بسم اللہ الرحمن الرحیم
۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء کا زلزلہ اپنے ساتھ عبرت کا بہت سارا سامان لے کر آیا۔ اس عظیم سانحے نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ آزاد کشمیر کی ایک خاتون نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ جس گھر کی ایک ایک چیز کو میںنے بڑے پیار سے مدتوں میں سجایا تھا مجھے ایسا لگا کہ اس کی دیواریں میرا پیچھا کررہی ہیں۔ جب میں کمرے کی ایک دیوار سے بچنے کے لیے بھاگی تو دوسری اور تیسری دیوار بھی میرے اوپر گرنے لگی اور بڑی مشکل سے میں جان بچاکر جب باہر نکلی تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں ساری عمر ایک سراب کے پیچھے بھاگتی رہی۔ یوں دنیا کی زندگی کی حقیقت میرے اوپر کھل گئی کہ یہ آزمایش کے چند دن ہیں اور اللہ راحت و آسایش اور تکلیف و مصیبت دونوں میں ہمیں آزماتا ہے کہ ہم کیا طرزعمل اختیار کریں۔
کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِط وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً ط وَاِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ o (انبیا ۲۱:۳۵)
ہر جان دار کو موت کا مزا چکھنا ہے‘ اور ہم اچھے اور برے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمایش کر رہے ہیں۔ آخرکار تمھیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔
مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اِلاَّ فِیْ کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَھَا ط (الحدید ۵۷:۲۲)
کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں یا تمھارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہو اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب (یعنی نوشتۂ تقدیر) میں لکھ نہ رکھا ہو۔
زندہ اور بیدار اور حقیقت شناس لوگوں کی یہ نشانی ہے کہ وہ سخت مصیبت اور المناک سانحوں کے مواقع پر بھی اپنے ہوش و حواس قائم رکھتے ہیں اور مصیبت کا مقابلہ کرتے ہیں اور اس مصیبت سے نکلنے کی تدابیر سوچتے ہیں اور ان تدابیر پر عمل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو زلزلے کے شدید نقصانات کے وقت بھی حوصلہ دیا‘ کچھ بندوں نے ہمت کر کے لاشوں اور زخمیوں کو ملبے سے نکالنے‘ فوت ہونے والوں کا جنازہ پڑھنے‘ انھیں دفنانے اور زخمیوں کا علاج کرنے کا کام فوری طور پر شروع کر دیا۔ بالاکوٹ‘ باغ اور مظفرآباد میں یہ کام فوری طور پر جماعت اسلامی‘ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت الدعوۃ کے کارکنوں نے شروع کیا۔ حزب المجاہدین کے کارکن اور پیما (پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن) کے کارکن جو موقع پر موجود تھے فوری طور پر سرگرم عمل ہوگئے۔ بعض اللہ کے بندے اپنے بیٹے بیٹیوں اور والدین کی تدفین سے فارغ ہو کر فوری طور پر اس خدمت میں لگ گئے۔ انھوں نے عزم و ہمت کی لازوال کہانیاں نقش کیں۔
بالاکوٹ کے ۸۲سالہ بزرگ رکن جماعت حاجی غلام حبیب کی پوری تیسری نسل اللہ کو پیاری ہوگئی۔ پوتے پوتیاں‘ نواسے نواسیاں سب رخصت ہوگئیں لیکن انھوں نے بچے ہوئے لوگوں کی خدمت کے لیے کمر کس لی۔ امیرجماعت اسلامی ضلع باغ‘ عثمان انور صاحب اپنی والدہ اور بیٹی دونوں کی نماز جنازہ اور تدفین کے بعد ریلیف کیمپ میں حاضر ہوگئے۔ مظفرآباد کے شیخ عقیل الرحمن صاحب اپنے بیٹے اور چودھری ابراہیم صاحب اپنی جوان بیٹی کی تدفین سے فارغ ہوکر ریلیف کیمپ کے انتظامات میں لگ گئے۔
مظفرآباد میں پیما کے ڈاکٹر محمد اقبال اپنے بہت سے قریب ترین رشتہ داروں کا غم سینے میں دبائے ہوئے فوری طور پر خیموں کے نیچے ہسپتال قائم کرنے اور زخمیوں کے آپریشن کرنے کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔ انھوں نے مظفرآباد سے سٹیلائٹ ٹیلی فون کے ذریعے پوری دنیا میں اپنے ساتھیوں کو بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی سے آگاہ کیا اور انھیں فوری طور پر مدد کے لیے پہنچنے کا پیغام دیا۔ مصیبت کی گھڑی کے دلخراش واقعات سامنے آئے۔ انھوں نے کہا کہ ایک عورت کو ملبے کے ایک بڑے سلیب کے نیچے سے زندہ نکالنے کے لیے انھیں آری سے اس کا ہاتھ کاٹنا پڑا۔ جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر کے سابق امیر عبدالرشید ترابی کے خاندان کے ۲۲افراد اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن وہ ہمہ تن اور مجسم خدمت بن گئے۔ جماعت اسلامی اور اس کی برادر تنظیموں اسلامی جمعیت طلبہ‘ جمعیت طلبہ عربیہ‘ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن‘اسلامی جمعیت طالبات‘ حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان‘ پاکستان انجینیرز فورم‘ تنظیم اساتذہ پاکستان‘ شباب ملّی اور دوسری دینی جماعتوں جماعت الدعوۃ‘ الرشید ٹرسٹ‘ ایدھی فائونڈیشن نے پوری پاکستانی قوم کی نمایندگی کی۔ پاکستان بھر کے عوام نے زخمیوں کے علاج اور زلزلے میں بچنے والے بے خانماں اور بے سروسامان لوگوں کی مدد کے لیے جس جوش و جذبے کا اظہار کیا ان تنظیموں نے اسی جوش و جذبے کو ایک مثبت سمت عطا کی اور امداد کو مستحقین تک پہنچانے کا قابلِ اعتماد وسیلہ بن گئے۔
زلزلے کے چند لمحوں کے اندر آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد کے پانچ اضلاع میں حکومت کا پورا ڈھانچا مفلوج ہوگیا۔ سرحدوں پر متعین اور کیمپوں میں مقیم فوج کے اوپر قیامت ٹوٹ پڑی۔ انتظامیہ اور فوج میں یہ سکت نہیں رہی کہ وہ کسی کی مدد کو پہنچ سکیں۔ آزاد کشمیر کے صدر اور وزیراعظم کی رہایش گاہیں کھنڈرات میں تبدیل ہوگئیں۔ پولیس کا سارا نظام تتربتر ہوگیا۔ ایسے عالم میں جماعت اسلامی کا منظم نیٹ ورک بروے کار آیا اور اچانک سانحے سے پیدا ہونے والے خلا کو اس نے پُرکردیا۔
اس سانحے نے کچھ خدشات اور اہم سوالات کو جنم دیا۔ آزاد کشمیر میں متعین فوج سرحدوں کی نگرانی کے لیے متعین ہے۔ یہ فوج چھائونیوں میں مقیم فوج کی طرح نہیں ہے بلکہ مورچہ بند (deployed army) ہے۔ اس کی گھڑی گھڑی کی خبر فوج کے ہائی کمان کو ہونی چاہیے اور فوجی ماہرین کے کہنے کے مطابق زلزلے میں فوج پر جو بیتی اس کی خبر پوری فوج کے تمام متعلقہ حلقوںتک زیادہ سے زیادہ دو گھنٹوں میں پہنچنی چاہیے تھی لیکن فوجی ترجمان میجر جنرل شوکت سلطان صاحب سانحے کے ۹ گھنٹے بعد انٹرویو میں کہتے ہیں کہ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔ پشاور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل صفدر حسین صاحب کہتے ہیں کہ میڈیا والے بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں‘ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ۴۰‘ ۵۰ تک ہے۔ کیا فوجی حکمران بے خبر تھے یا یہ ان کی پالیسی تھی؟ دونوں صورتیں عوام کو گہری تشویش میں مبتلا کرنے والی اورافواج پاکستان کی قیادت کے بارے میں بے اعتمادی پیدا کرنے والی ہیں۔ وزیراطلاعات شیخ رشیداحمد نے بھی کہا کہ میڈیا نقصانات کو بڑھا چڑھ کر پیش کر رہا ہے۔
جنرل پرویز مشرف بیرونی امداد کے بارے میں متضاد بیانات دیتے رہے۔ انھوں نے ابتدائی دنوں میں بیرونی امداد کے بارے میں اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ کافی امداد پہنچ گئی ہے‘ جب کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل چیخ رہے تھے: نقصانات کا اندازہ سونامی سے زیادہ ہے اور امداد کی فراہمی قطعی ناکافی ہے۔ بعد کے دنوں میں خود جنرل پرویز مشرف بھی کہنے لگے کہ بین الاقوامی برادری اور دولت مند ممالک نے اپنا فرض ادا نہیں کیا۔ اس تضاد بیانی سے بھی فوجی حکمرانوں کی نااہلی جھلکتی ہے۔
زلزلے کی مصیبت پر ۱۰‘ ۱۵ دن گزرنے کے بعد بھی ایسے گوشے موجود تھے جہاں تک فوج کے افراد نہیں پہنچ سکے۔ افواج پاکستان کے ذمہ دار افراد کا کہنا ہے کہ فوج کو جب مارچ کا حکم دیا جاتا ہے تو تیسرے دن اسے تمام مقامات تک پہنچنا چاہیے خواہ وہ کتنے ہی دُور دراز اور دشوارگزار کیوں نہ ہوں۔ دسویں روز تک دُور دراز مقامات تک نہ پہنچ سکنا بھی تشویش ناک ہے۔
حکومتی میڈیا نے اسلامی ممالک خاص طور سے سعودی عرب‘ ترکی اور متحدہ عرب امارات کے فیاضانہ اور فراخ دلانہ تعاون کو کماحقہ اُجاگر نہیں کیا حالانکہ اس موقع پر اُمت مسلمہ نے اپنے ایک جسدِواحد ہونے کا ثبوت فراہم کیا اور نہ صرف حکومتوں نے بلکہ مسلم عوام نے پاکستانی عوام کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا۔ زلزلے کے پہلے ہی ہفتے میں مصر‘ ملایشیا‘ سنگاپور‘ انڈونیشیا‘ ترکی‘ افغانستان‘ سوڈان‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ برطانیہ اور امریکا سمیت دنیا کے گوشے گوشے سے مسلمان ڈاکٹروں کے وفود زلزلہ زدہ علاقے میں پہنچ گئے۔ چارٹرڈ طیاروں میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے ادویات‘ خیمے اور کمبل پہنچ گئے لیکن اسلامی ممالک کی امداد کو اجاگر کرنے کے بجاے حکومت اور میڈیا اسرائیل اور بھارت سے امداد کی پیش کش کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے حالانکہ عملاً اسرائیل سے کوئی مدد نہیں پہنچی اور بھارت کی امداد بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔
اہلِ ایمان تمھیں آپس میں ایک دوسرے سے ایسی محبت کرنے والے‘ ایسے رحم کرنے والے‘ ایسے پیار کرنے والے نظر آئیں گے جیسے ایک جسدواحد ہوں جس کے ایک عضو کو جب کوئی گزند پہنچتی ہے تو پورا جسم اس کے لیے بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
ہمارے ملک کے سیکولر حکمران اور لادین طبقہ مغرب کی دوستی کے شوق میں اور اسلامی نظریۂ حیات سے جان چھڑانے کے لیے مسلسل کہہ رہا ہے کہ اُمت کہاں ہے؟ where is Ummah?
اس موقع پر اُمت نے ثابت کیا کہ وہ موجود ہے‘ زندہ جسم کی مانند ہے اور ایک دوسرے کے درد کو محسوس کرتی ہے۔ مجھے سوڈان‘ مصر‘ ترکی‘ ملیشیا‘ ایران اور دوسرے اسلامی ممالک کے وفود کے ممبران نے کہا کہ ہمارے ممالک میں عوام کا ردعمل اس طرح سامنے آیا جیسے ان کے اپنے ملک کے اندر یہ آفت نازل ہوئی ہے‘ اور اگر باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت متاثرین کی بحالی کے لیے ان ممالک کے عوام سے مدد مانگی جائے تو لوگ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔
زلزلے کے ابتدائی ایام میں خیموں کی شدید کمی تھی اور بیرون ملک سے خیمے پہنچانے کی اپیل کی جا رہی تھی۔ فوج کے باخبر حلقوں کے کہنے کے مطابق پاکستان میں فوج کے افراد کی تعداد تقریباً ۶ لاکھ ہے۔ اس تعداد کے لیے ہر ۱۲ افراد پر ایک خیمہ‘ یعنی ۵۰ ہزار خیمے ہر وقت سٹور میں موجود رہنے چاہییں۔ ۲۰ ہزار فوجی افسران کے لیے ایک بڑا خیمہ اور ایک چھوٹا خیمہ فی افسر دوخیموں کے حساب سے ۴۰ہزار خیمے مزید موجود رہنے چاہییں۔ ان کے علاوہ ریزرو کے حساب سے جوانوں اور افسروں کے لیے مزید ۴۰ ہزار خیمے ہونے چاہییں۔ اس طرح تقریباً ڈیڑھ لاکھ خیمے فوج کے سٹور میں موجود ہونا چاہییں تھے تاکہ اگر جنگ کے موقع پر کسی وقت فوج کو نکلنے کا حکم ملے تو وہ فوری طور پر میدان میں خیمہ زن ہوسکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مصیبت کے وقت یہ خیمے کہاں تھے؟
حکومتی میڈیا پر دینی جماعتوں کے کارکنوں کی خدمات کو نظرانداز کیا گیا۔ بعض سیکولر گروہوں کی معمولی امداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا‘ حالانکہ لوگوں کے جذبۂ خدمت کو مہمیز دینے کے لیے ضروری تھا کہ جو لوگ رضاکارانہ خدمات انجام دے رہے ہیں اور دُوردراز‘ دشوارگزار علاقوں تک پہنچ کر خیمے‘ گرم کپڑے‘ کمبل اور خوراک کا سامان پہنچا رہے ہیں ان کی خدمات کو زیادہ اُجاگر کیا جاتا۔ فوج کے افراد تو جو خدمت سرانجام دے رہے ہیں وہ اپنے فرض منصبی کے تحت اس کے لیے مامور ہیں اور اس کا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ اگرچہ فرض منصبی کو ادا کرنا بھی قابلِ ستایش ہے لیکن ان سے زیادہ قابلِ ستایش وہ لوگ ہیں جو خالص اللہ کی رضا اور مخلوق کی خدمت کے جذبے کے تحت گھربار چھوڑ کر بغیر کسی دنیاوی اجر اور معاوضے کے میدان میں نکل کھڑے ہوئے۔ لیکن فوجی حکمرانوں نے اس مصیبت کو بھی اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا اور قوم کی خدمت کے جذبے کو سراہنے میں کوتاہی برتی۔
۸ اکتوبر کے زلزلے کے وقت مَیں پشاور میں اپنے مکان کے ایک کمرے میں تھا۔ زلزلے کے جھٹکے محسوس ہونے کے بعد میں کھلے صحن میں نکلا۔ میرے بیٹے انس فرحان بھی اپنے چھے ماہ کے بیٹے اسامہ اور اپنی بیوی کے ہمراہ صحن میں آگئے۔ زلزلہ گزر جانے کے بعد جب ہم واپس کمرے میں آئے تو میرے بیٹے کی زبان سے نکلا کہ نہ جانے یہ زلزلہ کہاں کہاں کتنی تباہی لے کر آیا ہوگا۔ زلزلے کے جھٹکے اتنے شدید تھے کہ ان کی تشویش بجا تھی۔ چند منٹ بعد اسلام آباد کے مارگلہ ٹاور کی خبر پورے ملک میں پھیل گئی۔ میں بھی پشاور سے اسلام آباد آگیا۔ مارگلہ ٹاور جانے سے پہلے مجھے اطلاعات مل چکی تھیں کہ آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد کے وسیع علاقے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ زلزلے کے دو گھنٹے بعد صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ اکرم خان درانی اور سینیروزیر سراج الحق ہیلی کاپٹر پر زلزلہ زدہ علاقوں کے دورے پر تھے۔ سراج الحق صاحب نے وسیع علاقوں میں زلزلے سے پیدا ہونے والی تباہ کن صورت حال سے آگاہ کیا۔ مظفرآباد سے اگلے روز پیر صلاح الدین صاحب نے فون پر اطلاع دی کہ دریاے نیلم کے دونوں جانب پہاڑ ٹوٹ کر دریاے نیلم میں گرے ہیں اور اس نے تقریباً ۲۴ گھنٹے تک دریاے نیلم کے پانی کے سامنے بند باندھے رکھا ہے۔ فوج کا نثار کیمپ ملبے میں تبدیل ہوگیا ہے اور تقریباً ۳۰۰ فوجی اس کے نیچے دب گئے ہیں۔ صدر اور وزیراعظم ہائوس کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے۔ اسکول‘ کالج‘ یونی ورسٹی‘ ہسپتال اور سرکاری عمارتیں سب زمیں بوس ہوگئی ہیں۔ مظفرآباد شہر نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ صورت حال کا جائزہ لینے اور فوری امدادی کارروائیوں کے لیے ۹ اکتوبر کو منصورہ میں جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت کا اجلاس منعقد ہوا۔ کراچی کے سابق ناظم نعمت اللہ خان صاحب کو امدادی کارروائیوں کی مہم کا انچارج بنا دیاگیاجو پیرانہ سالی کے باوجود خدمت اور محنت کی علامت ہیں۔ ملک بھر سے برادر تنظیموں اور جماعت کی اعلیٰ قیادت کا ایک اجلاس ۱۰ اکتوبر کو اسلام آباد میں بلا لیا گیا۔
چونکہ زلزلے کی وجہ سے پورے علاقے کے ہسپتال منہدم ہوگئے تھے اور جو باقی بچے تھے ان میں بھی دراڑیں پڑگئی تھیں اور مسلسل جھٹکوں کی وجہ سے ان کے اندر کام ممکن نہیں تھا‘ اس لیے ’پیما‘ کے ڈاکٹروں نے جماعت اسلامی اور الخدمت کے کارکنوں اور پیرامیڈیکل سٹاف کے تعاون سے فوری طور پر ایبٹ آباد‘ مانسہرہ‘ بالاکوٹ‘ بٹ گرام‘ مظفرآباد‘ باغ اور راولاکوٹ میں خیموں کے اندر عارضی ہسپتال قائم کر دیے تھے۔ سرکاری اور فوجی ہسپتالوں کے ڈاکٹروں نے بھی عارضی طور پر انھی ہسپتالوں میں کام شروع کر دیا تھا۔
۱۰ اکتوبر کے اجلاس میں راولپنڈی اسلام آباد میں مرکزی کیمپ قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ڈاکٹرحفیظ الرحمن‘ سید بلال اور نورالباری کو ان کا انچارج مقرر کیا گیا۔ مانسہرہ اور مظفرآباد میں صوبہ سرحد اور آزادکشمیر کے لیے دو ذیلی کیمپ بنا دیے گئے۔ مانسہرہ کے کیمپ کے ذیلی کیمپ بالاکوٹ‘ ایبٹ آباد‘ بٹگرام‘ الائی‘ تھاکوٹ‘ کوائی‘ پارس‘ شانگلہ اور بشام سمیت تقریباً ۳۰ مقامات پر بنا دیے گئے‘ جب کہ مظفرآباد کے علاوہ باغ اور راولاکوٹ میں بھی بڑے مرکزی کیمپ اور آزادکشمیر کے چپے چپے تک امداد پہنچانے کے لیے کارکنوں کی ٹیمیں متعین کر دی گئیں۔ جماعت اسلامی کے تقریباً ۱۰ہزار کارکنوں نے ان کیمپوں میں شب و روز ڈیوٹی دی اور ہماری خدمت کی شناخت کو مستحکم کیا۔
اللہ کا شکر ہے کہ ان خدمات کا اعتراف ہر اس ادارے اور ہر فرد نے کیا جس نے ان علاقوں کو دیکھا یا دورہ کیا۔ قبائلی علاقوں سے مرکزی وزیر ڈاکٹر جی جے (گلاب جمال) قومی اسمبلی میں میری نشست پر آئے اور کہا کہ انھوں نے ۱۵ روز تک متاثرہ علاقے کا دورہ کیا ہے اور جہاں بھی سڑک کھلی ہے وہاں پہنچ گئے‘ اور انھوں نے دیکھا کہ جہاں بھی وہ گئے الخدمت فائونڈیشن کے کارکن ان کے جانے سے پہلے وہاں موجود تھے اور خدمت میں ہمہ تن مصروف تھے اور پورے علاقے سے مکمل طور پر باخبر اور آگاہ تھے اور لوگوں کی اور امداد کرنے والوں کی مدد اور رہنمائی کررہے تھے۔
جنرل حمیدگل صاحب نے مجھے لکھا کہ انھوں نے الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کی برادر تنظیموں کی تنظیم اور خدمت کے جذبے کا مشاہدہ متاثرہ علاقے میں خود پہنچ کر کیا ہے اور انھیں یقین ہے کہ جماعت ملک میں بڑے سماجی انقلاب کی قیادت کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایک خط میں آزاد کشمیر پیپلز پارٹی کے رہنما نے جماعت کے کارکنوں کے جذبۂ خدمت کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور آڑے وقت میں مدد کے لیے آنے پر شکریہ ادا کیا ہے۔ ملک بھر کے انصاف پسند کالم نویسوں نے جماعت کی خدمات کا اعتراف کیا ہے اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے بعض لوگوں نے اعتراف کیا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر بعض لوگوں کو ناجائز طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور دوسروں کی خدمات کو نظرانداز کرنے کے مجرمانہ فعل پر ان کا ضمیر ملامت کر رہا ہے لیکن دبائو کے تحت یہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔
اس سے یہ خطرناک حقیقت واضح ہوگئی کہ میڈیا کے اس دور میں عوام کو حقائق سے آگاہ کرنے کے بجاے میڈیا حقائق کو چھپانے اور خلافِ حقیقت تصویر بنانے کے لیے استعمال ہوسکتا ہے‘ یعنی یہ معلومات (information) کے بجاے غلط معلومات (disinformation) کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس لیے معاشرے کے ذمہ دار افراد کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے اور درست معلومات تک رسائی حاصل کرنے کے لیے خصوصی اہتمام کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو قرآن کریم میں خبردار کیا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌم بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًام بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ o (الحجرات۴۹:۶)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو‘ جب تمھارے پاس ایک ناقابل اعتماد شخص کوئی خبر لے کر آئے تو پوری طرح تحقیق کرلیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ بے خبری اور غلط معلومات کی بناپر تم کسی گروہ کو نقصان پہنچا دو اور پھر اپنے ہی کیے پر نادم ہو جائو۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس بڑے سانحے کے موقع پر نہ صرف حکومتی الیکٹرانک میڈیا بلکہ بعض پرائیویٹ نیوز چینل بھی امدادی کارروائیوں کی حقیقی صورت حال کو نمایاں کرنے میں ناکام رہے جس سے نہ صرف خدمت کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوئی بلکہ عوام کی غلط رہنمائی کی گئی اور انھیں گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح ان اداروں نے اپنی ساکھ کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا کیونکہ حقائق تو بالآخر لوگوں کے سامنے آہی جاتے ہیں۔
امدادی کارروائیوں میں تاخیر سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پوری قوم میں فوج سمیت ہنگامی صورت حال سے نبٹنے کے لیے نہ کوئی ادارہ ہے نہ کوئی لائحہ عمل (working plan) تیار ہے۔ مثال کے طور پر اسلام آباد کے مرکزی شہر میں مارگلہ ٹاور جیسی بڑی عمارت زمین بوس ہوگئی۔ پرویز مشرف اور وزیراعظم سمیت بڑی بڑی شخصیات دو تین روز تک تماشے کے لیے آتے رہے اور ملبہ اٹھانے کے لیے فقط کرایہ کے دو بلڈوزر اور کچھ رضاکار موجود تھے۔ آخری چارئہ کار کے طور پر بیرون ملک سے زندگی کے بچے کھچے آثار معلوم کرنے کے لیے کچھ کارکن آلات اور تربیت یافتہ کتے لے کر آئے جن کی مدد سے چند افراد کو زندہ نکالا جاسکا۔ اگر حکومت کے پاس کوئی Disaster Management Planموجود ہوتا تو اسلام آباد کے اندر ہی مارگلہ کے پہاڑوں میں کام کرنے والے ہزاروں ماہر مزدوروں اور پہاڑ کو کاٹنے کا کام کرنے والے ٹھیکے داروں اور ان کے پاس مہیا مشینری کی مدد سے پورے مارگلہ ٹاور کے ملبے کو چند گھنٹوں کے اندر اٹھایا جا سکتا تھا۔ جب ایک مجلس میں یہ بات سامنے آئی تو مجلس میں موجود ایک ٹھیکے دار نے اعتراف کیا کہ اگر یہ تجویز بروقت اس کے ذہن میں آتی یا کوئی فرد اس کو اس طرف متوجہ کرتا تو ہزاروں کارکنوں پر مشتمل پوری فورس کو اس کام پر لگایا جاسکتا تھا۔ مناسب رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں شہری ملبے کے نیچے دبے ہوئے لوگوں کی حالت زار کا بے بسی کے ساتھ تماشا کرتے رہے۔
مستقبل میں اس طرح کے سانحوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہزاروں کارکنوں پر مشتمل ایک ریسکیو سکواڈ بنایا جائے جو ضرورت کے وقت فوری طور پر متحرک ہوجائے۔ اس کے پاس ہر طرح کا سامان موجود ہو یا اس کے فوری حصول کا طریقہ معلوم ہو۔ حکومت کے علاوہ خدمت خلق کا کام کرنے والے اداروں کا بھی فرض ہے کہ تربیت یافتہ کارکنوں کی اس طرح کی ٹیمیں منظم کریں جو آفات سماوی اور امن اور جنگ کے وقت کام آسکیں۔
امدادی کارروائیوں کے موقع پر یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ اور امدادی سامان کو حقیقی مستحقین تک پہنچانے کے لیے منظم جماعتوں کی ضرورت ہے جو عوام میں سے ہوں اور جن کی شاخیں ہر گلی کوچے میں قائم ہوں۔ کچھ تنظیمیں جن پر لوگوں کا اعتماد تو موجود ہے اور جو دیانت دار اور مخلص لوگوں کی قائم کی ہوئی ہیں ایسی ہیں جن کا انفراسٹرکچر اور نیٹ ورک عوام میں موجود نہیں ہے۔ یہ لوگ اپنے تنخواہ دار کارکنوں کے ذریعے سامان تو پہنچا دیتے ہیں لیکن مستحقین تک سامان کو پہنچانے کا انتظام ان کے ہاں نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کا فرض ہے کہ اپنا سامان ان لوگوں کے حوالے کر دیں جن کے پاس مستحقین تک پہنچنے کا نظام موجود ہے‘ مثلاً ایدھی فائونڈیشن کے ٹرک سڑک پر کھڑے ہوجاتے تھے اور لوگوں کو سامان لے جانے کے لیے بلا لیتے تھے۔ ٹرکوں سے سامان لوگوں کی طرف پھینک دیا جاتا تھا۔ اس سے ایک تو بدنما منظر بنتا تھا کہ لوگوں کا ہجوم سامان حاصل کرنے کے لیے بے ہنگم بھکاریوں کی طرح سامان کی طرف لپک رہا ہے‘ دوسرا پیشہ ور چھیناجھپٹی کرنے والوں کو دوسروں کا حق چھیننے کا موقع ملتا تھا۔ اس صورت میں حیادار سفیدپوش مصیبت زدگان کے لیے ضروری سامان خوراک حاصل کرنا بھی ناممکن ہوجاتا ہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ جماعت اسلامی کے کارکنوں نے پورے ملک میں بڑی حد تک یہ ضرورت پوری کر دی ہے۔ یہ ہرگلی کوچے میں موجود ہیں۔ دیانت دار اور فرض شناس مرد اور خواتین سب مل کر کام کرتے ہیں۔ ضرورت کے وقت فوری طور پر میدان میں نکل آتے ہیں۔ لیکن ابھی جماعت کو بھی اپنے اداروں کو مزید منظم کرنے پر توجہ دینا چاہیے۔ ملک کے طول و عرض کے ہر گلی کوچے میں الخدمت فائونڈیشن کی ممبرسازی کر کے عوام کو اس کا حصہ بنانا چاہیے اور پوری قوم کو مثبت سرگرمیوں میں مشغول کرنے کے لیے ہمہ جہتی اور ہمہ وقتی پروگرام بنانا چاہیے۔
اس وقت اہم ترین مسئلہ تعلیمی اداروں کی بحالی کا ہے۔ مساجد کے منہدم ہونے کی وجہ سے لوگوں کی اجتماعیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ فوری طورپر مساجد کی تعمیرنو کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مساجد میں مسجدمکتب کے ذریعے بچوں کی تعلیم کا فوری انتظام‘ بیٹھک اسکولوں کا بڑے پیمانے پر اجرا‘ تنظیم اساتذہ‘ اسلامی جمعیت طلبہ کے زیراہتمام اسکولوں کے سلسلے کا احیا‘ جمعیت طلبہ عربیہ‘ اسلامی جمعیت طالبات اور سرکاری اسکولوں کو دوبارہ منظم کرنے میں امداد کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنایاجاسکے۔
اس وقت ایک فوری ضرورت متاثرہ لوگوں کو حوصلہ اور ہمت کرکے اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی تلقین کرنے کی ہے۔ بحیثیت مسلمان کے ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا اور خاص طور پر لوگوں کو تلقین کرنا کہ مصیبت کی گھڑی میں صبر کرنے والوں کے لیے بڑا اجر ہے۔ الحمدللّٰہ الذی لا یحمد علی مکروہ سواہ، اس اللہ کا شکر ہے جس کے سوا مشکل میں کسی کی تعریف نہیں کی جاتی‘ یعنی اللہ جس حال میں بھی رکھے بندہ اس پر اپنے رب کا شکرگزار ہو۔ بقول اقبال ؎
در رہ حق ہرچہ پیش آید نکوست
مرحبا نامہربانی ہائے دوست
اللہ کے راستے میں جو کچھ بھی آئے اچھا ہے۔ حبیب کی طرف سے اگر کوئی تکلیف بھی آئے تو اسے خوش آمدید کہتے ہیں۔
