صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے ڈھائی سال کے صبرآزما مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے اپنے اسلامی اصلاحی پروگرام کو نافذ کرنے کی مساعی کے باب میں مرکزی حکومت کے معاندانہ رویے اور اپوزیشن جماعتوں کے عدمِ تعاون سے تنگ آکر ۱۱جولائی ۲۰۰۵ء کو اسمبلی میں جیسے ہی حِسبہ بل پیش کیا‘ یوں محسوس ہوا جیسے پورے ملک میں ایک بھونچال سا آگیا اور ایسا معلوم ہوا کہ بھڑوں کے چھتے سے سارے سورما نکل کر بیک وقت حملہ آور ہوگئے ہیں۔
مرکزی حکومت کے کارپردازوں سے لے کر صوبے کے گورنر تک‘ جن کا عہدہ ان کو پارٹی وفاداری سے بلند ہوکر صرف دستوری گورنر کا کردار ادا کرنے کا پابند کرتا ہے‘ حِسبہ بل کی مذمت میں یک زبان و یک جان ہوگئے ہیں۔ سرکاری اہل کار اور لبرل سیکولر نظام کے علم بردار سب بڑی دیدہ دلیری سے اسے دستور کے خلاف‘ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات سے متصادم‘ حقوقِ انسانی پر ضرب کاری‘ متوازی نظام کے قیام کا ذریعہ اور فسطائیت اور طالبانائیزیشن کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ملک کے سرکاری میڈیا سے لے کر تمام نام نہاد لبرل اور سیکولر قوتیں بشمول انسانی حقوق کے دفاع کی دعوے دار این جی اوز‘ اس کے خلاف صف آرا ہوگئی ہیں اور عالمی میڈیا بھی انھی کی لَے میں لَے ملا رہا ہے۔
الحمدللہ صوبہ سرحد کے عوام اور ان کی منتخب مجلس عمل کی حکومت نے اس ہمہ جہتی مخالفانہ یلغار کا سینہ سپر ہوکر مقابلہ کیا اور اپنے دستوری حق اور دینی ذمہ داری کو جرأت اور حکمت کے ساتھ ادا کیا۔ اسمبلی نے چار دن کی طویل بحث کے بعد ۱۴ جولائی کو ۳۴ کے مقابلے میں ۶۸ووٹوں کی دوتہائی اکثریت سے حِسبہ بل کو منظورکرلیا ہے اور دستور کے مطابق گورنر کو توثیق کے لیے بھیج دیا ہے جو پابند ہیں کہ ۳۰دن کے اندر اندر اس کی توثیق کر دیں یا اپنے اعتراضات کے ساتھ اسمبلی کو واپس کر دیں۔ اسمبلی مجاز ہے کہ بل پر دوبارہ غور کرنے کے بعد جس شکل میں چاہے اسے منظور کرکے دوبارہ گورنر کو بھجوا دے اور اس صورت میں گورنر کو بل پر اپنے دستخط ثبت کرنا ہوں گے۔
مرکزی حکومت کے نمایندوں نے اسمبلی کو تحلیل کرنے اور صوبے کی حکومت کو برطرف کرنے کی دھمکیاں دے کر سمجھا تھا کہ مجلس عمل کی حکومت خوفزدہ ہوجائے گی لیکن مجلس عمل نے بجاطور پر مرکزی وزرا اور گورنر کی گیدڑ بھبھکیوں کو کوئی وقعت نہ دی اور اپوزیشن جماعتوں کو اپنے نقطۂ نظر کے بیان کا پورا موقع دے کر بل کو خالص جمہوری انداز میں منظور کیا‘ جو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومت کے سرکاری بلوں کو بل ڈوز کرنے کی روش سے بڑی مختلف مثال تھی۔ صوبائی حکومت نے بل کو دستور کے مطابق منظور کر کے بال کو مرکزی حکومت اور اس کے نمایندہ گورنر کی کورٹ میں پھینک دیا۔ اب مرکزی حکومت نے نہایت عجلت کے ساتھ ۲۴ گھنٹے کے غوروفکر کی زحمت بھی گوارا کیے بغیر دستور کی دفعہ ۱۸۶ کے تحت سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے کہ اس ’’قانونی مسئلہ‘‘ پر اپنی رائے دے۔ اس بارے میں اس نے آٹھ سوال اٹھائے ہیں۔ دستور کے تحت صدر کا یہ حق ہے کہ کسی بھی قانونی سوال کو عدالت عالیہ کے مشورے کے لیے بھیج دے لیکن اس کی حیثیت مجوزہ قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے کے مترادف نہیں اس لیے کہ ابھی یہ بل اسمبلی نے صرف منظور کیا ہے اور اسے قانون کا درجہ حاصل نہیں ہوا۔
حِسبہ بل پر جو اعتراضات اٹھائے گئے ہیں ان کے مضمرات بڑے سنگین ہیں۔ ان میں سے کچھ کی طرف ہم اس مضمون میں اشارہ کریں گے۔
اس وقت مرکزی حکومت اور کچھ اپوزیشن جماعتوں نے اس بل پر جس طرح حملہ کیا ہے اور جن بحثوں کو وہ آگے بڑھا رہے ہیں‘ ان سے جو مرکزی نقطۂ نظر سامنے آتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ اصل ہدف حِسبہ بل نہیں‘ اسلام اور شریعت اسلامی کا نفاذ ہے۔ اسلامی نظام کے قیام کے خالی خولی اعلانات تو بار بار ہوئے ہیں لیکن حِسبہ بل ایک ایسے حقیقی تنفیذی ادارے کے قیام کی کوشش ہے جس کے ذریعے کم از کم ایک صوبے میں نفاذ شریعت کے عمل کا آغاز ہوسکتا ہے۔ ہماری نگاہ میں تو یہ بل اسی منزل کی طرف ایک ابتدائی لیکن عملی اہمیت کا حامل اقدام ہے اور یہی وجہ ہے کہ مخالفین کی نگاہ میں یہ بڑی خطرناک پہلکاری (initiative) ہے کیوں کہ اگر مجلس عمل کی حکومت نفاذ شریعت کی طرف مؤثر انداز میں عملی پیش قدمی شروع کردیتی ہے تو ان کی ’’روشن خیال اعتدال پسندی‘‘ کا سارا قلعہ دھڑام سے زمین پر آگرے گا۔ اب تو یہ بات مغربی پریس نے برملا کہہ دی ہے کہ enlightened moderation (روشن خیال اعتدال پسندی) کی اصطلاح امریکا کے سابق وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے جنرل پرویز مشرف کے کان میں پھونکی تھی اور مقصد مسلمانوں کو اعتدال پسند اور انتہا پسند اور لبرل اور بنیاد پرست گروہوں میں بانٹنا تھا۔ اسلام اور سیکولرزم کے درمیان جنگ اب کھل کر سامنے آگئی ہے اور ساری سیکولر قوتیں یک جان و یک زبان ہوگئی ہیں۔ اب ہرجماعت اور ہرفرد اپنے اصل رنگ میں قوم کے سامنے آگیا ہے۔
حِسبہ بل کی حقیقت اور اس پر اعتراضات کی قدروقیمت پر کسی گفتگو سے قبل چند حقائق کا مختصر اعادہ ضروری ہے۔
سب سے پہلی قابلِ توجہ بات مرکزی حکومت کا صوبہ سرحد کی حکومت اور صوبے کے اصلاحی پروگراموں کے بارے میں معاندانہ رویہ ہے جو روز بروز مزید نمایاں ہوتا جارہا ہے۔ صوبے کے معاملات میں مرکز کی مداخلت صوبائی خودمختاری کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے اور مرکز اور صوبے کے درمیان خوش گوار تعلقات اور ہم آہنگی پر بھی ضرب کاری کی حیثیت رکھتی ہے۔ مرکز‘ صوبے کے گورنر کے ادارے کو صوبے کی حکومت کو ہراساں کرنے کے لیے بڑی عاقبت نااندیشی کے ساتھ استعمال کر رہا ہے۔ مرکزی حکومت حساس قبائلی علاقوں میں امریکا کی خوش نودی اور حکم برآوری کے لیے فوج کشی میں مصروف ہے جس میں علاقے کے کورکمانڈر کے اعتراف کے مطابق ۲۵۱ فوجی کام آچکے ہیں اور ۵۵۰ زخمی ہوئے ہیں۔ صوبے کی انتظامی مشینری پر مرکز اپنی گرفت مضبوط کیے ہوئے ہے اور اس کا ثبوت صوبائی چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کا صوبے کی حکومت کے مشورے کے بغیر تبادلہ اور نئی ٹیم کا تقرر ہے۔ این ایف سی ایوارڈ نہ دے کر‘ صوبے کی مالیاتی ناکہ بندی بھی کی ہوئی ہے۔ بجلی کی رائلٹی سے لے کر طوفانی بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں تک کے موقع پر صوبے کو امدادی کارروائیوں کے لیے اس کے مبنی برحق وسائل سے محروم رکھنا بھی اس میں شامل ہے۔
مرکز کا یہ معاندانہ رویہ دستور کی کھلی خلاف ورزی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی اعتبار سے فضا کو مکدر کرنے کا ذریعہ ہے اور صوبے کی حکومت اپنے محدود وسائل اور دستوری‘ قانونی اور انتظامی تحدیدات کے باوجود اپنے نظریاتی‘ معاشی‘ اخلاقی اور اصلاحی پروگرام پر جو عمل کرنا چاہتی ہے‘ اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ کش مکش حِسبہ بل کے سلسلے میں اس مقام پرآگئی ہے جس کے بڑے دُوررس نتائج ہوسکتے ہیں۔ صوبے کی جو اپوزیشن جماعتیں اپنے مخصوص سیاسی یا جذباتی تعصبات کی وجہ سے مرکز میں برسرِاقتدار عناصر کے اس کھیل کو نہیں سمجھ رہی ہیں اور ان کے جال میں پھنس گئی ہیں‘وہ بڑی بھیانک غلطی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔
دوسری طرف صوبے کی حکومت پورے معاملے کو بہت صبروتحمل اور بردباری کے ساتھ لے کر چل رہی ہے۔ صوبے کی شریعت کونسل نے جس میں تمام مکاتب فکر (بشمول اہل تشیع) کے علما اوردانش ور شریک تھے‘ نفاذ شریعت کے لیے جو نقشۂ راہ مرتب کیا تھا‘ اس میں شریعت بل‘ حِسبہ بل‘ تعلیمی اصلاحات‘ معاشی اصلاحات اور سماجی اور معاشرتی اصلاحات کا ایک جامع پروگرام تھا۔ یہ کام صوبے کی شریعت کونسل نے حکومت کے قیام کے پہلے سال کے اندر اندر کرلیا تھا۔ شریعت بل اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کرلیا تھا اور بجٹ سازی‘ تعلیمی پالیسی‘ بنک کاری کے نظام کی تبدیلی اور چند دوسرے دائروں میں ضروری اصلاحات کے ساتھ حِسبہ بل جو دراصل عام آدمی کے لیے انصاف کے حصول اور سیاسی‘ معاشی‘ انتظامی اور دوسرے میدانوں میں رائج ظلم و استحصال کے تدارک کی ایک جامع کوشش ہے‘ متحدہ مجلس عمل کے پروگرام کا اہم حصہ تھا۔ حکومت کی کوشش تھی کہ اس پر زیادہ سے زیادہ اتفاق راے پیدا کیا جائے اور اس وجہ سے اس پر ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصے تک مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے متفق علیہ راہ نکالنے کی کوشش کرتی رہی لیکن جب یہ واضح ہوگیا کہ دوسری طرف سے تعاون کی راہوں کو مسدود کر دیا گیا ہے تو پھر اس نے سارے خطرات اور مشکلات کو جانتے بوجھتے ہوئے‘ محض اللہ اور عوام سے اپنے عہد کو ایفا کرنے کے لیے اسمبلی کے ذریعے اس قانون کو بنانے اور اس کے مطابق عمل کرنے کا تہیہ کرلیا۔
حِسبہ بل کا مسودہ ابتدا ہی میں گورنر کو اس لیے بھیجا گیا تھا کہ اس پر افہام و تفہیم کا عمل شروع ہو۔ گورنر نے بات چیت کرنے کے بجاے اسے نو تشکیل شدہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیج دیا جسے خاص سیاسی مقاصدکے لیے تشکیل دیا گیا تھا اور جس پر اس کے قیام کے وقت ہی تمام اہم دینی عناصر نے شدید عدم اطمینان کا اظہار کر دیا تھا۔ کونسل دستور کی دفعہ (۲) ۲۳۰ کے تحت پابند ہے کہ اگر صدر‘ گورنر‘ مرکزی یا صوبائی اسمبلی اسے کوئی مسئلہ اظہار راے کے لیے بھیجتی ہے تو وہ ۱۵ دن کے اندر اندر اس پر اپنی رائے دے۔ گورنر سرحد نے کونسل کو حِسبہ بل ۱۴ اکتوبر ۲۰۰۳ء کو بھیجا ہے اور کونسل نے ۱۱ مہینے کے بعد ۴ستمبر ۲۰۰۴ء کو گورنر سرحد اور وزیراعلیٰ سرحد کو اپنی رائے بھیجی‘ اور جیساکہ ہم ثابت کریں گے کہ اس میں ایک نکتہ بھی ان terms of reference کے مطابق نہیں تھا جو دستور کے تحت اس کونسل کے لیے مقرر کیا گیا ہے بلکہ ایک سابق جج صاحب نے اپنی ساری قانونی مہارت کے ذریعے اِدھر اُدھر کی باتوں کو نمبروار داخل دفترکرنے کا کارنامہ سرانجام دیا اور کونسل نے اسے کسی تبدیلی کے بغیر آگے بڑھا دیا۔
صوبہ سرحد کی حکومت نے مرکز میں برسرِاقتدار جماعت کے ذمہ داروں سے بات چیت کی اور ۵جولائی کی نشست میں اس کی تین اہم ترین شخصیات تک نے جن میں حکمران پاکستان مسلم لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین اور سیکرٹری جنرل سید مشاہد حسین شامل تھے‘ اپنے اس استعجاب کا اظہار کیا کہ اس مجوزہ بل کی اتنی مخالفت کیوں ہو رہی ہے حالانکہ اس میں دو چار چھوٹی چھوٹی باتوں کے علاوہ کوئی بات قابلِ گرفت نظر نہیں آتی۔ بلکہ ایک صاحب نے تو یہاں تک کہا کہ خرابی آپ کے بل میں نہیں‘ آپ کے انداز اظہار (failure to communicate) میں ہے۔ اسی طرح صوبائی حکومت نے صوبے کی اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو اعتماد میں لیا اور کہا کہ اگر کوئی معقول تجویز ہے تو آیئے‘ اس پر بیٹھ کر بات کرلیں لیکن دونوں محاذوں پر بالآخر مایوسی ہوئی اور غالباً اس کی وجہ دلیل کی بنیاد پر اختلاف نہیں بلکہ وہ خوف ہے جو امریکا اور مغربی اقوام کے اسلام کو ہوّا اور اصل خطرہ بناکر پیش کرنے کی مہم کا اثر ہے اور جس کا مظہر یہ مضحکہ خیز واویلا ہے کہ صوبہ سرحد ’’طالبانائیزیشن‘‘ کی زد میں ہے۔ حالانکہ جیساکہ ہم ثابت کریں گے اس بل کا کوئی تعلق افغانستان کے تجربات سے نہیں بلکہ اس کا حرف حرف دستور کے مطابق اور مسلمانوں کی ۱۴۰۰ سالہ تاریخ سے ہم آہنگ ہے اور پاکستان کے دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کمیٹی کی سفارشات‘ دستور ۱۹۷۳ء کے ریاست کے لیے رہنما اصول اور خود اسلامی نظریاتی کونسل کی اس مکمل رپورٹ کی سفارشات کے مطابق ہے جو ۱۹۹۶ء میں اس نے پیش کی تھی۔ آج جن باتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ان میں سے ہر ایک ملک کے قانونی نظام کا حصہ ہے اور ایک نہیں دسیوں قوانین میں وہی تمام دفعات من و عن موجود ہیں‘ مگر بھلا ہو تعصب کا کہ ؎
تمھاری زلف میں پہنچی تو حُسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی
حِسبہ کی فکری اھمیت اور تاریخی روایت
ہر قوم کے لیے زندگی کا اجتماعی نظام کسی نہ کسی اصول اور نظریے پر مبنی ہوتا ہے۔ ایک تصور یہ ہے کہ مذہب ایک افیون ہے اور انسان کی زندگی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی اخلاقی ضابطے‘ کسی الہامی ہدایت اور ابدی اقدار کے کسی نظام کی ضرورت نہیں۔ اور اگر کچھ لوگ بضد ہیں کہ مذہب سے رشتہ باقی رہنا چاہیے تو پھر مذہب کا دائرہ صرف فرد کی ذاتی اور نجی زندگی اور زیادہ سے زیادہ مسجد اور گھر تک محدود ہونا چاہیے۔ اجتماعی زندگی کا نظام و نقشہ دنیوی علوم اور تجربات‘ ذاتی خواہشات اور مفادات اور قومی روایات اور تصورات کے مطابق بننا چاہیے۔ اگر ہمارا نظریۂ حیات یہی ہے تو پھر اس میں حِسبہ کے اس تصور کی کوئی گنجایش نہیں جو اسلام نے پیش کیا ہے اور جو مسلمانوں کی تاریخ کا تابندہ ادارہ اور روایت رہا ہے۔ لیکن اگر ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کے معنی ہی یہ ہیں کہ فرد اور جماعت‘ ہر کوئی ذاتی اور اجتماعی‘ ہر اعتبار سے اللہ کی بندگی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ مبارکہ کی پیروی میں اپنی دنیوی اور اُخروی نجات دیکھتا ہے تو پھر ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ان حدود کا پابند اور ان اقدار کا حامل ہونا چاہیے جو اسلامی زندگی کا طرۂ امتیاز ہیں۔ پھر انسان کی زندگی کا ہر لمحہ اس فکر میں گزرتا ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت اور حقوق العباد ادا کرنے کی راہ میں گامزن ہے یا ان سے غفلت برت کر اطاعت الٰہی سے انحراف اور بغاوت کا مرتکب ہورہا ہے۔ پھر ہرلمحہ وہ اپنا احتساب کرتا ہے اور ہر قدم شعور اور منزلِ مطلوب کی طرف پیش قدمی کے جذبے سے اٹھاتا ہے۔ پھر وہ خود بھی نیکیوں کے حصول اور برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے گردونواح میں بھی معروف کے فروغ اور منکرسے نجات کے لیے سرگرم ہوجاتا ہے۔ حِسبہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسی احساس کو مرتب اور منظم کرکے اداراتی حیثیت دینے کا نام ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز اور روزے کو بھی احتساب کے ساتھ ادا کرنے کی تلقین کی ہے اور پوری زندگی کھلی آنکھوں اور جائزہ نفس کے ساتھ گزارنے کا حکم دیا ہے (حاسبوا قبل ان تحاسبوا) ۔ گویااپنا جائزہ خود لے لو‘ اپنا حساب کتاب خود ہرلمحہ کرتے رہو قبل اس کے کہ تمھارا حساب لیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہرمسلمان مرد اور عورت اور مسلمانوں کے اجتماعی نظام___ اُمت بحیثیت مجموعی اور اسلامی ریاست جو مسلمانوں کی اجتماعی قوت اور امامت کی مظہر ہے‘ دونوں کی ذمہ داری ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنی زندگی کا شعار بنائیں۔ اہلِ ایمان اور کفار‘ منافقین اور فساق میں فرق ہی معروف اور منکر کے بارے میں ان کے رویے کا ہے۔ قرآن دونوں راستوں کو بالکل دو اور دو چار کی طرح واضح کر دیتا ہے:
اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُہُمْ مِّنْم بَعْضٍم یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَیَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَہُمْط نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَہُمْ ط اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (التوبۃ ۹:۶۷)
منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے کے ہم رنگ ہیں۔ برائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ خیر سے روکے رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے بھی انھیں بھلا دیا۔ یقینا یہ منافق ہی فاسق ہیں۔
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍم یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَیُطِیْعُوْنَ
اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ ط اُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّٰہُ ط اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ o (التوبۃ ۹:۷۱)
مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں‘ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی۔ یقینا اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔
اور یہ ذمہ داری جس طرح ہر فرد___ مسلمان مرد اور عورت کی ہے اسی طرح یہ ذمہ داری پوری اُمت اور جب اہلِ ایمان کو زمین پر اقتدار حاصل ہو تو حکومت اور اس کی اجتماعی قوت کی ہے۔
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰)
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌیَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۴)
تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں‘ بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں‘ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِo (حج ۲۲:۴۱)
یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میںاقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے‘ زکوٰۃ دیں گے‘ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
نظام حِسبہ اسی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کو ادا کرنے کی ایک منظم کوشش کا نام ہے۔ یہ انتظام دور رسالت مآبؐ سے شروع ہو کر اسلامی تاریخ کے ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس فرض کو انجام دیا اور اُمت کو مختلف انداز میں اور اپنے نمایندوں کو مختلف میدانوں میں اسی کام کو انجام دینے کے لیے مامور فرمایا۔ دور خلافت راشدہ میں ہرخلیفہ نے اسے انجام دیا‘ ہر ولایت کا گورنر اس پر مامور تھا اور پھر جیسے جیسے زندگی کے کاروبار نے وسعت اور تنوع اختیار کیا تو مختلف دائرہ کار کے افراد اور اداروں کا قیام عمل میں آیا۔
پہلی ہی صدی میں بازاروں میںنگراں (عمال السوق) مقرر ہوئے۔ قاضی اور کوتوال (شرطیٰ) کے ادارے وجود میں آئے اور پھر باقاعدہ حِسبہ کا نظام قائم ہوا جو ۱۳۰۰سال تک پوری اسلامی قلمرو میں مختلف شکلوں میں اور مختلف ناموں سے کارفرما رہا۔ امام غزالیؒ نے احیاء العلوم میں اس کے اخلاقی‘ معاشرتی اور معاشی ہر پہلو پر کلام کیا ہے۔ الماوردی نے الاحکام السلطانیہ میں ایک پورا باب اس نظام پر قائم کیا ہے اور سیاسی‘ معاشی اور انتظامی پہلوئوں کو اجاگر کیا ہے۔ ابن خلدون نے مقدمے میں اسے ایک بنیادی اجتماعی ادارے کے طور پر پیش کیا ہے۔ ابن تیمیہ نے الرسالہ فی الحسبۃ مرتب کیا جس میں اس کا تصوراتی ہیولہ (conceptual framework) مرتب کیا ہے۔ ابن حزم نے الفصل فی الملل میں اس پر مبسوط بحث کی ہے۔ غرض ہر دور میں اور ہر علاقے میں عملاً اس ادارے کی کارفرمائی دیکھی جاسکتی ہے اور اہلِ علم نے اپنے اپنے حالات کے مطابق اس پر بحثیں کی ہیں۔ بنواُمیہ‘ بنوعباس‘ دولت عثمانیہ‘ صفوی دور‘ تغلق سلطنت اور خصوصیت سے مغلیہ دور میں اورنگ زیب عالم گیر کی حکومت میں‘ حِسبہ کا ادارہ موجود رہا ہے۔ مصر‘ شام‘ ایران‘ بلادِ غرب‘ ماوراء النہر کے علاقے‘ ہر جگہ یہ ادارہ کسی نہ کسی شکل میں اور ناموں کی کچھ تبدیلی کے ساتھ تھا___ آج یہ متحدہ مجلس عمل کی اختراع نہیں۔ یہ ہمارے فکری نظام اور ہماری تاریخی روایت کا حصہ ہے اور اپنے حالات کے مطابق ہم اس نظام اور ادارے کے احیا کی ایک حقیر کوشش کر رہے ہیں۔
آیئے اب ان اعتراضات کا جائزہ لیں جو اس توقع اور یقین کے ساتھ شب و روز دھواں دھار انداز میں پیش کیے جا رہے ہیں کہ غلط سے غلط بات اگر بار بار کہی جائے تو لوگ اسے سچ سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ ہٹلر کے وزیر گوئبلز کی حکمت عملی ہے جس پر حِسبہ بل کے معترضین عمل پیرا ہیں۔
جس میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حلقہ ہاے عمل میں اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق‘جس طرح قرآن پاک اور سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے‘ ترتیب دے سکیں۔
اسی بات کا اعادہ مزید وضاحت کے ساتھ دستور کی دفعہ ۳۱ میں کیا گیا ہے۔ دفعہ ۳۷ (جی) میں اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں کے سدباب کا ہدف دیا گیا ہے اور دفعہ ۳۸ (ایف) میں ربا کے جتنی جلد ممکن ہو مکمل خاتمے (elimination) کو پالیسی کا مقصد قرار دیا گیا ہے۔
دفعہ ۲۲۷ سے ۲۳۰ تک (اسلامی دفعات )بھی اجتماعی زندگی کو مکمل طور پر قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کی دعوت دے رہی ہیں۔ حِسبہ بل دستور کے انھی اہداف کو حاصل کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔
کہا گیا ہے کہ یہ بنیادی حقوق سے متصادم ہے اور دستور کی دفعہ ۱۹ اور ۲۰ کا ذکر کیا گیا ہے۔ مگر ان دونوں دفعات میں جہاں بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی وہیں یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ:
اسلام کی عظمت یا پاکستان یا اس کے کسی حصہ کی سالمیت‘ سلامتی یا دفاع‘ غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات‘ امن عامہ‘ تہذیب یا اخلاق کے مفاد سے مشروط ہے۔
حِسبہ بل میں انھی اقدار کا تحفظ کیا گیا ہے جن کا ذکر دستور کی اس دفعہ میں ہے۔ اسی طرح دفعہ ۲۰ میںبھی: قانون‘ امن عامہ اور اخلاقیات سے مشروط ہونے کی وضاحت موجود ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے جواب (ستمبر۲۰۰۴ء )میں ایک دور کی کوڑی یہ بھی لائی گئی ہے کہ یہ دستور کی دفعہ ۱۷۵ (سی)سے متصادم ہے حالانکہ اس دفعہ میں عدلیہ کے انتظامیہ سے الگ ہونے کی بات کی گئی ہے (جس پر آج تک عمل نہیں ہوا)۔ حِسبہ کا نظام بنیادی طور پر ایک انتظامی ادارہ ہے‘ جو پوری انتظامی مشینری بشمول عدلیہ کے تعاون سے کام کرے گا اور عدلیہ کا پورا نظام اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہوگا دفعہ ۲ (۳)۔
۱- تعلیم و تلقین
۲- انتظامی اعتبار سے نگرانی اور حکومت کی مشینری کے ذریعے بشمول پولیس اور انتظامی محکمے متعلقہ قوانین کے تحت اور متعلقہ اداروں کے ذریعے اقدام کرنا۔
۳- لوگوں کی شکایت پر یا ازخود تفتیش اور اس کے نتیجے میں خرابی کے تعین اور اس کی اصلاح کی کوشش ___ بذریعہ قانون۔
۴- عدلیہ اور صوبائی اسمبلی کے سوا حکومتی مشینری پر نگاہ‘ اور اختیارات کے غلط استعمال یا حق دار کو حق نہ ملنے کی صورت میں حق دار کی داد رسی ___ جس کا طریقہ متعلقہ مجاز ادارے کو اس کی غلطی پر متنبہ کرنا ہے۔ یہ خود نافذ نہیں کرسکتا بلکہ قوم کے اجتماعی ضمیر کی حیثیت سے خرابیوں پر گرفت اور اصلاح کا کام ملکی قوانین کے مطابق انجام دے گا یا انجام دیے جانے کی ہدایات جاری کرے گا‘ جو دنیا بھر میں محتسب یا انتظامی ٹریبونلوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ صوبائی حِسبہ کا نظام دستور کے تحت خصوصی طور پر صرف (exclusively) صوبائی اسمبلی کی ذمہ داری ہے۔ دستور کی فیڈرل لسٹ میں صرف وفاقی محتسب کا ذکر ہے۔ مشترک لسٹ (concurrent list)میں محتسب کے ادارے کا ذکر موجود نہیں۔ اس لیے یہ صوبے کا خصوصی دائرہ اختیار (exclusive jurisdiction) ہے اور اس میں مرکز کی مداخلت صوبائی خودمختاری پر ایک ضرب کاری ہے جس کے بڑے دُوررس اثرات ہوسکتے ہیں۔
۱- پبلک مقامات پر اسلام کی اخلاقی اقدار کی پابندی کروانا۔
۲- تبذیر یا اسراف کی حوصلہ شکنی‘ خصوصاً شادیوں اور اس طرح کی دیگر خاندانی تقریبات کے موقع پر۔
۳- جہیز دینے میں اسلامی حدود کی پابندی کروانا۔
۴- گداگری کی حوصلہ شکنی کرنا۔
۵- افطار اور تراویح کے وقت اسلامی شعائر کے احترام اور ادب وآداب کی پابندی کروانا۔
۶- عیدین کی نمازوں کے وقت عیدگاہوں یا ایسی مساجد کے آس پاس جہاں عیدین اور جمعہ کی نماز ہو رہی ہو‘ کھیل تماشے اور تجارتی لین دین کی حوصلہ شکنی کرنا۔
۷- جمعہ اور عیدین کی نمازوں کی ادایگی اور انتظام میں غفلت کا سدباب کروانا۔
۸- کم عمر بچوں کو ملازم رکھنے کی حوصلہ شکنی کرنا۔
۹- غیرمتنازعہ حقوق کی ادایگی میں تاخیر کو روکنا اور مناسب داد رسی کرنا۔
۱۰- جانوروں پر ظلم روکنا۔
۱۱- مساجد کی دیکھ بھال میں غفلت کا سدباب کروانا۔
۱۲- اذان‘ فرض نمازوں کے اوقات اور اسلامی شعائر کے احترام و آداب کی پابندی کروانا۔
۱۳- لائوڈ اسپیکر کے غلط استعمال اور مساجد میں فرقہ ورانہ تقاریر سے روکنا۔
۱۴- غیر اسلامی معاشرتی رسم و رواج کی حوصلہ شکنی کرنا۔
۱۵- غیرشرعی تعویذ نویسی‘ گنڈے‘ دست شناسی اور جادوگری کا سدباب کرنا۔
۱۶- اقلیتی حقوق کا تحفظ خصوصاً ان کے مذہبی مقامات کا اور ان مقامات کا جہاں مذہبی رسومات ادا کی جا رہی ہوں‘ تقدس ملحوظ رکھنا۔
۱۷- غیر اسلامی رسومات جن سے خواتین کے حقوق متاثر ہوں خصوصاً غیرت کے نام پر قتل کے خلاف اقدام اٹھانا‘ میراث میں خواتین کو محروم رکھنے کا سدباب‘ رسم سورہ کا تدارک کرنا اور خواتین کے شرعی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا۔
۱۸- ناپ تول کی نگرانی اور ملاوٹ کا تدارک کرنا۔
۱۹- مصنوعی گرانی کا سدباب کرنا۔
۲۰- سرکاری محکمہ جات میں رشوت ستانی کا تدارک کرنا۔
اگر ان اصلاحات پر قومی سطح پر عمل شروع ہو جائے تو اس سے انسانی حقوق کی حفاظت ہوگی یا ان کی پامالی___ اور معاشرے میں ظلم اور فساد میں کمی ہوگی یا اضافہ؟
۲- ریاستی پالیسی کے راہنما اصول درج ذیل ہوں گے:
(۱) ریاست اپنی سرگرمیوں اور پالیسیوں میں قرارداد مقاصد میں بیان کردہ اصولوں سے رہنمائی لے گی۔
(۲) حکومتی سرگرمیوں کے مختلف دائروں میں اقدامات خصوصاً وہ جو ذیل میں درج کیے گئے ہیں‘ کیے جائیں گے تاکہ مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنی زندگیاں انفرادی اور اجتماعی طور پر قرآن پاک اور سنت کے مطابق مرتب کرسکیں۔
