بسم اللہ الرحمن الرحیم
جمہوری ممالک میں چار سے پانچ سال ایک ایسی مدت ہے جس میں ایک حکومت یا قیادت کی کارکردگی‘ پالیسیوں کی صحت و عدمِ صحت اور قبولیت یا غیر مقبولیت کو جانچنے کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو پاکستان کا بلاشرکت غیرے حکمران بنے‘ اب ساڑھے پانچ سال سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ اگرچہ ان کی اور ان کے امریکی سرپرستوں کی نگاہیں ۲۰۰۷ء اور ۲۰۱۲ء پر لگی ہوئی ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کے پائوں کے نیچے سے زمین تیزی کے ساتھ سرک رہی ہے۔ جن بلند بانگ دعوئوں کے ساتھ وہ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو فوج کی طاقت استعمال کرتے ہوئے اقتدار پر قابض ہوئے تھے وہ ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ ہوا کے رخ کا اندازہ لاکھوں افراد کے چار مظاہروں اور ۲ اپریل کی ملک گیر ہڑتال سے کیا جا سکتا ہے جو ساری سرکاری مخالفت‘ میڈیا کے ہیجانی طوفان‘ ملک کے طول و عرض میں متحدہ مجلس عمل کے ہزاروں کارکنوں کی پیش از ہڑتال گرفتاری اور پیپلز پارٹی کی زبانی ہمدردی لیکن ہڑتال سے مکمل عدم تعاون کے باوجود ایک مکمل اور مؤثر ترین عوامی احتجاج اور مجلس عمل پر عوامی اعتماد کا اظہار تھی۔
یہ عوامی جدوجہد مجلس عمل کی قیادت میں قانون کی پابندی اور جمہوری روایات کے مطابق ملک کی سیاست میں ایک نئی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ اس میں مجلس عمل کے کارکنوں کے ساتھ عوام کی بڑھتی ہوئی شرکت زمینی حقائق کی صحیح تصویرکشی کرتے ہیں۔ مجلس عمل نے تمام سیاسی قوتوں کو بشمول مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی اس قومی احتجاج میں شرکت کی دعوت دی لیکن عمران خان (تحریکِ انصاف) کے سوا کسی نے بھرپور شرکت نہیں کی۔ اس طرح مجلس عمل کو تن تنہا اپنی عوامی قوت اور تائید کا اندازہ کرنے اور اسے کامیابی کے ساتھ متحرک کرنے کا بھی ایک تاریخی موقع حاصل ہوگیا جس کا اعتراف ان تمام سیاسی تجزیہ نگاروں اور کالم نویسوں نے کیا ہے جو مجلس عمل کے مؤید نہ ہوتے ہوئے بھی سیاسی حقائق کا اعتراف کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے اور جن کا کام بقول سیکرٹری جنرل مسلم لیگ (ق) صرف ’’سرکاری سچ‘‘ کی تشہیر نہیں۔ رہا مجلس عمل کے احتجاج کا پُرامن اور جمہوری کردار اور منظم انداز کار‘ تو اس کا اعتراف تو جنرل پرویز مشرف تک کو رائٹر کے نمایندے کو دیے جانے والے ایک حالیہ انٹرویو میں کرنا پڑا:
حقیقی جمہوریت کے احیا‘ پاکستان کی آزادی اور حاکمیت کے دفاع‘ اس کے اسلامی تہذیبی تشخص کی حفاظت اور عوام کے مسائل کے حل اور مصائب سے نجات کے لیے جو عوامی تحریک اب شروع ہوگئی ہے‘ وہ اگر ایک طرف پاکستان کے مستقبل کے رخ کو متعین کرنے میں تاریخی سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے تو دوسری طرف اس کے ذریعے وہ ایشوز بھی کھل کر قوم کے سامنے آگئے ہیں جو حکومت اور اس کو چیلنج کرنے والی عوامی قوت (مجلس عمل ) کے درمیان باعث نزاع ہیں۔ چونکہ یہ تحریک اب عوامی احتجاج کے دور میں داخل ہوگئی ہے اور صرف سیاسی کارکن ہی نہیں بلکہ عام شہری‘ تاجر‘ دانش ور‘ علما اور طلبہ‘ سب اس میں شریک ہو رہے ہیں اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس تحریک کے مثبت قومی اہداف کو بالکل وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا جائے اور حکومت کے ترجمان اور ان کے حواری قلم کار حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کر کے اور جھوٹی خبروں سے کنفیوژن پھیلانے کی جو مہم چلا رہے ہیں اس کا پردہ پوری طرح چاک کر دیا جائے ۔
کہا جا رہا ہے کہ وردی کوئی مسئلہ نہیں‘ اصل مسئلہ تو معاشرتی ترقی اور میگا پروجیکٹس کی تکمیل کا ہے اور گویا حزب اختلاف ان کی مخالف ہے‘ جب کہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھی معاشی ترقی‘ ہمسایوں سے دوستی اور عالمی برادری سے ہم آہنگی کے لیے ساری دوڑ دھوپ کر رہے ہیں۔
سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر ہم نے انگریز اور ہندو قیادت دونوں کے خلاف جنگِ آزادی کن مقاصد کے لیے لڑی تھی؟ اگر مسئلہ صرف معاشی ترقی اور میگا پروجیکٹس ہی کا تھا اور عالمی قوتوں سے ہم آہنگی اصل منزل مراد تھی تو پھر برطانیہ سے‘ جو اس وقت کی سوپر پاور تھی‘ اور جس کے استعماری راج کا ہدف ہی ترقی اور مغرب کے نمونے پر ملک کی تعمیر تھا‘ لڑائی کس بات کی تھی؟ ریل کی پٹڑی اور سڑکوں کا جال تو انگریز کے دور میں بچھا دیا گیا تھا۔ صنعتی انقلاب بھی اس دور میں شروع ہوگیا تھا‘ نیا تعلیمی نظام بھی انھی کا مرہونِ منت تھا۔ ان کا دعویٰ تھا ہی یہ کہ ہم ساری دنیا میں ترقی اور تہذیبِ نو کے پرچارک ہیں۔ پھر مخالفت اور تصادم کس لیے تھا؟
حالات کا جتنا بھی تجزیہ کیا جائے‘ یہ بات بالکل نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ اصل لڑائی آزادی‘ حاکمیت‘ اپنے دین‘ اپنی اقدار‘ اپنی تاریخ اور اپنے قومی و ملّی تشخص کی حفاظت اور ترقی کی تھی۔ معاشی ترقی وہی معتبر ہے جو قوم و ملک کی آزادی اور اقدارِ حیات کے مطابق اور ان کو تقویت دینے والی ہو۔ عالمی قوتیں ہوں یا ہمسایہ ممالک‘ سب سے دوستی اور تعاون صرف اس فریم ورک میں مطلوب ہے جس میں ملک و ملّت کی آزادی اور نظریاتی و تہذیبی تشخص مضبوط اور محفوظ ہو۔ صرف معاشی اہداف تو برطانیہ کی حکمرانی میں بھی حاصل ہوسکتے تھے اور آزادی کی صورت میں ملک کی تقسیم کے بغیر بھی مشترک مقاصد کی حیثیت اختیار کر سکتے تھے۔ پاکستان کے قیام کا اصل جواز (raison de'tere) تو یہ صرف یہ تھا کہ نہ صرف ملک آزاد ہو بلکہ مسلمان بھی آزاد ہوں اور وہ اپنے دین و ایمان‘ اپنے اصول و اقدار اور اپنے تہذیبی تشخص کی مناسبت سے ترقی کی منزلیں طے کر سکیں۔
علامہ اقبال ؒ نے آخری زمانے (مارچ ۱۹۳۸ئ) میں واضح کر دیا تھا کہ انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے سے ہمارا مقصد یہی نہیں کہ ہم فقط آزاد ہو جائیں‘ بلکہ ہمارا اول مقصد یہ ہے کہ اس آزادی کا نتیجہ اسلام کی بنیاد پر ایک دارالسلام کی صورت میں ظاہر ہو اور مسلمان طاقت ور بن جائیں لیکن اگر یہ نتیجہ حاصل نہ ہو سکے تو پھر ایسی آزادی پر ہزار مرتبہ لعنت۔ (مقالاتِ اقبال، مرتبہ عبدالاحد معین‘ ص ۳۳۷-۳۳۸)
وہ لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہوجائیں اور اپنے مطالبات پیش کرنے میں خوف و خطر کو پاس نہ پھٹکنے دیں۔ نیز اپنے ملّی‘ مذہبی‘ معاشرتی اور روایاتی حقوق کی حفاظت کے لیے نبردآزما رہیں۔ میں کانگریس سے یا ہندوئوں سے مساوات کے اصول پر آبرومندانہ مصالحت کرنے پر آمادہ ہوں لیکن میں مسلم قوم کو ہندوئوں یا کانگریس کا حاشیہ بردار نہیں بنا سکتا۔ (خطاب جبل پور‘ ۷ جنوری ۱۹۳۸ئ‘ بحوالہ گفتار قائداعظم‘ مرتبہ احمد سعید‘ قومی کمیشن براے تحقیق تاریخ و ثقافت‘ اسلام آباد‘ ص ۱۹۱)
علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے اقتصادی ترقی کے سراب کا پردہ چاک کرتے ہوئے بتایا کہ ہندو قیادت کا مقصد مسلمانوں کو دینی‘ اخلاقی اور تہذیبی اعتبار سے اپنا محکوم بنانا ہے۔ انھوں نے فرمایا:
وہ ہمیں بندے ماترم جیسے مشرکانہ اور ملحدانہ گیت گانے پر مجبور کر رہی ہے۔ مجھے بحیثیت مسلمان‘ دوسری اقوام کے تمدن‘ معاشرت اور تہذیب کا پورا احترام ہے لیکن مجھے اپنے اسلامی کلچر اور تہذیب سے بہت زیادہ محبت ہے۔ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ ہماری آنے والی نسلیں اسلامی تمدن اور فلسفے سے بالکل بے بہرہ ہوں۔ مسلمانوں کے لیے یہ امر قطعاً ناقابلِ قبول ہے اور ناقابلِ برداشت ہے کہ وہ اپنی حیات اور ممات‘ زبان‘ تہذیب و تمدن ایک ایسی اکثریت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں کہ جس کا مذہب‘ تہذیب اور تمدن اس سے قطعاً مختلف ہے اور جن کا موجودہ سلوک مسلمانوں کے ساتھ نہایت برا ہے بلکہ مذموم اور غیرمنصفانہ ہے۔ (گفتار قائداعظم‘ ص ۲۰۶)
مسلمانوں کے لیے پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے پاس تو تیرہ سو برس سے ایک مکمل پروگرام موجود ہے اور وہ قرآن پاک ہے۔ قرآن پاک ہی میں ہماری اقتصادی‘ تمدنی و معاشرتی اصلاح و ترقی کے علاوہ سیاسی پروگرام بھی موجود ہے۔ میرا اس قانونِ الٰہیہ پر ایمان ہے اور جو میں آزادی کا طالب ہوں وہ اسی کلامِ الٰہی کی تعمیل ہے۔ قرآن پاک ہمیں تین چیزوں کی ہدایت کرتا ہے: آزادی‘ مساوات اور اخوت۔ بحیثیت ایک مسلمان کے‘ میں بھی انھی تین چیزوں کے حصول کا مستحق ہوں۔ تعلیمِ قرآن میں ہی ہماری نجات ہے اور اس کے ذریعے سے ہم ترقی کے تمام مدارج طے کر سکتے ہیں۔ (ایضاً،ص ۲۱۶)
دونوں قوموں کی آزادی کے لیے پاکستان بہترین ذریعہ ہے۔ مسلمانوں کو ہندو صوبوں میں پِس جانے کا خوف نہیں کرنا چاہیے۔ مسلم اقلیت والے صوبوں کے مسلمانوں کو اپنی تقدیر کا مقابلہ کرنا چاہیے لیکن مسلم اکثریت والے صوبوں کو آزادی دلانی چاہیے تاکہ وہ اسلامی شریعت کے مطابق اپنی زندگی بسر کر سکیں۔ (ایضاً،ص ۲۵۴)
حیدر آباد دکن میں راک لینڈ کے سرکاری مہمان خانے میں نوجوانوں کے اجتماع میں سوال جواب کی محفل میں پاکستان کے لیے اسلامی نظام کی بحث میں بڑے بنیادی نکات کی وضاحت کی:
قائداعظم:جب میں انگریزی زبان میں مذہب کا لفظ سنتا ہوں تو اس زبان اور قوم کے محاورے کے مطابق میرا ذہن خدا اور بندے کی باہمی نسبتوں اور رابطے کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ میں بخوبی جانتا ہوں کہ اسلام اور مسلمانوں کے نزدیک مذہب کا یہ محدود اور مقید مفہوم یا تصور نہیں ہے۔ میں نہ تو کوئی مولوی ہوں نہ مُلّا‘ نہ مجھے دینیات میں مہارت کا دعویٰ ہے‘ البتہ میں نے قرآن مجید اور اسلامی قوانین کے مطالعے کی اپنے تئیں کوشش کی ہے۔ اس عظیم الشان کتاب میں اسلامی زندگی سے متعلق ہدایات کے باب میں زندگی کے روحانی پہلو‘ معاشرت‘ سیاست‘ معیشت‘ غرض انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو قرآن مجید کی تعلیمات کے احاطے سے باہر ہو۔ قرآن کی اصولی ہدایات اور اس کا سیاسی طریقۂ کار نہ صرف مسلمانوں کے لیے بہترین ہے بلکہ اسلامی سلطنت میں غیرمسلموں کے لیے بھی سلوک اور آئینی تحفظ کا اس سے بہتر تصور ممکن نہیں۔
قائداعظم: ترکی حکومت پر میری نظر میں سیکولر اسٹیٹ کی سیاسی اصطلاح اپنے پورے مفہوم میں منطبق نہیں ہوتی۔ اب اسلامی حکومت کے تصور کا یہ بنیادی امتیاز پیش نظر رہے کہ اطاعت اور وفاکیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے اس لیے تعمیل کا مرکز قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ کسی پارلیمان کی‘ نہ کسی شخص یا ادارے کی۔ قرآن کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کے حدود متعین کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول اور احکام کی حکمرانی ہے۔ آپ جس نوعیت کی بھی حکمرانی چاہیں‘ بہرحال آپ کو سلطنت اور علاقے کی ضرورت ہے۔
قائداعظم: مسلم لیگ‘ اس کی تنظیم‘ اس کی جدوجہد‘ اس کا رخ اور اس کی راہ___ سب اسی سوال کے جواب ہیں۔ (ایضاً،ص ۲۶۱-۲۶۲)
ہم نے قدرے تفصیل سے قائداعظمؒ کے تصور پاکستان کے چند پہلو اس لیے بیان کیے ہیں کہ یہ بات واضح ہو جائے کہ بلاشبہہ ہمیں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے معاشی استحکام مطلوب ہے لیکن اصل ہدف مسلم اُمت کی آزادی‘ حاکمیت اور تہذیبی و دینی تشخص کی حفاظت اور ترقی ہے۔ معاشی ترقی اسی کُل کے ایک حصے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے آج بھی پاکستان کی بقا‘ ترقی اور استحکام کا انحصار صرف معاشی عوامل پر نہیں بلکہ سیاسی‘ تہذیبی اور معاشی ‘سب عوامل کے ہم آہنگ اور ہم رنگ ہونے پر ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے خلاف جو تحریک آج ملک کے طول و عرض میں پروان چڑھ رہی ہے‘ اس کا تعلق محض ان کی ذات سے نہیں بلکہ اصل چیز وہ نظامِ حکومت‘ وہ طرزِ حکمرانی اور وہ ملکی اور بین الاقوامی پالیسیاں ہیں جن کا وہ عنوان بن گئے ہیں۔ ساڑھے پانچ سال میں ان کے عزائم کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اگر ان کے اس نظامِ حکومت کو دو اور دو چار کی طرح واضح الفاظ میں بیان کیا جائے تو اس کے سات اجزا نمایاں ہو کرسامنے آتے ہیں۔ یہ نکات ان کے بیانات ہی نہیں‘ ان کی حکومتی پالیسیوں اور عملی اقدامات سے واضح ہوتے ہیں۔ عوامی احتجاجی تحریک ان ہی کے خلاف ہے۔
m فردِ واحد کی حکومت: ان کے نظامِ حکومت کی پہلی خاصیت فردِ واحد کی حکومت ہے۔ وہ دستور‘ قانون‘ ضابطوں اور روایات کسی کا بھی احترام نہیں کرنا جانتے اور خود اپنے بنائے دستور اور ضابطے کے بھی قائل نہیں۔ انھوں نے شخصی حکمرانی کا راستہ اختیار کیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دستور ایک غیرمتعلق کتاب اور پارلیمنٹ غیر مؤثر ادارہ بن کر رہ گئے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی اپنی بنائی ہوئی حکومت بھی اس کھیل میں ایک بے بس تماشائی ہے۔ بظاہر وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہے لیکن اس کی عملی حیثیت چیف آبزور (معزز ترین تماشائی) اور من کہ ایک فدوی(most obedient servant) سے زیادہ نہیں۔ پالیسی کے معمولات ہوں‘ یا عالمی رہنمائوں سے مذاکرات اور معاہدات کے معاملات یا نظامِ حکومت کو چلانے کے لیے انتظامی اقدامات‘ حتیٰ کہ معمولی معمولی تقرریاں اور تبادلے___ سب کا انحصار ایک فردِ واحد پر ہے۔ ادارے مضمحل اور غیرمؤثر ہوکر رہ گئے ہیں اور قوانین اور ضابطے کاغذ پر بے جان‘ بے معنی اور بے توقیر الفاظ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ یہ جمہوریت اور اسلامی اصول حکمرانی کی ضد ہے اور موجودہ احتجاجی تحریک کا پہلا ہدف اس شخصی حکمرانی کو چیلنج کر کے دستور‘ قانون اور اداروں کی بالادستی کا قیام ہے۔
دستور نے فوج کے تمام افسروں اورجوانوں کے لیے لازم کیا ہے کہ وہ سیاست میں ملوث نہ ہوں اور فوج پوری قوم کی معتمد علیہ اور صرف اور صرف دفاع وطن کے لیے مخصوص ہو۔ فوج کی قیادت کی تربیت اس خاصی قسم کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے ہوتی ہے اور وہ سیاست اور نظامِ حکمرانی کو چلانے کی اہلیت اور ذہنیت دونوں سے عاری ہوتے ہیں۔ پھر فوج کے سیاست میں آجانے سے وہ ایک متنازعہ قوت بن جاتی ہے جس سے اس کی دفاعی صلاحیت بری طرح مجروح ہوتی ہے۔ جنرل مشرف نے جو پالیسی اختیار کی ہے‘ اس کی وجہ سے فوج کا عمل دخل سیاست اور حکمرانی کے ہر شعبے میں اس طرح ہوگیا ہے کہ اب ان تمام میدانوں میں اسے حریف تصور کیا جانے لگا ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ خطرناک کیفیت پیدا ہو رہی ہے کہ عوام چند جرنیلوںہی کو ہدف تنقید و ملامت نہیں بنا رہے بلکہ فوج بحیثیت ایک ادارے کے اپنی عزت و احترام کھو رہی ہے اور اس کے خلاف بے اعتمادی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اب اس کی طرف نگاہیں قوم اور وطن کے محافظ کی حیثیت سے نہیں اٹھ رہیں۔ وہ بگاڑ اور لوٹ کھسوٹ میں شریک اداروں میں ایک شریک کار کی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ یہ صورت حال دفاع وطن اور خود فوج کی عزت اور وقار کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ وردی پر اصرار کرکے جنرل پرویز مشرف نے اپنی ساکھ ہی کو خاک میں نہیں ملایا‘پوری فوج کے وقار اور عزت کو بھی پامال کیا ہے۔ جس طمطراق سے وہ دفاعی حصار میں منعقد کیے جانے والے سیاسی جلسوں میں فوجی وردی میں شرکت کر رہے ہیں اور ایک مخصوص سیاسی ٹولے کے لیے مہم چلا رہے ہیں‘ اس نے فوج کو بحیثیت ادارہ‘ سیاست کی دلدل میں گھسیٹ لیا ہے اور یہ مقدس وردی اس بری طرح داغ دار کر دی گئی ہے کہ اسے محض فوجی وردی قرار دینا ایک سنگین مذاق بن گیا ہے۔
جمہوری احتجاجی تحریک کا دوسرا ہدف فوج کو ایک بار پھر ایک مضبوط اور مؤثر دفاعی ادارہ بنانا‘ اسے سیاست کی آلایش سے پاک کرنا‘ اور پورے فوجی نظام کو دستور کے مطابق سول نظام کے تابع اور اس کا معاون بنانا ہے‘ حکمران رکھنا نہیں۔
کبھی پاکستان کو عالم اسلام میں عزت اور وقار کا مقام حاصل تھا اور آج عالم اسلام کے عوام پاکستان کی قیادت کو صرف امریکا کا بغل بچہ سمجھ رہے ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی جتنی بے آبرو آج ہے‘ اتنی کبھی نہ تھی۔ اور اب تو صاف کہا جا رہا ہے کہ ہماری کوئی خارجہ پالیسی نہیں‘ ہم اپنے قومی مفادات کی قیمت پر بھی امریکا کے مفادات بخوشی پورا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم اس کے کارندے کا کردار ادا کرنے میں کوئی تکلف نہیں۔ بھارت سے دوستی بھی امریکا کے زیرہدایت کی جارہی ہے‘ اور عوامی ردعمل جاننے کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنے تک کے محاسے (feeler) اس کے اشارے پر دیے جا رہے ہیں۔ ایران پر امریکی دبائو میں ہم بھی کردار ادا کررہے ہیں اور نوبت بہ اینجا رسید کہ یہ تک کہہ رہے کہ ایک ہمسایہ مسلمان ملک پر ایک صریح ظالمانہ حملے کی صورت میں ہم مظلوم کا ساتھ دینے والے نہیں بلکہ خاموش تماشائی ہوں گے جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب کل یہی کچھ ہمارے ساتھ ہو تو کوئی ہمارے حق میں آواز اٹھانے والا بھی نہ ہو۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!
بات صرف سیاسی آزادی اور حاکمیت کے باب میں سمجھوتے تک محدود نہیں‘ اس دورحکومت میں خطرناک رجحانات کو ہوا دی جا رہی ہے: نظریاتی انتشار‘ دو قومی نظریے کے بارے میں شدید ژولیدہ فکری و مغرب کی آبرو باختہ تہذیب و ثقافت کا فروغ‘ بھارت کی مشرکانہ اور ہندو تہذیبی یلغار کے لیے خوش آمدید کا رویہ___ یہ سب باتیں پاکستان کے وجود اور اس کی تہذیبی شناخت کے لیے شدید خطرے کا باعث ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ مسلم لیگ (ق) کی قیادت عام حالات میں اسلام اور مسلمانوں کی اقدار ہی کی باتیں کیا کرتی تھی‘ اب وہ بھی بھارت کے ساتھ مشترک تہذیب کے راگ الاپ رہی ہے۔ کوئی مشترک پنجابی تہذیب کی بات کرتا ہے تو کوئی اپنے ماتھے پر تلک لگاکر‘ ہندو جنونیوں کے لیڈر شری ایل کے ایڈوانی کو لاہور کے قلعے میں مندر کا سنگِ بنیاد رکھنے کی دعوت دے رہا ہے ؎
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
اسی لَے میں ایک آواز ’’اعتدال پسندی اور روشن خیالی‘‘ کی بلند کی جارہی ہے جس کے نام پر کبھی داڑھی اور حجاب کا مذاق اڑایا جاتا ہے‘ کبھی چوروں کے ہاتھ کاٹنے کو وحشت اور ظلم قرار دیا جاتا ہے‘ کبھی حدود قوانین کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے تو کبھی توہین رسالتؐ کا قانون کانٹا بن کر چبھنے لگتا ہے۔ کبھی بسنت کے نام پر شراب و شاہد اور فحاشی کا بازار گرم کیا جاتا ہے‘ کبھی مخلوط میراتھن ریس کا ڈراما رچایا جاتا ہے‘ کبھی دینی تعلیم اور مدارس کو زیرِعتاب لایا جاتا ہے اور کبھی انتہاپسندی کے نام پر ہر اصول و ضابطے اور تمام اقدار و روایات کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ ترقی نام ہے بے حجابی‘ عریانی اور فحاشی کو فروغ دینے کا۔
یہ سب کچھ اقبال اور قائد اعظم کے تصورِجدیدیت کے نام پر کیا جا رہا ہے حالانکہ قائداعظم نے جس پاکستان کے لیے جدوجہد کی تھی اور مسلمانوں نے قربانیاں دی تھیں وہ اسلامی تہذیب و معاشرت کی حفاظت اور فروغ کے ہدف کے لیے تھی‘ مغربی تہذیب اور ہندو ثقافت کے فروغ کے لیے نہیں۔ اور رہا اقبال‘ تو اس نے تو ساری زندگی ہی جس کارعظیم کے لیے وقف کی اس میں ترقی اور روشن خیالی کے اس فتنے کا پردہ چاک کرنے کو مرکزیت حاصل تھی۔ جاوید نامہ میں کس بالغ نظری اور کس صاف گوئی اور راست فکری کے ساتھ وہ کہتا ہے:
شرق را از خود برد تقلیدِ غرب
باید ایں اقوام را تنقیدِ غرب
قوتِ مغرب نہ از چنگ و رباب
نے زرقصِ دخترانِ بے حجاب
نے ز سحرِ ساحرانِ لالہ روست
نے ز عریاں ساق ونے از قطعِ موست
محکمی او را نہ از لا دینی است
نے فروغش از خطِ لاطینی است
حکمت از قطع و بریدِ جامہ نیست
مانعِ علم و ہنر عمّامہ نیست
علم و فن را اے جوانِ شوخ و شنگ
مغز می باید نہ ملبوسِ فرنگ
اندریں رہ جز نگہ مطلوب نیست
ایں کُلہ یا آں کُلہ مطلوب نیست
فکرِ چالا کے اگر داری بس است
طبعِ درّا کے اگر داری بس است
گر کسے شبہا خورد دودِ چراغ
گیرد از علم و فن و حکمت سراغ
ملکِ معنی کس حدِ او را نہ بست
بے جہادِ پیہمے ناید بدست
مشرق کو مغرب کی تقلید نے اپنا آپ بھلا دیا ہے۔ ان اقوامِ مشرق کو چاہیے کہ وہ مغرب کو تنقید کی نظر سے دیکھیں۔ مغرب کی قوت چنگ و رباب سے نہیں‘ نہ یہ بے پردہ لڑکیوں کے رقص کی وجہ سے ہے۔ نہ یہ سرخ چہرہ‘ محبوبوں کے جادو کی وجہ سے نہ یہ ان کی عورتوں کی ننگی پنڈلیوں اور بال کٹانے سے ہے۔ نہ اس کا استحکام لادینی کی وجہ سے ہے اور نہ اس کی ترقی رومن رسم الخط کے باعث ہے۔ افرنگ کی قوت ان کے علم اور فن کے سبب سے ہے۔ ان کا چراغ اسی آگ سے روشن ہے۔ ان کی حکمت لباس کی قطع و برید کے سبب سے نہیں‘ عمامہ علم و ہنر سے منع نہیں کرتا۔ اے شوخ و شنگ جوان علم و فن کے لیے مغز چاہیے نہ کہ مغربی لباس۔ اس راہ میں صرف نگاہ مطلوب ہے‘ یہ ٹوپی یا وہ ٹوپی مطلوب نہیں۔ اگر تیرے اندر زود و رس فکر اور تیزبین طبع ہے تو یہ دونوں چیزیں علم و فن کے لیے کافی ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی راتیں فکر اور مطالعہ میں بسر کرتا ہے تو وہ علم و فن اور حکمت کا سراغ پالیتا ہے۔ معانی کی سلطنت جس کی حدود کا تعین کوئی نہیں کرسکا‘ کوشش پیہم کے بغیر ہاتھ نہیں آتی۔
آج کی جمہوری تحریک کا چوتھا ہدف پاکستان کی نظریاتی شناخت کا تحفظ اور اسلامی تہذیب و ثقافت پر اس حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھنے والی تہذیبی اور تمدنی یلغار کی بھرپور مزاحمت اور پاکستان کے اصل تصور کے مطابق اس کی تعمیرنو کے لیے اجتماعی جدوجہد اور نئی قیادت کو بروے کار لانے کی کوشش ہے۔
بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے نام پر قومی غیرت اور پاکستان کے حقیقی مفادات کی قیمت پر بنیادی پالیسی کے معاملات میں ایسی قلابازیاں (U-turns) کھائی جارہی ہیں جن کے نتیجے میں نہ صرف ملک کی سلامتی اور استحکام معرضِ خطر میں ہے بلکہ پورے علاقے کا نقشہ ہی تہ و بالا ہوسکتا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ محض کوئی سرحدی تنازع نہیں‘ یہ ڈیڑھ کروڑ انسانوں کی آزادی اور حقِ خودارادیت کا مسئلہ ہے اور پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کے ساتھ ساتھ تقسیمِ ہند کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ کسی فردِ واحد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اسے اپنے کھلنڈرانہ رویوں اور اپنی طالع آزمائیوں کا نشانہ بنائے۔ کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ قوم کے تاریخی موقف کو محض اپنے زعم میں تبدیل کر دے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں جہاں ایک اخلاقی اور قانونی معاہدہ ہیں‘ وہیں وہ ایک عالمی میثاق کی حیثیت رکھتی ہیں جس کے تین بنیادی فریق ہیں: پاکستان‘ بھارت اور جموں و کشمیر کے عوام۔ اقوام متحدہ اور پوری عالمی برادری اس میثاق کی ضامن ہے۔ تعجب کا مقام ہے کہ ایک فوجی جسے عالمی سفارت کاری اور بین الاقوامی قانون اور آداب کے باب میں کوئی مہارت حاصل نہیں‘ کسی مشورے اور مجاز اداروں کے کسی فیصلے کے بغیر‘ ترنگ میں آکر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بارے میں عالمی میڈیا کے سامنے یہ کہنے کی جسارت کرتا ہے کہ انھیں ایک طرف رکھا (set aside) جاسکتا ہے۔ صدافسوس یہ ہے کہ ایسا کہنے والے کا کوئی احتساب نہیں ہوتا‘ اور اقتدار کے پجاری نہ صرف اس کی تاویلیں کرنے لگتے ہیں بلکہ پوری کشمیر پالیسی کا رخ ہی بدل دیتے ہیں۔
