مضامین کی فہرست


دسمبر۲۰۰۶

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۱۵ نومبر ۲۰۰۶ء پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ دن شمار کیا جائے گا۔ اس روزِ سیاہ ملک کی قومی اسمبلی نے اسلام اور شریعت اسلامی کے خلاف امریکی اور یورپی استعمار کی کھلی جنگ میں جنرل پرویز مشرف کے حکم اور دبائو کے تحت‘ ان کے ایک آلۂ کار کا کردار ادا کرتے ہوئے ’تحفظ نسواں‘ کے نام پر’انہدام حدود اللہ‘ کے ایک قانون کو پاکستانی عوام کے شدید احتجاج کے باوجود منظورکرلیا‘ اور اس طرح اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک میں کتابِ قانون سے ایک شرعی حد اور چند دوسرے اسلامی احکام کو خارج کرنے کا ’کارنامہ‘ انجام دے کر قرآن و سنت اور اُس دستورِ پاکستان کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی جس کا حلف اُٹھا کر یہ وجود میں آئی تھی۔ پھر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کھلے احکام کے خلاف اس بغاوت پر جنرل صاحب نے سارے دستوری‘ سیاسی اور اخلاقی آداب کو بالاے طاق رکھ کر اپنے ہم رکاب‘ آزادخیال‘ ترقی پسند اور اِباحیت پرست عناصر کو نہ صرف مبارک باد دی بلکہ ایک نئی صف بندی اور سیاسی جنگ کا اعلان بھی کردیا جس سے اس قانون کے اصل مقاصد اور اہداف کے بارے میں کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہا۔ یہ بل گویا نظریاتی اور تہذیبی جنگ کا عنوان ہے اور یہی وہ خاص پہلو ہے جسے ملک اور ملک کے باہر تمام آزاد خیال اور بش کے ہم نوا عناصر پیش کر رہے ہیں۔

دوسروں کو ’سیاست چمکانے‘ کا طعنہ دینے والے‘ خود اپنی اصل سیاست کا چہرہ حدود اللہ پر ضرب لگانے والے جرنیل کے ان الفاظ میں دیکھ سکتے ہیں:

معاشرے کے ترقی پسند اور اعتدال پسند عناصر کو‘ جو اکثریت میں ہیں‘ اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے اور اپنی حقیقی قوت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اعتدال پسند اور ترقی پسند قوتیں غالب آئیں گی۔ بہت نازک وقت ہے۔ آپ کو بنیادپرست اور انتہاپسند طاقتوں کو مسترد کر دینا چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ آپ ترقی پسند لوگوں کو منتخب کریں گے۔ (دی نیشن‘ ۱۶ نومبر ۲۰۰۶ئ)

واشنگٹن ٹائمز جنرل صاحب کو اس امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھانے پر کھل کر داد دیتا ہے اور کہتا ہے کہ:

بدھ کو پاکستان کے ایوان زیریں نے جو قانون منظور کیا ہے وہ حقوق نسواں اور سیکولر قانون کے غلبے‘ دونوں کے لیے پیش رفت ہے۔ پوری مسلم دنیا میں اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ پاکستان کی ترقی میں مسلم دنیا کے دوسرے ممالک کے لیے بشمول ایران اور سعودی عرب جہاں حدود آرڈی ننس جیسے قوانین ہیں‘ غیرمعمولی اہمیت کا سبق ہے۔ (اداریہ، ’پاکستان میں خواتین کے حقوق‘، ۱۷ نومبر ۲۰۰۶ئ)

ٹونی بلیر اور امریکا کے وائٹ ہائوس کے ترجمان‘ دونوں نے اس بل کا خیرمقدم کیا ہے اور اپنی ھل من مزید روایت پرقائم رہتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ یہ ناکافی ہے‘ اور آگے بڑھو اور  تمام مبنی بردین قوانین سے نجات حاصل کرو!

جنرل صاحب کا سیکولر ایجنڈا تو پہلے دن سے سر اُٹھا رہا تھا مگر بار بار کی کوشش کے باوجود  وہ اس سمت میں کوئی بڑا قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کر پارہے تھے جو مغرب کی ان سیکولر قوتوں کو  خوش کرے جو شرعی قوانین خصوصیت سے حدود‘ تحفظ ناموسِ رسالتؐ، ختم نبوتؐ اور پھر دینی تعلیم‘دینی مدارس اور اسلام کے تصورِ جہاد کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ بش کی دہشت پسندی کے خلاف نام نہاد جنگ نے جنرل صاحب کو اپنے قدم جمانے اور بیرونی سہاروں پر اپنے باوردی اقتدار کو مستحکم کرنے کا موقع دیا اور پھر وہ فیصلہ کن گھڑی آگئی جب بش اور مغربی اقوام نے ان کی وفاداری کے ثبوت کے لیے ان سے مطالبہ کیا کہ خود اپنی قوم کے نوجوانوں کو قتل کریں‘ جہاد کی  ہرشکل سے برأت کا اعلان کریں‘ خصوصیت سے کشمیر کی جدوجہد آزادی سے دست کش ہوں جسے پاکستانی عوام ہی نہیں پوری اُمت اسلامیہ ایک مبنی برحق جہاد سمجھتی ہے۔ اس سلسلے کا سب سے    بڑا مطالبہ یہ تھا کہ حدود قوانین کو کتابِ قانون سے ساقط کر کے اپنی روشن خیالی، مگر بالفاظ صحیح تر  ’بش خیالی‘ اور آزادروی کا ثبوت دیں___اور بالآخر ارکانِ پارلیمنٹ حتیٰ کہ ان کی اپنی پارٹی کی ایک معتدبہ تعداد (آخری راے شماری میں سرکاری پارٹی کے ۴۲ ارکان نے شرکت نہیں کی جن  سے جواب طلبی کی جارہی ہے) کے عدمِ تعاون کے باوجود جنرل صاحب نے پیپلزپارٹی سے       بے نظیرصاحبہ کے خصوصی حکم نامے کے تحت کمک حاصل کرکے صدربش کے ’اسلام کی اصلاح‘ (reforming Islam) کے کروسیڈ میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس کے نتیجے میں ملک کا سیاسی منظرنامہ بھی متاثر ہوا۔ حزبِ مخالف نہ صرف بٹ گئی بلکہ جیساکہ بی بی سی کے مبصر نے کہا: حدود بل  مستقبل میں صدرمشرف اور پیپلز پارٹی کی ورکنگ ریلیشن شب کا سنگ بنیاد ثابت ہوگا‘‘، اور سیکولر دانش وروں اور صحافیوں کے گرو‘ امتیازعالم صاحب نے اسے اس طرح بیان کیا کہ:

درحقیقت اس بل نے سیاسی قوتوں کی نئی صف بندی کے امکانات کا راستہ کھول دیا ہے اور انتخابات سے پہلے آزاد رو بمقابلہ قدامت پسند قوتوں کی محاذآرائی کے لیے    فضا تیار کردی ہے۔ اس [مشرف] کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوگا کہ   بے نظیر بھٹو کے ساتھ لبرل پلیٹ فارم سے ملاؤںکا مقابلہ کریں۔ (دی نیوز، ۲۱ نومبر ۲۰۰۶ئ)

حدود قوانین میں تبدیلی کے اقدام کا جائزہ خالص شرعی اور اعتقادی پہلوؤں کے ساتھ‘ آج کے اس ملکی اور بین الاقوامی سیاسی پس منظر میں لیا جانا ضروری ہے۔

عراق پر حملے اور حدود اللّٰہ پر حملے کے لیے

بش اور مشرف کی یکساں حکمت عملی

عراق پر صدربش کے جارحانہ حملے اور جنرل پرویزمشرف کی شرعی قوانین پر عیارانہ یلغار میں تین اہم مشترک عناصر ہیں اور استعماری اور آمرانہ قوتوں کی ذہنی ساخت (mind-set) اور جنگی حکمت عملی کو سمجھنے کے لیے ان کا ادراک ضروری ہے:

  • جہوٹا جواز اور غلط بیانی: صدربش اور ان کی پوری ٹیم نے صریح جھوٹ‘غلط بیانی اور حقائق کو مسخ کرکے جنگ کا جواز پیدا کیا۔ تباہ کن ہتھیاروں کا واویلا کرکے طبلِ جنگ بجایا اور عراق میں آگ اور خون کی ہولی شروع کردی۔ سیکولر اور لبرل قوتوں نے پاکستان کے دینی اور تہذیبی تشخص کو تہ و بالا کرنے کے لیے بھی حدود قوانین کے بارے میں صریح جھوٹ‘ غلط بیانی اور حقائق کو مسخ کرکے ان پر حملہ آور ہونے کا راستہ استوار کیا۔ بھرپور میڈیا ٹرائل کیا گیا اور صاف نظرآرہا ہے کہ تین صریح غلط بیانیاں (established lies) ہیں جن پر اس جنگ کی بنیاد ہے‘ یعنی:

ا : یہ قوانین ایک فردِواحد کے مسلط کردہ ہیں اور انھیں کوئی سیاسی حمایت حاصل نہیں۔

ب: یہ خواتین کے خلاف امتیازی سلوک پر مبنی ہیں۔

ج: زنا بالجبر (rape) کا نشانہ بننے والی خواتین کے لیے عینی گواہ لانا ضروری ہے ورنہ ان کو زنا بالرضا کے جرم میں دھر لیا جاتا ہے‘ مرد چھوٹ جاتا ہے اور عورت محبوس کر دی جاتی ہے۔

غلط بیانیاں تو اور بھی ہیں مگر ان تین باتوں کو اس تسلسل اور تکرار سے پھیلایا گیا ہے اور اس سلسلے میں حقائق کو اس طرح مسخ کیا گیا ہے کہ بش کے تباہ کن ہتھیاروں والے بڑے جھوٹ  (big lie) کے علاوہ اس کی کوئی دوسری نظیر حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ ہم ان تینوں کے بارے میں اصل حقائق پیش کریں گے تاکہ اس طائفے کی دیانت اور اس کے دعوئوں کے قابلِ اعتبار ہونے کی حقیقت سامنے آسکے۔ جس مقدمے کی بنیاد ہی جھوٹ اور غلط بیانی پر ہو‘ اس کا حشر بش کی عراقی مہم جوئی سے مختلف کیسے ہوسکتا ہے؟

  • ظاھری مقاصد اور حقیقی اھداف میں فرق: دوسری مماثلت کا تعلق اعلان شدہ مقاصد (declared objectives)اور حقیقی اہداف (real targets) میں نمایاں فرق بلکہ بُعدالمشرقین سے ہے۔ عراق کی جنگ کے لیے تباہ کن ہتھیاروں کی تلاش کے ساتھ جمہوریت کے فروغ کو مقصد بتایا گیا‘ جب کہ اصل مقصد عراق کے تیل کے ذخائر پر قبضہ‘ مشرق وسطیٰ کے سیاسی نقشے کی تبدیلی اور عراقی حکومت کو ختم کر کے اسرائیل کے لیے غیرمحدود مدت کے لیے تحفظ کا حصول تھا۔ اسی طرح حدود قوانین پر حملہ بظاہر عورتوں کے حقوق کی حفاظت اور قانون کے غلط استعمال کے دروازے بند کرنا ہے مگر فی الحقیقت یہ ملک کو سیکولر بنانے اور اس کی اسلامی شناخت  ختم کرنے کے امریکی اور لبرل عناصر کے ہمہ گیر منصوبے کا پہلا کلیدی اقدام ہے۔ اصل ایشو دین اور ریاست کے تعلق اور اجتماعی زندگی اور قانون سازی میں الہامی ہدایات اور دینی احکام کے  فیصلہ کن کردار کا ہے۔ حدود قوانین کی بحث میں مرکزی نکتہ ہے ہی یہ کہ اصل حاکم کون ہے؟ مغربی اقوام کو شریعت سے جو کد ہے‘ اس کی بنیاد بھی یہی ہے کہ اقدار اور اساسی قانون کا منبع انسانی تجربہ ہے یاالہامی ہدایت؟ انفرادی دین داری جسے صوفی اسلام کا نام دیا جارہا ہے‘ اس سے مغرب کے استعماری نظام کو کوئی خطرہ نہیں لیکن اسلام کا وہ تصور جو انسانی زندگی کے جملہ معاملات کے لیے بنیادی رہنمائی اللہ اور اس کے رسولؐ کی فراہم کردہ ہدایت سے حاصل کرتا ہے اور جس کے نتیجے میں اُمت مسلمہ ایک تاریخ ساز قوت بنتی ہے وہ ’سیاسی اسلام‘ (political Islam) بن جاتا ہے   اور جو بنیاد پرستی (fundamentalism) اور انتہاپسندی (extremism) قرار پاتی ہے۔ حدود قوانین توصرف پانچ ہیں جو مقاصد شریعت کے محافظ ہیں‘ ان سے خطرہ ہی یہ ہے کہ اس طرح شریعت رہنما قوت بنتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ حدود کا حقیقی نفاذ تو آج تک ہوا ہی نہیں لیکن یہ بھی گوارا نہیں کہ حدود کتابِ قانون کا حصہ ہوں کہ کہیں کل ان کا مکمل نفاذ نہ ہوجائے۔ نیز حدود پر حملہ مسلم اُمت کی اس صلاحیت کو آزمانے ( test) کے لیے ہے کہ یہ قرآن و سنت کے احکام میں تبدیلی کو کس حد تک برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اگر ایک حد کو پامال کیا جائے گا اور اسے برداشت کرلیا جائے گا تو پھر کل ایک ایک کر کے دوسری تمام حدود کو بھی پامال کرنے کی طرف پیش قدمی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ایک معمولی اقدام نہیں بلکہ اس کے دُور رس اثرات ناگزیر ہیں۔ یہ ایک نظریاتی‘ اخلاقی اور تہذیبی کش مکش کا عنوان ہے اور یہی وجہ ہے کہ مغربی اقوام کے چوٹی کے ماہرین حکمت عملی (strategists ) بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلامی دنیا کو قابو میں کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ اسلام میں تبدیلی کی جائے۔ روشن خیال اور اعتدال پسند اسلام اور بنیاد پرست اور جہادی اسلام کی تفریق اس کا مظہر ہے۔ حدود قوانین پر تازہ حملہ عورتوں کے تحفظ کے لیے ایک اقدام  نہیں‘ مسلم معاشرے اور اُمت مسلمہ کو شریعت اور اسلامی اقدار کی بنیاد پر اجتماعی زندگی کا نقشہ  تعمیر کرنے کے عزائم سے روکنے کا پیش خیمہ ہے۔ یہ اسلام کی اصلاح بالفاظ دیگر مرمت کرنے (reforming Islam ) اور دنیا میں اسلام کو نئی شکل دینے (restructuring) کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔

  • حکمت عملی میں یکسانیت: معرکۂ عراق اور حدود پر یورش میں تیسری مماثلت اُس تکنیک میں ہے جس سے ان معرکوں کے لیے صف بندی کی گئی ہے۔ دستور‘ قانون‘ اخلاقی‘ سیاسی روایات سب کو بالاے طاق رکھ کر ایک فردِواحد کا قوت اور  جوڑ توڑ کے ذریعے  اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے دوسروں کو استعمال کرنا ہے۔ اقوامِ متحدہ کا چارٹر کسی ملک کو    یہ اختیار نہیں دیتا کہ دوسرے آزاد ممالک پر فوج کشی کرے لیکن عراق پر اقوام متحدہ کو نظرانداز کرکے بش نے اقدام کیا‘ اور یہاں جنرل پرویز مشرف نے اپنی وردی کے سہارے ارکان پارلیمنٹ کو طاقت کا ہر حربہ استعمال کر کے اپنا آلۂ کار بنایا۔ اپوزیشن کو تقسیم کرنے اور سرکاری پارٹی کو بلیک میل کرکے اپنے مقاصد حاصل کیے۔ پارٹی میں اختلاف کرنے والوں کا منہ بند کیا گیا اور ہر نوعیت کے دبائو کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ حدود قوانین کے ناقدین کے سرخیل امتیازعالم بھی اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ:

حدود قوانین میں ترمیم کرنے کی کوششوں کو حکمراں پارٹی‘ مسلم لیگ (ق) اور ملاؤں کی طرف سے سخت مزاحمت پیش آئی ہے۔ صدرمشرف نے بازو مروڑ کر یہ ممکن بنایا کہ  مسلم لیگ (ق) سیلیکٹ کمیٹی کے بل کو آگے بڑھائے۔ (’حدود کی سیاست‘، دی نیوز، ۲۱ نومبر ۲۰۰۶ئ)

یہ وہی حربے ہیں جن سے بش نے اپنا نام نہاد  حلیفوں کا اتحاد بنایا۔ اسی طرح     جنرل مشرف نے حدود کے خلاف جنگ میں حلیفوں کو ساتھ لیا اور ملک کو ایک نظریاتی جنگ میں جھونک دیا۔

جہوٹ اور غلط بیانیاں

حدود قوانین کے خلاف مقدمہ سراسر جھوٹ اور غلط بیانیوں پر مبنی ہے جو اس پوری جدوجہد کوبدنیتی پر مبنی (malafide) ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔

حدود قوانین میں بھتری کے لیے ترامیم

ایک بات یہ کہی جارہی ہے کہ ہم قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کرنا چاہتے اور حدود قوانین اور حدود میں فرق کرنا ضروری ہے۔ پھر بڑے دھڑلے سے کہا جاتا ہے کہ حدود قوانین انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں اور وہ مقدس نہیں‘ انھیں بدلاجاسکتا ہے۔ ان قوانین میں بہتری پیدا کرنے‘ عملی مشکلات کو دُور کرنے اور قانون کو اس کی اسپرٹ کے مطابق نافذ کیے جانے کے عمل کو مؤثر بنانے کے بارے میں ہر سوچ بچار جائز بلکہ ضروری ہے اور اس پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عملاً اس سلسلے میں کئی کوششیں ہوئی ہیں جن کا کوئی ذکر اس بحث میں نہیں کیا جاتا۔ اگر اسلامی نظریاتی کونسل کی کارروائیوں اور رپورٹوں کا مطالعہ کیا جائے تو ایک درجن سے زیادہ مواقع پر کونسل نے ان قوانین کو مؤثر بنانے کے لیے تجاویز پیش کی ہیں اور وزارتِ قانون سے ردوکد کی ہے مگر سیکولر ذہن رکھنے والی انتظامیہ کے ہاں کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔

حدِ زنا آرڈی ننس ۱۰ فروری ۱۹۷۹ء کو ملک میں جاری اور نافذ ہوا۔ اس قانون میں کم ازکم پانچ ترامیم گذشتہ ۲۷ برسوں میں ہوئی ہیں جواس کا ثبوت ہیں کہ حد میں نہیں البتہ حدود آرڈی ننس میں کسی اصلاح یا تبدیلی کی ضرورت ہے تو وہ کی گئی ہے اور کی جاسکتی ہے۔

  •   ۱۹۸۰ء میں آرڈی ننس کی دفعہ ۲۰ میں ترمیم کرتے ہوئے طے کیاگیا کہ اس آرڈی ننس کے تحت کسی بھی مقدمے کی سماعت سیشن کورٹ میں ہوگی اور ضابطہ فوجداری کی دفعہ ۳۰ کے تحت بااختیار مجسٹریٹ کی عدالت میں نہیں ہوگی۔
  •  ۱۹۹۷ء میں آرڈی ننس کی دفعہ ۱۵ کی ذیلی دفعہ (۳) میں ترمیم کرتے ہوئے زنابالجبر کے جرم میں کم از کم چار سال قید کی سزا کی حد مقرر کی گئی۔
  • اسی طرح ۱۹۹۷ء میں ذیلی دفعہ (۴) کا اضافہ ہوا اور گینگ ریپ کی صورت میں ہرملزم کے لیے موت کی سزا مقرر کی گئی۔
  • تعزیر کی صورت میں کوڑوں کی سزا کو ختم کیا گیا۔
  •  ۲۰۰۴ء میں ضابطہ فوجداری میں دفعہ ۱۵۶ کا اضافہ کیا جس کے مطابق زنا بالرضا کے مقدمات میں مقدمے کی تفتیش کے لیے ایس پی سے کم درجے کا کوئی پولیس افسر تفتیش نہ کرسکے گا‘ نیز عدالت کی پیشگی اجازت کے بغیر ملزم گرفتار بھی نہیں کیا جائے گا۔

اس سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ طریق کار کے (procedural) معاملات میں اصلاح کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور آیندہ بھی اس سلسلے میں تجربات کی روشنی میں تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں البتہ ضابطے کی اصلاحات کے نام پر حدود کی تبدیلی یا ان کو غیرمؤثر بنادینا قابلِ برداشت نہیں۔

یہاں ضمناً حکومت کے منفی رویے کی عکاسی کے لیے ایک اور مثال بھی ریکارڈ پر لانا ضروری ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے ۱۹۸۹ء میں‘ زنا بالجبر کے سلسلے میں اپنے ایک فیصلے میں‘    زنا آرڈی ننس کی دفعات ۸ اور ۹ (۴) میں تین ترامیم کا فیصلہ دیا اور صدرمملکت سے گزارش کی کہ یکم فروری ۱۹۹۰ء تک مذکورہ دفعات میںترمیم کردیں ورنہ دستور کے تحت ’’مذکورہ بالا دفعات قابلِ نفاذ نہ ہوں گی اور شرعی قوانین پر عمل ہوگا‘‘۔ لیکن حکومت نے ترمیم کرنے کے بجاے سپریم کورٹ کی شریعہ بنچ میں اپیل کردی جس کا آج تک فیصلہ نہیں ہوا ہے‘ یعنی ۱۶ سال سے یہ ترامیم معلق ہیں۔

حدود قوانین میں ترمیم‘ بشرطیکہ وہ شریعت کے مطابق اور ان قوانین کے مقاصد کے حصول کے لیے ہو‘کوئی رکاوٹ نہیں۔ مخالفت ان ترامیم کے باب میں ہے جو حدود کو ختم یا غیرمؤثر کرنے کے لیے کی جائیں‘ جیساکہ حالیہ تحفظ نسواں قانون کے ذریعے کی جارہی ہیں۔

حدود قوانین‘ فردِ واحد کا اقدام

دوسری صریح غلط بیانی کا تعلق دن رات کے اس دعوے سے ہے کہ حدود قوانین جنرل ضیاء الحق کا ذاتی اقدام تھا جو سعودی عرب کے دبائو میں کیا گیا۔ جہاں تک ان کے نفاذ کے لیے صدارتی آرڈی ننس کے طریقے کو اختیار کیے جانے کا سوال ہے‘ وہ ایک حقیقت ہے لیکن اسی طرح کی ایک حقیقت ہے جیسی دوسرے سیکڑوں آرڈی ننس قوانین کی شکل میں ملک کی کتابِ قانون میں موجود ہے۔ جنرل ایوب سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک ہر فوجی حکمران نے سیکڑوں قوانین صدارتی فرمان کے ذریعے نافذ کیے ہیں اور پارلیمنٹ کی موجودگی میں بھی ۹۰ فی صد قانون سازی آرڈی ننسوں کے ذریعے ہو رہی ہے۔ اس پر اصولی تحفظات اپنی جگہ‘ لیکن صرف اسی ایک آرڈی ننس کو مطعون کرنا قرین انصاف نہیں۔

جہاں تک حدود قوانین کا تعلق ہے‘ ان کی حیثیت بہت مختلف ہے۔ یہ قوانین کسی انسان کے بنائے ہوئے نہیں بلکہ قرآن وسنت کے طے کردہ ہیں اور ان پر اُمت مسلمہ کی پوری تاریخ میں عمل ہوتا رہا ہے۔ دوررسالت مآبؐ سے لے کر مغربی استعمار کے قبضے تک یہ مسلمان ممالک میں جاری وساری تھے۔ مولانا مناظراحسن گیلانی مسلمان بادشاہوں پر تنقید کے ساتھ اس حقیقت کو بھی نمایاں کرتے ہیں کہ:

حالانکہ اور کچھ ان بادشاہوں کے عہد میں تھا یا نہ تھا لیکن قانون جہاں تک میں جانتا ہوں‘ ہر زمانے میں‘ مسلمانوں کی کسی حکومت کا کسی ملک میں‘ کوئی قانون اسلام کے سوا نافذ نہ رہا… مسلمانوں کے ہاتھ میں دنیا کی سیاست کی باگ ڈور جب تک رہی‘ اسلامی قانون کے ساتھ اس کی وفاداری مسلسل رہی۔ (مناظراحسن گیلانی‘ مقالاتِ احسانی‘ ص ۶۲-۶۳)

سلاطین دہلی کے نظامِ حکومت کی عمومی کیفیت مولانا سعیداحمداکبرآبادی یوں بیان کرتے ہیں:

مسلمان بادشاہوں کی یہ خصوصیت رہی کہ ان میں جو بادشاہ متقی اور پرہیزگار تھے‘ وہ تو خیر اسلامی شعائر و حدود کا احترام کرتے ہی تھے‘ ان کے علاوہ جو سلاطین عشرت پسند اور لذت کوش ہوتے (باستثنا معدودے چند) وہ بھی اسلامی احکام کا احترام ملحوظ رکھنے میں کسی سے کم نہ تھے‘ نیز عدالتوں کے فیصلے قرآن و حدیث کی روشنی میں ہوتے تھے۔ (سعیداحمد اکبرآبادی‘ مسلمانوں کا عروج و زوال‘ ص ۳۶۵)

ہندستان میں اسلام کا قانون فوجداری صدیوں نافذ رہا۔ یہ کوئی آج کا عجوبہ نہیں۔ہندو مؤرخ وی ڈی مہاجن لکھتا ہے:

جرائم کی تین قسمیں تھیں‘ یعنی خدا کے خلاف جرائم‘ ریاست کے خلاف جرائم اور افراد کے خلاف جرائم۔ سزائوں کی چار قسمیں یہ تھیں: حد‘ تعزیر‘ قصاص‘ تشہیر۔ قرآن وہ بنیاد تھی جس پر قوانین مبنی تھے۔ اکبر تک نے فوجداری جرائم کے معاملات میں مداخلت نہیں کی جو اسلامی قانون تھا۔ (دی مسلم رول اِن انڈیا، ص ۲۰۷)

ایک اور ہندو مؤرخ آر سی ماجومدار لکھتا ہے:

اسلامی فوجداری قوانین اور سزائیں پورے مغل دور میں نافذ رہیں‘ حتیٰ کہ اکبر نے بھی فوجداری قانون میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں کی۔ (دی ہسٹری اینڈ کلچر آف دی انڈین پـیپل‘ دی مغل ایمپائر، ممبئی‘ ۱۹۷۴ئ‘ ص ۵۴۴)

حدود کے نفاذ کا قانون کسی خلا میں نہیں بنایا گیا۔٭ ایک طویل تاریخی روایت کا تسلسل ہے اور اس کی جمہوری اساس مسلمانوں کے عقیدے اور ایمان پر ہے‘ کسی ووٹ پر نہیں۔ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں اسلامی قانون کے نفاذ کا دعویٰ بار بار ہوا اور خود قائداعظمؒ نے نصف درجن سے زیادہ مواقع پر شریعت اور اسلامی قوانین کے نفاذ کا ذکر کیا ہے۔پھر تحریک نظام مصطفیؐ کا مرکزی مطالبہ اسلامی شریعت کا نفاذ تھا جس کا آغاز خود جناب ذوالفقار علی بھٹو نے امتناع شراب کے آرڈی ننس سے کیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے حدود قوانین اسی کا تسلسل تھے۔

یہ بھی کہنا غلط ہے کہ جنرل ضیا الحق نے سعودی قانون کا چربہ یہاں نافذ کیا۔ سعودی عرب میں اس سلسلے میں کوئی باضابطہ قانون (legislation) نہیں ہے۔ وہاں ججوں کے بنائے ہوئے قانون (Judge made law)کا نظام نافذ ہے جو قرآن و سنت سے براہِ راست استفادہ کرکے قانون نافذ کرتے ہیں۔ نیز جو قوانین جنرل ضیاء الحق کے دور میں مرتب ہوئے وہ      اس وقت کی اسلامی نظریاتی کونسل کے تیارکردہ مسودے پر مبنی تھے۔ جس کونسل نے یہ مرتب کیے اس میں جسٹس محمد افضل چیمہ‘ جناب خالداسحاق‘ مولانا محمد یوسف بنوری‘ خواجہ فخرالدین سیالوی‘    مفتی سیاح الدین کاکاخیل‘ مفتی محمد حسین نعیمی‘ مولانا محمد تقی عثمانی‘ مولانا ظفراحمد انصاری‘     جناب جعفرحسین صاحب مجتہد‘ مولانا محمد حنیف ندوی اور ڈاکٹر ضیاء الدین احمد‘ علامہ سید محمد رضی‘ مولانا شمس الحق افغانی اور ڈاکٹرمسز خاور خان چشتی۔ (اسلامی نظریاتی کونسل‘ سید افضل حیدر‘ دوست پبلی کیشنز‘ اسلام آباد‘ ۲۰۰۶ئ‘ ص ۷۶۵)

اس قانون کی تسوید میں کسی سعودی عالم کا کوئی کردار نہیں تھا۔ جن تین عالمی شہرت کے ماہرین قانون نے مدد کی وہ ڈاکٹر معروف دوالیبی سابق وزیراعظم شام‘ ڈاکٹر مصطفی احمد زرقا‘ پروفیسر قانون جامعہ شام‘ اور ڈاکٹر حسن ترابی سابق اٹارنی جنرل سوڈان تھے۔ ڈاکٹر معروف اور ڈاکٹر حسن ترابی فرانس کی سوبورن یونی ورسٹی سے قانون میں پی ایچ ڈی کی سند رکھتے تھے اور   یونی ورسٹی پروفیسر کی خدمات انجام دے چکے تھے۔ جس کابینہ نے اس کی سفارش کی اس میں جناب اے کے بروہی‘ جناب شریف الدین پیرزادہ‘ جناب غلام اسحاق خان‘ جناب محمدعلی خان ہوتی‘ جناب چودھری ظہورالٰہی‘ جناب خواجہ محمد صفدر‘ جناب محمد خاں جونیجو تھے اوراس قانون کو  مسلم لیگ‘ جمعیت علماے پاکستان‘ جمعیت علماے اسلام‘ جماعت اسلامی اور نواب زادہ نصراللہ کی  پی ڈی پی کی حمایت حاصل تھی۔ بلاشبہہ اس وقت پارلیمنٹ نہیں تھی مگر تین سیاسی جماعتوں کے سوا پوری قوم نے اس کی تائید کی تھی۔ انھیں محض ایک شخص کی اختراع کہنا حقائق کی صحیح ترجمانی نہیں۔

خواتین پر مظالم میں اضافہ

تیسری بڑی غلط بیانی یہ ہے کہ قانون کے بننے کے بعد عورتوں پر مظالم میں اضافہ ہوگیا ہے‘ ان کے خلاف امتیازی سلوک کیا جارہا ہے‘ جیلیں عورتوں سے بھردی گئی ہیں‘ زنابالجبر کے مقدمات میں شہادت نہ ہونے پر زنابالرضا میں عورتوں کو دھرلیا جاتا ہے‘ عورتوں کو بے دریغ سزائیں دی جارہی ہیں‘ اور یہ کہ زنا کے سلسلے میں عورت کی گواہی قبول نہیں کی جاتی وغیرہ وغیرہ۔  یہ ایک ناخوش گوار حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں دوسرے مظلوم طبقات کی طرح عورت ہی ناروا سلوک اور ظلم کا شکار ہے اور اس کی بڑی وجہ جاگیردارانہ نظام‘ بااثر طبقات کا قانون سے بالاہونا‘ ہرسطح پر کرپشن‘ پولیس اور عدالت کے نظام کی خرابیاں اور قانون کے احترام کی روایت کا فقدان ہے۔ اس کا تعلق محض حدود قوانین سے نہیں اور ساری خرابیوں کو ان حدود قوانین سے    جوڑ دینا صریح ناانصافی ہے۔

پھر جو دعوے حدود قوانین کے سلسلے میں پورے دھڑلے سے کیے جاتے ہیں‘ وہ ذہنی اختراع سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ ہم صرف چند کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ کہ ہزاروں خواتین ان قوانین کی وجہ سے جیلوں میں ہیں‘ حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ وومن ایڈ ٹرسٹ کے ایک جائزے کے مطابق جو ستمبر۲۰۰۳ء میں ملک کے تین جیلوں کے کوائف پر مبنی ہے‘ صورت حال یہ سامنے آتی ہے: اڈیالہ جیل راولپنڈی میں کل ۱۲۵ خواتین تھیں جن میں سے ۸ئ۲۴ فی صد حدود کے تحت تھیں۔ کوٹ لکھپت جیل لاہور میں یہ تناسب ۴۹ فی صد تھا جہاں کل تعداد ۹۷ تھی۔ کراچی سنٹرل جیل میں تعداد سب سے زیادہ تھی‘ یعنی ۲۸۰ اور حدود کے تحت مقدمات میں ماخوذ کا تناسب ۲۸ فی صد تھا۔ ان تین جیلوں میں حدود کے مقدمات میں ماخوذ خواتین کا تناسب اوسطاً ۳۱ فی صد تھا۔

حال ہی میں صدارتی آرڈی ننس کے تحت جن خواتین کو جیلوں سے رہا کیا گیا ہے ان کے جو اعدادوشمار اخبارات میں آئے‘ ان سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ حدود قوانین کے تحت محبوس خواتین کا تناسب ایک تہائی سے کم تھا۔

اسی طرح حدود قوانین کے اجرا سے پہلے اور ان کے نفاذ کے بعد کے کوائف کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زنا بالرضا کے جرم بننے کے باوجود‘ آبادی میں تناسب کے اعتبار سے کوئی نمایاں فرق نہیں پڑا۔ اگر پاکستان اور بھارت میں جنسی جرائم کے اعداد وشمار کا موازنہ کیا جائے تو پانچ سال میں (۱۹۹۱ء تا ۱۹۹۵ئ) بھارت میں جہاں حدود قوانین سے قبل ہی کا برطانوی قانون نافذ ہے‘ پاکستان کے مقابلے میں ۵۰۰ فی صد زیادہ اضافہ ہوا ہے‘ جب کہ بھارت میں صرف زنابالجبر جرم ہے‘ جب کہ پاکستان میں اس زمانے میں زنابالجبر اور زنابالرضا دونوں جرم تھے:

   ۱۹۹۱ئ  ۱۹۹۵ئ  اضافہ

ہندستان میں زنا بالجبر            ۹۷۹۳     ۱۳۷۹۵   ۴ئ۴۰

پاکستان زنابالجبر+ بالرضا     ۱۴۸۲     ۱۶۰۶     ۷ئ۷

(ملاحظہ ہو شہزاد اقبال شام کا مقالہ’ارتکاب زنا (نفاذ آرڈی ننس ۱۹۷۹ئ) نفاذ کے    ۲۵ سال___ ایک مطالعہ‘۔ انھی کی مرتب کردہ کتاب پاکستان میں حدود قوانین‘ مطبوعہ شریعۃ اکیڈمی‘ اسلامی یونی ورسٹی‘ اسلام آباد‘ ص ۸۹)

پاکستان میں زنا اور زنا بالجبر کے واقعات میں جو اضافہ ہوا ہے‘ اگر آبادی میں اضافے کے تناظر میں دیکھا جائے تو کسی اعتبار سے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ حدود قوانین کے بعد جیلیں عورتوں سے بھر دی گئی ہیں۔ زنا بالجبرکے جو واقعات رپورٹ ہوئے‘ وہ ۱۹۴۹ء میں ۵۲۱ تھے‘ ۱۹۸۰ء میں ۷۳۹ ہوچکے تھے۔ ان قوانین کے نفاذ کے بعد ۱۹۸۱ء میں یہ تعداد ۱۱۰۱ تھی جو ۲۰۰۴ء میں ۲۳۶۵ ہوگئی۔ آبادی کے تناسب سے ایک لاکھ میں ۰ئ۱ اور ۶ئ۱ کے درمیان رہی۔ مسلم معاشرے میں یہ بھی بہت شرم ناک اور افسوس ناک ہے۔ سعودی عرب میں جہاں حدود قوانین کو ٹھیک ٹھیک نافذ کیا گیا ہے جرائم میں غیرمعمولی کمی واقع ہوئی اور آج بھی یونیسکو کی رپورٹوں کے مطابق  سعودی عرب میں جرائم کا تناسب دنیا میں سب سے کم ہے‘ جب کہ بھارت اور مغربی ممالک میں جہاں کوئی حدود قوانین موجود نہیں‘ زنا بالجبر نے سوسائٹی کی چولیں ہلا رکھی ہیں۔ بھارت کے   نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ کے مطابق جسے پارلیمنٹ میں جولائی ۲۰۰۶ء میں پیش کیا جانا تھا‘ ہرآدھے گھنٹے میں ایک عورت کی جبری عصمت دری کی جاتی ہے اور ہر ۷۵ منٹ پر ایک کو  قتل کیا جاتا ہے۔ نیز صرف ۲۰۰۴ء میں ۲۰۰۳ء کے مقابلے میں ملک کے ۳۵ بڑے شہروں میں   جبری عصمت دری میں ۳۰ فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ (رائٹر کی رپورٹ‘ یکم جون ۲۰۰۶ئ)

