے میں روزی حاصل ہونے کے عام اسباب کا پردہ بھی بیچ سے اٹھایا جاسکتا ہے جس کی واضح مثال یہ من و سلویٰ کا نزول ہے۔ حاشیہ(۱۰۵)

۴- آگے اسی حقیقت پر آیت (۶۱) کے ذیل میں مزید روشنی ڈالی ہے۔  بنی اسرائیل نے کہا کہ ہم من و سلویٰ کھاتے کھاتے اکتا گئے ہیں۔ دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ اس کی جگہ زمین سے پیدا ہونے والی چیزیں عطا کرے۔ اس کے جواب میں حضرت موسٰی ؑ نے فرمایا:

اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ ھُوَ اَدْنٰی بِالَّذِیْ ھُوَ خَیْرٌ ط کیا تم ایک بہتر چیز کو ادنیٰ شے سے بدلنا چاہتے ہو؟

اس کا مطلب بالعموم یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جن چیزوں کا تم مطالبہ کر رہے ہو وہ  من و سلویٰ کے مقابلے میں کم تر درجہ کی یا بے حیثیت چیزیں ہیں۔ تم ایک بہتر چیز کے مقابلے میں کم تر چیز کی مانگ کر رہے ہو لیکن مولانا نے اس کاایک دوسرا مفہوم بیان کیا ہے جو زیادہ بامعنیٰ ہے: اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ من و سلویٰ جیسی مزے دار اور بلا مشقت حاصل ہونے والی چیزوں کو چھوڑ کر ایسی چیزیں مانگ رہے ہو جو کم لذیذ ہیں یا پسینہ بہانے کے بعد ہی مل سکتی ہیں‘ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی انتظام تمھیں فکر معاش سے آزاد کیے ہوئے ہے۔ ان حالات میں تمھیں اس کا ممنون کرم ہوتے ہوئے دعا کرتے رہنا چاہیے تھا کہ پروردگار! کرم کی یہ نگاہ یوں ہی باقی رہے تاکہ ہم ان مادی ضروریات کی فکر سے آزاد ہوکر اپنے زندگی کے اصل مقصد کے حصول میں پوری طرح مشغول رہیں اور ہمارا کام اس کے سوا اور کچھ نہ رہ جائے کہ ایک طرف تو تیرے پیغمبر کے فیضِ تربیت سے فائدہ اٹھا کر اپنا دل پاک کریں، اپنے اخلاق سدھاریں، دین اللہ کی معرفت بڑھائیں اور اچھے اعمال کا نمونہ بن جائیں، دوسری طرف تیرے نور ہدایت کو لے کر آگے بڑھیں اور کفر و شرک سے تاریک فضاؤں میں اسے پھیلا دیں۔ پر افسوس ہے تمھاری پست نگاہی پر کہ بچوں کی طرح زبان کے چٹخاروں پر ریجھے جا رہے ہو۔ لذت پرستی کی ذلیل ذہنیت نے تمھیں زندگی کے پاک اور اصل مقصد سے اس درجہ بے گانہ کر رکھا ہے۔ حاشیہ(۱۱۴)

۵-  سورۂ بقرہ آیت (۹۹) کے الفاظ ہیں:

وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍط وَمَا یَکْفُرُ بِھَآ اِلاَّ الْفٰسِقُوْنَ ط (البقرہ ۲:۹۹) ہم نے تمھاری طرف ایسی آیتیں نازل کی ہیں جن کا آیات الٰہی ہونا بالکل روشن ہے۔ ان کا انکار صرف فاسق ہی کرسکتے ہیں۔

اس کی تشریح میں مولانا نے اس غلط فہمی کا ازالہ فرمایا ہے کہ : قرآن دنیا کے ان تمام لوگوں کو یکساں طور پر فاسق قرار دیتا ہے جو اس پر ایمان نہیں رکھتے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن پر ایمان لانے کی ذمے داری دنیا کے کسی شخص پر اس وقت عائد ہوتی ہے جب وہ اس سے واقف ہوجائے اور اس کی دعوت اس تک پہنچ جائے۔ اس سے قبل وہ اس امر خاص میں خدا کے حضور جواب دہ نہیں ہوسکتا کہ وہ قرآن پر ایمان کیوں نہیں لایا ۔۔۔ قرآن سے ناواقف فاسق نہیں بلکہ دراصل قرآن کا منکر فاسق ہے۔ یعنی وہ دشمن حق جس کو قرآن کی دعوت پہنچ چکی لیکن وہ ایمان نہیں لایا بلکہ وہ بدستور نفس پرستی، آبائی تقلید یا نسلی یا قومی عصبیت کا شکار بنا رہا۔ حاشیہ(۱۷۰)

۶-  سورۂ بقرہ کی آیت (۱۰۶) میں نسخ کا ذکر ہے۔ آیت کے الفاظ ہیں:

مَا نَنْسَخْ مِنْ آیَۃٍ اَوْ نُنْسِھَانَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَا اَوْ مِثْلِھَا ط اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ o (البقرہ ۲:۱۰۶) ہم (اپنی نازل کردہ) جس آیت کو بھی منسوخ کردیتے ہیں تو اس کے بجائے اس سے بہتر آیت، اور جس آیت کو بھلوا چکے ہوتے ہیں (اور اب اس کے ظاہر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے) تو اس کی جگہ ویسی ہی آیت نازل کردیتے ہیں۔ کیا تمھیں نہیں معلوم کہ اللہ ہر بات کی قدرت رکھتا ہے۔

اس آیت کے ذیل میں مفسرین نے دو باتیں کہی ہیں۔ ایک یہ کہ شریعت کے بعض احکام پہلے دیے گئے تھے وہ بعد میں منسوخ کردیے گئے تو فتنہ پرداز اعتراض کرنے لگے کہ کیا نعوذ باللہ‘ اللہ تعالیٰ سے غلطی ہوگئی تھی جس کی بعد میں اصلاح کی گئی۔ آیت میں اس کا جواب دیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے بعض حضرات نے شریعت کے قانون نسخ کی تفصیل پیش کی ہے۔ آیت کے ذیل میں دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ اس میں یہود کے اعتراض کا جواب دیا گیا ہے۔ اعتراض یہ تھا کہ توریت اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب ہے۔ پھر قرآن اس کے بعض احکام کو کیوں منسوخ قرار دیتا اور اس کی جگہ دوسرے احکام پیش کرتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن من جانب اللہ نہیں ہے، ورنہ اللہ کی ایک کتاب دوسری کتاب کے قوانین پر اس طرح خطِ تنسیخ نہ پھیرتی۔ آیت میں اسی کا جواب دیاگیا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: ۱/۱۵۰-۱۵۱)

دوسری بات آیت کے سیاق و سباق سے زیادہ قریب معلوم ہوتی ہے۔ مولانا صدر الدین مرحوم نے یہی رائے اختیار کی ہے اور اتنی تفصیل سے اس پر گفتگو کی ہے کہ اس سے پہلے شاید کسی اور نے اس تفصیل سے بحث نہیں کی ہے۔ ملاحظہ ہو۔حاشیہ (۱۸۶)

۷- حج کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی ز وَ اتَّقُوْنِ یٰـٓاُولِی الْاَلْبَابِ ط (البقرہ ۲:۱۹۸) (تقویٰ کا) زادِ راہ جمع کرو کہ بہترین زادِ راہ یہی تقویٰ ہے۔ لہٰذا اے عقل والو! میرا تقویٰ اختیار کرو۔

اس کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حج کے سلسلے میں سفر کی ضروریات کا اہتمام کیا جائے، بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے‘ یعنی یہ کہ آدمی دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے اور ان پر بوجھ نہ بنے۔ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہونے کے باوجود حج کے سیاق سے بہت زیادہ مناسبت نہیں رکھتی۔

مولانا نے اس کی تشریح ایک نئے ڈھنگ سے کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ: اہل عرب ’حج‘ کرنے کثرت سے آتے مگر حج کا مقصود کب کا بھلا چکے تھے، سچی خدا پرستی کی روح سے ان کا حج بالکل خالی ہوچکا تھا۔ ’حج‘ کرنے آتے مگر دنیا کمانے کی غرض سے، تجارتی منافع بٹورنے کے لیے اور سیر و تفریح کی خاطر۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا عبادتیں آخرت کی پونجی جمع کرنے کے لیے ہیں، نہ کہ دنیا کمانے کا آلہ۔ اس لیے حج کرنے آؤ تو پیش نظر خداپرستی کی روح پیدا کرنا ہو، تقویٰ کی روشنی سے دل کو منور کرنا ہو، آخرت کی سعادت اور فیروز مندی کے لیے خوش نودیِ رب کا ذخیرہ جمع کرنا ہو۔ معلوم ہوا کہ دوسرے احکام شرع کی طرح حج کا مقصد بھی اللہ کا تقویٰ پیداکرنا ہے، وہ تقویٰ جو قرآن سے ہدایت پانے کی ایک ہی شرط ہے۔ حاشیہ (۲۸۰)

آیت کے آخر میں ارشاد ہے کہ (اے عقل والو! میرا تقویٰ اختیار کرو) اس سے مولانا نے بہت عمدہ نکتہ نکالا ہے کہ:

یہ اور اس طرح کی بہت ساری آیتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ دین اور تقویٰ عقل کا تقاضا ہیں، اور بنی نوع انسان کی عقل ہی اس ذمے داری کی بنیاد ہے۔ قرآن ان لوگوں کے نظریے کی پرزور تردید کرتا ہے، جن کا خیال ہے کہ دین کا عقل سے کوئی تعلق نہیں، وہ صرف دل کے لطیف احساسات کی پیداوار ہے۔ حاشیہ (۳۷۹)

۸-  قرآن مجید نے انسانوں کے ’امت واحدہ‘ ہونے کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:

کَانَ النَّاسُ اُمَّـــۃً وَّاحِـدَۃً (البقرہ ۲:۲۱۳) (در حقیقت) سارے انسان (ہمیشہ سے) ایک ہی گروہ ہیں۔

اس آیت کا مفہوم مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ تمام انسان آغاز میں ایک امت تھے اور ان کا دین بھی ایک تھا۔ پھر ان میں اختلافات رونما ہونے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے ان اختلافات کو ختم کرنے اور حقیقت حال کو واضح کرنے کے لیے اپنے رسول بھیجے۔ یہ اختلافات بعد کی پیداوار ہیں جو دنیا کی طلب اور ظلم و عدوان کی وجہ سے رونما ہوئے، لیکن مولانا اسے یہاں ماضی کی جگہ ایک حقیقت واقعہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک آیت میں بتایا گیا ہے کہ سارے انسان اپنی اصل کے لحاظ سے ایک ہیں اور ان کا دین بھی ہمیشہ ایک رہا ہے۔ اس حقیقت کو جاننے کے باوجود دنیا کی طلب میں اختلافات رونما ہوتے رہے اور پیغمبروں نے اس کی اصلاح کا فرض انجام دیا۔ مولانا نے اس آیت کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا ہے:

(در حقیقت) سارے انسان(ہمیشہ سے) ایک ہی گروہ ہیں اور (سب کے لیے ایک ہی دین ہے لیکن دنیا پرستی کی وجہ سے ان میں اختلافات رونما ہوگئے) تو اللہ نے (راست روی پر) بشارت دینے والے اور (کج روی پر) ڈرانے والے پیغمبر بھیجے، اور ان کے ساتھ پیغام حق رکھنے والی کتاب نازل فرمائی، تاکہ وہ ان اختلافات کا فیصلہ کردے جس میں لوگ مبتلا ہوچکے تھے۔ اور (امر حق میں) یہ اختلافات انھی لوگوں نے کیے جن کو یہ حق بخشا جاچکا تھا (اور اس وقت کیے تھے)‘ جب کہ روشن ہدایتیں ان کے پاس آئی ہوئی تھیں، (صرف) آپس میں (ایک دوسرے پر) زیادتی کرنے کی خاطر (انھوں نے ایسا کیا)۔ پس (اس وقت) جو لوگ (نبی پر) ایمان لائے، اللہ نے انھیں اپنے اذن سے اس حق کا راستہ دکھا دیا جس میں لوگ مختلف الرائے ہوگئے تھے۔ اللہ (اپنی حکمت اور سنت کے مطابق) جس کو چاہتا ہے راہ راست دکھاتا ہے۔

مولانا نے حواشی میں اس کی جو تشریح کی ہے وہ بڑی قابل قدر ہے۔ فرماتے ہیں:

قرآن کی یہ آیت ان بہت ساری آیتوں میں سے ایک ہے جو اعلان پر اعلان کرتی ہیں کہ سارے انسانوں کو ہمیشہ سے ایک ہی دین عنایت ہوتا رہا ہے۔ اصل دین میں ہرگز کوئی اختلاف نہیں ہوا۔ حاشیہ(۴۰۶)

۹- آیت الکرسی (البقرہ۲:۲۵۵) قرآن مجید کی بڑی اہم آیت ہے۔ مولانا صدر الدین اصلاحیؒ نے اس کی تفسیر میں شفاعت کے صحیح اور غلط تصور کی نہایت عمدہ وضاحت کی ہے: جہاں قرآن نے اس شفاعت کی تردید کی ہے، جس کے مشرکین قائل تھے اور ہیں وہیں شفاعت کا اثبات بھی کیاہے۔

دونوں طرح کی شفاعتوں کے فرق کو مولانا نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: قرآن اس نظریۂ شفاعت کو رد کرتا ہے جو انسان کو عقیدۃً و عملاً خدا کے مقابلے میں کسی مخلوق کے قریب لے جائے، اور اس تصور شفاعت کی توثیق کرتا ہے جو اسے ہر ماسوا کے مقابلے میں خدا سے قریب کرے۔ حاشیہ( ۵۴۳)

اس کی وضاحت آگے اس طرح کی ہے کہ :پہلا نظریہ انسان کو یہ باور کراتا ہے کہ تیری فلاح اور بخشش عملی طور پر اصلاً فلاں بزرگ اور فرشتے (اور کسی) مخلوق کے ہاتھ میں ہے۔ کیوں کہ وہ بالذات تیری بخشش کا مالک اور صاحب امر نہیں، بلکہ اصل صاحب امر کے دربار میں بڑا زور اور اثر رکھتا ہے۔

اس کے بالمقابل دوسرا قرآنی تصور شفاعت انسان کو اس ٹھوس حقیقت سے دوچار کراتا ہے کہ سارا اقتدار اور فیصلے کا حق صرف خدا کو ہے۔ سب اس کے دربار میں یکساں مجبور ہیں۔ اس کے حضور زبان کھولنے کے لیے دو شرطیں ضروری ہیں۔ ایک تویہ کہ وہ بولنے کی اجازت دے اور دوسرے یہ کہ جو بات کہی جائے بالکل ٹھیک ٹھیک مطابق واقعہ کہی جائے۔ اسی لیے اگر کوئی شخص قیامت کے دن کسی کی شفاعت کرے گا بھی تو اس کی حیثیت صرف دعا اور التجا کی ہوگی اور وہ بھی اس وقت جب داورِ حقیقی اس کی اجازت دے۔

عقلی انداز

مولانا صدر الدین اصلاحی کا اسلوب عقلی اور استدلالی ہے۔ قرآنی تعلیمات پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں انھیں رفع کرنے کی انھوں نے نہایت عمدہ کوشش کی ہے اور عقل کو مطمئن کرنے والے دلائل فراہم کیے ہیں۔ لیکن اس میں بڑی احتیاط سے کام لیا ہے۔ عام طور پر جن اصحابِ فکر پر عقلیت کا غلبہ ہوتا ہے وہ ان تمام امور کی توجیہ کرنے لگتے ہیں جنھیں وہ خلاف عقل سمجھتے ہیں۔ خواہ قرآن مجید کے الفاظ اس کا ساتھ دیں یا نہ دیں۔ اس کی زد میں بعض اوقات ملائکہ، جن اور شیاطین، وحی و رسالت اور برزخ جیسے حقائق اور ایمانیات بھی آجاتے ہیں۔ اسی میں انبیا ؑ کے معجزات بھی شامل ہیں ۔ مولانا کی تفسیر اس مرعوبیت سے پاک ہے۔ ان تمام امور میں ان کے سامنے اصلاً الفاظِ قرآن رہے ہیں اور انھوں نے وہی تفسیر اختیار کی ہے جو قرآن کے الفاظ سے  ہم آہنگ ہو یا جن کی الفاظ میں گنجایش ہو۔ اس سے باہر جانے کی کوشش نہیں کی ہے۔ اسے بعض مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔

۱- حضرت موسیٰؑ اور ان کی قوم کے لیے بحر احمر کے شق ہونے کا ذکر سورۂ بقرہ آیت(۵۰)میں ان الفاظ میں آیا ہے:

وَ اِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰـکُمْ وَ اَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَط (یاد کرو وہ وقت) جب ہم نے تمھارے لیے سمندر کو پھاڑ دیا اور پھر (درمیان سے) تمھیں صحیح سلامت گزار دیا تھا، لیکن فرعونیوں کو تمھاری نگاہوں کے سامنے غرق کر دیا۔

اس کے ذیل میں مولانا کہتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر‘ جب کہ کوئی انسانی تدبیر ممکن نظر نہیں آتی تھی، اپنے معمولی قوانین کے بجاے غیر معمولی قوانین کا حکم دیا اور سمندر یکایک اس طرح پھٹ گیا کہ بیچ میں خشک گزرگاہ نمودار ہوگئی اور دائیں بائیں پانی کی پہاڑیاں نصب ہوگئیں۔ حضرت موسیٰؑ مع اپنی پوری قوم کے خدا کا نام لے کر اس گزرگاہ سے ہوتے ہوئے دوسرے ساحل پر جاپہنچے۔ فرعون نے جو تعاقب کرتا ہوا اب ساحل پر پہنچ چکا تھا، سمندر کے بیچ سے انسانی گروہ کو گزرتے دیکھ کر خود بھی اپنا گھوڑا ڈال دیا، جب پورا لشکر اتر چکا تو دائیں بائیں کی ’آبی پہاڑیاں‘ باہم مل گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا لشکر غائب تھا۔ حاشیہ(۹۳)

۲- سورۂ بقرہ کی آیت (۶۰) کے الفاظ ہیں: وَ اِذِ اسْتَسْقٰی مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْحَجَرَ ط فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشَرَۃَ عَیْنًا ط قَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْ ط ’’(یاد کرو وہ وقت) جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی کی درخواست کی تھی اور ہم نے کہا تھا کہ ’’اپنی لٹھیافلاں چٹان پر مار‘ چنانچہ (لٹھیا کا مارنا تھا کہ) اس سے ۱۲ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر گروہ کو یہ معلوم (بھی) ہوگیا کہ اس کے پانی لینے کی جگہ کون سی ہے۔

مولانا نے اسے بھی غیر معمولی اور غیر عادی واقعہ قرار دیا ہے: سایہ اور غذا کی طرح پانی کا بھی غیر معمولی طور سے انتظام کیا گیا۔ بالکل معجزے کے طور پر چٹان کا سینہ چاک ہوا اور پانی اُبل پڑا، اور اس انداز سے ابلا کہ اگر بنی اسرائیل کے ۱۲ قبیلے تھے تو چشمے بھی ۱۲ ہی پھوٹے تاکہ پانی کی یہ تقسیم بھی خدا ہی کی طرف سے ہوجائے۔ حاشیہ (۱۰۹)

اس کے بعد مولانا نے ان حیرت انگیز اور غیر عادی واقعات کی حکمت بھی بیان فرمائی ہے۔

۳- بنی اسرائیل میں جن لوگوں نے سبت کے حکم کی خلاف ورزی کی تھی، اللہ نے ان کو جو سزا دی اس کا ذکر قرآن نے ان الفاظ میں کیا ہے:

وَ لَقَـدْ عَلِمْتُمُ الَّــذِیْنَ اعْتَــدَوْا مِنْــکُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنـَا لَھُمْ کُوْنُـوْا قِـرَدَۃً خٰسِئِیْنَo (البقرہ ۲:۶۵) چنانچہ تمھیں اپنی قوم کے ان لوگوں کا قصہ     بہ خوبی معلوم ہے جنھوں نے سبت کے معاملے میں سرکشی اختیار کرلی تھی اور ہم نے (بطور عذاب) ان سے فرما دیا تھا کہ بن جاؤ بندر، ذلیل اور دھتکارے ہوئے۔

اس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ شکل و صورت کی تبدیلی نہیں تھی بلکہ ذہن و مزاج کی تبدیلی تھی، لیکن مولانا کہتے ہیں: ’’ہوسکتا ہے کہ ان کی صورتیں نہ بدلی ہوں صرف باطن مسخ ہوکر بندروں جیسا ہوگیا ہو یا یہ صرف ایک مجازی تعبیر ہو ان کے ذلیل و خوار ہوجانے کی‘ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ظاہراً و باطناً دونوں حیثیتوں سے مسخ کرکے بالکل بندر بنادیے گئے ہوں‘ اور یہ بھی قرین قیاس ہے کہ دماغ تو انسانوں جیسا دیا گیا ہو مگر صورتیں مسخ کردی گئی ہوں۔ یہی آخری شکل زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کیوں کہ اس شکل میں خود ان کو بھی اپنے ذہن میں یہ محسوس کرتے رہنے کا موقع تھا کہ یہ سب کچھ ہماری شرارتوں کا نتیجہ ہے۔ حاشیہ (۱۲۶)

۴- بعض لوگ عالم برزخ کا انکار یا اس کے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ اسے اللہ تعالیٰ کے قانونِ عدل کے منافی سمجھتے ہیں، حالاں کہ برزخ کی زندگی قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ مولانا صدر الدین کے ہاں وضاحت کے ساتھ برزخ کے عقیدے کا ذکر ہے اور اس پر سورۂ بقرہ کی آیت (۱۵۴) سے استدلال کیا ہے۔ آیت کے الفاظ ہیں:

وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَائٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ ط ان لوگوں کو جو اللہ کے راستے میں قتل ہو جائیں مردہ نہ کہو وہ تو زندہ ہیں لیکن تمھیں (ان کی زندگی)کا شعور نہیں۔

مولانا لکھتے ہیں: قرآن اور حدیث دونوں سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد انسان بالکل ایسا مردہ نہیں ہو جاتا کہ اس کو حیات سے کوئی واسطہ ہی نہ ہو اور جب قیامت آئے گی اسی وقت جاکر اسے اس کامل حالتِ مرگ سے نکال کر دوبارہ زندگی عطا کی جائے گی، بلکہ اس دوران میں بھی اس کو ایک طرح کی جزوی زندگی حاصل رہتی ہے، جسے برزخی زندگی کہتے ہیں۔ اس زندگی میں بھی ہر شخص پر اس کے اعمال کے مطابق جنتی نعمتوں اور لذتوں کا یا پھر دوزخی مصیبتوں اور کلفتوں کا ترشح ہوتا رہتا ہے۔ یہاں اس آیت میں اسی زندگی کا ذکر ہے۔ حاشیہ (۲۷۵)

۵-  سورۂ بقرہ کی آیت (۲۵۹) میں ایک ایسے شخص کا ذکر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حیات بعد الموت کا تجربہ کرایا تھا:

اَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ وَّھِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِھَا ج قَالَ اَنّٰی یُحْیٖ ھٰذِہِ اللّٰہُ بَعْدَ مَوْتِھَا ج فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ ط قَالَ کَمْ لَبِثْتَ ط قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ ط قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ ج وَانْظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ قف وَلِنَجْعَلَکَ آیَۃً للِنَّاسِ وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُھَا ثُمَّ نَکْسُوْھَا  لَحْمًا ط فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ لا قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ o (البقرہ ۲:۲۵۹) یا کیا اس شخص کے حال پر تم نے غور نہیں کیا جس کا گزر ایک بستی پر سے ہوا تھا، جو اپنی چھتوں کے بل ڈھئی پڑی تھی؟ (اسے دیکھ کر بے اختیار) اس کے منہ سے نکلا: ’’یوں ہلاک ہو جانے کے بعد اللہ اس بستی کو دوبارہ کیسے زندہ کرے گا؟ اس پر اللہ نے ۱۰۰ برس کے لیے اس پر موت طاری کردی، پھر اس کو (زندہ) اٹھا کھڑا کیا۔ دریافت کیا: ’’تم (یہاں) کتنی دیر رہے؟‘‘ بولا: ’’ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ‘‘فرمایا: (نہیں) بلکہ تم (یہاں اس حالت میں پورے) ۱۰۰ برس رہے ہو۔ سو اب ذرا اپنے کھانے پینے کی چیزوں کا جائزہ لو کہ ان پر سالہا سال گزر جانے کا کوئی اثر نہیں ، دوسری طرف اپنے گدھے کو دیکھو (کہ اس کا پنجر تک بوسیدہ ہو رہا ہے)۔ (ہم نے تمھیں اپنی قدرت کا مشاہدہ اس لیے کرایا ہے تاکہ تم کو نور یقین حاصل ہو) اور اس لیے تاکہ ہم تمھیں لوگوں کے واسطے (بھی) ایک نشانی بنا دیں۔ اور پھر دیکھو کہ ہم کس طرح ہڈیوں کو اٹھا کر (ان کا ڈھانچا بناتے اور) پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں‘‘۔ جب اس کے سامنے حقیقت یوں    بے حجاب ہوگئی تو بول اٹھا: ’’مجھے یقین ہے کہ اللہ ہر بات پر قادر ہے‘‘۔

بعض لوگوں کو اسے بھی غیر عادی اور معجزانہ واقعہ ماننے میں تأمل ہوسکتا ہے، لیکن مولانا نے اسے ایک غیر عادی واقعے ہی کی حیثیت سے دیکھا ہے۔ فرماتے ہیں کہ جس ہستی پر اللہ نے موت طاری کردی:’’ہوسکتا ہے کہ انھیں بالکل مردہ حالت میں رکھا گیا ہوا اور اس کا بھی امکان ہے کہ ان پر ایک طویل نیند طاری کردی گئی ہو۔ قرآن میں نیند کے لیے موت کااستعمال یا استعارہ نایاب نہیں گو کم یاب ضرور ہے۔ حاشیہ (۵۶۰)

یہ بات کہ ۱۰۰برس گزرنے کے باوجود کھانے پینے کی چیزیں جوں کی توں رہیں اور دوسری طرف گدھے کا ڈھانچا بوسیدہ ہوچکا تھا، اس پر مولانا لکھتے ہیں:

گویا جس چیز پر موسمی حالات اور تغیرات کا‘ نیز امتداد وقت کا اثر نسبتاً کچھ دیر میں ہوتا ہے (یعنی جانور) وہ تو یوں گل سڑ چکی تھی، مگر جس پر یہ اثر بہت جلد ہوتا ہے (یعنی کھانا یا پانی) وہ بدستور تروتازہ موجود تھی۔ یوں اگر ایک شے اس امر کی شاہد تھی کہ یہاں کا قیام ایک لمبی مدت کا قیام ہوچکا ہے، تو دوسری اس حقیقت کی گواہ تھی کہ قوانین قدرت اور عناصر فطرت اپنے فعل و تاثیر میں آزاد اور مستقل نہیں ہیں، بلکہ کسی بالاتر قوت (یا) قدرت الٰہی کے تابع فرمان ہیں، لہٰذا ضروری نہیں کہ عام قانونِ حیات کسی شے کو اپنے ضابطے کے تحت فنا کی منزل پر پہنچا ہی دے‘ اور جب یہ امر واقعہ ہے تو پھر کیا فرق ہے اس بات میں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت جب چاہے قوانین فطرت کو ان کے اپنے عمل سے روک دے‘ اور اس بات میں کہ یہی قدرت عناصر طبیعت کو اس شے کی واپسی کا حکم دے دے، جس کے اجزا بکھر کر ان کے معدوں میں جذب یا مستور ہوچکے ہیں۔ اور پھر یہ بکھرے ہوئے اجزا اس کے حکم سے از سرنو سمٹ کر ایک مکمل قالب اور حسب سابق ایک زندہ جسم کی شکل میں تبدیل ہو جائیں۔ حاشیہ (۵۶۲)

بعض اختلافی مسائل

مولانا صدر الدین نے اپنی تفسیر میں بعض اختلافی مسائل سے بھی تعرض کیا ہے۔   قرآن مجید نے منکرین حق کے بارے میں فرمایا (خٰلِدِیْنَ فِیْھَا) کہ وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ مولانا فرماتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ جب تک جہنم رہے گی۔ رہی یہ بات کہ جہنم کب تک رہے گی تو اس کی بابت قرآن صرف یہ بتاتا ہے کہ جب تک اللہ چاہے گا۔ (ھود ۱۱:۱۰۷)، حاشیہ (۶۷)

اس سے خیال ہوتا ہے کہ مولانا غالباً جہنم کو ابدی نہیں سمجھتے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض علما کی یہ رائے ہے، لیکن عام علما اور محققین کے نزدیک جنت کی طرح جہنم بھی ابدی ہے۔

۲- اسلام کے جن احکام و مسائل پر اعتراض کیا جاتا ہے ان میں ایک قتل مرتد کا مسئلہ بھی ہے۔ اسے آزادیِ فکر کے منافی سمجھا جاتا ہے۔

حضرت موسیٰؑ کی عدم موجودگی میں بنی اسرائیل کے ایک گروہ کی گئو سالہ پرستی اور اس پر ان کی سزا کا ذکر سورۂ بقرہ (۵۴)میں ان الفاظ میں آیا ہے:

وَاِذْ قَالَ مَوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰـقَوْمِ اِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ فَتُوْبُوْٓا اِلٰی بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ عِنْـدَ بَارِئِـکُمْ ط فَتـَـابَ عَلَیْـکُمْ ج اِنَّــہٗ ھُـوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ o (یاد کرو وہ وقت) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ ’’اے میری قوم کے لوگو! تم نے بچھڑے کو اپنا معبود بنا کر یقینا اپنے اوپر (سخت) ظلم کیا ہے، پس اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنے (اندر کے مجرموں) کو قتل کر ڈالو، اسی میں تمھارے خالق کے نزدیک تمھاری بھلائی ہے‘‘۔ چنانچہ (اس وقت ایسا ہوا تھا کہ تمھاری عفو خواہی پر) اس نے تمھاری توبہ قبول فرمالی بلاشبہہ اس کی درگزر اور رحم فرمائی بڑی بے پایاں ہے۔

مولانا صدر الدین اصلاحی نے (فَاقْتُلُوا اَنْفُسَکُمْ) کا جو ترجمہ کیا ہے بالعموم مفسرین نے ان الفاظ کے یہی معنی لیے ہیں۔ اس کے حاشیے میں مولانا فرماتے ہیں: یعنی جن لوگوں نے اس شرک کا ارتکاب کیا ہے انھیں قانون شریعت کے مطابق ارتداد کی سزا دی جائے اور قتل کر دیا جائے۔ حاشیہ(۹۷)

کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ توریت یا موسوی شریعت میں مرتد کی سزا قتل تھی، کیا توریت میں اب بھی یہ حکم موجود ہے؟ اس کے متعلق میں کچھ عرض نہیں کرسکتا، لیکن اگر یہ ثابت ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آخری رسول محمدؐ کی شریعت نے اس حکم کو باقی رکھا جو پہلے سے توریت میں موجود تھا۔

۳- دیت کے بارے میں مولانا فرماتے ہیں کہ: آزاد، غلام اور عورت میں سے ہر ایک کے خون کی قیمت کیا ہوگی تو شریعت نے اس کی کوئی تعیین نہیں فرمائی ہے بلکہ اسے دستور عام پر چھوڑ دیا ہے۔ جس ملک یا سوسائٹی میں اہل الرائے کے درمیان جو قیمتیں طے قرار پا جائیں، شریعت کے نزدیک وہی قیمتیں قابل تسلیم ہوں گی۔ حاشیہ (۳۶)

عام طور پر علما نے حدیث کی بنیاد پر دیت ۱۰۰ اُونٹ مانی ہے۔ اونٹ کی قیمت بھی ادا کی جاسکتی ہے۔ آزاد، غلام اور عورت کی دیت میں کوئی فرق ہے یا نہیں، اس پر بھی اہل علم نے بہت تفصیل سے بحث کی ہے۔ مولانا کی اس رائے کو ایک صاحب علم کی رائے کی حیثیت سے دیکھا جاسکتا ہے۔

اصلاح اُمت

مولانا کی تفسیر کا انداز خالص علمی ہے۔ اس میں ملکی و غیر ملکی حالات، سیاسی تغیرات اور امت کے مسائل کا ذکر نہیں ملتا، لیکن کہیں کہیں امت کی کم زوریوں کی طرف اشارے کیے گئے ہیں اور اصلاح حال کی دعوت دی گئی ہے۔ سورۂ بقرہ کے آغاز ہی میں قرآن مجید کے بارے میں فرمایا گیا (ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْن)‘ یعنی یہ سراپا ہدایت ہے ان لوگوں کے لیے جن کے اندر تقویٰ ہے۔

مولانا نے تقویٰ کی تفصیل سے وضاحت کی ہے۔ اس کے آغاز میں فرماتے ہیں کہ     یہ قرآن کی ایک خاص اصطلاح ہے اور اس سے مراد انسان کے دل کی وہ کیفیت ہے جو اس کو ہرلمحے اس بات پر آمادہ رکھتی ہے کہ وہ اپنے محسن حقیقی کے احسانوں کو یاد رکھے، ان کے تقاضوں سے غافل نہ ہو۔

اس کے بعد قرآن نے متقیوں کی صفات بیان کی ہیں۔ مولانا فرماتے ہیں کہ :

قرآن نے یہاں جو انداز بیان اختیار کیا ہے اس پر انھیں (مسلمانوں کو) گہری نظر ڈال کر محسوس کرنا چاہیے کہ ہدایت کا مفہوم کتنا وسیع ہے، اور کس طرح وہ پوری زندگی کو گھیرے ہوئے ہے۔ ہدایت صرف اس چیز کا نام نہیں کہ آدمی بس خدا اور آخرت پر اپنے اعتقاد کا اظہار کردے اور جوں توں کرکے نماز پڑھ لے اور زکوٰۃ دے دے، بلکہ اس کا تعلق انسان کی زندگی کے ایک ایک شعبے اور ایک ایک معاملے سے ہے ۔۔۔۔۔ ورنہ اگر ہدایت یافتگی کا مطلب صرف یہ ہوتا کہ انسان توحید، رسالت اور آخرت کا اقرار کرے اورنماز روزے کی پابندی اختیار کرے، جیسا کہ تنگ نظر لوگ سمجھے بیٹھے ہیں، تو قرآن کے اس قول کے کوئی معنیٰ نہیں رہ جاتے کہ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ہدایت ہے جو ایسا ایسا کرتے ہیں۔ کیوں کہ وہ ایسا ایسا کرکے ہدایت یاب ہو ہی چکے ہیں۔ انھیں اب قرآن کیا ہدایت بخشے گا؟ حاشیہ(۱۰)

اس طرح کے بعض اور بھی مقامات ہیں جہاں مولانا نے مسلمانوں کو ان کی خامیوں کی نشان دہی کی ہے اور اصلاح کی طرف متوجہ کیا ہے۔

۱- رمضان المبارک کا شایانِ شان استقبال کرنے کے لیے شعبان ہی سے ذہن کو تیار کیجیے اور شعبان کی ۱۵ تاریخ سے پہلے پہلے کثرت سے روزے رکھیے۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب مہینوں سے زیادہ شعبان کے مہینے میں روزے رکھا کرتے تھے۔

۲- پورے اہتمام اور اشتیاق کے ساتھ رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کی کوشش کیجیے اور چاند دیکھ کر یہ دعا پڑھیے:

اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰھُمَّ اَھِلَّہٗ عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْاِسْلَامِ وَالتَّوْفِیْقِ لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی - رَبُّنَا وَرَبُّکَ اللّٰہُ

خدا سب سے بڑا ہے۔ خدایا! یہ چاند ہمارے لیے امن و ایمان و سلامتی اور اسلام کا چاند بنا کر طلوع فرما اور ان کاموں کی توفیق کے ساتھ جو تجھے محبوب اور پسند ہیں۔ اے چاند! ہمارا رب اور تیرا رب اللہ ہے۔

اور ہر مہینے کا نیا چاند دیکھ کر یہی دعا پڑھیے۔ (ترمذی‘ ابن حبان وغیرہ)

۳- رمضان میں عبادات سے خصوصی شغف پیدا کیجیے۔ فرض نمازوں کے علاوہ نوافل کا بھی خصوصی اہتمام کیجیے اور زیادہ سے زیادہ نیکی کمانے کے لیے کمربستہ ہو جایئے۔ یہ عظمت و برکت والا مہینہ خدا کی خصوصی عنایت اور رحمت کا مہینہ ہے۔

شعبان کی آخری تاریخ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا:

لوگو! تم پر ایک بہت عظمت و برکت کا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ خدا نے اس مہینے کے روزے فرض قرار دیے ہیں اور     قیام اللیل (مسنون تراویح) کو نفل قرار دیا ہے۔ جو شخص اِس مہینے میں دل کی خوشی سے بطور خود کوئی ایک نیک کام کرے گا وہ دوسرے مہینوں کے فرض کے برابر اجر پائے گا‘ اور جو شخص اس مہینے میں ایک فرض ادا کرے گا خدا اس کو دوسرے مہینوں کے ۷۰ فرضوں کے برابر ثواب بخشے گا۔

۴- پورے مہینے کے روزے نہایت ذوق و شوق اور اہتمام کے ساتھ رکھیے اور اگر کبھی مرض کی شدت یا شرعی عذر کی بنا پر روزے نہ رکھ سکیں‘ تب بھی احترامِ رمضان میں کھلم کھلا کھانے سے سختی کے ساتھ پرہیز کیجیے اور اس طرح رہیے کہ گویا آپ روزے سے ہیں۔

۵- تلاوتِ قرآن کا خصوصی اہتمام کیجیے۔ اس مہینے کو قرآنِ پاک سے خصوصی مناسبت ہے۔ قرآنِ پاک اسی مہینے میں نازل ہوا اور دوسری آسمانی کتابیں بھی اسی مہینے میں         نازل ہوئیں… اس لیے اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ قرآن پاک پڑھنے کی کوشش کیجیے۔      حضرت جبرئیل ؑ ہر سال رمضان میں نبیؐ کو پورا قرآن سناتے اور سنتے تھے‘ اور آخری سال آپ نے رمضان میں نبیؐ کے ساتھ دو بار دَور فرمایا۔

۶- قرآن پاک ٹھیر ٹھیر کر اور سمجھ سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کیجیے۔ کثرتِ تلاوت کے ساتھ ساتھ سمجھنے اور اثر لینے کا بھی خاص خیال رکھیے۔

۷- تراویح میں پورا قرآن سننے کا اہتمام کیجیے۔ ایک بار رمضان میں پورا قرآنِ پاک سننا مسنون ہے۔

۸- تراویح کی نماز خشوع خضوع اور ذوق و شوق کے ساتھ پڑھیے اور جوں توں ۲۰رکعت کی گنتی پوری نہ کیجیے‘ بلکہ نماز کو نماز کی طرح پڑھیے تاکہ آپ کی زندگی پر اس کا اثر پڑے اور خدا سے تعلق مضبوط ہو۔ خدا توفیق دے تو تہجد کا بھی اہتمام کیجیے۔

۹- صدقہ اور خیرات کیجیے۔ غریبوں‘ بیوائوں اور یتیموں کی خبرگیری کیجیے اور ناداروں کی سحری اور افطار کا اہتمام کیجیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’یہ مواسات کا مہینہ ہے‘‘، یعنی غریبوں اور حاجت مندوں کے ساتھ ہمدردی کا مہینہ ہے۔ ہمدردی سے مراد مالی ہمدردی بھی ہے اور زبانی ہمدردی بھی۔ ان کے ساتھ گفتار اور سلوک میں نرمی برتیے۔ ملازمین کو سہولتیں دیجیے اور مالی اعانت کیجیے۔

۱۰- شب قدر میں زیادہ سے زیادہ نوافل کا اہتمام کیجیے اور قرآن کی تلاوت کیجیے۔    اس رات کی اہمیت یہ ہے کہ اس رات میں قرآن نازل ہوا۔

حدیث میں ہے کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی رات ہوتی ہے۔ اِسی رات کو یہ دعا پڑھیے:

اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ (حصن حصین)

خدایا! تو بہت ہی زیادہ معاف فرمانے والا ہے کیونکہ معاف کرنا تجھے پسند ہے‘ پس تو مجھے معاف فرما دے۔

۱۱- رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیجیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری ۱۰ دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔

۱۲-  رمضان میں لوگوں کے ساتھ نہایت نرمی اور شفقت کا سلوک کیجیے۔ ملازمین کو  زیادہ سے زیادہ سہولتیں دیجیے اور فراخ دلی کے ساتھ اُن کی ضرورتیں پوری کیجیے اور گھر والوں کے ساتھ بھی رحمت اور فیاضی کا برتائو کیجیے۔

۱۳-  نہایت عاجزی اور ذوق و شوق کے ساتھ زیادہ دعائیں کیجیے۔ درمنشور میں ہے کہ جب رمضان کا مبارک مہینہ آتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل جاتا تھا اور نماز میں اضافہ ہو جاتا تھا اور دعا میں بہت عاجزی فرماتے تھے اور خوف بہت زیادہ غالب ہوجاتا تھا۔

۱۴- صدقہ فطر دل کی رغبت کے ساتھ پورے اہتمام سے ادا کیجیے اور عید کی نماز سے  پہلے ادا کر دیجیے‘ بلکہ اتنا پہلے ادا کیجیے کہ حاجت مند اور نادار لوگ سہولت کے ساتھ عید کی ضروریات مہیا کر سکیں اور وہ بھی سب کے ساتھ عیدگاہ جا سکیں اور عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔

۱۵- رمضان کے مبارک دنوں میں خود زیادہ سے زیادہ نیکی کمانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی نہایت سوز‘ تڑپ‘ نرمی اور حکمت کے ساتھ نیکی اور خیر کے کام کرنے پر ابھاریے تاکہ پوری فضا پر خدا ترسی‘ خیرپسندی اور بھلائی کے جذبات چھائے رہیں اور سوسائٹی زیادہ سے زیادہ رمضان کی بیش بہا برکتوں سے فائدہ اٹھا سکے۔

اللہ کے محبوب اور پسندیدہ بندوں میں استکبار کے بجاے خاکساری نمایاں ہوتی ہے۔  دین کی دعوت پیش کرتے ہوئے اور تبادلۂ خیال کرتے ہوئے وہ اکڑنے اور الجھنے کی کوشش نہیں کرتے‘ جہلا اگر ان کے منہ آنے لگیں تو وہ کج بحثی کے درپے نہیں ہوتے بلکہ خوب صورتی اور شایستگی کے ساتھ سلام کر کے رخصت ہوجاتے ہیں۔ سورہ الفرقان میں اس خصوصیت کو یوں بیان کیا گیا ہے  ع

اور جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام

صاحب تفہیم القرآن رحمن کے بندوں کے اس وصف کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جاہل سے مراد اَن پڑھ یا بے علم آدمی نہیں‘ بلکہ وہ شخص ہے جو جہالت پر اتر آئے اور کسی شریف آدمی سے بدتمیزی کا برتائو کرنے لگے۔ رحمن کے بندوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ گالی کا جواب گالی سے اور بہتان کا جواب بہتان سے اور اسی طرح کی بے ہودگی کا جواب بے ہودگی سے نہیں دیتے جیساکہ دوسری جگہ فرمایا: ’’اور جب وہ کوئی بے ہودہ بات سنتے ہیں تو اسے نظرانداز کر دیتے ہیں‘ کہتے ہیں بھائی ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمھارے اعمال تمھارے لیے۔ سلام ہے  تم کو‘ ہم جاہلوں کے منہ نہیں لگتے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ ص ۴۶۲-۴۶۳)

مولانا شبیراحمد عثمانی  ؒ فرماتے ہیں: ’’اور بندے رحمن کے وہ ہیں جو ’کم عقل اور بے ادب لوگوں کی بات کا جواب عفو و صفح سے دیتے ہیں۔ جب کوئی جہالت کی گفتگو کرے تو ملائم بات اور صاحبِ سلاست کہہ کر الگ ہوجاتے ہیں۔ ایسوں سے منہ نہیں لگتے نہ ان میں شامل ہوں‘ نہ ان سے لڑیں۔ ان کا شیوہ وہ نہیں کہ ’’خبردار ہم سے کوئی جہالت کرے‘ ہم اس کے جواب میں جہالت کی تمام حدود پھاند جائیں گے‘‘    ؎

اَلَا لا یجھلن احدٌ علینا

فنجھل فوق جھل الجاھلینا

(تفسیر عثمانی‘ سورۃ الفرقان‘ حاشیہ ۷۸)

معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں: ’’جاہل سے مراد بے علم آدمی نہیں بلکہ وہ جو جہالت کے کام اور جاہلانہ باتیں کرے خواہ واقع میں وہ ذی علم بھی ہو اور لفظ سلام سے مراد یہاں عرفی سلام نہیں بلکہ سلامتی کی بات ہے۔ قرطبی نے نحاس سے نقل کیا ہے کہ اس جگہ سلام تسلیم سے مشتق نہیں بلکہ تسلُّم سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں سلامت رہنا۔ مراد یہ ہے کہ   جاہلوں کے جواب میں وہ سلامتی کی بات کہتے ہیں جس سے دوسروں کو ایذا نہ پہنچے اور یہ گنہگار    نہ ہو۔ یہی تفسیر حضرت مجاہد‘ مقاتل وغیرہ سے منقول ہے (مظہری)۔ (معارف القرآن‘ ج ۶‘ ص ۵۰۳)

سید مودودی رقمطراز ہیں: ’’جاہلوں سے نہ اُلجھا جائے خواہ وہ اُلجھنے اوراُلجھانے کی کتنی ہی کوشش کریں۔ داعی کو اس معاملے میں سخت محتاط ہونا چاہیے کہ اس کا خطاب صرف ان لوگوں سے رہے جو معقولیت کے ساتھ بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہوں۔ اور جب کوئی شخص جہالت پر اتر آئے اور حجت بازی‘ جھگڑالوپن اور طعن و تشنیع شروع کردے تو داعی کو اس کا حریف بننے سے انکار کر دینا چاہیے۔ اس لیے کہ اس جھگڑے میں الجھنے کا حاصل کچھ نہیں ہے اور نقصان یہ ہے کہ داعی کی جس قوت کو اشاعت دعوت اور اصلاح نفوس میںخرچ ہونا چاہیے وہ اس فضول کام میں ضائع ہوجاتی ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ سورۂ اعراف‘ ج ۲‘ ص ۱۱۲)

حافظ عماد الدین (ابن کثیر) فرماتے ہیں کہ: ’’جب جاہل لوگ (رحمن کے بندوں سے) ان سے جہالت کی باتیں کرتے ہیں تو یہ بھی ان کی طرح جہالت پر نہیں اتر آتے بلکہ درگزر کرلیتے ہیں‘ معاف فرما دیتے ہیں اور سواے بھلی بات کے گندی باتوں سے اپنی زبان آلودہ نہیں کرتے‘ جیسے کہ رسولؐ کی عادت مبارک تھی۔ جوں جوں دوسرا آپؐ پر تیز ہوتا آپؐ اتنے ہی نرم ہوتے… رسولؐکے سامنے کسی شخص نے دوسرے کو برا بھلا کہا لیکن اس نے پلٹ کر جواب دیا کہ تجھ پر سلام ہو۔ آنحضرتؐنے فرمایا: ’’تم دونوں کے درمیان فرشتہ موجود تھا۔ وہ میری طرف سے گالیاں دینے والے کو جواب دیتا تھا۔ وہ جو گالی تجھے دیتا تھا فرشتہ کہتا تھا‘ یہ نہیں بلکہ تو‘ اور جب تو کہتا تھا تجھ پر سلام تو فرشتہ کہتا تھا: اس پر نہیں بلکہ تجھ پر‘ تو ہی سلامتی کا پورا حق دار ہے‘‘ (مسنداحمد)۔    پس فرمان ہے کہ یہ اپنی زبان کو گندی نہیں کرتے۔ برا کہنے والوں کو برا نہیں کہتے۔ سوائے بھلے کلمے کے زبان سے اور کوئی لفظ نہیں نکالتے۔ امام حسن بصریؒ فرماتے ہیں: ‘‘دوسرا ان پر ظلم کرے‘ یہ صلح اور برداشت کرتے ہیں‘’۔ (ابن کثیر‘ ج ۴‘ ص ۲۵)

ابن ہشام نے لکھا ہے کہ ’’ہجرتِ حبشہ کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور دعوت کی خبریں حبش کے ملک میںپھیلیں تو وہاں سے ۲۰ کے قریب عیسائیوں کا ایک وفد تحقیق حال کے لیے مکہ معظمہ آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجد حرام میں ملا۔ قریش کے بہت سے لوگ بھی یہ ماجرا دیکھ کر گردوپیش کھڑے ہوگئے۔ وفد کے لوگوں نے حضوؐر سے کچھ سوالات کیے جن کا آپؐ نے جواب دیا۔ پھر آپؐ نے ان کو اسلام کی طرف دعوت دی اور قرآن مجید کی آیات ان کے سامنے پڑھیں۔ قرآن سن کر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور انھوں نے اس کے کلام اللہ ہونے کی تصدیق کی اور حضوؐر پر ایمان لے آئے۔ جب مجلس برخاست ہوئی تو ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے ان لوگوں کو راستے میں جالیا اور انھیں سخت ملامت کی کہ ’’بڑے نامراد ہو۔ تمھارے ہم مذہب لوگوں نے تم کو اس لیے بھیجا تھا کہ تم اس شخص کے حالات کی تحقیق کرکے آئو اورانھیں ٹھیک ٹھیک خبر دو‘ مگر تم ابھی اس کے پاس بیٹھے ہی تھے کہ اپنا دین چھوڑ کر اس پر ایمان لے آئے۔ تم سے زیادہ احمق گروہ تو کبھی ہماری نظر سے نہیں گزرا‘‘۔ اس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’’سلام ہے بھائیو تم کو۔ ہم تمھارے ساتھ جہالت بازی نہیںکرسکتے۔ ہمیں ہمارے طریقے پر چلنے دو اور تم  اپنے طریقے پرچلتے رہو۔ ہم اپنے آپ کو جان بوجھ کر بھلائی سے محروم نہیں رکھ سکتے‘‘۔ (سیرت ابن ہشام ‘ ج ۲‘ ص ۳۲بحوالہ تفہیم القرآن‘ ج۳‘ ص ۶۴۵)

اسی واقعے کا ذکر سورۂ قصص میں بھی آیاہے: ’’جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی وہ اس قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور جب وہ انھیں سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے‘ یہ حق ہے ہمارے رب کی طرف سے‘ ہم اس سے پہلے بھی اسی دین اسلام پر تھے… اور جب انھوں نے بے ہودہ باتیں سنیں تو اُلجھنے سے پرہیز کیا اور بولے: ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمھارے اعمال تمھارے لیے‘ تم کو سلام ہے ہم جاہلوں کا طریقہ پسند نہیں کرتے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ ص ۵۳۷-۵۳۸)

یہ اللہ کے نیک اور صالح بندوں کی ایک اہم صفت ہے کہ وہ متانت‘ سنجیدگی اور معقولیت سے کام لیتے ہیں‘ اپنی بات کو نہایت شایستگی سے دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ بحث و جدال میں نہیں پڑتے۔ وہ سمجھ جاتے ہیں کہ جاہلوں سے اُلجھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنے والد سے بحث و تمحیص اور الجھائو سے بچنے کی خاطر سلامٌ علیکم کہہ کر مفارقت کا ایک شائستہ طریقہ اختیار کیا تھا۔ اس لیے کہ ضدی‘ ہٹ دھرم اور جھگڑالو لوگ دلیل سے بات کرنے کے بجاے گالم گلوچ اور دشنام طرازی پر اتر آتے ہیں۔ ایسے میں عفو و درگزر سے کام لینے‘    معروف انداز میں بات کرنے اور ان سے اعراض کرنے ہی میں عافیت ہے۔ اس طرح اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ مومن کے شریفانہ طرزِعمل سے کسی موقع پر اس کا دل پسیج جائے۔ قرآن نے بھی اپنے نبی کو یہی تعلیم دی اور آپؐ نے بھی دعوت و تبلیغ اور عام گفتگو میں یہی انداز اپنایا۔ فرمایا:

اے نبیؐ! نرمی اور درگزر کا طریقہ اختیار کرو‘ معروف کی تلقین کیے جائو‘ اور جاہلوں سے نہ الجھو۔ اگرکبھی شیطان تمھیں اُکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو‘ وہ سب کچھ سننے اور جاننے والاہے۔ حقیقت میں جو لوگ متقی ہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال اگر انھیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ فوراً چوکنے ہوجاتے ہیں اور پھر انھیںصاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریق کار کیا ہے۔ رہے ان کے (یعنی شیاطین کے) بھائی بند‘ تو وہ انھیں کج روی میں کھینچے لیے جاتے ہیں اور انھیں بھٹکانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔ (الاعراف۷: ۱۹۹-۲۰۲)

حق و باطل کے مابین عروج و زوال کی کش مکش اور غلبے کی مسابقت کو مشیتِ خداوندی  میں ایک تکوینی مسلّمہ کا مقام حاصل ہے۔ اہل باطل اس امر سے واقف ہیں کہ اہلِ حق پر مکمل غلبے کے لیے محض جنگی مشینوں سے یورش اور فوجی یلغار‘ کافی اور دیرپا نہیں ہوسکتی کیوں کہ دوسری اقوام سے مختلف‘ ملت اسلامیہ کی قوت و توانائی اور عزم و حوصلہ کا اصل سرچشمہ اساسیاتِ دین اور اس کی اسلامی تہذیبی اقدار اور اخلاقی ضابطے ہیں۔ لہٰذا اس قوت کو مضمحل اور کمزور کردینا صرف فکری و نظریاتی یلغار ہی سے ممکن ہے۔

باطل نے صدیوں اس کے لیے محنت اور تیاری کی ہے۔ مستشرقین کا ایک بڑا طائفہ ایک طویل عرصے متعدد پہلوؤں سے اسلام کے مطالعے اور تحقیق و تصنیف میں غیرمعمولی محنت‘ کاوش اور جانفشانی کے ساتھ مصروفِ کار رہا ہے۔ دنیا کی تقریباً تمام یونی ورسٹیوں میں اسلامک اسٹڈیز کے شعبے قائم کیے گئے ہیں جن میں دراساتِ اسلامی کے مآخذ و مصادر بیش تر یہودی و نصرانی مفکرین‘ اسکالرز اور مصنفین کی کتابیں رہی ہیں اور ایسے ہی اساتذہ کی سرپرستی و نگرانی میں اسلامک اسٹڈیز میں ڈاکٹریٹ کے طلبہ (مسلم و غیر مسلم ریسرچ اسکالرز) اسلامیات پر تحقیق کرتے اور پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کرتے رہے ہیں۔ بیش تر یہی اسکالرز ہیں جو صدی دو صدی سے اسلام کی تشریح و تعبیر کررہے ہیں۔ یہ جدید دور میں جدید اسلام کے ترجمان متصور کیے جاتے ہیں اور نئی نسلوں کی   علمی و فکری رہنمائی بیش تر انھی کے اور ان سے فیض یافتہ دانش وروں کے ہاتھوں میں ہے۔

مقاصد اور حکمتِ عملی

اس فکری یلغار کے مقاصد متعدد ہیں اور اس کے اثرات بے شمار اور وسیع۔ ذیل میں اختصار سے ان میں سے صرف چند کا مجمل تذکرہ کیا جارہا ہے:

۱- امت مسلمہ کے پاؤں اساسیات دین کی زمین سے اکھڑ جائیں۔ وہ عقائد و عبادات کی رسمیات و مظاہر تک سمٹی رہ کر نظریات و افکار‘ اخلاق و کردار اور اطوار و تہذیب کی وسیع تر زمین پر پہلے تشکیک و تذبذب‘ پھر مرعوبیت و احساسِ کہتری اور بالآخر شکست خوردگی سے دوچار ہوکر ایک پست حوصلہ و مغلوب قوم بن کر رہ جائے۔ اگرکچھ فعال و متحرک ہو بھی تو صرف دفاعی سطح پر۔

۲- قرآن و سنت کے بجاے دیگر ذرائع علم سے ملت رہنمائی اخذ کرنے کی خوگر بن جائے۔ قرآن و سنت پر اس کا اعتماد یا تو کمزور ہوجائے یا جملہ امور و معاملات میں وہ آیات و احادیث کی ایسی تاویل کرنے لگے جو فکری یلغار کے مقاصد سے ہم آہنگ ہو۔

۳- اسلام کی اخلاقی تعلیمات اور تہذیبی اقدار‘ ملت کو تاریک خیالی‘ قدامت پسندی محسوس ہونے لگیں۔ وہ انھیں بنیاد پرستی اور شدت پسندی پر محمول کرنے لگے اور یہ یقین کرنے لگے کہ جب تک اسلام اور شریعتِ اسلامی کی جدید تعبیر نہ ہو‘ یہ عصر جدید کا ساتھ دینے والا‘ عہدِ حاضر کے ساتھ چلنے والا دین ہرگز نہ رہ سکے گا۔

۴- عورت کے مقام وحیثیت‘ خاندان‘ معاشرے اور تمدن میں اس کے رول سے متعلق اسلام کے اعلیٰ و ارفع اصولوں‘ تعلیمات اور قوانین کو مسلمانوں کی نگاہ میں صرف غیر معتبر ہی نہیں بلکہ حقیر بنادیا جائے۔

۵- باطل قوتوں کے مظالم‘ استبداد‘ استحصال اور استعمار کی مزاحمت کرنے والی قوت بازو کو جس جس منبع اور جس جس مخرج سے غذا اور توانائی بہم پہنچ سکتی ہو‘ اسے فکری یلغار اور پروپیگنڈا مشینری سے اتنا بدنام کردیا جائے کہ خود ملت کی صفوں سے ایسے مفکر‘ دانش ور‘ علما‘ صحافی‘ قائد    اٹھ کھڑے ہوں جو باطل کوششوں کے مزاحمت کاروں کے خلاف ایسے بیانات‘ فتوے اور تحریریں جاری کرنے لگیں کہ ان کی نظر میں اسلام کے چہرے پر لگے ’بدنامی کے داغ‘ دھل جائیں۔

۶- اسلام کے احیا و غلبے کے لیے سرگرم تحریکاتِ اسلامی کو___ جو باطل کے لیے خطرہ اور چیلنج ہیں ___ اس قدر بدنام کردیا جائے کہ عام مسلمان ان سے نفرت کرنے لگیں اور انھیں اتنا خوف زدہ اور پریشان کردیا جائے کہ عام مسلمان ان سے دور رہنے ہی میں عافیت محسوس کریں۔

۷- اسلام کے خلاف پروپیگنڈا جہاں ایک طرف فکری یلغار کی شکل میں امتِ مسلمہ کو  منفی طور پر متاثر کرے‘ وہیں دوسری طرف اسلام کی خوبیوں کو نقائص کے طور پر پیش کرکے غیرمسلمین کے لیے بھی نہ صرف اسلام کی کشش کو زائل کردے بلکہ اس کے تئیں انھیں متوحش و متنفر کردے۔

فکری و تھذیبی یلغار اور اس کے اثرات

یوں توملت اسلامیہ اپنی پوری تاریخ میں طرح طرح کی سازشوں اور فتنوں سے نبرد آزما ہوتی رہی ہے‘ تاہم ان کی کیفیت‘ نقصانات اور دائرہ ہاے اثر زمان و مکان‘ ہر دو اعتبار سے محدود اور عارضی رہے ہیں‘ لیکن بین الاقوامیت‘ عالم گیریت اور مواصلاتی تیز رفتاری و ہمہ گیری کے موجودہ دور میں فکری حملوں‘ سازشوں اور فتنوں میں وسعت‘ زود اثری اور تیز رفتاری آگئی ہے۔ تقریباً ۲۰۰ سال کے دورِ انحطاط میںایک طرح کی سیاسی غلامی نے فکری اثر پذیری اور غلامی کے لیے ملّی رجحان کو ہموار کیا ہے۔ نتیجے کے طور پر فکر و نظریہ اور علم و دانش کا کوئی بھی گوشہ اور اخلاقیات و معاشرت‘ علوم و عمرانیات‘ تہذیب و ثقافت اور معاشیات و اقتصادیات کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں ہے جو ان حملوں کی زد میں اور اس یلغار سے کم یازیادہ متاثر نہ ہوا ہو۔

  • اُمت کے بجاے قومیت کا تصور:مسلمانوں کو امت متحدہ اور ملت واحدہ بنائے رکھنے کا راز ’اسلامی قومیت‘ کے تصور میں مضمر تھا۔ اس پر جغرافیائی وطنی قومیت کے تصور کی فکری یلغار ہوئی‘ ملت نے اسے بحالتِ اکراہ ہی گوارا نہیں کیا بلکہ بہ شرح صدر اسے پسند اور قبول بھی کرلیا۔ اب وطنی قومیت پرستی اس کا متوازی یا ذیلی دین بن گئی اور وطن ایک ایسا خدا بن گیا ہے جس کا تعارف اقبال نے ’ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے‘ کے الفاظ میں کرایا تھا۔ اس کے اثرات و نقصانات عالمی المیوں اور بحرانوں کی شکل میں اظہر من الشمس ہیں۔ الگ الگ اوطان میں منقسم و منتشر ۱۲۵ کروڑ مسلمانوں کی اکثریت ۶۰‘ ۶۲ ایسے حکمراں سرداروں کی رعیت میں ہے   جن میں سے بیش تر دشمنانِ اسلام کے حلیف یا مملوک ہیں۔ اب اس بت سے بے زاری کے مظاہرے کی رسم صرف سال میں ایک بار پانچ دن کے لیے دورانِ حج باقی رہ گئی ہے۔
  • خدا کے بجاے جمھور کی بالادستی:’’اجتماعی نظام اور تمدنی ساخت کی صورت گری میں فیصلہ کن رول ادا کرنے میں انسان اور انسانوں کا مجموعہ خود کفیل و خود مختار ہے اور اس کا یہ کام‘ نیز اس کے لیے یہ کام جمہور کریں گے‘‘۔ یہ ایک سراسر باطل فکر ہے اور اسلام سے راست متصادم ہے۔اس فکر پر اگر کہیں ایک نظام ’بالقوۃ‘ قائم و نافذ ہو تو اسلام اسے گوارا کرنے اور اس کی کچھ خوبیوں سے استفادہ کا موقع تو دیتا ہے لیکن اسے بہ رضا و رغبت ’بالحق‘ تسلیم کرلینے کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن اس فکر کی شدید و متواتر یلغار نے مسلمانوں کو نہ صرف اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ خدا کے منصب پر جمہور کے تمکن کو بطور امرواقعہ گوارا کرلیں بلکہ اس موقف پر بھی پہنچا دیا  کہ وہ اسے قانونًا بھی سند قبولیت دے دیں۔ اس فکری یلغار نے مسلمانوںکے بڑے بڑے    اہل علم و دانش کو بھی یہ باور کرادیا کہ یہی صورتِ حال ملت اسلامیہ کی آخری اور مطلوبہ منزل ہے۔  وہ شعر تو پڑھتے ہیں: ’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘ لیکن عملاً اسی زمین کی پستیاں انھیں  راس آگئی ہیں۔اس سے کتاب و سنت کا ایک بڑا حصہ عملاً اور مستقلاً معطل اور منسوخ ہوکر رہ گیا اور المیہ یہ ہے کہ نہ صرف عامۃ المسلمین سے بلکہ ان کی رہنمائی کرنے والوں سے بھی‘ اس عظیم زیاں کا احساس ہی نہیں ادراک بھی سلب ہوگیا۔
  • ادیان باطل اور رواداری کا غلط تصور: دین کی جامعیت اور ہمہ جہتی کے تصور کو خارجی یلغار نے سمیٹ کر نہایت ہی غیر فعال اور محدود کردیا تو خود ملت کی نگاہ میں اسلام کی امتیازی حیثیت تقریباً معدوم ہوگئی او ریہ دیگر ادیان کے گویا مساوی دین قرار پایا۔ اِنَّ الَّدِیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ کا درست ترجمہ تو برقرار رہا لیکن اس کی معنویت کھوگئی۔ بڑے بڑے ذہین و زیرک مسلمانوں کے نزدیک بھی یہ بات درست قرار پائی کہ دین حق اور ادیانِ باطلہ کے درمیان    خوش تعلقی‘ خیرسگالی اور پُر امن بقاے باہم بحال رہنا چاہیے۔ یہ ایک بڑا نظریاتی المیہ ہے کہ   سورۃ الکافرون جو ادیانِ باطلہ سے بے زاری و براء ت کا اظہار و اعلان تھی اس کی ایسی تاویل کی جانے لگی کہ تمام ادیان اسلام کے نزدیک ٹھیک ہیں۔ اس طرح کلامِ الٰہی کو بھی مساوات بین الادیان کا ترجمان قرار دے کر اسے سیکولرزم کی اس تعبیر کا حامی بنادیا گیا جس کے مطابق سارے ادیان یکساں احترام کے مستحق ہیں۔ نتیجتاً فریضۂ دعوت کو ملّی ایجنڈے میں اور کارِ دعوت کو ملّی سرگرمیوں میں جگہ ہی نہیں ملی… إلاَّ ماشاء اللہ! فکری یلغار کا یہ مقصد پورا ہونے لگا کہ ملّت اسلامیہ اپنے دعوتی کردار سے محروم ہوجائے اور ملکی و عالمی منظر نامے پر کمزور وباطل ادیان کو قوی و توانا دین حق کی پیش رفت کا خطرہ و چیلنج باقی نہ رہ جائے۔
  • اسلام کو تقسیم کرنے کی کوشش: اگر کوئی یہ سوال کرے کہ اسلام کی کتنی قسمیں ہیں اور مسلمانوں کے کون کون سے  ’’اسلامی زمرے‘‘ ہیں تو ہر مسلمان اس سوال پر یا تو ہنس پڑے گا یا خفا ہوجائے گا۔ لیکن کمال ہے اس فکری یلغار کا جس نے سخت گیر اسلام اور روادار (لبرل) اسلام کی د و قسمیں تصنیف کیں۔ دین و شریعت پر عامل مسلمان بنیاد پرست‘رجعت پسند‘ تاریک خیال قرار دیے گئے اوراسلام کو خود آیاتِ قرآنی و احادیث نبوی کی خود ساختہ غلط تعبیر و تشریح کے خنجر سے ذبح کرنے والے مسلمان پروگریسیو۔ اب یہی پروگریسیو اور روشن خیال طبقہ نیشنل پریس کے کالموں میں‘ نیز کانفرنسوں اور سیمی ناروں میں اسلام کی ترجمانی و نمایندگی کرتا ہے۔ اس فکری یلغار کے اثرات بد نے ایک خوفناک رخ یہ اختیار کیا ہے کہ ایسے لوگ بھی جو دین و شریعت کی جڑوں سے چمٹے ہوئے ہیں آہستہ خرامی کے ساتھ‘ لبرل اسلام کی طرف محوِ سفر ہورہے ہیں۔ اب   کم ہمت لوگوں کا ایک درمیانی زمرہ وجود میں آگیا ہے۔ انھیں قرآن و احادیث اور فقہ میں جو درک اور قرنِ اولیٰ کی اسلامی تاریخ کا جو علم حاصل ہے اسے دشمنانِ اسلام کی دی ہوئی لائن پر اسلام کو ’پروگریسیو‘ بنانے میں بروے کار لارہے ہیں۔
  • اسلامی تحریکوں کو بدنام کرنے کی کوشش: فکری یلغار کے مذکورہ بالا اثرات نے اسلام کا اصل چہرہ ایسا گرد آلود اور دھندلا بنادیا ہے کہ اس کے حقیقی چہرے سے ملّت کا سواد اعظم ایک اجنبیت اور غیر انسیت محسوس کرنے لگا ہے۔ اس صورت حال پر حضوؐر کی یہ   پیشین گوئی‘ گویا صادق آنے لگی ہے: ’’اسلام جب آیا‘ تو اجنبی تھا۔ ایک وقت آئے گا جب یہ پھر سے اجنبی بن جائے گا …‘‘ یہی وجہ ہے کہ تحریکاتِ اسلامی‘ اسلام کا حقیقی چہرہ پیش کرنے کی وجہ سے ہر جگہ خود افرادِ ملت کے ذریعے مطعون‘ معتوب و مغضوب ہیں۔ بڑا دل چسپ المیہ ہے کہ  ایک طرف باطل قوتوں کی چیرہ دستیوں سے گلہ و شکوہ بھی ہے اور دوسری طرف تحریکاتِ اسلامی پر الزام و اتہام‘ ان کی کردار کشی اور مخالفت و مزاحمت بھی۔
  • تصورِ تعلیم پر ضرب: فکری یلغار نے اسلام کے تصورِ علم پر کاری ضرب لگائی ہے‘ جس کے نتیجے میں مسلم عوام ہی نہیں خواص کے نزدیک بھی حقیقی علم کی تعریف و تعبیر اور مقصدیت کا حلیہ بگڑ گیا ہے۔ اسی مناسبت سے نظریۂ تعلیم اور تعلیم یافتگی کا مقصدِ عین‘ خالص مادّہ پرستانہ بن کر رہ گیا ہے۔ اب ایسی باتیں سنانے والے بھی کم یاب ہیں اور سننے و ماننے والے بھی کم یاب‘ کہ ’’علمے کہ رہ بحق نہ نماید جہالت است‘‘ (وہ علم‘ جو حق کی طرف راہ نمائی نہ کرے‘ جہالت ہے)‘ اور ’’اللہ سے کرے دور‘ وہ تعلیم بھی فتنہ‘‘۔ لہٰذا بیش تر ملّی تعلیمی سرگرمیوں‘ ملت کی تعلیمی پس ماندگی دور کرنے کی تقریباً تمام تحریکوں اور تعلیمی کاروانوں کو اسی خدا بے زار اور دین بے زار نظریۂ تعلیم سے قوتِ محرکہ و توانائی ملتی ہے۔ کبھی اسلام کے تئیں کچھ رعایت کا خیال آجاتا ہے تو طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ … کی حدیث اور سورئہ علق کی ابتدائی پانچ آیتوں کا حوالہ بھی دے دیا جاتا ہے لیکن بالآخر تان ٹوٹتی ہے کیریئر‘ روزگار‘ تمول‘ دولت مندی‘ مادی خوش حالی‘ معاشی ترقی کے انھی اہداف پر جنھیں غیر اسلام نے متعین و مقرر کیا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ تو یہ ہے کہ ہماری تعلیم یافتہ نسلوں کی کھیپ کی کھیپ مادّہ پرستوں کی بھیڑ میں گم ہوتی جارہی ہے اور دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ جدید تعلیم یافتگی کا‘ یہ گویا ایک لازمہ سا بن گیا ہے کہ یا تو مدارس‘ اسلامی درسگاہوں اور دینی تعلیمی جامعات کی تحقیر کی جائے‘ یا ان کے نصاب تعلیم کو جدید کاری کے نام پر یہ کہہ کر سیکولرائز کرنے کا غلغلہ بلند کیا جائے کہ ان تعلیمی اداروں کے فارغین کسی کام کے نہیں رہ جاتے اور بس ملَّا‘ مولوی‘ امام اور مؤذن بن کر رہ جاتے ہیں جو جدید و اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی نگاہ میں گویا ایک حقیر‘ بے کار اور اپاہج طبقہ ہے۔
  • معاشی تصورات پر زد: مضبوط معیشت اور بہتر معاشی حالت کسی بھی قوم کے لیے ایک خیرِ عظیم کا درجہ رکھتی ہے۔ لیکن دیگر قوموں کے برعکس ملتِ اسلامیہ کی یہ امتیازی پوزیشن ہے کہ اس کی معیشت اسلامی عقائد و اخلاقیات سے وابستہ اور اسلامی پیمانہ ہاے ردّوقبول سے مشروط ہے۔ کسب حلال کے ساتھ کمزور معاشی حالت بھی‘ کسب حرام کے ساتھ ملت میں     کروڑ پتیوں‘ ارب پتیوں کی بھیڑ لگ جانے سے بہر حال اور بدرجہا بہترہے۔ اس پس منظر کے پیشِ منظر میںایک زبردست فکری یلغار ہے جس نے عوام و خواص کے بڑے حصے کو مذکورہ فرق کے تئیں غفلت و بے اعتنائی سکھائی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سودی قرض کے سرمایے سے صنعت کاری کی تدابیر بتائی جارہی ہیں۔ کوئی دانش ور سودی معیشت کو مباح بتارہا ہے تو کوئی پسندیدہ‘ اور کوئی ناگزیر۔ سودی معیشت و اقتصاد کے حق میں کتابوں کی تصنیف و اشاعت ہورہی ہے۔ قرآن اور احادیث کی سخت تنبیہ اور وعید سے بچنے کے لیے سود اور ربا میں فرق ثابت کیا جارہا ہے۔ دارالاسلام اور دارالکفرکی فرسودہ فقہی بحثیں زندہ کی جارہی ہیں۔ مسلمانانِ ہند پر خارجی اور داخلی‘ ہر دو سطح سے ان کی ’معاشی پس ماندگی‘ کے اعداد و شمار کی یورش ہے اور اس کے ساتھ‘ دولت مندی‘ اور انتہائی دولت مندی کی حرص و آز کی تیزو تند لہریں ہیں۔ اس مجموعی کیفیت کے درمیان زندگی کی صالح   خدا پرستانہ تعبیر کمزور پڑ رہی ہے اور اس کی جگہ مادہ پرستانہ تعبیر کو فروغ مل رہا ہے۔
  • صارفیت کا فتنہ : انڈسٹرئیلائزیشن کی غیر معمولی ترقی‘ صنعت و حرفت کی بے پناہ وسعت اور مصنوعات کے بے تھاہ سمندر سے ایک فکری سونامی کی زبردست لہریں اٹھ رہی ہیں جسے صارفیت (consumerism) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک خاموش اور غیر محسوس فکری یلغار ہے کہ انسان کو جتنا زیادہ سکون و آرام درکار ہو‘ مارکیٹ میں دستیاب اتنی ہی زیادہ مصنوعات خرید خرید کر اٹھا لائے اور اپنے گرد ان کے ڈھیر لگا دے۔ اس کی حقیقی ضرورت کیا ہے اور کتنی ہے‘ اس سے  قطع نظر‘ خریداری کا فیصلہ اس بات پر ہو کہ اس کی قوتِ خرید کتنی ہے اور دکانوں میں‘ سوپر مارکیٹوں میں اور پلازاؤں میں کتنی اشیاے صَرف دستیاب ہیں‘ فیشن اور ڈیزائنر فیشن کے کتنے آئٹمز‘ کتنے اور کیسے ملبوسات‘ تکثیرِ حسن و جمال کے کیسے کیسے کاسمیٹکس‘ مکان کی زیبایش اور ڈرائنگ روم کی آرایش کی کتنی اشیا کاؤنٹروں‘ ہینگروں اور شوکیسوں سے دل و دماغ میں ہیجان بپا کررہی ہیں۔ مسلمانوں کو اسراف اور بخل کے درمیان ایک معتدل و متوازن زندگی جینے کی تعلیم دی گئی تھی۔ اسراف کرنے والے کو قرآن میں شیطان کا بھائی کہا گیا تھا۔ سادگی اور قناعت کی زندگی کے    وعظ و تذکیر کے سلسلے جاری کیے گئے تھے۔ لیکن صنعت کاروں و سرمایہ داروں اور بڑے بڑے  تجارتی اداروں کی طرف سے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے توسط سے ہر وقت ہر آن ہونے والی اشتہاری یلغار نے مسلمانوں کی بھی فکر ونظر کی چولیں ہلا کر رکھ دیں‘ اور ملت پر کنزیومرزم کا فتنہ پوری طرح مسلط ہوگیا۔ کوئی خوش نصیب گھرانہ ہی ہوگا جو اس سے محفوظ و مامون ہوگا۔
  • تحدید آبادی کے تصور کی پذیرائی: ملحدوں‘ ڈارون ازم پر ایمان رکھنے والوں اور مالتھس کے پرستاروں کی بات ہو‘ یا دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی‘ اقوامِ عالم میں یہ شرفِ امتیاز امتِ مسلمہ اور صرف امت مسلمہ کو حاصل ہے کہ یہ خدا‘ تخلیقِ عام اور تخلیق انسانی کے درمیان حقیقی تعلق کا ادراک رکھتی ہے اور بخوبی جانتی ہے کہ یہ اللہ کا منصوبۂ عظیم ہے کہ یہ زمین انسانی آبادی سے معمور بھی ہو اور اس آبادی کو قوانینِ فطرت کے تحت چیک اور کنٹرول بھی کیا جاتا رہے۔ ان دونوں پہلوؤں سے اللہ خلاّقِ اعظم نے انسان کی سرشت اور نفس کے اندر سے لے کر خارج میں روے زمین‘ نیز زمین کے اندر و باہر کی لا محدود وسعتوں تک اتنے اہتمامات و انتظامات کیے ہیں کہ ان کا شمار ناممکن ہے۔ اس آفاقی و بدیہی حقیقت کے علی الرغم جب امت مسلمہ پر یہ فکری یلغار ہوئی کہ چھوٹا کنبہ خوش حالی کی ضمانت اور قلیل آبادی ملک کی ترقی کی ضمانت ہے تو کچھ    خوش نصیب نفوس کو چھوڑ کر اکثریت کا … اور بالخصوص مسلم دانش وروں کا‘ اللہ کی رزاقیت پر   یقین و اعتماد پانی کے بلبلے کی طرح ٹوٹ گیا۔ یہ فرق (قصداً یا بلا قصد) نظر انداز کیا جانے لگا کہ خالص انفرادی اور ذاتی سطح پر شوہر‘ بیوی کے لیے اس بات کا جواز کہ وہ زچّہ بچہ (ماں اور نومولود) کی صحت و زندگی سے متعلق کسی ناگزیر کیفیت میں (نہ کہ معاشی بنیاد پر) ضبطِ تولید کا فیصلہ کریں‘ ایک الگ بات ہے جس کی اجازت اسلام دیتا ہے‘ جب کہ مسلم قومی پالیسی کے طور پر ضبط ولادت کے حق میں‘ اس کی افادیت کے دلائل دینا‘ عامۃ المسلمین کو اس کی ترغیب دینا‘ مسلم سماج میں اس کے لیے ذہنی ہمواری پیدا کرنا‘ حتیٰ کہ اس کے مستحب و مستحسن ہونے کی تحریک چلانا بالکل دوسری بات ہے جو اسلامی فکر سے صریح انحراف اور بغاوت کے مترادف ہے۔

