معاملہ افراد کے درمیان ہو یا اقوام کے‘ اس کے ہمیشہ دو پہلو ہوتے ہیں‘ ایک خالص قانونی اور سیاسی اور دوسرے دعوتی اور نظریاتی۔ قانون اور سیاست کا دائرہ متعین ہے۔ ہر فرد اور ہر قوم کے لیے لازم ہے کہ اگر وہ تصادم‘ ٹکرائو اور جنگ و جدل کے راستے سے بچنا چاہتی ہے‘ تو ان دائروں کے اندر اپنے معاملات کو طے کرے۔ رہا معاملہ دعوتی اور نظریاتی میدان کا‘ تو اس میں تبلیغ‘ تذکیر‘ مذاکرہ اور افہام و تفہیم کے نہ ختم ہونے والے امکانات ہیں‘ بشرطیکہ ایک فریق دوسرے پر محض قوت اور اپنی بالادستی کے زعم میں اپنی رائے مسلط کرنے اور دوسروں کو اپنے رنگ میں رنگنے کے لیے مجبور نہ کرے۔ نظریاتی میدان میں بھی تصادم اس وقت رونما ہوتا ہے جب آزادیٔ فکرونظر اور افہام و تفہیم کے دروازوں کو بند کیا جائے یا دلیل اور ترغیب کی جگہ قوت اور تلوار لے لے۔
قرآن نے لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج (البقرہ ۲: ۲۵۶) (دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات‘ غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے) کے ابدی اصول کے ذریعے اہل ایمان ہی کے لیے نہیں تمام انسانوں اور اقوام کے لیے ردوقبول ‘ اختیار و انکار‘ افہام و تفہیم اور جذب و انجذاب کا ایک ابدی ضابطہ مقرر کر دیا ہے ۔ پھر فرد اور قوم دونوں کو حدود انصاف کے احترام کا پابند کر کے انسانی معاشرے کو ایک طرف ترقی کے نہ ختم ہونے والے امکانات سے سرفراز کیا ہے۔ دوسری طرف ’’جنگل کے قانون‘‘ کے دور کو ختم کرکے انسانوں اور اقوام کو مہذب زندگی‘ مبنی بر انصاف امن اور ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کی ادایگی کے لیے معروضی نظام کار فراہم کر دیا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ (النحل ۱۶:۹۰)
اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے ۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ م بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (المائدہ ۵:۸)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو‘ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
مخالف سے بھی عدل اور اپنوں سے بھی‘ خواہ اس کی زد کسی پر بھی پڑتی ہو۔
وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی ج (الانعام ۶:۱۵۲)
اور جب بات کہو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو۔
افراد اور قوموں کے درمیان فتنہ و فساد اور ظلم و زیادتی کے در آنے کا بہت بڑا دروازہ یہی قوت کا بے جا استعمال اور عدل و انصاف سے روگردانی ہے۔ آج اگر دُنیا میں ظلم و طغیان کا دور دورہ ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے۔
تاریخ پر نظر ڈالیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ ہر دور میں استعماری قوتوں نے ان اصولوں کو پامال کیا تھا۔ ماضی میں ان استعماری قوتوں نے قوموں پر غلبہ پانے اور غلام بنانے کا ’’کارنامہ‘‘ انجام دیا تھا۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں آزادی کی تحریکیں برگ و بار لائیں۔ استعماری طاقتوں نے اس لہر کا سامنا اس طرح کیا کہ اپنی مرضی سے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے‘ ان کے جغرافیے کو تبدیل کر دیا۔ اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی نام نہاد قومی ریاستوں میں اپنی مرضی کے ایسے حکمرانوں کو مسلط کرنے کا راستہ اختیار کیا جنھیں اپنے عوام کی آزادی‘ ترقی اور تہذیبی استحکام کے بجائے مغربی آقائوں کی خوشنودی کی زیادہ فکر رہی۔ اور اب اکیسویں صدی کے آغاز میں یہی قوتیں ان ریاستوں کے نظریاتی اہداف متعین کرنے اور ان کے ایمان و ایقان کی وضع قطع ’’حسب ضرورت‘‘ بنانے کا کارنامہ انجام دے رہی ہیں۔ اسی حوالے سے گذشتہ چند مہینوں سے خصوصاً امریکی صدر‘ وزیرخارجہ‘ برطانوی وزیراعظم‘ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تک قیام پاکستان کے مقاصد کی حسب توفیق تشریح کر رہے ہیں۔ وزرا اور سفرا کے ساتھ دانش ور‘ اہل قلم اور صحافی بھی مصروف جہاد ہیں‘ صدر بش صاحب افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے بعد‘ اب نت نئے ’’برائی کے چکر‘‘ ((axis of evil کی تلاش میں ہیں۔ مارگریٹ تھیچر صاحبہ بھی آنکھیں ملتی ہوئی بیدار ہو گئی ہیں اور ۱۲ فروری ۲۰۰۲ء کے امریکی برطانوی اخبارات میں ایک مقالہ خصوصی کے ذریعے ’’اسلامی انتہا پسندی‘‘ کو سردجنگ کے آغاز سے ’’اشتراکی خطرے‘‘ کا ہم پلہ قرار دے رہی ہیں۔ اس عالمی فضا میں پاکستان پر خاص نگاہ ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک لیڈر اہل پاکستان کو پاکستان کے اصل مقصد اور خصوصیت سے اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے تصور پاکستان کا درس دینا اپنا فرض منصبی سمجھ رہا ہے اور پھر اس سارے وعظ و نصیحت کی تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ پاکستان کے لیے ترقی کا ایک ہی راستہ ہے وہ ہے۔ فعال‘ روشن خیالی‘ جدید اور سیکولر یعنی ’’غیر مذہبی پاکستان‘‘۔
امریکہ کی ہر سطح کی قیادت اس کارخیر میں سب سے پیش پیش ہے۔ وہ سینہ زوری سے کام لیتے ہوئے جمہوریت اور حقوق انسانی کے عالمی مشن کے نام پر دوسری قوتوں اور افراد پر اپنے تصورات مسلط کرنے کے درپے ہے اور اس طرح عالم گیر پیمانے پر مختلف اقوام کو سیاسی و معاشی محکومی میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مسلمان ممالک بالخصوص اس ستم کا نشانہ ہیں اور پاکستان ’’نزلہ برعضو ضعیف‘‘ کے مصداق خصوصی التفات کا ہدف ہے۔
یہ بات بالکل نئی بھی نہیں۔ ان اقوام کا رویہ ہمیشہ ہی سے معاندانہ تھا۔ برطانیہ نے قیام پاکستان کے وقت تقسیم ہندکے فارمولے میں عدم دیانت کا مظاہرہ کر کے مسئلہ کشمیر اور پانی کی غیرمنصفانہ تقسیم جیسے مسئلے کھڑے کر دیے۔ اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر پر سخت غیر منصفانہ کردار ادا کیا۔ امریکہ نے جمہوریت کے نام پر ایک طرف تو پاکستان میں آمریتوں کی سرپرستی کی‘ اور دوسری طرف پاکستان کی معیشت کو اپنے کھلے چھپے ایجنڈے کی آکاس بیل سے چوس کر رکھ دیا اورقرضوں کے ایسے جال میں جکڑ دیا کہ اس مریض کو زندگی کے لیے مزید قرضوں کی ضرورت ہے۔ لیکن ۱۱؍ستمبر کے تناظر میں مسلم دُنیا‘ اسلامی تحریکات اور خصوصیت سے پاکستان ایک بار پھر مرکز توجہ بن گئے ہیں۔ ایک طرف سیاسی‘ معاشی اور عسکری گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف ایسی نظریاتی بحثیں شروع کر دی گئی ہیں جن کا تعلق مسلمانوں کے تصور دین اور مذہب‘ ریاست اور ملت کے سیاسی تصورات سے ہے۔ وہ تصورات جن سے ہمارا نظریاتی وجود ہے۔
جنرل مشرف صاحب کا نیوز ویک کو انٹرویو اور قائداعظم ؒکی۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر کو پورے شدومد سے انگریزی اخبارات اور ٹی وی کے مباحث میں اچھالنے کا پس منظر وہ سبق ہے جو امریکی دانش ور اور سفارت کار گذشتہ چند مہینوں سے بار بار دہرا رہے ہیں۔
ایک ہی دن (۲۷ جون ۲۰۰۱ء) دو ایسے بیانات سامنے آئے‘ جو اسلام اور مسلمانوں کے دینی اور تہذیبی نقطہ نظر سے پاک امریکی تعلقات پر خصوصی روشنی ڈالتے ہیں۔ ہماری نظر میں ان بیانات کے دور رس مضمرات (implications)ہیں۔ ایک بیان پاکستان میں امریکہ کے سفیر جناب ولیم بی مائیلم کا تھا جو اپنی مدت سفارت پوری کر کے امریکہ واپس جا رہے تھے۔ انھوں نے پاکستان کے بارے میں پہلے کراچی میں اور پھر ۲۷ جون کو لاہور میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کا اسلوبِ بیان مسلّمہ سفارتی آداب سے بے نیاز تھا۔انھوں نے فلسفہ و تاریخ کا سہارا لیتے ہوئے پیش گوئی اور پیش بندی کے انداز میں نصیحت کی۔ جس دن مائیلم صاحب لاہور میں گوہر افشانی فرما رہے تھے اسی دن واشنگٹن میں امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سامنے‘ پاکستان کے لیے نامزد سفیرہ وینڈی چیمبرلین اپنے تقرر کی منظوری حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے بارے میں اپنے خیالات اور عزائم کا اظہار کر رہی تھیں۔ دونوں تقاریر کا مطالعہ اور تجزیہ پاکستانی عوام کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے کہ ان سے امریکہ کا ذہن اور منصوبہ کار کھل کر سامنے آتا ہے اور صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ امریکی سفارت کاروں اور کالم نگاروں کا قارورہ کس طرح مل رہا ہے۔ اس ’’ہم خیالی‘‘ کے نقش و نگار میں اس کھیل کے سارے کرداروں کے چہرے دیکھے جا سکتے ہیںاور اس سے یہ موقع بھی بجا طور پر پاکستانی قوم کو حاصل ہوتا ہے کہ اپنوں کا محاسبہ کرنے کے ساتھ امریکہ کے رول کا بھی ادراک کر سکے۔ نیز جو میزان انھوں نے پاکستان کو جانچنے کے لیے نصب کی ہے اس پر خود امریکہ کے کردار کو بھی پرکھا جائے ع
ہیں کواکب کچھ‘ نظر آتے ہیں کچھ
سابق سفیر مائیلم صاحب نے پاکستان کو اندر سے جاننے کا دعویٰ کیا کہ ان کا بچپن بھی یہاں گزرا ہے۔ وہ بڑے ہی پرآشوب دور میں وہ یہاں سفیر رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ ’’اسلام اور مذہبی تشدد‘‘ کے موضوع پر تقریریں کر چکے ہیں۔ پاکستان سے رخصتی کے وقت ان کے خطاب کا موضوع تھا: ’’کیا پاکستان ستاروں میں کھو گیا‘‘۔ یہ تقریر محض ایک دوست سفیر کی الوداعی نصیحت نہیں‘ امریکہ کے ایک اہم نمایندے کا ہماری تاریخ‘ کردار اور مستقبل کے بارے میں ایسا بیان ہے جس سے تعرض نہ کرنا ایک قومی جرم ہوگا۔
آیئے پہلے یہ دیکھیں کہ موصوف نے فرمایا کیا تھا؟
۱- امریکہ اور پاکستان دونوں محض جغرافیائی حقیقت نہیں بلکہ وژن رکھنے والی ریاستیں ہیں۔ البتہ وژن ایک عمومی رہنما ہو تو ترقی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں‘ لیکن اگر وژن آپ پر سوار ہو جائے اور اس کی تعبیر بھی کچھ لفظی ہو تو یہ بڑے تباہ کن نتائج نکالتا ہے‘ بلکہ دُنیا میں بڑی بڑی تباہیوں کی جڑ وژن کے ایسے ہی تصور میں تلاش کی جاسکتی ہے۔
۲- امریکہ جس سامراجی قوت سے لڑ کر وجود میں آیا‘ اسی قوت سے پاکستان نے آزادی حاصل کی تھی۔ امریکہ کا وژن یہ تھا کہ صرف عوام کے نمایندوں کو ٹیکس لگانے کا حق ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تمام انسان برابر ہیں۔ اسی وژن پر ۱۷۷۶ میں آزادی حاصل ہوئی۔ جمہوریت اور دستور کا قیام عمل میں آیا اور ۸۵ سال بعد خانہ جنگی نے اس انقلاب کو مکمل کر دیا۔ اب امریکہ دُنیا میں جمہوریت‘ حقوق انسانی اور مساوات کا علم بردار ہے۔
۳- پاکستان بھی ایک عظیم جدوجہد کے بعد قائم ہوا۔ اس میں پاکستان کے قائد محمد علی جناح ؒکا وژن یہ تھا کہ مسلمانوں کو ایک ایسا مسکن (homeland)میسر آجائے جہاں ایک جدید ریاست قائم ہو‘ جس کی بنیاد سیکولر قوانین پر ہو اور جہاں غیر مسلموں کے قوانین اور رواج کا احترام کیا جائے۔ انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پاکستان سنی‘ شیعہ‘ عیسائی‘ احمدی‘ پارسی اور دیگر گروہوں کی محنت سے قائم ہوا تھا۔
۴- ان کے خیال میں: ’’ایک قائداعظمؒ کا وژن ہے اور ایک قائد مخالف وژن‘‘۔ جو وژن قائداعظمؒ نے پیش کیا وہ مسلمانوں کے لیے ایک لبرل‘ روادار اور جدید ریاست کا تھا۔ ایسی جدید ریاست جہاں پر کوئی شخص پہلے پاکستانی ہے اور بعد میں کسی مذہب سے متعلق۔ ایک ایسا پاکستان جہاں سیکولر قوانین کی حکمرانی ہو۔ اور جو جناح مخالف وژن ہے‘ وہ قومی سرحدات کو مسترد کرتا ہے اور پاکستان کو عالم گیر مسلم امہ کے لیے ایک روشنی کے مینار اور محافظ اسلام ریاست کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس وژن کے مطابق پاکستان کا مقصد وجود انفرادی اور اجتماعی طور پر ترقی کے مقابلے میں بہت زیادہ وسیع ہے۔ اس لیے کہ مسلمان اکثریت میں ہیں‘اقلیت میں نہیں۔ یہی وژن مسلمانوں کے لیے خطرہ بنتی نظر آنے والی کسی بھی قوت کے خلاف جہاد میں پاکستان کو بطور ہوم بیس فراہم کرتا ہے‘‘۔
۵- ’’پاکستان کی خارجہ پالیسی خصوصاً کشمیر افغانستان میں سمت کے تعین میں جناح مخالف وژن زیادہ طاقت ور دکھائی دیتا ہے۔ ان کے لیے کشمیر ایک مقدس جنگ ہے۔
۶- مسٹر مائیلم نے اپنے استدلال کی بنیاد قائداعظمؒ مرحوم کی ۱۱ اگست ۱۹۴۷ء والی اسی تقریر پر رکھی‘ جو آج تک سیکولر حلقوں کے دعوے کی بنیاد ہے۔ لیکن موصوف ایک اور دور کی کوڑی لائے ہیں‘ جو دانش وروں کے اس طائفے کے لیے ایک نئی دلیل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ وہ حلف ہے جو قائداعظمؒ نے بحیثیت گورنر جنرل اُٹھایا تھا۔ ان کا پیغام صاف ہے یعنی یہ کہ صحیح حلف وہی تھا جو تاج برطانیہ کے نمایندے کے طور پر دستور کے بننے سے پہلے بحیثیت گورنر جنرل لیا گیا کہ:
میں‘ محمد علی جناح‘ حلفیہ اقرار کرتا ہوں کہ بحیثیت گورنر جنرل پاکستان میں اپنے مقتدر شاہ جارج ششم کی پوری دیانت داری سے خدمت کروں گا‘ اور یہ کہ میں کسی خوف اور دبائو وغیرہ کے بغیر پاکستان کے قوانین اور رسم و رواج کے مطابق ہر طرح کے لوگوں سے صحیح سلوک کروں گا۔
انھیں بڑاصدمہ ہے کہ اب پاکستان کے صدر کے منصب کا حلف نامہ بھی اس سے بہت مختلف ہو گیا ہے جو جناح نے اٹھایا تھا۔
ہم ممنون ہیں کہ سفیر والامقام نے کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی اور سیکولرزم کا کیس کسی مصلحت اور ملمع سازی کے بغیر پیش کر دیا۔ ہم نے اس تقریر کو اس لیے بھی ذہنوں میں تازہ کیا ہے کہ بعد کے واقعات نے اس کی اہمیت کو دوبالا کر دیا ہے۔ جنرل پرویز صاحب کی ۱۲؍ جنوری ۲۰۰۲ء کی تقریر اور اس کے معاً بعد نیوز ویککو انٹرویو‘ اس سے پہلے افغان پالیسی پر یو ٹرن (U-turn)اور اب کشمیر پالیسی‘ دینی مدرسوں اور مسجدوں کی ضابطہ بندی اور جہاد اکبر اور جہاد اصغر کی لن ترانی ان سب سے اصل معنویت واضح ہو جاتی ہے۔ نیز جو خیالات آج گردش کر رہے ہیں ان کا شجرہ نسب سامنے آجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس کی ضرورت محسوس کی کہ اصل ماخذ پر بھی نگاہ ڈال لی جائے اور جہاں سے یہ ’’وحی‘‘ نازل ہو رہی ہے اس سرچشمے پر کھل کر بات کی جائے۔
اس تقریر کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ : اب امریکہ کی دل چسپی محض جمہوریت اور بنیادی حقوق میں نہیں ہماری نظریاتی اساس میں بھی ہے۔ اس کی ناخوشی کا تعلق محض نیوکلیر صلاحیت اور الیکشن کے کاروبار سے نہیں‘ پاکستان کے مقصد وجود اور اس قوم کے اپنے بارے میں وژن ہی سے ہے۔ اس کی نگاہ میں مقبوضہ جموں وکشمیر کے لوگوں کے حق خود ارادیت کی پامالی اور وہاں پر بھارتی فوج کے ریاستی مظالم سے جمہوری اقدار اور انسانی حقوق پر کوئی حرف نہیں آتا__ بلکہ اصل خطرہ ان مجبور انسانوں سے ہے جو ظلم کے خلاف اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ انسانی مساوات‘ جمہوری اصولوں‘ اور قوموں کی آزادی کے یہ معنی نہیں کہ وہ اپنے عقائد اور اپنے تاریخی اور نظریاتی تشخص کی روشنی میں اپنا مستقبل طے کریں‘ بلکہ وہ امریکہ کے لیے قابل قبول صرف اس صورت میں ہو سکتے ہیں‘جب وہ اپنے دین و عقیدے اور اپنی تہذیب و روایات کو مکمل طور پر سیکولر نظام کے تابع کر دیں۔ ان کی خارجہ پالیسی ان کے اپنے قومی مفاد کی عکاس نہ ہو بلکہ ایک روایتی نیشن اسٹیٹ ]قومی ریاست[کی حدود میں رہ کر بس اپنے روٹی کپڑے کی فکر میں لگے رہیں۔
دوسروں کو جمہوریت اور سیکولرزم کا درس دینے والے یہ ناصح بھول جاتے ہیں کہ یہی وہ ذہنیت اور پالیسی ہے‘ جسے استعمار(imperialism) کی روح اور مظہر کہا جاتا ہے۔ اگر آپ نے اپنے لیے سیکولرزم کو پسند کیا ہے تو بڑے شوق سے اس پر کاربند رہیے‘ لیکن دوسروں پر سیکولرزم کو مسلط کرنے کا آپ کو کیا حق ہے؟ ہمیں ڈر ہے کہ آج سیکولرزم ایک ایسی آئیڈیالوجی کا روپ اختیار کر چکا ہے جو لوگوں کے عقیدے اور اپنے تصورات کے مطابق ایک نظام زندگی تشکیل دینے کی آزادی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ کیا اس سیکولرزم کے نام پر شخصی آزادی کے علم بردار مغربی ممالک میں مسلمان عورت کو سرڈھانپنے تک کی آزادی ہے؟ کیا ترکی میں اسی سیکولرزم کے نام پر عوام کے منتخب وزیراعظم کو بیک بینی و دوگوش اقتدار سے محروم نہیں کر دیا گیا تھا؟ بظاہر تو سیکولرزم انسانوں کو آزادی دلانے کا مدعی تھا‘ مگر اب وہ خود ایک استبدادی نظریہ بن کر انسانی آزادیوں اور اصول مساوات کا گلا گھونٹنے کی دھونس جما رہا ہے۔ دن کی روشنی میں دیکھا جائے تو امریکہ کا ہدف جمہوری آزادیوں اور حقوق انسانی کا فروغ نہیں‘ بلکہ سیکولرزم کا تسلط ہے اور سب اقوام کو مغرب کے فکری اور تہذیبی رنگ میں رنگنا ہے۔ یہ امپریلزم کی تازہ ترین یلغار ہے۔
پھر امریکی سفارت کار نے جس طرح قائد کے وژن اور مخالف جناح وژن کا تانا بانا بنا ہے‘ وہ علمی بددیانتی کی ایک منفرد مثال ہے۔ اس حلف (oath of office)کو جو: dominion statusکے لیے ایک سامراجی نظام کے لیے وضع کیا گیا تھا‘ اور جو آزادی کی طرف سفر کے دوران عبوری (transitional) لمحوں کے لیے ایک ناگزیر ضرورت تصور کیا گیا تھا۔ایک آزاد ملک کی جانب سے اپنا دستور بنا لینے کے بعد بھی‘ اسی حلف کو قائد کا ماڈل قرار دینے کی مضحکہ خیز جسارت وہی انسان کر سکتا ہے‘ جو اپنے تعصبات سے مغلوب ہو۔ پھر اس مسئلے کو اگر خالص قانونی انداز میں لیا جائے تو کیا یہ مطلب لیا جانا چاہیے کہ جوچیز ۱۹۴۷ء میں سامراجی ورثے میں دستور و روایات کا درجہ رکھتی تھی‘ وہی چیز پاکستان کا دستور اور اس کے تحت بننے والے قوانین بن گئی۔ اس سامراجی جبر کا قائداعظمؒ کے تصور پاکستان سے کیا تعلق؟ کیا اس حلف کا draft(مسودہ)قائداعظمؒ نے بنایا تھا؟ کیا وہی حلف بھارت میں لارڈ مائونٹ بیٹن نے نہیں اٹھایا تھا؟ اور کیا آسٹریلیا اور کینیڈا کے گورنر جنرلوں کے حلف ان کے دساتیر بننے سے پہلے اس سے مختلف تھے؟ کاش خارجہ تعلقات کے اس ماہر نے ایسی مضحکہ خیز بات کرنے سے پہلے ان پہلوئوں پر غور کرلیا ہوتا اور ہمیں یہ کہنے کی زحمت نہ ہوتی کہ:
پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
پسلی پھڑک اٹھی نگہِ انتخاب کی
پھر انھوں نے بھی تمام سیکولر عناصر کی طرح قائداعظمؒ کی ۱۱ ؍اگست والی تقریر پر پورا قصر دانش تعمیر کیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اپنے تصور پاکستان کے بارے میں قائداعظم ؒنے صرف یہی ایک تقریر کی تھی؟قیامِ پاکستان سے پہلے اور قیامِ پاکستان کے بعد سو سے زیادہ مواقع پر قائداعظمؒ نے کیا اپنے تصور پاکستان کے خدوخال بیان نہیں کیے تھے؟ آخر کس دلیل کی بنیاد پر محض اسی ایک تقریر کے چند جملوں کو‘ جن کا تعلق تقسیم ملک کے وقت رونما ہونے والے غیر انسانی فسادات کے پس منظر میں‘ نئے ملک کے تناظر میں شہریت کے اصول اور اقلیتوں کو ان کے حقوق کی ضمانت سے ہے‘ پورے وژن کا نمایندہ قرار دیا جائے؟
اقلیتوں کے حقوق اور مساوی شہری حقوق کی بات کوئی متنازع امر نہیں ہے۔ یہ خود اسلام کا تقاضا ہے‘ جیسا کہ قائداعظم ؒنے بار بار فرمایا ہے۔ لیکن کیا اقلیتوں کے حقوق کے یہ معنی بھی ہیں کہ اقلیت‘ اکثریت پر اپنے تصورات کو مسلط کرے اور اکثریت کے اس حق کو مسترد (ویٹو) کر دے کہ وہ اپنے عقائد اور نظریات کے مطابق اجتماعی زندگی کی صورت گری کرے؟ اور وہ بھی ایسی اکثریت جس نے ایک ملک گیر جمہوری جدوجہد محض اسی بنیاد پر برپا کی ہو کہ ہم اپنا جداگانہ نظریاتی‘ تہذیبی اور دینی تشخص رکھتے ہیں اور اس تشخص کی حفاظت اور ترقی کے لیے ہمیں اپناآزاد مسکن درکار ہے۔
انھی صاحب نے ایک اور دعویٰ کیا ہے کہ: ’’پاکستان عیسائیوں‘ احمدیوں ‘ پارسیوں اور دوسری اقلیتوں کی محنت سے قائم ہوا تھا‘‘۔ شکر ہے کہ انھوں نے ہندوئوں اور سکھوں کا ذکر نہیں کیا‘ حالانکہ قیام پاکستان کے وقت سب سے بڑی اقلیت تو ہندو تھے‘ جو مشرقی پاکستان میں آبادی کا پانچواں حصہ تھے۔ قیام پاکستان کی تحریک ایک نظریاتی تحریک تھی۔ اس تحریک کو برعظیم جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں نے اپنے خون سے سینچا۔ اس میں وہ مسلمان بھی شریک تھے جن کو پاکستان میں نہیں آنا تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس‘ غیر مسلم ہندکی نمایندہ تھی اور آل انڈیامسلم لیگ‘ مسلم ہند کی نمایندگی کرتی تھی۔ یہ تھی بنیادی اور بالکل واضح صف بندی۔ اس میں عیسائیوں‘ احمدیوں اور پارسیوں کا کردار موصوف نے کہاں سے تلاش کر لیا۔ عیسائی تو بالعموم برطانوی سامراج کا ساتھ دے رہے تھے۔ پارسیوں نے کانگریس میں شرکت کی‘ اور مسلم لیگ کی تحریک میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ احمدی (قادیانی) بھی برطانوی سامراج کی ٹیم کا حصہ تھے۔ پاکستان کا قیام مسلمانان پاک و ہند کی جدوجہد کا حاصل ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران اور قیام پاکستان کے فوراً بعد بھی‘ قائداعظمؒ ہی نے نہیں بلکہ پوری قوم نے کہا کہ تحریک آزادی میں جس کا جو بھی رول رہا ہو‘ دو آزاد مملکتوں کے قیام کے بعد اکثریت اور اقلیت سبھی کو قانون کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہے اور جو بھی نئی مملکت سے وفاداری کا راستہ اختیار کرے اسے بطور شہری برابری اور ترقی کے مساوی مواقع کا حق ہے‘ لیکن نظام حکومت عوام کی اکثریت کے عقائد اور تصورات کے مطابق مرتب کیا جائے گا جس میں اقلیتوں کے حقوق کو مکمل تحفظ حاصل ہوگا۔
قائداعظم ؒکے ساتھ اس سے بڑا ظلم کوئی اور نہیں ہو سکتا کہ ان کی اس تقریر کے چند جملوں کو توڑ مروڑ کر سیکولر ریاست کی تشکیل اور مذہب کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کرنے کی بنیاد بنایا جائے۔ قائداعظمؒ، مسلم لیگ کی پوری قیادت‘ اور سب سے بڑھ کر برعظیم کی ملّت اسلامیہ نے اپنی منزل اور مقصود کا اظہار بالکل واشگاف الفاظ میں کیا تھا۔ یہی وہ آدرش تھے جن کے حصول کے لیے ساری جدوجہد کی گئی اور بیش بہا قربانیاں دی گئیں۔ سیکولر قوانین کی بات کرنے والے کیا اس سے انکار کر سکتے ہیں کہ علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے ۱۹۳۰ء کے خطبے میں جو استدلال پیش کیا تھا‘ اس کی بنیاد ہی دین و دُنیا کی وحدت پر ہے۔ ان کا دعویٰ ہی یہ ہے کہ اسلام کا ایک ایسا دین ہے جس کا اپنا اجتماعی نظام ہے‘ اس اجتماعی نظام کے بغیر وہ دین نامکمل اور مسلمان اس کی برکتوں سے محروم رہتے ہیں۔ قائداعظمؒ کے نام ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کے خط میں اقبال نے صاف لفظوں میں لکھا تھا:
اس ملک میں اسلامی شریعت کا نفاذ اور ترقی ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر ناممکن ہے۔ مجھے اس پر دیانت داری سے کئی برسوں سے مکمل یقین رہا ہے‘ اور میں اب بھی یہی یقین رکھتا ہوں کہ مسلمانوں کے لیے روٹی کا مسئلہ حل کرنے اور ایک پرامن انڈیا کی خدمت کرنے کے لیے یہی ایک واحد راستہ ہے۔
گویا کہ امن اور روٹی دونوں کے لیے آزاد مسلم ملک کا قیام اور شریعت کا نفاذ ضروری ہے۔ یہی اصل ایشو تھا اور خود قائداعظمؒ نے اسے بار بار واضح کیا:
پاکستان کا مطلب صرف آزادی اور خودمختاری نہیں ہے بلکہ مسلم نظریے کا تحفظ بھی ہے جو ایک قیمتی تحفے اور خزانے کے طور پر ہمیں ملا ہے‘ اور ہمیں امید ہے کہ دوسرے اس میں ہمارے ساتھ تعاون کریں گے۔
دیکھیے‘ بات صرف مسلم نظریے ہی کی نہیں اس کے تحفظ و ترقی کی بھی ہے۔ مقصد اس کی تبلیغ اور دوسروں تک اس کو پہنچانا ہے‘ قائداعظمؒ جس کا اعلان کر رہے ہیں۔ سفیر صاحب اسی بات کو ’’مخالف جناح خارجہ پالیسی‘‘ کہہ رہے ہیں۔
غیرمسلم اکثریت اور غیر اسلامی نظریہ اگر مسلمانوں پر مسلط کیا جائے تو یہ کیسی جمہوریت ہوگی‘ خود قائداعظمؒ کے الفاظ میں سن لیجیے:
مجھے بتایا گیا کہ میں اسلام کو نقصان پہنچانے کا مجرم ہوں۔ اس لیے کہ اسلام تو جمہوریت میں یقین رکھتا ہے۔ جہاں تک میں نے اسلام کو سمجھا ہے‘ اسلام ایسی جمہوریت کی وکالت نہیں کرتا جو مسلمانوں کی تقدیر کا فیصلہ غیر مسلموں کی اکثریت کے ہاتھ میں دے دے۔ ہم ایک ایسا نظام حکومت قبول نہیں کر سکتے جس میں غیر مسلم محض اپنی عددی اکثریت کی بنا پر ہم پر غالب ہوں اور حکمرانی کریں۔ (تقریر علی گڑھ یونی ورسٹی‘ ۶ مارچ ۱۹۴۰ء)
لیکن مذکورہ امریکی ڈپلومیٹ اور ان کی ہم نوا سیکولر لابی کا تو دعویٰ یہ ہے کہ مسلمان ملک میں مسلمانوں کی اکثریت کے عقائد اور تصورات کو ترک کر کے ‘ محض غیرمسلم اقلیت کی خاطر ان پر سیکولرزم مسلط کر دیا جائے۔ یہ ہے جمہوریت کی تازہ ترین تعبیر!