اس قیادت کی سیاسی سوجھ بوجھ کے بارے میں کیا کہا جائے جو اسی پسپائی‘ عاقبت نااندیشی اور قومی مفادات سے بے وفائی کو اپنی ’’جرأت اور بہادری‘‘ کا نام دیتی ہے اور پھر خود اپنی تعریف کے راگ الاپتی ہے۔ ’’جرأت و فراست‘‘ کا عالم یہ ہے کہ جب امریکا بہادر کہتا ہے کہ ہمارا ساتھ دو‘ ورنہ ہماری دشمنی کے لیے تیار ہوجائو تو غیر مشروط ہتھیار ڈال دیتی ہے۔ لبنان اور شمالی کوریا جیسے کمزور اور چھوٹے ممالک سفارت کاری میں جوہر دکھاتے ہیں‘ ہم اس کے گردِراہ کو بھی نہیں پاسکتے۔ ۱۹۷۱ء کی شکست کے بعد بھی‘ شملہ معاہدے کے موقع پر سیاسی قیادت نہ صرف اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کے اصولوں کا ذکر شامل کرا لیتی ہے بلکہ جو بات بھی کرتی ہے وہ ’’دونوں حکومتوں کے اصولی مؤقف پر کسی اثر کے بغیر‘‘کے فریم ورک میں کرتی ہے اور کشمیر کے مسئلے کے آخری حل (final solution) کو ایجنڈے میں رکھتی ہے۔ لیکن ہمارے فوجی حکمران ان تمام قانونی اور سفارتی نزاکتوں کا کوئی ادراک نہیں رکھتے اور بس جرأت کا صرف یہ مفہوم سمجھتے ہیں کہ مستعدی سے دوسروں کے مطالبات کے آگے سپر ڈال دیں اور اپنے مؤقف کو چشم زدن میں ترک کر دیں۔
جمہوری جدوجہد کا پانچواں ہدف کشمیر کے معاملے میں قوم کے جذبات اور عزائم اور پاکستان کے حقیقی مفادات کی روشنی میں ایک ایسے محکم اور مبنی برحق موقف کا اعادہ ہے جو جموں و کشمیر کے عوام کے عزائم اور اہداف سے مطابقت رکھتی ہو‘ جو ان کی تاریخی جدوجہد کی قربانیوں کی لاج رکھنے والی ہو اور جو پاکستان اور جموں و کشمیر کے عوام کے بہترین مفاد میں ہو۔ پاکستانی قوم بھارت سے دوستی ضرور چاہتی ہے لیکن غیرت اور ملکی اور ملّی مفادات پر کوئی سمجھوتہ کیے بغیر۔
m غربت اور مھنگائی: عوامی احتجاج کا ایک اور ہدف وہ معاشی مشکلات ہیں جو اس حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں اور جن کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ زرِمبادلہ کے ذخیرے میں اضافہ بجا‘ لیکن جس زرمبادلہ کا کوئی فائدہ عوام کو اور خصوصیت سے مجبور اور پسے ہوئے طبقات کو نہیں اس کا کیا حاصل؟ غربت کی شرح بڑھ رہی ہے اور آج ۵ کروڑ سے زیادہ افراد دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ اگر ۱۹۹۰ء میں خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی آبادی کُل آبادی کا ۲۰-۲۲ فی صد تھی تو ۲۰۰۴ء میں ان کی تعداد ۳۲-۳۴ فی صد ہوگئی ہے۔ اگر ۱۹۹۹ء میں بے روزگاری کا تناسب صرف ۵ فی صد تھا تو ۲۰۰۴ء میں وہ بڑھ کر ۸ فی صد سے بڑھ گیا ہے۔ تیل اور گیس کی قیمتوں میں ان پانچ سالوں میں ۸۰ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ پٹرول ۱۹۹۹ء میں ۲۶ روپے لٹر تھا جو آج ۴۶ روپے لٹر ہے۔ آٹا ۹روپے کلو تھا‘ اب ۱۹ روپے کلو ہے۔ چینی ۱۳ روپے کلو تھی ‘ اب ۲۰ روپے کلو ہے۔ عوام چیخ رہے ہیں‘ اور جنرل پرویز مشرف اور ان کے ارب پتی معاشی مینیجر مبادلہ خارجہ کے ذخائر کے اضافے پر شادیانے بجا رہے ہیں اور کل تک جس اسٹاک ایکسچینج کی ہوش ربا ترقی پر نازاں تھے‘ اب مہینے بھر میں ہی اس میں ۴۰ فی صد کمی پر بغلیں جھانک رہے ہیں۔ جنرل مشرف اور ان کی حکومت بے شک ’ابن مریم‘ ہونے کا دعویٰ کریں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام کے دکھوں کا مداوا کون کرے‘ ان کے زخموں پر مرہم کا پھاہا کون رکھے؟
عوامی جدوجہد کا ایک اہم ہدف اس معاشی استحصال اور ظلم کا خاتمہ اور ملک کی معاشی ترقی کا وہ آہنگ اختیار کرنا ہے جس کے نتیجے میں ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچ سکیں‘ بے روزگاری ختم ہوسکے‘ مہنگائی کا عفریت قابو میں لایا جاسکے‘ دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کو حدود کا پابند کیا جا سکے۔ اشیاے ضرورت عام آدمی کی دسترس میں ہوں‘ معاشی ترقی کے مواقع سب کو حاصل ہوں۔
عوامی جمہوری تحریک کا ایک ہدف حقیقی وفاقی نظام کا قیام اور مرکز اور صوبوں میں اختیارات کی ایسی تقسیم اور اس کا نفاذ ہے جو صوبوں کی مضبوطی اور ترقی کا باعث ہو اور صوبوں کی مضبوطی اور ترقی کے ذریعے پاکستان مضبوط اور مستحکم ہو سکے۔
جو سیاسی تحریک متحدہ مجلس عمل کی قیادت میں مارچ ۲۰۰۵ء میں شروع ہوئی ہے اور جس کو ۲اپریل ۲۰۰۵ء کو ہڑتال نے مہمیز دی ہے وہ انھی اہداف کے حصول کے لیے ہے اور ان کے مکمل حصول تک ان شاء اللہ جاری رہے گی۔
یہ اہداف عوام کے اصل جذبات اور عزائم کے آئینہ دار ہیں۔ مجلس عمل نے ان کو زبان دی ہے اور انھیں حاصل کرنے کے لیے جمہوری اور عوامی تحریک شروع کی ہے۔ تاہم یہ بھی ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ جس طرح چاروں ملین مارچ اور ۲ اپریل کی ہڑتال میں یہ اہداف اور مقاصد ہرکسی کی زبان پر رہے ہیں‘ ایک تازہ جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنرل مشرف کی ذاتی ویب سائٹ پر بھی سوالات کی شکل میں انھی کی بارش ہو رہی ہے اور جنرل صاحب جو الٹے سیدھے جوابات دے رہے ہیں‘ وہ ان کی بوکھلاہٹ کے غماز ہیں۔ دی نیوز انٹرنیشنل لندن میں ۸ اپریل ۲۰۰۵ء کو شائع ہونے والے ایک جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ سوالات اور اعتراضات مہنگائی کے مسئلے پر آئے ہیں اور دوسرے نمبر پر آنے والے سوالات کا تعلق جنرل صاحب کی نام نہاد ’’روشن خیال اعتدال پسندی‘‘ پر لوگوں کے احساسات اور اضطرابات ہیں۔ تجزیہ نگار لکھتا ہے کہ: جہاں تک روشن خیال اعتدال پسندی کا تعلق ہے‘ بظاہر عوام زیادہ آزاد روی سے خوش نہیں ہیں جو الیکٹرانک میڈیا کے بعض چینلوں میں ظاہر ہو رہی ہے۔
جنرل صاحب نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ وہ خود بھی حد سے زیادہ مغرب زدگی (over westernization) کے حق میں نہیں لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ مسئلہ محض الیکٹرانک میڈیا کا نہیں‘ ان کی ملک گیر پالیسی کا ہے اور پھر اصل مسئلہ حد سے زیادہ مغرب زدگی کا نہیں بلکہ جدیدیت (modernization) کے نام پر مغرب زدگی ہے جو اُمت مسلمہ کے عقیدے‘ تہذیب‘ تاریخ اور روایات کے خلاف ہے اور جسے ایک مفاد پرست طبقہ بیرونی میڈیا‘ این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی معرفت جنرل صاحب کی سرپرستی میں فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
تیسرے نمبرپر آنے والے سوالات کا تعلق پاکستان کی آزادی اور حاکمیت سے ہے اور عوام نے امریکا کے بڑھتے ہوئے اثرات اور اس کی کاسہ لیسی کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ چوتھے نمبر پر پاکستان کے نیوکلیر اثاثوں کی حفاظت اور ڈاکٹر عبدالقدیر خاں سے کیے جانے والے سلوک کے بارے میں عوام کا اضطراب ہے۔ جائزے میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ عوام کے ایک حصے کا خیال ہے کہ: Pakistan is selling its sovereignity cheaply (پاکستان اپنی خودمختاری اور حاکمیت کو کوڑیوں کے دام فروخت کر رہا ہے)۔
جنرل صاحب اس پر بہت برافروختہ ہیں اور جس نوعیت کے جوابات دے رہے ہیں اس میں دلیل سے زیادہ غصہ‘ اور حقائق کی بنیاد پر بات کرنے کے بجاے اپنی ذات پر اعتماد اور بھروسے کا سہارا زیادہ ہے۔ اس ویب سائٹ سے جنرل صاحب یا پالیسی سازی کے ذمہ دار کوئی فائدہ اٹھاتے ہیں یا نہیں‘ لیکن اس سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ جو بات ایم ایم اے کے ملین مارچوں میں کہی جا رہی ہے اور جس کا اظہار ۲ اپریل کی عوامی ہڑتال میں ہوا ہے‘ وہی اصل عوامی جذبات‘ احساسات اور مسائل کا آئینہ ہے۔ جنرل صاحب کی ویب سائٹ پر بھی اسی کا پرتو دیکھا جاسکتا ہے۔ اسے دی نیوز کے جائزے میں Let this be a wakeup call for all(اس سے سب لوگوں کی آنکھیں کھل جانا چاہییں)کہا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وی وی آئی پی کلچر سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ نقارۂ نقارہ
انھی دنوں راے عامہ کا ایک فیصلہ کن اظہار ۹ اپریل ۲۰۰۵ء کو جناح کنونشن سنٹر میں منعقد ہونے والے قومی طلبہ کنونشن میں جنرل مشرف کی موجودگی میں ہوا۔ اس کنونشن کے مقررین اور حاضرین سب چھلنیوں سے گزر کر پہنچے تھے لیکن اس کے باوجود جب کچھ دبنگ طلبہ مقررین نے وردی پر وعدہ خلافی‘ وانا میں ترقیاتی کاموں کے نام پر فوج کے استعمال‘ بلوچستان والوں کو وہاں سے ہِٹ (hit)ہونے کی دھمکی جہاں سے وہ سوچ بھی نہیں سکتے‘ فوج کے اقتدار سنبھالنے‘ اور بسنت منانے جیسے پروگراموں پر عوام کا نقطۂ نظر پیش کیا تو بھرا ہوا ہال تالیوں سے گونج گونج اٹھا۔ جنرل مشرف نے جواب میں اپنی گھسی پٹی باتیں دہرائیں لیکن وہ بھی جانتے تھے کہ وہ اپنے سوا کسی کو قائل نہیں کررہے۔ اگر اس پر بھی وہ نوشتۂ دیوار نہ پڑھیں تو ان کی بالغ نظری کو کیا کہا جائے۔
متحدہ مجلس عمل نے ایک بڑی قومی خدمت بروقت انجام دی ہے کہ اس نے عظیم عوامی تحریک کے ذریعے قوم کے اصل مسائل اور اس کے حقیقی عزائم اور اہداف پر سب کی توجہ کو مرکوز کیا ہے۔ یہ المیہ ہے کہ بہت سی احزاب اختلاف ساحل سے نظارۂ طوفان کر رہی ہیں اور اپنی اپنی مخصوص ترجیحات میں گرفتار ہیں۔ ملک کی ضرورت آج یہ ہے کہ سب محب وطن اور جمہوری قوتیں مل کر ملک کو بحران سے نکالنے کی اجتماعی جدوجہد کریں اور امریکا کے اس کھیل کا پردہ بھی چاک کردیں کہ جنرل صاحب کسی روشن خیال اعتدال پسندی کے داعی ہیں اور دوسری نام نہاد لبرل قوتوں کو ان کا حلیف ہونا چاہیے۔ آج مسئلہ نام نہاد روشن خیالی اور اعتدال پسندی نہیں‘ یہ تو جنرل صاحب کی انتہاپسندی اور شخصی حکومت کو دوام بخشنے کے لیے محض ایک حربہ اور دھوکا ہے۔ پاکستان کی بنیاد اور پاکستان کے دستور کے ستون اسلام‘ پارلیمانی جمہوریت اور اصول وفاق ہیں۔ یہی تین ستون عوامی جمہوری جدوجہد کی بنیاد ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان سب کا حاصل پاکستان کی آزادی اور حاکمیت کے تحفظ کے ساتھ‘ اس کی اسلامی تہذیبی شناخت کی ترقی اور استحکام اور سب کے لیے عدل و انصاف کا قیام ہے۔ یہی آج عوام کے دل کی آواز ہے اور پاکستان کی ترقی اور استحکام کا اصل نسخہ ہے۔
کسی معاشرے کے مہذب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہاں قانون کی حکمرانی کا صرف ذکر نہ کیا جاتا ہو بلکہ واقعی قائم ہو۔ قانون کی حکمرانی کا تصور تو ایک اعلیٰ تصور ہے جس کا ہم اپنے ملک میں صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ جہاں ملک کا دستور بلاتکلف توڑ دیا جاتا ہو یا معطل کر دیا جاتا ہو‘ محض پارلیمنٹ میں عددی اکثریت کے بل بوتے پر دستور کی روح کے خلاف اقدامات کیے جاتے ہوں‘ عدلیہ دستور کی خلاف ورزی کا نوٹس نہ لینے کی ایسی شہرت رکھتی ہو کہ اس کے پاس انصاف کے لیے جانا لاحاصل سمجھا جاتا ہو‘ وہاں قانون کی حکمرانی کی بات کچھ عجیب لگتی ہے۔ لیکن جیسا کچھ بھی ملک کا قانون ہے جس کے نفاذ کے لیے حکومت قائم کی جاتی ہے‘ کم سے کم اس کا نفاذ ایک عام معیار کے مطابق ہی کیا جائے تو معاشرے میں توازن قائم ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ حکومتوں کے پاس قانون نافذ کرنے کے لیے جو مؤثر ادارہ ہے وہ محکمہ پولیس ہے۔ قانون کے نفاذ کا انحصار سراسر پولیس کی کارکردگی پر ہے کہ اس کے سامنے عدلیہ بھی بے بس ہوجاتی ہے۔
اخبارات کی روزانہ خبریں‘ کالم نگاروں کے کالم اور موقع بہ موقع اداریے‘ اس حوالے سے جو افسوس ناک صورت حال ہے‘ اس کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے محکمہ پولیس کو کچھ ایسے امراض گھن کی طرح لگ گئے ہیں کہ کسی طرح ان سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ اس صورت میں قانون کا نفاذ محض ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔
ایک عام شہری کو اگر کسی وجہ سے پولیس سے واسطہ پڑ جائے تو اس پر جو گزرتی ہے وہ کوئی راز نہیں۔ ایک پولیس اہل کار نے ایک بے گناہ شخص کو بالکل ایک بے بنیاد ناجائز مقدمے میں پھنسادیا۔ حال ہی میں وہ ۱۸ سال بعد اپنی عمر کا بہترین حصہ جیل میں گزار کر رہا ہوا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی حقیقی تصویر ہے۔ ذاتی بنیادوں پر ناجائز مقدمے بنانا بھی پولیس کا ایک مشغلہ ہے جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہریوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ لیکن اس وقت ہم پولیس کی عام کارکردگی یا انصاف کے شعبے سے وابستہ محکموں کو موضوع بحث نہیں بنا رہے‘ حکومت اپنے مخالفوں کو سیاسی بنیادوں پر کچلنے کے لیے جس طرح قانون کے احترام کے نام پر پولیس کے ذریعے قانون کو پامال کرتی ہے‘ اسے سامنے لانا مقصود ہے۔
متحدہ مجلس عمل نے ۲ اپریل ۲۰۰۵ء کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا۔ حکومت نے اپنی پوری مشینری کو ہڑتال کو ناکام بنانے کی ناکام کوشش میں استعمال کیا۔ سرکاری میڈیا پر ہڑتال کے خلاف مسلسل خبروں اور بیانات سے ایک فضا بنا دی گئی۔ لیکن اس جمہوریت ‘آزادی‘ روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے ’’مثالی‘‘ دور میں اس کی ضرورت نہیں سمجھی گئی کہ مجلس عمل کے کسی نمایندے کو بھی یہ موقع دیا جاتا کہ وہ ۵‘ ۱۰ منٹ کے لیے میڈیا پر آکر بتائے کہ وہ ہڑتال کیوں کروانا چاہتے ہیں؟ پھر جو چاہتا ہڑتال کرتا‘ جو چاہتا نہ کرتا اور حکومت کو معلوم ہو جاتا کہ عوام کی نظروں میں اس کی پالیسیوں اور پروپیگنڈے کی کیا وقعت اور حیثیت ہے۔
ہڑتال کے دن پولیس نے جو کچھ کیا‘ اس کی تفصیلات اخبارات اور رسائل میں آچکی ہیں۔ اگر کہیں کچھ لوگوں نے ٹریفک روکنے یا دکان بند کرانے کی کوشش کی ہو تو یقینا پولیس کو انھیں گرفتار کرکے معمول کا مقدمہ قائم کرنے کا حق تھا (کسی قسم کے تشدد کا ہرگز نہیں)۔ کسی مہذب ملک میں ایسا ہی ہوتا۔ لیکن پولیس نے اس دن جو کچھ کیاوہ اتنا شرم ناک ہے کہ اگر ہم کسی زندہ معاشرے میںہوتے تو دو چار اعلیٰ پولیس افسر ضرور اس پر استعفا دے دیتے۔
ادارہ نور حق کراچی میں پٹرول اور اسلحہ پکڑنے کا جو مقدمہ بنایا گیا‘ اس کی سرکاری ٹی وی پر خوب خوب تشہیر کی گئی۔ اسے پولیس نے خود بعد میں جھوٹا مقدمہ تسلیم کیا۔ اے آر وائی کے پروگرام میں پروفیسر غفور احمد کے اس حلفیہ بیان پر کہ یہ اشیا وہاں نہیں تھیں‘ سیکرٹری داخلہ یہ حلفیہ بیان نہیں دے سکے کہ یہ اشیا وہاں تھیں۔ ایسی صورت میں سرکاری ٹی وی پر جو بے بنیاد خبر جاری کی گئی اور عزت و شہرت کو جو نقصان پہنچایا گیا‘ اس کے ازالے کے لیے کوئی اقدام ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ہم ایسے گئے گزرے دور میں ہیں کہ کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ اس پر کوئی مقدمہ کر کے شہرت کو نقصان پہنچانے کی تلافی کرائی جاسکتی ہے۔
پولیس کا جو کردار لاہور میں سید مودودی انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ‘ تعمیر سیرت کالج اور منصورہ ڈگری کالج کے ہوسٹلوں میں طلبہ کے ساتھ رہا‘ اس کی تفصیلات اتنی لرزہ خیز ہیں کہ اس پر حیرت ہے کہ انھیں اتنی خاموشی سے برداشت کیا گیا ہے۔ نہ اخبارات میں مکمل اور صحیح رپورٹنگ ہوئی ہے‘ نہ مناسب ردعمل سامنے آیا ہے۔
پھر آصف علی زرداری کی لاہور آمد پر پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ پولیس نے جو کچھ کیا ہے‘ اور پی او ایف کالج کی طالبات پر راولپنڈی میں جو تشدد کیا گیا ہے وہ بھی ہمارے اجتماعی ضمیر کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔
دیکھا جائے تو اس سب کے نتیجے میں پولیس کی جو بدنامی ہونا چاہیے تھی اور اس کے منہ پر جو کالک ملی جانی چاہیے تھی اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوا۔شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ پہلے ہی اتنی سیاہی ہے کہ مزید کالک سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ ہماری پولیس کا روز مرہ ہے‘ استثنا نہیں۔
کہیں تو یہ سوال اٹھایا جانا چاہیے کہ پولیس کو کس قانون نے اجازت دی کہ وہ دروازے توڑ کر بے خبر طلبہ کے کمروں میں جا دھمکے‘ ان پر لاٹھیوںسے تشدد کرے‘ ان کا سامان اور رقم چوری کرے‘ اور موبائل اور گھڑیاں سمیٹ لے؟ دراصل پولیس کے افراد کو یہ تحفظ اور اطمینان حاصل ہے کہ چوروں اور ڈاکوئوں والی سرگرمیوں پر کوئی ان کا بال بیکا نہیں کرے گا۔ خود اپنا ضمیر تو مردہ ہی ہے‘ اعلیٰ افسران بھی نہیں پوچھیں گے۔ اور حکومت؟ جس کا کام ہی قانون کا نفاذ اور احترام ہے‘ پولیس والے انھی کو تو خوش کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر اس پر گڈ گورننس کا نعرہ لگایا جاتا ہے تو اس پر ہنساہی جاسکتا ہے۔ عوام کو بے وقوف بنانے کی آخر کوئی حد بھی ہونا چاہیے!
حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک خصوصی قانون بنایا ہے جس میں فوری کڑی سزائیں دی جاتی ہیں۔ معمول کی قانونی کارروائی بھی نہیں ہوتی۔ جھوٹے سچے ثبوت چل جاتے ہیں۔یہ قانون جس مقصد کے لیے بھی بنایا گیا ہو‘ اس لیے تو ہرگز نہیں تھا کہ پندرہ سولہ سال کے فرسٹ ایئرکے طلبہ کو سوتے میں بستروں سے اٹھا کر اس کی دفعات ان بے گناہوں پر لاگو کر دی جائیں۔
تین دن پہلے ہی سے وزیر داخلہ خود بہ نفس نفیس اس کی دھمکیاں دے رہے تھے جس پر عمل بھی کیا گیا۔ قانون کا احترام ختم کرنے کے لیے قانون کے غلط استعمال سے زیادہ کوئی موثر ترکیب نہیں۔ ایسا محسوس ہوا کہ ہم کسی مہذب معاشرے میں نہیں‘ کسی جنگل میں رہتے ہیں‘ جہاں رہنے والوں کے ساتھ ہر ظلم اور زیادتی روا ہے‘ نہ کوئی فریاد ہے نہ شنوائی۔ جنگل کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے‘ یہاں وہ بھی نہیں۔
حکمرانوں سے کچھ کہنا تو لاحاصل لگتا ہے‘ لیکن معاشرے کے اہلِ بصیرت کو دیکھنا چاہیے کہ آرزئووں اور تمنائوں اور بے بہا قربانیوں سے بننے والا ہمارا یہ ملک ۵۷ سال کی آزادی کے بعد کہاں پہنچا ہے۔ کوئی براے نام بھی جمہوری حکومت ہوتی تو اپنی اور اپنی پولیس کی اصلاح کے لیے اور حقیقت کو جاننے کے لیے عدالتی تحقیقات کا انتظام کرتی۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ اتنی معمول کی کارروائی ہے کہ کسی ذمہ دار کے ضمیر میں کوئی خلش پیدا نہیں کرتی۔ پولیس کا اپنا بھی نظم و ضبط کا ایک نظام کار ہے۔ اس کے اپنے اعلیٰ افسران ہیں جو تعلیم یافتہ ہیں اور غالباً اچھا اور برا جانتے ہیں۔ وہ بھی اس کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ وہ اپنی پولیس کو حدود میں رکھیں۔ مذاکروں اور تقاریر میں اپیل کی جاتی ہے کہ عوام پولیس سے تعاون کریں‘ ان پر اعتماد کریں‘ لیکن جب لوگ آنکھوں سے یہ کچھ دیکھیں‘ تو کیا اعتماد کریں اور کیا تعاون کریں!
کچھ فرض شناس وکلا کو یہ ضرور کرنا چاہیے کہ وہ ذمہ دار پولیس افسران اور عملے پر باقاعدہ مقدمے کریں۔ اس کی روایت پڑ جائے توشاید پولیس کو کچھ لگام دی جا سکے۔ ساتھ ہی انسانی حقوق کی انجمنوں کو مکمل تفصیلات مع ایک ایک طالب علم سے انٹرویو اور تصاویر فراہم کی جائیں۔
اعلیٰ افسران کو اور حکومت کے ذمہ داران کو اور پولیس کے ان اہل کاروں کو بھی جنھوں نے بے قصور نوجوان طلبہ کے بازو اور ٹانگیں اپنی سرکاری لاٹھیوں سے نہایت بے رحمی سے توڑیں اور ان کے موبائل‘ گھڑیاں‘ سامان اور نقدی پر قبضہ کر کے لے گئے (کاش! ان سے قصاص دلوانے والا کوئی مسلمان حکمران یا عدالت ہو)۔ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ کسی کو بھی یہاں ہمیشہ نہیں رہنا۔ اپنے اچھے اور برے اعمال کے ساتھ اپنے خالق کے حضور حاضر ہونا ہے‘ پھر جزا و سزا ملے گی۔ اور یہ نہ بہت دُور کی بات ہے‘ اور نہ بہت دیر کی بات ہے۔
ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیْہِ شُرَکَـآئُ مُتَشٰکِسُوْنَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍط ھَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًاط اَلْحَمْدُ لِلّٰہِج بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ o (الزمر ۳۹: ۲۹)
اللہ ایک مثال دیتا ہے۔ ایک شخص تو وہ ہے جس کی ملکیت میں بہت سے کج خُلق آقا شریک ہیں جو اسے اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں اور دوسرا شخص پورا کا پورا ایک ہی آقا کا غلام ہے۔ کیا ان دونوں کا حال یکساں ہو سکتا ہے؟___ الحمدللہ‘ مگر اکثر لوگ نادانی میں پڑے ہوئے ہیں۔
اس مثال میں اللہ تعالیٰ نے شرک اور توحید کے فرق اور انسان کی زندگی پر دونوں کے اثرات کواس طرح کھول کر بیان فرما دیا ہے کہ اس سے زیادہ مختصر الفاظ میں اتنا بڑا مضمون اتنے مؤثر طریقے سے سمجھا دینا ممکن نہیں ہے۔ یہ بات ہر آدمی تسلیم کرے گا کہ جس شخص کے بہت سے مالک یا آقا ہوں‘ اور ہر ایک اس کو اپنی اپنی طرف کھینچ رہا ہو‘ اور وہ مالک بھی ایسے بدمزاج ہوں کہ ہر ایک اُس سے خدمت لیتے ہوئے دوسرے مالک کے حکم پر دوڑنے کی اسے مہلت نہ دیتا ہو‘ اور ان کے متضاد احکام میں جس کے حکم کی بھی وہ تعمیل سے قاصر رہ جائے وہ اسے ڈانٹنے پھٹکارنے ہی پر اکتفا نہ کرتا ہو بلکہ سزا دینے پر تُل جاتا ہو‘ اس کی زندگی لا محالہ سخت ضِیق میں ہوگی۔ اور اس کے برعکس وہ شخص بڑے چین اور آرام سے رہے گا جو بس ایک ہی آقا کا نوکر یا غلام ہو کسی دوسرے کی خدمت و رضا جوئی اسے نہ کرنی پڑے۔ یہ ایسی سیدھی سی بات ہے جسے سمجھنے کے لیے کسی بڑے غورو تامل کی حاجت نہیںہے۔ اس کے بعد کسی شخص کے لیے یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں رہتا کہ انسان کے لیے جو امن و اطمینان ایک خدا کی بندگی میں ہے وہ بہت سے خدائوں کی بندگی میں اسے کبھی میسر نہیں آسکتا۔
اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ بہت سے کج خلق اور باہم متنازع آقائوں کی تمثیل پتھر کے بتوں پر راست نہیں آتی بلکہ اُن جیتے جاگتے آقائوں پر ہی راست آتی ہے جو عملاً آدمی کو متضاد احکام دیتے ہیں اور فی الواقع اس کو اپنی اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں ۔ پتھر کے بت کسے حکم دیا کرتے ہیں اور کب کسی کو کھینچ کر اپنی خدمت کے لیے بلاتے ہیں۔ یہ کام تو زندہ آقائوں ہی کے کرنے کے ہیں۔ ایک آقا آدمی کے اپنے نفس میں بیٹھا ہوا ہے جو طرح طرح کی خواہشات اس کے سامنے پیش کرتاہے اور اسے مجبور کرتا رہتا ہے کہ وہ انھیں پورا کرے۔ دوسرے بے شمار آقا گھر میں‘ خاندان میں‘ برادری میں‘ قوم اور ملک کے معاشرے میں‘ مذہبی پیشوائوں میں‘ حکمرانوں اور قانون سازوں میں‘ کاروبار اور معیشت کے دائروں میں‘ اور دنیا کے تمدّن پرغلبہ رکھنے والی طاقتوں میں ہر طرف موجود ہیں جن کے متضاد تقاضے اور مختلف مطالبے ہروقت آدمی کو اپنی اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں اور ان میں سے جس کا تقاضا پورا کرنے میں بھی وہ کوتاہی کرتا ہے وہ اپنے دائرۂ کار میں اس کو سزا دیے بغیر نہیں چھوڑتا۔ البتہ ہر ایک کی سزا کے ہتھیار الگ الگ ہیں۔ کوئی دل مسوستا ہے۔ کوئی روٹھ جاتاہے۔ کوئی نکو بناتا ہے۔ کوئی مقاطعہ کرتا ہے۔ کوئی دیوالہ نکالتا ہے۔ کوئی مذہب کا وار کرتا ہے اور کوئی قانون کی چوٹ لگاتا ہے۔ اِس ضیق سے نکلنے کی کوئی صورت انسان کے لیے اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ توحید کا مسلک اختیار کر کے صرف خدا کا بندہ بن جائے اور ہر دوسرے کی بندگی کا قلادہ اپنی گردن سے اُتار پھینکے ۔
ایک شکل یہ ہے کہ ایک فرد اپنی انفرادی حیثیت میں خداے واحد کا بندہ بن کر رہنے کا فیصلہ کر لے اور گردوپیش کا ماحول اس معاملے میں اس کا ساتھی نہ ہو۔ اس صورت میں یہ تو ہو سکتا ہے کہ خارجی کش مکش اور ضیق اس کے لیے پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جائے‘ لیکن اگر اس نے سچے دل سے یہ مسلک اختیار کیا ہو تو اسے داخلی امن و اطمینان لازماً میسر آجائے گا۔ وہ نفس کی ہر اُس خواہش کو رد کر دے گا جو احکامِ الٰہی کے خلاف ہو یا جسے پورا کرنے کے ساتھ خدا پرستی کے تقاضے پورے نہ کیے جا سکتے ہوں۔وہ خاندان‘ برداری ‘ قوم‘ حکومت‘ مذہبی پیشوائی اور معاشی اقتدار کے بھی کسی ایسے مطالبے کو قبول نہ کرے گا جو خدا کے قانون سے ٹکراتا ہو۔ اس کے نتیجے میں اسے بے حد تکلیفیں پہنچ سکتی ہیں‘ بلکہ لازماً پہنچیںگی لیکن اس کا دل پوری طرح مطمئن ہو گا کہ جس خدا کا میں بندہ ہوں اس کی بندگی کا تقاضا پورا کر رہا ہوں‘ اور جن کا بندہ میں نہیں ہوں ان کا مجھ پر کوئی حق نہیں ہے جس کی بنا پر میں اپنے رب کے حکم کے خلاف ان کی بندگی بجالائوں۔ یہ دل کا اطمینان اور روح کا امن و سکون دنیا کی کوئی طاقت اس سے نہیں چھین سکتی۔ حتیٰ کہ اگر اسے پھانسی پر بھی چڑھنا پڑجائے تو وہ ٹھنڈے دل سے چڑھ جائے گا اور اس کو ذرا پچھتاوانہ ہوگا کہ میں نے کیوں نہ جھوٹے خدائوں کے آگے سرجھکا کر اپنی جان بچالی۔