(ا) ان کے لیے سہولتیں فراہم کی جائیں گی تاکہ وہ سمجھیں کہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا کیا مطلب ہے‘ اور مسلمانوں کے لیے قرآن پاک کی تدریس کو لازمی کیا جائے گا۔
(ب) شراب نوشی‘ جوے اور قحبہ گری کی ان کی تمام مختلف شکلوں میں ممانعت کی جائے گی۔
(ج) ربا کا خاتمہ ‘ جتنی جلدی اس کا کیا جانا ممکن ہو۔
(د) اسلام کے اخلاقی معیارات کو فروغ دینا اور برقرار رکھنا۔
(ح) زکوٰۃ ‘ اوقاف اور مساجد کا مناسب نظم۔
(۳) عوام کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرنے کے لیے اور امربالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے ایک تنظیم قائم کی جائے گی۔
(ماخذ: Constitutional Foundations of Pakistan ‘ڈاکٹر صفدر محمود‘ ص ۲۴)
اسلامی نظریاتی کونسل کے ۲۰۰۴ء کے تبصرے کا بار بار ذکر ہے۔ ہم اس پر گفتگو ذرا بعد میں کریں گے‘ پہلے یہ دیکھ لیجیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے دسمبر ۱۹۹۶ء میں اپنی مکمل سفارشات جو پارلیمنٹ کو دی تھیں ان میں حِسبہ کے قانون اور ادارے کی سفارش ہے اور مرکز ہی نہیں‘ صوبے کی سطح کے لیے ہے اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے ہے جس کے بارے میں اب وہ یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ معروف اور منکر کی وضاحت نہیں ہے اور اس سے قرآن و سنت کی تشریح مزید خلفشار کا باعث ہوگی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے:
اس حقیقت کے پیش نظر کہ ادارہ حِسبہ کا بنیادی مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے متعلق اُمت‘ نیز ریاست کی اجتماعی اور مشترکہ ذمہ داری پوری کرنا ہے اور اس کردار کو سامنے رکھتے ہوئے جو حِسبہ کے ادارے نے اسلامی ادوار میں ادا کیا ہے‘ ضروری ہوگا کہ پاکستان میں اگر موجودہ دور میں یہ ادارہ قائم کیا جائے تو اس کے مندرجہ ذیل فرائض متعین کیے جائیں:
۱- ایسی برائیوں اور بدکاریوں کی روک تھام جو عام تعزیری قانون اور فوجداری ضابطے کے تحت قابلِ دست اندازی نہ ہوں۔
۲- تاجروں اور بازاروں‘ مارکیٹوں میں تجارتی سرگرمیوں میں مشغول افراد سے اسلامی ضابطہ اخلاق کی پابندی کروانا۔
۳- ایسی عبادتوں کی ادایگی کی نگرانی جو اجتماعی طور پر ادا کی جاتی ہیں‘ جیسے عید اور جمعہ کی نمازیں۔
۴- ایسے اعمال و اقدامات کی روک تھام جو ایسی بدکاریوں اور برائیوں کی نشوونما کا سبب بنیں جن کی شریعت نے حوصلہ شکنی کی ہے۔
۵- کاروباری معاملات میں روزانہ وقو ع پذیر ہونے والے افعال بد مثلاً ملاوٹ‘ دھوکادہی اور فریب کاری کے واقعات کی روک تھام۔
۶- لوگوں کو اس امر سے روکنا کہ وہ اپنے زیرولایت افراد‘ ملازموں‘ جانوروں اور دیگر کمزوروں کے ساتھ ظالمانہ برتائو کریں۔
پاکستان میں حِسبہ کا ادارہ
کام میں پیچیدگی اور بے فائدہ تکرار سے بچنے کے لیے تجویز کیا گیا ہے کہ محتسب (ombudsman) اور ان کے سیکرٹریٹ کا موجودہ اُردو نام فی الوقت برقرار رکھا جائے اور حِسبہ کا ایک خودمختار اور الگ ادارہ قائم کیا جائے تاکہ وہ ایسے امور یا معمولی جرائم کی نگرانی کرسکے جن کی طرف اب تک کوئی توجہ نہیں کی گئی۔
قومی سطح پر جناب صدرمملکت کی جانب سے ایک وفاقی حِسبہ اتھارٹی قائم کی جانی چاہیے تاکہ وہ پاکستان میں حِسبہ کے کام کی نگرانی اور اس میں مطابقت و ہم آہنگی پیدا کرنے کے عمل کی ذمہ داری پوری کر سکے۔ اس اتھارٹی کی سربراہی کسی ایسے ممتاز اور مستند عالم دین کو جو سپریم کورٹ کے شریعہ بنچ کا رکن بننے کی اہلیت کا حامل ہو یا کسی سینیرجج کے سپرد کی جانی چاہیے اور اس میں ممتاز علما نیز وفاقی حکومت کے سینیرافسران شامل ہونے چاہییں۔
صوبائی سطح پر گورنر ہر صوبے میں وفاقی حِسبہ اتھارٹی کے مشورے سے ایک ’’حِسبہ بورڈ‘‘ قائم کرے گا تاکہ صوبے میں حِسبہ کے فرائض کی نگرانی اور ان میں تطبیق و ہم آہنگی کا عمل بروے کار لایا جاسکے‘ نیز صوبائی حکومت اور اس کی مختلف ایجنسیوں سے رابطہ استوار رکھا جاسکے۔
صوبائی بورڈ کی سربراہی کسی ایسے مستند عالم دین کے سپرد کی جائے جو وفاقی شرعی عدالت کا جج بننے کا اہل ہو اور اس میں سینیرعلما شامل کیے جائیں۔ اس طرح ہر ضلع میں ایک حِسبہ کونسل قائم کی جائے جس کے سربراہ ایک ممتاز شہری ہوں۔ انھیں ’’مہتمم حِسبہ‘‘ کہاجائے گا۔ حِسبہ کونسل ضلعی سطح پر اسلام کے معاشرتی اور اخلاقی ضابطے کے پیروکاروں کے اعمال کی نگرانی کرے گی اور گاہ بگاہ ’’معروف‘‘ کی اطاعت اور ’’منکر‘‘ کی روک تھام سے متعلق صورت حال کا جائزہ لیتی رہے گی۔ اسی طرح یہ ’’تحصیل حِسبہ کمیٹی‘‘ قائم کرسکے گی۔ صوبائی حکومت ضلعی حِسبہ کونسل کے مشورے سے ایک علاقے یا آبادی میں مناسب تعداد میں ’’ناظر حِسبہ‘‘ مقرر کرے گی۔ ناظرحِسبہ کی مدد کے لیے ضروری عملہ مقرر کیا جائے گا جس میں کچھ مسلح افراد بھی شامل ہوں گے جنھیں ’’حِسبہ فورس‘‘ کہاجائے گا۔ ناظر حِسبہ اور اس کے عملے کو ’’پبلک آفیسرز‘‘ تصور کیا جائے گا۔ ناظرحِسبہ مجسٹریٹ درجہ سوم کے اختیارات استعمال کرے گا۔ ناظرحِسبہ پاکستان کے کسی شہری کی شکایت پر کسی پبلک عہدہ دار کی اطلاع یا اپنے علم کی بنا پر دیگر چیزوں کے علاوہ مندرجہ ذیل معاملات کی نسبت اپنے قانونی اختیارات استعمال کرسکے گا۔
پہلا اعتراض یہ ہے کہ مجوزہ صورت میں ادارہ حِسبہ کا قیام مقاصد شریعت کی تکمیل کے بجاے امربالمعروف ونہی عن المنکر کے بارے میں قرآن و سنت کے احکام کو متنازعہ بنانے کا باعث بن سکتا ہے اور مسائل کو حل کرنے کے بجاے مفاسد کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ اس کے لیے کوئی شرعی یا عقلی دلیل نہیں دی گئی۔ دستور کی دفعہ ۲۲۷ (۱) کی تشریح میں واضح کر دیا گیا ہے کہ ہر مکتب فکر کے لیے قرآن و سنت کے بارے میں وہی تعبیر معتبر ہوگی جو اس کی نگاہ میں معتبر ہے۔ اس کے بعد معروف اور منکر کے متنازعہ بن جانے کاکیا خطرہ ہے۔
واضح رہے کہ حِسبہ بل میں خصوصیت سے ’’غیرمتنازعہ حقوق‘‘ کی تنفیذ کی بات کی گئی ہے۔ رہا مسئلہ سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کا‘ تو اس کی واضح ترین مثال اسلامی نظریاتی کونسل کا حِسبہ بل پر موجودہ تبصرہ ہے جس میں وہ کسی دلیل کے بغیرکونسل کے ۱۹۹۶ء کے مؤقف کی تردید کررہے ہیں ___ اور اس طرح اگر موجودہ حکومت کی آواز سے ان کی آواز مل جاتی ہے تو اسے ’’توارد‘‘ ہی سمجھا جانا چاہیے جس پر سیاست کا کوئی سایہ نہیں پڑا۔
دوسرا اعتراض کونسل کے خیال میں امورحِسبہ میں ایسے امور کا اضافہ ہے جو معروف نہیں ہیں۔ لیکن کوئی نشان دہی نہیں کی گئی کہ وہ کون سی چیزیں ہیں اور کس شرعی دلیل کی بناپر وہ اس دائرے سے باہر رہنی چاہییں۔
ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ دوسرے قوانین موجود ہیں‘ ان سے فائدہ اٹھایا جائے اور نیا ادارہ نہ قائم کیا جائے۔ یہ محض ایک انتظامی مشورہ ہے جس کا شریعت سے ہم آہنگی اور تصادم سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا کام ان اداراتی یا انتظامی امور پر راے زنی نہیں‘ اس کا کام صرف یہ ہے کہ کسی قانون یا تجویز کے بارے میں یہ بتائے کہ آیا وہ شریعت سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں؟ ان کے تمام اعتراضات میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس میں شریعت کے کس حکم یا نص کی ادنیٰ سی خلاف ورزی کی بھی نشان دہی کی گئی ہو۔ جج صاحب نے اپنے زعم میں تمام امور پر عالمانہ رائے دی تھی لیکن اگر کوئی بات اس تبصرے میں نہیں ہے تو وہ شریعت سے مطابقت یا عدمِ مطابقت کے بارے میں کوئی مبنی بر دلیل بات ہے۔ یہاں ہم یہ بھی وضاحت کردیں کہ ۱۹۹۶ء کی تجاویز میں اسلامی نظریاتی کونسل نے مرکز اور صوبوں دونوں مقام پر موجود محتسب کے ادارے کے ساتھ حِسبہ کے ادارے کا مشورہ دیا تھا۔ جہاں تک صوبہ سرحد کا تعلق ہے وہاں پہلے سے محتسب بھی موجود نہیں اور وہ حِسبہ کی شکل میں ایک جامع ادارہ قائم کرنا چاہ رہے ہیں۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ کونسل اور اس کی سفارشات مرتب کرنے والے جج صاحب کے مبلغ علم کی کیا داددیں جب وہ فرماتے ہیں کہ فقہ جعفریہ میں حِسبہ کے احکام موجود نہیں ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی ۱۹۹۶ء کی سفارشات سنّی اور شیعہ علما نے مرتب کی تھیں۔ صفوی اور اسماعیلی دور میں حِسبہ کا ادارہ اُسی طرح قائم تھا جس طرح دولت عثمانیہ اور تغلق بادشاہوں کے دور میں تھا۔ ایران اور یمن میں بھی یہ اسی طرح موجود تھا جس طرح شام‘ عراق‘ ترکیہ اور ماوراء النہر میں۔ بلادمغرب اور مصر کے ہر دور میں موجود تھا۔ جس طرح امام غزالی اور امام ابن تیمیہ نے حِسبہ کا دفاع کیا ہے اسی طرح نظام الملک طوسی نے سیاست نامہ میں کیا ہے۔ نظریاتی کونسل اس دعوے کے لیے کیا دلیل اور تاریخی شواہد اپنے پاس رکھتی ہے؟صوبہ سرحد کی شریعت کونسل میں سنی علما کے ساتھ اہلِ تشیع کے نمایندے بھی شریک تھے جنھوں نے حِسبہ بل کا مسودہ مرتب کیا ہے۔ فاعتبروا یااُولی الابصار۔
کونسل کا ایک اور اعتراض محتسب کے تقرر کے لیے گورنر کو وزیراعلیٰ کے مشورے کا پابند بنانے پر ہے جسے قرارداد مقاصد اور دستور کی دفعہ ۱۷۵ (۳)سے متصادم قرار دیا گیا ہے۔ اس سے زیادہ مضحکہ خیز اعتراض کا اور وہ بھی ایک جج کی طرف سے جسے نظریاتی کونسل کی تائید حاصل ہے‘ تصور کرنا محال ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ دستور کی دفعہ ۱۰۵ کے تحت گورنر اپنے صواب دیدی معاملات کو چھوڑ کر وزیراعلیٰ کے مشورے کا پابند ہے جو پارلیمانی نظام کا بنیادی اصول ہے۔ اگر حِسبہ بل میں یہ لکھا ہوا نہ ہو تب بھی تودفعہ ۱۰۵ کے تحت گورنر وزیراعلیٰ کے مشورے کا پابند ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان تینوں صوبوں میں جہاں محتسب کا قانون موجود ہے‘ گورنر تقرر کرتا ہے مگر دفعہ ۱۰۵ کے تحت وزیراعلیٰ کے مشورے کا پابند ہے۔ اگر وہ عدلیہ کی انتظامیہ سے علیحدگی کو متاثر نہیں کرتا تو یہاں کیسے کرے گا؟ پھر جج صاحب بھول جاتے ہیں کہ عدلیہ کے تمام ججوں کا تقرر کسی آزاد عدالتی طریقے سے نہیں ہوتا بلکہ دستور کے تحت صدر‘ وزیراعظم کے مشورے سے کرتا ہے۔ چیف جسٹس کا تقرر صدر کرتا ہے اور اس تقرری میں وہ سینیارٹی کا پابند نہیں۔ دوسرے ججوں کے تقرر میںچیف جسٹس کا مشورہ ضرور شامل ہے مگر سب کو علم ہے کہ ججوں کا تقرر کس طرح ہوا ہے۔ امریکا میں ججوں کا تقرر صدر کی تجویز پر ہوتا ہے اور سینیٹ جو خود ایک سیاسی ادارہ ہے اس کی توثیق کرتا ہے۔ اگر یہ سب عدلیہ کو انتظامیہ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتے تو پھر حِسبہ بل میں وزیراعلیٰ کا مشورہ ہی کیوں سیاسی دراندازی قرار پاتا ہے___؟
کونسل کے بیشتر اعتراضات انتظامی نوعیت کے ہیں۔ ان میں سے چند سے حِسبہ بل پر نظرثانی کے موقع پر فائدہ اٹھایا بھی گیا ہے اور مزید استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ محتسب کی برطرفی اور میعاد ملازمت میں توسیع کے بارے میں کونسل کے مشوروں پر غور ہونا چاہیے لیکن ہم پورے ادب سے عرض کریں گے کہ یہ سب سفارشات انتظامی نوعیت کی ہیں‘ جب کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا کام دستور کی دفعہ ۲۲۹ (بی) اور ۲۳۰ کے تحت صرف اتنا ہے کہ یہ مشورہ دے کہ:
اور یہ رائے بھی محض کسی ضمنی تبصرے (obitor dicta) کے انداز میں نہیں دی جاسکتی۔ ہر دعوے یا اعتراض کے حق میں قرآن وسنت سے دلائل و شواہد لانا ہوں گے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ۱۱نکات پر مشتمل اس رائے میں قرآن و سنت سے ایک بھی دلیل نہیں دی گئی ہے‘ نہ صراحتاً اور نہ اشارتاً۔ کونسل کے اس رویے کو علمی کہا جائے‘ شرعی کہا جائے یا سیاسی؟ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔
حقوق انسانی کے نام نہاد علم بردار بھی اس جنگ میں بڑے طمطراق سے کود گئے ہیں اور چلّا چلّا کر کہہ رہے ہیں کہ فرد کی آزادی خطرے میں ہے اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کے نام پر لوگوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالا جا رہا ہے۔ ہم اس سے پہلے دستور کی دفعات کے حوالے سے بتاچکے ہیں کہ بنیادی حقوق کے تمام امور اخلاق‘ شائستگی اور ملک کی سلامتی سے مشروط ہیں۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حقوقِ انسانی کی ساری دُہائی ظالموں اور مجرموں کے حقوق ہی کے لیے کیوں دی جاتی ہے۔ کیا اس مظلوم انسان کے کچھ حقوق نہیں جو چوروں‘ ڈاکوئوں اور زانیوں کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بن رہا ہے۔ حِسبہ بل کمزوروں کو طاقت وروں کی گرفت سے نکالنے کے لیے ہے اور اُن تک انصاف پہنچانے کے لیے ہے جو نہ انصاف کو خرید سکتے ہیں اور نہ ان کی رسائی اُونچے ایوانوں تک ہے۔ آج بعداز خرابیِ بسیار اخلاقی‘ سماجی اور معاشرتی امور کو قانون کی دسترس میں لانے کی کوشش ساری دنیا میں کی جا رہی ہے۔ امریکا کی کانگریس میں جہاں اور بہت سی کمیٹیاں ہیں جو اپنے اپنے دائرہ کار میں احتساب کا کام انجام دیتی ہیں‘ وہیں ایک اخلاقیات کمیٹی (Ethics Committee) بھی ہے جو ممبران کے اخلاقی رویے پر نگاہ رکھتی ہے۔ آج کرپشن ایک عالمی مسئلہ بن گیا ہے‘ اس کے نتیجے میں اخلاقی امور کو احتساب کے باب میں مرکزی حیثیت دی جا رہی ہے۔ بڑی بڑی کمپنیاں جس طرح بدعنوانی کا مظاہرہ کررہی ہیں‘ اس کے نتیجے میں تجارتی اخلاقیات (business ethics) اب تعلیم اور قانون دونوں کے سلسلے میں ایک متعلقہ موضوع بن گئی ہے۔ اور اب تو اکائونٹنٹس اور آڈیٹرز کے لیے بھی نئے اخلاقی ضابطوں اور قوانین کی باتیں ہورہی ہیں۔
آج دنیا کے ۱۲۰ ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں محتسب (Ombudsman) کا ادارہ کام کر رہا ہے۔ یہ صرف انتظامی زیادتیوں کے تدارک ہی کے لیے مصروف عمل نہیں بلکہ سماجی اور اخلاقی امور بھی اس کے دائرے میں آرہے ہیں مثلاً کینیڈا میں Federal Correctional Investigator کا قیام بحیثیت محتسب ہوا ہے جس کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں Federal Students Aid Ombudsman قائم کیا گیا ہے۔ اسی طرح تعلیم‘ صحت‘ بچوں کے تحفظ‘ کمیونٹی کے مسائل اور فیملی کے معاملات تک کے بارے میں محتسب کے مخصوص ادارے قائم کیے جارہے ہیں۔ بلاشبہہ اجتماعی خرابیوں کے تدارک کے لیے وہ راستہ اختیار نہیں کیا جانا چاہیے جو فرد کی آزادی‘ عزتِ نفس‘ چادر اور چاردیواری کی حرمت کو پامال کرنے والا ہو۔ بے جا تجسس اور عیب جوئی (witch-hunting ) ایک دوسری برائی اور انتہا ہوگی۔ توازن کا راستہ ہی معقولیت کا راستہ ہے لیکن محض یہ بات کہ اسلامی اخلاقی اقدار کا تحفظ بھی محتسب کے دائرے میں آتا ہے‘ فرد کی آزادی کے لیے خطرہ سمجھ لینا صحیح نہیں۔ آزادی کے ساتھ ذمہ داری لازم و ملزوم ہیں۔ نہ ایک انتہا درست ہے اور نہ دوسری۔ محتسب کا نظام بھی اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب وہ ان تمام نزاکتوں کو پوری طرح ملحوظ رکھے‘ اور کوئی وجہ نہیں کہ اسلامی اقدار کی حفاظت اور ترویج کے لیے جو نظام قائم کیا جائے‘ وہ ان حدود کا خیال نہ رکھے۔
ایک حلقے کی طرف سے حِسبہ بل کی ان دفعات کو نشانۂ تنقید بنایا جا رہا ہے جن میں محتسب کو توہینِ عدالت (contempt of court) کے سلسلے میں وہی اختیارات دیے گئے ہیں جو عدالتوں کو حاصل ہیں۔ خود اپنے لیے قواعد و ضوابط بنانے پر بھی تیوریوں پر بل پڑ رہے ہیں۔ تضادات دُور کرنے کے حق پر بھی انگشت نمائی ہے۔ محتسب کے احتساب سے بالا ہونے کا دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے۔ راقم خود توہینِ عدالت کے پورے تصور کے سلسلے میں متفکر رہا ہے لیکن جو بات مضحکہ خیز ہے‘ وہ یہ ہے کہ جس نظام قانون کے تحت ہم زندگی گزار رہے ہیں یہ تمام چیزیں اس کا جانا بوجھا حصہ ہیں۔ اگر تمام مقامات پر نظرثانی کی جائے تو ایک قابلِ فہم بات ہے لیکن ایک حق ایک جگہ آپ دے رہے ہیں اور اس سے فسطائیت رونما نہیں ہوتی اور استبداد کا کوئی خدشہ وہاں نظر نہیں آتا لیکن اگر اسی نوعیت کا کوئی انتظام حِسبہ بل میں موجود ہے تو اس میں سارے کیڑے نکالے جا رہے ہیں‘ مثلاً وفاقی محتسب کے قانون مجریہ ۱۹۸۳ء کو لے لیجیے۔ اس میں دفعہ ۱۴ میں وہ تمام اختیارات ہیں جن کا تعلق معلومات حاصل کرنے اور گواہوں کی طلب اور جرح کے بارے میں ہے۔ دفعہ ۱۵ مکان کی تلاش (search of premises) کے بارے میں اور دفعہ ۱۶ توہین پر سزا کا اختیار (power to punish for contempt) سے متعلق ہے۔ دفعہ ۲۹ میں دائرہ اختیار پر پابندی (Bar of Jurisdiction) ہے جس کی رو سے کسی عدالت یا مجاز ادارے کو یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ حکم نامہ کے تحت محتسب کے کیے گئے کسی اقدام کے خلاف حکم امتناعی (stay order) جاری کرے یا کوئی اقدام کرے۔
دفعہ ۳۷ میں order to override other laws کی شق موجود ہے۔ The Punjab Office Ombudsman ۱۹۹۷ء میں بھی یہی ساری شقیں (۱۵‘ ۱۶‘ ۱۷‘ ۱۸‘ ۲۹‘ ۳۷‘ ۳۸) موجود ہیں۔
بلوچستان اور سندھ کے قوانین بھی اس سے مختلف نہیں۔ یہ تو محتسب کا معاملہ ہے۔ ملکی قوانین میں تو بنک کاری ٹریبونل اور لیبر ٹریبونل تک میں یہ ساری دفعات کم و بیش انھی الفاظ میں موجود ہیں۔ پارلیمنٹ ہی کو نہیں اس کی کمیٹیوں کو بھی توہین پر سزا کے اختیارات حاصل ہیں۔ دسیوں قوانین ہر سال منظور کیے جارہے ہیں جن میں عدالتوں کے دائرہ اختیار سے استثنا (Exclusion of Jurisdiction of Courts) یا دائرہ اختیار کو نظرانداز کرنے (Overriding Jurisdiction) کی دفعات موجود ہیں حتیٰ کہ صدر کے لیے دو عہدوں کا جو غیرقانونی بل منظور کیا گیا ہے‘ اس تک میں موجود ہے کہ وہ دو عہدے رکھ سکتے ہیں اور دستور‘ قانون اور عدالت کے کسی فیصلے کا اس پر اطلاق نہیں ہوگا (Act No. VII of 2004)۔ دستور کی دفعہ ۲۷۰ اے اے میں صدر اپنے تمام احکامات کو اس طرح عدالتوں سے محفوظ کرتے ہیں کہ اسے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ان درجنوں نہیں سیکڑوں قوانین سے فسطائیت نہیں آتی اور استبداد کے دروازے نہیں کھلتے تو ایک حِسبہ بل ہی کے ذریعے یہ قیامت کیسے ٹوٹ پڑے گی؟
ہم نے حِسبہ بل پر کیے جانے والے اعتراضات کا جو جائزہ لیا ہے اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ یہ مخالفت دلائل کی قوت سے محروم ہے‘ نیز ملک کے دستور‘ قانونی نظام اور دوسرے متعلقہ اداروں کے بارے میں پائے والے قوانین اور ضابطوں میں اور اس قانون میں کوئی تناقض نہیں۔ بلاشبہہ اسے بہتر بنایا جا سکتا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ صوبہ سرحد کی حکومت اور اسمبلی اس سے غافل نہیں ہوگی لیکن یک طرفہ طور پر اور سارے حقائق اور شواہد کو نظرانداز کر کے صرف اس بل کو نشانۂ تنقید بنانا حق و انصاف کے منافی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ سیکولر لابی اور مرکزی حکومت حِسبہ بل کے نام پر اسلامی اصلاحی پروگرام کی طرف پیش رفت کو روکنا چاہتے ہیں۔ نیز مرکزی حکومت صوبہ سرحد میں اپنے چہیتے افراد اور جماعتوں کی شکست کا بدلہ لینا چاہتی ہے۔ ہم صاف الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں کہ دستور اور قانون سے یہ کھیل کھیلنا ان حضرات کو ان شاء اللہ بہت مہنگا پڑے گا اور متحدہ مجلس عمل اپنے اصولوں پر ہرگز سمجھوتا نہیں کرے گی اور اس قانونی جنگ اور سیاسی یلغار کا بھرپور مقابلہ کرے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ اسے کامیابی ہوگی اس لیے کہ حق اس کے ساتھ ہے ۔
ہم اس موقع پر خود متحدہ مجلس عمل کی قیادت اور کارکنوں سے بھی یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ حِسبہ بل پر بحث کے باعث ایک بنیادی سیاسی کش مکش صوبہ سرحد ہی نہیں‘ پورے ملک میں مرکزی اہمیت اختیار کرچکی ہے جو پاکستان کی شناخت‘ اس کے حقیقی نظریاتی وجود اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی اور اسلام کی اقدار اور نظامِ حیات کو قائم کرنے میں ریاست کے کردار سے متعلق ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے مؤقف کو دلیل کی قوت سے ثابت کریں اور جو افراد کنفیوژن کا شکار ہورہے ہیں‘ ان کو اپنے مؤقف کی صداقت کا قائل کریں۔ یہ دعوتی چیلنج ہمارے اور اس ملک کے مستقبل کے لیے بڑا فیصلہ کن ہے۔
ابھی حِسبہ بل کو نہ معلوم کتنے مرحلوں سے گزرنا ہوگا اور یہ جنگ نہ معلوم کیا کیا رخ اختیار کرتی ہے‘ ہمیں اس کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ یہ جنگ علمی اور فکری جنگ بھی ہے‘ اور عملی اور سیاسی بھی___ اور صاف نظر آرہا ہے کہ دستوری اور قانونی بھی۔ ہر میدان میں اور ہر محاذ پر ہمیں اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔
دوسری بات جو ہماری نگاہ میں پہلی سے بھی زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ اگر اللہ کی مدد اور عوام کی تائید سے ہم حِسبہ بل کو کتابِ قانون کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں‘ اور ان شاء اللہ ہم ضرور ہوں گے ‘تو پھر ہماری اصل آزمایش کا دور شروع ہوگا۔ اس بل کے قانون بن جانے کے بعد اس ادارے کاصحیح خطوط پر وجود میں آنا اور اس کے نتیجے میں صوبہ سرحد کے عوام کی زندگی میں مثبت تبدیلی کا نظر آنا بے حد ضروری ہے۔ یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم مندرجہ ذیل اہداف کے حصول کے لیے پوری دیانت سے کام کریں۔
۱- اس کام کے لیے صوبائی‘ ضلعی اور تحصیل کی سطح پرعلمی‘ اخلاقی اور عوامی شہرت کے اعتبار سے بہترین افراد کا انتخاب صرف میرٹ کی بنیاد پر ہو‘ جو ایمان‘ علم ‘تقویٰ اور خدمتِ خلق کے جذبے سے اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے سرگرم ہوجائیں۔ صحیح افراد کا انتخاب ہمارا پہلا بڑا چیلنج ہوگا اور دراصل ہمارا امتحان بھی۔
۲- پوری محنت کے ساتھ صوبائی‘ ضلعی اور بالآخرتحصیل کی سطح تک کام کرنے کے لیے مفصل قواعد و ضوابط (Rules of Business)کی تیاری۔ یہ اس ادارے کے صحیح خطوط پر وجود میں لانے اور عوام کو اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لائق بنانے کے لیے ضروری ہے۔
۳- ایک چیز جس کا تجربہ حالیہ بحث کے دوران بھی ہوا ہے‘ وہ یہ ہے کہ ہمارے اپنے کام میں پیشہ ور انداز کے اضافے کی ضرورت ہے۔ خلوص اولین ضرورت ہے لیکن خلوص کے ساتھ زمینی حقائق اور حالات کا ادراک اور انسانی زندگی کی پیچیدگیوں کو سامنے رکھتے ہوئے تجربات کی روشنی میں قابلِ عمل حل تلاش کرنے ہی سے حالات بدل سکتے ہیں۔ اس کام میں اعتماد کے ساتھ مشورہ اور جماعتی سوچ سے بالا ہوکر اور پوری قوم کو ساتھ لے کر چلنے کے جذبے کے ساتھ ہی کام صحیح معنی میں ثمرآور ہوسکتا ہے۔ یہ سارا کام دیانت اور للہیت کے ساتھ قاعدے اور قانون کے مطابق اور بہترین معیار کی مہارت کے ساتھ انجام دینا ہماری اولین ذمہ داری ہے۔
۴- حِسبہ کے اصل اسلامی تصور کو اس کی تفصیلات کے ساتھ اور اس کی اصل روح کے ساتھ سمجھنا اور اس سے بھی بڑھ کر دوسروں کو سمجھانا نہایت ضروری ہے۔ ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم اپنے اچھے اچھے منصوبوں کو بھی مناسب انداز میں اور بروقت ٹھیک طور پر نمایاں نہیں کرپائے۔ اگر تجارت کی زبان استعمال کی جائے تو مارکیٹ میں کامیابی کے لیے مال کا اچھا ہونا ہی کافی نہیں‘ برانڈ‘ پیکنگ‘ مارکیٹنگ اور تشہیر و ابلاغ سب اہم ہیں اور کسی ایک کا غیرمعیاری ہونا یا اس میں کوئی کسر رہ جانا‘ باقی سب کو متاثر کرتا ہے۔
ضروری ہے کہ ہمارے کارکن اور قائدین‘ سب ان تمام امور کا خیال رکھیں۔ اسلام نے جو تعلیم ہمیں دی ہے‘ اس میں اللہ سے وفاداری کے ساتھ انسانوں کے ساتھ انصاف اور مجبوروں اور کمزوروں کا ہم دم اور ہم ساز بننا مطلوب ہے۔ ایک مسلمان کی بنیادی حیثیت اللہ کے خلیفہ اور اسلام کے داعی کی ہے۔ اور داعی ایک ڈاکٹر کے مانند ہوتا ہے جس کی ساری لڑائی مرض سے ہوتی ہے تاکہ مریض کو بچاسکے۔ ہمارا رویہ اپنے مخالفین کے ساتھ بھی داعیانہ ہونا چاہیے اور ان کو بھی جیتنا ہمارا اصل ہدف ہے۔ اس لیے ہمیں انصاف کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور جس کا جو حق ہے‘ خواہ اس کا تعلق کسی بھی گروہ اور جماعت سے ہو‘ اسے اس تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ حِسبہ کی ذمہ داری خود احتسابی اور اجتماعی احتساب دونوں کے بغیر ٹھیک ٹھیک ادا نہیں ہوسکتی۔ ہم نے اس میدان میں قدم رکھ کر بہت بڑی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ اب ہم سب کا امتحان ہے۔
آیئے‘ اللہ پر بھروسا کرکے‘ خلوص‘ محنت اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے اس امتحان میں کامیابی کے لیے جدوجہد کریں کہ ہماری اصل منزل تو عوام کی خدمت اور انسانوں کے درمیان انصاف کے قیام کے ذریعے اپنے رب کی رضا کا حصول اور آخرت کی کامیابی ہے۔ اگر ہماری نگاہ اپنی اصل منزل پر ٹھیک ٹھیک جمی رہے تو ان شاء اللہ اس امتحان میں بھی ہم کامیاب ہوں گے۔وماتوفیقی الا باللّٰہ۔
نوٹ: حِسبہ کے نظری‘ عملی‘ تاریخی اور انتظامی پہلوئوں پر درجنوں کتابیں موجود ہیں۔ لیڈن‘ ہالینڈ سے شائع ہونے والی مستشرقین کی انسائیکلوپیڈیا آف اسلام ‘ پنجاب یونی ورسٹی سے شائع ہونے والی اُردو دائرہ معارف اسلامیہاور ترکی سے شائع ہونے والی تازہ ترین انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں اس موضوع پر مبسوط مقالے دیکھے جاسکتے ہیں۔
اس ادارے کی تاریخ اور تصور کی وسعت کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل کتب کا مطالعہ مفید ہوگا۔
۱- احیاء العلوم ، غزالی‘ جلد دوم
۲- الفصل فی الملل، ابن حزم‘ جلدچہارم
۳- الرسالہ فی الحسبہ‘ ابن تیمیہ
۴- الحسبۃ والمحتسب فی الاسلام از زیادۃ‘ مطبوعہ مصر‘ ۱۹۶۳ء
۵- اسلامی ریاست میں محتسب کا کردار از ڈاکٹر ایم ایس ناز‘ ادارہ تحقیقات اسلامی‘ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی‘ اسلام آباد‘ ۱۹۹۹ء