قائداعظمؒ نے بار بار فرمایا کہ اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے‘ مسلمان ایک عقیدے اور دین پر مبنی قوم ہیں‘ قرآن ان کا قانون حیات ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے حقیقی قائد اور قانون دینے والے ہیں‘ قرآن و سنت مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی شیرازہ بندی کرنے والی قوت ہیں__ سیکولرزم اور یہ تصور حکمرانی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ قائداعظمؒ کے نام پر ان کے تمام عہدوپیمان اور خطبات و ارشادات کو نظرانداز کر کے سیکولرزم کی بات کرنا‘ نرم سے نرم لفظوں میں‘ ایسی کھلی بددیانتی ہے جس کا ارتکاب بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔
تحریک پاکستان کے قائدین نے ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء قرارداد مقاصد پوری یکسوئی کے ساتھ منظور کی جوپاکستان کے دستور نظام حکمرانی اور اجتماعی پالیسی کی بنیاد ہے۔ اسے پوری قوم کی تائید حاصل ہے۔ قائداعظمؒ نے بہت صاف الفاظ میں یہ اصول بیان کر دیا تھا کہ پاکستان کا دستور کسی ایک شخص کی مرضی کا مظہر نہیں ہوگا پوری ملت اسلامیہ پاکستان اپنی دستور ساز اسمبلی کے ذریعے اسے طے کرے گی۔ ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء ہو یا ۱۲ جنوری ۲۰۰۲ء‘ کوئی فرد نہ دستور سے بالا ہے اور نہ دستور کو اپنی آواز بازگشت تصور کر سکتا ہے۔ دیکھیے قائداعظمؒ نے قوم سے کیا عہد کیا تھا:
جب آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو مجھے شبہہ ہونے لگتا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا ہے جب کہ ہم نے تیرہ سو سال پہلے جمہوریت سیکھ لی تھی۔ آپ پاکستان کے طرزحکومت کے بارے میں میری ذاتی رائے معلوم کرنا چاہتے ہیں تو یہ کہتا ہوں کہ دستور ساز اسمبلی جیسے بااختیار ادارے کے فیصلے سے پہلے کوئی ذمہ دار شخص اپنی ذاتی رائے کا اظہار نہیں کرسکتا اور نہ اسے کرنا چاہیے۔ پاکستان کے لیے دستور بنانا‘ دستور ساز اسمبلی کا کام ہے‘‘ (پریس کانفرنس‘ ۱۴ جولائی ۱۹۴۷ء)
یہی وہ دستور ساز اسمبلی ہے جس نے ۱۲؍ مارچ کو قرارداد مقاصد منظور کر کے ریاست کے کردار کو ہمیشہ کے لیے طے کر دیا اور قانون کی زبان میں وہ بات ادا کر دی جس کا عہد قائداعظمؒ نے مسلمانان پاک و ہند سے کیا تھا:
مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمہ توحید ہے‘ نہ وطن‘ نہ نسل۔ جب ہندستان کا پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا تھا‘ وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔ آپ نے غور کیا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرک کیا تھا؟ اس کی وجہ نہ ہندوئوں کی تنگ نظری تھی نہ انگریزوں کی چال __ یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔ (مسلم یونی ورسٹی‘ علی گڑھ‘ خطاب ۸؍مارچ ۱۹۴۶ء)
قائداعظمؒ نے کراچی بار ایسوسی ایشن کو خطاب کرتے ہوئے ۲۵؍ جنوری ۱۹۴۸ء کو (اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر کے پانچ مہینے بعد) یہ فرمایا تھا:
اسلام محض رسوم و روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ نہیں‘ اسلام ہر مسلمان کے لیے ضابطہ حیات بھی ہے‘ جس کے مطابق وہ اپنی روز مرہ زندگی‘ اپنے افعال و اعمال حتیٰ کہ سیاست اور معاشیات اور دوسرے شعبوںمیں بھی عمل پیرا ہوتا ہے۔ اسلام سب انسانوں کے لیے انصاف‘ رواداری‘ شرافت‘ دیانت اور عزت کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ صرف ایک خدا کا تصور اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔ اسلام میں انسان انسان میں کوئی فرق نہیں۔ مساوات‘ آزادی اور اخوت اسلام کے اساسی اصول ہیں۔
۱۹۴۸ء ہی کی ایک تقریر میں انھوںنے اسلامی حکومت کے تصور کو بھی ان الفاظ میں بیان کر دیا تھا:
اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفاکیشی کا مرجع اللہ کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی نہ کسی شخص اور ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی کی حدود متعین کر سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت قرآن کے اصول و احکام کی حکومت ہے‘‘۔
اگر قائداعظمؒ نے یہ سب صاف لفظوں میں کہا تو پھر بتایا جائے کہ ان کے وژن میں سیکولرزم کہاں سے آگیا؟ جس تصور کو سفیر صاحب ’’خلاف جناح تصور‘‘ کہہ رہے ہیں‘ قائداعظمؒ تو چیخ چیخ کر اس کا اعلان کر رہے ۔ہیں وہ تصور ہی قرار داد پاکستان کی سطر سطر سے عیاں اور نمایاں ہے اور پورا دستور اس کا آئینہ دار ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ عوام کی مرضی‘ تحریری دستور کے واضح احکام اور قوم کی تاریخی روایات تو ایک ’’متشدد اقلیت‘‘ اور ’’خلاف جناح وژن‘‘ قرار پائیں اورایک غیر ملکی اور چند سیکولر دانش وروں کی یاوہ گوئی ‘جناح کا تصور پاکستان بن جائے۔
قائداعظمؒیا اقبالؒ کے تصور پاکستان کو اپنے من پسند مفہوم میں پیش کرنے والے سیکولر حضرات جو بھی استدلال برتتے ہیں‘ وہ اپنے داخلی تضاد کی وجہ سے بے نقاب ہو جاتا ہے۔ ایک جانب تووہ جمہوریت کے اصول کا علم بلند کرتے ہیں مگر دوسری جانب ایک تقریر‘ یا کسی ایک اقتباس کی بنیاد پر پوری قوم کے عزم اور willکو مسترد کرنے کا شاہانہ اختیار استعمال کرنے کی دہائی دیتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ حلقے جمہوریت کے ساتھ مخلص ہیں یا کسی ایک قوم کی بنیاد پر پوری قوم کی جدوجہد اور عزائم کو اپنی من پسند تعبیر کی سولی پرلٹکانے کے طرف دار۔ اس مسئلے پر بات کرنے سے پیشتر یہ اصولی بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ ایک مسلمان کے لیے بنیادی سرچشمہ ہدایت اور آخری معیار حق‘ قرآن اور سنت ِرسولؐ ہے۔ دیگر محترم سے محترم اور فاضل سے فاضل شخصیات کا مقام نہ صرف لازمی طور پر ان کے بعد میں آتا ہے‘ بلکہ ان کی آرا‘ افکار اور فیصلوں کو قرآن و سنت ہی کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔
سیکولرزم ‘ اقبالؒ اور قائداعظمؒ
مفتیان مغرب نے اسلامی احیائی تحریک کے بارے میں سب سے پہلے تو ’’بنیاد پرست‘‘ کی اصطلاح وضع کر کے مغالطہ پیدا کیا ہے۔ جس کا مطلب یہ بتایا گیا ہے‘ جو فرد: ’’ترقی کا دشمن ہو‘ دور حاضر کے تقاضوں کو نظرانداز کرنے والا ہو یا اسلام کی کسی ایسی تعبیر سے چپکا ہو‘ جس کی بنا پر اسلام وقت کے چیلنجوں کا مقابلہ نہ کر سکے‘ وہ بنیاد پرست ہے‘‘۔امر واقعہ کے اعتبار سے یہ انتہائی غلط‘ یک رخا‘ بدنیتی پر مبنی اور مبالغہ آمیز پروپیگنڈاہے۔ البتہ اب سے تین عشرے پہلے مغرب کے مستشرقین (orientalists)نے ایسے لوگوں کے لیے ’’مسلمان بنیاد پرست‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی: ’’جو یہ چاہتے ہیں کہ اسلام جیسا کہ وہ ہے اور جیسا کہ مسلمان اس کو سمجھتے ہیں‘ اسے اس کی بنیادی روح کے مطابق نافذ کر دیا جائے‘‘۔
مغرب یہ چاہتا ہے کہ اسلام کا نام تو چاہے رہے‘ جس طرح کہ عیسائیت کا نام باقی ہے لیکن فیصلہ کرنے کا اختیار اللہ کی کتاب‘ الہامی ہدایت اور اسوہ رسولؐ آخر الزماںؐ کو حاصل نہ ہو۔ بلکہ انسان اپنی ذاتی مرضی‘ بدلتے ہوئے اغراض و مقاصد کی روشنی میں ان معاملات کو مغربی پیمانۂ فکر کے مطابق طے کرے۔ نیز یہ کہ جس چیز کو اہل مغرب پسند کرتے ہیں‘ بس آنکھیں بند کر کے وہ قبول کی جائے۔ اسی کے اندر مسلمان ڈھل جائے تو یہ ’’ترقی پسندی‘ تعمیر پسندی‘ دانش مندی اور میانہ روی‘‘ ہے۔ اور اگر قرآن و سنت کی بنیاد پر مسلمان اپنے اصول‘ اپنے نظریے‘ اپنی روایات‘ اپنی تاریخ اور خود اپنی تہذیب پر عمل کرنا چاہے تو یہ ’’بنیاد پرستی‘‘ ہے۔ یہ بات مغربی دانش وروں کی ان تمام تحریروں میں نمایاں ہے‘ جو آج مغرب سے آ رہی ہیں۔ مشہور مستشرق پروفیسر منٹگمری واٹ نے حال ہی میں بہت کھل کے یہ بات کی ہے: ’’دراصل جو لوگ اسلام کے اس روایتی تصور کو غالب کرنا چاہتے ہیں جو قرآن اور نبی پاکؐ نے پیش کیا ہے‘ وہی لوگ بنیاد پرست ہیں۔ اور جو لوگ اسلام کو مغرب کے معیار پر بدلنے اور ڈھالنے کے لیے تیار ہیں‘ وہ لبرل ہیں اور وہی ہمارے اصل دوست ہیں‘‘۔
اب یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ علامہ محمد اقبالؒ اور قائداعظم محمد علی جناح ؒکا موقف اس ذیل میں کیا تھا؟ علامہ اقبالؒ نے جدید اور قدیم دونوں علوم کے مآخذ سے استفادہ کیا اور پوری قوت ایمانی کے ساتھ یہ بات کہی کہ اسلام حق ہے اور مغرب جس بنیاد پر قائم ہے یعنی سیکولرازم ‘ نیشنلزم‘ ریشنلزم‘ سائنس پرستی… یہ بنیاد‘ بنیاد خام ہے۔
علامہ محمد اقبال نے اسلام کو ایک انقلابی تصور کی حیثیت سے پیش کیا۔ اس سلسلے میں اگر آپ اقبال کی شاعری کو جو ان کے فکر کے اظہار کا اصل ذریعہ ہے‘ نظراندازبھی کر دیں تب بھی ان کا یکم جنوری ۱۹۳۸ء کا سال نو کا پیغام دیکھ لیجیے۔ اس میں انھوں نے کہا ہے کہ:
’’اس زمانے میں ملوکیت کے جبرواستبداد نے: جمہوریت‘ قومیت‘ اشتراکیت‘ فسطائیت اور نہ جانے کیا کیا نقاب اوڑھ رکھے ہیں۔ ان نقابوں کی آڑ میں دُنیا بھر میں حریت اور شرف انسانیت کی اقدار کی اس طرح مٹی پلید ہو رہی ہے کہ تاریخ عالم کا کوئی تاریک سے تاریک صفحہ بھی اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔ وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ہے‘ جو رنگ‘ نسل اور زبان سے بالاتر ہے۔ جب تک اس نام نہاد جمہوریت‘ اس ناپاک قوم پرستی اور ذلیل ملوکیت کی لعنتوں کو مٹایا نہ جائے گا‘ جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبار سے الخلق عیال اللّٰہ کے اصول کا قائل نہ ہو جائے گا‘ جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ و نسل کے اعتبارات کو نہ مٹایا جائے گا‘ اس وقت تک انسان اس دُنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کرسکے گا اور یہ تصور اسلام کا تصور ہے‘‘۔
علامہ محمد اقبال نے اپنی کتاب The Reconstruction of Religious Thought in Islamکے آخری خطبے میں جدید قانون سازی اور قانون ساز اسمبلیوں پر اپنے خیالات پیش کیے ہیں۔ اس کے آخری حصے میں انھوں نے کسی لاگ لپیٹ کے بغیر برملا کہا ہے کہ ’’انسانیت کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مغرب ہے۔ اور یورپ کے دیے ہوئے تصورِحیات سے جب تک انسان نجات نہیں پاتا‘ انسانی مسائل حل نہیں ہو سکتے اور اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق کائنات کی نئی اخلاقی تعبیر‘ صاحب ایمان فرد کی دریافت اور اجتماعی عدل پر معاشرے کی تعمیر‘ یہ وہ بنیادیں ہیں جن پر دنیا کو قائم کرنا چاہیے‘‘۔ یہی علامہ اقبالؒ کا مشن تھا۔
اسی طرح بلاشبہہ قائداعظمؒ کا ایک دور وہ بھی تھا‘ جب وہ نہ صرف انڈین نیشنل کانگریس میں سرگرم عمل تھے‘ بلکہ اس کے مرکزی قائدین میں سے تھے۔ تب وہ ہندو مسلم اتحاد کے سفیر تھے۔ گاندھی جی اور مدن موہن مالویہ کے رفیق خاص تھے۔ لیکن اس کے بعد جب قائداعظمؒ نے برہمنی ذہنیت کا قریب سے مشاہدہ کرلینے کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم نوکی اور ۱۹۳۶ء سے ۱۹۴۰ء تک مسلم انڈیا کے حالات کا بے لاگ تجزیہ کیا‘ تب وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمان اپنے دین کی بنیاد پر‘ اپنے اخلاق‘ اپنے عقیدے‘ اپنی تاریخ اور اپنی تہذیب و تمدن کی بنیاد پر ایک الگ قوم ہیں‘ محض ایک اقلیت نہیں ہیں۔ اور فکر اقبال کی روشنی میں ہندستان میں مسلمانوں کے مسئلے کا حل اس کے سوا کوئی نہیں ہے کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے‘ وہاں ان کی آزاد اسلامی ریاست قائم ہو اور مسلمان اس ریاست کو اسلام کی بنیادوں پر اوراسلام کے دیے ہوئے اصولوں کے مطابق قائم کریں۔ میں اس سلسلے میں قائداعظمؒ کی آخری پانچ برس کی تقریروں کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں‘ جس سے معلوم ہوگا کہ قائداعظمؒ کا اس معاملے میں کیا موقف تھا۔
جہاں تک جدید اسلامی جمہوری ملک کا تعلق ہے‘ اس ضمن میں علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ جس بات کے حامی اور علم بردار تھے اور جس بات کے لیے انھوں نے بھرپور جدوجہد کی وہ قرآن و سنت کی لاثانی اور ابدی ہدایات کی روشنی میں ایک مسلمان معاشرے اور ایک مسلمان ریاست کا قیام عمل میں لانا تھا۔ ایسا معاشرہ جو عمرانی عدل (social justice)کے تقاضوںکو پورا کر سکے اور جس میں اسلام کا قانون جاری و ساری ہو۔ جس میں مسلمان مغربی اقوام کی غلامی اور ان کی نقالی کی بجائے اسلام کو بطور دین ہدایت اور مستقل کلچر کی حیثیت سے پیش کریں‘ یہ تھا بانیانِ پاکستان کا تصور__ وہ لوگ جو اس سے ہٹ کر چل رہے تھے ان پر علامہ اقبال اور قائد اعظمؒ نے گرفت کی اور خصوصیت سے ترکی پر‘ جو اپنے آپ کو یورپ کے سانچے میں ڈھالنے میں مصروف تھا۔
بالکل یہی وہ تصور ہے جس کو جماعت اسلامی نے پیش کیا ہے۔ ہم دراصل قرآن وسنت رسولؐ سے ماخوذ اور اسلام کے تابع فکر اقبال اور قائداعظمؒ کے تصور کو حقیقت کے روپ میں ڈھالنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس اعتبار سے ہمارے اور بانیانِ پاکستان کے تصور میں کوئی فرق نہیں۔ بانیانِ پاکستان کے تصور سے وہ لوگ ہٹے ہیں‘ جنھوں نے اس ملک میں بے دینی‘ مادیت‘ مغرب پرستی اور اباحیت کو رواج دیا‘ یا سوشلزم کی راہ ہموار کی یا اس کے حاشیہ بردار رہے جنھوں نے سرمایہ داری کو فروغ دیا‘ اور جنھوں نے جاگیرداری کے ناسور کو بڑھنے اور پھلنے کے مواقع دیے۔ جو یہاں اسلامی قانون سے انحراف کے راستے تلاش کر رہے ہیں جنھوں نے یہاں علاقائی اور لسانی عصبیتیں پیدا کیں۔ ہم تو ان تمام کا مقابلہ اللہ تعالیٰ پر ایمان‘ دلیل اور یقین محکم سے کر رہے ہیں۔ ہم وہی لڑائی لڑ رہے ہیں جو علامہ اقبال اور قائداعظمؒ نے لڑی تھی۔ یوں ہمارے اور بانیان پاکستان کے درمیان کوئی فکری یا عملی تصادم اور تضاد نہیں ہے۔
اسی طرح ایک بات تھیاکریسی کے بارے میں کہی جاتی ہے:
یہ امر واقعہ بھی ہے‘ اور اسی حقیقت کا اظہار علامہ محمد اقبال اور قائداعظم محمد علی جناحؒ دونوں نے کھل کر کیاہے کہ اسلام تھیاکریسی نہیں ہے۔ کچھ لوگ ان بیانات کا سہارا لے کر یہ بات کہنے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویا کہ ہمارے اور ان کے موقف میں فرق ہے۔ حالانکہ وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ علامہ اقبال نے اس موضوع پر انگریزی خطبات میں بحث کی ہے۔ چھٹے خطبے میں انھوں نے یہ بات اس معنی میں فرمائی ہے کہ:
گویا بہ حیثیت ایک اصول‘ عمل توحید اساس ہے: حریت‘ مساوات اور حفظ نوع انسانی کی۔ اب اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ازروئے اسلام ریاست کا مطلب ہماری یہ کوشش ہوگا کہ یہ عظیم اور مثالی اصول زمان و مکان کی دُنیا میں ایک قوت بن کر ظاہر ہوں۔ گویا ایک آرزو ہے ان اصولوں کو ایک مخصوص جمعیت بشری میں مشہور دیکھنے کی۔ لہٰذا اسلامی ریاست کو حکومت الٰہیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے تو انھی معنوں میں۔ ان معنوں میں نہیں کہ ہم اس کی زمام اقتدار کسی ایسے سلطان ظل الٰہی کے ہاتھ میں دے دیں‘ جو اپنی مفروضہ معصومیت کے عذر میں اپنے جور و استبداد پر ہمیشہ ایک پردہ سا ڈال رکھے۔( Reconstruction‘۱۹۸۶ء‘ ص ۲۳-۱۲۲)
یعنی اسلام میں تھیاکریسی ان معنوں میں قطعی طور پر نہیں ہے کہ مذہب میں کوئی طبقہ اجارہ دار ہو اور بس وہی طبقہ اللہ کی مرضی کو جاننے کا واحد ذریعہ ہو۔ اسلامی تعلیمات اور اسلامی مزاج کی روشنی میں یہ فکر تھی علامہ اقبال کی۔
قائداعظمؒ نے یہ بات کہی ہے کہ تھیاکریسی کا میں مخالف ہوں‘ اس لیے کہ اسلام میں کسی ایسے طبقے کا تصور نہیں ہے جو دین کا اجارہ دار ہو جیسا کہ بدھ مذہب‘ عیسائیت‘ ہندومت میں اور یہودیت میں ایسا طبقہ پایا جاتا ہے۔ یہ بات اسی معنی میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اور جماعت اسلامی نے ہمیشہ اسی لہجے میں کہی ہے کہ ’’ہم تھیاکریسی کے مخالف ہیں۔ تھیاکریسی کا کوئی تعلق اسلامی نظام سے نہیں ہے‘‘۔ مولانا مودودی کی کتب سے اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی پڑھا لکھا آدمی پڑھے بغیر محض مغرب کے عطا کردہ الزام‘ اور اتہام کو عین علم قرار دینا چاہتا ہے تو یہ اس کی جہالت اور تنگ نظری کا ثبوت ہے۔
اس نام نہاد جدید طبقہ کی ژولیدہ فکری کا تو یہ حال ہے کہ ایک طرف تھیوکریسی سے برأت کا اعلان ہوتا ہے تو دوسری طرف ارشاد ہوتا ہے کہ جو بھی اور جس طرح بھی مسنداقتدار پر آگیا وہ گویا خود خدا کا فرستادہ ہے اور اس کے لیے وتعز من تشاء وتذل من تشاء سے استشہاد کرنے تک کی جسارت میں کوئی باک محسوس نہیں کیا جاتا۔
ہم دعوے سے عرض کریں گے کہ تھیاکریسی کے باب میں بھی علامہ اقبالؒ، قائداعظمؒ اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کا موقف ایک ہے۔ جو افراد اس میں اختلاف ڈھونڈنے یا عملی سطح پر رخنہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ وہ علمی دیانت نہیں برت رہے یا ان کی معلومات خام ہیں یا پھر وہ حقائق کا کھوج لگانے کے بجائے سیکولر تعصب میں مبتلا ہیں۔ ایسے عناصر نہ تھیاکریسی کے مفہوم سے آشنا ہیں اور نہ انھیں اسلام کے اجتماعی‘ سماجی‘ معاشی‘ بین الاقوامی اور سیاسی تصورات سے کوئی شناسائی ہے۔ اس پہلو سے انھیں قومی سطح پر بھی اپنے نقطہ نظر کی اصلاح کرنی چاہیے‘ تاکہ جو پیغام علامہ اقبال نے دیا تھا اور جس کے لیے قائداعظمؒ نے جدوجہد کی تھی‘ آج ہم اس کو عملی طور پر ملک میں قائم کر سکیں۔ مولانا مودودی تو فکری سطح پر اس کے موید اور عملی طور پر اس کے نقیب تھے۔
قائداعظمؒ کی ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ تقریر قائداعظمؒ نے بہت ہی مخصوص حالات میں کی تھی۔ پوزیشن یہ تھی کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس تھا‘ جس میں قائداعظمؒ کو صدرمنتخب کیا گیا اور اس انتخاب پر اظہارتشکر کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے یہ تقریر کی تھی۔
انھوں نے اپنے دل کے زخم قوم کے سامنے رکھے کہ آج برعظیم میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے‘ انسان‘ انسان کو قتل کر رہا ہے‘ بے گناہ انسانوں کا خون بہایا جا رہا ہے‘ حقوق پامال ہو رہے ہیں اور اس صورت حال میں ہم جو ریاست حاصل کر رہے ہیں‘ اس میں کسی کا کوئی بھی مذہب ہو‘ خواہ وہ اسلام ہو‘خواہ وہ ہندو مذہب ہو‘ ان سب کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔ اس تقریر میں مسئلہ ریاست کی نوعیت کا نہیں‘ بلکہ مسئلہ شہریوں کے حقوق اور جان اور مال کے تحفظ کا ہے۔ شہریت اور جان و مال کے تحفظ کے باب میں اسلام مسلمانوں اور غیر مسلموں کو برابر کا تحفظ اور برابر کے حقوق دیتا ہے۔ یہ روایت سیکولرزم کی نہیں‘ بلکہ اسلام کی ہے۔ اسی طرح قائداعظمؒ کے الفاظ Business of the Stateکو بہت اُچھالا جاتا ہے۔ یہ بھی علمی خیانت ہے کیونکہ بزنس آف دی اسٹیٹ کا مقصود و مطلوب Nature of the State نہیں ہوتا۔ بزنس آف دی اسٹیٹ سے مراد صرف انتظام و انصرام ہے۔ اس کے علاوہ اس کی کوئی اور تعبیر نہیں کی جا سکتی۔
جو لوگ اس تقریر کو سیکولرزم کے جواز کے لیے استعمال کرتے ہیں ان سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قائداعظمؒ نے اس تقریر سے پہلے اور اس تقریر کے بعد بھی پاکستان کے اسلامی تشخص اپنانے‘ اسلامی قانون کو بنیاد بنانے‘ قرآن و سنت کی روشنی میں یہاں کے نظام کو ترتیب دینے اور اسلامی عدل اجتماعی کی بنیاد پر معاشرے کو استوار کرنے کی ضرورت و اہمیت کو تسلسل کے ساتھ بلاانقطاع بیان فرمایا ہے اور اس سلسلے میں ان کی وہ تقریر حرف آخر ہے جو انھوں نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر جولائی ۱۹۴۸ء میں فرمائی ہے‘ اس میںبھی اور اس سال عید کے پیغام میں بھی انھوں نے کہا ہے کہ ’’ہم ملک میں اسلامی قانون نافذ کرنا چاہتے ہیں‘‘__ سوال یہ ہے کہ قائداعظمؒ کی محض ۱۱؍اگست والی تقریر ان کے باقی تمام اقوال کو نظرانداز کر کے کیسے لی جا سکتی ہے؟ اور وہ ان کی پہلے اور بعد والی تمام تقاریر و بیانات کو منسوخ کر دینے والی تقریر کیسے بنائی جا سکتی ہے؟ کیا فقط یہی ایک تقریر معتبر ہے اور ان کی باقی تمام تقاریر غیرمعتبر اورغیر متعلق ہیں؟ کسی شخص کے فکر اور تصور کو سمجھنے کے لیے کیا کسی ایک چیز کو اس کے سیاق و سباق سے نکال کر دیکھا جاتا ہے یا فیصلہ کرنے کے لیے اس کی ساری چیزوں کو سامنے رکھا جاتا ہے؟ اور اگر ساری چیزوں کو سامنے رکھا جاتا ہے اور رکھنا چاہیے تو قائداعظمؒ کا تصور اسلامی ریاست بھی بالکل واضح ہے۔
پھر کیا ان لوگوں کی نگاہ میںقائداعظمؒ اتنے بے اصول انسان تھے کہ قوم سے وعدہ تو انھوں نے اسلامی نظام کا کیا اور کہا کہ میں تمھیں پاکستان کی جدوجہد میں شرکت کی اس لیے دعوت دے رہا ہوں کہ تم ایک نظریاتی قوم کی حیثیت سے‘ اسلامی نظام اور اسلامی قوانین کی علم بردار قوم کی حیثیت سے جدوجہد کرو۔ لیکن ابھی آزادی ملنے میں تین دن باقی ہیں کہ وہ اپنے سارے کیے کرائے کے اوپر پانی پھیر دیں‘ اس سے یک دم پیچھے ہٹنے کا اعلان کر دیں اور یہ کہہ دیں کہ میںتو ایک لادینی اور سیکولر اسٹیٹ کے لیے کام کرتا رہا ہوں۔ پھر اس کے بعد دوبارہ ایسی تضاد بیانی کا شکار ہوں کہ ستمبر ۱۹۴۷ء سے لے کر جولائی ۱۹۴۸ء تک جتنی تقاریر کریں‘ ان میں پھر وہ اسلام ہی کا اعادہ کریں اور پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے دعوے کریں؟