دوسری شکل یہ ہے کہ پورا معاشرہ اِسی توحید کی نبیاد پر قائم ہو جائے اور اس میں اخلاق ‘ تمدّن‘ تہذیب ‘ تعلیم‘ مذہب ‘ قانون‘ رسم ورواج‘ سیاست‘ معیشت ‘ غرض ہر شعبۂ زندگی کے لیے وہ اصول اعتقاداً مان لیے جائیں اور عملاً رائج ہو جائیں جو خدا وندِعالم نے اپنی کتاب اور اپنے رسول کے ذریعے سے دیے ہیں۔ خدا کا دین جس کو گناہ کہتا ہے ‘ قانون اسی کو جرم قرار دے‘ حکومت کی انتظامی مشین اسی کو مٹانے کی کوشش کرے‘ تعلیم و تربیت اسی سے بچنے کے لیے ذہن اور کردار تیار کرے‘ منبر ومحراب سے اسی کے خلاف آواز بلند ہو‘ معاشرہ اسی کو معیوب ٹھیرائے اور معیشت کے ہر کاروبار میں وہ ممنوع ہو جائے۔ اسی طرح خدا کا دین جس چیز کو بھلائی اور نیکی قرار دے ‘ قانون اس کی حمایت کرے‘ انتظام کی طاقتیں اسے پروان چڑھانے میں لگ جائیں‘ تعلیم وتربیت کا پورا نظام ذہنوں میں اس کو بٹھانے اور سیرتوں میں اسے رچا دینے کی کوشش کرے‘ منبر ومحراب اسی کی تلقین کریں‘ معاشرہ اسی کی تعریف کرے اور اپنے عملی رسم رواج اُس پر قائم کر دے‘ اور کاروبارِ معیشت بھی اسی کے مطابق چلے۔ یہ وہ صورت ہے جس میں انسان کو کامل داخلی و خارجی اطمینان میسر آجاتا ہے اور مادی وروحانی ترقی کے تمام دروازے اس کے لیے کھل جاتے ہیں‘ کیونکہ اس میں بندگی ٔ رب اور بندگی ٔ غیرکے تقاضوں کا تصادم قریب قریب ختم ہو جاتا ہے۔
اسلام کی دعوت اگرچہ ہر ہر فرد کو یہی ہے کہ خواہ دوسری صورت پیدا ہو یا نہ ہو‘ بہر حال وہ توحید ہی کو اپنا دین بنالے اور تمام خطرات ومشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اللہ کی بندگی کرے۔لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام کا آخری مقصود یہی دوسری صورت پیدا کرناہے اور تمام انبیا علیہم السلام کی کوششوں کا مدعا یہی رہا ہے کہ ایک امتِ مسلمہ وجود میں آئے جو کفر اور کفار کے غلبے سے آزاد ہو کر من حیث الجماعت اللہ کے دین کی پیروی کرے۔ کوئی شخص جب تک قرآن و سنت سے ناواقف اور عقل سے بے بہرہ نہ ہو‘ یہ نہیں کہہ سکتا کہ انبیا علیہم السلام کی سعی وجہد کا مقصود صرف انفرادی ایمان و طاعت ہے‘ اور اجتماعی زندگی میں دین حق کو نافذو قائم کرنا سرے سے اس کا مقصد ہی نہیں رہا ہے…
[مگر اکثر لوگ نادانی میں پڑے ہوئے ہیں]، یعنی ایک آقا کی غلامی اور بہت سے آقائوں کی غلامی کا فرق تو خوب سمجھ لیتے ہیں مگر ایک خدا کی بندگی اور بہت سے خدائوں کی بندگی کا فرق جب سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو نادان بن جاتے ہیں۔ (تفہیم القرآن‘ ج۴‘ ص۳۶۹-۳۷۲)
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی زندگی کامیاب بنانے کے لیے جو ہدایت دی ہے اس کا ماحصل مختلف الفاظ اور مختلف انداز میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
ایک پہلو سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ: اپنے رب سے ملاقات کی تیاری کرو۔
اگر دیکھا جائے تو ایک لحاظ سے ہمارا ہر کام اسی مقصد کے لیے ہے۔ اللہ کی بندگی بھی اسی لیے کرنا ہے کہ اللہ سے ملنا ہے اور اپنی زندگی کے بارے میں جواب دینا ہے۔ اچھے اخلاق بھی اسی لیے اختیار کرنا ہیں‘ عبادات اور اللہ کی راہ میں جہاد اور اُس کے دین کے لیے ساری سرگرمیاں بھی اسی لیے ہیں۔ اگر موت کے بعد اللہ تعالیٰ سے ملاقات نہ کرنا ہوتی اور ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ زندگی موت پر ختم ہو جائے گی‘ تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم اللہ کی بندگی کرتے‘ نماز پڑھتے‘ سخت سردی میں وضو کرکے نماز ادا کرتے۔ کوئی وجہ نہیں کہ ہم سچ بولیں‘ وعدہ پورا کریں‘ دوسروں کے حقوق ادا کریں اور کسی پر ظلم نہ کریں۔ کوئی وجہ نہیں کہ ہم دین کی خدمت کے لیے‘ اللہ کی راہ میں وقت اور مال لگائیں‘ دعوت کا کام یا جہاد کریں۔ اللہ سے ملاقات نہ کرنا ہو تو یہ سارے کام فضول اور بے کار ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے ہر کام میں‘ حقیقی معنی اس یقین سے پیدا ہوتے ہیں کہ اللہ سے یقینا ملاقات کرنا ہے اور اپنی زندگی کے بارے میں جواب دینا ہے۔
اللہ سے ملاقات پر یقین اور اس کے لیے تیاری ہی وہ قوت اور وہ روشنی ہے جو اللہ کی راہ پر چلنے کے لیے طاقت بخشتی ہے‘ اور زندگی کی راہیں روشن کرتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو ہم پاور ہائوس کہہ سکتے ہیں‘ وہ پاور ہائوس جس کے بل پر اچھے اعمال‘ پاکیزہ اخلاق اور دینی جدوجہد کی گاڑی رواں دواں رہتی ہے۔
انبیاے کرام ؑ اور خود ہمارے نبی ؐ کو ‘جب اس کام کی ذمہ داری دی گئی کہ وہ اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلائیں تو انھوں نے سب سے پہلے‘ اللہ سے ملاقات کے لیے تیاری کرنے کی دعوت دی‘دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی دائمی زندگی کا یقین دلایا۔ جب حضوؐر کو عام لوگوں کے سامنے دعوت پیش کرنے کا حکم ہوا تو آپؐ سے پہلی بات یہی کہی گئی کہ:
قُمْ فَاَنْذِرْ o (المدثر ۷۴:۲)اٹھو اور خبردار کرو۔
وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَo (الشعراء ۲۶:۲۱۴)جو تمھارے قریبی رشتہ دار ہیں ان کو ڈرائو‘ آگاہ کرو‘ ہوشیار کرو۔
جب وحی باقاعدہ نازل ہونا شروع ہوئی تو حضوؐر کے لیے‘ نبی اور رسول سے زیادہ مُنذر کا لفظ استعمال ہوا جس کے معنی ہیں ڈرانے والا‘ آگاہ کرنے والا‘ خبردار کرنے والا۔ اسی لیے نبی کریمؐ ،نبوت کے پہلے دن سے لے کر آخری لمحے تک‘اللہ سے ملاقات کی مسلسل تذکیر کرتے رہے‘ اور اس کے لیے تیاری کرنے کی تاکید فرماتے رہے۔
آپؐ اپنے ساتھیوں سے جو گفتگو بھی کرتے‘ جو تقریریں کرتے‘ جو خطبے دیتے‘ غلطیوں پر ٹوکتے اور اچھی باتوں کی تعریف کرتے‘ تو اِس دوران میں‘ موت کے بعد کی زندگی کی یاد دلاتے‘ جنت کی خوشخبری سناتے اور نارِجہنم سے ڈراتے۔
قرآن مجید میں وہ آیات بہت کثرت سے موجود ہیں جو آخرت کا ذکر کرتی ہیں‘ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی یاد دلاتی اور اس سے ملاقات کی تفصیلات بیان کرتی ہیں۔ حضوؐر اکثر ایسی ہی آیات نمازوں میں تلاوت فرمایا کرتے تھے۔
فجر کی نماز میں آپ زیادہ تر سورہ ق ٓ کی تلاوت کرتے۔ اس سورہ میں پورا بیان ہی آخرت کا ہے کہ موت حقیقت کو آشکارا کرتی ہوئی آگئی‘ صور پھونک دیا گیا‘ سب کے سب‘ اللہ کے سامنے پہنچ گئے‘ حساب و کتاب ہوگیا‘ کوئی اُس جہنم میں ڈالا گیا کہ جس کا پیٹ کسی طرح نہیں بھرتا اور کسی کے قریب وہ جنت لائی گئی کہ جس میں ہر خواہش پوری ہوتی ہے۔
اسی طرح سورۃ الواقعہ‘ حم السجدہ ‘ الدھر‘التکویر‘الانفطار‘ الغاشیہ وغیرہ کی تلاوت بھی آپؐ کثرت سے فرماتے۔آپؐ خطبہ دیتے تو اس میں بھی عموماً قرآن مجید کی وہ آیات بیان فرماتے جو آخرت اور موت کی تیاری سے متعلق ہوں۔مکہ میں قیام کے دوران میں معاشرتی معاملات کے سلسلے میں بہت کم احکام نازل ہوئے تھے۔ صرف دین کی بنیادی اور اہم تعلیمات‘ بہت مختصر اوربڑے سادہ الفاظ اور جملوں میں بیان ہوتیں۔ شریعت کی تفصیلات تو نہ تھیں لیکن ان جامع اور مختصر بنیادی تعلیمات ہی پر شریعت کی بنیادیں رکھی گئیں اور اس کا ڈھانچا بنایا اور اٹھایا گیا‘ مثلاً:
فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی o وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی o (الیل ۹۲:۵-۶) جس نے دیا اور اللہ سے ڈرا‘ اور اچھی بات کی تصدیق کی۔
ان تینوں جملوں میں پورا کردارِ مطلوب بیان کر دیا گیا۔ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
وَّاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی o فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰیo (النزٰعت ۷۹:۴۰-۴۱) جو شخص [حساب کتاب کے لیے] اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور اپنے نفس کو بے لگام خواہشات کے پیچھے جانے سے روک لیا‘ تو بس جنت اس کا ٹھکانہ ہے۔
ان مختصر تعلیمات کے ساتھ وہ طویل حصے نازل ہوئے جو آخرت کے تفصیلی بیان پر مشتمل ہیں‘ جو جنت کا شوق اور رب کے حضور کھڑا ہونے کا خوف پیدا کرتے ہیں۔
عمل کا محرک
مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کی تشکیل کے بعد‘ جب اسلامی معاشرہ وجود میں آگیا اور مزید تفصیلی احکام نازل ہونا شروع ہوئے تو ان احکام کے ساتھ ساتھ یہ تاکید بھی مسلسل کی گئی کہ اللہ سے ڈرو جس کے پاس تمھیں لوٹ کر جانا ہے‘ جس کا عذاب بہت سخت اور دردناک ہے‘جو ہر بات کو سنتا ہے‘ ہر ہر عمل کو دیکھتا ہے اور جانتا ہے اور وہ تم سے حساب لے گا۔ بعض روایات کے مطابق جو آخری آیت نازل ہوئی اور جس نے سورئہ بقرہ کے آخر میں جگہ پائی وہ یہ تھی:
وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ ق ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَo (البقرہ ۲:۲۸۱) اس دن سے ڈرو‘ جس دن تم اللہ کی طرف لوٹائے جائو گے۔ پھر ہر ایک کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا اور کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہوگی۔
گویا احکامات دیے تو ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے وہ پاور ہائوس بھی بتایا جو ان احکام پر عمل کرنے کی قوت فراہم کرتا ہے‘ خواہ یہ وراثت کے احکام ہوں یا نکاح و طلاق کے‘ جہاد کے ہوں یا ایمانیات کے۔
جہاد کا حکم دیا تو بتایا کہ یہ جنت کا سودا ہے۔ جنت کے لیے جہاد کرو اور اس کے علاوہ کوئی اور مقصد سامنے مت رکھو۔ ایمان کی حقیقت بیان کی تو کہا کہ: ہم نے ایمان لانے والوں کے جان و مال جنت کے بدلے میں خرید لیے ہیں۔ اسی طرح جب مسلمانوں میں کوئی خرابی رونما ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِط o (الجمعہ ۶۲:۱۱) بتا دیجیے جو کچھ اللہ کے پاس آخرت میں ہے‘ وہ دنیا کی ساری دل چسپیوں اور نفعے سے زیادہ بہتر ہے۔
اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ ج (التوبہ ۹:۳۸) کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کرلیا ہے۔
اس طرح سے قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی یاد اور اس کی تیاری کی فکر کے ذریعے‘ مسلمانوں کے روحانی امراض کا علاج کیا اور ان کو ایمان کے تقاضے ادا کرنے کے لیے تیار کیا۔ پھر کیفیت یہ ہوگئی کہ صحابہ کرامؓ کے لیے جنت اور دوزخ اتنے حقیقی بن گئے جتنی کہ دنیا تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ ان پر ہر وقت ایک جیسی کیفیت طاری رہتی تھی۔ وہ بھی انسان تھے اور ہر قسم کے حالات سے گزرتے تھے لیکن ان کو غیب پر ایمان حاصل تھا۔ غیب پر ایمان ہی ان کے تقوے کی بنیاد تھا۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں متقین کی سب سے پہلی صفت ہی یہ بیان کی کہ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ‘ وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ غیب میں اللہ تعالیٰ کی ذات بھی شامل ہے‘ جنت بھی اور دوزخ بھی۔ ان پر ایمان کے بغیر تقویٰ پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ صحابہؓ کا حال یہ تھا کہ گویا جنت میں رہتے‘ جنت کی خوشبو سونگھتے اور جنت کی نعمتوں کا مزہ چکھتے ہوں۔ جنت مقصود و مطلوب تھی‘ تو وہی نگاہوں میں سمائی رہتی۔ ان کو دنیا میں بھی جنت کا مزہ آگیا تھا۔ وہ دوزخ سے اس طرح ڈرتے ‘ کانپتے اور لرزتے تھے کہ ان کے چہروں کے رنگ بدل جاتے‘ جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے‘ آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے‘ داڑھیاں بھیگ جاتیں‘ گویا کہ آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے ہوں۔
ایک دفعہ نبی کریمؐ منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے۔ آپؐ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا‘ پھر واپس کھینچ لیا۔ لوگوں کو تعجب ہوا کہ یہ کیا ہوا۔ پوچھا تو آپؐ نے فرمایا: میرے سامنے جنت کا ایک خوشہ تھا‘ میں نے چاہا کہ اسے توڑ کر تمھیں دکھا دوں۔
جنت ‘نہ وعظ تھی‘ نہ افسانہ اور نہ کہانی‘ بلکہ جو کچھ ان کو پیش آتا تھا‘ جن حالات میں وہ چلتے پھرتے تھے‘ جنت ان کے سامنے رہتی تھی‘ عذاب اور دوزخ کا خطرہ انھیں لاحق رہتا تھا۔ وہ جنت کی خوشبو سونگھتے اور متوالے ہو کر جان قربان کردیتے۔ جنت کے باغ کا تصور ذہن میں لاتے تو اُس کی چاہت اور تڑپ میں دنیا کا بہترین باغ اللہ کی راہ میں دے دیتے۔ آندھی چلتی تو کانپ اٹھتے۔ کسی قبر پرکھڑے ہوتے تو زاروقطار روتے۔ اسی چیز نے ان میں بے مثال قربانی‘ اطاعت اور اللہ کے ساتھ تعلق پیدا کیا تھا۔
آج بھی اپنے رب سے ملاقات کی ایسی ہی یاد اور جنت کا ایسا یقین اور حصول کے لیے ایسی ہی تڑپ اورجہنم کی آگ کا ایسا ڈر‘ کسی نہ کسی درجے میں ہمیں حاصل کرنا چاہیے۔ یہ ناگزیر ہے۔ اگر ہم نے یہ نہ کیا تو اُن سارے کاموں کاہمیں کوئی فائدہ نہ ہوگا جو ہم خدا کی راہ میں کررہے ہیں۔
اللہ کی اطاعت میں اتنی محنت کے بعد بھی‘ آخرت میں اجر نہ ملے تو اس ساری تگ و دو کاکیا فائدہ ؟ اس سے بہتر تو شاید یہ ہوگا کہ ہم دنیا ہی کے لیے بھاگ دوڑ کریں‘ یہیں کچھ کما لیں‘ یہیں کچھ بنالیں۔ ہم دین کے لیے کام کریں‘ دنیا کا نقصان بھی اٹھائیں اور یہ بھی سمجھتے رہیں کہ ہم بڑے اچھے اعمال کر رہے ہیں‘ لیکن آخرت کی آندھی سب کچھ اڑا کر لے جائے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں‘ تو یہ بڑے نقصان کا سودا ہوگا۔ خدا نہ کرے کہ ہم ایسے ہوں‘ اور مجھے امید ہے کہ ہم ایسے نہیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی اس تنبیہ کو یاد رکھنا ضروری ہے:
قُلْ ھَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًاo اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا o (الکھف ۱۸:۱۰۳-۱۰۴)
اے نبیؐ، ان سے کہو‘ کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔
یہ بات ہر وقت ذہن نشین رہنی چاہیے کہ جو کام محض دنیا کی خاطر ہوا وہ ضائع ہوگیا۔ کیونکہ جسم سے آخری سانس نکلتے ہی دنیا ہاتھ سے نکل جائے گی۔ دولت ہو‘ مکان ہو‘ کھیت ہوں‘ کاروبار ہوں‘غرض دنیا کی کوئی بھی چیز ساتھ جانے والی نہیں۔ قبر میں کوئی چیز ساتھ نہیں جاتی۔ دنیا میں جو کچھ کمایا‘ وہ پیچھے رہ گیا۔ صرف اعمال ساتھ ہوں گے۔اب اگر اعمال بھی‘ خواہ وہ کتنے ہی دینی کیوں نہ ہوں‘ خدا اور آخرت کے لیے نہ ہوئے تو وہ بھی ضائع جائیں گے۔ اگرچہ ہم اس خیال میں مگن ہوں کہ ہم تو بہت ہی اچھے کام کر رہے ہیں اور آخرت کے لیے ذخیرہ کر رہے ہیں۔ یہ تو بہت ہی نقصان کا سودا ہوگا کہ ہم اللہ کے دین کا کام بھی کریں اور آخرت میں اس کا بدلہ بھی نہ ملے۔
فکرِآخرت‘ رب سے ملاقات کی یاد اور تیاری‘ جنت کے حصول کی تڑپ اور نارِجہنم کا خوف‘ صرف ہمارے ہی لیے ضروری نہیں‘ بلکہ ہماری دعوت کے مخاطبین کے لیے بھی ضروری ہے۔ اگر ہم نے کسی کو اجتماع میں شریک کرلیا‘ کسی سے اعانت لے لی‘ کسی کو کتاب پڑھوا دی‘ کسی سے ووٹ لے لیا‘ مگر اس سے اُس کو آخرت کا کوئی فائدہ نہ ہوا‘ تو ہم نے اس کی کوئی خیرخواہی نہیں کی‘ اس کے ساتھ کوئی بھلائی نہیں کی۔ دوسری پارٹیاں بھی لوگوں سے پیسے لے لیتی ہیں‘ انھیں جلسے جلوس میں لے جاتی ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمارے ان تمام کاموں کے نتیجے میں اس کو آخرت میں اجر ملنا چاہیے اور اس کی آخرت سنورنی چاہیے۔
نبی کریمؐ نے صرف اپنے ساتھیوں ہی سے نہیں کہا کہ فکرِآخرت اور اللہ سے ملاقات کی تیاری کرو‘ بلکہ آپؐ انتہائی کٹّر مخالف‘ مشرک‘ کافر‘ یہودی‘ عیسائی‘ منافق‘ ہر ایک کو بار بار آخرت کے عذاب سے ڈراتے رہے۔ آپؐ نے اپنے رشتے داروں کو کھانے پر جمع کیا تو یہی بات کہی۔ کوہ صفا پر کھڑے ہوئے تو آپؐ نے یہی کہا کہ اُس عذاب سے ڈرو جو تمھارے سروں پر اس طرح کھڑا ہے جس طرح اس پہاڑی کے پیچھے کوئی لشکر موجود ہو جو ابھی تمھیں دبوچ لے گا۔ اپنی اولاد کو‘ اپنے چچائوں اور پھوپھیوں کو‘ اپنے اعزہ و اقربا کو‘ ایک ایک کا نام لے لے کر‘ اُن کو اُس دن کی تیاری کرنے کی دعوت دی جس دن کوئی کسی کے کام نہ آئے گا۔
ہر نبی کو اللہ تعالیٰ نے یہی کہہ کر بھیجا کہ اَنْذِرْ قَوْمَکَ ، اپنی قوم کو خبردار کرو اور ڈرائو اس سے پہلے کہ عذاب آجائے۔
قرآن کا ایک بڑا حصہ آخرت کے بیان ہی پرمشتمل ہے۔ صرف یہ دعوت ہی نہیں دی کہ اپنے رب کی ملاقات کی تیاری کرو‘ بلکہ بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے کہ آخرت کیسی ہوگی‘ کس طرح قبر سے اٹھو گے‘ کس طرح اللہ کے سامنے جائو گے‘ حشر کا میدان کیسا ہوگا‘ وہاں کیا سماں ہوگا‘ اعمال کا وزن کیسے ہوگا‘ عذاب کس قسم کا ہوگا‘ کیسی ذلت ورسوائی اورحسرت و ندامت ہوگی‘ جہنم کی آگ کیسی ہوگی‘ آگ کے کوڑے ہوں گے‘ پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی ہوگا جس سے آنتیں کٹ جائیں گی‘ سر پر آگ کا سایہ ہوگا اور لیٹنے کے لیے آگ کا بستر--- گویا ایک ہولناک منظر ہے جس کی تصویر کشی کی گئی ہے۔
قرآن میں احکام کی اتنی تفصیل بیان نہیں ہوئی‘ لیکن آخرت کے حوالے سے ایک ایک چیز کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ یہ نہیں بیان کیا کہ ہر نماز کی کتنی رکعتیں ہیں‘ ان میں فرائض کیا ہیں اور سنن و مستحبات کیا ہیں‘ زکوٰۃ کا نصاب کیا ہے‘ لیکن آخرت کی ایک ایک بات بڑی تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔ ایک ایک عذاب کی تفصیل ہے‘ ایک ایک نعمت کا تذکرہ ہے۔ جنت کیسی ہوگی--- اس میں بالاخانے ہوں گے‘ محلات ہوں گے‘ خیمے ہوں گے‘ گھنے اور لمبے سائے ہوں گے‘ ہر قسم کے پھل اور میوے ہوں گے‘ انگور ہوں گے‘ انار ہوں گے۔کھجور ہوگی‘ کیلا ہوگا‘ بیری کے درخت ہوں گے۔ پانی ‘دودھ ‘ شہد ‘ غرض ہر قسم کے بہترین مشروبات کے چشمے بہہ رہے ہوں گے‘ حسین و جمیل رفاقتیں ہوں گی‘ حوریں ہوں گی اور یہ سب کچھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہوگا۔
قرآن ہی ہمارے لیے روشنی ہے‘ قرآن ہی ہمارا رہنما ہے‘ قرآن ہی کی طرف ہماری دعوت ہے‘ لیکن ہماری دعوت میں آخرت کا بیان کہاں ہے اور کتنا ہے؟ اگر ہم قرآن کی دعوت لے کر کھڑے ہوئے ہیں‘ قرآن کا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں‘ قرآن پر لوگوں کو جمع کرنا چاہتے ہیں تو ہماری دعوت کو بھی قرآن ہی کے انداز میں آخرت کی دعوت ہونا چاہیے۔ اپنے مخالفین کو‘ خواہ وہ کہیں بھی ہوں اور کیسی ہی استعداد رکھتے ہوں‘ قرآن کے اسی انداز میں آخرت کی تیاری کی دعوت دینا چاہیے۔
اگر غور کریں تو اس لحاظ سے ہم بہت پیچھے ہیں۔ جو تقریریں ہم کرتے ہیں ان کو دیکھیں‘ جو درس ہم دیتے ہیں ان پر نگاہ ڈالیں‘ تربیت گاہوں کے جو پروگرام ہوتے ہیں ان کا جائزہ لیں‘ ان سب میں رب سے ملاقات کی یاد اور جنت و دوزخ کے ذکر کا کتنا حصہ ہوتا ہے؟ کبھی ایک دم ہمیں خیال آتا ہے کہ فکرِآخرت کا پروگرام بھی ہونا چاہیے۔ ایک حدیث رکھ لو‘ ایک درس رکھ لو‘ ایک تقریر رکھ لو‘ مگر قرآن کے وہ حصے جہاں جنت اور جہنم کا بیان ہے وہ ہمارے درس کا موضوع نہیں بنتے۔ شاید یہ سب کچھ جدید دور کا بھی اثر ہے کہ ہم کو اب شاید کچھ غیرشعوری ہچکچاہٹ ہوتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ اس زمانے میں یہ حوروغِلمان کا ذکر کرتے ہیں اور محلات کا ذکر کرتے ہیں‘ جنت کا لالچ دیتے ہیں اور آگ سے ڈراتے ہیں۔
ہم سوچتے ہیں کہ آج کل اس طرح لوگ کہاں متاثر ہوں گے‘ کہاں مانیںگے۔ اب تو اسلامی نظام کی برتری ثابت کرنا چاہیے۔ دوسرے نظام ہاے حیات پر تنقید کرنی چاہیے‘ عالمی اور قومی سیاست کے حوالے سے بات ہونا چاہیے۔ یہ سب کچھ بھی ضرور ہونا چاہیے‘ لیکن صرف اس سے کام ہرگز نہیں چلے گا۔ ہمارے دروس میں‘ ہمارے پروگراموں میں آخرت کا‘ جنت کا‘ دوزخ کا وہ تناسب نہیں ہے جو تناسب قرآن مجید میں ہے‘ بلکہ قرآن مجید جس قدر آخرت‘ جنت اور دوزخ کے بیان سے بھرا ہوا ہے اس کا عشرعشیر بھی ہماری دعوت‘ گفتگوئوں‘ تقریروں اور درس میں نہیں ہوتا۔
ظاہر ہے کہ یہ ہونا چاہیے کیونکہ لوگوں کے ساتھ اصل بھلائی ہی یہ ہے کہ وہ آخرت میں کامیاب ہوسکیں۔ ہمارا سارا کام اسی لیے ہے کہ لوگ جنت کے طلب گار بن جائیں۔ پھر دین بھی قائم ہوگا اور دنیا میں بھی اسلامی نظام کی جنت بنے گی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ لوگ انھی جذبات سے اس دین کی طرف آئیں جن جذبات سے وہ قوم پرستی اور سوشلزم کی طرف جاتے ہیں تو اسلام کے لیے یہ نسخہ کارگر نہیں ہوسکتا‘ نہ ہو رہا ہے۔
جب لوگ جنت کے طلب گار بن جائیں گے جس طرح صحابہ کرامؓ تھے تو پھر وہ دنیا کو بھی جنت بنائیں گے اور دنیا میں عدل و قسط کا نظام بھی قائم ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسپین سے لے کر چین تک‘ ساری دنیا اُن کے قدموں میں ڈھیر ہوگئی جو جنت سماوی کے طلب گار تھے۔ اگر وہ دنیا کے طلب گار ہوتے توکیا دنیا اس طرح ان کے آگے ڈھیر ہوتی؟ ہمیں بھی یہ جاننا چاہیے کہ جب ہم آخرت کے طلب گار بن جائیں گے تو اللہ تعالیٰ دنیا کو ہمارے قدموں میں اُسی طرح ڈھیر کر دے گا جس طرح ان کے آگے دنیا بچھتی چلی گئی۔ لیکن اگر ہم نے صرف دنیا طلب کی تو آخرت بھی ہاتھ سے جائے گی اور دنیا بھی!
دنیا ہماری مطلوب کیوں ہو‘ جب کہ اس طرح اس کا ملنا غیر یقینی ہے اور جنت کا ہاتھ سے جانا یقینی۔ دنیا تو اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا دے گا‘ جس کو چاہے گا نہیں دے گا‘ لیکن آخرت کے حوالے سے اس کا وعدہ یقینی ہے کہ جس نے آخرت کا ارادہ کر لیا اور اس کے لیے کوشش کی جیساکہ کوشش کرنے کا حق ہے‘ اور اس کے دل میں ایمان ہے تو اس کی محنت کی لازماً قدردانی کی جائے گی۔
مَنْ اَرَادَ الْاٰخِـرَۃَ وَسَعٰی لَھَا سَعْیَـھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعْیُھُمْ مَّشْکُوْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۱۹) جو آخرت کا خواہش مند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے‘ اور ہو وہ مومن‘ تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہوگی۔
ہر آدمی دن رات محنت کرتا ہے۔ کسی کو چند ٹکے ملتے ہیں اور کسی کو لاکھوں مل جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت سے کسی کو بقدرِ ضرورت دیتا ہے اور کسی کو بلاحساب دیتا ہے‘ اس لیے کہ دنیا فنا ہونے والی ہے اور اس کی کوئی قیمت نہیں۔ اِس کی حقیقت تو بس اتنی ہے جیسے ایک مچھر کا پر‘ یا جیسے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈال کر کچھ پانی حاصل کرلے‘ یا جیسا کہ قرآن نے کہا: اگر یہ امکان نہ ہوتا کہ سارے کے سارے لوگ کافر ہوجائیں گے تو ہم رحمن کا انکار کرنے والوں کے گھروں کی چھت‘ زینے‘ دروازے‘ فرنیچر سب چاندی کا بنا دیتے‘ بلکہ سونے کا۔ پھر بھی ان کی قیمت اس سے زیادہ نہ ہوتی کہ جب تک سانس ہے آدمی اس سے کام لے لے‘یا لذت اندوز ہولے۔ جو چیز ختم ہونے والی ہو اس کی کیا حقیقت ہو سکتی ہے۔
قرآن مجید میں بار بار اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ: اس دنیا کو مقصود نہ بنائو‘ منزل نہ بنائو‘ بلکہ اس دنیا کے ذریعے آخرت کا سامان کرو۔ یہی راہ پکڑو گے توکامیابی تمھارے قدم چومے گی۔ یہ بات ہرلمحے یاد رکھو کہ اپنے رب سے ملاقات کرنا ہے‘ اس ملاقات کی تیاری کرو۔ قیامت کے دن وہ یہی پوچھے گا کہ تم نے دنیا کی زندگی میں آج کے دن کی ہم سے ملاقات کو یاد رکھا تھا یا نہیں۔ اگر اِس دنیا میں یہ بات بھلا دی گئی کہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنا ہے تو تباہی و بربادی اور ناکامی و خسارہ مقدر ہوگا۔ دیکھیے کتنے دل دہلا دینے والے الفاظ ہیں:
وَقِیْلَ الْیَوْمَ نَنْسٰکُمْ کَمَا نَسِیْتُمْ لِقَآئَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا وَمَاْ وٰکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ o (الجاثیہ ۴۵:۳۴) اور ان سے کہہ دیا جائے گا کہ آج ہم بھی اُسی طرح تمھیں بھلائے دیتے ہیں جس طرح تم اِس دن کی ملاقات کو بھول گئے تھے۔تمھارا ٹھکانا اب دوزخ ہے اور کوئی تمھاری مدد کرنے والا نہیں ہے۔
فَذُوْقُوْا بِمَا نَسِیْتُمْ لِقَـآئَ یَوْمِکُمْ ھٰذَاج اِنَّا نَسِیْنٰکُمْ o (السجدہ ۳۲:۱۴)
پس اب چکھو مزا اپنی اس حرکت کا کہ تم نے اس دن کی ملاقات کو فراموش کر دیا‘ ہم نے بھی اب تمھیں فراموش کر دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق‘ محض بھولنے اور یاد رکھنے کا معاملہ نہیں ہے۔ جب وہ کہتا ہے کہ ہم بھلا دیں گے تو اس کے معنی دراصل یہ ہیں کہ ہم نظر اُٹھا کر بھی نہ دیکھیں گے‘ رحمت نہ کریں گے۔ جس دن کوئی سایہ نہیں ہوگا سوائے اس کے سائے کے‘ کوئی سہارا نہ ہوگا سوائے اس کے سہارے کے‘ کسی کی نظر کام نہ آئے گی سوائے اس کی نظرِکرم کے‘ کسی کی توجہ سے کام نہ بنے گا سوائے اس کی توجہ کے--- ذرا سو چیے کہ اگر اُس دن اُس نے ہمیں بھلا دیا تو ہمارا کیا بنے گا!