لوگوں کو نفسیاتی طور پر بحال اور اُن کی تمنائوں اور آرزوئوں کو ازسرِنو بیدار کرنے کے لیے اور انھیں رجوع الی اللہ کی تلقین کرنے کے لیے اور لغو اور فضول سرگرمیوں سے مثبت اور مفید مشاغل کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ایک سماجی تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جماعت اسلامی نے پُرعزم اور باہمت ‘خداترس کارکنوں کو متاثرہ علاقوں میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حلقہ خواتین نے لوگوں کو اِس مصیبت کی گھڑی میں عزم و ہمت سے کام لینے اور اُن کی نفسیاتی بحالی کے لیے اُمیدنو کے نام سے ایک پراجیکٹ شروع کیا ہے جسے مزید توسیع دینے کی ضرورت ہے۔
سیکولر اور لادین طبقے میں رجوع الی اللہ کے رجحان سے تشویش پیدا ہوگئی۔ استحصالی طبقے نے ہمیشہ لوگوں کے سفلی جذبات اور ہوا و ہوس کی خواہشات کو اُبھار کر لوگوں کے اخلاق و کردار اور ان کے اموال پر ڈاکا ڈالاہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے پاس اپنی اولاد کی بنیادی ضروریات ‘ چھپر‘ خوراک‘ پوشاک‘ تعلیم اور علاج کی رقم تو نہیں ہوتی لیکن جھونپڑی میں بھی ڈش انٹینا لگانے اور وی سی آر پر کرایہ کی فحش فلمیں خریدنے پر محنت کی کمائی ضائع کی جاتی ہے۔ غریب اور محنت کش طبقے میں بھی سگریٹ نوشی عام ہے۔
لاہور میں ورلڈ فیسٹیول کے نام سے عین اس وقت جب رجوع الی اللہ کے لیے تلقین کی جارہی ہے لہوولعب کے ایک بڑے میلے کی تیاری ہے۔ دنیابھر سے موسیقار اور رقص و سرود کے گروپوں کو دعوت دی گئی ہے۔ زلزلے کے صدمے سے دوچار ہونے والی قوم کو دوبارہ رقص و سرود میں مشغول کرکے غم غلط کرنے اور جھوٹی خوشیاں منانے کا مژدہ سنایا جا رہا ہے۔ مادہ پرست لوگ اپنے اس نظریے کا پرچار کر رہے ہیں کہ موسیقی روح کی غذا ہے۔ بڑے بڑے اشتہارات کے ذریعے نوجوان لڑلے لڑکیاں آلاتِ موسیقی ہاتھوں میں تھامے مغربی لباس اور مغربی شعار اپنانے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اللہ کی رضا‘ آخرت کی بھلائی اور مصیبت زدہ بہن بھائیوں کی محبت کے بجاے لوگوں کے سفلی جذبات اُبھار کر زلزلہ زدگان کی مدد کی اپیل کی جارہی ہے تاکہ خدا ترسی کے جذبے کے تحت جو مثبت دینی رجحانات پیدا ہوئے ہیں‘ اِن کا قلع قمع کیا جاسکے۔ حالانکہ مایوسیوں کے اندھیرے میں اسلام کا پیغام یہ ہے کہ اللہ کی محبت‘ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور بندگانِ خدا کی محبت کے جذبات کو مہمیز دی جائے۔
مظفرآباد میں عیدالفطر کے موقع پر ہم نے اپنی آنکھوں سے یہ روح پرور منظر دیکھا کہ مصیبت کے مارے ہوئے لوگوں کے دل شکر وسپاس کے جذبات سے لبریز ہیں۔ آنکھیں پُرنم ہیں لیکن پُرنم آنکھوں سے وہ ہمارا شکریہ ادا کر رہے ہیں کہ ہم نے اپنی عید ان کے درمیان منانے کو ترجیح دی۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اللہ کی کبریائی کی صدائیں بلند کرنے کے لیے یونی ورسٹی کے ملبے کے اوپر جمع ہیں جس کے نیچے سیکڑوں جوان‘ طلبہ اور طالبات جاں بحق ہوچکے تھے۔ لوگ آپس میں مصافحہ کر رہے ہیں‘ معانقہ کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دے رہے ہیں۔ غربا اور مستحقین میں ضرورت کی چیزیں تقسیم کر رہے ہیں۔ خیموں میں بچوں سے مل رہے ہیں‘ ان کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ یہ حقیقی خوشی کا وہ تصور ہے جو اسلام نے عطا کیا ہے۔جنسی خواہشات کو مہمیز دینے والا رقص و سرود خوشی نہیں بلکہ انحطاط کا پیغام دیتا ہے۔ بقول اقبال ؎
میں تجھ کو بتاتا ہوں‘ تقدیر اُمم کیا ہے
شمشیر و سناں اوّل‘ طائوس و رباب آخر
جب قومیں ترقی اور عروج کی منزلیں طے کرتی ہیں تو ان کے ہاتھ میں شمشیر اور تیروتفنگ ہوتا ہے لیکن جب وہ انحطاط پذیر ہوتی ہیں تو ان کے پاس طائوس و رباب ہوتا ہے۔
آزمایش کے ان لمحات میں قوم کو متحد کرنے کا ایک سنہرا موقع ہاتھ آیا تھا۔ پوری قوم میں ہمدردی اور یک جہتی کا رجحان تھا۔ فوجی حکمران کے جذبۂ حب الوطنی کا امتحان تھا۔ ہم نے تجویز پیش کی کہ تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کے سربراہوںکا اجلاس بلایا جائے اور بحالی و امدادی سرگرمیوں کے لیے ایک جامع‘ شفاف اور متفقہ پروگرام بنایا جائے لیکن ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔
فوجی حکمران نے اس سنہرے موقع کو ضائع کر دیا اور اس موقع کو اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔ پارلیمنٹ اور دستوری اداروں کو یکسرنظرانداز کردیا گیا۔ اپنے نامزد وزیراعظم اور کٹھ پتلی کابینہ اور کٹھ پتلی حکمران جماعت کو بھی کسی قابل نہیں سمجھا گیا۔ متنازعہ سلامتی کونسل کا اجلاس بلاکر بحالی کے پورے کام کو فوج کے جرنیلوں کے حوالے کر دیا گیا۔ انھیں ہر طرح کی عدالتی چارہ جوئی سے مبرا قرار دیا گیا۔ اور غضب ہے کہ ایک ایسا ادارہ جو ملک کے پورے ترقیاتی بجٹ سے زیادہ رقم پر تصرف رکھتا ہے اسے محض ایک انتظامی حکم کے ذریعے قائم کیا گیا ہے اور یہ تکلف بھی نہیں کیا کہ یہ کام آرڈی ننس کے ذریعے کیا جاتا جسے نافذ کرنے کے بے محابا اختیارات صدر کو حاصل ہیں۔ لیکن غالباً خطرہ یہ تھا کہ اس آرڈی ننس کو بھی پارلیمنٹ کے سامنے توثیق کے لیے پیش کرنا ہوگا جو انتظامی آرڈر کے لیے ضروری نہیں۔ پارلیمنٹ کی اس سے زیادہ بے وقعتی کا تصور بھی محال ہے۔ اب تو ڈونرز کانفرنس کے موقع پر یورپی یونین نے بھی یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ریلیف اتھارٹی کو پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے۔
دوسری طرف زلزلے کو اسرائیل اور بھارت سے پینگیں بڑھانے کے لیے دوسری طرف استعمال کیا گیا۔ تمام اداروں کو نظرانداز کر کے ناٹو کی فوجوں کو بلانے کا فیصلہ فردِواحد نے اپنی مرضی سے کرڈالا اور یہ تک نہ دیکھا کہ ناٹو کا دستہ امریکی کمانڈر کے تحت کام کر رہا ہے پاکستان کی فوج کے تحت نہیں اور اس کے ایک ہزار افراد کے دستے میں ڈاکٹر اور انجینیرصرف ۱۵۰ کے قریب ہیں‘ باقی فوجی کون سے محاذ کو سرکر رہے ہیں؟ کسی کو علم نہیں۔
کنٹرول لائن کو مستقل بین الاقوامی سرحد میں تبدیل کرنے کے ناعاقبت اندیشانہ اقدامات کیے گئے جس سے ملک کی آزادی اور سالمیت کو خطرات لاحق ہوئے۔ محب وطن عناصر کو بجاطور پر تشویش لاحق ہے کہ کیا ناٹو کی فوجیں واپس جائیں گی یا یہ افواج وسیع تر مشرق وسطیٰ (Greator Middle East) کے امریکی نظریے کے تحت پورے عالمِ اسلام کو اپنی آماجگاہ بنانے کے منصوبے پر عمل درآمد کرنے کے لیے پاکستانی علاقے کو مستقر بنانے پر اصرار کریں گی۔ اگر یہ واپس جانے سے انکار کردیں تو کیا ہماری حکومت میں یہ ہمت اور طاقت ہے کہ انھیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جاسکے۔ یہ افواج ایسے علاقے میں تعینات ہیں جو ہمارے ملک کا حساس ترین علاقہ ہے۔ یہ علاقہ بھارت‘ چین اور وسط ایشیا کے سنگم پر واقع ہے۔ یہاں قریب ہی ہماری ایٹمی تنصیبات ہیں۔ یہ چند ماہ میں ساری حساس معلومات اکٹھی کر کے کسی بھی وقت حملہ کرنے کا منصوبہ بناسکتے ہیں۔ غالباً اس کا ذکر کرتے ہوئے کونڈولیزا رائس نے ایوان نمایندگان میں کہا تھا کہ ایٹمی ہتھیاروں کو پاکستان میں غیرمحفوظ ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے ان کے پاس ہنگامی منصوبہ (contingency plan) موجود ہے۔
ملک کو گوناگوں خطرناک اور مستقبل کی غیریقینی صورت حال سے نکالنے کے لیے سیاسی جماعتوں کی یک جہتی کی ضرورت ہے۔ زلزلے کے موقع پر ہنگامی صورت حال نے واضح کر دیا ہے کہ سیاست میں مداخلت نے فوج کی دفاعی صلاحیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے اور اسے فوری طور پر سیاسی ذمہ داریوں سے سبکدوش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ اپنی اصلاح کرسکے اور اپنی اصل ذمہ داریوں کی طرف کماحقہ توجہ دے سکے۔
اس مقصد کے لیے اور بھی ضروری ہوگیا ہے کہ ایک بڑی سیاسی تحریک کا آغاز کیا جائے جو قوم کو ایک سیاسی اور سماجی انقلاب کے لیے تیار کرسکے تاکہ آئینی ادارے نئے سرے سے منظم ہوسکیں‘ عدالتی نظام کی اصلاح کی جائے‘ سیاسی بنیادیں مستحکم ہوں اور آئین کے مطابق ہر ادارہ اور ہرطبقہ اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھال سکے۔ یہ وقت ہے کہ فردِ واحد کی آمریت سے ملک کو نجات دلائی جائے اور ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کو محفوظ کرنے کے لیے پوری قوم متفقہ جدوجہد کرے۔
یہاں پاکستان بھر میں مخیر حضرات تاجروں‘ صنعت کاروں اور عوام کے جذبۂ انفاق کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے جنھوں نے امدادی کارکنوں اور اداروں کی پشتیبانی کی اور ان کی ہر ضرورت کو پورا کیا۔ امدادی کام ان مخیرحضرات کے خوش دلانہ مالی تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ ہمیں کسی موقعے پر کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔ لوگوں نے خود نقد رقوم‘ خیمے‘ ترپال‘ کمبل‘ لحاف‘ گرم کپڑے‘ بستر اور سامانِ خوراک بہم پہنچایا۔ سیور فوڈ والوں نے مسلسل صبح شام ہزاروں افراد کو کھانا فراہم کیا۔ لاکھوں لوگوں کو صبح و شام ہمارے کیمپوں میں خوراک مہیا کی جاتی رہی اور اللہ کے فضل اور عوام کے تعاون سے ہمارے ہاں سے کوئی بھی فرد خالی ہاتھ یا بھوکے پیٹ واپس نہیں لوٹا۔
لاہور کے ڈاکٹرز ہسپتال کے ڈاکٹروں نے مجھے چار لاکھ روپے کا چیک متاثرین کو جاڑوں کی ٹھنڈسے بچانے کے لیے تھرمل سوٹ خریدنے کے لیے دیا۔ میں نے جب کراچی میں اپنے صنعت کار دوستوں سے تھرمل سوٹ کے لیے رابطہ کیا تو انھوں نے بغیر قیمت کے مجھے ایک ماہ کے اندر ۵۰ ہزار تھرمل سوٹ فراہم کرنے کا وعدہ کیا جس کی قیمت تقریباً ایک کروڑ روپے بنتی ہے۔ متحدہ عرب امارات میں پاکستانی تاجروں نے مقامی مخیر حضرات کے تعاون سے ساڑھے چار کروڑ روپے کی ضروری ادویات کا ایک جہاز بھیجا۔ سعودی عرب کے دوستوں نے تقریباً ۱۲ ہزار خیموں اور کروڑوں روپے کی ادویات کے علاوہ ضرورت کی ہر چیز فراہم کی۔ اسلامی تحریک کی دنیا بھر کی تنظیموں نے مصر‘سوڈان‘ امریکا اور یورپ سے امداد فراہم کی۔ یوکے اسلامک مشن نے زلزلے کے پہلے ہی روز گرانقدر عطیہ بھیجا جو باعث برکت بنا۔ اسی جذبۂ انفاق کو مسلسل جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ اس کو سات سو گنا بڑھا کر دے گا۔
پاکستانی فوج کے بجٹ کی تفصیلات پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہونے والے حسابات سے مستثنیٰ ہیں۔ سلامتی کونسل کے تحت زلزلہ زدگان کی بحالی کے لیے جو ادارہ قائم کیا گیا اور جسے مکمل طور پر فوج کے جرنیلوں کے سپرد کر دیا گیا اس کے بارے میں بھی اسی وجہ سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے کہ وہ عوامی نمایندوں اور عدالتوں کے سامنے جواب دہی سے مستثنیٰ ہے۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے پارلیمنٹ کی کسی ایسی کمیٹی میں شمولیت سے معذرت ظاہر کی جس کو سلامتی کونسل کے قائم کردہ ادارے پر مکمل بالادستی حاصل نہ ہو۔ حزبِ اختلاف کا مؤقف یہ ہے کہ سارے فیصلے سلامتی کونسل میں ہوجانے کے بعد پارلیمنٹ کی کمیٹی کے قیام کی کوئی افادیت یا مصرف نہیں ہے۔ ملک کے اندر حزبِ اختلاف کے شکوک و شبہات اور تمام معاملات میں فوجی عمل دخل اور عوامی نمایندوں کے احتساب سے بالاتر ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ اب غیرملکی امداد دینے والے (donors)بھی کھلم کھلا فوجی حکمرانوں پر عدمِ اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ چنانچہ جاپانی حکومت کے نمایندوں نے مطالبہ کیا کہ جب تک حسابات کو شفاف نہیں بنایا جاتا اس وقت تک امداد دینے والے ممالک مدد دینے کے لیے آگے نہیں بڑھیں گے۔
ان کے مطالبے پر پرویز مشرف حکومت نے کسی تیسری ایجنسی کے سامنے حسابات رکھنے کا عندیہ پیش کیا ہے۔ مقامِ افسوس ہے کہ اپنی قوم کے عوامی نمایندوں کے سامنے حسابات دینے سے کترانے والے اپنی افواج کے زیراہتمام خرچ ہونے والے حسابات کا آڈٹ کسی تیسری ایجنسی سے کروانے کے لیے تیار ہیں۔ فوجی حکمران جس طرح ملک کی آزادی اور خودمختاری سے بتدریج دست بردار ہو رہے ہیں یہ اس کی ایک تازہ مثال ہے۔
بحالی کے سلسلے میں اب تک جو عملی تجاویز سامنے آئی ہیں ان میں عام دیہاتی آبادی کی بحالی کی یہ تجویز فوری طور پر قابلِ عمل ہے کہ ایک خاندان کو اپنی چھت اور دیواریں سیدھی کرنے کے لیے ۲۰‘ ۲۵ ہزار روپے دیے جائیں۔ اپنی ضرورت کے لیے جنگل کی عمارتی لکڑی کاٹنے کی اجازت حکومت نے دے دی ہے۔ اگر دیہاتی علاقے میں آرے کی مشین اور مستری فراہم کیے جائیں تو لوہے کی چادروں اور لکڑی اور گرے مکان کے ملبے سے تھوڑی سی محنت اور ہمت کے ساتھ اپنے گھر کو قابلِ استعمال بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ اگر دیہاتی علاقے میں ایک گائے اور دو بھیڑیں خریدنے اور اپنی کھیتی کو کاشت کرنے کے لیے سہولت فراہم کردی جائے تو ایک اندازے کے مطابق ۶۰ہزار روپے میں ایک خاندان کو ابتدائی طور پر اپنے پائوں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ایک ہزار ڈالر اگر ایک فرد فراہم کرے تو وہ ایک غریب خاندان کو سہارا دے سکتا ہے۔ یہ مواخاۃ کی تحریک کا ایک طریقہ ہے اور دو خاندانوں کے سربراہوں کو اس طرح آپس میں ایک دوسرے سے متعارف کرایا جا سکتا ہے تاکہ ایک سربراہ دوسرے خاندان کو سہارا دے کر اسلامی اخوت اور بھائی چارے کا حق ادا کرسکے۔
پاکستان انجینیرز فورم نے اسٹیل کے فریم اور فائبر گلاس کی چھت اور دیواروں کے ایک ایسے مکان کا ڈیزائن اور ماڈل بھی پیش کیا ہے جو فوری طور پر کھڑا کیا جا سکتا ہے اور ایک کمرے اور غسل خانے‘ باورچی خانے پر مشتمل ایک چھوٹا مکان ایک لاکھ روپے میں بنایا جا سکتا ہے۔ اگر یہ کام بڑے پیمانے پر کیا جائے تو یہ رقم ۸۰ہزار روپے تک نیچے لائی جاسکتی ہے۔ بعض اداروں نے پیش کش کی ہے کہ وہ سو دو سو مکانات‘ ایک اسکول اور ایک ہسپتال اور ایک مسجد پر مشتمل ایک چھوٹی سی کالونی بنانے کے لیے تیار ہیں۔ یورپ میں مکین ترک باشندوں کی تنظیم ملی گورش نے بالاکوٹ‘ باغ اور مظفرآباد کے علاقوں میں اس طرح کی تین کالونیاں بنانے کے لیے چار یا پانچ لاکھ یورو (تقریباً چار یا پانچ کروڑ) کا عطیہ دینے کی پیش کش کی ہے۔
ہمیں امید ہے کہ ایک منظم طریقے سے یہ کام شروع ہونے کے بعد بہت سے مخیرحضرات اور برادر تنظیموں کی طرف سے مسلسل مزید امداد کی پیش کش آئے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ الخدمت فائونڈیشن اور دوسری برادر تنظیمیں مل کر فیلڈ میں اپنے کام کو مربوط اور منظم کریں۔
اس تباہی سے خیر نکالنے کا راستہ یہی ہے کہ بحالی کا کام مربوط طریقے سے ایک منصوبے کے مطابق کیا جائے اور متاثرہ لوگوں کو بحالی کے اس پورے کام میں اس مرحلے پر شریک کیا جائے اور انھیں اصل درس یہی دیا جائے کہ بحالی کے اس کام میں اصل عنصر ان کی اپنی ہمت‘ محنت اور امداد باہمی ہے۔ باہر کے لوگ انھیں سہارا دے سکتے ہیں لیکن اپنے پائوں پر کھڑا ہونا ان کا اپنا فرض ہے۔
اگریہ کام خالصتاًاللہ کی رضا کے لیے کیا جائے تو اللہ کی نصرت شاملِ حال ہوگی اور یہ ہماری کوتاہیوں اور گناہوں کا ازالہ بنے گا۔ وما ذٰلک علی اللّٰہ بعزیز۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری حقیر خدمات کو قبول فرمائے اور ہماری کوتاہیوں کو بخش دے۔آمین!
پاکستان کے بارے میں بھارت کی سیاست کو اگر ایک پرانی کہاوت کی شکل میں بیان کیا جائے تو اس میں ذرا بھی مبالغہ نہ ہوگا۔ ہندو ذہنیت کے بارے میں برعظیم کا ہر خاص و عام جانتا ہے کہ’بغل میں چھری، منہ میں رام رام‘ یہی حال آج بھی ہے۔ ایک طرف کشمیر میں لائن آف کنٹرول کو چند مقامات پر کھولنے اور اس سے بھی بڑھ کر اسے غیرمتعلق (irrelevant) بنانے کی باتیں ہورہی ہیں‘ اور دوسری طرف مشرق اور شمال‘ ہر سمت میںخون آشام جنگی مشقوں کا اہتمام کیا جارہا ہے اور وہ بھی ایک ایسے وقت جب جنوبی ایشیا زلزلوں اور آسمانی تباہی کی ہولناک گرفت میں ہے۔
ابھی مغربی بنگال میں بھارت کی تاریخ کی سب سے اہم جنگی مشقیں بھارت اور امریکا کی مشترک مشق کی حیثیت سے ختم نہیں ہوئی تھیں کہ پاکستان کی سرحد کے قریب راجستھان میں ۱۹۸۷ء کے Operation Brass Tracks کے بعد اسی نوعیت کی ۱۴ روزہ مشقوں کا آغاز ۱۸نومبر ۲۰۰۵ء سے ہوگیا ہے جسے Operation Desert Strike کا نام دیا گیا ہے‘ اور اس میں ۲۰ہزار فوجی شرکت کریں گے اور بھارت کی ایرفورس فرانسیسی ساخت کے میراج۲۰۰۰‘ روسی ساخت کے ایم جی-۲۷ اور برطانوی ساخت کے Jaguar لڑاکا طیاروں سے اس شان سے شرکت کرے گی کہ مشقوں کا ۴۰ فی صد ہوائی فوج اور باقی بری فوج کی کارروائیوں کے لیے مختص ہوگا۔ بری فوج اس موقع پر روسی ساخت کے این ٹی-۹۰ ٹینکوں کو زیرمشق لارہی ہے جو ۳۱۰ کی تعداد میں بھارت نے روس سے اس طرح حاصل کیے ہیں: ۱۲۴ بنے بنائے روس نے فراہم کیے ہیں‘ جب کہ ۱۸۶ روس سے حاصل شدہ خام مال اور ٹکنالوجی کی مدد سے بھارت نے خود آخری شکل میں تیار کیے ہیں۔ یہ وہ ٹینک ہیں جنھیں اس وقت کا بہترین ٹینک سمجھا جارہا ہے اور ان میں سے ہر ایک کی قیمت ۱۰ کروڑ ۵۰لاکھ روپے ہے۔
مغربی بنگال کی بھارت امریکا مشترک مشقوں کے آخری دن دہلی میں امریکا کے ناظم الامور رابرٹ اوبلیک نے ایک چونکا دینے والا بیان دیا ہے کہ اگرچہ مشقیں تجرباتی ہیں لیکن اب بھارت اور امریکا کی دوستی اس مقام پر ہے کہ ایسی مشقیں مستقبل میں کسی تیسرے ملک میں فوجی آپریشن کی طرف بھی جا سکتی ہیں۔ البتہ ایسا مشترک فوجی آپریشن ایک قومی فیصلہ ہوگا جو بھارت کی حکومت کو کرنا ہوگا۔ یہ مشترک مشقیں اور اس سے بڑھ کر ان کے اختتام پر یہ بیان اس علاقے کے بارے میں بھارت اور امریکا کے مستقبل کے عزائم کا آئینہ دار اور علاقے کے دوسرے ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی کا درجہ رکھتا ہے۔
امریکا نے مشرق وسطیٰ‘ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کو اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے جو نقشہ بنایا تھا اس میں شاہ ایران اور اسرائیل دو بنیادی کردار تھے۔ ایران کے اسلامی انقلاب نے اس نظام کا ایک ستون منہدم کر دیا۔ امریکا کا سارا انحصار اسرائیل پر رہ گیا جو غیرحقیقت پسندانہ تھا۔ اسی لیے اسرائیل اور بھارت کی دوستی کا آغاز ہوا تاکہ بھارت کو اس نظام میں بالآخر شامل کرلیا جائے۔ پہلے دور میں ۱۰‘۱۵ سال میں بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کو مستحکم کیا گیا جس نے کلنٹن کے دور میں بھارت کو اس نظام کا حصہ بناکر ایک تثلیث بنانے کے عمل کا آغاز کردیا مگر ۱۹۹۸ء کے بھارت کے ایٹمی تجربات نے سطح کے اوپر نظر بہ ظاہر اس عمل کو سست کردیا۔ عراق اور افغانستان پر قبضہ اور وسط ایشیا میں تاجکستان‘ ازبکستان اور قازقستان میں فوجی اڈوں کا قیام اس حکمت عملی کا حصہ ہے لیکن اصل ہدف بھارت کو اس نظام کا حصہ بنانا تھا جو بش انتظامیہ نے پچھلے دوسال میں مستحکم کرلیا ہے‘ اور اکتوبر کی مغربی بنگال مشقیں‘ بھارت اور امریکا کا ۱۰سالہ دفاعی تعاون کا معاہدہ اور سب سے بڑھ کر جولائی ۲۰۰۵ء میں کیا جانے والا ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی کا معاہدہ جس نے عملاً بھارت کو ایک نیوکلیر پاور تسلیم کرلیا ہے اور ہائی ٹیک تعاون کا دروازہ کھول کر پورے علاقے کے دفاعی توازن کو درہم برہم کردیا ہے۔ اس پورے عمل کا اصل ہدف چین‘ ایران‘ پاکستان اور عرب ممالک ہیں۔ حالیہ مشقوں کو اسی پس منظر میں سمجھا جاسکتا ہے۔
مغربی بنگال کی مشترک مشقوں کے فوراً بعد راجستھان کی جنگی مشقیں پاکستان اور ایران کے لیے خصوصی پیغام رکھتی ہیں۔ مشقوں کے آغاز ہی پر بھارت کے ہوائی فوج کے سربراہ ایرچیف مارشل ایس پی تیاگی کا بیان جو انھوں نے پونا یونی ورسٹی میں دیا ہے جو بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا ارشاد ہے:
گو کہ گذشتہ تین سال میں ان دونوں قوموں کے درمیان حالات بہت کچھ تبدیل ہوگئے ہیں‘ مگر سلامتی کی صورت حال اسی طرح ہے۔ دہشت گردی کا انفراسٹرکچر پاکستان میں ابھی تک موجود ہے اور سرحد پار دہشت گردی میں بھی کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔
ہماری سلامتی کی منصوبہ بندی میں چین جو کچھ کر سکتا ہے اس کو مقام ملنا چاہیے کیونکہ مجھے اپنے پڑوس میں چینی اسلحہ نظرآرہا ہے۔ چین کی جانب سے ہمارے ملک کا اسٹرے ٹیجک گھیرائو کافی آگے بڑھ چکا ہے اور اس سے مستقبل میں ہمارے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے---
پاکستان اور چین کو بھارت کے لیے ایک خطرہ قرار دیتے ہوئے انھوں نے کہا:اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے ان دو پڑوسی ممالک کے ساتھ جنگ کے لیے بے تاب ہیں… (ٹائمز آف انڈیا‘ ۱۸ نومبر ۲۰۰۵ئ)
لیکن جو کچھ بھارت کی مشقیں ظاہر کرتی ہیں اس کے بارے میں یہی کہاجا سکتا ہے کہ ؎
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر
لہو پکارے گا آستیں کا
بھارت کی ان تیاریوں‘ عزائم اور strategic calculations کا صحیح ادراک ضروری ہے‘ اور دوستی کا جو خمار پاکستان کی قیادت پر طاری ہے اسے حقیقت پسندی کے غسل کی فوری ضرورت ہے۔ ایران اور چین کو بھی ان تیاریوں کا بروقت نوٹس لینا چاہیے‘ نیز امریکا کے ساتھ اندھی دوستی اور امریکا کی خاطر جو اندرون ملک اور بیرونی خطرات ہم نے مول لیے ہیں ان کے ادراک کی شدید ضرورت ہے۔ ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ ان حالات میں ناٹو کے ایک ہزار فوجیوں کا امدادی کاموں کے نام پر پاکستان میں آنا‘ اس پورے آپریشن کا امریکا کی فوجی کمانڈ میں برسرکار ہونا‘اور اس ایک ہزار کی نفری میں صرف ۱۶۸ انجینیر یا ڈاکٹر ہونا اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے۔ حکومت کی خوش فہمیاں جو بھی ہوں‘ پاکستانی عوام اور سیاسی قوتیں اس صورت حال پر سخت متفکر ہیں اور بجاطور پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ عوامی خدشات کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ناٹو کے فوجیوں اور ان کے قائم کردہ کیمپوں اور ہسپتالوں کی حفاظت کے لیے پاکستانی فوج اور رینجرز کی ایک بڑی تعداد لگانا پڑی ہے‘ اور عام آدمی ناٹو کے ہسپتالوں کے مقابلے میں پاکستان اور دوسری سول این جی اوز کے ہسپتالوں میں جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
وقت آگیا ہے کہ پاکستانی قیادت اپنی خوش فہمیوں کے سراب سے نکلے اور اپنی خارجہ پالیسی کا جائزہ لے کر اسے زمینی حقائق اور پاکستانی عوام اور اُمت مسلمہ کی امنگوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرے اور پارلیمنٹ اور قوم کو اعتماد میں لے۔ ہماری اصل طاقت اللہ کی مدد کے بعد ملک کے عوام اور اُمت مسلمہ سے یک جہتی اور اتحاد میں ہے‘ اور امریکا پر بھروسا کرنے کے بجاے خودا نحصاری (self-reliance) کا راستہ ہی قومی سلامتی کا راستہ ہے۔
پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ ہر حکومت نے اپنے اپنے دور میں کسی نہ کسی شکل میں صحافت کو زنجیریں پہنانے اور اپنے مفید مطلب مؤقف اختیار کرنے کی مذموم کوششیں کی ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ صحافت کو مکمل آزادی دیں گے اور دستور اور قانون کے دائرے میں اظہاررائے اور تنقید کے حق کے استعمال کا ہر موقع دیں گے۔ کچھ پہلوئوں سے شاید گذشتہ چھے سالوں میں بظاہر صحافت کو نسبتاً آزادی میسر بھی آئی ہے لیکن آہستہ آہستہ حکومت کی گرفت اور سرکاری وسائل کا صحافت کو زیردام رکھنے کے لیے استعمال بڑھ رہا ہے۔ پریس ایڈوائس کا سلسلہ جاری ہے۔ صحافیوں کو ہم نوا بنانے کے لیے ترغیب اور ترہیب کے ہتھکنڈے بے دریغ استعمال کیے جارہے ہیں۔ لفافہ کلچر بھی اپنا کام کر رہا ہے اور ’الطاف و اکرام‘ کے دوسرے ذرائع بھی اپنا کام دکھارہے ہیں۔ سرکاری اشتہارات کو سرکاری نقطۂ نظر کو فروغ دینے اور اختلافی رائے رکھنے والے اخبارات کو سزا دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک لسانی تنظیم دہشت گردی کے وہی حربے پھر استعمال کررہی ہے جو ۱۹۹۰ئ/۱۹۸۰ء میں اس کا شعار تھے۔ فریڈم آف انفارمیشن کا قانون نہایت عام اور نقائص سے پُر ہے‘ نیز صحافت اور الیکٹرانک میڈیا میں سرکاری اثراندازی اور اجارہ داری کی صورت دونوں اپنا اپنا ہاتھ دکھا رہے ہیں۔
پارلیمنٹ میں بار بار یہ مسائل اٹھائے گئے ہیں مگر حکومت کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں اور وزیراطلاعات سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک یہی رٹ لگائے جارہے ہیں کہ صحافت آزاد ہے اور جمہوریت کا کارواں رواں دواں ہے۔ ویج ایوارڈ کا مسئلہ برسوں سے معلق ہے۔ وزیراعظم نے ایک کل جماعتی کمیٹی بنائی تھی جس میں راقم کو بھی رکھا گیا تھا مگر جس کام کو دوماہ میں کرنا تھا وہ پانچ ماہ میں شروع بھی نہ کرسکے اور میں نے احتجاجاً کمیٹی سے استعفا دے دیا۔
اس کا نوٹس اب عالمی سطح پر بھی لیا جا رہا ہے اور اس شذرے کا باعث وہ تازہ سروے ہے جو فرانس کی ایک مشہور تنظیم RSF (Reports Sans Frontiers) نے اسی مہینے شائع کیا ہے اور جس میں ۲۰۰۲ء اور ۲۰۰۵ء کے درمیان حالات کا موازنہ کرکے دکھایا گیا ہے کہ دنیا کے ۱۶۶ممالک جن کا سروے کیا گیا ہے ان میں پاکستان کا نمبر ۲۰۰۲ء میں ۱۱۹ تھا‘ یعنی سب سے نیچے کے ۴۰ ملکوں میں ہم ‘ مگر اب ’ترقی‘ کر کے ۲۰۰۵ء میں یہ شمار ۱۵۰ پر آگیا ہے۔ گویا سب سے بدتر ۲۰ملکوں میں ہم ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ افغانستان کا شمار ہم سے اوپر ہے‘ یعنی ۱۲۵ ویں پوزیشن‘ جب کہ بھارت کا نمبر ۱۰۹ ہے۔
