۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء پاکستان کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ بن سکتا ہے۔ اب پوری قوم کے سامنے بالکل کھل کر آگیا ہے کہ کل کا سیاسی اور نظریاتی نقشہ کیا ترتیب دیا جا رہا ہے۔ اصل ایشو یہ ہے کہ اس مرحلے پر قوم کی منزلِ سفر حقیقی اسلامی اور فلاحی جمہوریت ہوگی یا ایک ایسی ’’ٹیسٹ ٹیوب جمہوریت‘‘ جس میں فیصلہ کن اختیار فوج کے سربراہ کو حاصل ہوگا‘ خواہ اس نظام پر پارلیمنٹ کا ملمع ہی کیوں نہ چڑھایا گیا ہو۔
اس پہلو سے یہ انتخابات کچھ اسی قسم کی اہمیت اختیار کر گئے ہیں جیسے ملّت اسلامیہ پاک و ہند کی تاریخ میں ۱۹۴۶ء کے انتخابات اور پھر پاکستان کی تاریخ میں ۱۹۷۰ء کے انتخابات۔ اول الذکر میں قائداعظم کی قیادت میں قوم نے صحیح فیصلہ کیا اور انگریز حکمران اور کانگریس دونوں کی مخالفت کے باوجود پاکستان کی آزاد اسلامی مملکت وجود میں آئی اور آخرالذکر میں غلط فیصلے کے نتیجے میں بالآخر قائداعظم کا پاکستان دولخت ہوا اور آج تک ملک اندرونی کش مکش ‘ غربت اور قرضوں کی محتاجی اور سول بیورو کریسی‘ فوجی بیورو کریسی اور جاگیردار سرمایہ دار گٹھ جوڑ کی گرفت میں ہے۔
جنرل پرویز مشرف سیاسی قیادت کی خودغرضی‘ بے تدبیری اور عاقبت نااندیشی کا فائدہ اٹھا کر برسرِاقتدار آئے اور احتساب اور صاف ستھری جمہوریت کا عہد کر کے عدالت عالیہ کی بیساکھیوں کے سہارے تین سال سے حکومت کر رہے ہیں۔ جو وعدے انھوں نے قوم سے کیے تھے وہ ماضی کے حکمرانوں کے وعدوں سے زیادہ مختلف ثابت نہ ہوئے اور آہستہ آہستہ انھوں نے ایک ایسا سیاسی نقشہ وضع کر ڈالا جس کا مقصود ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے‘ اپنے اقتدار کو طول دینا‘ نظامِ حکومت کو اپنی منشا کے مطابق قطع و برید کا نشانہ بنانا اور فوج کو سیاسی نظام میں ایک مستقل کردار دے کر جمہوری قبا میں جرنیلوں کی حکومت کو دوام بخشنا بن گیا ہے۔
جنرل صاحب جس سمت میں اس ملک کو لے جانا چاہ رہے ہیں اس کے خدوخال پچھلے دو سال میں آہستہ آہستہ بالکل نمایاں ہوگئے ہیں۔ صدارت کا حصول‘ ریفرنڈم کا ڈھونگ‘ لیگل فریم ورک کی گل افشانیاں‘ وحدت حکم (unity of command) کا فلسفہ‘ احتساب کی جانب داریاں‘ کنگز پارٹی کی جولانیاں اور اب ۱۳ ستمبر کو نیویارک کے خطاب میں اس ارشاد کے بعد کہ ’’مجھے سات سال دیں‘ میں پاکستان میں سیاست کا نقشہ اور کلچر تبدیل کر دوں گا‘‘ (ڈان‘ ۱۴ ستمبر ۲۰۰۲ء) تو کوئی پردہ باقی رہا ہی نہیں ہے کہ وہ اس ملک و قوم کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں۔ اس پورے عمل میں اگر کوئی امید کی کرن ہے تو وہ ۱۰اکتوبر کے انتخابات ہیں جب قوم کو انتخابی عمل کے حکمرانوں کے حسب منشا ’انتظام‘ کے خطرات کے باوجود کسی نہ کسی درجے میں یہ موقع مل رہا ہے کہ اس خطرناک سفر کو لگام دے دے اور ملک کو ایک ناقابل تلافی تباہی سے بچالے۔
پاکستان کی ۵۵ سالہ تاریخ اپنے اندر سب کے لیے عبرت کا بہت سامان رکھتی ہے۔ جہاں صرف سات سال کی تاریخ ساز جدوجہد کے نتیجے میں قائداعظم کی مخلصانہ قیادت نے ملّت اسلامیہ کے حقیقی مزاج‘ عزائم اور ارمانوں کے مطابق سیاسی تحریک کے ذریعے مسلم دنیا کے سب سے بڑے آزاد ملک کے قیام کے خواب کو حقیقت بنا کر دکھا دیا‘ وہاں خلوص اور صلاحیت سے عاری مفاد پرست سیاسی قیادت‘ سول بیوروکریسی اور جرنیلوں کی حکمرانی نے ملک و قوم کو ایک بحران کے بعد دوسرے بحران میں مبتلا کیا۔ غربت میں اضافہ ہو گیا‘ تعلیم اور خوش حالی کا خواب پریشاں تر ہو گیا۔ مشرقی پاکستان ہاتھ سے گیا اور کشمیر میں آگ اور خون کی ہولی جاری ہے‘ ملک پر قرضوں کا بار بڑھ رہا ہے اور اب تو آزادی اور خودمختاری کے بھی لالے پڑ رہے ہیں۔ قوم کی قسمت کے فیصلے بیرونی دبائو‘ دھمکیوں اور ’کوئی دوسرا راستہ نہیں‘ (no-option) کے تاریک سایوں کے تحت ہو رہے ہیں۔ سول حکمرانی کے ۲۸ سال اور فوجی حکمرانی کے ۲۷ سال دونوں اپنے اپنے انداز حکمرانی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ سیاست‘ معیشت‘ تعلیم‘ صحت‘ توانائی‘ معاشرتی عدل‘ قانون کی حکمرانی‘ اخلاقی استحکام‘ قومی سلامتی غرض جس پہلو سے بھی حالات کا جائزہ لیا جائے اور نفع و نقصان کا بے لاگ میزانیہ بنایا جائے توچند مثبت پہلوئوں کے باوجود منفی پہلوئوں اور بگاڑ اور فساد کا پلّا بھاری ہے۔ قراردادمقاصد‘ ۱۹۷۳ء کا دستور‘ نیوکلیر صلاحیت کا حصول سنگ میل ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر سول حکومت نے قوم کو مایوس کیا اور ہر فوجی حکمران نے حالات کو اور زیادہ بگاڑا ___ یہ دونوں تجربے اس لیے ناکام رہے کہ کسی نے بھی دستور کی پابندی‘ قانون کی بالادستی‘ انصاف کے قیام اور قواعد و ضوابط کے احترام کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ جو قیادت خود دستور اور قانون کو توڑنے کی مجرم ہو‘ وہ دوسروں سے دستوراور قانون کی پاسداری کا مطالبہ یا توقع کیسے کر سکتی ہے؟ ہماری ساری خرابیوں کی جڑ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیے ہوئے وعدوں کی خلاف ورزی‘ دستور‘ قانون اور مسلمہ اصولوں سے انحراف‘ عوام اور ان کی ضرورتوں‘ خواہشوں اور تمنائوں سے روگردانی ‘مفادات اور ذاتی اغراض کے لیے قومی اور عوامی مصالح کی قربانی ہے اور احتساب کے نظام کا فقدان ہے۔ جمہوری عمل کو بار بار سبوتاژ کرنے کا نتیجہ یہی ہوسکتا تھا۔
ان حالات میں انتخابات کا انعقاد ایک ایسا موقع ہے جس سے عوام اپنے صحیح کردار کے ذریعے سیاسی عمل کی گاڑی کو پٹڑی پر ڈالنے کی کامیاب کوشش کر سکتے ہیں۔
ان عمومی حالات کے پس منظر میں ۱۰ اکتوبر کے انتخابات نے غیر معمولی اہمیت اس لیے اختیار کر لی ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے تین سالہ دور اور ان کے اگلے پانچ اور سات سالہ عزائم نے قوم کودرپیش خدشات اور خطرات کو ہزارچند کر دیا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کے اظہار میں کوئی باک نہیں کہ سول قیادتوں اور سیاسی جماعتوں نے‘ خصوصیت سے برسراقتدار نام نہاد بڑی جماعتوں نے‘ عوام کو بے حد مایوس کیا ہے اور ان کا ریکارڈ شرم ناک ہے۔ لیکن یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جرنیلوں کی حکومتوں نے اور سول اور ملٹری بیورو کریسی کے گٹھ جوڑ نے بھی اس سے کچھ بڑھ کر ہی مایوس کیا ہے۔ چونکہ فوج کے سیاست میں ملوث ہو کر ناکام ہونے سے سیاست اور معیشت ہی متاثر نہیں ہوتی‘ قومی سلامتی اور خود فوج کا غیر متنازع قومی کردار بھی بری طرح مجروح ہو جاتا ہے‘ اس لیے یہ سودا زیادہ ہی خسارے کا سودا ہے۔ اب قوم کو یکسو ہو جانا چاہیے کہ جمہوری سیاسی عمل ہی اپنی ساری خرابیوں کے باوجود بہتر طریق کار ہے۔ اسی راستے پر آگے بڑھنے اور اس کی خرابیوں کو دور کرنے میں ہی بھلائی اور سلامتی ہے‘ جمہوری سیاسی عمل کی بساط لپیٹ کر فوج کی قیادت کے سیاست کی باگ ڈور سنبھالنے یا سیاست کا حصہ بن کر یا پیچھے سے ڈور کھینچنے میں نہیں۔
اس وقت قوم کو جو گمبھیرصورت حال درپیش ہے اس کے پانچ پہلو اکتوبر کے انتخابات کو اہم تر بنادیتے ہیں:
فوج کا کردار: پہلا مسئلہ ملکی سیاست میں فوج کے کردار کا ہے۔ جنرل پرویز مشرف صاحب اب کھل کر یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ فوج کا ایک واضح کردار‘ بلکہ فیصلہ کن کردار ہونا چاہیے۔ ہماری نگاہ میں یہ تباہی کا راستہ ہے۔ ماضی میں سیاست دانوں نے جوبھی غلطیاں کی ہیں اور جس جس نے بھی بلاواسطہ یا بالواسطہ فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کی کوشش کی وہ ایک عظیم غلطی تھی جو فوج کے مستقل کردار کے لیے وجہ جواز نہیں بن سکتی۔فوجی حکومتوں کا ریکارڈ‘ بشمول جنرل پرویز مشرف کی حکومت‘ کچھ زیادہ ہی مایوس کن رہا ہے اور پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کا تجربہ یہ بتا رہا ہے کہ فوج کی قیادت‘ اپنی تربیت‘ صلاحیت کار‘ ذہنی ساخت اور تجربات کی بنا پر سیاسی نظام کو چلانے اور جمہوری طرزحکمرانی کے تقاضوں کو پورا کرنے کی اہل نہیں ہوتی۔ اس سے اس کی توقع بھی عبث ہے۔ بلکہ ستم یہ ہے کہ اسے اس کا ادراک بھی نہیں ہو پاتا جس کا تازہ ترین ثبوت وہ واقعہ ہے جو جنرل پرویز مشرف کے امریکہ کے ۹ ستمبر کے ہاورڈ یونی ورسٹی کے خطاب کے دوران پیش آیا۔ جنرل صاحب نے وہاں کے اساتذہ اور طلبا کے سامنے فرمایا کہ:
I am extremely democratic, you have to believe me.
میں انتہائی جمہوریت پسند ہوں‘ آپ کو مجھ پر اعتبار کرنا پڑے گا۔
جس پر پورا ہال قہقہہ سے گونج اٹھا۔ اس پر اس شعر سے بہتر کیا تبصرہ کیا جا سکتا ہے جو اقبال نے بالِ جبریل میں سرفہرست رکھا ہے ؎
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ فوج کا مزاج اور جمہوری نظام کا مزاج ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے اور اگر فوج کے لیے ’وحدت حکم‘ ضروری ہے تو جمہوریت کے لیے تنوع اور اختلاف رائے جوہر کا درجہ رکھتے ہیں۔ محض ڈنڈے سے نظام حکمرانی کے تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سیاست میں ملوث ہونے کے بعد فوج ایک اچھی فوج نہیں رہ سکتی۔ اس کی صلاحیت ِ کار (professionalism) بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ فوج پوری قوم کے اعتماد کا مرکز و محور نہیں رہ سکتی بلکہ سیاست میں آنے کے بعد متنازع بھی ہو جاتی ہے اورفطری طور پر تنقید و احتساب کا ہدف بھی بنتی ہے۔
ان انتخابات میں یہ بات طے ہو جانی چاہیے کہ فوج کا مقام سول نظام کے تحت ملک کا دفاع ہے‘ ملک کا نظام چلانا نہیں۔
ملک کا نظریاتی تشخص: دوسرا اہم مسئلہ ملک کے نظریاتی تشخص اور اخلاقی و تہذیبی شناخت کا ہے۔ جنرل پرویز مشرف صاحب کے دور میں ’’کمال ازم‘‘ اور ’’سیکولرازم‘‘ سے لے کر ’’انتہا پسندی‘‘ کے خلاف جنگ‘ مدارس میں دراندازی‘ جہادی کلچر سے برأت اور ترقی پسندی اور لچک (flexibility) کے اظہار تک ایسی باتیں بار بار کہی گئی ہیں‘ اس تسلسل سے کہی گئی ہیں اور عملاً تعلیم‘ میڈیا‘ کلچر اور دوسرے میدانوں میں ایسے اقدام کیے گئے ہیں جن سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ وہ اور ان کے قریبی رفقا ملک کو اس کی تاریخی اسلامی بنیادوں سے ہٹا کر مغربیت اور سیکولر کلچر کی راہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جو اس قوم کے مزاج اور عزائم‘ اس کی تاریخی جدوجہد اور اس کے اہداف اور اس کے ایمان کے تقاضوں سے متصادم ہے۔ ان انتخابات کے ذریعے یہ بات بھی طے ہو جانی چاہیے کہ یہ قوم مسلمان ہے‘ اس کی منزل اسلامی فلاحی ریاست ہے اور یہ اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کے چلن کوعام کرنا چاہتی ہے۔ یہاں کوئی دوسرا نظام اور نظریہ کبھی نہیں چل سکتا‘ خواہ اس پر کیسے ہی پردے کیوں نہ ڈالے جا رہے ہوں۔
امریکہ کے عالمی استعماری عزائم: تیسرا اہم مسئلہ امریکہ کے عالمی استعماری عزائم کے باب میں ہمارا کردار اور مقام ہے۔ فوجی حکمرانی کے ہر دور میں پاکستان امریکہ سے قریب آیا ہے اور امریکہ نے ہمیشہ بے وفائی اور مطلب براری کا رویہ اختیار کیا ہے۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعے کے بعد امریکہ نے عالمی تسلط کا جو پروگرام شروع کیا اس میں پاکستان ایک آلۂ کار بن گیا ہے اور یہ جنرل پرویز مشرف صاحب کی سیاست کا شاہکار ہے کہ انھوں نے امریکہ کو یہ حق دیا ہے کہ پاکستان کے کندھوں پر رکھ کر اپنی بندوق سے مسلمانوں کو نشانہ بنائے۔ جنرل صاحب سینے پر ہاتھ رکھ کر دعوے کر رہے تھے کہ افغانستان میں امریکہ کی کارروائی مختصر ہو گی‘ چند متعین اہداف تک محدود ہوگی اور جلد امریکہ واپس چلا جائے گا۔ آج یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ نہ یہ کارروائی مختصر ہونی تھی اور نہ محض افغانستان تک محدود۔ یہ ایک عالمی جنگ کا حصہ ہے اور اس کا سب سے بڑا ہدف مسلمان ممالک اور ملّت اسلامیہ بلکہ خود اسلام ہے۔ اب پاکستان کے ساتھ اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ اس جال سے کیسے نکلے۔ امریکہ سے ہماری کوئی جنگ نہیں اور ہم اس سے دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں بشرطیکہ ہماری آزادی‘ ہماری اقدار اور ہمارے مفادات محفوظ ہوں لیکن امریکہ کا آلہ کار بننا اور پھر امریکہ اور بھارت کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کے بارے میں پسپائی یہ قوم کبھی برداشت نہیں کرسکتی۔ جنرل صاحب کے بیانات سے بھی ظاہر ہے کہ وہ ایک جال میں پھنس گئے ہیں اور نکلنے کا راستہ نہیں پارہے ہیں۔ ادھر امریکہ‘ جمہوریت اور فروغ جمہوریت کے بارے میں اپنے تمام دعوئوں کے باوجود آمریت سے سمجھوتے اور آمروں سے دوستی کا جو کھیل کھیل رہا ہے وہ جنرل صاحب کے مفید مطلب ہے۔ اس لیے وہ کشمیر پر اچھے بیانات کے ساتھ جو عملی اقدامات خارجہ پالیسی اور داخلی سیاست کے میدانوں میں کر رہے ہیں وہ امریکہ کے ہاتھ مضبوط کرنے والے اور اس کے پائوں اس علاقے میں‘ بشمول پاکستان میں گاڑ دینے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اس لیے ان انتخابات میں یہ بھی طے ہونا ہے کہ امریکہ سے ہماری دوستی کی حدود کیا ہیں اور ہماری اپنی آزادی‘کشمیر کے مسئلے کے منصفانہ اور باوقارحل اور اُمت مسلمہ کے مفادات کی حفاظت کے سلسلے میں پاکستان کا کردار کیا ہوگا۔
معیشت کی بحالی: چوتھا مسئلہ ملک کی معیشت اور اس کو ورلڈ بنک کے چنگل سے آزاد کرانے کا ہے۔ جنرل صاحب کے دور میں ہماری معیشت پر عالمی مالیاتی اداروں‘ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور بیرونی کارپوریشنوں کی گرفت مضبوط تر ہوئی ہے جس کے نتیجے میں غربت بڑھی ہے‘ بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے‘ پیداواری عمل میں تیزی مفقود ہے‘ دولت کی عدم مساوات اور زیادہ غیرمنصفانہ ہوگئی ہے‘ تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی نج کاری کے نام پر عوام کی زندگی تلخ تر ہو گئی ہے۔ کاشتکار اپنی پیداوار کی جائز قیمت سے محروم ہے۔ ملکی صنعت خودانحصاری سے دُور ہو رہی ہے اور مارکیٹ اکانومی کے نام پر بیرونی دنیا پر ہمارا انحصار بڑھ رہا ہے اور صنعتی استعداد محدود ہو رہی ہے‘ قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے اور ظلم و استحصال کا دور دورہ ہے۔ حکومت اور عوام‘ حکمران اور تاجر‘ کسان اور مزدور برسرِپیکار ہیں۔ ضروریات زندگی مہنگی ہو رہی ہیں اور بجلی‘ پانی‘ گیس‘ پٹرول وغیرہ جیسی ضروریات کی قیمت بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں مصارف زندگی اور مصارف پیداوار دونوں بڑھ رہے ہیں۔ ملک معاشی استحکام سے محروم ہے‘ عوام اور تاجر ٹیکسوں کی بھرمار سے جاں بلب ہیںاور ملک و قوم کی خود انحصاری کا خواب ایک پریشان خواب بنتا جا رہا ہے۔یہ انتخاب اس امر کا بھی موقع فراہم کر رہا ہے کہ قوم ورلڈ بنک اور اس کے ہرکاروں کی دست برد سے آزاد ہو اور ہم پاکستان کی معیشت کی خودانحصاری کی بنیاد پر ترقی اور عوام کی خوش حالی کے حصول کے لیے نئی معاشی حکمت عملی بنا سکیں۔ مسلم دنیا میں بیشتر ممالک کی صنعت ورلڈ بنک کے ہاتھوں گروی (mortgage) ہے اور اس سے نجات کے بغیر حقیقی معاشی اور سیاسی آزادی محال ہے۔ جنوبی امریکہ کے ایک زمانے کے ترقی پذیر ممالک امریکہ اور ورلڈ بنک کی حکمت عملی اور قرضوں کی سیاست کے نتیجے میں آج نشانِ عبرت بن گئے ہیں۔ یہی حال انڈونیشیا کا ہے۔ اس انجام سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ خود انحصاری کا راستہ ہے‘ پرویز مشرف اور شوکت عزیز کا مسلط کردہ راستہ نہیں۔
جمہوری اقدار کا احترام: پانچواں مسئلہ اندرونی اور نظام حکمرانی سے متعلق ہے۔ جمہوریت کے لیے انتخابات ایک ضروری اور ناگزیر شرط ہیں لیکن محض انتخابات کو جمہوریت کے لیے کافی (sufficient) قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دستور کا احترام‘ قانون کی پاسداری‘ بنیادی آزادیوں کی ضمانت‘ حقوق کا تحفظ‘ اختلاف کا حق اور موقع‘ عدالت کی آزادی اور بالادستی‘ فوج کی عدم مداخلت‘ کسی بھی فردِواحد کی دراندازیوں سے تحفظ‘ انتخابات میں سب کو برابر کے مواقع کا حصول‘ نیز انتخابات میں ہر قسم کی سرکاری مداخلت اور سرکاری سرپرستی میں ’’چہیتوں‘‘ اور ’’ہم خیالوں‘‘ کی حوصلہ افزائی سے محفوظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ جنرل صاحب نے ریفرنڈم سے جس سلسلے کا آغاز کیا ہے وہ نت نئی شکلوں میں جاری ہے۔ پھردستوری ڈھانچے کو تباہ کرنا‘ اختیارات کا اپنے ہاتھوں میں ارتکاز‘ کنگز پارٹی کا قیام‘ گورنروں‘ سیکرٹریوں اور آئی ایس آئی کا سیاست میں ملوث ہونا‘ یہ سب جمہوریت کے لیے سم ّ قاتل ہیں۔ جن افراد نے بھی قوم کے سرمایے کو لوٹا اور اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا ان کا تعلق خواہ ارباب سیاست سے ہو‘ یا انتظامیہ سے‘ یا فوج اور عدالت سے‘ ان کا بے لاگ احتساب ضروری ہے‘ لیکن من مانا احتساب اور جزوی اور جانب دارانہ احتساب دراصل احتساب کی نفی اور کرپشن کی ایک بدترین شکل ہے۔ انتخابات کو اپنے عزائم کے مطابق منعقد (manage)کرنا جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے اور جنرل صاحب‘ ان کا احتساب بیورو‘ ان کا ادارہ قومی تعمیرنو‘ ان کے گورنر اور دوسرے اہل کار اسی راستے پر چل پڑے ہیں۔ بلاشبہہ انتخابی نتائج پر اس کا اثر پڑ سکتا ہے اور اس کے خلاف جتنا بھی احتجاج کیا جائے کم ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود انتخابات ہی وہ ذریعہ ہیں جن سے ان تمام کوششوں کے علی الرغم اس منہج کے خلاف جدوجہد ہو سکتی ہے۔ انتخابات کی اپنی حرکیات (dynamics) ہیں جو ساری تدبیروں کو بہا کر لے جا سکتی ہیں۔ ۱۰اکتوبر کے انتخابات کو اس پہلو سے بھی ایک سنگ میل بنایا جا سکتا ہے کہ سرکاری مداخلت کو ہمیشہ کے لیے رد کر دیا جائے اور حقیقی معنوں میں ’’سلطانیِ جمہور‘‘ کی راہ ہموار ہوسکے۔
یہ وہ وجوہ ہیں جن کی بنا پرہماری نگاہ میں ۱۰ اکتوبر کے انتخابات غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ ہم پاکستانی قوم کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان انتخابات میں ۱۹۴۶ء والی حکمت اور جرأت کا مظاہرہ کریں اور ۱۹۷۰ء والی غلطی سے ملک و ملّت کو محفوظ رکھنے کے لیے جان اور مال کی بازی لگا دیں۔
اکتوبر کے انتخابات کی اس خصوصی اہمیت کے ساتھ ہم یہ بات بھی قوم کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں کہ ووٹ کا صحیح استعمال ایک دینی‘ اخلاقی اور سیاسی فریضہ ہے اور ایک مسلمان قوم کے لیے تو اس کی اہمیت محض دنیاوی مقاصد و اہداف کے لیے نہیں بلکہ آخرت کی جواب دہی اور قضا و قدر کے اخلاقی اور آفاقی قانون کی پاسداری کے لیے بھی ضروری ہے۔ دینی اور اخلاقی اعتبار سے ووٹ اگر ایک شہادت اور گواہی ہے تو دوسری طرف ایک قومی امانت اور نظامِ حکومت کے چلانے کے لیے آپ کی طرف سے اپنا وکیل اور نمایندہ مقرر کرنے کی ذمہ داری ہے جس کے غلط استعمال کے نتائج صرف سیاسی اور دنیاوی اعتبار ہی سے تباہ کن نہ ہوں گے بلکہ آخرت کی جواب دہی اور گناہ و ثواب کے باب میں بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس سلسلے میں ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اپنے ان تمام بھائیوں اور بہنوں کو جو ووٹ کا حق رکھتے ہیں‘ مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع مرحوم کے اس شرعی فتوے کی یاد دہانی کرائیں جس میں انھوں نے اس حق کو استعمال کرنے کی فرضیت اور اس کے صحیح استعمال کے اصول و آداب کی نشان دہی کی ہے۔ ہر مسلمان تک اس پیغام کو پہنچانا چاہیے تاکہ وہ اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو سنوارنے کے لیے ووٹ کا صحیح استعمال کرے۔ مفتی محمد شفیع ؒ نے لکھا ہے کہ:
انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے‘ جس کا چھپانا بھی حرام ہے اور اس میں جھوٹ بولنا بھی حرام۔ اس پر کوئی معاوضہ لینا بھی حرام ہے۔ اس کو محض ایک سیاسی ہار جیت اور دنیا کا کھیل سمجھنا بھی بھاری غلطی ہے۔ آپ جس امیدوار کو ووٹ دیتے ہیںشرعاً آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریے اور علم و عمل اور دیانت داری کی رو سے اس کام کا اہل اور دوسرے امیدواروں سے بہتر ہے‘ جس کام کے لیے یہ انتخابات ہو رہے ہیں۔ اس حقیقت کوسامنے رکھیں تو اس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں:
۱- آپ کے ووٹ اور شہادت کے ذریعے جو نمایندہ کسی اسمبلی میں پہنچے گا‘ وہ اس سلسلے میں جتنے اچھے یا برے اقدامات کرے گا ان کی ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوگی۔ آپ بھی اس کے ثواب یا عذاب میں شریک ہوں گے۔
۲- اس معاملے میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ شخصی معاملات میں کوئی غلطی بھی ہو جائے تو اس کا اثر بھی شخصی اور محدود ہوتا ہے‘ ثواب و عذاب بھی محدود۔ قومی اور ملکی معاملات سے پوری قوم متاثر ہوتی ہے۔ اس کا ادنیٰ نقصان بھی بعض اوقات پوری قوم کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے‘ اس لیے اس کا ثواب و عذاب بھی بہت بڑا ہے۔
۳- سچی شہادت کا چھپانا ازروے قرآن حرام ہے۔ اس لیے آپ کے حلقہ انتخاب میں اگر کوئی صحیح نظریے کا حامل اور دیانت دار نمایندہ کھڑا ہے تو اس کو ووٹ دینے میں کوتاہی گناہ کبیرہ ہے۔
۴- جو امیدوار نظام اسلامی کے خلاف کوئی نظریہ رکھتا ہے اس کوووٹ دینا ایک جھوٹی شہادت ہے‘ جو گناہ کبیرہ ہے۔
۵- ووٹ کو پیسوں کے معاوضے میں دینا بدترین قسم کی رشوت ہے‘ اور چند ٹکوں کی خاطر اسلام اور ملک سے بغاوت ہے۔ دوسروں کی دنیا سنوارنے کے لیے اپنا دین قربان کردینا‘ کتنے ہی مال و دولت کے بدلے میں ہو‘ کوئی دانش مندی نہیں ہو سکتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ شخص سب سے زیادہ خسارے میں ہے جو دوسرے کی دنیا کے لیے اپنا دین کھو بیٹھے۔ (جواہر الفقہ‘ ج ۲‘ ص ۳۰۰-۳۰۱‘ مکتبہ دارالعلوم‘ کراچی)
مفتی صاحب قبلہ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ گویا قرآن پاک کے ان احکام کی تشریح و توضیح ہے کہ:
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰی اَھْلِھَا لا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِط اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًام بَصِیْرًا o (النساء۴:۵۸)
اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو‘ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘ اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِز وَلاَ یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْاط اِعْدِلُوْاقف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰیز وَاتَّقُوا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (المائدہ ۵:۸)
اے ایمان والو! خدا کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے اٹھ کھڑے ہو جایا کرو اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور خدا سے ڈرتے رہو‘ کچھ شک نہیں کہ خدا تمھارے سب اعمال سے باخبر ہے۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ المستشار موتمن(جس سے مشورہ لیا جائے اسے امانت دار ہونا چاہیے۔ سنن ابی داؤد)۔ اسی طرح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں لوگوں سے کچھ بیان کر رہے تھے کہ ایک اعرابی آپؐ کے پاس آیا اور اس نے پوچھا: قیامت کب آئے گی؟ آپؐ نے فرمایا:جس وقت امانت ضائع کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔ اس نے پوچھا: امانت کا ضائع کرنا کس طرح ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا: جب کام نااہل لوگوں کے سپرد کیا جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔ صَدَقَ رَسُولؐ اللّٰہ!
ہم اپنی قوم کے ہر بھائی اور بہن سے سوال کرتے ہیں کہ آج ملک و ملّت جس قیامت کی گرفت میں ہے کیا وہ انھی احکام الٰہی کی خلاف ورزی کا نتیجہ نہیں؟ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم ۱۰ اکتوبر کے انتخابات کو تلافی مافات کا ذریعہ بنائیں۔
متحدہ مجلس عمل کے ہر کارکن سے ہم کہنا چاہتے ہیں کہ بلاشبہہ انتخابات ہمارے لیے سیاسی نظام کی اصلاح‘ تبدیلی ٔ قیادت اور ملک کو ظلم اور ناانصافی سے بچانے کا ایک اہم ذریعہ ہیں لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ خود ہمارے اور ہماری قوم کے لیے خوداحتسابی‘ اور دین کی تفہیم اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے عزم کی تجدید کا موقع ہیں۔ ہمارے لیے انتخابات دعوت کا بہترین موقع ہیں۔ ہمارا مقصد وجود پوری انسانیت کو اور خصوصیت سے اپنی قوم کو اللہ کے دین اور اس کے رسولؐ کے طریقے کی طرف بلانا ہے۔ انتخابات ہمیں یہ موقع فراہم کر رہے ہیں کہ محض جلسوں اور جلوسوں کے ذریعے نہیں بلکہ ایک ایک گھر تک رسائی حاصل کرکے اور ایک ایک فرد سے مل کر اسے اصلاح ذات کے ساتھ اصلاح نظام کی طرف بلائیں اور ووٹ کی اہمیت اورووٹ کے ذریعے تبدیلی کے لیے اس کو صحیح کردار ادا کرنے کی دعوت اور ترغیب دیں۔ ہمیں اپنی قوم میں یہ احساس بھی پیدا کرنا ہے کہ ہم محض خاموش تماشائی نہ بنیں بلکہ اپنی اور اپنے ملک کی قسمت کو بدلنے کے لیے عملی جدوجہد کریں۔ ہمیں ان کو یہ دعوت بھی دینی ہے کہ بگاڑ صرف سیاست اور اجتماعی نظام اور ادارے ہی میں نہیں خود ہم میں بھی ہے اور ہم سب کو اپنی اور اپنے ملک کے نظام کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔ یہ قومی احتساب کا بھی ایک بڑا اہم ذریعہ ہے تاکہ ہرقیادت یہ جان جائے کہ عوام محض کالانعام نہیں بلکہ رد و اختیار کا آخری حق ان کے پاس ہے جسے وہ موثر انداز میں استعمال کر کے حالات کی رو کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ یہی حقیقی جمہوریت ہے اور یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم اللہ کے عتاب سے بچ سکتے ہیں اور اس کی رحمتوں کے مستحق بن سکتے ہیں۔ اگر اس نیت اور جذبے سے ہم انتخابی مہم میں جان کھپا دیں تو یہ عبادت بھی ہے اور اصلاح احوال کا تیر بہدف نسخہ بھی۔ اللہ کی یاد‘ اس سے استعانت کی طلب اور اس کے بندوں کو خیر کی راہ پر لگانے اور حسنات کے حصول کی جدوجہد میں شریک کرنے کی نیت اور جذبے سے اگر آپ انتخابی مہم میں کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کی اس جدوجہد پر اپنی برکتیں نازل فرمائے گا‘ دلوں کو آپ کی بات کے لیے کھول دے گا اور بند دروازے ان شاء اللہ وا ہو جائیں گے۔ یہی کامیابی کی راہ ہے۔
آپ کا کام کوشش کرنا اور بھرپور انداز میں کوشش کرنا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان انتخابات کو متاثر کرنے اور مفید مطلب نتائج حاصل کرنے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلے جا رہے ہیں‘ کیا کیا منصوبے بنائے جارہے ہیں‘ کیا کیا کرتب دکھائے جائیں گے۔ لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی ہم پر اثرانداز نہیں ہونی چاہیے۔ انسانوں میں خیر اور شر دونوں کی صلاحیت رکھ دی گئی ہے۔ آپ ان کی نیکی کی صفت کو اپیل کریں اور اس زبان میں کریں جسے وہ سن سکیں اور سمجھ سکیں۔ آپ انسانوں کو دوستوں اور مخالفوں کی صفوں میں نہ بانٹیں بلکہ سب تک پہنچیں اور سب کو دعوت دیں کہ حق کا ساتھ دیں۔ آپ کا رویہ اور آپ کی ساری مہم ان اخلاقی حدود کے اندر ہو جو شریعت نے ہمارے لیے رکھی ہیں۔ آپ کوشش بھی کریں اور دعا بھی کریں‘ پھر دیکھیں کہ کیا اثرات رونما ہوتے ہیں۔ آپ کا رویہ خدمت اور بھلائی کا ہونا چاہیے اور آپ کو اپنی دعوت اور پیغام کو لوگوں کے حقیقی مسائل اور مصائب سے مربوط کر کے پیش کرنا چاہیے۔ آپ انھیں اللہ کی طرف بلائیں اور ساتھ ہی آپ انھیں بتائیں کہ اسلام محض ایک نظریہ یا خوش آیند خواب نہیں بلکہ ہماری مشکلات کا حقیقی حل بھی ہے۔
آپ اپنے علاقے کے خصوصی مسائل پر توجہ صرف کریں اور آپ کے نمایندے لوگوں کو بتائیں کہ ان کے سامنے آپ کی خدمت اور آپ کی مشکلات کو حل کرنا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر شخص کو انصاف ملے‘ اس کی حقیقی ضروریات عزت کے ساتھ پوری ہوں‘ یہاں کوئی بھوکا‘ننگا اور بے سہارا نہ ہو۔ ہر بچے کو دینی اور دنیوی تعلیم ملے‘ ہر مریض کے لیے دوا دارو کا بندوبست ہو‘ ہر محنت کش کو اس کا حق ملے‘ ہر کسان کو اس کی پیداوار کی صحیح قیمت موصول ہو‘ ہر بیوہ اور یتیم کا کوئی ولی و وارث ہو۔ اس طرح بحیثیت مجموعی اس ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا بندوبست ہو‘ اسے قرضوں کی لعنت سے نجات ملے‘ یہ سود سے پاک ہو سکے‘ اس کے قومی دفاع کو مضبوط تر کیا جائے‘ کشمیر کی تحریک آزادی کی بھرپور حمایت و تائید ہو‘ مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑانے اور ان کے خلاف صف آرا کرنے کی ہر سازش کا پردہ چاک کیا جائے اور قومی وقار اور آزادی کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے۔ نیز ملک کے تمام شہریوں کے درمیان‘ بلالحاظ رنگ و نسل و مذہب‘ رواداری‘ تعاون باہمی اور حقوق و فرائض کی ادایگی کا اہتمام ہو۔ نفرتیں ختم کی جائیں اور محبت کے ذریعے‘ جو فاتح عالم ہے‘ دلوں کو جوڑنے اور حقیقی بھائی چارا پیدا کرنے کی سعی کی جائے۔
متحدہ مجلس عمل کا منشور انھی اہداف کو قوم کے سامنے لایا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس پیغام کو گھرگھر پہنچائیں اور اللہ کے بندوں کو ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے سرگرم عمل کریں اور ایسے لوگوں کو زمام کار سونپنے کے لیے قوم کو آمادہ کریں جو اپنی ذات کے مقابلے میں اپنی قوم ‘اپنے ملک اور اپنے دین کے مفاد کے حصول کے لیے ہر قربانی دینے کا داعیہ رکھتے ہوں۔ اگر ہمارے عوام زبانِ حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ؎
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
تو ہمارا بھی فرض ہے کہ ان کے دکھ کے مداوے کے لیے اجتماعی جدوجہد کریں اور خود ان کو اس میں شریک کرنے کی کوشش کریں۔ انتخابات دراصل اسی جدوجہد کا ایک حصہ ہیں۔ ہماری نگاہ انتخابات پر بھی ہے‘ مگرانتخابات کے بعد بھی اسی جدوجہد کو تیز تر کرنے کی ضرورت ہے۔ نتائج خواہ کچھ ہوں‘ یہ کوشش خود اپنا انعام ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم سچی نیت اور خدمت خلق کے جذبے سے‘ اصلاح احوال کے لیے‘ تن‘ من‘ دھن سے کوشش کریں گے تو ان شاء اللہ بہتر نتائج ضرور نکلیں گے لیکن مومن کی نگاہ نتائج سے زیادہ مقاصد پر ہوتی ہے اور وہ جانتا ہے کہ :
یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہے لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا‘ ہارے بھی تو بازی مات نہیں
بلاشبہہ یہ انتخابات چند در چند تحدیدات (limitations) کے دائرے میں منعقد کیے جا رہے ہیں۔ وہ تمام حربے استعمال کیے جا رہے ہیں جن سے انتخابات سے پہلے ہی پسندیدہ عناصر اور جماعتوں کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔ اس میں حلقہ بندیوں سے لے کر نمایندوں کی منظوری اور نامنظوری اور انتخابی مہم کو موثر لہر نہ بننے دینے کے تمام اقدامات شامل ہیں۔ ان تمام مشکلات کے باوجود ہمارا فرض ہے کہ عوام تک پہنچیں‘ ووٹروں کو گھروں سے نکلنے اور اپنا حق استعمال کرنے اور انھیں صحیح فیصلے کرنے کے لیے ہر ممکن مدد و اعانت فراہم کریں۔ انھیں اصل ایشو سمجھانے‘ اصل خطرات سے آگاہ کرنے اور اصل امکانات سے فائدہ اٹھانے کے لیے متحرک کریں۔ اس سلسلے میں ان باتوں کا خصوصی خیال رکھنے کی ضرورت ہے:
۱- ہمارا اپنا رویہ مثبت ہو جو اخلاقی اقدار کی پاسداری‘ مخالفت میں بھی حدود کے احترام اور عوام کی حقیقی خیرخواہی سے عبارت ہو۔
۲- بینر‘ پوسٹر‘ جلسے‘ جلوس‘ سب اہم ہیں لیکن سب سے زیادہ اہم‘ نمایندے اور کارکنوں کا گھر گھر جاکر ایک ایک فرد تک پیغام پہنچانا ہے۔ بلالحاظ اس کے کہ وہ علاقہ یا گھرانہ کس سے وابستہ ہے اور کہاں تک ہمارا موید و معاون ہے‘ ہر شخص تک پہنچنا ہمارا ہدف ہونا چاہیے تاکہ دعوت کا حق ادا ہو سکے۔
۳- اپنے نمایندے کی خدمات کا ذکر اچھے انداز میں ہو اور اس کے ساتھ پوری کوشش اپنے منشور اور پیغام اور ان انتخابات کی خصوصی اہمیت اور اس میں عوام کو اس بات پر آمادہ کرنے پر ہو کہ وہ پرانے اور آزمائے ہوئے لوگوں کی جگہ اچھی اور نئی قیادت کو سامنے لانے کی کوشش کریں۔
۴- نمایندوں کا تعارف ضروری ہے لیکن ملک بھر میں کتاب کے نشان کو متعارف کرانا اور کتاب سے ووٹر کی وابستگی پیدا کرنے کی کوشش بھی ضروری ہے۔ بیلٹ پیپر پر نمایندے کی تصویر نہیں ہوگی‘ نام اور کتاب کا نشان ہوگا۔ اس لیے کتاب کو نمایاں کرنا ضروری ہے۔
۵- اپنے علاقے میں کام کا منصوبہ تقسیمِ کار کی بنیاد پر بنائیں اور انتخابی مہم کے آخری دن تک ہرفرد تک پہنچنے کی کوشش کریں۔
۶- علاقے کے اہم افراد‘ دھڑوں‘ برادریوں‘ قبیلوں وغیرہ سے ربط قائم کریں اور ان کو اپنے ساتھ ملائیں۔ جہاں ضروری ہو نظم کے اعتماد اور رہنمائی کے ساتھ مقامی سطح پر معاملہ کریں۔
۷- الیکشن کے دن ووٹر کو گھر سے پولنگ اسٹیشن پر لانے کا خاص اہتمام کریں۔ جو افراد گھر میں بیٹھے رہ جاتے ہیں وہ دراصل غلط افراد کے آگے آنے کے ذمہ دار ہیں۔ انھیں یہ احساس دلائیں کہ ان کا ایک ووٹ بھی فیصلہ کن ہو سکتا ہے۔
۸- الیکشن کے دن سے پہلے ہر پولنگ اسٹیشن کے لیے فعّال ایجنٹوں کا انتخاب‘ ان کی تربیت اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی مکمل منصوبہ بندی ضروری ہے۔ الیکشن اور پولنگ ایجنٹ کے لیے قواعد کا علم‘ علاقے اور اس کے افراد سے واقفیت‘ اپنے حقوق کا ادراک اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے حکمت اور جرأت سے کام کا سلیقہ ضروری ہے۔
۹- الیکشن کے پورے عمل میں خواتین کی اہمیت مسلمہ ہے۔ پوری مہم کے دوران اس پر توجہ رہے۔ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ خواتین کا تعاون حاصل کیجیے خصوصاً پولنگ کے دن کے لیے ہر لحاظ سے اطمینان بخش منصوبہ بندی کیجیے۔
۱۰- الیکشن میں غلط طریقوں کے استعمال کو روکنے اور رکوانے کے لیے مناسب تیاری کیجیے۔
۱۱- الیکشن کے نتائج ضابطے کے مطابق حاصل کرنے اور آخری وقت تک موجود رہنے کا اہتمام کیجیے۔
۱۲- باہر کے نظام سے ربط رکھیے اور ضروری معلومات کی ترسیل اور اگر ضرورت ہو تو نمایندے یا دوسرے اہم افراد سے مدد کے نظام کو موثر رکھیے۔
۱۳- ہر اشتعال سے اپنے کو محفوظ رکھیے اور اپنے کام کو سلیقے سے انجام دینے اور سب کو قانون اور ضابطے کے احترام کے لیے ترغیب دینے کی کوشش کیجیے۔
۱۴- ہر قسم کے نتائج کا مقابلہ کرنے کے لیے ذہنی اور اجتماعی طور پر تیار رہیے۔ ہماری جدوجہد طویل ہے۔ انتخابات منزل نہیں‘ راہ کے سنگ میل ہیں۔ اس لیے ہماری حکمت عملی کو الیکشن سے پہلے‘ الیکشن کے دن اور الیکشن کے بعد کے تینوں مراحل پر محیط ہونا چاہیے۔
یہ چند امور بطور مثال پیش کیے گئے ہیں۔ الیکشن کے تمام تقاضوں کا ادراک اور ان کے لیے مناسب منصوبہ بندی آپ کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تدبیر اور حکمت کو بھی اتنی ہی اہمیت دی ہے جتنی اصول اور نظریے کو۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ انتخابات میں آپ کو صرف نظریاتی ووٹ ہی نہیں ہرووٹ کی ضرورت ہے۔ اسے حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کیجیے۔
اس سب کے ساتھ سب سے اہم چیز اللہ سے اپنا رشتہ مضبوط رکھنا‘ اس سے ہر لمحہ دعا کرنا اور اس کی اعانت کو اپنی اصل قوت سمجھنا تحریک اسلامی کے کارکنوں کی اصل پہچان اور ہمارے لیے اس جدوجہد کی جان ہے۔ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رکھیے‘ اس کی مدد پر یقین رکھیے‘ اپنی سی کوشش کر ڈالیے اور نتائج اس پر چھوڑ دیجیے۔ السعی منا والاتمام من اللّٰہ تعالٰی --- کوشش ہمارا کام ہے اور نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
(تقسیم عام کے لیے دستیاب ہے‘ ۱۷۵ روپے سیکڑہ۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)
ترجمہ: مولانا حامد علی ؒ
یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَط قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِط وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ (البقرہ ۲:۲۱۵)
وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟ کہو‘ جو مال بھی تم خرچ کرو ‘ وہ ماں باپ‘ عزیزوں‘ یتیموں‘ غریبوں اور مسافروں کے لیے ہے۔ اور تم بھلائی کے جو کام بھی کرو‘ اللہ اُس سے بخوبی واقف ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جن حالات و ظروف میں اسلام پروان چڑھا‘ اُن میں انفاق اُمت ِ مسلمہ کے قیام کی ایک بنیادی ضرورت تھی کیونکہ اُمت کو مشکلات و مصائب اور جنگوں کا مسلسل سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ پھر انفاق کو ایک اور پہلو سے بھی ملّت کی ضرورت کی حیثیت حاصل تھی۔ اور وہ ہے ملّت کے افراد کی باہمی کفالت اور ان کے فکری و جذباتی امتیازات و تفرقوں کا ازالہ‘ اِس حد تک کہ ملّت کا ہر فرد یہ محسوس کرے کہ وہ جسدِملّت کا ایک عضو ہے جسے یہ جسد نہ کسی شے سے محروم کرتا ہے اور نہ اُس سے کوئی شے بچا کر رکھتا ہے۔ جماعت کے قیام و بقا کے سلسلے میں فکری و جذباتی طور پر اس چیز کی بہت بڑی قدروقیمت ہے‘ جب کہ افرادِ ملّت کی ضروریات کی تکمیل کی‘ جماعت کے قیام و بقا کے سلسلے میں عملی قدروقیمت ہے۔
سوال یہ تھا کہ کس طرح کا مال خرچ کریں؟ اس سوال کا جو جواب آیا‘ اُس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انفاق کی نوعیت کیا ہو اور یہ بھی کہ اس کے اولیٰ اور قریب ترین مصارف کون کون سے ہیں: قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ ’’کہو! تم جو اچھا مال خرچ کرو‘‘۔
اس اندازِ بیان سے دو پہلو سامنے آتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ وہ جو کچھ خرچ کرتا ہے‘ وہ بہتر ہے۔ بہتر ہے‘ دینے والے کے لیے۔ بہتر ہے‘ لینے والے کے لیے۔ بہتر ہے‘ مسلمانوں کی جماعت کے لیے۔ اور بہتر ہے فی نفسہ۔ کیونکہ وہ ایک پاکیزہ عمل ہے‘ ایک پاکیزہ پیش کش ہے‘ ایک پاکیزہ شے ہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ خرچ کرنے والا خرچ کرنے کے لیے اپنے مال میں سے اعلیٰ شے کو تلاش کرے اور اپنی بہترین اشیا میں دوسرے افراد کو شریک کرے کیونکہ انفاق سے دل کی تطہیر اور نفس کا تزکیہ ہوتا ہے اور دوسروں کے لیے وہ منفعت و اعانت ہے۔ اور ڈھونڈ کر اچھے مال کو خرچ کرنے اور دوسروں کے حق میں اُس سے دست بردار ہونے ہی سے دل کی طہارت اور نفس کا تزکیہ حاصل ہوتا اور ایثار و قربانی کا شریفانہ جذبہ پروان چڑھتا ہے۔
لیکن یہ دوسرا پہلو لازمی نہیں ہے۔ لازمی--- جیسا کہ دوسری آیت میں آیا ہے--- یہ ہے کہ خرچ کرنے والا اوسط درجے کی شے خرچ کرے‘ نہ سب سے خراب شے اور نہ سب سے زیادہ گراں شے۔ یہاں اِس پہلو کی طرف اشارہ اس لیے ہے کہ نفس خوشی خوشی اس بات کے لیے تیار ہو اور اُس میں اِس بات کا شوق پیدا ہو کہ وہ بہتر سے بہتر شے کو اللہ کی راہ میں خرچ کرے--- جیسا کہ نفوس کے تزکیے اور دلوں کی تیاری و تربیت کے سلسلے میں قرآن کا طریقہ ہے۔
انفاق کا طریقہ اور اُس کی مدّاتِ صرف کیا ہیں؟ اِنفاق کی نوعیت کی وضاحت کے بعد یہ بات بھی واضح کی جاتی ہے:
فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلط
وہ ماں باپ‘ عزیزوں‘ یتیموں‘ غریبوں اور مسافروں کے لیے ہے!