برطانیہ میں برٹش کرائم سروے کے مطابق ۰۵-۲۰۰۴ء میں ۱۶ سال کی عمر سے بڑی خواتین میں سے ۲۳ فی صد نے اعتراف کیا کہ ان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایک سال میں عورتوں کی کُل آبادی کے ۳ فی صد نے اعتراف کیا کہ اس سال ان کی عصمت دری کی گئی ہے۔ پاکستان میں جنسی جرائم کا تناسب ایک لاکھ کی آبادی میں ۶ئ۱ ہے‘ جب کہ انگلستان میں یہ ۳ فی صد‘ یعنی ایک لاکھ میں ۳۰۰۰ بنتا ہے۔ امریکا میں ۱۹۸۶ء سے ۲۰۰۵ء تک اوسطاً ہرسال ایک لاکھ خواتین جبری عصمت دری کا نشانہ بن رہی ہیں‘ جسے وہاں forceable rape کہا گیا ہے۔  (بحوالہ سرکاری رپورٹ Crime in the United States 2005)۔ یہ دعویٰ کہ حدود قوانین کی وجہ سے پاکستان میں جرائم میں اضافہ ہوا ہے اور جیلیں عورتوں سے بھردی گئی ہیں‘ سرتاسر اتہام اور غلط بیانی پر مبنی ہے۔

پھر یہ دعویٰ بھی ایک سفید جھوٹ ہے کہ کسی ایسی خاتون کو جو زنا بالجبر کا نشانہ بنی ہواور الزام ثابت نہ ہونے کی صورت میں اسے زنا بالرضا کے جرم میں سزا دی گئی ہے۔ شریعت کورٹ کے ججوں اور قانونی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ایسا ایک واقعہ بھی وجود پذیر نہیں ہوا۔ امریکی محقق پروفیسر چارلس کینیڈی نے پاکستان میں حدود قوانین کے نفاذ پر جو تحقیق کی ہے اس میں پانچ سال کے تمام واقعات اورمقدمات کا تجزیہ کرکے وہ جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے   روشن خیال کذب فروشوں کے لیے ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ان کے جھوٹے دعوے کی حقیقت دیکھی جاسکتی ہے چارلس کینیڈی اپنے مضمون Implementation of the Hudood Ordinance میں‘ جو اولاً امریکی جریدے Asian Survey میں شائع ہوا تھا اور پھر اس کی کتاب Islamization of Laws and  Economy (مطبوعہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ اسلام آباد‘ ۱۹۹۶ئ) میں‘ لکھتا ہے:

شاید حدود آرڈی ننس کا سب سے زیادہ اہم پہلو اس قانون کا خواتین کے حقوق پر مبینہ اثر ہے۔ کئی حالیہ مطالعوں میں یہ کہا گیا ہے کہ ضیاء کا نظامِ مصطفیؐ اور خاص طور پر حدود آرڈی ننس خواتین سے امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ اسلامیانے کے عمل کے خواتین کے مقام پر جو اثرات ہوئے ہیں‘ اس کا جائزہ لینا اس مضمون کے دائرے سے باہر ہے۔ ہماری تحقیق حتمی طور پر ثابت کرتی ہے کہ حدود آرڈی ننس کے نفاذ کے محدود دائرے میں عورتوں کے خلاف کوئی واضح امتیازی رجحان نہیں ہے (دیکھیے: جدول ۳)۔ حقیقت اگر کچھ ہے تو وہ مردوں ہی کے خلاف تھوڑا بہت جنسی امتیاز ہے۔ حدود آرڈی ننس کے تحت ڈسٹرکٹ اور سیشن عدالتوں میں جو مجرم قرار دیے گئے ان کے ۸۴ فی صد مرد ہیں‘ اور جن کی سزائیں وفاقی شرعی عدالت میں برقرار رہیں ان میں ۹۰ فی صد مرد ہیں۔ سب سے زیادہ کھل کر سامنے آنے والی حقیقت تو زنا کی تعزیر کے حوالے سے یہ ہے کہ یہ جرائم کرنے میں کوئی جنسی تفریق نہیں ہے لیکن ڈسٹرکٹ اور سیشن کورٹ سے مجرم قرار پانے والوں کے ۵۶ فی صد اور وفاقی شرعی عدالت سے سزا پانے والوں میں ۹۰ فی صد مرد ہیں۔ ثانی الذکر تحقیق ویز (Weiss)  کے اس دعوے کی تردید کرتی ہے جسے عام طور سے مغربی اور پاکستانی پریس درست سمجھتا ہے کہ پاکستان میں زنا کی سزا مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو زیادہ دی جارہی ہے۔ کسی کو حدود آرڈی ننس کی تنفیذ کے خلاف جائز شکایت ہوسکتی ہے۔ لیکن عورتوں کے خلاف جنسی امتیاز ان میں سے ایک نہیں۔(کتاب مذکورہ بالا‘ ص ۶۱-۶۲)

چارلس کینیڈی نے پہلے پانچ سال (۸۴-۱۹۸۰ئ) کے تمام مقدمات کا جائزہ لے کر اعداد و شمار سے اسے ثابت کیا ہے۔ زنا بالرضا کی دفعہ ۱۰ (۲) کے تحت ڈسٹرکٹ کورٹ میں ۱۴۵مردوں اور ۱۱۴ خواتین کو ملزم قرار دیا گیا لیکن وفاقی شرعی عدالت نے ۷۱ مردوں اور صرف ۳۰خواتین کو سزا دی۔ گویا ۲۵۹ میں سے ۱۵۸ کو رہا کر دیا اور ۱۰۱ کی سزا برقرار رکھی‘ جب کہ زنا بالجبر دفعہ ۱۰ (۳) کے ۱۶۵مقدمات میں جن میں سیشن کورٹ نے ۱۶۳ مردوں (یعنی ۹۹ فی صد) اور صرف ۲ خواتین (یعنی صرف ایک فی صد) کو سزا دی تھی لیکن وفاقی شرعی عدالت نے ان ۱۶۵مقدمات میں صرف ۵۹ مردوں کی زنابالجبر کی سزا باقی رکھی۔ دونوں خواتین کو رہا کردیا اور   ان مردوں کو بھی جن کے بارے میں شہادت محکم نہیں تھی۔ پانچ سال میں کل ۱۶۰ افراد کوان  دونوں جرائم میں سزا ہوئی اور وہ بھی تعزیری۔ (ملاحظہ ہو‘ کتاب مذکورہ‘ جدول ایک‘ دو اور تین‘ صفحات ۵۹-۶۳)

بعد کے اعداد و شمار اس تفصیل سے موجود نہیں لیکن بین الاقوامی یونی ورسٹی سے شائع شدہ کتاب پاکستان میں حدود قوانین حدود قوانین کے نفاذ کے ۲۵ سالہ جائزے میں ۲۰۰۳ء تک کے جو اعداد و شمار دیے گئے ہیں‘ وہ اس رجحان کی تائید کرتے ہیں۔ چارلس کینیڈی کے تحقیقی مقالے میں درج شدہ حاصل تحقیق کا خلاصہ اس حقائق کو سمجھنے میں مددگار ہوگا۔ چارلس کینیڈی  جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ یہ ہے:

۱- حدود آرڈی ننس کے نفاذ کے نو سال بعد سب سے بڑانتیجہ یہ ظاہر ہوتا ہے: حدود آرڈی ننس کے نفاذ کا پاکستان کے فوجداری قانونی نظام پر نہایت معمولی اثر ہوا ہے۔ پاکستان اور مغرب دونوں جگہ عام خیال تھا کہ حدود کا نفاذ‘ (قطع ید اور رجم) پاکستان میں عام ہوجائیں گے۔ فروری ۱۹۸۸ء تک ملک میں حد کی کوئی سزا نہیں دی گئی ہے۔ حد کی صرف دو سزائوں کو (دونوں چوری کی) وفاقی شرعی عدالت نے برقرار رکھا ہے۔ یہ دونوں سزائیں سپریم کورٹ نے بعد میں ختم کردیں۔

۲- اسی طرح حدود آرڈی ننس کے نفاذ سے پاکستان میں عورت کی حیثیت پر کوئی مضرت رساں اثر نہیں ہوا ہے‘ جیساکہ اکثر الزام لگایا جاتا ہے۔

۳- حدود کے تحت انصاف فراہم کرنے کے عمل نے‘ زیادہ تر اعلیٰ عدالتوں پر بہت زیادہ بوجھ کی وجہ سے سول لا کے تحت طریق کار کے مقابلے میں‘ بہت کم وقت لیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے قیام نے‘ جس کا فوجداری قانون کا نہایت محدود دائرہ ہے‘ طریق کار کو رواں کیا ہے۔

یہاں یہ اضافہ مفید ہوگا کہ چارلس کینیڈی کی تحقیق کے مطابق وفاقی شرعی عدالت میں ایک مقدمہ اوسطاً چار مہینے میں ہر مرحلہ طے کر کے فیصلے پر منتج ہوتا ہے‘ جب کہ عام عدالتوں میں   یہ مدت ۱۸ ماہ سے کئی کئی سال اور کچھ مقدمات میں ۱۵ اور ۲۰ سال پر پھیلی ہوئی ہے۔

۴- یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے (گو کہ اس کے لیے شہادت لانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے) کہ حدود کی سزائوں کا اندیشہ‘ متعلقہ جرائم کے ارتکاب کرنے میں ایک روک (deterrant) ثابت ہواہے۔

ان چار مثبت اثرات کے ساتھ چارلس کینیڈی کے اس تحقیقی جائزے سے تین منفی نتائج بھی سامنے آتے ہیں جو غورطلب ہیں:

۵- اس قانون کے نفاذ نے عدالتی اور سیاسی اداروں کے تعلقات میں کوئی واضح تبدیلی نہیں کی ہے‘ نہ اس نے پاکستان میں عدالتی طریق کار کو نمایاں طور پر تبدیل کیا ہے۔

اس کی بنیادی وجہ‘ جسے ہم آخر میں بتائیں گے ‘وہ دوغلا نظام ہے جوملک پر مسلط ہے‘   یعنی ایک چھوٹے سے دائرے میں شرعی قوانین اور پورا نظام دورِ استعمار کے تیار کردہ قانونی نظام اور ضابطہ فوجداری اور سول قانون کی گرفت میں!

منفی لحاظ سے دیکھا جائے تو حدود آرڈی ننس کے نفاذ نے خاندانی اور سماجی تنازعات میں ایک اضافی راستہ فراہم کیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت میں اپیل کیے جانے والے مقدمات کے ۵۰ فی صد کا تبدیل ہونا یہ حقیقت سامنے لاتا ہے کہ عدالتوں میں بہت سے مقدمات اس لیے لائے جاتے ہیں کہ سوشل کنٹرول کو روبہ عمل لایا جاسکے۔ والدین‘ شوہروں اور سرپرستوں کو معمول کے مطابق سوشل کنٹرول کے جو طریقے مہیا ہیں‘ حدود آرڈی ننس کے آنے سے ان کو اضافی طور پر یہ اختیارات حاصل ہوئے ہیں کہ اپنے بچوں یا بیویوں کو حقیقی یا مخفی دھمکیاں دے سکیں۔

آخری نکتہ بھی پاکستان کے سماج اور سیاسی اور معاشرتی نظام اور مجموعی طور پر جو طبقاتی گروہی اور اشرافیہ کے اقتدار کا نظام ہے‘ اس کو سمجھنے اور اس کی اصلاح کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے‘ یعنی:

آخری بات یہ ہے کہ حدود آرڈی ننس کی زد میں غیرمتناسب طور پر پاکستان میں معاشی طور پر کم حیثیت طبقہ رہا ہے۔ متوسط طبقے یا اعلیٰ طبقے کے پاکستانی بہت کم اس کے تحت ملزم قرار دیے گئے ہیں۔ نہ یہ عدالتوں کا قصور ہے‘ نہ قانون کا بلکہ یہ پاکستانی معاشرے کی ساخت میں موجود عدم مساوات کا عکاس ہے۔

ہم نے ایک غیرمسلم مغربی محقق کے مطالعے اور حاصل مطالعہ کو اس لیے پیش کیا ہے کہ حدود قوانین پر جذباتی اور بیرونی پروپیگنڈے کے زیراثر کلام کرنے کے بجاے معروضی انداز میں غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خرابی ان قوانین میں نہیں بلکہ:

                ۱-            اس سماجی‘ معاشی اور قانونی نظام میں ہے جو دور استعمار کے ورثے میں ہم پر مسلط ہے۔

                ۲-            ان بااثر طبقات کے ظلم وستم اور قانون کے غلط استعمال میں ہے جو عوام پر غلبہ پائے ہوئے ہیں۔

                ۳-            پولیس‘ زیریں عدالتوں اور مقدمے کے طریق کار کی خرابیوں کی وجہ سے ہے جن کی اصلاح کی طرف سے غفلت برتی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ مقدمے کے طریق کار کا سارا قانون (procedural law) وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے دستوری قدغن کے ذریعے باہر کردیا گیا ہے اور اس باب میں وہ ’ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بن کر رہ گئی ہے۔

عورت کی گواھی

ایک اور غلط بیانی جو بڑے دھڑلے سے کی جارہی ہے‘ عورت کی گواہی کے بارے میں ہے‘ خصوصیت سے زنا بالجبر کے سلسلے میں۔ بلاشبہہ شریعت نے اس زنا کے سلسلے میں حد کے    نفاذ کے لیے قابلِ اعتماد مرد گواہوں کی شرط رکھی ہے اور اس کی بڑی مصلحتیں ہیں۔ لیکن جرمِ زنا‘ اقدامِ زنا‘ تشدد‘ اغوا براے زنا و قحبہ گری ان سب کے سلسلے میں تعزیر کے لیے عورت کی گواہی نہ صرف معتبر ہے بلکہ کچھ حالات میں جیساکہ علامہ ابن قیم نے لکھا ہے ضروری ہے اورمعتبر ترین ہے۔ یہی بات وفاقی شرعی عدالت نے اپنے واضح فیصلوں میں کہی ہے اور اس پر عمل کیا ہے۔ اس پر بھی بڑا واویلا ہے کہ زنا بالجبر کی نشانہ بننے والی عورت سے گواہوں کا مطالبہ ظلم ہے حالانکہ زنابالجبر ہی وہ صورت حال ہے جس میں عورت پر زیادتی کی صورت میں فطری طور پر وہ چیخ و پکار کرے گی اور اس طرح لوگ اس کی مدد کو آسکتے ہیں جو گواہ بن سکتے ہیں۔ لیکن یہ بات صریح جھوٹ ہے کہ مظلوم عورت کی اپنی گواہی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ عورت کی گواہی اس جرم کی صورت میں بڑی اہم اور مرکزی حیثیت کی حامل ہے اور اس کے ساتھ قرائنی شہادت مجرم کے جرم کے ثبوت کا ذریعہ بنتی ہے۔ دورِ رسالت مآبؐ اور دورِ خلافت راشدہ میں اس جرم کا نشانہ بننے والی خواتین کی گواہی پر سزا ہوئی ہے اور خود پاکستان میں وفاقی شرعی عدالت عورت کی گواہی پر زنابالجبر کے مجرموں کو سزا دی ہے۔

آج تک کسی خاتون کو کسی بھی عدالت میں محض اس بنا پر گواہی دینے سے نہیں روکا گیا کہ وہ عورت ہے۔ حدِ زنا کے ہر مقدمے میں لیڈی ڈاکٹر بطور گواہ عدالتوں میں پیش ہوتی ہیں اور ان کی گواہی کی بنا پر سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔ ایسے مقدمات کی تعداد بے شمار ہے جن میں محض عورت کی اکیلی گواہی ہی پر سزائیں دی گئیں۔ اس کی صرف چند مثالیں ذیل میں پیش کی جارہی ہیں:

  • ایک مقدمے ’محمد علی بنام سرکار‘ میں ۸/۹ سال کی بچی سے زنا بالجبر کا ارتکاب کرنے والے ملزم کو عمرقید‘ ایک لاکھ روپے جرمانہ اور ۳۰ کوڑوں کی سزا صرف خواتین کی عینی گواہیوں کی بنیاد پر سنائی گئی۔
  • ایک اور مقدمے ’محمد اقبال عرف بالا بنام سرکار‘ میں زنا بالجبر کی شکار ۱۳ سالہ بچی اور اس کی ۱۰ سالہ سہیلی کی گواہی پر ملزم کو عمرقید کی سزا سنائی گئی۔
  • اسی طرح ایک اور مقدمے ’محمد نعیم بنام سرکار‘ میں چھٹی جماعت کی طالبہ کی گواہی پر تین ملزموں کو ۲۵‘۲۵ سال قیدبامشقت اور ۳۰‘۳۰ کوڑوں کی سزا سنائی گئی تھی۔
  • اسی طرح ’عبیدالرحمن بنام سرکار‘ میں ایک شخص نے اپنی ۱۳ سالہ بھانجی کے ساتھ زنا بالجبر کا ارتکاب کیا اور اس کی اکیلی گواہی پر ملزم کو ۲۵ سال قیدبامشقت اور محمود اسٹیڈیم رحیم یارخاں میں سرعام ۳۰ کوڑے مارنے کی سزا دی گئی۔

وفاقی شرعی عدالت نے اسی موضوع کو زیربحث لاتے ہوئے ایک مقدمہ ’رشیدہ پٹیل بنام وفاق پاکستان‘ میں درج ذیل خیالات کا اظہار کیا ہے:

ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام اپنے منفرد معاشرتی نظام میں خواتین کو بار شہادت سے حتی الوسع بری الذمہ رکھنا چاہتا ہے… تاہم خصوصی حالات میں اگر کوئی واقعہ (بشمول حدود و قصاص) صرف ان کی موجودگی ہی میں درپیش ہو اور کوئی مرد موجود نہ ہو‘ یا ان کی تعداد ان کے بغیر مطلوبہ نصاب شہادت کے مطابق نہ ہو‘ یا وہ واقعہ اندرون خانہ ہی وقوع پذیر ہوا ہو‘ تو ایسی صورتوں میں ان کو شہادت سے روکنا‘ ان کی گواہی کو ناجائز سمجھتے رہنے پر اصرار کرنا اور ایسے مقدمات میں سرے سے ان کو ساقط الاعتبار ٹھیرانا قرآن مجید کے عمومی احکام سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ اس کے مثالی نظام عدل سے‘ اور نہ اسوۂ حسنہ اور عہد خلافت راشدہ سے اس کی تائید کی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر ان اداروں میں جہاں صرف خواتین کام کرتی ہیں یا رہایش پذیر ہوتی ہیں (مثلاً گرلز ہوسٹل‘ نرسنگ ہوم‘ویمن سنٹر وغیرہ)‘ یا ان اوقات میں جب ان کے مرد گھروں میں موجود نہ ہوں‘ اگر اس قسم کے جرائم کا ارتکاب ہو تو ایسی صورت میں اثباتِ جرم کا کیا طریقہ ہوگا؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ ایسے مقامات جہاںصرف خواتین ہی گواہ ہوں یا صرف غیرمسلم موجود ہوں‘ اس جرم کے ارتکاب کی شہادت دینے کون آئے؟ بہرحال ہمارے نزدیک مخصوص حالات میں خواتین کی گواہی حدود و قصاص سمیت سب معاملات میں لی جاسکتی ہے‘ البتہ ایسی شہادتوں پر حد کی سزا نہیں دی جائے گی اور صرف تعزیری سزا کے لیے انھیں قبول کیا جائے گا۔

ہمیں اس سے انکار نہیں کہ دوسرے تمام قوانین کی طرح حدود قوانین کو بھی پولیس اور مفادپرست طبقات نے‘ حتیٰ کہ کچھ حالات میں ظالم رشتہ داروں یا سابق شوہروں نے غلط استعمال کیا ہے‘ اور اس کی سب سے شرم ناک مثال حدود آرڈی ننس کی دفعہ ۱۶ کا غلط استعمال ہے جس میں عورت ملزم ہو ہی نہیں سکتی لیکن اس کے باوجود سیکڑوں خواتین کو اس دفعہ کے تحت گرفتار کیاگیا ہے‘ لیکن ان تمام زیادتیوں کا ازالہ حدود قوانین کو تبدیل کرنے سے نہیں‘ نظام کی اصلاح سے ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے بار بار اس طرف متوجہ کیا ہے مگر حکومت اور پارلیمنٹ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ہم وفاقی شرعی عدالت کے ایک فیصلے کا ایک حصہ نقل کرتے ہیں جس سے اندازہ ہوگا کہ خرابی کہاں ہے۔ غلام نبی کاٹھیو بنام سرکار ایک عبرت ناک منظر پیش کرتا ہے۔

ایک مقدمے میں ایک شخص نے حسن جونیجو ولد محرم جونیجو کے خلاف مقدمہ درج کروایا کہ اس نے اس کی بیٹی مسماۃ بے نظیر کے ساتھ زنا بالجبر کا ارتکاب کیا ہے۔ لیکن متعلقہ پولیس افسر نے مقامی زمیندار کے کہنے پر اصل ملزم کو گرفتارکرنے کے بجاے مقامی زمیندار کے ایک مخالف غلام نبی کاٹھیو ولد مہرو کاٹھیو کو نہ صرف گرفتار کیا بلکہ پورا مقدمہ اسی کے خلاف قائم کیا جس کے نتیجے میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے اسے ۱۰سال قید بامشقت اور ۲۵ ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ عدالت عالیہ نے اس مقدمے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:

ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ پولیس کا رویہ حیران کن اور متعلقہ جج کا رویہ اس سے بھی زیادہ حیران کن ہے۔ ایک سینئر جج جو سیشن جج کے مرتبے پر فائز ہے اور پورے حیدرآباد ڈویژن کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کا جج ہے ‘اس سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی جو اس نے کیا۔ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فاضل جج  جناب عبدالغفور حسین نے چالان کے مندرجات کو پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی‘ ورنہ اس پر صورت حال واضح ہوجاتی۔ ملزم چونکہ غریب آدمی تھا اور وکیل کرنے کی استطاعت نہ رکھتا تھا‘ لہٰذا اس کے مقدمے کی سماعت بغیر وکیل کے ہوئی۔ وہ چونکہ غیرتعلیم یافتہ اور اَن پڑھ آدمی تھا‘ لہٰذا اپنا دفاع کرنے کے قابل نہ تھا۔ لہٰذا یہ عدالت کی ذمہ داری تھی کہ ایک ایسے شخص کو انصاف فراہم کرتی جو پولیس اور مقامی زمیندار کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہوا تھا۔

پولیس افسر سے جب اس بات کی وضاحت طلب کی گئی کہ اس نے حسن کے بجاے غلام نبی کو کیوں گرفتار کیا۔ اس نے کہا کہ حسن اصل میں غلام نبی کا بھائی تھا اور مدعی مقدمہ نے غلطی سے غلام نبی کے بجاے اس کے بھائی حسن کا نام لکھوا دیا۔ لیکن وہ یہ محسوس نہ کرسکا کہ جس فرد کا نام ایف آئی آر میں ہے وہ غلام نبی کا بھائی نہیں ہوسکتا کیونکہ حسن محرم کا بیٹا ہے اور اس کی ذات جونیجو ہے‘ جب کہ غلام نبی مہرو کا بیٹا ہے اور اس کی ذات کاٹھیو ہے۔ مختلف ذات اور مختلف ولدیت کے افراد آپس میں بھائی کیسے ہوسکتے ہیں۔ فیصلہ مکمل کرنے سے پہلے ہم کچھ سوالات اٹھانا چاہیں گے:

۱- آخر کب تک پولیس اور زمینداروں کے ہاتھوں اس ملک میں غریب اور معصوم ظلم کا شکار ہوتے رہیں گے؟

۲- آخر کب تک اصل مجرموں کو چھوڑا جاتا رہے گا اور بے گناہ لوگوں کو مقدمات کا سامنا کرناپڑے گا؟

۳- آخر کب تک یہ ناانصافیاں جاری رہیں گی اور قانونی طریق کار کو غلط طور پر استعمال کیا جاتا رہے گا؟

۴- آخر کب تک معصوم شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی واضح پامالی ہوتی رہے گی؟

۵- آخر کب تک اس ملک کے معصوم‘ اَن پڑھ اور غریب شہری جوکہ اسی طرح انسان ہیں جس طرح دولت مند نام نہاد طاقت ور اور بڑے شہری ہیں‘ ان افراد اور حکام کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہوتے رہیں گے جن کی ذمہ داری ہے کہ ان کی زندگی آزادی‘ عزت‘ جایداد اور عقائد کی حفاظت کریں۔

عدلیہ‘ انتظامیہ‘ پولیس اور تمام متعلقہ لوگوں پر ان سوالوں کا جواب قرض ہے۔

نسواں بل میں قرآن و سنت کے خلاف ترامیم

ہمارے اس جائزے سے یہ حقیقت ثابت ہوجاتی ہے کہ اصل حدود قوانین پر تنقید  سرتاسر غلط اور بے محل ہے بلکہ یہ کذب‘ غلط بیانی اور بددیانتی پر مبنی ہے۔ البتہ جہاں اصلاح کی ضرورت ہے وہ حدود قوانین اور تمام قوانین کے نفاذ کے نظام: پولیس‘ انتظامی اور عدالتی مشینری‘ عوام اور سرکاری کارپردازوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے نظامِ احتساب (accountablity) میں ہے۔ تحفظ نسواں کے نام پر ان اصل خرابیوں کی طرف توجہ دیے بغیر حدود قوانین میں ایسی تبدیلیاں کرنے کی شرم ناک جسارت کی جارہی ہے جو شریعت کے مسلمہ احکام کے خلاف ہیں اور قرآن و سنت کے نصوص اور ان کی اسپرٹ سے متصادم ہیں۔ ہم برادر عزیز و محترم مولانا محمد تقی عثمانی کا مقالہ اس شمارے میں شائع کر رہے ہیں جو اس کے مختلف پہلوؤں کو مسکت دلائل کے ساتھ واضح کردیتا ہے۔ ہم صرف اختصار کے ساتھ اتمامِ حجت کے لیے اس قانون کے ذریعے قرآن و سنت کے خلاف کی جانے والی ترامیم کا ذکر کر دیتے ہیں:

                ۱-            قرآن و سنت اور اجماع کی رُو سے زنا بالرضا کی طرح زنا بالجبر بھی حد ہے لیکن اس قانون کے ذریعے حدود قوانین کی دفعہ ۶ اور ۷ کو منسوخ کرکے زنا بالجبر کی حد کو ختم کیا جارہا ہے۔ حدود قوانین کی دفعہ ۴ اور ۵ جنھیں باقی رکھا گیا ہے‘ ان کا تعلق صرف زنابالرضا سے ہے اور زنا بالجبر ان کے دائرے سے باہر ہے۔ اور نئی دفعہ جو زنا بالجبر (rape) کے بارے میں ضابطہ فوجداری میں شامل کی جارہی ہے‘ اس میں حد کی   سزا نہیں ہے بلکہ دریدہ دہنی کی انتہا ہے کہ اس قانون کے مقاصد کی تشریح کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے: ’’زنابالجبر کے جرم کے لیے حد نہیں ہے‘ اس کے لیے تعزیر ہے‘‘۔    یہ قرآن و سنت کے خلاف اتہام اور ایک جرمِ عظیم ہے اور اللہ سے بغاوت کے مترادف ہے۔

                ۲-            زنا بالرضا کو ضابطوں کی تبدیلی کے ذریعے ریاست اور معاشرے کے خلاف جرم (crime against state and society) کی جگہ جو اسلام کے تصورِ قانون کا حصہ ہے‘ صرف فرد کے خلاف جرم کی سطح پر لے آیا گیا ہے جو اسلام کے فلسفۂ قانون کی نفی ہے۔

                ۳-            حدود قوانین کی دفعہ ۳ کو منسوخ کر کے شرعی قوانین اور احکام کی دوسرے قوانین پر بالادستی کو ختم کردیا گیا ہے جو اسلام کے پورے نظامِ قانون پر ایک ضرب اور اس کی بے وقعتی کے مترادف ہے۔

                ۴-            اسلامی قانون میں حدوداور تعزیرات ایک جامع نظام کا حصہ ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ حدود قوانین میں متعلقہ تعزیری احکام بھی شامل کیے گئے تھے۔ ان تمام احکام کو حدود قوانین سے نکالنا اسلام کے نظامِ قانون پر ضرب اور اسلام سے انحراف ہے اور قانون کے  دوغلے نظام (dual system)کو جو ویسے بھی غلط ہے‘ ان جرائم پر بھی مسلط کرنا ہے جو حدود کے دائرے میں آتے ہیں۔ اس کے دو بڑے اہم نتائج ہوں گے: ایک یہ کہ یہ تمام جرائم وفاقی شرعی عدالت کے دائرے سے باہر ہوجائیں گے اور ہر کارروائی عام عدالتوں میں ہوگی اور دوسرے یہ کہ عام سیکولر قوانین‘ خصوصیت سے عائلی قوانین‘ جن کا گہرا تعلق ان حالات سے ہے‘ ان کو اپنے اپنے دائرے میں بالادستی حاصل ہوجائے گی اور شرعی قوانین کی ان پر بالادستی ختم ہوجائے گی۔ دستور کی دفعہ ۲۲۷ اس سلسلے میں بے کار ہے اس لیے کہ اس کے نتیجے میں کسی سیکولر قانون پر شرعی قانون کی بالادستی نافذ نہیں کی جاسکتی۔

                ۵-            حد کے معاملے میں کسی حکومت حتیٰ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تخفیف یا معافی کا اختیار نہیں۔ اس نئے قانون کے نتیجے میں صوبائی اور مرکزی حکومت کو سزا میں تخفیف یا معافی کا اختیار مل جاتاہے جو قرآن و سنت کے احکام کے خلاف ہے۔

                ۶-            قذف کے قانون میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں‘ وہ بھی قرآن و سنت کے احکام کے خلاف ہیں۔

                ۷-            لعان کے بارے میں بھی شریعت کے احکام کو نظرانداز کردیا گیا ہے اور اسے صرف طلاق کا ایک سبب بنا دیا ہے‘ جب کہ شریعت کے مطابق قسم نہ کھانے کی صورت میں سزا اور اعتراف کی صورت میں حد کا اطلاق ہوتا ہے۔

یہ سات چیزیں مجوزہ قانون میں صراحتاً قرآن و سنت کے خلاف ہیں اور اگر ان کو پارلیمنٹ ملکی قانون کا درجہ دیتی ہے تو یہ قرآن وسنت سے بغاوت کے مترادف ہے۔

کہا جارہا ہے کہ کیا یہ اتنا اہم مسئلہ ہے کہ اس پر ملک گیر احتجاج کیاجائے اور اسمبلی سے مستعفی ہوجایا جائے۔ اللہ کی ایک حد کو قائم کرنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ۴۰سالوں کی بارشوں سے بہتر ہے اور ایک حد کو جانتے بوجھتے پامال کرنا تمام حدود سے بغاوت کے مترادف ہے۔ قرآن پاک کی ایک آیت یا ایک حکم کا انکار پورے قرآن کے انکار کے مترادف ہے اور انسان کو اگر وہ جانتے بوجھتے اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو کفر اور ارتداد کی طرف لے جاتا ہے۔ اور اس بارے میں مداہنت پورے دین سے مداہنت قرار پائے گی۔ نیز یہ جرم اور بھی سنگین ہوجاتا ہے کہ اگر کسی ملک میں شرعی حدود کتابِ قانون کا حصہ نہیں ہیں تو یہ ایک کوتاہی اور نافرمانی ہے لیکن ایک مرتبہ کتابِ قانون کا حصہ بنانے کے بعد اسے خارج کرنا صریح انکار‘ بغاوت اوراحکام الٰہی پر ضرب لگانے کے مترادف ہے۔

ایک معمولی مثال سے اسے یوں سمجھیے کہ روزہ نہ رکھنا ایک گناہ اور کوتاہی ہے‘ مگر روزہ رکھ کر توڑ دینا ایک جرم ہے‘ اور اس کا کفارہ ہے (اور کفارہ بھی بہت سخت کہ مسلسل ۶۰ دن تک روزے رکھے جائیں) اور روزہ کو حکم الٰہی ماننے سے انکار کفر کا درجہ رکھتا ہے اور انسان کو ارتداد کی سرحدوں پر لے جاتا ہے۔ جنرل مشرف اور ان کے حواری اس قانون کے ذریعے جو کام کر رہے ہیں وہ   اللہ کے غضب کو دعوت دینے والا عمل ہے اور اُمت مسلمہ کے لیے کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔   اور اگر اس پر بھرپور احتجاج نہ کیا جائے‘ اس اقدام کو روکنے کے لیے مؤثر جدوجہد نہ کی جائے اور اگر یہ مسلط کردیا گیا ہے تو اسے بدلنے کے لیے ہرممکن اقدام نہ کیا جائے تو یہ اللہ اور اس کے  رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بے وفائی ہوگی جو اپنی دنیا اور آخرت خراب کرنے کا راستہ ہے    ؎

یہ گھڑی محشر کی ہے‘ تو عرصۂ محشر میں ہے

پیش کر غافل عمل‘ کوئی اگر دفتر میں ہے

 

(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۶ روپے‘ سیکڑے پر رعایت۔ منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور)

مجرم کے لیے دنیا میں قصاص ہے اور آخرت میں عذاب ۔مجرم اس قصاص اور عذاب کے درمیان ایسے پستا ہے جیسے چکی کے دو پاٹوں کے درمیان گیہوں۔ہمارا رب تو کسی پر ظلم نہیں کرتا۔  وہ تو بڑا رحیم و مہربان ہے ۔اللہ نے اپنے رسولوں کو بشیر ونذیر بنا کر بھیجا ہے اور ہر نبی و رسول نے  سب سے پہلے اپنے گھر والوں اوراپنے قریب ترین لوگوں کو ڈرایا اور آگاہ کیا اور انھیں صاف صاف کہہ دیا کہ برائیوں سے بچو‘ میں خدا کے حضور تمھارے کسی کام نہ آ سکو ں گا ۔قیامت کے روز باپ بیٹا ایک دوسرے کے کام نہ آسکیں گے‘کوئی رشتہ ڈھال نہ بن سکے گا‘وہاںتواعمال کا محاسبہ ہوگا اور میزان کھڑی کی جا ئے گی : ’’اور ہم نے ہرانسان کے اعمال کو (بہ صورت کتاب)اس کے گلے میں لٹکادیا ہے اور قیامت کے روز وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے‘جسے وہ کھلا ہو ادیکھے گا‘‘  (بنی اسرائیل۱۷:۱۳)۔ وہاں کسی کی ذرہ برابر نیکی بھی رائیگاں نہیں جائے گی۔لیکن جس نے   رتی بھر برائی کی ہو گی وہ اسے بھی دیکھ لے گا۔

مگر افسوس کہ ہم اپنی زندگی میں ان تمام حقائق سے واقف لیکن یکسر غافل رہتے ہیں۔ ہمارے کان‘ ہماری آنکھیں‘ ہمارے ہاتھ‘ ہمارے پاؤں اور ہمارے دل و دماغ سب ہماری خواہشات کی تکمیل میں لگے رہتے ہیں۔ زر اندوزی ہمارا مطمح نظر بن جاتاہے ‘خواہ حلال طریقے سے ہو یا حرام ذریعے سے ۔کوئی تمیزنہیں رہتی۔ نہیں جانتے کہ ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنے لیے تباہی کا گڑھا کھود رہے ہیں‘اور یہ کہ ہم اپنی بدبختی کے خود ہی ذمہ دار ہیں۔اللہ تعالی نے ہمارے لیے ان بہت سے لوگوں کی مثالیں بیان فرمائی ہیں جو ہم سے قوت وطاقت میں کہیں زیادہ تھے۔ ان کے پاس مال ودولت کی بہتات تھی مگر وہ اس سب کے باوجود نشانِ عبرت بن کر رہ گئے:

جب وہ ہمارے سامنے حاضر ہوں گے اس روز تو ان کے کان بھی خوب سُن رہے ہوں گے اور اُن کی آنکھیں بھی خوب دیکھتی ہوں گی‘ مگر آج یہ ظالم کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ اے نبیؐ، اِس حالت میں‘ جب کہ یہ لوگ غافل ہیں اور ایمان نہیں لارہے ہیں‘    انھیں اُس دن سے ڈرا دو‘ جب کہ فیصلہ کردیا جائے گا اور پچھتاوے کے سوا کوئی    چارئہ کار نہ ہوگا۔(مریم ۱۹:۳۸-۳۹)