لہٰذا اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے اس دن کو برابر یاد رکھنا اور اس ملاقات کی تیاری کرنا‘ یہ وہ کام ہے جو اپنے لیے بھی ضروری ہے اور جو ہمارے مخاطب ہیں یا ساتھ چلنے والے ہیں‘ ان کے لیے بھی ضروری ہے۔ حضور اکرمؐ نے اپنی جو مثال بحیثیت داعی کے دی ہے‘ اسے دیکھیے۔ آپؐ نے فرمایا: میری مثال ایسی ہے جیسے کسی نے آگ جلائی۔ اب تم ہو کہ پروانوں کی طرح اس آگ میں گر رہے ہو اور میں ہوں کہ تمھاری کمریں پکڑپکڑ کر تمھیں روک رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں‘ لوگو! آگ سے بچو۔
بحیثیت داعی ہمارا کردار حضور اکرمؐ کی اس مثال کے مطابق ہونا چاہیے۔ اگر ہمارے گھر میں آگ لگ جائے تو ہم اپنی جان خطرے میں ڈال کر‘ اپنے بچوں کو اٹھا کر باہر بھاگیں گے‘ پانی لے کر آئیں گے اور آگ بجھائیں گے۔ اگر ہماری بیوی‘ بھائی‘ بہن‘ ماں باپ‘ دوست‘ رشتہ دار آگ میں جلنے کے خطرے کے قریب ہوں تو یقینا ہم بے چین ہوجائیں گے۔ اگر یہی لوگ جہنم کی آگ کے قریب جا رہے ہوں توکیا یہی جذبہ ہمارے اندر پیدا ہوتا ہے‘ کیا ہم اسی طرح کوشش کرتے ہیں کہ ان کو آگ سے بچالیں؟
آخرت کی یاد اور آخرت کے لیے تیاری‘ یہی وہ پاور ہائوس ہے جو ہمارے کام اور جدوجہد کو رواں دواں رکھے گا۔ سارے کاموں میں یہی یاد جاری و ساری رہنا چاہیے‘ خواہ وہ الیکشن کا کام ہو یا نعروں اور جلوس کا کام یا پوسٹر لگانے کا۔ جو کام بھی آپ کریں صرف اس لیے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہو‘ آپ کو اپنی جنت میں داخل کر دے۔ پھر دیکھیے اس کام میں کتنی اور بے انتہا برکت ہوتی ہے۔ اس کام کا بہت بڑا اجر آپ کو آخرت میں یقینا ملے گا‘ اگرچہ دنیا میں بظاہر کچھ نہ بھی ملے‘ یہاں آپ الیکشن نہ بھی جیتیں اور چاہے لوگ آپ کی بات سن کر نہ دیں۔ لیکن اگر آپ نے کام صرف اس لیے کیا کہ کسی نہ کسی طرح الیکشن جیت جائیں‘ الیکشن تو آپ ہار بھی سکتے ہیں‘ لیکن آخرت میں آپ کو اس کا کوئی بدلہ نہیں ملے گا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ صرف وہی کام قبول کرے گا جو خالص اس کے لیے ہو۔ بظاہر الیکشن تو دنیاوی کام ہے اور اگر کوئی شخص قرآن کا حافظ اور عالم ہو یا اللہ کی راہ میں شہید ہوجائے‘ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے والا ہو‘ لیکن یہ خالصتاً دینی کام بھی اگر صرف اللہ کے لیے نہ کیے گئے ہوں‘ تو یہ بھی اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرمائے گا‘ بلکہ ان کو جہنم میں ڈال دے گا۔ عمل تو وہی قبول ہوگا جو خالص صرف اسی کے لیے ہو‘ اسی سے اجر کے لیے ہو۔ آخرت کے مسافر اور بھی ہیں‘ فرق اتنا ہے کہ دوسرے لوگوں کے نزدیک آخرت گوشے میں بیٹھ کر ملتی ہے‘ مگر ہمارے نزدیک آخرت اللہ کے دین کی راہ میں جہاد کے ذریعے ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یقینی وعدہ کیا ہے:
وَلَا ُدْخِلَنَّھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ج (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۵) میں ان کو ضرور بالضرور جنتوں میں داخل کروں گا جہاں نہریں بہتی ہوں گی۔
یہ ہونی چاہیے ہماری دعوت‘ یعنی رب سے ملاقات اور جنت کی طلب۔ دوسروں کو بلانا ہے تو اس طرف ہی بلانا ہے کہ وہ جنت کے طلب گار بنیں اور اللہ کے دین کی راہ میں جہاد کے لیے کھڑے ہو جائیں۔ ہماری دعوت کا موضوع یہی بن جائے‘ یہی دعوت کی روح بن جائے کہ:
وَفِی الْاٰخِـرَۃِ عَـذَابٌ شَدِیْـدٌ وَّمَـغْفِـرَۃٌ مِّـنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانٌط (الحدید ۵۷:۲۰) آخرت میں ایک طرف عذاب شدید ہے‘ دوسری طرف اللہ کی مغفرت اور رضا۔
یہ دونوں ہمارے منتظر ہیں۔ ہمیں فیصلہ یہ کرنا ہے کہ ان میں سے کون سی چیز ہم اپنے لیے منتخب کرتے ہیں۔
گو یہ دونوں چیزیں آج ہمیں آنکھوں سے دکھائی نہیں دے رہیں۔ لیکن اگر ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے تو مغفرت و رضوان کے انعام کا اور عذاب شدید کا پورا نقشہ‘ ہم قرآن مجید میں دیکھ سکتے ہیں۔ آپ قرآن مجید کثرت سے پڑھیں‘ اس کو یاد کریں‘ اس کو نمازوں میں پڑھیں‘ چھوٹی چھوٹی آیتوں کے معنی یاد کرلیں۔ صبح و شام‘ اٹھتے بیٹھتے‘ موت کو یاد رکھیں۔ قرآن پڑھیں تو خود کو اس کا مخاطب بنائیں۔ اپنے مخاطبین کو دعوت دیں تو آخرت کے بیان اور آخرت کے لیے تیاری کو اس میں شامل کریں۔ اس طرح آپ کی زندگی صحیح راہ پر چلے گی اور آپ کی محنت کا بدلہ آپ کو لازماً ملے گا۔ بالآخر وہ وقت بھی آئے گا جب ہم اس کی جنت میں داخل ہونے کے مستحق ٹھیریں گے۔
ایک چھوٹا سا عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو یاد رکھنے میں کافی مدد ملتی ہے۔ اس کو اگر آپ اپنے اوپر لازم کرلیں تو آپ بھی اس کے ذریعے آخرت کاسفر بار بار کرسکتے ہیں۔
اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ -
اے اللہ مجھے آگ سے بچا لے۔
بہت چھوٹی‘ بہت سادہ‘ بہت آسان دعا ہے۔ اس کو عربی ہی میں یاد کرنا چاہیے‘ اور یہ کوئی ایسا مشکل کام بھی نہیں۔ اگر ہم اُن الفاظ میں یہ دعا مانگیں گے جو الفاظ حضور اکرمؐ نے سکھائے ہیں تو الفاظ سے بھی برکت کا چشمہ جاری ہوگا‘ لیکن اگر یہ الفاظ یاد نہ ہو سکیں تو اپنی زبان میں اس کا مفہوم ادا کیا جا سکتا ہے‘ یعنی اے اللہ مجھے آگ کے عذاب سے بچا لے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو آدمی مغرب کے بعد اور فجر کے بعد سات سات دفعہ یہ دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو آگ کے عذاب سے بچالے گا۔ دعا خود سے تو کام نہیں کرتی۔ دعا تو اس بات کا اظہار ہے کہ آپ کو اُس چیز کی طلب ہے‘ پیاس ہے جو آپ مانگ رہے ہیں۔ جب آپ پانی مانگتے ہیں تو آپ کو پیاس لگی ہوتی ہے‘ آپ کھانا مانگتے ہیں تو بھوک لگی ہوتی ہے۔ جتنی شدت سے بھوک پیاس ہوتی ہے‘ اتنی ہی بے چینی اور اضطراب اور لگن سے آپ پانی اور کھانا مانگتے ہیں اسی طرح آپ کو آگ سے بچنے کی فکر لگی ہو اور شدت سے لگی ہو‘ خوف‘ اندیشہ‘ بے چینی اور اضطراب سے دل بھرا ہوا ہو‘ اور پھر آپ کہیں اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ، تو ان الفاظ کا اثر ہوگا۔ دل میں آگ لگی ہوگی تو الفاظ دل سے نکلیں گے‘ رنگ لائیں گے۔ یہ الفاظ آپ دل سے کہیں گے تو دل میں آگ سے بچنے کی فکر بھی پیدا ہوگی۔ مانگنے سے بھی بھوک پیاس محسوس ہونے لگتی ہے۔ یہ گویا دو طرفہ عمل ہے۔اس لیے صبح و شام فجر اور مغرب کے بعد ضرور کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔
میں نے اس عمل میں تھوڑا سا اضافہ کیا ہے۔ میں جس طرح پڑھتا ہوں‘ آپ بھی چاہیں اور مفید سمجھیں تو اس طرح ہی پڑھیں۔ اس میں کوئی زیادہ وقت بھی نہیں صرف ہوتا۔ ہر بار جب میں یہ کہتا ہوں کہ اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ، تو آخرت کے سفر کی کسی ایک منزل کا نقشہ اپنے ذہن میں رکھتا ہوں۔ یہ سفر قرآن مجید میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ میں اس سفر کے کسی ایک مرحلے کی تصویر اپنے ذہن میں لاکر کہتا ہوں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔
کَلَّا ٓاِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَ o وَقِیْلَ مَنْ رَاقٍ o وَّظَنَّ اَنَّہُ الْفِرَاقُ o وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ o اِلٰی رَبِّکَ یَوْمَئِذِ نِ الْمَسَاقُ o (القیامۃ ۷۵:۲۶-۳۰)
ہرگز نہیں‘ جب جان حلق تک پہنچ جائے گی‘ اور کہا جائے گا کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا‘ اور آدمی سمجھ لے گا کہ یہ دنیا سے جدائی کا وقت ہے‘ اور پنڈلی سے پنڈلی جڑ جائے گی‘ وہ دن ہوگا تیرے رب کی طرف روانگی کا۔
جب جان حلق تک پہنچ جائے گی‘ پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی۔ کوئی سہارا نظر نہ آئے گا جو موت سے بچائے اور کوئی جھاڑ پھونک کرکے بھی نہیں بچا سکے گا‘ تو یقین ہو جائے گا کہ بس اب تو دنیا کو چھوڑنا ہے۔ بھائی بہن‘ ماں باپ‘ رشتہ دار‘ مال و دولت‘ مکان سب کچھ چھوڑنا ہیں‘ جسم کی سب قوتیں ختم ہو جائیں گی۔ اب اللہ کی طرف جانا ہے اور سوائے اعمال کے کوئی سہارا نہیں۔ یا اس وقت کو یاد کریں جب فرشتے آئیں گے اور چہروں اور پیٹھوں پر آگ کے کوڑے ماریں گے‘ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَاَدْبَارَھُمْo (محمد ۴۷: ۲۷)
موت کے کسی منظر کو چند سیکنڈ کے لیے قرآن کے کسی حصے کے ذریعے‘ یا ذہن میں لاکر آپ موت کا وقت یاد کریں‘ اور اس کے بعد کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔ یہ پہلا مرحلہ ہوا۔
حضرت عثمانؓ کے بارے میں مذکور ہے کہ آپ جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اتنا زاروقطار روتے تھے کہ آپ کی داڑھی آنسوئوں سے بھیگ جایا کرتی تھی۔ حدیث میں آتا ہے کہ قبر کہتی ہے کہ میں تنہائی کا گھر ہوں‘ میں کیڑوں کا گھر ہوں۔ لہٰذا قبر کا عذاب‘ اُس کے مختلف مناظر اگر ذہن میں تازہ رکھیں‘ اور کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔ یہ دوسرا مرحلہ ہوا۔
یہ تیسری منزل ہے حشر کی۔ کسی بھی منظر کو ذہن میں تازہ کرلیں اور کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔
اس طرح آپ دنیا سے چلنا شروع کریں‘ موت کے وقت سے جہنم تک پہنچیں‘ پھر واپس لوٹ کر آج کی دنیا میں آجائیں۔ یہ سفر مکمل ہوجائے گا۔
یہ دعا سات دفعہ اگر آپ صبح و شام اس طرح پڑھ لیں تو مشکل سے دو تین منٹ صرف ہوں گے۔ آپ مزید کچھ وقت بیٹھنا چاہیں تو بیٹھ سکتے ہیں۔ لیکن میں آپ کو کسی طویل مراقبے کی تعلیم نہیں دے رہا ہوں۔
اس طرح آپ موت کو یاد رکھنے والوں میں شامل ہو جائیں گے۔ اس کے بعد بھی اگر آپ اللہ سے ملاقات کو بھولیں گے ‘کوئی بات نہیں‘ انسان بھولنے والا ہے‘ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا ہے۔ صحابہ کرامؓ بھی ہمیشہ ایک ہی حالت میں نہیں رہتے تھے۔ ان کی حالت بدلتی رہتی تھی۔ حضوؐر کی محفل میں ہوتے تو گویا جنت و دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے‘ گھروں کو جاتے تو یہ کیفیت بہت مدھم ہو جاتی۔
اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ آپ آخرت کو کبھی نہیں بھولیں گے۔بھول تو آدمی کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آخرت کو یاد رکھنے کی کوشش کرتے رہیں‘ اور اگر بھولیں تو فوراً یاد کرلیں۔ پھر پوری امید رکھیں کہ اللہ آپ کی برائیوں کو نظرانداز کر دے گا‘ آپ کے گناہوں کو بخش دے گا۔ اس کا بھی امکان ہے کہ آپ گناہ کم اور نیکیاں زیادہ کرنے لگیں۔ بس آپ کی اپنی طرف سے کوشش ضروری ہے۔ اس کوشش کے لیے یہ ایک عملی نسخہ ہے۔ اس کو آپ اختیار کرلیں تو ان شاء اللہ آپ کو بہت فائدہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو ‘ سب کو‘ اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! (کیسٹ سے تدوین: عبدالجبار بہٹی)
(کتابچہ دستیاب ہے۔ فی عدد ۵ روپے۔ سیکڑے پر رعایت۔ منشورات‘ منصور‘ہ لاہور-۵۴۷۹۰)
امام غزالیؒ کا دور فلسفہ و تعقل پرستی کا دور تھا۔ یونانی فلسفیوں کی کتابیں خصوصاً ارسطو کی تصنیفات‘ جو عربی میں منتقل ہوچکی تھیں‘ مسلمانوں کی فکروذہن کو بری طرح متاثر کر رہی تھیں۔ فلسفیانہ موشگافیوں سے دین و شریعت اور اصول و عقائد‘ کوئی چیز محفوظ نہ رہی تھی۔ دینی اصطلاحات کو نئے نئے معانی پہنائے جا رہے تھے۔ آیاتِ قرآنی کی نئی نئی تعبیریں کی جا رہی تھیں‘ جو بات عقل اور فلسفے پر پوری اترتی صرف وہی قابلِ قبول ہوتی اور باقی ہر شے لائق استرداد قرار دی جاتی۔ دوسری طرف باطنیت کا فتنہ عروج پر تھاجس نے فلسفے کی آوارہ خیالی‘ لذتیت پرستی اور رفض و تشیع کی کوکھ سے جنم لیا تھا۔ باطنیت محض ایک فکری رویہ نہ تھااور وہ مسلمانوں کے فکر اور عقیدے کو سبوتاژ کرنے کے لیے ایک نیا علم کلام اور دین و شریعت کی نئی تعبیرات ہی پیش نہیں کر رہا تھا‘ بلکہ وہ ایک سیاسی رویہ بھی تھا۔ باطنی عالم اسلام کی سیاسی زندگی کو تلپٹ کرنے کے لیے سرگرم عمل تھے اور ان کے خنجر سے عالم اسلام کا کوئی توانا اور متحرک دینی و سیاسی رہنما اور عالم و صالح شخص محفوظ نہ تھا۔ فلسفہ اور باطنیت کی ان دو بلائوں کے درمیان مسلمان ذہنی انتشار میں مبتلا حیران و پریشان کھڑے تھے۔ مسلمانوں کے دانش ور طبقے کے ایک بڑے عنصر کا رجحان فلسفے کی طرف تھا۔ باطنیت سے دانش وروں سے زیادہ خوش عقیدہ عوام الناس اور عام پڑھا لکھا عنصر مرعوب و متاثر تھا۔ نتیجہ یہ تھا کہ دین کی گرفت ذہنوں اور اعمال پر ڈھیلی پڑ گئی۔ دینی افکار و عقائد کی بنیادیں متزلزل ہوگئیں۔ دین کو زمانے کے جدید ترین تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے اس کی تراش خراش شروع ہوگئی۔ اسلام کے خلاف ایک بغاوت عام برپا تھی جس سے کوئی طبقہ محفوظ نہ تھا اور وہ جن پر دفاع دین کی ذمہ داری عائد ہوتی تھی یا تو خود اس سیلاب بلاخیز میں بہہ رہے تھے اور زمانہ با تونسازد تو بازمانہ بساز کا درس دے رہے تھے‘ یا بے بسی اور بے چارگی کے عالم میں مسجدوں کے حجروں اور مدرسوں کی چار دیواریوں میں پناہ گزیں ہوگئے تھے۔ اس فساد کے آگے کھڑا ہونے اور اپنے دین کا دفاع کرنے کی توفیق اللہ نے اپنے جس بندے کو دی وہ امام غزالیؒ تھے…
انھوں نے یونانی فلسفے کے تناقضات پر اسی کے نقطۂ نظر سے تنقید کی‘ اس کی کمزوریوں کو آشکارا کیا‘ اور استدلال کی قوت سے ان کے افکار و تخیلات کی بے مایگی ثابت کی۔ اس طرح فلسفۂ یونان کے اس رعب و طلسم کو توڑا جس کا مسلمانوں کا دانش ور طبقہ بری طرح اسیر ہوچکا تھا۔ اب تک فلسفہ اور اس کے نظریات پر دفاعی انداز میں تنقید کی جاتی رہی تھی۔ امام پہلے فرد ہیں جنھوں نے مدافعانہ لہجے کے بجاے جارحانہ انداز اختیار کیا۔ اسی طرح علما کے اندر اس کے مقابلے میں جو احساس کمتری اور نفسیاتی عدمِ استحکام پیدا ہوگیا تھا‘اسے نہ صرف دُور کیا بلکہ ان کے اندر اپنے عقائد و افکار پر اعتماد و یقین پیدا کیا۔ عقلیت پرستی کے تار و پود بکھیرے اور اسلام کے اصول و عقائد کو عقلیت پرستی کے نام پر جس طرح توڑا اور مسخ کیا جا رہا تھا‘ جس کے نتیجے میں بے اعتقادی جنم لے رہی تھی‘ اس کا گہرا تجزیہ کیا اور مسلمانوں کو عقلی استدلال کے ذریعے بتایا کہ تمھارے دینی عقائد کا اثبات نام نہاد معقولات کو اپنانے پر منحصر نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی باطنیت کی فکری و سیاسی بنیادوں پر ضرب کاری لگائی جس نے بظاہر ایک نیا فلسفہ اور علمِ کلام اور نئی اصطلاحات وضع کر لی تھیں لیکن درحقیقت جس کی شاخیں یونانی و عجمی فلسفے کی جڑوں ہی سے پھوٹی تھیں۔
مسلمان معاشرے کے ایک ایک طبقے پر کڑی تنقید کی اور ان اسباب و عوامل کی نشان دہی کی جو مسلمانوں کے دینی و اخلاقی انحطاط و زوال کے پیچھے کام کر رہے تھے۔ امام کے نزدیک مسلمان معاشرے میں پھیلی ہوئی دینی‘ اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں اور مقاصد کے سب سے بڑے ذمہ دار علما اور حکمران تھے۔ انھوں نے ان دونوں طبقات پر کڑی نکتہ چینی کی‘ خصوصاً علما کی کمزوریوں اور ذمہ داریوں پر سیرحاصل تنقید و تبصرہ کیا۔ مزیدبرآں دولت مندوں اور عوام الناس کے کردار و اعمال کا ناقدانہ جائزہ لیا۔ اس طرح پورے نظام اجتماعی کے مقاصد‘ اس کی کمزوریوں اور امراض کی نشان دہی کی اور اس میں نہ کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا کی اور نہ کسی مصلحت اور خوف کو خاطر میں لائے…
امام غزالیؒ دوسرے تمام ائمہ و صلحا کی طرح زاہد و متورع تھے۔ بڑے بے باک اور حق گو۔ ان کا زمانہ مطلق العنان بادشاہوں کا زمانہ تھا جنھوں نے اپنے آپ کو قوانین سے بالاتر قرار دے لیا تھا۔ ان پر اعتراض کرنا‘ اپنے آپ کو موت کے منہ میں دینے کے مترادف تھا‘ لیکن امام نے پوری جرأت کے ساتھ بادشاہوں‘ان کے حکام اور نظامِ حکومت پر کھلے عام تنقید کی۔ ان کی ایک ایک کمزوری اور کوتاہی پر گرفت کی۔ یہ سلاطین و حکام لوگوں کے ضمیر بھاری عطیات اور مناصب دے کر خریدا کرتے تھے۔ اس خرید و فروخت میں بڑے بڑے علما اور مشائخ حصہ لیتے اور اس میں ذرہ برابر کراہت محسوس نہ کرتے۔ امام غزالیؒ نے اس پر سخت تنقید کی اور سلاطین و حکام کے اموال کو ناجائز اور حرام قرار دیا‘چنانچہ احیاء علوم الدین میں لکھتے ہیں: ’’بادشاہوں کے مال آج کے زمانے میں بالعموم حرمت سے خالی نہیں ہیں۔ حلال مال ان کے پاس یا تو سرے سے ہوتا ہی نہیں یا بہت کم ہوتا ہے‘‘۔
آج سلاطین انھی لوگوں کے ساتھ یہ فیاضی کرتے ہیں جن کے بارے میں انھیں اُمید ہوتی ہے کہ وہ ان سے کام لے سکیں گے‘ ان کے لیے سہارا بنیں گے اور ان سے اپنی اغراض پوری کر سکیں گے۔ ان سے ان کے درباروں اور مجلسوں کی رونق بڑھے گی اور وہ ہمیشہ دعاگو‘ ثناخوانی اور حاضر و غائب ان کی تعریف و توصیف میں لگے رہیں گے___ اگر کوئی شخض اس کے لیے تیار نہیں ہوتا تو خواہ وہ امام شافعیؒ کے مرتبے کا ہو‘ یہ سلاطین ایک پیسہ بھی اس پر خرچ کرنا گوارا نہیں کریں گے۔ اس لیے بادشاہوں سے ایسے مال کا قبول کرنا بھی جائز نہیں جس کے متعلق یہ علم ہو کہ وہ حلال ہے‘ اس لیے کہ اس کے وہ نتائج ہوں گے جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ اس مال کا کیا مذکور جس کے متعلق حرام یا مشتبہ ہونا صاف ظاہر ہے…
امام صاحب کو ان باتوں (یعنی بگڑے ہوئے حکمرانوں پر تنقید وغیرہ) پر تسلی نہ تھی۔ وہ دیکھتے تھے کہ سلطنتوں کا سرے سے خمیر ہی بگڑ گیا ہے اس لیے جب تک اسلامی اصول کے موافق ایک نئی سلطنت نہ قائم کی جائے‘ اصل مقصد نہیں حاصل ہو سکتا تھا‘ لیکن امام صاحب کو ریاضت‘ مجاہدے اور مراقبے سے اتنی فرصت نہ تھی کہ ایسے بڑے کام میں ہاتھ ڈال سکتے۔ اتفاق یہ کہ جب احیا العلوم شائع ہوئی اور ۵۰۱ھ میں اسپین میں پہنچی تو علی بن یوسف تاشفین نے جو اسپین کا بادشاہ تھا‘ تعصب اور تنگ دلی سے اس کتاب کے جلانے کا حکم دیا اور نہایت بے دردی سے اس حکم کی تعمیل کی گئی۔ امام صاحب کو اس واقعے کی اطلاع ہوئی تو سخت رنج ہوا۔
اسی اثنا میں اسپین سے ایک شخص امام صاحب کی خدمت میں تحصیلِ علم کے لیے آیا جس کا نام محمد بن عبداللہ تومرت تھا۔ یہ ایک نہایت معزز خاندان کا آدمی تھا اور اس کے آباواجداد ہمیشہ سے آزادی پسند اور صاحبِ حوصلہ چلے آتے تھے۔ امام صاحب کی خدمت میں رہ کر اس نے تمام علوم میں نہایت کمال پیدا کیا اور اپنے ذاتی حوصلے یا امام صاحب کے فیض صحبت سے یہ ارادہ کیا کہ اسپین میں علی بن یوسف کی سلطنت کو مٹاکر ایک نئی سلطنت کی بنیاد ڈالے۔ یہ خیال اس نے امام صاحب کے سامنے پیش کیا۔ امام صاحب نے جو خود ایک عادلانہ سلطنت کے خواہش مند تھے اس رائے کو پسند کیا‘ لیکن پہلے یہ دریافت کیا کہ اس مہم کے انجام دینے کے اسباب بھی مہیا ہیں یا نہیں؟ محمد بن عبداللہ نے اطمینان دلایا تو امام صاحب نے نہایت خوشی سے اجازت دی---
محمد بن عبداللہ تومرت نے واپس جاکر امر بالمعروف کے شعار سے ایک نئی سلطنت کی بنیاد ڈالی جو مدت تک قائم رہی اور موحدین کے لقب سے پکاری جاتی تھی۔ علی بن یوسف کی حکومت میں بدکرداری بہت پھیل گئی تھی‘ فوج کے لوگ علانیہ لوگوں کے گھروں میں گھس جاتے تھے اور عفت مآب خواتین کے ناموس کو برباد کرتے تھے۔ علی بن یوسف کے خاندان میں ایک مدت سے یہ اُلٹا دستور چلا آرہا تھا کہ مرد منہ پر نقاب ڈالتے تھے اور عورتیں کھلے منہ پھرتی تھیں[ہمارے ملک میں روشن خیالی کا اگلا مرحلہ یہ نہ ہو!]… محمد بن تومرت نے اول اول انھی دونوں برائیوں کے مٹانے پر کمر باندھی اور [اس کے نتیجے میں علی بن یوسف کی حکومت کی جگہ ] ایک نئی سلطنت قائم ہوگئی۔ محمدبن تومرت نے خود فرماں روائی کا قصد نہیں کیا بلکہ ایک لائق شخص کو جس کا نام عبدالمومن تھا‘ تخت پیش کیا۔
عبدالمومن اور اس کے خاندان نے جس طرز پر حکومت کی وہ بالکل اسی اصول کے موافق تھی‘ جو امام غزالی کی تمنا تھی۔ (دعوت و عزیمت کے روشن ستارے‘ ص ۱۳۰-۱۴۱)
ہمارے بارے میں ملک شام اور اس کے چمن زاروں سے پوچھو‘ اور اس کے زرخیز و شاداب باغات و زمینوں سے دریافت کرو‘ اندلس اور اس کے گلستانوں و مرغزاروں‘ مصر اور اس کی وادیوں‘ جزیرئہ عرب اور اس کی وسعتوں‘ دنیا اور دنیا والوں سے معلوم کرلو‘ افریقہ اور اس کے میدانوں‘ عجم کی سرسبز مٹی‘ قفقاس کی بلند چوٹیوں‘ گنگا کے کناروں‘ لوار کے ساحلوں‘ ڈینیوب کی وادیوں سے پوچھ لو اور ’’زمین‘‘ کی ہر سرزمین‘ اور زیرآسمان بسنے والے ہر متنفس سے معلوم کرلو‘ ان سب کو ہماری جاں بازیوں‘ جواں مردیوں‘ قربانیوں‘ لائق ستایش و قابلِ فخر علم و فن کے کارناموںکی خبر ہے___ ہم مسلمان ہیں!
کیا شرافت و کامرانی کے باغیچوں کی ہمارے خون سے آبیاری نہیں ہوئی؟ کیا شجاعت و بہادری کے خیابانوں کو ہمارے شہیدوں نے آراستہ نہیں کیا؟ کیا دنیا نے ہم سے زیادہ فراخ دل‘ بردبار‘ کرم گستر‘ ہم سے زیادہ نرم مزاج‘ محبت و شفقت و رحم کرنے والا‘ اور ہم سے زیادہ اعلیٰ‘ برتر وعظیم ترقی یافتہ‘ علم دوست اور باخبر قوم کبھی کہیں‘ دیکھی ہے!
ہم ہی نے ہدایت نما‘ مشعل نور اور روشنی کا مینار ایستادہ کیا۔ جب انسانی بستی جہالت و ناخواندگی کی تاریکیوں اور گھٹاٹوپ اندھیروں میں بھٹک رہی تھی‘ ہم نے اس زمین کے باسیوں سے کہا: دیکھو‘ راستہ یہ ہے!
ہم ہی نے اس وقت عدل و انصاف قائم کیا‘ جب کہ ہر قوم نے ظلم وسرکشی کا علم بلند کیا۔ ہم ہی نے علم و دانش کدے تعمیر کیے‘ جب کہ لوگوں نے اِسے شہرپناہ سے باہر کر دیا۔ ہم ہی نے سماجی برابری اور مساوات کا اعلان کیا‘ جب کہ نوعِ انسانی اپنے بادشاہوں کے سامنے سجدہ ریز اور اپنے آقائوں کو دیوتا بنائے ہوئے تھی۔
ہم نے ایمان کی حرارت سے دلوں میں زندگی دوڑا دی‘ اور نورِ علم سے عقل کو روشن کیا‘ اور عالمِ انسانی کو آزادی و تہذیب‘ ترقی و کامرانی کی راہ دکھائی۔
ہم ہی نے کوفہ ‘ بصرہ‘ قاہرہ اور بغداد کی تعمیر کی۔ ہم ہی نے شام‘ عراق‘ مصر و اندلس کی تہذیب کو جنم دیا۔ ہم ہیں جنھوں نے بیت الحکمۃ‘ مدرسۂ نظامیہ‘ قرطبہ یونی ورسٹی اور جامعہ ازہر قائم کیے۔ ہم ہی نے مسجد اموی‘ گنبد صخرہ‘ سرمن رأی (سامرہ) زہرا‘ الحمرا‘ مسجد سلطان احمد اور تاج محل بنایا۔
ہم ہی نے دنیا کے باشندوں کو علم آشنا کیا ___ہم معلم تھے اور سارے لوگ طالب علم۔
ابوبکر‘ عمر‘ نورالدین‘ صلاح الدین اور اورنگ زیب ہماری ہی قوم کے افراد تھے۔ خالد‘ طارق‘ قتیبہ‘ ابن قاسم اور ملک ظاہر ہمارے تھے۔
بخاری‘ طبری‘ ابن تیمیہ‘ ابن قیم‘ ابن حزم اور ابن خلدون ہمیں میں سے تھے۔ غزالی‘ ابن رشد‘ ابن سینا اور رازی ہمارے ہی دانشور تھے۔ خلیل‘ جاحظ اور ابوحیان کا تعلق ہمیں سے تھا۔ ابوتمام‘ متنبی اور معری ہماری ہی اُمت کے ممتاز شاعر تھے۔ معبد‘ اسحاق و اریاب بھی ہمیں سے وابستہ تھے۔
ہمارا ہر سربراہ و خلیفہ اعلیٰ انسانی کردار کا مثالی نمونہ تھا۔ ہر سپہ سالار اللہ کی تلواروں میں سے ایک برہنہ تلوار تھا۔ ہر عالِم‘ دنیاے انسانیت کے لیے جسم میں عقل کے مانند تھا۔ ہم ہی میں لاکھوں عظیم و برتر انسان تھے۔
ہماری توانائی‘ ہمارا ایمان تھا۔ ہماری عزت‘ ہمارا دین تھا۔ ہمارا اصل سہارا‘ ہمارا پروردگار تھا۔ ہمارا قانون‘ ہمارا قرآن تھا۔ ہمارے امام‘ ہمارے رسول عربیؐ تھے۔ ہمارا سربراہ‘ خدمت گزار تھا۔ ہم ہی سے کمزور حق دار طاقت ور تھا‘ اور ہمارا زور آور‘ ہمارے کمزور کا مددگار تھا۔ ہم سب باہم راہِ خدا میں بھائی ہیں‘ اور دین کی نظر میں مساوی۔
کیا ہماری ہی اُمت میں اعلیٰ مثالی انسان کی تصویر جلوہ گر نہیں ہوئی؟ کیا چشمِ تاریخ اور نگاہِ کائنات نے ہمارے معاشرے کے سوا کسی اور معاشرے کو دیکھا جس نے پاکیزہ اخلاق‘ سچائی اور ایثار کی مثال پیش کی ہو؟
کیا صدر اسلام کے علاوہ بھی کہیں اور کبھی زندگی کی حقیقت‘اصلاح پسندوں کی آرزو اور فلسفیوں کے خواب شرمندہ تعبیر ہوئے؟
زخمی مسلمان آخری سانسیں لیتے ہوئے پانی کا ایک گھونٹ چاہتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں پانی کا پیالہ دیا جاتا ہے۔ اسی وقت اس کے کان میں ایک دوسرے زخمی کی آواز ٹکراتی ہے۔ وہ اسے ترجیح دیتے ہوئے پانی اس کی طرف بڑھا دیتا ہے‘ اور خود پیاسا ہی موت سے ہم کنار ہوجاتا ہے۔
وہ بھی ایک دن تھا جب مسلمان عورت کو اس کے شوہر‘ اس کے بھائی اور اس کے باپ کے شہید ہونے کی خبر دی جاتی ہے تو اس کی زبان گویا ہوتی ہے: اللہ کے رسول کیسے ہیں؟ جواب ملتا ہے کہ وہ زندہ ہیں‘ تو کہتی ہے: اس خبر کے بعد تو ہر مصیبت کافور ہوگئی!
وہ دن بھی یاد رکھنے کا ہے جب ایک بوڑھی عورت‘ عمرؓ کو سرکاری‘ حیثیت میں منبر پر ٹوک دیتی ہے‘ جب کہ عمرؓ اس وقت آج کے ممالک میں سے گیارہ ملکوں کے حکمراں تھے۔
وہ دن بھی یاد کیجیے جب ہمارا ہر متنفس وہی پسند کرتا تھا جو اپنے بھائی کے لیے چاہتا تھا‘ اور اسے اپنے آپ پر ترجیح دیتا تھا خواہ اس کے پاس حقیر سی چیز ہو۔ ہمارے جسم و روح مادی و معنوی شکلوں میں پاکیزہ و ستھرے تھے۔ ہم جو کچھ کرتے یا ترک کرتے‘ یا اٹھتے بیٹھتے‘ چلتے پھرتے تو اللہ اور اس کے حکم کو پیشِ نظر رکھتے۔ ہم نے اپنے نفس سے خواہشات کو اس طرح دُور کر دیا کہ ہمارا ہر کام قرآن کے مطابق ہوگیا تھا۔ ہم نوع بشری کے چنیدہ اور انسانیت کے منتخب تھے۔ ہم نے ان تمام آرزوئوں اور تمنائوں کو حقیقت کا روپ دے دیا تھا جنھیں فلسفیوں‘ دانش وروں اور اصلاح پسندوں نے خواب و سراب قرار دے دیا تھا۔
ہمارے فخر وستایش کے لیے سیکڑوں شاہنامے اور الیاذہ نظم کیے جاسکتے ہیں‘ مگر پھر بھی وہ ہمارے کارناموں کے لیے ناکافی ہوں گے‘ کیونکہ نہ وہ گنے جا سکتے ہیں نہ شمار۔ ہماری فتوحات و کامرانیوں کو کون شمار کر سکتا ہے! علم و ادب‘ فن و ثقافت کی راہ میں ہماری خدمات کا احاطہ کون کرسکتا ہے___کیا کوئی ہمارے دانش وروں‘ صف شکن سالاروں‘ جوانمردوں‘ عبقری و نابغہ شخصیتوں کو شمار کر سکے گا؟
صرف وہی ہمت کر سکتا ہے جو آسمان کے ستاروں کو گن چکا ہو‘ اور بطحا کے میدان کی کنکریوں کو شمار کر چکا ہو! (سیرت کے حواشی پر) ہزاروں کتابیں لکھ لو‘ (تاریخ کے اوراق پر) اسی قدر تصنیفات کا ڈھیر لگا دو‘ اور ہر عظیم شخصیت سے متعلق سیکڑوں کتابیں یا قصیدے تیار کر ڈالو‘ سیرت و تاریخ باقی و تشنہ رہ جائے گی‘ اسی طرح جیسے کوئی زمین اور محفوظ معدن و کان!
ہم ان قوموں جیسے نہیں ہیں جنھیں صرف زبان جوڑے رکھتی ہے۔ ہم وہ اُمت بھی نہیں ہیں جن میں صرف خون کا رشتہ ہوتا ہے۔ ہر اُمت کے افراد اچھے اور برے ہوتے ہیں‘ ہم تو ایک عظیم الشان رفاہی انجمن ہیں‘ جس کے ارکان ہر قوم کے صالح‘ مہذب‘ پاکیزہ اور پرہیزگار افراد ہیں۔ اگر خون کا رشتہ ٹوٹ جائے تو ہمیں احتیاط و تقویٰ جوڑے رکھتا ہے۔ اگر زبانیں مختلف ہوئیں تو ہمیں عقیدہ متحد رکھتا ہے۔ ہماری آبادیوں کے فاصلے کو کعبہ شریف کم کر کے قریب کر دیتا ہے۔
ہر روز کعبہ شریف کی جانب رخ کرنا‘ ہر سال عرفات میں ہمارا وقوف‘ اس کا واضح اشارہ ہے کہ اسلام ایک متحدہ قومیت ہے جس کا مرکز حجاز عربی ہے اور اس کے امام و قائد نبی عربیؐ ہیں‘ اور اس کی کتاب عربی قرآن ہے۔
ہمارا دین بھرپور فضیلت و بھلائی اور کھلا ہوا حق و انصاف ہے‘ نہ کوئی پردہ ہے نہ رکاوٹ‘ اور نہ کوئی راز ہے نہ بھید۔ یہ مینار کی طرح روشن و بلند ہے۔ کیا اس میں یہ معنی و حقیقت پائی نہیں جاتی؟ کیا دنیا میں کوئی جماعت یا مذہب ہے جس کے اصول روزانہ ۱۰ بار نشر کیے جاتے ہوں جس طرح کہ ہم مسلمانوں کے اصولِ مذہب دہرائے جاتے ہیں‘ اور موذن بلند آواز سے پکارتے ہیں:
أشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وأشھد أن محمدا رسول اللّٰہ ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘ اور گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔
ہم نہ تو ناتواں ہیں اور نہ غم زدہ‘ اس لیے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ ہم ہر دن ۳۰ بار اس بابرکت و بلند تر صدا اور طاقت ور ترانے کو سنتے ہیں: اللہ اکبر!
