بسم اللہ الرحمن الرحیم
۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے فوجی انقلاب سے جنرل پرویز مشرف کی حکمرانی کا جو دورشروع ہوا تھا وہ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے جمہوری ڈرامے اور سائن بورڈوں کی تبدیلی کے باوجود جاری ہے۔ ان سات برسوں میں جہاں دستور‘ سول نظام کی حکمرانی اور تمام ہی انتظامی ادارات کا حلیہ بگاڑدیا گیا ہے‘ وہیں اپنے نتائج کے اعتبار سے ملک وقوم کو اس کی تاریخ کے خطرناک ترین حالات سے دوچار کردیا گیا ہے۔ ریاست کا ہر ستون آج لرزہ براندام ہے اور ملک کی سالمیت‘ اس کی شناخت‘ بلکہ آزادی‘ خودمختاری اور وجود تک معرض خطر میں نظر آرہا ہے۔ حکمران آنکھیں بند کیے تباہی اور ایک نئی غلامی کے جال میں پھنستے چلے جارہے ہیں‘ اور قوم کے سامنے یہ تکلیف دہ سوال اُبھر کر سامنے آگیا ہے کہ کیا قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں ملت اسلامیہ پاک و ہند کی تابناک سیاسی جدوجہد اور بے مثال قربانیوںسے قائم ہونے والا پاکستان ایک بار پھر ۱۹۷۱ء کی طرح کے ایک دوسرے تباہ کن دھماکے کی طرف بڑھ رہا ہے؟ عالمی سامراج نے امریکا کی قیادت میں عالمِ اسلام کی ٹوٹ پھوٹ اور نئی نقشہ بندی کا جو خطرناک کھیل شروع کردیا ہے اور اس خطرناک نقشے میں رنگ بھرنے اور اسے حقیقت کا روپ دینے کے لیے آج کے میرجعفر اور میرقاسم جو کردار ادا کرنے کے لیے کمربستہ ہیں‘ ان کا راستہ کس طرح روکا جائے تاکہ اس سامراجی سیلاب کے آگے‘ قبل اس کے وہ ملت اسلامیہ کو کوئی بڑا نقصان پہنچائے‘ مؤثر بند باندھے جائیں۔
جنرل پرویز مشرف کا حالیہ دورہ ایک آئینہ ہے جس میں اس کھیل کے نقش و نگار کو دیکھا جاسکتا ہے۔ حالات جس رخ پر جارہے ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ملت اسلامیہ پاکستان کے پاس اب اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے اُٹھ کھڑی ہو اور ہرمصلحت کوبالاے طاق رکھ کر ملک کی آزادی‘ سالمیت اور اسلامی تشخص کی حفاظت کے لیے صف آرا ہوجائے۔ آج ہماری قومی زندگی کا اصل چیلنج یہی ہے کہ وہ اپنی آزادی اور اپنے سیاسی اور نظریاتی وجود اور تشخص کی حفاظت کی فیصلہ کن جدوجہد ایمان‘ عزم راسخ اور حکمت بالغہ کے ہتھیاروں سے لیس ہوکر انجام دے‘ اور ایک ایسی قیادت کو زمامِ کار سونپے جو اللہ کے اس عطیّے اور اقبال اور قائداعظم کی اس امانت کی جواں مردی کے ساتھ حفاظت کرسکے اور نام نہاد دنیاوی سوپر پاورز کے دوسرے اور تیسرے درجے کے سفارت کاروں کی دھمکیوں پر ملک کی آزادی‘ عزت اور حاکمیت کا سودا کرنے والی نہ ہو‘ بلکہ وقت کے بڑے سے بڑے فرعون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا دفاع کرسکے۔
جنرل پرویز مشرف کی حکومت صرف اصولی طور پر ہی غیردستوری اور غیرقانونی نہیں بلکہ اس کا سات سالہ ریکارڈ گواہ ہے کہ ہراعتبار سے یہ پاکستان کی تاریخ کی ناکام ترین حکومت ہے اوراب اس کی وجہ سے پاکستان کی آزادی‘ عزت اور وجود کوشدید خطرہ لاحق ہے۔ اس نے پاکستان کی آزادی اورحاکمیت کا سودا کیا ہے اور محض اپنے اقتدار کی خاطر پاکستان کے نظریاتی‘ تہذیبی‘ معاشی اور سیاسی مفادات کو پامال کیا ہے۔ اسے اللہ کی خوشنودی اور پاکستانی عوام کی عزت‘ ان کے سیاسی اورسماجی عزائم اور فلاح و بہبود کے مقابلے میں صدربش کی خوشنودی اور امریکا کے استعماری پروگرام میں معاونت عزیز ہے‘ اور اس گھنائونے کھیل میں اپنی خدمات کی داد لینے کے لیے ہر کچھ عرصے بعد واشنگٹن کی یاترااس کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے جہاں ’من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو‘ کا تماشا بار بار اسٹیج کیا جاتا ہے۔
آج پاکستان ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہواہے ___ ایک طرف روشن خیالی اور لبرلزم کے نام پر امریکا کی غلامی اور نئے سیاسی اور معاشی سامراجی نظام کی چاکری کا کردار ہے‘ اور دوسری طرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے ہوئے زندگی کے پروگرام کے مطابق تحریکِ پاکستان کے اصل مقاصد کے حصول کے لیے فوجی آمریت اور مغرب پرست طبقے سے نجات اور حقیقی اسلامی جمہوری انقلاب کی راہ ہموار کرنے کی ہمہ گیر جدوجہد اور عزت کی زندگی کی دعوت ہے۔
حکیم الامت نے دل اور شکم کے استعارے میں اُمت کو اس باب میں ایک دوٹوک فیصلے کی جو دعوت دی تھی وہ آج پہلے سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کرگئی ہے ؎
دل کی آزادی شہنشاہی ‘شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے‘ دل یا شکم؟
آگے بڑھنے سے پہلے ہم یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم نے موجودہ نظام کو فوجی حکومت نہیں جرنیلی آمریت کہا ہے اور یہ اس لیے کہ آج ملک کی فوج بھی ایک مخصوص باوردی اور بے وردی ٹولے کے ہاتھوں اسی طرح یرغمال بنی ہوئی ہے جس طرح ملک کا پورا سیاسی نظام۔ جنرل پرویز مشرف کے نظام کی دو ہی خصوصیات ہیں۔ ایک یہ کہ لیبل کچھ بھی ہو‘ یہ فردِ واحد کی آمریت ہے۔ دستور‘ پارلیمنٹ‘ سول انتظامیہ حتیٰ کہ فوج سب ایک شخص کے اشارہ چشم و ابرو پر گردش کر رہے ہیں اور خود وہ شخص امریکا اور صدربش کے بل بوتے پر ملک و قوم پر مسلط ہے۔ دوسرے‘ اس کی اُچھل کود کا انحصار امریکی پشتی بانی کے بعد اس وردی ہی پر ہے‘ اور یہ وہ حقیقت ہے جس کا وہ خود بار بار اعتراف کر رہا ہے۔ اکتوبر ۲۰۰۵ء کے زلزلے کے موقعے پر جنرل پرویز مشرف نے بڑے طمطراق سے اعلان کیا تھا کہ اگر میں وردی میں نہ ہوتا تو فوج اتنی سرعت سے (یعنی تباہی کے تین سے پانچ دن بعد جب کہ کشمیری مجاہد اور پاکستان کی دینی جماعتوں کے کارکن چند گھنٹوں میں محاذ پر موجود تھے) حرکت میں نہ آتی‘ اور اب امریکا میں دعویٰ فرمایا ہے کہ اگر میں وردی میں نہ ہوتا تو حدودآرڈی ننس میں ترمیمی بل لانے کی جرأت نہیں کی جاسکتی تھی۔ اسے بھول جایئے کہ یہ وردی جناب محترم نے آج نہیں پہنی ہے اور سات سال سے اس وردی کے باوجود انھیں حدود قوانین میں ترمیمی بل لانے کی جرأت نہیں ہوئی اور اب لائے ہیں تو جو حشر اس کا ہوا ہے اور جس طرح جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے وہ مضحکہ خیز ہی نہیں‘ عبرت ناک بھی ہے۔ اس سب کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ ان کی طاقت کا منبع نہ دستور ہے‘ نہ عوام ہیں اور نہ ہی سیاسی جماعتیں ہیں___ یہ ان کی فوج کی سربراہی اور فوج کا ڈسپلن ہے جس کا قطعی ناجائز استعمال کرکے وہ قوم کے سر پرمسلط ہیں اور رہنا چاہتے ہیں اور نتیجتاً ملک اور فوج دونوں کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اسے جرنیلی آمریت کہا ہے اور یہی اس نظام کی اصل شناخت ہے۔
اس جرنیلی آمریت کا پہلا جرم یہ ہے اس نے ملک کی آزدی‘ حاکمیت اور خودمختاری پر کاری ضرب لگائی ہے اور گذشتہ پانچ سال میں ملک امریکا کی ایک ذیلی ریاست (satellite state) بن کر رہ گیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے خود اپنے تازہ ترین انٹرویو میں جو سی این این کو ۲۱ستمبر ۲۰۰۶ء کو دیا گیا ہے‘ اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد امریکی نائب وزیرخارجہ نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ
be prepared to be bombed: be prepared to go back to the stone age.
اور ہمارے بہادر جرنیل نے جو ایٹمی صلاحیت رکھنے والی فوج کے سربراہ تھے اس مطالبے کو جسے وہ خود ناشائستہ (rude) قرار دے رہے ہیں اور جس کے ساتھ بقول ان کے بہت سے دوسرے مضحکہ خیز (ludicrous) مطالبات تھے یعنی اپنی فضائی حدود کو ہمارے لیے کھول دو‘ فوجی اڈے فی الفور مہیا کرو‘ امریکی فوجوں کو ایک برادر ملک پر حملہ کرنے کے لیے اپنی زمین فراہم کرو‘ اس وقت کی افغان حکومت سے تعلق توڑ لو حتیٰ کہ پاکستان میں امریکا کے خلاف اورافغانستان پر حملے کے خلاف بے چینی کی جو لہراور مزاحمت کی تحریک ہے اسے دبانے (suppress)کی کارروائی کرو___ سب مطالبات پر سرِتسلیم خم کردیا۔ ستم یہ ہے کہ جناب جرنیل صاحب امریکا کی اس ظالمانہ کارروائی میں نہ صرف اس تمام دبائو‘ خوف اور دھمکیوں کے تحت شریک ہوگئے بلکہ اسے اپنی جنگ بنا لیا اور پھر وہ ’کارنامے‘ انجام دیے کہ بش صاحب بھی جھوم جھوم گئے۔ غلامی کی زنجیر پہننا ہی کم ستم نہ تھا کہ اسے زیور سمجھ کر نازاں ہونے کی ایکٹنگ بھی کی جانے لگی۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ ہر ’خدمت‘ کے بعد ’مزید‘ کے مطالبات ہو رہے ہیں اور ذلت کے تمغوں میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے۔
ہم نے اپنی آزادی ہی کو دائو پر نہیں لگایا‘اپنی عزت اوراپنی روایات کو بھی خاک میں ملا دیا جس کی بدترین مثال ان ۶۰۰ سے زائد بے گناہ افراد کو امریکا کی تحویل میں دینا ہے جن میں سے کسی کے خلاف کوئی جرم آج تک ثابت نہیں ہوا لیکن ان کی جانوں اور عزتوں سے امریکا کے گھنائونے کھیل میں شریک ہوکر ہم خدا اور خلق کے سامنے مجرم بنے اور اسلام کی تعلیمات اور مسلمانوں کی روایات کو پامال کیا۔ اس سلسلے کی بدترین مثال پاکستان میں اس وقت کے افغانی سفیر عبدالسلام ضعیف کی ہے جن کو سفارتی تحفظ حاصل تھا لیکن اس جرنیلی قیادت نے بین الاقوامی قانون اور اسلامی احکام کی شرم ناک خلاف ورزی کرتے ہوئے جنوری ۲۰۰۲ء میں اس سفارتی تحفظ یافتہ فرشتہ صفت بھائی کو امریکا کی تحویل میں دے دیا جو انھیں بگرام اور گوانتاناموبے لے گیا‘ بدترین تعذیب کا نشانہ بنایا اور چار سال ٹارچر کرنے کے بعد بھی ان کا کوئی جرم ثابت نہ کرسکا اور بالآخر ۲۰۰۵ء میں انھیں رہا کرنے پر مجبور ہوا۔ عبدالسلام ضعیف نے اپنی روداد اسیری رقم کی ہے جس کا ایک ایک لفظ اس جرنیلی آمریت کے خلاف فردِ جرم ہے جسے پڑھ کر پوری پاکستانی قوم کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ دل اللہ کے غضب کے خطرے سے کانپ اٹھتا ہے اور بے تاب روح سے یہ صدا بلندہوتی ہے کہ خدایا! ایسے ظلم میں شریک ہونے اوراس کا آلہ کار رہنے والوں کا احتساب کب ہوگا؟ ہم دل کڑا کر کے ان کی آپ بیتی سے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں تاکہ جرنیلی آمریت کا اصل چہرہ قوم کے سامنے آسکے:
یہ ۲ جنوری ۲۰۰۲ء کی صبح تھی۔ پاکستان میں سالِ نو کی تقریبات اختتام پذیر ہوچکی تھیں۔ میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ معمول کی زندگی گزاررہاتھا اور ہر وقت افغانستان میں رہنے والے اپنے گم شدہ بھائیوں اور شہیدوں کی فکر میں مبتلا رہتا تھا۔ میں اُن کی قسمت پر کڑھتا تھا مگر اپنی تقدیرسے لاعلم تھا۔ تقریباً ۸ بجے کا وقت تھا۔ گھر کے محافظوں نے اطلاع دی کہ چند پاکستانی سرکاری اہلکار آپ سے ملنے آئے ہیں۔ مہمانوں کو ایک چھوٹے سے کمرے میں بٹھایا‘ یہ تین افراد تھے۔ ان میں ایک پختون اور باقی دو اُردو بولنے والے تھے۔ میں نے افغان روایات کے تحت مہمانوں کا خیرمقدم کیا۔ چائے بسکٹ سے تواضع کی۔ میں متجسس تھا کہ وہ کیا پیغام لے کر آئے ہیں۔ اُردوبولنے والے ایک سیاہ رنگ کے موٹے کلین شیو شخص نے جس کے چہرے سے نفرت اور تعصب ٹپکتا تھا اوروہ کسی دوزخی کا ایلچی لگتا تھا‘ بظاہر بڑے مؤدبانہ انداز میں بات شروع کی اور پہلا جملہ اداکیا: your excellency, you are no more excellency۔ پھر وہ بولا: آپ جانتے ہیں کہ امریکا بڑی طاقت ہے اور کوئی اس کے مقابلے کی ہمت نہیں رکھتا۔ نہ ہی کوئی اس کا حکم ماننے سے انکار کی جرأت رکھتا ہے۔ امریکا کو آپ کی ضرورت ہے‘ تاکہ آپ سے پوچھ گچھ کرسکے۔ ہم آپ کو امریکا کے حوالے کرنے آئے ہیں تاکہ اس کا مقصد پورا ہو اور پاکستان کو بہت بڑے خطرات سے بچایا جا سکے۔میں نے بحث شروع کر دی اور کہا کہ چلو مان لیا امریکا ایک سپرطاقت ہے لیکن دنیا کے کچھ قوانین اوراصول بھی تو ہیں جن کے تحت لوگ زندگی گزار رہے ہیں۔ میںحیران ہوں کہ آپ لوگ کن مروجہ یا غیر مروجہ یا اسلامی یا غیراسلامی قوانین کے تحت مجبور ہیں؟ آپ کا اخلاقی فرض ہے کہ مجھے میرے سوالوں کا جواب دیں اور مجھے اتنی مہلت دیں کہ میں آپ کا ملک پاکستان چھوڑ دوں۔
لگ بھگ ۱۲ بجے کا وقت تھا جب تین گاڑیاں آئیں اورمسلح اہلکاروں نے گھرکا محاصرہ کرکے راستے اور لوگوں کی آمدورفت بند کردی۔ مجھے باہر نکلنے کو کہا گیا۔ میں ایسے حال میں گھر سے نکلا جب میرے بیوی بچے چیخ و پکار کر رہے تھے۔ میں اپنے بچوں کی طرف مڑ کے نہیں دیکھ سکتا تھا کیونکہ میرے پاس ان کے لیے تسلی کا ایک لفظ تک نہ تھا۔ ’اسلام کے محافظ‘ پاکستانی حکام سے مجھے ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ مجھے چند پیسوں کی خاطر ’تحفتاً‘ امریکا کو پیش کردیا جائے گا۔ میں یہی سوچتا ہوا گھر سے نکلا کہ مجھ پر اتنا ظلم کیوں ہو رہا ہے؟ مقدس جہاد کی باتیں کرنے والوں کو کیا ہوگیا؟ مجھے ایک گاڑی میں درمیان میں بٹھا دیا گیا۔ گاڑی کے شیشے کالے تھے جن کے آرپار کچھ نہ دیکھا جا سکتا تھا۔ آگے سیکورٹی کی گاڑی تھی جب کہ تیسری گاڑی ہمارے پیچھے تھی جس میں مسلح اہلکار تھے۔
تیسری رات ۱۱ بجے کے لگ بھگ میں نے سونے کا ارادہ کیا کہ اچانک دروازہ کھلا اور شلوارقمیص میں ملبوس چھوٹی داڑھی والا ایک شخص اندرداخل ہوا۔ اس نے کہا ہم آپ کو ایک دوسری جگہ منتقل کر رہے ہیں۔ میں نے یہ نہ پوچھا کہ مجھے کہاں لے جایا جا رہا ہے کیونکہ مجھے سچ کی امید نہ تھی۔ مجھے واش روم استعمال کرنے کے لیے صرف پانچ منٹ دیے گئے۔ رفتہ رفتہ گاڑی ہیلی کاپٹر کے قریب ہوتی گئی اور اس کی آواز کانوں کے پردے پھاڑنے لگی۔ اس دوران مجھے ایک ضرب پڑی اور میری کلائی پر بندھی قیمتی گھڑی اس ضرب سے نیچے گرگئی یا مجھ سے لے لی گئی۔ مجھے دوافراد کی مدد سے گاڑی سے اُتارا گیا اور ہیلی کاپٹر سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑا کردیا گیا۔ چندلمحوں بعد میں نے خدا حافظ کے الفاظ سنے۔ پھر میں نے کچھ لوگوں کی آوازیں سنیں جو انگریزی میں باتیں کر رہے تھے۔ اچانک وہ ریچھوں کی طرح مجھ پہ پل پڑے اور لاتوں‘ گھونسوں اور مکوں کی بارش کرنے لگے۔ کبھی مجھے اوندھے منہ لٹا دیا جاتا‘ کبھی کھڑا کر کے دھکا دیا جاتا‘ میرے کپڑے چاقوؤں کی مدد سے پھاڑ دیے گئے۔ اسی دوران میری آنکھوں سے پٹی اُتر گئی۔ میں نے دیکھا کہ پاکستانی افسر قطار میں کھڑے تھے۔ ساتھ ہی افسروں کی گاڑیاں تھیں جن میں سے ایک پر جھنڈا لگا تھا۔ امریکیوں نے مجھے مارا پیٹا‘ بے لباس کردیا مگر اسلام کے محافظ میرے سابقہ دوست تماشا دیکھتے رہے۔ یہ بات میں قبر میں بھی نہ بھول سکوں گا۔ میں کوئی قاتل‘ چور‘ ڈاکو یا قانون کا مجرم نہ تھا۔ مجھے بغیر کسی جرم کے امریکا کے حوالے کیا جا رہا تھا۔ وہاں موجود افسر اتنا تو کہہ سکتے تھے کہ یہ ہمارا مہمان ہے۔ ہماری موجودگی میں اس کے ساتھ یہ سلوک نہ کرو۔ وحشی اور بے رحم امریکی فوجیوں نے ایسی حالت میں مجھے زمین پر پٹخ دیا کہ میرا جسم ننگا ہوگیا۔ پھر مجھے ہیلی کاپٹر میں دھکیل دیا گیا۔ میرے ہاتھ پائوں کس کر زنجیروں سے باندھ دیے گئے۔ آنکھوں پر پٹی پھر باندھ دی گئی۔ میرا چہرہ سیاہ تھیلے سے ڈھانپ دیا گیا۔ میرے جسم کے اردگرد سر سے پائوں تک رسی لپیٹ کر ہیلی کاپٹر کے وسط میں زنجیر سے باندھ دیا گیا۔ (روزنامہ نواے وقت‘ ۲۲ستمبر ۲۰۰۶ئ)
پوری داستان دل خراش اور آبدیدہ کردینے والی ہے۔ لیکن یہ سب وہ خدمات ہیں جو اس جرنیلی آمریت نے‘ امریکا کی خوشنودی کے لیے انجام دی ہیں اوراس طرح اپنی آزادی اور خودمختاری کو اپنے ہی ہاتھوں تارتار کیا ہے۔ امریکا پاکستان کے ہر شعبۂ زندگی میں مداخلت کر رہا ہے۔ فوجی مشقوں کے نام پر فوج کی قیادت کو دام اسیری میں لایا جا رہا ہے۔ تعلیم میں مداخلت ہے اور نصاب تعلیم تک میں تعلیمی اصلاحات کے نام پر یو ایس ایڈ کی دراندازیاں ہورہی ہیں اور قرآن کی وہ آیات تراش و خراش سے محفوظ نہیں جو جہادکے بارے میں ہیں۔ معیشت پر گرفت تو پہلے ہی کم نہ تھی مگر اب نج کاری اور بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے مزید مداخلت کی راہیں استوارہوگئی ہیں۔ دینی مدارس کو لگام دینے کی خدمت بھی امریکی منصوبے کے تحت کی جارہی ہے اور اب حدودقوانین‘ ناموس رسالتؐ کا قانون اور احمدیوں کو غیرمسلم اقلیت قراردیے جانے والی دستوری ترمیم سب نشانے پرہیں۔ جرنیل صاحب چاہتے تھے کہ امریکا کا دورہ کرنے سے پہلے اپنی وردی کے زعم پر حدود قوانین میں ترمیم کرا لیں لیکن اللہ کی شان ہے کہ وردی کے باوجود ترمیم دھری کی دھری رہ گئی___ ان تمام خدمات اور سپردگیوں (surrenders) کے باوجود بلکہ ان کے نتیجے میں امریکا اور بھی شیر ہوتا جارہا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دورے کے موقع پر اقوام متحدہ میں خطاب کے بعد صدر بش نے سی این این کے نمایندے وولف بلٹزر (Wolf Blitzer) کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا صدر بش خفیہ ایجنسیوں کی قابلِ اعتماد معلومات پر القاعدہ کے قائدین کو پکڑنے یا ہلاک کرنے کے لیے پاکستان کی سرزمین پر امریکی فوج کے ذریعے بلاواسطہ کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ صاف الفاظ میں کہا: absolutely (بالکل یقینا)۔
یہ ہے اس جرنیلی آمریت کے زیرسایہ اب ہماری آزادی‘ خودمختاری اور اقتدار اعلیٰ (sovereignty )کی اصل حقیقت۔
پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کی اس خطرناک حد تک تحلیل اور تخفیف (erosion) کے ساتھ دوسرا مسئلہ ہماری دفاعی صلاحیت کے بری طرح متاثر ہونے کا ہے۔ دفاعی صلاحیت میں سب سے اہم چیز قوت اور وسائل میں عدم مساوات کے باوجود مزاحمت‘مقابلے اور دفاع کے عزم اور قومی مقاصد‘ آزادی اور عزت کے دفاع کے لیے جان کی بازی لگادینے کا جذبہ ہے۔ لیکن جو فوجی قیادت ذہنی شکست کھاچکی ہو‘ مفادات کے چکر میں پڑجائے اور سمجھوتوں اور سہولتوں کو شعار بنالے وہ لڑنے اور جان دینے کے جذبے سے محروم ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس فوج کو سیاست کا چسکا لگ جائے وہ پھر دفاع کے لائق نہیں رہتی۔ جنرل پرویز مشرف کی پالیسی کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ان کے دور میں فوج کو سیاست ہی نہیں‘ معیشت‘ حکمرانی‘ انتظامیات غرض ہر اس کام میں لگا دیا گیا ہے جس کا کوئی تعلق دفاع سے نہیں۔ پھر فوج کو اپنے ہی عوام کو نشانۂ ستم بنانے اور انتظامی معاملات حتیٰ کہ انتخابات کے عمل میں اس بے دردی سے استعمال کیاجارہا ہے کہ اس کے نتیجے میں فوج متنازعہ بن گئی ہے اور عوام کی عزت‘ محبت اور توقیر کی جگہ نفرت اور دشمنی کا ہدف بن رہی ہے۔ اس سلسلے میں وزیرستان اور بلوچستان میں جس طرح فوج کو استعمال کیا گیا ہے اس نے صرف جرنیلی آمریت ہی کو نہیں‘ خود فوج کو ہدف تنقید و ملامت بنائے جانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ یہ ملک کی دفاعی صلاحیت کے لیے ایک ناقابلِ برداشت دھچکا ہے۔
جرنیلی آمریت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اور اس کے ذریعے سائنس دانوں کی پوری برادری کو جو پیغام دیا ہے‘ نیز ایٹمی صلاحیت کو مسلسل ترقی دینے کے لیے جن راہوں کو کھلا رکھنا ضروری تھا انھیں جس طرح بند کردیا گیا ہے اس نے ہماری ایٹمی سدجارحیت (nuclear deterrance)کی صلاحیت کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ قابلِ اعتماد ذرائع اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہماری نیوکلیر صلاحیت کو آہستہ آہستہ کمزور اور تحلیل کرنے اور اس پر امریکی اثر کے بڑھنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جو بظاہر غیرمحسوس ہے مگر فی الحقیقت خطرناک حد تک یقینی ہوتا جا رہا ہے۔ نیز امریکا پر دفاعی سازوسامان کے لیے محتاجی کا نیا دور شروع ہو رہا ہے حالانکہ اس باب میں امریکا کا قطعاً ناقابلِ اعتماد ہونا ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ ایف-۱۶ کے بارے میں تاریخی دھوکا کھانے کے بعد ملک اور فوج کو ایک بار پھر اسی چکر میں مبتلا کیا جا رہا ہے اور جہاز بھی وہ دینے کی بات کی جارہی ہے جو نہ صرف جدید ترین سے بہت فروتر ہیں بلکہ ان کے استعمال اور نقل و حرکت پر بھی امریکا کی نگاہ رہے گی۔ ایسے جہاز امریکا کی محتاجی کی زنجیر ہوں گے‘ یہ آزادی کے شاہیں نہیں ہوسکتے۔
جرنیلی آمریت جس طرح ملک کی آزادی اور حاکمیت کو مجروح کرنے کا ذریعہ بنی ہے اسی طرح خود فوج کی دفاعی صلاحیت اور ملک کی نیوکلیر استعداد کو کمزور کرنے کی ذمہ دار ہے۔
جرنیلی آمریت کی تباہ کاری کا تیسرا میدان چھوٹے صوبوں کو ناانصافیوں اور محرومیوں کی دلدل میں دھکیل دینا ہے جس کے نتیجے میں مرکز گریز رجحانات کو فروغ حاصل ہورہا ہے۔ سندھ میں ایک طرف ایک لسانی تنظیم کی اس طرح سرپرستی کی جارہی ہے کہ صوبہ امن و چین سے محروم ہوگیا ہے‘ ہر طرف بھتہ اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ دوسری طرف فرقہ واریت کو فروغ دیا جا رہا ہے اور روزافزوں خون خرابے کے باوجود اصل مجرم محفوظ و مامون بیٹھے ہیں۔
کالاباغ ڈیم کے مسئلے کو اس بھونڈے انداز میں اٹھایا گیا کہ تین صوبے مرکز کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ قومی مالیاتی ایوارڈ کے باب میں مرکز کا کردار نہایت غیرمنصفانہ اور غیرحقیقت پسندانہ رہا جس کے نتیجے میں صوبوں کی ترقی بری طرح متاثر ہوئی ہے اور آج تک صوبوں کو ان کا حق نہیں مل سکا۔ یہ سب مسائل اپنی جگہ لیکن سب سے بڑھ کر اس جرنیلی آمریت نے جس طرح بلوچستان کے مسئلے کو بگاڑا ہے وہ ایک قومی جرم سے کم نہیں۔
بلوچستان کے مسائل حقیقی اور گمبھیر ہیں اور اس صوبے میں محرومی کا احساس بے چینی سے بڑھ کر بغاوت کی حدوں کو چھو رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے ہر دور میں نہ صرف وہاں کے مسائل کو مجرمانہ طور پر نظرانداز کیا بلکہ سیاسی مسائل کو قوت کے ذریعے اور صوبے کی سیاسی قوتوں کو بانٹ کر اور اپنے حواریوں کو اقتدار سونپ کر صوبے کے وسائل کو صوبے اور اس کے عوام کے وسیع تر مفاد کے مقابلے میں مفادپرست عناصر کے کھل کھیلنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ تعلیم‘ روزگار‘ پیداوار‘ صحت‘ انفراسٹرکچر کی ترقی‘ صنعت غرض ہر میدان میں یہ صوبہ سب سے پیچھے ہے۔ قدرتی وسائل سے مالامال مگر ان وسائل کے ثمرات سے محروم۔ جب بھی وہاں کے عوام نے اپنے حقوق کی بات کی‘ اس کا جواب بندوق اور توپ سے دیا گیا۔ اس کی سب سے نمایاں مثال وہ پارلیمانی کمیٹی ہے جو خود چودھری شجاعت حسین صاحب کی سربراہی میں قائم ہوئی تھی اور جس کی ایک سب کمیٹی نے اپنی متفقہ رپورٹ بھی پارلیمنٹ کو پیش کر دی تھی مگر عین اس وقت جب معاملات سیاسی افہام و تفہیم سے طے ہونے کے مراحل میں تھے‘ فوج کشی کا راستہ اختیار کیا گیا اور سارے کیے دھرے پر پانی پھیر دیا گیا۔ اس کا تباہ کن انجام ۲۵ اگست کو فوجی آپریشن کے نتیجے میں ۸۰سالہ نواب بگٹی اور ان کے ساتھیوں کی ہلاکت اور اس کے بعد ان کی تجہیزوتدفین کے لیے وہ سفاکانہ اور ہتک آمیز راستہ ہے جس نے پورے صوبے ہی نہیں‘ پورے ملک میں غم و غصے کی آگ بھڑکا دی ہے۔ یہ سب کچھ محض ایک شخص کی انا کی تسکین کے لیے کیا گیا جس نے کہا تھا کہ یہ ۲۰۰۶ء ہے‘ ۱۹۷۴ء نہیں ہے اور اب ایسی سمت سے حملہ ہوگا جسے دیکھا بھی نہیں جاسکے گا اور جس نے نواب اکبرخاں بگٹی کی ہلاکت کے ظالمانہ اقدام پر فوج کو کامیاب آپریشن پر مبارک باد دی جس پر بعد میں دھول ڈالنے میں عافیت محسوس کی گئی۔
اس جرنیلی آمریت نے یہ سب کچھ ایک ایسے پس منظر میں کیا جب اس حسّاس علاقے کے بارے میں بین الاقوامی سازشوں اور شرارتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارت‘ ایران‘ افغانستان اور سب سے بڑھ کر امریکہ اپنا اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور مقامی عناصر میں سے کچھ اس میں آلۂ کار بن رہے ہیں۔ پاکستان کے نقشے کو تبدیل کرنے کے منصوبے نئے نہیں۔ سابقہ امریکی صدر کے ایک یہودی مشیر پروفیسر برنارڈ لیوس (Bernard Lewis)کئی سال پہلے شرق اوسط کے لیے نیا نقشہ پیش کرچکے ہیں اور اس میں بلوچستان کو ایک آزاد ملک کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ عین نواب بگٹی کی ہلاکت سے دو ماہ قبل کولن پاول کے ایک سابق اسسٹنٹ رالف پیٹر (Col (r) Ralph Peter ) نے امریکا کے نیم سرکاری مجلے Armed Forces Journal میں ایک زہرآلود مضمون لکھا ہے جس کا عنوان Blood Bordersہے اور اس دعوے کے ساتھ لکھا ہے کہ How a Better Middle East Would Look (ایک بہتر شرق اوسط کیسا نظر آئے گا)۔
اس میں پورے شرق اوسط کی تقسیم در تقسیم کا منصوبہ پیش کیا ہے جس سے امریکا اور اسرائیل کے مقاصد حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس وقت اس منصوبے کے تمام پہلوئوں پر کلام مقصود نہیں صرف پاکستان اور بلوچستان کے سلسلے میں اس شرانگیز تجویز پر توجہ مبذول کرانا پیش نظر ہے۔ موصوف پاکستان کو ایک غیرفطری ریاست (an unnatural state) قرار دیتے ہیں اور بلوچستان اور پشتونستان کو اس سے الگ کرتے ہیں اور اس دعوے کے ساتھ کہ یہ سب کچھ موصوف کے اپنے عزائم کے مطابق نقشے کی نئی صورت گری نہیں بلکہ وہاں کے لوگوں کی خواہش کا اظہار ہے:
یہ نقشے کو ہماری پسند کے مطابق بنانا نہیں ہے ‘ بلکہ جسے علاقے کے لوگ ترجیح دیتے ہیں‘ وہ ہے۔
ہرمعاملے میں‘ یہ نئی مفروضہ حدبندیاں نسلی تعلقات اور فرقہ بندی‘ بعض صورتوں میں دونوں کی عکاسی کرتی ہیں۔
ہم موصوف کا پیش کردہ نقشہ علاقے کے موجودہ نقشے کے ساتھ پیش کرتے ہیں تاکہ اس علاقے کے بارے میں سامراجی سیاست کاری کے کھیل کا کچھ ادراک ہوسکے۔
دونوں نقشوں پر نظر ڈالیے۔ جغرافیائی سرحدوں کی ساری تبدیلی مسلم ممالک کے لیے مخصوص ہے۔ اتنا بڑا بھارت اس نقشے پر موجود ہے‘جس میں درجنوں لسانی‘ مذہبی‘ ثقافتی اور نسلی آبادیاں موجود ہیں۔ ۱۶‘ ۱۷ آزادی کی تحریکیں سرگرم ہیں‘ وہاں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ہے ؎ برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر!
