مضامین کی فہرست


نومبر ۲۰۰۴

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شخصی اقتدار‘ فوجی مداخلت و حکمرانی اور عوامی نمایندوں کا نفاق و بے وفائی

۱۵ اکتوبر ۲۰۰۴ء کو قومی اسمبلی میں سرکاری جماعت کے ارکان اسمبلی نے حزب اختلاف کی پرزور اور شدید مزاحمت اور ہمہ جہتی مخالفت کے باوجود جس سرعت‘ دھاندلی اور منہ زوری سے صدر کے لیے دو عہدوں کے بل کو منظور کیا وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ حکمران جماعتوں کے اتحاد نے یہ بل منظور کرکے دستور اور جمہوریت کے سینے میں چھرا گھونپا ہے‘ خود اپنے اوپر اور پارلیمنٹ پر بے اعتمادی کا ووٹ دیا ہے‘ اور سب سے بڑھ کر جنرل پرویز مشرف کے پانچ سالہ دورحکمرانی کی ناکامی پر مہرتصدیق ثبت کر دی ہے۔ ان سب پر مستزاد‘ اپنے زعم میں جنرل پرویز مشرف کو پارلیمنٹ کے ایک دستور سے متصادم فاسد قانون (bad law)کا سہارا لے کر دستور کی خلاف ورزی‘ سترھویں ترمیم کے قانونی تقاضوں اور خود اپنے ۲۵ دسمبر۲۰۰۳ء کے قومی عہدوپیمان (national commitment) سے نکلنے اور بدعہدی کرنے کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔یہ  عوام کے نمایندوں کے لیے سیاسی خودکشی سے کم نہیں۔

اس اقدام اور اس کے پس منظر اور پیش منظر پر جتنا بھی غور کیا جائے اسے ملک و ملت کے لیے اندوہناک ہی کہا جا سکتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف دہائی دے رہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں فوج کو کیوں نشانۂ تنقید بنایا جا رہا ہے لیکن اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری خود ان پر اور ان کے پارلیمانی حواریوں پر آتی ہے کہ ان کے ان اقدامات کی وجہ سے ملک کی وہ فوج جسے کبھی صد فی صد عوام کی تائید حاصل تھی اب اتنی متنازع بنادی گئی ہے کہ ہر سطح پرہدف تنقید بنی رہی ہے اور اس کی دفاعی صلاحیتیں بھی بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔ فوج کو سیاست میں ملوث کرنے اور اسے مستقل سیاسی کردار کا حامل قرار دینے کا اس کے سوا کوئی اور نتیجہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کے اس کردار کا ہر سطح پر پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ کے باہر احتساب ہو۔ جنرل پرویز مشرف نے محض اپنے اقتدار کی خاطر وردی کو ہدف بنوایا ہے۔ ان کی اس ہوس کی قیمت فوج کا پورا ادارہ اور قوم کی نگاہوں میں اس کے مقام کو ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ جنرل صاحب کے ایک سینیررفیق لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی نے ان کو بڑا صائب مشورہ دیا ہے کہ اب بھی وہ اپنے عہد کو جو اب ہمارے دستور کا حصہ ہے پورا کریں اور فوج کو اس بدنامی سے بچالیں جو بصورت دیگر ناگزیر ہوگی۔ ان کا مشورہ ایک عقل مند دوست کا مشورہ ہے جس پر جنرل صاحب کو سنجیدگی سے غور اور نیک نیتی سے عمل کرنا چاہیے:

لیکن ایسا کیا ہوگیا ہے کہ جس سے صرف ایک باوردی صدر ہی نبٹ سکتا ہے‘ یہ کوئی نہیں بتاتا… میں نہیں سمجھتا کہ صدر کو پیچیدہ صورت حال کو مزید پیچیدہ کرنے کی کوئی خواہش ہے۔ یہ امکان کہ کچھ لوگ سڑکوں پر آجائیں گے جن کے پُرتشدد ہونے کا خاصا امکان ہے‘ ایک پریشان کن خیال ہے۔ اس بدنظمی کا الزام لامحالہ جنرل کی وردی سے دیرپا محبت پر لگے گا جو بہت پریشان کن ہوگا۔ کیا ہوگا اگر وردی نے بھی کوئی مدد بہم نہ پہنچائی؟ نہیں‘ میں نہیں سمجھتا کہ وردی اور تمغوں سے آراستہ صدر ایک اچھا تصور ہے۔ (ڈیلی ٹائمز‘ ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)

حالات کی ستم ظریفی ہے کہ عوام کے وہ نمایندے جو پارلیمانی جمہوریت کو مستحکم کرنے اور دستور کے مطابق ملک کا نظام زندگی چلانے کے لیے منتخب ہوئے تھے--- اور مسلم لیگ (ق) کا انتخابی منشور پارلیمانی جمہوریت اور پارلیمان کو مضبوط ومستحکم اور مؤثر کرنے کے دعووں پر مشتمل تھا--- ان کی ایک تعداد دستور کے خلاف ایسا قانون منظور کرتی ہے کہ ایک شخص بیک وقت فوج کا باوردی سربراہ اور سروس آف پاکستان کا تنخواہ دار ملازم بھی ہوسکتا ہے اور ملک کا صدر بھی جو خالص سیاسی عہدہ ہے‘ جب کہ خود فوج کے ریٹائرڈ سوچنے سمجھنے والے افراد صدر کو متنبہ کر رہے ہیں کہ وہ یہ خطرناک کھیل نہ کھیلیں‘ اور دستور کے تحت انھیں جو غیرمعمولی مواقع دیے گئے ہیں ان پر قناعت کر کے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔

صدر کے دو عہدوں پر قابض رہنے کے سلسلے میں خود صدر اور ان کے ’’نورتن‘‘ گذشتہ چند مہینوں سے ڈرامے کے مختلف ایکٹ وقتاً فوقتاً اسٹیج کرتے رہے ہیں‘ اور اب دو عہدوں کے قانون کی شکل میں ابہام (suspense) کو ختم کر کے آخری ایکٹ کی طرف پیش رفت کا سماں باندھا جا رہا ہے۔ لیکن یہی وہ فیصلہ کن وقت ہے جب ایک بار پھر اس مسئلے کے سارے پہلوئوں پر غور کر لیا جائے تاکہ اب بھی ملک کو مزید بگاڑ اور تباہی سے بچانے کے لیے کوئی مؤثر اقدام ہو سکے ورنہ ہمیں صاف نظر آرہا ہے کہ ایک شخص کی ہٹ دھرمی اور مخصوص سیاسی گروہوں کی مفاد پرستی کے نتیجے میں ملک جس بحران اور خلفشار کی طرف جا رہا ہے‘ وہ کسی کے لیے بھی خیر کا پیغام نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ عمل خود جنرل پرویز مشرف اور اس سے بھی زیادہ فوج کے لیے بحیثیت ایک دفاعی ادارے کے‘ بڑے ہی مہلک مضمرات کا حامل ہے۔ ابھی وقت ہے کہ عقل کے ناخن لیے جائیں اور ملک اور فوج کو اس بحران سے بچا لیا جائے۔

باطل اورفاسد قانون

’’دو عہدوں کا قانون‘‘ اگرچہ اسے پارلیمنٹ اکثریت سے منظور کرلے تب بھی یہ صرف ایک آمرانہ‘ استبدادی اور من مانی پر مبنی (arbitrary) قانون ہی نہ ہوگا بلکہ دستور کی اصطلاح میں‘ ایک اصلاً باطل اور فاسد قانون (void ab initio) ہوگاجس کی کوئی دستوری اور قانونی حیثیت نہیں ہوسکتی۔

سب سے پہلے ایک اصولی بات سمجھ لی جائے۔ بلاشبہہ ملک کی پارلیمنٹ اصل قانون ساز ادارہ ہے لیکن پارلیمنٹ بھی کوئی باطل اور فاسد قانون بنانے کی مجاز نہیں۔ اسلامی اصول فقہ کی رو سے چونکہ قرآن و سنت قانون کا اصل منبع ہیں اس لیے کوئی قانون ساز ادارہ قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتا۔ اگرخدانخواستہ کسی پارلیمنٹ کی صد فی صد اکثریت بھی شراب اور زنا کو قانون کے ذریعے جائز کرنے کا اعلان کر دے تو وہ قانون فاسد اور باطل ہی ہوگا۔ اسی طرح جن ممالک میں تحریری دستور ہے ان میں مقننہ پابند ہوتی ہے کہ دستور کے خلاف یا اس سے متصادم کوئی قانون سازی نہیں کر سکتی اور اگر وہ کوئی ایسا قانون بنا دیتی تو وہ سندجواز سے محروم رہتا ہے۔

جدید اصول قانون (jurisprudence)میں ایک بڑا بنیادی اضافہ( contribution) دوسری جنگ عظیم کے بعد نازی جرمنی کے ذمہ دار افراد کے مقدمے میں‘ جسے نیورمبرگ ٹرائل کہا جاتا ہے‘ ہوا۔ اس کے فیصلوں کو عالم گیر قبولیت حاصل ہے اس میں یہ اصول طے کیا گیا کہ کچھ اقدار اور اصول فطری انصاف اور عالم گیر صداقتوں کا درجہ رکھتے ہیں اور اگر ان کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اور انسانیت کے خلاف جرائم کاارتکاب کیا جاتا ہے‘ تومحض یہ بات اس کے لیے جوازفراہم نہیں کرسکتی کہ حکم مجاز ادارے نے دیا تھا یا یہ کہ ایسا اقدام کسی ایکٹ آف پارلیمنٹ‘ یعنی قانون کے تحت کیا گیا تھا۔ یہی وہ بنیاد تھی جس پر جرمن پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے اُن قوانین کو باطل قرار دیا گیا جو انسانی اقدار کے خلاف تھے اور نازی جرمنی کے چیف جسٹس آرنسٹ یاننگ کو بطور ملزم اس عدالت میں پیش کیا گیا اور اسے عمرقید کی سزا دی گئی۔ اس کا یہ دفاع کچھ بھی کام نہ آیا کہ اس نے ان قوانین کو نافذ کرنے کے احکام دیے تھے جن کو پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔ نیورمبرگ کی عالمی عدالت کا فیصلہ تھا کہ ایسے اقدام جو بظاہر ملکی قانون کا درجہ رکھتے ہوں اور ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے ہی کیوں نہ بنائے گئے ہوں لیکن اگر ایسے ایکٹ آف پارلیمنٹ بنیادی طور پر اخلاقی اور انسانی جمہوری قدروں سے بالاتر یا متصادم ہوں توانھیں جائز قانون اور جائز اقدام تصور نہیں کیاجاسکتا۔ ایسے قوانین اپنی پیدایش کے وقت سے ہی باطل اور فاسد ہیں اور ان کو عدالت نافذ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔

جدید اصول قانون کے اس کلیے کی روشنی میں آیئے اس امر کا جائزہ لیں کہ اگر ’’دو عہدوں کا قانون‘‘ اسمبلی میں منظور ہونے کے بعد سینیٹ سے گزر کر صدر کی منظوری (assent ) حاصل کر بھی لیتا ہے تب بھی اس کی حیثیت کیا ہوگی۔ وہ ایک باطل اور فاسد قانون (void piece of legislation) ہوگا جس کی کوئی قانونی اور اخلاقی حیثیت نہیں ہوگی۔ اس کی وجوہ مختصراً یہ ہیں:

۱-            دستور ملک کا بالاتر قانون ہے اور کوئی قانون دستور سے متصادم نہیں ہوسکتا۔ ہر قانون سازی کو دستور کی کسوٹی پر پر کھا جاتا ہے اور جو قانون اس کے برعکس ہو‘ وہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے اور کسی حیثیت سے بھی مؤثر نہیں ہو سکتا۔ اب دیکھیے دستور کیا کہتا ہے:

(i) دفعہ ۴۱ کی رو سے کوئی شخص جو قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کا اہل نہ ہو‘ وہ صدر نہیں ہوسکتا۔ اور قومی اسمبلی کے رکن کی اہلیت اور نااہلیت کا تعین دفعہ ۶۲ اور دفعہ ۶۳ میں کر دیا گیا ہے جس کی رو سے:

(د) وہ پاکستان کی ملازمت میں کسی منفعت بخش عہدے پر فائز ہو ماسواے ایسے عہدے کے جسے قانون کے ذریعے ایسا عہدہ قرار دیا گیا ہو جس پر فائز شخص نااہل نہیں ہوتا۔

دستور کی دفعہ ۲۶۰ میں سروس آف پاکستان کی تعریف کر دی گئی ہے جس میں ’’فوج کی ملازمت‘‘ اپنی ہر شکل میں موجود ہے۔

اسی طرح دفعہ ۶۳ کی شق (ک) کی رو سے سروس آف پاکستان سے ریٹائر ہونے والا کوئی شخص بھی اہل نہیں ہو سکتا جب تک ملازمت سے فراغت پر دو سال نہ گزر جائیں۔

شق (د) میں قانون کے ذریعے جس عہدے کو مستثنیٰ کیے جانے کا ذکر ہے وہ دفعہ ۲۶۰ کو   بے اثر (over-rule) نہیں کرسکتا۔

(ii) دستور کی دفعہ ۲۴۴ کے تحت مسلح افواج کے تمام ارکان کے لیے لازم کیا گیا ہے کہ وہ یہ حلف اٹھائیں کہ: ’’میں اپنے آپ کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوںمیں مشغول نہیں کروں گا‘‘۔

اس عہد کو محض قانون کے ذریعے نہ بدلا جا سکتا ہے اور نہ اس سے کسی کو مستثنیٰ کیا جاسکتا ہے۔

(iii) سترھویں دستوری ترمیم کے ذریعے دفعہ ۴۱ میں جو شرط عائد کی گئی تھی وہ دستوری ترمیم کا مقصد اور ہدف تھی ‘یعنی یہ کہ جنرل پرویز مشرف کو (d) (i) ۶۳ سے جو استثنا دیا گیا ہے وہ ۳۱ دسمبر۲۰۰۴ء کو ختم ہوجائے گا۔ اب دستوری ترمیم کے اس دستوری تقاضے سے فرار ممکن نہیں‘ اس لیے کہ قانون سازی کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ ترمیم کے بارے کوئی ایسی ترمیم نہیں ہوسکتی جو اصل ترمیم کے مقصد کے منافی اور اس کو کالعدم (undo) کرنے والی ہے۔

دو عہدوں کا قانون اگر تسلیم کر لیا جائے تو وہ سترھویں ترمیم کے مقصد کو کالعدم کرتا ہے‘ اس کی مکمل طور پر نفی کر دیتا ہے۔ یہ سادہ قانون کے ذریعے دستور میں تبدیلی کے مترادف ہوگا جو باطل اور فاسد ہے۔

(iv) یہ قانون دستور کے پورے ڈھانچے (structure) کو تہہ و بالا کر دیتا ہے۔ جس تقسیمِ کار پر دستور مبنی ہے اس میں صدر کا فیڈریشن کی علامت ہونا‘ پارلیمنٹ کی بالادستی‘ سول اور فوجی نظام کا الگ الگ ہونا‘ کسی ایک فرد کے ہاتھوں میں قوت کا ایسا ارتکاز نہ ہونا جو باقی اداروں کو غیرمؤثر کر دے‘شامل ہیں۔ یہ ’’قانون‘‘ ان تمام پہلوئوں سے دستور کے نظام کار سے متصادم ہے اور فردواحد کو دستوریا قانون سے بالا کرنے کی کوشش ہے جو جمہوریت کی ضد اور پارلیمانی نظام حکومت کی نفی ہے۔

(v) دفعہ ۴۲ کے تحت صدر کے حلف نامے میں ایک اہم شق یہ بھی ہے کہ:

میں اپنے ذاتی مفاد کو اپنے سرکاری کام اور اپنے سرکاری فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہونے دوں گا۔

حلف کی اس شق اور دو عہدوں کے قانون میں چونکہ تصادم ہے‘ اس لیے کہ یہاں مفاد کا ٹکرائو (conflict of interest) آرہا ہے۔ یہ قانون جنرل پرویز مشرف ہی کو ایک اعتبار سے دستور کے متعدد احکامات سے استثنا دے رہا ہے۔ اس لیے وہ خود اس کی منظوری نہیں دے سکتے۔  اگر وہ اس قانون کو منظوری دیتے ہیں تو اپنے ذاتی مفاد کو بالاتر رکھتے ہیں اور حلف کی خلاف ورزی کی بنیاد پر اپنے کو صدارت کے عہدے کے لیے نااہل بنا لیتے ہیں۔

(vi)  یہ تو دستوری اور قانونی بحث تھی لیکن صدارت کے لیے سب سے اہم چیز ایک شخص کی صداقت‘ عہد کی پاسداری‘ دھوکادہی سے پاک ہونا اور امانت و دیانت ہے۔ دستور کی دفعہ ۶۲ میں بھی دو شقیں ایسی ہیں جو اس پہلو سے اہم ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ وہ شخص صدر نہیں بن سکتا جو:

(و) سمجھ دار‘ اور پارسا نہ ہو اور فاسق ہو‘ اور ایمان دار اور امین نہ ہو۔

(ز) کسی اخلاقی پستی میں ملوث ہونے یا جھوٹی گواہی کے جرم میں سزایافتہ ہو۔

بدترین بدعھدی

سترھویں دستوری ترمیم کے سلسلے میں اصل جوہری شق ہی یہ تھی کہ صدر چیف آف اسٹاف کا عہدہ ۳۱دسمبر۲۰۰۴ء تک چھوڑدے گا۔ سینیٹر ایس ایم ظفر جو اس معاہدے کو انجام کار تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے تھے اپنی کتاب Dialogue on the Political Chess Board میں اس کی پوری تفصیل بیان کرتے ہیں۔ کتاب کا آغاز اس آیت ربانی سے کرتے ہیں:

وَلَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِھَا (النحل ۱۶: ۹۱)

اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو۔

کتاب کا انتساب مشہور صحابی رسولؐ حضرت ابوجندلؓ کے نام کرتے ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو نمایاں کرتے ہیں:

ابوجندل صبر کرو‘ اللہ تعالیٰ تمھارے لیے آسانی کا سامان کرے گا۔ ہم نے ان لوگوں سے ایک معاہدہ کرلیا ہے اور انھیں اپنا عہدوپیمان دے دیا ہے اور ہم اپنے عہد سے پھر نہیں سکتے۔

قرآن و سنت کی اس تذکیر کے ساتھ وہ بیان کرتے ہیں کہ:

میں نے صدر کو بتایا کہ ایم ایم اے نے صدر کے انتخاب کے مطالبے سے دستبردار ہونے پر رضامندی ظاہر کی ہے اور اس کے بجاے انھیں دستور کے تحت منتخب صدر تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے‘ بشرطیکہ وہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرسکیں۔ اس صورت میں وہ آپ سے دو میں سے ایک عہدہ چھوڑنے کے لیے کوئی حتمی تاریخ معلوم کرنے میں حق بجانب ہیں۔ (ص ۱۵۸)

اسی کے نتیجے میں صدر نے ایک عہدہ چھوڑنے کی شرط تسلیم کی جو معاہدے کا اصل نکتہ تھی۔

اب یہ بات طے ہوگئی کہ اس صورت میں صدر حتمی طور پر ایک قطعی تاریخ کا عندیہ دیں گے…پھر جو تاریخ بتائی جائے گی اس کا اطلاق نااہلیت کی دفعہ‘ یعنی دستور کی دفعہ ۶۳ (د) کے ذریعے ہوگا۔ (ص ۱۶۱)

دیکھیے بالکل واضح ہے کہ اصل ایشو کیا تھا۔ اور دستور کی دفعہ (d) (i) ۶۳ کو سترھویں ترمیم میں لانے کا مقصد چیف آف اسٹاف کے عہدے سے فراغت تھی۔ جب دستوری ترمیم کا مقصد ہی یہ تھا تو استثنا کا سہارا لیے جانے کی کوئی گنجایش نہیں رہتی:

چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ چھوڑنے کے بارے میں انھوں نے کہا کہ وہ اس مسلمہ اصول کو تسلیم کرتے ہیں کہ صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف کے دونوں عہدے ایک شخص نہیں رکھ سکتا۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ایک عارضی مدت کے لیے سول حکومت کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ مگر انھوں نے کہا کہ انھوں نے اس پر بھی لچک کا اظہار کیا ہے۔ (ص ۱۸۵)

اس کے نتیجے میں طے ہوا کہ ایک عہدہ‘ یعنی چیف آف اسٹاف کا عہدہ ۳۱دسمبر ۲۰۰۴ء تک چھوڑ دیا جائے گا۔ دفعہ ۶۳ (د) ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء سے نافذ العمل ہوگی جو اس تاریخ کے بعد دو مناصب پر برقرار رہنے کو نااہل قرار دے گی۔

یہ معاہدے کے اسی مرکزی عہدوپیمان (commitment) کا اعلان عام تھا جو صدر نے ٹیلی وژن پر قوم اور پوری دنیا کے سامنے یوں کیا :

I have decided to leave the Army Chief post before Dec 31st, 2004. But it will be upon me to decide about the timing within this period.

میں نے ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء سے پہلے آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیاہے۔ لیکن اس مدت کے دوران اس کے وقت کا تعین میں خود کروں گا۔

دفعہ ۶۳ (i) (د) کے ساتھ دفعہ ۴۳ کا ذکر کرنے کا مسئلہ بھی لیاقت بلوچ صاحب نے اٹھایا لیکن ایس ایم ظفر صاحب نے اطمینان دلایا کہ دفعہ ۶۳ اس سلسلے میں کافی ہوگی (ص ۱۹۴)۔

ایس ایم ظفر صاحب نے اپنی کتاب  میں (ص ۲۲۶-۲۲۷) یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ صدر کو اعتماد کا ووٹ دینے کے سلسلے میں ایم ایم اے نے کوئی وعدہ نہیں کیا تھا‘ البتہ اس کی مخالفت نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا جسے انھوں نے پورا کر دیا۔

سترھویں ترمیم اس بارے میں امرقاطع ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی بری فوج کی سربراہی سے ۳۱دسمبر۲۰۰۴ء تک فراغت کے بعد سیاست میں فوج کی مداخلت کا دروازہ بند ہوجائے گا۔ ایس ایم ظفر صاحب نے سینیٹ میں ۲۹ دسمبر کو اپنی تقریر میں اس بات کو اس طرح ادا کیا اور اسی کو انھوں نے اپنی کتاب میں ضمیمہ نمبر۹ کی شکل میں اصل معاہدے کے حاصل کے طور پر پیش کیا ہے:

اب میںاپنے حتمی نتیجے تک آئوں گا۔ جناب عالی! وقت آگیا ہے کہ ہم آگے کی طرف دیکھیں اور ہمیں لازماً آگے کی طرف پیش رفت کرنا چاہیے۔ ہم نئے ہزاریے میں ہیں‘ اب یہ وقت ہے کہ ہم سب عہد کریں‘ تمام سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں کو عہد کرنا چاہیے‘بلکہ درحقیقت مکمل سول سوسائٹی کو‘ بشمول افواجِ پاکستان کے افسران اور تمام فوجیوں کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ آیندہ سول میں فوج کی طرف سے کوئی مداخلت نہیں ہوگی۔ (ص ۲۷۷)

یہ تھا اصل مسئلہ اور جنرل پرویز مشرف اور پوری پارلیمنٹ کا عہدوپیمان۔ یہ ایک سیاسی اور عمرانی معاہدہ تھا جسے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ توڑا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ  جو بھی اسے توڑ رہا ہے‘ یا توڑنے کے لیے سامان فراہم کر رہا ہے وہ دستور کا باغی‘ جمہوریت کا قاتل اور قوم کا مجرم ہے اور وہ اللہ کی پکڑ سے بھی نہیں بچ سکے گا۔

اس قانون کے فاسد اور خلاف دستور ہونے کے بارے میں تمام ہی آزاد ماہرین قانون یک زبان ہیں کہ یہ دستور کے خلاف اور جمہوریت کی نفی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قرارداد پوری قانون دان برادری کے خیالات کی ترجمان ہے:

قومی اسمبلی نے ایک ایکٹ کے ذریعے‘ جو دستور کو پامال کرتا ہے اور جو ریاستی اداروں کو فرد واحد کے خبط (whim)کے تابع کرتا ہے‘ ملک کی دستوری حکومت کو ذاتی حکومت میں تبدیل کر دیا ہے۔ (ڈان، ۱۹ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)

اس بارے میں دو آرا مشکل ہیں کہ یہ قانون کتاب قانون کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا اور پارلیمنٹ کے لیے خودکشی کا پروانہ ہے۔ اس کے نتیجے میں حکمران پارٹی کی جو بھی سیاسی حیثیت تھی وہ خاک میں مل گئی ہے۔ حکومت حکمرانی کے لیے ہر جواز سے محروم ہوگئی ہے اور جنرل صاحب اور ان کی پوری ٹیم نے اپنے اعتبار (credibility ) اور سندجواز (legitimacy )‘ دونوں پر وار کر کے خود ہی انھیں تار تار کر دیا ہے۔

مسئلہ صرف قیادت کے اعتبار اٹھ جانے نہیں‘ پورے نظام امر اور اصحاب امر کی سندجواز کا ہے۔ اور جو قیادت اور جو نظام اعتبار اور جواز دونوں سے محروم ہو وہ کھوٹے سکوں کی مانند ہے اور اس کے دن گنے جاچکے ہیں۔ جس ملک کا سربراہ اور حکمران پارٹی ایسے واضح عہدوپیمان کے بعد ان کو پامال کرنے پر تلے ہوئے ہوں‘ ان کے قول و فعل کا دنیا میں کسی کو اعتبار نہیں ہوسکتا۔

ایس ایم ظفر صاحب نے سورۃ النحل کی آیت ۹۱ نقل کی ہے جو عہد کی پاسداری سے متعلق ہے۔ ہم اس کے ساتھ اگلی آیت بھی پیش کرتے ہیں جو ایک آئینہ ہے جس میں جنرل پرویز مشرف اور حکمران پارٹی اپنا پورا چہرہ دیکھ سکتی ہے اور اپنے انجام کی تصویر بھی اسے اس میں صاف نظرآجائے گی:

وَاَوْفُوْا بِعَھْدِ اللّٰہِ اِذَا عٰھَدْتُّمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِھَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰہَ عَلَیْکُمْ کَفِیْلًاط اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَo وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَھَا مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْکَاثًاط تَتَّخِذُوْنَ اَیْمَانَکُمْ دَخَلًام بَیْنَکُمْ اَنْ تَکُوْنَ اُمَّۃٌ ھِیَ اَرْبٰی مِنْ اُمَّۃٍط اِنَّمَا یَبْلُوْکُمُ اللّٰہُ بِہٖط وَلَیُبَیِّنَنَّ لَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ o (النحل ۱۶:۹۱-۹۲)

اللہ کے عہد کو پورا کرو‘ جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو‘ جب کہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ بنا چکے ہو۔ اللہ تمھارے سب افعال سے باخبر ہے۔ تمھاری حالت اس عورت کی سی نہ ہوجائے جس نے اپنی ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ تم اپنی قسموں کو آپس کے معاملات میں مکروفریب کا ہتھیار بناتے ہو تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ کر فائدے حاصل کرے حالانکہ اللہ اس عہدوپیمان کے ذریعے سے تم کو آزمایش میں ڈالتا ہے‘ اور ضرور وہ قیامت کے روز تمھارے اختلافات کی حقیقت تم پر کھول دے گا۔ (النحل ۱۶: ۹۱-۹۲)

اور عہدومیثاق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے بارے میں اللہ کا فرمان یہ ہے کہ اس کی زد خود ایمان تک پر پڑتی ہے:

اَوَ کُلَّمَا عٰھَدُوْا عَھْدًا نَّبَذَہٗ فَرِیْقٌ مِّنْھُمْط بَلْ اَکْثَرَھُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَo

یہاں تک کہ جب کبھی ان لوگوں نے پکا عہد کیا تو ان میں سے ایک فریق نے اس کو توڑ دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں اکثر ایمان سے عاری ہیں۔ (البقرہ ۲:۱۰۰)

فَمَنْ تَوَلّٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (اٰل عمرٰن ۳:۸۲)

اور جواس کے بعد (اپنے عہد سے) پھر جائیں تو یہی فاسق لوگ ہیں۔


اس مسئلے کے قانونی اور اخلاقی پہلو بلاشبہہ بہت اہم اور ملک کے مستقبل اور یہاں جمہوری سیاست کے فروغ کے سلسلے میں کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے بڑے دور رس سیاسی مضمرات بھی ہیں۔

عدم استحکام

جنرل صاحب اور ان کے حواری سیاسی استحکام کی خاطر وردی کی بات کرتے ہیں اور جنرل صاحب نے پانچ سال میں جو نظام قائم کیا ہے اور جسے وہ پایدار جمہوریت (sustainable democracy )قرار دیتے ہیں‘ اس کو بچانے اور آگے بڑھانے کا ذکر کرتے ہیں۔ لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ خود اس کے بارے میں اس قانون کا فتویٰ کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پانچ سال میں انھوں نے استحکام کی طرف قدم بڑھایا ہے‘ جب کہ اگر ایسے کسی قانون کی ضرورت ہے تو وہ صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب ان کا بنایا ہوا گھروندا استحکام سے محروم ہو۔ دراصل جنرل صاحب غیریقینی اور مجرم ضمیری کا شکار ہیں اور یہ قانون ان کے پانچ سالہ دور کے حاصل پر عدم اطمینان کا اظہار ہے۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ جو سیاسی نظام انھوں نے قائم کیا وہ متزلزل ہے۔ سیاسی قوت کا مرکز نہ عوام ہیں‘ نہ دستور‘ اور نہ پارلیمنٹ‘ صرف فوج  قوت کا منبع ہے‘ اور انھیں خطرہ ہے کہ ان کا بنایا ہوا یہ محل بندوق کی نالی کے بغیر زمین بوس ہوجائے گا۔ اگر وہ پانچ سال میں بھی اپنے پائوں پر کھڑے ہونے والا کوئی نظام قائم نہیں کرسکے تو مزید چار سال میں کیا کر سکتے ہیں؟ ان کے ایک مداح اسٹیفن کوہن (Stephen Cohen) نے اپنی تازہ ترین کتاب The Idea of Pakistan میں جنرل صاحب اور فوج کی حکمرانی کی ناکامی کا یوں اعتراف کیا ہے:

فوج کے ہر جگہ موجود ہونے کی وجہ سے پاکستان قومی سلامتی کی ایک ایسی ریاست رہے گا جس میں ترقی اور جواب دہی کی قیمت پر سلامتی کے مقاصد فیصلہ کن ہوں گے‘ نیز  جواز اور قوتِ متخیلہ کے فقدان کی وجہ سے سمت تبدیل کرنے کے قابل بھی نہ ہوگا۔ صدر اور آرمی چیف دونوں کی حیثیت سے پرویز مشرف کی کارکردگی غیراطمینان بخش ہے۔ مشکل نظر آتا ہے کہ مشرف کی قیادت کے مزید چار برس کسی طرح پاکستان کے مستقبل میں ڈرامائی تبدیلی لاسکیں۔ (بحوالہ Military's Broken Law لا از عرفان حسین‘ ڈان، ۱۶ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)

پھر بات صرف جنرل صاحب کے بنائے ہوئے نظام کے عدم استحکام ہی کی نہیں بلکہ پورے نظامِ حکمرانی کی تباہی کی ہے۔ جنرل صاحب کے پورے دور حکومت اور خصوصیت سے اس ’’دو عہدوں کے قانون‘‘ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ملک کے اداروں کو تباہ کر دیا گیا ہے اور سارے نام نہاد استحکام کی بنیاد فرد واحد کو قرار دے دیا گیا ہے۔ شخصی حکمرانی اور وہ بھی فوجی لبادے میں‘ خرابی کی اصل جڑ ہے۔ ملکوں میں استحکام اداروں کے استحکام سے آتا ہے۔ فرد تو آنی جانی چیز ہے۔ جہاں استحکام کا انحصار محض ایک فرد پر ہو وہ آمریت ہی کو جنم نہیں دیتا بلکہ خود استحکام بھی خواب و خیال سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ جمہوریت کے درخت کو جو چیز کسی گھن کی طرح کھا رہی ہے اور جس نے اسے کھوکھلا کر دیا ہے‘ وہ یہی شخصی حکمرانی‘ ارتکاز اختیارات اور فردواحد کی ناگزیریت ہے۔ وقت آگیاہے کہ خرابی کی اس اصل جڑ پر ضرب لگائی جائے اور استحکام کے لیے وہ راستہ اختیار کیاجائے جو پایدار ہو۔ یہ صرف اداروں کے استحکام سے حاصل ہوسکتا ہے اور اس کے لیے جن اداروں کا استحکام ضروری ہے وہ دستور‘ پارلیمنٹ‘ سیاسی جماعتیں‘ عدلیہ‘ قانون کی حکمرانی اور جواب دہی کا مؤثر نظام ہیں۔ بات صرف ایک فرد کی ذات کی نہیں‘ گو جنرل صاحب اپنی تمام ساکھ اور جواز کھوچکے ہیں۔ لیکن اب بھی ہمارا ہدف ان کی ذات نہیں‘ ان کی یہ کوشش ہے کہ شخصی حکمرانی کے نظام کو ملک پر مسلط کر دیں۔

فوجی قیادت کے سیاسی عزائم

اس کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ شخصی حکمرانی بھی دراصل فوجی حکمرانی (military rule) کی شکل میں ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کی راہ میں جو مشکلات اور موانع حائل رہے ہیں‘ ان میں سیاسی قوتوں کی کمزوریوں اور بے تدبیریوں کے ساتھ فوجی قیادت کے سیاسی عزائم اور سیاسی عمل میں بار بار مداخلت کا بڑا ہی بنیادی کردار ہے۔ جو بھی فوجی طالع آزما میدان میں آیا ہے اس نے استحکام اور قومی مفاد ہی کا سہارا لیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں استحکام اور قومی مفاد دونوں ہی پامال ہوئے ہیں۔

آج صورت یہ ہے کہ فوج کی دفاعی صلاحیت کمزور سے کمزور تر ہو رہی ہے اور سیاست‘ انتظامیہ‘ معیشت اور اجتماعی زندگی کے دوسرے دائروں میںاس کا کردار بڑھ رہا ہے۔ ان دائروں کے لیے نہ اس کو تربیت دی گئی ہے اور نہ اسے ان میں کوئی مہارت حاصل ہے۔ سول انتظامیہ میں آج ایک ہزار سے زیادہ ریٹائرڈ یا حاضر سروس فوجی چھائے ہوئے ہیں‘ سفارت کاری ہو یا تعلیمی اداروں کی سربراہی--- ہر جگہ ریٹائرڈ فوجیوں کی فوج ظفر موج براجمان ہے۔ پبلک سیکٹر کے اہم ترین اداروں کی سربراہی بھی فوجی عملے (personnel )کو سونپی گئی ہے اور معیشت کے میدان میں بھی فوجی ادارے اپنے ہاتھ پائوں پھیلا رہے ہیں۔ پروفیسر حسن عسکری رضوی ہیرالڈ میں اپنے ایک مضمون میں اس کا اس طرح نوحہ کرتے ہیں کہ:

The corporate interests of the military have expanded so much under General Musharuf that the army is now overwhelming all the major sectors of the state, economy and the society. And it is leading to a situation that can be declared as the colonization of the civil institutions by the military.

