سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں پرویز مشرف صاحب کوتین سال کی جو مدت دی تھی وہ اب مکمل ہورہی ہے۔ ان کی حکومت نے جو سات نکاتی ایجنڈا قوم کے سامنے پیش کیا تھا‘ اس کا پہلا نکتہ قوم کو مایوسیوں سے نکال کر انھیں اعتماد دینے کا ایجنڈا تھا۔ اس لحاظ سے یہ حکومت مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے۔موجودہ حکومت قوم کو کوئی نشانِ منزل نہیں دے سکی ہے بلکہ ملک بنانے والوں نے برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کو اسلامی مملکت بنانے کے جس مقصد کے لیے متحد کیا تھا‘ جس کے لیے انھیں قربانیوں پر آمادہ کیا تھا‘ جس کی خاطر لاکھوں جانوں کی قربانی دی گئی تھی اور جس کی خاطر ایک کروڑ لوگوں نے اپنے گھربار چھوڑ دیا تھا ‘موجودہ حکومت نے سیکولرازم اور کمال ازم کا تذکرہ کر کے اور نصاب تعلیم اور دینی مدارس میں مداخلت کرکے اس منزل کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔ موجودہ حکومت نے امریکی اتحاد میں شمولیت اختیار کرکے تہذیبوں کی جنگ میں عملاً اسلام اورمسلمانوں کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیاہے۔ امریکی افواج کو افغانستان میں مداخلت کی خاطر ہوائی اڈے فراہم کیے۔ ان کے ہوائی جہازوں اور میزائلوں کے لیے اپنی فضا فراہم کی اور انھیں خفیہ معلومات فراہم کیں۔
مغربی اقوام اور امریکہ کے دبائو کے تحت موجودہ حکومت اپنی کشمیر پالیسی سے دست کش اورکشمیری مجاہدین کی امداد سے دست بردار ہو گئی ہے۔ اس نے جہاد کو دہشت گردی‘ اور مجاہدین کی امداد کے لیے آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر میں جانے کو دراندازی تسلیم کر کے اس کو بند کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ موجودہ حکومت کے ان اقدامات سے امریکہ تو خوش نہ ہو سکا کیونکہ امریکی اور مغربی پالیسی صہیونی اور بھارتی مفادات کے تابع ہے البتہ اس کے نتیجے میں حکومت نے ملک کے اندر امریکہ اور بھارت کے خلاف موجود شدید نفرت کا رخ اپنی طرف موڑ لیا ہے۔
اگر محب وطن اور بیدار مغز دینی قیادت لوگوں کی صحیح رہنمائی کرکے ان کی جدوجہد کو مثبت راستوں پر نہ ڈالتی تو حکومت نے اس صورت حال سے تخریبی قوتوں کوفائدہ اٹھانے کا پورا پورا موقع فراہم کر دیا تھا۔ملک کے اندر تخریبی کارروائیوں کی مذمت کرکے اورچرچ اور مشنری اسکول اور مشنری ہسپتال پر حملوں کو اسلام دشمن قوتوں کی کارروائی قرار دے کر‘ دینی قیادت نے ملک کو تخریب کاروں کی آماجگاہ بننے سے بچایا ہے۔
حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان میں امن و امان کی حالت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ سرمایہ کار اپنا سرمایہ طویل مدت کے صنعتی منصوبوں میں لگانے سے گریزاں ہیں لہٰذا بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ درآمدی اور برآمدی تجارت کی مقدار کم ہو گئی ہے اور قوم بے یقینی کی شکار ہے۔ پاکستانی قوم کو اپنی ایٹمی صلاحیت پر ناز تھا لیکن یہ صلاحیت بھی اب پوری طرح امریکی نرغے میں ہے۔ افغانستان میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی فوجوں کی حکومت ہے جنھیں مزاحمت کا سامنا ہے۔ اب امریکی‘ پاکستان کے قبائلی علاقے میں بھی مداخلت کر رہے ہیں اور بہانہ یہ بنا رہے ہیں کہ وہ القاعدہ کے مجاہدین کا پیچھا کرنے کے لیے آتے ہیں۔ پاکستانی افواج امریکی دبائو کے تحت قبائلی علاقے میں ان کا ساتھ دے رہی ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ہماری مغربی سرحدیں غیرمحفوظ ہو گئی ہیں بلکہ پہلی مرتبہ ہماری افواج کو داخلی طور پر بھی مخالفت کا سامنا ہے۔
تین سالہ ناکام دورکے خاتمے پر جنرل پرویز مشرف صاحب اس خوف سے دوچار ہیں کہ آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں جومنتخب اسمبلیاں معرض وجود میں آئیں گی وہ اگر ان کے حسب منشا لوگوں پر مشتمل نہ ہوئیں تو ان کو اپنے اقدامات کے لیے جواب دہی کرنا پڑے گی۔ اس خوف کی وجہ سے پرویز مشرف حکومت نے انتخابات سے حسب منشا نتائج حاصل کرنے کے لیے قبل از انتخابات دھاندلی کا ایک منصوبہ بنایا ہے۔ اس منصوبے کے تحت انھوں نے آئینی ترامیم کا ایک پیکج کسی دستوری اختیار کے بغیر نافذ کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں منتخب اسمبلیاں خودمختار نہیں ہوں گی بلکہ انتخابات کے بعد بھی اصل اختیار غیرمنتخب اداروں اور افراد کے پاس رہے گا۔ قومی سلامتی کونسل کا ادارہ جس میں تینوں افواج کے سربراہ اور ان کے سربراہوں کے ادارے کا چیف‘ وردیوں والے چار جرنیل اورصدر(موجودہ صدر بری فوج کے سربراہ بھی رہنا چاہتے ہیں) اصل قوت ہوں گے۔ یہ ادارے اور صدر اسمبلیوں اور حکومت کو توڑنے اور برخاست کرنے کے مجاز ہوں گے۔ اس طرح فوج کے مستقل طور پر سیاست میں ملوث اور دخیل رہنے کا راستہ ہموار ہوگیا ہے اور جو ملک ایک جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں حاصل کیا گیا تھا مستقل طور پر فوج کی عمل داری میں دے دیا گیا ہے۔ دستوری ترامیم کے مطابق صوبوں میں صدر کے نامزد گورنروں کا راج ہوگا۔ وہ اسمبلیوں کو اور صوبائی حکومتوں کو برخاست کر سکیں گے۔
ایسے حالات میں دینی جماعتوں کا اتحاد ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ (MMA) روشنی کی ایک کرن ہے۔ یہ کرن مجلس عمل کی شریک جماعتوں کی قیادت اور کارکنوں کے اخلاص عمل اور قربانی سے روشنی کا مینار بن سکتی ہے۔ ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کی صورت میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دینی سیاسی جماعتوں نے آپس میں مل کرانتخابی اتحاد بنایا ہے۔ اس سے قبل مذہبی جماعتوں نے ملک کی دوسری جماعتوں سے مل کر ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کے مقابلے میں پاکستان قومی اتحاد بنایا تھاجس کے سربراہ مولانا مفتی محمود مرحوم تھے اور جس کا نعرہ بھی نظام مصطفی تھا۔موجودہ مجلس عمل میں چھ مذہبی سیاسی جماعتوں‘ جماعت اسلامی‘ جمعیت علماے اسلام (فضل الرحمن)‘ جمعیت علماے اسلام (سمیع الحق)‘ جمعیت علماے پاکستان ‘ مرکزی جمعیت اہل حدیث اور اسلامی تحریک پاکستان (سابق تحریک فقہ جعفریہ) نے آپس میں اتحاد کیا ہے اور مشترک منشور‘ مشترک دستور‘ مشترک تنظیم‘ ایک جھنڈے اور ایک انتخابی نشان کے تحت مل کر انتخاب لڑنے اورتمام معاملات میں مشترک موقف اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ بلاشبہہ ایک ناقابل یقین پیش رفت (break through) ہے۔ اس طرح کا اتحاد عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا۔ اب مذہبی جماعتوں پر تنگ نظری اور فرقہ پرستی کا الزام لگانے والوں کے منہ بند ہو گئے ہیں۔ شیعہ‘سنی‘ بریلوی‘ دیوبندی اور اہل حدیث مکاتب فکر کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر متفق ہو جانا اور ان سفارشات کے نفاذ کے مطالبے کو اپنے منشور میں شامل کرنا ایک بابرکت اور اہم قدم ہے۔ اگر یہ اتحاد قائم ودائم رہے تو اُمت مسلمہ کے لیے بے شمار برکات اور خوش خبریوں کا حامل بن سکتاہے۔ اُمت مسلمہ پر اس کے دُور رس خوش گوار اثرات کے پیش نظر اس اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے تمام شامل جماعتوں کے کارکنوں اور ان کی قیادت کے لیے ضروری ہے کہ وہ آپس میں حقیقی محبت اور اعتماد پیدا کرنے کے لیے کوشاں رہیں اور اتحاد و یک جہتی کے جذبے کوعوام الناس کے رگ و ریشے تک پہنچا دیں۔
اتحاد کے جذبے کو عام کرنے کے لیے مشترک انتخابی مہم اہم ترین ذریعہ ہے۔ مشترک انتخابی مہم کو کامیاب بنانے کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:
قائدین کا ملک گیر دورہ : چھ جماعتوںکے سربراہ مل کر پورے ملک کے طول و عرض کا دورہ کریں۔ تمام شریک جماعتیں مل کر اس کا پروگرام بنائیں۔ اس دورے کے دوران متحدہ مجلس عمل کا اللہ اکبر اور سبز ہلال والا سفید جھنڈا عوام کے دلوں پر نقش ہو جائے۔
مشترک نعرے: انتخابی مہم کے دوران ملک کی گلی کوچوں میں‘ چھوٹے بڑے جلسوں اور جلوسوں میں ایسے نظریاتی اور پیغام کے حامل نعرے لگائے جائیں جو عوام کے دلوں کی آواز ہیں۔ اگر کہیںحاضرین میں ایسے نعرے لگ جائیں جس سے دوسروں کو اتفاق نہ بھی ہو تو برداشت اور حوصلے سے کام لینے کی ضرورت ہے کیونکہ اختلافات کو دُور کرنے کے لیے وقت‘ حوصلہ اور صبر درکار ہے۔ آپس میں عفوودرگزر کے جذبے کے بغیر مہمات کو سر نہیں کیا جا سکتا۔
مساجد کو مرکز بنانا: ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ میں مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے نمایندے شامل ہیں اس لیے ملک بھر کی تمام مساجد کو اس تحریک کے مراکز کے طور پر کام کرنا چاہیے۔ دنیاوی سیاست کے علم بردار دینی جماعتوں کے کارکنوں اور علما وخطبا پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ مساجد کو سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاست دوسرے دینی فرائض کی طرح ایک فریضہ ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کو مٹانے اور عدل وانصاف قائم کرنے کے لیے اسلامی حکومت قائم کی تھی۔ اسلامی حکومت کے قیام کے لیے انھوں نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا‘ ان کی تربیت کی‘ انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دی‘ انھیں ہجرت اور جہاد پر آمادہ کیا اور طویل جدوجہد کے بعد اسلامی حکومت قائم کر دی جس کے ذریعے قرآن کے احکام نافذ کیے اور عام انسانوں کو عدل و انصاف فراہم کیا۔ اس غرض کے لیے حضور نبی کریمؐ نے مسجد کو مرکز بنایا۔مسجد کو اسلامی سیاست کا مرکز بنانا حضور نبی کریمؐ کی سنت ہے۔ اعتراض کرنے والے دین کے حقیقی تصور سے جس میں دین و دنیا کی تفریق نہیں‘ آگاہ نہیں ہیں۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ مسجد میں سیاسی حکمت عملی بیان کرتے وقت قرآن وسنت سے دلائل دیے جائیں۔ دوسروں کی دل شکنی اوردل آزاری سے پرہیز کیا چاہیے۔ دینی جماعت کے کارکن اور عام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے اخلاق میں نمایاں فرق ہونا چاہیے اور کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے جو دینی تعلیمات کے دائرے سے باہرہو۔
دفاتر کے علاوہ محلے کی مسجد کوبھی مجلس عمل کی انتخابی سرگرمیوں کا مرکز بنایئے اور تمام نمازیوں کو ان سرگرمیوں میں شرکت پر آمادہ کیجیے۔ یہ کام حکمت اورمحبت کے ساتھ کرنے کا ہے۔اگر کوئی اعتراض کرے تو اسے محبت سے سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ دنیا کا نہیں ‘دین کا کام ہے۔ البتہ مسجد میں شورکرنے سے ہرصورت میں بچنا چاہیے اور لوگوں کی نمازوںاور عبادت‘ تلاوت قرآن اور درود و وظائف میں ہرگز مخل نہیں ہونا چاہیے۔
دین اور سیاست کی دوئی کے تصور کو ختم کرنا علماے کرام کا فرض ہے۔ دینی جماعتیں اگر انتخابی مہم چلا رہی ہیں تو اسی وجہ سے چلا رہی ہیں کہ یہ ایک دینی فریضہ ہے۔ اسلامی حکومت کا قیام حضور نبی کریمؐ کی اہم ترین سنت ہے اور اس کے احیا میں اُمت کی زندگی ہے۔ اسلامی حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد اور انتخاب میں شرکت جہاد فی سبیل اللہ ہے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: لغدوۃ او روحۃ فی سبیل اللّٰہ خیر من الدنیا وما فیھا ’’اللہ کے راستے میںایک صبح کا چلنا یا ایک شام کا چلنا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے‘‘۔ انتخابی مہم میںکام کرنے کے لیے وقت نکالنا‘ جلسے جلوس میںشرکت کرنا اور ووٹروں تک مجلس عمل کا پیغام پہنچانا اللہ کے راستے میں چلنا ہے اور بلاشبہہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔
کارکنوں کو باہمی ربط بڑھانے کے لیے حضور نبی کریمؐ کے امتی ہونے کا تصور پوری طرح ذہن نشین کرنا چاہیے اور اپنی دوسری حیثیتوں کو ثانوی درجہ دینا چاہیے۔ ’’اللہ کی محبت‘ اللہ کے رسولؐ کی محبت اور اللہ کے راستے میں جہاد کی محبت‘‘ وہ مشترک محبتیں ہیں جو ہمیں جوڑ کر رکھتی ہیں۔ دوسری کسی محبت کو ان محبتوں پر غالب نہیں آنا چاہیے۔ اگر ہم دوسری محبتوں کو ان بنیادی محبتوں پر ترجیح دیں گے تو اس کا نتیجہ دنیا و آخرت کی رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ یہ بات اللہ رب العالمین نے مسلمانوں کو اس آیت میں اچھی طرح سمجھائی ہے:
اے نبی کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ‘ اور تمھارے بیٹے‘ اور تمھارے بھائی‘ اور تمھاری بیویاں‘ اور تمھارے عزیز و اقارب‘ اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں‘ اور تمھارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کوخوف ہے‘ اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں‘ تم کو اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ سامنے لے آئے۔ (التوبہ ۹:۲۴)
عوام الناس کو بتایا جائے کہ ووٹ دینا ایک دینی فریضہ ہے۔ یہ حق کی گواہی ہے اور جب مسلمان کو حق کی گواہی دینے کے لیے بلایا جائے توگواہی دینا اس کا فرض ہے۔ حق کی گواہی دینے سے احتراز کرنا دینی فریضے کوادا کرنے سے احتراز اور حق کی گواہی چھپانا ہے۔ اللہ کا حکم ہے: وَلاَتَکْتُمُوا الشَّھَادَۃَط وَمَنْ یَّکْتُمْھَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُہٗط (البقرہ ۲:۲۸۳)’’گواہی مت چھپائو اور جو گواہی چھپاتا ہے تو اس کے دل میں گناہ ہے‘‘۔
ایک ایسے شخص کو ووٹ دینا جو خود نااہل اور فاسق ہے یا وہ ایسی پارٹی کے ساتھ ملاہوا ہے جس کی قیادت خیانت کرنے والے نااہل لوگوں پر مشتمل ہے‘ اپنی امامت نااہل کے سپرد کرنے کے مترادف ہے۔ اس سے اللہ نے منع کیا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَالا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوا بِالْعَدْلِط (النساء ۴:۹۸ ) ’’مسلمانو‘ اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو‘ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘۔
عوام الناس کو جاننا چاہیے کہ اگر وہ خود ووٹ دیتے وقت عدل اور انصاف نہیں کریں گے اور نااہل کو اختیارات کی امانت سپرد کریں گے تو اس کے نتیجے میں ظلم کا نظام برقرار رہے گا۔ پولیس بھی ظالم ہوگی‘ ڈی سی اور کمشنر بھی ظلم کرتے رہیں گے اور سیاست دان بھی لوٹ کھسوٹ جاری رکھیں گے اور تمام محکموں میں نااہل لوگ عوام کے ساتھ بے انصافی پر قائم ہوںگے۔ حالات میں تبدیلی اسی وقت ممکن ہے کہ عام ووٹر اپنے ووٹ کی پرچی کو امانت اور انصاف کے اصول کو مدنظر رکھ کر استعمال کرے۔ اگر ووٹ دیتے وقت عام آدمی خود عدل نہیں کرے گا تو اسے انصاف اور عدل کا نظام نہیں ملے گا۔
مختلف دینی جماعتوں کے کارکنوں کو مل جل کر تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی مساجد میں نماز ادا کرنی چاہیے۔ ایک دوسرے کے ساتھ تحائف کا تبادلہ کرنا چاہیے۔ محبت اور اخلاص کے ساتھ ایک دوسرے کو سلام کرناچاہیے اور آپس میں حسن ظن رکھنا چاہیے۔ ایک دوسرے پر بدگمانی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے کی عیادت کرنی چاہیے اور ایک دوسرے کی خوشی اور غمی میں شرکت کرنی چاہیے۔ باہمی ربط سے حسن ظن پیدا ہوتا ہے اور دوری اور فاصلوں کی وجہ سے بدگمانی پیدا کرنے والوں کو مسلمانوں کی صفوں میں رخنہ ڈالنے کا موقع ملتا ہے۔ اگر منبر ومحراب سے ایک ہی آواز اٹھے اور یہ آوازیں آپس میں ہم آہنگ ہوجائیں توکوئی دوسرا میڈیا ان کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ ہرگلی کوچے میں واقع مسجد کومسلمانوں کااجتماعی اور سیاسی زندگی کو پاک کرنے کے مقدس فریضے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ مسجد اگر مسلمانوں کے اجتماعی اور سیاسی اصلاح کی جدوجہد کا مرکز بن جائے تو اللہ کے باغی خیانت کار لوگوں کی سیادت کاخاتمہ ہو جائے گا۔
ووٹ دینے کے لیے فہرست میں اپنا نام ابھی سے معلوم کرنا‘ پولنگ اسکیم میں دل چسپی لینا‘ شناختی کارڈ ساتھ رکھنا اور اپنے پولنگ اسٹیشن کا پتہ کرنا ہر ووٹر کی اپنی ذمہ داری ہے۔ ایک ذمہ داری شہری اور ایک اچھے مسلمان کے طور پر اس ذمہ داری کو بہ حسن و خوبی ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ خواتین کے پولنگ اسٹیشن مردوں سے الگ محفوظ مقامات پر بنائے جائیں ۔ مجلس عمل کے کارکنوں کو خواتین کے پولنگ اسٹیشنوں کی حفاظت کے خصوصی انتظامات کرنے چاہییں۔ ابھی سے خواتین انتخابی کارکنوں کو تربیت دینے کی ضرورت ہے۔
’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کا جو بھی امیدوار ہو اور اس کے نشان کتاب پر انتخاب لڑ رہا ہو اس کے لیے کام کرناتمام جماعتوں کے کارکنوں کا فرض ہے۔ اگر ایک جماعت کو ملک کے ایک حصے میں ٹکٹ ملے ہیں تو دوسرے حصے میں دوسری جماعت کو حصہ ملا ہوگا اور یہ فیصلے قائدین نے مل جل کر کیے ہیں۔ تمام کارکنوں کو قائدین کے فیصلوں کا احترام کرنا چاہیے۔ ہم مشترک مقصد کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں اور کسی ایک کی کامیابی سب کی کامیابی ہے۔
اکتوبر کے انتخابی عمل پر ہمارے ملک کے مستقبل کا دارومدارہے۔ ایک جان دار انتخابی مہم کی صورت میں دھاندلی کی سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ اگر عوام جوش و خروش سے انتخابی مہم کے دوران گھروں سے نکل آئے توحکومتی مشینری کو قاعدے‘ ضابطے کے مطابق درست رویہ اختیار کرنے پر مجبور کیاجا سکتا ہے۔ ملک کے روشن مستقبل کا دارومدار پُرامن اور پُرجوش انتخابی مہم پر ہے اور اس بات پر ہے کہ ووٹر بڑی تعداد میں پولنگ اسٹیشن آئیں۔ یہ اس وقت ہوگا جب ووٹر کو امید کی کرن نظرآئے گی۔ انھیں انتخاب کے بہتر نتائج کی اُمید دلانا مجلس عمل کے کارکنوں کا اہم ترین فریضہ ہے۔ مجلس کے کارکن فتح کے یقین سے سرشار ہو کر کام کریں گے ‘ تب ہی دوسروں کو فتح کا یقین دلا سکیں گے اور عام ووٹر کے دل میں امید کی شمع روشن کر سکیں گے۔ پچھلے عام انتخابات میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق صرف ۳۵ فی صد ووٹ پڑے تھے۔ اگر مجلس کے کارکنوں کی کوشش کے نتیجے میں ۶۰‘ ۷۰ فی صد ووٹ پڑ جائیں تو ووٹ کی پرچی سے انقلاب یقینی ہو جائے گا۔ جو لوگ ووٹ کے لیے پولنگ اسٹیشنوں پر جانے کی تکلیف گوارا نہیںکرتے وہ دراصل کسی اچھی اور بڑی تبدیلی کی توقع نہیں رکھتے‘ اگرچہ وہ تبدیلی کے حامی ہوتے ہیں۔ اگر مجلس عمل کے کارکن لوگوں کو فتح اور بہتر تبدیلی کا یقین دلانے میں کامیاب ہو جائیں اور گھروں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے سینوںمیں امید کی شمع روشن کر دیں اور مرد اور خواتین جوق در جوق دینی جذبے سے سرشار ہوکر امت کو پستی سے نکال کر بلندیوں کی طرف گامزن کرنے کا عزم لے کر نکل کھڑے ہوں توووٹ کی ہر پرچی ان شاء اللہ اسلامی انقلاب کی نوید بن جائے گی۔
۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء ایک یادگاردن اور ایک تاریخی موڑ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے!
ستمبر کی اس تاریک صبح کے خونی واقعات کے نتیجے میں امریکہ ہی نہیں‘ پوری دنیا میں ایک ہل چل مچ گئی ہے۔ نیویارک کا فلک تاز ورلڈ ٹریڈ سنٹر دو گھنٹے میں زمین بوس ہوگیا‘ پینٹاگون کی ناقابل تسخیر دیواریں منہدم ہو گئیں‘ اور دنیا کے ۲۸ ملکوں سے تعلق رکھنے والی ۲۸۹۰ قیمتی جانیں آناًفاناً میں لقمہ اجل بن گئیں--- ایک دنیا ورطۂ حیرت میں تھی کہ دنیا کے سب سے زیادہ طاقت ور ملک کے سیاسی اور تجارتی مراکز میں یہ سب کچھ کیسے ہو گیا--- اور آج ایک سال گزرجانے کے باوجود‘ اور امریکہ کے ایک بپھرے ہوئے شیر کی حیثیت سے ساری دنیا میں تہلکہ مچا دینے‘ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے‘ القاعدہ اور طالبان کی سرزنش کے نام پر ہزاروں معصوم انسانوں کو تہ و تیغ کردینے اور’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر پوری دنیا کو ایک نئے تصادم کی آگ میں جھونک دینے کے باوجود‘ دنیا کی حیرت کا عالم وہی ہے جو ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو تھا‘ بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ! اتنا تو بلاخوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ ۱۱ستمبرکے واقعے کے بعد
ع نکلے جو میکدے سے تو دنیا بدل گئی
لیکن یہ ہنوزایک معما ہے‘ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا‘ کہ جو کچھ ہوا ‘کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ کس نے کیا؟ کس نے کیاحاصل کیا؟ اور اب ہم سب کہاں جا رہے ہیں؟ یہی وہ سوالات ہیں جو آج ایک سال کے بعد بھی دنیا کے تمام سوچنے سمجھنے والے انسانوں کی نیند حرام کیے ہوئے ہیں اورمسئلہ محض انسانوں کی نیند کا نہیں انسانیت کے مستقبل اور دنیاے تہذیب کے آیندہ نقشے کا ہے۔ بات صرف ایک واقعے‘ ایک حادثے‘ ایک سانحے اور ایک المیے کی نہیں‘ خواہ وہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو--- بلکہ پوری انسانی بستی کے دروبست کی ہے‘ اور عالمی بساط پر امریکہ کے کردار اور نئے عالمی نظام کے رخ اور روش کی ہے جس کی لپیٹ میں تمام ہی اقوام عالم آتی جا رہی ہیں۔ سیاست اور عالمی حکمرانی کے نقشے میں جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں اور افق پر جو نئے خطرات ابھرکر سامنے آگئے ہیں ان کو نظرانداز کرنا اورصرف خاموش تماشائی کا کرداراختیار کرلینا انسانی تہذیب و تمدن اور اقوام عالم کی آزادی اورحاکمیت کے ایک نئے تاریک دور کی گرفت میں آجانے کا سبب بن سکتا ہے۔ امریکہ کی قیادت نے جو راستہ اختیار کیا ہے اور اس کے صدر جارج بش اور ان کی ٹیم جس سمت میں بگ ٹٹ دوڑ رہی ہے وہ خود امریکہ‘ پوری انسانی برادری اور خصوصیت سے اُمت مسلمہ اور پاکستان کے لیے بے پناہ خطرات کا پیغام ہے۔ بظاہر ہدف ’’عالمی دہشت گردی‘‘ ہے لیکن جس طرح ۱۱ستمبر کے واقعات کو بنیاد بنا کر امریکی بالادستی کا ایک نیا سامراجی نظام قائم کیا جا رہا ہے‘ اس نے ان واقعات اور ان کے جلو میں اختیار کی جانے والی حکمت عملی اور عالمی جنگ و جدل کے بارے میں بڑے بنیادی سوالات اٹھا دیے ہیں جن پر غور کرنا ہماری اور انسانیت کی بقا اوردرپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی اوراقدامات کی تیاری کے لیے ضروری ہے۔ ۱۱ ستمبر کی اس پہلی برسی پر ہم اختصار سے یہ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ امریکہ نے جس طرح ان واقعات کا سہارا لے کر اپنی عالمی پالیسی کی صورت گری کی ہے۔ اس کے آئینے میں ۱۱ ستمبر کا کیا چہرہ نظر آتا ہے اور عالمی سیاسی بساط (global political chessboard) میں اس واقعے کا کیا مقام متعین کیا جا سکتا ہے۔ اس کے کیااثرات خود امریکہ‘ عالمی نظام‘ اُمت مسلمہ اور پاکستان پر پڑ رہے ہیں۔ سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ دنیا کہاں جا رہی ہے اور ہم سب کن حالات سے دوچار ہوگئے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ خطرات کس نوعیت کی حکمت عملی اور تیاری کا تقاضا کررہے ہیں۔