6. The Financial and Administration Organization and Development in Othman Egypt, 1517-1798 by Stanford J. Shaw, 1962.
7. The Social Structure of Islam by R. Levy, Cambridge, 1957.
8. The Administration of Justice in Medieval India by M.B. Ahmad, 1941.
9. Administration of Justice in Delhi Sultanate by M.B. Hew.
(کتابچہ دستیاب ہے‘ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور۔ قیمت: ۶ روپے)
ربع صدی قبل‘ ۱۹۷۹ء کے ایرانی انقلاب کو بیسویں صدی میں تاریخ کا رخ موڑنے والے واقعات میں شمار کیا جاتاہے۔ اس میں ایک قوم نے بے نظیر قربانیاں دے کر اس امر کا اظہار کیا کہ وہ اپنی زندگی ___انفرادی اور اجتماعی‘ ہر دائرے میں ___ اپنا نظریۂ حیات اسلا م کی روشنی میں تشکیل کریں گے اور ریاست کا نظم اس کا ذریعہ ہوگا۔ یہ دنیا کے اس رائج الوقت نظام کے خلاف اعلانِ بغاوت تھا جہاں مذہب کو ایک خانے میں محدود کرکے‘ زندگی کے تمام معاملات وحی الٰہی سے بے نیاز ہوکر‘ محض عقل و خرد کی روشنی میں انجام دیے جا رہے تھے۔
یہ انقلاب‘ ہر انقلاب کی طرح‘ مدوجزر سے گزرتا رہا۔ یہ کتابی نہیں‘ بلکہ عملی انقلاب تھا۔ اسی لیے اس نے بے شمار مسائل اور چیلنجوں کا سامنا کیا۔ مخالفوں نے اسے ناکام کرنے کی ہر تدبیر کی۔ ایرانی عوام ہر طرح کی آزمایش سے گزرے‘ لیکن دین اور جمہوریت ان کے اجتماعی خمیر میں گندھی ہوئی ہے۔ طویل عراق ایران جنگ‘ معاشی بحران اور عالمی پابندیوں کے باوجود انھوں نے اس کا دامن نہ چھوڑا اور انتخابات بروقت منعقد ہوتے رہے۔ صدر خاتمی کا انتخاب اپنے مضمرات و اثرات رکھتا تھا اور اب ۲۰۰۵ء میں محمود احمدی نژاد کی کامیابی بھی اپنے دامن میں بہت سے سبق رکھتی ہے۔
بنیادی طور پر اسے انقلاب ۱۹۷۹ء کی تجدید کہا جاسکتا ہے۔ ایک دفعہ پھر ایرانی عوام نے واضح اور فیصلہ کن انداز سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ انقلاب کی منزل اور اہداف کے حصول کے لیے یکسو ہیں۔
ایران میں ایک انقلاب ڈاکٹر مصدق کا انقلاب بھی تھا۔ لیکن امریکا نے ۱۹۵۳ء میں اسے سازشوں کے ذریعے ناکام کر دیا اور شاہ کو پھر لا بٹھایا۔ موجودہ صدارتی انتخابات میں بھی امریکا کی منصوبہ بندی یہی تھی کہ اپنا اثرورسوخ‘ اپنے میڈیا کی طاقت‘ اپنے ڈالر اور اپنے ’طاقت ور‘ صدر کے بیانات کے ذریعے ایران میں ایسی تبدیلیوں کا آغاز کردے جو بالآخر ایران کے اسلامی انقلاب کے مقاصد کو ناکام بنادے۔ امریکی ذرائع نے ترقی‘ ترقی پسندی‘ روشن خیالی اور جدت پسندی کے خوش نما نعروں کے ساتھ ہاشمی رفسنجانی اور ڈاکٹرکروبی کے دوماڈل آگے بڑھائے۔ اس صورت حال میں انقلاب کے محافظوں نے مکمل تیاری اور کمال درجے کی ہوش مندی کے ساتھ راستہ بنایا اور الحمدللہ بازی پلٹ کر رکھ دی۔ دوسرے مرحلے میں محمود احمدی نژاد کی ۷۰لاکھ ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی نے امریکا کا منصوبہ خاک میں ملا دیا۔ اب اسے الیکشن فراڈ نظر آنے لگے۔
اسلامی قوتوں کی اس کامیابی کے بعد امریکا اور مغرب یہ تصویر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ احمدی نژاد ایک عام سا ہنگامہ پرور لیڈر ہے۔ حالانکہ وہ ایک پڑھے لکھے فرد ہیں‘ پی ایچ ڈی ہیں‘ اپنے میدان کار کے ماہر ہیں۔ لوہار کے بیٹے ضرور ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سنار کی سو چوٹوں کا اپنی ایک ہی چوٹ کے مقابلہ کرنے کی روایت کو بھول گئے ہیں۔ڈاکٹر محمود احمدی نژاد تہران کے میئر کی حیثیت سے اپنی صلاحیتیں تسلیم کروا چکے ہیں۔ ان کے رویے اور بودوباش میں اسلامی روایات کا عکس ہے۔ یقینا ان کی مقبولیت میں ان امور کا بھی دخل ہے۔
ایران کے حالیہ انتخابات کا نتیجہ پوری اُمت مسلمہ اور خصوصاً احیاے دین اور اصلاحِ قیادت کی جدوجہد کرنے والی تحریکوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور غوروفکر کے لیے بعض نکات سامنے لاتا ہے۔
امام خمینی کے انقلاب کا ہدف ایک بے رحم سیکولر استبداد سے نجات اور جدیدیت کے نام پر امریکا کا کھلونا بننے سے انکار تھا‘ جب کہ حالیہ انتخابات میں عوام کے سامنے دو ایشوز تھے۔
اوّل: امریکا اور مغرب سے تعلقات درست کرنے کی طرف قدم ضرور اٹھائے جائیں‘ لیکن یہ احتیاط ملحوظ رہے کہ دروازے اس طرح نہ کھول دیے جائیں کہ اپنا اقتداراعلیٰ باقی نہ رہے۔
دوم: ۱۹۷۹ء کے انقلاب کے بعد متعدد خارجی اور داخلی محرکات کے نتیجے میں مالیاتی توازن بہتر ہونے کے بجاے بگڑ گیا۔ مزید یہ کہ ایک مفاد پرست طبقہ وجود میں آگیا‘ افراطِ زر میں بے حد اضافہ ہوا‘ اور بے روزگاری بہت زیادہ بڑھ گئی۔ انقلاب کے وقت تیل کی قیمت تقریباً ۲۰ڈالر فی بیرل تھی‘ اور اب ۶۰ ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ اس سے عامۃ الناس کے احوال میں جو بہتری آنا چاہیے تھی نہیں آئی‘ بلکہ مفاد پرست طبقہ ہی خوش حال تر ہوگیا۔ موجودہ انتخابی معرکے میں رفسنجانی اس طبقے کی علامت تھے۔ موجودہ انتخابی نتائج دراصل اس عدم توازن کے خلاف ایک بھرپور احتجاج ہے۔ نئے صدر اس بات کو سمجھتے ہیں کہ غریب افراد نے ان کو ووٹ اسی لیے دیے ہیں کہ وہ ان کے مسائل حل کریں‘ سماجی انصاف قائم کریں اور معاشی عدم توازن کو دُور کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کریں۔
گویا کہ ۲۰۰۵ء کا صدارتی انتخاب ایران کے اسلامی انقلاب کی تجدید نو کے لیے ایک ریفرنڈم کی حیثیت رکھتا ہے اور اس طرف بھی اشارہ کر رہا ہے کہ جس طرح امام خمینی اور مہدی بازرگان نے قدیم و جدید کے سنگھم کی کیفیت پیدا کر دی تھی‘ اسی طرح رہبر اعلیٰ خمینی ثانی اور ڈاکٹر محمود احمدی نژاد مل کر انقلاب کی اصل روح کے مطابق تعمیرنو کا کام سرانجام دے کر ایران کے مسائل کے حل اور امت مسلمہ کے روشن مستقبل کے حصول کے لیے نئے چراغ جلائیں گے۔ جہاں یہ ایک بڑی کامیابی ہے وہیں دراصل ایک چیلنج بھی ہے کہ ایرانی قیادت عوام کی حمایت سے انقلاب کے مقاصد کی تکمیل کرے جس میں وہ:
۱- مغرب کی گمراہی کے جواب میں‘ نظریاتی طور پر درست مؤقف پیش کرے۔
۲- مغربی نیوکلیئر اجارہ داری کے جواب میں خود انحصاری پر مبنی نیوکلیئر پروگرام پر عمل جاری رکھے۔
۳- ملک کے عوام کے معاشی مسائل بہتر نظم اور مؤثر حکمتِ عملی سے حل کرے۔
۴- اسلامی تعمیرنو کا کام شخصی آزادی اور جمہوری روایات کے ساتھ عوامی تائید اور شراکت سے انجام دے۔
ایرانی انقلاب تو آیا ہی ایمانی جذبے سے سرشارمستضعفین کے نام پر تھا۔ لیکن گذشتہ ۲۵برس میں بہت کچھ کیے جانے کے باوجود‘ بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ احمدی نژاد نے تہران کے میئر کی حیثیت سے جو تجربات حاصل کیے ہیں انھیں اب پورے ملک میں آزمانے کا موقع ہے۔ ساری دنیا کی نظریں ان پر لگی ہیں‘ اور امید ہے کہ اگست میں حلف اٹھا لینے کے بعد‘ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر وہ اپنے کام میں لگ جائیں گے‘ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے۔
بھارت اور امریکا کی عالمی اور علاقائی سطح پر اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کو مستحکم کرنے کے لیے گذشتہ دس سال سے جاری تجارتی تعاون کے بعد انفارمیشن ٹکنالوجی کے میدان میں بڑے پیمانے پر بھارت امریکا تعاون‘ اور پھر امریکا میں بھارت کی ہم نوا سیاسی لابی کا شب وروز کام بالآخر اس پر منتج ہوا کہ اکیسویں صدی میں امریکا کے عالمی قیادت کے قیام اور استحکام کے لیے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل‘ اور ایشیا میں بھارت کو مرکزی اہمیت حاصل ہو گی۔ جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے اس کے قیام ہی سے امریکا نہ صرف اسے باقی رکھنے اور مضبوط ترکرنے کے لیے اپنی ساری مالی‘ فوجی اور سیاسی قوت استعمال کر رہا ہے بلکہ مشرق وسطیٰ کو مستقلاً اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے اسرائیل کو اہم ترین آلۂ کار بنایا ہے۔ اسی پس منظر میں اسرائیل کو نیوکلیئر پاور بنایا گیا اور علاقے میں کسی دوسرے ملک کو اس کا توڑ کرنے کے لائق نہ بننے دیا گیا۔ عراق کے نیوکلیئر پروگرام پر اسرائیلی حملہ اور بالآخر عراق کو ایک فوجی قوت کی حیثیت سے ختم کر دینا اسی پالیسی کا حصہ تھا۔ ایران پر موجودہ دبائو بھی اس کا حصہ ہے اور پاکستان کی نیوکلیئر صلاحیت کو درپیش خطرات بھی اسی پس منظر میں سمجھے جا سکتے ہیں۔
یہ کھلا کھلا تضاد ہے کہ ۱۹۷۴ء میں بھارت کے پہلے ایٹمی تجربے اور پھر ۱۹۹۸ء میں بھارت کے ایٹمی دھماکے امریکا اور مغربی اقوام کے لیے کوئی خطرہ نہ سمجھے گئے اور بڑا ہی نرم ردعمل سامنے آیا لیکن جیسے ہی پاکستان نے اپنے دفاع کو مستحکم کرنے کے لیے جوابی دھماکے کیے تو امریکا اور ساری مغربی دنیا اس کے خلاف صف آرا ہوگئی۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں بھارت امریکا گٹھ جوڑ نے گذشتہ تین سالوں میں جو شکل اختیار کی ہے اس کا سمجھنا غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا تعلق پاکستان کے دفاع، سلامتی اور علاقائی کردار سے ہے۔ نیز اس کا بڑا گہرا تعلق ایشیا اور عالمی افق پر چین کے کردار سے ہے ۔یہ مسئلہ صرف پاکستان اور چین کا ہی نہیں بلکہ پورے شرق اوسط اور مسلم امہ کے مستقبل سے متعلق ہے۔ اس لیے اس کی حقیقت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
اس نئی صف بندی اور گٹھ جوڑ کے نقش و نگار کو جن عناصر نے موجودہ شکل دی ہے ان میں بھارت میں امریکا کے سابق سفیر (جو اس وقت نیشنل سیکورٹی کونسل میں اہم ذمہ داری ادا کر رہے ہیں) اسرائیل کی حکومت ‘ امریکا میں اسرائیلی لابی، امریکا میں پائے جانے والے مرکزی اہمیت کے تھنک ٹینکس اور امریکا میں بھارت کے دانشوروں اور تارکین وطن کی وہ تنظیمیں ہیں جو پالیسی سازی کو متاثر کرنے کا کام کر رہی ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان‘ مسلم ممالک کی حکومتیں اور وہ پاکستانی اور مسلمان جو امریکا میں ہیں وقت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی مؤثر کارروائی نہیں کرسکے۔
گذشتہ تین سالوں میں‘ خصوصیت سے ۱۱/۹ کے بعد‘ بھارت اور اسرائیل‘ اور بھارت اور امریکا کا تعاون معاشی میدان سے بڑھ کر فوجی اور آئندہ کے لیے دفاعی اہمیت رکھنے والے سازوسامان کی مشترک پیداوار سے متعلق ہوگیا ہے۔ نیز اس میں سب سے زیادہ اہم چیز ہائی ٹیک (Hi-tech) میدان میں ٹکنالوجی کی منتقلی اور مشترک پیداوار کے منصوبے ہیں جن کا کوئی وجود پچھلے پچاس سال میں نہیں تھا۔ اس میدان میں نہایت ہی حساس چیزوں کے بارے میں بھی تعاون شروع ہو گیا ہے جن کا تعلق ہائی ٹیک کمپیوٹر‘ نیوکلیئر ٹکنالوجی اور میزائیل ٹکنالوجی سے ہے جن میں PAC-II اور PAC-III سب سے زیادہ اہم ہیں۔ اس عمل کا ایک متعین شکل میں آغاز بھارت کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور میں ہوگیا تھا لیکن سب سے زیادہ ٹھوس اور دُوررس پیش رفت گذشتہ ایک سال میں ہوئی ہے۔ امریکا اور بھارت کے اس نئے گٹھ جوڑ کے نمایاں پہلو یہ ہیں:
۱- بھارت کو امریکا ایک علاقائی طاقت ہی نہیں بلکہ ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ اسے اس کردار کو ادا کرنے کے لائق بنانے میں اس کا مضبوط ترین ممد اور معاون ہو گا۔ اس میں خاص طور پر یہ پہلو سامنے رہے کہ امریکا یہ چاہتا ہے کہ چین کے عالمی کردار کو محدود (contain) کرنے کے لیے اس علاقے میں بھارت کلیدی کردار ادا کرے۔اس کے لیے امریکا اس کی پشتی بانی کرے اور اسے اس لائق بنائے کہ وہ چین کاراستہ روک سکے۔
۲۔ اس مقصد کے لیے جو معاہدہ بھارت کے وزیر دفاع اور امریکا کے ڈیفنس سیکرٹری کے درمیان ۲۸ جون ۲۰۰۵ء کو ہوا ہے جسے ۱۰ سال کا دفاعی معاہدہ قرار دیا گیا ہے وہ بڑا اہم ہے۔ اس میں تین امور میں زیادہ توجہ کے لائق ہیں۔
۱- امریکا کی طرف سے بھارت کو فوجی سازوسامان کی فراہمی جس میں امریکا کا جدید اسلحہ اور سازوسامان بھی شامل ہے۔ پاکستان کو تو اب متروک ایف-۱۶ دینے کی بات ہو رہی ہے لیکن بھارت کو ایف-۱۶ ہی نہیں بلکہ ایف-۱۸ اور پٹریاٹ میزائل کی بھی اعلیٰ ترین شکل دی جارہی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کی نیوکلیئر سدجارحیت غیر مؤثر کی جا سکتی ہے۔
۲- دوسرا پہلو یہ ہے کہ صرف اعلیٰ ترین اور تباہ کن ترین فوجی سازوسامان ہی بھارت کو نہیں دیا جا رہا ہے بلکہ بھارت کے ساتھ اس کی مشترک پیداوار کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے جس کے معنیٰ یہ ہوں گے ٹکنالوجی عملاً منتقل ہوگی اور بھارت اس پوزیشن میں آجائے گا کہ آیندہ یہ اور اس نوعیت کا اسلحہ اور فوجی سازوسامان خود تیار کر سکے اور اس طرح اس کا امریکا پر انحصار باقی نہ رہے۔ یہ سبق بھارت نے پاکستان کے اس تلخ تجربے سے سیکھا ہے جو ایف-۱۶ لینے کے بعد امریکا کی پابندیاں لگنے کے نتیجے میں پاکستان کو بھگتنا پڑیں اور آج پاکستان وہی غلطی کرنے پر تلا ہوا ہے۔
۳- تیسرا اور نہایت اہم پہلو یہ ہے کہ بھارت نے اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس معاہدے کے ذریعے یہ تسلیم کیا ہے کہ بھارتی فوجیں امریکی کمانڈ میں دنیا کے کسی بھی حصے میں ’’مشترک مفاد‘‘ کے لیے کام کرنے کو تیار ہوں گی۔ یہ ایک طرف اقوام متحدہ کے نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے کہ ایک خودمختار ملک کے لیے جائز صورت یہی تصور کی جاتی ہے کہ وہ ایسی بین الاقوامی فوجی مہم جوئی میں شرکت کرے جو اقوام متحدہ کی کمانڈ میں ہوں۔
۴- نیوکلیئر میدان میںبھارت اور امریکا کے کھلے کھلے تعاون کو ۱۰ سالہ معاہدے میں ایک شق کے طور پر درج کیا گیا ہے اور اب بش من موہن ملاقات کے اعلامیے میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس کے صاف معنی ہیں کہ امریکا نے بھارت کو این پی ٹی پر دستخط کیے بغیر ہی نیوکلیئر طاقت تسلیم کرلیا ہے اور اس سلسلے میں ہر طرح سے بھارت سے تعاون کر رہا ہے‘ جب کہ پاکستان کو نان ناٹو حلیف قرار دیا گیا ہے اور اپناگندا کام (dirty work) پاکستان سے کروایا جا رہا ہے اور اس کے باوجود اسے نیوکلیئر بلیک میل کا نشانہ بنایاجا رہا ہے۔ پاکستان کی موجودہ قیادت اس واضح اور بیّن فرق کو سمجھنے اور اس پر مؤثر ردعمل اختیار کرنے سے اجتناب کرتی ہے تو پاکستان کی سلامتی کے لیے اس سے بڑا خطرہ اور کوئی نہیں۔
امریکا اس اصول سے مسلسل انحراف کر رہا ہے اور عراق پر حالیہ حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکا اقوام متحدہ اور عالمی قانون کو نظرانداز کرکے پہلکاری کرتے ہوئے خود فوجی کارروائی کرسکتا ہے۔ بھارت اور امریکا کے اس معاہدے کی رو سے اقوام متحدہ کی قیادت اور اجازت کے بغیر بھارت اور امریکا جس چیز کو اپنا مشترک مفاد سمجھیں اس کے لیے امریکی کمانڈ میں بھارتی فوجیں سرگرم عمل ہو سکتی ہیں۔ یہ بھارت کی خارجہ پالیسی میں بڑی جوہری تبدیلی ہے۔
اس معاہدے اور اس کے مضمرات پر پاکستان ہی نہیں، چین اور تمام اسلامی ممالک میں بالخصوص اور دنیا کے ان تمام ممالک میں بالعموم جو دنیا کو امریکا کی بالادستی سے محفو ظ رکھنا چاہتے ہیں اور جن کا مقصد یہ ہے کہ عالمی امن ایک عالمی منصفانہ نظام کے تحت قائم ہو، گہرا غور وفکر ہونا چاہیے اور خارجہ پالیسی پر نظرثانی کے باب میں ضروری مشورے ہونے چاہییں۔ ان تمام ممالک کے لیے ضروری ہے کہ اپنی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیں اور ایسے متبادل انتظامات کی فکر کریں جن سے وہ اپنی آزادی، سلامتی اور حاکمیت کا مؤثر دفاع کر سکیں اور امریکا، بھارت اور اسرائیل کے اس گٹھ جوڑ سے جو خطرہ دنیا کی اقوام کو لاحق ہے اس کا مقابلہ کر سکیں۔
آزادی کا لفظ جب ہماری زبان پر آتا ہے تو ہمارا ذہن فوراً سیاسی اِستقلال اور اجنبی تسلُّط سے آزادی کی جانب منتقل ہوجاتا ہے۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سیاسی آزادی بھی اللہ تعالیٰ کی ایک خاص نعمت ہے جس کی اسلام کی نگاہ میں بہت بڑی اہمیت ہے‘ کیونکہ اسلام جس نظریۂ حیات اور جس نظامِ زندگی کو دنیا میں برپا کرنا چاہتا ہے‘ اس کے قیام و استحکام کے لیے مسلم معاشرے کا بااختیار اور بیرونی اثرونفوذ سے آزاد ہونا بالکل ناگزیر ہے۔ لیکن یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کے نقطۂ نظر سے مسلمانوں کے ذہن و فکر کا دوسروں کی غلامی سے آزاد ہونا اوّلین مقصدی اہمیت رکھتا ہے‘ اور سیاسی آزادی کی جتنی بھی اہمیت ہے اسی وجہ سے ہے کہ وہ فکروعمل کے استقلال کا ایک ناگزیر ذریعہ ہے۔
[۵۸] سال قبل ہم پاکستان کے مسلمان دہری غلامی میں مبتلا تھے۔ ہم سیاسی حیثیت سے بھی غیروں کے محکوم تھے اور ذہنی حیثیت سے بھی۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اغیار کی سیاسی محکومی سے تو آزاد کر دیا لیکن ان کی ذہنی غلامی اور ان کی غیراسلامی اقدار کے تسلط اور ان کی فکری محکومی میں جس طرح پہلے ہم مبتلا تھے‘ افسوس ہے کہ ابھی تک ہمیں اس سے رُستگاری نصیب نہ ہو سکی۔ ہماری درسگاہیں‘ ہمارے دفاتر‘ ہمارے بازار‘ ہماری سوسائٹی‘ ہمارے گھر‘ حتیٰ کہ ہمارے جسم تک زبانِ حال سے شہادت دے رہے ہیں کہ ان پر مغرب کی تہذیب‘ مغرب کے افکار‘ مغرب کی اقدار اور مغرب کے اخلاقی تصورات اور علمی نظریات حکمران ہیں۔ ہم مغرب کے دماغ سے سوچتے ہیں‘ مغرب کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں‘ مغرب ہی کی بنائی ہوئی راہوں پر چلتے ہیں‘ خواہ اس کا شعور ہمیں ہو یا نہ ہو۔ یہ مفروضہ ہمارے دماغوں پر مسلَّط ہے کہ صحیح وہ ہے جسے مغرب نے صحیح سمجھا ہے اور غلط وہ ہے جسے مغرب نے غلط قرار دیا ہے۔ حق‘ صداقت‘ تہذیب‘ اخلاق‘ شائستگی‘ ہر شے کا معیار ہمارے نزدیک وہی ہے جو مغرب نے مقرر کر رکھا ہے۔
سیاسی آزادی کے باوجود آخر اس ذہنی غلامی کا سبب کیا ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ ذہنی آزادی اور غلبہ و تفوق کی بنا دراصل فکری اجتہاد اور علمی تحقیق پر قائم ہوتی ہے۔ جو قوم اس راہ میں پیش قدمی کرتی ہے وہی دنیا کی راہنما اور قوموں کی اِمام بن جاتی ہے اور اسی کے افکار دنیا پر چھا جاتے ہیں۔ اور جو قوم اس راہ میں پیچھے رہ جاتی ہے اسے مقّلِد اور متّبع ہی بننا پڑتا ہے۔ اس کے افکار اور معتقدات میں یہ قوت باقی نہیں رہتی کہ وہ دماغوں پر اپنا تسلّط قائم رکھ سکیں۔ مجتہد اور محقق قوم کے طاقت ور افکار و معتقدات کا سیلاب انھیں بہا لے جاتا ہے اور ان میں اتنا بل بوتا نہیں رہتا کہ وہ اپنی جگہ پر ٹھیرے رہ جائیں۔ مسلمان جب تک تحقیق و اجتہاد کے میدان میں آگے بڑھتے رہے‘ تمام دُنیا کی قومیں ان کی پیرو اور مقلِّد رہیں۔ اسلامی فکر ساری نوعِ انسانی کے افکار پر غالب رہی۔ حُسن اور قُبح‘ نیکی اور بدی‘ غلط اور صحیح‘ شائستہ اور غیرشائستہ کا جو معیار اسلام نے مقرر کیا وہ تمام دنیا کے نزدیک معیار قرار پایا اور قصداً یا اضطراراً دنیا اپنے افکار و اعمال کو اسی معیار کے مطابق ڈھالتی رہی۔ مگرجب مسلمانوں میں اربابِ فکر اور اصحابِ تحقیق پیدا ہونے بند ہوگئے‘ جب انھوں نے سوچنا اور دریافت کرنا چھوڑ دیا‘ جب وہ اکتسابِ علم اور اجتہادِ فکر کی راہ میں تھک کر بیٹھ گئے تو گویا انھوں نے خود دنیا کی راہنمائی سے استعفا دے دیا۔ دُوسری طرف مغربی قومیں اس راہ میں آگے بڑھیں۔ انھوں نے غوروفکر کی قوتوں سے کام لینا شروع کیا‘ کائنات کے راز ٹٹولے اور فطرت کی چھپی ہوئی طاقتوں کے خزانے تلاش کیے۔ اس کا لازمی نتیجہ وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ مغربی قومیںدنیا کی راہنما بن گئیں اور مسلمانوں کو اسی طرح ان کے اقتدار کے آگے سرِتسلیم خم کرنا پڑا جس طرح کبھی دنیا نے خود مسلمانوں کے اقتدار کے آگے خم کیا تھا۔
اب اسے بدقسمتی کے سوا اور کیا کہیے کہ مغربی تہذیب نے جس فلسفے اور سائنس کی آغوش میں پرورش پائی‘ وہ پانچ چھ سو سال سے دہریت‘ الحاد‘ لامذہبی اور مادّہ پرستی کی طرف جا رہا ہے اور جس صدی میں یہ نئی تہذیب اپنی دہریت اور مادّہ پرستی کی انتہا کو پہنچی‘ ٹھیک وہی صدی تھی جس میں مراکش سے لے کر مشرق بعید تک تمام اسلامی ممالک مغربی قوموں کے سیاسی اقتدار اور فکری غلبے سے بیک وقت مفتُوح اور مغلوب ہوئے۔ مسلمانوں پر مغربی تلوار اور قلم دونوں کا حملہ ایک ساتھ ہوا۔ جو دماغ مغربی طاقتوں کے سیاسی غلبے سے مرعوب اور دہشت زدہ ہوچکے تھے‘ ان کے لیے یہ مشکل ہوگیا کہ مغرب کے فلسفے و سائنس اور ان کی پروردہ تہذیب کے رُعب داب سے محفوظ رہتے۔
اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کا سوادِاعظم اب بھی اسلام کی تہذیب اور اس کی رُوح اور اس کے اصولوں سے منحرف ہو رہا ہے۔ ملکی آزادی اور سیاسی اِستقلال کے باوجود مغرب کا ذہنی اور تہذیبی تسلُّط ہمارے ذہنوں کی فضا پر چھایا ہوا ہے اور اس نے نگاہوں کے زاویے اس طرح بدل دیے ہیں کہ دیکھنے والوں کے لیے مسلمان کی نظر سے دیکھنا اور سوچنے والوں کے لیے اسلامی طریق پرسوچنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ حالت اس وقت تک دُور نہ ہوگی جب تک مسلمانوں میں آزاد اہلِ فکر پیدا نہ ہوں گے۔ اب ایک اسلامی نشاتِ ثانیہ کی ضرورت ہے۔
اگر ہم دوبارہ دُنیا کے راہنما بننا چاہتے ہیں تو اس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفکِّر اور محقق پیدا ہوں جو فکرونظر اور تحقیق و اِکتشاف کی قوت سے اُن بنیادوں کو ڈھا دیں جن پر مغربی تہذیب کی نظریاتی عمارت قائم ہوئی ہے۔ اسلام کے بنائے ہوئے طریق فکرونظر پر آثار کے مشاہدے اور حقائق کی جستجو سے ایک نئے نظامِ فلسفہ کی بنا رکھیں‘ ایک نئی حکمتِ طبیعی (natural science) کی عمارت اٹھائیں جو کتاب و سنت کی ڈالی ہوئی داغ بیل پر اُٹھے۔ ملحدانہ نظریے کو توڑ کر خدا پرستانہ نظریے پر فکروتحقیق کی اَساس قائم کریں اور اس جدید فکروتحقیق کی عمارت کو اس قوت کے ساتھ اٹھائیں کہ وہ تمام دنیا پر چھا جائے اور دنیا میں مغرب کی مادّی تہذیب کے بجاے اسلام کی حقّانی تہذیب جلوہ گر ہو۔ (مکاتیب سیدابوالاعلٰی مودودی‘ مرتبہ: عاصم نعمانی‘ حصہ اوّل‘ ص ۲۴۲-۲۴۶)
غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ البقرہ کو کچھ متعین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن کے اپنے موضوع ہیں لیکن ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ ان حصوں کو مزید ذیلی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ یہ تقسیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں بتائی گئی ہے‘ لیکن غوروفکر اور تفہیم کو بہت آسان کردیتی ہے۔ میری فہم کے مطابق سورت کے ایسے سات حصے ہیں:
حصہ اوّل: آیات ۱ تا ۳۹ (۳۹ آیات)۔ ہدایت کی بنیادیں۔
حصہ دوم: آیات ۴۰ تا ۱۲۳ (۸۴ آیات)۔ بنی اسرائیل‘ ایک مسلم اُمّت زوال کی کیفیت میں‘ عہدشکنی اور قلب و عمل کے امراض۔
حصہ سوم: آیات ۱۲۴ تا ۱۵۲ (۲۹ آیات)۔ پیغمبرانہ مشن اُمّت مُسلمہ کے سپرد کرنا۔
حصہ چہارم: آیات ۱۵۳ تا ۱۷۷ (۲۵ آیات)۔ کلیدی انفرادی خصائص‘ دین اور شریعت کے بنیادی اصول۔
حصہ پنجم: آیات ۱۷۸ تا ۲۴۲ (۶۵ آیات)۔ اجتماعی زندگی کے اصول‘ قوانین اور ادارے (عبادت‘ جان و مال اور خاندان کا تقدس)۔
حصہ ششم: آیات ۲۴۳ تا ۲۸۳ (۴۱ آیات)۔ مشن کی تکمیل کی کلید: جہاد اور انفاق۔
حصہ ہفتم: آیات ۲۸۴ تا ۲۸۶ (۳ آیات) ۔اخلاقی اور روحانی ذرائع۔
ھدایت کی بنیادیں (آیات: ۱- ۳۹)
ان آیات میں ان لوگوں کی صفات بیان کی گئی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے فائدہ اٹھاتے ہیں‘ اور ان کی بھی جویہ فائدہ نہیں اٹھاتے۔
یہ بڑی اہم بات ہے کہ سورت کا آغاز اس اعلان سے ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اس کی سند کے ساتھ ہے۔ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ فِیْہِ ،یہ اللہ کی کتاب ہے اس میں کوئی شبہ نہیں (آیت: ۱)۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ اعلان پورے قرآن میں بہت سی سورتوں کے آغاز اور درمیان میں اکثر دہرایا گیا ہے۔ اس طرح قاری کامل احترام‘ ذوق طلب اور سمجھنے اور سرِتسلیم خم کرنے کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ کتاب کس مقصد سے نازل کی گئی ہے؟ ہدایت دینے کے لیے۔ کس کو ہدایت دینی ہے اور کس بات کی ہدایت دینی ہے؟ ہدایت ان کے لیے جو مُتّقین ہیں‘ جن میں نیکی ‘ خدا کا شعور‘ یعنی تقویٰ کی صفت پائی جاتی ہے‘ یا ان کے لیے ہدایت جو مُتّقین بننا چاہتے ہیں۔
مُتّقین کی صفات کچھ تفصیل سے بیان کی گئی ہیں (آیت ۲ تا ۵)۔ یہ ہم کو یہاں روک نہ لیں‘ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وہ بنیادیں ہیں جن پر آگے قرآن مُتّقین کا تفصیلی بیان تعمیر کرتا ہے۔
ھُدًی لِلمُتّقینکا مطلب عام طور یہ سمجھا جاتا ہے کہ صرف وہی لوگ جو تقویٰ اور اس سے پیدا ہونے والی صفات رکھتے ہیں قرآنی ہدایت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اگر اسے ایک لازمی پیشگی شرط سمجھا جائے تو ان صفات کو ان کے اصل لغوی مفہوم میں سمجھنا چاہیے نہ کہ مکمل قرآنی مفہوم میں۔ ورنہ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہدایت پانے کے لیے آدمی کو پہلے ہی ہدایت یافتہ ہونا چاہیے۔ ایک مفہوم میں یہ معانی بھی درست ہیں۔ اس لیے کہ تقویٰ اختیار کرنے کے امکانات لامحدود ہیں۔ ابتدا سے ترقی یافتہ اور اعلیٰ مراحل تک جانے کے لیے کسی نہ کسی درجے میں تقویٰ موجود ہونا چاہیے۔
وہ لوگ جنھوں نے ہدایت پائی ہے‘ اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے‘ اور انھیں ان کے حصے کا تقویٰ عنایت کرتا ہے۔ (محمد ۴۷:۱۷)
مگر ایک بامعنی اور بہتر مفہوم یہ ہے کہ قرآن کی ہدایت افراد اور افراد کے گروہوں یا قوموں کو مُتّقین بننے کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اسی طرح جیسے کہ ہم کہتے ہیں یہ ایم اے کا کورس ہے تو ہمارا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس کورس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایم اے ہونا پیشگی شرط ہے۔ ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ کورس ایک آدمی کو ایم اے تک پہنچا دے گا۔ پس ابتدائی آیات (۱-۵) بیان کرتی ہیں کہ قرآن کس طرح افراد اور قوموں کو مُتّقین بنانے کے لیے آیا ہے۔ صراطِ مستقیم بھی تقویٰ کی زندگی ہے۔ آگے ہم دیکھیں گے کہ تقویٰ کی زندگی اور اس دنیا میں اور آخرت میں اس کے خوش گوار نتائج قرآن کا مستقل موضوع ہیں۔
اصل لغوی مفہوم میں پیشگی شرط کے طور پر تقویٰ سے مراد صحیح اور غلط کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت‘ اور وہ باطنی طاقت ہے جس سے آدمی صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط تسلیم کرے اور جس بات کو غلط تسلیم کرے اس سے اپنے آپ کو بچانے پر قادر ہو۔
پھر ان لوگوںکا بیان ہے جو اللہ کی ہدایت سے ہرگز فیض یاب نہ ہوں گے۔