لیکن معاف کیجیے قائداعظمؒ تضاد بیانی کے قائل نہ تھے۔ اسی طرح وہ کوئی بے اصول انسان بھی نہ تھے‘ نہ قائداعظمؒ پر کسی قسم کی ژولیدہ فکری کا الزام لگایا جا سکتا ہے اور نہ ان پر نفاق کی تہمت لگائی جا سکتی ہے۔ وہ ہمیشہ جرأت کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہے‘ جس بات کو درست سمجھا ہے اس کو برملا کہا ہے انھوں نے کبھی متضاد باتیں نہیں کی ہیں۔ قائداعظم ؒ کی اس تقریر کو ان کی باقی تقاریر کے پس منظرمیں دیکھنا ہوگا اور اسی کے مطابق تطبیق اور اس کی تعبیر کرنا ہوگی۔ ان کی یہ بات بالکل درست ہے کہ اسلام میں تھیاکریسی نہیں ہے اور اسلام میں شہریوںکے حقوق برابر ہیں۔ یہ بات اسلام کے مطابق ہے‘ جس میںمسلمان‘ غیر مسلم سب شہری یکساں حقوق کے مالک ہیں بشرطیکہ وہ اپنی شہریت کے تقاضے پورے کریں۔ اس کے ساتھ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ پاکستان ایک سیکولراسٹیٹ ہوگا یا پاکستان ایک ایسی اسٹیٹ ہوگا جس کا مذہب اور دین سے کوئی تعلق نہ ہو یا اسلامی قوانین جاری نہ ہوں __یہ اس تقریر کی غلط تعبیر ہوگی۔
قائداعظمؒ پر میری نگاہ میں یہ ایک الزام اور بہتان ہے۔ ان تمام الزاموں سے بڑا الزام اور بہتان ہے‘ جو قائداعظمؒ کے بڑے سے بڑے ناقد اور مخالف بھی ان پر لگانے کی جرأت نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن وہ لوگ جو قائداعظمؒ کی فکر کے علم بردار ہونے کا دعوے کر رہے ہیں‘ وہی دراصل قائداعظمؒ کے کردار کو گہنانے کے لیے یہ کام کر رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہم قائداعظمؒ کے خیالات کی جو تعبیر کر رہے ہیں‘ یہ وہی تعبیر ہے جو ان کے پورے کردارسے اور ان کے تمام ارشادات سے ہم آہنگ ہے اور جس میں بجا طور پر قائداعظمؒ کی ایک دیانت دارانہ‘ منصفانہ اور خود ان کی اُمنگوں کی ترجمان تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔
اس تاریکی میں ہمارے لیے اُمید کی ایک ہی شعاع ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ ہماری پوری آبادی بگڑ کر نہیں رہ گئی ہے بلکہ اس میں کم از کم چار پانچ فی صد لوگ ایسے ضرور موجود ہیں جو اس عام بداخلاقی سے بچے ہوئے ہیں۔ یہ وہ سرمایہ ہے جس کو اصلاح کی ابتدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اصلاح کی راہ میں یہ پہلا قدم ہے کہ اس صالح عنصرکو چھانٹ کر منظم کیا جائے۔ ہماری بدقسمتی کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں بدی تو منظم ہے اور پوری باقاعدگی کے ساتھ اپنا کام کر رہی ہے لیکن نیکی منظم نہیں ہے۔ نیک لوگ موجود ضرور ہیں مگر منتشر ہیں۔ ان کے اندر کوئی ربط اور تعلق نہیں ہے۔ کوئی تعاون اور اشتراکِ عمل نہیں ہے۔ کوئی لائحہ عمل اور کوئی مشترک آواز نہیں ہے۔ اسی چیز نے ان کو بالکل بے اثر بنا دیا ہے۔ کبھی کوئی اللہ کا بندہ اپنے گردوپیش کی برائیوں کو دیکھ کر چیخ اُٹھتا ہے‘ مگر جب کسی طرف سے کوئی آواز اس کی تائید میں نہیں اٹھتی تومایوس ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ کبھی کوئی شخص حق اور انصاف کی بات علانیہ کہہ بیٹھتا ہے‘ مگر منظم بدی زبردستی اس کا منہ بند کر دیتی ہے اور حق پسند لوگ بس اپنی جگہ چپکے سے اس کو داد دے کر رہ جاتے ہیں۔ کبھی کوئی شخص انسانیت کا خون ہوتے دیکھ کر صبر نہیں کر سکتا اور اس پر احتجاج کر گزرتا ہے‘ مگر ظالم لوگ ہجوم کر کے اسے دبا لیتے ہیں اور اس کا حشر دیکھ کر بہت سے ان لوگوں کی ہمتیں پست ہو جاتی ہیں جن کے ضمیر میں ابھی کچھ زندگی باقی ہے۔ یہ حالت اب ختم ہونی چاہیے۔ اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک خدا کے عذاب میں مبتلا ہو اور اس عذاب میں نیک و بد سب گرفتار ہو جائیں تو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے اندر جوصالح عناصر اس اخلاقی وباسے بچے رہ گئے ہیں وہ اب مجتمع اور منظم ہوں اور اجتماعی طاقت سے اس بڑھتے ہوئے فتنے کا مقابلہ کریں جو تیزی کے ساتھ ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔
آپ اس سے نہ گھبرائیں کہ یہ صالح عنصر اس وقت بہ ظاہر بہت ہی مایوس کن اقلیت میں ہے۔ یہی تھوڑے سے لوگ اگر منظم ہو جائیں‘ اگران کا اپنا ذاتی اور اجتماعی رویہ خالص راستی‘ انصاف‘ حق پسندی اور خلوص و دیانت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو‘ اور اگر وہ مسائل زندگی کا ایک بہتر حل اور دُنیا کے معاملات کو درست طریقے پرچلانے کے لیے ایک اچھا پروگرام بھی رکھتے ہوں‘ تو یقین جانیے کہ اس منظم نیکی کے مقابلے میں منظم بدی اپنے لشکروں کی کثرت اور اپنے گندے ہتھیاروں کی تیزی کے باوجود شکست کھا کر رہے گی۔ انسانی فطرت شرپسند نہیں ہے۔ اسے دھوکا ضرور دیاجا سکتا ہے‘ اور ایک بڑی حد تک مسخ بھی کیا جا سکتا ہے‘ مگر اس کے اندر بھلائی کی قدر کا جو مادہ خالق نے ودیعت کر دیا ہے‘ اسے بالکل معدوم نہیں کیا جا سکتا۔
انسانوں میں ایسے لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں جو بدی ہی سے دل چسپی رکھتے ہوں اور اس کے علم بردار بن کر کھڑے ہوں‘ اور ایسے لوگ بھی کم ہوتے ہیں جنھیں نیکی سے عشق ہو اور اسے قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔ ان دونوں گروہوں کے درمیان عام انسان نیکی اوربدی کے ملے جلے رجحانات رکھتے ہیں۔ وہ نہ بدی کے گرویدہ ہوتے ہیں اور نہ نیکی ہی سے انھیں غیرمعمولی دل چسپی ہوتی ہے۔ ان کے کسی ایک طرف جھک جانے کا انحصار تمام تر اس پر ہوتا ہے کہ خیر اور شر کے علم برداروں میں سے کون آگے بڑھ کر انھیںاپنے راستے کی طرف کھینچتا ہے۔ اگر خیر کے علم بردار سرے سے میدان میں آئیں ہی نہیںاور ان کی طرف سے عوام الناس کو بھلائی کی راہ پر چلانے کی کوئی کوشش ہی نہ ہو تو لامحالہ میدان علم بردارانِ شر ہی کے ہاتھ رہے گا اور وہ عام انسانوں کو اپنی راہ پر کھینچ لے جائیں گے۔ لیکن اگر خیر کے علم بردار بھی میدان میں موجود ہوں‘ اور وہ اصلاح کی کوشش کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کریں تو عوام الناس پر علم بردارانِ شر کا اثر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ ان دونوں کا مقابلہ آخرکار اخلاق کے میدان میں ہوگا اور اس میدان میں نیک انسانوں کو برے انسان کبھی شکست نہیں دے سکتے۔ سچائی کے مقابلے میں جھوٹ‘ ایمان داری کے مقابلے میں بے ایمانی‘ اور پاک بازی کے مقابلے میں بدکرداری خواہ کتنا ہی زور لگائے‘ آخری جیت بہرحال سچائی ‘ پاک بازی اور ایمان داری ہی کی ہوگی۔ دُنیا اس قدر بے حِس نہیں ہے کہ اچھے اخلاق کی مٹھاس اور برے اخلاق کی تلخی کو چکھ لینے کے بعد آخرکار اس کا فیصلہ یہی ہو کہ مٹھاس سے تلخی زیادہ بہتر ہے۔ (اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات‘ ص ۲۸۵-۲۸۸)
کسی کو نیکی کے دو بول سکھاکر‘ کوئی کتابچہ پڑھا کر‘ مسجد‘ کنوئیں یا نہر کی تعمیر میں حسب استطاعت حصہ ڈال کر‘ کسی دعوتی و تبلیغی کام میں اعانت کر کے‘ قرآن‘ احادیث اور دینی لٹریچر کی اشاعت میں تعاون کر کے آسانی سے اپنے لیے صدقہ جاریہ کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ اپنے اپنے وسائل کے مطابق ’کم یا زیادہ‘ ہر شخص یہ اجر لے سکتا ہے
ڈیوٹی کے دوران کوئی فوت ہو جاتا ہے تو اس کے ورثا کو ایک عرصے تک فوت ہونے والے کا مشاہرہ اور دوسری مراعات دی جاتی ہیں۔ مزید اعانت بھی کی جاتی ہے لیکن یہ سب کچھ محدود وقت کے لیے ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں مومن اللہ کی عبادت کے دوران فوت ہوجائے تو قیامت تک وہ آن ڈیوٹی شمار ہوتا ہے۔ حاجی‘ معتمر (عمرہ کرنے والا)‘ نمازی اور غازی قیامت کے دن تک اپنی عبادت کا اجر پاتے رہیں گے۔ قیامت تک اجر پانے کا بہت آسان نسخہ یہ ہے کہ ہر وقت اللہ کی عبادت کی نیت میں رہے کہ میں اللہ کا حکم مانوں گا‘ اس کے مقابلے میں کسی کے احکام نہیں مانوں گا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا۔ تب اس کا اٹھنا بیٹھنا‘ سونا جاگنا‘ چلنا پھرنا‘ سب عبادت شمار ہوگا۔ اس دوران میں اس کی وفات ہوگئی تو ان لوگوں میں شامل ہوگا جو عبادت کے دوران میں فوت ہو جاتے ہیں۔ یہی معنی ہیں اس آیت کے: وَلاَتَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ ’’تمھیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو‘‘۔
دُنیا کی فنا‘ آخرت کی بقا‘ دوزخ کا خوف‘ جنت کا شوق اور دُنیا میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا احساس ہو تو پھر انسان ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتا ہے۔ تکالیف میں مایوسی کا شکار نہیں ہوتا اور آسودہ حالی میں تکبر و غرور میں مبتلا نہیں ہوتا۔ خلافت میں امرا کی شان کیا ہوتی ہے۔ اس کی جھلک حضرت عتبہؓ بن غزوان کے اس خطبے سے سامنے آتی ہے کہ وہ متواضع اور ذاکر و شاکر ہوتے ہیں۔خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے بعد بادشاہت کا دور ہوتا ہے اور آخرت کے بجائے دُنیا پر نظریں جمنا شروع ہو جاتی ہیں۔
گناہ انسان خود بھی کرتا ہے اور اس کے آس پاس دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں۔ ان گناہوں کو کس نظر سے دیکھا جائے؟ اس حدیث کی یہ بڑی اہم تعلیم ہے کہ دوسروں کو اس طرح نہ دیکھو کہ گویا تم ان کے رب ہو۔ اکثر نیکوکار دوسروں کی اصلاح کے شوق میں اس غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں---
موت واقع ہونے سے پہلے رونے کی اجازت ہے‘ موت کے بعد اونچی آواز سے رونا نوحہ ہے جو ممنوع ہے۔ نبی کریمؐ کی شفقت دیکھیے کہ جہاں رونے کی گنجایش ہے وہاں روکنے سے منع کرتے ہیں۔ بیٹی کے غم کو کہ باپ جہاد میں شریک ہو کر شہید نہ ہو سکے‘ ہلکا کر رہے ہیں‘ کہ نیت کے مطابق وہ شہید ہے۔ پھر دوسری مختلف نوعیت کی اموات کے بارے میں شہادت کی اطلاع دے کر کس کس کو اطمینان و سکون فراہم کر دیا۔سبحان اللہ! ایسی رؤف و رحیم نبی کی اُمت کو رحیم ہونا چاہیے۔ شریعت نے جہاں گنجایش رکھی ہو وہاں سختی کے بجائے گنجایش دینا چاہیے اور جہاں سختی کی ہے وہاں سختی کرنا چاہیے لیکن اتنی‘ جتنی شریعت کے مزاج سے مطابقت رکھتی ہو۔
آزمایش محبت کی ہے۔ جو محبت میں آگے ہوں گے ان کی آزمایش بھی زیادہ ہے اور جو محبت میں پیچھے ہیں ان کی آزمایش بھی آسان ہے۔ آزمایش درجات کی بلندی کے لیے ہے‘ سزا نہیں ہے۔ آج بھی اُمت مسلمہ ایک بڑی آزمایش سے دوچار ہے۔ نظر آ رہا ہے کہ جن کے مرتبے زیادہ ہیں ان کی آزمایش بھی زیادہ ہے۔
ایک دور وہ تھا جب آزمایشوں اور ڈراووں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تنہا تھے۔ لیکن یہ آزمایشیں اور ڈراوے آپؐ کو راہ حق سے پیچھے نہ ہٹا سکے۔ آزمایشیں تنزلی نہیں بلکہ ترقی کا سامان ہیں۔ اسلام کی تاریخ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اس بات کی گواہ ہے۔
امام غزالی ؒمتقدمین علما‘ فضلا‘ صلحا اور صوفیاے کرام میں ایک خاص مقام کی حامل شخصیت ہیں۔ ان کی شہرئہ آفاق تصنیف احیا العلومکے علاوہ ان کی تصانیف کی تعداد ۷۷ ہے جن کے نام حروفِ تہجی کی ترتیب سے مولانا شبلی نعمانی ؒنے اپنی گراں قدر کتاب الغزالی میں تحریر کیے ہیں۔ احیا العلوم میں زندگی میں پیش آمدہ تمام امور کا وضاحت سے بیان ہے اور دین و دنیا سے متعلق تمام مسائل پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔
امام غزالی ؒنے رعایا کی نگہداشت اور حکمرانی اور فرماںروائی کے موضوع کو کیمیاے سعادت میں ۱۰عنوانات کے تحت بیان کیا ہے ۔ امام غزالی ؒ کے نزدیک حکمرانی آسان کام نہیں بلکہ نہایت کٹھن اور مشکل فریضہ ہے کیونکہ زمین پر خلیفتہ اللہ کے مقام پر فائز ہونا بہت بڑے فرض کی ادایگی کا نام ہے۔ خلافت کے حقوق کی تکمیل کے لیے ’’عدل‘‘ شرطِ اوّل ہے۔ اگر عدل کے بجائے ظلم ہو تو یہ ’’خلافت ِ الٰہی‘‘ نہ ہوگی بلکہ اسے ’’خلافت ِ ابلیس‘‘ گردانا جائے گا۔ علاوہ ازیں فرماں روائی اور حکمرانی کی بنیاد علم و عمل پر قائم ہے‘ یعنی والی اور حکمران کے لیے ضروری ہے کہ اسے علم ہو کہ اسے اس دنیا میں کیوںکرلایا گیا ہے؟ اور اس کا اصل اور آخری ٹھکانہ کہاں ہے؟ کیونکہ یہ دنیا تو نشانِ راہ ہے‘ اسے منزل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ ’’دارالعمل‘‘ ہے ’’دارالجزا‘‘ تواُخروی زندگی ہے۔
سلطانِ عادل کی خصوصیات اور مقام کا ذکر کرتے ہوئے امام غزالی ؒ یوں رقم طراز ہیں کہ سلطانِ عادل اللہ تعالیٰ کا عزیز ترین دوست اور مقرّب ہوتا ہے‘ جب کہ ظالم حکمران اللہ تعالیٰ کا بدترین دشمن ہوتا ہے۔ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلّم کے ارشاد گرامی کے مطابق عادل حکمران کے اعمال میں ہر روز اتنے نیک عمل لکھے جاتے ہیں جتنے کہ اس کی رعیّت نے اس روز کیے ہوں۔
امام غزالی ؒکے نزدیک آدابِ حکمرانی کی تکمیل اور انداز فرماں روائی کو رضاے الٰہی کے مطابق ڈھالنے کے لیے‘ حاکم کو درج ذیل قواعد و ضوابط کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
۱- پسند و ناپسند کا معیار : جب کوئی مقدمہ اور معاملہ حاکم کے رُوبرو پیش کیا جائے تو وہ یہ سمجھے کہ وہ رعایا میں سے ایک فرد ہے‘ حاکم کوئی اور شخص ہے ۔پھر وہ اندازہ کرے کہ اسے رعیّت کی حیثیت سے کون سی چیز پسند ہے اور کون سی ناپسند؟ ظاہر ہے اس قاعدے پر عمل کرتے ہوئے حاکم جو اپنے لیے پسند کرے گاوہی رعایا کے لیے پسند کرے گا لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ آدابِ حکمرانی میں خیانت کا مرتکب گردانا جائے گا۔ اس کی تائید کے لیے امام غزالی ؒنے ایک حدیث مبارکہ نقل فرمائی ہے:
غزوئہ بدر کے دن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلّم سایے میں بیٹھے ہوئے تھے اور آپؐ کے اصحاب دھوپ میں تھے۔ عین اس وقت جبریل ؑ آئے اور کہا:--- ’’ آپؐ سایے میں ہیں اور آپؐ کے اصحاب دھوپ میں ہیں؟‘‘ حضرت جبریل ؑنے فرمایا: --- ’’جس کسی کو دوزخ سے نجات اور جنت کے حصول کی خواہش ہو اسے چاہیے کہ لا الٰہ الا اللہ پڑھ کر موت کا استقبال کرے‘ اور جو چیز وہ اپنے لیے پسند نہیں کرتا وہ کسی بھی مسلمان کے لیے پسند نہ کرے‘‘۔
۲- رعایا کی حاجت روائی ‘ ترجیح اوّل : حاکمِ وقت کے خصائل حسنہ میں یہ بات بھی شامل رہنی چاہیے کہ وہ اپنے مسائل اور مصائب کے حل کے لیے سائلین اور درخواست گزاروں کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھے‘ اظہارِ نفرت نہ کرے اور نہ بے زاری ہی کا تاثر دے بلکہ اسے یہ فکر دامن گیر رہے کہ مبادا کسی ضرورت مند سائل کی حاجت روائی سے قاصر تو نہیں رہا۔ جب تک تمام امور سلطنت میں مشغول ہو‘ اسے نفلی عبادت کی بھی خواہش پیدا نہ ہو کیونکہ رعایا کی حاجت روائی کو نفلی نماز پر فضیلت ہے۔
اس سلسلے میںایک حکایت درج فرمائی کہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز ؒعوام کے مسائل میں اس قدر مصروف رہے کہ نماز ظہر کا وقت آپہنچا اور آپ تھک کر چور ہو رہے تھے۔ چنانچہ اُٹھ کرگھر چلے آئے کہ گھڑی بھر آرام کرلیں۔ یہ کیفیت دیکھ کر ان کے بیٹے نے کہا: آپ کس بات پر مطمئن ہو گئے؟ اگر ابھی آپ کو موت کا بلاوا آجائے اور باہر کوئی حاجت مند انصاف کے انتظار میں کھڑا ہو تو کیا آپ قصوروار نہ ٹھیریں گے؟--- فرمایا: ہاں بیٹا! تم سچ کہتے ہو۔ یہ کہہ کر اُٹھ بیٹھے اور فوراً باہر چل دیے۔
۳- قناعت و صبر بہ طور شعار: آدابِ حکمرانی میں یہ شامل ہے کہ حاکمِ وقت اپنے آپ کو نفسانی خواہشات میں مشغول نہ کرے‘ عمدہ پوشاک اور لذیذکھانے کا عادی نہ بن بیٹھے بلکہ قناعت و صبر کو اپنا شعار بنائے۔ کیونکہ صبروقناعت کے بغیر عدل و انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے۔
اس سلسلے میں ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے جب حضرت سلمان فارسی ؓ سے دریافت کیا کہ میری کون سی بات ہے جو آپ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ کے ہاں ایک وقت میں دو‘ دو سالن پکتے ہیں اور آپ کے پاس دو پیراہن ہیں جن میں سے آپ ایک دن کو اور ایک رات کو پہنتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اس کے علاوہ بھی کچھ سنا؟ کہا: --- نہیں‘ اور تو کچھ نہیں سنا۔ فرمایا: جن دو چیزوں کے بارے میں آپ نے شکایت کی ہے وہ بالکل غلط ہیں۔
۴- درشتی کے بجائے نرمی: عادل حکمران کے لیے ضروری ہے کہ وہ نرمی اختیار کرے اور ممکنہ حد تک درشتی سے اجتناب کرے۔
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلّم کا ارشاد گرامی ہے کہ جو حکمران رعایا کے ساتھ نرمی کرے گا اس کے ساتھ قیامت کے دن نرمی برتی جائے گی۔ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلّم نے یوں دعا فرمائی کہ: ’’خدایا! جو والی اور حاکم اپنی رعایا پر رحم کرتا ہے تو قیامت کے روزاس پر رحم فرما اور جو حاکم سختی کرتا ہے اس پر سختی کر!‘‘ اور فرمایا:عطاے حکومت اسی شخص کے لیے نعمت و برکت ہے جو اسے بہ طریق احسن نبھا سکے اور اس کا صحیح طور پر حق ادا کر سکے ورنہ ایسے شخص کے حق میں تو یہ ایک بری چیز ہے جو اس کا حق ادا کرنے سے قاصر رہے‘‘۔
۵- خوشامد پسندی سے اجتناب:حکمران کی بھرپور کوشش ہونی چاہیے کہ اس کی تمام رعایا اس سے خوش رہے جیسے کہ شریعت مطہرہ کا تقاضا ہے۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کا ارشاد ہے کہ ’’اے لوگو! بہترین حاکم وہ ہے جو تمھیں عزیز رکھے اور تم اسے عزیز رکھو۔ اور بدترین وہ ہے جو تمھارا دشمن ہو اورتمھیں اس سے دشمنی ہو اور تمھاری طرف سے ہمیشہ اس پر لعنت و ملامت ہوتی رہے اور اس کی طرف سے تم پر!‘‘
اسی پانچویں ضابطے کے ضمن میں حاکم کے لیے مزید شرط یہ ہے کہ وہ خوشامد پسند نہ ہو‘ یعنی اگر ہرآنے والا اس کی تعریف ہی کرتا ہے تو یہ نہ سمجھے کہ ہر کوئی واقعی اس سے خوش ہے۔ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض جھوٹے خوشامدی ہوں یا سب خوف کے مارے اس کی تعریف کر رہے ہوں۔ حاکم کے لیے ضروری ہے کہ وہ قابل اعتماد لوگوں کو مقرر کرے اور صحیح صورتِ احوال معلوم کرنے کا اہتمام کرے کیونکہ اپنے عیوب اور حماقتوں کے بارے میں حقیقت حال تو دوسروں ہی سے معلوم ہو سکتی ہے۔
۶- خدا کی خوشنودی کو مقدم رکھنا: حاکم کے لیے‘ اس شرط پر کاربند رہنا ضروری ہے کہ وہ کسی ایسے فرد‘ جماعت یا حکومت کی رضامندی کا جویا نہ ہو جو شریعت کی مخالفت سے رضامند ہو سکتا ہو۔ کیونکہ ایسے افراد کی مخالفت اور ناراضی سے حاکم عادل کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔
اس امر کی تائید میں امام غزالی ؒنے حضرت عمرؓ کا قول نقل فرمایا ہے کہ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ’’میں ہر صبح جب بیدار ہوتا ہوں تو آدھی مخلوق کو اپنے سے ناخوش پاتا ہوں اور یہ ہے بھی ناگزیر۔ کیونکہ جو کوئی میرے انصاف سے سزا کا مستحق ٹھیر گیا وہ مجھ سے ناخوش ہی ہوگا۔ میں دو دشمنوں کے مقدمات کا فیصلہ کرتے وقت فریقین کو خوش کرنے سے تو رہا!اور سخت جاہل ہے وہ جو لوگوں کی رضامندی حاصل کرنے کی خاطر اللہ تعالیٰ کی رضا کو پس پشت ڈال دے۔
ایک اور واقعے کا ذکر کرتے ہوئے امام غزالی ؒ اس امر کی تائید فرماتے ہیں کہ حضرت امیرمعاویہؓ نے حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں بذریعہ خط درخواست کی کہ مجھے کوئی مختصر سی نصیحت فرمایئے۔ حضرت عائشہ ؓ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے سنا ہے کہ جو حکمران لوگوں کی خوشنودی کو بالاے طاق رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا متلاشی ہوتا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جاتا ہے اور لوگوں کو بھی اس سے راضی کر دیتا ہے۔ اور جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے عوض لوگوں کی رضا کا طالب ہوتا ہے‘ اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے اور لوگوں کو بھی ناخوش و ناراض ہی رکھتا ہے۔
۷- حکمرانی ‘ ایک کٹھن فریضہ : عادل حاکم کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ فرماں روائی اور حکمرانی بڑا کٹھن اور صبرآزما کام ہے‘ اور مخلوق خدا کی خدمت اور حاجت روائی کوئی معمولی چیز اور مذاق نہیں۔ جو حاکم اپنی ذمہ داری کا حق ادا کر سکے‘ اس کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس مقام بلند پر پہنچا دیا جاتا ہے کہ اس کے بعد کوئی اور سعادت ہو ہی نہیں سکتی‘ اور اگر اس حق کی ادایگی میں کوئی تقصیر یا غفلت ہو جائے تو وہ حاکم ایسی شقاوت میں مبتلا کر دیا جاتا ہے کہ کفر کے بعد اس سے بڑھ کر کوئی بدبختی نہیں۔
امام غزالی ؒنے اس ضمن میں ایک حدیث مبارکہ نقل فرمائی ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ میں آکرغلاف کعبہ کو ہاتھ میںتھام لیا۔ اس وقت قریش کے کچھ لوگ اندر بیٹھے ہوئے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: امام اور سلاطین قریش میں سے ہوں گے لیکن اس وقت تک جب تک وہ تین امور پر کاربندرہیں گے:
الف - جب ان سے رحمت طلب کی جائے تو وہ رحمت سے کام لیں۔
ب- جب ان سے انصاف طلب کیا جائے تو انصاف دینے میں بخل سے کام نہ لیں۔
ج- جو کچھ کہیں اسے پورا کریں۔ کیونکہ جو کوئی ایسانہیں کرتا اس پر خدا‘ فرشتوں اور تمام خلائق کی لعنت ہوتی ہے۔ اس کے فرض قبول ہوتے ہیں نہ سنت!