ہاں‘ جس روز یہ لوگ خداے قہارو جبار کے حضور پیش ہوں گے ‘اس دن ان سرکشوں‘ جابروں‘ قاتلوں‘مجرموں اور غاصبوں کا حال کون نہ دیکھے گاکہ ان کی گردنوں میں ذلت وخواری کے طوق ہوں گے‘پائوں میں بے بسی کی زنجیریں اور ہاتھوں میں ناکامی ورسوائی کی ہتھکڑیاں ہوں گی۔ان پر لعنت برس رہی ہو گی۔ان کے گناہوں نے انھیں ہر طرف سے گھیر رکھا ہوگا‘اور یہی نہیں‘وہ ایک دوسرے پر بھی لعنت بھیج رہے ہوں گے:

وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّھِمْ ج یَرْجِعُ بَعْضُھُمْ اِلٰی   بَعْضِ نِ الْقَوْلَ ج  یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا لَوْلَا ٓ  اَنْتُمْ لَکُنَّا مُؤْمِنِیْنَ o قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْٓا اَنَحْنُ صَدَدْنٰکُمْ عَنِ الْھُدٰی بَعْدَ اِذْ جَآئَ کُمْ بَلْ کُنْتُمْ مُّجْرِمِیْنَ o (السبا ۳۴: ۳۱-۳۲) کاش! تم دیکھو اِن کا حال اُس وقت جب یہ ظالم اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے۔ اُس وقت یہ ایک دُوسرے پر الزام دھریں گے۔ جو لوگ دنیا میں دبا کر رکھے گئے تھے وہ بڑے بننے والوں سے کہیں گے کہ ’’اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے‘‘۔ وہ بڑے بننے والے اِن دبے ہوئے لوگوں کو جواب دیں گے ’’کیا ہم نے تمھیں اُس ہدایت سے روکا تھا جو تمھارے پاس آئی تھی؟ نہیں‘ بلکہ تم خود مجرم تھے‘‘۔

اس روز عذاب صرف جابروں اور سرکشوں کو ہی نہیںہو گا بلکہ ان کے ساتھ ساتھ وہ بزدل بھی شریک ہو ں گے جنھوں نے ظلم وتعدی کے خلاف اقدام سے گریز کیا تھا ۔جو پستی پر رضامند ہوگئے تھے اور یوں وہ خدا کے باغیوں کے دست و بازو بن گئے تھے۔

اس دن حق کا منادی پکار پکار کر کہے گا: کہاں ہیں وہ لوگ جو کہا کرتے تھے ’’ہم بہت سا مال واولاد رکھتے ہیں ‘ہم کو عذاب نہیں ہو گا‘‘۔ کہاں ہیں وہ متکبر ‘جنھوں نے اللہ کی عظمت وکبریائی کے سامنے خود کو بڑا سمجھنے کی جسارت کی۔کہاںہیں وہ مجرم جنھوںنے بے گناہوں کو قتل کیا‘ جنھوں نے سازش کر کے بھائی کو بھائی سے لڑا دیا۔ جنھوں نے ایک خدا‘ایک رسولؐ اور ایک کتاب کو ماننے والوں سے ایک دوسرے کے گلے کٹوائے۔جنھوں نے معصوموں کی جان لی۔ کہاں ہیں وہ بے حس اور ننگِ انسانیت ‘انسان نما درندے جنھوں نے روے زمین کو نفرت وآتش و آہن سے بھر دیا۔کہاں ہیں وہ جنھوں نے کلمۂ حق اور قول صداقت کو جھوٹ اور افترا قرار دیا۔کہاں گئے وہ لوگ جو یہ سمجھتے تھے کہ وہ ہمارے سامنے پیش نہیں ہو ں گے۔

ہاں‘ حق کا منادی پکار پکار کر کہے گا:’’آج حسرت وندامت کا دن ہے اور آج انھیں ان کے کرتوتوں کی مکمل سزامل کر رہے گی‘‘۔

آج کے اس مظلوم ملک پاکستان کو انھی مجرموں ‘خائنوں‘بد کرداروں‘ظالموں اور قاتلوں کا سامنا ہے۔بے گناہ اور معصوم ظلم وتشدد کا نشانہ بن رہے ہیں اور اُن کی اغراض پوری ہورہی ہیں ۔

لیکن کیا مجرم بچ جائیں گے؟ مجرم بھاگ کر کہاں جاسکیں گے؟خداے ذوالجلال مہلت کا وقفہ ضرور دیتا ہے۔وہ رسی تو دراز کردیتا ہے تاکہ ہر ظالم اپنا پیمانہ خوب بھر لے لیکن مہلت تو بالآخر ختم ہو جاتی ہے۔مجرم کی دراز رسی ہی اس کے گلے کا پھندا بن جاتی ہے۔پیمانہ لبریز ہوتے ہی خدا مجرم کو پکڑ لیتا ہے:

وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ط اِنَّمَا یُؤَخِّرُھُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَارُ o  مُھْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُئُ وْسِھِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْھِمْ طَرْفُھُمْ ط وَاَفْئِدَتُھُمْ ھَوَآئٌ o (ابراھیم ۱۴:۴۲-۴۳) اب یہ ظالم لوگ جو کچھ کررہے ہیں‘ اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو۔ اللہ تو انھیں ٹال رہا ہے اُس دن کے لیے جب حال یہ ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں‘ سر اُٹھائے بھاگے چلے جارہے ہیں‘ نظریں اُوپر جمی ہیں اور دل اُڑے جاتے ہیں۔

آج سے ۴ ہزار برس پہلے کی بات ہے کہ عراق کی سرزمین میں ایک شخص پیدا ہوا تھا جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انسانی تاریخ پر اپنا ایک مستقل نشان چھوڑ گیا ہے۔ جس زمانے میں اس نے آنکھیں کھولیں اس وقت تمام دنیا شرک اور بت پرستی میں مبتلا تھی۔ جس قوم میں وہ پیدا ہوا وہ ایک   ستارہ پرست قوم تھی۔ چاند‘ سورج اور دوسرے سیارے اس کے خدا تھے‘ اور شاہی خاندان انھی خدائوں کی اولاد ہونے کی حیثیت سے اہلِ ملک کا رب مانا جاتا تھا۔ جس خاندان میں وہ پیدا ہوا وہ پروہتوں کا خاندان تھا اور اپنی قوم کو ستارہ پرستی کے جال میں پھانسے رکھنے کا اصل ذمّہ دار وہی تھا۔ ایسے زمانے ‘ ایسی قوم‘ اور ایسے خاندان میں یہ شخص پیدا قہوا۔ دنیا کی عام روش پر چلنے والا ہوتا تو وہ بھی اسی راستے پر جاتا جس پر اس کے خاندان کے لوگ‘ اس کے ملک کے لوگ اور اس کے زمانے کے لوگ چلے جارہے تھے۔ کوئی ایسی روشنی بظاہر اس وقت دنیا میں کہیں موجود بھی نہ تھی جو کسی دوسرے راستے کی طرف رہنمائی کرنے والی ہو۔ اور اس کے ذاتی و خاندانی مفاد کا تقاضا بھی یہی تھا کہ وہ کسی اور راستے کا خیال بھی اپنے دل میں نہ لاتا‘ کیونکہ اس کے خاندان کی مذہبی دکان تو    اسی ستارہ پرستی کے بل پر زور شور سے چل رہی تھی لیکن وہ ان انسانوں میں سے نہ تھا جو بے شعور  خس و خاشاک کی طرح اسی رُخ پر اُڑنے لگتے ہیں جدھر کی ہوا ہو۔

وہ موروثی تعصب کی بنا پر باپ دادا اور قوم کے طریقے کو بے چون و چرا قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اس نے ہوش سنبھالتے ہی یہ تحقیق کرنا ضروری سمجھا کہ جن عقیدوں اور اُصولوں پر اس کے بزرگوں نے اور اس کی ساری قوم نے اپنی زندگی کی عمارت قائم کر رکھی ہے‘ وہ بجاے خود   صحیح بھی ہیں یا نہیں۔ اس آزادانہ تحقیقات کے سلسلے میں اس نے سورج‘ چاند‘ زُہرہ اور ان     سب معبودوں پر نگاہ ڈالی جن کی خدائی کے چرچے وہ بچپن سے سنتا آیا تھا۔ ایک ایک کو جانچ کر دیکھا کہ اس پر خدائی کا گمان کہاں تک سچا ہے۔ اور آخرکار یہ بے لاگ رائے قائم کی کہ دراصل   یہ سب بندے ہیں‘ خدائی صرف اس ایک ہستی کی ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے۔

پھر جب یہ حقیقت اس پر منکشف ہوگئی تو اس نے اُن لوگوں کی سی روش اختیار نہیں کی جو ایک بات کو حق جاننے اور سمجھنے کے باوجود اسے قبول نہیں کرتے۔ اس نے حق کو حق جاننے کے بعد اسے ماننے میں ایک لمحے کی بھی دیر نہ کی۔ فوراً اقرار کیا کہ ’’مَیں جھک گیا اُس خدا کے آگے جو زمین اور آسمانوں کا خالق ہے‘‘۔ اور اس اقرار کے ساتھ اپنی برادری اور قوم کے سامنے یہ اعلان بھی کردیا کہ میرا راستہ تم سے الگ ہے‘ میں اس شرک اور بت پرستی میں تمھارے ساتھ نہیں ہوں۔

یہ اُس شخص کی پہلی قربانی تھی۔ یہ پہلی چھری تھی جواس نے باپ دادا کی اندھی تقلید پر‘ خاندانی اور قومی تعصبات پر‘ اور نفس کی ان تمام کمزوریوں پر پھیر دی جن کی وجہ سے آدمی اپنے ضمیر کی آواز کے خلاف ایک راستے پر صرف اس لیے چلتا رہتا ہے کہ برادری اور قوم اور دنیا اسی پرچلی جارہی ہے۔

اس اقرار و اعلان کے بعد یہ شخص خاموش نہیں بیٹھ گیا۔ اس پر یہ حقیقت کھل گئی تھی کہ کائنات کی اصل حقیقت توحید ہے اور شرک سراسر ایک بے بنیاد چیز ہے۔ اس حقیقت کو جان لینے کے بعد وہ خود ہی یہ بھی جان گیا تھا کہ وہ سب انسان جو توحید کے بجاے شرک کے عقیدوں اور مشرکانہ اُصولوں پر اپنے مذہب‘ اخلاق اور تمدن کی عمارت قائم کیے ہوئے ہیں‘ انھوں نے دراصل ایک ایسی شاخِ نازک پر آشیانہ بنا رکھاہے جو سخت ناپایدار ہے۔ اس احساس نے اس کو بے چین کردیا۔

وہ پورے احساسِ فرض کے ساتھ کھڑا ہوگیا کہ اپنی قوم کو شرک سے روکے اور توحید کی طرف دعوت دے۔ اسے معلوم تھا کہ قومی مذہب کے خلاف اس طرح کی علانیہ تبلیغ کرکے وہ خود پروہت کی گدی سے محروم ہوجائے گا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کا خاندان اگر قومی مذہب سے پھرگیا تو وہ ساری وجاہت ختم ہوجائے گی جو اسے ملک میں حاصل ہے۔ اس کو یہ بھی خبر تھی کہ اس تبلیغ کی وجہ سے ساری قوم کا غصہ اس پر بھڑک اُٹھے گا۔ وہ اس بات سے بھی بے خبر نہ تھا کہ یہ تبلیغ اسے حکومت کے عتاب میں مبتلا کردے گی کیونکہ شاہی خاندان کے اقتدار کی بنیاد ہی وہاں یہ عقیدہ تھا کہ وہ دیوتائوں کی اولاد ہے اور اس بنا پر توحید لازماً حکومت کے بنیادی نظریے سے ٹکراتی تھی۔

یہ سب کچھ جاننے کے باوجود وہ اپنا فرض ادا کرنے کے لیے اُٹھا۔ اپنے باپ کو‘ اپنے خاندان کو‘اپنی قوم کو اور بادشاہ تک کو اس نے شرک سے باز آنے اور توحید کا عقیدہ قبول کرنے کی دعوت دی‘ اور جتنی زیادہ اس کی مخالفت کی گئی اتنی ہی زیادہ اس کی سرگرمی بڑھتی چلی گئی۔ آخرکار نوبت یہ آگئی کہ ایک طرف وہ تنِ تنہا انسان تھا اور دوسری طرف اس کے مقابلے میں بادشاہ‘ ملک‘ برادری‘ خاندان‘ حتیٰ کہ اس کا اپنا باپ تک صف آرا تھا۔ اب پورے ملک میں کوئی اس کا دوست نہ تھا۔ ہر طرف دشمن ہی دشمن تھے۔ ایک ہمدردی کی آواز بھی اس کے حق میں اٹھنے والی نہ تھی۔ اس پر بھی جب اس نے ہمت نہ ہاری اور توحید کی دعوت پیش کرنے سے اس کی زبان نہ تھکی تو فیصلہ کیا گیا کہ برسرِعام اسے زندہ جلا دیا جائے مگر اس ہولناک سزا کا خوف بھی اسے باطل کو باطل اور حق کو حق کہنے سے باز نہ رکھ سکا۔ اس نے آگ کے الائو میں پھینکا جانا گوارا کرلیا مگر یہ گوارا نہ کیا کہ جس حقیقت پر وہ ایمان لاچکا تھا اس سے پھر جائے اور اسے حقیقت کہنا چھوڑ دے___ یہ اس کی دوسری عظیم الشان قربانی تھی۔

نہ معلوم کس طرح خدا نے اُسے آگ میں جلنے سے بچا لیا۔ اس خطرے سے بخیریت گزر جانے کے بعد اس کے لیے ملک میں ٹھیرنا غیرممکن تھا۔ آخرکار اس نے جلاوطنی کی زندگی اختیار کی۔ آس پاس کے سارے ملک جن میں وہ جا سکتا تھا اُس وقت بت پرست تھے۔ کہیں کوئی ایسی چھوٹی سے چھوٹی برادری یا سوسائٹی بھی موجود نہ تھی جو توحید کی قائل ہوتی‘ جس کے پاس وہ پناہ لے کر امن کی زندگی پاسکتا۔ اس حالت میں امن پانے کی صرف یہی ایک صورت تھی کہ وہ اپنے ملک سے نکل جانے کے بعد دعوتِ توحید سے زبان بند کرلیتا۔ انفرادی طور پر اگر ایک اجنبی آدمی کسی مذہب کا پیرو ہو تو دوسرے ملکوں کے لوگ اسے خواہ مخواہ چھیڑنے کی تکلیف کیوں کرنے لگے تھے‘ بلکہ انھیں یہ معلوم ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں تھی کہ اس کا مذہب کیا ہے۔ مگر یہ خدا کا بندہ دوسرے ملکوں میں بھی جاکر خاموش نہ رہا۔ جہاں بھی گیا اس نے خدا کے سب بندوں کو یہی دعوت دی کہ دوسروں کی بندگی چھوڑو اور صرف اُسی ایک خدا کے بندے بن کر رہو جو حقیقت میں تمھارا خدا ہے۔

اس تبلیغ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے ملک سے نکل کر بھی اسے کہیں چین سے بیٹھنا نصیب نہ ہوا۔ کبھی شام میں ہے تو کبھی فلسطین میں‘ کبھی مصر میں ہے تو کبھی حجاز میں۔ غرض ساری عمر یونہی   ملک ملک کی خاک چھانتے گزر گئی۔ اس کو آرام کے ٹھکانے کی طلب نہ تھی۔ اس کو گھر اور کھیت اور مویشی اور کاروبار کی طلب نہ تھی۔ اس کودنیا کے عیش اور زندگی کے سروسامان کی طلب نہ تھی۔ اسے صرف اس چیز کی طلب تھی کہ جس حق پر وہ ایمان لایا ہے اس کا کلمہ بلند ہو اور اس کے بنی نوع گمراہی کو چھوڑ کر اس سیدھی راہ پر چلنے لگیں جس میں ان کا اپنا بھلا ہے۔ یہی طلب اسے جگہ جگہ لیے پھرتی تھی اور اسی طلب کے پیچھے اس نے اپنے ہرمفاد کو تج دیا___ یہ اس کی تیسری قربانی تھی۔

اس خانہ بدوشی اور بے سروسامانی کے عالم میں پھرتے پھرتے جب عمر تمام ہونے کو آئی تو خدا نے اُسے ایک بیٹا دیا۔ اس بچے کوپالا پوسا یہاں تک کہ وہ اس عمر کو پہنچا جب اولاد والدین کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹانے اور زندگی کی دھوڑدھوپ میں ان کا ساتھ دینے کے قابل ہوتی ہے۔ بیٹا اور وہ بھی اکلوتا بیٹا۔ پھر عنفوانِ شباب کو پہنچا ہوا‘ اور باپ زندگی کے اُس مرحلے میں‘ جب کہ آدمی جوان اولاد کے سہارے کا سب سے بڑا محتاج ہوتا ہے۔ ہرشخص اس صورتِ حال کا تصور کرکے اندازہ کرسکتا ہے کہ اس باپ کو وہ بیٹا کیسا کچھ عزیز ہوگا۔ مگر مسلمان کی تعریف یہ ہے کہ اسے خدا اور اس کی مرضی سے بڑھ کر کوئی چیز بھی عزیز نہ ہو۔ اس لیے وہ ساری قربانیاں بھی کافی نہ سمجھی گئیں جو یہ بندہ اپنے خداکے لیے ساری عمر کرتا رہا تھا۔

ان سب کے بعد اس کا آخری امتحان لینا ضروری سمجھا گیا اور وہ یہ تھا کہ یہ بندئہ مسلم اپنے اس عزیز ترین بیٹے کی محبت کو بھی خدا کی محبت پر قربان کرسکتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ یہ امتحان بھی لے ڈالا گیا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ بوڑھا انسان اپنے خدا کا صریح حکم نہیں‘ محض ایک اشارہ پاتے ہی اکلوتے نوجوان بیٹے کو خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ یہ اور بات ہے کہ خدا نے  عین ذبح کے وقت لڑکے کی جگہ مینڈھے کو قبول کرلیا‘ کیونکہ خدا کو لڑکے کا خون مطلوب نہ تھا‘   محض محبت کی آزمایش مقصود تھی‘ لیکن اس سچے مسلمان نے اپنی نیت کی حد تک تو اپنا لختِ جگر اپنے خدا کے اشارے پر قربان کر ہی دیا تھا۔ یہ تھی وہ آخری اور سب سے بڑی قربانی جسے اس شخص نے اپنے اسلام اور ایمان‘ اور خدا کے ساتھ اپنی وفاداری کے ثبوت میں پیش کیا تھا۔ اسی کے صلے میں خدا نے اسے تمام دُنیا کے انسانوں کا امام بنایا اور اپنی دوستی کے مرتبے پر سرفراز کیا۔

آپ سمجھے کہ یہ کس شخص کا ذکر ہے؟ یہ اُس ذاتِ گرامی کا ذکر ہے جسے آج ہم سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام سے جانتے ہیں۔ اور یہی وہ قربانی ہے جس کی یادگار آج دُنیا بھر کے مسلمان جانوروں کی قربانی کرکے مناتے ہیں۔

اس یادگار کے منانے کا مقصدیہ ہے کہ مسلمان کے اندر قربانی کی وہی روح‘ اسلام و ایمان کی وہی کیفیت اور خدا کے ساتھ محبت ووفاداری کی وہی شان پیدا ہوا جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی پوری زندگی میں کیا ہے۔ اگر کوئی شخص محض ایک جانور کے گلے پر چھری پھیرتا ہے اور اس کا دل اس رُوح سے خالی رہتا ہے تو وہ ناحق ایک جان دار کا خون بہاتا ہے۔ خدا کو اس کے خون اور گوشت کی کوئی حاجت نہیں۔

وہاں تو جو چیز مطلوب ہے وہ دراصل یہ ہے کہ جو شخص کلمۂ لا الٰہ الا اللہ پر ایمان لائے   وہ مکمل طور پر بندئہ حق بن کر رہے۔ کوئی تعصب‘ کوئی دل چسپی‘ کوئی ذاتی مفاد‘ کوئی دبائو       اور لالچ‘ کوئی خوف اور نقصان‘ غرض کوئی اندر کی کمزوری اور باہر کی طاقت اس کو حق کے راستے سے   نہ ہٹاسکے۔ وہ خدا کی بندگی کا اقرار کرنے کے بعد پھر کسی دوسری چیز کی بندگی قبول نہ کرے۔    اس کے لیے ہرتعلق کو قربان کردینا آسان ہو‘ مگر اس تعلق کو قربان کرنا کسی طرح ممکن نہ ہو جو    اس نے اپنے خدا سے قائم کرلیا ہے___ یہی قربانی اسلام کی اصل حقیقت ہے اور آج ہر زمانے سے بڑھ کر ہم اس کے محتاج ہیں کہ یہ حقیقت ہماری سیرتوں میں پیوست ہو۔ مسلمانوں نے جب کبھی دنیا میں چوٹ کھائی ہے‘ اسلام کی اسی حقیقت سے خالی ہوکر کھائی ہے (اکتوبر ۱۹۴۷ئ)۔ (نشری تقریریں‘ ص ۹۷- ۱۰۳)

حضرت عبداللہ بن خبیبؓ سے روایت ہے کہ ہم بارش کی رات اور سخت تاریکی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طلب میں نکلے کہ آپؐ کے پیچھے نماز پڑھیں۔ ہم نے آپؐ کو پالیا۔ آپؐ نے فرمایا: قُلْ (کہو)، میں خاموش رہا ‘کچھ نہ کہا۔ آپؐ نے دوبارہ فرمایا: قُلْ۔ میں نے پھر بھی کچھ نہ کہا۔ آپؐ نے پھرفرمایا: قُلْ۔ تب میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں کیا کہوں؟ آپؐ نے فرمایا: قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ اور معوذتین پڑھو‘ شام کے وقت اور صبح کے وقت تین مرتبہ‘ یہ تمھیں ہرچیز کی جگہ کافی ہوجائیں گی۔ (ترمذی)

تعلیم و تربیت کا کیسا انداز ہے! پوری طرح متوجہ کرکے‘ شفقت و محبت کے ساتھ بات کو دل و دماغ میں اتار دینا کہ زندگی بھر بات نہ بھولے‘ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ تعلیم ہے۔ آدمی ان تین سورتوں کے ذریعے اللہ رب العالمین کی پناہ میں آجاتاہے‘ جو کائنات کا حکمران ہے۔ تب اس کا کون سا کام ہے جو نہ ہوگا۔ جو اللہ کا ہوجائے‘ اللہ تعالیٰ اس کے ہوجاتے ہیں۔ اہلِ ایمان کا بڑا سہارا یہی ہے: وعلٰی اللّٰہ فلیتوکل المومنون، ’’اللہ ہی پر ایمان والے توکّل کریں‘‘۔(المائدہ ۵:۱۱)

سائب بن مہجاں شای تابعی ہیں‘ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ شام میں داخل ہوئے تو شام کے لوگوں کو خطاب کیا۔ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے بعد وعظ نصیحت کی‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دیا‘ اس کے بعد فرمایا کہ جس طرح میں نے آپ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوکر خطاب کیا ہے‘ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور خطاب فرمایا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطاب میں اللہ تعالیٰ سے تقویٰ‘ صلہ رحمی‘ باہمی تعلقات کی اصلاح کا حکم دیا اور فرمایا: جماعت سے وابستہ رہو‘ سنو اور اطاعت کرو‘ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہے۔ اللہ تعالیٰ جماعت کی حفاظت اور نصرت فرماتے ہیں۔ شیطان اکیلے شخص پر حملہ آور ہوتا ہے‘ دو سے دُور رہتا ہے۔ کوئی مرد (غیرمحرم) عورت کے ساتھ تنہائی نہیں کرتا مگر شیطان ان دونوں کے ساتھ تیسرا ہوتا ہے (یعنی گناہ میں مبتلا کرتا ہے)۔ جسے اپنی برائی کا دکھ اور نیکی پر خوشی ہو تو مسلمان اور مومن ہونے کی نشانی ہے۔ اور منافق کی نشانی یہ ہے کہ اسے برائی پر ذہنی تکلیف نہ ہو اور نیکی پر ذہنی خوشی اور مسرت نہ ہو۔ وہ اگر بھلائی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس پر ثواب کی اُمید نہیں رکھتا اور اگر برائی کرتا ہے تو اس پر اسے سزا کا کوئی ڈر نہیں ہوتا۔ دنیا کی طلب میں اچھے طریق کا اختیار کرو۔   اللہ تعالیٰ نے تمھاری روزی کا ذمہ لیا ہے۔ ہر ایک کو اس کے اس عمل کا جس پر وہ کاربند تھا‘ پورا پھل ملے گا۔ اپنے اعمال پر اللہ سے مدد مانگو‘ اس لیے کہ وہ جس عمل کو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جسے چاہتا ہے قائم رکھتا ہے۔ اس کے پاس ام الکتاب (لوح محفوظ) ہے۔ (بیہقی فی شعب الایمان)

طویل تقاریر کے بجاے اختصار سے اہم اور بنیادی امور کے بیان کا کتنا اچھا نمونہ ہے۔ یہ مثال بھی ملتی ہے کہ عمال حکومت اپنی طرف سے ضروری باتیں بیان کرکے‘ اہم تر باتیں اللہ کے رسولؐ کی طرف سے بھی بیان کریں کہ سننے والوں کے لیے اس کی اپنی تاثیر ہے۔ غیرمحرم عورت کے ساتھ تنہائی میں جو اندیشے ہیں اس کا بیان اتنے اہم سرکاری خطاب میں ہو رہا ہے۔ اس سے ایک طرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ امر جو ’روشن خیالی‘ کے دور میں معمولی بات ہے‘ کتنا اہم ہے۔ دوسرے یہ بھی کہ سربراہ ملک‘ عوام کے اخلاق کے لیے فکرمند ہوتا ہے (نہ کہ اخلاق بگاڑنے پر کمربستہ)۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے روانہ ہوا۔ ہم عربوں کے قبیلوں میں سے ایک قبیلے کے پاس پہنچے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بستی سے الگ تھلگ ایک گھر پر نظرڈالی‘ اور اس کی طرف چلنا شروع کردیا۔ جب ہم اس کے پاس پہنچے تو پتاچلا کہ یہاں تو صرف ایک خاتون ہے۔ اس نے کہا: اللہ کے بندے! میں ایک عورت ہوں اور میرے ساتھ کوئی بڑا آدمی نہیں ہے۔ اگر آپ لوگ مہمان بننا چاہتے ہیں تو بستی کے بڑے کے پاس چلے جائیں۔ شام کا وقت تھا۔ آپؐ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ اتنے میں اس کا ایک بیٹا بکریوں کو ہنکاتا ہوا پہنچ گیا۔تب اس خاتون نے اپنے بیٹے سے کہا: بیٹے! اس بکری کو لواور اس کے ساتھ یہ چھری بھی پکڑلو اور دونوں مہمانوں کو جاکر دے دو اور ان سے کہو کہ میری ماں آپ سے کہتی ہے کہ اس بکری کو ذبح کرلیں‘ خود بھی کھائیں اور ہمیں بھی کھلائیں۔

جب بیٹا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آگیا اور اپنی ماں کا پیغام پہنچایا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھری لے جائو‘ ہمارے پاس پیالہ لے کر آئو۔ اس نے عرض کیا: ماں چراگاہ میں چلی گئی ہے اور بکری کے تھنوں میں دودھ نہیں ہے۔ اس لیے پیالے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایا (تم اس بات کو چھوڑو) بس پیالہ لے آئو۔ وہ پیالہ لے آیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے تھنوں پر ہاتھ پھیرا‘ پھر دودھ دوہا یہاں تک کہ پیالہ بھر گیا۔ وہ پیالہ آپؐ نے بچے کو دیا اور فرمایا: اپنی ماں کو دے آئو‘ چنانچہ وہ ماں کے پاس لے گیا۔ اس نے اتنا دودھ پیا کہ سیر ہوگئی۔ بچہ پیالہ لے کر واپس آیا‘ آپؐ نے دوبارہ پیالہ بھر کر اسے دیا اور فرمایا: دوسرا پیالہ بھی لے آئو۔ وہ دوسرا پیالہ لایا‘ آپؐ نے اس میں بھی دودھ دوہا‘ اور حضرت ابوبکرصدیقؓ کو دودھ پلایا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا۔ وہ رات ہم نے وہیں گزاری‘ پھر ہم دوبارہ منزل کی طرف چل پڑے۔

اس خاتون نے آپؐ کی یہ برکت دیکھی تو آپؐ کا نام مبارک رکھ دیا‘ اور وہ آپؐ کو مبارک کے نام سے پکارتی تھی۔ اس کے بعد اس کی بکریاں بھی بہت زیادہ ہوگئیں‘ چنانچہ بکریوں کا ایک ریوڑ لے کر وہ مدینہ طیبہ آگئی۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ کا اس طرف سے گزر ہوا تو اس کے بیٹے نے    انھیں دیکھ کر پہچان لیا اور اپنی ماں کو آواز دی: اماں جان! یہ وہ آدمی ہے جو مبارک ذات کے ساتھ تھا۔ وہ حضرت ابوبکرصدیقؓ  کے پاس آئی اور پوچھا: اللہ کے بندے! تمھارے ساتھ جو آدمی تھے وہ کون تھے؟ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: تمھیں پتا نہیں وہ کون تھے؟ اس نے عرض کیا: نہیں۔    اس پر حضرت ابوبکرصدیقؓ  نے فرمایا: وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ کہنے لگی کہ مجھے ان کے پاس لے جائو۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ اسے آپؐ کے پاس لے گئے۔ آپؐ نے اسے کھانا کھلایا‘ عطیات دیے‘ پنیر اور دیہاتیوں کے سازوسامان اور کپڑوں کے جوڑے پیش کیے۔ وہ مسلمان ہوگئی۔ (کنزالعمال‘ ج۸)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور اس کی تاثیر کا کیا حسین منظر ہے۔ آپؐ کی برکت کا مشاہدہ کرنے والی خاتون خود بخود مسلمان ہوجاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اعزاز کا بدلہ بہترین اعزازواکرام کے ساتھ اُتارتے ہیں۔ ہدیہ دینا‘ خصوصاً دُور سے ملنے آنے والوں کو‘ اسلامی اخلاق کا تقاضا اور    سنت رسولؐ کی پیروی ہے۔ اس کے اپنے فوائدو برکات ہیں۔اس واقعے سے یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ جب بندے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں تو ان کے معاش کا مسئلہ اللہ تعالیٰ خود حل فرما دیتے ہیں۔ بکری کے خشک تھنوں میں بھی دودھ اتر آتا ہے۔ غیب سے رزق کا سامان میسر ہوجاتا ہے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جب ایک آدمی اپنے گھر سے بسم اللّٰہ توکلت علی اللّٰہ لا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ (میں اللہ کے نام سے نکلا‘ میں نے اس پر توکل کیا‘ کوئی حرکت اور کوئی قوت نہیں مگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ) پڑھ کر نکلتا ہے تو ایسے شخص کو آواز دی جاتی ہے (فرشتہ آواز دیتا ہے): ’’تجھے ہدایت دی گئی‘ تیرے تمام کاموں کے لیے اس قدر مدد کی گئی جتنی کافی ہوجائے اور تجھے ہرشر سے بچا لیا گیا۔ شیطان تمام کے تمام اس سے دُور ہوجاتے ہیں۔ ایک دوسرا شیطان دُور ہوجانے والے شیطان اور اپنے آپ سے کہتا ہے: ’’تم کیسے اس شخص کو نقصان پہنچا سکتے ہو جسے ہدایت دے دی گئی‘ جس کے لیے بقدر کفایت مدد کی گئی‘ اور اسے ہرشر سے بچالیا گیا‘‘۔ (سنن ابی داؤد‘ سنن ترمذی)

جب ایک شخص صرف زبان سے نہیں بلکہ پورے شعور اور اخلاص نیت سے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ کر‘  اللہ پر بھروسا کرکے نکلے تو وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آجاتا ہے اور اس کی مدد کا مستحق ہوجاتا ہے۔ وہ جسمانی اور روحانی دونوں لحاظ سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ شیطان اس کو گمراہ کرنے سے مایوس ہوجاتے ہیں۔

آج کے حالات میں ہر جگہ مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور نصرت کی ضرورت ہے۔ انسانوں اور جنات کی شکل میں شیطان مسلمان کے خون کے پیاسے ہیں۔ ان کو مٹانے اور کفروشرک اور فسق و فجور میں مبتلا کرنے میں پوری قوت اور تمام وسائل کے ساتھ‘ زوروشور سے مصروف اور اس میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے گھروں سے انھیں ایجنٹ میسر ہیں۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اسی پر توکل کی ڈھال ہر مسلمان کے لیے موجود ہے۔ اہلِ ایمان اس دعا کو ڈھال بناکر اپنے گھروں سے نکلیں تواللہ تعالیٰ کی نصرت اور حفاظت سے کامیاب و کامران اور مامون ہوکر اپنے گھروں کو واپس لوٹیں گے۔

حال ہی میں ’تحفظ خواتین‘ کے نام سے قومی اسمبلی میں جو بل منظور کرایا گیا ہے، اس کے قانونی مضمرات سے تو وہی لوگ واقف ہوسکتے ہیں جو قانونی باریکیوں کا فہم رکھتے ہوں، لیکن عوام کے سامنے اس کی جو تصویر پیش کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ حدود آرڈی ننس نے خواتین پر جو بے پناہ مظالم توڑ رکھے تھے، اس بل نے اُن کا مداوا کیا ہے، اور اس سے نہ جانے کتنی ستم رسیدہ خواتین کو سکھ چین نصیب ہوگا۔ یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ اس بل میں کوئی بات قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہے۔

آئیے ذرا سنجیدگی اور حقیقت پسندی کے ساتھ یہ دیکھیں کہ اس بل کی بنیادی باتیں کیا ہیں؟ وہ کس حد تک اِن دعوؤں کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں؟

پورے بل کا جائزہ لیا جائے تو اس بل کی جوہری (substantive)باتیں صرف دو ہیں:

۱- پہلی بات یہ ہے کہ زنا بالجبر کی جو سزا قرآن و سنت نے مقرر فرمائی ہے ، اور جسے اصطلاح میں ’حد‘کہتے ہیں، اُسے اس بل میں مکمل طور پر ختم کردیا گیا ہے۔ اس کی رُو سے زنابالجبرکے کسی مجرم کوکسی بھی حالت میں وہ شرعی سزا نہیں دی جاسکتی، بلکہ اُسے ہر حالت میں تعزیری سزا دی جائے گی۔

۲- دوسری بات یہ ہے کہ حدود آرڈی ننس میں جس جرم کو زنا موجبِ تعزیر کہا گیا تھا،  اُسے اب ’سیاہ کاری‘ (fornication) کا نام دے کر اس کی سزا کم کردی گئی ہے، اور اس کے ثبوت کو مشکل تر بنادیا گیا ہے۔

اب ان دونوں جوہری باتوں پر ایک ایک کرکے غور کرتے ہیں:

زنا بالجبر: شرعی سزا

زنا بالجبر کی شرعی سزا (حد) کو بالکلیہ ختم کردینا واضح طور پر قرآن و سنت کے احکام کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن کہا یہ جارہا ہے کہ قرآن و سنت نے زنا کی جو حد مقرر کی ہے، وہ صرف اس صورت میں لاگو ہوتی ہے جب زنا کا ارتکاب دو مرد و عورت نے باہمی رضا مندی سے کیا ہو، لیکن جہاں کسی مجرم نے کسی عورت سے اس کی رضامندی کے بغیر زنا کیا ہو، اس پر قرآن و سنت نے کوئی حد عائد نہیں کی۔ آئیے پہلے یہ دیکھیں کہ یہ دعویٰ کس حد تک صحیح ہے؟

قرآنی ھدایات

۱۔ قرآن کریم نے سورئہ نور کی دوسری آیت میں زنا کی حد بیان فرمائی ہے:

الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوا کُلَّ واحِدٍ مِّنْھُمَا مِائۃَ جَلْدَۃٍ ص (النور ۲۴:۲) جو عورت زنا کرے، اور جو مرد زنا کرے، ان میں سے ہر ایک کو ۱۰۰ کوڑے لگاؤ۔

اس آیت میں ’زنا‘ کا لفظ مطلق ہے جو ہر قسم کے زنا کو شامل ہے، اس میں رضامندی سے کیا ہوا زنا بھی داخل ہے، اور زبردستی کیا ہوا زنا بھی‘ بلکہ یہ عقلِ عام (common sense) کی بات ہے کہ زنا بالجبر کا جرم رضامندی سے کیے ہوئے زنا سے زیادہ سنگین جرم ہے۔ لہٰذا اگر رضامندی کی صورت میں یہ حد عائد ہورہی ہے تو جبر کی صورت میں اس کا اطلاق اور زیادہ قوت کے ساتھ ہوگا۔

اگرچہ اس آیت میں ’زنا کرنے والی عورت‘ کا بھی ذکر ہے، لیکن خود سورئہ نور ہی میں آگے چل کر اُن خواتین کو سزا سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے جن کے ساتھ زبر دستی کی گئی ہو، چنانچہ قرآن کریم کا ارشاد ہے:

وَمَنْ یُّکْرِھْھُنَّ فَاِنَّ اللّٰہَ مِنْم بَعْدِ اِکْرَاھِھِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo (النور ۲۴:۳۳) اور جوان خواتین پر زبردستی کرے تو اللہ تعالیٰ ان کی زبردستی کے بعد (ان خواتین کو)بہت بخشنے والا، بہت مہربان ہے۔

اس سے واضح ہوگیا کہ جس عورت کے ساتھ زبردستی ہوئی ہو، اسے سزا نہیں دی جاسکتی، البتہ جس نے اس کے ساتھ زبر دستی کی ہے ، اس کے بارے میں زنا کی وہ حد جو سورئہ نور کی آیت نمبر۲ میں بیان کی گئی تھی، پوری طرح نافذ رہے گی۔

احادیث مبارکہ

۲- ۱۰۰ کوڑوں کی مذکورہ بالا سزا غیر شادی شدہ اشخاص کے لیے ہے۔ سنتِ متواترہ نے اس پر یہ اضافہ کیا ہے کہ اگر مجرم شادی شدہ ہوتو اسے سنگسار کیا جائے گا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنگساری کی یہ حد جس طرح رضامندی سے کیے ہوئے زنا پر جاری فرمائی، اسی طرح زنابالجبر کے مرتکب پر بھی جاری فرمائی۔

چنانچہ حضرت وائل بن حُجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت نماز پڑھنے کے ارادے سے نکلی، راستے میں ایک شخص نے اُس سے زبردستی زنا کا ارتکاب کیا ۔ اس عورت نے شور مچایا تو وہ بھاگ گیا۔ بعد میں اُس شخص نے اعتراف کرلیا کہ اُسی نے عورت کے ساتھ زنا بالجبر کیا تھا ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس شخص پر حد جاری فرمائی، اور عورت پر حد جاری نہیں کی۔

امام ترمذیؒ نے یہ حدیث اپنی جامع میں دو سندوں سے روایت کی ہے، اور دوسری سند کو قابلِ اعتبار قرار دیا ہے۔ (جامع ترمذی، کتاب الحدود‘ باب۲۲، حدیث۱۴۵۳، ۱۴۵۴)  

۳۔ صحیح بخاریؒ میں روایت ہے کہ ایک غلام نے ایک باندی کے ساتھ زنا بالجبر کا ارتکاب کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مرد پر حد جاری فرمائی، اور عورت کو سزا نہیں دی، کیونکہ اس کے ساتھ زبر دستی ہوئی تھی۔(صحیح بخاریؒ ، کتاب الاکراہ، باب نمبر۶)

لہٰذا قرآن کریم ، سنتِ نبویہ علی صاحبہاالسلام اور خلفاے راشدین کے فیصلوں سے     یہ بات کسی شبہے کے بغیر ثابت ہے کہ زنا کی حد جس طرح رضامندی کی صورت میں لازم ہے،  اسی طرح زنا بالجبرکی صورت میں بھی لازم ہے، اور یہ کہنے کا کوئی جواز نہیں ہے کہ قرآن و سنت نے زنا کی جو حد (شرعی سزا) مقرر کی ہے، وہ صرف رضامندی کی صورت میں لاگُو ہوتی ہے، جبر کی صورت میں اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔

شرعی سزا کا خاتمہ: اثرات کیا ھوں گے؟

سوال یہ ہے کہ پھر کس وجہ سے زنا بالجبر کی شرعی سزا کو ختم کرنے پر اتنا اصرار کیا گیا ہے؟ اس کی وجہ دراصل ایک انتہائی غیر منصفانہ پروپیگنڈا ہے جو حدود آرڈی ننس کے نفاذ کے وقت سے بعض حلقے کرتے چلے آرہے ہیں۔ پروپیگنڈا یہ ہے کہ حدود آرڈی ننس کے تحت اگر کوئی مظلوم عورت کسی مرد کے خلاف زنا بالجبر کا مقدمہ درج کرائے تو اُس سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ زنا بالجبر پر چار گواہ پیش کرے، اور جب وہ چار گواہ پیش نہیں کرسکتی تو اُلٹا اُسی کو گرفتار کرکے جیل میں بند کردیا جاتا ہے۔ یہ وہ بات ہے جو عرصۂ دراز سے بے تکان دہرائی جارہی ہے، اور اس شدت کے ساتھ دہرائی جارہی ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اسے سچ سمجھنے لگے ہیں، اور یہی وہ بات ہے جسے صدر مملکت نے بھی اپنی نشری تقریر میں اس بل کی واحد وجۂ جواز کے طور پر پیش کیا ہے۔

جب کوئی بات پروپیگنڈے کے زور پر گلی گلی اتنی مشہور کردی جائے کہ وہ بچے بچے کی زبان پر ہو‘تو اس کے خلاف کوئی بات کہنے والا عام نظروں میں دیوانہ معلوم ہوتا ہے، لیکن جو حضرات انصاف کے ساتھ مسائل کا جائزہ لینا چاہتے ہیں، میں انھیں دلسوزی کے ساتھ دعوت دیتا ہوں کہ وہ براہ کرم پروپیگنڈے سے ہٹ کر میری آیندہ معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں۔

واقعہ یہ ہے کہ میں خود پہلے وفاقی شریعت عدالت کے جج کی حیثیت سے اور پھر ۱۷ سال تک سپریم کورٹ کی شریعت ایپلٹ بنچ کے رکن کی حیثیت سے حدود آرڈی ننس کے تحت درج ہونے والے مقدمات کی براہِ راست سماعت کرتا رہا ہوں۔ اتنے طویل عرصے میں میرے علم میں کوئی ایک مقدمہ بھی ایسا نہیں آیا جس میں زنا بالجبر کی کسی مظلومہ کو اس بنا پر سزا دی گئی ہو کہ وہ چار گواہ پیش نہیں کرسکی، اور حدود آرڈی ننس کے تحت ایسا ہونا ممکن بھی نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حدود آرڈی ننس کے تحت چار گواہوں یا ملزم کے اقرارکی شرط صرف زنا بالجبر موجب حد کے لیے تھی، لیکن اسی کے ساتھ دفعہ۱۰(۳) زنا بالجبر موجب تعزیر کے لیے رکھی گئی تھی جس میں چار گواہوں کی شرط نہیں تھی، بلکہ اس میں جرم کا ثبوت کسی ایک گواہ ، طبی معائنے اور کیمیاوی تجزیہ کار کی رپورٹ سے بھی ہوجاتا تھا۔ چنانچہ زنا بالجبر کے بیش تر مجرم اسی دفعہ کے تحت ہمیشہ سزا یاب ہوتے رہے ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو مظلومہ چار گواہ نہیں لا سکی ، اگر اُسے کبھی سزا دی گئی ہو تو حدود آرڈی ننس کی کون سی دفعہ کے تحت دی گئی ہوگی؟ اگر یہ کہا جائے کہ اُسے قذف(یعنی زنا کی جھوٹی تہمت لگانے) پر سزا دی گئی‘ تو قذف آرڈی ننس کی دفعہ۳ استثنا نمبر۲ میں صاف صاف یہ لکھا ہوا موجود ہے کہ جو شخص قانونی اتھارٹیز کے پاس زنا بالجبر کی شکایت لے کر جائے اُسے صرف اس بنا پر قذف میں سزا نہیں دی جاسکتی کہ وہ چار گواہ پیش نہیں کرسکا/کرسکی۔کوئی عدالت ہوش و حواس میں رہتے ہوئے ایسی عورت کو سزا دے ہی نہیں سکتی۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اُسی عورت کو رضامندی سے زنا کرنے کی سزا دی جائے، لیکن اگر کسی عدالت نے ایسا کیا ہو تو اس کی یہ وجہ ممکن نہیں ہے کہ وہ خاتون چار گواہ نہیں لا سکی، بلکہ واحد ممکن وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ عدالت شہادتوں کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ عورت کا جبر کا دعویٰ جھوٹا ہے‘ اور ظاہر ہے کہ اگر کوئی عورت کسی مرد پر یہ الزام عائد کرے کہ اس نے زبر دستی اس کے ساتھ زنا کیا ہے، اور بعد میں شہادتوں سے ثابت ہو کہ اس کا جبر کا دعویٰ جھوٹا ہے، اور وہ رضامندی کے ساتھ اس عمل میں شریک ہوئی تو اسے سزا یاب کرنا انصاف کے کسی تقاضے کے خلاف نہیں ہے۔لیکن چونکہ عورت کو یقینی طور پر جھوٹا قرار دینے کے لیے کافی ثبوت عموماً موجود نہیں ہوتا ، اس لیے ایسی مثالیں بھی اکّا دکّا ہیں‘ ورنہ ۹۹ فی صد مقدمات میں یہ ہوتا ہے کہ اگر چہ عدالت کو اس بات پر اطمینان نہیں ہوتا کہ مرد کی طرف سے جبر ہوا ہے ، لیکن چونکہ عورت کی رضامندی کا کافی ثبوت بھی موجود نہیں ہوتا ، اس لیے ایسی صورت میں بھی عورت کو شک کا فائدہ دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

حدود آرڈی ننس کے تحت پچھلے ۲۷ سال میں جو مقدمات ہوئے ہیں، ان کا جائزہ لے کر اس بات کی تصدیق آسانی سے کی جاسکتی ہے ۔ میرے علاوہ جن جج صاحبان نے یہ مقدمات سنے ہیں‘ اُن سب کا تاثر بھی میں نے ہمیشہ یہی پایا کہ اس قسم کے مقدمات میں جہاں عورت کا کردار مشکوک ہو‘تب بھی عورتوں کو سزا نہیں ہوتی، صرف مرد کو سزا ہوتی ہے۔

چونکہ حدود آرڈی ننس کے نفاذ کے وقت ہی سے یہ شور بکثرت مچتا رہا ہے کہ اس کے ذریعے بے گناہ عورتوں کو سزا ہورہی ہے، اس لیے ایک امریکی اسکالر چارلس کینیڈی یہ شور سن کر ان مقدمات کا سروے کرنے کے لیے پاکستان آیا۔ اس نے حدود آرڈی ننس کے مقدمات کا جائزہ لے کر اعداد و شمار جمع کیے ، اور اپنی تحقیق کے نتائج ایک رپورٹ میں پیش کیے جو شائع ہوچکی ہے۔ اس رپورٹ کے نتائج بھی مذکورہ بالا حقائق کے عین مطابق ہیں۔ وہ اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے:

"Women fearing conviction under section 10(2) frequently bring charges of rape under 10(3) against their alleged partners. The FSC finding no circumstantial evidence to support the latter charge, convict the male accused under section 10(2)...... the women is exonerated of any wrong doing due to reasonable doubt' rule." (Charles Cannedy: The Status of Women in Pakistan in Islamization of Laws P.74)

جن عورتوں کو دفعہ ۱۰(۲) کے تحت ( زنا بالرضا کے جرم میں) سزایاب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، وہ اپنے مبینہ شریک جرم کے خلاف دفعہ۱۰(۳) کے تحت (زنابالجبر کا ) الزام لے کر آجاتی ہیں۔ فیڈرل شریعت کورٹ کو چونکہ کوئی ایسی قرائنی شہادت نہیں ملتی جو  زنا بالجبر کے الزام کو ثابت کرسکے، اس لیے وہ مرد ملزم کو دفعہ۱۰(۲) کے تحت (زنا بالرضا) کی سزا دے دیتا ہے۔۔۔۔۔اور عورت’شک کے فائدے‘ والے قاعدے کی بنا پر اپنی ہرغلط کاری کی سزا سے چھوٹ جاتی ہے۔

یہ ایک غیر جانب دارغیرمسلم اسکالر کا مشاہدہ ہے جسے حدود آرڈی ننس سے کوئی ہمدردی نہیں ہے‘ اور ان عورتوں سے متعلق ہے جنھوں نے بظاہر حالات رضامندی سے غلط کاری کا ارتکاب کیا، اور گھر والوں کے دباؤ میں آکر اپنے آشنا کے خلاف زنا بالجبر کا مقدمہ درج کرایا۔ اُن سے چار گواہوں کا نہیں، قرائنی شہادت (Circumstantial evidence) کا مطالبہ کیا گیا، اور وہ قرائنی شہادت بھی ایسی پیش نہ کرسکیں جس سے جبر کا عنصر ثابت ہوسکے۔ اس کے باوجود سزا صرف مرد کو ہوئی، اور شک کے فائدے کی وجہ سے اس صورت میں بھی ان کو کوئی سزا نہیں ہوئی۔

کیاترمیم قرآن و سنت کے مطابق ھے؟

لہٰذا واقعہ یہ ہے کہ حدود آرڈی ننس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس کی رُو سے زنا بالجبر کا شکار ہونے والی عورت کو چار گواہ پیش نہ کرنے کی بناء پر اُلٹا سزایاب کیا جاسکے۔ البتہ یہ ممکن ہے اور شاید چند واقعات میں ایسا ہوا بھی ہو کہ مقدمے کے عدالت تک پہنچنے سے پہلے تفتیش کے مرحلے میں پولیس نے قانون کے خلاف کسی عورت کے ساتھ یہ زیادتی کی ہو کہ وہ زنا بالجبر کی شکایت لے کر آئی، لیکن انھوں نے اسے زنا بالرضا میں گرفتار کرلیا۔ لیکن اس زیادتی کا حدود آرڈی ننس کی کسی خامی سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس قسم کی زیادتیاں ہمارے ملک کی پولیس ہر قانون کی تنفیذ میں کرتی رہتی ہے۔ اس کی وجہ سے قانون کو نہیں بدلا جاتا۔ ہیروئن رکھنا قانوناً جرم ہے، مگر پولیس کتنے    بے گناہوں کے سرہیروئن ڈال کر انھیں تنگ کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہیروئن کی ممانعت کا قانون ہی ختم کردیا جائے۔

زنا بالجبر کی مظلوم عورتوں کے ساتھ اگر پولیس نے بعض صورتوں میں ایسی زیادتی کی بھی ہے تو فیڈرل شریعت کورٹ نے اپنے فیصلوں کے ذریعے اس کا راستہ بند کیا ہے، اور اگر بالفرض اب بھی ایسا کوئی خطرہ موجود ہو تو ایسا قانون بنایا جاسکتا ہے جس کی رُو سے یہ طے کردیا جائے کہ زنابالجبر کی مستغیثہ کو مقدمے کا آخری فیصلہ ہونے تک حدود آرڈی ننس کی کسی بھی دفعہ کے تحت گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔ اور جو شخص ایسی مظلومہ کو گرفتار کرے، اُسے قرار واقعی سزا دینے کا قانون بھی بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کی بنا پر ’زنا بالجبر‘ کی حدِّ شرعی کو ختم کردینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

لہٰذا زیر نظر بل میں زنا بالجبر کی حدِّ شرعی کو جس طرح بالکلیہ ختم کردیا گیا ہے، وہ قرآن و سنت کے واضح طور پر خلاف ہے‘ اور اس کا خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی سے بھی کوئی تعلق  نہیں ہے۔

نبی کریمؐ کا ہر نقش ‘ہر قدم‘ ہر ادا‘ ہر بات ‘ ہر عمل ہمارے لیے بہترین اسوہ‘ قابل عمل نمونہ اور مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔قرآن مجید نے خود اس بات کو بیان فرمایا ہے کہ تمھارے لیے اللہ کے رسول کی ذات میںبہترین اسوہ ہے۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ  (الاحزاب ۳۳:۲۱)۔ یہ اس لیے بھی ہے کہ اللہ کا رسول آتا ہی اس لیے ہے کہ اس کی پیروی و اطاعت کی جائے۔ یہ اطاعت و پیروی ہی وہ واحد چیز ہے جس میں اللہ کے رسول کی اطاعت، اللہ کی اطاعت کے برابر ہے۔جس نے رسول کی اطاعت کی‘ دراصل اس نے خدا کی اطاعت کی۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ج (النسآء ۴:۸۰)

رسول کی اتباع اورپیروی محض اللہ کی اطاعت ہی نہیں بلکہ اللہ کی محبت کی نشانی بھی ہے:

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْط(اٰل عمرٰن ۳:۳۱) اے نبیؐ، لوگوں سے کہہ دو کہ ’’ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔‘‘

یہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ آپؐاللہ کے رسول ہیں‘بلکہ اس لیے کہ آپؐ کا اسوہ کامل ترین اسوہ ہے۔ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ o (القلم ۶۸:۴)’’اور بے شک تم اخلاق کے      بڑے مرتبے پر ہو‘‘۔گویا آپؐکا کردار اور آپؐکی سیرت انسانوں کے لیے ہرلحاظ اور ہرپہلو سے بہترین اور کامل نمونہ ہے۔

رسالت اور اسوۂ کامل، یہ دونوں باتیں لازم وملزوم ہیں۔ اس لیے کہ جو اللہ کا رسول ہو گا وہ لازماً اسوۂ کامل کا حامل بھی ہوگا‘ اور جواسوۂ کامل کا حامل ہو گا اسی کو اللہ تعالیٰ اپنی رسالت     کے لیے منتخب فرمائے گا۔ تاہم اس کا ایک اور پہلو بھی ہے وہ یہ کہ اللہ کے رسولؐ کی زندگی کے بہت سارے پہلو ہیں۔ آپؐسربراہ ریاست بھی تھے اور قانون ساز بھی‘ باپ بھی تھے اور شوہر بھی، دوست اور ساتھی بھی تھے اور فوج کے سپہ سالار بھی‘نیز معلم و مربی بھی‘ اور یہ ساری حیثیتیں آپؐکی رسالت کی حیثیت کے تابع تھیں۔ لیکن رسالت کا بنیادی فریضہ یہ تھا کہ اللہ کی بندگی کا پیغام انسانوں تک پہنچایا جائے۔ اس لحاظ سے قرآن مجید نے جب یہ کہا کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں تو جہاں یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ کے رسولؐہونے کی حیثیت سے آپؐکا اسوہ قابل اتباع ہے، وہاں یہ بات بھی عیاں ہوگئی کہ اللہ کے رسول ہونے کی حیثیت سے رسالت کا فریضہ ادا کرنے میں اور کارِ رسالت انجام دینے میں بھی آپؐکا طریقہ ، آپؐکی روش اور آپؐکا اسوہ ہی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔

کارِ رسالت ، ایک اھم پھلو

کارِ رسالت کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاکو شاہد ، مبشر، نذیر اور داعی     الی اللّٰہ بنا کر بھیجا۔اس حوالے سے انبیا کی جس صفت پر بھی غور کیا جائے،اس کا حاصل یہی ہے کہ اللہ کے بندوں تک اللہ کی ہدایت اور اس کا پیغام پہنچے۔ رسول کے لفظ کے اندریہ حقیقت پوشیدہ ہے کہ وہ پیغامبر ہوتاہے اور جو پیغام لے کر آتا ہے اسے دوسروں تک پہنچاتاہے۔ یہ ایک ایسی  ذمہ داری ہے کہ اللہ کے رسول کوئی اور کام کر پائیں یا نہ پائیں لیکن اُن سے اِن کی اس بنیادی  ذمہ داری کے بارے میں لازماً سوال کیا جائے گا کہ تم نے اس کو کہاں تک ادا کیا۔ لوگ مانتے ہیں یا نہیں مانتے‘ پیچھے چلتے ہیں یا نہیں چلتے‘ پکار پر لبیک کہتے ہیں یا نہیں کہتے‘ اور اللہ کے رسول اس میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے کہ اللہ کے دین کو سارے دینوں پر غالب کردیں‘ لیکن یہ فریضہ ایسا ہے جو بنیادی طور پہ لازماً ان کے ذمے کیا گیا ہے۔

یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ (المائدۃ۵:۶۷) اے پیغمبر‘ جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو۔

گویا اگر رسول نے پہنچانے کا کام سر انجام نہیں دیا تو فی الواقع اللہ نے جو پیغام دیاہے‘ اس کے پہنچانے کا حق ادا نہیں ہوا۔ یوں سمجھ لیں کہ رسالت کے سارے فرائض کا انحصار مخاطبین کے اُوپر ہے۔ وہ مانیں گے تو مومن وجود میں آئیں گے۔ وہ ساتھ دیں گے تو ساتھ چلنے والے ملیں گے لیکن ایسا بھی ہو سکتاہے ۹۰۰ برس رات دن پکارنے کے بعد بھی تھوڑے ہی لوگ ہوں جو ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں۔ وَمَآ اٰمَنَ مَعَہٗٓ اِلاَّ قَلِیْلٌ o (ھود ۱۱:۴۰)’’اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوحؑ کے ساتھ ایمان لائے تھے‘‘۔ اگر دعوت کے نتیجے میں تھوڑے لوگ ایمان لائیں یا لوگ دعوت رد کردیں تو اس پر رسول سے کوئی پرسش نہیں ہے۔ وہ اس کے لیے جواب دہ نہیں ہے۔ البتہ جس بات میں اس کی جواب دہی ہے وہ یہ ہے کہ اس نے دعوت پہنچانے کا کام اور لوگوں کو خدا کی طرف پکارنے کا کام کہاں تک انجام دیا۔ اگر اس نے اس کام کو مکمل کر دیا تو رسالت کا سب سے بنیادی فریضہ اور اس کی بنیادی ذمہ داری ادا ہوگئی۔

یہ جاننا ہمارے لیے اس لیے بھی ضروری ہے کہ اکثر دعوت دین اور اقامت دین کا کام کرتے ہوئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کام کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے جو دوسروں کے ماننے اور دوسروں کا ساتھ دینے اور اللہ کی خشیت اور حکمت پر منحصر ہے۔ جب وہ کام پورا نہیں ہوتا تو ہم مایوسی کا شکار ہو کر اس کام کو بھی چھوڑ دیتے ہیں جس کام سے کوئی مفر نہیں اور جس ذمہ داری کو کبھی ٹالا نہیں جا سکتا۔ وہ یہ کہ اللہ کے ایک ایک بندے تک اس کی ہدایت‘ اس کی زندگی کا پیغام‘ اللہ پر ایمان لانے کی دعوت‘ اس کی اطاعت کا مطالبہ اس کے سامنے پیش کیا جائے۔ یہی دراصل کارِرسالت کا ماحاصل ہے ۔ آج بھی جو اسلامی تحریک کا نام لیتاہے‘ اقامتِ دین کا دعوے دار ہے‘ وہ کوئی اور کام کر پائے یا نہ کر پائے لیکن اس کام کے لیے اس کی ذمہ داری اور اس کی جواب دہی ایسی ہے جس سے وہ چھوٹ نہیں سکتا جب تک کہ وہ اس کام کو کماحقہ، انجام نہ دے۔

اسوۂ رسالت کے تحت میں مختصراً دو چیزوں کا ذکر کروں گا اور یہ دونوں چیزیں بالکل لازمی اور ناگزیر ہیں۔دعوت کے ضمن میں اُن طریقوں کو صحیح طور پر استعمال کرنے کے لیے جو طریقے   نبی کریمؐنے اختیار کیے ہیںایک خاص جذبہ، کیفیت اور روح درکار ہے۔ اس لیے کہ دعوت کا کام کوئی مجرد فنی مہارت کا کام نہیں ہے اور اس کو عام اصولوں کی طرح نہیں سیکھا جا سکتا۔ اس کام کے طریقے‘ اس کام کے راستے اسی وقت سیکھے جاسکتے ہیں اور ان پر عمل درآمد اسی وقت ہو سکتاہے جب ان کی پشت پر وہ کیفیت‘ وہ روح اور وہ جذبہ کار فرما ہو جو دعوت الیٰ اللہ کے لیے ضروری ہے‘ اور جس کی نمایاں مثال نبی کریمؐکی اپنی زندگی اور اپنا اسوۂ دعوت ہے۔

دعوت اور احساسِ ذمہ داری

پہلی بات یہ ہے کہ دعوت کی ذمہ داری ایک بڑی بھاری ذمہ داری ہے جس کے احساس سے آپؐکا دل گراں بار تھا‘ جس کے بوجھ سے آپؐکو اپنی کمر ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی تھی‘ جس کو  اللہ تعالیٰ نے خود قول ثقیل(بھاری بات)سے تعبیر کیا ہے۔ یہ اس لیے تھا کہ یہ ذمہ داری کس کی طرف سے تھی‘ نیابت کس کی ہو رہی تھی‘ بات کس کی تھی جو دوسروںتک پہنچانا تھی اور جواب دہی  کس کے سامنے تھی___ یہ اللہ کی طرف سے تفویض کردہ ذمہ داری تھی اور اس کی جواب دہی خود اپنے سامنے اور ربِ کائنات کے سامنے تھی۔ یہ ذمہ داری نہ کسی اجتماع میں رپورٹ تک محدود تھی‘ نہ صرف دنیا کے اندر کچھ کامیابی حاصل کرنے کے لیے تھی‘ بلکہ اللہ کے رسول اس منصب پر اپنے رب کی طرف سے فائز کیے گیے تھے اور رب کا دیا ہو کام ایسا تھا جو ہرحال میں‘ ہر طرح انجام دینا تھا۔

مجرد یہ احساس اور شعور کہ یہ میرے رب کا کام ہے‘ میں نے رب کے بندوں کو حق کی طرف بلانا ہے‘ ان کو غلط راستوں پر بھٹکنے سے بچا کر صحیح راستے پر لگانا ہے‘ یہ اپنی جگہ اتنی زبردست ذمہ داری تھی کہ اقراْ کا پیغام سننے کے بعد ہی حضوؐرکا نپتیـ‘ لرزتے اپنے گھر واپس آئے اور اپنی اہلیہ محترمہ سے کہا کہ زمّلونی‘ زمّلونی ‘مجھے اڑھا دو، مجھے اڑھا دو۔ مجھے اپنے نفس کے بارے میں ڈر ہے۔ اتنا عظیم الشان کام اقراْ (پڑھنے اور سنانے) کاکام‘ رب کے نام سے دنیا کو پکارنے کا کام‘ اور دنیا کو یہ پیغام دینا کہ علم کا سرچشمہ صرف اللہ کی ذات ہے‘ اس سے ماورا بے نیاز ہو کر، جو علم کا دعوے دار ہے‘ وہ قطعی غلط ہے‘ نیز اللہ کی ذات سے اور اللہ کی ہدایت سے پوری انسانی زندگی کا رشتہ جوڑنا‘ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o (العلق ۹۶:۱)‘ میں یہ پوری ذمہ داری پوشیدہ تھی اور حضوؐر اسی لیے کانپتے اور لرزتے ہوئے واپس آئے تھے اور یہ فرمایا تھا کہ مجھے اپنے نفس کے بارے میں ڈر اور خوف محسوس ہوتاہے۔ یہ اس مقامِ دعوت کی عظمت اور اس کی گراں باری تھی جس نے قلبِ مبارک پر اس کیفیت کو طاری کر دیاتھا۔

اس کے ساتھ ساتھ جو چیز تھی وہ صرف یہ نہیں تھی کہ دنیاکے اندر اتنا عظیم الشان کام درپیش ہے بلکہ یہ کہ اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اگر اس کام کے اندر کوتاہی ہوئی توجو لوگ گمراہی کے راستے پہ جائیں گے‘ بھٹک جائیں گے اور غلط راہ پر پڑ جائیں گے‘ وہ جن کے سامنے حجت پوری نہیں ہوگی‘ اس کا ذمہ داروہ بھی ہوگا جس کے پاس پیغام حق ہو اور وہ اس کو پہنچانے سے قاصر رہے۔ اسی لیے جب آپؐ اس حوالے سے سوچتے تھے‘ آپؐ کے سامنے اس کا ذکر ہوتا تھا تو آپؐ لرزہ براندام ہو جاتے تھے، آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے تھے۔

ایک طرف تو جواب دہی کا یہ احساس تھا جس کے بوجھ سے آپؐکو اپنی کمر ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی تھی تو دوسری طرف خود وحی کے نزول کا مرحلہ بھی بہت کٹھن تھا۔ اس سے نہ صرف جسم کے اُوپر بوجھ پڑتا تھا بلکہ جب یہ کلام نازل ہوتا تھا تو اس کے بوجھ سے اونٹنی بھی بیٹھ جایا کرتی تھی اور آپؐکی پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہوا کرتے تھے۔ یہ تمام کیفیات کلامِ حق اور ہدایت الٰہی کو وصول کرکے پہنچانے کی ذمہ داری کا احساس کا نتیجہ تھیں۔

آخرت کی جواب دہی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے صاف صاف کہا تھا:

فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْھِمْ وَلَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَo (الاعراف۷:۶) پس یہ ضرور ہو کر رہنا ہے کہ ہم اُن لوگوں سے باز پرس کریں جن کی طرف ہم نے پیغمبر بھیجے ہیں، اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں( کہ انھوں نے پیغام رسانی کا فرض کہاں تک انجام دیا اور انھیں اس کا کیا جواب ملا)۔

یہ سوال صرف انھی سے نہیں ہو گا جو مخاطب تھے کہ تم نے یہ بات کیوں رد کردی‘ بلکہ مرسلین جن کو رسول بنا کر بھیجا گیا‘ ان سے بھی سوال کیا جائے گا کہ تم نے اپنی ذمہ داری کو کہاں تک ادا کیا۔ یہ کتنی بڑی ذمہ داری تھی‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسا بوجھ تھا جس سے کمر ٹوٹتی محسوس ہوتی اور بدن لرزتا اور کانپتا تھا‘ اور جواب دہی کا احساس دل و دماغ کے اُوپر چھایا رہتا تھا۔

داعیانہ تڑپ

یہ ذمہ داری رب کی طرف سے تھی کہ اللہ کے بندوں کو بھٹکنے سے بچا کر صحیح راستے پر لگایا جائے۔ ذرا تصور کیجیے کہ وہ دل اور وہ قلب جو انسانوں کی محبت سے سرشار ہو‘ جو ۴۰ سال سے   دن رات انسانوں کی خدمت کے اندر لگا ہوا ہو‘ اس کو جب یہ معلوم ہو کہ یہ وہ پیغام ہے جس سے انسان آگ سے بچ کر اللہ کی جنت کی طرف جا سکتے ہیں تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس کی کیفیت کیا ہو گی۔ نبی کریمؐ نے اس بات کو یوں بیان فرمایا کہ میری مثال ایسی ہے جیسے کسی نے آگ جلائی، اور جب آگ روشن ہو گئی تو لوگ پروانوں کی طرح آگ میں گرنے لگے اور مجھ کو مغلوب کرکے آگ میں گرنے لگے‘ اور میں تمھاری کمر پکڑ کر تم کو بچا رہا ہوں اور تم ہو کہ آگ کے اندر گرے جا رہے ہو۔ اگر اپنا بچہ آگ کے قریب چلا ئے‘ یا کسی حادثے کا شکار ہوجائے‘ یا تباہی کے گڑھے پر کھڑا ہو تو قلب کی جو کیفیت ہو گی وہی نبی اور داعی کے قلب کی کیفیت ہوتی ہے اور ہونی چاہیے۔

ایک نبی کی حیثیت اپنی قوم کے لیے باپ کی سی ہوتی ہے۔ وہ کتنی ہی گمراہ کیوں نہ ہو‘ وہ اس کو نصیحت اور خیر خواہی سے آخر وقت تک بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ وہ اس کے اُوپر غصے و ناراضی اور مایوسی کا اظہار نہیں کرتا۔ اگر وہ پتھر بھی کھاتا ہے تو دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے اور صحیح راستے پر لگائے ۔ وہ اپنی ذات کے لیے نہ کچھ اجر مانگتا ہے اور نہ انتقام کا طالب ہوتاہے۔ اس کی ساری محبت اور دشمنی صرف اللہ کے لیے اور اس کے پیغام کے لیے ہوتی ہے۔ اسی کیفیت کی وجہ  سے نبی کریمؐدن، رات اسی فکر کے اندر گھلا کرتے تھے اور ہر داعیِ حق کو بھی گھلنا چاہیے کہ کس طرح یہ پیغام عام ہو۔ دل کی یہ فکر عمل کے اندر ظاہر ہوتی تھی۔ گھر گھر جانا، گلیوں میں گھومنا‘ لوگوں کو دعوت دینا‘ اپنے گھر پر بلانا اور دعوت دینا‘ پہاڑی پہ چڑھ کے وعظ کہنا‘ حج کے موقع پر خیموں کے اندر جانا‘ ہر موقع سے فائدہ اٹھانا‘ ہر آنے جانے والے سے موقع نکال کر حکمت کے ساتھ اپنی بات کہنا‘یہ سب کس طرح ہو، اسی فکر میں آپؐدن رات گھلا کرتے تھے۔

آپؐکی اس کیفیت کو قرآن مجید نے مختلف الفاظ میں بیان کیا ہے۔ کہیں فرمایا کہ کیا   اس فکر میں تم اپنا گلا گھونٹ ڈالو گے۔ کہیں اس کے لیے حرص کا لفظ استعمال ہوا۔ کہیں فرمایا:     لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ            (التوبۃ ۹:۱۲۸)’’دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمھارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمھاری فلاح کا وہ حریص ہے‘‘۔گویا بھلائی اور دعوت حق کی طرف بلانے کے لیے نبی کی فکر اور آرزو اور تمنا لالچ کی حدتک پہنچی ہوتی ہے۔جس طرح لالچی آدمی برابر سوچتا رہتا ہے کہ مطلوبہ چیز کو کس طرح حاصل کرے‘ اس کے پیچھے پڑا رہتاہے‘ اپنا سب کچھ اس کے لیے لگاتا ہے‘ وہی کیفیت نبی کریمؐکی تھی اور وہی کیفیت ہر داعیِ حق کی بھی ہونی چاہیے۔

اس میں نہ مایوسی کا گزر تھا اور نہ جھنجھلاہٹ کا‘ اور نہ اپنی قوم سے نفرت اور بے زاری کابلکہ شفقت و رحمت کے ساتھ مسلسل آپؐ اس کام کے اندر لگے رہے۔ یہاں تک کہ یہ تمنّاکہ جو دیکھنے والے نہیںہیں‘ کسی طرح ان کو دکھا دیں‘ جو سننے والے نہیں ہیں کسی طرح ان کو سنادیں‘ جو بھٹک رہے ہیں ان کو کسی طرح صحیح راستے پر لگا دیں۔ اس کی تصویر قرآن مجید نے یوں کھینچی کہ تم اندھوں کو راستہ نہیں دکھا سکتے‘ تم بہروں کو نہیں سناسکتے‘ یعنی جو جان بوجھ کر بھٹک گئے ہیںتم ان کو صحیح راستے پہ نہیں لگا سکتے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس ہدایت کے باوجود آپؐ کی یہ کیفیت کہ کسی نہ کسی طرح لوگ ہدایت پاجائیں‘بالکل آئینے کی طرح نمایاں ہوکر ہمارے سامنے آجاتی ہے۔

لوگوں کی ہدایت اور ان کو گمراہی سے بچانے کے لیے آپؐاس قدر بے قرار تھے کہ اگر لوگ نہیں مانتے تو کوئی ایسی نشانی آجائے جسے دیکھ کر لوگ ایمان لے آئیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ تم آسمان میں سیڑھی لگا کر چڑھ جائو‘ یا زمین کے اندر سرنگ کھود لو‘ یا اور کوئی نشانی لے آئو‘  یہ لوگ اس کے بعد بھی ماننے والے نہیںہیں۔ وہاں آپؐکی کیفیت یہ ہے کہ آسمان پرسیڑھی لگا کر یا زمین میں سرنگ لگا کر بھی اگر قبولِ اسلام کے لیے راہ ہموار ہوسکتی ہوتو ہوجائے۔ آسمان پہ سیڑھی لگا کے چڑھنا اور زمین میں سرنگ لگانا، یہ ہمارے ادب کے عام محاورے ہیں کہ اگر ضرورت پڑے تو کسی کام کو کرنے کے لیے انتہائی مشقت اور انتہائی کوشش کرنا‘ اور آپؐاس کے لیے بھی تیار رہتے تھے۔

یہ وہ چیز تھی جس کی وجہ سے داعی ہونا آپؐکی زندگی کا کوئی ایک پہلو نہیں تھا بلکہ آپؐ   ہمہ وقت اور ہر دم داعی تھے اور اسی کو آپؐکے سارے کام میں بنیادی ترجیح حاصل تھی۔ جہاد اسی کے لیے تھا، تلوار اسی کے لیے اٹھائی گئی‘ خطوط اسی کے لیے لکھے گئے۔ ابتدا سے آخر تک سب سے بڑی فکر جو آپؐکے اُوپر غالب تھی وہ یہ تھی کہ اللہ کے بندوں تک یہ پیغام پہنچے اور آپؐسرخ رو ہو کر اپنے رب کے سامنے حاضر ہوں‘ اور لوگ گواہی دیں کہ ہاں‘ آپؐنے ہم تک پیغام پہنچا دیا‘ نصیحت کا حق ادا کر دیا، اور جو امانت آپؐکے سپرد ہوئی تھی وہ ہم تک پہنچ گئی۔ اس لیے آپؐدن رات اسی کام میں لگے رہتے تھے۔