اس میں سب سے پہلے وہ لوگ ہیں جو اپنی مرضی سے قرآن کو اللہ کا کلام ماننے سے انکار کرنے پر مُصر ہیں۔ نتیجتاً ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے (آیات: ۶-۷)۔ پھر وہ لوگ ہیں جو بظاہر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں مگر درحقیقت ایمان نہیں رکھتے (آیات: ۸-۲۰)۔ ان کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک سرے پر وہ لوگ ہیں جو دشمن ہیں اور مذاق اڑاتے ہیں‘ فساد پھیلاتے ہیں اور انھوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی کا سودا کرلیا ہے (آیت:۱۶)۔ یہ اپنی مرضی سے منافق ہیں: اندھے بہرے اور گونگے‘ یہ لَوٹنے والے نہیں ہیں (آیت: ۱۸)۔ دوسرے سرے پر وہ لوگ ہیں جو ایمان تو رکھتے ہیں لیکن ایمان جب آزمایش اور قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے تو ثابت قدم نہیں رہتے۔ یہ ایمان اور ارادے کے ضعف کی وجہ سے منافق ہیں: جب روشنی ہوتی ہے تو چلتے ہیں اور جب ان کے گرد تاریکی چھا جاتی ہے تو وہ ٹھیر جاتے ہیں۔ (آیت: ۲۰)
اس کے بعد یہ سورت ساری انسانیت کو قران کے مرکزی پیغام کی طرف بلاتی ہے: صرف اللہ کی عبادت کرو‘ کسی کو اس کے برابر یا شریک نہ بنائو (آیات :۲۱-۲۲)۔ اس پیغام کو مستند بنانے کے لیے یہ قرآن کے من جانب اللہ ہونے کو اور اس طرح رسولؐ کی حقانیت کو ثابت کرتی ہے (آیات ۲۳-۲۵)۔ ان دونوں کا رشتہ زندگی کے مقصد اور معانی کے ساتھ جوڑنے کے لیے یہ زندگی بعد موت کی حقیقت کو واضح کرتی ہے (آیات: ۲۸-۲۹)۔ درمیان میں ان لوگوں کی فکر اور اخلاق کے امراض بیان کیے جاتے ہیں جو قرآن سننے کے باوجود گم کردہ راہ ہیں۔ وہ قرآن خصوصاً اس کی مثالوں پر سوال اٹھاتے ہیں‘ شبہ ظاہر کرتے ہیں اور جھگڑتے ہیں: وہ عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑتے ہیں‘ اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے ‘ اسے کاٹتے ہیں‘ اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ (آیت: ۲۷)
اس طرح ہم ان آیات (۲۱ تا ۲۹) میں قرآن کے مکمل پیغام کا رواں خلاصہ پاتے ہیں۔
آیات ۳۰ تا ۳۹ میں تخلیق انسانی کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ اس سے قرآن کا تصورِ جہاں‘ عالمی نظریہ(world view) اور فطرتِ انسانی کا اس کا تصور واضح ہوتا ہے۔ انسان کو علم اور ارادے کی آزادی دی گئی ہے۔ وہ زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے۔ اس لیے اس کو اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدود اور ہدایات کے اندر زندگی گزارنا چاہیے۔ ایسا کرنے کے لیے اسے خیر اور شر کے درمیان انتخاب کرنے کی مسلسل کش مکش کا سامنا ہے۔ وہ اخلاقی طور پر ذمہ دار اور ایک آزاد ہستی ہے‘ اس لیے اس سے اس کش مکش میں گناہ کرنے کا امکان ہے۔ خیروشر کی اس کش مکش کا مقابلہ کرنے کے لیے اور اپنے گناہوں پر قابو پانے کے لیے اس کو اللہ کی طرف سے دو نعمتیں دی گئی ہیں۔ اوّل: توبہ قبول کرنے کا وعدہ‘ یعنی جب بھی گناہ کرنے والا اس کی طرف پلٹ کر آئے اسے معاف کرنے کا وعدہ‘ جیسے اس نے حضرت آدم ؑکو معاف کیا (آیت: ۳۷)۔ دوم: اللہ کی طرف سے ہدایت بھیجنے کا وعدہ‘ جیساکہ اس نے حضرت آدم ؑکو بتایا تھا۔ (آیت: ۳۸)
ان لوگوں کے بیان کے فوراً بعد جو قرآن کی ہدایت سے فائدہ اٹھائیں یا نہ اٹھائیں‘ پوری انسانیت کو خالق و مالک‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دے کر اور پھر تخلیق انسانی کے واقعے کو بیان کرکے قرآنی تصورِ جہاں‘ انسانی نفسیات اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور معافی پر انسان کے مکمل انحصار (آیات: ۳۰-۳۹) کا ذکر کرتے ہوئے البقرہ کا رخ ۸۴ طویل آیات میں‘ جو ایک تہائی سورت کے برابر ہیں‘ اپنے وقت کی یہودی قوم‘ بنی اسرائیل کی طرف مڑجاتا ہے۔ وہ اُنھیں اللہ تعالیٰ کے بے پایاں انعامات کی یاد دلاتا ہے اور ان کی ناشکری‘ احکامات سے اُن کی سرتابی اور ان کے قلب اور ایمان و عمل کے بڑے بڑے امراض کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ مختصراً‘ یہ اللہ تعالیٰ سے عہدشکنی کی ایک طویل داستان ہے۔ قرآن ایسا کیوں کرتا ہے؟ وہ بالکل آغاز ہی میں اتنے اہم موقع پر کیوں بنی اسرائیل سے اتنی تفصیل سے بحث کرتا ہے؟ سب سے پہلے ہم اس اہم سوال پر غور کرتے ہیں۔
کیا یہ مدینے میں یہودیوں کی موجودگی کی وجہ سے ہے؟ یقینا مدینے میں یہودی موجود تھے۔ انھیں اسلام کی طرف دعوت دی جانی تھی اور قرآن کو ان کی جہالت سے‘ اور رسولؐ اللہ اور ان کے پیغام کے ساتھ ان کا جو رویہ تھا‘ اس سے بحث کرنا تھی۔ اس لیے یقینا یہ ان آیات کی ایک وجہ یا شانِ نزول تھی۔ لیکن یہ اس حصے کے طول‘ اس کے موضوعات اور اُس کے سیاق کی توجیہہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔
کیا یہ جیساکہ بہت سے مستشرقین کا خیال ہے‘ رسولؐ اللہ کو تسلیم کرنے سے یہودیوں کے شدید انکار اور شدید مخالفت پر مایوسی اور غصے کی وجہ سے ہے؟ اس مؤقف کی تائید میں کوئی تاریخی گواہی یا روایت نہیں ملتی۔ قرآن اس طرح کا کلام نہیں ہے جس کا مقصد اپنے دشمنوں کے خلاف غصہ نکالنا ہواور پھر اس کو بالکل آغاز ہی میں رکھ دے‘ تاکہ آنے والے سب زمانوں میں اس کے تمام قارئین اس کا مشاہدہ کریں۔ یہاں اس طرح کا غصہ اور مذمت نہیں ہے جس طرح کا ہم بائبل میں پاتے ہیں۔ رسولؐ اللہ یہودیوں سے معاملہ کرنے میں بہت آگے تک گئے‘ اور پوری تاریخ میں مسلمانوں نے ان سے ہمیشہ بہت اچھا سلوک کیا۔
اس کا اصل مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے یہودیوں کی مذمت کرنا معلوم نہیں ہوتا‘ بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دراصل تمام زمانوں کے مسلمانوں کے لیے آئینہ فراہم کیا گیا ہے‘ تاکہ وہ اسے اپنے سامنے رکھ کر اپنے حالات اور تقدیر کا صحیح عکس دیکھ سکیں۔ قرآن کا بیان بنی اسرائیل کی اپنے مشن کو پورا کرنے میں ناکامی کے بارے میں فیصلہ بھی صادر کرتا ہے اور اس طرح اللہ کے مشن کو جاری رکھنے کے لیے محمد رسولؐ اللہ کی قیادت میں ایک نئی مسلم اُمّت کو ان کی جگہ دینے کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔
قرآن میں تاریخ کا بیان تاریخ کی خاطر نہیں ہے۔ مخصوص اقوام کے نام دیے گئے ہیں لیکن یہ نام محض عنوانات ہیں۔ ان کے حالات کا تذکرہ دراصل یہ بتانے کے لیے ہے کہ ان اقوام کے ساتھ کیا گزری اور کیوں گزری۔ ان سے دوسرے لوگوں کو سبق سیکھنا چاہیے۔
مسلمان ایک نئی ظہور پذیر اُمّت تھے جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے امین اور انبیاے کرام‘ خصوصاً آخری نبی ؐ کے مشن کے علم بردار کی حیثیت سے مقرر کیے گئے تھے جیسا کہ اس سے پہلے بنی اسرائیل تھے۔ ان کی تاریخ کو ابھی ظاہر ہونا تھا اور مستقبل کی تاریخ کے بارے میں کوئی پیش گوئی‘ مثال‘ سبق یا تنبیہ نہیں ہوسکتی تھی۔ عاد و ثمود کے لوگ مسلمان نہیں تھے لیکن بنی اسرائیل نے تو مسلمانوں کی طرح توحید کا پیغام قبول کیا تھا۔ وہ مسلمانوں کی طرح اس پیغام کی گواہی کے مشن پر سرفراز کیے گئے تھے۔ درحقیقت وہ اپنے وقت کی مسلم اُمّت تھے لیکن زوال کی حالت میں۔ اس لیے ان کی تاریخ اور رویّے مطالعے کے لیے بہترین موضوع تھے جو مسلمانوں کے سامنے شروع ہی میں رکھے جاتے۔ وہ اس آئینے میں وہ سب کچھ دیکھ سکتے تھے جو ان کے ساتھ پیش آسکتا تھا۔ مقصد یہودیوں کو موردالزام ٹھیرانا نہیں‘ بلکہ مسلمانوں کو تنبیہ کرنا ہے کہ ان کے نقشِ قدم پر نہ چلیں۔ یہ آئینہ مسلمانوں کو دکھاتا ہے کہ کیا‘ کہاں اور کیوں غلطی ہوسکتی ہے اور اس کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔ جیساکہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: تم بنی اسرائیل کے راستوں پر چلو گے‘ قدم بہ قدم۔ (مسلم)
اس لیے اگرچہ خطاب بنی اسرائیل سے ہے‘ اصل مخاطب مسلمان ہیں جو حامل قرآن اور اس کے امین ہیں۔ اس روشنی میں پڑھیے‘ کُل کی کُل ۸۴ آیات زندہ ہوکر سامنے آجاتی ہیں۔ وہ ابھی اور اسی وقت ہم مسلمانوں کے لیے پُرمعانی ہوجاتی ہیں۔ ہمیں نظرآتا ہے کہ اسرائیلی تاریخ کے مخصوص واقعات‘ مثلاً سنہرا بچھڑا ہمارے ماضی اور حال کے واقعات ہیں۔
اگر ہم اس حصے کا زیادہ غور سے مطالعہ کریں تو اسے باہم مربوط تین ذیلی حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ اس طرح تو ہم اسے بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔
پہلا ذیلی حصہ (آیات ۴۰- ۴۶) بنی اسرائیل سے ایک عام دعوتی خطاب ہے۔ یہ حصہ اس بارے میں نہایت قیمتی ہدایت فراہم کرتا ہے کہ ایک زوال پذیر مسلم اُمّت کے سامنے دعوت کس طرح پیش کی جائے۔ یہ بتاتا ہے کہ موضوعات کیا ہوں‘ انداز کیا ہو‘ ترجیحات کیا ہوں‘ اور کن امور پر زور دیا جائے۔یہ ایسی اُمّت کے احیا کے طریقے اور پروگرام کے لیے نشاناتِ راہ بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ کھول کھول کر بتاتا ہے کہ دعوت و اصلاح کے کام میں کس حکمت کو اختیار کیا جائے۔ دیکھیے کہ بنی اسرائیل پر کسی بڑے حملے کے بغیر‘ ان کی بڑی بڑی کمزوریاں واضح ہو جاتی ہیں۔
قرآن سب سے پہلے اس نعمت کو یاد دلاتا ہے جو اللہ نے ہدایت کی صورت میں انھیں عطا کی اور انھیں اُبھارتا ہے کہ وہ اس کے لیے اللہ کے شکرگزار ہوں۔ پھر وہ انھیں پُرزور طریقے پر دعوت دیتا ہے کہ اس ہدایت کے حوالے سے اللہ سے اپنے عہد کو پورا کریں۔ ہماری اُمّت کے احیا کے لیے بھی اگر کوئی تحریک ہو تو یہ یاددہانی اور دعوت اس کا آغاز اور حقیقی بنیادی پتھرہونا چاہیے۔ پھر وہ ان کو دعوت دیتا ہے کہ اپنے مسلمان ہونے کے دعوے کی بنا پر ‘انھیں ایمان کا راستہ اختیار کرنے والوں کا ہراول دستہ ہونا چاہیے۔ یہ ایمان‘ آخری رسولؐ اور جو کتاب انھیں دی گئی ہے اسے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے پر مرکوز ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ ایمان کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو‘ نفاق کو بھی جڑ سے اُکھاڑ پھینکو‘ اس لیے کہ نفاق ایمان کے لیے سرطان کی طرح ہے۔ لیکن دیکھیے کہ منافقوں سے الزامی انداز :تم منافق ہو‘ کے بجاے کیا تم …؟کا استفہامی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ آخر میں‘ عہد پورا کرنے کے عظیم کام کو انجام دینے کے لیے جس استقامت کی ضرورت ہے‘ اس کے راز کی طرف اشارہ کیا گیا ہے‘ یعنی صبر اور صلوٰۃ۔ دونوں صرف اس صورت میں حاصل کیے جا سکتے ہیں کہ اللہ سے روزِ قیامت ملاقات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے۔
زیادہ گہرا غوروفکر کیا جائے تو اس خطاب کی‘ اُس خطاب سے جو پوری سورۃ البقرہ میں مسلم اُمّہ سے کیا گیا ہے‘ غیرمعمولی مماثلت نظرآئے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان سات آیات میں بعد کے تفصیلی بیان کا خلاصہ آگیا ہے۔
دوسرا ذیلی حصہ‘ جو ۴۷ تا ۷۴ آیات پر مشتمل ہے‘ بنی اسرائیل کو ان کی تاریخ کے اہم نشاناتِ منزل اور ان مواقع پر ان کے رویوںکو یاد دلاتا ہے۔ ہر واقعہ محض ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک اہم سبق ہے جو ان کی زندگی کے کسی اہم پہلو سے بحث کرتا ہے۔ غوروفکر کیا جائے تو ہر واقعہ اپنے سبق‘ اپنے قیمتی معانی‘ فکروعمل کے کسی اہم مرض یا کسی انحراف پر روشنی ڈالتا ہے جس کی وہ علامت ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ ان واقعات کو منتشر طور پر بیان نہیں کیا گیا ہے‘ بلکہ مربوط کر کے بامعنی ترتیب سے بیان کیا گیا ہے۔
مثال کے طور پر سنہرے بچھڑے کا واقعہ اس دنیا کی اشیا سے محبت کو پرستش کے لائق قرار دینے کی علامت ہے (آیت:۵۱)۔ یہ واقعہ فرعون سے بنی اسرائیل کے نجات پانے کی بہت بڑی نعمت کے معاً بعد پیش آیا۔ کتاب کا ملنا اور عہدوپیمان ابھی نہیں ہوئے تھے۔ یہ محبت جب اللہ سے محبت کے مقابلے پر آئے اور اس پر غالب ہوجائے تو زوال کی بنیادی وجہ ہوتی ہے۔ من و سلویٰ کا انکار‘ اللہ سے اپنے عہد کو پورا کرنے کے لیے جہاد کی زندگی سے انکار کی علامت تھا جس میں پُرآسایش‘ آرام دہ اور جمی جمائی زندگی کے بجاے سختیاں اور قربانیاں ہوتیں۔
ترکِ جہاد سے بالآخر ذلّت و مسکنت مسلّط ہو جاتی ہے (آیت: ۶۱)۔ اسی طرح اصحاب سبت نے اللہ کے ساتھ جو چالیں چلیں (آیت:۶۵)‘ اور گائے کی قربانی کے معاملے میں جس طرح بال کی کھال نکالنے کا اور حجت بازی کا مظاہرہ کیا‘ اس کو کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ یہ شریعت اور اطاعت کو ترک کرنے کے مترادف ہے۔ جب شریعت ایک بے وقعت چیز ہوجائے‘ جس کی پیروی کرنے کے بجاے اس سے کسی طرح بچنے کی فکر کی جائے‘ تو انسان کے اندر کا متحرک وجود جمود کا شکار ہوتا ہے اور دل پتھر سے زیادہ سخت ہوجاتے ہیں۔ (آیت:۷۴)
یہ دیکھنا بالکل مشکل نہ ہونا چاہیے کہ ہماری اُمّت کے شریعت اور جہاد کو اسی طرح ترک کرنے سے غیرملکی اقوام (خواہ وہ منگول ہوں یا مغرب) کی غلامی اور دلوں کے پتھر ہوجانے کی کیفیت سامنے آتی ہے۔
تیسرا ذیلی حصہ جو ۷۵ تا ۱۲۳ آیات پر مشتمل ہے‘ بنی اسرائیل کی تاریخ سے آگے بڑھ کر ان کے قلب و ذہن‘ ایمان و عمل اور طریقوں اور رویوں کی موجودہ کیفیت کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ خاص طور پر جو بات بیان کی گئی ہے وہ ان کا اللہ کے آخری رسولؐ کا انکار اور مخالفت ہے۔ مگر بتایا گیا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے‘ اسی طرح کے رویوں کی طویل تاریخ کا تسلسل ہے۔
اب آپ ہر الزام کو‘ چارج شیٹ کے ہر نکتے کو‘ الگ الگ لیں اوران پر غور کریں۔ آپ اُمّت مُسلمہ کے زوال وا حیا میں نہ صرف ان کا کلیدی کردار پائیں گے‘ بلکہ گذشتہ زمانوں میں مسلم اُمّت کی جو حالتیں رہی ہیں ان سے بہت زیادہ مشابہت بھی پائیں گے۔ بنی اسرائیل نے حق کو جاننے اور قبول کرنے سے جان بوجھ کر انکار کیا۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی کیا۔ یہود‘ خدا کی کتاب کے معانی اور پیغام سے مکمل طور پر انجان بن گئے اور اس کے بجاے خیالی دنیا میں رہنے لگے (آیت:۷۸)۔ یہی حال مسلمانوں کا ہوا۔ ان کے فاضل علما نے مقدس کتاب کے متن کو اس طرح توڑا مروڑا کہ مفیدِ مطلب معانی نکلیں اور انھیں اس دنیا کے انعام ملیں۔ مسلمان بھی ایسا ہی کرتے ہیں (آیت:۷۹)۔ ان کے اندر فرقہ پرستی خوب پھولی پھلی۔ ایمان اور عمل صالح کے بجائے انھوں نے مذہبی لیبلوں کو اہمیت دی۔ وہ کتاب کے بعض حصوں پر ایمان لاتے تھے اور جو اُن کے مفیدِمطلب نہ ہو اسے ایک طرف رکھ دیتے تھے۔ مسلمان بھی اس سے مختلف نہیں۔ ہم جتنا بھی آگے بڑھیں اور دیکھیں‘ہر پہلو سے اسی طرح کی مشابہت دیکھیں گے۔
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے‘ وہ اسے اُس طرح پڑھتے ہیں جیساکہ پڑھنے کا حق ہے۔ وہ اس (قرآن) پر سچے دل سے ایمان لے آتے ہیں۔ اور جو اس کے ساتھ کفر کا رویہ کریں‘ وہی اصل میں نقصان اٹھانے والے ہیں۔ (آیت: ۱۲۱)
اُمّت مسلمہ کو پیغمبرانہ مشن سونپنا (آیات: ۱۲۴-۱۵۲)
مسلمانوں کو فریضہ رسالتؐ سپرد کرنے سے پہلے (آیت ۱۴۳) حضرت ابراہیم ؑ کی مقدس تاریخ اور اللہ کی مکمل اور خالص اطاعت میں گزاری ہوئی ان کی خدا پرستانہ زندگی بیان کی گئی (آیات: ۱۲۳- ۱۳۳)۔ حضرت ابراہیم ؑکو کعبۃ اللہ کا متولّی اور انسانیت کا امام اس لیے مقررکیا گیا کہ انھیں جس آزمایش سے بھی گزارا گیا وہ اس سے سرخ رُو نکلے۔ ان کو یہ اعزاز وراثت میں نہیں ملے اور نہ کسی کو ملیں گے۔ (آیات: ۱۲۴- ۱۲۵)
نئی اُمّت‘ حضرت ابراہیم ؑ کی اس دعا کی تکمیل ہے جو آپ نے بیت اللہ کی تعمیر کرتے ہوئے کی تھی: اے اللہ! ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا جو تیری مُسلم ہو (آیت:۱۲۸)۔ مسلمان‘ حضرت ابراہیم ؑکے ورثے اور مشن کے بھی وارث ہیں‘ جو توحید اور خدا پرستی کی بہترین روایات کا نمونہ ہے۔ یہ بات زور دے کر کہی گئی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ سے جو وعدہ کیا گیا تھا وہ کوئی ایسا لقب نہیں تھا جو نسل در نسل ورثے میںمنتقل ہوتا۔ اسرائیل نے اس ورثے پر اپنے حق کو ساقط کر دیا‘ اس لیے کہ انھوں نے حضرت ابراہیم ؑکے برخلاف اللہ سے بے وفائی کی‘ انھیں حضرت یعقوب ؑنے جو مشن اپنے بستر مرگ پر سونپا تھا وہ اسے پورا کرنے میں ناکام رہے۔ (آیت:۱۳۳)
اس اصول پر بہت زور دیا گیا ہے کہ مذہبی لیبل کسی مصرف کے نہ ہوں گے۔ اصل قدروقیمت ایمان‘ اللہ کے آگے اپنے آپ کو ڈال دینے اور صرف اسی سے پُرخلوص وابستگی کی ہوگی۔ ہر قوم کو اس کے ایمان اور اعمال کے مطابق جانچا جائے گا۔ یہ پورا بیان اس ذمہ داری کو بنی اسرائیل سے لے کر اُمّت مُسلمہ کو منتقل کرنے کے سیاق کو واضح کرتا ہے۔
نماز کی سمت‘ یعنی بیت المقدس سے کعبے کی طرف قبلے کی منتقلی (آیات: ۱۴۴-۱۵۰) دراصل اُمّت مُسلمہ کی طرف فریضہ رسالتؐ کی منتقلی کی علامت ہے۔ جس طرح بنی اسرائیل کو اللہ کی ہدایت اور کتاب کی نعمت کو اللہ کے خاص عطیے کے طور پر یاد دلایا گیا تھا‘ اسی طرح اختتام پر مسلمانوں کو بھی یاد دلایا گیا ہے:
تم مجھے یاد رکھو‘ میں تمھیں یاد رکھوں گا‘ اور میرا شکر ادا کرو‘ کفرانِ نعمت نہ کرنا۔ (آیت:۱۵۲)
دیکھیے‘ بنی اسرائیل کو اسی طرح کی دعوت دی گئی تھی۔
کلیدی انفرادی خصائص اور دین کے بنیادی اصول (آیات: ۱۵۳ -۱۷۷)
۱۵۳ سے ۱۶۲ آیات ان کلیدی انفرادی صفات کی نشان دہی کرتی ہیں جو عہد پورا کرنے کے لیے مطلوب ہیں۔ یہ صرف اس مفہوم میں انفرادی ہیں کہ یہ ایک فرد کے باطنی وجود میں پیدا کی جاسکتی ہیں‘ لیکن عملاً یہ سب اجتماعی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور مؤثر انداز سے اجتماعیت پیدا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر نماز‘ جماعت کے ساتھ ہے۔ اسی طرح روزہ‘ حج اور جہاد۔
سب سے اہم صفت یہ ہے کہ آپ کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شعور رہے‘ گویا آپ اس کے حاضروناظر ہوتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں‘ آپ کو ہرچیز ایسے نظر آتی ہے جیسے اس کی طرف سے ہے اور اس کی وجہ سے ہے۔ آپ کو ہمیشہ یاد رہتا ہے کہ آپ فیصلے کے دن اس سے ملاقات کریں گے۔ مختصراً یہ کہ آپ ہر لمحے اور ہر موقعے پر جتنی کثرت سے اور جتنا زیادہ اسے یاد کرسکتے ہیں‘ کرتے رہیں۔ یہ بات آیت ۱۵۲ میں وضاحت سے بیان کر دی گئی ہے۔ یہ کیفیت حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے ذکر کو زندگی کا حصہ بنا لینا چاہیے۔ نماز اسی مقصد کے لیے فرض کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آیت ۱۵۲ کے بعد فوراً ہی یہ ہدایت دی گئی کہ صبر اور نماز سے مدد لو (آیت: ۱۵۳)۔
صبر کا ذکر پہلے کیا گیا ہے۔ یہ اس لیے کہ نماز‘ انفرادی ہو یا اجتماعی‘ صبر کے بغیر نہ ادا کی جاسکتی ہے نہ قائم کی جا سکتی ہے۔ یہ نماز ہی ہے جو عزم‘ استقلال اور تحمل‘ یعنی صبر کی صفت کو پیدا کرتی ہے‘ ترقی دیتی ہے‘ تقویت دیتی ہے اور برقرار رکھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ایک منطقی عمل میں باہم مربوط ہیں۔ دونوں (یعنی صبر اور نماز) فرد کو اور جماعت کو اللہ سے قریب تر لاتے ہیں۔ نماز‘ فرد اور جماعت دونوں ہی کی زندگیوں اور دلوں کو اللہ کے ذکر سے بھر دیتی ہے۔ اللہ ان لوگوں سے قریب ہے جو صبر کی صفت رکھتے ہیں جیسا کہ آیت ۱۵۳ میں وعدہ کیا گیا ہے: اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
دیکھیے کہ ایسی ہی ہدایت بنی اسرائیل کو دی گئی تھی۔ (آیت:۴۵)
صبر کی اہمیت اس حقیقت کا اظہار ہے کہ عہد پورا کرنے کے لیے قربانیاں مطلوب ہوں گی۔ ان قربانیوں کی کچھ تفصیل دی گئی ہے (آیت:۱۵۵)۔ آخری قربانی جو مطلوب ہے وہ جان کی قربانی ہے۔
آزمایشوں اور قربانیوں کے موقع پر ثابت قدم رہنے کے لیے صبر کی کلید اللہ کا ذکر ہے: یہ ایمان رکھنا کہ ہم کُل کے کُل اسی سے وابستہ ہیں‘۱ سی کی طرف پلٹ کر جائیں گے اور اُسی کو اپنے اعمال کا حساب دیں گے۔ نماز یہی احساسات پیدا کرتی اور پرورش کرتی ہے۔
صفا اور مروہ کے بارے میں آیت ۱۵۸ غیرمتعلق نہیں ہے‘ اگرچہ کہ ایسا محسوس ضرور ہوتا ہے۔ اسے یہاں اس لیے رکھا گیا ہے کہ کعبے کے قریب یہ دو پہاڑیاں صفا اور مروہ صبر‘ اُمید اور اللہ تعالیٰ پر اعتماد کی ایک عظیم اور جذبہ انگیز داستان کی علامت ہیں۔ یہ ایک بڑی قربانی کی کہانی بھی ہے‘ یعنی حضرت ہاجرہ اور اسماعیل کی کہانی۔ جب کوئی ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی کی طرف چلتا ہے تو اسے یاد آتا ہے کہ کس طرح تن تنہا ایک عورت نے ایک شیرخوار بچے کے ساتھ مکہ میں رہنا منظور کیا‘ کس طرح اس نے اُمید اور اعتماد کے ساتھ کوشش کی‘ اور کس طرح اللہ نے ایک ایسی وادی میں پانی کا چشمہ جاری کر دیا جہاں پانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔
آخر میں قرآن کے ساتھ عہد توڑنے کے سنگین نتائج بتائے گئے ہیں: اللہ کی طرف سے‘ اس کے فرشتوں کی طرف سے‘ اور تمام انسانوں کی طرف سے لعنت‘ اور آخرت میں دائمی عذاب (آیت: ۱۵۹-۱۶۲)۔ یہ کھری کھری تنبیہ پوری بات کو اپنے سیاق میں واضح کر دیتی ہے۔ اُمّت کو جو مشن سونپا گیا ہے اس کو پورا کرنے کے لیے اللہ کا ذکر‘ نماز‘ قربانی اور صبر سب ضروری ہیں۔ ہر شخص کو یہ مشن پورا کرنے کی اپنی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ (آیات: ۱۶۳-۱۷۷)
آیات ۱۶۳ تا ۱۷۷ میں دین اور شریعت کی اہم بنیادوں کا بیان ہے‘ یعنی اللہ پر ایمان جو ایک ہے‘ یعنی توحید۔ اس کے ساتھ ہی کائنات میں اس کی نشانیاں جو یہ ایمان پیدا کرتی اور اسے مضبوط کرتی ہیں (آیات: ۱۶۳-۱۶۴)۔ اللہ تعالیٰ سے مضبوطی سے جڑے رہنا دین اور صراط مستقیم پر رہنمائی کی اصل اور بنیاد (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۱)‘ جہاد کا کلیدی ذریعہ (الحج ۲۲:۷۸) ‘اور وہ حق ہے جس کی گواہی دینا ہے۔
توحید کے فوراً بعد قرآن‘ اللہ سے محبت کا ذکر کرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ تم اللہ سے اس سے زیادہ محبت کرو جتنا کسی بھی دوسری چیز سے کرتے ہو۔ اس طرح قرآن ذکر اور صبر کے بعد اللہ سے محبت کو سب سے اہم صفت کے طور پر بیان کرتا ہے‘ اس لیے کہ ایسی محبت ہی ایمان کو حقیقی اور بامعنی بناتی ہے (آیت: ۱۶۵)۔ محبت ہی ایمان کو شخصیت کا حصہ بناتی ہے اور اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے طاقت فراہم کرتی ہے۔
ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ تمام دوسرے رہنمائوں کے بجاے اللہ کے رسولؐ کی پیروی اور اطاعت کی جائے (آیت:۱۶۶-۱۶۷)۔ محبت بھی یہی تقاضاکرتی ہے کہ ’’محبوب‘‘ کے احکام کو بجا لایا جائے۔
اس کے بعد شریعت کے کچھ اہم اصول بیان کیے گئے ہیں۔ اوّل: دنیا کی تمام اچھی چیزیں مباح ہیں سوائے ان کے جو منع کی گئی ہیں (آیت:۱۶۸)۔ بنیادی طور پر یہ اہم اصول صرف کھانے پینے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام دائروں کی تمام باتوں کے لیے ہے۔دوم: اشیا کو ممنوع قرار دینے کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے‘ کسی اور کے پاس نہیں ہے (آیت:۱۶۹)۔ سوم: جو چیزیں ممنوع ہیں انھیں اللہ نے بیان کر دیا ہے‘ باقی سب جائز ہیں (آیت: ۱۷۳)۔ چہارم: سنگین انسانی ضرورت کے موقع پر ممنوعات میں گنجایش دی جاسکتی ہے (آیت: ۱۷۳)۔پنجم: اخلاقی پابندیاں زیادہ اہم ہیں۔ اگر وہ دوسرے انسانوں سے حقوق سے متعلق ہیں تو ان میں رعایت نہیں۔ مثال کے طور پر عہد توڑنے کا جرم کوئی حرام چیز کے کھانے کے مقابلے میں زیادہ بڑا گناہ ہے۔(آیت: ۱۷۴)
بہرحال زندگی میںہر طرح کی اطاعت کی بنیاد تقویٰ ہی ہے۔ آیت۱۷۷ تقویٰ کی جامع تعریف بیان کرتی ہے۔ یہ آیت ۲ تا ۵ کی توسیع ہے اور آنے والے حصے کی تمہید ہے۔ اس لیے تقویٰ‘ جیساکہ یہاں تعریف کی گئی ہے‘ جو کچھ آگے بیان کیا جا رہا ہے اس کی بنیاد اور محرّک ہے۔ یہاں ایمان اور انفاق‘ یعنی خرچ کرنے کی مزید تفصیل دی گئی ہے۔ وعدوں اور معاہدوں کی پابندی اور ہر طرح کے حالات میں صبر بنیادی صفات ہیں۔
اجتماعی زندگی: اصول اور ادارے (آیات: ۱۷۸- ۲۴۲)
اجتماعی زندگی‘ دو وجوہ سے بنیادی اہمیت رکھتی ہے‘ اوّل: انفرادی صفات کی مضبوطی اور نَمُو کے لیے مناسب زمین اور ماحول فراہم کرنے کے لیے۔ دوم: اُمّہ کے مشن کو پورا کرنے کے لیے اجتماعی طاقت فراہم کرنے کے لیے۔ قلوب کی طرح‘ اجتماعی زندگی بھی تقویٰ کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہونی چاہیے۔ اس لیے اس حصے میں قرآن ان قوانین‘ اصول اور تعلیمات کو بیان کرتاہے جن سے تقویٰ کو نشوونما ملتی ہے۔
معاشرے میں نظم و ضبط اور ہم آہنگی کے لیے جان و مال کا تحفظ جڑواں بنیادیں ہیں۔ آیات ۱۷۸ سے ۱۸۲ تک انھیں بیان کیا گیا ہے۔ ان کے فوراً بعد رمضان میں روزوں کے احکام دیے گئے ہیں تاکہ تقویٰ یا انفرادی ضبط نفس حاصل ہو اور اللہ نے ’دوسروں‘ کے ساتھ انسانی تعلقات کی جو حدود مقرر کی ہیں ان سے آگے بڑھنے‘ یا ان کو توڑنے سے آدمی اپنے آپ کو روکے (آیات: ۱۸۳-۱۸۷)۔ کھانے پینے اور جنسی تعلقات سے بچنا مقصد نہیں ہے‘ مقصود وہ باطنی قوت پیدا کرنا ہے جو انسان کو اس قابل بنائے کہ وہ دوسروں کی جان‘ مال یا آبرو پر ہاتھ نہ ڈالے۔ اسی لیے حکم ہے: ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھائو۔ (آیت: ۱۸۸)
حج کو جہاد سے جوڑا گیا ہے (آیات: ۱۹۶-۲۱۸)۔ دونوں کی نوعیت ایک ہے۔ دونوں تقاضا کرتے ہیں کہ ہم قربانیاں دیں‘ اپنے گھر‘ اعزہ اور چیزوں کو چھوڑیں‘ منزل تک پہنچنے کے لیے سفر کریں اور اپنا مال و دولت خرچ کریں۔ جہاد پر خرچ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ معاشرے کی زندگی‘ توانائی اور بقا کے لیے اور اپنے مشن کی تکمیل کے لیے جہاد کی کلیدی حیثیت ہے۔ اس لیے معاشرے کو تباہی اور زوال سے محفوظ رکھنے کے لیے جہاد پر خرچ کرنا ضروری ہے (آیت:۱۹۵)۔ یہاں لڑنے کی صرف اجازت دی گئی ہے‘ جب کہ جہاد کا مقصد آیات ۱۹۰ تا ۱۹۲ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے معاً بعد حج اور اس کے نمایاں پہلوئوں کے بارے میں اہم ہدایات دی جاتی ہیں۔ (آیات: ۱۹۶-۲۰۳)
اس کے ساتھ ہی جہاد کا مقصد زیادہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ انسانیت کو ان بدعنوان رہنمائوں سے بچانے کے لیے ضروری ہے جنھیں سیاسی طاقت حاصل ہے‘ جو ہٹ دھرم ہیں اور اپنی اصلاح کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ زمین میں فساد‘ بدعنوانی اور قتل و غارت پھیلاتے ہیں اور عوام کو پریشانی میں مبتلا کرتے ہیں۔ (آیات: ۲۰۴-۲۰۶)
جہاد کی ضرورت اور نوعیت اور اس کے تقاضے بیان کیے گئے ہیں۔ جہاد کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے آپ کو کُل کا کُل اللہ کے آگے پیش کر دیں (آیات:۲۰۷-۲۰۸)۔ جہاد بڑی سختی سے ہماری جانچ کرے گا اور غیرمعمولی قربانیوں کا تقاضا کرے گا۔ قربانیاں دیے بغیر‘ جیسی کہ اس سے پہلے مسلم اُمّتوں نے دیں‘ ہم ہرگز بھی جنت میں داخل نہیں ہوسکیں گے۔ (آیت: ۲۱۴)