یہ الفاظ لوگوں کی مختلف قسموں کو ایک لڑی میں پرو دیتے ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جس سے خرچ کرنے والے کا رشتے اور خاندان کا تعلق ہے‘ کچھ وہ ہیں جن پر انسان کو رحم آنا چاہیے‘چنانچہ اُن سے رحم و کرم کا تعلق ہے اور کچھ سے عقیدے کے دائرے میں رہتے ہوئے انسانیت کبریٰ کا تعلق ہے۔ اور یہ سب لوگ--- والدین‘ اعزہ‘ یتامیٰ‘ مساکین‘ مسافر--- ایک ہی آیت (بلکہ ایک ہی جملے) میں آجاتے ہیں۔ یہ سب لوگ اجتماعی کفالت کے اُس مضبوط نظم سے وابستہ ہیں جو بنی نوعِ انسان کو اِس مضبوط عقیدے کے دائرے میں حاصل ہے۔
اِس آیت اور قرآن کی دوسری آیات میں مدّاتِ صَرف کی ایک خاص ترتیب ہے‘ جس کی مزید تشریح و تائید بعض احادیث ِ نبویؐ سے ہوتی ہے‘ مثلاً:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا: اپنی ذات سے شروع کرو اور پہلے اپنے اُوپر خرچ کرو۔ جب اُس سے بچ رہے تو اپنے اہل و عیال پر۔ اہل و عیال سے بچ رہے تو اپنے رشتے داروں پر۔ اور رشتہ داروں سے بچ رہے تو اِس طرح اوراِس طرح (غیر رشتہ داروں پر) خرچ کرو۔ (مسلم)
اس ترتیب سے نفسِ انسانی کی تربیت و رہنمائی کے لیے اسلام کے سادہ حکیمانہ نظام پر روشنی پڑتی ہے۔ اسلام انسان کو لیتا ہے جیسا کہ وہ اپنی فطرت‘ اپنے طبعی میلانات اور صلاحیتوں کے ساتھ ہے۔اُسے وہاں سے لے کر چلتا ہے‘ جہاں وہ ہے اور جہاں وہ کھڑا ہے۔ اُسے ایک ایک قدم آگے بڑھاتا ہوا اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پر نرمی‘ سہولت اور آہستہ روی کے ساتھ لے جاتا ہے۔ وہ بلندیوں پر چڑھتا ہے‘ مگر راحت و آرام کے ساتھ۔ وہ اپنی فطرت‘ اپنے میلانات اور اپنی صلاحیتوں کی پکار پر لبیک کہتا ہے اور ساتھ ہی وہ زندگی کو پروان چڑھاتا اور ترقی دیتا ہے۔ اُسے زحمت و مشقت کا احساس نہیں ہوتا۔ اُسے طوق وسلاسل پہنا کر بلندیوں پر کھینچا نہیں جاتا‘ اُس کی قوتوں اور فطری میلانات کو کچلا اور ختم نہیں کیا جاتا‘ اُسے راستے پر زبردستی چلایا نہیں جاتا‘ نہ اُسے اُوپر اُوپر اڑا کر ٹیلوں اور پہاڑوں پر لے جایا جاتا ہے۔ اسلام اسے لے کر آہستہ روی اور نرمی و سہولت کے ساتھ بلندیوں پر اِس طرح لے جاتا ہے کہ اُس کے قدم زمین پر ہوتے ہیں‘ نظریں آسمان کی طرف‘ دل بلند ترین اُفق کی طرف متوجہ اور روح بلندیوں میں خدا سے واصل۔
اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ انسان اپنی ذات سے محبت کرتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے دوسروں پر خرچ کرنے سے پہلے انسان کو اپنی ضروریات پوری کرنے کا حکم دیا۔ اُس نے اُس کے لیے پاکیزہ رزق حلال کیا اور اُسے اِس بات پر اُبھارا کہ عیش پسندی اور اِتراہٹ اورفخر و غرور سے بچتے ہوئے اُس سے اپنی ذات کو فائدہ پہنچائے۔ حقیقت یہ ہے کہ صدقہ ذاتی ضروریات کی تکمیل کے بعد ہی شروع ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’بہترین صدقہ وہ ہے جو تونگری کے ساتھ ہو۔ اور اُوپر کا ہاتھ (دینے والا ہاتھ) نیچے کے ہاتھ (لینے والے ہاتھ) سے بہتر ہے۔ اور انفاق کی ابتدا اُن لوگوں سے کرو جن کی کفالت کے تم ذمہ دار ہو!‘‘ (بخاری)
ایک اور روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص ایک انڈے کے برابر سونا لایا اور اس نے کہا‘ اے اللہ کے رسولؐ! سونے کے اِس انڈے کو میں نے ایک کان میں پایا ہے‘ آپؐ اِسے لے لیں‘ یہ میری طرف سے صدقہ ہے۔ اور میرے پاس اِس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے منہ پھیر لیا تو وہ شخص آپؐ کی داہنی طرف آیا اور اُس نے پھر یہی بات کہی۔ آپؐ نے اُس سے منہ پھیر لیا تو وہ آپؐ کی بائیں طرف آیا اور اس نے یہی بات پھر کہی۔آپؐ نے پھر منہ پھیر لیا تو وہ آپؐ کے پیٹھ پیچھے سے آیا اور اس نے یہی بات دہرائی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس انڈے کو لے لیا اور اُسے اُس پر پھینک دیا‘ اگر وہ اُسے لگتا تواُسے چوٹ لگتی۔ پھر آپ ؐنے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنی تمام مملوکہ اشیا لے کر آجاتا ہے اور کہتا ہے‘ یہ صدقہ ہے! پھر وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے بیٹھ جاتا ہے۔ بہترین صدقہ وہ ہے جو تونگری کے ساتھ ہو۔ (ابوداؤد)
اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ انسان سب سے زیادہ اپنے خاندان کے قریبی افراد--- اہل و عیال اور والدین سے محبت کرتا ہے۔ اِس لیے اسلام اُسے اُس کی ذات کے بعد ایک قدم آگے بڑھا کر اُن لوگوں کے پاس لے جاتا ہے جن سے وہ محبت رکھتا ہے‘ تاکہ وہ راضی خوشی اُن پر اپنا مال خرچ کرے اور اپنے فطری میلان کی--- جس میں کوئی خرابی نہیں ہے‘ بلکہ حکمت اور خیر ہے--- تکمیل کرسکے۔ اِسی کے ساتھ وہ اس طرح اپنے قریب ترین اعزہ کی کفالت بھی کرتا ہے‘ جو اس کے اعزہ ہونے کے ساتھ امت ِ مسلمہ کے افراد بھی ہیں۔ اگر اُن کو نہ دیا جائے تو وہ محتاج ہوجائیں گے۔ اُن کا اپنے اعزہ سے مدد لینا دُور کے لوگوں سے مدد لینے کے مقابلے میں زیادہ شریفانہ بات ہے۔ علاوہ ازیں اِس عمل سے اولین گھر میں--- جہاں انسان کے اہل و عیال اور والدین رہتے ہیں--- محبت اور سلامتی کا نشوونما ہوگا اور خاندان کے--- جسے اللہ تعالیٰ انسانیت ِ کبریٰ کے لیے پہلی اینٹ بنانا چاہتا ہے--- باہمی روابط میں استحکام ہوگا۔
اللہ تعالیٰ کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس قریب ترین دائرے کے بعد انسان اپنے سب ہی عزیزوں سے--- اُن کے قریب یا دُور کے تعلق کے مطابق--- محبت کرتا اور اُن کے لیے حمیّت رکھتا ہے--- اور اس میں کوئی خرابی بھی نہیں--- کیونکہ یہ لوگ بہرحال اُمت ِ مسلمہ کے جسم اور سماج کے اعضا ہیں۔ اسی لیے اسلام قریبی اعزہ کے بعد ایک قدم آگے بڑھاتا ہے اور انسانیت کے فطری رجحانات و میلانات کے ساتھ اِن رشتہ داروں کی طرف رخ کرتا ہے تاکہ اُن لوگوں کی ضروریات کی تکمیل ہو‘ اِن عزیزوں کے ساتھ بھی روابط مستحکم ہوں اور اُمت ِ مسلمہ کا یہ یونٹ قوی یونٹ بن سکے جس کے باہمی تعلقات قوی اور محکم ہوں۔
قریب اور دُور کے اعزہ پر خرچ کرنے کے بعد انسان کے پاس کچھ بچ رہے تو اسلام اس کا ہاتھ پکڑ کر عام انسانیت کے اُن گروہوں کے پاس لے جاتا ہے جن کی ناتوانی یا حالات کی پریشانی کے باعث انسان کے رحم اور تعاون کے جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں۔ اِن میں سب سے پہلے کم عمر اور ناتواں یتیم بچے آتے ہیں۔ پھر غربا و مساکین ہیں‘ جو تہی دست ہیں اور اُن کے پاس اُن کے ضروری مصارف کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ اپنی عزت کو بچانے کے لیے خاموش رہتے ہیں اور دستِ سوال دراز نہیں کرتے۔ پھر مسافر ہیں‘ جو اگرچہ گھر پر مال و دولت رکھتے تھے مگر اب اس سے دُور اور محروم ہیں--- ایسے لوگ مسلمانوں میں بہت تھے‘ جو اپنا سب کچھ مکّہ میں چھوڑ کر مدینہ ہجرت کر آئے تھے--- مذکورہ بالا سب گروہ سماج ہی کے اعضا ہیں‘ اس لیے جو لوگ کچھ مال و دولت رکھتے ہیں‘ اسلام انھیں متوجہ کرتا ہے کہ وہ ان تہی دستوں پر خرچ کریں۔ اس مقصد کے لیے وہ پہلے ان کے جذبات کو اپیل کرتا اور اُن کا تزکیہ کرتا ہے اور پھر انھیں انفاق کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے تمام اغراض و مقاصد نرمی و سہولت کے ساتھ حاصل کر لیتا ہے۔ اس کا پہلا مقصد یہ تھا کہ خرچ کرنے والے نفوس کا تزکیہ ہو۔ یہ مقصد اس طرح حاصل ہوا کہ انھوں نے جو کچھ دیا اور جو کچھ خرچ کیا‘ راضی خوشی دیا‘ طیب ِ نفس کے ساتھ خرچ کیا ‘کسی تنگی اور کنجوسی کے بغیر خرچ کیا‘ اللہ کی رضا کے لیے‘ اُس کی طرف رخ کرتے ہوئے خرچ کیا۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ لوگ اِن ضرورت مندوں کو دیں اور اُن کی ضروریات کی تکمیل اور کفالت کا نظم ہو۔ یہ مقصد بھی حاصل ہوا۔ اسلام کا تیسرا مقصد یہ تھا کہ تمام افراد کو اِس طرح مربوط و منظم کیا جائے کہ کسی پریشانی اور تنگی کے بغیر وہ ایک دوسرے کے ضامن و کفیل ہوں اور یہ مقصد بھی حاصل ہوا--- اسلام کی قیادت کتنی لطیف قیادت ہے جو سہولت کے ساتھ اپنے سب مقاصد کی تکمیل کر لیتی ہے اور جبر و تشدد اور تصنّع کے بغیر خیر کے سارے پہلو حاصل کر لیتی ہے۔
اس کے بعد اسلام اِس پورے عمل کو اعلیٰ اُفق کے ساتھ مربوط کر دیتا ہے۔ انسان جو کچھ دے‘ جو کچھ کرے اور دل میں جو نیت اور ارادہ رکھے‘ اُس سب کے سلسلے میں وہ خدا سے تعلق کو اُس کے دل میں اُبھار دیتا ہے:
وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ o
بھلائی کے جو کام بھی تم کرو گے‘ اللہ اُن سے بخوبی واقف ہے۔
اللہ اُس کے عمل سے واقف ہے‘ عمل کے محرکات سے واقف ہے‘ اس کے پیچھے جو نیت ہے‘ اس سے بھی واقف ہے۔ اس کا عمل ضائع نہ ہوگا! وہ اللہ کے حساب میں ہے جس کے پاس کوئی شے ضائع نہیں ہوتی‘ جو لوگوں پر نہ ظلم کرتا ہے اور نہ اُن کو رتی بھر کم کر کے دیتاہے‘ جس کے یہاں ریا اور ملمع کاری کا گزر نہیں۔
اس طرح اسلام کسی سختی اور تصنّع کے بغیر نرمی و سہولت سے دلوں کو اُفق اعلیٰ سے مربوط کر دیتا ہے اور صفاے قلب اور خدا کے لیے یکسوئی اور خلوص کے بلند مقام تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ ہے وہ نظامِ تربیت جو علیم وخبیر کا وضع کردہ ہے ۔ اسی پر وہ اپنا نظام قائم کرتا ہے جو انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے لیتا ہے اور جہاں وہ ہے وہیں سے اُسے لے کر چلتا ہے۔ پھر وہ اُسے اُن بلندیوں تک لے جاتا ہے جہاں تک وہ اس کے بغیر نہیں پہنچ سکتا اور نہ کبھی پہنچا ہے مگر صرف اُس وقت‘ جب کہ وہ اِس راستے پر اِسی نظام کے تحت چلا ہے۔(فی ظلال القرآن‘ ج ۱‘ ص ۵۴۰-۵۴۵)
قرآن کریم وہ کتاب ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کتاب کے ذریعے اللہ تعالیٰ بہت سی قوموں کو اُوپر اٹھاتا ہے‘ اور بہت سی قوموں کو نیچے گراتا ہے۔ خود قرآن کا بڑا حصہ قوموں کے عروج و زوال کی داستان پر مشتمل ہے۔ شاہ ولی اللہؒ نے علومِ قرآنی کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ان میں سے ایک حصے کو تذ کیر بایام اللّٰہ ’’اللہ کے دنوں کے ذریعے تذکیر‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے۔
قوموں کے عروج و زوال کی داستان انسانی تاریخ کے صفحات پر اس طرح ثبت ہے کہ انسان اس پر غوروفکر کیے بغیر نہیں گزر سکتا۔ جماعتیں اور گروہ گم نامی کے گوشے سے اٹھتے ہیں اور دنیا کے اُوپر چھا جاتے ہیں‘ تہذیب و تمدن کے عروج پر پہنچتے ہیں اور اس کے بعد بعض سو جاتے ہیں‘ بعض قعر مذلت میں گر جاتے ہیں‘ اور بعض کی فصل تو اس طرح کٹ جاتی ہے کہ اُن کا نام تاریخ کے صفحات میں ایک داستان عبرت بن کر رہ جاتا ہے۔ فَجَعَلْنٰھُمْ اَحَادِیْثَ وَمَزَّقْنٰھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍط (السبا ۳۴:۱۹) ’’آخرکار ہم نے انھیں افسانہ بنا کر رکھ دیا اور انھیں بالکل تتر بتر کر ڈالا‘‘۔ تہذیب و تمدن کی ساری سربلندیوں کے باوجود‘ بعض کا خاتمہ اس طرح ہوتا ہے گویا آگ بجھ گئی ہو‘ یا کھیتی کٹ چکی ہو۔ حَتّٰی جَعَلْنٰھُمْ حَصِیْدًا خَامِدِ یْنَo (الانبیاء ۲۱:۱۵) ’’یہاں تک کہ ہم نے ان کو کھلیان کر دیا‘ زندگی کا ایک شرارہ تک ان میں نہ رہا‘‘۔
انسان سوچتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اُس کی فطرت میں جستجو کا مادہ ہے‘ اور وہ جاننا چاہتا ہے کہ انسانی جماعتیں اور گروہ ترقی کی منزلیں کیسے طے کرتی ہیں اور ایسا کیسے ہو جاتا ہے کہ جب وہ بامِ عروج پر پہنچ جاتی ہیں تو اس کے بعد زوال کی طرف چل پڑتی ہیں‘اور بالآخر اس کا شکار ہو جاتی ہیں۔
ہماری عادت یہ ہے کہ ہم چیزوں کو سمجھنے کے لیے ایسی مثالیں لاتے ہیں جو ہمارے لیے زیادہ قابل فہم ہوں۔ جب انسان نے قوموں کے عروج و زوال پر غور کیا تو اُس نے خیال کیا کہ قوموں کی زندگی کا عمل بھی شاید اُسی طرح ہے جس طرح ایک فرد کی زندگی ہوتی ہے جس کو وہ جانتا اور پہچانتا ہے۔ انسان پیدا ہوتا ہے‘ بچپن کی حدود میں داخل ہوتا ہے‘ جوانی کے دور میں داخل ہوتا ہے‘ اور پھر اس پر بڑھاپا طاری ہو جاتا ہے‘ اور بالآخر وہ موت کا شکار ہو جاتا ہے۔ انسان نے سوچا شاید قوموں کی زندگی بھی اسی طرح ایک حیاتیاتی عمل ہے اور یہ بھی بالکل انسانی زندگی کی طرح‘ بچپن‘ جوانی‘ بڑھاپا اور موت کی منازل سے گزرتی ہے۔ کبھی انسان شام و سحر کی طرف نظر دوڑاتا ہے کیونکہ تاریخ کا زمانے سے بڑا گہرا تعلق ہے‘ لہٰذا اس نے یہ فتویٰ صادر کر دیا کہ قوموں کی زندگی ایک چکر کی مانند ہے۔ جس طرح صبح کے بعد شام اور پھر صبح ہوتی ہے‘ اسی طرح قوموں کی زندگی میں بھی یادگار لمحے آتے رہتے ہیں۔
کچھ لوگوں نے اندازہ لگایا کہ ان سارے چکروں کے نتیجے میں انسانیت بحیثیت مجموعی ترقی و ارتقا کی طرف بڑھ رہی ہے‘ بالخصوص پچھلی تین چار صدیوں میں جب یورپ نے سائنس اور ٹکنالوجی کی طرف عظیم الشان جست لگائی اور فطرت کے راز بے نقاب کیے‘ اور قدرت کی طاقتوں پر کنٹرول حاصل کیا تو یورپ نے دیکھا کہ اب ہم بغیر الہامی ہدایت کے قدرت کے اُوپر قابو حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ اب یہ نظریہ پیش کردیا گیا کہ انسانیت بحیثیت مجموعی ترقی کی طرف جا رہی ہے بلکہ تاریخ کے اندر ترقی ایک لازمی امر ہے جو کہ روپذیر ہو کر رہے گا۔ اگر قوموں پر ادوار آتے ہیں تو یہ ان کے اپنے معاملات ہیں‘ انسانیت بحیثیت مجموعی ترقی پذیر ہے۔
اس نظریے کو ابھی چند سال ہی گزرے تھے کہ پہلی جنگ عظیم میں انسانیت کو ۸۰ لاکھ لاشوں اور ڈھائی کروڑ معذور و اپاہج انسانوں کا تحفہ ملا۔ یوں ترقی کے یہ سارے خواب چکناچور ہو گئے اور یورپ کو یہ سوچنا پڑا کہ انسان کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لے‘ اُس کی عقل کتنی ہی آگے کیوں نہ بڑھ جائے‘ قدرت کی طاقتوں اور فطرت کے رازوں پر اُس کو خواہ کتنا ہی کنٹرول حاصل ہو جائے لیکن ضروری نہیں کہ انسانیت ترقی کی طرف جا رہی ہو۔
قوموں اورانسانیت کے عروج و زوال اور ترقی پذیری کے بارے میں پائے جانے والے ان نظریات کے جائزے کی ضرورت اس لیے تھی کہ اس کی روشنی میں قرآن نے اس حوالے سے جو عظیم الشان اور فکرانگیز تعلیمات پیش کی ہیں ان کو سمجھنا آسان ہو جائے اور ان کی قدروقیمت کا صحیح اندازہ لگایا جا سکے۔
اگر ان سارے نظریات پر غور کیا جائے تو اس میں تین چیزیں نمایاں نظر آئیں گی۔ ان میں سے ایک جبریت ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان مجبورِ محض ہے۔ وہ بچپن‘ جوانی اور بڑھاپے کے مراحل سے گزر کر بالآخر موت کی آغوش میں چلا جائے گا۔ اس میں اُس کے فعل کا‘ اخلاق کا کوئی عمل دخل نہیں ہے‘ وہ مجبوراً چاروناچار موت کی طرف اپنا سفر طے کرتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ میں لازماً ترقی ہو رہی ہے‘ جب کہ انسان مجبور ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اس ترقی کے پیچھے پیچھے چلے۔ اگر ہم کہیں کہ تاریخ کے اندر ساری ترقی مادی قوتوں اور عوامل اور سائنس اور ٹکنالوجی کا نتیجہ ہے‘ تو یہ بھی وہ چیزیں ہیں جو انسان کو مجبور کرتی ہیں۔ جبریت اور مادیت ان تمام نقطہ ہاے نظر کا خلاصہ ہے جو انسان نے تاریخ کے بارے میں قائم کیے ہیں۔
تاریخ کے بارے میں جستجو صرف فلسفیانہ اہمیت نہیں رکھتی‘ بلکہ اس کی بڑی زبردست عملی اہمیت ہے۔ اس لیے کہ انسان کی ساری تگ و دو کا مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ’’کیوں‘‘ کا جواب حاصل کر لے‘ بلکہ وہ یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ کوئی نسخہ اور راستہ ایسا ہے جو اس کو زوال سے بچا سکے اور عروج کی طرف لے جاسکے؟
آج بحیثیت مسلمان اور بحیثیت پاکستانی سب سے بڑھ کر ہمیں اسی سوال سے دل چسپی ہے اور ہونی چاہیے۔ آج کہیں پاکستان کے بارے میں گفتگو ہو تو افسردگی اور قنوطیت کی ایسی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے جو موسموں کو منجمد کر ڈالے‘ مذمت اور تبصرے بازی اور برائیوں کی ایسی داستان ہوتی ہے جس کے ساتھ غیظ و غضب کی حرارت شامل ہوتی ہے۔ جس گفتگو میں بھی آپ شریک ہو جائیں‘ اور جس محفل میں بھی آپ بیٹھ جائیں‘ بہت کم امیدافزا فقرے سننے کو ملتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو ملک ہم نے ۱۹۴۷ء میں حاصل کیا تھا ۲۵ سال بعد ہی اس کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ آج ہم قومی زندگی کے جس پہلو کو بھی لیں‘ ہم صرف مرثیہ ہی پڑھ سکتے ہیں۔
وہ تہذیب اور قوم جس نے بحیثیت مسلمان ہزار سال دنیا پر حکمرانی کی‘ عروج کی منزلیں طے کیں‘ پچھلے ڈھائی‘ تین سو سال میں‘ آہستہ آہستہ زوال کا شکار ہو گئی۔ ایک ایک کر کے ہمارے علاقے‘ ہماری حکومتیں اور ہماری قومیں یورپ کی غلامی میں آتی چلی گئیں‘ انڈونیشیا گیا‘ ہندستان گیا‘ الجیریا گیا‘ مراکش گیا‘ نائیجیریا گیا۔ اگر ہم پلٹ کر مسلم دنیا پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سعودی عرب اور افغانستان جیسے چند ملکوں کو چھوڑ کر کوئی مسلمان ملک آزاد نہیں تھا۔ آج بھی آزادی کے سارے دعوئوں کے باوجود‘ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مسلمان اپنی قسمت کی تعمیر کے لیے آزاد نہیںہیں۔ ایک چھوٹے سے ۳۰ لاکھ کے اسرائیل کا خنجر اُمت مسلمہ کے سینے میں گھونپ دیا گیا ہے اور مسلمان اس کا مقابلہ کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ ہمارے پاس لاکھوں کروڑوں ڈالرہیں‘ بے شمار انسانی وسائل ہیں‘ دنیا کے بہترین خطے ہیں‘ ہم دنیا کی اہم شاہراہوں اور گزرگاہوں پر واقع ہیں‘ لیکن اس کے باوجود پوری دنیا میں بے وزن ہیں۔ آخر ایسا کیوںہے؟ یہ بات قابل غور ہے!