مدینہ آمد پر آپؐنے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ایک چھوٹی سی مسجد بنائی ۔ اس مسجد کا فرش سنگ ریزوں‘ ستون کجھور کے درختوں کے اور فرش پر کجھور کی چھال بچھی تھی ۔ اس کے بعد ۱۳ برس تک آپؐنے اس طرف توجہ نہیں کی کہ یہ مسجد پختہ ہو جائے‘ عالی شان عمارت بن جائے بلکہ آپؐاسی کام کے اندر لگے رہے کہ خدا کا پیغام دلوں کے اندر راسخ ہو جائے۔ آپؐکی کوشش تھی کہ ظاہر میں یہ عمارت شان دار ہو یا نہ ہو لیکن دلوں کے اندر دعوتِ حق کی عمارت ضرور شان دار تعمیر ہوجائے۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپؐکے انتقال کے صرف ۱۰۰ برس کے اندر اندر اسپین سے لے کر ہندستان تک انتہائی عالی شان مسجدیں وجود میں آگئیں۔ اگر پہلے ہی دن آپؐکی توجہ دعوت سے ہٹ کر ان کاموں کے اندر لگ جاتی تو اس کا امکان کم تھا کہ وہ قوت وجود میں آتی جو اس     دعوت کے جذبے سے سرشار ہو کر مدینہ سے نکلتی اور دنیا کے گوشے گوشے میں اس پیغام حق کو پہنچاتی۔ مقامِ دعوت کے سلسلے میں یہ آپؐ کا اسوہ اور ترجیح اول تھی جس کو سب سے پہلے سمجھنا ضروری ہے۔

نبی کریمؐ کے مضامینِ دعوت

دوسری بات جو جاننا ضروری ہے وہ یہ کہ وہ مضامین دعوت کیا تھے جس پر آپؐ شروع سے آخرتک اپنی توجہ مرکوز کیے رہے۔

  • رب سے تعلق: آپؐنے بہت سے کام کیے اور کئی حوالوں سے دعوت دی‘ آداب کی تعلیم دی‘ یہ بھی بتایا کہ کیسے کھائیں پئیںاور اٹھیں بیٹھیں، لباس کس طرح پہنیں‘ لوگوں پر حدود اور سزائوں کا نظام بھی نافذ کیا‘ لیکن اس سارے کام کے لیے جو چیز کنجی کی حیثیت رکھتی تھی‘ وہ یہ ہے کہ آپؐنے اللہ کے بندوں کا تعلق اپنے رب سے قائم کر دیا۔ یہ تعلق کوئی ظاہری تعلق نہیں تھا بلکہ دلی وقلبی تعلق تھااور اس کے نتیجے میںان کو بندگیِ رب کے سانچے کے اندر ڈھال دیا۔

مکی زندگی کے پہلے دن سے لے کر مدنی زندگی کے آخری دن تک آپؐ اس کام سے غافل نہیں ہوئے کہ اللہ کے بندوں کا تعلق اپنے رب کے ساتھ قائم ہو___یعنی بندگی کا تعلق، توکّل کا تعلق، خشیت کا تعلق، محبت کا تعلق اور اپنے آپ کو سپرد کردینے کا تعلق۔ اقراْ کے نام سے جو کام شروع ہوا تھا‘ وہ اپنے رب کی تسبیح ، حمد اور استغفار کے حکم تک جاری رہا۔ گویا نبی کریمؐکے  مشن کی تکمیل تک جو کام جاری رہا وہ یہی تھا کہ اللہ کے بندے اللہ کے ساتھ جڑ جائیں۔جب تک وہ اللہ کے ساتھ نہیں جڑیں گے‘ ان کے اندر وہ قوت اور طاقت نہیں پیدا ہوگی جو اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔

اس دعوت کے اندر وہ کشش تھی کہ لوگ دوڑ کر آتے تھے او راسی کے ہو کر رہ جاتے تھے۔ اس لیے کہ خالقِ کائنات کی بندگی کے اندرجو لذت‘ جو نشہ اور جو کشش ہے،  وہ کسی اورچیز کے اندر نہیں ہو سکتی۔ اس کی بندگی کی حدود، اس دنیا سے ماورا آخرت تک پھیلی ہوئی ہیں۔ جو اس کا ہوجاتا ہے پھر اس کے لیے دنیا کی کوئی قربانی، قربانی نہیں رہتی ۔جان‘ مال اور وقت‘ ہر چیز اس کے لیے حاضر ہوتی ہے۔ اس لیے کہ جس نے اس دعوت کی پکار پہ اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردیا، گویا اس نے اپنا سب کچھ اللہ کے سپرد کردیا۔ اگر دنیا کے چھوٹے چھوٹے مقاصد لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے رہتے تو ان کی زندگی کے اندر یہ انقلاب کبھی برپا نہ ہوتااور وہ اس طرح نہ بدلتے۔

بندگی کا یہ تعلق دنیا اور آخرت کے اُوپر محیط تھا۔ زمین و آسمان کی ساری وسعت سے زیادہ وسیع یہ تعلق تھا جو آپؐنے قائم کیا‘ اور اس کے نتیجے میں آخرت کا طلب گار بنا کر جنت کا خریدار بنادیا۔ فی الواقع یہ بہت بڑا انقلاب تھا جو نقطۂ نظر کے اندر ، فکر کے اندر، اور دل کے اندر پیدا ہوگیا۔ وہ دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا کے طلب گار نہیں تھے اور جنت کے خریدار بن چکے تھے۔

  • جنّت کے خریدار: اس کا بہترین اظہار اس موقع پر ہوتا ہے جب مدینہ سے بیعت عقبیٰ کے لیے ایک بڑا گروہ آپؐکی خدمت میں حاضر ہوا اور بیعت کی۔ ان میں سے ایک صحابی حضرت عباس بن عبادہؓکھڑے ہوئے اور انصار کو مخاطب ہو کر کہا :تم کو معلوم ہے کہ تم کس بات پہ بیعت کر رہے ہو؟ اس کے نتیجے میں تمھاری گردنیں ماری جائیں گی، تمھارے اشخاص قتل ہوںگے، تمھاری عورتیں بیوہ ہو ں گی اور لونڈیاں بنالی جائیں گی۔ انھوں نے پوری تفصیل کے ساتھ تمام ممکنہ خطرات کو گنوایا۔ اس پر انصارنے کہا :ہاں! ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں کیا پیش آنے والا ہے۔ نبی کریمؐنے اس بیعت کو دوبارہ دہرایا۔ جس پر انصار نے یہ سوال کیا کہ ہم کو اس کے بدلے میںکیا ملے گا؟بعد میں قرآن مجید نے اس پر نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌط (الصّفّ ۶۱:۱۳)کا مژدہ بھی سنایا ، اوراِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا o (الفتح ۴۸:۱) کی بشارت بھی دی، نیز مَغَانِمُ کَثِیْرَۃٌ (النسآئ۴:۹۴)‘بڑی کثرت سے مال کا بھی ذکر فرمایا۔ لیکن اس موقع پر جان و مال قربان کرکے سب کچھ دے دینے کے عوض میں حضوؐرنے فرمایا: اس کے بدلے میں تمھیں جنت ملے گی۔ یہ جواب انصار کے لیے کافی تھا۔ اس کے بعد اپنی جان اور مال کے بدلے میں ان کو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں تھی۔ اس لیے کہ اللہ کے اُوپر ایمان کے معنی وہ یہ سمجھ چکے تھے کہ سب کچھ اسی جنت کے عوض فروخت کر دینا ہے۔

یہ وہ سیدھی سادھی دعوت تھی کہ جو ایک بدو، ایک تاجر، ایک اَن پڑھ ‘ایک چرواہے یا کسی عالم اور پڑھے لکھے کے لیے یکساں طورپر پُرکشش دعوت تھی کہ آدمی اپنے خالق کا ہو کر رہے‘ اس کے ساتھ جڑ جائے‘ آخرت کا طلب گار ہو اور جنت کی قیمت کے اُوپر اپنے آپ کو راضی کر لے۔

  • اقامتِ دین کے لیے جدوجھد: آپؐکی دعوت کا تیسرا پہلو یہ تھا کہ جنت دنیا کے گوشوں اور خانقاہوں میں بیٹھ کر حاصل نہیں ہو سکتی‘ بلکہ زمین پر خدا کے دین کو قائم کرنے کی جدوجہد سے حاصل ہوگی۔ اس جنت کی خوشبو حجروں میں نہیںآئے گی بلکہ اس کی خوشبو اُحد کے پہاڑوں کے پیچھے سے آئے گی۔

آپؐنے جنت کو ایک ایسی حقیقت بنا دیا تھا جس کی انھیں خوشبو بھی آنے لگی تھی۔ مشہور حدیث ہے کہ ایک دفعہ آپؐنے ہاتھ آگے بڑھایا اور پھر پیچھے ہٹا لیا۔ صحابہ کرامؓنے پوچھا کہ آپؐنے ایسا کیوں کیا۔ آپؐنے فرمایا کہ میرے سامنے جنت تھی ۔ اگر میں اس کا خوشہ توڑ کے  تم کو دکھا دیتا اور تمھارے درمیان لے آتا تو رہتی دنیا تک کے انسانوں کی غذا کے لیے یہ کافی ہوتا۔

ان کے لیے جنت کوئی افسانہ نہیں تھی جس کو وہ قرآن میں پڑھتے تھے اور گزر جاتے تھے، بلکہ ان کے لیے وہ ایک جیتی جاگتی زندہ حقیقت تھی۔ جب وہ نبی کریمؐکو اٹھتے بیٹھتے  یا منبر کے اُوپر کھڑا دیکھتے تو سمجھتے تھے کہ سامنے جنت موجود ہے لیکن وہ جنت جہاد کے اندر پوشیدہ تھی۔     بندگیِ رب اور آخرت کی طلب اور جنت کا تعلق جہاد کے ساتھ جوڑ کے انسانی زندگی کے اندر آپؐ نے اسے راسخ اور مربوط کر دیا تھا۔ اب یہ جنت کے طلب گار وہ نہیں تھے جو گوشوں میں بیٹھ کر صرف درس دیں، بلکہ اس کے نتیجے میں ایک ایسی جماعت تیار ہوئی جو دنیا بھر کو آخرت اور    بندگیِ رب کی دعوت دینے کے لیے نکل کھڑی ہوئی۔ لوگوں کے دل فتح ہوگئے، نسلوں کی نسلیں، قوموں کی قومیںاس دعوت کے گرد جمع ہوگئیں۔

خالق و رب کے ساتھ تعلق‘ آخرت کی طلب اور دنیا کے اندر انسانوں کو ہدایت پہنچانا اور اس کے لیے کوشش اور جدوجہد‘ یہ دراصل دعوت کا اصل مضمون تھا جس کے لیے کسی لمبے چوڑے فلسفے‘ منطق اور کتابوں کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ وہ بات تھی کہ ہر آدمی اپنے اندر اس کی پیاس محسوس کرتا تھا۔ وہ بدو‘ وہ چرواہے اور وہ تاجر جنھوں نے جب  اس پیغام کو سنا اور اپنے آپ کو اس دعوت کے حوالے کردیا تو کسی منطق اور فلسفے کے بغیر ہی وہ دنیا کے امام اور لیڈر بن گئے۔

نبی کریمؐ کااسلوبِ دعوت

آپؐکے اسوہ ٔدعوت کا چوتھا پہلو یہ ہے کہ آپؐنے دعوت کے لیے وہ کون سے طریقے اختیار کیے کہ اس دعوت نے قوم کے بڑے حصے کو ایک مختصر مدت میں آپؐ کے گرد جمع کر دیا۔

  • نجات کی فکر اورخدمتِ انسان: پہلی بات یہ تھی کہ اس پوری دعوت میں آپؐکا تعلق انسان سے بحیثیت انسان تھا۔ انسان کو صحیح راہ پہ لانا اور اس کو تباہی اور گمراہی سے بچانا‘ اور اس عذاب اور اس تکلیف سے جو اس دنیا کے اندر بھی پیش آنے والی ہے اور آخرت میں بھی، اس سے خبردار کرنا جس کے لیے آپؐنذیر بنا کر بھیجے گئے تھے‘ جب کہ کامیابی اور نجات پانے والوں کو بشارت و خوش خبری دینا، اس کے لیے آپؐبشیر تھے اور یہ آپؐکا فرضِ منصبی تھا۔ لوگوں کے دکھ درد بانٹنا‘ ان کے کام آنا اور خدمت کرنا اور ان سب پر نمایاں آپؐکی لگن‘ سوز اور تڑپ تھی جس نے لوگوں کو آپؐ کی طرف راغب کیا۔ یہ کوئی مجرد بات نہیں تھی جو لوگوں کے سروں کے اُوپر سے گزر جاتی، بلکہ آپؐ اس کو اپنے اسوے کے ذریعے، اپنے کردار کے ذریعے‘ اپنی خدمت کے ذریعے، انسانوں کی زندگی سے مربوط کرتے تھے۔

نبی کریمؐانسانیت کے کس قدر ہمدرد، خیر خواہ اور دوسروں کے کام آنے والے تھے‘ اس کی ایک گواہی حضرت خدیجہؓنے دی۔ خدا کا پیغام وصول کرکے جب آپؐغارِ حرا سے گھبرائے گھبرائے گھر لوٹے اور آتے ہی لیٹ گئے اور کہنے لگے کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو، اور فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ حضرت خدیجہ نے آپؐکو حوصلہ اور تسلی دی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپؐکو  ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ اس لیے کہ آپؐصلہ رحمی کرتے ہیں ، رشتہ داروں اور اقربا کے حقوق    ادا کرتے ہیں۔ بات کرتے ہیں تو سچ بولتے ہیں، جو لوگ معاشرے کے اُوپر بوجھ بنے ہوئے ہیں ان کا بوجھ اٹھا تے ہیں،جن کے پاس وسائل نہیں،جو یتیم ، بیوہ، غریب، اپاہج اور معذور ہیں،جو کمانہیں سکتے‘ ان کے لیے کما کر ان کی خدمت کرتے ہیں۔ آپؐمہمانوں کا احترام کرتے ہیں اور جو لوگ مشکلات کا شکار ہوں‘ ان کی مدد کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہرگز آپؐ کو ضائع نہیں کرے گا۔

یہ نبی کریمؐکے اسوۂ دعوت کی ایک تصویر ہے۔ جو لوگ انسانوں کی تکالیف‘ مصائب‘ پریشانیوں اور ان کی خدمت سے غافل ہوں اور یہ چاہیں کہ محض درس و تقریر اور خطاب سے ہی لوگ دین کی طرف دوڑ پڑیں تو وہ یقینا سخت غلط فہمی کے اندر مبتلا ہیں۔ یہ دعوت اسی وقت عام آدمی کے دلوں کے اندر جگہ پیدا کرے گی جب اس کے داعی انسانوں کے ساتھ اپنے آپ کو اس طرح مربوط کریں کہ ان کے دلوں میں، آخرت میں آگ سے بچنے کی فکر بھی پیدا کریں اور ان کے دنیاوی مصائب و تکالیف کو بھی دور کرنے کی کوشش کریں۔ یہ دونوں چیزیں اس دعوت کے اندر سب سے نمایاں ہیں اور لازم و ملزوم بھی۔

  • اعتماد و بہروسے کا حصول: دوسری بات یہ تھی کہ آپؐ نے ان کا اعتماد پہلے حاصل کیا اور اس کے بعد پھر اپنی بات پہنچائی۔ جہاں انسان پر اعتماد ہی نہ ہو وہاں پر بڑی    خوب صورت اور اچھی سے اچھی بات بھی رائیگاں چلی جاتی ہے۔

آپؐکے اُوپر لوگوں کا اتنا اعتماد تھا کہ آپؐپہاڑی پر کھڑے ہو کر پوچھتے ہیں: اگر میں کہوں کہ اس پہاڑکے پیچھے سے ایک لشکر آ رہا ہے تو تم کیا کہوگے؟ لوگوں نے کہا کہ ہم تمھاری بات پر یقین کریں گے۔ لوگوں کا یہ وہ اعتماد تھاجو آپؐکو حاصل تھا۔ لوگ یہ سوچ نہیں سکتے تھے کہ یہ آدمی ہمارا بدخواہ بھی ہو سکتا ہے۔ اہلِ مکہ نے آپؐکی کتنی مخالفت کی‘ آپؐکے پیچھے پڑے رہے‘ آپؐکے اُوپر کتنا ظلم کیا‘ آپؐکا راستہ روکا‘ کانٹے بچھائے‘ پتھر مارے لیکن لوگوں کے ذہن میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ خدانخواستہ آپؐجھوٹے ہیں یا آپؐ ان کے بدخواہ ہیں۔ ابوجہل تک نے کہا کہ یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ آپؐ جھوٹے ہیں۔ مجھے تو یہ شکایت ہے کہ آپؐنے باپ کو بیٹے سے اور بھائی کو بھائی سے الگ کر کے قوم کو پھاڑ دیاہے۔ اس کے علاوہ آپؐکے خلاف اور کوئی شکایت نہیں ہے۔ لہٰذا اعتماد ہی وہ اصل ذریعہ ہے جس کے حصول کے بعد ہی  اپنی دعوت آگے بڑھائی جا سکتی ہے۔

  • دعوت کی بنیاد نکتۂ اشتراک: حضوؐروہ بات پیش کرتے تھے جس میں مخاطب کے ساتھ نکتۂ اشتراک ہوتا تھا۔ اس لیے کہ کوئی ایسی بات جس کو آدمی بالکل نہ جانتا ہو اس کے دل میں گھس نہیں سکتی۔ یہی نبی کریمؐکا اور سارے انبیا کا اسوہ تھا۔ وہ بار بار سوال کرتے تھے کہ بتائو زمین اور آسمان کو کس نے پیدا کیا ؟ یہ ایک نکتۂ اشتراک تھا اور یہاں سے بات آگے چل سکی کہ جس نے پیدا کیا اسی کا حکم بھی چلناچاہیے اور اسی کی اطاعت ہونی چاہیے۔

اس کی ایک عمدہ مثال عیسائیوں کے وفد سے نبی کریم ؐکا مکالمہ ہے۔ وہ لوگ جس طرح آئے اور مسجد نبوی ؐکے اندر ٹھیرے، وہاں ان کو اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی سہولت دی گئی اور ان کی خاطر مدارات ہوئی‘ اور پھر یہ دعوت پیش کی گئی کہ آئو اس چیز کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان مشترک ہے۔(اٰل عمرٰن ۳:۶۴)

دعوت حق اگر پیش کی جائے تو بڑی مشکل سے کوئی آدمی ملے گا جو پوری کی پوری دعوت کا مخالف ہو‘ اور پوری کی پوری دعوت کو رد کرنے کے لیے تیار ہو۔ کوئی نہ کوئی دعوت کا پہلو ایسا ہو گا جو اس کے اور داعی کے درمیان مشترک ہو گا جیسا کہ نبی کریمؐاور آپؐ کے مخاطبین کے درمیان مشترک تھا۔ دعوت کے اس بنیادی اصول پربات کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔

  • کردارکی زبان: آخری چیز آپؐکا کردار ہے۔ قول کی زبان سے بڑھ کر، کردار کی زبان لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔

اگر آپ کبھی سیرت میں ان واقعات کا جائزہ لیں جو لوگوں کے قبولِ اسلام اور قبولِ دعوتِ حق کے سلسلے میں بیان ہوئے ہیں تو آپ دیکھیں گے وہ لوگ جنھوں نے قرآن سنا اوران کے دل کی دنیا بدل گئی‘ ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے ، جب کہ وہ لوگ جنھوں نے نبی کریمؐ کو قریب سے دیکھا‘ آپؐکی نرمی‘ شفقت اور محبت کا مزا چکھا اور جنھوں نے صرف آپؐکا چہرہ ہی دیکھا وہ اس دعوت کے گرویدہ ہوگئے۔ جس طرح لوہا مقناطیس سے چپک جاتا ہے، اسی طرح وہ آکر آپؐکی ذات سے، آپؐکی دعوت سے‘ آپؐکی جماعت سے چپک گئے اور ان کی تعداد کثیر ہے۔

ایک واقعے سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ ہم کچھ لوگ اونٹ لے کر مدینہ پہنچے اور ہمارا خیال تھا کہ ہم اونٹ فروخت کرکے کجھوریں خریدیں گے۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ کیسے آئے ہو؟ ہم نے اپنا مقصد بیان کیا۔ ہم آپؐکو پہنچانتے نہیں تھے کہ کون ہیں۔ انھوں نے کہا: اچھا‘ میں نے تمھارا اونٹ خرید لیا۔ اس کی جو قیمت طے ہوئی ہے وہ تمھیں مل جائے گی۔ آپؐنے اونٹ کی نکیل تھامی اور چل دیے۔

جب آپؐنگاہوں سے اوجھل ہوگئے تو ہم نے سوچا کہ یہ ہم نے کیا کیا۔ نہ ہم ا س آدمی کو جانتے ہیں‘ نہ اس کا نام پتا معلوم ہے کہ کہاں رہتا ہے، اور نہ قیمت ہی وصول کی‘ اور جو مال بیچا تھا وہ بھی لے گیا ہے۔ پتا نہیں ملے گا یا نہیں؟ ہمارے سردار کی بیوی جو کہ اونٹ کے ہودج میں بیٹھی تھی‘ اس نے کہا کہ جس آدمی نے اس اونٹ کو خریدا ہے‘ اس کا چہرہ اتنا روشن تھا کہ یہ کسی جھوٹے آدمی کاچہرہ نہیں ہو سکتا۔ میں اس کی ضمانت دیتی ہوں۔ یہ قیمت تم کو لازماً پہنچ کررہے گی۔

چند لمحات گزرے تھے کہ ایک آدمی آیا اور پوچھنے لگا کہ کیا تم لوگوں نے اپنا اونٹ فروخت کیا ہے؟ ہم نے کہا : ہاں‘ ہم نے فروخت کیا ہے۔ اس نے کہا کہ یہ لو وہ قیمت جو تم نے طے کی تھی‘ اور یہ مزید تمھاری میزبانی اور مہمان داری کے لیے۔ اس طریقے سے یہ معاملہ طے ہوا۔

اسی طرح ایک اور قبیلے سے ایک عورت آئی اور واپس جا کر کہا کہ لوگو! محمدؐکے پیچھے چلو‘ اس لیے کہ ایسا سخی آدمی میں نے نہیں دیکھا۔ آپؐدونوں ہاتھوں سے بھر بھرکر  لوگوں کو دیتے ہیں اور ان کی خدمت کرتے ہیں۔

آپؐکی سخاوت‘ آپؐ کی شجاعت‘ آپؐکی نرمی‘ یہ وہ چیز تھی جو لوگوں کو اس دعوت کے ساتھ ‘ اس پیغام کے ساتھ چپکائے ہوئے تھی۔ قرآن مجید نے بھی اس بات کو یوں بیان کیا ہے:

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ ج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ص (اٰل عمرٰن۳:۱۵۹) (اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تُند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گرد وپیش سے چَھٹ جاتے۔

یہ بات اس بات کے اُوپر گواہ ہے کہ مجرد پیغام کی سچائی کثیر لوگوں کو کسی بھی دعوت کے گرد جمع نہیں کر سکتی۔ جب تک اس دعوت کو پیش کرنے والے اس کردار سے بھی آراستہ نہ ہوں‘ جو کردار  اُن لوگوں کے لیے باعث کشش ہو اور نرمی و محبت کاپیغام لے کر آتا ہو۔

  • نفرت کے بجاے محبت: بچوں کو سلام کرنا‘ پرندوں کو کھانا کھلانا‘ خود فاقے سے  رہ کر مہمانوں کی میزبانی کرناایسے  بہت سارے واقعات ہیں جو سیرت کے اندر مل سکتے ہیں،اور ان سے جو تصویر کھنچ کر ہمارے سامنے آتی ہے وہ دراصل وہی بات ہے کہ انسان کی خدمت، انسان کے لیے درد، انسان کے لیے سوچ ‘انسانیت کا احترام اور فلاح و بہبود اور آخرت کی نجات کے تڑپ اور فکر۔ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنا اور سہولت دینا ہی اصل اسوۂ دعوت ہے۔

آپؐنے دو صحابہ کرامؓکو کسی قبیلے میں دعوت کے لیے بھیجا تو کہا: دیکھو‘ نفرت نہ پیدا کرنا۔ بات اس طرح مت کہنا کہ لوگ اپنے رب سے نفرت کرنے لگیں۔ بات اس طرح کہنا کہ آسانی اور سہولت ہو اور لوگ رغبت کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوں۔ یہ آپؐ کی رحمت اور شفقت تھی جس نے لوگوں کو آپؐکے چاروں طرف جمع کر دیا۔

اس دعوت میں مقابلہ‘ لڑائی‘ کش مکش اور جدوجہد بھی تھی۔ لیکن کش مکش اور جدوجہد منتقمانہ ذہنیت کے ساتھ یا بدلہ لینے کی ذہنیت اور فکر کے ساتھ نہیں تھی، بلکہ اس پوری جدو جہد میں ہر وقت یہی فکر غالب تھی کہ یہ لوگ نادان ہیں‘ یہ جانتے نہیں ہیں، جذبات سے مغلوب ہوچکے ہیں اور جاہلیت کے پنجے کے اندر پھنسے ہوئے ہیں۔یہ اگر آج آکر حق کے مقابلے پر کھڑے ہوئے ہیں‘ اس کی وجہ باطنی خباثت نہیں بلکہ دھوکے اور فریب کے اندر مبتلا ہوناہے۔ پھر ان کے لیے دعاگو بھی رہے کہ اے اللہ! انھیں ہدایت دے۔

طائف کے اندرآپؐ کو پتھر بھی مارے گئے‘ آپؐکاخون بہایا گیا، اس کے باوجود کہ آپؐلوگوں سے بدلہ لے سکتے تھے اور ان کو دو پہاڑوں کے درمیاں پیس سکتے تھے، پہاڑوں کا فرشتہ بھی حاضر تھا کہ آپؐحکم دیں تو اس بستی کو پیس کر رکھ دوں‘ لیکن آپؐنے فرمایا: نہیں، میں اس بات سے مایوس نہیں ہوں کہ ان کی نسل میں سے ایسے لوگ اٹھیں جو ہدایت کے راستے پر آئیں۔

غزوۂ اُحدمیں آپؐزخمی ہوگئے، آپؐکے دندان مبارک شہید ہوگئے۔ اس کے باوجود آپؐکی زبان مبارک پر یہ الفاظ نہیں تھے کہ لوگو! اُٹھو اور اس کا بدلہ لو‘ بلکہ یہ الفاظ تھے:رب اھد قومی فانھم لایھدون، اے اللہ! میری قوم کو صحیح راستے پر لگا، اس لیے کہ یہ جانتے نہیں ہیں۔ ان کی یہ روش اس وجہ ہے کہ اس سے واقف نہیں ہیں۔

اسوۂ دعوت: حاصل کلام

اسوۂ دعوت کے ضمن میں یہ چند بنیادی باتیں ہیں۔اگر ان باتوں کو آج داعیِ حق سمجھ لیں کہ جو کام ہم نے اپنے ذمے لیا ہے اور ہر مسلمان کو اپنے ذمے لینا چاہیے‘ یہ اس لیے ہے کہ یہ ہمارا بنیادی فرض ہے۔ یہ دراصل کارِ رسالتؐ ہے۔ کوئی اور کام اپنی منزل پر پہنچے یا نہ پہنچے‘ یہ وہ کام ہے جس کو ہر صورت میں انجام دیا جانا چاہیے۔یہ بات ہم میں سے ہر ایک کو اپنے سامنے ہمیشہ رکھنی چاہیے کہ میرے گردو پیش جتنے لوگ ہیں ان کو صحیح راستے پر لانے کے لیے میں جواب دہ ہوں۔ پھر مجھے اس پوزیشن میں ہونا چاہیے کہ زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ، میں ان سے کھڑے ہو کر پوچھوں‘ خواہ اپنی بیوی بچوں سے پوچھنا پڑے یا اپنے محلے والوں سے‘ یا کھیتوں میں کام کرنے والوں سے پوچھنا پڑے یا فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں سے‘ یا اپنے کاروبار یا ملازمت میں ساتھ کام کرنے والوں سے پوچھنا پڑے کہ کیا میں نے تم تک حق کا پیغام پہنچا دیا ہے، تو لوگ کہیں کہ ہاں، پہنچا دیاہے۔ ماننا یا نہ ماننا یہ لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ان کا اپنا فعل اور اپنا امتحان ہے۔ ہم کتنا ہی چاہیں‘ چاہے اس کے لیے اپنی جان ہی گھلا ڈالیں:

اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ ج (القصص ۲۸:۵۶) اے نبیؐ!تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتے، مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتاہے۔

گویا یہ تمھارے ہاتھ میں نہیں کہ تم صرف اپنے چاہنے اور خواہش سے لوگوں کو صحیح راستے پر لگاسکو۔ لوگوں کا اپنا ارادہ اس کے اندر بنیادی چیز ہے۔ توفیق بھی چاہنے پر ملتی ہے:

اَللّٰہُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَـآئُ وَیَھْدِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ o (الشورٰی۴۲:۱۳) اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کر لیتا ہے، اور اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف رجو ع کرے۔

دنیا کے اندر نظامِ حق قائم ہو یا نہ ہو‘ یہ بھی ہماری ذمہ داری نہیں۔ نظام حق کے لیے کام کرنا ہم پرفرض ہے لیکن اس کو قائم کر دینا یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ خدا کے بے شمار انبیا تھے جو دنیا سے رخصت ہوگئے‘ کئی برس کی جدوجہد کے بعد رخصت ہوگئے‘ مگر ان کی قوموں نے ان کی بات مان کر نہیں دی۔ وہ اپنی آنکھوں سے اس نظام کو قائم ہوتا نہیں دیکھ سکے۔قرآن مجید نے خود فرمایا:

وَ اِنْ مَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْنَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُo ( الرعد ۱۳:۴۰)اور اے نبیؐ، جس بُرے انجام کی دھمکی ہم ان لوگوں کو دے رہے ہیں اس کا کوئی حصہ خواہ ہم تمھارے جیتے جی دکھا دیں یا اس کے ظہور میں آنے سے پہلے ہم تمھیں اٹھالیں، بہر حال تمھارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔

گویا حساب لینااللہ تعالیٰ کی ذمہ داری ہے اور پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ پہنچانے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جس طرح چاہا پہنچا دیا اور فرض ادا ہوگیا، بلکہ اس سے مراد حکمت اور خوب صورتی کے ساتھ، دل کو موہ لینے والے طریقوں اور پورے سوز و درد کے ساتھ پہنچانا ہے۔ یہ وہ بنیادی  ذمہ داری ہے جس سے ہم بچ نہیں سکتے‘ جس کی جواب دہی ہم کوکرنا پڑے گی۔ ہرمسلمان کو یہ جواب دہی عام انسانوں تک دعوت پہنچانے کے حوالے سے کرنا پڑے گی۔ یہ جواب دہی اس حوالے سے بھی ہے کہ جو لوگ اس نعمت‘ اس ہدایت اور اس ذمہ داری سے واقف نہیںتھے، آیا ہم نے ان کے سامنے اس کو پیش کیا یا نہیں ۔

واضح رہے کہ یہ کام کسی دنیاوی اجر یا صلے کی طلب میں نہیں ہوسکتا۔ انبیاے کرام اور خود نبی کریمؐنے اس بات کو کھول کر بیان کیا ہے:

وَمَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ ج اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (الشعرآء ۲۶:۱۰۹) میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں۔ میرا اجر تو  رب العالمین کے ذمے ہے۔

میں اپنی بات کو اس حدیث کے اُوپر ختم کروں گا جس میں نبی کریمؐنے فرمایا ہے کہ قیامت کے روز ایک آدمی بارگاہِ رب میں حاضر ہوگا اور اس سے اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ میں بھوکا تھا، تم نے مجھے کھانا کیوں نہیں دیا ؟وہ کہے گا کہ پروردگارتو سارے جہانوں کا رب ہے تو بھلا کہاں بھوکا ہوتا اور تجھ کو کھانا کیسے دیتا؟ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرا فلاں بندہ بھوکا تھا اور تو نے اس کو کھانا نہیں دیا۔ اسی طریقے سے وہ اس سے بیمار اور پیاسے کے بارے میں سوال کرے گا۔ احادیث میں مختلف چیزیں مختلف روایات میں بیان ہوئی ہیں۔ لیکن وہ تمام انسانوں کی مادی ضروریات ہیں‘ یعنی کھانا، پانی، لباس، دوا کہ جن پر اس کی دنیا کی فلاح اور بھلائی کا انحصار ہے۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جہاں اللہ کے بندوں کی یہ ساری ضروریات پوری کرنے کے بارے میں سوال کیا جائے گا‘ تو کیا وہاں یہ سوال نہیں ہو گا کہ میرا فلاں بندہ گمراہ ہو کر جہنم کی راہ پر جارہا تھا اور تم نے اس کو کیوں نہیں بچایا؟ یہ سوال اگر کیا جائے گا تو اس سوال کا جواب ہمارے پاس تیار ہونا چاہیے۔

یہ کام وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے بارے میں قرآن نے گواہی دی ہے:

وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًاo اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلَا شُکُوْرًاo (الدھر۷۶:۸-۹) اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں(اور اُن سے کہتے ہیں کہ )، ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں‘ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔

اگر دعوت پر خلوص ہو اوراس کے پیچھے یہ روح اور جذبہ کارفرما ہو ،اس کی ہر وقت اورہر دم لگن ہو، اس کے ساتھ اپنے بھائی کے لیے سوز اور تڑپ ہو اور اس کا دکھ درد بانٹنے کی کوشش ہو، اور پھر یہ سب کسی اجر یا صلے کے لیے نہ ہو بلکہ اس لیے ہو کہ اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہو اورہماری     اس کے سامنے حجت قائم ہو جائے۔ اس کیفیت اور جذبے کے ساتھ‘ اس پیغام کو لے کر اگر   آپ ذمہ داری کے ساتھ‘ اپنے گائوں‘ محلے‘ تحصیل اور ضلع میں کھڑے ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ چند برسوں کے اندر اندر یہ پیغام عام نہ ہو، اور انسانوں کی کثیر آبادی کم سے کم اس سے واقف نہ ہوجائے۔ ماننا یا نہ ماننا اور دلوں کا موڑنا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)

حدیث شریف میں ظلم و زیادتی اور درندگی و سفاکی کی شدید مذمت آئی ہے‘اور خبردار کیا گیا ہے کہ مظلوم کی بددعا سے بچنا چاہیے کہ ظالم کے خلاف مظلوم کی دعا فوراً قبول ہوتی ہے اور آسمان سے آہوں کا جواب بہت جلد آتا ہے۔ ایک جگہ آیا ہے کہ شرک کے ساتھ تو حکومت چل سکتی ہے‘ ظلم کے ساتھ کوئی حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔

مشہور مؤرخ و مفکر ابن خلدون نے ظلم کے دور رس اور سنگین نتائج کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کا پہلا نتیجہ جو سامنے آتا ہے وہ انسانی آبادی کی تباہی و بربادی کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ اس ملک کی پیداوار پر بھی اثرات پڑتے ہیں‘ یہاںتک آتا ہے کہ بادشاہوں کی نیتوں کا بھی اثر پڑتا ہے۔ انسانی تاریخ میں قوموں کے عروج و زوال کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ظلم و سفاکی نے بڑی بڑی طاقت ور اور جابر سلطنتوں کے چراغ گل کردیے اور ان کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹ گیا۔

المیہ یہ ہے کہ تاریخ پڑھی نہیں جاتی اور اگر پڑھی جاتی ہے تو اس سے عبرت و نصیحت حاصل نہیں کی جاتی۔ خاص طور پر حکمراں طبقہ نشۂ قوت سے سرشار بلکہ اس سے اتنا بدمست ہوجاتا ہے کہ وہ ان باتوں کی طرف توجہ بھی نہیں دیتا۔ وہ فوج و اسلحے کے ذریعے اپنی منوانے ہی کو اپنی حکومت کی کامیابی تصور کرتا ہے اور یہ سمجھ کر مطمئن ہوجاتا ہے کہ ہمارا ملک اتنا طاقت ور ہے کہ کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھ نہیں سکتا‘ اور نہ کسی کے اندر اتنی جرأت ہی ہے کہ وہ ہمارے ملک کو نقصان پہنچاسکے۔

کچھ ایسا ہی تصور روس کے حکمرانوں نے اس وقت کیا تھا جب انھوں نے اشتراکی نظام کو پورے ملک پر نافذ کرنے کے لیے فوج اور اسلحے کا سہارا لیا اور ظلم و سفاکی اور درندگی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک کروڑ سے زائد انسانوں کو تہ تیغ کردیا گیا۔ روس کی جدید تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف وہاں کے مسلمانوں کولاکھوں کی تعداد میں موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ جس سرزمین پر وہ سیکڑوں سال سے رہ رہے تھے‘ ان کو وہاں سے سنگینوں کے سایے میں بے دخل کرکے ہزاروں میل دُور سائبیریا کے علاقوں یا دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ ان کی جگہ روسیوں کو لاکر بسا دیا گیا۔