بہادری اور اولوا العزمی ہماری فطرت ہے‘ ایثار و قربانی ہماری رگوں میں رواں دواں ہے۔ گردش زمانہ اسے کمزور نہیں کر سکتی‘ لیل و نہار کی تبدیلی ہمارے دلوں سے اسے مٹا نہیں سکتی۔
ہمارا جزیرہ (جزیرئہ عرب) ہے جس کے ریت پر ہر طاغوت کا قدم پڑتے ہی جل کر ‘رہ جائے گا‘ مگر اس کے باشندے اس کی شدت و تپش میں بھی فردوس بریں کا سا مزا محسوس کرتے ہیں۔
ہمارے لیے ملک شام اور اس کے باغ جناں ہیں جنھیں ہم نے خون سے سینچا ہے۔ اس کا بلند و بالا پہاڑ ہمارا محبوب و پسندیدہ ہے۔ عراق ہمارا ہے‘ (رمیثہ) ہماری آبادی ہے‘ دریاے فرات کی وادیاں ہم سے آباد ہیں۔
فلسطین میں (جبل نار) ہے‘ اس سے بھی ہمارا ہی رشتہ ہے‘ مصر جو علم و فن کا گہوارہ اور اسلام کا قلعہ ہے‘ ہمارا ہے۔ پورا مغرب (شمالی افریقہ) ہمارا ہے‘ الریف بھی ہمیں سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ جاں بازوں اور جواں مردوں کی آماہ جگاہ ہے!
میناروں اور گنبدوں کا شہر قسطنطنیہ (استنبول) بھی ہمارا ہے۔ فارس و افغانستان‘ ہندستان و جاوا (انڈونیشیا) بھی ہمیں سے آباد ہیں۔ ہر وہ زمین ہماری ہے جس میں قرآن پاک کی تلاوت ہوتی ہے اور اس کے مینارے اذانوں سے گونج اٹھتے ہیں۔
آنے والی صبح ہماری ہے ___!
مستقبل ہمارا ہے___ اگر ہم اپنے دین کی طرف لوٹ آئیں!!
(بہ شکریہ: تعمیرحیات‘ لکھنؤ‘ ۱۰ فروری ۲۰۰۵ئ)
امریکی حکومت نے مصر کی معروف دینی و اسلامی تحریک اخوان المسلمون سے باقاعدہ رابطہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لاہور کے ایک قومی اخبار نے اپنے نمایندہ مقیم نیویارک کے حوالے سے مندرجہ ذیل خبر شائع کی ہے:’’امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ مصر کی کالعدم اسلامی تنظیم اخوان المسلمون سے براہ راست اور مستقل بنیادوں پر مذاکرات کیے جائیں۔ بش انتظامیہ نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے کہ اخوان المسلمون مصر کی سب سے زیادہ طاقت ور تنظیم ہے۔ قاہرہ کے ایک مغربی سفارت کار نے معتبر عربی اخبار الشرق الاوسط کوبتایا کہ امریکا سمجھ چکا ہے کہ مصر میں اخوان المسلمون تنظیم اپوزیشن کی ایک طاقت ور تنظیم کا کردار ادا کر رہی ہے‘ لہٰذا بش انتظامیہ اس بات پر غور کر رہی ہے کہ اخوان المسلمون کے نمایندوں کو واشنگٹن مدعو کر کے ان سے مذاکرات کیے جائیں اور مصر میں اصلاحات کے سلسلے میں اخوان المسلمون سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے بات چیت کی جائے‘‘۔ (نواے وقت‘ ۶اپریل ۲۰۰۵ئ)
امریکا اور برطانیہ نے اخوان کو ہمیشہ ایک انتہا پسند مذہبی تنظیم اور مغربی تہذیب سے متنفر بنیاد پرستوں کا ٹولہ قرار دیا ہے۔ اخوان کے رہنمائوں نے اپنی یادداشتوں میں اس حوالے سے بہت سے دل چسپ واقعات بھی بیان کیے ہیں۔ اخوان کے تیسرے مرشدعام سید عمر تلمسانی ؒ تحریر فرماتے ہیں:
امام حسن البناؒ دو مرتبہ انتخابات میں کھڑے ہوئے۔ دونوں مرتبہ غیرملکی استعمار کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی۔ اُس دور کے وزیراعظم نحاس پاشا مرحوم سے حکومتِ برطانیہ نے مطالبہ کیا کہ وہ امام کو انتخاب لڑنے سے منع کر دیں۔ چنانچہ وزیراعظم نے اُنھیں ملاقات کے لیے میناہائوس بلایا۔ امام نے انتخاب سے دستبردار ہونے سے انکار کر دیا۔ اس پر نحاس پاشا نے امام کو بتایا کہ برطانیہ کی جانب سے دھمکی ملی ہے کہ اس صورت میں مصر کو زبردست خطرے کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ چنانچہ آپ نے ملک ووطن کی سالمیت کو ترجیح دیتے ہوئے انتخاب سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کرلیا۔
دوسری مرتبہ بھی استعماری نظام نے آپ کو انتخاب سے باہر رکھنے کی پوری کوشش کی مگر آپ نے اس بار دستبردار ہونے سے انکار کر دیا۔ غیر جانب دار حلقوں کے مطابق راے دہندگان نے بھاری اکثریت سے امام کے حق میں ووٹ ڈالے‘ مگر انتظامیہ نے ووٹوںکی گنتی کے دوران ایسا خوف و ہراس پھیلایا اور ایسی دھاندلی کی کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یوں آپ کی کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کر دیا گیا۔ (یادوں کی امانت‘ ص ۱۶۱)
دوسری جگہ عمر تلمسانی ؒ لکھتے ہیں کہ ’’مصر میں نقراشی پاشا کی وزارت کے دوران مغربی ممالک کے سب سفیر ایک جگہ جمع ہوئے اور انھوں نے دھمکی آمیز لہجے میں وزیراعظم سے اخوان پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔ چنانچہ نقراشی پاشا نے اخوان پر پابندی لگادی۔ یہ پہلی پابندی تھی‘ اس کے بعد تو ہماری تاریخ پابندیوں ہی کی تاریخ بن کر رہ گئی‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۲۵۰)
اخوان کے چوتھے مرشدعام محمد حامد ابوالنصرؒ نے اپنے احساسات کا تذکرہ یوں کیا ہے: ’’برطانوی سفارت خانے سے مجھے ایک خط ملا جس کے مطابق سفارت خانے کے نمایندے میجرلینڈل مجھ سے ملاقات کے آرزومند تھے۔ میں نے خط کا جواب دینے سے پہلے امام حسن البنا سے اس کی اجازت مانگی۔ انھوں نے مجھے اس کی اجازت دے دی اور فرمایا کہ ملاقات میں کوئی حرج نہیں۔ ساتھ ہی اخوان کی پالیسی پر مشتمل ایک خط مجھے برطانوی سفارت کاروں کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔ اس ملاقات میں کئی موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ یہاں برسبیل تذکرہ میں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ برطانوی سفارت خانے میں اخوان المسلمون کے متعلق ایک البم تیار کیا گیاتھا جس میں امام حسن البنا کی تصویر کے نیچے انگریزی کی ایک عبارت لکھی ہوئی تھی: ’’مشرق وسطیٰ کا خطرناک ترین آدمی‘‘۔ (وادی نیل کا قافلہ سخت جان‘ ص ۴۷-۵۱)
اب مصر میں نصف صدی کے بعد پہلی مرتبہ یہ امید پیداہوئی ہے کہ ملک کے صدارتی انتخاب میں ایک ہی امیدوار (جو کہ کرنل ناصر کے وقت سے ہمیشہ برسراقتدار صدر ہی ہوا کرتا ہے) کے بجاے ایک سے زاید امیدواران میدان میں اتر سکیں۔ کرنل ناصر‘ انور السادات اور حسنی مبارک نے بالترتیب مصر پر ۱۷ سال‘۱۲ سال اور ۲۴ سال تک حکمرانی کی۔ آخر الذکر ابھی تک تخت پر براجمان ہیں۔ ان کے دونوں پیش رو موت ہی کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے تھے ورنہ جیتے جی انھوں نے کسی کو مدمقابل آنے کی اجازت نہ دی۔ یوں مصر میں صدارتی انتخاب دراصل ’’ریفرنڈم‘‘ ہوتا ہے۔
آمریت کبھی آسانی سے قوموں کی جان نہیں چھوڑا کرتی۔ اس وقت حکمران ٹولے کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں۔ ملک کے اندر حسنی مبارک اور ان کے چیلوں کے خلاف شدید نفرت ہے۔ عالمی تناظر میں کثیرجماعتی انتخابی نظام کے لیے دبائو بھی ہے لیکن مغرب کو ’’بنیاد پرستوں‘‘ کا بیلٹ کے ذریعے منتخب ہونا بھی کسی صورت قبول نہیں۔ ترکی اور الجزائر اس کے کھلے ثبوت ہیں جہاں نام نہاد مغربی جمہوریت پسندوں نے پوری ڈھٹائی اور منافقت سے عوام کے واضح مینڈیٹ کو ’’جمہوریت کی شکست‘‘ قرار دے کر ’’برعکس نہند نامِ زنگی کافور‘‘ کے معکوس معنی متعین کر دیے تھے۔
مصر کے صدارتی اور عام انتخابات سے قبل وہاں کی بارکونسل کے حالیہ انتخابات کے نتائج بھی ہوا کے رخ کا پتا دیتے ہیں۔ مصر میں اخوان المسلمون پر قانوناً آج بھی پابندی عائد ہے۔ وہ ملکی انتخابات میں اخوان کے نام پر حصہ نہیں لے سکتے‘ البتہ آزادانہ حیثیت میں یا کسی دوسری اپوزیشن پارٹی کے ممبر کے طور پر انتخاب لڑسکتے ہیں۔ موجودہ پارلیمنٹ میں اخوان کے تقریباً تین درجن ارکان اسی انداز میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ پیشہ ورانہ تنظیمیں‘ یعنی بار کونسلیں‘ انجینیروں‘ ڈاکٹروں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی یونینوں اور سوسائٹیوں میں بھی اخوان کی نمایندگی بھرپور ہے کیونکہ ان تنظیموں میں کسی بھی نام سے انتخاب لڑنے کی اجازت مل جاتی ہے۔
مصرمیں گذشتہ سال بار کونسل کے ناظم اعلیٰ‘ اخوان کے پہلے مرشدعام امام حسن البناشہیدؒ کے بیٹے سیف الاسلام البنا ایڈوکیٹ تھے۔ اس مرتبہ اخوان نے حزب الوطنی اور بعض دیگر گروپوں سے اتحاد کر کے یہ انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔ کل ۲۴ ارکان ملک بھر سے منتخب کیے جاتے ہیں جو بعد میں صدر‘ سیکرٹری اور ایگزیکٹو کونسل وغیرہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ مقابلہ کانٹے دار تھا۔ ایک جانب اخوان اور حزب الوطنی کے امیدواران تھے تو دوسری جانب حکومتی پارٹی اور ناصری جماعت کا اتحاد میدان میں تھا۔ ایک گروپ کی قیادت سیف الاسلام البنا کر رہے تھے‘ دوسرے کے رہنما سامح عاشور تھے۔
عرب دنیا کے تمام پڑھے لکھے لوگوں بالخصوص شعبہ قانون و عدل سے تعلق رکھنے والے افراد کی نگاہیں ۱۲ مارچ ۲۰۰۵ء پر لگی تھیں۔ اس مرتبہ ان انتخابات کو مغرب میں بھی بہت اہمیت کی نظر سے دیکھا جا رہا تھا۔ مصر میں کل رجسٹرڈ وکلا کی تعداد ایک لاکھ ۲۵ ہزار ہے۔ اخوان نے اپنی حکمت عملی بہت حکمت و تدبر کے ساتھ مرتب کی‘ وہ شراکت کے اصول پر میدان میں اترے۔ کل ۲۴امیدواران کی فہرست میں اخوان کے ۱۰ وکلا اور دیگر پارٹیوں کے ۱۴ وکلا کا نام دیا گیا تھا۔ شام کو نتائج کا اعلان ہوا تو اخوان کے گروپ سے ۱۵ امیدوار کامیاب قرار پائے‘ جب کہ حکومتی اور ناصری اتحاد نے باقی ۹ نشستیں جیت لیں۔ نتائج کی پہلی دل چسپ بات یہ ہے کہ مصری بار کی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے اور وہ یہ کہ سابقہ بار کے ناظم اعلیٰ سیف الاسلام البنا ۳۶ ہزار ۹ سو ووٹ حاصل کر کے ممبر منتخب ہوئے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کل ۷۵ ہزار کے قریب پڑنے والے ووٹوں میں سے ۱۲ ہزار ۲ سو ۳۳ ووٹ مسترد ہوئے۔ اگر یہ ووٹ مسترد نہ ہوتے تو شاید نتائج حکومتی اتحاد کے لیے بہت بڑا دھچکا ہوتے (وکلا جیسی برادری کے اتنی بڑی تعداد میں ووٹوں کا مسترد ہونا بھی حیرت کی بات ہے)۔ (المجتمع کویت ‘شمارہ ۱۶۴۴‘ یکم اپریل ۲۰۰۵ئ۔ مزید تفصیلات اخوان کی ویب سائٹ www.ikwanonline.net پر دیکھی جاسکتی ہیں)
ان انتخابی نتائج سے حکومت بھی پریشان ہے اور ان کے مغربی سرپرست بھی خطرے کی بو سونگھ رہے ہیں۔ مصر میں جمہوریت کی بحالی کے لیے امریکا چند برسوں سے اعلانات کرتا چلا آرہا ہے۔ امریکا کے عرب اور مسلم دنیا میں جمہوری نظام کی حمایت کرنے کے دعوے کی اصل حقیقت کیا ہے؟ یہ ایک الگ سوال ہے مگر اس شور و ہنگامے میں موروثی حکمران اور مستبد آمرانہ حکومتیں اپنی جگہ لرزہ براندام ضرور ہیں۔ حسنی مبارک ایک تسلسل کے ساتھ مغربی دنیا کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ انتخابات اور آزادانہ ماحول کا نتیجہ مصر اور خطے کے دیگر ممالک میں بنیاد پرستوں کی جیت کی صورت میں نکلے گا۔ اٹلی‘ فرانس اور امریکا کے تمام ابلاغی اداروں سے حسنی مبارک کا یہ الارم نشرہوچکا ہے۔
اس سال فروری کے آخر میں حسنی مبارک نے بعض دستوری ترامیم کا اشارہ دیا ہے۔ اس کے مطابق آئین کی دفعہ ۷۶ میں ترمیم کرتے ہوئے صدارتی انتخاب میں دیگر امیدواروں کو بھی شرکت کی اجازت دے دی جائے گی۔ اس انتخاب کا طریق کار اور قواعد کیا ہوں گے؟ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
اخوان المسلمون نے صدر کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔ مرشدعام محمد مہدی عاکف نے مکتب ارشاد سے مشاورت اور غوروخوض کے بعد قاہرہ میں ۲۳ مارچ کو مطالبات پر مشتمل ایک جامع بیان جاری کیا‘ جسے عالم عرب و غرب کے پریس میں نمایاں جگہ ملی۔ اس کے نمایاں نکات درج ذیل ہیں:
۱- ایمرجنسی کا فوری اور مکمل خاتمہ۔ ایک ایسی فضا کا قیام جس میں حقیقی جمہوریت پنپ سکے۔ عام جلسے جلوسوں کی آزادی‘ تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی‘ خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے روا رکھے جانے والے جسمانی و نفسیاتی تشدد کا مکمل خاتمہ۔
۲- تمام خصوصی عدالتوں اور قوانین کا مکمل خاتمہ‘ بالخصوص پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ اور ٹریڈ یونینز لا وغیرہ کا خاتمہ جن کی وجہ سے موجودہ سیاسی جمود طاری ہے۔ اخبارات و جرائد کے اجرا اور بلاقید و تفریق سیاسی جماعتوں کی تشکیل کی آزادی۔
۳- ایسے آزاد ماحول اور فضا کا قیام جس میں مکمل طور پر آزادانہ انتخابات کا انعقاد ممکن ہو اور قوم کی اصل رائے سامنے آسکے۔ صاف شفاف انتخابی فہرستوں کی تیاری‘ قومی شناختی کارڈوں کے اجرا کی جلد تکمیل‘ انتخابات کے تمام مراحل کی عدلیہ کے زیرنگرانی تکمیل‘ انتخابی عمل میں ہر طرح کی بیرونی مداخلت کا کلی سدباب اور امیدواروں کو اپنی مہم چلانے کی مکمل آزادی۔
۴- دستور کے آرٹیکل ۷۶ اور صدارتی انتخابات سے متعلق دیگر دفعات کے لیے صدر کا صوابدیدی اختیار ختم کیا جائے۔ دو مرتبہ سے زاید صدارتی میعاد کے لیے امیدوار بننے پر پابندی لگائی جائے اور عرصۂ صدارت کو چار برس تک محدود کر دیا جائے۔
ان مطالبات کے آئینے میں مصر کی موجودہ تصویر صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ ابھی ان مطالبات کے نتائج و عواقب کے بارے میں سیاسی و فکری حلقے ردعمل اور تجزیے پیش کر رہے تھے کہ دستور کے آرٹیکل ۷۶ میں مثبت اور عوامی جذبات کی ترجمان ترمیم کی امیدیں دم توڑ گئیں۔ صدر حسنی مبارک نے ترمیم کا ایسا تصور پیش کیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ترمیم بھی کی جائے گی‘ مگر اپنی صدارت کے لیے خطرہ بننے والے ہر امیدوار کا راستہ بھی روکا جائے گا۔ یوں یہ کثیر امیدواری انتخاب ایک ڈھونگ سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔
دوسری طرف حکومتی سطح پر پروپیگنڈے کا ہتھیار بھی خوب استعمال ہورہا ہے (جس کا مشاہدہ ہم اپنے ملک میں بھی کرتے ہیں)۔ حسنی مبارک نے اعلان کیا ہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو بیرونی ممالک سے لاکھوں کروڑوں پونڈ آنے شروع ہوگئے ہیں تاکہ مصر کی حکومت کو غیرمستحکم کیا جائے۔ ایسی صورت میں دوسرے امیدوار کی ترمیم پر دوبارہ غور کیا جاسکتا ہے۔ ایک اور کام یہ کیا گیا کہ اخوان کے نائب مرشد عام اور سیاسی معاملات کے نگران ڈاکٹر محمد حبیب کی طرف سے یہ بیان میڈیا میں پھیلا دیا گیا کہ انھوں نے صدرحسنی مبارک یا ان کے بیٹے جمال مبارک کے بطور امیدوار میدان میں آنے کی تائید کی ہے۔ ڈاکٹر محمد حبیب نے زوردار الفاظ میں اس کی تردید کی مگر اس وقت تک یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح دُور و نزدیک زہر پھیلا چکی تھی۔ (المجتمع‘ شمارہ۱۶۴۵‘ ۸ اپریل ۲۰۰۵ئ)
حکومتی بدنیتی سامنے آجانے کے بعد کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں نے اس کے خلاف مزاحمت کا پروگرام بنایا ہے۔ بائیں بازو کی تنظیم سوشلسٹ پارٹی نے اپنے اس نعرے کی بنیاد پر کہ حسنی مبارک کی امیدواری کسی صورت منظور نہیں‘ قاہرہ میں ایک بڑے اجتماعی مظاہرے کا اہتمام کیا۔ حکومت نے اس میں زیادہ رکاوٹ نہیں ڈالی۔اسی طرح حزب الوطنی نے بھی مظاہرہ کیا اور اسے بھی بلاروک ٹوک مظاہرہ کرنے دیا گیا۔ اس کے برعکس اخوان نے ۲۷ مارچ کو پارلیمنٹ کے سامنے پُرامن اور خاموش مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا تو اوپر سے نیچے تک پوری مشینری حرکت میں آگئی اور اس مظاہرے کو ناکام بنانے کے لیے پکڑدھکڑ شروع ہوگئی۔ اخوان کے اہم رہنمائوں کو مظاہرے سے قبل ہی پکڑ کر تھانوں میں بند کر دیا گیا۔ اس احتجاجی مظاہرے میں شرکت کے لیے دیگر مقامات سے آنے والوں کے لیے راستے مسدود کر دیے گئے۔ مختلف بڑے شہروں میں سے ۶۰اہم رہنما رات کی تاریکی میں گھروں سے گرفتار کر کے نامعلوم مقامات پر منتقل کر دیے گئے (گویا سب جگہ ایک ہی طریق کار ہے)۔ اس کے باوجود اخوان نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔
اخوان کے مرشدعام محمد مہدی عاکف نے مظاہرے سے ایک دن قبل ہنگامی پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ وہ اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق مصری پارلیمنٹ کے سامنے پرامن اور خاموش مظاہرہ ضرور کریں گے۔ جو لوگ رکاوٹوں کی وجہ سے وہاں پہنچنے میں کامیاب نہ ہوں وہ عوامی جلسوں کے لیے مختص معروف میدانوں میں خاموش مظاہرہ کریں گے۔ چنانچہ پارلیمنٹ پہنچنے والے راستوں کو بند کرنے کے باوجود ہزاروں لوگ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان میں نائب مرشد عام اول ڈاکٹر محمد حبیب بھی شامل تھے۔ ۱۰ ہزار مسلح دستوں نے قاہرہ میں بری طرح خوف و ہراس پھیلا رکھا تھا۔ اس کے باوجود پارلیمنٹ کے علاوہ قاہرہ کے تین دیگر میدانوں میں بھی ہزاروں لوگ مظاہروں میں شریک ہوئے۔ ان میں خاص طور پر قاہرہ کے مرکزی حصے کا میدان رمسیس ثانی اور میدان سیدہ زینب قابلِ ذکر ہیں جو ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنے۔ مظاہرے کے بعد ڈاکٹر محمد حبیب نے کویت کے رسالے المجتمع سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے اشتعال کے باوجود ہمارے مظاہرے مکمل طور پر پُرامن رہے۔ ہم نے پابندیاں قبول کرنے سے انکار کیا اور جبر کی قوتوں کے مقابلے پر اپنے سیاسی صبروتحمل اور نظم و ضبط کے ساتھ پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ دستوری ترمیم کے متعلق حکومتی دھوکے بازیوں کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ تحریک کفایہ بائیں بازو کے عناصر پر مشتمل سیاسی جماعت ہے۔ اس کا نعرہ ہے ’’بہت ہوگیا!‘‘ (حسنی مبارک اب نہیں)‘ یعنی Enough is enough۔قاہرہ کے آئی جی پولیس نیبل العزبی نے اس موقع پر اعلان کیا کہ وہ اپوزیشن کی جماعت تحریک کفایہ کے ۳۰ مارچ کے مظاہرے کو بھی قوت کے ساتھ روک دیں گے۔
ایک روز قبل مصر کی تمام بڑی یونی ورسٹیوں میں طلبہ نے بڑے بڑے مظاہروں کا اہتمام کیا تھا۔ ان میں ازھر‘ عین شمس‘ اسیوط‘ قاہرہ‘ منیا‘ منصورہ یونی ورسٹیاں شامل ہیں۔ طلبہ دستور میں ترمیم و اضافے کا مطالبہ اور حسنی مبارک کے بیٹے کو نیا صدر بنانے کی مخالفت کر رہے تھے۔ علاوہ ازیں طلبہ یونینوں پر عرصہ دراز سے عائد پابندی کے خلاف بھی سراپا احتجاج تھے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق ان میں سے ہر ایک مظاہرے میں ہزاروں طلبہ نے شرکت کی۔
اس ساری صورت حال کو دیکھتے ہوئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ امریکا اخوان کی بے پناہ مقبولیت کو دیکھ کر اس خطے کے لیے کوئی خاص سازش تیار کرنا چاہتا ہے۔ اخوان مغرب کے لیے کبھی بھی قابلِ قبول نہیں رہے۔ اگرچہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اعتدال پسند‘ پُرامن اور جمہوری اقدار کے علم بردار ہیں۔ امریکا کو وہ لوگ قبول ہیں جو اس کی پالیسیوں کو لے کر چلنے والے ہوں خواہ وہ موروثی بادشاہ ہوں‘ فوجی آمر ہوں یا نام نہاد سیکولر سیاست دان۔ عرب دنیا کے مسائل کا حقیقی حل منصفانہ جمہوریت ہے‘ مگر وہ کب اور کیسے آئے گی‘ یہ سوال اپنا جواب چاہتا ہے۔
عرب تجزیہ نگاروں کے مطابق اگرچہ جبر کی گرفت ڈھیلی پڑی ہے‘ تاہم ابھی منزل کافی دُور ہے۔ وہ مثال دیتے ہیں کہ آمریت اپنے پیچھے موروثی آمریت چھوڑ جاتی ہے تو مغرب اسے برداشت کر لیتا ہے‘ مثلاً شام کے حافظ الاسد کی جانشینی بشارالاسد کے حصے میں آئی۔ لیبیا کے معمر قذافی نے اپنے بعد اپنے بیٹے سیف الاسلام القذافی کو تیار کرلیا ہے اور مصر کے حسنی مبارک اپنے بیٹے کو جانشین بنانا چاہتے ہیں۔ شاہی حکومتوں کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ اُردن کے شاہ حسین کے ربع صدی سے زیادہ ولی عہد کے طور پر معروف بھائی شہزادہ حسن بن طلال بیک جنبش قلم اس منصب سے محروم کر دیے گئے اور مغرب نواز شہزادہ عبداللہ تخت پر براجمان ہوگئے۔ ان سب واقعات کے باوجود لوگوں کی نظریں مصر پر جمی ہوئی ہیں جہاں اخوان ایک مضبوط سیاسی قوت کی حیثیت سے موجود ہیں۔ تبدیلی کا آغاز شاید مصر سے ہو اور اللہ کی توفیق اور عوامی تائید سے کامیابی حاصل ہو۔
مغرب عالم گیریت کے عنوان سے اقوام متحدہ کو ذریعہ بناکر اپنی تہذیبی اقدار کو پوری دنیا پر مسلط کرنے کے جس سوچے سمجھے منصوبے پر عمل پیرا ہے‘ اس کا ایک اظہار خواتین کے موضوع پر سلسلہ وار عالمی کانفرنسیں ہیں۔ بیجنگ میں چوتھی عالمی کانفرنس ۱۹۹۵ء میں ہوئی تھی۔ نیویارک کی حالیہ کانفرنس (۲۰۰۰ء میں بیجنگ+ ۵ ہوئی تھی) کو بیجنگ+ ۱۰ کا نام دیا گیا تاکہ سابقہ فیصلوں پر عمل درآمد کا جائزہ لے کر نئے اہداف مقرر کیے جاسکیں۔
ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں کو اپنی مشکلات پیش کرنے کا باقاعدہ موقع دیا گیا۔ کانفرنس میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ ان ممالک کو سزا دی جائے جو ہم جنس پرستی کے ایجنڈے کے نفاذ میں روڑے اٹکائیں۔عالمِ عرب اور عالمِ اسلام سے تعلق رکھنے والی مغرب زدہ خواتین نے کانفرنس میں مطالبہ کیا کہ مسلم ممالک کی حکومتوں کو مجبور کیا جائے کہ کانفرنس کے فیصلوں کو من و عن نافذ کریں۔
بیجنگ میں جو فیصلے ہوئے تھے ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ: ننھی معصوم بچیوں کو صغرسنی ہی سے جنسی تعلیم دی جائے۔ محفوظ شہوت رانی کی اجازت ہو‘ حمل یا اسقاطِ حمل کا اختیار انھی کو ہو‘ ولدالزنا کی پرورش و پرداخت کا فریضہ مملکت انجام دے‘ اور ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں کو اس فعلِ بد کی کھلی چھوٹ دی جائے۔
عرب اور مسلم ممالک کے اکثر حکومتی نمایندوں نے کانفرنس کے فیصلوں پر چپ سادھے رکھی۔ اسلامی تنظیموں کا موقف سننے کے لیے ایجنڈے میں باقاعدہ وقت رکھا گیا تھا لیکن انھیں موقع نہیں دیا گیا‘ بلکہ ان کا وقت لاطینی امریکا کی ایک ’’تنظیم براے خواتین‘‘ کو دے دیا گیا جن کا مطالبہ تھاکہ عورتوں کو ہر طرح کی اور مکمل آزادی دی جائے اور حکومتوں کو کانفرنس کے فیصلوں کا مکمل پابند بنایا جائے۔
کانفرنس کے کل ۱۰ سیشن ہوئے جن میں سے اکثر کا موضوع جنس اور مسلمان عورتوں پر ڈھایا جانے والا نام نہاد ظلم و جور تھا۔
پہلا سیشن ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں کی عالمی کمیٹی کے نام تھا۔اس میں مطالبہ کیا گیا کہ انسان کے جنسی حقوق کو بنیادی انسانی حقوق تصور کیا جائے‘ اور دیگر بنیادی انسانی حقوق کی طرح ان کی لازماً پابندی کروائی جائے۔ دوسرے سیشن کا عنوان تھا: اسلامی معاشرے میں عورتوں پر سے ظلم و جور کیسے دُور کیا جاسکتا ہے؟ ویمن لرننگ پارٹنرشپ (ڈبلیو ایل پی) نامی تنظیم نے اس کا اہتمام کیا تھا۔ اجلاس کی کلیدی مقررہ ایک افغان اباحیت پسند خاتون‘ افغان ایجوکیشن فائونڈیشن کی سربراہ سکینہ یعقوبی تھیں۔ اپنے خطاب میں انھوں نے زور دیا کہ مسلمان عورتوں کو قرآن مجید کی ازخود تفسیرکرنا سکھایا جائے تاکہ وہ جمہوریت اور عورتوں کے حقوق کے بنیادی اصولوں کو بخوبی جان سکیں۔
ایک اور سیشن کا عنوان تھا: ’عرب عورتیں بولتی ہیں‘۔ اس کا انتظام ویمن کرائسیس سنٹر مصر کے سپرد تھا۔ اس میں جنسی مساوات کے اصولوں کی روشنی میں اسلام کے عائلی قوانین میں ترمیم و اضافے کا مطالبہ کیا گیا۔
اسلامی تنظیمات متبادل خیالات اور ایجنڈے کے مطابق مکمل تیاری کے ساتھ شریک تھیں لیکن اظہار راے کی آزادی کے علم بردار دوسروں کا نقطۂ نظر سننے کے کہاں روادار ہوسکتے تھے۔ [پاکستان سے بھی حکومت نے مجلس عمل کی خواتین ممبران قومی اسمبلی کو وفد میں شامل نہیں کیا۔]
ان تنظیموں کی کوشش تھی کہ اپنی اپنی حکومتوں کے نمایندوں کو جنسی مساوات کے حوالے سے مفتی مصر کا فتویٰ فراہم کر دیں اور انھیں اسلام کی تعلیمات سے کسی حد تک آگاہ کریں تاکہ وہ آگے بڑھ کر فیصلہ کن قراردادوں میں ترمیم و اضافہ کروا سکیں لیکن انھیں کوئی کامیابی نہ ہوئی۔ الجزائری وفد کے سربراہ فرما رہے تھے کہ میں آپ کے تحفظات سے مکمل اتفاق رکھتا ہوں لیکن امریکی مؤقف سے انحراف کی جرأت نہیں کرسکتا۔ ہمارے یہ نمایندے مسلمان معاشرے پر مذکورہ فیصلوں کے مضر اثرات کے ادراک سے ہی عاری تھے۔ مسلم ممالک کے تقریباً سبھی وفود کا یہی عالم تھا۔
اسلامی تنظیموں نے جب کانفرنس میں شنوائی ہوتے نہ دیکھی تو اپنا مؤقف ایک بیان کی صورت میں شرکاے مندوبین میں تقسیم کردیا۔ اس بیان میں کہا گیا کہ اقوام عالم دنیا میں موجود مختلف ادیان‘ ثقافتوں اور ان کے رسوم و رواج میں موجود تنوع کا احترام کریں۔ خواتین کی مشکلات جس طرح ہر معاشرے اور ہر ثقافت میں جدا جدا ہیں‘ اسی طرح ان مشکلات کا حل بھی ہر جگہ یکساں نہیں ہے۔ مرد و زن کی مساوات کا حصول ان کے حقوق و فرائض میں عدل و انصاف کے قیام سے ہی ممکن ہے۔ مطلق مساوات غیر فطری اور باہم نزاع اور جھگڑے کا سبب ہے۔
اس مشکل پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ مسئلے کو اس کے مکمل تناظر میں دیکھا جائے۔ صرف چند ضمنی مظاہر کے علاج پر توجہ دینے کے بجاے اصل جڑ اور بنیاد کو ختم کیا جائے۔ خواتین کی مشکلات کا علاج اسقاطِ حمل اور ہم جنس پرستی کی کھلی چھوٹ کو سمجھ لیا گیا ہے‘ حالانکہ ایڈز اور ناجائز حمل کا علاج عفت و پاک بازی کی ثقافت کو فروغ دینے‘ اور آزاد شہوت رانی کے بجاے نظامِ زوجیت کے فروغ سے ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خاندانی اقدار اور نظامِ معاشرت کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدام اٹھائے جائیں۔
۱- ممالک اور ان کی حکومتیں بیجنگ+ ۵ کی تجاویز کو من و عن نافذ کریں گی (گذشتہ کانفرنس کے اعتراضات اور حکومتوں کے تحفظات کا کوئی ذکر اس دفعہ نہیں کیا گیا)۔
۲- علامیے کی دفعہ ۴ میں کہا گیا ہے کہ اس علامیہ اور معاہدہ سیڈا میں باہم ربط پیدا کیا جائے گا۔ سیڈا میں زور دیا گیا تھا کہ خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کو مکمل طور پر ختم کر دیاجائے گا‘ یعنی اب اسی ایجنڈے کو مزید زور زبردستی کے ساتھ نافذ کیا جائے گا۔ قوموں اور ملکوں کے رسوم و رواج اور دینی عقائد خواہ کچھ ہوں‘ اس معاہدے میں شامل ملکوں پر اس کی تنفیذلازمی ہے۔
۳- بیجنگ کانفرنس کے علامیے کا خطرناک ترین پہلو محفوظ تولیدی خدمات کی فراہمی کا مطالبہ ہے اور یہ خدمات بچوں اور غیرشادی شدہ جوان مردوں اور عورتوں کے لیے ان امور پر مبنی ہوں گی: (الف) میڈیا اور تعلیم کے ذریعے بچوں اور غیر شادی شدہ جوان مردوں اور عورتوں کے لیے جنسی تعلیمی کی فراہمی کا مطلب یہ ہے کہ اب نوجوانوں کو حمل اور ایڈز سے بچتے ہوئے محفوظ اور آزاد شہوت رانی کی تعلیم دی جائے گی۔(ب) تعلیمی اداروں میں بچوں اور جوانوں کو مانع حمل اشیا فراہم کی جائیں گی۔(ج) اسقاطِ حمل قانوناً جائز قرار دیا جائے گا اور ہر ہسپتال اور ڈسپنسری میں اس کا باقاعدہ انتظام ہوگا۔
۴- جنسی مساوات کے نام پر مرد و عورت کے درمیان ہر قسم کی تفریق کے خاتمے کی کوشش کی جائے گی۔ مرد و زن ہر طرح کی ذمہ داریاں ادا کرنے میں اپنی مرضی کے مالک ہوں گے۔
کانفرنس کے آخری اجلاس میں امریکا اور ویٹی کن اسٹیٹ کے علاوہ تمام شریک ممالک نے بیجنگ +۱۰کے فیصلوں کی توثیق کی۔ ان دونوں نے تشریح کا اپنا حق محفوظ رکھا اور کہا کہ یہ انسانی حقوق کے چارٹر میں کسی اضافے کا موجب نہیں ہوگا‘ بالفاظ دیگر قانونی طور پر اس کا اطلاق لازمی نہیں ہوگا۔
نائن الیون کے سازشی پس منظر میں‘ یہودی دانش وروں کی رہنمائی میں امریکی استعمار نے مسلم دنیا کو کچلنے کے لیے جارحیت کا جو پروگرام مرتب کیا ہے‘ اس کے تین اہداف ہیں:
امریکی انتظامیہ ‘ ان کے تھنک ٹینکوں اور ان کی پروپیگنڈا مشینری نے اپنے اہداف کے بارے میں کبھی کوئی ابہام نہیں چھوڑا۔ اپنے ان اہداف اور مقاصد کے حصول کے لیے انھوں نے اربوں اور کھربوں ڈالر کے بجٹ سے عسکری اور ثقافتی محاذ پر انتہائی خطرناک اسلحے کے ساتھ بڑی بے رحمی اور سنگ دلی سے جارحیت کا آغاز کیا ہے اور برسوں تک اس جنگ کو جاری رکھنے کا عزم لیے وہ مسلسل پیش قدمی کر رہے ہیں۔