تاریخ کی یہ داستان ہمارے لیے صرف علمی گفتگو اور فلسفیانہ کاوش کی حیثیت نہیں رکھتی‘ بلکہ ہمیں اس سے دل چسپی اس لیے بھی ہونی چاہیے کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آیا ہمارے جو مسیحا مشرق سے لے کر مغرب تک ہماری قوموں کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں‘ ان کے ہاتھوں کیا یہ اُمت یا پاکستان عروج کی منزل کی طرف جا سکے گا؟ کیا وہ ٹکنالوجی اور سائنس جس کو ہم لاکھوں ڈالر دے کر حاصل کر رہے ہیں‘ اس سے ہماری قومیں ترقی کی منزلیں طے کر سکیں گی؟ کیا معاشی ترقی کے ان پنج سالہ منصوبوں کے ذریعے‘ جو ہم ایک کے بعد ایک وضع کررہے ہیں اور انھیں عملی جامہ پہنا رہے ہیں‘ ہماری قوم فی الواقع عروج کی منزل تک پہنچ سکے گی؟ ان سارے نسخوں اور مسائل کے حل کی فی الواقع حقیقت کیا ہے؟ چنانچہ ہمارے لیے اس سوال کی اہمیت صرف علمی اور فلسفیانہ ہی نہیں ہے‘ بلکہ بڑی عملی ہے۔ یہ سوال اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم غور کریں اور جانیں کہ قرآن مجید اس کا کیا جواب دیتا ہے‘ اوراس کے پاس ان مسائل کا حل اور امت و ملّت کے عروج و سربلندی کا راستہ کون سا ہے؟
اگر دعوے کا لفظ کتاب الٰہی کے لیے درست ہو تو میں کہوں گا کہ یہ بڑا زبردست دعویٰ ہے جو قرآن نے کیا ہے کہ قوموں کا عروج و زوال‘ نہ مادی قوتوں پر منحصر ہے‘ نہ سائنس اور ٹکنالوجی کا اس میں عمل دخل ہے اور نہ علمی ترقیوں پر ہی اس کا انحصار ہے۔ یہ خالصتاً اخلاقی اور معنوی اقدار کے اُوپر منحصر ہے۔ یہ انسان کے اخلاقی کسب اعمال کا نتیجہ ہے جس کے نتیجے میں قومیں عروج یا زوال کی طرف جاتی ہیں۔
قرآن مجید نے بہت وضاحت کے ساتھ‘ قوموں کے عروج و زوال کا جو بیان کیا ہے‘ وہ ایک فرد کی زندگی سے بالکل مختلف ہے۔ فرد اس بات پر مجبور ہے کہ وہ موت کی طرف جائے‘ اور اس میں اُس کی اخلاقی زندگی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اگر کوئی صالح ہوگا اس کو بھی موت آئے گی اور اگر کوئی فاسق ہوگا تو اُس کو بھی موت کا سامنا کرنا ہوگا‘ لیکن قوموں کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ قومیں لازماً موت سے ہم کنار نہیں ہوتیں۔ اُن کی موت اس لیے واقع ہوتی ہے کہ وہ اپنے نفس کے اُوپر ظلم کرتی ہیں‘ حالانکہ فرد کی موت کا تعلق اُس کے اپنے نفس پر ظلم کے ساتھ نہیں ہوتا۔ وہ اپنی فطری موت مرتا ہے۔ کسی قوم کا مٹ جانا یا اس کی موت واقع ہونا‘ یہ ناگزیر عمل نہیں ہے جو اسے لازماً پیش آئے۔ جس طرح کوئی فرد اپنی اخلاقی زندگی میں اچھا بننا چاہے تو اچھا بن سکتا ہے‘ اور برا بننا چاہے تو برا بن سکتا ہے ‘ اس طرح قومیں بھی آزاد ہیں کہ وہ اچھائی کی روش پر چلنا چاہیں تو چل سکتی ہیں‘ ترقی کی راہیں طے کر سکتی ہیں‘ اخلاقی اور معنوی اقدار حاصل کر سکتی ہیں‘ اور اگر برائی کی طرف جانا چاہیں‘ اپنے اُوپر ظلم کریں‘ دنیا کے اندر ظلم اور فساد کا دروازہ کھولیں تو وہ تباہی کی طرف جاسکتی ہیں‘ اور یہ عمل ایسا بھی نہیں ہے کہ لوٹایا نہیں جا سکتا۔ آدمی جوان ہونے کے بعد بچہ نہیں بن سکتا‘ اور بوڑھا ہونے کے بعد جوان نہیں ہو سکتا‘ لیکن قومیں زوال پذیر ہونے کے بعد ایک بار پھر عروج کی طرف آسکتی ہیں اور سربلند ہو سکتی ہیں۔
اگر یہ بات صحیح نہ ہوتی تو انبیاے کرام گری ہوئی قوموں کے سامنے اپنی دعوت لے کر کھڑے نہ ہوتے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ نسخہ ایسا ہے کہ جس سے کوئی قوم خواہ کتنی ہی نیچے گر چکی ہو‘ اگر وہ چاہے تو دوبارہ عروج کی طرف گامزن ہو سکتی ہے۔ انھوں نے قوموں سے اس بات کا وعدہ کیا‘ اور خوش خبری بھی دی کہ اگر تم نے یہ دعوت قبول کر لی تو بالآخر تم عروج کی طرف چلے جائو گے۔ خود نبی کریم ؐ نے عرب کے لوگوں کو یہ مژدہ سنایا کہ اگر تم نے میری دعوت مان لی تو تم عرب اور عجم دونوں کے مالک بن جائو گے۔ چنانچہ اس کا انحصار نہ سائنس پر تھا نہ ٹکنالوجی پر‘ نہ مادی ترقی پر اور نہ معاشی ترقی کے منصوبوں پر‘ بلکہ اس کا تمام تر انحصار اس دعوت کے اوپر تھا جس کو انبیاے کرام نے پیش کیا۔
انگریزی میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ قوموں کے زوال کا عمل irreversible نہیں ہے‘ جب چاہے اس کو روکا اور پلٹا جا سکتا ہے۔ کسی قوم کی زندگی میں کبھی کوئی مقام ایسا نہیں ہوتا کہ جہاں مایوسی اور افسردگی ہمیشہ کے لیے ہو۔ جب بھی کوئی قوم چاہے اپنے آپ کو اُوپر اُٹھا سکتی ہے۔
قرآن نے اس بات کو مختلف انداز سے واضح کیا ہے‘ اور ہر مرتبہ یہی بات کہی ہے کہ اس کا تعلق صرف اعمال اور اخلاق سے ہے۔ فَھَلْ یُھْلَکُ اِلاَّ الْقَوْمُ الْفٰسِقُوْنَ o (الاحقاف ۴۶:۳۵) ’’کیا کسی کو ہلاک کیا جاتا ہے سوائے اُن قوموں کے جو فسق کا راستہ اختیار کریں‘‘۔ وَتِلْکَ الْقُرٰٓی اَھْلَکْنٰھُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا (الکھف ۱۸:۵۹) ’’یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمھارے سامنے موجود ہیں۔ انھوں نے جب ظلم کیا تو ہم نے انھیں ہلاک کر دیا‘‘۔ مزید فرمایا: ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (الروم ۳۰: ۴۱) ’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے‘ لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے‘‘۔ اس فساد کی لوگوں کی بداعمالیوں کے علاوہ کوئی اور وجہ نہ تھی۔ قوم عاد کا تذکرہ یوں کیا: عاد کو دیکھو‘ جب انھوں نے یہ نعرہ بلند کیا کہ مَنْ اَشَدُّ قُوَّۃً مِنَّا ’’ہم سے طاقت ور کون ہے؟‘‘ وہ اس غرور کے اندر آگئے تو ہم نے ان کو ہلاک کر دیا۔ قوم عاد پر خدا کی پھٹکار پڑنے اور انھیں دور پھینک دینے کا سبب یہ تھا: وَتِلْکَ عَادٌ قف جَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ وَعَصَوْا رُسُلَہٗ وَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَ کُلِّ جَبَّارٍعَنِیْدٍ o (ھود ۱۱:۵۹) ’’یہ ہیں عاد‘ اپنے رب کی آیات سے انھوں نے انکار کیا‘ اس کے رسولوں کی بات نہ مانی‘ اورہر جبار دشمنِ حق کی پیروی کرتے رہے‘‘۔
لہٰذا یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ جس قوم کو بھی زوال و تباہی سے سابقہ پیش آیا‘ وہ صرف اس لیے آیا کہ اس نے بغاوت‘ نافرمانی‘ بدامنی اور ظلم کی راہ اختیار کی۔ قرآن نے ایک پوری تہذیب کی مثال دی ہے: وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّاْتِیْھَا رِزْقُھَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ o (النحل ۱۶:۱۱۲) ’’اور اللہ ایک بستی کی مثال دیتاہے۔ وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی اور ہر طرف سے اس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اس نے اللہ کی نعمتوںکا کفران شروع کر دیا۔ تب اللہ نے اس کے باشندوں کو ان کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں‘‘۔
ایک ایسی قوم جس پر ہر طرف سے معاشی ترقی کے دروازے کھلے ہوئے تھے‘ رزق بے پناہ آ رہا تھا لیکن جب اُس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے ان کو بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے تھے‘ ٹکنالوجی میں پیچھے رہ گئے تھے‘ اُن کے پاس معاشی ترقی کے پنج سالہ منصوبے نہیں تھے بلکہ وہ جو جو اعمال کرتے تھے (بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ) اس کی بنا پر زوال آشنا ہوئے۔ اسی وجہ سے اللہ نے خوف‘ حزن‘ مصیبتوں اور پریشانیوں کو ان پر مسلط کر دیا۔ اگر بظاہر آفات ارضی و سماوی کسی قوم کو تباہ کرتی دکھائی دیں‘ تو قرآن کہتا ہے کہ اس کی ذمہ داری ان آفات ارضی و سماوی پر نہیں ہے‘ بلکہ اس انسان کے اُوپر ہے جس نے سرکشی اور نافرمانی کی روش اختیار کی۔ اللہ نے کہا کہ کسی پر ہم نے پتھروں کی بارش برسائی‘ کسی کو کڑک نے آن پکڑا‘ کسی کو ہم نے زمین میں دھنسادیا‘ کسی کو ہم نے پانی میں غرق کر دیا‘ لیکن یہ مت خیال کرنا کہ ان کی تباہی کڑک‘ طوفان یا زلزلے کی وجہ سے ہوئی تھی بلکہ اصل وجہ یہ تھی: فَکُلاًّ اَخَذْنَا بِذَ نْبِہٖ ج (العنکبوت ۲۹:۴۰) ’’آخرکار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا‘‘۔ پھر فرمایا: وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَھُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَo (العنکبوت ۲۹:۴۰) ’’اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا‘ مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے‘‘۔
یہ قرآن کا اتنا واضح‘ کھلا اور بیّن سبق ہے کہ ممکن نہیں کہ انسان قرآن کو پڑھے اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ قوموں کی ترقی مادی عوامل اور مادی عناصر کے اوپر ہے۔
وہ کیا چیزیں ہیں اور کون سی اقدار ہیں جوقوموں کو عروج کی طرف لے کر جاتی ہیں؟ قرآن مجیدکے مطالعے سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بنیادی طور پر یہ چار اقدار ہیں جن پرقوموں کی ترقی منحصر ہے۔ ایک ایمان‘ دوسراتقویٰ‘ تیسرا صبر‘ اور چوتھا توبہ و استغفار۔
قرآن کریم کی بے شمار آیات‘ان چاروں صفات کے فیصلہ کن ہونے پر دلیل ہیں۔ وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ (اعراف۷:۹۶) ’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اورتقویٰ کا راستہ اختیار کرتے تو ہم اُن کے اوپر آسمانوں سے بھی اور زمین سے بھی برکتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘۔غورکرنے کی بات یہ ہے کہ یہاں پر ایمان اور تقویٰ کے ساتھ ہمارے سامنے روحانی اوراخلاقی انعامات آتے ہیں اور اسی طرح جنت اوردوزخ کی بات آتی ہے‘ اور یہ بات بھی واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ قرآن نے دنیا کی ترقی کوبھی ایمان اور تقویٰ کے ساتھ مشروط کر دیا ہے کہ اگر انسان ایمان اورتقویٰ کا راستہ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں نازل کرتے۔
اسی طرح فرمایا گیا ہے‘ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لاَ یَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئًاط (آل عمران ۳:۱۲۰) ’’ان کی کوئی تدبیر تمھارے خلاف کارگر نہیں ہو سکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو‘‘۔ گویا تمھاری تعداد خواہ کتنی ہی کم کیوں نہ ہو‘ لیکن تمھارے پاس صبر اور تقویٰ ہو تو تمھارے دشمنوں کی کوئی تدبیر‘ کوئی سازش تمھیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ یہ آیت آج کل کے زمانے میں خاص طور پر قابل غور ہے۔ ہم اپنے قومی سانحے اورمصیبت کے اسباب میں ان سازشوں کو تلاش کرتے ہیں‘ جو ہمارے دشمن ہمارے خلاف کرتے ہیں لیکن قرآن کا بیان بالکل صاف رہنمائی کرتا ہے کہ اگر تمھارے اندر صبر اور تقویٰ ہو‘ تو تمھارے دشمنوں کی کوئی سازش‘ کوئی مکر‘ کوئی تدبیر‘ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ بنی اسرائیل جو مصر کے اندر مغلوب اور محکوم تھے‘ انتہائی ذلت اور مصیبت کی زندگی گزار رہے تھے۔ قرآن نے انھیں یُسْتَضْعَفُوْن کہا ہے‘ یعنی ’’ان کو کمزور بنا دیا گیا تھا‘‘۔انھی لوگوں کے بارے میں فرمایا: وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَھَا الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَاط وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ بِمَا صَبَرُوْا ط (الاعراف ۷: ۱۳۷) ’’ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے‘ اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا تھا۔ اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدئہ خیر پورا ہوا کیونکہ انھوں نے صبر سے کام لیا تھا‘‘۔ گویا بنی اسرائیل کے اوپر جو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں تمام ہوئیں‘ اُس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے صبر کی روش اختیار کی۔
چوتھی چیز استغفار ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس بات پر تعجب ہو کہ استغفار جس کے معنی گناہوں کی معافی مانگنا ہے‘ اس کا قوم کے عروج اور دنیاوی ترقی کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ لیکن قرآن نے جہاں بھی استغفار کی دعوت دی ہے اُس کے ساتھ ہی اُس نے مادی ترقیوں کا وعدہ بھی کیا ہے۔
حضرت ہود ؑنے اپنی قوم کو دعوت دی کہ اللہ کے آگے استغفار کرو اور توبہ کی روش اختیار کرو: یُرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّیَزِدْکُمْ قُوَّۃً اِلٰی قُوَّتِکُمْ (ھود ۱۱:۵۲) ’’وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمھاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا‘‘۔ حضرت نوح ؑ نے رات اور دن اپنی قوم کو پکارا‘ کھلے عام بھی دعوت دی اور چھپے ہوئے بھی دعوت دی اور اس کے نتیجے سے بھی آگاہ کیا: فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ط اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا o یُّرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا o وَّیُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْھٰرًا o (نوح ۷۱: ۱۰-۱۲) ’’میں نے کہا‘ اپنے رب سے معافی مانگو‘ بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا‘ تمھیں مال اور اولاد سے نوازے گا‘ تمھارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کر دے گا‘‘۔ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں ہے کہ استغفار کا وہ عمل جس سے ہمارے ذہن میں یہ تصور آتا ہے کہ ہمارے گناہ معاف ہوں گے‘ اور آخرت میں ہم جنت میں داخل ہوں گے‘ اللہ تعالیٰ نے اُسی عملِ استغفار کے ساتھ‘ اس دنیا کی ساری مادی ترقیوں کا وعدہ فرمایا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایمان‘ تقویٰ ‘ صبر اور استغفار کے اندر وہ کیا راز ہے جس کی وجہ سے قومیں ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھ سکتی ہیں؟
ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے یہ جان لیں کہ قرآن کی لغت‘اصطلاح اوردعوت میں ایمان صرف لفظوں کے ایک فارمولے کو زبان سے ادا کرنے کا نام نہیں ہے۔ وہ ایسے گروہوں کا ذکر کرتا ہے جو زبان سے ایمان کا اقرار کرتے ہیں‘ لیکن اُن کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوتا ہے۔ ایک جگہ فرمایا: قَالُوْا اٰمَنَّا بِاَفْوَاھِھِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُھُمْ ج (المائدہ ۵:۴۱) ’’کچھ لوگ زبان سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے لیکن ان کے دل ایمان نہیں لائے ہوتے‘‘۔ قرآن کہتا ہے کہ ایسے نہ کہو‘ بلکہ یوں کہو: وَلٰکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ط (الحجرات ۴۹:۱۴) ’’ان سے کہو‘ تم ایمان نہیں لائے‘ بلکہ یوں کہو کہ ’’ہم مطیع ہو گئے‘‘۔ ایمان ابھی تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے‘‘۔
ایمان کے لغوی معنی تو اعتماد‘ بھروسے‘ یقین اور اپنے آپ کو سپرد کر دینے کے ہیں۔ دراصل ایمان وہ دولت ہے جس کے عوض آدمی اپنی پوری زندگی کا سودا چکا دیتا ہے۔ یہ وہ ایمان ہے کہ جو دل و دماغ حتیٰ کہ ساری زندگی کے اُوپر غالب ہوتا ہے۔ ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ زندگی کا ایک ہدف اور ایک مقصد ہو‘ جس ذات کے اُوپر ہم ایمان لائے ہیں‘ اُسی کی خاطر پوری زندگی گزرے۔ یہ پوری زندگی کا سودا ہے جس میں آدمی اپنی پوری زندگی خدا کے ہاتھ جنت کے عوض فروخت کر دیتا ہے۔
ایمان کا پہلا رُکن محبت ہے۔ اگر غور کیا جائے تو پوری زندگی میں خرابیاں اسی محبت میں خرابیوں کا نتیجہ ہے۔ جب محبت کے معیار اُلٹ پلٹ ہو جاتے ہیں‘ اور وہ محبتیں غالب آجاتی ہیں جن کو غالب نہیں آنا چاہیے تو پھر قومیں زوال کی طرف جانا شروع ہو جاتی ہیں‘ مثلاً گھر کی محبت‘ دنیا کی محبت‘ خاندان کی محبت‘قبیلے کی محبت‘ نسل و رنگ کی محبت اور زبان کی محبت وغیرہ۔ قوموں کے پاس جب ایسا مقصد ہو جو ان ساری محبتوں کے اوپر غالب آ جائے تو پھر یہ ساری محبتیں مغلوب ہو جاتی ہیں۔ اسی لیے قرآن نے فرمایا ہے کہ ایمان کا پہلا رُکن محبت ہے۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِط (البقرہ ۲:۱۶۵) ’’ایمان رکھنے والے اللہ کو سب سے بڑھ کر محبوب رکھتے ہیں‘‘۔ ایمان لانے والے رنگ‘ نسل‘ قوم‘ زبان اور مال اور دولت سے بڑھ کر‘ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔
ایمان کا لازمی ثمرہ جدوجہد بھی ہے۔ اس لیے کہ اگر زندگی کا کوئی مقصد ہے‘ تو اُس کی طلب‘ اُس کی طرف دوڑنا اور اُس کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا‘ اُس کا لازمی تقاضا ہے۔ قرآن نے بھی یہ کہا ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ o (الحجرات ۴۹:۱۵) ’’حقیقت میں تومومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں‘‘۔