چند مثالیں

۱۹۲۰ء میں ایدل اور اورال کے علاقوں میں روسی سامراج کے تسلط سے پہلے مسلمانوں کی اکثریت تھی‘ لیکن ان علاقوں میں معدنی ذخائر کے انکشاف نے مسلمانوں پر مصائب کے پہاڑ  توڑ دیے۔ روسی حکومت نے یہاں کی اکثریت کو سائبیریا جلاوطن کردیا۔ ان کی جگہ روسی بسایے گئے‘ اور یورپی طرز کے شہر اور بستیاں تعمیر کی گئیں۔ ۱۹۵۹ء کی مردم شماری سے معلوم ہوتا ہے کہ تاتاری مسلمان خود اپنی ہی جمہوریہ میں اقلیت بن کر رہ گئے۔

۱۹۲۶ء میں جب صنعتی ترقی کا آغاز ہوا تو ’کریمیا‘ کی آبادی ۱۱لاکھ مسلمانوں پر مشتمل تھی‘ لیکن اس پوری آبادی کو سنگینوں کے سایے میں سائبیریا دھکیل دیاگیا۔ ان کی بڑی تعداد ایک ہفتے بعد جب سائبیریا پہنچی تو نصف سے زائد لوگ راستے کی صعوبتوں کی وجہ سے بغیر کھانے پینے کے  دم توڑگئے‘ جو سائبیریا پہنچے تو ان کو جہنم سے بدتر زندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ بوڑھے مرد و عورت اور بچوں کی بڑی تعداد راستے میں ہی ختم ہوگئی۔ جو سخت جان نکلے ان کو پُرمشقّت کاموں میں لگا دیا گیا۔ جب ۵۰سال کے بعد ان جلاوطن لوگوں کو اپنے وطن واپسی کی اجازت ملی توچند ہزار ہی واپس آئے‘ مگر ان کے وطن کا نقشہ بدلا ہوا تھا۔ روسی نسل کی اکثریت ہے اور وہی سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔

۱۹۲۶ء میں وسط ایشیا کی پانچ جمہوریتوں میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد ۷۸ فی صد تھی جو گھٹتے گھٹتے ۱۹۶۵ء میں ۳۵ فی صد رہ گئی۔ روسیوں کی اکثریت ہوگئی اور مسلمان اقلیت میںآگئے۔ قازقستان کی ۱۰۰ فی صد مسلم آبادی اتنی گھٹ گئی کہ صرف ۲۹ فی صد رہ گئی۔ ۷۰ سے ۸۰ فی صد روسی اور یوکرینی ان علاقوں پر قابض ہوگئے۔

مسلمانوں کی نسل کشی کے حربے

مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے دو طریقے اختیار کیے گئے:

۱- روسیوں اور روسی حدود میں بسنے والے اہلِ یورپ کو لاکھوں کی تعداد میں وسط ایشیا کے مختلف ملکوں میںمنتقل کردیا گیا۔

۲- مقامی مسلمانوں کی اکثریت اور ان کے مختلف قبائل کو مختلف الزامات لگاکر سائبیریا اور دُور دراز خطوں میں جلاوطن کردیا گیا۔ اس طرح لاکھوں انسان ہلاک ہوگئے۔ قازقستان کے مسلمانوں کی اجتماعی نسل کشی کا اندازہ اس سے کیاجاسکتا ہے کہ ۱۹۲۶ء کی مردم شماری کے مطابق ان کی آبادی ۴۰ لاکھ تھی‘ ۱۹۳۹ء میں یہ آبادی ۲۶لاکھ اور ۱۹۵۹ء میں ۱۵لاکھ رہ گئی۔ آبادی میں وہ اضافہ بھی نہیں ہوا جو فطری طور پر ہوا کرتا ہے۔

شیشان‘ انگوش کروشائی‘ بلکار اور کریمیا کے مسلمانوں کا حشر اس سے بدتر ہوا۔ اسی طرح بشکیریا کی پوری آبادی ۳لاکھ تھی‘ ان سب کو انتہائی مختصر وقت میں مردوں کو الگ اور عورتوں کو الگ ٹرین میں بٹھا کر سائبیریا بھیج دیا گیا۔ جب ۱۹۵۹ء میں ان علاقوں کے اصل باشندوں کو سائبیریا سے واپسی کی اجازت دی گئی تو ۵ ہزار سے زیادہ تعداد نہ تھی‘ ان کی جایداد پر روسی قابض تھے۔

امیر شکیب ارسلان ۱۹۲۱ء میں روس گئے تھے۔ ان کے ایک سوال کے جواب میں روسی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے بتایا کہ روس میں مسلمانوں کی تعداد ساڑھے تین کروڑ ہے‘ لیکن ۱۹۵۹ء کی مردم شماری میں روسی مسلمانوں کی تعداد ۲کروڑ ۴۲ لاکھ رہ گئی۔

مسلمانوں کی اجتماعی نسل کشی کے علاوہ ان کے خاندانی شیرازے کو منتشر کرنے کے لیے سخت قوانین بنائے گئے۔ تعلیم کے تیزاب میں ان کے اسلامی سانچے کو ختم کردیا گیا۔ ان کی مخصوص شناخت کو ختم کرنے کے لیے ایک طاقت ور اور مطلق العنان اور سفاک و جابر سلطنت جو کچھ کرسکتی ہے وہ سب اس نے اختیار کیا‘ اور اپنے طور پر یہ تصور کرلیا کہ روسی سلطنت میں کوئی مسلمان اب مسلمان نہیں رہا۔ ۷۰ سال سے زائد ظلم و سفاکی کی چکی پورے زور وشور سے چلتی رہی‘ لیکن کاغذ کی یہ کشتی جب چلتے چلتے ڈوبنے لگی اور ظلم کی ٹہنی نے پھل دینے سے انکار کردیا تو یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ مسلمان اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ زندہ ہیں‘ آبادی گھٹ رہی ہے اور مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ سیاسی‘ اقتصادی‘ فوجی اور اخلاقی اعتبار سے سوپرپاور روس خود اپنا جنازہ اپنے کاندھوں پر اٹھانے کے قابل نہیں رہا‘ اس کو ایک طاقت ور سہارے کی ضرورت ہے۔

انسانیت کے ان مجرموں نے جو خوں ریز ڈراما کھیلا تھا‘ ۷۰ سال کے بعد اس پر سے پردہ اٹھا تو کروڑوں انسان تباہ وبرباد ہوچکے تھے‘ انسانی تہذیب و ثقافت کا جنازہ نکل چکا تھا‘ افغانستان میں ذلت آمیز شکست نے اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ آج کل ماہرین اسی اشتراکی سلطنت کی لاش کا پوسٹ مارٹم کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں یہاں مختصراً ایک تجزیہ پیش کیا جارہا ہے۔ ۷۰سال کے بعد روس کی روسیاہی دیکھ کر آپ کو یقین آجانا چاہیے کہ سوپرپاور امریکا اور اس کی حلیف طاقتوں کا بھی یہی حشر ہونے والا ہے بلکہ عراق پرحملے سے اس کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔

روسی آبادی میں کمی اور وجوھات

۲۰۰۵ء میں‘ ماسکو میں‘ روسی ماہرین کی کانفرنس اس بات پر غور کرنے کے لیے ہوئی تھی  کہ روس کے اقتصادی اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے وسائل کیسے مہیا کیے جائیں۔ ماہرین نے اعداد وشمار کی روشنی میں سب سے پہلے اس تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ ۱۹۹۲ء سے ۲۰۰۵ء تک کی مدت میں روس کی آبادی میں ۹۰ لاکھ کی کمی ہوگئی۔ اس آبادی میں ۳۵ لاکھ ان لوگوں کی ہے جن کی عمریں ۱۶سال سے کم ہیں۔ اس طرح پورے ملک میں صرف ۱۱ لاکھ وہ خواتین ہیں جو بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ آبادی میں اس غیرمعمولی کمی کی وجہ سے ہرسال ۱۱ ہزار بستیاں اور ۲۹۰ شہر روسی نقشے سے غائب ہورہے ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جغرافیائی اعتبار سے ۱۲ہزار بستیاں نقشے میں تو موجود ہیں‘ وہاں مکانات بھی ہیں لیکن آبادی سے بالکل خالی ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق ہر روز عملی لحاظ سے دوبستیاںویران ہورہی ہیں۔ ماہرین نے اس آبادی میں کمی کے جو ظاہری اسباب بتائے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں:

  • شرح پیدایش میں کمی: روسی خواتین میں بچے پیدا کرنے کا تناسب ۱۷ئ۱ فی صد ہے‘ جب کہ کم سے کم یہ تناسب ۵ئ۲ فی صد ہونا چاہیے۔ اس کے برعکس مرنے والوں کا تناسب ایک ہزار میں ۱۶ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر اسی تناسب سے پیدایش میں کمی اور وفات میں اضافہ ہوتا رہا تو اگلے ۴۰‘ ۵۰ سال کے اندر روس کی آبادی ایک کروڑ رہ جائے گی‘ جیساکہ اقوام متحدہ کے ماہرین نے سروے کیا ہے۔ روسی ماہرین ۹۵ملین بتاتے ہیں۔

امریکی دانش ور پیٹرک بیوکانن نے امریکی معاشرے میں مرنے والوں کی کثرت اور پیدا ہونے والوں کی قلت کا تجزیہ کرکے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر امریکیوں کی تعداد  اس طرح گھٹتی رہی تو ۵۰سال کے اندر امریکا پر مشرق کے کالے حکمرانی کریں گے۔ اس نے  روس و اسرائیل اور یورپ کے بارے میں یہی پیشن گوئی کی ہے۔ غالباً یہی خوف ہے جو امریکا اور اس کے حلیفوںکے دل و دماغ پر حاوی ہے۔

  • اسقاط حمل کا بڑہتا ھوا رجحان: روسی ماہرین نے آبادی میں غیرمعمولی کمی کا دوسرا سبب یہ بتایا ہے کہ ہرسال ۲۰ لاکھ روسی خواتین اسقاط حمل کراتی ہیں۔ یہ سرکاری ہسپتالوں کے اعداد وشمار ہیں‘ پرائیویٹ نرسنگ ہوم میں اس سے کہیں زیادہ تعداد میں خواتین اسقاط کراتی ہیں۔ ۱۹۸۸ء میں یہ تعداد اس لیے کم ہوگئی کہ مانع حمل دوائوں کی کثرت ہوگئی‘ پھر بھی۶۰ فی صد خواتین اپنی مرضی سے اسقاط کراتی ہیں‘ جب کہ ۱۰ فی صد طبی اسباب کی بنا پر۔ ۲۰ فی صد وہ خواتین اسقاط کراتی ہیں جن کی عمریں ۱۸ سال سے کم ہیں۔ اس کی بنا پر ۲۵ فی صد خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں اور ۲۵ فی صد ہمیشہ کے لیے بانجھ ہوجاتی ہیں۔

جو روسی خواتین بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ان کی عمریں ۱۵ سے ۴۸ سال کے درمیان ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق روس میں ۱۰ لاکھ خواتین ہمیشہ کے لیے بانجھ ہوچکی ہیں۔ قصبات اور دیہاتوں کو ان میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ خواتین کے بالمقابل جو روسی مرد بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں ان کی تعداد ۵۰لاکھ ہے۔ روسی ذرائع کے مطابق ۱۵ ہزار روسی خاندان طبی اعتبار سے بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں۔ ۶۹ فی صد ایسے خاندان ہیں جوایسے مختلف جسمانی امراض میں مبتلا ہیں جو اولاد پیدا کرنے میںمانع ہیں۔

  • بیرون ملک منتقلی کا رجحان: روسی ماہرین نے روسی آبادی میں کمی کا تیسرا بنیادی سبب بڑی تعداد میں روسیوں کی بیرون ملک منتقلی بتایا ہے‘ خاص طور سے ۱۹۸۹ء سے ۲۰۰۲ء کے درمیان ۵۴ لاکھ روسی بیرون ملک چلے گئے۔ ماہرین نے خاص طور سے یہ بات نوٹ کی ہے کہ ۱۹۹۷ء اور ۲۰۰۴ء کے درمیانی وقفے میں ایک لاکھ روسی سائنس دانوں‘ انجینیروں اور ڈاکٹروں نے روس کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا۔
  • منشیات کے استعمال میں اضافہ: ماسکو میں منعقدہ کانفرنس میں روسیوں کی صحت کے بارے میں جو تحقیقی مقالات پیش کیے گئے ہیں ان کے مطابق روسیوں میں منشیات کا استعمال اتنا بڑھ گیا ہے کہ ہرسال ۵ لاکھ روسی سگریٹ نوشی اور دیگر منشیات کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔ مردوں میں سگریٹ نوشی کا تناسب ۶۵ فی صد ہے‘ جب کہ ہر ۳ روسی خواتین میں سے ایک خاتون سگریٹ نوشی میں مبتلا ہے۔ ۱۶ سال سے کم عمر لڑکوں میں یہ تناسب ۲۵ فی صد اور لڑکیوں میں ۱۱ فی صد ہے۔ ان ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ روسی ہر سال ۲۸۹ ارب سگریٹ پی جاتے ہیں۔
  • شرح طلاق میں اضافہ اور متاثرہ عائلی نظام: روسی محققین اور سروے کرنے والوں نے آبادی میں کمی کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ہے کہ روسی خواتین اس لیے بچے پیدا کرنے سے دل چسپی نہیں رکھتی ہیں کہ ان میں طلاق کا تناسب ۷۵ فی صد ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ تقریباً ۴۵ فی صد خاندان ایسے ہیں جو غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔ ۲۹ فی صد خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ روسی حکومت کو بھی دل چسپی نہیں کہ وہ ایسے لوگوں کو طبی خدمات پیش کرے جو بچے پیدا کرتے ہیں۔ قصبات اور دیہاتوں میں تو اب ۲۰ سال سے طبی سہولتوں کا فقدان اس لیے ہے کہ حکومت کے پاس صحت کے لیے بجٹ کی کمی ہے۔

دوسری طرف ناجائز بچوں کی کثرت نے بھی روسی معاشرے کو نئے نئے مسائل سے دوچار کردیا ہے۔ روسی وزارت داخلہ کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق ۲۵ لاکھ بچے سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوا کہ ان کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں۔ ۷۰ لاکھ بچے یتیم خانوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ روس اور مغربی ملکوں میں ایسے بچوں کو بھی یتیموں میں شمار کیاجاتا ہے جن کو والدین پیدا کرکے چھوڑدیتے ہیں۔ اعداد وشمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ روس میں ناجائز بچوں کا تناسب ۴۰ فی صد ہے۔ ہرسال اس میںاضافہ ہوتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر ۱۹۸۹ء میں ان کا تناسب ۲۰ فی صد تھا جو ۲۰۰۰ء میں ۲۸ فی صد اور ۲۰۰۵ء میں ۴۰ فی صد ہوگیا۔

روس کے چوٹی کے ڈاکٹر کا‘ جو بچوں کے امراض کا ماہر ہے‘ کا کہنا ہے کہ ۵۹ فی صد بچے پیدایش کے بعد ہی سے صحت کی خرابی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خواتین کو مناسب غذا نہیں ملتی۔ دوسری بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ خواتین منشیات کی عادی ہوتی ہیں۔ دوران حمل شراب و سگریٹ کی کثرت کی وجہ سے بچوں پر مضر اثرات ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ولاڈیمیر کا کہنا ہے کہ معذور بچوں کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔ اس وقت ۶ لاکھ ۴۲ ہزار بچے اپاہج اور معذور ہیں۔ ۱۰ہزار ایسے بچے ہیں جو ایڈز سے متاثر والدین سے پیدا ہونے کی وجہ سے مریض ہیں۔

پیٹرک بیوکانن نے اپنی فکرانگیز کتاب مغرب کی موت میں امریکا اور مغربی ممالک کی آبادی میں غیرمعمولی کمی کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکا اور مغربی ملکوں کو فی الحال چار محاذوں پر سنگین خطرات واضح طور سے درپیش ہیں:

پہلی بات جو انتہائی سنگین اور دُور رس نتائج کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ ان ملکوں کی آبادی ختم ہورہی ہے۔ دوسرا سنگین مسئلہ یہ ہے کہ اجتماعی طور پر مختلف قوموں نے ہجرت کر کے ان ملکوں کو اپنا مسکن بنالیا ہے۔ یہ مہاجرین ایسے ہیں جو مختلف رنگ و نسل اور عقائد و مذاہب اور ثقافت و تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ سے مغرب کی شناخت ہمیشہ کے لیے تبدیل ہوکر رہ جائے گی۔ تیسرا بڑا سنگین خطرہ یہ ہے کہ یہ مہاجرین مغرب کی ثقافت و تہذیب کے دشمن ہیں‘اور مغرب کے عقائد و ادیان اور اخلاق کے کٹر دشمن ہیں۔ اس صورت حال نے مغربی ملکوں کو انتشار و پراگندگی سے دوچار کردیا ہے۔ چوتھا سنگین خطرہ یہ ہے کہ مغربی قوموں میں اتحاد و اتفاق کا فقدان ہے اور جو لوگ اپنے کو دانش ور اور مفکر کہتے ہیں وہ ایک عالمی حکومت کا خواب دیکھ رہے ہیں لیکن یہ اس وقت ہوگا جب مغرب کا خاتمہ ہوچکا ہوگا۔

بیوکانن اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے کہ ہم واضح طور پر یہ متعین نہیں کرسکتے کہ مغرب کا زوال اتنی تیزی سے کیوں ہو رہا ہے؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی قائدین و مفکرین کا اعتماد خود اپنی تہذیب پر سے اُٹھ چکا ہے؟ میری راے میں مغربی ملکوں کے زوال کے اسباب میں ایک بنیادی سبب دین و مذہب سے لاتعلقی اور حد سے بڑھی ہوئی مادی تعیش اور لذتیت میں انہماک ہے۔ بیوکانن نے اپنی کتاب کے آغاز میں ہی مغرب کی جنسی بے راہ روی اور بداخلاقی کے عمومی رواج کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بے قید زندگی کا دوسرا نتیجہ انسانی نسل کی کمی کی صورت میں سامنے آیا۔ جب اخلاقی نظام کی کمزور عمارت منہدم ہوگئی تو اسقاطِ حمل اور طلاق نے وبا کی شکل اختیار کرلی۔ شوہر اور بیوی کی خیانت عام ہوگئی‘ عورت کا وجود صرف لذت کے لیے رہ گیا‘ بچوں کی پیدایش کو مصیبت سمجھا جانے لگا۔ ایک برطانوی مصنفہ کٹرینا رانسگی کے اقتباس کا حوالہ دیتے ہوئے بیوکانن لکھتا ہے کہ صاف بات یہ ہے کہ جب سے مغرب میں عورت اور مرد کے درمیان مساوات کا نعرہ لگایا گیا‘ اسی وقت سے یہ بات طے ہوگئی کہ مغربی قوموں کی موت کا وقت قریب ہے۔

روس کی سنگین صورت حال

بیوکانن نے روسی آبادی میں کمی کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کارل مارکس نے جو غیرفطری نظام روس پر مسلط کیا تھا‘ اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا چاہیے تھا کہ روس کی آبادی میں غیرمعمولی کمی ہوجائے۔ اس لیے کہ اشتراکی نظام میں خاندان کا بنیادی تصور ہی نہیں تھا۔ مردوں کو الگ رکھا جاتا اور خواتین کو الگ‘ جو بچے پیدا ہوتے انھیں سرکاری نرسنگ ہوم میں رکھا جاتا۔ اس کا لازمی نتیجہ صرف ۶۰ سال کے اندر یہ سامنے آگیا کہ روس کی آبادی میں تیزی سے زوال آیا۔ صورت حال اتنی سنگین ہوگئی ہے کہ اگر اسی طرح سے روس کی آبادی گھٹتی رہی تو ۲۰۵۰ء تک ایشیا کے نقشے سے غائب ہوجائے گا‘ جو روسی باقی رہیں گے بھی وہ مغربی اورال کے علاقے میں ہوں گے یا پھر مشرقی یورپ ہجرت کرچکے ہوں گے۔ ان کی جگہ مسلمان لیں گے جن کی تعداد بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بیوکانن کے تصور اور تحقیق کے مطابق مراکش سے خلیجی ملکوں تک ترک عرب سمندر کی موجیں سر اُٹھا رہی ہوں گی‘ کم سے کم اس پورے علاقے کی تعداد ۵۰۰ ملین مسلمانوں کی ہوگی۔ جنوبی ایشیا میں ایرانی‘ پاکستانی‘افغانی اور بنگلہ دیشی ملاکر ۷۰۰ ملین مسلمان ہوں گے۔ انڈونیشیا کے ۳۰۰ ملین مسلمان کے ساتھ بھارت‘ ملایشیا اور چین میں موجود مسلمانوں کو بھی ملا لیجیے کہ ان کی تعداد کتنی ہوتی ہے‘ اور ۲۰۵۰ء میں صورت کیا ہوجائے گی۔

روس کی آبادی میں غیرمعمولی کمی کے اسباب کا تجزیہ کرتے ہوئے روسی پارلیمنٹ کا رکن ڈاکٹر شامل سلطانوف لکھتا ہے کہ جہاں تک روس کا تعلق ہے وہ اقتصادی‘ سماجی‘ ثقافتی و تہذیبی اعتبار سے مغربی دنیا کا ایک جز ہے۔ روسی قوم کی شناخت کا مسئلہ بڑا پیچیدہ بن گیا ہے‘ چونکہ ۱۹۶۰ء کے بعد سے مغربی کلچر میں اس نے اپنے کو پوری طرح ضم کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا‘ اس لیے مغربی ملکوں ہی کی طرح روسیوں کا بھی ذہن کام کرنے لگا۔ دوسری طرف جو مشکلات پیش آئیں وہ یہ تھیں کہ جن قوموں کو اشتراکی نظام نے زبردستی ان کی سرزمین سے نکال دیا تھا وہ ۱۹۶۰ء کے بعد اپنے اپنے علاقوں میں واپس آنے لگیں‘ ان کی آبادی بڑھنے لگی۔ اس لیے کہ وہ اپنے خاندانی شیرازے کو کسی نہ کسی حد تک باقی رکھنے میں کامیاب رہے تھے۔

روسی اتحاد کا شیرازہ بکھرنے سے اخلاقی اور اقتصادی بدحالی نے کمزور و ناتواں روسی ڈھانچے کو توڑ کر رکھ دیا۔ غیرمعمولی اقتصادی بدحالی سے مجبور ہوکر ہزاروں خاندان ملک چھوڑ کر  چلے گئے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ فوج اور کارخانوں میں کام کرنے کے لیے آدمی نہیں مل رہے ہیں۔ سب سے بدتر حالت فوج کی ہے کہ صحت کی خرابی‘ اقتصادی بدحالی کی وجہ سے وبائی شکل اختیار کرچکی ہے۔ فوج میں بھرتی کے قابل نوجوانوں کی شدید کمی ہے۔ فوج میں مختلف مناصب کی ۵۰ ہزار سے زائد جگہیں چھے سال سے خالی ہیں۔ کارخانوں اور دفاتر میں مردوں کے بجاے عورتوں کی کثرت ہے۔ وہ بھی صحت کی خرابی کی وجہ سے پورے وقت کام کرنے سے معذور ہیں۔ سب سے زیادہ چھٹیاں خواتین ہی لیتی ہیں۔ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ۲۰۱۰ء میں روس کو ہرسال ۷ لاکھ کام کرنے والے باہر سے منگوانے پڑیں گے۔ اس کے ۲۵ سال بعد ۵ ملین کام کرنے والوں کی ضرورت ہوگی تاکہ روز مرہ کی زندگی سے متعلق بنیادی کام انجام دیے جائیں۔ اس صورت حال نے روسی مفکرین کو حیران کردیا ہے کہ صرف روسی آبادی ہی کم نہیں ہو رہی ہے بلکہ کام کرنے والے آدمی بھی غیرمعمولی حد تک کم ہوئے جارہے ہیں۔

روسیوں کی صحت جسمانی اعتبار سے ہی خراب نہیں بلکہ نفسیاتی‘ ذہنی اور اعصابی امراض کی بھی ان میں کثرت ہے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق صرف مرکزی شہروں کا حال یہ ہے کہ ۳لاکھ روسی پاگل خانوں میں ہیں۔ ۸ لاکھ ہمیشہ نفسیاتی علاج کے لیے طبی مراکز سے رجوع کرتے رہتے ہیں۔ تقریباً ۵۰ فی صد روسی ذہنی اور اعصابی امراض کا شکار ہیں۔ روسیوں کی عمر کا تجزیہ کرتے ہوئے ماہرین نے لکھا ہے کہ تقریباً ہر روسی اپنی عمر کے ۱۰ سال صرف اس فکر میں گزاردیتا ہے کہ اس کا مرض کیا ہے‘ اور وہ کیوں ان بیماریوں کا شکار ہے‘ اور ان امراض سے نجات کیسے پاسکتا ہے؟ سرکاری اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ہرسال ۶۰ ہزار روسی خودکشی کرلیتے ہیں۔ یہ تعداد ان کے علاوہ ہے جو سڑک کے حادثوں میں مرتے ہیں۔

روس میں منشیات کے استعمال کی کثرت نے بھی آبادی کو غیرمعمولی طور پر متاثر کیا ہے‘ بلکہ ماہرین نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ مردوں اور عورتوں میں احساسِ کمتری اور زندگی کے    بے مقصد ہونے اور کسی سماجی و اخلاقی نظام سے مربوط نہ ہونے کی وجہ سے روسی شراب ان کی زندگی کا جز بن گئی ہے۔ ۳۰ فی صد مرد منشیات کی وجہ سے جلد زندگی سے ہاتھ دھو لیتے ہیں۔

روسی بچوں کو درپیش مسائل

ڈاکٹر شاملی سلطانوف اور ڈاکٹر فلاڈیمیر (ماہر امراض اطفال) دونوں کا تجزیہ یہ ہے کہ جو بچے پیدا ہورہے ہیں ان کی بڑی تعداد جسمانی ‘ ذہنی اور نفسیاتی امراض کی شکار ہوتی ہے۔ ان بچوں میں صرف ۳۵ فی صد ہی ذہنی اور جسمانی اعتبار سے بہتر ہوتے ہیں۔ ۳۸ فی صد تعداد ایسی ہے جو ذہنی اور جسمانی نشوونما کے اعتبار سے ناقص ہوتی ہے‘ اور یہ لوگ مستقل معذوروں اور اپاہجوں میں شمار کیے جانے لگتے ہیں۔ معذور ہونے کی وجہ سے مافیا کے لوگ ان بچوں کو اپنے مذموم مقاصد  کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ روسی شاہراہوں پر کم سن بچے اور بچیوں کو بڑی تعداد میں گداگری کرتے یا چوری و فریب دہی اور جیب تراشی میں مصروف دیکھا جاسکتا ہے۔ حکومت کے پاس وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ رفاہی اداروں اور سماجی تنظیموں کا وجود ہی نہیں جو ان معذور اور آوارہ گرد بچوں کی طرف توجہ کرے‘ البتہ غیرسرکاری تنظیموں نے جن کا تعلق یورپ و امریکا سے ہے‘ مختلف ایجنسیوں کے ذریعے جب اپنی نگرانی میں انھیں لیا تو اندازہ ہوا کہ ان کے جسمانی اور نفسیاتی امراض پر اخراجات غیرمعمولی ہورہے ہیں‘ اور جن مقاصد (عیسائیت کی تبلیغ اور فوج میں بھرتی) کے لیے ان کو لایا گیا تھا ‘ان میں وہ مفید ثابت نہیں ہو رہے ہیں اور نہ کارخانوں میں کام کے لائق ہیں۔

دونوں ڈاکٹروں نے روسی بچوں کی جسمانی اور عقلی صحت کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کی بنیادی وجہ یہ بتائی کہ عام طور سے روسی خواتین منشیات (سگریٹ اور شراب نوشی)‘ نیزدورانِ حمل انگریزی ادویات کے استعمال اور ازدواجی زندگی کے ناہموار ہونے کی وجہ سے خود بھی مختلف امراض کا شکار ہوتی ہیں‘ اس لیے لازمی طور پر روسی بچے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ دوسری طرف مغربی ممالک جن سنگین غیرفطری امراض میں مبتلا ہیں‘ یعنی ایڈز وغیرہ یہ بھی اب پھیل رہا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ روسی مردوں کی قوت مردانگی خطرناک حدتک کم ہوگئی ہے۔ اس میں جہاں غذائی نظام کا دخل ہے وہیں اخلاقی امراض کی کثرت اور اعصابی و نفسیاتی خلل کا بھی دخل ہے۔ روس اور مغربی ملکوں میں نامردوں کا تناسب ۸۰ فی صد تک پہنچ چکا ہے۔ ماہرین نے جائزہ لے کر بتایا ہے کہ مغربی ملکوں ہی کی طرح ۳۰ اور ۴۰ سال کی عمر کے درمیان مردوں کے اندر بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ختم ہو رہی ہے۔ ان ماہرین نے بتایا ہے کہ فحاشی اور بے حیائی اور جنسی انارکی کے واقعات جہاں بھی زیادہ ہیں وہاں کے مردوں کی مردانگی اور عورتوں کی نسوانی خصوصیت تیزی سے ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خاندانی نظام کا شیرازہ بکھرجانے کی وجہ سے بچوں کی پیدایش اوران کی تعلیم و تربیت کو بوجھ سمجھ لینے کی بنا پر بھی مغربی ملکوں کی طرح روسی معاشرے پر اثر ہوا۔

روسیوں نے چونکہ مغربی طرز زندگی کواختیار کرلیا ہے اس لیے انھیں بھی انسانوں کے بحران کا سامنا ہے۔ ان کو سب سے زیادہ تشویش یہ ہے کہ روس دنیا کے نقشے پر کیسے باقی رہے گا‘ اس کی فوج دن بدن کم ہو رہی ہے‘ بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں‘ اور جو ہیں‘ ان سے سوپرپاور کا بھرم کیسے باقی رہے گا!

  • حاصل کلام: روسیوں نے اشتراکیت کی تنفیذکے لیے ہر طرح کے وسائل استعمال کر ڈالے تاکہ مسلمانوں کا وجود ہی مٹ جائے۔ انھوں نے جہاں جبری نقل مکانی کا طریقہ اختیار کیا وہیں مسلمانوں کو صرف ان کے وطن سے بے وطن کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ خود مسلمان خاندانوں کو بھی بکھیر کر رکھ دیا۔ تیسری طرف ملحدانہ نصاب و نظام تعلیم کے ذریعے ان مسلمانوں کی شناخت ختم کرنے کی پوری کوشش کرڈالی۔ لیکن جب یہ طوفان تھما اور ۱۹۶۰ء کے بعد مہاجرین اپنے وطن واپس آئے‘ پھر انھیں استقرار نصیب ہوا تو یہ انکشاف ہوا کہ ان کا قبائلی اور خاندانی نظام   اپنی جگہ باقی ہے‘ اور جتنی تعداد ہلاک کردی گئی ہے اس سے دوگنی تعداد ہوگئی ہے۔

سوپر پاور کی قوت ختم ہونے اور جزوی طور پر مسلمان جمہوریتوں کے آزاد ہونے کے بعد مسلمانوں کی شرح پیدایش میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ۱۰ سال کے اندر حیرت انگیز طریقے سے مسلمانوں کی شرح پیدایش میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے نے مغربی مفکرین کو بھی چونکا دیا ہے‘ اور وہ یہ پیش گوئی کرنے لگے ہیں کہ ۲۰۵۰ء تک مسلمانوں کی تعداد روسیوں سے دوگنی ہوجائے گی اور وہی کلیدی عہدوں پر ہوں گے۔

روسی مفکرین کا تجزیہ ہے کہ اگرچہ اقتصادی حالات اچھے نہیں ہیں‘ سیاسی استقرار بھی نہیں ہے‘ پھر بھی مسلمانوں کا خاندانی شیرازہ منظم ہے اور اخلاقیات کا پابند بھی۔ جو لوگ ۱۰ سال پہلے تک ملحد اور بے دین تھے اور حکومت کے جبر کی وجہ سے اسلام سے الگ تھلگ تھے وہ اب پوری آزادی سے دین کی طرف واپس آرہے ہیں۔ عورتوں میں پہلے سے زیادہ دین داری آگئی ہے‘ مذہبی شعائر کی ادایگی میں وہ مردوں سے آگے رہتی ہیں۔ انھوں نے اقتصادی تنگی کے باوجود گھر میں رہ کر بچوں کی تربیت کو ترجیح دی ہے‘ نیز گھروں اور اپنے محلے میں موجود انجمن کے مراکز اور مساجد میں دینی تعلیم میں مشغولیت کو اپنے لیے پسند کیا ہے۔ وہ مغربی لباس کے بجاے اسلامی لباس کو پسندکرتی ہیں۔ ان کے طرزِ زندگی میں بڑی تیزی سے انقلاب آرہا ہے۔ نوجوانوں کی ایک تعداد شام و مصر‘ سعودی عرب اور یمن میں دینی تعلیم کے اسلامی مراکز کا رخ کر رہی ہے۔ اسلامی لٹریچر کی عرب ملکوں سے آمد نے مسلمانوں کے اندر خوداعتمادی پیدا کی ہے۔ وہ بڑے پیمانے پر ویران مساجد کو آباد کرنے لگے ہیں۔ اقتصادی پریشانی کے باوجود مساجد اورمدارس پر وسائل صرف کر رہے ہیں‘ اور حج کے ذریعے بھی عالمِ اسلام سے اپنا رابطہ مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ترکی کے ذریعے ٹی وی پروگرام اور اسلامی تاریخ اور اسلام کے مجاہدین‘ مجددین و مصلحین سے متعلق سیریز ان تک پہنچ رہے ہیں۔ اس سے مسلمانوں میں دینی شعور بیدار ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ خود روسیوں میں اسلام قبول کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے‘ جب کہ روسی خواتین میں مردوں کے مقابلے میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے۔ (بہ شکریہ: تعمیرحیات‘ لکھنؤ‘ ستمبر ۲۰۰۶ئ)

موت سے کس کو رستگاری ہے مگر بعض افراد کی موت کچھ اس شان کی ہوتی ہے کہ اس کی یادیں دل میں بسی رہ جاتی ہیں۔ جانے والا چلا جاتا ہے مگر اپنے پیچھے اپنے اعلیٰ کارنامے اور    خوش گوار یادیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ جاتا ہے جو تادیر ذہن سے محو نہیں ہوپاتیں۔ محترم عبدالستار افغانی کی رحلت بھی کچھ اسی نوعیت کی ہے۔ وہ جنھیں عوام نے شہر کی مثالی تعمیروترقی پر ’باباے کراچی‘ کا خطاب دیا تھا‘ آج ہم میں نہیں۔ ۱۱ شوال ۱۴۲۷ھ (۵ نومبر ۲۰۰۶ئ) کو وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے___ انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔

عبدالستار افغانی کے آباواجداد ۱۵۰ سال قبل افغانستان میں غازی امان اللہ خان کی بغاوت کے بعد ممبئی منتقل ہوگئے۔ بعدازاں ان کے خاندان کے افراد ۵۰سال ممبئی میں گزارنے کے بعد کراچی آگئے۔ وہ ۱۹۳۰ء میں کراچی کے علاقے لیاری میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم انھوں نے بی ایف اسکول لیاری سے حاصل کی اور پھر جامعہ کراچی سے بی اے کیا۔ سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا رجحان ان کے اندر اوائل عمری ہی سے موجود تھا۔ ابھی ان کی عمر صرف ۱۴سال تھی کہ وہ جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے اور تادمِ مرگ اس سے وابستہ رہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت سے طویل عرصے تک وابستہ رہنے کی یہ ایک عظیم مثال ہے۔

سیاسی زندگی کا آغاز انھوںنے ۱۹۶۲ء میں ایوب خان کے زمانے میں بی ڈی سسٹم کا ممبر منتخب ہوکر کیا۔ پھر ایک عرصے تک وہ شہری کمیٹی کے رکن رہے مگر شہر کے سیاسی اُفق پر وہ اس وقت اُبھرکرسامنے آئے جب ۱۹۷۹ء میں‘ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں چارسال کے لیے کراچی کے میئر منتخب ہوئے۔ ستایش کی تمنا اور صلے کی امید سے بے نیاز ہوکر عوام کی بے لوث خدمت پر کراچی کے عوام نے انھیں ۱۹۸۳ء میں دوبارہ میئر منتخب کیا۔