عسکری محاذ پر انھوں نے افغانستان اور عراق جیسے مسلمان ملکوں پر اپنے تباہ کن ہتھیاروں سے اتنا بارود برسایا کہ دیکھتے ہی دیکھتے پہاڑ‘ بستیاں اور شہر کھنڈر بن گئے۔ لاکھوں عورتیں‘ معصوم بچے اور بوڑھے جل بھن کر اس طرح کوئلہ ہوگئے کہ انھیں پہچاننا اور دفن کرنا بھی ممکن نہ رہا۔ پھر انھوں نے تباہیوں کے یہ مناظر دکھا دکھا کر باقی مسلمان ممالک کو خوفزدہ کیا اور اپنے سامنے جھکنے اور اپنی ہی شرائط پر اطاعت قبول کرنے پر آمادہ کرلیا۔ پاکستان‘ لیبیا‘ سعودی عرب‘ ایران اور پھر شام ’’چاہتے یا نہ چاہتے‘‘ ہوئے باری باری جھکتے چلے گئے اور یہ سمجھنے لگے کہ شاید یوں جھکنے سے انھیں نجات مل جائے گی۔
قوت کے زور پر قبضہ جما لینے کے بعد مسلم ممالک کی تہذیب و تمدن‘ اخلاق و اقدار اور شرم و حیا کے پیمانوں کو توڑ پھوڑ کر انھیں مغربی معاشرت کی اخلاق باختہ سوسائٹی میں بدل دینا ان کا اگلا ہدف ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ عورت کو جنسِ بازار بنا دیا جائے۔ موسیقی و شراب کو اتنا عام کر دیا جائے کہ ایمان و حیا منہ چھپاتے پھریں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ذرائع ابلاغ خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کے بے شمار چینلوں کو مسلم ممالک میں عام کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم اور خواتین کے محاذوں کو اپنا خصوصی ہدف بنایا ہے۔
تعلیم کے محاذ پر وہ مسلم دنیا کے نظام ہاے تعلیم میں سے قرآن‘ جہاد اور اسلامی تعلیمات کو کھرچ کھرچ کر نکالنا چاہتے ہیں اور مشاہیر اسلام اور مسلم فاتحین کے تذکروں اور کارناموں کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سائنس اور عمرانیات میں ایسے مضامین کو لانا چاہتے ہیں جس میں خدا کا تصور تک موجود نہ ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’بھلا سائنس اور قرآن کا باہم کیا تعلق‘‘۔ اُردو میں اسلامیات کیوں ہو۔ وہ معاشرے میں روشن خیالی لانے کے لیے فنِ موسیقی اور رقص کو متعارف کروانا چاہتے ہیں اور تعلیم کی ہر سطح پر مخلوط انتظامات ان کی کوششوں کا محور ہیں۔ اس غرض سے انھوں نے پاکستان اور بعض دیگر ممالک میں آغا خان یونی ورسٹی بورڈ کو بھاری مالی امداد دے کر انتظامی اور عدالتی دسترس سے ماورا رہنے کے اجازت نامے لے کر دیے ہیں اور یوں اس نظام کو متعارف کرانے کی بنیاد رکھ دی ہے۔
خواتین کے محاذ پر امریکیوں نے روشن خیال اور ترقی پسند خواتین انجمنوں (این جی اوز) کے لیے اپنی خطیر رقوم کے منہ کھول دیے ہیں۔ ان کو یہ ڈیوٹی دی گئی ہے کہ وہ مسلم معاشروں سے ایسے واقعات کو چن چن کر تشہیر دیں جن میں اخلاقی حدود کو پامال کر کے گھروں سے بھاگ جانے والوں اور والیوں کو معاشرے کے ’’جرأت مند‘‘ افراد اور ان کے کارناموں کو قابلِ تقلید مثال کے طور پر پیش کیا جاسکے۔ چنانچہ یہ انجمنیں معاشرے کے ان بدقسمت افراد اور ان کے گھروالوں کو سہارا یا رہنمائی فراہم کرنے اور انھیں دوبارہ پرسکون زندگی کی طرف لوٹانے کے بجاے مشتعل کرکے معاشرتی اقدار سے ٹکرا جانے پر اُبھارتی رہتی ہیں۔
پاکستانی حکومت نے چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے جب امریکی عزائم کے سامنے جھکنے کا فیصلہ کرلیا تو امریکیوں کے لیے آسان تر ہوگیا کہ وہ حکومتی سطح پر پاکستان سے ’’فراخ دلانہ‘‘ تعاون وصول کریں اور تعلیمی محاذ کے ساتھ ساتھ خواتین کے محاذ پر بھی اپنی من مانی کارروائیوں کا آغاز کردیں۔ چنانچہ ان دونوں محاذوں پر سرمایہ کی بے پناہ فراوانی کے ساتھ کام شروع کر دیا گیا ہے۔ اس کی تفصیلات بتانے کی اس لیے چنداں ضرورت نہیں کہ اس حوالے سے چونکا دینے والی بے شمار معلومات اخبارات و جرائد میں وقفے وقفے سے شائع ہوتی رہتی ہیں۔
اس وقت ہمارا موضوع دراصل خواتین کے محاذ پر کی جانے والی اس ثقافتی یلغار اور اس کے آگے بند باندھنے کی منصوبہ بندی سے متعلق ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی سامراج کو سرمائے‘ ٹکنالوجی اور پروپیگنڈے کے میدان میں ہم پر برتری اور سبقت حاصل ہے۔ تاہم یہ بات ہمارے حق میں جاتی ہے کہ ہم اپنے ’’ہوم گرائونڈ‘‘ میں بیرونی ٹیم کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اگر بہتر تیاری‘ اچھی منصوبہ بندی‘ اعلیٰ مہارت اور اللہ تعالیٰ پر توکل کے سہارے میدان میں اترا جائے تو جیت کے شاندار امکانات اور مواقع پوری طرح موجود ہیں۔
اس جنگ میں یہ بات بھی پیش نظر رکھنے کی ہے کہ ہمارے رسوم و رواج میں اور ہماری معاشرتی اقدار میں ہر چیز اسلامی نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اس میں جاہلیت پر مبنی بے شمار ہندوانہ اور جاہلانہ تصورات سرایت کیے ہوئے ہیں۔ مغربی اقدار کے خلاف لڑتے ہوئے بلکہ لڑنے سے پہلے ہمیں ان فرسودہ رسوم و رواج کو چھانٹ چھانٹ کر اسلامی اقدار سے الگ کرنے اور پھر ان کی بیخ کنی کے لیے زوردار مہم چلانے کی بھی ضرورت ہے۔ بیٹے اور بیٹی کی پیدایش پر خوشیوں سے لے کر ان کی تعلیمی ضروریات اور تصورات‘ شادی بیاہ کی رسوم و رواج اور پھر بیاہے جانے کے بعد وراثت میں خواتین کے شرعی حقوق تک بے شمار جاہلانہ تصورات معاشرے میں اپنی جڑیں گاڑے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان جاہلانہ رسوم و رواج پر صرف اپنی ناپسندیدگی کا اظہار ہی کر کے نہ رہ جائیں بلکہ ایک زوردار مہم کے ذریعے ان اشجارِ خبیثہ کو جڑ سے اکھاڑنے کی منصوبہ بندی بھی کریں‘ اور جدوجہد بھی‘ تاکہ اسلام کی طرف سے خواتین کو دیے گئے پُرکشش حقوق کی صاف اور پاکیزہ جھلک ہر ایک کو نظر آئے۔ مغرب جب ان جاہلانہ رسومات کو ہمارے معاشرے میں موجود پاتا ہے توا ن کی آڑ میں وہ اسلامی معاشرے کو مطعون کرتا ہے اور جانتے بوجھتے انھیں اسلامی اقدار کے روپ میں پیش کر کے ان پر ’’سنگ زنی‘‘ بھی کرتا ہے۔ مسلم خواتین اگر مغرب کے پروپیگنڈے کو بے اثر کرنا چاہتی ہیں تو انھیں معاشرت میں پائی جانے والی ان خرابیوں کی نشان دہی بھی کرنا ہوگی اور ان کی بیخ کنی کے لیے پُرعزم جدوجہد بھی۔ گویا ہماری جدوجہد ان امراضِ خبیثہ کے خلاف بھی ہے جو گندے خون کی صورت میں معاشرے کی رگوں میں سرایت کرچکی ہیں اور اس وائرس کے خلاف بھی جو باہر سے ہم پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے۔
مغرب کا یہ گمراہ کن پروپیگنڈا کہ اسلامی تہذیب و معاشرت میں عورتوں کو حقوق حاصل نہیں صرف اس لیے جڑ پکڑ سکتا ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جو حقوق دیے ہیں ہمارا پس ماندہ معاشرہ وہ حقوق خواتین کو دینے کے لیے تیار نہیں۔ پیدایش کی خوشیوں سے لے کر جایداد میں حقِ وراثت تک ہمارا موجودہ جاہلی معاشرہ خواتین کے ساتھ امتیازی برتائو کرتا چلا آرہا ہے۔ اگرچہ پاکستان کے قانونِ وراثت میں خواتین کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ مگر معاشرہ اور رسوم و رواج انھیں یہ حق دینے سے مسلسل انکاری ہیں۔ یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ پنجاب‘ سندھ‘ سرحد اور بلوچستان میں کم و بیش ۸۰ فی صد خواتین کو شادی سے قبل آمادہ کر لیا جاتا ہے کہ وہ جایداد میں اپنا حصہ ’’بخوشی‘‘ بھائیوں کے نام منتقل کر دیں۔ یوں جایداد کو ان کے بقول ’’پرائے گھر‘‘ میں جانے سے بچا لیا جاتا ہے۔ یہ عورت کا بدترین استحصال ہے۔ ایک مدت سے منبر و محراب سے بھی اس استحصال کے خاتمے کے لیے کوئی آواز سنائی نہیں دی۔
خواتین کو حقِ وراثت سے محروم کرنے والوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعید دی ہے۔ خواتین کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقررہ کردہ حق کو رسومات کی بنیاد پر چھین لینا صریح ظلم اور زیادتی ہے۔ اگر مسلم خواتین اپنے اس حق کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ مرحلہ وار آگے بڑھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ چند برسوں کی جدوجہد سے معاشرے کو اس قبیح رسم سے نجات نہ دلائی جا سکے۔
مسلم خواتین اور باشعور مردوں اور علماے کرام سب کو اس ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔ اس مسئلے پر معاشرتی شعور بیدار کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں سیمی نار کیے جائیں۔ اخبارات میں فیچر شائع ہوں۔ اس موضوع پر ملک بھر میں لٹریچر عام کیا جائے۔ منتخب نمایندوں سے کہا جائے کہ وہ اس غیر شرعی رسم کے خلاف اس طرح کی قانون سازی کریں کہ وراثت کا بیٹے اور بیٹیوں میں باقاعدہ انتقال ہوئے بغیر خواتین کا حصہ کسی دوسرے کے نام منتقل نہ ہوسکے۔ اس قانون سازی کے لیے عورتوں کے نمایندہ وفود ممبران اسمبلی سے ملیں اور ضرورت پڑے تو مناسب تیاری سے پارلیمنٹ ہائوس تک مارچ بھی کیا جائے۔
یہ موضوع مغربی دنیا کی شہہ پر پرورش پانے والی این جی اوز کے لیے سب سے زیادہ دل چسپی کا باعث ہے۔ اباحیت پسند معاشرے میں فلمی مکالموں سے متاثر ہوکر بہت سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں خفیہ طور پر تعلقات استوار کرلیتے ہیں۔ ایک مدت تک گھر والے چشم پوشی اور لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں مگر جب صدمے والی خبر آپہنچتی ہے تو غصے سے بے قابو ہوکر لڑکی اور لڑکے کے قتل کا انتہائی جرم کر گزرتے ہیں۔
اسلام سمیت کوئی بھی مہذب معاشرہ اس گھنائونے جرم کے ارتکاب کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام تو قتل کے بدلے میں بھی کسی فرد کو جوابی قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ اختیار صرف اور صرف ریاست کو حاصل ہے کہ وہ قتل کا انتقام قتل کی صورت میں لے یا ورثا کے کہنے پر خون بہا کی ادایگی کا فیصلہ کرے۔ عزت کے نام پر قتل کے حوالے سے مغربی سوچ اور اسلامی سوچ میں جو فرق ہے وہ اس جرم کے ’’گھنائونے پن‘‘ پر نہیں بلکہ جرم کے محرکات پر ’’پسندیدگی‘‘ اور ’’ناپسندیدگی‘‘ کے باعث ہے۔ اہلِ مغرب کے نزدیک لڑکے اور لڑکیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عمر اور جذبات کے اس انتہائی ناپختہ مرحلے پر اپنے جنسی جذبات کی تسکین کے لیے جو راہ اور طریقہ اپنانا چاہیں اپنا لیں اور ماں باپ یا بزرگوں سے کسی رہنمائی کی قطعی ضرورت محسوس نہ کریں‘ جب کہ اسلام انھیں خاندانی و معاشرتی زندگی سے سرکشی و بغاوت سے روکتا اور مشفقانہ رہنمائی میں فیصلے کرنے کی ہدایت کرتا ہے (اسلام لڑکے اور لڑکی کی پسند کو اہمیت دیتا ہے)۔ مگر بدقسمتی سے ہندوانہ رسومات کی جکڑبندیوں کے باعث ہمارے معاشرے نے اسلام کے اس ’’حسن انتظام‘‘ کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ اس کے برعکس مغربی اقدار نے انھیں آزاد خیالی کا ایک ایسا راستہ دکھانا شروع کر دیا ہے جو خاندانی نظام کی بنیادیں ہی ہلاکر رکھ دینے والا ہے۔ اس حوالے سے ایک طرف ہمیں غیرت کے نام پر قتل اور کاروکاری کی مذمت کرنا چاہیے اور دوسری طرف اُن اسباب و محرکات کے سدِباب کے لیے آواز بھی بلند کرنا چاہیے جو اس مذموم اور گھنائونے جرم کے راستے کھولنے کا سبب بنتے ہیں۔ معاشرے کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ سخت سے سخت قانون سازی بھی اس وقت تک بے اثر ہے جب تک ان محرکات کا قلع قمع نہ کیا جا سکے جو غیرت کے نام پر ہر قتل کے لیے اشتعال دلانے کا باعث بنتے ہیں۔
زندگی گزارنے کے طریقوں میں بے شمار تبدیلیوں اور نت نئی ضرورتوں کے باعث خواتین کا خرید و فروخت‘ تعلیم‘ علاج اور دیگر کئی ضرورتوں کے لیے نہ صرف گھر سے نکلنا بلکہ ان میدانوں میں ملازمتیں حاصل کرنا بھی ناگزیر ہوچکا ہے۔ اسلام ضرورت کے تحت خواتین کے گھر سے نکلنے پر پابندی نہیں لگاتا‘ وہ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ معاشرے کو مرد و خواتین کے باہم اختلاط سے بچایا جائے اور اس طرح دونوں کی عزت و ناموس کی حفاظت کی جائے۔
اس وقت پاکستان میں لاکھوں ایسی خواتین ہیں جو تعلیم‘ صحت‘ ذرائع ابلاغ اور دیگر سرکاری و غیر سرکاری محکموں میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ یہ تعداد اگرچہ خواتین کو مجموعی تعداد کے تناسب سے بہت زیادہ نہیں‘ تاہم اپنے فعال اور متحرک کردار کے باعث انھیںمعاشرے میں بہت مؤثر مقام حاصل ہے۔ ہمارے معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان خواتین کو ایسا ماحول فراہم کرے کہ جب وہ اپنی ملازمتی ضروریات کے لیے باہر نکلیں تو کسی خوف اور خطرے کے بغیر اپنے کام سرانجام دے سکیں۔اس طرح کا ماحول پیدا کرنے میں جہاں پورے معاشرے کو متحرک ہونا ہوگا وہاں اس مسئلے کو مسلم خواتین کے ایجنڈے پر بہت نمایاں جگہ ملنی چاہیے۔ انھیں بہت زوردار طریقے سے یہ آواز اٹھانا چاہیے کہ ملازمت پیشہ خواتین کو کام کے لیے محفوظ ماحول فراہم کیا جائے۔ اگر سفر کرنا ناگزیر ہو تو محفوظ سفری سہولیات میسر ہوں‘ یا ملازمت کی جگہ دُور ہو تو محفوظ رہائشی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں‘ ہسپتالوں اور دیگر مقامات پر کام کرنے والی ہزاروں ایسی خواتین ہیں جنھیں ناقابلِ بیان سفری مشکلات اور حفاظتی خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ترکی کی اسلامی پارٹی نے ملازمت پیشہ خواتین کے تحفظ کو اپنی جدوجہد میں بہت نمایاں حیثیت دی۔ نتیجتاً ترکی کے انتہائی سیکولر ماحول کے باوجو د اسلامی پارٹی کو خواتین میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ پاکستان میں بھی مسلم خواتین کو اپنی جدوجہد میں ملازمت پیشہ خواتین کے تحفظ کو بھرپور اہمیت دینی چاہیے۔
ہمارے بے شمار مسائل کے ناقابلِ حل رہنے کی ایک بڑی وجہ خواتین میں تعلیم کی کمی ہے۔ کچھ شہری آبادیوں کو چھوڑ دیا جائے تو دیہاتی معاشرے میں اکثر جگہ خواتین میں شرح خواندگی مردوں کی نسبت نصف یا اس سے بھی کم ہے۔ اندرونِ سندھ‘ جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے اکثر علاقوں میں خواتین کی تعلیم ابھی تک نہ ہونے کے برابر ہے۔ وڈیرے مخدوم اور نواب ابھی تک مزارعوں اور ہاریوں کو تعلیمی اداروں کے قریب تک پھٹکنے نہیں دینا چاہتے۔ ان علاقوں میںخواتین کی ایک بڑی تعداد کے لیے تعلیمی ادارے کی شکل دیکھنا خواب دیکھنے سے کم نہیں۔
یہ ایک تڑپا دینے والی کیفیت ہے۔ عورت کا پڑھا لکھا ہونا مرد کی نسبت زیادہ ضروری ہے۔ اس فرق کو ہنگامی بنیادوںپر دُور ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام تنہا عورتوں کے لیے ممکن نہیں اس کے لیے معاشرے کے سارے طبقات کا حصہ لینا ضروری ہے اور ان میں سب سے بڑھ کر حکومت کو کردار ادا کرنا ہے۔ مگر خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو زوردار انداز میں یہ آواز حکومت کے ایوانوں تک پہنچانی چاہیے اور مطالبہ کرنا چاہیے کہ جب تک مردوں اور عورتوں میں شرح خواندگی برابر نہیں ہو جاتی‘ تعلیمی بجٹ میں عورتوں کا حصہ مردوں سے دگنا کر دیا جائے۔ دیہی علاقوںمیں پرائمری اور ہائی سطح پر خواتین کے اضافی تعلیمی ادارے کھولے جائیں اور دیہی پس منظر میں خواتین اساتذہ کو بہتر سہولیات فراہم کی جائیں۔
خواتین کا حقِ وراثت‘ عزت کے نام پر قتل اور محرکات کی روک تھام‘ ملازم پیشہ خواتین کا تحفظ اور خواتین کی شرح خواندگی میں اضافہ۔ اگر مسلم خواتین یہ چار نکاتی لائحہ عمل لے کر باہر نکلیں گی تو انھیں خواتین میں پذیرائی بھی حاصل ہوگی اور حقوقِ نسواں کے پس منظر میں ’’پیش قدمی‘‘ بھی ان کے ہاتھ میں ہوگی۔ توقع ہے ایسی صورت میں مغرب زدہ خواتین کے لیے یہ سرزمین ’’اجنبی‘‘ ہوجائے گی۔
محترم ڈاکٹر انیس احمد کا مضمون ’’عالمی امن و انصاف: اسلامی تناظر میں‘‘ (مارچ ۲۰۰۵ئ) زیرمطالعہ آیا۔ اسلام کے خلاف مغرب کے گمراہ کن پروپیگنڈے کی تان ’’جہاد‘‘ کی مذمت پر ٹوٹتی ہے‘ اس کے ازالے کے لیے اس نوعیت کی تحریریں وقت کی ضرورت ہیں‘ اس سے قطع نظر کہ مغرب کی جارح قوتیں اپنے استحصالی نظام کے راستے میں خود اسلام کو ایک مزاحم عنصر سمجھتے ہوئے اس کے استیصال کی ہمہ جہت مہم چلائے ہوئے ہیں۔ دنیا اور بطور خاص مغرب کے انصاف پسند غیر متعصب عناصر کو اسلام اور جہاد کی حقیقت سے باخبر کرنا مسلمانوں ہی کے لیے نہیں خود مغرب کے لیے بھی سودمند کوشش ہے۔ البتہ اس کوشش میں بقول خود ڈاکٹر صاحب کے معذرت خواہانہ رویّے کا اظہار مناسب نہیں کہ اس سے خود اپنے موقف کی کمزوری اور پسپائی کا تاثر اُبھرتا ہے۔ اسی حوالے سے خود ڈاکٹر صاحب موصوف کی بعض آرا وضاحت طلب ہیں۔
’’قرآن مجید میں لفظ جہاد تقریباً ۴۰ مرتبہ اور لفظ قتال تقریباً ۱۶۰ مرتبہ مختلف معنوں میں آیا ہے‘‘، اگلے ہی جملے میں انھوں نے دونوں لفظوں کی یہ تعریف بیان کی ہے: ’’جہاد کسی مقصد کے حصول کے لیے بھرپور کوشش‘ انتہائی جدوجہد اور پیہم عمل کا نام ہے‘ جب کہ قتال سے مراد لڑنا اور جنگ کرنا ہے‘‘۔ پھر ’’کسی مقصد‘‘ سے آگے بڑھ کر یا اس مقصد کی تشریح کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ ’’جہاد کا مقصد لوگوں کو ظلم‘ ناانصافی‘ غلامی اور استحصال سے نجات دلانا اور حقوقِ انسانی کی بحالی ہے۔ اگرچہ زیادہ زور مسلمانوں کے حقوق پر دیا گیا ہے لیکن یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہیں کہ جہاد صرف مسلمانوں کو اُن کے حقوق دلانے سے تعلق رکھتا ہے‘‘۔
ناچیز کی رائے میں موصوف نے اُس مقصد کی جامع تعریف نہیں کی جو وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ(البقرہ ۲:۱۹۳) کے الفاظ میں غلبۂ دین ہے اور جس کے نتیجے میں ظلم‘ ناانصافی‘ غلامی اور استحصال سے خلقِ خدا کو نجات ملتی ہے۔ سورئہ حدید میں بعثتِ انبیا کا مقصد نظامِ عدل کا قیام بتایا گیا ہے اور اس کے ساتھ فولاد کی اسلحی اور صنعتی قوت کا ذکر واضح اشارہ ہے کہ نظامِ عدل کے قیام کے سلسلے میں ایک مرحلہ اسلحی قوت کے استعمال‘ یعنی قتال کا لازماً آتا ہے کیونکہ باطل نظامِ ظلم اپنی پوری حربی قوت سے اپنا دفاع کرتا ہے جس کی مثال جنگِ بدر اور جنگِ خندق سے ملتی ہے۔ اس آیت میں تو اسلحے کے استعمال کی جانب اشارہ ہی ہے‘ جب کہ مندرجہ ذیل آیات میں لفظ جہاد کسی کوشش یا جدوجہد کے معنی میں نہیں۔ دوٹوک انداز میں قتال کے لیے استعمال ہوا ہے:
۱- ’’نکلو خواہ ہلکے ہو یا بوجھل اور جہاد کرو اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں‘‘ (التوبہ ۹:۴۱) (یہ حکم تبوک کے حوالے سے ہے)۔
۲-’’جو لوگ اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں تو وہ کبھی تم سے یہ درخواست نہیں کریں گے کہ انھیں جان و مال کے ساتھ جہاد کرنے سے معاف رکھا جائے‘‘ (التوبہ۹:۴۴) (یہ بھی جنگ میں عدمِ شرکت کی درخواست کرنے والوں کے لیے ہے)۔
۳- ’’مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں‘ دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے‘‘۔ (النساء ۴:۹۵)
۴- ’’اللہ نے بیٹھنے والوں کی نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے‘‘۔(النساء ۴:۹۵)۔
۵-’’مگر اس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے‘‘۔ (النساء ۴:۹۵)
۶- ’’جب کوئی سورہ اس مضمون کی نازل ہوئی کہ اللہ کو مانو اور اس کے رسول کے ساتھ مل کر جہاد کرو تو تم نے دیکھا جو لوگ ان میں صاحبِ مقدرت تھے وہی تم سے درخواست کرنے لگے کہ انھیں جہاد کی شرکت سے معاف رکھا جائے اور انھوں نے کہا کہ ہمیں چھوڑ دیجیے کہ بیٹھنے والوں کے ساتھ رہیں‘‘۔(التوبہ ۹:۸۶)
یہ صحیح ہے کہ قرآن میں لفظ جہاد کوشش اور جدوجہد کے لیے بھی استعمال ہوا ہے لیکن اس کے معنوں سے قتال کو یکسر خارج کر دینا درست نہیں‘ جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے تحریر فرمایا ہے۔
آگے چل کر جہاد کے ’’حقوقِ انسانی کی بحالی‘‘ کی کوشش کے ثبوت کے طور پر جو آیت پیش کی گئی ہے‘ وہ یہ ہے: ’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا دیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں‘ اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کر دے‘‘۔
وَمَنْ یُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیُقْتَلْ اَوْ یَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًا (النساء ۴:۷۴)‘جس میں خالصۃً جنگ کی ترغیب اور قتل ہونے یا غلبہ حاصل کرنے دونوں صورتوں میں اجرِعظیم کی بشارت دی ہے اور یہ ترغیب شانِ نزول کے حوالے سے کچھ غیرمسلم گروہ کے حقوق کی بحالی کے لیے نہیں بلکہ بقول مولانا مودودیؒ، اُن مظلوم بچوں اور عورتوں اور مردوں کی نجات کے لیے ہے جو مکے اور عرب کے دوسرے قبائل میں اسلام قبول کر چکے تھے مگر نہ ہجرت پر قادر تھے اور نہ اپنے آپ کو ظلم سے بچا سکتے تھے۔ یہ غریب طرح طرح سے تختۂ مشقِ ستم بنائے جا رہے تھے اور دعائیں مانگتے تھے کہ کوئی انھیں اس ظلم سے بچائے۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں: اسی طرح انسانی حقوق کی سربلندی کے لیے ایک دوسری جگہ قرآن میں تین مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کی حفاظت کو مسلمانوں کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے: ’’اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے ہٹاتا نہ رہتا تو عبادت خانے‘ گرجے اور معبد اور مسجدیں بھی ڈھا دیے جاچکے ہوتے جہاں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے‘‘۔ (الحج ۲۲:۴۰)
یہاں بھی ڈاکٹر صاحب نے اسلام کی وسیع الظرفی ایک غلط دلیل سے ثابت کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’جہاد محض مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے حصول کے لیے نہیں ہے بلکہ یہود و عیسائی وغیرہ کو بھی اگر اپنے عبادت خانوں میں عبادت کرنے سے محروم کر دیا جائے تو مسلمانوں کا فرض ہے کہ ان کا یہ مذہبی حق ان کو دلوائیں۔ اس طرح جہاد محض اُمت مسلمہ کے حقوقِ انسانی کے تحفظ تک محدود نہیں رہتا بلکہ عالمی طور پر مذہبی حقوق کے احیا و بحالی کے لیے ایک اہم کردار ادا کرتا ہے‘‘۔
یہاں عبادت گاہوں کے تحفظ کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لی ہے نہ کہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے۔ یہی بات سورۂ بقرہ میں ان الفاظ میں ارشاد فرمائی گئی ہے کہ: ’’اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا رہتا تو زمین میں فساد مچ جاتا‘‘۔ (۲: ۲۵۱)
محترم ڈاکٹر صاحب نے مستضعفین کی مدد کے حوالے سے لکھا ہے: یہاں یہ بات کہی گئی ہے کہ جن عورتوں‘ بچوں اور مردوں کو محض اس بنا پر کہ وہ اپنے رب کی بندگی کرنا چاہتے ہیں‘ ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہو (جیسے آج مقبوضہ کشمیر ہی میں نہیں بعض مسلم اکثریتی ممالک میں اہلِ حق کے ساتھ کیا جا رہا ہے) تو اہلِ ایمان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان کی رہائی اور نجات کے لیے مادی اور اخلاقی امداد کریں۔ اس تشریح میں بھی میری ناچیز رائے میں مسلم اکثریتی علاقوں کی شمولیت اور ’’قتال‘‘ کو مادی اور اخلاقی امداد سے تعبیر کرنا درست نہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے اسلام کے اصول ’’امن و صلح‘‘ کو جن سات اصولوں کی شکل میں پیش کیا ہے اُن میں پہلا نکتہ ’’توحید‘‘ ہے لیکن توحید کی تعبیر میں بھی اُنھوں نے جس طرح توحید کے منکرین کو ’’بباطن‘‘ موحد ہونے کی سند عطا کی ہے وہ بھی اسلام کے اسلامی وسیع الظرفی سے تجاوز کی مثال ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’توحید یا ایک بالاتر اصول کی آفاق و انفس میں فرماں روائی ان لوگوں کے لیے بھی زندگی میں یک رنگی پیدا کرنے کی بنیاد فراہم کرتی ہے جو بظاہر مسلمان ہونے کے دعویدار نہیں‘‘۔
مذکورہ مضمون کے جو مقامات دل میں کھٹکے تھے اُن کی نشان دہی کے بعد اپنی جانب سے اتنا کہنا چاہوں گا کہ دین اسلام اور اس کے نظریۂ جہاد کی تشریح کی ضرورت اپنی جگہ مسلّم، لیکن اس کی تاویل میں جہاد کے عقیدے کو مغرب کے لیے قابلِ قبول بنانے کے لیے کتربیونت سے پرہیز بہتر ہے۔ نیز یہ کہ ایک محاذ پر اگر مغرب کا ذہن صاف کرنے کی ضرورت ہے تو دوسرے محاذ پر صدربش کی کھلی اسلام دشمنی کے مقابلے میں عالمِ اسلام میں جذبۂ مدافعت و مقادمت بیدار کرنے کی اس سے زیادہ ضرورت ہے۔
ہم جہاد اور قتال کو اُردو زبان میں بالعموم متبادل کے طور پر استعمال کرلیتے ہیں‘ جب کہ قتال ایک مخصوص عمل ہے اور جہاد وسیع تر اصطلاح۔ جہاد میں قتال بھی شامل ہے جس کی دلیل قرآن و سنت میں موجود ہے۔ جُھْدٌ کے معنی وسعت و طاقت اور تکلیف و مشقت کے ہیں۔ انسان جو مشقت و جدوجہد کرتا ہے اس کی طرف قرآن کریم میں سورۂ توبہ (۹:۷۹) میں اشارہ کیا گیا ہے‘ جب کہ قسمیں کھا کر پوری کوشش کرنے کا مفہوم سورۂ نحل (۱۶:۳۸) میں ملتا ہے۔ جِہَادٌ کے معنی کسی مقصد کے حصول کے لیے اپنی طاقت اور وسعت کو پورا پورا صرف کردینے کے آتے ہیں۔ قرآن کریم میں مجاہدین بمقابلہ قاعدین (النساء ۴:۹۵) آیا ہے۔ قاعدین کے معنی بیٹھے رہنے والوں کے ہیں‘ جب کہ مجاہدین جدوجہد کرنے والوں کو کہا گیا ہے‘ یعنی وہ جو جان کی بازی لگانے والے ہوں۔ اسی طرح اپنی رائے قائم کرنے میں انتہائی کوشش و مشقت کرنے کو اجتہاد کہا جاتا ہے۔ ایسے ہی ہے جھدتُ رائی وَاجَھَدتُہٗ، یعنی میں نے غوروفکر سے اپنی رائے کو مشقت میں ڈالا۔
گویا دشمن کے مقابلے میں اپنی تمام قوت اور تمام ممکنہ وسائل کے استعمال کو ہی جہاد کہا گیا ہے۔ اس تعریف میں قتال بھی شامل ہے۔ چنانچہ سورئہ حج (۲۲:۷۸) میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا حکم دیتے وقت کہہ دیا گیا کہ ایسا جہاد جیساکہ اس کا حق ہے۔ اس وسیع تر مفہوم میں مجموعی طور پر ظاہری دشمنی کے خلاف جدوجہد کرنا‘ نفس کے فتنوں کے خلاف جدوجہد کرنا‘ اور قوت سے جنگ کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔
لیکن جہاں تک قتال کا تعلق ہے‘ یہ بالعموم جنگ (war) ہی کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے‘ جیسے سورئہ بقرہ (۲:۱۹۳) میں قتال کا حکم ہے کہ تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے۔ راغب الاصفہانی نے اس حوالے سے جو دیگر مفہوم درج کیے ہیں ان میں ذلیل و کمزور کر دینے کا عمل‘ کسی آلے کے استعمال سے جان ضائع کر دینے کا معاملہ‘ المُقَاتَلَہٗ ،یعنی جنگ‘ سب کو شامل کیا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو نکتہ چینی سے قطع نظر مندرجہ بالا مفاہیم ہی کی بنیاد پر متذکرہ مضمون میں چند گزارشات پیش کی گئی ہیں۔
دوسرے نکتے کا تعلق غیر مسلموں کے مقامات عبادت کے تحفظ سے ہے۔ اگر مکتوب نگار کی بات کو جوں کا توں مان لیا جائے تو کیا اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ خود زمین پرآکر ان مقامات کا تحفظ کریں گے‘ یا اسلامی ریاست اور مسلمان یہ کام کریں گے۔ یہی بات مضمون میں کہی گئی ہے کہ مسلمانوں کے فرائض میں مذہبی مقامات کا تحفظ بھی شامل ہے۔
تیسری گزارش یہ کہ ظلم‘ فتنہ‘ ناانصافی‘ حقوقِ انسانی کی پامالی دنیا میں کہیں بھی ہورہی ہو‘ اس کے خلاف آواز بلند کرنا‘ اخلاقی‘ سیاسی‘ مادی‘ ہر حیثیت سے ظلم کے خلاف جہاد کرنا اُمت مسلمہ کا ایک فریضہ ہے۔ قرآن و سنت کے نصوص اس پر واضح ہیں۔ سورئہ نساء (۴:۷۵-۷۶) میں اس سلسلے میں واضح ہدایات اور حکم پایا جاتا ہے۔
ممکن ہے کہ مضمون کے انگریزی سے اُردو میں ترجمہ ہونے سے بعض نکات واضح طور پر سامنے نہ آسکے ہوں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جہاں توحید اسلام کی بنیاد اور سب سے اہم اصول ہے وہیں اس اصول کی relevance اور تعلق ایک غیر مسلم کے لیے بھی ہے۔ وہ اسلام کو شعوری طور پر قبول کرنے سے قبل اس کی عمومی تطبیق کرکے اپنی شخصیت سے تضادات کو یکے بعد دیگرے دُور کرکے اپنے آپ کو دین فطرت سے قریب تر لاسکتا ہے۔ اسی معنی میں حدیث میں‘ ہر پیدا ہونے والے بچے کو مسلم قرار دیا گیا ہے۔ اگر وہ اضافے اور تضادات جو اس کے غیرمسلم ماحول و تربیت کی بناپر شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں یکے بعد دیگرے دُور کر دیے جائیں‘ تو اس کی شخصیت میں یکجائی (unization) پیدا ہوسکتی ہے جو میری ناقص رائے میں اسلام کے شعوری طور پر ماننے کا درمیانی مرحلہ بن سکتا ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب!