جمہوریت کے فروغ کے لیے آزادی صحافت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اس حکومت کے دور میں جس طرح پارلیمنٹ مفلوج ہے اور سول نظام پر فوج کی گرفت بڑھ رہی ہے‘ اسی طرح صحافت پر بھی کنٹرول‘ مداخلت‘ اور ’چمک‘ کے سائے مسلط ہیں اور دعووں اور حقیقت میں خلیج روز بروز بڑھ رہی ہے جو ہر اعتبار سے خطرناک ہے۔
حالیہ زلزلے کے بارے میں جب یہ کہا گیا کہ اللہ کی جانب سے گناہوں پر پکڑ اور گرفت ہے‘ تو بہت سے نیک نفس لوگوں نے یہ کہا کہ متاثرہ علاقے کے بے گناہ اور معصوم لوگوں کا کیا قصور ہے؟ کیسے کیسے بے گناہ لوگ کن کن مصیبتوں میں گرفتار ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ اس کائنات کا نظام حکمت اور تدبر سے چلارہا ہے۔ گناہ گار علاقے تو ملک میں اس سے زیادہ دوسرے ہیں‘ وہ کیوں بچا دیے گئے؟ اسی نوعیت کے سوال پر سید مودودیؒ نے جو جواب دیا تھا وہ ہم یہاں نقل کر رہے ہیں۔ سائل نے اسے خالق کی پالیسی میں جھول قرار دیا تھا۔ (ادارہ)
آپ جن الجھنوں میں پڑے ہوئے ہیں ان کے متعلق میرا اندازہ یہ ہے کہ میں ان کو سلجھانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ میرے نزدیک آپ کی فکر کا نقطۂ آغاز صحیح نہیں ہے۔ آپ جن سوالات سے غوروفکر کا آغاز کرتے ہیں وہ بہرحال کُلی سوالات نہیں ہیں بلکہ کُل کے بعض پہلوئوں سے متعلق ہیں‘ اور بعض سے کُل کے متعلق کوئی صحیح رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ آپ پہلے کُل کے متعلق سوچیے کہ آیا یہ بغیر کسی خالق اور ناظم اور مدبر کے موجود ہوسکتا ہے یا نہیں۔ اگر خلقِ بے خالق اور نظمِ بے ناظم کے وجود پر آپ کا قلب مطمئن ہوجاتا ہے تو باقی سب سوالات غیرضروری ہیں‘ کیوں کہ جس طرح سب کچھ الل ٹپ بن گیا‘ اسی طرح سب کچھ الل ٹپ چل بھی رہا ہے۔ اس میں کسی حکمت‘ مصلحت اور رحمت و ربوبیت کا کیا سوال۔
لیکن اگر اس چیز پر آپ کا دل مطمئن نہیں ہوتا تو پھر کُل کے جتنے پہلو بھی آپ کے سامنے ہیں‘ ان سب پر بحیثیت مجموعی غور کرکے یہ جاننے کی کوشش کیجیے کہ ان اشیا کی پیدایش‘ ان کا وجود‘ ان کے حالات اور ان کے اوصاف میں ان کے خالق و مدبر کی کن صفات کے آثار و شواہد نظر آتے ہیں۔ کیا وہ غیرحکیم ہوسکتا ہے؟ کیا وہ بے علم و بے خبر ہوسکتا ہے؟ کیا وہ بے مصلحت اور بے مقصد اندھادھند کام کرنے والا ہوسکتا ہے؟ کیا وہ بے رحم اور ظالم اور تخریب پسند ہوسکتا ہے؟ اس کے کام اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ وہ بنانے والا ہے یا اس بات کی کہ وہ بگاڑنے والا ہے؟ اس کی بنائی ہوئی کائنات میں صلاح اور خیر اور تعمیر کا پہلو غالب ہے یا فساد اور شر اور خرابی کا پہلو؟ ان امور پر کسی سے پوچھنے کے بجاے آپ خود ہی غور کیجیے اور خود رائے قائم کیجیے۔ اگر بحیثیت مجموعی اپنے مشاہدے میں آنے والے آثار و احوال کو دیکھ کر آپ یہ محسوس کرلیں کہ وہ حکیم و خبیر ہے‘ مصلحت کے لیے کام کرنے والا ہے‘ اور اس کے کام میں اصل تعمیر ہے نہ کہ تخریب‘ تو آپ کو اس بات کا جواب خود ہی مل جائے گا کہ اس نظام میں جن جزوی آثار و احوال کو دیکھ کر آپ پریشان ہو رہے ہیں وہ یہاں کیوں پائے جاتے ہیں۔ ساری کائنات کو جو حکمت چلا رہی ہے اس کے کام میں اگر کہیں تخریب کے پہلو پائے جاتے ہیں تو لامحالہ وہ ناگزیر ہی ہونے چاہییں۔ ہر تخریب تعمیر ہی کے لیے مطلوب ہونی چاہیے۔ یہ جزوی فساد کُلی صلاح ہی کے لیے مطلوب ہونا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ ہم اس کی ساری مصلحتوں کو کیوں نہیں سمجھتے تو بہرحال یہ واقعہ ہے کہ ہم ان کو نہیں سمجھتے۔ یہ بات نہ میرے بس میں ہے اور نہ آپ کے بس میں کہ اس امرواقعی کو بدل ڈالیں۔ اب کیا محض اس لیے کہ ہم ان کو نہیں سمجھتے‘ یا نہیں سمجھ سکتے‘ ہم پر یہ جھنجھلاہٹ طاری ہوجانی چاہیے کہ ہم حکیم و خبیر کے وجود ہی کا انکار کردیں؟
آپ کا یہ استدلال کہ ’’یا تو ہر جزوی حادثے کی مصلحت ہماری سمجھ میں آئے‘ یا پھر اس کے متعلق کوئی سوال ہمارے ذہن میں پیدا ہی نہ ہو‘ ورنہ ہم ضرور اسے خالق کی پالیسی میں جھول قرار دیں گے کیونکہ اس نے ہمیں سوال کرنے کے قابل تو بنا دیا لیکن جواب معلوم کرنے کے ذرائع عطا نہیں کیے‘‘، میرے نزدیک استدلال کی بہ نسبت جھنجھلاہٹ کی شان زیادہ رکھتا ہے۔ گویا آپ خالق کو اس بات کی سزا دینا چاہتے ہیں کہ اس نے آپ کو اپنے ہر سوال کا جواب پالینے کے قابل کیوں نہ بنایا‘ اور وہ سزا یہ ہے کہ آپ اسے اس بات کا الزام دے دیں گے کہ تیری پالیسی میں جھول ہے۔ اچھا‘ یہ سزا آپ اس کو دے دیں۔ اب مجھے بتایئے کہ اس سے آپ کو کس نوعیت کا اطمینان حاصل ہوا؟ کس مسئلے کو آپ نے حل کرلیا؟ اس جھنجھلاہٹ کو اگر آپ چھوڑ دیں تو بآسانی اپنے استدلال کی کمزوری محسوس کرلیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ سوال کرنے کے لیے جس قابلیت کی ضرورت ہے‘ جواب دینے یا جواب پانے کے لیے وہ قابلیت کافی نہیں ہوتی۔ خالق نے سوچنے کی صلاحیت تو آپ کو اس لیے دی ہے کہ اس نے آپ کو ’انسان‘ بنایا ہے اور انسان ہونے کی حیثیت سے جو مقام آپ کو دیا گیا ہے اس کے لیے یہ صلاحیت آپ کو عطا کرنا ضروری تھا۔ مگر اس صلاحیت کی بناپر جتنے سوالات کرنے کی قدرت آپ کو حاصل ہے ان سب کا جواب پانے کی قدرت عطاکرنا اس خدمت کے لیے ضروری نہیں ہے جو مقامِ انسانیت پر رہتے ہوئے آپ کو انجام دینی ہے۔ آپ اس مقام پر بیٹھے بیٹھے ہر سوال کرسکتے ہیں‘ لیکن بہت سے سوالات ایسے ہیں جن کا جواب آپ اس وقت تک نہیں پاسکتے جب تک کہ مقامِ انسانیت سے اٹھ کر مقامِ الوہیت پر نہ پہنچ جائیں‘ اور یہ مقام بہرحال آپ کو نہیں مل سکتا۔ سوال کرنے کی صلاحیت آپ سے سلب نہیں ہوگی‘ کیوں کہ آپ انسان بنائے گئے ہیں‘ پتھریا درخت یا حیوان نہیں بنائے گئے ہیں۔ مگر ہرسوال کا جواب پانے کے ذرائع آپ کو نہیں ملیں گے‘ کیوں کہ آپ انسان ہیں‘ خدا نہیں ہیں۔ اسے اگر آپ خالق کی پالیسی میں ’جھول‘ قرار دینا چاہیں تو دے لیجیے۔(رسائل و مسائل‘ ج ۴‘ ص ۲۲-۲۵)
حضرت حسن بن علیؓ سے روایت ہے ‘ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں حاضر ہوا‘ کہا کہ میں بزدل اور کمزور ہوں۔ آپؐ نے فرمایا :آئو ایسے جہاد کی طرف جس میں اسلحہ نہیں ہے‘ وہ حج ہے۔ (طبرانی)
حج اللہ کی محبت میں اس کے گھر کی طرف لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کہتے ہوئے رواں دواں ہونا ہے‘ اور جہاد اللہ کی محبت میں اپنی جان نچھاور کرنا ہے۔ دونوں کی اساس محبت ہے‘ دونوں میں سفر ہے‘ دونوں میں مال کا خرچ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ حج میں دشمن کے خلاف ہتھیاروں کا استعمال نہیں ہے اور جہاد میں ہتھیار کا استعمال ہے۔ جہاد صرف جرأت مند اور بہادر آدمی کر سکتا ہے اور حج بہادر اور بزدل دونوں کر سکتے ہیں۔
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب ابراہیم علیہ السلام مناسک حج کے لیے منیٰ آئے تو شیطان جمرۃ العقبہ کے قریب ان کے سامنے آگیا تو حضرت ابراہیم ؑنے اسے سات کنکر مارے‘ یہاں تک کہ وہ زمین میںدھنس گیا۔ پھر دوسرے جمرہ کے پاس سامنے آکر کھڑا ہو ا تو اسے سات کنکر مارے یہاں تک کہ زمین میں دھنس گیا۔ پھر تیسرے جمرہ کے پاس سامنے آگیا تو پھر سے سات کنکر مارے یہاں تک کہ زمین میں دھنس گیا۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ تم شیطان کو رجم کرتے رہو اور ملت ابراہیم کی پیروی کرتے رہو۔ (ابن خزیمہ‘ حاکم)
حج جو ملت ابراہیمی کے ایمان افروز مناظر کی یاد تازہ کرتا ہے ’تین جمروں‘ کو کنکر مارنا بھی ایک ایسے ہی دل کش منظر کی یاد تازہ کرتا ہے۔ شیطان کو کنکر مارنا ‘ اسے زمین میں دھنسا دینا کس قدر خوشی اور مسرت کی بات ہے۔ آج اس منظر کو ہمیشہ کی طرح یاد کرنے کی کس قدر ضرورت ہے۔ شیطان اور اس کی ذریت کو کنکروں سے زمین میں دھنسانے کا وقت ہے۔ اگر ہر مسلمان اپنے حصے کے کنکر مارے تو شیطان اور اس کی ذریت خائب و خاسر ہوجائے۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آدمی گھر میںنماز پڑھے تو ایک نماز کا ثواب ہے‘ قبیلے کی مسجد میں ۲۵ نمازوں کا ثواب اور جامع مسجد میں ۵۰۰ نمازوں کا ثواب‘ مسجد اقصیٰ میں ۵۰ہزار نمازوں کا ثواب اور میری مسجد میں۵۰ہزار نمازوں کا ثواب اور مسجد حرام میں ایک لاکھ نمازوں کے برابر ثواب ہے۔ (ابن ماجہ)
حجاج کرام کے لیے کمائی کا نادر موقع ہے۔ اس میں سستی اور غفلت سے کلیتاً پرہیز کرنا چاہیے۔ ان مبارک ایام میں گپ شپ اور بازاروں میں گھومنے پھرنے کے بجاے نمازوں پر توجہ دی جائے۔ ایک کے بدلے میں ایک لاکھ۔ دنیا کا کوئی بازار ایسا ہے جہاں ایک کے بدلے میں ایک لاکھ ملتا ہے؟ بالفرض ایسا ہو تو کون آدمی ایسا ہو گا جو اس سے غافل ہو کر بیٹھا رہے؟ نہیں‘ سب لائنوں میں کھڑے ہوں گے اور رش کی وجہ سے کسی کو جگہ نہ ملے۔ تب حرمین شریفین پہنچ کر آدمی کا ذوق و شوقِ عبادت بھی اجر کے تناسب سے بڑھ جانا چاہیے۔
حضرت سبیعۃ اسلمیؓ سے روایت ہے ‘ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو مدینہ میںمرنے کی استطاعت رکھتا ہو تو کوشش کرے کہ اسے مدینہ میں موت آئے‘ اس لیے کہ جسے مدینہ میں موت آئی‘ میں قیامت کے روز اس کے لیے شفیع یا گواہ ہوں گا۔ (طبرانی فی الکبیر)
حرمین شریفین‘ مکہ اور مدینہ اور بیت المقدس زمین کے وہ مقدس مقامات ہیں جن پر موت انسان کو بڑا فائدہ پہنچاتی ہے۔ انسان اگر کسی اور جگہ فوت ہو جائے تو اسے بڑی محرومی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ یہ برکت اس شخص کو ملے گی جس نے ایسا جرم نہ کیا ہو جس کی وجہ سے وہ اس برکت کے استحقاق کو ختم کردے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں: آدم کے بیٹے! میری عبادت کے لیے فارغ ہو جا‘ میں تیرے سینے کو دولت سے بھر دوں گا اور تیرے فقر کو دور کر دوں گا۔ اور اگر ایسا نہ کرے گا تو تیرے سینے کو پریشانیوں سے بھر دوں گا اور تیرے فقر کو دور نہ کروں گا۔ (ابن ماجہ‘ ترمذی)
اللہ رب العالمین کیسی مہربان ذات ہے ‘ جو اس کی ڈیوٹی پر ہوتا ہے اس کے کام وہ خود کرتے ہیں۔ نماز کے وقت دکان بند کردے تو فی الواقع بند نہیں ہوتی وہ آمدن دیتی رہتی ہے۔ حج کے سفر پر جانے کی وجہ سے اپنے کام سے غیر حاضر ہو تو فی الواقع حاضر شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح دعوت و تبلیغ‘ تعلیم و تربیت اور جہاد کے لیے کام کو چھوڑ دے تو نقصان نہیں فائدہ ہوتا ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کے بلاوے پر حاضری نہ دے تو دکان اور کاروبار جاری رہنے کے باوجود فائدہ / نفع نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ کے پیارومحبت کا جواب کس طرح دینا چاہیے‘ بندگی اور غیرت کا تقاضا کیا ہے؟ اس کا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ ’دوڑو اللہ کی طرف‘۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اپنے مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے کے لیے چل پڑا‘ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر قدم کے بدلے میں ۷۰نیکیاںلکھتے ہیں اور۷۰خطائیں مٹا دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے‘ جب تک وہ اس کام سے واپس نہ لوٹ آئے۔ پھر اگر مسلمان کی حاجت اس کے ہاتھوں پوری ہوگی تو وہ اپنے گناہوں سے اسی طرح پاک و صاف ہوکر نکلے گا جس طرح اس دن تھا‘ جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا اور اگر اس دوران میں ہلاک ہوجائے تو جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوگا۔(ابن ماجہ)
مسلمانوں اور انسانوں کی خدمت اللہ کی عبادت اور رضا کا راستہ ہے۔ خدمت خلق کا کام کرنے والوں کو اس شعور کے ساتھ اس کام کو کرنا چاہیے کہ نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃ کی طرح یہ بھی عبادت ہے۔ اللہ اس سے راضی اور اس کام پر عنایتیں فرماتے ہیں۔ جو لوگ حضرات و خواتین زلزلہ زدگان کی خدمت کے لیے اپنے دن رات‘ مال اور صلاحیت دے رہے ہیں‘ انھیں یہ اجر کے پورے یقین و شعور کے ساتھ کرنا چاہیے۔
حضرت ابی طلحہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دیکھا کہ آپؐ کا چہرہ چمک رہا ہے۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں نے آج کی طرح آپؐ کو کبھی ہشاش بشاش اور اس قدر کشادہ چہرے اور اتنی چمک دار پیشانی والا نہیں پایا۔ آپؐ نے فرمایا: میں کیوں راضی نہ ہوجائوں اور میرے چہرے پر خوشی کے آثار کیوں ظاہر نہ ہوں‘ جب کہ جبریل ؑابھی مجھ سے جدا ہوئے اور یہ کہہ کر گئے ہیں: اے محمد! آپؐ کی اُمت میں سے جو کوئی آپؐ پر درود پڑھے گا‘ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس کے لیے ۱۰ نیکیاں لکھیں گے اور ۱۰ گناہ مٹائیں گے‘ اور اس کی بدولت اسے ۱۰ درجے اُونچا کریں گے اور فرشتہ اس کے لیے وہی دعا کرے گا جو دعا اس نے درود کی صورت میں آپؐ کے لیے کی ہے۔ میں نے کہا: جبریل ؑ! وہ کون سا فرشتہ ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے جب سے آپؐ کو پیدا کیا ہے‘ اس وقت سے لے کر آج تک اور اس وقت تک جب آپؐ کو قیامت کے روز اٹھایا جائے گا‘ آپؐ کی اُمت کا جو آدمی آپؐ پر درود بھیجتا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اس کو دعا دینے کے لیے ایک فرشتہ مقرر کر دیا ہے۔ وہ فرشتہ کہتا ہے: وانت صلی اللّٰہ علیک وسلم، ’اور تجھ پر اللہ تعالیٰ نے اس طرح درود بھیجا‘۔ (طبرانی)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے میں بہت سے مسلمان سستی اور غفلت برتتے ہیں اور بہت بڑی فضیلت سے محروم رہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم درود و سلام کی اس فضیلت پر کس قدر خوش ہوئے ہیں۔ اتنا کہ اتنا کبھی بھی خوش نہیں ہوئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپؐ کو راضی اور خوش کرنے کا بہت بڑا ذریعہ درود شریف ہے جس کی برکت درود پڑھنے والے کو بھی بے حساب ملتی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتوں کی بارش سے اس کو بھی پورا حصہ ملتا ہے۔ تب سستی اور غفلت کا کیا جواز ہے؟ خصوصاً ایسی صورت میں‘ جب کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعوے دار بھی ہیں۔ اس عمل کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ! جو مدینہ والوں پر ظلم کرے اور انھیں ڈرائے اسے تو ڈرا دے اور اس پر اللہ‘ فرشتوں اور تمام لوگوں کی طرف سے لعنت ہو۔ اس سے کوئی فرض اور نفل قبول نہیں کیا جائے گا۔ (طبرانی فی الاوسط الکبیر)
جس گناہ پر لعنت کی وعید آئے وہ گناہ کبیرہ ہوتا ہے۔ حجاج کرام کو بطور خاص اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ مدینہ والوں کیساتھ کوئی زیادتی نہ کر بیٹھیں‘ ان کے اطمینان میں خلل نہ ڈالیں‘ ان کی عزت کریں‘ ان سے معاملات میںنرمی برتیں‘ ان کی عزت کا خیال رکھیں۔ لین دین اور دیگر معاملات میں بسا اوقات تلخی کی صورت پیدا ہو جاتی ہے تو اس سے بچیں‘ نبی ؐ کی بستی والوں کو اس کا پورا پروٹوکول دیں۔ مدینہ شریف کی طرح مکہ والوں کا بھی احترام رکھیں۔ اگر کوئی سختی سے پیش آئے تو اس کے ساتھ نرمی اور خوش اخلاقی اختیار کرکے معاملہ کو رفع دفع کر یں۔ البتہ مکہ مدینہ میں رہنے والا کوئی شخص اگر کتاب و سنت کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو تو وہ اس جرم کی حد تک اپنے لیے احترام کے حق کو خود ہی ختم کر دے گا‘ لہذا اسے اس منکر سے روکا جائے گا‘ اس لیے کہ کسی بھی شخص کا حق احترام اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود میں ہے اور اس کا احترام اللہ تعالیٰ کے احترام کے تابع ہے۔ دونوں احتراموں میںجب ٹکرائو آئے گا تو اللہ تعالیٰ کا احترام مقدم ہو گا ۔ اور کتاب و سنت کی بالادستی کا خیال رکھا جائے گا۔
حج کی حقیقت کو تم ایک دفعہ پالو‘ اچھی طرح اور پوری طرح جان لو‘ اسی کے مطابق خود کو ڈھالو‘ اسی کی روشنی میں ہر قدم اٹھائو‘ تو ایک کے بعد ایک‘ حج کے فیوض و برکات اور انعامات و فتوحات کے دروازے تمھارے لیے کھلتے چلے جائیں گے۔
حج کیا ہے؟ اللہ سے محبت کرنا‘ ان کی محبت پانا۔ حج کا سفر محبت و وفا کا سفر ہے۔ اس کا مدعا اور حاصل‘ اللہ کے سواکچھ نہیں۔ اس کا ہر عمل محبت و وفا کا عمل ہے‘ اس کی ہر منزل محبت و وفا کی منزل ہے۔ یوں سمجھو کہ حج سارے کا سارا یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ ، اللہ اپنے ان پروانوں سے محبت کرتے ہیں اور یہ پروانے ان کی محبت میں سرشار ہیں‘ کی مجسم اور متحرک تصویر ہے۔
دیکھو‘ بات یہ ہے کہ اللہ تم سے‘ اپنے بندوں سے‘ بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ جیسا حضورپاکؐ نے ارشاد فرمایا‘ وہ ماں باپ سے بھی کہیں زیادہ محبت والے ہیں۔ وہ اپنی ذات میں بے انتہا رحمت اور محبت کرنے والے ہیں۔ اللہ کو پکارو یا الرحمٰن کو‘ ایک ہی بات ہے۔ گویا اللہ کے معنی ہی الرحمٰن ہیں۔ ساتھ ہی وہ سارے دنیا والوں پر اپنی بے پایاں رحمتوں کی مسلسل بارش کر رہے ہیں۔ دنیا میں مخلوقات کے درمیان تم جہاں بھی اور جتنی بھی رحمت دیکھتے ہو‘ وہ سب بھی ان ہی کی رحمت کا جلوہ ہے۔ مگر دنیا میں وہ جتنی رحمت کر رہے ہیں‘ وہ ان کی رحمت کے ایک سو میں سے ایک حصے کے برابر بھی نہیں‘اگرچہ اس کا بھی احاطہ اور شمار ممکن نہیں۔ ۹۹ حصے انھوں نے آخرت میں عطا کرنے کے لیے رکھے ہوئے ہیں۔
یہ انھی کی رحمت اور محبت ہے کہ انھوں نے ہمیں قرآن عطا کیا‘ تاکہ ہم آخرت کی رحمتوں میں سے حصہ پاسکیں۔ رسول پاکؐ جو رحمۃ للعالمین اور رؤف و رحیم ہیں‘ ہمارے اُوپر اللہ کی رحمت و شفقت کا مظہر ہیں (لَقَدْ مَّنَ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ…الخ)۔ موت کے بعد زندگی بخشنا اور اعمال کی جزا دینا بھی ان کی رحمت کا تقاضا ہے (کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَہ ، لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَہ)۔ ہمیں دین اسلام عطاکرکے تو انھوں نے رحمت و انعام کی انتہا کردی‘ یہ ان کی نعمت کا اتمام ہے کہ یہی آخرت میں ان کی رحمت تک پہنچنے کا راستہ ہے (وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ)۔ یہ بھی ان کی ہمارے ساتھ محبت کا ثمر ہے‘ ان کا فضل اور نعمت ہے کہ انھوں نے اپنے اوپر ایمان‘ ہمارے دلوں میں ڈال دیا‘ اسے دلوں کی زینت بنا دیا‘ اسے ہمارے لیے محبوب بنادیا۔ ان کے ساتھ ہماری جتنی محبت ہے‘ ہوگی‘ وہ ان کی محبت (یُحِبُّھُمْ) اور ایمان کا ثمر ہے۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ، جو ایمان والے ہیں‘ وہ سب سے زیادہ شدت سے اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ ایمان کی ساری شیرینی‘ مزا اور رنگ ان کے ساتھ اسی محبت کے دم سے ہے۔
یہ بیانِ محبت ذرا طویل ہوگیا۔ لیکن محبت کے بیان کی لذت! دل چاہتا ہے کہ ختم ہی نہ ہو۔ محبت کے سفر کی لذت! دل چاہتا ہے کہ وقت سے پہلے شروع ہوجائے‘ ختم ہونے کا نام نہ لے۔ اس کی ہر زحمت میں لذت کی چاشنی ملتی ہے۔ حج کی حقیقت کو دل کی گہرائیوں میں پالینے کے لیے کم سے کم اتنا بیان لذیذ ہی نہیں‘ ضروری بھی تھا۔
دیکھو‘ ویسے تو اس دین کا ہر حکم‘ جو نعمت و محبت کا اتمام ہے‘ بندوں سے ان کی محبت کا مظہر ہے‘اور ان کی محبت کے حصول کا راستہ‘ جو بندوں کی غایت ہے۔ ’’سجدہ کس لیے کرو؟‘‘ تاکہ ہم سے قریب ہوجائو۔ ’’مال کس لیے دو؟‘‘ علٰی حبہ،ان کی محبت میں‘ ان کی محبت و رضا کے لیے۔ احکام‘ حرام و حلال کے ہوں‘اخلاق و معاملات کے‘ ہجرت و جہاد کے--- سب ہم پر ان کی شفقت و رحمت پر مبنی ہیں۔ مگر حج کی بات ہی دوسری ہے۔ یہ تم سے اللہ کی محبت کا‘ اور ان کی محبت کے اظہار کا بے مثال مظہر ہے‘ اور تمھارے لیے ان سے محبت کرنے کا‘اپنی محبت کا اظہار کرنے کا اور ان کی محبت پانے کا انتہائی کامیاب و کارگر نسخہ۔ عبادات میں اس پہلو سے اس کی کوئی نظیر نہیں۔
ذرا غور کرو! اللہ تعالیٰ لامکان ہیں‘ وہ ہر جگہ موجود ہیں‘ وہ کسی مکان میں سما نہیں سکتے‘ ہرذرہ اور لمحہ ان کا ہے‘ اور ان کی جلوہ گاہ--- لیکن یہ‘ ان کی‘ ہم جیسے اسیر مکان و زماں بندوں سے‘ بے پناہ محبت نہیں تو اور کیا ہے کہ انھوں نے‘ ہمیںاپنی محبت دینے اور ان سے محبت کرنے کی نعمت بخشنے کی خاطر‘مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں ایک بظاہر بالکل سادے اور معمولی گھر کو’اپنا گھر‘ بنالیا اور مشرق و مغرب میں تمام انسانوں کو اپنے اس گھر آنے کا بلاوا بھیجا‘ کہ آئو‘ سب کچھ چھوڑ کر‘ لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کہتے ہوئے آئو۔ پتھروں کے اس گھر آئو‘ اس گھر میں اپنے خداے لامکاں کی محبت اور قربت حاصل کرو۔ اس گھر میں‘ اس کے در و دیوار میں‘ اس کے گلی کوچوں میں‘ اس کی طرف سفر میں انھوں نے تمھارے جذبہ عشق و محبت کے لیے تسکین و سیرابی‘ شادکامی اور لذت و کیف کا وہ سارا سامان رکھ دیا جو ایک عاشق صادق اپنے محبوب کے کوچہ و دیار اور درودیوار سے پانے کی تمنا کرسکتا ہے۔
یہ بھی اللہ کی رحمت و محبت کا کرشمہ ہے کہ انھوں نے عشق و محبت کے اس مرکز میں‘ جو بظاہر حسن تعمیر اور جمال ماحول سے بالکل مبرا ہے‘ بڑی عجیب و غریب محبوبیت رکھ دی ہے! اس گھر کو انھوں نے اعلیٰ ترین شرف و کرامت سے نوازا ہے۔ اسے انھوں نے اپنی بے پناہ عظمت و جلال کا مظہر بنایا ہے۔ اس کے سینے سے انھوں نے رحمت و محبت‘ برکت و ہدایت اورانعام و اکرام کے لازوال چشمے جاری کیے ہیں۔ آیات بینات کا ایک اتھاہ خزانہ ہے جو اللہ نے اس گھر کی سادہ مگر محبت کے رنگ سے رنگین داستان کے ورق ورق پر رقم کردیا ہے۔ اللہ کے گھر کے حسن و جمال اور شانِ محبوبیت کا بیان اسی طرح الفاظ کے بس سے باہر ہے‘ جس طرح کسی حسین کے حسن کا اور کسی شے لذیذ کی لذت کا‘ جو تم دیکھنے اور چکھنے ہی سے پاسکتے ہو۔
دوسری طرف انھوں نے اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں اس گھر کی محبت ڈال دی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جو جا نہیں سکتے‘ وہ بھی جانے کی آرزو اور شوق میں سلگتے رہتے ہیں‘ اور کچھ نہیں تو روزانہ پانچ دفعہ‘ اس گھر کی طرف رخ کرکے‘ گھر کے مالک سے قرب اور ہم کلامی کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔ لیکن ایک طرف دیار محبوب کی شانِ محبوبیت اور دوسری طرف محبت کرنے والوں کی محبت‘ ازل سے عشاق بے تاب کا ایک ہجوم بے پناہ ہے جو ہروقت اور ہرجگہ سے کھنچ کھنچ کر اس گھر کے گرد جمع ہوتا چلا آرہا ہے۔ خاص طور پر حج کے وقت‘ جس کو رب البیت نے جلوہ و زیارت کے لیے مخصوص و متعین کیا ہے۔ آج تم بھی اسی ہجوم کا ایک حصہ ہو‘اور میری تمنا ہے--- اور تمھاری بھی یہی تمنا ہونا چاہیے--- کہ محبت کی یہی چنگاری تمھارے دل میں سلگ رہی ہو‘ اور وہی تمھیں کشاں کشاں دیارِ محبوب کی طرف لیے جارہی ہو۔
اب ذرا حج کے اعمال و مناسک کو دیکھو جو تم بجا لائوگے۔ یہ تمام تر عشق و محبت کے اعمال ہیں۔ یہ بھی اللہ کی محبت ہے کہ انھوں نے محبت کی ان ادائوں کی تعلیم دی‘ ان کو اپنے گھر کی زیارت کا حصہ بنایا‘ اور ان پر محبت اور اجر کی بشارت دی۔ یہ سنت ابراہیم ؑ کا ورثہ ہیں۔ دیکھو شاہ عبدالعزیز ؒ صاحب ان اعمال کی حقیقت کی کتنی خوب صورت تصویر کھینچتے ہیں:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا [اور یہی حکم تمھارے لیے ہے] سال میں ایک دفعہ اپنے کو اللہ کی محبت میں سرگشتہ و شیدا بنائو‘ اس کے دیوانے ہوجائو‘ عشق بازوں کے طور طریقے اختیار کرو۔ محبوب کے گھر کے لیے--- ننگے پائوں‘ الجھے ہوئے بال‘ پریشان حال‘ گرد میں اَٹے ہوئے--- سرزمینِ حجاز میں پہنچو‘ اور وہاں پہنچ کر کبھی پہاڑ پر چڑھو‘ کبھی وادی میں دوڑو‘ کبھی محبوب کے گھر کی طرف رخ کر کے کھڑے ہوجائو--- اس خانہ تجلیات کے چاروں طرف دیوانہ وار چکرلگائو‘ اور اس کے در ودیوار کو چومو اور چاٹو۔
یہ ہے وہ حج جس کے لیے تم روانہ ہو رہے ہو۔ جتنا عشق و محبت کا یہ سبق ازبر کرو گے‘ دل پر اسے نقش کرو گے‘ اسے یاد رکھو گے‘ اللہ کو تم سے جو محبت ہے اس کی حرارت اور طمانیت اپنے اندر جذب کرو گے‘ اللہ سے ٹوٹ کر پورے دل سے محبت کرو گے اور اس کا اظہار کرو گے‘ حج کے ہر عمل کو زیادہ سے زیادہ اس محبت کے رنگ میں رنگو گے‘ اس سے اللہ کی محبت کی طلب اور جستجو کرو گے‘ انھی کی محبت اور قرب کی آرزو اور شوق میں جلو گے‘ اتنا ہی تم حج کی آغوش سے اس طرح گناہوں سے پاک و صاف ہوکر لوٹو گے جیسے ماں کے پیٹ کی آغوش سے نکلتے ہو‘ اور تمھارے حق میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت پوری ہوگی۔ (حاجی کے نام‘ منشورات‘ لاہور‘ ص ۸-۱۴)
اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی نہ عیش کدہ ہے اور نہ جہنم زار‘بلکہ امتحان ہے۔ یہ امتحان کبھی نعمت سے ہوتا ہے تو کبھی مصیبت سے۔ نعمت یعنی: خوشی‘ نفع‘ عزت‘ صحت‘ اولاد‘ دولت‘ حکومت‘ فتح اور زندگی وغیرہ‘ اور مصیبت یعنی: غمی‘ نقصان‘ ہلاکت‘ ذلت‘ بیماری‘ اولاد کا نہ ہونا‘ غلامی‘ شکست‘ طوفان اور زلزلہ وغیرہ۔
