افراد کی کامیابی اور ناکامی‘ فوجوں کی فتح و شکست‘ قوموں کے عروج و زوال‘ حکومتوں کے بنائو اور بگاڑ اور تہذیبوں کے غلبے اور پسپائی کے کچھ اٹل ‘طبعی اور اخلاقی قوانین ہیں جن کی کارفرمائی زندگی کے ہر میدان اور تاریخ کے ہر دور میں دیکھی جا سکتی ہے۔ کچھ لوگوں کی نگاہیں صرف طبعی عوامل پر مرکوز ہوتی ہیں لیکن بالآخرطبعی عوامل کی تنگ دامانی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ کچھ دوسرے افراد صرف اخلاقی عوامل کی بات کرتے ہیں لیکن یہ بھی تصویر کا صرف ایک رخ دیکھتے اور پیش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک طبعی اور اخلاقی دونوں عوامل کا مکمل اور مربوط ادراک نہ ہو حقیقت پر پوری گرفت ممکن نہیں___ اسی طرح حالات کا ہر وہ تجزیہ نامکمل ہوگا جو صرف فوری عوامل اور اثرات تک محدود ہو اور جس میں نہ حقیقی اسباب کا صحیح ادراک ہو اور نہ مستقل اور دیرپا نتائج کا شعور۔ افغانستان میں بہ ظاہر امریکہ کو فوجی کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن فی الحقیقت اسے تاریخ کی بدترین اخلاقی شکست ہوئی ہے۔ طالبان کی حکومت ختم کر دی گئی ہے اور ان کی بے سروسامانی‘ سیاسی تدبر کی کمی اور عسکری حکمت عملی کی خامیاں تو بیان کی جا سکتی ہیں لیکن اپنے اصول اور روایات کی پاس داری کے باب میں ان کی اخلاقی برتری سے انکار ناممکن ہے۔
افغانستان پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوج کشی کا پہلا مرحلہ اب مکمل ہوا چاہتا ہے۔ ۱۱ ستمبر کے واقعات نے جس طوفان کو جنم دیا تھا اور جس نے ۷ اکتوبر کو افغانستان کو اپنے شعلوں کی لپیٹ میں لے لیا تھا وہ ایک غریب‘ تباہ شدہ اور بدنصیب مگر غیرت مند ملک کو تقسیم کرنے کے بعد اپنی کامیابی کے شادیانے بجاتے ہوئے نئے سے نئے شکاروں کی تلاش میں کروٹیں لے رہا ہے۔ طالبان کی حکومت کو ختم کر کے امریکہ نے بون مذاکرات کے ذریعے ایک نیا سیاسی بندوبست قائم کر دیا ہے جسے وہ اپنے نقشے کے مطابق تصور کرتا ہے اور اسے اپنے اور اپنے اتحادیوں کی عسکری قوت کے سایے میں مستحکم کرنے کی اُمید رکھتا ہے۔ طالبان کی قوت بہ ظاہر منتشر ہو گئی ہے‘ اسامہ بن لادن ابھی تک عسکری اور سیاسی غلبہ پانے والوں کی گرفت سے باہر ہیں لیکن ان کی القاعدہ تنظیم کے کچھ مجاہد خاک و خون میں لوٹ چکے ہیں اور دربدر ہیں۔ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ جنرل کولن پاول فخر سے اعلان کر رہے ہیں کہ: ہم نے افغانستان میں القاعدہ کو تباہ کر دیا ہے اور دہشت گرد سرگرمیوں کی پناہ گاہ کی حیثیت سے افغانستان کے کردار کو ختم کر دیا ہے۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘(آئی ایچ ٹی)‘ ۱۷ دسمبر ۲۰۰۱ء)۔ امریکی سیکرٹری دفاع خود اپنے تباہ کردہ کابل پر شاہانہ نزول کے موقع پر نہ صرف فتح کے شادیانے بجا رہے ہیں اور اعلان کر رہے ہیں کہ ہم نے دہشت گردی کا افغانستان سے صفایا کر دیا ہے اور ان کو پناہ دینے والی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے بلکہ اس عزم کا اظہار بھی فرما رہے ہیں کہ نئی افغان حکومت آیندہ بھی ان کے عزائم میں شریک کار رہے گی: ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اور میں یہ یقینی بنانا چاہتا ہوں کہ ہماری سوچ ایک ہی ہے۔ (دی گارڈین‘ ۱۷ دسمبر ۲۰۰۱ء)۔ اور امریکہ کی قومی سلامتی کی مشیر کونڈالیزا رائس دوسرے شکاروں کی تلاش میں سرگرداں ہیں: کوئی بھی یہاں قبل از وقت فتح کا اعلان کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور فتح صرف اسی وقت حاصل ہوگی جب ساری دنیا میں القاعدہ کا جال توڑ دیا جائے گا۔ (آئی ایچ ٹی‘ ۱۷ دسمبر ۲۰۰۱ء)
گویا ایک مرحلہ پورا ہو گیا‘ آگے کے مرحلوں کا انتظار کرو--- یہ ہے ۱۱ ستمبر کو اٹھنے والے طوفان کی آج تک کی خبر۔ لیکن اس مرحلے پر جب اب تک کے اقدامات کا اس پہلو سے جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ امریکہ‘ عالمی برادری اور افغانستان اور خود ۱۱ ستمبر کے ذمہ داروںنے اس سارے خونی عمل سے کیا پایا اور کیا کھویا___ تاکہ آگے کے اقدامات سے پہلے‘ اگر غوروفکر اور تحلیلی تجزیے کا کوئی کردار ہے تو اسے پالیسی سازی کے لیے مفید مطلب بنایا جا سکے۔ دنیا کی اقوام اور لوگ محض جذبات کی رو میں آگے بڑھتے نہ چلے جائیں بلکہ رک کر تھوڑا سا جائزہ بھی لے لیں اور انسانیت کو بگاڑ کے مقابلے میں بنائواور بہتری کی طرف لے جانے کی فکر کر سکیں۔ وہ کم از کم آنے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہی تیار ہو جائیں کہ خطرے کی خبر بھی خطرے سے بچنے اورپیش بندی کرنے میں مددگار ہوتی ہے۔
۱۱ ستمبر کے واقعات کا جو بھی ذمہ دار ہے (اور سارے خون خرابے کے باوجود دنیا ابھی تک شبہات کی دھند سے باہر نہیں آ سکی) اس نے عالمی سطح پر ایسے حالات کو پیدا ہونے کا موقع فراہم کردیا ہے جن کے نتیجے میں سیاست کا نقشہ بدل گیا ہے یا صحیح تر الفاظ میں: جس طرف مقتدر قوتیں اسے لے جانا چاہتی تھیں وہ ممکن ہو گیا ہے۔ اسی طرح طالبان کے فیصلوں پر بھی مدتوں بحث و گفتگو ہوگی کہ وہ اگر ایسا کرتے تو کیا ہوتا اور ایسا نہ کرتے تو کیا ہو سکتا تھا۔ آج تو صرف ان میں کیڑے نکالنے ہی کی خدمت انجام دی جارہی ہے اور ہر برائی ان کے کھاتے میں ڈالی جا رہی ہے۔ لیکن ان کے سات سالہ دور حیات اور پانچ سالہ دور اقتدار کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں جن کے بارے میں تاریخ کا قاضی اپنا بے لاگ فیصلہ ایک نہ ایک دن ضرور دے گا۔ بظاہر وہ آندھی کی طرح اٹھے اور دو سال میں افغانستان کے ۹۰ فی صد علاقے پر بڑے پیمانے کی جنگ و جدل کے بغیر چھا گئے۔ ۲۰۰۱ء کے آخری تین مہینوں میں دنیا کی سب سے طاقت ور سوپر پاور کی یلغار اور اپنوں کے دبائو (جنھوں نے ہوا کا رُخ دیکھ کر آنکھیں پھیر لیں) کے مقابلے میں ان کی مزاحمت دم توڑ گئی ___کچھ حلقوں میں ا ن کی اصول پرستی اور قبائلی روایات کی پاس داری کی باتیں ہوں گی تو کچھ کی نگاہ میں ان کی سیاسی ناپختگی اور عسکری بے تدبیری کی‘ بلکہ وہ اپنی تباہی کو خود دعوت دینے کے مرتکب بھی قرار پائیں گے۔ افغانستان کے تباہ شدہ کھنڈرات‘ بے یارومددگار لاشوں کے انبار اور بے گھر خاندانوں کے قافلے اپنی اپنی داستانیں سناتے رہیںگے جب کہ سوچنے والے سوچتے رہیں گے اور غم کرنے والے نوحہ کناں رہیں گے کہ:
غزالاں تم تو واقف ہو‘کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مر گیا‘ آخر کو ویرانے پہ کیا گزری
اگر طالبان محض ایک حکومت تھے تووہ ختم ہو گئے اور اگروہ فی الحقیقت ایک تحریک تھے تو تحریکیں محض سیاسی نشیب و فراز سے ختم نہیں ہوتیں۔ خود احتسابی کی یہاں بھی ضرورت ہے اور تاریخ ہر کسی کا احتساب برابر کرتی رہے گی۔ نئی حکومت کو بھی اپنے احتساب سے غافل نہیں ہونا چاہیے‘ نہ وہ انتظام ابدی تھا نہ یہ بندوبست مستقل ہو سکتا ہے: ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ جس نوعیت کی کش مکش میں آج افغانستان بلکہ پوری امت مسلمہ مبتلا ہے اس میںوقتی تبدیلیاں اور فتح و شکست فیصلہ کن بھی ہو سکتی ہیںاور گمراہ کن بھی! جو بازی آج کھیلی جا رہی ہے اس کے بارے میں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ
کبھی جیت کر نہ جیتی‘ کبھی ہار کر نہ ہاری
اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ نیویارک‘ واشنگٹن‘ مزار شریف‘ کابل‘ قندھار اور تورا بورا ہی تک نگاہ کو محدود یا مرکوزنہ رکھیں بلکہ پورے عالمی تناظر میں نگاہ ڈالیں ۔گویا انگریزی محاورے میںصرف درخت ہی نہیں اس جنگل پر بھی نظر رکھیں جس کے یہ شجر صرف چند ہی شریک کار ہیں یعنی Seeing the wood and not merely some of the trees ۔ اس جوار بھاٹے کی آغوش سے جو افغانستان سیاسی نقشے پر ابھرنے والا ہے‘ اور جن حالات کی طرف اسلامی دنیا ہی نہیں ‘ تیسری دنیا ‘ بلکہ صحیح تر الفاظ میں پوری دنیا کشاں کشاں بڑھ رہی ہے‘ اس کے ادراک کی ضرورت ہے۔ یہ حالات دنیا بھر کے امن پسند اور انصاف کے طالب انسانوں کے لیے ایک گراں قدر لمحہ فکریہ فراہم کررہے ہیں___ اور مسلمان ممالک اور اسلامی قوتوں کے لیے تو یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔
۱۱ ستمبر کے بارے میں ایک جملہ میڈیا سے لے کر سیاسی قائدین اور کالم نگاروں تک سب ہی کی زبان اور نوک قلم پر گردش کر رہا ہے: ’’اس دن کے بعد دنیا بدل گئی اور زمانہ وہ نہیں رہا جو پہلے تھا‘‘۔ لیکن کیا کیا جائے کہ یہی جملہ اس سے پہلے بھی بہت سے تاریخی لمحات کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے۔ ۱۹۸۹ء میں دیوار برلن کے انہدام پر‘ ۱۹۷۹ء میں انقلاب ایران کے موقع پر‘ ۱۹۱۷ء میں انقلاب روس کے غلغلے پر اور خصوصیت سے ۱۷۸۹ء کے انقلاب فرانس کے تاریخی لمحات کے بارے میں کثرت سے یہ جملہ دہرایا گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ انقلاب فرانس کے دو سوسال بعد چین کے دانش ور وزیراعظم چواین لائی نے برملا کہا تھا کہ انقلاب فرانس کے بارے میں ابھی یہ اظہار رائے ذرا قبل ازوقت ہی ہے! ابھی اور انتظار کرو۔ اس لیے ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بارے میں تو پتا نہیں ابھی کتنے انتظار کی ضرورت ہوگی___ لیکن کچھ پہلو ایسے ہیں جن پر فوری غوروفکر اور بحث و گفتگو کی ضرورت ہے ۔
۱- اس واقعے کے بعد جس طرح صدر جارج بش نے امریکہ میں لام بندی کی ہے‘ جذبات کو ایک خاص انداز میںا بھارا ہے اور دہشت گردی کے خلاف عالم گیر جنگ کی نفیر دی ہے‘ اس کا سب سے زیادہ فائدہ خود جارج بش کی ذات کو پہنچا ہے۔ ان کی صدارت جس طرح وجودمیں آئی‘ وہ اخلاقی اور ایک حد تک قانونی جوازسے محروم تھی۔ چار ارب ڈالر کی انتخابی مہم کے بعد بھی عام ووٹوں کی حد تک ان کو اپنے مدمقابل سے پانچ لاکھ ووٹ کم ملے تھے۔ انتخابی کالج کے سہارے فلوریڈا کی ریاست کے ووٹوں پر‘ جہاں خود ان کے بھائی گورنر تھے‘ ان کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار تھا۔ لیکن اس ریاست میں ووٹوں کی گنتی وجہ نزاع بن گئی۔ پھر تقریباً چھ ہفتے پر پھیلی ہوئی سیاسی اور عدالتی جنگ کا آغاز ہو گیا جس کے بارے میں بہت سی کہانیاں سامنے آئیںاور تیسری دنیا کے ممالک میں ہونے والے بہت سے کرتب اور معجزے امریکہ کی ترقی یافتہ جمہوریت کی قسمت کا فیصلہ کرتے نظر آنے لگے۔ بالآخر عدالت عالیہ کے ایک ووٹ کے سہارے ان کو صدارت مل گئی۔ یہ عدالت بھی ججوں میں اس طرح تقسیم تھی کہ ایک پارٹی کے دور کے نامزد جج ایک طرف اور دوسری پارٹی کے نامزد دوسری طرف۔ نتیجتاً صدر بش کی صدارت حلف صدارت کے باوجود حقیقی سندجواز کی تلاش میں تھی۔
۱۱ ستمبر نے وہ نادر موقع فراہم کر دیا اور چند گھنٹے زیرزمین اور چند گھنٹے آسمان کی فضائوں میں حفاظت کی تلاش کے بعد وہ واشنگٹن پر نازل ہوئے اور قوم کے جذبات کو ایک نئی جنگ کے لیے متحرک کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ۲۰ ستمبر کو دونوں ایوانوںکے خطاب نے ان کو ایک نئے فراز سے نوازااور جسے نصف سے کم ووٹوں کے نصف سے بھی کم کی تائید حاصل تھی وہ ۸۲ فی صد کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور اس تائیدی لہر پر دنیا بھر کو اپنے جھنڈے تلے لانے اور افغانستان پر حملہ کر کے قوم کے جوش انتقام کو سرد کرنے میں مصروف ہو گیا۔ان کے گرد عقابوں (hawks)کا دائرہ مضبوط تر ہوتا گیا اور ایک جرأت مند اور جنگجو صدر بلکہ فاتح صدر کی حیثیت سے ان کا سر بلند ہو گیا۔ ۱۱ ستمبر کے پیچھے جو ناکامیاں اور خصوصیت سے سیاسی اور خفیہ ایجنسیوںکی کوتاہیاں تھیں‘ ان سب پر پردہ پڑ گیا اور دنیا کے سب سے کمزور اور پس ماندہ ملک افغانستان‘ ایک فرد واحد (اسامہ بن لادن) اور اس کے چند سو یا چند ہزار ساتھیوں پردنیا کی واحد سوپر پاور نے اپنی تمام عسکری‘ تکنیکی‘ عددی‘ معاشی اور ابلاغی (media)قوت کے ساتھ حملہ کیا اور دو چار دن نہیں پورے دو مہینے میں اسے مغلوب کر دینے کا ’’تاریخی کارنامہ‘‘ انجام دیا۔ گویا مرے کو مارے شاہ مدار! اس ’’عظیم فتح ‘‘نے ماضی کی تمام ہزیمتوں کو دھو ڈالا اور امریکہ اور اس کے صدر کے لیے کامیابیوں اور عالمی بالادستی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا۔ یہ ہے وہ شے جسے American triumphalism (فتح ہمیشہ امریکہ کی)کہا جا رہا ہے اور سوپر پاور خوشی اور فخر سے جامے میں پھولی نہیں سما رہی !
۲- ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون کی تباہی سے جس ضرب پذیری کا اظہار ہوا تھا اس طرح اس کا تدارک بھی ہو گیا۔ گویا کمزوری اور زخم خوردگی کا احساس ختم ہوا اور امریکی قوت کا دبدبہ ایک بار پھر قائم ہوگیا۔پھر اس میںتین پہلو ایسے مزید سامنے آئے جن کی وجہ سے امریکہ کو بلاشرکت غیرے دنیا کی بالاترین قوت ہونے اور اپنی اس حیثیت کو ثابت کرنے کا موقع مل گیا۔ اولاً: دوسرے ۴۰‘۵۰ ملکوں کا طوعاً وکرہاً امریکہ کے اشارے پر صف بند ہو جانا‘ ثانیاً: افغانستان کی جنگ میںایسی ٹکنالوجی کا استعمال جس نے فنی اعتبار سے امریکہ کو‘ افغانستان تو بے چارہ کس شمار قطار میں تھا‘ یورپ اور امریکہ کے ممالک کے مقابلے میں بھی ان سے انچوں نہیں گزوں بلند ہونے کے مظاہرے کا موقع مل گیا۔ لڑاکا طیارے ہوں یا جاسوسی کا نظام‘ بم ہوں یا جنگ کا دوسرا اسلحہ‘ ہر باب میں امریکہ نے گذشتہ دس سال میں جو غیر معمولی ترقی کی تھی اس کا بھرپور اظہار ہوا ۔ معلوم ہوا کہ افغانستان کی جنگ فلوریڈا سے بیٹھ کر لڑی جا سکتی ہے اور ایک ایک غار اور ایک ایک نشانے پر مار کرنے کا حکم آٹھ ہزار میل دُور سے دیا جا سکتا ہے۔ یہ بالکل ایک دوسری ہی قسم کی جنگ تھی جس نے روایتی جنگ کے سارے طور طریقے بدل کر رکھ دیے۔ اب نہ مدمقابل سے لڑنے کی ضرورت ہے‘ نہ زمینی فوجوں کی حاجت ہے۔ بس فضا سے آگ برساتے رہو اور مقابل قوت کو پارہ پارہ کر دو۔ دو دو ہاتھ کرنے کا جن کو شوق ہو‘ وہ شوق دھرے کا دھرا رہ جائے۔ حتیٰ کہ اگرجیل میں قیدیوں کو بھی زیر کرنا ہو تو اس کے لیے بھی آسمان ہی سے آگ برسائی جا سکے۔ انسانوں کے بغیر مشینوں کے ذریعے ساراکام لیا جائے‘ معلومات کا بھی اور بم برسانے کا بھی۔ اس سے جنگ کی پوری بساط ہی بدل جاتی ہے۔اب اس میدان میں بہ ظاہر امریکہ کا کوئی حریف نظر نہیں آ رہا۔ اس سے تیسرا پہلو یہ ابھرا کہ اب لڑائی حملہ آور قوت کے لیے انسانی جانوں کی قربانی دیے بغیر فتح کا پیغام لا سکتی ہے۔ ساری جانی قربانی مقابل فریق کو دینی ہوتی ہے۔ جنگ بھی بڑی حد تک یک طرفہ ہوگی۔ اس طرح امریکہ کو صرف فوجی اور سیاسی فتح ہی نصیب نہیں ہوئی بلکہ فنی مہارت اور ٹکنالوجی کی بالادستی کا وہ مقام بھی حاصل ہو گیا جس نے اسے ایک بار پھر ناقابل تسخیر (invincible) ہونے کے زعم اور اعتماد سے نواز دیا۔
۳- امریکہ نے دوسروں کو ساتھ رکھنے کا محض تکلف کیا ‘جب کہ دراصل یہ سارا کھیل امریکہ اور صرف امریکہ کا مرہون منت تھا۔ اولین فیصلہ بھی امریکہ نے تن تنہا کیا اور ساری سیاسی اور عسکری مہم بھی عملاً اس طرح چلائی کہ سب کچھ اس کے اشارہ چشم و آبرو کا کرشمہ تھا۔ ایسے نازک لمحات بھی آئے جب برطانیہ کو بھی جو ’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار‘‘ کا کردار ادا کر رہا تھا‘ بار بار جھینپ کر قدم پیچھے ہٹانے پڑے اور فوجوں کو میدان میں اترنے کی ہدایات دے کر واپس بلانا پڑا۔ یہی کیفیت بون کے سیاسی مذاکرات کی میز پر بھی رہی اور یہی رنگ ڈھنگ کارزار جنگ کا تھا کہ نئے وزیراعظم کو امان دینے کے بعد امان تک واپس لینا پڑی۔ یوں ایک ہی ملک اور ایک ہی روایت کے دو کردار سامنے آ گئے‘ ایک نے امان کی خاطر ملک دے دیا اور دوسرے نے ملک کی خاطر امان کی فکر نہ کی۔ ایک امریکی سیاسی تبصرہ نگار چارلس کروتھامیر (Charles Kreuthammer) نے جو واشنگٹن پوسٹ میں مسلسل لکھتاہے امریکہ کے اس ’انا ولاغیری‘ والے کردار کی بڑے طمطراق سے عکاسی کی ہے۔ وہ آنے والے ۵۰ برسوں میں دنیا کی جو خاصی واضح تصویر دیکھ رہا ہے‘ ہمارے سامنے لاتا ہے: ایک ایسی دنیا جس میں کسی ملک کے شہریوں کو‘ سوائے امریکہ کے‘ جوہری حملوں یا ماحولیاتی نقصان سے تحفظ حاصل نہ ہو‘ ایک ایسی دنیا جہاں اگر نتائج امریکی مفادات کے خلاف ہوں تو جمہوریت کوئی معنی نہیں رکھتی‘ ایک ایسی دنیا جس میںان مفادات سے اختلاف کا اظہار دہشت گردی کا ٹھپا لگا دے ‘ اور نگرانی‘ ظلم و جبر اور ہلاکت کا جواز فراہم کرے۔ America Rules OK) دی گارڈین ۱۷ دسمبر ۲۰۰۱ء)
۴- اس ذہنی فضا کو پیدا کرنے میں امریکی میڈیا نے بڑا کلیدی کردار ادا کیا ہے اور سیاسی قیادت اور میڈیا دونوں نے حب الوطنی کے جذبے کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ شدید جذباتی فضا پورے ملک میں قائم کی گئی ہے۔ دستور‘ قانون‘ اخلاق‘ انصاف ہر چیز کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور سیاسی اختلاف کو غداری کا نام دیا گیا ہے۔ میڈیا نے افغان جنگ کے صرف وہ مناظر دکھائے ہیں جن سے امریکی فتح کی نوید ملتی ہے۔ جو ظلم وہاں کے عوام پر ہوا ہے اور جس طرح ملک کو تباہ اور معصوم انسانوں کو ہلاک کیا گیا ہے ان مناظر کو پالیسی کے طور پر بلیک آئوٹ کیا گیا ہے حتیٰ کہ قلعہ جھنگی میں زیرحراست سیکڑوں انسانوں پر بم باری اور ان کے قتل عام کی ایک جھلک بھی ٹی وی اسکرین پر نہیں آنے دی گئی ہے۔امریکہ میں راے عامہ کو سیاسی مصالح کا قیدی بنا کر جمہوریت کے اس کرب ناک پہلو پر سے پردہ اٹھا دیا گیا ہے۔ ملک کو جس تقلید بالجبر (conformism) کی طرف لے جایا جا رہا ہے اور جسے عوامی تائید کا نام دیا جا رہا ہے وہ دراصل ایک مصنوعی اور سوچے سمجھے انداز میں راے عامہ کی تشکیل کا کارنامہ ہے جسے چومسکی نے manufactured consent (ساختہ رضامندی) کا نام د یا ہے۔ اس پر خود امریکہ کے لوگ اب دل گرفتہ اور نوحہ کناں ہیں۔
۵- امریکی قیادت نے ایک اور کامیابی بھی گھریلو محاذ پر حاصل کی ہے۔ وہ یہ ہے کہ جو قانون سازی معرض التوا میں پڑی ہوئی تھی‘ خصوصیت سے دفاعی بجٹ کے سلسلے میں‘ وہ چشم زدن میں دونوںایوانوں سے منظور کرائی جاسکی ہے۔ بجٹ میں دفاع اور انٹیلی جنس کے لیے علی الترتیب اصل مطالبہ زر سے ۵۰ اور ۲۰ ملین ڈالر زیادہ حاصل کر لیے گئے ہیں۔ قومی دفاعی چھتری کا جو منصوبہ ڈانواںڈول تھا وہ بھی منظور کرا لیا گیا ہے۔ اے بی ایم کے جس عالمی معاہدے سے نکلنے کے لیے پر تولے جا رہے تھے‘ ان کو بھی عملی جامہ پہنا دیا گیا ہے۔ توانائی کے باب میں اس کی صنعت کے جو مطالبات تھے وہ بھی پورے ہو گئے ہیں اور ان کے بارے میں ساری مخالفت پادر ہوا ہوگئی ہے۔ تیل کی کمپنی Eron جس سے بش فیملی‘ ڈک چینی (نائب صدر) اور حکمران گروہ کے نصف درجن افراد وابستہ رہے ہیں وہ ملک کو ۷۰ ارب ڈالر کا نقصان پہنچا کر دیوالیہ ہو گئی لیکن کوئی شدید ردعمل نہیں ہوا ۔ یہ سب کچھ حب الوطنی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کی دھول میںگم ہو گیا ہے۔
جارج بش اور امریکی انتظامیہ کی یہ وہ بڑی بڑی کامیابیاں ہیں جو اسامہ بن لادن ‘ القاعدہ اور طالبان کے نام پر حاصل کی گئی ہیں۔ان کی بنیاد پر ’’تہذیب‘ آزادی‘ حقوق انسانی اور جمہوریت‘‘ کی خاطر ایک نئے عالمی سامراج کے دروبست تعمیر ہو رہے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ۱۱ ستمبر کے واقعات نے ان رکاوٹوں کو ہٹا دیا اور وہ سارے بند اس ریلے میں بہہ گئے جو امریکہ کے عالمی عزائم کے اظہار اور ان کے حصول کے لیے جارحانہ اقدام کی راہ میں حائل تھے۔ بہ ظاہر یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف ہے لیکن دراصل یہ دہشت گردی کے خلاف واویلے کی آڑ میں ایک نئی سامراجی جنگ کا آغاز ہے جس کا پہلے ہدف مسلمان ممالک اور خصوصیت سے اسلامی احیا کی تحریکیں ہیں۔ بالآخر اس کا مقصد دنیا کے سارے ہی ممالک پر مغربی اقوام اور خصوصیت سے امریکہ کی بالادستی کا قیام‘ ان کے وسائل پر مکمل قبضہ‘ مغربی اور صہیونی استعمارانہ نظام سرمایہ داری کے خلاف سیاسی آزادی کی تحریکوں اور سیاسی اور اداراتی احتجاج کی جدوجہد کو لگام دینا اور انھیں نئے عالمی نظام کے آگے سپر ڈالنے پر مجبور کرنا ہے۔ جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہو رہا ہے اس میں ایک بڑے منصوبے (grand design)کے سارے خدوخال دیکھے جاسکتے ہیں:
کھول کر آنکھیں مرے آئینۂ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
امریکہ اور مغربی اقوام جو کچھ حاصل کر رہی ہیں یا کرنا چاہتی ہیں وہ اپنی جگہ‘ لیکن ان چند مہینوں میں تیزی سے رونما ہونے والے واقعات اور ان کے تانے بانے سے عالمی سیاست اور نئے نظام کا جو نقشہ اُبھر رہا ہے وہ اپنے دامن میں انسانیت کے لیے بڑے خطرات لیے ہوئے ہے۔ فتح کے شادیانوں کے جلو میں جو طوفان مغرب اور مشرق کو اپنی گرفت میں لے رہا ہے‘ تہذیب و تمدن کے دفاع کے نام پر تہذیب و تمدن کو جن خطرات سے دوچار کیا جا رہا ہے اور امن و انصاف کے باب میں جو کچھ انسانیت نے بڑی جدوجہد کے بعد حاصل کیا تھااسے جس طرح معرض خطر میں ڈالا جا رہا ہے اس کا ادراک وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ مسلمان تو نشانہ خاص ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نئی یلغار کی زد میں پوری انسانیت ہے۔ آج امریکہ کے طاقت ور طبقات پوری دنیا کو‘ حتیٰ کہ خود اپنے اور یورپی ممالک کے عام انسانوں کو بڑے ہی پرفریب انداز میں ایک نئی غلامی کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر ان مہیب سایوں کا اس وقت ادراک نہ کیا گیا تو تاریکی پورے انسانی اُفق پر چھا سکتی ہے‘ ایک نئے تاریک دور (dark ages)کا آغاز ہو سکتا ہے اور مسلمان ہی نہیں‘ پوری دنیا کے امن و انصاف پسند انسان بڑے خسارے اور بڑی تباہی سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جس چیز کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا نام دیا جا رہا ہے اور جس کا پہلے ہدف افغانستان بنا ہے اور القاعدہ کے ہاتھ نہ آنے والے کارکنوں کی تلاش میں جس طرح درجنوں ممالک کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندیاں ہو رہی ہیں وہ ایک ایسا جامہ ہے کہ جس کا نہیں سیدھا نہیں اُلٹا۔ جس چیز کے خلاف امریکہ لڑ رہا ہے اس کی کوئی واضح اور متفق علیہ تعریف موجود نہیں۔ اقوام متحدہ بار بار کوشش کے باوجود کسی ایک تعریف پر متفق ہونے میں ناکا م رہی ہے اور ابھی ۱۱ ستمبر کے بعد بھی جنرل اسمبلی ایک اور کوشش کر کے ناکام ہو چکی ہے۔ خود امریکہ کی ۲۰ سے زیادہ سرکاری دستاویزات کا تجزیہ کرنے والے شکایت کناں ہیں کہ ان میں کہیں بھی اس کی متعین تعریف نہیں دی گئی۔ مختلف دستاویزوں میں مختلف اعمال اور سرگرمیوں کو دہشت گردی کہا گیا ہے (ملاحظہ ہو روہینی ہینس مین (Rohini Hensman) کا مضمون Only Alternative To Global Terror (Economic and Political Weeklyنومبر ۲‘ ۲۰۰۱ء‘ صفحہ ۴۱۸۴)
اسی طرح نیلسن منڈیلا نے ۷ اکتوبر کے حملوں کے بعد اقوام متحدہ میں کہا ہے کہ میں ایک زمانے میں دہشت گرد تھا اور اس کے بعد سربراہ مملکت۔ کون دہشت گرد ہے اور کون نہیں‘ کسی کو علم نہیں۔ آکسفورڈ ڈکشنری آف پالیٹکس کے مطابق امریکی ڈالروں پر شائع ہونے والی جارج واشنگٹن کی تصویر بھی آزادی کے سپاہی کی یا کسی دہشت گرد کی ہوتی ہے (ص ۴۹۳)۔ گویا لائے ہیں اس کی بزم سے یار خبر الگ الگ!
دراصل جو سوال پوری انسانیت کے لیے بڑا اہم ہے وہ یہ ہے کہ ایک ایسے معاملے میں جس کو متفق علیہ طور پر متعین نہیں کیا گیا اورنہ بہ آسانی کیا جا سکتا ہے کسی ملک یا گروہ کو یہ اختیار کیسے مل جاتا ہے کہ جس پر چاہے حملہ آور ہو جائے اور جس فرد‘ گروہ‘ تنظیم ‘ حکومت حتیٰ کہ ملک کو تباہ کرنا چاہے کر ڈالے ۔ انسانیت کو اس سے زیادہ بڑا خطرہ اور کون سا ہو سکتا ہے!