اس سلسلے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کے ارشادات گرامی بھی امام غزالی ؒ نے نقل فرمائے ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کو مسلمانوں پر حکمرانی بخشی جائے اور وہ انھیں اپنے بچوں کی طرح نہ رکھے‘ تو اس سے کہہ دو کہ جائو دوزخ میں اپنا ٹھکانہ ڈھونڈ لو‘ اور فرمایا: میری اُمت میں دو طرح کے شخص ہوں گے جو میری شفاعت سے محروم رہیں گے۔ ایک ‘ظالم حکمران اور دوسرے‘ وہ بدعتی جو دین میں غلو کرتے کرتے حد سے گزر جائیں‘ اور فرمایا کہ قیامت کے روز سب سے سخت عذاب ظالم بادشاہوں کو دیا جائے گا۔
۸- علماے حق سے رہنمائی : حکمران کو ہمیشہ علماے حق کی ملاقات کا شوقین رہنا چاہیے کہ ان کے پندونصائح سے وہ بہرہ مند ہوتا رہے‘ اور علماے سوء اور حریص علما سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ یہ اس حاکم کی بے جا تعریف کریں گے۔ اس کی رضا کے لیے خوشامد کریں گے اور حیلوں بہانوں سے وہ اس سے ناجائز فائدہ اُٹھائیں گے۔
علماے حق کی تعریف یہ ہے کہ جنھیں طمع و لالچ کی ہوا بھی نہ لگی ہو اور وہ حاکم کو ہمیشہ عدل و انصاف پر کاربند رہنے کی ترغیب دیتے رہیں۔ اس سلسلے میں خلیفہ ہارون الرشید کا ایک واقعہ نقل فرمایا ہے کہ خلیفہ نے حضرت شفیق بلخی ؒسے کہا:مجھے کچھ نصیحت فرمایئے۔ آپ نے فرمایا: تو ایک چشمہ ہے اور تیرے مقرر کردہ عامل اس دُنیا میں نہروں اور دریائوں کی مانند ہیں۔ یاد رکھ! اگر چشمہ صاف رہے گا تو دریائوں اور نہروں کی تاریکی نقصان دہ نہیں لیکن اگر چشمہ ہی تاریک ہو تو نہروں کی روشنی اور صفائی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
اس سلسلے میں امام غزالی ؒ نے ایک اور حکایت بیان فرمائی‘ جس میں حاکمِ وقت کی دین پسندی اور علماے حق سے تعلق خاطر کا ذکر ہے۔
خلیفہ عمر بن عبدالعزیز ؒ نے ایک مرتبہ محمد بن کعبؒ سے دریافت کیا کہ عدل کسے کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: عدل یہ ہے کہ جو مسلمان تم سے چھوٹا ہو اس کے ساتھ باپ کی طرح شفقت کرو‘ اور جو تم سے بڑا ہو اُس کے ساتھ بیٹوں کی طرح پیش آئو‘ اور جو تمھارا ہم عمر ہو‘ اسے بھائی سمجھو۔ ہر کسی کو سزا اُس کے جرم کے مطابق‘ اتنی ہی دیا کرو جو اُس کی قوتِ برداشت کے مطابق ہو‘ اور غصے سے بے قابو ہو کر کسی کو تازیانہ نہ لگائو ورنہ تمھارا مقام دوزخ ہوگا۔
۹- انتظامیہ کو ظلم سے روکنا: حکمران کو صرف اسی بات پر قناعت نہ کر لینا چاہیے کہ وہ ظلم سے کنارہ کش ہو گیا ہے بلکہ اسے چاہیے کہ وہ اپنے مقرر کردہ عمل داروں‘ افسروں اور کارندوں کو مہذب اور شائستہ بنائے اور ظلم کرنے کی اجازت نہ دے کیونکہ ان کے اعمال کی بھی پرسش اس سے کی جائے گی۔
حضرت عمرؓ نے اپنے عامل حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کو ایک مکتوب میں لکھا کہ ’’انتہائی نیک بخت عمل دار وہی ہے جو رعایا کے ساتھ نیک بختی کا مظاہرہ کرے اور رعایا اسے نیک بخت کہے‘ اور بدبخت ترین عامل وہ ہے کہ رعایا جس کے ساتھ بدبخت ہو۔ خبردار! کبھی بھول کر بھی بے جا فراخ دلی سے کام نہ لینا۔ کیونکہ تیرے ماتحت افسر بھی ویسا ہی رویہ اختیار کریں گے‘‘۔
آفتابِ عدل کا ظہور پہلے تو حاکم عادل کے اپنے سینے میں ہوتاہے اور پھراس کا نوراس کے اہل خانہ اور خواص میں سرایت کرتا ہے۔ تب اس کی شعاعیں عام رعایا تک پہنچتی ہیں اور جو شخص آفتاب کی عدم موجودگی میں شعاعِ آفتاب کا اُمیدوار ہو وہ ایسی چیز کا متلاشی ہے جس کا حصول ناممکن اور محال ہے۔
۱۰- تکبّر کے بجاے بردباری: والی و حاکم پر تکبّر کا غلبہ ہرگز نہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ تکبّرہی آدمی کو غصّے سے مغلوب کر دیتا ہے اور انتقام کی طرف بلاتا ہے اور غصّہ عقل کا دشمن ہوتا ہے۔
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ جن لوگوں نے بردباری کو شیوہ بنایا انھوں نے انبیا‘ اولیا اور صالحین کی سی ناموری حاصل کی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہوئے۔ اس کے برعکس جس نے غیظ وغضب کو اپنا شعار بنایا اسے دنیا نے ہمیشہ درندہ صفت احمقوں کے زمرے میں شمار کیا۔
مشہور واقعہ ہے کہ ایک شخص کی پہلوانی کا ذکر کرتے ہوئے لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ یارسولؐ اللہ! فلاں آدمی زبردست طاقت و قوت کا مالک ہے اور اس کی مردانگی کا جواب نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کیسے؟ عرض کیا کہ جس سے بھی وہ کشتی لڑتا ہے اسے چاروں شانے چت مار گراتا ہے۔ فرمایا: یہ تو کوئی خاص بات نہیں۔ کیونکہ قوت ومردانگی تو یہ ہے کہ انسان اپنے غصّے پر غالب آجائے نہ یہ کہ کسی کو مار گرائے--- اور فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں کہ جسے میسّرآجائیں اس کا ایمان مکمل ہو جاتا ہے۔ ایک یہ کہ غصّہ آنے پر بھی باطل کا قصد نہ کرے۔ دوم یہ کہ خوشی و مسّرت میں بھی خدا کو نہ بھولے۔ سوم یہ کہ قدرت رکھنے کے باوجود اپنے حق سے زیادہ نہ لے۔
ایک مقام پر ہے کہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: مجھے کوئی ایسا کام بتا دیجیے کہ اس کی بدولت جنت میں داخل ہو جائوں۔ فرمایا: ’’غصّہ چھوڑ دو تو جنت تمھاری ہے‘‘۔
یہ تمام احادیث ‘ حکایات اور اقوال حکمرانوں کی اصلاح کے لیے کافی ہیں بشرطیکہ ایمان کا ایک شمّہ بھی ان کے دل میں باقی ہو۔
ترجمہ: محمد ظہیر الدین بھٹی
مسلمانوں پر جب بھی کوئی مصیبت پیش آتی ہے‘ وہ تنگی اور کرب محسوس کرتے ہیں‘ آزمایشوں اور حوادث کا شکار ہوتے ہیںتو بعض لوگ پریشان ہو کر مایوسی و ناامیدی کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ناامیدی اور بے قراری کا جواب‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں ہے: ’’اللہ نے میرے لیے زمین کو سمیٹ دیا تو میں نے اس کے مشرقوں اور مغربوں کو دیکھا‘ میری اُمت کا قبضہ زمین کے ان تمام حصوں پر ہوگا جو مجھے سمیٹ کر دکھائے گئے‘‘۔ (مسلم و احمد)
مصائب و آلام کے وقت اہل ایمان کا رویہ کیا ہونا چاہیے‘ اسے اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کیا ہے: وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ لا قَالُوْا ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَصَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَمَا زَادَھُمْ اِلاَّ ٓاِیْمَانًا وَّتَسْلِیْمًا o (الاحزاب ۳۳:۲۲) ’’اور سچے مومنوں (کا حال اس وقت یہ تھا کہ) جب انھوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا توپکار اٹھے کہ ’’یہ وہی چیز ہے جس کااللہ اور اس کے رسولؐ نے ہم سے وعدہ کیا تھا‘ اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات بالکل سچی تھی‘‘۔ اس واقعے نے ان کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا‘‘۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرمایا: اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِیْمَانًا ق وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۷۳) ’’جن سے لوگوں نے کہا کہ ’’تمھارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں‘ اُن سے ڈرو‘‘، تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انھوں نے جواب دیا کہ ’’ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے‘‘۔
آج مسلمان ہر طرف سے طوفانوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ مغرب نے مسلمانوں کے خلاف اپنی سازش اور حقیقی چہرے کو بے نقاب اور اپنی عداوت و فریب کاری کو نمایاںکر دیا ہے‘ مگر اس سب کے باوجود عظیم دین اسلام‘ اپنے آپ کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے گا۔ وہ ہر زمانے اور ہر نسل کے لیے ہدایت و رحمت‘ عدل و انصاف اور عفو و درگزر جیسی اپنی لازوال اقدار پیش کرتا رہے گا۔ وہ پوری دنیا کے لیے اپنے عظیم تمدن اور اپنی بے مثال تہذیب کی روشنی پھیلاتا رہے گا۔ جب بھی راستہ بے نور ہوگا‘ تاریکیاں بڑھیں گی اور کچھ لوگ یہ سمجھ کر کہ سائنسی و مادی ترقی نے انھیں اتنا طاقت ور بنا دیا ہے کہ وہ نورخدا کو اپنی پھونکوں سے بجھا سکتے ہیں‘ اپنی بڑائی کے نعرے بلند کرنے لگیں گے تو آفتاب اسلام کی درخشندہ کرنیں‘ انھیں یہ باور کرنے پر مجبور کر دیں گی کہ وہ تو ناکام و نامراد ہیں‘ خائب و خاسر ہیں۔ انھی تاریکیوں کے باطن‘ انھی اندھیروں کے اندر اور انھی حوادث و واقعات کے بیچ سے اسلام اپنی اصلیت ‘ گہرائی‘ گیرائی اور جوہر کے ساتھ یک دم اُبھرے گا۔ حق تعالیٰ اپنے اس دائمی پیغام کے نور کو ظاہر کریں گے تاکہ بشریت ہدایت پائے اور انسانیت جادۂ حق و صواب پر گامزن ہو۔ اسلام لوگوں کو تاریکیوںسے نکال کر روشنی میں پہنچا دے گا‘ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ لا(تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کر دے۔ التوبہ ۹:۳۳)‘ اور تمھاری طرف یہ کتاب بھیجی جو مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَمُھَیْمِنًا عَلَیْہِ (الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے ۔المائدہ ۵:۴۸)۔
اخوان المسلمون کی دعوت کے عمدہ طریقوں اور پسندیدہ عادات میں سے جس کے اب وہ عادی بن چکے ہیں اور نرمی و سختی‘ تنگی و خوش حالی کے ہر قسم کے حالات میں اسے ملحوظ رکھتے ہیں--- یہ ہے کہ وہ اپنے پروردگار کی طرف متوجہ رہتے ہیں‘ اسی کی طرف رخ کرتے ہیں‘ اسی سے لو لگاتے ہیں‘ اسی کی چوکھٹ پر حاضری دیتے ہیں اور پورے خشوع و خضوع کے ساتھ اس کے حضور وہی دُعا کرتے ہیں جو اُس نے اپنے رسول کریمؐ اور ہر مومن کو صبح و شام کرنے کی تلقین کی ہے: قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ ط بِیَدِکَ الْخَیْرُ ط اِنَّک عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ o (آل عمران۳:۲۶) ’’کہو! خدایا‘ ملک کے مالک ‘تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے۔ جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کر دے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہرچیز پر قادر ہے‘‘--- یہ دعا الوہیت واحدہ کی حقیقت کا اقرارہے۔ اس جہان کے نظم واحد کا اعتراف ہے۔ یہ دعا حیات بشری کی اصلیت کو نمایاںکرتی ہے۔ ایک پناہ اور مضبوط سہارا ہے۔ اس میں مالک الملک خداے بزرگ و برتر کی طرف رجوع ہے۔ عزت بخشنے والے‘ ذلت دینے والے‘ زندگی اور موت کے مالک‘ عطا کرنے اور محروم کر دینے والے‘ کائنات اور بندوں کے امور و معاملات کی تدبیر کرنے والے‘ عدل و خیر اور فضل و رحمت عطا فرمانے والے کے حضور‘ اپنے دل و دماغ کو جھکا دینے کا عمل ہے۔
حق و باطل کے تصادم میں شیطان کے پجاری‘ اغراض کے بندے اور مادہ پرستی میں اندھے قہروعدوان‘ ظلم و تعذیب‘ قتل و تخریب اور تباہی و بربادی کے ذریعے‘ آزادیوں کو کچل دینا چاہتے ہیں۔ وہ توپ و تفنگ کی زبان میں مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ پورے کرئہ ارض پر‘ اُمت اسلامیہ کے سوا‘ کوئی اور ایسی قوم نہیں پائی جاتی جس کے خلاف اتنا کچھ مکر و فریب‘ کینہ و بغض اور حیلہ و سازش سے کیا جاتا ہو۔ پوری دُنیا کے لوگ مسلمانوں کے خلاف لڑائی پر متفق اور ان کی تباہی و بربادی پر متحد ہیں۔ پھر بھی کہتے ہیں کہ مسلمان متشدد ہیں‘ بنیادپرست ہیں‘ انتہا پسند ہیں اور دہشت گرد ہیں۔ وَاللّٰہُ یَشْھَدُ اِنَّھُمْ لَکٰذِبُوْنَ o (التوبہ ۹:۱۰۷) ’’مگر اللہ گواہ ہے کہ وہ قطعی جھوٹے ہیں‘‘۔
آج مغرب اس بات کی بھرپور کوشش کر رہا ہے کہ وہ اپنے استعماری منصوبوں کو پوری دُنیا پر مسلط کر دے‘ خاص طور پر دنیاے عرب اور عالم اسلام پر۔ وہ مسلمانوں کے تشخص کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ وہ ان کا گھیرائو کر کے‘ انھیں بالکل نیست و نابود کرنے کا مصمم منصوبہ بنائے ہوئے ہے۔ وہ یہ سب کچھ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘کے نام سے کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ وہ اپنے اس ناپاک منصوبے کو خوش نما اصطلاحات میں پیش کرتا ہے تاکہ ہماری قوم کے نادانوں میں سے اکثر کو دھوکا دے اور انھیں اپنا ہم نوا بنا سکے۔ چنانچہ مغرب جس کی قیادت امریکہ کر رہا ہے عالمیت‘بھائی چارہ‘ انسانیت اور ’’دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں عالمی تعاون‘‘ جیسی تراکیب استعمال کرتا ہے۔
سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن اپنی ایک کتاب میں دینی لہر کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’البتہ تیسری لہر ایک خوف ناک اور خطرناک امکان ہے۔ یہ ہیں بنیاد پرست لوگ جو ماضی سے مربوط رہتے ہیں مگر وہ ماضی میں رہتے نہیں بلکہ ان کی نگاہیں مستقبل پر لگی رہتی ہیں۔ یہ قدامت پرست نہیں بلکہ انقلابی ہیں۔ یہ دین و مملکت دونوں لحاظ سے اسلام چاہتے ہیں۔ یہ اسلامی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ ازسرنو اسلامی تہذیب پھیلانا چاہتے ہیں‘‘۔ اس کے بعد نکسن نے نیٹو کو اس لہر کا مقابلہ کرنے کی دعوت دی ہے۔
اسلام سے فکری طور پر خوف زدہ یہ لوگ‘ عالم اسلام کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں تاکہ اس کے جغرافیائی محل وقوع‘ اس کے اقتصادی خزانوں اور معدنی خزینوں پر قبضہ کر سکیں۔
بلاشبہہ پوری دنیا حق کے خلاف ہے‘ اُمت اسلامیہ کے خلاف ہے مگر اللہ ہر بڑے سے بڑا ہے۔ وہ قہار و جبار ہے۔ حق و باطل کی آویزش بہت پرانی ہے۔ اللہ کے مقدس رسولوں نے حق کی سربلندی کی طویل تاریخ رقم کی ہے۔ انسانیت جب بھی اللہ کے سیدھے راستے سے بھٹکنے لگی‘ سچے دین سے منحرف ہونے لگی تو اللہ کے رسولوں نے‘ اسے شیطان کے چنگل سے نکال کر تباہی و بربادی کے جہنم میں گرنے سے بچا لیا۔ حق و باطل کے اس ٹکرائو میں انبیا و رسل نے پرچم حق کو سربلند رکھا۔ نوح و ہود‘ صالح و ابراہیم‘ لوط و شعیب‘ موسٰی و عیسٰی اور حضرت محمد صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین نے‘ تذکیر و انذارکا فریضہ پورا کیا اور یوں انسانیت کو بربادی سے بچا لیا۔ ہر مرحلے پر اہل ایمان نے نجات پائی اور باطل پرستوں کو شکست ہوئی۔ تمام رسولوں نے اپنی اپنی قوم کو ایک ہی چیز کی طرف بلایا: یٰقَوْمِ اعْبُدُواللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط (الاعراف ۷:۵۹) ’’اے برادرانِ قوم‘ اللہ کی بندگی کرو‘ اس کے سوا تمھارا کوئی خدا نہیں ہے‘‘۔ اس میں شک نہیں کہ پیغمبروں کو استکبار‘ دھمکیوں اور مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِرُسُلِھِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِّنْ اَرْضِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا ط (ابراھیم ۱۴:۱۳) ’’آخرکار منکرین نے اپنے رسولوں سے کہہ دیا کہ ’’یا توتمھیں ہماری ملّت میں واپس آنا ہوگا ورنہ ہم تمھیں اپنے ملک سے نکال دیں گے‘‘۔
اسلام کو چھوڑ کر‘ اپنے سابقہ مذہب کو پھر اختیار کر لینا‘ اسلام کے مزاج کے بالکل خلاف اور ناپسندیدہ ہے۔ پیغمبر ہمیشہ اس سے سختی سے بیزاری ظاہر کرتے رہے ہیں۔ کسی مسلمان کے لیے یہ مناسب بھی نہیں کہ وہ اپنے عقیدے کو چھوڑ دے۔ نجات پانے کے بعد وہ ہلاکت کی طرف کیسے جائے؟ فَاَوْحٰٓی اِلَیْھِمْ رَبُّھُمْ لَنُھْلِکَنَّ الظّٰلِمِیْنَ o (ابراھیم ۱۴:۱۳) ’’تب ان کے رب نے ان پر وحی بھیجی کہ ’’ہم ان ظالموں کو ہلاک کر دیں گے‘‘۔ قومِ عاد نے بھی اپنی سرکشی کی وجہ سے ذلّت و رسوائی کے عذاب کا مزہ چکھا۔ قومِ ثمود کے بارے میں ارشاد ہوا: ’’رہے ثمود‘ تو ان کے سامنے ہم نے راہِ راست پیش کی‘مگر انھوں نے راستہ دیکھنے کے بجائے اندھا بنا رہنا ہی پسند کیا۔ آخر ان کے کرتوتوں کی بدولت ذلّت کا عذاب ان پر ٹوٹ پڑا اور ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو ایمان لائے تھے اور گم راہی و بدعملی سے پرہیز کرتے تھے‘‘ (حم السجدہ ۴۱:۱۷)۔ دیکھیے سیدنا موسٰی ؑ و فرعون کو اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں مگر وہ تکبر و سرکشی کرتا رہا‘ پھر نتیجہ کیا ہوا؟ فَاَخَذَہُ اللّٰہُ نَکَالَ الْاٰخِرَۃِ وَالْاُوْلٰی o (النازعات ۷۹:۲۵) ’’آخرکار اللہ نے اسے آخرت اور دنیا کے عذاب میں پکڑ لیا‘‘۔
اسلام ہمیشہ سربلند رہے گا ‘ یہ سربلند رہنے کے لیے ہی دُنیا میں آیا ہے۔ اسلام کو اگر ختم ہونا تھا‘ تو اس دن ختم ہو جاتا‘ جب آنحضرتؐ نے اپنے رفیق کے ساتھ ہجرت کرتے ہوئے غارِثور میں پناہ لی تھی اور مشرکوں نے غار کا گھیرائو کر رکھا تھا۔ ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا: اگر کسی شخص نے اپنے پائوں کی طرف دیکھا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا۔ اس خدشے کا جواب انھیں ان الفاظ میں ملا تھا: ما ظنک باثنین اللّٰہ ثالثھا؟ لاتخزن اِنَّ اللّٰہ مَعَنَا‘ تیرا اُن دو شخصوں کے بارے میں کیاخیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہو؟ غم نہ کر‘ اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔
اسلام کو اگر ختم ہونا ہوتا تو اس دن ختم ہو جاتا جب عرب دین اسلام سے برگشتہ ہوگئے تھے۔ ارتداد کی تحریک نے زور پکڑ لیا تھا۔ مدعیانِ نبوت اور کذاب دندنا رہے تھے۔ مسلیمہ‘ اسود عنسی اور سجاح اپنے اپنے پیروکاروں کے ساتھ سرزمین عرب پر ہر طرف چھا چکے تھے۔ مسلمانوں کی اس حالت زار کو سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے کیسی بلاغت کے ساتھ بیان کیا ہے: ’’مسلمان اس وقت بھیڑ بکریوں کے اس ریوڑ کی مانند تھے جو موسم سرما کی بارش والی رات میں کھلے آسمان تلے ہو۔ آنحضرتؐ اپنے رب کے حضور پہنچ چکے تھے‘ مسلمانوں کی تعداد کم اور ان کے دشمنوں کی تعداد زیادہ تھی۔ ان حالات میں ایک نرم دل‘ خشیت الٰہی سے کثرت سے گریہ و بکا کرنے والا شخص اُٹھا اور ایک مضبوط چٹان کی مانند حق پر ڈٹ گیا۔ یہ شخص ابوبکر صدیقؓ تھا جس نے حضرت عمرؓ جیسے مرد جری سے بآوازِ بلند کہا تھا: ’’کیا جاہلیت میں زبردست آدمی‘ اسلام میں آکر اس قدر کمزور ہو گیا ہے۔ میں تو آپ سے مدد و نصرت کی اُمید کر رہا ہوں اور آپ مجھے رسوا کرنے کے لیے‘ میرے پاس آئے ہیں۔ اللہ کی قسم! یہ لوگ اگر مجھ سے ایک رسّی بھی روکیں گے جو وہ رسولؐ اللہ کو دیا کرتے تھے‘ تو میں اس پر ان کے خلاف لڑائی کروں گا۔ جب تک میرا ہاتھ تلوار کے قبضہ پر ہے‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ نے باطل کے خلاف جہاد کیا‘ اللہ کے لشکر نے سرکشوں کی مزاحمت کچل کے رکھ دی۔ مرتدوں نے شکست کھائی‘ منحرف و بے راہ لوگ ازسرنو‘ اسلام میں داخل ہو گئے۔
اسلام کو اگر ختم ہونا ہوتا تو اس دن ختم ہو جاتا جب تاتاریوں نے عالم اسلام کو اپنی وحشت و درندگی سے روند ڈالا تھا۔ انھوں نے شہروں اور آبادیوں کو تباہ کر دیا اور خون کی ندیاں بہا دیں۔ اسلام کا اعجاز سامنے آیا۔ کعبہ کو صنم خانوں سے پاسبان مل گئے۔ فاتح تاتاریوں کے دل اسلام کے لیے کھل گئے۔ فاتح نے مفتوح کے دین کو اپنا لیا۔ غالب نے مغلوب کے عقیدے میں پناہ لی۔ کیا یہ اللہ کی نشانیوںمیں سے ایک نشانی نہیں ہے؟
دین اسلام کو اگر ختم ہونا ہوتا تو اس روز ختم ہو جاتا جس دن صلیبیوں نے بیت المقدس کے تقدس و احترام کو گھوڑوں کے سموں تلے روند ڈالا تھا۔ ان کے گھوڑے مسلمانوں کے خون میں دوڑ رہے تھے۔ اسلام ختم نہ ہوا‘ اللہ تعالیٰ نے سلطان صلاح الدین ایوبی ؒکی شکل میں‘ اپنی نصرت و مدد بھیجی۔ سلطان نے مسلمانوں کو متحد کیا۔ صلیبیوں کو عالم اسلام سے نکال باہر کیا اور بیت المقدس کو گناہوں اور جرائم پیشہ صلیبی فوج کے قبضے سے نکال کر پاک صاف کر دیا۔
ہم موجودہ عالمی حالات سے خوف زدہ نہیں ہیں۔ ہم برملایہ کہہ دینا چاہتے ہیں کہ ظلم اور ظالموں‘ تکبر اور متکبروں‘ باغیوں اور سرکشوں کا انجام ہلاکت و بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارا یہ اٹل عقیدہ اور محکم ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیا‘ اور اپنی جماعت کی مدد پر قادر ہے۔ وہ اپنے فرماں بردار بندوں پر‘ اپنی کتاب کے داعیوں اور اپنے رسول کے حامیوں کی‘ جن وسائل و ذرائع سے چاہے نصرت و اعانت کر سکتا ہے‘ خواہ ہمیں ان ذرائع و وسائل کا علم ہو یا نہ ہو۔ ارشاد الٰہی ہے: اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَکَانُوْآ اَشَدَّ مِنْھُمْ قُوَّۃً ط وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعْجِزَہٗ مِنْ شَیْ ئٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلاَ فِی الْاَرْضِ ط اِنَّہٗ کَانَ عَلِیْمًا قَدِیْرًا o (فاطر ۳۵:۴۴) ’’کیا یہ لوگ زمین میں کبھی چلے پھرے نہیں ہیں کہ انھیں ان لوگوں کا انجام نظر آتا جو اُن سے پہلے گزر چکے ہیں اور ان سے بہت زیادہ طاقت ور تھے؟ اللہ کو کوئی چیز عاجز کرنے والی نہیں ہے‘ نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں۔ وہ سب کچھ جانتا ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے‘‘۔
ہم یہودیوں سے کہتے ہیں:جرائم سے بھرپور اپنی تاریخ کا مطالعہ کرو‘ بغض و کینہ اور حسد و نفرت سے مملو اپنے ماضی پر نظر ڈالو‘ اور مسلمانوں کی خون ریزی سے باز آجائو۔ فطرت کا کوڑا‘ اب تمھارے خلاف حرکت میں آنے والا ہے۔ مسلمانوں کا خون بڑا قیمتی ہے۔ اپنے انجامِ بد پر غور کر لو‘ باطل کو تو مٹ کر ہی رہنا ہے۔ اللہ کی سنت یہ ہے کہ سرکش ہمیشہ طاقت ور نہیں رہا کرتے۔ دُنیا میں دائمی غلبہ کسی کے لیے نہیں۔ غلبہ و اقتدار بدلتا رہتا ہے۔ مگر یہودیو! اس حقیقت کو ہمیشہ مدنظر رکھو کہ اچھا انجام متقیوں کا ہی ہوتا ہے۔ یہ اللہ کا نافذ کردہ فیصلہ ہے۔ اللہ نے مومنوں سے مدد کا جو وعدہ کررکھا ہے وہ کبھی اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ اللہ اہل ایمان کا دفاع کرتا ہے۔ اللہ نے باعمل مجاہد مومنوں سے تمکن و غلبہ کا وعدہ کر رکھا ہے۔ ارشاد حق ہے: ’’اللہ نے وعدہ فرمایاہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے‘ اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے‘ اور اُن کی (موجودہ) حالت ِ خوف کو امن سے بدل دے گا‘ بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔ نماز قائم کرو‘ زکوٰۃ دو اور رسولؐ کی اطاعت کرو‘ اُمید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔ جو لوگ کفر کر رہے ہیں ان کے متعلق اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ وہ زمین میں اللہ کو عاجز کر دیں گے ۔ ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بڑا ہی برا ٹھکانا ہے‘‘۔ (النور۲۴:۵۵)
مسلمانوں کو ان حالات میں گھبرانا نہیں چاہیے۔ انھیں چاہیے کہ وہ اللہ کی نصرت اور اس کے وعدے پر مکمل یقین رکھیں۔ اسلام سے اپنی نسبت پر فخر کریں۔ عوام کو ان کے حقوق دیں۔ انھیں اپنی رائے کے اظہار کے مواقع فراہم کریں۔
اُمت اسلامیہ کی حالت کسی سے مخفی نہیں۔ مسلمانوں کا اتحاد پارہ پارہ ہو چکا ہے۔ ان کی وحدت ختم ہو چکی ہے۔ ان کے ملکوں اور زمینوں پر غیروں کی نظریں گڑی ہیں۔ یہودیوں اور صلیبیوں کی سازشیں بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اخلاقی انحطاط اور بے راہ روی نے تمام حدیں توڑ دی ہیں۔ بے پردگی‘ عریانی اور فحاشی عام ہو چکی ہے۔ مرد و زن کا آزادانہ اختلاط ایک فیشن بن چکا ہے۔
اے اہل اسلام! یہ سب باتیں تم سے چھپی ہوئی نہیں لہٰذا اپنی اس ذمہ داری کا خیال کرو جو تمھارے پروردگار نے تم پر ڈالی ہے۔ مظلوم کی مدد کرو‘ ظالم کا ہاتھ پکڑو۔ اُمت کی پراگندگی کو اتحاد میں بدل ڈالو۔ اس کی صفوں کو متحد کرو۔ یہ نصرت‘ فتح‘ عزت اور غلبے کا راستہ ہے۔ جہاد کے لیے کمربستہ رہو۔ مجاہدین کا ساتھ دو‘ ان کی مدد کرو۔ مظلوموں‘ مقہوروں اور مغلوبوں کی مدد کے لیے ہر وقت آمادہ رہو۔ یہ ہے غلبہ و استحکام کا راستہ اور فلاح و کامیابی کا راستہ۔ وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَاَہٗ بَعْدَ حِیْنٍ o (ص ۳۸:۸۸) ’’اور تھوڑی مدت ہی گزرے گی کہ تمھیں اس کا حال خود معلوم ہو جائے گا‘‘۔ فَسَتَذْکُرُوْنَ مَآ اَقُوْلُ لَکُمْ ط وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِلَی اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌ م بِالْعِبَادِ o (المومن ۴۰:۴۴) ’’آج جو کچھ میں کہہ رہا ہوں‘ عنقریب وہ وقت آئے گا جب تم اسے یاد کرو گے۔ اور اپنا معاملہ میں اللہ کے سپرد کرتا ہوں‘ وہ اپنے بندوں کا نگہبان ہے‘‘۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے دولت اور آمدنی کو اللہ کا فضل قرار دیا ہے:
فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o (الجمعہ ۶۲: ۱۰)
پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو تاکہ تمھیں فلاح نصیب ہو جائے۔
سورہ مزمل کی بیسویں آیت میں بھی یہی عبارت اِبْتَغَائَ فَضْلِ اللّٰہِ آئی ہے۔ حدیث میں آیا ہے:
حلال کمائی کی کوشش فرض (نماز) کے بعد ایک فریضہ ہے۔ (مشکوٰۃ ‘ کتاب البیوع ‘ باب الکسب وطلب الحلال بحوالہ بیہقی فی شعب الایمان)
اور امام بخاری نے اپنی کتاب الادب المفردمیں یہ حدیث نقل کی ہے:
نیک آدمی کے لیے پاک مال کیا خوب چیز ہے۔ (بخاری‘ الادب المفرد‘ ص ۴۵-۴۶ ‘ المطبعۃ التازیہ‘ مصر ۱۳۴۹ھ)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ادایہ دعا بھی روایت کی ہے:
اللھم انی اعوذبک من الفقر والقلۃ والذلۃ
الٰہی! میں تیری پناہ چاہتا ہوں غربت‘ تنگ دستی اور ذلت (و خواری) سے۔ (بخاری‘ الادب المفرد‘ ص ۹۹‘ المطبعۃ التازیہ‘ مص ۱۳۴۹ھ)
اس حدیث سے واضح ہے کہ غربت کی زندگی‘ احتیاج کی زندگی‘ وقار کی زندگی نہیں ہوتی بلکہ ذلت کی طرف لے جاتی ہے‘ نیز آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ: ’’کبھی غربت کفر تک پہنچا دیتی ہے‘‘۔
ابن ماجہ نے تجارت کے بارے میں یہ حدیث روایت کی ہے:
سچا‘ امانت دار مسلمان تاجر قیامت کے دن شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔ (بیہقی‘ شعب الایمان)
مزید روایات نقل کیے بغیر‘ عام طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ حسن نیت کے ساتھ اسلامی آداب و اخلاق کی پابندی کرتے ہوئے ہر طرح کی معاشی تگ و دو کی قدر کی گئی ہے اور اس کی ہمت افزائی فرمائی گئی ہے۔