جنرل مشرف کے دور میں فوج کے کاروباری مفادات اتنے توسیع پذیر ہوگئے ہیں کہ فوج اب ریاست‘ معیشت اور سوسائٹی کے تمام بڑے شعبوں پر چھائی ہوئی ہے‘ اور ایسی صورت حال کی طرف بڑھ رہی ہے جس کو سول اداروں پر فوج کا استعماری قبضہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

ہمیں دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ فوجی قیادت اور خصوصیت سے جنرل پرویز مشرف کو کوئی شعور نہیں کہ فوج کو سیاست‘ معیشت اور انتظامیہ میں ملوث کر کے وہ کس طرح فوج کو قوم کے اعتماد اور محبت و عقیدت سے محروم کر رہے ہیں‘ اور اسے قوم کے مخالفانہ جذبات کا ہدف بنا رہے ہیں۔ فوج اپنے دفاعی اور پیشہ ورانہ کردار کو بھی کمزور کر رہی ہے اور عوام اور فوج میں فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ اختلافات اور بے اعتمادی اس رخ پر جارہی ہے جو بے زاری اور نفرت کا روپ دھار سکتی ہے جو ملکی دفاع کے لیے بڑا ہی خطرناک ہو سکتا ہے۔

آج وردی کی بحث کا ہدف صرف ایک فرد نہیں بلکہ یہ اصولی مسئلہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں فوج کا کیا کردار ہونا چاہیے؟ جنرل پرویز مشرف کی شخصی اور باوردی حکمرانی دراصل فوج کے سیاسی کردار کی علامت ہے۔ آج تک سیاسی عناصر بھی اور عدالتیں بھی ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت فوج کے عارضی کردار کو گوارا کرتے رہے ہیں جس نے اس کے مستقل کردار کی راہ ہموار کردی ہے۔ اب اصل ہدف فوج کا یہی کردار ہے اور نظریۂ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کردینے کی ضرورت ہے تاکہ اس باب کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔ فوج صرف دفاع وطن کے لیے مخصوص ہو اور سیاسی نظام دستور کے تحت سیاسی قوتوں کے ذریعے ہی سے چلایا جائے۔ یہی جمہوریت ہے اور یہی اسلام کا تقاضا ہے جس کا بالواسطہ اعتراف خود جنرل صاحب اپنی اس تقریر میں کرچکے ہیں کہ خلیفۂ وقت فوجی سالار کو برطرف کرنے کا حق رکھتا ہے۔

امریکی عزائم کا آلـہ کار

جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوںکے نتیجے میں جن کو ان کے بقول فوجی قیادت کی تائید حاصل ہے‘ ملک امریکا کے عالمی عزائم کا آلہ کار بن گیا ہے۔ امریکا اس وقت عالم اسلام ہی نہیں‘ اسلام اور اس کی احیائی تحریک کو اپنا مدمقابل سمجھ کر ہر طرح سے کمزور کرنے اور کچل دینے کے لیے سرگرم ہے۔ اس لیے اس کروسیڈ میں جنرل صاحب کے تعاون نے پاکستان کو ساری دنیا کے مسلمان عوام اور انصاف دوست انسانوں سے کاٹ دیا ہے اور سمجھا جا رہا ہے کہ ہم امریکا کے پیادہ سپاہی (foot soldier ) کا کردار ادا کررہے ہیں۔ پاکستانی عوام بھی اس پالیسی سے نالاں ہیں اور پوری دنیا میں ہماری جو تصویر ابھر رہی ہے وہ شرمناک ہے۔ امریکا کی دوستی تو کبھی بھی قابل اعتبارنہ تھی اور آج بھی نہیں ہے لیکن امریکا نوازی اور امریکا کے آگے سپرڈالنے سے‘ ہم اپنے عوام سے دُور اور اپنے دوستوں کی نگاہ میں مخدوش بن گئے ہیں۔ اور امریکا کا یہ حال ہے کہ ہر تابع داری کے بعد وہ  ھل من مزید کا مطالبہ کرتا ہے اور ہمیں کمزور کرنے اور رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ بھارت اور اسرائیل کو مضبوط کرنا اور پاکستان اور مسلمان ممالک کو کمزور رکھنا اس کی پالیسی کا ہدف ہے۔ نیز مسلم ممالک کے نظام تعلیم کو خالص سیکولر رنگ دینے‘ جہاد کے جذبے کو ختم کرنے‘ مسلمانوں کے مسائل کومسلسل نظرانداز کرنے اور اُمت مسلمہ کو اپنے معاشی اور ثقافتی شکنجے میں کسنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔

حد یہ ہے کہ امریکی کانگرس نے ایک نہیں کئی کئی قوانین منظور کیے ہیں کہ پاکستان کے رویے کو ہر سہ ماہی چیک کیا جائے کہ نام نہاد دہشت گردی کے سلسلے میں وہ کیا کر رہا ہے‘ نیوکلیر عدم پھیلائو کے بارے میں اس کا عمل کیا ہے اور اب تو یہ بھی کہ سیکولر تعلیم کے فروغ اور دینی مدارس کی تعلیم کی اصلاح کے بارے میں کیا کیا جا رہا ہے۔ ہر سہ ماہی جائزے کے بعد جس مالی امداد کا وعدہ کیا گیا ہے وہ بہ اقساط جاری کی جائے گی۔ اکتوبر میں امریکی نائب وزیرخارجہ کرسٹیناروکا  تشریف لائی تھیںتو ان کا اصل ہدف وزارت تعلیم کو اپنے منصوبے کے لیے مسخر کرنا اور شمالی علاقہ جات کا دورہ کر کے آغا خان فائونڈیشن کے کارناموں کا جائزہ لینا تھا۔ جس وقت محترمہ شمالی علاقہ جات کا دورہ کر رہی تھیں اس وقت ہیلری کلنٹن نیویارک میںآغا خان فائونڈیشن کے لیے عطیات جمع کرنے کی مہم کی قیادت کر رہی تھیں۔ اب پاکستانی فوج‘ پاکستانی پولیس‘ پاکستانی انتظامیہ اور پاکستانی سیاسی قیادت‘ سب کی تربیت کا ٹھیکہ امریکا یا امریکا کے فنڈ پر چلنے والی این جی اوز کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ یہ سب عوامی احتساب اور پارلیمنٹ کی نگرانی سے بالا بالا شخصی حکومت کا کرشمہ ہے۔

سیکولر اقدار کا فروغ

عوام کے حقیقی معاشی مسائل کو نظرانداز کر کے معیشت کے تمام دروازوں کو عالمی ساہوکاروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ مار کے لیے کھول دیا گیاہے۔ مبادلۂ خارجہ کے ذخائر بڑھائے جارہے ہیں لیکن ملک میں غربت بڑھ رہی ہے اور بے روزگاری میں اضافے کی رفتار دگنی ہوگئی ہے۔ دولت کی عدم مساوات میں دن دونی رات چوگنی بڑھوتری ہو رہی ہے‘ اشیاے صرف کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں‘ پانی اور بجلی کی قلت ہے۔ عوام علاج کی سہولت سے محروم ہیں اور بچوں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد کے لیے تعلیم کا حصول ناممکن بنا دیا گیا ہے۔

تعلیم کی نج کاری کے نام پر تعلیم کے استحصال کا ایک ایسا نظام ملک پر مسلط کر دیا گیا ہے کہ عام انسان کے لیے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانا ناممکن ہوگیا ہے۔ انگریزی میڈیم کا فروغ‘ اے لیول‘ مشنری تعلیمی اداروں کا احیا‘ آغا خان فائونڈیشن کو امتحانات اور بالآخر نصاب تعلیم کا ٹھیکہ وہ چیزیں ہیں جو تعلیم کو قومی دھارے اور ملک کی نظریاتی اور اخلاقی اساس سے کاٹ کر مغرب کی تہذیبی غلامی کا آلہ کار بنانے کے منصوبے کا حصہ ہیں۔ مشنری اداروں کی سرپرستی کے لیے تو یہ بے چینی ہے کہ جن اداروں کو ۱۹۷۰ء کی دہائی میں قومی تحویل میں لیا گیا تھا ان کو ان صلیبی اداروں کو واپس دیا جا رہا ہے‘ لیکن اسی زمانے میں مسلمان اداروں جیسے انجمن حمایت الاسلام کے جن تعلیمی اداروںکو قومیایا گیا تھا انھیں ان اسلامی تنظیموں کو واپس دینے یا ان کے کردار کو بڑھانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ سارا کام یک طرفہ انداز میں سیکولر اور لبرل قوتوں کے عزائم کو تقویت دینے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک بیرونی ایجنڈا ہے جس کے تحت خود اپنی قوم کو دوسروں کی سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی غلامی میں دیا جا رہا ہے اور یہ سب شخصی اور باوردی حکمرانی کا نتیجہ ہے۔

عوامی تحریک کی ضرورت

ان حالات میں قوم کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہا ہے کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے مؤثر عوامی قوت کے ذریعے اس یلغار کا مقابلہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں ہمارے اہداف بہت واضح اور متعین ہونے چاہییں یعنی:

۱-  ملک کی سیاست کو دستور کے تحت سیاسی قوتوں کے ذریعے کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے‘ اور جو قیادت اپنی حکمرانی کا جواز (legitimacy )کھو چکی ہے اور جس نے ہر عہدوپیمان کو پامال کیا ہے اس سے نجات ضروری ہے۔

۲-  ملک کی فوج کو صرف دفاعی ذمہ داریوں کے لیے مخصوص کیا جائے اور کسی صورت میں بھی فوج کی سیاسی مداخلت کو گوارا نہ کیا جائے۔ تمام سیاسی جماعتیں عہد کریں کہ بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی صورت میں بھی سیاست میں فوج کو ملوث نہیں کریں گی اور عدالتیں بھی یکسو ہوجائیں کہ ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت کسی بھی شکل میں فوج کی مداخلت کو سندِجواز نہیں دی جائے گی۔

۳-  پاکستان کی آزادی‘ نظریاتی تشخص اور تہذیبی شناخت کی ہر قیمت پر حفاظت ہوگی۔ امریکا سے دوستی صرف اپنی آزادی‘ معاشی خودانحصاری اور دینی‘ تعلیمی اور تہذیبی اقدار کی مکمل پاسداری کے ساتھ اختیار کی جائے گی اور زندگی کے تمام شعبوں میں امریکی مداخلت اور اثراندازی کو لگام دی جائے گی۔ حقیقی معنوں میں آزاد خارجہ پالیسی اختیار کی جائے گی جو پاکستان اور امت مسلمہ کے مفادات کی محافظ ہو۔ بھارت سے دوستی بھی مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل‘ برابری کے اصول اور باوقار سیاسی اور معاشی تعلقات سے مشروط ہوگی۔

۴-  ملک کے معاشی وسائل ملک کے عوام کو عزت کی زندگی گزارنے کے لائق بنانے کے لیے استعمال ہوں گے‘ اور ہرشہری کو اس کی بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔

۵-  ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور ہر سطح پر اور ہر طبقے کے لیے جواب دہی اور احتساب کا آزاد‘ مؤثر اور بے لاگ نظام قائم کیا جائے گا تاکہ ملک کی سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی زندگی کو  مفاد پرستوں کے چنگل سے آزاد کیا جاسکے‘ اور عام آدمی عزت کی زندگی گزارنے اور ملک کے وسائل سے اپنا حق وصول کرنے کے لائق ہوسکے۔

۶-  مغرب اور بھارت کی تہذیبی یلغار کے آگے بند باندھے جائیں اور پاکستان حقیقی اسلامی فلاحی ریاست کی اس منزل کی طرف پیش رفت کر سکے جس کا خواب ملت اسلامیہ پاک و ہند نے علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کی رہنمائی میں دیکھا تھا اور جس کے لیے بیش بہا قربانیاں دی تھیں۔ تقسیمِ ہند کی نفی اور مشترک ثقافت اور مفادات کے بھارتی منصوبے سے قوم کو آگاہ کیا جائے‘ اور اپنی آزادی‘ دینی تشخص‘ معاشی مفادات اور تہذیبی شناخت کی حفاظت کے لیے مؤثر عوامی تحریک برپا کی جائے۔

یہ ہیں وہ اہداف جن کو سامنے رکھ کر عوامی بیداری کی تحریک پورے نظم اور صبروتحمل سے چلانے کی ضرورت ہے۔ یہ تحریک اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک عوامی قوت کے ذریعے تمام اہداف حاصل نہ ہوجائیں۔ اس عوامی تحریک کو ہر غلط راستے سے بچایا جائے اور کسی طالع آزما کو یہ موقع نہ دیا جائے کہ وہ عوام کے جذبات اور قربانیوں کا فائدہ اٹھا کر اپنے لیے کوئی مسیحائی کا مقام حاصل کرلے۔ وقت آگیا ہے کہ ماضی کے تلخ تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور ان خطرات کے پورے ادراک کے ساتھ جن سے ماضی میں عوامی تحریکات زک اٹھا چکی ہیں‘ شخصی حکمرانی سے نجات اور عوامی حاکمیت اور اسلام کی بالادستی کی اس تحریک کو حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کے ساتھ اس کے اصل انجام تک پہنچایا جائے۔ وجاھدوا فی اللّٰہ حق جھادہ!

(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۵ روپے۔ سیکڑے پر رعایت: منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)


دنیا میں ہمیشہ غلط کار لوگوں کا یہ خاصّہ رہا ہے کہ غلط کاروں کے انجام کی پوری تاریخ ان کے سامنے ہوتی ہے مگر وہ اس سے سبق نہیں لیتے۔ حتیٰ کہ اپنے پیش رَو غلط کاروں کا جوانجام خود ان کے اپنے ہاتھوں ہوچکا ہوتاہے اس سے بھی انھیں عبرت حاصل نہیں ہوتی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خدا کا قانونِ مکافات صرف دوسروں ہی کے لیے تھا‘ اُن کے لیے اس قانون میں ترمیم کر دی گئی ہے۔ پھر اپنی کامیابیوں کے نشے میں وہ یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ دنیا میں سب احمق بستے ہیں۔ کوئی نہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے‘ نہ اپنے کانوں سے سُن سکتا ہے اور نہ اپنے دماغ سے واقعات کو سمجھ سکتا ہے۔ بس جو کچھ وہ دکھائیں گے اسی کو دنیا دیکھے گی‘ جو کچھ وہ سنائیں گے اسی کو دنیا سنے گی‘ اور جو کچھ وہ سمجھائیں گے دنیا بُزِاخفش کی طرح اس پر سرہلاتی رہے گی۔ یہی برخود غلطی پہلے بھی بہت سے بزعمِ خویش عاقل اور فی الحقیقت غافل لوگوں کو لے بیٹھی ہے‘ اور اسی کے بُرے نتائج دیکھنے کے لیے اب بھی کچھ برخود غلط حضرات لپکے چلے جارہے ہیں۔   سید مودودیؒ

اِنَّـآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ o وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ o

لَیْلَۃُ الْقَدْرِلا خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ o  تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ

فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْج مِنْ کُلِّ اَمْرٍ o سَلٰمٌقف ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ o (القدر ۹۷:۱-۵)

ہم نے اِس (قرآن) کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے۔ اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ فرشتے اور رُوح اُس میں اپنے رب کے اِذن سے ہر حکم لے کر اُترتے ہیں۔ وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوعِ فجر تک۔

مفتی محمد شفیع ؒ

حضرت ابن ابی حاتمؓ نے مجاہد سے مرسلاًروایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک مجاہد کا حال ذکر کیا جو ایک ہزار مہینے تک مسلسل مشغولِ جہاد رہا‘ کبھی ہتھیار نہیں اُتارے۔ مسلمانوں کو یہ سن کر تعجب ہوا۔ اس پر سورئہ قدر نازل ہوئی جس میں اس اُمت کے لیے صرف ایک رات کی عبادت کو اُس مجاہد کی عمربھر کی عبادت‘ یعنی ایک ہزار مہینے سے بہتر قرار دیا ہے۔ ابن جریر نے بروایت مجاہد ایک دوسرا واقعہ یہ ذکر کیا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک عابد کا یہ حال تھا کہ ساری رات عبادت میں مشغول رہتا اور صبح ہوتے ہی جہاد کے لیے نکل کھڑا ہوتا اور دن بھر جہاد میں مشغول رہتا۔ ایک ہزار مہینے اُس نے اسی مسلسل عبادت میں گزار دیے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے سورئہ قدر نازل فرما کر اس اُمت کی فضیلت سب پر ثابت فرما دی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شبِ قدر اُمتِ محمدیہ کی خصوصیات میں سے ہے۔ (مظہری)

ابن کثیرنے یہی قول امام مالکؒ کا نقل کیا ہے اور بعض ائمۂ شافعیہ نے اس کو جمہور کا قول لکھا ہے۔ خطابی نے اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے مگر بعض محدثین نے اس میں اختلاف کیا ہے۔ (ماخوذ از ابن کثیر)۔ معارف القرآن‘ج۸‘ ص۷۹۱)

مولانا سید ابوالاعلٰی مودودیؒ

یہاں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے قرآن کو شب ِقدر میں نازل کیا ہے ‘اور سورئہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے: شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ، (البقرہ ۲:۱۸۵) ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا‘‘ ۔ اس سے معلوم ہواکہ وہ رات جس میں پہلی مرتبہ خدا کا فرشتہ غارِحرا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے پاس وحی لے کر آیا تھا وہ ماہِ رمضان کی ایک رات تھی۔ اِس رات کو یہاں شب ِقدر کہا گیاہے اور سورئہ دُخان میں اِسی کو مبارک رات فرمایا گیا ہے:  اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِی لَیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ(۴۴:۳)’’ہم نے اسے ایک برکت والی رات میں نازل کیا ہے‘‘۔

اس رات میں قرآن نازل کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک کہ یہ اِس رات پورا قرآن حاملِ وحی فرشتوں کے حوالہ کر دیا گیا‘ اور پھر واقعات اور حالات کے مطابق وقتاً فوقتاً ۲۳ سال کے دوران میں جبریل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی آیات اور سورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم پر نازل کرتے رہے۔ یہ مطلب ابن عباسؓ نے بیان کیا ہے (ابن جریر‘ ابن المنذر‘ ابن ابی حاتم‘ حاکم‘ ابن مردُویہ‘ بیہقی)۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے نزول کی ابتدا اِس رات سے ہوئی۔ یہ امام شعبی کا قول ہے‘ اگرچہ اُن سے بھی دوسرا قول وہی منقول ہے جو ابن عباس کا اُوپر گزرا ہے (ابن جریر)۔ بہرحال دونوں صورتوں میں بات ایک ہی رہتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم پر قرآن کے نزول کا سلسلہ اسی رات کو شروع ہوا اور یہی رات تھی جس میں سورئہ علق کی ابتدائی پانچ آیات نازل کی گئیں۔ تاہم یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن کی آیات اور سورتیں اللہ تعالیٰ اُسی وقت تصنیف نہیں فرماتا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم اور آپ کی دعوتِ اسلامی کو کسی واقعہ یا معاملہ میں ہدایت کی ضرورت پیش آتی تھی‘ بلکہ کائنات کی تخلیق سے بھی پہلے ازل میں اللہ تعالیٰ کے ہاں زمین پر نوعِ انسانی کی پیدایش‘ اس میں انبیا کی بعثت‘ انبیا پر نازل کی جانے والی کتابوں ‘ اور تمام انبیا کے بعد آخر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلّم کو مبعوث فرمانے اور آپؐ پر قرآن نازل کرنے کا پورا منصوبہ موجود تھا۔  شب ِقدر میں صرف یہ کام ہوا کہ اس منصوبے کے آخری حصے پر عمل درآمد شروع ہو گیا۔ اُس وقت اگر پورا قرآن حاملینِ وحی کے حوالے کر دیا گیا ہو تو کوئی قابلِ تعجب امر نہیں ہے۔

قدر کے معنی بعض مفسرین نے تقدیر کے لیے ہیں‘ یعنی یہ وہ رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ تقدیر کے فیصلے نافذ کرنے کے لیے فرشتوں کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس کی تائید سورئہ دُخان کی یہ آیت کرتی ہے: فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ o (الدخان ۴۴:۴)’’اُس رات میں ہرمعاملے کا حکیمانہ فیصلہ صادر کر دیا جاتا ہے‘‘۔ بخلاف اِس کے امام زُہری کہتے ہیں کہ قدر کے معنی عظمت و شرف کے ہیں‘ یعنی وہ بڑی عظمت والی رات ہے۔ اِس معنی کی تائید اِسی سورہ کے اِن الفاظ سے ہوتی ہے کہ ’’شب ِ قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے‘‘۔

اب رہا یہ سوال کہ یہ کون سی رات تھی ‘ تو اس میں اتنا اختلاف ہوا ہے کہ قریب قریب ۴۰مختلف اقوال اِس کے بارے میں ملتے ہیں۔ لیکن علماے اُمت کی بڑی اکثریت یہ رائے رکھتی ہے کہ رمضان کی آخری دس تاریخوں میں سے کوئی ایک طاق رات شب ِ قدر ہے‘ اور ان میں بھی زیادہ تر لوگوں کی رائے یہ ہے کہ وہ ستائیسویں رات ہے…غالباً کسی رات کا تعین اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اس لیے نہیں کیا گیا ہے کہ شب ِ قدر کی فضیلت سے فیض اُٹھانے کے شوق میں لوگ زیادہ سے زیادہ راتیں عبادت میں گزاریں اور کسی ایک رات پر اکتفا نہ کریں۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس وقت مکّۂ معظمہ میں رات ہوتی ہے اُس وقت دنیا کے ایک بہت بڑے حصے میں دن ہوتا ہے‘ اس لیے اُن علاقوں کے لوگ تو کبھی شب ِ قدر کو پا ہی نہیں سکتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عربی زبان میں اکثر رات کا لفظ دن اور رات کے مجموعے کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس لیے رمضان کی اِن تاریخوں میں سے جو تاریخ بھی دنیا کے کسی حصہ میں ہو اُس کے دن سے پہلے والی رات وہاں کے لیے شب ِ قدر ہوسکتی ہے۔(تفہیم القرآن‘ ج ۶‘ ص ۴۰۴-۴۰۶)

مولانا امین احسن اصلاحیؒ

یہ ایک رات ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ یہ بہتری‘ ظاہر ہے کہ حصولِ مقصد کے اعتبار سے ہے۔ جس طرح اس مادی دنیا میں فصلوں‘ موسموں اور اوقات کا اعتبار ہے‘ اسی طرح روحانی عالم میں بھی ان کا اعتبار ہے۔ جس طرح خاص خاص چیزوں کے بونے کے لیے خاص خاص موسم اور مہینے ہیں‘ ان میں آپ بوتے ہیں تو وہ پروان چڑھتی اور مثمرہوتی ہیں‘ اور اگر ان موسموں اور مہینوں کو آپ نظرانداز کر دیتے ہیں تو دوسرے مہینوں کی طویل سے طویل مدت ان کا بدل نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح روحانی عالم میں بھی خاص خاص کاموں کے لیے خاص موسم اور خاص اوقات و ایام مقرر ہیں۔ اگر ان اوقات و ایام میں وہ کام کیے جاتے ہیں تووہ مطلوبہ نتائج پیدا کرتے ہیں اور اگر وہ ایام و اوقات نظرانداز ہوجاتے ہیں تو دوسرے ایام و اوقات کی زیادہ سے زیادہ مقدار بھی ان کی صحیح قائم مقامی نہیں کر سکتی۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیے کہ جمعہ کے لیے ایک خاص دن ہے۔ روزوں کے لیے ایک خاص مہینہ ہے‘ حج کے لیے خاص مہینہ اور خاص ایام ہیں۔ وقوفِ عرفہ کے لیے معینہ دن ہے۔ ان تمام ایام و اوقات کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی عبادتیں مقرر کر رکھی ہیں جن کے اجروثواب کی کوئی حدّونہایت نہیں ہے لیکن ان کی ساری برکتیں اپنی اصلی صورت میں تبھی ظاہر ہوتی ہیں جب یہ ٹھیک ٹھیک ان ایام و اوقات کی پابندی کے ساتھ عمل میں لائی جائیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو وہ برکت فوت ہوجاتی ہے جو ان کے اندر مضمر ہوتی ہے۔

یہی حال لیلۃ القدر کا ہے۔ یہ بڑی برکتوں اور رحمتوں کی رات ہے۔ بندہ اگر اس کی جستجو میں کامیاب ہوجائے تو اس ایک ہی رات میں خدا کے قرب کی وہ اتنی منزلیں طے کر سکتا ہے جتنی ہزار راتوں میں نہیں کر سکتا۔ ’ہزار راتوں‘ کی تعبیر بیانِ کثرت کے لیے بھی ہوسکتی ہے اور بیان نسبت کے لیے بھی لیکن مدعا کے اعتبار سے دونوں میں کوئی بڑا فرق نہیں ہوگا۔ مقصود یہی  بتانا ہے کہ اس رات کے پردوں میں روح و دل کی زندگی کے بڑے خزانے چھپے ہوئے ہیں۔ خوش قسمت ہیں وہ جو اس کی جستجو میں سرگرم رہ سکیں اور اس کو پانے میں کامیاب ہوجائیں۔ (تدبر قرآن‘ ج ۸‘ ص ۴۶۷-۴۶۸)

سید قطب شہیدؒ

اس رات کی عظمت کی حقیقت انسانی فہم و ادراک سے ماورا ہے۔ وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ’’اور تم کیا جانو! شبِ قدر کیا ہے!‘‘ اس رات کے سلسلے میں جو افسانوی داستانیں عوام میں پھیلی ہوئی ہیں اس کی عظمت کا اُن سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ اس لیے عظیم ہے کہ اسے قرآن کے--- جس میں عقیدہ‘ فکر‘ قانون اور زندگی کے وہ تمام اصول و آداب ہیں جن سے زمین اور انسانی ضمیر کی سلامتی وابستہ ہے--- نزول کے آغاز کے لیے منتخب کیا گیا۔ یہ اس لیے بھی عظیم ہے کہ اس میں ملائکہ‘ بالخصوص جبریل علیہ السلام اپنے رب کے اذن کے ساتھ قرآن لے کر زمین پر نازل ہوئے‘ اور پھر یہ فرشتے کائنات کے اس جشنِ نوروز کے موقع پر زمین و آسمان کے مابین پھیل گئے۔ سورت اِن امور کی عجیب و غریب انداز میں تصویرکشی کرتی ہے…

نوع انسانی اپنی جہالت و بدبختی سے اِس شب کی قدروقیمت‘ اس واقعہ--- وحی-- کی حقیقت اور اس معاملے کی عظمت سے غافل ہے‘ اور اس جہالت و غفلت کے نتیجے میں وہ اللہ کی بہترین نعمتوں سے محروم ہے۔ وہ سعادت اور حقیقی سلامتی‘ دل کی سلامتی‘ گھر کی سلامتی اور سماج کی سلامتی کو--- جو اسلام نے اسے بخشی تھی--- کھوچکی ہے۔ مادی ارتقا اور تہذیب و تمدن کے جو دروازے آج نوعِ انسانی پر کھلے ہیں‘ اُس سے اِس محرومی کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ آج انسانیت شقاوت و بدبختی کا شکار ہے حالانکہ پیداوار کی افراط ہے اور وسائلِ معاش کی بہتات۔ حسین و جمیل نور‘ جو انسانیت کی روح میں ایک بار چمکا تھا‘ بجھ چکا ہے۔ ملاء اعلیٰ سے ربط و تعلق کی فرحت و انبساط کا خاتمہ ہوچکا ہے اور ارواح و قلوب پر سلامتی کا جو فیضان تھا وہ مفقود ہوچکا ہے۔ روح کی اِس مسرت‘ آسمان کے اِس نور اور ملاء اعلیٰ سے ربط و تعلق کی مسرت کا کوئی بدل اسے نہیں مل سکا ہے۔

ہم اہلِ ایمان مامور ہیں کہ اِس یادگار واقعہ کو فراموش نہ کریں‘ نہ اُس سے غافل ہوں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری ارواح میں اس یاد کو تازہ رکھنے کا بہت آسان طریقہ مقرر فرما دیا تاکہ ہماری ارواح اُس رات سے اور جو کائناتی واقعہ --- وحی آسمانی--- اس میں رونما ہوا‘ اس سے ہمیشہ وابستہ رہیں۔ آپؐ نے ہمیں اس بات پر ابھارا کہ شبِ قدر کو ہم ہر سال رمضان کے آخری عشرے کی راتوں میں ڈھونڈیں اور اس رات میں جاگ کر اللہ کی عبادت کریں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے:  تَحَرُّوْا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِیْ الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ ،’’شبِ قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو‘‘۔ صحیحین ہی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ قَامَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ اِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَلہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنِبْہٖ ، ’’جس کسی نے ’شبِ قدر‘ اللہ کی عبادت ایمان اور احتساب کی حالت میں کی اُس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے!‘‘

اسلام ظاہری شکلوں اور رسموں کا نام نہیں ہے۔ اسی واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’شبِ قدر‘ کے بارے میں فرمایا کہ وہ ’ایمان‘ اور ’اِحتساب‘ کی حالت میں ہو!--- ایمان کا مطلب یہ ہے کہ شبِ قدر جن عظیم مطالب و معانی سے وابستہ ہے (دین‘ وحی‘ رسالت اور قرآن) انھیں ہم ذہن میں تازہ کریں‘ اور’’احتساب‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ عبادت صرف اللہ کی رضا کے لیے اور اخلاص کے ساتھ ہو۔ اِسی صورت میں قلب کے اندر اُس عبادت کی متعینہ حقیقت زندہ و بیدار ہوسکتی ہے اور قرآن جس تعلیم کو لے کر آیا ہے‘ اس سے ربط و تعلق قائم ہوسکتا ہے۔

تربیت کا اسلامی نظام‘ عبادت اور قلبی عقائد کے درمیان ربط قائم کرتا ہے اور اُن ایمانی حقائق کو زندہ رکھنے‘ انھیں واضح کرنے اور انھیں زندہ صورت میں مستحکم بنانے کے لیے عبادات کو بطور ذریعہ کے استعمال کرتا ہے تاکہ یہ ایمانی حقائق غوروفکر کے دائرے سے آگے بڑھ کر انسان کے احساسات اور اس کے قلب و دماغ میں اچھی طرح پیوست ہوجائیں۔

یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ تربیت کا یہی نظام اِن حقائق کو زندہ و تازہ رکھنے اور دل کی دنیا اور عمل کی دنیا میں انھیں حرکت بخشنے کے لیے موزوں ترین نظام ہے۔ یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ اِن حقائق کا صرف نظری علم‘ عبادت کی معاونت کے بغیر اِن حقائق کو زندہ و برقرار نہیں رکھ سکتا اور نہ یہ کسی طریقے سے ممکن ہے اور نہ اِس نظام کے بغیر ان حقائق کو فرد اور معاشرے کی زندگی میں قوتِ محرکہ کی حیثیت حاصل ہو سکتی ہے۔

شبِ قدر کی یاد اور اس میں ایمان و احتساب کے ساتھ اللہ کی عبادت اِس کامیاب اور بہترین اسلامی تربیتی نظام کا ایک جزو ہے۔ (ترجمہ: سید حامد علی‘ فی ظلال القرآن‘ تفسیر۳۰واں پارہ‘ ص ۳۷۷-۳۳۹)۔ (انتخاب و ترتیب:  امجد عباسی)

یہ اجتماع اللہ کے کلمے کی سربلندی کے لیے منعقد ہوا ہے۔ ہمیں یہ اجتماع پاکستان کے قلب لاہور میں مینارپاکستان پر منعقد کرنا تھا جہاں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی‘ جس کے سامنے مسلمانوں کی عظمت کی نشانی بادشاہی مسجد ہے‘ جہاں مفکر پاکستان علامہ اقبال کا مزار ہے۔ لاہور کو مولانا مودودیؒ نے اسلامی انقلاب کے لیے مرکز بنایا تھا۔ اس شہر لاہور کے باشندے ملک بھر سے آنے والوں کی میزبانی کے لیے بے چین و بے قرار تھے‘ لیکن حکومت نے آخری دنوں میں ہمیں اجتماع عام منعقد کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ ہم چاہتے تو اس کے باوجود بھی اجتماع کر سکتے تھے لیکن ہم نے تصادم کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کیا‘ حالانکہ حکومت نے یہی نقشہ بنایا تھا کہ ہم تصادم کے راستے پر چل پڑیں۔ اس طرح ہم نے حکومت کی اس سازش کو ناکام بنا دیا اور فیصلہ کیا کہ اُس صوبے میں جہاں متحدہ مجلس عمل نے تاریخی کامیابی حاصل کی ہے اور جس نے جہاد افغانستان میں اہم کردار ادا کیا ہے وہاں یہ اجتماع منعقد کریں۔

اجتماع عام کا مرکزی موضوع وجاھدوا فی اللّٰہ حق جھادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام کتابوں میں اور قرآن پاک میں بھی ہمارا نام مسلم رکھا ہے جو اللہ کا حکم ماننے اور اطاعت کرنے والے کو کہتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ بس اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہی ہمارے لیے کافی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے جو شریعت نافذ کی وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ آپؐ اور صحابہ کرامؓ کی قربانیوں اور جدوجہد سے بھی ہم آگاہ ہیں۔ ہمارے لیے مکمل اور غالب دین چھوڑا گیا ہے۔ اس دین کے ہم امین ہیں۔ ہم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اس دین کے نفاذ کے لیے کیا کوشش کی اور کیا قربانیاں دیں۔

ہمیں شہادت حق کا فریضہ انجام دینے کے لیے کہا گیا ہے۔ یہ اُمت کا فریضہ ہے کہ وہ عدل و انصاف کی علم بردار بن کر اٹھے۔ یہ اُمت دہشت گرد اُمت نہیں ہے‘ یہ عدل و انصاف اور امن و امان کی ضامن اُمت ہے۔ مجھے افسوس کے ساتھ بتانا پڑ رہا ہے کہ آج (جمعہ یکم اکتوبر) کو سیالکوٹ کی ایک مسجد میں بم دھماکا ہوا ہے اور ۲۰ سے زائد مسلمان شہید ہوگئے ہیں۔ یہ اسلام دشمن عناصر کی سازش ہے۔

آج فلسطین‘ افغانستان‘ عراق اور شیشان میں مسلمانوں کے خلاف ظلم کا بازار گرم ہے۔ ہمیں دشمنانِ اسلام کے خلاف متحد ہونا پڑے گا۔ لوگوں کو خیر کی طرف بلانا اور عدل و انصاف کا قیام ہم پر فرض ہے۔ یہ کام اکیلے نہیں متحد ہوکر کرنا ہوگا۔ جماعت اسلامی‘ اخوان المسلمون‘ علماے کرام‘ دینی جماعتیں اور تبلیغی جماعتیں اس فریضے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ پاکستان میں دینی جماعتوں نے متحدہ مجلس عمل بنائی ہے۔

جماعت اسلامی خالصتاً اور کلیتاً وہی دعوت لے کر اٹھی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ ہم اس میں نہ کسی کمی بیشی کے مجاز ہیں نہ ہم نے اس میں کوئی کمی بیشی کی ہے۔ ہمارا     اول و آخر حوالہ قرآن و سنت ہے۔ہم لوگوں کو قرآن و سنت کی طرف بلاتے ہیں۔ دنیا کے مسلمان کسی ایک لیڈر پر نہیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر متحد ہوسکتے ہیںاور متحد ہیں۔ یہ اجتماع عام اُمت مسلمہ کا اجتماع ہے۔ دنیا بھر سے اسلامی تحریکوں کا گلدستہ بن گیا ہے۔ ہماری حقیقی زندگی اسلام ہے اور اسلام ایک ہی ہے‘ کوئی لبرل اور ماڈریٹ اسلام نہیں۔