ایک طرف یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے اور دوسری طرف جرنیلی آمریت بعینہٖ وہ فضا پیدا کررہی ہے جس میں کچھ عناصر حقیقی مسائل اور محرومیوں کے ساتھ نفرت کی آگ کی آمیزش کرکے حالات کو ایسا رخ دے سکیں جن کے جلو میں سامراجی مقاصد حاصل ہوسکیں۔
ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ بلوچستان کے مسائل کو جس طرح بگاڑا جا رہا ہے‘ وہ حددرجہ خطرناک ہے۔ صوبے کے حقیقی مسائل آج بھی آسانی سے حل ہوسکتے ہیں‘ اس کے لیے سیاسی عمل‘ افہام و تفہیم اور عدل و احسان کا راستہ ہی صحیح راستہ ہے۔ فوج کشی اور عزت سے کھیلنے سے مسائل لازماً بگڑیں گے اور حل سے دُور ہوتے جائیں گے۔ جرنیلی آمریت نے جو راستہ اختیا کیا ہے‘ وہ صرف تباہی کا راستہ ہے۔ حالات کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ حکمت عملی کو یکسر بدلا جائے۔ بلوچ قبائل اور عوام کا غم پاکستان کے ہر شہری کا غم ہے اور وہاں کے مسائل ہمارے مشترکہ مسائل ہیں۔ سب کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے اور جوانصاف سے جتنا محروم رہا ہے‘ اس کا اتنا ہی زیادہ حق ہے۔ سیاسی عمل کے ساتھ ساتھ ان دستوری‘ قانونی اور انتظامی اصلاحات کی بھی ضرورت ہے جو حقیقی صوبائی خودمختاری اور صوبے کے وسائل پر اہلِ صوبہ کے حق کو یقینی بناسکے بلکہ جن صوبوں اور علاقوں کی حالت زیادہ خراب ہے‘ ان کو ملکی اوسط کی سطح تک لانے کے لیے صرف اس صوبے کے نہیں بلکہ متمول صوبوں اور علاقوں کے وسائل کوبھی پس ماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے استعمال ہونا چاہییں تاکہ سب کے ساتھ انصاف ہوسکے۔ اس مقصد کا حصول حقیقی جمہوری عمل کے قیام اور انصاف اور حق کے اصولوں کی پاسداری کے بغیر ممکن نہیں۔
مسئلہ طاقت کے استعمال کا نہیں‘ عقل کے استعمال اور انصاف اور دردمندی کے ساتھ حقیقی مسائل اور مشکلات کودُور کرنے کاہے۔ یہ تصور کہ مرکز مضبوط ہوگا تو پاکستان مضبوط ہوگا ایک فاسد نظریہ ہے۔ پاکستان کی مضبوطی کے لیے صوبوں اور علاقوں کی مضبوطی ضروری ہے۔ دیوار اتنی ہی مضبوط ہوگی جتنی وہ اینٹیں مضبوط ہوں گی جس سے یہ دیوار بنی ہے۔ آمریت کا مزاج ہی مرکزیت کا مزاج ہے اور جب وہ آمریت جرنیلی آمریت ہو تو پھر اختیارات کے ارتکاز کا عالم اور بھی گمبھیر ہوجاتا ہے اور سیاسی عمل نام نہاد کمانڈ اسٹرکچر تلے دم توڑ دیتا ہے۔ آج بلوچستان کے مسائل شعلہ فشاں ہوگئے ہیں اور قومی سطح پر ان کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ نواب بگٹی کی ہلاکت سے جو بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اسے قومی سطح پر مؤثر سیاسی حکمت عملی بناکر اوراس پر سب کی شرکت سے عمل کر کے حالات کو قابو میں لایا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ مسائل اور محرومیاں بلوچستان تک محدود نہیں۔ دوسرے صوبوں اور خود پنجاب کے کچھ پس ماندہ علاقوں میں بھی مسائل سلگ رہے ہیں۔ ان کے شعلہ بننے سے پہلے ان کے حل کی ضرورت ہے جو جرنیلی آمریت کے بس کا روگ نہیں۔
جرنیلی آمریت کا چوتھا نشانہ کشمیر کامسئلہ ہے جسے جنرل پرویز مشرف نے کمال بے تدبیری کے ساتھ تحلیل کرنے (liquidate) کرنے کی ٹھان لی ہے۔ پہلے دن سے کشمیر کا مسئلہ ایک قومی مسئلہ تھا اور سب جماعتیں اس پر متفق تھیں کہ کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے‘ اس لیے کہ یہ تقسیم ملک کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ نیز یہ مسئلہ محض پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی تنازع نہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے جس سے بھارت نے انھیں محروم رکھا ہوا ہے جو صرف فوجی قوت اور سامراجی تسلط سے ریاست کے دوتہائی حصے پر قابض ہے اور وہاں شہریوں کو جبر اور ظلم کے ذریعے زیردست رکھے ہوئے ہے اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کر ریا ہے۔ پونے پانچ لاکھ افراد ان ۶۰برسوں میں اپنی آزادی کی جدوجہد کرتے ہوئے بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں جان کی قربانی دے چکے ہیں۔ پاکستان ان کا وکیل اور ان کے حق کے حصول کی جدوجہد کا پشتی بان ہے اوران کے اس حق کے حصول کے لیے ہر قربانی دینا اپنافرض سمجھتا ہے۔ پاکستان کی فوج اور دفاعی صلاحیت کا بھی گہرا تعلق بھارت سے آنے والے خطرات کے مقابلے کی استطاعت کے ساتھ کشمیر میں حق خود ارادیت کے حصول کو ممکن بنا لینے سے ہے۔ ورنہ اتنی بڑی فوج کی جس پر قومی وسائل کا ایک معتدبہ حصہ صرف ہو رہا ہے ضرورت نہیں تھی۔
اس سارے پس منظر میں لچک کے نام پر‘ لیکن درحقیقت شکست خوردہ ذہنیت کا اسیر ہونے کے باعث‘ جنرل پرویز مشرف عملاً کشمیر سے دست کش ہوگئے ہیں اور اس طرح پاکستان کے ایک قومی ہدف کو منہدم کرنے کا ذریعہ بنے ہیں۔ فروری ۲۰۰۲ء سے ان کی پسپائی کے سلسلے کا آغاز ہوا جو اب ہوانا میں من موہن سنگھ سے ملاقات کے وقت اپنی انتہا کوپہنچ گیا ہے۔ اس قومی ہدف پر پہلی ضرب انھوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ایک طرف رکھ دینے کے اعلان کی لگائی۔ پھر جنگ ِ آزادی اور جہادکشمیر کو عملاً دہشت گردی قرار دے کر اپنی ہی نہیں ساری محکوم اقوام کی آزادی کی جدوجہد پر کالک ملنے کا جرم کیا۔ اوّل اوّل پاکستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال کیے جانے سے احتراز کی بات کی گئی۔ پھر بھارت کو باڑ بندی کا موقع دیا‘ سیزفائر کیا۔ عملاً تحریک ِ مزاحمت کی معاونت سے ہاتھ اٹھا لیا اور اب پورے مسئلے ہی سے اس اعلان کے ساتھ دست بردار ہوگئے کہ ایسا حل نکالا جائے جو دونوں فریقوں کے لیے ناقابلِ قبول نہ ہو۔ اس سے زیادہ ناانصافی کیا ہوگی کہ اب کہا جارہا ہے مسئلہ آزادی اور حق خود ارادیت کا نہیں بلکہ کسی ایسی چیز کو قبول کرلینے کا ہے جوغاصب قوت کے لیے قابلِ قبول ہو۔ اس سے مسئلے کی نوعیت ہی بدل گئی۔
اصل مسئلہ بھارت کے غیرقانونی قبضے (illegal occupation)کا تھا اور اس کا حل جو انصاف اور حق پر مبنی ہو صرف حق خود ارادیت ہی کی شکل میں ہوسکتا ہے جس طرح سامراج سے نجات حاصل کرنے کے لیے دنیا کے گوشے گوشے میں ہوا۔ لیکن اب اس مسئلے ہی سے جنرل صاحب دست بردار ہوگئے ہیں اور حق خودارادیت کی جدوجہد دہشت گردی قرار پاگئی ہے جس کا قلع قمع کرنے کے لیے دونوں ملکوں میں مشترک اداراتی نظام قائم کیا جا رہا ہے۔ بھارت کی اس سے بڑی فتح کیا ہوگی کہ اس نے جنرل صاحب سے کہلوا لیا کہ اصل مسئلہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی آزادی اور حق خود ارادیت کا نہیں بلکہ سرحدی دراندازی اور نام نہاد دہشت گردی ہے۔ مسئلہ بھارت کا ناجائز قبضہ نہیں بلکہ ناجائز قبضے کے خلاف جائز جنگ ِ آزادی اور تحریکِ مزاحمت ہے۔ یہ موقف تحریک آزادی کشمیر کے سینے میں خنجر گھونپنے اور اپنے ہاتھوں پاکستان کی شہ رگ پر چھری چلانے کے مترادف ہے جسے مسئلہ کشمیر اور کشمیری مسلمانوں کی عظیم تحریک مزاحمت ہی سے نہیں‘ پاکستان سے غداری کے سواکچھ نہیں کہاجاسکتا۔ کس نے جنرل پرویز مشرف کو کشمیر کی تحریک ِ آزادی کو اس طرح تباہ کرنے کا اختیار دیا___کشمیر کے عوام اور پاکستان کے عوام اس بے وفائی کو کبھی تسلیم نہیں کرسکتے۔
جرنیلی آمریت کا ایک اور ہدف اسلام کا وہ انقلابی اور ہمہ گیر تصور ہے جس کے تحت انسان اپنی پوری زندگی کو اللہ کی بندگی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں دیتا ہے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کو شریعت کے تابع کرتا ہے۔ وہ اسلام کی سربلندی کو اپنی زندگی کا مقصد بناتا ہے اور اس کے لیے جہاد کواپنا شعار قرار دیتا ہے۔اس تصورِ حیات کے مقابلے میں جرنیلی آمریت نے ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ (enlightened moderation) کے نام پر اسلام کا ایک ایسا مسخ شدہ تصور وضع کرنے کی کوشش کی ہے جو مغربی تہذیب و تمدن کا چربہ ہو‘ جس میں حجاب‘ داڑھی اور حیا و شرم کی گنجایش نہ ہو۔ جس میں شراب‘ زنا اور مخلوط معاشرت کے دروازے کھلے ہوں‘ جس میں جہاد کا ذکر بھی ممنوع ہو‘ جہاں رقص وسرود اور عریانی زندگی کا معمول ہوں‘ جس میں عیدین تو بس رسمی طور پر منائی جائیں البتہ بسنت‘ نیوایرز ڈے‘ ویلنٹائن ڈے اور اس قسم کی خرافات ترقی کا مظہر قرار پائیں۔ فکری اور سماجی دونوں اعتبار سے اسی تحویل قبلہ کا نتیجہ ہے کہ اخبارات‘ الیکٹرانک میڈیا‘ سرکاری تقریبات حتیٰ کہ سرکاری پارٹیوں اور فائیوسٹار ہی نہیں ان سے بہت چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں اور ریستورانوں میں اب شراب کھلے بندوں دی جارہی ہے۔ پاکستانی سفارت خانوں میں بیش تر تقریبات میں شراب دی جاتی ہے اور اسلام آباد کے ایک انگریزی روزنامے نے تو حد ہی کردی کہ اپنے صفحہ اول پر ایک چوتھائی صفحہ کا جلی اشتہار ایک کلینک کی طرف سے اس عنوان کے ساتھ شائع کیا کہ شراب نوشی کوئی قباحت نہیں‘ صرف بلانوشی نامطلوب ہے اور اس کا بھی علاج ہم سے کرالیں …اناللہ وانا الیہ راجعون!
یہ جرنیلی آمریت پہلے دن سے بے تاب رہی ہے کہ کسی طرح حدود قوانین کو منسوخ کردے اور توہینِ رسالتؐ کے قانون کو کتابِ قانون سے خارج کردے مگر ہمت نہ ہوسکی۔ اب پھر وردی کے زعم پر حدود قوانین میں ترمیم کی کوششیں ہورہی ہیں اور طرح طرح کے ڈرامے رچائے جارہے ہیں۔ بلاشبہہ حدود قوانین کا نفاذ خلوص اوردیانت سے ملک میں نہیں ہوا اور ان کی برکات سے معاشرہ محروم ہے۔ مگر عورتوں پر ظلم کی وجہ یہ قوانین نہیں‘ مغربی تہذیب و ثقافت اور وہ سیکولر‘ اخلاق باختہ اور جاگیردارانہ سماج اور رویہ ہے جو اباحت پرست طبقے کا طرۂ امتیاز ہے۔ مختاراں مائی پر ظلم کسی حدود قوانین کی وجہ سے نہیں ہوا۔ روزانہ جو ہولناک واقعات رونما ہو رہے ہیں وہ ان قوانین کی وجہ سے نہیں بلکہ اسلام کے باغی عناصر کی ظالمانہ کارروائیوں اور بااثر افراد کی قانون پر بالادستی کی وجہ سے ہیں۔ اگر یہ قوانین ٹھیک ٹھیک نافذ کیے جائیں تو معاشرہ ان جرائم سے آج بھی پاک ہوسکتا ہے لیکن جرنیلی آمریت اور اس کے آزاد خیال ہم نوائوں کا مقصد معاشرے کو جرم سے پاک کرنا نہیں جرم کو معتبر بنا دینا ہے۔ ابھی امریکا کی جوسرکاری رپورٹ بنیادی حقوق کے نام پر اس ہفتے شائع ہوئی ہے اس میں پوری بے شرمی سے کہا گیا ہے کہ زنا بالرضا کو جرم بنانا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اسے criminalization of sex کا نام دیا گیا ہے۔ اگر حدود قوانین کے خلاف کی جانے والی کی بحث کا آپ بے لاگ تجزیہ کریں تویہی اصل مسئلہ سامنے آتا ہے کہ رضامندی کے ساتھ آزاد شہوت رانی کوئی جرم ہے ہی نہیں کہ اس پر سزا دی جائے۔ برطانوی دور کے ضابطہ فوجداری میں مغربی ممالک کی طرح زنا کا فعل جرم تھا ہی نہیں۔ جسے adultery قراردیا گیا وہ صرف شادی شدہ عورت سے خاوند کی مرضی کے بغیر جنسی تعلق تھا جس کی وجہ خاوند کی حق تلفی سمجھی جاتی تھی یا پھر rape جو عورت پر جبر کی وجہ سے جرم بنتا تھا اور وہ بھی صرف تین سال کی سزا یا جرمانہ کا مستوجب!
حدود قوانین میں اصل ’ظلم‘ کیا ہی یہ گیا ہے کہ ناجائز جنسی تعلق کو‘ خواہ وہ باہمی رضامندی سے ہویا جبر کی صورت میں‘ جرم قرار دیا گیاہے اوردونوں شکلوں میں اسے مستوجب سزا قرار دیا گیا ہے۔ اس سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں کہ زنا بالجبر کے سلسلے میں عورت کی گواہی قابلِ قبول نہیں۔ فیڈرل شریعت کورٹ کے کئی فیصلے موجود ہیں جن میں چند یا صرف ایک عورت کی گواہی پر بھی سزا دی گئی ہے۔ البتہ شریعت کا حد کے باب میں ہرہر جرم کے سلسلے میں اپنا شہادت کا معیار ہے اور وہ ایک کل نظام کا حصہ ہے۔ اصل مسئلہ اسلام اور مغرب کے جداگانہ تصور اخلاق‘ نظامِ معاشرت اور جرم و سزا کے تصورات کا ہے۔ ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کے نام پر جس دین کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے‘ وہ خالص مغربی معاشرت اور تمدن ہے۔ اس کا اسلام کے نظامِ اقدار‘ اخلاق اور معاشرت سے کوئی تعلق نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ جرنیلی آمریت بھی بش اور امریکا کے کروسیڈز کے ہم زبان ہوکر اسلامی شریعت کو اپنا مدمقابل سمجھتی ہے اوراب تو جنرل مشرف صاف کہنے لگے ہیں کہ القاعدہ سے بھی بڑاخطرہ طالبان ہیں اورطالبان صرف افغانستان کے لیے نہیں طالبانائی زیشن (talibanization) پاکستان کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور اس کے لیے انتہاپسند‘ ترقی کے مخالف اور نہ معلوم کون کون سی گالیاں وضع کرلی ہیں لیکن یہ سب دراصل اسوۂ محمدیؐ اور شریعت محمدیؐ سے فرار کی راہیں ہیں‘ اس کے سوا کچھ نہیں۔ اقبال نے سچ کہا تھا :
اے تہی از ذوق و شوق و سوز و درد
می شناسی عصر ما با ما چہ کرد
عصر ما مارا ز ما بے گانہ کرد
از جمال مصطفیؐ بے گانہ کرد
اے شوق و محبت اور سوز و گداز سے خالی شخص‘ تجھے خبر ہے کہ زمانے نے ہمارے ساتھ کیا (ظلم) کردیا ہے۔ زمانے نے ہمیں اپنے آپ سے بے گانہ کردیا ہے اور محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حُسنِ کردار سے بھی بے گانہ کردیا ہے۔
جہاد سے فرار اور خانقاہی نظام کے احیا کے عزائم راہِ محمدؐ سے اُمت کو ہٹانے کے شیطانی منصوبے کا حصہ ہے___ مذہب انفرادی عمل ہے۔ سیاست‘ ریاست اور تہذیب و ثقافت سے اس کا کیا رشتہ؟ ابلیس نے یہی تو کہا تھا:
ہر نفس ڈرتا ہوں اس اُمت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات
مست رکھو ذکرو فکر صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے
اور اس شیطانی حکمت عملی کے مقابلے میں اقبال نے وہی نسخہ تجویز کیا تھا جو روحِ اسلام کا مظہرہے ؎
نکل کر خانقاہوں سے ادا کررسمِ شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دلگیری
جرنیلی آمریت کا ’اسلام‘ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیںاور یہی وجہ ہے کہ محمدؐ کا اسلام جرنیلی آمریت‘ کیتھولک پوپ اور امریکی بش سب کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے ___ اور اس میں انھیں اپنے لیے خطرہ ہی خطرہ نظر آتا ہے۔
جرنیلی آمریت نے ہر میدان میں منہ کی کھائی ہے۔ گارڈین کے نمایندے کو انٹرویو دیتے ہوئے جنرل صاحب کو خود اعتراف کرنا پڑا کہ ان کی مقبولیت برابر کم ہورہی ہے۔ جب جنرل مشرف سے پوچھا گیا کہ کس میدان میں وہ اپنے کو سب سے زیادہ کامیاب پاتے ہیں تو ارشاد ہوا___ معاشی ترقی اور اقتصادی کارکردگی کے میدان میں۔ یہ تو خود ایک طرفہ تماشا ہے کہ جرنیل صاحب نہ دفاعی میدان میں کوئی کارنامہ دکھاسکے اور نہ ملک میں امن و امان کا قیام ان کے نامۂ اعمال میں کوئی مقام پاسکا اور خود انھوں نے جس میدان کو اپنے لیے کامیاب میدان قرار دیا وہ وہ تھا جس کے بارے میں خود انھوں نے اقتدار میں آنے کے بعد کہا تھا کہ میں اس سے بالکل نابلد ہوں۔
ہم صلاحیت اور استعداد کی بحث میں پڑے بغیر ان کے اس دعوے کا جائزہ لیں تو یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ چند نمایشی پہلوئوں کو چھوڑتے ہوئے معیشت کے میدان میں بھی جرنیلی آمریت اتنی ہی تہی دامن ہے جتنی دوسرے میدانوں میں۔ محبوب الحق ہیومن ڈویلپمنٹ سنٹر کی تازہ ترین رپورٹ ہیومن ڈویلپمنٹ ان ساؤتھ ایشیا ۲۰۰۶ء ابھی اسی مہینے (ستمبر ۲۰۰۶ئ) شائع ہوئی ہے اور اس کے مطابق اگر ایک ڈالر یومیہ کو آمدنی کا معیار قرار دیاجائے تو پاکستان میں غربت کی شرح ۳۰فی صد سے زیادہ اور اگر دو ڈالر یومیہ کو بنیاد بنایا جائے تو۷۰ فی صد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ دولت کی تقسیم میں عدمِ مساوات میں برابر اضافہ ہورہا ہے۔ علاقوں کے درمیان بھی عدمِ مساوات بڑھ رہی ہے یعنی امیر امیر تر ہو رہے ہیں اور غریب غریب تر۔ افراطِ زر اور مہنگائی نے عام انسانوں کی کمر توڑ دی ہے اور اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے افراطِ زر کا جو جائزہ ستمبر ۲۰۰۶ء میں شائع کیا ہے اس کی رُو سے پچھلے سال اشیاے خوردنی کی قیمتوں میں ۱ئ۱۱ فی صد کا اضافہ ہوا ہے اور مزدوروں کی حقیقی قوتِ خرید میں برابر کمی واقع ہورہی ہے۔ (ملاحظہ ہو ڈان اور دی نیوز ۲۲ستمبر ۲۰۰۶ئ)
وزیراعظم صاحب خوش حالی کے اشاریے کے طور پر کاروں کی فروخت کا بار بار ذکر کرتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں ۱۶ کروڑ کی آبادی میں کار استعمال کرنے والے کتنے ہیں۔ لیکن جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے‘ ان کے اپنے دست ِ راست جرنیلی آمریت کی لبرل امپورٹ پالیسی پر پریشان ہیں۔ تازہ ترین سرٹیفکیٹ ان کے اپنے وزیرمملکت نے دیا ہے:
وفاقی وزیر مملکت اور منصوبہ بندی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر اکرم شیخ نے حکومت کی گاڑیوں کی درآمد کی لبرل پالیسی پر سخت تنقید کی ہے اور اسے ملکی صنعت کاروں کے مفاد کے خلاف قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر اکرم شیخ نے کہا کہ غریبوں کو روٹی چاہیے‘ نہ کہ درآمد شدہ گاڑیاں۔ (دی نیوز‘ ۲۲ستمبر ۲۰۰۶ئ)
فوجی آمریت کی معاشی پالیسی کاحاصل ہی یہ ہے کہ ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر مہنگے پٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کی ریل پیل ہے مگر پبلک ٹرانسپورٹ تباہ ہے اور عوام روٹی سے محروم ہیں۔
معاشی لبرلزم کا بڑا چرچا ہے اور جنرل صاحب اور ان کی معاشی ٹیم معاشی آزاد روی (economic liberalisation) پالیسی پر نازاں ہیں لیکن عالمی جائزے بتا رہے ہیں کہ اس میدان میں بھی ان کی کارکردگی خوش فہمی سے زیادہ نہیں۔ اسی مہینے جو عالمی جائزہ (Economic Freedom of the World - 2006 Annual Report) شائع ہوا ہے اس کے مطابق دنیا کے ۱۲۷ ملکوں کے سروے میں پاکستان کا نمبر ۹۵ ہے‘ جب کہ بھارت کا نمبر ۵۳ اورسری لنکا کا ۸۳ ہے۔ ہانگ کانگ اورسنگاپور نمبر ایک اور نمبر۲ پر آتے ہیں۔
جنرل صاحب اس دعوے سے اقتدار میں آئے تھے کہ کرپشن ختم کردیں گے مگر ان کے اردگرد سب وہی ہیں جوکرپشن میں بڑا نام پیدا کرچکے ہیں۔ جنرل صاحب کے دور میں یہ منظر بھی دیکھا گیا کہ سندھ کے وزیراعلیٰ نے اپنے ہی وزیر کے خلاف جومسلم لیگ(ق) کے صوبائی سیکرٹری بھی تھے بدعنوانی کی چارج شیٹ لگائی تھی اور خود ان وزیرصاحب نے اپنے وزیراعلیٰ صاحب پر جوابی چارج شیٹ لگائی اور ماشاء اللہ دونوں کو جنرل صاحب نے خاموش رہنے کا مشورہ دیا تھا اور وہ برابر ان کی ٹیم کا حصہ ہیں۔ اب انھی وزیراعلیٰ نے باقاعدہ بیان دیا ہے کہ کرپشن ہر حد کو پار کرگئی ہے اور اینٹی کرپشن کا شعبہ کرپشن ختم کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ پھر اپنے افسروں سے ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر کرپشن کو ختم نہیں کرسکتے تو اس میں کچھ کمی توکرا دو۔ لیکن عالم یہ ہے کہ کرپشن برابر بڑھ رہی ہے اور جرنیلی آمریت کی سرپرستی میں اس میں دن دونی اور رات چوگنی ترقی ہورہی ہے۔ نج کاری میں کرپشن اداراتی سطح پر جہاں پہنچ گئی ہے‘ اس کا ایک ثبوت اسٹیل مل کی نج کاری پر سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔ اس طرح کی کوئی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی پاکستان پر تازہ ترین رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس دور میں کرپشن تمام پہلے ادوارسے بڑھ گئی ہے۔ اس جائزے کی رو سے کرپشن کی تصویر کچھ یوں بنتی ہے:
بے نظیر کا پہلا دور ۹۰-۱۹۸۹ء
۸ فی صد
نواز شریف کا پہلا دور ۹۳-۱۹۹۰ء
۱۰ فی صد
بے نظیر کا دوسرا دور ۹۶-۱۹۹۳ء
۴۸ فی صد
نواز شریف کادوسرا دورِ ۹۹-۱۹۹۶ء
۳۴فی صد
جنرل مشرف کا دور ۰۲-۱۹۹۹ء
۶۹ئ۳۲ فی صد
جنرل مشرف کا تازہ دور ۰۶-۲۰۰۲ء
۳۱ئ۶۷ فی صد
(قومی کرپشن کا جائزہ ۲۰۰۶ئ‘ ص ۳۰)
یہ ہے جرنیلی آمریت کی حقیقی کارکردگی… پڑھتا جا‘ شرماتاجا!