سب سے پہلا سوال جس نے ہمیں اور دنیا کے سوچنے سمجھنے والے انسانوں کو پریشان کر رکھا ہے یہ ہے کہ اتنے بڑے واقعہ کے بارے میں اصل حقائق کو جاننے‘ بے لاگ اور شفاف انداز میں اعلیٰ عدالتی تفتیش کے ذریعے صحیح صورت حال کو محقق کرنے‘ اس کے اسباب و محرکات کا تجزیہ کرنے‘ اور ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کسی ایسی متفقہ حکمت عملی (consensus strategy) کو وضع کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی جس کے اختیار کرنے سے انصاف کے تقاضے پورے ہو سکتے ‘سب کو اطمینان حاصل ہوتا‘ جبر کے بجائے رضامندی سے لائحہ عمل طے ہوتے اورانسانیت مستقبل میں ایسے خطرات اور حادثات سے بچ سکتی۔ امریکہ کی قیادت نے جس سہل انگاری‘ جس جلدبازی ‘ جس رعونت اور جس سطحیت کے ساتھ اس گمبھیرچیلنج کے بارے میں اصل سوالات سے بچنے اور اسے اپنے سامراجی مقاصد و مفادات کے لیے استعمال کیا ہے؟ اس نے اس قیادت کی صلاحیت ہی نہیں اس کی نیت اور عزائم کے بارے میں بڑے قوی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ سارا ملبہ ایک شخص --- اسامہ بن لادن پر‘ یا زیادہ سے زیادہ اس کے چند سو یا چند ہزار ساتھیوں (القاعدہ) پر ڈالا جا رہا ہے اور پوری دنیا میں دہشت گردی کا ایک نیا بازار گرم کیا جا رہا ہے حالانکہ ننگی طاقت کے ذریعے اس قسم کے معاملات و مسائل کو کبھی بھی حل نہیں کیا جا سکتا۔
آج تک کوئی سنجیدہ اور تسلی بخش کوشش اس امر کی نہیں ہوئی کہ اصل واقعے کی مناسب تحقیق ہو‘ تمام حقائق کو بے لاگ انداز میں مرتب کیا جائے اور تجزیہ کر کے متعین کیا جائے کہ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ کس نے کیا؟ کس حد تک کون کون ذمہ دار ہے؟ ان واقعات کے پیچھے کارفرما اسباب وعوامل کیا ہیں اور ان کے ادراک‘ اصلاح‘ تدارک اور مستقبل کے لیے پیش بندی کے لیے کیا کچھ مطلوب ہے؟ غصہ اور انتقام‘ تحقیق‘ تجزیہ اور تدبیر کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ چھوٹے سے چھوٹے واقعے کے لیے تحقیقی کمیشن بنائے جاتے ہیں اور اسباب کا کھوج لگایا جاتا ہے اور اصلاح احوال کی تدابیر مرتب کی جاتی ہیں لیکن اتنے بڑے واقعے کے بارے میں ایسی کوئی کوشش نہیں کی جاتی اور دلیل کے بجائے صرف دعوے کو پالیسی کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ خفیہ معلومات کے نظام کی ناکامی کو بادل ناخواستہ تسلیم کیا جاتا ہے مگر نہ کہیں ذمہ داری کا تعین ہوتا ہے نہ کسی کے خلاف اقدام ہوتا ہے۔ امریکہ کے اپنے سیکورٹی کے اداروں کا ‘ جو ۱۳ اہم ایجنسیوں پر مشتمل ہے‘ جس پر سالانہ ۶۷ ارب ڈالر خرچ ہوتا ہے اور جن میں صرف ایک جو قومی اداروں کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہے‘ جس کا سالانہ بجٹ ۷.۶ بلین ڈالر ہے اور جس میں ۳۰ ہزار افراد کام کر رہے ہیں۔ اس میں سی آئی اے جس کا بجٹ ۳۰ بلین ڈالر سالانہ ہے اور جو ہے ہی باہر کے ممالک سے آنے والے خطرات کی سراغ رسانی کے لیے‘ ان میں سے کسی کا بھی کوئی احتساب نہیں ہوا۔ حالانکہ اب یہ معلومات بھی سامنے آچکی ہیں کہ اس پورے زمانے میں طالبان سے امریکہ کے مختلف اداروں کا اعلیٰ ترین سطح پر رابطہ تھا‘ اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں معلومات کا ایک ذخیرہ تھا جو مختلف ذرائع سے سی آئی اے ہی نہیں‘ خود وائٹ ہائوس تک میں موجود تھا اور ۱۰ ستمبر تک ایسی معلومات میزوں پر موجود تھیں جن سے بہت کچھ سراغ مل سکتے ہیں‘ بشرطیکہ یہ سب کچھ اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کا کیادھرا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ کے اہم ترین ادارے اپنا فرض ادا نہیں کر سکے تو ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی اور ذمہ داری کے تعین کے لیے کیا کچھ کیا گیا؟ کیا یہ سب پردہ داری اس لیے ہے کہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ ایک ڈھال (smoke screen) کی حیثیت رکھتے ہیں اور تحقیقات اور احتساب سے اغماض ایک نوعیت کا cover-up ہیں؟ انتظامیہ نے اس موضوع پر خود کانگریس کی کارروائی (congressional hearing) کو ناپسند کیا ‘ اس کو رکوانے کی کوشش کی‘ اور جب رکوا نہ سکی اورخفیہ ایجنسیوں کی معلومات کے بارے میں کارروائی شروع ہوئی تو پہلے معلومات دینے کی مزاحمت کی‘ پھر جومعلومات دی وہ ادھوری تھی‘ اور اس سے بھی بڑھ کر خود سینیٹ کی کمیٹی کی کارروائی کی خفیہ ریکارڈنگ کی جس پر کمیٹی نے توہین کی کارروائی کی دھمکی تک دی۔ کسی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کا کوئی مواخذہ نہیں ہوا بلکہ انٹیلی جنس کے مجموعی بجٹ میں ۲۰ ارب ڈالر کا اضافہ کر دیا گیا اور نئی سیکورٹی ایجنسی قائم کی جا رہی ہے جو ملک میں روسی طرز کا نگرانی کا نظام بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اور یہ سب کچھ اس پس منظر میں ہو رہا ہے کہ حکومت کی کارکردگی پر تنقید کو حب الوطنی کے خلاف قرار دیا جا رہا ہے (یہ بات شاید تعجب خیز ہے کہ چند ہی لوگ افغان مہم پر تنقید کر رہے ہیں۔ تنقید کو حب الوطنی کے خلاف سمجھا جا رہا ہے۔ نیوز ویک‘ ۱۹ اگست ۲۰۰۲ء‘ ص ۱۲)۔ بنیادی سوالات اٹھانے والوں کا منہ بندکیا جا رہا ہے‘ پروپیگنڈے کے ذریعے ایک جذباتی فضا بنا دی گئی ہے اور آزاد تحقیق اور حقائق کی تلاش کی کوششوں کو شدت اور قوت سے دبایا جا رہا ہے۔ آزاد تحقیق کرنے والے آج بھی اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کی صلاحیت کار کے بارے میں شکوک کا اظہار کر رہے ہیں۔
فرانس سے شائع ہونے والی دو کتابوں نے بڑے بنیادی سوال اٹھائے ہیں اور علمی اور سیاسی حلقوں میں ان کتابوں میں پیش کردہ حقائق سے ایک تہلکہ سا مچا ہوا ہے مگرامریکی میڈیا اور حکومت ان تمام چیزوں کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ فرانسیسی مصنف تھیری میساں (Thierry Meyssan) کی دو کتابوںکا بڑا چرچا ہے۔ ایک (The Horrible Hie) L'Effroyable Imposture جس میں اس نے پینٹاگون پر جہاز کے حملے کا انکار کیا ہے اور بلڈنگ کے نقصان کا تجزیہ کر کے ثابت کیا ہے کہ کسی جہاز کے گرنے سے یہ واقع نہیں ہوسکتا بلکہ میزائل کے ذریعے ہواہے جس کا تانا بانا کسی القاعدہ سے نہیں جڑتا بلکہ کسی اور ہی گروہ یا ایجنسی کا کام ہے۔ اس مصنف کی دوسری کتاب Pentagate اسی ماہ آئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ امریکہ نے ۱۱ستمبر کی دہشت گردی کے حقائق اور اسباب سے توجہ ہٹا کر اسے اپنے معاشی اور اسٹرے ٹیجک مفادات کے لیے استعمال کیا ہے اور اصل شہادت کو سامنے نہیں لایا گیا یا تباہ کردیا گیا ہے۔
فرانس کے دو دوسرے اہل قلم جین چارلس بریسورو (Jean-Charles Brisoro) اور گلیام ڈیسکوائر (Guillaum Dasquire) کی کتاب Forbidden Truth (ممنوعہ سچائی) پہلے فرانس سے اور اب امریکہ سے شائع ہوتے ہی ‘عالمی سطح پر ’’سب سے زیادہ فروخت ہونے والی‘‘ (best seller) بن گئی ہے۔ اور اس میں نہ صرف ۱۱ ستمبر کے واقعات کے پیچھے خفیہ قوتوں کی نشان دہی کی گئی ہے بلکہ پورے معاملے کو اس کے سیاسی تناظر میں رکھ کر دکھایا گیا ہے کہ امریکہ کے سیاسی اور معاشی کارفرما افراد اور ادارے کس طرح اپنے بنائے ہوئے نقشے کے مطابق ایک گھنائونا کھیل کھیل رہے تھے اور اب اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے دوسروں کو نشانہ ستم بنا رہے ہیں۔ اس کتاب میں دکھایا گیا ہے کہ امریکہ کے کھلاڑیوں کی اپنی چالیں کس طرح خود ان کے خلاف پڑ گئیں۔ نیز سارے کھیل کے پیچھے اصل مقصد اور ہدف یہ رہا ہے کہ روس کے زوال کے بعد کسی طرح وسط ایشیا کے وسائل تک رسائی اور افغانستان کے ذریعے اس علاقے پر پورا کنٹرول حاصل کیا جائے۔ یہ مقصد اب امریکہ اور افغانستان کے معصوم انسانوں کی لاشوں پر حاصل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
کتاب کے انگریزی ایڈیشن کا تعارف The Secret History of CIA کے مصنف جوزف ٹرنٹو نے لکھا ہے اور صاف کہا ہے کہ امریکہ کی قیادت اس پورے معاملے کی سنجیدہ تحقیق گوارا نہیں کر سکتی کہ اس کا اپنا دامن پاک نہیں اور اس میں بہت سے ’’پردہ نشینوں‘‘کے نام آتے ہیں:
ایف بی آئی اور سی آئی اے نے ایک دوسرے کو الزام دینے کی کوشش کی۔ ۱۱ ستمبر کے حملوں کے اگلے ہی دن نائب صدر ڈک چینی نے سینیٹ کے اکثریتی لیڈر ٹام ڈیشے سے بات کر کے یہ کوشش کی کہ وہ خفیہ معلومات کی ناکامی کو کوئی مسئلہ نہ بنائیں۔ کوئی سنجیدہ تفتیش اس لیے نہیں ہو سکتی کہ کوئی بھی سیریس تفتیش بالآخر یہ ظاہر کر دیتی کہ سعودی عرب یا امریکہ کی حفاظت سے زیادہ اہم رقم اور تیل ہیں۔ ایک سنجیدہ تفتیش ظاہر کر دے گی کہ شرق اوسط اور رقم اب بھی بش خاندان کے لوگوں کی پشتیبانی اوران کی مدد کرتے ہیں۔(Forbidden Truth‘ص ۱۲)
مذکورہ کتابوں کے مندرجات ہمارا اصل موضوع نہیں۔ہم اس بارے میں بھی کچھ نہیں کہہ سکتے کہ خود ان میں کہاں تک حقائق کی پردہ کشائی ہے اور کہاں افسانوی داستانیںشامل کر دی گئی ہیں۔ ہماری دل چسپی اس امر سے ہے کہ امریکہ کی قیادت نے تحقیق اور احتساب کے راستے سے کیوں اجتناب کیا اور مسلسل کر رہی ہے۔ ساری توجہ نہ اصل حقائق پر ہے اور نہ واقعے کے پیچھے پائے جانے والے اسباب اورمحرکات سے--- بلکہ نت نئے انداز میں اپنی پسند کے ’’بکروں‘‘ (scape goats) کو نشانہ بنا کر امریکی قیادت ایک ایسے راستے پر چل پڑی ہے جس کے نتیجے میں امریکی دستور‘ اقوام متحدہ کے چارٹر‘ بین الاقوامی قانون اور قانون کی حکمرانی‘ قوموں اور ممالک کی حاکمیت (sovereignty) اور ان تمام اقدار اوراصولوں کو‘ جو برسوں نہیں صدیوں کی جدوجہد کا حاصل ہیں‘ پامال کیا جا رہا ہے اور دنیا کی اقوام پر امریکہ کی سیاسی اورمعاشی بالادستی (hegemony)کوقائم کر کے ایک نئے عالمی سامراج کے دروبست تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ سستے اہداف کی تلاش ایک جاری عمل ہے۔ پہلے اسامہ بن لادن‘ پھر القاعدہ‘ پھرطالبان‘ پھر افغانستان‘ پھر ۳۰ ممالک میں القاعدہ کے حامی‘ پھر عراق‘ایران‘ سوڈان‘ شمالی کوریا‘ اور اب خود سعودی عرب‘ دنیا بھر کی اسلامی اورخدمتی تنظیمیں‘ دینی مدارس اوران سب کا تعاقب کرنے کے لیے نئے نئے اصول بنا کر سلامتی‘ حفاظتی اقدام اور خطرے کے پہلے مقابل کو نشانہ بنانے‘ فوج کشی کرنے اور حکومتوں کو بدلنے کا اختیار گویا
ع سزا خطاے نظر سے پہلے‘ عتاب جرم سخن سے پہلے
یہی وہ سوالات ہیں جو سوچنے سمجھنے والے انسانوں کو پریشان کر رہے ہیں۔ امریکہ کے ۶۰ دانش وروں نے‘ جن میں کئی نوبل انعام یافتہ اصحاب شامل ہیں‘ اپنے اضطراب کا اظہار کیا ہے جو لندن کے اخبار دی گارڈین نے جون ۲۰۰۲ء میں شائع کیا ہے۔ اس میںانھوں نے بڑی اقوام کی‘ دوسرے ملکوں میں موہوم خدشات کی بنیاد پر‘ فوجی مداخلت کی مذمت کی ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی پر تشویش کااظہار کیا ہے‘ بلامقدمہ لوگوں کی گرفتاری اور ان کو اپنے دفاع کے حقوق سے محروم کرنے پر اضطراب ظاہرکیا ہے۔ بش انتظامیہ نے دنیا پر جو جنگ مسلط کی ہے اسے ’’غیر منصفانہ‘ غیر اخلاقی اور ناجائز‘‘ قرار دیا ہے اور دنیا کے لوگوں کو اس کے خلاف جدوجہد کی دعوت دی ہے اور اس جدوجہد میں اپنی شرکت کا عندیہ دیا ہے۔ اس بات پر بھی گرفت کی ہے کہ ۱۱ستمبر اور اس کے بعد کے پورے معاملے کو بڑی سادگی سے ’’محض اچھائی اور برائی کی جنگ‘‘ بنا کر پیش کیا گیا ہے‘ اور پھر میڈیانے حکومت کا آلہ کار بن کر یہی ڈھول پیٹنا شروع کر دیا ہے۔ یہ پوچھنا کہ آخر یہ خوف ناک واقعات کیوں رونما ہوئے‘ غداری کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔اس لیے اس پر کوئی گفتگو نہیں ہونی چاہیے۔ جوکچھ امریکہ نے کیا ہے اور کر رہا ہے اس کی سیاسی اور اخلاقی حیثیت پر کوئی سوالات نہیں اٹھائے گئے جب کہ ہر بات کا عملی جواب بس یہ اختیار کر لیا گیا ہے کہ ’’گھر کے باہر جنگ اور گھر کے اندر جبروظلم کے حربے‘‘۔
حال ہی میں جرمنی کے ۸۰ دانش وروں نے امریکہ کی مسلسل تنبیہات اور یورپی اقوام پر دبائو سے تنگ آکر ایک اعلانیہ جاری کیا ہے جس میں صاف الفاظ میں کہاہے کہ امریکی قیادت جس چیز کو ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کہہ رہی ہے وہ ایک ’’صریح ظلم اور اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے ناقابل معافی جرم ہے‘‘۔ جرمن دانش وروں نے امریکہ کے اس موقف کو ماننے سے انکار کر دیا ہے جو وہ افغانستان میں اور دنیا کے دوسرے مقامات پر ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر کر رہا ہے۔ ان کا اعلان ہے کہ اسے ’’مبنی برحق جنگ‘‘ (just war)نہیں کہا جا سکتا ہے۔ امریکہ کو یہ حق نہیں کہ وہ انسانی اقدار کی من مانی تاویل کرے اور اپنے کو ان کا اجارہ دار بنا ڈالے(monopolisation of universal values)۔ جرمن دانش وروں نے کہا ہے کہ:
کوئی ایسی اقدار عالمی سطح پر تسلیم شدہ نہیں ہیں جوہمارے ملک میں قتلِ عام (۱۱ ستمبر کے دہشت گرد حملے) کو (افغانستان میں) دوسرے قتلِ عام کا جواز مہیا کریں (دی نیشن‘ ۱۰ اگست ۲۰۰۲ء)۔
برطانیہ کے نومنتخب آرچ بشپ آف کنٹربری ڈاکٹرویلز نے برطانیہ اور دنیا کو متنبہ کیا ہے کہ عراق پر امریکہ کی فوج کشی کا کوئی جواز نہیں۔ اس کے الفاظ میں ’’عراقی حکومت خواہ کتنی ہی ظالم کیوں نہ ہو‘ برطانیہ عراق کے خلاف امریکی ممکنہ حملے کی ہرگز تائید نہ کرے۔ یہ حقیقت نہایت افسوس ناک ہے کہ دنیا کی مضبوط ترین طاقت جنگ اور جنگ کی دھمکی کو خارجہ پالیسی کا ہتھیار بنا کر استعمال کر رہی ہے۔ یہ نہ صرف اقوام متحدہ کے اصولوں کے منافی ہے بلکہ عیسائیت کے مسلمہ پیغام کے بھی برعکس ہے۔ امن حاصل کرنے اور اسے قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ناانصافی کا خاتمہ کیا جائے اور انسانوں کو نظرانداز کرنے کی سیاست کے انجام سے بچاجائے‘‘۔ (دی انڈی پنڈنٹ‘ لندن‘ ۲۴ جولائی ۲۰۰۲ء‘ بحوالہ نوائے وقت‘ ۷ اگست ۲۰۰۲ء)
یورپ کے بیش تر ممالک‘ چین‘ روس اور فطری طور پر تمام عرب اور مسلمان ممالک امریکہ کے اس منصوبے پر اپنی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں لیکن امریکی قیادت نت نئے اصول بنا کر دنیا پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ سب ۱۱ستمبر کی چھتری تلے کرنے کی کوشش ہے۔
اسامہ بن لادن‘ القاعدہ اور طالبان کے خلاف جو ظالمانہ اور برخود غلط کارروائیاں امریکہ نے کی ہیں‘ ان میں پاکستان کی حکومت نے اس کا ساتھ دے کر‘ خواہ جبرواکراہ ہی کی وجہ سے ہوا‘ جو ظلم اپنے اور اپنی قوم پر کیا ہے‘ وہ ناقابل معافی ہے۔ مگر جنرل مشرف نے بھی اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں جو نیویارک کے نمایندے کو دیا گیا ہے اس شبہے کا اظہار کیا ہے کہ کیا فی الواقع ۱۱ستمبر کے حملے کا بلاواسطہ تعلق اسامہ بن لادن سے تھا؟ مشرف نے کہا:
ہو سکتا ہے کہ اسامہ حملے کی منصوبہ بندی اور اس کے لیے مالیات فراہم کرنے میں شریک رہا ہو۔ شاید اسامہ اس میں براہِ راست ملوث نہ ہو (ڈان‘ ۹ اگست ۲۰۰۲ء)۔
اس پر امریکی وزیر دفاع رمز فیلڈ برافروختہ ہوگئے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا الزام ایک دعویٰ ہے جس کے لیے دلیل یا شہادت آج تک فراہم نہیں کی گئی اور اس کے فراہم کرنے کی ضرورت سے بھی انکار اور اغماض برتا جا رہاہے۔ اور یہی وہ سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟
اصل واقعے کا ذمہ دار جو بھی ہو امریکہ کی قیادت نے جس طرح اس کو استعمال کیا ہے وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ امریکہ کی سیاسی قیادت اور اس کی فوجی اور معاشی انتظامیہ کسی ایسے ہی واقعے کی تاک میں تھی جس سے وہ امریکہ میں اپنی گرفت مضبوط کرلے‘ قوم کو حب الوطنی کے نام پر ایک جذباتی اور ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر دے‘ اور سردجنگ کے بعد کے اس دور کو ایک نئی لام بندی کے لیے مسخر کر کے دنیا کو امریکی مفادات کے تابع لانے کی کوشش کرے۔ امریکہ کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ایک دشمن کی ہمیشہ ضرورت ہوتی ہے۔ روس کی کمر ٹوٹنے اور اشتراکیت کے منتشر ہوجانے کے بعد اسے ایک نئے دشمن کی ضرورت تھی۔ اسرائیلی لابی اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے فضا ہموار کر رہی تھی۔ علمی مباحث اور میڈیا کی جولانیاں اس کے لیے وقف تھیں لیکن بات بن نہیں رہی تھی۔ ۱۱ستمبر نے یک قلم وہ فضا بنا دی اور ساری توجہ اسلام‘ مسلمان‘ جہاد‘ دینی مدارس‘ شریعت‘ عرب سرمایہ‘ حتیٰ کہ مغرب کے ہم ساز و ہم راز عرب حکمران--- سب ہی ہدف بن گئے اور بین الاقوامی قانون اور روایات‘ جمہوری اصول و اقدار‘ تاریخی رشتے اور تعلقات سب غیرموثر ہوگئے۔
سیاست کا جو نیا نقشہ وجود میں آ رہا ہے‘ اس کے اہم خدوخال یہ ہیں:
۱- امریکہ دنیا کی واحد سوپر پاور ہے اوراسے حق ہے کہ اپنے مفادکے لیے اپنی مرضی کے مطابق جو اقدام چاہے کرے۔ دوسرے مجبور ہیں کہ اس کا ساتھ دیں۔ اگر وہ بخوشی ساتھ دیں تو فہو المراد‘ورنہ انھیں مجبوراً ساتھ دینا ہوگا یا پھر ان کے علی الرغم امریکہ جو مناسب سمجھتا ہے وہ کرے گا۔ یہی رویہ امریکہ کے ’’فطری حلیفوں‘‘ اسرائیل اور بھارت کا ہے جو امریکہ کے اقدام کا سہارا لے کر اس کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ یہ دونوں بالکل انھی خطوط پر کارروائیاں کر رہے ہیں اور اسی زبان میں اپنے جارحانہ اور ظالمانہ اقدام کا جواز پیش کر رہے ہیں۔
امریکہ کے اس متکبرانہ موقف کا صاف لفظوں میں اظہار صدر بش کی قومی سلامتی کی مشیر کونڈولیزا رائس نے اس طرح کیا ہے:
بش انتظامیہ قومی مفادات کی مضبوط بنیاد سے آگے بڑھے گی نہ کہ ایک جھوٹی نام نہاد عالمی برادری کے مفاد کے تحت۔
اس کی وجہ نیویارک کے ’مرکز براے دستوری حقوق‘ کے صدر مائیکل رٹیز کی نگاہ میں یہ ہے کہ:
دنیا میں امریکہ کے خلاف کوئی زیادہ مزاحمت نہیں ہے۔ اس کے پاس بہت سزا دینے اور لالچ دینے کے لیے بہت گاجریں اور ڈنڈے ہیں۔ کچھ ممالک خفیہ اقدام چاہے کریں‘ لیکن امریکہ اس وقت اتنا طاقت ور ہے کہ ہمیں روکنے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
امریکن یونی ورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر ایلن لچمین امریکی صدر کے بارے میں یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ:
خارجہ امور میں وہ جوکچھ بھی کرنا چاہے عملاً کر سکتا ہے۔ امریکہ کی طاقت اور اس کے صدر کے اقدامات کو روکنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
ان کا نتیجہ ہے کہ امریکہ ایک ہائپر (hyper) طاقت بن گیا ہے اور اپنے کو تمام اصول و ضوابط اور اقدار اور روایات سے بالا تصور کرتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو امریکہ اور اس کے صدر کو عالمی امن اور انسانی معاشرے میں انصاف اور آشتی کے لیے ایک خطرہ بنائے ڈال رہی ہے۔ امریکہ کے مشہور تھنک ٹینک Cato Institute کی جین ہیلی بھی پکار اٹھی ہے کہ:
یہ بات کہ ایک آدمی تنہا اتنی بڑی جنگ شروع کرنے کا اختیار رکھے گا‘ دستور بنانے والوں کو اپنی قبروں میں بے چین کر دے گا۔
۱۱ ستمبر کے نتیجے میں امریکہ اور اس کی قیادت نے جو روپ دھارا ہے‘ وہ امریکہ اور پوری دنیا کے لیے ایک خطرہ ہے اور یہ خطرہ محض ایک خیالی خطرہ نہیں‘ بلکہ اس نے عملاً پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔
۲- امریکہ جس بین الاقوامی معاہدے اور میثاق سے نکلنا چاہتا ہے‘ یک طرفہ طور پر نکل رہا ہے اور جس کا راستہ روکنا چاہتا ہے اسے روکنے کی بے دریغ کوشش کر رہا ہے۔ ماحولیات کے بین الاقوامی معاہدہ کویوٹو پر دستخط کرنے کے بعد اس سے منحرف ہو گیا ہے۔ بیلسٹک میزائل کے بین الاقوامی کنونشن (ICBM) سے بھی منحرف ہو گیا ہے اور روس کو مالی امداد کی رشوت دے کر اس کا منہ بند کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
۳- بین الاقوامی فوج داری عدالت (International Criminal Court) کے قیام کے لیے ۶ سال تک شریک مشاورت رہنے اور اپنے مفید مطلب دسیوں ترامیم کرانے کے بعد امریکہ نے اس عدالت کے قیام کو رکوانے کی سرتوڑ کوشش کی اور جب مطلوبہ ممالک نے معاہدے کی توثیق کر دی تواسے غیرموثر بنانے کے لیے اقوام متحدہ میںاوراب اقوام متحدہ کے باہر دو طرفہ معاہدات کے ذریعے سرگرم ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب پر امریکہ اور اس کی افواج پرگرفت نہ کی جاسکے۔ ایک طرف دعویٰ ہے کہ تمام انسان برابر ہیںاور تمام اقوام مساوی درجہ رکھتی ہیں (اقوام متحدہ کا چارٹر‘ یونی ورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس اور خود امریکہ کا دستور ان اصولوں پر مبنی ہے) اور دوسری طرف امریکہ یہ چاہتا ہے کہ کسی دوسرے ملک میں کیے جانے والے انسانیت کے خلاف کسی جرم پر بھی کسی امریکی فوجی کا مواخذہ نہیں ہونا چاہیے۔ امریکہ ہر ملک پردبائو ڈال رہا ہے کہ اگر امریکی افواج کواستثنا نہ دیا گیا تو ان ممالک کی فوجی اور معاشی امداد بند کر دی جائے گی۔ یہ عالمی سطح پر ایک قسم کی نسلی اور سیاسی تفریق (apartheid) کا نظام قائم کرنے کی مذموم کوشش ہے۔
۴- امریکہ دنیا کوآزاد تجارت کا درس دیتا ہے لیکن خود ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اصولوں کی خلاف ورزی کر رہاہے۔ حال ہی میں یورپ اور باقی دنیا کی مخالفت کے باوجود اسٹیل کی درآمد پر ۳۰ فی صد ڈیوٹی لگائی ہے‘ زرعی پیداوار کے لیے زرتلافی دے رہا ہے جس سے دنیا کے غریب ملکوں کی زراعت کی برآمدات متاثر ہو رہی ہیں اور اس طرح وہ تیسری دنیا کے ملکوں کے لیے معاشی امداد کے تمام اہداف سے روگردانی کررہا ہے بلکہ اس سلسلے کی کوششوں کو عملاً سبوتاژ کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہا۔
۵- خود امریکہ میں شخصی آزادیوں کی تحدید کی جا رہی ہے اور دستور کے خلاف ہزاروں انسانوں کو بلاثبوت‘ بلاوارنٹ گرفتار کیا گیا ہے‘ خصوصیت سے عربوں اور مسلمانوں کو --- بارہ سو کے قریب افراد ایک سال سے بلامقدمہ جیلوں میں محبوس ہیں‘ جب کہ متعدد افراد کی پوچھ گچھ کے دوران موت تک واقع ہو چکی ہے۔ ان لوگوں پر مقدمہ چلانا اور جرم کو ثابت کرنا تو کجا ان کے نام تک نہیں بتائے جا رہے ہیں اور اس سلسلے میں حقوق انسانی کے اداروں نے جوبھی کوششیں کی ہیں سب ناکام رہی ہیں حتیٰ کہ اب کچھ جج حضرات یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ حکومت کا یہ رویہ عدل و انصاف اور جمہوری نظام کے اصولوں کے منافی ہے اور اسے کم از کم ان کے نام ظاہر کرنے چاہییں (ملاحظہ ہو‘ ڈسٹرکٹ جج گلیڈیز کینلر کا ۲۶ اگست ۲۰۰۲ء کا فیصلہ جس میں حکومت سے کہاہے کہ ۱۵ دن کے اندر ان لوگوں کے ناموں کا اعلان کیا جائے جو بلامقدمہ جیلوں میں محبوس ہیں۔ حالانکہ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۱ء اور نیویارک ٹائمز نے اپنی ۱۰ نومبر ۲۰۰۱ء کی اشاعت میں ادارتی نوٹ کے ذریعے ان معلومات کو عام کرنے کا مطالبہ کیا تھا)۔
۱۱ ستمبر کا سہارا لے کر امریکہ کی حکومت نے قرون وسطیٰ کے جابرانہ نظام کو آبادی کے ایک حصے پر مسلط کر دیا ہے۔ اس کا خاص نشانہ مسلمان‘ عرب اور پاکستان ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تین سو سے زیادہ پاکستانی اس آزمایش میں مبتلا ہیں۔
۶- جاسوسی کا ایک نظام ملک میں رائج کیا جا رہا ہے جس کے تحت ٹیلی فون ٹیپ کرنا‘ ڈاک بند کرنا‘ انٹرنیٹ تک رسائی اور پرائیویسی کی تمام حدود کو پامال کیا جا سکتا ہے۔ آبادی میں مخبروں کا ایک نظام جاری کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے جس پر پریس اور کانگرس کے ارکان چونک اٹھے ہیں۔
۱۱ ستمبر کو حکومت ایک قسم کی پولیس اسٹیٹ ملک پر مسلط کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے جس پر لندن کے روزنامہ ڈیلی مرر نے امریکہ کے یوم آزادی (۴ جولائی ۲۰۰۲ء) پر اپنے پہلے صفحے پر جلی حروف میں لکھا ہے: "Mourn on the 4th July" (۴ جولائی کو سوگ)
اور اس میں نوحہ کیا ہے کہ:
"The US is now the world's leading rogue state".