رب العالمین کی طرف سے رحمت للعالمینؐ جو پیغام لے کر آئے ہیں ہم اُس کے داعی ہیں۔ اس پیغام کو بالآخر غالب آنا ہے۔ حق قوت اور روشنی عطا کرتا ہے‘ ہم پوری دنیا کو ایک بستی سمجھتے ہیں۔ ہمارے رسولؐ پوری عالمِ انسانیت کے لیے آئے تھے۔ ہم سب آدم کی اولاد ہیں اور ہم سب میں عزت دار وہ ہے جو اللہ سے ڈرتا ہو۔ عورتوں کے لیے بھی یہی پیغام ہے کہ وہ اللہ کے راستے پر چلیں اور حق و عدل کی علم بردار بنیں۔

جنرل مشرف امریکا کو خوش کرنے کے لیے ماڈریٹ اسلام اور لبرل اسلام جیسی اصطلاحیں استعمال کر رہے ہیں۔ اسلام نے منکرات کو حرام قرار دیا ہے اور عریانی و فحاشی کا سختی سے مخالف ہے۔ اسلام میں فوجی آمریت کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ جنرل مشرف‘ اتاترک اور صدربش جیسے لوگ اسے تبدیل نہیں کرسکتے۔ آج مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔ ۹۰ فی صدمسلم اکثریت والا کشمیرجب بھارتی فوج کے غاصبانہ قبضے کے خلاف جدوجہد کرتا ہے تو اسے دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے تو تسلیم کر لیا ہے کہ یہ بھی دہشت گردی ہے۔ اس طرح فلسطین میں یہودیوں کو بسایا گیا اور کہا گیا کہ یہ اسرائیل ہے‘ اسے تسلیم کر لو اور جو تسلیم نہیں کرے گا وہ دہشت گرد ہے۔ شیشان‘ عراق‘ افغانستان میں ظلم و جبر کا بازار گرم ہے۔ یہ استعماری طاقتیں ہمارے گھروں میں گھس آئی ہیں اور ہمیں ہی دہشت گرد قرار دے رہی ہیں۔

میں یہ بات بھی واضح کرناچاہتا ہوں کہ ہم پوری انسانیت کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اگر امریکا اسلام سے کوئی مکالمہ کرنا چاہتا ہے تو ہم سے مکالمہ کرے۔ جنرل مشرف اسلام اور عالمِ اسلام کے نمایندے نہیں ہیں بلکہ انھوں نے ملک کے جمہوری و آئینی اداروں پر زبردستی قبضہ کرلیا ہے۔ ہم سول معاملات میں فوجی مداخلت کے خلاف ہیں۔ ہمارے نظام تعلیم کو سیکولر بنایا جا رہا ہے‘ دینی مدارس میں مداخلت کی جا رہی ہے‘ پاک فوج کو امریکا کا کرائے کا پٹھو بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہم نے تصادم کے بجاے مفاہمت کا راستہ اپناتے ہوئے ۱۷ویں آئینی ترمیم پر معاہدہ کیا جس کے مطابق قومی سلامتی کونسل کو آئین سے نکالا گیا اور صدر جنرل مشرف نے ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء تک وردی اتارنے کا وعدہ کیا‘ لیکن اب ہمارے ساتھ دھوکا دہی کی جا رہی ہے‘ جب کہ مجلس عمل نے کسی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ جنرل مشرف فریب دے رہے ہیں۔ یہ پاکستان کے ۱۴ کروڑ عوام کے لیے ایک چیلنج ہے۔ ہم اعلان کرتے ہیں کہ ۳۱دسمبر کے بعد جنرل مشرف کو ایک دن کے لیے بھی صدر نہیں مانیں گے۔ ہم انھیں دستور کی خلاف ورزیوں کا مرتکب اور دستور کو نظرانداز کر کے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کرنے والا قرار دیں گے۔ ملک کو بچانے کے لیے ہم ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔

موجودہ حکمران امریکا کو خوش کرنے کے لیے وزیرستان اور وانا کے عوام پر بمباری کرارہے ہیں‘ یہ سب کچھ فوج کے مورال کو نقصان پہنچانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس میں بھارت‘ اسرائیل اور امریکا سب کی سازش شامل ہے۔ قبائلی علاقوں میں کوئی القاعدہ نہیں‘ وہ مقامی لوگ ہیں جنھیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ آپریشن ملک کے آزادی پسند عوام کے خلاف ہے۔ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں بلکہ امریکا کی دہشت گردی میں اس کا اتحادی بننا ہے۔ اسلام دہشت گرد نہیں ہے۔ قرآن کریم نے تو ایک انسان کے ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قراردیا ہے۔ ہم نے ایٹم بم بنایا ہے لیکن یہ کسی مظلوم و معصوم پر گرانے کے لیے نہیں ہے۔ یہ تاریخ تو امریکا کی ہے جس نے ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرائے تھے۔

امریکا ہمارے پُرامن ایٹمی پروگرام کو بند کرا رہا ہے۔ وہ کشمیر میں کنٹرول لائن کو مستقل سرحد کا درجہ دلا کر اس خطے میں بھارت کی اس طرح بالادستی چاہتا ہے جس طرح عرب ممالک میں اسرائیل کو بالادست بنا رہا ہے‘ اور اب ہمارا حکمران اسرائیل کو بھی تسلیم کرنے کا اشارہ دے رہا ہے۔ ہم فلسطین کی ایک انچ زمین پر بھی اسرائیل کے قبضے کو قبول نہیں کرتے اور نہ کشمیر کا سودا کرنے کی ہی کسی کو اجازت دیں گے۔

جنرل پرویز مشرف جو آمرانہ اقدامات کر رہے ہیں‘ ان کے خاتمے کا وقت قریب آگیا ہے۔ میں اے آر ڈی والوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ مل جائیں۔ اگر وہ ۱۷ویں ترمیم کے خلاف ہیں تو دستورمیں تبدیلی آئینی طریقے سے ہی ہوگی‘ تاہم قرارداد مقاصد‘ قادیانیوں کے خلاف دفعات‘ اسلامی اور حدود سے متعلق دفعات اور اسلامی نظریاتی کونسل کے ادارے پر سب متفق ہیں ‘ اور جن پر اتفاق نہیں ہے انھیں افہام و تفہیم سے آئینی طریقے سے طے کیا جا سکتا ہے۔ ہم ۱۷ویں ترمیم پر کوئی معذرت نہیں کرتے۔ ہم نے اس کے ذریعے ملک کو جمہوریت کے راستے پر ڈال دیا اور صدر کو وردی اتارنے کی ڈیڈ لائن طے کرائی۔ یہ ہماری کامیابی ہے۔ اے آر ڈی‘ مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی اور پونم سے ہم کہتے ہیں کہ اگر یہاں انصاف اور دستور کے مطابق حکومت چلانا ہے تو مل کر فیصلہ کرلیں کہ فوجی مداخلت قبول نہیں کریں گے۔ ہم تو فیصلہ کرچکے ہیں کہ ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء کے بعد جنرل مشرف کو وردی میں صدر نہیں رہنے دیں گے۔

۱۹۴۱ء میں‘ قائد اول مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی علیہ الرحمہ کی دعوت پر ہندستان میں اقامت دین کی جو تحریک برپا ہوئی تھی ‘وہ تقسیم ہند کے بعد ہندستان‘ پاکستان اور پھر بنگلہ دیش اور سری لنکا میں آزاد تحریکوں اور تنظیموں کی شکل میں اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ یہ تحریکیں اور تنظیمیں اپنے اپنے ملکوں اور علاقوں کے مخصوص حالات و مسائل کو ملحوظ رکھتے ہوئے‘ دین کی ہمہ جہت خدمت اور اس کی اشاعت کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ اللہ رب العالمین کا شکر و احسان ہے کہ احیاے اسلام اور اُس کے ایک جامع نظامِ زندگی ہونے کی جو صدا بلند کی گئی تھی‘ وہ اب کتنے ہی دلوں کی پکار بن کر سارے زمانے میں گونج رہی ہے۔ اب یہ فکر دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیل رہی ہے۔ ملت اسلامیہ کے مختلف طبقات‘ بالخصوص نوجوان نسلیں اپنے سیرت و کردار کو سنوارتی ہوئی اس کی طرف جذبۂ جاں نثاری کے ساتھ پروانہ وار لپک رہی ہیں۔

جہاں تک پاکستان کا سوال ہے‘ یہ خطہ ء زمین حاصل ہی اسلام کے نام پر کیا گیا ہے۔ لہٰذا فطری طور پر یہ توقع ہوتی ہے کہ اس ملک کے قائدین و ذمہ داران‘ ملت سے کیا گیا اپنا عہد اور وعدہ (comitment) پورا کریں گے تاکہ دنیا‘ اسلام کا ایک زندہ نمونہ دیکھ سکے اور پاکستان کی حیثیت ایک عطر بار و سایہ دار شجر کی ہوجائے کہ اس کے سائے میں لمحہ بھر کے لیے ٹھیرنے والا مسافر راحت و سکون محسوس کرے اور جب ہوائیں چلیں تو اس کی روح پرور خوشبو مشرق و مغرب کو معطرکرسکے۔

بیش ترمسلم ممالک کی طرح پاکستان کا بھی ایک اہم مسئلہ حقیقی روح کے ساتھ جمہوریت کے قیام میں حائل دشواریاں ہیں۔ یہ مرحلہ سر ہوجائے تو اسلامی زندگی کی تشکیل کی تدابیر کرنا بھی آسان تر ہوسکے گا۔ خوشی ہے کہ ہندستان اور دنیا کے بہت سے دوسرے ملکوں میں جمہوریت پروان چڑھ رہی ہے۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ ان تجربات کو پیش نظر رکھ کر پاکستان میں بھی اسلامی جمہوری فضا تیار ہوگی اور یہ دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا اور انسان جنگ و جدال‘ قتل وخون اور ظلم و ستم کے ماحول سے محفوظ رہ کر‘ امن و امان اور راحت و سکون کی فضا میں سانس لے سکیں گے۔

ہندستان‘ پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے ‘ میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جماعت اسلامی ہند شروع ہی سے دونوں ملکوں کے تمام مسائل بشمول مسئلہ کشمیر کو گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت یا احساس دلاتی رہی ہے۔ آج بھی ہم ان تمام کوششوں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان موجود مسائل کو پُرامن طریقے پر حل کرنے کے سلسلے میں کی جارہی ہیں۔ ہمارا احساس ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مسائل کا منصفانہ اور پایدار حل ہندوپاک اور کشمیر کے عوام کی خوش حالی اور مسرت و سکون کا ضامن بن سکتا ہے۔

m اُمت مسلمہ کے لیے چیلنج: اس اہم اجتماع کے پلیٹ فارم سے ایک طرف اُمت اسلامیہ کو یہ پُرسوز آگاہی دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ’فنڈامنٹلسٹ اسلام‘ اور ’لبرل اسلام‘ کا نعرہ لگا کر باطل قوتیں اسلامی صفوں کو منتشر و پراگندا کرنے کی جو عیارانہ چال چل رہی ہیں‘ اُسے حکمت و دانائی اور شعور و ہوش مندی کے ساتھ مات دینا ضروری ہے‘ تاکہ فلاحِ انسانیت کا جو عظیم اور مقدس پروگرام ملت کے پاس ہے اس کے فیض سے دنیا کو آشنا کیا جا سکے۔

دنیا میں کشت و خون کا بازار گرم کرنے اور ملکوں میں تباہی و بربادی کا کھیل کھیلنے والی طاقتوں ہی نے‘ دنیاے اسلام کے قلب سے فلسطین کو نیست و نابود کرنے کی سازش رچائی اور ایک اسلامی مملکت کا خاتمہ کر کے‘ اس کی لاش پر اسرائیل کے قیام کے ذریعے‘ خود ہی سفاکانہ دہشت گردی کو جنم دیا ہے۔ وہی طاقتیں آج دہشت گردی کے خاتمے کی جدوجہد کی علم بردار بنی ہوئی ہیں‘ اور افغانستان و عراق کو تباہ و برباد کر کے ہنوز بموں کی بارش کرتی ہوئی‘ وہاں اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے مصروف کار ہیں۔ یہ طاقتیں دوسرے ملکوں میں مداخلت کا راستہ ترک کر دیں تو دنیا میں جمہوری فضا کی بحالی میں آسانیاں پیدا ہوسکتی ہیں‘ ورنہ متاثرہ ملکوں کے مظلوم عوام کا اضطراب‘ دنیا کے لیے بہت سے نئے مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ بڑی طاقتوں کو اب اس نقطۂ نظر پر نظرثانی کرنی چاہیے کہ وہ اپنی مرضی اور اپنے نام نہاد سیکولر فکر کے مطابق مسلم ملکوں کی قسمتیں بدل سکتی ہیں اور اپنی پسند کے نظام کو وہاں تھوپ سکتی ہیں۔ بوسنیا‘ چیچنیا‘فلسطین‘ افغانستان اور عراق کے عوام کی عظیم جدوجہد اس بات کی غماز ہے کہ مسلم ممالک اب اپنی حریت اور تشخص کا کسی قیمت پر بھی سودا نہیں کرنا چاہتے۔ اس لیے استعماری قوتوں کا اپنے جارحانہ عزائم کو فوری ترک کر دینا ہی دنیا میں امن و آشتی کا ضامن بن سکتا ہے۔

ان طاقتوں کو یہ بات بھی ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اب دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں مختلف فکرومذاہب کے لوگ نہ بستے ہوں۔ لہٰذا اس کا خیال رکھا جانا بھی ضروری ہے کہ ہر جگہ صرف یہی نہیں کہ عام انسانی حقوق کا تحفظ ہو‘ بلکہ تمام ملتوں کی قومی شناخت کے تحفظ کی تدابیر بھی کی جانی چاہییں۔

m دھشت گردی اور امن عالم: دہشت گردی ہی کے نام پر بعض ممالک میں مسلم اقلیت کو ہراساں اور خوف زدہ کر کے انھیں شدید اذیتوں کا شکار بنانے کا سلسلہ جاری ہے‘ جو قابلِ توجہ ہے۔ اگر کسی ملک میں مسلم گروہ کی کچھ شکایات ہیں یا مایوسی و نامرادی کا احساس (frustration)ہے تو اس کی حقیقت کو جاننے اور سمجھنے کی مخلصانہ کوشش کیے بغیر‘ اس پر یلغار اور اُسے بدنام کرنے کا سلسلہ جاری رکھنا بھی‘ عدل و انصاف اور جمہوری روح کے منافی ہے۔ یہ صورت حال بھی ختم ہونی چاہیے۔

اس موقع پر میں اہلِ پاکستان کو بھی متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ کا رویہ اپنے یہاں کی اقلیتوں کے ساتھ عدل و قسط اور اخوت و محبت پر مبنی اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ایسا ہو کہ انھیں آپ سے کوئی حقیقی شکایت نہ رہے۔ ان پر اسلام کا دین رحمت ہونا مسلسل واضح ہوتا رہے اور وہ آپ کے خیراُمت ہونے کے گواہ بن کر کھڑے ہوجائیں۔ ان شاء اللہ ملکی اور عالمی سطح پر اس کے بہت خوش گوار نتائج مرتب ہوں گے۔

اس موقع پرمیں اقوام متحدہ کو بھی متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بڑی طاقتیں دنیا میں کتنے ہی غیرقانونی‘ غیراخلاقی اور انسانیت کش اقدامات کرتی رہتی ہیں--- لیکن اقوام متحدہ بروقت اقدام کر کے اپنا فریضہ ادا کرنے سے قاصر رہتا ہے جس سے نہ صرف اس کی ساکھ متاثر ہوتی ہے‘ بلکہ فساد اور بگاڑ میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ اب ضروری ہوگیا ہے کہ اس عالمی ادارے پر چند بڑی طاقتوں کی اجارہ داری ختم ہو اور اس میں دنیا کے تمام ملکوں کی آواز کو  یکساں احترام کا مقام ملے‘ نیز یہ ادارہ حقیقی معنوں میں اقوام عالم کے حقوق کا پاسدار اور ان کے تشخص کا محافظ بن جائے ‘ اور ایسا نہ ہو کہ جب دورحاضر کی واحد سوپرپاور اور اس کے حواریین عراق کی طرح کسی بھی ملک پر ناجائز‘ غلط اور ظالمانہ طریقے پر حملہ آور ہوں اور اس کی آزادی کو ختم کرنے کی ناپاک سازش کریں‘ تو اقوامِ متحدہ ان کو روکنے کی کوئی عملی تدبیر نہ کرسکے اور کچھ عرصے بعد صرف یہ کہہ کر کہ یہ کارروائی غیرقانونی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف تھی‘ خود کو اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ سمجھ لے۔

یہاں میں اسلامی رفاقت کے حوالے سے اپنے بھائیوں اور بہنوں اور نئی نسل کو بہ طور خاص متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس وقت مسلمانانِ عالم کا عسکری گھیرائو کرنے کے ساتھ ہی فکری‘ تہذیبی اور ثقافتی غلامی کی زنجیروں میں انھیں جکڑنے کی بڑی دل فریب اور پُرکشش چالیں بھی چلی جارہی ہیں‘ تاکہ طائوس و رباب کی دلفریبیوں میں گم ہوکر ہم اپنی شناخت کھو دینے کے المیے سے دوچارہوجائیں۔

قرآن کے دلنشیں پیغام سے گہری وابستگی‘ اسوئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی والہانہ پیروی اور اپنے اسلامی ورثے سے استفادے کی ہمہ گیر و مربوط کوشش ہی اس یلغار سے ہمیں محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اسی طرح سے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمِ مواخات اور قرآن کریم کے ارشاد اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ کی پیروی بھی ہمیں باہمی انتشار سے محفوظ کرکے بنیانِ مرصوص بنا دے تو ہمارے کتنے ہی مسائل ان شاء اللہ اپنے آپ ختم ہوجائیں گے    ؎

ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں

ورنہ اِن بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے

  • جماعت اسلامی ھـند کی خدمات : ۱۹۴۷ء سے آج تک مختلف محاذوں پر جماعت اسلامی ہند کی دین و ملت کی خدمات کے بارے میں تحدیث نعمت کے طور پر عرض ہے کہ اپنے تشکیل کے روزاول ہی سے جماعت نے ان اہم مسائل پر توجہ دی ہے جن کا تعلق ملت اسلامیہ ہند کے تحفظ و بقا اور اس کے دینی و تہذیبی تشخص سے رہا ہے۔ تحریک نے ملت کی تعلیمی ترقی اور معاشی بہتری کے لیے بھی کوششیں کی ہیں۔ جماعت کی اپنی تیار کرائی گئی نصابی کتب کا انتہائی مقبول سلسلہ اور دینی وعصری علوم کے معیاری اداروں کی بڑی تعداد اور غیر سودی سوسائیٹیوں کے توسط سے عوام کی خدمت کی کوشش مسلسل جاری ہے۔

ملکی مسائل کے حوالے سے ہندستان میں بنیادی حقوق کے تحفظ‘ سیاسی‘ سماجی اور معاشی انصاف کے حصول ‘ انسانی اخوت اور اخلاقی قدروں کے فروغ‘ امن عامہ کے قیام‘ جمہوری اقدار کی بقا اور مذہبی‘لسانی و تہذیبی اکائیوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے سعی و جہد ہمارا اولیں ہدف رہا ہے۔ جماعت اسلامی ہر سطح پر ظلم واستحصال اور تشدد پر مبنی طرزِحیات پر تنقید کرتی رہتی ہے اور اقدار پر مبنی سیاست کی ضرورت و اہمیت کو واضح کرتی رہی ہے۔ اس ضمن میں جماعت نے حالیہ پارلیمانی انتخاب اور بعض اسمبلیوں کے الیکشن میں اپنی قوت کا حتی الامکان استعمال کیا جس کے بہت مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ جلد ہی چند مزید اسمبلیوں کے انتخابات ہونے والے ہیں جن میں مثبت اور تعمیری رول ادا کرنے کے لیے وابستگان تحریک متحرک و کوشاں ہیں۔

جماعت اسلامی ہند اپنے ۶ ہزار ارکان‘ لاکھوں کارکنان و وابستگان کی ذہنی و فکری‘ علمی و عملی اور دینی و اخلاقی ہمہ جہت تربیت پر بھرپور توجہ کے ساتھ ‘مسلمانوں میں بھی فکروعمل کی ایسی تبدیلی کی کوششیں کرتی ہے جس سے وہ اقامت دین کا اپنا منصبی فریضہ انجام دینے کے قابل ہوجائیں۔

عالمی مسائل کے ضمن میں ہم تمام ملکوں کی آزادی‘ بین الاقوامی قانون کے احترام‘ افراد اور تہذیبی اکائیوں کے عقیدے‘ ضمیروکلچر کی آزادی‘ امن و امان‘ عدل و انصاف‘ اخلاق و شرافت‘ وحدتِ انسانیت اور انسانی حقوق کی پاسداری کی پالیسی کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وقتاً فوقتاً اٹھنے والے عالمی مسائل‘ مثلاًفلسطین‘ بنگلہ دیش‘ خلیجی جنگ‘ کویت پر عراقی جارحیت‘ بوسنیا‘ چیچنیا‘ اور افغانستان پر روسی فوج کشی اور اب افغانستان و عراق پر امریکا اور اس کے حواریین کا حملہ اور کشمیر کی صورت حال پر جماعت نے حسب ضرورت احتجاج بھی کیا ہے۔ متعلقہ لوگوں کو توجہ بھی دلائی ہے اور موقع بہ موقع ضروری اظہار خیال بھی کرتی رہی ہے۔

خدمت خلق کے میدان میں جماعت اسلامی مریضوں‘معذوروں اور حاجت مندوں کو سہارا دینے اور مصیبت زدہ لوگوں اور مظلوموں کو بلالحاظ مذہب و ملت امداد پہنچانے کا اہتمام کرتی ہے۔ اس وقت گجرات کے مسلم کش فسادات کے متاثرین کی خدمت کا جو کام جاری ہے‘ اس پر اب تک ۱۵ کروڑ روپے سے زاید وسائل صرف کیے جا چکے ہیں۔ مسلم بھائیوں کے لیے ہزارہا مکانات اور متعدد کالونیاں بناکر دی گئی ہیں اور اس کے ساتھ ساڑھے پانچ سو غریب غیرمسلم بھائیوں کو بھی مکانات تعمیر کر کے دیے گئے ہیں۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا انتہائی شکرواحسان ہے کہ دعوت کے میدان میں خدمت کی بڑی سعادت بھی جماعت اسلامی ہند کو حاصل ہوئی ہے۔ تمام ممکن ذرائع سے اسلام کی دعوت برادرانِ وطن تک پہنچانا ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ ملک کی تقریباً تمام زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ‘ احادیث مبارکہ اور سیرت رسولؐ پر کتب کی اشاعت مسلسل جاری ہے۔ اردو‘ ہندی‘ انگریزی‘ بنگلہ‘ آسامی‘ اڑیہ‘ پنجابی‘ گجراتی‘ مراٹھی‘ تمل‘ تیلگو‘کنڑ‘ملیالم‘منی پوری‘ کوکنی وغیرہ زبانوں میں وسیع پیمانے پر اسلامی لٹریچر اب وجود میں آچکا ہے جس سے ایک طرف مسلمان بھی استفادہ کرتے ہیں اور دوسری طرف یہ لٹریچر‘ نیز ملک کی تقریباً تمام اہم زبانوں میں شائع ہونے والے ہمارے اخبارات و رسائل غیرمسلم بھائیوں کی اسلام کے سلسلے میں بدگمانیاں اور غلط فہمیاں دور کرنے کا ذریعہ اور ان تک پیامِ حق کو پہنچانے کا وسیلہ بھی بن رہے ہیں۔

خدا سے دعا ہے کہ ہم دنیا میں جہاں کہیں بھی ہوں‘ وہ اپنے دین کی اقامت و سربلندی کے لیے جدوجہد کی ہمیں توفیق عطا کرتا رہے‘ آخری سانس تک اندھیروں میں چراغ جلانے کی سعادت سے سرفراز فرماتا رہے اور ہماری کوششوں کو شرفِ قبولیت بخشے۔

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ

ترجمہ:  سید عبیدالرحمن ہمدانی

آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس میں عالم اسلام اور تمام ترقی پذیر ممالک شدید تکلیف دہ کیفیت سے دوچار ہیں۔ بعض مسلم ممالک پر قبضہ کیا جا چکا ہے اور بعض کو قبضے کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔ مسلم ممالک پر بم باری کی جا رہی ہے۔ شہروں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ انسان‘ بچے‘ عورتیں‘ بوڑھے اور بیمار بغیر تفریق کے قتل کیے جا رہے ہیں‘ یا پھر قیدخانوں میں ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور خواتین کی عزتیں پامال کی جا رہی ہیں‘ الغرض دہشت گردی کے نام پر عوام کو بدترین ظلم و جبر‘ خوف اور قیدوبند کی صعوبتوں اور حکومتی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ افغانستان پر قبضے کے دوران قیدیوںکے وحشیانہ قتل‘ گوانٹاناموبے میں کیے جانے والے بدترین سلوک‘ عراق پر تسلط کے دوران مخالفین کے قتل‘ خصوصاً ابوغریب جیل میں بدترین کشمیر وفلسطین میں نہ ختم ہونے والے ظلم و جبر پر‘ میں پوری شدت سے احتجاج کرتا ہوں۔

۱۹۸۹ء میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھر جانے اور ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے سانحے کے بعد پیدا ہونے والے حالات نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا ہے۔ امریکا نے اس واقعے کو بہانہ بناکر پوری دنیا پر تسلط حاصل کرنے کے لیے اسٹرے ٹیجک لحاظ سے اہم مسلم ممالک پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے۔

ہم مسلمان ہونے کے ناطے کبھی بھی دہشت گردی کی طرف داری نہیں کرتے۔ مگر جب حکومتوں کو دہشت گرد تنظیم کی طرح استعمال کرتے ہوئے ممالک پر قبضہ کیا جاچکا ہو‘ جن لوگوں کے مکان گرا دیے گئے ہوں اور وہ اپنے خاندان کے افراد کے قتل کے خلاف سراپا احتجاج ہوں‘ اور جو اپنے ملک‘ اپنے گھر اور اپنے خاندان کا دفاع کر رہے ہوں‘ ان کو کبھی بھی دہشت گرد نہیں کہا جاسکتا۔ کیا کبھی مظلوم اور ظالم کو ایک جیسا کہا جا سکتا ہے‘ جب کہ یہ دفاعی کاوش صرف اسلامی نہیں ایک انسانی طرزعمل ہے۔

اس ساری مہم کے پیچھے اصل ایکٹر بظاہر امریکا ہی نظر آتا ہے۔ لیکن امریکا کو اس طرح کے فیصلے کرنے اور حملے کرنے کی تلقین کرنے والی پس پردہ لابیز (lobbies) موجود ہیں جن میں سب سے اہم یہودی لابی ہے۔ یہودی لابی یا عیسائی سیونیٹس (savants) باہم مل کر نئی دنیا کی تشکیل کے خواہاں ہیں۔

ان لابیز کے مقاصد میں اہم تر مقصد‘ ارض موعود کو مکمل طور پر آباد کر کے عظیم تر اسرائیل کو تشکیل دینا ہے۔ ارض موعود وہ سرزمین جس کے بارے میں یہودیوں کا زعم ہے کہ ان سے وعدہ کیا گیا ہے کہ یہ نیل سے لے کر فرات تک پھیلی ہوئی ہے۔ عراق‘ شام‘ مصر اور سعودی عرب کا ایک حصہ‘ سوڈان اور ترکی بھی اسی سرزمین میں شامل ہیں اور ٹارگٹ پر ہیں۔

جی ہاں‘ امریکا کا پیش کیا جانے والا عظیم تر مشرق وسطیٰ امن منصوبہ درحقیقت عظیم تر اسرائیل کا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے‘ آج امریکی صدر بش ہر قسم کے ہتھکنڈے آزمانے کے لیے پرعزم دکھائی دے رہا ہے۔

عالمی حقوق اور انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ مقبوضہ ممالک میں کٹھ پتلی حکومتیں بنائی جا رہی ہیں۔ سب سے اہم اور خطرناک یہ کوشش ہے کہ مسلم ممالک کے تعلیمی نظام میں مداخلت کر کے اسلام کی بنیادی تعلیمات میں تحریف کی جائے۔

امریکا دہشت گردی کی روک تھام کا بہانہ بناتے ہوئے کٹھ پتلی حکومتوں کے ذریعے خود دہشت گردی پھیلا رہا ہے۔ جن ممالک کا اقتدار پسند نہ ہو‘ ان کے عوام پر بم باری کر کے انھیں ہلاک کیا جارہا ہے‘ اور بے بس کر کے ان پر قبضہ کیا جا رہاہے جیسا کہ افغانستان اور عراق میں ہوا‘ اور اب سوڈان اور ایران کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔

مختلف ممالک پر قبضہ جمانے کے لیے حملے کا یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ یہ ممالک اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہیں کر رہے۔ یہ بالکل دوغلی پالیسی ہے۔ حالانکہ جب سے اسرائیل کی بنیاد رکھی گئی ہے‘ اس کے خلاف اقوام متحدہ کو سو کے قریب قراردادیں پیش کی گئی ہیں۔ اس نے کسی پر بھی عمل نہیں کیا۔ اب خود امریکا نے بھی اقوام متحدہ کی کسی قراردادکے بغیر ہی عراق پر حملہ کر کے قبضہ جمالیا ہے۔

یہ بہانہ بھی بنایا جاتا ہے کہ مسلمان ممالک کے پاس تباہ کن ہتھیار موجود ہیں اور نیوکلیئر ٹکنالوجی اس مقصد کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے۔ حالانکہ اسرائیل کے پاس بھی ہر قسم کے تباہ کن اور بے شمار نیوکلیئر ہتھیار موجود ہیں‘ لیکن کوئی بھی اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا۔ یہ امریکا کی دوغلی پالیسی کا کھلا ثبوت ہے۔

امریکا اور اسرائیل کی ان جارحانہ پالیسیوں کے پس پردہ ان کے بے شمار مالی وسائل اور ٹکنالوجی کی طاقت ہے۔ ان کی قوت کے عناصر کو یوں ترتیب دیا جاسکتا ہے: ۱- اقتصادی طاقت ۲- بہترین ٹکنالوجی ۳- فوجی طاقت ۴- ذرائع ابلاغ ۵-سیاسی طاقت۔

امریکا مندرجہ بالا وسائل کے استعمال اور دوسرے ممالک کے خفیہ اداروں اور خفیہ تنظیموں کے تعاون سے حکومتوں کو یا ان کی پالیسیوں کو بدلنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

برادرانِ محترم! میں نے مختصراً دنیا اور ہمارے ارد گرد کے حالات و واقعات اور آنے والے خطرات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب واضح دکھائی دے رہا ہے کہ یہ حملہ آور دشمن قدم بہ قدم آگے بڑھتے ہوئے تمام پس ماندہ ممالک خصوصاً عالمِ اسلام کو گھیرے میں لے لینا چاہتا ہے۔ ان بڑھتے ہوئے اقدام کو بہرصورت روکنا ہوگا۔

لیکن کیسے اور کن کے ذریعے؟ کن کے ذریعے کا جواب بالکل واضح ہے۔ جن ممالک کے خلاف امریکا اور مغرب نے اعلانِ جنگ کیا ہوا ہے‘ یا جن کو دھمکایا جا رہا ہے‘ ان تمام ممالک کے ذریعے۔ ان میںسرفہرست مسلم ممالک ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ تمام پس ماندہ ممالک اور آگے چل کر روس اور چین جیسے ممالک کو بھی اس تحریکِ مزاحمت میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اتنے زیادہ ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا اور کوئی قدم اٹھانا آسان نہیں ہوتا‘ اس کے لیے ایک بیج بونے کی ضرورت ہے۔ محترم اربکان صاحب نے اسی لیے ڈی-۸ کی تنظیم قائم کی تھی۔

پاکستان‘ ایران‘ بنگلہ دیش‘ملایشیا‘ انڈونیشیا‘ مصر‘ نائیجیریا اور ترکی کو شامل کرتے ہوئے ایک عظیم مسلم اتحاد کی بنیاد رکھی گئی۔ بہت وسیع‘ قدرتی وسائل سے مالا مال اور ۸۰ کروڑ افراد پر پھیلی ہوئی آبادی کی طاقت۔ اگر یہ ممالک اکٹھے ہو کر اپنے وسائل مجتمع کرلیں تو یہ بلاشبہہ دنیا کی سب سے طاقت ور تنظیم بن سکتے ہیں۔

ڈی-۸ کے تنظیمی ڈھانچے میں عالمی مسائل کے حل اور دنیا میں امن پیدا کرنے کے لیے درج ذیل اصول وضع کیے گئے ہیں:

                اختلافات کے حل کے لیے جنگ کے بجاے صلح اور لڑائی کے بجاے مذاکرات کا طریقہ اپنائیں گے۔

                اقتصادی طور پر لوٹ کھسوٹ کے بجاے منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائیں گے۔

                بین الاقوامی تعلقات میں دوغلی پالیسی کے بجاے عدل و انصاف کو اپنایا جائے گا۔

                تکبر کے بجاے برابری اپنائی جاے گی۔

                دبائو یا اجارہ داری کے بجاے جمہوریت اور حقوق انسانی کو اپنائیں گے۔

                اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے اور اپنے درمیان اتحاد کو مزید مضبوط کرنے کے لیے کچھ عملی اقدام اٹھانے ہوں گے۔

محترم اربکان صاحب نے ۳۰ سال قبل درج ذیل اقدامات تجویز کیے تھے:

۱- مسلم ممالک کی الگ اقوام متحدہ ‘ ۲-مسلم ممالک کی خودمختار دفاعی تنظیم‘ ۳-مسلم ممالک کی مشترکہ منڈی‘ ۴-تمام مسلم ممالک کی مشترکہ کرنسی‘ یعنی اسلامی دینار‘ ۵-مسلم ممالک کی مشترکہ ثقافتی تنظیم۔

نیت میں خلوص اور فیصلے میں عزم ہو تو یہ خواب قلیل مدت میں مکمل طور پر حقیقت پذیر ہوسکتا ہے کیونکہ یہ ایک سیاسی ادارے کا مسئلہ ہے جس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ابتدائی اور بنیادی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ہر ملک کو تین راستے اختیار کرنے ہوں گے:

۱- مذاکراتی انسٹی ٹیوٹ کی تشکیل ‘۲- ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ کا قیام‘۳-اقتصادی تعاون اور ترقی کے لیے انسٹی ٹیوٹ کا قیام۔

اس عظیم الشان اجتماع میں‘ میں نے مستقبل کے انتہائی اہم مسائل کی نشان دہی کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہنے کے لیے بہت ساری باتیں ہیں لیکن اب باتوں کے بجاے عمل کا وقت ہے۔

دنیا میں موجودہ اور جاری و ساری اس ظلم کے نظام کو بدلنا ہوگا۔ ظالموں کو انسانیت کا خون بہانے اور مسلمانوں پر کھلے بندوں ڈھائے جانے والے ظلم و زیادتیوں کو روکنے کے لیے یقینی طور پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

میری دعا ہے کہ ہم بار بار ملیں‘ بار بار مشاورت ہو‘ عمل ہو اور پوری انسانیت کو امن و اطمینان اور عدل و انصاف نصیب ہو۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ (آمین)

اللہ کی بندگی کی روح یہ ہے کہ ہم صرف اسی کے محتاج اور فقیر بن جائیں۔ محتاجی اور فقر کے سوا انسانی زندگی کی کوئی اور تعبیرممکن نہیں ہے۔ جتنا محتاج‘ جتنا فقیر‘ جتنا بے بس‘ جتنا لاچار اور بے کس انسان ہے‘ اتنی شاید ہی کوئی دوسری مخلوق ہو۔