خون بہانا یقینا ناپسندیدہ ہے‘ لیکن عقیدے اور ضمیر کے لیے جبر اس سے زیادہ بڑی برائی ہے (آیات:۲۱۶-۲۱۷)۔ اس کے بعد اس سورت میں شراب اور جوئے کا ذکر ہے (آیت: ۲۱۹)۔ شراب نوشی سے دنیاوی ذمہ داریوں اور محنت سے فرار کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ جوا لالچ اور بغیر محنت مال حاصل کرنے کی خواہش بڑھاتا ہے۔ دونوں بذات خود برائی ہیں‘ لیکن انھیں یہاں اس لیے بیان کیا گیا کہ یہ جہاد کے راستے کی رکاوٹ ہیں۔
اس کے بعد کلام کا رخ معاشرے کے مظلوم طبقات‘ بچوں اور خواتین کی طرف مڑجاتا ہے۔ عائلی زندگی کے بارے میں تعلیمات اور ضابطے بہت تفصیل سے دیے گئے ہیں (آیات: ۲۲۰-۲۴۲)۔ اس لیے کہ یہ معاشرے اور تمدن کی بنیادی اساس ہے۔ خاندان اجتماعی یک جہتی برقرار رکھتا ہے اور یہ یقینی بناتا ہے کہ مقاصد‘ اقدار اور روایات ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوں۔ مضبوطی سے جڑی ہوئی ایک منصفانہ عائلی زندگی معاشرے کو جہاد کے لیے تیار ہی نہیں کرتی‘ جہاد کے مقصد کو بھی پورا کرتی ہے‘ یعنی افراد کے درمیان انصاف کا قیام۔
جھاد اور انفاق۔ مشن کی تکمیل کے ذرائع (آیات: ۲۴۳-۲۸۳)
قوموں اور معاشروں کو کیا چیززندہ‘ مضبوط اور کامیاب بناتی ہے؟ آخری حصہ اس اہم سوال کے بارے میں تفصیل سے بحث کرتا ہے۔ یہ سوال سورت کے مرکزی موضوع‘ یعنی اُمّت کے مشن کے حوالے سے نہایت اہم ہے۔ آغاز میں‘ عمومی اصولوں پر بحث کی گئی ہے۔اوّل‘ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ کسی مقصد اور مشن کا ہونا ہی جہاد کی زندگی کا تقاضا کرتا ہے۔ مقصد اور مشن کے لیے جدوجہد اور سرگرم کوشش جہاد ہے۔ جہاد کا تقاضا ہے کہ قربانیاں دی جائیں۔ خاص طور پر مال اور جان اللہ کے راستے میں قربان کیے جائیں۔ یوں جہاد اور انفاق‘ اُمّت کے عروج و زوال اور زندگی اور موت میں کلیدی اور فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ دونوں کا تقاضا ہے کہ لوگ موت سے بے خوف ہوجائیں۔ حوصلے‘ صبر اور نظم و ضبط سے کام لیں اور دنیوی چیزوں خاص طور پر مال کی محبت پر قابو پائیں۔ ان موضوعات کو آیات ۲۴۳ سے ۲۸۳ تک مسحورکن تصورات اور جذبہ انگیز کلام کے ذریعے سامنے لایا گیا ہے۔
موت کا خوف اور اس دنیا کی چیزوں کی بہت زیادہ محبت کسی معاشرے کی توانائی کو چوس لیتی ہیں اور تباہ کر دیتی ہیں۔ اگر لوگ موت سے ڈرتے ہیں تو موت ہی ان کے معاشرے کا مقدر ہوجاتی ہے۔ جو موت سے نہیں ڈرتے‘ زندگی ان کی تقدیر بن جاتی ہے۔ اسی بات کو آیت ۲۴۳ میں بنی اسرائیل کی تاریخ کے واقعے کے حوالے سے واضح کیا گیا ہے۔ قرآن پکارتا ہے: اللہ کی راہ میں جہاد کرو اور جو کچھ دے سکتے ہو‘ دو۔ اللہ تعالیٰ تمھارے انفاق کو اپنے لیے قرض تصور کرے گا اور کئی گُنا بڑھا کر واپس کرے گا۔ (آیات: ۲۴۴-۲۴۵)
۱- دائود اور جالوت کا واقعہ (آیات: ۲۴۶-۲۵۱)۔ ۲- ایک مردہ بستی کا دوبارہ جی اٹھنا (آیت: ۲۵۹) ۳- اس بارے میں حضرت ابراہیم ؑکی پریشانی کے جواب کا واقعہ۔ (آیت:۲۶۰)
صبر اور نظم و ضبط کے ساتھ (روزے اور جہاد کا جو ذکر پہلے آیا ہے اسے بھی سامنے رکھیے)۔ وہ لوگ جو تعداد میں کم ہوں‘ اور وسائل اور طاقت بھی کم رکھتے ہوں بہت زیادہ طاقت اور وسائل رکھنے والوں پر فتح حاصل کرسکتے ہیں جس طرح بنی اسرائیل حضرت دائود ؑ کی قیادت میں جالوت کے خلاف کامیاب ہوئے۔ (آیات: ۲۴۶-۲۵۳)
انفاق‘ یعنی اپنے اموال‘ اشیا یا جس چیز کی بھی ضرورت ہو‘ اللہ کے لیے دے دینے کے مختلف پہلو آیت ۲۶۱ سے ۲۷۴ تک کے طویل حصے میں بیان کیے گئے ہیں۔ سود کی ممانعت اور مالی معاملات کو تنازعوں سے بچانے کے لیے اقدامات مال و دولت کے بارے میں عمومی رویّے سے متعلق ہیں۔ (آیات: ۲۷۴-۲۸۳)
ان کے درمیان آیت الکرسی رکھی گئی ہے‘ جیسے جواہر اور موتیوں کے نیکلس کے وسط میں جڑا نگینہ۔ اس آیت میں وہ سب کچھ ہے جو اللہ پر ایمان کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے اور جوجہاد اور انفاق دونوں کو طاقت بخشتی ہے۔ آپ کو نہ اپنے دشمنوں کی طاقت اور دولت سے خوف کھانے کی ضرورت ہے اور نہ زندگی کھونے یا غریب ہونے سے ڈرنے کی‘ اس لیے کہ اللہ حّی و قیوم ہے‘ ہمیشہ رہنے والا ہے‘ ہر زندگی کا سرچشمہ ہے‘ خود قائم ہے اور سب کو قائم رکھنے والا ہے۔ اس کا علم اور طاقت زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اس پر محیط ہے۔
وہ کون سے خصائص ہیں جو افراد اور گروہوں کو وہ ضروری قوت فراہم کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی کا بوجھ ہنسی خوشی اٹھائیں اور جو مشن اللہ نے ان کے سپرد کیا ہے اسے پورا کریں؟
آخری تین آیات ان کو اختصار سے بیان کرتی ہیں۔ یہاں وہ ضروری اخلاقی اور روحانی سرچشمے بتا دیے گئے ہیں جن کے بغیر یہ عظیم کام مکمل نہیں کیا جا سکتا۔ یہی سرچشمے ہمیں اس قابل بناتے ہیں کہ سورۃ البقرہ کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے جس باطنی قوت‘ وابستگی‘ عزم ‘ حوصلہ اور صبر کی ضرورت ہے وہ ہمارے اندر پیدا ہوں۔
سب سے اہم صفت اور دوسری تمام صفتوں کا سرچشمہ ایمان ہے۔ ایمان محض زبانی اقرار نہیں ہے‘ یہ اللہ کو زندگی کی تمام امیدوں اور اندیشوں کا مرکز بنانا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے خالق‘ مالک اور آقا ہونے کی حیثیت سے گہرا مضبوط اور ہمہ جہت تعلق رکھا جائے۔ اس تعلق کو مضبوط ر کھنے سے وہ طاقت اور ذرائع فراہم ہوتے ہیں جو صراط مستقیم پر چلنے کے لیے (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ‘نیز اس کی راہ میں جہاد کے لیے (الحج ۲۲:۷۸) ضروری ہیں۔
ان تین آیات میں ہمیں اس تعلق کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ یہ بہت خوب صورت اور جذبہ اُبھارنے والی ہیں۔ ان کو یاد کرنا اور لوح قلب پر کندہ کرنا آسان ہے۔ آیئے دیکھیں کہ یہ ہمیں کیا تعلیم دیتی ہیں۔
اوّل: یہ کہا گیا ہے کہ یہ بات یاد رکھو کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کا ہے۔ یہ چند الفاظ اگر پوری طرح جذب کر لیے جائیں تو یہ کائنات کی ہر چیز‘ حتیٰ کہ خود ہماری ذات کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات‘ رویوں اور نقطۂ نظر کو بالکل تبدیل کر دیتے ہیں۔ ہمیں اپنے اندر جس باطنی قوت کی ضرورت ہے اسے پیدا کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے یہ کافی ہیں۔ اس میں یہ مطالب پوشیدہ ہیں:
۱- ہم امین ہیں‘ مالک نہیں۔ اللہ ہر چیز کا مالک ہے۔ ہماری جانیں‘ ہمارے جسم‘ ہماری املاک اور تعلقات اس کے ہیں‘ ہمارے نہیں۔ یہ ذہن میں رکھیں تو ہمیں وہ طاقت مل جاتی ہے کہ ہم اس کے ہوجائیں اور ایسی زندگی گزاریں اور رویے اختیار کریں جیسے کہ ہم صرف اسی کے ہیں۔
۲- مالک نہ ہونے اور امین ہونے کی حیثیت سے ہمیں ہر چیز اس کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا چاہیے۔ اس سے ہمیں ہر معاملے میں اس کی اطاعت کی طاقت فراہم ہوتی ہے۔
۳- ہمیں زندگی میں جو کچھ ملتا ہے یا جو کچھ ہم کرپاتے ہیں‘ اس کی طرف سے ہے‘ اس کی وجہ سے ہے۔ یہ احساس ہو تو ہم ہمیشہ اس کے شکرگزار رہتے ہیں۔
۴- یہ احساس ہم کو تمام مخالفتوں اور آزمایشوں کا سامنا کرنے کے لیے صبر دیتا ہے۔
۵- یہ تمام اشیا اور معاملات ہماری امانت میں دیے گئے ہیں‘ امین ہونے کی حیثیت سے یقینا ہم سے ہمارے اچھے اور بُرے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ہم اپنے دل کے عمیق ترین گوشے میں جو کچھ چھپائیں ہمیں اس کا بھی جواب دینا ہے۔ یہ احساس ہو تو ہماری نگاہیں ہمیشہ یومِ آخرت پر ہوتی ہیں اور ہم اس وقت کے لیے تیاری کرتے ہیں جب ہم اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے۔
۶- صرف وہی‘ کوئی اور نہیں‘ ہماری غلطیوں اور گناہوں کو معاف کرنے یا ان پر سزا دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہ احساس ہمیں اپنے جیسے انسانوں کے فیصلوں سے بے خوف کر دیتا ہے۔
۷- اگر ہماری آخری تقدیر کا فیصلہ اسی کے فیصلے سے ہونا ہے تو ہم اپنی تمام اُمیدیں اور خوف اللہ کے ساتھ وابستہ کر لیتے ہیں‘ اور جب ہم کسی امتحان میں ناکام ہوتے ہیں یا کسی گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں تو اسی کی طرف مغفرت کے لیے رجوع کرتے ہیں۔
یہ تمام باتیں آپ کو ان تین آیات میں ملیں گی۔
دوم: ایمان کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ جو کچھ وحی کیا گیا ہے اس پر‘ اللہ پر‘ اس کے فرشتوں پر‘ اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان۔
سوم: ایمان کو ٹھوس شکل دے دی گئی ہے۔ اب یہ ایک مابعد الطبیعیاتی معاملہ نہیں ہے۔ ایمان کا مطلب ایک عہد اور وعدہ ہے اللہ اور رسولؐ کی سننے اور اُن کی اطاعت کرنے کا۔
چہارم: اپنے عہد کے مطابق زندگی گزارنے کے عظیم کام کی ذمہ داری‘ اور دوسری طرف گناہ کی طرف انسان کے رجحان کی وجہ سے ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ اپنی ہر طرح کی غلطیوں اور کوتاہیوں کے لیے خاص طور پر‘ اور عموماً بھی‘ اللہ کی طرف پلٹتے رہیں اور اس سے بخشش مانگتے رہیں۔ اس سے ہمارے بوجھ ہلکے ہوجاتے ہیں اور ہم ذاتی اصلاح‘ ذاتی جائزے اور چوکنے رہنے کی کیفیت میں رہتے ہیں۔
تسلی‘ سکون اور حمایت و تائید کے مزید خزانے ہمیں آخری آیت (۲۸۶) میں دیے گئے ہیں:
۱- نہایت اہم بیان‘ جو ایک وعدہ بھی ہے ‘ کہ شریعت کی پیروی کرنے میں جہاد کی کوشش میں یا قربانیاں دینے میں‘ اللہ تعالیٰ ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہیں ڈالے گا یا ہمیں ایسی آزمایش میں مبتلا نہیں کرے گا جو ہماری برداشت سے باہر ہو۔ اس طرح ہم ان تمام وسوسوں سے بَری ہوجاتے ہیں جو ہمارے دل کی گہرائیوں میں گزرتے ہیں‘ جب تک ہم خود ہی اپنے ارادے سے ان کو پیدا نہ کریں۔
۲- جو کچھ ہم ایک فرد کی حیثیت سے کریں گے اس پر‘ نہ کہ دوسروں کے کسی کام پر‘ ہمارا حساب اور فیصلہ ہوگا۔
۳- شریعت کے احکام‘ یا جن آزمایشوں سے ہمارا امتحان لیا جائے ایسی نہیں ہوں گی جن پر عمل کرنا ہماری طاقت سے باہر ہو۔
۴- ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ ہم اللہ کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے جو کچھ کریں ہمیشہ اس پر معافی‘ رحم اور بخشش کی درخواست کیا کریں۔ اللہ پر یہ بھروسا ذہن سے یہ خیال نکال دیتا ہے کہ ہم خود اپنے برتے پر کچھ کرتے ہیں۔
آخری بات یہ کہ ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ فتح کے لیے ہاتھ دراز کریں۔ اس سے اُمّت کو جو مشن سپرد کیا گیا ہے اُس میں جہاد کی مرکزیت کی طرف اشارہ ملتا ہے۔
یہ تمام تعلیمات ایک مختصر دعا کی شکل میں دی گئی ہیں۔ اللہ ہمیں جو کچھ مانگنے کی تعلیم دے رہا ہے یقینا وہ عطا بھی کرے گا۔ کسی شک و شبہے کے بغیر‘ یہ اللہ کے وعدے ہیں۔
(نوٹ: اس مطالعے کے کچھ صفحات ابھی باقی ہیں‘ تاہم اس کو مختصر کتاب کی شکل میں البقرہ کی کلید کے نام سے منشورات (منصورہ‘ لاہور) شائع کررہا ہے۔ شائقین مکمل مطالعے کے لیے اسے حاصل کرسکتے ہیں۔ ادارہ)
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم پر بارانِ رحمت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکل گئے۔ جسم سے کچھ کپڑے اُتارے یہاں تک کہ جسم اطہر پر بارش برسی۔ آپؐ سے عرض کیا گیا کہ آنحضوؐر نے ایسا کیوں کیا؟ آپؐ نے فرمایا: اس لیے کہ یہ رب کے پاس سے بالکل تازہ اتری ہے۔ (مسلم، ابوداؤد، بیہقی)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر طرزِعمل معرفتِ الٰہی کا درس ہے۔ بارش خود بخود نہیں آگئی‘ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا نتیجہ ہے‘ جس طرح کوئی کاریگر نئی چیز تیار کرتا ہے‘ اس کو کاریگر کے ہاتھوں نے مس کیا ہوتا ہے۔ اسی طرح کی سوچ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کے بارے میں دی ہے کہ یہ متبرک ہے‘ رب تعالیٰ کے حکم اور ارادے نے اسے مس کیا ہے‘ اس لیے اس کو جسم پر لینے سے جسم کو فائدہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت ملے گی خصوصاً‘ جب کہ اس تصور کے ساتھ اسے جسم پر لیا جائے کہ اس کی رب تعالیٰ سے ملاقات تازہ بہ تازہ ہے۔
سبحان اللہ! تازہ بارش ہو یا فصل‘ سبزیاں ہوں یا پھل‘ کائنات کی سرسبزی اور شادابی میں سے ہر ایک کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کتنا قوی اور مضبوط ہوگا‘ اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی معرفت کے لیے قرآن پاک مختلف سورتوں میں بار بار اللہ تعالیٰ کی کارسازیوں اور کاریگری کا ذکر کرتا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ جو کائنات اور قرآن پاک کے نورمعرفت سے اپنے دل و دماغ کو منور کرتے ہیں۔
o
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ بنی حارثہ قبیلے کے ایک شخص حرملہ بن زید (جو نفاق کی بیماری میں مبتلا تھے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے‘ دوزانوہوکر بیٹھ گئے اور اپنی زبان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ایمان یہاں پر ہے اور سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا یہاں پر نفاق ہے۔ یہ اللہ کا ذکر نہیں کرتا مگر تھوڑا۔ رسول ؐاللہ نے ان کی بات سنی لیکن خاموش رہے۔ حرملہ نے اپنی بات پھر دہرائی۔ اس پر رسولؐ اللہ نے حرملہ کی زبان کو کنارے سے پکڑا اور یوں دعا فرمائی: ’’اے اللہ! حرملہ کو سچی زبان اور شکرگزار دل عطا فرما اور میری محبت اور مجھ سے محبت کرنے والوں کی محبت سے سرفراز اور ان کا انجام بخیر فرما ‘‘۔
حرملہ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کچھ منافق میرے دوست ہیں اور میں ان کا سربراہ تھا‘ میں ان کے نام آپؐ کو نہ بتلا دوں۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا (ابھی اس کی ضرورت نہیں) جو ہمارے پاس اس طرح آئے گا جس طرح آپ آئے ہیں تو ہم اس کے لیے اسی طرح استغفار کریں گے جس طرح آپ کے لیے کیا ہے‘ اور جو اپنے نفاق پر ڈٹا رہے گا اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ (کنزالعمال)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی‘ رسول اور نامزد حکمران تھے۔ آپؐ نے اپنی سیرت طیبہ اور اخلاق حسنہ سے ایسا ماحول اور معاشرہ تشکیل دیا جس کو محبت و الفت اور سکون و اطمینان کی چادر اور چھت نصیب ہوئی۔ وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین ’’اور نہیں بھیجا ہم نے آپؐ کو مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر‘‘کے عجیب و غریب اور دل کش مناظر دنیا نے دیکھے۔ انھی مناظر میں سے ایک حسین منظر حرملہ کا لپک کر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہونا ہے اور آپؐ کا اسے محبت اور اپنائیت سے نوازنا‘ ان کی زبان کو اپنے دستِ مبارک میں پکڑ کر ایسی دعا دینا کہ جس سے ان کی زندگی کی کایا پلٹ گئی‘ نفاق کے بجاے اخلاص کی دولت سے مالا مال ہوگئے۔
ایک منظر تو یہ ہے اور آج ایک دوسرا منظر بھی ہمارے سامنے ہے وہ منظر مخالفین کا تعاقب کرنا‘ تلاش و جستجو کرکے انھیں انتقام کا نشانہ بنانا اور کچل کر رکھ دینا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سایۂ رحمت کا منظر یہ ہے کہ حرملہ مخالفین کے نام پیش کرنے کی پیش کش کرتے ہیں لیکن آنحضوؐر انکار فرما دیتے ہیں۔ اس کے بجاے منافقین اور مخالفین کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ وہ آئیں گے تو انھیں دعائیں ملیں گی‘ ان کے ساتھ بھی ہمدردی و غم گساری کا رویہ اپنایا جائے گا‘ اور اگر نہیں آئیں گے تو بھی ان کی چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال نہیں ہوگا۔ ان کا تعاقب نہیں ہوگا بلکہ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہوگا۔
یہ ہے وہ معاشرہ جو رحمت للعالمین ؐ کی ذات اقدس کی برکت سے وجود میں آیا‘ جس میں الفت و محبت‘ عدل وا حسان‘ سکون و اطمینان اور ایک دوسرے کو دھتکارنے اور مٹانے کے بجاے قریب کرنے اور سینے سے لگانا ہے۔ کاش! یہ دل کش سوسائٹی پھر سے وجود میں آجائے۔ کوئی تصو کرسکتا ہے کہ اس طرح کی سوسائٹی کسی کے لیے خطرہ ہوسکتی ہے؟ کیا دہشت گردی‘ انتہا پسندی اور بے صبری کا اس کے قریب سے بھی گزر ہو سکتا ہے؟
o
جبیر! کیا تمھیں یہ بات پسند ہے جب سفر پر نکلو تو اپنے تمام ساتھیوں سے زیادہ خوش شکل ہو اور سب سے زیادہ زادراہ تمھارے پاس ہو؟ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان! ہاں‘ میں یہ چاہتا ہوں۔
آپؐ نے فرمایا: اگر ایسا ہے تو پھر سفر پر نکلتے وقت پانچ سورتیں قل یا ایھا الکافرون ، اذاجاء نصراللّٰہ ، قل ھو اللّٰہ احد ،قل اعوذ برب الفلق ، قل اعوذ برب الناس پڑھ لیا کرو۔ ہر سورت کو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کرو اور بسم اللہ الرحمن الرحیم پر ان کی قرأت کو ختم کرو۔ حضرت جبیرؓ کہتے ہیں میں دولت مند تھا۔ میرے پاس مال زیادہ تھا لیکن اس سے پہلے جب سفر پر نکلتا تو میری شکل بہت خستہ حال اور زادراہ بہت تھوڑاہوتا تھا۔ اس کے بعد جب میں نکلتا تو سفر سے واپسی تک زیادہ خوش شکل اور سب سے زیادہ زاد راہ والا ہوتا تھا۔ (مجمع الزوائد‘ ۱۰/۱۳۴)
سفر میں آدمی کی ایک ضرورت یہ ہوتی ہے کہ اس کا لباس‘ وضع قطع‘ شکل و شباہت اچھی ہو اور دوسری ضرورت یہ ہوتی ہے کہ زاد راہ زیادہ ہو۔ ان دونوں ضرورتوں کے لیے ظاہری سازوسامان کا انتظام کرنا ضروری ہے لیکن اصل سامان اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد ہے کہ وہی حالات کو سازگار کرنے والی اور برکت دینے والی ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کا ایک ذریعہ وہ پانچ سورتیں ہیں جن کی رہنمائی رسولؐ اللہ نے فرمائی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بذاتِ خود حجت ہے۔ مزیدبرآں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تجربے سے جو چیز ثابت ہوجائے اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں رہتا۔
حضرت جبیرؓنے اپنا تجربہ بیان فرما دیا ہے۔ آج ہم بھی رسولؐ اللہ کے ارشاد کے روشنی میں ان کے تجربے کو پیش نظر رکھ کر اپنے سفر کی ان دو ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔
o
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے شخص کے ہاں تشریف لے گئے جو بیماری کے دبائو کے سبب چوزے کی طرح لاغر ہوگیا تھا۔ رسولؐ اللہ نے اس سے پوچھا: آپ نے کوئی دعا کی تھی؟ اس نے عرض کیا: میں دعا کرتا تھا: ’’اے اللہ!آپ نے مجھے جو سزا آخرت میں دینی ہے وہ دنیا میں دے دیجیے‘‘۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے یہ دعا کیوں نہ کی: رَبَّنَـآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَاب الـنَّارِ (البقرہ:۲۰۱) ’’اے اللہ! مجھے دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے‘‘۔ اس نے یہ دعا شروع کر دی تو اللہ تعالیٰ نے اسے شفا عطا فرما دی۔(کنز العمال‘ ج ۱‘ص ۲۹۰)
اللہ تعالیٰ رحمن و رحیم ذات ہے۔ اس سے ایسی دعا کی حاجت نہیں جس میں سودا اور لین دین ہو کہ آخرت کی سزا دنیا میں ہوجائے۔ ایسا معاملہ انسانوں کا انسانوں سے ہوتا ہے کہ وہ معاف نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والی ہستی ہے۔ اس لیے اس سے معافی مانگنی چاہیے اور یہ دعا کرنی چاہیے کہ وہ آخرت میں بھی بھلائی عطا فرمائے اور دنیا میں بھی۔
بعض اوقات انسان ایسی دعا کر بیٹھتا ہے کہ اس کے سبب تکلیف سے دوچار ہوجاتا ہے۔ مذکورہ حدیث میں جس شخص کا تذکرہ ہے وہ اپنی دعا کے سبب تکلیف میں مبتلا ہوکر انتہائی کمزور ہوگیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوسری دعا سکھلائی جس کی بدولت اس دعا کے اثرات زائل ہوگئے اور اس شخص کی صحت بحال ہوگئی۔ کیسا خوش قسمت شخص تھا جسے رسول ؐ اللہ کا دست شفقت اور آپؐ کا بتلایا ہوا نسخۂ شفا نصیب ہوگیا۔ آج بھی جسمانی اور روحانی بیماریوں اور تکالیف سے نجات کے لیے یہ دعا اکسیر ہے۔
وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (ابراھیم ۱۴:۷)
اور یاد رکھو‘ تمھارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔
شکر کیا ہے؟ اس کی کیفیات کیا ہیں؟ پروردگار کا شکر گزار بندہ بننے کے لیے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے؟
شکر کے اصطلاحی معنی ہیں رب العالمین کی نعمتوں کا اعتراف اور ان کی قدر کرنا اور اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے ضابطے کے مطابق اِن کا استعمال کرنا۔ اس لحاظ سے جذبۂ شکر کی تسکین کے دو مراحل ہیں۔ پہلا مرحلہ زبانی اقرار ہے‘ یعنی قولاً شکر گزار ہونا۔ دوسرا مرحلہ ہے عملاً شکرگزار بندہ بن جانا۔
قولی شکرگزاری کے دو پہلو نہایت نمایاں ہیں۔ ایک یہ کہ بندہ اپنے رب کی نعمت کا اعتراف کرے۔ چنانچہ فرمایا: وَاَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ (الضحٰی ۹۳:۱۱) ’’اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرو‘‘۔ اس تذکرے اور اعتراف سے‘ بندۂ مومن کی نظر تمام اسباب اور وسائل سے ہٹ کر اللہ رب العالمین پر جم جاتی ہے۔ اسی سے اُس کے قلب و ذہن سے شرک کے تمام آثار نکل جاتے ہیں اور وہ حقیقی معنوں میں توحید اپنا لیتا ہے۔ چنانچہ دیگر نعمتوں اور ضروریاتِ زندگی کے حصول اور مصائب و آلام سے بچنے کے لیے انسان کی نظر‘ لامحالہ بارگاہ ایزدی کی جانب ہی اُٹھتی ہے۔
قولی شکرگزاری کا دوسرا پہلو منعمِ حقیقی کی حمدوستایش ہے۔ جب بندے کا دل جذبۂ تشکر و احسان شناسی سے لبریز ہو تو‘ زبان سے رب العالمین کی حمدوستایش کے کلمات بے اختیار ادا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کی باقاعدہ تربیت فرمائی اور اُنھیں ہرنعمت سے مستفید ہونے کے بعد الحمدللہ کہنا سکھایا۔
کسی بندے نے اللہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا: یَارَبِّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا یَنْبَغِیْ لِجَلَالِ وَجْھِکَ وَعَظِیْمِ سُلْطَانِکَ ، (اے اللہ تیرے لیے ایسی حمد ہے جو تیرے چہرے کی بزرگی اور تیری عظیم سلطنت کے شایانِ شان ہو)۔ تو فرشتے اِس سے اتنے متحیر ہوئے اور فیصلہ نہ کرسکے کہ اس کا احاطہ کیسے کریں۔ چنانچہ وہ بارگاہِ ایزدی میں حاضر ہوئے اور عرض کی: بارِ الٰہ! تیرے فلاںبندے نے ایسی بات کہی جس کا احاطہ کرنا ہماری قدرت سے باہر ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بندے نے کیا کہا تھا اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے سوال کیا: میرے بندے نے کیا کہا تھا؟ فرشتے عرض پرداز ہوئے‘ اُس نے کہا: ’’اے اللہ! تیرے لیے ایسی تعریف ہے جو تیرے چہرے کی بزرگی اور عظیم سلطنت کے شایانِ شان ہو‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ ایسا ہی لکھ دو جیسا اُس بندے نے کہا۔ کل قیامت کے دن جب وہ مجھ سے ملے گا میں خود اُسے اِس کا اجر دوں گا۔ (ابن ماجہ)
روایات میں آتا ہے کہ حضرت موسٰی ؑکوہِ طور کی طرف تشریف لے جا رہے تھے کہ اُن کے دل میں اہل و عیال کا خیال آیا‘ اور اُن کے بارے میں قدرے متردّد ہوئے۔ اثناے راہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا: اے موسٰی ؑ! فلاں پتھر کو اپنی عصا سے توڑ ڈالو۔ اُنھوں نے ایسا ہی کیا۔ اُس سے ایک اور پتھر برآمد ہوا جسے توڑنے کا حکم دیا گیا۔ غرض یکے بعد دیگرے سات پتھر برآمد ہوئے جنھیں توڑنے کا حکم دیا گیا۔ساتویں پتھر میں ایک کیڑا موجود تھا جس کے منہ میں تازہ پتا تھا۔ ابھی حضرت موسٰی ؑمحوحیرت ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی ؑکی قوتِ سماعت کو اس قابل بنایا کہ وہ کیڑے کی آواز سن سکیںجو اپنی زبان میں رب کی حمد بیان کر رہا تھا:
پاک ہے وہ جو مجھے دیکھ رہا ہے‘ جسے میرے ٹھکانے کا علم ہے‘ جو میری بات سن رہا ہے‘ جو مجھے یاد رکھتا ہے اور کبھی نہیں بھولتا۔
یہاں سوچنے اور غوروفکر کرنے کی بات یہ ہے کہ جب غیرعاقل مخلوق میں اِس قدر جذبہ احسان شناسی موجود ہے تو انسان جو کہ اشرف الخلائق ہے اُسے تو سب سے بڑھ کر رب کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں تفسیر تدبر قرآن میںمولانا امین احسن اصلاحی نے دودھیل بکری کی مثال بیان کی ہے کہ جس طرح اُس کے تھن دودھ سے لبریز ہوں اور ذرا سے لمس سے دودھ نکلنا شروع ہوجائے‘ بالکل اسی طرح مومن کا دل شکروسپاس کے جذبات سے لبریز رہتا ہے اور جیسے ہی رب کی کسی نعمت کا اسے احساس ہوتا ہے یہ جام چھلکنا شروع ہوجاتا ہے اور اُس کی زبان سے اپنے رب کی حمدوستایش کے کلمات بے اختیار جاری ہوجاتے ہیں۔
قولی شکرگزاری کی طرح عملی شکرگزاری کے بھی دو ہی پہلو ہیں۔ ایک: نعمت کی قدروحفاظت‘ دوسرے: اُس کا جائز استعمال۔ ایک شخص جسے صحت جیسی نعمتِ عظمیٰ سے نوازا گیا ہو‘ اُس پر لازم ہے کہ وہ اِس نعمتِ رب کا شکر ادا کرے۔ اس کا عملی شکر یہ ہے کہ وہ اس کی قدر کرے اور صحت کو تباہ کرنے والے عوامل سے اجتناب کرے۔ اُن غذائوں‘ مشروبات اور معمولات سے اپنے آپ کو بچائے جو صحت کے لیے نقصان دہ ہوں۔ پھر اس صحت اور توانائی سے بھرپور استفادہ کرے۔ اپنی صلاحیتوں‘ اوقات کار اور وسائل کو اللہ کی بندگی‘ رسولؐ اللہ کی اطاعت اور رزقِ حلال کے حصول میں صرف کرے۔ معاملات میں اللہ کی قائم کردہ حدود کا احترام کرے۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی جسمانی ضروریات کا اہتمام کیا۔ رزق‘ لباس اور راحت کے اسباب مہیا کیے۔ دن کو کام کاج اور رات کو آرام کے لیے بنایا‘ بالکل اسی طرح اس نے انسان کی ہدایت اور رہنمائی کا بھی انتظام فرمایا۔ اُس نے انسان کو عقل وفکر‘ نیز سماعت و بصارت سے آراستہ کیا اور وحی و رسالت کے ذریعے اُس کے سامنے ایک صاف سیدھا اور کشادہ راستہ کھول دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّا ہَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا (الدھر ۷۶:۳)
ہم نے اسے راستہ دکھا دیا‘ خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔
گویا جو بندہ نعمتِ ہدایت کو قبول کرتا ہے‘ صراط مستقیم کو اپنا لیتا ہے‘ وہی دراصل اس کا شکرادا کرتا ہے اور جو کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی اس کو چھوڑ کر شیطان کی راہوں پر بھٹکتا ہے وہی دراصل ناشکرگزار ہے‘ یعنی کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس کے بعد نعمت ہدایت کا شکر یہ بھی ہے کہ بندہ اسے اپنے تک محدود نہ رکھے‘ بلکہ مسلسل اس کی اشاعت کا فریضہ سرانجام دیتا رہے۔ بندہ جب خود روشنی میں ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ اُن بندوں کو روشنی کی طرف لے کر آئے جو اندھیرے میں بھٹک رہے ہیں۔
اب آیئے یہ دیکھیں کہ شکر کے اس جذبے کو پروان کیوں کر چڑھایا جائے۔