اس امتحان و ابتلا میں سے ہرشخص اور قوم کو گزرنا ہوتا ہے۔ اس میں کسی کے لیے رعایت نہیں۔ انبیا ؑجو خدا کے پیارے اور محبوب ہوتے ہیں‘ اُنھیں اس آزمایش سے گزرنا پڑا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں پیدا ہوتے ہیں کہ باپ کا سایہ سر پر نہ تھا۔ چھے سال کے ہوتے ہیں والدہ ماجدہ وفات پاجاتی ہیں اور آٹھ سال کی عمر میں دادا کا سایہ اٹھ گیا۔ لڑکپن میں مکہ والوں کی بھیڑبکریاں چرائیں۔ نبوت کا زمانہ تو نہایت مشقت و ابتلا کا دور تھا۔ حضرت ابراہیم ؑکو چند باتوں میں آزمایاگیا (البقرہ ۲:۱۲۴)‘ آگ میں ڈالا گیا‘ وطن سے نکالا گیا‘ بیوی اوربچے کو جنگل میں چھوڑنے کا حکم اور اپنے پیارے بیٹے کو ذبح کرنے کا اشارہ ملا (الصفّٰت۳۷:۱۰۲)۔ حضرت یعقوب ؑکا بیٹا گم ہوجاتا ہے اور غم میں ان کی بینائی تک جاتی رہتی ہے (یوسف۱۲:۸۴)۔ حضرت یونس ؑ مچھلی کے پیٹ میں ۴۰ دن تک رہتے ہیں (الانبیا۲۱:۸۷)‘ حضرت یوسف ؑکنوئیں میں ڈالے جاتے ہیں پھر بیچ دیے جاتے ہیں اور بعد میں تقریباً نو سال تک جیل میں رہتے ہیں۔ (سورہ یوسف)
یہ رب کائنات کا مستقل دستور ہے اور اس میں سے ہر ایک کو گزرنا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نعمت دے کر بھی آزماتے ہیں۔ سیدنا دائود ؑ، سلیمان ؑکو حکومت عطا کی اور وہ اس میں اپنے رب کے شکرگزار بن کر رہے۔ قومِ سبا اور دوسری قوموں کو نعمتوں سے آزمایا۔ وہ کفرانِ نعمت کرکے ہلاک و برباد ہوگئیں۔
ایک مسلمان کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ نعمت پر شکر کیا جائے اور مصیبت پر صبر۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومنین کے مزے ہیں کہ اللہ جو فیصلہ کرتا ہے ان کے لیے اس میں خیر ہی ہوتی ہے۔ اگر مصیبت آئے اور وہ صبر کرتے ہیں تو ان کوثواب ملتا ہے اور اگر ان کو خوشی ملے تو شکر کرتے ہیں تو بھی ان کے لیے خیر ہوتی ہے اور یہ صرف مومنین کے لیے ہے۔ (بخاری، مسلم)
مومن نعمت پاکرآپے سے باہر نہیں ہوتا کیونکہ یہ اُس کا اپنا اکتساب نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور مصیبت کو بھی وہ بڑے حوصلے سے برداشت کرتا ہے۔ مایوسی‘ پریشانی‘ شکوہ‘ شکایت اور خودکشی سے اجتناب کرتا ہے کیونکہ یہ سب چیزیں اُس کے مقدر میں ہیں (الحدید۵۷: ۲۲-۲۳)۔ فی الحقیقت عقیدہ تقدیر غم کو غلط کرنے والا ہے کہ دکھ آیا‘ ہلاکت و بربادی ہوئی اور زبان پر ہے: انا للّٰہ وانا الیہ راجعون! بے شک ہم اللہ کے ہیں اور ہمیں اُسی کے پاس جانا ہے۔ ان الفاظ میں جادو ہے۔ یہ انسان کو سمجھاتے اور تسلی دیتے ہیں کہ دنیا فانی ہے صرف باپ‘ بیٹا‘ گھر اور مال نہ گیا‘ ہم سب نے ہی ادھر جانا ہے اور وہاں جاکر اللہ تعالیٰ ان تمام نقصانات کی تلافی فرما دیں گے اور اجرعظیم عطا فرمائیں گے۔ اس دعا کے علاوہ ہم اپنی زبان میں بھی فوری ردعمل یوں ظاہر کرتے ہیں: ھٰذَا مکتوب(قسمت میں ایسا ہی لکھا تھا)‘ مولا کی مرضی‘ ہم تیرے لکھے پر راضی ہیں۔ ان الفاظ کی ادایگی کے ساتھ ہی غم غلط‘ دکھ دُور اور اپنوں کی جدائی پر صبر کا حوصلہ ملتا ہے۔
یہ خیال رہے کہ عقیدۂ تقدیر انسان کو بے عمل نہیں بنا دیتا بلکہ انسان کو غم و نقصان کو حوصلے سے برداشت کرنے کی قوت دیتا ہے اور آیندہ کے لیے اُسے سعی و جہد پر اُبھارتا ہے۔ اس کا ایمان ہوتا ہے کہ اُس کا رب قادر بھی ہے اور رحمن و رحیم بھی جو ماں سے ۷۰ گنا رحیم ہے۔ اُس کی رحمت تو خیر ہے ہی رحمت لیکن زحمت میں بھی خیر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اگر وہ تمھیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو (النساء ۴:۱۹) جیسے حضرت یوسف ؑ کی مثال کہ کنوئیں میں جانا‘ مصر جانے کا سبب بنا‘ اور مصر کے بازار میں بکنا‘ عزیزِ مصر کے گھر پہنچنے کا سبب بنا اور وہاں سے جیل میں ڈالنا مصر کی حکومت ملنے کا وسیلہ ثابت ہوا ہے۔
یہ صرف ایک مثال نہیں بلکہ ہر آدمی کی زندگی میں کئی ایسے لمحات آتے ہیں جنھیں وہ شر سمجھتا ہے لیکن بعد میں وہی بڑی خیر ثابت ہوتے ہیں لیکن بعض دفعہ ہماری سمجھ میں نہیں آتے جیسے موسٰی ؑ اور خضر ؑکا قصہ (سورہ کہف)۔ دو باتوں کی حکمت تو آسانی سے سمجھ آتی ہے: کشتی کا تختہ نکالنے سے ملاح بادشاہ کی بیگار سے بچ گئے اور نیک آدمی کے یتیم بچوں کی دیوار بنانے سے اُن کا خزانہ محفوظ ہوگیا لیکن معصوم بچے کے مارنے کی علت عقل سے ماورا ہے کہ یہ بڑا ہوکر شریر بنے گا (الکہف۱۸:۷۴ ‘ ۸۰-۸۱)۔ یہاں ہم مجبور ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور فیصلے پر راضی رہیں۔ یہ تکوینی امور ہیں جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں جن کے تحت دنیا میں ہر آن کوئی بیمار کر ڈالا جاتا ہے اور کوئی تندرست کیا جاتا ہے‘ کسی کو موت دی جاتی ہے اور کسی کو زندگی سے نوازا جاتا ہے‘ کسی کوتباہ کیا جاتا ہے اور کسی پر نعمتیں نازل کی جاتی ہیں۔ اس کے باوجود مصائب میں بے شمار خیر کے پہلو ہوتے ہیں۔ ایک مسلم کو ہمیشہ اُن پر نظر رکھنی چاہیے۔ اس طرح وہ اپنے قلب و ذہن کو پریشانی اور مایوسی سے پاک رکھ سکتا ہے۔ وہ شر سے بھی خیر تلاش کرے تاکہ مستقبل کی منصوبہ بندی میں وہ پہلے سے زیادہ حوصلہ سے قدم رکھ سکے اور ماضی کی پریشانیاں دل سے نکال کر آیندہ کے غم سے اپنے آپ کو پاک کرکے آج کو زیادہ خوب صورت و خوش نما بنا سکے۔
توبہ و رجوع الی اللّٰہ: مصیبت نہ آئے تو ہر انسان فرعون بن جائے۔ فرعون ایک غوطہ کھاتے ہی مسلم بن گیا (یونس ۱۰:۹۰)۔ وہ تو مہلت عمل ختم کر بیٹھا تھا لیکن عام آدمی کے پاس ابھی وقت ہوتا ہے اور وہ مشکلات و مصائب کے بعد اللہ کی طرف رجوع کرسکتا ہے اور توبہ بھی۔مصیبت سے دل نرم ہوتا ہے‘اسباب سے نظر اٹھتی ہے اور مسبب الاسباب کے حضور ہاتھ اٹھ جاتے ہیں (الانعام۶:۴۲)۔ اس طرح اپنے رب سے دوبارہ رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ اگر مصیبت کا اور کوئی فائدہ نہ ہوتا تو یہی فائدہ ہی بڑا نفع آور تھا۔ (الاعراف ۷:۱۶۸)
گـناہ کا کفارہ: مصائب مومن کی غلطیوں اور گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کو جو رنج اور دکھ اور فکر اور غم اور تکلیف اور پریشانی بھی پیش آتی ہے‘ حتیٰ کہ ایک کانٹا بھی اگر اس کو چبھتا ہے تو اللہ اس کی کسی نہ کسی خطا کا کفارہ بنا دیتا ہے۔ (بخاری ، مسلم)
امتحان: مصائب و ابتلا سے آدمی کو پرکھا جاتا ہے‘ کھرا ہے یا کھوٹا‘ سچا ہے یا جھوٹا‘ وفادار ہے یا بے وفا‘ مطیع ہے یا نافرمان۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’پھر تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت کا داخلہ تمھیں مل جائے گا حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے‘ جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ اُن پر سختیاں گزریں‘ مصیبتیں آئیں‘ ہلا مارے گئے‘ حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہلِ ایمان چیخ اُٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ اُس وقت اُن کو تسلی دی گئی کہ ہاں اللہ کی مدد قریب ہے‘‘۔ (البقرہ ۲:۲۱۴‘ ۱۵۵-۱۵۷)
تربیت: تربیت کے لیے مصائب کی بھٹی سے گزارا جاتا ہے: ’’اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر‘ فاقہ کشی‘ جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘۔ اُنھیں خوش خبری دے دو۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی‘ اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں‘‘ (البقرہ۲:۱۵۵-۱۵۷)۔ ’’تربیت کے لیے انسان کو مصائب کی بھٹی سے گزارا جاتا ہے۔ خوف و خطر میں مبتلا کر کے‘ اللہ طالب صادق کے عزمِ صمیم کا امتحان کرتے ہیں۔ یہ آزمایشیں اس لیے ضروری ہیں کہ اہلِ ایمان اسلامی نظریۂ حیات کی ذمہ داریاں اچھی طرح پوری کرنے کے قابل ہوسکیں اور اسلامی نظریۂ حیات کی راہ میں‘ جتنا جتنا مصائب سے دوچار ہوں‘ اسی طرح نظریۂ حیات انھیں عزیز ہوتا چلا جائے‘‘۔ (فی ظلال القرآن‘ ج ۱‘ ص ۲۱۶)
ترقی درجات : وہ مصائب جو اللہ کی راہ میں اُس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کوئی مومن برداشت کرتا ہے وہ محض کوتاہیوں کا کفارہ ہی نہیں ہوتے بلکہ اللہ کے ہاں ترقی درجات کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ ’’یاد کرو کہ جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اتر گیا۔ تو اس نے کہا: ’’میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں‘‘۔ ابراہیم نے عرض کیا: ’’اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۲۴)
گناھوں کی سزا: جرائم اور گناہ کی اصل سزا تو آخرت میں ملے گی لیکن بعض دفعہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو اسی دنیا میں اُس سزا کا کچھ مزہ چکھاتے ہیں: ’’اے انسان! تجھے جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے اللہ کی عنایت سے ہوتی ہے‘ اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرے اپنے کسب و عمل کی بدولت ہے‘‘۔ (النسائ۴:۷۹‘ الزمر۳۹:۵۱‘ الشوریٰ۴۲:۳۰)
تنبیھات و سرزنش: ’’اُس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے) عذاب کا مزا اُنھیں چکھاتے رہیں گے‘ شاید کہ یہ (اپنی باغیانہ روش سے) باز آجائیں‘‘ (السجدہ۳۲:۲۱)۔ مولانا مودودیؒ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں: ’عذاب اکبر‘ سے مراد آخرت کا عذاب ہے جو کفروفسق کی پاداش میں دیا جائے گا۔ اس کے مقابلے میں ’’عذابِ ادنیٰ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد وہ تکلیفیں ہیں جو اسی دنیا میں انسان کو پہنچتی ہیں‘ مثلاً افراد کی زندگی میں سخت بیماریاں‘ اپنے عزیز ترین لوگوں کی موت‘ المناک حادثے‘ نقصانات‘ ناکامیاں وغیرہ۔ اور اجتماعی زندگی میں طوفان‘ زلزلے‘ سیلاب‘ وبائیں‘ قحط‘ فسادات‘ لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلائیںجو ہزاروں‘ لاکھوں‘ کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ ان آفات کے نازل کرنے کی مصلحت یہ بیان کی گئی ہے کہ عذاب اکبر میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آجائیں اور اُس طرز فکروعمل کو چھوڑ دیں جس کی پاداش میں آخرکار انھیں وہ بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا‘‘۔(تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ص ۴۷)
ان تنبیہات کی بعض لوگ غلط تاویلات کر کے ان کے اسباق کو ضائع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:’’جو لوگ جہالت میں مبتلا ہیں انھوں نے نہ پہلے کبھی ان واقعات سے سبق لیا ہے نہ آیندہ کبھی لیں گے۔ وہ دنیا میں رونما ہونے والے حوادث کے معنی ہی نہیں سمجھتے‘ اس لیے ان کی ہروہ تاویل کرتے ہیں جو حقیقت کے فہم سے ان کو اور زیادہ دُور لے جانے والی ہو‘ اور کسی ایسی تاویل کی طرف اُن کا ذہن کبھی مائل نہیں ہوتا جس سے اپنی دہریت یا اپنے شرک کی غلطی ان پر واضح ہوجائے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۵‘ ص ۱۸۴)
یہی بات ہے جو ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی: ’’منافق جب بیمار پڑتا ہے اور پھر اچھا ہوجاتا ہے توا س کی مثال اُس اُونٹ کی سی ہوتی ہے جسے اس کے مالکوں نے باندھا تو اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیوں باندھا ہے اور جب کھول دیا تو وہ کچھ نہ سمجھا کیوں کھول دیا‘‘۔(ابوداؤد)
الحمدللہ! ہم نے ۸ اکتوبر کے زلزلے کو بحیثیت مجموعی تنبیہہ ہی کے طور پر لیا ہے۔ پوری قوم اللہ کے حضور دعا کے لیے نکل آئی‘ جہاں وہ اپنے گناہوں کی مغفرت مانگ رہی تھی وہاں زلزلے کے متاثرین کے لیے اپنے رب کے حضور دعاگو تھی۔ بے شک یہ زلزلہ پاکستان کی تاریخ کا عظیم ترین سانحہ تھا۔ یہ ہمارے لیے قیامت سے پہلے ایک قیامت صغریٰ تھی۔ اس کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو پالیا۔ ہم سب کا درد ایک ہے‘ غم ایک ہے‘ نفع و نقصان بھی ایک ہے۔ ہم سب ایک اللہ کے بندے اور ایک رسول کی اُمت ہیں لیکن یہ اُسی صورت میں مفید ہوگا جب ہم اس کو تسلسل دے سکیں۔ خدشہ ہے کہ ماضی کے اسی طرح کے بے شمار لمحات کی طرح یہ لمحہ بھی کہیں گزر نہ جائے اور ہم ویسے کے ویسے ہی رہ جائیں۔ ہمیں اس گھڑی سے پورا فائدہ اٹھانا چاہیے‘ اور وہ ہے تَوْبَۃً نَّصُوْحًا ط (التحریم ۶۶:۸)
خدا کرے کہ یہ حادثہ ہمارے لیے حرکت‘ محبت‘ اخوت‘ مساوات‘ ہمدردی‘ ایثار‘ امانت‘ دیانت‘ صداقت‘ محنت اور بندگی رب کا ذریعہ اور وفاے محمدؐ کا وسیلہ بن جائے!
تحریکِ اسلامی جس تاریخ ساز اور عظیم الشان مشن کو لے کر اٹھی ہے وہ ایک ہمہ وقت متحرک اور بیدار مغز قیادت کے بغیر پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ اس کے لیے منصوبہ بندی‘ تنظیم اور تحریکِ فکروعمل درکار ہے۔ تحریکِ اسلامی کو اس کے اولین علم برداروں ‘یعنی انبیاے کرام کی صالح ترین اور مؤثر قیادتیں حاصل رہی ہیں۔ رسول اکرم خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی انقلابی قیادت جس تحریکِ اسلامی کو حاصل تھی اور آپؐ کی کمان میں جس انقلابی جماعت نے باطل قوت سے نبردآزمائی کی اس کی فکرونظر کی صالحیت‘ ایمان و یقین کی پختگی‘ عزم و حوصلے کی بلندی اور سرگرمی و فعالیت کی ذمہ دار وہ ذات بابرکات تھی جسے وحی کی رہنمائی‘ فرشتوں کی مدد و اعانت‘ غیبی طاقتوں کی نصرت و حمایت اور ذات حق و صداقت کی براہِ راست نگرانی و رہنمائی حاصل تھی۔ ان کے بعد سلف صالحین اور مجددین اُمت کا ایک تسلسل قائم رہا ہے۔ اس لیے اس معیار کی تلاش موجودہ قیادتوں میں کرناسعی لاحاصل ہے۔ صرف ان کا اسوہ مشعل راہ کا کام انجام دے سکتا ہے۔
لہٰذا یہ ناگزیر ہے کہ تحریکی قیادت کا ایک معیارِ مطلوب اور متعینہ اوصاف ہوں جو تربیت فکروعمل کے بعد حاصل کیے جاسکتے ہوں۔ دوسرے معنوں میں صلاحیتوں کی جلا اور اوصاف کی نمو و بالیدگی‘ پرورش اور نگہداشت کے ایک منصوبہ بند پروگرام سے گزار کر جنھیں اوسط درجے کا قائد بنایا جا سکتا ہو۔ اس طرح کی مساعی کے لیے مطلوبہ اوصاف و صلاحیتوں‘ مثلاً علم‘ حکمت‘ افراد جماعت کے ساتھ رویہ‘ عوامی رابطہ‘ انتظامی صلاحیت‘ نظم الوقتی (time management) اور پہل کرنے کی صلاحیت (initiative ability) کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ دستور جماعت میں بھی امرا و شوریٰ کے لیے مطلوبہ اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ان اوصاف میں دینی‘ ایمانی‘ علمی و فکری‘ عملی و اجتماعی اور انتظامی معیارات کے لحاظ سے درجہ بندی کی جاسکتی ہے‘ اور یہ کسی تحریکی قیادت کے اقل ترین لوازم (minimum requirements) ہیں جن سے مفر نہیں۔ یہ اوصاف و صلاحیتیں بتوفیق الٰہی‘ اکتسابی طریقوں (تعلیم و تربیت)‘ شخصی ذوق و میلان‘ صحبت صالحین‘جماعتی سرگرمی میں حصہ داری اور ابتدائی سطح سے تنظیمی ذمہ داریوں کے نبھانے اور سماجی زندگی میں تجربات سے گزر کر حاصل کی جاسکتی ہیں۔ تحریکی شعور کی گہرائی‘ مزاج شناسی اور وابستگی کا معیار اسی قدر بلند ہوگا جس قدر بیان کردہ امور میں پختگی اور گہرائی آئے گی۔ اگر قیادت مطلوبہ معیار کی حامل نہ ہو تو مقصدی و اصولی تحریکات کو مطلوبہ اہداف کے حصول میں مسائل کا سامنا کرنا ہوگا۔
تنظیم اور قیادت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر قیادت معیارِ مطلوب کی حامل نہ ہو تو تنظیم کو اس کے معیار مطلوب سے بلندتر معیار حاصل کرنے اور اجتماعی متبادل قیادت کی فراہمی کا انتظام کرنا چاہیے۔ یہ اجتماعی متبادل قیادت تحریکِ اسلامی میں اس کی مجلس شوریٰ فراہم کرتی ہے جو تحریک کی مقامی‘ حلقہ وار اور مرکزی سطح پر اس کا فیصلہ ساز ادارہ (decision making body) ہے۔ تحریکی معاملات میں اس ادارے کا روز مرہ انہماک بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اسے رہنمائی‘ افرادسازی اور تحریکی سرگرمیوں کے فعال ادارہ کا مقام اس کو حاصل ہو نہ کہ مجہول مشاورتی ادارے کا۔
تحریک اسلامی کی اوّلین روداد میں ہی اس مسئلے کو صاف صاف الفاظ میں بیان کر دیا گیا تھا کہ اسلامی جماعت میں عہدہ و منصب کی طلب کیوں ناپسندیدہ ہے: ’’امیر کے انتخاب میں آپ کو جن امور کا لحاظ رکھنا چاہیے وہ یہ ہیں کہ کوئی شخص جو امارات کا امیدوار ہو اسے ہرگز منتخب نہ کیجیے‘ کیونکہ جس شخص میں اس کارعظیم کی ذمہ داری کا احساس ہوگا وہ کبھی اس بار کو اٹھانے کی خود خواہش نہ کرے گا اور جو اس کی خواہش کرے گا وہ دراصل نفوذ و اقتدار کا خواہش مند ہوگا نہ کہ ذمہ داری سنبھالنے کا۔ اس لیے اللہ کی طرف سے اس کی نصرت و تائید کبھی نہ ہوگی۔ انتخاب کے سلسلے میں ایک دوسرے سے نیک نیتی کے ساتھ تبادلۂ خیالات کرسکتے ہیں مگر کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف تجویز و سعی نہ ہونی چاہیے۔ شخصی حمایت و موافقت کے جذبات کو دل سے نکال کر بے لاگ طریقے سے دیکھیے کہ آپ کی جماعت میں کون ایسا شخص ہے جس کے تقویٰ‘ علم کتاب و سنت‘ دینی بصیرت‘ تدبر‘ معاملہ فہمی اور راہِ خدا میں ثبات و استقامت پر آپ سب سے زیادہ اعتماد کرسکتے ہیں۔ پھر جو بھی ایسا نظر آئے تو اللہ پر توکل کرکے اسے منتخب کر لیجیے اور جب آپ اسے منتخب کرلیں تو اس کی خیرخواہی اور اس کے ساتھ مخلصانہ تعاون‘ معروف میںاس کی اطاعت اور منکر میں اس کی اصلاح کی کوشش آپ کا فرض ہے‘‘۔ (روداد جماعت اسلامی‘ اوّل‘ ص ۱۶-۱۷)
حکومت و اقتدار اور قیادت و سیاست کو امانت (trust) کہا گیا ہے اور کوہ و جبل جیسی مستحکم اور مضبوط مخلوق پر جب اس بارِ امانت کو پیش کیا گیا تو وہ کترا گئے لیکن انسان نے اپنی عجلت پسندی اور جہالت کے سبب اس کو اٹھا لیا۔ عہدہ و منصب کی طلب و خواہش کا تعلق باطن سے ہے مگر ظاہر میں بھی اس کی علامتوں کا ظہور محسوس کیا جا سکتا ہے ‘مثلاً:
۱- دوسروں کی امارت پر بے جا تنقید کرنے والا اور خود پر تنقید سے برافروختہ ہوجانے والا۔
۲- ذمہ داری کی ادایگی میں لاپرواہ ‘جب کہ ان کے حصول میں ہمہ تن متوجہ ہونے والا۔
۳- اپنی صلاحیت واستعداد پر غیرمتوازن بھروسا رکھنے والا۔
مذکورہ بالا اوّلین دو باتوں کے سلسلے میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ملاحظہ کریں: تمھارے اچھے خلفا وہ ہوں گے جن سے تم کو محبت ہو اور تم سے انھیں محبت ہو اور جن کے لیے تم رحمت کی دعائیں کرو اور وہ تمھارے لیے کریں۔ اسی طرح تمھارے برے خلفا وہ ہوں گے جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں اور جن پر تم لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت بھیجیں۔ چنانچہ ایک اورحدیث میں اس رویے کو دین داری کا راست تقاضا قرار دیا گیا ہے: ’’دین اخلاص مندی کا نام ہے‘‘۔ صحابہؓ نے پوچھا: ’’کس کے تئیں اخلاص مندی کا؟‘‘ ارشاد ہوا: ’’اللہ کے رسول کے‘ مسلمانوں کے خلفا کے اور عام مسلمانوں کے‘‘۔ (مسلم، منقولہ اسلام اور اجتماعیت‘ مولانا صدرالدین اصلاحی‘ ص ۹۰)
عہدہ و منصب کی طلب جہاں مختلف انفرادی و اجتماعی مفاسد کا باعث ہوئی ہے وہیں یہ کوئی ایسا پہلو نہیں ہے کہ کسی فرد کے قلب میں خواہش کے روپ میں چھپا رہ جائے بلکہ اجتماعی زندگی کے کئی پہلو عہدہ و منصب کے طلب گاروں کو نمایاں کرتے رہتے ہیں‘ جب کہ عہدہ و منصب سے وابستہ کوئی حقیقی خصوصیت‘ خوبی‘ صلاحیت اور استعداد اور آگے بیان کردہ اوصاف بھی وہ کوئی ایسے پوشیدہ امور نہیں ہیں جو ظاہر ہوئے بغیر نہ رہ جائیں۔ ایک صالح اجتماعیت میں کسی فرد کا قیادت کے لیے اہل تر ہونا اور لوگوں کی نگاہ انتخاب کا اس پر پڑنا ایسا کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے جو حل طلب رہ جائے اور جس کے لیے دوڑ دھوپ کرکے آدمی نگاہ خلق و خالق میں نااعتبار ٹھیرے۔ جب مکہ کی جاہلیت زدہ سوسائٹی اپنے درمیان کون ’صادق و امین‘ ہے‘ اس کی پہچان رکھتی تھی تو بھلا کسی ایسی اجتماعیت میں جو اقامت دین کی علم بردار ہو یہ امرمحال کہاں رہ جائے گا۔ ضرورت صرف اوصافِ قیادت کے شعور و ادراک کی ہے۔
’’قرآن و سنت کا علم جس سے آدمی نہ صرف جزوی احکام اور ان کے مواقع سے واقف ہو بلکہ شریعت کے کلیات اور اس کے مقاصد کو بھی اچھی طرح سمجھ لے۔ اس کو ایک طرف یہ معلوم ہونا چاہیے کہ انسانی زندگی کی اصلاح کے لیے شریعت کی مجموعی اسکیم کیا ہے اور دوسری طرف یہ جاننا چاہیے کہ اس مجموعی اسکیم میں زندگی کے ہر شعبے کا کیا مقام ہے۔ شریعت اس کی تشکیل کن خطوط پر کرنا چاہتی ہیں اور اس تشکیل میں اس کے پیش نظر کیا مصالح ہیں‘‘۔(تفہیمات‘ سوم‘ ص ۱۳‘ بحوالہ اسلام میں قانون سازی کے حدود و مآخذ ‘ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ)
دستور جماعت میں کم حیثیت و درجہ والے مناصب و عہدوں کے لیے اس وصف کو علمِ دین یا فہمِ دین کے الفاظ میں ادا کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں صرف کتابی علم کا حصول بذریعہ تدریس و مشق ہی مطلوب نہیں ہے بلکہ اس کے آگے عمیق مطالعہ و مشاہدہ‘ صحبت علما و صالحین‘ ریاضت و مجاہدہ کے دوران تفکر اور غوروفکر‘ توفیق و استعانت خداوندی کے ذریعے تفقہ فی الدین کا مقام حاصل کرکے اور تحقیق و جستجو کی مسلسل کوششوں میں لگے رہنے سے حاصل ہوتا ہے۔
حدیث نبویؐ کے بموجب:
یہ کردار جس سرچشمہ ء علم و آگہی سے بنتا ہے وہ علم کتاب و سنت اور مزاج شناس رسولؐ ہونے سے حاصل ہوتا ہے۔
’’تقویٰ حقیقت میں کسی وضع و ہیئت اور کسی خاص طرزِ معاشرت کا نام نہیں ہے بلکہ دراصل وہ نفس کی اس کیفیت کا نام ہے جو خدا ترسی اور احساسِ ذمہ داری سے پیدا ہوتی ہے اور زندگی کے ہر پہلو میں ظہور کرتی ہے۔ حقیقی تقویٰ یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کا خوف ہو‘ عبدیت کا شعور ہو‘ خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری و جواب دہی کا احساس ہو‘ اور اس بات کا زندہ ادراک موجود ہو کہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے جہاں خدا نے ایک مہلت عمر دے کر مجھے بھیجا ہے اور آخرت میں میرے مستقبل کا فیصلہ بالکل اس چیز پر منحصر ہے کہ میں اس دیے ہوئے وقت کے اندر اس امتحان گاہ میں اپنی قوتوں اور قابلیتوں کو کس طرح استعمال کرتا ہوں۔ اُس سروسامان میں کس طرح تصرف کرتا ہوں جو مشیت الٰہی کے تحت مجھے دیا گیا ہے اور انسانوں کے ساتھ کیسا معاملہ کرتا ہوں جن سے قضاے الٰہی نے مختلف حیثیتوں سے میری زندگی متعلق کر دی ہے۔
یہ احساس و شعور جس شخص کے اندر پیدا ہوجائے اس کا ضمیر بیدار ہوجاتا ہے۔ اس کی دینی حس تیز ہوجاتی ہے۔ اس کو ہر وہ چیز کھٹکنے لگتی ہے جو خدا کی رضا کے خلاف ہو۔ اس کے مذاق کو ہر وہ شے ناگوار ہونے لگتی ہے جو خدا کی پسند سے مختلف ہو۔ وہ اپنے نفس کا جائزہ لینے لگتا ہے کہ میرے اندر کس قسم کے رجحانات و میلانات پرورش پا رہے ہیں‘ وہ اپنی زندگی کا خود محاسبہ کرنے لگتا ہے کہ کن کاموں میں اپنا وقت اور اپنی قوتیں صرف کر رہا ہوں۔ وہ صریح ممنوعات کو تو درکنار‘ مشتبہ امور میں بھی مبتلا ہوتے ہوئے خود بخود جھجکنے لگتا ہے۔ اس کا احساسِ فرض اسے مجبور کر دیتا ہے کہ تمام اوامر کو پوری فرماں برداری کے ساتھ بجالائے۔ اس کی خدا ترسی ہر اس موقع پر اس کے قدم میں لرزش پیدا کردیتی ہے جہاں حدود اللہ سے تجاوز کا اندیشہ ہو۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی نگہداشت آپ سے آپ اس کا وطیرہ بن جاتی ہے اور اس خیال سے بھی اس کا ضمیر کانپ اٹھتا ہے کہ کہیں اس سے کوئی بات حق کے خلاف سرزد نہ ہوجائے۔ یہ کیفیت کسی ایک شکل یا کسی مخصوص دائرہ عمل میں ہی ظاہر نہیں ہوتی بلکہ آدمی کے پورے طرزِفکر اور اس کے تمام کارنامۂ زندگی میں اس کا ظہور ہوتا ہے اور اس کے اثر سے ایک ایسی ہموار یک رنگ سیرت پیدا ہوتی ہے جس میں آپ ہر پہلو سے ایک ہی طرز کی پاکیزگی و صفائی پائیں گے‘‘۔ (روداد جماعت اسلامی‘ سوم‘ ص ۲۶۲-۳۶۱ بحوالہ تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں ، مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ)
تقویٰ و پرہیزگاری کی یہ کیفیات تعلق باللہ‘ فکرِآخرت‘ فرائض ونوافل (عبادات) پر کاربند رہنے‘ معاملات و حقوق العباد میں عدل و قسط‘ احسان‘ ایثار و ہمدردی اور پاکیزہ عائلی زندگی بسر کرنے سے حاصل ہوتی ہیں۔
’’روے زمین پر اگر صرف ایک ہی آدمی مومن ہو‘ تب بھی اس کے لیے یہ درست نہیں ہے کہ اپنے آپ کو اکیلاپاکر اور ذرائع مفقود دیکھ کر نظام باطل کے تسلط پر راضی ہوجائے۔ اھون البلیتین کے شرعی حیلے تلاش کر کے غلبۂ کفروفسق کے ماتحت کچھ آدھی پونی مذہبی زندگی کا سودا چکانا شروع کر دے‘بلکہ اس کے لیے سیدھا اور صاف راستہ یہی ایک ہے کہ بندگانِ خدا کو اس طریق زندگی کی طرف بلائے جو خدا کو پسند ہے۔ پھر اگر کوئی اس کی بات کو سن کر نہ دے تو اس کا ساری عمر صراط مستقیم پر کھڑے ہوکر لوگوں کو پکارتے رہنا اور پکارتے پکارتے مرجانا اس سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ وہ اپنی زبان سے وہ صدائیں بلند کرنے لگے جو ضلالت میں بھٹکتی ہوئی دنیا کو مرعوب ہوں اور ان راہوں پر چل پڑے جن پر کفار کی امامت میں دنیا چل رہی ہے۔ اور اگر اللہ کے کچھ بندے اس کی بات سننے پر آمادہ ہوجائیں تو اس کے لیے لازم ہے کہ ان کے ساتھ مل کر ایک جتھہ بنائے اور یہ جتھہ اپنی اجتماعی قوت اس مقصدعظیم کے لیے جدوجہد کرنے میں صرف کرے (جس کا دین تقاضا کرتا ہے)۔ (روداد جماعت اسلامی‘ سوم‘ ص ۲۳۰-۲۳۱)