ایک بچے کے آنکھ کھولتے ہی اگر دو انسان اس کی خبرگیری کے لیے‘ اللہ تعالیٰ نے متعین نہ کر دیے ہوں‘ تو انسان کا بچہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ قدم قدم پر‘ لمحے لمحے پر‘ ہر جگہ انسان‘ کائنات کی قوتوں کے آگے‘ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے۔ اگر زلزلہ آجائے‘ آتش فشاں پھٹ جائے‘ سیلاب آجائے‘ آندھی اور طوفان آجائے‘ وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ جسم کے اندر اگر ایک خلیے کا مزاج بگڑ جائے تو کینسر کا مرض موت کا پروانہ لے کر آجاتا ہے‘ اورکوئی علاج کارگر نہیں ہوتا۔ معمولی زکام بھی ہوجائے تو اس کی دوا ابھی تک انسان کے پاس نہیں ہے۔ وہ اپنے نزلے‘ زکام کا علاج نہیں کر سکتا ہے۔ اگردل دھڑکنا بند ہو جائے تو وہ اس کی دھڑکن دوبارہ واپس نہیں لاسکتا۔ انسانی زندگی کو وہ اگر لوٹانا بھی چاہے تو نہیں لوٹا سکتا۔ اُس کا اِس پر بس نہیں چلتا۔

گویا ہر طرف انسان کی حاجت مندی‘ محتاجی اور فقیری ہے جو اس کی زندگی میں رچی بسی ہے۔ اسی محتاجی اور فقیری کا نتیجہ ہے کہ انسانی زندگی میں سب سے غالب اور نمایاں پہلو اگر کوئی ہے تو وہ یہ کہ وہ اپنے آپ کو نقصان سے بچائے۔ اس وجہ سے جس سے بھی نقصان پہنچتا ہے اور جس سے بھی فائدہ ملنے کی امید ہوتی ہے‘ وہ اس سے نسبت اور تعلق قائم کرلیتا ہے۔ انسانی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہی پہلو غالب نظر آئے گا۔ کہیں وہ کسی غیرمعمولی طاقت اور قوت کے خوف‘ ڈر اور ہیبت سے اس کے آگے جھک جاتا ہے‘ ماتھا ٹیک دیتا ہے اور اس کو خدائی کا درجہ دے کر بندگی کرتا ہے اور پناہ مانگتا ہے۔ وہ اپنی حاجات ‘ ضروریات‘ امیدوں اور تمنائوں کے برآنے کے لیے ہر ایسی ہستی اور قوت کے آگے ہاتھ پھیلا دیتا ہے‘ اُس کے در پہ جھک جاتا ہے‘ سجدے میں گرجاتا ہے‘ گڑگڑاتا اور دعائیں مانگتا ہے جس سے اسے حاجت روائی‘ مشکل کشائی‘ مرادوں کے برآنے اور دعائوں کی قبولیت اور امن و تحفظ کی امید و توقع ہوتی ہے۔ اس سب کے پیچھے بنیادی سوچ یہی ہوتی ہے۔ پوجا و پرستش اور عبادت و بندگی‘ اور محتاجی وفقر‘ اور مذاہب و ادیان کی تشکیل میں بھی یہی فلسفہ و فکر کارفرما ہے۔

بندگی کی روح اور حقیقت

اللہ کی بندگی کی روح اور حقیقت یہ ہے کہ فقر‘ حاجت روی اور محتاجی کا یہ تعلق صرف ایک ذات سے‘ یعنی اللہ سے ہو۔ انسان صرف اُسی کی بندگی کرے نہ کہ کسی اور کی۔ زمین کے زلزلے سے گھبرا کر وہ زمین کی بندگی نہ کرے‘ نہ سورج‘ چاند‘ ستاروں کی پرستش کرے‘ نہ ہوائوں اور بارش کی اور نہ اپنی یا اپنے جیسے کسی انسان کی پوجا کرے‘ بلکہ وہ یہ سمجھے کہ جو کچھ بھی مل سکتا ہے صرف اللہ ہی سے مل سکتا ہے اور سارے اختیارات صرف اُسی کے پاس ہیں۔ ہر چیز اس کے خزانے میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ کسی کے پاس ذرہ برابر بھی اختیار نہیں ہے‘ نہ کچھ دینے کے لیے اور نہ کچھ چھیننے کے لیے۔ زندگی و موت‘ نفع و نقصان اور خیروشر‘ سب اس کے اختیار اور قبضۂ قدرت میں ہے۔جس نے اس بات کو سمجھ لیا اوراس پر یقین کر لیا‘ اور پھر اس پر اپنی زندگی کی تعمیرکی‘ صرف اُسی کی بندگی مکمل ہوگی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہم کو دعا کے انداز میں اپنے ساتھ تعلق رکھنے کی تعلیم دی اور اس تعلیم کو بار بار دہرانے کی بھی ہدایت کی اور حکم دیا کہ یوں کہو: اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo (الفاتحہ ۱:۴) ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘۔ دراصل یہی بندگی کی روح اور بندگی کی معراج ہے۔

سورۃ الفاتحہ کی اس آیت کی تشریح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اَلدُّعَائُ ھُوَ العِبَادَۃُ ،’’مانگنا ہی تو بندگی ہے‘‘۔ آپؐ نے مزید فرمایا: اَلدُّعَائُ مُخُّ العِبَادَۃِ،یعنی مانگنا عبادت کا مغز‘ اس کی روح اور اس کا جوہر ہے۔ لہٰذا جو اللہ کا نام لے‘ اس کا جھنڈا اٹھائے اور طلب کی نسبت اللہ کے علاوہ دوسروں سے بھی رکھے تووہ توحید کے راستے میں نقص‘ کمزوری اور ضعف کا شکار ہے۔ توحید کے مطابق اللہ کی بندگی کامل اس کی ہے جو خوف اور طمع کی نسبت صرف اللہ سے رکھے۔ ڈرے تو صرف اُسی سے ڈرے‘ اور اگر کوئی امید ہو تو صرف اسی سے ہو۔

یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا (السجدہ ۱۶:۳۲)

اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں۔

گویا وہ خوف اور ڈر سے‘ لالچ اور طمع سے اور امید و حاجت روی سے اگر مانگتے ہیں یا پکارتے ہیں تو صرف اپنے رب کو پکارتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے وہ سارے انعامات ہیں جو نہ انسان نے دیکھے‘ نہ سنے اور نہ وہ تصور کرسکتا ہے۔ اسلام میں بندگی ومحتاجی اور فقر کی یہی روح اور حقیقت ہے۔

اللہ کی بندگی کی روح یہی ہے کہ ہم اُس کے آگے ہاتھ پھیلائیں‘ اسی کے در پر بھکاری بن کر جائیں‘ اسی سے مانگیں‘ اور یہ سمجھیں کہ جو کچھ مل سکتا ہے صرف اُسی سے مل سکتا ہے‘ اور اگر کوئی چھین سکتا ہے تو صرف وہی چھین سکتا ہے۔

ایک طویل حدیث قدسی میں جو حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت کی گئی ہے‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: تم سب بھوکے ہو‘ بھوکے رہو گے سوائے اس کے جس کو میں کھانا کھلائوں۔ تم سب بے لباس رہو گے سوائے اس کے جس کو میں کپڑا پہنائوں۔ تم سب گمراہ رہو گے سوائے اس کے جس کو میں ہدایت دوں۔ تم دن رات گناہ کرتے ہو‘ اور مجھ سے معافی مانگتے ہو تو میں معاف کر دیتا ہوں۔پھر فرمایا کہ تم مجھ سے ہدایت مانگو۔

گویا محتاجی صرف دنیا کی چیزوں کے لیے نہیں ہے‘ بلکہ محتاجی ہر چیزکے لیے ہے۔ زندگی کیسے بسر کریں؟ سیاست کیسے ہو؟ معیشت کیسی ہو؟ یہ بھی محتاجی میں شامل ہے۔ یہ سمجھنا کہ یہ رہنمائی کہیں اور سے مل سکتی ہے‘ یہ بھی خلافِ توحید ہے۔ اس لیے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ: تم مجھ سے ہدایت مانگو میں تمھیں ہدایت دوں گا‘مجھ سے کھانا مانگو میں تمھیں کھلائوں گا‘ مجھ سے کپڑا مانگو میں تمھیں پہنائوں گا‘ مجھ سے معافی مانگو میں تمھیں معاف کر دوں گا۔

پھر فرمایا:اس سے میری کوئی غرض نہیں ہے۔ ’’سارے انسان‘ تمھارے پہلے ‘ اور بعد میں آنے والے جِن اور مخلوق سب مل کر انتہائی متقی ہوجائیں تو میری خدائی میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ اور اگر سب کے سب مل کربدترین نافرمان ہوجائیں‘ تب بھی میری خدائی میں کوئی کمی نہیں آئے گی‘ اور سب کے سب کسی میدان میں جمع ہو کے جو مانگنا ہے وہ مانگ لیں‘ جو دل میں آئے مانگ لیں‘ اور میں وہ سب دے دوں تو میرے خزانوں میں اس سے زیادہ کمی نہیں ہوگی کہ سوئی سمندر میں ڈال کر نکال لی جائے (تو اس کے سرے پر جو پانی لگا رہ جاتا ہے‘ اس کے برابر) اے میرے بندو! تم مجھ کو چھوڑ کر کس کے پاس جاتے ہو! (مشکوٰۃ المصابیح‘ باب الاستغفار والتوبہ)

وہ ہمیں بلاتا ہے‘ پکارتا ہے۔ غرض تو ہماری ہے‘ محتاج توہم ہیں وہ توغنی ہے‘ ہم فقیر ہیں۔ اگر اسے خدا کی شان میں گستاخی نہ سمجھا جائے تو وہ ہم کو ایسے پکارتا ہے اوربار بار پکارتا ہے کہ آئو‘ مجھ سے مانگو‘ نعوذ باللہ گویا وہ محتاج اور فقیر ہو اور ہم غنی ہوں اور ہمیں کوئی پروا نہ ہو۔ ہم رات سے صبح‘ صبح سے رات کریں اور بھول کر بھی نہ سوچیں کہ اس سے ملنا ہے‘ اس سے مانگنا ہے۔ مگر وہ ہے کہ جو بار بار پکارتا ہے کہ  آئو اپنے گناہوں کی معافی مانگو‘تاکہ میں تم کو معاف کر دوں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ: جو اللہ سے سوال نہیں کرتا ہے‘ اللہ اس سے ناراض ہو جاتا ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوتا ہے‘ غصہ کرتا ہے جو اس سے سوال نہیں کرتا اور مانگتا نہیں ہے۔ بندگی‘ محتاجی اور فقر یہی توہے کہ اس نے ہم کو پیدا کیا ہے‘وہ ہمارا خالق اور ہم اس کی مخلوق ہیں‘ اور مخلوق ہونے کے ناطے ہم اپنے ارادے سے اس کے در پر جائیں‘ اسی کے بھکاری بن کر جائیں اور اسی سے مانگیں۔

بندے اور رب کا تعلق

اگر آپ غورکریں تو مانگنے میں‘ ایک تو مانگنے والا ہے جو ہم ہیں‘ اور ایک وہ ہے جس سے مانگا جائے۔ ہماری کیفیت یہ ہے کہ ہم فقیر ہیں‘ محتاج ہیں‘ کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتے‘ نہ اپنی آنکھ پر‘ نہ اپنے کان پر اور نہ اپنے جسم پر۔ ہمارا اختیار تو جسم کے اندر ایک چھوٹے سے خلیے پر بھی نہیں۔ اگر اس میں فساد پیدا ہو جائے تو ہم چند دن میں گل سڑ کر مرجاتے ہیں اور کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ ہمیں اپنے جسم پر اتنا بھی اختیار نہیں ہے۔ اس قدر لاچار اور بے بس ہیں ہم۔ مگر آدمی اپنے آپ کو نہ جانے کیا سمجھتا ہے۔

دوسری طرف ایک وہ ہے کہ جس سے مانگا جائے‘ یعنی اللہ رب العزت۔ اس کا حال یہ ہے کہ ہماری کسی نیکی سے‘ دعا سے اس کی خدائی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا لیکن ہم جو مانگیں‘ وہ ہم کو دے دیتا ہے اور اس کے ہاں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ وہ خود پکارتا ہے کہ آئو مجھ سے ہدایت مانگو میں تمھیں ہدایت دوں گا‘ کھانا مانگو‘ کھانا کھلائوں گا‘ پانی مانگو پانی دوں گا‘ شفا مانگو شفا دوں گا ۔ یہی رب سے وہ حقیقی تعلق ہے جس کو توحید کے امام عالی مقام حضرت ابراہیم ؑ نے یوں ادا کیا کہ تمام جھوٹے معبود میرے دشمن ہیں‘ سواے ایک رب العالمین کے:

فَاِنَّھُمْ عَدُوٌّ لِّیْٓ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَo الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَھُوَ یَھْدِیْنِo  وَالَّذِیْ ھُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِo وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَیَشْفِیْنِo وَالَّذِیْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحْیِیِنِo وَالَّذِیْٓ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَلِیْ خَطِیْٓئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِo (الشعرائ۲۶: ۷۷-۸۲)

میرے تو یہ سب دشمن ہیں‘ بجز ایک رب العالمین کے‘ جس نے مجھے پیدا کیا‘ پھر وہی میری رہنمائی فرماتا ہے۔ جو مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے اور جب بیمار ہوجاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ جو مجھے موت دے گا اور پھر دوبارہ مجھ کو زندگی بخشے گا اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ روزِ جزا میں وہ میری خطا معاف فرما دے گا۔

مانگنے والا اور جس سے مانگا جائے‘ ان دونوں کے علاوہ ایک تیسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ کیا مانگا جائے؟ آدمی کیا مانگتا ہے‘ وہ جس کی طلب دل کے اندر ہوتی ہے۔ پیاسا پانی مانگتا ہے‘ بھوکا کھانا مانگتا ہے‘ بے لباس کپڑا مانگتا ہے‘ تو گویا جس کی واقعی حاجت ہوتی ہے‘ واقعی طلب ہوتی ہے‘ اسی کے لیے آدمی ہاتھ پھیلاتا ہے۔ چھوٹا سا کام درپیش ہو تو آدمی ایم این اے وغیرہ کے گھر کے دس چکر لگاتا ہے کہ کسی طرح میرا کام ہوجائے۔ اگر کہیں اس سے اُوپر تعلق پیدا ہوجائے‘ وزیراعظم کے ہاں جانے کا موقع مل جائے‘ تو آدمی بے چین ہو کے دوڑا دوڑا جا کے کام کروائے گا۔

پس جس چیز کی طلب ہوتی ہے ‘ حرص ہوتی ہے‘ اس کے لیے دل کی گہرائیوں سے آواز اٹھتی ہے اور انسان اس کے لیے پکار اٹھتا ہے۔ اگر دل میں طلب‘ حرص و لالچ نہ ہو‘ کوئی پیاس اور بھوک نہ ہو‘ کوئی تڑپ اور بے قراری نہ ہو‘ تو اس کیفیت میں مانگنے پر ملنا مشکل ہے‘ اور دعا کا قبول ہونا بھی مشکل ہے۔

تزکیہ و تربیت کا اہم ذریعہ

دعائوں کے ذریعے اللہ سے اور صرف اللہ سے خوف اور لالچ کا تعلق قائم ہوتا ہے۔ یہ تعلق بندگی اور عبادت کی روح ہے۔

دعاکا ایک اور پیرایہ یہ ہے کہ دعا تعلیم و تربیت اور تزکیے کا ذریعہ ہے۔ ہم منطق چھانٹیں‘ دلائل دیں‘ بڑی لمبی چوڑی تقریر بھی کریں مگر اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کے چار الفاظ میں جو تعلیم دی گئی ہے‘ وہ ہم نہیں سمیٹ سکیں گے۔جو کچھ ] اور جیسا[ ہم کو ہونا چاہیے‘ اس کو دعا بنا کر‘ طلب اور خواہش کی طرح ہماری زبان پر جاری کر دیا گیا ہے۔ گویا جو کچھ ہم مانگ رہے ہیں اس کی طلب‘ اس کا لالچ‘اس کی حرص بھی دل کے اندر ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ دل میں اگر اس چیز کی پیاس نہ ہو‘ یہ معلوم ہی نہ ہو کہ ہم کو کیا چاہیے یا کیا مانگنا ہے؟ تو پھر اس کی قبولیت بھی مشکل ہے۔ لہٰذا دعا کرنا یا مانگنا صرف اتنا ہی نہیں کہ اللہ کے آگے گڑگڑایا جائے اور التجا کی جائے‘ بلکہ جو کچھ ہم مانگ رہے ہیں اور جیسا بننا چاہ رہے ہیں‘ اس کے حصول اور ویسا بننے کی کوشش بھی لازم آجاتی ہے۔ یہی تزکیہ و تربیت کا وہ عمل ہے جو دعا کے مانگنے کے ساتھ فطری انداز میں جاری و ساری ہوجاتا ہے۔ دعا اللہ تعالیٰ سے ہمارا تعلق ہی نہیں جوڑتی‘ بلکہ وہ ہم کو یہ بھی بتاتی ہے کہ ہم کو کیسا بننا چاہیے‘ کیسا ہونا چاہیے اور دل میں خواہش‘ لالچ‘ تڑپ اور طلب کس چیز کی ہونی چاہیے۔

دعائیں قرآن مجید میں بھی مذکور ہیں‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ آپؐ کی دعا ہے۔ ایسے ایسے الفاظ میں‘ایسے ایسے مضامین کی‘ ایسے خوب صورت اور مؤثر پیراے میں دعائوں کی یہ تعلیم دی گئی ہے کہ دل بے اختیار ہوجاتاہے ‘روح وجد میں آجاتی ہے اور بندہ اپنے رب ہی کا بن کے رہ جاتا ہے۔ اگر ہم ان دعائوں کو دیکھیں‘ ان کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ ہم کو کیا مانگنا چاہیے‘ اور کیسا بننا چاہیے اور اللہ سے ہمارا تعلق کیسا ہونا چاہیے۔

دعا اللہ کو یاد کرنے کی بھی ایک بڑی عمدہ‘ نادر اور نفیس صورت ہے۔ قرآن مجید میں  اللہ تعالیٰ ہم سے ہم کلام ہوتا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں: ’’اللہ اکبر، لا الٰہ الا اللہ، سبحان اللہ، الحمدللہ‘‘۔ تو ہم اللہ کو یاد کرتے ہیں‘ لیکن جب ہم اس سے دعا مانگتے ہیں تو ہم صرف اس کو یاد ہی نہیں کرتے‘ بلکہ ہم اس سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ اس سے بات چیت کرتے ہیں۔ اگر کسی کو اللہ سے بات چیت کرنے کا موقع مل جائے تو یہ بہت بڑی نعمت اور بہت بڑی سعادت ہے۔ صبح و شام انسان کو حاجات پیش آتی ہیں‘ ضروریات آن پڑتی ہیں‘ اگر آدمی صبح و شام‘ رات دن‘ ہر موقع پر اللہ سے مانگتا رہے تو پھر یہ کیفیت ہوتی ہے:  اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّ قُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ(ٰاٰل عمرٰن۳:۱۹۱)، ’’جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے‘ ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں‘‘۔ یہ کیفیت ہماری بھی بن سکتی ہے۔

چند مسنون دعائیں

قرآن مجید نے بہت ساری دعائوں کی تعلیم دی ہے۔

سورۃ الفاتحہ خود ایک دعا ہے اور دعا ہی کی صورت میں پورے دین کی تعلیمات کو بیان کر دیا گیا ہے۔

حضرت نوح علیہ السلام‘ اللہ تعالیٰ کے بڑے محبوب نبی اور رسول تھے اور اس کی راہ میں انھوں نے بڑی محنت اور جدوجہد کی ہے۔ ساڑھے نوسو سال تک رات دن‘ کھلے چھپے اپنی قوم کو پکارا‘ مگر سواے انکار اور مایوسی کے‘کچھ ہاتھ نہ آیا۔ ان کی قوم نے مان کر نہ دیا اور ایک نہ سنی بلکہ انھیں جھٹلا دیا۔ اس حالت میں ان کی زبان سے ایک دعا نکلی جوبہت مختصر سی دعا ہے:

اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ o (القمر۵۴:۱۰)

میں مغلوب ہوچکا‘ اب تو ان سے انتقام لے۔

یہ تین الفاظ کی دعا ہے‘ لیکن اس کی پشت پر ساڑھے نو سو سال رات دن کی محنت تھی۔ اس دعا نے زمین و آسمان کو ہلا کر رکھ دیا اور اس طرح قبول ہوئی :

فَفَتَحْنَـآ اَبْوَابَ السَّمَآئِ بِمَآئٍ مُّنْھَمِرٍط وَّفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَآئُ عَلٰٓی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ o (القمر ۵۴:۱۱-۱۲)

تب ہم نے موسلادھار بارش سے آسمان کے دروازے کھول دیے اور زمین کو پھاڑ کر چشموں میں تبدیل کر دیا‘ اور یہ سارا پانی اس کام کو پورا کرنے کے لیے مل گیا جو مقدر ہوچکا تھا۔

بظاہریہ چھوٹی سی دعا تھی۔ لیکن ایک ایسے بندے کے دل و زبان سے نکلی تھی جو رات دن اسی مغلوبیت کے میدان سے گزر رہا تھا۔

حضرت موسٰی علیہ السلام‘ معرکہ فرعون و کلیم میں جب مصائب و مشکلات کے ہاتھوں پریشان ہوئے تو اپنے رب کی طرف لپکے‘ مدد مانگی اور پکار اٹھے:

رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ (القصص ۲۸:۲۴)

پروردگار!جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے میں اُس کا محتاج ہوں۔

اس پکار کے نتیجے میں ان کے لیے بھی راستے کھل گئے‘ پناہ بھی ملی‘ مغفرت بھی ملی‘ دشمن بھی تباہ و برباد ہوا اور مقامِ عبرت بن گیا‘ نیز غلبہ بھی ملا‘ سب کچھ ان کے حصے میں آیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن دعائوں کی تعلیم دی ہے‘ ان دعائوں میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسے تعلق کا جس سے سب کچھ مل سکتا ہے‘ ایک ایک لفظ سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔

یہ دعا‘ عرفات کے میدان کی دعا ہے۔ لیکن کسی وقت بھی مانگی جاسکتی ہے۔ کوئی بھی بندہ رات کی تنہائی میں بھی مانگ سکتا ہے اور دن میں بھی :

اِلٰھِیْ عَبْدُکَ بِبَابِکَ فَقِیْرُکَ بِبَابِکَ مِسْکِیْنُکَ بِبَابِکَ سَائِلُکَ بِبَابِکَ ذَلِیْلُکَ بِبَابِکَ ضَعِیْفُکَ بِبَابِکَ  ضَیْفُکَ بِبَابِکَ  یَارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ٭

میرے معبود‘ تیرا بندہ تیرے در پر ہے‘ تیرا فقیر تیرے در پر ہے‘ تیرا مسکین تیرے در پر ہے‘ تیرا سائل تیرے در پر ہے‘ تیرا ذلیل بندہ تیرے در پر ہے‘ تیرا کمزور و ناتواں بندہ تیرے در پر ہے‘ تیرا مہمان تیرے در پر ہے‘ اے رب العالمین!

اس دعا میں بندگی‘ عجز وانکسار اور خدا سے استعانت و مدد کی کتنی دل کش تصویر پیش کی گئی۔ بندہ پکارتا ہے: اے اللہ، تیرا بندہ تیرے دروازے پر حاضر ہے‘ تیرے در پر بھکاری بن کر کھڑا ہے۔ تیرا محتاج و فقیرہے‘ مسکین و بے بس ہے۔ اے اللہ‘ تیرا بندہ اسی لیے تیرے در پر کھڑا ہے اور تیرا مہمان ہے کہ تونے بلایا ہے۔ بن بلائے بھی نہیں آیا ہے‘ بلایا ہوا آیا ہے۔ میں تیرا بندہ ہوں‘ کمزور اور ضعیف‘ فقیر اور محتاج‘ تیرے در پر سوالی بن کر کھڑا ہوں‘اور تیرے سوا کون ہے جس کے در پر ہم اپنی جھولی پھیلا سکیں۔

اس طرح ایک اور دعا ہے:

اَللّٰھُمَّ اَنْتَ تَسْمَعُ کَلَامِیْ وَتَـرٰی مَکَانِیْ وَتَعْلَمُ سِرِّیْ وَعَلَانِیَتِیْ لَایَخْفٰی عَلَیْکَ شَیْ ئٌ مِّنْ اَمْرِیْ، اَنَا الْبَآئِسُ الْفَقِیْرُ، الْمُسْتَغِیْثُ الْمُسْتَجِیْرُ الْوَجِلُ الْمُشْفِقُ الْمُقِرُّ الْمُعْتَرِفُ بِذَنْبِیْ اِلَیْکَ، اَسْئَلُکَ مَسْئَلَۃَ الْمِسْکِیْنِ وَاَبْتَھِلُ اِلَیْکَ ابْتِھَالَ الْمُذْنِبِ الذَّلِیْلِ، وَاَدْعُوْکَ دُعَائَ الْخَائِفِ الضَّرِیْرِ، دُعَائَ مَنْ خَضَعَتْ لَکَ رَقَبَتُہٗ وَفَاضَتْ لَکَ عَبْرَتُہٗ وَذَلَّ لَکَ جِسْمُہٗ وَرَغِمَ لَکَ اَنْفُہٗ اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْنِیْ بِدُعَآئِکَ شَقِیًّا وَکُنْ بِیْ رَؤُوْفًا رَّحِیْمًا یَاخَیْرَ الْمَسْئُوْلِیْنَ وَیَاخَیْرَ الْمُعْطِیْنَ (کنزالاعمال‘ طبرانی‘ عن ابن عباسؓ، عبدابن جعفرؓ)

میرے اللہ‘ تو میری بات کو سن رہا ہے‘ اور تو میرا مقام اور حالت دیکھ رہا ہے اور میرے چھپے اور کھلے سب کو جانتا ہے‘ تجھ سے میری کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں۔ میں مصیبت زدہ ہوں‘ محتاج ہوں‘ فریادی ہوں‘ پناہ کا طلب گار ہوں‘ ڈرنے والا‘ ہراساں ہوں‘ اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں‘ اعتراف کرتا ہوں میں تجھ سے مانگتا ہوں‘ جیسے بے کس مانگتا ہے اور میں تیرے آگے گڑگڑاتا ہوں جیسے گناہ گار اور ذلیل و خوار گڑگڑاتا ہے‘ اور میں تجھ کو پکارتا ہوں جیسے خوف زدہ‘ آفت رسیدہ پکارتا ہے‘ ایسے شخص کی پکار جس کی گردن تیرے سامنے جھکی ہوئی ہے اور جس کے آنسو تیرے سامنے بہہ رہے ہیں‘ جس کا تن بدن تیرے آگے بچھا ہوا ہے اور جو اپنی ناک تیرے سامنے رگڑ رہاہے‘ اے اللہ! تو ایسا نہ کر کہ تجھ سے مانگوں اور پھر بھی محروم رہوں‘ تو میرے حق میں بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا بن جا‘ اے ان سب سے بہتر جن سے مانگا جائے‘ اے سب دینے والوں سے بہتر۔

دیکھیے‘ ایک ایک لفظ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور بندگی کی تڑپ جھلک رہی ہے۔ پوری زندگی کے گناہوں کا بھی اعتراف ہے‘ اپنی کیفیت بھی ہے‘ جسم بھی جھکا ہوا ہے‘ ناک بھی زمین پہ رکھی ہوئی ہے‘ پیشانی بھی زمین پہ ٹکی ہے‘ آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہیں اور اس حالت میں گڑگڑا رہے ہیں‘ سارے گناہوں کا گنہگار کی طرح اعتراف ہے۔ یہی وہ چیزہے کہ جو اللہ تعالیٰ سے بندگی کا تعلق قائم کرا دیتی ہے۔

اس دعا کے اندر خوف اور محبت کے چشمے‘ دل کے اندر پھوٹتے ہیں۔ خدا کے بارے میں ایک تصور یہ ہے کہ اس نے پیدا کر دیا اور اس کے بعد لاتعلق ہوگیا‘ اب اس کا انسان کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ یوں سمجھیے کہ جیسے شاہجہان نے تاج محل بنایا‘ مر گیا اور ختم ہوگیا۔ ایک دوسرا تصور خدا یہ ہے کہ ہماری زندگی رات دن اس کی مٹھی میں ہے۔ جو سانس آتا ہے اسی کے حکم سے آتا ہے اور جو سانس جاتا ہے وہی لے جاتا ہے‘ اور جو لقمہ منہ میں آتا ہے‘ وہی لا کر ڈالتا ہے اور جو پانی کا گھونٹ پیتے ہیں اُسی کا دیا ہوا پیتے ہیں۔ دعا ایک ایسے ہی زندہ و جاویدہستی اور جیتے جاگتے خدا سے بندے کا براہ راست تعلق جوڑ دیتی ہے۔

اللّٰہ سے قرب کے لیے

اللہ سے محبت اور حلاوتِ ایمان ایک عظیم نعمت ہے۔ ہر ایک کی طلب‘ خواہش اور آرزو ہونی چاہیے کہ اللہ کی محبت پیدا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس محبت کی دعائیں بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہیں اور یہ دعائیں جن الفاظ میں اور جس اسلوب میں ہیں‘ آدمی ان کو سن کر اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکتا ہے۔ ایک مختصر دعا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر کیا کرتے تھے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَالْعَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَّفْسِیْ وَمَالِیْ وَاَھْلِیْ وَمِنَ الْمَائِ الْبَارِدِ (مشکوٰۃ‘ترمذی‘کتاب الدعوات‘ ۵؍۱۸۴)، یااللہ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اس کی محبت جو تجھ سے محبت کرے اور اس عمل کی توفیق مانگتا ہوں جو تیری محبت کا باعث ہے۔ یااللہ! اپنی محبت کو میرے لیے میری جان‘ میرے مال اور میرے اہل وعیال اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ عزیز بنا دے۔

ایک اور دعا جو اس سے بھی زیادہ جامع ہے :

اَللّٰھُمَّ اَجْعَلْ حُبَّک اَحَبَّ الْاَشْیَائِ اِلَیَّ وَاجْعَلْ خَشْیَتَکَ اَخْوَفَ الْاَشْیَائِ عِنْدِیْ وَاقْطَعْ عَنِّیْ حَاجَاتِ الدُّنْیَا بِالشَّوْقِ اِلٰی لِقَائِکَ وَاِذَا اَقْرَرْتَ اَعْیُنَ اَھْلِ الدُّنْیَا مِنْ دُنْیَاھُمْ فَاَقْرِرْعَیْنِیْ بِعِبَادَتِکَ (کنزالعمال‘ عن ابی  بن مالکؒ)

اے اللہ‘ اپنی محبت میرے نزدیک تمام چیزوں سے زیادہ محبوب بنا دے اور اپنے ڈر کو تمام چیزوںکے ڈر سے زیادہ کر دے۔ اور مجھے اپنے ساتھ ملاقات کا ایسا شوق دے کہ میری دنیا کی محتاجیاں ختم ہوجائیں‘ اور جہاں تو نے دنیا والوں کی لذت ان کی دنیا میں رکھی ہے‘ میری لذت اپنی عبادت میں رکھ دے۔

آپؐ نے ذیل کی مختصر دعا کی بھی تعلیم دی ہے:

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ اُحِبُّکَ بِقَلْبِیْ کُلِّہٖ وَاُرْضِیْکَ بِجَھْدِیْ کُلِّہٖ

اے اللہ‘ مجھے ایسا بنا دے کہ میں اپنے سارے دل کے ساتھ تجھ سے محبت کروں اور اپنی پوری کوشش تجھے راضی کرنے میںلگا دوں۔

کیسا والہانہ انداز محبت ہے! بندہ دل کی گہرائیوں سے اظہارِ تمنا کر رہا ہے کہ مجھے ایسا بنا دے کہ پورے دل کے ساتھ تجھ سے محبت کروں‘ دل کے اندر کوئی خانہ خالی نہ رہے اور تجھ سے ٹوٹ کے بے پناہ محبت کروں‘ نیز میری جدوجہد اور ساری کوشش اسی لیے ہو کہ تجھ کو راضی کر لوں۔

اس کے بعد پھر خوف کی بھی تعلیم دی:

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ اَخْشَاکَ کَاَنِّیْ اَرَاکَ یَوْمَ اَلْقَاکَ وَاَسْعِدْنِیْ بِتَقْوَاکَ

اے اللہ‘ مجھے ایسا بنا دے کہ میں تجھ سے اس طرح ڈروں گویا میں تجھے تیرے ساتھ ملاقات کے وقت دیکھ رہا ہوں اور مجھے اپنے تقویٰ سے سعادت بخش۔

دیکھیے کہ اس چھوٹی سی دعا کے اندر وہ ساری چیزیں آگئی ہیں جو ہم کو یہ بتاتی ہیں کہ کن چیزوں کی پیاس ہو‘ کن چیزوں کی طلب ہو‘کیا چیزیں مانگیں‘ کیسا بننا چاہیے۔ یہ صرف دعائیں نہیں ہیں‘ بلکہ بڑی قیمتی تعلیمات ہیںجو ان دعائوں کے اندر سمیٹ کے بیان کر دی گئی ہیں۔

ایک اور طویل دعا کا مختصر حصہ ہے:

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ ذَکَّارًا لَکَ شَکَّارًا لَکَ رَھَّابًا لَکَ مِطْوَاعًا لَکَ مُطِیْعًا اِلَیْکَ مُخْبِتًا اِلَیْکَ اَوَّاھًا مُّنِیْبًا (ترمذی‘ عن ابن عباسؓ)

میرے رب‘ مجھے ایسا بنا دے کہ میں تجھے بہت یاد کروں‘ تیرا بہت شکر کروں‘ تجھ سے بہت ڈرا کروں‘ تیری بہت فرماں برداری کیا کروں‘ تیرا بہت مطیع رہوں‘ تیرے آگے جھکا رہوں‘ اور آہ آہ کرتا ہوا تیری ہی طرف لوٹ آیا کروں۔

یہ ایک بڑی خوب صورت اور بڑی جامع دعا ہے۔ اس میں ایک ایک چیز بڑی ترتیب سے آئی ہے ‘اور ایک ایک چیز دین کی بہت ہی قیمتی بنیادوں میں سے ہے۔ ذَکَّار اور شَکَّار ‘ یہ فَعَّالٌ کے ہم وزن عربی زبان کے الفاظ ہیںجن کا مفہوم ہوتا ہے بہت زیادہ یا کثرت کے ساتھ کرنے والا۔ ذَکَّارًا، یعنی مجھے ایسا کر دے کہ بہت زیادہ تجھے یاد کرنے والا بنوں۔ لَکَ شَکَّارًا، اور تیرا بہت زیادہ شکر کرنے والا بنوں۔ ان دونوں کا آپس میں باہمی تعلق بھی ہے۔ اس لیے کہ جو آدمی شکر کرے گا وہی اللہ کو یاد کرے گا۔ جب آدمی کثرت کے ساتھ شکر کرے گا تو وہ خدا کی ایک ایک نعمت کے لیے شکر ادا کرے گا۔ وہ اپنے ایک ایک عضو کے لیے شکر ادا کرے گا‘ زبان کے لیے‘ آنکھ کے لیے‘ کان کے لیے‘ اس دل کے لیے جو دھڑکتا ہے‘ حتیٰ کہ ہرآنے جانے والی سانس کے لیے جو اس کے حکم سے آتی اور جاتی ہے۔ غرض زمین و آسمان کی بے شمار نعمتوں کے لیے وہ ہر دم شکرگزار ہوگا۔ اس طرح کون سا لمحہ ہوگا جو اللہ کے ذکر سے خالی رہ جائے گا۔