بندۂ مومن کو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر ہر پل نگاہ رکھنی چاہیے۔ بہت ساری نعمتیں ایسی ہیں کہ جن کو انسان سرے سے نعمت خیال ہی نہیں کرتا‘ یا اُن کی اتنی اہمیت اُس کی نظر میں نہیں ہوتی جتنی کہ ہونی چاہیے۔ یہی چیز بعدازاں ناشکری کو جنم دیتی ہے‘ مثلاً انسان کو اِس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اسے اللہ کی کتنی نعمتیں حاصل ہیں۔ انسان ہر پل سانس لیتا ہے‘ لیکن اکثر اوقات اُسے احساس ہی نہیں رہتا کہ وہ رب العالمین کی کتنی بڑی نعمت سے مفت میں فیض یاب ہو رہا ہے‘ وہ نعمت جس پر انسان کی زندگی کا دارومدار ہے! اس نعمت کی قدر اس تصور سے ہوسکتی ہے کہ آدمی ہر سانس لینے کے بعد یہ سوچے کہ شاید یہ زندگی کا آخری سانس ہو‘ اور اس کے بعد اگر سانس لینے کا موقع ملے گا بھی تو صرف اللہ کے حکم سے ملے گا۔ اسی طرح ایک بینا آدمی آنکھوں کی قدر نہیں کرتا لیکن نابینا کے پاس اِن کی قدر ضرور ہوتی ہے۔
ایک انگریز مصنفہ ہیلن کیلر جو کہ پیدایشی نابینا تھیں اپنے ایک مضمون Three Days to See (دیکھنے کے لیے تین دن) میں رقم طراز ہیں کہ ’’اکثر دیکھنے والے نہیں دیکھ سکتے کیونکہ وہ اپنی آنکھوں کا صحیح استعمال نہیں جانتے‘‘۔ وہ اس کی مثالیں دیتی ہیں کہ: یہ واقعہ بھی ہے کہ کوئی شخص کسی پارک‘جنگل یا بازار میں ڈیڑھ دو گھنٹے گھوم آئے۔ آپ جب اس سے وہاں کا احوال پوچھیں تو وہ دو چار جملوں سے زیادہ اپنے تاثرات بیان نہیں کر سکے گا۔ کیونکہ بہت ساری چیزوں کو اُس نے دیکھا ہی نہیں ہوگا‘‘۔ وہ آگے ایک جگہ تجویز کرتی ہیں کہ ہر شخص کو اپنی آنکھیں اس طرح استعمال کرنی چاہییں گویا کہ وہ کل اندھا ہوجائے گا۔ صرف اسی طرح انسان آنکھوں کے بھرپور استعمال سے آشنا ہوسکے گا۔
یہ بھی نعمت کی معرفت میں شامل ہے کہ انسان نعمت کے فوائد اور استعمالات پر برابر غور کرتا رہے۔ ارشاد باری ہے: وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا (ابراھیم ۱۴:۳۴)‘ اس آیت کا ترجمہ عموماً یہ کیا جاتا ہے کہ ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے‘‘۔ حالانکہ یہاں لفظ نعمت بطور واحد استعمال ہوا ہے جس کی جمع اَنْعَمْ ہے۔ چنانچہ اس آیت کا زیادہ فصیح ترجمہ یہ بنتا ہے کہ: ’’اگر تم اللہ کی نعمت (کے فوائد) کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے‘‘۔ مثال کے طور پر پانی ایک نعمت ہے لیکن اس کا صرف ایک فائدہ نہیں ہے۔ اس پانی کو انسان پیتا ہے‘ اسی سے کھاناپکتا ہے‘ اسی سے فصلوں میں ہریالی ہے۔ پھلوں میں ذائقہ ہے‘ موسم کی گرمی و سردی ہے‘ یہی پانی آج توانائی کا منبع ہے۔ اسی طرح سورج ایک نعمت ہے لیکن اس کا بھی صرف ایک فائدہ نہیں ہے۔ نہ صرف یہ کہ یہ نعمتیں ہمہ جہتی اور کثیرالفوائد ہیں‘ بلکہ ان میں سے ہر ایک انسانی زندگی کے لیے لازمی اور ضروری (vital) ہے۔ ذرا سوچیں‘ اگر اس کرئہ ارض پر آکسیجن نہ رہے تو کیا روے زمین پر زندگی کے کوئی آثار رہیں گے؟ اگر پانی خشک ہوجائے تو کیا انسان اور دیگر کسی جان دار کا اس زمین پر زندہ رہنا ممکن ہوگا؟ یا سورج مستقل غروب ہوجائے تو زندگی کا پہیہ کیسے چلے گا؟ غرض‘ ہرنعمت اتنی اہم ہے کہ گویا اُسی پر زندگی کا دارومدار ہے۔ مزید یہ کہ یہ تمام نعمتیں ہمیں بالکل مفت ‘ بہت بڑے پیمانے پر اور بغیر طلب کے میسر ہیں۔
دل کو شکر کا گہوارہ بنانے کے لیے بندئہ مومن کو چاہیے کہ دنیاوی نعمتوں کے سلسلے میں ہمیشہ اُن لوگوں پر نظر مرکوز رکھے جو اِن نعمتوں سے محروم ہیں۔ لیکن آج المیہ یہ ہے کہ انسان کی نظر نیچے کے بجاے اُوپر کو جاتی ہے ‘اور وہاں جاکر ٹھیرتی ہے جہاں انسان حسرت و یاس کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں شیخ سعدی کا ایک واقعہ لائق مطالعہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:
ایک مرتبہ میں سفر پر تھا۔ دورانِ سفر جوتے ٹوٹ گئے۔ چنانچہ برہنہ پا سفر جاری رکھا اوراتنی رقم پاس نہ تھی کہ نئے جوتے خرید سکوں۔ دل میں شکوہ پیدا ہوا کہ مجھ جیسا عالم جوتوں کے بغیر سفر کر رہا ہے۔ راستے میں ایک مسجد میں نماز کے لیے رکا تو دیکھا کہ ایک شخص بھیک مانگ رہا ہے‘ جس کے دونوں پائوں کٹے ہوئے ہیں۔ میںنے فوراً سجدئہ شکر ادا کیا اور کہا: اے اللہ! تیرا شکر کہ میرے پائوں توسلامت ہیں۔ کیا ہوا جو مجھے جوتا میسر نہیں۔ یہی وہ اندازِ فکر ہے جو بندۂ مومن کا دل شکر سے معمور کر دیتا ہے۔
مگر انسان کا حال یہ ہے کہ اس کا رب جب اس کو آزمایش میں ڈالتا ہے اور اسے عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنایا اور جب وہ اس کو آزمایش میں ڈالتا ہے اور اس کا رزق اس پر تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا۔ (الفجر۸۹: ۱۵-۱۶)
اس کے مقابلے میں بندئہ مومن کا حال یہ ہے کہ وہ ظاہری حالت کے بجاے پوشیدہ آزمایش کی طرف خیال کرتا ہے۔ یہی احساس فاقہ کشی میں اُسے صابر اور خوش حالی میں اُسے شاکر رکھتا ہے۔ اسی کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے جس کی طرف قرآن نے یوں اشارہ کیا ہے:
ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ o (التکاثر ۱۰۲:۸)
پھر ضرور اس روز تم سے ان نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی۔
اس آیت کی تفسیر میں سیرت کا یہ واقعہ نقل کیا جاتا ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘ حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کے ہمراہ ایک انصاری صحابیؓ کے باغ میں تشریف لے گئے۔ اُنھوں نے آپ حضرات کے سامنے کھجوروں کا ایک خوشہ لاکر رکھ دیا۔ آپؐنے فرمایا: تم خود کھجوریں توڑ لاتے۔ اُنھوں نے کہا: میں چاہتا تھا خوشہ حاضر کر دوں اور آپ اپنی پسند سے کھجوریں توڑ کر تناول فرمائیں۔ چنانچہ آپؐ اور آپ ؐکے اصحاب نے کھجوریں تناول فرمائیں اورٹھنڈا پانی نوش کیا۔ پھر فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! یہ ان نعمتوں میں ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن جواب دہی کرنا پڑے گی۔ یہ ٹھنڈا سایہ‘ یہ میٹھی کھجوریں اور ٹھنڈا پانی۔
یہ وہ طرزِ فکر اور طرزِ عمل ہے جو انسان کے دل کو شکر کا گہوارہ بناسکتا ہے۔ اسی طرزِعمل سے وہ اپنی زبان کو حمدالٰہی سے مزین کرسکتا ہے‘ اور اپنے عمل کو قانونِ الٰہی کا پابند بناسکتا ہے۔
حضرت انسان بھی خوب ہیں۔ اس بات پر پریشان رہے کہ آبادی میں اضافہ ہوتا جائے گا اور یہ بم پھٹے گا توکیا ہوگا؟ یا اب اس پر پریشان ہیں کہ آبادی کم ہوتی گئی (اور بوڑھی نسل میں اضافہ ہوتا گیا) تو اس دنیا کا کیا بنے گا؟ اللہ تعالیٰ کے کام مقررہ اندازوں سے ہوتے ہیں لیکن بندہ اپنی عقل و دانش سے ان اندازوں کو بگاڑتا ہے اور پھر ان کے نتائج بھگتتا ہے۔
وسط ستمبر ۲۰۰۴ء میں اقوام متحدہ نے انتباہ جاری کیا کہ دنیا کے بڑے شہروں کی آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے۔ لاگوس کی آبادی ۱۹۹۵ء میں ۶۵ لاکھ تھی‘ جو ۲۰۱۵ء تک ایک کروڑ ۶۰لاکھ ہونے کا امکان ہے۔
یہ مکمل کہانی نہیں ہے‘ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں خاندانوں میں اولاد کی تعداد کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے۔ شرح افزایش میں ۱۹۷۲ء کے مقابلے میں آدھی سے زیادہ کمی واقع ہوچکی ہے۔ پہلے ایک عورت چھے بچوں کو جنم دیتی تھی اب وہ اوسطاً صرف ۹ئ۲ بچوں کو جنم دیتی ہے۔ ماہرین آبادی کے مطابق اس تعداد میں تیزی سے مزید کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔
دنیا کی آبادی میں اضافہ بہرحال جاری رہے گا۔ آج دنیا کی آبادی ۶ ارب ۴۰ کروڑ ہے جو ۲۰۵۰ء میں ۹ ارب تک جا پہنچے گی۔ اس کے بعد آبادی میں بہت تیزی سے کمی ہونا شروع ہوجائے گی۔ اُس وقت آبادی کی کمی کے اثرات سامنے آجائیں گے تو ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تدابیر کی جائیں گی۔ کئی ممالک میں یہ عمل پہلے ہی شروع ہوچکا ہے۔ آبادی کا یہ نیا توازن قوموں کی قوت‘عالمی معاشی افزایش‘ ہماری زندگیوں کا معیار‘غرض دنیا کی ہر چیز کو تبدیل کر دے گا۔
یہ انقلابی تبدیلی ترقی یافتہ ممالک نہیں‘ بلکہ ترقی پذیر ممالک کے ذریعے آئے گی۔ ہم میں سے اکثر لوگ آبادی کے رجحانات کے حوالے سے یورپ کے بارے میں آگاہ ہیں جہاں برسوں سے شرح پیدایش میں کمی آتی جارہی ہے۔ اس توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ یورپ کی ہر عورت کے ہاں ۱ئ۲ بچے پیدا ہوں مگر یورپ میں شرح پیدایش اس سے بھی کہیں کم ہے۔ اقوام متحدہ کی آبادی رپورٹ ۲۰۰۲ء کے مطابق فرانس اور آئرلینڈ ۸ئ۱ بچوں کے تناسب سے یورپ میں سب سے بلند شرح پیدایش‘ جب کہ اٹلی اور اسپین ۲ئ۱ بچوں کے تناسب سے یورپ میں سب سے کم شرح پیدایش کے حامل ممالک ہیں‘ جب کہ ان کے درمیان جرمنی جیسے ممالک ہیں جن کی شرح پیدایش ۴ئ۱ کے تناسب سے یورپ کی اوسط کے مطابق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگلے ۴۰برسوں میںجرمنی کی کُل ۸ کروڑ۲۵ لاکھ آبادی میں سے پانچواں حصہ کم ہوجائے گا۔
یہی صورت حال پورے یورپ میں ہے۔ بلغاریہ کی آبادی میں ۳۰ فی صد‘ رومانیہ میں ۲۷فی صد‘ جب کہ ایسٹونیا میں ۲۵ فی صد کمی ہوگی۔ مشرقی یورپ کے بعض خطے جو پہلے ہی کم آبادی کا شکار ہیں‘ ان کے بارے میں اندیشہ ہے کہ وہ ’بیابان‘ میں تبدیل ہوجائیں گے۔
یہ اندازے اور تخمینے برلن انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن اینڈ ڈویلپمنٹ کے ڈائرکٹر Reiner Klingholz کے ہیں۔ روس پہلے ہی سالانہ ساڑھے سات لاکھ آبادی کی کمی کا شکار ہو رہا ہے۔ روسی صدر نے اس صورت حال کو ’’قومی بحران‘‘ قرار دیا ہے۔ یہی حالت مغربی یورپ کی بھی ہے جہاں زیادہ نہیں تو اس صدی کے وسط تک سالانہ ۳۰ لاکھ لوگوں کی کمی ہوجایا کرے گی۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی اسی روش کو نہایت تابعداری کے ساتھ اندھوں کی طرح اپنا رہے ہیں۔ جاپان جلد ہی آبادی کے خسارے سے دوچار ہونے والا ہے۔ اقوام متحدہ کے تخمینوں کے مطابق اگلے چار عشروں میں جاپان اپنی موجودہ ۳ئ۱شرح پیدایش کے سبب ۱۲ کروڑ ۷۰ لاکھ کی آبادی کا ایک چوتھائی کھوبیٹھے گا۔ مگر چین کا کیا کیا جائے جہاں ۱۹۷۰ء میں شرح پیدایش ۸ئ۵ تھی‘ آج گھٹ کر ۸ئ۱ رہ گئی ہے۔ چین کی مردم شماری سے حاصل ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق شرح پیدایش اس سے بھی کم یعنی ۳ئ۱ ہے۔ دوسری جانب اوسط عمر میں اضافہ ہونے کے باعث بوڑھوں کی تعداد میں اس قدر اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ چین کی ایک ہی نسل میں جتنے لوگ بوڑھے ہوں گے وہ پورے یورپ میں ایک سو سال میں نہیں ہوئے ہوں گے۔ چین اور جاپان کے بارے میں یہ اعداد وشمار نہایت مستند ادارے Centre for Strategic and International Studies واشنگٹن نے اپنی ایک رپورٹ میں شائع کیے ہیں۔ جسے نیوزویک نے ۲۷ ستمبر ۲۰۰۴ء کے شمارے میں نقل کیا ہے۔
۲۰۱۵ء میں چین امریکا سے زیادہ بوڑھا ہوگا‘ یعنی چینی بوڑھے بہت زیادہ تعداد میں ہوں گے۔ ۲۰۱۹ء یا اس کے آس پاس چین کی آبادی اپنی انتہا کو چھوتے ہوئے ڈیڑھ ارب تک جا پہنچے گی۔ (اس وقت ۲۰۰۵ء میں چین کی کل آبادی ایک ارب ۳۰ کروڑ ۳۴ لاکھ ۵۸ ہزار ۵ سو ۲۷ ہے)۔ صدی کے درمیان تک چین کی آبادی فی نسل کے حساب سے ۲۰ سے ۳۰ فی صد گھٹتی جائے گی۔
ایسی ہی صورت حال ایشیا کے ان ممالک میں بھی ہے جہاں چین کی طرح تحدید آبادی کے سخت گیر قوانین اور پالیسیاں نافذ نہیں ہیں۔ ترقی یافتہ صنعتی اقوام مثلاً سنگاپور‘ ہانگ کانگ‘ تائیوان اور جنوبی کوریا میں نسلِ انسانی کی افزایش میں کمی کا رجحان بیان کیا جا رہا ہے۔ یہ حقائق واشنگٹن کے American Enterprise Instituteکے ماہرآبادیات نکولس ایبرسٹیٹ کے بیان کردہ ہیں۔اس فہرست میں تھائی لینڈ‘ برما‘ آسٹریلیا‘ سری لنکا‘ کیوبا‘ متعدد کیریبین (Caribbean) اقوام اور اسی طرح یوروگوئے اور برازیل کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ میکسیکو اس قدر تیزی سے بوڑھا ہو رہا ہے کہ اگلے چند عشروں میں نہ صرف یہ کہ اس کی آبادی میں اضافہ رک جائے گا‘ بلکہ امریکا کے مقابلے میں یہاں آبادی کہیں زیادہ بوڑھوں پر مشتمل ہوگی۔ ایبرسٹیٹ کے بقول ’’اگر یہ اعداد و شمار درست ہیں تو پھر دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی ایسے ممالک کے اندر رہ رہی ہوگی جہاں مرنے والوں اور پیدا ہونے والوں کی تعداد یکساں ہو‘ یعنی نہ کمی نہ اضافہ۔ ان اعداد و شمار میں کچھ مستثنیات بھی ہیں‘ مثلاً یورپ میں البانیہ اور کوسووا میں آبادی کی افزایش صحیح انداز سے جاری ہے۔ اسی طرح سے کچھ خطے ایشیا میں بھی ہیں‘ مثلاً منگولیا‘ پاکستان اور فلپائن۔
اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ مشرقِ وسطی کی آبادی اگلے بیس برسوں میں دُگنی ہوجائے گی۔ مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ آبادی ۳۲ کروڑ ۶۰ لاکھ ہے جو ۲۰۵۰ء میں بڑھ کر ۶۴ کروڑ ۹۰ لاکھ ہوجائے گی۔ دنیا میں سب سے زیادہ شرح پیدایش والا ملک سعودی عرب ہے جس کی شرح ۷ئ۵ ہے۔ اس کے بعد فلسطینی علاقے ہیں جہاں یہ شرح ۴ئ۵ ہے۔ پھر یمن کی باری آتی ہے۔
کچھ چیزیں حیرت انگیز بھی ہیں۔ مثلاً تیونس کم آبادی والے ممالک میں جاچکا ہے۔ (تیونس کی موجودہ آبادی ایک کروڑ سے کچھ زائد ہے)۔ لبنان اور ایران آبادیاتی خسارے کی دہلیز پر ہیں۔ مجموعی طور پر اس خطے کی آبادی میں اگرچہ اضافہ جاری ہے لیکن اس کی وجہ پیدایش کے وقت بچوں کی وفات کی شرح میں کمی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں یہاں شرح پیدایش تیزی سے گھٹ رہی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ آنے والے عشروں میں مشرق وسطیٰ میں بھی دنیا کے دوسرے خطوں کے مقابلے میں بوڑھوں کی تعداد زیادہ ہوگی۔
افریقہ میں شرح پیدایش بلند ہے۔ ایڈز کی وبا کے پھیلائو کے باوجود اندازہ ہے کہ افریقہ کی آبادی میں اضافے کی رفتار جاری رہے گی اور یہی معاملہ امریکا کا ہے۔
ماہر سماجیات بین ویٹن برگ (Ben Wattenberg) Fewer: How the new Demography of Depopulation will shape our future. میں لکھتا ہے کہ ’’سیاہ طاعون کے زمانے سے لے کر اب تک کے ۶۵۰ برسوں میں شرح پیدایش اور بارآوری (fertility) کی شرح آج تک اتنی تیزی سے اتنے مقامات پر کبھی نہیں گری۔
اقوام متحدہ کی مذکورہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر جگہ لوگ دیہات سے شہروں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔ یہ شہر ۲۰۰۷ء تک دنیا کی کُل آبادی کا نصف سموئے ہوئے ہوں گے۔ پھر شہروں میں بچے پالنا نفع بخش کام کے بجاے نقصان کا سودا ہوگا۔
۱۹۷۰ء سے ۲۰۰۰ء کے دوران نائیجیریا کی شہری آبادی ۱۴ فی صد سے بڑھ کر ۴۴ فی صد تک جا پہنچی۔ جنوبی کوریا میں یہ ۲۸ فی صد سے ۸۴ فی صد پر چلی گئی۔ لاگوس سے لے کر نیو میکسیکو سٹی تک نام نہاد عظیم شہروںکی آبادیوں میں دیکھتے دیکھتے حیرت انگیز اضافہ ہوگیا مگر ملک کی مجموعی آبادی کی شرح پیدایش میں کمی آگئی۔ پھر دوسرے عوامل بھی اپنی جگہ کارفرما ہیں مثلاً خواتین میں شرح تعلیم میں اضافے اور اسکولوں میں بچیوں کے داخلے کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے شرح پیدایش میں کمی آگئی ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں دیر سے شادی کرنے کے رجحان کے ساتھ ساتھ اسقاطِ حمل اور طلاق نے بھی آبادی میں اضافے کی رفتار کو کم کر دیا ہے۔ گذشتہ عشرے میں مانع حمل آلات اور ادویات کے استعمال میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ۶۲ فی صد شادی شدہ یا inunion (ایسی خواتین جو شادی کے بغیر مردوں کے ہمراہ زندگی گزاریں) خواتین جو بچے پیدا کرنے کی عمر کی حامل ہیں‘ اب غیرفطری ضبطِ تولید کے ذرائع استعمال کر رہی ہیں۔ ہندستان جیسے ممالک میں جو ایچ آئی وی (ایڈز وائرس) کے عالمی دارالحکومت کی شکل اختیار کرگئے ہیں وہاں یہ وبا کی تحدید آبادی میں ایک عنصر کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔
روس میں تحدید آبادی کے عوامل میں شراب نوشی‘ گرتی ہوئی صحت اور صنعتی آلودگی شامل ہے جو مردوں کی مجموعی تولیدی صلاحیت (sperm counts) کے بگاڑ کا اصل سبب ہیں۔
دولت بچوں کی پیدایش کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ یہ چیز یورپ میں ایک عرصے سے دیکھی گئی اور اب ایشیا میں بھی یہی صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔ ماہرسماجیات ویٹن برگ کے بقول ’’سرمایہ داری بہترین آلۂ مانع حمل ہے‘‘۔ (Capitalism is the best contraceptive)
آبادی کی یہ صورت حال اپنے اندر کیا مضمرات سمیٹے ہوئے ہے اور عالمی معیشت پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس بارے میں فلپ لونگ مین (Philip Longman) نے اپنی ایک حالیہ کتاب The Empty Cardle: How Falling Birth Rates Threaten World Prosperity and What to do about it ‘یعنی ’’خالی پنگوڑے: گرتی ہوئی شرح پیدایش دنیا کی خوشحالی کے لیے کس طرح خطرہ ہیں اور اس کا حل کیا ہے؟‘‘ میں تفصیلات بیان کی ہیں۔
فلپ لانگ مین نیو امریکا فائونڈیشن واشنگٹن میں ماہرِآبادیات ہے۔ وہ آبادی کے اس رجحان کو عالمی خوش حالی کے لیے ایک خطرہ تصور کرتا ہے۔ چاہے جایداد کا کاروبار ہو یا صارفین کی جانب سے کیے جانے والے اخراجات۔ معاشی ترقی اور آبادی کا باہمی قریبی تعلق ہوتا ہے۔ فلپ نے بڑے خوب صورت انداز میں ایک بات کہی ہے کہ ’’ایسے لوگ بھی ہیں جو اس امید سے چپکے ہوئے ہیں کہ متحرک معیشت بڑھتی ہوئی آبادی کے بغیر ممکن ہے مگر ماہرین اقتصادیات کی اکثریت اس بارے میں قنوطیت پسند ہے‘‘۔
ماہرین آبادیات کی پیشن گوئی کے مطابق اٹلی میں اگلے چار عشروں میں کام کے قابل آبادی میں ۴۰ فی صد کمی آئے گی‘ جب کہ یورپی کمیشن کے مطابق براعظم یورپ میں بھی اتنی ہی کمی واقع ہوگی۔ پھر جب ۲۰۲۰ء میں بچوں کی افزایش میں اضافے کے خواہش مند ریٹائر ہوجائیں گے تو اس وقت کیا بنے گا؟ جرمنی‘ اٹلی‘ فرانس اور آسٹریا میں ۲۰۰۴ء میں پنشن کے حوالے سے اصلاحات کے ضمن میں ہونے والی ہڑتالوں اور مظاہروں کو یورپ کے بزرگوں اور آنے والی نسلوں کے درمیان بڑی سماجی لڑائیوں کے اندیشے کا آغاز قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر اس کا موازنہ چین سے کیا جائے تو پھر یہ تو محض ایک چھوٹی جھڑپ ہوگی کیونکہ چین میں بوڑھے زیادہ ہوں گے اور وہاں ایسے حقوق کی جنگ شدید ہوگی۔ چین میں مارکیٹ اصلاحات نے ’’جھولے کی جگہ قبر‘‘ کے فوائد کی طرف توجہ دینا شروع کر دی ہے‘ جب کہ کمیونسٹ پارٹی نے معقول سماجی حفاظتی نظام روبہ عمل لانے کے لیے ترتیب ہی نہیں دیا ہے۔ CSIS کے مطابق ریٹائرمنٹ پر پنشن کی سہولت ملک کی ایک چوتھائی سے بھی کم آبادی کو حاصل ہے جس کی وجہ سے بزرگوںکی دیکھ بھال کا تمام بوجھ اس نسل پر ہوگا جو اس وقت بچے ہیں۔
چین کی ’’ایک بچہ پالیسی‘‘ نے نام نہاد ’’۱-۲-۴ مسئلہ‘‘ کی سمت اختیار کرلی ہے۔ اس مسئلے میں آج کا بچہ آنے والے کل میں اپنے والدین اور چار دیگر افراد یعنی دادا‘ دادی اور پڑدادا پڑدادی کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہوگا۔ چین میں آمدنیاں اس بوجھ کی تلافی کے لیے تیزرفتاری سے بڑھ رہی ہیں۔ کچھ نوجوان دیہات سے نکل کر شہروں کا رخ کر گئے ہیں جس کی وجہ سے ایسے گھرانوں کے بزرگوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں رہا۔ پھر بوڑھی ہوتی ہوئی چینی آبادی جلد ہی چین کی عالمی کاروباری مسابقت کو گہنا دے گی کیونکہ چین کی معاشی ترقی کا اس وقت انحصار نہ ختم ہونے والی مسلسل سستی لیبرفورس کی فراہمی پر ہے۔ مگر ۲۰۱۵ء کے بعد اس لیبرفورس کی فراہمی کا سلسلہ ٹھنڈا پڑنا شروع ہوجائے گا۔ یہ وہ باتیں ہیں جو چینی ماہراقتصادیات ہوانگانگ (Hu Angang) نے بیان کی ہیں۔ اُن کے مطابق اس مسئلے سے نبٹنے کے لیے چین تقریباً بے اختیار ہوگا۔ اس کا حل چین کو نہایت مغربی انداز میں اختیار کرنا ہوگا یعنی اسے اپنی ورک فورس کا تعلیمی معیار بلند کرناہوگا اور زیادہ پیداواری بنانا ہوگا۔ مگر کیا ایسا ممکن ہے؟ یہی دراصل ایک واضح سوال ہے۔ مغربی حل بھی بالآخر منفی شرح پیدایش پر منتج ہوگا اور بات وہیں آجائے گی کہ بوڑھوں کی فوج اور نوجوانوں کا خاتمہ۔ بہرحال صورت حال خواہ کچھ بھی ہو‘ مگر یہ بات تو یقینی ہے کہ ایشیا کی اُبھرتی معاشی قوتوں میں سے چین اپنے امیر ہونے سے پہلے ہی بوڑھا ہوجائے گا۔
ماہراقتصادیات اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی حالیہ کتاب The Economy of a Shrinking Population کے جاپانی مصنف آکی ہیکومیٹسوٹانی (Akihiko Matsutani) نے پیش گوئی کی ہے کہ جاپان کی معیشت ۲۰۰۹ء تک ’’منفی ترقی‘‘ (Negative Growth) کے عہد میں داخل ہوجائے گی۔ ۲۰۳۰ء تک قومی آمدن ۱۵ فی صد تک سکڑجائے گی۔
جاپان میں شرح زچگی مسلسل چوتھے سال بھی کم ہوئی ہے اور اب یہ کمی ریکارڈ حد تک گر گئی ہے۔ ۲۰۰۳ء میں جاپان کی شرح زچگی ۲۹ئ۱ ہوگئی تھی اور ۲۰۰۴ء میں ۲۸ئ۱ ہوئی۔ اس شرح سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اوسطاً جاپانی عورت کے کتنے بچے ہوں گے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس شرح میں کمی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جاپانی حکومت کی زیادہ بچوں کی پیدایش کی مہم ناکام ہوئی ہے۔ جاپان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جن میں شرح پیدایش بہت کم ہے۔ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے جاپان کی حکومت نے کئی ایسے منصوبے شروع کیے ہیں جن سے والدین کو بچوں کو سنبھالنے اور دیکھنے میں مدد ملے۔ ان میں ملازمت کرنے والی مائوں کے لیے چائلڈ کیر سنٹرز اور دیگر سہولتیں شامل ہیں۔ لیکن جاپانی خواتین کہتی ہیں کہ محض ان سہولتوں کی موجودگی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ان کا اصل مسئلہ معاشرے میں روایتی توقعات سے ہے۔ مردوں سے توقع کی جاتی ہے کہ دفتر میں دیر تک کام کریں‘ جب کہ خواتین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بچے کی پیدایش کے بعد نوکری بالکل چھوڑ دیں۔
غوروفکر کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ایسے ممالک کا مستقبل خطرے میں ہے اور ماہرین اقتصادیات کے سامنے بہت تیکھے سوالات ہیں مثلاً جاپان کی مشہور زمانہ بلند ترین بچتوں کا معاملہ ہی لیں جن کے باعث جاپانی معیشت ہمیشہ محفوظ رہی ہے اور ان بچتوں سے دنیا بھر نے خصوصاً امریکا نے ادھار لے کر سرمایہ کاری کی ہے۔ اب جب کہ جاپان کا بڑھاپا قریب تر آتا جا رہا ہے‘ تو کیا ایسی صورت میں وہ اثاثے جو جاپانیوں کے ہیں ریٹائرمنٹ کی صورت میں انھیں درکار نہیں ہوں گے۔ انھیں واپس کرنے کی صورت میں امریکا میں اور پوری دنیا میں شرح سود میں اضافہ ہوگا۔ کیا جاپانیوں کو خود اپنے ملک میں سرمایہ کاری کے لیے مسابقت کے ماحول میں قلتِ سرمایہ کا سامنا نہیں ہوگا؟ جاپانی سرمایہ کار آخر کس چیز میں اندرونِ ملک سرمایہ لگائیں گے جب کہ صارفین بوڑھے ہوں گے؟ آخر وہ کون سی نئی چیزیں ان بوڑھوں کو مہیا کریں گے جو پہلے سے موجود نہیں ہیں؟ قومی انفراسٹرکچر پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟ ماہراقتصادیات میٹسوٹانی کی پیش گوئی کے مطابق: ’’قومی خزانے میں ٹیکس کی مَد میں حاصل ہونے والے کم محاصل کی وجہ سے حکومتیں مجبور ہوں گی کہ ملک میں سڑکوں‘ پُلوں‘ ریلوے لائنوں اور اسی قسم کے انفراسٹرکچر میں تعمیرومرمت کے حوالے سے اخراجات میں کٹوتی کریں یا پھر کم از کم انھیں ملتوی کر دیں۔ زندگی کم آسان ہوجائے گی۔ نہایت صاف ستھرا ٹوکیوشہر ۷۰ء کے عشرے کا نیویارک جیسا بن کر رہ جائے گا۔ ۷۰ء کے عشرے میں نیویارک کے بہت سے شہری‘ اس شہر کو چھوڑ کر اس کے نواحی علاقے میں چلے گئے تھے جس کی وجہ سے نیویارک اس ٹیکس آمدن سے محروم ہوگیا جو اُس کے شہری ادا کیا کرتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شہر کو چلانے والے ذمہ داران‘ زیادہ دیر تک شہر کے نظم و نسق کی دیکھ بھال نہ کرسکے۔ مگرکیا جاپانی اس مسئلے کا حل تلاش کر سکیں گے؟
آبادیاتی تبدیلیاں ملک کے مسائل کو چاہے وہ سماجی ہوں یا اقتصادی‘ بہت بڑھا دیتی ہیں۔ بہت زیادہ بوجھ تلے دبی فلاحی ریاست کو بڑھاپے کے مارے لوگ زوال سے دوچار کردیں گے۔
تارکینِ وطن کی آمد کا خیال ہی پریشان کن ہے مگر شرح پیدایش کی یہ تبدیلیاں درآمد شدہ لیبرفورس میں اضافے کی ضرورت کو ظاہر کرتی ہیں جو آنے والے کل میں یورپ کے لیے فیصلہ کن معاملے کی حیثیت رکھتا ہے۔ سوچنے کی حد تک تو یہ بات دل کو آسان لگتی ہے کہ گھٹتی آبادی والے امیرملکوں اور آبادی میں اضافہ جاری رکھنے والے غریب ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج خود اچھے مواقع پیدا کرے گی۔ لیبرفورس زیادہ آبادی مگر کم وسائل کے حامل جنوب کے ممالک سے ترقی یافتہ شمال کا رخ کریں گے جہاں ملازمتوں کی بہتات کا جاری رہنے والا سلسلہ موجود ہوگا۔ سرمائے اور کمائی سے حاصل شدہ آمدنیاں امیر اقوام سے غریب اقوام تک منتقل ہوں گی جس کا سبھی کو فائدہ ہوگا۔ تصور سے ہٹ کر حقیقی دنیا میں اگر جائزہ لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عملاً ایسا ہوسکے گا؟ آیئے! ذرا اصل صورت بھی دیکھ لیں۔ اگر اہلِ یورپ کی جانب سے شمالی افریقہ سے وسیع پیمانے پر نقل مکانی کے بارے میں مزاحمت پر مبنی حالیہ رویہ مدنظر رکھا جائے اور جاپان کی صفر ترکِ وطن پالیسی بھی ذہن میں رہے تو پھر اوپر بیان ہونے والا خیال درست نہیں لگتا اور اس بارے میں خوش فہمی میں مبتلا رہنا درست نہیں ہے۔
یورپ اور ایشیا کے اکثر حصوں میں جب آبادی گھٹ رہی ہے تو ایسے میں امریکا کی مقامی آبادی (تارکینِ وطن کی آمد کو چھوڑ کر) نسبتاً استحکام کی حامل رہے گی۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ شرح پیدایش میں کمی کے بادل امریکا پر منڈلاتے رہیں گے۔ اگر تارکینِ وطن کی آنے والی آبادی کو امریکا کی مجموعی آبادی میں شامل کرتے جائیں تو امریکا میں آبادی میں اضافے کی رفتار جاری رہے گی۔ اگلے ۴۵برسوں میں امریکا کی آبادی میں ۱۰ کروڑ کا اضافہ ہوگا۔ ویٹن برگ کے تخمینوں کے مطابق یورپ اسی عرصے میں تقریباً اتنی ہی آبادی کے خسارے سے دوچار ہوگا۔ اس صورت حال کا مطلب یہ ہرگز نہیں لیا جانا چاہیے کہ آمدہ آبادیاتی تبدیلیوں کی نحوست سے امریکا بچ پائے گا۔ امریکیوں کو بھی بوڑھی ورک فورس اور اس سے متعلقہ مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا‘ مثلاً صحت اور سوشل سکیورٹی کا خرچہ ۲۰۰۰ء میں کل جی ڈی پی کا ۳ئ۴ فی صد تھا جو ۲۰۳۰ء میں بڑھ کر ۵ئ۱۱ فی صد جبکہ ۲۰۵۰ء میں امریکی کانگریس بجٹ آفس کے مطابق مزید بڑھ کر ۲۱ فی صد ہوجائے گا۔ اس کا معاشرتی پہلو بھی سامنے رکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ممکنہ نسلی تنائو کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکا کی جامد سفیدفام آبادی اور سیاہ فاموں کی کم ہوتی ہوئی آبادی‘ اسے امریکا کے کثیرالثقافتی سمندر میں مزید اقلیت میں تبدیل کردے گی۔ پھر آج کے اس زمانے میں جب اقوام کا انحصار ایک دوسرے پر ہے تو امریکا کے تجارتی شراکت داروں یعنی یورپ اور جاپان کے مسائل بھی خود امریکا کے مسائل بن جائیں گے۔ اس بات کی مثال کچھ یوں دی جاسکتی ہے کہ اس وقت ’’چینی منڈی‘‘ ایک بہت ہی بڑی منڈی کے طور پر بیان کی جارہی ہے اور اسی وجہ سے امریکی کمپنیوں نے چین میں بہت بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ ذرا سوچیے کہ اگر ۲۰۵۰ء میں ایک تخمینے کے مطابق چین اپنی ۳۵ فی صد ورک فورس کھو بیٹھے گا اور بوڑھوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگی تو پھر ان کمپنیوں کو منافع کی کیا شرح ہاتھ آئے گی؟