اب امریکہ دنیا کی سب سے نمایاں غنڈا ریاست ہے۔
بین الاقوامی سطح پر پہلے افغانستان پر حملہ کیا گیا‘ نہ اسامہ پکڑا گیا اور نہ ملا عمر۔ لیکن امریکی فوج نے کم سے کم اندازے کے مطابق اپنے جنگی معرکوں میں طالبان اور القاعدہ کی ہلاکتوں کے علاوہ (جو ۱۰ ہزارسے زیادہ ہیں) خالص سول آبادیوں پر بم باری کے ذریعے نیو ہمپشائر یونی ورسٹی کے ایک پروفیسر کے ڈیٹابیس کے مطابق ۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء سے جون ۲۰۰۲ء تک ۳۶۲۰ معصوم مردوں‘ عورتوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ نیز جو مظالم شمالی اتحاد کے جنگجوئوں نے طالبان اور القاعدہ کے نام پر افغانیوں پر کیے ہیں اور جو امریکی افواج کی آنکھوں کے سامنے ہوئے ہیں ان کی ذمہ داری سے بھی امریکہ کو بری نہیںکیا جا سکتا۔ افغانستان کے بعد عراق کو فوج کشی کا ہدف بنانے کے لیے فضا بنائی جا رہی ہے اور افواج اور اسلحہ کو علاقے میں پہنچایا جا رہا ہے‘ سان ڈیاگو اور قطر کے اڈوں کو تیار کیا جا رہا ہے۔ خود عراق میں افغانستان کی طرح طفیلی قیادت ابھارنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ عراق کے بعد ایران اور پھر پاکستان‘ سوڈان اور شام فہرست میں ہیں۔ سعودی عرب کو بھی اب کھل کر ہدف بنایا جارہا ہے۔ وہاں کے حکمرانوں کو بلیک میل کیا جا رہا ہے‘ اندرونی بغاوت کی سازشیں ہورہی ہیں۔ یہی کھیل سوڈان میں کھیلا جا رہا ہے--- آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟
امریکہ کی قیادت نے بین الاقوامی قانون اور روایات کو تار تار کرکے نئے اصول وضع کیے ہیں جن کے تحت جس ملک سے ناراض ہوں اس میں قیادت کی تبدیلی (regime change) کو اس نے اپنا حق بنا کر پیش کیا ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف پیش بندی(preemptive) کے طور پر مداخلت کی باتیں کی جا رہی ہیں جس پر کسنجرجیسا ’’شریک کار‘‘ بھی چیخ اٹھاہے:
حکومت کی تبدیلی فوجی مداخلت کا مقصد بنانا ۱۶۴۸ء کے معاہدئہ West philes کے قائم کردہ عالمی نظام کے لیے چیلنج ہے۔ اس معاہدے نے دوسری ریاستوں کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول کو قائم کر دیا تھا۔ پیش بندی کے طور اقدام کرنے کا جواز جدید بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے جو طاقت کے استعمال کو صرف اپنے دفاع میں حقیقی اقدام نہ کہ امکانی دھمکیوں کے خلاف جائز قرار دیتا ہے (ہنری کسنجر‘ لاس اینجلس ٹائمز‘ سنڈیکیٹ‘ ڈان‘ ۱۱اگست ۲۰۰۲ء)۔
ہنری کسنجر نے یورپی اقوام‘عرب ممالک اور چین کے تحفظات کا ذکر کیا ہے اور پھر پاکستان کے لیے یہ وارننگ بھی دی ہے کہ اس اصول کو مان لیا جائے تو بھارت کیا کچھ گل کھلا سکتا ہے:
بہت دل چسپ لیکن بے حد خطرناک ردعمل بھارت کا ہو سکتا ہے جو پیش بندی کے طور پر اقدام کے اصول کا اطلاق پاکستان کے خلاف کرنے کے لیے کشش محسوس کرے گا۔
کسنجرنے متنبہ کیا ہے کہ امریکہ کواس نام نہاد اصول کو پروان نہیں چڑھانا چاہیے اور بین الاقوامی قانون پاس کرنا چاہیے لیکن بظاہر اس ’’گرو‘‘ کی بات بھی صدا بصحرا ہی معلوم ہوتی ہے۔
امریکہ نے جنگ اور جنگی قیدیوں کے بارے میں بین الاقوامی قوتوں اور جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی کی ہے اور بین الاقوامی اداروں اور یورپ اور تیسری دنیا کے اخبارات اور دانش وروں کی تنقید کے باوجود اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ افغانستان میں ہتھیار ڈالنے والوں کا کھلا قتل عام کیا گیا‘ لاشوں کا مثلہ کیا گیا‘ جنگ ختم ہونے کے بعد بھی سول آبادیوں بلکہ شادی کی محفلوں پر بم باری کی گئی اور اسے چھپانے (cover-up) اور شہادتیں مٹانے کا کام کیا گیا۔ پھر جنگی قیدیوں کو کیوبا کے فوجی بیس گنٹانامو لے جایاگیا تاکہ امریکی قانون ان پر لاگو نہ ہو سکے۔ ان قیدیوں کو جس طرح پابند سلاسل کیا گیا اور جو جومظالم ان پر ہوئے‘ اس کے نتیجے میں کئی اموات واقع ہوچکی ہیں۔ یہ سب جنیوا کنونشن کے خلاف ہے۔ آٹھ ماہ کے بعد بھی ان پر کوئی جرم ثابت نہیں ہو سکا اور ساری تفتیش کا حاصل خود امریکی اخبارات کی اطلاع کے مطابق ان میں سے ایک بھی القاعدہ کا ذمہ دار فرد نہیں نکلا ہے۔ ان میں ۳۰ سے زیادہ پاکستانی بھی ہیں مگر ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ امریکہ اپنے کو ہر قانون سے بالا سمجھتا ہے۔
اس پورے عمل میں اگر کسی کو فائدہ پہنچا ہے تو خود صدر جارج بش ہیں جن کا صدارتی انتخاب مشتبہ تھا مگر اب وہ اندھی تائید حاصل کر رہے ہیںاور سارے معاشی اسیکنڈلوں پر پردہ ڈال کر سیاسی محاذ آرائی کے ذریعے اپنی صدارت چمکا رہے ہیں۔ پھر اس کا بڑا فائدہ فوج اور اسلحہ سازی کی صنعت کو ہو رہا ہے جس کا بجٹ ۴۰۰ بلین ڈالر تک بڑھا دیا گیا ہے۔ نیوزویک کے تازہ ترین جائزے کے مطابق امریکہ جو دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ کا تاجر ہے‘ اس کی اسلحہ کی تجارت ۲۰۰۰ء سے نیچے جا رہی تھی۔ اب اس کی صنعت کو حکومت کی طرف سے نئے آرڈر مل رہے ہیں۔ انرجی کی صنعت بھی فائدہ اٹھا رہی ہے۔ یہی وہ عناصر ہیں جو دنیا کی اس سب سے بڑی اور طاقت ور ’’جمہوریت‘‘ کی پشت پر کارفرما اصل عناصر ہیں۔ صدر آئزن ہاور نے اپنی صدارت کے خاتمے پر آخری خطاب میں امریکی قوم کو جس قوت کے بارے میں متنبہ کیا تھا وہی اس پورے عمل میںسب سے زیادہ فائدے میں رہی ہے اور مضبوط تر ہو رہی ہے بلکہ اس وقت تو ملک کے اندرونی معاملات میں قومی سلامتی کے نام پر فوج کے کردار کے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں جن پر کانگرس اور لبرل حلقے سخت تشویش کااظہار کر رہے ہیں۔
آئزن ہاور کے الفاظ ۱۱ ستمبر کے بعد رونما ہونے والے تناظر میں غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ ۱۷ جنوری ۱۹۶۱ء کے اس خطاب میں آئزن ہاور نے کہا تھا:
ایک بہت بڑی فوجی انتظامیہ اور اسلحے کی ایک بہت بھاری صنعت کا یک جا ہونا امریکی تجربہ ہے۔ اس کا مجموعی اثر--- معاشی‘ سیاسی حتیٰ کہ روحانی --- ہر شہر ہر ریاست اور وفاقی حکومت کے ہردفتر میں محسوس کیا جا رہا ہے۔ ہم کو حکومت کے مشاورتی اداروں میں بلاروک رسوخ کے حصول کے خلاف چوکنا رہنا چاہیے‘ خواہ یہ فوجی اور صنعتی کمپلیکس اس کو طلب کرے یااس کو طلب نہ کرے۔بے محل اختیارات میں خطرناک اضافے کا امکان موجود ہے اور موجود رہے گا۔ فوجی صنعتی کمپلیکس کو ہرگز یہ اجازت نہ ہونا چاہیے کہ وہ ہماری آزادیوں اور جمہوری عمل کو خطرے میں ڈالے۔ ہمیں اس لحاظ سے مطمئن نہ ہوناچاہیے۔ ( Eisenhower: Soldier & President اسٹیفن ایمرون‘ سائمن اینڈ شسٹر‘ نیویارک‘ ص ۵۳۶-۵۳۷)
۱۱ ستمبر اور اس کے بعد کی امریکی پالیسی پر اسی فوجی‘ صنعتی گٹھ جوڑ کی چھاپ دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ جن بوتل سے باہر آگیا ہے اور خود امریکی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کر رہا ہے۔ وہ جمہوری عمل‘ وہ آزادیاں‘ وہ تہذیبی اقدار جن کو صدیوں کا حاصل قرار دیا جا رہا ہے‘ آج معرض خطر میں ہیں۔ عالمی سطح پر بھی‘ اور خود امریکہ میں بھی۔ عام شہری ایک شدید تنائو میں زندگی گزار رہا ہے۔
۱۱ ستمبر کے بعد امریکی شہریوں کی نفسیات اور ذہنی کیفیات پر جو اثرات مترتب ہوئے ہیں ان پر جو بھی تحقیقی کام ہوا ہے‘ وہ بہت نظر کشا ہے۔ ولیم شیلنگرنے ۲ ہزار ۲ سو ۷۳ امریکیوں کے سروے کی بنیاد پر اپنی تحقیق کے نتائج امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے جرنل کے تازہ شمارے میں شائع کیے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت حال سے پوری آبادی پر ذہنی دبائو‘ بے یقینی‘ خوف اور انتشار فکری کی کیفیت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے لیے اس نے PTSDکی اصطلاح وضع کی ہے‘ یعنی Post-Traumatic Stress Disorder ۔ ہر قسم کے ٹراما کے مقابلے میں جس میں جبری آبروریزی سے لے کر طوفان‘ زلزلہ حتیٰ کہ اوکلاہوما کی دہشت گردی سمیت تمام حادثات اور سانحات شامل ہیں‘ ۱۱ ستمبر کے واقعے کے اثرات کہیں زیادہ ہیں۔ ملک کی ذہنی صحت کا جو نقشہ(profile) اس جائزے سے سامنے آتا ہے ۱۱ ستمبر کے واقعے کے ایک سے دو ماہ بعد تک PTSDکی سطح میں پوری امریکی قوم کے لیے اوسطاً ۴ فی صد اور نیویارک کی آبادی کے لیے ۱۱فی صد اضافہ ہوا اور اس کے اثرات وقتی نہیں بلکہ تاحیات رہنے کا خطرہ ہے جس کے نتیجے میں بقول ولیم شیلنگر:
عوام کی صحت کے لیے قابل لحاظ خطرہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایک دوسرے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس نے جتنا زیادہ ٹی وی دیکھا ہے‘ اتنا ہی زیادہ وہ اس سے متاثر ہے۔ چار گھنٹے ٹی وی دیکھنے والوں کا اوسط اگر ۵.۷ فی صد تھا تو ۱۲ گھنٹے دیکھنے والوں کا اوسط ۱۸فی صد تک بڑھ جاتا ہے۔ بات صرف ۱۱ ستمبر کے اثرات ہی کی نہیںاس کے بعد بھی خوف کا عفریت نت نئی شکلوں میں آبادی کو ہیجانی کیفیت میں مبتلا کرتا رہا ہے‘ خواہ انتھراکس کا خطرہ ہو یا دہشت گردی کی کسی نئی کارروائی کا۔ غرض پوری قوم ایک نئے ذہنی انتشار اوردبائو کا شکار ہو گئی ہے اور ملکی قیادت ہے کہ اس نام نہاد جنگ کو کرہ ارض کے طول و عرض تک پھیلانے پر تلی ہوئی ہے اور کسی کو اس پر غور کرنے کی فکر نہیں کہ دہشت گردی اور اس کے اسباب کا سدباب نہ میڈیا وار سے ہو سکتا ہے اور نہ فوج کشی اور نامعلوم دشمن کی تلاش میں عام انسانوں پر گولہ باری اور میزائل اندازی سے۔ خود اپنے ملک کی ابادی کو بھی بے یقینی اور خوف کے جہنم میں جھونکا جا رہا ہے اور دنیا کے دوسرے ممالک کے باسیوں کو بھی‘ اور اب تو کھلے بندوں یہ تیاری ہو رہی ہے کہ چھوٹے ایٹم بم (mini nukes) بنائے جائیں جو متعین اہداف کو نشانہ بنا سکیں اس کے لیے تیزی سے کام شروع ہو گیا ہے اور NPT اور CTBT سب کی گرفت سے آزاد ہو کر تباہی کے ان ہتھیاروںکو دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے لیے موثر ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے لیے فضا ہموار کی جا رہی ہے۔ دوسروں کو بڑے پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں (WMD)سے محروم کرنے کے لیے فوج کشی کے منصوبے ہیں اور خود ایسی ہی تباہی کے ہتھیاروں کے انبار ہی نہیں لگا رہے‘ ان کو بے دریغ استعمال بھی کر رہے ہیں اور آیندہ استعمال کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور تیاریاں بھی کررہے ہیں۔ اس ظلم اور دھاندلی پر بھی اگر دنیا آپ کو نفرت کا نشانہ نہ بنائے تو کیا کرے؟ بڑی معصومیت سے پوچھا جاتا ہے کہ ’’لوگ ہمارے خلاف کیوں ہو رہے ہیں؟‘‘ اور ’’دنیا امریکہ سے نفرت کیوں کررہی ہے؟‘‘ اور ایک لمحہ بھی اس سوال پر کوئی غور کرنے کو تیار نہیں کہ معصوم انسان اور عام لوگ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر احتجاج اور انتقام کے لیے کیوں اُٹھ رہے ہیں اور خطرات انگیز کر رہے ہیں۔
دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ دونوں انسانیت کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہیں اور ۱۱ ستمبر سے جو حقیقی سبق سیکھا جا سکتا تھا‘ اسے امریکی قیادت اور اس کی نکیل تھامنے والی صہیونی لابی نے امریکی قوم اور پوری دنیا کی آنکھوں سے اوجھل کرنے کی بڑی منظم اور عالم گیر جدوجہد کی ہے اور مغربی میڈیا نے اس سلسلے میں بڑاہی کلیدی کردارادا کیا ہے۔ دہشت گردی ایک اخلاقی اور انسانی جرم ہے لیکن ہر جرم کی طرح اس کا مقابلہ جرم کے اسباب اور تائیدی عوامل کے تعین اور تجزیے کے بغیر ممکن نہیں۔ ۱۱ ستمبر کے دل ہلا دینے والے واقعے نے بھی امریکی قیادت کی آنکھیں نہیںکھولیں اور اس نے حالات اور معروضی جائزہ اور حقیقت پسندانہ ردعمل کی جگہ جذباتی اور ہیجانی انداز میں اس انسانی تباہی کو بھی اپنے سیاسی اور معاشی مقاصد اور مفادات کے حصول کے لیے بے دردی سے استعمال کیا ہے۔ یہ ناکامی خود ۱۱ ستمبرکے حادثے کی تباہ کاری سے بھی بڑی تباہی کا باعث ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ مسئلے کی اصل نوعیت کوسمجھا جائے اور کم از کم ان تمام انسانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی جائے جو مفاد کے بندے نہیں اور جنھیں حق و انصاف اور انسانی فلاح و سلامتی عزیز ہے۔
تین چیزوں میں فرق ضروری ہے۔ ایک انسانی معاملات میں قوت (force)کا استعمال‘ دوسرے تشدد(violance)اور تیسرے دہشت گردی (terrorism)۔ قوت کا استعمال حق اور ناحق‘ صحیح اور غلط‘ حصول انصاف اور ظلم دونوںکے لیے ہو سکتا ہے۔ انسانی معاشرے میں امن وسلامتی کے قیام‘ عدل و انصاف کے حصول اور قانون کی بالادستی اور نظم و انضباط پر مبنی معاشرے کے فروغ کے لیے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سطح کی اتھارٹی کے لیے ڈسپلن اور ایک درجے میں قوت کا استعمال ضروری ہے۔ ریاست کی تعریف ہی coercive power سے کی جاتی ہے اور کسی بھی معاشرے کو انارکی سے پاک رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ ملکی نظام کے اندر سزا اور تعزیر اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے جنگ و جہاد اسی نظام کا حصہ ہیں۔ بلاشبہہ قوت کو اعلیٰ اقدار و مقاصد‘ متفقہ قومی اہداف‘ اخلاقی اصولوں اور قانون کا پابند ہوناچاہیے اور نفاذِ قانون کے لیے قوت بطور ایک آلہ کار کے طور پر اس کا اصل جواز ہے۔ خیر اور حقوق کی حفاظت کے لیے قوت کا استعمال ایک نعمت ہے لعنت نہیں۔ یہ لعنت اس وقت بنتی ہے جب اس کا رشتہ اخلاق‘ اقدار اور قانون سے کٹ جائے۔ اقبال نے اسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے: ؎
اسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں
سو بار ہوئی حضرتِ انساں کی قبا چاک
تاریخ امم کا یہ پیام ازلی ہے
صاحب نظراں! نشۂ قوت ہے خطرناک
لادیں ہو تو ہے زہرِ ہلاہل سے بھی بڑھ کر
ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک
قوت کا استعمال ‘ تشدد اس وقت بن جاتا ہے جب وہ دینی و اخلاقی اورقانون و ضوابط سے بے نیاز ہوکر ذاتی مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال ہو۔ قتل و غارت گری‘ لوٹ مار‘ ظلم و زیادتی اس کا نتیجہ ہیں اور اس لیے تشدد جرم اور قابل مواخذہ ہے۔ دہشت گردی‘ قوت اور تشدد دونوں سے مختلف ہے۔ یہ محرومی اور بے بسی کے جواب میں سیاسی مقاصد کے لیے قوت کا ایسا استعمال ہے جس کا ہدف کوئی ذاتی فائدہ حاصل کرنا نہ ہو بلکہ مقابل قوت کو متوجہ بلکہ خائف کرنے کے لیے کوئی ایسی چونکا دینے والی کارروائی کرنا ہے جو نقصان بھی پہنچائے اور توجہ کو اس مقصد کی طرف مبذول کرانے کا ذریعہ بنے جس کے لیے تشدد کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ اسی لیے اسے طاقتور کے مقابلے میں کمزور کا ہتھیار کہا گیا ہے (ملاحظہ ہو‘ ہن ٹنگٹن کی کتاب Clash of Civilizations)۔
بات اس کے جواز اور عدم جواز کی نہیں۔ مسئلے کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دہشت گردی ایک برائی اور قابل مذمت اقدام ہے مگر دہشت گردی کا مقابلہ تشدد‘ جنگ اور ظلم و زیادتی میں اضافے سے نہیں ہوسکتا۔ یہ تاریخ کا واضح سبق ہے اور گذشتہ دو سو سال کی تاریخ بھی اس پر گواہ ہے۔ سامراج کے مظالم‘ بیرونی قبضے اورسماجی‘ معاشی اور سیاسی حقوق کُشی کے ردعمل میں رونما ہونے والی تحریکوں کو‘ خواہ وہ تشدد اور دہشت گردی کے حربوں کواستعمال کرنے پر ہی کیوں نہ اتر آتی ہوں‘ محض قوت کے استعمال سے ختم نہیں کیا جا سکا اور ساری جنگ آزمائی کے بعد بالآخر معاملات کی اسی وقت اصلاح ہو سکی اور تصادم اور کشت و خون کا خاتمہ ممکن ہوا جب اصل اسباب کو دُور کرنے کی کوشش ہوئی اور مسائل کا سیاسی حل تلاش کیا گیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اس نوعیت کی جنگ ہے اور ہو سکتی ہے جسے غربت کے خلاف جنگ‘ یا بیماری اور خوف کے خلاف جنگ!
دہشت گردی کا سدباب صرف اس وقت ممکن ہے جب ان اسباب کا سدباب کیا جائے جو دہشت گردی کو جنم دیتے ہیں۔ اصل سوال ہے ہی یہ کہ وہ کیا عوامل ہیں جو معصوم انسانوں کو اپنی جان تک دینے پر مجبور کرتے ہیں؟ برطانوی وزیراعظم کی اہلیہ شیری بلیر نے فلسطینی خودکش حملہ کرنے والوں کے بارے میں کہا تھا کہ جب تک ان اسباب و عوامل کی فکر نہ کی جائے جو نوجوانوں کو اپنے پرخچے اڑانے پر مجبور کرتے ہیں‘ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا لیکن بش اور شیرون اس زعم میں مبتلا ہیں کہ محض قوت اور تشدد کے ذریعے وہ مجبور انسانوں کو ہمیشہ کے لیے اپنے حق کے لیے لڑنے سے روک سکتے ہیں تو یہ خام خیالی ہی نہیں‘ جنگ و جدال اور مزید تشدد اور دہشت گردی کے فروغ کا تیر بہ ہدف نسخہ ہے۔ برطانوی رکن پارلیمنٹ جان گالووے نے اس بات کو لندن کے دی گارڈین میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں یوں بیان کیا ہے:
یہ ایک مسلسل جنگ اور عالمی ہل چل کی ترکیب (recipe) ہے۔ یہ دہشت گردی پھیلانے کی بھی ترکیب ہے۔ اور پوری مسلم دنیا اور اس کے باہر بھی بن لادن کے لیے اسلحہ خانے پیداکرنے کی ترکیب (دی گارڈین‘ دی نیوز‘ ۱۳ اگست ۲۰۰۲ء)
امریکہ کے دفاعی اطلاعات کے مرکز کے محقق مارک برگس نے امریکی صدر کے اعلان جنگ کے بارے میں درست ہی کہا ہے کہ:
بن لادن کے خلاف صدر کا صلیبی جنگ کا اعلان بن لادن کے تصورِ جہاں کے عین مطابق ہے اورمیں یہ نہیں کرنا چاہتا۔
رینڈ کرپوریشن کے اسکالر پارچینی کا یہ بیان حال ہی میں امریکی اخبارات میں شائع ہوا ہے کہ:
اگر آپ دہشت گردی کی اس صورت حال کو دیکھیں تو آپ اسے ایک سادہ ‘یک رخا سیاسی فیصلے کی حیثیت سے نہیں دیکھتے۔ عوامل کا ایک مجموعہ اسے متحرک رکھتا ہے۔
فلپائن کے صدر کے ایک مشیر Jose T. Almonte نے انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے جولائی ۲۰۰۲ء کے آخری ہفتے کے ایک شمارے میں بہت کام کی بات لکھی ہے:
دہشت گردی کو جڑسے اکھاڑنے کے لیے ناگزیر طور پر سفارتی‘ سیاسی‘ معاشی‘ مالیاتی اور ثقافتی اقدامات بشمول پولیس اور فوجی اقدام کے کرنا ہوں گے۔ ترقی پذیر دنیا کے بیش تر حصوں میں سیکولر ریاست اپنی سیاسی‘ آزادی‘ معاشی خوش حالی اور عدل و انصاف کے وعدوں کو پورا نہیں کرسکی ہے۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ خلیج ٹائمز‘ ۳۰ جولائی ۲۰۰۲ء)
بات درست ہے لیکن آل مونٹے نے آدھی بات کہی ہے۔ سیکولرزم کی ناکامی اور سماجی انصاف سے محرومی کے ساتھ سیاسی ظلم اور غیرملکی قبضے بھی ایک اہم سبب ہے۔ فلسطین‘ کشمیر‘ منٹارانو‘ شیشان اور متعدد مقامات پر سیاسی غلامی اور استبداد اوردنیا کے مختلف علاقوں میں امریکی فوجی تسلط اور مداخلت بھی نفرت اور انتقام کی آگ کوہوا دے رہے ہیں۔ صدر بش کی زبان سے بھی ۱۱ ستمبر اور دہشت گردی کے اسباب کے سلسلے میں یہ الفاظ نکل ہی گئے جو خودکسنجر نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں نقل کیے ہیں کہ:
یہ اس کے بغیر ممکن نہیںتھا کہ ان ممالک کی خاموش حمایت کا تعاون حاصل ہوتا جو جارج ڈبلیو بش کے الفاظ میں ’’دہشت گردی‘‘ کی مخالفت کرتے ہیں لیکن اس نفرت کو انگیز کرتے ہیں جو دہشت گردی کرتی ہے (لاس اینجلز ٹائمز‘ سنڈیکیٹ‘ ڈان‘ ۱۱ اگست ۲۰۰۲ء)۔
بش اور کسنجر یہاں تک تو آئے مگر اس پر غور نہ کیا کہ اس نفرت (hatred) کوپیدا کرنے والے عوامل کیا ہیں؟ کسنجرنے اعتراف کیا ہے کہ:
امریکی حکمت عملی کو ان ناراضیوں کی جائز وجوہات کو دُور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے
لیکن اس سانس میں پھر سارا زوراسی بات پر ہے کہ ان افراد اور حکومتوں کو سبق سکھائو جہاں یہ دہشت گرد پائے جاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ مفاد اور غیظ و غضب اور عناد نے آنکھوں پر بالکل پٹی باندھ دی ہے ورنہ یہاں تک آنے کے بعد دوسرا اور فطری سوال یہی تھا کہ ان اسباب کو دُور کرنے کی فکر کی جائے جو معصوم انسانوں کو اس انتہا کی طرف لے جا رہے ہیں۔ اصل سبب ظلم اور ناانصافی کا وہ نظام ہے جس میں فلسطین پر اسرائیل ناجائز طور پر قابض ہو کر وہاں ریاستی دہشت گردی کر رہاہے‘ کشمیر پربھارت کا تسلط ہے اور وہ ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ شیشان پر روس کا فوجی کنٹرول اور مینڈانائو پر فلپائن کی حکومت کی فوج کشی ریاستی دہشت گردی ہے۔ گویا عالمی سطح پر امریکہ کے بالادستی کے منصوبے اورپوری عسکری‘ سیاسی‘ معاشی اور ثقافتی یلغار ہی وہ اصل سبب ہے جس نے مجبورانسانوں کو بغاوت اور پھر خود تشدد پر ابھارا ہے۔
اس بنیادی حقیقت کو نہ سمجھنا یا جانتے بوجھتے ہوئے اسے نظرانداز کرنا سارے فساد کی جڑ اور پوری دنیا کو شدید بحران میں مبتلا رکھنے کا ذریعہ ہے۔ فلسطین ہویا کشمیر‘افغانستان ہو یا شیشان‘ باسک (اسپین) ہویا مینڈانائو (فلپائن) مسئلہ ایک ہی ہے۔ عوام کے احساسات کا عدم ادراک‘ ناانصافیوں اور مظالم سے بے نیازی‘ نفرت اور بے چینی کے اسباب سے لاتعلقی اور محض علامات اور ظاہری عوامل کا خبط (obsession) جب کہ زمینی حقائق اور زیرزمین کام کرنے والے حقیقی محرکات واسباب سے صرف نظر آج کی قیادتوں کا مسئلہ اور مرض ہے۔ افغانستان میں القاعدہ کے خلاف جنگ اور اس کے اثرات و نتائج اس کی ایک نمایاں مثال ہیں۔ ۱۱ستمبر کے ’’مجرموں‘‘ کو سزادینے کے لیے اقدام کیا گیا اور اسامہ بن لادن ’’زندہ یامردہ‘‘ کوہدف بنایا گیا--- طالبان اس لیے گردن زدنی ٹھہرے کہ اسامہ افغانستان میں پناہ گزین تھا۔ آزادی کے نام پر افغانستان تباہ ہو گیا لیکن اس کی آزادی کا یہ حال ہے کہ امریکہ کے لائے ہوئے صدر کی حفاظت کے لیے بھی امریکی میرین درکار ہیں۔ افغان اپنے صدر کو بھی تحفظ فراہم نہیں کر سکتے۔ ملک ایک بار پھر اقتدار کے ٹکڑوں اور حلقوں میں بٹا ہوا ہے۔ ہر روز دو طرفہ کارروائیاں ہو رہی ہیں اورامن و سکون ناپید ہیں۔ تعمیرنو کا کہیں دور دور پتا نہیں اورامریکی کمانڈر کہہ رہے ہیں کہ ہمارا افغانستان میں قیام‘ کوریا کی طرح مستقل اور لامتناہی ہے۔ القاعدہ جن کو ساری برائیوں کا مرجع اور جامع قرار دیا جا رہا ہے وہ امریکہ کے کتنے ہی مبغوض کیوں نہ ہوں‘ افغان عوام کے آج بھی ہیرو ہیں۔ اگر امریکہ اور اس کے ہمراہی بشمول جنرل پرویز مشرف ان حقائق کو نہیں دیکھ سکتے تو اسے کورچشمی ہی کہا جا سکتا ہے۔
ع جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ توسارا جانے ہے
پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں القاعدہ کے خلاف کارروائیوں میں ۱۰ پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے‘ اس کی جوروداد ٹائم کے ۲۹ جولائی کے شمارے میں شائع ہوئی ہے وہ چشم کشا ہے۔ عبدالرئوف نیازی جو پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے کا افسر اورامریکی تلاش القاعدہ مہم کا رہبر تھا اس تصادم میں مارا گیا۔ مگر جب اس کی لاش اس کے گھر لائی گئی تو دیکھیے خود اس کا باپ ‘ جس کا وہ لخت جگر تھا اور جسے اس نے نہ معلوم کن کن تمنائوں کے ساتھ پالا اور دفاع وطن کے لیے پاکستانی افواج کے سپرد کیا تھا‘ کیا کہتا ہے:
نیازی کا اپنا باپ اپنے بیٹے کومسلمانوں کا غدارسمجھتا ہے۔ اس نے اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا۔ اس نے کہا: ’’بش آئے اور میرے بیٹے کے لیے دعا کرے‘ میں نہیں کروںگا‘‘ (ٹائم‘ ۲۹ جولائی ۲۰۰۲ء‘ ص ۱۵)۔
افغانستان میں القاعدہ کے شہدا کے بارے میں افغانستان کے عام مسلمانوں کا آج بھی کیا رویہ ہے اس کے بارے میں رابرٹ فسک کی تازہ ترین رپورٹ جو اس وقت افغانستان کا دورہ کر رہا ہے اور لندن کے اخبار انڈی پنڈنٹ میں اپنی روداد سفر شائع کر رہا ہے ‘پڑھنے کے لائق ہے۔ امریکہ کے ذریعے طالبان سے ’’آزادی‘‘ کے آٹھ مہینے کے بعد ۱۳ اگست ۲۰۰۲ء کی صورت حال یہ ہے۔ یہ رابرٹ فسک شہداے القاعدہ کے ایک قبرستان کا منظر یوں بیان کرتا ہے:
ان کی ولیوں کی طرح عزت کی جاتی ہے۔ ڈھیروں مٹی کے نیچے القاعدہ کے شہدا آرام کررہے ہیں۔ یہ عرب ہیں‘ پاکستانی ہیں‘ چیچن ہیں‘ قاذق ہیں اور کشمیری ہیں۔اگر آپ پروپیگنڈے پر یقین کریں تو یہ قندھار کے پشتونوں کی نفرت کا نشانہ ہیں۔ یہ سچ نہیں ہے۔ جس وقت امریکی اسپیشل فورس کے جواں اس سرحدی گرم شہر کی سڑکوں پر گشت کرتے ہیں‘ اس وقت قندھار کے لوگ سیکڑوں کی تعداد میں ان مزاروں پر آتے ہیں۔ جمعہ کے دن میلوں سفر کرکے ہزاروں کی تعداد میں آتے ہیں۔ یہاں آنے والوں کے لیے قندھار کا قبرستان مذہبی کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی سبق بھی ہے۔ غیر ملکی حیران ہوتے ہیں کہ انھیں کس چیز کی کشش یہاں لا رہی ہے۔ شفا کی افواہیں اور روایات؟ یہ بات کہ انھوں نے غیر ملکیوں کا آخر دم تک مقابلہ کیا؟ ہتھیار ڈالنے پر جان دینے کو ترجیح دی؟ غیر افغانی شہدا افغانیوں کی طرح لڑے؟ اچھا ہی ہے کہ امریکی خصوصی افواج کے افراد یہاں نہیں آتے۔ وہ ایسے مناظر دیکھیںگے جو ان کو پریشان کریں گے اور پریشان کرنا چاہیے۔ (دی انڈی پنڈنٹ‘ دی نیشن‘ ۱۳ اگست ۲۰۰۲ء)
صرف امریکی فوجی ہی اس حقیقت کو دیکھنے سے نہیں گھبراتے ہیں‘امریکی قیادت اور خود پاکستان کی قیادت بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہے‘ لیکن کیا کبوتر کے آنکھیں بند کرنے سے حقائق بدل جاتے ہیں اور خطرات ٹل جاتے ہیں؟ فاعتبروایااولی الابصار۔
ان زمینی حقیقتوں کے بیان اور مسئلے کے اصل اسباب و عوامل کی نشان دہی کے سلسلے میں رابرٹ فسک تنہا نہیں ہے۔ نیوزویک (۱۹ اگست ۲۰۰۲ء)میں بھی القاعدہ پر ایک مفصل مضمون شائع ہوا ہے۔ اس میں بھی یہ اعتراف موجود ہے۔ اس بار سرزمین پاکستان کی ہے مگر جان دینے والے وہی امریکہ کا دردسر بننے والے مجاہد ہیں۔ ایک معرکے میں ۱۰ مجاہد شہید ہوئے ہیںاور ۶ فوجی جوان مارے جاتے ہیں۔ مرنے والے فوجیوں کی خبرلینے والا تو کوئی نہیں تھا مگر شہدا کی قبریں چشم زدن میں مرجع خاص و عام بن گئیں۔ نیوزویک کی رپورٹ ہے:
۱۰ شہدا کے مزار ایک مقدس جگہ بن گئے ہیں۔ بینرز لگے ہوئے ہیں: القاعدہ زندہ باد‘ طالبان زندہ باد۔ یہ لوگ مقدس شہدا ہیں۔ ایک زائر نے نیوزویک کو بتایا: اس جگہ کی زیارت سے مجھے امریکہ دشمنی کے جذبات ملے ہیں۔ (نیوز ویک‘ ۱۹ اگست ۲۰۰۲ء‘ ص ۱۴)
زیرزمین لاوا پک رہا ہے۔ نفرتوں کے طوفان بادلوں کے سینوں میں منتظر ہیں۔ زمینی حقائق ناقابل انکار ہیں۔ اسباب و عوامل بے چینی‘ اضطراب‘ بغاوت اور انقلاب کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ ان حقائق کو نظرانداز کر کے محض قوت کے زعم میں ‘ گولہ بارود کے ذریعے‘ انقلاب کی لہروں کو روکا نہیں جا سکتا۔ امریکی قیادت کے تصورات اور دعووں--- اور عوامی جذبات ‘ احساسات‘ عزائم اور امنگوں کے درمیان ایک عظیم خلیج حائل ہے جو حقیقت پسندی پر مبنی حکمت عملی اور پالیسی کی راہ استوار ہونے میں اصل رکاوٹ ہے۔ دنیا کا کون سا مسئلہ ہے جس کا حل ممکن نہیں لیکن مسائل کے حل کے لیے بھی ضروری ہے کہ حقیقت پسندی سے اصل احوال و عوامل کا جائزہ لیا جائے اور حقیقی اسباب تک رسائی حاصل کر کے ان کے سدباب کی کوشش کی جائے۔ طاقت کے نشے میں حواس کا توازن منتشر ہے اور پروپیگنڈے کی دھول میں بصارت دھندلا گئی ہے۔ علامتوں اور مظاہر پر ساری توجہ ہے اور اسباب اور عوامل سے کلی صرفِ نظر کیا جا رہا ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جو خطرات کو بڑھا رہی ہے اور انسانیت کو آگ اور خون کی طرف دھکیل رہی ہے۔ افسوس ہے کہ امریکہ کی قیادت نے ۱۱ستمبر کے چشم کشا واقعات سے کوئی سبق نہ سیکھا۔ حالانکہ ۱۱ستمبر کا اصل پیغام صرف ایک ہی ہے: تشدد اور دہشت گردی کا خاتمہ تشدد اور دہشت گردی سے نہیں کیا جاسکتا۔ لوگوں کی بے چینی‘ نفرت اور بغاوت کے اسباب کی تفہیم اور حالات کی ایسی اصلاح ہی امن و سلامتی کے ضامن ہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ظلم ختم ہو‘ لوگوں کو انصاف اور جائز حقوق میسر آئیں۔ آزادی اور عزت کے ساتھ وہ اپنے معاملات طے کر سکیں اور امیر اور غریب‘ قوی اور کمزور‘ بڑے اور چھوٹے‘ سب دوستی اور بھائی چارے کی فضا میں تعاون اور افہام و تفہیم کے ساتھ باوقار زندگی گزارسکیں۔
یاد رکھیے امن اور ظلم‘ سلامتی اور سامراج‘ آزادی اور چند کی بالادستی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ آزادی کی ضمانت اسی وقت ممکن ہے جب سب کے لیے آزادی ہو‘ اہل ثروت اسی وقت محفوظ رہ سکتے ہیں جب سب کو دو وقت کی روٹی میسر ہو۔ چین اور آشتی ممکن ہی اس حالت میں ہیں جب قانون سب کے لیے ایک ہو اور انصاف کی میزان میں کوئی کسی سے بڑا اور مختلف نہ ہو۔ ۱۱ ستمبر کے واقعات نے امریکہ کی قیادت کو جس رخ پر ڈال دیا ہے اور پوری دنیا ان کی جن ستم کاریوں کی آماجگاہ بن گئی ہے ‘ امن‘ سلامتی اور انصاف کا راستہ نہیں‘ وہ صرف اور صرف سب کی تباہی کا راستہ ہے۔ اس تباہی سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ اب بھی آنکھیں کھول لی جائیں‘حقائق کو کھلے ذہن سے تسلیم کیا جائے‘ سطحی ردعمل کی جگہ گہرائی میں جا کر حالات کا تجزیہ کیا جائے اور بگاڑ کے اسباب کا سدباب کیا جائے (فلسطین کی صورت حال کے بارے میں چنبٹ ریڈنگ نے ایک جملے میں ایک گمبھیر مسئلے کا تجزیہ اور حل بیان کر دیا ہے جو نوٹ کرنے کے لائق ہے اور تمام متنازعہ امور کے بارے میں ایک مثبت نقطۂ نظر کی نمایندگی کرتا ہے۔ اس نے لکھا ہے: ’’اگر اسرائیلی حکومت لوگوں کو ان کا حق دینے کے لیے تیار نہیں تو اسے خودکش بم حملوں کے رکنے کی توقع نہیں کرنی چاہیے‘‘۔ نیوزویک ۱۲ اگست ۲۰۰۲ء)۔ انسانیت کے حقیقی بہی خواہ‘ بلالحاظ اس کے کہ ان کا تعلق کس مذہب ‘ کس علاقے اورکس طبقے سے ہے‘ بڑا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ خود اُمت مسلمہ اور پاکستان کی بڑی ذمہ داری ہے لیکن ان کا حال بھی اتنا ہی تشویش ناک ہے جتنا امریکہ کی قیادت کا--- افسوس‘ صدافسوس!