ایمان سے مایوسی کی جڑ کٹ جاتی ہے‘ اس لیے کہ ایمان اورمایوسی دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ اللہ کی رحمت سے وہی مایوس ہوتا ہے‘ جو کافر اور گمراہ ہو چکا ہو۔ خوف‘ حزن‘ بیماری‘ پریشانی اور فکر یہ ساری چیزیں ایمان سے ختم ہو جاتی ہیں۔ ایمان کی تاثیر یہ ہے کہ وہ ایک فرد کی توجہ کو ایک بڑے مقصد کے اُوپر مرتکز کر دیتا ہے اور تمام قومی وسائل کو بھی مربوط کرکے ایک ہدف کی طرف گامزن کر دیتا ہے۔ فرد اور قوم کے دل میں اس ہدف کا حصول اور اس کی محبت‘ ہر چیز کے اُوپر غالب ہوتی ہے۔ پھر خود انسان اُس کے پیچھے چلتا ہے اور اس پر اپنی پوری قوتیں لگا دیتا ہے۔
تقویٰ کے معنی اپنے آپ کو بچانا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اس کے اندر کئی معنی پوشیدہ ہیں۔ ہم اپنے آپ کو کس چیز سے بچاتے ہیں؟ ہر اُس چیز سے جو ہم کو نقصان پہنچانے والی ہو۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ تقویٰ کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ ہم درست اور غلط کا‘نیکی اور بدی کا ایک معیار مقرر کر لیں۔ ہم مان لیں کہ اس دنیا میں کچھ چیزیں ہم کو نقصان پہنچانے والی ہیں‘ اور کچھ ایسی ہیں جو فائدہ پہنچانے والی ہیں۔ اس کے بعد ہم اس پر یقین بھی رکھیں اور اسے عملی زندگی میں تسلیم بھی کریں کیونکہ اس کی پابندی کرنے کی استعداد بھی ہمارے اندر موجود ہے۔
تقویٰ ظاہری مظاہر سے زیادہ اُس قوت کا نام ہے‘ جس کے بل پر ہم جس چیز کو غلط سمجھتے ہیں‘ اُس سے بچ جائیں اور جس کو صحیح خیال کرتے ہوں اُس کی طرف لپک کر جائیں۔ قرآن نے اس کو باربار واضح کیا ہے۔ کیونکہ تقویٰ قوت اور استعداد کا نام ہے‘ اس لیے تقویٰ کا اصل مقام انسان کا دل ہے۔ اہل ایمان تو وہ ہیں جو اللہ کے شعائر کا احترام کرتے ہیں‘ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ o (الحج ۲۲:۳۲) ‘ جو نبی علیہ السلام کے سامنے اپنی آواز پست کرتے ہیں‘ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰیط (الحجرات ۴۹:۳) اُن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ لیا ہے۔
تیسری چیز صبر ہے۔ صبر کے معنی بے بسی کے نہیں ہیں۔ اس کے معنی بے چارگی کے بھی نہیں ہیں بلکہ صبر عزم اور ارادے کی قوت کا نام ہے جس کے بل پر وہ مقصد اور ہدف جس پر ایمان ہو‘ جو مقصود ہو‘ جس کی طرف جانا ہے‘ جو درست اور غلط کا معیار ہے‘ اُس پر استقامت اورثابت قدمی کے ساتھ انسان اپنے آپ کو باندھ لے۔ صبر کے لغوی معنی باندھ لینے اور جم جانے کے ہیں۔ اس راہ میں جو بھی مشکل پیش آئے اس کو تحمل کے ساتھ سہنے کا نام صبر ہے۔صبر کے اندر جوش اور تڑپ‘ سعی اور عمل بھی شامل ہے۔ اس لیے کہ صبر اُس وقت ہوتا ہے جب آپ اپنے مقصد کا تعین کریں‘ غلط اور درست کے معیار کو متعین کر لیں اور اُس کے اُوپر جم کر اس کے حصول کے لیے جدوجہد کریں۔ قوموں کی زندگی کے اندر ضبط‘ جسے انگریزی میں cohesion کہتے ہیں‘ صبر کے ذریعے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ انتشار سے محفوظ رہتی ہیں۔ قرآن نے بھی ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے کے لیے صبر کا لفظ استعمال کیا ہے: وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوَۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ وَلاَ تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْھُمْج (الکھف ۱۸:۲۸) ’’اپنے آپ کو باندھ لو صبر کے ساتھ اُن لوگوں کی معیت میں جو تمھاری طرح اللہ کے طلب گار ہیں‘ اور صبح و شام اُس کو پکارتے ہیں اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو‘‘۔
چوتھی صفت استغفار ہے۔ استغفار سارے انبیا کی دعوت کا بنیادی جز ہے۔ اللہ نے فرمایا: وَاللّٰہُ یَدْعُوْآ اِلَی الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِاِذْنِہٖ ج (البقرہ ۲:۲۲۱)’’اللہ اپنے اذن سے تم کو جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے‘‘۔ وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَ رْضُ (اٰل عمران ۳:۱۳۳) ’’دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمھارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے‘‘۔ سَابِقُوْآ اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا کَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ لا (الحدید ۵۷:۲۱) ’’دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے‘‘۔
استغفار کی صفت کیوں اہم ہے؟ دراصل استغفار کی بنیاد یہ ہے کہ ہم نہ صرف غلط اور صحیح کا احساس اور یقین رکھیں‘ غلط سے بچیں اور صحیح پر عمل کرنے کی کوشش کریں‘ بلکہ ہر وقت اپنے نگہبان اور نگران رہیں‘ اپنا احتساب کرتے رہیں ‘اور جہاں غلطی کا احساس ہو وہاں غلطی کا اعتراف بھی کریں‘ اُس کی تلافی بھی کریں اور اُس کو دوبارہ کرنے سے بچنے کی بھرپور کوشش کریں۔
افراد اور قوموں کی زندگی صحیح راہ پر عروج کی طرف اُس وقت آتی ہے‘ جب قومیں احتساب کے عمل سے گزرتی ہیں۔ احادیث میں اس بات کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ احتساب و استغفار کی روح یہ ہے کہ آدمی گناہوں کا اعتراف کرے اور یہ بات سمجھے کہ اس کو برے نتائج اور عواقب پیش آنے والے ہیں۔ اُس کے بعد اُس قوت اور سرچشمے کی طرف رجوع کرے جو اس کو غلطیوں سے محفوظ رکھنے والی ہے۔ گویا استغفار کی صفت بھی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اندر قوموں کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔
اگر ہم ان چاروں چیزوں پر غور کریں‘ تو محسوس ہوگا کہ یہ کس قدر بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ اگر کسی قوم کے سامنے کوئی واضح مقصد نہ ہو‘ اور اُس مقصد سے عشق اُس پر غالب نہ ہو (اور اللہ کی رضا سے بڑھ کر اور کون سا مقصد ہوسکتا ہے)‘ اور جب تک اُس کے اندر اتنی استعداد اور قوت نہ ہو کہ جس کو صحیح کہے اُس پر عمل کرے‘ اورجس کو غلط سمجھے اُس سے بچ جائے‘ جسے درست سمجھا ہے اُس کے ساتھ چمٹی رہے‘ اُس کے لیے کوشش کرے‘ اور اپنے احتساب کا عمل جاری رکھے‘ جہاں غلطی ہو اس کا اعتراف کرے‘ اور پھر اس غلطی کے برے اثرات سے بچنے کے لیے کوشش کرے‘ وہ عروج کے راستے پر نہیں چل سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسی ایمان‘ تقویٰ‘ صبر اور استغفار کی بدولت کوئی قوم عظمت‘بلندی اور عروج پاسکتی ہے۔
اگر ان چاروں صفات کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ قرآن نے قوموں کے عروج کا جو انحصار ان پر کیا ہے‘ وہ بالکل صحیح ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ ہم جو ایمان بھی رکھتے ہیں‘ تقویٰ بھی رکھتے ہیں‘ استغفار بھی کرتے ہیں اور صبر بھی کرتے ہیں‘ قرآن پر بھی ہمارا ایمان ہے لیکن اس سب کے باوجود ہم دنیا کے اندر مغلوب اور کفار غالب ہیں؟
اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ ایمان فی نفسہٖ ایک قوت ہے‘اور قدرت کی ترازو کے اندر وزن ایمان ہی کا ہے۔ اس کے ہاں نفاق کا کوئی وزن نہیں ہے۔ یہ ایمان اگر باطل کے اُوپر ہے‘ جیسا کہ قرآن نے اصطلاح استعمال کی ہے‘ امنوا بالباطل‘ گویا باطل پر بھی ایمان ہو سکتا ہے‘ تو باطل پر ایمان حق کے ساتھ نفاق پر ہمیشہ غالب آئے گا۔ اس لیے کہ ایمان سے جوقوت پیدا ہوتی ہے خواہ باطل کی خاطر ہو‘ وہ دنیا کے اندر آگے بڑھے گی۔ نفاق اور تضاد کے ساتھ آدمی کمزور ہوتا ہے۔ اور اگر نفاق اور تضاد اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوں تو انسان اور زیادہ غضب کا شکار ہوگا۔
دنیا کے اندر اصل چیز ایمان ہے۔ اس وقت جو قومیں دنیا کے اندر غالب ہیں‘ اُن کے مقاصد اور اہداف اگرچہ غلط ہیں‘ لیکن وہ اُن کے اوپر ایمان اور یقین رکھتی ہیں۔ انھوں نے اپنے لیے جو غلط اور درست کا معیار مقرر کر رکھا ہے‘ ہمیں اس سے اتفاق ہو یا نہ ہو‘ وہ اس کی پیروی کرتی ہیں‘ اُس کے ساتھ منافقت نہیں کرتی ہیں۔ اُن کے اندر احتساب کا عمل موجود ہے‘ اور جو اُن کے مقاصد ہیں اُن کے پیچھے وہ چلتی ہیں۔
لوگ امریکہ کی مثال دیتے ہیں کہ امریکہ ترقی کی شاہراہ پر کیسے پہنچا۔ امریکہ کی تاریخ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ جن لوگوں نے اس ملک کو اس مقام تک پہنچایا ہے انھوں نے برسوں بڑی محنت کے ساتھ‘ لگن اور صبر کے ساتھ کام کر کے پورے وسائل کو فتح کیا ہے۔ ہم لوگ خیال کرتے ہیں کہ یورپ نے پوری دنیا کے اندر جو غلبہ حاصل کیا ہے‘ وہ اُن کی سائنس اور ٹکنالوجی کا نتیجہ ہے۔ لیکن اگر یورپ کی تاریخ کو پڑھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جس جذبے نے یورپ کی قوموں کو یورپ سے نکال کر‘ دنیا کی تسخیر کی راہ پر ڈالا وہ وحشیوں (barbarians) کو ترقی دینے اور مہذب بنانے کا جذبہ تھا۔ یہ مقصد تھا جس کا عشق انھیں دنیا کے کونے کونے تک لے گیا۔ جوکوئی بھی گیارھویں صدی کی صلیبی جنگوں سے لے کر اٹھارھویں صدی تک کے یورپ کی تاریخ پڑھے گا اس پر واضح ہو جائے گا کہ ان کا اصل مقصد یہ تھا کہ ہم دنیا کو تہذیب سے کیسے روشناس کرائیں۔
اسلام کی مثال خود ہمارے سامنے ہے۔ مسلمانوں کے پاس نہ سائنس اور ٹکنالوجی تھی‘ نہ اسلحہ اور وسائل تھے‘ لیکن مقصد سے لگن اور محبت اُن پر غالب ہوئی تو پھر وہ دنیا کے اندر پھیلتے چلے گئے اور صرف ۲۰۰سال کے اندر انھوں نے ایک ایسی تہذیب کی بنیاد ڈال دی جو ہزار سال تک دنیا کے اُوپر غالب رہی اور اب بھی زندہ ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ میں ایمان وتقویٰ ‘ صبر و استغفار کی کوئی مادی تعبیر کر رہا ہوں بلکہ میں نے صرف یہ کہا ہے کہ جہاں اس کا فقدان ہے‘ خواہ صحیح بات کے لیے ہو‘ وہ مغلوب ہوگا‘ اور جہاں یہ موجود ہے ‘خواہ غلط بات کے لیے ہو‘ وہ غالب ہوگا۔
اُمت مسلمہ کا معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اس سے الگ ایک اور قانون بھی بیان کیا ہے‘ اوروہ قانون یہ ہے کہ مسلمان قوم کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک معاہدہ اور ایک عہد ہے۔ جب تک یہ اُمت اُس عہد کو پورا نہ کرے گی‘ یہ دنیا کے اندر غالب نہ ہو سکے گی۔ اگر ہم یہ چاہیں کہ ہم دیگر قوموں کی طرح اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر صرف مادی اور معاشی مقاصد کو اپنی زندگی کا مقصد بنا کر کامیاب ہو جائیں تو یہ ممکن نہیں ہوگا کہ ہم اس طرح ترقی کی منزلوں کو سرکرلیں۔
اس پوری صدی کی تاریخ اس حقیقت کے اُوپر گواہ ہے۔ میں ایک مثال سے اپنی بات واضح کروں گا۔ اس صدی کے شروع میں دو ملکوں نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ ہماری ترقی مغرب کی پیروی کے اندر پوشیدہ ہے‘ ایک ترکی اور دوسرا جاپان۔ ان دونوں نے اس صدی کے شروع میں اپنے سفر کا آغاز کیا۔ آج جاپان دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے لیکن ترکی ابھی تک اسی مقام پر کھڑا ہے جہاں سے اُس نے سفر کا آغاز کیا تھا۔ حالانکہ انسانی وسائل کے لحاظ سے اور اُن طریقوں کی پیروی کے لحاظ سے جو مغرب میں ترقی کے لیے پائے گئے ہیں‘ دونوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ ترکی نے قانون بھی وہی اختیار کیا‘ وسائل بھی وہی اختیار کیے‘ تہذیب بھی وہی اختیار کی‘ یہاں تک کہ نصاب بھی وہی اختیار کرلیالیکن وہ ترقی کی منازل طے نہ کر سکا۔ یہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ مسلمانوں کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ محض مادی وسائل کو اپنی زندگی کا مقصد بنائیں‘ اور عروج کی شاہراہ پر آگے بڑھیں۔
اگر ہم اپنی قوم اور اُمت مسلمہ کا جائزہ لیں توہمیں اس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ صرف ۲۵سال میں یہ ملک دولخت کیوں ہو گیا؟ اور ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ میں ایسا کیوں ہوا کہ کروڑوں کی تعداد لاکھوں سے شکست کھا گئی؟ ہوائی جہاز زمین پر کھڑے کے کھڑے کیوں تباہ ہو گئے؟ ہماری پوری کی پوری فوج کمانڈر نے دشمن کے سامنے کیوں سرنڈر کر دی اور آج ہم تعداد میں چھ گنا ہونے کے باوجود اپنے دشمن کو مغلوب کیوں نہیں کر سکتے؟ ان سوالات کے جوابات کے لیے بھی ایک مثال موجود ہے۔ لبنان میں محض ایک چھوٹاسا گروہ جب اپنے مقصد کے عشق سے سرشار ہو کر کھڑا ہوا اور مرنے مارنے کے لیے تیار ہوگیا تو اُس نے اسی طاقت کا ناطقہ بند کر دیا۔
سوال یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کے قیام کے بعد‘ پورے ۴۰‘۵۰ سال میں قوم کو کیا مقصد دیا--- معاشی ترقی کا مقصد؟ ہم نے پنج سالہ منصوبے بنائے تومعاشی ترقی کے لیے‘ وسائل جھونکے تو اسی کے لیے‘ تعلیم کے معاملے پر غور کیا تو اس لیے کہ سائنس اور ٹکنالوجی میں کس طرح ترقی کریں گے۔ پچھلے تمام عرصے میں یہی فکر‘ یہی سوچ اور یہی تعلیم قوم کو دی جاتی رہی‘ اور یہی زہر اُس کی رگ رگ میں پھیلایا جاتا رہا۔ جب معاشی ترقی ہی مقصود ٹھیری تو پھر ملکی ترقی سے پہلے صوبائی ترقی مقصود کیوں نہ ہو؟ اور اس سے پہلے محلے کو ترجیح کیوں نہ ہو‘ اور محلے سے پہلے میرے گھر کی باری کیوں نہ آئے؟ کہتے ہیں کہ سارے امراض کی جڑ اس فلسفے کے اندر ہے کیونکہ رشوت لوں گا تو اپنے گھر کی سوچوں گا‘ اُس سے آگے بڑھوںگا تو اپنے صوبے کے بارے سوچوں گا کہ سندھ‘ بلوچستان یا پنجاب یا پھر سرحد کی ترقی ہو۔ اس لیے کہ دوڑ کس بات کی ہے؟ معاشی ترقی کی۔ مقصد کیا ہے؟ معاشی ترقی اور ذاتی مفاد۔ ہمارے ’’خدا‘‘ (میں یہ لفظ انگریزی سے لے کر استعمال کر رہا ہوں‘ اس میں دوسرے خدائوں‘ دیوتائوں کے لیے خدا کا لفظ استعمال ہوتا ہے) ہمارے ’’دیوتا‘‘ کیا ہیں؟ مجموعی قومی آمدنی (جی این پی)! بس ہمارا معیار زندگی بلندہونا چاہیے۔ سارے صدر اور وزرا جو پہلے دن سے آج تک گزرے ہیں ‘ انھوں نے پوری قوم کو یہی مقصد دیا ہے۔ ان کی تقریروں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اگر آج ہم اس کا رونا روتے ہیں کہ کرپشن اور چوربازاری عام ہے‘ لوگ ایمان داری سے کام نہیں کرتے‘ فرائض ادا نہیں کرتے‘ تعلیمی نظام ناقص ہے‘ تجارت خسارے میں جا رہی ہے‘ تو یہ دراصل ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے۔ وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَھُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَo (العنکبوت ۲۹:۴۰) ’’اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا‘ مگر وہ خود ہی اپنے اُوپر ظلم کر رہے تھے‘‘۔
آج جس طرح مجھے اس بات کا یقین ہے کہ دن کے بعد رات آئے گی‘ اسی طرح مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ ہم کتنی ہی کوشش کیوں نہ کرلیں‘ کتنے ہی منصوبے کیوں نہ بنا لیں‘ اور کتنی ہی معاشی ترقی کیوں نہ کر لیں‘ لیکن ۱۰۰ سال بعد بھی یہ قوم اسی مقام پر کھڑی ہوگی جس طرح ترکی آج ۷۰ سال بعد اسی مقام پر کھڑا ہے۔ معاشی مسائل ویسے ہی ہوں گے‘ غربت ویسی ہی ہوگی‘ جہالت ویسے ہی ہوگی‘ افراط زر اسی طرح ہوگا اور لوگ بھی اسی طرح پریشان حال اور مصیبت میں ہوں گے۔
ضرورت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اوپر ایمان کی تجدید کریں۔ یہ بات میں صرف وعظ کے رنگ میں نہیں کہہ رہا۔ ہمارے کُل قومی وسائل ‘ پانچ سالہ منصوبے‘ ریڈیو اور ٹیلی وژن اور تمام ذرائع ابلاغ اس کے لیے وقف ہونے چاہییں کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان اور یقین مضبوط ہو‘ اس کی محبت پیدا ہو‘ استغفار اور تقویٰ کی صفت پیدا ہو۔ ہم جس بات کو صحیح مانیں اس کو اختیار کرنے کی قوت ہمارے اندر پیدا ہو۔ جس بات کو غلط کہیں اُس سے بچنے کی قوت ہمارے اندر ہو اوراگر غلطی کریں تو بلاجھجک اس کا اعتراف کریں اور اُس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ جب یہ سب کچھ ہوگا تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ لازماً ہمیں عظمت و سربلندی اور عروج عطا کرے گا: وَلاَتَھِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o ( اٰل عمران ۳:۱۳۹) ’’دل شکستہ نہ ہو‘ غم نہ کرو‘ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔ (کیسٹ سے تدوین: ارشادالرحمٰن)
(کتابچہ دستیاب ہے‘ قیمت: ۵ روپے۔ منشورات ‘ منصورہ‘ لاہور)
یورپ اور اسلام کا تعلق اُتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ اسلام کی تاریخ۔ حجاز سے اُٹھنے والی طوفانی تحریک نے یورپ کے چپے چپے پر اپنے نقوش ثبت کیے ہیں اورآج ۱۴۰۰ سال بعد اسلام اور مسلمان دونوں یورپ کے قلب میں پھل پھول رہے ہیں۔ مغربی یورپ ہی میں مسلمانوں کی تعداد کم و بیش ڈیڑھ کروڑ ہے اور تقریباً اِن تمام ممالک میں اسلام‘ عیسائیت کے بعد دوسرا بڑا مذہب ہے۔ اس آبادی کا بیشتر حصہ اُن تارکینِ وطن مسلمانوں اور اُن کی نسلوں پر مشتمل ہے جو گذشتہ صدی کے پیچیدہ معاشی و معاشرتی حالات کے باعث اپنے ممالک چھوڑ کر یورپ منتقل ہوئے۔ لیکن وقت کے ساتھ اب اس آبادی میں نومسلموں کی تعداد بھی متواتر بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