جہاں شکر کا ذکر ہے وہاں خوف کا بھی ذکر ہے۔خوف کا بھی ذکر کسی انتقام کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ ہمیں جو اتنی نعمتیں ملی ہیں‘ یہ کہیں چھن نہ جائیں۔ اگر ہم اتنے نااہل و ناکارہ ہوئے کہ یہ نعمتیں چھن جائیں تو اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی۔ بچہ باپ سے کس لیے ڈرتا ہے؟ نفرت کی وجہ سے یا ڈنڈے کی وجہ سے نہیں‘ بلکہ محبت کی وجہ سے ڈرتا ہے کہ اگر یہ محبت مجھ سے چھن گئی تو کیا ہوگا؟

یہاں مِطْوَاعًا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مطیع نہیں کہا گیا۔ مطیع کے معنی ہیں حکم ماننے والا‘ جب کہ مِطْوَاعًا کے معنی ہیں جو اپنی مرضی سے اپنے مالک کو خوش کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ اس سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کو یاد کرے‘ اللہ کا شکر کرے‘ اسے اللہ کا خوف لاحق ہو‘ اس کے بعد جہاں اسے رب کو راضی کرنے کا موقع مل جائے تو اس طرح نہیں کہ ڈیوٹی سمجھ کے انجام دے یا جیسے کوئی بوجھ اتار دیا‘ بلکہ جو اپنی مرضی سے‘ اپنی خواہش سے‘ اپنی طلب سے اللہ کی اطاعت کرے۔ پھر فرمایا: لَکَ مُطِیْعًا اِلَیْکَ مُخْبِتًا ،’’تیرا بہت مطیع رہوں‘ تیرے آگے جھکا رہوں‘‘۔

اب آخری بات آپ دیکھیے: اِلَیْکَ اَوَّاھًا مُنِیْبًا۔، ’’اور آہ آہ کرتا ہوا تیری ہی طرف لوٹ آیا کروں‘‘۔ اُردو میں ایک لفظ آہ ہے۔ آپ کہتے ہیں آہ کرنا۔ تو اَوَّاہَ کا لفظ بھی عربی زبان میں آہ سے نکلا ہے۔ آہ کا لفظ بھی عربی زبان کا ہے۔ اَوَّاہَ کے معنی ہیں جو بہت ہائے ہائے کرنے والا ہو‘ بہت آہ آہ کرنے والا ہو‘ گناہوں پر رونے والا ہو۔ لہٰذا فرمایا گیا:  اَوَّاھًا مُنِیْبًا، ’’میں ہائے ہائے کرکے‘ ہمیشہ تیرے ہی در پہ لوٹ آئوں۔ اب یہ چھوٹے چھوٹے الفاظ ہیں‘ چھوٹے چھوٹے جملے ہیں۔ جو آدمی رات دن مانگے اور سوچ سمجھ کر مانگے تو پھر ویسا ہی بنتا بھی جائے گا۔ اس کی کوشش ہوگی کہ کچھ نہ کچھ تو اپنے آپ کو ویسا ہی بنائے جیسا کہ اس دعا کے اندر بیان ہوا ہے۔

توبہ و استغفار کے لیے

دعا کا ایک اہم موضوع توبہ‘ یعنی اللہ کی طرف پلٹنا اور استغفار بھی ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم گناہ کرتے ہیں‘ اورمعافی مانگتے ہیں‘ پھر گناہ کرتے ہیں اور معافی مانگتے ہیں۔ لیکن پھر دنیا ہمیں گھیرلیتی ہے‘ ہم بہک جاتے اور پھسل جاتے ہیں۔ نگاہ بھی پھسلتی ہے‘ ہاتھ بھی غلط کاری میں ملوث ہوجاتے ہیں‘ حرام بھی کما لیتے ہیں اور جیب میں رکھ لیتے ہیں۔ گویا گناہوں سے مفر نہیں ہے۔ گناہوں سے مفر اس لیے نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا ہی اس لیے کی ہے کہ وہ گناہ کرنے کے لیے آزاد ہو۔ اسے گناہ کرنے یا نہ کرنے کا اختیار حاصل ہو‘ اور جو آزاد ہوگا‘ جسے اختیار حاصل ہوگا ‘وہ گناہ ضرور کرے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے توبہ و استغفار کا دروازہ کھول رکھا ہے‘ اس نے استغفار کے لیے دعوت دی ہے‘ وہ تو پکارتا ہے:

یَدْعُوْکُمْ لِیَغْفِرَلَکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ وَیُؤَخِّرَکُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّیط

وہ تمھیں بلا رہا ہے تاکہ تمھارے قصورمعاف کرے اور تم کو ایک مدتِ مقرر تک مہلت دے۔ (ابراھیم ۱۴:۱۰)

انبیا علیہم السلام کو اسی لیے بھیجا گیا کہ لوگوں کے لیے گناہوں کی بخشش کا دروازہ کھل جائے۔حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس لوگوں کو رب کی بندگی کی دعوت دی تو یہ بھی فرمایا: فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ، یعنی میں نے تو قوم سے یہی کہا کہ اپنے گناہوں کی معافی مانگو‘ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو۔ وہ بخشنے والا ہے۔

ایک شخص مسجد نبویؐ میں آیا اور کہنے لگا: ہائے میرے گناہ‘ ہائے میرے گناہ‘ ہائے میرے گناہ۔ وہ اپنے گناہوں کے سبب رو رہا تھا‘ دھاڑ رہا تھا‘ چیخ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا‘ بیٹھ جائو اور یہ کہو: اَللّٰھُمَّ اِنَّ مَغْفِرَتَکَ اَوْسَعُ مِنْ ذَنُوْبِیْ وَرَحَمَتَکَ اَرْجٰی عِنْدِیْ مِنْ اَمْرِیْ، ’’اے اللہ تیری مغفرت میرے گناہوں سے بہت زیادہ وسیع ہے اور اپنے معاملے میں بہت زیادہ امیدوار ہوں‘‘۔ اس کے بعد آپؐ نے اس شخص کے لیے دعاے مغفرت بھی کی۔ پھر آپؐ نے فرمایا: عُدْ، یعنی ایک دفعہ اور کہو۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: جائو تمھارے گناہ بخش دیے گئے۔

سَیِّد الاسْتِغْفَار

آپؐ نے سیدالاستغفار کی بھی تعلیم دی ہے اور فرمایا کہ یہ سارے استغفاروں کا سردار ہے۔ حضرت شداد بن اوسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص استغفار کو صبح و شام پڑھے اور اس کے معنی و مفہوم کو سمجھ کر اس پر پورا یقین رکھے‘ اگر اُس کا اُسی دن شام سے پہلے یا اُسی رات صبح سے پہلے انتقال ہوجائے تو وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔

اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَاَنَا عَبْدُکَ،  وَاَنَا عَلٰی عَھْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ، اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ ، اَبُوْئُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلیَّ وَاَبُوْئُ بِذَنْبِیْ، فَاغْفِرْلِیْ فَاِنَّہٗ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّآ اَنْتَ (بخاری‘ کتاب الدعوات)

اے اللہ ! تو میرا پروردگار ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں‘ تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں‘ اور جتنی مجھ میں استطاعت ہے میں تیرے عہدوپیمان (اقرارِ اطاعت) پر قائم ہوں‘ اور جو کچھ بھی میں نے کیا‘ اس کے برے انجام سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ جن نعمتوں سے تو نے مجھے نوازا ہے‘ ان کا اعتراف کرتا ہوں۔ اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں تو مجھے بخش دے کہ تیرے سوا گناہوں کو کوئی نہیں بخش سکتا۔

امام ابن قیمؒ اپنی کتاب کتاب الاذکار میں ‘ جو ذکر پر بہت ہی جامع کتاب ہے لکھتے ہیں کہ ایک بدو آیا۔ اس نے خانہ کعبہ کا پردہ پکڑا اور اللہ تعالیٰ سے دعا شروع کی کہ ’’اے اللہ! تو نے استغفار کا جو وعدہ کیا ہے‘ اور تیرا جو کرم ہے‘ اس کے بعد بھی میں گناہوں پر اصرار کرتا رہوں تو یہ میرا کمینہ پن ہے‘‘۔ جب اللہ تعالیٰ نے استغفار کا دروازہ کھول دیا ہو اور اس کے بعد بھی بندہ اگر اپنے گناہوں پر اصرار کرے تو وہ بہت کمینہ بندہ ہے ۔ آگے چل کر وہ کہتا ہے‘ عجیب بات ہے‘ تُو تو مجھ سے بے نیاز ہے‘ اس کے باوجود تو بار بار نعمتیں دے کر اپنی محبت کا اظہار کرتاہے‘ اور میں تیرا محتاج ہوں اور میں تجھ سے بھاگ بھاگ کے گناہ کرتا رہتا ہوں۔ اَدْخِلْ عَظِیْمَ جَرْمِیْ اَدْخِلْ عَظِیْمَ عَفْوِکَ، اے اللہ تُومیرے عظیم جرائم کو اس سے زیادہ عظیم عفو کے اندر داخل کردے۔

یہ استغفار ہیں۔ ان کی حضورؐ نے تعلیم دی ہے۔ محبت مانگنے کی تعلیم دی ہے‘ بلکہ دنیا کی چھوٹی بڑی ہر چیز کو اُسی سے مانگنے کی تعلیم دی ہے۔

قبولیت دعا: چند تقاضے

دعائوں کا ایک نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہے جتنا بھی چاہیں اس کو پھیلا لیں۔ ایک ایک دعا کو‘ اس کے الفاظ کو آپ دیکھیں‘ ان میں جن چیزوں کو مانگا گیا ہے اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ بندے کو کیا ہونا چاہیے‘ کیسا بننا چاہیے۔ اس کے لیے کوئی لمبی چوڑی تقریر نہیں کی گئی‘ کوئی لمبی چوڑی کتاب نہیں لکھی گئی‘ بلکہ چند مختصرجملوں میں دعا کے انداز میں اس کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس کی ایک خوب صورت مثال: اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ہے۔ چار الفاظ کے ایک مختصر جملے میں بندگی کی پوری تعلیم دعا کے انداز میں دے دی گئی ہے۔ دعا آدمی کو یاد ہوجاتی ہے اور وہ مانگتا رہتا ہے‘ اُس کے ذریعے طلب کرتا رہتا ہے‘ سیکھتا رہتا ہے‘ ویسا بنتا رہتا ہے‘ اس طرح سے عبد‘ یعنی اس کا حقیقی و سچا بندہ بنتا چلا جاتا ہے۔ یہ ساری دعائیں دراصل حرص بھی ہیں‘ طلب بھی ہیں اور یہ ہماری تعلیم و تربیت اور تزکیے کا ذریعہ ہیں۔

یہ وہ صفات ہیں جو دین میں مطلوب ہیں۔ اللہ کی خشیت‘ اللہ کی محبت‘ اللہ سے اپنے گناہوں پر استغفار‘ اللہ پر بھروسا کہ جو کچھ ملنا ہے اسی سے ملنا ہے‘ جو کچھ چھن جانے والا ہے وہی چھیننے والا ہے۔ جب یہ سوچ اور یہ کردار ہوگا تو دنیا میں بھی سب کچھ ملے گا‘ آخرت میں بھی جنت ملے گی اور دنیا کے اندر غلبہ بھی حاصل ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: یَعْبُدُوْانَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا  صرف میری ہی بندگی کریں اور ذرہ برابر بھی کسی کو میرے ساتھ شریک نہ کریں۔ اللہ نے زمین میں اپنی خلافت کا‘ زمین میں غلبے کا وعدہ انھی سے کیا ہے جنھوں نے بندگی کی نسبت اس کے ساتھ قائم کرلی‘ جو اس کے محتاج بن گئے‘ اس کے فقیر بن گئے اور صرف اسی کے دَر پر آکر کھڑے ہوگئے اور یہ سمجھ لیا کہ جو کچھ ملے گا صرف اللہ ہی سے ملے گا۔

اصل چیز دل ہے۔ دل کے اندر اگر یہ ساری چیزیں جمع ہوجائیں تو زندگی سدھر جائے گی‘ نہ ہوں تو نہیں سدھرے گی۔دل کا معاملہ بھی اس نے اپنے ساتھ متعلق کرلیا ہے۔ حضوؐر کی ایک بہت پیاری دعا ہے۔میں اپنی دعا کا آغاز اکثر اسی دعا سے کرتا ہوں:

اَللّٰھُمَّ اِنَّ قُلُوْبَنَا وَنَوَاصِیَنَا وَجَوَارِحَنَا بِیَدِکَ وَلَمْ تُمَلِّکْنَا مِنْھَا شَیْئًا فَاِذَا فَعَلْتَ ذٰلِکَ بِنَافَکُنْ اَنْتَ وَلِیَّنَا وَاھْدِنَا اِلٰی سَوَآئِ السَّبِیْلِ - (ترمذی‘ عن ابی ہریرہ)

اے اللہ! ہمارے دل بھی تیرے ہاتھ میں ہیں‘ اعضا اور جوارح بھی تیرے ہاتھ میں ہیں۔ پوری شخصیت بھی تیرے ہاتھ میں ہے۔ تو نے ہمیں کسی چیز پر ذرہ برابر بھی اختیار نہیں دیا ہے۔ جب تو نے ہمارے ساتھ یہ معاملہ کیا تو تو ہی ہمارا ولی بن جا‘ دوست بن جا‘ ہمارا رفیق بن جا‘ ہمارا مددگار بن جا۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔

دیکھیے‘ کس طرح دل کا معاملہ بھی اللہ کے سپرد کر دیا گیا!

دعا کے لیے زبان کی کوئی قید نہیں۔ دعا مانگنے کا‘ اگر ذوق و شوق ہو‘ توجہ و یکسوئی اور پورے یقین کے ساتھ دعا مانگی جائے خواہ اُردو میں ہو یا پنجابی میں‘ خواہ پشتو میں ہو یا کسی بھی زبان میں‘ دل کی یہ پکار‘ زبان پہ آئے یہ کلمے بارگاہِ الٰہی تک پہنچتے ہیں اور اپنا اثر رکھتے ہیں۔  شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ‘ بندگی کا‘ حاجت کا‘ فقر کا تعلق قائم ہونا چاہیے۔ یہ یقین ہونا چاہیے کہ وہ بے نیاز ہے‘ ہم فقیر ومحتاج ہیں‘ اس کے در کے بھکاری ہیں۔ جو کچھ بھی چاہیے‘ خواہ جوتے کا تسمہ ہی ہو‘ اسی سے مانگنا چاہیے۔ ہدایت و غلبہ بھی اُسی سے مانگنا ہے۔ فتح و نصرت بھی اسی سے ملنا ہے۔ یہ وہ چیزہے جو اللہ کی یاد کو‘ اللہ کے ساتھ تعلق کو دل کے اندر راسخ کر دیتی ہے۔ ہم دعوت یا اپنے ذاتی یا دنیاوی کام کے لیے نکلیں‘ گھر سے نکلیں‘ کھانے کے لیے بیٹھیں اٹھیں۔ ہر موقع پر اللہ کو یاد کریں اور صرف اسی سے مانگیں۔ جیسے جیسے یہ اخلاص پیدا ہوتا جائے گا کہ جو کچھ ملے گا اللہ ہی سے ملے گا کہیں اور سے کچھ نہیں ملے گا‘ نہ بندوں سے ملے گا‘ نہ اپنی کوششوں سے اور نہ عوامی تائید سے ‘ بلکہ جو کچھ بھی ملے گا وہ اللہ ہی سے ملے گا۔ جتنا زیادہ اخلاص پیدا ہوگا اتنا ہی اور ملے گا۔ جتنی نسبتیں دوسروں سے قائم ہوں گی‘ اتنا ہی کم ملے گا اور اتنی ہی مایوسیاں ہوں گی۔ اللہ ہی سے ملنے کا‘ اللہ ہی سے پانے کا‘ اللہ ہی سے طلب کرنے کا یہ انداز‘ دعا ہمیں سکھاتی ہے۔

دعا عبادت کا مغز ہے‘ خدا کی بندگی ہے‘ اور یہی روحِ عبادت ہے۔ اسی لیے قرآن یَدْعُوْنَ وَیَعْبُدُوْنَ ان دونوں الفاظ کو بدل بدل کے ایک دوسرے کی جگہ استعمال کرتا ہے اور آخر میں کہتا ہے: اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط (المومن ۴۰:۶۰)‘ مجھ سے مانگو‘ مجھے پکارو‘ میں تمھیں دوں گا اور تمھاری پکار کو قبول کروں گا۔ مزید فرمایا: اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادِتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِیْنَo (۴۰: ۶۰) ’’جو لوگ گھمنڈ میںآکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں‘ ضرور وہ ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘۔ اب یہاں فوراً اسی آیت کے اندر دعا کی جگہ عبادت کا لفظ آگیا کہ جو لوگ میری عبادت سے اپنے آپ کو بالاتر سمجھتے ہیں وہی تکبر کرنے والے ہیں اور جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔ یہاں دعا کے لفظ کو عبادت کے لفظ سے بدل دیا گیا‘ یہ بتانے کے لیے کہ اصل میں یہ دونوں ایک ہی ہیں‘ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

حدیث کی ہر کتاب میں دعا کا ایک باب ہوتا ہے۔دعائوں کی بے شمار کتابیں ملتی ہیں۔ چھوٹے بڑے بہت سے مجموعے دیکھنے میں آتے ہیں۔ امام نووی کی کتاب الاذکار ہے۔ اس کا اردو ترجمہ بھی ملتا ہے‘ عربی زبان میں بھی دستیاب ہے۔ حصن حصین کے نام سے دعا کی مشہور کتاب ہے۔ اس میں سات منازل کے اندر اذکار اور دعائیں جمع کر دی گئی ہیں۔ یہ بھی بآسانی دستیاب ہے۔ اسی طرح امام نسائی کی کتاب ہے جس میں رات دن کی ساری دعائیں جمع کر دی گئی ہیں۔ اس کا اردو ترجمہ بھی بازار میں ملتا ہے اور عربی میں بھی موجود ہے۔ چھوٹے چھوٹے مجموعے تو بے شمار ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ کی مناجات مقبولبہت ہی عمدہ کتاب ہے۔ اس میں بیش تر مسنون دعائیں اور ان کا ترجمہ بھی بہت اچھا ہے۔ شیخ حسن البنا کی ماثورات مسنون اذکار اور دعائوں کا بہت عمدہ مجموعہ ہے۔ ابن تیمیہؒ کی الکلمۃ الطیّبمیں بھی عمدہ دعائیں ہیں۔ یہ بھی ایک مختصر‘ مگر عمدہ مجموعۂ دعا ہے۔ حدیث کی ہر کتاب میں اور مشکٰوۃ میں بھی دعائوں کا الگ باب ہے۔ اگر شوق اور طلب ہو تو ان کا مطالعہ مفید رہے گا۔

ان گزارشات کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ بغیر اللہ سے مانگے‘ اللہ کا محتاج بنے‘ اللہ کے دربار میں فقیر بنے کچھ بھی حصے میں نہیں آئے گا۔ اسی کے نتیجے میں خدا کا قرب حاصل ہوگا‘ حاجات پوری ہوں گی‘ خدا کی رضا اور خوشنودی‘ جنت کا حصول ممکن ہوگا۔ دنیا میں بھی سب کچھ ملے گا اور آخرت میں بھی۔ نیز زمین پر غلبے اور خلافت کا وعدہ بھی اسی تعلق کے نتیجے میں پورا ہوگا۔ (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)


کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۵ روپے۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور

ایک تحقیقی جائزہ

قانونِ قصاص و دیت کے ترمیمی بل کی حمایت میں بعض حکومتی عہدے دار کچھ عرصے سے کافی سرگرمِ عمل ہیں۔ ترمیمی بل تمام تر قتلِ غیرت (honour killings) سے متعلق ہے۔ اس کی غرض و غایت معلوم کرنے کے لیے ان چند حقائق کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔

پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے۔ برعظیم پاک و ہند کی تقسیم اس بنا پر ہوئی تھی کہ مسلمان اور ہندو دو جداگانہ قومیں ہیں۔ اسی وجہ سے آزادی کے بعد بھارت اور پاکستان نے سال ۱۹۴۹ء میں ایک ہی دن اپنے اپنے ملکوں کے لیے جو قرارداد مقاصد (Objectives Resolution) منظور کی اس کی رو سے بھارت ایک لادینی (secular) ملک بن گیا‘ جب کہ ملک عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صورت ساری دنیا میں روشناس ہوا۔ اس میں‘ لادینی یا سیکولر نظام کے برعکس‘ حاکمیت اور اقتدار اعلیٰ کا سرچشمہ ذاتِ الٰہی کو تسلیم کیا گیا اور قرآن و سنت آئین کی بنیاد قرار پائے۔ یہ پہلے دیباچے میں اور بعد میں آرٹیکل ۷- اے کی صورت میں آئین کا لازمی حصہ بن گیا۔

ایک اہم تاریخی مقدمہ ظہیرالدین کیس میں سپریم کورٹ نے ۱۹۹۳ء میں یہ معرکہ آرا فیصلہ دیا کہ قرآن و سنت پاکستان کا سپریم لا ہے۔ اس لیے بنیادی حقوق کو بھی اس کا پابند ہونا پڑے گا۔ اس حتمی فیصلے کے بعد اب کسی کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ وہ اپنے خودساختہ قوانین کو اس ملک پر مسلط کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔

آئین کی اسلامی دفعات کی موجودگی اور سپریم کورٹ کے ظہیرالدین کیس کے مفصل فیصلے کے بعد یہ معاملہ ہمیشہ کے لیے طے ہوگیا ہے کہ ہمارے ملک کی منتخب پارلیمنٹ کو مقتدرِاعلیٰ کی حیثیت حاصل نہیں۔ اس کے لیے قانون سازی کے حدود مقرر ہیں۔ وہ تمام اسلامی احکام جو سلبی (preventive) یا ایجابی (directive) ہیں ان میں پارلیمنٹ‘ ریاست‘ سوسائٹی بلکہ پوری اُمت کو بھی کسی قسم کی ترمیم‘ تنسیخ یا اضافے کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔ اور جو ایسا کرے گا وہ قرآن کے غیرمبہم الفاظ میں ظلم کا مرتکب ہوگا۔

ان احکامات اور حدود (قوانینِ شرعیہ) اور آئین کی روشنی میں ہم موجودہ قانون قصاص و دیت اور ترمیمی بل کا جائزہ لیں گے۔ اس دیانت دارانہ اور تحقیقی جائزے میں اگر یہ ترامیم قرآن کی آیاتِ محکمات اور سنت رسالت مآبؐ کے تابع ہیں تو بسروچشم قبول ہیں‘ ورنہ انھیں مسترد کرنا ہوگا۔

ترمیمی بل میں دفعہ ۳۰۰ تعزیراتِ پاکستان میں وضاحت (explanation) کے ذریعے ترمیم کرتے ہوئے کہا گیا ہے: ’’قتلِ عمد‘‘ غیرت کے نام پر یا کاروکاری‘ سیہ کاری وغیرہ یا اسی طرح کے کسی رواج کے تحت یا عزت و ناموس کی ذلت کے انتقام میں‘ یا غیرت کا بدلہ لینے کی خاطر‘یا ان جیسے حالات میں حفظ ماتقدم کے طور پر کیا جائے جو فوری اشتعال کے تحت ہوں یا اشتعال کے بغیر ہوں‘ ایسے تمام قتل ’’قتلِ عمد‘‘ کی تعریف میں آئیں گے جس کی سزا موت ہے۔

مسئلہ زیربحث یہ ہے کہ مذکورہ بالا ترمیم جو بذریعہ ’’وضاحت‘‘ اضافہ کرکے دفعہ ۳۰۰ میں کی گئی ہے‘ کیا یہ قرآن و سنت کے مطابق جائز اور درست ہے؟

کسی انسان کا قتلِ ناحق اسلام میں شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ اور فساد پھیلانے کا باعث ہے۔ (مائدہ۵:۳۲)۔ اس فرمان الٰہی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی انسان کی جان لینا فساد فی الارض کے ضمن میں آتا ہے۔ اس لیے قاتل اور مفسد دونوں کی زندگیوں کو تحفظ سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے تاکہ سوسائٹی میں دوسرے انسانوں کی زندگی محفوظ رہے اور انسان امن و سکون کی زندگی بسر کرسکے۔

زندگی کے تمام معاملات کی طرح اسلام کے قانون جرم و سزا میں بھی عدل و مساوات کا قانون کارفرما ہے۔ چنانچہ پاکستان کے قانونِ قصاص و دیت میں اسی اصول مساوات کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اسی لیے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ وہ اصول مساوات پر قائم رہیں (البقرہ۲:۱۹۴)۔قرآن میں نہ صرف مسلمان بلکہ کسی انسان کو بھی قتلِ ناحق سے منع کرتے ہوئے کہا گیا ہے: کسی نفس کے قتل کا ارتکاب نہ کرو مگر حق کے ساتھ۔ (الانعام ۶:۱۵۱)

ان قرآنی احکامات کے سلسلے میں دیکھنا یہ ہے کہ کیا بدکاری (زنا) کی حالت میں دیکھ کر شوہر‘ باپ یا بھائی‘ مرد یا عورت یا دونوں کو غیرت میں فوری اشتعال یا بغیر اشتعال کے قتل کر دے یا خاندانی‘ جایداد کے تنازع یا ذاتی دشمنی کی وجہ سے اپنے مخالف اور اپنی بیوی‘ بیٹی یا بہن کو جان سے مار دے اور اسے قتلِ غیرت کا مقدمہ بنا دیا جائے تو اس بارے میں قرآن و سنت ہماری کیا رہنمائی کرتے ہیں؟

قتلِ غیرت میں وجۂ قتل زنا ہوتی ہے۔ بدکاری کی سزا نہ صرف قرآن بلکہ تمام صحف سماوی میں نہایت سنگین ہے۔ اسلام میں غیرشادی شدہ مرد اور عورت کے لیے ۱۰۰ کوڑے اور شادی شدہ مرد اور عورت کے لیے سزاے موت بذریعہ سنگساری مقرر ہے۔ مگر اس کے لیے طریق کار (procedure) بھی انتہائی محتاط ہے۔ حد کی اس سزا کے لیے مدعی کو چار چشم دید گواہ عدالت میں پیش کرنا ہوں گے ورنہ اسے قانون قذف کے تحت ۸۰ کوڑے مارے جائیں گے۔

قتلِ غیرت کے سلسلے میں حدیث سعدؓ بڑی اہم حدیث ہے: ’’اگر میں اپنی بیوی کو کسی غیرمرد کے ساتھ قابلِ اعتراض حالت میں دیکھ لوں تو کیا مجھے بھی چار گواہ لانے ہوں گے؟‘‘ اس پر حضوؐر نے فرمایا: ’’ہاں‘‘۔ یہ سن کر جنابِ سعدؓ نے کہا: ’’اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے‘ میں تو اس وقت ہی اسے جان سے مار دوں گا‘‘۔ اس پر حضوؐر فرمانے لگے: ’’سنو تمھارا یہ سردار کیا کہہ رہا ہے‘‘۔صحابہ نے عرض کیا: ’’حضوؐر یہ شخص بہت غیرت مند ہے‘‘۔ اس پر حضوؐر نے فرمایا: ’’یقینا وہ غیور ہے لیکن میں اس سے بھی زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیور ہے‘‘۔

اس حدیث سے علما اور فقہا نے دو مطالب اخذ کیے ہیں۔ علما کا ایک طبقہ جس کے پیش رو حافظ ابن قیم ہیں جو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کے نامور شاگرد اور اصولِ قانون کے ماہرین میں بلند مقام رکھتے ہیں‘ وہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگرنبی کریمؐ ،سعدؓکے قتل کو ناپسند فرماتے تو اسے غیور اور غیرت کو اپنی طرف اور حق تعالیٰ کی طرف منسوب نہ فرماتے اور صاف طور پر ارشاد فرما دیتے: ’’اگر تو نے اسے قتل کیا تو تجھے بھی قتل کر دیا جائے گا‘‘۔ اس لیے وہ قتلِ غیرت کو ناجائز نہیں سمجھتے ہیں۔

اسی اصول کی بناپر اکثر مسلما ن ملک جن میں مصر‘ شام‘ لبنان‘ تیونس‘ مراکش کی عدالتیں ناجائز ہم بستری (unlawful bed) کی صورت میں قتلِ سزا میں تخفیف کر دیتی ہیں‘ جب کہ اردن اور ترکی پینل کوڈ میں اگر شوہر اپنی بیوی یا محرمات میں کسی کو بدکاری کی حالت میں دیکھ لے تو وہ قصاص کی سزاے موت سے مستثنیٰ قرار دیا جاتا ہے۔ ترکی کے لیے یورپی یونین میں داخلے کے لیے یہ بھی ایک رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

ہمارے جمہور علما کی رائے میں کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر موقع واردات پر خود بدکاری کی سزا دے۔ اسے اسلامی قانون کے مطابق یا تو عدالت میں چار گواہ پیش کرنا ہوں گے یا پھر اگر وہ شوہر یا بیوی ہوں تو قانون لعان کے تحت      عدالت انھیں ایک دوسرے سے ہمیشہ کے لیے علیحدہ کر دے گی۔ اس لیے دفعہ ۳۰۰ تعزیرات میں قتلِ غیرت کو قتلِ عمد جس کی سزا موت ہے‘ قرار دینے کی ترمیم قرآن اور ارشاد نبوتؐ کے مطابق درست ہے۔ چونکہ یہ وضاحت خود دفعہ ۳۰۰ کے اندر موجود ہے‘ اس لیے یہ ترمیم بلاضرورت ہے۔

دفعہ ۳۰۰ کی اس اضافی ترمیم کو بنیاد بنا کر تعزیراتِ پاکستان میں قصاص و دیت سے متعلق موجودہ دفعات ۳۰۲‘ ۳۰۶‘ ۳۰۷‘ ۳۰۸‘ ۳۱۰ اور ۳۱۱ میں اضافہ شدہ قتل کو جو قتلِ غیرت ہے ‘ناقابلِ معافی اور ناقابلِ راضی نامہ قرار دیا گیا ہے جو قطعاً ناجائز اور قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ ان ترامیم سے معلوم ہوتا ہے کہ ترمیمی بل کے مرتبین یا تو قرآن و سنت کی تعلیمات سے ناواقف ہیں‘ یا پھر انھیں احکام الٰہی کو تسلیم کرنے سے انکار ہے کیونکہ ان ترامیم سے انھوں نے مقتول کے وارثوں کو‘ قاتل کو معاف کر دینے یا اس صلح یا راضی نامہ کرنے کا قرآنی حق ختم کر دیا ہے۔ قرآن حکیم نے سورۂ بقرہ کی آیت ۱۷۸ میں جہاں اہلِ ایمان سے خطاب کرتے ہوئے قتلِ عمد پر قصاص کے ذریعے سزاے موت کا حکم دیا ہے وہیں اس جرم کی سزا میں معافی اور  راضی نامے کی رعایت بھی دی گئی ہے اور اسے حق تعالیٰ نے اپنی رحمت قرار دیا ہے۔ قصاص اور درگزر کا اختیار مقتول کے وارثوں کا حق ہے۔ وہ چاہیں تو قصاص کے ذریعے قاتل کو عدالت سے سزاے موت دلانے کا پورا اختیار رکھتے ہیں اور اگر چاہیں تو اسے معاف کر دینے کا حق بھی انھیں حاصل ہے اور اس کو ریاست‘ حکومت یا قانون اس حق سے محروم نہیں کرسکتے۔

یہ آیت کریمہ اتنی واضح ہے کہ اس کے لیے کسی شرح و تفسیر کی ضرورت نہیں۔ قرآن مجید کے تمام شارحین‘ مفسرین خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتبِ فکر سے کیوں نہ ہو‘ شروع سے لے کر آج تک اس حق کو اللہ تعالیٰ کے حق کے ساتھ حق العباد‘ یعنی بندوں کا حق بھی قرار دیتے چلے آئے ہیں۔ جدید مفسرین میں مفتی اعظم پاکستان مولانا محمد شفیع‘ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی‘ سید قطب شہید‘ نومسلم بین الاقوامی اسکالر علامہ محمد اسد‘ مولانا عبدالماجد دریابادی اور مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی اس آیت کا یہی ترجمہ اور تفسیر بیان کی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے صاف طور پر تفہیم القرآن میں کہا ہے: ’’اس آیت سے معلوم ہوگیا کہ اسلامی قانون تعزیرات میں قتل کا معاملہ قابلِ راضی نامہ ہے‘‘ (ج۱‘ ص ۱۳۸)۔ سید قطب شہیدؒ اپنی معروف تفسیر فی ظلال القرآن میں لکھتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے قتل کے اہم ترین معاملے میں دیت کی گنجایش رکھ کر مسلمانوں پر تخفیف اور رحمت فرمائی ہے‘‘۔ مولانا امین احسن اصلاحی بھی یہی بات کہتے ہیں: ’’اس آیت سے قاتل کی جان پر مقتول کے وارثوں کو براہ راست اختیار مل گیا ہے‘‘۔ (تدبر قرآن‘ ج ۱‘ص ۴۳۳)

ترمیمی بل کے مرتبین نے اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ قانون قصاص و دیت کے سلسلے میں ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جو دین و آئین اور اسلامی قانون کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گا۔ موجودہ دفعہ ۳۳۸-ایف کو بھی انھوں نے اپنی ترمیم کا نشانہ بنایا ہے جس کی رو سے عدالتوں کو قصاص و دیت سے متعلق تمام دفعات کو قرآن اور سنت کی روشنی میں رہنمائی حاصل کر کے ان کی تعبیر اور تشریح کا حق حاصل ہے۔ لیکن اس دفعہ ۳۳۸-ایف کو انھوں نے سرے سے منسوخ کرکے اس کو تعزیراتِ پاکستان سے خارج کر دیا ہے۔ یہ کارنامہ اس لیے سرانجام دیا گیا ہے کہ اس دفعہ کی موجودگی میں عدالتیں قرآن و سنت کے جائز قانون کو ناجائز اور قابلِ راضی نامہ جرم کو ناقابلِ راضی نہیں بناسکتیں۔ شاید وہ یہ بھول گئے ہیں کہ اگر تعزیرات کی قرآن و سنت کی رہنمائی حاصل کرنے کی یہ دفعہ منسوخ بھی کر دی جائے تو آئین کا آرٹیکل ۲ بہرحال موجود ہے جس کی رو سے پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔ اس لیے مقننہ‘ عدلیہ اور انتظامیہ سب اسلام کے قانون کے پابند ہیں۔ آرٹیکل ۲ -اے حکومت کو مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قرآن و سنت پر عمل کرانے کا پابند کرتا ہے۔ پھر آرٹیکل ۲۲۷ سے بچ نکلنے کی کیا صورت ہوگی جس کی رو سے تمام غیر اسلامی قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق کیا جائے گا اور کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ اس لیے قانون قصاص و دیت میں ترمیمات کا بل آئین کے اسلامی آرٹیکلز اور تعزیرات کے اسلامی دفعات کے خلاف اقدامِ قتل سے کچھ کم نہیں۔

یہاں ہم اپنے ایک اہم کیس کا حوالہ دیں گے جو ہماری ریویو پٹیشن (reivew petition) پر خلیل الزماں کیس میں سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کی سربراہی میں نہایت دُوررس فیصلہ سال ۱۹۹۹ء میں صادر کیا ہے۔ فاضل عدالت عظمیٰ نے تعزیراتِ پاکستان میں قانون قصاص و دیت سے متعلقہ دفعہ ۳۰۶ -سی کے بارے میں واضح طور پر یہ قرار دیا ہے کہ اگر والد اپنے بیٹے یا بیٹی‘ پوتا پوتی وہ خواہ کتنی ہی نیچے تک چلے جائیں‘ قتل کا مرتکب ہو تو اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔ کیونکہ یہ دفعہ اسلام کے قانون کے مطابق ہے۔ اس کے لیے فاضل جج صاحبان نے مستند کتابوں کے حوالے بھی دیے۔ حضرت ابن عباسؓ اور حضرت عمرؓ کا فیصلہ بھی اس کے جواز میں موجود ہے۔