۱۵ اپریل ۲۰۰۵ء کا دن شاہ مراکش محمد السادس کے لیے خوشی کا دن تھا۔ آج اس کے پہلے اور اکلوتے بیٹے مولای الحسن کے ختنے کا جشن تھا۔ ’’خوشی‘‘ کے اس اہم موقع پر خزانے کا منہ تو کھلنا ہی تھا‘ جیلوں کے دروازے بھی کھول دیے گئے اور مراکش کی مختلف جیلوں سے ۱۷۹,۷ قیدی رہا کردیے گئے۔ پورے ملک میں مبارک سلامت کا شور اٹھا۔ بادشاہ سلامت اور نومختون ولی عہد کی خدمت میں تحائف دینے کے لیے خصوصی جلوس نکالے گئے اور مملکت مراکش میں امن‘ اخوت‘ انصاف‘ جمہوریت اور ترقی کے نئے باب رقم ہوگئے۔
خوشی اور اظہارِ خوشی ایک فطری امر ہے لیکن اپنی ہاشمی نسبت پر فخر کرنے والے مراکش کے شہنشاہ نے دنیا کو اسلام کے اعتدال اور حقوقِ انسانی کی پاسداری کی عملی تصویر دکھائی ‘کسی کو یہ بے محل سوال نہیں کرنا چاہیے کہ اگر صاحبزادہ صاحب کا ختنہ نہ ہوتا تو یہ ۱۷۹,۷ قیدی مزید کتنا عرصہ جیلوں میں ہی سڑتے رہتے اور یہ کہ مزید کتنے ہزار قیدی کسی ایسی ہی ’’مبارک‘‘ تقریبِ ختنہ کے منتظر رہیں گے۔
امریکا بہادر اس وقت دہشت گردی کے خلاف اپنی عالمی جنگ کے اہم مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ عراق اور افغانستان کی طرح عسکری قبضہ بھی اس جنگ کا حصہ ہے اور نام نہاد روشن خیالی و اعتدال پسندی کی وسیع لہر بھی اس جنگ کا لازمی جزو ہے۔ عراق میں اسے کیا فتوحات ملیں اس کا جائزہ ذراآگے چل کر‘ لیکن پہلے ذرا اس کی وسیع تر جنگ کی ایک جھلک۔ یہ جنگ سیاست‘ ثقافت‘ ذرائع ابلاغ اور تعلیم کے میدان میں لڑی جا رہی ہے۔ شرق اوسط اس کا مرکزی میدان ہے لیکن اس کی حدود مراکش سے ترکی اور برعظیم تک پھیلا دی گئی ہیں۔ پالیسی ساز امریکی اس پورے خطے میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ ہر جگہ ایک ہی کلچر ہو‘ یکساں نظام تعلیم ہو جس میں کہیں ’’نفرت‘‘ کا پرچار نہ ہو۔ (جہاد کی فضیلت اور مشرکین و یہود کی اصل تصویر دکھانا نفرت پھیلانا ہے)۔ وسیع تر شرق اوسط میں سیاسی اصلاحات اس طور کی جائیں کہ ہر جگہ روشن خیال حکومتیں قائم ہوں۔ ان حکومتوں کے ذریعے عوام بالخصوص نوجوان نسل کے دل و دماغ تک رسائی حاصل کی جائے تاکہ امریکا کے خلاف نفرت کا تناسب کم ہو‘ کیونکہ اسی نفرت سے بالآخر دہشت گردی جنم لیتی ہے۔
وسیع تر اصلاحات کی ضرورت پر سب سے زیادہ زور اس وقت سعودی عرب‘ شام‘ ایران اور مصر پر دیا جا رہا ہے کیونکہ سعودی عرب ’’القاعدہ‘‘ کا گڑھ اور اصل مسکن ہے۔ یہاں کا نظامِ تعلیم انتہائی بنیاد پرست ہے جس میں قرآنی آیات و احادیث نبویؐ کی بھرمار ہے۔ سعودی نوجوان براستہ شام عراق میں بھی دہشت گردی کر رہے ہیں۔ شام ان سے چشم پوشی کے علاوہ فلسطینی دہشت گرد تنظیموں حماس اور جہاد اسلامی کو پناہ دیے ہوئے ہے اور جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوجوں کو نکال باہر کرنے والی ’دہشت گرد‘ تنظیم حزب اللہ کا پشتیبان ہے۔ شام کے تعلقات ایران سے بھی بہت مضبوط ہیں اور ایران ایٹمی اسلحہ بنارہا ہے ۔ اس سے دوستی بھی یکساں جرم ہے (البتہ عراق میں لائی جانے والی شیعہ حکومت سے ایران کے قریبی تعلقات اس وقت ہماری ضرورت ہیں‘ ان پر فی الحال کوئی اعتراض نہیں)۔ مصر نے شرق اوسط کے نقشے میں رنگ بھرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن ایک تو بوڑھا حسنی مبارک اب مفلوج ہوتا جا رہا ہے اور روسی صدر بورس یلسن کی طرح عوامی تقریبات میں لڑکھڑا چکا ہے۔ دوسرے‘ مصری عوام کی اکثریت اس کے ۲۴سالہ اقتدار سے تنگ آچکی ہے۔ مضبوط تر ہوتی ہوئی اسلامی تحریکیں تو پہلے ہی سے مخالف تھیں۔ اب وہ سیکولر اور خالص امریکی لابی کا اعتماد بھی کھوچکا ہے‘ اور پھر یہ کہ مسئلہ فلسطین میں مصر کا مطلوبہ کردار اب کولہو کے بیل کا سا رہ گیا ہے۔ مخصوص غلام گردشوں میں خدمات انجام دینے کے علاوہ وہ فلسطین و یہود تنازعے میں مزید کیمپ ڈیوڈ معاہدے کرنے کے قابل نہیں رہا۔
امریکی پالیسی ساز اور تنفیذی مراکز آئے روز بیانات دے رہے ہیں کہ ’’خطے میں تبدیلیوں کی ہوا چل پڑی ہے‘ اصلاحات ناگزیر ہیں۔ اکلوتی عالمی قوت ہونے کے ناطے یہ اصلاحات امریکا کی ذمہ داری ہے‘‘۔ ’’افغانستان، عراق اور فلسطین میں ہونے والے انتخابات آغاز ہیں۔ اب پورے شرق اوسط میں ’آزادانہ‘ انتخابات ہوں گے‘‘۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ’’وسیع ترشرق اوسط میں اصلاحات ہماری دفاعی ضرورت ہیں‘‘۔ امریکا نے پٹرول کی ترسیل جاری رکھنے کے لیے تمام خلیجی ریاستوں میں اپنے مستقل فوجی اڈے قائم کر دیے‘ عراق پر براہ راست قابض ہوگیا‘ لیکن اپنا دفاع یقینی نہ بنا سکا۔ امریکا کے خلاف عوامی نفرت میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی نفرت کی لہر سے بالآخر ’دہشت گرد‘ گروہ جنم لیتے ہیں۔
عوامی نفرت کے عوامل کا جائزہ لیتے ہوئے امریکی پالیسی ساز یقینا کئی تلخ حقائق تک پہنچے ہوں گے لیکن اپنی اکثر تحریروں اور تجزیوں میں نصف سچ بولنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کیونکہ ان عرب ممالک میں گھٹن ہے‘ عوام کی آزادیاں مسلوب ہیں‘ اور امریکا کے حواری مسلم حکمرانوں نے اپنی اپنی ڈکٹیٹرشپ قائم کی ہوئی ہے‘ اس لیے ان کے خلاف عوامی نفرت کا بڑا حصہ خود امریکا کو بھی پہنچتا ہے۔ پھر نصف مرض کا نصف علاج یہ تجویز ہوتا ہے کہ ان ممالک میں اصلاحات لائی جائیں۔ یہ اصلاحات کیا ہیں؟ اہلِ پاکستان کے لیے انھیں سمجھنا دیگر اقوام کی نسبت کہیں آسان ہے۔ امریکا پاکستان میں جامع اصلاحات کا علم بردار ہے۔ ’روشن خیال اسلام‘ سے لے کر شان دار اقتصادی ترقی کے دعووں‘ انٹرنیٹ اور کیبل ٹی وی جیسے مخصوص میدانوں میں ٹکنالوجی کے فروغ‘ حقیقی جمہوریت کے فروغ اور ہمہ پہلو ثقافتی یلغار سمیت تمام اصلاحی اقدامات کا جادو پاکستان میں سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ میراتھن اور بسنت سے لے کر ایئرفورس کی پیشہ ورانہ تیاری تک‘ ہر جگہ اختلاط مرد و زن ہی کو ترقی و روشن خیالی کا لازمی جزو قرار دیا جا رہا ہے۔ فوجی وردی کو اقتدار و اختیار کا گھنٹہ گھر بنا دینے کے باوجو د دعویٰ و اصرار ہے کہ ملک میں مثالی جمہوریت کا دوردورہ ہے۔ آغا خان فائونڈیشن کی سرپرستی میں بے خدا تہذیب اور لامذہب نسلیں تیار کرنے کو تعلیمی انقلاب کا پیش خیمہ اور امریکی امداد کا ضامن ثابت کیا جا رہا ہے۔
کچھ ترامیم کے ساتھ یہی ماڈل دیگر مسلم ممالک پر بھی مسلط کیا جا رہا ہے۔ امریکی پالیسی ساز آنے والے دور میں ایران‘ عراق‘ مصر اور سعودی عرب کے علاوہ چھوٹی عرب ریاستوں کو بھی بے حد اہمیت دے رہے ہیں۔ امارات‘ قطر‘ بحرین‘ کویت‘ اُردن‘ عمان اور یمن سے اہم ترین دفاعی معاہدے کیے جاچکے ہیں اور مزید کیے جا رہے ہیں۔ کچھ نہ کچھ اصلاحات ان ممالک میں بھی کی جارہی ہیں لیکن اس یقین دہانی کے ساتھ کہ کئی کئی عشروں سے برسرِاقتدار خاندانوں کا اقتدار باقی رہے گا۔ بلدیاتی ادارے اور نصف منتخب‘ نصف نامزد پارلیمنٹ دیکھنے کو ملیں گی۔ عوام کسی نہ کسی حد تک آزادی اظہار بھی پائیں گے۔ ذرائع ابلاغ صرف ریاستی کنٹرول میں نہیں رہیں گے۔ امریکی وزارت دفاع اور وزارت خارجہ بھی اپنے ابلاغیاتی ادارے متعارف کروائیں گی۔ نوجوانوں کو مغربی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے خود ان ریاستوں میں امریکی و مغربی تعلیمی اداروں کی شاخیں قائم کی جائیں گی‘ اور امریکی ٹیکس دہندگان کو باور کروایا جائے گا کہ شرق اوسط میں آزادی و جمہوریت کا طوطی بول رہا ہے۔ رہے مصر‘ سعودی عرب اور ایران جیسے بڑے ممالک‘ تو ان میں سے ہر ملک کے لیے مختلف فارمولا وضع کرنا ہوگا۔ ایران میں اصلاحات کا اصل مقصد ایٹمی خطرے سے بچائو اور بنیاد پرستوں کے اختیارات میں کمی ہے۔ مصر میں تاریخی اور مقبول تحریک اخوان المسلمون اور سعودی عرب میں دین پسند طبقے کی بھاری اکثریت کی وجہ سے ادھوری جمہوریت کا سفر بھی امریکی مفادات کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ اس لیے جائزہ لیا جارہا ہے کہ کہاں کس خطرے کو برداشت کرلینا کم نقصان دہ ہے۔
شرق اوسط میں اصلاحات کے اس سفر میں جہاں حکومتوں پر دبائو‘ اپنی فوجی قوت کی نمایش‘ صدام حسین کی تصویریں دکھا دکھا کر اس کے انجام تک پہنچا دینے کی دھمکی اور ’’جو ہمارے ساتھ نہیں ہمارے خلاف ہے‘‘ کا فارمولا آزمایا جا رہا ہے‘ وہیں غیر حکومتی تنظیموں کے وسیع تر ہوتے ہوئے جال کو بھی کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے ذریعے حکومتی ایوانوں تک رسائی کے علاوہ ان ممالک میں پائے جانے والے ایسے عناصر کو مالی طور پر نوازا اور متحرک کیا جا رہا ہے جو گھر کے بھیدی ہونے کا مقام و مرتبہ پاسکیں۔ یہ عناصر صحافیوں‘ کالم نگاروں‘ دانش وروں اور یونی ورسٹی کے اساتذہ کے علاوہ بے روزگار و غیرمطمئن نوجوان بھی ہوسکتے ہیں۔
شرق اوسط میں اصلاحات کی راہ میں درپیش رکاوٹوں کی فہرست بھی مختصر نہیں ہے لیکن اس میں سرفہرست عراق کی بگڑتی ہوئی صورت حال ہے۔ فلسطین کے حالات بھی کم گمبھیر نہیں اور جب تک فلسطین‘ کشمیر‘ جنوبی سوڈان جیسے تنازعے اپنے یا اپنے حلیفوں کے مفادات کے مطابق حل نہیں کرلیے جاتے‘ نوجوانوں میں جہاد کا جذبہ سرد نہیں کیا جاسکتا۔ عراق میں اگرچہ ’’انتخابات کے انگاروں پر جمہوریت کا ماتم‘‘ کیاجاچکا ہے لیکن وہاں مزاحمت کا جِن واپس بوتل میں بند کرنا فی الحال کسی دنیاوی طاقت کے بس کی بات نہیں ہے۔
لندن سے شائع ہونے والے ہفت روزہ رسالۃ الاخوان نے البصرہ نیٹ کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جو امریکی ریٹائرڈ فوجیوں کے ایک تحقیقی سنٹر نے تیار کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق عراق میں زخمی یا اپاہج ہوکر کسی فوجی خدمت کے لیے ناکارہ ہوجانے والے فوجیوں اور ’’فوجنوں‘‘ کی تعداد ۴۸ ہزار ۷ سو ۳۳ ہوچکی ہے‘ جب کہ مختلف نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوجانے والوں کی تعداد بھی ۱۲ہزار ۴ سو ۲۲ ہے۔ اس جنگ میں ہلاک ہوجانے والوں کی تعداد پینٹاگون نے ۱۵۰۰ بتائی ہے لیکن اس رپورٹ کے تیار کرنے والوں نے وزارت دفاع سے سوال کیا ہے کہ اگر دیگر ذرائع کے اصرار پر یقین نہ بھی کیا جائے کہ امریکی فوجیوں پر ہونے والے حملوں کی تعداد ۲۵۰ سے ۳۰۰ حملے روزانہ ہے اور آپ کی بات پر اعتبار کر لیا جائے کہ روزانہ حملوں کی تعداد ۸۰سے ۱۲۰حملے ہے‘ تب بھی ۱۵۰۰ کی تعداد‘ حقیقت سے کوسوں دُور ہے۔ ان سابق فوجیوں کے مطابق مرنے والے امریکیوں کی تعداد اب تک ۲۰ ہزار سے متجاوز ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق امریکی اقتصادیات کی صورت بھی دگرگوں ہے۔ ۱۹۷۱ء میں امریکی بجٹ میں خسارہ چھے ارب ڈالر کے قریب تھا جو ۱۹۹۳ء میں ۳۴۰ ارب ڈالر ہوگیا۔ کلنٹن کے دور میں عراق کویت جنگ کا اسلحہ خلیجی ریاستوں کے سرتھوپ دینے کے باعث یہ خسارہ ۶۰ ارب ڈالر رہ گیا لیکن بش جونیئر کے زمانے میں پھر یہ خسارہ ۳۰۰ ارب ڈالر تک جاپہنچا۔ عراق میں بڑھتے ہوئے جنگی اخراجات کے باعث یہ خسارہ آیندہ برس ۷۰۰ ارب ڈالر تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ (رسالۃ الاخوان‘ شمارہ ۴۰۹‘ یکم اپریل ۲۰۰۵ئ)
اس عراقی صورت حال کے تناظر میں خود امریکی تجزیہ نگار لکھ رہے ہیں کہ فی الحال امریکی اصلاحات کا سفر کسی کھلی شاہراہ کے بجاے اندھیاری پگڈنڈیوں پر ہی جاری رہے گا۔ البتہ گاہے بگاہے دنیا کو روشن خیالی اور عالمِ عرب میں جمہوریت و آزادیوں کی خبریں چھن چھن کر ملتی رہیں گی۔امریکا بہادر اعلان کرتا رہے گا کہ مراکش اور چھوٹی عرب ریاستوں کا سفرِ جمہوریت خوش آیند ہے۔ دوسروں کو بھی ان کی پیروی کرنی چاہیے۔ اپنے عوام کو قید سے رہائی دینی چاہیے‘ خواہ ہزاروں لوگوں کی یہ رہائی ’’تقریبات ختنہ‘‘ ہی سے مشروط کیوں نہ ہو۔
سوال: ہمارا آبائی کاروبار جنرل سٹور کا ہے۔ شہر کا سب سے بڑا کاروباری ادارہ ہے۔ جب میں تعلیم سے فارغ ہو کر کاروبار میں آیا تو کچھ عرصہ سٹور پر بیٹھنے کے بعد میں نے یہ کاروبار جاری رکھنے سے انکار کر دیا۔ خواتین سے بات چیت‘ دن رات کی مصروفیت اور صبح شام روپے پیسے کی آمدورفت انتہائی خطرناک کام محسوس ہوا۔ انتہائی سوچ سمجھ کر پرنٹنگ پریس کا انتخاب کیا کہ وقت بھی کھلا مل سکتا ہے‘ خواتین سے بھی واسطہ نہیں پڑے گا‘ لہٰذا سکون سے دال روٹی چلتی رہے گی۔ پریس لگ گیا اور ماشاء اللہ بہت کامیابی ملی‘ تاہم اس میں چند چیزیں ایسی ہیں جو غور طلب ہیں۔
۱- ہمارے کاروبار کا زیادہ دارومدار شادی کارڈوں کی اشاعت پر ہے۔ کیا ایسے شادی کارڈ بیچنا جائز ہیں جن پر تصاویر ہوتی ہیں؟ اس کو ایک بڑے اہلحدیث عالم نے جائز کہا تھا کہ یہ مصوری نہیں ہے۔ پھر یہ تصاویر آپ خود پرنٹ نہیں کرتے بلکہ چھپے چھپائے کارڈوں پر شادی کا مضمون لکھ دیتے ہیں۔ بہت سے جید علما ان تصاویر کو جائز بھی قرار دیتے ہیں۔ اگر یہ حرام ہے تو ایسی ہر چیز بیچنی حرام ہے جس پر تصویر ہو۔ مگر اب تو ہر چیز کی پیکنگ پر تصاویر ہیں۔
۲- ہمارے کام کا دوسرا بڑا حصہ حکومتی کاموں کا ہوتا ہے۔ کیا کسی ایسی حکومت کے کسی ادارے کا کام کیا جاسکتا ہے جو اللہ کی نافرمانی پر قائم ہو؟ مثلاً محکمہ اوقاف وغیرہ۔
۳- ہمارے کاروبار کا تیسرا بڑا حصہ پوسٹرز کی طباعت پر مبنی ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ایسے پوسٹر نہ شائع کیے جائیں جن پر شرکیہ جملے‘ فرقہ پرستی کی دعوت ہو‘ نیز فلمی پوسٹر اور میوزک سنٹر کے اشتہارات‘ دیگر چھاپ دیتے ہیں۔
۴- ہمارے علاقے میں ایصالِ ثواب کے لیے منعقدہ محافل‘ مثلاً قل خوانی‘ رسم چہلم کے کارڈ اس میں کوئی شرکیہ کلمہ نہیں ہوتا‘ چھاپتے ہیں۔ البتہ ہم ایسے دعوت نامے بھی احتیاطاً شائع نہیں کرتے جن کے بارے میں گمان ہو کہ یہاں خلافِ شریعت بات ہوگی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں شائع کردہ کارڈوں اور پوسٹروں وغیرہ کے تحت ہونے والی محفلوں اور تقریبات میں جو خلافِ شریعت کام ہوں گے ان کے ہم بھی ذمہ دار ہوں گے۔ کیا یہ صحیح ہے؟ کیا ہماری کمائی جائز ہے؟ ان حالات میں کیا کیا جائے؟
جواب: تجارت اور بالخصوص ایسی تجارت جس میں شعوری طور پر آپ نے محنت کے ساتھ حلال رزق کے حصول کے لیے کسی شعبے کا انتخاب کیا ہو لائقِ تحسین ہے بلکہ اگر اس انتخاب میں کم تر برائی کا فقہ کا قاعدہ بھی پیش نظر ہو‘ جب بھی اس کا اختیار کرنا شریعت کے اصولوں کی پیروی میں شمار کیا جائے گا۔ آپ نے آخر میں جو سوالات اٹھائے ہیں ان میں سے جن کا تعلق کمائی کی حیثیت اور اس کے استعمال سے ہے‘ ان کا جواب مندرجہ بالا اصول سے خود بخود سامنے آجاتا ہے۔
جہاں تک سوال ایسے مواد کی اشاعت کا ہے جس پر آپ نے آپ کے بقول جید اہلِ حدیث علما سے فتویٰ حاصل کیا ہے اوروہ ایسے مواد کی اشاعت کو ناجائز یا حرام نہیں کہتے‘ تو پھر آپ کو چاہیے کہ بار بار اس پر غورکرنے کے بجاے ان علما کی رائے اور تفقہ فی الدین پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے وقت کو مثبت اور تعمیری فکر میں لگائیں‘ اور اپنے وقت کا استعمال معروف اور بھلائی کے پھیلانے اور برائی کو روکنے میں صرف کریں۔
ایسے مواد کی اشاعت جس میں ایسی تقریبات کی دعوت ہو جو آپ کے نقطۂ نظر سے مناسب نہیں ہیں لیکن بعض مخلص اور دینی علم رکھنے والے افراد کی تعبیر آپ سے مختلف ہے اور وہ اسے جائز سمجھتے ہیں‘ تو ایسے تمام معاملات کو بظاہر مشتبہ سمجھا جائے گا ۔ حدیث میں ایسے مشتبہ معاملات سے جہاں تک ممکن ہو بچنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ مشاعرہ ہو یا دنگل یا محفلِ نعت اور سیرت پاکؐ کا جلسہ‘ ان میں بظاہر کسی شریعت کے اصول کی تردید نہیں ہوتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خودکشتی میں حصہ لیا ہے اور سنت کی بنا پر اس کا جواز موجود ہے۔ ہمارے اسلاف علما نے اس پر عمل بھی کیا ہے۔ یہ ایک الگ سوال ہے کہ کشتی میں لباس کی شکل کیا ہو اور سترعورۃ کی پابندی کرائی جائے۔
البتہ جہاں معاملہ شرک اور کفر کا ہو وہاں آپ کو تجارتی اخلاقیات کے پیشِ نظر یہ حق حاصل ہے کہ بعض کاموں کے لیے ایک تحریری پالیسی بنا کر رکھ لیں کہ اس قسم کے کاموں کو قبول نہیں کریں گے اور اس میں کسی کو آپ سے شکایت نہیں ہوگی۔ ہاں‘ یہ خیال رہے کہ فقہی مذاہب میں اختلاف کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ آپ صرف اپنے مکتب فکر سے وابستہ افراد کو حق پر اور باقی سب کو گمراہ اور غیرحق پر سمجھتے ہوئے کسی اور مقام پر رکھ دیں۔ دین رواداری اور اختلاف کو برداشت کرتے ہوئے باہمی اخوت اور مواسات کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ اصول تجارت میں بھی استعمال کرنا ہوگا۔
اس گمان کی بنا پر کہ کسی محفل میں لازماً خلافِ شریعت بات ہی کہی جائے گی‘ محفل کا دعوت نامہ چھاپنے سے انکار کرنا ایسا ہی ہے کہ وزیرآباد کے کاریگر چاقو بنانا اس لیے بند کر دیں کہ بعض عاقبت نااندیش اور گمراہ حضرات چاقو کو قتل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو ظاہری برائی سے پرہیز کیجیے اور اگر کہیں کوشش کے باوجود کوئی بھول ہو جائے تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے استغفار کیجیے۔ وہ سب سے زیادہ رحیم و کریم اور عفو و درگزر کرنے والا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س: ہم میڈیکل کی طالبات گرلز ہاسٹل میں رہتی ہیں۔ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق عورت اپنے محرم کے بغیر تین دن اور رات کا سفر اکیلے نہیں کر سکتی۔ اس طرح تو ہم یہاں رہ کر جتنا بھی کام کریں‘ سب کا سب بغاوت یا حدود توڑنے کے ضمن میں آئے گا۔ کیا ایک بالغ عورت اپنے محرم کے بغیر دین یا دنیا‘ کسی بھی قسم کے علم کے حصول کے لیے گھر سے باہر رک سکتی ہے؟
ج: آپ نے اپنے سوال میں دو باتوں کو خلط ملط کر دیا ہے۔ جہاں تک کسی ایسے مقام تک سفر کا تعلق ہے جس میں تین دن رات کی مسافت درپیش ہو‘ حدیث میں بات کو واضح کر دیا گیا ہے۔ اور اگر معمولی سا غور کر لیا جائے تو اس کی حکمت سمجھ میں آجاتی ہے کہ ایسے سفر کے دوران ایک مسلمہ کو تنہا ہونے کی صورت میں ایسے ممکنہ حالات پیش آسکتے ہیں جن میں وہ محرم کے ساتھ ہونے کی شکل میں اپنے آپ کو تکلیف‘ پریشانی اور خطرات سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ ایمان کی سہولت اور آسانی کے پیشِ نظر اسلام کی سفری اخلاقیات میں نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کے لیے بھی یہ تجویز کیا گیا ہے کہ اگر وہ دو افراد بھی ہوں تو اپنے میں سے بہتر کو اپنا امیر بنالیں تاکہ سفر کے دوران نظم و ضبط برقرار رہے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں خواتین کی نام نہاد حریت کے باوجود خود مغرب میں خواتین کو تنہائی کی بناپر جن خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ سفر کے حوالے سے اس ارشاد نبویؐ کی عملی تصدیق کرتے ہیں۔
دوسری بات جو آپ کے سوال میں اٹھائی گئی ہے وہ یہ کہ اگر ایک خاتون تین دن رات کی مسافت طے کرکے یا اس سے کم یا زاید مسافت طے کر کے کسی محفوظ مقام پر سکونت اختیار کرتی ہے‘ تو کیا اس سکونت پر سفر کا حکم لگے گا؟ اگر آپ اپنے سوال پر غور کریں تو طالبات کا ہاسٹل سکونت کی تعریف میں آئے گا جس پر کسی حدیث میں پابندی نہیں لگائی گئی۔ اسے یوں سمجھیے کہ اگر کوئی خاتون تنہا حج کے لیے جانا چاہے تو سوائے فقہ جعفریہ کے بقیہ فقہا کا اس پر اتفاق ہے کہ اس کے ساتھ محرم ہونا چاہیے۔ اس کی حکمت واضح ہے۔ لیکن اگر ایک خاتون خواتین کی ایک جماعت کے ساتھ سفر کررہی ہو اور ان میں سے کسی کے ساتھ اس کا محرم ہو تو اکثر فقہا کو ایسے سفر پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
یہ بات معلوم ہے کہ حصول علم ایک دینی فریضہ ہے جس میں وہ علوم بھی شامل ہیں جو خواتین کی جان‘ دین‘ عقل اور نسل کے بقا و تحفظ کے لیے ضروری ہیں‘ مثلاً بعض خواتین کا طب کے عمومی شعبہ‘ بعض کے شعبۂ اطفال‘ بعض کے شعبۂ بصارت‘ بعض کے شعبۂ بچگان‘ بعض کا شعبۂ قلب میں تخصص حاصل کرنا ایک فرضِ کفایہ ہے۔ اسی طرح قرآنی علوم‘ علوم الحدیث‘ علم الفقہ وغیرہ کے حوالے سے بھی خواتین کو حصولِ علم سے بری الذمہ نہیں کیا گیا۔ ان تمام علوم کے حصول کے لیے سفر کرنا بمنزلہ عبادت ہے۔ اور اگر حصولِ علم کے لیے وہ گھر سے دُور بھی ہوں‘ لیکن سکونت محفوظ ہو تو اس میں کسی بھی پہلو سے کوئی غیرشرعی فعل صادر نہیں ہوتا۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ علم کا مجموعی حصول قرآن و سنت کے واضح مطالبات میں سے ایک مطالبہ ہے۔ اس لیے نہ یہ بغاوت ہے‘ نہ حدود کا توڑنا‘ نہ شریعت کی خلاف ورزی بلکہ مقاصد شریعہ کے حصول کے لیے ایسا کرنا بعض صورتوں میں فرضِ عین اور بعض میں فرضِ کفایہ‘ دونوں کی تعریف میں آتا ہے۔ حلال و حرام کا علم چاہے باب طہارت میں ہو‘ طب و جراحت میں یا معیشت و معاشرت میں‘ اس کا حصول فریضہ ہے‘ اور مصلحت عامہ کے پیشِ نظر خصوصی میدانوں میں چند افراد کا حصول علم فرضِ کفایہ۔ ظاہر ہے جو عمل اس نوعیت کا ہو وہ دین داری کا عمل ہے جسے شریعت کے منافی کہنا عقلی اور نقلی‘ دونوں حیثیت سے مناسب نہیں ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب! (ا-ا)
س: سونے ‘چاندی ‘ پیتل ‘ کانسی وغیرہ کی انگوٹھی یا بٹن یا گھڑی کی چین پہن کر مرد کا نماز پڑھنا درست نہیں ہے ۔ اس حوالے سے ایک پوسٹر مساجد میں آویزاں کیا جارہا ہے جس میں مختلف فتووں کو جمع کیا گیا ہے (پوسٹر منسلک ہے)۔آپ وضاحت فرمایئے کہ کیا دھات کی بنی اشیا پہن کر مردوں کا نماز ادا کرنا جائز ہے؟
ج: دھات سے بنی ہوئی گھڑی کی چین اور زنجیر کو پہننا ممنوع اور پہننے والے کی نماز اور امامت کو مکروہ تحریمی کہنا صحیح نہیں ہے۔ اشتہار میں جو احادیث ذکر کی گئی ہیں وہ انگوٹھی سے متعلق ہیں‘ گھڑی کی چین اور زنجیر سے متعلق نہیں۔ اگر لوہے اور دوسری دھاتوں سے بنی ہوئی چین یا زنجیر ممنوع ہوجائے تو اس سے لازم آئے گا کہ خود گھڑی بھی ممنوع ہوجائے‘ اس لیے کہ وہ بھی تو لوہے یا کسی دوسری دھات کی بنی ہوئی ہوگی۔ اسی طرح لازم آئے گا کہ لوہے اور دھاتوں سے بنی ہوئی تمام اشیا کا استعمال ممنوع ہوجائے جو قطعاً باطل ہے۔