یورپ میں مسلمانوں کی اس کثرتِ تعداد سے اُمید کی جا سکتی تھی کہ اسلام اور مغرب کے باہمی تعلقات نفرت و عداوت کے بجاے محبت و الفت پر استوار ہوتے لیکن ایسا نہ ہوا‘ اور مستقبل قریب میں بھی بظاہر ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اس کی چندوجوہات ہیں:
۱- مسلمانوں کے ساتھ مغربی دنیا کی کش مکش کی طویل تاریخ‘ بالخصوص صلیبی جنگیں‘ ۱۰۹۹ء میں صلیبیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا یروشلم میں قتل عام‘۱۴۵۳ء میں قسطنطنیہ کا مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہونا‘ ۱۴۹۲ء میں سرزمینِ اندلس سے مسلمانوں کا خروج وغیرہ جانبین میں باہمی دشمنی کو فروغ دینے کا باعث رہے ہیں۔
۲- مسلم معاشی و سیاسی قوت کا زوال اور بالآخر مغربی استعمارکا مسلم دنیا پر غالب آجانا جس کے نتیجے میں مغرب‘ بالخصوص یورپ کا‘ اپنے آپ کو دوسروں سے افضل و برتر سمجھنا ‘ استشراق (orientalism) اور مسلمانوں کا دو کیفیات سے دوچار ہونا: ایک احساسِ کمتری ‘ جس نے مسلمانوں میں اپنی تہذیب وتمدن کے حوالے سے ایک معذرت خواہانہ رویے کو جنم دیا‘ اور دوسرے مغرب سے منسوب ہر چیز کو کفر تصور کرنا‘ جس کے باعث خود مسلمانوں کے مزاج کا عدل کے بجائے غلو‘ رجعت پسندی اور تعصب کی طرف مائل ہونا‘ جو اجتہاد کی صفت سے محروم ہے۔
۳- مغرب کا اپنے فکری طلسم کو نہ توڑ پانا اور اپنے متکبرانہ مزاج کے موافق اسلام کی ایسی تحقیر آمیز تصویرکشی کرکے ذرائع ابلاغ کے ذریعے پھیلانا‘ جس سے اسلام کے خلاف غلط فہمیاں عام ہوں اور مسلمانوں کا تشخص مجروح ہو۔
۴- مسلمانوں کا بذاتِ خود اسلام کا صحیح فہم و شعور رکھنا‘ نہ اُس کو بطور دین تسلیم کرنا اور نہ مسلم اکثریتی معاشروں میں اسے عملاً نافذ کرنا‘ اس پر مستزاد مسلمانوںکا بغیر سیاسی اقتدار کے ‘بحیثیت اقلیت غیرمسلم اقوام و ممالک میں قیام پذیر ہونے کے حوالے سے ناتجربہ کار ہونا اور نتیجتاً اسلام کا درست اطلاق نہ کر پانا۔
۵- مسلمانوں کا مغربی افکار ونظریات کو نہ سمجھ پانا‘ حکومتی پالیسیوں اور عوامی جذبات میں فرق نہ کرنا اور جذبۂ محبت و اصلاح اور وللّٰہ المشرق والمغرب سے بے گانہ ہونا۔
مختصراً یہ وہ پانچ بنیادی وجوہات ہیں جو یورپ اور بقیہ مغربی دنیا میں مسلمانوں کی بقا اور اسلام کے فروغ میں سدِراہ ہیں۔
اگرچہ یورپ میں تارکینِ وطن آبادیوں کے حوالے سے مسائل کا آغاز اُن کی آمد کے دن ہی سے ہو گیا تھا‘ تاہم ۱۱ستمبر کے واقعے نے مسئلے کی نوعیت کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ اس سے قبل یورپ کی مقامی آبادیاں‘ ذرائع ابلاغ اور حکومتیں‘صرف وضع قطع‘ زبان اور رسم و رواج کے اُس ظاہری فرق کو دیکھتے تھے جو تارکینِ وطن اور مقامی آبادیوں کے مابین نظر آتا تھا۔ اسلام کا نام لیتے ہوئے ایک حجاب تھا اور بلاواسطہ نقد و تنقید کرتے ہوئے محتاط رہا جاتا تھا۔ اصل موضوع یک جہتی (integration) میں حائل عناصر ہوتے تھے جن میں سے ایک اسلام بھی تھا۔
۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد مسئلہ تارکینِ وطن کی یک جہتی(integration) یا جذب ہونے (assimilation) کا نہیں رہا بلکہ اب اصل ایشو ہی اسلام اور مغربی دنیا کا باہمی تعلق ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ کوئی نئی بات نہیں البتہ زمانہ حاضر سے پہلے یہ تعلق مشرق و مغرب کی جغرافیائی حدود میں بآسانی تقسیم کر دیا جاتا تھامگر اب یورپ میں مسلم آبادی کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ اگر یورپ میں راے عامہ کا ایک موثر حصہ افغانستان و عراق کے ساتھ جنگ کے خلاف ہے یا مغربی عوام کی ہمدردیاں اسرائیل کے بجائے فلسطینیوں کے ساتھ ہیں تو اس میں یورپی ممالک میں مسلمانوں کی موجودگی کا بڑا عمل دخل ہے۔ بلادِ اسلامی کو مغلوب ومحکوم رکھنے کا مسئلہ محض بین الاقوامی سیاست سے متعلق نہیں رہا بلکہ یورپ کی داخلی سیاست اب اس بحث سے متاثر ہے۔ یورپ کے دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں جن پر پہلے سرد جنگ کا سایہ تھا‘ کمیونزم کے زوال کے بعد اُن کی دشمنی کا ہدف اسلام ٹھیرا جس کی عالمی قوت اور انقلابی نظریات سے وہ خوف زدہ تھے۔ ان کا اندازہ ہے کہ وقت کے ساتھ مسلمان مغربی تہذیب وثقافت کے لیے خطرے کا باعث ہوںگے۔ انقلاب ایران اورالجزائر‘ ترکی و سوڈان سمیت بوسنیا میں اسلام پسند قوتوں کے مقتدر ہونے نے اس تاثر کو مزید مستحکم کیا۔ اسی لیے تارکان وطن آبادیوں کی آڑ میں یورپ کی دائیں بازو کی قوتوں نے ایک زبردست تحریک کا آغاز کیا‘ جس کی لپیٹ میںآج پورا یورپ آچکا ہے۔
۹۰ کے عشرے میں سارا یورپ آہستہ آہستہ Islamophobia کے جال میں آتا گیا۔ دائیں بازو کی قوتوں نے اس جال کو بننے کی ابتدا دو محاذوں سے کی۔ ایک طرف تو انھوں نے بے روزگاری و معاشی ابتری کو تارکین وطن کی موجودگی سے منسوب کیا‘ تو دوسری جانب اسلام کی نظریاتی بنیادوں پر کاری ضرب لگائی۔ یورپ کی روایتی سیاسی جماعتیں سردجنگ کے خاتمے پر اپنی تعمیرنو اور مستقبل کی منصوبہ بندی میں مشغول تھیں۔ دائیں بازو کی جماعتوں نے اس صورت حال کا بھرپور فائدہ اُٹھایا اور فوکویاما اورہن ٹنگٹن جیسے امریکی مفکرین سمیت امریکی حکومت کی بین الاقوامی پالیسی نے اِن لوگوں کو مواد و سازگار ماحول فراہم کیاجس کے نتیجے میں ان کی سیاسی قوت اور اثر و رسوخ میں بیش بہا اضافہ ہوا۔ سارے یورپ میں ایک لہر دوڑ گئی۔ عوام بے روزگاری اور معاشی حالات سے بدظن تھے‘ انھوں نے اس معاشی تنگ دستی کی اصل تشخیص‘ یعنی ربا پر قائم معیشت کے بجاے جو سرماے کی غیر منصفانہ تقسیم پر مبنی ہے‘ دائیں بازو کی قوتوں کے اس تجزیے کو ترجیح دی کہ غیر ملکیوں نے ملازمتوں پر قبضہ کر رکھا ہے جس کی وجہ سے مقامی آبادی کے باشندوں کو نوکریاں نہیں مل رہیں اور جو تارکینِ وطن ملازمتوں اور کاروبار پر قابض نہیں‘ وہ گھر بیٹھ کر ہماری محنت کا پھل ریاستی بہبود (state welfare) کی شکل میں حاصل کر رہے ہیں اور ان کا اصل مقصد ہی یورپ آکر ہمارے فلاحی نظام سے ناجائز فائدہ اُٹھانا ہے۔
اگرچہ ابتدا میں نشانہ خصوصی طور پر مسلمان نہ تھے مگر رفتہ رفتہ اشارے اسی جانب ہونے لگے۔ اس ساری بحث میں اسلام میں عورت کا مقام‘ اسلام اور عدل اجتماعی‘ اسلام اور جمہوریت‘ جہاد اور بالآخر دہشت گردی جیسے موضوعات اور ان سے متعلق سوالات جابجا اُٹھائے گئے اورمسلمانوں کو تنقیص کا نشانہ بنایا گیا۔ عام آبادی میںخوف‘ خطرے اورتعصب و تحقیرکے جذبات نے جڑپکڑی اور نتیجتاً آسٹریا میں ہائیڈر یورک (Haider Jorg) کی فریڈم پارٹی نے جس کی نازی ہمدردیاں مشہور ہیں‘ تارکان وطن دشمن (anti-immigration) پالیسی پر ۲۷ فی صد ووٹ حاصل کیے اور مخلوط حکومت قائم کی۔ یہی معاملہ ڈنمارک میں ڈینش پیپلز پارٹی کا ہوا جو ۱۲ فی صد ووٹ کے ساتھ ملک کی تیسری قوت بن کر اُبھری۔ بلجیم کی دائیں بازو کی پارٹی کو ۹.۹ فی صد‘ جرمنی میں ۳ فی صد‘ اٹلی میں ۴ فی صد‘ پرتگال میں ۹ فی صد‘ سوئٹزرلینڈ میں ۵.۲۲ فی صد ووٹ ملے۔ فرانس میں Jean-Marie Le Pen صدارتی انتخاب میں ۱۸ فی صد ووٹ لے کر دوسری پوزیشن پر آئے۔ ناروے میں پروگریس پارٹی نے پارلیمنٹ کی ۱۶۵ سیٹوں میں سے ۶۲ نشستیں حاصل کیں اور حکومت میں شریک ہوئی۔ اسی طرح ہالینڈ میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں دائیں بازو کی جماعت نے اپنی پہلی انتخابی مہم ہی میں ۲۶ نشستیں حاصل کیں۔ پارٹی لیڈر Pim Fortuyn نے انتخابی مہم کے دوران اسلام کو ایک رجعت پسند دین قرار دیا جو فرد کے حقوق کو سلب کرتا ہے۔
۱۱ستمبرکے واقعے نے اسلام کے خلاف ایسے برملا اظہارِخیال کو جواز مہیا کر دیاہے۔ ۱۱ستمبر کی ہولناکیوں کواسلام اور مسلمانوں کے ساتھ منسوب کرنے سے یورپ کی فضا میں اسلام کے لیے جو خیرسگالی کے جذبات تھے اُن میں واضح طور پر کمی واقع ہوئی ہے اور توقع کی جاسکتی ہے کہ آیندہ انتخابات میں دائیں بازو کی تحریکوں کومزید کامیابی حاصل ہوگی۔ امریکہ بھی‘ جو بین الاقوامی سیاست کے دھارے کو متعین کرتا ہے‘ اسی جانب پیش قدمی کر رہا ہے جس سے ان تحریکوں کو تقویت ملے گی۔ ایسی صورت حال میں یورپ کے مسلمانوں کو تین طرح کی صورت حال (scenarios) پیش آسکتی ہے۔
ایک امکان یہ ہے کہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا جائے گا۔ عوامی دبائوکے ذریعے مسلمانوں کو مجبور کیاجائے گا کہ اسلام سے برأت کا اعلان کریں۔ یہ بغاوت محض ارتداد کی شکل میں نہیں ہوگی بلکہ مختلف حربوں سے مجبور کیا جائے گا کہ خود اسلام میں تحریف کی جائے جس طرح عیسائیت میں کی گئی۔
دوسرا قوی امکان یہ ہے کہ جوں جوں بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کے خلاف مہم زور پکڑے توں توں تشدد کے ذریعے یورپ سے مسلمانوں کے اخراج کا سامان کیا جائے اور بالآخر مسلمانوں کو ایک قتل عام (holocaust) کا سامنا کرنا پڑے۔
تیسری صورت جو موجودہ صورت حال میں بظاہر تو بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے‘ مگر ناممکن بھی نہیں ہے‘ اور وہ ہے: وَھُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنْم بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَیَنْشُرُ رَحْمَتَہٗ ط(الشوریٰ ۴۲:۲۸) ’’وہی ہے جو لوگوں کے مایوس ہو جانے کے بعد مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے‘‘۔ اس نویدسے کچھ حوصلہ افزائی ملتی ہے کہ یورپ اسلام کی دعوت کو قبول کر کے اس کا قلعہ بنے گا۔
پہلی صورت اس پہلو سے بڑی خطرناک ہے کہ تاریخی اعتبار سے کسی بھی مسلم ریاست نے دین میں تحریف اور ارتداد کو برداشت نہیں کیا اور نہ آیندہ ہی ایسی تحریکوں کو مسلم ممالک میں کوئی قابلِ ذکر مقبولیت حاصل ہونے کی توقع ہے۔ خود پاکستان میں قادیانیت و انکارِ حدیث کے فتنوں کو تمام تر کوششوں کے باوجود عوامی تائید حاصل نہ ہونے پائی۔ لیکن یورپ جو غیر مسلم معاشرہ ہے‘وہاں یہ کام اسلام دشمن قوتوں کے تعاون و سرپرستی سے یا پھر احساسِ کمتری کا شکار ہوکر مسلمان ممالک میں برآمد کیے جانے کا خطرہ ہے۔ اس طرح نہ صرف یورپ میں بلکہ پوری دنیا میں اسلامی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا جائے گا اورمغربی استعمار کے ایک نئے دور کاآغاز ہوگا۔
اگرچہ اکثر و بیشتر مسلمان ۱۱ ستمبر سے قبل ’قتل عام‘ کا کوئی امکان نہ سمجھتے تھے لیکن اب ایسا معاملہ نہیں رہا۔ ماحول اس کے لیے سازگار بنایا جا رہا ہے۔ ابھی سے ہی جمہوریت اور انسانی حقوق کے اصولوں پربھی نظرثانی کی جارہی ہے تاکہ مسلمانوں کا خون حلال کیا جا سکے۔ ایسی صورت پیش آنے میں ابھی وقت ہے‘ تاہم اس خطرے کو نظراندازکرنا حماقت ہوگی کیونکہ یورپ کی تاریخ میں اس کی متعدد نظیریں موجود ہیں۔
تیسری صورت وہ ہے جس کی طرف حددرجہ غیر متوقع ہونے کے باوجود مسلمانوں کو پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ڈیڑھ‘دو کروڑ مسلمان یورپ سے ہجرت کر سکتے ہیں نہ مستقبل قریب ہی میں بلادِ اسلامی کو اتنی قوت حاصل ہوتی ہوئی نظر آتی ہے کہ وہ یورپ میں مسلم اقلیت کے تحفظ کا سامان کرسکیں۔
لہٰذا ۱۱ ستمبر کی روشنی میں‘تاریخ سے عبرت پکڑ کر اپنا محاسبہ کرتے ہوئے درپیش چیلنج کا جائزہ لینے کے بعد لائحہ عمل وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے راہنما خطوط یہ ہو سکتے ہیں:
۱- مسلمانوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ سیاسی اقتدار‘ عسکری قوت یا معاشی خوش حالی ہمارے مقاصد نہیں بلکہ تکمیلِ ایمان کے ذرائع ہیں۔مقصد اللہ کی رضا اور اُس کے ذریعے جنت کاحصول ہے۔
۲- یہ بنیادی بات سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ اسلام کسی جغرافیائی حدود کا پابند نہیں۔ اسلام اور مغرب کے ناگزیرہونے کا تصور ہمارا نہیں‘ نہ ہمیں اس کی خواہش ہی ہونی چاہیے۔ اگر کوئی تصادم ناگزیرہے تو وہ اسلام اور کفر و جاہلیت اورظلم کاہے۔ اگر آج لاہورو بغداد مسلم ہیں تو کل تک دہلی و قرطبہ بھی مومن تھے‘ مگر آج نہیں۔ اسی طرح اگرآج کعبۃ اللہ توحید کا پیکرہے تو کبھی بت کدہ تھا۔ حالات ایک جیسے نہیں رہتے۔
اسلام کسی ایک قوم‘ رنگ و نسل کی ملک نہیں۔ اسلام دلوں میں بستا ہے۔ جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کے پیاسے ہو سکتے ہیں وہ کل کو فاروق اعظمؓ بھی کہلا سکتے ہیں۔ ہمارا کام لوگوں کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچانا ہے نہ کہ اُن کا خاتمہ۔ اگر ہم اس بنیادی وکلیدی پہلو کو مدنظررکھیں اور اپنے اندر یہ احساس پیدا کریں کہ ہم رسولِ رحمتؐ کے اُمتی ہیںتو ہمارے دین کا تقاضا ہے کہ مغرب کے تمام بش‘ بلیئر‘ پاول و کسنجر حلقہ بگوش اسلام ہوں۔ مگر یہ صرف اُسی جذبۂ محبت و اصلاح‘ عفو ودرگزر اورتڑپ سے ممکن ہے جوآنحضورؐ کا شیوہ تھا۔ اس فہم و شعور اور اس کے مقتضیات کوسمجھے بغیرتمام مساعی لاحاصل ہیں۔
۳- اسلام عدل کا علم بردار ہے اورمسلمانوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ عدل کریں۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَج (النساء ۴:۱۳۵) وہ امانت دار ہوں۔ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاٰمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلط (۴:۵۸) اور معاشرے میں تعمیری و فعال کردار ادا کریں۔ یورپ کے مسلمانوں کے لیے یہ بات نہایت اہم ہے کیونکہ ماضی کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ مسلم آبادی الگ تھلگ رہتی ہے اور تحفظ ایمانی کی آڑ میں مقامی باشندوں سے گھلنے ملنے سے گریزاں ہے۔ اس سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں اور سوے ظن پھیلتا ہے۔ اس کیفیت سے نہ صرف یورپ کے مسلمانوں کو نقصان پہنچتاہے بلکہ مسلم ممالک کی آبادیاں بھی نقصان اٹھاتی ہیں۔ دوسری جانب مسلم ممالک میں بھی اس سے ملتی جلتی کیفیات پائی جاتی ہیں جو نوآبادیاتی دور کا منطقی نتیجہ ہے۔ مغرب سے تنفر کے جذبات اس نوعیت کے ہیں کہ مسلم ممالک کے عوام نے بحیثیت مجموعی ۱۱ ستمبرکے واقعے کے بعد مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرٍ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَانَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاط (المائدہ ۵:۳۲)کے سبق کو بھلا دیا اور اس سانحے پر غم کے بجاے خوشی کااظہار کیا۔ تمام ممالک میں نکالے جانے والے مظاہروں اور جلوسوں میں مغرب کے خلاف جو جذباتی نعرہ بازی ہوتی ہے اورسیاسی رہنمائوں کے پتلوں کو نذرآتش کیا جاتا ہے‘ ایسے واقعات یورپ ہی نہیں بلکہ بقیہ ساری دنیا میں اسلام و مسلمانوں کو ایک غیرروادار شر تصور کرنے کا باعث بنتے ہیں اور اس کا خمیازہ سب سے بڑھ کر یورپ کے مسلمانوں اور فلسطین کے حریت پسندوں کو بھگتناپڑتا ہے۔ اگر سوچ محدود نہ ہو اور قومی مفاد سے بالاترہو تو اس تصور (image) اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے کافی حد تک نجات کی اُمید کی جا سکتی ہے۔
۴- بلادِ اسلامیہ کے مسلمانوں‘ مفکرین‘ صحافیوں‘ ریاستی و حکومتی ذمہ داروں اور اسلامی احیائی تحریکوں کے کارکنوں اور قیادت کوپالیسی سازی کے وقت اور بیانات دیتے ہوئے مغرب بالخصوص یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کے مسائل و حالات کو ملحوظ خاطر رکھنے کی اور اُن سے مشاورت کی ضرورت ہے تاکہ اسلام کی تعلیمات و تصورات کو بدعات وسیئات سے پاک کرکے پیش کرنے میں آسانی ہو۔
یہ وہ چار بنیادی اصول ہیں جن کو اپنا کر یورپ میں مسلمانوں کا تحفظ ہوسکتا ہے اور عالمی سطح پر اسلام کی نشات ثانیہ کی اُمید کی جا سکتی ہے۔ موجودہ تہذیبی کش مکش میں یورپ کے مسلمانوں کا کردار کلیدی ہے اور اُن کو نظرانداز کرکے یہ معرکہ سر کرنا ناممکن ہے۔ یورپ کے عوام خود امریکہ کی بالادستی سے بیزار ہیں۔ اگراُن کی طرف ہاتھ بڑھایا جائے تو دعوت کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے جس سے بالآخر امریکہ کے رویے میں بھی تبدیلی آئے گی۔ وَلاَتَھِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o (اٰل عمران ۳:۱۳۹)
ترجمہ: شازیہ افضل
سائنسی اور فنّیاتی(ٹکنالوجیکل) انقلاب کے جو مظاہر آج ساری دنیا میں دیکھنے میں آرہے ہیں وہ بالکل فطری ہیں۔ ان کی ترقی عملاً ازخود ہوئی ہے۔ انسانی اداروں نے نہ ان کی منصوبہ بندی کی ہے‘ نہ انھیں آگے بڑھا رہے ہیں۔