معلوم نہیں ہمارے اراکین پارلیمنٹ کو یہ استحقاق کہاں سے حاصل ہوگیا کہ وہ قرآن و سنت اور آئین پاکستان کے خلاف قانون سازی کریں۔ یہ ان محرکات کے انسداد اور ان عوامل کی جڑ کاٹنے کے لیے قانون سازی نہیں کرتے جو فواحش‘ بدکاری اور قتل کا باعث ہیں۔ اس کے بجاے یہ اس درخت کو کاٹنے پر آمادہ ہیں جس کی شاخوں پر یہ خود بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کے لیے ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ اپنی عقلِ نارسا کو حکمت الٰہی کے تابع کر دیں اور ان غیراسلامی ترامیم سے دست بردار ہوکر دین و دنیا میں سرخرو ہوں۔

ترجمہ: گل زادہ شیرپائو

آج کل یہ مسئلہ بہت اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ ساس بہو کے درمیان باہمی موافقت کی فضا ختم ہوتی جارہی ہے۔ دراصل یہ ایک ناقابل التفات مسئلہ تھا لیکن ذرائع ابلاغ نے اسے فلموں اور ڈراموں کے ذریعے اور کلچروثقافت کے نام پر بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ درحقیقت ساس بہو کے درمیان پیدا ہونے والے اکثر مسائل کا حل بالکل آسان ہوتا ہے۔ یہ نہ صرف بہو کے اختیار میں ہوتا ہے بلکہ ساس بھی معمولی سمجھ بوجھ سے انھیں بآسانی حل کرسکتی ہے۔ میرے خیال میں ایسے مسائل کا سب سے پہلا اور آسان ترین حل قلبی جذبات کے ساتھ علیک سلیک اور ایک گرم جوش مصافحہ ہے۔

شادی اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ متمدن زندگی کی پہلی اینٹ ہے اور اس سے ایک نیا خاندان وجود میں آتا ہے۔ یہ تعلق جو زوجین کے درمیان پیدا ہوتا ہے اس کا دونوں خاندانوں کے افراد پر براہ راست اثر ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے دونوں خاندانوں کے درمیان پیار‘ محبت‘ گرم جوشی اور قربت کا تعلق پیدا ہوجاتا ہے۔ اس طرح یہ دونوں خاندان ایک ہی خاندان کی صورت اختیار کرجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ’مصاہرت‘ یعنی سسرال کے تعلق کی بنیاد پر آدمی کا اپنی ساس کے ساتھ نکاح حرام قرار دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ساس کو اللہ تعالیٰ نے محض عقد نکاح کے ساتھ ہی ماں کا درجہ دے دیا ہے تاکہ گھر کے اس نووارد فرد کے دل سے ہر قسم کے شک و شبہے کو کھرچ ڈالا جائے۔ لیکن اسلام میں ساس کے اس عظیم مرتبے کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ بعض گھرانوں میں ساس اور بہو کے اختلافات کی وجہ سے بہت سے مسائل پیش آتے رہتے ہیں۔

ماہرین نفسیات کی رائے

بعض ماہرین نفسیات ساس بہو کے مسئلے کے دو پہلو بیان کرتے ہیں:

  • میاں بیوی کے احساسات: اکثر لوگوں کے ہاںساس کے بارے میں انتہائی برا تصور پایا جاتا ہے۔ پھر ساس اور بہو کے تعلقات کی نوعیت اس تصور میں یا تو مزید اضافہ کر دیتی ہے یا کمی۔ بہو کے ذہن میں ساس کا جو تصور پایا جاتا ہے وہ اگر ساس کے رویے سے حقیقت ثابت ہوجائے تو بہو کے ساس سے تنگ آنے میں مندرجہ ذیل امور معاون ثابت ہوتے ہیں:

۱-  بعض اوقات ساس کا کردار ایسا مثالی ہوتا ہے جس تک پہنچنا بہو کے بس میں نہیں ہوتا۔ شوہر کا خیال ہوتا ہے کہ اس کے لیے والدہ جو کھانا تیار کرتی تھی‘ وہ ذائقے کے لحاظ سے اچھا ہوتا تھا اور اس کے اخراجات کم ہوتے تھے۔ یہ تو ایک مثال ہے ورنہ بیٹے کے ذہن میں ماں کی قدرومنزلت کے لیے اس کے علاوہ بھی کئی چیزیں ہوسکتی ہیں۔

۲-  زیادہ تر جوڑے یہ محسوس کرتے ہیں کہ اُن کو بچپن میں کوئی سمجھانے والا میسر نہیں تھا اور کسی نے ان کو زندگی کے نشیب و فراز کی حقیقت سے آگاہ نہیں کیا۔ اس وجہ سے شوہر اور بیوی‘ ساس کو اس ماں کی نظر سے دیکھتے ہیں جس نے بچپن کے زمانے میں ان کی زندگی کو مکدّر بنایا ہو۔ نتیجتاً ساس بے چاری ’’قربانی کا بکرا‘‘ بن جاتی ہے۔ حالانکہ اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔

۳-  شوہر اور بیوی ہر معاملے میں ساس کو ملامت کا نشانہ بناتے اور ہر چپقلش کی ذمہ دار ساس کو ٹھیراتے ہیں۔ اگر بیوی شام کا کھانا تیار کرنے میں تاخیر کرتی ہے تو شوہر اس کو والدہ کی عدم تربیت کا طعنہ دیتا ہے۔ اس طرح دل میں ساس کے ساتھ نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔

  • ساس کے احساسات: کبھی کبھی ساس اپنے بیٹے یا بیٹی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے والے فرد کے بارے میں اپنے دل کے اندر لاشعوری طور پر مقابلے اور کشیدگی کے جذبات محسوس کرتی ہے۔کبھی مندرجہ ذیل تین احساسات ساس کے اضطراب کا ذریعہ بنتے ہیں:

۱-  بڑی اولاد ایک بہت بڑا نفسیاتی سرمایہ خیال کی جاتی ہے۔ اس وجہ سے ساس عموماً اس فرد کے لیے اپنے دل میں محبت کے جذبات نہیں رکھتی جس نے اس کی اولاد چھین لی ہو۔

۲-  وہ ساس جس نے اپنے آپ کو سالہا سال تک اپنی اولاد کی تربیت اور نگرانی کے لیے وقف کیا ہوتا ہے‘ اس کے لیے یہ بات تسلیم کرنا مشکل ہوجاتی ہے کہ ایک سیدھی سادی لڑکی‘ جسے زندگی میں کوئی ذمہ داری ادا کرنے کا موقع نہیں ملا‘ اس قابل ہو سکتی ہے کہ اس کے بیٹے کے معاملات سنبھالنے کی عظیم ذمہ داری اٹھا سکے۔ یا وہ سمجھتی ہے کہ یہ پریشان حال نوجوان اس قابل نہیں ہے کہ اس کی بیٹی کے معاملات کو ٹھیک طرح سے چلا سکے۔

۳- کبھی ساس اپنے بیٹے یا بیٹی کے شریکِ حیات کے ساتھ بعض معاملات میں اختلاف کرتی ہے۔ اس کے باوجود کبھی کبھی اس کا رویہ ان عوامل کا نتیجہ ہوتے ہیں جو ایک طرح سے باہمی محبت اور مفاہمت کا ذریعہ بنتے ہیں۔

مسئلے کے اہم کردار

ان اختلافات کو تین بنیادی پہلوئوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے: ماں (ساس)‘ بیوی اور شوہر۔ یہ اس مسئلے کے تین بنیادی فریق ہیں۔

  • ماں (ساس): اس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ ماں اپنے اس جگرگوشے کے لیے اپنے دل میں کیا احساسات رکھتی ہے جس کا وجود ہی ماں کا مرہونِ منت ہے‘ جسے اس نے جنم دیا‘ اس کی تربیت کی اور پال پوس کر جوان کیا۔

یقینا ہر ماں جانتی ہے کہ ایک دن اس کا بچہ یا بچی اس سے الگ ہوجائیں گے لیکن وہ اس کے لیے ذہناً تیار نہیں ہوتی۔ اُس کا دل اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

ماں سمجھتی ہے کہ ابھی اس کا بیٹا اتنا ذمہ دار نہیں ہے کہ اپنے معاملات خود چلا سکے۔ چنانچہ اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ بیٹے کے لیے سب کچھ وہ خود ہی کرے اور بسااوقات جب وہ کچھ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو ماں اسے روکتی ہے اوراس کام کے لیے خود دوڑتی ہے۔ اسی طرح اس نے خود اپنے آپ کو بھی اس بات کا عادی نہیں بنایا ہوتا کہ وہ بچے کی ذاتی زندگی سے بے دخل ہوجائے۔ اس کی نظروں میں وہ ایسا بچہ ہوتا ہے جو اس کی مدد کا محتاج ہے۔

ایک ماں کو جس بات کا سب سے زیادہ خدشہ ہوتا ہے وہ یہ کہ بیٹے یا بیٹی کی شادی کے بعد وہ اپنے اُس مقام سے محروم ہوجائے گی جو اس کو پہلے سے حاصل تھا‘ یعنی بیٹا یا بیٹی پہلے صرف اس کے لیے تھے لیکن اب ایک اور فرد بھی اس کے ساتھ شریک ہوجائے گا۔ اس کا یہ خوف بہت حد تک بجا ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ وہ اپنے مدمقابل کے ساتھ ٹکر نہیں لے سکتی۔ بیٹے کی صورت میں اس کی مدمقابل‘ بیٹے کی نئی نویلی دلہن ہوتی ہے اور بیٹی کی صورت میں‘ بیٹی کا شوہر ہے۔ اگرچہ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ لڑکی اپنی مخصوص فطرت کی بنا پر شادی سے پہلے اور شادی کے بعد بھی شوہر کے مقابلے میں اپنے والدین کے ساتھ تعلق کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے۔

ہم اُن جذبات و احساسات سے بھی چشم پوشی نہیں کر سکتے جن سے ایک ماں کا دل ہر وقت لبریز ہوتا ہے۔ اس لیے بہو اور داماد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی ساس کے ان جذبات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

ایک بہو کو اپنے دل سے پوچھنا چاہیے کہ خود اس کے دل میں اپنی والدہ کے لیے کیا جذبات ہیں اور والدہ کی اس کے ساتھ کتنی محبت ہے؟ کیا یہ جذبات شادی کے بعد یکسر تبدیل ہوسکتے ہیں؟ گھروں میں پیدا ہونے والے اکثر مسائل کا سبب یہ ہوتا ہے کہ بیٹی اپنی ماں کے ساتھ شادی سے پہلے جو تعلق رکھتی ہے‘ شادی کے بعد بھی اس کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ روزانہ اپنی ماں کے پاس جایا کرے یا دن میں کئی کئی بار اس کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کیا کرے۔ وہ چاہتی ہے کہ اپنے نئے گھر کو بھی اسی انداز میں چلائے جس طرح کہ اس کی والدہ اپنے گھر کو چلایا کرتی تھی۔

ماں کو بھی اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ ماں ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ بیٹا اور بیٹی ہمیشہ کے لیے اس کی ملکیت ہیں۔ ماں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے دل میں مامتا کے ناقابلِ انقطاع جذبات ہوں۔ ماں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ بیٹا جب شادی کرتا ہے تو وہ اپنی زندگی کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوتا ہے اور اس کے اپنے تقاضے ہیں۔ اس مرحلے کے بعد اس کا یہ حق بنتا ہے کہ اس کا مستقل گھر ہو اور وہ اپنے طور پر زندگی گزارے۔

بیوی (بہو): سب سے پہلے ہمیں اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ کیا ساس بہو اور ساس اور داماد کے درمیان تعلق باہمی کش مکش کا تعلق ہے؟ ماہرین نفسیات کے مطابق اس کی کوئی ایک وجہ نہیں بلکہ اس میں کئی عوامل کارفرما ہیں۔ یہ نفرت ایک طرف ماں کے دل میں اپنے بیٹے یا بیٹی کے شریکِ حیات کے خلاف پیدا ہوتی ہے اور دوسری طرف بہو یا داماد کے دل میں اپنی ساس کے خلاف۔

ان عوامل میں سب سے اہم عامل‘ ماں کا احساس ملکیت ہے۔ وہ اس بات پر عقیدے کی حد تک یقین رکھتی ہے کہ اولاد گویا اس کی ملکیت ہے اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اسے چھین سکے۔ دوسری طرف ساس کی ناپسندیدگی کا احساس اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ بہو اپنے طور پر اس بات پر آمادہ نہیں ہوتی کہ شوہر کے ساتھ اس کی محبت میں کوئی دوسرا شریک ہو‘ خواہ وہ شوہر کی ماں ہی کیوں نہ ہو۔ وہ اس بات کی خواہش رکھتی ہے کہ شوہر کی پوری توجہ اس کی طرف ہو اور اُس کی سوچ و فکر کا مرکز و محور صرف وہی ہو۔

نئے گھر میں مسائل پیدا ہونے کی وجہ اکثر یہ ہوتی ہے کہ وہاںشادی کا ایک غلط تصور پایا جاتا ہے۔ بیوی چاہتی ہے کہ شوہر کسی بھی معاملے میں صرف اُس کی بات مانے اور شوہر کی زندگی کا ہر چھوٹا بڑا معاملہ اس کے سامنے ہو۔ وہ وہی غلط کردار ادا کرنا چاہتی ہے جو بعض مائیں ادا کرتی ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے خوداعتمادی کا کوئی موقع فراہم نہیں کرتیں۔

یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ بیوی اپنے شوہر کے بارے میں یہ حق رکھتی ہے اور یہ     بے شک بڑا بنیادی حق ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرے۔ مسلمان تو اس بات کا مکلف ہے کہ وہ ہر صاحب حق کو اس کا حق ادا کرے۔ ایک مسلمان جب اپنے اوپر عائد حقوق کی ادایگی میں کوتاہی کرتا ہے تو وہ گناہ گار ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ اس عبادت گزار بیوی پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے جو اپنے شوہر کو اس بات پر ابھارتی ہے کہ وہ اپنی والدہ کی بات مانے اور ان کی دلجوئی و خدمت کرے۔وہ اسے کہتی ہے: میں تجھے قسم دیتی ہوں کہ صرف حلال مال کمائو‘ اور میری وجہ سے اپنے آپ کو آگ میں نہ ڈالو۔ اپنی والدہ کے ساتھ نیک سلوک کرو‘ ان کے ساتھ صلہ رحمی کرو اور قطع تعلق نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تجھ سے قطع تعلق کر لے گا۔

ایک صالح بیوی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ذہن سے ساس کا یہ مہیب تصور نکال دے اور وہ یہ سوچے کہ میرے شوہر کی ماں‘ یعنی ساس میرے لیے بھی ماں کی طرح ہے۔ اگر ساس کی طرف سے اس کے بارے میں کوئی غلط فہمی ہوجائے تو جواب میں اس کا طرزعمل وہی ہونا چاہیے جو وہ اپنی ماں کی کسی غلطی کی وجہ سے اختیار کرتی تھی۔

  • شوہر (ساس کا بیٹا):اس بارے میں شوہر کی ذمہ داری اور اس کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ساس بہو کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کی ایک بڑی وجہ شوہر کا کردار ہی ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اسے سمجھ نہیں آتی کہ وہ اپنی بیوی بچوں اور نئے گھر کے حقوق اور اپنے والدین‘ بہن بھائیوں اور خصوصاً ماں کے حقوق ‘نیز اپنے کام کاج‘ ذریعہ معاش اور دوست احباب کے ساتھ تعلقات میں توازن کیسے پیدا کرے۔

چنانچہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کی توجہ ان میں سے کسی ایک طرف مرکوز ہوجاتی ہے اور باقی حقوق متاثر ہونے لگتے ہیں اور اُسے اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یا وقت کی کمی اور مصروفیات کی کثرت ہوتی ہے یا پھر یہ کہ آدمی کو زندگی کے معاملات کا تجربہ نہیں ہوتا۔ وہ بیک وقت سب کو خوش رکھنا چاہتا ہے۔ نتیجتاً اپنی تمام تر کوشش کے باوجود وہ کسی ایک کو بھی پوری طرح خوش نہیں رکھ پاتا۔

اگر لڑکا سمجھ دار ہو تو وہ اپنے معاملات کو خوب سوچ سمجھ کر آگے بڑھاتا ہے۔ وہ اپنی ذمہ داریوں اور میسر وقت کے درمیان توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنی پوری توجہ کسی ایک طرف مرکوز نہیں کرتا‘ بلکہ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے وقت کو اپنی ذمہ داریوں کے مطابق تقسیم کرے تاکہ دیگر حقوق بھی ادا کیے جا سکیں۔اگرچہ وہ یہ طاقت تو نہیں رکھتا کہ ہر پہلو میں حدِّکمال تک پہنچے لیکن اپنی وسعت کے مطابق ہر باغ میں کوئی پھول تو لگا سکتا ہے۔

ساس بہو‘ آمنے سامنے

بسااوقات لڑکا اپنی مرضی سے شادی کرلیتا ہے اور ماں اس سے خوش نہیں ہوتی۔ وہ اپنی بہو کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ اسی طرح کبھی بہو کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ساس کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے‘ اور ساس کے اس کے بارے میں احساسات کچھ اچھے نہیں ہیں۔ چنانچہ وہ بھی اسی طرح بے رخی برتتی ہے جس طرح اس کی ساس برتتی ہے اور اس کے نتیجے میں دونوں کے درمیان عداوت کی وہ آگ بھڑک اٹھتی ہے جس کے شعلے پھر کبھی ماند نہیں پڑتے۔ اس صورت حال میں لڑکا بے چارہ چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پستا رہتا ہے۔

ہمارا مشورہ یہ ہے کہ لڑکا جب شادی کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ اپنے گھر والوںسے اپنی شادی کے بارے میں مشورہ ضرور کرے‘ اور اُن پر زور دے کہ وہ اس کے ساتھ انتخاب میں شریک ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افراد خانہ کو انتخاب میں شریک کرنا‘ خواہ براے نام ہی کیوں نہ ہو‘ دلوں کو خوش کر دیتا ہے اور معاملہ سب کی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور پریشانی نہیں ہوتی۔

دوسری بات یہ ہے کہ ماں کو بھی چاہیے کہ اپنے بیٹے کی پسند کا خیال رکھے اور اس کو  کسی ایسی لڑکی کے ساتھ شادی پر مجبور نہ کرے جس سے ذہنی ہم آہنگی نہ ہو۔ اس لیے کہ شادی ایک ایسا رشتہ ہے جو ساری زندگی پر محیط ہے۔ اس رشتے کو دوام بخشنے کے لیے ضروری ہے کہ ذہنی ہم آہنگی ہو۔

تیسری بات اس مسئلے کی تلخ حقیقت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ جب شادی ماں کی رضامندی کے بغیر طے پاجائے تو ایسی صورت میں ہم بہو کو نصیحت کریں گے کہ وہ ساس کی ترش روئی کا جواب خندہ پیشانی کے ساتھ دے اور نرمی سے پیش آتے ہوئے دل سے اس کا احترام کرے۔ اس کی نفرت کا جواب محبت سے دے۔دوسری طرف ساس کا فرض ہے کہ وہ اپنی بہو کے بارے میں اللہ سے ڈرے اور اسے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس کے حقوق سے نوازے۔ اسے چاہیے کہ اپنے بغض اور ناپسندیدگی کو اس کے حقوق کی ادایگی میں حائل نہ ہونے دے۔

جب جنگِ یمامہ کے موقع پر حضرت زید بن خطابؓ کا قاتل ایمان لایا توحضرت عمرؓ نے اس سے منہ پھیر لیا۔ اس نے کہا: کیا آپ میرے ساتھ بغض رکھتے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے کہا: ہاں! اس نے پوچھا:کیا آپ کا میرے ساتھ بغض رکھنا اس میں رکاوٹ ہے کہ آپ میرا حق ادا کریں؟ حضرت عمرؓ نے کہا: نہیں! اس نے کہا: چلیں پھر کوئی بات نہیں‘ محبت پر رونا عورتوں کا کام ہے (یعنی اگر مجھے اپنا حق مل جائے تو آپ کی محبت کی مجھے کوئی ضرورت نہیں)۔

بچوں کی پیدایش

بچوں کی پیدایش کا مسئلہ بھی ساس بہو کی لڑائیوں کا ایک اہم سبب تصور کیا جاتا ہے۔ جب بہو کے ہاں بچے کی پیدایش میں تاخیر ہوجاتی ہے تو ماں کا اپنے بیٹے کے بارے میں اضطراب روز بروز بڑھتا جاتا ہے اور اس کا اپنی بہو کے ساتھ تعلق خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات لڑکا پیدا نہ ہونا بھی وجہ تنازع بن جاتی ہے۔

قرآن کہتا ہے کہ اولاد (لڑکا یا لڑکی) خدا کی طرف سے ہے۔ (الشوریٰ ۴۹:۵۰)۔ جدید علمی تحقیقات سے بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ لڑکایا لڑکی کی پیدایش کا سبب مرد ہوتا ہے عورت نہیں۔ لہٰذا ساس کو چاہیے کہ وہ اپنی بہو کی اس حالت پر صبر کرے اور اس معاملے میں اسے پریشان نہ کرے‘ اس کے احساسات کو ہرگز مجروح نہ کرے اور اس کا مذاق نہ اڑائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’تم اپنے بھائی کا مذاق نہ اڑائو۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو معاف کر دے اور تمھیں اس مصیبت میں مبتلا کر دے جس میں پہلے وہ مبتلا تھا‘‘۔ ساس کا فرض ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنی بہو کو تسلی دے‘ اسے صبر کی تلقین کرے اور خود بھی صبر کرے۔ اس لیے کہ بسااوقات ایک عورت کے ہاں شادی کے کئی سال بعد بچے پیدا ہوتے ہیں۔

مشترکہ خاندان میں رھایش

بعض اوقات لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ مشترکہ خاندان میں رہتی ہے جہاں اس کے شوہر کے دوسرے بھائی بھی اپنی اپنی بیویوں سمیت رہتے ہیں۔ وہ گھر کے کام کاج اور کھانے پینے میں اشتراک عمل سے کام لیتے ہیں۔ اگرچہ یہ صورت آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے لیکن پھر بھی اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ صورت حال بھی کبھی کبھار ساس بہو کے درمیان ناچاقی کا سبب بن جاتی ہے۔

اس حوالے سے لڑکی کے لیے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری دلجمعی سے ادا کرے اور اپنے کام کو اچھے طریقے سے انجام دینے کی کوشش کرے۔ وہ یہ نہ دیکھے کہ اس کی دوسری نندیں کیا کرتی ہیں۔ اس کو چاہیے کہ ساس کے ساتھ بہترین تعلقات رکھے اور اپنی نندوں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک سے پیش آئے‘ غیبت نہ کرے اور برا بھلا نہ کہے۔ یہ روش دل میں جگہ بنانے کا باعث ہوگی۔لڑکی کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک مضبوط بنیاد ہے جس کے ذریعے وہ اپنے گھر کے ماحول کو خوش گوار بنا سکتی ہے۔

ساس کا بخیل اور بھو کا فضول خرچ ہونا

بعض اوقات بہو فضول خرچ ہوتی ہے اور اس کی ساس بخیل ہوتی ہے‘ یا بہو تو معتدل ہوتی ہے لیکن اس کی ساس حد سے زیادہ بخیل۔ چنانچہ اس صورت میں بھی وہ اپنی بہو کے طرز عمل سے خوش نہیں ہوتی کیونکہ بخیل آدمی دوسروں سے کسی حال میں بھی خوش نہیں ہوتا۔

اس مسئلے کا سبب درحقیقت بخل نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ساس زمانے کی موجودہ صورت حال سے بے خبر ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو اس مسئلے کا حل کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اگر بہو ایک دن اپنی ساس کو خریداری کے لیے یا اس کے لیے کوئی تحفہ خریدنے کی غرض سے ساتھ لے جائے تو اس پر خود بخود حقیقت حال واضح ہو جائے گی اور وہ سمجھ جائے گی کہ زمانہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔

اگر ساس واقعی بخیل ہے تو پھر بہو کے لیے ہماری نصیحت یہ ہے کہ وہ اپنے زیادہ تر مالی معاملات ساس سے چھپا کر رکھے اور وہ خریداری میں جو پیسے خرچ کرے اس کو ساس کے سامنے حکمت سے بیان کرے تاکہ ساس کو محسوس نہ ہو اور خرابی کی صورت نہ پیدا ہو۔ دراصل ماں کو اپنے بیٹے کی کمائی کی بڑی فکر ہوتی ہے اور اسے خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں بہو اسے اللوں تللوں میں نہ اڑا دے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی مشورہ دیتے ہیں کہ اخراجات میں اعتدال سے کام لیا جائے‘ اس لیے کہ شریعت بھی ہمیں اعتدال پر اُبھارتی ہے۔

عورت کا لاپروا ہونا

گھریلو مسائل کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب عورت کا لاپروا ہونا بھی ہے۔ کبھی وہ گھر کے کام کاج کی طرف توجہ نہیں دیتی‘ کبھی بچوں کی نگہداشت سے بے پروا ہوجاتی ہے یا اپنے بارے میں کاہلی کا شکار ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے شوہر ذہنی طور پر پریشان ہوجاتا ہے اور اسے گھر کے ساتھ نفرت سی ہوجاتی ہے۔ اس کی ماں جب یہ حالت دیکھتی ہے تو اس کو بھی پریشانی لاحق ہوتی ہے کیونکہ ماں اپنے بچوں کی خوشی سے خوش ہوتی ہے اور پریشانی سے پریشان۔

بہت سی عورتیں ساس کے ساتھ اپنے تعلقات کی کشیدگی کی شکایت کرتی ہیں لیکن اسباب سامنے آتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسائل کھڑے کرنے کی ذمہ دار وہ خود ہی ہیں۔ ایک بہو کو معلوم ہونا چاہیے کہ اپنے گھر کی صفائی اور دیگر امور کا خیال رکھنا‘ بچوں کی نگہداشت اور اپنے اوپر نظر رکھنا‘ یہ ایسے امور ہیں جن کی وجہ سے ساس کو خوشی ہوتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ماں کا دل کیسا ہوتا ہے اور وہ شادی سے پہلے اپنے بیٹے کا کس طرح خیال رکھتی ہے۔ پھر جب وہ دیکھتی ہے کہ بیوی بھی اس کے بیٹے کا اسی طرح خیال رکھتی ہے تو اس سے وہ بے انتہا خوش ہوتی ہے اور بہو کے ساتھ بہت زیادہ پیار کرتی ہے۔ لیکن اگر صورت حال اس کے برعکس ہو تو پھر اس کا ناراض ہونا اور تعلقات کا کشیدہ ہونا فطری ہے۔

خاندانی ماحول کا فرق

عام طور پر ایک گھرانے کا ماحول دوسرے گھرانے سے مختلف ہوتا ہے۔ اگر ایک گھرانے میں کسی بات کا معمول ہے تو ضروری نہیں کہ دوسرے گھرانے میں بھی اس کو وہی اہمیت حاصل ہو۔ لہٰذا اس قسم کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ساس کا فرض ہے کہ وہ اپنی بہو کی طبیعت اور مزاج کو بھی سمجھے اور بہو جس ماحول سے آئی ہے اور اس کی شخصیت پر اس ماحول کے جو اثرات ہیں اُن کا بھی خیال رکھے۔ دنیا میں کوئی عورت بھی ایسی نہیں پائی جاتی جو ہر قسم کے کاموں کو بہترین انداز میں کرسکتی ہو اور عورت کا کسی کام کو نہ کر سکنا‘ خصوصاً جب وہ ایسا کام ہو جو اس نے پہلے نہ کیا ہو‘ کوئی عیب نہیں ہے۔

بہو کا بھی فرض ہے کہ وہ اُن امور میں مہارت حاصل کرے جس کا اس سے تقاضا کیا جاتا ہے‘ یا خوش طبعی اور پورے ادب و احترام کے ساتھ معذرت کرے۔ وہ اپنی ساس کی توجہ حکمت و دانش مندی سے ایک ایسے کام کی طرف بھی موڑ سکتی ہے جس کو وہ بآسانی اچھے انداز میں کرسکتی ہو اور جو ساس کے مزاج کے موافق بھی ہو۔

ساس کا دل جیتیے

یہاں ہم کچھ ایسی تجاویز پیش کریں گے جن کے ذریعے ایک عورت اپنی ساس کا دل جیت سکتی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ دل میں پختہ ارادہ ہو‘ اس کو انجام دینے کا عزم ہو اور شیطان کی چالوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال ہو۔ عربی کا مشہور مقولہ ہے کہ جو آدمی دروازے کو مسلسل کھٹکھٹاتا ہے‘ وہ ضرور اس کے لیے کھل جائے گا۔

ایک میٹھا بول‘ دل میں جادو کی طرح اثر کرتا ہے‘ خصوصاً جب وہ مسکراتے اور ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ ہو۔ یہ بول دل کے بند دریچے وا کر دیتا ہے اور دشمنی کو دوستی‘ بلکہ محبت میں بدل ڈالتا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ساس بہو کے تعلقات کبھی عداوت کی حد تک جاسکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے درمیان کچھ غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں جن کی وجہ سے اُن کے درمیان تعلقات میں وہ گرم جوشی نہیں رہتی جو پہلے کبھی ہوتی تھی۔

وہ میٹھا بول جس کو ایک بہو اپنی ساس کے سامنے یا داماد اپنی ساس کے سامنے بولتا ہے‘ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی بڑی قدروقیمت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ایک میٹھی بات کہنا صدقہ ہے۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’بھلائی کو معمولی نہ سمجھو‘ خواہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آنا ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ اس لیے جو بیوی یا جو شوہر ان تعلیمات سے غفلت برتتے ہیں وہ اپنے آپ کو اس اجر عظیم اور ثواب سے محروم کر دیتے ہیں۔

بعض عورتیں اس میں بڑی مہارت رکھتی ہیں کہ ساس کے لیے کون سے الفاظ سب سے زیادہ تکلیف دہ ہیں‘ اور ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنی ساس کے ساتھ ترش روئی کے ساتھ آنکھوں سے چنگاریاں جھاڑتی ہوئی ملیں۔ ان کو اس رویے کے لیے وجۂ جواز بھی مل جاتی ہے کہ ’’ساس کا میرے ساتھ یہی طرزعمل ہے۔ اس لیے میں بھی اس کے ساتھ اسی طرح پیش آتی ہوں‘‘۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ کبھی کبھی حقیقتاً ایسا ہی ہوتا ہے لیکن ہمارے لیے قابلِ غور بات یہ ہے کہ اسلام کی اخلاقی تعلیمات کیا اسی طرزعمل کا تقاضا کرتی ہیں‘ اور کیا نفس کے ساتھ جہاد اسی کا نام ہے؟ کیوں نہ آپ اپنی ساس کے سامنے بھلائی سے پیش آئیں۔ اگر آپ ایک دو مرتبہ بھی ایسا کریں گی تو ان شاء اللہ اس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔

اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام‘ دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک پر بہت زیادہ زور دیتا ہے‘ اور رشتہ دار اس حسنِ سلوک کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کہ آپؐ اپنے سسرال والوں سے محبت و احترام سے پیش آتے تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیںکہ حضرت خدیجہؓ کی بہن ہالہ بنت خویلد نے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت مانگی۔ آپؐ کو حضرت خدیجہؓ یاد گئیں اور خوشی خوشی اُن کو اجازت دیتے ہوئے فرمایا: ’’ہاں‘ ہاں! خویلد کی بیٹی آجائو!‘‘

کیا ساس کے ساتھ اس طرح کا حسنِ سلوک نہیں کرنا چاہیے؟ خاص طور پر جب وہ بیٹے کے دل میں سب سے زیادہ مقام رکھتی ہو۔ ہوسکتا ہے کہ ساس کے ساتھ محبت اس کے بیٹے کی محبت کاتسلسل ثابت ہوجائے۔ اگر ساس خوش ہوگی تو اس کا بیٹا بھی خوش رہے گا۔

اپنے شوہر کو ہرگز اس بات پر مجبور نہ کریں کہ کسی معاملے میں وہ آپ یا اپنی ماں میں سے کسی ایک کو چھوڑ کر رائے پر عمل کرے۔ اس طرح کا طرزعمل خاندان کے لیے تباہ کن ہے۔ اس لیے کہ ماں ‘ ماں ہے اور بیوی بیوی۔ ان دونوں کے درمیان کسی پر کسی کو ترجیح دینا‘ خواہ جس طرح بھی ہو‘ دلوں میں کدورت پیدا کرتا ہے۔ اس سے ساس اور بہو کے درمیان سرد جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ایسے میں اگر بیٹا ماں کو ترجیح دے تو کوئی بھی اسے ملامت نہ کرے گا۔ اس لیے کہ ماں کا احترام بہرحال مقدم ہے تاوقتیکہ وہ خدا کی نافرمانی کے لیے کہے۔

ساس کا درجہ ماں کے برابر

اگر بہو اپنی ساس کو ماں کا درجہ دے دے اور اس کے ساتھ اسی طرح پیش آئے جس طرح اپنی ماں کے ساتھ پیش آتی ہے تو ساس بہو کے بہت سارے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔ ہر بہو کو معلوم ہونا چاہیے کہ ساس کا احترام درحقیقت شوہر کا احترام ہے جس کی وجہ سے وہ اس کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خالہ کو بھی ماں کے برابر قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے بھانجوں کے ساتھ اسی طرح شفقت و محبت سے پیش آتی ہے‘ جس طرح کہ اپنے بچوں کے ساتھ پیش آتی ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خالہ کا درجہ ماں کے برابر ہے‘ تو پھر کیوں نہ ساس کو بھی ماں کادرجہ دیا جائے؟

بہو اپنی ساس کے قریب ہوسکتی ہے‘ اگر اس کا طرزعمل یہ ہو کہ جب اس کو پکارے تو اسی طرح پکارے‘ جس طرح اپنی ماں کو پکارتی ہے۔ بعض عورتیں اپنی ساس کو اس طرح پکارتی ہیں جیسے وہ کسی اجنبی عورت کو پکار رہی ہیں جس کے ساتھ اس کا کوئی رشتہ اور محبت کا کوئی تعلق نہ ہو۔ اس انداز سے پکارنا اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ بہو کے دل میں ساس کے لیے کوئی محبت نہیں۔

تحفہ

ایک معمولی تحفہ‘ جس کو بہو خوشی کے مواقع پر اپنی ساس کی خدمت میں پیش کرتی ہے‘ ساس کے دل کے دریچے کھول دینے کے لیے کافی ہے اور اس کے ذریعے وہ ساس کی محبت حاصل کرلیتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: آپس میں تحفوں کا تبادلہ کرو‘ اس سے آپس میں محبت بڑھتی ہے۔

جب آپ کہیں سفر پر جاتی ہیں اور واپسی پر ساس کے لیے کوئی تحفہ لے کر آتی ہیں تو وہ اس سے اتنی خوش ہوتی ہے گویا کہ آپ نے پوری دنیا اس کو تحفے میں پیش کر دی ہو۔ تحفے سے اس کو احساس ہوتا ہے کہ آپ اس کا کتنا خیال رکھتی ہیں۔ اس لیے کوشش کریں کہ جب کبھی آپ اپنے لیے کچھ خریدیں تو اپنی ساس کو بھی یاد رکھیں۔