اقامت دین کی جدوجہد کے لیے حکمت و موعظہ حسنہ پر مبنی طریق دعوت لازم ہے جو تدریج اور فطری ترتیب کو ملحوظ رکھتا ہے: ’’یہ طریق کار غیرمعمولی صبر‘ حلم اور لگاتار محنت چاہتا ہے۔ اس میں ایک مدت دراز تک مسلسل کام کرنے کے بعد بھی شان دار نتائج کی وہ ہری بھری فصل لہلہاتی نظر نہیں آتی جو سطحی اور نمایشی کام شروع کرتے ہی دوسرے دن سے تماشائیوں اور مداریوں کا دل لبھانا شروع کر دیتی ہے۔ اس میں ایک طرف خود کارکن کے اندر وہ گہری بصیرت‘ وہ سنجیدگی‘ وہ پختہ کاری اور وہ معاملہ فہمی پیدا ہوتی ہے جو اس تحریک کے زیادہ صبرآزما اور زیادہ محنت و حکمت چاہنے والے مراحل میں درکار ہونے والی ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۸۳)
کسی قیادت میں قوت فیصلہ کی کمی اس میں معاملہ فہمی‘ تدبر و اصابت راے کے فقدان اور دینی بصیرت میں کمی کا شاخسانہ ہوتی ہے۔ کسی مسئلے کی ماہیت اور موقع و محل کی مناسبت اور اس کے اثرات کا تجزیہ اور فہم دین و شریعت کی روشنی میں نہ حاصل ہوسکے تو ایک قائد صحیح یا غلط مشیروں کی باتوں یا مشوروں پر انحصار کرنے لگتا ہے اور ہوتا یہ ہے کہ فیصلہ دوسروں کا ہوتا ہے مگر کہلاتا قائدانہ فیصلہ ہے۔ کسی قائد میں اگر دینی بصیرت نہ ہو تو وہ بہت دنوں بیساکھیوں کے سہارے اپنے دینی مقام کے تقاضے پورے نہیں کرسکتا اور اجتماعی قیادت کے میدان میں بہت جلد اپنا بھرم کھو دیتا ہے یا بے اثر ہوکر رہ جاتا ہے۔
’’اس کے ساتھ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ اسلامی جماعت میں امیر کی وہ حیثیت نہیں ہے جو مغربی جمہوریتوں میں صدر کی ہوتی ہے۔ مغربی جمہوریتوں میں جو شخص صدر منتخب کیا جاتا ہے اس میں تمام صفات تلاش کی جاتی ہیں مگر کوئی صفت اگر تلاش نہیں کی جاتی تو وہ دیانت اور خوفِ خدا کی صفت ہے بلکہ وہاں کا طریق انتخاب ہی ایسا ہے کہ جو شخص ان میں سب سے زیادہ عیار اور سب سے بڑھ کر جوڑ توڑ کے فن میں ماہر اور جائز و ناجائز ہرقسم کی تدابیر سے کام لینے میں طاق ہوتا ہے وہی برسرِاقتدار آتا ہے۔ اس لیے فطری بات ہے کہ وہ لوگ خود اپنے منتخب کردہ صدر پر اعتماد نہیں کرسکتے۔ وہ ہمیشہ اس کی بے ایمانی سے غیرمامون رہتے ہیں اور اپنے دستور میں طرح طرح کی پابندیاں اور رکاوٹیں عائد کردیتے ہیں تاکہ وہ حد سے زیادہ اقتدار حاصل کرکے مستعبد فرماں روا نہ بن جائے۔ مگر اسلامی جماعت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے صاحبِ امر کے انتخاب میں تقویٰ اور دیانت ہی کو تلاش کرتی ہے اور اس بناپر وہ اپنے معاملات پورے اعتماد کے ساتھ اس کے سپرد کرتی ہے۔ لہٰذا مغربی طرز کی جمہوری جماعتوں کی تقلید کرتے ہوئے اپنے دستور میں اپنے امیر پر وہ پابندیاں عائد کرنے کی کوشش نہ کیجیے جو عموماً وہاں صدر پر عائد کی جاتی ہیں۔ اگر آپ کسی کو خدا ترس اور متدین پاکر اسے امیر بناتے ہیں تو اس پر اعتماد کیجیے اور اگر آپ کے نزدیک کسی کی خدا ترسی و دیانت اس قدر مشتبہ ہو کہ آپ اس پر اعتماد نہیں کرسکتے تو اس کو سرے سے منتخب ہی نہ کیجیے‘‘۔ (روداد جماعت اسلامی‘ اول‘ ص ۱۷-۱۸)
متقی و پرہیزگار آدمی امانت دار بھی ہوگا اور یہ فرد کے مالی کردار کی درستی پر ہی منحصر نہیں ہے کہ مالی لین دین میں آدمی کھرا اترے‘ بلکہ یہ جماعتی رازوں کی حفاظت‘ وسائل کے صحیح مصرف‘ تحریکی ذمہ داریوں کی بہ حسن خوبی ادایگی‘ صلاحیتوں‘ استعداد اور آرا کے مناسب استعمال پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ: ’’جو شخص مسلمانوں کے اجتماعی امور کا ذمہ دار ہو اور وہ ان کے ساتھ خیانت کرے تو خدا اس پر جنت حرام کردے گا‘‘۔(بخاری‘ مسلم)
’’جماعت کی نظر میں انتخاب کے وقت جو شخص بھی مذکورہ اوصاف (تقویٰ‘ علم‘ دین میں بصیرت‘ اصابت رائے اور عزم و حزم) کے لحاظ سے اہل تر ہوگا اس کو وہ اس منصب کے لیے منتخب کرے گی‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۲۰-۲۱)
’’مومن ہو یا کافر‘ نیک ہو یا بد‘ مصلح ہو یا مفسد‘ غرض جو بھی ہو‘ وہ اگر کارگر انسان ہوسکتا ہے تو صرف اس صورت میں‘ جب کہ اس کے اندر ارادے کی طاقت اور فیصلے کی قوت ہو‘ عزم اور حوصلہ ہو‘ صبروثبات اور استقلال ہو‘ تحمل اور برداشت ہو‘ ہمت اور شجاعت ہو‘ مستعدی و جفاکشی ہو‘ حزم و احتیاط اور معاملہ فہمی و تدبر ہو‘ باضابطگی کے ساتھ کام کرنے کا سلیقہ ہو‘ فرض شناسی اور احساس ذمہ داری ہو‘ حالات کو سمجھنے اور ان کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے اور مناسب تدبیر کرنے کی قابلیت ہو‘ اپنے جذبات و خواہشات اور رجحانات پر قابو ہو اور دوسرے انسانوں کو موہنے‘ ان کے دل میں جگہ پیدا کرنے اور ان سے کام لینے کی صلاحیت ہو۔پھر ناگزیر ہے کہ اس کے اندر وہ شریفانہ خصائل بھی کچھ نہ کچھ موجود ہوں جو فی الحقیقت جوہرِ آدمیت ہیں اور جن کی بدولت آدمی کا وقار و اعتبار دنیا میں قائم ہوتا ہے‘ مثلاً خودداری‘ فیاضی‘ رحم‘ ہمدردی‘ انصاف‘ وسعت قلب و نظر‘ سچائی‘ امانت‘ راست بازی‘ پاس عہد‘ معقولیت‘ اعتدال‘ شایستگی‘ طہارت و نظافت اور ذہن و نفس کا انضباط‘‘۔ (روداد جماعت اسلامی‘ سوم‘ ص ۲۳۵)
’’محض دماغی طور پر ہی کسی شخص کا اس تحریک کو سمجھ لینا اور اس پر صرف عقلاً مطمئن ہوجانا اس راہ میں اقدام کے لیے صرف ایک ابتدائی قدم ہے لیکن اتنے سے تاثر سے کام نہیں چل سکتا۔ یہاں تو اس کی ضرورت یہ ہے کہ دل میں ایک آگ بھڑک اٹھے‘ زیادہ نہیں تو کم از کم اتنی آگ تو شعلہ زن ہو جانی چاہیے جتنی اپنے بچے کو بیمار دیکھ کر ہوجاتی ہے اور آدمی کو تگ و دو پر مجبور کردیتی ہے اور چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔ سینوں میں وہ جذبہ ہونا چاہیے جو ہر وقت آپ کو اپنے نصب العین کی دھن میں لگائے رکھے۔ دل و دماغ کو یکسو کر دے اور توجہات کو اس کام پر مرکوز کر دے کہ اگر ذاتی یا خانگی یا دوسرے غیرمتعلق معاملات کبھی آپ کی توجہ کو اپنی طرف کھینچیں بھی تو آپ سخت ناگواری کے ساتھ ان کی طرف کھنچیں۔ کوشش کیجیے کہ اپنی ذات کے لیے قوت اور وقت کا کم سے کم حصہ صرف کریں اور آپ کی زیادہ سے زیادہ جدوجہد اپنے مقصدحیات کے لیے ہو۔ جب تک یہ دل کی لگن نہ ہوگی اور ہمہ تن اپنے آپ کو اس کام میں جھونک نہ دیں گے محض زبانی جمع خرچ سے کچھ نہ بنے گا۔ پھر اگر دل کی لگن اپنے اندر نہ محسوس ہو تو اسے پیدا کرنے کی فکر کی جائے۔ جہاں دل کی لگن ہوتی ہے وہاں کسی ٹھیلنے اور اُکسانے والے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس قوت کے ہوتے ہوئے یہ صورت حال بھی پیدا نہیں ہوسکتی کہ اگر کہیں جماعت کا ایک کارکن پیچھے ہٹ گیا یا نقل مقام پر مجبور ہوگیا تو وہاں کا سارا کام چوپٹ ہوگیا۔ بڑے بڑے اقدامات کا نام لینے سے پہلے اپنی قوتِ قلب کا اور اپنی اخلاقی طاقت کا جائزہ لیجیے اور مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لیے جس دل گردے کی ضرورت ہے وہ اپنے اندر پیدا کیجیے‘‘۔ (روداد جماعت اسلامی‘ دوم‘ ص۳۳-۳۶)
’’مخالف طاقتیںاپنے باطل مقاصد کے لیے جس صبر کے ساتھ ڈٹ کر سعی کررہی ہیں اس صبر کے ساتھ آپ بھی ڈٹ کر ان کا مقابلہ کریں۔ اس لیے اصبروا کے ساتھ صابروا کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ جن لوگوں کے مقابلے میں آپ حق کی علم برداری کے لیے اٹھنے کا داعیہ رکھتے ہیں‘ ان کے صبر کا اپنے صبر سے موازنہ کیجیے اور سوچیے کہ آپ کے صبر کا کتنا تناسب ہے۔ شاید ہم ان کے مقابلے میں ۱۰ فی صد کا دعویٰ کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ باطل کے غلبے کے لیے جو صبر وہ دکھا رہے ہیں‘ جب تک ان کے مقابلے میں ہمارا صبر ۱۰۵ فی صد کے تناسب پر نہ پہنچ جائے‘ ان سے کوئی ٹکر لینے کی جرأت نہیں کی جا سکتی‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۳۱-۳۲)
’عزم‘ سے مراد پختہ ارادہ‘ جب کہ ’ حُزم‘ کے معنی مستقل مزاجی کے ہیں۔ تحریکی سرگرمیوں کے استحکام‘ انضباط اور تسلسل پر بڑا گہرا اثر قائد کے عزم و حزم کا پڑتا ہے۔
اس ضمن میں پہلی چیز معاملاتِ زندگی کی تقسیم شریعت کے انطباق کے نقطۂ نظر سے ہونا چاہیے: ’’انسانی زندگی کے معاملات میں سے ایک قسم کے معاملات وہ ہیں جن میں قرآن و سنت نے کوئی واضح اور قطعی حکم دیا ہے یا کوئی خاص قاعدہ مقرر کر دیا ہے۔ اس طرح کے معاملات میں کوئی فقیہہ‘ کوئی قاضی‘ کوئی قانون ساز ادارہ شریعت کے دیے ہوئے حکم یا اس کے مقرر کیے ہوئے قاعدے کو نہیں بدل سکتا۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ان میں قانون سازی کے لیے کوئی مجال کار ہے ہی نہیں۔ انسانی قانون سازی کا دائرہ عمل ان معاملات میں یہ ہے کہ سب سے پہلے ٹھیک ٹھیک معلوم کیا جائے اور یہ تحقیق کی جائے کہ یہ حکم کن حالات اور واقعات کے لیے ہے۔ پھر عملاً پیش آنے والے مسائل پر ان کے انطباق کی صورتیں اور مجمل احکام کی جزئی تفصیلات طے کی جائیں اور ان امور کے ساتھ یہ بھی مشخص کیا جائے کہ استثنائی حالات و واقعات میں ان احکام و قواعد سے ہٹ کر کام کرنے کی گنجایش‘ کہاں کس حد تک ہے۔
دوسری قسم کے معاملات وہ ہیں جن کے بارے میں شریعت نے کوئی حکم نہیں دیا ہے مگر ان سے ملتے جلتے معاملات کے متعلق وہ ایک حکم دیتی ہے۔ اس دائرے میں قانون سازی کا عمل اس طرح ہوگا کہ احکام کی علتوں کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر ان تمام معاملات میں ان کو جاری کیا جائے گا جن میں علتیں فی الواقع پائی جاتی ہیں اور ان تمام معاملات کو ان سے مستثنیٰ ٹھیرایا جائے گا جن میں درحقیقت وہ علتیں نہ پائی جاتی ہوں۔
ایک اور قسم ان معاملات کی ہے جن میں شریعت نے متعین احکام نہیں بلکہ کچھ جامع اصول دیے ہیں یا شارع کا یہ منشا ظاہر کیا ہے کہ کیا چیز پسندیدہ ہے جسے فروغ دینا مطلوب ہے اور کیا چیز ناپسندیدہ ہے جسے مٹانا مطلوب ہے۔ ایسے معاملات میں قانون سازی کا کام یہ ہے کہ شریعت کے ان اصولوں کو اور شارع کے منشا کو سمجھا جائے اور عملی مسائل میں ایسے قوانین بنائے جائیں جو ان اصولوں پر مبنی ہوں اور شارع کے منشا کو پورا کرتے ہوں۔
ان کے علاوہ ایک بہت بڑی قسم ان معاملات کی ہے جن کے بارے میں شریعت بالکل خاموش ہے۔ نہ براہِ راست ان کے متعلق حکم دیتی ہے اور نہ ان سے ملتے جلتے معاملات ہی کے متعلق کوئی ہدایت اس میں ملتی ہے کہ ان کو اس پر قیاس کیا جاسکے۔ یہ خاموشی خود اس بات کی دلیل ہے کہ حاکم اعلیٰ ان میں انسان کو خود اپنی رائے سے فیصلہ کرنے کا حق دے رہا ہے۔ اس لیے ان میں آزادانہ قانون سازی کی جاسکتی ہے مگر یہ قانون سازی ایسی ہونی چاہیے جو اسلام کی روح اور اس کے اصول عامہ سے مطابقت رکھتی ہو جس کا مزاج اسلام کے مجموعی مزاج سے مختلف نہ ہو‘ جواسلامی زندگی کے نظام میں ٹھیک ٹھیک نصب ہوسکتی ہو‘‘۔ (تفہیمات‘ سوم‘ ص ۱۰-۱۲‘بحوالہ اسلام میں قانون سازی کے حدود کا ماخذ ‘مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)
انسانی زندگی کے معاملات کو شریعت کے نفاذ و انطباق اور قانون سازی کے پس منظر میں ان اقتباسات میں پیش کیا گیا ہے۔ ان سے ہٹ کر جماعتی زندگی میں معاملہ فہمی بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اولاً معاملات کا صحیح فہم اور ان کو شریعت کی روشنی میں دیکھنے‘ سمجھنے اور اس کے مطابق طے کرنے کی ضرورت ہی ہمیں اُس وصف کی جانب متوجہ کرتی ہے جسے دستور جماعت میں جماعتی عہدوں اور مناصب کے لیے بیان کیا گیا ہے۔
ایک مسلمان کی قوتِ فیصلہ کا دارومدار اس کے ایمان (توحید‘ رسالت اور آخرت) کے استحضار پر ہے: ’’ایک مکمل اسلامی زندگی کی عمارت اگر اٹھ سکتی ہے تو صرف اس اقرار توحید پر اٹھ سکتی ہے جو انسان کی پوری انفرادی و اجتماعی زندگی پر وسیع ہو‘ جس کے مطابق انسان اپنے آپ کو اور اپنی ہر چیز کو خدا کی مِلک سمجھے۔ اس کو اپنا اور تمام دنیا کا ایک ہی جائز مالک‘ معبود‘ مطاع اور صاحب امرونہی تسلیم کرے۔ اس کو ہدایت کا سرچشمہ مانے اور پورے شعور کے ساتھ اس حقیقت پر مطمئن ہوجائے کہ خدا کی اطاعت سے انحراف یا اس کی ہدایت سے بے نیازی یا اس کی ذات و صفات اور حقوق و اختیارات میں غیر کی شرکت جس پہلو اور جس رنگ میں بھی ہو‘ سراسر ضلالت ہے۔
یہ بھی اس وقت ہوسکتا ہے کہ آدمی پورے شعور اور پورے ارادے کے ساتھ یہ فیصلہ کرلے کہ وہ اور اس کا سب کچھ اللہ کا ہے اور اللہ ہی کے لیے ہے۔ اپنے معیار پسند و ناپسند کو ختم کر کے اللہ کی پسندوناپسند کے تابع کردے۔ اپنی خودسری کو مٹاکر اپنے نظریات‘ خیالات‘ خواہشات‘ جذبات اور اندازفکر کو اس علم کے مطابق ڈھال لے جو خدا نے اپنی کتاب میں دیا ہے۔ اپنی تمام ان وفاداریوں کو دریابرد کر دے جو خدا کی وفاداری کے تابع نہیں بلکہ اس کی مدمقابل بن سکتی ہوں۔ اپنے دل میں سب سے زیادہ بلند مقام پر خدا کی محبت کو بٹھائے اور ہر اس بت کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نہاں خانۂ دل سے نکال پھینکے جو خدا کے مقابلے میں عزیز تر ہونے کا مطالبہ کرتا ہو۔ اپنی محبت اور نفرت‘ اپنی دوستی اور دشمنی‘ اپنی رغبت اور کراہیت‘ اپنی صلح اور جنگ‘ ہر چیز کو خدا کی مرضی میں اس طرح گم کردے کہ اس کا نفس وہی چاہنے لگے جو خدا چاہتا ہے اور اُس سے بھاگنے لگے جو خدا کو ناپسند ہے‘‘۔ (روداد جماعت اسلامی‘ سوم‘ ص ۲۵۵-۲۵۶)
یہ ایمان باللہ جس کے اندر جتنا مضبوط ہوگا‘ اتنی ہی اس کی قوتِ فیصلہ مطابق رضاے الٰہی ہوگی۔
’’[اسلام] بنیادی انسانی اخلاقیات کو مستحکم بھی کرتا ہے اور پھر ان کے اطلاق کو انتہائی حدود تک وسیع بھی کردیتا ہے۔ مثال کے طور پر صبر کو لیجیے۔ بڑے سے بڑے صابر آدمی میں بھی جو صبر دنیوی اغراض کے لیے ہو اور جسے شرک یا مادہ پرستی کی فکری جڑوں سے غذا مل رہی ہو‘ اس کے برداشت اور اس کے ثبات و قرار کی بس ایک حد ہوتی ہے جس کے بعد وہ گھبرا اُٹھتا ہے‘ لیکن جس صبر کو توحید کی جڑ سے غذا ملے اور جو دنیا کے لیے نہیں بلکہ اللہ رب العالمین کے لیے ہو‘ وہ تحمل و برداشت اور پامردی کا ایک اتھاہ خزانہ ہوتا ہے جسے دنیا کی تمام ممکن مشکلات مل کر بھی لوٹ نہیں سکتیں۔ پھر غیرمسلم کا صبر نہایت محدود نوعیت کا ہوتا ہے۔ اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ ابھی تو گولیوںکی بوچھاڑ میں نہایت استقلال کے ساتھ ڈٹا ہوا تھا اور ابھی جو جذبات شہوانی کی تسکین کا کوئی موقع سامنے آیا تو نفس امارہ کی ایک معمولی تحریک کے مقابلے میں بھی نہ ٹھیرسکا۔ لیکن اسلام صبر کو انسان کی پوری زندگی میں پھیلا دیتا ہے اور اسے صرف چند مخصوص قسم کے خطرات‘ مصائب و مشکلات ہی کے مقابلے میں نہیں بلکہ ہر اس لالچ‘ ہر اس خوف‘ ہر اس اندیشے اورہر اس خواہش کے مقابلے میں ٹھیرائو کی ایک ایسی زبردست طاقت بنا دیتا ہے جو آدمی کو راہِ راست سے ہٹانے کی کوشش کرے۔
’’[اسلام] بنیادی اخلاقیات کی ابتدائی منزل پر اخلاقِ فاضلہ کی ایک نہایت شان دار بالائی منزل تعمیر کرتا ہے جس کی بدولت انسان اپنے شرف کی انتہائی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔ وہ اس کے نفس کو خودغرضی سے‘ نفسانیت سے‘ ظلم سے‘ بے حیائی اور خداعت اور بے قیدی سے پاک کردیتا ہے۔ اس میں خداترسی‘ تقویٰ‘ پرہیزگاری اور حق پرستی پیدا کرتا ہے۔ اس کے اندر اخلاقی ذمہ داریوں کاشعور و احساس اُبھارتا ہے۔ اس کو ضبطِ نفس کا خوگر بناتا ہے‘ اسے تمام مخلوقات کے لیے کریم‘ فیاض‘ رحیم‘ ہمدرد‘ امین‘ بے غرض‘ خیرخواہ‘ بے لوث‘ منصف اور ہر حال میں صادق‘ راست باز بنا دیتا ہے‘‘۔ (روداد جماعت اسلامی‘ سوم‘ ص ۲۳۹-۲۴۰)
حدیث شریف میں ہے کہ: ’’جس شخص نے مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کی ذمہ داری قبول کی پھر اس نے ان کے ساتھ خیرخواہی نہ کی اور اپنے کام انجام دینے میں اپنے آپ کو اس طرح نہیں تھکایا جس طرح وہ اپنی ذاتی ضروریات کے لیے خود کو تھکاتا ہے تو خدا اس شخص کو منہ کے بل جہنم میں گرا دے گا‘‘۔ (طبرانی)
حلم و بردباری کا تعلق آدابِ زندگی میں باہمی تعلقات سے ہے۔ آداب سیکھنے کا مقام گھریلو حالات‘ مدرسہ اور ماحول سے بھی ہے۔ مگر شرافت اور مجلسی آداب ‘ خاندان سے زیادہ ان اخلاقِ فاضلہ کی دین ہوتے ہیں جو بچپن سے لے کر شعوری عمر تک ایک فرد سیکھتا ہے۔
’’ہماری تحریک کا مخصوص مزاج یہ چاہتا ہے کہ جو کچھ کیا جائے اندرونی تحریک سے کیا جائے (خواہ وہ انفاق فی سبیل اللہ کا معاملہ ہو یا مجاہدہ فی سبیل اللہ کے تحت اقامت دین کے جملہ امور ہوں)۔ جس طرح ایک فرد اپنی بقا کے لیے بغیر کسی خارجی تحریک کے معدے کو غذا بہم پہنچاتا ہے اس طرح جماعت کو اپنے جماعتی معدہ‘ یعنی بیت المال کی بھوک کا خود احساس کرنا چاہیے ورنہ زندگی کی حرکت زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکے گی‘‘۔ (روداد جماعت اسلامی‘ اول‘ ص ۶۹)
’’اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ارکان کو اپنی تحریک اور دوسری تحریکوں کے فرق کا پورا شعور نہیں ہے حالانکہ اس فرق کو اچھی طرح سمجھ لینے کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تحریک عام تحریکوں سے بنیادی اختلافات رکھتی ہے۔ اولاً یہ کہ اس کے سامنے پوری زندگی کا مسئلہ ہے‘ زندگی کے کسی ایک پہلو کا نہیں۔ ثانیاً یہ کہ خارج سے پہلے یہ باطن سے بحث کرتی ہے۔ جہاں تک پہلے پہلو کا تعلق ہے‘ ہمارے سامنے کام اتنا بڑا اور اہم ہے کہ جو اسلامی تحریک کے سوا دنیا کی کسی تحریک کے سامنے نہیں ہے‘ اور ہم اُس جلدبازی کے ساتھ کام نہیں کرسکتے جس جلدبازی سے دوسرے کرسکتے ہیں۔ پھر چونکہ ہمارے لیے خارج سے بڑھ کر باطن اہمیت رکھتا ہے۔ اس وجہ سے محض تنظیم اور محض ایک چھوٹے سے ضابطہ بند پروگرام پر لوگوں کو چلانے اور عوام کو کسی ڈھرے پر لگادینے سے ہمارا کام نہیں چلتا۔ ہمیں عوام میں عمومی تحریک (mass movement) چلانے سے پہلے ایسے آدمیوں کو تیار کرنے کی فکر کرنی چاہیے جو بہترین اسلامی سیرت کے حامل ہوں اور ایسی اعلیٰ درجے کی دماغی صلاحیتیں بھی رکھتے ہوں کہ تعمیرافکار کے ساتھ اجتماعی قیادت کے دوسرے فرائض کو سنبھال سکیں۔ (ایضاً‘ ص ۶۹-۷۱)
’’جماعت کے اندر جماعت بنانے کی کوشش کبھی نہ ہونی چاہیے۔ سازشیں‘ جتھہ بندیاں‘ نجویٰ (convassing)‘ عہدوں کی امیدواری‘ حمیت جاہلانہ اور نفسانی رقابتیں‘ یہ وہ چیزیں ہیں جو ویسے بھی جماعتوں کی زندگی کے لیے سخت خطرناک ہوتی ہیں مگر اسلامی جماعت کے مزاج سے تو ان چیزوں کو کوئی مناسبت ہی نہیں ہے۔ اس طرح غیبت اور تنابز بالالقاب اور بدظنی بھی جماعتی زندگی کے لیے سخت مہلک بیماریاں ہیں جن سے بچنے کی ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے‘‘۔(ایضاً‘ ص ۱۰)
’’تحریک اسلامی اپنا ایک خاص مزاج رکھتی ہے اور اس کا ایک مخصوص طریق کار ہے جس کے ساتھ دوسری تحریکوں کے طریقے کسی طرح جوڑ نہیں کھاتے۔ جو لوگ اب تک مختلف قومی تحریکوں میں حصہ لیتے رہے اور جن کی طبیعتیںانھی کے طریقوں سے مانوس رہی ہیں‘انھیں اس جماعت میں آکر اپنے آپ کو بہت کچھ بدلنا ہوگا۔ جلسے جلوس‘ جھنڈے اور نعرے‘ یونیفارم اور مظاہرے‘ ریزرویشن اور اڈریس‘ بے لگام تقریریں اور گرما گرم تحریریں اور اس نوعیت کی تمام چیزیں ان تحریکوں کی جان ہیں مگر اس تحریک کے لیے سمِ قاتل ہیں‘‘۔(ایضاً‘ ص ۳۴-۳۵)
تحریک سے قریبی واقفیت اور ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے‘ نیز تحریک کے مفاد اور حیثیت عرفی کی حفاظت کے گہرے شعور سے تحریک کے مزاج شناسی کا مقام حاصل ہوتا ہے۔ تحریکی جدوجہد کے دوران مصائب و آلام اورابتلا سے گزر کر تحریک سے وابستگی پختہ ہوتی ہے۔ کچے پکے لوگ ان مراحل میں حالات سے گھبرا کر راہِ فرار اختیار کرتے اور بالعموم رجعت قہقری کا منظر پیش کرتے ہیں۔
دستور جماعت کی شرائط رکنیت (دفعہ ۶‘ شق ۴) میں کہا گیا ہے کہ:’’دستور جماعت کو سمجھ لینے کے بعد عہد کرے کہ وہ اس دستور کی اور اس کے مطابق نظمِ جماعت کی پابندی کرے گا‘‘۔ دستور جماعت کی دفعہ ۲۸ شق ۱ تا ۵ فرائض و اختیارات امیرجماعت کا بیان ہے۔ یہ ان کے ’دستور جماعت کی پابندی‘ کے پہلو کو نہایت درجہ اجاگر کر دیتا ہے۔ اس طرح دیگر جماعتی اور مناصب عہدوں کے ضمن میں ان کے متعلقہ فرائض و اختیارات کو ’دستور جماعت کی پابندی‘ کے ذیل میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ اختصار سے حسب ذیل فرائض و اختیارات ملاحظہ فرمائیں:
۱- نظم جماعت اور تحریک کو چلانے کی آخری ذمہ داری امیر جماعت کی ہے۔
۲- دعوت و تربیت سے متعلق امور کی انجام دہی کے لیے مجلس شوریٰ کے مشورے سے نائب امرا کا تقرر کرسکتا ہے جو اپنے فرائض و ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے اس کے (امیرجماعت) سامنے جواب دہ ہوں گے۔
۳- جماعت کی پالیسی کی تشکیل اور ان تمام اہم معاملات کے فیصلے جن کا جماعت کی پالیسی یا اس کے نظم پر قابلِ لحاظ اثر پڑے‘ انھیں مجلس شوریٰ کے مشورے سے کرنا۔
۴- امیرجماعت کے لیے لازم ہوگا کہ:
الغرض یہ کہ دستور جماعت کی پابندی اُس اقرار واثق کی یاد دہانی قول و عمل سے کراتی ہے جو ہر فردِ جماعت داخلہ کے وقت حاضرین مجلس کے روبرو اپنے خدا سے کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اقرار دستورِ جماعت کے شعوری مطالعے اور راہِ حق کی مشکلات‘ مصائب و آلام کے گہرے ادراک کے بعد ہی صحیح کیفیات کے ساتھ کیاجاسکتا ہے اور اس سے انحراف بہ سلامتی ہوش و حواس ممکن نہیں۔
یہ مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لیے درکار اہم صفات میں سے ہے اور صبر کے ہم معنیٰ صفت ہے:’’صبر کے بغیر خدا کی راہ میں کیا‘ کسی راہ میں بھی مجاہدہ نہیں ہوسکتا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ خدا کی راہ میںاور قسم کا صبر مطلوب ہے اور دنیا کے لیے مجاہدہ کرتے ہوئے اور قسم کا صبر درکار ہے۔ مگر بہرحال صبر ہے ناگزیر۔ صبرکے بہت سے پہلو ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ جلدبازی سے شدید اجتناب کیا جائے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ کسی راہ میں جدوجہد کرتے ہوئے دشواریوں اور مزاحمتوں کے مقابلے میں استقامت دکھائی جائے اور قدم پیچھے نہ ہٹایا جائے۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ کوششوں کا کوئی نتیجہ اگر جلدی حاصل نہ ہو تب بھی ہمت نہ ہاری جائے اور پیہم سعی جاری رکھی جائے۔ ایک اور پہلو یہ ہے کہ مقصد کی راہ میں بڑے سے بڑے خطرات‘ نقصانات اور خوف و طمع کے مواقع بھی پیش آجائیں تو قدم کو لغزش نہ ہونے پائے‘ اور یہ بھی صبر ہی کا ایک شعبہ ہے کہ اشتعال جذبات کے سخت سے سخت مواقع پر بھی آدمی اپنے ذہن کا توازن نہ کھوئے۔ جذبات سے مغلوب ہوکر کوئی قدم نہ اٹھائے۔ ہمیشہ سکون‘ صحت‘ عقل اور ٹھنڈے دل اور ٹھنڈی قوتِ فیصلہ کے ساتھ کام کرے‘‘۔ (روداد جماعت اسلامی‘ سوم‘ ص ۳۰-۳۱)
’’ہمیں مسلسل اور پیہم سعی اور منضبط طریقہ (systematic) طور پر کام کرنے کی عادت ہو۔ ایک مدت دراز سے ہماری قوم اس طریق کار کی عادی رہی ہے کہ جو کام ہو‘ کم سے کم وقت میں ہوجائے‘ جو قدم اٹھایا جائے ہنگامہ آرائی اس میں ضرور ہو‘ چاہے مہینے دو مہینے میں سب کیا کرایا‘ غارت ہوکر رہ جائے۔ اس عادت کو ہمیں بدلنا ہوگا‘ اس کی جگہ بتدریج اور بے ہنگام کام کرنے کی مشق ہونی چاہیے۔ چھوٹے سے چھوٹا کام بھی جو بجاے خود ضروری ہو‘ اگر آپ کے سپرد کردیا جائے تو بغیر کسی نمایاں اور معجل نتیجے کے اور بغیر کسی داد کے آپ اپنی پوری عمرصبر کے ساتھ اسی کام میں کھپا دیں۔ مجاہدہ فی سبیل اللہ میں ہر وقت میدان گرم ہی نہیں رہا کرتا ہے اور نہ ہر شخص اگلی ہی صفوں میں لڑسکتا ہے۔ ایک وقت کی میدان آرائی کے لیے بسااوقات ۲۵‘ ۲۵ سال تک لگاتار خاموش تیاری کرنا پڑتی ہے‘ اور اگلی صفوں میں اگر ہزاروں آدمی لگتے ہیں تو ان کے پیچھے لاکھوں آدمی جنگی ضروریات کے لیے ان چھوٹے چھوٹے کاموں میں لگے رہتے ہیں جو ظاہری نظر میں بہت حقیر ہوتے ہیں‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۳۶-۳۷)
دین حق کے کامل شعور‘ تاریخ دعوت و عزیمت کے گہرے مطالعے اور توفیق الٰہی سے راہِ خدا میں جو پختگی حاصل ہوتی ہے وہ فرد کے شعوری فیصلے‘ خاندانی زندگی میں صبروتوکل اور سماجی امور میں عدل و احسان کی روش‘ فکرِآخرت اور تعلق باللہ کے استحضار سے راہِ خدا میں استقامت کا باعث بنتی ہے۔
بندگانِ خدا کو اپنی استعداد و استطاعت کے مطابق اس عقیدے اور نصب العین کی طرف بلانا جو تحریک کا عقیدہ و نصب العین ہے اور اپنے قول و عمل‘ رویہ و طرزعمل سے اس کی شہادت دینا ہرصاحب منصب کی ذمہ داری ہے اور اپنے مرتبہ و مقام کے مماثل اس کا حق ادا کرنا اس کا شعار ہے۔ اس کا مطالبہ ہر اس فرد سے ہے جو شعوری طور پر تحریکِ اسلامی سے وابستہ ہے۔
تنظیمی صلاحیت یا ذمہ داریوں کو انجام دینے کی صلاحیت وہ مقام ہے جس کی نشوونما قائدانہ بصیرت‘ تنظیم کا مالہ‘ وماعلیہ سے قریبی واقفیت‘ لگائو‘ انہماک اور ضروری تربیت کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ لااُبالی اور سطحی مزاج کے حامل افراد جو مؤثر ترسیلی مہارت میں بھی کورے ہوں وہ کبھی اس منصب پر پہنچ جائیں تو وہ خود دوسروں کے آلہ کار بن جاتے ہیں کجا کہ تنظیمی میدان میں قائدانہ صلاحیت کا اظہار کرسکیں۔ افراد کار میں جذبہ و ایثار کو نہ اُبھار سکنا اور ان کا صحیح رخ سے محاسبہ نہ کرسکنا بھی انتظامی مہارتوں (organizational skills) کی خامی ہے۔
یہ اوصاف دستور جماعت میں امیرجماعت کے منصب کے تحت درج ہیں مگر ذمہ داریوں کے لیے بھی کم و بیش یہ اوصاف یا ان کا ابتدائی درجہ (مثلاً دینی معلومات‘ فہم دین یا علمِ دین کو علمِ کتب و سنت کا ابتدائی درجہ کہا جا سکتا ہے) دیا گیا ہے۔ آگے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں وہ اضافی طور پر مطلوب ہیں مگر یہ بھی ناگزیر ہیں جیساکہ ان کی تفصیلات سے ظاہر ہو رہا ہے۔