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو
پھر بھی ہم مایوس نہیں‘ اس لیے کہ:
ایسی بھی کوئی شب ہے جس کی سحر نہ ہو
ووٹ دینا بھی گواہی ہے۔ اہل لوگوں کو ووٹ دینا سچی گواہی دینا ہے‘ نااہلوں کو ووٹ دیناجھوٹی گواہی ہے۔ ووٹ نہ دینا بھی جھوٹی گواہی کے حکم میں ہے۔ ایک ووٹر اپنی گواہی اور ووٹوں میں اضافہ بھی کرسکتا ہے۔ وہ جتنے لوگوںکو ووٹ کے صحیح استعمال کے لیے لائے گا اس کے کھاتے میں اتنے ہی لوگوں کے ووٹ کی نیکی لکھ دی جائے گی۔ ۱۰‘ ۲۰‘ ۱۰۰‘ ۱۰۰۰ جتنے لوگ اس کی آواز پر ووٹ دیں گے ان کے اجر میں وہ شریک ہوگا‘ بغیر اس کے کہ کسی ووٹر کے اجر میں کسی قسم کی کمی واقع ہو۔ ہے کوئی جواس ثواب کے لیے آگے بڑھے‘ جدوجہد کرے‘ اور اسلامی انقلاب کی راہ ہموار کرے۔ وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ o (المطففین ۸۳: ۲۶) ’’جو لوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہیں وہ اس چیز کو حاصل کرنے میں بازی لے جانے کی کوشش کریں‘‘۔
غور فرمایئے کہ آپؐ نے اہل بیت میں شامل کرنے کو کن باتوں سے مشروط کیا ہے۔ ہم کو اللہ کے رسولؐ سے محبت کے کتنے دعوے ہیں اور کون اہل بیت میں شامل ہونا اور اللہ کے رسولؐ کی دعا کا حق دار ہونا نہ چاہے گا لیکن اہل اقتدار کے دروازوں کے آگے کھڑے رہنے اور اہل مال کے پاس سائل بن کر جانے سے بچنے والے کتنے ہیں۔
جسے فرشتے دعائیں دیں‘ اس کی خوش قسمتی کا کیا کہنا اور جس کے لیے فرشتے بددعائیں کریں اس کی بدبختی کا کیا ٹھکانا! خرچ کرنے والا صرف خرچ نہیں کرتا بلکہ کمائی کرتا ہے اور نعم البدل پاتا ہے‘ اور بخل کرنے والا اپنی بچت نہیں کرتا بلکہ اپنے مال کو تباہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْ ئٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ ج (سبا ۳۴:۳۹) ’’جوکچھ تم خرچ کر دیتے ہو اُس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے‘‘۔
اللہ کی بندگی میں آگے ہونے‘ پہلی صف میں کھڑا ہونے کی بڑی فضیلت ہے‘ لیکن دوسروں کو تکلیف پہنچا کر نہیں۔ اگر کہیں تیزرفتاری سے آگے بڑھنا دوسرے کے لیے تکلیف کا باعث ہو‘ تو آدمی کو چاہیے کہ رفتار کم کر دے‘ آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے رک جائے‘ اللہ کے ہاں اس کا شمار اگلی صف میں ہو جائے گا‘اسے پہلی صف کا ثواب ملے گا۔ عبادت اور عبادت گزار دوسروں کی ایذا کا نہیں بلکہ ان کی راحت کا سبب بنتے ہیں۔
رب العالمین کے ہاں حاضری اور اس سے ملاقات کتنی آسان ہے۔ ملاقات کا خواہش مند جس وقت چاہے ملاقات کر سکتا ہے۔ بندے اور رب کے درمیان کوئی واسطہ بھی نہیں کہ اس کے ذریعے ملاقات کی جائے۔ بندے اور رب کے درمیان کوئی بھی حائل نہیں ہے۔ یہ بندے کی اپنی چاہت کی بات ہے‘ اس کے اپنے ذوق و شوق اور جذبے پر منحصر ہے کہ وہ کس وقت کتنی دیر اور کیسی ملاقات چاہتا ہے۔ جیسی ملاقات چاہے گا ویسی ملاقات ہوجائے گی۔ توجہ ہٹائے گا تو رب بھی توجہ ہٹا لے گا۔
نماز رب تعالیٰ کی ملاقات اور اس سے مناجات ہے۔ نماز میں اللہ تعالیٰ بندے کے سامنے ہوتا ہے اور بندے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ بادشاہوں سے ملاقات کے لیے کتنے جتن کرنے پڑتے ہیں‘ پھر بھی وہ چند لوگ ہی ہوتے ہیں جنھیں شرف باریابی ملتا ہے۔ لیکن اللہ رب العالمین کی ملاقات کتنی آسان ہے۔ پانچ وقت اس کی طرف سے اس کے لیے بلاوا آتا ہے اور اس کے علاوہ بھی کسی بھی لمحے ملاقات کی جا سکتی ہے۔
آیئے‘ رب سے ملاقات کے جذبے اور شوق کو بیدار کریں اور نماز میں ایسا رویہ اختیارنہ کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے رخ پھیر لے۔ بلااستثنا ہر ایک کی ملاقات کے لیے راستہ کھلا ہے۔
گھروں کی حفاظت اور کھانے میں برکت کی فکر کسے نہیں؟ کتنا آسان نسخہ ہے۔ اللہ کی یاد ‘گھر کی حفاظت اور برکت ہے۔ اللہ فرماتے ہیں: فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ (البقرہ ۲:۱۵۲) ’’تم مجھے یاد کرو میں تمھیں یاد کروں گا‘‘۔ اللہ جب بندے کو یاد کرتاہے تو پھر وہ شیطان کو اس کے قریب نہیں آنے دیتا۔ اسے اللہ کی طرف سے حفاظتی حصار میسر آجاتا ہے۔ شیطان‘ شیطانی کام‘ برائیاں اس گھرسے دُور‘ اس کا گھر ان سے دُور۔ اللہ کی یاد کا کتنا آسان نسخہ ہے کہ روز مرہ کی دعائوں کو اپنا معمول بنا لیا جائے۔
گناہ انسان کے جسم و جان اور دل ودماغ کے لیے جکڑبندی‘ گھٹن اور پریشانی ہے۔اگر کوئی شخص ذہنی دبائو‘ جسمانی کھچائو اور پریشانی میں ہے‘ بے اطمینانی کا شکار ہے تو اس بیماری کا ایک سبب برائیوں کی زرہ کی جکڑبندی ہے۔ وہ اپناجائزہ خود لے کرمعلوم کر سکتا ہے کہ اس کی بیماری کاسبب کیا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ اس کے اعمال کیسے ہیں۔ اگر وہ برائیوں میں مبتلا ہے تو‘ توبہ کرے‘ نیکیوں کی طرف رخ کرے‘ صحت مند ہوناشروع ہو جائے گا۔وہ نیکیاں کرتا جائے گا اور گناہوں کی جکڑبندی ختم ہوتی جائے گی۔ بلاشبہہ نیکیاں برائی کو دُورکرتی ہیں‘ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِط (ھود ۱۱:۱۱۴)‘اس حقیقت کو اس حدیث نے مثال کے ذریعے کھول کر بیان کر دیا ہے۔
دو رکعت نماز پڑھنا کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے۔ میاں بیوی دونوں رات کو اُٹھ کر دو رکعت پڑھنے کو معمول بنالیںتو اس کی برکت سے ان کا شمار ذاکرین میں ہو جائے گا۔ انھیں ذکر کی عادت پڑ جائے گی۔ تھوڑی نیکی‘ زیادہ نیکی کا سبب بنتی ہے۔ دو رکعتوں کو حقیرنہ سمجھیں۔ آدمی اسے اپنا معمول بنا لے تو وہ تھوڑی نہیں رہتی بلکہ زیادہ ہوجاتی ہے۔ پھر وہ نیکی آدمی کی گھٹی میں پڑ جاتی ہے‘ انسان ترقی کی منازل طے کرتا رہتا ہے‘ یہاںتک کہ بلندترین منزل تک پہنچ جاتا ہے۔ ذاکرین اور ذاکرات میں شامل ہونا بندگی کی معراج ہے۔
دو رکعت نماز‘ ایک یا دو رکوع تلاوت و مطالعہ‘ ایک دو احادیث‘ دو تین مسائل میں تھوڑا وقت صرف کر کے مہینے میں کتنی عبادات اور کتنا علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔ محلے کے ایک دو آدمیوں سے ملاقاتیں‘ ان کواللہ کی بندگی کی طرف متوجہ کرنا معمولی کام ہے لیکن سال کے ۳۶۵ دن کام ہو تو مضبوط جماعت بن سکتی ہے۔ دو تین سال میں پورا محلہ اور ساری آبادی دین کے رنگ میں رنگی جا سکتی ہے۔ اسی واسطے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیرالعمل مادیم علیہ وان قل ’’بہترین عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ تھوڑا ہو‘‘۔
آج موقع ہے‘ انسان اپنے آپ کو جس گروہ میں شامل کرنا چاہے کر سکتا ہے۔ کل جب اس کا جنازہ دوسروں کے کندھوں پر ہوگا اس وقت کی چیخ و پکار کام نہ دے گی۔ کل کی خوشی کا سامان آج کی نیکی اور نیک لوگوں کی صف میں شمولیت ہے۔ اس کے لیے مال و دولت‘ عہدہ و منصب‘ عیش و عشرت کی نہیں‘ اللہ کی فرماں برداری اور اس کی مرضیات کی تکمیل کی ضرورت ہے۔ آج جو اللہ کی مرضی پر چلے گا ‘ کل اللہ تعالیٰ اسے راضی کر دے گا۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ط (البینہ ۹۸:۸) ’’اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے‘‘۔
یوں تو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (۷۹-۱۹۰۳ء) کی زندگی کا غالب ترین حصہ خانہ بدوشی‘ مسلسل سفر‘ نقل مکانی‘ جیلوں کی کال کوٹھریوں‘ تقریر و تحریر‘ تصنیف و تالیف‘ جلسے اور جلوسوں میں گزرا ہے‘ لیکن ۱۹۳۷ء سے لے کر ۱۹۳۹ء کے ابتدائی چند مہینے تو بڑے صبرآزما اور ہنگامہ خیز رہے ہیں۔
میرے اندازے کے مطابق مولانا مرحوم کی زندگی کے اس پُرآشوب دور کا آغاز۱۹۳۷ء کی ابتدا سے ہوا۔ اسی زمانے میں ان کی شادی کی بات چیت شروع ہوچکی تھی۔ مولانا کی شادی ۵ مارچ ۱۹۳۷ء (۲۱ ذوالحجہ ۱۳۵۵ھ) کو محترمہ محمودہ بیگم بنت سید نصیرالدین شمسی صاحبہ سے ‘ دہلی میں ہوئی۔ مہر کی رقم مبلغ ۲ ہزار روپے تھی (تذکرہ سید مودودیؒ‘ ج ۳‘ ص۳۰۲)۔ ابھی یہ نوشادی شدہ دولہا دلہن حیدر آباد دکن پہنچے ہی تھے کہ نئے نئے نوشہ کو بحیثیت مدیر ترجمان القرآن ایک ایسے بحران سے دوچار ہونا پڑا جو درحقیقت آنے والے طوفان بلکہ طوفانوں کا پیش خیمہ تھا۔ اس بحران کے بارے میں وہ مئی ۱۹۳۷ء کے ’’اشارات‘‘ میں لکھتے ہیں:
کئی مہینوں سے پرچہ مسلسل تاخیر سے شائع ہورہا ہے۔ خریداروں کی شکایات جس قدر بڑھتی جاتی ہیں میری شرمندگی بھی اسی قدر بڑھ رہی ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ تاخیر کے جو اسباب ہیں ان کا علاج میرے اختیار میں نہیں‘ تاوقتیکہ رسالے کے ہمدرداور قدرشناس میری اعانت نہ کریں۔ میں ان مشکلات کو رفع نہیں کر سکتا جن کی وجہ سے اس کی زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے… اب ایسا وقت آگیا ہے کہ اگر اس پرچے کو زندہ رکھنا ہے اور فی الواقع اس کی زندگی کی کوئی ضرورت محسوس کی جاتی ہے تواس کے تمام ہمدردوں کو خاص طور پر توسیع اشاعت کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ آیندہ پانچ مہینوں میں اس کی زندگی اور موت کا فیصلہ ہونا ہے۔ اگر خریداروں کی تعداد میںکافی اضافہ نہ ہوا تو میں عرض کیے دیتا ہوں کہ محض ساڑھے تین سو خریداروں سے اس معیار کے پرچے کو چلانا میری قدرت سے باہر ہے۔ (ترجمان القرآن‘ مئی ۱۹۳۷ء)
سوال یہ ہے کہ اس اپیل کا کیا اثر ہوا؟--- اگست ‘ ستمبر ۱۹۳۷ء کے ’’اشارات‘‘ میں اس کا جواب ان الفاظ میں ملتاہے:
رسالے کی توسیع اشاعت کے لیے ناظرین کو توجہ دلائی گئی تھی۔ اگرچہ اس سے اشاعت میں کوئی ایسا بڑا اضافہ نہیں ہوا جو رسالے کی مالی مشکلات کوحل کرنے کے لیے کافی ہو‘ صرف ۶۰‘ ۷۰ نئے خریدار مہیا ہوئے۔ پچھلے مہینے ایک صاحب خیرریئس نے ۲۵ روپے عنایت فرمائے تھے کہ ان کی طرف سے غریب مسلمانوں کے نام مفت یا رعایتی قیمت پر رسالہ جاری کر دیا جائے۔ چنانچہ ایک دارالمطالعہ کو مفت اور آٹھ اشخاص کو نصف قیمت پر ایک سال کے لیے رسالہ دیا گیا…۱؎ (ترجمان القرآن‘اگست ‘ ستمبر ۱۹۳۷ء)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ستمبر ۱۹۳۷ء میں ترجمان کی تعداد اشاعت ۷۰+۱۰=۸۰+۳۵۰=۴۳۰ ہوگئی۔ ابھی وہ ایک قدم آگے بڑھنے نہیں پائے تھے کہ نومبر ۱۹۳۷ء کے ترجمان القرآن میں یہ افسوس ناک خبر شائع ہوتی ہے:
سررشۂ تعلیمات‘ سرکار آصفیہ کی جانب سے ہر سال ترجمان القرآنکے جو ڈھائی سو پرچے مدارس کے لیے خریدے جاتے تھے ان کو ماہ شوال ۱۳۵۶ھ ] نومبر ۱۹۳۷ء[ سے گھٹا کر ۱۱۸ کر دیا گیا ہے۔ (ترجمان القرآن‘ نومبر۱۹۳۷ء)
گویا اب ترجمان کی تعداد اشاعت ۴۳۰ - ۱۳۲=۲۹۸ پرچے رہ گئی۔ یہ تعداد ان ۳۵۰ پرچوں سے ۵۲پرچے کم ہے جس کا گلہ مولانا مودودیؒ نے مئی ۱۹۳۷ء کے ’’اشارات‘‘ میں کیا تھا کہ: پرچہ موت اور زندگی کے درمیان لٹک رہا ہے ---کہاں اپیل اور کوشش توسیع اشاعت کی ہو رہی تھی اور اب نوبت اشاعت کی کہاں تک آپہنچی!! سبحان اللّٰہ۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی‘ بلکہ اسی پرچے میں ’’اطلاع ثانی‘‘ کے تحت یہ اعلان بھی شائع ہوا: ’’۱۱ ماہ ذی القعدہ۱۳۵۶ھ میں رسالہ ترجمان القرآن کا دفتر حیدرآبادسے جمال پور ضلع گورداسپور (پنجاب) میں منتقل ہو جائے گا (ترجمان القرآن‘ نومبر ۱۹۳۷ء)۔ ماہ شوال ۱۳۵۶ھ وہ مہینہ ہے جس میں تعداد اشاعت گھٹ کر صرف ۲۹۸ رہ جانے والی تھی اور جس کو لے کر علامہ اقبالؒ (۱۹۳۸ء-۱۸۷۷ء) کی دعوت پر مولانا مودودیؒ کو حیدر آباد‘ دکن سے دارالاسلام‘ جمال پور‘ پٹھانکوٹ‘ منتقل ہونا تھا۔
کیا یہ ہمت شکن واقعات سید مودودیؒ کو مایوس کرنے والے تھے؟ نہیں‘ ہرگز نہیں‘ وہ ان حالات میں بھی نہ صرف ترجمان کی نائو‘ ناگفتہ بہ حالات میں کھئے جا رہے تھے‘بلکہ وہ ترجمان میں شائع شدہ مضامین کو چھاپنے اور پھیلانے کی جدوجہد میں بھی لگے ہوئے تھے--- چنانچہ اگست‘ ستمبر ۱۹۳۷ء کے ’’اشارات‘‘ میں نگارش فرماتے ہیں:
ترجمان القرآن کے سابق مضامین کو کتابی صورت میں شائع کرنے کے لیے برادرانِ اسلام سے اعانت کی جو درخواست کی گئی تھی‘ اس کے جواب میںاب تک چار سو روپے حالی اور پچاس روپے کلدار۲؎ دفتر کو وصول ہوئے ہیں اور مزید پچاس روپے کلدار کا وعدہ ہے…
اگرچہ یہ رقم ۳؎ اس کام کے لیے کافی نہیں جو ہم انجام دینا چاہتے ہیں‘ لیکن خدا کے فضل پر بھروسا کرکے کام کی ابتدا کر دی گئی ہے۔ مضامین کی ترتیب اور نظرثانی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ امید ہے کہ آیندہ ماہ رمضان سے اشاعت کا آغاز ہو جائے گا۔ (ترجمان القرآن‘اگست‘ ستمبر ۱۹۳۷ء)
ختم شوال ہے‘ اور وہ ایک نامعلوم علاقے کی طرف اور غیرمانوس انسانوں کے درمیان جانے کے لیے سفر پر نکل جاتے ہیں‘ تاکہ ترجمان اور ترجمانمیں پیش کردہ دعوت کو زندہ اور جاری و ساری رکھ سکیں۔ ساتھ ہی ایک مکتبے کے قیام کا بھی عزم ہے۔ وہ کیوں اور کیسے؟ اس کا جواب اوپر کی تحریر میں موجود ہے: خدا کے فضل پر بھروسا‘ یعنی وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗط اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖط قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْ ئٍ قَدْرًا o (الطلاق۶۵:۳) ’’جو اللہ پر بھروسا کرے اس کے لیے وہ کافی ہے۔ اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے‘‘۔ اس آیت سے پہلے یہ آیت گزر چکی ہے: وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا o وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ ط (الطلاق ۶۵:۲-۳) ’’جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو‘‘۔ پھر چوتھی آیت کے آخر میں مزید وضاحت یوں فرمائی: وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا o (الطلاق ۶۵:۴) ’’جو شخص اللہ سے ڈرے اس کے معاملے میں وہ سہولت پیدا کر دیتا ہے‘‘۔
دیکھیے ’’توکل‘‘ کی کرشمہ کاریاں کہ وہ کس طرح معاملات ‘ مسائل‘ مشکلات کو آسان فرماتا ہے: فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ o (الحج ۲۲:۷۸) ’’بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار‘‘۔
ان مایوس کن حالات میں ایک غیر واضح ماحول کی طرف سفر کی تیاریاں کس طرح کی گئیں؟ ظاہر بات ہے کہ حیدر آباد میں معاملات کوسمیٹنے کے لیے ‘ ٹکٹ اور راستے کے خرچ کے لیے اور پھر جمال پور پہنچ کر کچھ عرصہ کام چلانے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی اور سخت ضرورت تھی۔ اس کا حل کیسے نکلا؟
اس قرض حسنہ کا انتظام جناب مولانا اعجاز الحق قدوسی مرحوم نے کیا تھا‘ اس لیے یہی بہترمعلوم ہوتا ہے کہ انھی کی زبان سے یہ داستان سنی جائے:
’’۱۹۳۸ء میں علامہ اقبال علیہ الرحمہ کی تحریک پر مستقل طور پر رخت ِ سفر بندھنے لگا اورمولانا ]مودودیؒ[ نے حیدر آباد کے قیام کو الوداع کہنے کا ارادہ کیا۔ سفر کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ کتابیں بندھنے لگیں۔ ایک روز مولانا ]مودودیؒ[ نے مجھ سے کہا: ’’میں سفرکے لیے تیار ہوں ‘مگر میرے پاس سفر خرچ کی کچھ کمی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ بغیر روپے کے سفرکیوںکر ممکن ہوگا؟‘‘ میں خاموش رہا‘ مگر دل میں ایک ہلچل مچ گئی۔ مغرب کی نماز میں نے مسجد مدرسۂ دینیات سرکارعالی میں ادا کی۔ اتفاق سے مسجد میں سرور خان صاحب مل گئے‘ جو مولانا ]مودودیؒ[کی دینی بصیرت کے بہت قائل تھے اور مولانا کے مضامین سے بے حد متاثر تھے۔ گفتگو کا سلسلہ چلا تو میں نے دوران گفتگو ان سے کہا : ’’مولانا ]مودودیؒ[‘ علامہ اقبال کی دعوت پر پنجاب کے لیے عازم ہیں‘ مگر عجیب بات یہ ہے کہ سفر خرچ کی ان کے پاس کچھ کمی ہے۔ اندیشہ ہے کہ سفر خرچ ان کے پاس کم نہ ہو جائے‘‘۔
’’سرور خان صاحب اے کلاس کے بہت بڑے ٹھیکے دار تھے۔ ثروت کے ساتھ انھیں بھلائیوں میں اپنی دولت خرچ کرنے کا حوصلہ بھی تھا۔ وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگے: ’’اتنے ان کے قدردان ہیں کیا ایک کا بھی حوصلہ نہیں کہ وہ ان کو قرض دے سکے‘‘۔ میں نے کہا کہ : ’’اول تو مولانا نے کسی سے قرض مانگا نہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کی خودداری کے خلاف ہے کہ وہ کسی سے قرض مانگیں۔ یہ بات تو میں نے برسبیل تذکرہ آپ سے کہہ دی ہے‘‘۔ ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ وہ رخصت ہوئے اور میں اپنے گھر چلاآیا۔
صبح کو وہ اپنی موٹر میں آئے اور کہنے لگے‘ چلیے میں مولانا کو قرض دیتا ہوں…
ہم دونوں گھر سے رخصت ہو کر لکڑی کے پل پر پہنچے۔ مولانا سے ملے۔ میں نے عرض کیا ’’یہ آپ کو قرض دیناچاہتے ہیں‘‘۔ سرور خان صاحب نے کہا کہ ’’مولانا‘ میری ایک شرط ہے۔ ایک تو یہ کہ آپ اس معاملے کو لکھ دیں۔ دوسرے یہ کہ آپ جتنی مدت بھی چاہیں‘ اس قرض کی ادایگی کے لیے لیں‘ میری طرف سے آپ کو پورا اختیار ہے۔ لیکن جب ادایگی کا وقت آئے تو آپ اسے بروقت ادا کردیں‘‘۔
مولانا نے یہ تحریر لکھ دی۔ آخر میں لکھا کہ میں یہ رقم ایک سال کی مدت میںادا کروںگا۔ مولانا ‘عازم پنجاب ہوئے اور حیدر آباد دکن کی دینی اور انشائی رونقوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔
معاہدے کی مدت پوری ہو گئی۔ سوا سال گزر گیا اور مولانا کا کوئی خط نہ آیا۔ سرور خان صاحب دبے دبے الفاظ میں کہنے لگے کہ ’’علما کے وعدے کو آپ نے دیکھ لیا‘‘۔ میں نے ہرچند ان سے کہا کہ ’’ممکن ہے کہ مولانا آپ کا قرض ادا کرنے سے کسی وجہ سے معذور ہوں‘‘۔ آخر جب ان کے طنز کے نشتر انتہا پر پہنچ گئے تو میں نے ایک خط مولانا کی خدمت میں پٹھان کوٹ لکھا‘ جس کا مفہوم یہ تھا کہ آپ نے سرورخان صاحب کا قرض ابھی تک ادا نہیں کیا‘ حالانکہ قرض کی ادایگی کی موعودہ تاریخ گزرے تقریباً آٹھ ماہ گزرچکے ہیں۔علما کے مقدس طبقے کی بدنامی کو پیش نظر رکھ کر اگر ان کا قرض ادا فرما دیا جائے تو بڑی عنایت ہوگی۔
ایک ہفتہ کے بعد جناب نعیم صدیقی کے دستخط سے مولانا مودودیؒ کا گرامی نامہ موصول ہوا‘ جس کا مفہوم یہ تھا: میری مالی حالت اس لاغر گھوڑے کی طرح ہے جس پر آپ طعن و طنز کے لاکھ چابک برسائیں مگر وہ اپنی لاغری کی وجہ سے چل نہیں سکتا۔ میرے پاس پیسہ ہو تو میں ان کا قرض ادا کروں۔ مگر میری نیت بخیر ہے۔ میرے حالات جیسے ہی سازگار ہوںگے میں ان کا قرض ادا کر دوں گا۔ مطمئن رہیے اورسرور خان صاحب کو بھی اطمینان دلا دیجیے‘‘۔۴؎
استاذ محترم جناب مولانا صدرالدین اصلاحیؒ (تذکرہ سید مودودیؒ‘ ج ۳‘ ص۸۴۶) جو ثانوی درس گاہ جماعت اسلامی ہند‘ رام پور میں میرے استاذِ تفسیر اورصدر مدرس تھے‘ ان کے بقول: مولانا مودودیؒ ۱۸مارچ ۱۹۳۸ء کو سرور خان صاحب کے ایک ہزار کے قرض حسن سے جو بتوسط مولانا اعجازالحق قدوسی ملا تھا‘ حیدر آباد دکن سے دارالاسلام‘ جمال پور‘پٹھان کوٹ پہنچے۔ مولانا اصلاحیؒ لکھتے ہیں:
’’یہاں آکر مولانا مودودیؒ نے ان فکرانگیز مضامین کا سلسلہ پایۂ تکمیل کو پہنچایا‘ جو ان کی مشہور تصنیف مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش میں موجود ہیں۔ اس سلسلۂ مضامین میں‘ مولانا نے اس دعوت و تحریک کا ایک عملی خاکہ بھی پیش کیا‘ جس کے مطابق ان کے نزدیک برصغیر ]جنوب مشرقی ایشیا[ میں احیاے اسلام کا کام منظم طور پر کیا جانا چاہیے تھا۔ اسے پڑھ کر اطراف ملک کے بہت سے اصحاب نے مولانا کو تائیدی خطوط لکھے اور تجویز پیش کی کہ اللہ کانام لے کر ان خطوط پر کام شروع کر دیا جانا چاہیے۔
اس تجویز یا مطالبے کے بعد مولانا نے ۱۹۳۸ء کے اواخر میں ایک دستور کا خاکہ مرتب کیا‘ جس میں پیش نظر تحریک کے مقصد‘ طریق کار اوراصول وضوابط کی تفصیل درج تھی۔ ۱۹۳۹ء کے اوائل میں یہ مجوزہ اجتماع دارالاسلام میں مولانا مودودیؒ کی رہایش گاہ میں منعقد ہوا۔ حاضرین میں سے اکثریت مغربی ہندکے لوگوں کی تھی۔ یوپی سے شریک ہونے والوں میں مولانا محمد منظور نعمانی صاحب بھی تھے۔ باہمی غوروبحث کے بعد دستور اپنی آخری شکل میں منظور ہوگیا اور اسی وقت سے چودھری نیاز علی خاں صاحب کا اختلاف بھی شروع ہوگیا۔
اس اختلاف کا منبع منظور شدہ دستور کی وہ خاص دفعہ تھی جس میں تحریک کا نصب العین اسلامی حکومت کا قیام بتایا گیا تھا۔۵؎ بہرحال اجتماع ہو گیا تو اسی دن (یا اگلے دن) بعد عصر ]عبدالعزیز[ شرقی صاحب کی رہایش گاہ کی بیٹھک میں وہ لوگ جمع ہوئے‘ جنھوں نے اس دستور کے مطابق تحریک کے قیام اور اس میں شریک ہونے کے لیے آمادگی ظاہر کی تھی۔ یہ کل پانچ آدمی تھے۔ سب سے پہلے مولانا مودودی نے تجدید شہادت کی۔اس کے بعد باقی چار آدمیوں نے دوسرے لفظوں میں یہ کہہ کر تحریک کی باقاعدہ بنیاد ڈالی۔ جس کے بعد چودھری ]نیازعلی[ صاحب کے اختلاف نے اپنا عملی اثر دکھانا شروع کر دیا۔ وہ اپنے مزاج کے مطابق نہایت نرم اور شائستہ انداز میں‘ مگر اصرار کے ساتھ مولانا ]مودودیؒ[سے کہتے رہے کہ ’’دستور میں اسلامی حکومت کا لفظ نہیں رہنا چاہیے‘‘… مولانا نے اس کے جواب میں نہایت صفائی اور پوری سنجیدگی سے فرمایا کہ ’’اگر ہمیں یہاں اپنے طور پر کام کرنے کا موقع نہیں ملتا تو ہم اب کہیں اور جا کر یہ کام کریں گے‘‘۔ چنانچہ انھوں نے لاہور منتقل ہو جانے کافیصلہ کرلیا۔
غرض ]یہ کہ[ منتقلی کا فیصلہ برقرار رہا‘ کتابیں رات گئے تک پیک کی گئیں‘ صبح کوٹرک پر سامان لادا گیا اور ہم لوگ اس حال میں لاہور روانہ ہوگئے کہ بالکل نہیں معلوم تھا کہ اب پائوں ٹکانے کی جگہ کب اور کہاں ملے گی؟ مزید لطف کی بات یہ کہ ادارے کے مالی حالات بھی مسلسل صبرآزما چل رہے تھے۔ سہ پہر کے وقت لاہور پہنچ کر ترجمان القرآن کے مینیجر سید محمد شاہ صاحب کے ذاتی مکان (واقع محلہ مصری شاہ) میں سامان اتار کر رکھ دیا گیا اور شام کو قیام گاہ اور دفتر کے لیے مکان کی تلاش شروع ہو گئی‘ جوکئی دنوں کی دوڑ دھوپ کے بعد کامیاب ہوسکی۔ یہ تھی دارالاسلام (پٹھانکوٹ) سے لاہور منتقل ہو جانے کی اصل وجہ‘ اور یہ تھا نقل مکانی کا اصل واقعہ‘‘۔ (تذکرہ سید مودودیؒ‘ ج ۳‘ ص ۸۴۷-۸۴۸)
اس طرح مولانا مودودیؒ اور علامہ اقبالؒ کا دیکھا ہوا خواب چکنا چور ہوکر رہ گیا۔ معلوم ایسا پڑتا ہے کہ یہ اس مشیت الٰہی کا جز تھا جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مولانا کوصرف اپنی ذات پر بھروسا کرنے کا درس دیا تھا‘ یعنی ذاتِ الٰہی سبحان و تعالیٰ پر جیسا کہ مولانا نے علامہ اقبال کی وفات کی خبر سن کر کچھ اسی طرح کا تبصرہ کیا تھا۔ وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (یوسف ۱۲:۲۱) ’’اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے‘ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘۔
یوں بھی مولانا اعجاز الحق قدوسی مرحوم کہہ چکے ہیں کہ مولانا مودودیؒ، اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسا کیا کرتے تھے‘ مگر اس اسکیم میں چونکہ علامہ اقبال اور نیازعلی خان کا مشترکہ وعدۂ تعاون تھا‘ اس لیے شاید علامہ پر تکیہ کسی نہ کسی درجے میں کیا ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے دین کی اقامت میں کسی پر بھی--- حتیٰ کہ داعیوں کی ذات پر بھی--- بھروسے کو گوارا نہیں کرتا۔ یہ دعوتِ ربانی ہے۔ اسی لیے رب ہر شخص اور ہرشے سے یکسر بے نیاز ہے۔ اس حقیقت کو سارے داعیان الی الحق کواچھی طرح سمجھ لیناچاہیے۔ سید قطب شہیدؒ ]م: اگست ۱۹۶۶ء[ نے واقعۂ اُحد کے سلسلے میںاس پر خوب بحث کی ہے۔ اس کو بار بار پڑھنے اورہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود اس حقیقت کا یہاں بیان کیا جانا ضروری ہے کہ مولانا نے شادی سے پہلے محترمہ محمودہ بیگم صاحبہ کوصاف صاف اپنے ارادوں سے آگاہ کردیا تھا۔ چنانچہ وہ فرماتی ہیں:
مودودی صاحب بڑے صاف گو تھے۔ انھوں نے شادی سے قبل میرے دادا جان کوایک خط میں سارے حالات لکھے تھے کہ یہ میرا مشن ہے۔ اگر اللہ نے مجھے توفیق دی تو ایک اعلیٰ گھر بھی بنائوں گا اور گاڑی بھی رکھوںگا‘ کیونکہ میں ہوتے سوتے خراب حالات میں رہنے کا قائل نہیں۔ لیکن اگر اللہ نے مجھے نہ دیا تو میں خستہ حالی میں بھی اپنے مشن کو نہیں چھوڑوں گا۔ میرے دادا ابا نے جو جواب دیا وہ میرے والدین کے سامنے مجھے سنانے کے لیے پڑھ کرسنایا۔ اس میں یہ جملہ بھی تھا: ’’ہماری بیٹی محل میں بھی تمھاراساتھ دے گی اور جھونپڑی میں بھی‘‘--- دادا جی کی اس بات نے آنے والے حالات میں مجھے بے پناہ تقویت اور حوصلہ بخشے رکھا۔ (تذکرہ سید مودودیؒ، ج ۳‘ ص ۱۸۲)
بالفاظ دیگر مولانا مودودیؒ کواپنے مشن اور اس کی دشواریوں کااندازہ ضرور تھا‘ مگر غائب کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے۔ وہ اپنی محبت کا دعویٰ کرنے والے بندوں کو آزمانے کے لیے حالات بھی اپنی قدرت اور حکمت سے پیدا کرتا رہتا ہے۔ اللہ کی حکمتیں صرف وہی جانتا ہے۔
بہرحال یہ ۱۹۳۷ء کے ابتدائی دنوں سے شروع ہونے والا سفری‘ مالی‘ جسمانی‘ ذہنی اور فکری بحران ۱۹۳۸ء کے آخر تک‘ بلکہ شاید ۱۹۳۹ء کی ابتدا تک جاری رہا۔ مولانا مودودیؒ، بیگم مودودی اور استاذ محترم مولانا صدرالدین اصلاحیؒ سب کے سب اس میں ثابت قدم رہے: فجزاھم اللّٰہ عنا خیرًا واغفرلنا ولھم وتقبل منھم ومنا انہ سمیع قریب مجیب۔
مزید غوروفکر سے مندرجہ ذیل نتائج ہمارے سامنے آتے ہیں:
۱۹۳۷ء سے شروع ہونے والے مرحلے کو ہم سید مودودیؒ کی زندگی میں خط فاصل قرار دے سکتے ہیں۔ کیونکہ اس وقت سے:
’’جب ڈھائی تین سال بعد مولانا پھر دارالاسلام لوٹے تھے تو کس شرط پر لوٹے۔ میں ان دنوں لاہور میں موجود نہیںتھا۔ اس لیے براہ راست علم کی بنا پر کوئی روایت نہیں کر سکتا‘ مگر دارالاسلام واپس لوٹنے سے چند ماہ قبل مولانا مودودی مرحوم نے مجھے اس بارے میں جو اطلاع دی تھی‘ ا س سے حقیقت پوری طرح سمجھی جاسکتی ہے۔
یکم فروری ۱۹۴۱ء کے اپنے ایک گرامی نامے میں موصوف نے تحریر فرمایا تھا:
کچھ مدت سے چودھری نیاز علی خان صاحب اور شیخ نصیب صاحب نے پھر اصرار شروع کیا ہے کہ تم پھر پٹھان کوٹ والی جگہ کو اپنے ہاتھ میں لے لو۔ اس سلسلے میں بہت کچھ خط و کتابت ہوئی اور بات چیت کی نوبت بھی آئی۔ آخر میں یہ تصفیہ ہواکہ وہ عمارات مع چھ ایکڑ زمین کے‘۹۰ سال کے پٹے پر میں ان سے لوں گا اور شرح کرایہ سو روپیہ سالانہ یا اس کے قریب قریب ہو گی۔ اس صورت میں ہمارے ادارے کا ان کے ٹرسٹ سے کوئی تعلق نہ رہے گا اور نہ کسی قسم کی مداخلت ان کا حق ہوگا۔ ہم محض ایک کرایہ دار کی حیثیت سے وہاں رہیں گے‘ جس طرح یہاں (لاہور میں) کرایہ دے کررہتے ہیں ‘‘(تذکرہ سید مودودیؒ‘ ج ۳‘ ص ۸۴۷- ۸۴۸)۔
یہ قیادت میں کامیابی کا اور اصول و مبادی پر جم جانے کا تیسراثمرہ تھا۔
اسی لیے جب اس دارالاسلام میں مولانا محمد منظورنعمانی وغیرہ جماعت اسلامی سے علیحدہ ہوئے تو مولانا مودودیؒ بھانپ گئے کہ اقامت دین حق کا وہ مفہوم جو ’’اسلامی حکومت کے قیام‘‘ کے ہم معنی ہے‘ ان حضرات کو نہیں پچ رہا ہے۔ اس لیے انھوں نے ان حضرات اور ان کے موہوم اعتراضات کو کوئی اہمیت نہیں دی‘ کیونکہ وہ اور ان کے دارالاسلام سے لاہور ہم سفر حضرات اس بھٹی میں تپنے کے بعد ایک ایسا کھرا سونا بن چکے تھے‘ جس کی مارکیٹ میں ایک قابل قدر حیثیت ہوا کرتی ہے۔ یہ کامیابی اور کامرانی کاچوتھا ثمرہ تھا۔
جب یہی سونا: قرارداد مقاصد کی منظوری‘ اسلامی دستور کی مہم‘ پھانسی کی کوٹھڑی وغیرہ میں اپنا سکہ جما چکا اور وزیراعظم پاکستان چودھری محمد علی کے ہاتھوں اسلامی دستور پاس ہو گیا ‘ پھرجب اس کی تنفیذ کا مرحلہ پیش آیا تو عملی میدان میں اُترنے کے مسئلے پر جماعت ایک بار پھر بحران کاشکار ہوگئی۔ اس بار بھی حزبِ اختلاف کی سرکردگی مدارس سے فارغ حضرات ہی کر رہے تھے۔ مولانا مودودیؒ نے جماعت میں داخلی ٹکرائو سے بچائو کے لیے استعفا پیش کر دیا۔۶؎ ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں ان کو کامیابی سے پانچواں پھل ملا۔