ان کی اصول پسندی پر مبنی سیاست‘ حق گوئی و بے باکی اور عوامی خدمت کسی سے     ڈھکی چھپی نہیں۔ کراچی کو روشنیوں کا شہر بنانے کے لیے ان کی شبانہ روز کاوشوں کے ان کے     ہم نوا و ناقد‘ سب ہی قائل ہیں۔ ان کی میئرشپ میں کراچی کی تعمیروترقی کا جس قدر کام ہوا ہے‘ کراچی کی تاریخ میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ: ’’میں کراچی کا میئر ہوں اور کراچی کا ہرعلاقہ اور ہربستی میری بستی ہے۔ ان بستیوںکا بسانا اور ان کو ترقی دلوانا میرا اولین فرض ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کی سیاسی جماعتیں اور عوام‘ پارٹی وابستگی سے بالاتر ہوکر ان کی خدمات کا اعتراف کرنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔ ان کی نماز جنازہ میں تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور کارکنوں کی بڑی تعداد میں شرکت عبدالستار افغانی کی ہردل عزیزی کا کھلا ثبوت ہے۔

عبدالستار افغانی کی موت صرف ایک شخص اور پارلیمنٹیرین ہی کی موت نہیں بلکہ ایک زریں عہد کے خاتمے کا بھی اعلان ہے۔ بلاشبہہ عبدالستار افغانی نے اپنے طرزِ حکومت سے عہدِقرون اولیٰ کی طرزِ حکمرانی کی یاد تازہ کردی۔ ان کی زندگی سادگی‘ ایثار‘ قربانی‘ جدوجہد‘ زہد‘ قناعت‘ صبروشکر اور سب سے بڑھ کر عوامی خدمت سے مملو تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ قحط الرجال کے اس دور میں عبدالستار افغانی کا دم ہمارے لیے کسی نعمت ِ غیرمترقبہ سے کم نہ تھا  ع

عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں

)۲(

شمیم احمد

کسے معلوم تھا کہ کراچی کی ایک غریب بستی کے ایک غریب خاندان کا سپوت‘ گندی گلیوں میں کھیلنے کودنے والا بچہ بڑا ہوکر عروس البلاد کراچی کا رئیس اور ڈیفنس و کلفٹن جیسے پوش علاقے کا رکن قومی اسمبلی بن جائے گا۔ قدرت نے انھیں بچپن ہی سے منفرد مزاج و ودیعت کردیا تھا۔ انھوں نے گلی ڈنڈا کھیلا اور کنچے بھی چلائے لیکن اپنی بستی کے عوام کی خدمت اور فلاحی کاموں میں بھرپور کردار ادا کرتے رہے۔ ابھی وہ میٹرک بھی نہ تھے کہ نوعمری میں شادی ہوگئی۔ ساتھ ساتھ جوتے کی ایک دکان میں انھیں بٹھا دیا گیا۔ یہیں سے ان کی عملی زندگی کا آغاز ہوا۔

سیاسی زندگی کا آغاز ایوب خان کی بنیادی جمہورت سے کیا۔ پھر کراچی کی تاریخ میں    یہ منفرد اعزاز بھی انھیں حاصل ہوا کہ وہ بلدیۂ عظمیٰ کراچی کے دو مرتبہ میئر منتخب ہوئے۔ ان کی کامیابی کا راز ان کی اصول پسندی اور ضابطے کی پابندی تھی۔ کسی کی ترقی ہو یاکسی کا تقرر‘ کسی کا ٹھیکہ ہو یا کسی کا ذاتی کام‘ ضابطے کا دامن کبھی نہ چھوڑا۔ رشتہ دار ہوں یا پارٹی کے لوگ‘ دوست ہوں یا جنرلوں کی سفارش‘ ہمیشہ اپنے اصولوں پر ڈٹے رہے۔

وہ ایک بااصول اور خوددار شخص تھے۔ اصولوں کے لیے اہلِ خانہ‘ عزیز واقربا اور خاندانی برادری کو بھی خاطر میں نہ لاتے‘ جو کہ ایک کڑی آزمایش ہوا کرتی ہے۔ اپنے بیٹے کی میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے سفارش محض اس لیے نہ کی کہ میں کسی کا حق نہیں مارنا چاہتا۔ بڑے بیٹے کا پیدایشی کارڈ اس لیے نہ بنایا اور صاف انکار کردیا کہ وہ میئر کی حیثیت سے کسی گم شدہ یا غائب شدہ ریکارڈ پر دستخط نہیں کرسکتے۔ خاندان کے اکثر لوگ ان سے اس بنا پر ناراض رہتے تھے کہ افغانی‘ میئر بن کر بھی ہمارے کام نہیں کرتا اور ہمارے بچوں کو ملازمتیں نہیں دیتا۔ مگروہ خلاف ضابطہ کام کرنے کے لیے کبھی تیار نہ ہوئے۔

ایک بار ضیاء الحق کے ذاتی دوست صدر کی سفارش لے کر ان کے پاس آئے اور ایک کام کے ایگریمنٹ کے لیے کہا۔ افغانی صاحب نے جواب دیا کہ میں صدر کا ملازم نہیں ہوں بلکہ   اہلِ کراچی کا خادم ہوں۔ میں وہ کروں گا جو شہر کے فائدے میں ہوگا‘ لہٰذا آپ صدر سے کہہ دیں کہ وہ یہ ایگریمنٹ خود کرلیں۔ جب ایم کیوایم نے کارپوریشن پر قبضہ کیا توانھوں نے بہت  چھان پھٹک کی لیکن افغانی صاحب کا ایک معمولی فیصلہ بھی خلاف ضابطہ نہ پایا‘ اور بدعنوانی کا کوئی ایک الزام بھی عائد نہ کرسکے۔

نئے نئے میئر بنے تھے۔ کے ڈی اے کی گورننگ باڈی کے اجلاس میں ڈائرکٹر ظل احمد نظامی صاحب نے سب ممبران کے لیے پلاٹ کی تجویز پیش کی۔ افغانی صاحب نے کہا کہ میں  اہلِ شہر کی خدمت کے لیے میئر بنا ہوں‘ اپنی خدمت کے لیے نہیں۔ چنانچہ یہ منصوبہ رہ گیا۔

ایک صاحب کا گڈانی ہلز پر قبضہ تھا۔ انھوں نے ۶۰۰گز کے ۵۰ پلاٹوں کی پیش کش کی جو افغانی صاحب نے مسترد کردی۔ آٹھ سالہ دور میں کتنے ہی ایسے واقعات ہوئے ہوں گے۔ آج‘  جب کہ سیاست اور منصب کا مطلب ہی مال کمانا ہوگیا ہے‘ ایسی درخشندہ مثالیں مستقبل کے لیے امید پیدا کرتی ہیں۔ ان کے کسی سوانح نگار کو تفصیل سے سب کچھ جمع کرنا چاہیے۔

عبدالستار افغانی صاحب بے باک و جرأت مند تھے۔ ایک بار ضیاء الحق کو اہالیانِ کراچی کی جانب سے فریئر گارڈن میں استقبالیہ دیا گیا۔ اس میں میئر کی حیثیت سے افغانی صاحب کو استقبالیہ خطاب کرنا تھا۔ گورنر عباسی نے افغانی صاحب کو لکھی ہوئی تقریر پڑھنے کو دی۔ انھوں نے چند جملے اس تحریر میں سے پڑھے۔ پھر اسے ایک طرف رکھ کر وفاقی و صوبائی حکومتوں کے کراچی کے مفاد کے خلاف غیرمنصفانہ سلوک پر بھرپور روشنی ڈالی جس پر گورنر صاحب بہت ناراض ہوئے۔

میئرشپ کے دوران ایک ہی کار پر اکتفا کیا اور سرکاری گھر کو کبھی اپنا گھر نہیں بنایا۔ سرکاری گاڑی سے کے ایم سی کا جھنڈا اس لیے اُتروا دیا کہ مجھے خاص ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ سرکاری بنگلہ بھی یہ کہہ کر واپس کردیا کہ میں غریب آدمی ہوں اور عوام کا خادم ہوں‘ اے سی والے بنگلے کی عادت نہیں ڈالنا چاہتا۔ حرص و ہوس‘ جھوٹ اور فریب ان کے قریب سے بھی نہیں گزرے۔

عبدالستار افغانی صاحب کو اپنامافی الضمیر پُرزور طریقہ سے ادا کرنے کی مہارت تھی۔ وہ ایک اچھے خطیب تھے۔ ان کا خطاب غیرضروری باتوں سے پاک ہوتا تھا۔ موضوع پر جچاتلا اظہارِخیال کرتے تھے۔

میئرشپ کے بعد ان کا سارا وقت جماعت اسلامی کراچی کے دفتر کے لیے وقف تھا۔ یہاں بھی اسی طرح آتے تھے جیسے کارپوریشن کے دفتر جاتے تھے۔ دفتر میں کوئی ہو یا نہ ہو‘ لیکن وقت اتنا ہی دیتے جتنا معمول تھا تاکہ کوئی سائل مایوس نہ لوٹ جائے۔ اکثر لوگ ذاتی کام سے یا بستی کے حوالے سے افغانی صاحب سے رجوع کرتے تھے۔ لوگوں کا کام اس طرح کرتے تھے جیسے کوئی ماتحت اپنے حاکم کا حکم بجا لا رہا ہو۔

عبدالستار افغانی صاحب ہمیشہ اپنی شناخت جماعت اسلامی کے حوالے سے کراتے تھے‘ حالانکہ شہر میں ان کی شخصیت کی اپنی نمایاں حیثیت تھی۔ افغانی صاحب ہر صاحب ِ فکر کی طرح تمام مسائل  پر اپنی راے رکھتے تھے لیکن ایک کارکن کی طرح اطاعت کا جذبہ بدرجہ اتم تھا۔ تحریکی زندگی میں کئی بار قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں‘ مگر اوائل عمری سے تحریک سے وابستہ ہوئے اور    تادمِ آخر یہ وابستگی قائم رہی۔ ۱۹ مئی ۱۹۹۱ء کو جماعت اسلامی کی رکنیت کا حلف اٹھایا۔ وہ مجسم تحریک تھے۔ذاتی حیثیت میں وہ ایک بہت ہی سادہ شخصیت تھے۔ لوگوں میں گھل مل کر رہتے تھے۔ طبیعت میں مزاح بھی پایا جاتا تھا اور بے تکلفی سے پیش آتے تھے۔ بروقت اشعار کا استعمال ان کی طبیعت کا خاصا تھا۔

قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے قبل بظاہر تندرست تھے۔ کوئی یہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ وہ اتنی جلد رخصت ہوجائیں گے۔ لیکن گردوں کے مرض نے آلیا اور وہ اپنے رب سے ملاقات کے لیے چلے گئے___ انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔

یہ ان کی خدمات اور تحریکی مقام کا اعتراف تھا کہ محترم قاضی حسین احمد نے مرکزی شوریٰ کے اجلاس کے دوران کراچی آکر نماز جنازہ پڑھائی اور اہلِ کراچی سے تعزیت کی۔

جو کچھ بھارت نواز عوامی لیگ نے ڈھاکہ کی سڑکوں پر کیا ہے‘ کسی اسلامی تحریک یا مذہبی جماعت نے کیا ہوتا تو پوری دنیا میں نہ تھمنے والا پروپیگنڈا شروع ہوچکا ہوتا۔ درندگی‘ سفاکیت‘  وحشی پن سب الفاظ اس کے سامنے ہیچ ہیں۔ اس کی جو وڈیو ریکارڈنگ ہم تک پہنچی ہے اس کی چند جھلکیاں دیکھنے کے لیے بھی بڑا دل گردہ چاہیے۔ اگرچہ انسانی جان کا قتل بے حد سنگین جرم ہے پھر بھی روزانہ ہزاروں انسان قتل ہوتے اور دوسرے اس قتل کی خبر پاتے ہیں‘ لیکن جو قتل عام اکتوبر کے آخری ہفتے ڈھاکہ کی سڑکوں پر ہوا‘ خدا وہ دن دوبارہ کسی ملک و قوم کو نہ دکھائے۔ معاملہ کیا تھا؟ صرف یہ کہ بنگلہ دیشی دستور کے تحت عام انتخابات سے قبل جو عبوری حکومت سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں بننی ہے ہمیں اس کا سربراہ منظور نہیں۔ پھر عوامی لیگ کے کارکن تھے‘ خنجر‘ بھالے‘ لٹھ اور آہنی سلاخیں تھیں اور اپنے ہی بھائی بندوں کا قتل عام تھا۔

اگرچہ بنگلہ دیش میں جمہوری روایات پاکستان سے زیادہ مستحکم ہورہی ہیں۔ الیکشن بھی وقت پر ہورہے ہیں۔ عبوری حکومت کا فارمولا بھی اتفاق راے سے نافذ ہے۔ لیکن بھارتی مقتدر قوتیں بنگلہ دیش میں اپنے نفوذ و تسلط کو کسی صورت کم یا ثانوی ہوتے نہیں دیکھ سکتیں۔ شیخ مجیب کی صاحبزادی اور ان کی پارٹی کی اصل پہچان ہی بھارت نوازی ہے‘ اس لیے گذشتہ انتخابات میں شکست کے بعد سے مسلسل دونوں مضطرب ہیں کہ کیسے واپسی ہو‘کیسے دوسری کسی بھی حکومت کو مفلوج و ناکام بنایا جائے۔

خالدہ ضیا حکومت کے پانچ برس کوئی سنہری دور تو نہیں تھے‘ لیکن میں نے اندرون و بیرون ملک رہنے والے جس بنگالی بھائی سے بھی پوچھا اس نے ’’پہلے سے اچھا ہے‘‘ کہہ کر نسبتاً اطمینان کا اظہار کیا۔ خاص طور پر جماعت اسلامی کے امیر اور سیکرٹری جنرل کی دو وزارتوں کی کارکردگی سب سے نمایاں اور استثنائی رہی۔ خالدہ ضیا اپنی کابینہ میں دوسرے وزرا کو بھی ان دونوں کی پیروی کی تلقین کرتی رہیں۔ لیکن الزامات اور بھارت نواز ذرائع ابلاغ کبھی تو بنگلہ دیش میں طالبنائزیشن کی دہائی دیتے رہے‘ کبھی القاعدہ سے ڈانڈے ملاتے رہے اور کبھی ہڑتالوں اور مظاہروں سے زندگی مفلوج کرنے کی سعی کرتے رہے۔

اب ایک بار پھر انتخابات کا معرکہ ہے۔ خالدہ ضیا کا چار جماعتی اتحاد اپنی سابقہ کارکردگی اور حسینہ شیخ روایتی ہتھکنڈوں اور بیرونی سرپرستی کے ساتھ میدان میں ہیں۔ لیکن اصل مقابلہ پیسے‘ پروپیگنڈے‘ بیرونی نفوذ اور کارکنان کی جفاکشی میں ہے۔ جو بھی ہو‘ نتائج جنوری میں سامنے آجائیں گے۔

بات شروع ہوئی تھی عبوری حکومت کی سربراہی پر اختلاف کے نتیجے میں عوامی لیگ کی  قتل و غارت سے‘ کہ اس وحشی پن کا جو ذکر عالمی ذرائع ابلاغ میں ہوا ہے اصل حقائق کا عشرعشیر بھی نہیں تھا۔ ادھر غزہ سمیت فلسطین کے دیگر علاقوں میں صہیونی جارحیت بھی حسب معمول جاری ہے۔ نومبر کے آغاز میں صرف ایک ہفتے میں ۶۵ سے زائد افراد شہید کردیے گئے۔ بیت حانون کے ایک محلے پر بم باری کرکے دسیوں افراد شہید کردیے گئے جن میں سے ۱۳ ایک ہی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ان میں سے سات معصوم بچے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ فلسطین میں بھی نئی حکومت کی تشکیل کا عمل جاری ہے۔ صہیونیت نواز عالمی ذرائع ابلاغ نہ تو اس قتل عام کی صحیح عکاسی کر رہے ہیں اور نہ حماس کی اس سیاسی بصیرت و قربانی کی کہ پارلیمنٹ میں دو تہائی سے زائد اکثریت رکھنے کے باوجود وہ وسیع تر حکومت بنانے پر مصر ہے۔

وسط نومبر میں حماس کے سربراہ خالد المشعل سے فون پر اور لبنان میں ان کے خصوصی نمایندے اسامہ حمدان سے بالمشافہ تفصیلی گفتگو ہوئی۔ دونوں نے بتایا کہ ہم تو اپنی جیت کے فوراً بعد سے قومی حکومت کی تشکیل پر اصرار کر رہے تھے‘ لیکن تب ہماری پیش کش قبول نہ کی گئی۔ کچھ لوگ اور عالمی قوتیں چاہتی تھیں کہ ہماری حکومت اور فلسطینی عوام کا حصار کرکے ہمیں ناکام کردیا جائے۔ حماس کی حکومت ختم ہوگی تو دنیا بھر میں واویلا کیاجائے گا‘ دیکھا ناکام ہوگئے‘ اسلامی تحریکیں حکومت چلا ہی نہیں سکتیں۔ اس ضمن میں ہمارا اقتصادی بائیکاٹ کیا گیا۔ ہم نے کہا امداد نہیںدینا‘ نہ دیں  ہم اُمت سے اپیل کرکے خود ہی وسائل مہیا کرلیتے ہیں‘ لیکن ہماری جمع کردہ رقوم بھی فلسطینی عوام تک پہنچنے نہ دی گئیں۔ کئی ملکوں میں ہمارے اکائونٹس منجمد کردیے گئے اور پھر بالآخر الفتح تحریک کے مسلح گروہوں اور صدر محمودعباس کی سیکورٹی فورسز کے دستوں کو سڑکوں پر لے آیا گیا اور ملازمین کو تنخواہ نہ ملنے کا بہانہ بناکر خانہ جنگی شروع کرنے کی کوشش کی گئی‘ لیکن بالآخر سب تدبیریں الٹی ہوگئیں اور عوام حماس کی تائید میں مزید یکسو ہوگئے۔ رمضان کے وسط میں جب باہم لڑائی کا خدشہ اورالزامات کا طوفان شدید تھا‘ وزیراعظم اسماعیل ھنیّہ نے ایک جلسۂ عام کا اعلان کیا‘ بغیر کسی سرکاری انتظام کے‘ لاکھوں لوگوں نے جمع ہوکر ان کا مؤقف سنا اور اعلان کیا کہ ’’ہمارا مسئلہ صرف روٹی نہیں‘ وہ تو کتوں کو بھی مل جاتی ہے‘‘۔

عوام کو حماس حکومت سے متنفر کرنے کی کوششوں کے ساتھ ہی ساتھ ایوان صدر نے     یہ دھمکی بھی دی کہ حماس کی حکومت یا پارلیمنٹ معطل کردی جائے گی‘ لیکن اس کے لیے عملاً کوئی راستہ نہیں تھا۔ الفتح نے خود بیرونی سرپرستوں کے تعاون سے جو قانون سازی کی تھی‘ اس کے مطابق اگر حکومت توڑی جاتی ہے تو ایک عبوری حکومت فوراً بنانا پڑتی جس کی توثیق پارلیمنٹ سے ضروری تھی اور پارلیمنٹ میں حماس ہے۔ اور اگر پارلیمنٹ توڑی جاتی‘ تو نئے الیکشن ضروری تھے‘ جب کہ ہر سروے رپورٹ یہ رہی تھی کہ اس صورت حال میں انتخابات ہوئے تو حماس پہلے سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کرسکتی ہے۔ کیونکہ چند ماہ کی حکومت میںاس نے ثابت کیا ہے کہ وہ غیرمعمولی طور پر   امانت دار‘ فعال اور باصلاحیت حکومت ہے۔ اگر عوام بھوکے ہوتے ہیں تووزیراعظم خود بھی بھوکا ہوتا ہے۔ اس نے آج تک کوئی الائونس یا تنخواہ نہیں لی کیونکہ اس کے عوام کو پوری تنخواہیں نہیں مل رہیں۔ عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ چند ماہ کی حکومت نے گذشتہ حکمرانوں کے کتنے بڑے بڑے اسیکنڈل بے نقاب کیے ہیں۔ جب فلسطینی عوام دشمن کی بم باری کی زد میں ہوتے تھے‘ ان کے حکمران دشمن سے کیا کیا گٹھ جوڑ کر رہے ہوتے تھے۔ اور یہ بھی کہ تمام تر پابندیوں کے باوجود جو سامانِ ضرورت (خاص طور پر پٹرول) جب مقبوضہ فلسطین پہنچتا تھا تو کس کس وزیر کا کتنا کتنا کمیشن اس میں شامل ہوتا تھا۔

اس صورت حال میں الفتح اور صدر محمود عباس کے سامنے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ بچاتھا کہ وہ یا تو اسی طرح تناؤ اور حصار باقی رہنے دے ‘ یا حماس کی قومی حکومت والی تجویز قبول کرلے۔ پہلی صورت میں یہ خطرہ برقرار رہتا کہ مزید عوام حماس کے گرد جمع ہوجائیں جو امریکی‘ صہیونی اور فلسطینی ایوانِ صدر کی سازشوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس لیے بالآخر قومی حکومت کا  کڑوا گھونٹ برداشت کرلیا گیا۔ حماس کی اکلوتی شرط یہ ہے کہ قومی حکومت بنے تو اس ضمانت پر کہ اس کے بعد فلسطین کا اقتصادی حصار ختم کردیا جائے گا‘ جب کہ ایوان صدر مختلف شرطیں عائد کر رہا ہے‘ مثلاً اسماعیل ھنیّہ جیسا دبنگ لیڈر اس کاسربراہ نہیں ہوگا‘ یا یہ کہ فلاں فلاں وزارت ہمیں ملے گی خاص طور پر وزارتِ خارجہ۔ حماس نے ان کی یہ شرائط تسلیم کرلی ہیں۔ غزہ میں حماس کی قائم کردہ اسلامی یونی ورسٹی کے سابق سربراہ محمد شبیر شاید نئی حکومت کے سربراہ ہوں۔ وزارتیں پارلیمنٹ میں پارٹی حیثیت کے مطابق تقسیم ہوں گی‘ فلسطینی عوام کے روکے گئے فنڈ واپس مل جائیں اور اقتصادی حصار جزوی طور پر ختم ہوجائے گا۔

امریکا نے پہلے قومی حکومت کی تجویز کو مسترد کردیا تھا۔ صدربش اور اس کی وزیر کونڈالیزارائس نے اس کے خلاف بیان بھی دے دیے‘ لیکن پھر کئی صہیونی تجزیہ نگاروں کی اس رائے سے اتفاق کرنا پڑا کہ اگر کوئی بھی راستہ باقی نہ بچا تو جہادی کارروائیوں میں مزید تیزی آجائے گی۔ حماس کی قیادت کو اطمینان ہے کہ جو راستہ بھی ملے گا ہم اپنی منزل سے قریب تر ہوں گے۔ اسرائیل کے ناجائز وجود کو نہ پہلے کوئی دبائو ہم سے تسلیم کروا سکا ہے‘ نہ آیندہ کروا سکے گا۔ جہاد و انتفاضہ سے    ہم نہ پہلے دست بردار ہوئے ہیں نہ آیندہ کوئی دست بردار کروا سکے گا۔ عزالدین قسام بریگیڈ نے خودساختہ راکٹوں سے صہیونی آبادیوں اور کئی ذمہ داروں کے گھروں کو نشانہ بنا کے پیغام دیا ہے کہ ہمیں تکلیف پہنچے گی تو تم بھی محفوظ نہ رہو گے۔ ہماری سرزمین مقبوضہ رہے گی تو جہادِ آزادی بھی  اپنی منزلیں کامیابی سے طے کرتا رہے گا۔

مساجد میں خواتین کی شرکت

سوال: ہمارے علاقے میں ایک پرانی چھوٹی مسجد تھی۔ اب الحمدللہ اس کی دوبارہ تعمیر کی گئی اور اس کو وسعت دی گئی ہے۔ اب نمازیوں کے لیے یہاںکافی گنجایش ہے۔ پہلے جب چھوٹی مسجد تھی اس وقت بھی یہاں پر ہر سال ماہ رمضان کی تراویح میں عورتیں شریک ہوتی تھیں۔ ان کے لیے ایک الگ کمرہ مخصوص تھا۔ وہ الگ راستے سے یہاں نیم روشنی میں آتی تھیں۔ باپردہ تراویح پڑھتیں اور پھر الگ راستے سے رات کے اندھیرے میں رخصت ہوجاتی تھیں۔ اس میں کسی فتنے کی گنجایش ہی نہیں ہوتی۔ اب مسجد عالی شان اور کافی گنجایش والی بن گئی ہے تو مسجد انتظامیہ کے صدر نے ایک فتویٰ کی بنیاد پر کہ مفتی صاحبان عورتوں کو مسجد میں تراویح پڑھنے کی ممانعت کرتے ہیں‘   اس سے فتنوں کا اندیشہ ہے‘ چنانچہ خواتین کو مسجد میں آنے سے روک دیا ہے۔

ہماری خواتین (جو بڑی عمر کی ہیں اور دین کی بنیادی تعلیمات سے ناواقف ہیں) اب مدرسہ نہیں جاسکتیں۔ وہ اپنے علم کی حد تک نماز اور تلاوت وغیرہ گھروں میں ادا کرتی ہیں (اور بلاشبہہ ان عبادات میں بھی بے شمار غلطیاں کرتی ہیں)۔ صرف رمضان کا ایک مہینہ ان کو ملتا ہے کہ وہ تراویح میں باجماعت شریک ہوسکیں (پہلے یہ اسی مسجد میں تراویح میں شریک ہوتی تھیں اور تحریری پرچے بھیج کر اپنے مسائل امام صاحب سے پوچھتی تھیں اور جواب حاصل کرتی تھیں)۔ اس کے علاوہ بعداز تراویح قرآن کریم کا ترجمہ‘ تلخیص وغیرہ کا بیان ان کے دینی علم میں اضافے کا اہم ذریعہ تھا۔ اب بحکمِ صدر اس ’ذریعہ‘ ہی کو ختم کردیا گیا۔ اس حوالے سے قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمایئے۔

جواب: گذشتہ ۱۰‘ ۱۵ سال سے ہمارے معاشرے میں ایک صحت مند تبدیلی یہ آئی ہے کہ نہ صرف مساجد میں بلکہ رمضان کے دوران کشادہ گھروں میں مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ صلوٰۃ تراویح کے ساتھ مضامین قرآن کا خلاصہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ اسلام آباد جیسے جدیدیت کے شکار شہر میں بھی شاید ہی کوئی سیکٹر ایسا ہو جہاں اس طرح کا اہتمام نہ کیا جا رہا ہو۔ لیکن اکثر مساجد میں ابھی تک خواتین کے لیے الگ جگہ کا بندوبست نہیں ہے۔ استثنائی طور پر فیصل مسجد اور مسجدالمومنین میں خواتین کے لیے الگ منزل اور علیحدہ راستے کا بندوبست ہے تاکہ بغیر کسی اختلاط کے وہ نمازِ جمعہ اور صلوٰۃِ تراویح میں شرکت کرسکیں۔

سوال کا تعلق تین بنیادی امور سے ہے۔ اوّلاً: کیا نماز کے لیے عمومی طور پر خواتین کا مساجد میں آنا ممنوع ہے؟ ثانیاً: کیا صلوٰۃ التراویح یا عیدین یا جمعہ کی حیثیت عام فرض نمازوں کی ہے یا ان کا بنیادی مقصد اجتماعی تعلیم و تربیت سے ہے؟ثالثاً :کیا مساجد میں خواتین کے آنے سے فتنے کا امکان بڑھ جاتا ہے؟

فرض عبادات میں نماز‘ زکوٰۃ‘ صوم اور حج میں ایک ترجیحی تعلق پایا جاتا ہے اور اسی بنا پر  یوم الحساب میں بھی صلوٰۃ کی جواب دہی کو اولیت دی گئی ہے۔ یہ مردوں اور عورتوں پر بلاکسی تفریق کے فرض ہے۔ مردوں کے لیے جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کو زیادہ اجر کا مستحق قرار دے کر شارع اعظمؐ نے یہ وضاحت بھی فرما دی کہ بوجوہ خواتین اگر مسجد نہ جاسکیں تو ان کے اجر میں کمی واقع نہیںہوگی۔ چنانچہ احادیث صحیحہ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ان کی گھر میں ادا کردہ نماز کا اجر مسجد میں ادا کی گئی جماعت کے اجر کے مساوی ہے۔

اس کے باوجود حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ حضرت عمرؓ کی اہلیہ محترمہ یہ جاننے کے باوجود کہ حضرت عمرؓ ان کے مسجد جانے کو پسند نہیں کرتے‘ مسلسل مسجد جاتی رہیں اور اس انتظار میں رہیں کہ اگر حضرت عمرؓ پسند نہیں کرتے تو اس کا اظہار اپنی زبان سے کریں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ  حضرت عمرؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث صحیح کی بنا پر کہ جب تم میں سے کسی کی عورت اس سے اجازت مانگے تو پھر اسے مسجد جانے سے نہ روکے (صحیح بخاری) کی بنا پر اپنی فاروقیت کے باوجود اپنی اہلیہ کو مسجد جانے سے نہ روک سکے۔ وجہ ظاہر ہے کہ جس معاملے میں شارع اعظمؐ نے ‘ جن کی سنت قرآن کریم کی طرح ہر دور کے لیے حرفِ آخر ہے‘ ایک فیصلہ فرما دیا ہو اُسے    اُم المومنین سیدہ عائشہؓ کی یہ تمنا بھی کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حیات ہوتے اور مدینہ میں جس طرح خواتین مسجد جاتی تھیں خود ملاحظہ فرماتے تو شاید خواتین کا داخلہ مسجد میں منع فرما دیتے‘   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی اجازت کو تبدیل نہ کرسکی۔ گویا حلّت و حرمت کا انحصار  نصوص پر ہے محض بلوہ اور مصلحت عامہ کی بنا پر کسی چیز کو حرام یا حلال قرار نہیں دیا جا سکتا۔

شارع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دفع شرکے لیے یہ بات تعلیم فرما دی کہ نماز کے بعد چند لمحات کے لیے مردانتظار کریں تاکہ پہلے خواتین وقار کے ساتھ چلی جائیں۔ اس کے بعد مرد دروازوں کا رخ کریں۔ جن مساجد میں خواتین کے لیے ایک حصہ مخصوص کردیا گیا ہو وہاں آنے جانے کا راستہ بھی الگ ہو‘ وہاں فتنے کا امکان صفرفی صد رہ جاتا ہے۔ ہاں‘ اگر کسی مقام پر مسجد کا وہ حصہ جو خواتین کے لیے مخصوص کیا گیا ہے کسی برائی کا مرکز بن جائے تو اصل فکر‘ برائی کے خاتمے کی کرنی ہوگی نہ کہ مسجد میں خواتین کے داخلے پر ممانعت کی۔ یہ ایسا ہی ہے کہ ایک ایسی مسجد میں جہاں صرف مرد ہی نماز کے لیے آتے ہوں‘ مسجد کے کسی گوشے میں کوئی نمازی کسی برائی کا ارتکاب کربیٹھے اور اس بنا پر مسجد میں مردوں کے داخلے پر پابندی لگا دی جائے۔ دین کے معاملات کا فیصلہ محض قیاس پر نہیں‘ حقائق اور تواتر پر کیا جاتا ہے۔ ایک نادر الوقوع قیاسی شکل پر نہیں کیا جاسکتا۔

دوسرے اہم پہلو کا تعلق اسلامی عبادات کے تعلیمی و تربیتی پہلو سے ہے۔ نماز اور خصوصی طور پر صلوٰۃ الجمعہ یا عیدین کی نمازیں تعلیم اور رشد و ہدایت کے حوالے سے ایک ادارے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ حدیث صحیح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے موقع پرخواتین کی نماز میں شرکت کی اہمیت اس حد تک بیان فرمائی کہ اگر کوئی خاتون نماز ادا کرنے کی حالت میں نہ بھی ہو جب بھی اجتماعِ عید میں آئے اور آپؐ نے خود مردوں کو خطبہ دینے کے بعد خواتین کی طرف جاکر انھیں دعوت و تلقین فرمائی۔ گویا خطبۂ عید کے تعلیمی طرز اور تزکیے کے پہلو کے پیش نظر خواتین کے عیدگاہ میں آنے کی تاکید فرمائی۔ خطبۂ جمعہ جو ہمارے ہاں روایات کی نذر ہوگیا ہے اور اکثر طولانی بیانات کی بناپر اثرانگیزی کھو بیٹھا ہے‘ حتیٰ کہ عربی خطبے میں جسے بہت کم افراد ہی سمجھتے ہیں‘ ہم آج تک ’سلطان‘ کو ’ظلِ اللہ‘‘ قرار دے کر اس کی اہانت کو اللہ تعالیٰ کی اہانت قرار دیتے رہے ہیں‘ جب کہ جابرسلطان کے خلاف کلمۂ حق بلند کرنا اسلام کی روح ہے۔ اس خطبے کا اصل مقصد کسی بھی معاملے میں اُمت کی رہنمائی اور تزکیہ تھا۔ کبھی اس کا موضوع خالصتاً عقیدے کے مسائل ہوتے اور کبھی معاشرتی مسائل‘ جیسے فاطمہ بنت قیس کے حوالے سے خطبہ۔ گویا خطبہ ایک مختصر تعلیم اور یاد دہانی کا ذریعہ تھا اوراسی بنا پر اسے عبادت میں شامل کیاگیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان اہم اور حسّاس موضوعات پر صرف مردوں کی تعلیم کافی ہے یا ایسے اہم موقع پر خواتین کو بھی تعلیم و تزکیے کی ضرورت ہے۔ دین کا مدعا یہی نظر آتا ہے کہ اگر خواتین کے لیے مناسب طور پر مسجد میں ایک حصہ متعین ہے جہاں کسی اختلاط کا امکان نہ پایا جاتا ہو تو ان کے مسجد آنے اور اپنے علم میں اضافہ کرنے اور حقوق و فرائض کے حوالے سے تعلیم و تربیت حاصل کرنے میں کسی شرعی اصول اور مقصد سے ٹکرائو نہیں ہوگا بلکہ ایسا کرنا مقاصد شریعہ کی تکمیل کا ذریعہ ہوگا۔ یہ بات نہ کسی جدیدیت کے خبط کی بنا پر کہی جارہی ہے اور نہ کسی بنیادپرستی کے الزام کے خوف سے۔ دین جیسا ہے اسے بغیرکسی کمی بیشی کے پیش کرنا ہی اعتدال کی راہ ہے۔

آج مسجد کے تدریسی‘ تربیتی اور دعوتی کردار کونمایاں کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ایک مسجد میں ایک فلور یا ایک حصہ‘ خواتین کے لیے مخصوص نہ ہو اور وہاں پر وہ    اپنے لیے باقاعدہ درسِ قرآن‘ لغتِ قرآن کی تعلیم‘ ملکی اور عالمی مسائل پر اور خواتین کے مسائل کے حوالے سے سیمی نار‘ ورکشاپ اور خطابات کا بندوبست نہ کریں۔

خواتین کی اعلیٰ دینی تربیت اور بالخصوص قرآن کریم سے وابستگی کے بغیر اُمت مسلمہ کا احیا ایک سہانا خواب ہے۔ تراویح کے دوران مرد تو ۱۵۰۰ سال سے قرآن کریم کو بغیر کسی انقطاع کے تواتر کے ساتھ سنیں اور قرآن کے حفظ و حفاظت کے عمل میں شامل ہوں لیکن خواتین کو اس عمل نیک سے الگ کردینا ایک صریح زیادتی ہے۔ کیا ان کا قرآن کریم کی مکمل تلاوت کا سننا اور اس پر غور کرنا اور مضامین قرآن کے خلاصوں کو سن کر اپنے معاملات کی اصلاح کرنا دین کا مقصود نہیں ہے۔ گویا تراویح ہو یا جمعہ کے اجتماع دونوں میں‘ اختلاط کے امکان کو ختم کرنے کے بعد‘ خواتین کا شرکت کرنا‘ قرآن و سنت کے منشا و مدعا سے پوری مطابقت رکھتا ہے۔

جہاں تک تیسرے پہلو کا تعلق ہے اللہ کے گھر میں جو بھی آتا ہے۔ عقل یہ بتاتی ہے کہ اس کا رخ اللہ کی بندگی اور اطاعت کی طرف ہوتا ہے۔ اب ہرمسجد کے ذمہ داران کا فرض ہے کہ وہ کس حد تک اس قلبی کیفیت کو مناسب نصیحت‘ ماحول اور سہولیات کے ذریعے دین میں رسوخ اور تقویٰ میں کمال کی طرف لے جاتے ہیں یا مسجد میں کسی تفریح گاہ کا سا ماحول پیدا کرکے اچھے خاصے بھلے انسانوں کو خطوات الشیطان کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ تحریکاتِ اسلامی کا منہج یہ رہا ہے کہ وہ انسانی زندگی کی گاڑی کے دونوں پہیوں کو یکساں طور پر اللہ کی رضا کے حصول اور تقویٰ کے اعلیٰ مقامات تک لے جانے کے لیے ایسا ماحول فراہم کرتی ہیں جس میں تزکیۂ نفس‘ حبِ الٰہی‘ اطاعت رسولؐ  اور طہارت و حیا کا پورا خیال رکھا جائے اور مسجد میں قیام و رکوع و سجود کے ذریعے یہ ہر نمازی کو  رزم گاہِ حیات میں طاغوت‘ کفر و ظلم کے خلاف صف آرا ہونے اور حق و صداقت کے لیے سینہ سپر ہونے کے قابل بنا سکے۔