دوسرا بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر دہشت گردی کا ایک مفہوم متعین بھی کر لیا جائے تو یہ کون طے کرے گا کہ دہشت گردی کیا ہے؟ کس نے اس کا ارتکاب کیا ہے اور اس پر گرفت کس طرح کی جائے؟ اور معقول اور متناسب سزا کیا ہو سکتی ہے؟مسئلہ ہر ملک کے اندر بھی ہو سکتا ہے اور عالمی سطح پر اور عالمی شراکت کے ساتھ بھی۔ ہر دو صورتوں میں کسے یہ اختیار ہے کہ کیا اقدام دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے کرے۔ ملک کے اندر یہ کام محض انتظامیہ کا نہیں بلکہ ملک کے قانون اور عدالتی نظام کا ہے جس میں انتظامیہ اپنا کردار ادا کرے اور عدالت جرم کی تحقیق اور سزا کا تعین کرے۔ دہشت گردی کا مقابلہ اگر دہشت گردی کے ذریعے کیا جائے تو معاشرہ اور بالآخر دنیا جہنم بن جائے گی۔ اگر دہشت گردی کی عالمی پہنچ ہو تو یہ کام کسی بین الاقوامی عدالتی نظام ہی کے ذریعہ ہو سکتا ہے۔ ہر کسی کو یہ اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ جسے چاہے دہشت گرد قرار دے کر اس کی گردن مارنا شروع کر دے۔
یہ تو پوری دنیا کو تباہی میں جھونکنے کی راہ ہموار کرنے کے مترادف ہوگا۔ عملاً امریکہ نے ۱۱ ستمبر کے بعد یہی سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ آج افغانستان کا جو حشر ہوا ہے کل وہی کسی اور ملک کا بھی ہو سکتاہے۔ امریکہ کی انتظامیہ کسی عدالتی کارروائی کے بغیر جس طرح تھوک کے بھائو سے افراد اور تنظیموں پر پابندیاں لگا رہی ہے اور دوسرے ممالک کو پابندیاں لگانے پر مجبور کر رہی ہے‘ وہ عالمی دہشت گردی کی ہولناک مثال ہے۔
نوام چومسکی نے اپنے حالیہ دورہ بھارت و پاکستان میں بار بار اس حقیقت کا اعلان کیا ہے کہ بن لادن دہشت گرد ہے مگر اس کی دہشت گردی ابھی شبہے ہی کے زمرے میں ہے اور معروضی نظام کے تحت ثابت نہیں ہوئی مگر جو کچھ صدر بش نے کیا ہے وہ ثابت شدہ دہشت گردی اور بن لادن کی دہشت گردی سے بڑھ کر دہشت گردی ہے۔ بھارت کے جریدے فرنٹ لائن کا رپورٹر لکھتا ہے:
جب چومسکی نے زور دے کر کہا کہ امریکی صدر‘ اسامہ بن لادن سے زیادہ بڑے دہشت گرد ہیں‘ اس لیے کہ اسامہ کے خلاف امریکی صدر کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے جب کہ افغانستان میں بے گناہ لوگوں کا قتل امریکی صدر کے خلاف ثبوت ہے تو ہال میں موجود لوگوں نے تالیاں بجائیں۔ (فرنٹ لائن‘ ۲۱ دسمبر ۲۰۰۱ء)
حقیقت ہے کہ جس طرح امریکہ نے دہشت گردی کو خارجہ پالیسی کے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا ہے وہ امپریلزم کی تاریخ میں ایک سیاہ اور ہولناک باب کا اضافہ ہے۔ امریکہ کی اس جارحانہ پالیسی نے پوری دنیا کے امن کے لیے شدید خطرات کو جنم دیا ہے اور صاف نظر آ رہا ہے کہ گو اس سلسلے کو روکنے کی کوئی موثر کوشش نہ ہوئی تو دنیا ایک عالمی عدم استحکام (Global destabilization)کی طرف دھکیلی جا رہی ہے۔ عالمی امن اور انسانوں اور اقوام کے درمیان انصاف کے قیام کے لیے جو بھی کوششیں پچھلی صدی میں ہوئی ہیں وہ معرض خطر میں ہیں۔ انسانیت ایک بار پھر بڑی تیزی سے ’’جنگل کے قانون‘‘ کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس ترقی معکوس کی سراسر ذمہ داری امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر ہے۔ ظلم کے خلاف جدوجہد‘ آزادی کے لیے جنگ‘ ایمان اور سلامتی کی حفاظت کے لیے مزاحمت‘ بیرونی قبضے کے خلاف لڑائی ‘ انسانیت کے بنیادی حقوق میںسے ہیں جو ظلم کے خلاف برسرپیکار ہونے کے لیے قانونی اور اخلاقی جواز فراہم کرتے ہیں جب کہ دہشت گردی کے شبہے اور احتمال کی بنیاد پر دوسروں پر حملہ انسانیت کے خلاف جرم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر حقیقی دہشت گردی اور ظلم کے خلاف مزاحمت میں فرق نہ کیا گیا تو پھر جو ظالم اور جابر ایک بار کسی ملک یا قوم پر مسلط ہوگیا اس سے نجات کی کیا راہ باقی رہ جائے گی۔ امریکہ نے جو کچھ افغانستان‘ طالبان اور اسامہ بن لادن کے خلاف کیا ہے اس کانہ قانونی جواز ہے اور نہ اخلاقی۔
۳- دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اصطلاح کا استعمال بھی ایک ناروا اقدام اور معروف قانونی اور سیاسی ضابطے کی خلاف ورزی ہے۔ جنگ کا بین الاقوامی تعلقات اور بین الاقوامی قانون میں ایک واضح تصورہے۔ استعارے کے طور پر غربت کے خلاف جنگ اور بیماری اور جہالت کے خلاف جنگ کا استعمال کیا جاتا ہے مگر فوج کشی کے معنی میں جنگ کا استعمال نہ ان میں سے کسی کے بارے میں جائز ہے اور نہ دہشت گردی کے لیے۔ دہشت گردی ایک جرم ہے اور اس کے خلاف اقدام قانون اور نظام انصاف (judicial process)کے مطابق ہی ہو سکتا ہے۔ اور خود امریکہ نے ‘خواہ ٹریڈ ٹاور میں ۱۹۹۳ء کی دہشت گردی کا معاملہ ہو یا اوکلاہاما کا ۱۹۹۵ء کا واقعہ جس میں ۱۶۰ افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے ‘یا اس کے اپنے بحری جہاز ایس ایس کول پر حملہ جس میں ۱۷فوجی ہلاک ہوئے‘ یا پان امریکن جہاز کا اغوا اور تباہی جس میں ۲۵۰ افراد مارے گئے___ ان سب جرائم کا تعاقب قانون کے مطابق عدالتوں کے ذریعے کیا گیا لیکن اب ایک من مانے انداز میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا اعلان کردیا گیا ہے۔ ایک آزاد اور خود مختار ملک کے خلاف جو اقوام متحدہ کا رکن ہے جنگی جارحیت کا ارتکاب کیا جا رہا ہے اور اس کی حکومت کو بہ زور بدلنے کا کام پوری ڈھٹائی کے ساتھ جاری ہے۔ یہ بین الاقوامی قانون کو بدلنے یا re writeکرنے کی ایک مذموم اور تباہ کن کوشش ہے جو مستقبل میں عالمی امن کو تہ و بالا کرنے کا باعث ہوگی۔
۴- بین الاقوامی قانون کی یہ خلاف ورزی صرف دہشت گردی کو جنگ قرار دے کر ہی نہیں کی جارہی بلکہ کم از کم آٹھ ایسے جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہے جن میں سے ہر ایک انسانیت کے خلاف جرم کا درجہ رکھتا ہے۔
۵- امریکہ جس راستے پر چل پڑا ہے نظر آرہا ہے کہ افغانستان صرف پہلا قدم ہے۔ عراق‘ صومالیہ‘ یمن‘ شمالی کوریا‘ سوڈان کا تو کھلا کھلا ذکر کیا جا رہا ہے اور پرتولے جا رہے ہیں کہ اگلا نشانہ کون ہو۔ پھر سعودی عرب‘ شام‘ ایران اور پاکستان کی باتیں بھی دبی زبان سے ہو رہی ہیں۔ اس وقت یہ سب ملک کولیشن میں شمار کیے جا تے ہیں لیکن درپردہ ان سب کے بارے میں بڑی خطرناک منصوبہ بندی ہو رہی ہے جس کی کچھ جھلکیاں سامنے آ رہی ہیں۔ سعودی عرب کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈا مہم جاری ہے اور ابھی واضح نہیں کہ اس کا مقصد وہاں کے نظام کی تبدیلی ہے یا صرف بلیک میل جیسا کہ ایران میں ۷۰ کے عشرے میں کیاگیا تھا۔ شام اور ایران بھی زد میں ہیں۔ پاکستان جس کو اس وقت دلیر ساتھی قرار دیا جارہا ہے اور اس کی فوجی حکومت اب جمہوریت دوست شمار کی جا رہی ہے لیکن اس کے نیوکلیر نظام و تنظیمات پر قبضے‘ نگرانی‘ اثر اندازی کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں اور فوج اور عوام میں اسلامی رجحانات کو لگام دینے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ فلپائن اور انڈونیشیا کا بھی ذکر ہے اور ۴۰ سے ۶۰ ممالک کو القاعدہ کے سلسلے میں ملوث کیا جا رہا ہے۔ بات صرف القاعدہ کی نہیں‘ ہر وہ ملک جس سے امریکہ کے مفاد کو کسی شکل میں بھی خطرہ ہو اسے دہشت گردی کے نام پر مطیع بنانے کی کوشش ہے۔
بات صرف دہشت گردی کی نہیں‘اب تو صاف کہا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کو پیدا کرنے والی سب سے اہم قوت نام نہاد مذہبی انتہا پسندی اور مذہبی تعلیم کا نظام ہے اور جب تک ان کو ختم نہیں کیا جائے گا دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔ بڑی ہوشیاری اور سائنسی اندازسے اسلام‘ اسلامی احیا کی تحریکوں‘ اسلامی فلاحی اداروں اور دینی تعلیمی نظام کو ہدف بنایا جا رہا ہے اور وعظ کیا جا رہا ہے کہ اسلام میں ’اصلاح مذہب‘ (reformation)کی ضرورت ہے‘ مذہب اور سیاست کی تفریق وقت کی سب سے بڑی ضرورت اور ترقی کا اہم ترین ذریعہ ہے‘ سیکولرازم اور مغربی لبرلزم کے فروغ کے بغیر دہشت گردی سے نجات ممکن نہیں۔ یہ سارا کام ایک وسیع تر عالم گیریت اور جدیدیت کا حصہ ہے اور پوری دنیا کی نجات اس پیکج کو اختیار کرنے میں ہے ورنہ اسے اس پر مسلط کیا جائے گا اور یہ سب امریکہ کے اپنے دفاع (self defense) ہی کا ایک حصہ ہے۔
نیوزویک‘ ٹائم‘ اٹلانٹک اور تمام اہم روزنامے تک ایسے مضامین‘ ادارتی تبصروں اور خطوط سے بھرے ہوئے ہیں جن میں جہادی کلچر‘ سیاسی اسلام (political Islam)اور اسلامی بنیاد پرستی (Islamic fundamentalism) پر کاری ضرب لگانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ نئے سامراج کا ایجنڈا ہے جس کے چار بڑے بڑے میدان ہیں:
ا - سیاسی اعتبار سے امریکہ کی بالادستی اور اس امر کا اہتمام کہ یہ بالادستی اکیسویں صدی میں قائم رہے اور اس کے لیے کوئی حریف رونما نہ ہونے پائے۔
ب- امریکہ کی فوجی برتری اور اس کو نہ صرف ناقابل تسخیر رکھنا بلکہ ساری دنیا میںاس کی موجودگی یا اس کے قائم مقاموں (surrogates)کی حفاظت جو اس کے آلہ کار کے طور پر کام کر سکیں اور دنیا کا نقشہ ان خطوط پر قائم رکھ سکیں جو امریکہ کو مطلوب ہے۔ نیز اس بات کی ضمانت کہ کسی شکل میں بھی ایسی عسکری صلاحیت دوسرے ملکوں میں پیدا نہ ہو جو امریکہ اور اس کے حواریوں خصوصیت سے اسرائیل کے لیے چیلنج بن سکے۔
ج- دنیا کے معاشی وسائل پر امریکہ‘ اس کے اتحادیوں اور اس کے زیراثر ملٹی نیشنل کارپوریشنوں اور این جی اوز کا قبضہ۔اس سلسلے میں فیصلہ کن تیل اور گیس کے تمام اہم ذرائع اور ترسیل کے راستوں پر قبضہ ہے۔
د - تہذیبی میدان میں مغربی کلچر اور ثقافت کا عالم گیر غلبہ اور دین و مذہب خصوصیت سے اسلام کی بنیاد پر اجتماعی زندگی کی شیرازہ بندی کے امکانات کو معدوم کرنا۔
نئے سامراج کا یہ ایجنڈا کسی پردے کے بغیر اب سرعام پیش کیا جا رہا ہے اوراس پر عمل کرانے کے لیے پروپیگنڈے سے لے کر عسکری قوت تک ہر حربہ استعمال کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔
امریکی سامراج کے یہ عزائم تو پہلے بھی تھے مگر حالیہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے ان عزائم کو نئی زندگی اور ان پر عمل کو نئے امکانات فراہم کر دیے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں کہ کیا دہشت گردی کا آغاز ۱۱ ستمبر سے ہوا؟ اور کیا افغانستان اور القاعدہ کی تباہی سے دہشت گردی روے زمین سے فنا ہو جائے گی؟ جسے بنیاد پرستی کہا جا رہا ہے کیا اس کا وجود صرف مسلم دنیا میں ہے یا خود امریکہ میں بنیاد پرستوں کی ایک نہیں درجنوں تحریکیں کارفرما ہیں؟ کیا خود جارج بش کی صدارت کے پیچھے امریکی بنیاد پرستوں کا کوئی کردار نہیں؟ کیا اسرائیل کی لیکود پارٹی اور وزیراعظم شیرون صہیونی بنیاد پرستی کے بدترین مظاہر نہیں؟ کیا بھارت کی بی جے پی‘ آر ایس ایس اور وشوا پریشد ہندو بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے سوا کچھ اور ہیں؟ کون سا ملک ہے جہاں انتہا پرستی موجود نہیں اور کون سا دورہے جو انتہا پرستی سے پاک رہا ہے۔
پھر دہشت گردی کے خلاف تو بہت کچھ بخار نکالا جا رہا ہے مگر اس کی کوئی فکر نہیں کہ وہ حقیقی اسباب کیا ہیں جن کے نتیجے میں امریکہ اور مغربی اقوام کے خلاف نفرت کے طوفان امنڈ رہے ہیں‘ سرمایہ داری کے خلاف لاوا پک رہا ہے‘ مظلوم انسانوں کی ایک تعداد مایوس ہو کر اپنی جان تک پر کھیلنے کے لیے تیار ہورہی ہے۔ دہشت گردی ایک معمول کی کارروائی نہیں‘ ایک غیر معمولی رویے کی مظہر ہے‘ اس کو نہ سمجھا جاسکتا ہے اور نہ ختم کیا جا سکتا ہے جب تک ان اسباب کا کھوج نہ لگایا جائے جن کے بطن سے یہ جنم لیتی ہے۔ ان کے تدارک کے بغیر اس سے نجات ممکن نہیں۔ فلسطین ہو یا کشمیر‘ چیچنیا ہو یا فلپائن‘ اسپین ہو یا کیوبک (کینیڈا) ‘آئرلینڈ ہو یا تھائی لینڈ‘ سوڈان ہو یا صومالیہ‘ کیوبا ہو یا نکاراگوا‘ فی جی (Fiji) ہو یا ہیٹی‘ جاپان ہو یا کوسووا‘ جہاں بھی ظلم ہوگا ‘ اس کا ردعمل بھی رونما ہوگا جو جائز کے ساتھ ناجائز اور پرامن کے ساتھ خونی اور تشدد کے راستے بھی اختیار کر لیتا ہے ۔
جس طرح غربت خودکشی کی طرف لے جاتی ہے‘ اسی طرح مظلومیت اور محرومی تشدد اور دہشت گردی کے روپ بھی دھار لیتی ہے۔ جرم کا خاتمہ محض قانون اور جبر سے نہیں ہو سکتا۔ جرم کے اسباب جب ختم ہوں گے تو پھر جرم میں بھی کمی آئے گی اور حقیقی امن و آشتی کے امکانات روشن ہوں گے۔ سامراجی ذہن اس سامنے کی حقیقت کو سمجھنے اور سامراج کی آنکھ اس کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں اور محض جبر اور طاقت سے اپنی بالادستی قائم رکھنے کے زعم میں مبتلا ہے۔ خدا کی زمین پر ظلم کی فراوانی اور انسانوں کے درمیان کش مکش اور شورش کی بڑی وجہ یہی ذہنیت اور یہی سیاست ہے۔ آج امریکہ اس ذہنیت اور سیاست کا سب سے بڑا علم بردار اور عالمی اقتدار کا ٹھیکے دار بن گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اسی سامراجی ایجنڈے کا حصہ ہے۔
امریکی سامراج اور مغربی تہذیب کا ہدف تو پوری دنیا ہے لیکن فوری طور پر پہلا ہدف اسلامی دنیا اور اسلامی احیا کی تحریکات اور ادارے ہیں اور ان پر ہی اس وقت اصل توجہ مرکوز ہے۔ نیوز ویک کا ڈائوس خصوصی ایڈیشن (دسمبر ۲۰۰۱ء - فروری ۲۰۰۲ء جو ’’۲۰۰۲ء کے مسائل‘‘ کے بارے میں ہے) اس عالمی ایجنڈے کا خلاصہ پیش کر رہا ہے۔ اس میں خصوصیت سے سیموئل ہنٹنگٹن‘ فرید زکریا اور فرانسس فوکویاما کے مضامین بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ہم صرف ایک اقتباس فوکویاما کے مضمون سے پیش کرتے ہیں:
پس اس طرح یہ محض دہشت گردوں کے خلاف ایک سادہ ’’جنگ‘‘ نہیں ہے جس کا امریکی حکومت قابل فہم انداز میں نقشہ کھینچتی ہے اور نہ جیسا کہ بہت سے مسلمانوں کا موقف ہے کہ فلسطین میں یا عراق کے ساتھ امریکہ کی خارجہ پالیسی اصل مسئلہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمیں جو بنیادی تنازع درپیش ہے وہ بہت وسیع تر ہے اور دہشت گردوں کے ایک گروپ سے متعلق نہیں ہے بلکہ انقلابی اسلامسٹوں کے بڑے گروہ سے ‘ اور ان مسلمانوں سے متعلق ہے جن کی مذہبی شناخت دوسری تمام اور سیاسی اقدار کو مسترد کر دیتی ہے۔
ہم فوکویاما کے ممنون ہیں کہ اس نے بات کھول کر سامنے رکھ دی اور ڈپلومیسی کے پردوں کو چاک کر کے مغرب کے عزائم اور ان کی نگاہ میں تنازع کے اصل سبب--- یعنی دین اور سیاست کے رشتے کو صاف لفظوں میں یوں بیان کر دیا: اگر مغرب کی دوستی چاہتے ہو تو دین کے اثر سے سیاست اور تہذیب و تمدن کو پاک کر لو ورنہ ہماری تمھاری جنگ ہے:
نکل جاتی ہو جس کے منہ سے سچی بات مستی میں
فقیہ مصلحت بین سے وہ رند بادہ خوار اچھا
جنگ کا نقشہ ہمارے سامنے ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟ ایک راستہ تو بڑا آسان اور سادہ ہے جس کی دعوت مغرب کے دانش ور اور سیاسی قائدین دے رہے ہیں اور اسی کی آہنگ بازگشت خود اپنے جدیدیت کے دلدادہ افراد کی تحریروں اور ارشادات کی امتیازی شان ہے یعنی:
چلو تم ادھر کو‘ ہوا ہو جدھر کی
یہ وہ راستہ ہے جو زمانے کے پرستاروں نے ہر دور میں سجھایا ہے اور آسایش اور تن آسانی کے متوالوں نے آزادی‘ غیرت اور ایمان سب کی قربانی دے کر جسے اختیار کرنے کی دعوت دی ہے۔ لیکن کیا اہل ایمان اور مسلم امت کے لیے بھی نجات کی یہی راہ ہے؟ اقبال‘ اس کا جواب دیتے ہیں!
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا
اسلام تو نام ہی اس دین کا ہے جو طاغوت سے بغاوت اور اللہ کی بندگی سے عبارت ہے (فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ م بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ق البقرہ۲:۲۵۶) یہ راستہ تو ہے ہی کفر‘ شرک اور طغیان سے کش مکش کا راستہ۔ اس میں طاقت اور تعداد اصل چیز نہیں‘ کہ دونوں حصول مقصد کا ذریعہ ہیں اور مطلوب بھی‘ مگر اصل ہدف وہ نصب العین اور وہ مقصود حیات ہے جو ایمان کا تقاضا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس دعوت کا علَم بلند کیا تو اُن کے کتنے ساتھی تھے اور انھیں کتنی قوت حاصل تھی؟ مگر نصب العین واضح اور منزل کے بارے میں یکسوئی تھی اور ساری مخالفتوں اور مزاحمتوںکے مقابلے میں ایک ہی جواب تھا کہ اگر میرے ایک ہاتھ پر سورج اور ایک پر چاند بھی رکھ دیا جائے تو اس راستے کو نہیں چھوڑوں گا‘ جدوجہد جاری رہے گی تاآنکہ یہ دین غالب آ جائے یا میری جان اس جدوجہد میں کام آ جائے۔ اکثریت اور اقلیت‘ طاقت اور کمزوری تبدیل ہونے والی چیزیں ہیں اور بالآخر تبدیل ہوتی ہیں۔ کل کی اقلیت آج کی اکثریت بن سکتی ہے اور آج کی اکثریت کل اقلیت میں بدل سکتی ہے۔ یہی معاملہ طاقت اور کمزوری کا ہے۔
مسلمانوں کے لیے اصل فیصلہ طلب سوال یہی ہے کہ آیا انھیں مسلمان رہتے ہوئے اپنی زندگی کی تشکیل و تعمیر کرنی ہے یا اسلام سے بے نیاز ہو کر دنیا طلبی کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ اگر مطلوب اسلام ہے توپھر اپنے ایمان ‘ اپنے نظریے‘ اپنے دین‘ اپنی تہذیب اور اپنی سیاست پر قائم رہنے اور مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ بلاشبہ اس جدوجہد میں ایمان اور نظریے کی قوت اور اتحاد کے ساتھ‘ علم‘ تحقیق ‘ معاشی قوت‘ عسکری طاقت‘ ایجاد و اختراع اور ٹکنالوجی پر مہارت اور گرفت سب ضروری ہیں۔ لیکن سب سے اہم چیز وژن اور عزم ہے۔ اگر وژن موجود نہیں اور عزم و ارادے کا فقدان ہے تو پھر اُبھرنے اور ترقی کرنے کا کوئی امکان نہیں۔ لیکن اگر یہ موجودہیں تو پھر توفیق الٰہی سے تمام وسائل بھی حاصل ہو سکتے ہیں اور زمانے کا نقشہ اسی طرح بدلا جا سکتا ہے جس طرح ماضی میں بدلا گیا۔ کوئی طاقت ور اتنا مضبوط نہیں کہ ہمیشہ مضبوط رہے اور کوئی سوپر پاور ایسی نہیں جو ہمیشہ سوپر پاور رہی ہو۔
تاریخ ‘ایک نہیں درجنوں سوپر پاورز کا قبرستان ہے۔ خود ہماری زندگیوں میں برطانیہ اور روس دو سوپر پاورز کس بلندی سے کس پستی تک پہنچی ہیں۔ امریکہ آج طاقت ور ہے اور اس کا اعتراف ایک حقیقت کا اعتراف ہے لیکن یہ سمجھ لینا کہ اب ہمیشہ وہی غالب و حکمران رہے گا‘ تاریخ کے ساتھ مذاق اور انسانیت کے امکانات سے مایوسی ہے۔ اس لیے پہلا قدم اپنی منزل کا تعین اور اپنے مقاصدکی تفہیم ہے۔ پھر ان کے حصول کے لیے تیاری اور منصوبہ بندی ہے۔ جدوجہد کتنی ہی طویل ہو اور راہ کیسی ہی دشوار گزار ‘لیکن ہمیں سوچ سمجھ کر اپنی راہ طے کرنی ہے اور آستان یار سے وفاداری کے سوا کوئی راستہ ہمارے شایان شان نہیں:
جوئے خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے
آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا؟
جب ایک قوم خدا پر بھروسے کے ساتھ دانش مندی سے اپنی منزل حاصل کرنے کی جدوجہد کرتی ہے تو پھر نئے امکانات اُبھرتے ہیں اور حالات تبدیل ہوتے ہیں۔ ہماری تاریخ اس پر گواہ ہے کہ ہر نشیب کے بعد فراز اور ہر کمزوری کے بعد طاقت کا اُبھار واقع ہوا ہے بشرطیکہ ہمارا وژن واضح اور ہماری ہمتیں بلند رہیں۔ راستہ ایک ہی ہے اور وہ جدوجہد کا راستہ ہے:
زمانہ با تو نہ سازد‘ تو با زمانہ ستیز
دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیا ہمیں مخالف قوتوں سے تصادم اور ٹکرائو کا راستہ اختیار کرنا چاہیے؟ بلاشبہ تصادم اور ٹکرائو تو اس راستے کے لازمی مراحل میں سے ہیں مگر دین نے جہاں ہمیں مستقبل کا ایک واضح وژن دیا ہے وہیں یہ بھی سکھایا ہے کہ جدوجہد کے مختلف مراحل ہوتے ہیں اور تیاری کے بغیر معرکے میں کودنا عقل مندی اور حکمت نہیں ‘حماقت ہے۔ صبر اور حکمت‘ یہ دونوں مومن کی میراث ہیں۔ ہماری جدوجہد طویل اور وقت طلب ہے۔ بلاشبہ ہمارا ہر لمحہ اصل منزل کی طرف پیش قدمی کی تیاری اور تحرک میں صرف ہونا چاہیے ‘ شارٹ کٹ کی تلاش اور جلدبازی کے اقدام دینی فراست کے خلاف ہیں۔ مقابلے کے لیے صحیح حکمت عملی کا تعین اور جدوجہد کے لیے مکمل تیاری بھی اسی طرح ایمان کا حصہ اور دین کا تقاضا ہیںجس طرح طاغوت کے آگے سپر ڈال دینے‘ دوسری تہذیبوں کی غلامی قبول کرنے اور شیطان کی دکھائی ہوئی راہ سے برأت لازم ہے۔ کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ جذباتیت سے مکمل احتراز کیا جائے اور حکمت اور محنت سے اجتہاد اور جہاد کے راستے کو اس طرح اختیار کیا جائے جو ان کا حق ہے۔
ان دو بنیادی امور کی تنقیح کے بعد اس بات کی ضرورت ہے کہ اس اصولی موقف کو بھی بالکل واضح الفاظ میں بیان کیا جائے جس کو اختیار کر کے آج پاکستان اور اُمت مسلمہ وقت کے چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
امریکہ اور مغربی اقوام آج خواہ کتنی ہی قوی کیوں نہ ہوں‘ ان کی موجودہ بالادستی اور وسائل پر قدرت کے اعتراف کے ساتھ‘ اس عزم کا اعادہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان اپنا جداگانہ تشخص رکھتے ہیں اور ان کی منزل اپنی آزادی اور اپنی تہذیب کی ترقی اور فروغ ہے جو دوسروں کی غلامی یا بالادستی کے تحت جاے پناہ پر قناعت سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ اگر امریکہ کا ایک سوپر پاور ہونا ایک حقیقت ہے تو مسلم امت کے ۳.۱ ارب نفوس بھی ایک حقیقت ہیں جنھیں نہ نظرانداز کیا جا سکتا ہے اور نہ محض طاقت سے غلام بنایا جاسکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تصادم سے پہلو بچاتے ہوئے اپنے گھر کی اصلاح‘ اپنے اتحاد کا حصول‘ اپنے وسائل کی ترقی اور اپنی قوت کا استحکام ہمارا اصل ہدف ہوں۔ اس کے لیے اپنے ایمان‘ اپنے دین اور اپنے نظریے پر مضبوطی سے قائم رہنا‘ وقت کے چیلنج کو سمجھنا اور اپنی بنیادوں کو استوار کر کے اس کا مقابلہ کرنے کی تیاری ہماری فکروسعی کا محور ہونا چاہیے۔
اس کام کو انجام دینے کے لیے ہمیں کچھ عالم گیر اصولوں کو اپنی دعوت اور حکمت عملی کی بنیاد بنانا چاہیے اور دنیا کے تمام انسانوں اور تمام عوام کو ان کی طرف لانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ نہ ہمیں دوسروں کا کاسہ لیس ہونا چاہیے اور نہ ہر ایک سے الگ تھلگ اور مقاطعے کا راستہ صحیح راستہ ہو سکتا ہے۔ قدر مشترک کی تلاش اور اس پر تعلقات استوار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ دنیا کے حالات بھی اس مقام پر ہیں کہ کچھ اصولوں اور مشترک اقدار پر سب کو لایا جا سکتا ہے اس لیے کہ اس میں تمام انسانوں کا بھلا ہے۔ بجائے اس کے کہ مسلمان محض دوسروں کے اقدامات پر ردعمل تک اپنے کو محدود رکھیں‘ ہمیں آگے بڑھ کر پوری انسانیت( بشمول مغربی اقوام) کو کچھ بنیادوں پر متفق کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اصول ہماری عالمی دعوت کا محور بن سکتے ہیں:
۱- تمام اقوام کی آزادی‘ حاکمیت اور سلامتی کا تحفظ۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی بنیاد تمام انسانوں کی برابری‘ تمام اقوام کی آزادی ‘ اور ان کا حق خود ارادیت ہے۔ اسلام نے اسی اصول کو انسانیت کے سامنے پیش کیا تھا اور یہ اصول امپریلزم کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔
۲- تکثیری نظام (pluralism)جس کے معنی ہیں کہ کسی ایک ملک یا تہذیب کی بالادستی ہی عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ سب اس اصول کو تسلیم کریں کہ ہر قوم کو اپنی تہذیب و ثقافت کی پاس داری کا حق ہے اور دنیا کی یک رنگی فطرت کے خلاف اور انصاف کے تقاضوں سے متصادم ہے۔ اس لیے سب کو اپنے اپنے اصول و اقدار کی روشنی میں ترقی کے مواقع حاصل ہونے چاہییں۔