بہو کی طرف سے ایک چھوٹا سا تحفہ‘ معجزے کا اثر رکھتا ہے‘ اس لیے کہ تحفے کو اس کی قیمت کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس لحاظ سے دیکھا جاتا ہے کہ تحفہ دینے والے نے ہمیں بھلایا نہیں ہے۔ اس لیے کیا ہی اچھا ہو کہ تحفہ دیتے وقت چند محبت بھرے الفاظ کا بھی اظہار کیا جائے۔

ملاقات کے لیے جانا

اگر ساس بہو کا گھر الگ الگ ہو تو ایسی صورت میں کثرت سے ملاقات کے لیے جانا ساس کے دل پر گہرا اثر کرتا ہے۔ اسی طرح داماد کا اپنی ساس کے ہاں آنا جانا بھی اس کو بہت متاثر کرتا ہے۔ اس لیے کہ ملاقات کے لیے جانا‘ ماں اور اس کے بچوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے ایک مثالی ذریعہ ہے۔ یہ آنا جانا اس کو بچوں کے قرب کا احساس دلاتا ہے اور باہمی محبت کا باعث بنتا ہے۔ خیال رہے کہ یہ صلہ رحمی کا تقاضا اور باعث اجر بھی ہے۔ اسلام میں تودوستوں کے ہاں آنے جانے پر بھی زور دیا گیا ہے‘ پھر ہم اتنی اہم رشتہ داری سے کیسے پہلوتہی برت سکتے ہیں۔

نصیحت اور مشورہ مانگنا

اگر بہو یہ بات جان لے کہ خواہ ضرورت محسوس ہو یا نہ ہو اپنی مشکلات اور مسائل میں ساس سے مشورہ اور نصیحت حاصل کرنی چاہیے تو اس کے دل میں ساس پر اعتماد پیدا ہوگا اور وہ محسوس کرے گی کہ ساس واقعی اس کے لیے ماں کا درجہ رکھتی ہے۔ ساس کے لیے اس سے خوشی کی بات کوئی نہیں ہوتی کہ اس کو یہ احساس دلایاجائے کہ بہو اس کی محتاج ہے اور اس کے تجربات سے مستفید ہونا چاہتی ہے۔

اس سلسلے میں بہترین طرزعمل یہ ہے کہ ہر معاملے میں ساس کے ساتھ مشورہ کیا جائے‘ اس سے نصیحت حاصل کی جائے‘ خصوصاً اُن امور میں جن کا تعلق شوہر کے ساتھ ہو‘ کیونکہ اس معاملے میں وہ بہتر جانتی ہے۔

گھریلو استحکام

بہو کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر اس کا اپنے شوہر کے ساتھ تعلق اچھا ہوگا تو اس سے بھی ساس کے دل پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔ کیونکہ میاں بیوی کی زندگی جب مستحکم ہوتی ہے تو اس سے ماں کو یہ یقین اور اطمینان ہوجاتا ہے کہ اس کا بیٹا خوشگوار زندگی گزار رہا ہے۔ ساس بہو کے درمیان مسائل کا ایک بنیادی سبب ساس کا اپنے بیٹے کی خوشگوار اور پرسکون زندگی پر عدمِ اطمینان ہوتا ہے‘ یا یہ کہ بہو اس کے بیٹے کی خدمت کے لیے وہ کردار ادا نہیں کرسکتی جو شادی سے پہلے خود وہ ادا کرتی رہی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ اس صورت حال کی ذمہ دار اس کی بہو ہے۔ اس لیے بہو کو چاہیے کہ اپنی ازدواجی زندگی میں استحکام پیدا کرنے کی کوشش کرے‘ اس سے بھی ساس کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے گی۔

بچوں کے نام رکہنا

بعض خواتین یہ عنوان پڑھ کر حیران ہوجاتی ہیں کہ بچوں کے نام رکھنے اور ساس کے ساتھ تعلقات کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ درحقیقت اس موضوع کا ہمارے زیربحث موضوع کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے‘ خصوصاً بعض گھرانوں میں تو اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ بیوی کی خواہش ہوتی ہے کہ بچے کا نام اس کے والدین رکھیں‘ جب کہ لڑکے کی ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ نام وہ رکھیں۔ شوہر اگر بیوی کی مانتا ہے تو ماں سمجھتی ہے کہ بہو نے بیٹے پر اس قدر غلبہ حاصل کرلیا ہے کہ بچے کا نام تک اپنے خاندان کی طرف کھینچ لیا ہے۔

ہم میاں بیوی کو نصیحت کرتے ہیں کہ بچوں کا نام رکھتے ہوئے یہ مسئلہ پیدا کرنے سے اجتناب کریں‘ بلکہ بہتریہ ہے کہ بچے کا نام رکھنے میں دونوں خاندانوں میں سے کسی کی نسبت کو بھی ملحوظ نہ رکھیں سوائے اس کے کہ دونوں فریق اس پر راضی ہوں۔ ایک ذہین بہو اپنے بچوں کے نام رکھنے میں ہمیشہ اپنی ساس کو بھی اچھے انداز سے شریک کرتی ہے۔

امید ہے کہ ساس بہو کے تعلقات میں اگر ان امور کو پیش نظر رکھا جائے تو نہ صرف ساس بہو کے تعلقات خوش گوار ہوں گے بلکہ مضبوط و مستحکم خاندان کی بنیاد بھی استوار ہوسکے گی۔

(ماخوذ المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۶۰۱-۱۶۰۳)

مسلم ممالک پر امریکی دبائو میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نصاب تبدیل کریں جو امریکا اور مغرب کے خلاف نفرت‘ دہشت گردی اور تشدد میں فروغ کا سبب ہیں۔ اس مطالبے کے تسلسل میں قاہرہ میں یکم تا ۳جون ۲۰۰۴ء ایک کانفرنس منعقد ہوئی‘ موضوع تھا: ’’تعلیم سب کے لیے--- مستقبل کے لیے عرب نقطۂ نظر‘‘۔ اس کانفرنس میں عرب ممالک کے ۱۲وزراے تعلیم و تربیت شریک ہوئے۔ اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیموں کے نمایندوں نے بھی شرکت کی۔ کئی غیر عرب ممالک کے نمایندے بھی شریک ہوئے۔ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں قاہرہ میں متعین امریکی سفیر ڈیویڈ وولش کی آمد بہت معنی خیز تھی۔ امریکی سفارت خانے نے کانفرنس کے تمام اجلاسوں میں گہری دل چسپی لی۔ یہ دل چسپی درحقیقت عرب ممالک کے داخلی امور کی نگرانی اور مسلسل دبائو کا اظہار ہے۔

یاد رہے کہ مصر پہلے ہی تعلیمی نصاب میں کافی تبدیلیاں لاچکا ہے۔ ’’اخلاقیات‘‘ کا نیا مضمون پڑھایا جا رہا ہے۔ مصری وزیرتعلیم ڈاکٹر حسین کامل بہاء الدین کے بقول اس مضمون کا مقصد ہے: ’’دوسروں کو قبول کرنا‘ نیز ترقی کی اقدار‘ اخلاقِ حمیدہ‘ تعاون‘ صداقت اور لوگوں کے ساتھ رحم و حسنِ سلوک پر آمادہ کرنا‘‘۔ کانفرنس کے اختتام پر ’’اعلانِ قاہرہ‘‘ جاری ہوا۔ اقوام متحدہ کے زیرانتظام اور امریکا کے زیرنگرانی اس قسم کی کانفرنسیں اب ۲۰۰۵ئ‘ ۲۰۱۰ئ‘ ۲۰۱۵ء اور ۲۰۲۰ء میں منعقد ہوں گی‘ جن میں یہ دیکھا جائے گا کہ تعلیم و تربیت کے نصابوں میں امریکا کے حسبِ منشا کس قدر تبدیلیاں لائی جاچکی ہیں۔ اس عنوان سے ایک کانفرنس امریکی ریاست جارجیا میں پہلے ہی منعقد ہوچکی ہے۔مغرب کو خوش کرنے کے لیے‘ اپنے نصاب ہاے تعلیم میں تغیروتبدل کر کے نام نہاد مسلمان حکمران خدا کے غضب کو بھڑکا رہے ہیں۔

قابـلِ غـور نکات: اس پس منظر میں درج ذیل حقائق پر غوروفکر بے محل نہ ہوگا:

۱-            قاہرہ کانفرنس اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس نہیں ہے جس میں دنیاے عرب اور عالمِ اسلام کے نصاب ہاے تعلیم کو مغربی نقطۂ نظر کے مطابق ڈھالنے اور صہیونیوں کے ناپاک منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے راستہ ہموار کیا گیا ہو‘بلکہ گذشتہ ربع صدی سے بھی زائد عرصے سے اس قسم کی کانفرنسیں اور اجلاس خفیہ و علانیہ‘ سرکاری و غیرسرکاری سطح پر وقتاً فوقتاً منعقد ہوتے رہے ہیں۔ ایسے مباحثوں کا بھی اہتمام ہوا ہے جن کا مقصد اسرائیل سے اپنے تعلقات کو معمول پر لانا رہا ہے۔ امریکی اور یورپی دارالحکومتوں میں ایسی کئی کانفرنسیں منعقد ہوچکی ہیں جن میں مسلم ممالک کے بڑے بڑے ذمہ دار شریک ہوئے اور وہاں سے ملنے والی ہدایات کو اپنے اپنے ممالک میں نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

۲-            کئی عرب ممالک کی وزارتِ تعلیم نے صہیونیوں کے ساتھ خوش گوار تعلقات کے قیام کی خاطر نصابِ تعلیم سے وہ تمام امور حذف کر دیے ہیں جن سے یہودیوں کی مجرمانہ تاریخ کا اظہار ہوتا ہے‘ نیز نصاب سے وہ تمام آیات و احادیث اور تاریخی مواد بھی خارج کر دیا گیا ہے جس سے یہودیوں کی عیاری‘ مکاری‘ غداری اور منافقت سے آگہی ہوسکتی ہے۔ اسلامی فتوحات اور دین اسلام کے فروغ کا تذکرہ بھی خارج از نصاب کیا گیا ہے۔

۳-            ۱۱ ستمبر کے سانحے کے بعد دینی تعلیم کو ختم کروانے کے لیے ایک بھرپور مغربی صہیونی مہم کا آغاز ہوا۔ اب وسیع پیمانے پر دینی تعلیم کو ’’ممنوع‘‘ قرار دینے کا عمل شروع ہوا ہے۔ یہ سب کچھ ’’تعلیمی ترقی‘‘ کے نام سے ہونے لگا ہے تاکہ آیندہ نسلوں کی تربیت‘ دینی اخلاق و اقدار کے مطابق نہ ہونے پائے۔

۴-            اس میں شک نہیں کہ اسلامی تعلیم اور دینی اداروں کے خلاف یہ حملہ قدیم استعماری صلیبی حملوں ہی کا تسلسل ہے اور یہ حملہ اپنے اہداف و مقاصد میں ان سے ذرا بھی مختلف نہیں۔ قدیم استعمار نے اسلامی تعلیم کو محدود کر کے اسلامی ممالک میں ایسے اسکول قائم کیے تھے جن کا مقصد طلبہ کو مسیحی بنانا اور مغرب زدہ کرنا تھا۔ ان تعلیمی اداروں کی نگرانی مشنری مسیحی اور سامراجی ایجنٹوں نے کی۔ یہ ادارے اب تک اپنے مذموم مشن میں مصروف ہیں۔ مسلم ممالک کے حکمران استعمار کے قائم کردہ اداروں کی حیثیت کو برقرار رکھنے میں کس قدر کوشاں ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ لاہور کے ایک معروف مسیحی کالج کو جسے بھٹو دور میں قومیالیا گیا تھا‘ اب ازسرنو غیرملکی عیسائیوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ جس کا سربراہ امریکی عیسائی ہے۔ اب اس کالج کو یونی ورسٹی کا درجہ بھی مل چکا ہے۔

۵-            واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ عالمی صہیونیت اسلامی تعلیم کو ختم کرنے کی کوششوں میں لگاتار پس پردہ کام کر رہی ہے۔ اس کا ثبوت وہ تحقیق و مطالعہ ہے جسے ’’گروپ ۱۹‘‘ نے‘ جس میں امریکی ماہرین و سیاست کار شامل ہیں--- امریکی قومی سلامتی کے ادارے کے سپرد کیا ہے۔ اس تحقیقی مطالعے کا عنوان ہے: ’’اسلامی دہشت گردی کے نفسیاتی پہلو‘‘۔ اس مطالعے میں عرب و مسلم ممالک کو اپنے نصاب ہاے تعلیم اور نشریات و اطلاعات کے پروگراموں کو تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ خاص طور پر تعلیمی نصابوں کو ابتدائی مرحلوں سے تبدیل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔

۶-            بلاشبہہ اس مسلسل حملے کے نتیجے میں کئی اہداف پورے ہو چکے ہیں‘ درسی مواد تبدیل ہوا‘ کئی اسلامی ادارے بند ہوئے‘ بہت سے مسلم ممالک میں دینی تعلیم کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ یہ سارے مقاصد سامراج نے مسلم ممالک پر مسلط کردہ اپنے اُن گماشتوں کے ذریعے حاصل کیے جنھیں کہیں فوجی انقلاب کے ذریعے یا مادی مفادات کے پیشِ نظر سامنے لایا گیا۔

ان مغربی منصوبوں پر عمل درآمد کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت اور ایک طرح کا ارتداد کا نام ہی دیا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ خواب غفلت سے جاگیں اور ایک متحد و زندہ اُمت کا ثبوت پیش کریں‘ ورنہ مغرب کے گماشتے سامراجی مقاصد اور ذاتی مفادات کے حصول کے لیے پوری اُمت کے مستقبل کو دائو پر لگائے ہوئے ہیں۔

غربت‘ جہالت اور بیماری کی تثلیث نے پوری دنیا میں مسیحی اداروں کے کام کو آسان بنایا ہے۔ ترکی کے مسلمانوں کو عیسائی بنانے میں یورپی ممالک اور امریکا کے سفارت خانے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان ممالک کا جو بھی شہری کلیسا کی معرفت ترکی جانے کی درخواست دیتا ہے اُسے تمام سہولیات اور سفری دستاویزات فراہم کی جاتی ہیں۔ اسی طرح ترکی کا جو شہری مغربی ممالک جانا چاہتا ہے اور وہ ترکی میں کام کرنے والی مسیحی تنظیموں کی معرفت درخواست کرتا ہے‘ فوراً اس کی شنوائی ہوتی ہے۔ ترکی کے طالب ِ علم اپنی تعلیم کی تکمیل کے لیے بیرونِ ملک جانا چاہیں‘ انھیں مفت باہر بھیج دیا جاتا ہے۔ مسیحی تبلیغی اداروں کا ہدف آیندہ دس برسوں میں ۵۰ لاکھ ترک باشندوں کو عیسائی بنانا ہے تاکہ ترکی میں ایک بااثر جدید مسیحی اقلیت کی تشکیل کی جا سکے۔

اگست ۱۹۹۹ء میں جب ترکی کا علاقہ مرمرہ زبردست زلزلوں کا نشانہ بنا تو عیسائی تبلیغی اداروں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور تقریباً ۲۵۰۰ لوگوں کو غذا اور طبی امداد کے ذریعے عیسائی بنالینے میں کامیاب ہوگئے۔ یاد رہے کہ اس علاقے کے لوگوں کے گھر بالکل مسمار ہوگئے تھے۔ زلزلوں سے سب سے متاثر شہر اسکاریہ تھا۔ وہاں کے مسلمان اہلِ علم نے بتایا ہے کہ ویٹی کن کے ماتحت خیراتی اداروں کے کارکن صرف اس شرط پر متاثرین کی مدد کرتے تھے کہ پہلے وہ عیسائیت قبول کریں۔ عیسائیت میں داخل ہونے والوں کو بھاری رقوم سے نوازا جاتا۔ اسکاریا یونی ورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر کنعان تونج نے اس موضوع پر تحقیق کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: مسیحی ادارے‘ مسلمانوں کو عیسائی بنانے میں سی آئی اے کا تعاون حاصل کرتے ہیں۔ ان کا اوّلین مقصد بیداری اور ترک قومیت کا تشخص ختم کرنا ہے۔ وہ اس سلسلے میں کافی مال خرچ کر دیتے ہیں۔ وہ امداد دیتے وقت لوگوں سے کہتے ہیں‘ دیکھو‘ تمھاری حکومت نے تمھاری مدد نہیں کی‘ ہم نے مدد کی ہے۔ یہ متاثرین کو مال بھی دیتے ہیں اور ان میں انجیل بھی تقسیم کرتے ہیں۔ متاثرین کی نفسیاتی و مالی حالت سے فائدہ اٹھا کر انھیں گرجوں میں جانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ مسیحی مبلغ بظاہر ’’مسیحی مقدس مقامات‘‘ کی زیارت کے بہانے ترکی میں آتے ہیں مگر ان کا اصل مقصد ترکی کے مسلمانوں کو اسلام سے ہٹانا ہے۔ صرف گذشتہ تین برسوں میں ترکی میں انجیل کے ۸۰ لاکھ نسخے تقسیم کیے گئے۔ مختلف محلوں اور بازاروں میں گھر خرید کر یا کرائے پر لے کر وہاں چھوٹے چھوٹے گرجے بنا دیے جاتے ہیں۔

ترک پولیس کی حاصل کردہ معلومات کے مطابق عیسائی مبلغ جن اداروں کے پس پردہ رہ کر کام کرتے ہیں‘ ان میں آرمینیائی تحقیقی مرکز‘ اتحاد کلیسا ہاے یورپ‘ اتحاد کلیسا ہاے آرتھوڈکس اور اتحاد کلیسا ہاے عالمی شامل ہیں۔ یہ مبلغ ترکی میں نسلی اور علاقائی تفریق پیدا کرنے کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں۔ پورے ترکی میں عیسائی لٹریچر کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ ترکی زبان کے ذریعے عیسائیت کی تبلیغ کے لیے خطیر رقم خرچ کی جا رہی ہے۔ ترکی کے بڑے شہروں استنبول‘ انقرہ اور ازمیر میں تو ریڈیو اور ٹیلی وژن کے ذریعے بھی عیسائیت کا پرچار کیا جا رہا ہے۔

جنوب مشرقی اناضول کا علاقہ مسیحی سرگرمیوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ اس علاقے میں مسیحی مبلغ یازیدیت اور کلدانیت کے پس پردہ کام کر رہے ہیں۔ کردی زبان سے پابندی اٹھا لیے جانے کے بعد مسیحی مبلغ وسیع پیمانے پر کردی زبان میں کام کر رہے ہیں۔ چنانچہ کردی زبان میں لاکھوں کتابیں‘ انجیلیں اور کیسٹیںتقسیم کی جاچکی ہیں۔ نہایت شان دار‘ عمدہ کاغذ اور طباعت کی لاکھوں کی تعداد میں انجیل کُردی زبان میں تیار کرکے مفت دی جاچکی ہیں۔ عیسائیت قبول کرنے والے کُردوں کو یورپ میں بھیجنے کا اہتمام کیا جاتا ہے اور یورپ جانے کے متمنی ان کُردوں کی صلاحیتوں سے وہاں استفادہ کیا جاتا ہے۔ نوجوان کُردوں کو عیسائیت پر لیکچر دیے جاتے ہیں۔

ترک انٹیلی جنس کے مطابق جنوب مشرقی اناضول میں کئی شہریوں نے مال کی خاطر اسلام ترک کر کے عیسائیت قبول کرلی ہے۔ دریاے فرات کے قرب بپتسمہ پانے والے ان افراد کی ایک تقریب منعقد ہوئی۔ اس موقع پر جو تصاویر لی گئیں وہ ترک انٹیلی جنس کے ہاتھ آئی ہیں۔ ان مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے ساتھ مغربی ممالک کے سفارت خانوں کے اعلیٰ افسر کھڑے ہیں جن کے چہرے خوشی و مسرت سے دمک رہے ہیں۔ بپتسمہ کے بعد‘ نو عیسائیوں میں سے جو لوگ یورپی ممالک جانا چاہیں‘ مغربی سفارت کار انھیں ویزے فراہم کرتے ہیں اور تمام سفری سہولیات کا مفت اہتمام کرتے ہیں۔

افسوس کہ جس ترکی نے اپنے دورِ عروج میں پوری دنیا میں اپنی عظمت کا پرچم لہرایا اور جن عثمانی ترک خلفا کی ہیبت سے یورپی حکمران لرزہ براندام رہتے تھے ‘ آج اُسی ترک قوم کو یوں کھلم کھلا عیسائی بنایا جا رہا ہے!

سائنسی دَور میں اسلامی جہاد کی کیفیت

سوال : مسلمانوں کے جذبۂ ’’جہاد‘‘ کو زندہ رکھنے کے لیے آج بیسویں صدی میں کیا طریق کار اختیارکیا جائے گا‘ جب کہ آج کی جنگ شمشیر و سناں سے یا میدانِ جنگ میں صف آرا ہوکر دست بدست نبردآزمائی سے نہیں ہوتی بلکہ سائنسی ہتھیاروں‘ جنگی چالوں(strategy) اور جاسوسی (secret service) سے لڑی جاتی ہے؟ آپ ایٹم بم‘ راکٹ میزائل اور مشینی ایجادات وغیرہ کا سہارا لے کر اس سائنسی و ایٹمی  دور میں ’’جہاد‘‘ کی تشریح کس طرح کریں گے؟ کیا چاند‘ مریخ و مشتری پر اترنے  اور سٹلائٹ چھوڑنے یا فضا میں راکٹ سے پرواز کرنے اور نت نئی ایجادات  کرنے والے مجاہدین کے زمرے میں آسکتے ہیں؟… انتظامی امور اور مملکتی نظام (civil administration) میں فوج کو کیا مقام دیا جا سکتا ہے؟ موجودہ دور کے فوجی انقلابات سے ملکی نظام میں فوج کی شمولیت اور افادیت بہت حد تک ثابت ہوچکی ہے۔ کیوں نہ فوج کو دورِ امن میں بٹھا کر کھلانے کے بجاے ہر میدان میں قوم کی خدمت سپرد ہو؟

جواب: جہاد کے متعلق اولین بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ جہاد اور لڑاکاپن میں بہت فرق ہے۔ اسی طرح قومی اغراض کے لیے جہاد اور چیز ہے‘ اور جہاد فی سبیل اللہ اور چیز۔ مسلمانوں میں جس جذبۂ جہاد کے پیدا کرنے کی ضرورت ہے وہ اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا جب تک ان کے اندر ایمان ترقی کرتے کرتے اس حد تک نہ پہنچ جائے کہ وہ خدا کی زمین سے برائیوں کو مٹانے اور اس زمین میں خدا کا حکم بلند کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوجائیں۔ سردست تو ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ سب کچھ اس جذبے کی جڑ کاٹ دینے کے لیے کیا جارہا ہے۔ تعلیم وہ دی جارہی ہے جو ایمان کے بجاے شک اور انکار پیدا کرے۔ تربیت وہ دی جارہی ہے جس سے افراد اور سوسائٹی میں وہ برائیاں پھیلیں جنھیں ہر مسلمان جانتا ہے کہ اسلام کے نزدیک وہ برائیاں ہیں۔ اس کے بعد یہ سوال لاحاصل ہے کہ مسلمانوں میں جذبۂ جہاد کیسے پیدا ہوگا۔ موجودہ حالت میں یا تو مسلمان کرائے کا سپاہی (mercenary) بنے گا‘ یا حد سے حد قومی اغراض کے لیے لڑے گا۔ رہے سائنسی ہتھیار اور جنگی چالیں (strategy) تو یہ وہ اسباب ہیں جو جائز اغراض اور ناجائز اغراض سب کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں۔ اگرمسلمان میں سچا ایمان موجود ہو اور اسلام کا نصب العین اس کا اپنا نصب العین بن جائے تو وہ پورے جذبے کے ساتھ تمام وہ قابلیتیں اپنے اندر پیدا کرے گا جو اس زمانے میں لڑنے کے لیے درکار ہیں‘ اور تمام وہ ذرائع اور وسائل فراہم کرے گا جو آج یا آیندہ جنگ کے لیے درکار ہوں۔

چاند اور مریخ اور مشتری پر اترنا اپنی نوعیت کے لحاظ سے کولمبس کے امریکا پر اترنے اور واسکوڈے گاما کے جزائر شرق الہند پر اترنے سے زیادہ مختلف نہیں۔ اگر یہ لوگ مجاہد فی سبیل اللہ مانے جاسکتے ہیں تو چاند اور مریخ پر اترنے والے بھی مجاہدین بن جائیں گے۔

انتظامی امور اور مملکتی نظام (civil administration) میں فوج کا داخل ہونا‘ فوج کے لیے بھی اور ملک کے لیے بھی سخت تباہ کن ہے۔ فوج بیرونی دشمنوں سے ملک کی حفاظت کرنے کے لیے منظم کی جاتی ہے۔ ملک پر حکومت کرنے کے لیے منظم نہیں کی جاتی۔ اس کو تربیت دشمنوں سے لڑنے کی دی جاتی ہے۔ اس تربیت سے پیدا ہونے والے اوصاف خود اپنے ملک کے باشندوں سے معاملہ کرنے کے لیے موزوں نہیں ہوتے۔ علاوہ بریں ملکی معاملات کو جو لوگ بھی چلائیں خواہ وہ سیاست کار (politicians) ہوں یا ملکی نظم و نسق کے منتظم(civil administration)‘ ان کے کام کی نوعیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ ملک میں بہت سے لوگ اس سے خوش بھی ہوتے ہیں اور ناراض بھی۔ فوج کا اس میدان میں اترنا لامحالہ فوج کو غیر ہردلعزیز (unpopular)بنانے کا موجب ہوتا ہے۔ حالانکہ فوج کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ سارے ملک کے باشندے   اس کی پشت پر ہوں اور جنگ کے موقع پر ملک کا ہر فرد اس کی مدد کرنے کے لیے تیار ہو۔ دنیا میں زمانۂ حال کے فوجی انقلابات نے ملکی نظام میں فوج کی شمولیت کو مفید ثابت نہیں کیا ہے‘ بلکہ درحقیقت تجربے نے اس کے برے نتائج ظاہر کر دیے ہیں۔ (مولانا مودودیؒ، رسائل و مسائل ‘ ج ۴‘ ص ۲۵۳-۲۵۶)


کتب کے غیرقانونی ایڈیشن کی اشاعت

س:  ایک معروف عالمی اشاعتی ادارے کی کتب کی قیمتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ ان کی نصابی و دیگر کتب کی مانگ بھی بہت ہے۔ چنانچہ کچھ ناشر مقامی طور پر شائع شدہ ۲نمبر ایڈیشن مارکیٹ میں لاتے ہیں جو مقابلتاً سستا ہوتا ہے جس سے عام آدمی کو فائدہ بھی پہنچتا ہے۔ کیا ایک دکان دار کے لیے ایسی کتب فروخت کرنا جائز ہے؟

ج: جو قوانین شریعت کے خلاف نہ ہوں ان کی پابندی کرنا بھی ضروری ہے۔ قانون کی پابندی معاہدے کی پابندی ہے۔ اس لیے کہ ایک مہذب معاشرے میں حکومت اور عوام کے ہر فرد نے درحقیقت حکومت اور حکومت کا فرد ہونے کی حیثیت سے اس بات کا عہد کیا ہوتا ہے کہ وہ قانون کی پابندی کرے گا۔ کتب کی طباعت و اشاعت کا بھی ایک قانون ہے اور حکومت اور حکومت کے شہری اس قانون پر عمل اور اس کی پاسداری کے پابند ہیں۔ بین الاقوامی قوانین جو قرآن وسنت سے متصادم نہ ہوں‘ان کی پابندی بھی ضروری ہے۔

اس لیے کسی ادارے کی نصابی و غیر نصابی کتب کا بلااجازت طبع کرنا اور فروخت کرنا خلافِ قانون ہونے کی وجہ سے اخلاق اور شریعت کی ہدایات کی خلاف ورزی ہے۔ جو لوگ ۲نمبرکتب شائع کر کے کمائی کرتے ہیں وہ غیرقانونی کام کے ساتھ غیر اخلاقی کام بھی کرتے ہیں۔ کسی بھی اشاعتی ادارے کی کتب کی اشاعت اسی وقت کی جاسکتی ہے‘ جب کہ قانون اس کی اجازت دیتا ہو۔ خلافِ قانون کام کرنے والے ظاہر ہے کہ خفیہ طور پرایسا کرتے ہیں اور وہ خود بھی جانتے ہیں کہ اگر ان کے بارے میں علم ہوگیا تو ان کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ کی نشانی یہ بھی بیان کی ہے کہ گناہ وہ ہے جس سے تیرے دل میں خلش پیدا ہو اور تو اسے لوگوں کے سامنے کرنے کو ناپسند کرے۔ اسی لیے اس ادارے کی کتب شائع کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ وہ باقاعدہ بات چیت کر کے معاملہ طے کریں اور اس کے بعد اس کی اشاعت کریں۔ (مولانا عبدالمالک)


قسطوں پر گاڑی خریدنا

س: آج کل بنک لیز پر (قسطوں میں) گاڑیاں دیتے ہیں۔ ماہانہ ۶ ہزار روپے قسط ادا کرنا ہوتی ہے‘ اور تین سال کی مدت میں پوری ادایگی کرنا ہوتی ہے۔ بنک اس مد میں‘ مروجہ قیمت سے ۵۰ ہزار روپے زاید رقم وصول کرتا ہے۔ اس میں سہولت یہ ہے کہ یک مشت رقم کی ادایگی نہیں کرنا پڑتی‘ نیز دیگر کاروباروں میں بھی نقد اور ادھار قیمت کا فرق رائج ہے۔ کیا بنک کی اس نوعیت کی اسکیم جائز ہے؟

ج:  قسطوں پر گاڑیوں کی قیمت طے شدہ ہو اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے قسطیں بروقت ادا نہ کی جاسکیں تو قیمت میں مزید اضافہ نہ ہو‘ تو ایسی صورت میں گاڑیوں کی خرید وفروخت غیرسودی ہوگی اور غیرسودی ہونے کی وجہ سے ان کی خریداری جائز ہوگی۔ البتہ ایسی شکل میں بہت زیادہ منافع لینا اور بہت زیادہ مہنگی کرکے فروخت کرنا اخلاق حسنہ کے خلاف ہوگا۔ اس صورت میں گاڑی مہنگی فروخت کرنا غیرسودی تو ہے لیکن اتنی زیادہ مہنگی فروخت کرنا کہ سودی منافع کا بدل مہنگا کرکے حاصل کر لیا جائے‘ اگرچہ حرام تو نہیں ہوگا لیکن اس کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کی جائے گی۔ اس لیے کمپنیوں کو مالیت پر چیزیں بہت زیادہ مہنگی کرکے فروخت نہیں کرنی چاہییں‘ نیز اگر بروقت قسطیں ادا نہ کرنے کی وجہ سے قیمت بڑھا دی جائے یا جرمانے کے نام سے رقم لی جائے تو یہ بھی ناروا ہوگا اور سود شمار ہوگا۔ (ع - م)

معینُ القاری شرح صحیح البخاری، مولانا معین الدین خٹکؒ، ترتیب و تخریج: مولانا محمد عارف۔ ناشر: شعبۂ نشرواشاعت‘ جامعہ عربیہ گوجرانوالہ۔ ضخامت: جلداول: ص۳۷۷‘ دوم: ص۴۵۴۔ قیمت فی جلد: ۱۵۰ روپے۔

صحیح بخاری جس طرح کتبِ حدیث میں اَصحّ الکتب بعد کتاب اللّٰہ شمار ہوتی ہے‘ اسی طرح یہ بجاطور پر اَدق الکتب بعد کتاب اللہ بھی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری کی بے شمار شروح میں سے زیادہ مشہور اورممتاز دو شروح ہوئیں ۔ ایک حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانیؒ (م:۵۸۲ھ) کی فتح الباری اور دوسری علامہ بدرالدین محموداحمد العینیؒ (م: ۸۵۵ھ) کی عمدۃ القاری ہے۔ حال ہی میں علامہ مولانا معین الدین خٹکؒ کی معین القاری شرح صحیح البخاری شائع ہوئی ہے۔ یہ مولانا خٹک مرحوم کی تقاریر کیسٹوں سے اتار کر ان کے شاگردِ رشید حضرت مولانا محمد عارف نائب شیخ الحدیث جامعہ عربیہ گوجرانوالہ کی زیرنگرانی اور ان کی کاوش سے مرتب کی گئی ہے۔

یہ صحیح بخاری کی مکمل شرح ہے۔ اس میں حدیث کا مکمل متن اور سلیس اُردو ترجمہ ہے‘ اور یہ ذکر بھی کہ صحیح بخاریمیں ایک حدیث کتنی جگہ آئی ہے۔ صحیح بخاریکی مشکلات کا حل اور ترجمۃ الباب کے تحت ذکر کردہ احادیث سے ترجمۃ الباب کا ربط پوری تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ ترجمۃ الباب کے مباحث و مضامین‘ مستنبط مسائل اور آیات و احادیث کی جامع اورمفصل تشریح‘رُواۃ (حدیث) کے حالات‘ قدیم اور جدید فرق باطلہ اور ان کے فلسفوں اور نظریات پر سیرحاصل روشنی ڈالی گئی ہے۔ نئے اِزموں: سیکولرزم‘ سوشلزم‘ کمیونزم اور نئے فرقوں: قادیانیوں‘ منکرین حدیث اور ان کے مختلف گروہوں: پرویزیوں اور چکڑالولیوں کا عالمانہ مگر عام فہم تعارف وغیرہ۔

اردو اور عربی میں صحیح بخاری کی بہت سی شروح ملتی ہیں۔لیکن معین القاری‘ صحیح بخاری کی ایسی شرح ہے جسے عصرِحاضر میں دستیاب جملہ شروح میں وہی مقام حاصل ہے جو قرآن پاک کی تفاسیرمیں تفہیم القرآن کو حاصل ہے۔

معین القاری کا اندازِ بیان محض علمی اور تحقیقی ہے‘ مناظرانہ نہیں ہے۔ فقہی اختلافات بیان کرتے ہوئے ‘اپنے زمانے کے مکاتب فکر میں سے کسی پر طعن و تشنیع نہیں کی گئی۔ اس لیے تمام مدارس و مکاتب فکر کے علما و طلبہ اورعامۃ المسلمین بلاتردّد اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

ابتدا میں حضرت مولانا معین الدین خٹکؒ اور ان کے استاذ حضرت مولانا فخرالدینؒ کے سوانح اور مقدمے کے ساتھ بدء الوحی کی احادیث کی تشریح دی گئی ہے۔ مقدمے میں حدیث کی تعریفات اوّلیہ اور حجیتِ حدیث (از مولانا محمدعارف)‘ منکرین حدیث کے اعتراضات کا تجزیہ (از مولانا معین الدین خٹکؒ)‘ حدیث کا معیار‘ روایت و درایت‘ حدیث کی اصطلاحات‘ حدیث معنعن‘ حدیث منقطع‘ حدیث معضل‘ حدیث معلق‘ اصح الکتب کے بعد کتاب اللہ کی توضیح‘ مسالک اربعہ میں فرق اور صحاح ستہ کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ گویا اس شرح کی حیثیت انسائی کلوپیڈیا کی ہے۔ یہ نہ صرف دینی اور اسلامی تحریک کے وابستگان‘ بلکہ جدید تعلیم یافتہ طبقے‘ بلکہ دینی مدارس کے اساتذہ‘ صحیح بخاری کے پڑھانے والے شیوخ اورپڑھنے والے طلبہ کے لیے بھی ایک قیمتی تحفہ اور زادِ راہ ثابت ہوگی۔ (مولانا عبدالمالک)