اگر مسلکی تعصبات سے بلند ہوکر غور کیا جائے تو مسجد نبویؐ کے نظام کو ہرمسجد میں رائج کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بغیر کسی فتنے کے امکان کے خواتین کے لیے ایک حصے کو مخصوص کردیا جائے۔ مساجد کی تعمیر کے وقت اگر اس پہلو پر توجہ دے دی جائے تو ہم اُمت مسلمہ کے تزکیۂ نفس اور تربیت ِ اولاد کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے خواتین اور مردوں کے تعلق میں نمایاںا ضافہ کرسکتے ہیں۔ دینی حلقوں کا فرض ہے کہ وہ روایت پرستی سے نکل کر ان معاملات پر غور کریں۔ اگر خواتین حجاب اور شرم و حیا کے ساتھ زندگی کے بے شمار کام کرسکتی ہیں تو کس دلیل کی بنا پر وہ مسجد میں   اپنے رب کے نام کو بلند نہ کریں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

Towrads Understanding the Qura'an، سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، انگریزی ترجمہ: ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری۔ ناشر: دی اسلامک فائونڈیشن‘ مارک فیلڈ‘ لسٹر‘ برطانیہ‘ اشاعت ۲۰۰۶ئ۔ ملنے کا پتا: منشورات‘ منصورہ‘ لاہور۔صفحات:۴۸+ ۱۳۶۰۔ ہدیہ: ۱۸۰۰ روپے

بیسویں صدی میں قرآن مجید کے تراجم اور تفاسیر میں جو پذیرائی‘ شہرت اور مقبولیت مولانا مودودیؒ کی تفہیم القرآن (چھے جلدیں)کو حاصل ہوئی‘وہ کسی بھی زبان میں لکھی جانے والی‘ کسی بھی تفسیر کو نصیب نہیں ہوئی۔ اس کا صرف ترجمہ مع مختصر حواشی ان کی زندگی ہی میں   علیحدہ شائع کیا گیا تھا تاکہ جدید محاورے اور اسلوب کے حامل اس ترجمے اور بعض آیات/ مقامات کی مختصر تشریح سے زیادہ سے زیادہ لوگ مستفیض ہوسکیں۔

ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری‘ مولاناؒ کی مکمل تفسیر کا انگریزی زبان میں ترجمہ کر رہے ہیں‘  جس کی اب تک سات جلدیں طبع ہوچکی ہیں اور بقیہ حصے پر کام جاری ہے۔ پیشِ نظر کتاب مولانا کے ترجمۂ قرآن اور مختصر حواشی کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہے۔ ان حواشی کا اپنا مقام ہے لیکن    یہ تفہیم القرآن کا خلاصہ (abridged version) نہیں ہے جیساکہ اس کتاب کے ٹائٹل پر درج کیا گیا ہے۔

قرآن مجید کے متداول انگریزی ترجموں میں مارما ڈیوک پکتھال‘ اے جے آربیری‘    ٹی بی اروِنگ‘ رچرڈ بیل‘ عبداللہ یوسف علی‘ حافظ غلام سرور اور مولوی محمدعلی کے ترجمے مشہور ہوئے۔   ان میں سے بعض اپنی زبان کی وجہ سے آج کے انگریزی داں طبقے کے لیے نامانوس ہوگئے اور کچھ اظہارِ معانی کے لحاظ سے متنازع (controversial) قرار پائے۔ اس ترجمے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے معانی اور مفہوم‘ عصرِحاضر کے ایک مُستند اور قابلِ ذکر عالم کے بیان کردہ ہیں‘ اور اُن کا انگریزی زبان میں اظہار‘ ایک ایسے غیر روایتی عالمِ دین کے قلم سے ہے‘ جس کا تعلق‘ گہرا مذہبی رنگ رکھنے والے ایک جدید علمی خانوادے سے ہے۔ ڈاکٹر انصاری نے معاشیات کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی‘ اور پھر علومِ اسلام کی طرف متوجہ ہوگئے اور میک گِل یونی ورسٹی سے علومِ اسلامی میں پی ایچ ڈی کی سند لی۔ بیرونِ ملک متعدد جامعات میں تدریس کے بعد وہ آج کل بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی‘ اسلام آباد سے منسلک ہیں۔ عربی اور انگریزی زبانوں پر ان کے یکساں عبور‘ نیز گہری دینی وابستگی نے اس ترجمے کو ایک منفرد حیثیت دے دی ہے۔ اس سے آج کے انگریزی خواں قاری کو قرآن کے مفہوم تک رسائی میں یقینا مدد ملے گی۔ مثلاً وہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰہِ (اٰل عمرٰن۳:۱۰۳)کا ترجمہ Hold fast together the cable of Allahکرتے ہیں‘ جو جدید قاری کے لیے روایتی ’اللہ کی رسّی‘ (rope of Allah) سے زیادہ بامعنی ہے۔   مولانا مودودیؒ نے جس طرح لفظی ترجمے کے بجاے آزادانہ انداز میںقرآن مجید کی ترجمانی کی ہے‘ ڈاکٹر انصاری نے انگریزی میں بھی (بعض مقامات پر) مولانا کے ’ترجمے‘ کی پابندی نہیں کی‘ بلکہ اصل عربی کو پیش نظر رکھا ہے۔ جیسے سورہ قٓ آیت ۳۷ میں اِنَّ فی ذٰلِکَ لَذِکْرٰی میں   مولاناؒ اِنَّکے لیے ’یقینا‘/ ’بلاشبہ‘ کا لفظ استعمال نہیں کرتے‘ مگر انگریزی میں ڈاکٹر انصاری اِنَّ کا مفہوم verily سے ادا کرتے ہیں‘ جو اگرچہ قدیم انگریزی ہے‘ تاہم اس طرح آیت کی بہتر ترجمانی ہوتی ہے۔ اسی طرح اَلْقَارِعَۃ (القارعہ:۱‘۲)کی ترجمانی ’عظیم حادثہ‘ سے کی گئی ہے‘ جب کہ The calamity (مصیبت ِعظیم) مفہوم سے قریب تر ہے‘ تاہم اس خوب صورت‘ رواں اور آسان ترجمے میں بعض جگہ عام طور پر مستعمل محاورے کے بجاے کچھ غیرمانوس (گو درست)  الفاظ بھی استعمال ہوگئے ہیں‘ جیسے ’کھیتی‘ (زَرْع) کے لیے cultivation کے بجاے tilth (الفتح:۲۹)‘ یا mary worshipکے لیے mariolatory۔

جدید انگریزی طرزِکلام کے مطابق قرآن مجید کا یہ ’ترجمہ‘ بلاشبہہ کلامِ الٰہی کی تفہیم میں ایک قابلِ ذکر اور مفید اضافہ ثابت ہوگا۔ کتاب کا عربی متن‘ انگریزی ٹائپ (فونٹ)‘ کاغذ اور طباعت نہایت نفیس اور خوب صورت ہے۔ اُمید ہے کہ یہ علمی حلقوں اور عام انگریزی خواں طبقے میں یکساں مقبول ہوگا۔ (پروفیسر عبدالقدیرسلیم)


سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم (قرآن کے آئینے میں)، ڈاکٹر عبدالغفور راشد۔ ناشر: نشریات‘ ۴۰-اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۵۹۔ قیمت (مجلد): ۲۰۰ روپے۔

رحمت ِ عالم خاتم الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اطہر تمام کمالات و صفات کی جامع اور انسانیت و عبدیت کی منتہاے کمال ہے۔ آپؐ کی سیرتِ طیبہ ایک ایسا پاکیزہ اور ہمہ گیر موضوع ہے جس پر آج تک مختلف زبانوں میں بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ زیرنظرکتاب اُردو زبان میں لکھی گئی کتابوں میں ایک گراںقدر اضافہ ہے۔ اس میں فاضل مؤلف نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس زندگی کے تمام پہلوئوں اور اہم واقعات کو قرآنِ حکیم کی روشنی میں بڑی عقیدت اور محبت کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔ کتاب کے ۱۵ ابواب ہیں۔ ان میں اڑھائی سو سے زائد ضمنی عنوانات کے تحت سیرتِ طیبہ کے تمام اہم واقعات کو قرآنِ حکیم کے حوالے سے جامعیت کے ساتھ احاطۂ تحریر میں لانے کی سعی بلیغ کی گئی ہے۔ پہلے باب میں بعثت ِ نبویؐ سے قبل کے ادیان و مذاہب اور دوسرے باب میں‘ کتب سماویہ میں حضوؐر کے ظہور کی پیش گوئیوں کی تفصیل ہے۔ باقی ابواب میں حضوؐر کے امتیازات (بشمول اسوئہ حسنہ)‘ معراج‘ ہجرت‘ معجزات‘ غزوات و سرایا‘ ازدواجی زندگی‘ حجۃ الوداع‘ سفرِآخرت وغیرہ کا احاطہ کیا گیا ہے۔

مؤلف کا اسلوبِ نگارش عام فہم اور دل نشین ہے۔ ان کی عرق ریزی نے کتاب کو    علمی حیثیت سے اس قابل بنا دیا ہے کہ یہ ریسرچ اسکالروں کے لیے مآخذ کا کام دے سکے۔ البتہ چند مقامات نظرثانی کے محتاج ہیں‘ مثلاً صفحہ ۱۴۶ پر حضرت عامر بن فہیرہؓ کا ذکر نامناسب انداز میں کیا گیا ہے۔ وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے‘ آزاد کردہ غلام تھے۔ ان کا شمار بڑے جلیل القدر (سابقون اوّلون) صحابہؓ میں ہوتا ہے۔ سفرِہجرت میں ان کو بھی رسول اکرمؐ کی معیت کا شرف حاصل ہوا۔

صفحہ ۱۷۴ پر ابوجہل کے قاتلوں (حضرت معاذؓ اور حضرت معوذؓ) کو ’ننھے مجاہد‘‘ بتایا گیا ہے یہ صحیح نہیں۔ حضرت معوذؓ ایک جوان بیٹی (حضرت رُبیعؓ) کے والد تھے۔ اس بیٹی کی شادی غزوئہ بدر کے چند دن بعد ہوئی۔ حضرت معاذؓ  عمر میں حضرت معوذؓ سے بڑے تھے اور ۱۱ اور ۱۲ سنِ نبوت (قبل ہجرت) میں عقبہ کی دونوں بیعتوں میں شریک تھے۔ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف عمر میں    ان دونوں سے کافی بڑے تھے اس لیے اگر انھوں نے ان دونوں کو ’لڑکے‘ کہہ دیا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ دونوں ’چھوٹی عمر‘ کے نوجوان (یا ننھے مجاہد) تھے۔ صفحہ ۲۰۵ پر یہ جملہ وضاحت طلب ہے: ’’تاآنکہ آپؐ پر قرآن نازل ہوا جو بعد میں منسوخ ہوگیا‘‘۔ صفحہ ۳۴۱‘ ۳۴۲ پر سورئہ تحریم کی پہلی اور دوسری آیتوں کے نزول کا جو پس منظر بیان کیا گیا ہے‘ اکابر اہلِ علم نے اسے ناقابلِ اعتبار ٹھیرایا ہے (تفہیم القرآن‘ جلد ۶)۔ معتبر روایات کے مطابق حضوؐر نے مغافیر کے شہد کو اپنے اُوپر حرام قرار دیا تھا۔ کتاب میں اِعراب اور علاماتِ اضافت کی کمی بھی محسوس ہوتی ہے۔ صفحہ ۱۴۴ پر درز کی جگہ دراز اور صفحہ ۳۳۷ پر صُلبی کے بجاے سلبی کمپوز ہوا ہے۔ اسی طرح جحش (ج ح ش) کو ہرجگہ حجش (ح ج ش) کمپوز کیا گیا ہے۔ امید ہے اگلے اڈیشن میں ان گزارشات کو پیش نظر رکھا جائے گا۔ (طالب ہاشمی)


کعبہ پر پڑی جو پہلی نظر، مرتبہ: محمد اقبال جاوید۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز‘ ۳۴- اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۳۴۔ قیمت: ۲۲۰ روپے۔

ایک مسلمان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ اس مقام کی زیارت کرے‘ جس کو اللہ تعالیٰ نے مرکز عبادت قرار دیا ہے اور جو مرکز ملّت ہے‘ اور اللہ تعالیٰ نے اسے ہزاروں برس سے سجدوں کا مرکز قرار دیا ہے۔

انسانی زندگی سفر اور عبادت کی کسی نہ کسی شکل سے عبارت ہے‘ لیکن وہ سفرجو کعبۃ المکرمہ کے لیے کیا جاتا ہے اس کی حلاوت‘ شوق اورقلبی کیفیات کو صرف وہی جان سکتا ہے جو شعور کے ساتھ حجِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے گھر سے نکلتا ہے اور عبادت کے اس مرکز کی زیارت کرتا ہے۔ ان کیفیات اور جذب دل کی فراوانیوںکو ہزاروں لوگوں نے قلم بند کیا اور اربوں انسانوں نے اپنے دل پر نقش کیا۔ زیرنظر کتاب انھی سعادت مند زائرین کی اُردو نثرونظم میں لکھی ہوئی داستان شوق کا ایک انتخاب ہے۔اس کتاب کی تدوین کے لیے محترم پروفیسر اقبال جاوید  نے حج کے ۳۳۵ سفرناموں کا مطالعہ کیا۔ یہ کتاب ۵۲افراد کی تحریروں کے صرف اس حصے کے   انتخاب پر مشتمل ہے کہ جب زائر کی نظر سب سے پہلے خانہ کعبہ پر پڑی تو اُس کی قلبی کیفیات کیا تھیں۔

طویل  مضامین اور بھرپور حج کے سفرناموں سے یہ منتخب کردہ چند مشک بار سطور نہ صرف اظہارو بیان کی خوب صورتی کا مرقع ہیں‘بلکہ مختلف ادوار میں اور مختلف مزاجوں کے حامل ۵۲ افراد کے قلب و قلم کی وہ گواہیاں ہیں‘ جو اس مقدس سفر پر جانے والوں کو روشنی عطا کرتی ہیں اور جو نہیں جاسکتے اُن کے دل میں شوق کو اُبھارتی ہیں۔ (سلیم منصورخالد)


سفرِسعادت، پروفیسر محمد الطاف طاہر اعوان۔ ناشر: اذانِ سحر پبلی کیشنز‘ نزد منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۳۹۹۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

پروفیسر الطاف طاہر اعوان اُردو زبان و ادب کے استاد ہیں اور اپنی افتادطبع میں بہت فعال‘ متحرک اور مستعد انسان ہیں۔ ایک پاکیزہ اور دردمند دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انھیں خدمتِ خلق کا وافر جذبہ بھی عطا کیا ہے‘ چنانچہ وہ حج بیت اللہ میں اپنی معمول کی سرگرمیوں کے ساتھ‘ حتی الوسع دوسروں کی مدد کرتے‘ ان کے کام آتے اور ان کی خدمت گزاری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لاہور سے وہ سب سے پہلی پرواز سے براہِ راست مدینہ پہنچے تھے‘ اس لیے سفرنامے کے ابتدائی ابواب میں مدینۃ الرسول کا والہانہ تذکرہ قدرتی طور پر نسبتاً طویل ہے۔ ان کا شعری ذوق جگہ جگہ خاص طور پر مدینہ طیبہ کے تذکرے میں نسبتاً نمایاں ہے۔ فارسی اور اُردو اشعار‘ زائر کی کیفیاتِ دلی کے اظہار کو پُراثر بنادیتے ہیں۔

کتاب کی ایک خوبی مصنف کی جزئیات نگاری ہے جو گہری قوتِ مشاہدہ اور ایک مضبوط حافظے کے بغیر ممکن نہیں۔ سفرنامے میں کسی نہ کسی حوالے اورحیلے بہانے مصنف کے واقف کاروں اور دُور نزدیک کے عزیزوں اور نئے پرانے دوستوں‘ ان کے دوستوں اور ملنے والوں کا تذکرہ غیرمتعلق لگتا ہے۔ مگر وہ ان سب ’غیرمتعلقات‘ کو‘ اصل موضوع سے جوڑدینے کا فن جانتے ہیں۔ اس سے قاری کو حج بیتی پر آپ بیتی کا گمان ہوتا ہے۔

مصنف نے حجاج کرام کو پیش آنے والے مسائل کے ذکر میں شکوہ و شکایت کے بجاے صبروشکر اور خندہ پیشانی کے ساتھ‘ مشکلات کو برداشت کرکے اپنے اجروثواب میں اضافہ کیا ہے۔ سفرسعادت ایک طرف تو مصنف کے ۴۰ روزہ سفر و مقام کی ’داستانِ جذب و شوق‘ ہے تو  دوسری طرف عازمین عمرہ و حج کے لیے ’ایک جامع اور مکمل راہ نما کتاب‘ بھی۔ طویل ہونے کے باوجود‘ دل چسپ ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی )


ہدیۃ الوالدین ، ہدیۃ النساء ، حافظ مبشرحسین لاہوری۔ ناشر: مبشراکیڈمی ‘ لاہور۔ تقسیم کار: کتاب سراے‘ الحمدمارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات علی الترتیب: ۲۹۲‘ ۴۵۲۔ قیمت علی الترتیب: ۲۳۰ روپے‘ ۳۳۰ روپے

فاضل مصنف جواں سال ہیں اور تحریر و تالیف میں اس قدر مگن کہ متنوع موضوعات پر  ایک کے بعد ایک کتب شائع ہوکر سامنے آرہی ہیں۔ تبصرہ نگار کے علم میں ان کی کم از کم ۲۲ کتب ہیں جو سب عام فہم ہیں‘ آسان زبان میں ہیں اور سب سے بڑھ کر جدید انداز سے لکھی گئی ہیں۔ ان کی کتب میں اصل ماخذ قرآن و سنت ہیں۔ مصنف کا اندازِ تحریر یا اسلوب سوال جواب کا بھی ہے اور موضوعاتی بھی۔ وہ ہرچیز کو اس انداز میں بیان کرتے ہیںکہ کتاب میں موجود علمی خزانہ موضوعات کی صورت میں قاری کے سامنے آجاتا ہے۔ کتاب کی فہرست ہی اس قدر جامع اور مفصل ہوتی ہے کہ قاری اپنی پسند یا ضرورت کی چیز بآسانی تلاش کر کے استفادہ کرلیتا ہے۔

ہدیۃ الوالدین وعظ و تلقین کی روایتی کتاب نہیں ہے بلکہ اس میں والدین اور اولاد کے متنازعہ مسائل کی تفصیلات اور نزاعات کی وجوہات اور ان کے تدارک پرخصوصی روشنی ڈالی ہے اور قرآن و سنت کی روشنی میں ایسا منصفانہ حل پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ نہ تو والدین کی حق تلفی ہو اور نہ ہی اولاد پر ظلم ہو۔جدید دور میں جو عملی مسائل پیدا ہو رہے ہیں ان سب کا احاطہ ہوگیا ہے‘ بلاشبہہ زیربحث موضوع پر اُردو زبان میں یہ ایک جامع کتاب ہے اور مغربی اثرات کے تحت خاندانی نظام کو پہنچنے والے نقصانات سے بچائو کے لیے اس کتاب کامطالعہ مفید ہے۔

ہدیۃالنساء … ہمارے معاشرے میں خواتین کی ایک بڑی تعداد کو دین کا صحیح فہم حاصل نہیں ہے جس کے نتیجے میں نئی نسل بھی غیراسلامی عقائد کے تحت پرورش پاکر جوان ہوتی ہے۔ فاضل مصنف نے اس پر نہایت تفصیل سے مواد کو یک جا کردیا ہے۔ ابواب کے موضوعات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے: ۱- عورت پیدایش و پرورش اور تعلیم و تربیت ۲- عورت کا لباس‘ پردہ اور زیب و زینت ۳-عورت اور عباداتِ اسلام ۴- عورت کی ازدواجی و خانگی زندگی ۵-عورت کا دائرہ عمل اور دورِ جدید کے مسائل ۶- عورت کے بارے میں چند شبہات اور ان کا ازالہ ۷- خاتونِ اسلام اوراخلاقِ فاضلہ ۸- اسوئہ صحابیات۔ کتاب میں مغربی عورت کا حقیقی دنیا میں ایک مسلمان عورت سے موازنہ کیا گیا ہے۔(محمد الیاس انصاری)


ر  ٰبو، زکوٰۃ اور ٹیکس، مولانا ابوالجلال ندوی‘ مرتبہ: یحییٰ بن زکریا صدیقی۔ ناشر: سویدا مطبوعات‘ ایس ون/۲۷۲‘سعودآباد‘ کراچی۔ ملنے کے پتے: ۱- فضلی بک‘ سپرمارکیٹ‘ اُردو بازار‘ کراچی۔ ۲-کتاب سراے‘ الحمدمارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۹۸۔ قیمت: ۱۲۵ روپے۔

جب ادارہ تحقیقاتِ اسلامی میں ڈاکٹر فضل الرحمن کو ڈائرکٹر بنایا گیا تو انھوں نے اپنی متجددانہ فکر کے تحت تجارتی سود کے حرام نہ ہونے کا اعلان کیا اور علما کو اس حوالے سے چیلنج کیا۔ مولانا ابوالجلال ندوی معروف و جید عالمِ دین تھے اور جدید و قدیم علوم پر گہری نظر رکھتے تھے۔ انھوں نے اس چیلنج کے جواب میں جو مضامین لکھے وہ اس کتاب میں شامل کیے گئے ہیں۔

کتاب کا پہلا حصہ سات مضامین پر مشتمل ہے‘ اس میں ر  ٰبواور ریبہ‘ لفظ ربا اور ر  ٰبوکی تحقیق اور اس کے معانی و مفاہیم بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن و حدیث کی روایات‘ ان کے تاریخی و تدریجی نزول پر تحقیق کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔دوسرا حصہ ’غیرمسلم کی راے اور اسلام‘ کے عنوان پر مشتمل ہے۔ یہ مغربی فکر کی روشنی (روشن خیالی) میں دین کی من مانی تشریح کرنے والے تجدد پسندوں کے خیالات اور ان کے محاکمے پر مشتمل ہے۔ تیسرے حصے کا عنوان: ’زکوٰۃ کیا، ٹیکس کیا؟‘ہے۔ ڈاکٹر فضل الرحمن نے اپنے ایک مضمون میں زکوٰۃ کو ٹیکس اور ٹیکس کو زکوٰۃ قرار دیا اور کہا کہ قرآن و سنت زکوٰۃ کو عبادت نہیںکہتا بلکہ فقہا نے اسے عبادت کہا ہے۔ اس حصے میں اس کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اسلام کے معاشی پروگرام میں میراث کا بھی اہم کردار ہے‘ لہٰذا آخر میں ’آئینِ میراث‘ کے عنوان سے ایک ضمیمہ شامل کیا گیا ہے جو چھے مضامین پر مشتمل ہے۔ ’فرہنگ اصطلاحات و مشکل الفاظ‘  بہتر تفہیم اور جامعیت کا باعث ہے۔

زیرنظر کتاب اسلام کے معاشی تصورات کے ساتھ ساتھ پاکستان میں اسلام پسند اور مغرب کی اندھی تقلید کے علَم برداروں کے درمیان فکری کش مکش سے آگہی‘ نیزدین کے     خلاف سازشیں کرنے والوں کے طریقۂ واردات کی تفہیم اور مقابلے کی حکمت عملی سامنے لاتی ہے۔(میاں محمد اکرم)


صورِسرافیل، منیراحمد۔ ناشر: فاران اکیڈمی‘ الفضل مارکیٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۳۴۴۔ قیمت:۲۰۰ روپے۔

صُورِ سرافیل، ملک کے ایک نمایاں شاعر‘ جناب منیراحمد کے منظوم کلام کا مجموعہ ہے‘ اور اہل فن وفکر کے لیے لائق مطالعہ کتاب۔ ایک صحیح الفکر شاعر کے طور پر حمد‘ نعت‘ منقبت اور   خانۂ کعبہ سے اپنی محبت اور لگائو پر مشتمل نظمیں درج ہیں۔ اس کے بعد اہم اور تاریخی صلحاے اُمت‘ مثلاً قائداعظم‘ علامہ اقبال‘ سیدمودودی‘ وغیرہ کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے‘ اور نظموںکے اس مجموعے کا نام ’شخصیات و تحریکات‘ ہے۔ اگلا عنوان ’اسلام اور مسلمان‘ ہے، جو خاصی تعداد کی نظموں پر حاوی ہے۔ اس کے بعد سیاسیات‘ ادبیاتِ حاضرہ‘ الباقیات الصالحات‘ عالمِ اسلام‘ کیفیات اور غزلیات کے عنوانات سے نظمیں اور غزلیں شامل ہیں۔

ان کے اندازِ تحریر میں اصل بات قدرتِ اظہار ہے۔ وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اس میں معقولیت اور استدلال ملتا ہے ‘ نہ کہ محض جذباتیت۔یہ مجموعۂ کلام واقعی مسلم ذہنوں کو جھنجھوڑ کر آمادئہ کار بنانے کے لیے اپنے اندر بہت کچھ مواد رکھتا ہے- بجاطور پر اسے صُورِسرافیل کا نام دیا گیا ہے۔(آسی ضیائی)


تعارف کتب

  • حدود آرڈی ننس‘ حقیقت اور فسانہ، مرتبہ: ڈاکٹر سیدعزیز الرحمن۔ ناشر: زوار اکیڈمی پبلی کیشنز‘ اے-۴/۱۷‘ ناظم آباد نمبر۴‘ کراچی۔فون:۶۶۸۴۷۹۰۔ صفحات: ۱۱۱۔ قیمت:۵۵روپے۔[اپنے موضوع پر مختصر‘جامع اور جدید نقطۂ نظر پر مبنی مفید کتاب۔ حدود قوانین پر جاری میڈیامہم عروج پر ہے جو مغرب کے مذموم مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ صحیح صورت حال اور وضاحت کے لیے پیش نظر کتاب مرتب کی گئی ہے۔ چندموضوعات:
  • حدود آرڈی ننس ۱۹۷۰ء
  • حدود آرڈی ننس پر اعتراضات کا جائزہ
  • تحفظ نسواں بل پر  علما کمیٹی کی سفارشات۔]

سلیم منصور خالد ‘گوجرانوالہ

’پاکستان ___ خوف‘ دباؤ‘ بیرونی مداخلت…‘ (نومبر ۲۰۰۶ئ) کا یہ جملہ: ’’اتاترک کسی ایک وارگیمز کا اسیر ہوجاتا تو آج ترکی کا کوئی وجود دنیا کے نقشے پر نہ ہوتا‘‘ (ص ۱۳) خوش گوار تاثر دیتا ہے‘ جب کہ واقعہ یہ ہے کہ مصطفی کمال پاشا کے بارے میں خود یورپی‘ یہودی اور ترک ماخذ سے شائع ہونے والی دستاویزات ثابت کرتی ہیں کہ کمال پاشا ایک قوم پرست ہیرو سے زیادہ مغرب کے فکری سامراج کا گماشتہ تھا‘ جسے ہیرو کا درجہ دینے میں خود مغرب نے کردار ادا کیا اور جس نے ترکوں کے جذبات کو اسلامی حوالوں اور قرآن کے نام پر استعمال کیا۔  ترک عرب نسل پرستی کے جذبات کو گہرا کیا اور اسلامی تشخص کو مٹانے کے طاغوتی ایجنڈے کی پاس داری کی۔ آج ۸۲ برس گزر جانے کے باوجود ترکیہ‘ ظالم سیکولرازم کے شکنجے میں پھنسا ہوا ہے۔ وہ یورپی یونین کی طرف بے حال ہوکر لپکتا ہے‘ مگر یورپ اسے دھتکار کر کہتا ہے: ابھی مزید اسلام سے دُور ہٹو۔

اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل کے بارے میں یہ تاثر کہ پہلی بار انھیں اپنے مقام‘ کردار اور استحقاق کا احساس ہوا (ص ۲۰)‘ توجہ طلب ہے۔ اس میں کسی شک و شبہے کی گنجایش نہیں ہے کہ موجودہ اسلامی نظریاتی کونسل‘ اسلامی سے زیادہ تجدد پسند نظریاتی کونسل ہے۔ اس کونسل کے موجودہ چیئرمین اور اکثر ارکان کا فکری قبلہ جنرل مشرف کی کھلنڈرانہ لادینیت اور حددرجہ معذرت خواہانہ جدیدیت سے روشنی پاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس ادارے نے سب سے زیادہ مؤثرانداز میں اپنے مقام‘ کردار اور استحقاق کے شعور کا مظاہرہ جناب تنزیل الرحمن کی صدارت کے دور میں کیا جنھوں نے اس کونسل کی سال ہا سال کی کارکردگی کو رپورٹوں کی صورت میں شائع کرکے بامعنی دبائو بڑھایا (لیکن سیاسی اور صحافتی برادری نے ساتھ نہ دیا)۔ بعدازاں جناب ایس ایم زماں نے بھی بڑی حکمت کے ساتھ اسی سمت میں کام کیا‘ جب کہ موجودہ نظریاتی کونسل کے    کرتا دھرتا تو اس کا ۴۴ سالہ ریکارڈ دریابرد کرنے کے مشن پر گامزن ہیں۔


سعید اکرم ‘ چکوال

’غیرمسلموں میں دعوت، چند تجربات‘ (نومبر ۲۰۰۶ئ) نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ محترم صوفی محمد اکرم نے اپنے تجربات بیان کر کے دل و دماغ میں فکر کی ایک تیز لہر دوڑا دی ہے۔ خاص طور پر ایک عیسائی کا یہ کہنا کہ مسلمانوں کے مقابلے میں اس کے عیسائی بھائیوں کا کردار بہتر ہے (ص ۸۷) پڑھ کر کانپ کر رہ گیا۔ میری ایک عیسائی سے دوستی ہے‘ لیکن مجھے کبھی انھیں اپنے سچے دین کی طرف مائل کرنے کی توفیق نہیںہوئی۔


آمنہ صدیقہ ‘منڈی بہاء الدین

’سنیے، آپ کا بچہ آپ سے کچھ کہہ رہا ہے‘ (نومبر ۲۰۰۶ئ) میں غوروفکر اور عمل کے لیے اہم نکات سامنے آئے۔


ڈاکٹر محمد مشرف حسین انجم ‘سرگودھا

پروفیسر خورشید احمد صاحب کا مضمون ’جرنیلی آمریت کی تباہ کاریاں‘ (اکتوبر ۲۰۰۶ئ) بہت پسند آیا۔ آپ نے جس خوب صورت اور دلیرانہ انداز کے ساتھ کلمۂ حق بلند کیا ہے اور جرنیلی آمریت کی تباہ کاریوں سے پردہ اٹھایا ہے وہ آپ ہی کا حصہ ہے۔ کئی در وا ہوئے‘ کئی انکشافات سامنے آئے۔ اللہ ہمارے ملک کو      جرنیلی آمریت کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھے‘ آمین!


ڈاکٹر عبدالحی ابڑو ‘اسلام آباد

پروفیسر خورشید صاحب کا شیخ ابوبدرؒ (اکتوبر ۲۰۰۶ئ) پر تعزیتی تاثراتی شذرہ خوب ہے مگر عنوان میں تسامح ہوا ہے: ’امام خیرالعمل‘ درست نہیں۔ عربی میں شیخ کو ’رائد العمل الخیری‘ کا لقب دیا جاتا ہے (جس کا مطلب ہے: رفاہی یا رفاہ عامہ کے کاموں کے امام/قائد)۔ اسے اُردو ترکیب میں ڈھالنا مقصود تھا تو امام عمل الخیر یا امام العمل الخیری کہا جاتا‘ جب کہ موجودہ ترکیب کا مفہوم ہے: (خیرالعمل یعنی)نماز کے امام۔ اس لیے کہ ’خیرالعمل‘ نماز سے استعارہ ہوتا ہے!

خرم مرادؒ کے شہ پارے ایمان کو تازگی اور یقین کو ثبات و استحکام اور دلوں کو زندگی بخشنے والے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔


ابوسعد‘راجن پور

’رمضان المبارک ‘ (اکتوبر ۲۰۰۶ئ) ایمان افروز مضمون تھا‘ تاہم اس میں فتح مکہ کی تاریخ ۱۰ رمضان ۸ھ لکھی گئی ہے جوغلط ہے۔ مکہ ۲۱ رمضان کو فتح ہوا۔ (سیرت ابن ہشام‘ الرحیق المختوم)


محمد عالم ‘گجرات

’عید سعید: چند غورطلب پہلو‘ (اکتوبر ۲۰۰۶ئ) میں جن چار راتوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے‘       صحیح نہیںہے‘ ایسی تمام روایات کا تعلق ضعیف‘ مجہول‘ منکر وغیرہم سے ہے اور سب کو فقہاے کرامؒ اور محدثینؒ نے موضوعات میں شامل کیا ہے۔ ان میں رمضان المبارک کی راتوں اور خاص کر لیلۃ القدر کا ذکر نہیں ہے جس کی تلاش میں رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا جاتا ہے۔

بے خوفی

جو انسان خدا سے ڈرتا ہے وہ خدا کے سوا کسی چیز سے نہیں ڈرتا۔ خدا کے ڈر کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ دوسرے تمام خطروں اور اندیشوں کو دل سے نکال پھینکتا ہے۔ انسان کہیں بھی ہو اور اس کے آگے کتنے ہی خطرات و مصائب پرے جمائے کھڑے ہوں لیکن اگر خدا کا یقین اور اس کا خوف اس کے اندر موجود ہے تو وہ اپنے آپ کو فوجوں کے جلو اور لشکروں کی حفاظت میں سمجھتا ہے۔ اس خوف سے جو بے خوفی انسان میں پیدا ہوتی ہے اس کی خاص خصوصیت اور برکت یہ ہے کہ وہ بے خوفی کے باوجود کہیں بال برابر بھی انصاف اور سچائی سے انحراف نہیں کرتا… اس بے خوفی کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ مادی سازوسامان اور تعداد کی کثرت و قلت پر منحصر نہیں ہوتی۔ وہ کثرت کے اندر بھی باقی رہتی ہے اور قلت کے اندر بھی قائم رہتی ہے۔ یہ نہیں ہے کہ جہاں تعداد زیادہ ہوئی وہاں شیروں کی طرح بہادر بن گئے اور جہاں تعداد کم ہوئی وہاں بھیڑوں کی طرح بھاگ کھڑے ہوئے...

اس  چیز [بے خوفی] کے پیدا کرنے میں اصلی دخل آپ کی سیرت کو ہے نہ کہ آپ کی زبان کو۔ اس وجہ سے اپنی سیرت کی نگرانی کرنی چاہیے کہ اس کے اندر خوف اور بزدلی کے اثرات سرایت نہ کرنے پائیں۔ آپ اپنے دل کو جس قدر مضبوط کرنا چاہیں اسی قدر اپنے معاملے کو خدا سے صاف رکھیں۔ آپ کا معاملہ   اللہ سے جس قدر صاف ہوگا اس قدر آپ کو خدا پر اعتماد‘ اور اس سے حُسنِ ظن ہوگا اور جس قدر اللہ تعالیٰ سے آپ کا حُسنِ ظن بڑھے گا اسی قدر آپ کی قوت قلب میں اضافہ ہوگا۔ جو لوگ خدا کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی نہیں بسر کرتے ان کو نہ تو خدا پراعتماد ہوتا نہ اس سے حُسنِ ظن اور اسی وجہ سے وہ برابر خوف و ہراس میں مبتلا رہتے ہیں۔ خدا سے مایوسی اور بدگمانی کی وجہ سے ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ خدا سے روٹی مانگتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ پتھر دے گا اور مچھلی کی طلب کرتے ہیں اور ڈرتے ہیں کہ وہ سانپ بھیجے گا۔ آپ اپنے دل کو اس طرح کے وسوسوں سے پاک رکھیے۔ جس جگہ ہیں‘ دل‘ دماغ اور ہاتھ پائوں کی قوتیں جس قدر ساتھ دیں خدا کا کلام کرتے رہیے۔ جو سپاہی اپنی ڈیوٹی پر ہے وہ اپنے مالک کی طرف سے اپنی مزدوری کا بھی مستحق ہے اور اپنی حفاظت کا بھی۔ اور اللہ تعالیٰ نہ مزدوری دینے میں بخیل ہے نہ حفاظت کرنے میں کمزور۔      ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ آپ جس ماحول میں بھی ہوں ایک سچے مسلم کی زندگی بسر کیجیے۔ (’اشارات‘، مولانا امین احسن اصلاحی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۳۰‘ عدد ۱‘ محرم ۱۳۶۶ھ‘ دسمبر ۱۹۴۶ئ‘ ص ۱۰-۱۱)