سائنس اور تکنیک کے میدان میں ہونے والی ترقی کے مزاج میں ہمیشہ سے یہ بات شامل رہی ہے کہ اعلیٰ اور بہتر طریقے‘ آلات‘ کارخانے یا مصنوعات بتدریج ساری دنیا میں عام ہوجاتی ہیں۔ اس اعتبار سے عالم گیریت (گلوبلائزیشن) ہمیشہ سے ہمارے ساتھ رہی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہندستانی ہندسے بشمول صفر تقریباً۸۰۰ سال کے عرصے میں لاطینی ہندسوں کے بوجھل نظام کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ہر جگہ عام ہوگئے۔ نام نہاد یونانی آتشیں گولوں کو بحیرئہ روم کے گرد بحری جنگ کے طریقوں میں انقلاب لانے سے نہ روکا جا سکا۔ اسپین میں آمد کے بعد جنوبی یورپ کے تمام علاقے ایک ایک کر کے مسلمانوں کی ترقی یافتہ ٹکنالوجی سے مستفید ہوئے۔ مثال کے طور پر‘ پن چکی اور آب پاشی کے طریقے۔ یہاں تک کہ نباتات میں ترنج اور بادام کے درختوں کی افزایش وغیرہ۔
دورِ نو کی عالم گیریت بھی اسی نوعیت کی ہے۔البتہ اس نے اپنا رُخ تبدیل کر لیا ہے۔ اب اس کا رُخ شمال سے جنوب کے بجائے مغرب سے مشرق کی طرف ہے۔ لیکن ایک بڑا فرق اُس رفتار کا ہے جس کے ساتھ موجودہ عالم گیریت پھیل رہی ہے۔ اگر تاریخی لحاظ سے دیکھاجائے تو جو حیثیت مسلم اسپین کی یورپ کے لیے تھی‘ آج وہی مغربی تہذیب کی مشرق کے لیے ہے۔ اور یہ کسی بل گیٹس کے حکم کے تحت نہیں۔اعلیٰ اور برتر ٹکنالوجی کی فطرت ہی یہ ہے کہ وہ پانی کی طرح اوپر سے نیچے کی طرف آتی ہے۔
رفتار اس عمل کی ماہیت پر تو اثرانداز نہیں ہوتی لیکن اسے زیادہ خوف ناک ضرور بنا دیتی ہے۔ موجودہ دور میںتبدیلی کی یہ رفتار مستقبل کے بارے میں بے یقینی اور خدشات کو جنم دینے‘ روایتی معاشروں کو درہم برہم کرنے‘ یہاں تک کہ خود مغرب کے منظرنامے کو بدل کر رکھ دینے کاباعث ہے۔ اور یہ سب کچھ اُس رفتار کے ساتھ رونما ہو رہا ہے جس کی کہیں کوئی مثال نہیں ملتی۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تکنیکی اور فنی ایجادات کی یلغار کو روکا جا سکتا ہے۔ ایک دفعہ جب نئی ابلاغی ٹکنالوجی کا جنّ بوتل سے باہر آگیا ہے تو اس کو واپس بند کرنا ممکن نہیں۔ بجلی‘ ٹیلی فون‘ٹیلی وژن‘ کمپیوٹر اور موبائل فون کی ترقی کی تاریخ اس کی مثالیں ہیں۔
آج کل انٹرنیٹ اس استدلال کی ایک بہترین مثال ہے۔ بنی نوع انسان کی اکثریت ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہو کر ایک اطلاعاتی کائنات اور خودکار خلا میں ایک سحرانگیز‘ نئی اور حقیقی دنیا کو جنم دیے ہوئے ہے۔ کوئی حکومت‘ کوئی بین الاقوامی تنظیم اور کوئی فرد اس ترقی کو نہیں روک سکتا۔ یہ کسی پالیسی یا سازش کا نتیجہ نہیں بلکہ سائنس اور ٹکنالوجی کی فطرت میں ہے کہ یہ چھا جاتی ہے۔
جہاں تک نیوکلیائی اور جینیاتی ترقی کا تعلق ہے‘ سائنس اور ٹکنالوجی سے متعلق اس احساس کی وجہ سے ہمیں بہتری کی امید نہیں رکھنا چاہیے۔ ان دو میدانوں میں پہلے سے ہو جانے والے نقصان کو کم کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر کافی کوششیں کی گئی ہیں۔ ہمیں اچھا لگے یا نہیں‘ یہ دونوں شعبے اس زمرے میں آتے ہیں جن پر قابو پانا انسان کے بس سے باہر ہے۔
یقینا اقوام متحدہ نے اپنے عدم پھیلائو کے معاہدے (این پی ٹی) کے ذریعے جوہری صلاحیت کو سلامتی کونسل کی پانچ ویٹو طاقتوں تک محدود رکھنے کی کوشش کی ہے۔ مزیدبرآں ان طاقتوں میں امریکہ‘ برطانیہ‘ روس اور چین نے اپنے آپ کو نیوکلیائی اسلحے سے پاک کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے‘ ایک ایسا وعدہ جس پر کسی کویقین نہیں۔ یہ معاہدہ اسرائیل‘ بھارت اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے میں ناکام رہاہے۔ ان میں سے کچھ طاقتوں نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے میں اسرائیل کی پشتیبانی کی ہے۔ دوسرے صلاحیت رکھنے والے ممالک بھی اگر چاہیں تو وہ آسانی سے نیوکلیائی طاقت بن سکتے ہیں۔
کچھ یہی صورت حال کیمیائی اور حیاتیاتی اسلحے کی ہے۔ اس ضمن میں بھی اگرچہ اکثر اقوام تخفیف ِ اسلحہ کا وعدہ کر چکی ہیں اور امریکہ اور روس دونوں ملکوں میں کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیروں کو تباہ کیا جا رہا ہے لیکن کسی شخص کو کیمیائی یا حیاتیاتی ہتھیاروں کی ایجاد و اختراع سے روکنا ممکن نہیں۔
جینیاتی انجینیرنگ کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ سائنس دان انسان کے جینیاتی مادے کی تہ تک پہنچنے میں مصروف ہیں۔ جانوروں کی سطح پر کلوننگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ انسان کے ڈی این اے کو ہنرمندی کے ساتھ جوڑ کر بہتر ادویات کی تیاری کے لیے استعمال کیا جاتاہے اور جینیاتی مادے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو ایک کل پرزے کی شکل میں ملا دیا گیا ہے۔
کیا ہم اس مفروضے کو تسلیم کرنے میں حق بجانب ہیں کہ حیاتیاتی فزکس میں ان دھماکا خیز سائنسی کامیابیوں کے بعد برائی کا یہ جنّ بھی بوتل سے باہر نکل آیا ہے۔ کیا واقعی یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ طبی انجمنوں یا بین الاقوامی معاہدوں کے بنائے گئے اخلاقی ضابطوں کے تحت اسے بوتل میں واپس بند کیا جا سکتا ہے؟ یہ بڑے اہم اور بحث طلب سوال ہیں۔ جب ایک دفعہ انسان کی کلوننگ ممکن ہو چکی ہے تو جلد یا بدیر یہ ہوکر رہے گی‘ باوجود اس کے کہ یہ اللہ کی تخلیق میں بدترین دخل اندازی ہے۔
اس لیے میری حقیقت پسندانہ (اور اپنے اندر ناامیدی رکھنے والی) رائے یہ ہے کہ ہمارے پاس سائنسی فنی ترقی کے بنیادی منفی اثرات کو ختم کرنے کا کوئی قابل اعتماد ذریعہ نہیں۔
اس ترقی کے ثانوی منفی اثرات کا معاملہ کچھ مختلف ہے۔ یہ اثرات زیادہ تر ابلاغی انقلاب کی پیداوار ہیں اور انھیں تعلیم‘ سماجی جنسی رویوں‘ طرز زندگی اور خاندانی یک جہتی کے میدانوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔
ان تمام میدانوں میں جدید ٹکنالوجی کے فوری اثرات کوزائل کرنے کی کوشش بے فائدہ ہے۔ لیکن مسلمان ممالک اور خاندان دونوں کامیابی کی بجا اُمید کے ساتھ اِن اثرات کوکم کر سکتے ہیں۔ مسلم معاشرے تبدیل ہونے پر مجبور ہیں۔ تیسری دنیا کی بہت ساری روایات کا ٹوٹنا لازمی ہے۔ لیکن آج بھی جدید ماحول کے اندر رہتے ہوئے اسلام کی اصل حقیقت کو بچانا اور اس کے مطابق زندگی گزارنا ممکن ہے۔ کیونکہ جدت اور جدیدیت کالازمی مفہوم مغربیت نہیں۔
تعلیم و تربیت : آج کی ضرر رساں عالم گیریت سے قبل اسلام کے سرچشموں قرآن‘ سنت‘ فقہ‘ اسلامی تاریخ و فلسفہ اور اسلامی ادب کے ذریعے ایک مسلم شخصیت کو پروان چڑھانا ممکن تھا۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ ریڈیو‘ ٹیلی وژن اور انٹرنیٹ جیسی ٹکنالوجی‘ بیرون ملک سفر میں آسانی اور لاکھوں مغربی سیاحوں کی آمد کی وجہ سے اسلام کا اپنا خصوصی تصورِدنیا (world view) مسلسل بیرونی ذرائع سے مجروح ہو رہا ہے۔
تعلیم کو درپیش اس سنگین چیلنج سے قدیم طریقے سے نہیں نبٹا جاسکتا کہ نوجوانوں کو نقصان دہ بیرونی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے انھیں جدید ٹکنالوجی سے دُور رکھا جائے۔اب جدید دور کے لوگوں کو اس کے بجائے مامونیت (immunization) کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے‘ یعنی اثرات سے محفوظ رہنے کی کوشش۔ انھیں دوسری اقوام سے حاصل ہونے والی معلومات کی طرف نوجوان نسل کی درست رہنمائی اور اطمینان بخش وضاحت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ یہی وہ کوشش ہے جسے ’’علم کی اسلامی تشکیل‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ مسلمان طالب علموں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اسلامی سائنس کے تمام ڈھانچے اور جدید سائنس کی وسیع بنیادوں دونوں پر عبور رکھتے ہوں‘ غیر یقینی ہے۔ اس کے بجائے ہم حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمان نوجوانوں کو اسلامی تصور جہاں کی اتنی مضبوط بنیاد فراہم کر سکتے ہیں کہ وہ درست سوالات اور کسوٹی کے ساتھ مغربی سائنس کا مقابلہ کرسکیں۔
جنسی طرزعمل: یہی طرزِعمل جنسی رویوں سے متعلق ہونا چاہیے۔ اس میدان میں ہونے والا نقصان اپنے دُور رس منفی نتائج کے ساتھ سب کے سامنے ہے۔ نہ صرف جنسی اخلاقیات رُوبہ زوال ہیں بلکہ شریعت کے اصولوں اور معیار پربھی نت نئے اعتراضات کیے جا رہے ہیں‘ اور ان پر عمل روز بروز کم ہوتا جارہا ہے۔
بہرحال‘ صرف حجاب کو اختیار کرنا مناسب جنسی رویے کی ضمانت نہیں ہے۔ اس معاملے میں بھی ہمیں مامونیت کا طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔ بالفاظ دیگر اگر ہم اپنی بیٹیوں کو یہ سمجھانے میں کامیاب نہیں ہوتے کہ حجاب نہ کرنا اُن کے اپنے حق میں نقصان دہ ہے تو انھیںگھروںمیں بند کر دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں اسکول اورخاندان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کیونکہ اگر وہ ناکام ہوجاتے ہیں تو سہیلیوں کے دبائو سے منفی فیصلہ ہوگا۔
طرزِ زندگی: طرزِزندگی کے تحت‘ میں اُس تمام مادی اور اخلاقی ماحول کو لیتا ہوں جو جدید ٹکنالوجی کے ساتھ وجود میں آیاہے اور جو نشہ آور ادویات‘ شراب‘ سگریٹ‘ ڈسکو‘ جدید موسیقی‘ ہلہ گلہ اور عوامی ناچ‘ موبائل فون‘ گاڑیوںاور آزاد معیشت کا ملغوبہ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ بنیادی طور پر یہ امریکی طرزِ زندگی ہے جو جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکا ہے۔ یہ بالکل فطری ہے کہ عسکری‘ معاشی اور سائنسی میدان میں قائدانہ کردار ادا کرنے والی طاقت تمام دنیا کے لیے ایک نمونہ اور مقناطیس ہوتی ہے۔
ایک ایک فنی ایجاد کے نتیجے میں ہونے والی تبدیلیاں اس قدر شدید ہیں کہ مریم جمیلہ (معروف نومسلم اسکالر) جیسے کچھ مسلمانوں کاخیال ہے کہ ٹکنالوجی کی انگلی پکڑنے کی کوشش میں پورا ہاتھ ہی پکڑنا پڑے گا۔ کیا واقعی ساری کی ساری ٹکنالوجی شیطان کی ہے؟
یقینا نہیں--- میڈیکل اور زراعت کے میدان میں ٹکنالوجی نے پہلے سے کہیں زیادہ لوگوں کو خوراک مہیا کرنے اور شرح زندگی میں بہت زیادہ اضافہ کرنے میں مدد دی ہے اور درد وتکلیف کو بہت کم کیاہے۔ آپ صرف دورِ جدید کی اُس ٹکنالوجی کی کامیابی کے تناسب کا‘ جو موتیے کا علاج کر کے بصارت بحال کرتی ہے ‘انیسویں صدی کے مایوس کن تناسب ہی سے موازنہ کرلیں۔
زیربحث نکتہ یہ نہیں کہ ہم جدید ٹکنالوجی سے کس طرح پیچھا چھڑا سکتے ہیں بلکہ اصل موضوع یہ ہے کہ ہم کس طرح اس پر عبور حاصل کر سکتے ہیں؟ یہ بھی ایک سیکھنے کا عمل ہے جو مامونیت کی طرف لے جاتا ہے۔ ہمیں اپنے رویے سے اپنے بچوں کوسکھانا چاہیے کہ ایک مادہ پرست اور آزاد خیال معاشرے کے ساتھ کیسے نبٹا جائے اور ایسے معاشرے میں ہمیں کس طرح زندگی گزارنی چاہیے۔
اگر ہم اچھے طریقے سے پوری وضاحت کے ساتھ اپنے بچوں کونشہ آور ادویات کے اثرات سے آگاہ کر دیںاور خود بھی سگریٹ اور شراب سے پرہیز کریں‘ تواس طرح اُن کے درست طرزِعمل سیکھنے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ مثال کے طور پر میں نے اپنے بیٹے کو‘ جب وہ ۱۱ سال کا تھا‘ بتایا:’’مجھے خدشہ ہے کہ ہائی اسکول میں ایک دن کچھ لڑکے تمھیں کہیں گے کہ سگریٹ اور شراب پی کردیکھو‘ ان سے بہت سکون ملتا ہے۔ ہم سب لوگ ان کا استعمال کرتے ہیں‘‘۔ اگر ایسا ہوا توآپ جواب دینا: ’’میں باقی لوگوں کی طرح نہیں ہوں اور مجھے اِس پرفخرہے ۔ کیا میں صرف اس لیے ایک جال میں پھنسوں کہ تم اس کا شکار ہو چکے ہو‘‘۔ اس طرح ایک ہنگامی صورت حال کے پیدا ہونے سے قبل ہی ہم نے اِس سے نبٹنے کی مشق کر ڈالی‘ اور یہ اپنے بچوں کوکسی ایسے اسکول میں بھیجنے سے زیادہ بہتر ہے جو نشہ آور ادویات سے پاک خیال کیا جاتا ہو۔میری گزارش ہے کہ کسی سانحے یاواقعے کے رُونماہونے سے قبل اخلاقی تربیت ہی بچائوکا راستہ ہے۔
خاندان کا تحفظ: ہمارا خاندان مستقل اس تہذیبی یلغار کی ضربیں سہہ رہا ہے جس کے زیراثر ہم زندگی گزار رہے ہیں۔ تعلیمی اطوار ہوں‘ جنسی رویے ہوں یاطرز زندگی--- خاندان ہی حالات کے رخ کا فیصلہ کرتا ہے بشرطیکہ یہ مغربی تہذیب کی شدید یلغار کے نتیجے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوچکا ہو۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ خاندان کا دفاع دراصل بحیثیت مجموعی معاشرے کا دفاع ہے۔
اہل خاندان میں باہم اتفاق و اتحاد اور خاندان کے اندر اسلامی ماحول کو برقرار رکھنا ہی عالم گیریت کے منفی اثرات کا توڑ ہے۔ اس کے برخلاف‘ مثلاً ہم جنس پرستوں کی آپس کی شادیاں‘ اسقاطِ حمل‘ شادی کے بغیرزندگی گزارنے کی حوصلہ افزائی اور بوڑھوں کے لیے بنائی گئی قیام گاہوں میں بزرگوں کی تنہائی--- مسلم معاشرے کے دفاع کے لیے زہرقاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔
تجزیہ اپنی جگہ‘ لیکن ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ فنّیاتی عالم گیریت (ٹکنالوجیکل گلوبلائزیشن) کے منفی اثرات سے بچائو کا واحد راستہ والدین کا جوابی مثالی رویہ ہے۔ انھیں اپنے عمل سے نئی نسل کوسکھانا ہوگا کہ ایک مسلمان کی زندگی میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بندگی و غلامی اولین ترجیح ہے‘ قرآن ہمارے لیے خدا کی طرف سے ہدایت اور رہنمائی ہے۔ اور یہ کہ سہولیات زندگی رکھنے سے زیادہ اہم ہے کہ انسان ایک اچھا انسان ہو‘ نیز معیارِ زندگی کاانحصار ضروریاتِ زندگی کی دستیابی پر نہیں۔
والدین کو واضح کر دینا چاہیے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی محتاجی شرک کے مترادف ہے (اور یہ نہ صرف غلط بلکہ اپنے پروردگار کے ساتھ سخت ناانصافی ہے)۔ اسی طرح ہمیں ہرگز برداشت نہیں کرنا چاہیے کہ ہمارے گھرپر اور ہماری آپس کی گفتگو پر ٹی وی سیٹ کی اجارہ داری ہو۔ جب اہل خاندان مل کر کھانا کھا رہے ہوں تو ٹی وی کواور موبائل فون کو بند رکھنا عالم گیریت سے آزادی حاصل کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔
اہل خاندان کو انٹرنیٹ کے اندر پوشیدہ اُس رجحان کے مقابلے کے لیے بھی تیار رہناچاہیے جو انھیں ایک دوسرے سے دُور کرنے کا باعث ہے۔ آج کل کے نوجوان آن لائن (on line) ہو کر تنہا (alone)ہو جاتے ہیں۔
والدین کو اپنے کھانے پینے اوراخراجات کے طرزِعمل سے خاموشی سے یہ بھی سکھاناچاہیے کہ وہ خرچ کرنے کی لت (consumerism)کاشکار نہیں ہیں۔ بچوں کوکبھی یہ محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ اُن کے والدین اپنے ہمسایوں سے مقابلہ ومسابقت میں مصروف ہیں‘ یا جس طرح ایک امریکی ماہرعمرانیات نے کہا ہے: ’’اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ اپنا مقابلہ کرتے رہا کرو‘‘ کی فضا ہو۔ اطلاعاتی ٹکنالوجی کے میدان میں رونما ہونے والا انقلاب ایک حقیقت ہے۔ اس کے سلسلے میں بھی والدین اوراساتذہ کے لیے اتنا ہی ضروری ہے کہ وہ مختلف معلومات کے درمیان ربط قائم کرتے ہوئے معلومات کو اُسی طرح قبول کرنے کے بجائے بچوں کے اندر اِن کا تجزیہ کرنے اور اصلاح کرنے کی عادت ڈالیں۔
حقیقت یہ ہے کہ آج کے دور میں مسلمانوں کے تصورِ دنیا کا دفاع کرنا اور ایک ایسی نوخیز نسل کو پروان چڑھانا جودورِ جدید کے بدترین بہکاووں سے پوری طرح محفوظ ہو‘ بہت مشکل ہو گیا ہے۔ لیکن یہ ناممکن نہیں‘ بشرطیکہ مسلمان خاندان مستحکم رہیں۔ مسلمان اہل علم مناسب طرزِعمل کے ساتھ آگے آئیں‘ اور جدید تدبیروں اور حربوں کو محض مسترد کرنے کی بے کار کوشش کے بجائے اِن کے اثرات کو زائل کرنے کی کوشش کریں۔
ترجمان القرآن (جولائی ۲۰۰۲ء) میں عزیز گرامی خورشید احمد ندیم کی طرف سے علامہ یوسف قرضاوی کے مضمون ’’سیاسی اسلام؟‘‘ (جون ۲۰۰۲ء) کے ایک چھوٹے سے اقتباس کو لے کر جومعترضانہ سوال اٹھایا گیا ہے اسے دیکھ کر تعجب تو بالکل نہیں ہوا کیونکہ فکر کے جس مکتب سے وہ فی زمانہ منسلک ہیں‘ اس مکتب کے لیے یہ پورا مضمون کونین کی انتہائی کڑوی گولی ہے جس کو یہ مکتب فکر کسی طرح حلق سے اتار نہیںسکتا۔ چنانچہ علمی انداز میں اس مضمون کا مدلل جواب دینے کے بجائے اپنی ’’بدمزگی‘‘ کو دُور کرنے کے لیے انھوں نے ایک چھوٹے سے اقتباس پر بظاہر ایک بہت بڑا اعتراض کر کے خود کو گویا تلخ کامی سے بچالیا۔
اس وقت اس مکتب فکر کے گمراہ کن افکار و خیالات کسی قسم کی مزاحمت کے بغیر گھاس کے اندر ہی اندر نہایت خاموشی سے پھیل رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دین کے بنیادی تصورات سے انحراف اور اسلام کو بھکشوؤں کا مذہب بنانے کا یہ کام جو بلامزاحمت جاری ہے اس کے تار و پود کو خالص علمی انداز میں بکھیردیا جائے تاکہ پھر جو اس راہ کی طرف جانا بھی چاہے وہ کسی غلط فہمی کی بنا پر اس طرف نہ جائے بلکہ لِّیَھْلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْم بَیِّنَۃٍ (الانفال ۸:۴۲)’’جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو‘‘ والی صورت ہو۔