حالات کے معروضی اور بے لاگ جائزے سے یہ اصولی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ آمریت کبھی بھی صحیح نظام نہیں ہوسکتی۔ آمر اچھا انسان بھی ہوسکتا ہے اور برا بھی۔ پارسا بھی ہوسکتا ہے اور بدقماش بھی۔فوجی بھی ہوسکتا ہے اورسویلین بھی‘ لیکن آمریت کبھی خیر اور صلاح کا باعث نہیں ہوسکتی۔ یہ بلبلہ جب بھی پھٹتا ہے اس میںسے کثافت اور گندگی ہی نکلتی ہے۔ یہ تاریخ کا فیصلہ اور ہمارا اپنا تجربہ ہے۔ مسائل بے شمار ہیں اور ان میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ بلکہ جیساکہ ہم نے حقائق سے ثابت کیا ہے ملک جس خطرناک صورت حال سے آج دوچار ہے پہلے نہیں تھا___ لیکن ان سب مسائل کا حل صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ جرنیلی آمریت سے عوامی جدوجہد کے ذریعے نجات پائی جائے‘ اور یہ جدوجہد اس ہدف کو سامنے رکھ کر ہو کہ ایک جرنیل کی جگہ کوئی دوسرا جرنیل اور ایک آمر کی جگہ دوسرا آمر برداشت نہیں کیا جائے گا۔
جمہوریت اپنی تمام خرابیوں کے باوجود اپنے اندر اصلاح اور تبدیلی کا ایک راستہ رکھتی ہے اور عوام کے سامنے باربار جواب دہی کے لیے آنے کا نتیجہ بالآخر بہتری کی صورت میں نکلتا ہے۔ صبر اور تسلسل کے ساتھ اس عمل کو جاری رہنا چاہیے۔ اس سلسلے میں مختصر راستے (short cut) کے دھوکے سے نکلنا ضروری ہے۔ آمریت سے نجات خود اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کو آگے بڑھانے اور کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آمریت کا خاتمہ اس سلسلے میں فتح باب کا درجہ رکھتا ہے۔ آج کی جرنیلی آمریت اس راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور جب تک یہ رکاوٹ دُور نہ ہو اسلامی نظام کے قیام کا سلسلہ شروع نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستا ن کی بقا و استحکام اور خود اقامت دین کی جدوجہد کی کامیابی کے لیے دستوری عمل کی استواری‘ غیرجانب دارانہ عبوری حکومت کے تحت انتخابات‘ آزاد اور بااختیار الیکشن کمیشن کا قیام اور اس کے ذریعے انتخابات کا انعقاد‘ فوج کی سیاست سے مکمل اور دائمی بے دخلی___ یہ سب اس منزل کی طرف پیش قدمی کے لیے ضروری اقدام ہیں اوران کا حصول اس وقت پاکستان کوانتشار سے بچانے اور اس ملک کی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ اس وقت تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذیلی مسائل اور اختلافات کو اپنی حدود میں رکھتے ہوئے مشترک قومی مقاصد کے لیے متحد ہوکر مسلسل جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت تھوڑی سی غفلت بھی بہت مہنگی پڑسکتی ہے اس لیے کہ ع
لمحوں نے خطا کی ہے‘ صدیوں نے سزا پائی
آج بھی پاکستان ایک ایسے ہی فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے اور ہم بروقت فیصلے یا صحیح اقدام کے باب میں غفلت کے متحمل نہیں ہوسکتے اس لیے کہ ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے‘ تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
آج سے تقریباً ۴۰ برس قبل‘ اس وقت کے پوپ نے دنیا کی دینی جماعتوں کے سربراہوں کے نام ایک خط لکھا تھا جس کا مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جواب دیا تھا۔ جواب میں مسیحی بھائیوں کے طرزعمل سے مسلمانوں کو جو شکایات تھیں ان کی طرف توجہ دلائی گئی تھی۔ ہم اس میں سے صرف ایک نکتہ یہاں پیش کر رہے ہیں جو موجودہ پوپ کے بیان سے متعلق ہے۔ (ادارہ)
میں آپ کو چند ایسے اُمور کی طرف توجہ دلا رہا ہوں جو مسلمانوں کے لیے اپنے مسیحی بھائیوں سے وجہِ شکایت ہیں تاکہ کیتھولک چرچ کے پیشواے اعظم ہونے کی حیثیت سے جو غیرمعمولی اثرورسوخ آپ کو مسیحی دنیا میں حاصل ہے‘ اس سے کام لے کر آپ اُن کی اصلاح کے لیے سعی فرمائیں۔ اور میں اس بات کا خیرمقدم کروں گا کہ ہمارے مسیحی بھائیوں کے لیے ہمارے طرزِعمل میں اگر کوئی چیز معقول وجہِ شکایت ہو تو وہ ہمیں بتائی جائے۔ ہم ان شاء اللہ ان کو رفع کرنے کی کوشش میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھیں گے۔ دنیا میں امن اور صلح و آشتی کی فضا پیدا کرنے میں ہم سب اسی طرح مددگار بن سکتے ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ انصاف کریں۔ دوسروں سے فیاضانہ سلوک کرنے کی فراخ حوصلگی اگر ہم میں موجود نہ بھی ہو تو کم از کم اتنا تو ہو کہ دوسروں کی حق تلفی کرنے یاان کو اذیت دینے سے تو ہم باز رہیں۔
مسیحی بھائیوں کے طرزعمل میں جو اُمور کسی ایک ملک یا قوم کے نہیں‘ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے وجہِ شکایت ہیں‘ انھیں میں کسی لاگ لپیٹ کے بغیر مختصراً آپ سے بیان کیے دیتا ہوں۔
ایک مدت دراز سے مسیحی اہلِ علم اپنی تحریروں اور تقریروں میں سیدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم‘ قرآن اور اسلام پر حملے کر رہے ہیں اور آج بھی جن کا سلسلہ جاری ہے‘ وہ مسلمانوں کے لیے انتہائی مُوجبِ اذیت ہیں۔ میں ’حملے‘ کا لفظ قصداً استعمال کر رہا ہوں‘ تاکہ آپ کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہماری شکایت معقول علمی تنقید کے خلاف ہے۔ علمی تنقید اگر دلیل کے ساتھ اور تہذیب و شایستگی کے حُدود میں ہو تو خواہ وہ کیسے ہی سخت اعتراضات پر مشتمل ہو‘ ہم اس پر برا نہیں مانتے بلکہ اس کا خیرمقدم کرتے ہیں اور دلیل کا جواب دلیل سے دینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن ہمیں بجا طور پر شکایت اُن حملوں کے خلاف ہے جو جھوٹے اور رکیک الزامات کی صورت میں اور نہایت دل آزار زبان میں کیے جاتے رہے اور اب تک کیے جا رہے ہیں۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے‘ وہ حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انتہائی ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہیں اور ان کے متعلق کوئی خلافِ ادب بات زبان سے نکالنا ہمارے عقیدے میں کفر ہے۔ آپ کوئی مثال ایسی نہیں پاسکتے کہ کسی مسلمان نے کبھی سیدنا مسیح علیہ السلام اوران کی والدۂ ماجدہ کی شان میں کوئی بے ادبی کی ہو۔ اگرچہ ہم حضرت مسیحؑ کی اُلوہیت کے قائل نہیں ہیں‘ مگر ان کی نبوت پر ہمارا ویسا ہی ایمان ہے جیسا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ہے‘ اور کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اُن پر اور دوسرے انبیا پر بھی ایمان نہ لائے۔
اسی طرح ہم صرف قرآن ہی کو نہیں بلکہ تورات اور انجیل کو بھی خدا کی کتابیں تسلیم کرتے ہیں اور کوئی مسلمان ان مقدس کتابوں کی توہین کا خیال بھی نہیں کرسکتا۔ ہماری طرف سے اگر کبھی کوئی بحث ہوئی ہے تو اِس حیثیت سے ہوئی ہے کہ بائیبل جس شکل میں اب پائی جاتی ہے‘ یہ کہاں تک مستند ہے‘ اور یہ بحث خود مسیحی علما بھی کرتے رہے ہیں۔ کسی مسلمان نے کبھی اس کا انکار نہیں کیا کہ حضرت موسٰی ؑ و عیسٰی ؑاور بائیبل کے دوسرے انبیا ؑپر اللہ کا کلام نازل ہوا تھا‘ اور مسلمان چاہے یہ بات نہ مانتے ہوں کہ اِس وقت پائی جانے والی پوری بائیبل اللہ کا کلام ہے‘ مگر یہ ضرور مانتے ہیں کہ اس میں اللہ کا کلام موجود ہے۔ لہٰذا ہمارے مسیحی بھائیوں کو ہم سے یہ شکایت کرنے کا کبھی موقع نہیں ملا ہے کہ ہم اُن کے انبیا کی‘ یا اُن کی کتب مقدسہ کی توہین کرتے ہیں۔ بخلاف اس کے ہمیں آئے دن ان سے یہ رنج پہنچتا رہتا ہے‘ اور صدیوں سے اس دل آزاری کا سلسلہ چل رہا ہے کہ ان کے مصنفین اور مقررین ہمارے نبیؐ اور ہماری کتابِ مقدس اور ہمارے دین پر سخت حملے کرتے ہیں۔
دنیا کی اسلامی اور مسیحی برادریوںکے درمیان تعلقات کی خرابی کا یہ ایک اہم سبب ہے۔ اس سے شدید باہمی منافرت پیدا ہوتی ہے‘ اور مزیدبرآں اس ناروا پروپیگنڈے کا لازماً یہ نتیجہ بھی ہوتا ہے کہ مسیحی عوام کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و تحقیر کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ آپ دنیا کے امن کی بہت بڑی خدمت انجام دیںگے اگر مسیحیت کے پیرووں کو اس طرزِعمل میں کم از کم اتنی اصلاح کرلینے کی نصیحت کریں کہ یہ دل آزاری اور نفرت انگیزی کی حد تک نہ پہنچے۔ (مکتوب بنام پوپ پال ششم‘ دسمبر ۱۹۶۷ئ‘ مکاتیب سید ابوالاعلٰی مودودی‘ جلد اوّل‘ مرتبہ: عاصم نعمانی‘ جون ۱۹۷۰ئ‘ ص ۲۱۶- ۲۱۹)
کسی کتاب کا تعارف اُس کے نام سے بھی ہوتا ہے‘ اس لیے کہ نام اُس کے موضوع کا عکاس ہوتا ہے ‘ اور اکثر موضوع کے عنوان سے بھی کتاب کا نام رکھا جاتا ہے۔ اس لیے کہ نام اُس کتاب کی جہاں وضاحت کر رہا ہوتا ہے وہاں اُس کی صفات سے متصف بھی ہوتا ہے۔ جس طرح ایک مصنف اپنی کتاب کا نام رکھتا ہے اُسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی کتاب کے مختلف ’اسما‘ قرآن مجیدمیں بیان کیے ہیں۔ قرآن اللہ کی تصنیف نہیں بلکہ تنزیل ہے‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسانیت کی خیرخواہی کے لیے نازل کیا گیا ہے۔
قرآن مجید کے جتنے بھی اسما خود قرآن میں بیان ہوئے ہیں اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تمام اسما قرآن کی مختلف صفات کی توضیح کر رہے ہیں‘ مثلاً قرآن کی یہ صفت ہے کہ وہ راہِ ہدایت ہے تو قرآن کو ’ہدیٰ‘ کہا اور فرمایا: ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ۔ قرآن کی ایک صفت کہ یہ نصیحت ہے لوگوں کے لیے تو قرآن کو ’ذکر‘ کہا اور فرمایا: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر ۱۵:۹)۔قرآن کی ایک اور صفت ہے کہ یہ حق اور باطل کے درمیان تمیز کرنے والی کتاب ہے‘ تو قرآن کو ’فرقان‘ کہا اور فرمایا: تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرنِ ا o (الفرقان ۲۵: ۱)۔ قرآن اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب ہے اور یہ بھی اُس کی صفت ہے۔ اِسی لیے قرآن کو تنزیل کہا اور فرمایا کہ تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِo (الزمر ۳۹:۲)۔ غرض قرآن کے جتنے بھی اسما ہیں تمام قرآن کی مختلف صفات کو بیان کر رہے ہیں۔
قرآن کے کُل کتنے اسما ہیں؟ اس بارے میں علما کے مختلف اقوال ذکر ہوئے ہیں۔ کسی نے قرآن کے ۵۵ اسما ذکر کیے ہیں تو کسی نے ۸۸ اور کسی نے ۹۰ نام شمار کیے ہیں۔مگر اِس حوالے سے اکثر علما کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ قرآن کے اصل نام صرف پانچ ہیں‘ باقی اُس کے صفاتی نام ہیں۔ علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے الاتقان فی علوم القرآن میں ابوالمعالی کے حوالے سے ۵۵ نام بحوالہ آیات ذکر کیے ہیں۔ علامہ ابوالحسن حرالیؒ نے قرآن کے ۹۰ سے کچھ زیادہ نام ذکر کیے ہیں‘ لیکن بدرالدین زرکشیؒ نے صحیح فرمایا کہ ان میں اکثر نام دراصل قرآن کی صفات ہیں‘ اعلام نہیں۔ امام فخرالدین رازیؒ نے بھی ۵۵ ناموں میں سے ۳۲ نام تشریح کے ساتھ نقل فرمائے ہیں۔
محمد بن جریر الطبریؒ نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی نازل کردہ کتاب کو چار نام دیے ہیں۔ ان میں سے ایک نام القرآن ہے‘ دوسرا الفرقان‘ تیسرا الکتاب اور چوتھا الذکر ہے۔ ابن عطیہ غرناطیؒ نے بھی یہی چار نام ذکر کیے ہیں‘ اور علامہ زرقانی نے چار پر التنزیل کے نام کا اضافہ کیا ہے اور کہا ہے کہ قرآن کے یہی پانچ نام ہیں۔ لہٰذا قرآن کے اصل نام پانچ ہیں: ۱-القرآن ۲- الذکر ۳- الکتاب ۴- التنزیل ۵-الفرقان۔ اس کے علاوہ جتنے بھی نام ہیں وہ سب صفاتی نام ہیں۔ اس قول کی مزید وضاحت علامہ محمد علی الصابونی نے فرمائی ہے اور القرآن‘ الذکر‘ الکتاب‘ التنزیل‘ الفرقان کو اسم کہا ہے اور دیگر اسما کوصفات کہا ہے۔اس حوالے سے مولانا محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں کہ علامہ ابوالمعالیؒ نے قرآن کریم کے ۵۵ نام شمار کیے ہیں‘ اور بعض حضرات نے ان کی تعداد ۹۰سے متجاوز بتائی ہے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے قرآن کریم کی صفات، مثلاً مجید‘ کریم‘ حکیم وغیرہ کو نام قرار دے کر تعداد اس حد تک پہنچا دی ہے ورنہ صحیح معنوں میں قرآن کریم کے نام کُل پانچ ہیں: القرآن‘ الفرقان‘ الذکر‘ الکتاب اور التنزیل۔ خود قرآن کریم نے اپنے لیے یہ پانچوں الفاظ اسم علم کے طور پر ذکر فرمائے ہیں۔ مذکورہ بالا بحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن مجید کے کُل اسما پانچ ہیں۔
سب سے پہلے ان اسماے خمسہ کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اور ان کا علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ یہاں پہلے اِن اسماے خمسہ کو بیان کیا جائے گا اور بعد میں بقیہ اسما کے علوم و معارف پر بھی بحث کی جائے گی۔
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ (البقرہ۲: ۱۸۵)
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ (النساء ۴:۸۲)
اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ (بنی اسرائیل ۱۷:۹)
قرآن کو قرآن کیوں کہتے ہیں؟ اِس لفظ کے دو معنی ہیں: ۱- جمع کرنا‘ ۲- پڑھنا۔ اس بارے میں اہلِ علم کے مختلف اقوال ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ ’قرنت‘ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں’جمع کرنا‘ جوڑنا۔ بعض نے اسے ’القرئ‘ سے مشتق قرار دیا اور اس کے معنی بھی جمع کرنا ہیں۔ بعض اسے ’قرائن‘ کا مشتق بتاتے ہیں۔اس حوالے سے اس مفہوم کی صحیح ترجمانی اور وضاحت مشہور تابعی ’قتادہ بن دعامہ سدوسیؒ (م: ۱۱۷ھ) کا قول ہے۔ ان کے نزدیک قرآن ’ق-ر-ئ‘ سے ماخوذ ہے‘ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ قرء ت الشَّی(میں نے اس چیز کو جمع کیا)۔ اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ چونکہ قرآن کی سورتیں اور آیات جمع ہیں اور آپس میں مربوط و یک جا ہیں اور اس سے قبل‘ یعنی نزول سے پہلے لوح محفوظ میں بھی وہ یک جا اور جمع تھیں‘ لہٰذا اس بنا پر قرآن کو ’جمع‘ کہا جائے گا۔
مذکورہ بالا آیت میں ’قرآن الفجر‘ سے مراد نماز فجر کی قراء ت ہے۔ ایک اور مقام‘ یعنی سورۂ قیامہ میں تو بالکل واضح انداز میں یہ معنیٰ فرمایا ہے۔ فرمایا: اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ o فَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ (القیٰمۃ: ۱۷-۱۸) ’’اس کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمے ہے‘ جب ہم پڑھا کریں تو تم (اُس کو سنا کرو اور) پھر اُسی طرح پڑھا کرو‘‘۔ یہاں دونوں آیات میں قرآن قراء ت یعنی پڑھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ کتاب چونکہ پڑھنے کے لیے نازل ہوئی ہے اور سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہے‘ اس لیے اس کا نام ’قرآن‘ ہے۔ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ(قیامہ۷۵: ۱۷) ’’بلاشبہہ اس (کتاب) کا جمع کرنا اور پڑھوا دینا ہمارے ہی ذمے ہے‘‘۔ پھر عربی زبان میں کبھی کبھی مصدر کو اسم مفعول کے معنی میں استعمال کرلیا جاتا ہے۔ کلام اللہ کو ’قرآن‘ اِسی معنیٰ میں کہا جاتا ہے‘ یعنی پڑھی ہوئی کتاب۔ کتاب اللہ کا یہ نام کفارِ عرب کی تردید میں رکھا گیا ہے۔ وہ کہا کرتے تھے: لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ والْغَوْا فِیْہِ (حم السجدہ۴۱:۲۶) ’’اس قرآن کو ہرگز نہ سنو اور جب یہ سنایا جائے تواس میں خلل ڈالو‘‘۔ اِن کفار کے علی الرغم ’قرآن‘ نام رکھ کر اشارہ فرما دیا گیا کہ قرآن کریم کی دعوت کو ان اوچھے ہتھکنڈوں سے دبایا نہیں جا سکتا۔ یہ کتاب پڑھنے کے لیے نازل ہوئی ہے اور قیامت تک پڑھی جاتی رہے گی۔ چنانچہ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ قرآن کریم ساری دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔
فرقان کا مادّہ یا اصل ’ف- ر- ق‘ ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’دو چیزوں کے درمیان تمیز‘ فرق اور جدائی کرنا اور دونوںکو ایک دوسرے سے الگ الگ کرنا‘‘۔ جب یہ معنیٰ کلام اللہ کے ساتھ خاص ہوں گے تو معنی ہوگا ’’حلال و حرام‘ سچ و جھوٹ‘ حق و باطل‘ معروف و منکر‘ نیکی و بدی‘ نفع و نقصان کے درمیان فرق‘ یعنی امتیاز اور جدائی کرنا۔ قرآن کا مقصدِ نزول بھی صرف یہی تھا کہ انسان ان دونوں راستوں کو پہچان جائے اور ان میں واضح فرق کو محسوس کرتے ہوئے اچھی باتوں کو اختیار کرے اوربرے کاموں سے خود کو دُور رکھے۔ اسی طرح قرآن کھرے اور کھوٹے کو پرکھنے کی کسوٹی ہے اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا نام ’فرقان‘ رکھا‘ یعنی کھرے اور کھوٹے کو پرکھنے کی کسوٹی۔ علامہ ابن جریر طبریؒ نے فرمایا کہ قرآن کو فرقان کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ اپنی دلیلوں‘ حدود‘ فرائض اور اپنے حکم کی ساری وجوہات کے ذریعے حق و باطل کے درمیان فرق و امتیاز کرتا ہے۔ امام بدرالدین محمد بن عبداللہ الزرکشی اپنی کتاب البرھان فی علوم القراٰن میں فرقان کے معنی کے تحت فرماتے ہیں کہ قرآن کا نام فرقان اس لیے رکھا گیا ہے کہ یہ حق و باطل‘ مسلمان و کافر‘ مومن و منافق کے درمیان فرق و امتیاز کرتا ہے۔ اِسی وجہ سے حضرت عمرؓ ابن خطاب کو ’فاروق‘ کہا جاتا تھا کہ وہ حق و باطل کے درمیان واضح فرق فرماتے تھے۔
علامہ جوہری (م: ۳۹۳ھ) اور علامہ ابن منظور افریقی نے لکھا ہے کہ ’’فرقان ہر اُس چیز کو کہا جاتا ہے جو حق و باطل کے درمیان تمیز کرنے والی ہو‘‘۔ فرقان کے ایک معنی ’نصرۃ‘ بھی ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا (الانفال۸: ۲۹) ’’اے ایمان والو! اگر تم گناہوں سے پرہیز کرو گے تو اللہ تم کو فیصلہ کن فتح دے گا‘‘۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ اور حضرت مجاہدؒ سے فرقان کے معنی ’مخرج‘ یعنی کسی پریشانی سے نکلنے کا راستہ بھی منقول ہے۔
مولانا مالک کاندھلوی نے تفسیرکبیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ امام رازیؒ نے عکرمہؒ اور سدیؒ کا قول فرقان کے بارے میں نجات کے معنوں میں بھی نقل کیا ہے۔ اسی طرح ’فرقان‘ فراست اور دانش مندی کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے‘ تاہم علامہ ابن جریر طبریؒ نے لکھا ہے کہ یہ سارے معنی ’متقاربہ‘ ہیں، یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔
اسماے خمسہ میں سے تیسرا نام الکتاب ہے جسے عام طورپر کتاب ہی کہتے ہیں۔ اس لفظ کا اصل یا مادّہ ’ک- ت-ب‘ یعنی کَتَبَ ہے۔ کلام اللہ کے حوالے سے سب سے زیادہ مشہور نام تو ’قرآن‘ ہی ہے لیکن اس کے بعد جو نام سب سے زیادہ اہم اور مشہور ہے وہ ’کتاب‘ ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر کلام اللہ کو صرف دو ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے یا تو کہنے والا ’قرآن‘ کہتا ہے یا ’کتاب‘۔ اس کو کتاب اللہ کے نام سے بھی لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ سورۂ بقرہ کی دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: الٓمّٓ o ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ ج فِیْہِ ، ’’ا،ل، م‘ یہ اللہ کی کتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں‘‘۔ اس آیت کا ایک اور طریقے سے بھی ترجمہ کیا جاتا ہے وہ اس طرح کہ ’’اِس (بات) میں کوئی شک نہیں کہ یہ (قرآن) الکتاب ہے ‘‘۔ جمہور اہلِ علم نے ’الکتاب‘ کو اختیار کیا ہے۔ الکتاب‘ چونکہ اس کا مصدر ’کتب‘ ہے اور ’کتب‘ کے تین معنیٰ آتے ہیں: ۱- لکھنا ۲-جمع کرنا ۳- فرض کرنا‘ مقرر کرنا۔ اگر ہم پہلے والے معنیٰ کو لیں تو یہ غلط نہیں ہوگا‘ اگرچہ قرآن مجید تورات کی طرح لکھا ہوا نازل تو نہیں ہوا لیکن نزول سے قبل لوحِ محفوظ پر لکھا ہوا تھا اور نزول کے بعد حضوؐر نے اپنی نگرانی میں کاتبانِ وحی سے لکھوایا تھا۔ اسی وجہ سے اسے ’کتاب‘ کا نام دیا گیا‘ یعنی وہ کلامِ الٰہی جو لکھنے اور پڑھنے کے لیے نازل ہوا۔
ان تمام مثالوں میں ’کتب‘ کا مطلب ’فرض‘ لیا گیا ہے۔ علامہ جوہریؒ نے الصحاح میں اور علامہ ابن منظور افریقیؒ نے لسان العرب میں ’کتب‘ کے معنیٰ ’الفرض والحکم‘ ذکر کیے ہیں۔ رسولؐ اللہ نے ایک شادی شدہ عورت کے رجم کا حکم دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ لَاقضِیَنَّ بَیْنَکُمَا بِکتَابِ اللّٰہِ ، میں تمھارے درمیان کتاب پر فیصلہ کروں گا (بخاری)۔ اس حدیث میں کتاب اللہ دراصل حکم اللہ کے معنوں میں آیا ہے۔ اس لیے کہ رجم کا حکم قرآن میں مذکور نہیں ہے مگر چونکہ وَمَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدَ اَطَاعَ اللّٰہِ (جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اُس نے اللہ کی اطاعت کی) کی بنا پر رسولؐ اللہ کا حکم‘ اللہ کا حکم ہے‘ اس لیے آپؐ نے اپنے حکم کو اللہ کی کتاب‘ یعنی اللہ کا حکم قرار دیا۔ سابقہ آسمانی کتابوں کو بھی کتاب کہا گیا ہے‘ مثلاً وَاٰتَیْنَا مُوْسٰی الْکِتٰبَ وَجَعَلْنٰـہُ (بنی اسرائیل ۱۷:۲)‘ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ الْکِتٰبَ (الجاثیہ:۱۶)‘ یٰیَحْیٰی خُذِ الْکِتٰبَ بِقُوَّۃٍ (مریم۱۹: ۱۲)۔
خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کو قرآن میں مختلف مقامات پر ’کتاب‘ کے نام سے ذکر کیا ہے۔ ان تمام معنوں پر غور کرتے ہوئے ’کتاب‘ کا جامع معنیٰ ہوگا کہ ’یہ اللہ کا حکم اور قانون ہے اور اس کے احکام و فرائض کا مجموعہ ہے‘۔
کلام اللہ کے اسماے خمسہ میں سے چوتھا نام الذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کو ’ذکر‘ کا نام بھی دیا ہے‘ اور قرآن مجیدمیں مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ خود قرآن کو ’ذکر‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ ’ذکر‘ کا اصل‘ یعنی مادہ ’ذ- ک-ر‘ ہے۔ اس کے معنیٰ کے بارے میں مختلف اقوال آتے ہیں۔ عام طور پر اس کے تین معانی بیان کیے جاتے ہیں۔ کسی نے اس کے معنی ’یاد دہانی‘ لکھا تو کسی نے ’تذکرہ اُمت ِسابقہ‘ بیان کیا ہے‘ اور کسی نے اس سے مراد ’شرف و عزت‘ لیا ہے۔
قرآن مجید کی سورۂ زخرف میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ وَاِنَّہٗ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَ (۴۳:۴۴)، ’’حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب تمھارے لیے اور تمھاری قوم کے لیے ایک بڑا شرف ہے اور عنقریب تم لوگوں کو اس کی جواب دہی کرنی ہوگی‘‘۔ اس آیت میں ذکر کے معنی شرف‘ یعنی عزت کے بیان کیے ہیں کہ یہ قرآن بڑی عزت والی کتاب ہے اور اسی وجہ سے تمھاری عزت ہے کہ قرآن تمھاری طرف نازل کیا گیا ہے۔ اسی لیے ہمیں تمام اُمتوں پر فضیلت بھی دی گئی کہ ہمارے پاس قرآن مجید‘ یعنی اللہ کی سب سے زیادہ عزت والی کتاب موجود ہے۔ مولانا مودودیؒ اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ ’’یعنی اس سے بڑھ کر کسی شخص کی کوئی خوش قسمتی نہیں ہوسکتی کہ تمام انسانوں سے اُس کوا للہ تعالیٰ اپنی کتاب نازل کرنے کے لیے منتخب کرے‘ اور کسی قوم کے حق میں بھی اِس سے بھی بڑی کسی خوش قسمتی کا تصور نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا کی دوسری سب قوموں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ اُس کے ہاں اپنا نبی پیدا کرے اور اُس کی زبان میں اپنی کتاب نازل کرے اور اُسے دنیا میں پیغامِ خداوندی کی حامل بن کر اُٹھنے کا موقع دے۔ اس شرفِ عظیم کا احساس اگر قریش اور اہلِ عرب کو نہیں ہے اور وہ اس کی ناقدری کرنا چاہتے ہیں تو ایک وقت آئے گا جب اُنھیں اِس کی جواب دہی کرنی ہوگی‘‘(ترجمۂ قرآن مجید‘ سورئہ زخرف‘ آیت ۴۴‘ حاشیہ ۷)۔ اس تشریح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ بڑی عزت کا مقام ہے کہ عرب میں قرآن نازل ہوا‘ لہٰذا لوگوں پر لازم تھا کہ وہ فوری طور پر اس پر ایمان لے آتے۔ چونکہ وہ ایمان نہیں لائے‘ یعنی اس عزت مند کلام کی توقیر نہیں کی‘ لہٰذا اس بے قدری کا حساب قیامت کے دن دینا ہوگا۔
حافظ ابن کثیرؒ نے لکھا ہے کہ ’’یہ کتاب شرف و عزت والی بھی ہے اور نصیحت و یاد دہانی کے مضامین پر مشتمل ہے‘‘۔ مذکورہ بحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ’الذکر‘ کا لفظ نصیحت‘ یاد دہانی اور یادداشت کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے‘ اور شرف و عظمت اور شہرت و رفعت کے معنوں میں بھی آتا ہے اور قرآن اِن دونوں صفات کا حامل ہے‘ اسی لیے اس کو ذکر کا نام دیا گیا ہے۔ علامہ ابن جریر طبریؒ ذکر کی وجۂ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’الذکر نام رکھنے کی توجیہہ میں دو معنوں کا احتمال ہے___ ایک یہ کہ قرآن اللہ کی جانب سے نصیحت ہے جس کے ذریعے اُس نے اپنے بندوں کو یاد دہانی کرائی ہے اور اس میں اُن کو اپنے حدود و فرائض اور دوسرے حکم و مصالح سمجھائے ہیں‘ اور دوسرے یہ کہ یہ کتاب اُن لوگوں کے لیے نیک نامی‘ شرف‘ رفعت اور فخر کا ذریعہ ہے جو اِس پر ایمان لائے ہوں اور جنھوں نے اس کے احکام و ہدایات کی تصدیق کی ہو‘ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ قرآن تیرے لیے اور تیری قوم کے لیے شرف ہے‘‘۔
ابن عطیہ غرناطیؒ نے اس نام کی تین وجوہ بیان کی ہیں۔ قرآن کا نام ذکر اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ان کی آخرت‘ ان کا معبود اور ہرچیز یاد دلائی ہے جس سے وہ غافل تھے۔ بعض نے لکھا ہے کہ اس نام کی وجہ یہ ہے کہ اس میں گذشتہ قوموں اور گذشتہ انبیا کا تذکرہ کیا گیا ہے‘ اور بعض نے کہا ہے کہ اس نام کی وجہ یہ ہے کہ یہ کتاب محمدؐ ، اِن کی قوم اور اس کا علم رکھنے والے سارے علما کے لیے شرف و رفعت کا موجب ہے۔ مولانا مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’’یعنی اس میں کوئی خواب و خیال کی باتیں تو نہیں ہیں‘ تمھارا اپنا ہی ذکر ہے‘ تمھاری ہی نفسیات اور تمھارے ہی معاملاتِ زندگی زیربحث ہیں‘ تمھاری ہی فطرت و ساخت اور آغاز و انجام پر گفتگو ہے‘ تمھارے ہی ماحول سے وہ نشانیاں چُن چُن کر پیش کی گئی ہیں جو حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہیں‘ اور تمھارے ہی اخلاقی اوصاف میں سے فضائل اور قبائح کا فرق نمایاں کر کے دکھایا جا رہا ہے جس کے صحیح ہونے پر تمھارے اپنے ضمیر گواہی دیتے ہیں۔ ان سب باتوں میں کیا چیز ایسی گنجلک اور پیچیدہ ہے کہ اس کو سمجھنے سے تمھاری عقل عاجز ہو‘‘(ترجمۂ قرآن مجید‘ سورۂ انبیائ‘ آیت ۱۰‘ حاشیہ ۲)۔ علامہ جلال الدین سیوطیؒ بیان کرتے ہیں کہ قرآن کو ذکر اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں نصیحت ہے اور سابقہ اُمتوں کے احوال ہیں اور ذکر کے معنی شرف بھی ہیں۔ پھر ’شرف‘ کی دلیل سورۂ زخرف کی آیت نمبر ۴۴ سے دیتے ہیں۔ مولانا گوہر رحمن نے لکھا ہے کہ ’’زیادہ مشہور اور متبادر توجیہہ یہی ہے کہ یہ کتاب انسان کو زندگی کا مقصد‘ یعنی عبادت و بندگی اور آخرت یاد دلاتی ہے اور خوابِ غفلت سے بیدار کرتی ہے‘‘۔(علوم القرآن‘ ج ۱‘ ص ۵۴)
اسماے خمسہ میں سے پانچواں اور آخری نام ’التنزیل ‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مختلف مقامات پر قرآن کو تنزیل کہا ہے‘ مثلاً: تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ لَا رَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ (السجدہ۳۲:۲)، تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ (الزمر۳۹:۱)، تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ (المومن ۴۰:۲)
حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعدبن معاذؓ کے ہاں روزہ افطار فرمایا۔ اس کے بعد آپؐ نے دعا کرتے ہوئے فرمایا: اَفْطَرَ عِنْدَ کُمُ الصَّائِمُوْنَ وَاَکَلَ طَعَامَکُمُ الْاَبْرَارُ وَصَلَّتْ عَلَیْکُمْ الْمَلٰٓئِکَۃُ ، تمھارے ہاں روزے دار افطار کریں‘ تمھارا کھانا نیک لوگ تناول کریں اور تمھارے لیے فرشتے دعاے رحمت کریں۔ (ابن ماجہ، کتاب الصیام)
کوئی روزہ افطار کروائے تو اس کو دعا ضرور دی جائے کہ اس میں اتباع رسولؐ کا ثواب بھی ہے۔ دعا کے یہ تین نکات بھی پیش نظر رہیں۔
o
حضرت سلمانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کی عیادت کرنے نکلے۔ جب اس کے پاس پہنچے تو اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پر رکھا اور پوچھا کہ آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ انھوں نے اس کا کچھ جواب نہ دیا۔ کہا گیا: یارسولؐ اللہ! تکلیف کی وجہ سے ان کو آپ ؐ کو جواب دینے کی سکت نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: آپ لوگ مجھے اور اسے تنہا چھوڑ دیں‘ تب لوگ اور ایک روایت میں ہے کہ خواتین اس کے پاس سے اُٹھ کر باہر چلی گئیں اور رسولؐ اللہ کو اس کے پاس چھوڑ دیا۔
رسولؐ اللہ نے ان کی پیشانی پر ہاتھ رکھا ہوا تھا‘ آپؐ نے اپنا دستِ مبارک ان کی پیشانی سے ہٹا دیا‘ تب مریض نے اشارہ کیا کہ آپؐ اپنا دستِ مبارک اسی جگہ رکھ دیجیے جہاں رکھا ہوا تھا۔ چنانچہ آپؐ نے اپنا ہاتھ مبارک ان کی پیشانی پر رکھ دیا۔ پھر آپؐ نے پوچھا: اے فلاں! کیا محسوس کر رہے ہو؟ انھوں نے جواب دیا: میں اپنے آپ کو خیریت میں پا رہا ہوں۔ میرے پاس دو اشخاص آئے‘ ایک سیاہ اور دوسرے سفید۔ رسولؐ اللہ نے پوچھا: دونوں میں سے کون تمھارے زیادہ قریب ہے؟ انھوں نے جواب دیا: سیاہ۔ آپؐ نے فرمایا: خیر تھوڑا ہے اور شر زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ بیمار نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے اپنی دعا سے نفع پہنچا دیجیے‘ تب آپؐ نے دعا فرمائی: اے اللہ! برائیاں جو زیادہ ہیں انھیں معاف فرما دیجیے اور نیکیاں جو تھوڑی ہیں انھیں بڑھا دیجیے۔ دعا کے بعد آپؐ نے مریض سے پوچھا: اب کیا محسوس کر رہے ہو؟ توانھوں نے جواب دیا: میرے ماں باپ آپؐ پر قربان! اچھی حالت ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ خیر بڑھ رہا ہے اورشر کمزور ہورہا ہے۔ سیاہ شخص مجھ سے دُور ہٹ گیا ہے۔
آپؐ نے پوچھا: تمھاراکون سا عمل تمھاری نظر میں زیادہ مؤثر ہے؟ انھوں نے عرض کیا: میں پانی پلاتا تھا (مجھے امید ہے کہ وہ عمل زیادہ موثر ہے)۔پھررسولؐ اللہ نے فرمایا: سلمان میری بات سنو! کیا تم میری حالت میں کوئی انوکھی بات پاتے ہو؟ سلمان نے عرض کیا: ہاں یارسولؐ اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان‘ میں نے آپؐ کو بہت سے مواقع پر دیکھا ہے لیکن آپؐ کو جس حالت میں اب دیکھ رہا ہوں ایسی حالت میں کبھی نہیں دیکھا (خوف و خشیت ِالٰہی کی حالت کے عجیب و غریب آثار ہیں)۔ آپؐ نے فرمایا: اس لیے کہ مجھے اس تکلیف کا علم ہے جو مرنے والا گزار رہا ہے۔ اس کی ہر رگ موت کے درد کو محسوس کر رہی ہے۔ (مجمع الزوائد‘ ج ۲ ‘ص ۳۲۲)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے صحابہؓ کرام میں سے ایک ایک کا کتنا فکر تھا اوراس کے لیے آپؐ کس قدر وقت نکالتے اور ان کی حاجات اور ضروریات اورمسائل میں شریک ہوتے تھے‘ اس کا اندازہ اس ایک واقعے اور اس طرح کے بے شمار دوسرے واقعات سے ہوجاتاہے۔ اس میں اہلِ ایمان کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ اہلِ ایمان کو چاہیے کہ وہ دینی بہن بھائیوں اور عزیز واقارب سے صرف زبانی نہیں بلکہ عملی محبت کریں اور ان کی دنیاوی اور اخروی بھلائی کے لیے اپنے اندر طلب اور تڑپ پیدا کریں۔ اپنے بھائیوں کے دکھ سکھ‘ بیماری اور جانکنی کے عالم میں ان کے پاس جائیں اور ان کی ہر ممکن مدد کریں۔
ہرمسلمان کو موت کی سختی کی فکر کرنا چاہیے اور سختی سے بچائو کا سامان بھی کرنا چاہیے۔ برائیوں اور ظلم سے باز آنا چاہیے ورنہ موت کے وقت اللہ کی پکڑ سے جو دوزخ کے فرشتے کی شکل میں ہوتی ہے‘ بچانے والی کوئی چیز نہیں ہوگی۔ نبی کریمؐ پر اس وقت جو کیفیت طاری ہوئی اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبیؐ کی ذات پر بھی اگر موت کی سختیوں کے مشاہدے کا اثر ہوتا ہے درآں حالیکہ آپؐ جنتیوں کے سردار ہیں تو پھر عام مسلمانوں پر کتنا اثر ہونا چاہیے (فاعتبروا یااولی الابصار)۔ کیا آج ہمیں موت اور اس کی سختیوں کی فکر ہے‘ اور کیا کسی بھائی کی موت کے مشاہدے کا ہم پر اثر ہوتا ہے؟
o
اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کو اپنی نعمتوں سے نوازا ہوتا ہے‘ ان نعمتوں کو وہ ان کے پاس اُس وقت تک برقرار رکھتا ہے‘ جب تک وہ مسلمانوں کی حاجتیں پوری کرنے میں لگے رہتے ہیں اور اُکتا نہیں جاتے۔ جب وہ اُکتا جائیں تو اللہ تعالیٰ ان نعمتوں کو دوسروں کی طرف منتقل کر دیتا ہے۔ (طبرانی)
اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے بندوں کو نعمتوں سے نوازتا ہے تو یہ دراصل آزمایش ہوتی ہے۔ جو لوگ خوش دلی سے ان نعمتوں سے مسلمانوں کی ضرورتیں پورا کرتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں‘ ان کو نعمتیں ملتی رہتی ہیں۔ انسان کو سمجھنا چاہیے کہ اسے جو کچھ مل رہا ہے‘ اس لیے مل رہا ہے کہ دوسروں کا حق انھیں پہنچائے۔ وہ یہ نہیں کرتا تو اسے ان نعمتوں سے محروم کردیا جاتا ہے۔ یہ نقطۂ نظر ہو تو معاشرے کے مسائل آسانی سے حل ہوجاتے ہیں۔ کوئی مصیبت کے وقت تنہا نہیں ہوتا۔
o
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے‘نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ رب العالمین سے عرض کیا: اے میرے رب! مجھے اس شخص کے بارے میں بتلا دیجیے جو آپ کی مخلوق میں آپ کے ہاں زیادہ قدرومنزلت والا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ شخص جو میری مرضی کو پورا کرنے میں اس طرح اُڑے جس طرح باز اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اُڑتا ہے‘ اور جو میرے نیک بندوں سے اس طرح عشق و محبت کرتا ہے جس طرح بچہ ماں باپ کے ساتھ محبت سے چمٹ جاتا ہے‘ اور وہ شخص جو میری حرمتوں کی پامالی کے وقت غصے سے بھڑک اُٹھتا ہے جس طرح چیتا اپنی ذات کی خاطر غصے سے بھڑک اُٹھتا ہے۔ جب وہ غضب ناک ہوجاتا ہے تو اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ لوگ تھوڑے ہیں یا زیادہ۔ (مجمع الزوائد‘ ج ۷‘ ص ۲۶۵)
باز‘ بچہ اور چیتے کی تین مثالوں سے اللہ کی مرضی پوری کرنے کا جذبہ و شوق‘ نیک بندوں سے عشق و محبت اور اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی پر غصے کی کیفیت کو کیا خوب بیان کیا گیا ہے۔ پھر ان سب پر یہ کہ جب وہ غضب ناک ہوجاتا ہے تو اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ لوگ تھوڑے ہیں یا زیادہ۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کی بلند ترین شکل یہی ہے۔ اس کی مرضی‘ یعنی اس کے دین سے محبت کرنے والوں سے عشق اور لگائو ہو۔ اللہ کے دین کی سربلندی اور غلبے کی تڑپ ہو۔ اسلامی شعائر اور اقدار کی پامالی کو برداشت نہ کیا جائے۔
مومن غصے سے بے قابو نہیں ہوجاتا۔ وہ اپنا غصہ شریعت کے طے کردہ ضابطے اور طریقے کے مطابق نکالتا ہے۔ اس غصے کے ذریعے عدل و انصاف قائم ہوتا ہے‘ حق دار کو اس کا حق دلایا جاتا ہے‘ محرمات کی حرمت بحال کی جاتی ہے۔ آج کا دور اسی عشق و محبت اور غیرت و حمیت کے اظہار کا دور ہے۔ آج مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کون اللہ تعالیٰ کی مرضی کے لیے اُڑ رہا ہے اور کون اللہ کی خاطر غصے سے بھڑک اُٹھتا ہے۔ کون ہے جو اس معیار کی روشنی میں اپنا جائزہ لے کر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اپنی قدرومنزلت بڑھانے کے لیے سرگرمِ عمل ہوجائے!