کبھی یہ لغو دلیل دی گئی کہ کچھ مسلم ملکوں (مثلاً مصر‘ پاکستان وغیرہ) میں حکومتی سطح سے تحدیدِ نسل نافذ ہے اور اسے وہاں کے علما نے ’شرعی‘ جواز فراہم کردیا ہے‘ جب کہ یہ بات غیرمعروف نہیں ہے کہ عباسی دورِ خلافت سے لے کر اب تک ہمیشہ ایسے علما موجود رہے ہیں جنھوں نے حکمرانوں کے سخت دباؤ میں آکر شریعت میں چور دروازے بھی نکالے ہیں۔ مزید یہ کہ موجودہ مسلم ممالک کے دین بیزار حکمرانوں کے  سیکولر قوانین شرعی حجّت‘ یا نظیر کا درجہ نہیں رکھتے۔

کثرتِ آبادی کو غربت و افلاس‘ ناخواندگی و پس ماندگی اور آبادیوں میں جرائم کی پرورش و فروغ‘ نیز ملک کی ترقی میں حارج قرار دینے کی سازش تو مغرب نے مشرق کے لیے کی جس کے مقاصد اور تفصیلات بہت طویل ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ اتنے کھلے جھوٹ‘ فریب اور فراڈ پر ہمارے بہت سارے نام نہاد ’اسلامی‘ دانش وروں کی بھی آنکھیں‘ اور عقل‘ فواد و ضمیر کے دروازے بند ہیں۔ یہ فکری یلغاراتنی شدید اور اس کے اثرات و نتائج اتنے گہرے اور وسیع ہیں کہ کسی مختصر تحریر میں ان کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔

  • دھشت گردی کا الزام اور تاویلیں: ۱۵‘ ۲۰ سال قبل تک دنیا کے کئی ملکوں اور خطوں میں مسلمان‘ دشمن طاقتوں کے ظلم و استبداد اور استعمار کے خلاف وطنی و قومی جذبے سے حربی مزاحمت کرتے رہے تھے۔ پھر ان مزاحمتی تحریکات کو اسلامی ڈائمنشن دیا گیا اور فطری طور پر اس مزاحمت کو جہاد سے موسوم کیا گیا۔ پہلے دشمن طاقتیں اس مزاحمت کو ’دہشت گردی‘ کہا کرتی تھیں یا ’مسلم دہشت گردی‘۔ اب اسے ’اسلامی دہشت گردی‘ یا ’جہادی دہشت گردی‘ کا نام دے دیا گیا۔ یہ اصطلاحات مسلم انٹلکچوئلز‘ زعما اور علما کے اعصاب پر فکری یلغار بن کر حملہ آور ہوئیں۔ اس کا اثر   یہ ہوا کہ اہلِ علم و دانش نے بیش تر‘ اسے سچ مچ دہشت گردی ہی باور کرلیا‘ خواہ دل سے‘ خواہ زبردست دباؤ کے تحت۔ وہ اسلام کی مدافعت کے نام پر‘ لغوی معنوں میں لفظ جہاد کی تعریف تشریح و تعبیر میں لگ گئے اور اس کے اصطلاحی مفہوم کو دبادیا‘ چھپایا جانے لگا یا اس کی ایسی تاویلات کی جانے لگیں جو دشمن طاقتوں کو پسند آجائیں۔ اس کے لیے یہ بھی کیا گیا کہ بارہ تیرہ صدی قبل  مرتب کی گئی ایسی شرائط کی تکمیل حقیقی اسلامی جہاد قرار پانے کے لیے لازم بتائی گئی جو اول تو   قرآن و احادیث میں منصوص نہیں ہیں اور دوسرے‘ موجودہ دور اور حالات و کوائف میں ان کی کوئی معنویت (relevance) ہی باقی نہیں رہی ہے۔ اس فکری یلغار نے انھیں اتنا مرعوب اور   خوف زدہ کردیا کہ بقول مولانا مودودیؒ، اسلام کے یہ وکلا اسلامی نقطۂ نظر کو ایسے رنگ میں     پیش کرنے لگے جو دشمنانِ اسلام کو پسند آجائے۔ مولانا مودودیؒ جیسی جرأت اور حق گوئی … اتنے بڑے عالَمِ اسلام میں کہیں نظر نہ آئی۔ مولانا نے لکھا تھا کہ ’’اسلام کو اسلام کے اپنے رنگ میں  پیش کردیجیے۔ لوگوں کو پسند آجائے تو بہت اچھا‘ نہ پسند آئے تو کوئی پروا نہیں۔ انبیا علیہم السلام اور اولوالعزم لوگوں کا اسوہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے‘‘۔  ع

کون سنتا ہے فغانِ درویش!

دہشت گردی کی وہ قسم جس میں بے قصور عام شہری مارے جائیں‘ سب سے زیادہ مسلمانوں کے ذریعے مذمت کی مستحق ہے خواہ مجرم کوئی بھی ہو‘ بلکہ اگر مجرم مسلمان ہو تو اس کی اور زیادہ مذمت اور سخت سزا کا مطالبہ مسلمانوں کو‘ دیگر قوموں سے بڑھ کر کرنا چاہیے۔ لیکن دشمنانِ اسلام کی مذکورہ بالا حکمت عملی اور فکری یلغار سے متاثر‘ مسلم دانش ور‘ صحافی‘ علما اور قائدین کی اکثریت نے ایک یکسر غلط رویہ اختیار کیا۔ وہ کوئی حادثہ ہونے کے فوراً بعد مجرم کی مذمت اور اس کے حوالے سے اسلام کا دفاع اس طرح کرنے میں لگ گئے گویا انھوں نے تفتیش کرکے یہ یقین کرلیا ہو کہ حادثے کے مجرم مسلمان ہی ہیں۔ حالانکہ نہ عالمی سطح پر‘ اور نہ ملکی سطح پر یہ کوئی ڈھکی چھپی بات رہ گئی ہے کہ بیش ترحادثوں میں کچھ دیگر مسلم دشمن عناصر‘ تنظیمیں اور ایجنسیاں ملوث ہوتی ہیں اور حادثے کے بعد آناً فاناً مسلمانوں کے نام سے میڈیا اور ملک گونج اٹھتا ہے۔ اس رویے کا اثر یہ ہوا کہ دہشت گردی کے حوالے سے پوری ملت کی‘ اغیار کی نظروں میں مجرمانہ تصویر بنانے اور اسے احساسِ جرم میں مبتلا کردینے میں خود ہم ایک بڑا رول ادا کرنے لگے اور کسی بھی مسلمان کو‘ کسی بھی جگہ اور ہرحادثے کے بعد پکڑ لیے جانے کی فضا ہموار کردی۔ آج کل پوری دنیا میں یہی کچھ ہورہا ہے۔

  • عائلی زندگی اور خاندان کی توڑ پہوڑ: ازدواجی اور عائلی زندگی‘ معاشرہ اور تہذیب و تمدن کی عمارت کی بنیاد کے پتھر ہیں۔ یہ پتھر غیر مسلم معاشروں میں کمزور ہورہے‘ ٹوٹ رہے یا اپنی جگہ سے کھسک رہے ہیں۔ لہٰذا پوری عمارت یا تو شگاف زدہ ہورہی ہے یا منہدم ہورہی ہے۔ اسلام کا فیض ہے کہ مسلم معاشرہ اب تک اس تخریب سے محفوظ ہے۔ دشمنانِ اسلام کو‘ ظاہر ہے کہ یہ بات کیوں کر گوارا ہوتی … خصوصاً جب مسلم معاشرے کے اس امتیاز کی کشش غیر مسلم معاشروں کے مردوں اور عورتوں اور نوجوانوں کو اسلام کی طرف کھینچنے لگی ہو۔ لہٰذا اس محاذ پر طلاق اور تعدد ازدواج کے بارے میں حقوق نسواں اور مساوات مرد و زن کے نہایت خوب صورت ناموں سے ایک زبردست فکری یلغار کی گئی‘ جس سے اہل فکر و نظر‘ اہل علم و تفقہ‘ اہل دانش و بینش کے … حتی کہ اہل دین و تقویٰ کے بھی‘ جو شرعی قوانین کے محافظ و نگراں تھے …دینی اعصاب چَرمَرا اٹھے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ شرعی قوانین‘ نامکمل‘ ناکافی اور ناقص نظر آنے لگے۔ شریعتِ کاملہ و مطہرہ کی شرائطِ نکاح سے زائد اشتراط فی النکاح کا نفاذ ضروری قرار پایا۔ شوہر کے لیے عقد ثانی کو‘ شریعت پر مستزاد سخت شرط کے ساتھ مشروط کیا جانے لگا۔ شریعت کی روح اور شرعی قوانین میں مضمر عظیم حکمتیں ناقابلِ التفات ٹھیریں۔ فکری یلغار کے دباؤ کی شدت میں اس بدیہی حقیقت کا خیال بھی نہ آیا کہ یہ بظاہر د ونوں نیک کام‘ عملاً مسلم ازواج اور خاندانوں پر … اور بالآخر مسلم سماج پر … وہی راستہ کھول دیں گے جو کچھ دور جاکر غیر مسلم معاشروں اور گھرانوں کو تباہی سے دوچار کرتے رہے ہیں اور اس تباہی کے مناظر ہم معاصر تہذیب میں شب و روز کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

مسلم عورت ، خصوصی ھدف

مسلم سماج میں کچھ عورتیں‘ کچھ مخصوص امور میں سچ مچ مظلوم و مقہور ہیں۔ تاہم‘ بحیثیت مجموعی مسلم عورت دنیا بھر کی عورتوں میں سب سے زیادہ اور محسوس طور پر‘ باعزت‘ باعصمت‘ باوقار‘ محفوظ و مامون اور مطمئن ہے۔ اس کی یہ عمومی پوزیشن‘ نیز اس کی وہ کشش جس کی تحریک پر غیر مسلم خواتین دائرۂ اسلام میں مسلسل کھنچتی چلی آرہی ہیں‘  دشمنانِ اسلام کو فطری طور پر ایک آنکھ نہیں بھاسکتی۔ اس پوزیشن کی بقا اور اس کی بحالی میں وہ شہوانیت‘ اباحیت‘ فحاشی ‘ بے لگام جنسی لذتیت اور جنسی انارکی میں لت پت اپنی بزعم خویش عظیم و بے مثال و قابل صدفخر تہذیب کی ٹوٹ پھوٹ اور موت کا پیش منظر دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا انھوں نے عورت کے تعلق سے اسلامی اصول‘ اخلاقیات اور قوانین کے خلاف زبردست منصوبہ بندی کرکے، نقشۂ کار بناکر‘ طریقۂ کار متعین کرکے اسلام پر حملے اور ملّت اسلامیہ پر فکری یلغار کے دہانے کھول دیے۔معلوم ہوا کہ ایسے بے شمار موجود ہیں جو دشمنوں کی سازشوں کو یا تو سمجھنے کی صلاحیت اور ظرف نہیں رکھتے‘ یا قصداً سمجھنا نہیں چاہتے‘ یا دشمنوں سے اتنے زیادہ مرعوب ہیں کہ اس کمزوری کا مداوا وہ مسلم سماج اور اسلامی تہذیب کو تبدیل کردینے میں تلاش کرتے ہیں۔

اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ دانش ور حضرات مسلم سماج میں عورت کی حقیقی اور واقعی مجبوری‘ محرومی اور مظلومی کی نشان دہی کرکے (اسلامی تعلیمات سے دوری‘مسلمانوں کی انفرادی بے عملی و بدعملی‘ اور مسلم معاشرے کی بے اعتدالی‘ بے رحمی و زیادتی کی اصلاح کے لیے) کتابیں‘ مقالے اور تحقیقی مقالے لکھتے۔ مثلاً: عوام و خواص اور ناصحین و مصلحین کی ہر سطح پر پیوست جہیز کی وبا مسلم عورت کو پریشان کررہی ہے۔ سامانِ جہیز کی فراہمی اور بارات کی تواضع کا بوجھ اس کے والدین اور اہلِ خانہ کا استحصال کررہا ہے۔ اسے مہرادا نہ کرنے کے حیلے بہانے وضع کرلیے گئے ہیں۔ اسے ترکہ سے محروم رکھنا پورے اطمینان اور شان سے جاری ہے۔ جہیز کو‘ وراثت میں حصہ کا متبادل بنادینا اس پر مستزاد ہے۔ شوہر اگر بیوی کو معلق کردے تو بیوی کا پرسانِ حال کوئی نہیں۔ شوہر بیوی بچوں کو چھوڑ کر بھاگ جائے اور بیوی دَر دَر کی ٹھوکریں کھائے تو کھاتی رہے۔ عورت بیوہ یا مطلقہ ہوجائے تو اس کا دوسرا نکاح ہونا ویسا ہی معیوب و مشکل ہے جیسا ہندوسماج میں۔ اس کے بھائی‘ باپ کی پوری جایداد (وراثت) ہڑپ کرکے بیٹھے رہیں گے اور پھر بھی سماج میں سرخ رو رہیں گے۔ وہ امیر گھرانوں میں کام کاج کرکے‘ محنت مزدوری کرکے‘ ملازمہ و خادمہ بن کر اپنا اور بچوں کا پیٹ پالے گی اور نہ بھائیوں بھاوجوں اور رشتہ داروں کو رحم آئے گا نہ سماج اور اس کے مصلحین کو… الا ماشا ء اللہ۔

فکری یلغار کے مارے ہوئے دانش ور اور اہل مقالہ جات کو مسلم سماج میں عورت ٹھیک وہیں وہیں مظلوم و مقہور نظر آنے لگی جن گوشوں‘ میدانوں اور مقامات کی نشان دہی شریعتِ اسلامی کے نقص کے طور پر دشمنوں نے کی ہو۔ چند پہلوئوں کا ذیل میں تذکرہ کیا جا رہا ہے:

  • تعلیم نسواں کی جدید تعبیر : تعلیم نسواں کی اہمیت‘ افادیت اور ناگزیریت کی توجیہہ کے اسلامی پیمانے بدل رہے ہیں۔ انھیں اب غالب طور پر مادّی منفعت اور معاشی     ترقی و خوش حالی کا رخ دیا جارہا ہے۔ بات شروع کرتے وقت اگر اسلام کا خیال بھی ملحوظ رہا تو اس حدیث کا تذکرہ بھی کردیا جائے گا کہ علم حاصل کرنا مرد اور عورت سب پر فرض ہے لیکن بات پوری ہوگی تو یوں کہ عورت کو خود کفیل اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی اہل بننا ضروری ہے۔ اس کی تعلیم کیریر کے لیے ہونی چاہیے۔ یہ ٹھیک وہی ایجنڈا ہے جسے اسلام کے بالمقابل‘ دشمنانِ اسلام نے ہمارے دانش وروں کو سجھایا ہے۔
  • ’گہر، چھار دیواری کی قید‘: عورت کے اپنے اصل دائرۂ کار ’گھر‘ کو جس میں  وہ آرام و سکون سے ہے‘ محفوظ ہے‘ عزت و آبرو سے ہے اور نئی نسل کی پرورش‘ اٹھان و تربیت کا  اہم و عظیم فریضہ انجام دے رہی ہے، ’گھر کی چہار دیواری‘ کہا جانے لگا۔ پھر لَے مزید اونچی ہوئی تو اسے ’گھر کی چہار دیواری کی قید‘ بھی کہا جانے لگا۔یہ ’اپنے گھروں میں ٹکی رہو‘ کی قرآنی تعلیم کی تضحیک کے سوا اور کیا ہے؟
  • ’بچے جننے کی مشین‘: مسلم معاشرے پر عورت کے حوالے سے یہ طنز کیا جانے لگا کہ اس میں وہ ایسی حقیر مخلوق بن کر رہ گئی ہے جیسے وہ ’بچے جننے کی مشین‘ ہو۔ اس طرح فکری یلغار کے ماروں نے اس کے مقدس و عظیم منصبِ مادری کی تذلیل کرنے میں بھی تکلف نہ کیا۔ ان کا خیال ہے کہ پیسہ کمانے کی مشین اور گھر سے باہر کی وسیع دنیا میں بھوکی پیاسی نگاہوں کو لذتِ دید فراہم کرنے والی مشین کو بچہ جننے کی مشین محـض بن کر نہیں رہنا چاہیے۔
  • گہر کی سربراھی کا مسئلہ : ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی اجتماعیت کو‘ خواہ وہ فیملی ہو یا بڑے بڑے ادارے‘ حسنِ انتظام اور ڈسپلن عطا کرنے کے لیے ایک منتظم‘ ذمہ دار اور سربراہ کی ضرورت ناگزیر ہوتی ہے۔ فیملی کے لیے اس سربراہ کو قرآن نے ’قوام‘ کہا ہے۔ دوسرے معاشروں میں قوام کا منصب جنسی مساوات کے نام پر یا تو ختم ہوچکا ہے یا آہستہ آہستہ  ختم ہورہا ہے۔ اسی مناسبت سے گھرانے بکھر رہے اور فیملیاں کمزور ہورہی ہیں۔ یہ صریح زیاں   منصہ شہود پر ہونے کے باوجود کچھ مسلم دانش ور‘ قرآن کو خاطر میں نہ لاکر مرد کی قوام کی حیثیت کو مشکوک بنارہے ہیں یا چیلنج کررہے ہیں اور فنی مکاری کو بروے کار لاکر‘ قرآن کے تصورِ مساواتِ مرد و زن کی تاویل کرنے سے نہیں چوکتے۔
  • معاشی آزادی پر زور: عورت کی تخلیقی ہیئت اور مرد کے مقابلے میں اس کی مخصوص امتیازی نفسیاتی‘ جذباتی‘اعصابی ساخت‘ نیز اس کے مخصوص وظیفہ ہاے حیات کی مناسبت سے اسلام نے اس پر (استثنائی و انفرادی حالات کو چھوڑ کر) کسبِ معاش اور مشقت طلب کاموں کا بار نہیں رکھا تھا۔ لیکن اب اس پر اس دلیل کے ساتھ ان ذمہ داریوں اور مشقتوں کا بار رکھا جانے لگا ہے کہ اسلام نے اسے شوہر کا غلام نہیں بنایا ہے۔ اسے آزادی اور کسبِ معاش کا حق حاصل ہے۔ اس بات کو ’ویمن ایمپاورمنٹ‘ کے گمراہ کن لیکن خوشنما لبادے میں لپیٹ کر پیش کیا جارہا ہے۔  مضحکہ خیز اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ حضرتِ خدیجہؓ کو نظیربناکر اس فتنے کو تقدس بھی بہم پہنچادیا گیا۔
  • ملازمت اور پردے کی قید: کیریر کی خاطر تعلیم کے لیے‘ اور تکمیل تعلیم کے بعد ملازمت کرنے کے لیے جن متعدد اخلاقی اور تہذیبی قدروں کو توڑنا لازم سمجھا گیا‘ ان میں      پردہ و حجاب سرفہرست تھا۔ لہٰذا پردے کے خلاف دلائل کا … حتیٰ کہ قرآن‘ احادیث اور فقہ سے استدلال کا بھی انبار لگا دیا گیا۔ آج کل جو عورتیں جینز اور بنیان پہنتی ہیں ان کے ’کیریئر‘ میں چارچاند لگ جاتے ہیں‘ پس مردانہ لباس کی کچھ’اسلامی‘ گنجایش پیدا کرنے کے لیے قرنِ اول کی اسلامی تاریخ سے ایک صحابیہؓ کی نظیر بھی ڈھونڈ نکالی گئی جنھوں نے دورانِ جنگ ’مردانہ‘ لباس  زیب تن کیا تھا۔

کچھ عرصہ پہلے تک یہ سارے کمالات الحاد زدہ‘ دین بیزار‘ نام نہاد‘ روشن خیال‘ آزاد رو‘ لبرل اور پروگریسیو مسلمان ہی کیا کرتے تھے۔ اب مؤقر دینی جامعات کے فارغین بھی میدان میں اتر آئے ہیں۔ ایسی ہی ہے یہ عظیم فکری یلغار اور ایسے ہی غیر معمولی ہیں اس کے اثرات۔ اس یلغار پر اربوں ڈالر اور غیر معمولی محنت صرف کی جارہی ہے۔ فیمنسٹ تحریک کی عالم گیر تنظیمات___  جن کے منصوبوں‘ عزائم ‘ حکمت عملی اور سرگرمیوں سے ملّت کا بڑا طبقہ ناواقف یا غافل ہے ___   اس یلغار میں کارگر اسلحے کا کام کررہی ہیں۔

یہ ہیں موجودہ فکری یلغار کی طویل اور شاخ در شاخ داستان کے چند شذرات اور اس کے اثرات کی چند جھلکیاں۔ اُمت مسلمہ کو ایک بڑا خطرہ اور چیلنج درپیش ہے‘ تاہم مایوسی کی کوئی وجہ نہیں۔ اسلامی تحریکات کے ہاتھوں بحمداللہ فکرِ اسلامی کا احیا ہورہا ہے اور اس کی پیش رفت    بفضلہ تعالیٰ جاری ہے۔ ضرورت ہے کہ یہ زیادہ منظم اور مربوط ہو‘ اور اس پر زیادہ وسائل صرف کیے جائیں۔(بہ شکریہ زندگی نو، دہلی، اگست ۲۰۰۶ئ)

برعظیم پاک و ہند پر قبضے کے فوراً بعد انگریزوں نے وسیع پیمانے پر قانون سازی کا کام کیا اور متعدد بنیادی قوانین وضع کیے۔ عدالتی کارروائیوں کو ضبط میں لانے کے لیے ضابطۂ دیوانی اور ضابطۂ فوجداری مرتب کر کے نافذ کر دیے گئے۔ عدالتوں کی اعانت کے لیے برعظیم میں پہلی مرتبہ پیشۂ قانون وجود میں لایا گیا۔ انگریز چاہتے تھے کہ وہ ایسا نظام وضع کریں جس سے ان کی حکومت کی بنیادیں مستحکم ہوسکیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ان کی اپنی زبان اور اپنے قوانین ہی موزوں ثابت ہوسکتے تھے‘ لہٰذا انگریزوں نے اولین فرصت میں نئے نظام کی قیام کی کوششیں تیز کردیں۔

مطالعے اور تجزیے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انگریزی دور کا نظامِ عدل پیچیدہ اور مہنگا ہے‘ نالشوں میں اضافے کا باعث ہے‘ مقدمہ بازی کے لامتناہی سلسلے کو متحرک رکھنے میں معاونت کرتا ہے اور پھر یہ نظام انصاف مہیا کرنے میں اتنی تاخیر روا رکھتا ہے کہ مقدمہ بازی ختم نہیں ہوتی مگر نالش کنندگان کی زندگیاں ختم ہوجاتی ہیں۔

قیامِ پاکستان کے بعد جس ادارے کی اصلاح کی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ فکر کرنی چاہیے تھی وہ عدلیہ کا ادارہ ہے۔ لیکن بوجوہ آج ملک میں عام آدمی کے لیے انصاف کا حصول سب سے مشکل بن گیا ہے۔ پولیس کی بدعنوانی اپنی جگہ‘ لیکن عدلیہ کا ادارہ انصاف فراہم کرنے اور اپنے آپ کو مفادات‘ بااثر عناصر کے دبائو اور خود حکومت وقت کی دراندازیوں سے   بالا رکھ کر اصلاح احوال کے لیے جو کردار ادا کرسکتا ہے وہ اس میں کامیاب نہیں ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روز بروز عوام کا اعتماد پورے نظامِ عدل پر‘ نچلی سطح سے لے کر اعلیٰ ترین سطح تک بری طرح مجروح ہوا ہے۔ اس ضمن میں قوم جن مسائل سے دوچار ہے ان میں سے اہم ترین یہ ہیں:

اوّلاً یہ کہ قوانین کی تو بھرمار ہے مگر قانون کا احترام عنقا ہے۔ نافذالعمل قوانین کی اکثریت سامراجی دور کا ورثہ ہے اور آزادی کے حصول کے بعد طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ان قوانین میں آزادی کے تقاضوں اور اسلامی قانون و روایات سے ہم آہنگی کے حصول کے لیے کوئی ہمہ گیر تبدیلی نہیں کی گئی۔ دسیوں قانونی کمیشن بنے ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل اور اعلیٰ عدالتی کمیشن نے سفارشات پیش کی ہیں‘ لیکن حکومت اور پارلیمنٹ نے ان پر کوئی توجہ نہیں دی۔ حالانکہ ۱۹۷۳ء کے دستور کے تحت بنیادی حقوق کے نقطۂ نظر سے ملک کے قوانین کی اصلاح دوسال کے اندر‘ اور اسلامی احکام و قوانین کے اعتبار سے سات سال کے اندر مکمل ہوجانا چاہیے تھی۔

دوسری بنیادی چیز ہر سطح پر عدلیہ میں ججوں کے انتخاب‘ ان کی تربیت اور احتساب کے نظام کا غیرمؤثر ہونا ہے۔ ججوں کے انتخاب میں دو ہی بنیادیں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں‘ ایک قابلیت اور دوسری دیانت۔دوسرے شعبوں کی طرح عدلیہ میں بھی تقرر کا نظام نہایت ناقص‘ سیاسی اور دوسری مصلحتوں کے تابع ہے جس کے نتیجے میں ہرسطح پر عدلیہ میں ایسے عناصر بھی در آئے ہیں جن کی صلاحیت اور دیانت دونوں شک و شبہے سے بالا نہیں۔ عدلیہ کو جس تربیتی نظام اور جس نظامِ احتساب کی ضرورت ہے وہ سخت غیرمؤثر ہے۔ دستور نے اعلیٰ عدالتوں کے لیے تقرری کا جو نظام تجویز کیا ہے اس پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔

  • فوری مجوزہ اقدامات: حالیہ تجربات اور دنیا کے دوسرے ممالک کے اقدامات کی روشنی میں جن چیزوںکی فوری ضرورت ہے وہ درج ذیل ہیں:

۱-            عدلیہ کو مکمل طور پر انتظامیہ سے آزاد کیا جائے۔ اس سلسلے میں طے شدہ پالیسیوں پر مکمل طور پر عمل ہونا چاہیے جس میں مرکزی وزارتِ قانون میں ججوں کا بطور سیکرٹری اور صوبوں کے چیف جسٹس صاحبان کا بطور قائم مقام گورنر تقرر کو ختم کرنا شامل ہونا چاہیے۔

۲-            ججوں کے تقرر کے لیے دستوری ترمیم کے ذریعے بالکل آزاد ایک ادارہ نیشنل جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے جو مرکز اور صوبوں کی سطح پر ججوں کے تقرر کے لیے صدرِمملکت کو ایک پینل کی سفارش کرے اور صدر اسی پینل میں سے تقرر کرنے کا پابند ہو۔