کسی کام کو صحیح وقت پر انجام دینا یا دلوانا ہی نظم الوقتی (time management) نہیں ہے بلکہ حالات و زمانے کا صحیح ادراک کرتے ہوئے تحریکی سرگرمیوں کو قابو میں رکھنا اس کا تقاضا ہے۔ وقت اور حالات کو اپنے قابو میں رکھنا اور وقت کا صحیح و بھرپور استعمال کرنا‘ کم وقت میں زیادہ اہمیت کے کام انجام دینا اور دستیاب اوقات کی مناسب تخمینہ سازی (budgetting) کرنا اورکسی کام کو موزوں وقت گزار کر کرنا‘ نتائج کے اعتبار سے غلط ہوتا ہے۔ اس لیے وقت پر کام کے اصول کو مدنظر رکھنا قیادت کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔
یہ کسی بھی قیادت کا طرۂ امتیاز ہوتا ہے۔ اس سے متوسلین تحریک میں اعتماد اور مسابقت کی فضا پیدا کی جا سکتی ہے‘ بلکہ سماجی‘ ملکی اور عالمی معاملات میں پہل کرنے والی قیادت دوسری قیادتوں اور تحریکوں کو مقابلے کے میدان میں مات دے سکتی ہے۔
جماعتی ذمہ داروں اور اہلِ مناصب کے لیے مطلوبہ ’ذہنی و جسمانی و استعداد‘ کا معیار مطلوب مقرر کرنا دشوار ہے‘ تاہم عمر‘ تجربہ‘ علمی لیاقت‘ دانش ورانہ اوصاف اور ذہنی و جسمانی طور پر صحت مندی کے لحاظ سے بہترین افراد کے انتخاب کے لیے متعلقہ افراد کی ترجیحات میں یہ پہلو بہرحال پیش نظر رہنا چاہیے۔
ضعیفی میں کم و بیش تمام اعضا و قویٰ مضمحل ہوجاتے ہیں اور بسااوقات نسیان‘ ہذیان‘ کثرتِ گفتگو‘ ضد اور اپنی رائے پر بے جا اصرار کی کیفیات پیدا ہوجاتی ہیں جو جماعتی زندگی پر مضراثرات مرتب کرتی ہیں۔ شریعت میں معذورین اور مریضوں کے لیے بے شک رعایتیں اور احکام ہیں اور ثواب سے یقینا محرومی نہیں ہوگی مگر اقامتِ دین کے فریضہ کی بحسن و خوبی ادایگی میںحسنِ نیت کے ساتھ ظاہری اعمال کی خوبی بھی معیار مطلوب میں سے ہے۔ جماعت کی ہر سطح کی قیادت کے اوصاف میں اگر تجویز کے مطابق ذہنی و جسمانی صلاحیت و استعداد کے الفاظ کا اضافہ کردیا جائے تو ان کے تقرر و انتخاب کے وقت ان کا لحاظ رکھا جا سکے گا۔ استثنائی صورتوں میں بیماریوں کے باوجود جسمانی طور پر چاق و چوبند ہونے اور ذہنی طور پر چست (alert) ہونے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔
غرض یہ کہ نصب العین پر یقین‘ اصولوں پر اطمینان‘ مقاصد سے عملی وابستگی‘ جذبہ‘ باطنی اخلاص‘ ذہنی یکسوئی‘ سیرت کی بلندی اور عمل کی پاکیزگی جس تحریک کے ابتدائی درجہ کا معیارِمطلوب ہو‘ اس کی قیادت کے لیے ان امور سے بدرجہ بہتر کا انتخاب لازمی ہے بلکہ دستور جماعت میں تحریک کی قیادت کے لیے مطلوب اوصاف بیان کرنے کے بعد یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو فرد ان اوصاف میں پوری جماعت میں بہتر ہو‘ اس کے حق میں رائے دی جائے۔
حکم ربانی ہے کہ امانتوں کو ان کے مستحقین تک پہنچا دو۔ اس حکم کے دو پہلو ہیں‘ ایک یہ کہ وہ افراد جو امانتوں کی حفاظت کے لیے درکار اوصاف کے حامل ہوں‘ ان کے حوالے امانتیں کی جائیں۔ دوسرے یہ کہ کسی عہدہ و منصب کے طلب گار وہ افراد جو امانتیں حوالے کرنے کا استحقاق کھوچکے ہوں‘ ان کے حوالے کوئی امانت نہ کی جائے۔ چنانچہ مذکورہ حکم ربانی کے مثبت اور منفی دونوں پہلوئوں کی صراحت دستورِ جماعت کی ہر اس دفعہ میں موجود ہے جو جماعت کے کسی عہدہ یا منصب پر‘ تقرر یا انتخاب کے لیے رکھی گئی شرائط میں بیان کی گئی ہیں۔
قیادت کے اوصاف کے حوالے سے علامہ اقبال ؒکے ان اشعار پر اپنی بات ختم کرتا ہوں ؎
نگہہ بلند‘ سخن دلنواز ‘ جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرکارواں کے لیے
علامہ نے اگر سخن دلنوازی کا معیار یہ پیش کیا ہے تو دوسری طرف اس کی عدمِ موجودگی کے عواقب و نتائج سے بھی آگاہ کر دیا ہے ؎
کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سے
کہ میرکارواں میں نہیں خوے دلنوازی
عین اس وقت‘ جب کہ عالمی استعماری قوتیں مسلمانوں کے خلاف جارحانہ اقدامات میں مصروف ہیں‘ پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بحث کا آغاز تشویش ناک ہے۔ یہ مسئلہ پاکستان کی سلامتی سے متعلق ہے‘ یہی وجہ ہے کہ عوامی اور سیاسی سطح پر اس موضوع پر سنجیدہ مکالمے کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس بحث کا آغاز قصوری شیلوم ملاقات منظر عام پر آنے سے ہوا۔ اس ضمن میں دو سوالات اہم ہیں: ۱- اسرائیل کو تسلیم کیا جانا کیوں ضروری ہے ؟ ۲-اسرائیل کو رد کرنا کیوں ضروری ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ کچھ مغرب زدہ اسکالر اپنے اثرورسوخ کو استعمال کر تے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کروانے کی مہم چلا رہے ہیں۔ اس کے باعث پاکستان کی واضح اور دو ٹوک خارجہ پالیسی تحفظات اور شکوک و شبہات کا شکار ہو گئی ہے۔ جو لوگ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کررہے ہیں ان کی طرف سے مندرجہ ذیل دلائل بڑے شدومد کے ساتھ دیے جا رہے ہیں:
۱- اسرائیل ایک حقیقت ہے اس لیے اب اسے تسلیم کر لینا چاہیے۔
۲- اسرائیل کو تسلیم کرنا پاکستان کے لیے معاشی طور پر خوشحالی کا باعث ہو گا ۔
۳- امریکا سے پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئے گی ۔
آئیے! ان دلائل پر غور کرتے ہیں کہ آیا یہ حقائق پر مبنی ہیں یا محض سطحی پروپیگنڈا ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض ان بنیادوں پر کسی ملک کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ اب وہ جغرافیائی طور پر موجود ہے۔ کیا اس کا کوئی تعلق قانون ‘ضابطۂ اخلاق اور بین الاقوامی تعلقات سے نہیں؟ کیا آپ ایک لٹیرے اور اپنے گھر پر قابض ڈاکو کو چند برسوں بعد صرف اس لیے گھر کا مالک مان لیں گے کہ اب اس قبضے کو کئی سال بیت گئے ہیں؟ پھر کیا یہ ضروری ہے کہ دنیا کا ہر ملک دوسرے تمام ممالک کو تسلیم کرے یا سفارت کاری اور تجارت کا رشتہ استوار کرے۔ آج بھی امریکا سمیت بہت سے ممالک نے بہت سے ممالک کو تاحال تسلیم نہیں کیا۔ اس کے باوجود دنیا کی طرف سے ان پر کوئی دبائو نہیں ہے۔ دوسری طرف حقائق ثابت کرتے ہیں کہ اسرائیل‘ جغرافیائی‘ تاریخی‘ آبادی اور اخلاقی اعتبار سے حقیقت نہیں بلکہ ہر اعتبار سے ایک جھوٹ ہے۔
۱۹۱۹ء میں ورسائی امن کانفرنس کے موقع پر اپنی مجوزہ یہودی ریاست کا جو نقشہ پیش کیا گیا تھا: اس کی رو سے اسرائیل کو جن علاقوں پر قبضہ کرنا ہے ان میں دریاے نیل تک کا مصر‘ پورا اردن‘شام کا مکمل علاقہ‘ پورا لبنان‘ عراق کا بڑا حصہ‘ ترکی کا جنوبی حصہ اور مدینہ منورہ تک حجاز کا پورا بالائی علاقہ شامل ہے۔ (D.H.Miller: My Dairy at the Conference of Paris with Documents, Vol v p 17)
ہمارے لیے ضروری نہیں کہ ہم اپنی ریاست کی حدود بیان کریں۔ (بن گورین کی ڈائری ‘ ۱۴ مئی ۱۹۴۷ئ)
یہ بیانات کسی اسرائیلی جذباتی شہری کے نہیں بلکہ اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم کے ہیں جو اپنی پالیسی پر اظہار خیال کر رہے ہیں اور یہ ثابت کر رہے ہیں کہ اسرائیل کا اپنا وجود بہت سے ممالک کی آزادی کے لیے خطرہ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات عالمی امن اور مہذب دنیا‘ دونوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔
اسرائیل کے تاریخی اعتبار سے غیر حقیقی ہونے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ دنیا بھر کے انسائیکلوپیڈیا بالاتفاق اس حقیقت کو آشکارا کرتے ہیں فلسطین پر مسلمانوں نے ۱۲۰۰ سال ‘ جب کہ یہودیوں نے ۶۳۷سال حکومت کی‘اور اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ فلسطین کے قدیم ترین رہایشی وہ کینانائٹس تھے جو آج سے ساڑھے پانچ ہزارسال پہلے اُس علاقہ جسے آج سعودی عرب کہتے ہیں‘ ہجرت کرکے فلسطین میں آباد ہوئے۔ ان پر قابض ہو کر یہودیوں نے یہاں حکومت قائم کی ‘ جب کہ کینانائٹس کی اکثریت نے حضرت ابراہیم ؑ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء ؑ کی دعوت ِحق پر لبیک کہا۔ حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں مسلمانوں کے حسن سلوک سے متاثر ہوکر فلسطین کی غیریہودی آبادی مسلمان ہوگئی۔ گویا تاریخ کی ہر منطق سے اسرائیل ایک حقیقت نہیں بلکہ جھوٹ ہے۔
اس سوال کے جواب کے لیے مصر اور ترکی کے حالات کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ دونوں ممالک سالہا سال سے اسرائیل سے تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں مگر ان کی اقتصادی حالت بہتر ہونے کے بجاے مزید ابتری کا شکار ہے۔ ترکی طویل عرصے سے یورپی یونین میں شمولیت کے لیے یورپ کی دہلیز پر پیشانی رگڑ رہا ہے لیکن یہاں پر اس کے اسرائیل سے تعلقات کام نہیں آئے۔ مصر کے عوام معاشی زبوں حالی کا شکار ہو چکے ہیں۔ حسنی مبارک اور اس کی انتظامیہ تو اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں لیکن مصری عوام اسرائیل کو تسلیم کرنے کی قیمت تا حال ادا کر رہے ہیں۔ کیا ان واضح مثالوں کے بعدبھی پاکستان اپنے معاشی مسائل کے حل کے لیے اسرائیل سے دوستی کرے گا؟
اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فوائد گنوانے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طرح امریکا سے تعلقات میں بہتری ہو گی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکا سے ہمارے تعلقات نئے ہیں؟ امریکا سے پاکستانی حکمرانوں کی دوستی ۵۸ برس پرانی ہے جس میں پاکستان کا جوش و خروش زیادہ نمایاں ہے۔ امریکی مفادات کا تحفظ ہم نے ہمیشہ اپنی بساط سے بڑھ کر کیا ہے۔ امریکا کے کہنے پر ہی ہم نے روس سے دشمنی مول لی ‘ اسی کے کہنے پر افغانستان میں اپنے بھائیوں کو اپنا دشمن بنا لیا۔ ہماری ۵۸ سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے امریکا سے دوستی کی بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے ‘ جب کہ امریکا کے مطالبات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں اور دوستی کے نام پر امریکا اپنی ناپسندیدہ شرائط کا دائرہ وسیع کرتا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک پاکستان امریکی مطالبات پر سرتسلیم خم کرتا رہے گا؟ امریکا کاموجودہ مطالبہ بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ امریکا کے نزدیک اپنے مفادات کے علاوہ کوئی چیز قابل قدر نہیں ہے۔ ہمیں اس مرحلے پر کچھ توقف کر کے اپنے اور امریکا کے تعلقات کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے۔ کیا امریکا نے اپنے سابقہ وعدوں کا پاس کیا ہے؟ کیا اب تک ایف ۱۶ طیاروں کی فراہمی کو تعطل میں رکھنا امریکی بے وفائی کا ایک واضح ثبوت نہیں ہے؟ ہمیں ایک آزاد ‘خودمختار اور نظریاتی مملکت ہونے کے ناطے امریکا سے اس موضوع پر کھل کر اپنے موقف کا اظہار کرنا چاہیے۔ اس کے بہت سے طریقے ہیں جن کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ امریکا میں خود کئی لابیاں اس ضمن میں موثر ثابت ہو سکتی ہیں لیکن یہ اس وقت کارگر ہوں گی جب ہم اس حوالے سے منصوبہ بندی کریں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے اسرائیل کو تسلیم کر لینے میں امریکا کا کیا مفاد پوشیدہ ہے؟ ہر فرد جانتا ہے کہ امریکا خود یہودی لابی کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔ اس لیے اسے وہ سب کام کرنا پڑتے ہیں جو یہودی لابی اس سے کروانا چاہتی ہے۔ لہٰذا اسرائیل پاکستان پر امریکی اثرورسوخ کو بھی استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل پاکستان سے تعلقات کے ذریعے درج ذیل مقاصد کا حصول چاہتا ہے:
۱- پاکستان اہم اسلامی ملک ہے ۔اس لیے او آئی سی پر اثرات رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کو ہمنوا بنایا جائے ۔
۲- پاکستان کے ذریعے سعودی عرب اور ایران سے تعلقات کو بہتربنایا جا سکتا ہے ۔
۳- پاکستان سے تعلقات کاسب سے زیادہ فائدہ یہ ہو گا کہ عالم اسلام کی اسرائیل سے نفرت کم ہو نے کا امکان ہے۔
ان تینوں مقاصد کا حصول پاکستان کے ذریعے ہی سے ممکن ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان عالم اسلام کا اہم اور قائدانہ کردار کا حامل ملک ہے اور پھر اس کی ایٹمی قوت بھی اس کی اہمیت کو دو چند کرنے کے لیے کافی ہے۔ دراصل اسرائیل ہمسایہ اسلامی ممالک پر جارحانہ کارروائیوں میں پاکستان کو مہرے کے طور پر استعمال کرنا چاہتاہے تا کہ باقی اسلامی ممالک کی بھی خاموش حمایت حاصل کر سکے ع
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
اسرائیل کو کیوں تسلیم نھیں کرنا چاھیے؟
۱- اسرائیل کے جارحانہ ‘غاصبانہ اور ظالمانہ قبضہ کو پوری اسلامی دنیا نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ پاکستان بحیثیت اسلامی ملک اسلامی برادری کو نظر انداز کر کے کس طرح اسرائیل سے تعلقات نبھا سکے گا۔
۲- اسرائیل کو اگر تسلیم کر لیا جائے تو پھر ہندستان سے کشمیر کے مسئلے پر اصولی موقف کو کیسے نبھایا جائے گا۔
۳- اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد پاکستان کے اسلامی اور نظریاتی تشخص کی کیا حیثیت باقی رہ جائے گی۔
۴- اسرائیل کے جارحانہ عزائم جو پاکستان کی سلامتی کے لیے روز اوّل ہی سے خطرہ ہیں‘ ان سے کس طرح بچائو ممکن ہو سکے گا۔
۵- پاکستان بھارت کے جارحانہ عزائم کا سامنا اور ملکی سلامتی و تحفظ کو کس طرح یقینی بناسکے گا۔
۶- پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بھارت اور اسرائیل سے درپیش خطرات کا مقابلہ کس طرح ممکن ہو سکے گا۔
۷- پاکستان کے اندرونی استحکام کو عصبیتوں اور قومیتوں کا شکار ہونے سے کس طرح بچایا جا سکے گا۔
یہ محض چند نکات نہیں بلکہ پاکستان کے استحکام اور سلامتی کے وہ عنوانات ہیں جن کو معاشی خوش حالی کے فریب میں بالکل نظرانداز کر دینا نہ صرف نقصان دہ بلکہ تباہی کا باعث ہو گا۔کوئی بھی باشعور او رزندہ قوم یہ خطرہ مول نہیں لے سکتی کہ اپنی آزادی کی قیمت پر چند مالی فوائد حاصل کرلے۔ پاکستانی قوم کو اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے از سر نو اپنے کردار کا جائزہ لینا ہو گا۔
وسط ایشیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خصوصی اہمیت کے حامل رہے ہیں اور اس کی وجہ سیاسی اور معاشی سے زیادہ نظریاتی اور اسلامی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اسلامی دنیا کو متحد کرنے اور انھیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے او آئی سی کے قیام پر زور دیتا رہا ہے اور اس کے قیام کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ او آئی سی میں پاکستان کا فعال کردار اسلامی دنیا سے اس کے تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کا باعث بنا۔ تمام مسلم ممالک پاکستان کے ساتھ والہانہ عقیدت اور محبت کے جذبات رکھتے ہیں اور مشکل وقت میں پاکستان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے ہیںجس کا پاکستان نے ہمیشہ گرم جوشی سے جواب دیا۔ اگر پاکستان اسلامی دنیا کے اسرائیل کے خلاف نفرت کے جذبات کو نظر انداز کر کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرتا ہے تو ظاہر ہے یہ محبت اور عقیدت کم ہو گی اور پاکستان اسلامی دنیا میں تنہا رہ جائے گا ۔
ہماری عالمی صہیونی تحریک کو فوری طور پران خطرات کا نوٹس لینا چاہیے جو ہمیں مملکت پاکستان کی طرف سے ہیں۔ اب عالمی صہیونی تحریک کا ہدفِ اول پاکستان ہونا چاہیے کیونکہ یہ نظریاتی ریاست اسرائیل کی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور اس ملک کا ہر باشندہ عربوں سے لگائو رکھتا ہے ‘ جب کہ یہودیوں سے نفرت کرتا ہے۔ عربوں کا شیدائی یہ ملک ہمارے لیے عربوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ چنانچہ صہیونیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف فوری اقدامات کریں۔
ایک دفعہ پھر یاد کر لیں کہ یہ بیان اسرائیل کے کسی جذباتی شہری کا نہیں … اسرائیل کے بانی وزیر اعظم کا ہے۔ اس کے بعد بن گورین بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کو سراہتے ہوئے کہتا ہے:
چونکہ ہندستان میں بسنے والوں کی اکثریت ہندوئوں کی ہے‘ جن کے دلوں میں صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف دشمنی اور نفرت بھری ہے اس لیے ہندستان ہمارے لیے اہم ترین اڈا ہے‘ جہاں سے ہم پاکستان کے خلاف ہر قسم کی کارروائیاں کر سکتے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اس نہایت کارآمد اڈے سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اور انتہائی چالاک اورخفیہ کارروائیوں سے پاکستانیوں پر زبردست وار کر کے انھیں کچل کر رکھ دیں۔
ایک محب وطن پاکستانی کے لیے یہ الفاظ کسی اعلان جنگ سے کم نہیں ہیں۔ اسرائیل کے ان بیانات کے بعد کیا اب بھی گنجایش موجود ہے کہ اس سے تعلقات استوار کیے جائیں۔
پاکستان اسرئیل کو تسلیم کر لے تب بھی اسرائیل پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔
اگر بھارت کی پاکستان سے جنگ ہوتی ہے تو بھارت جو بھی فیصلہ کرے گا اسرائیل اس فیصلے میں بھارت کا ساتھ دے گا۔ (دی نیشن‘ ۹ جنوری ۲۰۰۳ئ)
اے پیغمبرؐ تم دیکھو گے کہ مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے یہودی اور مشرک ہیں۔ (المائدہ۵: ۸۲)
اس حوالے سے یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اسرائیل نے بھار ت سے مل کر کئی مرتبہ پاکستان کے کہوٹہ پلانٹ کو تباہ کرنے کا پروگرام بنایا۔ ۱۹۸۳ء میں ایریل شیرون (موجودہ وزیر اعظم اسرائیل اور سابقہ وزیر دفاع) نے تجویز پیش کی کہ بھارت اور اسرائیل مل کر پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کو تباہ کر دیں۔ مگر وہ یہ کام اس لیے نہ کر سکے کہ بھارت یہ کام اسرائیل سے تنہا کروانا چاہتا تھا۔
وکٹر اوسٹروسکی (Victor Ostrovsky) نے جو موساد کا آفیشل رہا ہے بتایا کہ جولائی ۱۹۹۴ء میں بھارت کے ایٹمی سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے اسرائیل کا خفیہ دورہ کیا تاکہ پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کو تباہ کرنے کی منصوبہ بندی کر سکیں کیوں کہ اسرائیل ۱۹۸۱ء میں عراقی ایٹمی ریکٹر پر کامیاب حملہ کر چکا تھا۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام جس طرح آج سازشوں کا شکار ہے اگر اس وقت اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر ہماری ایٹمی قوت کا کیا ہوگا۔
پاکستان کی وحدت کا انحصار اسلامی نظریے پر ہے۔ تحریک آزادی پاکستان کا بنیادی نعرہ بھی یہی تھا: پاکستان کا مطلب کیا … لا الہ الاللہ … اگر اس نظریے کو پس پشت ڈال دیا جائے تو پاکستان میں مختلف زبان ‘رنگ اور نسل کے گروہوں کو کس طرح اکٹھے رکھا جا سکے گا۔ نتیجتاً اس خطے میں موجود مختلف قومیتیں اور گروہ سر اٹھائیں گے جس سے عصبیتی اور گروہی آزادی کی نام نہاد تحریکیں زور پکڑ جائیں گی۔ پھر ’’سندھ سندھیوں کا… پنجاب پنجابیوں کا … بلوچستان بلوچوں کا… اور سرحد پختونوں کا ‘‘جیسے بے بنیاد نعروں کو جواز مل جائے گا کیوں کہ وہ آج تک صرف اسلام کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ ہیں۔ اگر اسرائیل کو تسلیم کیا گیا تو پاکستان خارجی خطرات کے ساتھ داخلی انتشار کا شکار بھی ہوجائے گا۔ یہ ملکی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے‘ اس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
سب سے اہم بات یہ کہ کیا ہم ایسی قوم سے تعلقات قائم کرنے کے بعد اللہ کی ناراضی سے بچ سکیں گے جس پر اللہ نے نہ صرف یہ کہ لعنت کی ہے بلکہ دوستی کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے کچھ ہی عرصے کے بعد یہودیوں کی عہدشکنیوں کے بعد ان سے تمام معاہدے ختم کر کے انھیں جزیرہ عرب سے نکال دیا تھا۔
اور تم سے یہودی اور عیسائی کبھی خوش نہیں ہوں گے یہاں تک کہ تم ان کے مذہب کی پیروی اختیار کر لو۔ ان سے کہہ دو کہ اللہ کی ہدایت (یعنی دین اسلام) ہی ہدایت ہے اور اگر تم اپنے پاس علم وحی آ جانے کے بعد بھی یہودونصاریٰ کی خواہشوں پر چلو گے تو تم کو اللہ سے بچانے والا کوئی دوست ہوگا نہ مددگار۔ ( البقرہ۲: ۱۲۰)
اے ایمان والو یہودونصاریٰ کو دوست نہ بنائو یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انھی میں سے ہوگا۔ بے شک اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ (المائدہ ۵:۳۱)
حقائق کی روشنی میں اور غیرجذباتی ہو کر کسی بھی رخ سے اس مسئلے پر غور کیا جائے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا پاکستان اور عالم اسلام کے لیے ناقابل قبول ہے‘ بلکہ اس سے پاکستان خطرات کی ایک ایسی دلدل میں پھنس جائے گا جس سے نکلنا ممکن نہ ہو گا۔
۳ رمضان المبارک کی صبح زلزلے سے آزاد جموں و کشمیر میں مظفرآباد‘ باغ‘ کوٹلی اور راولا کوٹ کے ساتھ نیلم وادی اور لائن آف کنٹرول کا علاقہ بری طرح متاثر ہوا اور اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ وادی نیلم اور وادی جہلم کے بے شمار دیہات اور پہاڑوں پر بستے گھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ اسی طرح صوبہ سرحد میں مانسہرہ‘ ایبٹ آباد‘ بالاکوٹ‘ بٹگرام‘ شانگلا کے طول و عرض پر موت کے سائے حکمران ہوئے۔ آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد ۲۸ ہزار مربع کلومیٹر علاقے میں ۳۵لاکھ سے زیادہ لوگ بری طرح متاثر ہوئے جن میں سے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ جاں بحق اور ۳لاکھ سے زیادہ زخمی ہوئے۔ جہاں پر ۴ لاکھ ۷۱ ہزار ۶ سو ۹۰ مکانات تباہ ہوئے۔ ان میں سے ۲لاکھ ۳۰ ہزار اور ۷۷ گھر صوبہ سرحد میں‘ جب کہ ۲لاکھ‘ ۴۱ ہزار ۶ سو ۱۳ گھر آزاد کشمیر میں تباہی سے دوچار ہوئے۔ ان علاقوں میں ایک ہزار بارہ کلومیٹر (چھوٹی بڑی) سڑکیں تباہ ہوئیں‘ جن میں سے کشمیر کی ۵۹۸ کلومیٹر اور سرحد کی ۴۱۴ کلومیٹر طویل سڑکیں شامل ہیں۔ اب تک حاصل شدہ اعداد و شمار کے مطابق ۶ ہزار ۴ سو ۹۲ اسکول‘ دینی مدرسے اور کالج تباہی کا نشانہ بنے‘ جن میں آزادکشمیر کے ۴ ہزار ایک سو ۷ اور صوبہ سرحد کے ۲ ہزار ۳سو ۹۰ تعلیمی ادارے تباہ ہوئے۔
زلزلے کی تباہ کاریوں کا حال جوں ہی ذرائع ابلاغ سے نشر ہوا‘ یوں محسوس ہوا کہ خیبر سے کراچی تک پوری پاکستانی قوم میں بجلی کی طرح یہ جذبہ سرایت کرگیا کہ ہر فردِ قوم کو ‘بچے اور جوان کو‘ مرد اور عورت کو آگے بڑھ کر اپنا فرض ادا کرنا ہے۔ یہ تاثر عام تھا کہ سنہ ۶۵ء کی یاد تازہ ہوگئی۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں‘ دنیا بھر میں جہاں جہاں پاکستانی آباد ہیں‘ سبھی جاگ اٹھے۔ صرف پاکستانی ہی نہیں اسلام کے رشتے سے بندھی اُمت مسلمہ بھی جاگ اُٹھی۔ استنبول اور جدہ میں اسی طرح مہم چلی جس طرح کراچی اور لاہور میں۔ معاشرے میں جتنا خیر تھا سامنے آگیا۔ ہر ادارے اور ہرتنظیم نے اپنی بساط سے بڑھ کر کارگزاری دکھائی۔ انفرادی حیثیت میں بھی بڑے بڑے منصوبے روبۂ عمل آگئے۔ ذرائع ابلاغ نے اس لہرکو آگے بڑھایا گویا اپنا فرض ادا کیا۔ کوئی فہرست بنائی جائے‘ شمار کیا جائے تو بظاہر ممکن نہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان اور الخدمت فائونڈیشن نے جو کچھ کیا اس کا ایک تذکرہ پیش کیا جا رہا ہے۔
قاضی حسین احمد‘ امیرجماعت اسلامی پاکستان کی ہدایت پر مرکز جماعت اسلامی اور الخدمت فائونڈیشن نے تمام اضلاع کو متاثرین کے لیے امدادی کیمپ قائم کرنے کی ہدایت کی۔ پہلے ہی روز شام تک ایبٹ آباد کے راستے بالاکوٹ تک اشیاے صرف کی فراہمی اور طبی امداد کی ترسیل کا آغاز ہوا۔ ابتدائی مشاورت کے بعد راولپنڈی میں آزاد کشمیر اور مانسہرہ میں صوبہ سرحد کے متاثرہ علاقوں کا بیس کیمپ قائم کرکے علی الترتیب ڈاکٹر حفیظ الرحمن اور مشتاق احمد خاں کو متعلقہ کیمپوں کا نگران مقرر کیا گیا۔ نعمت اللہ خاں ایڈووکیٹ کی سربراہی میں مجموعی طور پر رابطہ کاری کا نظام قائم کیا‘ جب کہ الخدمت فائونڈیشن کے جنرل سیکرٹری سیداحسان اللہ وقاص جملہ اشیا کی ترسیل‘ اور منصوبہ سازی کے لیے سرگرم کار ہوئے‘ پاکستان کے بیسیوں صنعتی و تجارتی اداروں کے ساتھ ۵۰ممالک کی مختلف دینی و رفاہی تنظیموں اور مؤثر شخصیتوں سے رابطہ کیا۔
پہاڑی علاقے میں سڑکیں بند ہوچکی تھیں جس کے باعث ترسیل و رابطے کا نظام قائم کرنے میں سخت دشواری پیش آرہی تھی‘ تاہم ۲۴ گھنٹے کے بعد راستے بننے اور امدادی و طبی کارکنوں کی آمدورفت شروع ہوگئی۔ دوسرے روز جماعت کے مرکزی نظم اور حلقہ خواتین کی مرکزی قیادت نے اپنے اپنے ہنگامی اجلاس طلب کر کے منصوبہ سازی کی۔ مثال کے طور پر ۲۴ گھنٹے کے اندر اندر پاکستان بھر میں امدادی کیمپوں نے کام شروع کردیا اور صرف کراچی شہر میں اس نوعیت کے ایک سو سے زائد کیمپ کھڑے ہوگئے‘ جب کہ لاہور میں ۸۰ مقامات پر اشیا کو جمع کرنے کا انتظام کیا گیا۔