o
حضرت ضمرہ بن ثعلبہؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس حال میں حاضر ہوا کہ میں نے یمنی کپڑوں کا جوڑا زیب تن کیا ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کر آپؐ نے فرمایا: ضمرہ! تمھارا کیا خیال ہے، تیرے یہ کپڑے تجھے جنت میں داخل کرادیں گے؟‘‘ یہ سنتے ہی ضمرہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اگر آپؐ میرے لیے اس کوتاہی پر جو مجھ سے سرزد ہوگئی ہے، استغفار کریں تو مجھے اس وقت تک چین نہ آئے گا جب تک ان کو اُتار نہ دوں۔ اس پر آپؐ نے دعا دیتے ہوئے فرمایا: ’’اے اللہ! ضمرہؓ بن ثعلبہ کے گناہ معاف فرمادیجیے۔ یہ سن کر ضمرہؓ تیز رفتاری سے چلے گئے اور ان کپڑوں کو اتار دیا (یہ کپڑے ریشم کے بنے ہوئے تھے‘ اس لیے آپؐ نے انھیں اُتارنے کا حکم ترہیبی انداز میں دیا)۔(الفتح الربانی، باب ماجاء فی فضائل ضمرہؓ)
اس واقعے میں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ریشم کے استعمال کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت کے باوجود بھی ایک صحابیؓ یہ پہنے ہوئے آپؐ کے پاس تشریف لائے۔ دوسری بات یہ کہ آپؐ نے اس پر پیار بھرے اندازسے توجہ دلائی‘ اور تیسری بات یہ کہ صحابیؓ نے فوراً ہی جاکر اسے اُتاردیا۔ اگر ہم کو اس طرح کی کسی خلاف ورزی پر توجہ دلائی جائے‘ یا ہمارے علم میں ایسے کسی عمل کے بارے میں کوئی حدیث آجائے تو ہمارا رویہ کیا ہوتا ہے!
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
تو یہ محض ایک فلسفیانہ اظہارِ خیال نہیں تھا بلکہ ایک ایسی جیتی جاگتی زندہ حقیقت کی بازگشت تھی جس کا عکس کائنات کے ذرے ذرے میں پایا جاتا ہے۔ عالمِ جمادات کا حقیر سا ذرہ ہو یا پیکرِانسانی میں دھڑکتا ہوا دل ‘ ہر ایک اسی عالم گیر حقیقت کا خاموش ترجمان ہے۔ سمندروں کی لہریں‘ ہوائوں کی سرسراہٹ‘ سورج کی روشن کرنیں‘ ستاروں کا سفر‘ پارے کا اضطراب‘ موسموں کی تبدیلیاں‘ دلوں کی اُمنگ اور خیالات کی ترنگ اسی قانونِ تغیرو انقلاب کی تفاسیر ہیں۔ فطرت کا یہ قانون ان تمام قوانینِ قدرت سے ہم آہنگ ہے جن کے زیرِاثر یہ نظامِ ارض و سما قائم و دائم ہے۔ اس کائنات میں ہونے والی ہر جنبش و حرکت اور لحظہ لحظہ بدلتی ہوئی حالت‘ ایک طرف قانونِ انقلاب کی غمّاز ہے تو دوسری طرف زندگی کی علامت بھی ع
جس میں نہ ہو انقلاب‘ موت ہے وہ زندگی
تغیرو تبدیلی زندگی کی محض علامت ہی نہیں بلکہ ضرورت بھی ہے۔ زندگی کی ضامن‘ قوت و استعداد کا استحکام و ارتقا مثبت تبدیلیوں کا محتاج ہوا کرتا ہے۔ لمحہ لمحہ گزرتے وقت کا سفر نئے نئے عالمِ امکانات کی منزلیں ایجاد کرتا ہے‘ جہاں انقلابِ حال تقاضاے حیات اور طرزِکہن پر ثبات‘ موت کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ لیکن جہاں یہ بات درست ہے کہ ہر تبدیلی زندگی کی علامت ہے‘ وہیں یہ بھی اَمرِمسلّمہ ہے کہ ہر تبدیلی زندگی کی ضمانت نہیں۔ مثبت تغیرات ہی مثبت نتائج پیدا کرسکتے ہیں۔ حرکت اور پیش قدمی جب مخالف سمت میں ہونے لگے تو منزلِ مقصود قریب نہیں دُور سے دُورتر ہوجاتی ہے۔ جس طرح موسم کی ہر تبدیلی بہار کا مژدہ نہیں سناتی‘ ٹھیک اسی طرح عالمِ انسانیت کا ہر انقلاب حیات بخش نہیں ہوتا۔ دنیاے آب و گل میں فطرت جس حکیمانہ نظامِ تغیر کے ساتھ کاربند ہے‘ ٹھیک ایسے ہی وہ ذاتِ حی و قیوم‘ عالمِ انسانیت میں مخصوص نظامِ انقلاب کے ذریعے حیات بخشی کاسامان کیے ہوئے ہے۔ یہ تمام نظام ہاے قدرت چونکہ ایک ہی کاری گر کی صنّاعی ہیں‘ اپنے جلو میں بڑی شانِ وحدت رکھتے ہیں۔ اس دنیا میں جب تالاب اور ندیاں خشک ہوجاتے ہیں‘ زمین سوکھ کر مُردہ ہوجاتی ہے‘ چمن ویران ہونے لگتے ہیں‘ کھیت و باغات کی سرسبزی و شادابی کوڑے کرکٹ کی سیاہی میں تبدیل ہوجاتی ہے اور مخلوقاتِ ارض دانے دانے کو ترسنے لگتے ہیں تو ربوبیت ِ خداوندی جوش میں آجاتی ہے۔ ٹھنڈی ہوائوں کے جھونکے پیامِ انقلاب لاتے ہیں‘ اَبر کے سائبان جھوم جھوم کر برسنے لگتے ہیں‘ کنویں‘ تالاب اور ندیاں سیراب ہوجاتے ہیں‘ کسانوں کی محنت برگ و بار لانے لگتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے کھیتیاں لہلہا اُٹھتی ہیں‘ چمن رونق افروز ہوجاتے ہیں۔
ٹھیک اسی طرح جب عالمِ انسانیت میں اخلاق و کردار کے چشمہ ٔصافی سوکھنے لگتے ہیں‘ روحانیت دم توڑنے لگتی ہے‘ چمنستانِ قلوب میں ویرانی چھا جاتی ہے‘ گلستانِ خیروخوبی کی رعنائیاں شروفساد کی ظلمتوں میں بدل جاتی ہیں اور انسانیت سسکنے لگتی ہے___ تو رحمت ِ خداوندی جوش میں آجاتی ہے۔ گردشِ لیل و نہار نیکی و تقویٰ کی بہار کا مژدہ سناتی ہے اور عالمِ روحانیت میں ایک ہمہ گیر انقلاب برپا ہونے لگتا ہے۔ ہمہ گیر ایسا کہ اس کی آمد کا اعلان کسی خطّۂ زمین پر نہیں بلکہ اُفقِ عالم پر ہلالِ رمضان المبارک کی نمود سے ہوتا ہے۔ وسعتِ تغیرات کی یہ شان کہ ابتدا ہی جنت کے تمام دروازوں کے کھلنے اور دوزخ کے سارے دروازے بند کیے جانے سے ہوتی ہے۔ وقت‘ مقدار‘ کمیت اور کیفیت کے سارے پیمانے بدل دیے جاتے ہیں۔ اجروثواب کی مقدار بڑھا کر معمول سے ۷۰گنا بلکہ لامحدود کردی جاتی ہے۔ اس ماہِ مبارک کی ایک رات ہزار راتوں سے زیادہ افضل قرار پاتی ہے۔ عرشِ بریں کے حامل فرشتوں کو حکمِ خداوندی ملتا ہے کہ اپنی عبادت بند کردو اور اہلِ زمین کی دعائوں پر آمین کہو۔ آسمانوں کا یہ سارا انقلاب اس لیے برپاہوا کہ زمین پرآباد مرکزِعالم اور مسجودِ ملائک انسان کی دنیا کو ایک اندرونی انقلاب سے دوچار کرنا مقصود ہے۔ اس طرح عالمِ انسانیت میں ایک ایسا انقلاب رونما ہونے لگتا ہے جس کی وسعت بے پناہ اور جس کا نفوذ بے انتہا۔ یہ ظاہروباطن سب پر محیط‘ یہاں فکرونظر‘ جذبات و احساسات اور عمل و جستجو‘ سب کچھ تبدیلیوں سے ہم کنار۔
ماہِ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی انسان کے معمولات میں بڑی نمایاں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔ کھانے‘ پینے اور آرام کے اوقات یکسر بدل جاتے ہیں۔ رات کے آخری پہر‘ جب کہ وہ عموماً محوِخواب ہوا کرتا تھا اپنے نفس کو روندتے ہوئے بیدار ہوکر سحری کھاتا ہے‘ کیونکہ یہی حکمِ خداوندی ہے۔ سپیدۂ سحر کے پھوٹنے سے لے کر غروبِ آفتاب تک عام حالت میں جو افعال انسان بلاجھجک انجام دیا کرتا تھا‘ حالتِ روزہ میں اپنے اُوپر مطلقاً حرام کرلیتا ہے‘ کیونکہ یہی مالک کی مرضی ہے۔ پہلے وہ بھوک و پیاس کی معمولی کیفیت سے مغلوب ہوکرلذتِ کام و دہن کی حددرجہ آسودگی کیا کرتا تھا‘ اب بھوک و پیاس کی انتہائی شدت میں بھی غذا کا ایک دانہ یا پانی کا ایک قطرہ بھی اس کے حلق سے نیچے نہیں جاسکتا۔ پھر جب دن بھر کی محنت و مشقت سے نڈھال وہ آغوشِ شب میں راحت ِ جسم و جاں کے مزے لوٹا کرتا تھا‘ اب اپنے رب کے حضور قیام و سجود میں مصروف ہوجاتا ہے‘ کیونکہ وقتِ حاضر بندگیِ رب کا یہی تقاضا ٹھیرا۔ ان تمام وارداتِ نو سے گزرتے ہوئے وہ بھوک‘ پیاس اور تھکن کے نامانوس احساسات سے آشنا ہوتا ہے تو قلب میں مدتوں سے خوابیدہ انسانیت انگڑائی لے کر بیدار ہوتی ہے اور محروم و محتاج انسانوں کے تئیں جذباتِ رحم و شفقت کا اظہار ہونے لگتا ہے۔ فراخی ٔدل‘ بند مٹھیوں کو کھول دیتی ہے اور جذبۂ انفاق حب ِ مال و دولت پر غالب آجاتا ہے۔ اس طرح انسانی معاشرے میں خودغرضی اور باہمی کشاکش کی جگہ ایثار و اخوت کے دل نشیں مناظر نمودارہوتے ہیں۔ عام حالت میں جس انسان کی زبان پر لغو‘ طنزوطعن طاری رہا کرتا تھا‘ اب اس پر ہزار پہرے بٹھا دیتا ہے کہ زبان سے اب کوئی بات نکلے تو اچھی ہی نکلے۔
حسنِ عمل اور نیکیوں کے یہ مظاہر چند افرادیا مخصوص علاقے تک ہی محدود نہیں رہتے بلکہ کرئہ ارض پر موجود تمام ملّتِ اسلامیہ کی مشترکہ خاصیت بن جاتے ہیں۔ اعمال و مقاصد کی یہ غیرمعمولی ہم آہنگی‘ بہارِ نیکیوں کا ایسا موسم بن جاتی ہے جو ذرا سی کوشش و جستجو سے عظیم الشان ثمرات پیدا کرتا ہے۔ گویا راہِ عمل کا ہر مسافر سوے حرم گام زن ہے اور یہ کاروانِ خلیل ؑراہ کی صعوبتوں سے بے نیاز جانب ِ منزل رواں دواں ہے۔ کسبِ خیر کا اجتماعی ماحول نیکیوں کی افزایش کے لیے سازگار ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے امکانات اور مواقع دوچند کردیتا ہے۔ فطرت اپنی عطا و کرم میں فیاضی کی انتہا پر ہوتی ہے۔ رحمت اور بخشش کا فیضان عام ہوتا ہے کہ جس میں جتنا ظرف ہے سمیٹ لے اور اگر سیرابی نہ ہو تو علاجِ تنگی داماں بھی مانگ لے۔
ماحول میں یہ غیرمعمولی تبدیلیاں وقوع پذیر ہونے سے پہلے لازم ہے کہ فکروعمل کا انقلاب برپا ہو‘ بلکہ ماحول اور وقت کے تغیرات کا مقصود بھی تزکیۂ قلب اور تحسینِ عمل ہوتا ہے۔ کیسا عظیم الشان مظہر ہے یہ تصرفاتِ الٰہیہ میں حکمت ِ بالغہ اور قدرتِ کاملہ کا!! ہر انقلاب ایک دوسرے کی علّت بھی ہے اور معلول بھی۔ احوال و ظروف کی تبدیلی کے لیے انسانی رویوں کا تغیر ضروری ہوا اور حالات سے تحریک ہوئی فکروعمل کی تبدیلی کی۔ رمضان المبارک کی یہ پُرنور فضا اور ساعاتِ جلیلہ نمودار ہوئی تو اسی لیے کہ انسانی فکروعمل کا محور فطرت سے ہم آہنگ ہوجائے۔ وہ انسان جس کے قلب و ذہن کا رابطہ اپنے مالک و خالق سے منقطع ہونے کو تھا پھر سے مربوط و مستحکم ہوجائے۔ چلتی پھرتی لاشوں میں برقِ زندگانی پھر سے دوڑنے لگے۔ بھولے بھٹکے کارواں کو احساسِ زیاں تڑپانے لگے اور سوزِ دروں کے شعلوں سے شب ِ حیات روشن ہوجائے۔ مدہوش و غافل انساںکو متاعِ فکروشعور مل جائے۔ جو سوئے ہوئے ہیں بیدار ہوں‘ اور جو بیدار ہیں اُٹھ کر مصروفِ عمل ہوجائیں۔ نہاں خانۂ دل کی تاریکیاں نورُ السموات والارض کے اُجالوں سے منور ہوجائیں۔ حیوانِ ناطق اور بندئہ ہوس انسان کو شرفِ مسجودِ ملائک اور خلافتِ ارضی کا بھولا ہواسبق پھر سے یاد آجائے۔
ماہِ رمضان المبارک کی ہر گھڑی یہی پیغام سناتی ہے۔ حالت ِ روزہ میں گزرنے والا ایک ایک لمحہ انسان کے دل کو یادِ الٰہی سے معمور کرتا ہے۔ احساسِ ذمہ داری کا کیسا عظیم انقلاب ہے یہ کہ دنیا کی کسی طاقت کاجبر نہیں‘ ہر دیکھنے والی آنکھ سے مستور اور ہر سننے والے کان سے مہجور لیکن حکمِ خداوندی سے سرموانحراف نہیں۔ اپنے ہی نفس پر اپنے ہی ہاتھوں یہ جبر‘ ضبط و تنفیذ کا یہ کمال‘ کیا کبھی قلب و ذہن پر ربُ السموات والارض کی حکمرانی کے بغیر ممکن بھی تھا!! وہ عقلِ شاطر رکھنے والا انسان جس کو دنیا کی کوئی قانونی طاقت زیر نہ کرسکی‘ ایک جذبۂ ایمان کا ایسا اسیر ہوا کہ تسلیم ورضا کی زنجیروں سے اپنے آپ بندھ گیا۔ کوئی اندازہ کرسکتا ہے کہ آزادروی کے متوالے انسان میں یہ قوتِ انقیاد و انضباط کیوں کر پیدا ہوئی؟ یہ اس لیے ممکن ہوا کہ آسمان سے ہاتفِ غیبی کی یہ صدا اس کے کانوں سے ٹکرائی اور دل میں اُتر کر رہ گئی… وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ ج وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ o (قٓ ۵۰:۱۶) ’’اورہم اس کے دل میں اُبھرنے والے وسوسوں تک کو جانتے ہیں‘ ہم اس سے اس کی رگِ گردن سے بھی زیادہ قریب ہیں‘‘۔
فکروعمل کی یہ ظاہری تبدیلی دراصل مرہونِ منّت ہے اس قلبی انقلاب کی جو اس آیت ِکریمہ کی روح سے زندگی پاتا ہے___ وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo (الحدید ۵۷:۴) ’’وہ تمھارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو‘ جو کام بھی تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے‘‘۔ درحقیقت یہی قلب و نظر کا انقلاب غرض و غایت ہے رمضان المبارک کی آمد اور اس میں واقع ہونے والی تمام انسانی اور کائناتی تبدیلیوں کا!! ذرا سنیے اس فرمانِ شہنشاہی کو ___ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo (البقرہ ۲:۱۸۳) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ تم پر روزے فرض کردیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو‘‘۔
ماہِ رمضان کی تمام ریاضتوں کا مقصود یہی ہے کہ انسانی قلب و ذہن میں ترک و اختیار کی وہ قوت و استعداد پیدا ہوجائے جواس کی زندگی کو بندگیِ رب کی راہِ فوز و فلاح پر گامزن کردے۔ یہ دراصل انقلاب ہے ضمیروقلب کی بیداری کا۔ معرکۂ حیات میں یہ فتح ہے مادیت پر روحانیت کی۔
تاریخِ انسانیت اور رمضان المبارک کی انقلابی کارفرمائیوں میں بڑی گہری نسبت موجود ہے۔ وقت کا سب سے عظیم انقلاب جس نے بنی نوع انسان کی کایاپلٹ کر رکھ دی___ یعنی نزولِ قرآن کا واقعہ اسی ماہِ رمضان کی ایک مقدس رات میں ہواتھا۔ ایک طرف یہ واقعہ انسانیت پر رحمت ِ الٰہی کی تکمیل تھی تو دوسری طرف قوموں کے عروج و زوال سے وابستہ اَٹوٹ ضابطے کا رہتی دنیا تک اعلان بھی۔ ’’اللہ اس کتاب کے ذریعے کچھ گروہوں کو بلند و سرفراز کرے گا اور کچھ دوسرے گروہوں کو پستی میں جھونک دے گا‘‘(صحیح مسلم)۔ ۱۵ صدی قبل اسی ماہِ رمضان میں عرب کے صحرانشیں اس ضابطۂ ربانی کو لے کر اُٹھے تو صوتِ ہادی بجلی کی کڑک بن گئی جس نے سرزمینِ عرب کو ہلاکر رکھ دیا۔
پھر بدر کے میدان میں ۱۷ رمضان ۲ہجری کو یوم الفرقان کا سورج طلوع ہوا جس نے ظلمتِ باطل پر نورِ حق کی پہلی فتح کا اعلان کیا‘ اور ۱۰ رمضان ۸ہجری کو مکّہ مکرمہ میں وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)کی فیصلہ کُن صداے حق سے حرمِ کعبہ کی فضا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معمور ہوگئی۔ اُس روز سے لے کر آج تک صدیاں گزر گئیں لیکن وقت کا ہرہرلمحہ گواہی دیتا رہا کہ زمانہ چاہے کتنا ہی بدل جائے‘ اس ضابطے کی صداقت بدل نہیں سکتی۔ افراد واقوام کی سربلندی وسرفرازی اسی ربانی ضابطۂ حیات سے وابستگی کا نتیجہ رہی اور ہرپستیِ و ذلّت بھی اسی قانونِ سماوی سے سرکشی کے سبب ہوئی۔ اس بے لاگ حقیقت کا اعلان وقت کا مؤرخ حادثاتِ زمانہ کی زبانی ہمیشہ کرتا رہا لیکن مشیت ِ حق نے ضروری سمجھا کہ اس کی یاددہانی کے لیے ہرسال ماہِ رمضان ہی کو پیامِ ہدایت دے کر بھیجا جائے۔ اس طرح اُفقِ انسانیت پر ہرسالِ نو ہلالِ رمضان کی نمود اس اعلان کے ساتھ ہوتی ہے کہ شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُراٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِج (البقرۃ ۲:۱۸۵) ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں‘‘۔
یہ ربُ السموات والارض کا بے انتہا کرم و احسان ہے کہ وہ ہرسال ماہِ رمضان کے حوالے سے انسانیت پر اتمامِ نعمت‘ یعنی نزولِ قرآن سے شعوروآگاہی کا موقع بہم پہنچاتا ہے۔ ماہِ رمضان دراصل علامتی یادگار ہے انقلابِ نزولِ قرآن کی۔ یہ صرف یادگار ہی نہیں بلکہ تحدیدِ انقلاب کا پیام بھی‘ اور ساتھ ہی اس مہینے کو ان تمام صفات و خصوصیات سے نوازا گیا جو بناے انقلاب کے لیے معاون و سازگار ہوتی ہیں۔ اس ماہِ مبارک کو اعمالِ خیروصلاح کی فصل و بہار والی تاثیر عطا کی گئی۔ یہاں منزلِ مقصود کی نشان دہی بھی ہے‘ اور راہِ ہدایت سے آگاہی بھی‘ راہ روی کی تربیت بھی ہے اور رہبری کا ساماں بھی‘ زادِ راہ کی بخشایش بھی ہے اور سفر کی سہولتیں بھی‘ اور ہر پیش قدمی پر انعام بھی ___ یہ سب کچھ منتظر ہیں انسان کے عزم و ارادے اور حرکت و سعی کے لیے۔ یہاں رحمتوں کی بارش ہے‘ مغفرت کی عطا و بخشش ہے اور نارِ جہنم سے نجات بھی۔ تلاشِ منزل میں سرگرداں انسان بزمِ رمضان میں جنت الفردوس کی رفعتوں سے آشنا ہوجاتا ہے۔ اس منزل کے حصول کے لیے اسے صراطِ مستقیم‘ یعنی دین اسلام کی رہنمائی میسر ہوتی ہے۔ روزے کی سواری اور تقویٰ و احساسِ ذمہ داری کا زادِ راہ دیا جاتا ہے۔ اجتماعی ماحول کے ذریعے راہ کی مشکلات کو آسان کردیا جاتا ہے اور اس راہ پر چلنے کے لیے بے حساب اجروثواب کی اُمید بھی موجود ہے۔
یہ سارا اہتمام‘ یہ غیرمعمولی مواقع صرف اس لیے ہیں کہ انسان کا مقدر سنور جائے‘ اسے فلاح و کامیابی نصیب ہوجائے‘ اور وہ ابدی زندگی سے ہم کنار ہوجائے۔ اب عقل و فہم رکھنے والا ہرانسان غور کرے کہ ان مواقع سے غفلت کتنے عظیم خسارے کا سبب بنے گی۔ اُس شخص کی بدبختی اور محرومی کا کیا ٹھکانا‘ جس کے لیے آسمان سے رحمتوں کی بارشیں ہورہی ہوں اور وہ ایک سنگلاخ تودے کی طرح نہ خود سیراب ہوتا ہے اورنہ دوسروں کی سیرابی کا سبب بنتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اُس بے حسّی پر موت بھی ماتم کرے گی ‘ جب کہ دستِ رحمت علاجِ مرض بانٹ رہا ہواور مریضِ روحانیت محوِ لہوولعب ہو۔ فطرت تو ہرلمحے مائل بہ کرم ہوتی ہے لیکن اس کا یہ اصول نہیں کہ دیدہ و دانستہ خودکشی کی راہ پر چلنے والے انسان کو جبروقوت سے شاہراہِ حیات پر لے آئے۔ ماہِ رمضان کی عظمت و برکت ہر اعتبار سے بے مثل‘ لیکن یہ برکتیں اسی انسان کے دامن کو زینت بخشتی ہیں جو ان کے حصول کے لیے ارادہ و عزم اور کوشش و جستجو کرے‘ اور ان برکات کی مقدار و کیفیت بھی انسانی کوشش و جستجو کے تناسب میں ہوگی۔ ہر انسان اپنی استعدادِ اَخذ و اختیار کے مطابق ہی تقویٰ اور نیکی کے ثمرات پائے گا۔ اسی بات کا اظہار آیت ِ قرآنی اِن الفاظ میں کرتی ہے کہ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ’’توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو‘‘۔
اللہ تعالیٰ کا بے شمار شکر و احسان ہے کہ اس نے ہمیں رمضان المبارک کو پانے کا موقع عطا فرمایا اور اس میں مقدور بھر نیکی کمانے اور روزے کے اجر و ثواب حاصل کرنے کی توفیق عطافرمائی۔ مبارک باد کے مستحق ہیں وہ سب روزہ دار جنھوں نے قرآن پاک سے منسوب اس ماہ مبارک میںقرآن کا فہم حاصل کرنے کی کوشش بھی کی۔ روزہ داروں کی کوششوں کواللہ تعالیٰ رحمت خاص سے نوازتا ہے اور قرآن پاک پانے والوں کی خوشیوں میں ایک اور اضافہ عیدالفطر کا دن ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہرقوم کے لیے عید اور خوشی کے دن ہیںاور آج‘ یعنی اختتام رمضان پر ہماری عید کا دن ہے‘‘۔ نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو فرمایا: ’’تم سال میں دو دن خوشی منایا کرتے تھے۔ اب خدا نے تم کو ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں‘ یعنی ’’عیدالفطر اور عیدالاضحی‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو دونوں عیدوں کی شب بیداری کرے گا‘ نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ تو اس بندے کا دل نہیں مرے گا‘ جس دن اوروں کے دل مُردہ ہوجائیں گے (ابن ماجہ)۔ ایک اور موقع پر آپؐ نے فرمایا: ’’جو ان پانچ راتوں کو جاگے گا تو اس کے لیے جنت واجب ہوجائے گی: ۱- ذی الحجہ کی آٹھویں رات ۲- ذی الحجہ کی نویں رات ۳- ذی الحجہ کی دسویں رات ۴-عیدالفطر کی رات ۵- شعبان کی پندرھویں رات۔
الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا فحاشی و بے حیائی کے علم بردار بن کر سامنے آتا ہے۔ گویا کہ شیطان کی فوجیں حملہ کرنے کو تیار بیٹھی تھیں۔ اوراب ذہنوں‘ دلوں اور نظروں کو گندگی اور نجس میں مبتلا کرنے کا حکم آگیا۔ کتنے نادان ہیں ہم کہ سارا ماہِ مبارک جتنی مزدوری کی وہ ضائع کردی۔ بازاروں میں شیطان خوب کھیل کھیلتا ہے۔ مردوں اور عورتوں سے حیا‘ پاکیزگی‘ حرمت‘ غیرت دبے پائوں رخصت ہوجاتی ہے۔ چاند رات میں بازاروں کی رونق دیکھنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ مسلمانوں میں رمضان المبارک کے کچھ اثرات رہ گئے ہیں۔
ہم سب کو اپنے معمولات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم ان مقدس ساعات میں کہاں اور کیا کرنے میں مصروف ہوں گے‘ جب اللہ رب العزت روزہ داروں میں اپنی رحمت خاص سے انعامات تقسیم فرما رہے ہوں گے۔ کیا ہم دنیا کی چیزوں کی طلب میں اخروی انعام کو بھول جاتے ہیں؟ کیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نظرعنایت اور خصوصی انعام کی اہمیت نہیں ہے؟ عید کی تیاری کے سب مراحل اگر پہلے پورے کرلیے جائیں تواس مقدس‘ عظیم رات کے ایک ایک لمحے سے بخوبی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتاہے: اے فرشتو! تم گواہ رہو ان کے رمضان کے روزے اور نماز کی وجہ سے میں ان سے خوش ہوگیا اور ان کو بخش دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے میرے بندو! تم مجھ سے مانگو میںاپنی عزت اور جلال کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اس اجتماع میں دنیا و آخرت کی جو کچھ بھی بھلائی مجھ سے مانگو گے میں دوں گا اور تمھارا خصوصی خیال رکھوں گا‘ اور جب تک میری ناراضی سے ڈرتے رہو گے تمھاری خطائوں اور لغزشوں سے درگزر کرتا رہوں گا اورمجھے اپنی عزت و بزرگی کی قسم ہے! نہ تمھیں رسوا اور ذلیل کروں گا اور نہ مجرمین کے سامنے تمھاری رسوائی ہونے دوں گا۔ تم سب کو میں نے معاف کردیا۔ تم نے مجھے راضی کرنے کی کوشش کی‘ میں تم سے راضی ہوگیا۔ یہ اعلان اور انعامِ بخشش سن کر فرشتے جھوم اُٹھتے ہیں اور مومنین کی کامیابی پر جشن مناتے ہیں‘‘۔
حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زکوٰۃ الفطر فرض ہے جو لوگوں کو ان گناہوں سے پاک کرے گا جو رمضان میں روزے کے ساتھ دانستہ یا نادانستہ سرزد ہوئے۔ جو نماز عید سے قبل ادا کرے گا اس کی زکوٰۃ الفطر قبول ہوگی۔ جو عید کی نماز کے بعد ادا کرے گا تو اسے صدقہ و خیرات کا ثواب مل جائے گا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کے گلی کوچوں میں ایک آدمی بھیج کر یہ اعلان کرایا کہ: ’’آگاہ ہوجائو‘ صدقہ فطر ہر مسلمان مرد‘ عورت‘ آزاد‘ غلام چھوٹے بڑے پر واجب ہے‘‘۔ (ترمذی)