۳-            ججوں کی تعداد میں بھی ضرورت کے مطابق اضافے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں مقدمات کی بھرمار ہے اور پورے ملک میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد مقدمات جن میں سے ۵ہزار سے زائد سزاے موت کے مقدمات ہیں‘ زیرسماعت ہیں۔ انصاف میں تاخیر‘ انصاف سے محرومی کی ایک شکل ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں جن میں ججوں کی تعداد میں کمی‘ ججوں کی آسامیوں کا بلاجواز خالی رکھنا (اس وقت اعلیٰ عدالتوں میں مجموعی طور پر ۲۶ سیٹیں خالی ہیں۔ سپریم کورٹ میں ۴‘ لاہور ہائی کورٹ میں ۱۲‘ سندھ میں ۶‘ پشاور میں ۲‘ اور بلوچستان میں ۱۲)‘ وکیلوں کا بار بار مقدمات کی سماعت ملتوی کرانا‘ عدالت کے انتظامی نظام میں کرپشن اورناقص کارکردگی‘ ججوں کی کارکردگی کے جائزے اور احتساب کے نظام کی کمزوریاں قابلِ ذکر ہیں۔ دنیا بھر میں قاعدہ ہے کہ ایک مقدمہ جب ضروری تفتیش مکمل ہونے کے بعد شروع ہوجاتا ہے تو پھر اسے فیصلے تک تسلسل سے جاری رکھا جاتا ہے۔ مقدمات کے فیصلے میں تاخیر کی ذمہ داری عدالت‘ پولیس‘ وکلا اور عوام سب پر آتی ہے اور اس کے مؤثر تدارک کی ضرورت ہے۔

۴-            ججوں کی مدت ملازمت پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد مختلف بامعاوضہ ذمہ داریوں کے لیے ان کے دستیاب ہونے کے بھی اچھے نتائج سامنے نہیں آتے ہیں۔ لہٰذا مناسب ہوگا کہ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھائی جائے‘ پنشن میں اتنا اضافہ ہو کہ ان کو ملازمت کی حاجت نہ رہے اور ان کی صلاحیتوں سے صرف تعلیم و تحقیق اور نیم عدالتی نوعیت کے کاموں میں فائدہ اٹھایا جائے‘ جس کی تنخواہ نہ ہو بلکہ ضروری سہولیات فراہم کی جائیں۔

۵-            ہرسطح پر ججوں کے تقرر‘ ترقی اور احتساب کا نظام قائم کیا جائے۔

۶-            ہر سطح پر ججوں کے لیے تربیت‘ تحقیق اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ضروری انتظامات کیے جائیں۔

۷-            عدلیہ سے متعلق افراد کو خود بھی اپنے احتساب کی فکر کرنی چاہیے۔ ماضی میں      جج حضرات میں سے کچھ نے جس طرح قانون اور عدل پر سیاسی اثرات کو قبول کیا‘ وہ عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو مجروح کرنے کا ذریعہ بنا ہے۔ جج حضرات جس طرح سیاسی اور سماجی محفلوں میں شریک ہو رہے ہیں‘ اس سے ان کی غیر جانب داری کا تاثر مجروح ہو رہا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ جس طرح کا سیاسی کردار ادا کر رہے ہیں وہ ان کے ماقبل کے دورکے بارے میں بھی لوگوں کے اعتماد پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں آداب و روایات کی پاس داری کی ذمہ داری خود عدلیہ پر ہے تاکہ اس کا کردار ہر طرح کی انگشت نمائی سے بالا رہے۔

پاکستان کے دستور کے تحت عدلیہ کی ذمہ داری صرف قانون کی حفاظت نہیں بلکہ دستور کی اطاعت اور حقوق انسانی کے سلسلے میں عوام کے حقوق کا تحفظ بھی ہے۔ اس پس منظر میں عدلیہ کا ہر قسم کی سیاسی جانب داری سے پاک ہونا‘ حکومت کے اثرات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا اور دیانت اور ذہانت کے اعلیٰ ترین معیارات پر پورا اترنا ازبس ضروری ہے۔

  • فوری اور بلا تاخیر انصاف کا حصول: آج پورے ملک میں ایک واویلا ہے کہ انصاف میں سخت تاخیر ہو رہی ہے اور انصاف کا کھلے بندوں خون ہو رہا ہے۔ انصاف میں تاخیر جسدِقومی میں ناسور کی طرح برابر بڑھتا چلا جا رہا ہے اور ہمارے سارے عدالتی نظام کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا اور بے اعتبار کر رہا ہے۔ لہٰذا حکومت کا فریضہ محض قوانین وضع کرنے اور عدالتی کارروائیوں کے ضوابط مقرر کر دینے سے پورا نہیں ہوتا‘ بلکہ اس کو وقتاً فوقتاً یہ بھی جائزہ لینا چاہیے کہ لوگوں کو جلد انصاف مہیا ہو رہا ہے یا نہیں‘ اگر نہیں تواس کی وجوہ کا پتا لگا کر فوراً تدارک کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ عدالتی معائنے کے ادارے کو زیادہ سے زیادہ فعال اور سرگرم ہونا چاہیے اور اعلیٰ عدالتوں کو مستقلاً معائنہ کرتے رہنا چاہیے۔ اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں عدالتوں کے معائنے کا نظام نہایت ہی ناقص ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عدالت عالیہ کا کم از کم ایک جج مستقل طور پر ضروری عملے کے ساتھ اس کام پر مامور کیا جائے کہ وہ اطلاع اور بغیر اطلاع ماتحت عدالتوں کے معائنے میں مسلسل مصروف رہے۔ اس کے علاوہ ڈسٹرکٹ وسیشن جج ضلع کی ماتحت عدالتوں کے معائنے پر مامور ہوں۔ اس طرح ہر عدالت کا سال میں متعدد بار معائنے کا انتظام ہوجانے سے عدالتی کارکردگی بہتر ہوگی۔
  • ججوں کی تعداد میں اضافہ: حصولِ انصاف میں تاخیر کا ایک سبب عدالتوں میں ججوں کی کمی ہے۔ ہر جج کے پاس اتنے مقدمات ہوتے ہیں کہ وہ سواے آیندہ کی پیشی دینے کے کوئی قابلِ ذکر کارروائی نہیں کرسکتا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ حکامِ عدالت کی تعداد میں مناسب اضافہ کیا جائے کیونکہ ان کی کمی کے سبب مقدمات کا تصفیہ ایک طویل اور ہمت شکن عمل ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے کئی صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں‘ مثلاً:

۱-            مناسب تعداد میں تقرری کا معیار میرٹ اور اعلیٰ کردار ہونا چاہیے‘ مگر عمر کی قید پر زیادہ سختی سے عمل نہیں ہونا چاہیے۔

۲-            بعض اوقات عدالتیں مدتوں خالی پڑی رہتی ہیں‘ اس کا سدّباب کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ایڈہاک جج یا مجسٹریٹ مقرر کیے جانے کے لیے وکلا کی ایک فہرست مرتب کی جاسکتی ہے جو حکامِ عدالت کی رخصت یا ترقی کی صورت میں عارضی طور پر عدلیہ میں تعینات کیے جائیں۔ مستقل آسامیوں کے پُر کرنے میں بھی انھیں ترجیح دی جائے۔ اس طرح ان کا تجربہ بڑھے گا‘ اور ان کے کردار اور کارکردگی کا امتحان بھی ہوتا رہے گا‘ نیز یہ کہ کسی عدالت کا کام بھی نہیں رُکے گا۔

  • چہوٹی عدالتوں کا وقار بلند کیا جائے: چھوٹی عدالتوں میں حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ مناسب کورٹ رومز نہیں ہیں‘ ضروری سہولتیں حاصل نہیں۔ مزید یہ کہ ماتحت عدالتوں کے ساتھ ریاستی ڈھانچے کا سلوک کچھ ہمت افزا نہیں ہے۔ انھیں اپنے ہم رتبہ افسران‘ جیسے مال اور سیکرٹریٹ افسران کے مقابلے میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے نچلی عدالتوں میں اچھے کارگزار اور دیانت دار اشخاص آنے سے گریز کرتے ہیں۔ جو لوگ مامور ہیں وہ اکثر اوقات بددیانتی کی طرف راغب ہوجاتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ ان سے کم اہلیت والے وکلا ان سے زیادہ خوش حال ہیں۔ اس لیے اچھے وکلا عدالتوں کی سربراہی کے لیے آگے نہیں آتے۔ اس لیے عدالتوں کو مناسب تحفظ اور کافی سہولتیں فراہم کی جائیں‘ نیز انھیں مالی مشکلات سے بچایا جائے۔
  • کورٹ فیس اور دیگر اخراجات: انصاف رسانی حکومت کا ایک اہم فریضہ ہے جس کی تائید نصوص سے صراحتاً ہوتی ہے کہ عدل رسانی حکومت کا دینی فریضہ ہے۔ قرآنی آیات‘ مستند احادیث اور ائمہ مجتہدین کی آرا کے مطالعے سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ اسلامی حکومت کا یہ فریضہ ہے کہ وہ نسل‘ جنس اور رنگ کی تمیز کیے بغیر تمام باشندوں کو بلااُجرت انصاف کے حصول کی ضمانت دے۔ لہٰذا حکومت دیوانی‘ فوجداری اور آئینی مقدمات میں جتنی جلدی ممکن ہو‘ کورٹ فیس کی وصولی کے نظام کو ختم کرے۔ یہ بات درست ہے کہ موجودہ قانون مجموعہ ضابطہ دیوانی میں مفلس مدعی کی طرف سے اپنے آپ کو مفلس ثابت کر دینے کے بعد دعویٰ دائر کرنے کے مرحلے پر کورٹ فیس لگانے کی پابندی عائد نہیں کی جاتی لیکن مقدمہ دائر کرنے سے پہلے سائل کو اپنی مفلسی ثابت کرکے کورٹ فیس کے بغیر مقدمہ دائر کرنے کی اجازت حاصل کرنے کا طریقہ انتہائی پیچیدہ ہے جس سے مدعیان کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچتا۔ لہٰذا اس طریقۂ کار کو بھی سہل بنانے کی ضرورت ہے۔ (کوڈ آف سول پروسیجر‘ قاعدہ: XLIV)
  • پیشہ ورانہ وکالت کی حوصلہ شکنی: اگر کوئی مدعی اپنے کسی حق کے اثبات و مطالعے کے لیے دعویٰ کرنا چاہے یا مدعا علیہ کو جواب دعویٰ کے لیے عدالت میں حاضر ہوکر جواب دینا ہو تو جس طرح یہ دونوں خود جاسکتے ہیں اسی طرح وہ اپنی طرف سے کسی کو وکیل بناکر بھی بھیج سکتے ہیں‘ یعنی مدعی کی جگہ وکیل دعویٰ دائر کرے اور مقدمہ کی باقی کارروائی چلائے یا مدعا علیہ کے بجاے اس کا وکیل عدالت میں جاکر دعوے کا دفاع کرے اور آخر تک تمام کارروائی چلائے۔ اگر فریقین کو اس وکیل پر کوئی اعتراض نہ ہو تو یہ وکیل درست اور جائز ہے لیکن بغیر کسی معقول عذر کے وکیل بنانا مستحسن نہیں۔

اگر اس قسم کے مستقل پیشہ ور وکلا موجود ہوں جو مدعی سے فیس لے کر قانونی موشگافیوں‘ فقہی جزئیات اور شاذاقوال نکال کر قاضیوں اور ججوں کو مرعوب اور متاثر کرنے اور درست شرعی رہنمائی کے بجاے اپنے مقدمے کو کامیاب کرنے کے سارے ماہرانہ حربے استعمال کریں تو اس طریقے سے عادلانہ نظام قائم نہیں ہوسکے گا۔ اگر خدا کا خوف دامن گیر نہ ہو اور مطمح نظر محض فیس کا حصول ہو تو اسلامی قانون ہی کے نام پر بھی ظلم و جور کے دروازے کھولے جاسکتے ہیں۔ پوری اسلامی تاریخ میں موجودہ دور کی طرح وکالت کا پیشہ ایک مستقل ذریعہ اکتسابِ رزق کے طور پر ثابت نہیں۔ اسلامی نظامِ عدل کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ قاضیوں اور ججوں کی مجالس کے اردگرد سیکڑوں اشخاص شرعی قوانین و احکام کی مہارت کی اسناد اور لائسنس حاصل کیے ہوئے اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کوئی گاہک آئے گا۔ خلاصے کے طور پر اعلاء السنن کی ایک عبارت درج کی جاتی ہے:

(ترجمہ:) جو کوئی موجودہ زمانے کے وکیل حضرات کے حالات کا آنکھوں دیکھے مشاہدہ کرے کہ وہ کس طرح باطل کو حق ثابت کرتے ہیں اور حق کو باطل بنا دیتے ہیں تو اس کو  اس بارے میں کوئی شک و شبہہ نہیں رہے گا کہ امام ابوحنیفہؒ نے جو کچھ فرمایا تھا وہ بالکل درست تھا اور یہ کہ سنت نبویؐ کے فہم میں وہ کس قدر باریک بین اور حقیقت شناس تھے۔ ہم پورے یقین کے ساتھ اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ اگر وکالۃ بالخصومات کا یہ دروازہ بند کر دیا جائے اور فیصلہ کرنے والے قاضی حضرات مدعی اور مدعا علیہ کی بات بلاواسطہ خود ان کی زبانی سنیں اور گواہی دینے والے خود براہِ راست ان کے سامنے گواہی دیں اور وکلا حضرات گواہوں کو پٹی نہ پڑھایا کریں تو قاضیوں کے سامنے جب مقدمات پیش ہوجائیں تو پہلے ہی دن اس مقدمے میں واضح ہوجائے گا کہ ان میں سے کون حق پر ہے اور کون ناحق۔ اکثر باطل کی پہچان میں تاخیر واقع ہوجاتی ہے اور جلد فیصلہ نہیں ہوسکتا تو اس کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ وکلا حضرات خواہ مخواہ تلبیس کرتے ہیں‘ حق کے خلاف باطل کی حمایت میں حیلے بیان کرتے ہیں اور اپنی فنی مہارت سے حق و باطل کو خلط ملط کرکے معاملے کو مشتبہ بنا دیتے ہیں۔ اصل فقیہہ وہ ہوتا ہے جو اپنے زمانے کے حالات کو دیکھ کر اور ان کو پیش نظر رکھ کر احکام بتا دیا کرے۔ گویا فقاہت کا تقاضا یہی ہے کہ پیشہ ورانہ وکالۃ بالخصومہ کی اصلاح کی جائے۔ (ظفراحمد عثمانی‘ اعلا السنن‘ کتاب الوکالۃ‘ باب الوکالۃ بالخصومۃ‘ ۱۵/۳۴۵‘ دارالکتب العلمیۃ‘ بیروت ۱۹۹۷ئ)

  • پیشہ ورانہ تعلیم قانون: اگرچہ وکالت کو بطور پیشہ اختیار کرنا کوئی بہت پسندیدہ کام نہیں کہا گیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں عامۃ الناس اپنے معاملات کو قانون سے عدمِ واقفیت کی وجہ سے عدالت میں خود پیش نہیں کرسکتے‘ کیونکہ دعویٰ دائر کرنے کے لیے ایک خاص طریقہ مروج ہے اور عامۃ الناس اس طریقے سے ناواقف ہیں۔ علاوہ ازیں عدالت میں پیشے کے لیے وکیل کا کسی مسلمہ یونی ورسٹی سے قانون کی ڈگری کا حاصل ہونا بھی ضروری ہے۔ وکالت کو بطور پیشہ معاشرے نے قبول کرلیا ہے‘ اب اس کو ختم کرنا ممکن بھی نہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس پیشہ کی اصلاح پر توجہ دی جائے۔ قانون کا پیشہ اختیار کرنے کا ارادہ رکھنے والے طلبہ کے لیے    مخصوص مضامین میں نمایاں کامیابی ضروری قرار دی جائے۔ مزید یہ کہ ایل ایل بی کے نصاب میں ادب القاضی کے عنوان سے مستند فقہی کتب شامل کی جائیں کیونکہ موجودہ نصاب کے تحت قانون کی تعلیم کی تدریس تو ہوجاتی ہے لیکن شریعت نے افسران عدالت کے اخلاقی رویے کے لیے جو تعلیمات دی ہیں وہ نہ تو موجودہ نصاب کا جزو ہیں اور نہ کورس کے اختتام پر ہی زائد لیکچرز کے ذریعے طلبہ کو بتائی جاتی ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ قانون کی تعلیم کے رائج الوقت نصاب پر نظرثانی کی جائے۔

فراھمی انصاف میں وکلا کا کردار: تاخیر سے عدل کی فراہمی سے خود عدل کے تقاضے مجروح ہوتے ہیں اور فریقین میںاختلافات کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ عدل رسانی میں تاخیر‘ عدل کی نفی کے مترادف ہے۔ ایسے معاشرے میں فوری انصاف بھلا کیسے  ممکن ہے جہاں کامیاب وکیل وہ شمار ہوتا ہے جو لمبی پیشی دلوانے میں کامیاب ہوجائے۔ بلاتاخیر انصاف کی فراہمی وکلا کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں اور یہ تبھی ممکن ہے جب وکلا اپنے حقیقی منصب اور ذمہ داری کا پاس کریں۔ وکلا کے حقیقی فرائض حسب ذیل ہیں: l اپنے حقوق سے ناواقف افراد کی طرف سے وکالت کرکے ان کو استحصال سے بچانا l عوام میں ان کے حقوق اور ذمہ داریوں کا شعور بیدار کرنا l  مظلوم کی مدد کرنا اور غاصب و جابر کو عدالتی استقرار حق کے ذریعے مظلوم کا حق دینے پر مجبور کرنا l عدالتی معاملات میں معاونت‘ یعنی عدل کی بنیاد پر فریقین کے مابین مصالحت میں تعاون کرنا l تنازعات کو نمٹانے اور قانون کی تشریح میں عدالت کی معاونت l خائن افراد کی وکالت قبول کرنے سے انکار کے ذریعے سے معاشرے میں دیانت داری‘ سچائی اور نیکی کو فروغ دینا۔

پیشۂ وکالت کو اصلاً مندرجہ بالا فرائض کا پابند ہونا چاہیے لیکن شومئی قسمت اس پیشے کے تقدس کو بحال نہیں رکھا گیا۔ اکثر وکلا زیادہ مقدمات لینے کی وجہ سے مناسب تیاری نہیں کرپاتے جس کی وجہ سے یا تو تاریخ لی جاتی ہے یا پھر صحیح طور پر دلائل نہیں دیے جاسکتے اور اس طرح اپنے حقیقی فرائض سے خیانت کرتے ہیں۔ موجودہ وکالت کی ایک بڑی خرابی جو فراہمی انصاف میں تاخیر کاسبب بنتی ہے وہ یہ ہے کہ پیشۂ وکالت سرمایہ دارانہ نظام کا ایک حصہ ہے۔ جس کی جیب بھاری ہو‘ وہی اس نظام سے استفادہ کرسکتا ہے۔ غریب آدمی یا تو اس سے محروم رہتا ہے یا اپنی ساری جمع پونجی وکیل صاحب کے حوالے کردیتا ہے اور رہی سہی کسر وکیل صاحب کے منشی حضرات نکال دیتے ہیں جو ہر پیشی پر نقول کے نام پر ہزاروں روپے اینٹھ لیتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ پیشہ وکالت بذاتہ درست اور مستحسن ہے لیکن بوجوہ خراب اور غیرمستحسن ہے۔ لہٰذا اس پیشے کا تقدس بحال رکھنے کے لیے طریقہ تدریس اور نصاب تدریس پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

  • عدالتی امور میں اُردو کی حوصلہ افزائی: انصاف رسانی کے نقطۂ نظر سے یہ ضروری ہے کہ عوام اور اہلِ معاملہ خود قانون پڑھ اور سمجھ سکیں اور عدالتی کارروائی فریقین اور حاضرین سب سمجھ سکیں اور مطمئن ہوں کہ انصاف کا تقاضا پورا ہو رہا ہے۔ پاکستان کی قومی زبان اُردو ہے اور عدالتی زبان لازماً اُردو ہی ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ تمام قوانین کے مستند اُردو تراجم کرائے جائیں اور قوانین کے معیاری ایڈیشن حکومت کی نگرانی میں اور حکومت کی جانب سے شائع کیے جائیں اور آیندہ قانون سازی بھی اُردو میں کی جائے۔ اس مقصد کے لیے حکومت نے مقتدرہ قومی زبان کے نام سے ایک ادارہ اسلام آباد میںقائم کیا ہے جو کتب کے معیاری اُردو تراجم فراہم کرنے میں کوشاں ہے‘ تاہم اس ادارے کی مزید سرپرستی اور سب سے بڑھ کر عملی اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔ مزید برآں یہ کہ مقتدرہ قومی زبان کی طرف سے قانون کے جو تراجم سامنے آئے ہیں وہ عام فہم نہیں ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ ان تراجم کے مقابلے میں انگریزی قوانین نسبتاً عام فہم‘ سادہ اور آسانی سے سمجھ میں آنے والے ہیں۔

موجودہ نصابِ تعلیم عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ زبان شستہ اور عام فہم ہے۔ مشکل اور پیچیدہ عبارات سے حتی المقدور اجتناب کیا جاتا ہے لیکن ہماری عدالتوں میں مستعمل اُردو زبان انتہائی پیچیدہ‘ اُلجھی ہوئی اور متروک ہے۔ مزید یہ کہ انگریزی سے اُردو تراجم بھی انھی متروک الفاظ اور عبارات سے کیے گئے ہیں۔ اصحاب الرائے کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔

  • حکم امتناعی کا غلط استعمال:حکمِ امتناعی (stay order) کا غلط استعمال بھی انصاف میں تاخیر کا ایک بڑا سبب ہے۔ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جب حکم امتناعی جاری کیا جائے تو اس بات کا خیال رکھا جائے کہ فریقین اس کا غلط استعمال نہ کریں۔ بہترین طریقہ یہ ہے کہ اصل مقدمے کو جلد از جلد نمٹایا جائے‘ بالخصوص جن مقدمات میںحکم امتناعی جاری کیا گیا ہو۔ عام طور پر ماتحت عدالتیں ان مقدمات میں کارروائی آگے    نہیں بڑھاتیں جن کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ فریقین نے اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرلیا ہے۔ یہ طریقہ غیرمناسب ہے۔
  • التوا کی درخواستیں: انصاف کی فراہمی میں تاخیر کی وجہ سے عوام کا عدالتوں پر سے اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے اور اس تاخیر کی ایک وجہ التوا کی درخواستیں ہیں۔ عدالتیں معمول کے مطابق التوا دے دیتی ہیں اور فریقین بھی معمول کے مطابق التوا کی درخواستیں دے دیتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ التوا کی درخواستوں کا سختی سے جائزہ لیا جائے۔ کوئی معقول عذر ہو تو التوا دینا چاہیے ورنہ نہیں۔ وکلا صاحبان اور جج حضرات اگرچاہیں تو باہمی تعاون سے التوا روک سکتے ہیں۔
  • عدم تعمیل سمن: سمن کی عدم تعمیل فصل خصومات میں تاخیر کا ایک بڑا سبب ہے۔ مدعا علیہ پر سمن کی تعمیل میں تاخیر فصل خصومات کی تاخیر پر منتج ہوتی ہے۔ موجودہ صورت حال کچھ یوں ہے کہ سمن کی عدم تعمیل کی صورت میں بیلف سمن کی پشت پر اپنا حلفیہ بیان عدالت میں اپنی اس تصریح کے ساتھ پیش کردیتا ہے کہ مدعا علیہ پر سمن کی تعمیل نہ ہوسکی‘ یا مدعا علیہ لاپتا ہے یا تعمیل سمن سے انکاری ہے‘ جب کہ صورت حال کچھ اور ہوتی ہے۔ اس کے بعد عدالت یک طرفہ کارروائی شروع کرسکتی ہے۔ یہ روز مرہ مشاہدے کی بات ہے کہ بیلف کا بیان محض رسمی ہوتا ہے اور یہ بیان دیتے ہوئے اسے اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ بات مناسب معلوم ہوتی ہے کہ بیان حلفی کی تصدیق حاکمِ عدالت کے روبرو ہوا کرے‘ تاکہ بیلف کو اپنے بیان کی صداقت‘ اس کے شرعی تقاضوں اور ذمہ داریوں کا احساس بوقت حلف مستحضر رہے اور یہ محض رسمی ضابطے کی کارروائی بن کر نہ رہ جائے‘ نیز یہ کہ مدعا علیہ اگر حاضر نہ ہو تو اس کی عدم موجودگی میں عموماً فیصلہ نہ کیا جائے بلکہ عدالت میں اس کی حاضری کے لیے اشتہار جاری کرنے کے موجودہ طریق کار کو بدل کر اس کو زبردستی حاضر کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ اگر اس کے باوجود مدعا علیہ حاضر نہ ہو تواس کو گرفتار کرکے عدالت میں لایا جائے اور تعمیل سمن کے لیے جومیعاد مقرر ہے اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔
  • ماھرین کی آرا کا حصول: عدالتی معاملات میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ قرائن کی جانچ پڑتال مثلاً فنگرپرنٹس‘ خون کے دھبے اور تحریروں کی شناخت کے لیے تجزیہ گاہوں کی شدید کمی ہے۔ ان کی رپورٹس میں تاخیر فیصلے میں تاخیر پر منتج ہوتی ہے۔ ہر تحصیل کی سطح پر نہ سہی‘ کم از کم ہرضلع کی سطح پر ایسی تجربہ گاہیں موجود ہوں جو ان مقاصد کے لیے استعمال کی جاسکیں‘ نیز متعلقہ افسر اپنی رپورٹ مقررہ مدت میں لازماً عدالت میں پیش کرنے کا پابند ہو۔
  • زائد المیعاد دعووں کی سماعت: دعویٰ محض زائد المیعاد ہونے کی وجہ سے اپنی حقیقت نہیں کھو دیتا بلکہ اس کا اثر صرف اتنا ہوتا ہے کہ مروجہ عدالتیں ایسے دعوے کو سننے سے انکار کردیتی ہیں۔ البتہ مجلۃ الاحکام العدلیۃ کی عبارات سے واضح ہوتا ہے کہ اگر مدعی بغیر کسی عذر شرعی کے ۱۵ سال تک اپنے حق کے حصول کے لیے سعی نہیں کرتا تو وہ یا اس کے ورثا اس مدت کے بعد اس حق کے حصول کے لیے دعویٰ نہیں کرسکیں گے۔ عدالت عظمیٰ پاکستان‘ شریعت اپیلینٹ بنچ کے فاضل جج‘ جسٹس (ر) محمد تقی عثمانی نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے (1991 SCMR 2063) کہ زائد المیعاد دعووں کی وجہ سے اگر کسی کا حق ضائع ہونے کا خدشہ ہو تو وہ کسی اور ذریعے سے اپنا حق حاصل کرسکتا ہے۔