وہ دیکھ رہے تھے کہ جدید تعلیم یافتہ حضرات جیسا کہ چودھری نیاز علی خاں صاحب‘ شیخ نصیب صاحب توکچھ مدت بعد اپنے موقف پر نظرثانی کرکے راہ حق پر لوٹ سکتے ہیں‘ لیاقت علی خان‘ خواجہ ناظم الدین‘ مولوی تمیزالدین‘ اے کے بروہی وغیرہم بھی اسلامی حکومت کے حق میں موقف اپنا سکتے ہیں‘ حتیٰ کہ بعد میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم تک بھی کسی نہ کسی شکل میں تعاون پر آمادہ ہو جاتے ہیں‘ مگر یہ کیا ہے کہ اسلامی حکومت کے قیام کی گولی کسی کے حلق سے نہیں اتر سکتی ہے تو وہ ہے خود علماے کرام کا ایک موثر طبقہ۔
اس کی وجہ سیاست اورسیاسی امور سے سخت نفرت اور سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھنا ہے۔ یہاں تک کہ سیاسی و اجتماعی امور میں الجھنا‘ طہارت ، تقویٰ اور دین داری کے خلاف سمجھنا ہے۔ اس پندار سے نکلنے میں یہ سخت ناکام رہے ہیں۔ اسی طرح ایک ہمسایہ ملک میں عرش اقتدار تک تو پہنچ گئے مگر وہ اپنے مخصوص تدریسی ماحول سے اپنے آپ کو آزاد نہ کر سکے۔ جمود پر قناعت کی اور اجتہاد سے اظہار بیزاری کیا اور عصرِحاضر کے تقاضوں سے آنکھیں بند کر لیں اور حکمت‘ وسیع القلبی اور وسیع النظری پر قرار واقعی توجہ نہ دی۔ جس سے داخلی اتحاد و تعاون میں کمی اور دشمن کو حملہ کرنے کی سہولت میسر آئی۔ انجام حسرت ناک سامنے آیا۔
رہے مولانا مودودیؒ تو انھوں نے اس اونچی دیوار کو توڑنے کی بھرپور کوشش کی جودین اور سیاست کے درمیان کھڑی کی گئی تھی۔ اس میں وہ اوران کے رفقا بڑی حد تک کامیاب رہے‘ جس کے نتیجے میں آج اسلامی حکومت کے قیام کا تصور ایک مسلمہ امر بن چکا ہے۔ وللّٰہ الامر من قبل ومن بعد-
اسلامی ریاست کے قیام کی اس جدوجہد میں مایوس ہونے کا کوئی سبب نہیں ہے۔ وَیَاْبَی اللّٰہُ اِلَّآ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (التوبہ ۹:۳۲) ’’مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیںہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔ وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (یوسف ۱۲:۲۱) ’’اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے‘ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘۔
۱- جناب رفیع الدین فاروقی اپنے مقالے ’’مولانا مودودیؒ اور حیدر آباددکن‘‘ میںرقم طرازہیں: ’’… پھر مولانا مودودیؒ کی خودداری کا یہ عالم تھا کہ اپنی مشکلات کا تذکرہ سوائے خدا کے اور کسی سے نہ کرتے۔ اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ سرکار آصفیہ تین سو سے زائد پرچوں کی خریدار تھی اور ممالک محروسہ سرکار عالی کے مختلف کتب خانوں میں یہ پرچہ جاتا تھا۔ ایک مختصرسے مخالف گروپ نے امور مذہبی پر اثرڈال کر رسالہ کی خریداری بند کرا دی۔ اچانک تقریباً نصف رسالوں کی خریداری بند ہو جانے سے مولانا شدید مالی مشکلات سے دوچار ہوگئے (غالباً یہ واقعہ اپریل ۱۹۳۷ء کا ہوگا کیونکہ مئی ۳۷ء کے ترجمان القرآن کے اشارات میں اس کا اشارہ ملتا ہے‘‘ (تذکرہ سید مودودیؒ‘ ج ۳‘ ص ۳۲۷-۳۲۸)۔ خیال رہے کہ نومبر ۱۹۳۷ء سے پرچے کی خریداری بند کی گئی تھی‘ جب کہ ماہ پیش ترشادی کے اخراجات ہو چکے تھے۔
۲- (حوالہ بالا‘ ص ۸۴۶)۔ قابل غور امر یہ ہے کہ اسلامی حکومت کے قیام سے نہ صرف چودھری نیاز علی صاحب جیسے جدید تعلیم یافتہ حضرات بدک گئے تھے بلکہ علما کرام کو بھی اس مقصد سے بہت کچھ تحفظات (reservations) تھے۔ لیکن مولانا محمد منظور نعمانی ؒ نہ صرف اس دارالاسلام کے دستورمیں اسلامی حکومت کے قیام پر موافق تھے‘ بلکہ اُس جماعت اسلامی کے تاسیسی اجتماع میں منظور شدہ دستور میں بھی اسلامی حکومت کے قیام پر موافق تھے جو لاہور میں منعقد ہوا تھا۔ پھر پتا نہیں اتنے عرصے اس موضوع پر غور کرنے کے بعد ان میں تبدیلی کیوں آئی؟ اگر سطحی اور معمولی اختلافات سے ایسا ہوا تو افسوس ناک امر ہے۔ کیونکہ کسی بھی‘ ہاں‘ کسی بھی جماعت یا تحریک کے قائدین کا وسیع القلب اور حلیم المزاج ہونا ازحدضروری ہے۔ شاید اسی وجہ سے اس کے بعد وہ باقاعدہ کسی بھی نظم میں شریک نہیں ہوسکے اور کسی نظم کا جز نہیں رہ سکے۔اسی طرح دو دستور تیار ہوئے اور دو بار تجدید شہادت بھی ہوئی۔ مولانا اصلاحیؒ نے ان دیگر تین افراد جماعت کے نام پیش کیے‘ جو ان کے علاوہ اس دارالاسلام والی جماعت کے ارکان تاسیسی تھے۔ ظاہر بات ہے وہ خود اس اولین جماعت کے اولین رکن تھے۔ کاش ان دونوں دستوروں کا تقابلی موازنہ کر کے ان کے درمیان جو اغراض و مقاصد اور تنظیمی اور تربیتی امور میں فرق پایا جاتا تھا‘ ان پر روشنی ڈالی جاتی تو کیا ہی اچھا ہوتا۔
۳- اس بحران کے اسباب کے لیے ملاحظہ فرمایئے محمدحمیداللہ صدیقی صاحب کا خط بنام ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی‘ مورخہ ۱۹دسمبر ۱۹۵۷ء خصوصاً ص ۳۲۶‘ سطر۹ سے لے کر سطر ۱۵ تک (اسلام‘ معاشیات اور ادب‘ ایجوکیشنل بک ہائوس‘ علی گڑھ‘ اگست ۲۰۰۰ء) ۔مزید ملاحظہ کیجیے: مضمون ’’گہرہاے گراں مایہ‘‘ از سلیم منصور خالد (تذکرۂ مودودیؒ‘ ج ۳‘ ص ۴۹۱-۵۰۰)۔ اسی کے صفحہ ۵۰۱ پر ماچھی گوٹھ کے اجتماع کے نتائج دیکھیے: اس میں ۹۲۰ ارکان موافق تھے اوران کے مقابلے میں ۱۵ مخالف تھے۔ اگر اس رائے پر کچھ لوگوں نے ’’مریدوں کی رائے‘‘ کی پھبتی کسی تو یہی وہ جماعت ہے جومولانا مودودی ؒکی فکرکی رہینِ منت ہے۔
۸ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو امریکہ اور اس کی اتحادی افواج نے افغانستان پرحملہ کر کے مغربی تہذیب وتمدن کی تاریخ میں ایک نہایت ہی سفاکانہ اور شرم ناک باب کا اضافہ کیا ہے۔ افغانستان میں طالبان نے شریعت اسلامی پر مبنی جو حکومت قائم کی تھی گو اس میں بہت سی خامیاں تھیں لیکن اس کے باوجود یہ اسلامی اقدار کی علم بردار تھی‘ جس کی اپنی آزاد خارجہ پالیسی تھی‘ جو اصولوں پر سودے بازی کے لیے تیار نہیں تھی‘ جو مالی غربت اور مشکلات کے باوجود کسی سے امداد کی بھیک نہیںمانگتی تھی اور جس نے ثابت کیا تھا کہ غربت اور افلاس کے باوجود اگر کوئی ریاست چاہے تو عزت و وقار سے اقوام عالم میںزندہ رہ سکتی ہے۔ افغانستان کی یہ آزاد اور جری پالیسی مغربی ممالک کے تیار کردہ عالمی نقشے میں کہیں بھی فٹ نہیں ہورہی تھی۔ امریکی حکام طالبان کی حکومت کو مغربی تہذیب کے لیے خطرہ اور ایک بڑا چیلنج سمجھتے تھے۔ اس لیے ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے عالمی تجارتی مرکز کے واقعے میں اسامہ بن لادن کو ملوث کرتے ہوئے انھوں نے طالبان کی فوج اور نہتے افغان عوام کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی۔ بقول صدر بش یہ اکیسویں صدی کی صلیبی جنگ کا آغاز تھا۔ لیکن اس کے پس پردہ سیاسی اور اقتصادی مقاصد بھی کارفرما تھے۔
وسط ایشیا کے مسلمان ممالک جو روسی قبضہ استبداد سے آزاد ہو چکے ہیں‘ بے شمار قیمتی معدنیات اور وسائل سے مالا مال ہیں۔ ان کے گیس اور پٹرولیم کے ذخائر پر ایک عرصے سے امریکی حکومت کی لالچی نگاہیں لگی ہوئی تھیں۔ یہ معدنی وسائل اُس وقت تک استعمال میں نہیں لائے جاسکتے تھے جب تک کہ ان کو بحیرہ عرب تک لانے کے لیے خاطرخواہ مواصلاتی انتظام نہ کیاجائے۔ اس میں افغانستان کی طالبان حکومت ایک اہم رکاوٹ تھی جسے دُور کرنے کے بعد ہی ان معدنی ذخائر کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا تھا۔ ۱۱ستمبر کے واقعے کو بہانہ بنا کران عزائم کی تکمیل کے لیے امریکہ نے افغانستان پرحملہ کیا۔ افغانستان کے شمالی اتحاد نے امریکی حملے میں بھرپور مدد و تعاون کیا اور امریکی افواج کے ہراول دستے کا غدارانہ کردار ادا کیا۔ اہل پاکستان کی بدنصیبی کہ حکومت پاکستان نے بھی اس میں امریکہ کی ہر طرح کی حمایت و مدد کی۔ دومہینے تک افغانستان کے شہر اور دیہات امریکی افواج کی بم باری اورگولہ باری کا نشانہ بنے رہے۔ یہ سفاکانہ حملے رمضان شریف کے مہینے میں بھی جاری رہے۔ عید کے دن بھی بے گناہ نمازیوں کوشہید کیاگیا۔ اس حملے کے نتیجے میں ۴ ہزار سے زائد شہری شہید ہوئے۔ ہزاروں جنگی قیدیوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ ہسپتال‘ اسکول‘ سڑکیں اور پُل مسمار کیے گئے۔ افغانستان کے اکثر ہوائی اڈوں کو ناکارہ بنایا گیا۔ آریانہ افغان کے طیارے تباہ کیے گئے۔ کابل‘ قندھار‘ جلال آباد کے شہرملبے کا ڈھیر بن گئے۔
دسمبر کے مہینے میں اقوام متحدہ کے زیرنگرانی جرمنی کے دارالحکومت بون میں شمالی اتحاد‘ روم اور پشاور گروپ کے نمایندوں‘ افغان دانش وروں اور جنگجو کمانڈروں کے مذاکرات ہوئے۔ حامد کرزئی کو عبوری حکومت کا چیئرمین مقرر کیاگیا۔ یہ بھی طے پایا کہ چھ مہینے کے بعد افغان لویہ جرگہ کا اجلاس منعقد ہوگا جس میں آیندہ دو سال کے لیے نئی حکومت تشکیل دی جائے گی۔ جون کے وسط میں لویہ جرگہ کا اجلاس کابل میں طلب کیا گیا۔ اس میں ۱۵۰۱ منتخب افراد کے علاوہ ۷۴ جنگجو کمانڈروں نے بھی شرکت کی جو بون معاہدے کی سراسر خلاف ورزی تھی۔ لویہ جرگہ کے اجلا س میں صدر بش کے خصوصی معاون زلمے خالدزاد نے امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے بادشاہ گر کا کردار ادا کیا۔
کرزئی عبوری حکومت کے صدر منتخب ہوئے۔ پنج شیری تاجک اتحاد کے عبداللہ کو وزیرخارجہ اورقاسم فہیم کو وزیردفاع مقرر کیاگیا۔ وزارت داخلہ کو یونس قانونی سے لے کر تاج محمد وردک کے حوالہ کیا گیا لیکن وزارت داخلہ کوبدستور تاجک گروہ کے زیراثر رکھنے کے لیے سابق وزیرداخلہ یونس قانونی کوصدر کا مشیر براے اُمور داخلہ مقرر کیا گیا۔ اس طرح کرزئی کابینہ کی اہم وزارتوںمیں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں لائی گئی۔لویہ جرگہ کی آڑ میں امریکی ایجنڈے کو ’’عوامی جمہوری ‘‘طریقے سے عملی جامہ پہنایا گیا۔
امن و امان کی صورت حال: اس وقت افغانستان کئی ایک مسائل سے دوچار ہے۔ ان میں سب سے سنگین مسئلہ امن و امان کا ہے۔ طالبان کے دورِ حکومت میں مکمل امن و امان تھا۔ ملک کے کسی بھی حصے میں دن یارات کو بلاخوف و خطر سفر کرنا ممکن تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ امن و امان بحال کرنے میںلوگوں کا تعاون شامل حال تھا اور مجرموں کو سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ لوگوں نے ازخود اسلحہ طالبان کے حوالے کیا تھا۔ مسلح افراد کا گھومنا پھرنا خلاف قانون اور جرم تھا۔
امن و امان کی صورتِ حال کی خرابی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ بین الاقوامی فوج کے باوجود کابل شہر کے اندر دن کے وقت آزادی سے گھومنا پھرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ ڈاکٹر عبدالرحمن جو پہلی عبوری حکومت میں وزیر ہوائی مواصلات تھے اُن کو کابل ہوائی اڈے پر فوجی پہرے داروں کے سامنے قتل کیا گیا۔ ابھی تک ان کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ اسی طرح حاجی عبدالقدیر نائب صدر کو دن دہاڑے اپنے دفتر کے سامنے ان کے داماد سمیت موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ ان کے قاتلوں کا بھی تاحال سراغ نہیں لگایا جا سکا ہے۔ کابل شہر میں امن و امان کی صورت حال کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ظاہرشاہ کی حفاظت پر اٹلی کا فوجی دستہ مامور ہے‘ جب کہ صدر مملکت حامد کرزئی نے افغان فوجی دستے کو ہٹا کر امریکی فوجی گارڈ کو اپنی سیکورٹی کے لیے متعین کیا ہے۔ ملک کے امن و امان کے متعلق پکتیا کے سابق گورنر بادشاہ خان نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’جس ملک میں صدر ممکت کی اپنی جان محفوظ نہ ہو اور اس کو اپنی حفاظت کے لیے امریکی فوج کی مدد درکار ہو وہاں عام آدمی کی جان و مال کیسے محفوظ رہ سکتی ہے‘‘۔ کابل شہر سے باہر ملک میں مسلح افراد اور جنگجو کمانڈروں کا راج ہے۔ سڑکوںپر جگہ جگہ غیر قانونی پھاٹک کھڑے کیے گئے ہیں جہاں پر ٹیکس ادا کرنے کے بعد آگے جانے کی اجازت ملتی ہے۔ امن و امان کی صورت حال شمالی علاقہ جات میں بالخصوص ابتر ہے جہاں غیر ملکی امدادی اداروں کے دفاتر کو لوٹ لیا گیا ہے۔ عالمی ادارہ خوراک (FAO) کے ذخیرہ گودام پر زبردستی قبضہ کیا گیا ہے۔ ان کے عملے کی گاڑیاں چھینی گئی ہیں۔ ان کے زنانہ افرادکار کے ساتھ ’’گینگ ریپ‘‘ کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ اس تشویش ناک صورت حال کی وجہ سے امدادی اداروں نے اپنے دائرہ کار محدود کر رکھے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے مرد اور زنانہ اہل کار شہروں میں آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں‘ نہ بازار میں ضروریات زندگی خریدنے کے لیے آسکتے ہیں۔
امن و امان کی خراب صورت حال کی وجہ سے افغان شہریوں نے اپنے آپ کو مسلح کر رکھا ہے۔ بہت سا اسلحہ طالبان کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کرنے کے لیے مفت تقسیم کیا گیا تھا۔ حال ہی میں کرزئی حکومت نے احکامات جاری کیے ہیں کہ ہرقسم کے اسلحے کو سرکاری مال خانے میں جمع کرایا جائے لیکن کسی نے بھی اس بات کو اہمیت نہیں دی۔ امن و امان کی خرابی کی دوسری وجہ یہاں کے جنگجو کمانڈر ہیں۔ طالبان حکومت نے ان کو غیر مسلح کرکے غیر موثر بنا دیا تھا۔ ان کی من مانی کارروائیوں پر کڑی نگرانی کی جاتی تھی جس کی وجہ سے ان کو ملک چھوڑنا پڑا تھا۔ امریکی حکومت نے اِن کمانڈروں کی پشتیبانی کی۔ ان کو جدید اسلحے سے لیس کیا‘ بے تحاشا ڈالروں سے نوازا‘ مواصلات کی جدید سہولیات مہیا کیں اور ان کو طالبان حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے استعمال کیا۔ اس وقت افغانستان میں ان جنگجو کمانڈروں کی خودمختار ولایتیں (خطے اور علاقے) ہیں۔ یہ ٹیکس اور کسٹم وصول کرتے ہیں جومرکزی خزانہ میں جمع نہیں کرایا جاتا۔ ان کے پاس جدید اسلحہ سے لیس مسلح فوج اور پولیس ہے۔ ذاتی مفادات کی خاطر آپس میں لڑتے اور خون خرابہ کرتے ہیں۔ ان پر مرکزی حکومت کا اثر و رسوخ براے نام ہے۔ ان کی حیثیت خودمختار حکمرانوں کی سی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ بااثر شمال میں عطا محمد‘ مزار شریف میں عبدالرشید دوستم‘ ہرات میںاسماعیل خان‘ قندھار میں گل شیرخان اورفراہ میں امان اللہ ہیں۔
یہ بات باعث حیرت و تعجب ہے کہ جنگجو کمانڈروں کو امریکی حکومت کی آشیرباد حاصل ہے۔ اس لیے کہ ان ہی کی مدد سے امریکی فوج افغانستان پرحملہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ لویہ جرگہ کے اجلاس کے دوران جب کئی ایک ممبران نے ان جنگجو کمانڈروں کی لویہ جرگہ میں شرکت پر اعتراض کیا اور ان کے نظام کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا تواقوامِ متحدہ کے نمایندوں نے جواب دیا کہ’’بون معاہدے کا مقصد صرف مستقبل کی عارضی حکومت کی تشکیل ہے۔ جنگجو کمانڈروں کے نظام کوچھیڑنا نہیں ہے‘‘۔
پوست کی کاشت: طالبان کے دورِ حکومت سے پہلے پورے افغانستان میں پوست کی کاشت ہوتی تھی جس سے سالانہ ۵ سو ملین ڈالر آمدنی تھی۔ یورپ کی افیون اور ہیروئن کی ۷۰ فی صد ’’مانگ‘‘ یہاں سے پوری ہوتی تھی۔ طالبان جب اقتدار میں آئے تو پوست کی کاشت کو غیراسلامی قرار دے کر پورے ملک میں ممنوع قرار دے دیا گیا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق: ’’سال ۲۰۰۱ء میں پورے افغانستان میں کہیں بھی پوست کی کاشت نہیں کی گئی‘‘۔ اہم بات یہ ہے کہ کسانوں نے پوست کی کاشت سے دست بردار ہونے کے لیے کسی قسم کا معاوضہ طلب نہیں کیا۔ یہ سب کچھ مذہبی جذبے کے تحت کیا گیا۔ امریکی حملے کے بعد پورے افغانستان میں ایک مرتبہ پھر پوست کی کاشت کی گئی ہے۔ حکومت نے کسانوں سے اپیل کی ہے کہ اگر وہ پوست کی فصل کوضائع کر دیں تو انھیں اس کا معاوضہ دیا جائے گا لیکن انھوں نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہے۔
مخبروں کی کارروائیاں : مخبر جن کو امریکی حکومت نے سیٹلائیٹ فون مہیا کیے ہیں پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کا تعلق زیادہ ترتاجک گروہ سے ہے۔ انھوں نے کئی موقعوں پر اپنے مخالفین پر امریکیوں سے بم باری کروائی ہے۔ ان کی غلط اطلاعات کی بنا پر امریکی جنگی طیاروں نے بے گناہ شہریوں پر بم باری کی ہے۔ اس کی تازہ مثال اورزگان میں شادی کی تقریب پر ہیلی کاپٹرگن شپ اور بم بار طیاروں سے بم باری ہے جس میں ۴۰ افراد جاں بحق اور ۱۰۰ سے زائد زخمی ہوئے۔ ان واقعات کی وجہ سے پشتون علاقے میں امریکہ سے انتہائی نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ اس بم باری کے خلاف پہلی مرتبہ کابل میں مظاہرہ ہوا۔ جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ مستقبل میں اس قسم کے حادثات کی روک تھام کی جائے۔ بم باری کے بعد اورزگان کے گورنر نے بیان دیا کہ امریکی فوجی عملے سے کہا گیا ہے کہ ’’مستقبل میں اس قسم کے آپریشن سے پہلے صوبائی حکومت سے اجازت لینی ضروری ہوگی‘‘۔ لیکن امریکی ترجمان نے تردید کی کہ ’’ہم اس قسم کی اجازت کے پابند نہیں ہیں‘‘۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مخبروں کی رپورٹ پر افغان شہریوں کو اس شبہے میں قیدکیا جاتا ہے کہ ’’وہ القاعدہ کے افراد یا پاکستانی ہیں‘‘۔ انھیں صفائی پیش کرنے کے بعد ضمانت پر رہا کیا جاتا ہے۔ لوگوں سے پیسہ بٹورنے کے لیے امن پسند شہریوں پر القاعدہ کاالزام لگایا جاتاہے اور انھیں اپنے آپ کو بچانے کے لیے کثیر رقم دینی پڑتی ہے۔ اس طرح کی بلیک میلنگ افغان شہروں میں کاروبار کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ امن و امان کی یہ صورت حال افغانستان کی تعمیرنو کی راہ میں ایک سنگین رکاوٹ ہے۔
افغان مہاجرین کے مسائل: حامد کرزئی نے جب سے عنانِ حکومت سنبھالی ہے عالمی سطح پر اس بات کا برابر چرچا کیا جا رہا ہے کہ ملک میں امن و امان بحال ہوگیا ہے‘ خوش حالی کا دور دورہ ہے۔ بین الاقوامی ادارہ براے مہاجرین (UNHCR) نے بھی افغان مہاجرین کو ملک واپس جانے کی ترغیب دی ہے۔ اس کے نتیجے میں گذشتہ چھ مہینوں میں ۱۵ لاکھ مہاجرین پاکستان‘ ایران اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک سے افغانستان واپس آگئے۔ یہ مہاجرین زیادہ تر کابل‘ جلال آباد ‘قندھار اور ان کے گردونواح میں مہاجر کیمپوں میں رہایش پذیر ہیں۔ عملاً صورت حال یہ ہے کہ ان خیمہ بستیوں میں پانی کی فراہمی‘ صفائی‘ تعلیم اور صحت کی سہولیات ناپید ہیں۔ مہاجرین میں سے جن کے اپنے مکانات تھے اور جو جنگ کے دوران تباہ و برباد ہوگئے تھے ان میں سے چندایک نے اپنے مکانات کی تعمیر اور مرمت کی ہے لیکن اکثرو بیشتر کے پاس خیموں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ۳لاکھ ۵۰ ہزار پشتون مہاجر زیادہ تر جلال آباد کے قریب ’’حصار شاہی‘‘ کے سنگلاخ اور بے آب و گیاہ میدان میں پڑے ہیں۔ یہاں خواتین کو پانچ کلومیٹر دور سے پانی لانا پڑتا ہے اور سخت مشکلات و مصائب میں زندگی گزار رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد اندرون ملک بے دخل افراد کی ہے جس کا تعلق پشتون آبادی سے ہے۔ یہ تاجک علاقوں میں آباد تھے جن کے ساتھ شمالی اتحاد کی افواج نے تشددکا سلوک کیا ہے۔ خواتین کی بے حرمتی کی ‘گھر کاسامان لوٹ لیا اور زرعی زمینوں سے بے دخل کر دیا گیا۔ ان کی دکانوں پر تاجک افرادنے زبردستی قبضہ کیا ہے۔ بہ امر مجبوری وہ تاجک علاقے سے ملک بدر ہوگئے ہیں۔ اِن کی بڑی تعداد اپنے گائوں کوچھوڑ کرکابل کے گردونواح میں کسمپرسی کی حالت میں خیمہ زن ہے۔
بے روزگاری کا مسئلہ: ایک اہم مسئلہ روزگار کا ہے۔ سرکاری دفاتر میں آسامیوں پر تقرری حکام بالا کی سفارش کے بغیر ناممکن ہے۔ مرکزی حکومت کے کلیدی عہدوں پر پنج شیری تاجک قابض ہیں۔ کم تر درجے کی ملازمتوں پر اِکا دکا پشتون‘ ہزارہ‘ یا ازبک نظر آتا ہے۔ جس کی وجہ سے تاجک طبقے کے خلاف نفرت اور غصے کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ باغات جو زرمبادلہ کمانے کا واحد ذریعہ تھے‘ ویران پڑے ہیں۔ ان کی آب پاشی کانظام درہم برہم ہو گیا ہے۔ بیش تر کاریز صفائی نہ ہونے کی وجہ سے بند ہیں۔ مزید یہ کہ قدم قدم پر روسیوں کی بارودی سرنگیں بکھری پڑی ہیں جن کو ابھی تک ناکارہ نہیں بنایا گیا ہے۔ ان کے خوف سے کوئی کسان زرعی زمین میں کاشت کی ہمت نہیں کرسکتا۔ ملک کے تقریباً سارے کارخانے تباہ و برباد ہیں۔ بیرون ملک تجارت نہ ہونے کے برابر ہے اور اندرونی تجارت صرف روز مرہ اشیا تک محدود ہے۔ لہٰذا روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ خیمہ بستیوں میں بے اطمینانی کی فضا ہے۔ اکثروبیشتر کی سوچ ہے کہ افغانستان واپس آکر ہم غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔
افرادی قوت اور تعمیرنو کا مسئلہ: افغانستان اس وقت اعلیٰ افرادی قوت کی کمی کا شکار ہے۔ یہاں کے یونی ورسٹی کے پروفیسر‘ ڈاکٹر‘ انجینیر‘سفارت کار‘ نظام حکومت کوچلانے والے اہل کار سب کے سب ملک سے باہرامریکہ‘ جرمنی یا انگلینڈ میں مستقل طور پر آباد ہیں۔ وہ کسی بھی قیمت پر یہاں آنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اہم آسامیوں پر کام کرنے کے لیے مقامی آبادی کے موزوں افراد ناپید ہیں۔ باہر سے غیر افغان ماہرین کا آنا غیر متوقع ہے اور اگر یہ ماہرین افغانستان میں خدمات سرانجام دینے پر راضی ہوگئے تو بیرونی امداد کا اچھا خاصا حصہ اُن کی تنخواہ اور دیگر مراعات پر خرچ ہوگا۔
پاکستان واحد ملک ہے جو کہ افغانستان کی تعمیرنو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکتا ہے۔ افغانستان کے اکثروبیشتر لوگ اُردو سمجھ سکتے ہیں۔ پاکستان اس کا قریب ترین پڑوسی ملک ہے جہاں سے بھاری قسم کا سامان مثلاً سیمنٹ ‘سریا‘آٹا‘ مصنوعی کھاد اور بجلی کاسامان آسانی سے لے جایا جا سکتا ہے۔ لیکن وہاں امن و امان کی صورتِ حال اتنی خراب ہے کہ کسی بھی پاکستانی کا وہاںجاناخطرے سے خالی نہیں ہے۔ کرزئی حکومت پاکستان کے بجائے بھارت پر زیادہ انحصار کر رہی ہے۔ اس وقت صورتِ حال اتنی خراب ہے کہ پشتو بولنے والے افغانیوں کو اکثروبیشتر پاکستانیوں کے شبہے میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ جب وہ ثابت کر دیں کہ وہ پاکستانی نہیں ہیں تب اُنھیں رہا کیا جاتا ہے۔ اس صورتِ حال میں کسی بھی پاکستانی کا آزادی سے گھومنا پھرنا محال ہے کجا یہ کہ وہ کسی تعمیری منصوبے میں کوئی حصہ لے سکے۔ حکومت کی پوری مشینری پاکستان کے خلاف ہے اور پاکستان کے ساتھ کسی قسم کے ٹھوس اور پایدار روابط کے حق میں نہیں ہے۔ ہر قسم کے بدامنی اور قتل و غارت کے واقعات میں پاکستان کو ملوث کرنا ‘ اورپاکستانیوں کو موردِالزام ٹھیرانا روز مرہ کا معمول ہے۔
اس کے مقابلے میں بھارت ایک منظم منصوبے کے تحت موجودہ حکومت کی مدد و تعاون کے لیے میدان میںاُترا ہے۔ پہلے مرحلے میں انھوں نے کابل کے اندر گاندھی ہسپتال کو دوائیاں‘ طبی آلات اورڈاکٹر مہیا کیے ہیں۔ اس کے بعد خیرسگالی کے طور پر ۲۵ بسوں کا ایک بیڑہ پیش کیا ہے۔ اگست کے دوسرے ہفتہ میں تین ایربس طیارے آریانہ ایرویز کے حوالے کیے گئے۔ یہ جہاز بھارتی پائلٹ چلائیں گے۔ان کو افغانستان اور بھارت کے درمیان پروازوں کے لیے استعمال میں لایا جائے گا۔ اس لیے کہ بھارتی طیارے پاکستانی فضائی حدود پر سے پرواز کرتے ہوئے افغانستان نہیں جا سکتے۔
ہزاروں پاکستانی طالبان کے دورحکومت میں کاری گروں کی حیثیت سے آئے تھے اور محنت ومزدوری کرتے تھے۔ ان میں موٹرمکینک‘ الیکٹریشن‘ نرسنگ سٹاف اور انگریزی جاننے والے کلرک شامل تھے۔ یہ سارے کے سارے افغان جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ ان پرالزام ہے کہ یہ القاعدہ کے شانہ بشانہ لڑنے والے افراد ہیں۔ ان میں ہزاروں افراد مختلف قبائلی حجروں میں قید ہیں اور ۳۰ ہزار سے ۸۰ ہزار روپے معاوضے کے بعد چھوڑا جاتا ہے۔ اکثر مناسب خوراک نہ ہونے کی وجہ سے بیمار ہیں۔ دن کو اُن سے محنت مزدوری کا کام لیا جاتاہے اور رات کو پابہ زنجیر رکھا جاتاہے۔ ان میں بوڑھے افراد بھی ہیں جن کی حالت دیکھی نہیں جاتی۔ یہ افراد ویزا لے کر روزگار کی تلاش میں افغانستان گئے تھے۔ یہ ایک قومی المیہ ہے کہ حکومت پاکستان نے ان کی رہائی کے لیے مؤثر آواز اٹھائی ہے اور نہ کوئی عملی اقدام کیا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق ان میں سے سیکڑوں کو بھارت منتقل کیا گیا ہے۔
لسانی بنیادوں پر تفریق: افغانستان کی ۲۰۰ سالہ تاریخ میں نسلی یا لسانی بنیادوں پر کوئی تفریق نہیں کی گئی۔ تاجک‘ ہزارہ اور پشتون آپس میں امن وامان سے رہتے تھے۔ ان کی آپس میں شادیاں ہوتی تھیں۔ ملازمتوں کی تقسیم میں بھی کبھی لسانی بنیاد پر کوئی اختلافات سامنے نہیں آئے۔ ظاہرشاہ کا تعلق پشتون قبیلہ بارک زئی سے تھا لیکن اُس کی اور اس کے آباواجداد کی شادیاں فارسی بولنے والے تاجک قبیلوں میں ہوئی تھیں۔ اس وجہ سے شاہی خاندان میں بھی پشتو اور فارسی دونوں زبانیں بولی جاتی تھیں۔
افغانستان میں لسانی بنیاد پر تفریق کی بنیاد کمیونسٹ دور حکومت میں ڈالی گئی۔ یہ افغان ملت کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے منصوبے کا حصہ تھا جو روسی افواج کی شکست کے بعد ادھورا رہ گیا۔ بہرحال لسانی بنیادوں پر تفریق کا بیج ڈالا گیا جس کے منفی اثرات دوران جہاد بھی ظاہر ہونے لگے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کوشش بسیار کے باوجود جمعیت اسلامی کے تاجک برہان الدین‘ سیاف اور حزبِ اسلامی کے پشتون گلبدین حکمت یار کے درمیان جہادی کارروائیوں میں بھی اتفاق رائے پیدا نہ ہو سکا۔ روسی شکست کے بعد جوحکومت معرض وجود میں آئی اُس میں استاد ربانی صدر اور گلبدین حکمت یار وزیراعظم مقرر ہوئے۔ اُس دور میں یہ اختلافات اتنے بڑھ گئے کہ طرفین کی افواج تین سال تک آپس میں دست و گریبان رہیں جس کے نتیجے میں کابل کھنڈرات کا شہر بن گیا۔
طالبان نے مختلف نسلی اور لسانی گروہوں کویک جا کیا اور افغان قوم میں مذہب کی بنیاد پر یک جہتی پیدا کی۔ یہ طالبان حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ تھا۔ طالبان کے جانے کے بعدافغان قوم کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔ افغان دانش وروں کا کہنا ہے کہ ’’افغانستان کی مثال ایک ٹوٹے ہوئے پیالے کی تھی۔ جب تک یہ پیالہ طالبان کے ہاتھ میں تھا انھوں نے اس کو جوڑے رکھا۔ اُن کے جانے کے بعد یہ پیالہ ٹوٹ گیا ہے۔ اس کو دوبارہ جوڑنا کرزئی حکومت کے بس کی بات نہیں ہے‘‘۔
حامد کرزئی کے متعلق افغانوں میں ایک عام تاثر ہے کہ ’’دیوانہ زندہ خوش است‘‘ (دیوانہ اس پر بھی خوش ہے کہ زندہ ہے)۔ اس وقت کرزئی کی پوزیشن بعینہٖ وہی ہے جو ۱۸۳۹ء میں شاہ شجاع کی تھی۔ پہلی اینگلو افغان جنگ کے نتیجے میں انگریزوں نے اُسے تخت کابل پر بٹھایا تھا۔ انگریزی فوج کا دستہ اس کی حفاظت پر مامور تھا۔ لیکن زیادہ عرصے تک افغان اس کٹھ پتلی حکمران کو برداشت نہ کر سکے۔ ۱۸۴۲ء میں شاہ شجاع کو انگریز حفاظتی دستے سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ حالات بتا رہے ہیں کہ حامد کرزئی کی پوزیشن شاہ شجاع سے مختلف نہیں ہے اور خطرے کی گھنٹی کسی وقت بھی بج سکتی ہے!