مقامی کارکنوں نے زلزلے سے متاثر ہونے اور اپنے عزیزوں کے کفن دفن میں مصروفیت اور رنج و الم کا پہاڑ اٹھانے کے باوجود جس حوصلہ مندی کے ساتھ متاثرین کی امداد کے لیے ہاتھ بٹایا‘ وہ تاریخی کردار کا حامل پہلو ہے۔ زخمیوں کو ملبے سے نکالنے‘ باہر پڑے زخمیوں کا علاج کرنے اور بھوک و خوف سے نڈھال انسانوں کی مدد سب سے فوری اہمیت کے نہایت مشکل اہداف تھے۔ محدود وسائل اور بے لوث کارکنوں کی پرعزم ٹیم کے ساتھ اس جانب پیش رفت ہوئی۔ ۲۴ گھنٹے کے اندر اندر مختلف جگہوں پر ۲۵ ہزار انسانوں کے لیے کھانے اور افطار کی ترسیل کا نظام بحسن و خوبی قائم کر دیا گیا۔ کارکنوں نے ملبہ ہٹانے‘ لاشیں نکالنے اور ان کی تدفین کے سخت تکلیف دہ فریضے کو بڑی جاں فشانی سے انجام دیا۔ نیز ہر علاقے میں عارضی خیمہ بستیوں کی تنصیب اور امدادی سامان کی فراہمی کے لیے مقدور بھر کوششیں کیں۔ تباہی جس پیمانے پر وسعت پذیر ہے‘ اس میں لوگوں کی مدد کر کے انھیں بحال کرنا بڑا صبرآزما کام ہے۔ تاہم جماعت کے ۱۲ ہزار کارکنوں نے مختلف اوقات میں یہ ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کی‘ جن میں کشمیر کے مقامی ایک ہزار اور پنجاب و کراچی سے ۵ہزار کارکنوں نے‘ جب کہ صوبہ سرحد میں ۲ہزار مقامی اور پورے صوبہ سرحد سے ۳ہزار کارکنوں نے دادرسی کی کاوشوں میں حصہ ادا کیا۔
جماعت اسلامی نے ۱۰ اکتوبر کو کراچی سے ایروایشیا کی چارٹر فلائٹ کے ذریعے امدادی سامان راولپنڈی بھیجا گیا۔ لاہور جماعت نے پہلے ہی چند روز میں ڈھائی کروڑ اور کراچی میں جماعت اسلامی نے ۳۵کروڑ روپے سے زیادہ رقم جمع کی یا اس مالیت کی اشیاے صرف متاثرہ علاقوں کو بھیجنا شروع کیں۔ کراچی سے لے کر خیبر تک ہر شہر اور قصبے سے جماعت اسلامی‘ الخدمت فائونڈیشن‘ حلقہ خواتین جماعت اسلامی‘ اسلامی جمعیت طلبہ‘ جمعیت طلبہ عربیہ‘ اسلامی جمعیت طالبات اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن نے ٹرکوں‘ ویگنوں اور جیپوں کے ذریعے نہایت تسلسل کے ساتھ سامان اور رضاکار کارکنوں کو جاے تباہی پر بھیجنے کا نظام قائم کیا اور دُور دراز پہاڑی مقامات کے لیے خچر اور گدھوں کے ذریعے باربرداری کا کام لیا گیا۔ اب دو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے رسل و رسائل کا کام لیا جا رہا ہے۔
کراچی‘ لاہور‘ مرکز جماعت اور راولپنڈی میں امدادی اشیا کو چھانٹ کر مناسب پیکٹ تیار کرنے کا انتظام کیا۔ اشیاے ضرورت کی ترسیل کے مراکز میں راولپنڈی‘ مظفرآباد‘ ایبٹ آباد‘ باغ‘ مانسہرہ‘ بٹگرام‘ بالاکوٹ‘ راولا کوٹ‘ دھیرکوٹ‘ سیراں وغیرہ شامل ہیں۔
امدادی کاموں کے لیے ۵۵ ریلیف کیمپ قائم کیے گئے۔ ۱۵ نومبر تک ایک ہزار ۸سو ۵۳ ٹرکوں میں سامان بھیجا گیا‘ جن میں ۱۸ ہزار خیمے‘ ۱۶ ہزار ترپال‘ ۲۰۰پلاسٹک رول‘ ایک لاکھ کمبل/لحاف‘ ۶ہزار جیکٹس‘ ۱۶ ہزار کفن شامل تھے۔
جن اشیاے خوردونوش کی فراہمی کی جارہی ہے ان میں: آٹا‘ چاول‘ گھی‘ کوکنگ آئل‘ چینی‘ دالیں‘گڑ‘خشک دودھ‘ پیکٹ دودھ‘ بسکٹ‘ جوس‘ منرل واٹر‘ کھجور‘ جام شامل ہیں۔ اشیاے صرف میں: گرم کپڑے‘ جوتے‘ صابن‘ ٹارچ‘ چولہے‘ گیس سلنڈر‘ موم بتیاں‘ ماچس‘ لالٹیں‘ چارپائیاں‘ برتن‘ وہیل چیئر‘ بیساکھیاں‘ واکر‘ اسٹریچر‘ پھاوڑے‘ کسیاں‘ گینتیاں‘ بیلچے‘ چھتریاں‘ جنریٹر 25KV شامل ہیں۔ خصوصی مہمات کے طور پر عیدگفٹ اسکیم پیکٹ ۱۳ ہزار اور راشن پیکج اسکیم کے تحت ۳۵ہزار پیکٹ تقسیم کیے۔
۱۶ ممالک (سعودی عرب‘ کویت‘ مصر‘ متحدہ عرب امارات‘ امریکا‘ برطانیہ‘ ہالینڈ‘ ناروے‘ سنگاپور‘ ملایشیا‘ انڈونیشیا‘ جنوبی افریقہ‘ بحرین‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ کینیا) سے ۱۸۰ ڈاکٹروں نے الخدمت میڈیکل ایڈ پروگرام میں ہاتھ بٹایا۔۱۰ کروڑ روپے کی ادویات فراہم کیں‘ جب کہ ۲کروڑ روپے کے طبی آلات خریدے گئے۔ معذور افراد کے لیے مصنوعی اعضا کی فراہمی کا نظام وضع کیا گیا۔ تین فیلڈ ہسپتالوں (مظفرآباد‘ باغ‘ بالاکوٹ) اور گیلانی ہسپتال ایبٹ آباد میں ۵ہزار ۷ سو ۵۳ بڑے آپریشن اور ۳۵ہزار ۸سو ۷۰ چھوٹے آپریشن کیے گئے۔ مجموعی طور پر ایک لاکھ ۱۵ ہزار ۴ سو ۳۹ مریضوںکا علاج کیا گیا۔ ۴۷۱ موبائل ٹیمیں جو دُورافتادہ علاقوں بہ شمول کاغان‘ شنکیاری‘ شیام‘ الائی‘ وادی نیلم میں پہنچیں اور ۴۹ ہزار ۹ سو ۷۰ مریضوں کا علاج کیا۔ اس وقت الخدمت فائونڈیشن یا پیما کے ہسپتالوں میں ۳۱۲ ڈاکٹر‘ ۱۷۸ ڈسپنسر‘ ۷۴۰ طبی کارکن کام کر رہے ہیں۔
راولپنڈی‘ اسلام آباد‘ ایبٹ آباد‘ پشاور‘ لاہور کے سرکاری ہسپتالوں میں الخدمت کیمپ قائم ہیں۔ راولپنڈی‘ ایبٹ آباد‘ اسلام آباد کے پرائیویٹ ہسپتالوں میں طبی امداد دی جارہی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے فوجی ہسپتال بالاکوٹ سے تعاون کرنے کے ساتھ الہجری ہسپتال مظفرآباد اور کشمیر سرجیکل ہسپتال مظفرآباد کی تعمیرنو کا آغاز کیا گیا ہے۔ ادویات کو محفوظ رکھنے کے لیے ’گودام ہائوس‘ کا بندوبست کیاگیا ہے۔
تباہ شدہ علاقے میں خواتین کی حالت سب سے زیادہ خراب تھی۔ بچوں اور مردوں کی اموات‘ گھربار کی بربادی اور زخمیوں کی بے چارگی نے منظر کو اور بھی زیادہ دردناک بنا دیا تھا۔ عدمِ تحفظ کا احساس اور خوفناک مستقبل اس پر حاوی تھے۔ ملک کے مختلف حصوں سے پردہ دار خواتین کے لیے گھر سے نکل کر ان عورتوں کی مدد کے لیے جانا بظاہر ناممکن دکھائی دیتا تھا۔ لیکن الحمدللہ اس باب میں جماعت اسلامی کے حلقہ خواتین نے جو پیش قدمی کی اپنی اہمیت کے پیش نظر اس کے کچھ پہلو الگ سے پیش کیے جا رہے ہیں۔
پہلامرحلہ سمت کا تعین اور افراد کار کو لائحہ عمل دینے کا تھا۔ جس کے لیے حلقہ خواتین کی سیکرٹری ڈاکٹر کوثر فردوس (ممبر سینیٹ) کی قیادت میں سرحد و کشمیر کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ کارکنوں کی خیریت دریافت کی‘ ریلیف کے کاموں میں رہنمائی دی‘ متاثرین کی ضروریات اور مشکلات کا اندازہ لگایا اور تباہ حال علاقوں کی خواتین کا حوصلہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان علاقوں میں خواتین کے کسی بھی ادارے کی جانب سے یہ پہلی رابطہ کاری تھی۔
امدادی اشیا اور فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے گھروں‘ مخیر لوگوں اور فیکٹری مالکوں سے رابطے کیے۔ ایک ہفتے کے اندر دو کروڑ روپے جمع کر کے مرکز جماعت کو دیے گئے۔ جمع ہونے والے سامان کو نئے سرے سے چھانٹی کر کے ضروریات کے مطابق پیک کیا‘ لیبل لگائے اور ریکارڈ مرتب کیا۔ جو کپڑے صاف نہیں تھے یا سامان کی نقل و حمل کے دوران خراب ہوگئے تھے انھیں دھلوایا اور استری کر کے تیار کیا گیا۔
ملایشیا‘ سعودی عرب‘ برطانیہ اور امریکا سے آنے والی خواتین ڈاکٹروں نے علاج معالجے کے لیے ہاتھ بٹایا۔ مستقبل کی منصوبہ سازی میں حصہ لیا۔ خواتین ڈاکٹروں اور طبی عملے (ملکی اور غیرملکی) کی رہایش اور نقل و حرکت کے جملہ امور نبٹائے۔ طبی ضروریات کی فراہمی‘ مریضوں کی تیمارداری اور دیکھ بھال کی سرگرمیوں میں جماعت اسلامی خواتین‘ جامعۃ المحصنات اور اسلامی جمعیت طالبات نے بڑی توجہ اور اخلاص سے تعاون کیا۔
اگرچہ سوشلزم کمیونزم کا زمینی آئیڈیل منہدم ہوچکا ہے‘ لیکن جس مسئلے کے حل کرنے کا ادّعا لے کر وہ آیا تھا‘ وہ مسئلہ [جوں کا توں] باقی ہے: سماجی قوت کا بے حیائی سے اور دولت کا بے محابا استعمال‘ جو بیش تر صورتوں میں حوادث کا رُخ متعین کرتے ہیں اور اگر بیسویں صدی کا عالمی سبق ایک صحت بخش ٹیکے کے طور پر ناکام رہا‘ تو ایک وسیع سرخ بگولہ ایک دفعہ پھر [اپنی قہرسامانیوں کے ساتھ] مکمل صورت میں نمودار ہوجائے گا۔ (الیگزندر سولزنٹبین‘ نیویارک ٹائمز‘ ۲۸ نومبر ۱۹۹۳ئ)
جدید سرمایہ دارانہ نظام کی عمر اب ۴۰۰ سال ہونے کو آئی ہے۔ اس کا آغاز سترھویں صدی سے ہوتا ہے‘ جب صنعتی شعبے میں ولندیزی (ڈچ) ایجادات و اختراعات اور زرعی شعبے میں ان کی پیش رفت نے انھیں مالیات میں امامت کا مرتبہ عطا کر دیا تھا۔ اس جدید سرمایہ داری میں ان کے بعد امامت کا شرف برطانیہ کو حاصل ہوا۔ اگرچہ ایجادات اور صنعتی شعبے میں وہاں بھی پیش رفت ہوئی‘ لیکن اٹھارھویں/انیسویں صدی میں برطانیہ کی عالمی قیادت کی بڑی وجہ اس کی نوآبادیات (استعمار) تھیں۔ بیسویںصدی کے وسط تک (دوسری جنگِ عظیم کے بعد) برطانیہ اپنی پوزیشن کھوچکا تھا‘ اور عالمی سرمایہ داری کے نظام کی قیادت ریاست ہاے متحدہ امریکا کے ہاتھ میں آچکی تھی۔ بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے آغاز میں امریکا واضح طور پر عالمی معیشت و سیاست کے فیصلہ کن قائد کے طور پر اُبھرا ہے۔ لیکن اس کی معیشت کی برتری اٹھارھویں/انیسویں صدی کے ’برطانیہ عظمیٰ‘ کے نوآبادیاتی نظام کے نمونے پر نہیں‘ بلکہ ایک آزاد (اور کارآمد) امیگریشن پالیسی (جس کے نتیجے میں محنتی‘ ہنرمند‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادی قوت وافر مقدار میں مہیا ہوگئی) اور ایجادات و فنیات میں پیش رفت سے ہوئی۔
اب ہمارے ملک ‘ بلکہ شاید ساری دنیا میں ایک عام تصور یہ ہے کہ ریاست ہاے متحدہ امریکا اپنی دولت اور خوش حالی کی وجہ سے محنت کشوں کے لیے جنت ہے۔ نظامِ سرمایہ داری کے قائد نے منڈی کی معیشت‘ آزاد تجارت اور کھلی مسابقت کے ذریعے نہ صرف یہ کہ پابند معاشی نظام (اشتراکیت/سوشلزم) کو شکست دی ہے‘ بلکہ عام انسانوں اور معاشی کارکنوں کے لیے مسرت‘ خوش حالی اور ترقی کے ایسے زینے مہیا کر دیے ہیں‘ جہاں آسمان ہی رفعتوں کی حد ہے۔
Business Weaksکے چیف اکانومسٹ ولیم وُلمان اور این کولاموسکا نے اس تصور کو چیلنج کیا ہے۔ ان کی زیرنظر کتاب The Judas Economy: The Triumph of Capital and the Betrayal of Work [یہودا کی معیشت: سرمائے کی فتح اور محنت کے ساتھ دغا] تین حصوں پر مشتمل ہے: سرمائے کی فتح‘ محنت کے ساتھ دغا اور سرمایہ داری کو خود اپنے آپ سے بچانا۔
سرمائے اور مزدور کی کش مکش‘ عہد قبلِ تاریخ کے پرویز اور شیریں فرہاد کی داستان سے بھی زیادہ قدیم ہے۔ یورپ میں صنعتی انقلاب کے ساتھ ساتھ یہ آویزش اور زیادہ شدید ہوگئی‘ تاہم اختراعات اور نوآبادیاتی وفد کی لوٹ کھسوٹ کے نتیجے میں حاصل ہونے والی دولت کا کچھ حصہ محروم طبقات تک بھی پہنچا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی طباعت اور نشرواشاعت کے سیلاب کے نتیجے میں محرومی کا شعور بھی شدید ہونے لگا جس کا نقطۂ عروج کارل مارکس اور فریڈرک اینجلز کی تحریروں میں ملتا ہے۔ اگرچہ یہ داستان بھی بڑی دل چسپ اور چشم کشا ہے‘ تاہم وُلمان اور کولاموسکا نے پیش نظر کتاب میں اپنے مطالعے کو سردجنگ کے خاتمے (بیسویں صدی کے آخری عشرے) میں امریکا میں سرمائے اور محنت کے تعلقات پر مرکوز رکھا ہے۔
محنت کش سے اُن کی مراد وہ لوگ ہیں جو اپنی روزی‘ اپنی جسمانی مشقت‘ مہارت یا دماغی ریاضت سے کماتے ہیں‘ چاہے وہ مشین پر کھڑے ہوں‘ یا کسی دفتر میں اعلیٰ عہدے کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہوں۔ معاش کے لیے کام کرنا اُنھیں اُس گروہ سے الگ کرتا ہے‘ جن کے اپنے ’’اثاثوں‘‘ کی ملکیت سے حاصل ہونے والی آمدنی اُنھیں کسی طرح کی ’’محنت‘‘ سے مستغنی کردیتی ہے۔ بقول اُن کے ’’وہ امریکی، جو اپنی روزی کے لیے کام کرتے ہیں‘ ایک ایسی دوڑ میں مصروف ہیں‘ جس کا کوئی خطِ اختتام نہیں۔ ۱۹۸۸ء میں سردجنگ کے اختتام کے بعد سے انھوں نے بڑی سخت محنت کی ہے کہ کوئی معاشی معجزہ کردکھائیں‘ تاہم وہ ایک ایسی معیشت میں گزربسر کر رہے ہیں‘ جہاں ان کا معیار زندگی ایک ٹھیرائو کا شکار ہوگیا ہے‘ اور جہاں انھیں کوئی سکون میسر نہیں۔ سردجنگ میں یہ امریکا کی فتح کے عواقب ہیں‘‘۔ (ص ۱)
امریکی محنت کش کو اُس کے آجر اور سیاست دان جو دلاسے دیتے ہیں‘ وہ عموماً سراب ہی ثابت ہوتے ہیں۔ ۱۹۹۰ء کے بعد سے معیشت کے پھیلائو اور کارپوریٹ منافعوں میں زبردست اضافوں کے باوجود کارکنوں کی مُزد میں اضافوں کا تناسب نہایت حقیر ہے۔ یہ بات ایک عام محنت کش کے لیے تو درست ہے ہی‘ لیکن عنقریب ان اعلیٰ درجے کے ملازموں (elite workers) کے لیے بھی درست ہوگی‘ جن کی آمدنیوں نے انھیں اب تک خوش حالی کے دائرے میں رکھا ہے۔ یہ بھی مستقبل میں سخت دبائو محسوس کریں گے۔ (ص ۲)
اگرچہ دیوارِ برلن کے انہدام اور سوویت یونین کے خاتمے کو سرمایہ داری کی آخری فتح کے طور پر قبول کرلیا گیا ہے‘ اور بوڈاپسٹ سے بیجنگ تک ریاستی ملکیت میںکام کرنے والی صنعتیں‘ منڈی کی معیشت کی حامل کمپنیوں اور کارپوریشنوں کو بخشی جارہی ہیں‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ سرماے نے وہ قوت حاصل کرلی ہے‘ جو شاید ماضی میں اُسے کبھی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ آزاد اور سریع الحرکت سرمایہ‘ دنیا میں جہاں زیادہ نفع دیکھتا ہے‘ آسانی سے منتقل ہوجاتا ہے۔ اب امریکا میں صورت حال یہ ہے کہ کارپوریٹ منافع تو بڑھ رہاہے‘ لیکن کارکنوں کے معاوضے میں اضافہ نہیں ہورہا۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں فیملی انکم (ایک خاندان کی آمدنی) میں کمی ہوئی ہے۔ ملازموں کا تحفظ‘ پنشن اور علاج معالجے کی سہولتیں کم ہوئی ہیں‘اور متوسط طبقے کی دولت اور اثاثے بھی زوال پذیر ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس ’’آزاد معیشت‘‘ کی میکانیت کے تحت محنت کشوں اور کارکنوں (جسمانی اور ذہنی دونوں) کی آزادانہ نقل و حرکت کی بناپر دوسری اور تیسری دنیا کی افرادی قوت بڑی آسانی سے شمالی امریکا اور یورپ کے اُن علاقوں میں منتقل ہو رہی ہے‘ جہاں انھیں اپنے وطن کے مقابلے میں بہرحال کچھ زیادہ معاوضے اور سہولتیں دست یاب ہیں۔ مگر اس کے نتیجے میں امریکا کی افرادی قوت‘ خواہ وہ نیلی وردی والے مزدور ہوں یا اعلیٰ عہدوں پر مامور باصلاحیت‘ منتظم‘ سبھی اپنی ملازمتوں میں کٹوتی کا شکار ہورہے ہیں۔ (ص ۶)
اب صورت حال یہ ہے کہ مغربی دنیا کے محنت کشوں (بشمول اعلیٰ تعلیم‘ تربیت یافتہ طبقہ‘ اعلیٰ عہدوں پر فائز کارکنوں) کو محنت کی ایک کھلی منڈی میں مسابقت کا سامنا ہے۔ جاپان کے بعد چین‘ ہندستان‘ انڈونیشیا‘ ملایشیا‘ کوریا اور لاطینی امریکا سے ہنرمند محنت کشوں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ کارکنوں کی اتنی بڑی تعداد بازارِ معاش (job market)میں داخل ہو رہی ہے کہ امریکا اور کینیڈا‘ بلکہ مغربی یورپ کے سبھی ملکوں میں طبقۂ وسطیٰ اور خوش حال کارکنوں کو اپنے مستقبل کے بارے میں کھلے خطرات کا سامنا ہے۔ ’’ہم اب ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں‘ جہاں سرمائے کے مقابلے میں محنت کی بہتات ہے‘‘ (ص ۷۶)۔ چوں کہ اس کے نتیجے میں اُجرتیں تو منجمد ہوتی جارہی ہیں‘ اور سرمائے کا نفع بڑھتا جا رہا ہے‘ چوں کہ عوامل پیداوار میں اب طلب و رسد کے قانون کے تحت مزدور ارزاں ہے‘ اس لیے اس کا استحصال کیا جا سکتا ہے‘اُسے اپنی شرائط پر کام کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
مصنفین دعویٰ کرتے ہیں کہ سرمایہ داری کے حالیہ فروغ کے بعد اب مغربی سرمائے کے لیے ضروری نہیں رہا کہ وہ نسلی یورپین (مغربی) آبادی کو اپنے ہمراہ لے کرچلے۔ مشرقی ایشیا میں ایسے باصلاحیت‘ منتظم اور ماہرین نسبتاً سستے داموں پر دستیاب ہوگئے ہیں۔ سرکاری خرچ پر نسبتاً سستی تعلیم‘ سخت محنت‘ غیرملکی پیشہ ورانہ تربیت اور آگے بڑھنے کے مجنونانہ جوش سے آراستہ یہ ’اعلیٰ طبقہ‘ (elite class) اب اپنی اچھی کارکردگی کے ساتھ مغربی سرمائے کو مہیا ہوگیا ہے: اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سرمائے اور محنت کے درمیان جو بقاے باہمی (symbiotic) رشتہ قائم ہوا تھا‘ ختم ہوچکا ہے۔ مغرب کے محنت کش کے لیے یہ بُری خبر ہے۔
چوں کہ بڑے صنعتی اور کاروباری ادارے بھی اپنی لاگت/منافع کے تناسب کو ہمیشہ اپنے فائدے میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں‘اس لیے یہاں بھی اس پالیسی کا بوجھ عموماً نچلے درجے کے کارکنوں ہی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پیداوار کے جدید طریقوں کی بنا پر چھانٹیوں (’down sizing ‘ اور ’right sizing ‘)کا شکار عموماً نچلے محنت کش ہی ہوتے ہیں‘ اور ’فربہ‘ منتظمین اعلیٰ (CEO's) کی صحت اس سے متاثر نہیں ہوتی۔ (ص ۸۱)
’’[امریکا] تاریخ کے ایک ایسے دور میں جھونکا جاچکا ہے جہاں مالیات ہی سب پر حاکم ہے۔ میوچل فنڈز اور اسٹاک ایکسچینج ریسرچ کی تجربہ گاہ اور فیکٹری کی جگہ مرکزی اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ کاروبار کی تعلیم کے بڑے مرکزی اسکولوں سے فارغ ہونے والے اب حقیقی معیشت کے بجاے انوسٹمنٹ بینکنگ کا رخ کر رہے ہیں…‘‘ مگر ان کا انجام بھی وہی ہوگا‘ جو اٹھارھویں صدی کے ڈچ اور انیسویں /بیسویں صدی کے برطانوی سرمایہ کاروں کے نتیجے میں ان کی معیشت کا ہوا۔ ’’وال اسٹریٹ کی حیرت انگیز فراست کی خطا بھی جلد سامنے آجائے گی‘‘۔(ص ۱۴۲)
ہارورڈ یونی ورسٹی کے جوزف شوم پیٹر (Joseph A. Schumpeter) اگرچہ دائیں بازو کی سیاست کے دانش ور ماہر معاشیات ہیں‘ لیکن عالمی سرمایہ داری کے اِن رجحانات میں انھیں بھی تباہی کے آثار نظر آتے ہیں: ’’نظامِ سرمایہ داری‘ ایک عقلی ذہنی افتاد کو تشکیل دیتا ہے‘ جو دوسرے بہت سے اداروں کی اخلاقی بالادستی کو تباہ کردینے کے بعد آخرکار خود اپنی بالادستی کے بھی درپے ہوجاتی ہے‘‘ (ص ۲۲۱)۔ نیویارک ٹائمز کے ٹامس فرائیڈمین کے مطابق جو لوگ ایک ایسی یک رُخی دنیا کی تعمیر میں لگے ہوئے ہیں‘ جہاں کاروبار اور اعداد و شمار کی مالیات ہی سب کچھ ہے‘ انھیں اس عالم گیریت کے خلاف ایک شدید ردعمل کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ (ص ۲۲۱)
اس تباہی سے بچنے کے لیے کتاب کے مصنفین‘ کاروبار اور صنعت کے شعبوں میں ریاست کی زیادہ مداخلت کی تلقین کرتے ہیں۔ کارکنوں کی پیشہ ورانہ رہنمائی اور ایک پیشے سے دوسرے پیشے میں آسان منتقلی‘ اور اس سلسلے میں حکومتی امداد‘ عالمی سرمایہ داری کے منفی اثرات سے کارکنوں کی حفاظت کے لیے ریاست کے زیادہ فعال کردار‘ نیز محنت کشوں اور دوسرے کارکنوں کی صحت‘ بے روزگاری اور پنشن سے متعلق بہتر اور زیادہ مؤثر اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ (ص ۲۱۸-۲۱۹)
یہ کتاب‘ نظامِ سرمایہ داری کو خود اپنے ستم اور اس سے جنم لینے والی بربادی سے بچانے کی ایک مخلصانہ کوشش محسوس ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سرمایہ داری (جس کے ساتھ استحصال کا نظام لازم و ملزوم ہے) کو بچا لینا کسی طرح بھی مقصود اور خوش آیند قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا شمالی امریکا اور مغربی یورپ کے محنت کشوں کی فلاح و بہبود کو آدرش قرار دیا جا سکتا ہے؟ اب اگر ہم عالمی معیشت کا جائزہ لیں‘ تو نظر آتا ہے کہ عالم گیریت کے نتیجے میں اگرچہ تیسری دنیا کے بعض گوشوں اور طبقات (نیز افراد) میں معاشی خوش حالی نظر آتی ہے‘ لیکن وسیع تر تناظر میں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ خطِ غربت کے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی ایک مثال ہندستان ہے‘ جہاں کمپیوٹر اور اطلاعی فنیات میں پیش رفت سے اگرچہ ایک گونہ خوش حالی آئی ہے‘ لیکن بہار اور بنگال کے علاقوں میں شدید غربت کے مارے کروڑوں انسان ناقابلِ تصور ہلاکت کا شکار ہیں۔ کچھ اس طرح کی صورت حال انڈونیشیا‘ ملایشیا‘ فلپائن اور مشرقی یورپ کے بعض خطوں کی ہے۔ افریقہ (خصوصاً وسطی افریقہ) قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود لوٹ کھسوٹ‘ بدانتظامی‘ بھوک اور بیماری (خصوصاً ایڈز) کا اس بری طرح شکار ہے کہ وہاں آبادی کم ہوتی جارہی ہے۔ شاید عالمی سطح پر معیشت اور مالیات کو کنٹرول کرنے والوں نے یہ منصوبہ بندی کرلی ہے کہ ایک بہتر دنیا کی تشکیل یوں ہی ممکن ہے۔
عیسائی روایات کے مطابق یہودا‘ حضرت عیسٰی علیہ السلام کا وہ منافق حواری تھا‘ جس نے اپنے تھوڑے فائدے (۳۰ درہم) کے لیے آں جناب سے غداری کی۔ آخری عشائیے میں جب وہ ایک باغ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ روپوش تھے‘ اس نے آپ کی پیشانی کو بوسہ دے کر رومی سپاہیوں کو آپ کا پتا دیا اور یوں گرفتار کرایا۔ (The Judas Economy: The Triumph of Capital and the Betrayal of Work ، [یہودا کی معیشت: سرمائے کی فتح اور محنت کے ساتھ دغا]‘ ولیم وُلمان (William Wolman) اور این کولاموسکا (Anne Colamosca)‘ ایڈیسن ویزلی پبلشنگ کمپنی‘ ریڈنگ‘ میساچوسٹس‘ ۱۹۹۷ئ‘ صفحات: ۲۴۰)
سوال: میری شادی حال ہی میں ہوئی ہے۔ ہم مشترکہ خاندانی نظام میںرہتے ہیں۔ میرے ساس سسر‘ جیٹھ جٹھانی اور دیور ساتھ ہی رہایش پذیر ہیں۔ میں چند مسائل کی وجہ سے ذہنی کش مکش سے دوچار ہوں۔
مجھے مطالعے کا شوق ہے اور فارغ وقت میں اپنے ذوق کی تسکین کا سامان کرتی ہوں۔ میری ساس چلنے پھرنے سے معذور ہیں‘ چھڑی کی مدد سے تھوڑا بہت چل سکتی ہیں۔ مگر وہ چاہتی ہیں کہ میں فارغ نہ بیٹھوں اور ہر وقت کچھ نہ کچھ کام میں لگی رہوں۔ ان کا انداز گفتگو بھی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ گھر کا کام تو مجھے کرنا ہی تھا مگر اس رویے سے ذہنی کوفت ہوتی ہے۔
گھر کے سربراہ سسر ہیں۔ ان کی اجازت سے ہی اپنے امی ابو سے ملنے جاسکتی ہوں بلکہ ساس کی خواہش ہوتی ہے کہ میں ہی گھر کا کام کاج کروں۔ پھر صبح جاکر شام کو لازماً واپس آنا ہوتا ہے۔ والدین کے گھر ٹھیرنے کی اجازت نہیں‘ جب کہ گھر ایک ہی شہر میں ہے۔ اگر کبھی میرے شوہر خریداری یا سیر کے لیے اپنے ہمراہ لے جائیں تو اس پر بھی اعتراض ہوتا ہے۔ اس بات سے مجھے شدید ذہنی کوفت ہوتی ہے کہ میں شوہر کی خدمت کے لیے نہیں بلکہ سسرال والوں کی خدمت کے لیے لائی گئی ہوں۔ گویا بیوی نہ ہوئی‘ گھر میں موجودہ سسرالی رشتہ داروں کی زرخرید لونڈی ہوئی۔
میری خواہش ہے کہ میں اپنے خاوند کی خدمت کروں‘ ان کی پسند کے مطابق خود کھانا بنائوں‘ ان کے لیے آزادی سے تیار ہو سکوں‘ مجھے اتنی آزادی تو میسر ہو جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے ایک شادی شدہ جوڑے کو دی ہے‘ اور جو ایک عورت کا حق ہے۔ لیکن ساتھ رہتے ہوئے اور جیٹھ اور دیور کی موجودگی میں تو ایسا کرنا عملاً ممکن نہیں۔ پھر اگر گھر الگ لینے کی بات کی جائے تو ساس سسر ناراض ہوتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ تمام بچوں کو اپنے ساتھ ہی رکھیں۔ کیا ایک بیٹا جس کے لیے ممکن بھی ہو‘ الگ گھر میں نہیں رہ سکتا‘ جب کہ دوسرے بھائی والدین کے ساتھ رہ رہے ہوں؟
شادی تو گھر کے سکون اور میاں بیوی کی خوشی و مسرت کے لیے کی جاتی ہے۔ ایسے مشترکہ خاندانی نظام کا کیا فائدہ جو دلوں میں رنجشیں پالنے اورہمہ وقت ذہنی تنائو کا سبب بنے اور انسان کو ذہنی مریض بناکر رکھ دے۔ اسلام میں تو اس کا کوئی تصور نہیں۔ میرے مسئلے کو حقیر نہ جانیے گا‘ بہت سے گھرانے اس سے دوچار ہیں۔
جواب :آپ نے اپنے سسر اور ساس صاحبہ کے حوالے سے مشترکہ خاندان کے نظام کی بعض مشکلات کا ذکر کیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ہمارے بیش تر معاشرتی مسائل کا سبب بزرگوں اور نوجوانوں کا دینی تعلیمات سے کم آگاہ ہونا یا بالکل لاعلم ہونا ہے۔ ہمارا معاشرہ تاریخی طور پر جن ادوار سے گزرا ہے ان کے نتیجے میں بہت سی مقامی روایات معاشرتی تحت الشعور سے چسپاں ہوکر رہ گئی ہیں اور نام نہاد مشرقیت کے پرستار اپنے ان تعصبات سے قطعاً لاعلم نظر آتے ہیں۔
ایک بنیادی بات یہ بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ شادی کے نتیجے میں دو مختلف گھرانے ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں۔ مختلف ماحول‘ مختلف مزاج‘ رہن سہن اور معاشرت کے فرق کی بنا پر ایڈجسٹمنٹ میں مشکلات کا سامنا ہونا فطری امر ہے۔ بہو کو اس نفسیاتی پہلو کو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ والدہ کے لیے بیٹا ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ بہو کے آنے سے بیٹے کی توجہ بٹتی ہے۔ اگرچہ والدین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ بیٹے سے وہ پہلے والی توجہ ملنا عملاً محال ہے‘ تاہم بہو کو اس نفسیاتی امر کے پیش نظر حکمت‘ صبروتحمل اور وسعت قلبی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اگر یہ پہلو ابتدا ہی سے پیش نظر رہے اور مشکلات کا کچھ اندازہ ہو تو بتدریج مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر شادی کے ابتدائی ایام یا چند ماہ کے بعد ہی توقعات کے پورا نہ ہونے یا ہم آہنگی نہ ہونے کی بناپر بہت زیادہ پریشان ہوجانا یا بہتری کے حوالے سے مایوس ہوجانا بھی مناسب نہیں۔ ہمت و حوصلے‘ تدریج اور حکمت سے یہ مسائل کافی حد تک حل ہوسکتے ہیں۔
والدین کو عام طور پر گھروں میں ایک سے زائد لڑکے اپنی بیویوں کے ساتھ رکھنے کی خواہش ہوتی ہے۔ اگر وہ واقعی ایسی خواہش رکھتے ہیں تو پھر ایک شادی شدہ جوڑے کو اپنے گھر میں اتنی مکانیت فراہم کریں کہ ان کا بیٹا اور بہو آزادی کے ساتھ محض سونے کے کمرے میں نہیں گھر کے دوسرے حصوں میں بھی بے تکلف مل جل سکیں‘ اپنی پسند کا لباس اور غذا استعمال کرسکیں۔ یہ اسلام کے اصولوں کے ساتھ ایک مذاق ہے کہ گھر میں دیور اور جیٹھ بھی موجود ہوں اور بہو سے کہا جائے کہ وہ پورے سنگھار کے ساتھ مشترکہ مجلس میں کھانا کھائے‘ چائے پیے وغیرہ‘ یا یہ کہا جائے کہ وہ ہر وقت عام لباس کے اوپر لبادہ پہن کر اور سوائے چہرے کے اپنے تمام جسم کو ڈھانک کر گھر میں چلے پھرے۔ اسلام کے دیے ہوئے بنیادی حقوق میں جو قرآن و سنت نے دیے ہیں اس قسم کا مطالبہ کرنا دین میں مشکلات پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ چند لمحات کے لیے کسی مخصوص صورت حال میں اگر ایسا کرلیا جائے تو اسے گوارا کیا جا سکتا ہے لیکن اگر یہ معمول بنا لیا جائے کہ اپنے دیور اور جیٹھ کے ایک ہی مکان میں رہنے کے سبب ایک لڑکی کو مسلسل لبادے میں رہنا پڑے تو یہ اس کے ساتھ بہرحال زیادتی ہے۔ اگر ساس اور سسر اپنے گھر میں ایسی فضا پیدا نہیں کرسکتے تو پھر انھیں اپنے بیٹے اور بہو کے الگ گھر میں رہنے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے بلکہ خود اس پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے۔ سنت سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ سیدہ فاطمہؓ اور حضرت علیؓ اپنے الگ مکان میں رہے۔