جہاں تک فقہ اسلامی کا تعلق ہے‘ اس سے تفصیلی استشہاد کے لیے تو یہ مقالہ کافی نہیں ہوگا‘ صرف اس اصول کا ذکر کافی ہوگا کہ
جس کے بغیر کوئی فریضہ مکمل نہ ہو تو وہ چیز بھی واجب ہے۔(ابن ماجہ‘ ابواب التجارات‘ باب الحث علی المکاسب)
اس اصول کی روشنی میں اس آیت کریمہ کے تقاضے پر بھی غور کرنا چاہیے جس میں مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ دشمنان اسلام کے مقابلے کی ہر طرح سے تیاری کریں۔ ظاہر ہے کہ دور جدید میں دفاعی اور جنگی تیاری ایک مضبوط معاشی بنیاد چاہتی ہے۔
وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّا اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ ج لاَ تَعْلَمُوْنَھُمْ ج اللّٰہُ یَعْلَمُھُمْ ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْ ئٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لاَ تُظْلَمُوْنَ o (الانفال ۸:۶۰)
اور تم لوگ‘ جہاں تک تمھارا بس چلے‘ زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعدا کو خوف زدہ کر دو جنھیں تم نہیںجانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے‘ اس کا پورا پورا بدل تمھاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمھارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہوگا۔
آیات ‘احادیث اور فقہ کی مذکورہ بالا دلیلوں کے پہلو بہ پہلو ہمارے پاس سنت نبویؐ اور عہد خلافت راشدہ کے قولی نظائر موجود ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ معاشی تدابیر کی طرف پوری توجہ دی گئی اور معاشی وسائل فراہم کرنے میں کسی طرح کی جھجک کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔
نبی کریمؐ جب نبوت کے تیرھویں سال مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو بڑی تعداد میں آپؐ کے دوسرے ساتھی بھی مدینہ آگئے۔ رہنے کے لیے گھر تو ان میں سے کسی کے پاس نہ تھا‘ اکثر کے پاس ایک وقت کے کھانے کا بھی کوئی انتظام نہ تھاکیونکہ وہ اپنے مال و اسباب ساتھ نہ لا سکے تھے۔ اس ہنگامی صورت حال سے نبردآزما ہونے کے لیے نبی اکرمؐ نے ہر مہاجر کو مدینہ میں رہنے والے کسی باشندے کا بھائی بنا کر اس کے ساتھ ٹھہرا دیا۔ اس طرح انصار اور مہاجرین کا بھائی چارہ‘ ’’مواخاۃ‘‘ وجود میں آیا۔ مگر مہاجرین نے اپنے انصاری بھائیوں پر بار بننا گوارا نہ کیا اور بعض حضرات نے تو ایک دن کی تاخیر کے بغیر بازار کا راستہ پوچھا اور اپنی روزی خود کمانے کے راستے تلاش کرلیے۔
نبی کریمؐ کی ہجرت سے پہلے آپؐ کے ایما پر بعض مسلمانوں نے حبشہ کو ہجرت کی تھی۔ یہ لوگ جن کی تعداد بالآخر سو سے زیادہ ہو گئی تھی‘ نبی اکرمؐ کے مدینہ پہنچنے کے بعد رفتہ رفتہ حبشہ سے مدینہ آنے لگے مگر ایک معتدبہ تعداد اس کے بعد بھی کئی برس وہاں ٹھہری۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہاں وہ پناہ گزیں بن کر کسی کی امداد کے سہارے نہیں رہ رہے تھے بلکہ تجارت اور کسب معاش کے دوسرے طریقے اختیار کر کے اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے گئے۔
۶ہجری میں خیبر کی فتح اور اس کے بعد ہجرت کے آٹھویں سال مکہ کی فتح سے مسلمانوں کی معاشی حالت بہتر ہو گئی۔ پھر خلافت راشدہ کے ۳۰ برسوں میں تو مدینہ میں بسنے والے مسلمانوں کے ہاتھوں میں کافی دولت آئی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انھوں نے اس سے پورا فائدہ اٹھایا‘ اپنی ذاتی زندگی میں بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی۔ اجتماعی زندگی میں دولت کے استعمال کی نمایاں شکلوں میں کنویں یا زرعی زمین کو وقف علی اللہ کے طور پر سماج کے حوالے کر دینا‘ جہاد کی ضروریات کے لیے اسلحے‘ سواریاں اور نقد مال پیش کرنا اور آگے چل کر مسجدیں اور راستے میں قیام گاہیں وغیرہ پبلک عمارتوں کا تعمیر کرانا شامل ہے۔
اسلام کی ابتدائی تاریخ سے مزید استشہاد کی بجائے اب ہم اپنے اصل سوال کی طرف لوٹتے ہیں: جب قرآن و سنت میں اصولاً‘ اور عہدنبویؐ اور خلافت راشدہ کے زمانے میں عملاً معاشی عوامل کی اہمیت کماحقہ تسلیم کی جاتی تھی تو پھر بعد کے ادوار میں وہ صورت حال کیسے پیدا ہوئی جس کا اوپر ذکر آیاہے۔ کیا بات ہے کہ گذشتہ دو صدیوں میں بالعموم اور بیسویں صدی میں خاص طور پر جب مسلمان علما اور دانش وروں کو اُمت کی کمزور حالت‘ مسلمان ممالک کی خستہ حالی اور بحیثیت مجموعی اسلامی تہذیب اور مسلمانوں پر زوال کے آثار چھائے ہوئے نظر آئے اور انھوں نے اس زوال کو دوبارہ عروج سے بدلنے کے لیے تحریر‘ تقریر اور عملی جدوجہد کے ذریعے کوششیں شروع کیں تو ان تحریروں‘ تقریروں اور کوششوں میں معاشی عوامل کی کماحقہ اہمیت کا احساس نہیں ملتا۔
گذشتہ ۵۰ برسوں کی تاریخ میں ایک ایسا نمونہ سامنے آیا جس کو دیکھ کر ہر اس فرد‘ جماعت اور قوم کو سبق سیکھنا چاہیے تھا جس کو اپنے ضعف کو قوت سے‘ ذلت کو عزت سے‘ اور زوال کو عروج سے بدلنے کی فکر دامن گیر ہو۔ یہ نمونہ جاپان نے پیش کیا ہے۔ ۱۹۴۵ء میں ایٹم بم گرائے جانے کے بعد لڑائی میں ہار ماننے کے نتیجے میں اس ملک کو بڑی ذلت و خواری کے دَور سے گزرنا پڑا۔ سارے ملک کی معیشت جنگ کے بار سے تباہ تھی امریکی تسلط نے جلد پنپنے کے راستے بھی بند کرنا چاہے‘ مگر ۳۰‘ ۳۵ سال کی مختصر مدت میں جاپانی قوم نے دن رات کی محنت سے جاپان کو دُنیا میں امریکہ کے بعد دوسری زرعی معیشت کے درجے تک پہنچا دیا جس کی مسابقت سے امریکی معیشت کوپسینہ چھوٹنے لگا۔
سب جانتے ہیں کہ اس کا راز معاشی ترقی کے لیے وہ بے مثال جدوجہد ہے جس نے تعلیم گاہوں‘ کارخانوں اور ایوان ہاے تجارت میں عمل پیہم کی روح پھونک دی تھی۔ اگر ہم نے نہ اپنی تاریخ سے سبق سیکھا‘ نہ دوسروں کے تجربے سے سبق حاصل کیا تو کوئی وجہ ضرور تھی۔ اس وجہ یا ان وجوہ کی تحقیق‘ بحث طلب ہے۔ علما اور دانش وروں کو اس کے لیے وقت نکالنا چاہیے۔ یہاں مقالہ نگار اس سلسلے میں اپنی یہ رائے پیش کرنا چاہتا ہے کہ بعض تاریخی عوامل کے سبب دوسری صدی ہجری میں بعض دین داروں نے دولت کمانے‘ بچانے اور بچت کے نفع آور استعمال کو دینی سند سے محروم کر کے عامۃ المسلمین کے دلوں میں اس کی طرف سے شک پیدا کر دیا‘ چنانچہ دین داروں میں کسب مال اور تکوین ثروت اور اس کے ذریعے معاشی قوت کے حصول کا رجحان کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا گیا۔ یہی صورت حال اب بھی قائم ہے۔
مذکورہ بالا رائے کی تائید‘ طویل تاریخی استدلال کی محتاج ہے جس کا نہ تو یہ مقالہ نگار اپنے کو اہل پاتا ہے‘ نہ ایک مقالہ اس کا متحمل ہی ہو سکتا ہے۔ البتہ سوچنے کی بنیاد کے طور پر یہ ایک قابل توجہ بیان ضرور ہے۔ ذیل میں ہم اس بیان کی مزید تشریح کریں گے۔
ہم جانتے ہیں کہ تمام آسمانی مذاہب‘ بالخصوص اسلام نے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ اصل زندگی‘ موت کے بعد کی دائمی زندگی ہے‘ رہی دُنیا کی زندگی‘ تو وہ ناپایدار ہے‘ جانے کب کس کی موت آجائے۔ ایمان داری کی بات یہ ہے کہ جب فرد انسانی کو عقیدئہ حیات بعد الممات پر مکمل یقین ہو جاتا ہے تو دُنیا اور اس کی زندگی کا اس کی نظر سے گر جانا کوئی غیر متوقع بات نہیں ہے۔
چنانچہ اکثر مذاہب میں جلد یا بدیر ترک دُنیا کا رجحان قوت پکڑ گیا۔ اس کی سب سے بڑی مثال عیسائیت کی تاریخ پیش کرتی ہے۔ مگر اسلام نے یہ جتلا کر انسان کو اس فکری غلطی سے بچایا کہ آخرت کی فلاح کا انحصار اسی دُنیا کی زندگی میں انسان کے عمل و کردار پر ہے۔
اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمًلاً ط (الملک ۶۷: ۲)
جس نے موت اور زندگی بنائی تاکہ تم کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔
دُنیا کو امتحان گاہ قرار دیتے ہی اس کی اہمیت آسمان پر پہنچ گئی۔ یہ درست ہے کہ حیات بعد الموت ابدی ہے‘ اور حیات دُنیا عارضی مگر اسی عارضی زندگی کو اللہ کی مرضی کے مطابق گزار کر آخرت کی فلاح حاصل کی جا سکتی ہے‘ اس مقصد تک پہنچنے کا کوئی دوسرا مختصر راستہ (shortcut)نہیں ہے جو دُنیا کی زندگی سے کترا کر گزر جاتا ہو۔ چونکہ عیسائی علما اور عبادت گزار اس غلط روش میں مبتلا ہو چکے تھے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں بات کو بالکل واضح کر دیا:
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰھِیْمَ وَجَعَلْنَا فِی ذُرِّیَّتِھِمَا النُّبُوَّۃَ …… وَکَثِیْرٌ مِّنْھُمْ فٰسِقُوْنَ o (الحدید ۵۷: ۲۶-۲۷)
ہم نے نوح ؑاور ابراہیم ؑکو بھیجا اور ان دونوں کی نسل میں نبوت اور کتاب رکھ دی۔ پھر ان کی اولاد میں سے کسی نے ہدایت اختیار کی اور بہت سے فاسق ہو گئے۔ ان کے بعد ہم نے پے درپے اپنے رسول بھیجے اور ان سب کے بعد عیسٰی ابن مریمؑ کو مبعوث کیا اور اس کو انجیل عطا کی‘ اور جن لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ان کے دلوں میں ہم نے ترس اور رحم ڈال دیا‘ اور رہبانیت انھوں نے خود ایجاد کرلی‘ ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا‘ (ہم نے تو ان پر) صرف اللہ کی مرضی چاہنا فرض کیا تھا۔ چنانچہ وہ رہبانیت کی پابندی کا حق نہیں ادا کرسکے۔ ان میں سے جو لوگ ایمان والے تھے ان کا اجر ہم نے انھیں ادا کر دیا مگر ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں۔(۱)
کتنی واضح بات ہے! امتحان اس میں ہے کہ تمام کارہاے دُنیا خدا کی مرضی کے مطابق خدا کی مرضی کی طلب گاری میں انجام دیے جائیں۔ اللہ نے انسان پر یہی ذمہ داری ڈالی تھی لیکن بعض لوگوں نے اپنی دانست میں آگے بڑھ کر ترک دُنیا کا نسخہ اختیار کر لیا مگر یہ طریقہ انسانی فطرت سے ہم آہنگ نہ تھا۔چنانچہ عام طور پر لوگ اسے برت نہ کر سکے بلکہ بھٹک کر فسق و فجور میں مبتلا ہو گئے۔ ترک دُنیا یا رہبانیت کواسلام نے ردّ کر دیا ہے‘ مسلمانوں کو اس سے دُور رہنا چاہیے اور عیسائیوں نے اس راہ پر چل کر جو پایا‘ جو کھویا‘ اس سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔
خلافت راشدہ کے بعدحکمرانوں کے طریقے بدل گئے‘ ان کا رہن سہن‘ ان کے ارد گرد پائے جانے والے لوگ‘ ان کے مقرر کردہ افسران … ان سب سے دین دار مسلمانوں میں عام طور پر‘ اور علما و مشائخ میں خاص طور پر یک گونہ بیزاری پیدا ہو گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ روایت پختہ ہوتی گئی۔دین دار لوگ‘ علما اور بزرگان ملت نہ صرف دربار سے کنارہ کش رہے بلکہ جو لوگ کسی بھی درجے میں امور حکمرانی اور انتظام و انصرام مملکت سے وابستہ رہے‘ ان کو بھی ہدف تنقید بناتے رہے اور ان کی سرگرمیوں کو بھی۔ ظن غالب ہے کہ ابتدا میں ان کا منشا یہ رہا ہوگا کہ لوگ کاروبار دُنیا میں اسلامی حدود کے پابند رہیں اور بنوامیہ اور بنوعباس کے ان حکمرانوں کے طریقے پر نہ چلیں جنھوں نے شریعت کی بیشتر حدود پامال کر رکھی تھیں اور جن کی عملی زندگی ‘ اسلامی اخلاق و آداب سے بہت دُور تھی جس کے نتیجے میں ایک ایسی ذہنی فضا بننے لگی جس میں عام طور پر یہ سمجھا جانے لگا کہ امور دُنیا میں زیادہ انہماک اخلاص اور تقویٰ کے اعلیٰ ترین معیاروں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں۔
قیاس یہی ہے کہ ایسی فضا بننے میں عجمی تصوف کے اثرات کو بھی دخل رہا ہوگا جس کے علم بردار صرف عیسائی علما اور راہب نہیں تھے بلکہ جس کے بعض علم بردار ایران اور ہندستان سے بھی بغداد (دارالخلافہ خلافت عباسیہ ۱۳۴ھ-۶۵۸ھ/۷۵۱ء-۱۲۵۸ء) پہنچنے لگے تھے۔ چنانچہ اسلامی تصوف کی سب سے اونچی شخصیت‘ حضرت حسن بصری (م ۱۱۰ھ/۷۲۸ء) کے شاگردوں کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ وہ عیسائیوں کے لٹریچر کا مطالعہ کرتے تھے۔ ان کے دینی مراکز پر جاتے تھے اور ان کے علما و اکابر سے ان کی بات چیت اور ملاقات رہتی تھی۔ ان بزرگوں میں مالک بن دینار (م ۱۳۱ھ/۷۴۷ء) کی شخصیت سب سے نمایاں تھی اور ان ہی کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ تجرد کی زندگی اختیار کرنے کی دعوت دیتے تھے اور ان پر زہد و تقشف کا غلبہ تھا۔(۲)
یہ باب بہت طویل ہو سکتا ہے‘ اسے آیندہ آنے والے محققین کے لیے چھوڑتے ہوئے ہم اب ایک دوسرا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ ہم ذیل میں امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد خاص‘ امام محمد بن الحسن شیبانی کی کتاب الکسب کا قدرے تفصیلی تجزیہ کریں گے۔(۳) امام محمد کا انتقال (۱۸۹ھ/۸۰۵ء) میں ہوا ہے۔ گویا جب یہ کتاب لکھی گئی تو مالک بن دینار اور ان جیسے دوسرے بزرگ بھی اُسی شہر‘ بغداد میں موجود تھے‘ جیساکہ ذیل کے تعارف سے واضح ہوگا۔ اس کتاب کی تالیف کا مقصد ہی یہ تھا کہ مسلمانوں کے درمیان اہل تصوف کے ذریعے جو غیر متوازن رویہ‘ معاشی امور کے بارے میں پھیل رہا تھا‘ اس کی روک تھام کی جائے۔
پہلے تو امام محمد نے آیات و احادیث کی روشنی میں یہ واضح کیا ہے کہ روزی کمانا ہر مسلمان پر فرض ہے(عبدالفتاح ابوغدہ‘ ص ۲۱-۲۲)۔ پھر جب انھوں نے روزی کمانے کے طریقوں پر گفتگو شروع کی توضروری سمجھا کہ یہ بھی لکھیں: ’’روکھی سوکھی زندگی گزارنے والے(عبدالفتاح ابوغدہ‘ کتاب الکسب‘ ص۷۱- ۸۰)۔ بعض جاہلوں اور اہل تصوف میں سے بعض احمقوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ روزی کمانا حرام ہے‘ صرف ضرورت پڑنے پر ایسا کیا جا سکتا ہے اور وہ بھی بقدر ضرورت جیسے کہ کوئی مردار کھائے۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ کسب سے اللہ پر توکل کی نفی ہوتی ہے یا اس میں کمی آجاتی ہے‘ جب کہ ہمیں توکل کا حکم دیا گیا ہے‘‘(عربی عبارت اھل التقشف (۳) عبدالفتاح ابوغدہ‘ ص ۸۱)۔اِن سطروں کے بعد کتاب میں تین چار صفحات تک اہل تصوف کی اسی طرح کی دلیلیں نقل کر کے ۱۰ صفحات (۸۵-۹۵) ان کی دلیلوں کے ردّ میں لکھے ہیں اور ان صفحات کے آخر میں یہ ریمارک بھی پاس کیا ہے:
ان صوفیہ کی اس بات پر حیرت ہے کہ جب کوئی دوسرا اپنے ہاتھوں کی کمائی سے یا اپنی تجارت کے نفع میں سے ان کی دعوت کرتا ہے تو یہ اس کے کھانے سے انکار نہیں کرتے۔(عبدالفتاح ابوغدہ‘ ص ۹۵)
پھر فرماتے ہیں کہ ’’ہم یہی نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ ان کی یہ باتیں نادانی اور کاہلی کا نتیجہ ہیں‘‘۔(ایضاً‘ ص ۹۵)
اس کے بعد امام محمد نے چھ صفحات ’’کرامیۃً‘‘ نامی فرقہ کے خیالات کے ردّ میں صرف کیے ہیں جن کے نزدیک روزی کمانے کی اجازت ہے مگر اسے فرض نہیں قرار دیا جا سکتا۔(ایضاً‘ ص ۹۶-۱۰۱)
اس مختصر مقالے میں ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ کتاب الکسب میں اس کے آگے کے مباحث کا تفصیلی تعارف کرائیں۔ ہم صرف دو تین مباحث کا ذکر کر کے اپنے اصل موضوع کی طرف واپس آنا چاہیں گے۔ انھوں نے اس سوال کا جواب دیا ہے کہ سارا وقت عبادت میں صرف کرنا افضل ہے یا روزی کمانے میں وقت صرف کرنا(ایضاً‘ ص ۱۰۱)۔ اگر دولت ملی ہو تو اس پر شکر کرنے میں زیادہ ثواب ملے گا یا غربت ہو تو اس پر صبر کرنے میں؟(ایضاً‘ ص ۱۱۶)۔پھر وہ اس موضوع پر مفصل گفتگو کرتے ہیں کہ مال جمع کرنے کے لیے بھی مال کمانا جائز ہے اور اس سلسلے میں بعض احادیث نقل کرتے ہیں جن سے آخر عمر کے لیے مال بچا کر رکھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے (ایضاً‘ ص ۱۳۱ ومابعد)۔ اس کے بعد اسراف و تبذیر کی ممانعت پر گفتگو کے بعد انھوں نے تجارت‘ زراعت اور حرفت وغیرہ مختلف ذرائع کسب پر مفصل گفتگو کی ہے۔ آخر میں امام محمد نے اپنی بات کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کیا ہے:
آدمی کو چاہیے کہ اچھی عادتوں میں سے بعض کو اختیار کرے‘ مثلا:
یہاں کتاب الکسب کا قدرے تفصیلی ذکر اس لیے نہیں کیا گیا ہے کہ ہمیں اس میں پیش کردہ مواد کی ضرورت ہے یا امام صاحب کی رایوں کا تجزیہ کرنا ہے۔ ہماری نظر اس اہم بات پر ہے کہ خلافت راشدہ ختم ہوئے صرف ۱۰۰ سال گزرے تھے کہ اُمت کی رہنمائی کرنے والے علما کو ترک دُنیا‘ روزی کمانے سے گریز‘ تقشف اور تنگی کی زندگی گزارنے… وغیرہ منفی(۴) رجحانات کے قلع قمع کرنے کے لیے کتابیں لکھنی پڑیں۔ ہم آپ کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرنا چاہتے ہیں کہ اگر عجمی تصوف کے غلط اثرات اور عیسائی رہبانیت کی بے اعتدالی کی مقبولیت مسلم معاشرے میں خطرہ بن کر سامنے نہ آچکی ہوتی تو امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد خاص اس موضوع پر قلم نہ اٹھاتے۔
یہاں ہم یہ واضح کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ خود اکابر فقہا ان منفی رجحانات سے بالکل پاک تھے۔ اس کے ثبوت میں خود امام ابوحنیفہؒ کا کردار سامنے لانا کافی ہے۔ وہ عالم جس کے شاگردوں میں ہارون الرشید کے چیف جسٹس قاضی ابویوسف کا نام بھی شامل ہے مگر جس نے خود عباسی خلیفہ منصور کے اصرار کے باوجود قاضی کا عہدہ نہیں قبول کیا‘ جس کی سزا میںان کو قیدوبند کی مصیبت سہنی پڑی… وہی عالم جلیل نفیس کپڑوں کی تجارت کرتا تھا اور کوفہ کے مضافات میں اس کا کارخانہ چلتا تھا۔ (عبدالفتاح ابوغدہ‘ کتاب الکسب‘ ص ۱۵-۱۷)
مگر مسلمان اُمت کی فکری اور عملی اُٹھان صرف فقہا کے ہاتھوں نہیں انجام پائی ہے‘ اس میں صوفیا اور مشائخ کو بھی بڑا دخل رہا ہے۔ صوفیا اور مشائخ کی مثبت خدمات کے تذکروں سے کتب خانے بھرے پڑے ہیں۔ ان سے کسی کو انکار نہیں‘ مگر یہاں صرف ایک خاص رجحان کا ذکر ہے جو ان میں سے بعض نے پیدا کیا اور اُمت کے مزاج پر اس کا اتنا گہرا اثر پڑا کہ وہ بحیثیت مجموعی اس مزاج سے مختلف ہو گیا جو ہمیں شروع کے دور میں ملتا ہے۔
اپنے اس خیال کی تائید میں ہم اس بات کا بھی ذکر کرنا چاہیں گے کہ امام محمد کے بعد بھی ان کی کتاب الکسب کی طرح کی کتابیں لکھی جاتی رہیں۔ غالباً فضا ایسی تھی کہ فقہا کو اپنی بات بار بار کہنی پڑی۔
استاذ عبدالفتاح ابوغدہ نے اس موضوع پر جن کتابوں کا ذکر کیا ہے‘وہ ہیں:(عبدالفتاح ابوغدہ‘ کتاب الکسب‘ ص ۱۷)
آخر میں استاذ ابوغدہ نے امام غزالی (م ۵۰۵ھ/۱۱۱۱ء) کی احیا علوم الدین کا ذکر کیا ہے جس میں کتاب آداب الکسب والمعاش کا عنوان علیحدہ سے باندھا گیا ہے۔ لیکن اگر آپ اس سوال کا جواب چاہتے ہیں کہ دوسری صدی میں جس بحث کا آغاز ہوا اس میں ہمارے دانش ور پانچویں صدی ہجری کے آخر تک کہاں پہنچے تھے۔ تو امام غزالی کی اس عبارت پر غور کیجیے جو مذکورہ بالا عنوان ہی کے تحت لکھی گئی ہے:
لوگ تین قسم کے ہیں: وہ جن کی معاشی تگ و دو نے ان کو اپنی آخرت سے غافل کر دیا‘ تو یہ تو ہلاک (و ناکام) ہوں گے۔ دوسرے وہ جو اپنی آخرت بنانے میں اتنے مشغول ہوئے کہ معاشی تگ ودو سے غافل رہے‘ تو یہ کامیاب ہو کر رہیں گے۔ البتہ اعتدال کا راستہ تیسری قسم کے لوگوں کا طریقہ ہے جس نے معاشی تگ و دو اپنی آخرت بنانے کے لیے انجام دی‘ یہ درمیانہ رو لوگ ہیں۔(ابواسحاق شاطبی: الموافقات فی اصول الشریعۃ‘ ج۲ ‘ ص ۱۸۸۔ المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ‘ مصر۔ سنہ طباعت درج نہیں ہے)
امر واقعہ یہ ہے کہ کتاب و سنت کی روشنی میں جو مثالی کردار بنتا ہے‘ وہ دوسرے قسم کے لوگوں کا نہیں جن کو امام غزالی ؒنے کامیاب قرار دے کر تیسری قسم کے لوگوں پر افضلیت دی ہے۔ امام غزالیؒ کی درجہ بندی میں اس عنصر کا اثر پوری طرح موجود ہے جس کی اصلاح کے لیے امام محمد نے کتاب الکسب لکھی تھی۔
یہ مقالہ نگار‘ تحقیق کرنے والے طلبہ اور اساتذہ کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اس مسئلے کو نظر میں رکھتے ہوئے آج تک کی تاریخ کھنگالیں۔ یہ دیکھیں کہ اس موضوع پر فقہا اور صوفیا کے کلام میں کیا فرق رہا اور یہ بھی دیکھیں کہ عام تقریروں‘ جمعہ کے خطبوں‘ کہانیوں اور منظوم دینی ادب میں کس رجحان کا غلبہ رہا۔ مقالہ نگار کا خیال ہے کہ توازن بحال نہ ہو سکا اور معاشی قوت حاصل کرنے اور معاشی عوامل کی اہمیت پہنچانے کے معاملہ میں امت وہاں نہیں واپس جا سکی جہاں وہ عہدنبویؐ اور عہد راشدہ میں تھی اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں آج بھی وہ سوال اٹھانے پڑ رہے ہیں جن سے اس مقالہ کا آغاز کیا گیا تھا۔
اس مرحلے پر کسی کو یہ خیال نہ آئے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی معاملے میں ابتدائی ۱۰۰ سال ہی کے بعد راستہ بدل گیا ہو‘ کیونکہ ہمارے سامنے اسلام کے نظام حکمرانی کی واضح مثال موجود ہے جسے قرآن و سنت کے مطابق شورائی ہونا چاہیے‘ اور جو ابتدائی ۴۰ برسوں میں شورائی رہا مگر اس کے بعد بادشاہت کا جو دور آیا وہ بعض مختصر وقفوں کے بعد آج تک جاری ہے اور گذشتہ ۱۰۰ سال میں بھی اس کو اپنے اصل راستے پر لانے کی متعدد کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ لہٰذا اس دلیل میں کوئی وزن نہیں کہ اُمت جس ڈگر پر ہزار سال سے چل رہی ہے وہ ڈگر ٹھیک ہی ہوگی۔ خوب ناخوب کا معیار قرآن و سنت ہے‘ نہ کہ یہ بات کہ ہمارے آبا و اجداد کس ڈگر پر چلتے رہے۔
اب رہا یہ سوال کہ آج اس مسئلے کو اٹھانے کی کوئی خاص وجہ ہے؟ تو بات یہ ہے کہ توازن کی بحالی تو بہرحال ضروری تھی لیکن جو صورت حال آج کل ہے ‘ اور جس کی شدت میں آیندہ دہائیوں میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا ‘ اس میں اس اصلاح کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ دُنیا ایک ہو گئی ہے‘ ہر میدان میں مسابقت پہلے سے بہت زیادہ ہونے لگی ہے۔ فرد کو اپنی خدمات کے عوض معاوضہ حاصل کرنا ہو یا کسی ملک کو اپنی مصنوعات فروخت کرنی ہوں‘ کسی ملّت کو اپنے کلچر کا فروغ مطلوب ہو یا کسی داعی گروہ کو اپنے افکار و خیالات کی ترویج مقصود ہو‘ ان سب کو اب عالمی سطح پر دوسرے افراد‘ ملکوں‘ ملتوں اور داعی گروہوں سے مسابقت کرنی ہے۔ بالآخر جس چیز کو قبول عام حاصل ہوگا‘ لوگ اسے اپنے لیے نفع بخش پائیں گے۔ اس کو پایداری نصیب ہوگی جو اپنی بہتری اور برتری کا سکہ نہ جما سکے گا وہ پیچھے رہ جائے گا اور بھلا دیا جائے گا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ اس مسابقت میں‘ ہر سطح پر‘ معاشی وسائل اور معاشی قوت کو بڑا دخل ہے۔ فرد کو علم و ہنر سے سنوارنا ہو یا ملک کو صنعتی پیداوار کو بہتر اور بیشتر بنانا ہو‘ اخبار و جرائد ہوں‘ ادبی کتابیں ہوںیا ریڈیو کی نشریات‘ ٹی وی پر پیش کیے جانے والے مسلسل ڈرامے (serials)یا فلمیں … اشیاے خوردنی ہوں یا ملبوسات‘ اور دعوت پیش کرنے کے لیے لوگوں کی تیاری ہو یا انٹرنیٹ کا استعمال… ہر کام میں ہر قدم پر وسائل صرف کرنے اور اچھی تنظیم کی ضرورت پڑے گی۔ وہ افراد‘ گروہ اور ملتیں جو معاشی وسائل سے محروم ہوں اور کسی طرح گزربسر کر رہے ہوں‘ وہ بھلا اس دوڑ میں کیسے حصہ لے سکتے ہیں مگر جیسا کہ واضح کیا گیا‘عالمی مسابقت کے دور میں جو دوڑ نہ سکے اسے کھڑے رہنے یا بیٹھ رہنے کا موقع نہیں ملتا‘ وہ مٹا دیا جاتا یا مٹ جاتا ہے‘ لاسامح اللّٰہ۔
آج عالمی اُمت اسلامیہ ضعف میں ہے۔ شرق اوسط اور بعض دوسرے ممالک کو تیل کی دولت نصیب ہوئی ہے اور حال ہی میں جنوب مشرقی ایشیا کے بعض مسلمان ممالک کی ترقی کے باوجود مجموعی طور پر مسلمان ممالک اور مسلمان اقلیتوں کے ہاتھوں میں اتنے وسائل نہیں یا وہ اپنے ہاتھ میں موجود وسائل کا ایسا استعمال نہیں کر رہے ہیں کہ اس کے نتیجے میں ان کی قوت میں اضافہ ہو‘ اقوام عالم میں ان کا وزن بڑھے‘ ان کی بات کا وزن بڑھے اور ان کی طرف دوسرے اس نظر سے دیکھنے لگیں کہ ان سے کچھ سیکھنا چاہیے۔
اُمت کی اس کمزوری کا بیتی ہوئی صدی میں کئی بار مظاہرہ ہوا۔ پہلا حادثہ بیسویں صدی کی پہلی چوتھائی میں خلافت عثمانیہ کا رسمی طور پر ختم ہونا اور قلب عالم اسلامی کا ٹکڑوں میں بانٹ کر چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر دیا جانا تھا‘ جو آیندہ بہت سے جھگڑوں کاسبب بنا۔ پھر صدی کے وسط میں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا جسے نہ صرف یہ کہ عالم اسلامی روک نہ سکا بلکہ عربوں کی شکست کی وجہ سے اسرائیل کی حدود اس سے زیادہ وسیع ہوتی چلی گئیں جو مجلس اقوام متحدہ نے مقرر کی تھیں۔ اس کے بعد اغیار کی سازشوں اور اپنوں کی بے تدبیریوں سے ایران و عراق کے درمیان جنگ‘ پھر عراق کے کویت پر حملے کے بعد عراق کے خلاف امریکہ اور اس کے معاونین کی فوجی کارروائی کا عمل سامنے آیا جس نے ہماری لاچاری اپنوں اور غیروں سب کے نزدیک ایک مسلمہ امر کے طور پرسامنے رکھ دی۔ اسی اثنا میں بوسنیا میں جو کچھ ہوتا رہا اس پر مسلمان ممالک کا اتحاد‘ تنظیم اسلامی کانفرنس قراردادیں پاس کرتا رہا مگر نتائج پر اثرانداز نہ ہو سکا اور صدی کی آخری دہائی میں ہندستان میں بابری مسجد ڈھائے جانے کا المیہ پیش آیا ] اور اب افغانستان کا المیہ[ ان تمام مظاہر میں قدر مشترک یہ ہے کہ مسلمان اتنی قوت نہیں رکھتے کہ دوسروں کے کیے فیصلوں کی تنفیذ کو روک سکیں یا اپنے معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے کر خود اپنا فیصلہ نافذ کر سکیں۔ یہ قوت نہ انھیں انفرادی طور پر‘ کسی ایک ملک یا گروہ کو‘ حاصل ہے نہ اجتماعی طور پر سارے مسلمان ملکوں کے اتحاد کو۔
قوت ہی سب کچھ نہیں ہے‘ حق و انصاف کی روشنی میں ہمارا موقف بھی درست ہونا چاہیے لیکن موقف درست ہونے کی صورت میں بھی اگر ہم قوت سے محروم ہیں تو اپنے حق سے محروم رکھے جانے کے امکانات زیادہ ہیں جیسا کہ اوپر دی گئی مثالوں سے ظاہر ہے۔ اس مقالے میں ان المیوں کا ذکر صرف ایک نکتے کی تائید و تاکید کے لیے کیا گیا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے لیے ایک باوقار مستقبل کی ضمانت اسی صورت میں دی جا سکتی ہے جب وہ اپنی قوت میں اضافہ کریں۔ اور یہ امر تو بدیہی ہے کہ مادی قوت کا جوہر معاشی قوت ہے۔ اگر اس مقالے کے آغاز میں اٹھائے گئے سوالات برمحل ہیں تو یقینا ہماری موجودہ کمزوری اور معاشی طور پر قوی نہ ہونے میں ہمارے معاشی عوامل کے بارے میں غلط نقطۂ نظر کو دخل ہوگا۔