جو لوگ زکوٰۃ لینے کے مستحق ہیں وہ صدقہ فطر لینے کے بھی مستحق ہیں۔ گھر کا سربراہ اپنے گھر کے ہر فرد کی جانب سے صدقہ فطر ادا کرے‘ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ بچہ اگر ایک دن کا بھی ہو تب بھی صدقہ فطر دینا ہوگا۔
عید کی صبح اُٹھ کر روز مرہ کی ضروریات سے فارغ ہو کر عید کی نماز کے لیے تیاری کرنا واجب ہے۔ اگر اس دن حسبِ عادت رمضان المبارک کی طرح سحری کے وقت اُٹھے اور نماز تہجد ادا کرے‘ اپنے رب سے مزدوری لینے کی رات اور ان مبارک ساعات کواپنے لیے توشۂ آخرت بناسکتا ہے۔ شب ِ عید کی بہت فضیلت ہے۔ جو عید کی رات جاگ کر عبادت کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اور قیامت کے دن اس کا دل زندہ رہے گا۔
شب ِعید کو آج ہمارے گھر‘ گلیاں اور بازار جو نقشہ پیش کرتے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں محاسبۂ نفس کی اشد ضرورت ہے۔ مزدور اپنی مزدوری لینے کے بجاے شیطانی مشغولیات سے دلوں کو مُردہ کر رہے ہوتے ہیں‘ اور وہ تمام اجر و ثواب جو پورے رمضان المبارک میں سمیٹا ہوتا ہے‘ ضائع ہوجاتا ہے۔
عید کی نماز سے پہلے میٹھی چیز کھاکر گھر سے روانہ ہونا سنت ِ نبویؐ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طاق عدد عموماً سات کھجوریں کھا کر گھر سے عید کے لیے روانہ ہوتے تھے۔ (طبرانی)
عیدگاہ پیدل جانا احسن ہے بوجہ عذر سواری پر جانا بھی جائزہے۔ (ترمذی)
مرد ‘ خواتین‘ بچے‘ سب عیدگاہ جائیں۔ اس نماز کو شہر سے باہر ادا کرنا سنت ہے۔ بلاعذر شرعی اس نماز کو شہر میں پڑھ لینا خلافِ سنت ہے۔ سارے شہر کی گلی کوچوں اور راستوں سے مسلمان اپنے رب کی کبریائی کا اعلان کرتے ہوئے ایک کھلے میدان میں جمع ہوتے ہیں۔ سب قوموں کے تہوار ہوتے ہیں اور بالعموم وہ اپنے تہوار مناتے وقت کھیل تماشے‘ پینے پلانے اور ناچ گانے وغیرہ میں کھوجاتی ہیں۔ مسلمانوں کے تہوار اپنے رب کی حمدوثنا سے شروع ہوتے ہیں اور جائز حدود میں سیروتفریح‘ کھیل کود‘ میل جول‘ کھانے پکانے‘ دعوتِ طعام کے ساتھ جاری رہتے ہیں۔ غرض‘ اسلام کی بنیادی باتوں سے کسی بھی موقع پر صرفِ نظر نہیں کیا جاتا۔ ایسی حرکات جو انسانوں کو حیوانوں کے درجے پر لے آئیں قطعی منع ہیں۔ مومنوں کا اپنی افرادی قوت کا مظاہرہ کرنا بھی خوشی کے موقع پر جائز ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گروہ کی شکل میں عیدگاہ کی طرف جانے اور بلند آواز سے تکبیر پڑھنے کی تلقین کی اور یہ کہ ایک راستے سے جائو تو واپسی پر دوسرے راستے سے آئو۔
عید کے دن بیش تر گھرانوں میں خواتین کو عیدگاہ لے جانے کا رجحان نہیں پایا جاتا۔ ان کو اس طرف ضرور توجہ دینی چاہیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کی کتنی تاکید کی ہے۔ رحمتوں اور بخششوں کی اس دولت سے خواتین کیوں محروم رہیں جو نمازِعید اوراجتماع عید پر اللہ کی طرف سے خصوصی طور پر نچھاور ہوتی ہے۔ تاہم اس بات کا خصوصی خیال کیاجائے کہ خواتین باپردہ ہوں اور بنائو سنگھار‘ زیور پہننے کے معاملے میں احتیاط برتیں۔ پردہ فرض عبادت ہے۔ اس سے روگردانی حکم الٰہی کی صریح نافرمانی ہے۔ گھر میں محرم مردوں کے سامنے عید کا بنائو سنگھار وغیرہ احسن طریقہ ہے۔ اجتماع عید میں نیا لباس سنت ہے۔ خوشبو بھی وہ ہونی چاہیے جو رنگت میں نمایاں ہو۔
نبی کریمؐ نے فرمایا ہے کہ نماز کے بعد امام اپنی جگہ پر کھڑا ہو کر لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر خطبہ دے اور ہرشخص باادب ہوکر خطبہ سنے۔ اگر عورتوں تک امام کی آواز نہ پہنچتی ہو تو امام الگ انھیں دوبارہ خطبہ سنائے (بخاری و مسلم)۔ اس تاکید سے خواتین کا عیدگاہ میں حاضر ہونے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
عید کے دن نماز سے پہلے گھر سے روانہ ہونے سے لے کر (تمام راستے) اور نماز کھڑی ہونے تک زیادہ سے زیادہ تکبیریں پڑھنا چاہییں۔ ساری فضا ایک نورانی احساس اور پاکیزہ جذبے سے معمور ہوجائے اور دشتِ و جبل نامِ حق سے گونج اُٹھے۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ عِیْشَۃً نَّقِیَّۃً وَّمِیْتَۃً سَوِیَّۃً وَّمَرَدًّا غَیْرَ مَخْزِیٍّ وَّلَا فَاضِحٍ … اَللّٰھُمَّ لَا تُھْلِکْنَا فُجَآئَ ۃً وَلَا تَاْخُذْنَا بَغَتَۃً وَلَا تَعْجَلْ عَنْ حَقٍّ وَّلَا وَصِیَّۃٍ … اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ الْعَفَافَ وَالْغِنٰی وَالْبَقَـآئَ وَالْھُدٰی وَحُسْنَ عَاقِبَۃِ الْاٰخِرَۃِ وَالدُّنْیَا وَنَعُوْذُبِکَ مِنَ الشَّکِّ وَالشِّقَاقِ وَالرِّیَائِ وَالسَّمْعَۃِ فِیْ دِیْنِکَ - یَامُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّاب o
خدایا! ہم تجھ سے پاک و صاف زندگی اور ایسی ہی عمدہ موت طلب کرتے ہیں۔ خدایا! ہمارا لوٹنا ذلت و رسوائی کا نہ ہو۔ خدایا! ہمیں اچانک ہلاک نہ کرنا‘ نہ اچانک پکڑنا اور نہ ایسا کرنا کہ ہم حق ادا کرنے اور وصیت کرنے سے بھی رہ جائیں۔ خدایا! ہم تجھ سے حرام سے اور دوسروں کے سامنے سوال بننے کی فضیحت سے بچنے کی دعا کرتے ہیں۔ اے اللہ‘ ہم تجھ سے پاکیزہ زندگی‘ نفس کا غنٰی‘ بقا‘ ہدایت و کامیابی اور دنیا و آخرت کے انجام کی بہتری طلب کرتے ہیں۔ اے ہمارے رب‘ ہم شکوک و شبہات اور آپس میں نفاق‘ ریا‘ بناوٹ اور دین کے کاموں میں دکھاوے کے عمل سے پناہ چاہتے ہیں۔ اے دلوں کے پھیرنے والے رب! ہمارے دل ہدایت کی طرف پھیرنے کے بعد ٹیڑھے نہ کرنااور ہمیں اپنی طرف سے خاص رحمت عطا فرمانا۔ بے شک تو سب کچھ دینے والا ہے۔
اسلامی تہواروں میں نہ شراب و قمار ہے نہ لہو و لعب اور نہ انسانیت سوز نظارے بلکہ خاکساری و خشیت الٰہی کے جلوے ہیں۔ ایثار و مساوات کے مجسمے اور ہمدردی و غم خواری کے نمونے ہیں۔ اتحاد و اتفاق کی جیتی جاگتی عملی تصویرنظرآتی ہے۔ مسلمانوں کی عیدوں میں نہ کھیل تماشا ہے نہ وقت کے ضیاع کا کوئی عمل‘ بلکہ ان خوشی کے دنوں میں بھی عبادتِ الٰہی اور ذکر و تسبیح و تہلیل ہے۔ مومن اپنی دنیا کی آسایشوں کے بجاے آخرت کے لیے ہرلمحہ فکرمند رہتا ہے۔ اسی لیے عید کی تیاریوں میں مگن ہوکر ایسا ہوش و خرد سے بے بہرہ نہیں ہوجاتا کہ فرائض کی بجاآوری تک بھول جائے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ شب عید‘ شاپنگ‘ مہندی‘ چوڑیوں‘ سلائیوں اور میچنگ کی فکر میں گزر جاتی ہے اور نمازفجر سے غفلت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ یہ گھڑیاں رب کی رضا کے حصول کی خصوصی گھڑیاں ہیں‘ اور تحائف خصوصاً عید کارڈز کا انتخاب تو ایمان کا امتحان ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو کارڈز اور ٹی وی‘ ویڈیو‘ سی ڈی کے ذریعے فحاشی پھیلاتے ہیں اور جو لوگ ان کو خرید کر فحاشی پھیلانے میں ممدومعاون بنتے ہیں‘ سب کے لیے دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی مقدر ہے۔ یہ قرآن کا صریح حکم ہے۔
۱- جس دن گناہ سے محفوظ رہے اور کوئی گناہ سرزد نہ ہو۔
۲-جس دن دنیا سے اپنا ایمان سلامت لے جائے اس کی وہ عید ہے۔
۳- جس دن وزخ کے پُل سے سلامتی کے ساتھ گزر جائے۔
۴- جس دن دوزخ سے بچ کر جنت میں داخل ہوجائے۔
۵- جس دن اپنے رب کی رضا کو پالے اور اس کے دیدار سے اپنی آنکھیں روشن کرے وہ عید کا دن ہے۔
حضرت علیؓ کوکسی نے عید کے دن دیکھا کہ آپ خشک روٹی کھا رہے ہیں۔ دیکھنے والے نے کہا: اے ابوترابؓ! آج عید ہے۔ آپؓ نے فرمایا: ہماری عید اس دن ہے جس دن کوئی گناہ نہ کیا ہو۔
وہب بن منبہؓ کو کسی نے عید کے دن روتے دیکھا تو کہا: آج تو مسرت و شادمانی کا دن ہے۔ حضرت وہبؓ نے فرمایا: یہ خوشی کادن اس کے لیے ہے جس کے روزے مقبول ہوگئے۔
حضرت شبلیؒ نے عید کے دن لوگوں کو کھیل کود میں مشغول دیکھ کر فرمایا: لوگ عید میں مشغول ہوکر وعید کو بھول گئے۔
عید ان کی نہیں جنھوں نے عمدہ لباس سے اپنے آپ کو آراستہ کیا۔ عید توان کی ہے جو خدا کی وعید اور پکڑ سے بچ گئے۔
عید ان کی نہیں جنھوں نے آج بہت سی خوشبوؤں کا استعمال کیا‘ عید تو ان لوگوںکی ہے جنھوں نے گناہوں سے توبہ کی اور اس پر قائم رہے۔
عید ان لوگوں کی نہیں جنھوں نے بڑی بڑی دیگیں چڑھا دیں اور بہت سے کھانے پکائے‘ عید تو ان کی ہے جنھوں نے حتی الامکان نیک بننے کی کوشش کی اور نیک بنے رہنے کا عہد کیا۔
عید ان کی نہیں جو دنیاوی زینت کے ساتھ نکلے‘ عید تو ان کی ہے جنھوں نے تقویٰ و پرہیزگاری کو زادِ راہ بنایا۔
عید ان کی نہیں جنھوں نے عمدہ عمدہ سواریوں پر سواری کی‘ عید توان کی ہے جنھوں نے گناہوں کو ترک کر دیا۔
عید ان کی نہیں جنھوں نے اعلیٰ درجے کے فرش سے (قالینوں سے) اپنے مکانوں کو آراستہ کرلیا‘ عید تو ان کی ہے جو دوزخ کے پُل سے گزر گئے۔
عید ان کی نہیں جو کھانے پینے میں مشغول ہوگئے‘ عید ان لوگوں کی ہے جنھوں نے اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کیا۔
اللہ رب العزت اُمت مسلمہ کوحقیقی عید سے ہم کنار فرمائے۔ آمین!
ہم بچپن سے سنتے آئے ہیںکہ صبر کرو۔ اگر دین دارگھرانہ ہو تو اس پر جو بھی مشکل یا مصیبت آن پڑے‘ اس پر والدین کی طرف سے یہی نصیحت کانوں میں پڑتی ہے کہ صبر کرنا چاہیے۔ اگر کوئی عام گھرانہ ہو ‘ تب بھی جب کوئی بڑا حادثہ پیش آجائے‘ یاکوئی عزیز دنیا سے رخصت ہو جائے ‘ تو ہرآنے جانے والا شخص یہی کہتاہے کہ صبر کریں‘ اللہ کی مرضی کے آگے کوئی دم نہیں مار سکتا۔ یہ ہمارا صبر سے ابتدائی تعارف ہے جو بچپن ہی سے گھروں میں ہو جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آدمی دنیا میں کچھ بھی حاصل کرنا چاہے‘ اس کے لیے محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر آدمی جانتاہے کہ زندگی بسر کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ جس کو اللہ نے سب کچھ دے رکھا ہو‘ اس کی زندگی بھی ہزاروں اندیشوں اور پریشانیوں سے دو چار ہوتی ہے۔ ہر آدمی اس چیز کی طلب میں رہتاہے جو اس کے پاس نہیں ہوتی‘ اور ہر اس چیز کا رنج و غم کرتاہے جو اس کے ہاتھ نہیں آسکتی۔ یہ کیفیت اس کی بھی ہے جو دنیا میں بہت کچھ رکھتاہو اور اس کی بھی جس کے پاس کچھ نہ ہو۔ اسی طرح کوئی بھی مقصد زندگی اگر سامنے ہو‘ کوئی بھی خواہش پوری کرنی ہو تو ہم سب جانتے ہیں کہ اس کے لیے لگن سے کام اور محنت کرنی پڑتی ہے۔ راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنی پڑتی ہیں اور ان پر قابو پانا ہوتا ہے۔ اگر ترغیبات راستے سے ہٹانا چاہیں تو ان کا بھی مقابلہ کرنا پڑتاہے۔ مثال کے طورپر اگر کسی کو ڈاکٹر بننا ہے تو اس کے لیے اسے محنت کرنا پڑتی ہے‘ راتوں کی نیند قربان کرنا پڑتی ہے اور بہت سی خواہشات اور تمنائوں کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے‘ تب کہیں جا کر ڈاکٹر بنا جاتاہے۔
صبر کے کئی مفہوم ہیں‘مثلاً کسی کام کو جم کر کرنا‘ حوصلے سے کرنا‘ عقل کے ساتھ کرنا۔ کہیں پہنچنا ہو تو اس کے لیے اس استعداد کی ضرورت ہوتی ہے جس کو ہم صبر کے نام سے پکارتے ہیں۔
صبر کے لغوی معنی عربی زبان میں روکنے اور باندھنے کے‘ یا برداشت کرنے اور سہنے کے ہیں۔ کسی بھی چیز کے ساتھ اگر آدمی اپنے آپ کو باندھ لے اور اس کے اوپر جم جائے تو یہ صبر ہے۔ یہ بھی صبر ہے کہ انسان کے سامنے جو بھی مقصد ہو یامنزل سر کرنا ہو‘ چاہے یہ مقصد دنیاوی ہو یا اعلیٰ و ارفع کوئی اخلاقی مقصد‘ آدمی اپنے مقصد پر جم جائے اور یہ عزم کرلے کہ جوبھی رکاوٹیں ہوںگی انھیںخاطر میں نہیں لائے گا‘ خواہ وہ تکلیف کی صورت میں نمودار ہوں یا ترغیب کی صورت میں۔ یہ مشکلات اور رکاوٹیں باہر سے ہوں‘ یا اپنے اندر سے‘ یا کوئی راہ میںمسائل پیدا کردے‘ لیکن انسان اپنے مقصد پر جما رہے۔ کبھی حوصلہ پست ہونے لگے‘ یا مایوسی ہونے لگے‘ کبھی محنت سے دل گھبرانے لگے‘ مستقل کام کرتے ہوئے اُکتاہٹ ہونے لگے‘ اس کے باوجود کام کرتے رہنا‘ یہ بھی صبر ہے۔ گویا روکنے اور باندھنے اورسہارنے کے معنوں میں صبر کا لفظ استعمال ہوتاہے۔
اگر قرآن مجید کھول کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ تو ایک ایسی صفت ہے اور ایسی استعداد ہے جس کے ذکر سے قرآن مجید بھراہوا ہے۔ وہ جگہ جگہ اس کی ہدایت کرتاہے‘ اور اس کے مختلف پہلو بیان کرتاچلا جاتاہے۔ دنیا کے کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان جم کے کام کرے‘ رکاوٹوں کو خاطر میں نہ لائے اور ترغیبات کے اوپرقابو پائے۔ لالچ ہو یا خوف‘ خوشی ہو یا غم‘ مایوسی ہو یا کم ہمتی‘ سب کے اوپر قابو پائے۔ دنیا کے اندر اس کا کوئی کاروبار چلتاہے‘ کسی نوکری میں اونچا مقام ملتا ہے‘ تعلیم کے میدان میںکوئی کامیابی ملتی ہے‘ گھر کی بنیاد رکھی جائے یا تعمیر کیا جائے یا اور بہت سے کام ہوں‘ ان سب کے لیے صبر کی صفت ضروری ہے۔
قرآن مجید ایک ایسی منزل کی دعوت دینے کے لیے آیا ہے اور ایک ایسی نعمت عطاکرتاہے جو بالکل مختلف ہے۔ دنیا میں جتنی بھی منازل ہیں‘ جتنی بھی خواہشات ہیں‘ جتنی بھی چیزیں ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ وہ اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ اس لیے کہ وہ ایک ابدی نعمت‘ ہمیشہ کی نعمت‘ یعنی جنت اور رضاے الٰہی کی طرف پکارتا ہے۔ اس لحاظ سے سب سے بڑھ کر صبر کی ضرورت اسی راستے کے لیے ہے۔ جتنی اعلیٰ منزل ہوگی‘ اتنی ہی محنت کرنا پڑے گی اور اتنا ہی گرنے کا ڈر بھی ہوگا‘اور اتنی ہی زیادہ راہ میں رکاوٹیں بھی حائل ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح ترغیبات اور وسوسے بھی باربار سامنے آئیں گے کہ شاید پیچھے رہ جانے میں ہی فائدہ تھا‘ یاآگے بڑھنے کی محنت خواہ مخواہ مول لی وغیرہ۔
یہ وہ مختلف نفسیاتی کیفیات ہیں جو کسی بھی اعلیٰ مقام تک پہنچنے کے لیے ہمارے راستے میں حائل ہوتی ہیں۔ جب منزل وہ ہو جس کی وسعت میں آسمان اور زمین سماجائیں تو ظاہر ہے کہ اسی پیمانے سے مشکلیں‘ رکاوٹیں‘ مصائب اور ترغیبات سامنے آسکتی ہیں۔ وہ ساری نفسیاتی کیفیات اور جسمانی مصائب جو دوسرے مقاصد تک پہنچنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں وہ اس حیثیت میں کئی گنا زیادہ پیش آتے ہیں۔ اسی لیے جب قرآن مجید نازل ہوا تو شروع ہی میں جو بنیادی ہدایات اس نے اپنے لانے والے کو دیں‘وہ یہی تھیں کہ وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ (المدثر۷۴:۷) ’’ اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو۔‘‘ پھر چند دن کے بعد دوسری وحی نازل ہوئی: وَاصْبِرْعَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاھْجُُرْ ھُمْ ھَجْرًا جَمِیْلًا o (المزمل۷۳:۱۰) ’’اور جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں‘ ان پر صبر کرو اور شرافت کے ساتھ ان سے الگ ہو جائو‘‘،یعنی مخالفین جو بھی باتیں بنار ہے ہیں‘ تمھیں جھٹلا رہے ہیں‘ مذاق اڑا رہے ہیں‘ پروپیگنڈا کررہے ہیں‘ اس پر صبر کرو اور راہِ خدا میں جمے رہو۔ ان لوگوں کو چھوڑ دو اور چھوڑو بھی اچھے اور بھلے طریقے سے۔ یہ دوسری ہدایت سورۂ مزمل کی ہے اور پہلی سورۂ مدثر کی۔ یہ بالکل ابتدائی دنوں میں دی جانے والی ہدایات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کو دیں۔ اس کے بعد دین کی راہ پر آگے بڑھنے کے ہر ہر مرحلے میں یہ ہدایات بار بار دہرائی جاتی رہیں۔
مکی دور مظالم کا دور تھا۔ مخالفین پر ہاتھ اٹھائے بغیر سہنے اور برداشت کرنے کا دور تھا۔ جسمانی مصائب اور تکالیف اٹھانے کا دور تھا۔ جب مدنی دور آیا تو ہاتھ اٹھانے کا زمانہ آیا‘ اس میں جنگ کی نوبت آئی اور جہاد کا راستہ کھلا۔ اگرچہ اس دور میں ہاتھ اٹھانے اور مقابلہ کرنے کی اجازت تھی مگر اس میں بھی جان و مال کا خطرہ موجود تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جب جہاد کی اجازت دی تو ساتھ ہی یہ ہدایت بھی فرمائی:
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo (البقرۃ ۲:۱۵۵) اورہم ضرورتمھیں خوف و خطر‘ فاقہ کشی‘ جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمھاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریںان کے لیے بشارت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی ؑ اور دوسرے انبیا ؑ کو بھی صبر کی ہدایت کی۔ اس میں بھی یہ دو چیزیں موجود تھیںکہ راہ میں آنے والے مصائب پر صبر اور نمازکی روش‘ کامیابی کی روش ہے۔ اگرکوئی کنجیاں ہیں جو راستہ کھولتی چلی جائیں‘ جس سے راہ آسان ہوتی جائے‘ منزل قریب آئے‘ مشکلات کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور استعداد پیدا ہو‘ تووہ صبراور صلوٰۃ ہیں۔ سب انبیا ؑ نے اپنی اُمتوں کو انھی دوچیزوں کی نصیحت کی۔ قرآن مجید میں بھی تین جگہ پر مختلف انداز میں یہ بات دہرائی گئی ہے:وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِط (البقرۃ ۲:۴۵) ’’ صبر اور نماز سے مدد لو‘‘۔ گویاجو راستہ تمھارے سامنے ہے‘ اللہ کی بندگی اور اللہ کی رضا کے حصول کا راستہ‘ اللہ کی جنت تک پہنچنے کا راستہ‘ یہ راہ صبر اور نمازکے ذریعے ہی طے ہو سکتی ہے۔ نماز اور صبر کا کیا تعلق ہے‘ اس کا ذکر آگے آئے گا۔
قرآن مجید میں اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا اور آخرت کی ساری بھلائیاں صبر اور تقویٰ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ البتہ ایسا محسوس ہوتاہے کہ اس تقویٰ کو اختیار کرنے کے لیے نفس کے اندر جس صلاحیت‘ تربیت اور استعداد کی ضرورت ہے‘ اس کا نام صبر ہے۔ آدمی ان چیزوں سے رک جائے جو اللہ کو ناراض کرنے والی ہیں‘ ان تمام نفسیاتی کیفیات کے مقابلے میں ڈٹا رہے جو انسان کے نفس کے اندر سے پیدا ہوتی ہیں‘ ان ساری رکاوٹوں کے مقابلے میں بھی اللہ کی راہ پر جما رہے جو باہر سے آتی ہیں‘ اس تقویٰ کے حصول کے لیے قوت کا خزانہ اور سرچشمہ صبر ہے۔ اسی لیے تقویٰ کے ساتھ صبر کا ذکر لازماً اور بڑی کثرت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ایک مقام پر فرمایا گیا کہ مخالفین تمھارے خلاف جو تدبیریں اور ہتھکنڈے اختیار کررہے ہیں‘ ان کے مقابلے کے لیے صبر اور تقویٰ اختیار کرو۔
وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُ ھُمْ شَیْئًا ط(اٰل عمرٰن ۳:۱۲۰) ان کی کوئی تدبیر تمھارے خلاف کارگر نہیں ہو سکتی بشرطے کہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔
قرآن بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بھی زمین میں جن کو امامت عطا فرمائی‘ یہ وہی لوگ تھے جو صبر میں سچے اور کھرے ثابت ہوئے۔
حضرت ابراہیم ؑ کو دنیا کی امامت اس وقت ملی جب انھوں نے اپنے بیٹے کے گلے پر چھری رکھی۔ یہ مرحلہ بھی بڑے صبر کا متقاضی تھا۔ بیٹے نے بھی کمال سعادت مندی کے ساتھ کہا: یٰٓـاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ز سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَo (الصّٰفّٰت ۳۷:۱۰۲) ’’اباجان، جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کرڈالیے‘ آپ ان شاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘۔
بنی اسرائیل کا ذکر آیا کہ مستضعفین تھے‘ غلام تھے‘ فرعون کے شکنجے میں کسے ہوئے تھے‘ اس کے ظلم و جبر کے تحت پس رہے تھے لیکن ہم نے ان کو مشرق و مغرب کی زمینوں کا مالک بنادیا۔ بنی اسرائیل سے خلافت کا وعدہ اس لیے پورا ہوا کہ انھوں نے صبر کیا۔ جب وہ ان سارے مصائب کے مقابلے میں جمے رہے‘ جہاد کیا اور قربانیاں دیں‘ تو اللہ تعالیٰ نے مشرق ومغرب کی خلافت اور حکمرانی ان کے سپرد کردی۔ وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ لا بِمَا صَبَرُوْا o (اعراف ۷:۱۳۷) ’’اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدۂ خیر پورا ہوا کیونکہ انھوں نے صبر سے کام لیا تھا‘‘۔
اسی طرح جنت کے بارے میں قرآن واضح طور پر بیان کرتاہے کہ یہ ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو صبر کی روش اختیار کرتے ہیں۔ وجَزٰ ھُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّۃً وَّحَرِیْرًا o (الدھر ۷۶:۱۲) ’’اور ان کے صبر کے بدلے میں انھیں جنت اور ریشمی لباس عطاکرے گا‘‘۔ایک دوسری جگہ یہ بات مختلف انداز میں بیان کی گئی ہے: اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍo (الزمر ۳۹:۱۰)’’ صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ ہم نے تم سے پہلے بھی اہلِ کتاب کو اس کی ہدایت کی تھی اور تم کو بھی اسی کی ہدایت کی ہے کہ صبر کی روش اختیار کرو۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ برائی کے جواب میں جمے رہنا‘ اشتعال میں نہ آنا‘ مخالفتوں کے مقابلے میں اپنے آپ پر قابو رکھنا‘ ہمت نہ ہارنا‘ حوصلہ نہ چھوڑنا‘ مایوسی کا شکار نہ ہونا‘ اور اشتعال میں آئے بغیر برائی کے جواب میں بھلائی کے راستے پر چلنا‘ صبر کے بغیر ممکن نہیں۔ جب انسان نیکی کا حکم دے گا اور منکر سے روکے گا تو یہ اس کے کام آئے گا۔ یہی عزیمت ہے کہ آدمی حالات و مصائب کا جم کر مقابلہ کرے۔یہ حکم‘ یہ ہدایت‘ یہ تاکید‘ کہ صبر کرو‘ اس لیے بھی ہے کہ اس کے بغیر دین کا راستہ طے نہیں ہو سکتا۔ اس راستے میں اس کے بغیر قدم آگے نہیں بڑھ سکتے۔
صبر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگائیے کہ حضرت لقمان نے جب اپنے بیٹے کو نصیحت کی تو اس کو دوسری ہدایات کے ساتھ صبر کی بھی تلقین کی کہ یہ بڑے عزم وحوصلے کا کام ہے:
یٰـبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ ط اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِo (لقمٰن ۳۱:۱۷) بیٹا! نماز قائم کر‘ نیکی کا حکم دے‘ بدی سے منع کر‘ اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبرکر۔ یہ بڑے حوصلے کے کاموں میں سے ہے۔
آپ غور کریں کہ آیت کا آغاز نماز سے ہوا اور اختتام صبر پر۔ قرآن مجید میں نماز اور صبر دونوں کا ساتھ ساتھ ذکر آتاہے۔ اسی طرح جہاں بھی صبر کا ذکر آئے گا کسی نہ کسی طرح اللہ تعالیٰ کا نام بھی آئے گا‘ اللہ کا ذکر آئے گا‘ اللہ کی تسبیح کا حکم آئے گا اور اللہ کے قریب ہونے کا ذکر آئے گا۔ اس لیے کہ قرآن مجید کی تعلیم کی رو سے ایک مومن کے لیے اللہ پر ایمان اور اللہ کی ذات کے ساتھ تعلق صبر کا سرچشمہ ہے۔ اسی طرح قرآن میں جہاں بھی جہاد کا ذکر آیا ہے وہاں صبر کا ذکر بھی ساتھ آیا ہے کہ اللہ یہ آزما کر رہے گاکہ کون مجاہدہ کرتاہے اور کون اس کی راہ میں صبر کرتاہے۔
اگر صبرکے یہ معنی ہوں تو اس سے ایک بات بڑی صاف اور واضح ہو جاتی ہے کہ بچپن سے جو کچھ ہم سنتے چلے آئے ہیں وہ اس کا صرف ایک پہلو ہے۔ یہ کہ جب بے بس ہو جائیں‘ معاملہ ہاتھ سے نکل جائے‘ ڈاکٹر جواب دے دیں‘ موت کا فرشتہ آجائے اور جان نکال لے جائے‘ تب دم مارنے کی مجال نہیں ہے۔ ایسے موقع پر اس کے علاوہ کیا چارہ ہے کہ صبر کیا جائے۔ لیکن قرآن مجید میں صبر کا جوبیان ہے اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ بے بسی کی خاموشی یا بے کسی کا نام صبر نہیں ہے‘ یا قابو نہ ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کرپانا صبرنہیں ہے۔ کچھ کرنے اور کچھ کہنے کا حوصلہ بھی ہو‘ اس کے باوجود انسان اس سے رک جائے‘ یہ صبر ہے۔ کسی کام کے کرنے کی استعداد ہو‘ خواہش بھی موجود ہو لیکن آدمی اس کے مقابلے پر جم جائے۔ صبر بزدلوں یا کم حوصلہ لوگوں کا کام نہیں بلکہ صبر تو بڑی ہمت، بڑی جرأت، بڑی بہادری اور عزم وحوصلے کا مطالبہ کرتاہے۔ اسی لیے قرآن مجید نے بار بار کہا ہے کہ جو صبر کرتے ہیں اور قدرت رکھنے کے باوجود معاف کردیتے ہیں‘ اور برائی کا جواب بھلائی سے دیتے ہیںکہ یہ بڑے عزم وحوصلے کا کام ہے۔
وَلَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِo (الشورٰی ۴۲:۴۳) البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور درگزر کرے‘ تو یہ بڑی اولو العزمی کے کاموں میں سے ہے۔
ہم دیکھیں گے کہ صبر بے بسی کا نام نہیں ہے بلکہ صبربدلہ لینے کی استعداد اور ترغیب کا شکار ہو جانے کے باوجود اپنے مقام پر جمے رہنے کا نام ہے۔ مکی زندگی میں اگر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں تھی تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ہاتھ اٹھا نہیں سکتے تھے‘ بلکہ وہ سب لڑنا جانتے تھے اور مدینہ جاکر انھی لوگوں نے دکھایا بھی کہ وہ کس جواں مردی سے لڑنا جانتے ہیں۔ اس زمانے میں کوئی مسلح فوجیں نہیں تھیں۔ ہر ایک کے پاس تلوار ہواکرتی تھی اور ہر ایک لڑائی میں حصہ لیتا تھا۔ عرب معاشرے کے اندر اگر کوئی توہین و تذلیل کرے‘ بے عزتی کرے‘ قبیلے کے کسی آدمی کے اوپر ہاتھ ڈال دے یا کوئی خون ہو جائے‘ تو برسوں بلکہ ایک ایک سو سال تک خون در خون انتقام کا سلسلہ چلتا رہتاتھا۔ ان کے لیے یہ اجنبی بات نہیں تھی کہ آن بان اور عزت کی خاطرمرمٹیں اور اپنے قبیلے کے خون کا بدلہ لیں۔لہٰذا مکے میں جو کچھ کیا گیا وہ بے بسی کا صبر نہیں تھا بلکہ ایک سوچا سمجھا راستہ تھا۔ اس کی بنیاد میں بہت ساری چیزیں پوشیدہ تھیں‘ جن کی یہاں وضاحت کی ضرورت نہیں۔ البتہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ صبر بے بسی‘لاچاری یا بزدلی کی وجہ سے نہیں تھا۔
صبر کا حقیقی مقام یہ ہے کہ آدمی اپنے مقاصد کی خاطر جم جائے اور پورے عزم وحوصلے سے مال بھی قربان کرے اور جان بھی کھپائے اور ضرورت پڑنے پر جان دینے سے بھی دریغ نہ کرے۔
یہ شاید صبر کی بڑی مختصر تعریف ہے جو قرآن مجید میں موجود ہے اور جس کو میں نے بڑی تفصیل کے ساتھ بغیر کسی حوالے کے بیان کیا ہے۔ گویا کہ آدمی کے اپنے اندر سے جو ترغیبات اٹھتی ہیں‘جو خواہشات سراٹھاتی ہیں‘ جو نفسیاتی کیفیات ہوں اور جو باہر سے رکاوٹیں آئیں‘ ترغیبات ہوں‘ کوئی دولت کا لالچ دے یا جان کا خوف حائل ہو جائے‘ ان سب کے مقابلے میں اپنے مقام پر جمے رہنا‘ اپنے مقصد کے ساتھ وابستہ رہنا‘ اپنے مقصد کے حصول کے لیے کوشش جاری رکھنا---یہی دراصل صبر ہے۔
صبر ایک جامع اصطلاح ہے۔ اس کے مختلف پہلوہیں اور ان کو پیش نظر رکھنا چاہیے تاکہ یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجائے کہ قرآن مجید کن کن حوالوں سے صبر کا مطالبہ کرتاہے۔
روزمرہ زندگی میں انسان کو جو بھی رکاوٹیں پیش آسکتی ہیں ان کو ہم بنیادی طورپر دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک مادی رکاوٹیں‘ اور دوسری نفسیاتی رکاوٹیں ۔
مادی رکاوٹوں کے کئی پہلو ہیں۔ کوئی مشکل پڑ جائے‘ کوئی نقصان ہوجائے‘ کوئی بڑی خواہش پوری نہ ہو‘ اور کوئی لالچ بھی ہو سکتاہے۔ جب ہم رکاوٹ کا لفظ بولتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں کسی قسم کی مزاحمت ہوگی۔ کوئی بھی شے اپنی طرف کھینچ سکتی ہے۔ کسی بھی چیز کی کشش ہو سکتی ہے۔ یہ وہ مادی رکاوٹیں ہیں جن کا تعلق آدمی کے جسم وجان اور مال سے ہے۔
دوسری قسم کی رکاوٹیں نفسیاتی ہیں۔ ان کی جڑ آدمی کے اپنے اندر‘ اس کے نفس کے اندر اور اس کے دل و دماغ کے اندر ہوتی ہے۔ یہاں جو چیزیں اٹھتی ہیں وہ اس کو راستے سے ہٹاتی ہیں۔ اس کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں‘ اس کو ترغیب دیتی ہیں‘ اس کے اندر خواہشات پیداکرتی ہیں اور وسوسہ ڈالتی ہیں۔ یہ رکاوٹیں اس طرح کی ہوسکتی ہیں کہ: ایسا کرو گے تو یہ ہوجائے گا‘ جیب سے پیسہ نکالو گے تو تمھارے پاس کچھ نہیں بچے گا اور تم فقیر اور نادار ہو جائو گے‘ لہٰذا جیب مت کھولو۔ یہ سارے وسوسے جو اندر سے پیدا ہوتے ہیں‘ یہ نفسیاتی رکاوٹیں ہیں۔
اگر غور کیا جائے تو فی الواقع اصل چیز وہی ہے جو آدمی کے اندر پیدا ہوتی ہے‘ لہٰذا اصل رکاوٹیں نفسیاتی رکاوٹیں ہیں۔ مادی مصائب‘ مادی ترغیبات اور مادی رکاوٹوں کی بھی اصل جڑ آدمی کے نفس کے اندر ہوتی ہے۔ اگر ڈھیر سامال کسی کو مل جائے‘ اس کی نظر میں اس مال کی قیمت پتھر کے چند ریزوں سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اگر اس کا نقطۂ نظر صحیح ہو‘ اگر اس کو موت کے منہ میں جانا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ موت نہیں ہے بلکہ یہ تو جنت او راللہ تعالیٰ سے ملاقات کا نام ہے‘ تو موت کا خوف اس کے دل میں نہ رہے گا۔ بڑی سے بڑی چوٹ آدمی کو لگتی ہے مگر اپنے اندر کے حوصلے سے‘ اپنے اندر کی نفسیاتی کیفیات سے وہ اسے سہار جاتاہے۔ دوسری طرف ذرا سی مصیبت پڑتی ہے تو آدمی ہمت ہار دیتاہے اوررونا دھونا شروع کردیتاہے۔ اس کا تعلق مصیبت کی مقدار یا آزمایش کی نوعیت سے نہیں ہے کہ آدمی کو کس چیزکا مقابلہ کرنا ہے بلکہ اس کا تعلق اس کے ذہن سے ہے۔ دراصل طاقت کا سرچشمہ انسانی ذہن کے اندر پوشیدہ ہے۔
یہ انسانی سوچ اور جذبہ یا نفسیاتی کیفیت ہی ہے جو اسے دلیر‘ نڈر اور بے باک بنا دیتی ہے‘ یا خوف اور ڈر سے پست ہمت یا بزدل۔ ایک کیفیت کے تحت وہ بڑا طاقت ور بن جاتا ہے۔ ایک ایک سپاہی سو سو سپاہیوں کے مقابلے میں ڈٹ جاتا ہے‘ اگرچہ مادی و عسکری لحاظ سے وہ مقابلتاً کمزور ہوتاہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس کے پاس زیادہ مادی طاقت ہے بلکہ اس کی نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے جو اسے نڈر اور بے باک بنادیتی ہے۔ دوسری طرف یہ احساس کہ ہمارے اوپر مصیبت پڑسکتی ہے‘ یہ ایک دوسری نفسیاتی کیفیت ہے جو ایک فرد کی طاقت کو ختم کرکے رکھ دیتی ہے۔ وہ بہت سے وسائل رکھنے کے باوجود اور بہت کچھ کرگزرنے کی صلاحیت کا متحمل ہونے کے باوجود‘ حوصلہ و ہمت ہار دیتاہے اور عملاً ناکامی وشکست سے دو چار ہوکر رہتاہے۔(جاری)
گوانتاناموبے ‘ کیوبا کے جنوب مشرق میں واقع ایک ۴۵ مربع میل جزیرے کا نام ہے ۔ ۱۹۰۳ء میں امریکا نے اس جزیرے کو کیوبا سے اجا رے پر لے کر یہاں ایک بحری فوجی اڈا قائم کیا جو تاحال قائم ہے ۔
ناین الیون کے سانحے کے بعد ہر اس فرد کو جو انصاف اور امن پر یقین رکھتا تھا ‘یہ امید تھی کہ امریکی حکومت سائنسی بنیادوں پر اس جرم کی تفتیش کرے گی‘ مکمل ثبوتوں اور شہادتوں کی روشنی میں ملزموں کو صفائی کا پورا موقع دے گی اور جرم ثابت ہو نے پرقرار واقعی سزا د ی جائے گی۔ اب پانچ سال بعد جو حقائق سامنے آرہے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ ایسا کیوں نہیں ہوا‘ اور ایسا کیوں ہوا کہ ناین الیون کے وقوعے کے چند لمحوں بعد امریکا کے صہیونی نواز میڈیانے اعلان کر دیا کہ اس واقعے میں مسلمان ملوث ہیں‘ اور دو تین روز بعد امریکی صدر جارج بش نے اسلام کو نشانے پر لے کر صلیبی جنگوں کا اعلان کر دیا (بعد میں اس جنگ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا)۔ ساتھ ہی تباہی و بربادی ‘ آگ اور خون اورظلم و بربریت کا ایک نہ ختم ہو نے والا ایک ایسا سلسلہ شروع کر دیا گیا کہ دنیا ناین الیون کو بھول گئی ۔ چنگیزخان ‘ ہٹلر ‘ مسولینی ‘ پول پاٹ ‘ ملاسووچ اور ایرل شیرون جیسے سکّہ بند قاتل صدر بش کے سامنے بونے نظر آنے لگے ۔
مسٹربش کی اس شہرت میں یوں تو بہت سے واقعات اور کرداروں نے اہم کردار ادا کیا ہے‘ لیکن اس کی سرپرستی میں چلنے والے بدنام زمانہ قیدخانے گوا نتا ناموبے کو انسانیت کی تذلیل کے حوالے سے اہم مقام حاصل ہے۔
اس قید خانے کے تنگ و تاریک عقوبت خانوں اور اس سے قبل قندھار اور با گرام کے مذبح خانوں میں ‘ سورج کی روشنی اور تازہ ہوا کی لمس محسوس کیے بغیر زندگی کے تین سال گزار کر آنے والے ایک پاکستانی نژاد بر طانوی مسلمان معظم بیگ کی یادداشتوں پر مبنی ایک جامع خود نوشت٭ کا یہاں مختصر مطالعہ پیش کیا جا رہا ہے ۔ یہ کتاب ‘ ایک تاریخی دستاویز ہے۔ پاکستان میں کئی قیدی واپس آئے ہیں لیکن ابھی تک کسی نے اس نوعیت کی خودنوشت شائع نہیں کی ہے۔
اس کتاب کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ مصنف کے ساتھ پہلے دن سے لے کر آخری روز تک جو کچھ گزری ‘ اس کو اس نے پوری جرأت اور دانش سے قلم بند کردیا ہے۔اس کتاب کے مطالعے سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ امریکا اور ان کے اتحادیو ں کی نظر میں مشکوک بننے کے بعد وہ کیسے چند ڈالروں کے عوض بیچا گیا ‘ پھر اسلام آباد ‘ قندھار اور باگرام میںکس کس انداز سے ’روشن خیال‘ مسلم حکمرانوں کی عزت افزائی کا مستحق ٹھیرا ۔ ساتھ ہی ان ممالک میں متعین امریکی فوجیوں کی ذہنیت سے بھی واقفیت حاصل ہوتی ہے۔
مصنف کے آباو اجداد پاکستانی تھے۔ ان کے والد بر طانیہ میں ایک بنک کار کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں ۔ گھر میں ایک علمی اور ادبی ماحول میسر آنے اور اچھی تربیت پانے کی وجہ سے معظم کی علمی استعداد ہمیشہ سے نمایاں رہی اور وہ معاشرے اور ہم جولیوں میں پائی جانے والی بہت سی برائیوں سے بچ گیا ۔ مصنف میں تبدیلی کے لیے جن واقعات نے اہم کردار ادا کیا‘ ان میں"Paki Go Home"ـ جیسے اشتعال انگیز نعرے‘ نیشنل فرنٹ کے گوروں کے ہاتھوں ایشیائی باشندوںکی بلا وجہ مار پیٹ‘ اور پردہ یا حجاب میں ملبوس مسلمان خواتین کے ساتھ بدتمیزی کے مشاہدات شامل تھے۔
اپنی تاریخ‘ اور شناخت کی خاطر وہ ایک دن سکول میں پہننے والی جیکٹ پر پاکستان کا سبزہلالی جھنڈا سلواتا ہے جس کو دیکھ کر استادحکم دیتا ہے کہ اسے جیکٹ سے اتاردو‘ لیکن وہ استاد کا یہ ناجائز مطالبہ ما ننے سے انکار کردیتا ہے ۔ مصنف نے اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ اس کے اندر ظالم کے مقابلے میں مظلوم کی حمایت کے لیے آواز بلند کرنے کی خوبی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے ۔ اس کے دل میں فلسطین کی گلیوںمیںاسرائیل کے دیوہیکل ٹینکوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے والے گمنام اورمعصوم کرداروں کے لیے بڑا احترام ہے۔
بچپن میں وہ اسلام پر عمل کر نے میں اس قدر فعال دکھائی نہیں دیتا لیکن ۹۰ کے عشرے کے آغازمیں پہلی خلیجی جنگ اور بوسنیا ہرذی گووینا میں ہونے والے قتل عام پر امریکا ‘ مغرب اور بالخصوص برطانیہ کی سرد مہری اور خاموشی ‘اس کے ضمیر کو بیدار کر نے کا باعث بنتی ہے۔ اب وہ ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے کہ جہاں ضمیر یا اپنے وطن بر طانیہ میں سے کسی ایک کو انتخاب کرنے کا سوال ہے ۔ بالآخر وطنیت کے مقابلے میں ضمیر جیت جا تا ہے اور وہ پاکستان آتا ہے ۔کچھ دوستوں کے ساتھ جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ کو دیکھتا ہے اور اپنے منصوبے کے مطابق افغانستان جاتا ہے۔ وہاں پر کشمیری مجاہدین کے ایک تربیتی مرکز الفجر میں کچھ دن گزارتا ہے ۔ یہاںپرکشمیری مہاجرین اس کو بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیر میں پیدا ہونے والی خوف ناک صورت حال اور اس بارے میں اقوام متحدہ کی خاموشی کے بارے میں تفصیل سے بتا تے ہیں ۔
مصنف یہاں پر تربیت پانے والے لوگوںکے سادہ طرز زندگی اور اسلام سے والہانہ محبت سے بہت متاثر ہو تا ہے ۔ اس کے بعد وہ بوسنیا کے مسلمانوں کی عملی مدد کے لیے کئی بار ادویات اور اشیاے خوردونوش لے کر جا تا ہے۔ وہاں پر ہونے والی تباہی اور بربادی کا بہ چشم خود مشاہدہ کرتا ہے۔ بوسنیا کی مسلمانوں کی مدد کے لیے دنیا بھر سے آئے ہوئے مجاہدین سے ملاقاتیں ہوتی ہیں اور بعد میں امن معا ہدے کے با وجود سرب اور کروٹس کے مقا بلے میں بوسنیا کا دفاع کرنے والے کمانڈروں کو ایک ایک کرکے قتل کرنے کے واقعات اس کی زندگی پر دور رس اثرات ڈالنے کا باعث بنتے ہیں۔پھر روس کے ہاتھوں چیچنیا میں جاری کشت وخون کے بارے میں جان کر وہ اپنے ایک دوسرے دوست کے ہمراہ کچھ نقدی اور سامان لے کر ترکی کے راستے چیچنیا جانے کی کوشش کرتا ہے لیکن جارجیا کی سرحد سے واپس کردیا جا تا ہے۔وہاں سے چیچنیا کے وزیر خارجہ کے ہاتھ عطیات بھجوا کر ترکی سے واپس بر طانیہ آتا ہے ۔
اب وہ افغانستان میں بچیوں کے لیے کچھ اسکول کھو لنے کے ساتھ ساتھ پینے کے لیے صاف پانی کی فراہمی کی غرض سے دستی نلکے لگا نے‘ کنویں کھودنے اور زمینوں کو سیراب کر نے کے لیے بڑی بڑی مشینیں لگانے جیسے فلاحی کاموں کی طرف پوری یکسوئی کے ساتھ متو جہ ہوتا ہے ۔ اس مقصد کے لیے وہ بر طانیہ میں دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر عطیات جمع کرتا ہے۔
۲۰۰۱ء کے وسط میں وہ اپنے بیوی بچوں سمیت برمنگھم سے کابل منتقل ہوتا ہے تاکہ رفاہی منصوبوں کی براہ راست نگرانی کی جاسکے ۔ اسی دوران ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا سانحہ ہو تا ہے اور تقریبا ًچند ہفتوں بعد افغانستان امریکی بم باری کی زد میں آجا تا ہے۔وہ بم باری اور حملوں کے خوف سے اپنے بچوں کو لوگر لے کر آتا ہے اور پھر تین ہفتے کے لیے وہ اپنے بیوی بچوں سے بچھڑجا تا ہے ۔ بالآخر بڑی مشکل سے ان کے بیوی بچے کسی نہ کسی طریقے سے اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ یہاں پر وہ ایک گھرمیں قیام کر لیتا ہے‘ جہاں سے کچھ مہینوں کے بعد رات کی تاریکی میں امریکی اور پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکار اسے اغوا کر کے کچھ وقت کے لیے پاکستان میں رکھتے اور پھر افغانستان میں واقع ایک تفتیشی مرکز قندھار منتقل کردیتے ہیں ‘ جہاں سے وہ باگرام اور پھر وہاں سے گوانتا ناموبے پہنچا دیا جا تا ہے۔
گوانتاناموبے کا یہ قیدخانہ بنیادی طور پر تین بڑے بڑے حصوں پر مشتمل ہے: پہلا حصہ کیمپ ڈیلٹا (Dalta) ہے۔ یہ سب سے بڑا اور مرکزی کیمپ ہے جس کو فروری سے لے کر اپریل ۲۰۰۲ء کے درمیان تعمیر کیا گیا۔ اس میں قیدیوں کو رکھنے کے لیے چھے بڑے ہال اور کیمپ ایکو (Echo) کے نام سے ایک الگ قید خانہ ہے ۔ ایکوکیمپ میں رکھے جانے والے قیدی کو صرف اپنی آواز کی گونج کے علاوہ کسی اور ذی روح کی آواز سنائی نہیں دیتی ۔اس میں کسی کھڑکی کے بغیر کنکریٹ سے بنی ہوئی چھوٹی چھوٹی پنجرہ نما کوٹھڑیا ں ہوتی ہیں ‘ جس میں ایک عام قدوقامت والے انسان کے لیے سہولت کے ساتھ کھڑا ہو نا‘ بیٹھنا‘ یا لیٹنا ممکن نہیں رہتا ۔ہر کوٹھڑی میں لوہے کی چھوٹی سی چارپائی اور ایک ٹائلٹ ہوتا ہے ۔ ان کوٹھڑیوں میںدن رات تیز روشنی ہوتی ہے۔ یہاں پر صرف ایسے انتہائی اہم قیدیوں کو رکھا جا تا ہے جن کو امریکی صدر کے حکم سے جیل میں لگنے والی خصوصی فوجی عدالت کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے۔ نیز یہاں پر قیدیوں کو غیر سر کاری وکلا سے رابطے کی اجازت ہوتی ہے۔ مصنف نے ‘گوانتاناموبے میں دو سال اسی کیمپ ایکو‘ میں گزارے۔ اس قید خانے میں بڑے سخت فوجی قوانین نافذ ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں پر سرے سے کوئی قانون نہیں ہو گا۔ یہاں پر لا ئے جانے والے ہر فرد کو انسان کے بجاے گندی نالے کے کیڑے سے زیادہ بدتر ‘سانپ سے زیادہ خطر ناک اور ایک چھپکلی سے زیادہ کم ترسمجھا جاتاہے۔
کیمپ ایگوانا(Iguana) نسبتاً چھوٹا کیمپ ہے اور بڑے مرکزی کیمپ کے حدود میں سمندر کی جانب تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اس میں یاتوچھوٹی عمر کے قیدیوں رکھا جاتا ہے ‘ یا پھر ان قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جن کو فوجی کمیشن ’کم خطرناک ‘ یا بالکل بے گناہ قرار دے چکے ہوتے ہیں ۔ ان کو نہ تو امریکا جانے کی اجازت ہو تی ہے اور نہ بعض قا نونی پیچیدگیوںکی وجہ سے اپنے آبائی وطن بھیجا جا سکتا ہے۔ گویاان کو یہاں پر قا نونی طور سے معلق کر کے رکھا جا تا ہے ۔
کیمپ ایکسرے (X-Ray) تشدد اور بربریت کے لیے مشہور ہے جس میں چھ سات سو کے درمیان قیدیوں کو رکھا جا تا تھا ۔ جو لائی ۲۰۰۳ء میں یہاں ۶۸۰ قیدی موجود تھے۔ یہاں پر کسی بھی قیدی کو اپنے وکیل سے ملنے کی اجازت نہیں ۔ ان قیدیوں کو لمبے عرصے تک جاگنے پر مجبور کر نا‘ سخت گرمی یا سردی میں رکھنا‘ کان کے پردے پھاڑنے والے شور میں رکھنا‘ بدترین جسمانی تشدد کے مختلف طریقوں سے گزارنا‘ الٹا لٹکانا‘ تیزروشنی میں رکھنا ‘ عزت نفس کو مجروح کر نے کی مختلف تراکیب آزمانااور اس جیسی دیگر بے شمار اذیتیں دینا شامل ہیں ۔
اس کتاب سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ کا نہ تو کوئی نصب العین ہے اور نہ امریکا اور اس کے اتحادی کسی اصول اور ضابطے کے پابندہیں۔ جس اہم مو ضوع پر مصنف نے زیادہ زور دیا ہے وہ اس جنگ کی قانونی حیثیت ‘ قندھار ‘ باگرام اور گوانتاناموبے میں تسلسل کے ساتھ جاری انسانیت کی توہین ‘ اور جینوا کنونشن کی بے دھڑک پامالی ہے۔ مصنف کا قندھار اور باگرام میں جن قیدیوں سے ملنا ہوا ہے‘ تقریباً ان سب میں یہ قدرِ مشترک پائی جاتی ہے کہ ان کو یا تو محض شک‘ شباہت (شلوارقمیص ‘ داڑھی اور پگڑی ) کی بنا پر دھرلیاگیا‘ یا پھر افغانستان کے مختلف سرداروں اور پاکستان کے خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے ان کو ڈالر بنانے کے چکر میں اُن کے اپنے گھروں سے ‘ راستوں سے ‘ بازاروں سے یا خدمت خلق کے مراکز سے کسی ثبوت کے بغیر‘ عمر ‘ صحت‘جنس ‘ مذہب ‘ رنگ ‘ نسل ‘زبان ‘علم‘ امن پسندی پر مبنی سابقہ کردار اور شجرہ نسب دیکھے بغیر‘ اس حالت میں اُٹھا یا کہ‘ ان کے قریبی رشتہ داروں تک کو ان کے مردہ یا زندہ ہونے کے بارے میں ہفتوں ‘مہینوں اور برسوں تک کوئی خبر نہیں ملی ۔ گرفتار کرنے کے بعد ان سب کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر مکمل طو پریا نیم برہنہ کرکے آنکھوں پر پٹی کس دی جاتی ہے‘ اور پھرہاتھ پائوں باندھ کر بڑے بڑے دیوہیکل فوجی جہازوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح ایک دوسرے سے باندھ کر قندھار یا باگرام پہنچا دیا جا تا ہے۔
مصنف لکھتا ہے کہ جب مجھے قندھار ائرپورٹ پر اتا را گیا تو منہ پر بندھی ہو ئی پٹی کی وجہ سے مجھے سانس لینے میں سخت دقت پیش آرہی تھی۔ اس لیے میں نے ایک سپاہی سے اپیل کی کہ وہ پٹی ڈھیلی کردے ۔ جب وہ سپاہی پٹی ڈھیلی کر دیتا ہے تو میں احساس تشکر کی وجہ سے اس کو’ شکریہ‘ کہتا ہوں ۔ یہ سنتے ہی وہ فوجی غراتا ہوا واپس آتا ہے۔ مجھے ننگی گالی بکتاہے اور پٹی کو پہلے سے بھی سخت کس کر کہتا ہے کہ’’ کمزور ی دکھا کر تمھیں میری ہمدردی لینے کا کوئی حق نہیں ‘‘۔
قندھار اور باگرام پہنچتے ہی فو جی وردیوں میں ملبوس ‘ سوچنے کی صلاحیت سے مکمل طور پر عاری ‘عیسائی اور یہودی مذہبی جنونی ‘ ان بے گناہ قیدیوں کی چمڑی ادھیڑنے یا تکہ بوٹی کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں ۔ جیسے ہی یہ قیدی جہاز سے اتارے جاتے ہیں ‘ سب کو سر یا داڑھی کے بالوں سے پکڑ کر زمین پر گھسیٹتا جا تا ہے‘ پسلیوں میں پائوں کی ٹھوکریں ماری جاتی ہیں ‘ جسم کے نازک حصوں پر پلاسٹک کی موٹی موٹی لاٹھیوں سے ضربیں لگائی جاتی ہیں‘ گالیاں دی جاتی ہیں‘ خوف سے سہمے ہوئے ان قیدیوں کے سامنے اسلامی شعائر تو کیا خدا‘ قرآن اوررسول ؐکا بھی مذاق اڑا یا جا تا ہے ۔ قندھار ائرپورٹ پر اتارتے ہی جو امریکی حجام میرے سرکے بال مونڈ رہا تھا وہ جب میری داڑھی مونڈنے لگا تو کہنے لگا۔’’اسے مونڈتے ہوئے مجھے زیادہ مزا آتاہے ـ‘‘۔