جب دنیا مغرب کی اسیر ہوئی تو ہر فن میں مغرب کی سند تسلیم کی جانے لگی۔ اسلام کے بارے میں بھی مستشرقین کی رائے کو عالمی سطح پر اہمیت دی گئی۔ جس کے باعث عیسائی دنیا بدستور تعصب میں مبتلا رہی۔ غیر جانب دار دنیا نے بھی اسلام کو مغرب کی عینک سے دیکھا‘ اسی لیے وہ نہ صرف اسلام کے صحیح خدوخال سے ناآشنا رہی بلکہ بڑی حد تک ان کی غیر جانب داری مغرب کی ہم نوائی میں تبدیل ہونے لگی۔ اسلامی معاشرے میں بھی ایک طبقہ ایسا پیدا ہوگیا جس نے اسلام کو مستشرقین کی عینک سے دیکھنا اور پرکھنا شروع کر دیا۔ جس کے زیراثر مغربی تعلیم یافتہ طبقہ اسلام سے بیگانہ ہوتا چلا گیا۔ اس تحقیقی مقالے میں مستشرقین کے اسی طرزعمل کو موضوع بنایا گیا ہے تاکہ شکوک میں مبتلا اہلِ مغرب‘ مرعوبیت کے مارے تعلیم یافتہ مسلمان اور بیچارگی کے شکار مسلمان علما پر مستشرقین کی سوچ‘ ان کے مقصد اور طریق کار کو واضح کیا جا سکے‘ اور یہ بات کھل کر سامنے آئے کہ مستشرقین کی تحریروں میں علم کی پیاس‘ حق کی تلاش اور پیشہ ورانہ دیانت داری کس حد تک عنقا ہے اور ان کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات کی اصلیت کیا ہے۔
اعلیٰ پائے کی اس تحقیق کی حامل یہ کتاب بنیادی طور پر پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ ہے جسے ڈاکٹر عبدالقادر جیلانی نے نومبر ۱۹۸۰ء میں تحریر کیا تھا۔ وہ پیشے کے لحاظ سے انجینیرتھے۔کتاب‘ کتابیات اور اشاریے سے مزین ہے۔
مصنف نے عیسائیت کی اپنی ’شکل و صورت‘ کو بہت سلیقے سے پیش کیا ہے۔ ایسا مذہب جسے دوسرے مذاہب بالخصوص اسلام پر تابڑ توڑ حملے کرنے اور الزام تراشی کے ساتھ بددیانتی کرنے میں عار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے حوالے سے مغرب کی تاریخ‘ تعصب اور بددیانتی سے بھری پڑی ہے‘ مثلاً دوراوّل میں مغربی علما نے عربی سے تراجم کرکے مسلم تصانیف کو اپنے ناموں سے منسوب کیا۔ بددیانتی‘ جھوٹ اور فریب کی ایک اور مثال یہ ہے کہ مغربی چرچ میں یہ امر تسلیم کیا جاتا تھا کہ مسلمان بت پرست تھے اور اسلام بت پرستی کا مذہب تھا۔ عوامی سطح پر مسلمان بڑے جادوگر سمجھے جاتے تھے۔ اسلام مذہب نہیں‘ اسلام جنگی ٹولے کا مذہب ہے۔ اسلام انفرادی مذہب ہے‘ اسلام عرب جاہلیہ کے ’مروۃ‘ کا بدلہ ہوا نام ہے یا اسلام لُوٹ ہے۔ مصنف نے ان بے اصل اور بے بنیاد اعتراضات کا بھرپور جواب اس کتاب میں فراہم کیا ہے۔
دنیا کی کسی اور عظیم شخصیت کو اس قدر متہم نہیں کیا گیا جتنا مغرب نے سرکارِ دوعالمؐ کو کیا۔ اس صدی میں بھی ایسی تحریروں کی کمی نہیں جن میں اخلاقی الزامات دہرائے گئے ہیں۔ مغرب نے بہروپ یا جعل (imposture) کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ انیسویں صدی تک یہ الزام تواتر کے ساتھ ملتا ہے۔ اب اسی پرانے نظریئے کو نئے الفاظ عطا کر کے کہا کہ یہ وحی کوئی بیرونی القا نہیں تھی‘ بلکہ لاشعور کی پیداوار تھی جسے غلط فہمی کی بنا پر ملکوتی پیغام تصور کیا گیا۔ (ص ۳۲۰)
کردار نبویؐ پر ایک اور الزام خوں ریزی کا ہے۔ اس لفظ کو ایسے عامیانہ انداز میں استعمال کیا جاتا ہے جو خونِ ناحق اور خونِ برحق کی تمیز مٹا ڈالتا ہے۔ اس الزام کے ضمن میں معاہدہ شکنی‘ دھوکادہی اور سفاکی جیسی گھنائونی تہمتیں بھی لگائی جاتی ہیں۔ (ص ۳۲۳)
مصنف نے نہایت عرق ریزی اور شدید محنت سے اس کتاب میں مغربی مصنفین کی کتابوں کے جو اقتباسات دیے ہیں اگرچہ انھیں پڑھتے ہوئے کوفت ہوتی ہے مگر موضوع کا تقاضا یہی تھا۔ لہٰذا مصنف نے نہ صرف انھیں جمع کیا بلکہ ان کا مدلل جواب بھی دیا ہے۔ مغرب کی موجودہ سوچ کو جاننے کے لیے اور اسلام کے خلاف جاری جنگ کا صحیح ادراک کرنے میں یہ کتاب نہایت مفید ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم مصنف کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اس اعلیٰ پایہ کوشش کو قبول فرمائے۔ آمین! (الیاس انصاری)
زیرنظر کتاب ۲۱ دروس حدیث کا ایک نادر مجموعہ ہے۔ یہ ایمانیات‘ عبادات‘ معاملات‘ اخلاقیات اور اُمت مسلمہ کے مسائل پر دیے گئے اُن خطبات کی ایک سیریز ہے‘ جو محترم خرم مراد نے مارچ ۱۹۹۱ء سے دسمبر ۱۹۹۵ء تک کے عرصے میں گارڈن ٹائون‘ لاہور کی مسجدبلال میں نمازِ جمعہ کے مواقع پر پیش کیے تھے۔ موضوعات کی ایک جھلک ملاحظہ ہو:
اللہ کی قدرت‘ شرک سے پاک اللہ کی بندگی‘ قرآن کے عجائب‘ نیت اور عمل‘ نیکی اور بدی‘ دنیا کی زندگی کی حقیقت‘ حقیقتِ زہد‘ نماز کیسے بہتر کریں؟ حج اور قربانی‘ حبِ دنیا‘ حسد اور بغض‘دل کی زندگی‘ رزقِ حلال‘ شکر اور صبر‘ امانت داری‘وعدے کی پابندی‘ عدل و انصاف کا قیام‘ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا‘ غلطیوں کو معاف کرنا‘ توبہ کا دروازہ کھلا ہے‘ دین آسان ہے۔
ہر درس میں اسلام کے نظامِ زندگی کا ایک جامع اور مختصر نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ ان تمام دروس میں ایک معنوی ربط اور قدر مشترک یہ ہے کہ یہ سب شخصی تربیت و تزکیہ‘ اجتماعی اصلاح وانقلاب‘ اُخروی فلاح اور جنت کے حصول کے لیے فکرمند اور مضبوط کرنے والے ہیں۔
درس قرآن ہو یا درسِ حدیث‘ تقریر ہو یا تحریر‘ خرم مراد مرحوم کے اسلوب بیان میں ایک منفرد شیرینی اور ایمان و یقین کی بے پناہ دل آویزی پائی جاتی ہے۔ مصنف کے دل میں یہ تڑپ تھی کہ قرآن و سنت کی روح لوگوں کی زندگی میں رچ بس جائے اور اُن کا منشا و مقصود اللہ کی رضا بن جائے۔ یہی تڑپ‘ اضطراب اور بے تابی زیرنظر دروس میں کارفرما نظر آتی ہے۔ کتاب کے مقدمے میں لکھا گیا ہے کہ حدیث کی تشریح اس انداز میں ہے کہ دلوں کے تار چھیڑتی ہے (ص۸)۔ اس میں ذرہ برابر مبالغہ نہیں۔ بقول اقبال ع دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔
ان ۲۱ دروس کو‘ دعوت و تبلیغ میں آسانی کے لیے‘ الگ الگ کتابچوں کی شکل میں بھی پیش کیا گیاہے۔ کتاب کے معنوی حُسن کے عین مطابق‘ درست املا‘ عمدہ کاغذ‘ خوب صورت چھپائی اور دیدہ زیب سرورق کے ساتھ مناسب قیمت منشورات ہی کا طرئہ امتیاز ہے۔ (حمیداللّٰہ خٹک)
ہمارے قومی شاعر علامہ محمد اقبال نے کہا تھا ؎
ہزار خوف ہو لیکن زباںہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
مصنف کی تحریروں سے یہ تو پتا چلتا ہے کہ وہ ایک بیوروکریٹ ہیں‘ لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ وہ قلندر بھی ہیں‘ تاہم زیرنظر کتاب کے ۹۹مختصر ’مضامین‘ پر مشتمل ’حرفِ راز‘ سے اُن کی ’قلندرانہ فکر‘ کا ضرور پتا چلتا ہے۔
موضوعات کا تنوع ۹۹ کے عدد کو کہیں پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ بیرونی امداد (خیرات) کے نتائج‘ ججوں کے (بدنام) مجبوری کے فیصلے‘ عالمِ طبیعیات‘ سائنس دان فرینک ٹیلر کی Omega Point کی تھیوری جو نہ صرف قیامت‘ بلکہ برزخ اور جنت و جہنم کا اثبات کرتی ہے‘ قوت و اقتدار کے نشے میں مدہوش چارلس اوّل (برطانیہ) اور دوسروں کا انجام‘ (’سرِّدلبراں‘کو دوسروں کی حکایت میں بیان کرنااچھا ہوتا ہے!)‘ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو پرواز کرتے ہوئے دو تابوت(کیوں کہ پائلٹ‘ جہازوں کا عملہ اور مسافر تو پہلے ہی مرچکے تھے) کس کے حکم پر ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون سے ٹکرائے‘ یورپ میں اسلحے کا اور مشرقی ایشیا میں بچوں اور عورتوں کا کاروبار‘ نیا امریکی ثقافتی اور سیاسی استعمار‘ دو قومی نظریے سے یک قومی نظریے کی طرف پسپائی‘ کنٹینر میں موت (افغانستان میں حقوقِ انسانی کے علم برداروں کے ہاتھوں مجاہدین پر کیا گزری)‘ عورت اور انڈسٹری‘ (بھیڑیے جنس اور فحاشی کے کاروبار میں عورتوں اور بچوں پر کس طرح پَل رہے ہیں)‘ امریکا چلو کے نتائج‘ پاکستان کے مقتدر حاکمین کی حفاظت (سیکورٹی) کے لیے ’بلیوبک‘، پاک امریکا تعلقات، ’امریکی سنڈی‘ کس طرح پاکستان کو برباد کر رہی ہے! ماڈریٹ اسلام‘ برطانوی صحافی خاتون رونی ریڈلی: طالبان کی قید میں اسلام کی طرف کیوں راغب ہوئی؟دواساز کمپنیوں کے روپ میں ’موت کے سوداگر‘ کس طرح غریبوں کا خون چوس رہے ہیں___ موضوعات کی وسعت حیران کن ہے ___ وہ سب کچھ جو آج ہمیں جاننا چاہیے‘ ایک مخصوص‘ اخلاقی اور اسلامی زاویے کے ساتھ موجود ہے۔
ایک باخبر‘ مخلص‘ محب وطن‘ دردآشنا‘ تیکھی تحریر کے قلم سے مسلّح شخص جو اعتراف کرتا ہے کہ مالک نے ’مجھے پس ماندگی‘ محرومی اور بے یقینی سے نکال کر ان راہداریوں میں لاکھڑا کیا‘ جہاں طاقت‘ اقتدار اور مذاقِ عاجزی گلے مل کر مسکراتے ہیں… مجھے مشورہ دینے والے بہت ہیں‘ میرے خیرخواہ… میرا دامن روز تھام لیتے ہیں… ان کی نظر میں زندگی کی سانسیں‘ عزت‘ احترام‘ سہولتیں‘ سب اس نوکری اور سرکار کی مرہونِ منت ہیں‘ لیکن جب مَیں رات کی تنہائی میں اپنے رب کے سامنے سربسجود ہوتا ہوں‘ تو اس واحد اور رحیم اور کریم کی چوکھٹ کے آگے یہ سارے مشورے‘ یہ ساری خیرخواہیاں ہیچ لگنے لگتی ہیں…‘‘ اوریا مقبول جان کو پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ’’ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں ہے!‘‘ بیوروکریسی اور مقتدرہ کی کانِ نمک جس میں اچھے اچھے انقلابی تحلیل ہوجاتے ہیں‘ خدا کرے اوریا بچ جائیں۔
علم و آگاہی کی فراوانی کے ساتھ خلوص‘ کرب و درد میں ڈوبی ہوئی یہ چیخیں کاش‘ اُن لوگوں تک پہنچیں اور انھیں ہوش میں لے آئیں‘ جو اختیار اور اقتدار کی راہ داریوں پر قابض ہیں۔(پروفیسر عبدالقدیر سلیم)
عورت آج ہمارے ملک ہی کا نہیں پوری دنیا کا اہم موضوع ہے۔ عورت کے حوالے سے آزادی اور حقوق کی جنگ کے مغربی تصور کو رائج کرنے کے لیے مختلف این جی اوز اور کچھ خفیہ طاقتیں ایک تسلسل کے ساتھ سرگرمِ عمل ہیں۔ اس کتاب میں یورپی ممالک کی مسلمان خواتین کے خلاف ایک باقاعدہ اور منظم سازش کا پردہ چاک کرتے ہوئے بہت سے تلخ حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ مسلمان خواتین کو مغربی تہذیب کے اثرات سے بچانے کے حوالے سے یہ ایک قابلِ قدر کاوش ہے۔ ابتدا میں خواتین کے حقوق کے نام پر ہونے والی کانفرنسوں کے اصل مقاصد کو بے نقاب کرنے کے علاوہ مغربی تہذیب و معاشرت کے تلخ حقائق اعداد و شمار کی روشنی میں بیان کیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی اس سارے ایجنڈے کے خلاف مسلم ممالک کی خواتین کے احتجاج اور مظاہروں کی تفصیلات تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتی ہیں۔ مصنف نے اس ساری صورت حال کا ذمہ دار کسی حد تک پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو ٹھیرایا ہے جو مغرب سے متاثر ہے اور دوسرا نقطۂ نظر پیش کرنے میں جانب داری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ مغرب کا نظریہ مساواتِ مرد و زن‘ اس کے ہولناک نتائج اور مغربی معاشرے میں عورت کی حالت زار کا نہایت حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا گیا ہے۔ اسلام اور مغربی معاشرے میں رشتوں کے حوالے سے عورت کے مقام کا موازنے کے ساتھ ساتھ اسلام میں عورت کا اعلیٰ و ارفع مقام اور زندگی کے ہر شعبے میں اس کے تفویض کردہ حقوق نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ نومسلم خاتون کا انٹرویو‘ اسلام کی چند نمایاں خواتین کا ایمان افروز تذکرہ‘ جلیل القدر صحابیات کے اخلاقی شہ پارے اور دیگر متفرق تحریریں کتاب کے تنوع میں اضافے کا باعث ہیں۔
کتاب کا لب لباب ’’گزارشات‘‘ کے عنوان سے ہے۔ یہ نکات دعوتِ عمل کے ساتھ ذاتی محاسبے کے لیے بنیاد بھی فراہم کرتے ہیں۔ اندازِ بیان جذباتی اور دردمندانہ ہے جو قاری کے قلب و ذہن کو جھنجھوڑتا ہے۔ کہیں کہیں غیرضروری تفصیل یا اعداد و شمار کی زیادتی تحریر کو بوجھل بناتی ہے۔خواتین کی ذاتی لائبریری کے لیے ایک عمدہ اضافہ ہے‘ قیمت بھی مناسب ہے۔ (ربیعہ رحمٰن)
پروفیسر سید محمد سلیم مرحوم کے علم کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک انسائیکلوپیڈیا تھے۔ علم کی کوئی شاخ نہ تھی جو ان کے لیے آسان نہ ہو۔ ان کی متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں لیکن اب کراچی میں پروفیسر سیدمحمدسلیم اکیڈمی قائم کر دی گئی ہے جو ان کے تحقیقی کام کی اشاعت کر رہی ہے۔ سیرت پر اس کتاب میں یہ خوش خبری موجود ہے کہ ان کے تعلیمی مقالات جلد پیش کیے جائیں گے۔
اذکار سیرت‘ سیرت نبویؐ کے متنوع پہلوئوں پر ان کے ۱۴ مقالات کا مجموعہ ہے۔ ہر مقالہ اپنی جگہ خاصے کی چیز ہے۔ اقوامِ عالم کی تشکیل میں عرب کا حصہ‘ صلح حدیبیہ‘ سیاست نبوی کا شاہکار‘ داعی اعظم اور کثرتِ ازواج‘ سیرت طیبہ اور فنون لطیفہ سے موضوعات کے تنوع کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ آخری باب میں غازی علم الدین شہیدؒ جیسے چھے افراد کا تذکرہ ہے جنھوں نے ناموس رسولؐ پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ کتاب کے مرتب نے یہ اہتمام کیا ہے کہ آیات و احادیث کے مکمل حوالہ جات دیے ہیں‘ اگر مصنف نے آیت کا ترجمہ دیا تھا تو مرتب نے متن کا اضافہ کر دیا ہے۔
سیرت پاکؐ کے مختلف پہلوئوں کے مطالعے کے لیے ایک مفید کتاب۔ (مسلم سجاد)
اُردو فارسی شاعری میں نعت گوئی ایک مستقل اور صدیوں پرانی روایت ہے۔جناب نظرلکھنوی کا یہ مجموعۂ نعت کئی حوالوں سے انفرادیت کا حامل ہے۔ پہلی خصوصیت ان کی کہی ہوئی نعتوں کی تعداد ہے کہ میرے مطالعے کی حد تک کسی اور کے ہاں نہیں ملتی۔ عموماً لوگوں نے تبرک کے طور پر ایک آدھ نظم اپنے مجموعہ ہاے کلام میں شامل کر دی ہے۔ یا پھر نیر کاکوردی کی طرح نعتیہ قصیدوں سے کام لیا ہے لیکن جناب نظر نے غزل نما‘ چھوٹی بڑی نعتوں سے کام چلایا ہے۔ اس کے باوجود اُن کا یہ مجموعہ ایسی سیکڑوں نعتوں پر مشتمل ہے‘ جس سے شاعر کا نعت گوئی سے شغف اور غیرمعمولی لگائو کا اندازہ ہوتا ہے۔ دوسری انفرادیت شاعر کا نعت گوئی میں مبالغہ آرائی سے گریز ہے۔ جناب نظر اس دشوار راستے پر بہت سنبھل سنبھل کر چلتے ہیں‘ اور جتنا کچھ قرآن و حدیث سے خدا کے آخری نبیؐ کے اوصاف‘ اختیارات اور اخلاق کا اندازہ ہوتا ہے اس سے آگے یہ نہیں بڑھتے۔ تیسری انفرادیت‘ جس سے نعت گو صاحبان عموماً تہی دامن ہوتے ہیں‘ یہ ہے کہ آنحضوؐر کی حیاتِ طیبہ کے چھوٹے موٹے کاموں سے لے کر بڑے سے بڑے کارناموں تک کا ان نظموں میں ذکر آتا ہے‘ اور اس کے باوجود شعریت کی خوب صورتی اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔چند اشعار بطور نمونہ:
بندھا تھا تارِ نبوت جو‘ اُس پہ ختم ہوا
یہ سلسلہ نہ پھر‘ آگے‘ شہِ شہاں سے چلا
نقوشِ پا سے اُجاگر ہے رہ گزارِ حیات
دیے جلا کے چلا‘ وہ جہاں جہاں سے چلا
کوئی بشر بھی پا نہ سکے گا رہِ حیات
حلقہ بگوشِ سرورؐ عالم ہوئے بغیر
وہ ہے ناراضگیِ رب سے ہمیشہ ترساں
وہ ہمہ وقت ہے خوشنودیِ رب کا خواہاں
لمعاتِ نظر میں ایک خوب صورت جدت یہ بھی ہے کہ ’حصۂ مناقب‘ کے نام سے ایک مستقل عنوان قائم کیا گیا ہے‘ یعنی خلفاے راشدینؓ کی شان میں بھی ایک پوری نظم علیحدہ علیحدہ کہی گئی ہے‘ اور اس طرح ضمناً یہ بتایا گیا ہے کہ ان غیرمعمولی ہستیوں کو بھی درحقیقت رسولِ رحمتؐ ہی کی بدولت وہ اعزاز اور بلند مرتبت عطا ہوئی ہے جو انھیں عالم میں نمایاں کرنے کا موجب ہوئی۔ اور یہ بھی گویا نعت ہی کا حصہ ہے۔ اس کے بعد سانحۂ کربلا کا ذکر بھی‘ گویا‘ ناگزیر تھا۔ اس طرح اس نعتیہ کلام کا خوب صورت خاتمہ کر کے نظم گوئی کے محاسن میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔
آخر میں اتنا کہہ دینا نامناسب نہ ہوگا کہ پُرگوئی اور کثرتِ کلام کے باعث جابجا اسقام بھی نظر سے گزرے‘ تاہم وہ اتنے معمولی ہیں کہ ان کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ (آسی ضیائی)
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آزادی سے اب تک حکومتی تعلیمی پالیسیوں میں نظریۂ حیات کے اساسی کردار کو نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ یہی ہمارے تعلیمی بحران کی بڑی اور بنیادی وجہ ہے۔ اس کتاب میں اسے اجاگر کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر محمد امین ایک عرصے سے تعلیم کے موضوع پر قلمی جہاد میں مصروف ہیں۔ زیرنظر کتاب ’’پاکستان میں تعلیم کی ثنویت اور نظریاتی کش مکش کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے اس کے پس منظر اور دیرینہ بیماری کا علاج تجویز کرتی ہے‘‘ (ص ۱۵)
کتاب چھوٹے بڑے ۳۲ سے زائد مضامین و مقالات پر مشتمل ہے جن میں ہمارا تعلیمی بحران اور اس کا حل‘ تعلیمی ثنویت کے خاتمے کا طریق کار‘ ایک ماڈل اسلامی اسکول کا خاکہ‘ ایک ماڈل اسلامی یونی ورسٹی کا خاکہ‘ ایک ماڈل اسلامی نظامِ تعلیم و تربیت کا خاکہ اور پاکستان میں تعلیم کی اسلامی تشکیل نو جیسے اہم موضوعات بھی شامل ہیں۔ کچھ مختصر مضامین تعلیم کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ ایک مضمون ’’دریا بہ حباب اندر‘‘ میں جملہ مضامین کی تلخیص فراہم کی گئی ہے تاکہ اختصار پسند اور مصروف ماہرین کو ایک نظر میں مندرجات کا اندازہ ہوسکے۔ یہ کتاب پالیسی ساز اداروں‘ ماہرین تعلیم اور طلبہ کے لیے مفید ہے۔(عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
’’بچوں کی تربیت: بزرگ والدین کا کردار‘‘ (نومبر ۲۰۰۵ئ) اپنی نوعیت کی منفرد تحریر لگی۔ دادا دادی اور نانا نانی نئی نسل کی تربیت میں کیسے مؤثر کردار ادا کریں‘ بہت سے عملی نکات سامنے آئے۔ ابتدا میں اقبال کا ایک شعر بھی دیا گیا ہے جس میں حضرت موسٰی ؑاور حضرت شعیب ؑکا تذکرہ ہے۔ واضح رہے کہ یہ بات غلط مشہور ہوگئی ہے کہ حضرت موسٰی ؑ نے جس خاتون سے شادی کی‘ وہ حضرت شعیب ؑکی بیٹی تھیں۔ قرآن مجید میں کوئی ایسی بات نہیں کہی گئی۔ (ملاحظہ فرمایئے: تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ ص ۶۲۷-۶۲۸)
’’امریکی قیادت اور عالمی ضمیر‘‘ (نومبر ۲۰۰۵ئ) میں ایک پرانی کہاوت کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھنا چاہیے اور جسے زمانہ برا کہے اسے برا سمجھنا چاہیے۔ یہ دوسری بات کچھ محل نظر ہے۔
مولانا مودودیؒ کے درس قرآن سورئہ مزمل (اکتوبر ۲۰۰۵ئ) پر آپ کا ادارتی نوٹ نظر سے گزرا جس میں دروس قرآن کو مرتب کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ مولانا مودودیؒ کے دروس قرآن و حدیث مرتب کرنے کا کام باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت جاری ہے۔ اب تک کتاب الصوم اور فضائل قرآن جو کہ درس حدیث ہیں ‘مرتب کرکے شائع کیے جاچکے ہیں۔
دروس قرآن کو کاغذ پر محفوظ کرنے کا کام بحمداللہ جاری ہے۔ یہ درس مرتب ہوچکے ہیں اور اشاعت کے لیے تیار ہیں: ا: الفاتحہ، قٓ، الرحمٰن، الواقعہ، الحدید۔ ان میں سے الفاتحہ ادارہ ترجمان القرآن کی طرف سے شائع کی جاچکی ہے باقی درس بھی ادارہ ترجمان ہی شائع کرے گا۔ ب: النبائ، النازعات، عبس‘ التکویر‘الانفطار‘ المطففین اور الانشقاق، یہ درس بھی طباعت کے لیے تیار ہیں۔ ج: جو درس مرتب ہوچکے ہیں‘ تاہم ابھی طباعت کا مرحلہ نہیں آیا: الصف، الجمعۃ، المنافقون، التغابن، الطلاق، التحریم اور الملک۔ د: ان کے بعد القلم سے المرسلٰت تک کے دروس کا کام پیش نظر ہے (مزمل بھی انھی میں شامل ہے)۔ ھ: ان کے علاوہ بھی بہت سے دروس موجود ہیں اور ان پر کام پیش نظر ہے۔
حالیہ زلزلہ رب العالمین کی طرف سے اہل پاکستان خصوصاً ہزارہ اور آزاد جموں و کشمیرکے لیے ایک آزمایش اور تنبیہہ سے کم نہیں۔ ہزاروں لوگ اس میں جاں بحق ہوئے اور بے شمار زخمی ہوئے۔ لیکن اُن لوگوں نے بظاہر کوئی سبق حاصل نہیں کیا جن کو اللہ تعالیٰ نے اس مصیبت سے محفوظ رکھا‘ حالاں کہ ہم سب کے لیے جو اس میں زندہ سلامت رہے‘ بڑا سبق ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنی سابقہ باغیانہ روش سے باز آجائیں‘ خدا اور رسولؐ کے احکامات و فرامین کی پابندی کریں۔ سود‘ جھوٹ‘ دھوکا دہی‘ عہدشکنی‘ خیانت‘ چوری‘ ملاوٹ اور ناقص تعمیر وغیرہ قسم کی برائیوں سے کنارہ کشی اختیار کریںاور سچے دل سے اپنے رب کے حضور توبہ کریں۔
توبہ کا مطلب ہے کہ ہم اپنی غلط اور باغیانہ طرزِزندگی سے واپس پلٹیں اور اپنے رب سے سچا تعلق استوار کریں‘ اس کے دین سے چمٹ جائیں اور آیندہ ہر قسم کی برائی سے بچنے کا ارادہ کریں۔ صرف زبان سے وقتی توبہ توبہ کہنا حقیقی توبہ نہیں جب تک ہم عملی طور پر توبہ کا اظہار نہیں کریں گے۔ اصل ضرورت اجتماعی توبہ کی ہے‘ نیز دعوت و تبلیغ اور نصیحت کا فریضہ ضرور انجام دیا جانا چاہیے (کیونکہ روزانہ اس دنیا سے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد چلے جاتے ہیں‘ اور ہم میں سے ایک کو بھی معلوم نہیں کہ آیندہ ۲۴ گھنٹوں میں میرا نام ان مرنے والے ڈیڑھ لاکھ افراد کی لسٹ میں ہے کہ نہیں)۔
قمرحسین چغتائی ‘مریدکے
’’۸ اکتوبر ___ گرفت‘ آزمایش اور انتباہ‘‘ (نومبر ۲۰۰۵ئ) میں آپ نے جس مسئلے کو موضوعِ نگارش بنایا وہ وقت کی آواز ہے۔ اس موضوع پر مزید لکھا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں بہت سے لوگ گوناگوں مغالطوں کا شکار ہیں۔ آپ نے موضوع کے مختلف پہلوئوں پر خوب روشنی ڈالی ہے۔ ایک توجہ مبذول کرانا بھی مقصود ہے۔ ص ۶ اور ۷ پر تین روایات پیش کی گئی ہیں۔ ان کی سندضعیف ہے۔ جس طرح دوسرے قومی و سماجی امور کے متعلق مباحث میں ترجمان القرآن اپنی استنادی حیثیت برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے‘ اُسی طریقے سے اِس اہم پہلو میں بھی اُسے اپنی استنادی حیثیت اور اپنے مقام و مرتبے کا احساس ہونا چاہیے اور وہی بات لکھنی چاہیے جس کے ثبوت اور صحت میں ادنیٰ سا تامل بھی نہ ہو۔
سرکاری تجزیہ نگار اور خود جناب مشرف امریکی اور مغربی ممالک کی امداد کو بڑھاچڑھا کر بیان کرتے ہیں اور مسلم ممالک کی امداد کو خاص حیثیت نہیں دیتے۔ اسرائیل اور بھارت کے لیے نرم گوشہ چھپائے نہیںچھپتا۔ ڈونرزکانفرنس میں سعودی عرب‘ ایران‘ امارات‘ کویت اور ترکی کے اعلانات ۹۹کروڑ ڈالر‘ جب کہ امریکا‘ برطانیہ‘ یورپی یونین‘ جرمنی‘ فرانس کے کل ۹۳ کروڑ ڈالر ہیں!
…… یہ جدوجہد ۱۳ برس تک مکہ میں جاری رہی‘ پھر وہ وقت آیا جب دشمنانِ حق کے لیے اس دعوتِ توحید کی مقبولیت اور روز افزوں ترقی ناقابلِ برداشت ہوگئی اور انھوں نے آنحضرتؐ کے قتل کا انتظام کرکے اس دعوت کو فنا کر دینا چاہا تو داعی حق اور اس کے پیروان صفاکیش نے مکہ کو خیرباد کہہ کر مدینہ کو اپنے مشن کا مرکز بنایا اور وہاں سے اس نصب العین کی خاطر جدوجہد شروع کر دی جس کو وہ اپنا مقصد زندگی بناچکے تھے‘ اور جب کفار نے وہاں بھی چین نہ لینے دیا اور ادھر اہلِ ایمان کی ایک منظم جمعیت بھی فراہم ہوچکی تھی تو بدی کے استیصال اور حق و عدل کی بقا کے لیے تلوار اٹھائی گئی۔ ایک مدت تک تو طاغوتی طاقتیں خود بڑھ کر مدینہ پر حملہ آور ہوتی رہیں اور مسلمان صرف مدافعت کرتے رہے۔ اس دوران میں وہ خوف‘ دہشت‘ بے اطمینانی اور طرح طرح کے خطرات برداشت کرتے رہے اور جان و مال کی ہر ممکن قربانی کر کے حق کی شہادت دیتے رہے‘ یہاں تک کہ حدود عرب میں کفر کی شوکت ٹوٹ گئی اور طاغوت کا علم سرنگوں ہوگیا۔
اس وقت مسلمانوں کا قلب اس تائید و نصرت الٰہی پر شکرو امتنان کے جذبات سے بھر تو گیا مگر ان کی سواریوں کے کجاوے اسی طرح بندھے کے بندھے رہے اور ان کی تلواریں اسی طرح کھنچی رہیں۔ ان کے ہاتھ‘ جو اب تک دفاع کے لیے اٹھ رہے تھے‘ اب جارحانہ اقدام کے لیے سرگرم کار ہوگئے کیونکہ‘ گو عرب میں بدی نے ہتھیار ڈال دیے تھے‘ مگر اس کے باہر ہر چہار طرف اس کی حکمرانی پوری شان کے ساتھ قائم تھی اور مسلمان اپنے اس مشن کو بھول نہیں سکتا تھا کہ منکرات کو مٹا دینا چاہیے‘ جہاں کہیں بھی ہوں‘اور ہرغیراللہ کی آقائی پامال ہوجانی چاہیے‘ خواہ وہ کسی گوشۂ ارض پر ہو‘ یہ زمین خدا کی پیدا کی ہوئی ہے‘ اس پر اسی کا حکم چلنا چاہیے‘ اسی کے قانون کا اتباع ہونا چاہیے‘ اسی کی مرضی پوری ہونی چاہیے‘ اور اس ’’چاہیے‘‘ کی کل ذمہ داری میرے سر پر ہے۔ چنانچہ یہ ذمہ داری انھوں نے پورے احساس فرض کے ساتھ ادا کی‘ اور جب تک وہ ایسا کرتے رہے‘ اللہ تعالیٰ کی موعودہ تائید و نصرت ان کے ہمرکاب رہی‘ یہاںتک کہ اللہ تعالیٰ سے باندھا ہوا عہد اقامت دین فراموش ہونا شروع ہوا اور دین حق کا چڑھتا ہوا سورج مسلمانوں کی قسمت کا ماتم کرتا ہوا زوال پذیر ہونے لگا۔ اور اب دوبارہ بامِ عروج پر آنے کے لیے اس مبارک صبح کا منتظر ہے جس میں حاملین قرآن عہدفراموشی کے خواب گراں سے بیدار ہو کر اپنے فرضِ منصبی کو ازسرنو سنبھال لیں گے۔ (’فریضۂ اقامت دین‘ ، مولانا صدرالدین اصلاحی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۷‘ عدد ۵-۶‘ ذی القعدہ و ذی الحجہ ۱۳۶۴ھ‘ نومبر و دسمبر ۱۹۴۵ئ‘ ص ۸۱)