امریکا کی آبادیاتی یک قطبی حیثیت خود امریکا کی سلامتی کے حوالے سے گہرے مضمرات رکھتی ہے۔ امریکا کو نام نہاد دہشت گردی اور ناکام ریاستوں کے حوالے سے کافی تشویش ہے۔ لانگ مین نے اپنی کتاب خالی پنگوڑا (The Empty Cradle) میں امریکی رہنمائوں کے حوالے سے نہ حل ہونے والے امکانات کا خاکہ پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسی صورت میں امریکا کے لیے ادایگی میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔
ایک طرف یہ تمام حقائق ہیں تو دوسری طرف اس صورت حال کو تسلیم کرنے سے انکاری گروہ بھی موجود ہے۔ اس کے لیے وہ یہ دلیل دیتا ہے کہ آبادی میں اضافے کی وہ کوششیں جو بعض یورپی ممالک کر رہے ہیں ضرور رنگ لائیں گی اور یوں آبادیاتی عدم توازن پیدا نہیں ہوگا۔ ان کے بقول فرانس اور ہالینڈ نے خاندان دوست پالیسیاں نافذ کی ہیں جو عورتوں کو کام کاج کرنے کے ساتھ ساتھ ممتا کے جذبے کے فروغ میں مددگار ہوں گی۔ ان خاندان دوست پالیسیوں کے تحت فرانس اور ہالینڈ میں ان مائوں کو اپنے بچوں کو اوقات کار کے دوران ڈے کیئر مرکز میں رکھنے کے لیے‘ سرکاری مالی معاونت کے ساتھ ساتھ ٹیکسوں میں چھوٹ بھی دی جائے گی۔ سیکنڈے نیوین ممالک نے شرح پیدایش کو بلند رکھنے کی غرض سے فراخ دلانہ سہولیات بشمول جزوقتی ملازمت فراہم کی ہیں۔ ایسی ہی ترغیبات اور پروگرامات سکڑتی آبادی کے حامل ملک سنگاپور نے بھی دی ہیں جن میں دیگر سہولیات کے علاوہ حکومت کے زیرانتظام ’’date service‘‘بھی ہے مگر اس کے باوجود آبادی میں کمی کی لہر کو اضافے میں بدلنے میں اس ’’سروس‘‘ کا بھی کوئی ’’فائدہ‘‘ نہیں ہوا ہے۔
آبادی کا مسئلہ مسلم اُمت کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ مسلمانوں کی دینی تعلیم انھیں تحدیدنسل سے روکتی ہے لیکن ان کی حکومتیں مغرب کے احکامات کے تحت تمام سرکاری وسائل اس تحریک کے فروغ میں صرف کر رہی ہیں۔ اس کے اثرات ہیں لیکن اتنے نہیں جتنے خود مغربی معاشروں میں ہوتے ہیں۔ مسئلہ صرف ذاتی یا انفرادی نہیں‘ اجتماعی اہمیت کا ہے۔ آبادی کی‘ تعداد کی اہمیت ہر دائرے میں اثرانداز ہوتی ہے۔ اس لیے دشمن مسلمانوں کی تعداد کم کرنا چاہتا ہے‘ جب کہ مسلمانوں کو اپنی تعداد میں مناسب اضافے کی فکر رکھنا چاہیے۔
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا دو عالمی طاقتوں کی نگرانی میں تھی۔ برطانیہ کے زوال کے بعد امریکا اس کا جانشین بنا تھا‘ جب کہ دوسری سوپرپاور سوویت یونین تھی‘ جو اب روس تک محدود ہوچکی ہے۔ اب پوری دنیا میں امریکا ہی واحد قوت کے طور پر اُبھرا ہے۔ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا میں امریکا نے ۳۴ فوجی اڈے قائم کررکھے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے: خلیج عرب کے علاقے میں ۱۵‘ پاکستان اور افغانستان آٹھ‘ عراق چار‘ ترکی ایک‘ جارجیا ایک‘ آذر بائیجان مسلسل امریکی فوجی موجود۔ کرغیزستان‘ تاجکستان اور ترکمانستان پانچ (عراق سے امریکا کے انخلا کے بعد وہاں چار اڈے قائم رہیں گے‘ باشور شمالی کردستان:۱‘ بغداد: ۱‘ ناصریہ: ۱‘ مغربی عراق: ۱)۔
علاوہ ازیں جاپانی جزیرہ اکیناوا‘ فلپائن اور مشرق میں جنوبی بحرچین سے لے کر مغربی ساحلوں تک دنیا کے متعدد علاقوں میں امریکی فوجی اڈوں کا جال پھیلا ہوا ہے۔ حال ہی میں امریکا کی طرف سے یہ اعلان بھی ہوا ہے کہ مراکش کے علاقہ طانطان میں بھی امریکی فوجی اڈا و بحری مستقر قائم کیا جا رہا ہے۔
وسطی ایشیا کے ممالک پانچ اسلامی ریاستوں: کرغیزستان‘ تاجکستان‘ ازبکستان‘ ترکمانستان اور قازقستان پر مشتمل ہیں۔ ۱۹۹۱ء میں سابق سوویت یونین کے سقوط کے بعد آزاد ہونے پر کمیونسٹ مکتبِ فکر کے لیڈروں نے ان پر تسلط جمالیا۔ مگر جلد ہی یہ پانچوں مسلم ممالک امریکی چنگل میں آگئے۔ سانحہ ستمبرکے بعد تو امریکی حکمرانوں نے ان پر اپنی گرفت زیادہ مضبوط کرلی۔ انھوں نے افغانستان اور عراق پر قبضہ کر کے وہاں بیسیوں فوجی اڈے بنالیے۔
پیٹرک مارٹن (Patric Martin)کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق کرغیزستان میں واقع امریکی اڈا ۴۰ ہیکٹرعلاقے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ دارالحکومت بیشکک سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ یہ اپنے قریبی ہوائی اڈے ماناس کی مناسبت سے ماناس بیس (base) کہلاتا ہے۔ یہ امریکی اڈا فضائی مستقر ہے۔ یہ ۳ ہزار فضائی ہتھیاروں کی گنجایش رکھتا ہے۔ یہاں سے افغانستان میں سرگرم امریکی افواج کو امداد اور راشن وغیرہ سپلائی کیا جاتا ہے۔ یہاں لڑاکا طیارے بھاری تعداد میں موجود رہتے ہیں۔ یہاں سے جاسوسی طیارے اواکس پڑوسی ممالک کی جاسوسی کے لیے پرواز کرتے ہیں۔ ماناس سے شمالی کابل تک اسلحہ‘ ایندھن اور راشن کی ترسیل میں ہوائی پرواز میں چند منٹ لگتے ہیں۔ پاکستان میں موجود ہوائی اڈوں سے بھی چند لمحوں کی پرواز کے بعد طیارے افغانستان میں مطلوبہ ہدف تک پہنچ جاتے ہیں۔ کرغیزستان کا اڈا اپنی نوعیت کا منفرد اڈا ہے جو بّری اور فضائی دونوں مقاصد کے لیے بیک وقت استعمال ہوتا ہے۔ یہاں پر حلیف یورپی ممالک کی افواج کابھی خیرمقدم کیا جاتا ہے جو تربیت اور امریکی افواج کے ساتھ مشترکہ کارروائیوں کے لیے اس اڈے پر پہنچتی رہتی ہیں۔
ماناس بیس سے ۹۰۰کلومیٹر کی مسافت پر خان آباد میں امریکی اڈا قائم ہے۔ ازبکستان کی سرزمین میں واقع یہ اڈا کارشی شہر کے قریب ہے۔ یہ شہر ترکمانستان کی سرحدوں کے بالکل قریب ہے۔ یہ درمیانے حجم کا اڈا ہے جو بّری اور فضائی افواج کے تقریباً ایک ہزار افراد کی گنجایش رکھتا ہے۔
تاجکستان میں امریکی افواج کے تین اڈے موجود ہیں۔ ایک اڈا وادی فرغانہ میں ہے جو کرغیزستان‘ ازبکستان اور تاجکستان کی عسکری لحاظ سے انتہائی اہم تکون ہے۔ باقی دو اڈے خوجاند اور قورغون تیب میں ہیں جو افغانی سرحدوں کے قریب واقع ہیں۔ آذر بائیجان میں ابھی تک کوئی امریکی فوجی اڈا قائم نہیں ہوا‘ تاہم اسے عسکری تعاون حاصل ہے۔ امریکا اور ترکی کی طرف سے آذر بائیجان کے افسروں کو امریکا میں تربیت دی جارہی ہے۔
ترکمانستان کا شمار علاقے کے سب سے بڑے قدرتی گیس سے معمور ملک کے طور پر ہوتا ہے‘ جب کہ قازقستان بحرِقزوین کے ممالک میں سب سے بڑے ایسے ملک کے طور پر نمایاں ہے جو تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔ ان دونوں ملکوں کا امریکا کے ساتھ رابطہ مضبوط ہے اور امریکا کے ساتھ ان کے اسٹرے ٹیجک تعلقات روزافزوں ہیں۔ ان کے امریکا کے ساتھ عسکری اور غیرعسکری معاہدے ہو رہے ہیں۔ ان دونوں ملکوں کی گیس اور تیل کو منتقل کرنا اس علاقے میں امریکا کا سب سے بڑا اقتصادی منصوبہ ہے۔ اس منصوبے پر دو جہتوں سے کام ہوگا:
۱- ترکمانستان اور قازقستان سے آذربائیجان___ وہاں سے جارجیا___ پھر ترکی کی بندرگاہ جیہان (بحرِمتوسط پر واقع) تک___ وہاں سے عالمی منڈی تک___ یادرہے کہ ان اسلامی ممالک سے تیل اور گیس نکال کر دہشت گرد ملک اسرائیل تک پہنچانے کے معاہدے بھی ہوچکے ہیں جو ترکی اور امریکا سے معاہدے کرچکا ہے۔
۲- ترکمانستان اور قازقستان سے افغانستان تک‘ پھر پاکستان___ تاکہ بحرِہند کے ذریعے ایشیائی منڈیوں تک تیل اور گیس کو منتقل کیا جائے۔ نیز بحرِاحمرکے ذریعے نہرسویز سے یورپی منڈی تک۔
پاکستان‘ افغانستان اور وسطی ایشیا کے ممالک میں قائم امریکی فوجی اڈوں کو جن لوگوں نے قریب سے دیکھا ہے‘ وہ اس امر کی تصدیق کریں گے کہ جس طرح کی سڑکیں اور بنیادی ڈھانچا تعمیر کیا جا رہا ہے‘ یہ سب کچھ عارضی فوجی اڈوں کی خاطر نہیں ہو رہا بلکہ یہ ایک ایسے عسکری تسلط کے لیے ہے جو کم از کم ۱۰۰ سال تک برقرار رکھا جائے گا۔ امریکا کی مرکزی کمان نے اپنی افواج کو جو ہدایات دی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وسطی ایشیا کے اڈے محض فضائی اسلحہ کی منتقلی کے لیے نہیں ہیں بلکہ ان کا مقصد علاقے میں استحصال کے لیے ہروقت مستعد رہنا ہے اور امریکی بّری ‘ بحری اور فضائی افواج کو حسب موقع استعمال کرنا ہے۔
جب بھی وسطی ایشیا کے ممالک روس‘ چین اور ایران سے تعلقات قائم رکھنا چاہیں گے تو انھیں ہر وقت امریکی نگرانی کا سامنا ہوگا۔ اس علاقے میں امریکی افواج کی موجودگی کی وجہ سے حکمرانوں اور عوام کے تعلقات بھی کشیدہ رہیں گے۔ کیونکہ حکمران ہمیشہ امریکی حکام کی خوشنودی کو اپنے اقتدار کے استحکام کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ معزول کرغیزی صدر عسکر اکاییف نے سیکڑوں لوگوں کو محض امریکا کی خوشنودی کی خاطر گرفتار کرلیا تھاجن میں زیادہ تر اسلام پسند تھے۔ معزول صدر نے وسطی ایشیا میں ’’القاعدہ ‘‘تنظیم کے خلاف امریکی مہم میں ’’تعاون‘‘ کیا تھا۔
اوّل: ملک کا حکمران امریکا کا علانیہ حلیف ہو‘ یعنی وہ علاقائی ممالک‘ جیسے روس اور چین کے ساتھ تعلقات کے توازن کو نظرانداز کر کے کھلم کھلا امریکی پالیسیوں پر کاربند رہے۔ امریکا کی پالیسی ان ممالک میں چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی اثرورسوخ کو کم کرنا ہوگی‘ نیز وہ کرغیزستان اور تاجکستان وغیرہ میں اسلامی تحریکوں کے امور کا مطالعہ کر سکے گا۔ وہ چین کے مغربی صوبے مشرقی ترکستان پر جو آزادی کے لیے کوشاں ہے‘ نظر رکھ سکے گا۔ معزول کرغیزی صدر نے ماناس کے امریکی فوجی اڈے کی موجودگی کی وجہ سے روسی اندیشوں کے ازالے کے لیے اپنے ملک میں روسی عسکری وجود کی خواہش ظاہر کی تھی مگر امریکا ایسی کسی کوشش کو انتہائی ناپسند کرتا ہے۔
دوم: امریکا اپنے فوجی اڈوں کے قیام کی وجہ سے حزبِ اختلاف کی قیادت سے بہترانداز میں افہام و تفہیم کرسکے گا۔ وہ علاقے میں اپنے منصوبوں کے حق میں حزبِ اختلاف کو استعمال کرنے کے قابل ہوگا تاکہ وسطی ایشیا کے تمام حکومت مخالف قائدین کے ساتھ روابط قائم کرکے انھیں اسلامی تحریکوں کے مقابلے میں لاسکے۔
سوم: امریکا مقامی لوگوں سے رابطہ کر کے ___ امریکی فوجی اڈوں کے وجود سے انھیں فائدہ پہنچاکر اپنا حامی بنا لے گا۔ امریکی محققین نے اس امر کی تحقیق کی ہے کہ جاپانی جزیرہ اکیناوا میں طویل عرصے سے امریکی فوجی اڈا کیسے قائم ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک پس ماندہ اور دُورافتادہ جزیرہ ہے اور باقی جزیروں کے مقابلے میں معاشی لحاظ سے پست تر ہے۔ یہاں کے لوگ جب بھی امریکی فوجی اڈے کی موجودگی پر اعتراض کرتے ہیں تو امریکی اڈے کی انتظامیہ کی طرف سے عوام کو زرعی ریلیف دیا جاتا ہے۔ ان کی زرعی اور تجارتی پیداوار کو خریدا جاتا ہے۔ یوں ان کا ’’منہ بند‘‘ کر دیا جاتا ہے۔
کیمبرلے جے مانٹن (Kimberly J. Manten ) کی تحقیق کے مطابق امریکی انتظامیہ یہ حکمت عملی وسطی ایشیا کے ممالک میں اپنارہی ہے۔ وہ مقامی باشندوں کے لیے ترقیاتی منصوبے بناتی ہے اور ہزاروں مقامی باشندوں کو ان فوجی اڈوں پر مختلف خدمات کی سرانجام دہی کے لیے ملازم رکھتی ہے۔
چہارم: امریکا وسطی ایشیا کے ممالک کی پیداوار کو انتہائی سستے داموں حاصل کرتا ہے اور اس سے خوب نفع کماتا ہے۔ ایک بیرل تیل جس پر امریکا کے صرف ۱۰ ڈالر لگتے ہیں وہ مغربی ممالک میں ۱۲۰ ڈالر میں فروخت ہوتا ہے۔ امریکا کے لیے خلیجی ممالک میں سیکورٹی اور مہارت کے کئی مسائل ہیں‘ جب کہ وسطی ایشیا کے ممالک میں اُسے ایسے مسائل کا سامنا نہیں۔ بحرِقزوین کے جنوبی علاقے کو بجاطور پر ’’نئی خلیجِ عرب‘‘ کہا جاسکتا ہے کیونکہ یہ تیل کے ذخائر سے مالا مال ہے۔ اس میں سرمایہ کاری کا مستقبل درخشاں ہے۔
پنجم: امریکا اپنے عسکری اڈوں کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہتر نظریاتی منصوبہ بندی کرے گا۔ وہ ’’اعتدال پسندی‘‘، ’’روشن خیالی‘‘ جیسے سیکولر نظریات کا پرچار کرے گا‘ نیز مسیحی مشنریوں کو کھل کھیلنے کا موقع بھی فراہم کرے گا۔ یوں وہ ایک طرف کمیونزم کے زوال سے پیدا ہونے والے نظریاتی خلا کو پُر کرنے کی کوشش کرے گا اور دوسری طرف اسلامی تحریکوں کو کچلنا اس کے لیے آسان ہوگا۔
سرد جنگ کے بعد پہلی بار امریکی اور روسی فوجیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا نہیں بلکہ ایک فرضی خطرے ’’بین الاقوامی دہشت گردی‘‘ کے خلاف نبردآزما ہیں۔ روس امریکا کی امداد کے بغیر کوہِ قاف کے علاقے کی علیحدگی پسند اسلامی تحریکوں سے تنہا نبٹنے سے قاصر ہے۔ ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ قازقستان میں ماسکو کے زیرنگرانی ایٹمی عسکر بھی ہے اور حکومت نے امریکا کا تعاون بھی حاصل کررکھا ہے۔ اُدھر کرغیزستان میں دارالحکومت کے قریب امریکی فوجی اڈا بھی قائم ہے اور روسی فوجی اڈا بھی۔
روسی رویہ مخالفت کا نہیں بلکہ اپنے داخلی مسائل پر قابو پانے کی مجبوری کی وجہ سے امریکا کے ساتھ نرمی اور رعایت کا ہے۔ باقی رہیں وسطی ایشیائی ممالک کی حکومتیں تو ان کے نزدیک امریکی یا روسی فوجی موجودگی یکساں ہے بلکہ وہ امریکا کے قرب کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اس کے ذریعے سرمایہ دارانہ مغربی منڈیوں تک ان کی رسائی آسان ہوجاتی ہے۔ ان کا اقتدار بھی محفوظ تر ہوجاتا ہے۔
بہت سے وسطی ایشیائی ممالک میں روسی اڈوں کی جگہ امریکی فوجی اڈوں نے لے لی ہے‘ مثلاً کابل کے قریب باگرام میں سابق سوویت یونین کا فوجی اڈا تھا۔ اب امریکا نے وہاں اڈا قائم کرلیا ہے۔ امریکا افغانستان میں اپنے نو مستقل فوجی مستقر قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے جو ہیلمنڈ‘ ہرات‘ نیم روز‘ بلخ‘ خوست اور پاکیتا میں ہوں گے۔ ان اڈوں کے قیام کا مقصد افغانستان جیسے غریب ملک پر اپنا تسلط برقرار رکھنا نہیں ہے بلکہ ان کا اصل مقصد ایشیا کے جنوبی اور وسطی مسلم ممالک پر اسٹرے ٹیجک دبائو قائم رکھنا ہے۔ ان فوجی اڈوں کا ایک مقصد عالمِ اسلام کی حکومتوں کو دھمکانا اور مرعوب کرنا بھی ہے تاکہ وہ امریکی حکام کی تابعِ مہمل بن کے رہیں۔ (المجتمع، شمارہ ۱۶۵۶‘ ۲۸ جون ۲۰۰۵ئ)
(مزید معلومات کے لیے دیکھیے: ۱- الجغرافیا السیاسیۃ از ڈاکٹر محمد محمود الدیب‘ قاہرہ‘ ۲۰۰۴ئ۔ 2- Patric Martin (January 2002) US bases pave the way for longterm intervention in Central Asia. World Socialist Website. 3. Kimberly J. Marten (Nov. 2003) US Military bases in post Soviet centeral Asia, Economic Lesson from Okinawa. Ponars Policy Memo 311. Barnard College, Columbia University.
۴- افغانستان میں امریکا کا سب سے بڑا فضائی اڈا ہرات صوبے میں ہے جو ایرانی سرحدوں سے صرف ۱۰۰کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ مزید معلومات کے لیے ملاحظہ ہو۔ Asia Times کی ویب سائٹ پر تجزیاتی مضامین)
عرب اور مسلم ممالک کے ذہین ترین افراد‘ ماہرین معاشیات‘ ماہرین ٹکنالوجی اور سائنس دان اعلیٰ فنی تعلیم حاصل کرنے کے بعد امریکا‘ یورپ اور دیگر ممالک میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ یوں اُمت مسلمہ اپنے ذہین ترین افراد کی ذہانت و مہارت سے محروم رہ جاتی ہے۔ ذیل میں ہم گذشتہ چند برسوں کے دوران مسلم ماہرین کی ترقی یافتہ ممالک منتقلی و قیام کا جائزہ لیتے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق مصر سے تقریباً ۲۰ لاکھ سے زائد سائنس دان باہر منتقل ہوچکے ہیں۔ ان میں سے ۶۲۰ سائنس دان انتہائی نایاب سائنسی شاخوں کے ماہر ہیں۔ ۹۴ سائنس دان نیوکلیائی انجینیرنگ میں ممتاز و منفرد درجہ رکھتے ہیں۔ ۲۶ سائنس دان ایٹمی فزکس کے ماہر ہیں‘ جب کہ ۷۲ سائنس دان لیزر ٹکنالوجی میں سرفہرست ہیں۔ ۹۳ سائنس دان الیکٹرانک اور مائیکرو پروسیسنگ میں نمایاں ہیں‘ جب کہ ۴۸ پولیمرکیمسٹری کے ماہرین ہیں۔ مزیدبرآں ۲۵ علوم فلکیات و فضائیات پر دسترس رکھتے ہیں‘ ۲۲ علوم ارضیات اور زلزلوں وغیرہ کے امور میں‘ جب کہ ۲۴۰ سائنس دان دیگر مہارتوں میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔
مصر سے ہر سال ایم اے اور ڈاکٹریٹ کے لیے طلبہ کی ایک بڑی تعداد بیرون ملک جاتی ہے۔ یہ لوگ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس آنے سے انکار کردیتے ہیں‘ حالانکہ ایک شخص پر حکومت تقریباً ایک لاکھ ڈالر خرچ کرتی ہے۔ بیرون ملک کام کرنے والے مصری ماہرین کی زیادہ تر تعداد امریکا‘ کینیڈا‘ یورپ اور آسٹریلیا میں کام کر رہی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں ماہرین کی بیرون ملک منتقلی کا ایک اہم سبب حکومتِ مصر کی ناقص منصوبہ بندی اور ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری ہے۔ بیرونی ممالک جانے کے اس عمل کا آغاز ۱۹۶۷ء میں شکستِ مصر کے بعد ہوا۔ ترکِ وطن کا ایک اور اہم سبب مصر میں سیاسی پابندیاں اور آمریت ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر دسوقی ۱۹۶۱ء میں ڈاکٹریٹ کے لیے امریکی یونی ورسٹی سیٹن فورڈ گئے۔ جب وہ ۱۹۶۶ء میں واپسی کے لیے تیاری کر رہے تھے تو ان کا بے گناہ نصف خاندان مصری جیلوں میں پڑا تھا۔ انھوں نے بارہا وطن واپس آنے کا ارادہ کیا لیکن پورا مصر زندان بنا ہوا تھا۔ بالآخر جب انورالسادات نے قدرے آزادی کا ماحول پیدا کیا تو ڈاکٹر دسوقی نے مصرواپسی کا فیصلہ کیا۔
ماہرین کی بیرون ملک منتقلی اور مستقل قیام کی اس تعداد میں ہرسال اضافہ ہو رہا ہے۔ یادرہے کہ مصر سے باہر رہنے والے ۸ لاکھ ۲۴ ہزار ماہرین میں سے ۸۲۲ جدید ٹکنالوجی کے زبردست ماہر ہیں جو کہ سب کے سب امریکا میں رہ رہے ہیں اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں ترقی یافتہ یورپی ممالک میں مستقلاً رہایش پذیر ہیں۔ ان میں ۲ ہزار ۴ سو ۵۵ ایٹمی شعاعوں کے ذریعے علاج کے ماہر‘ دل کے آپریشن و معالجے کے ماہر‘ انجینیرنگ بالخصوص نیوکلیائی انجینیرنگ ‘نیز انسانی علوم کے ماہرین ہیں۔ زراعت و معیشت کے اعلیٰ ترین ماہرین بھی ان میں شامل ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق ممتاز ترین ماہرین میں سے ۳ لاکھ ۱۸ ہزار ریاست ہاے متحدہ امریکا میں‘ جب کہ ایک لاکھ ۱۰ ہزار کینیڈا میں‘ ۷۰ ہزار آسٹریلیا میں اور ۳ لاکھ ۳۶ ہزار مختلف یورپی ممالک میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
مصری ایٹمی سائنس دانوں کی ایک کثیر تعداد عراق میں بھی کام کر رہی تھی۔ صدام حکومت نے اقوام متحدہ کے چھان بین کرنے والے عملے کو ۵۰۰ ایسے مصری ایٹمی سائنس دانوں کی فہرست پیش کی تھی جو عراق میں کام کر رہے تھے‘ جب کہ اس تفتیشی عملے نے ۱۵۰۰ مصری ایٹمی سائنس دانوں کی فہرست مرتب کی تھی جو عراقی ایٹمی پروگرام میں کام کر رہے ہیں۔ مصری ارکانِ پارلیمنٹ نے عراق میں کام کرنے والے مصری سائنس دانوں کے بارے میں اپنی تفتیش کا اظہار کیا تھا۔ چنانچہ عراق پر امریکی قبضے سے قبل مصری پارلیمان کے سات ارکان نے ایک بیان میں حکومت مصر سے ان سائنس دانوں کی حفاظت کا مطالبہ کیا تھا۔ چنانچہ امریکی اور برطانوی سفارت کاروں نے عراق میں کام کرنے والے مصری ایٹمی سائنس دانوں کے بارے میں معلومات جمع کیں۔
متعدد مصری سائنس دانوں کو موت کے گھاٹ بھی اتارا گیاہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی انٹیلی جنس موساد عرب ایٹمی سائنس دانوں کو اغوا کرنے کے بعد قتل کردیتی ہے۔ ۱۹۸۰ء میں مصر کے ایک عظیم ایٹمی سائنس دان یحییٰ المشد کو اسرائیلی انٹیلی جنس کے افراد نے پیرس میں شہید کردیا۔ ایک اور سائنس دان سمیرہ موسیٰ کو بھی ایک یورپی دارالحکومت میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ عراق پر امریکی قبضے کے بعد مسلم سائنس دانوں کے قتل کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔ عراق کے ایٹمی سائنس دانوں کو چُن چُن کر قتل کیا گیا‘ جب کہ کئی ایک کو بھاری مالی پیش کش کرکے امریکا لے جایا گیا ہے۔
عرب لیگ نے فروری ۲۰۰۱ء میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ عرب ماہرین کی بیرونِ ملک منتقلی سے عربوں کو ۲۰۰ ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ دوسری جانب اسرائیل‘ امریکی اور یورپی سائنس دانوں کو بھاری معاوضہ دے کر اسرائیل میں کام کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔
قاہرہ یونی ورسٹی کے شعبۂ سیاسیات کے سربراہ نے بتایا ہے کہ مصر ۱۹۵۶ء اور ۱۹۷۳ء کے مابین تقریباً ۳ لاکھ ۵ ہزار مصری ذہانتوں سے محروم ہوا ہے۔ ان سب ماہرین نے امریکا اور کینیڈا میں سکونت اختیار کر رکھی ہے۔ ۱۹۷۶ء میں امریکی کانگرس نے ایک خفیہ امریکی پالیسی پر بحث کی جس کا مقصد مصر اور بھارت جیسے ممالک سے ذہین ترین افراد کو امریکا منتقل کرنا تھا۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق مغربی ممالک ۴ لاکھ ۵۰ ہزار سے زیادہ اعلیٰ تعلیم یافتہ عربوں کی خدمات سے استفادہ کر رہے ہیں۔ا علیٰ تعلیم یافتہ مسلمان ماہرین کی بیرونِ ملک منتقلی کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ مسلم ممالک کو ایسے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے جس سے اس رجحان کی حوصلہ شکنی ہو۔ اس سلسلے میں مسلم ممالک کو جامع منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور مسلم سائنس دانوں کی اپنے ممالک میں کام کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ انھیں مناسب سہولیات فراہم کرنا ہوں گی اور انھیں جانی و مالی تحفظ فراہم کرنا ہوگا تاکہ مسلم ممالک ان ماہرین کی ذہانت اور مہارت سے بھرپور استفادہ کرسکیں۔ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ پاکستانی حکام نے جو رویہ اختیار کیا ہے وہ مسلم سائنس دانوں کے لیے انتہائی روح فرسا اور مایوس کُن ہے۔ (المجتمع، شمارہ ۱۶۴۸‘ ۲۹ اپریل ۲۰۰۵ئ)
سوال: میں ایک دواساز کمپنی میں میڈیکل نمایندہ ہوں۔ ہماری دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹروں سے اپنی ادویات لکھوانے کے لیے ان کو نقد رقوم یا قیمتی اشیا تحائف کے طور پر مہیا کرتی ہیں جس کے بدلے ڈاکٹر ان کمپنیوں کی ادویات لکھتے ہیں جس سے مارکیٹ میں ان ادویات کی طلب بڑھتی ہے اور کمپنیوں کو بہت سا منافع حاصل ہوتا ہے۔ یہ ان کمپنیوں کی حالت ہے جو چھوٹی نیشنل کمپنیاں سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس جو بڑی نیشنل یا ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں اگرچہ وہ ڈاکٹر صاحبان کو رقم مہیا نہیں کرتی ہیں لیکن اکثر اوقات ڈاکٹروں کو تحائف‘ پنج ستارہ ہوٹلوں میں کھانے اور اپنے خرچ پر ان کو بیرون ملک کے دورے کراتی ہیں جس سے ان کا کام ہوتا رہتا ہے۔ نمایندے کو کمپنی پالیسی کے مطابق کام کرنا پڑتا ہے اور وہ اس سارے عمل میں شریک ہوتا ہے۔
۱- ڈاکٹروں سے اپنی کمپنی کی ادویات لکھوانے کے لیے نقد رقوم یا بڑے تحائف دینا جائز ہے یا یہ رشوت کے زمرے میں آتا ہے؟
۲- بعض ڈاکٹر صاحبان ان رقوم یا تحائف کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ کیایہ واقعی ان کا حق ہے؟
۳- اگر یہ طریقۂ کار ناجائز ہے تو کیا میڈیکل نمایندہ اور کمپنی دونوں برابر کے شریک اور گناہ گار ہیں۔
۴- کیا بڑی نیشنل یا ملٹی نیشنل کمپنیوں کا طریقہ کار جائز ہے؟
۵- اگر متبادل روزگار نہ ہو‘ اور اگر ہو بھی تو اس سے گھریلو اخراجات پورے نہ ہوتے ہوں تو کیا اس کی اجازت دی جاسکتی ہے۔
جواب: اسلامی نظامِ حیات کا ایک امتیاز زندگی کے مختلف شعبوں میں پیش آنے والے جدید مسائل کا اخلاقی حل فراہم کرنا ہے۔ طبی اخلاقیات اس حیثیت سے اسلامی نظام حیات کا ایک اہم شعبہ ہے۔ جس طرح عبادت اللہ تعالیٰ کا حق ہے‘ عیادت اس کے بندوں کا حق ہے۔ ایک فرد کی جان بچانا تمام انسانوں کی جان بچانے کی طرح ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ وہ واحد ہستی ہے جو بندوں کو امراض سے شفا دیتی ہے‘ اس نیک کام میں معاونت بہترین اجر کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔
طبی امداد‘ مریضوں کی دیکھ بھال‘ مرض کی تشخیص کرنا اور اس کا علاج تجویز کرنا ایک طرح کی خدمت خلق اور اسلامی اخلاقیات کی عملی تطبیق ہے۔ ایک طبیب ہو یا جراح‘ اس کا بنیادی اخلاقی فریضہ مریض کو ہمدردانہ‘ مخلصانہ اور مصلحانہ مشورہ دینا اور اگر ضرورت پڑے تو جراحت کے ذریعے صحت یاب ہونے میں امداد فراہم کرنا ہے۔ اس لیے مناسب دوا کا تجویز کرنا اور مناسب دوا کا ایجاد کرنا اور فراہم کرنا اگر خدمت خلق کے جذبے کے ساتھ ہو تو اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑے اجر کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن اگر یہی عمل دوسروں کو استعمال کرتے ہوئے اپنی دنیا بنانے اور ان کی تکلیف کے سہارے اپنے لیے عیش و آرام کے سامان پیدا کرنے کا سبب ہو تو اللہ تعالیٰ کے حضور سخت جواب دہی کا باعث بن سکتا ہے۔
ایک طبیب سے اخلاقی طور پر یہ امید کی جاتی ہے کہ دوا تشخیص کرتے وقت نہ صرف دوا کی اثرانگیزی بلکہ مریض کی مالی حیثیت کا خیال رکھتے ہوئے جو دوا کم قیمت ہو لیکن ضروری اجزا اس میں پائے جاتے ہوں‘ تجویز کرے۔ اگر ایک ڈاکٹر محض اس بنا پر ایک مہنگی دوا تجویز کرتا ہے کہ اس کی وجہ سے کسی دوا ساز کمپنی کو فائدہ ہوگا‘ جب کہ انھی اجزا کی اتنی ہی مؤثر دوا مقابلتاً کم قیمت پر بازار میں موجود ہو تو یہ ایک حیثیت سے جھوٹی شہادت کی تعریف میں آئے گا۔ہاں‘ اگر ایک زیادہ قیمت والی دوا میں کیمیاوی اجزا زیادہ بہتر معیار کے ہوں اور دوسری دوا جو چاہے اُس سے ملتی جلتی ہو لیکن اس کے اجزا میں جلد اثر کرنے کی صلاحیت کم پائی جاتی ہو تو ایک ڈاکٹراپنی فنی رائے کی بنا پر مہنگی دوا بھی تجویزکرسکتا ہے۔
دراصل ان تمام معاملات کا انحصار ڈاکٹر کے ایمان و خلوص کے ساتھ ہے۔ اگر وہ صاحبِ ایمان ہے اور مریض کے لیے اخلاص رکھتا ہے تو بعض اوقات مہنگی اور بعض اوقات سستی قیمت کی دوا تجویز کرے گا جس کی بنیاد مریض کا مفاد ہوگا‘ نہ کہ دواساز کمپنی کا مفاد نہیں۔ اگر صرف دواساز کمپنی کے مفاد کے لیے کوئی دوا تجویز کی جائے گی تو یہ نہ صرف طبی اخلاقیات کی صریح خلاف ورزی ہوگی بلکہ جیسا کہ عرض کیا گیا شہادت زور‘ یعنی جھوٹی شہادت شمار ہوگی۔