First Things First ] پہلی بات پہلے[ ‘خالد بیگ۔ملنے کا پتا: www.albalaghbookstore.com   صفحات:۴۲۰۔ قیمت: ۲۰ ڈالر‘ پاکستان کے لیے رعایتی قیمت: ۶ سو روپے۔

متلاشی ذہنوں اور مضطرب دلوں کے لیے خالد بیگ کے کالم‘ اب کتابی شکل میں پیش کردیے گئے ہیں۔ وہ یہ کالم  First Thing Firstکے عنوان سے دسمبر ۱۹۹۵ء سے Impact لندن میں لکھ رہے ہیں۔ اس کالم میں عصرحاضر سے متعلق اسلامی موضوعات کا ایک وسیع دائرہ زیربحث آتا ہے۔ بہت سے شائقین کے لیے امپیکٹ کا یہ وہ کالم ہے جس کا وہ بے چینی سے انتظار کرتے اور رسالے میں سب سے پہلے اسے پڑھتے ہیں۔

آج اسلامی معاشرے اپنی شناخت اور سند کی تلاش میں ہیں اور مسلمان اپنی انفرادی زندگیوں میں گمبھیر مسائل کا سامنا کر رہے ہیں‘ یہ کالم اسی پس منظر میں لکھے گئے ہیں۔ خالد بیگ کی حقیقی مہارت ان کی اس صلاحیت میں ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے موجودہ حالات پر   اسلام کے ابتدائی مآخذ سے رہنمائی اخذ کر کے مختصر تبصرے کرتے ہیں۔ فصاحت‘ بے ساختگی   اور اختصار کے ساتھ وہ بڑی خوب صورتی سے مسائل کو اسلامی تناظر میں بیان کرتے ہیں۔  بیرونی اثرات کی پیدا کردہ الجھنوں کو صاف کرتے اور اپنے پڑھنے والوں کو بحیثیت مسلمان اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے بیدار اور متحرک کرتے ہیں۔

خالد بیگ کو درست بات جامعیت سے کہنے کا ملکہ حاصل ہے۔ دوسرے مصنف جو بات کئی درجن صفحات میں کہہ پاتے ہیں‘ وہ انھیں دو تین صفحات میں خوب صورتی سے کہہ دیتے ہیں۔ ان کا غیرجانب دارانہ انداز‘ ٹھہرا ہوا سنجیدہ لب و لہجہ‘ سوچ بچار کی بنیاد پر متوازن آرا اور بصیرت افروز تبصرے‘ یقینا اس کتاب کو قاری کے لیے ایک جذب کرنے والا اور مالا مال کرنے والا تجربہ بنا دیتے ہیں۔ ان کالموں کے چند عنوانات : قرآن‘ رسولؐ سے محبت‘ عبادات‘ اسلام ہی حل ہے‘ انتخاب آپ کو کرنا ہے‘ ذاتی اصلاح‘ عورت اور خاندان‘ تعلیم‘ اتحاد‘ بہائو کی مزاحمت‘ تاریخ‘ ایک نظر وغیرہ‘ کل ۸۱ کالم ہیں جن میں سے ۲۰ ذاتی اصلاح کے موضوع پر ہیں۔

مصنف کے بقول یہ کالم لکھنے میں انھوں نے مولانا اشرف علی تھانویؒ، مولانا ابوالحسن  علی ندویؒ، مولانا منظورنعمانیؒ، مفتی محمد شفیعؒ، مفتی تقی عثمانی اور بعض دوسرے علما کی تحریروں سے استفادہ کیا ہے۔ بعض کالم تو اردو سے براہ راست تلخیص کیے گئے ہیں۔

یہ کالم بہت مقبول ہوئے ہیں۔ اسپینی‘ ملائی‘ فرانسیسی‘ بوسنی اور اردو زبان میں ترجمے کیے گئے ہیں۔ انگلش میڈیم اسکولوں میں بھی انھیں مفید پایا گیا ہے۔(مسلم سجاد)


حقائق اسلام‘ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی‘ ڈی-۳۰۷‘ دعوت نگر‘ ابوالفضل اینکلیو‘ جامعہ نگر ‘ نیودہلی-۱۱۰۰۲۵‘ بھارت۔ صفحات: ۲۱۶۔ قیمت: ۵۰ روپے

جس لمحے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفا پر چڑھ کراسلام کی دعوت پیش کی‘ اسلام پر اعتراضات کاسلسلہ اسی وقت سے شروع ہوگیا۔ اعتراضات گوناگوں تھے حتیٰ کہ قرآن پاک اور رسولؐ اللہ کی ذات گرامی بھی اعتراضات کا ہدف بنی۔ حقائق اسلام میں مصنف نے ہر طرح کے اعتراضات کے مختصر شافی جواب دیے ہیں۔ مسلمانوں کے معاشرے میں رہنے والوں کو تو بہت کم ان اعتراضات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن غیرمسلم معاشروں کے مسلمانوں کو ان اعتراضات سے روزمرہ واسطہ پیش آتا ہے۔

کیا قرآن واقعی اللہ کا پیغام ہے؟ رسول کریمؐ کی ازواج کی تعداد‘ حضرت زینبؓ سے نکاح ‘ حضرت عائشہؓ کی عمر ‘حج میں قربانی دولت کا ضیاع ہے‘ پردہ بے جا پابندی ہے اور بھارت کے خصوصی پس منظر میں گوشت خوری پر اعتراضات اور حیوانات کے حقوق جیسے موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ یقینا یہ ایک مفید اور ضروری کتاب ہے۔ مصنف نے ابتدا ہی میں لکھ دیا ہے کہ اعتراضات کا سبب اسلام سے ناواقفیت‘ مسلمانوں کی بے عملی اور جھوٹا پروپیگنڈا ہے۔ تدارک کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان اسلام کا سچا نمونہ بنیں‘ غیرمسلموں سے ربط بڑھائیں اور اعتراضات کا جواب دیں۔ (م - س)


اصلاح کے سات رنگ‘ نگہت ہاشمی۔ ناشر: النورانٹرنیشنل‘ ۱۰۳- سعیدکالونی نمبر۱‘ کینال روڈ‘ فیصل آباد۔ صفحات: ۱۳۰۔ قیمت: درج نہیں۔

رمضان المبارک کے ۳۰ دنوں کے لیے‘ یہ روزانہ کا ایک دستور العمل ہے۔ دراصل یہ  نگہت ہاشمی کے لیکچر ہیں جو رمضان کی مختصر تربیتی کلاسوںمیں دیے گئے۔ ان کی افادیت و مقبولیت اور فوائد و ثمرات کے پیشِ نظر ان لیکچروں کی طلب بڑھی‘ اور فوٹوکاپیاں مہیاکرنا مشکل ہوگیا‘ تو اب انھیں مرتب کرکے شائع کر دیا گیا ہے۔ ہر روز کے لیے قرآن کی ایک آیت (یا قرآن کے بارے میں ایک مختصر حدیث)‘ ایک دعا‘ وضو‘ نماز میں خضوع و خشوع اور اخلاق و انفاق کے لیے ہدایت--- آخر میں ’’آج کیا کریں‘‘ کے تحت ۲‘۳ کام کرنے کا عزم--- ہر عنوان کے تحت واضح نکات۔

رمضان میں ان ۳۰ اسباق کا اجتماعی مطالعہ‘ نیز گھروں میں بچوں کے ساتھ مل کر پڑھنا‘ ان ہدایات کی عملی صورتوں کا راستہ نکالنا‘ دعا یاد کرنا وغیرہ باعثِ افادیت ہوگا۔ (رفیع الدین ہاشمی)


کالم نگر‘ اشرف بخاری۔ ناشر: دارالتذکیر‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۹۷۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

مصنف طویل عرصے تک درس و تدریس سے وابستہ رہے ہیں اور انھوں نے بطور پرنسپل‘ ڈائرکٹر تعلیمات اور صدر نشین تعلیمی بورڈ ایبٹ آباد بھی خدمات انجام دی ہیں۔ تدریسی اور انتظامی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ بخاری صاحب نے قرطاس و قلم سے بھی اپنا رشتہ بڑی خوبی سے نبھایا ہے۔ یہ بظاہر تو اخباری کالم ہیں اور فرمایش پر یا اشاعتی تقاضوں کی تعمیل میں لکھے گئے‘ لیکن درحقیقت یہ غوروفکر کی دعوت سے لبریز سندیسے ہیں۔

مصنف نے تاریخ‘ دانش‘ حرکت پذیری اور عبرت آموزی کو پہلو بہ پہلو لاکھڑا کیا ہے۔ ان میں سیاسیاتِ وطن سے لے کر سیاسیاتِ عالم تک کے رنگ ہیں۔ بخاری صاحب نے تواریخ و ادبیات کی پرپیچ وادیوں کی نشان دہی کی ہے۔ ان کے ہاں ہمیں حب الوطنی کی ایک متوازن لہر ملتی ہے۔

چند جملوں سے کتاب کے لہجے سے شناسائی حاصل کرنا آسان ہوسکتا ہے:

  • ’’شاہ بھٹائی کے رسالے میں صرف ایک سطر سندھ کے بارے میں ہے کہ خداے مہربان! سندھ ہمیشہ سرسبز و شاداب رہے۔ پورے رسالے میں اہل سندھ کے درد کی عکاسی ضرور ہے‘ لیکن کوئی نعرہ بازی نہیں‘‘ (ص ۳۲۶)۔
  • ’’قائداعظم… حسنِ کردار کا نقشِ جمیل تھا۔ راست گو‘ راست فکر‘ دیانت و امانت کی چلتی پھرتی تصویر‘ مالی معاملات میں امکانی حد تک محتاط‘ نظم و ضبط کا پیکر‘ نہ بکنے والا نہ جھکنے والا‘ نہ دروغ باف نہ الزام تراش‘ نہ روباہ صفت نہ اقتدار پرست‘ نہ بڑھک باز‘ نہ اسیرِنرگسیت‘‘ (ص۱۱۵)۔
  • ] قائداعظم[ ’’نے ثابت کر دیا کہ سیاست جھوٹ‘ منافقت اور فریب دہی کے بغیر بھی ہوسکتی ہے‘‘۔ (ص ۱۱۷)۔
  • ’’فرزندانِ کشمیر جس کربلاے جدید سے آج گزر رہے ہیں‘ کون اس کے پس منظر سے ناواقف ہے؟ دنیا کا ہر باضمیر معاشرہ چیخ اٹھا ہے… لیکن ہماری ادیب برادری… اپنے برج عاج میں بیٹھی کاغذی پھولوں سے دل بہلا رہی ہے… جس کا سارا زورِ تخیل آج بھی ان کافوری شمعوں کا اسیر ہے جو اپنے ہی دیس میں گل ہوگئی ہیں‘‘ (ص ۱۳۷‘ ۱۳۸) وغیرہ۔

اگر مناسب پیراگراف بناتے ہوئے‘ ہرمضمون کے آخر میں تاریخ اشاعت بھی درج کردی جاتی تو مضمون کا پس منظر جاننا آسان ہو جاتا۔ بہرحال یہ چھوٹے چھوٹے مضامین عمدہ اسلوب میں اور دل کش انداز سے کسی اہم نکتے کی طرف توجہ دلاتے اور عمل پر ابھارتے ہیں۔ (سلیم منصور خالد)


زمانہ اس کو بھلا نہ دے‘ محمود عالم ‘ مرتب: محمد یوسف بیدری۔ تقسیم کار: اردو بک ریویو‘ میٹروپول بلڈنگ‘ دریا گنج‘ نئی دہلی-۱۱۰۰۰۲۔ صفحات: ۲۰۸۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

دیباچہ نگار ڈاکٹر احمد یوسف نے کتاب کو خاکوں کا مجموعہ قرار دیا ہے۔ بلاشبہہ بعض شخصیات کا ذکر اس حسن و خوبی سے کیا گیا ہے (خصوصاً کتاب کے آخری حصے میں) انھیں خوب صورت خاکوں میں شمار کیا جاسکتا ہے‘ لیکن زیادہ تر ایک ایک‘ دو دو صفحاتی شخصی تعارف ہیں۔ بعض تو بالکل ہی مختصر بلکہ سرسری‘ نصف صفحہ یا اس سے بھی کم‘ (ایک صاحب کا ذکر فقط پانچ سطروں میں ہے۔ اس کتاب کو شخصیات کا تذکرہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔

ایک لحاظ سے یہ کتاب ’’یاد نگاری‘‘ کا نمونہ ہے۔ مصنف نے جن بزرگوں‘ اساتذہ‘ دوستوں‘ عزیزوں یا ہم کاروں سے کسی مرحلے پر اکتساب و استفادہ کیا‘ ان سے متاثر ہوئے (یا کچھ زیادہ تاثر نہیں بھی لیا) تو بلاکسی ترتیب کے اور بیش تر صورتوں میں کسی تمہید کے بغیر‘ ان کے بارے میں جو بات ذہن میں آئی‘ لکھتے چلے گئے۔ تواریخ (ولادت یا وفات) وغیرہ سے یہ تذکرہ ’’پاک‘‘ ہے۔ کسی شخص کا ذکر اچانک شروع ہوتا ہے اور ختم بھی اچانک ہوتا ہے۔

مصنف نے مجموعی طور پر افراد و اشخاص کی خوبیوں اور نیکیوں کا ذکر کیا ہے۔ انداز و اسلوب بے تکلفانہ اور کہیں بے باکانہ ہے۔ یہ بے باکی بعض اوقات نشترزنی کی حد تک جاپہنچتی ہے اور بعدازاں مصنف اپنی غلطی پر نادم ہوتے ہیں۔

ان خاکوں یا شخصی تذکروں سے سب سے اچھی‘ مفصل اور سچی تصویر خود مصنف کی اپنی بنتی ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے کہیں کہیں احساس ہوتا ہے کہ یہ محمود عالم صاحب کی اپنی یادداشتوں کا مجموعہ ہے۔ اگر کتاب کو خود مصنف ہی مرتب کرتے تو کیا حرج تھا؟ (ر - ہ )


سفر بلادِ غرب کے‘ محمد صغیرقمر۔ ناشر: منشورات‘ منصورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۲۲۳۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

سفرنامہ اب محض رودادِ سفر نہیں رہا‘ بلکہ سفرنگاروں نے جغرافیے کے ساتھ تاریخ اور مختلف معاشروں کے ماحول اور ان کی نفسیات کا ذکر شامل کر کے‘ سفرنامے کو ایک دل چسپ صنفِ ادب بنا دیا ہے۔ زیرنظر سفرنامہ اسی ذیل میں آتا ہے۔ صغیرقمر نے عمیق مشاہدات کو ایک بے ساختہ اسلوب میں پیش کر کے رودادِ سفرکو سفرنامے کا روپ دیا ہے۔

مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر روشناس کرانے کے لیے سردار اعجاز افضل خان‘ پروفیسر نذیراحمد شال اور صغیرقمر پر مشتمل ایک سہ رکنی وفد نے پانچ ملکوں کا دورہ کیا۔ اس دورے میں پاکستانیوں اور کشمیریوں سے خطاب کیا‘ ملاقاتیں کیں اور بعض مقامی دانش وروں اوربااثر افراد سے مل کر ان پر مسئلہ کشمیر کی اہمیت واضح کی۔ یوں یہ کتاب ایک بڑے مقصد کے لیے کیے گئے جرمنی‘ ناروے اور اسپین کے اسفار کی روداد پر مشتمل ہے۔ یہ مقصد ہی اُسے دیگر سفرناموں سے ممتاز کرتا ہے۔ (پیش لفظ میں بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب اور سویڈن بھی گئے تھے۔ پھر ان کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا؟ کم از کم سویڈن کا ذکر تو ناروے کے ساتھ ہی مناسب تھا)۔

صغیر قمر‘ زیرِسیاحت ممالک کے ماحول و معاشرت کا تجزیہ کرتے ہوئے‘ ان ممالک کی تاریخ پر بھی نظرڈالتے ہیں۔ اس لیے ہر منظر پورے پسِ منظر کے ساتھ مجسم ہوکرسامنے آجاتا ہے۔ اسپین کے احوال میں مصنف کے اپنے مشاہدات کم ہیں اور تاریخی احوال نگاری زیادہ ۔(عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


جریدہ ۲۷،مرتبہ: سید خالد جامعی۔ ناشر: شعبۂ تصنیف و تالیف وترجمہ‘ جامعہ کراچی۔ صفحات: ۴۹۸۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

ہماری جامعات میں تحقیقی جریدوں کی روایت بہت مضبوط نہیں ہے۔ ماضی بعید میں جامعہ کراچی کے شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ نے ایک رسالہ جریدہ کے نام سے جاری کیا تھا‘ ۱۷سال کے بعد ڈاکٹر معین الدین عقیل کے دورِ نظامت میں دوبارہ جاری ہوا۔ اب خالد جامعی اسے مرتب کر رہے ہیں۔ زیرتبصرہ شمارہ ۲۷ ’’چہ دلاور است‘‘ کے عنوان سے مشرق و مغرب میں سرقہ بازی کی تاریخ کے پُرلطف‘ دل چسپ اور انکشافات سے پُر بیانات پر مشتمل ہے۔ اس سے قبل اسی طرح کے ’’قدیم لسانیات و کتبات نمبر‘‘، ’’ادبیات نمبر‘‘اور ’’فلسفہ لغت نمبر‘‘ شائع ہوئے ہیں۔ ایک خاص شمارہ واحدمسلمان اور پاکستانی ماہرِآثار قدیمہ و تاریخ مولانا ابوالجلال ندوی کے تحقیقی مضامین پر مشتمل ہے۔

زیرتبصرہ سرقہ نمبر اردو کے کسی عام قاری کی آنکھیں کھول دینے والا ہے۔ ۱۹۵۶ء میں ماہنامہ مہرنیم روز نے اس سلسلے کا آغاز کیا کہ ہر ماہ کسی ایک سرقے کا انکشاف کرے۔ یہ تاریخی سلسلہ‘ علم و ادب کے صنم خانے میں تکبیر بن کر گونجتا رہا۔ اس سلسلے میں لکھنے والوں میں   دو نام نمایاں ہیں: سید حسن مثنیٰ ندوی اور سید ابوالخیر کشفی۔ تمام مضامین میں تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے سرقہ ثابت کیا گیا ہے۔ بہت سے اہم نام ہیں۔ ابوالکلام آزاد‘ عصمت چغتائی‘ مولوی عبدالحق اور ڈاکٹر میر ولی الدین۔ نیاز فتح پوری نے ہیولاک ایلس کی پوری کتاب ترجمہ کر کے بہ عنوان: ترغیبات جنسی اپنے نام سے شائع کردی۔ نیاز فتح پوری کا‘ اُردو ادب میں بڑا نام ہے‘ مگر دوسروں کی چیزیں اپنے نام سے شائع کرنا انھیں خاصا مرغوب رہا۔ مرتب نے لکھا ہے کہ ۲۰ویں صدی کے سرقوں کی اقسام کو اس شمارے میں شامل نہیں کیا گیا‘ مثلاً دوسرے محققین کے مسودات چوری کر کے اپنے نام سے شائع کرا لینا‘ دوسرے محققین کی عسرت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اونے پونے داموں پر مسودات خرید لینا‘ مختلف ناشرین اور اداروں کے پاس طباعت کے لیے آنے والے مسودوں کا مطالعہ کر کے اُسی موضوع پر اصل کتاب کی طباعت سے پہلے‘ ایک نئی کتاب شائع کرالینا‘ طلبا و طالبات کی تحقیق اپنے نام سے شائع کرالینا‘ اس کے علاوہ سرقے کے جدید ترین طریقے وغیرہ۔ جریدہ کے خصوصی نمبروں نے جامعہ کے اس شعبے کو پاکستان کی علمی دنیا میں اہم مقام دلوا دیا ہے۔ یہ شعبہ اپنی کارکردگی کے لحاظ سے دوسرے میدانوں میں بھی نمایاں ہے اور مفید خدمات انجام دے رہا ہے۔ محققین ‘ اساتذہ اور اہل علم ۵۰ فی صد رعایت پر یہ شمارہ حاصل کرسکتے ہیں۔(م - س)


سیارہ سالنامہ ۲۰۰۴ئ‘ مدیر: حفیظ الرحمن احسن۔ پتا: ایوان ادب‘ چوک اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۰۸۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

’’رنگ چمن کیا ہے؟‘‘ کے عنوان سے جناب مدیر نے بڑی دردمندی اور دل سوزی کے ساتھ ہمارے علمی زوال اور تعلیمی پستی پر اظہار رنج و افسوس کیا ہے‘ اور اس کے ساتھ ہی نظام تعلیم کی بے مقصدیت اور ابتری کے مہلک اثرات اور نئی نسل کی بے راہ روی اور اخلاقی شکست و ریخت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ: کیا یہ وقت نہیں کہ ہمارے ادبا اور شعرا اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے اپنی قوم کے نوجوانوں کو بے مقصدیت اور بے راہ روی بلکہ   کج روی کی تاریکیوں سے نکالنے کا فریضہ سرانجام دیں؟ یہ سوال ایک طرح کی دعوتِ فکر ہے اور اقدام کے لیے ایک نہایت مثبت اور مناسب تجویز بھی۔

سیارہ کے اس سالنامے میں‘ جو کئی مہینوں کے طویل وقفوں کے بعد منظرعام پر آیا ہے‘ ایسی معیاری تخلیقات شامل ہیں جو اس ادبی مجلے کی پہچان ہیں۔ حمدونعت‘ نظمیں‘ مقالات‘ رفتگان کا تذکرہ‘ غزلیں‘ خاکے‘ افسانے اور کتابوں پر تبصرے اور خصوصی مطالعے (مقالات‘ سارے کے سارے شعرا پر ہیں)۔ رئیس احمد نعمانی کا ’’سلام بہ حضور خیرالانامؐ،، اُمت کے حالات پر اچھا تبصرہ ہے۔ بعض تحریریں قندِمکررکے طور پر شامل کی گئی ہیں۔ مختصر یہ کہ یہ شمارہ ہمیں اپنے دور کے اچھے لکھنے والوں سے اور معاصر ادبی رجحانات سے روشناس کراتا ہے۔(ر-ہ)


تعارف کتب

  • افاداتِ شاہ ولی اللہ دہلوی (حصہ اول)‘ سید وصی مظہر ندوی۔ ناشر: مکتبہ صداے عام‘ حیدرآباد‘ سندھ۔ صفحات: ۱۲۷۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔ ] شاہ ولیؒ اللہ کے مختصرسوانح حیات اور حجۃ اللّٰہ البالغہ کی روشنی میں اسلامی عقائد و تعلیمات کا بیان۔ عام فہم زبان۔ شاہ صاحب کے علمی وعملی کارناموں پر مولانا مودودیؒ کا جامع تبصرہ بھی شامل ہے۔[
  • میاں بیوی کے حقوق و فرائض‘ مفتی حافظ محمد حسام الدین شریفی۔ ناشر: مرکزی انجمن سہروردیہ‘ ایف۱۳۷‘ سنٹرل ایونیو روڈ‘ ایس آئی ٹی ای‘کراچی‘۷۵۷۳۰۔ صفحات:۱۲۸۔ قیمت: ندارد۔] اسلام کا تصورِ عقد‘ خطبۂ نکاح‘ مہر‘ ولیمہ‘ وغیرہ اور ازدواجی زندگی کی اونچ نیچ اور فریقین کے حقوق و فرائض کا قرآن و سنت کی روشنی میں مختصرمگر جامع بیان ۔[
  • اسلامی طبی اخلاقیات‘ مصنف کا نام درج نہیں۔ ناشر: پیما پبلی کیشنز‘ لاہور۔ صفحات: ۹۶۔ قیمت:۴۰ روپے۔] طبی پیشے کے متعلقین (ڈاکٹروں‘ نرسوں اور دیگر معاون عملے ) کے لیے قرآن و سنت کی روشنی میں ایک ضابطہ ء اخلاق (خوش اخلاقی‘ بے لوثی‘ رازداری‘ سچی گواہی‘ غصے سے پرہیز‘ مریض کی اخلاقی تربیت‘ وقت کی پابندی‘ حرام ادویہ سے پرہیز وغیرہ)‘ اپنے موضوع پر ایک جامع‘ عمدہ اور بہت اچھی کتاب۔ تعجب ہے کہ مصنف کا نام ندارد۔[
  • شرح شمائل ترمذی‘ دوم۔ مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی‘ جامع ابوہریرہ‘ خالق آباد‘ نوشہرہ‘ صوبہ سرحد۔ صفحات: ۵۸۲۔ قیمت: درج نہیں۔] شمائل ترمذی کی تفصیلی درسی شرح پہلی جلد (تعارف: ترجمان القرآن‘ اپریل ۲۰۰۳ئ) کے بعد اب جلد دوم آئی ہے۔ متنِ حدیث مع اسناد‘ اعراب کا اہتمام‘ تعلیقات‘ راویانِ حدیث کے مختصر تذکرے‘ دوسری کتبِ حدیث سے استفادہ‘ اسلوب سادہ۔[
  • امریکا کا زوال‘ محمد صالح مغل۔ پتا: نعمانی کتب خانہ‘ حق سٹریٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۲۹۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔] مصنف کے خیال میں امریکا کے زوال کی ابتدا ہوچکی ہے‘ امریکا کے اقتصادی‘ فنی‘ جنگی نقصانات کی تفصیل‘ اُمت مسلمہ کو ملیامیٹ کرنے کا صہیونی منصوبہ۔ صلیبیوں کے اہداف اور مظالم وغیرہ۔[
  • انسان اور شیطان‘ حافظ مبشرحسین لاہوری۔ ناشر: مبشراکیڈمی لاہور۔ صفحات: ۲۴۷۔ قیمت: ۹۰روپے۔]قرآن و سنت کی روشنی میں شیطان کی حقیقت‘ اس کے وجود کے جواز‘ انسان سے اس کے تعلق‘ ابلیس اور عام شیطان کے تعلق کی وضاحت اور شیطان کی گمراہیوں سے بچائو کی تدابیر۔[
  • یہود‘ انبیا کے قاتل اورانسانیت کے دشمن‘ یوسف عبدالرحمن۔ مترجم: راشد حامدی۔ ناشر: المنار پبلشرز‘  ۱۵/۵۲ بلند اپارٹمنٹ‘ بٹلا ہائوس‘ جامعہ نگر‘ نئی دہلی ۲۵۔ صفحات: ۶۳۔ قیمت: درج نہیں۔ ] دنیا پر یہودیوں کے تسلط کے موضوع پر معلومات افزا کتابچہ۔ مصنف حکومتِ کویت کی ’’عوامی کانفرنس براے مزاحمتِ اسرائیل‘‘ کے رکن ہیں۔ یہودی تاریخ اور اُمت مسلمہ کے خلاف ان کی ریشہ دوانیوں کا تذکرہ[۔

خالد محمود ‘لاہور - عبدالمتین اخوندزادہ ‘ کوئٹہ

رمضان المبارک کے موقع پر ترجمان القرآن میں خصوصی اہتمام کی روایت رہی ہے۔ اس دفعہ ’’حقیقت سجدہ‘‘ اور تراویح پر مولانامودودیؒ کے جواب کے علاوہ کوئی خاص تحریر نہ تھی‘ بہت کمی محسوس ہوئی۔


ڈاکٹر راشد محمود‘ لاہور

’’سرحد میں نظامِ صلوٰۃ: برکات وامکانات‘‘ (اکتوبر۲۰۰۴ئ) سے نظام صلوٰۃ کے مختلف پہلو بالخصوص اصلاح معاشرہ کے لیے تحریکی پہلو اجاگر ہوکر سامنے آیا۔ ضرورت ہے کہ نظامِ زکوٰۃ پر بھی اس نوعیت کی تحریر شائع کی جائے۔


غلام حیدر ‘ ایبٹ آباد

’’مغربی تہذیب کی یلغار‘‘ (ستمبر ۲۰۰۴ئ) میں تجزیہ بالکل درست ہے لیکن درپیش مسائل کے حل کے لیے مطلوبہ لائحہ عمل کی نشان دہی بھی ضروری ہے۔ عوامی جدوجہد کے ذریعے اسلامی قیادت کو سامنے لانے میں شدید مسائل کا سامنا ہے۔ بیشتر اسلامی ممالک میں آمریت مسلط ہے اور انتخابات کی نوبت ہی نہیں آتی۔ اگر ہوں‘ جیسے ہمارے ملک میں تومنصفانہ نہیں ہوتے۔ حکومت‘ وڈیرے‘ سرمایہ دار اور دیگر مفادات یافتہ عناصر بڑی رکاوٹیں ہیں۔ اگر کہیں انتخابات کے ذریعے اسلامی تحریک کو آگے آنے کا موقع مل جائے‘ جیسا کہ الجزائر میں ہوا تو فوج مداخلت کر کے راستہ روک دیتی ہے۔ اخوان المسلمون اور دیگر اسلامی تحریکوں پر ڈھائے جانے والے وحشیانہ مظالم بھی اس راہ کی رکاوٹ ہیں۔ آخر تبدیلی آئے تو کیسے؟ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت سے  بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ ان موضوعات کے حوالے سے مختلف ممالک کے مشاہداتی و تحقیقی مطالعوں کی ضرورت ہے۔ اسلامی تحقیقی ادارے توجہ کریں تو خدمت ہوگی۔


فیض الکبیر ‘ دیر (سرحد)

’’تصنیفی تربیت کا ایک تجربہ‘‘ (ستمبر ۲۰۰۴ئ) پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ ہمارے مربین‘ محققینِ اسلام کی تیاری و تربیت پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ یہ کام واقعی بہت اہم اور ضروری ہے۔ جماعت اسلامی ابتداً ایک    علمی تحریک کی شکل میں سامنے آئی اور خود امیرکارواں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور بانی ارکان نامور اہل علم تھے۔  قحط الرجال کے اس دورمیں واقعی ایسے دانشورانِ اسلام کی ضرورت ہے جو اسلام کی صحیح ترجمانی کریں اور  مغرب کے مخالف اسلام پروپیگنڈے کا مؤثر جواب دے سکیں۔


ڈاکٹر ممتاز احمد ‘ ہیمپٹن یونی ورسٹی ورجینیا‘ امریکا

’’دارفور: سوڈان میں امریکی مداخلت‘‘ (اگست ۲۰۰۴ئ) کا مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے جیسا کہ عبدالغفار عزیز صاحب نے پیش کیا ہے۔ یہ بہت پیچیدہ مسئلہ ہے اور اس سے گلوخلاصی کرانا آسان نہیں۔ یہ بجا ہے کہ بعض مغربی حکومتوں کا جذبۂ انسانیت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ان کے اپنے مقاصد کارفرما ہیں لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ دارفور کے خطے میں مارچ سے ۷۰ ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور لاکھوں بے گھر۔ اور اس سانحے کی بڑی ذمہ داری حکومت پرآتی ہے۔ جنجاوید تو ٹھگوں کا گروہ ہیں۔ میرے سوڈانی دوست جو حالات سے واقف ہیں‘ وہ بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ڈاکٹر حسن ترابی بھی۔

  • عبدالغفار عزیز: ہم بالکل انھی الفاظ میںیہ بات امریکی سرکاری ذرائع سے بھی سن چکے ہیں۔ ڈاکٹر ترابی صاحب کا بھی یہی موقف ہے۔ اسی لیے حکومت سوڈان ترابی صاحب کو بھی بحران کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب قرار دیتی ہے۔ رہے اعداد و شمار تو ان میں بہت تفاوت ہے۔ سوڈان اور واشنگٹن بہت فاصلے پر ہیں۔

تنازع یا تعاون؟

فلسفۂ ارتقا کا تیسرا اصول یہ پیش کیا گیا ہے کہ زندگی کا ارتقا تنازع(struggle) ہی کے   بل پر ہوتا ہے۔ یہ اصول بھی دراصل حیوانی زندگی سے اخذ کیا گیا تھا۔ لیکن آگے چل کر اسے انسانی زندگی پر بھی پھیلا دیا گیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ تمدنی ارتقا کا فلسفہ جس دور میں مدون ہوا‘ اس دور میں انسان عملاً حیوانات کی سطح پر گرچکا تھا۔ وہ اپنی حقیقی امتیازی حیثیت‘ یعنی اپنی اخلاقیت اور ذمہ داری کو بھول گیا تھا اور اپنے اوپر کسی اقتداربالادست کی موجودگی کا قائل نہیں تھا۔ زندگی بعدالموت کا منکر ہونے کی وجہ سے اس نے لذت اندوزی اور خواہش پرستی کو مقصدِحیات ٹھیرا لیا تھا اور اجتماعیت کے بجاے وہ انفرادیت کی طرف جھک پڑا تھا۔ مختصر یہ کہ اس میں اور ادنیٰ حیوانات میں بجز اس کے کچھ فرق نہیں تھا کہ یہ اپنی خواہشات کی غلامی کرنے میں اپنے عقلی قویٰ کی مدد سے کچھ زیادہ کارہاے نمایاں دکھا رہا تھا۔ اس بنا پر  ہم یہ سمجھتے ہیں کہ علماے مدنیات نے انسان کو اگر حیوانات کے ساتھ ملا کر اس کا مطالعہ کیا تو وہ کچھ زیادہ غلطی پر نہ تھے۔ ان کی غلطی اگر تھی تو یہ تھی کہ انھوں نے ایک غیرفطری حالت کو فطری حالت قرار دے لیا اور انسان نے جو اجتماعی امراض پیدا کرلیے تھے انھیں علاماتِ صحت سمجھ لیا۔

اس غلط اندیشی سے یہ تصور پیدا ہوا کہ جس طرح ایک بیل ہری ہری گھاس کے لیے دوسرے بیل سے لڑجاتا ہے اسی طرح انسان کو ایک دوسرے سے نوالے چھیننے چاہییں۔ پھر جس طرح چیتوں کی ایک ٹولی جس جنگل میں چاہتی ہے‘ شکار کرتی پھرتی ہے۔ اسی طرح انسانی گروہوں کو بھی بین الاقوامی سیاسی صیادی کرتے پھرنا چاہیے۔ انسان کا گویا فطری منصب ہی یہ قرار پایا کہ وہ بحیثیت ِ فرد افراد سے الجھا رہے اور طبقات اور اقوام کی شکل میں منقسم ہونے کی حیثیت سے دوسرے طبقات اور دوسری اقوام سے متصادم رہے‘ ورنہ وہ ارتقا نہیں کر سکتا‘ بلکہ اس کی بقا تک ممکن نہیں ہے۔

زندگی کا کتنا یک رخا مطالعہ تھا۔ ان لوگوں نے زندگی میں تنازع کے اصول کی کارفرمائی تو دیکھ لی مگر یہ ’’توافق للبقا‘‘ (co-operation for existence)کے اصول کو نہ دیکھ سکے جو سورج سے زیادہ نمایاں تھا۔ توافق للبقا کی اصطلاح سے شاید آپ اُپرا رہے ہوں کہ یہ کیا بلا ہے مگر یہ اتنی عام اور صریح حقیقت ہے کہ کششِ زمین کی طرح محض پیش پا افتادہ ہونے کی وجہ سے کسی کو محسوس نہ ہوئی۔ اس کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا کافی ہے کہ اس کے بغیر تمدن کی گاڑی ایک انچ بھی نہیں چل سکتی۔ نہ صرف یہ کہ مدنیت کا محل اسی  سنگِ اساس پر کھڑا ہے‘ بلکہ کائنات کی توافق کی شاہ راہ پر اپنی منزلِ تکمیل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ (توافق للبقا‘   نعیم صدیقی‘ ترجمان القرآن‘ جلد۲۵‘ عدد ۵-۶‘ ذی القعدہ‘ ذی الحجہ ۱۳۶۳ھ‘ نومبر‘ دسمبر۱۹۴۴ئ‘ ص ۴۷)