طالبان حکومت ایک نظریاتی حکومت تھی ۔ اُن کا دورِ حکومت صرف چار سال تک رہا لیکن ان کے اثرات اب تک قائم ہیں۔ اب بھی عام آدمی کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہیں‘ اس لیے کہ اُن کے دورِحکومت میں شریعت اسلامی اور قومی روایات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی جس کو افغانستان کی ساری اقوام نے سراہا۔
طالبان کے آخری مورچے بھی پشتون علاقے میں تھے۔ ان کو امریکی حملے کے دوران بہت بڑا مالی اور جانی نقصان ہوا۔ اس علاقے میں پنج شیروں کے خلاف نہایت شدید نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں‘اس لیے کہ ان کی رائے میں امریکی اُن کی شہ پر آئے دن پشتون ولایتوں پر بم باری کرتے ہیں۔ پنج شیری تاجکوں کی سرپرستی امریکی حکومت کے ایک اہم منصوبے کاحصہ ہے۔ غالباً پیش نظر یہ ہے کہ پشتون آبادی کو اتنا مجبور اور پریشان کیا جائے کہ وہ خود تاجکوں سے علیحدگی کا مطالبہ کریں۔ ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ یہ افغانستان کوٹکڑوں میں بانٹنے (balkanization) کے پروگرام کا حصہ ہے۔ اس لیے کہ افغانستان کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے بعد ہی امریکہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ یہ بھی پیش نظر رہے کہ افغانستان کے ساتھ ملحقہ پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے میں پشتون آباد ہیں۔ ان کے افغانستان کے پشتونوں کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔ افغانستان میں کسی قسم کی سیاسی تبدیلی کی وجہ سے سرحدی صوبہ کے پشتون آبادی پر اثرات پڑ سکتے ہیں۔
امریکی عزائم: اس وقت امریکی افغانستان کے بست و کشاد کے مالک ہیں۔ حکومت کی ساری مشینری ان کے اشاروں پر چل رہی ہے۔ کرزئی کابینہ کے کئی وزیر اور مشیروہ افغانی افراد ہیں جو ۱۵‘ ۲۰ سال امریکہ میں شہری کی حیثیت سے رہ کر افغانستان میں اپنی ’’خدمات‘‘سرانجام دینے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ ان کے سامنے ملکی مسائل کے حل کے لیے کوئی واضح پروگرام نہیں ہے۔ یہ امریکی ایجنڈے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے آلۂ کار بن رہے ہیں۔ امریکہ کے نائب وزیر دفاع پال ولفووٹز نے کہا ہے کہ ’’امریکی افواج افغانستان میں ایک طویل عرصے تک رہیںگی‘‘۔ افغانستان پر امریکی حملے کے عزائم آہستہ آہستہ منظرعام پر آرہے ہیں۔ امریکی پٹرولیم کمپنی UNICOL نے وسط ایشیا کے تیل کے ذخائر کو استعمال میںلانے کے لیے جو منصوبہ تیار کیا تھا اُسے عملی جامہ پہنانے کے لیے ترکمانستان ‘ افغانستان اور پاکستان کے درمیان دولت آباد سے گوادر تک پائپ لائن بچھانے کے معاہدے پر دستخط ہو چکے ہیں۔ یہ بات بھی منظرعام پر آئی ہے کہ پس پردہ امریکہ کرزئی حکومت کو ایسے معاہدے پر مجبور کر رہا ہے جس کے نتیجے میں امریکی حملے اور ’’دہشت گردی کے خلاف کارروائی‘‘ کے سارے اخراجات افغانستان کو ادا کرنے ہوں گے۔
طالبان کی حکمت عملی : دوسری طرف‘ اس وقت امریکی فوج کے خلاف طالبان کی مزاحمت چھاپہ مار جنگ تک محدود ہے۔ اس قسم کی جنگ کے لیے ان کے پاس بے پناہ ہتھیار ہیں جن میں راکٹ میزائل‘ دستی بم اور روایتی ہتھیار شامل ہیں۔ روسیوں کے خلاف بھی جب مجاہدین مصروف جہاد تھے تو ان کے پاس کوئی بمبار طیارے یا ٹینک نہیں تھے وہ اسی قسم کے ہتھیاروں سے لڑتے تھے۔ طالبان نے ہر قسم کا اسلحہ مختلف مقامات پر محفوظ کر رکھا ہے۔ ان کو باہر سے کوئی امداد نہ بھی ملے تو وہ ایک طویل عرصے تک چھاپہ مار جنگ لڑ سکتے ہیں۔افغانستان کا پہاڑی علاقہ اس قسم کی جنگ کے لیے موزوں سرزمین ہے۔ مجاہدین اس کے چپے چپے سے واقف ہیں۔ انھیںاس علاقے میں روسی افواج کے خلاف ۱۰ سالہ جنگ کا تجربہ بھی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ملک کی موجودہ صورت حال جہاد کے لیے بہت سازگار ہے۔ ببرک کارمل اور نجیب اللہ کے دور حکومت میں پورے افغانستان پر ان کا تسلط تھا۔ روس کی ۶ لاکھ سے زائد فوج بم بار طیاروں اور ٹینکوں سمیت پورے ملک میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس وقت صورت حال بالکل مختلف ہے۔ پورے ملک میں افراتفری ہے۔ کرزئی کی حکومت صرف کابل تک اور امریکیوں کا اثرو رسوخ صرف چند ہوائی اڈوں تک محدود ہے۔ بے گناہ شہریوں پربم باری ‘افغان قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک اور عوام کے ساتھ غیر انسانی رویے کی وجہ سے ملک کی بیشتر آبادی امریکیوں کے خلاف ہے اور اُن کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
امریکی ہوائی اڈوں‘ چھائونیوں‘اسلحے کے گوداموں‘ اور فوجی قافلوں پر مجاہدین کے حملے روز مرہ کا معمول ہے جس کی وجہ سے ان کو بہت بھاری جانی اور مالی نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے۔ بڑی تعداد میں امریکی فوجی واصل جہنم ہوچکے ہیں اور بہت سارے قیدی مجاہدین کے زیرحراست ہیں۔
ابتدائی دنوں میں امریکی فوجی چھاپہ مار جنگ کے لیے مجاہدین کے مقابلے میں میدان میں اتر آئے تھے لیکن بھاری جانی نقصان کی وجہ سے وہ میدان سے بھاگ گئے۔ افغان فوج پر بھی اُن کا اعتماد جاتا رہا ہے۔ اس لیے کہ وہ بھی امریکی فوج کے لیے ہراول دستے کی خدمات میں مخلص نہیں ہیں۔ اب وہ چھاپہ ماروں کا مقابلہ ہوائی حملوں سے کر رہے ہیں جو غیر موثر اور بے سود ثابت ہو رہے ہیں۔ امریکی فوجی جو آرام و راحت اور عیش و عشرت کے عادی ہیں افغانستان میں اپنی ڈیوٹی کو عذاب سمجھتے ہیں اور’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ (war on terror) میں نیم دلی سے حصہ لے رہے ہیں‘ جب کہ مجاہدین کی نگاہ میں یہ کفر اوراسلام کا مقابلہ ہے اور وہ اس میں جان کی بازی لگا دینے کو شہادت سمجھتے ہیں۔ مجاہدین کاحوصلہ بلندہے۔ وہ پرعزم اور پراعتماد ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’امریکیوں کے خلاف جہاد اتنا ہی طویل ہو سکتا ہے جتنا روسیوں کے خلاف تھا۔ اور جیسے روسیوں کو افغانستان میں شکست ہوئی ‘ پورا کمیونزم نظام دھڑام سے گرگیا‘ اسی طرح امریکیوں کو بھی یہیں پر ذلت آمیز شکست ہوگی اور یہیں پرسرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہوگا‘‘۔
بیسویں صدی میں اسلامی احیا کی تحریک نے مشرق اور مغرب کے ہر ملک میں زندگی اور بیداری کی نئی لہر دوڑا دی ہے۔ ہر ملک اور ہر علاقے کی اپنی اپنی خصوصیات اور اپنے اپنے تجربات ہیں لیکن ترکی اور ملایشیا دو ایسے ملک ہیں جہاں تجدید و احیا کی تحریک نے ایمان کو تازہ اور دلوں کو گرما دیا ہے۔
ملایشیا کی اسلامی تحریک کے قائدین سے میرے تعلقات کا آغاز اس وقت ہوا جب میں اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم اعلیٰ تھا اور ملایشیا ابھی برطانوی سامراج کی ایک کالونی اور صرف ملایا (Malaya)تھا۔ الاستاذ ابوبکر اس وقت اسلامی پارٹی کے سربراہ تھے اور ان موتمرات میں شریک ہوئے تھے جو قیام پاکستان کے فوراً بعد کراچی میں منعقد ہو رہی تھیں۔ ربط و تعلق کا یہ سلسلہ ۱۹۷۳ء سے بہت گہرا ہو گیا جب طلبہ انجمنوں کے عالمی اسلامی وفاق (IIFSO) اور مسلم نوجوانوں کی عالمی اسمبلی (WAMY) میں ملایشیا کے نوجوان قائد انور ابراہیم نے نمایاں کردار ادا کرناشروع کیا۔ انور اس وقت وہاں کی نوجوانوں کی تنظیم آبیم (ABIM) کے صدر اور ملایشیا کے افق پر ایک اُبھرنے والے سورج کی مانند تھے۔ ۱۹۷۳ء ہی میں مجھے پہلی مرتبہ ملایشیا جانے اور ان کی پوری ٹیم سے ملنے کا موقع ملا۔ جن حضرات نے پہلی ہی ملاقات میں متاثر کیا ان میں فاضل نور بھی تھے جو اس وقت آبیم کے نائب صدر تھے۔ پھر اس کے صدر بنے۔ ملایشیا کی اسلامی تنظیم اور ایک اہم سیاسی قوت پاس (Parti Islamic Malaysia) کے نائب صدر‘ رکن پارلیمنٹ‘ صدر اوربالآخر پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف منتخب ہوئے اور ۶۵ سال کی عمر میں ۳۲ سال کی سرگرم تحریکی اورسیاسی جدوجہد کے بعد ۲۳ جون ۲۰۰۲ء کو اپنے خالق سے جا ملے اور لاکھوں انسانوں کو سوگوار چھوڑ گئے--- انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!
الاستاذ فاضل نور ۱۳ مارچ ۱۹۳۷ء کو ملایشیا کی ریاست کیداہ (Kedah) کے ایک مضافاتی علاقے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر ہی پر ہوئی۔ ان کے دادا توان گرو حاجی ادریس الجرمانی ملک کے نام ور علما میں سے تھے۔ انھوں نے اپنے پوتے کی تعلیم و تربیت پرخصوصی توجہ دی۔ ابتدائی تعلیم سرکاری مدرسے میں حاصل کرنے کے بعد ایک دینی مدرسہ مکتب محمود میں دینی تعلیم حاصل کی اور پھر ۱۹۶۳ء سے ۱۹۶۹ء تک جامع الازھر قاہرہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ واپسی پرکچھ عرصے مکتب محمود ہی میں تدریس کے فرائض انجام دے کر ملک کی مشہور ٹیکنیکل یونی ورسٹی (یو ٹی ایم) میں اسلامیات کے پروفیسر مقرر ہوئے جہاں ۱۹۷۸ء تک‘ جب ان کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے ملازمت سے فارغ کر دیا گیا‘یہ خدمات انجام دیتے رہے۔ فاضل نور نے عدالتی چارہ جوئی کی۔ گو کامیاب رہے لیکن پھر یونی ورسٹی کی ملازمت کو خیرباد کہہ کر ہمہ وقت سیاسی اور تحریکی زندگی میں سرگرم ہو گئے۔ ۱۹۸۰ء میں پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۸۹ء میں پاس کے صدر منتخب ہوگئے اور ۱۹۹۹ء میں ان کی قیادت میں پاس کی غیر معمولی کامیابیوں کے بعد جب قومی اسمبلی میں ان کو ۲۷ نشستیںحاصل ہوئیں تو ملک کی پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف مقرر ہوئے اور ملایشیا کے متوقع وزیراعظم کی حیثیت اختیار کرلی۔ فاضل نور کو دینی اورسیاسی ہرحلقے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور ان کو ایک اصول پسند‘ محنتی‘ بالغ نظر اور معتدل سیاسی لیڈر کی حیثیت حاصل تھی۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ ان کے جنازے کے جلوس سے ہوتا تھا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی‘ بار بار نماز جنازہ ادا کرنی پڑی۔ کوالالمپور سے ان کے جسم کو کیداہ میں ان کے آبائی گائوں میں سپرد خاک کیا گیا۔ مبصرین کی گواہی ہے کہ ملایشیا کی حالیہ تاریخ میں جنازے میں عوامی شرکت کی ایسی مثال نہیں ملتی ع
ہے رشک ایک خلق کو جوہر کی موت پر
امام احمد بن حنبل ؒ نے اپنے ابتلا کے دور کے بعد برسراقتدار برخود غلط حکمرانوں کو خطاب کر کے کہا تھا کہ ہمارے اور تمھارے درمیان فیصلہ موت کے وقت ہوگا (بینی وبینکم یوم الجنائز)۔ اس تاریخی جملے کے دونوں پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ اصل فیصلہ موت کے بعد اللہ کے حضور اور اس کے رد و قبول سے ہوگا لیکن ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خدا کے فیصلے سے پہلے خود خلق موت پر کیسا خراج پیش کرتی ہے۔ فاضل نور کا جنازہ خلق کی طرف سے عقیدت‘ محبت اور قبولیت کابے مثال مظاہرہ تھا۔
الاستاذ فاضل نور قدیم اور جدید دونوں علوم کا مرقع تھے۔ عربی اور انگریزی دونوں پر قدرت رکھتے تھے۔ گو اپنے رفقاے کار الاستاذ عبدالہادی اوانگ (پاس کے نائب صدر ‘ ریاست ترنگانو کے وزیراعلیٰ اور اب فاضل نور کی جگہ پاس کے صدر) اور الاستاذ نک عزیز (ریاست کلنتان کے وزیراعلیٰ) کی طرح شعلہ بیاں مقرر نہ تھے مگر اپنے خیالات کا اظہار بڑی روانی سے نہایت ٹھنڈے انداز میں اور دلیل کی قوت سے کرتے تھے اور اپنے مخاطبین کو قائل کرنے کا ملکہ رکھتے تھے۔ انھوں نے بڑے نازک موقع پر نوجوانوں کی تحریک آبیم کی قیادت سنبھالی۔ یہ وہ وقت تھا جب انور ابراہیم نے مہاتیر محمد کی دعوت پر اومنو (Umno) میں شرکت کرلی اور ملایشیا کی اسلامی تحریک ایک اندرونی چیلنج سے دوچار ہوگئی۔ فاضل نور اس وقت آبیم کے نائب صدر تھے اور انور ابراہیم کے دست راست سمجھے جاتے تھے لیکن آبیم کا صدر منتخب ہوکر انھوں نے بڑی حکمت اور توازن سے معاملات کوسلجھایا اور انور کے مخالف اور حامی دونوں حلقوں میں نہ صرف اپنی ساکھ قائم کی بلکہ تحریک کو انتشار اور تقسیم سے بچا لیا۔ جب آبیم سے فارغ ہوئے تو سیدھے پاس میں شریک ہوئے اور اس کے نائب صدر اوربالآخر صدر منتخب ہوئے۔ آبیم اور پاس کو ایک دوسرے سے قریب رکھا اور انور ابراہیم جس حکمت عملی پر کاربند تھے اس کی راہ میں بھی کوئی رکاوٹ نہ بنے‘ گو اپنے اصولی موقف پر قائم رہے اور پاس کو ایک آزاد اور متبادل سیاسی قوت کی حیثیت سے مضبوط سے مضبوط تر کرتے رہے۔
خود پاس میں ۱۹۸۰ء کے عشرے میں بڑی اندرونی کش مکش تھی۔ داتو موسیٰ عصری کے دور میں پاس پر ایک طرف ملائی قومیت اور تشخص کا غلبہ رہا تو دوسری طرف برسرِاقتدار جماعت اومنو سے اشتراک اقتدارکا تجربہ (۷۹-۱۹۷۸ء) ہوا جو خاصا متنازع رہا۔ تجربہ کامیاب نہ ہو سکا اور پھر پاس میں قیادت آہستہ آہستہ علما کے گروہ کوحاصل ہوئی جس میں الاستاذ عبدالہادی اوانگ اور ان کے رفقا کا بڑا کردار تھا۔ فاضل نور اسی مکتب فکر سے وابستہ تھے۔ بالآخر پارٹی کی قیادت پھر علما کوحاصل ہوئی۔ الاستاذ یوسف روا صدر بنے اور فاضل نور نائب صدر۔ یہ قیادت مسلسل محنت اور دعوت اور خدمت کے ذریعے پاس کو سیاست کے قومی دھارے میں لانے میں کامیاب ہوئی۔ پہلے کلنتان کی ریاست میں کامیابی حاصل ہوئی اور پھر ترنگانو میں‘اور ۱۹۹۹ء میں مرکزی پارلیمنٹ میں ۲۰فی صد نشستیں جیت کر پاس اصل حزب اختلاف بنی۔ چونکہ یہ انتخاب متبادل فرنٹ کے نام پر لڑا گیا تھا اس لیے سب کو ساتھ لے کر چلے اور فاضل نور قائد حزب اختلاف منتخب ہوئے۔
الاستاذ فاضل نور کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ۳۰ سال کے دوران ان سے درجنوں ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ علمی‘ انتظامی‘ سیاسی‘ اختلافی غرض ہر طرح کے امور پر دل کھول کر بات چیت کے مواقع ملے ہیں۔ میں نے ان کو ایک سلجھا ہوا انسان پایا۔ علمی حیثیت سے باوقار‘ سیاسی اعتبار سے متوازن اور صلح جو‘ اصول کے معاملے میں جری اور ثابت قدم لیکن سیاسی اورشخصی دونوں میدانوں میں ٹھنڈے اور معتدل۔ دوسرے کے نقطۂ نظر کوسننے‘ سمجھنے اور اس کا احترام کرنے والے اور تصادم کے مقابلے میں تعاون اور اختلاف کے باوجود متفق علیہ معاملات میں اشتراک کی روش اختیار کرنے والے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس نے تصادم سے بھرپور سیاسی فضا میں ان کو تعاون اور قدر مشترک کے متلاشی قائد کا مقام دیا۔ وہ جوڑنے والے تھے‘ کاٹنے والے نہیں‘ سعدی کے انسان مطلوب کا ایک عملی نمونہ:
تو براے وصل کردن آمدی
نے براے فصل کردن آمدی
انورابراہیم کے اومنو میں جانے اور پھر مہاتیر محمد کے غضب اور انتقام کا نشانہ بن کر طوق وسلاسل کے اسیر بننے کے دونوں ادوار میں فاضل نور نے بڑی حکمت‘ معاملہ فہمی‘ توازن و اعتدال‘ حقیقت پسندی‘ اصولوں سے وفاداری مگر شخصی معاملات میں احترام اور تعلق خاطرکے اہتمام کی بڑی اعلیٰ اور روشن مثال نہ صرف یہ کہ قائم کی بلکہ پوری تحریک اور دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی اس راہ پر لانے اور قائم رہنے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ یہ ان کا خلوص اور قائدانہ صلاحیت ہی تھی جس نے ملایشیا کی اسلامی تحریک اور پوری قوم کو انصاف اور اعتدال کے راستے پر رکھا۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ ’’انصاف سب کے ساتھ ضروری ہے‘ سیاسی اتفاق اور اختلاف کو انصاف کے تقاضوں کو متاثر کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘‘۔
الاستاذ فاضل نور کی خدمات بے شمار ہیں لیکن یہ ان کا منفرد کارنامہ ہے کہ پاس میںعلما کی قیادت کے غلبے کے باوجود انھوں نے تحریک کو قدیم و جدید کی جنگ سے بچا لیا اورسب کو ساتھ لے کرچلے اور جماعت میں وحدت ‘ یک رنگی اور اعتماد باہمی کی فضا پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے۔
ملایشیا کی سیاست میں ایک نازک مسئلہ ملائی شناخت (Malay Identity) کا ہے۔ ایک کروڑ ۱۰لاکھ کی آبادی کے اس ملک میں ملائی شناخت کے لوگ بمشکل ۵۴ فی صد ہیں۔ چینی شناخت کے لوگوں کی تعداد ۳۰‘ ۳۵ فی صد ہے اور باقی کا تعلق ہندستان سے آنے والوں سے ہے جن میں ۹۰ فی صد ہندو یا سکھ ہیں۔ اس طرح تین بڑی قومیتیں اور پانچ بڑے مذہب اسلام‘ عیسائیت‘ چین کا روایتی مذہب‘ ہندومت اور سکھ ازم یہاں پائے جاتے ہیں۔
ملائی شناخت والے لوگ ۱۰۰ فی صد مسلمان ہیں اور شروع میں پاس کی شناخت صرف ملائی تھی۔ پھر اس کا ہدف اسلام کا اجتماعی نظام ہے۔ اس بنا پر قومی شناخت کا مسئلہ خاصا پیچیدہ ہو گیا تھا۔ الاستاذ یوسف روا اور پھر خاص کر الاستاذ فاضل محمد نور کے دور میں پاس اسلامی شناخت اور ملائی آبادی سے انصاف کے ساتھ باقی قومیتوں سے بھی قریب آئی ہے اور ایک قومی سیاسی قوت بن کر اُبھری ہے۔ آج بھی شریعت سے وفاداری ‘ اسلامی نظام کا قیام اور باقی تمام قومیتوں سے انصاف اور ان کے ساتھ شرکت اقتدار کے نازک ہدف کو حاصل کرنے کے لیے پاس سرگرم عمل ہے۔ جن دوریاستوں میں اسے حکمرانی کا اختیار حاصل ہے ان میں اس نے سب کو ساتھ لے کر چلنے اور اپنے اصولوں پر قائم رہنے کی بڑی روشن مثال قائم کی ہے۔ یہ فاضل نورکا وہ کارنامہ ہے جو ملایشیا کے مستقبل کی صورت گری کے لیے ایک تاریخی عمل کی حیثیت سے جاری و ساری رہے گا اور صرف پاس اور ملایشیا ہی نہیں‘ پوری اسلامی دنیا کے لیے ایک اچھا نمونہ بنے گا۔ میں تحدیث نعمت کے طور پر یہ ذکر کر رہا ہوں کہ خود مجھے‘ الاستاذ یوسف قرضاوی‘ الاستاذ راشد غنوشی اور دوسرے ساتھیوں کو اس حکمت عملی کے دروبست سنوارنے میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی ہے اور یہ سب الاستاذ فاضل نور‘ الاستاذ عبدالہادی اوانگ‘ مصطفی علی اور نصرالدین جیسے ساتھیوں کی بالغ نظری اور معاملہ فہمی کی وجہ سے ممکن ہوا۔ ذٰلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء۔
الاستاذ فاضل نور صرف ملایشیا ہی نہیں پوری اُمت مسلمہ اور انسانیت کے خادم تھے۔ فلسطین‘ کشمیر‘ بوسنیا‘ شیشان‘ کوسووا‘ منڈانو‘ پٹانی غرض جہاںبھی مسلمان آزادی‘ حقوق اور اسلامی اقدارکے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں اس میں استاذ فاضل نور کا وزن ہمیشہ اُمت کے پلڑے میں رہا اور اُمت کے ہر غم میں وہ برابر کے شریک رہے۔ افغانستان پر امریکہ کی بم باری ‘فلسطین میں اسرائیلی مظالم اور کشمیر میں بھارت کی مسلم کُشی کو وہ انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیتے تھے اور امریکہ کے حالیہ عالمی کردار پرسخت گرفت کرنے والوں میں سے تھے۔
یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ جون ۲۰۰۲ء کے دوسرے ہفتے میں لسٹر میں اسلامک فائونڈیشن کی ایک کانفرنس میں عالم اسلام کے چند بہی خواہ ایک اہم علمی اجتماع میں شریک تھے جس میں ملایشیا سے محترم مصطفی کمال اورنصرالدین (پاسکے بین الاقوامی امور کے سربراہ اورسیکرٹری جنرل و ارکان پارلیمنٹ) شریک تھے۔ اس اجتماع کے بعد ہم سب کو ہالینڈ ایک دوسرے اجتماع میں جانا تھا کہ یہ خبر آئی کہ الاستاذ فاضل نور کے دل کا آپریشن ہواہے جو پوری طرح کامیاب نہیں رہا۔ مصطفی علی اور نصرالدین فوراً کوالالمپور کے لیے روانہ ہو گئے اور میں روزانہ ان سے جناب فاضل نور کی خیریت معلوم کرتا رہا۔ دو ہفتے زندگی اور موت کی کش مکش میں رہنے کے بعد ملایشیا کی اسلامی تحریک کا یہ سربراہ اور ہمارا عزیز دوست اور بھائی‘ الاستاذ فاضل نور ۲۳ جون ۲۰۰۲ء کو اس جہان فانی سے ابدی زندگی کی طرف لوٹ گیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں اور خدمات کو قبول فرمائے‘ ان کی بشری کمزوریوں اور لغزشوں کو معاف فرمائے‘ ان کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور جنت کے اعلیٰ مقامات سے نوازے ‘اوراُمت کو ان جیسے خادمانِ دین سے نوازے جوحلقہ یاراں میں رحماء بینھم اور معرکہ حق و باطل میں فولاد کا کردار ادا کریں۔ آمین!
میرے لیے ان کی وفات ایک ذاتی سانحہ ہے اورپوری اُمت مسلمہ کے لیے ایک عظیم خسارہ۔
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!