بالعموم دوا ساز کمپنیاںاپنے تعارف یا اپنی دوا کے تعارف کے لیے بعض چیزیں بطور promotional کے دیتی ہیں‘ مثلاً بال پن‘ نسخہ لکھنے کے لیے لیٹرپیڈ‘ دیوار پر لٹکانے کے لیے صحت مند غذا وغیرہ کے حوالے سے چارٹ۔ اگر ان چیزوں کی بنا پر بھی کوئی صرف ایک کمپنی کی ادویات تجویز کرتا ہے تو یہ بھی ایک غیراخلاقی حرکت شمار ہوگی۔ لیکن اگر قلم یا کاغذ کا استعمال کرنے کے باوجود ایک ڈاکٹر دوا تجویز کرتے وقت ان تحائف کو مدنظر نہیں رکھتا اور جو دوا وہ زیادہ مفید سمجھتا ہے تجویز کرتا ہے تو ان اشیا کے استعمال میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔ہاں‘ اگر بعض دوا ساز کمپنیاں اس نیت سے کسی ڈاکٹر کو بیرون ملک یا اندرون ملک سیروتفریح کے لیے ہوائی جہاز کا ٹکٹ دیتی ہیں کہ اس احسان کے نتیجے میں وہ ڈاکٹر ان کی مہنگی ادویات مریض کو تجویز کرتا ہے تو یہ ایک غیر اسلامی اقدام ہوگا۔
اس سے ایک صورت استثنا معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ کہ ہر تجارتی ادارے کے مستقبل کا تعلق تحقیق کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر کوئی دواساز کمپنی کسی مرض کا علاج دریافت کرنے کے لیے جس کا فائدہ عام انسانوں کو پہنچے گا‘ اپنے سالانہ بجٹ میں سے ۵ فی صد اس غرض سے رکھتی ہے کہ طبی تحقیقاتی کانفرنسوں‘ طب کے طلبہ کے وظائف یا ایسے طبی اداروں کی امداد کی جائے جو اس کے مرض پر تحقیق کر رہے ہوں تو چونکہ اس کا مقصد علمی اور سائنسی تحقیق کے نتیجے میں مصلحت عامہ یا عمومی انسانی فلاح و فائدہ ہے‘ لہٰذا اسے ناجائز نہیں کہا جاسکتا۔
اگر کسی ڈاکٹر کو انفرادی حیثیت میں کار‘ ریفریجریٹر‘ سفر کرنے کے لیے ٹکٹ یا کوئی اور favour اس لیے کی جائے کہ وہ ڈاکٹر صرف اُس کمپنی کی تیار کردہ ادویہ تجویز کرے تو یہ اسلامی اصول عدل کی صریح خلاف ورزی بھی ہوگی۔
کسی دوا سازکمپنی میں جو اپنی شہرت کے لیے اشتہارات طبع کرتی ہو ‘ ڈاکٹروں کو promotional اشیا فراہم کرتی ہو‘ ملازمت کرنا محض اس کے اس فعل کی بنا پر حرام نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ جو شخص وہاں ملازمت اختیار کرتا ہے وہ محض اپنی فنی خدمت کا معاوضہ لیتا ہے‘اُس کا کوئی دخل کمپنی کی promotional پالیسی میں نہیں ہوتا۔ دوا ساز کمپنیوں کا ڈاکٹروں کے فیصلے پر اثرانداز ہونا ایک غیر اسلامی فعل ہے اور اس کی اصلاح کے لیے طبی اخلاقی ضابطے کی سختی سے پابندی کروانے کے لیے صارفین اور طبی اداروں کی طرف سے ان پر دبائو ڈال کر اس غلط روایت کا خاتمہ کرنا چاہیے۔
اگر ایک کمپنی کے نمایندے کو یہ بات تحقیق سے معلوم ہو کہ دوا کے بارے میں کمپنی کے دعوے غلط اور سائنسی تحقیق کی بنا پر وہ نہیں ہیں جو وہ کرتی ہے تو ایسی ادویہ کی فروخت یا اس کے ساتھ تعاون ایک غلط کام میں تعاون ہے۔ اس کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ خود کو ایسے کام سے بچائے جس میں جھوٹ‘ دھوکادہی اور دیانت کے منافی کام کیا جا رہا ہو۔ برائی میں شرکت اور برائی کے کرنے میں کوئی فرق نہیں کیاجاسکتا۔ لیکن اگر علمی تحقیق سے ثابت ہو کہ جو دوا وہ فروخت کر رہا ہے وہ وہی صفات رکھتی ہے جس کا دعویٰ کیا گیا ہے تو یہ ایک بھلائی کا کام شمار ہوگا کیونکہ اس طرح اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو مرض سے شفا ملتی ہے۔
جہاں تک متبادل روزگار ملنے تک کسی ایسے ادارے میں کام کرنے کا سوال ہے‘ قرآن وسنت نے صرف ضرورت کی حد تک‘ یعنی کم سے کم وقت میں پوری جدوجہد کے ساتھ متبادل روزگار ملنے تک‘ کسی ایسے کام کی اجازت دی ہے جو عام حالات میں مناسب نہ ہو‘ مثلاً بنک کی ملازمت جو ظاہری طور پر سودی کاروبار کا حصہ ہے لیکن اگر بنک سودی کاروبار نہ کر رہے ہوں اور اسلامی اصولوں پر کام کر یں تو وہاں ملازمت کرنا جائز ہوگا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب(ڈاکٹر انیس احمد)
سہ ماہی اسلامائزیشن مدیراعلیٰ ظفراقبال خاں اور مدیرمعاون محمد طارق نعیم اسدی کی کاوشوں سے شائع ہونے والا اپنی نوعیت کا ایک منفرد جریدہ ہے‘ جس کا ہر شمارہ اپنی جگہ ایک مستقل کتاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ مرتبین کے نزدیک: ’’عصرِحاضر میں ملّت اسلامیہ کا کوئی ایسا گوشہ باقی نہیں رہا‘ جسے عجمیت نے متاثر نہ کیا ہو‘‘ (۱:۲)۔ کلمۂ طیبہ لا الٰہ الا اللہ کے اصل مفہوم میں عجمی تشریحات اور تاویلات سے اسلام کے چشمۂ صافی میں طرح طرح کے شرک شامل ہوگئے ہیں‘ جنھیں اس سے علیحدہ کرنا توحید کے اثبات کے لیے ضروری ہے۔ یہ چاروں شمارے‘ اسی سعی کا ایک بھرپور اور پُرجوش اظہار ہیں۔
پہلے شمارے میں ظفراقبال خاں نے ’’مقامِ توحید کی اسلامی تعبیر‘‘ کے عنوان سے گویا اس پورے منصوبے کا تعارف کرایا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد باقر خاکوانی نے ’’کلمۂ طیبہ میں لفظ ’اِلٰہ‘ کا عام فہم معنی‘‘ کے عنوان کے تحت قرآن وحدیث میں ’اِلٰہ‘ کی اصطلاح کی تشریح کی ہے: وہ ذات‘ جس کا حکم مانا جائے‘ حکومت میں‘ عدالتی معاملات میں‘ حصولِ رزق اور معاشی اُمور‘ نیز تمام معاشرتی اور سماجی دائروں میں۔ محمد سعود کا مضمون اسلام میں توحید اور عبادت کے تصور پر ہے۔
مجلے کی دوسری جلد کا عنوان ہی ’’مقامِ توحید کی عجمی تعبیر‘‘ ہے۔ یہ پورا شمارہ ہی ظفراقبال خاں کا تحریر کردہ ہے جس میں انھوں نے بنیادی طور پر صوفیا وجودیہ کے قافلہ سالار‘ ہسپانوی مفکر ابن عربی پر تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بعد کے سارے مسلم فلاسفر اور صوفیا نے ’’وحدۃ الوجود‘‘ ہی کو توحید کی اصل تشریح سمجھا ہے‘ لیکن یہ نظریہ ابن عربی سے کہیں زیادہ قدیم ہے۔ انھوں نے بڑی تفصیل سے قدیم ہندومت‘ بدھ مت‘ جین مت‘ سکھ مت‘ نیز یہودیت اور عیسائیت میں ’’توحید‘‘ (بمعنی شرک) کے شواہد پیش کیے ہیں۔ ان کے خیال میں مسلم فلاسفہ میں یہ ’’توحید‘‘ وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کی اصطلاحوں کے ذریعے داخل ہوئی۔ اور سبھی صوفیا اس کمند کے اسیرہوگئے۔ ان میں دیوبندی‘ بریلوی اور اہل حدیث کے مسالک کی کوئی قید نہیں۔ مجدد الف ثانی نے اگرچہ ابن عربی کی اس ’’توحید‘‘ (وحدت الوجود) پر سخت تنقید کی مگر ’’وحدۃ الوجود‘‘ اور وحدۃ الشہود کے درمیان صرف لفظی فرق ہے (۲:۱۱)۔ وہ سرسید‘ محمد اقبال اور دوسرے روایتی عصری علما کو بھی اسی فکری مرض میں مبتلا پاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ’’خطباتِ مدارس میں اقبال نے واشگاف انداز میں سریان [اللہ تعالیٰ کی ذات ساری کائنات میں جاری و ساری ہے] کی حمایت کی ہے… اقبال اور ابن عربی کی الٰہیات میں کسی قسم کا فرق نہیں‘‘۔ (۲:۲۱۷)
یوں محسوس ہوتا ہے کہ فاضل مصنف اپنے نقطۂ نظر کو ثابت کرنے کے جوش میں یہ بات فراموش کر دیتے ہیں کہ ہر صاحبِ فکر اپنی سوچ میں مختلف ادوار سے گزرتا ہے۔ شیخ مجدد خود اعتراف کرتے ہیں کہ اُن کا مسلک ابتدا میں ’’وجودی‘‘ تھا مگر وہ جلد ہی اس تنگ کوچے سے نکل آئے۔ ایک مخصوص مرحلے پر مسالک کو یہ ’’محسوس‘‘ ہوتاہے گویا سارا وجود ایک ہی ہے ‘اور خالق و مخلوق میں کوئی دُوئی نہیں‘ مگر یہ حقیقت نہیں ہے‘ محض ایک ’’شہود‘‘ ہے۔ دراصل خالق‘ خالق ہے اور مخلوق‘ مخلوق۔ دونوں میں اس کے علاوہ کوئی اور رشتہ نہیں۔ اقبال کی فکر کے بھی کئی درجات اور مرحلے ہیں۔ کبھی وہ ہندستان کو ’’سارے جہاں سے اچھا‘‘ اور خود کو اس گلستان کی بلبلوں میں شمار کرتے تھے اور پھر وہ ’’مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ کے مدعی ہوئے۔ اگر ان کی ابتدائی نظموں میں ’’وحدت الوجود‘‘ کی جھلک نظر آتی ہے‘ تو دیانت کا تقاضا ہے کہ اُن کی بعد کی فکر کے نمونے بھی دیکھے جاتے۔ سرسیداحمد اور محمد اقبال کی فکر کو بایزید بسطامی کی سطحیات اور فلاطینوس کے ساتھ جوڑنا مناسب نہیں۔
اسلامائزیشن کے تیسرے شمارے کا عنوان ہے: ’’فلسفۂ توحید اور ذرائعِ علم کی عجمی تشکیل‘‘۔ اس میں فکر کے منہاج‘ استخراج‘ استقرا‘ وجدان و سریت‘ علمِ وحی‘ اللہ کی موجودگی کا اثبات جیسے عنوانات سے طویل بحثیں ہیں‘ جہاں کہیں کہیں تضادات بھی محسوس ہوتے ہیں‘ مثلاً شاہ ولی اللہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کی علمی تحقیق سے ’’وحدۃ الوجود‘‘ کی پوری عمارت منہدم ہوجاتی ہے (ص ۱۷۹)۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ صوفیا کے خاندان سے وابستگی کی بنا پر وہ اس نظریے کا کلیتاً رد نہ کرسکے۔(ص ۲۲۵)
’’فلسفۂ توحید اور وحدۃ الوجود کا تحقیقی مطالعہ‘‘ یہ عنوان ہے اس مجلے کے چوتھے شمارے کا۔ پہلے طویل باب میں فلسفۂ وحدۃ الوجود کی مختصر تشریح کے بعد فاضل مصنف نے دعویٰ کیا ہے کہ مسلمانوں کے اکثر مکاتبِ فکر میں توحید کے بنیادی عقیدے کا ماخذ ’’حقیقتِ محمدیہ‘‘ ہے‘ جو وحدۃ الوجود کی بنیادی اینٹ ہے (ص ۲)۔ مجدد اور ابن عربی کا اختلاف محض ’’نزاعِ لفظی‘‘ ہے (ص ۳۷)۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی‘ امداد اللہ مہاجر مکی‘ عبدالحی لکھنوی‘ علامہ سعید احمد کاظمی‘ ڈاکٹر طاہرالقادری‘ اشرف علی تھانوی‘ میرولی الدین‘ ثنا اللہ امرتسری‘ وحیدالزماں خان‘ صدیق حسن خاں‘ محدث عبداللہ روپڑی‘ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی‘ سید سلیمان ندوی‘ حفظ الرحمن سیوہاروی‘ ڈاکٹر برنیئیر‘ ڈاکٹر تاراچند‘ عبدالحمید سواتی‘ حسرت موہانی‘ علی عباس جلالپوری‘ خواجہ غلام فرید‘ فریدالدین گنج شکر‘ شاہ عبدالرحیم محدث دہلوی‘ سلطان باہو‘ مرزا غلام احمد قادیانی اور یونس خان کے خیالات دربارئہ وحدت الوجود (اسی ترتیب سے) کسی کو جاننے کا شوق ہو تو محترم ظفراقبال خاں نے بڑی محنت سے اس کے لیے آسانی پیداکردی ہے۔
اگرچہ اسلامائزیشن کے ان چار شماروں میں اکثر مقامات پر مباحث کی تکرار نظرآتی ہے‘ لوازمے اپنی مقدار کی فراوانی کے باوصف‘ بعض دفعہ محسوس ہوتا ہے کہ ترتیب کے ساتھ پیش نہیں کیے گئے‘ زبان کی طرف بھی بعض جگہ احتیاط کی جاتی تو اچھا تھا کہ سلف سے اختلاف کے باوجود ان کا ادب بہرحال مستحسن ہے‘ تاہم اُردو زبان میں وحدت الوجود کے مسئلے پر اس فراوانی کے ساتھ گفتگو یقینا ظفراقبال خاں اور محمد طارق نعیم اسدی کا منفرد کارنامہ ہے اور اس عرق ریزی کے لیے وہ یقینا مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (پروفیسر عبدالقدیر سلیم)
برعظیم ہند میں جب تک مسلمانوں کی حکومت رہی یہاں شرعی قوانین نافذالعمل رہے۔ مسلمان حکمرانوں کی عیش پرستی اور نااہلی کے سبب جب برطانوی سامراج نے ہندستان میں قدم جمائے تو اس کے باوجود ۱۸۶۰ء تک یہاں اسلامی قانون ہی کی عمل داری رہی۔ لارڈ میکالے کمیشن کی رپورٹ پر غیرملکی حکمرانوں کے قوانین نافذ ہونے کے بعد بھی مسلمان اسلام ہی کے قانون کو جو صدیوں سے ان کے دل و دماغ پر نقش تھا اور ہے‘ لائق اطاعت سمجھتے رہے ہیں۔ انھوں نے انگریزوں سے آزادی حاصل کر کے ہندوئوں سے علیحدہ اسلامی مملکت اسی لیے قائم کی کہ یہاں اسلام کے عادلانہ قانون کی حکمرانی ہو۔
قرارداد مقاصد منظور ہونے کے بعد اس نوزائیدہ اسلامی ملک کی بیوروکریسی اور فوجی آمریت کی خوے غلامی قوانین شرعیہ کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی۔ اس کے خلاف پاکستان کے عوام کا مسلسل مطالبہ‘ اسلامی مکاتب فکر کی تمام دینی اور سیاسی جماعتوں کی جدوجہد اور وکلا کی قانونی جنگ اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں نے حکمرانوں کو مجبور کیا کہ وہ اسلامی دستورسازی اور اسلامی قانون سازی کریں۔ چنانچہ ۱۹۷۳ء کے آخری آئین کی تشکیل کے بعد ۱۰فروری ۱۹۷۹ء میں قوانین حدود کا نفاذ ہوا جس کی رو سے زنا‘ قذف‘ چوری اور شراب کے جرائم کے ارتکاب پر حد کی مقرر کردہ سزائیں لاگو کردی گئیں۔ ان تمام قوانین کا میاں مسعود احمد بھٹہ ایڈوکیٹ نے زیرتبصرہ تالیف میں بڑی محنت اور کاوش سے احاطہ کیا ہے۔ میں نے کتاب سے متعلقہ متعدد مقامات کو دیکھا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مؤلف موصوف نے قرآن اور سنت کو اس کتاب قوانین الحدود کی بنیاد بنایا ہے۔ قانون کی تعبیر اور تشریح کے لیے بلاتفریق مسلک فقہاے اُمت کی مستند کتابوں میں انھیں جہاں بھی مواد ملا ہے اس کا جابجا حوالہ دیا ہے۔ عصرِحاضر کے ممتاز علما کے متعلقہ قوانین کے بارے میں ریسرچ سے بھی استفادہ کیا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کے حوالے نہایت ضروری تھے جو انھوں نے کتاب کے حاشیوں میں صحیح طریقے سے درج کیے ہیں۔ جس کی وجہ سے کتاب کی افادیت میں قابلِ قدر اضافہ ہوا ہے۔
اس کتاب کو اُردو میں لکھ کر فاضل مؤلف نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہماری قومی زبان میں نہ صرف قانون بلکہ اس کے مفہوم اور تشریحات کو بہتر طور پر ادا کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ اردو کو سرکاری اور عدالتی زبان بنانے کے لیے آئین کی دفعہ ۲۵۱ کو نظرانداز کرنے میں حکومت کی سہل انگاری اور عدلیہ کا تغافل شامل ہے جس کی الگ دل خراش داستان ہے جس پر مصنف نے بجاطور پر ماتم کیا ہے۔
نقدونظر کا تقاضا ہے کہ چند ان امور کی بھی نشان دہی کی جائے جو ہمارے خیال میں اصلاح طلب ہیں۔ مولف نے حدسرقہ ساقط ہونے کے بارے میں لکھا ہے: ’’ہمارا نظریہ تو یہ ہے کہ نالش کے ’’فیصلہ‘‘ سے قبل تک مال مسروقہ کی واپسی حد کو باطل قرار دیتی ہے‘‘۔ لیکن اس کے بعد انھوں نے حدیث صفوانؓ بیان کی ہے جس کی نالش پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سرقہ کے لیے ’’قطع ید‘‘ کا حکم دیا تھا۔ جس پر حضرت صفوانؓ نے کہا کہ وہ مسروقہ چادر سارق کو بطور خیرات دیے دیتے ہیں‘‘۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ معاملہ میرے پاس ’’فیصلہ‘‘ آنے سے پہلے کیوں نہ کیا تھا‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بعد اسے اپنے نظریے کے طور پر بیان نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ حکم واجب التعمیل فیصلہ بن جاتا ہے۔ یہ سنن نسائی کی حدیث ہے۔ اس کے فن کا پوری طرح جائزہ لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفوانؓ سے یہ فرمایا کہ انھوں نے خیرات یا معافی کا معاملہ عدالت میں مقدمہ پیش ہونے سے قبل کیوں نہ کرلیا تھا۔ اس کا مطلب ایسا معاملہ فیصلہ کرنے سے قبل کا نہیں بلکہ عدالت کی نوٹس میں لانے سے قبل ہونا چاہیے۔ اصول قانون (science of jurisprodence) سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں امام شافعیؒ کا الرسالہ مستند تحقیقی کام ہے۔ اس علم کا آغاز یورپ میں اٹھارھویں صدی میں ہوا ہے۔
فاضل مؤلف نے شریعت ایکٹ سال ۱۹۹۰ء کا جو حوالہ دیا ہے وہ دراصل غیرشرعی ایکٹ تھا جسے راقم نے فیڈرل شریعت کورٹ میں چیلنج کر کے سال ۱۹۹۲ء میں قرآن و سنت سے ہم آہنگ کرایا ہے۔
نفاذِحد کا جائزہ لیتے ہوئے مؤلف موصوف نے سال ۱۹۷۳ء کی دفعہ ۲ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس میں اسلام کے ساتھ لفظ ’’مذہب‘‘ استعمال کرنے سے اسلام کی دینی حیثیت متروک ہوگئی ہے۔ دفعہ (۲) سال ۱۹۷۳ء کے آئین سے پہلے دساتیر میں موجود نہیں تھی۔ سال ۱۹۷۲ء میں راقم نے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی آئینی کمیٹی کے صدر کی حیثیت سے آئین ساز اسمبلی کو اور بطور خاص علما حضرات کو اپنی آئینی سفارشات میں یہ تجویز پیش کی تھی جن میں سے یہ ایک ایسی تجویز کو آئین کی دفعہ (۲) بنا دیا گیا ہے۔ Islam shall be the state religion of Pakistan انگریزی میں لفظ "religion"دین کے معنی میں استعمال ہوتا ہے (ملاحظہ ہو المورد قاموس انکلیزی)۔ لغوی معنی سے قطع نظر اصطلاحی طور پر دین اور مذہب ہم معنی لفظ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اصل مقصد یہ ہے کہ ریاست جو عدلیہ‘ مقننہ اور انتظامیہ پر مشتمل ہے ان تینوں کا ’’دین‘‘ یا ’’مذہب‘‘ اسلام ہوگا۔ اس لیے یہ تینوں اسلام کے احکام اور قوانین کے پابند ہیں۔
کتاب کے بعض الفاظ سہوِ کتابت معلوم ہوتے ہیں جیسے مستشرقین (Orientalists) کو ’’مستشرکین‘‘ لکھا گیا ہے۔ ثقہ کے لیے سقاہت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ موضوعی کتابیات حروفِ تہجی کے حساب سے ہوتی تو وکلا اور عدلیہ کے لیے باعث سہولت ہوتا۔ (محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ)
فاضل مصنف نے مقدمے میں کہا ہے کہ اگرچہ مسلمانوں میں اسلامی تعلیمات کی سچی پیروی کا جذبہ پایا جاتا ہے‘ مگر غفلت‘ بے توجہی اور لاپروائی کی بناپر بہت سے لوگ متعدد کمزوریوں اور تناقضات میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ پتا نہیں‘ انھیں اس کا احساس بھی ہوتا ہے یا نہیں۔ (ص ۱۴)
زیرنظر کتاب میں اس ’’احساس‘‘ کو اُجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ مصنف نے عمل کے خواہاں لوگوں کے لیے قرآن و سنت سے اخذ کردہ اس مکمل اور جامع مطالعے کو نو ابواب میں پیش کیا ہے: ۱- مسلمانوں کا تعلق اپنے رب سے‘ ۲- اپنے نفس سے‘ ۳- اپنے والدین سے‘ ۴- اپنی بیوی سے‘ ۵- اپنی اولاد سے‘ ۶- اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے‘ ۷- اپنے پڑوسیوں سے‘ ۸- اپنے بھائیوں اور دوستوں سے‘ ۹- اپنے معاشرے سے۔
مصنف نے اخلاقیات‘ عبادات و معاملات‘ حقوق و فرائض اور تہذیب و تمدن کے متعلق اسلامی تعلیمات کو تفصیل سے یک جا کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب کے ’’چنگیز سے تاریک تر‘‘ اندروں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
کتاب کا عربی سے اردو ترجمہ ایسے رواں انداز میں کیا گیا ہے کہ اس پر ترجمے کا گماں نہیں ہوتا۔ اپنے موضوع پر یہ منفرد مجموعہ‘ ہر مسلمان کی تعلیم و تربیت اور تزکیہ بالخصوص داعیانِ دین کی بنیادی ضرورت ہے۔(حمید اللّٰہ خٹک)
آسان طریقے سے عربی سکھانے کا دعویٰ کرنے والی بہت سی کتابیں موجود ہیں لیکن ہر ایک کا اسلوب جداگانہ ہے۔ زیرتبصرہ کتاب اس لحاظ سے نہایت قابلِ قدر ہے کہ اس کے مؤلفین میں مولانا مسعود عالم ندویؒ شامل ہیں۔ مسعود عالم ندویؒ کی عربی زبان و ادب کے لیے خدمات نہایت ہی قابلِ قدر ہیں۔ انھی کے شاگردوں: محمد عاصم الحدادؒ اور مولانا خلیل احمد حامدیؒ نے مولانا مودودیؒ کی فکر کو عربی زبان میں منتقل کیا۔ طویل مدت کے بعد‘ اب دونوں حصوں کو ملا کر خوب صورت اور دیدہ زیب انداز میں شائع کیا گیا ہے۔ کتاب کے مقدمے میں مولانا مسعود عالم ندویؒ نے ’’عربی زبان اور اس کی تعلیم کا صحیح طریقہ‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے کہ کسی زبان کو سیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے لیے مقدور بھر کسی دوسری زبان کا سہارا نہ لیا جائے‘ اور اہلِ ایمان کی مرتب کردہ ریڈروں سے مدد لی جائے‘‘۔
مقدمے میں مولانا نے عربی ڈکشنری کے حوالے سے لکھی گئی ڈکشنریوں کابے لاگ تجزیہ کر کے بتایا ہے کہ کون سی کتب پر انحصار کیاجاسکتا ہے اور کون سی کتب قابلِ اعتماد نہیں ہیں۔
کتاب میں اس بات کا اہتمام کیا گیا ہے جو قاعدہ بیان کیا جائے‘ اسی کی مشق کروائی جائے اور اس سے پہلی مشقوں میں اس سے متعلقہ کوئی جملہ شامل نہ کیا جائے۔ ہر باب میں متعلقہ موضوع کے حوالے سے تمرنیات (مشقیں) شامل کی گئی ہیں جن میں طالب علم اردو میں ترجمہ کرے اور الفاظ و جملوں پر اعراب لگائے تاکہ الفاظ کی صحیح ادایگی ہو اور معانی و مفہوم واضح ہوسکے۔ اسی طرح اُردو سے عربی ترجمہ کرنے کے قابل ہوسکے۔
گویا مولانا مسعود عالم ندویؒ نے عربی زبان کی تدریس کو جدید اور عملی انداز میں پیش کرکے طالب علم اور عربی سیکھنے والے افراد کے لیے نہایت مؤثر‘ عام فہم اورآسان بنا دیا ہے۔ وہ ادارے جو عربی زبان سکھانے کا اہتمام کرتے ہیں‘ یا عربی زبان کی ترویج کرنا چاہتے ہیں بالخصوص مدارس دینیہ اور عربی زبان و ادب کے طلبہ کے لیے یہ کتاب ان شاء اللہ العزیز بہترین زادِ راہ ثابت ہوگی۔ (میاں محمد اکرم)
’’استغفار کو اپنا شعار بنا لیجیے‘‘ (جولائی ۲۰۰۵ئ) مختصر مگر انتہائی جامع ہے۔ قرآنی آیات کے ترجمے نے اس مضمون کو چارچاند لگا دیے ہیں۔ انفرادی و اجتماعی مسائل کے حل کے لیے یہ ایک بہت ہی عمدہ نسخہ ہے۔ استغفار ہی ہمارے تمام دکھوں کا مداوا ہے۔ ملک میں دین کے لیے کام کرنے والی تمام جماعتوں کو اس طرف کھلی دعوت دینا چاہیے بلکہ دینی و سیاسی جماعتوں کو استغفار کو اپنے پروگرام میں شامل کرنا چاہیے۔
’’کشمیر کا مستقل حل‘‘ (جون ۲۰۰۵ئ) میں بنیادی نکتہ، ’’استعماری چالیں‘‘ ہیں۔ ’’شذرات‘‘ میں بھی امریکی استعمار اور اس کی پالیسیوں کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے۔ عنوان ہی ’’امریکا سے نفرت‘‘ ہے۔ پانچواں مضمون ’’مہذب قوموں کے کارنامے‘‘ کا مرکزی نکتہ بھی امریکی و برطانوی استعمار کے کارناموں کو طشت ازبام کرنا ہے۔ درمیان میں ایک عنوان ’’امنِ عالم…‘‘ کے حوالے سے ہے جس کا آخری پیراگراف بھی امریکی دہشت گردی کو اپنا نشانہ بنا رہا ہے۔ پھر آخری دو عنوان: ’’روشن خیال تعلیم‘‘ اور ’’عراق: امریکا کے لیے دلدل‘‘ تو ظاہر ہے ‘ ہیں ہی استعماری سازشوں کو بے نقاب کرنے اور تعلیم اور عراق کے حوالے سے امریکی حکمتِ عملی کو سب کے سامنے لانے کے لیے۔ لہٰذا ان کا مرکزی خیال بھی استعمار ہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ استعمار دشمنی‘ ہمارے ایجنڈے کا اوّلین نکتہ ہے اور وقت کا اہم ترین تقاضا بھی ہے۔ لیکن کیا ہماری ساری دعوت صرف اسی نکتے کے گرد گھومتی ہے؟ کیا دیگر اہم موضوعات و عنوانات کو یکسر نظرانداز کر کے‘ پورے شمارے کا ۸۰ یا ۹۰ فی صد حصہ صرف ایک نکتے (جو کہ یقینا اہم ہے) پر مرکوز کر دینا‘ درست طرزِ عمل ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
آخری بات یہ کہ بے شک ترجمان القرآن ایک علمی رسالہ ہے لیکن اسے پڑھنے والے تمام لوگ دانش ور نہیں ہیں۔ ایسے مضامین ضرور شاملِ اشاعت کیے جائیں‘ جن کی وجہ سے عام آدمی ترجمان کو پڑھنے میں آسانی محسوس کرے‘ مباداکہ یہ صرف پالیسی ساز لوگوں یا اداروں کا رسالہ بن جائے۔ (میں پالیسی سازی کی نفی نہیں کر رہا)۔
یہاں کے حالات بظاہر دن بدن خراب ہو رہے ہیں‘ مساجد کے ارد گرد دائرہ تنگ کیاجا رہا ہے۔ مستقبل قریب میں مساجد میں کھل کر اسلام کے بارے میں بات کرنا شاید مشکل ہوجائے گا۔ مساجد کے ذمہ داران کے ٹیلی فون‘ فیکس‘ ای میل وغیرہ سب چیک کیے جاتے ہیں کہ کہیں کسی دہشت گرد تنظیم سے رابطہ تو نہیں۔ حسابات بھی چیک کیے جارہے ہیں۔
ایک مسجد کے ترک امام جو بڑے معتدل ہیں‘ انھوں نے اپنی تقریر میں عراق اور فلسطین میں مارے جانے والے مسلمانوں کو انجانے میں شہید کہہ دیا اور اس کے ساتھ ایک دوسرے وعظ میں غیرمسلموں کے جہنم میں جانے کا کہہ دیا۔ اس پر پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ شخص اس معاشرے میں نفرت پھیلا رہا ہے‘ اس لیے اس کو باہر نکال دیا جائے۔ عدالت میں اپیل کا حق دیا گیا لیکن ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ امام صاحب ۳۰سال سے برلن میں ہیں۔
رسائل و مسائل (جولائی ۲۰۰۵ئ) میں غزالی اسکولز اور زکوٰۃ فنڈ کے حوالے سے ایک استفسار کے سلسلے میں گزارش ہے کہ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ میں گذشتہ کئی سالوں سے زکوٰۃ کا علیحدہ حساب کتاب رکھاجارہا ہے۔ زکوٰۃ کی یہ رقم اُن چھے ہزار نادار و مستحق طلبہ و طالبات کو وظائف اور تعلیمی سہولیات کی صورت میں دی جاتی ہے جو یہاں زیرتعلیم ہیں۔ معاون حضرات کو ان کے عطیہ زکوٰۃ کے جواب میںاسپانسرڈ بچوں کے کوائف سے مطلع بھی کیاجاتا ہے البتہ یہ اور بات ہے کہ کچھ معاونین ہمیں زکوٰۃ کی تخصیص کے بغیر رقوم ارسال کردیتے ہیں جنھیں ٹرسٹ اپنے جنرل اکائونٹ میں استعمال کرتا ہے۔ کسی خاص مقام پر مخصوص فرد کے ذاتی رویے یا غیرمناسب حکمت عملی کے لیے ادارے کو جواب دہ ٹھیرانا درست نہیں۔
’’رزق حلال کا کلچر‘‘ (جولائی ۲۰۰۵ئ) پڑھا تو خیال آیا ہمیں خود اپنے دامن کو بھی دیکھنا چاہیے کہ اجتماعی امانتوں پر تصرف کرتے ہوئے کوئی دھبہ نہ لگے۔ کیا ہم اپنے اپنے دائرے میں اس میں محتاط ہیں؟
’’بلوچستان ‘ سلگتے مسائل‘ غافل قیادت‘‘ (جولائی ۲۰۰۵ئ) مختصر‘ جامع اور بروقت ہیں۔ لیکن بلوچستان کے مسئلے کا حل دوسرے بہت سے مسائل کی طرح‘ تدابیر اور کاغذ پر لکھی رہ جانے والی سفارشات سے زیادہ رویے اور فکر میں تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہے۔ کاش ہم سب پاکستانی کی طرح سوچیں اور عمل کریں۔
ہمارے ہاں جو شعبۂ استفسارات قائم ہے اس کا مقصد دراصل یہ ہے کہ جو لوگ تحریکِ اسلامی کو سمجھنے اور اس کے نصب العین اور طریق کار کے متعلق اپنے شبہات دُور کرانے کے لیے مرکز سے خط و کتابت کریں‘ ان کے خطوط کے جوابات دیے جاتے رہیں‘ نیز اسلامی نظامِ حیات کے ان اہم اصولی مسائل کے متعلق لوگوں کو صحیح واقفیت بہم پہنچائی جائے جنھیں بالعموم غلط طریق سے سمجھا سمجھایا جاتا رہا ہے۔ رہے چھوٹے چھوٹے فقہی مسائل تو ان میں سے صرف ایسے مسائل کا جواب یہاں سے دیا جاسکتا ہے جنھیں صحیح اسلامی نظریے سے عام طور پر حل نہ کیا جا رہا ہو۔
لیکن قارئین ترجمان القرآن اور جماعت اسلامی کے متاثرین کی طرف سے جو خطوط روزانہ ڈاک میں موصول ہوتے ہیں ان کے مطالعہ سے یہ شبہہ ہوتا ہے کہ شاید شعبۂ استفسارات کو کوئی ’’دارالافتا‘‘ سمجھ لیا گیا ہے۔ بس ایک تسلسل سے استفتا پر استفتا چلے آرہے ہیں جن میں ادنیٰ سے ادنیٰ جزئیات پر سوال کیے جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ مسائل مقامی علما‘ بلکہ معمولی ائمۂ مساجد سے بھی حل کرائے جاسکتے ہیں۔ پھر بعض لوگوں کو سوال کرنے کا جنون ہوگیا ہے کہ ایک ایک خط میں بیس بیس اور تیس تیس سوالات لکھ بھیجتے ہیں‘ حالانکہ شریعت میں کثرتِ سوال کو ناپسند کیا گیا ہے‘ کیونکہ یہ پریشان دماغی کی علامت ہے۔
۱- سوالات لکھنے سے پہلے یہ بات ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ ہمارے یہاں کوئی اصطلاحی دارالافتا نہیں ہے۔
۲- پوچھنے کے قابل صرف وہ سوالات ہوتے ہیں جو عملی زندگی میں یا دین حق کی دعوت و تبلیغ کے دوران میں واقعتا پیش آئیں۔ تصنیف کردہ سوالات لکھ بھیجنا ایک فضول حرکت ہے۔
۳- سرسری سوالات مقامی اہلِ علم سے‘ کسی دارالافتا سے‘ یا کسی علمی ادارے سے پوچھ لیجیے۔ اس کے بعد اگر کوئی اہم اور اصولی مسئلہ یا کوئی پیچیدہ فقہی جزئیہ حل طلب رہ جائے تو اس کا جواب اوّل تو جماعت کے لٹریچر اور ترجمان القرآن کے فائل سے دریافت کیجیے‘ لیکن اگر اس میں کامیابی نہ ہو تو ہمیں لکھیے۔ ایسے ہی سوالات کا جواب دینے کے لیے شعبۂ استفسارات قائم کیا گیا ہے۔ (ترجمان القرآن‘ جلد ۲۷‘ عدد ۱-۲‘ رجب‘ شعبان ۱۳۶۴ھ‘ جولائی‘ اگست ۱۹۴۵ئ‘ ص ۱۳)