۳- تمام انسانی معاملات کو دلیل اور مکالمے (dialogue)کے ذریعے حل کیا جائے اور قوت کے استعمال کو قانون اور عالمی انصاف کا تابع کیا جائے۔ ہر قسم کے تشدد کے خلاف عالمی راے عامہ کو منظم کیا جائے اور اس میں دہشت گردی کی ہر شکل میں مخالفت شامل ہو۔ نیز دہشت گردی اور آزادی کے حصول یا ملک و ملت کی حفاظت کے لیے جدوجہد کو اس سے ممتاز و ممیز کیا جائے اور قوت کے استعمال کی حدود اور اس کا ضابطہ کار متعین کیا جائے۔
۴- انصاف کے حصول کے لیے دنیا کے تمام انسانوں اور اقوام کو ایک منصفانہ عالمی نظام کا حصہ بنایا جائے۔ انصاف وہ مثبت بنیاد ہے جس پر عالمی امن قائم ہو سکتا ہے اور ظلم کی دراندازیوں سے انسانوں کو بچایا جاسکتا ہے۔
۵- بین الاقوامی تعاون اور اشتراک کے ساتھ ساتھ قوموں یا ملکوں کے الحاق کی اجتماعی خود انحصاری کے اصول کا احترام۔ اس سے عالم گیریت کا ایک ایسا نظام وجود میںآ سکتا ہے جس کے تحت اگر ایک طرف انسانوں‘ مال تجارت‘ مالی اور دوسرے وسائل کی نقل و حرکت میں سہولت ہو تو دوسری طرف ایسے عالمی ادارے موجود ہوں جو دولت اور قوت کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے کمزوروں کو طاقتوروں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھ سکیں اور بالآخر دنیا میں قوت اور دولت کی منصفانہ تقسیم وجود میں آ سکے جس کے نتیجے میں سب کو خوش حالی ‘استحکام اور باعزت زندگی حاصل ہو سکے۔
یہ وہ پانچ بنیادیں ہیں جن کی طرف دنیا کے تمام انسانوں کو دعوت دے کر پاکستان اور اُمت مسلمہ ایک ایسے عالمی نظام کی داغ بیل ڈال سکتی ہے جو حقیقی امن و انصاف کا ضامن ہو سکے۔ آج کے طاقت ور اس کی راہ میں حائل ہوں گے لیکن دنیا کے تمام دوسرے ممالک کو منظم اور متحرک کر کے اور پرامن ذرائع سے عالمی رائے عامہ کو منظم کر کے اس قدر مشترک کو نئے نظام کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔ نیز یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب دنیا کے ممالک دوسروں پر بھروسا کرنے کے بجائے اپنے اوپر بھروسا کر کے اپنے وسائل کو صحیح صحیح استعمال کرنے اور منظم کرنے کی جدوجہد کریں اور تعاون اور اشتراک کی منصفانہ شکلوں کو رواج دیں۔ جس طرح دنیا کے بہت سے ممالک میں‘ بشمول آج کے ترقی یافتہ مغربی ممالک‘ اندرون ملک دولت کی تقسیم اور قوت کے توازن کو حاصل کرنے کی کوشش ہوتی ہے اور اس میں ایک درجہ کامیابی بھی حاصل ہوتی ہے‘ اسی طرح عالمی سطح پر بھی ایک متوازن اور منصفانہ نظام کا قیام ممکن ہے‘ بشرطیکہ اس کے لیے صحیح طریقے پر مسلسل جدوجہد ہو۔
اس ایجنڈے کو عالمی سطح پر محض پیش کرنا مطلوب نہیں۔ اس ایجنڈے پر دنیا کو لانا اسی وقت ممکن ہوگا جب مسلمان ممالک خود اپنے گھر کو درست کریں اور اس کا آغاز خود احتسابی سے کریں۔
۱۱ ستمبر کے بعد جو کچھ ہو رہا ہے اسے ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ جو افراد یا ملک یہ سمجھتے تھے کہ امریکہ سے دوستی کے ذریعے ان کو حفاظت‘ عزت اور سلامتی مل جائے گی اور جو اپنی دولت اپنے ملکوں میں رکھنے کے بجائے امریکہ اور یورپ میں اسے محفوظ سمجھ رہے تھے اس ایک ہی ہلّے میں ان کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ انھوں نے کیسا کمزور سہارا تھاما تھا اور کس طرح خود کو دوسروں کے رحم و کرم پر ڈال دیا تھا۔ موسم کی ایک ہی تبدیلی نے ان کو بتا دیا کہ:
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
نیز اس سے یہ سبق بھی حاصل کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے کہ مانگے کا اُجالا کبھی روشنی کی ضمانت نہیں دے سکتا اور خود انحصاری اور اپنی قوت کی تعمیرکے بغیر آپ اپنی آزادی‘ اپنے ایمان اور اپنی عزت کی حفاظت نہیں کر سکتے۔مقصد کسی سے لڑنا نہیں لیکن اپنے گھر کی تعمیر اور اپنے ممالک کی مضبوطی اور دوسروں پر محتاجی سے نجات قومی سلامتی کے لیے ازبس ضروری ہے۔
اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مسلم ممالک میں خود اپنے عوام پر اعتمادکی فضا پیدا کی جائے۔ شخصی اور سیاسی آزادیاں حاصل ہوں‘اختلاف کو برداشت کیا جائے‘ اور معیشت اور سیاست پر چند خاندانوں کی اجارہ داری کو ختم کیا جائے۔ اس میں اصحاب اقتدار کے لیے بھی خیر ہے اور مسلم عوام کے لیے بھی۔
کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے جہاں نظریہ اور قومی تشخص ضروری ہے وہیں سیاسی ‘ معاشی اور اداراتی نظام کا ایسا آہنگ درکار ہے جس میں سب کی شرکت ہو اور عوام اور حکمرانوںکے درمیان کش مکش کے بجائے تعاون اور اشتراک کا رشتہ قائم ہو۔ اسی طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے: تمھارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور جو تم سے محبت کرتے ہیں اور بدترین حکمران وہ ہیں جن سے تم نفرت کرتے ہو اور جو تم سے نفرت کرتے ہیں۔
پھر اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ آزادی اور اشتراک کے ساتھ تعلیم‘ زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی‘ روزگار کے مواقع اور دولت کی منصفانہ تقسیم کو ملکی پالیسی میں مرکزیت کا مقام حاصل ہو‘ وقت کی ٹکنالوجی کو حاصل کیا جائے اور ایجاد و اختراع اور تحقیق و تفتیش کے ذریعے علم اور سائنس پر قدرت حاصل کی جائے۔ نیز معیشت اور ٹکنالوجی کے میدانوں میں بھی خود انحصاری کی پالیسی اختیار کی جائے۔ خود انحصاری نہ خود کفالت ہے اور نہ دنیا سے الگ تھلگ ہونا ۔ اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ ہمیں وسائل پر اتنی قدرت حاصل ہو کہ ہم اپنی پالیسیاں ‘اپنے مقاصداور اہداف کے مطابق خود طے کر سکیں اور دوسروں کی ایسی محتاجی نہ ہو کہ وہ ہماری پالیسی پر اثرانداز ہو سکیں۔ دنیا کے تمام ممالک سے تعاون اور تجارت سب کے لیے اسی وقت بہتری کا باعث ہو سکتے ہیں جب خود انحصاری کے ساتھ یہ تعاون ہو ورنہ یہی بین الاقوامی رشتے اور معاملات ظلم اور استحصال کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
مسلمان ممالک کی تعمیر و ترقی میں یہ بات بھی سامنے رہے کہ یہ اُمت اُمتِ وسط ہے جس کا کام دنیا کے سامنے خدا کے پیغام کی شہادت ہے اور جو انصاف کے فروغ اور نیکیوں کی ترویج اور برائیوں سے نجات کی داعی ہے۔ اس اُمت میں اگر انتہا پسندی اور تشدد کی سیاست در آئی ہے تو یہ اس کے مشن اور مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اور اس کے اصل کردار پر ایک بدنما دھبہ ہے۔ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی‘ اسلام تشدد اور اکراہ کا مخالف ہے اور محبت‘ بھائی چارے‘ رواداری اور تعاون و اشتراک کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ جہاد کا مقصد انصاف کا قیام اور تمام انسانوں کے لیے آزادی‘ عزت اور عدل کی ضمانت ہے۔جہاد اپنی تمام صورتوں میں --- یعنی نفس کے ساتھ جہاد‘ زبان اور قلم سے جہاد‘ مال سے جہاد اور جان سے جہاد--- واضح اخلاقی حدود اور مقاصد کا پابند ہے اور ہر سطح پر اس کے تصور‘ تعلیم اور تبلیغ کی ضرورت ہے تاکہ جہاد کا صحیح فہم و ادراک ہو اور اس کی نعمتوں سے مسلمان اور غیر مسلم سب فیض یاب ہو سکیں۔ جہاد کے اس تصور کا فہم اور احترام ہر دور میں ضروری تھا مگر آج جب جہاد کو بدنام کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور جہادی کلچر کو تشدد اور دہشت گردی کے مترادف قراردیا جا رہا ہے‘ اس تفہیم اور جہاد کے آداب کے مکمل احترام کی ضرورت ہمیشہ سے زیادہ ہے۔ جہاد اسلام کی ابدی تعلیم اور اس کا رکن رکین ہے جس کے بارے میں کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا‘ لیکن جہاد ایک اخلاقی قوت اور تعمیر کی صورت ہے اور اس کا یہ کردارسب سے پہلے خود مسلمانوں کے سامنے ہونا چاہیے تاکہ غیر مسلم بھی اس کی گواہی دے سکیں۔
دور جدید میں تحریک اسلامی کی خدمات میں سے ایک نمایاں خدمت یہ ہے کہ ایک طرف اس نے جہاد اور روحِ جہاد کے احیا کا کارنامہ انجام دیا ہے تو دوسری طرف جہاد کے مقاصد‘ آداب اور ضابطہ کار کی وضاحت اور احترام کر کے اس کے اصل کردار پر توجہ مرکوز کی ہے اور مسلمانوں کو اس کا پابند بنانے کی کوشش کی ہے۔
مسلم ممالک کے درمیان معاشی‘ سیاسی‘ تعلیمی‘ ٹکنالوجی اور میڈیا کے میدانوں میں قریب ترین تعاون بلکہ اتحاد اور الحاق کی ضرورت ہے جو نظریے اور تاریخ کے اشتراک کے ساتھ مفادات کے اشتراک اور سیاسی اور معاشی باہمی تکمیلات کی محکم بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے۔ یہ اب سب کی ایسی ضرورت ہے جسے موخر نہیں کیا جا سکتا۔ اس نظام میں تنازعات کے تصفییکا بھی مناسب انتظام ہونا چاہیے تاکہ حقیقت پسندی سے اتحاد کو مستحکم کیا جاسکے۔ عالمی سطح پر مسلم نقطہ نظر کو پیش کرنے کے لیے میڈیا کی موثر ترقی و تنظیم بھی ضروری ہے۔
اسلام کے عالمی کردار کی موثر ادایگی اسی وقت ممکن ہے جب تمام مسلمان ملک اور امت مسلمہ ان خطوط پر اپنی اجتماعی زندگی کی تشکیل کرے اور امت وسط کی حیثیت سے اللہ کی بندگی اور انسانوں کے لیے انصاف اور فلاح کے نظام کی داعی کی حیثیت سے اپنے گھر کی تعمیر کرے اور دنیا کے سامنے اس کا نمونہ پیش کرے۔
وقت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان اور اہل پاکستان پر بھی ایک بڑی ذمہ داری آتی ہے۔ ۱۱ ستمبر کے بعد جو کچھ ہوا ‘وہ خواہ مجبوری کے تحت ہوا یا عاقبت نااندیشی کے تحت--- ہم اس پر تفصیل سے بحث کرچکے ہیں۔ افغانستان میں جو کچھ ہونا تھا وہ ہو گیا‘ بھارت اس سے جو فائدہ اٹھانا چاہ رہا ہے وہ واضح ہوتا جا رہا ہے اور جنگ کے مہیب سائے اُفق پر اُبھرتے چلے آ رہے ہیں۔ ہمارے اندرونی معاملات میں بیرونی دراندازیاں مشکلات میں اضافے اور آزادی اور خود مختاری کے لیے خطرات کا باعث ہیں۔ ان حالات کا تقاضا ہے کہ تصادم‘ عدم مشاورت اور وقت گزاری کی پالیسی ترک کر کے ایک ایسی پالیسی کو اپنایا جائے جس میں پاکستان‘ اس کے نظریے اور قوم کی سلامتی‘ اور ترقی کو یقینی بنائی جا سکے۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل امور فوری توجہ کے طالب ہیں:
۱- اللہ سے وفاداری اور اس پر بھروسے کو سب چیزوں پر اولیت دی جائے۔ اللہ کی طرف رجوع ہو اور اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کا اپنے مالک کے حضور اعتراف کر کے اس سے طاقت اور رہنمائی طلب کی جائے۔ پوری قوم اور اس کی قیادت اپنے مالک کا دامن تھامے اور اس سے مدد مانگے۔
۲- عوام پر بھروسا کیا جائے ‘ان کو اعتماد میں لیا جائے اور موثر طورپر ان کو قومی سلامتی‘ ترقی اور تعمیرنو کے لیے متحرک کیا جائے۔
۳- نظریاتی کش مکش سے بچا جائے اور جس لاحاصل بحث میں مغربی میڈیا اور دانش ور ہمیں مبتلا کر دینا چاہتے ہیں‘ اس سے دامن بچایا جائے۔ بنیاد پرستی‘ انتہا پرستی اور فرقہ پرستی ہمارے مسائل نہیں۔ جدید اور قدیم کی بحثیں بہت پرانی ہیں اور ہم ان سے گزر چکے ہیں۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات بہت صاف اور واضح ہیں۔ اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے جو بنیادی اخلاقی اقدار کی روشنی میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل کرتا ہے۔ سیکولرزم ایک مردہ گھوڑا ہے اس پر سواری کے خواب دیکھنا ایک حماقت ہے۔ پاکستان کے دستور نے جن تین بنیادوں کو واضح طور پر پیش کر دیا ہے یعنی اسلام‘ جمہوریت اور وفاقی طرز‘ انھیں متفق علیہ بنیاد بنا کر قومی پالیسی کی تشکیل کی جائے اور ان طے شدہ امور کو ازسرنو بحث میں لانے کی جسارت نہ کی جائے ۔ اسلام اعتدال کا دین ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ضرورت اس پر عمل کی ہے۔ ہمارا ایجنڈا ہماری تحریک آزادی اور ہماری قرارداد مقاصد ہمارے دستور میں طے ہے۔ اسے مضبوطی سے تھام لیجیے۔
۴- ملک کی دفاعی قوت کی حفاظت کو اولیت حاصل ہے۔ امریکی فوجوں کی موجودگی اس کے لیے ایک خطرہ ہے۔ اسی طرح بھارت کے عزائم کا ادراک اور مقابلے کے لیے فوج اور قوم میں ہم آہنگی اور دونوں کا تحرک (mobilization)ضروری ہے۔
۵- کشمیر پالیسی کے بارے میں مکمل یکسوئی اور مضبوطی کی ضرورت ہے۔
۶- افغان پالیسی کی جلد از جلد تشکیل نو مطلوب ہے۔ اسٹرے ٹیجک گہرائی کے چکر سے نکلنے اور افغانستان میں ایک ایسی حکومت کے قیام میں ہماری دل چسپی ہونی چاہیے جسے افغان بھائی خود طے کریں اور جس سے افغانستان کا اتحاد باقی رہے اور وہ ایک ہمسایہ اور بھائی ملک کی حیثیت سے ترقی کرے۔ مفادات کے چکر سے بلند ہو کر افغان پالیسی کی تشکیل کی ضرورت ہے تاکہ ماضی کی غلطیوں کی تلافی ہو سکے۔ افغان عوام کے دل پاکستانی عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور قیادتوں نے جوبھی غلطیاں اور ناانصافیاں کی ہیں ان سے متاثر ہو کر کسی قسم کی کش مکش یا جنبہ داری کا راستہ ہرگز اختیار نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہماری پالیسی کی بنیاد وہ رشتہ اشتراک ہونا چاہیے جو دین‘ تاریخ اور مشترک مفادات کی وجہ سے قائم ہے اور جس نے دلوں میں محبت اور معاملات میں تعاون کی روایت قائم کی ہے۔
۷- ملک میں جمہوری عمل کا احیا‘ دستور کو ذاتی پسند و ناپسند کے مطابق تبدیل کرنے سے مکمل احتراز اور دستور کے مطابق جمہوری نظام کی بحالی کے لیے فوری طور پر اجتماعی مشاورت‘ آزاد الیکشن کمیشن کے قیام اور اس سلسلے کے تمام ضروری انتظامات پرفوری توجہ کی ضرورت ہے۔
۸- معیشت کی بحالی کے لیے قومی مشاورت‘ تجارت‘ زراعت‘ صنعت اور محنت سے متعلق طبقات کے تعاون سے قومی خود انحصاری کے حصول اور معاشی ترقی اور سرگرمی کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کی طرف توجہ دینا۔
۹- مسلم ممالک سے تعلقات بڑھانے اور مشترک خطرات کے مقابلے کے لیے مشترک حکمت عملی کی تشکیل کی کوشش۔
۱۰- ایران اور چین سے خصوصی تعاون اور ان کے ساتھ مشترک حکمت عملی وضع کرنے اور اس پر عمل کا نظام بنانے کی کوشش۔
یہ ۱۰ نکات فوری توجہ کے مستحق ہیں۔ لیکن سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم حالات اور خطرات کا صحیح ادراک کریں۔ اپنے نظریے اور قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے خدا پر بھروسے اور ایک دلی جذبے کے ساتھ اصلاح احوال کی جدوجہد شروع کر دیں۔ اگر ہم ۱۱ ستمبر سے اب تک کے رونما ہونے والے واقعات کو ایک خطرے کی گھنٹی سمجھیں ‘اب بھی بیدار ہو جائیں اور اٹھ کھڑے ہوں تو آگے کے مراحل زیادہ مشکل نہیں۔ واللّٰہ المستعان!
آدمی شب و روز اس زمین کی پیداوار کھا رہا ہے اور اپنے نزدیک اسے ایک معمولی بات سمجھتا ہے۔ لیکن اگر وہ غفلت کا پردہ چاک کر کے نگاہِ غور سے دیکھے تو اسے معلوم ہو کہ اس فرشِ خاک سے لہلہاتی کھیتیوں اور سرسبز باغوں کا اُگنا اور اس کے اندر چشموں اور نہروں کا رواں ہونا کوئی کھیل نہیں ہے جو آپ سے آپ ہوئے جا رہا ہو بلکہ اس کے پیچھے ایک عظیم حکمت و قدرت اور ربوبیت کارفرما ہے۔ زمین کی حقیقت پر غور کیجیے‘ جن مادّوں سے یہ مرکب ہے اُن کے اندر بجائے خود کسی نشوونما کی طاقت نہیں ہے۔ یہ سب مادّے فرداً فرداً بھی اور ہر ترکیب و آمیزش کے بعد بھی بالکل غیر نامی ہیں اور اس بنا پر ان کے اندر زندگی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس بے جان زمین کے اندر سے نباتی زندگی کا ظہور آخر کیسے ممکن ہوا؟ اس کی تحقیق آپ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ چند بڑے بڑے اسباب ہیں جو اگر پہلے فراہم نہ کر دیے گئے ہوتے تو یہ زندگی سرے سے وجود میں نہ آ سکتی تھی:
اولاً‘ زمین کے مخصوص خطّوں میں اس کی اوپری سطح پر بہت سے ایسے مادّوں کی تہ چڑھائی گئی جو نباتات کی غذا بننے کے لیے موزوں ہو سکتے تھے اور اس تہ کو نرم رکھا گیا تاکہ نباتات کی جڑیں اس میں پھیل کر اپنی غذا چوس سکیں۔
ثانیاً‘ زمین پر مختلف طریقوں سے پانی کی بہم رسانی کا انتظام کیا گیا تاکہ غذائی مادّے اس میں تحلیل ہو کر اس قابل ہو جائیں کہ نباتات کی جڑیں ان کو جذب کر سکیں۔
ثالثاً‘ اوپر کی فضا میں ہوا پیدا کی گئی جو آفاتِ سماوی سے زمین کی حفاظت کرتی ہے‘ جو بارش لانے کا ذریعہ بنتی ہے‘ اور اپنے اندر وہ گیسیں بھی رکھتی ہے جو نباتات کی زندگی اور ان کے نشوونما کے لیے درکار ہیں۔
رابعاً‘ سورج اور زمین کا تعلق اس طرح قائم کیا گیا کہ نباتات کو مناسب درجۂ حرارت اور موزوں موسم مل سکیں۔
یہ چار بڑے بڑے اسباب (جو بجائے خود بے شمار ضمنی اسباب کا مجموعہ ہیں) جب پیدا کر دیے گئے تب نباتات کا وجود میں آنا ممکن ہوا۔ پھر یہ سازگار حالات فراہم کرنے کے بعد نباتات پیدا کیے گئے اور ان میں سے ہر ایک کا تخم ایسا بنایا گیا کہ جب اسے مناسب زمین‘ پانی‘ ہوا اور موسم میسر آئے تو اس کے اندر نباتی زندگی کی حرکت شروع ہو جائے۔ مزیدبرآں اسی تخم میں یہ انتظام بھی کر دیا گیا کہ ہر نوع کے تخم سے لازماً اسی نوع کا بوٹا اپنی تمام نوعی اور موروثی خصوصیات کے ساتھ پیدا ہو۔ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر مزید کاری گری یہ کی گئی کہ نباتات کی دس بیس یا سو پچاس نہیں بلکہ بے حدوحساب قسمیں پیدا کی گئیں اور ان کو اس طرح بنایا گیا کہ وہ اُن بے شمار اقسام کے حیوانات اور بنی آدم کی غذا‘ دوا‘ لباس اور اَن گنت دوسری ضرورتوں کو پورا کر سکیں جنھیں نباتات کے بعد زمین پر وجود میں لایا جانے والا تھا۔
اس حیرت انگیز انتظام پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ اگر ہٹ دھرمی اور تعصب میں مبتلا نہیں ہے تو اس کا دل گواہی دے گا کہ یہ سب کچھ آپ سے آپ نہیں ہو سکتا۔ اس میں صریح طور پر ایک حکیمانہ منصوبہ کام کر رہا ہے جس کے تحت زمین‘ پانی‘ ہوا اور موسم کی مناسبتیںنباتات کے ساتھ‘ اور نباتات کی مناسبتیں حیوانات اور انسانوں کی حاجات کے ساتھ انتہائی نزاکتوں اور باریکیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے قائم کی گئی ہیں۔ کوئی ہوش مند انسان یہ تصور نہیں کر سکتا کہ ایسی ہمہ گیر مناسبتیں محض اتفاقی حادثے کے طور پر قائم ہو سکتی ہیں۔ پھر یہی انتظام اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ یہ بہت سے خدائوں کا کارنامہ نہیں ہو سکتا۔ یہ تو ایک ہی ایسے خدا کا انتظام ہے اور ہو سکتا ہے جو زمین ‘ ہوا‘ پانی‘ سورج‘نباتات‘ حیوانات اور نوعِ انسانی‘سب کا خالق و رب ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے خدا الگ الگ ہوتے تو آخر کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایک ایسا جامع‘ ہمہ گیر اور گہری حکیمانہ مناسبتیں رکھنے والا منصوبہ بن جاتا اور لاکھوں کروڑوں برس تک اتنی باقاعدگی کے ساتھ چلتا رہتا۔
توحید کے حق میں یہ استدلال پیش کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَفَلاَ یَشْکُرُوْنَ؟ یعنی کیا یہ لوگ ایسے احسان فراموش اور نمک حرام ہیں کہ جس خدا نے یہ سب کچھ سروسامان ان کی زندگی کے لیے فراہم کیا ہے‘ اس کے یہ شکرگزار نہیں ہوتے اور اس کی نعمتیں کھا کھا کر دوسروں کے شکریے ادا کرتے ہیں؟ اس کے آگے نہیں جھکتے اور ان جھوٹے معبودوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں جنھوں نے ایک تنکا بھی ان کے لیے پیدا نہیں کیا ہے؟ (آیت: وَاٰیَۃٌ لَّھُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَۃُ ج ( یٓس ۳۶:۳۳)کی تفسیر‘ تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۲۵۷-۲۵۸)
دعائوں کی قبولیت کا وسیلہ اللہ تعالیٰ کا اسم مبارک‘اسم اعظم ہے۔ اللہ کے نبیؐ اس اسم کو اس کے اوصاف کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ کو سناتے ہیں کہ انھیں اس کا شوق پیدا ہو‘ پھر کچھ دن کے بعد بتلا رہے ہیں کہ مجھے اس کا علم دے دیا گیا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کا شوق سوا ہو جاتا ہے۔ طلب اور تڑپ کے عجیب مناظر سامنے آتے ہیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جواب یہی ملتا ہے کہ اس کا علم آپ کے لیے مناسب نہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ کوئی ایسی چیز نہ مانگ لیں‘ جو صرف دنیا میں کام آئے۔ اللہ کے اسم اعظم سے سوال ہو اور محض دنیا کے کسی کام کے لیے‘ یہ مناسب نہیں۔ تب حضرت عائشہؓ کی تڑپ اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ وہ وضو کرتی ہیں‘ نماز پڑھتی ہیں‘ اللہ تعالیٰ کے تمام اسماے حسنیٰ کے وسیلے سے دعا کرتی ہیں۔ آپؐ کے سامنے یہ سارا منظر ہے۔ آپؐ حضرت عائشہ ؓ کو شاباش دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں: عائشہ! گوہر مراد کو تو تم نے پا لیا۔ اسم اعظم ان ہی اسماے حسنیٰ میں موجود ہے جن کے ذریعے تم نے دعا کر لی ہے۔ اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ تمھیں اس کا متعین طور پر علم نہیں ہے۔
شفقت ‘ تعلیم و تربیت ‘ ذوق و شوق اور تعظیم و محبت کے کیسے کیسے مناظر سامنے آتے ہیں۔ یہ محسوس تو کیے جا سکتے ہیں لیکن بیان نہیں۔
کتنے بھائی ہیں جو ظلماً قتل ہو گئے اور کتنے ہیں جو قتل ہو رہے ہیں۔ کتنے ہیں جو زخموں سے چور ہیں اور بے سہارا ہیں۔ جیلوں میں سختیاں اٹھا رہے ہیں۔ لاکھوں بے گھر‘ ننگے اور بھوکے ہیں۔ ان کی حمایت‘ مدد اور تعاون میں ہر ایک اپنی استطاعت کے مطابق حصہ لے سکتا ہے۔ بھائواچھے ہیں‘ مٹی سونے کے بھائو بک رہی ہے‘ کمائی ہی کمائی ہے۔ تب کوئی ہے جو حضرت ابوبکر صدیقؓ کی طرح ساری کمائی پیش کر دے‘ حضرت عمر فاروقؓ کی طرح نصف لے کر آجائے‘ حضرت عثمان غنیؓ کی طرح ۹۰۰ اونٹ پورے سازوسامان کے ساتھ پیش کر دے۔ بہت مل رہا ہے کوئی خریدار آئے تو سہی۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ جو یہ سعادت حاصل کر رہے ہیں!
محبت ہو تو ملاقاتیں ہوتی ہیں‘ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے جاتے ہیں‘ مصافحے اور معانقے ہوتے ہیں‘ زیارتیں ہوتی ہیں‘ تحفے پیش کیے جاتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ کرامؓ سے اور صحابہ کرام کو آپؐ سے جو محبت تھی‘ اس کی نظیر روے زمین پر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ حضرت عروہؓ بن مسعود ثقفی کہتے ہیں: میں بڑے بڑے بادشاہوں کے درباروں میں گیا ہوں لیکن میں نے کسی کو اپنے بادشاہ سے اس طرح محبت کرتے ہوئے نہیں دیکھا جس طرح کی محبت صحابہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے ہیں۔ نبی کریم ؐ اپنے محبوب صحابی سے اظہار محبت کے بعد جو تحفہ پیش کر رہے ہیں وہ ذکر‘ شکر اور حسن عبادت میں اللہ تعالیٰ سے اعانت کی دعا ہے کہ اس کی اعانت سے ہی انسان اس کی بندگی کی راہ میں آگے بڑھتا ہے۔ اظہار محبت کے لیے اس طرح کے تحفے دینا بھی سیکھنا چاہیے کہ یہ سنت نبویؐ ہے۔
کتنے خوش نصیب ہیں وہ جو مخلوق اور خالق کے درمیان محبت کے رشتوں کو استوار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ کے بندوں کو شیطان کے پنجوں اور شکنجوں سے نکال کر اللہ کی بندگی کی شاہراہ پر گامزن کرتے ہیں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں۔ دعوت دین کے کام کی عظمت و رفعت کا کیا عالم ہے!
نماز روزے کی ادایگی اور کبائر سے اجتناب کی برابر اہمیت ہے۔ ایسی نمازیں جن کے ساتھ کبائر کا ارتکاب جاری ہے‘ بھلا کس کام آئیں گی۔ کبائر سے اجتناب سے انفرادی زندگی میں ہی سکون نہیں آئے گا‘ معاشرہ بھی فساد سے پاک ہوگا۔ معاشرہ ان کبائرسے پاک ہو جائے ‘نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج قائم کر دیے جائیںتو دنیا عدل و انصاف اور امن و امان کا گہوارہ بن جائے۔ آج قتل ناحق کا بازار گرم ہے ‘سود خوروں کا راج ہے اور کمزوروں کی حق تلفی کا دور دورہ ہے۔ یہ سب ختم ہو جائے تو یہی دنیا جنت کا نمونہ بن جائے۔ کتنا مختصر اور جامع نسخہ ہے!