شریعت کا اصول یہ ہے کہ حرام وہ چیز ہوگی جسے حرام کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ باقی چیزیں حلال ہوں گی۔ چونکہ گھڑی کی چین اور زنجیر جو لوہے یا دھات سے بنی ہوئی ہوں‘ کی حُرمت کا ذکر قرآن و حدیث میں نہیں آیا‘ اس لیے یہ حلال ہوں گی اور ان کو پہن کر نماز پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ رہی انگوٹھی توا س کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ بعض روایات سے حُرمت نکلتی ہے‘ جیسے کے اشتہار میں ذکر کی گئی روایات سے ثابت ہوتا ہے اور بعض سے لوہے کی انگوٹھی کا جواز بھی نکلتا ہے۔ مشکوٰۃ میں پہلے حضرت بریدہؓ کی اس روایت کا ذکر ہے جو اشتہار میں سب سے پہلے درج کی گئی ہے اور اس کے بعد فرمایا: وقال محی السنۃ رحمہ اللّٰہ تعالٰی وقد صح عن سھل بن سعد فی الصداق ان النبیؐ قال لرجل التمس ولو خاتمًا من حدید (مشکوٰۃ‘ باب الخاتم‘ ج ۴‘ ص ۳۰۱) ’’کہا ہے محی السنۃ رحمہ اللہ علیہ نے اور سہل بن سعد سے مہر کے بارے میں صحیح روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا: تلاش کرو اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہو۔ اس روایت کو صاحب مشکوٰۃ نے پہلی روایت کے بعد ذکر کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ لوہے یا دھات کی بنی ہوئی انگوٹھی پہننا حرام نہیں بلکہ مکروہ تنزیہی ہے‘‘۔ (مظاہر حق جدید‘ ج ۴‘ ص ۳۰۱)
اس لیے یہ پوسٹر بلاجواز ہے اور لوگوں کو بلاوجہ پریشان کرنے کا باعث ہے۔ اس کی وجہ سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ علامہ غلام رسول سعیدی شارح صحیح مسلم نے جو اہل السنت بریلوی مکتب فکر کے متبحر عالم دین ہیں‘ اپنے اکابر علما ‘اساتذہ اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ علیہ کے حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ سونے اور چاندی کے علاوہ تمام دھاتوں کا چین‘ زنجیر‘ چمچ وغیرہ روز مرہ استعمال کی اشیا جائز ہیں۔ جب یہ جائز ہیں تو ان کو باندھ کر یا پہن کر نماز پڑھنا بھی جائز ہوگا۔ (شرح صحیح مسلم‘ کتاب اللباس والزینۃ‘ ج ۶‘ ص۳۴۷-۳۵۰۔ بحوالہ فتاویٰ النوریہ رضویہ‘ ج ۱‘ ص ۵۲۱)۔ (مولانا عبدالمالک)
’دریا کو کوزے میں بند‘ کرنے کی مثال غالباً اس کتاب پر صادق آتی ہے جس میں صرف ۱۸۴ صفحات میں ۲۰۰ سے زیادہ عنوانات کے تحت اللہ تعالیٰ‘ انسان اور اللہ تعالیٰ اور انسان کے تعلق کے موضوع پر تین ابواب میں عام فہم لیکن تحقیقی انداز سے تمام متعلقہ مباحث کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مثال کے طور انسان کی تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے ڈارون کے نظریۂ ارتقا پر صرف ۶صفحات میں مکمل ردّ پیش کر دیا گیا ہے۔
پہلے باب میں وجودِ باری تعالیٰ ‘ مختلف مذاہب کا تصورِ الٰہ اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں گمراہ کن نظریات کی تردید کی گئی ہے۔ اس حوالے سے وحدت الوجود‘ وحدت الشہود اور حلول کے نظریات کا بیان اور ردّ آگیا ہے۔ دوسرے باب میں انسان کی تخلیق‘ مراحلِ تخلیق‘ مقصدِ تخلیق اور نظریۂ ارتقا پر بحث کی گئی ہے۔ تیسرے باب میں خالق اور مخلوق‘ عابد اور معبود اور محتاج اور غنی کا تعلق بیان ہوا ہے۔ اس ضمن میں زبانی عبادتوں کے حوالے سے انبیا علیہم السلام کی دعائیں‘ دل سے عبادت کے حوالے سے ایمان‘ محبت اور رجا‘ جسمانی عبادت کے حوالے سے نماز‘ حج اور مالی عبادات کے حوالے سے زکوٰۃ‘ صدقہ‘ نذر اور قربانی کا ذکر ہے۔ آخری حصے میں یہ بحث ہے کہ تکلیف اور پریشانی میں انسان کو کیا کرنا چاہیے؟ اس ضمن میں عام طور پر جو شرک کی صورتیں اختیار کی جاتی ہیں‘ ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے درست وسیلے بتائے گئے ہیں‘ مثلاً: صدقہ خیرات‘ اعمالِ صالحہ‘ صبر و نماز اور خدمتِ خلق وغیرہ۔ (مسلم سجاد)
زیرِنظر کتاب جلیل احسن ندوی مرحوم کی مرتب کردہ احادیثِ نبویؐ کی کتاب زادِ راہ کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہے۔ مترجم کی نظر میں: احادیثِ مبارکہ کے اس مجموعے کے ذریعے‘ اسلام کو جدید دنیا اور بالخصوص امریکی معاشرے میں‘ واحد طرزِ زندگی کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے‘ اور قارئین کو باور کرایا جا سکتا ہے کہ صرف اسلام ہی پریشان اور مصیبت زدہ انسانیت کو عدل و انصاف اور امن و امان مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور وہی آخرت میں نجات کی ضمانت دلاتا ہے۔
مترجم نے کتاب کے دیباچے میں اسلامی تحریکوں کی کامیابی اور ناکامی پر بحث کی ہے۔ (بظاہر ‘ یہاں اس بحث کا محل نہیں ہے) ان کا خیال ہے کہ اسلامی تحریکوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلوبِ دعوت اور طریق کار کو اپنانے میں کوتاہی کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اسوۂ حسنہ کی روشنی میں موجودہ اسلامی تحریکات کو بھی جاہلی معاشروں سے اسی سانچے میں ڈھلے ہوئے افراد نکالنے ہوں گے۔ اور یہ کام ان کی ترجیحات میں سرِفہرست ہونا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسی مقصد کے پیشِ نظر میں نے زادِ راہ کو منتخب کیا۔یہی جذبہ اسے انگریزی میں منتقل کرنے کا محرّک بنا ہے۔ انھیں امید ہے کہ معاشی‘ معاشرتی اور سیاسی بلکہ زندگی کے جملہ معاملات پر مشتمل‘ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کا یہ مجموعہ‘ امریکا میں کارکنانِ تحریک کی کردار سازی‘ ان کے اہل و عیال کی زندگیوں میں اسلامی اصولوں کو پروان چڑھانے اورانھیں ذمہ دار شہری بنانے میں مددگار ہوگا۔ نیز یہ مجموعہ دعوتی کام میں گرم جوشی پیدا کرے گا۔
مؤلف نے زادِ راہ کے اردو ترجمے اور تفسیر میں ترجمانی کا اسلوب اپنایا ہے۔ مترجم نے اسے محنت کے ساتھ انگریزی زبان میںمنتقل کرنے کی کوشش کی ہے‘ اگرچہ ترجمے کی زبان پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
ترجمے میں عربی زبان کی متعدد اصطلاحات کو برقرار رکھاگیا ہے۔ ہمارے خیال میں ان اصطلاحات کے انگریزی مترادفات بھی دینا ضروری تھا۔ یا ان کی وضاحت دیباچے میں ہوجانی چاہیے تھی۔ (S) اور (R) جیسے تخفیفی حروف کی وضاحت کی بھی ضرورت تھی۔ (خدا بخش کلیار)
سلطان نورالدین محمود زنگی (۵۱۱ھ-۵۶۹ھ) بارھویں صدی عیسوی میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا پیش رو تھا۔ وہ ایک درویش منش‘ خدا ترس اور متقی شخص تھا۔ اس نے اپنے دور میں مسلم سلطنت پر صلیبیوں کی یلغار کا کامیاب دفاع کیا۔ عیسائی مؤرخین نے بھی اس کی صدق شعاری‘ عدل وا نصاف اور شجاعت و بہادری کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ اس نے بیت المال کو کبھی خوانِ یغما نہیں سمجھا بلکہ وہ بادشاہ ہوتے ہوئے بھی مالِ غنیمت میں سے اتنا ہی حصہ وصول کرتا جس قدر عام سپاہیوں کو ملتا۔ ایک دفعہ اس کی چہیتی ملکہ نے تنگیِ خرچ کی شکایت کی۔ نورالدین نے جواب دیا: ’’بانو! افسوس ہے تمھاری خواہش پوری نہیں ہو سکتی۔ خدا کا خوف بیت المال کی طرف میرا ہاتھ بڑھنے نہیں دیتا‘ یہ مسلمانوں کا مال ہے۔ میں صرف اس کا امین ہوں اور اس میں سے ایک درہم کا بھی مستحق نہیں‘‘۔ (ص ۱۷-۱۸)
سلطان نورالدین وہی خوش بخت ہے جسے خواب میں ۳ بار رسولِ کریمؐ کی زیارت ہوئی اور آپؐ نے ہر مرتبہ دو آدمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے شر کا اِستیصال کرو۔ وہ فی الفور مدینہ منورہ پہنچا اور اس نے زہد و تقویٰ کا لباس اوڑھے دو نصرانیوں کو پکڑ لیا جو ایک سُرنگ کھود کر نبی کریمؐ کا جسدِ مبارک وہاں سے نکال لے جانے پرمامور تھے۔ سلطان نے انھیں کیفرِکردار تک پہنچایا۔ پھر روضۂ نبویؐ کے گرد گہری خندق کھدوا کر اُسے پگھلے ہوئے سیسے سے پاٹ دیا۔
جناب طالب الہاشمی نے صلیبیوں کے خلاف سلطان کے جنگی محاربوں کی تفصیل بھی دی ہے‘ جس سے سلطان کی جنگی مہارت‘ دُور اندیشی اور بصیرت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ وہ ایک مثالی حکمران تھا۔ اس نے صرف جنگیں ہی نہیں لڑیں‘ مملکت کے نظم و نسق کو بھی بہتر بنیادوں پر استوار کیا۔
کتاب کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ مصنف نے سلطان نورالدین کے عہد کا تفصیلی پس منظر بھی (۱۰۰صفحات میں) پیش کردیا ہے۔ اس چوکھٹے میں سلطان کی تصویر زیادہ واضح اور نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے۔ دوسری خوبی یہ ہے کہ سوانح نگار نے جگہ جگہ نہایت مفید اور معلومات افزا حواشی دیے ہیں۔ بلاشبہہ فاضل مصنف موضوع پر ماہرانہ دسترس رکھتے ہیں۔ واقعات کی پیش کش‘ اسی طرح آیاتِ قرآنی کی صحت‘ عربی اشعار و عبارات کے تراجم‘ مختلف شخصیات و مقامات اور مشکل الفاظ کی صحت اور اِعراب کے ساتھ ان کے صحیح تلفظ کا اہتمام لائقِ تحسین ہے‘ بلکہ دیگر مصنفین اور اشاعتی اداروں کے لیے بھی دلیلِ راہ اور سبق آموز ہے۔ ایسی ہی محنت و کاوش‘ تحقیق و تدقیق اور اہتمام سے ہمارے علمی سرمائے کا معیار بلند ہو سکتا ہے۔ نئی نسل کو خاص طور پر ایسی کتابیں پڑھانے کی ضرورت ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
اقامتِ دین کے لیے جدوجہد میں مولانا مودودی کو کئی قسم کے ناقدین کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں اپنے بھی تھے اور پرائے بھی‘ بالکل مخالف بھی تھے اور گئے وقتوں کے دوست بھی۔ اختلاف اور پھر اس میں ہنگامِ جنگ کا سماں کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ جب جنگ کا طبل بجا دیا جائے تو پھر حملہ آوروں کے ہاں سب کچھ مباح سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہ ’سب کچھ‘ انصاف کے بھی منافی ہوتا ہے‘ اور اخلاقیات سے بھی کوسوں دُور۔
مولانا مودودی نے اپنے ناقدین کی قلمی نیش زنی کے جواب میں وقت صرف کرنے کے بجاے‘ اپنے اوقاتِ کار کو تعمیری سمت میں لگانے کو ترجیح دی۔ لیکن ایسی صورت میں متعدد احباب نے مولانا مودودی کے ناقدین کی تنقیدات کا جواب دیا۔ ایسے قابلِ قدر فاضلین میں‘ مولانا شبیراحمد عثمانی کے بھتیجے مولانا عامر عثمانی[م: ۱۹۷۴ئ] کا نام سرفہرست ہے۔
زیرِنظر کتاب بنیادی طور پر: مولانا عبدالماجد دریابادی‘ مولانا امین احسن اصلاحی اور کوثر نیازی کی بعض تنقیدوں کا جواب ہے‘ جو انھوں نے ۱۹۶۴ء کے (فاطمہ جناح بمقابلہ ایوب خاں) صدارتی انتخاب کے زمانے میں مولانا مودودی پر کی تھیں۔ ان مضامین میں عامر عثمانی مرحوم کا اسلوب‘ دلیل سے مرصّع ہے۔ کرم فرمائوں کی طنزیات کا جواب انھوں نے خوب خوب دیا ہے۔ یہ قندِمکرّر‘ نہ صرف گئے دنوں کی کش مکش سے روشناس کراتی ہے‘ بلکہ حالات کی نزاکت اور ماحول کے جبر کی بہت سی پرچھائیاں بھی پیش کرتی ہے۔
ممکن ہے کوئی شخص یہ کہے کہ: ’’کیا ضرورت تھی انھیںشائع کرنے کی‘‘ ؟لیکن ایسے ناصح کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے کہ مذکورہ حضراتِ گرامی نے اپنی زندگی میں‘ اور انتقال کے بعد ان کے فکری پس ماندگان نے‘ مولانا مودودی پر اس نوعیت کی تنقیدات کو شائع کرنے کا پے بَہ پے اہتمام کیا ہے۔ جب مولانا مودودی پر سنگ زنی کے یہ مظاہر پڑھنے والوں کو بآسانی دستیاب ہیں تو پھر مولانا مودودی کی پوزیشن واضح کرنے والی کسی تحریر کی اشاعت کا جواز آخر کیسے ختم ہو سکتا ہے؟ استغاثہ دائر کرنے کو حق و صواب اور تاریخ کا ریکارڈ کہنا‘ جب کہ وضاحت میں پیش کی جانے والی معروضات کو ’’کیا ضرورت تھی انھیں شائع کرنے کی‘‘ کہنا عدل نہیں‘ بے انصافی ہے۔ (سلیم منصور خالد)
انسانوں کی کثیر تعداد ہر روز ‘ دنیاے فانی سے منہ توڑ کر قبر کی تاریک آغوش میں جا سماتی ہے۔ لیکن کچھ خوش نصیب اپنے پیچھے روشنی کی ایسی کرنیں چھوڑ جاتے ہیں‘ جن سے خلقِ خدا تادیر فیض یاب ہوتی رہتی ہے۔ ڈاکٹر عذرا بتول ایسی ہی حیاتِ جاوداں پانے والی خاتون تھیں۔
پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ‘ تحریک اسلامی کی حد درجہ مخلص کارکن‘ خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار‘ دنیا میں باعمل اور متحرک مگر نظر‘ آخرت پر۔ ۶ستمبر ۲۰۰۳ء کو اوکاڑہ سے لاہور کے لیے روانہ ہوئیں اور بھائی پھیرو کے مقام پر ان کی کار اینٹوں کے ٹرالے سے ٹکرا گئی اور وہ موقع ہی پر جامِ شہادت نوش کر گئیں۔
صحیح معنوں میں ڈاکٹر عذرا بتول کا تعارف ان کی شہادت کے بعد ہی ہوا۔ اپنی ذات کی نفی کر کے دوسروں کو سکھ بہم پہنچانے کا رویّہ نفسانفسی کے اس دور میں بہت کم ملتا ہے۔ عذرا بتول نے شادی کے بعد اپنی ذاتی کمائی اپنے سسرال کا مکان بنانے‘ انھیں حج کروانے اور ان کی ہمہ پہلو اعانت میں لگا دی۔ ان کے چھے بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں‘ بحیثیت ماں ان کی اولین خواہش یہی تھی کہ میرے بچے دنیا کے بجاے دین کا علم حاصل کریں۔ کہا کرتی تھیں کہ بے شک میرے بچے موچی بنیں یا نائی یا ریڑھی لگائیں لیکن حلال کی روزی کمائیں اور باعمل انسان بنیں۔
ڈاکٹر عذرا کی زندگی ایک ایسے باعمل انسان اورمسلمان کی زندگی تھی‘ جس کا ایک ایک لمحہ ایمان افروز واقعات سے بھرپور ہوتا ہے‘انھیں دنیاوی آزمایشیں‘ مصائب اور مشکلات پیش آئیں‘ تو ان کے پاس ایک ہی حل تھا: وہ کہتیں: ’’جو اللہ کی مرضی‘‘--- مرحومہ کی پوری زندگی ہمارے لیے ایک مثال ہے اور سبق آموز بھی۔
عباس اختر اعوان صاحب نے مرحومہ کے بارے میں مختلف اصحاب و خواتین کی تحریروں کو یکجا کر کے‘ حیاتِ جاوداں کی ایک عمدہ تصویر بنائی ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے سے خواتین کارکنوں کو ایک نیا حوصلہ اورتازگی ملتی ہے۔(قدسیہ بتول)
اساتذہ‘ طلبہ اور والدین معاشرے کی تعمیر میں بنیادی کردار انجام دیتے ہیں۔ یہ تینوں شعبے اگر ایک ساتھ آگے بڑھیں تو قوم اپنے مقاصد کے حصول میں کسی رکاوٹ کی پروا نہیں کرتی اور دنیا کو بڑی آسانی سے اپنے روشن مستقبل کی ضمانت دے سکتی ہے۔
مصنف نے اپنے ۲۳ پُرمغز مقالات میں تعلیم اور اس کے متعلقات پر تفصیلی بحث کی ہے۔ موضوعات مستقل نوعیت کے ہیں اور ان میں غوروفکر اور جدید دور کے تقاضوں کی بھی عکاسی کی گئی ہے۔ استاد‘ بچے کی شخصیت کی تعمیر‘ والدین کا احساسِ ذمہ داری‘ تعلیمی عمل کے معاونات‘ کوالٹی ایجوکیشن کی حقیقت‘ ہم نصابی اور غیرنصابی سرگرمیوں جیسے اہم موضوعات پر سیرحاصل تبصرے کے علاوہ ٹیوشن‘ سزا کا مسئلہ اور نائن الیون کے اثرات وغیرہ جیسے چبھتے مسائل پر بھی مصنف نے بوضاحت و دلائل بحث کی ہے۔ آج کی تعلیمی دنیا جس شدت کے ساتھ اصلاح کا تقاضا کرتی ہے‘ اس کی طرف مصنف نے بڑی دل سوزی سے ہماری توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔
آج کی ہرلحظہ پھیلتی تعلیمی دنیا میں کام کرنے والے ہر شخص کو (خواہ وہ کوئی ادارہ قائم کرنے والا ہو یا اس کا انتظام چلانے والا) یہ کتاب دعوتِ فکر دیتی ہے اور اس کی بھرپور رہنمائی بھی کرتی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ یہ احساس بھی پیدا کرتا ہے کہ ہمیں نونہالانِ وطن کو جدید اور تیزی سے ترقی کرتی دنیا کے تقاضوں سے نمٹنے کے لیے تیار کرنا ہے۔ (پروفیسر سعید اکرم)
جریدہ کی غیرمعمولی متنوع علمی کارگزاری کا اظہار زیرنظر تین ضخیم کتابوں سے ہوتا ہے۔ ان میں نئی نادر غیرمطبوعہ کتابوں کے ساتھ کئی تازہ طبع زاد تحریریں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔
جلد اول میں جدیدیت اور اسلام کی کش مکش کا حال پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے: ’’میں نے یہ جانا کہ گویا کہ یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘۔ خالد جامعی اور عمرحمید ہاشمی کی کتاب: عالم اسلام--- جدیدیت اور روایت کی کش مکش کے بعد‘ اُردو حصے میں ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری نے مغربی فکروفلسفے کا محاکمہ کیا ہے۔’’تاریخ ہندستانی‘ ایک معروضی مطالعہ‘‘ (ڈاکٹر معین الدین عقیل) میں فرانسیسی مستشرق گارسین دتاسی کے کام کا جائزہ لیا گیا ہے۔عزیز حامد مدنی مرحوم کی ۱۶ غیرمطبوعہ خوب صورت غزلیں اور مائیکل ین کی تحریر ’’جمہوریت اور نسل کشی میں تعلق: ایک تحقیقی جائزہ‘‘ (اُردو ترجمہ اکرم شریف) اور پھر مولانا حسن مثنیٰ ندوی کے قلم سے پاکستان کی حصول آزادی کی ولولہ انگیز داستان پُرلطف انداز میں دو حصوں میں بیان کی گئی ہے۔
ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی انگریزی کتاب Education in Pakistan کے ترجمے (از اکرم شریف) بہ عنوان: ’’پاکستان میں تعلیم‘‘کے بعد اقبال حامد نے ’’بلندوپست‘‘ میں روزنامہ جنگ کے مختلف ادوار کا جائزہ لیا ہے۔ علی محمد رضوی نے اپنے انگریزی مضمون میں ثابت کیا ہے کہ امام غزالیؒ نے یونانی فلسفے کے غلبے کے تاثر کو ختم کر کے‘ اسلامی تہذیب و فلسفے کے تناظر میں جو کام کیا‘ وہ اسلام کی احیاے نو کا کام تھا اور تاریخ‘ امام غزالی کے اس کام کو فراموش نہیں کرسکتی۔
جلد دوم کے مشمولات: بروشسکی زبان: بعض اہم مباحث۔ ہندستانی تناظر: ’تہذیب اسلامی مطالعات‘۔ ’ہندستان میں مسلم تمدن‘ (ڈاکٹر ریاض الاسلام)۔ ’بیدل عظیم آبادی پر اڑھائی سو صفحات کا سیکشن‘ نام ور اصحاب کے مقالات‘ بیدل کے کلام اور شخصیت کی ایک عمدہ تصویر۔ کلاسیکی مغربی ادب پر عزیزاحمد کے نو مقالات (مرتب: ابوسعادت جلیلی)
جلد سوم میں ڈاکٹر سہیل بخاری مرحوم کی اشتقاقی لغت شامل ہے اور اس پر مشفق خواجہ (م: فروری ۲۰۰۵ئ) کی راے بھی شامل ہے۔ مرتبین کہتے ہیں کہ اگر شعبے کو مشفق خواجہ کے ذخائر تک رسائی ہوگئی تو وہ آیندہ بہت کچھ پیش کریں گے۔
لسانی‘ تہذیبی‘ نظری اور فلسفیانہ پہلوئوں سے متنوع موضوعات پر یہ اہم عالمانہ تحریریں ہیں۔ ان جلدوں کا مطالعہ ہر اس فرد کو کرنا چاہیے جو اس دور میں تہذیبی اور ثقافتی محاذوں پر جاری جنگ کو دیکھنا اور سمجھنا اوراسلام کی علمی سربلندی چاہتا ہے۔تینوں اشاعتوں کی پیش کش خوب صورت ہے‘ سفید کاغذ پر اچھی طباعت قابلِ تحسین بات ہے۔ (مرزا محمد الیاس)
یورپ میں اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے کسی امریکی ادارے کی رپورٹ کی جو جامع تلخیص آپ نے دی ہے (اپریل ۲۰۰۵ئ)‘ اس سے تمام پہلو سامنے آگئے ہیں۔ لیکن یہ خیال بھی آتا ہے کہ ہم نے اپنے جائزوں کا کام بھی غیروں کے سپرد کر دیا ہے۔ ترجمان جیسے رسالے کو بھی نقل کرنا پڑ رہا ہے۔ ہمارے ادارے‘ ہمارے اہلِ علم‘ ہمارے محققین مخطوطات اور قدیم شخصیات کے بجاے آج کے جدید مسائل پر داد تحقیق کیوں نہیں دیتے؟ ہم تو مسلم دنیا کے بارے میں بھی اندھیرے میں ہیں۔ غیروں کی دی ہوئی خبریں ہی ہمارا نقطۂ نظر تشکیل دیتی ہیں۔ مصر‘ انڈونیشیا‘ نائیجیریا‘ ملایشیا‘ وسط ایشیا کے ممالک کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟ وہاں کی معاشرت‘ معیشت‘ تعلیم‘ ذرائع ابلاغ… کوئی مغربی ادارہ ہی بتائے تو پتا چلتا ہے۔
’’بنک کاری نظام:ایک تاریخی جائزہ‘‘ (اپریل ۲۰۰۵ئ) میں معاشیات کے طالب علم کے لیے بڑی رہنمائی ہے۔ اس لیے کہ ہماری درسی کتب میں یہ معلومات نہیں دی جاتیں۔ اسٹیٹ بنک کو تو قائداعظمؒ نے ۱۹۴۸ء میں عادلانہ اسلامی نظام معیشت کی تشکیل کا کام سپرد کیا تھا لیکن وہ مغربی نظام کا آلہ کار بن کر رہ گیا۔ کمیونزم ناکام ہوچکا ہے‘ سرمایہ داری سے انسانیت عاجز ہے‘ موقع ہے کہ اسلامی نظام پر عمل کر کے رہنمائی کی جائے تو دنیا اس کی طرف لوٹ آئے۔
’’نظریہ پاکستان اور سیکولر تعلیم‘‘ (اپریل ۲۰۰۵ئ) میں مدلل انداز سے نقطۂ نظر پیش کیا گیا ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ جس طرح اسلام دشمن اپنے ایجنڈے پر سرگرمی سے عمل کر رہے ہیں‘ ہم اس سے زیادہ مستعدی سے ان کی اسلام دشمن پالیسیوں سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ عالمی استعمار نے ہماری تعلیم کو بجاطور پر ہدف بنایا ہے‘ کاش! ہم ان کی سازشوں کو سمجھیں‘ اور ان کا مناسب توڑ کریں۔ کم سے کم تعلیمی اداروں کو تو چھائونیاں اور قلعے بنا دیں۔
’’تابناک مستقبل اور ہماری ذمہ داری‘‘ (اپریل ۲۰۰۵ئ) میں آپ نے دنیابھرکے مسلمانوں کو جو روشنی فراہم کی ہے اور جس راہِ عمل کی طرف رہنمائی فرمائی ہے‘ اس سے آپ نے صرف برعظیم کے مسلمانوں ہی کو نہیں‘ بلکہ ساری ملّت اسلامیہ اور اُس کے رہنمائوں کو احیاے اسلام کی صحیح راہ دکھا دی ہے۔
اب آیئے شرعی تقویٰ کی حقیقت پر غور کیجیے۔ ظاہر ہے کہ شریعت فطرت کے برخلاف نہیں بلکہ عین فطرت ہے۔ فطرۃ اللّٰہ التی فطر الناس علیھا۔ اس وجہ سے شریعت کی نسبت یہ گمان کرنا تو کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا کہ وہ کسی ایسے تقویٰ کا مطالبہ کرے گی جو انسان کی زندگی میں کسی طرح کا تعطل پیدا کرے‘ یا اس کی جائز رغبتوں کی نفی کرے‘ خواہ ان کا تعلق ابتدائی ضروریات سے ہو یا کمالیات سے‘ یا اس کا حصول زندگی کی شاہراہ سے الگ ہو کر کسی ایسے بعید گوشے اور دُور دراز جزیرہ ہی میں ممکن ہو جہاں حرکت کے بجاے صرف سکون اور زندگی کی جگہ صرف موت ہو‘ یا اس کی شناخت کے لیے وہ کوئی ایسی علامت ٹھیرائے جو رد و قبول‘ ترک و اختیار‘ اور ہدایت و ضلالت کے اس قانون ہی کو یکسر باطل کردے جو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں جاری فرمایا ہے اور جو انسان کی فطرت اور خدا کی حکمت کا عین مقتضٰٰی ہے۔ ان باتوں میں سے کوئی بات بھی اگر تسلیم کرلی جائے تو اس سے لازم آتا ہے کہ شریعت اور فطرت میں کامل توافق کی جگہ ایک مستقل نزاع اور جنگ کی حالت قائم ہو حالانکہ ایسا سمجھنا خود شریعت کی تکذیب ہے۔ شریعت کا اعلان تو یہ ہے کہ اس نے فطرت پر نہ سرمو اضافہ کیا ہے نہ اس میں کوئی کمی کی ہے البتہ انسان کی فطرت جو کچھ مطالبہ کرتی اس کو اس نے بالکل مبرہن اور آشکارا کردیا ہے۔ فطرت کے اشارات مخفی تھے ان کو شریعت نے بالکل روزِ روشن کی طرح نمایاں کر دیا تاکہ ان کے خفا کی وجہ سے انسان کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے۔ فطرت کے صحیح مقتضیات کے تعین میں انسان کی بعض کمزوریوں کی وجہ سے اختلاف پیدا ہو سکتا تھا۔ شریعت نے مقتضیات کو معین کر کے اس اختلاف کا خدشہ دُور کردیا۔ اس سے زیادہ شریعت کسی بات کی مدعی نہیں ہے۔ اس وجہ سے جبلی اور فطری تقویٰ اور شرعی تقویٰ میں جو کچھ فرق ہوسکتا ہے وہ نفس تقویٰ کی حقیقت اور اس کے مقصد میں نہیں ہو سکتا‘ البتہ اس کے محرک میں ہوسکتا ہے۔
جبلت میں صرف ذات کی حفاظت کا جذبہ مخفی ہوتا ہے‘ فطرت میں حفاظت نفس کے ساتھ مذاق سلیم اور انجام بینی کا پہلو بھی نمایاں ہوجاتا ہے‘ اور شریعت میں آکر صاف صاف ایک خداے منعم و دیان کا خوف اور رجاب اور عدل الٰہی کا ڈر ہے جو انسان کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ اس کی زندگی کے لیے جو سیدھی راہ متعین کر دی گئی ہے اس پر چلے اور بے راہ روی اور گمراہی سے اس کو بچائے‘ جو حدود شریعت نے قائم کر دیے ہیں ان سے تجاوز کرنے کی جسارت نہ کرے۔ پس شرعی تقویٰ کی حقیقت یہ ہونی چاہیے کہ آدمی اپنی زندگی کو خدا کے مقرر کیے ہوئے حدود کے اندر رکھے اور دل کی گہرائیوں کے اندر اس بات سے ڈرتا رہے کہ جہاں اس نے خدا کی قائم کی ہوئی کسی حد کو توڑا‘ تو اس کو خدا کی سزا سے بچانے والا خدا کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا۔ (’’اشارات‘‘، مولانا امین احسن اصلاحی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۶‘ عدد ۳-۶‘ ربیع الاول تا جمادی الثانی ۱۳۶۴ھ‘ مارچ تا جون ۱۹۴۵ئ‘ ص ۱۰۳)