آخر میں ہم اس بات پر غور کریں گے کہ اپنے موقف میں توازن کس طرح بحال کیا جائے اور مسلمانوں کو معاشی تگ و دو کے ذریعے انفرادی اور اجتماعی طور پر قوت حاصل کرنے پر کس طرح کمربستہ کیا جائے۔
ہمارے خیال میں اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ دینی فکر‘ معاشی عوامل کی اہمیت کا اعتراف کرے اور معاشی جدوجہد کی ترغیب دے۔یہ بتائے کہ اسلام میں اگر اعلیٰ مقاصد کے لیے معاشی جدوجہد کی جائے تو وہ نہ صرف یہ کہ مطلوب ہے بلکہ اس کا درجہ بہت بلند ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ جو مسلمان معاشی میدان میں آگے ہیں ان کا‘ الا ماشا اللہ‘ دینی رجحان کمزور ہے اور جن کا دینی رجحان قوی ہوتا ہے وہ معاشی میدان میں زیادہ فعال نہیں ہوتے۔ اُمت کو ضرورت اس کی ہے کہ مسلمان قوی دینی رجحان کے ساتھ فعال معاشی سرگرمی اختیار کریں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس کے لیے صحیح فکری بنیادیں فراہم کی جائیں۔ اسی طرح اس بات کی ضمانت دی جا سکے گی کہ جب مسلمان افراد‘ گروہوں اور ملکوں کے ہاتھوں میں معاشی وسائل آئیں تو وہ صحیح مقاصد کے لیے استعمال میں لائیں اور مسلمانوں کی معاشی قوت بڑھے تو وہ دُنیا میں عدل و امن اور سارے انسانوں کی فلاح و بہبود کی خاطر استعمال کی جائے۔
اعلیٰ تہذیبی مقاصد کے لیے مال کمانے اور معاشی قوت حاصل کرنے کا تصور عین اسلام ہے:
اس طرح کی (معاشی) سرگرمی کا اہتمام بہت سے بزرگوں سے مروی ہے بلکہ صحابہ کرامؓ اور تابعین کے سلسلے میں بھی یہی روایت ہے کہ وہ روزی کمانے میں ماہر تھے اور کسب معاش کے مختلف میدانوں میں جم کر کام کرتے تھے مگر اس لیے نہیں کہ اپنی ذات کے لیے خزانہ جمع کریں اور اپنی دولت جمع کیے رکھیں بلکہ اس لیے کہ اسے اچھے کاموں اور اعلیٰ اخلاقی مقاصد کے لیے صرف کریں اور ان مصارف میں اسے استعمال کریں جن کی شریعت نے ترغیب دی ہے اور جنھیں شرعی عرف میں اچھا رتبہ حاصل ہے۔ اپنے ذاتی مال کی نسبت سے بھی ان کا حال وہ تھا جو بیت المال کے نگراں کا ہوتا ہے۔ اس معاملے میں ان کے درجات مختلف تھے۔ جیسا کہ ان کے احوال کی تفصیل سے ظاہر ہوتا ہے۔(بلاذری‘ فتوح البلدان‘ ص ۴۳۹‘ طبع قاہرہ‘ ۱۹۳۲ء)
اس امر کی بھی قوی سندیں موجود ہیں کہ حال کی آمدنی میں سے بچا کر مستقبل کی خاطر سرمایہ کاری کرنا مطلوب ہے۔ سیدنا عمر فاروق اعظمؓ سے منقول ہے کہ:
کیا ہی اچھا ہوتا اگر لوگ ایسا کرتے کہ جب کسی کو وظیفہ ملے تو اس میں سے کچھ بھیڑ بکریاں خرید کر اپنے زرخیز زرعی علاقے میں چھوڑ دے۔ پھر جب دوسرے سال کا وظیفہ ملے تو ایک دو غلام خرید کر ان کو بھی اسی (علاقہ) میں (کام پر) لگا دے۔ اگر ان کی اولاد میں سے کوئی باقی رہا تو اس طرح ان کے لیے ایک قابل اعتماد سہارا فراہم ہو جائے گا…
اگر اپنے لیے سہارا فراہم کرنے کا اہتمام شرعاً معتبر ہے تو پوری اُمت کے لیے سہارے کا اہتمام اور اس کے زوال کو عروج سے بدلنے کے لیے وسائل کی فراہمی کے جہاد ہونے میں کسے شبہہ ہو سکتا ہے؟
۱- ابن تیمیہ: السیاسۃ الشرعیۃ فی احوال الراعی والرعیۃ‘ ص ۱۳۷‘ طبع دارالکتاب العربی‘ مصر ۱۹۵۵ء‘نیز ملاحظہ ہو: آمدی کی الاحکام فی اصول الاحکام ‘ ج ۱‘ ص ۱۵۸‘ مطبع معارف‘ مصر‘ ۱۹۱۴ء۔ اور قرطبی کی احکام القرآن‘ ج ۶‘ ص ۸۵‘ قاہرہ‘ دارالکتب المصریہ‘ ۱۹۵۲ء۔
۲- جیسا کہ تفسیر ابن کثیر میں بتایا گیا ہے ‘ بعض لوگوں نے آیت کا یہ مطلب بھی لیا ہے کہ عیسائیوں نے ترک دُنیا کا راستہ مرضی خدا کی طلب گاری میں اختیار کیا تھا‘ مگر دوسرا قول آیت کی تفسیر کے بارے میں ہے‘ جس کے مطابق ہم نے ترجمہ کیا ہے‘ یعنی‘ بقول: ابن کثیر ’’ما کتبناھا علیھم‘ انما کتبنا علیھم ابتغا رضوان اللّٰہ‘ ملاحظہ ہو: تفسیر ابن کثیر‘ ج ۴‘ ص ۳۱۵‘ مطبع دارالعروبہ‘ بیروت ۱۹۸۴ء۔
۳- ملاحظہ ہو: عبدالرحمن بدوی: تاریخ التصوف الاسلامی من البدایہ حتی نھایۃ القرن الثانی ‘ وکالۃ المطبوعات‘ ۴۸ شارع فہد سالم‘ بیروت ۱۹۷۵ء۔ ص ۱۳۴-۲۲۱‘ خاص طور پر ص ۹۸ اور ص ۲۰۷۔
۴- معاش کے لیے امام نے اپنا آبائی پیشہ‘ تجارت اختیار کیا۔ کوفہ میں وہ خز (ایک خاص قسم کے کپڑے) کی تجارت کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ انھوں نے اس پیشہ میں بھی غیرمعمولی ترقی کی۔ ان کا اپنا ایک بڑا کارخانہ تھا جس میں خز تیار کیا جاتا تھا۔ ان کی تجارتی کوٹھی صرف کوفہ میں ہی کپڑا نہیں فروخت کرتی تھی بلکہ اس کا مال دُور دراز علاقوں میں بھی جاتا تھا۔ پھر ان کی دیانت پر عام اعتماد جب بڑھا تو یہ کوٹھی عملاً ایک بنک بھی بن گئی جس میں لوگ کروڑوں روپے امانت رکھواتے تھے۔ ان کی وفات کے وقت پانچ کروڑ درہم کی امانتیں اس کوٹھی میں جمع تھیں‘‘۔ ابوالاعلیٰ مودودی: خلافت و ملوکیت‘ مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی ہند‘ دہلی ۱۹۶۷ء‘ ص ۲۲۶۔
ترجمہ: مسلم سجاد
میرا یہ مضمون: The Blame Game جدہ کے اخبار عرب نیوز میں شائع ہوا تو امریکہ کی بعض ویب سائٹوں نے بھی اس کو شائع کیا اور مجھے وہاں کے قارئین کی طرف سے ای-میل کا ایک انبار موصول ہوا۔ عموماً ان میں مسلم نقطۂ نظر کی حمایت تھی لیکن بعض صورتوں میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جائز سوالات بھی اٹھائے گئے تھے۔ میرا خیال ہے کہ الحمدللہ میرے مضمون نے اور ایسے ہی بعض دوسرے لوگوں کی تحریروں نے کسی نہ کسی حد تک ذہنوں کو بدلنے اور دلوں کو جیتنے کا کام کیا ہے۔ میں نے اس میں کشمیر‘ چیچنیا اور دوسرے مقامات جہاں مغرب کا موقف واضح ناانصافی پر مبنی ہے‘ جان بوجھ کر ذکر نہیں کیا ہے۔ میں امریکہ کی اسرائیل نواز پالیسیوں اور اقدامات پر حملہ کرنا چاہتا تھا۔ عراق اور فلسطین کے معاملے میں امریکہ اور مغربی حلیفوں کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ ان ممالک کے بارے میں اپنی پالیسیوں کے لیے مغرب کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے‘ اور یہاں جو ظلم ہو رہا ہے اس کے وہ براہ راست ذمہ دار ہیں۔
مسلمان اور مغرب اپنے تعلقات میں موجودہ کشیدگی کا الزام ایک دوسرے پر رکھتے ہیں۔ شاید ہمیں جس بات کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہر فریق مسائل کی جڑ دوسرے فریق کو قرار دینے کے بجائے اپنے داخلی اور اندرونی مسائل کا جائزہ لے۔ کسی نہ کسی وقت ہر فریق نے دوسرے کے ساتھ زیادتی کی ہے اور آج بھی طاقت ورکم زور کے ساتھ ناانصافی برتتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کی مذمت تو کریں لیکن ہمیں اس سے انکار نہیں کرنا چاہیے کہ ہم جس دلدل میں اتر گئے ہیں اس کی کچھ ذمہ داری ہمارے اوپر بھی ہے۔
ہم مسلمانوں کو اپنے حالات کا جائزہ لینا چاہیے اور اپنے اندرونی مسائل سے نبرد آزما ہونا چاہیے اور ان سب کی وجہ مغرب کی خیالی یا حقیقی میکاولین تدابیر کو قرار نہیں دینا چاہیے۔ مغرب اپنے مخصوص علاقائی‘ اخلاقی‘ اجتماعی‘ معاشی اور سیاسی مسائل سے پریشان ہے۔ اس صورت حال نے خاندانی اقدار کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کر دیا ہے اور نسل پرستی‘ غربت‘ جرم اور بے گھر ہونے میں اضافہ کیا ہے۔ وہ انھیں ختم کرنے یا کم از کم‘ کم کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ وہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ مسلمانوں کو نصیحت کرے کہ وہ اپنی زندگی کیسے گزاریں۔ اسی طرح مسلمان اخلاقی‘ اجتماعی‘ سیاسی‘ تعلیمی اور معاشی ناکامیوں کا شکارہیں۔ وہ اس خوف ناک صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے ضروری اصلاحات کے لیے اور وہ جو کچھ کر سکتے ہیں اور جب بھی کر سکتے ہیں‘ کر رہے ہیں۔ اسلام اور اس کی تہذیب کئی صدیوں تک قوموں کے لیے روشنی کا مینارا رہی ہے لیکن اس کے بعد کے زمانے کے پیروکار اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے معاشرے آج کل کے دور میں ان کے اپنے لوگوں کے لیے اور باقی دُنیا کے لیے کوئی روشن مثال ہیں تو وہ اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں۔ مسلمانوں نے تاریخ میں متعدد چیلنجوں کا مقابلہ کیا ہے اور ان پر قابو پایا ہے۔ جدید دور میں کئی عشروں سے وہ مستقلاً خود احتسابی میں مصروف ہیں لیکن یہ تکلیف دہ مشق تقاضا کرتی ہے‘ خصوصاً دبائو اور بحران کے حالات میں‘ جب کہ فطرتاً انسان تنہائی‘ داخلیت پسندی اور دوسرے کو الزام دینے میں سکون محسوس کرتا ہے کہ اسے جاری رکھا جائے۔ مسلمان اور مغرب‘ دونوں فریقوں کو خود اپنا جائزہ لینے کے لیے اور مسائل کو حل کرنے کے لیے آمادہ ہونا چاہیے۔ الزام بازی ہمیں کہیں کا نہ رکھے گی۔
مغرب میں خصوصاً امریکہ میں اب یہ فیشن ہو گیا ہے کہ مسلمانوں کو دہشت گرد پیدا کرنے کا مجرم قرار دیا جائے جیسے کہ ساری دُنیا کے تمام ملزم دہشت گرد صرف مسلمان ممالک ہی سے آتے ہیں اور جیسے کہ خود مسلمان ممالک تشدد کا ہدف نہیں ہیں۔
کسی مذہب یا ملک کی دہشت گردی پر اجارہ داری نہیں ہے۔یورپ اور امریکہ کے خود اپنے گھر میں طرح طرح کے دہشت گرد پیدا کرنے کا ریکارڈ ناقابل ذکر نہیں ہے۔ ان کو کبھی بھی عیسائی یا یہودی دہشت گرد نہیں کہا جاتا اور ایسا صحیح کہا جاتا ہے___ اور نہ عیسائیت اور یہودیت کو ہی اپنے پیروکاروں کے طرزعمل کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے چاہے یہ ہٹلر ‘ ٹموتھی میکوی‘ ایریل شیرون یا دوسرے مجرمین ہی کیوں نہ ہوں جو قومیت اور تہذیب کا مقدس لبادہ اوڑھ کر انسانیت کے خلاف وحشیانہ اقدامات کرتے ہیں۔
سارے ہی مسلمانوں کو عموماً دہشت گرد قرار دینا نسل پرستانہ‘ خطرناک اور اشتعال انگیز ہے۔ ایک پوری قوم اور تہذیب کی کلی مذمت کا شر اور کھوکھلا پن دورحاضر کے سب سے بڑے کھلاڑی کے اس واقعے میں کھل کر نظر آتا ہے جس نے اپنے خاص انداز میں یہ نغمہ گایا تھا: تتلی کی طرح اُڑتا ہوں اور بھڑ کی طرح کاٹتا ہوں۔ جب محمد علی نیویارک میں ۱۱ ستمبر کے حملوں کی جاے وقوع پر گیا تو ایک صحافی نے ان امریکی دعووں کی بنیاد پر کہ حملہ آور مسلمان تھے‘ اس سے پوچھا کہ آپ کو ایک ایسے مذہب سے وابستہ ہونا کیسے لگتا ہے جس نے ایسے آدی پیدا کیے؟ تتلی کا کاٹنے والا جواب تھا: ’’آپ کو ایسے مذہب سے وابستہ ہونا کیسے لگتا ہے جس نے ہٹلر پیدا کیے؟‘‘
جو بات تعجب انگیز ہے وہ مغرب میں مسلمانوں خصوصاً فلسطین میں کیے جانے والے تشدد اور ناانصافیوں کی ذمہ داری سے سرکاری طور پر انکار کی کیفیت ہے جس پر اس کا پالتو میڈیا کوئی سوال نہیں اٹھاتا۔ عوامی سطح پر اس کی کوئی آگہی نہیں ہے اور مغرب کی حکومتیں داخلی دبائو اور سیاسی ضروریات کے تحت اپنے عوام سے سچائی کو چھپاتی ہیں۔ یہ حکومتیں اور ان کے طاقت ور میڈیا مشرق وسطیٰ کی دہشت گردی کا‘ جو چند ناراض نوجوان کرتے ہیں ‘تعلق اس کی جڑ میں پائی جانے والی اصل وجوہات سے کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے شہریوں کی توجہ خطرے کی گھنٹیاں بجا کر ہٹاتے ہیں۔
مغرب کے پنڈتوں کی تازہ ترین من گھڑت کہانی مسلمان ممالک کے تعلیمی نظام کے مذہبی حصے پر دہشت گرد پیدا کرنے کا الزام ہے۔ مسلم دُنیا میں تو اسلام پر مبنی یہ نصاب کئی صدیوں سے رائج ہے اور اس نے کبھی دہشت گرد پیدا نہیں کیے۔ کیا مغربی معاشروں کے نصابوں پر اسٹالن‘ ہٹلر‘ میلوسووچ ‘شیرون اور اب میکوی جیسے عفریت پیدا کرنے کا الزام لگایا جا سکتا ہے؟
یہ دہشت گردی کے بین الاقوامی عمل کو اس کے اصل سرچشمے‘ مغربی ناانصافیوں سے کاٹنے کی ایک نمایشی اور پرُخطر کوشش ہے۔ اس سے مغربی سیاست دانوں کی لاپروائی بھی ظاہر ہوتی ہے جن کا اولین مقصد اپنے شہریوں اور قوموں کے مفادات کے تحفظ کے ذریعے قلیل المیعاد انتخابی فوائد حاصل کرنا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی حد تک تو اس سے مغرب کے ماہرین میں سے بیشتر کی اگر بددیانتی نہیں تو واضح عدم واقفیت ظاہر ہوتی ہے جن کی اکثریت عربی نہیں بول سکتی اور نہ اس زبان میں چند جملے لکھ سکتی ہے۔ یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ مسلم دُنیا کے نصابوں نے کئی صدیوں تک دہشت گرد کیوں پیدا نہیں کیے اور ایسا کیوں ہوا کہ اچانک گذشتہ چند عشروں میں ان سے ایسے لوگ نکل رہے ہیں جو مغرب سے اور خاص طور پر امریکہ سے ناراض ہیں۔ جواب کی تلاش میں زیادہ دُور نہیں جانا پڑے گا۔ مسلم دُنیا میں ہر شخص کو بڑا تعجب ہوا جب صدر بش نے سوال اٹھایا کہ وہ ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ مجھے ایسے کوئی مسلمان نہیں ملے جو امریکیوں سے بحیثیت فرد نفرت کرتے ہوں لیکن مجھے ایسے لوگ بہت کم ملے ہیں جو امریکی انتظامیہ اور امریکہ کے پیچھے چلنے والی یورپی حکومتوں کی اسلام کے پیروکاروں کے ساتھ پالیسیوں سے نفرت نہ کرتے ہوں۔ عراق کے لاکھوں معصوم فاقہ کش‘ بیمار بچوں‘ عورتوں اور بوڑھوں اور فلسطینیوں کے معاملے میں جنھیں دوسری جنگ عظیم کے بعد طویل ترین غاصبانہ قبضے کا سامنا ہے‘ ظالمانہ اور غیر انسانی پابندیاں نہایت اذیت ناک ہیں۔
بے یارومددگار فلسطینیوں سے‘ جن کے پاس نام کی فوج بھی نہیں ہے‘ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل جو امریکہ کی پشت پناہی سے مشرق وسطیٰ کی علاقائی سوپرپاور ہے اور کیل کانٹے سے لیس ہے‘ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والا اسلحہ بشمول جوہری ہتھیار رکھتا ہے اور طاقت کے ذریعے زمینی حقائق کی تشکیل کر دیتاہے ‘زندگی اور موت کے مسائل کو مذاکرات کے ذریعے طے کرے۔ کیا اس طرح کے غیر مساوی فریقوں کے درمیان مذاکرات امن کی طرف لے جا سکتے ہیں؟
امریکہ اس قضیے کو طے کرنے میں اقوام متحدہ کے کردار کا مخالف ہے مگر کشیدگی کے شکار دیگر علاقوں میں جہاں چاہتا ہے اقوام متحدہ کی حمایت حاصل کرتا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک ’’دیانت دار دلال‘‘ ہے جومشرق وسطیٰ کے نام نہاد امن مذاکرات کوکامیاب نتائج تک پہنچائے گا۔ یہ وہی امریکہ ہے جس نے حال ہی میں مذاکرات کو مسترد کیا اور جب اس کے اپنے مفادات اور سلامتی کو خطرہ ہوا تو جنگ کا راستہ اختیار کیا‘ اور یہی ’’دیانت داردلال ‘‘ہے جس نے انتفاضہ میں ہلاک ہونے والے اسرائیلیوں پر پھولوں کی چادریں چڑھائیں لیکن ان کی انسانی ہمدردی کے سوتے خشک ہوگئے اور وہ تعزیت کے چند الفاظ بھی ان فلسطینی بچوں کے والدین سے نہ کہہ سکے جن کے چیتھڑے اسرائیلی بموں نے اڑا دیے تھے--- ان شرم ناک جرائم کی جاے وقوع پر جا کر پھول چڑھانا تو دُور کی بات ہے! اگر مسلمان دیانت دار دلالی کے اس تصور پر غضب ناک ہوں اور حیران ہوں تو کیا آپ انھیں قصوروار قرار دے سکتے ہیں؟
اسرائیل نے ۳۰ سال قبل ۱۹۶۷ء میں چھ روزہ جنگ کے دوران فلسطینی علاقوں پر قبضہ کیا‘ اور دُنیا میں کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس کو کیوں چھ دن سے کم میں وہاں سے جانے پر مجبور نہ کیا جا سکے۔ اس راہ میں اقوام متحدہ کی قراردادوں اور دُنیا کے لوگوں کے ضمیر اور رائے کے مقابلے پر صرف امریکہ کھڑا ہے ۔
۱۹۵۶ء کی جنگ سویز کے بعد عرب دُنیا میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے آئزن ہاور نے اسرائیل کو جزیرہ نما سینا سے دست بردار ہونے کے لیے ۴۸ گھنٹے دیے۔ اسرائیل آخری وقت ختم ہونے سے کافی پہلے واپس چلا گیا۔ یہ تھا سیاسی تدبر! امریکہ کو دوسرا آئزن ہاور کب ملے گا؟
امریکہ جارحیت‘ قبضہ اور فلسطینیوں کو قتل اور دربدر کرنے میں اسرائیل کی مدد عسکری‘ مالی اور سفارتی ہر لحاظ سے کرتا ہے۔ ایک کے بعد ایک امریکی انتظامیہ نے ناواقف امریکی شہریوں کی جیب سے رقم نکال کر اسرائیل کے ریاستی دہشت گردی کے جرائم کے لیے ۱۱۵ ڈالر فی سیکنڈ‘ ۶ ہزار ۷ سو ۷۷ ڈالر فی منٹ اور ایک کروڑ ڈالر فی دن گذشتہ ۲۰ سال سے ادا کیے ہیں۔ امریکی شہریوں کو یہ جان کر صدمہ ہوگا کہ انھوں نے ۱۹۴۹ء سے ۶۰ ارب ڈالر قرضوں اور امداد کی صورت میں ایک ایسی ظالم اور جابر ریاست کو دیے ہیں جو انسانی حقوق کو پائوں تلے روندتی ہے اور بین الاقوامی قانون کی روزانہ خلاف ورزی کرتی ہے۔ اس میں وہ قیمت شامل نہیں ہے جو امریکی خزانے سے اس رقم پر بطور سود ادا کی گئی جو اس نے اسرائیل کو دینے کے لیے قرض لی۔ تعجب ہوتا ہے اس داد و دہش سے امریکی شہریوں کو کیا حاصل ہوا؟ اپنے ملک میں بلاجواز جانوں کا ضیاع اور بیرون ملک بدنامی‘ ساکھ کی خرابی اور ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں میں عام غم و غصہ۔ امریکہ تجھے کیا ہوا ہے!
جب تک اس طرح کی یک طرفہ پالیسیاں جاری رہیں گی اور اس طرح کی غنڈا ریاست سے لاڈ میں بگڑے ہوئے بچے کا سا سلوک کیا جائے گا اور امریکہ اسے عالمی راے عامہ اور بین الاقوامی قانون کے علی الرغم تحفظ دے گا‘ امریکہ اور مسلمانوں میں کشیدگی بڑھتی رہے گی۔ مسلمان امریکہ کے دہرے معیارات کی وجہ سے مایوسی‘ احساس محرومی‘ بے بسی اور تحقیر کا احساس رکھتے ہیں اور بجا طور پر ناراض ہیں۔ انھیں جمہوریت‘ انصاف‘ آزادی کے لیے اور دہشت گردی کی مخالفت میں امریکہ کی حمایت اور زبانی ہمدردی مطلوب نہیں ہے بلکہ جو ناانصافیاں کی جا رہی ہیںان کو دُور کرنے کے لیے وہ ان کے ساتھ فوری اور نظر آنے والے اقدامات چاہتے ہیں۔ امریکہ کی رابطہ عوام کی تمام کوششیں‘ اس کے افسران کی ہمدردانہ تقریریں اور وعدے‘ ٹی وی کے جاری اور آنے والے پروگرام‘ مختلف زبانوں میں وائس آف امریکہ کے پروگرام‘ اس کی ساری مالی امداد (جو بعض وقت رشوت کا دوسرا عنوان ہوتا ہے) سے‘ ان تکالیف کو دُور کرنے کے لیے جو امریکی پالیسیاں مسلم دُنیا کو پہنچا رہی ہیں ‘بالکل کچھ نہیں ہوگا۔
مسلمان جو کچھ چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ امریکہ اپنی غیر منصفانہ پالیسیاں تبدیل کرے۔ انھیں یقین ہے کہ وہ امریکیوں اور عموماً مغرب کے ساتھ جو مشترک روحانی‘ اخلاقی اور انسانی اقدارہیں اور معاشی مفادات رکھتے ہیں‘ ان کی وجہ سے یہ تعلقات اور تصورات میں ایک سمندر جیسی تبدیلی (sea change)لائے گا۔ جس سے نہ صرف مسلمانوں کو فائدہ ہوگا بلکہ امریکہ اور دوسری امن پسند اقوام کے ان حقیقی قومی مفادات کا تحفظ بھی ہوگا جو کرئہ ارض پر پھیلے ہوئے ۳ء۱ ارب مسلمانوں میں ان کے ہیں۔
انصاف اور امن کے آتے ہی الزام لگانے کا کھیل ختم ہوجائے گا!
ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے نام ایک عرب قاری کے خط کا ترجمہ ترجمان القرآن (دسمبر ۲۰۰۱ء) میں شائع ہوا جس میں فلم سازی کے اسلامی ادارے کے قیام پر زور دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں‘ میں ریڈیو کے حوالے سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
ریڈیو‘ فلم کی نسبت زیادہ وسیع‘ کشادہ اور موثر ذریعہ ابلاغ ہے۔ اس کی اہمیت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ بھی محسوس کرتے تھے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ میں ریڈیو پاکستان میں ملازم تھا۔ ۱۹۷۸ء میں مجھے خیال آیا کہ ملک میں ۱۹۷۷ء میں ملک گیر تحریک نظام مصطفیٰؐ برپا ہوئی لیکن یہ بات واضح نہ ہو سکی کہ نظام مصطفیٰؐ کیا ہے اور عملاً کیسے برپا ہوگا؟ چنانچہ میں نے مولانا مودودیؒ سے اس موضوع پر انٹرویو لینے کا اہتمام کیا۔ انٹرویو لینے والوں میں کوہستان کے عبدالوحید خان بھی تھے۔انٹرویو کے آخر میں میں نے مولانا سے سوال کیا کہ نظام مصطفیٰؐ کے نفاذ کے سلسلے میں ریڈیو کو ہم کیونکر استعمال کر سکتے ہیں؟
مولانا نے فرمایا: ’’ریڈیو کو استعمال کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کو تلاش کیا جائے جو ایک ایک موضوع پر تیاری کر کے ریڈیو پر آکر تقریر کریں‘ مثلاً کچھ لوگ ایسے ہونے چاہییں جن کا آپ سوچ سمجھ کر اس کام کے لیے انتخاب کریں کہ وہ اسلام کے ایمانیات کی تشریح کریں اور طرح طرح سے ان کے ہر پہلو کو لوگوں کے ذہن نشین کرنے کی کوشش کریں۔ ایک ہی آدمی یہ کام کرے گا تو لوگ اُکتا جائیں گے اور مختلف قابلیتوں کے لوگ اپنے اپنے طریقے پر بات سمجھائیں گے تو سننے والے دل چسپی کے ساتھ ان کی تقریریں سنیں گے۔ اسلامی اعتقادات کو دماغوں میں اُتار دینا سب سے پہلا اور سب سے بڑا بنیادی کام ہے جس سے مسلمانوں کی ذہنی حالت بدلی جا سکتی ہے اور انھیں اسلام کے دوسرے حقائق کو سمجھنے کے لیے تیار کیاجا سکتا ہے۔ کچھ دوسرے لوگ ایسے منتخب کرنے چاہییں جو اسلامی عبادات کی اہمیت ان کے بے شمار دینی اور دُنیاوی فوائد اور ان کو چھوڑ دینے کے نقصانات دل نشیں انداز میں طریقے طریقے سے سمجھائیں‘‘۔
مولانا نے فرمایا کہ ریڈیو پر اس طرح کی تقریروں کا سلسلہ اگر جاری ہو جائے اور موزوں آدمی اثر آفرینی کے ساتھ کام کریں تو آپ دیکھیں گے کہ چھ مہینے میں فرق عظیم واقع ہوجائے گا۔ ریڈیو تعلیم دینے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ آج کسان کھیت میں ہل تک نہیں چلا تا جب تک ٹرانسسٹر اس کے پاس نہ ہو۔
پروگراموں کی نوعیت کے بارے میں مولانا نے فرمایا: ’’ان کے اندر دل چسپی پیدا کرنے کے لیے آغاز عہدِرسالتؐ، عہدِخلافت اور عہدِصحابہؓ کے کچھ واقعات اور صالحین کی حکایات سے کریں۔ جب عوام کو صحیح طریقے سے دین سمجھایا جائے گا اور انھیں دل چسپ اور دل نشیں طریقے سے بتایا جائے گا تو وہ گانے کے رسیا نہ رہیں گے اور انھیں باہر کے ریڈیو سے بھی گانا سنتے وقت یہ یاد آ جائے گا کہ قیامت کے روز ان کے کان گواہی دیں گے کہ یہ لوگ ان سے کیا چیزیں سننے کا کام لیتے رہے ہیں‘‘۔
ان ہدایات کے پیش نظر میں نے اپنی نشریاتی زندگی کا یادگار پروگرام مرتب کیا جس کا عنوان تھا: ’’رسول کریمؐ کی تربیت کے شاہکار‘‘۔ اس نصف گھنٹے کے پروگرام میں اولیں دور کا احاطہ کیا گیا‘ یعنی رسول کریمؐ سے حضرت علیؓ تک کے تمام ادوار پر علامہ علاء الدین صدیقی‘ ڈاکٹر اسرار احمد‘ جناب سلیم تابانی‘ مرزا محمد منور اور سید سجاد رضوی کی جامع تقاریر کروائی گئیں اور مظفر وارثی کی نعت و حمد سے انھیں مزین کیا گیا۔ اب یہ پروگرام ریڈیو پاکستان کے ’’آواز خزانہ‘‘ کا حصہ ہے اور سال میں کئی بار نشر مکرر کے طور پر نشر کیا جاتا ہے اور نہایت دل چسپی کے ساتھ سنا جاتا ہے۔
مکتوب نگار عرب قاری نے فلم سازی کے معاملے میں مصر کا ترجیحاً ذکر کیا ہے حالانکہ پاکستان کا یہ ذریعہ ابلاغ بھی بہت مستحکم ہے۔ ہمارے ہاں چھوٹی اسکرین اور بڑی اسکرین کے ضمن میں قلم سے لے کر فلم تک سب کچھ فراوانی کے ساتھ موجود ہے۔ کہانی نویس بھی ہیں‘ گیت نگار بھی‘ صدا کار اور اداکار بھی۔ کیمرے کی آنکھ سے دیکھنے والے فن کار بھی اور اداکاروں سے کام لینے والے ہدایت کار بھی۔ ضرورت صرف صالح نیت‘ موقع اورسرمائے کی ہے۔ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ ذرائع ابلاغ‘ یعنی فلم اور ٹی وی کے ماحول کو سازگار بنایا جائے۔ معاشرتی بدعات کے خلاف قلمی اور فنی جہاد کیا جائے۔ اس کام کے لیے کچھ مناسب سرپرستی لازمی ہے۔ ہم اپنی روایتی اور دینی ثقافت پر مبنی بہترین ڈرامے اور فلمیں بنا سکتے ہیں اور اپنی حقیقی ثقافت کا احیا کر سکتے ہیں۔
میں نے مولانا سے ایک مرتبہ عرض کیا کہ ہمارے ذرائع ابلاغ میں اسلامی اقدار کے مخالفین بہت کھل کھیل رہے ہیں‘ تو انھوں نے فرمایا تھا کہ ’’کسی سے تعرض مت کرو اور اپنا کام کیے جائو‘‘۔ ان کی اس نصیحت پر عمل کیا اور ریٹائر ہونے تک ریڈیو کے ذریعے دین اور ملک کی خدمت کرتا رہا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ریڈیو میں رہ کر جو تھوڑا بہت کام کیا اس پر قلبی اطمینان ہے۔ حقیقت ہے کہ اگر ایک آدمی بھی خلوص کے ساتھ کہیں بھی دین کا کام کرنا چاہے تو کچھ نہ کچھ ضرور کر سکتا ہے اور اس کو نصرت الٰہی بھی میسر آتی ہے۔
مطلوبہ فلموں کی تیاری کے ضمن میں ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری علمی اور ادبی تاریخ بھری پڑی ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی زندگی کے ہر پہلو سے متعلق تاریخ میں جگمگاتے کردار اور واقعات کہانی نویسی کی دعوت عام دے رہے ہیں۔ قصص القرآن سے بھی کہانیاں اور ڈرامے اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ اگر مشرکین The Message اور Ten Commandmentsقسم کی فلمیں بنا سکتے ہیں تو ہم personification سے بچتے ہوئے دیگر واقعات پر مبنی فلمیں کیوں نہیں بنا سکتے۔ ہماری تو حربی تاریخ بھی شان دار روایات و واقعات سے بھری پڑی ہے۔ علاوہ ازیں اولیں دور سے بھلے دنوں تک ہمارے اسلاف نے اخلاقیات کے علم لہرائے ہیں۔ کیا ہم ان موضوعات کو لے کر چھوٹی بڑی اسکرینوں پر فنی لحاظ سے کارنامے نہیں کر سکتے۔ مغربی مفکرین اور سیاست دانوں نے حقوقِ انسانی وغیرہ کا ڈھونگ رچا رکھا ہے‘ کیا ہم قرآن و سنت کے مطابق انسان کی تکریم و تحریم اور آزادی پر مبنی تاریخی حقائق کو آج کی زندگی پر منطبق نہیں کر سکتے۔
اسلامی فلمی ادارہ قائم کرنے کے لیے کردار کا استعمال اولین شرط ہے۔ ایک مسئلہ خواتین کی شمولیت کا بھی ہے کیونکہ بغیر اس کے معاشرتی فلم تو نہیں بن سکتی۔ ہمارے ہاں تو جہاد میں بھی عورتوں کی شمولیت آن ریکارڈ ہے‘ مثلاً حضرت خولہ بنت ازور‘ بھائی کی خاطر میدانِ جہاد میں کود پڑیں اور شمشیرزنی کے وہ ہاتھ دکھائے کہ پرائے پریشان اور اپنے حیران کہ ضرارؓ تو دشمن کی قید میں ہے لیکن اس مجاہد کا اندازِ شمشیرزنی وہی ہے۔ وہ مجاہد جب حضرت خالدؓ بن ولید کے سامنے لایا گیا تو راز کھلا کہ یہ تو ہے خولہ ؓبنت ازور‘ جناب ضرارؓ کی ہمشیرہ۔ میں جب یہ منظر پڑھ رہا تھا تو گویا فلم بھی دیکھ رہا تھا۔ ہماری تاریخ تو ایسے مناظر سے بھری پڑی ہے۔
اللہ نے ہمیں عقل و شعور‘ علم و ہنر‘ صورت و سیرت سب کچھ عطا کیا ہوا ہے۔ اگر ہم فلمی شعبے کی طرف بھی توجہ دیں تو بلامبالغہ ہم اس فن کی دُنیا میں بھی انقلاب برپا کر سکتے ہیں بلکہ مغربی دُنیا کو سبق سکھا سکتے ہیں کہ تعیش‘ نمود و نمایش‘ عریانی و فحاشی اور گناہ اور غنا کے علاوہ بھی سبق آموز فلمیں اور ڈرامے اور رزمیے تیار ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم اس میدان کی طرف بھی ایمان اور ایقان سے رجوع کریں تو اللہ ضرور ہمیں کامیابی سے سرفراز کرے گا۔ ان شاء اللہ!