ترجمہ: مولانا نسیم احمد فریدی
خواجہ محمد معصوم سرہندیؒ (۱۰۰۷-۱۰۷۹ھ / ۱۵۹۹-۱۶۶۸ء)حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے فرزند ثالث تھے۔ اپنے والد ماجد کے انتقال (۱۰۳۴ھ/۱۶۲۴ء) کے بعد ان کے جانشین کی حیثیت سے مسند ارشاد پر فائز ہوئے۔ ان کے مکاتیب میں دعوت الی اللہ‘ عقائد کی اصلاح‘ اعمال اور اخلاق کی درستی اورفکرآخرت جیسے مضامین ہیں۔ جہانگیری‘ شاہجہانی اور عالم گیری عہد کے بڑے بڑے امرا آپ کے ارادت مندوں میں تھے۔ انھوں نے اپنے خطوط میں ان کی اصلاح اور تربیت کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ ذیل کا مضمون: مکتوبات خواجہ محمد معصوم سرہندیؒ سے ماخوذ ہے۔
جو شخص مسند مشیخت پر بیٹھا ہوا ہے اور اس کا عمل موافقِ سنت رسولؐ نہیں ہے اور نہ خود زیورِ شریعت سے آراستہ ہے‘ خبردار‘ خبردار‘ اس سے دُور رہنا‘ بلکہ (احتیاطاً) اُس شہر میں بھی نہ رہنا جس میں ایسا مکار رہتا ہو۔ ایسا نہ ہو کہ کچھ عرصے بعد اس کی طرف دل کا میلان ہو جائے اور کارخانۂ روحانیت خلل پذیر ہو۔ ایسا شخص ہرگز اقتدا کے لائق نہیں ہوتا۔ وہ تو درحقیقت ایک چور ہے پنہاں۔ ہرچند کہ اس سے طرح طرح کے خوارق عادات دیکھو اور اس کو دنیا سے بظاہر بے تعلق بھی پائو (کبھی اس کی طرف ملتفت نہ ہونا) اس کی صحبت سے اس طرح بھاگنا جس طرح شیر سے بھاگتے ہیں۔
سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی قدس سرہ فرماتے ہیں: ’’کامیابی کے تمام راستے بند ہیں سوائے اس شخص کے راستے کے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم کی پیروی کرے۔ سیدالطائفہ ہی کا یہ قول ہے کہ مقربین صادقین کا راستہ درحقیقت کتاب و سنت کے ساتھ وابستہ ہے۔ اور وہ علما جو شریعت و طریقت پر عامل ہیں اور وارث النبیؐ کہلانے کے مستحق ہیں وہ اقوال‘ اخلاق اور افعال میں آنحضرتؐ کے متبع ہوتے ہیں۔
مکرر لکھتا ہوں کہ آداب نبویؐ کا خیال نہ رکھنے والے اور سنن مصطفویؐ کو چھوڑنے والے کو ہرگز ہرگز ’’عارف‘‘ خیال نہ کرنا‘ اس کے (ظاہری) تبتل و انقطاع ‘ خوارق عادات‘ زہد و توکل اور (زبانی) معارفِ توحیدی پر فریفتہ و شیفتہ نہ ہو جانا--- مدارِکار‘ اتباعِ شریعت پر ہے اور ’’معاملۂ نجات‘‘ پیروی نقشِ قدمِ رسولؐ سے مربوط ہے۔ محق و مبطل میں امتیاز پیدا کرنے والی چیز اتباع پیغمبر ہی ہے۔ زہد و توکل اور تبتل بغیر اتباع رسولؐ کے نامعتبر ہیں--- ’’اذکار و افکار‘‘ اور ’’اشواق و اذواق‘‘ بے توسل سرکار دوعالمؐ غیر مفید ہیں۔ خوارقِ عادات کا دارومدار بھوک اور ریاضت پر ہے۔ اُس کو معرفت سے کیا تعلق؟
حضرت عبداللہ بن مبارکؒ نے فرمایا ہے: ’’جس نے آداب سے سستی برتی وہ سنن سے محروم ہو گیا۔ جس نے سنن سے غفلت اختیار کی وہ فرائض سے محروم ہوا اور جس نے فرائض سے تہاون کیا وہ معرفت سے محروم ہو گیا‘‘۔
شیخ ابوسعید ابوالخیرؒ سے لوگوں نے کہا کہ فلاں شخص پانی پر چلتا ہے۔ انھوں نے فرمایا: ہاں! گھاس کا تنکا بھی پانی پر چلتا ہے (یہ کوئی کمال کی بات نہیں ہے)۔ پھر کہا گیا کہ فلاں آدمی ہوا میں اُڑتا ہے۔ فرمایا: (ٹھیک ہے) چیل اور مکھی بھی ہوا میں اُڑتے ہیں۔ پھر کہا گیا کہ فلاں آدمی ایک لحظے میں ایک شہر سے دوسرے شہر چلا جاتا ہے۔ فرمایا: (اس میں کیا رکھا ہے) شیطان تو ایک دم مشرق سے مغرب تک چلا جاتا ہے۔ ان باتوں کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ مردِ حق دراصل وہ ہے جو مخلوق کے درمیان نشست و برخاست رکھے۔ بیوی بچے رکھتا ہو اور پھر ایک لحظہ خدائے عزوجل سے غافل نہ رہے۔
شیخ علی ابن ابی بکر قدس سرہٗ نے معارج البدایہ میں فرمایا ہے کہ ’’ہر انسان کا حسن و کمال تمام امور میں ظاہراً و باطناً‘ اصولاً و فروعاً‘ عقلاً و فعلاً ‘ عادتاً و عبادتاً کامل اتباعِ رسولؐ میں مضمر ہے‘‘۔
اگر کوئی گناہ وقوع میں آجائے تو بہت جلد اس کا تدارک توبہ و استغفار سے کر لینا چاہیے‘ گناہِ پوشیدہ کی توبہ پوشیدہ طریقے پر اور گناہِ آشکارا کی علانیہ طریقے پر توبہ ہو۔ توبہ میں دیر نہ کی جائے--- منقول ہے کہ: کراماً کاتبین تین ساعت تک گناہ لکھنے میں توقف کرتے ہیں۔ اگر اس درمیان میں توبہ کر لی‘ تو اس گناہ کو نہیں لکھتے ورنہ اپنے رجسٹر میں اس گناہ کا اندراج کر لیتے ہیں۔ جعفر بن سنانؒ فرماتے ہیں: ’’توبہ سے غفلت کرنا ارتکابِ گناہ سے بھی زیادہ بری بات ہے‘‘۔ اگر جلدی توبہ میسر نہ ہو سکے تو جب بھی توبہ کرے ‘غرغرئہ موت سے پہلے پہلے--- وہ توبہ مقبول ہے۔ حدیث میں آیا ہے‘ اللہ تعالیٰ رات کو اپنا دست ِ نوازش دراز کرتا ہے تاکہ دن کا گنہگار توبہ کر لے اور دن کو بھی اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے تاکہ رات کا گنہگار توبہ کر لے۔ انسان کو چاہیے کہ ورع و تقویٰ کو اپنا شعار بنائے اور منہیات میں قدم نہ رکھے کیونکہ اس راہِ سلوک میں نواہی سے باز رہنا (درحقیقت) اوامر کے امتثال ]احکام بجا لانا[سے زیادہ ترقی بخش اور سودمند ہے۔ ایک درویش نے کہا ہے کہ: ’’اچھے اعمال تو نیک اور فاجر دونوں کر لیتے ہیں لیکن معاصی سے بچنے کا (اہتمام) ’’صدیق‘‘ کا کام ہے‘‘۔
حدیث میں آیا ہے کہ حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی۔ جو چیز تجھے شک میں ڈالے اس کو چھوڑ دے۔ (بخاری‘ مسلم)
اگر اپنے اور اہل و عیال کے لیے تجارت یا اس کے مانند کوئی حلال کسب کرے تو وہ مضر نہیں ہے بلکہ مستحسن ہے کیونکہ سلف نے اس کو اختیار کیا ہے۔ احادیث میں فضل کسب بہت کچھ بیان کیا گیا ہے۔ اگر کوئی توکل اختیار کرے ‘ تو یہ بھی بہتر ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پھر کسی سے طمع نہ رکھے۔
ابومحمد منازلؒ نے فرمایا ہے کہ ’’توکل کسب حلال کے ساتھ ساتھ کرنا بہتر ہے بمقابلہ خالی توکل کے‘‘۔ کھانا کھانے میں اعتدال کا خیال رکھے‘ نہ اتنا زیادہ کھائے کہ وہ کھانا عبادت میں کسل اور سستی پیدا کردے اور نہ اس قدر کم کھائے کہ (ضعف کے باعث) اذکار و طاعات سے باز رہے--- حضرت خواجہ نقشبندؒ کا ارشاد ہے کہ ’’لقمہ تر کھائو‘ لیکن (دینی) کام خوب کرو‘‘۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ’’طاعت‘‘ میں جس قدر کھانا ممد و معاون ہو‘ وہ خوب اور مبارک ہے اور اس ’’کارخانے‘‘ میں جتنی زیادتی طعام خلل انداز ہو جائے وہ البتہ ممنوع ہے۔
تمام افعال و حرکات میں اس کا قصد کرے کہ نیت صحیح ہو۔ جب تک نیت صالحہ نہ ہو‘ حتی الامکان کوئی قدم نہ اٹھائے۔ لوگوں کے ساتھ اختلاط بقدرِ ضرورت کرے۔ وہ اختلاط جو برائے افادہ و استفادہ ہو‘ البتہ محمود بلکہ ضروری ہے۔ ہر نیک و بد کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنا چاہیے ‘ خواہ اس سے باطن میں انبساط پیدا ہو یا انقباض۔ جو شخص عذر خواہی کرے‘ اس کے عذر کو قبول کرنا چاہیے۔ اخلاق اچھے ہوں۔ (خواہ مخواہ) اعتراض کسی پر نہ کیا جائے‘ نرم و ملائم گفتگو ہو۔ کسی کے ساتھ سخت درشتی سے معاملہ نہ کرے‘ ہاں خدا کے لیے سختی کر سکتا ہے۔
شیخ عبداللہ ؒ نے فرمایا ہے کہ: ’’درویشی نہ فقط نماز روزے کا نام ہے اور نہ صرف بیداری شب کا‘ یہ تو اسباب بندگی ہیں‘ درویشی یہ ہے کہ کسی کی دل آزاری نہ کی جائے۔ اس خوبی کو حاصل کرے گا تو بامراد ہوگا‘‘۔
محمد بن سالم ؒسے لوگوں نے دریافت کیا: ’’اولیاکی پہچان کیا ہے؟‘‘ انھوں نے فرمایا: ’’اولیا کی علامات یہ ہیں: لطفِ لسان‘ حسنِ اخلاق‘ بشاشت چہرہ‘ سخاوت نفس‘ قلّت اعتراض‘ عذرخواہ کے عذر کو قبول کرنا‘ تمام مخلوقِ خدا پر شفقت کرنا خواہ نیکوکار ہوں یا بدکار‘‘۔
ابو عبداللہ احمد مقری قدس سرہٗ فرماتے ہیں: ’’جوانمردی یہ ہے کہ تو جس شخص سے کدورت رکھتا ہو اُس سے حسن خلق سے پیش آئے اور جس آدمی سے کراہت کرتا ہو اس پر مال خرچ کرے اور جس سے نفرت ہو اُس سے اچھا سلوک کرے‘‘۔ بات چیت کرنے میں ’’رعایت قلّت‘‘ مدنظر رہے۔ زیادہ نیند اور زیادہ ہنسنا بھی درست نہیں کیونکہ اس سے دل مردہ ہو جاتا ہے۔ اپنے تمام اُمور کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرے اور خدمت ِ مولیٰ میں چست ہو جائے۔ ایسا کرے گا تو تدبیر امور سے فارغ ہو جائے گا (اور سب کام غیب سے بن جائیں گے)۔جنید بغدادیؒ نے خوب فرمایا ہے کہ: ’’دنیا کی تمام حاجتوں میں کامیابی کا راز ان حاجتوں کو ترک کر دینے میں پوشیدہ ہے۔ جب دل ایک جانب (خدا کی طرف) ہو جائے گا‘ خداوند کریم سب کام پورے کردے گا‘‘۔ حدیث میں ہے: ’’جو شخص اپنے تمام غموں کو ایک غم (غمِ آخرت) بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کے دنیا اور آخرت کے تمام کام بنا دے گا‘‘۔ نیز ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو تیرے اوپر مہربان کر دے گا کہ وہ تیرے کاموں کو (خود بخود) انجام دیں گے۔
یحییٰ معاذ رازیؒ فرماتے ہیں: ’’جس قدر تجھے اللہ سے محبت ہوگی‘ مخلوقِ خدا بھی تجھ سے اتنی ہی محبت کرے گی۔ تجھے خدا کا جس قدر خوف ہوگا‘ مخلوق بھی تجھ سے اتنا ہی ڈرے گی اور تو جتنا خدا کے حکموں میں مشغول ہوگا ‘مخلوق بھی تیرا اتنا ہی کہنا مانے گی‘‘۔
کسی پر اعتماد سوائے فضل پروردگار کے نہ ہو۔ اہل و عیال کے ساتھ نیک سلوک کرنا چاہیے اور بقدرِ ضرورت ان سے اختلاط ہو تاکہ ان کا حق ادا ہو جائے۔ ’’موانست ِ تام‘‘ ان سے نہ ہو۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ سے اعراض کا اندیشہ ہے۔ ’’احوالِ باطن‘‘ نااہل سے نہ بیان کیے جائیں۔ مال داروں سے حتی المقدور میل جول نہ رکھا جائے۔ جمیع حالات میں سنت نبویؐ کو اختیار کیا جائے‘ بدعت سے حتی الوسع اجتناب ہونا چاہیے۔ سالک کو چاہیے کہ حوادث میں متذبذب نہ ہو۔ عیوبِ مردم پر نظر نہ کرے اور اپنے عیوب ہمیشہ پیش نظر رکھے۔ اپنے آپ کو کسی مسلمان پر ترجیح نہ دے‘ سب کو اپنے سے بہتر سمجھے۔ ہر مسلمان کے متعلق یہ اعتقاد رکھے کہ اس کی برکت اور دعا سے مجھے کشود کار ]مشکل حل ہونا[ میسر ہو سکتا ہے۔ سلف صالحین کے حالات پیش نظر رکھے۔ مساکین کی ہم نشینی پسند کرے۔ کسی کی غیبت کی جانب خود بھی مائل نہ ہو اور جہاں تک ہو سکے دوسرے کو بھی اس سے روکے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنا شیوہ بنائے۔ اللہ کے راستے میں انفاقِ مال پر حریص ہو۔ حسنات کے صدور سے خوشی محسوس کرے اور سیئات کے ارتکاب سے دُور دُور رہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ: جو شخص ایسا ہو کہ اپنا گناہ اس کو ناگوار گزرے اور نیکی اُس کو خوش کرے‘ بس وہ مومن (کامل) ہے۔ (مسند احمد‘ دارمی)
مفلسی سے ڈر کر بخیلی اختیار نہ کرے‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَآئِ ‘شیطان تم کو فقر وفاقہ سے ڈراتا ہے اور بری باتوں کا حکم کرتا ہے (البقرہ ۲:۲۶۸) ۔ قلّت معیشت سے تنگ دل نہ ہو۔ عیش کا زمانہ تو آگے آ رہا ہے۔
اَللّٰھُمَّ لاَ عَیْشَ اِلاَّ عَیْشُ الْآخِرَۃِ ‘ اے اللہ! عیش تو بس آخرت ہی کا عیش ہے۔ یہاں کی تنگی ’’وہاں‘‘ کی فراخی کا سبب ہو جائے گی۔
اس مسکین کا التماس تم جیسے دوستوں سے یہ ہے کہ اس مہجو روعاصی کو دعائوں سے فراموش نہ کرو گے اور اللہ تعالیٰ کے کرمِ عمیم سے درخواست کرو گے کہ یہ گنہگارِ تباہ کار کل قیامت کے دن (کم از کم) ’’زمرئہ عاصیانِ مرحوم‘‘ میں داخل و شامل ہو جائے ۔ (ترتیب و تدوین : عبدالرشید صدیقی)
ترجمہ: پروفیسر عبدالقدیر سلیم
موجودہ دور میں اسلام کے فکری احیا کے لیے کام کرنے والوں میں ڈاکٹر اسماعیل راجی الفاروقی ؒ (۱۹۲۱ء-۱۹۸۶ء) نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے امریکہ میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ (IIIT)قائم کیا جس کی اس میدان میں نمایاں خدمات جاری ہیں۔ ان کی کئی کتابیں ہیں۔ ان کی کتاب: Al Towheed: Its Implications for Thought and Life.زیرترجمہ ہے۔ یہاں اس سے ماخوذ ایک تحریر پیش کی جا رہی ہے ۔ (ادارہ)
آج کی دنیا میں‘ خصوصاً مغرب میں تشکیک کا نقطۂ نظر بہت مقبول ہوا ہے‘ اور خوب پھولا پھلا ہے۔ پڑھے لکھے لوگوں نے تو اسے ایک غالب فلسفے کے طور پر قبول کر لیا ہے‘ مگر اکثر ناخواندہ بھی اس کا شکار نظر آتے ہیں‘ کیوں کہ وہ اپنے اپنے معاشروں کے ’’دانش وروں‘‘ کی پیروی ہی کو مناسب خیال کرتے ہیں۔تشکیک کے اس وسیع پیمانے پرفروغ کی ایک وجہ تو سائنس کی وہ کامیابی ہے ‘ جسے مذہبی ذہن اور سوچ کے مقابلے میںتجربی فکر کی مسلسل فتوحات کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ مذہبی ذہن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ چرچ ]عقیدے‘ ایمانیات[ سے وابستگی کا نام ہے۔ تجربیئین کے نزدیک مذہب تو ایک عرصہ ہوا کہ حق و صداقت کی تعلیم و تلقین کا اختیار گنوا بیٹھا ہے اور چرچ اس اختیار کا سزاوار بھی نہ تھا‘ کیوں کہ اس کی پوزیشن ہمیشہ ہی ادّعائی رہی: وہ ایسے دعووں کو عقائد اور ایمانیات کے طور پر پیش کرتا رہا ہے‘ جنھیں کبھی تجربی جانچ پڑتال کی کسوٹی اور تنقید کے امتحان سے نہیں گزارا گیا۔ مغربی دنیا‘ اور اس کے سارے مقلدین ابھی تک عیسائی چرچ پر سائنسی فکر کی فتوحات کے نشے میں سرشار ہیں۔ اسی فکر کے زیراثر وہ اس غلط اور دُہری تعمیم تک جست لگا دیتے ہیں کہ چوں کہ تمام مذہبی علم لازمی طور پر ادّعائی ہے‘]اس لیے قابل ردّ ہے‘ اور[ اس لیے صداقت تک رسائی کے لیے تمام راہیں تجربیت ہی سے ہو کر گزرنی چاہییں‘ اور ان کی توثیق حسّی تجربات ہی کے ذریعے ہونی چاہیے‘ جو منضبط تجربے کے نتیجے میں حاصل ہوں۔ انھیں یہ فیصلہ کرنے میں کچھ دیر نہیں لگتی کہ ہر وہ بات جس کی اس طرح توثیق نہیں ہو جاتی‘ مشکوک ہے۔ مزید یہ کہ اگروہ اس طرح قابل توثیق نہیں‘ تووہ لازماً غلط ہی ہے۔
اس طرح اُن کی نظر میں ہر مذہبی دعویٰ یا عقیدہ‘ ایک ایسے نظریے سے وابستگی کی نشان دہی کرتا ہے‘ جو تجربی طور پر ناقابل توثیق اور نتیجتاً بالکل بے وقعت ہے۔ صداقت‘ نامعلوم ہے‘ اور اس کا علم ہو بھی نہیں سکتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایمان و ایقان‘ ایک عمل کے نام ہیں‘ یہ ایک فیصلے کی غمازی کرتے ہیں‘ جس کے ذریعے کوئی شخص ایک دشوار اور ناقابل عبور امر کوتسلیم کر لینے کا تہیہ کر کے چلتا ہے۔(۱) پاسکل اُسے ’’بازی کی ایک شرط‘‘ یا دائو کے طور پر پیش کرتا ہے‘ جس کی قطعیت‘ دائو لگانے والے سے ہمیشہ گریزاں ہی رہتی ہے۔
عیسائیوں کے درمیان لامذہب لوگوں نے عیسائی عقیدے کی تصویرکشی یوں کی ہے کہ یہ ایک اندھیرے کمرے میں‘ اندھے شخص کا اُس کالی بلی کی موجودگی پر یقین ہے‘ جو وہاں موجود ہی نہیں۔ انیسویںصدی میں‘ جب سائنسی فتوحات کا نشہ اپنے عروج پر تھا‘ ایک جرمن عالم دینیات شلیئرماخر (Schleiermacher) نے ’’مذہب سے عناد رکھنے والوں‘‘ (۲)کے جواب کے طور پر اپنے عیسائی ساتھیوں کو یہ نصیحت کی تھی کہ عیسائی عقیدے کی صداقت کو امر واقعہ کی میزان میں نہ تولیں‘ اور نہ حقیقت کو تنقید کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کریں‘ اسے تو بس ایک موضوعی تجربے کے طور پر قبول کر لیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یورپی شعور پر رومانیت کے انقلاب نے پوری طرح تسلط پا لیا ہے۔ اس رومانی فکر کے مطابق خدا کو اپنے حقیقی وجود کے اثبات کے لیے عقیدہ رکھنے والے کی محسوسات ہی پر انحصار کرنا ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمان کو اپنے ایمان کے لیے ’’belief‘‘ یا ’’faith‘‘کے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہییں۔ آج کل اپنے عمومی مفہوم میں یہ انگریزی الفاظ عدمِ صداقت‘ ظن وقیاس‘ شک اور بے اعتمادی کا رنگ لیے ہوئے ہوتے ہیں‘ جو اُن کے مفہوم سے لازماً مُترشح ہوتے ہیں۔ ان میں صداقت اُسی وقت تصور کی جاتی ہے‘ جب وہ کسی مخصوص شخص یا گروہ کے حوالے سے استعمال ہوتے ہیں اور اس صورت میں بھی ان کا مطلب بس یہی ہوتا ہے کہ وہ مخصوص شخص یا گروہ کسی قضیے کو درست مانتے ہیں۔ مگر اِن دونوں انگریزی الفاظ کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ یہ قضیہ‘ واقعتا دُرست بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ’’ایمان‘‘ کی اصطلاح کے بالکل متضاد ایک تصور ہے۔ یہ اصطلاح جو ’’امن‘‘ کے مادے سے مشتق ہے‘ اپنے اندر حفاظت کا مفہوم رکھتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جن قضایا پر محیط ہے‘ وہ حقیقتاً دُرست بھی ہیں‘ اور یہ کہ ان کی صداقت کو ذہن نے قبول بھی کر لیا (یعنی اچھی طرح سمجھ لیا اور تسلیم کر لیا) ہے۔
عرب کے محاورے میں ایک شخص ’’کاذب‘‘ (دروغ گو) یا ’’منافق‘‘ (دھوکے باز) تو ہو سکتا ہے‘ مگر ایمان اس مفہوم میں غلط نہیں ہو سکتا کہ اس کا معروض وجود ہی نہ رکھتا ہو‘ یا یہ اپنے معروض کے علاوہ کسی اور شے کے لیے استعمال ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ایمان اور یقین ہم معنیٰ الفاظ ہیں۔ یقین کی کیفیت سے پہلے کوئی شخص حقیقت کا انکار کر سکتا ہے یا اس پر اعتراض کر سکتا ہے۔ مگر جب یہ یقین آ موجود ہوتا ہے ‘ تو صداقت ایسی ہی محکم اور یقینی ہو جاتی ہے جیسے حسّی شہادت۔(۳) یہ ناقابل تردید مسلمہ حقیقت بن جاتی ہے۔ اب وہ شخص‘ جو اب بھی شک میں مبتلا ہے اُسے یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؟ اب تم خود ہی دیکھ لو۔ یوں دیکھیں تو یقین صرف صداقت ہی کا ہو سکتا ہے۔ وہ امر مسلمہ ہوتا ہے‘ ناقابل تردید۔ اس طرح ایمان‘ نام ہے پختہ یقین کا: یہ تذبذب‘ شک‘ قیاس آرائی اور غیر یقینیت سے قطعی طور پر مبرا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا عمل‘ فیصلہ یا ارادہ نہیں‘ جس میں کوئی انسان اپنا اندھا اعتماد کسی ایسی چیز پر کر رہا ہو‘ جس کے بارے میں اُسے یقینی طور پر معلوم نہ ہو۔ ایک مذبذب آدمی تو ہمیشہ اس غلطان میں مبتلا رہتا ہے کہ اپنا سرمایہ اس خانے میں رکھوں یا اُس دوسرے میں۔ ایمان ایک واردات ہے‘ جو کسی شخص پر وقوع پذیر ہوتی ہے اور یہ تب ہوتا ہے جب کسی چیز کی صداقت‘ اس کا امر واقعہ ہونا بغیر کسی شک کے اس کے یوں سامنے آجاتا ہے کہ اس کے دُرست ہونے میں کسی طرح کے شک کی گنجایش ہی باقی نہیں رہتی۔ علم ہندسہ کے نتائج کی طرح کہ اگر ہم ابتدائی مقولات اور قضایا کو دُرست تسلیم کر کے چلیں‘ تو اُن کے نتائج کے درست ہونے میں کوئی شک نہیں ہوتا‘ ایمان کی صداقت اور اس کا لابدی ہونا بھی ناگزیر ہوتا ہے۔ قرآن کا استدلالی طریق بھی یہی ہے: جس شے میں لوگوں کو شک ہوتا ہے وہ اُسے ناظرین کے سامنے اس طرح لے آتا ہے گویا وہ اُسے دیکھ رہے اور محسوس کر رہے ہیں۔(۴)
اسلام کا ایمان‘ عیسائیوںکے ایمان/ عقیدے (faith)سے یوں بھی مختلف ہے کہ اس میں صداقت‘ ذہن کو تفویض کی جاتی ہے‘ اس کی باور کرنے کی صلاحیت کو نہیں آزمایا جاتا۔ ایمان کی صداقتیں اور مقولات اپنی ماہیت کے اعتبار سے تنقیدی اور معقول ہیں۔ یہ کوئی پرُاسرار‘ ناقابل یقین‘ علم کی رسائی سے ماورا اور نامعقول دعوے نہیں ہیں۔انھیں شک کی کسوٹی پر پرکھا جا چکا ہے‘ اور جانچ پڑتال سے اس عمل سے وہ سرخ رُو نکلے ہیں۔اُن کی طرف سے اب کسی مزید وکالت کی ضرورت نہیں ہے۔ اب جو شخص بھی انھیں تسلیم کر لیتا ہے‘ وہ ایک معقول انسان ہے‘ اور جو بھی اُن کے انکار پر اڑا رہتا ہے‘ یا اپنے شکوک کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں‘وہ نامعقول رویے پر قائم کہا جا سکتا ہے۔ مگر اس کی تعریف ہی کی رُو سے عیسائی عقیدے کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جا سکتی‘ ہاں اسلام کے ’’ایمان‘‘ کی یہ لازمی خصوصیات ہیں‘ جن کو بیان کیے بغیر اس کی تعریف کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسلام کی صداقت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: (اس وحی کے ذریعے) حق ظاہر ہو چکا ہے۔ کذب اور باطل پسپا ہوگیا‘ اور اسے ایسا ہونا ہی تھا… دانائی اب واضح طور پر سامنے آ چکی ہے‘ باطل کا تو معاملہ ہی الگ ہے۔(۵) اسلام کی معقولیت ہی یہ ہے کہ وہ تنقیدی ذہن کو مطمئن کرنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ اسلام اس بات سے ہرگز خوف زدہ نہیں کہ اس کے مزعومات کے خلاف کوئی شواہد سامنے آ جائیں گے‘وہ کسی خفیہ کارروائی کا قائل نہیں‘ اس کی اپیل یہ بھی نہیں کہ تمھارے کسی اندرونی احساس کی اس سے تسکین ہوتی ہے‘ کوئی ’’اندرونی‘‘ شبہات کا ازالہ ہوتا ہے‘ اور حقیقت کے برخلاف ہی سہی‘ کسی تشویش یا خواہش کی آرزوئوں کی اس سے تکمیل ہوتی ہے۔ اسلام کا دعویٰ تو ظاہر و باہر ہے۔ وہ عقل کو اپیل کرتا ہے‘ اور اُسے صداقت پر مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اُسے سمجھ میں نہ آنے والے معمّوں میںاُلجھانے اور ذہن کو ان سے مغلوب کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا۔(۶) اُسے اس عقیدے کے قبول کرنے پر آمادہ کرتا ہے‘ جو معقولیت اور سمجھ کی ہر جانچ پر پورا اترتا ہے۔(۷)
مندرجہ بالا تاملات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ایمان کو محض ایک اخلاقی درجہ بندی میں محدود نہیں کیا جا سکتا۔ سچ تو یہ ہے کہ اولاً اس کا تعلق ’’آگاہی اور علم کی جماعت سے ہے۔ گویا اس کا وظیفہ علم ہے‘ اس کا تعلق اس کے قضایا کی صداقت سے ہے۔ اور چوں کہ اس کے قضایا کے مشتملات بھی وہی ہیں‘ جو منطق اور علم کے ہیں‘ مابعدالطبیعیات کے ہیں‘ اور اخلاقیات اور جمالیات کے ہیں‘ اس لیے لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کا وظیفہ ایک ایسی روشنی کا سا ہے‘ جو ہر شے کو منور کرتی ہے۔ غزالی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ ایمان ایک ایسی بصیرت ہے‘ جو تمام مواد اور حقائق کو اُن کے ٹھیک ٹھیک تناظر میں رکھ دیتی ہے اور ان کی درست تفہیم کے لیے یہ نہایت ضروری بھی ہے۔(۸) یہ کائنات کی عقلی توجیہ کی اصل بنیاد ہے۔ عقل کا بنیادی اصول فی نفسہٖ غیر عقلی یا نامعقول نہیں ہو سکتا‘ اور یوں خود اپنا متضاد نہیں ہو سکتا۔ یہی تعقل کا اوّلین تقاضا ہے۔ اس کا انکار کرنا‘ یا اس کی مخالفت کرنا گویا معقولیت سے عاری ہو جانا ہے اور اس طرح کا شخص انسانیت کے درجے ہی سے گر جاتا ہے۔
التوحید‘ بطور اصولِ علم‘ اس امر واقعہ کو تسلیم کر لینے کا نام ہے کہ اللہ --- الحق (سچائی‘ صداقت) --- ہے‘ اور یہ کہ وہ ایک ہے۔ یہ امر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تمام دعوے‘ تمام شکوک‘ اُسی کے حوالے سے دیکھے جانے چاہییں۔ کوئی دعویٰ‘ کوئی حتمی فیصلہ بھی جانچ پڑتال سے ماورا نہیں۔ التوحید پر ایمان اس بات کو تسلیم کر لینے کے مترادف ہے کہ صداقت کی فی الواقع معرفت ہوسکتی ہے‘ اور انسان اس تک رسائی کی استطاعت بھی رکھتا ہے۔ تشکیک‘ جو اس صداقت سے انکاری ہے‘ التوحید کی ضد ہے۔ یہ صداقت کی تلاش اور جستجو کے عمل کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے میں ہمت و حوصلے کی کمی کا نام ہے۔ یہ منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں تھک کر بیٹھ جانے کا نام ہے ‘ کہ صداقت تک رسائی ہو ہی نہیں سکتی۔ ایک علمیاتی اصول کے طور پر یہ ایک مایوسی کا رویہ ہے‘ گویا یہ بات پہلے ہی تسلیم کر لی گئی ہے کہ انسان ایک خوابِ مسلسل کی حالت میں ہے‘ جہاں کبھی بھی حقیقت کو غیر حقیقت سے متمیز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کو لاوجودیت کے فلسفے سے جدا نہیں کیا جا سکتا‘ جو سرے سے تمام اقدار ہی کا انکار کر دیتا ہے‘ کیوں کہ اقدار شناسی کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان کو اقدار کی صداقت تک پہنچنے کا اہل تسلیم کر لیا گیا ہے۔ جس چیز کو قدر کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے‘ کیا وہ فی الواقع ایسی ہی ہے؟ ایک مخصوص صورتِ حال میں کیا وہ قدرتکمیل کو پہنچ رہی ہے‘ یا اُسے برباد کیا جا رہا ہے؟ اور وہ مخصوص صورتِ حال کیا وہی ہے ‘ جسے بیان کیا جا رہا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے بغیر کسی اقداری دعوے کی جانچ اور تصدیق نہیں ہو سکتی۔ جب تک تیقن کے ساتھ ان کا جواب دینا ممکن نہ ہو‘یعنی ان کی صداقت کا ٹھیک ٹھیک علم نہ ہو‘ اقدار کا علم اپنی بنیادوں پر قائم نہ رہ سکے گا۔ کسی قدر کی قدریت اور کسی مخصوص صورتِ حال میں اس کے انطباق پر تو شک کیا جا سکتا ہے کہ اس طرح کا شک ہر طرح کے مواد پر ہو سکتا ہے۔ اس لیے جب تک ایک انسان‘ تشکیک کے مفروضے کو تَج کر نہیں نکلتا‘ جب تک آغازِ سفر ہی میں وہ یہ مان کر نہیں چلتا کہ اِن امور میں صداقت تک رسائی ممکن ہے‘ اس وقت تک وہ لاوجودیت کے چنگل سے نہیں بچ سکتا۔
اللہ کی اُلوہیت اور اس کی توحید کو تسلیم کرنا دراصل صداقت اور اس کی وحدت کو تسلیم کرنا ہے۔ اُلوہی وحدت اور وحدتِ صداقت ایک دوسرے سے جدا نہیں کیے جا سکتے۔ یہ بات اس وقت بالکل واضح ہو جاتی ہے‘ جب ہم اس امر پر غور کرتے ہیں کہ التوحید ---یعنی یہ اقرار کہ اللہ ایک ہے--- کا ایک وصف ہی صداقت ہے۔ کیوں کہ اگر صداقت ایک سے زیادہ ہوتی‘ تو یہ بیان کہ ’’خدا ایک ہے‘‘ بھی درست ہوتا‘ اور یہ بیان کہ ’’کوئی اور شے یا قوت خدا ہے‘‘ یہ بیان بھی صحیح ہوتا۔ اس لیے یہ کہنا کہ صداقت ایک ہے‘ نہ صرف یہ اقرار کرنا ہے کہ اللہ ایک ہے‘ بلکہ ساتھ ہی یہ بھی اقرار کرنا ہے کہ سوائے اللہ کے کوئی خدا ]معبود[ ‘ اللہ نہیں۔ یہی انکار اور اقرار کا وہ اتصال ہے ‘ جس کا اظہار کلمۂ شہادت میں ہوتا ہے: لا الٰہ الا اللّٰہ!