مذکورہ فیصلے میں لفظ کوئی اور ’طریقے‘ سے کیا مراد ہے۔ سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ فاضل جج یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مروجہ عدالتی نظام اور قوانین سے ہٹ کر اگر کوئی ممکنہ صورت ہو تو زائد المیعاد دعوے کی سماعت کی جائے۔ اس ضمن میں حسب ذیل تجاویز پر عمل کیا جا سکتا ہے:

۱-            ہرضلع کی سطح پر کم از کم ایک جج مقرر ہوجو صرف دعاوی اندر میعاد دائر نہ کرنے کی وجوہ کی سماعت کر کے اس بات کا تعین کرے کہ مدعی کے پاس دعویٰ دائر نہ کرنے کا معقول عذر تھا  یا نہیں۔ عذرِ شرعی پر انسان قدرت نہیں رکھتا‘ لہٰذا وہ جج ایسے دعوے کی بغیر اضافی اخراجات اور جرمانہ کے سماعت کی سفارش کرے اور اسے متعلقہ عدالت میں ارسال کردے۔ بصورتِ دیگر عدالت جرمانے یا جو بھی مناسب کارروائی ہو‘ کرسکتی ہے‘ تاہم دعوے کی سماعت ہر صورت کی جائے۔ اس طرح بقیہ عدالتیں اپنے روز مرہ کے معمولات اور مقدمات کے تصیفے میں مصروف رہیںگی اور ان کا طویل وقت اس بات پر صرف نہیں ہوگا کہ دعویٰ زائد المیعاد ہے یا اندرمیعاد ہے۔

۲-            یہ بھی ہوسکتا ہے ایسے مقدمات کو ثالثی کے ذریعے طے کرلیا جائے‘ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب دوسروں کا مال ناحق کھانے کی جواب دہی کی فکر اور دل میں خدا خوفی ہو۔

۳-            ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ایسے مقدمات کو سیاسی سطح پر جوڑتوڑ کرکے نمٹا لیا جائے۔ مذکورہ تینوں صورتوں میں سے جو بھی ممکن ہو اس سے متعلقہ عدالت کو باخبر کردیا جائے اور عدالت اس فیصلے کی توثیق کر کے اس کا اجرا کردے تاکہ بعد میں کوئی تنازعہ پیدا نہ ہو۔

  • پولیس کی اصلاح: انصاف کی فراہمی پولیس کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔  خاص طور پر فوجداری انصاف میں پولیس کی اصلاح بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ جب تک بنیاد درست نہیں ہوگی جو عمارت بھی بنائی جائے گی وہ ناپایدار اور ناہموار ہوگی۔ فراہمی انصاف میں یہی حیثیت انتظامیہ کی ہے۔ جب تک انتظامیہ منصف مزاج نہ ہوگی لوگ انتظامیہ کے ظلم کا شکار رہیں گے۔ دیوانی انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مقدمات اور ججوں کی تعداد میں بہت زیادہ عدمِ تناسب ہے اور اسے ضرورت کے مطابق ججوں کی فوری اور بلاتاخیر مزید تقرری سے ہی پورا کیا جاسکتا ہے لیکن پولیس اور متعلقہ شعبہ جات کی اصلاح کے بغیر فوجداری انصاف کا حصول ممکن نہیں۔

حاصلِ کلام یہ کہ اللہ رب العالمین حاکمِ تشریعی بھی ہے۔ جس طرح اس نے انسان کی مادی زندگی کو بحال رکھنے کا بندوبست کیا ہے‘ اسی طرح اس کی روحانی اور تمدنی زندگی کے لیے کامل اور مبنی بر عدل نظامِ حیات بھی دیا ہے جس میں زندگی کے ہر شعبے کے لیے قوانین و ہدایات موجود ہیں۔ اس کے احکام و قوانین کسی خاص فرد‘ قبیلے یا قوم کی خواہشات و اغراض کے تابع نہیں ہیں‘ بلکہ پورے نوع انسانی کی مصلحت پر مبنی ہیں۔ خلافتِ الٰہی اور نیابتِ خداوندی کے ساتھ سب سے پہلا فریضہ جو انسان کے سپرد کیا گیا ہے وہ لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرنا ہے‘  لہٰذا ایک آزاد عدلیہ کا قیام اسلامی حکومت کے لیے فرضِ عین کا درجہ رکھتا ہے۔

’روشن خیال اعتدال پسندی‘ موجودہ حکومت کی قدرِ اساسی ہے۔ اس حکومت کی سماجی‘ معاشی اور تعلیمی پالیسیاں حتیٰ کہ خارجہ پالیسی بھی اسی قدرِ اساسی سے رہنمائی حاصل کرتی ہے۔ روشن خیال اعتدال پسندی کا نتیجہ ہے کہ دوسرے ملکوں سے مسلمان طلبہ دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے دینی مدارس میں داخلہ نہیں لے سکتے کیونکہ حکومتِ پاکستان نے اس کے لیے تعلیمی ویزا کی سہولت ختم کر دی ہے‘ جب کہ دشمن ملک بھارت سے نچیے‘ گویّے اور پاکستان کے خلاف  خبثِ باطن رکھنے والے قلم کار‘ فلم سٹار اور نام نہاد دانش ور کھلے عام آسکتے ہیں۔ یہ روشن خیال اعتدال پسندی ہی کا شاخسانہ ہے کہ تعلیم کا میدان فری فار آل (free for all) کردیا گیا ہے۔ پاکستان یونی ورسٹیوں‘ غیرملکی اسکول سسٹمز اور اندرون ملک تعلیمی تاجروں کی کھلی چراگاہ بن گیا ہے۔ اسلام اور نظریۂ پاکستان کے بعض اساسی تصورات کی نفی کرنے والے نصابات اور درسی کتب بلاروک ٹوک ہماری نئی نسل کے اذہان کو منتشر‘ بے راہ رو اور مسموم کر رہی ہیں اور ۱۹۷۶ء کا ایجوکیشن ایکٹ روشن خیال اعتدال پسندی کی زنجیروں میں جکڑا بے بسی کا عبرت ناک نشان بنا ہوا ہے جس کی داد رسی کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کا عدل پسند چیف جسٹس بھی شاید ہی حرکت میں آئے۔ بھارت جیسا سیکولر ملک بھی درسی کتب اور تدریسی مواد کو قومی تہذیب و تمدن اور تعلیم و تعلم کے قانونی تقاضوں سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے ٹیکسٹ بکس ریگولیٹری اتھارٹی قائم کررہا ہے لیکن ہم نے روشن خیال اعتدال پسندی کے نام پر اپنے قومی نصابِ تعلیم کی تدوین اور درسی کتب کی تیاری‘ جرمنی کے بین الاقوامی امدادی ادارے جی ٹی زیڈ (GTZ) کے سایۂ عاطفت میں دے دی ہے۔

اساتذہ کو روشن خیال اعتدال پسندی کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے انھیں گروہ در گروہ امریکا روانہ کیا جا رہا ہے تاکہ اساتذہ کی ایک مؤثر تعداد روشن خیال اعتدال پسندی کی مشعل ہاتھ میں پکڑے پورے تعلیمی نظام کو روشن خیال اعتدال پسندی کی نعمت سے بہرہ ور کرے۔ شعبہ نصابیات اور تربیتِ اساتذہ کے بڑے بڑے اداروں کو روشن خیال اعتدال پسندی کے فریم ورک کے مطابق اہلیت کے فروغ (capacity building)کے لیے کینیڈین انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ایجنسی (CIDA)کے تصرف میں دے دیا گیا ہے۔ نیز اندرونِ ملک اعلیٰ سطح کے ٹیچرز ٹریننگ کے ادرے تباہ کر کے تربیتِ اساتذہ کی ذمہ داری روشن خیال اعتدال پسند این جی اوز کو سونپ دی گئی ہیں جن کے پاس تجربہ کار ٹیچر ٹرینرز تو کجا مناسب تعلیم یافتہ اساتذہ بھی نہیں ہیں۔

دو تین ماہ پہلے ڈائریکٹوریٹ آف اسٹاف ڈویلپمنٹ پنجاب لاہور کے مین ہال میں ایک دل چسپ صورتِ حال پیداہوئی۔ سینیراساتذہ اور تعلیمی منتظمین کا ایک دورانِ ملازمت تربیتی کورس زیرعمل تھا۔ کورس کے شرکا میں بی ایڈ‘ ایم ایڈ حتیٰ کہ بعض ایم فل ایجوکیشن کی ڈگریوں کے حامل سینیر خواتین و حضرات شامل تھے۔ لاہور کی دومقامی این جی اوز کا ایک کنسوریشم کورس کنڈکٹ کرا رہا تھا۔ خاتون کورس کنوینر نے جب محسوس کیا کہ شرکا کورس اُن کی ٹریننگ سے متاثر نہیں ہو رہے تواُس نے رعب جمانے کی خاطر بڑے فخر سے شرکا کو بتایا کہ دیکھیں میں نے بی اے کے ساتھ  بی ایڈ بھی کیا ہوا ہے اور ہم آپ کو بہت بلند سطح کی ٹریننگ دے رہے ہیں۔ اس پر شرکا کورس فہمی ہنسی سے پھٹ پڑے اور بڑی دیر تک ماحول سخت غیرسنجیدہ رہا۔ یہ ہے روشن خیال اعتدال پسندی کا وہ روپ جو سرخی پائوڈر اور غازے کے ہتھیاروں سے مسلح ترقی پسند خواتین کے ذریعے سے عام کیا جا رہا ہے۔ ابتدائی تربیتِ اساتذہ کے علاوہ روشن خیال اعتدال پسندی کی ترویج دو سطحوں پر کی جارہی ہے۔ ایک سطح بچپنے کی تعلیم ہے اور دوسری سطح ہائر ایجوکیشن کے ادارے ہیں۔ ابتدائی تعلیم کے لیے ارلی چائلڈہڈ ایجوکیشن (Early Childhood Education) یا ECE کے نام سے منصوبوں کو زیرعمل لایا جارہا ہے۔ اس سطح پر اور اداروں کے علاوہ سب سے زیادہ متحرک اور پُرجوش ادارہ امریکا کا چلڈرن ریسورس انٹرنیشنل (CRI) ہے۔ اس ادارے نے فیڈرل کیپٹل اسلام آباد کے اسکولوں سے آغاز کیا اور اب صوبوں تک رسائی حاصل کر رہا ہے۔ ہائر ایجوکیشن تو سراسر روشن خیال اعتدال پسندی کی شمع فروزاں کیے ہوئے ہے۔ کیا سرکاری یونی ورسٹیاں اور کیا غیر سرکاری یونی ورسٹیاں اور انسٹی ٹیوٹس‘ کیا اسلامسٹوں کے زیراہتمام چلنے والے اور کیا سیکولرسٹوں کے سایۂ عاطفت میں فروغ پانے والے ادارے‘ سبھی مغربی تعلیم‘ مغربی تہذیب اور مغربی تصورِ علم و تحقیق کو فروغ دے رہے ہیں۔ روشن خیال اعتدال پسندی کے یہ مراکز مغربی علمیات (Western Epistomilogy) کی اساس پر مغربی معاشیات‘ مغربی سماجیات‘ مغربی نفسیات اور مغربی انسانیات کی تعلیم کے ذریعے طوعاً کرھاً روشن خیال اعتدال پسندی کے ایجنڈے کی ہی تکمیل کر رہے ہیں۔ حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن اور اعلیٰ تعلیم کی پالیسیوں کے ذریعے آزادانہ فکروتحقیق کے سوتے خشک کر کے روشن خیال اعتدال پسندی کی آب یاری کو یقینی بنا رکھا ہے۔ یونی ورسٹیاں عام طور پر جرنیلوں یا اباحیت پسند سیکولر ذہن کے سخت گیر وائس چانسلروں کے تصرف میں دے دی گئی ہیں جہاں اسلامی ذہن کے پنپنے اور آگے بڑھنے کے راستے مسدود ہیں۔

نظامِ تدریس و تعلّم کو کنٹرول کرنے کا سب سے مؤثر ہتھیار امتحان ہے۔ امتحانی سوالوں کی نوعیت‘ پرچوں کی ترتیب‘ مضامین کے کسی سرٹیفیکیٹ یا ڈگری کے حصول میں باہمی اہمیت‘ طلبہ کے جوابی پرچوں کی مارکنگ اسکیم اور امتحانی پرچوں میں سوالوں کے لیے مختلف مضامین کے درسی مواد کا انتخاب‘ وہ عناصر ہیں جو امتحانات کو پورے نظامِ تعلیم پر حاوی کردیتے ہیں۔ روشن خیال اعتدال پسندی کے ذہین مؤدین نے اس امر کو سمجھا ہے۔ آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ اسی سوچ کا نتیجہ ہے۔ نظامِ تعلیم میں روشن خیال اعتدال پسندی کے مؤثر نفوذ اور نفاذ کے لیے شاید ہی اس سے بہتر تدبیر ممکن ہو۔ بے نظیر حکومت کے دوسرے دور سے اس کی کوشش ہورہی تھی۔ نوازشریف کے دوسرے دورِ حکومت میں اس سلسلے میں پالیسی فیصلہ کرایا گیا اورجنرل پرویز مشرف کی روشن خیال اعتدال پسند حکومت نے اسے نفاذ تک پہنچایا۔ آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ اگر چلتا ہے (اور بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ چلے گا اور خوب چلے گا)تو کم از کم میٹرک اور انٹر کی سطح پر لبرل اور سیکولر عناصر کی روشن خیال اعتدال پسندی بتدریج جڑ پکڑتی جائے گی اور اسلامسٹوں کے تعلیمی ادارے بھی طوعاً کرھاً یہ راستہ اپنائیں گے جس طرح کہ اس وقت وہ او لیول اور اے لیول (O'Level & A Level) کے برطانوی امتحانات کا بہت تیزی سے شکار ہو رہے ہیں۔ یہ امر قابلِ غور ہے کہ آغا خان امتحانی بورڈ کو تو شاید ہم کچھ وقت تک اور کسی حد تک دبائو میں رکھ سکیں لیکن کیمبرج یونی ورسٹی اور ایڈیکسل کے برطانوی امتحانات تو بالکل ہمارے کنٹرول میں نہیں اور نہ اُن کے نصاب اور کتاب پر ہمارا کوئی زور ہی چلتا ہے۔

پرویز مشرف کی نیم سیاسی لیکن فوجی حکومت نے روشن خیال اعتدال پسندی کے فروغ کے لیے سہ طرفہ حکمتِ عملی (three prong strategy) اپنائی ہے۔ تعلیم ایک شعبہ ہے۔ قانونی تبدیلیاں دوسراشعبہ ہے اور میڈیا کی مادرپدر آزادی تیسرا شعبہ ہے۔ زیرنظر مضمون میں تعلیم کے ذریعے روشن خیال اعتدال پسندی کا فروغ ہمارا موضوع ہے۔ اس شعبے میں اب ایک نیا شاخسانہ اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ براے تحقیق‘ تعلیم اور مکالمہ کا قیام ہے۔

اس ادارے کے بارے میں ابتدائی غوروفکر ۲۰۰۳ء میں اسلام آباد میں کیا گیا۔ ۲۰۰۴ء میں اس سلسلے میں پیش رفت ہوئی اور حکومت کے زیراہتمام ۱۹ تا ۲۱ نومبر۲۰۰۴ئ‘ مسلم اسکالرز کی ایک بین الاقوامی مشاورت منعقد ہوئی جس کے متعلق دعویٰ کیا گیا کہ پچھلے ۲۰۰ سال میں پہلی مرتبہ ۱۴ملکوں سے ۴۵ اسکالرز اس مشاورت میں اکٹھے ہوئے۔ اس مشاورت میں روشن خیال اعتدال پسندی کو فروغ دینے والا ایک ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور روشن خیال اعتدال پسندی کا یہ ٹاسک امریکا میں ۳۴ سال سے درس و تدریس میںمشغول ڈاکٹر رفعت حسن کے ذمے لگایا گیا۔ آخرکار اس ادارے کا قیام غالباً ستمبر۲۰۰۵ء میں عمل میں آیا۔ اس ادارے کا صدر دفتر لاہور کینٹ میں ہے اور اسے جنرل پرویز مشرف نے ۵۰ کروڑ روپے کی خطیر رقم ابتدائی اخراجات کے لیے مہیا کی ہے۔ ادارے کی سربراہ نے دعویٰ کیا ہے کہ انھیں کوئی بیرونی پشت پناہی حاصل نہیں ہے اور ساری کی ساری مالی پشت پناہی حکومتِ پاکستان کی طرف سے ہے ۔ ادارے کے ایک تعارفی کتابچے میں اس ادارے کا بنیادی مقصد ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:

مغل بادشاہ اکبر اعظم نے لاہور کو صوبائی سطح سے بلند کرکے آگرہ اور دہلی کی طرح دارالخلافہ کا مقام دیا۔ لاہور تخت شاہی کی ایک متبادل سیٹ تھی۔ اکبر دوسرے تمام مذاہب کی طرف روادارانہ رویہ رکھتا تھا۔ اس نے یہاں لاہور میں دوسرے مذاہب کے علما و فصلا کے ساتھ بحث و مباحثہ کی مجلسیں منعقد کیں۔ ان مباحثوں سے جس میں مسلمان‘ ہندو‘ سکھ‘ عیسائی اور ملحد بے دین سب شریک ہوتے تھے۔ روادارانہ مکالمے کی فضا نے نشوونما پائی۔ آج یہ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ بھی اسی مقصد کے لیے کوشاں ہے تاکہ اعلیٰ سطح کے بہترین اہل عالم کے درمیان آج کی دنیا میں روشن خیال مسلم معاشرے کے لیے ان کے وژن پر بحث و مباحثہ کی گنجایش پیدا ہو۔

ادارے کے تعارفی کتابچے سے لیا گیا یہ طویل اقتباس‘ مذکورہ ادارے کے کارپردازان کا ذہن پوری طرح واضح کردیتا ہے۔ گویا مغل بادشاہ اکبر کی روشن خیال اعتدال پسندی جس کا مظہر اس کا ’دین الٰہی‘ تھا‘ ان خواتین و حضرات کا راہنما نظریہ ہے۔ اقبال انسٹی ٹیوٹ کے کارپردازوں نے حکومت کی سرپرستی میں بند دروازوں کے پیچھے یکم یا ۳ جولائی ۲۰۰۶ء لاہور کے ایک فائیوسٹار ہوٹل میں بڑی رازداری سے ایک کانفرنس منعقد کی جسے ایک روشن خیال مسلم معاشرے کی تشکیلِ نو میں پیغام اقبال کی معنویت پر جنوبی ایشیا کے اسکالرز کی لاہور مشاورت کا نام دیا گیا۔ اس نام نہاد مشاورتی اجلاس میں کسی صحافی کو اندر آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ مقصد شاید یہ تھا کہ یہ نام نہاد اسکالرز اقبال کے مقدس نام پر روشن خیال اعتدال پسندی کے ضمن میں جو ہرزہ سرائی کریں اور نسلِ نو کے اذہان کو روشن خیال اعتدال پسندی کے سازشی تصورات کے تحت مسموم کرنے کے جو منصوبے بھی بنائیںوہ اقبال کے پرستاروں اور وطن عزیز کے مخلص دانش وروں تک پہنچنے پائیں۔ وہ تو بھلا ہو نواے وقت کا جس نے ۸ جولائی کے تعلیمی ایڈیشن میں اس سازش کو طشت ازبام کردیا۔

کانفرنس کے شرکا میں پاکستان کے علاوہ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ کینیڈا‘ امریکا اور مصر سے خواتین و حضرات شامل تھے۔ جو خواتین و حضرات بھی اس مشاورت میں شریک تھے وہ سب کے سب کلامِ اقبال اور پیغامِ اقبال کے حوالے سے مجہول لوگ ہیں۔ پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش سے اقبالیات کے نام ور محققین اور اقبال شناس خواتین وحضرات سے کوئی ایک شخص بھی ساؤتھ ایشین مسلم اسکالرز کے اس مشاورتی اجلاس میں شرکت کے قابل نہیں سمجھا گیا حتیٰ کہ فرزندِ اقبال‘ ڈاکٹرجاوید اقبال کو بھی‘ جو ماشاء اللہ روشن خیال اعتدال پسندی کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہیں‘ اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ وہ مذکورہ مشاورت میں جلوہ افروز ہوں۔ گویا مذکورہ مشاورتی اجلاس کی روشن خیال اعتدال پسندی کے حوالے سے سطح کچھ زیادہ ہی بلند تھی۔ علامہ اقبال کی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے ۵۰کروڑ روپے کی خطیر رقم فراہم کرنے کا معاملہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے محب وطن اراکین کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ شاید صدرِ مملکت نے اپنے صواب دیدی فنڈسے روشن خیال اعتدال پسندی کے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے یہ رقم مہیا کی ہے کیونکہ اس رقم کا ذکر پچھلے بجٹ میں ہے اور نہ حالیہ بجٹ میں۔

اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ کا ہدف نئی نسل‘ تعلیم اور اساتذہ ہیں۔ گویا گراس روٹ لیول سے روشن خیال اعتدال پسندی کا شر پھیلانے کا پروگرام بنایا گیا ہے اور اس مقصد کے لیے    علامہ اقبال کے نام پر ابہام اور انتشار پیدا کرنے کی ٹھانی گئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ایک امریکن ڈاکٹر فریڈ میڈنک نے جو ٹیچرز ود آؤٹ بارڈرز (Teachers Without Borders) نامی کسی تنظیم کے بانی ہیں‘ بتایا کہ انھوں نے اساتذہ کے لیے اسلام کو عام فہم بنانے کے لیے اور اساتذہ کی تربیت کے لیے کہ وہ اسلام کو تدریس کے ساتھ مربوط کرسکیں‘ ایک ہینڈبک تیار کی ہے جس کا عنوان ہے Modern Teaching and Islamic Tradition۔ راقم الحروف نے اس نام نہاد ہینڈبک کا کچھ حصہ مذکورہ انسٹی ٹیوٹ کے تعارفی کتابچے میں دیکھا ہے۔ وہ واقعی سیکولر لبرل عناصر کی روشن خیال اعتدال پسندی کا شاہکار ہے۔ اسلام سے نابلد ایک جاہل امریکی سے اور توقع بھی کیا کی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر فریڈ میڈنک نے جو مستقلاً اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ کے صدر دفتر میں متعین ہے‘ اس سال اپنی اس ہینڈبک کے ذریعے ۱۵۰ اساتذہ کی تربیت کا ہدف مقرر کیا ہے۔

اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ نے اس سال ۴۰ سے ۵۰ لاکھ طلبہ تک رسائی حاصل کرنے کا پروگرام بھی بنایا ہے تاکہ انھیں روشن خیال اعتدال پسندی کے اسباق دیے جائیں۔ طلبہ تک رسائی کی ابتدا ہمارے روشن خیال اعتدال پسند گورنر پنجاب عزت مآب خالد مقبول کے ہاتھوں ہوئی کہ موصوف نے مشاورتی اجلاس کے آخری دن مندوبین کو گورنر ہائوس میں کھانا دیا جس کے دوران پنجاب کی مختلف یونی ورسٹیوں سے ۴۰ منتخب طلبہ و طالبات کو ساؤتھ ایشیا کے ان نام نہاد مسلم اسکالرز سے ملاقات کا شرف بخشا گیا۔

ساؤتھ ایشیا مسلم اسکالرز کی اس لاہور مشاورت کی خفیہ کارروائی سے جو کچھ میڈیا میں سامنے آیا اس کے مطابق پاکستان میں اسلامیات کے نصاب کو ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ دینی مدارس کی تعلیم اور نصاب کو بدلنے کی سفارش کی گئی۔ اے لیول اور او لیول پاس کرنے والے طلبہ و طالبات میں مطلوبہ سطح کی روشن خیال اعتدال پسندی کے فقدان کا رونا رویا گیا۔ ابتدا ہی سے روشن خیال اعتدال پسندی کے فروغ کے لیے پہلی جماعت سے انگریزی کی تدریس لازمی مضمون کے طور پر جاری کرنے کی سفارش کی گئی۔ علامہ اقبال‘ نذرالاسلام اور رابندر ناتھ ٹیگور کی تعلیمات پر مبنی ریسرچ پراجیکٹس شروع کرنے اور ان کی تعلیمات نئی نسل تک پہنچانے کے لیے منصوبہ بنایا گیا۔ یاد رہے کہ نذرالاسلام اور ٹیگور دونوں بنگالی شاعر اور ادیب ہیں۔ نذرالاسلام مرتے دم تک کلکتہ میں رہا اور زندگی بھر سابق مشرقی پاکستان یا بنگلہ دیش نہیں گیا۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ علامہ اقبال‘ نذرالاسلام اور ٹیگور میں کیا قدرِ مشترک ہے کہ ان پر ریسرچ کر کے اور ان کی تعلیمات سے روشن خیال اعتدال پسندی برآمد کر کے نئی نسل تک پہنچانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ اس سے ساؤتھ ایشیا میں اعتماد سازی اور افہام و تفہیم کو فروغ ملے گا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گلوبلائزیشن کے تحت عالمی سطح پر جو چار وسیع البنیاد مقاصدِ تعلیم وضع کیے گئے ہیں‘ اُن میں سے ایک یعنی مل جل کر رہنا سیکھنے (Learning to live together) کی تکمیل کا ایجنڈا پیش نظر ہے۔