ریاست جموں و کشمیر میں جن اصحاب عزیمت نے تحریک مولانا اسلامی اور جدوجہد آزادی دونوں کی آبیاری اپنے خون اور پسینے سے کی‘ ان میں ایک نمایاں ترین شخصیت مولانا حکیم غلام نبی کی تھی جو ۳فروری ۲۰۰۲ء کو تقریباً ۸۰ سال کی مجاہدانہ زندگی گزار کر رب حقیقی سے جا ملے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!
قسمت نگر کہ کشتۂ شمشیر عشق یافت
مر گے کہ زاہداں بہ دعا آرزو کنند
عشق و محبت کی شمشیر سے گھائل ہونے والے کی خوش قسمتی دیکھیے کہ اُسے موت ایسی نصیب ہوئی جس کی آرزو زاہد کرتے ہیں۔
غلام نبی وادیٔ کشمیر کے ایک چھوٹے سے خوب صورت گائوں مولوچترگام (ضلع پلوامہ) میں ایک معروف دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان رشد و ہدایت کا سرچشمہ تھا۔ نوجوان غلام نبی نے بھی علم دین کے حصول ہی کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔ کشمیر میں ابتدائی تعلیم کے بعد دہلی اور دیوبند کے علمی سرچشموں سے ۱۵ سال پیاس بجھائی۔ دیوبند سے سندفضیلت حاصل کی اور دہلی سے طب و جراحت کی ڈگری لی۔ اس کے ساتھ جدید تعلیم کے زیور سے بھی اپنے آپ کو آراستہ کیا اور ایف اے کی سند امتیازی شان سے حاصل کی۔ اس طرح نوجوان غلام نبی مولانا حکیم غلام نبی بن کر وادیٔ کشمیر لوٹا۔ عربی‘ انگریزی‘ فارسی اور اُردو پر عبور اور اس پر مستزاد صاف ستھرا علمی اور ادبی ذوق--- تقریر اور تحریر دونوں پر قدرت‘ بلکہ تقریر کا تو یہ عالم کہ: وہ کہیں اور سنا کرے کوئی!
علم دین‘ انگریزی تعلیم اور طب اور جراحی کی سندوں سے آراستہ یہ نوجوان دنیوی اعتبار سے ابھی اپنا مقام تلاش ہی کر رہا تھا کہ ایک اور ہی انقلاب اس کا منتظر تھا--- جموں و کشمیر میں تحریک اسلامی کی دعوت پہنچ چکی تھی اور چند سرپھرے نہ صرف خود دُنیا کو بدلنے کا خواب دیکھ رہے تھے بلکہ ہر مضطرب روح کو اس آدرش کی خدمت کے لیے سرگرم کرنے کو کوشاں تھے۔ مولانا غلام احمد احرار کے ذریعے مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتاب خطبات اور دوسرے رسائل سے آشنا ہوئے۔ دیوبند کا یہ فارغ التحصیل پہلے تو اُردو کے ان رسالوں کی طرف ملتفت نہ ہوا لیکن جب ایک بار مطالعہ شروع کیا تو دل و دماغ میں ایک تلاطم برپا ہو گیا اور بقول حکیم صاحب:’’ان چھوٹی چھوٹی کتابوں نے تو میری کایا ہی پلٹ دی‘‘۔ مولانا سعدالدین امیر جماعت تھے۔ حکیم صاحب نے اپنے کو رکنیت کے لیے پیش کر دیا اور وہ دن اور ۳ فروری ۲۰۰۲ء کا دن‘ پوری زندگی تحریک اسلامی کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔
جماعت اسلامی کے قائم کردہ پرائمری اسکول کی مدرسی سے لے کر جماعت کی امارت اور تحریک آزادیٔ کشمیر کی قیادت تک--- ہر خدمت خلوص‘ تندہی اور استقامت سے‘ اور ہر معرکہ حکمت‘ جرأت اور مجاہدانہ شان سے سر کیا۔ ایثار اور قربانی کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی‘ پوری زندگی فقر کے عالم میں گزاری‘ اپنے پورے گھرانے کو دین اور تحریک کا خادم بنایا‘ ایک جوان بیٹے ذبیح اللہ نے جام شہادت نوش کیا‘ باقی چار بیٹے اور دو بیٹیاں اپنے اپنے انداز میں تحریک میں سرگرم ہیں۔ جس طرح اپنے گھرانے کی فکر کی اسی طرح کشمیر کے ہر گھر کو دعوت اسلامی کے نور سے منور کرنے کے لیے شب و روز سرگرم رہے اور ایک نسل کو اسلام کی خدمت اور آزادی کے حصول کے لیے بیدار کر دیا۔
حکیم صاحب نے دعوت و تبلیغ‘ سیاسی جدوجہد اور بھارت کے تسلط سے آزادی کے جہاد میں نمایاں کردار ادا کیا۔ قیدوبند کی صعوبتوں کو خوشگواری سے انگیز کیا۔ پہلی گرفتاری ۱۹۶۲ء میں سیدعلی شاہ گیلانی کے ساتھ ہوئی اور پھر یہ سلسلہ ۱۹۹۰ء کے عشرے تک چلتا رہا۔ آخری زمانے میں بیماری کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور تھے مگر تحریک کو پیش آنے والے ہر معرکے اور ہر آزمایش میں استقامت کا پہاڑ بنے رہے۔
مجھے حکیم صاحب کے ساتھ ایک بڑے نازک مرحلے پر چند دن گزارنے کا موقع ملا۔ جن چیزوں کا نقش دل پر قائم ہے ان میں ان کا صاف ستھرا علمی ذوق‘ سادہ طبیعت‘ حسن اخلاق‘معاملہ فہمی اور تدبر‘ تحریکی اور سیاسی حالات کا گہرا ادراک‘ بڑے سے بڑے خطرے کو انگیز کرنے کی ہمت اور داعیہ اور یہ سب کچھ کمال درجے کے انکسار کے ساتھ۔ ان کی زندگی میں کشمیر کی اسلامی تہذیب کی پوری تصویر دیکھی جا سکتی تھی۔
حکیم غلام نبی صاحب نے جماعت اسلامی کی دعوت کو گھر گھر پھیلایا‘ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف رہے‘ اور بڑے نازک اور پرخطر حالات میں صبر واستقامت اور حکمت و تدبر سے اپنی ذمہ داریاں ادا کیں اور قدم قدم پر بیش بہا قربانیاں پیش کیں۔ قیدوبند‘ فقروفاقہ‘ گھر بار اور باغ و کھلیان کی تباہی‘ اولاد کی شہادت--- وہ کون سا زخم ہے جسے انھوں نے ہنستے ہوئے اور شکر کے جذبات کے ساتھ جسم کا زیور نہ بنایا:
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
مولانا حکیم غلام نبی کے انتقال کی خبر پوری ملت کشمیر پر بجلی کی طرح گری اور ہر گھر سوگوار اور ہر چشم اشکبار تھی۔ ہزاروں افراد نے اس عالم دین‘ تحریک اسلامی کے قائد اور جدوجہد آزادی کے مجاہد کو اس شان سے الوداع کہا کہ جنازے کا جلوس ان عزائم اور اہداف کے حق میں ایک استصواب بن گیا جن کے لیے حکیم صاحب نے زندگی بھر جدوجہد کی تھی:
ہے رشک ایک خلق کو جوہر کی موت پر
یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے
نصیحت تو یہی کی جاتی ہے کہ سارے جہاںکا درد نہ پالو لیکن مسلمان کا مسئلہ یہ ہے کہ اُمت میں کسی جگہ بھی تکلیف ہو تو اس کا دل اس درد کو محسوس کرتا ہے۔ آج کل جس مسلمان ملک کے احوال دیکھے جائیں‘ ہر جگہ امریکی ایجنڈا نظر آتا ہے۔ ۱۱ ستمبر کے بعد تو سب پردے ہٹ گئے اور ہر کارروائی بلا جھجک و شرم کھلم کھلا کی جا رہی ہے۔ مصر کی حالت ہم سے مختلف نہیں‘ بلکہ اب تو پاکستان کو مصر کی راہ پر چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ہمارے حکمران کو انوارالسادات سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ سو ایک نظر مصر کی طرف بھی!
مصر کے وزیر داخلہ نے سرکاری رسالہ المصور (۲۸ دسمبر ۲۰۰۱ء) کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ مصر نے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں امریکہ کی بھرپور مدد کی ہے‘ اور اسے بہت سی معلومات فراہم کر دی ہیں۔ اس کے باوجود امریکی ذرائع ابلاغ اور ارکان کانگریس مصر کے خلاف الزام تراشی اور اظہار نفرت سے باز نہیں آرہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گو مصری حکمران‘ امریکی خوشنودی کے لیے کسی سے پیچھے رہ جانے پر تیار نہیں‘ مگر مصر بہرحال مسلمانوں کا ملک ہے اور امریکیوں کی نظر میں اس سے بڑھ کر عیب کیا ہو سکتا ہے۔ مصری حکمران امریکہ کی اشیرباد حاصل کرنے کے لیے اپنی ہی قوم کے اسلام اور جمہوریت کے حامیوں کو کچل کر‘ اپنے عوام کی نفرت و حقارت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں لیکن امریکی بھی ان سے خوش نہیں ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے مصر کو ’’کوڑے کرکٹ کا ڈھیر اور منافق‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ تعاون نہیں کر رہا۔ مصر کا فرض ہے کہ وہ امریکہ کے عالمی نظام کی کڑی بن جائے اور عرب ازم کے نظریے اور اپنے دیگر بوسیدہ افکار سے چھٹکارا پائے‘ یا پھر انجامِ بد کے لیے تیار ہو جائے (۱۶ اکتوبر ۲۰۰۰ء)۔ امریکی کانگریس کے کئی ارکان نے مصر کو جدید میزائل دینے کے معاہدے پر بھی اعتراض کیے ہیں۔ امریکہ‘ مصر پر زور دے رہا ہے کہ وہ ’’دہشت گردی کے سرچشمے‘‘ خشک کرے۔ چنانچہ مصر نے تعمیرمساجد پر ۱۰ شرطیں عائد کر دی ہیں اور جامع ازھر سے امریکہ مخالف اساتذہ کو برطرف کر دیا ہے۔ مصر پر زور ڈالا جا رہا ہے کہ وہ یاسر عرفات کو‘ یہودیوں کے ساتھ معاہدۂ امن کرنے پر مجبور کرے۔
امریکی جیلوں میں مصری: مصری وزارتِ خارجہ کے ذرائع کے مطابق ۱۱ ستمبر کے بعد ۵۰سے ۲۰۰ تک مصری شہری امریکی جیلوں میں بند پڑے ہیں۔ بار بار کے مطالبات کے باوجود امریکی حکام گرفتار شدہ مصریوں کی نہ تو تعداد بتا رہے ہیں اور نہ ان سے رابطہ کرنے کی ہی اجازت دے رہے ہیں۔ مصری وزیرخارجہ نے اپنے گذشتہ امریکی دورے کے دوران‘ گرفتارشدگان کی تعداد معلوم کرنا چاہی مگر ناکام رہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے سفارت خانے میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ہمیں گرفتار شدگان کی تعداد اور ان پر لگائے گئے الزامات کا علم نہیں ہو جاتا‘ سکون نہیں آسکتا۔
تنظیم الاساتذہ کے خلاف عدالتی کارروائی: اخوان المسلمون کے خلاف قائم فوجی عدالت نے اپنی کارروائی شروع کر دی ہے۔ گذشتہ چھ برسوں میں یہ چوتھی فوجی عدالت ہے۔ گرفتار شدہ ’’ملزموں‘‘ کی تعداد ۲۲ ہے۔ ان میں سے زیادہ تر یونی ورسٹیوں کے اساتذہ اور مشہور ڈاکٹر ہیں۔ قاہرہ کے مشرق میں--- قاہرہ اسماعیلیہ شاہراہ--- پر واقع ہایکستب چھائونی میں عدالتی کارروائی شروع ہوئی۔ ملزموں کی حمایت و تائید کے لیے ۲۰۰ وکلا موجود تھے۔ ان میں سے کئی سابق جج تھے۔ حقوقِ انسانی کی بین الاقوامی تنظیموں کے نمایندے بھی حاضر تھے۔ الزامات یہ عائد کیے گئے: دستور و قوانین کو معطل کرنا‘ مملکت کے اداروں کو اپنا کام کرنے سے روکنا‘ اخوان المسلمون کی سرگرمیوں کے ازسرنو احیا کے لیے کام کرنا‘ اخوان کے عناصر کو تیار کرنے کے لیے خفیہ ملاقاتیں کرنا‘ جماعت کی مالی مدد کے لیے لائحہ عمل بنانا‘ عوام کو متحرک کرنے کے لیے طریق کار وضع کرنا‘ طلبہ کو اپنے ساتھ ملانا‘ ریاستی اداروں پر قبضہ کرنے کے لیے غوروفکر کرنا‘ جماعت کے اغراض و مقاصد کو عام کرنے کے لیے مطبوعات و دستاویزات تیار کرنا۔
یاد رہے کہ تنظیم الاساتذہ کے گرفتار شدہ ارکان میں میڈیکل‘ ایگریکلچرل اور ٹریننگ کالجوں کے آٹھ اساتذہ ہیں۔ اس سے پہلے ۶۰ سے زائد اخوان پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جا چکے ہیں۔ مصر کی فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف کہیں اپیل نہیں ہو سکتی۔ سیاسی مبصرین کے بقول: مصری حکمران‘ اخوان کی دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت کو راستے سے ہٹانے کے منصوبے پر عمل پیرا رہے ہیں۔
تعمیر مساجد پر پابندیاں: ’’دہشت گردی‘‘ کی تعریف کیے بغیر‘ اس کے خلاف عالمی سطح پر امریکی کارروائی صرف اس تک محدود نہیں ہے کہ ’’دہشت گرد‘‘ ملکوں اور جماعتوں کے خلاف فوجی اقدامات کیے جائیں بلکہ دین اور اہل دین پر بھی حملے شروع ہو چکے ہیں۔ امریکہ نے قانون بنایا ہے جس کی رُو سے مساجد میں نماز پڑھنے والوں کے خلاف جاسوسی کی جا سکے گی اور وفاقی خفیہ ایجنسیوں کے اہل کار مسجدوں میں گھسنے اور نمازیوں کی حرکات کی نگرانی کرنے کے مجاز قرار دیے گئے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ باقاعدگی سے مسجدوں میں نماز پڑھنے والوں پر دہشت گرد ہونے کا الزام لگا دیا جائے۔ امریکی تجزیہ نگار تھامس فریڈمن نیویارک ٹائمز میں مسجدوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے کی دعوت دیتے ہوئے لکھتا ہے:
۱۱ ستمبر کا دن فی الحقیقت تیسری عالمی جنگ کا یوم آغاز ہے۔ ہمیں اس جنگ کا مقصد سمجھ لینا چاہیے۔ ہمیں صرف دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑنے کے لیے جدوجہد نہیں کرنا‘ دہشت گردی تو فقط ایک آلہ ہے۔ ہم تو آئیڈیالوجی کو شکست دینے کے لیے جنگ کر رہے ہیں۔ کسی دینی جماعت کے خلاف صرف فوجوںسے لڑائی نہیں لڑی جا سکتی بلکہ مدرسوں اور مسجدوں میں بھی لڑائی ہونی چاہیے۔ ائمہ اور علما کا تعاون حاصل کیے بغیر آئیڈیالوجی کو شکست نہیں دی جا سکتی‘‘۔ (نومبر ۲۷‘ ۲۰۰۱ء)
دہشت گردوں کے خلاف یہ مہم اب صرف امریکہ تک محدود نہیں بلکہ کئی مسلم اور عرب ممالک نے بھی دین اور اہل دین کے خلاف یہ لڑائی شروع کر دی ہے تاکہ ایک طرف تو امریکہ کو خوش رکھا جائے اور دوسری طرف اپنے سیاسی مخالفین کو--- جو زیادہ تر دینی جماعتیں ہیں--- کچلنے کے اس ’’سنہری موقع‘‘ سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔ جنرل پرویز مشرف نے مساجد و مدارس کے خلاف جس مہم کا آغاز کیا ہے وہ اسی امریکی پالیسی کا پھیلائو ہے۔ اس لیے تعمیرمساجد پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مصر میں تعمیر مساجد پر عائد کردہ ۱۰ پابندیاں وزارتِ اوقاف نے نہیں بلکہ مجلس وزرا نے لگائی ہیں۔
پابندیاں یہ ہیں: ۱- رہایشی عمارت کے نیچے مسجد بنانا ممنوع ہے‘ ۲- مسجد کا رقبہ ۱۷۵ مربع میٹر سے کم نہ ہو‘ ۳- مسجد کی تعمیر شروع کرنے سے پہلے‘ بطور ضمانت کسی بھی بنک میں ۵۰ ہزار گنی (۱۱ ہزار ڈالر) کی رقم جمع کروائی جائے‘ ۴- علاقے کو مسجد کی حقیقی ضرورت ہو‘ ۵- نئی تعمیر ہونے والی مسجد کا پہلے سے تعمیرشدہ کسی مسجد سے فاصلہ ۵۰۰ میٹر سے کم نہ ہو‘ ۶- وزارتِ اوقاف کے واضح اجازت نامے کے بغیر کوئی بھی مسجد تعمیر نہ کی جائے‘ ۷- مسجد انتظامیہ‘ وزارتِ اوقاف کے جاری کردہ احکام و ہدایات پر عمل درآمد کی پابند ہوگی‘ ۸- صحت‘ سماجی اور خدماتی امور کی سرانجام دہی کے لیے‘ مسجد کے نیچے کمرے تعمیر کرنے ہوں گے‘ ۹-اگر دریاے نیل کے کنارے پر مسجد یا خانقاہ تعمیر کرنا ہو تو اس کے لیے وزارتِ آبپاشی سے بھی اجازت نامہ لینا ہوگا‘ ۱۰- کسی بھی غضب کردہ یا متنازعہ جگہ پر مسجد تعمیر نہ کی جائے۔
مصر میں مساجد کی روز افزوں تعداد سے حکومت خائف ہے۔ وزارت اوقاف نہ تو اتنی زیادہ مساجد کے لیے ائمہ و خطبا کا تقرر کر سکتی ہے اور نہ سیکورٹی فورسز ہی ان مساجد کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتی ہیں۔ لہٰذا مسجدیں مختلف اسلامی جماعتوں اور انجمنوں کے زیرانتظام ہوتی ہیں۔ حکومت مصر کے نزدیک اس سے ’’دہشت گردوں‘‘ کو فروغ ملتاہے۔ جمعہ کے خطبات میں‘ سرکاری پالیسیوں کی مخالفت کی جاتی ہے۔
آج ہر مسلمان ملک میںاس نوعیت کی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ مسجدیں تک آزاد نہ رہیں تو دشمنوں کو اور کیا چاہیے۔
سوال: وطن عزیز میں خاصے عرصے سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ جب کوئی پارٹی برسرِاقتدار آتی ہے تو مختلف سرکاری ملازمتوں میں اس مخصوص پارٹی کے لوگوں کی بھرتی شروع ہو جاتی ہے‘ اور ملک کے عام شہری جو کہ صلاحیت اور قابلیت کی بنا پر ان ملازمتوں کے زیادہ اہل ہوتے ہیںمحض سیاسی وابستگی نہ ہونے کی وجہ سے ان سرکاری ملازمتوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ کسی بھی پارٹی کے عہدے داروں کو اگر اس ناانصافی کی طرف متوجہ کیا جائے تو ان کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ پارٹی ورکرز نے اتنی قربانیاں دی ہیں اگر انھیں نوکریاں نہیں ملیں گی تو پھر کسے ملیں گی؟
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حکومت چلانے کے لیے ضروری ہے کہ پارٹی ورکرز کو نوکریاں دی جائیں تاکہ وہ اپنی سرکاری حیثیتوں میں رہ کر پارٹی مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ بعض پارٹیوں کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پارٹی کے لوگ بہت ایمان دار اور دیانت دار ہوتے ہیں لہٰذا اگر سرکاری ملازمتوں میں ایسے افراد کو موقع دیا جائے تو سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے؟ اس مقصد کے لیے وہ میرٹ اور مروجہ اصول و ضوابط کونظرانداز کرنے میں بھی کوئی برائی نہیں سمجھتے۔
براہ مہربانی قرآن و سنت اور اسلامی اصولوں کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ سرکاری ملازمتوں پر برسراقتدار پارٹی کے ورکرز یا عہدے داران کا کتنا اور کیسا استحقاق ہوتا ہے؟ اور پارٹی ورکرز کو سرکاری ملازمت دینے کے لیے مروجہ قواعد و ضوابط اور میرٹ کو نظرانداز کرنا کیسا فعل ہے؟
جواب: قرآن کریم نے مناصب اور ذمہ داریوں پر افراد کے تعین کے سلسلے میںبنیادی اصول سورۃ النساء میں یوں بیان فرمایا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا لا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا م بَصِیْرًا o (۴:۵۸) ’’مسلمانو‘اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو‘ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘ اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے‘‘۔گویا کسی منصب یا ذمہ داری پر تعین کرنے والوں اور متعین ہونے والوں دونوں پر یہ فرض کر دیا گیا ہے کہ جب کسی کو ذمہ داری دی جائے تو وہ پوری واقفیت رکھتا ہو۔ یہ نہ ہو کہ ایک میڈیکل ڈاکٹر کو وزیر دفاع یا مالیات یاقاضی القضاۃ بنا دیا جائے‘ جب کہ وہ ان شعبوں کی الف با سے بھی واقفیت نہ رکھتا ہو اور اس کی پہچان صرف یہ ہو کہ وہ سربراہِ مملکت یا کسی اعلیٰ افسر کا قریبی عزیز‘ دوست یا اس کی جماعت کا کارکن ہے۔ اس سلسلے میں جتنی جواب دہی اولی الامر کی ہے اتنی ہی مامور کی بھی ہے۔ اگر ایک شخص یہ جانتا ہو کہ وہ ایک منصب کی شرائط پوری نہیں کرتا اور وہ اس منصب کو قبول کرتا ہے تو وہ عدل کے منافی ظلم کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس کا اپنا فرض ہے کہ وہ ایسے منصب کو قبول نہ کرے۔ قرآن کریم نے سورۃ المومنون میں اہل ایمان کی بنیادی خصوصیات میں اس پہلو پر خاص توجہ دی ہے اور فرمایا ہے: وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْنَ o (المومنون ۲۳:۸) ’’اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں‘‘۔ ظاہر ہے ایک شخص اگر غلط منصب قبول کرتا ہے تو وہ نہ صرف اس منصب کے ساتھ زیادتی اور ظلم کرتا ہے بلکہ خود اپنے ساتھ بھی ظلم کرتا ہے اور اُمت مسلمہ کے بھی مفاد (مصلحت عامہ) کے خلاف ایسا کام کرتا ہے۔
اس اصول کی روشنی میں اگرکوئی سیاسی یا مذہبی جماعت ایسے افراد کی سیاسی تقرریاںکرتی ہے جو اس منصب کے اہل نہیں ہیں اور ان شرائط کو پورا نہیں کرتے جو اس سے تعلق رکھتی ہیں تو یہ بددیانتی‘ ظلم اور اُمت مسلمہ کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ہاں‘ اگر کسی سیاسی جماعت کی فکر اور نظریے سے ہم آہنگ افراد ان شرائط پر معروضی طور پر پورے اترتے ہوں اور مروجہ ضوابط کے تحت بغیر کھینچا تانی کے qualifyکرتے ہوںتو اس میں کوئی قباحت نہیں ہوگی۔ یہی شکل مذہبی و سیاسی جماعتوںکے اندر مناصب کی ہے۔ اگر کسی جماعت کی سربراہی کے لیے ایسے فرد کو ذمہ داری سونپ دی جائے جو اس کی فکر اور مطلوبہ کردار کا حامل نہ ہو تویہ سراسر ظلم اور عدل کے منافی ہوگا۔
تحریکات اسلامی کا امتیاز ہی یہ ہے کہ خود تحریک کے اندر ذمہ داریوں پر تعین کا معاملہ ہو یا تحریکات اسلامی کے برسراقتدار آنے کے بعد مختلف شعبہ ہاے حیات میںافراد کا تعین ہو‘ وہ اپنے آپ کو مصلحت عامہ اور مروجہ ضوابط سے آزاد نہیں کرتیں۔ البتہ انھیں اس کا پورا حق پہنچتا ہے کہ دستوری ذریعے کا استعمال کرتے ہوئے شرائط و ضوابط میں ان پہلوئوں کو شامل کریں جن کا تعلق افراد کے کردار‘ دیانت اورفنی صلاحیت سے ہواور پھر کھلے اور شفاف طریقے سے ان حضرات کو متعین کریں جو ان شرائط پر پورے اُترتے ہوں۔
پارٹی کے نام پر محض کارکنوں کو نوازنا‘ اسلام کا مدعا ہے نہ عدل سے مناسبت رکھتا ہے۔ سورۃ الانفال میں امانت کا حق ادا نہ کرنے کو خیانت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَتَخُوْنُوْا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o (الانفال ۸:۲۷) ’’جانتے بوجھتے اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ خیانت نہ کرو‘ اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ ہو‘‘۔
مسلم کی جامع الصحیح میں کتاب الامارۃ میں حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ ایک امیر جو ایک منصب قبول کرتا ہے اور اخلاص کے ساتھ اپنی مقدور بھر کوشش نہیں کرتا وہ کبھی جنت میں داخل نہ ہو سکے گا ۔ گویا منصب چاہے سیاسی وجوہات کی بنا پر ہو یا مسلکی اور مذہبی بنیاد پر‘ جب تک اصل بنیاد اہلیت اور صلاحیت کی نہ ہو‘ شرعی نقطہء نظر سے ظلم ہے۔
یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ پاکستان اور بہت سے مسلم ممالک میں اعلیٰ ترین مناصب تک عموماً تقرری کی بنیاد کسی کی سفارش ‘ رشتہ داری یا سیاسی تعلق ہوتا ہے۔ عدل اور صلاحیت کو کبھی معیار نہیںبنایا جاتا حتیٰ کہ عوام بھی ایسے افراد کو ووٹ دینا زیادہ پسندکرتے ہیں جو برسرِاقتدار آکر بجائے عدل و انصاف کے ان کو ذاتی فائدہ پہنچا سکیں۔ جب تک ہم بحیثیت ایک اُمت اس کلچر کو تبدیل نہیں کریں گے‘ اُمت مسلمہ اعلیٰ قیادت اور اصول پرستی سے محروم رہے گی۔ ذاتی‘ گروہی اور مسلکی مفادات کے نتیجے میں جو افراد بھی مناصب پر آئیں گے وہ امانتوں کو پامال کرنے میں اپنے سے پہلے والوں سے دو قدم آگے ہی نکلتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے گھر کو اپنے ہاتھوں تباہ کرنے سے بچائے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س : قرآن کی باترجمہ تدریس کرتے ہوئے کئی مقامات ایسے آتے ہیں جہاں سن بلوغت کے معاملات کا تذکرہ ہوتا ہے۔ ۹ سے ۱۶ سال کی عمر زندگی کے حیاتیاتی حقائق کے سلسلے میں تجسس کی ہوتی ہے۔ کیا ان آیات سے ذہنوں پر منفی اثرات نہیں پڑیں گے؟
مغرب تو جنس کے معاملے میں تمام حدیں توڑ گیا ‘ تاہم قرآن کے حوالے سے خیال ہے کہ شاید ایک غیر محسوس انداز میں قرآن اپنے پڑھنے والے کو حقائق سے آگاہ کرتا ہے۔ گویا ایک طرح کی صنفی تعلیم کا فطری سا نظام قائم ہے۔ کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ اسلامی نظامِ تعلیم کے حکمت کار نصابیات میں بالکل غیر محسوس انداز میں افزایش نسل کے معاملات کے احسن پہلوئوں کو شامل کردیں؟ کیا علماے کرام اسلام کے شرم و حیا کے معیار کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی اجازت دے دیں گے؟
ج : آپ کے سوال کا تعلق ایک اہم عملی مسئلے سے ہے اور جدید تعلیمی تصورات میں اسے بنیادی اہمیت دی جا رہی ہے۔ بلاشبہہ قرآن کریم تمام انسانوں کے لیے جامع ترین ہدایت ہے اور قیامت تک کے لیے اس میں انسان کی فلاح کا سامان موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم انسان کی پیدایش کے مراحل اور پیدایش کے بعد نشوونما و تربیت کے بارے میں اصولی ہدایات فراہم کرتا ہے۔ البتہ اس کا اسلوب نہ کسی علم الاجسام کی کتاب کا ہے نہ کسی صنفی معلومات کی انسائیکلوپیڈیاکا بلکہ یہ اعلیٰ ترین اخلاقی تصور کے ساتھ ہر عمر کے انسانوں کو بنیادی انسانی ضروریات کی اخلاقی تکمیل کے ذرائع سے آگاہ کرتا ہے۔
اس سلسلے میں بلوغت کے مسائل ہوں یا عائلی معاملات‘ شوہر اور بیوی کا تعلق ہو یا ایک ۱۳ سالہ نوجوان کے طہارت کے مسائل‘ ان تمام معاملات پر قرآن کریم نے روشنی ڈالی ہے تاکہ بچپن ہی سے ایک فرد کو برانگیختہ کیے بغیر ٹھنڈے انداز میں بنیادی معلومات فراہم کر دی جائیں۔
اسلام میں جو عمر نماز اور روزے کی فرضیت یا ایک ذمہ دارانہ زندگی کے آغاز کے لیے ہے وہی عمر ایسے معاملات کی بھی ہے جن میں ایک نوجوان کو عالم خواب میں انزال یا جسم کے طبعی نظام کے نتیجے میں ایک لڑکی کو ایام کے واقع ہونے کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان تمام معاملات سے اگر روایتی شرم کی بنا پر اغماض برتا جاتا تو ہدایت کہاں سے ملتی؟ اس لیے کتاب ہدایت نے ان معاملات کا ذکر کیا لیکن ایسے انداز میں کہ جس کو یہ مسائل پیش آئیں نہ اسے احساس جرم ہو نہ احساس محرومی و شرمندگی۔ چنانچہ نماز سکھاتے وقت والدین کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ وضو‘ غسل اور طہارت کے مسائل کیا ہیں؟ اس سلسلے میں فقہی کتب کا سہارا لینا پڑتا ہے جو ان مسائل کو سادہ انداز میں پیش کرتی ہیں۔ اکثر کتب ایسی تفاصیل بیان نہیں کرتیں جو نوعمر افراد کے لیے شرم کا باعث ہوں۔ ہمارا فرض ہے کہ ان معاملات پر سادہ اور آسان طریقے سے معلومات فراہم کریں۔
اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو مغرب زدہ اور مغربی تعلیمی تصورات سے متاثر حضرات جنسی تعلیم کے عنوان سے ہماری نوجوان نسل کو جنسی جنون کی طرف لے جائیں گے اور ناقص تعلیم کے ذریعے ان کے اخلاق کو پامال کرنے کی کوشش کریں گے۔ آج دُنیا کے تمام تعلیمی ادارے ’’محفوظ تعلق‘‘ جیسی شرم ناک اصطلاح معصیت اور فحاشی کے متبادل کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اسی کو جنسی تعلیم سے تعبیر کرتے ہیں۔
اگر قرآن و سنت کی مدد سے یہ بات بچپن ہی سے ذہن نشین کرا دی جائے کہ جنس مخالف سے صرف اور صرف ایک ہی رشتہ جائز ہو سکتا ہے اور وہ عقد نکاح کے ذریعے ممکن ہے تو مغرب کی جنسی بے راہ روی کے غبارے سے ساری ہوا نکالی جاسکتی ہے اور آنے والی نسلوں کو مہلک اخلاقی اور جسمانی امراض سے بچایا جا سکتا ہے۔
آپ نے علما سے اجازت مانگی ہے۔ میرے خیال میں اگر آپ مطالعہ فرمائیں تو حدیث اور فقہ کی ہر کتاب کا آغاز ہی ان مسائل سے ہوتا ہے جن کا تعلق ایمان‘ طہارت و پاکیزگی سے ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کتب کے اسلوب کو دور جدید کے مطالبات کی مناسبت سے مزید سہل بنایا جائے اور ادب و شرم و حیا کے ساتھ ان معاملات پر بات کی جائے جو بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی‘ روحانی اور جسمانی صحت کے لیے ضروری ہیں اور جن پر قرآن و حدیث اور فقہ نے خود توجہ دی ہے۔ (ا - ا)
س : گرمیوں کی تعطیلات میں بالخصوص اور سال بھر عموماً مختلف عمروں اور جماعتوں کے بچوں کو پڑھاتا ہوں۔ حضرت انسؓ کے سلسلے میں روایات میں آتا ہے کہ رسولؐ اللہ کی خدمت میں وہ جتنا عرصہ بھی رہے۔ آپؐ نے کبھی ان کی مذمت نہیں کی اور نہ سزا دی‘ سرعام کبھی سرزنش نہیں کی کہ یہ کیوں کیا اور یہ کیوں نہیں کیا۔ ادھر تعلیم میں یہ معاملہ ہے کہ غیرحاضری سے تعلیم کا تسلسل ٹوٹتا ہے جو استاد اور شاگرد اور ہم جماعت طلبہ کے لیے پریشانیوںکا سبب ہے۔ اسی طرح ہوم ورک کے کرنے اور نہ کرنے سے بڑا فرق پڑتا ہے۔ پھر ٹیسٹ سسٹم ہے۔ اب ان معاملات میں مختلف سزائیں نافذ نہیں کی جاتیں توکام کرنے والے بچوں کی نفسیات پر اس کا واضح اثر پڑتا ہے۔ بچپن ناسمجھی کا دور ہوتا ہے اور کھیل کود اور دیگر مشاغل کی طرف توجہ مبذول رہتی ہے۔ سزا کے بغیر فہمایش تو کم ہی کام کرتی ہے۔ والدین کی طرف سے الگ شکایات کہ پڑھایا نہیںجاتا۔ بچوں کو سزا بھی دیتا ہوں اور ڈرتا بھی رہتا ہوں۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا ہے کہ والد کو اولاد کی تادیب کے لیے ہاتھ میں لکڑی رکھنی چاہیے۔ کیا استاد بھی اس سلسلے میں کسی قسم کا اختیار رکھتا ہے؟ اور وہ بچوں کی تعلیمی کارکردگی برقرار رکھنے اور اُن کی استعداد میں اضافے کے لیے کس حد تک جا سکتاہے۔
ج: کسی بات کی اجازت ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اسے لازماً کیا جائے۔ حضرت انسؓ ۱۰ سال کی عمر میں حضور نبی کریمؐ کے خادم کی حیثیت سے گھر کے افراد میں شامل ہوئے اور ۱۰ سال تک آپؐ کی خدمت کرتے رہے۔ اس عہد میں ایسے واقعات بھی ہوئے جن میں ان کے ہاتھ سے کوئی برتن ٹوٹا لیکن ایسے مواقع پر ہاتھ کے استعمال کی جگہ آپؐ نے ام المومنین سیدہ عائشہؓ کو متوجہ فرمایا کہ وہ درگزر فرمائیں۔ اس سب کے باوجود حدیث میں صاف ذکر آتا ہے کہ اپنے بچے کو سات سال کی عمر سے تعلیم و تربیت دی جائے اور ۱۰ سال کے بعد اگر نماز نہ پڑھے تو تادیب کی جائے۔ اس لیے یہ بات تو شبہے سے بالاتر ہے کہ والدین کو تادیب کا حق دیا گیا ہے اور کوئی بچہ اس بنا پر ان کے خلاف مقدمہ نہیں کر سکتا کہ انھوں نے اس پر قوت کا استعمال کیا ہے لیکن خود والدین سے کس قسم کا کردار متوقع ہے‘ اس پر تفصیلی بات کی ضرورت نہیں۔ اگر ۱۰ سال میں حضرت انسؓ نے اُف تک نہ سنا تو ایک باپ‘ استاد یا بڑا بھائی ایک بچے کو کس طرح لکڑی یا ہاتھ سے مار کر زخمی کر سکتا ہے!