طریقیاتی اصول کی حیثیت سے دیکھیں‘ تو التوحید تین اصولوں پر مشتمل ہے: اولاً اُس سب کا انکار جو حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا‘ ثانیاً غائی تضادات کا انکار‘ اور ثالثاً نئی اور /یا متضاد دلیل کے لیے ذہن کو کھلا رکھنا۔ پہلا اصول‘ کذب اور فریب کو اسلام سے خارج کر دیتا ہے‘ کیوں کہ وہ مذہب کی ہر بات کو تفتیش‘ پڑتال اور تنقید کے لیے کھلا رکھتا ہے۔ اس حقیقت سے انحراف یا اس سے عدمِ مطابقت‘ اسلام میں کسی بھی چیز کو باطل کر دینے کے لیے کافی ہے۔ چاہے کوئی قانون ہو‘ ذاتی یااجتماعی اخلاقیات کا کوئی اصول ہو‘ یا کائنات کے بارے میں کوئی بیان‘ ہر چیز تفتیش و تنقید کے لیے کھلی ہوئی ہے۔ پھر یہ اصول‘ اہل اسلام کو ’’رائے‘‘کی دست و برد سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ علم (یقینی) کا کوئی دعویٰ بغیر جانچ پڑتال اور وثوق کے نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن واضح الفاظ میں اعلان کرتا ہے کہ ہر بلاتحقیق دعویٰ‘ ظن (فریب علم) ہے‘ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک ممنوع‘ (۹) قطع نظر اس کے کہ بات کتنی ہی چھوٹی ہو۔ مسلم کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ وہ ایک ایسا انسان ہے‘ جو صداقت کے بغیر کوئی دعویٰ نہیں کرتا‘ وہ حق ہی کو پیش کرتا ہے‘ چاہے اس میں اس کی اپنی ذات کے لیے کتنے ہی خطرات مضمر ہوں۔ منافقت اور مکروفریب ‘ سچ اور جھوٹ کا آمیزہ تیار کر لینا‘ سچ/ صدق کو اپنے ذاتی مفاد یا اپنے عزیزوں کے مفاد سے کم تر حیثیت دینا‘ اسلام میں اتنے ہی قابلِ نفرت ہیں ‘ جتنے کہ قابلِ حقارت۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ ایک طرف تو کوئی تضاد نہ ہو‘ اور دوسرے یہ کہ قضایا متناقض نہ ہوں۔(۱۰) یہ اصول دراصل عقلیت کی رُوح ہے۔ اِس کے بغیر تشکیک سے چھٹکارا نہیں مل سکتا۔ کیوں کہ ایک لاینحل تضاد کا مطلب یہ ہوگا کہ دو متضاد قضیوں میں سے کسی ایک کی صداقت کا کبھی پتا ہی نہیں چل سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانوں کی فکر اور کلام میں کبھی نہ کبھی تضاد تو پایا جاتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ آیا تضاد سے بچا بھی جا سکتا ہے یا نہیں۔ کیا ایسا اصول دریافت کیا جا سکتا ہے‘ جو دونوں متضاد قضایا پر حاوی ہو‘ اور اس کی مدد سے ان کا تناقض رفع کیا جا سکے‘ اور اختلافات ختم کر دیے جائیں۔
یہ بات وہاں بھی درست ٹھہرتی ہے جب الہام اور عقل کے درمیان تضاد واقع ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ اسلام نہ صرف یہ کہ اس طرح کے تضاد کے منطقی امکان کا انکار کرتا ہے‘ بلکہ اس زیربحث دوسرے اصول کے ذریعے اس طرح کے تضاد کے وقوع کی صورت میں اس کے حل کے لیے مناسب ہدایات بھی فراہم کر دیتا ہے۔ نہ تو یہ عقل کے لیے سزاوار ہے کہ وہ الہام پر بالادستی کا دعویٰ کرے‘ اور نہ الہام کو ایسا کرنا چاہیے۔ اگر صرف الہام ہی کو غیر مشروط فوقیت حاصل ہو‘ تو کوئی ایسا اصول باقی نہ رہے گا‘جو ایک الہام کو دوسرے سے متمیز کر سکے‘ یا الہام کے دو مختلف دعووں کے درمیان فرق کر سکے۔ اس طرح دو بیانات یاالہامی ہونے کے دعوے دار دو موقفوں کے الفاظ کے درمیان سادہ تضادات‘ اختلافات یا ظاہری عدمِ تطابق بھی اس طرح حل نہیں ہو سکیں گے۔ یہ بات واضح ہے کہ کوئی الہام خود کو اپنے آپ سے ہم آہنگ کرنے کے وسائل سے محروم نہیں کر سکتا کہ اسی طرح اس کا اپنا مکان درست حالت میں رہ سکتا ہے۔ مگر ایک دوسری صورت حال یہ بھی ہے کہ الہام‘ عقل کے خلاف--- یعنی عقلی جانچ پڑتال اور شعور کے خلاف--- بھی ہوسکتا ہے۔ جہاں بھی ایسی صورتِ حال پیدا ہو‘ اسلام دعویٰ کرتاہے کہ تضاد حقیقی اور غائی نہیں ہے۔ پھر وہ تفتیش کنندہ کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ الہام کی اپنی تفہیم پر نظرثانی کرے یا اپنے نتائج عقلی پر‘ یادونوں پر۔
التوحید ‘ تضاد کے غائی ہونے کورَد کر کے ‘ صداقت کی وحدت ہونے کے ناتے‘ ہم سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ متضاد دعوئوں کو پھر سے دیکھیں اور دوبارہ ان کی چھان بین کریں۔ وہ یہ مان کر چلتی ہے کہ اس مسئلے کا کوئی پہلوایسا ضرور ہے ‘ جس پر کماحقہ غور نہیں کیا جا سکا ہے‘ اور اگر اس پر غور کر لیا جائے تو متناقض دعوے ایک کُل میں ضم ہو جائیں گے۔ ساتھ ہی التوحید ہم سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ الہام کو نہیں‘ بلکہ الہام کے قاری کو ایک مرتبہ پھر اس الہام کے مطالعے کے لیے کہا جائے‘ کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر واضح اور غیر صریح معانی اس کی نظر میںآنے سے رہ گئے ہوں‘ اور دوبارہ غوروفکر سے یہ تضاد رفع ہو جائے۔ عقل اور فہم کی طرف اس رُجوع کا مقصد خود الہام میں کسی طرح کی ہم آہنگی پیدا کرنا نہیں‘ کیوں کہ الہام تو ہر طرح کے انسانی جوڑ توڑ اور کارستانیوں کی آماجگاہ ہونے سے کہیں بلند ہے۔ اس کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ ہماری انسانی تفہیم میں آہنگ پیدا ہو جائے۔ اس سے ہوتا یوں ہے کہ عقل نے اب تک جن شواہد کا ذخیرہ جمع کر لیا ہے الہام کی ہماری فہم اس کے مطابق ہو جاتی ہے۔ اس کے برخلاف متناقض یا متضاد قضایا کو اپنی جگہ غائی طور پر درست سمجھ لینا‘ ایک کمزور ذہن ہی کو بھاتا ہے۔ ایک مسلمان‘ عقل پر یقین رکھنے والا انسان ہوتا ہے کیوں کہ وہ صداقت کے دونوں مصادر--- الہام اور عقل--- کے اتحاد پر اصرار کرتا ہے۔
التوحید کا تیسرا اصول‘ صداقت کی یک جہتی ہے ‘یعنی نئے اور/ یا متناقض شواہد کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھنا۔ یہ اصول مسلمان کو لفظ پرستی‘ مذہبی انتہا پسندی اور جمود پیدا کرنے والی قدامت پرستی سے محفوظ رکھتا ہے ۔ وہ اس میں دانش مندانہ انکسار کو پروان چڑھاتا ہے اور اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ اپنے اقرار اور انکار کے ساتھ اللّٰہ اَعْلَمْ (اللہ بہتر جانتا ہے!) کے فقرے کا بھی اضافہ کرے۔ کیوں کہ اس کو پورا یقین ہوتا ہے کہ صداقت‘ اپنی کلی ہیئت میں اس کی اپنی فہم سے کہیں زیادہ وسیع اور بڑی ہے۔(۱۱)
اللہ تعالیٰ کی مطلق وحدت کا اقرار کرتے ہوئے التوحید‘ حق یا صداقت کے مصادر کی وحدانیت کا بھی اقرار کر رہی ہوتی ہے۔ انسان جس کائنات سے علم حاصل کرتا ہے‘ اس کا خالق بھی اللہ ہی ہے۔(۱۲) ہمارا معروضِ علم کیا ہے‘ فطرت کی وہ یکسانیاں اور سانچے ہی تو ہیں‘ جن کا بنانے والا خود اللہ تعالیٰ ہے۔(۱۳) چوں کہ اللہ ہی ان کا خالق ہے‘ اس لیے بلاخوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ وہ ان کو جانتا بھی ہے۔ اور یہ بات بھی شبہے سے بالا ہے کہ الہام کا سرچشمہ بھی اُسی کی ذات ہے۔ وہ اپنے علم میںسے کچھ انسان کو بھی عطا کرتا ہے ‘ اور اس کا علم مطلق اور آفاقی ہے۔(۱۴) اللہ تعالیٰ ]نعوذ باللہ[ کوئی چال باز یا بدخواہ / بدباطن عامل نہیں‘ جس کا مقصد ہی لوگوں کو راستے سے بھٹکا دینا اور گمراہ کرنا ہو۔ اور پھر یہ بات بھی نہیں کہ انسانوں کی طرح‘ جو اپنے علم کو ٹھیک کرتے رہتے ہیں‘ اور اپنے ارادے اور فیصلے بدلتے رہتے ہیں‘ اللہ بھی اپنے حکم اور فیصلے کوبدلتا رہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کامل ہے‘ اور اس کا علم بھی کامل ہے‘ وہ ہر شے کا علم رکھتا ہے۔ وہ غلطیاں نہیں کرتا۔ اگر یوں ہوتا‘ تووہ اسلام کا خداے قدوس --- ہر شے سے ماورا معبود ---نہ ہوتا۔
التوحید اس بات کو تسلیم کر لینے کا نام ہے کہ صرف اللہ ہی معبود یا ’’الٰہ‘‘ ہے۔ ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ اس بات کو مان لینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ تمام خیر اور تمام اعلیٰ اقدار کا اصل مصدر ]سرچشمہ[ہے۔ اس لیے اس کا اعلان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہی کو غائی خیر تصور کیا جا رہا ہے‘ یعنی وہ اعلیٰ ترین خیر‘ جس کی وجہ سے خیر کی حامل ہر شے خیر بنتی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی خیر کو اس کے خیر ہونے کا وصف‘ اور قدر کو اس کی صفتِ قدر عطا فرماتا ہے۔ غائی خیر کے سرچشمے میں خیر کی صفت پر کبھی شک کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ہمیں ہمیشہ یہ مان کر ہی چلنا چاہیے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جو اَمر بھی مقدر فرمایا ہے‘ اس نے ایک اچھے مقصد ہی کے لیے یہ مقدر کیا ہے‘ اور یہ مقصد بھی اُسی کی ذات کا متعین کردہ ہے۔ اس کے برخلاف کوئی رائے رکھنا‘ فی الاصل‘ التوحید ہی کا انکار کر دینا ہے۔ اسی لیے قرآن مجید نے زور دے کر یہ بات کہی ہے کہ مسلمانوں کو اللہ کے بارے میں کسی برائی کا خیال بھی نہ لانا چاہیے۔(۱۵) قرآن نہایت واضح الفاظ میں اُن لوگوں کی مذمت کرتا ہے‘ جو اس طرح کے خیال میں مبتلا ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اذیت اور دکھ دینے یا گمراہ کرنے کے لیے نہیں تخلیق کیا‘ نہ اس نے ہمیں علم‘ ہماری جبلتیں اور خواہشیں ہی اس لیے عطا کی ہیں کہ اِن قوتوں اور صلاحیتوں کے ذریعے ہمیں درست راستے سے بھٹکا دے۔ ہمارے حواس ہمیں جو خبر دیتے ہیں‘ اُسے درست ہی سمجھنا چاہیے‘ سوائے اس کے کہ واضح طور پر ہمارے حواس بگڑے ہوئے یا بیمار ہوں۔ ہماری فہمِ عام کے نزدیک جو بات دُرست ہے‘ اُسے ٹھیک ہی سمجھنا چاہیے‘ سوائے اس کے کہ اس کے برخلاف ثابت ہو جائے۔اسی طرح ہماری جبلتوںاور خواہشات کی طلب بھی بنیادی طور پر خیر ہی ہوتی ہے‘ سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے واضح طور پر اُن کی ممانعت کر دی ہو۔ التوحید ‘ علمیاتی اور اخلاقی سطحوں پر ہمیں رجائیت اور سرخوشی کی تلقین کرتی ہے۔ اِسی کو ہم رواداری کہتے ہیں۔
ایک علمیاتی اصول کی حیثیت میں رجائیت‘ حال کو‘ جیسا کہ وہ ہے‘قبول کر لینے کا نام ہے‘ جب تک کہ اس کا باطل ہونا ثابت نہ ہوجائے۔ ایک اخلاقی اصول کی حیثیت میںاس کا مفہوم یہ ہے کہ خواہشات کا احترام کیاجائے‘ سوائے اس کے کہ اُن کا ناپسندیدہ ہونا ثابت ہو جائے۔(۱۶) اول الذکر کو ساعد(!) کہا گیا ہے اور ثانی الذکر کو یُسْر (آسانی‘ رواداری)۔ یہ دونوں رویے مسلمان کو ساری دنیا کے لیے اپنے دریچے بند کر لینے اور مردہ کر دینے والی قدامت پسندی سے بچاتے ہیں۔ یہ دونوں اُسے حیات کی تصدیق کرنے اور اس کی صدا پر لبیک کہنے اور نئے تجربات کے لیے آمادگی پر اُبھارتے ہیں۔ یہ دونوںاُسے ‘ نئے مواد کو اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھنے‘ اپنے تعمیری مشاغل پر تیار رہنے‘ اور اس طرح اپنے تجربے اور زندگی کو باثمربنانے پر آمادہ کرتے ہیں‘ اور اس طرح اُسے اپنی ثقافت اور تہذیب کو آگے بڑھانے میں مدد کرتے ہیں۔
التوحید کے جوہر کے دائرے میں بحیثیت ایک طریقیاتی اصول کے رواداری دراصل یہ ایقان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو ایک رسول یا پیغام بر کے بغیر نہیں چھوڑا ہے‘ جو انھی کے درمیان سے مبعوث ہوتا ہے اور اس بعثت کی غرض و غایت انھیں یہ تعلیم دینی ہوتی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے‘اور یہ کہ اُنھیں اِسی کی عبادت اور اُسی کی غلامی اختیار کرنی چاہیے۔(۱۷) رسول اُنھیںشر اور اس کو وجود میں لانے والے عوامل سے بھی خبردار کرتا ہے۔(۱۸) یوں دیکھیں تو رواداری اس تیقن کا نام ہے کہ تمام ایک احساسِ مشترک سے بہرہ ور کیے گئے ہیں‘ جس کی وجہ سے وہ سچے مذہب کا شعور حاصل کرتے ہیں ‘ اور اسی کے ذریعے وہ اللہ کی مشیت اور اس کے احکام کو پہچان لیتے ہیں۔ یہ وہ عقیدہ ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ مذاہب کا سارا تنوع اور اختلاف‘ تاریخ کی پیداوار ہے‘ جس پر اثرانداز ہونے والے عناصر بہت سے ہیں: زمان ومکان کے بدلتے ہوئے عوامل‘ اس کے تعصبات‘ جذبات اور ذاتی مفادات ان میں سے چند ایسے عوامل ہیں۔ مذاہب کی ان مختلف النوع صورتوں کے پیچھے الدین الحنیف (اللہ کا اصل دین) ہی نظر آتا ہے‘ جس پر تمام انسان اصلاً پیدا ہوتے ہیں‘ اور پھر اپنا دین تبدیل کر کے کسی ایک یا دوسرے مذہب کے مقلد بن جاتے ہیں۔(۱۹) رواداری تقاضا کرتی ہے کہ مسلمان‘ تاریخ (بصیغۂ جمع) کا اس نقطۂ نظر سے مطالعہ کرے کہ اُسے ہر جگہ اللہ تعالیٰ کی اصل اور اولین عطا کا شعور حاصل ہو سکے۔(۲۰) یہ وہ عطا ہے‘ جس کی تعلیم و تلقین کے لیے اللہ تعالیٰ نے تمام مقامات پر‘ اور ہر زمانے میں اپنے رسولوں کو مبعوث فرمایا ہے۔ یہ مطالعہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے ذریعے اس اصل دین کی اہمیت پر زور دیا جاتا ہے‘ اور نہایت خوب صورت انداز میں‘ نہایت مضبوط دلائل اور شواہد کے ساتھ لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی جا سکتی ہے۔(۲۱)
مذہب میں (اور یہ بات تو واضح ہے کہ انسانی رشتوں میں اس سے زیادہ اہم اور اولیت کی حامل کوئی دوسری شے نہیں ہے) رواداری‘ مذاہب کے درمیان محاذ آرائی اور باہمی مخاصمت و مذمت کو ایک عالمانہ تحقیق و تفتیش میں بدل دیتی ہے‘ جس کے ذریعے مذاہب کے ظہور‘ اور ان کی نشوونما کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے‘ اور اس طرح اصل الہام کو اس کے تاریخی حشو و زوائد سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔ اخلاقیات میں‘ جو کہ دوسرا نہایت اہم میدان ہے‘ یُسْر کا تصور مسلمان کو تمام حیات بیزار رجحانات سے محفوظ رکھتا ہے‘ اور تمام انسانی آلام اور مصیبتوں کے درمیان‘ رجائیت کی اس کم سے کم مقدار کی ضرور ضمانت دیتا ہے‘ جو اس کی صحت‘ توازن اور احساس تناسب و موزونیت کے لیے ناگزیر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ ’’تنگی اور سختی کے ساتھ سہولت و آسانی بھی ہے‘‘۔(۲۲) اورچوں کہ اس نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ فیصلہ کر لینے سے پہلے ہر دعوے کی اچھی طرح جانچ پڑتال اور تفتیش کر لی جائے‘ (۲۳) اِسی لیے اُصولیّون (علماے فقہ و قانون)نے کسی بھی مطلوبہ چیز پر جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے واضح احکام نہیں ہیں‘ خیر یا شر کا فتویٰ لگانے سے پہلے اُسے اچھی طرح آزما لینے کا طریقہ اپنایا ہے۔
۱- یہود‘ ثبوت کے لیے معجزات طلب کرتے ہیں اور یونانی‘ عقل کے جویا ہیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے‘ ہم مسیح مصلوب کی منادی کرتے ہیں۔ یہ وہ پیغام ہے‘ جو یہود کے لیے بارِخاطر ]ناگوار[ اور ملحدین کے نزدیک مہمل ہے۔ سینٹ پال: Cornithians I‘ ۱: ۲۲-۲۳
۲- Religion - Speaches to Its Cultural Despisers: Friedrich D. Schleiermacher ترجمہ: John Oman (Harper & Brothers‘نیویارک‘ ۱۹۵۸ء)ص ۹۴ اور آگے۔
۳- کلا لو … الیقین (التکاثر ۱۰۲: ۵-۷) ’’]بات تو یہ ہے کہ[ اگر تم ]صداقت کو[ یقینی علم کے طور پر جان لیتے‘ تو تم ضرور جہنم کا مشاہدہ کر لیتے‘ اور پھر تم اُسے اس طرح دیکھ لیتے جیسے یقین کی آنکھ سے اُسے دیکھ رہے ہو‘‘۔
۴- اسلام کے تصور ایمان اور پاسکل کے ’’ایمان‘‘ (faith)میں بڑا گہرا تفاوت ہے۔ پاسکل کے نزدیک ایمان ایک جوے کا دائو یا بازی ہے‘ جو اپنی ماہیئت کے اعتبار سے ہمیشہ غیر حتمی اوراَن جانا ہی ہوتا ہے۔ اس کے خیال میں صورتِ حال یوں ہے کہ اللہ کے وجود کے بارے میں انسان کو کبھی شہودی قطعیت نصیب نہیں ہو سکتی‘ اور نہ اُس کے احکام اور آخری فیصلے کے بارے میں اُس طرح کا تیقن حاصل ہو سکتا ہے۔ مگر اسلام نے اس طرح کی برہانِ قاطع لانے کا چیلنج قبول کر لیا۔ اسی لیے مسلمانوں نے اس طرح کے عقلی عقیدے کے لیے ہر طرح کی دلیل سے کام لیا۔ تخلیق اور تغیر پر مبنی دلائل‘ دلیل منصوبہ اور مقصدیت‘ اور شعورِ اخلاقی کی دلیل‘ اپنی بہترین صورت میں قرآن مجید ہی میں ملتی ہیں۔
۵- وقل جاء الحق … زھوقًا (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) ’’]اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم[ کہہ دیجیے کہ اب حق آ چکا ہے (صداقت ظاہر ہو چکی ہے) اور باطل (غیرحق) مٹ گیا ہے اور باطل کو تو پسپا ہو ہی جانا ہے‘‘۔ قد تبین … الغی (البقرہ ۲:۲۵۶) ’’صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے‘‘۔
۶- اسلام کی اس عقلیت پسندی ‘ واضح اور بین ثبوتوںکے سلسلے میں اس کے اصرار‘ علم اور دانائی سے اس کی وابستگی‘ توصیف اور فروغ کی کوشش‘ سائنس اور ساری کائنات میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نمونوں کی دریافت کی سعی‘ خواہ وہ آسمانوں میں ہوںیا نفسِ انسانی میں--- ان سب کا موازنہ عیسائیت میں ایمان کے بیان سے کیجیے۔(I Cornithians)
۷- I Cornithians ‘ ۱: ۱-۲۰
۸- ابوحامد الغزالی: المنقذ من الضلال (یونی ورسٹی پریس‘ دمشق‘ ۱۳۶۷ھ/۱۹۵۶ء)‘ ص ۶۲-۶۳۔ غزالی یہاں کہتے ہیں کہ ایمان‘ عقل کی شہادت کا انکار نہیں کرتا‘ نہ اس کی تردید کرتا ہے‘ اور نہ اس کے خلاف جاتا ہے‘ بلکہ اس کی توثیق کرتا ہے۔ ’’…میں نے اپنے شکوک کا علاج کرنا چاہا‘ مگر شہادت عقل کے بغیر یہ ناممکن تھا‘ تاہم بنیادی علوم ]مابعد الطبیعیات[ کے بغیر کوئی شہادت قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ اور چوں کہ ان علوم کی بنیادیں ہی محفوظ و مستحکم]اور شکوک سے بالا[ نہیں تھیں‘ اس لیے اُن کے نتائج اور اُن کی بنیادوں پر تعمیر ہونے والے نظریات بھی غیر مستحکم ہی تھے مگر بعد میں (ایمان کے تحت یا اس کے ساتھ)… ]سائنس اور مابعد الطبیعیات کی[ یہ تمام عقلی بنیادیں مستحکم ومحفوظ‘عقلی طور پر صحیح اور قابل قبول بن گئیں۔ علم میں ان کی بنیادوں نے ان کو پوری طرح سہارا دیا‘‘۔ (ص ۶۲)
۹- یا ایھا الذین امنوا … اثم (الحجرات ۴۹:۱۲) ’’اے وہ لوگو’ جو ایمان لائے ہو‘ ]اپنے ساتھیوں کے بارے میں[بہت زیادہ ظن و گمان سے بچو‘ کیوں کہ تھوڑا سا شک وگمان بھی گناہ کے زمرے میں آتا ہے‘‘۔
۱۰- اس نکتے کی مزید وضاحت اور تجزیے کے لیے الحضارہ الاسلامیہ میں اس مصنف کا مضمون اور ردّعمل ملاحظہ ہو (باب ۲‘ نوٹ ۱)۔
۱۱- وسع … تتذکرون (الانعام ۶:۸۰) ’’میرے رب کا علم تمام چیزوں پر محیط ہے‘ تو پھر کیا تم اس پر توجہ نہیں دیتے؟ اللّٰہ الذی … علمًا (الطلاق ۶۵:۱۲) ’’وہ اللہ ہی ہے‘ جس نے سات آسمانوں کو پیدا کیا ہے‘اور انھی کی طرح ]سات[ زمینوں کو بھی۔ اس کا حکم ان سب پر غالب آتا ہے۔ ]اس لیے ہے کہ[ تم جان لو کہ اللہ ہر چیزپر قادر ہے ‘ اور یہ کہ ہر شے اس کے دائرئہ علم میں ہے‘‘۔ ان … بالمھتدین (الانعام ۶:۱۱۷) ’’تمھارا رب بہتر طور پر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بے راہ ہوتا ہے‘ اور وہی اس بات کا بھی بہتر جاننے والا ہے کہ ٹھیک راستے پر چلنے والے (ہدایت یافتہ) کون ہیں‘‘۔
۱۲- دنیا‘ مظاہر یا فطرت کے بارے میں قرآن مجید کے بیان کے یہی معنی ہیں۔ اس کے مطابق یہ اللہ کی آیات‘ یعنی نشانیوں (نشانی کے لفظی معنی ہی اشاریے یا شہادت کے ہیں) سے بھری پڑی ہیں۔ اِن تمام مثالوں میںقرآن مجید اس استنتاج/ استدلال کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کے ذریعے ایک کھلے ذہن والا شخص مخلوق اور خالق کے درمیان تعلق کو واضح طور پر دیکھ لیتا ہے۔ مظاہر ِفطرت اس خالق کے وجود اور اس کے عمل مسلسل کی صاف شہادت دیتے ہیں۔
۱۳- وفی الارض … للمؤمنین (الذاریات ۵۱:۲۰) ’’زمین میں اللہ تعالیٰ ]کی کاری گری[ کی نشانیاں موجود ہیں‘ ]لیکن انھیں وہی لوگ دیکھ پاتے ہیں[جو یقین رکھنے والے ہیں‘‘۔ ھو الذی … یتقون (یونس ۱۰:۵-۶)’’ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھارے لیے سورج کو روشنی اور چاند کو نور بنایا‘ اور اس نے اس کی منزلیں مقرر کر دیں‘ تاکہ اپنے ]ماہ و[سالوں کی گنتی اور ان کا حساب معلوم کر سکو۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو سچائی کے ساتھ ہی تخلیق فرمایا ہے۔ وہ جاننے والوں کے لیے اپنی نشانیوں کو واضح طور پر بیان کرتا ہے… رات اور دن کے اختلاف میں‘ اور اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین پر جو پیدا کیا ہے‘ اُن سب میں اُن لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو اللہ سے ڈرتے ہیں‘‘۔
۱۴- ان اللّٰہ… علیماً (النساء ۴: ۳۲) ’’اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے‘‘۔وسع … تتذکرون (الانعام ۶:۸۰) ’’میرے آقا نے علم کی رُو سے تمام چیزوں کا احاطہ کر لیا ہے۔ تم اس بات پر دھیان کیوں نہیں دیتے؟ ‘‘ وعلم … کلھا (البقرہ ۲:۳۱) ’’اور ]اللہ نے[ اُن سب ]چیزوں[ کے نام سکھا دیے‘‘۔ ا لذی علم … یعلم (العلق ۹۶:۴-۵) ’’وہ ]اللہ[جس نے قلم کے ذریعے سکھایا ]پڑھنا لکھنا[۔ انسان کو اس چیز کا علم دیا‘ جسے وہ پہلے نہیں جانتا تھا‘‘۔ ویعملمکم …تعلمون (البقرہ ۲:۱۵۱) ’’وہ تمھیں کتاب اور دانائی سکھاتا ہے‘ اور تمھیں ان باتوں کا علم عطا کرتا ہے ‘ جنھیںتم جان نہ سکتے تھے‘‘۔
۱۵- ویعذب … مصیرًا (الفتح۴۸:۶) ’’وہ ]اللہ[ منافق مردوں اور منافق عورتوں (اسلام کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں)‘ اور اس کے ساتھ دوسرے معبودوں کو شریک کرنے والے مردوں اور ایسی عورتوں کو ‘ ]یعنی[ ان سب لوگوں کو جو اللہ کے ساتھ برا گمان رکھتے ہیں‘ عذاب دے گا۔ اُن پر برائی کی گردش مسلط ہو گئی ہے‘ اللہ ان سے ناراض ہو گیا ہے‘ اور اس نے ان کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے‘ جو کہ ایک بہت برا ٹھکانا ہے ‘‘۔
۱۶- اسی اصول کی روشنی میں اسلام کے قانون سازوں نے قانون کی بنیاد کے طور پر یہ اصول اختیار کر لیا ہے کہ ’’سوائے ان چیزوں کے‘ جن کی اللہ نے ممانعت کر دی ہے‘ عمومی طور پر تمام چیزیں جائز ہیں‘‘۔
۱۷- وما خلقت … لیعبدون (الذاریات ۵۱: ۵۶) ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میرے عبادت ]اطاعت[ کریں‘‘۔
۱۸- ولقد بعثنا … المکذبین (النحل ۱۶: ۳۶) ’’اور ہم نے ہر اُمت ]انسانوں کے ہر گروہ[میںایک رسول ]پیغام بر[بھیجا تاکہ وہ انھیں تلقین کرے کہ وہ اللہ ہی کی عبادت بجا لائیں‘ اور طاغوت ]سرکش گمراہ کرنے والے[سے بچیں۔ تو پھر اُن میں سے کچھ وہ ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت دی‘ اور بعض وہ ہیں جن کی گمراہی ثابت ہوگئی۔ تم زمین پر گھوم پھر کر اچھی طرح دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا‘‘۔
۱۹- ’’میں اس لیے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں کہ معتدل حنیفیتہ کی تعلیم دوں۔ اس سوال کے جواب کہ آپ ]ماضی کے[مذاہب میں کس کو سب سے زیادہ پسند فرماتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معتدل ]یا رواداری والی[ حنیفیتہ‘ یا مذہب ابراہیمی۔ اس حدیث کو حضرت ابن عباس ؓنے روایت کیا ہے (الزبیدی: تاج العروس‘ بذیل ’’حنف‘‘ ج ۶‘ ص ۷۸): الامام مسلم‘ صحیح مسلم‘ خلاصہ الحافظ المنضری: مختصر صحیح مسلم‘ ترتیب: محمد ناصرالدین البانی (کویت: الدار الکویتیہ للطباعۃ‘ ۱۳۸۸ھ/۱۹۶۹ء)‘ ج ۲‘ ص ۲۴۹‘ حدیث نمبر ۱۹۸۲ء۔
۲۰- فاقم … یعلمون (الروم ۳۰: ۳۰) ’’پس تم اپنا رخ اصل دین کی طرف کر لو‘ بالکل خالص ہو کر ]یکسوئی کے ساتھ[ یہ اللہ کی بنائی ہوئی وہ اصل فطرت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں میں رکھ دیا ہے ]یا جس پر اللہ نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے[ اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں کوئی تغیر نہیں ہو سکتا۔ یہی سیدھا اور سچا دین ہے‘ لیکن اکثر لوگ اس کا علم نہیں رکھتے‘‘۔
۲۱- ادع … بالمھتدین (النحل ۱۶: ۱۲۵) ’’اپنے رب کی طرف دانائی اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دو اور لوگوں کے ساتھ احسن طریقے سے جدال کرو۔ ]یعنی اختلاف کا اظہار بھی خوبی اور سلیقے سے ہو[۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمھارا رب اچھی طرح جانتا ہے کہ کون راہِ راست سے بھٹک گیا ہے‘ اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو بھی بخوبی جانتا ہے‘‘۔
۲۲- یرید اللّٰہ … العسر (البقرہ ۲: ۱۸۵) ’’اللہ تعالیٰ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے‘وہ تمھیں تنگی اور سختی میں مبتلا کرنا نہیں چاہتا‘‘۔
۲۳- یا ایھاالذین … ندمین (الحجرات ۴۹: ۶) ’’اے اہل ایمان ! اگر تمھارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے‘ تو اس کی ]اچھی طرح[تحقیق کر لیا کرو‘ ایسا نہ ہو کہ تم جہالت ]غلط علم[ کی بنا پر کسی قوم پر حملہ آور ہو جائو‘ اور بعد میںتمھیں اپنے کیے پر پچھتانا پڑے‘‘۔
انسان کی طبعی کمزوریوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی متعدد آیات میں کیا ہے۔ یہ طبعاً حریص ہے اور بخیل ہے۔ خواہشات نفس اور ترغیبات نفسانی کی طرف کھچ جاتا ہے اور حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے حدود کو بھی پھلانگ جاتا ہے۔انسان جلد باز ہے۔ دور کے فائدے کی بجائے نظر آنے والے فوری فائدے اور نفع کی طرف لپکتا ہے۔ اجتماعی اورملّی فائدے کے بجائے ذاتی فائدے کو وقعت دیتا ہے۔
وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ ط (النساء ۴:۱۲۸) نفس تنگ دلی کی طرف جلدی مائل ہو جاتے ہیں۔
اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلاً o (الاحزاب ۳۳:۷۲) بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔
وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا o (النساء ۴:۲۸) کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔
اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ھَلُوْعًا o اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا o وَّاِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا o (المعارج ۷۰:۱۹-۲۱) انسان تُھڑدلا پیدا کیا گیا ہے‘ جب اس پر مصیبت آتی ہے تو گھبرا اُٹھتا ہے اور جب اسے خوش حالی نصیب ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے۔
خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ ط (الانبیاء ۲۱:۳۷) انسان جلد باز مخلوق ہے۔
کَلاَّ بَلْ لاَّ تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ o وَلاَ تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ o وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلاً لَّمًّا o وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا o (الفجر ۸۹: ۱۷-۲۰) ہرگز نہیں‘ بلکہ تم یتیم سے عزت کا سلوک نہیں کرتے ‘ اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو نہیں اُکساتے ‘ اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو‘ اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی متعدد احادیث میں انسان کے اس طبعی بخل اور مال کے حرص کا ذکر کیا ہے اور اس کی تباہ کاریوں کی طرف متوجہ کیا ہے اور ان کا علاج کرنے کے لیے انسان کو دنیا و مافیہا سے ماورا بلند مقاصد اور ذاتی کی بجائے اجتماعی مقاصدکی طرف ترغیب دلائی ہے۔