عالم اسلام کی ایک عظیم شخصیت ‘ ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ(WAMY) ‘ ریاض کے سیکرٹری جنرل اور مملکت سعودی عرب کی مجلس شوریٰ کے ممبر ڈاکٹر مانع بن حماد الجہنیؒ ۴ اگست ۲۰۰۲ء بروز اتوار صبح ساڑھے سات بجے ریاض ایئرپورٹ جاتے ہوئے کارکے حادثے میں انتقال کر گئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون--- ان کی موت عالم اسلام کا ایک عظیم خسارہ ہے۔ ان کے اُٹھ جانے سے ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جو فوری طور پر پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ اس خلا کو پُرکرنے کا ساماں فرمائے۔
شیخ مانع الجہنیؒ ۱۹۴۳ء میں حجاز میں پیدا ہوئے۔ ابتدا میںانھوں نے الیکٹرونک انجینیرنگ میں کئی ٹیکنیکل سرٹیفیکیٹس حاصل کیے۔ پھر طائف اسکول میں شام کی کلاسوں میں داخلہ لیا اور وہاں سے سیکنڈری اسکول کا امتحان پاس کیا اور پورے ملک میں اول آئے۔ ۱۹۷۲ء میں ریاض یونی ورسٹی سے انگریزی زبان و ادب میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۷۶ء میں انڈیانا یونی ورسٹی‘ امریکہ سے ایم اے (انگریزی) کا امتحان پاس کیا اور ۱۹۸۲ء میں وہیں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۸۲ء سے ۱۹۹۳ء تک کنگ سعود یونی ورسٹی ریاض کے شعبہ انگریزی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پرفائز رہے۔ ۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۵ء تک اسی شعبے میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر کام کیا۔
ڈاکٹر مانع کو ابتدا ہی سے طلبہ کے معاملات سے دل چسپی رہی اور وہ متعدد طلبہ اور نوجوانوں کی تنظیموں کے ممبر اور صدررہے۔ ۱۹۸۳ء سے ۱۹۸۶ء تک وہ ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل رہے۔ ۱۹۸۷ء سے اس کے سیکرٹری جنرل تھے۔ ۱۹۹۷ء میں وہ سعودی عرب کی مجلس شوریٰ کے ممبر بنائے گئے۔ انتقال کے وقت تک وہ ان دونوں عہدوں پر فائز تھے۔
ڈاکٹرمانع نے بحیثیت سیکرٹری جنرل ’وامی‘ کے کاموں کو بڑی وسعت دی۔ ملک اور بیرون ملک میں اس کے متعدد علاقائی دفاتر قائم کیے۔ مسلم طلبہ اور نوجوانوں کو اسلامی دعوت اور خدمت خلق کے کام میں متحرک کرنے کے لیے متعدد بار پوری دنیا کے دورے کیے۔ متعدد اسلامی تنظیموں نے ’وامی‘ کی ممبرشپ اختیار کی‘ جن میں طلبہ اور نوجوانوں کی تنظیمیں خاص ہیں۔ اس سے وابستہ تنظیموں کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے۔ باضابطہ ممبر تنظیموں کی تعداد ۴۵۵ ہے۔
ڈاکٹر مانع کو اُمت مسلمہ کے مسائل سے خصوصی دل چسپی رہی۔ مسلمان جہاں کہیں اقلیت میں ہیں ان کے معاملات میں وہ گہری دلچسپی لیتے رہے۔ چنانچہ ’وامی‘ کی چھٹی عالمی کانفرنس ’’الاقلیات المسلمہ‘‘ کے موضوع پر ریاض میں ہوئی تھی جس میں مسلمانوں کے تعلیمی‘ اقتصادی‘ ثقافتی اور تہذیبی مسائل زیربحث آئے۔ مسلم اقلیت پر مظالم کو دیکھ کر ان کا دل بے چین ہو جاتا تھا۔ بوسنیا‘ چیچنیا‘ کوسووا‘ برما‘ کشمیر اور افغانستان اور جہاں کہیں مسلمانوں پر مصیبت آئی ڈاکٹر مانع نے بروقت اس کی طرف مسلم دنیا کی توجہ مبذول کرائی اور فوراً ایک کمیٹی تشکیل دے کر ریلیف کا کام شروع کروایا۔ عالم اسلام کے خلاف جب بھی کوئی سازش ہوئی‘ اس کو بے نقاب کرنے میں سب سے پہلا بیان ڈاکٹر مانع ہی کا ہوا کرتا تھا۔ وہ نہایت جرأت مندقائد تھے اور حق بات کہنے میں ذرا بھی پس و پیش نہیں کرتے تھے۔
اقوام متحدہ کی طرف سے جب بھی ایسی عالمی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں اسلامی تہذیب و روایات کے خلاف تجاویز پاس کی گئیں تو اس کی مخالفت میں سب سے پہلی اور سب سے مؤثر آواز ڈاکٹر مانع ہی کی بلند ہوتی۔ عالم گیریت اور ’’نیا عالمی نظام‘‘ کے تحت اسلام اور اسلامی تہذیب کے خلاف کچھ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تو اسلام کی مدافعت کے لیے سب سے پہلے وہی سامنے آئے۔ ڈاکٹر مانع کی سب سے نمایاں خوبی یہ تھی کہ وہ عالم اسلام کے حالات سے باخبر رہتے تھے اور بوقت ضرورت فوراً مؤثر کارروائی شروع کردیتے تھے۔ اگرچہ وہ بنیادی طور پر انگریزی ادب کے اسکالر تھے لیکن تنظیمی امور میں ان کو خاص مہارت حاصل تھی۔ وہ تقسیم کار کے سائنٹیفک اصول پر عمل کرتے تھے۔ تمام اہم شعبوں کی نگرانی کے لیے انھوں نے الگ الگ کمیٹی بنا دی تھی اور وہ صرف اس کی سرپرستی کرتے تھے۔ ان کی نگاہ بہت ہی دُور رس تھی۔ ان ممالک میں جہاں مسلمان اکثر ناخواندہ ہیں اور غربت و افلاس کا شکار ہیں‘ عیسائی مشنریاں میڈیکل ریلیف کے نام پر مسلمانوں کو نصرانی بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر مانع نے مسلم ڈاکٹروں کی کمیٹی بنائی تاکہ اس میدان میں وہ ریلیف پہنچائیں اور اپنا داعیانہ کردار ادا کریں۔ عالم اسلام کو جن سنگین حالات کا سامنا ہے وہ نہ صرف ان کو خوب سمجھتے تھے بلکہ مسلم دنیا اور بالخصوص مسلم نوجوانوں کو ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار بھی کرنا چاہتے تھے۔ ’وامی‘ کی آٹھویں بین الاقوامی کانفرنس کا موضوع بھی یہی تھا۔ عالم گیریت کے نام پر عالم اسلام کو جن نئے خطرات کا سامنا ہے ان سے نبردآزماہونے کے لیے ’وامی‘ کی نویں عالمی کانفرنس کا انعقاد اسی موضوع پر اکتوبر میں ہونا طے پایا ہے۔
فلسطین کے مسئلے سے ان کو خاص دل چسپی تھی۔ القدس کے لیے وہ برابر آواز بلند کرتے رہے اور علمی‘ فکری اور عملی سطح پر ہر ممکن تعاون اہل انتفاضہ سے کرتے رہے۔ مجلہ المستقبل الاسلامی میں ان کے بیانات اور مضامین اس کی شہادت دیتے ہیں۔ یہی معاملہ کشمیر کے مسلمانوں کی جنگ آزادی سے تھا۔ اس سلسلے میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ہندستانی مسلمانوں کے مسائل سے بھی وہ غافل نہیں رہے۔ موجودہ حکومت نے جب درسی کتابوں میں تاریخی حقائق کا چہرہ مسخ کرنا شروع کیا تو ڈاکٹر مانع نے اس کا سخت نوٹس لیا اور حکومت ہند کو اس علمی بددیانتی کی طرف توجہ دلائی۔ ہندستان اور جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے مسائل میں ان کی غیر معمولی دلچسپی ہی تھی کہ انھوں نے حالات ناسازگار ہوتے ہوئے بھی ’وامی‘ کا علاقائی دفتر دہلی میں قائم کیا۔
ڈاکٹر مانع کا معمول تھا کہ وہ ریڈیو اور ٹی وی کے علاوہ تقریباً تمام عربی اور انگریزی روزناموں پر ایک طائرانہ نظر ضرور ڈالتے تھے۔ ان خبروں کوخاص طور پر پڑھتے تھے جو ’وامی‘ کے شعبہ بیرونی تعلقات اور انفارمیشن سیکرٹری یا کسی شعبے کے سیکرٹری نشان زد کر کے ان کے پاس بھیجتے تھے۔ ان کے پاس دفتری امور سے متعلق جتنے معاملات اور کاغذات پہنچتے تھے وہ روزانہ ان کو نپٹا دیا کرتے تھے خواہ اس کے لیے ان کو رات کے ۱۲ بجے تک رکنا پڑے یا دوپہر کا کھانا عصر کے وقت کھانا پڑے۔
کتب بینی ان کا خاص مشغلہ تھا۔ ریسرچ میگزین اور کتابوں سے ان کی دل چسپی حد سے بڑھی ہوئی تھی۔ ان کے ذاتی کتب خانے میں ۱۵ ہزار سے زائد کتابیں ہوں گی ۔ جن کتابوں کی راقم الحروف نے ترتیب و درجہ بندی کرکے ان کی فہرست کمپیوٹر کی مدد سے تیار کی تھی ان کی تعداد ۱۱ ہزار ۳ سو ۵۵ ہے۔ گذشتہ پانچ برسوں میں ان میں جو اضافہ ہوا وہ ان کے علاوہ ہے۔ سال میں ۲۵‘ ۳۰ مرتبہ بیرون ملک کا دورہ ہوتا تھا اور ہر دورے سے واپسی کے وقت ان کے ساتھ دو تین کارٹن کتابوں کے ضرورہوا کرتے تھے۔ کتابیں پڑھنے اور جمع کرنے کا شوق ’’عشق‘‘ کی حد تک پہنچا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حافظہ بھی نہایت عمدہ دیا تھا اور بفضلہ تعالیٰ ذہنی وفکری سطح بھی نہایت بلند تھی۔ کئی کتابوں کا انھوں نے ترجمہ کیا اور متعدد مضامین اور کتابیں خود بھی لکھیں۔ سیمی نار اور کانفرنس کے مقالات اور ریڈیائی خطبات کی تعداد سیکڑوں میں ہو گی۔ یہ سب چیزیں’وامی‘ کی آرکائیو میں محفوظ ہیں۔ ان کی تین کتابوں کا اُردو میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ ۱- اسلامی بیداری مستقبل کے تناظر میں (ترجمہ: مظہر سیدعالم)‘ ۲- اسلام اور امن عالم ‘۳- تضامن اسلامی اور مملکت سعودی عرب (ترجمہ: ڈاکٹر محمد سمیع اختر)۔
وہ نہایت خوش مزاج اور خوش اخلاق انسان تھے‘ عربوں کی مہمان نوازی اور خوش اخلاقی اور اسلامی روایات کے وہ امین تھے۔ راقم الحروف کو بارہا ان کے گھر پر ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ چائے کی ٹرے خود اُٹھا کرلاتے اور خود سے چائے بنا کر پیش کرتے۔ پیالی خالی بھی نہیں ہو پاتی تھی کہ دوسری بنا دیتے۔ یہ خوش اخلاقی ان کے سبھی بچوں اور تمام اہل خانہ میں پائی جاتی ہے۔
کفایت شعاری‘ سادگی‘ تواضع اور خاکساری ان کے مزاج کا خاصہ تھیں۔ ایک بار ’وامی‘ کی مسجد میں رحل بے ترتیب رکھے ہوئے تھے۔ کئی لوگ اس وقت مسجد میں موجود تھے جن سے وہ ان کو ترتیب سے رکھنے کے لیے کہہ سکتے تھے لیکن انھوں نے کسی کو حکم دینے کے بجائے خود ہی یہ کام انجام دیا۔ اور ایسا اکثر کرتے تھے کہ کسی کام کا دوسروں کو حکم دینے کے بجائے خود ہی آگے بڑھ کر ‘ کر ڈالتے۔ ایک مرتبہ جب شروع شروع میں لائبریری کی کتابوں کی ترتیب کا کام چل ہی رہا تھا‘ وہ تشریف لائے‘ ایک شیلف میں کتابیں ابھی بے ترتیب رکھی تھیں‘ خود کھڑے کھڑے ترتیب دی اور بغیر کچھ کہے چلے گئے۔ اسٹیشنری کے استعمال میں عام طور پر اہل عرب فضول خرچی کرتے ہیں اور اوراق برباد کرتے ہیں لیکن ڈاکٹر مانع کو میں نے اس معاملے میں بڑا محتاط پایا۔ وہ ایک ورق کاغذ بھی برباد نہیں کرتے تھے۔ ٹیوب لائٹ بلاوجہ جلتی ہوئی دیکھتے توخود بجھا دیتے۔ جب تک دل کا آپریشن نہیں ہوا تھا مزدوروں اور کارکنوں کے ساتھ بھاری بوجھ اٹھانے میں ان کا ہاتھ بٹاتے تھے۔
خاکسار کا معمول ہے کہ کہیں کوئی اخبار کا ٹکڑا جس پر اللہ کا نام یا قرآنی آیت کے ہونے کا امکان ہو‘ اسے بڑی حفاظت سے اُٹھا کر کبھی اپنی جیب میں یا پھر ایسی اُونچی جگہ رکھ دیتا ہے جہاں وہ محفوظ رہے۔ ایک بار جب میں ان کی ذاتی لائبریری کو ترتیب دے رہا تھا تو انھوں نے مجھ سے فرمایا کہ جو کتابیں مکرر (duplicate) ہیں ان کو ایک جگہ الگ کر دوں۔ میں نے مکرر کتابوں کو ایک جگہ ٹیبل پر رکھنا شروع کیا۔ قرآن پاک کے کچھ نسخے بھی مکررتھے جو معمولی کاغذ پر چھپے ہوئے خستہ حال تھے۔ میں نے ان نسخوں کوبھی ان مکررات کے ساتھ رکھ دیا۔ میں بھول گیا کہ یہ عام کتاب نہیں ہے بلکہ قرآن مجید ہے۔ ڈاکٹر مانع آئے تو قرآن پاک کے ان نسخوں کو وہاں سے اُٹھا کر الماری میں سب سے اُونچے شیلف میں سجا دیا۔ زندگی میںپہلی بار اپنے قد کے چھوٹے ہونے کا احساس شدت سے ہوا۔
راقم الحروف نے ان کو خوش مزاج اور خوش اخلاق پایا۔ ’وامی‘ کے اسٹاف سے وہ دوستانہ ماحول میںنہایت نرم لہجے میں گفتگو کرتے تھے۔ طبیعت میں مزاح کا پہلو بھی تھا۔ ایک بار کتابوں کو ترتیب دیتے وقت ایک کتاب میں سونے کی ایک چوڑی ملی۔ میں نے اس کو میز پر رکھ دیا۔ دیکھا تو فرمایا کہ ’’محمود‘ یہ تمھاری تو نہیں ہے؟‘‘
جب بھی سفر پر جاتے میں ان کی خیر و عافیت سے واپسی کے لیے دعائیں کرتا‘ یہاں تک کہ وہ لوٹ آتے۔ ’’اے اللہ! ان کی ہر چیز میں برکت دے‘‘ یہ تو ان کے حق میں میری مستقل دعا تھی۔ انتقال کے دن بھی فجر کی نماز کے بعد ان کے حق میں یہی دعا کی تھی۔ خبر پرانی ہو گئی لیکن یقین نہیں آتا۔ دل کہتا ہے ایسے انسان کو مرنا نہیں چاہیے لیکن قدرت کا فیصلہ اٹل ہے۔ دل اُداس ہے‘ آنکھیں اشک بار ہیں لیکن زبان سے ہم وہی کہیںگے جس کی تعلیم حضور اقدسؐ نے دی ہے: انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!
امریکہ کے ممتاز تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کی طرف سے پینٹاگون کو دی جانے والی بریفنگ میں سعودی عرب کو امریکہ کے دشمن ملک کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور سفارش کی گئی ہے کہ اسے دہشت گردی کی پشت پناہی سے روکنے کے لیے الٹی میٹم دیا جائے۔ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ۱۰ جولائی ۲۰۰۲ء کو رینڈ کارپوریشن کے تجزیہ نگار لارینٹ موریوک نے ڈیفنس پالیسی بورڈ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا:’’ سعودی شہری دہشت گردی کے پورے سلسلے سے منسلک ہیں۔ منصوبہ سازوں سے لے کر مالی معاونت کرنے والوں ‘اعلیٰ تنظیمی عہدے داروں سے عام کارکن اور نظریہ سازوں سے جوش دلانے والے رہنماؤں تک سعودی عرب میں اس سلسلے کی ہر کڑی متحرک ہے --- سعودی عرب ہمارے دشمنوں کی مدد کرتا ہے اور ہمارے اتحادیوں پر ضرب لگاتا ہے --- سعودی عرب برائی کا منبع ہے‘ وہ سب سے بڑی متحرک قوت ہے اور مشرق وسطیٰ میں ہمارا سب سے زیادہ خطرناک دشمن ہے۔ رپورٹ میں امریکہ کو مشورہ دیا گیا ہے کہ اگر سعودی عرب امریکہ کے مطالبات پورے نہ کرے تو سعودی تیل کے چشموں اور بیرون ملک اس کے اثاثوں کو نشانہ بنایا جائے‘‘۔
کہا جاتا ہے کہ خلیجی جنگ کے بعد امریکہ اور سعودی عرب نے باہمی تعلقات کا ہنی مون منایا ہے اور ہنی مون ختم ہوکر ہی رہتا ہے چاہے وہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو ۔ ایک سعودی ڈپلومیٹ کا کہنا ہے کہ ہم نے امریکہ کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی بہت قیمت ادا کی ہے جب کہ اسرائیل ان کو تباہ کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کے لیے ماحول ساز گار ہو جائے ۔
ساڑھے چار ہزار امریکی فوجیوں کی سعودی عرب میں موجودگی --- مسئلہ فلسطین --- عراق کا مستقبل --- سعودی عرب کے ایران کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات--- یہ وہ امور ہیں جن پر سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان اختلاف رائے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ او ر اس سب کچھ پر مستزاد یہ کہ ۱۱ستمبرکے بعد سعودی عرب کو دہشت گردی کا اصل سرپرست قرار دیا جارہا ہے۔ سعودی عرب کے تعلیمی نظام کو دہشت گردی کی نرسری کہا جارہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عالمی تجارتی مرکز پر حملہ آور ۱۹افراد میں سے ۱۵سعودی شہری تھے اور سعودی عرب کے دہشت گرد ہونے کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے۔
۱۹۷۳ء کی عرب اسرائیل جنگ کے علاوہ تعلقات کی ۷۰ سالہ تاریخ میں دونوں ملکوں کے درمیان اتنی کشیدگی کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ خلیجی جنگ کے بعد امریکی حکام اور تجزیہ نگاروں کا یہ تاثر تھا کہ کٹھ پتلی کی طرح سعودی عرب وہی کرے گا جو امریکہ چاہے گا لیکن افغان جنگ نے حالات کو یکسرتبدیل کر دیا ہے ۔ ۱۱ ستمبر کے بعد امریکہ عرب دنیا کی صرف حمایت ہی نہیں چاہتا تھا بلکہ اس کے مطالبات کا دائرہ سعودی عرب کی سیاسی ‘ دینی اور نظریاتی بنیادوں تک بڑھ گیا ہے ۔ ۷۰ سال کے طویل عرصے پر محیط امریکی سعودی تعلقات میں آج جو شگاف دکھائی دے رہے ہیں ان کے اسباب میں سب سے اہم امریکی میڈیا ‘ یہودی لابی اور وہ حکومتی حلقے ہیں جو ان تعلقات کوحسد وبغض کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
نیویارک ٹائمزکی ‘ ۱۲ دسمبر ۲۰۰۱ء کی اشاعت میں تھا مسن فریڈ مین سعودی نظام تعلیم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھتا ہے:’’دینی مدارس اور دینی ادارے وہ مراکز ہیں جہاں سے دہشت گردوں کی قیادت اٹھتی ہے ۔اس لیے دہشت گردی کے ان چشموں کو خشک کرنا ہوگا۔ یہ نظام تعلیم یہودیوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت کو ہوا دیتا ہے اور ان کے خلاف لڑائی پر اکساتا ہے ۔ ‘‘
امریکی سینیٹ کی امور خارجہ کمیٹی کے سربراہ سینیٹر جوزف بیڈن ۲۴ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو کہتا ہے کہ:’’اب وقت آگیا ہے کہ سعودی عرب کو خبر دار کر دیا جائے کہ وہ دنیا میں متشدد دینی مدارس کی پشت پناہی چھوڑ دے کیونکہ سعودی جن مدارس کی سرپرستی کرتے ہیں ان میں امریکیوں کے خلاف نفرت کے جذبات کو فروغ دیا جا تا ہے ۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ سعودی عرب پر واضح کر دے کہ وہ ان سرگرمیوں سے باز رہے ورنہ اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا ۔‘‘
امریکی حکام اور اسلام دشمن صہیونی لابی نے سعودی عرب کے خلاف اس مہم میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ۱۱ دسمبر ۲۰۰۱ء کو امریکی یہودی تنظیموں کے رہنمائوں کے ساتھ ملاقات میں صدر جارج ڈبلیو بش نے سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ’’ سعودی عرب ایک غیر جمہوری ملک ہے‘ جب کہ اسرائیل اس خطے کا واحد جمہوری ملک ہے ۔ ایریل شیرون منتخب وزیر اعظم ہے اور سعودی قیادت غیر جمہوری ہے ‘‘۔
امریکی حکام اس بات کو بھی نہیں بھولے کہ سعودی عرب ہی نے طالبان کے نظام کو بنایا اور ۱۹۹۹ء کے آغاز سے ۲۰۰۰ء کے وسط تک پاکستان اور افغانستان کو یومیہ ڈیڑھ لاکھ بیرل تیل مفت فراہم کیا جس کی وجہ سے افغانستان خانہ جنگی کے زمانے میں مضبوط ہوا اور شاید تیل کی بعض مقدار کو بیچ کر طالبان کو مسلح کیا گیا ۔ مشہور سعودی علماے دین کے بیانات بھی اہم ہیں جیسا کہ شیخ حمود بن عقلہ الشعیبی نے طالبان کی واضح حمایت کی اور امریکہ کو کافر کہتے ہوئے یہودو نصاریٰ کے ساتھ تعاون کو حرام قرار دیا ۔
سعودیہ پر امریکہ کا ایک اور الزام یہ ہے کہ ۲۵ ہزار سے زائد سعودی باشندوں نے اسلام کی خاطر بوسنیا ‘ چیچنیا اور افغانستان کی جنگ میں حصہ لیا ۔ لندن میں مقیم ایک سعودی منحرف سعد الفقیہ کہتا ہے کہ ان میں سے اکثر نے وطن واپس آکر اسلامی جماعتوں کے لیے چندہ جمع کیا اور جنگجو تیار کیے ۔
سعودی حکومت نے علماے دین کی جہاد اور افغانیوں کی مدد کرنے کی اپیلوں کو مفتی سعودیہ کے رسمی بیانات کے ذریعے اپنے تئیں روکنے کی کوشش کی ۔ بعض علما اور مفتی سعودیہ نے غیر مسلموں کے قتل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اس بات کو فنانشل ٹائمز نے ۲۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء کی اشاعت میں ’’ سعودی حکام بمقابلہ جہادی اپیل ‘‘ کے عنوان سے لکھا ۔ ایک حیرت انگیز بات امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کی طرف سے یہ سامنے آئی ہے کہ سعودی آئمہ اور خطبا کے لیے ۵ ملین ڈالر کی رقم مختص کی گئی ہے تاکہ وہ اسلام کی ’’ صحیح تعریف‘‘ پیش کریں ۔ اور مسلمانوں کو ’’ صحیح تعلیم ‘‘ دیں ۔ اسرائیل ان عرب ممالک پر جن کے ساتھ اس کے معاہدے ہوئے ہیں دبائو ڈال رہا ہے کہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ان قرآنی آیات کی تلاوت نہ کی جائے جن میں یہودیوں کا تذکرہ ہے ۔ قرآن و حدیث جو کہ تمام اسلامی تعلیمات کا منبع و سرچشمہ ہیں ان کے بارے میں یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ یہ دہشت گردی پر اکساتے اور نفرت کو ہوا دیتے ہیں ۔ قرآن کی آیت یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآئَم بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍط وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْط (المائدہ ۵:۵۱) (اے لوگو جوایمان لائے ہو‘ یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بنائو‘ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تواس کا شمار بھی پھر انھی میںہے) کو دلیل بناتے ہوئے مذہبی پیشوا ہیرف کہتا ہے کہ ’’ اسلام تشدد کی دعوت دیتا ہے ‘‘ ۔
اسی دبائو کے نتیجے میں یہ بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ سعودی عرب اور بعض دیگر عرب ممالک میں نظام تعلیم کو تبدیل کرنے کے بارے میں نئے منصوبے بنائے جا رہے ہیں ۔ فرانسیسی خبررساں ایجنسی کی ۷ جنوری ۲۰۰۲ء کی رپورٹ کے مطابق سعودی وزیر مذہبی امور الشیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ نے بند اجلاس میں آئمہ اور خطبا کی اصلاح پر زور دیا ہے۔
سعودی ولی عہدشہزادہ عبداﷲ‘ جو ملک فہد کی بیماری کی وجہ سے سعودی عرب کے حقیقی فرمانروا ہیں ‘ نے سعودی عرب کے خلاف اس امریکی مہم کو اسلام کے خلاف بغض و حسد پر مبنی قرار دیا۔ سعودی عرب کا اپنے حلیف ملک امریکہ کے خلاف حالیہ موقف ۱۱ ستمبرکے واقعات کے بعد کی بات نہیں بلکہ اس کا آغاز ایریل شیرون کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہوگیا تھا ۔ یہ سخت موقف اس وقت واضح ہو کر سامنے آیا جب اگست ۲۰۰۱ء میں فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی وحشیانہ کارروائی پر امریکہ نے خاموشی اختیار کی۔شہزادہ عبداﷲ نے اسرائیل کی جانب داری پر امریکہ کو بار بار متنبہ کیا اور بالآخر اپنا مجوزہ دورہ امریکہ اور صدر بش سے ملاقات کا پروگرام منسوخ کر دیا ۔
سعودی ترجمان کے مطابق فلسطین کے خلاف وحشیانہ اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے سعودی اعلیٰ فوجی افسر نے اگست ۲۰۰۱ء میں اپنا وہ مجوزہ دورہ امریکہ منسوخ کر دیا جس میں دونوں ممالک کے مابین فوجی تعاون پر بات چیت ہونا تھی ۔ وال سٹریٹ جرنل ۲۹ اکتوبر ۲۰۰۱ء میں ‘سعودی پیغام ( ۲۷ اگست ۲۰۰۱ء) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’ سعودی عرب نے بش انتظامیہ کو متنبہ کرد یا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں واشنگٹن کی ناکامی سعودیہ کو امریکہ کے ساتھ تعلقات کے بارے میں نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دے گی ‘‘۔
۱۲ اگست ۲۰۰۱ء کو سعودی ولی عہد شہزادہ عبداﷲ نے امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی اندھی حمایت پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور سعودیہ دوراہے پر کھڑے ہیں اور امریکہ کو چاہیے کہ وہ اپنے مخلص دوستوں کا انتخاب کرے ‘‘۔ انھوں نے جارج ڈبلیو بش کو سخت لہجہ میں کہا: ’’ قوموں کی تاریخ میں ایک ایسا وقت آتا ہے جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہوجاتی ہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ اور سعودیہ اپنے اپنے مفادات دیکھیں ۔ وہ حکومتیں جو اپنی عوام کی نبض کو نہیں پہچانتیں اور ان کے ساتھ ہم آہنگی کا مظاہرہ نہیں کرتیں ان کا حشر وہ ہوگا جو شاہ ایران کا ہوا‘‘۔
شہزادہ عبداﷲ کا یہ پیغام ہر باشعور اور غیرت مند سعودی کے جذبات و احساسات کی ترجمانی ہے ۔ کوئی بھی سعودی شہری یہ نہیں چاہتا کہ امریکہ سعودیہ تعلقات امریکی بالادستی پر قائم ہوں اور یہ بھی نہیں چاہتا کہ یہ تعلقات دوستی سے دشمنی میں تبدیل ہو جائیں بلکہ اس کی خواہش ہے کہ امریکہ کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت وہی ہو جیسی دوسرے ممالک‘ یعنی جاپان ‘ جرمنی وغیرہ کے ساتھ ہے ۔ جس میں سعودی مفادات کو اولیت دی جائے لیکن امریکہ کا اسرائیل کے بارے میں موقف دوستی کے رشتے کو ختم کر رہا ہے۔ پھر۱۱ ستمبرکے بعد سیکڑوں سعودی باشندوں سمیت ۱۷ ہزار عرب اور غیر عرب مسلمانوں کی گرفتاری جیسے اقدامات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور ان میں سے ابھی بیسیوں سعودی شہری جیلوں میں ہیں ۔۶ ہزار عرب اور غیر عرب مسلمانوں پر امریکی امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کا الزام ہے اور ان کو زبردستی امریکہ سے نکالا جا رہا ہے۔ ہزاروں غیر مسلم تارکین وطن بھی امریکہ میں موجود ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی قابل ذکرکارروائی نہیں ہو رہی ۔
اگر سعودی عوام کا رد عمل دیکھا جائے تو ہرکس و ناکس ‘ مرد و زن ‘ اساتذہ و طلبہ حتیٰ کہ سیاستدان تک اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ امریکہ کا معاشی بائیکاٹ کیا جائے ۔ سعودی عوام چاہتے ہیںکہ ان کی حکومت ایسا موقف اختیار کرے جو عوامی جذبات کا ترجمان ہو اور سینوں کو ٹھنڈا کر دے ۔ سعودی عوام نے اپنے وزیر دفاع اور وزیرداخلہ کے ان بیانات کو بہت سراہا ہے کہ کسی عربی یا اسلامی ملک پر حملے کے لیے کسی ملک کو سعودی زمین استعمال کرنے کی اجازت ہرگز نہیںدی جائے گی‘ اور نہ کسی سعودی باشندے کو ہی امریکہ کے حوالے کیا جائے گا ۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سعودی عرب نے بڑی جدوجہد کے بعد امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایسے مقام پر پہنچا یا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے حلیف ہیں ۔ وہ یقینا ان کو خراب نہیں کرنا چاہے گا ۔
امریکہ بھی ان تعلقات کو کشیدہ نہیں دیکھنا چاہتا کہ اس کا مفاد بھی اسی میں ہے۔ امریکی انتظامیہ اور سعودی قیادت ذرائع ابلاغ پر کسی ایسے موقع کو ضائع نہیں کرتے جس میں اس بات پر زور نہ دیا جائے کہ سعودی امریکی باہمی تعلقات بہترین ہیں ۔ کم از کم میڈیا کی حد تک صدر جارج ڈبلیو بش اور سعودی ولی عہد امیر عبداﷲ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں ۔ امریکی ڈپلومیٹس سعودی عرب کا دورہ کرتے ہیں اور خوش گوارماحول میں سعودی حکام سے ملاقات کرتے ہیں لیکن حالات عملاً کیا رخ اختیار کرتے ہیں ؟ امریکہ کی طرف سے اسرائیلی سرپرستی میں کتنی کمی آتی ہے ؟ عراق پر حملے کے حوالے سے امریکہ کیا طے کرتا ہے‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکہ دہشت گردی کے نام پر سعودی حکومت ‘ سعودی عوام ‘ سعودی روایات اور مسلم دنیا کے خلاف کیا رویہ اختیار کرتا ہے ؟ انھی سوالوں کے معلوم جواب میں مجہول مستقبل کے خدوخال نظر آتے ہیں ۔
احمدرفاعی محمد ثانی‘ نائیجیریا کی ریاست زامفارا کے حکمران ہیں جو تاریخ میں اس حیثیت سے یاد رکھے جائیں گے کہ موجودہ دور میں نائیجیریا کی اس پہلی ریاست کے حکمران ہیں جس میں نفاذ شریعت کا اعلان کیا گیا۔ اس اقدام سے اسلامی افریقہ کے ان ممالک کی یاد تازہ ہو گئی جنھیں استعمار نے کچل کر رکھ دیا تھا۔
احمد رفاعی محمد ثانی نے ۲۷ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو ریاست میں شریعت کے نفاذ کا اعلان کیا‘ اس وقت ان کی عمر ۳۹ سال تھی۔ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے نفاذ شریعت کیسے کیا جائے‘ انھوں نے اس کی ایک عمدہ مثال پیش کی ہے۔ نفاذ شریعت نائیجیریا کے مسلمان عوام کے دلوں کی آواز تھی۔ اس کے بعد نائیجیریا کی ۱۲شمالی ریاستوں نے اس کی تقلید کی۔ نائیجیریا میں ۳۶ ریاستیں اور ایک صوبہ ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے‘ ترجمان القرآن‘ ستمبر ۲۰۰۱ء)۔ احمد رفاعی محمد ثانی نے اس تجربے سے کیا سیکھا اور انھیں کس قسم کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا؟ درج ذیل انٹرویو (شائع کردہ: المجتمع ۱۵۰۸‘ ۶ جولائی ۲۰۰۲ء) اس سوال کا جواب فراہم کرتا ہے۔
سوال: آغاز کہاں سے ہوا؟
جواب: جنوری ۱۹۹۹ء میں‘ میں نے زامفارا کے سربراہ کے انتخابات میں حصہ لیا۔ میں ’’کل الشعب پارٹی‘‘کی طرف سے امیدوار تھا۔ یہ کوئی اسلامی پارٹی نہیں تھی بلکہ ایک فیڈرل پارٹی تھی جس کے پورے نائیجیریا میں اثرات ہیں۔ یہ پارٹی افرادی قوت کے لحاظ سے نائیجیریا کی تین فیڈرل پارٹیوں میں سے دوسری بڑی پارٹی ہے۔
الحمدللہ! مئی ۱۹۹۹ء میں ہمیں کامیابی حاصل ہوئی۔ پارٹی کے نمایندوں نے ریاست کی ۲۴ میں سے ۱۹ نشستیں حاصل کیں۔ ۲۷ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو ریاست میں شریعت کے نفاذ کا اعلان کیا گیا۔
س : آپ میں یہ سوچ کیسے پیدا ہوئی؟