اس کے تحت ضروری قرار دیا گیا ہے کہ پوری دنیا کے بچوں اور جوانوں کے ہیروز مشترک ہوں تاکہ وہ ہیروز جو قوموں میں باہمی نفرت اور افتراق کا باعث بنتے ہیں انھیں تعلیمی نصابات سے خارج کردیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا‘ بھارت اور دیگر مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ ہمارے  ہم وطن ترقی پسند‘ روشن خیال اور لبرل سیکولر عناصر بھی ہمارے اُردو‘ معاشرتی علوم اور مطالعۂ پاکستان کے نصابات پر معترض ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ محمد بن قاسم‘ محمود غزنوی اور شہاب الدین محمد غوری تو ہندستان پر حملہ آور ہوئے۔ وہ جارح اور لٹیرے تھے۔ اگر ہم انھیں اپنے نصاب میں اپنے ہیروز بناکر نئی نسل کو پڑھائیں گے تو ہم ہندوئوں کے ساتھ مل کر کیسے رہ سکتے ہیں۔ یہ لوگ قدیم ہندو راجائوں کے ساتھ مغل بادشاہ اکبر جیسے نام نہاد ہیروز کو نصاب کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک کے بعض بھارت پرست ادیب و شاعر اور نام نہاد ترقی پسند دانش ور تو گاندھی کو بھی ہمارا بھارت کے ساتھ مشترکہ ہیرو کے طور پر آگے بڑھا رہے ہیں اور اسی آئیڈیالوجی کے تحت اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ والے علامہ اقبال‘ نذرالاسلام اور رابندر ناتھ ٹیگور کو باہم خلط ملط کرکے ہماری نئی نسل کے اذہان میں ہیروز کے طور پر ٹھونسنا چاہتے ہیں۔

اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ کے تحت منعقد ہونے والے لاہور مشاورت براے ساؤتھ ایشین مسلم اسکالرز کی سہ روزہ میٹنگ کے بعد آواری ہوٹل میں ۴ تا ۵ جولائی ٹیچرز ٹریننگ گروپ کا اجلاس بھی ہوا جس میں یونی ورسٹی آف ایجوکیشن کے نمایندے کے علاوہ ادارہ تعلیم و تحقیق پنجاب یونی ورسٹی کے ڈائرکٹر اور بعض دیگر خواتین و حضرات کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ اس دو روزہ اجلاس میں ٹیچرز ٹریننگ اور طلبہ میں نفوذ کی راہیں سوچی گئیں اور آیندہ کے پروگرام بنائے گئے۔

محب وطن حلقوں کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ کس طرح ہمارے ہی مشاہیر کا نام استعمال کر کے روشن خیال اعتدال پسندی کا جال پھیلایا جارہا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت عوام کے ٹیکسوں سے جمع شدہ رقم اپنی ریاستی قوت کے زور سے ایسے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے جو تحریکِ پاکستان کے مقاصد‘ نظریۂ پاکستان کے تقاضوں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین سے پوری طرح متصادم ہیں۔ اگر کچھ حلقے خیال کرتے ہیں کہ اس طرح کی اوچھی حرکتوں سے کچھ نہیں ہوگا‘ اور شترمرغ کی طرح ریت میں دے کر سمجھتے ہیں کہ عافیت میں ہیں‘ تو یہ اُن کی خام خیالی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اندھی ریاستی قوت‘ میڈیا کا ظالمانہ اور جانب دارانہ استعمال اور مسلسل پروپیگنڈا عقائد و نظریات کو کمزور کرنے اور آخرکار مکمل طور پر استیصال کا سبب بن سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم اُمہ عموماً اور ملّتِ پاکستان خصوصاً پوری قوت اور  ذہنی بیداری کے ساتھ اُٹھ کھڑی ہو اور روشن خیال اعتدال پسندی کے نام پر ہونے والی سازشوں کا ہرمحاذ پر مقابلہ کرے۔ اس جدوجہد میں سب سے اہم محاذ تعلیم کا ہے‘ لہٰذااساتذہ کرام کو ہراول دستے کا کردار انجام دینا ہوگا۔

’’رات تین بجے دروازے پر دستک ہوئی‘ دروازہ کھولا‘ تو چند مسلح افراد کچھ پوچھے بغیر  گھر میں گھس آئے‘ میرے بیٹے کو پکڑ کر لے گئے‘ فون کے تار کاٹ دیے اور جاتے ہوئے کہا: ’’اس بات کا کسی سے ذکر کیا تو عبرت ناک انجام ہوگا‘‘۔

’’میرا بیٹا نہایت بے ضرر اور سیدھا سادا نوجوان ہے مگر مسجد سے نکلتے ہی ایک آدمی نے اس کی گردن دبوچ لی اور کہا: یہ دہشت گرد ہے‘ سامنے سے جیپ آئی‘ اُس میں پھینکا اور گاڑی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ ڈیڑھ سال ہوگیا ہے میں اسے تلاش کر کے تھک گئی ہوں۔ میری بیوگی میں وہی میرا سہارا تھا اور ابھی بارھویں میں پڑھ رہا تھا‘ معلوم نہیں کس حال میں ہے۔ وزیرداخلہ سے لے کر کور کمانڈر تک کو ملی ہوں‘ کوئی نہیں مانتا کہ اس نے پکڑا ہے‘‘۔

’’میرا بھائی آٹھ ماہ سے غائب تھا‘ ہم اسے تلاش کر کرکے تھک گئے۔ اسی غم میں والد صاحب فالج کے حملے کے نتیجے میں بستر سے لگ گئے۔ ہر ادارہ اس کے بارے میں بے خبری کے پتھر برساتا رہا‘ لیکن اب سے ۱۵ روز پہلے ایک ہرکارے نے آکر اطلاع دی کہ وہ سرکاری ایجنسی کی حراست میں ہے‘ ضمانت پر رہائی ہوجائے گی‘‘۔

یہ واقعات کسی جاسوسی ناول کی من گھڑت کہانیاں نہیں‘ نہ یہ کسی کمیونسٹ ملک میں گزرنے والی ظلم کی داستانیں ہیں‘ بلکہ پاکستان کے طول و عرض میں ایسی خوف ناک داستانیں‘ سامع کا خون منجمد کردیتی ہیں۔

بلاشبہہ پاکستان میں خفیہ ایجنسیوں نے قومی مقاصد کے لیے بہترین کارنامے سرانجام دیے ہیں جن پر قوم کو فخر ہے‘ مگر بدقسمتی سے متعدد ایجنسیوں نے گذشتہ کئی برسوں سے یہ راستہ منتخب کر رکھا ہے کہ جب اپنے ارادے یا منصوبے کے تحت ضروری سمجھا تو آناً فاناً کسی فرد کو اٹھا لیا۔۱؎ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس مشق ستم کا نشانہ اکثر وہ لوگ بنے جنھوں نے زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں خود اپنی مسلح افواج کا ہاتھ بٹاتے ہوئے‘ دشمن سے دو دو ہاتھ کیے تھے۔

ناین الیون کے بعد بعض لوگوں نے ایک ایک دو دو ہزار ڈالر کے عوض غیرملکی مسلمان مجاہدوں کو امریکیوں اور مقامی اہل کاروں کے ہاتھ بیچا۔ حالانکہ کل تک یہ لوگ پاکستان کے   محسن قراردیے جاتے تھے‘ کہ جنھوں نے جان لڑا کر سوویت یونین کو شکست دینے کا تمغہ پاکستانی پالیسی سازوں اور عساکر کے سینے پرسجا دیا تھا‘ مگر اب حالات نے کروٹ لی اور یہ سب لوگ بڑی بے رحمی سے مسترد شدہ بوجھ قرار پائے‘ جنھیں قیمت پر یا بلاقیمت بڑی بے رحم اور دنیا بھر میں لاقانونیت کی علامت ریاست کے سپرد کردیا گیا۔ ظاہر ہے کہ خود پاکستان سے ایک قابل لحاظ تعداد افغان مجاہدین کے شانہ بشانہ جہاد میں شریک رہی تھی‘ جنھیں خود پاکستانی افواج نے یہ تربیت دی تھی‘ اب وہ تمام جاں باز ’مشکوک کردار کے حامل‘ قرار پائے۔ اسی طرح جہاد کشمیر میں شریک نوجوان اپنے جذبے اور ایمان کے ساتھ شریک ہوئے تھے‘ لیکن پاکستان کی حکومتوں نے ابتدائی زمانے سے لے کر آج تک جس اخلاقی کمزوری کے ساتھ عوام میں سے جاں باز شہریوں کے جذبوں کا خون کیا ہے اور پھر آن واحد میں سجدہ سہو کیا ہے‘ وہ قومی تاریخ کا ایک درد ناک باب ہے۔ وہ لوگ جنھیں عظیم مجاہد کہا جاتا تھا‘ ان میں کتنے ہیں جنھیں عقوبت خانوں میں دھکیلا جا رہا ہے‘     جو قومی خفیہ ایجنسیوں کے آہنی پنجروں میں سسک رہے ہیں اور ان کے والدین کرب ناک کیفیت میں تڑپ رہے ہیں۔

وہ لوگ جو جذبۂ ایمانی میں اپنا معاشی مستقبل اوراپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر قومی قیادت کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے جہاد کے لیے نکلے تھے‘ جنھیں نہ تنخواہ کا شکوہ تھا اور نہ نوکری کی تلاش‘ ان میں سے کتنے ہیں جنھیں کرزئی اور بش کے وحشیوں کے سپرد کیا جا رہاہے یا خود ان کے ہم وطن ہی ان پر ستم کے تمام گر آزما رہے ہیں۔ اب یہ عمل کوئی راز نہیں رہا ہے۔ کل تک کوئی اخبار یہ چیزیں شائع کرنے کی ہمت نہیں کرتا تھا‘ لیکن اب‘ جب کہ صبر کا پیمانہ لبریزہوچکا ہے تو پاکستانی پریس میں گاہے بہ گاہے کوئی نہ کوئی چیخ سنائی دیتی ہے۔

یکم جولائی ۲۰۰۶ء کو بی بی سی کی اُردو سروس پر اس حوالے سے ایک جان دار پروگرام   نشر ہوا۔ ۲جولائی کے تمام پاکستانی قومی اخبارات نے اسی مناسبت سے ہلا دینے والی خبریں شائع کیں۔ روزنامہ نوائے وقت کے ادارتی نوٹ کے مطابق: ’’بی بی سی نے گذشتہ ڈیڑھ دو سال کے دوران پاکستان کے مختلف علاقوں سے غائب اور لاپتا ہونے والے ایسے افراد کی فہرست جاری کی ہے جن کا تعلق مختلف سیاسی تنظیموں سے ہے اور ان افراد کو مبینہ طور پر ایجنسیوں نے اپنی تحویل میں لے رکھا ہے… وزیرستان میں روزنامہ دی نیشن کے بیوروچیف کے بارے میں بھی بتایا گیا تھاکہ انھیں مبینہ طور پر کسی ایجنسی ہی نے اغوا کیا تھا اور بعدازاں انھیں شہید کردیا تھا۔ پاکستان میں ایجنسیوں کے ذریعے سیاسی کارکنوں اور دیگر حکومت مخالف عناصر کو گرفتار کرنا اور انھیں اس طرح لاپتا رکھنا کہ ان کے ورثا مارے مارے پھرتے رہیں اور کوئی [سرکاری] محکمہ ان کی گرفتاری کی ذمہ داری ہی نہ لے‘ انتہائی وحشت ناک اور انسانیت سوز عمل ہے۔ دنیا کا کوئی بھی مہذب معاشرہ ایسی گرفتاریوں کو برداشت نہیں کرتا۔ خفیہ ایجنسیوں کا یہ کام نہیں ہے… خفیہ ایجنسیوں کو غیرقانونی اقدامات اور اپنے چارٹر کی خلاف ورزی نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ (۳ جولائی ۲۰۰۶ئ)

۱۸ اگست ۲۰۰۶ء کے قومی اخبارات میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چو دھری کا یہ شدید ردعمل شائع ہوا جس میں انھوں نے راولپنڈی سول لائنز کے تھانے دار سے فرمایا کہ وہ چالاکی اور تماشا بند کرے‘ اور اغوا کیے جانے والے فرد کو عدالت کے سامنے پیش کرے۔ مگر ایک ممتاز کالم نگار کے بقول صرف اہلِ پاکستان کے ساتھ ہی یہ سلوک نہیں کیا جا رہا‘ بلکہ قانونی ویزے پر آنے والے مسلم ممالک کے باشندوں کو بھی اسی بھٹی سے گزارا جارہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’لیکن یہ صرف ایک فرد تو نہیں ہے جسے اغوا کرلیا گیا‘ وہ تو ہزاروں کی تعداد میں ہیں…  [۱۸ اگست ہی کے اخبارات] پر ایک چھوٹی سی خبر یہ بھی ہے کہ پشاور کی ایک عدالت نے عراقی مزاحمت کار مرحوم الزرقاوی کے نائب ہونے کے الزام میں گرفتار ملزم سمیت سات غیرملکیوں کو  رہا کردیا۔ ان میں اکسفرڈ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے ڈاکٹر برہان شامل ہیں۔ الجزائر کے سعید احمد ہیں جو ۱۶ ماہ جیل میں پڑے رہے۔ الجزائر ہی کے سفیان اخضر ہیں جنھوں نے ۱۳ ماہ  قید کاٹی‘ ناجہ بن صالح کا تعلق تیونس سے ہے اور وہ ۱۸ ماہ سے سلاخوں کے پیچھے پڑے تھے۔ اسی زمانے میں تاجکستان کے جمشیداحمد بھی پشاور سے گرفتار ہوئے اور ناجہ بن صالح کے ساتھ وہ بھی  رہا کردیے گئے کہ بے گناہ ثابت ہوئے۔ ان کے ہم وطن ظریف لطیف کے خلاف کوئی ثبوت نہ پیش کیا جاسکا‘ تاہم ان پر جیل میں تشدد کے کیسے حربے آزمائے گئے کہ [ظریف] قیدی کی انتڑیاں پھٹ گئیں اور وہ کچھ کھا پی نہیں سکتا۔ ۶ ہزار سے زیادہ  ایسے پاکستانی اور غیرملکی [مسلمان] جیلوں میں پڑے ہیں جن کی فریاد سننے والا کوئی نہیں… امریکیوں کو ان پر شبہہ تھا… [حالانکہ] خود عراق اور افغانستان میں برپا امریکیوں کی خوں آشامی نے وہ عالم گیر کش مکش پیدا کی ہے جس نے پاکستان کو استعمار کی چراگاہ بنا دیا ہے۔ ہمارے ہوائی اڈوں پر وہ براجمان ہیں‘ ہمارے گھروں کو غیرملکی سونگھتے پھرتے ہیں اور ہمارے شہریوں کو وہ گرفتار کرکے لے جاتے ہیں اور پھر گوانتاناموبے کے پنجروں میں بند کرا دیتے ہیں‘‘۔ (ہارون الرشید‘ نوائے وقت‘ ۱۹اگست ۲۰۰۶ئ)

گوانتاناموبے میں ہمارے ’روشن خیال ترقی پسند‘قائدین۲؎ کے دستِ فیض سے بھیجے جانے والے قیدیوں کا کیا حشر ہو رہا ہے‘ اسے جاننے کے لیے پاکستانی کشمیری معظم بیگ (پیدایشی برطانوی) کی کتاب Enemy Combatant (لندن‘ فری پریس ۲۰۰۶ئ) کا مطالعہ کافی ہے‘ جسے جنوری ۲۰۰۲ء کو پاکستانی ایجنسی نے اسلام آباد سے اغوا کرکے گوانتاناموبے کے جلادوں کے حوالے کیا تھا۔ خود پاکستان میں ایسے بے گناہ قیدیوں کے احوال جاننے ہوں تو کوئی نہ کوئی نوجوان اپنے اندر اٹھنے والے نوحوں کو ہونٹوں پر روکے نظرآجائے گا۔ جن کو اندھادھند پکڑ کر غائب کردیا جاتا ہے اور سال سال بھر اُن کے بارے میں کچھ بتانے سے ایجنسیوں‘ پولیس اور وزارتِ داخلہ کے کارندے انکاری رہتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بے گناہ ثابت ہوکر یا تو خدا کے حضور پہنچ جاتا ہے‘  وگرنہ اس حال میں رہا کیا جاتا ہے کہ بے گناہ ہوتے ہوئے وہ ہڈیوں کا پنجر اور ٹی بی یا کالے یرقان کا مریض بن چکا ہوتا ہے۔ کیا ایسا عمل کرنے والے واقعی پاکستانی ہیں؟

اقتدار اور اختیار ڈھلتی چھائوں ہے۔ ہمیں اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ ہم کس کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ امریکی چاہتے ہی یہ ہیں بقول نپولین: ’’مسلم معاشروں کو خود ایک دوسرے پر بھوکے شیروں کی طرح چھوڑ دیا جائے اور یہ آپس ہی میں لڑتے مرتے رہ جائیں‘‘۔ اس عمل کی عبرت ناک مثال افغانستان اور عراق میں روزانہ ہم وطنوں کی دونوں جانب سے اٹھنے والی لاشیں ہیں۔

یہاں پر واضح الفاظ میں یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ کوئی فرد قانون سے بالاتر نہیں ہے‘ چاہے وہ عالم ہو یا صحافی یا سپہ سالار ہو یا عام شہری۔ اگر ان بے گناہ قیدیوںمیں سے واقعی کسی نے جرم کیا ہے تواسے لازماً اپنے جرم کی سزا ملنی چاہیے‘ مگر کھلی عدالت میں مقدمہ چلنے کے نتیجے میں۔ حکومت اسے قانون کے مطابق سزا دلائے اور عدالت کے ذریعے ہی مجرم کو سزا دی جائے۔ ان کے بچوں‘ والدین اور رشتہ داروں کو ذلیل کرنے اور قدم قدم پر جھوٹ بول کر دھوکا دینے کا ہرگز کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ عمل متاثرین کا اعتماد صرف حکومت پر ختم نہیں کرتا بلکہ ایسے افراد کایقین خود ریاست سے اٹھ جاتا ہے۔ اور وہ فرد جو سال بھر بے جا تشدد کی سولی پر لٹکنے کے بعد بے گناہ ثابت ہوکر پاکستانی گوانتاناموبے سے یا امریکی گوانتاناموبے سے رہا ہوتا ہے تو اس کی زندگی کے ان قیمتی لمحوں اور ناپیدا کنار صدمے کا جواب دہ کون ہے؟ اس لیے یہ بے جرم ملزم اور ان کے رشتے دار سوال کرتے ہیں کہ کیا پاکستان واقعی ایک آزاد ملک ہے؟

یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور اس المیے میں سب سے زیادہ تکلیف دہ یہ پہلو بھی ہے کہ ان بے نوا مظلوموں کی دادرسی کے لیے سیاسی پارٹیوں نے کوئی بامعنی آواز نہیں اٹھائی‘ حالانکہ       یہ واقعات دلدوز چیخوں کے ساتھ ہرشہر میں سنے جارہے ہیں۔ یہ بے چارے تو اتنے بڑے ملک میں بے پہچان اور شاید بے نام لوگ ہی قرار دیے جائیں‘ مگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ جو ہو رہا ہے ‘ وہ پاکستانی اہلِ دانش اوراہلِ سیاست کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس صورت حال میں  امید کی واحد کرن سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس رہ جاتے ہیں‘ جو ان تفصیلات کو   جمع کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کے لیے اپنے اختیار سوموٹو کو حرکت میں لائیں۔ اس سے نہ صرف مظلوموں کو نجات ملے گی‘ بلکہ خفیہ کاری کے تمام ادارے اپنے چارٹر سمیت عمل اور تجزیے کی میزان سے گزریں گے اور ان اداروں کے اہل کار بھی یہ بتا سکیں گے کہ وہ کتنے مجبور اور کتنے بااختیار ہیں؟ نیز عوام کو بھی معلوم ہوسکے گا کہ وہ کتنے آزاد اور کتنے مجبور ہیں؟

فقہ الحدیث، امام شوکانی‘ ترجمہ و تخریج: حافظ عمران ایوب لاہوری۔ ناشر: نعمانی کتب خانہ‘  حق سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات (بڑی تقطیع) جلداوّل: ۷۵۲۔ جلددوم: ۸۱۴۔     قیمت: ۴۳۰؍۴۵۰ روپے علی الترتیب۔

امام محمد بن علی الشوکانی (۱۱۷۳ھ- ۱۲۵۰ھ) معروف محدثین میں سے ہیں۔ آپ کی کتاب الدُرر البھیّہ درس نظامی کے نصاب کاحصہ ہے۔ احادیث سے احکام کا استنباط اس کا موضوع ہے۔ اُردو زبان میں اس کی کوئی عام فہم اور جامع شرح موجود نہ تھی۔ اب حافظ عمران ایوب نے فقہ الحدیث کے نام سے یہ مفصل شرح لکھی ہے۔یہ شرح کئی حوالوں سے افادیت کی حامل ہے۔

ابتدا میں ایک مختصر مگر جامع مقدمہ لکھا گیا ہے جس میں فقہ کا معنی و مفہوم‘ اہمیت و ضرورت‘ مآخذ‘ مذاہب اربعہ‘ اور ان کا مختصر تعارف‘ اختلاف کے اسباب اور امام شوکانی اور شیخ البانی کی حیات و خدمات کو بیان کیا گیا ہے۔ الدُرر البھیّہ کے متن کا سلیس ترجمہ دیا گیا ہے اور الفاظ کی لغوی وضاحت اور اصطلاحی و شرعی تعریف کے ساتھ ساتھ تفصیلی حوالہ جات بھی درج کر دیے ہیں۔

کسی بھی مسئلے کے حوالے سے صحابہ کرامؓ، ائمہ و فقہا اور جدید و قدیم علما کے اقوال و فتاویٰ اور بعض مقامات پر اصولی قواعد کوبیان کیا گیا ہے اور پورے اہتمام کے ساتھ ان کے حوالہ جات کو درج کیا گیا ہے۔ راجح مسلک کی وضاحت اور کتاب و سنت کی روشنی میں اس کے دلائل کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ایک عنوان ’متفرقات‘ ہے۔ کسی مسئلے سے متعلق ائمہ اربعہ نے کوئی بحث نہیں کی یا دورِ جدید میں کوئی مسئلہ زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے تو متفرقات میں اس کو بڑی خوب صورتی سے بیان کردیا گیا ہے۔

کسی بھی فقہی مسئلے پر متنوع مسالک و آرا کو عمدہ پیرایے میں بیان کر کے اور بلاتعصب کتاب و سنت کی کسوٹی پر پرکھ کر مسائل و احکام کا استنباط کیا گیا ہے۔ جملہ مسالک و مذاہب کے لوگ اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ یوں اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ دکھائی گئی ہے۔ احادیث اوراقوال و فتاویٰ کی تخریج کا کام دقیق اور قابلِ قدر ہے جو نہایت عرق ریزی سے انجام دیا گیا ہے۔

روز مرہ زندگی میں درپیش مسائل کی تفہیم‘ احادیث کی تخریج و تحقیق‘ فقہی مذاہب و اقوال کا بیان‘ راجح مسلک کی وضاحت‘ اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ جیسی خصوصیات کی بنا پر زیرتبصرہ کتاب محض ایک شرح ہی نہیں بلکہ اپنے موضوع پر ایک انسائی کلوپیڈیا ہے۔ اساتذہ کرام‘ علوم دینیہ کے طلبہ اور عام لوگوں کی علمی ضرورت پورا کرنے کے ساتھ ساتھ علوم الحدیث و فقہ میں گراں قدر اضافہ ہے۔ فاضل مصنف بجاطور پر اس علمی کاوش پر تحسین کے مستحق ہیں۔ دیدہ زیب سرورق اور عمدہ طباعت کتاب کی دل کشی میں مزید اضافے کا باعث ہے۔ (فاروق احمد)


جدید فقہی مسائل اور ان کا مجوزہ حل، ترتیب و تدوین: ڈاکٹر عبدالستار ابوغدہ‘ ترجمہ: ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی۔ ناشر: ماڈرن اسلامک فقہ اکیڈمی‘ گلشن اقبال‘ کراچی۔صفحات: ۴۴۸۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

اسلام ہر زمانے کے لیے ہے۔ اس لیے پیش آمدہ مسائل کے بارے میں غوروفکر اور ان کا حل ڈھونڈنے کے لیے ہمیشہ سے اجتہاد کیا جاتا رہا ہے۔ اسلامی کانفرنس تنظیم (OIC) سے یوں تو پوری اُمت کو بجاطور پر شکوے ہیں لیکن تنظیم کا ذیلی ادارہ بین الاقوامی اسلامی فقہ اکیڈمی ہے جو ہربرس کسی مسلم ملک میں سالانہ اجلاس منعقد کرکے تمام رکن ممالک سے اس کی کونسل کے ارکان‘ اسلامی علوم کے ماہرین اور متخصصین کو جمع کرتی ہے اور موجودہ موضوعات اور نئے پیش آمدہ مسائل پر غوروخوض اور بحث مباحثہ کرتے ہیں۔ پھر اتفاق راے سے جو فیصلے ہوتے ہیں انھیں قراردادوں اور سفارشات کی شکل میں مرتب کرلیا جاتا ہے۔

زیرنظر کتاب مذکورہ اکیڈمی کے ۱۵ سیمی ناروں میں منظور کردہ قراردادوں اور سفارشات پر مبنی ۱۴۲ موضوعات پر سفارشات کا مجموعہ ہے۔ موضوعات نہایت متنوع ہیں‘ یعنی اقتصادیات سے لے کر طبیعیات تک‘ طب سے لے کر سیاسیات تک‘ معاشرتی امور سے لے کر تہذیبی امور تک‘ نیز عقائد اور فقہی امور بھی اس میں شامل ہیں۔ مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کے خصوصی مسائل سے متعلقہ جوابات اور حل بھی اس میں بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹکنالوجی نے جس طرح معاشرتی ڈھانچوں پر شدید اثرات مرتب کیے ہیں اور اس وجہ سے جن الجھنوں کا سامناکرنا پڑتا ہے ان پر بھی اس کتاب میں بحث کی گئی ہے‘ مثلاً برقی بنک کاری نظام بالخصوص کریڈٹ کارڈ وغیرہ کے حوالے سے مسائل کا جواب دیا گیا ہے۔

گلوبلائزیشن پر اکیڈمی کی ۱۰ سفارشات گلوبلائزیشن کے پیچھے کام کرنے والی مغربی طاقتوں کے منفی عزائم سے نبٹنے کے لیے دی گئی ہیں۔ عقائد کے حوالے سے قادیانیت اور بہائیت کی بابت قراردادیں اور سفارشات پیش کی گئی ہیں۔

وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہے‘ انھیں اس ادارے کی تحقیقات اور علمی کام پر ضرور نظر ڈال لینی چاہیے۔ اس کے علاوہ خود عام مسلمانوں میں بھی یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اجتہاد‘ اُمت کی سطح پر مرکزی طور پر بھی جاری و ساری ہے۔ نام نہاد ماڈرن اسلام کی تبلیغ کرنے والوں سے مکالمہ کرنے والوں کے لیے بھی یہ کتاب نہایت مفید ہے۔ مجموعی طور پر اکیڈمی‘ نیز ناشر لائقِ تحسین ہیں کہ انھوں نے ان قراردادوں اور سفارشات کو جو اُمت کے اجماع کے ساتھ تیار کی گئی ہیں‘ شائع کیا اور اُردو دان طبقے کے لیے پیش کیا۔ اس کتاب کے آخر میں اشاریہ دیا گیا ہے جس سے کتاب کی افادیت دوچند ہوگئی ہے۔ (محمد الیاس انصاری)


Islam & The Clash of Civilizations [اسلام اور تہذیبوں کا تصادم]،  ڈاکٹر اقبال ایس حسین۔ ناشر: ہیومینٹی انٹرنیشنل‘ ۱۴- کرشن نگر‘ گوجرانوالہ۔ صفحات: ۳۸۰۔ قیمت:  ۶۰۰ روپے؍ ۲۰ امریکی ڈالر۔

عالمِ اسلام اور عالمِ کفر کے درمیان تہذیبی و سیاسی غلبے کی کش مکش پر سیکڑوں کتابیں‘ ہزاروں مقالے اور لاکھوں صفحات پر پھیلے ہوئے مضامین‘ تجزیے اور رپورٹیں یہ ثابت کرنے کے لیے تحریر کیے گئے ہیں کہ اسلام دقیانوسی مذہب ہے‘ عورتوں کو مساوی حقوق نہیں دیتا‘ خوش گوار زندگی کا مخالف ہے‘ انسانوں پر نامعقول قدغنیں عائد کرتا ہے اور دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے۔ جب تک اسلام کے پیروکار دنیا میں موجود ہیں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا اس خوف ناک بلا سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے۔ چاہے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانا پڑے‘ عراق میں شہروں اور دیہاتوں کو ملیامیٹ کرنا پڑے‘ فلسطین میں جمہوری انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرنا پڑے‘ یا تین یہودی فوجیوں کی رہائی کے بہانے لبنان کے ہر ہر قصبے کو خاک وخون میں نہلانا پڑے۔

مغرب اور مغربی ممالک کی جانب سے مسلط کی جانے والی اس تہذیبی و فکری یلغار کا راستہ روکنے کی ایک علمی کوشش حال ہی میں منظرِعام پر آنے والی کتاب: Islam & The Clash of Civilizations  ہے جس میں مغرب کے مفکرین کی فکری خامیوں کی نشان دہی اور اسلام کے خلاف الزامات کا جو طومار باندھا گیا ہے اُسے بے نقاب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف نے مغربی افکار کا مفصل جائزہ لیا ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ آزاد دنیا کی بڑی تعداد نے اسلام کو سمجھا ہی نہیں‘ اور اسلام کے پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد بھی اسلام کا پیغام صحیح انداز میں پہنچانے میں ناکام رہی ہے۔

زیرنظر کتاب میں تہذیبی کش مکش پر ایک نئے انداز سے روشنی ڈالی گئی ہے اور اس بات پر زور دیا گیا کہ مغرب کے فکری اماموں اور موجودہ منظر (تحدیدِاولاد‘ تجرد‘ مادہ پرستی‘ مذہب بیزاری‘ مسلم دشمنی وغیرہ) میں سے ہر ایک کا جائزہ لیا جائے اور بتایا جائے کہ مغربی تہذیب‘ انسانوں کو  پتھر کے دور میں لے جانا چاہتی ہے۔ برقعہ یا نیم لباس‘ غیرت یا مخلوط محفلیں‘ حلال و حرام یا    شباب و شراب‘ بنیاد پرستی یا روشن خیالی‘ جمہوریت یا شاہوں کی غلامی جیسے موضوعات پر کھل کر بحث کی گئی ہے۔ ساینس و ٹکنالوجی کے میدان میں‘ تہذیب و ثقافت کے میدان میں‘ خدمتِ خلق اور حب انسانیت کے میدان میں‘ تبلیغ دین اور تمدنی ارتقا کے میدان میں مسلمان جس طرح روشن مثالیں قائم کرتے رہے ہیں‘ ان کا جائزہ ۲۵ ابواب میں لیا گیا ہے۔ ان کے مطالعے سے نئی روح بیدار ہوتی ہے اور اسلام کا پرچم سربلند کرنے کا عزم بھی۔ اسلام اور مغرب کی تہذیبی کش مکش کے موضوع پر اہم علمی کاوش اور مفید علمی اضافہ۔(محمد ایوب منیر)


قرآن پر عمل، سمیہ رمضان۔ مترجم: ظہیرالدین بھٹی۔ ناشر: منشورات‘ منصورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۷۵ روپے۔

قرآن پر عمل قرآنی آیات کے مطابق عمل اور ان کے معجزاتی اثرات کے بیان پر مشتمل ایک خوب صورت کتاب ہے۔ یہ کتاب محترمہ سمیہ رمضان کے تجربات پر مشتمل ان کے سلسلہ وار مضامین کا مجموعہ ہے۔ مصنفہ ایک عرب معلمہ ہیں۔ انھوں نے مدت سے درسِ قرآن کا ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کے ذریعے بالخصوص خواتین کے ذہنوں میں تبدیلی لانے اور ان کی الجھنوں اور پریشانیوں کا علاج دریافت کرنے میں کوشاں ہیں۔ وہ ہر دفعہ ایک قرآنی آیت کا انتخاب کرتی ہیں اور پھر وہ اور ان کی ساتھی دوسری خواتین اس آیت کے مطابق عمل کرتی ہیں     تو اپنے مسائل حل ہوتے دیکھتی ہیں۔ شرکا تجربے سے سیکھتی ہیں کہ قرآن کی تعلیمات کے مطابق عمل کرنے میں کتنے فوائد و ثمرات حاصل ہوتے ہیں۔

ترجمہ رواں اور سلیس زبان میں کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں محض قرآن کی تبلیغ پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا‘ اس پر عمل کرنے اور زندگی کے ہرمعاملے میں اس سے رہنمائی حاصل کرنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔ یہ کتاب خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کو بھی قرآن فہمی اور اس کے مطابق   عمل کرنے اور زندگی گزارنے کا جذبہ و سلیقہ فراہم کرتی ہے۔ حال ہی میں اس کا اعلیٰ کاغذ پر   خوب صورت اور دل کش نیا اڈیشن سامنے آیا ہے۔(سعید اکرم)


سیرت الامین صلی اللہ علیہ وسلم، محمد رفیق ڈوگر۔ ناشر: دید شنید پبلشرز‘ ۲۳-فضل منزل‘ بیڈن روڈ‘ لاہور۔ صفحات (جلد اول): ۱۷۴‘ (دوم): ۱۵۷‘ (سوم) ۱۸۴۔ قیمت فی جلد: ۱۵۰ روپے۔

تین جلدوں پر مشتمل یہ کتاب انفرادیت کے ساتھ ساتھ بہت سی خوبیوں کی حامل ہے۔ ہرعمر کے بچوں کے لیے لکھی گئی اس کتاب میں اسلوبِ بیان شستہ‘ رواں اور سادہ و عام فہم ہے۔ واقعاتی اور افسانوی انداز قاری کو کھینچ لیتا ہے اور وہ پڑھتا چلا جاتا ہے۔ تحریر دل نشین‘ مؤثر اور اثرانگیز ہے۔ پہلی جلد نبی کریمؐ کے احوال‘ دین ابراہیمی کی تکمیل کے مشن کے لیے جدوجہد‘   دشمنانِ اسلام سے مقابلہ اور اہلِ مکہ کے مظالم پر مبنی ہے۔ دوسری جلد مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام‘ اسلامی معاشرے کی تشکیل‘ دشمنوں کی سازشوں اور آپؐ کی دفاعی‘ سیاسی اور سفارتی حکمت عملی کی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ تیسری جلد عرب میں اللہ کے دین کے مکمل غلبے اور نبی کریمؐ کے مشن کی تکمیل اور رفیق اعلیٰ سے ملاقات کی تفصیلات کا احاطہ کرتی ہے۔ اس طرح مکمل سیرتِ رسولؐ سامنے آجاتی ہے۔

ہر باب کے آخر میں درسی کتاب کی طرح ’تعاون‘ کے عنوان سے مشکل الفاظ کے معنی دیے گئے ہیں اور ذہنی مشق اور سیرت کے اسباق کو ذہن نشین کرنے کے لیے ’اپنے شاباش کے نمبر لگائیں‘ عنوان کے تحت مختلف سوالات اور ان کے جواب دیے گئے ہیں۔ رنگین تصاویر اور نقشوں سے بھی کتاب کو مزین کیا گیا ہے۔

دینی مدارس اور اسلامی تربیت کرنے والے اسکول اسے نصاب میں شامل کرسکتے ہیں۔ والدین بچوں کو پڑھوا کر سوالات کرائیں تو ساری زندگی کے لیے سیرت کے واقعات ذہن پر نقش ہوجائیں گے۔ (امجد عباسی)


تاج محل سے زیرو پوائنٹ، چودھری محمد ابراہیم‘ ناشر: بیت الحکمت‘ لاہور۔ ملنے کا پتا:  کتاب سراے‘ اُردو بازار‘ لاہور۔صفحات: ۴۰۰۔ قیمت: ۲۲۰ روپے۔

زیرتبصرہ کتاب ایک صاحبِ بصیرت اور ملک و قوم کے لیے دردِ دل رکھنے والے زرعی سائنس دان چودھری محمد ابراہیم کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے جس میں انھوں نے بھارت میں اپنے مختصرقیام کے مشاہدات کو قلم بند کیا ہے۔ بقول دیباچہ نگار ’’ایک ہفتے میں انھوں نے بھارت کی تاریخ و ثقافت‘ تہذیب و تمدن‘ مذاہب و ادیان‘ معاشرت و معیشت‘ سیاست و حکمت اور آثار و شواہد کے کتنے ہفت خواںطے کیے‘ اس کا اندازہ سفرنامے کے تفصیلی مطالعے ہی سے ممکن ہے‘‘۔

پروفیسر عبدالجبار شاکر نے پیش لفظ میں سفرناموں کی پوری تاریخ خصوصاً ہندستان کے سفرناموں کو ایجاز و اختصار مگر جامعیت سے پیش کیا ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


تعارفِ کتب

  • تلبیس ابلیس، علامہ ابن جوزیؒ، ترجمہ: مولانا ابومحمد عبدالحق۔ ناشر: مکتبہ اسلامیہ بالمقابل رحمن مارکیٹ‘  غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۵۷۴۔ قیمت (اعلیٰ اڈیشن) ۲۸۰ روپے۔ [شیطان روزِ اوّل سے انسان کو گمراہ کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔شیطان جس طرح بھی انسان کو دھوکا دیتا ہے‘ جس جس طرح کے پردوں میں آتا ہے‘ اس کا ممکنہ حد تک تفصیلی بیان علامہ ابن جوزی نے اپنی اس کتاب میں کیا ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہر شخص دیکھ سکتاہے کہ شیطان اس کے ساتھ کیا کچھ کرسکتاہے اور کرتا ہے۔ اس کا مقصد شیطان کے تلبیس (دھوکے) سے آگاہ کرنا ہے تاکہ لوگ گمراہی سے بچ سکیں۔]
  • کتاب الوسیلہ ، امام ابن تیمیہ‘ ترجمہ: ضیغم الانصاری۔ ناشر: اسلامی اکادمی‘ ۱۷- الفضل مارکیٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۴۰۰۔ قیمت: ۲۲۰ روپے۔[اسلام کی تعلیمات کے مطابق اللہ کے ہر بندے کو اللہ سے راست رسائی حاصل ہے لیکن عموماً لوگ کسی وسیلے کی تلاش کرتے ہیں جس کی وجہ سے لاتعداد مشرکانہ افعال اور بدعات کا دروازہ کھلتا ہے۔ اس مسئلے پر امام ابن تیمیہ کی جامع کتاب کا یہ سلیس اور عام فہم ترجمہ ہے۔ تمام پہلو سامنے آجاتے ہیں۔ زندگی میں کسی سے دعا کروانا تو ٹھیک ہے‘ لیکن مرنے کے بعد‘ یا قبر پر جاکر کسی کو وسیلہ بنانا جائزنہیں۔]
  • الجامع الفرید شرح کتاب التوحید، عبداللہ بن جاراللہ‘ ترجمہ: حافظ محمود احمد۔ ناشر: حدیبیہ پبلی کیشنز‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۴۰۰۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔ [عقیدۂ توحید کو دین کے نظام میں اساسی حیثیت حاصل ہے۔ یہ درست نہ ہو تو گمراہی کے بے شمار دروازے کھل جاتے ہیں۔ اس موضوع پر الشیخ محمدبن عبدالوہابؒ کی کتاب کو سوالاً جواباً پیش کیا گیا ہے۔ عقیدۂ توحید کے بارے میں تمام پہلوئوں سے آگاہی کے لیے اس کا مطالعہ مفید ہے۔]
  • توہین رسالتؐ کی شرعی سزا، مولانا محمد علی خاں باز۔ ناشر: مکتبہ قدوسیہ‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۷۰۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔[ان دنوں مغربی اخبارات میں کارٹونوں کی اشاعت کے بعد توہینِ رسالتؐ کا موضوع پر سب کی توجہ ہوگئی۔ یہ کتاب اس جرم کی سزا کے حوالے سے ایک مکمل بیان ہے جس میں صحابہ کرامؓ کے دور کا مفصل ذکر کیا گیا ہے۔]
  • شہید عامر چیمہ، عابد تہامی۔ ناشر: تہامی گروپ پاکستان‘ ۱۶-اے‘ توحید سٹریٹ‘ آؤٹ فال روڈ‘  لاہور۔ صفحات: ۲۱۹۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔[عامر چیمہ کی شہادت کے حوالے سے مرحلہ بہ مرحلہ تمام واقعات اور ان پر لکھے جانے والے اخبارات کے مضامین‘ سب کو یک جا کر دیا گیا ہے۔ اس کی حیثیت ایک دستاویز کی ہے۔]
  • شہیدوفا ، وسیم شاہد اولکھ۔ ناشر: اذان سحر پبلی کیشنز‘ منصورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۳۶۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔ [عامر چیمہ شہید کے حالاتِ زندگی ‘ جنازے کی تفصیلات‘ منظوم تاثرات‘ تصاویر۔]
  •  آپ کے خواب اور ان کی تعبیر، ابومحمد خالد بن علی العنبری، مترجم: ڈاکٹر حافظ عبدالرحمن یوسف۔ ناشر: مکتبہ ابن تیمیہ‘ لاہور۔ ملنے کا پتا: اسلامی اکادمی‘ ۱۷- اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۹۰۔ قیمت: درج نہیں۔ [خوابوں کا دیکھنا‘ ان کی تعبیر معلوم کرنا اور بتانا ماہر ین نفسیات کے لیے ایک دل چسپ موضوع ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے بارے میں جو کچھ آیا ہے اور تعبیر کے حوالے سے جو روایات ہیں ان کو جمع کردیا گیا ہے۔]
  • شاہراہ دعوتِ دین، مصطفی مشہور۔ ناشر: مکتبہ المصباح، ۱-اے ذیلدار پارک‘ اچھرہ‘ لاہور۔ صفحات:۲۰۶۔ قیمت: ۶۵ روپے۔[دورِحاضر میں دعوتِ دین کی راہ پر چلنے والوں کو جو مسائل پیش آتے ہیں ان کے بارے میں عملی نقطۂ نظر سے بہت اچھی مفید بحث اور مؤثر رہنمائی ہے۔ اس راہ کے ہر راہی کو    مصطفی مشہور کی اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔]
  • تزکیہ نفس، خلیل الرحمن چشتی، محمد خان منہاس۔ ناشر: الفوز اکیڈمی‘ ۴/۱۱-ای‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۲۳۲۔ قیمت: ۱۴۰ روپے۔[تزکیہ نفس کے موضوع پر ایک گائیڈبک نوعیت کی کتاب جس میں ۱۲ تدابیر آیات و احادیث کی روشنی میں نہایت اختصار اور جامعیت سے بیان کی گئی ہیں۔]
  •  نصرتِ الٰہی کے مناظر، ابوبلال حافظ طاہرمنصور۔ ناشر: جہاد میڈیا پبلی کیشنز‘ hotsoup@ maktoob.com۔ صفحات: ۲۴۰۔ قیمت: ۱۰۰روپے۔[دورِ رسالت و صحابہ میں میدان جہاد میں نصرتِ الٰہی کے واقعات نہایت ایمان افروز ہوتے ہیں۔ اس کتاب میں دورِحاضر کے افغانستان‘ کشمیر‘ فلپائن اور دوسرے جہادوں کے ایسے واقعات جمع کیے گئے ہیں۔ ان سے یقین آتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کی مدد کرنے پر ہرطرح قادر ہے جو اس کی راہ میں جانیں پیش کرتے ہیں۔]
  •  یومِ خندق ، پروفیسر شفیع ملک۔ ناشر: پاکستان ورکرز ٹریننگ اینڈ ایجوکیشن ٹرسٹ‘ ایس ٹی ۳/۲‘ بلاک ۵‘ گلشن اقبال‘ کراچی۔ صفحات: ۶۰۔ قیمت: ۵۰ روپے۔[پاکستان میں مزدور تحریک کاایک مطالبہ ہے کہ یکم مئی کے بجاے‘ جو سوشلسٹ پس منظر رکھتا ہے یومِ خندق کو عالمی پیمانے پر یومِ مزدور کے طور پر منایاجائے۔ مصنف نے اس تجویز کے مختلف پہلوئوں پر گفتگو کی ہے۔]
  •  زندگی کی کتاب،قانتہ رابعہ۔ ناشر: ادارہ مطبوعات سلیمانی‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۵۹۔ قیمت: ۷۵ روپے۔[زندگی گزارتے ہوئے روز مرہ پیش آنے والے واقعات پر اخباری کالم کے انداز سے کسی مناسب بات کی تذکیر۔ یہ ایسے ہی ۶۷ ایک ایک دو صفحات کے مختصر مضامین کا مجموعہ ہے۔ مطالعے سے معاشرے کی تصویر بھی سامنے آجاتی ہے۔]

خالد ندیم ‘شیخوپورہ

’قرآن فہمی: فروغ کی جدوجہد‘ (اگست ۲۰۰۶ئ) مفید معلوماتی ہے‘ تاہم اس میں اختصار سے کام لیا گیا ہے۔ بعض تفاسیر اپنے اعلیٰ دینی و علمی مقام و مرتبے کے باوجود مناسب تعارف سے محروم رہیں۔ ’بہائیت، عقائد، تاریخ، سرگرمیاں‘ کے مطالعے سے اپنے اردگرد ارتداد کے مخفی عناصر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔


عقل وزیر ‘پشاور

’پاکستان کا روشن مستقبل اور عوامی تحریک‘ (جولائی ۲۰۰۶ئ) پاکستانی عوام کے لیے مژدۂ جانفزا ہے۔ پاکستانی عوام تمام تر محرومیوں‘ بے انصافیوں اور مسائل کے باوجود پاکستان کے روشن مستقبل کے خواہاں ہیں۔ ہرپاکستانی کے دل میں آج پرویز مشرف کے خلاف بیزاری و نفرت کا لاوا پک رہا ہے۔ محترم امیرجماعت کا بروقت عوامی تحریک کا آغاز عوام کے دلوں کی آواز ہے۔


ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ‘ پشین - شاہد نون ‘اسلام آباد

’پاکستان کا روشن مستقبل اور عوامی تحریک‘ دورحاضر میں پاکستانی عوام بالخصوص اسلامی جماعتوں کے کارکنان کے لیے مایوسی کے اس دور میں آیات قرآنی اور فرموداتِ اقبال کی صورت میں امید کا سامان ہے۔ خداکرے کہ یہ تحریک اسلامی انقلاب کا پیش خیمہ ٹھیرے۔


غلام عباس طاہر لیل ‘جھنگ

’بہائیت: عقائد، تاریخ،سرگرمیاں‘ (اگست ۲۰۰۶ئ) کے حوالے سے کچھ مزید معلومات:

بہائیت کی پیش رو بابیّت کے بانی علی محمد کو جب حکومتِ ایران نے اُس کے گمراہ کن عقائد کے پیشِ نظر گولی مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا تو فوجیوں نے اُس کی لاش شہر کے باہر خندق میں پھینک دی جو رات کی تاریکی میں اس کے متبعین نے اٹھا کر ایلیسا نبی کے غار کے قریب اسرائیل میں واقع کوہ کرمل میں دفن کی جہاں اس کا عالیشان روضہ ہے۔ اسے اتفاق کہیے یا سازشوں کی کڑی کہ قادیانیوں کا تبلیغی مشن بھی اسی جگہ ہے۔

صبح ازل (مرزا یحییٰ نوری) بہاء اللہ کاماں کے لحاظ سے سوتیلا بھائی تھا اور علی محمد باب نے الہامی کتب کی تکمیل و تدوین کا کام اس کے سپرد کر رکھا تھا۔ بہاء اللہ (حسین علی) کا تعلق مغل خاندان سے تھا۔ اِن کے والد عباس یحییٰ حکومتِ ایران کے وزیر اور اپنے دور کے صاحبِ حیثیت تھے۔ بہاء اللہ نے ترکی سے جلاوطنی کے بعد اسرائیل کے شہر حیفہ میں اپنا مشن اور تبلیغی مرکز قائم کیا۔ امریکا میں واقعی اس فرقے کو بڑی پذیرائی ملی کیونکہ ان کے یہودیوں سے خاص مراسم تھے۔ بہاء اللہ کے نظریات کا اصل تدوینی کام اور تشریح و تفسیر اُن کے بیٹے عبدالبہا نے کی۔ بہائیت میں مردوں کی نسبت عورتوں کی تعلیم اور آزادی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ ان کے ہاں سال میں ۱۹مہینے رائج ہیں اور ہرمہینہ ۱۹ دن کا ہے۔ اِن کے ہاں عیدالفطر وغیرہ نام کی عیدوں کا رواج نہیں بلکہ اِن کی اپنی عیدیں ہیں۔

بہائی اپنی عبادت گاہ کے لیے مسجد کے بجاے مشرق الاذکار کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور ہر ماہ کی    پہلی تاریخ کو عبادت گاہ میںجمع ہوتے ہیں اور اس کے قائل ہیں کہ موت کے بعد جسم زندہ نہیں کیا جائے گا۔


نصیرالدین ہمایوں ‘لاہور

آپ نے محترم ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی کے دروس قرآن کی آٹھ جلدوں پر تبصرہ (جولائی ۲۰۰۶ئ) کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ان کے جو دروس نقل کیے گئے اور ایک نظر ڈال کر شائع کردیے گئے‘‘، اور تبصرہ کے آخر میں مزید توجہ دلائی ہے کہ ’’اس کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ کوئی ماہر مدیر خطیبانہ رنگ برقراررکھتے ہوئے اس کی  تدوین نو کرے تو اس کے فائدے اور تاثیر میں اضافہ ہو‘‘۔ میرے علم کے مطابق ڈاکٹر صاحب کا معمول ہے کہ       اپنی تحریروں کی آپ باقاعدہ املا کراتے ہیں اور بعد میں ان کی نوک پلک سنوارتے ہیں۔ ان کا خطیبانہ انداز    ان کے خطابات کے کیسٹوں میں یقینا نمایاں ہوتا ہے اور وہ بھی اپنی ایک علمی شان رکھتا ہے‘ تاہم ان کی تصنیفات‘ بلاشبہہ اپنے ربط و تسلسل اور تصنیفی ترتیب کے حوالے سے ارفع و اکمل حیثیت کی حامل ہیں۔

مومن کی اخلاقی طاقت

یوسف نے کہا: ملک کے خزانے میرے سپرد کر دیجیے ‘ میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔ (یوسف ۱۲:۵۵)

حقیقت یہ ہے کہ اس مقام کی تفسیر میں دور انحطاط کے مسلمانوں کی کچھ اُسی ذہنیت کااظہار کیا ہے جو کبھی یہودیوں کی خصوصیت تھی۔ یہ یہودیوں کا حال تھا کہ جب وہ ذہنی و اخلاقی پستی میں مبتلا ہوئے تو پچھلی تاریخ میں جن جن بزرگوں کی سیرتیں ان کو بلندی پر چڑھنے کا سبق دیتی تھیں ان سب کو وہ نیچے گرا کر اپنے مرتبے پر اُتار لائے تاکہ اپنے لیے اور زیادہ نیچے گرنے کا بہانہ پیدا کریں۔ افسوس کہ یہی کچھ اب مسلمان بھی کررہے ہیں۔ اِنھیں کافر حکومتوں کی چاکری کرنی ہے۔ مگر اس پستی میں گرتے ہوئے اسلام اور اس کے علَم برداروں کی بلندی دیکھ کر انھیں شرم آتی ہے‘ لہٰذا اس شرم کو   مٹانے اور اپنے ضمیر کو راضی کرنے کے لیے یہ اپنے ساتھ اُس جلیل القدر پیغمبر کو بھی خدمتِ کفر کی گہرائی میں لے گرنا چاہتے ہیں جس کی زندگی دراصل انھیں یہ سبق دے رہی تھی کہ اگر کسی ملک میں ایک اور صرف ایک مرد مومن بھی خالص اسلامی اخلاق اور  ایمانی فراست و حکمت کا حامل ہو تو وہ تن تنہا مجرد اپنے اخلاق اور اپنی حکمت کے زور سے اسلامی انقلاب برپا کرسکتا ہے‘ اور یہ کہ مومن کی اخلاقی طاقت (بشرطیکہ وہ اس کا استعمال جانتا ہو اور اسے استعمال کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہو) فوج اور اسلحے اور سروسامان کے بغیر بھی ملک فتح کرسکتی ہے اور سلطنتوں کو مسخر کرلیتی ہے۔(تفہیم القرآن‘سورۂ یوسف‘ ابوالاعلیٰ مودودی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۹‘ عدد ۴‘ شوال ۱۳۶۵ھ‘ ستمبر ۱۹۴۶ئ‘ ص ۱۹-۲۱)