ترغیبات نفسانی میں مال کی حرص ‘ جنسی حرص اور اقتدار کی حرص بنیادی ترغیبات ہیں۔ قرآن دنیا کی زندگی کو زینت‘ ایک دوسرے پر فخر کرنے اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے سے تعبیر کیا ہے:
اِعْلَمُوْآ اَنَّمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَھْوٌ وَّزِیْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌ م بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلاَدِ ط(الحدید ۵۷:۲۰) خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمھارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔
قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کمزوریوں کی نشان دہی کے ساتھ ان کے مضر اثرات سے بچنے اور ان طبعی میلانات کو مثبت اور بلند مقاصد کے حصول کی طرف موڑنے کا عملی راستہ دکھایا گیا ہے۔اس کے برعکس مغرب کی مادہ پرستانہ تہذیب نے انسان کے اس طبعی حرص اور بخل اور زینت و تفاخر اور تکاثر اور ترغیبات و خواہشات نفس کو مہمیز لگا کر انسان کو ان کی خاطر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور مادی سہولتوں کے حصول کی خاطر محنت کرنے کا عادی بنایا ہے۔ چنانچہ ان کا مشہور مقولہ ہے: Work like donkey and eat like king.گدھے کی طرح محنت کرو اور بادشاہ کی طرح کھائو۔
بعض لوگوں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام چونکہ ترغیبات و تحریصات کو مہمیز لگا کر زیادہ محنت پر آمادہ کرکے جسمانی اور ذہنی قویٰ کو حرکت دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسلامی تعلیمات قناعت اور زہد اختیار کرنے کی تلقین پر مشتمل ہیں‘ اس لیے مادی طور پر مغرب نے ترقی کی ہے اور مسلمان پس ماندہ رہ گئے ہیں۔
اسلامی معاشیات پر کام کرنے والے مسلمان معاشی مفکرین کا فرض ہے کہ اس مسئلے کے حل کی طرف توجہ دیں اور ان بنیادی معاشی ترغیبات کی نشان دہی کریں جن کی بنا پرمسلمان زیادہ مفید پیداواری محنت پر آمادہ ہو سکیں۔ معاشی ترقی قوت ہے اور قوت کے بغیر مسلمانوں کی موجودہ پستی دُور نہیں ہو سکتی۔ حقیقی آزادی کے لیے معاشی احتیاج سے نکلنا لازمی ہے۔ آزادی اور احتیاج ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ قومی خود مختاری (sovereignty)کے لیے معاشی خود کفالت حاصل کرنا لازم ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے دشمن سے مقابلے کے لیے گھوڑے تیار رکھنے کا حکم دیا ہے (الانفال ۸: ۶۰)یہ ہدایت بنیادی طور پر جنگی قوت سے متعلق ہے لیکن آج کے دور میں جنگی قوت علمی اور معاشی قوت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اخلاقی قوت‘ علمی قوت اور معاشی قوت ایک مضبوط دفاعی قوت کے لیے لازم ہیں۔ اسی آیت کے دوسرے حصے میں اس تیاری کے حکم کے معاً بعد اس ارشاد : وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لاَ تُظْلَمُوْنَ o (اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمھاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمھارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہو گا۔ الانفال ۸: ۶۰) میں ایک اشارہ اس طرف بھی ہے کہ جہاد کی اس تیاری کے لیے انفاق ضروری ہے اور انفاق مالی استعانت اور معاشی قوت پیدا کیے بغیر محال ہے۔ مقابلے کی کم از کم قوت کے لیے مقابلے کے عسکری اور مالی دونوں ہی وسائل دین اور اہل دین کی ضرورت ہیں۔
اگر مسلمان مرد ‘ عورتیں اور نوجوان نسل اس بنیادی جذبے سے سرشار ہو جائیں کہ انھوں نے دنیا میں عدل و انصاف کی سربلندی‘ اعلاے کلمۃ اللہ اور انسانیت کی رہنمائی کے لیے قوت حاصل کرنی ہے تو وہ ذاتی حرص اور ترغیبات نفسانی کے منفی اثرات سے بچ سکتے ہیں۔ ان کے ذاتی تقویٰ‘ قناعت اور زہد و ورع میں بھی کمی نہیں آئے گی اور وہ علمی اور معاشی میدان میں بلند تر مقصد کے لیے مادہ پرستوں سے آگے بڑھ کر زیادہ محنت اور جانفشانی سے کام کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ یہ حقیقت میں جہاد فی سبیل اللہ ہے ۔ جہاد فی سبیل اللہ کو اس وسیع تر مفہوم میں سمجھنے سمجھانے اور اسے اسلامی تعلیم و تربیت کا ایک لازمی حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔
قرآن کریم اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں متعدد مثالیں ایسی ملتی ہیں کہ آپؐ نے جاہلی جذبات کو خدا پرستی اور اللہ سے محبت کی طرف موڑا ہے۔
ایام جاہلیت میں حج کے موقع پر عرب قبائل اپنے اپنے شعرا کے ساتھ شرکت کرتے تھے اور اپنے آباواجداد کے کارنامے بیان کر کے ان پر فخر کرتے تھے۔ اللہ نے حکم دیا کہ جس طرح تم اپنے آباواجداد کا ذکر کرتے تھے اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اللہ کا ذکر کرو۔
فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِکَکُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ اٰبَآئَ کُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًا ط (البقرہ ۲:۲۰۰) پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو‘ تو جس طرح پہلے اپنے آباو اجداد کا ذکر کرتے تھے‘ اسی طرح اب اللہ کا ذکر کرو‘ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔
قبائلی تفاخر کو اللہ کے راستے میں جہاد اور قربانی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے استعمال کیا۔ اللہ کی رضا اور جنت کی نعمتوں کے حصول کے لیے اللہ کے راستے میں جہاد کو ذریعہ قرار دیا اورفرمایا: وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ o (المطففین ۸۳: ۲۶) ’’جو لوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہوں وہ اس چیز کو حاصل کرنے میں بازی لے جانے کی کوشش کریں‘‘۔
قناعت اور زہد کا یہ تصور سراسر غیر اسلامی ہے کہ مسلمان محنت نہ کرے۔ قناعت کا حقیقی تصور یہ ہے کہ محنت کر کے کمائے‘ بقدر ضرورت اپنے لیے رکھے اور باقی معاشرے کے ضرورت مندوں اور اجتماعی مفاد کی طرف لوٹا دے۔
پشتو کے مشہور صوفی شاعر رحمن بابا کا ایک شعر ہے ؎
’’دَ دلبرو و صدقے لرہ ئے غواڑم
ھسے نہ چہ پۂ دنیا پسے زھیریم
میں دنیا کا حریص نہیں ہوں۔ اس کی طلب اس لیے کرتا ہوں کہ اسے محبوب مقاصد کی خاطر صدقہ کرسکوں۔
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے ایک ہی مصرعے میں دین اور دنیا کو کس خوبصورتی کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’از کلید دین در دنیا کشاد‘‘۔ انھوں نے دین کی چابی سے دنیا کا دروازہ کھولا‘ یعنی دین الگ اور دنیا الگ نہیں ہے بلکہ دین ‘دنیا کی زندگی گزارنے کا سلیقہ ہے۔ بھلا جو دنیا کی زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھاتا ہے وہ کیونکریہ تعلیم دے سکتا ہے کہ دنیاوی ترقی کو دوسروں کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ یہ تو بنیادی تعلیم ہے کہ الاسلام یعلو ولا یعلی‘ اسلام بالادستی چاہتا ہے دوسرے نظاموں کی بالادستی قبول نہیں کرتا۔
مسلمانوں کے معاشی مفکرین کا فرض ہے کہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی معاشی ترغیبات کے مقابلے میں اسلامی تصورات عالمی سطح پر شرح و بسط سے پیش کریں۔ اس وقت عالم اسلام میں بیداری کی لہر ہے۔ جہادفی سبیل اللہ کا جذبہ اس حد تک بیدار ہو گیا ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں جان کی قربانی اور شہادت کی موت کے لیے آمادہ ہیں۔ اس جذبے کو صحیح سمت دینے کی ضرورت ہے اور مسلمان نوجوانوں کو اسلام کی خاطر مرنے کی تمنا کے ساتھ ساتھ اسلام کی خاطر جینے کا سلیقہ سکھانے کی ضرورت ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے: اللھم احینی سعید او امتنی شھیدًا‘ ’’اے اللہ! مجھے سعادت کی زندگی و شہادت کی موت عطا فرما‘‘۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور اس کی قدر کرنا مسلمان کا فرض ہے۔ اس کی صحیح قدر کرنا یہی ہے کہ اس کے ایک ایک لمحے کو مفید مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ اپنے اوقات کو کسی مفید کام میں صرف کرنا وقت کو ضائع ہونے سے بچانا ہے۔ مفید کام کا دنیوی فائدے کے ساتھ آخرت میں بھی اجر ملے گا۔ یہ بات اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص ایک پودا زمین میں لگانے کے لیے بیٹھا ہو اور اتنے میں قیامت قائم ہو جائے لیکن تمہارے پاس اتنی مہلت ہے کہ پودا زمین میں لگا کر کھڑے ہو جائو تو پودا لگا دو‘ کیوں کہ اس پر تمھیں اجر ملے گا۔یعنی دنیا کا ایک ایک لمحہ اتنا قیمتی ہے اور اس کا استعمال آخرت کے اجر کے لیے اتنا مفید اور ضروری ہے کہ تمھیں معلوم ہے کہ قیامت قائم ہوگئی ہے‘ اب اس پودے کی نشوونما کا کوئی موقع نہیں ہے لیکن دنیا تو آخرت کی کھیتی ہے اس لیے کاشت کے موقع کو ضائع نہ کرو۔ پھل آخرت میں ملے گا۔ (الدنیا مزرعۃ الآخرۃ)
آج جہاد اور شہادت کے جذبے سے سرشار مسلمان نوجوان کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اس وقت اگر مغربی تہذیب کو غلبہ حاصل ہے تو اس کی پشت پر صدیوں کی منصوبہ بندی ‘ باہم مربوط کوششیں‘ آزادانہ علمی اور سائنسی تحقیق‘ سائنسی اور علمی اداروں کا قیام‘ یونی ورسٹیوں کا قیام‘ مشترک قومی مقاصد کا تعین اور ان کے حصول کی خاطر فروعی اور گروہی اختلافات سے بالاتری اور اس قبیل کی تدابیر کی قوت کارفرما ہے۔ بلاشبہ مغربی تہذیب میں اپنے نکتۂ عروج کو چھونے کے بعد زوال کے آثار پائے جاتے ہیں کیونکہ اس کی اخلاقی بنیادیں کمزور ہیں لیکن اس وقت مسلمانوں میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ اس کی جگہ لے سکیں۔ محض تخریب اور دوسروں کو نقصان پہنچانے سے ہم انسانیت کے لیے رشد و ہدایت کا ذریعہ نہیں بن سکتے‘ نہ وہ بلند مقاصد حاصل کر سکتے ہیں جن کے لیے امت مسلمہ اٹھائی گئی ہے۔
اس کے لیے جہاد فی سبیل اللہ اور شہادت کے جذبے اور تمنا کو عمل میں ڈھالنے کے لیے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں تدابیر اختیار کرنی پڑیں گی۔ ان تدابیر میں معاشی خود کفالت حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ اس کے لیے اسلامی ممالک کی معاشی منصوبہ بندی کرنے والوں کو نئے راستے اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے ان کی تشفی ضروری ہے کیونکہ ان کی تربیت مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہوئی ہے اور وہ اس سے آگاہ نہیں ہیں کہ مغربی معاشی تصور میں انسان کی حرص اور بھوک کو بڑھا کر جس طرح اسے زیادہ محنت پر آمادہ کیا جاتا ہے ‘ اسلام کے پاس اس سے بہتر راستہ ہے جس سے مسلمان کو اخلاقی‘ علمی اور مادی کاوش اور قربانی کے لیے آمادہ کیا جا سکتا ہے۔
ضرورت ہے کہ اس پورے تصور کو ہمارے تربیتی اور تعلیمی نظام کے ایک بنیادی جزو کے طور پر متعارف کرایا جائے۔ صدیوں کے انحطاط سے دین اسلام کے بنیادی پہلو نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں اور رہبانیت‘ ترک دنیا اور اس کے مختلف مظاہر کو ولایت اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ حالانکہ اس کا اصل ذریعہ جہاد فی سبیل اللہ کے وسیع تر مفہوم کے ساتھ‘ ہر طرح کی اخلاقی ‘ علمی اور مادی و معاشی کاوش ہے‘ مسلمانوں کی روحانی‘ اخلاقی اور مادی ترقی اس کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے۔
دسمبر ۱۹۷۱ء میں پاکستان دولخت کیوں ہوا؟ بلاشبہ اس کی کئی وجوہ ہیں‘ لیکن اگر مقتدر طبقے کی حماقتوں کے بعد سب سے بنیادی سبب کا کھوج لگایا جائے تو بات تعلیم اور استاد پر جا کر ٹھیرتی ہے۔ مشرقی پاکستان میں اساتذہ کے انتخاب اور تقرر میں بے تدبیری اور تعلیمی عمل کے بارے میں چشم پوشی بلکہ اندھے پن نے وہ دن دکھایا جس کا کوئی پاکستانی کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
آگے بڑھنے سے پہلے دیکھنا چاہیے کہ کون کون سے عناصر ہیں جو ملکی استحکام کو مضبوط بنیادیں فراہم کرتے ہیں؟ ان عناصر کی ترویج و ارتقا کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں کیا قانون سازی کی گئی ہے؟ بحیثیت قوم ہم نے سیاسی اور انتظامی سطح پر ان قانونی ضابطوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ نتائج کیا سامنے آ رہے ہیں‘ اور ان برے نتائج سے بچنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
ملّی اور قومی استحکام کو تقویت دینے والے چند ایک عناصر یہ ہیں: l اسلامی نظریۂ حیات یا قومی آئیڈیالوجی کے ساتھ وابستگی‘ l قومی سطح پر مؤثر وسیلہ ابلاغ کا وجود اور اس کا احترام‘ l فکروعمل کی ہم آہنگی‘ l قومی سطح پر تبادلہ خیال اور مکالمے کا ماحول‘ l معاشرے میں عدلِ اجتماعی کا چلن‘ l علم اور اہل علم کی توقیر و احترام۔
اسلامی نظریہ حیات: قومی استحکام کے لیے نظریۂ حیات کے ساتھ وابستگی کی کیا ضرورت ہے‘ اور بنی نوع انسان کے مجموعی تجربے نے اس کے حق میں تاریخ عالم سے کیا دلائل فراہم کیے ہیں؟ اگرچہ اس متفق علیہ نکتے کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں‘ کیونکہ ہم سب اس نظریۂ حیات سے واقف ہی نہیں‘ بلکہ اس کے پرجوش حامی بھی ہیں۔ ہمیں ذکر صرف اس بات کا کرنا ہے کہ آئین جو کسی قوم کا متفق علیہ عمرانی معاہدہ ہوتا ہے اس میں اس سلسلے میں کیا بنیادیں فراہم کی گئی ہیں۔
۱۹۷۳ء کے آئین میں شامل قراردادمقاصد اور آئین کا آرٹیکل ۳۱ بڑی وضاحت کے ساتھ
تعلیم وتدریس میں اسلامی نظریہ حیات کی ترویج کا راستہ متعین کرتا ہے۔
آئین پاکستان کے الفاظ اس طرح ہیں:
۱- پاکستان کے مسلمانوں کو‘ انفرادی اور اجتماعی طور پر‘ اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انھیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔
۲- پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل امور کے لیے کوشش کرے گی:
(الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا‘ عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا اور قرآن پاک کی صحیح طباعت اور اشاعت کا اہتمام کرنا۔
(ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا اور
(ج) زکوٰۃ (عشر) ‘ اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔
مختلف حکومتوں نے قرارداد مقاصد اور مذکورہ آئینی آرٹیکل کے ساتھ جو سلوک کیا ہے‘ اس کا مشاہدہ تعلیمی اداروں کے ماحول‘ نصاب و درسی کتب کے مندرجات‘ طلبہ کی تربیت کے لیے ہم نصابی سرگرمیوں اور امتحانات کے کھلے چھپے رازوں سے کیا جا سکتا ہے۔ ٹیلی وژن جو قوم کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک نہایت وسیع الاثر استاد اور پورے ملک پر پھیلا ہوا کلاس روم ہے‘ قوم کے بچوں‘ نوجوانوں‘ مردوں اور عورتوں کو صبح و شام جو تربیت دے رہا ہے اس پر نظرڈال کر دیکھ لیجیے کہ تعلیم و تربیت کی یہ ساری مشق دستور پاکستان کی شق نمبر۳۱ کا کس طرح مذاق اُڑا رہی ہے۔
اردو بطور ذریعہ ابلاغ: قومی سطح پر مؤثر ذریعہ ابلاغ سوائے اردو کے اور کوئی نہیں ہے۔ اردو نہ صرف پاکستان کے اندر رابطے کی زبان ہے‘ بلکہ پورے جنوب مشرقی ایشیا میں میانمار (برما) سے لے کر افغانستان تک اور بھوٹان سے لے کر مالدیپ تک‘ حتیٰ کہ خلیج کی عرب ریاستوں میں بھی اردو ہی ایک مشترکہ زبان ہے‘ جو باہم ابلاغ کا کام دیتی ہے۔ اسی طرح قومی آئیڈیالوجی کے نفوذ و ترویج کا موثر ذریعہ بھی اردو ہی ہے۔ لیکن قومی قیادت پر فائز طبقے نے اس کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ کسی زندہ اور باحمیت قوم کا شیوہ نہیں ۔ آزادی کے ۵۴ سال گزرنے کے باوجود آج تک ہم غلط سلط انگریزی میں سرکاری خط کتابت کیے چلے جا رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں درست اور سمجھ آنے والی زبان‘ اردو کا حال یہ ہے کہ حکومت کی شب و روز کی کارروائی اس کے مقام و مرتبے کو کم کرتی جا رہی ہے۔ متعدد قومیتوں کا نعرہ تخلیق کر کے قومی زبان کو ایک خودساختہ ذیلی قومیت کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔ ۱۹۷۳ء کے متفقہ دستور میں اردو کے نفاذ کے لیے ۱۰ سال کی جو مدت رکھی گئی تھی‘ اسے مسلسل نظرانداز کیا گیا (بلکہ اس مدت کو گزرے بھی ۱۶ برس ہو چکے ہیں)۔ اس درست سمت کو چھوڑنے کے نتیجے میں اب انگریزی کی بالادستی اور علاقائی زبانوں کا تعصب اس قدر چھا گیا ہے کہ قومی رابطے کی زبان کے طور پر اردو کی اہمیت بھی ذہنوں سے محو ہوتی جا رہی ہے۔ اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو علاقائی تفریق اس قدر بڑھے گی کہ مختلف صوبوں اور علاقوں کے لوگ ایک دوسرے کے لیے خدانخواستہ غیر ملکی بن کر رہ جائیں گے۔ انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھنے کے خبط نے ایسے نوجوان خواتین وحضرات کو میدانِ عمل میں پہنچانا شروع کر دیا ہے‘ جو انگریزی تو فرفر بولتے ہیں‘ لیکن وہ نہ اردو لکھ سکتے ہیں اور نہ پڑھ سکتے ہیں۔ صرف زبانی گفتگو کی حد تک انگریزی نما اردو سے آشنا ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مرض پھیلے گا اور نتیجہ اس کا جو نکلے گا اُسے بہ خوبی چشم تصور میں لایا جا سکتا ہے۔ قومی استحکام کو غلط لسانی پالیسی کی وجہ سے جو خطرات لاحق ہیں‘ اسے پوری دلسوزی کے ساتھ محسوس کرنا چاہیے۔
فکروعمل کی ہم آہنگی: قومی نظریۂ حیات اور قومی رابطے کی زبان‘ فکروعمل کی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ قومی زبان اور قومی نظریۂ حیات کو مختلف سطحوں کے نصابات اور درسی کتب میں سمونے اور سماجی شعور کی نشوونماکو نصاب و کتاب کے ذریعے آگے بڑھانا ضروری ہے۔ تاریخی اور جغرافیائی ماحول کے تانے بانے نئی نسلوں کے ذہنوں میں راسخ کرنے‘ سائنس‘ ٹکنالوجی اور قدرتی وسائل سے فیض یابی کا نقشہ مستقبل کے ساتھ مربوط کرنے کا سارا کام قومی تعلیمی پالیسی اور قومی نصاب کا مرہون منت ہے۔ نصابات اور تعلیمی معیارات کا کنٹرول پاکستان کے آئین کی concurrent list کے ذریعے وفاقی وزارت تعلیم کے ہاتھ میں دیا گیا ہے تاکہ تعلیمی نظام میں یکساں نصاب‘ یکساں درسی کتب‘ یکساں معیارات اور یکساں قومی سوچ بروے کار لائی جائے اور اس طرح استحکام وطن کے تقاضے پورے ہوں۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے دستور کی ان آئینی شقوں کو ایجوکیشن ایکٹ نمبر ۱۰ آف ۱۹۷۶ء میں قانونی شکل دی ہے۔ جس میں انھوں نے بڑی صراحت اور دانش مندی کے ساتھ درج کیا ہے: ’’قومی نصاب‘ پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں پر لاگو ہوگا۔ تعلیمی اداروں میں رائج درسی کتب‘ شعبہ نصابات‘ وفاقی وزارتِ تعلیم کی منظورشدہ ہوں گی۔ تعلیمی معیارات مقرر کرنے اور ان کی نگرانی کرنے کا اختیار وزارت تعلیم کے دائرہ اختیار میں ہوگا‘ نیز نصاب و کتاب میں کوئی ایسا مواد یا تصور نہیں دیا جا سکے گا‘ جو اسلام اور نظریۂ پاکستان کے تقاضوں کے منافی ہو‘‘۔
سوال یہ ہے کہ اتنے واضح عہد‘ انتظامات اور اتنے مستحکم قانونی و دستوری فیصلوں کے باوجود ہو کیا رہا ہے؟
پبلک اسکولز اور نجی شعبے کے تعلیمی ادارے‘ پاکستان کے قومی نصاب سے مکمل آزاد ہو چکے ہیں۔ افسوس کہ ‘آئین و قانون کے پاسبان اس جرم کے سب سے زیادہ مرتکب ہو رہے ہیں۔ بیرونی اداروں کے نصابات رائج کرنے اور ان کے امتحانات میں طلبہ کو بٹھانے پر کوئی قدغن نہیں۔ بیرونی یونی ورسٹیوں سے الحاق اور ان یونی ورسٹیوں کے پاکستان میں ذیلی کیمپس کھولنے کی کھلی آزادی ہے۔ آئین پاکستان کی تعلیم سے متعلق شقیں اور ۱۹۷۶ء کا ایجوکیشن ایکٹ بالاے طاق رکھا جا چکا ہے۔ وزارت تعلیم‘ یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن اور اس طرح کے دوسرے قومی ادارے بالکل غیر متعلق ہو چکے ہیں۔ اس بدترین شکست وریخت کے باوجود اگر ملّی اور قومی استحکام کا خواب دیکھیں تو کون ہے جو ہمیں عقل مند کہے گا۔ قوم کے اندر نئی نئی اقوام اور طبقے پیدا کرنے کا یہ نسخہ شاید کسی دوسری قوم کو اب تک نہیں سوجھا۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ورلڈبنک‘ ایشین بنک‘ یونیسکو‘ یونیسف اور ترقی یافتہ ملکوں کے امداد دینے والے دیگر ادارے‘ نصاب و کتاب کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔ اس دفعہ یلغار جنوب مشرق کی طرف سے نہیں‘ شمال مغرب کی طرف سے ہوئی ہے۔ نصاب و کتاب اور تدریسی مواد کے سلسلے میں صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان ہمارے گورے آقائوں کے ’’مخصوص تعلیمی حملے‘‘کے نتیجے میں اپنی قسمت بچانے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ میں نفوذ جاری ہے۔ تعلیم کے ذریعے سے لادینیت اور نام نہاد لبرلزم کی ترویج‘ مغربی اقدار کا نفوذ‘ علم و تدریس سے زیادہ آوارگی پھیلانے کے منصوبے اور خاندانی بندھنوں کی توڑ پھوڑ ہمارے مغربی سرپرستوں کا ہدف ہے‘ جو وہ پوری دیدہ دلیری سے‘ فوجی اور سول بیوروکریسی کے فراہم کردہ تحفظ میں سرانجام دے رہے ہیں۔ قومی استحکام کو دیمک کی طرح چاٹ لینے والی یہ یلغار کہاں کہاں تک مار کر چکی ہے‘ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔
افہام و تفہیم کا کلچر: جدت و اختراع زندہ قوموں کی تعمیر و ترقی اور استحکام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ قومی تعلیمی و تربیتی نظام‘ بحث اور تحقیق میں وسعت قلبی کا جذبہ پیدا کرے۔ کھلے ذہن اور سائنسی تجزیہ و استدلال کے ساتھ اپنی رائے کو آگے بڑھانا اور دوسروں کی رائے کا احترام کرنا‘ اسلامی معاشرے کی لازمی خصوصیت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا نظام تعلیم نہ تو جدید اداروں میں اس خاصیت کو پروان چڑھاتا ہے اور نہ قدیم طرز کے دینی اداروں میں اس نقطہء نگاہ کا چلن ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم راوین‘ ایچی سونین‘ بیکونینز اور مسلک زدہ افراد تو پیدا کر رہے ہیں لیکن اسلامی اور پاکستانی سوچ کے حامل افراد آہستہ آہستہ ناپید ہو رہے ہیں۔ تعصبات کے اس جنگل میں خود تعلیمی ادارے‘ طبقاتی‘ گروہی اور مفاداتی تعصب کے نقیب بن گئے ہیں۔ وسعت قلبی اور وسیع المشربی کا ماحول پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قومی سطح پر تبادلہ خیال اور مکالمے کے کلچر کو فروغ دیا جائے۔ مگرانھیں علاقائی‘ نسلی اور مسلکی گروہ بندیوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی اداروں میں نظم و ضبط کے ساتھ آزاد علمی ماحول پیدا کیا جائے۔ اس کے لیے طلبہ کی ہم نصابی سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لیے کونسلوں اور سوسائٹیوں کا قیام اشد ضروری ہے‘ جو افہام و تفہیم کا ماحول مہیا کرسکتی ہیں‘ اور محدود تعصبات پر مبنی طلبہ کی گروہ بندیوں کا توڑ کر سکتی ہیں۔
سماجی عدل و انصاف کا راستہ: معاشرے میںعدل و انصاف کا قیام حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ لیکن بدقسمتی سے حکومتیں ہی اس کی دھجیاں بکھیرنے کا سبب بنتی رہی ہیں۔ عدل و انصاف کے معدوم ہونے سے انفرادی سطح پر ہر شخص بے یقینی اور عدم تحفظ کا شکار ہوتا ہے اور اجتماعی سطح پر قوم میں انتشار‘ افراتفری اور بے یقینی پیدا ہوتی ہے۔ سماجی انصاف کی خشت ِاوّل تعلیمی انصاف ہے۔ تعلیم کے ضمن میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین اجتماعی عدل و انصاف کا اعلیٰ معیار قائم کرتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل ۳۷ میں اعلان کیا گیا ہے:
الف- ریاست پس ماندہ طبقات یا علاقوں کے تعلیمی اور معاشی مفادات کو خصوصی توجہ کے ساتھ فروغ دے گی۔
ب- کم سے کم ممکنہ مدت کے اندر ناخواندگی کا خاتمہ کرے گی اور مفت اور لازمی ثانوی تعلیم مہیا کرے گی۔
ج- فنی اور پیشہ وارانہ تعلیم کو عام طور پر ممکن الحصول اور اعلیٰ تعلیم کو لیاقت کی بنیاد پر سب کے لیے مساوی طور پر قابل دسترس بنائے گی۔
د- مختلف علاقوں کے افراد کو‘تعلیم‘ تربیت‘ زرعی اور صنعتی ترقی اور دیگر طریقوں سے اس قابل بنائے گی کہ وہ ہر قسم کی قومی سرگرمیوں میں‘ جن میں پاکستان کی سرکاری ملازمت بھی شامل ہے‘ پورا پورا حصہ لے سکیں۔
ذرا دیکھیے کہ آئین کے پاس داروں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ آرٹیکل ۳۷ کے دستوری تقاضوں کے مطابق ۱۹۷۴ء میں میٹرک تک تعلیم کے لیے ہر قسم کی فیسیں ختم کر دی گئی تھیں لیکن جنرل محمد ضیاالحق کے مارشل لا کے بعد آنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں نے دوبارہ تعلیمی اداروں میں فیسیں اس طرح لاگو کر دی ہیں‘ کہ اب ان کا گراف اوپر ہی اوپر جا رہا ہے۔
جنرل مشرف صاحب کی حکومت بھی دستور کی اس شق کے پرزے اڑانے میں پیچھے نہیں رہنا چاہتی اور اسکولوں کالجوں کی فیسیں بڑھانے کا کام زیرعمل ہے۔ دستور پاکستان کا آرٹیکل ۳۷‘ جو تمام سماجی طبقات کے لیے اعلیٰ تعلیم کی یکساں دستیابی اور میرٹ کی بنا پر قابل حصول ہونے کی یقین دہانی کراتا ہے‘ اب دھن دولت رکھنے والوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنا دیا گیا ہے۔ جہاں قرض دینے والے غیر ملکی ادارے اعلیٰ تعلیم میںصارفین پر مالی بار ڈالنے کے لیے مجبور کر رہے ہیں‘ وہاں خود پاکستانی سرکار نے سیلف فنانسنگ اور سیلف سپورٹنگ کا تحفہ دے کر اعلیٰ تعلیم کو دولت مند طبقوں کے تابع مہمل بنا دیا ہے۔ یہ ایک غور طلب مسئلہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے بارے میں ’’قابلیت کی بنا پر سبھی کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول‘‘ [higher education equally accessible to all on the basis of merit: Article 37.c] جیسا زریں آئینی اصول اس صورت حال میں کہاں باقی رہا۔ رہی سہی کسر داخلوں اور ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم نے پوری کر دی ہے۔
جب عدل و انصاف کا معیار یہ رہ جائے کہ پاکستان کی نئی نسلوں کے مستقبل کا فیصلہ دادا جان کی جاے پیدایش پر استوار کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر ہونا قرار پائے تو نئی نسل کے یہ ذہین نوجوان استحکام وطن کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کریں گے یا اپنے دادا بابا کو کوسیں گے کہ خاکم بدہن کس سرزمین بے آئین میں اپنا اور اپنی اولادوں کا مستقبل گنوا بیٹھے۔ انفرادی اور گروہی سطح پر‘ عدل اجتماعی کی نفی‘ مستقبل کے متعلق بے یقینی پیدا کرتی ہے۔ علامہ محمد اقبال کے قول کے مطابق: یہ غلامی سے بدتر صورت حال نئی نسلوں کو تعمیر سے زیادہ تخریب کی طرف راغب کرتی ہے۔ اگر عدل و انصاف کا دور دورہ ہو‘ صلاحیت و ذہانت کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے راستے کھلے ہوں تو خوش حال مستقبل کے متعلق یقین میں پختگی آتی ہے۔ انسان کی روحانی‘ سماجی اور معاشی جڑیں سرزمین وطن میں گہری ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ذہین اور باصلاحیت انسانوں کی شکل میں تن آور درخت‘ استحکام وطن کو ایسی ہر عریاں کاری سے بچاتے ہیں‘ جیسے سرسبز درخت زمین کو سایہ فراہم کر کے اسے بنجر ہونے سے بچاتے ہیں۔