ج : انتخابات سے پہلے میں شیخ ابوبکر محمود اور دیگر علما کے مواعظ اور دروس میں شرکت کیا کرتا تھا۔ جب میں نے نائیجیریا کے دستور کا مطالعہ کیا تو میں نے دیکھا کہ نفاذ شریعت اور نائیجیریا کے دستور میں کوئی تصادم نہیں ہے۔ نائیجیریا کی کسی بھی ریاست میں شریعت نافذ کی جا سکتی ہے کیونکہ نائیجیریا میں فیڈرل حکومت ہے اور ریاستوں کو اس حوالے سے قانونی خودمختاری حاصل ہے۔ نفاذ شریعت کی قرارداد اس ریاست کے عوام کی دلی تمنا تھی۔ یہ کوئی زبردستی ٹھونسا گیا فیصلہ نہیں تھا۔ اسے ریاست کی پارلیمنٹ میں تمام نمایندوں کی تائید حاصل ہوئی۔ اس مقصد کے لیے ہم نے ریاست میں اجتماع عام منعقد کیا جس میں ۲ لاکھ افراد نے شرکت کی‘ جب کہ ریاست کی کل آبادی ۲۷ لاکھ ہے۔
س: آپ معاشیات سے سیاست میں کیسے آئے؟
ج: میں نے زامفارا کی وزارت مالیات میںکام کا آغاز کیا۔ اس وقت زامفارا کی ریاست ’’سوکوتو‘‘ کا حصہ تھی۔ ۱۹۹۶ء میں ‘ میں زامفارا میں وزارت مالیات کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے لوٹ آیا۔ اس کے بعد میں نے استعفا دے دیا اور ’’کل الشعب پارٹی‘‘ میں شامل ہو گیا۔ ستمبر ۱۹۹۸ء سے میںنے باقاعدہ سیاست میں حصہ لیناشروع کیا۔
س: آپ کی ریاست میں ’’نفاذ شریعت‘‘ کن معنوں میں ہوا؟
ج: نفاذ شریعت سے مراد اس کا عمومی مفہوم ہے جس میں حدود‘ قصاص‘ نظام تعلیم‘ معیشت اور معاشرتی نظام‘ سب پہلو شامل ہیں۔ اس کے علاوہ روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور رشوت خوری کا سدباب کرنا اور لوگوں کے اندازفکر کو تبدیل کرنا تاکہ وہ قرآن و سنت اور دیگر اسلامی مصادر کی طرف رجوع کریں۔
س: عدالتوں کی طرف رجوع اور قوانین کی تبدیلی کے سلسلے میں کیا پیش رفت ہوئی؟
ج :موجودہ عدالتی نظام ۲۷ جنوری ۲۰۰۰ء کو متعارف ہوا ۔ اکتوبر ۱۹۹۹ء سے جنوری ۲۰۰۰ء تک عدالتوں میں ججوں کو تیار کیا گیا اور عوام کی رہنمائی کا بندوبست کیا گیا۔
س: کیا آپ نے نفاذ شریعت کے لیے حالات اور ماحول کو سازگارپایا؟
ج : نائیجیریا میں بہت سارے نوجوان اسلامی جامعات سے فارغ التحصیل ہیں جنھوں نے اندرون ملک اور بیرون ملک تعلیم پائی ہے۔ علما کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں بہت سے علما کی رہنمائی بھی حاصل رہی۔ صرف زامفارا ہی میں نہیں بلکہ بہت سی دوسری ریاستوں میں بھی علما کی بڑی تعداد موجود ہے۔ پارلیمنٹ کے بعد مجلس العلما کو اسلام کا نقطۂ نظر بیان کرنے اور مشاورت کی اتھارٹی دی گئی ہے۔ نفاذ شریعت سے پہلے وزارت مذہبی امور کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس وقت ابراہیم و کالامحمد اس کے سربراہ ہیں۔ اس وزارت کے تحت ’’ادارہ دعوۃ و صلوٰۃ‘‘ اور ’’ادارہ زکوٰۃ و اوقاف‘‘ کا قیام عمل میں آیا ہے۔
س: ریاست میں نفاذ شریعت کے حوالے سے ’’کل الشعب پارٹی‘‘ کا کیا موقف تھا؟
ج: نفاذ شریعت کے مسئلے میں پارٹیوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ ’’کل الشعب پارٹی‘‘ کے سربراہ نے اعلان کیا کہ جن ریاستوں میں پارٹی کی حکومت ہے وہ سب نفاذ شریعت چاہتی ہیں اور انھیں اس سے کوئی اختلاف نہیں۔ ملک کی بڑی پارٹی صدر نائیجیریا کی پارٹی ہے۔ چونکہ اس کی دستوری اتھارٹی نہیں ہے اس لیے وہ مخالفت نہیں کرسکتی۔
س: دوسری ریاستوں کا کیا موقف تھا اور انھوں نے آپ کے تجربے کی کیسے پیروی کی؟
ج : جس دن ہماری ریاست میں نفاذ شریعت کا اعلان ہوا‘اس دن ریاست نیجر کے سربراہ وہاں موجود تھے۔ زامفارا کے بعد اس ریاست میں نفاذ شریعت عمل میں آیا۔ اس کے بعد سوکوتو اور دوسری ریاستوں‘ مثلاً کابی‘ کانو‘ کاتسینا‘ جیقاوا‘ یوبی‘ بورلو‘ کوتشی‘ جومبی اور کالورنا میں شریعت نافذ کی گئی۔ یہ ساری شمالی ریاستیں ہیں۔
س: جنوب کی کیا صورت حال ہے؟
ج: جنوبی ریاستوں میں بھی مسلمانوں کی اکثریت ہے اور اکثر باشندے شریعت کے نفاذ کامطالبہ کرتے ہیں۔
س: اس بارے میں حکومت کا کیا موقف ہے؟
ج: مرکزی حکومت اس کی مخالفت کرتی ہے۔ مرکزی حکومت کے زیادہ تر وزرا عیسائی ہیں۔ یہاں تک کہ مسلمان وزرا بھی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے صدر کی تائید کرتے ہیں۔
س: کیا آپ اس تضاد کو محسوس نہیں کرتے کہ افریقہ کا سب سے بڑا مسلمان ملک جس میں ایک ریاست کے بعد دوسری ریاست نفاذ شریعت کا اعلان کرتی ہے‘ اس ملک کے باشندے ایک عیسائی کو سربراہ مملکت کے طور پر منتخب کرتے ہیں؟
ج : سربراہ مملکت کے انتخاب کا معاملہ سابقہ انتخابات کی وجہ سے ہوا۔ اس کے علاوہ شمال اور جنوب کے مسائل نے بھی اس کو تقویت پہنچائی۔ اس لیے بعض افراد نے نائیجیریاکی سربراہی کے لیے ایک غیر مسلم کو صدر منتخب کیا۔ جب لوگوں نے نفاذ شریعت کے بعد اس کے ثمرات اور فوائد دیکھے تو انھوں نے دیگر ریاستوں میں بھی نفاذ شریعت کا مطالبہ کر دیا۔ یہ لوگ اپنی اصل کی طرف لوٹنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور عثمان فودیوکے زمانے کے اسلامی نائیجیریا کو یاد کرتے ہیں۔
س: ہم جانتے ہیں کہ یہ صورت حال مغرب کے لیے قابل قبول نہیں؟ کیا مغرب نے آپ کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی؟
س: کاڈونا اور دیگر ریاستوں میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان جو فسادات ہوئے وہ مغرب کی شہ پر ہوئے اور ان کا مقصد مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا کرنا تھا۔ شریعت مشکلات کا سبب نہیں بنتی بلکہ کچھ لوگ مصنوعی طور پر مشکلات پیدا کرتے ہیں اورانھیں شریعت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ اس لیے ایسے شرپسند عناصر نے ہمارے درمیان اور حکمران پارٹی کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی۔ بہرحال مسلمان ’’شریعت یا موت‘‘ چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھیں کوئی تیسرا راستہ پسند نہیں۔ لیکن نائیجیریا کے عیسائی‘ عیسائیت کے ساتھ ایسی جذباتی وابستگی نہیں رکھتے۔ جو لوگ فتنے کو ہوا دے رہے تھے انھوں نے غیرمسلموں کو کافی روپیہ پیسہ دیا۔ لیکن فسادات کے دوران ہم نے پوری کوشش کی کہ غیرمسلموں کو نقصان نہ پہنچے۔ ہمارے اس طرزعمل سے بہت سارے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ مرکزی حکومت کے بہت سارے عہدے داران نے اسلام قبول کیا۔
س: اپنے مقصد میں کامیابی کے لیے اور عیسائیوں کوناکام کرنے کے لیے آپ کیا کر رہے ہیں؟
ج : ہم ان کا عدل اور مساوات کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔ غیرمسلم دیکھتے ہیں کہ نفاذ شریعت نے عدل اور مساوات کو فروغ دیا ہے اور وہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ مسلمان ان کی مدد کرنے کے لیے اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے کوشش کرتے ہیں اور غیرمسلموں کو ان کے حقوق مل رہے ہیں بلکہ مرکزی حکومت بھی مسلمانوں سے غیر مسلموں کے حقوق دلواتی ہے۔ اس وجہ سے عیسائی بھی مسلمانوں کی عدالتوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اسلام دشمن عناصر جن موثر شخصیات کوخرید کرفتنہ بھڑکاتے ہیں اس کا اتنا اثر نہیں ہوتا اورانھیں عوامی حمایت حاصل نہیں ہوتی۔
س: نائیجیریا کی جن ریاستوں میں شریعت نافذ کی گئی ہے‘ ان کی آبادی کتنی ہے؟
ج : جن ریاستوں میں شریعت کا نفاذ عمل میں آیاہے ان کی آبادی کل آبادی کا ایک تہائی ہے‘ یعنی ۳۵ فی صد۔
س: کیا آپ کا باہمی رابطہ ہے؟
ج: کوئی ایسی کمیٹی یا باہمی رابطے کا نظام نہیں ہے لیکن بعض ایسی اسلامی جماعتیں ہیں جو ان ریاستوں کی حکومتوں کے درمیان رابطے کے لیے کوشاں ہیں۔ نائیجیریا میں انتخابات کی آمد آمد ہے۔ اس لیے یہ کوشش ہو رہی ہے کہ مسلمان ایک پارٹی کی حیثیت سے انتخابات کے میدان میں اُتریں کیونکہ موجودہ ریاستوں کے سربراہ جنھوں نے شریعت نافذ کی ہے ایک پارٹی سے تعلق نہیں رکھتے۔
س: حدود کے نفاذ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں‘ رجم کرنا‘ کوڑے مارنا اور ہاتھ کاٹنا…؟
ج : زامفارا میں جب سے شریعت کا نفاذ عمل میں آیاہے‘ صرف دو دفعہ ہاتھ کاٹا گیا ہے اور ایک دفعہ شراب پینے کی وجہ سے کوڑے مارے گئے ہیں لیکن رجم نہیں ہوا۔ اس طرح کے واقعات کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے جن میں حدود نافذ کرنا پڑیں۔
س: اس بات کا وضاحت کے ساتھ جواب دیجیے کہ مسلمانوں نے ایک سے زیادہ دفعہ شریعت کے نفاذ کا تجربہ کیا لیکن یہ تجربات ناکامی سے دوچارہوئے۔ ناکامی سے بچنے کے لیے آپ نے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں؟
ج : پہلی بات یہ ہے کہ وزارت مذہبی امورکے ذریعے ہم نے لوگوں کی تربیت کی کہ اصل اقتدار کا مالک اللہ تعالیٰ ہے وہ جسے چاہتا ہے‘ اقتدار و اختیار عطا کرتا ہے۔ اس لیے پارٹی بازی اور گروہ بندی کو اہمیت نہ دی جائے اور نہ یہ دیکھا جائے کہ ہمارا تعلق مخالف پارٹی سے ہے۔ یہ اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ زامفارا کے باشندے شریعت کے نفاذ کے لیے گروہ بندی اور پارٹیوں کو اہمیت نہیں دیتے۔
دوسری بات یہ ہے کہ لوگ عدل و انصاف اور مساوات کے متلاشی ہوتے ہیں اور یہ دونوں چیزیں انھیں مل رہی ہیں۔ اس لیے انھیں شریعت اوردیگر نظاموں کا فرق معلوم ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شریعت کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کے لیے جان تک قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ ہماری توجہ روزگار کی فراہمی اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے پر مرتکز ہے۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کی مدد کے لیے اوقاف اور لوگوں میں زکوٰۃ و صدقات وغیرہ کی تقسیم کے ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ ان ابتدائی اقدامات کی وجہ سے ریاست میں بھوک کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ ہر ایک کی بنیادی ضروریات کسی نہ کسی طور پر فراہم ہو جاتی ہیں۔
چوتھی بات یہ ہے کہ وزارت مذہبی امور کے ذریعے ہم نے داعیوں کو مقرر کیا ہے جن کو باقاعدہ تنخواہ ادا کی جاتی ہے۔ یہ داعی دیہات میں گھوم پھر کر لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور لوگوں کے دلوں میںشریعت کی حمایت جاگزیں کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ علما‘ ائمہ اور موذن حضرات کو باقاعدہ تنخواہیں دی جاتی ہیں تاکہ وہ معاش کے فکر سے آزاد ہو کر دعوت دین کا فریضہ سرانجام دے سکیں ۔ اس سے پہلے ان کی تنخواہوں کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں تھا۔ (ترجمہ: محمد احمد زبیری)
یہ کسی سوال کا جواب نہیں۔ ۱۹۵۷ء میںمحترم خرم مراد کے اپنی والدہ کے نام امریکہ سے لکھے گئے ایک خط کا اقتباس ہے۔ ایک صورت حال پر تبصرہ ہے‘ لیکن آج بھی بہت سے سوالوں کا جواب ہے۔ اس وقت وہ ۲۴ سال کے نوجوان تھے۔ (ادارہ)
ہر اجتماعی زندگی میں بے شمار مواقع پر اختلاف رائے ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔ اس کو لوگ ٹھیک کرنا نہیں جانتے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اختلاف ہے تو عملاً ایک ہی رائے چل سکتی ہے۔اب کون سی رائے چل سکتی ہے؟ اس کے لیے کوئی طریق کار متعین ہونا چاہیے اور اس کی پابندی سب کو کرنا چاہیے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جماعت میں کوئی ایسی بات ہو رہی ہے جو قرآن و سنت کی نص صریح کی خلاف ورزی ہے تو وہ پوری جماعت کے سامنے قرآن کی آیت پیش کرے اور اگر جماعت اصلاح کے لیے تیار نہ ہو تو پھر وہ اس کام میں اپنی عدم شرکت کا اعلان کر دے۔ لیکن ایسا تو ہوگا نہیں۔
اس کے بعد قرآن وسنت کی تعبیر کا سوال ہوتا ہے۔ جب آدمی خود ایک تعبیر کرتا ہے تو اسے اتنا ہی حق دوسرے کو دینا چاہیے۔ اسی طرح تدابیر کا معاملہ ہے۔ کوئی اقدام اور کوئی تدبیر کسی شخص کی نظر میں سراسر غلط ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کو یہ توسوچنا چاہیے کہ دوسرا پورے اخلاص سے اسے صحیح سمجھ کر کر رہا ہے۔ اب اس بات کا فیصلہ کہ کس کی بات چلے‘ عام ارکان جماعت ہی کر سکتے ہیں۔ جب ایک فیصلہ ہو جائے تو پھر سب کو سرتسلیم خم کردینا چاہیے۔ اگر کوئی آدمی ذمہ دارحیثیت رکھتا ہواور اس کی رائے کے خلاف فیصلہ ہوجائے تو وہ زیادہ سے زیادہ ذمہ داری کے منصب سے علیحدہ ہو سکتا ہے---
یہاں لوگ جب اپنی بات کہتے ہیں تو اس کے ساتھ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ ’’میری رائے میں…‘‘۔ اصل میں انتشار کی راہ اس میں ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ بس یہ میری ایک رائے ہے اور دوسری رائے‘ خواہ میری نظر میںغلط ہو‘ لیکن ٹھیک ہو سکتی ہے تو اس وقت تک بات ٹھیک ہے۔ لیکن جب کوئی اپنی رائے کو قرآن وحدیث کا ناطق فیصلہ سمجھنا اور دین کی بنیاد سمجھنا شروع کر دے کہ اس کی رائے کی قربانی نہ ہونا چاہیے‘ خواہ دین کے مفاد اور اس کے مستقبل کا گلا گھونٹ دیا جائے اور اس مقدس عمارت کی بنیادیں اکھڑ جائیںجس سے اسلام کا مستقبل وابستہ ہے‘ تو پھر یہ انتشار اور فتنے کی راہ ہے۔
صحابہ کے فقہی اختلافات میں ہمارے لیے بے شمار اچھی نظیریں ہیں۔ مجھے نام یاد نہیں لیکن شاہ ولی اللہؒ نے دو صحابہ کے نام لکھے ہیں۔ ایک کے نزدیک وضو کے بعد گرم چیز کھانے سے وضو ٹوٹ جاتی تھی دوسرے کے نزدیک نہیں۔ دونوں سندحدیث سے لاتے تھے۔ جب یہ صاحب امامت کرتے جن کے نزدیک وضو نہ ٹوٹتی تھی تو دوسرے ان کے پیچھے نماز پڑھتے تھے حالانکہ ان کے مسلک کی رو سے وہ نماز نماز ہی نہ تھی۔ میں ایسے چند افراد کے بارے میں جانتا ہوں کہ اگروہ ایسے موقع پر ہوتے تو صاف انکار کر دیتے کہ نہیں صاحب‘ حدیث کی رو سے یہ نماز اب نماز ہی نہ رہی۔ امام بے وضو ہے ۔۔۔۔ پھر عراق کی زمینوں والا معاملہ ہے جس پر تین دن رات مسجد نبویؐ میں بحث ہوئی اور حضرت عمرؓ ،حضرت بلالؓ سے تنگ آگئے کہ اللہ مجھے بلال سے نجات دے لیکن جب شوریٰ نے معاملہ طے کر دیا تو سب باتیں ختم---
یہاں یہ ہوتا ہے کہ اولاً اپنی بات اس طرح پیش کریں گے کہ بس اس سے الگ ہٹ کر کوئی راہِ حق و صواب ہے نہیں۔ پھر اس میں گرم گرم جذبات کا مظاہرہ کریں گے۔ جب جذبات کی رو میں دونوں طرف سے غلطیاں ہوںگی تو اب وہ اصول کے ساتھ مل کر ایک ذاتی اختلاف بھی بن جائے گا اور پھر اس میں شکایات پیداہوں گی--- پھر اگر جماعت میں ان کے خلاف فیصلہ ہو جائے گا تو اندر اندر سلگتے رہیں گے۔ اس کے خلاف فضا اور ذہنوں کو مسموم کرتے رہیں گے--- شیطان کی قوتوں سے لڑنے کے بجائے زیادہ اہم کام یہ ہوجائے گا کہ قیادت کو بدنام کیا جائے۔ پہلے اور شکایات ہوں گی۔ اب آمریت اور جمہوریت کی شکایات ہوں گی۔ اسی طرح تو فتنوں کا آغاز اسلام میں ہوا تھا۔ حضرت عثمانؓ و حضرت علیؓ کے خلاف ذاتی اور ان کے اداے فرض کے سلسلے میں طوفان اٹھے۔ اور اس میں حضرت محمد بن ابوبکرؓ ، حضرت عائشہؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ جیسے لوگ تھے جن کے اخلاص میں ہم جیسے لوگ کلام نہیں کرسکتے۔ لیکن اتنا جانتے ہیں کہ اگر یہ لوگ متحد رہتے تو آج اسلام کی تاریخ مختلف ہوتی۔
امریکہ میں ایک بات مجھے پسندآئی ہے کہ ہر آدمی اختلاف رائے کرتے ہوئے "in my opinion"کے الفاظ سے شروع کرتا ہے اور صرف کہتا نہیں بلکہ واقعی اس کو ملحوظ رکھتا ہے۔ شیطان کے لیے اس کے چیلے اس ڈسپلن کا مظاہرہ کر سکتے ہیں لیکن خدا کے بندے تو ’’خدا کے بندے‘‘ ٹھیرے۔ انھیں بھلا اس دنیا میں دین کے مستقبل کی کیا پرواہ۔ کچھ بھی ہو--- حق تو ’’حق‘‘ ہے‘ بس اس کو ہونا چاہیے۔ خدا اس ’’حق پرستی‘‘ اور اس’’اصول پرستی‘‘ سے محفوظ رکھے۔
گزرنے والا ہر لمحہ تاریخ ہے‘ مگر کتنے لوگ ہیں جو لمحوں کو تاریخ سمجھتے ہیں اوران لمحوں کی زنبیل میں تاریخ کے اسباق و حوادث سے رہنمائی لیتے ہیں؟ خال خال--- اگرچہ انیسویں صدی عیسوی بھی بڑی ہنگامہ خیز تھی‘ تاہم بیسویں صدی تو اپنے انقلابات اور کش مکش کے حوالے سے گہرے اثرات کی حامل صدی شمار کی جا سکتی ہے۔
ایک اخبار نویس: محض خبرنگار‘ وقائع نگار یا تجزیہ نگار نہیں ہوتا‘ بلکہ آج کے زمانے میں تو اخبار نویس غالباً بہت سے حکمرانوں سے بھی زیادہ باخبر اور اثرانداز ہونے والی شخصیت شمار ہوتا ہے۔ عبدالکریم عابد‘پاکستان کے ان قابل قدر اخبار نویسوں میں سے ہیں‘ جو گذشتہ نصف صدی سے بھی زائد عرصے میں متعدد حوادث اور اہم واقعات کا حصہ یا ان کے شاہد رہے ہیں۔ استغنا اور قلندری کے خوگر اس بزرگ اخبار نویس پر رب تعالیٰ کاخصوصی احسان ہے کہ عمرگزر گئی‘ مگر اصولی موقف پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ انھوں نے زمانے کوخبردی اور خبردار بھی کیا۔ کسی مداہنت کے بغیر اپنوں پر بھی تنقید کی‘ مگر حکمت اور توازن کے ساتھ۔
جیسا کہ اُوپر بیان ہوا ہے کہ آج کا اخبار نویس‘ خبرنگار سے بڑھ کر‘ ایک بڑے نازک مقام پر ایستادہ دیدبان (OP)کی طرح ہے‘ جس کا سینہ رازوں کا خزینہ ہے۔ ممکن ہے یہ بات عام لوگوں کے لیے ایک عمومی سی بات ہو لیکن سفر آدھی صدی کا پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ واقعی بیدار ذہن رکھنے والا اخبار نویس تاریخ اور لمحوں کے ساتھ قدم ملاکر چلتا ہے۔ یہ اعزاز کسی کسی کو نصیب ہوتاہے کہ وہ اس سفر کی کلفتوں اور راحتوں میں دوسروں کو بھی شریک کرے۔
عبدالکریم عابد نے سفر آدھی صدی کا میں مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر حکمت سے بھرپور بیان و استدلال کے ساتھ بڑے اہم لمحوں کا تذکرہ دبیز پردوں سے نکال کر پیش کیا ہے۔ اگرچہ کتاب کا ہر باب ایک مکمل موضوع ہے‘ تاہم اس کے چند مرکزی موضوعات یہ ہیں: سقوط حیدرآباد دکن کا پس منظر اور پیش منظر‘ کمیونسٹ پارٹی کی کھلی اور چھپی سرگرمیاں‘ ترقی پسند صحافیوں کی وارداتیں اور حکمت عملی‘ مہاجر سندھی سیاست کاارتقا اور احوال‘ جماعت اسلامی کو درپیش چیلنج‘ پاکستان کی دستوری تاریخ کے اہم موڑ‘ بھٹو مرحوم کی سیاست کے پیچ و خم‘ وادی صحافت کے نشیب و فراز ‘ہندو سیاست کا شاخسانہ وغیرہ۔
عابد صاحب کے دانش ورانہ نکات و معارف کے حامل‘ چند مختصر اقتباسات: m پاکستان کی پرانی نسل کو قائد اچھے ملے‘ اور انھوں نے قوم کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے بہت کچھ کیا۔ مگر نئی نسل کا المیہ یہ ہے کہ وہ قیادت سے محروم رہی‘ بلکہ اس کا واسطہ دجالوں سے رہا‘ جو اسے فریب پر فریب دیتے رہے۔ (ص ۱۳) mمولانا ظفراحمد انصاری نے قیام پاکستان کے بعد قائداعظم سے کہا تھا کہ ’’مسلم لیگ صرف پاکستان بنانے کے لیے تھی‘ پاکستان بن گیا‘ اس کا کردار ختم ہو گیاہے ]اب ختم کرنے کا اعلان کر دیجیے [‘‘۔ اگر اس تجویز پر عمل ہوتا تو لیگ کا مردہ خراب ہونے سے بچ جاتا (ص ۱۶۱)۔ m ایوب خان کو راستے سے ہٹانے کا منصوبہ سی آئی اے کا تھا‘وہ پروچائنا ]کمیونسٹ[ گروپ کو استعمال کر رہی تھی۔ (ص ۲۳۴) m ایک تقریر میں معراج ]محمد خاں[ نے مودودی صاحب پر بدتمیزی کے ساتھ نکتہ چینی کی۔ ]ذوالفقار علی[بھٹو فوراً کھڑے ہوگئے اور کہا’’یہ خیالات معراج کے ہیں میرے نہیں‘ میرے دل میں مولانا مودودی کا بہت احترام ہے‘‘۔ (ص ۲۴۴)
عابد صاحب اختصار ‘ جامعیت اور بلا کی سادگی و پرکاری کے ساتھ بڑے بڑے موضوعات کو ایک ڈیڑھ صفحے میں قلم بند کر دیتے ہیں‘ جس میں مطالعے کی وسعت‘مشاہدے کی گہرائی اور موضوعات کا تنوع‘ قاری کو ان کا گرویدہ بنا لیتا ہے۔ اگرچہ یہ کتاب اُن کے کالموں کا مجموعہ ہے‘ مگر اس میں انھوں نے آپ بیتی سے بڑھ کر جگ بیتی تحریر کی ہے۔ اچھا ہوتا کہ کتاب کی مناسبت سے کچھ تکرار کو ختم کر دیاجاتا۔ پروفیسر شاہد ہاشمی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اس دستاویز کی پیش کاری میں دل چسپی لی‘ اورارزاں قیمت پر ایک دل چسپ کتاب فراہم کرنے میں کامیاب رہے۔ (سلیم منصور خالد)
استاد محمد طاسین مصنف اور محقق کی حیثیت سے ایک معروف نام ہے۔ مولانا کی درجن بھر کتب اور کتابچے شائع ہوچکے ہیں۔ بعض موضوعات پر ان کی منفرد آرا ان کے دقتِ مطالعہ کی مظہر ہیں۔ مروجہ زمین داری نظام پر ان کا اپنا ایک نقطۂ نظر ہے‘ اور وہ پاکستان کی جاگیروں کو عشری کے بجاے خراجی زمینیں قرار دیتے ہیں۔
زیرتبصرہ کتاب سود‘ اور غیر سودی بنک کاری وغیرہ کے حوالے سے ان کے مختلف مضامین کامجموعہ ہے۔ اس کتاب میں: بنک کیسے وجود میں آئے‘ بنکوں کاتاریخی پس منظر اورسماجی کردار‘ غیرسودی بنک کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں چلانے کی عملی صورت اور سرمایے کی حیثیت وغیرہ شامل ہیں۔ مزید برآں کتاب میں پاکستان کے حوالے سے غیرسودی (نفع و نقصان کی بنیاد پر) بنک کے قیام کا شرعی نقطۂ نظر سے جائزہ‘مضاربت کی بنیاد پر بنک کا قیام اور اس کی شرعی حیثیت پر گفتگو کی گئی ہے (ص ۱۷)۔
مولانا طاسین کی راے میں مضاربت کو اسلامی بنک کاری کی اساس نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ ’’مضاربت کامعاملہ معاشرے کے بعض مخصوص افراد سے تعلق رکھتا ہے اور انفرادی نوعیت کا معاملہ اجتماعی نوعیت کا معاملہ نہیں جس میں معاشرے کے سب افراد شریک ہو سکتے ہیں‘ لہٰذا بنک جیسے اجتماعی ادارے کی تشکیل مضاربت کی بنیاد پر کرنادرست نہیں قرار پاتا بلکہ غلط ہوتا ہے‘‘ (ص ۲۶)
خلاصہ بحث کے طور پر مولانا طاسین لکھتے ہیں: ’’اگر ہم واقعی صدقِ دل سے یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں سود کی لعنت اور نحوست سے چھٹکارا ملے… تو ہمیں پختہ عزم کے ساتھ اجتماعی طور پر یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہم نے وطن عزیز پاکستان سے اس سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا جڑ و بنیاد سے خاتمہ کرنا اور اکھاڑ پھینکنا ہے‘ جو فی الوقت ہمارے ہاں رائج اور بروے کار ہے‘ اور جس کے لازمی جز کے طور پر موجودہ بنک کاری کا ادارہ قائم ہے‘‘ (ص ۳۲‘ ۳۳)۔ اس کے علاوہ مولانا نے بیمے کی شرعی حیثیت اور دیگر مسائل کی شرعی حیثیت و اہمیت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
مولانا مرحوم کی بعض آرا سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے ‘ اس کے باوجودتحقیقی حوالے سے مضامین کا یہ مجموعہ بہت سے اہم موضوعات کااحاطہ کرتا ہے اورقرآن و حدیث کے علاوہ فقہ کے حوالوں سے مزین ہے۔ (میاں محمد اکرم)
یہ کتاب بنیادی طور پر موجودہ حالات کی روشنی میں علاماتِ قیامت کی تشریح پر مبنی ہے۔ اس سلسلے میں ۱۵۰۰ قرآنی آیات اور ۵۰۰ احادیث کے حوالے دیے گئے ہیں‘ اس کے ساتھ توحید‘ رسالت‘ نظامِ صلوٰۃ‘ نظامِ زکوٰۃ‘ جنت‘ دوزخ‘ دجال اور اُمت کے سیاسی و اقتصادی مسائل‘ معیاری دعوت کااسلوب وغیرہ کی وضاحت بھی کردی گئی ہے۔ مصنف کی بھرپور کوشش ہے کہ قرآنی آیات کی جامع تشریح اختیار کی جائے اور صرف متفق علیہ احادیث درج کی جائیں۔
مصنف نے جہاں بھی کسی عالم کی رائے درج کی ہے‘ بالالتزام اُس کا حوالہ دیا ہے جو قابل تحسین ہے۔ ابواب کے عنوانات عربی زبان میں ہیں اور ذیلی عنوانات انگریزی میں ۔ باب اول: لایھدی القوم الظالمون‘ دوم: نصر من اللّٰہ‘ سوم: فتحٌ قریب اور چہارم: بشرالمومنین‘ آخری باب تبصروں اور آرا پر مشتمل ہے۔
مصنف کا طریق عرب واعظین کا سا ہے جو کسی موضوع پر پہلے تو مسلسل آیاتِ قرآنی اور احادیث نبویہؐ بیان کرتے ہیں‘ پھر طویل تشریح‘ اور اس کے بعد نیا موضوع شروع ہو جاتا ہے۔ مصنف نے اپنے موقف کی وضاحت کے لیے حسب موقع گراف بھی دیے ہیں ۔ اسلامی اصطلاحات کااصل عربی نام برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ مصنف‘ محمد ابومتوکل کے بارے میں کوئی تعارفی نوٹ نہیں ہے۔ کتاب میں ناموں کے اخفا کا رجحان غالب ہے۔ البتہ نیوجرسی کی مسجد شہدا کے امام ذکی الدین شرفی کا نام اور تعارف مبصرین میں درج ہے۔ کتاب کا فونٹ انتہائی باریک ہے جو طبیعت پر گراں گزرتا ہے۔ (محمد ایوب منیر )
مصنف ایک تجربہ کار یونانی اور آلڑنیٹو نوبل انعام یافتہ معالج ہیں۔انھوں نے سالہا سال کے عملی تجربے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انٹی بیاٹک ادویہ کا غیرمستند اور بکثرت استعمال انسان کے مدافعتی نظام کو بے حد کمزور کر کے جسم پر مہلک اثرات مرتب کرتاہے۔ دور جدید میں ایڈز اور ایسے ہی دوسرے امراض خبیثہ کا سب سے بڑاسبب ایلوپیتھک ادویات کا بے باکانہ استعمال ہے۔ وہ اس خطرناک صورت حال کا تدارک ہیومیوپیتھک طرزعلاج میں پاتے ہیں۔ مصنف نے اپنی بات آسان زبان میں اعداد وشمار‘ تصویروں‘ ڈایاگراموں اور گرافوں کی مدد سے سمجھائی ہے۔ گوناگوں امراض سے نجات اور صحت مند زندگی آج کا بنیادی مسئلہ ہے‘ اس کے حل میں یہ کتاب مدد دیتی ہے۔ ( رفیع الدین ہاشمی )
مصنف کہتے ہیں کہ ’’اس وقت اسلامی فکر کی ترویج کے لیے مختلف محاذوں پر کوششیں ہو رہی ہیں‘ اس کتاب کے ذریعے ہم بھی ان کوششوں میں شریک ہو رہے ہیں۔ اس کتاب میں اسلام کے بنیادی ارکان وآثار کی قرآنی فکر کی روشنی میں ایسی تفصیل شامل کی گئی ہے جو عبادات سے لے کر اخلاقیات تک اور سماجیات سے لے کر اقتصادیات تک تمام شعبوں میں مسلمانوں کی عملی طور پر رہنمائی کر سکے‘‘ (ص ۲۷)۔ کتاب کے موضوعات و مباحث کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ نام کی مناسبت سے عورت اور خاندان سے متعلق چھوٹے بڑے امور و مسائل پر اسلامی نقطۂ نظر سے معلومات مہیا کی گئی ہیں۔ پہلا حصہ: ایمانیات‘ آثار اسلام‘ دوسرا: اخلاقیات اور معاشرت‘ تیسرا: ازدواجی زندگی کے شرعی مسائل‘ چوتھا: خواتین کی صحت‘ پانچواں: بچوں کی صحت و تربیت‘ چھٹا: عام صحت‘ احتیاط و علاج‘ ساتواں: متفرقات۔ اس طرح ہر موضوع پر تفصیل سے چھوٹی چھوٹی جزئیات مہیا کی گئی ہیں حتیٰ کہ دیمک کوختم کرنے کا طریقہ‘ تنگ جوتے کوٹھیک کرنے کا طریقہ اور چوہوں کو بھگانے کا طریقہ بھی--- وغیرہ۔
اس کتاب سے ذہن بہشتی زیورکی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ مصنف معترف ہیں کہ انھوں نے روشن فکر علما کی تحریری خدمات سے، ’’پھولوں کا انتخاب کر کے ایک گلدستہ سجایا ہے‘‘۔ فقہی سوالات کے جواب‘ عرب نیوزمیں شائع ہونے والے عادل صلاحی کے جوابات سے لیے گئے ہیں (جو اسلامی طرز فکر کے عنوان سے کتابی صورت میں بھی شائع ہو چکے ہیں) ۔ بہرحال اس کتاب کی جامعیت میں کلام نہیں‘ اور افادیت بہت وسیع ہے۔یہ بکثرت اور بار بارپڑھی جانے والی کتاب ہے‘ مگر اس کی جلد مضبوط نہیں ہے۔ (ر-ہ)
ساری زمیں ہماری‘ کل آسماں ہمارا
کوہ و دمن ہمارے‘ ہر گلستاں ہمارا
صحرا یہاں ہمارا‘ دریا وہاں ہمارا
’’چین و عرب ہمارا‘ ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘
ایک جذبہ اخلاص ومحبت کے ساتھ اورانکسارانہ ‘تضامینِ اقبال کے ذخیرے میں قابلِ قدر اضافہ ہے۔[
پریس اور کاغذ کے لیے ہم نے اپنے ہمدردوں سے اعانت کی درخواست کی تھی۔ اس کے جواب میں ۵ستمبر تک جو رقمیں وصول ہوئی ہیں ان کی مجموعی مقدار دو ہزار سات سو چھبیس روپے ہے۔ اس میں سے ۱۶۲۶ روپے بطور اعانت آئے ہیں اور ۱۱ سو روپے بطور قرض۔ پریس خرید لیا گیا ہے اور یہاں لاکر نصب کیا جا چکا ہے۔ اب صرف بجلی کی آمد اورڈیکلریشن کی منظوری کا انتظار ہے۔ یہ دو مرحلے طے ہونے کے بعد ان شاء اللہ ہماری مطبوعات خود اپنے پریس میں طبع ہونے لگیں گی۔ اب دوسری اہم ضرورت کاغذ کے ذخیرہ کی فراہمی ہے جس کے لیے ہم پوری جدوجہد کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں ابھی ہم کو مزید اعانت کی ضرورت ہے۔ (’’اشارات‘‘، ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن‘ جلد ۲۱‘ عدد ۲‘ شعبان ۱۳۶۱ھ‘ ستمبر ۱۹۴۲ء‘ ص ۲)