اسلام میں ایک حق کا ہونا اور اس حق کی لفظی پیروی کرتے ہوئے شدت سے استعمال کرنا‘ دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ ( ا - ا)
س: ہمارے ہوسٹلوں میں ایک طلبہ تنظیم نے کافی کمروں پر قبضہ کر رکھا ہے جو کہ ان کا حق نہیں۔ دین میں اس بارے میں کیا حکم ہے؟ داعی کا کردار ہر دھبے سے پاک ہونا ضروری ہے۔ ان کے اس عمل سے بہتری کے بجائے بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ اس کی بہتری کی کیا صورت ہے؟
ج: آپ کے سوال کا تعلق جامعات میں اقامت گاہوں کے استعمال سے متعلق ہے۔ ہوسٹل کا دعوتی استعمال ایک مطلوب عمل ہے لیکن ہوسٹل پر بغیر کسی قانونی حق کے قابض ہو جانا ہر لحاظ سے غلط ہے۔ ان تحریکات کے لیے جو خود کو اصلاحی‘ دعوتی اور تعلیمی تحریکات کہتی ہوں ایسا کرنا مزید قابل اعتراض ہے۔ تحریک اسلامی کے کارکنوں کا فرض ہے کہ وہ اعلیٰ اسلامی کردار کا نمونہ پیش کریں‘ نہ کسی کا حق ماریں اور نہ ناجائز قبضے کے مرتکب ہوں۔ اس کی اصلاح کی طرف فوری طور پر توجہ کرنی چاہیے‘ مقامی اور مرکزی نظم کو اس سلسلے میں مناسب ہدایات جاری کرنی چاہییں۔ ( ا - ا)
یہ توفیق خداوندی ہے کہ وہ اپنے کسی بندے کو دین حق کی خدمت کا راستہ دکھائے۔ خدمت ِدین سے وابستہ تمام ہی افراد‘ اُمت مسلمہ کا نہایت قیمتی سرمایہ ہیں۔ انھی نفوس میں ایک عظیم نام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (۱۹۰۳ء-۱۹۷۹ء) کا ہے۔
پروفیسر افتخار احمد نے حیات مودودیؒ کے تشکیلی دور ‘ جدوجہد کے مختلف مرحلوں اور فکر کے مختلف گوشوں اور کارناموں پر روشنی ڈالنے کی کامیاب کوشش کی ہے‘ تاہم خود مؤلف کو یہ احساس ہے کہ: ’’مولانا کی شخصیت اور ان کی علمی اور سیاسی مصروفیات کا نہایت ہی محدود پیمانے پر تحقیقی انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔ مولانا کی ہمہ گیر شخصیت کے بے شمار پہلو ایسے ہیں‘ جو طوالت کے ڈر سے تشنہ چھوڑ دیے گئے ہیں‘ یا انھیں سرے سے چھیڑا ہی نہیں گیا‘‘ (ص ۱۴)۔ یہ مصنف کی کسر نفسی ہے۔ انھوں نے ایک مختصر کتاب میں بنیادی موضوعات کو سمونے کی خاصی کامیاب کوشش کی ہے‘ تاہم کتاب پڑھنے پر ھل من مزید کی کیفیت برقرار رہتی ہے شاید اس لیے کہ حکایت لذید ہے۔
چند امور توجہ طلب ہیں: مصنف کا اسلوب عمدہ اور شستہ ہے مگر جب ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر آتا ہے تووہ واحد غائب کا اسلوب اختیار کرلیتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ متعدد مقامات پر مولانا مودودیؒ کی تقریروں اور تحریروں کے طویل اقتباسات پر انحصار کرتے ہیں۔ اسی طرح صحیح نام منظور احمد نعمانی نہیں‘ محمد منظور نعمانی ہے۔
مصنف نے لکھاہے: ’’آرنلڈ کی کتاب Preaching of Islam کا ترجمہ بھی مولانا ]مودودی[ نے قیام دہلی کے دوران کیا تھا‘ اس کا کیا بنا؟ کچھ پتا نہیں‘‘ (ص ۱۲۷)۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ مولانا مودودیؒ نے مذکورہ کتاب کے مختلف حصوں کی تلخیص اور حاصل مطالعہ کو متعدد قسطوں میں اخبارالمجعیۃ دہلی میں شائع کیا تھا جسے بعد میں شہیر نیازی اور حفیظ الرحمن احسن نے اسلام کا سرچشمہ قوتکے نام سے کتابی شکل میں طبع کرایا۔ اگرچہ مرتبین نے اس کا ذکر اس انداز میں نہیں کیا‘ تاہم یہ آرنلڈ ہی کی کتاب سے ماخوذ اور اپنے مطالعے کی بنیاد پر لکھے جانے والے مختصر مضامین ہیں۔
زیرنظر کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے تحریر کیا ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ مولانا کی ہمہ گیر شخصیت کے جو پہلو خود مصنف کے خیال میں تشنۂ تحقیق رہ گئے ہیں‘ یا بعض مباحث ‘طوالت کے خوف سے انھوں نے چھیڑے ہی نہیں‘آیندہ ایڈیشن میں وہ اُن پر بھی روشنی ڈالیں اور کتاب میں موجود کمیوں کو حتی الوسع پوراکرنے کی کوشش کریں۔ (س - م - خ)
ص ۶۹۲ پر آخری جملہ : ’’بفضلہ تعالیٰ معارف الحدیث کا مبارک سلسلہ اس جلد پر تمام ہوا‘‘، اس تبصرے کا نقطہء آغاز ہے۔ دینی حلقوں میں معارف الحدیث کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اس کی پہلی جلد ۱۳۷۵ھ میں شائع ہوئی۔ زیرنظر آخری جلد مولانا منظور نعمانی ؒ کی رحلت کے چار سال بعد شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کا ایک حصہ ان کا اپنا لکھا ہوا ہے لیکن بعد میں ان کے حکم پر زکریا سنبھلی صاحب نے اسے مکمل کیا۔
تبصرہ نگار کے نزدیک معارف الحدیثکی اصل خوبی یہ ہے کہ حدیث کی صرف ضروری تشریح کی جاتی ہے اور اس میں بھی عملی نقطہء نظر سامنے رکھا جاتا ہے اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ حدیث بیان کرنے والا پڑھنے والے کے دین و ایمان ‘ سیرت و کردار اور اخروی فوز و فلاح کے لیے فکرمند محسوس ہوتا ہے۔ میرے نزدیک یہی اس سلسلۂ کتب کی اصل کشش ‘ چاشنی اور مقبولیت کا راز ہے۔ اس جلد میں علم‘ کتاب و سنت کی پابندی‘ امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور علامات قیامت کا بیان ہے۔ اس کے بعد کے ابواب آپؐ کی ازواج ‘اولاد اور صحابہ کرامؓ کے فضائل و مناقب کے بارے میں ہیں۔ (مسلم سجاد)
مولانا اشرف علی تھانویؒ نے سیکڑوں چھوٹی بڑی دینی و علمی تصانیف مرتب فرمائی ہیں۔ مختلف موضوعات پر مولانا کے مواعظ‘ ملفوظات اور مکاتیب کا گراں قدر سرمایہ آج کے حالات میں بھی تہذیب اخلاق اور تزکیۂ نفس کے لیے غیر معمولی افادیت کا حامل ہے۔
مولانا کے ملفوظات کا یہ ذخیرہ ان کی دو کتابوں ملفوظات کمالات اشرفیہ اور الافاضاۃ الیومیہ (۱۰ جلدوں میں) کے خلاصے اور انتخاب پر مشتمل ہے۔ جگہ جگہ فکرانگیز جواہرپارے اور رہنما ہدایات ملتی ہیں۔ مولانا تھانویؒ ارشاد فرماتے ہیں: ’’مسلمانوںکی تباہی و بربادی کا بنیادی سبب بدانتظامی ہے جو بے فکری کی دلیل ہے۔ اسی بے فکری کی بدولت ہزاروں زمین دار‘ رئیس اور نواب بھیک مانگتے پھرتے ہیں حتیٰ کہ اسی وجہ سے سلطنتیں ضائع کر دیں جس سے دنیا کے ساتھ ساتھ دین بھی برباد ہو رہا ہے‘‘ (ص ۲۳۰)۔ ’’اس وقت حالت یہ ہے کہ مسلمان (دشمن سے مقابلے کے سلسلے میں) دوسری تدابیر تو اختیار کرتے ہیں لیکن گناہوں سے باز نہیں آتے اور توبہ نہیں کرتے‘‘ (ص ۲۳۵)۔ ’’انتظام بڑی برکت کی چیز ہے۔ اگر انتظام نہ ہو تو سلطنت بھی باقی نہیں رہ سکتی‘‘ (ص ۲۵۰)۔ موجودہ دور کی درویشی کے متعلق: ’’آج کل درویشی کے لباس میں ہزاروں راہزن اور ڈاکو مخلوق کے دین پر ڈاکا مارتے پھرتے ہیں۔ قسم قسم کے شعبدے اور طلسم دکھا کر لوگوں کو پھنساتے رہتے ہیں۔ ادھر لوگوں میں بھی عقل اور فہم کا اس قدر قحط ہو گیا ہے کہ ایسے ڈاکوئوں کو درویش اور بزرگ سمجھ کر ان کے ہاتھوں اپنے دین و ایمان کو برباد کرتے رہتے ہیں‘‘۔ (ص ۲۹۳)
فرمایا: ’’جو شخص دین کا پابند نہیں‘ دنیاوی معاملات کے سلسلے میں بھی اس کے فہم میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے اور دین دار شخص کو اگرچہ دنیا کا تجربہ نہ ہو لیکن دنیوی امور میں اس کی سمجھ سلیم ہو جاتی ہے۔ حلال روزی میں بھی یہی اثر ہے۔ برخلاف اس کے‘ حرام روزی سے فہم مسخ ہو جاتی ہے‘‘ (ص ۱۳۸)۔ ایک ذاکر شاغل سے فرمایا: ’’تم کمزور ہو۔ ضرب اور جہر چھوڑ دو __ دو چیزوں کا ہمیشہ خیال رکھو: معدے اور دماغ کی تندرستی کا۔ کام کا دارومدار ان دونوں کی حفاظت پر ہے‘‘۔ (ص ۱۵۹)
کتاب کی تدوین و ترتیب کے ذریعے جو علمی و دینی خدمت انجام دی گئی ہے‘ اس سے بیش از بیش استفادہ کیا جانا چاہیے۔ (انیس احمد اعظمی)
پروفیسر سید محمد سلیم ؒ کا تعلق سادات جعفری سے تھا۔ علی گڑھ یونی ورسٹی سے ایم اے اور ایل ایل بی کے امتحانات پاس کیے۔ آپ کے اساتذہ میں مولوی امتیاز علی‘ مولانا عبدالعزیز میمن اور مرزا محمود بیگ جیسے مشاہیر اہل علم و فضل شامل ہیں۔ ساری زندگی تعلیم و تدریس تحقیق و تصنیف میں گزری۔ علمی مقام اتنا بلند تھا کہ مشاہیر اہل علم اس سلسلے میں رطب اللسان ہیں۔ جماعت اسلامی کے رکن تھے۔ شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج (منصورہ‘ سندھ) کے پرنسپل رہے۔ اس ادارے کی تشکیل اور ترقی میں ان کا خون جگر بھی شامل تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد تنظیم اساتذہ پاکستان کے ادارہ تعلیمی تحقیق کے ڈائریکٹر رہے اور بیش بہا اسلامی تعلیمی کتب تحریر فرمائیں۔ تنظیم کا ماہنامہ افکار معلم بھی ان کی ادارت میں شائع ہوتا رہا۔ ۲۷ اکتوبر ۲۰۰۰ء کو قرطبہ‘ اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے کل پاکستان اجتماع میں آپ کی وفات ہوئی۔ لاکھوں افراد نے آپ کی نماز جنازہ ادا کی۔ کراچی کے پاپوش نگر قبرستان میں آسودئہ خاک ہوئے۔
پروفیسر سید محمد سلیم کی دل چسپی کے موضوعات متنوع تھے۔ اسلامی تاریخ و تہذیب کے ایک مظہر خط اور خطاطی سے ان کی گہری وابستگی تھی۔ خطاطی اور خوش نویسی کو مسلمانوں کا خاص فن قرار دیتے تھے۔ اس سلسلے میں انھوں نے تین چار مختصر کتب تحریر فرمائیں لیکن یہ ضخیم کتاب ان کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے جس میں انھوں نے تحریر اور حروف ابجد کی ایجاد‘ آرامی‘ یونانی‘ عبرانی وغیرہ خطوط کی ایجاد‘ عربی خطوط کی درجہ بدرجہ ترقی اور خط کے مشہور دبستانوں کے متعلق تفصیل سے معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ ساتھ ہی عالم اسلام کے مشہور خطاط اساتذہ کے مختصر حالات زندگی درج کیے ہیں۔ ایک باب خطاطی کے مشہور مرقعات کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ کتاب کے مقدمے میں ڈاکٹر غلام مصطفی خاں پروفیسر امیرے طس سندھ یونی ورسٹی حیدرآباد نے فرمایا ہے: کتاب کے سرسری جائزے سے بھی اندازہ ہو سکتا ہے کہ اُردو میں اپنے موضوع پر یہ ایک منفرد کتاب ہے بلکہ اس قدر جامعیت کے ساتھ نہ صرف اردو بلکہ فارسی‘ عربی اور انگریزی میں بھی کوئی کتاب موجود نہیں۔ (ص ۱۷)
دیباچہ معروف محقق‘ نقاد اور اسکالر ڈاکٹر وحید قریشی صاحب نے لکھا ہے۔ ان کے خیال میں پروفیسر سید محمد سلیم کی یہ کتاب ]خطاطی کے[اس مٹتے ہوئے فن کو زندہ کرنے اور آیندہ نسل تک پرانے علمی سرمائے کو پہنچانے میں بڑی مفید ہے۔ ]انھوں[ نے خطاطی کے موضوع پر یہ مبسوط کتاب لکھ کر اس ضرورت کو کماحقہ پورا کر دیا ہے۔ (ص ۲۲)
سید صاحب نے معلومات کے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ حالانکہ اس کا ایک ایک باب اور بعض جگہ ایک ایک پیراگراف پوری پوری کتاب یا مفصل مقالے کا متقاضی ہے۔ کتاب کے پروف احتیاط سے نہیں پڑھے گئے۔ امید ہے دوسرے ایڈیشن میں اغلاط درست کر دی جائیں گی۔ کتاب مجلد خوب صورت گردپوش سے مزین اور آرٹ پیپر پر چھاپی گئی ہے۔ سید صاحب کو اس کتاب کو مطبوعہ صورت میں دیکھنے کا بڑا ارمان تھا لیکن ان کی زندگی میں مختلف موانع کے باعث چھپ نہ سکی۔ بہرحال اب یہ ان کا ایک صدقہ جاریہ ہے۔ (ملک احمد نواز اعوان)
اصول فقہ انتہائی اہم مگر دقیق اور مشکل علم ہے۔ مزید یہ کہ اس موضوع پر قدیم و جدید ذخیرے اور درسی علوم فقہ کو اکثر مشکل بنا کر پیش کیا گیا ہے تاکہ طالب علم مشکل پسندی اور دقائق کو حل کرنے کا عادی ہو جائے۔ اس کے فوائد بھی ہیں مگر نقصان یہ ہے کہ بہت سے طلبہ اس فن کا پورا اور کماحقہ فہم نہیں حاصل کرسکتے۔
علامہ مولانا معین الدین ؒخٹک اپنے دور میں آیۃمن آیات اللّٰہ (اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی) تھے۔ وہ علوم کا بحرذخار تھے‘ تفسیر و حدیث‘ فقہ‘ اصول فقہ اور بہت سے دیگر علوم و فنون کے حافظ تھے۔ انھیں بجا طور پر اپنے دور کا حافظ ابن حجرؒ اور انورشاہ کاشمیریؒ کہا جا سکتا ہے۔ وہ مختلف علوم و فنون پر اس قدر حاوی تھے کہ ان کا بیان کردہ مضمون ہر طالب علم کے دل و دماغ میں اترتا جاتا تھا‘ اور مولانا کے انتہائی مشکل لیکچر میں بھی وہ حلاوت اور ذہنی اطمینان اور قلبی سرور حاصل کرتے تھے۔
زیرنظر مجموعہ ان شاہکار خطبات پر مشتمل ہے جو مولانا ؒنے ۳ اگست تا ۲۵ ستمبر ۱۹۶۶ء ادارہ معارف اسلامی کراچی میں دو ماہ سے بھی کم عرصے میں دیے تھے۔ یہ خطبات پروفیسر نورورجان نے بڑی محنت کے ساتھ ٹیپ سے اخذ کر کے مرتب کر دیے ہیں۔ اصول فقہ کے تمام مباحث کا احاطہ کرتے ہوئے قرآن پاک اور سنت کی زبان و بیان سے متعلق قواعد کو پہلے حصے میں رکھا گیا ہے‘ اور جن مباحث کا تعلق سنت‘ اجماع‘ قیاس اور اجتہاد سے ہے وہ دوسرے حصے میں ہیں۔ یہ درس نظامی کی تمام نصابی کتب (جنھیں دوسرے سال سے لے کر ساتویں سال تک پڑھایا جاتا ہے) پر حاوی ہیں اور اس قدر سلیس اور عام فہم ہیں کہ دینی مدارس کے طلبا کے علاوہ کالج اور یونی ورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ بھی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ یہ اپنے مضامین و موضوعات کی وسعت کے لحاظ سے دینی مدارس کے ہر سطح کے طلبہ اور اساتذہ‘ یونی ورسٹی کے پروفیسروں‘ عدالتوں کے وکلا اور ججوں کے لیے گراں قدر تحفہ ہے۔
مولانا حافظ محمد عارف نے دیباچے میں فقہ اور اصول فقہ کی تاریخ اور اہم کتب کا تعارف کرایا ہے۔ آغاز میں مولانا معین الدینؒ خٹک کا تعارف ہے اور ان کا ایک مقالہ ’’فقہ کیسے وجود میں آئی؟‘‘ بھی شامل ہے۔ پروفیسر نورورجان نے سلسلہ ہاے فقہا ے عظام کا نقشہ پیش کیا ہے اور کتاب کے آخر میں تفسیر‘ حدیث‘ فقہ اور اصول فقہ کی قدیم و جدید کتب کی جامع فہرست بھی دی ہے۔ کتاب کا ایک ایک لفظ قیمتی ہے اور اس کی قدروقیمت کا صحیح اندازہ پوری کتاب کے مطالعے سے ہو سکتا ہے۔
کتب فقہ کی عبارات کے نقل میں بہت سی جگہ غلطیاں راہ پا گئی ہیں۔ آیندہ ایڈیشن میں ان کی اصلاح ضروری ہے۔ اس پیش کش پر ادارہ معارف اسلامی کراچی‘ پروفیسر نورورجان اور ناشر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ میں تمام مدارس کے ذمہ داروں سے عرض کروں گا کہ اس کتاب کو نصاب میںشامل کر کے اس فن کی تعلیم کو معیاری بنانے میں حصہ لیں۔ (مولانا عبدالمالک)
’’اشارات‘‘ (فروری ۲۰۰۲ء) میں جہاداکبر اور جہاد اصغر پر بحث کی گئی ہے۔ اس بارے میں قول کو حدیث نہیں سمجھنا چاہیے۔ مشہور حنفی عالم ملا علی قاری ؒ (المتوفی ۱۰۱۴ھ) نے اپنی کتاب ’’الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ‘‘ المعروف بالموضوعات الکبری میں تمام جھوٹی حدیثوں کو جمع کیا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک باطل حدیث نمبر ۲۱۱ ہے جس کے الفاظ ہیں: ’’ہم چھوٹے جہاد (جہاد اصغر) سے بڑے جہاد (جہاد اکبر) کی طرف لوٹے ہیں۔ لوگوں نے پوچھا: جہاد اکبر کیا ہے؟ تو فرمایا: ’’یہ جہادِ قلب ہے‘‘۔ اس باطل حدیث کے بارے میں‘ حافظ ابن حجر عسقلانی تسدید القوس میں کہتے ہیں: ’’یہ لوگوں کی زبانوں پر چڑھی ہوئی ہے لیکن یہ حدیث رسولؐ نہیں ہے بلکہ ابراہیم بن ابی عیلۃ کا قول ہے (جن کا انتقال ۱۵۲ھ میں ہوا تھا)۔
ملا علی قاری ؒ فرماتے ہیں: ’’حافظ عراقی وغیرہ نے تو اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے‘ لیکن میں تو اس کو باطل سمجھتا ہوں‘ اس لیے کہ یہ ایک اہم ترین فریضے کی شان میں کمی کرتی ہے جس کو رسولؐ اللہ نے ذروۃ سنام الاسلام (اسلام کی بلندی) کا نام دیا ہے۔ میں نے ایک رسالہ جہاد پر لکھا ہے‘ جس میں اس باطل روایت کے بطلان کی طرف اشارہ کیا ہے‘‘۔
’’چمن کی فکر کر نادان‘‘ (فروری ۲۰۰۲ء) کے ذریعے طلسم سامری کے بت کو پاش پاش کر دیا گیا ہے۔ حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کر دیا گیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے جہاد اصغر اور جہاداکبر کے الفاظ اور علامہ اقبالؒ کے کلام سے جو مغالطے ملت میں پھیلائے تھے‘ وہ دُور کر دیے گئے ہیں۔ اُن لوگوں کی آنکھیں کھل جانا چاہییں جو اپنی سادگی میں سرکاری موقف کی تائید کرتے ہیں۔
’’مسلکی منافرت اور تشدد‘‘ (فروری ۲۰۰۲ء) میں بہت اچھے انداز سے اسلام کا مطلوب واضح کیا گیا ہے‘ اور مسلکی اختلافات کی وجوہات اور اُن کے حل کی تدابیر کے لیے عملی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں ان مسائل سے بچائو کس طرح ہو اور دینی قوتوں کو توسیع و دعوت کی بہترین حکمت عملی کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے؟ اگر قرآن اہل کتاب کو کلمۃٍ سوائٍ کی طرف دعوت دیتا ہے تو ہمارے علماے کرام چند فروعی مسائل سے صرفِ نظر کر کے اتحاد اُمت کامظاہرہ کیوں نہیں کر سکتے۔
اس اشاعت سے ان صفحات میں قرآن مجید کے ترجمہ و تفسیر کا ایک سلسلہ شروع ہو رہا ہے۔ ترجمہ جس نوعیت کا ہے اس کے لحاظ سے اسے ترجمہ کہنے کے بجائے ترجمانی کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔ اس میں جس چیز کی کوشش میں نے کی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کو پڑھ کر جو مفہوم میری سمجھ میں آتا ہے اور جواثر میرے قلب پر پڑتا ہے اسے حتی الامکان جوں کا توں اپنی زبان میں منتقل کر دوں‘ اسلوب بیان میں ترجمہ پن نہ ہو‘ عربی مبین میں جو کلام نازل ہوا ہے اس کی ترجمانی جہاں تک ممکن ہے اردوئے مبین میں ہو‘ اصل کلام کا فطری ربط آپ سے آپ ترجمہ میں نمایاں ہوتا جائے‘ اور کلام الٰہی کے شاہانہ وقار‘ زورِبیان‘ اور موقع و محل کے مطابق بدلتے ہوئے لہجے اور اسلوب کو بھی جہاں تک بس چلے اُردو میں منتقل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اِن اغراض کے لیے لفظی ترجمہ کی پابندیوں سے نکلنا بہرحال ناگزیر تھا ‘ اس لیے میں نے ترجمہ کے بجائے ترجمانی کا ڈھنگ اختیار کیا‘ البتہ انتہائی ممکن احتیاط کے ساتھ میں نے اس امر کا التزام کیا ہے کہ اصل عبارت کے الفاظ جس قدر مفہوم کے متحمل ہوں اس سے تجاوز نہ ہونے پائے۔ پھر مجرد ترجمانی سے ایک عام ناظر کے فہم قرآن میں جو کمی باقی رہ جاتی ہے اُسے پورا کرنے کے لیے میں نے مختصر تفسیری حواشی اور ہر سورت کے آغاز میں ایک مختصر مقدمہ کااضافہ کیا ہے ‘ اور ان میں ایک اوسط درجہ کے تعلیم یافتہ آدمی کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر صرف وہ باتیں بیان کر دی ہیں جن کا جاننا قرآن کے معنی و مدعا کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ اسی مناسبت سے میں نے اس کا نام ’’تفہیم القرآن ‘‘ رکھا ہے کیونکہ اس سلسلہ کو شروع کرنے سے میرا مقصد عام لوگوں کو قرآن سمجھانا ہے .....
رسالہ میں اس کی اشاعت کا سلسلہ شروع کرنے سے میری غرض یہی ہے کہ اہل علم و نظر حضرات بالخصوص اور عام ناظرین بالعموم اسے تنقیدی نظر سے ملاحظہ کریں اورجہاںکوئی غلطی یا فروگزاشت‘ یا ترجمانی و تفسیر میں کوئی تشنگی‘ یا کسی اعتراض و شبہ کی گنجایش پائیں ازراہ کرم مجھے اس پر متنبہ فرما دیں تاکہ نظرثانی کے وقت میں ان کے مشوروں سے استفادہ کر کے اس چیز کو زیادہ سے زیادہ صحیح و معتبر اور مفید بنا سکوں۔ سردست اس سلسلہ کو آخری تیار شدہ چیز نہ سمجھا جائے۔ بلکہ محض ایک مسودہ کی حیثیت سے دیکھا جائے۔ برادرانِ دینی سے میری درخواست ہے کہ وہ اس خدمت کی تکمیل میں میری مدد فرمائیں۔ جو اصحاب بھی اس میں میری اعانت کریں گے میں ان کا شکرگزار ہوں گا اور اگر کچھ لوگ ہمدردانہ مشورہ و اصلاح کی جگہ طعن و تعریض کا طریقہ اختیار کرنا پسند فرمائیں تو ان کے ارشادات میں بھی جہاں کوئی بجااعتراض دیکھوں گا اس سے استفادہ کرنے اور ان کی عنایت کا شکریہ ادا کرنے میں ان شاء اللہ مجھے تامل نہ ہوگا۔ (’’اشارات‘‘، ابوالاعلیٰ مودودیؒ،ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۰‘ عدد ۱‘ محرم ۱۳۶۱ھ‘ مارچ ۱۹۴۲ء‘ ص ۲-۳)