اہل علم ودانش کی توقیر: ذہانت اور صلاحیت وہبی بھی ہے اور کسبی بھی۔ علم اور اہل علم‘ ذہانت اور صلاحیت کو چمکاتے اور باثمر بناتے ہیں‘ وہ اسے پروان چڑھاتے اور اظہار کی مثبت راہیں مہیا کرتے ہیں۔ یہ اہل علم ودانش ہی ہیں جو قوم کے افراد ہی کو نہیں‘ بلکہ قوم کے رہنمائوں کو بھی غلط روی اور غلط کاری پر متنبہ کرتے رہتے ہیں۔ اہل علم ودانش ایسی بریک کی مانند ہوتے ہیں جو قوم کی گاڑی کاٹائی راڈ کھل جانے کے باوجود اسے اپنی بصیرت و حکمت سے جانکاہ حادثوں سے بچا لیتے ہیں۔ اگر کسی معاشرے میں علم و دانش اور اہل علم و دانش کو بے توقیر کر دیا جائے‘ ان کا احترام تو کجا انھیں توہین آمیز سلوک سے دوچار کر دیا جائے تو وہ معاشرہ تباہی اور انتشار کی آخری حدوں کو چھوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں علم اور اہل علم کی توقیر ختم کر کے رکھ دی گئی ہے۔ زندہ قوموں میں بڑے بڑے زورآور‘ قوم کے علما اور اساتذہ‘ اہل علم و دانش کے سامنے اپنی گردنیں جھکا دیتے ہیں۔ ان سے رہنمائی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم اب تک ایسے افراد کی کھیپ کیوں تیار نہیں کر سکا جو آگے بڑھ کر قوم کے ہر شعبۂ زندگی کی قیادت کرتے۔ ہم اب تک علم و تحقیق میں کیوں کرشماتی کارنامے سرانجام نہیں دے سکے؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اگر تعلیم گاہ بھی تھانے اور تحصیل کی طرز پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج کی سوچ سے چلائی جائے گی تو اس سے حریت فکر کے حامل طلبہ اور اساتذہ کیسے پیدا ہوں گے۔
معاشرے میں ابلاغ عامہ کے ذریعے جس قسم کے اصحاب دانش کی حوصلہ افزائی کی جائے گی‘ وہی دانش نشوونما پائے گی۔ آج ناچنے‘ گانے والے مسخرے اور نقال اداکار قوم اور قوم کی نئی نسل کی آنکھ کا تارا ہیں۔ اہل اقتدار کی ساری شفقت ان پر نچھاور اور میڈیا تو ان کے تذکرے کے بغیر ادھورا ادھورا سا رہتا ہے۔ وہ کون سا اخبار یا رسالہ ہے جو شوبز کے نام پر قیمتی کاغذ ضائع نہیں کرتا۔ عزت و احترام اور حوصلہ افزائی کے ان معیارات کی روشنی میں اہل علم و دانش کی حیثیت ہی کیا ہوگی۔ اس صورت حال میں تعلیم اور اہل تعلیم کے ہاتھوں استحکام وطن کی توقع رکھنا خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
اس بحث کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کیا جائے تاکہ استحکام پاکستان کا مقدس فریضہ سرانجام دیا جا سکے؟ اس سلسلے میں حکومت کی خدمت میں صرف ایک گزارش پیش کی جاتی ہے‘ اور وہ یہ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پورے دستور پر مکمل طور پر عمل کیا جائے اور اگر سردست ایسا ممکن نہ ہو تو ترجیح اوّل کے طور پر دستور کے آرٹیکل ۳۱ اور ۳۷ پر ان کی پوری روح کے مطابق پورے اخلاص کے ساتھ عمل درآمد کیا جائے۔ اہل اقتدار کو یقین رکھنا چاہیے کہ ان آرٹیکلزپر عمل درآمد نہایت دُور رس تعمیری اور مثبت اثرات پیدا کرے گا۔ اس کے برعکس غیر ملکی وسائل یافتہ اور مخصوص تہذیبی و سیاسی ایجنڈے کی حامل نام نہاد این جی اوز کی رہنمائی میں تیار کردہ تعلیمی منصوبے‘ تباہی کے سوا کچھ نہ دے سکیں گے۔
تیونس میں موجودہ اسلامی تحریک کا آغاز چند پرُجوش نوجوانوں نے ۱۹۶۹ء میں کیا‘ جن میں استاد راشد الغنوشی اور شیخ عبدالفتاح مورو سرفہرست ہیں۔ تحریک کا آغاز مساجد اور تعلیمی اداروں سے ہوا۔ تحریک اسلامی نے حالات کے تقاضوں کے پیش نظر مختلف نام اپنائے۔ ۷۰ کے عشرے میں ’’الجماعۃ الاسلامیہ‘‘ ۸۰ کی دہائی میں ’’حرکۃ الاتجاہ الاسلامی‘‘ اور ۹۰ کے عشرے کی ابتدا سے ’’حرکۃ النہضۃ‘‘ کا نام اختیار کیا۔
اہم اہداف: دعوت و تبلیغ‘ مساجد کی آبادکاری‘ غیر اسلامی رسوم و رواج کا خاتمہ‘ نوجوانوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا‘ تاکہ وہ مغربی فکری یلغار سے محفوظ رہیں اور ان کا اسلام پر‘بحیثیت عقیدہ و نظام‘ اعتماد بحال کیا جا سکے۔ غریبوں اور پسماندہ طبقوں کے سماجی مسائل میں دل چسپی‘ محنت کشوں اور طالب علموں کی یونینوں میں شرکت‘ نوجوانوں کی ثقافتی و علمی سوسائٹیوں اور کلبوں میں شمولیت‘ جمہوریت ‘ سیاسی آزادیوں اور حقوقِ انسانی کے احترام کے لیے سیاسی جدوجہد کرنا‘ افریقی ‘ عرب اور مسلم ممالک کے ساتھ تعاون--- اُمت ِ اسلامیہ کے مسائل و مشکلات میں ہمدردی‘ فلسطین سمیت دُنیا کے مقبوضہ علاقوں کی آزادی کی حمایت‘ عورت کا احترام اور اقتصادی‘ سماجی ‘ ثقافتی اور سیاسی میدانوں میں اس کے مثبت کردار کی توثیق‘ تاکہ معاشرے کی ترقی میں وہ بھرپور حصہ لے سکے۔
تحریک اسلامی ملک میں تبدیلی لانے کی خاطر‘ پرُتشدد ذرائع کے استعمال پر یقین نہیں رکھتی۔ وہ سمجھتی ہے کہ سیاسی و فکری اختلافات کے حل کے لیے اسلحے پر انحصار اُمت اسلامیہ کی پس ماندگی اور اس کے مسلسل بحرانوں کا سبب ہے۔ اس کے برعکس وہ گفتگو‘ مذاکرات اور پرُامن بقاے باہمی پر یقین رکھتی ہے۔ اس کے نزدیک فوج کا کام ملک اور قوم کا دفاع ہے نہ کہ انقلاب برپا کرنا۔ وہ دیگر اقوام کے ساتھ باہمی احترام پر مبنی تہذیبی مکالمے اور مشترکہ تعاون کی قائل ہے۔
صدر ابن علی کے انقلاب کی حمایت: ۷ نومبر ۱۹۸۷ء کو جب بورقیبہ کی جگہ حکومت کی باگ ڈور ابن علی نے سنبھالی جو اپنے پیش رو کا دست راست تھا لیکن تحریک اسلامی نے وسیع تر قومی مفاد کے پیش نظر اس انقلاب کی تائید کی۔ مگر اس تعاون کے باوجود حکومت نے اصلاحات اور وعدے پورے کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیا بلکہ مجلس قانون ساز کے انتخاب کے موقع پر عوامی فیصلے کی توہین کرتے ہوئے انتخابات کے نتائج میں صریح دھاندلی کی۔ اب حکومت تحریک اسلامی کو ختم کرنے اور جبرواستبداد قائم رکھنے کے ایک خطرناک منصوبے پر عمل پیرا ہے۔
سیاسی صورت حال : آزادی‘ جمہوریت اور حقوق انسانی کے سرکاری نعروں کے علی الرغم سیاسی صورت حال یہ ہے کہ حکمران دستور پارٹی اور مملکتی ادارے سیاسی زندگی پر مسلط ہیں‘ جب کہ تمام سیاسی اور سماجی قوتوں کو کچلا جا رہا ہے۔ حکمران مخالف سیاسی پارٹیوں کو ’’کنارے پر لگانے‘‘ کی پالیسی پر گامزن ہیں اور اس سلسلے میں تشدد کے بدترین ذرائع اختیار کر رہے ہیں۔ حکومت نے حزب اختلاف کے خلاف اطلاعاتی و سیاسی سرگرمیاں تیز تر کر رکھی ہیں‘ ان کے اخبارات بند کر دیے ہیں‘ ان کے اجتماعات پر پابندی ہے ‘ ان کے قائدین کی نقل و حرکت محدود کر دی گئی ہے۔ ان تمام قومی شخصیات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے جو کسی بھی طرح سے ابن علی کا مدّمقابل بن سکتی ہیں۔ ان تمام اداروں کو ختم یا بے وقعت کیا جا رہا ہے جو عوام کو یک جا کرسکتے ہیں یا حکمران اقلیت کے اختیارات کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں ہیں‘ جیسے جنرل لیبر فیڈریشن ‘ طالب علموں کے اتحاد‘ تونسی رابطہ براے تحفظ حقوقِ انسانی‘ آزادی صحافت اور مساجد۔ مقننہ‘ انتظامیہ‘ عدلیہ اور محکمہ اطلاعات کو یک جا کیا جا رہا ہے تاکہ اس کا مرکزی کنٹرول فردِواحد(صدرمملکت) کے ہاتھوں میں ہو۔ حکمران ٹولے نے اپریل ۱۹۸۹ء میں پارلیمانی انتخابات کے نتائج میں دھاندلی کے ذریعے قومی حق کی توہین کی ہے۔ ان انتخابات میں عوام نے بھاری اکثریت سے تحریک النہضۃ کی حمایت کی تھی جس نے بالواسطہ طور پر انتخاب میں حصہ لیا تھا۔
قانونی پیچیدگیاں: تیونس کا قانونی نظام‘ ظالمانہ قوانین پر مبنی ہے۔ یہ ظلم و زیادتی کے تمام مرتکب افراد کو مناسب سہارا فراہم کرتا ہے۔ چند ظالمانہ قوانین یہ ہیں: سیاسی پارٹیوں کے دینی بنیاد پر تسلیم کیے جانے کی ممانعت‘ سیاسی پارٹیوں پر وزیرداخلہ کا تسلّط‘ مخصوص قانونی شق کی رُو سے مساجد‘ جامعات‘ صحافت‘ انجمنوں‘ یونینوں اور انتخابات کے تمام مراحل کا وزارتِ داخلہ کے تحت ہونا۔ آزادیِ اختیارِ لباس میں مداخلت‘ عورتوں کے لیے حجاب اوڑھنے کی ممانعت کا قانون اور اس کے نتیجے میں باحجاب طالبات و خواتین کو تعلیمی اداروں اور ملازمتوں سے برطرف کرنا اور بے پردگی کی حوصلہ افزائی وغیرہ۔ اگرچہ ملک کے دستور میں نقل و حرکت کی آزادی کا اقرار کیا گیا ہے‘ تاہم قانوناً وزیرداخلہ کو نقل و حرکت پر پابندی یا اجازت کا اختیار حاصل ہے۔ چنانچہ لاکھوں شہریوں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد ہے۔ انجمن سازی وزیرداخلہ کے رحم و کرم پر ہے۔ چنانچہ سیکڑوں انجمنیں اور اخبارات حقِ وجود سے محروم کردیے گئے ہیں۔ وزارتِ داخلہ کے تھانوں میں روزانہ انسانوں کو تختہِ مشق ستم بنایا جاتا ہے اور یوں حقوقِ انسانی کی توہین کی جاتی ہے۔
ثقافتی مسائل: راے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے حکومت ِ تیونس عربی اسلامی تشخص کا نعرہ بلند کرتی ہے لیکن عملاً دین‘ اخلاق اور تحریک نہضۃ کو کچلنے کے لیے حکومت اپنے منصوبے پر سختی سے عمل کر رہی ہے۔ حکومت اپنی سب سے بڑی سیاسی مخالف حرکۃ النہضۃ پر جو سب سے بڑا الزام لگاتی ہے وہ ہے اس کا اسلامی تشخص‘ مگر دوسری طرف اس نے نہضۃ کے کافر ہونے کے فتوے بھی صادر کروائے ہیں۔ قانوناً تمام مساجد کو براہِ راست مملکت کی زیرنگرانی کردیا گیا ہے اور ان میں علما کرام کو عوام کی رہنمائی سے روک دیا گیا ہے۔ عمومی اور تربیتی اداروں کی تمام مساجد کو بند کر دیا گیا ہے جو ایک ہزار سے زیادہ ہیں۔ بہت سے اقدامات کے ذریعے عربی اسلامی تشخص کو ختم کیا جا رہا ہے۔ حکومت بائیں بازو کے بے دین‘ اباحیت پسند اور سابق کمیونسٹوں کو تمام اداروں پر مسلط کر رہی ہے جو علانیہ نظریاتی تخریب کاری کے مرتکب ہو رہے ہیں‘ جب کہ ہزاروں اسلام پسند طلبہ اور سیکڑوں اساتذہ کو تحریک اسلامی کے حامی یا ہمدرد ہونے کے الزامات کے تحت تعلیمی اداروں سے نکال دیا گیا ہے۔ حکومت بائیں بازو کے انھی عناصر کو ساتھ ملا کر‘ دین اسلام اور معاشرتی قدروں کو پامال کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس کی کسی بھی ملک میں دورِاستعمار میں بھی مثال نہیں ملتی۔
ایک مکمل ثقافتی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ ابن علی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد تاریخی تعلیمی ادارے جامع الزیتونہ وغیرہ میں درس کی اجازت دی تھی مگر اب یہ اجازت واپس لی جا چکی ہے۔ قرآن کریم کی تجوید کے مدرسے بند کر دیے گئے ہیں۔تمام غیر ملکی اسلامی رسالوں اور پرچوں کی ملک میں آمد ممنوع ہے۔ اسلامی کتب کی درآمد پر بھی پابندی عائد ہے اور ان کتابوں کو فروخت کرنے والے کتب خانوں کو بند کر دیا جاتا ہے۔ مارکسی عناصر اور سیکورٹی آفیسرز پر مشتمل قومی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو کتب خانوں کی پڑتال کرتی ہے اور انھیں اسلامی کتابوں سے ’’پاک‘‘ کرتی ہے۔ اس انتہائی سرگرم کمیٹی کو وزارتِ ثقافت خصوصی تعاون فراہم کرتی ہے۔
صہیونیت کا پھیلاؤ: تیونس میں صہیونیوں نے اپنے کئی کلب قائم کر رکھے ہیں اور وہ (کم از کم تین بار) فلسطینی قائدین پر حملے کر چکے ہیں۔ وزارتِ داخلہ کا سیکرٹری اور کئی اعلیٰ عہدے دار بھی موساد کے ایجنٹ ہیں۔ اطلاعات و ثقافت کے میدانوں میں یہودی اثر و نفوذ بڑھ رہا ہے۔ صہیونی مالی ادارے تیونس کی فلم انڈسٹری کی مالی امداد کر رہے ہیں چنانچہ فلموں میں عریانی‘ بے حیائی اور اقدار سے آزادی بڑھ رہی ہے۔ اسلام کی مخالفت کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے‘ آنحضورؐ اور صحابہؓ کی توہین کی جا رہی ہے۔
امن و امان کی صورت حال: تیونس کا نظام دو بنیادوں پر چل رہا ہے: ۱- بیرونی قوتوں کی دست نگری و ماتحتی‘ ۲- پولیس کا ظالمانہ نظام۔ اس کے اثرات یہ ہیں: وزارت داخلہ کا بجٹ ہر وزارت سے زیادہ ہے۔ پولیس کو ’’فری ہینڈ‘‘ دیا گیا ہے کہ وہ جتنا چاہیں‘ مخالفین پر تشدد کریں‘ جیل میں ڈالیں‘ جان سے مار ڈالیں۔ حقوقِ انسانی کی ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں کے احتجاج کے باوجود‘ قتل و تشدد میں ملوث ایک بھی شخص کے خلاف کارروائی عمل میں نہیں آئی۔ ۱۹۹۰ء اور ۱۹۹۲ء کے دوران صرف اسلامی تحریک کے گرفتارشدگان کی تعداد ۳۰ ہزار تھی۔ اس کے بعد بھی تفتیش اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ تشدد کے دوران شہید ہونے والوں کی تعداد ۵۰ ہے‘ ان میں سے زیادہ تر کو‘ ان کے گھر والوں کو بتائے بغیر دفن کر دیا گیا۔ تحریک نہضۃکے کئی قائدین‘ قیدِتنہائی میں رکھے گئے ہیں۔ وہ رابطے اور اطلاعات کے ہر ذریعے سے محروم ہیں۔ انھیں علاج معالجے کی سہولت بھی مہیا نہیں کی جا رہی۔ وہ سوئِ تغذیہ کا شکار ہیں اور زندگی کی ہر سہولت سے محروم ہیں۔ انھیں مکمل قیدتنہائی میں پڑے۴ ہزار دن سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ یہ حضرات اپنی مظلومیت کے اظہار کے لیے کئی بار بھوک ہڑتال کر چکے ہیں۔
یونی ورسٹیوں اور تعلیمی اداروں پر پولیس کا مسلسل محاصرہ اور قبضہ ہے۔ یونی ورسٹی ہوسٹلوں پر رات کے وقت حملے ‘ طلبہ اور اساتذہ کو دق کرنا اور طلبہ پر فائرنگ ایک معمول بن چکا ہے۔ طلبہ کی تنظیم ’’الاتحاد العام التونسی لطلبۃ‘‘ کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے۔ حکومت تیونس نے بہت سے لوگوں کو اپنا مخبر اور جاسوس بنا رکھا ہے جواسے ہر طرح کی اطلاعات دیتے ہیں ۔ ان میں دکانوں‘ اداروں اور محلوں کے چوکیدار ‘ ٹیکسی ڈرائیور ‘
قہوہ خانوں کے مالک‘ بلدیہ کے ملازم اور حکمران پارٹی کے ارکان شامل ہیں۔
روز افزوں مقبولیت: تحریک نہضۃ کے صدر اور جلاوطن راہنما شیخ راشد الغنوشی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ تیونسی حکمرانوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود‘ تحریک اسلامی کی عوام میں مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ ملک کا کوئی گھر اور خاندان ایسا نہیں جس کا کوئی فرد تحریک میں شامل نہ ہو۔ اب تیونس کی تمام سیاسی پارٹیاں تحریک نہضۃ کی طرف دست ِ تعاون بڑھا رہی ہیں اور تیونسی معاشرہ نہضۃ کے گرد جمع ہو رہا ہے۔
تیونسی حکمران اپنے بقول ’’اسلام پسند دہشت گردوں‘‘ کو ختم کرنے کا جامع منصوبہ بنائے ہوئے ہیں اور وہ اسے پڑوسی عرب ممالک بلکہ پورے عالم اسلام کو برآمد کرنا چاہتے ہیں۔ اسلامی ممالک کی تنظیم کے گذشتہ اجلاس میں تیونس نے یہ تجویز دی تھی کہ تمام مسلم ممالک میں ’’دہشت گردی‘‘ کو سختی سے کچل دیا جائے۔
سوال: اولاد نہ ہونا ایک اہم معاشرتی اور نفسیاتی مسئلہ ہے۔ اس حوالے سے قرآن کی یہ آیت رہنمائی کرتی ہے جس کا مفہوم ہے کہ خدا کچھ کو لڑکے دیتا ہے‘ کچھ کو لڑکیاں دیتا ہے‘ اورکچھ کو ملے جلے‘ اور کچھ کو کچھ بھی نہیں دیتا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس جوڑے کے اولاد نہ ہو‘ کیا اس کی زندگی خوش گوار اور خوش و خرم ہو سکتی ہے؟ قرآن وحدیث سے اس میں کیا رہنمائی ملتی ہے؟
جواب: اصل سوال یہ ہے کہ انسان کواس زندگی میں حقیقی مسرت اور سکون کس طرح حاصل ہوتا ہے؟ انسان اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے پیدا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ o (الذریات ۵۱:۵۶) ’’میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں‘‘۔ انسان کا جو مقصد وجود ہے اسے‘ اسی کو اپنا نصب العین اور مقصد وجود بنانا چاہیے‘ اسی کی خاطر دوڑ دھوپ ہونی چاہیے۔ اس میںاگر انسان مصروف ہو‘ اس کا حق ادا کر رہا ہو‘اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کر رہا ہو‘ فرائض ادا اور منکرات سے اجتناب کر رہا ہو‘ تو ایسا انسان مطمئن اور خوش ہوتا ہے۔انسان سکون و اطمینان اور خوشی کی زندگی اسی صورت میں گزارتا ہے‘ جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر و عبادت اور طاعت و فرماں برداری میں زندگی گزارے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ج وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo (النحل ۱۶:۹۷) ’’جوشخص بھی نیک عمل کرے گا‘ خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘ بشرطیکہ ہو وہ مومن‘ اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے‘‘۔ اور یہ بھی فرمایا: وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰیo (طٰہٰ ۲۰:۱۲۴) ’’اور جو میرے ’’ذکر‘‘ (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اُسے اندھا اٹھائیں گے‘‘۔
معلوم ہوا کہ حقیقی مسرت ذکر الٰہی‘ اللہ کی اطاعت اور اس کی رضا پر راضی رہنے سے ہے۔ مال و دولت‘ منصب اور اقتدار آدمی کے لیے سکون و اطمینان کا ذریعہ نہیں۔ یہ سامان راحت تو ہیں لیکن عین راحت نہیں۔
ایک مسلمان مرد یا عورت جب بالغ ہو جائیں تو انھیںازدواجی زندگی اختیار کرنا چاہیے۔ یہ ایسی صورت میں فرض ہے جب اس کے بغیر گناہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو۔ اگر ایسا کوئی خطرہ نہ ہو‘ لیکن حاجت اور استطاعت ہو‘ تو پھر ازدواجی زندگی سنت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ ص (البقرہ۲:۱۸۷) ’’اور تلاش کرو اسے جو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے‘‘۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی نسل کے بقاکے لیے نکاح کو ذریعہ بنایا ہے۔ نکاح اور ازدواجی زندگی کے ذریعے انسان اللہ تعالیٰ کے اس تکوینی نظام میں اپنا حصہ ادا کرتا ہے جو اس نے نوع انسانی کی بقاکے لیے مقرر کیا ہے۔ نکاح کے نظام سے ایک طرف انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر اولاد کو جسے ما کتب اللّٰہ لکم ’’جو اللہ نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے‘‘،کے جملے سے بیان کیا گیا ہے‘ حاصل کرنے کے لیے تدبیر کرتا ہے‘ یعنی اولاد حاصل کرنے کی کوشش اور وسیلہ اختیار کرتا ہے‘ اور دوسری طرف نوع انسانی کی بقا میں مددگار و معاون بنتا ہے۔ اس لیے یہ عبادت بھی ہے اور تحصیل اولاد کا ذریعہ بھی۔ ما کتب اللّٰہ لکم کے الفاظ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد مقدر کی ہوگی تو اس تدبیر کے ذریعے مل جائے گی ‘ ورنہ نہیں ملے گی۔
اس لیے انسان محض شہوت رانی کی نیت سے نکاح نہ کرے بلکہ مستقل طور پر رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے اور زندگی کا رفیق اور رفیقہ بنانے اوراولاد صالحہ کے حصول کی نیت کرے۔ اگر اولاد کی نعمت حاصل ہو جائے تو اللہ کا شکر ادا کرے‘ نہ ملے تو راضی برضا رہے‘ صبر کووظیفہ بنائے۔ بہت سے انبیا ایسے گزرے ہیں جو طویل زندگی میں لااولاد رہے۔آخری عمر میں اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد دی‘ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام‘ حضرت زکریا علیہ السلام ‘اور بعض کو بیٹیوں کے ساتھ نرینہ اولاد ملی لیکن فوت ہو گئی‘ جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور بہت سے وہ گزرے ہیں جن کو نکاح کا موقع نہیں ملا ‘جیسے حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام ‘اور جیسے ’’مدین کے بزرگ‘‘۔ بعض اولاد سے محروم رہے۔ بہت سے آئمہ اور نیک خواتین کو بھی اس کا موقع نہیں ملا‘ جیسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒاور رابعہ بصریؒ‘ لیکن ان کی زندگی انتہائی خوش گوار ‘ پرُسکون اور اطمینان والی تھی۔
پس اولاد کے بغیر بھی آدمی خوش گوار زندگی بسر کرسکتا ہے‘ جب کہ اللہ کی بندگی اور ذکر میں مشغول ہو۔ اولاد بعض اوقات آدمی کے لیے سکون و اطمینان کے بجائے فتنہ بن جاتی ہے اور ماں باپ کی نافرمان ہوتی ہے ۔ آج کل تو بے شمار واقعات ایسے سامنے آتے ہیں کہ اولاد ماں باپ کو قتل کر دیتی ہے یا چوری ‘ ڈکیتی‘ دہشت گردی یا نشے میں مبتلا ہو کر ماں باپ کے لیے سوہانِ روح بن جاتی ہے۔ قرآن پاک میں حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہم السلام کا واقعہ آیا ہے۔ اس میں حضرت خضر ؑاللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک ایسے بیٹے کو قتل کر دیتے ہیں جس سے خطرہ تھا کہ وہ بالغ ہونے کے بعد ماں باپ کو اپنی سرکشی اور کفر کی بنا پر تنگ کرے گا۔
مسلمان معاشرے میں رہتے ہوئے ایک انسان تنہائی محسوس نہیں کرتا۔ یتیم کو باپ کے بدلے میں باپ‘ بھائی سے محروم کو بھائی کے بدلے میں بھائی ‘اور اولاد سے محروم کو اولاد کے بدلے میں اولاد (عزیزوں‘ بہن بھائیوں کی اولاد) میسر ہو جاتی ہے۔ چونکہ انما المومنون اخوۃ‘ ’’ایمان والے آپس میں بھائی ہیں‘‘ اور المسلم اخو المسلم‘ ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے‘‘۔ اس لیے اولاد کے بغیر خوش گوار زندگی کا سامان اللہ کی بندگی‘ صبراور اہل ایمان سے بھائی چارے کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ (مولانا عبدالمالک)
س : بچیوں کی تعلیم و تربیت کی فضیلت احادیث میں آئی ہے۔ اللہ کی توفیق سے اس پر پوری طرح عمل کرنے کی کوشش کی۔ ۲۵ سال ایسے گزرے کہ پتا ہی نہیں چلا۔ مگر جب بچیوں کی شادیوں کا معاملہ آیا تو حالات ایسے ہوئے کہ مستقل فکر نے جسمانی اور ذہنی مریض بنا دیا۔بچیوں کی شادی کی عمر گزرتی جا رہی ہے لیکن کوئی صورت بنتی نظر نہیں آ رہی‘ جب کہ ہم فرض نمازں کے علاوہ بھی دعائیں کرتے ہیں اور دوا (شادی کرانے والیوں سے رابطہ) بھی۔ لوگ وظائف پڑھنے کا بھی مشورہ دیتے ہیں۔ کیا قبولیت دعا میں ان کی کوئی افادیت ہے؟ ہمیں تو یوں لگتا ہے کہ ہماری دعائیں قبول ہی نہیں ہوتی ہیں۔
ج : آپ نے لڑکیوں کی شادی میں تاخیر سے پیدا ہونے والی صورت حال کا ذکر کیا ہے۔
فی الواقع یہ مسئلہ دونوں فریقوں کو یکساں طور پر فکر کی دعوت دیتا ہے۔ آج نہ صرف لڑکیوں کے لیے بلکہ لڑکوں کے لیے بھی مناسب رشتے کا ملنا جوے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ قرآن کریم میں سورہ القصص کی آیات ۲۳تا ۲۸ کا مطالعہ فرمائیں تو حضرت موسٰی ؑ کی دعا کا ذکر ملتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے چند لمحات میں ہی انھیں جاے امن اور مناسب رشتے سے نوازا۔ آیت ۲۴ میں یہ دعا موجود ہے۔
جہاں تک لڑکیوں یا لڑکوں کے رشتے کا تعلق ہے‘ عموماً اچھے رشتے کی تلاش میں والدین کو وقت کی تنگی کا احساس نہیں رہتا ‘یکے بعد دیگرے رشتے آتے ہیں اور وہ اس خیال سے کہ شاید اس سے مزید بہتر رشتہ آجائے‘ انتظار کرتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات ہمارے سماجی نظام میں لڑکیوںکو معاشرے سے کاٹ کر رکھتے ہیں کہ اعزہ اور اقربا کے ہاں بھی کسی تقریب میں ساتھ لے کر نہیں جاتے۔ نتیجتاً لوگوں کے علم میں یہ بات نہیں آتی کہ کس گھر میں مناسب رشتہ ہو سکتا ہے۔ اگر اس طرح کی کوئی شکل نہ پیدا ہو رہی ہو تو رسائل و اخبارات میں اشتہار کی بھی اسلام میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ اس طرح بھی رشتہ تلاش کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اس حوالے سے والدین اور اقربا و احباب کی ذمہ داری قرآن کریم نے واضح کر دی ہے ۔ سورہ النور میں ارشاد فرمایاگیا: ’’تم میں سے جو مرد اور عورت بے نکاح ہوں ان کا نکاح کر دو‘‘ (۲۴:۳۲)۔ گویا اہل خاندان ہوں یا احباب ‘ یا اسلامی ریاست‘ ان سب کی ذمہ داری میں سے ایک فریضہ بے نکاح افراد کا نکاح کرانا ہے۔ اس کے لیے کوشش‘ وسائل کی فراہمی‘ رکاوٹوں کا دُور کرنا اور نظام حیا کا قائم کرنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
دعا کے سلسلے میں یہ یاد رکھیے کہ ہم اکثر دعا کے آداب کا خیال نہیں رکھتے جو دعا قبول نہ ہونے کا ایک سبب ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات تمام آداب کے ساتھ بھی دعا کی قبولیت میں تاخیر ہو سکتی ہے جس میں سال اور مہینے کی کوئی قید نہیں اور عموماً اس کا سبب یہی ہوتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندے کے صبر کے نتیجے میں اجر میں اضافہ فرمانا چاہتا ہے‘ اور بعض اوقات اس تاخیر کے ذریعے سے بہت سے خطرات و مصائب سے اس کو بچا لیتا ہے۔ بہرصورت یہاں جو زحمت بندے کو ہوتی ہے اس کا حقیقی اجر وہ آخرت کے لیے محفوظ کر لیتا ہے۔ دعا کے ساتھ کثرت سے درود شریف پڑھنا دعا کی قبولیت کے امکانات کو قوی کر دیتا ہے۔ بعض علما یہ لکھتے ہیں کہ فجر کے بعد باقاعدگی سے سورہ یٰسین کی تلاوت بھی قبولیت دعا میں مددگار ہے۔ واللہ اعلم باالصواب (ڈاکٹر انیس احمد)
س : قرآن اور فقہ کی تعلیم کے سلسلے میں اکثر ذہن میں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ بعض مسائل‘ خصوصاً طہارت ‘ اور حیض و نفاس کے مسائل‘ کیا ۱۰ سے ۱۵ سال کے بچوں اور بچیوں کو پڑھانا ضروری ہیں؟ اگر ضروری ہے تو اس قسم کے مسائل کی تعلیم کے لیے کیا طریقہ مناسب ہے؟
ج : آپ کے سوال کا تعلق ایک اہم تعلیمی اور معاشرتی مسئلے سے ہے۔ اسلام جس معاشرے کی تعمیر چاہتا ہے اس کی بنیاد طہارت و پاکیزگی پر ہے۔ یہ طہارت نگاہ کی بھی ہے‘ سماعت کی بھی‘ لباس و جسم کی بھی اور فکروخیال کی بھی۔ اسی لیے ابھی بچہ پائوں پائوں چلنا شروع کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی والدین پر فرض ہو جاتا ہے کہ اسے پاک اور ناپاک اشیا میں فرق سمجھائیں‘ اور خصوصاً اپنی ضروریات سے فارغ ہونے کے طریقے کی تعلیم دیں جس میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ کس طرح جسم کو اچھی طرح صاف کیا جائے اور بعد میں ہاتھوں کو صابن سے صاف کر کے جسمانی طہارت و نظافت حاصل کی جائے۔ یہی بچہ جب بلوغ کے قریب پہنچتا ہے تو والدین کا فرض بن جاتا ہے کہ اسے جسمانی طہارت کے حوالے سے عمر کے اس مرحلے کے مسائل سے آگاہ کریں کہ کس طرح غیر ضروری بالوں کا صاف کرنا سنت ہے اور کس طرح غسل کیا جاتا ہے۔
دراصل یہ سارے معاملات اس معاشرے کے نظام تعلیم و تربیت کا حصہ ہیں جس کے قیام کو ہم ۵۴ سال سے مسلسل موخر کرتے چلے آ رہے ہیں‘ اور یہ سمجھتے ہیں کہ عالمی ادارہ صحت یا یونیسف کی تیار کردہ معلومات کے ذریعے ہی بچوں کو ذاتی صفائی کے بارے میں معلومات مل سکتی ہیں۔ ان کتب کا حوالہ نہ اسلام ہوتا ہے نہ سنت رسولؐ ، بلکہ ان کا مقصد لادینی اور شیطانی معاشرے میں پیدا ہونے والے اخلاقی جرائم کے حوالے سے نوبالغوں (teen agers)کو غیر اخلاقی اعمال کے ’’محفوظ‘‘ طریق واردات سے آگاہ کرنا ہوتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کے حیا کے نظام کے دائرے میں قرآن و سنت کے اسلوب کی پیروی کرتے ہوئے گھر اور اسکول میں بچوں اور بڑوں کو ان معاملات سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اخلاق و ایمان کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر بھی صحت مند رہ سکیں۔ (ا - ا)