ایک قیدی اپنی پنجرہ نما کوٹھڑی میں نماز پڑھ رہا تھا ۔ ایک امریکی سارجنٹ نے اُس کو کوئی حکم دیا ‘لیکن وہ نماز میں مصروف ہونے کی وجہ سے اس پر فوراً عمل نہ کرسکا تو اس امریکی فوجی نے نمازی کو سرکے بالوں سے پکڑ لیا اور کوٹھڑی کے آخری کونے تک گھسیٹتا ہوا لے گیااور چیختے ہوئے کہا: ’’گدھے کے بچے !اب تم میری عبادت کرو گے ۔ادھر میں ہی تمھارا خدا ہوں‘‘۔ اسلام سے ان کو کس قدر بغض‘ کینہ اور عناد ہے ‘ اس کی بڑی مثال یہ تھی کہ ان بدبختوں نے رفع حاجت کے لیے استعمال ہو نے والی عمارت پر جلی حروف سے لکھا ہوا تھا: Fuck Islam"ــ"
قیدیوں کی عزت نفس مجروح کرنے کے لیے تلاشی کے بہانے قیدیوں کی شرم گاہوں پر تشدد کیا جاتا اور آپس میں فحش گفتگو کی جاتی ہے ۔ مادرزاد ننگا کر کے ہر قیدی کی مختلف سمتوں سے تصویریں بنا ئی جاتی ہیں۔ بعض اوقات کچھ تصویریں یہ فوجی اپنے دوستوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے محض اپنی بہادری کے ثبوت‘ یعنی ٹرافی کے طور پر دکھانے کے لیے ارسال کرتے ہیں۔ یہ قیدی جو پرائی عورتوں سے بات کر نے میں شرم اور حیا محسوس کرتے ہیں ‘ ان کو ذلیل کرنے کے لیے ان کے ساتھ فاحشہ فوجی عورتوں کو ایسی فحش حرکتیں کرنے کا حکم دیا جاتا ہے ‘ جس کو بیان کر نے کی ضرورت نہیں۔ اس تشدد اور توہین کے نتیجے میں کچھ قیدی جان سے چلے جاتے ہیں ‘ کچھ دماغی توازن کھو بیٹھتے ہیں ‘ کچھ اپنے بچوں اور رشتہ داروں سے دو بارہ ملنے کی موہوم سی امیدوں کے سہارے اپنے ناکردہ جرائم کا اقرار کر لیتے ہیں‘ اور کچھ مصنف کی طرح صبر اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ایک دفعہ سی آئی اے کا ایک ایجنٹ مصنف کو جیل سے رہائی دلانے کے ساتھ ساتھ مالی منفعت کا لالچ دے کر سی آئی اے کے لیے کام کرنے کی پیش کش کر کے چند دن بعد جواب دینے کے لیے کہتا ہے ۔ مصنف اس فیصلے پر پہنچتا ہے کہ یہ ایک آزمایش اورعقیدے کا امتحان ہے ۔ اس امتحان کو پاس کر کے ہی آزادی ملے گی ۔فیل ہونے کی صورت میں سب کچھ ہاتھ سے جائے گا‘ خاندان ‘وقار ‘عزت نفس اورآخرت۔پھر وہ قرآن میں سورۃ الممتحنہ (آزمایش ) کی ان آیات کو تصور میں لاتا ہے ‘ جن کا وہ صبح شام ورد کرتا رہتا ہے : ’’تم جہاں بھی ہو گے ‘موت تمھیں پاکر رہے گی‘‘ یعنی دنیا کی یہ زندگی تو چند دن کی عارضی زندگی ہے اور انسان اس زندگی میں جو کچھ کرتا ہے اس پر اس کی آخرت کا دارومدار ہے۔ اللہ فرماتا ہے: ’’اے ایمان لانے والو! میرے دشمنوں کو دوست مت بنائو۔ کیا تم اُن سے اس حالت میں بھی دوستی کرو گے‘ جب کہ وہ تمھارے پاس پہنچی ہوئی سچائی کو ٹھکراتے ہیں‘‘۔
گوانتاناموبے کے کیمپ ایکومیںمصنف سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی فوج کا ایک سپاہی کہتا ہے: ’’معظم! جس طرح کا سلوک تم لوگوں سے روا رکھا گیا ہے‘ اگر گرفتار ہوکر یہاں آنے سے قبل تم میںسے کوئی دہشت گردی میں ملوث نہیں بھی تھا ‘تو مجھے یقین ہے کہ رہائی کے بعد وہ ضرور دہشت گرد بنے گا ‘‘۔
مصنف کے بقول چونکہ نہانے پر پابندی تھی‘ اس لیے ان تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں ہفتوں بغیر نہائے رہنے کے نتیجے میں جسم سے بدبو آتی تھی ‘ جس کی وجہ سے امریکی ہم پر طنز کر نے کے لیے ہمیںبدبو دار لڑکے کہتے تھے۔ بعض قیدیوں کو ذلیل کرنے کے لیے ‘اُن کو تنگ کمرے میں ایک وزنی لوہے کی زنجیر کے ساتھ یوں باندھ دیا جاتاکہ وہ رفع حاجت کے لیے سیل کے اندر بنی ہوئی لیٹرین تک بھی نہ پہنچ سکتے تھے ۔صرف ایک دائرے کے اندر جس حد تک حرکت ممکن تھی‘ اسی جگہ کو سونے اور اجابت‘ دونوں کے لیے استعمال پر مجبور تھے۔
قیدی افراد کو امریکی حکومت کی طرف سے جنگی قیدی کی حیثیت نہ دینے اور اس قید خانے پر امریکی عدالتوں کے قوانین کے نفاذ سے انکار کے موضوع پر بعض وکلا کی طرف سے اٹھائے جانے والے ایک دل چسپ نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مصنف لکھتا ہے : وکلا نے امریکی سپریم کورٹ کے سامنے یہ موقف رکھا کہ اگر گوانتاناموبے کے جزیرے پر رہنے والی جنگلی چھپکلی Iguana (اس کے نام پر ایک قید خانے کا نام بھی رکھا گیا ہے) کے تحفظ کے لیے امریکی قوانین پر عمل درآمد کیا جاسکتا ہے‘ تو پھر وہاں کسی فرد جرم کے بغیر قید کیے جانے والے انسانوں پر وہی قوانین کیوں لاگو نہیں کیے جاتے؟
اس کتاب کے آخر میں مصنف اپنے دوستوں اور بہی خواہوں اور سب سے بڑھ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ حق اور سچائی کے لیے آواز اٹھانے والے ان سب لوگوں کو سلام پیش کرتا ہے جنھوں نے آزمایش کی ان گھڑیوں میں اس کا ساتھ دیا ‘ اس کی حو صلہ افزائی کی اور انھی کی اَن تھک کوششوں سے اس کی رہائی ممکن ہوسکی۔
مصنف دنیا بھر میں پھیلے ہوئے انصاف پسند اور امن پسند لوگوں سے یہ اپیل کر تا ہے کہ گوانتاناموبے‘ قندھار ‘ باگرام اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے امریکی اتحادیوں کی نگرانی میں قائم خفیہ فوجی قید خانوں میں کسی فرد جرم کے بغیر گلنے سڑنے والے قیدیوں کو نہ بھولیں۔
ہر جانے والا بہت سوںکو سوگوار چھوڑتا ہے لیکن ایسے کم ہی ہوتے ہیں جو پورے عالم کو سوگوار چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوں۔ ۳ستمبر ۲۰۰۶ء کو اُمت مسلمہ سے جداہونے والا مجاہد شیخ ابوبدرعبداللہ علی المطوع ایسے ہی چند نفوس میں سے تھا جس کے غم کو دنیاکے گوشے گوشے میںمحسوس کیا گیا‘ اور اُمت مسلمہ کا شاید ہی کوئی طبقہ یا گروہ ہو جس نے اس جدائی کو ذاتی غم کی طرح نہ محسوس کیا ہو۔ اس کی بنیادی وجہ شیخ ابوبدرؒ کی دعوت اسلامی اور خدمت خلق کی وہ مساعی ہیں جو ۶۰سال کے عرصے پر محیط ہیں اور جن کا مرکز و منبع خواہ کویت ہو مگر ان کی وسعت اور اثرانگیزی مشرق و مغرب اور شمال و جنوب‘ اس کرئہ ارض کے چپے چپے تک پھیلی ہوئی تھی۔ میرے علم میں نہیںکہ گذشتہ ۶۰ سالوں میں کسی ایک فرد کی مساعی اور اس کے ثمرات کو خصوصیت سے انفاق فی سبیل اللہ اور تعاونوا علی البر والتقوٰی کے میدان میں یہ وسعت حاصل ہوئی ہے۔ دنیاے اسلام میں جہاں کوئی کارخیر انجام دیا جا رہا ہے‘ اس میں ابوبدرؒ کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہے ع
یہ رتبۂ بلند ملا‘ جس کو مل گیا
الاخ ابوبدر ۱۹۲۶ء میں کویت کے ایک خوش حال اور نہایت دین دار گھرانے میں پیداہوئے۔ ابتدائی تعلیم ایک عام اسکول احمدیہ میںحاصل کی اور نوجوانی ہی میں اپنے والد محترم کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹانے کے لیے سرگرم ہوگئے۔ عنفوان شباب ہی میں حسن البناشہیدؒاور ان کی تحریک اخوان المسلمون سے نسبت کا رشتہ استوار ہوگیا۔ وہ اوران کے بڑے بھائی شیخ عبدالعزیز المطوع ‘امام شہیدؒ کی دعوت سے متاثر تھے اور حج بیت اللہ کے موقع پر غالباً دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد ان سے ملے اور پھر انھی کے ہوکر رہ گئے۔ کویت کے مخصوص حالات کی روشنی میں اخوان المسلمون کا باقاعدہ قیام تو عمل میں نہیں آسکا لیکن تحریک اخوان کا ایک مؤثر حلقہ وجود میں آگیا اور اسے ہر میدان میں روز افزوں ترقی حاصل ہوئی۔ اس کے قائد اور روح رواں الاخ ابوبدرؒ ہی تھے۔ اس حلقے نے اجتماعی تحریک کی شکل بھی اختیار کی مگر مقامی رنگ کے ساتھ۔ ۱۹۵۲ء میں جمعیۃ الارشاد کے نام سے کام کا آغاز کیا جس نے بالآخر ۱۹۶۳ء میں جمعیۃ الاصلاح الاجتماعی کی شکل اختیار کرلی اور یہ جمعیت کویت کی تحریک اسلامی کا گڑھ بن گئی۔ فکری‘ تربیتی‘ تعلیمی‘ دعوتی‘ سماجی‘ خدمتی اور بالآخر سیاسی جدوجہد کا مرکز و محوربنی اور کویت کی اجتماعی زندگی پر گہرے اثرات ڈالے۔ اس وقت کویت کی پارلیمنٹ میں سب سے بڑا منتخب گروپ اسی فکر کا علم بردار ہے۔
شیخ ابوبدر کی دل چسپی‘ تعلیم اور تبلیغ میں پہلے دن سے رہی۔تعلیمی اداروں کے قیام کے ساتھ انھوں نے دینی مجلوں کے اجرا کا بھی اہتمام کیا۔ سب سے پہلے الارشاد الاسلامیہ کا اجرا کیا۔ نوجوانوں کے لیے جمعیۃ کے نام سے ایک رسالہ نکالا لیکن ان کا سب سے اہم اور تاریخی کارنامہ ۱۹۷۰ء سے ہفت روزہ المجتمع کا اجرا ہے۔ یہ رسالہ کویت ہی نہیں پورے عالمِ عرب میں اسلامی دعوت اور فکر کا نقیب ہے اور وقت کے تمام مسائل پر اسلامی نقطۂ نظر کا مؤثر ترین ترجمان ہے۔ شیخ ابوبدرؒنے کوشش کی کہ اس کی ادارت قابل ترین ہاتھوں میں ہو۔ عالمِ اسلام کے تمام ہی چوٹی کے اہلِ قلم اس کے لکھنے والوں میں شامل ہیں۔
الاخ ابوبدر عالم اسلام کی اہم ترین تنظیموں میں مرکزی کردار ادا کرتے رہے اور ان کا شمار عالمی اسلامی تحریکوںکے ممتاز ترین قائدین میں ہوتا تھا۔ کویت کی جمعیۃ الاصلاح الاجتماعی کے وہ صدر تھے۔ رابطہ عالم اسلامی اور عالمی مساجدکونسل کے بانی ارکان میں سے تھے۔ کویت کی اہم ترین فلاحی تنظیم الہیئہ الخیریۃ الاسلامیۃ العالمیۃ کے بانی رکن اور اس کی مجلس منتظمہ کے رکن تھے۔ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے بانی رکن اور اس کے قیام اور ترقی میں ان کا نمایاں کردار ہے۔ اسلامی دنیا کا کوئی اہم دعوتی‘ رفاہی‘ خدمتی‘ تعلیمی منصوبہ ایسا نہیںجس کی مالی معاونت اور فکری سرپرستی میں ابوبدر کا حصہ نہ ہو۔ وہ کویت کے متمول ترین افرادمیں سے تھے لیکن انھوں نے اپنی دولت کو صرف اپنے اور اپنے خاندان کے لیے استعمال نہیں کیا بلکہ اس سے ساری دنیا کی دعوتی‘ رفاہی اور جہادی خدمات کی آبیاری کی۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں کویت ہی نہیںپورے عالمِ عرب میں بجاطور پرامام خیرالعمل کی حیثیت سے یادکیا جاتا ہے۔
الاخ ابوبدر سے میری پہلی ملاقات ۱۹۵۹ء میں ہوئی جب وہ پاکستان تشریف لائے اور محترم چودھری غلام احمد مرحوم کے ساتھ میرے غریب خانے پر کراچی جماعت کے قائدین کی ایک نشست میں شریک ہوئے۔ گذشتہ ۵۸سالوں میں مجھے ان سے دسیوں بار ملنے‘ ان کے ساتھ سفروحضر میں وقت گزارنے‘ سیمی ناروں‘ کانفرنسوں اور مخصوص نشستوں میں شریک ہونے کا موقع ملا اور اس پورے زمانے میںایک بھی موقع شکایت اور رنجش کا پیدا نہ ہوا۔ حتیٰ کہ ان پُرآشوب ایام میں بھی جب کویت ایران پر عراق کے حملے کی حمایت کر رہا تھا اور ہم ایران کی تائید اور صدام کی مذمت کر رہے تھے لیکن یہ ابوبدر کا ظرف اور حق پرستی تھی کہ ہمارے تعلقات اورتعاون پر کوئی حرف نہ آیا۔ جہاد افغانستان‘ بوسنیا کی جدوجہد آزادی‘ فلسطین کا جہاد‘ کشمیر کی اسلامی مزاحمتی تحریک‘ ہرہرجدوجہد میں وہ دل و جان سے شریک تھے۔ صرف مالی معاونت ہی نہیں بلکہ ہر سطح پر مشورے‘ شرکت اور رہنمائی میں وہ پیش پیش ہوا کرتے تھے۔
میں نے ابوبدر کو ایک بڑاعظیم انسان پایا۔ ان کے ظاہر و باطن میںکوئی فرق نہ تھا۔ ان کے سینے میں ایک دل دردمند‘ ان کا دماغ مشکل کشا‘اور ہمت ہمہ جوان تھی۔ دولت و ثروت نے ان کواور بھی انکساری کا نمونہ بنا دیا تھااور انھوںنے مال و دولت کو ایک خادم اورخیر کے فروغ کے لیے وسیلے کے طور پر استعمال کیا۔ سادگی‘ ملنساری‘خدمت اور ایک حدتک عرب بدوانہ درویشی ان کا شعار تھی۔ وہ بڑی محبت کرنے والے انسان تھے اور ان کی شخصیت میں وہ شیرینی تھی کہ وہ بہت جلد سب کی محبت کامرکزو محور بن جاتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑے کھرے انسان اوراصولوں کے معاملے میں سمجھوتہ نہ کرنے والے‘ اورحق بات کا پوری بے باکی سے اظہار کرنے والے تھے۔ دولت مند بالعموم بزدل ہوجاتے ہیں لیکن ابوبدر حق کے معاملے میں بڑے جری تھے اور بڑے سے بڑے حکمران کے سامنے حق بات کہنے میں ذرا بھی باک نہ محسوس کرتے تھے۔
پاکستان‘ مولانا مودودی ؒاورجماعت اسلامی سے ان کو بڑی محبت تھی‘ اور پاکستان پر آنے والی ہر آفت کادکھ انھوں نے ہمیشہ محسوس کیا جس طرح ایک محب وطن پاکستانی محسوس کرتا ہے۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک سے انھیں بے پناہ لگائوتھا‘ اور وہاں کے حالات‘ مسائل اور ضروریات میں وہ خود دل چسپی لیتے تھے۔
الاخ ابوبدر کی رسمی تعلیم زیادہ نہ تھی لیکن اپنے ذاتی ذوق اور خداداد صلاحیت سے انھوں نے علم و عمل‘ دونوں میدانوں میں ممتاز مقام حاصل کیا۔ سیاسی امور میں ان کی بصیرت کسی بڑے سے بڑے ماہر سے کم نہ تھی۔ حالات کا تجزیہ کرنے اور عالمی مسائل اور تحریکات پر ان کی نظر بڑی گہری تھی۔ میں نے مخصوص اجتماعات سے لے کر علمی مجالس اور کانفرنسوں میں ان کو بڑی سلجھی ہوئی مدلل بات کرتے ہوئے دیکھا‘ اور وہ ایک کامیاب تاجر ہی نہیں‘ ایک بالغ نظر سیاسی رہنما اور اسٹرے ٹیجک امور پر قادرالکلام مبصر بھی تھے۔
شیخ ابوبدر نے تجارت میں بھی نام پیدا کیا۔ وہ عرب دنیا کے چوٹی کے کامیاب تاجروں میں سے ایک تھے۔ لیکن ان کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ ایک طرف انھوں نے تجارت میں کبھی بددیانتی‘ اور کاروباری ہیرپھیر کا سہارا نہیںلیا اورحقیقی اسلامی اخلاق کا دامن نہیں چھوڑا‘ اور دوسری طرف ان کے کاروبار میں سود کی رتی بھر ملاوٹ نہ تھی۔ اس طرح انھوں نے یہ مثال قائم کر دی کہ سود کے بغیر بھی ایک تاجر اعلیٰ ترین مقام پر پہنچ سکتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جو کثیر دولت ان کو دی اس کا بڑا حصہ انھوں نے دین حق کے پھیلانے‘ غریبوں اورفلاحی اداروں کی معاونت اور اقامت ِ دین اور جہاد آزادی کی تحریکوں کی آبیاری کرنے میں صرف کی۔ یوں ہمارے اپنے دور میں سلف صالحین کے دور کی وہ مثال قائم کی جس کے بارے میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی تھی کہ سچا ایمان دار تاجر قیامت کے روز نبیوں‘ صدیقوں اور شہدا کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔
الاخ ابوبدر اللہ کے ان مخلص بندوں میں سے تھے جنھوں نے اپنے رب سے جو عہد ِ وفا کیا تھا‘ اسے عملاً نبھا دیا اور آنے والوں کے لیے ایک روشن مثال قائم کر دی۔
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَـہٗ وَمِـنْھُمْ مَّنْ یَّـنْتَظِرُ ز وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o (الاحزاب ۳۳ :۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوںنے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچاکر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میںکوئی تبدیلی نہیں کی۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ الاخ ابوبدر ان لوگوںمیں سے تھے جو اللہ کو اپنا رب مان لینے کے بعد اس پر جم گئے اور اللہ کی اطاعت‘ اس کے دین کی سربلندی اور اس کی مخلوق کی خدمت میںساری زندگی اور اپنے سارے وسائل صرف کردیے۔ مسلمانوں کا ہرمسئلہ ان کا اپنا مسئلہ تھا‘اور ہر غم ان کا اپنا غم تھا۔ ان کا عالم یہ تھاکہ ؎
خنجر چلے کسی پہ‘ تڑپتے ہیں ہم اسیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
میںنے کسی علاقائی عصبیت کا کوئی پرتو ان کے فکر اور ان کی زندگی میں نہیں دیکھا۔ اسلام اور اُمت مسلمہ ان کی زندگی کا مرکز اور محور تھے اورانھی کی خدمت میں وہ مالکِ حقیقی سے جاملے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں اور خدمات کو قبول فرمائے اورانھیں جنت کے اعلیٰ ترین درجات میں جگہ دے۔ ع
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
اُردو دنیا کی ایک محترم اور معتبر شخصیت ‘ اُردو کے معروف اور جید نقاد اور بھارت کے نام ور مسلم دانش ور پروفیسر عبدالمغنی ۵ستمبر ۲۰۰۶ء کو پٹنہ میں انتقال کرگئے‘ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی رحلت اُردو دنیا خصوصاً بھارت کی اُردو تحریک کے لیے ایک نقصانِ عظیم ہے۔ اسی طرح وہاں کی تحریک ِ ادب اسلامی کے لیے (جس کے مرحوم ایک نمایاں سرپرست تھے) یہ ایک بڑا سانحہ ہے۔
ڈاکٹر عبدالمغنی مرحوم کا تعلق صوبہ بہار کے ایک علمی خانوادے سے تھا۔ مغلوں نے ان کے ایک بزرگ کو الٰہ آباد سے ’قاضی‘ بناکر اورنگ آباد (بہار) بھیجا تھا۔ ان کے والد قاضی سید عبدالرؤف دیوبند اور ندوہ کے فارغ التحصیل اور اورنگ آباد کے قاضی تھے۔ معارف ، اعظم گڑھ کے ابتدائی زمانے میں ان کے متعدد مضامین مذکورہ رسالے میں شائع ہوئے۔ خاندانی روایت کے مطابق والدنے عبدالمغنی کو بھی ’قاضی‘ بناناچاہا مگر وہ والد کی اس خواہش کی تکمیل نہ کرسکے۔ سات آٹھ برس تک مختلف مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد‘ یکے بعددیگرے اسکول‘ کالج اور یونی ورسٹی کے امتحانات بڑے امتیازات کے ساتھ پاس کیے۔ ان کی عملی زندگی کا آغاز انگریزی کے لیکچرر کی حیثیت سے ہوا۔ کئی سال بعد انگریزی ہی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ پٹنہ یونی ورسٹی کی ملازمت سے سبک دوش ہوئے تو انھیں بہار کی ایل این متھلا یونی ورسٹی دربھنگا کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔ فرقہ پرستوں کو ایک مسلم وائس چانسلر ہضم نہ ہوسکا تو ان کے خلاف سازش کرکے‘ انھیں گرفتار کرا دیا مگر جلد ہی وہ تمام الزامات سے بری الذمہ ہوکر‘ باعزت طریقے سے رہا ہوگئے۔ ۳۱اگست ۱۹۹۹ء کو مجھے ایک خط میں لکھا: ’’اسلام پسندی کا ملزم آزاد ہے اور پہلے سے زیادہ معتبر و معروف‘ ہرفرقے اور حلقے میں‘ بلاامتیاز مذہب و ملّت‘‘۔
پروفیسر عبدالمغنی نہایت فعال‘ متحرک اور دبنگ شخصیت کے مالک تھے۔ اپنے نظریات میں بہت پختہ‘ واضح اور دوٹوک موقف رکھتے تھے اور تحریراً و تقریراً اس کے اظہار میں بے باک اور جری تھے۔ ہمیشہ بے جا مصلحتوں اور ذاتی مفادات سے بالا رہے۔ نہ صرف بات چیت بلکہ معاملات میں بھی کھرے تھے‘ اس لیے اُن سے معاملہ کرنے والے اُن سے دبتے بھی تھے اور ان کی عزت بھی کرتے تھے۔ راقم کو دو بار انھیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ پہلی ملاقات تو ۲۶اپریل ۱۹۸۶ء کو دہلی میں ہوئی۔ دوسرا موقع اس وقت ملا‘ جب وہ پنجاب یونی ورسٹی کی اقبال کانگریس (نومبر ۱۹۹۸ئ) میں شرکت کے لیے چار روز کے لیے لاہور آئے۔ اس دوران میں‘ وقتاً فوقتاً ان سے ملاقاتیں اور باتیں ہوتی رہیں۔ کانفرنس کے علاوہ مختلف ادبی جلسوں اور گفتگوؤں‘ نیز اخبارات کے مصاحبوں (انٹرویو) میں بھی عبدالمغنی صاحب نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر‘ اپنے خیالات کا نہایت کھل کر اظہار کیا۔ بھارتی مسلمانوں کے مسائل‘ ہندوئوں کا معاندانہ رویہ‘ ہندستان میں اُردو زبان کا حال اور مستقبل‘ کشمیر کا مسئلہ‘ ادبی دھڑے بندیاں‘ پاکستانی معاشرے اور بعض نقادوں‘ افسانہ نگاروں اور شاعروں کے بارے میں انھوں نے بہت سے مسلّمات کے برعکس اپنی دوٹوک آراظاہر کیں اور قطعاً پروا نہیں کی کہ لوگ کیا کہیں گے اور اس کا ردعمل کیا ہوگا۔
اوّل: وہ بھارت میں اُردو زبان کی بقا اور اُس کی ترویج اور فروغ کے بہت بڑے حامی تھے۔ حامی اور نعرے لگانے والے تو اور بھی بہت سے لوگ ہیں لیکن عبدالمغنی صاحب نے کسی خوف‘ مصلحت اور مداہنت کے بغیر اُردو کے حق میں ایک بڑی تحریک چلا کر بہار میں ۱۹۸۰ء میں اُردو کو دوسری سرکاری زبان تسلیم کرانے کا کارنامہ انجام دیا۔ وہ ابتدا سے تادمِ آخر انجمن ترقی اُردو بہار کے صدر رہے اور بالعموم‘ ہمیشہ بلامقابلہ ہی صدر منتخب ہوتے رہے۔
دوم: پروفیسر عبدالمغنی بھارت کی اسلامی ادبی تحریک کے ایک نمایاں سرپرست تھے۔ وہ ادارہ ادب اسلامی ہند کے مجلسِ عاملہ کے رُکن اور اُس کے ادبی ترجمان پیش رفت کی مجلسِ ادارت میں شامل تھے۔
سوم: وہ اُردو ادب کے سربرآوردہ نقاد تھے۔ عربی‘ فارسی اور مشرقی و دینی علوم کے ساتھ انگریزی ادب کے مطالعے بلکہ دیگر یورپی زبانوں کے ادب سے واقفیت نے ان کی تنقید میں ایک وزن اور وقار پیدا کردیا تھا۔ رسمی و روایتی اندازِ نقد و انتقاد سے ہٹ کر‘ ان کے تنقیدی تجزیوں میں ایک حقیقت پسندانہ قدر سنجی اور واضح نقطۂ نظر ملتا ہے۔ ان کے اوّلین تنقیدی مجموعے کا نام نقطۂ نظر (پٹنہ‘ ۱۹۶۵ئ) اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ وہ ادب کی سنجیدہ تنقید میں کسی نہ کسی نقطۂ نظر کو ضروری خیال کرتے تھے۔
چہارم: پروفیسر عبدالمغنی کی ایک حیثیت اپنے عہد کے ایک نام ور اقبال شناس کی بھی ہے جیساکہ اُوپر ذکر ہوا۔ انھوں نے نظم و نثر کی مختلف اصناف پر بہت کچھ لکھا مگر جس رغبت اور والہانہ انداز میں انھوں نے اقبال کے فکروفن کے مختلف گوشوں کو منور کیا‘ وہ ان کے ادبی و تنقیدی سرمایے میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ اُردو اور انگریزی میں اقبالیات پر ان کی سات کتابیں‘ اس موضوع سے ان کی غیرمعمولی لگن کا ثبوت ہیں۔ اقبال کے فکروفن پر ان کی تنقید بڑی متوازن اور معتدل ہے اور وہ اقبال کی شاعری میں ان کے فکر کے ساتھ‘ ان کے فن کو بھی برابر کی اہمیت دیتے ہیں۔ وہ علامہ اقبال کو عالمی سطح پر سب سے بڑا شاعر سمجھتے تھے۔ اپنے دورۂ پاکستان میں انھوں نے اس راے کا اظہار‘ مختلف مجالس اور اخبارات سے مکالموں اور مصاحبوں میں بھی بڑی شدّومد سے کیا۔
پروفیسر عبدالمغنی کی اُردو اور انگریزی تصانیف کی تعداد ۵۰ سے اُوپر ہے۔ ان کا آخری علمی کارنامہ: The Quran: An Authentic Modern Idiomatic English Translation ہے___ شبلی نعمانی‘ ابوالکلام آزاد اور سیدابوالاعلیٰ مودودی ان کے سب سے زیادہ پسندیدہ مصنفین تھے۔ وہ بھارت کی بہت سی علمی‘ تعلیمی اور ادبی انجمنوں سے مختلف حیثیتوں سے وابستہ رہے۔ ان کی علمی و ادبی خدمات پر انھیں متعدد انعامات واعزاز پیش کیے گئے۔ اس مختصر تعارف میں اس کی تفصیل دینا مشکل ہے۔ خدا ان کی مغفرت کرے اور روح کو آسودہ رکھے‘ آمین!