’’دین کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے‘ قرآن و سنت کا حوالہ دیجیے مگر ایسا نہ کہیے کہ یہ بات سلف نے کہی ہے۔ سلف کیا ہوتا ہے؟ کل ہم بھی سلف ہوں گے۔ اصل چیز تو دین ہے‘‘۔ کئی برس ہوتے ہیں‘ ایک بار تبصرہ نگار کے ایک سوال پر مولانا امین احسن ؒاصلاحی (م:دسمبر۱۹۹۷ء) نے اپنے مخصوص جلالی لہجے میں یہ جواب دیا تھا۔ واقعی کل تک وہ چلتے پھرتے انسان تھے اور آج اسلاف میں ان کا ایک مقام ہے۔ علوم القرآن کا یہ خصوصی نمبر ‘ اصلاحیؒ صاحب کے اس مرتبے کے تعین میں بہت سی منزلوں کی نشان دہی کرتا ہے۔
اسی طرح ۱۹۸۷ء میں ایک ملاقات کے دوران مولانا اصلاحیؒ صاحب نے فرمایاتھا: ’’میری زندگی میں‘ دو چیزوں کے علاوہ کوئی قابل ذکر بات نہیں ہے۔ پہلی یہ کہ مجھے مولانا حمیدالدین فراہیؒ کی شاگردی کی سعادت نصیب ہوئی اور دوسری یہ کہ مولانا فراہی ؒ نے اپنے ابتدائی درس میں مجھ سے یہ فرمایا تھا کہ کسی چیز کو آنکھیں بند کرکے قبول نہ کرنا‘ حق پانے کے لیے سوال پوچھنے کی ہمت پیدا کرنا اور اختلاف کرنے کا سلیقہ سیکھنا۔ واقعہ یہ ہے کہ مجھے زندگی میں انھی دو چراغوں نے روشنی دی ہے‘‘۔ زیرنظر مجلے میں اصلاحیؒ صاحب کی بیان کردہ دوسری بات کا پاس و لحاظ رکھا گیا ہے۔ ان کے چاہنے والوں نے اصلاحیؒ صاحب پر کلام کرتے ہوئے کشادہ ذہن کے ساتھ خود اصلاحیؒ صاحب کی تحریروں کو پڑھ کر تحسین و نقد کی ذمہ داری ادا کی ہے۔
مولانا اصلاحی ؒکے انتقال کے بعد پاکستان سے جو دو تین پرچے ان پر خصوصی اشاعتیں لائے‘ ان میں مولانامرحوم کے کام اور مقام پر کلام کرنے کے بجائے اُن کے مجلسی جلال کا اظہار ملتا ہے یا پھر جماعت اسلامی یا مولانا مودودیؒ کو ہدف بنانے کے لیے اس موقع کو استعمال کیا گیا ہے‘ (جس سے یہی تاثر بنتا ہے کہ مولانا اصلاحیؒ بس ہجو کے بادشاہ تھے‘ باقی جو کام ہوا وہ تو بروزن بیت تھا)۔ اس کے برعکس زیرنظر پرچہ مولانا اصلاحیؒ کی جلالت ِ علمی کو نمایاں کرنے کی ایک بامعنی خدمت ہے۔
اس مجلے میں شامل تحریروں کی حیثیت روایتی تعزیتی حاشیوں کی نہیں‘ بلکہ یہ اہم موضوعات پر تحقیقی مضامین ہیں‘ جن میں مولانا کی قابل قدر خدمات کے اعتراف وتائید کے ساتھ ان سے مودبانہ اختلاف کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ اس ضمن میں الطاف اعظمی‘ نعیم الدین اصلاحی‘ ابوسفیان اصلاحی اور محمد مسعود عالم قاسمی کے مضامین دلچسپ اور بصیرت افروز ہیں۔
سلطان احمد اصلاحی نے ’’تفسیر اصلاحی کے غیر فراہی عناصر‘‘کو نمایاں کرتے ہوئے بعض مقامات پر فراہیؒ اور اصلاحی ؒ کے تفردات میں فرق کو واضح کیا ہے۔ خالد مسعود نے ’’مولانا اصلاحی کی خدمت حدیث‘‘ پر مضمون میں متن حدیث کے قبول کرنے میں اصلاحیؒ صاحب کی اپروچ کو یوں بیان کیا ہے: ’’ہم رسولؐ کی طرف ان ]صحابہؓ[ کی منسوب کردہ حدیث کے بارے میں یہ رائے رکھیں کہ وہ پوری امانت و دیانت کے ساتھ روایت کی گئی ہے‘ اور اس کے بارے میں بلاوجہ کسی شبہے میں نہ پڑیں۔ البتہ جہاں تک سلسلہ روایت کے باقی راویوں کا تعلق ہے‘ وہ سب کے سب تنقید کی زد میں آتے ہیں۔ ان سب کی امانت و دیانت‘علمی مرتبہ‘ حافظہ‘دین پر عمل ہر چیز کو پرکھا جائے گا‘‘ (ص ۲۶۰)۔ اسی طرح: ’’مولانا اصلاحیؒ کی حدیث فہمی کاانداز بالکل منفرد ہے۔ وہ متن حدیث کے ایک ایک لفظ اور ٹکڑے پر غور کرتے اور اس کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں اور یہ متعین کرنا چاہتے ہیں کہ واقعتا روایت کا کتنا حصہ صحیح ہے اور کس حصے کی روایت میں کوئی خامی رہ گئی ہے‘‘۔ (ص ۲۶۹)
صفدر سلطان اصلاحی نے ’’مولانا اصلاحی کی تحریکی خدمات‘‘ (ص ۳۹۴) پر ایک متوازن مضمون کے ذریعے اصلاحیؒ صاحب کی تحریکی زندگی کے مدوجزر کا تذکرہ کرتے ہوئے اعتراف و اختلاف کے منطقوں سے قاری کو روشناس کرایا ہے۔و ہ لکھتے ہیں: ’’چنددینی اور سیاسی امور میں ]مولانا مودودی مرحوم سے[ شدید اختلاف کی وجہ سے مولانا اصلاحی ؒنے جماعت سے رکنیت کا رشتہ منقطع کر لیا تھا اور ایک مختصر عرصے میں ان کے مولانا مودودیؒ سے انتہائی سخت لب و لہجے میں قلمی مباحثے بھی ہوئے‘ لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کا جو ہمہ گیر تصور اور اس کے غلبے کی جو جدوجہد انھوں نے تحریک ]جماعت اسلامی[ میں رہتے ہوئے کی تھی‘ تحریک سے علیحدگی کے بعد بھی وہ اسی نہج پر کام کرتے رہے۔ ان کی تفسیر تدبر قرآن میں غلبہ دین کے اسی جذبے اور ولولے کی کارفرمائی نظرآتی ہے‘‘۔ (ص ۴۳۳)
مولانا امین احسنؒ اصلاحی ایک غیر معمولی فقیہانہ بصیرت کے مالک تھے۔ انھوں نے بجا طور پر فرمایا تھا: ’’دور حاضر میں تدوین قانون اسلامی کی جو کوشش کسی ایک فقہ کے اندر محصور ہو کر کی جائے گی‘ کبھی کامیاب اور قابل قبول نہ ہوگی‘‘ (ص ۳۱۵)۔ اور یہ کہ: ’’اگر ہمیں اس ملک ]پاکستان[ میںا سلامی قانون کے نفاذ کا مقصد عزیز ہے‘ تو ہمارے علما حنفی اور اہل حدیث کی اصطلاحوں میں بات کرنے کے بجائے قرآن و حدیث کی اصطلاحوں میں بات کریں اور اپنے مدارس میں متعین فقہوں کی تعلیم دینے کے بجائے پوری اسلامی فقہ کی تعلیم دیں‘ تاکہ طلبہ کے ذہنوں میں وسعت اور رواداری پیدا ہو‘‘۔ (اسلامی قانون کی تدوین‘امین احسن اصلاحی‘ ص ۱۰۳)۔ مذکورہ بالا دونوں اقوال مولانا اصلاحیؒ کی دانش برہانی کے غماز ہیں۔
یہ مختصر تبصرہ نہ تو مولانا امین احسن اصلاحی جیسے کوہ وقار کی علمی لطافتوں اور فکری عظمتوں کا احاطہ کر سکتا ہے اور نہ علوم القرآن کے خصوصی نمبر پر خاطر خواہ روشنی ڈال سکتا ہے۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلّی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے مولانا اصلاحیؒ کے علمی کارناموں کی غیر جذباتی پیمایش کے لیے‘ فاضل مقالہ نگاروں کے تعاون سے یہ خوب صورت گلدستہ پیش کیا۔ (سلیم منصور خالد)
براعظم ایشیا کے قلب (افغانستان) پر اشتراکی روس کے حملے (۱۹۷۹ء) کے ۲۲ سال بعد‘ دوسرا حملہ استعماری امریکہ نے کیا ہے۔ بظاہر اشتراکیت اور سرمایہ داری میں بعدالمشرقین ہے لیکن استعماریت ‘ سامراجیت اور توسیع پسندی کے ضمن میں دونوں میں حیرت انگیز اتفاق پایا جاتا ہے۔ دونوں کا ہدف افغانستان کے بے پناہ قدرتی وسائل اور قیمتی معدنیات پرقبضہ جما کر اُنھیں ہڑپ کرنا ہے (اس کی تفصیل معتوب اور ان دنوں پابند سلاسل ایٹمی سائنس دان بشیرالدین محمود اپنے ایک مضمون میں پیش کر چکے ہیں)۔ تاریخ میں جہاں یہ امر مملکت خداداد پاکستان کے لیے طرہ امتیاز رہے گا کہ اُس نے اشتراکی حملے کے خلاف افغانیوں کے جہاد میں ان کی پوری طرح پشتی بانی کی‘ وہاں اس کے دامن پر ایک سیاہ دھبا ثبت ہے کہ آزاد اسلامی مملکت‘ افغانستان پر امریکی یلغار اور قتل و غارت گری میں وہ امریکہ کا مددگار بن گیا ۔ اس کی پیشانی پر کلنک کا یہ ٹیکا اہل پاکستان کو مدتوں شرمسار رکھے گا۔
افغانستان پر امریکی حملہ گذشتہ دو تین ماہ میں ہماری صحافت خصوصاً کالم نگاروں کا سب سے بڑا موضوع رہا ہے۔ اس ضمن میں جن اہل قلم نے پاکستانی نقطۂ نظر اور اسلامی جذبات کی صحیح ‘ موثر اور بھرپور ترجمانی کی ان میں روزنامہ نوائے وقت کے سینئر ڈپٹی ایڈیٹر سید ارشاد احمد عارف کا نام بہت نمایاں ہے۔ انھوں نے بڑی جرأت‘ توازن اور ایک جذبۂ ایمانی کے ساتھ اس موضوع کے مالہٗ وما علیہ کو موثر انداز میں پیش کیا۔ زیرنظر کتاب اسی موضوع پر ستمبر‘ اکتوبر ۲۰۰۱ء میں لکھے ہوئے ان کے کالموں (طلوع) کا مجموعہ ہے۔ ان تحریروں میں ایک صاحب دل پوری درد مندی کے ساتھ اور ہر طرح کی مصلحت اندیشی کو بالاے طاق رکھتے ہوئے اپنے دلی جذبات کی ترجمانی کرتا نظرآتا ہے جو دراصل پاکستان کے جمہور مسلمانوں کی ترجمانی ہے۔
معاصر صحافیانہ تحریروں میں کوئی ادبی اسلوب یا دانش ورانہ نکتہ آفرینی کم ہی دیکھنے میں آتی ہے مگر ارشاد احمد عارف کے ہاں جان دار‘ تیکھے اور موثر انداز تحریر کی خوب صورت مثالیں ملتی ہیں جن کی معنی خیزی قابل داد ہے‘ مثلاً: mطالبان کی کیفیت اس وقت شریف گھرانے کی ایسی عورت کی ہے جس کو بیچ چوراہے کے اخلاق باختہ نوجوانوں نے گھیر رکھا ہے۔ مطالبہ یہ ہے کہ ہنسی خوشی اپنی عزت کا سودا کر لو ورنہ مرنے کے لیے تیار ہو جائو (ص ۱۲)۔ mمادی ضروریات اور جسمانی خواہشات مقصدِحیات بن جائیں توآدمی مزاحمت اور مقابلے کے بجائے خود سپردگی اور لذت کیشی کو ترجیح دیتا ہے (ص ۱۳)۔ m انسان کو اقتدار نہیں‘ کردار زندہ رکھتا ہے۔ قدرت ہر انسان ‘ گروہ اور قوم کو یہ موقع ضرور فراہم کرتی ہے کہ وہ فیصلے کی گھڑی میں اپنا وزن درست پلڑے میں ڈال سکے (ص ۴۲)۔ m امریکہ کا نشانہ پاکستان‘ بہانہ افغانستان ہے (ص ۳۷)۔ m ہر فیصلہ زمین پر نہیں ہوتا‘ کچھ فیصلے آسمان پر ہوتے ہیں اور ان کا ایک وقت مقرر ہے جس کا کسی کو علم نہیں ورنہ امریکہ کم از کم ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو ضرور بچا لیتا۔ (ص ۵۰)
ارشاد احمد عارف بار بار ہمارے امریکی آلۂ کار بن جانے کے فیصلے پر اظہار افسوس کرتے ہیں: ’’ماضی میں امریکی گیم پلان کا حکمرانوں کو علم ہوتا تھا‘عوام کو نہیں۔اب صورت حال اس کے برعکس ہے کہ عوام باخبر ہیں مگر امریکہ سے خوش گمان حکمران بے خبر نظر آتے ہیں یا اس کی ایکٹنگ کر رہے ہیں (ص ۹۸)۔
مصنف بنیادی طور پر ایک سنجیدہ اداریہ نویس اور کالم نگار ہیں مگر ان کی حسِّ مزاح بھی جگہ جگہ اپنی جھلک دکھاتی ہے۔ درزی اور چالاک ترک سردار کے حوالے سے ’’ٹھگ‘‘ میں‘ اسی طرح دنبے‘ بیل اور اُونٹ کی مثالوں کے ساتھ ’’چارہ‘‘ میں مزاح کی ایک زیریں لہر موجود ہے۔
امید ہے یہ مجموعۂ مضامین دل چسپی کے ساتھ پڑھا جائے گا۔ (رفیع الدین ہاشمی)
پاکستان کو درپیش مسائل میں سے اہم ترین مسئلہ جسے مسائل کی جڑ بھی قرار دیا جا سکے‘ کیا ہے؟ اس بارے میں اتفاق رائے سے کچھ کہنا مشکل ہے‘ تاہم بہت سے لوگوں کے خیال میں اس وقت ملک کا اہم ترین مسئلہ اس کی کمزور معیشت ہے۔
بلاشبہہ پاکستان کو قدرت نے وسیع انسانی و قدرتی وسائل عطا کیے ہیں‘ تاہم پے درپے برسراقتدار رہنے والی سیاسی و فوجی قیادت کی بدانتظامی اور بدعنوانی کی بنا پر‘ ہم قدرت کی ان وافر نعمتوں سے درست طور پر استفادہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس صورت حال پر ہر صاحب دل فطری طور پر پریشان ہے۔ حامد سلطان تجارت و صنعت سے وابستہ ہیں۔ وہ اپنے کامیاب کاروباری تجربات کی روشنی میں بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ اس خراب صورت حال کی اصل وجہ بدانتظامی اور بددیانتی ہے ورنہ جب ایک عام کاروباری یونٹ حسن انتظام کی بنا پر نفع آور ہو سکتا ہے تو آخر پاکستان جیسا قدرتی وسائل سے مالا مال ملک اقتصادی طور پر بدحالی کا شکار کیوں ہو۔
حامد سلطان معاشیات یا سیاسیات کے ماہر نہیں ہیں‘ تاہم ایک کامیاب کاروباری منتظم کی حیثیت سے اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ‘ وہ بہت سے مقامی‘ ملکی اور بین الاقوامی برآمدی کاروباری اداروں اور کمپنیوں سے متعلق بھی رہے ہیں۔ یوں انھیں پاکستان کے علاوہ بیرون ملک بھی معیشت اور صنعت و تجارت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ ان کی یہ کتاب ان کے ذاتی مشاہدات اور تاثرات پر مبنی ۲۵ مضامین پر مشتمل ہے جو انھوں نے اخبارات کے لیے تحریر کیے ہیں۔ ہر مضمون کسی خاص خبر یا واقعے کو بنیاد بنا کر تحریر کیا گیا ہے۔ بیشتر مضامین میں تاثرات و دلائل کی تکرار کا احساس ہوتا ہے۔ مصنف نے اپنے دلائل کے حق میں آیات قرآنی اور احادیث کا بھی وقتاً فوقتاً حوالہ دیا ہے۔ مختصراً ان دلائل کا احاطہ کیا جائے تو خود مصنف کے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ’’کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کا پیمانہ وہاں کا سیاسی کلچر ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں اس کلچر نے حلقہ بندیوںکی بنیاد پر سرمایہ داروں‘ جاگیروں اور اسمگلروں‘ حرام خوروں‘ ابن الوقتوں‘ موقع پرستوں اور منافقوں کے مفادات کا پورا پورا تحفظ کیا ہے‘‘ (ص ۴۳)۔ چنانچہ پاکستانی قوم کو درپیش مسائل کی اصل وجہ سیاست میں جاگیرداروں اور بڑے سرمایہ داروں کی اجارہ داری اور نتیجتاً حکومتی سطح پر بدانتظامی و بدعنوانی ہے۔ اس صورت حال کا حقیقی مداوا اسی وقت ممکن ہے جب ملکی سیاست و حکومت کی باگ ڈور واقعی ایسی قیادت کے ہاتھ میں ہو جو حسن انتظام اور امانت و دیانت کے احساس کے ساتھ قومی وسائل کواس طرح استعمال کرے کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو اور عام آدمی کی اقتصادی صورت حال بھی بہتر ہو۔
عمدہ سرورق کے ساتھ شائع شدہ یہ کتاب سادہ انداز میں ایک محب وطن پاکستانی تاجر کے خیالات پر مشتمل ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ زیرنظر مضامین عام پاکستانی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ مضامین کے ساتھ ان کی تاریخ اشاعت بھی درج کرنا مفید ہوتا ۔ (خالد رحمٰن)
۱۹۸۸ء میں شیطان رشدی کی بدنام زمانہ کتاب کی اشاعت کے بعد‘ بھارت کے معروف سیاست دان اور اسکالر ڈاکٹر رفیق زکریا نے اس کے جواب میں یہ کتاب لکھی جو پینگوئن بکس نے امریکہ ‘برطانیہ اور بھارت سے بیک وقت شائع کی۔ اس پر دنیا کے معروف رسائل میں تبصرے شائع ہوئے‘ یہ اس کا اردو ترجمہ ہے جو ڈاکٹر مظہرمحی الدین‘ پرنسپل‘ مولانا آزاد کالج اورنگ آباد‘ مہاراشٹر نے کیا ہے۔ جواب کا انداز جذباتی انداز سے اُلجھنے کے بجائے اہم امور کے بارے میں اسلام کا صحیح موقف مثبت انداز سے پیش کرنے کا ہے۔ اس لیے اس نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے اسلام کی حقیقت سمجھانے والی ایک موثر دعوتی کتاب کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔
پہلے باب میں غزوات اور ازواج مطہرات کا بیان ہے۔ دوسرے میں قرآن کی آیات میں سے ایک ہزار ایک سو ۱۱ آیات کا انتخاب دیا گیا ہے۔ ہر سورہ سے پہلے مختصر تعارف کروایا گیا ہے۔ آیات کے ترجمے میں تفہیم القرآن کا ترجمہ بھی پیش نظر رہا ہے۔ تیسرے میں قصص الانبیا اور چوتھے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ اس طرح وہ سب موضوعات آگئے جنھیں رشدی نے اپنا نشانہ بنایا تھا۔ مصنف نے درست لکھا ہے: ’’میں نے تعصب کا جواب دلیل سے‘ غلط فہمی کا جواب حقائق سے‘ اور تہمتوں کا جواب ناقابل تردید تاریخی مواد کے تجزیے کے ذریعے دینے کی کوشش کی ہے‘‘۔ ۴۰ صفحے کے مقدمے ’’پیغمبراسلام کا مشن‘‘ میں مصنف نے مستشرقین کے حوالے سے قیمتی بحث کی ہے۔ (مسلم سجاد)
زبان قرآن کی تفہیم و تعلیم کے لیے مختلف ادارے اور تحریکیں سرگرم عمل ہیں۔ ان کے طریقہ ہاے تدریس کے اختلافِ نوعیت کے باوجود تسہیل کا دعویٰ تقریباً ہر ایک کے ہاں پایا جاتا ہے جو کہ عصرحاضر کے علمی رجحان کا تقاضا ہے۔ خلیل الرحمن چشتی کی کتاب قواعد زبان قرآن اسی تقاضاے علمی کی آئینہ دار ہے۔
عصرحاضر کی ضرورت کے مطابق جدید تدریسی تکنیک کو ملحوظ رکھتے ہوئے زیرنظر کتاب متعلمین عربی کے لیے ایک مفید اور عمدہ کاوش ہے۔ دینی مدارس میں عام طور پر ’’ابواب الصرف‘‘ اور عربی گردانوں کو (رٹا لگا کر) حفظ کرانا تعلیم عربی کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس روایتی رٹا سسٹم سے گردانوں وغیرہ کو یاد کرنے کی تلقین کے بجائے مرتب موصوف نے تبدیلی افعال کے اصولوں کی تفہیم کو اصل اہمیت دی ہے۔ ’’گردانوں کو رٹانے کے بجائے‘ فعل کے ظاہری تغیر کی مناسبت سے‘ معنوی تبدیلی کو ذہن نشین کرانے کے لیے ایسے جدول وضع کیے گئے ہیں کہ طالب علم ان کو پرُ کر کے صیغوں پر عبور حاصل کر سکتا ہے۔ اسی طرح فعل کے مختلف ابواب پر مہارت حاصل کرنے کے لیے کئی مشقیں وضع کی گئی ہیں‘‘۔ (ص ۱۷)
اس کتاب میں جہاں جدید اصطلاحات و تراکیب کا اہتمام کیا گیا ہے وہاں ہر سبق کے اختتام پر مشق کے لیے خالی جگہیں رکھی گئی ہیں ’’گویا یہ کتاب ایک ورک بک (work book)بھی ہے‘‘ (ص ۱۷)۔ خالی کالموں کو پر کر کے مشق سبق کی افادیت سے انکار ممکن نہیں لیکن ایسی ضخیم اور قیمتی کتاب کا ورک بک کے طور پر استعمال درست معلوم نہیں ہوتا۔ بہتر یہ ہوتا کہ ہر سبق کے آخر میں صرف مشق تجویز کر دی جاتی۔
کتاب کے آخر میں ’’تحفۃ الاعراب‘‘ کے نام سے مولانا حمیدالدین فراہیؒ کے منظوم قوا عدِنحو کتاب میں شامل کر دیے گئے ہیں۔ اسی طرح عربی اصطلاحاتِ قواعد کے انگریزی مترادفات کی فہرست بھی کتاب کی تفہیم و افادیت میں مزید اضافے کا باعث ہے۔ مجموعی طور پر ایک جامع اور مفید کتاب ہے۔ (محمد حماد لکھوی)
برطانوی استعمار نے ہندستان کے مسلمانوں کو آزادی دیتے وقت مسئلہ کشمیر کاخنجر بھی گھونپ دیا تھا۔ اسی کشمیر کا سرد جہنم ’’سیاچن‘‘ ہے۔
آزاد کشمیر میں چین کی سرحد کی جانب‘ دنیا کے سب سے بڑے گلیشیر سیاچن کی اسٹرے ٹیجک حیثیت مسلمہ ہے۔ یہ مقام‘ موت کی سرد وادی ہے۔ اپریل ۱۹۸۴ء میں‘ جب پاکستان‘ سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد میں افغانوں کا ایک سرگرم پشتی بان تھا‘ تب بھارت نے اچانک پیش قدمی کرتے ہوئے آزادکشمیر کے علاقے سیاچن پر قبضہ کر لیا۔ بعدازاں پاکستان کی مسلح افواج نے دشمن کو بڑی حد تک پیچھے دھکیلا‘ لیکن اس کے باوجود یہ مسئلہ اب تک سخت تشویش ناک صورت اختیار کیے ہوئے ہے۔
اس کتاب میں‘ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلا م آباد کے نوجوان محقق ارشاد محمود نے ممکن حد تک سیاچن محاذ کے جملہ پہلوئوںکااحاطہ کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ اس کتاب میںقاری کو‘ سیاچن کے محاذ کے خدوخال‘ پس منظر‘ پیش منظر‘ مذاکراتی عمل اور فوجی و سفارتی میدان میں رونما ہونے والی پیش قدمی و پسپائی کے بہت سے مناظر دیکھنے اور غوروفکر کرنے کے لیے میسر آتے ہیں۔ یہ عجب بات ہے کہ جانی‘ مالی اور جغرافیائی اعتبار سے اس قدر خطرناک محاذ پر اردو زبان میں ڈھنگ کی کوئی دستاویز پڑھنے کو نہیں ملتی۔ ارشاد محمود نے اس مختصر مگر جامع کتاب میں بنیادی اور قیمتی معلومات کو یک جا کر دیا ہے۔ پاکستان کے سابق نائب سپہ سالار جنرل (ر) خالد محمود عارف نے پیش لفظ میں‘ اس کتاب کو ’’پاکستان کی خدمت‘‘ قرار دیا ہے۔ اس پیش کش میں پروف خوانی بھی کتاب کے شایان شان ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ (س - م - خ)
خاتون کا سوال تو یہ تھا کہ اگر ترجمان القرآن کے مطالعے اوردرس قرآن وغیرہ کا کوئی اثر تعلیم یافتہ شوہر پر نہیں ہو رہا تو ’’آپ معاشرے کے کن مردوں کو باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عورت کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ جب مردوں کی ذہنیت کو بدلا نہیں جا سکتا تو عورت کو بھی اندھیرے ہی میں رہنے دیں!‘‘ (رسائل و مسائل‘ دسمبر ۲۰۰۱ء)۔ جواب پڑھتی گئی کہ شاید آپ اس کا کوئی حل پیش کریں گے لیکن آپ نے اسلام کی ان تعلیمات کے بیان ہی پر اکتفا کیا جو سب جانتے ہیں۔ آخر اس کا فائدہ کیا ہے؟ آس پاس بہت سی مثالیں ہیں کہ گھروں میں عورتوں کو ان کے حقوق وہی مرد نہیں دے رہے جو اس کا خوب اچھی طرح علم رکھتے ہیں۔
آج امریکہ کی جانب سے برپا کردہ فسادعظیم کے مقابلے میں دنیا کی مملکتوں کے حکمرانوں کا رویہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق زورآور کی غنڈا گردی اور دوسروں کی کاسہ لیسی کا رویہ جاری ہے۔ ان حالات میں ترجمان القرآن ماہ اکتوبر ‘ نومبر‘ دسمبر ۲۰۰۱ء کے اشارات حق و صداقت کی مدلل آواز اور دنیا کے لیے ایک واضح آئینہ اور کسوٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
’’مغربی میڈیا اور مسلم دنیا‘‘ ، ’’زکوٰۃ‘ تاریخ انسانیت کا جدید اور منفرد نظام‘‘ ، ’’شخصیت کے تعمیری اور اخلاقی عناصر‘‘ اور خرم مرادؒ کا مضمون ’’تلاوتِ قرآن کے آداب‘‘ (دسمبر۲۰۰۱ء) پرُمغز اور جامع مضامین ہیں جو اپنی افادیت کے لحاظ سے برموقع بھی ہیں۔ ’’افغانستان کا بحران‘ وقت کا تقاضا‘ خود احتسابی‘‘ میں پروفیسرخورشید احمد نے قابل تعریف حد تک لکھنے کا حق ادا کر دیا۔ اللہ جزاے خیر دے۔ مضامین کی زبان عام فہم اور سادہ ہو‘ اس طرف بھی توجہ رہے۔
میں اُس وقت سے ترجمان القرآن کا قاری ہوں جب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم و مغفور اس کی ادارت فرماتے تھے اور ہر ماہ ان کی ایمان افروز تحریر پڑھنے کو ملتی تھی۔ مولانا صحتِ زبان کے بارے میں بہت حساس تھے۔ اگرانھیں شبہہ ہوتا کہ کوئی لفظ غلط پڑھا جا سکتا ہے تو اس پر اعراب کا اہتمام کیا جاتا تھا تاکہ تلفظ غلط نہ ہونے پائے لیکن اب شاید وہ اہتمام نہیں رہا اور بعض اوقات غلط العام الفاظ بھی تحریر میں روانی سے استعمال ہو جاتے ہیں۔
پروفیسر خورشید صاحب کے اشارات (دسمبر ۲۰۰۱ء) نظر سے گزرے۔ اس کے صفحہ ۸ پر پانچویں اور نویں سطر میں ایک محاورہ استعمال ہوا ہے: ہامی بھرنا لیکن اسے حلوے والی ح سے لکھا گیا ہے۔ حالانکہ حامی اسم صفت ہے جس کا مطلب ہے حمایت کرنے والا‘ یعنی اس لفظ کو یوں تو استعمال کیا جا سکتا ہے کہ میں اس بات کا حامی نہیں ہوں‘ لیکن اسے فعل کے طور پر یوں استعمال نہیں کیا جا سکتا کہ میں اس بات کی حامی نہیں بھرتا۔ ہامی بھرنا بالکل دوسرے معنی رکھتا ہے۔ اس کا مطلب ہے آمادگی ظاہر کرنا‘ کسی بات پر راضی ہو جانا۔ ممکن ہے پروفیسر صاحب نے درست لکھا ہو اور کمپوزر نے اپنے علم کے مطابق اس کی ’’تصحیح‘‘ کر دی ہو ۔ بہرکیف ترجمان القرآن جیسے معتبر جریدے میں اس قسم کی غلطی نظر میں کھٹکتی ہے۔
امام مجلات ترجمان القرآن میں ’’مدیر کے نام‘‘ (دسمبر ۲۰۰۱ء) میں جناب عبدالغفار عزیز کی جانب سے سہو کی نشان دہی خوش آیند ہے۔نہ صرف پسند آئی بلکہ اپنی بھی اصلاح ہوئی اور اُلجھن دُور ہوئی۔ جزاہ اللہ! میرا خیال ہے کہ تنبیہ اور گرفت کا یہ سلسلہ جسارت‘ فرائیڈے اسپیشل‘ ایشیا اور تمام تحریکی جرائد و مجلات تک وسیع ہونا چاہیے ورنہ اسی طرح ’’فی ضلال القرآن‘‘ (استغفراللہ) کا اشتہار مہینوں چھپتا رہے گا۔ آج بھی یا تو المرکز اسلامی پشاور چھپ رہا ہے یا پھر مرکز الاسلامی کوئٹہ۔ سمجھ میں نہیں آتا اسے سیدھے سیدھے المرکز الاسلامی یا مرکز اسلامی کیوں نہیں لکھا جاتا؟
’’انڈونیشیا میں مسلم مبلغات‘‘ (دسمبر ۲۰۰۱ء) کے حوالے سے قارئین کے لیے یہ امر دل چسپی کا باعث ہوگا کہ مجھے گذشتہ دنوں انڈونیشیا میں ہونے والی انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین کے اجلاس میں شرکت کا موقع ملا۔ انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین ۵۰ ممالک کی نمایندہ خواتین پر مشتمل بین الاقوامی این جی او ہے جو اقوام متحدہ کے اکنامک اور سوشل ڈیپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ ہے۔ راقمہ کی ایشین ریجن کی اسسٹنٹ سیکرٹری کی ذمہ داری ہے۔ اس موقع پر مجلس تعلیم کی مرکزی تقریب میں بھی شرکت کا اتفاق ہوا۔ مجلس تعلیم اسلام پسند عورتوں کی تنظیم ہے۔ اس کی شاخیں انڈونیشیا کی ۲۷ ریاستوں میں ہیں۔ مرکزی تقریب جکارتہ کے سپورٹس اسٹیڈیم میں ہوئی۔ شرکا خواتین کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب تھی۔
بنگلہ دیش پر مضمون (نومبر ۲۰۰۱ء) کے حوالے سے عرض ہے کہ شاید یہ بات ہمارے اچنبھے کی ہو کہ ‘ آج کے بنگلہ دیش میں علامہ اقبالؒ کے کلام کا بنگلہ ترجمہ ایک سال میں اس قدر بڑی تعداد میں شائع ہو کر خریدا اور پڑھا جا رہا ہے‘ جتنا ۱۹۷۱ء سے پہلے ۲۰ برس میں بھی نہیں شائع ہوتا تھا۔ اسی طرح خود مولانا مودودیؒ کی کتب‘ جن کا پہلے ایک ہزار کا ایڈیشن کہیں پانچ سال میں فروخت ہوتا تھا ‘ آج ۱۵‘ ۱۵ ہزار کا ایڈیشن ایک ڈیڑھ سال میں فروخت ہو جاتا ہے۔ اسی طرح قائداعظمؒ کا نام جس احترام اور عقیدت سے وہاں کے عوامی اور دانش ور حلقوں میں لیا جاتا ہے‘ اس نظارے کو دیکھنے کے لیے بنگلہ دیش کا سفر کرنا چاہیے۔ یہ درحقیقت ان فرزانوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے‘ جنھیں بنگلہ دیش کے سرکاری تاریخ نویس چاہے جتنا برا بھلا کہیں‘وہ ان حالات سے مایوس نہیں ہوئے۔ انھوں نے نظریۂ حیات اور دو قومی نظریے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
… دین حق کو جاہلیت کی آمیزشوں سے جدا کر کے اس کی اصلی صورت میں پیش کرنا‘ اس کی بنیادی صداقتوںمیں ردّ و بدل کیے بغیر اس کو ایسی حکمت کے ساتھ پیش کرنا کہ اہل زمانہ کے دل و دماغ اس سے متاثر ہو سکیں،’’نئی نظر اور نئی قوت‘‘ سے کام لے کر قرآن و سنت سے وقت کے مسائل کا حل تلاش کرنا‘ علمی و عملی اور اخلاقی و روحانی طاقتوں سے جاہلی نظامات کے تسلط کو مٹانے اور اُن کی جگہ اسلامی نظام کو دنیا میںقائم کرنے کی کوشش کرنا‘ یہ سب تجدیدی نوعیت ہی کے کام ہیں۔ کوئی شخص یا کوئی گروہ یا کوئی ادارہ خواہ بڑے پیمانے پر یہ کام کرے یا چھوٹے پیمانے پر‘ اور اس سلسلے میں کوئی بڑی خدمت انجام دے جائے یا کچھ تھوڑی سی خدمت انجام دے کر رہ جائے‘ بہرحال اس کا کام تجدیدی کام ہی کہا جائے گا‘ اور ظاہر ہے کہ جو کوئی اس کام کو کرے گا اس میں یہ شعور بھی ہوگا کہ وہ یہ کام کر رہا ہے۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جو تجدیدی کام کرے وہ مجدد کے لقب سے بھی ملقّب ہو‘ صدی کا مجدد ہونا تو اس سے بلند تر بات ہے۔ اینٹیں چن کر دیوار بنانا بہرحال ایک تعمیری کام ہے‘ مگر کیا یہ لازم ہے کہ جو چند اینٹیں چن دے وہ ’’انجینیر‘‘ بھی کہلائے‘ اور پھر انجینیربھی معمولی نہیں بلکہ اپنی صدی کا انجینیر؟ اسی طرح کسی کا اپنے کام کو تجدیدی کام یا تجدیدی کوشش کہنا‘ جبکہ فی الواقع وہ تجدید دین حق ہی کی غرض سے یہ کام کر رہا ہو‘ محض ایک امر واقعہ کا اظہار ہے اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ مجدد ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے اور اس صدی کا مجدد بنا چاہتا ہے…
مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ بعض اسلامی الفاظ کو خواہ مخواہ ہوّا بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ دنیا میں کوئی رومی عظمت کی تجدید کا داعیہ لے کر اٹھتا ہے اور رومیت کے پرستار اس کو مرحبا کہتے ہیں۔ کوئی ویدک تہذیب کی تجدید کا عزم کر کے اٹھتا ہے اور ہندویت کے پرستار اس کی پیٹھ ٹھونکتے ہیں۔ کوئی یونانی آرٹ کی تجدید کے ارادہ سے اٹھتا ہے اور آرٹ کے پرستار اس کی ہمت افزائی کرتے ہیں۔ کیا ان سب تجدیدوں کے درمیان صرف ایک خدا کے دین کی تجدید ہی ایسا جرم ہے کہ اس کا نام لیتے ہوئے آدمی شرمائے اور اگر کوئی اس کا خیال ظاہر کر دے تو اللہ کے پرستار اس کے پیچھے تالی پیٹ دیں؟ (اشارات ‘ابوالاعلیٰ مودودی‘ ماہنامہ ترجمان القرآن‘ شوال‘ ذی القعدہ ‘ ذی الحجہ ۱۳۶۰ھ‘دسمبر ۱۹۴۱ء‘ جنوری فروری ۱۹۴۲ء‘ ص ۹۸-۹۹)