سوال: روزے میں اِن ہیلر (inhaler) کے استعمال کے بارے میں دو طرح کی آرا سامنے آتی ہیں۔ کچھ علما بالخصوص برعظیم پاک و ہند کے علما کی راے یہ ہے کہ دوران روزہ اِن ہیلر کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے‘ جب کہ سعودی عرب کے علما کی راے میں اس کا استعمال جائز ہے اور روزہ نہیں ٹوٹتا (ترجمان القرآن‘ جنوری ۲۰۰۱ئ)۔ ڈاکٹر صاحبان کی راے بھی یہی ہے کہ اس کے استعمال سے صرف پھیپھڑوں میں کشادگی پیدا ہوتی ہے اور سانس لینے میں آسانی ہوتی ہے جس سے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس اختلاف راے سے میں ذہنی الجھن کا شکار ہوگیا ہوں۔ کیا کسی ایک متفقہ موقف پر ہم نہیں پہنچ سکتے‘ رہنمائی فرمایئے۔
جواب: آپ نے سعودی عرب کے علما کی راے اور فتویٰ کے حوالے سے تحریر فرمایا ہے کہ وہ روزہ کے دوران اِن ہیلر (inhaler) کے استعمال کو جائز قرار دیتے ہیں‘ جب کہ پاکستان کے بعض علما اسے ناجائز قرار دیتے ہیں اور اس بنا پر آپ ذہنی پریشانی کا شکار ہیں۔ صورت واقعہ یوں ہے کہ اِن ہیلر جیسے بہت سے معاملات میں نہ صرف علما بلکہ خود صحابہ کرامؓ کے درمیان اختلاف پایا جاتا تھا لیکن ان میں سے کسی نے یہ اصرار نہیں کیا کہ صرف اور صرف ان کی راے درست ہے اور باقی سب کی راے غلط ہے۔
دین اسلام کی یہ خوبی ہے کہ وہ فقہی معاملات میں اپنے اندر ایک سے زائد تعبیرات کی گنجایش رکھتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ کا پورا احترام کرتے ہوئے امام مالکؒ نے ان کی بعض آرا سے اختلاف کیا‘ اور ان دونوں کا احترام کرتے ہوئے امام شافعیؒ نے دونوں کی رائے سے الگ راے قائم کی‘ جب کہ ان سب کی بنیاد قرآن و سنت کے واضح احکامات ہی تھے۔
اجتہادی اور قیاسی مسائل میں ایسا ہونا بالکل فطری ہے۔ جہاں تک اِن ہیلر کا تعلق ہے آپ نے خود یہ بات تحریر فرمائی ہے کہ اس میں نہ کوئی غذا جسم میں داخل ہورہی ہے‘ نہ کوئی چیز نگلی یا پی جارہی ہے‘ جب کہ اس غبار سے جو مثل بھاپ ایک غبار ہے ایک مریض کے پھیپھڑے اسے سانس لینے میں سہولت فراہم کردیتے ہیں تو اس میں کون سا پہلو حرام کا نکلتا ہے۔ اگر یہ بات مان بھی لی جائے اِن ہیلر کے غبار میں کسی بے مزہ کیمیکل کی منتقلی ہوتی ہے‘ تو کیا روزے کے دوران وضو کرتے وقت جب کلی کی جاتی ہے تو زبان کے مسام اس سے تر نہیں ہوتے۔ چونکہ اس کا مقصد اور نیت زبان کو تر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے چوری کرنا نہیں ہے اس لیے ان چند قطروں کے زبان پر لگنے سے روزہ متاثر نہیں ہوتا۔
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اگر آپ سعودی عرب کے علم و تقویٰ پر اعتبار کرکے ایک عمل اختیار کررہے ہیں تو آپ صرف جس بات پر یقین رکھتے ہیں اور تحقیق کرنے کے بعد مطمئن ہیں اسی کے لیے جواب دہ ہیں۔
قرآن نے صاف حکم دیا ہے کہ مشورہ کرو اور جس پر مطمئن ہوجائو تو عزم کرنے کے بعد گومگو میں مبتلا نہ ہو۔ اگر آپ سعودی علما کی راے سے مطمئن نہیں ہیں تو جس کی بات پر یقین ہو‘ اور آپ نے تحقیق کر کے اس بات کو اختیار کیا ہو اسی پر قائم ہوجایئے۔ بال کی کھال اُتارنے میں نہ پڑیں‘ حدیث میں اس سے منع کیا گیا ہے۔
یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ کس کی راے زیادہ بہتر ہے‘ کوشش کریں کہ قرآن و حدیث کا براہ راست مطالعہ کریں اور فقہا جن بنیادوں پر غور کرنے کے بعد ایک راے قائم کرتے ہیں ان کے بارے میں ابتدائی معلومات ضرور حاصل کرلیں تاکہ اختلاف راے کو برداشت کرنے کی تربیت ہوسکے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س: میرے شوہر کا کپڑوں کی سلائی کا یونٹ ہے جہاں پر وہ برآمد کے لیے مال تیار کرتے ہیں‘ مثلاً جیکٹ‘ ٹی شرٹ‘ ٹرائوزر وغیرہ۔ بعض اوقات لیڈیز آئٹم کا بھی آرڈر آجاتا ہے۔ میراسوال یہ ہے کہ کیا خواتین کے مختصر لباس سینا گناہ کے زمرے میں آتا ہے؟ میرے شوہر کا کام صرف سلائی کی حد تک ہے‘ آگے فروخت کرنے کا کام نہیں ہے۔ کیا یہ کاروبارجائز ہے؟
ج: اکلِ حلال دین کے بنیادی مطالبات میں سے ایک مطالبہ ہے اور ایمان کے تحفظ و ترقی کے لیے شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کے سوال سے یہ جان کر بہت اطمینان ہوا کہ الحمدللہ اس دورِ انحطاط میں بھی ہمارے معاشرے میں اللہ کے ایسے بندے موجود ہیں جو اپنے ہاتھ کی محنت کی کمائی کو حلال ذرائع سے حاصل کر کے دنیا اور آخرت کی کامیابی کے خواہش مند ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کے شوہر کو ہمیشہ اکلِ حلال کے حصول کی توفیق دے اور رزق میں برکت دے۔ آمین!
جہاں تک کپڑوں کے سینے کے حوالے سے جواب دہی کا تعلق ہے‘ اگر ایک شخص ملازمت کے حصول یا کسی کاروباری معاہدے سے پہلے شرائط میں یہ بات شامل کرلے کہ وہ کس قسم کے کام کرے گا اور کس قسم کے کام سے معذور سمجھا جائے‘ تو یہ اسلام کی روح کے عین مطابق ایک عمل ہوگا۔ لیکن اگر ملازمت اختیار کرتے وقت یا کاروباری معاملہ طے کرتے ہوئے ایسی کوئی شرط نہیں طے کی گئی اور کپڑوں کی سلائی کا مدت یا تعداد کے لحاظ سے ایک معاوضہ طے کرلیا گیا کہ اتنے دن کام کرنے پر‘ یا اتنی تعداد میں کپڑے سینے پر یہ ادایگی ہوگی تو اس شکل میں ایک کارکن کے ہاتھ میں یہ اختیار نہیں رہتا کہ وہ کپڑوں کے سینے میں اپنے انتخاب کی بنیاد پر کپڑے سیئے۔ اسے معاوضہ سینے کا مل رہا ہے‘ تراشنے یا کپڑوں کو کسی خاص طور پر ڈیزائن کرنے کا نہیں‘ اور نہ ان کپڑوں کے سلنے کے بعد استعمال میںاس کا کوئی دخل یا اختیار ہے۔
اگر ایک درزی ایک چست کپڑا سیتا ہے کیونکہ اسے تراشنے کے بعد جو کپڑا سینے کو دیا گیا اس کی شکل وغیرہ اس کے مشورے اور علم و نیت کے بغیر کسی اور نے کی ہے‘ اسے صرف اس کپڑے کو مشین کے ذریعے سینا ہے‘ تو گو وہ ایک چست قمیص سیتا ہے لیکن چست کپڑا پہننے کی معصیت میں اسے شریک تصور نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ اس بات کا پورا امکان ہے کہ ایک فرد چست لباس پہننے کے باوجود اُوپر سے ایسا لباس پہن لے جس سے جسم کی نمایش نہ ہو۔ تاہم‘ یہ بہتر ہوگا کہ کوئی کاروباری معاہدہ کرتے ہوئے یا شرائط ملازمت کا تعین کرتے ہوئے پہلے سے یہ طے کرلیا جائے کہ کوئی نازیبا لباس نہ سیا جائے گا۔ اس کے نتیجے میں ان شاء اللہ آپ کے کام یا کاروبار میں اللہ اتنی برکت دے گا کہ آپ کو کمی محسوس نہ ہوگی۔
خیال رہے کہ جو شخص خواتین کے لیے ایسے لباس ڈیزائن کرتا ہے جس سے عریانیت کا فروغ ہو‘ وہ لازمی طور پر معصیت میں شریک تصور کیا جائے گا۔ عالمی شہرت کے بہت سے فیشن ایجاد کرنے والے ادارے اور افراد جو عریاں لباس ڈیزائن کرتے ہیں‘ یا جو اخبارات اور ٹی وی نیٹ ورک پر ایسے لباسوں کی نمایش کرتے ہیں‘ یا جو ماہرین ایسے لباسوں کی مارکیٹنگ کرتے ہیں‘ وہ سب معصیت میں برابرکے شریک تصور کیے جائیں گے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب (ا-ا)
مذہب‘ انسانی علم و عمل کے لیے ایک ماورائی طریق ہے‘ جب کہ تجربی علم اور سائنس کی بنیاد‘ مشاہدہ اور تجربہ ہے۔ مذہب‘ انسان کو اس کی اپنی ذات اور کائنات کے بارے میں جو علم دیتا ہے‘ اور اس کے لیے جو راہِ عمل بتاتا ہے‘ ضروری نہیں کہ انسان کی اپنی فکر اور محسوسات و مشاہدے سے ہم آہنگ ہو۔ مذہب اور عقل‘ مذہب اور سائنس میں ہم آہنگی تلاش کرنے کی کوششیں بہت سے اہلِ مذہب اور سائنس دانوں نے کی ہیں۔ مسلمانوں میں سب سے پہلے اس طرح کی کوششیں معتزلہ نے کی۔ آج کل قرآن اور سائنس‘ اسلام اور نظریۂ ارتقا اور کائنات کی سائنسی تشریح اور اسلام جیسے موضوعات پر بے شمار مضامین اور کتابیں شائع ہو رہی ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب اس سلسلے کی ایک منفرد تصنیف ہے۔ انھوں نے الہامی دعوؤں اور مشاہداتی علم کو خلط ملط کرنے سے اجتناب کیا ہے۔
مصنف نے پہلے تو اسلامی نقطۂ نظر سے علم کے بنیادی مصدر ’وحی‘ کی تشریح کی ہے۔ اُن کے نزدیک وحی کی دو قسمیں ہیں: وحیِ الٰہی اور جناتی وحی۔ وحی کے حاملین میں ارض و سما‘ حیوانات‘ فرشتے‘ جِن اور انسان شامل ہیں۔ گویا یہ وحی کے وصول کنندہ ہیں۔ تاہم حصولِ علم میں وحیِ الٰہی ہی ایک یقینی ذریعہ علم ہے اور انسان چونکہ اس زمین پر اللہ کا خلیفہ/نائب ہے‘ اس لیے اُس کی ہدایت کے لیے رسولوں کے ایک سلسلے کے ذریعے ہدایت و رہنمائی کا سامان پیدا کیا گیا ہے‘ جس کی آخری‘ حتمی اور غیرمشکوک صورت قرآن مجید ہے جو اللہ کے آخری پیغام بر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے تمام انسانوں کو عطا کیا گیا۔
وحی کی دوسری صورتیں‘ ان کے خیال میں وجدان‘ ضمیر اور جبلّت ہیں‘ جو پیغمبر اور عام لوگوں‘ سب کو حاصل ہیں۔ اس طرح الہام بھی صالحین اور غیرصالحین سب کو ہوسکتا ہے۔یہ جنوں کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے‘ اوراس صورت میں اِسے وسوسہ کہہ سکتے ہیں۔ وجدان‘ ضمیر‘ جبلّت‘ الہام‘ اِلقا اور وسوسے سے جو علم حاصل ہوتا ہے‘وہ صحیح بھی ہوسکتاہے اور غلط بھی۔ لیکن وحیِ رسالت سے جو علم حاصل ہوتا ہے‘ وہ قطعی اور یقینی ہوتا ہے۔ یہ علم صرف پیغمبر کا نصیب ہے۔
مصنف کہتے ہیں کہ احادیث کے مضامین میں وحیِ رسالت بھی شامل ہوتی ہے‘ اور اس کے علاوہ ان میں پیغمبر کے اپنے مشاہدات‘ تجربات اور غوروفکر کے نتائج اور ظنیات بھی شامل ہوتے ہیں۔ وحیِ رسالت اور اِن مشاہدات و تجربات کے نتائج میں فرق کرنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں: ’’احادیث کے مضمون پر کسی بھی علمی یا سائنسی تجزیے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ مضمونِ حدیث کی نوعیت طے کرلی جائے کہ وہ وحیِ رسالت ہے یا… صرف تجربے اور غوروفکر کا نتیجہ‘‘۔ چونکہ کلام اللہ (قرآن مجید) کے بعد کلامِ رسولؐ (حدیث) ہی سب سے زیادہ یقینی اور اہم ذریعۂ علم ہے‘ اس لیے حدیث کی نوعیت کا تعین نہایت ضروری ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’اگر وحی کا استعمال بغیر تجربے کے کیا جائے تو ہمیشہ ناقص معاشرہ وجود میں آئے گا‘ اور اگر تجربے ہی پر بھروسا کیا جائے تو معاشرے میں دوسرے قسم کے نقائص پیدا ہوں گے۔ اس لیے اسلامی معاشرے میں اعمال کا تعین وحی اور تجربے‘ دونوں کی روشنی میں ہونا چاہیے‘‘۔
قرآن اور سائنسی علم کے بارے میں مصنف بجاطور پر کہتے ہیں کہ قرآن کے ’خبریہ جملوں‘ کی صحت جانچنے کے لیے سائنس کو کسوٹی نہیں بنایا جا سکتا۔ مصنف کے نزدیک اسلام اور سائنس کے درمیان ربط کی پانچ بنیادیں ہیں: قرآن‘ محسوسات اور معقولات کو ایک ذریعۂ علم کی حیثیت سے پیش کرتا ہے‘ وہ وحی کو ایک اچھا ذریعۂ علم قرار دیتا ہے‘ وحی کے بہت سے پیغامات کو محسوسات اور معقولات کی مدد سے مدلل کرتا ہے‘ قرآن اوہام سے پاک ہے‘ چنانچہ علمی عقائد سے اس کا ٹکرائو نہیں‘ اور جہاں قرآن اور سائنس میں ٹکرائو نظر آتا ہے‘ وہ اصل میں سائنس دانوں کے توہمات اور ظنّیات پر جمے رہنے کی ضد کی بنا پر ہے۔
کتاب میں ’نیچری طرزِفکر‘ سے اجتناب برتا گیا ہے۔ ہمارے بعض علما اور مصنفین کی عادت ہے کہ جہاں کوئی نیا سائنسی انکشاف سامنے آیا‘ جھٹ قرآن مجید ے استشہاد کر کے یہ دکھا دیتے ہیں کہ یہ تو ہمارے ہاں بھی موجود ہے۔ ایٹم کا تصور‘ اجرامِ سماوی کی گردش‘ دن رات کی پیدایش وغیرہ۔ یہ کتاب اس معذرت خواہانہ رویّے سے پاک ہے۔ مصنف اس رویّے کو بجا طور پر ’سائنس زدگی‘ قرار دیتے ہیں اور اس سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ لیکن اس کوشش میں کہیں کہیں وہ علماے قدیم سے اس طرح اتفاق کرتے ہیں کہ اس کا دفاع مشکل ہے‘ مثال کے طور پر ’رتق‘ کی تفسیر میں۔ قرآن مجید کے مطابق پہلے آسمان اور زمین ’رتق‘ تھے۔ پھر انھیں ’فتق‘ کیا گیا (الانبیاء ۲۱:۳۰)۔ ابن عباس‘ ابن عمر اور بعض دوسرے اس سے یہ مطلب نکالتے ہیں کہ آسمان سے بارش نہ ہوتی تھی‘ اور زمین‘ روئیدگی نہ دیتی تھی۔ پھر اللہ نے انھیں کھول دیا‘ بارش ہونے لگی اور جان دار چیزیں پیدا ہونے لگیں۔ جدید کونیات کہتی ہے کہ یہ وسیع کائنات جو ہرلمحے وسیع تر ہوتی جارہی ہے‘ ابتداً ایک چھوٹے سے ’مادہ توانائی مرکزے‘ پر مشتمل تھی جو ایک بڑے انفجار (big bang) کے نتیجے میں کائنات کے وجود میں آنے کا باعث ہوا (فتق)۔ اگر قرآن مجید کی یہ تفہیم‘ جدید نظریاتِ کائنات سے قریب تر ہے‘ تو اِسے قبول کرنے میں کیا حرج ہے؟ بہرحال وحیِ الٰہی کی تفسیر وتشریح اور مشاہداتی علم میں توافق تلاش کرنے میں احتیاط کی ضرورت ہے۔
مصنف بنیادی طور پر سائنس دان ہیں۔ وہ نباتیات میں پی ایچ ڈی ہیں۔ کتاب کا مطالعہ عام لوگوں کے علاوہ ہمارے علما کے لیے بھی مفیدہوگا۔ (پروفیسر عبدالقدیرسلیم)
یہ قرآن حکیم کی آخری ۱۲ سورتوں (العصر تا الناس) کے ان دروس پر مشتمل ہے جو خرم مراد مرحوم نے مسجد بلال‘ گارڈن ٹائون لاہور کے خطاب جمعہ میں ایک تواتر سے دیے تھے۔ انھیں کیسٹ سے اتار کر تدوین کے بعد کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔ مدرس کے نزدیک ان سورتوں کے انتخاب کی وجہ یہ ہے کہ: ان سورتوں میں اس کائنات میں انسان کے مقام کو واضح کیا گیا ہے‘ دین کی بنیادی تعلیمات اجمالاً بیان کی گئی ہیں‘ نیز اللہ اور انسان کے مابین تعلق جو قرآن کا مرکزی موضوع ہے‘ زیربحث آیا ہے۔ حضوؐر بھی ان سورتوں کو اکثر تلاوت فرماتے تھے اور صحابہؓ کو بھی اس کی تاکید فرماتے۔اگر ان سورتوں کا مفہوم ذہن میںرکھ کر نماز میں پڑھا جائے تو مختصر بولوں میں دین کی بنیادی تعلیمات تازہ ہوتی رہتی ہیں اور ذہن نشین بھی ہوجاتی ہیں۔
دروس کا اسلوب سادہ اور عام فہم ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملے اور فقرے‘ سمجھانے کا انداز‘ آیات کے اسباق کا عصری حالات پر انطباق اور آیات و الفاظ کے سیاق و سباق اور سورتوں کے مجموعی نظم کے حوالے سے توضیح‘ ان کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ سورہ کے آغاز میں اس کا مختصر تعارف اور پھر اس کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ اس کے بعد ایک ایک آیت کی الگ الگ وضاحت‘ اور جہاں ضرورت محسوس ہوئی وہاں اہم الفاظ کی تشریح بھی کی گئی ہے۔ مختلف مفسرین کی آرا بھی بیان کی گئی ہیں۔ آیت کا ماسبق آیت سے اور سورہ کا ماسبق سورہ سے بالعموم ربط بیان کیا گیا ہے۔
مرحوم نے چونکہ مشرق و مغرب کی تہذیبی اقدار کا گہرا مشاہدہ کیا تھا اور قرآن فہمی میں بھی ان کو خصوصی دل چسپی تھی‘ اس لیے ان کے درس قرآن کا انداز جدید تعلیم یافتہ طبقے کی ذہنی اپروچ سے ہم آہنگ ہے۔ قرآن فہمی کے سامان کے ساتھ ساتھ مدرسینِ قرآن کے غوروفکر کے لیے اہم نکات بھی سامنے آتے ہیں۔ اس کے حصہ اوّل کا انتظار ہے۔ (ڈاکٹر اختر حسین عزمی)
بلوچستان آج توجہ کا مرکز ہے۔ اس موقع پر معروف کالم نگار نصرت مرزا نے بلوچستان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر‘ ایک ہمہ جہتی جامع مطالعہ ’بلوچستان میں شورش، چھاپہ مار جنگ، سرداری نظام‘ کے عنوان سے نہایت بروقت پیش کیا ہے۔ کتاب کیا ہے‘ بلوچستان کے قدیم و جدید حالات پر جامع انسائی کلوپیڈیا‘ جس میں مختلف مواقع پرطبع ہونے والے کالموں کا انتخاب‘ نواب اکبر بگٹی کے انٹرویو سے لے کر ان کی تحریر: ’بلوچوں کا فسانۂ زندگی‘ سردار اسلم رئیسانی‘ مولانا حسین احمد شرودی‘ سردار یعقوب ناصر‘ میر نصیرمینگل اور ڈاکٹر شعیب سڈل کے انٹرویو شامل ہیں۔ کتاب میں قوم پرستوں کے موقف کے ساتھ ساتھ پاکستان اور حکومت پاکستان کا موقف بھی شامل کیا گیا ہے۔ پاکستان‘ بلوچستان اور گوادر کے بارے میں بنیادی معلومات کتاب کا حصہ ہیں‘ جب کہ بلوچستان پر پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ‘ بلوچستان میں انسانی حقوق اور صوبائی حقوق‘ ڈاکٹر شازیہ کیس کی تحقیقاتی رپورٹ سے کتاب کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔
بحیثیت مجموعی اس کتاب سے بلوچستان کی صورت حال کی صحیح تصویرکشی ہوتی ہے۔ مختلف نقشہ جات‘ تصاویر اور معلومات پر مبنی چارٹس سے کتاب کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ بلوچستان کے تازہ ترین حالات تاریخی پس منظر کے ساتھ جاننے کے خواہش مندوں کے لیے یہ کتاب ایک قیمتی تحفہ ہے۔ (عمران ظہور غازی)
۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء کو پاکستان میں آنے والا زلزلہ بلاشبہہ جانی و مالی نقصان کے اعتبار سے معلوم انسانی تاریخ کے عظیم زلزلوں میں سے ایک تھا۔ اہلِ پاکستان و کشمیر کبھی بھی اس زلزلے کی تباہ کاریوں کو شاید فراموش نہ کرپائیں۔ بشیر سومرو نے کمال یہ کیا ہے کہ ان علاقوں میں ازخود جاکر حالات کا بچشم خود نہ صرف مشاہدہ کیا بلکہ متاثرین سے ملاقاتیں کر کے اَن گنت واقعات میں سے بہت سے واقعات کو مروجہ رپورٹنگ کے بے جان انداز کے بجاے وہ انداز اختیار کیا جس میں یوں لگتا ہے کہ گویا واقعات قارئین کی نظروں کے بالکل سامنے ہیں۔ روزنامہ اُمت کراچی کے رپورٹر کی حیثیت سے انھوں نے متاثرہ علاقوں سے یہ دل گداز اور پُرسوز داستانیں رقم کیں جسے کتابی صورت میں پیش کر کے ایک اہم فریضہ سرانجام دیا ہے۔ کتاب میں بہت سی رنگین تصاویر بھی شامل ہیں جن سے قاری کے ذہن پر ان افراد کے چہرے بھی نقش ہوجاتے ہیںجن کی کہانیاں اس کتاب میں درج ہیں۔ یوں ایک مؤثر زلزلہ داستان ہمارے سامنے ہے۔ بشیر سومرو نے الفاظ کا صحیح استعمال کیا ہے‘ مثلاً ’’شہر جس کا نام بالاکوٹ تھا اور وہ اب تہہ و بالا ہوکر بکھرا پڑا تھا‘‘ (ص ۱۹)۔ ’’پہلے والا مظفرآباد نہ تھا بلکہ یہ تو ’مظفربرباد‘ لگتا تھا‘‘۔ (ص ۲۱)
پھر نہایت جامعیت کے ساتھ لفظوں میں تصویرکشی قاری کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے‘ مثلاً: ’’بالاکوٹ ہو یا مظفرآباد‘ ان شہروں اور قصبوں میں ہر شخص کہانی ہوچکا ہے۔ جس کو کھولو‘ اس کا کلیجہ چھلنی دکھائی دیتا ہے۔ یہ لوگ اپنے اتنے پیاروں کے صدمے اُٹھا چکے ہیں کہ اب ان کے دل دکھوں کی ہر سرحد سے گزر چکے ہیں‘‘۔ (ص ۵۰)
مظفرآباد کے حوالے سے فاضل مصنف ص ۵۳ پر رقمطراز ہیںکہ ’’زمین نے اپنی چھاتی کھول کر اس شہر کو اپنی پناہ میں لے لیا ہے‘‘۔ ’’یہاں زخمی عورتوں پر دہری ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے زخموں اور صدموں کا خیال بھی رکھتی ہیں اور بچوں کو بھی سنبھالتی ہیں‘‘۔ (ص ۵۸)
حکومتی پروپیگنڈا‘ کراچی کی ایک لسانی تنظیم جسے پروپیگنڈے میں کمال حاصل ہے کا کچا چٹھا اور دینی تنظیموں کا زبردست اور قابلِ تعریف جذبہ و کام‘ سبھی کچھ قاری کو اس کتاب میں ساتھ ساتھ مل جاتا ہے اور یوں یہ کتاب ایک قاری پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ یہ ایک تاریخ ہے جسے محفوظ رکھنا اور اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے آیندہ کے لیے کسی ایسے ممکنہ خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاری رکھنا ضروری ہے۔(محمد الیاس انصاری)
معرکۂ لبنان نے اسرائیل کے ناقابلِ شکست ہونے کے زعم کو باطل کرکے رکھ دیا‘ اور ایسا اس وجہ سے ممکن ہوا کہ لبنانی عوام دینی جذبے سے سرشار تحریک کے پرچم تلے متحد ہوگئے اور یہ ثابت کردیا کہ قیادت مخلص ہو تو عام لوگ اب بھی دینی قیادت کے پیچھے چلنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اُمت مسلمہ کے دشمنوں نے فرقہ وارانہ اختلافات کو ہمارے درمیان نفرتوں کی دیواریں کھڑی کرنے کے لیے استعمال کیا اور ہمارے اجتماعی ماحول کو بڑی حد تک خراب کرکے رکھ دیا‘ تاہم لبنان پر اسرائیل کے حملے اور حزب اللہ کی قیادت میں بھرپور مزاحمت نے دشمنوں کی سازشوں کو دفن کردیا۔ آپ نے اپنے قلم کو اُمت کی صفوں میں وحدت کے فروغ کے لیے استعمال کیا۔ اس جذبے کو مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
’معرکۂ لبنان- تاریکیوں میں روشنی کی کرن‘ (ستمبر ۲۰۰۶ئ) فکر انگیز اور حوصلہ افزاہے۔ کاش کہ دنیا بھر کے مسلمان اسی راستے پر چلیں خصوصاً مسلم ممالک کے حکمران دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر معاملات کریں کیونکہ یہی عزت اور سرخروئی کا راستہ ہے۔ ’فکری یلغار،ماہیت اور اثرات‘ تقریباً ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے جو مغربی فکری یلغار کی زد میں ہیں۔ مصنف نے بجا طور پر کہا ہے کہ نام نہاد لبرل اور پروگریسیو مسلمانوں کے ساتھ اب مؤقر دینی جامعات کے فارغین بھی اس یلغار سے متاثر ہوکر میدان میں اتر آئے ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ بعض دین دار اور تحریکی گھرانوں کے اندر تک یہ یلغار نفوذ کرگئی ہے۔
’فکری یلغار ، ماہیت اور اثرات‘ موجودہ دور کا سلگتا ہوا موضوع ہے۔ مصنف نے جامع انداز میں دشمنانِ اسلام کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف فکری یلغار اور ان کے اثرات کا تجزیہ پیش کیاہے۔ احیاے اسلام کے لیے سرگرم اسلامی تحریکوںکو ان نکات کی روشنی میں ترجیحات کا تعین اور لائحہ عمل وضع کرنا چاہیے۔
ستمبر کا شمارہ متنوع موضوعات پر مبنی ایک متوازن شمارہ تھا۔ مولانا صدرالدین اصلاحی کی تفسیر تیسیرالقرآن کے مطالعے سے روایتی نقطۂ نظر سے ہٹتے ہوئے بعض اہم نکات پہلی بار سامنے آئے۔
’حقیقی اور مصنوعی تقویٰ‘ (ستمبر ۲۰۰۶ئ) کے مطالعے سے حقیقت ِ تقویٰ بخوبی سامنے آجاتی ہے۔ ’داعی کی اہم صفت‘ ہر داعی کے لیے ایک مشعلِ راہ تحریر ہے۔ فاضل مصنف نے مختلف تفاسیر سے استفادہ کیاہے جس سے موضوع کے تمام پہلو یکجا سامنے آجاتے ہیں۔
’تیسیرالقرآن کے کچھ قابلِ ذکر پہلو‘ (ستمبر ۲۰۰۶ئ) میں ص ۳۰ اور۳۱ پر آیات میں اغلاط پریشان کن ہیں۔ ترجمان القرآن میں تو ایسا نہ ہونا چاہیے۔
’روشن خیال اعتدال پسندی‘ (ستمبر ۲۰۰۶ئ) پڑھ کر دل لرز کر رہ گیا۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا ہمارا کام بس اتنا ہی رہ گیا ہے کہ اس قسم کے دین کُش اور قوم کُش حالات و تجزیے پڑھیں‘ دیکھیںاور بے بسی کے ساتھ اپنی روحوں پر داغ لگاکر بیٹھ جائیں؟
’پاکستان میں انصاف اور عدلیہ‘ (ستمبر ۲۰۰۶ئ) اور ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ قابلِ تحسین اور عرق ریزی پر مبنی تحریریں ہیں۔راقم پیشہ وکالت سے وابستہ ہے۔ حصولِ انصاف میں جن رکاوٹوں کا ذکر کیا گیا ہے‘ وہ واقعتا عملی دشواریاں ہیں اور ان کے حل کے لیے صحیح سمت میں رہنمائی دی گئی ہے۔ اصل ضرورت تو اقدام کی ہے۔ میں نے یہ مضامین بار ایسوسی ایشن کے چند دیگر وکلا کوسنا کر حق کی دعوت ادا کرنے کافریضہ بھی ادا کیا ہے۔
بلوچستان میں جو کچھ ہوا وہ ایک مہذب طریقہ نہ تھا ‘ بلکہ اس میں بہت سارے بے گناہ لوگ بھی شہید ہوئے۔ یہ سب کچھ قابلِ مذمت تھا لیکن جو شخص شرافت کی زبان ہی نہ سمجھے اور خود اتنا بڑا ظالم ہو کہ نہ تو اس کے فہمسائے اس کے شر سے محفوظ ہوں نہ رشتہ دار‘ اور اس کا ظلم و جبرکوئی ڈھکا چھپا بھی نہ ہو‘ صرف اور صرف اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لیے ہر حکومت کو بلیک میل کرے‘ قومی تنصیبات کو نقصان پہنچائے اور انسانیت پر اتنے ظلم ڈھائے کہ شیطان بھی پناہ مانگے۔ ایسے شخص کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کرنا‘ اور اتنی زیادہ ہمدردی اور بیان بازی کرنا‘ ایک ظالم کو مظلوم بنا دینا‘ پوری شدومد سے اس کی تشہیر کرکے نمازِ جنازہ (غائبانہ) ہرشہر میں ادا کرنا‘ آخر کس لیے؟
ضعف ایمان کے باوجود مسلمانوں پر روز بروز الحاد و زندقہ کا بڑھتا ہوا طوفان زیادہ واضح ہوتا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بلاجرم ضعیفی کی پاداش میں ان پر نازل ہوئی تھی لیکن جب وہ آئی تو جن کے سینے میں حَبِّ خَرْدَل [رائی کے دانے] کے برابر بھی ایمان تھا‘ اس کا آخری دم تک مقابلہ کرتے رہے۔ بخارا کی نئی حکومت کا بننا تھا کہ علما نے زور وشور سے اپنی تبلیغ جاری کردی۔ انھوں نے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ لیں اور بخارا کے اردگرد گوریلا جنگ جاری کردی۔ انھوں نے نواحی علاقوں کے تمام قبائل میں بے چینی اور تڑپ پیدا کردی۔ تمام قبائل نے متحد ہوکر بالشوزم کے مقابلے کی ٹھان لی۔ ابراہیم بک جو ایک مشہور دلیر اور جری جوان تھا‘ ان کا رہنما بن گیا۔ اب آئے دن بخارا اور اس کے قریبی علاقوں پر حملے ہونے لگے۔ ان ترکتازیوں نے ان کی ایسی دھاک بٹھا دی کہ وسطی ایشیا کے تمام وہ قبیلے جو ابھی تک بڑھتی ہوئی بالشویکی قوت کو سہمی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے تھے‘ دلیر ہوگئے‘ اور ان علما اور مسلمان گوریلا گروہوں کی مدد پر کمربستہ ہوگئے۔
امیرعالم خاں بخارا سے سیدھا افغانستان پہنچا جہاں اس نے مسلمانوں کی حالت کا پورا نقشہ ان کے سامنے پیش کرکے وہاں کے لوگوں سے ان بے یارومددگار مسلمانوں کی مدد کے لیے اپیل کی اور زندقہ کے اس بڑھتے ہوئے سیلاب سے آگاہ کیا۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ جونہی افغان عوام پر اصل حالات کھلے وہ گوریلا گروہوں کی یلغاروں میں شامل ہونے کے لیے پہنچنے لگے یہاں تک کہ سرخ فوج سے ان لوگوں نے دو ایک شہر بھی واپس لے لیے۔ (’صبح سمرقند‘، جیلانی بی اے‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۹‘ عدد ۵‘ ذی القعدہ ۱۳۶۵ھ‘ اکتوبر ۱۹۴۶ئ‘ ص ۴۶-۴۷)