بدقسمتی سے ہمارے چند اصحاب علم و دانش بعض ذاتی اسباب یا کچھ مخصوص حالات کی بنا پر ’’معرکۂ شریعت‘‘ میں ’’جنگ دست بدست‘‘ کے میدان کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ پھر کش مکش زندگی سے اپنے گریز کو صاف صاف طور پر اپنی شکست تسلیم کرنے کے بجائے سو بھیس بدل لینے والی عقل نے ان کو اس راہ پر ڈال دیا کہ دین کے اجتماعی اور سیاسی پہلو کے لیے جدوجہد ہی کو غیرضروری بلکہ دنیا پرستی سمجھنے لگے اور اظہار (غلبہ) دین کو اللہ رب العالمین کا کام سمجھ کر انھوں نے سب مسلمانوں کواس ذمہ داری سے فارغ کر دیا۔
میں ان کی اس سوچ کے بارے میں تو آگے چل کر کچھ عرض کروں گا۔ پہلے‘ معترض عزیز کے سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں۔
علامہ یوسف القرضاوی کا یہ دعویٰ کہ:
اسلام ہر مسلمان پر یہ سیاسی ذمہ داری عائد کرتاہے کہ وہ ایسی ریاست میں زندگی گزارے جس پر ایک امام کتاب اللہ کی رو سے حکومت کرتا ہو اور عوام نے اس کی بیعت کی ہو۔ اگر کوئی مسلمان ایسا نہیں کرتا تو وہ اہل جاہلیت میں سے ہے۔ صحیح حدیث میں ہے: جوشخص اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں امام کی بیعت کا قلاوہ نہیں ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ (مسلم)
اعتراض کنندہ کی نگاہ میں یہ بات اس لیے قابل اعتراض ہے کہ اس کے ذریعے:
امریکہ‘ برطانیہ اور دوسرے غیر مسلم ممالک میں بسنے اورفوت ہو جانے والے مسلمانوں کے بارے میں جو فتویٰ صادر کیا گیا ہے وہ بہت خوف ناک ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہے کیونکہ اس فتویٰ کی رو سے وہ سب اہل جاہلیت قرار پاتے ہیں۔
اب اسے خود معترض کی طرف سے جناب یوسف قرضاوی کے حق میں ایک فراخ دلانہ تسامح کہہ لیجیے یا کچھ اور نام دے لیجیے کیونکہ جناب قرضاوی کی زیرحوالہ عبارت اپنے عموم و شمول کے لحاظ سے اس سے کہیں زیادہ خوف ناک ہے جتنی خوف ناکی کا حوالہ دے کر جناب معترض نے اس پرسوال اٹھایا ہے۔ کیونکہ جناب قرضاوی کی شرائط پر پورا اُترنے والا تو دنیا میں اس وقت غالباً ایک ملک بھی موجود نہیں ہے جہاں کتاب اللہ کی رو سے حکومت کرنے والا امام موجود ہو اور عوام نے اس کی سمع و طاعت پر کاربند رہنے کی بیعت کی ہو۔
اس وقت دنیا کا کون سا ملک ان شرائط کو پورا کر رہا ہے کہ جناب قرضاوی کے فتوے کے مطابق مسلمان اس ملک میں جا کر بس جائیں اور اپنے دین و ایمان کی طرف سے بے خطر ہو کر چین کی زندگی بسر کرنے لگیں۔ پس سوال ’’صرف امریکہ‘ برطانیہ اور دیگر غیر مسلم ممالک میں بسنے اور فوت ہو جانے والوں‘‘ تک محدد نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام مسلمان خواہ وہ کسی نام نہاد مسلم حکومت کی رعیت ہی کیوں نہ ہوں وہ سب کے سب ’’اہل جاہلیت‘‘ ہونے کے فتوے کی زد میں ہیں۔
میں تو کہتا ہوں سوال کوذرا اور پھیلایئے‘ آغاز نبوتؐ سے لے کر ہجرت مدینہ تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے عالی مرتبت صحابہؓ جو ’’السابقون الاولون‘‘ کے خطاب کے مستحق بھی قرار پائے‘ کیا وہ کسی اس قسم کی حکومت میں رہتے تھے جس کا ذکر جناب قرضاوی نے اپنی تحریر میں کیا ہے‘ اور جب مشرکین مکّہ کے مظالم سے تنگ آکر ان میں بہت سے اصحاب عزیمت نے سرزمین حبشہ کی طرف ہجرت کی تو کیا وہاں قرآنی حکومت قائم تھی‘ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے قبل جن صحابہؓ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی یا جن صحابہؓ کو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت پھیلانے اور مسلمان ہونے والوں کی تعلیم و تربیت کے لیے وہاں بھیجا‘ کیا ان کی ہجرت سے قبل ’’قرآن کی روسے حکومت کرنے والا کوئی امام‘‘ وہاں موجود تھا؟
یقینا جناب قرضاوی کی زیرتنقید عبارت اپنے عموم و شمول کے لحاظ سے ان تمام سوالات اور اعتراضات کا مورد قرار دی جا سکتی ہے مگر میرے معترض عزیز نے اس بات کی طرف ذرا بھی توجہ نہ دی کہ جناب قرضاوی مسلمانوں کو غلبۂ دین کی جدوجہد کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے ان کے سامنے اس خوف ناک حقیقت کو واشگاف انداز میں بیان کر رہے ہیں کہ جومسلمان قرآن کے مطابق قائم کسی حکومت کے سایۂ عاطفت سے محروم ہو‘ اس کو اپنا ایمان بچانے کے لیے اور اہل جاہلیت میں شمار ہونے سے بچنے کے لیے اظہار ] غلبہ[ دین کی راہ میں سرگرم عمل ہونا چاہیے۔ پھر جدوجہد کے دوران اگر کسی بااختیار ’’امام‘‘ کی قیادت نصیب نہ بھی ہو تو اسے اپنے طور پر کسی شخص کواس اجتماعی جدوجہد کے لیے اپنا قائد اور رہنما بنا لینا چاہیے۔ اور جب بھی کوئی ایسی سرزمین میسر آجائے جہاں لوگ صرف اللہ کی بندگی کرنے کے لیے آزاد ہوں تو ہر سچے مسلمان کو اس سرزمین کی طرف اسی طرح ہجرت کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوناچاہیے‘ جس طرح ایک گمراہ معاشرے میں رہنے والا وہ مسلمان تھا جس کا ذکر ایک حدیث شریف میں تفصیل سے آیا ہے کہ وہ سو انسانوں کے قتل جیسے بھیانک جرم کے ارتکاب کے بعد ہجرت کرنے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ مگر وہاں پہنچنے سے قبل اس کی مہلت عمل ختم ہو گئی۔ راستے ہی میں فرشتۂ اجل آن پہنچا۔ تب اللہ تعالیٰ نے اس کے سابق گناہ معاف فرما کر اس کو اپنی رحمت اور مغفرت کے وسیع دامن میں پناہ لینے کا مستحق قرار دے دیا‘ جیسا کہ قرآن حکیم میں بھی اللہ کا ارشاد موجود ہے:
وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْم بَیْتِہٖ مُھَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ط وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا o (النساء ۴:۱۰۰)
اور جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف ہجرت کرنے نکلے پھر اس کو (راستے ہی میں) موت آجائے تو (اس کو معلوم رہنا چاہیے کہ) اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہو گیا اور اللہ تو بہت بخشنے والا مہربان ہے۔ (چنانچہ ہجرت سے قبل کے گناہوں کے بارے میں اسے فکرمند نہ ہونا چاہیے)۔
ایک صحیح حدیث میں بھی اس طرح کی بشارت موجود ہے:
ہجرت ان (گناہوں کو) منہدم کر دیتی ہے (جن کا ارتکاب) ہجرت سے پہلے کیا گیا تھا۔
اصل مسئلہ مسلمانوں کو ان کے ملّی منصب اور مقصدِحیات کی طرف دعوت دینا اور اس راہ میں سرگرم کرنا ہے۔ تکفیر اور جاہلیت کی موت کی قانونی اور فقہی بحث نہیں ہے۔
میرے اس بیان پر اگر یہ اعتراض اٹھایا جائے کہ دنیا میں ایک ارب سے زائد مسلمانوں میں ان لوگوں کی تعداد تو آٹے میں نمک کے بھی برابر نہیں ہے جو ’’اظہار دین‘‘ کے فرض کو پہچان کر اس کی ادایگی کے لیے تھوڑی بہت جدوجہد بھی کر رہے ہیں تو باقی مسلمانوں کے بارے میں شیخ قرضاوی کے اس فتوے کی روشنی میں کیا حکم لگایا جائے گا؟ تو میں آپ کے اس سوال نما اعتراض کو غلط نہیں بلکہ برمحل سمجھوں گا۔ لیکن میرے بھائی! فتوے کی جوکاٹ آپ مسلمانوں کے خلاف محسوس کر رہے ہیں اور جس کاٹ کو کند کرنے کے درپے ہیں آپ اسی کاٹ تک کیوں محدود رہتے ہیں؟ دنیا میں مسلمانوں کے علاوہ جو انسان بستے ہیں کیا وہ اللہ کے بندے اور آدم ؑ کی اولاد نہیں؟ کیا یہ سب قرآن و سنت کی نصوص کے مطابق کافرومشرک نہیں اور کیا اس حالت میں ان میں سے جولاکھوں لوگ روزانہ فوت ہوتے ہیں‘ وہ کتاب و سنت کے فتوے کی زد میں نہیں؟ توآپ ان نصوص کی کاٹ کی وسعت اور شدت کی طرف بھی توجہ فرمائیں اور ان لاکھوں انسانوں کوجہنم کا ایندھن بننے سے بھی تو بچائیں۔ مگر آپ کی اس خواہش کے علی الرغم اللہ تعالیٰ کا ارشاد تو یہ ہے کہ جو انسان غفلت میں چوپایوں کے مانندہیں ان کے بارے میں وہ ارحم الراحمین قطعاً فکرمند نہیں ہے۔ یہ ’’سارا جہاں‘‘ جس کا ہے اگر اس کا فیصلہ ان کے بارے وہ ہے جو درج ذیل آیت کریمہ میں بیان کیا گیا ہے تو پھر آخر ہم کیوں ’’فکرجہاں‘‘ میں خود کو گھلائیں‘مالکِ جہاں کا فیصلہ ملاحظہ ہو:
وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَھَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِز لَھُمْ قُلُوْبٌ لاَّ یَفْقَھُوْنَ بِھَا ز وَلَھُمْ اَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُوْنَ بِھَا ز وَلَھُمْ اٰذَانٌ لاَّ یَسْمَعُوْنَ بِھَا ط اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ o (الاعراف ۷:۱۷۹)
اور یقینا ہم نے جنوں اور انسانوں میں سے بہتوں کو پیدا ہی جہنم کے لیے کیا ہے۔ ان کے پاس دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں‘ ان کے پاس آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں‘ ان کے پاس کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں۔ یہ لوگ توچوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بے راہ ہیں۔ یہی لوگ غفلت میں گم ہیں۔
تاہم اپنے بندوں کے بارے میں ان کے رب کی مشیت یا فیصلہ کچھ بھی ہو‘ اور کچھ بھی ہوسکتا ہے کسی کو اس کے بارے میں اعتراض کرنے کا حق نہیں۔ جیسا کہ ارشاد ہے:
لاَ یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ o (الانبیاء ۲۱:۲۳)
جو کچھ وہ کرتا ہے اس کے بارے میں اس سے کوئی سوال نہیں کیا جاتا۔ (البتہ) ان (انسانوں) سے (ان کے اعمال کے بارے میں) سوال کیا جائے گا۔
مگر ہم کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم اس کی مخلوق کو‘ جہاں تک ہم سے ہو سکے‘ جہنم میں گرنے سے بچائیں۔ چنانچہ اُمت مسلمہ کو ان سب انسانوں کے مفاد کے لیے اٹھایا گیا ہے کہ وہ ان کو خیر کی طرف آنے کی دعوت دے اور جہاں اس کا بس چلے وہاں ایسا معاشرہ وجود میں لائے جس کے اندر معروف کا حکم دیا جاتا ہو اور منکر سے روکا جاتا ہو‘ تاکہ ایسا ماحول پیدا ہو جائے جس کے اندر لوگ ’’خیر‘‘ کو بآسانی پہچان کراسے قبول کر لیں اور فکروعقیدے کی گمراہیوں سے خود اپنے اختیار کے تحت الگ ہوجائیں۔ جیسا کہ ارشاد ہے:
وَلْتَکُنْ مِّنکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (آل عمران ۳:۱۰۴)
اور تمھاری ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جوخیر کی طرف دعوت دے‘ نیکی کا حکم دے اور برائی سے روک دے اور یہی جماعت فلاح پانے والی ہے۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:
یہ اُمت کو اس اہتمام اور انتظام کی ہدایت فرمائی گئی ہے جو اعتصام بحبل اللہ پر قائم رہنے اور لوگوں کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے یہ ہدایت ہوئی ہے کہ مسلمان اپنے اندر سے ایک گروہ کو اس کام پر مقرر کریں۔ وہ لوگوں کو نیکی اور بھلائی کی دعوت دے‘ معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے۔ معروف و منکر سے مراد شریعت اور سوسائٹی دونوں کے معروفات و منکرات ہیں اور ان کے لیے امر و نہی کے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان کا غالب قرینہ یہی ہے کہ یہ کام مجرد وعظ و تلقین ہی سے نہیں انجام دینا ہے اختیار و قوت سے اس کو نافذ بھی کرنا ہے جو بغیر اس کے ممکن نہیں کہ یہ گروہ اُمت کی طرف سے سیاسی اقتدار کا حامل ہو۔ اگر تنہا دعوت و تبلیغ ہی سے یہ کام لینا مدنظر ہوتا تو اس مطلب کو ادا کرنے کے لیے ’’یدعون الی الخیر‘‘کے الفاظ کافی تھے۔ یامرون بالمعروف (الایۃ) کی ضرورت نہ تھی‘‘۔ (تدبر قرآن‘ ج ۲‘ ص۱۵۴-۱۵۵)
ہمارے نزدیک اس آیت سے اس اُمت کے اندر خلافت کے قیام کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں مسلمانوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پہلا جو کام کیا وہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا قیام تھا۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے استاذ اور مایہ ناز مفسر قرآن مولانا حمیدالدین فراہی رحمتہ اللہ علیہ نے فریضۂ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی وضاحت کرتے ہوئے درج ذیل آیت: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (آل عمران۳:۱۱۰) ’’تم وہ بہترین اُمت ہو جس کو (تمام)لوگوں کے فائدے کے لیے نکالا گیا ہے۔ تم معروف کا حکم دیتے ہو اور منکرسے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘، کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے:
اس سے معاملے کی اصل حقیقت سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عمل صالح کریں۔ پھر ادائے حقوق کے بارے میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔ اور چونکہ ادائے حقوق بغیر خلافت و سیاست ناممکن ہے اس لیے ضروری ہے کہ خلافت قائم کریں۔ (مجموعۂ تفاسیر فراہیؒ، ص ۳۴۴)
مگر ہمارے اس مکتب فکر کے علما اور دانش ور مدعی ہیں کہ خلافت قائم کرنے کی کوشش کرنا مسلمانوں پر فرض نہیں ہے۔ ہاں! اگر سیاسی اقتدار حاصل ہو ہی جائے تو مسلمان اپنے میں سے کچھ لوگوں کو اس کام پر بھی مقرر کریں۔ چنانچہ اُن کے ایک قائد لکھتے ہیں کہ:
دعوت کی دوسری صورت وہ ہے جس کا حکم سورئہ آل عمران (۳:۱۰۴) کی آیت: وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ میں آیا ہے۔ اس حکم کا تعلق ارباب اقتدار سے ہے۔ اہل ایمان کے لیے ان کے پروردگار نے یہ بات لازم ٹھیرائی ہے کہ انھیں اگر کسی زمین میں سیاسی خودمختاری حاصل ہو جائے تو وہ اپنے اندر سے ایک گروہ کو اس کام پر مقرر کریں کہ وہ لوگوں کوخیر کی طرف بلائے‘ برائی سے روکے اور بھلائی کا حکم دے۔ (قانون دعوت‘ ص ۱۵)
گویا سیاسی خودمختاری کے حصول کی جدوجہد یا خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے قیام کے لیے کسی کوشش کی ذمہ داری اُمت پر نہیں ہے۔ البتہ کسی منصوبے اور عملی جدوجہد کے بغیر اللہ تعالیٰ اگر (تکوینی) قدرت کے تحت مسلمانوں کو اقتدار عطا کر ہی دے تب مسلمان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے ایک گروہ کو مقرر کر دیں اور بس ان کی ذمہ داری ختم۔
اس مکتب فکرکے علم برداروں کے نزدیک دنیا کے تمام چھوٹے بڑے کاموں میں سے ایک سیاسی خودمختاری اور باطل پرستوں سے اقتدار چھیننے کا کام وہ واحد کام ہے کہ جس کے لیے نہ کسی منصوبے کی ضرورت ہے نہ کسی جدوجہد کی۔ یہ چیز تو بس جب اللہ چاہے گا تب خود بخود حاصل ہوجائے گی۔
پھر قرآنی آیت کی تاویل کرتے ہوئے قانون دعوت کے مصنف نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کو ارباب اقتدار سے متعلق قرار دے کر اس باب میں عام مسلمانوں کی صرف یہ ذمہ داری بتائی ہے کہ اگر ان کو کہیں سے سیاسی خودمختاری مل جائے تو وہ اس ذمہ داری کی ادایگی کے لیے اپنے اندر سے ایک گروہ مقرر کر دیں‘ لیکن جس حدیث میں اس کام کو عمومیت کے ساتھ ہر مسلمان کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ انھوں نے اس طرح کیا ہے کہ حتی الوسع یہ ذمہ داری ’’بے ضرر‘ معصوم اور کم آزار‘‘ بن کر رہ جائے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایمان کی یہ ذمہ داری اس طرح واضح کی ہے: من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذٰلک اضعف الایمان (مسلم‘ کتاب الایمان) ’’تم میں سے جو شخص اپنے دائرۂ اختیار میں کوئی برائی دیکھے اسے چاہیے کہ وہ ہاتھ سے اس کا ازالہ کر دے۔ پھر اگر اس کی ہمت نہ ہو تو زبان سے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو دل اسے ناگوار سمجھے اور یہ ایمان کا ادنیٰ ترین درجہ ہے‘‘۔ (قانون دعوت‘ ص ۱۱۴)
اس ترجمے میں جناب مترجم نے فلیغیرہ کا ترجمہ ایک جگہ ’’ازالہ کر دے‘‘ کیا ہے اور دوسری جگہ ’’ناگوار سمجھے‘‘ کیا ہے اور تیسری جگہ اور کوئی بات نہ بنی تو سرے سے ترجمے میں اسے غائب ہی کر دیا ہے۔ حالانکہ تغیر کے معنی ’’ازالہ‘‘ کرنا یا ’’ناگوار سمجھنا‘‘ نہیں بلکہ ایک چیز کو بدل کر اس کی جگہ دوسری چیز کو قائم کرنا ہے جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ’’منکر‘‘ کو ہٹا کر معروف کو اس کی جگہ قائم کر دینا اصلی ذمہ داری ہے۔ پھر چونکہ ہر شخص کے بارے میں یہ فرض نہیں کیا جا سکتا کہ وہ منکر کو مٹا کر اس کی جگہ معروف کو قائم کر دے اس لیے حدیث شریف میں استثنا کے ذریعے گنجایش پیدا کی گئی کہ جو ایسا نہ کر سکے (فمن لم یستطع) لیکن جناب مترجم نے استطاعت (طاقت رکھنے) کو ہمت سے بدل کر اس کا ترجمہ ’’پھر اگر اس کی ہمت نہ ہو‘‘ کر دیا جو نہ صرف بالکل غلط ہے بلکہ خود مترجم نے اپنے ترجمے میں ’’اپنے دائرۂ اختیار میں‘‘ کی جو قید فرض کر لی تھی اس صورت میں ’’ہمت کا نہ ہونا‘‘ مطلقاً کوئی وجہ جواز بن ہی نہیں سکتا۔ جو کام کسی کے دائرۂ اختیار میں ہو‘ اس کو کرنے کی ہمت نہ ہونا ایک بے معنی سی بات ہے۔ پھر فبقلبہ چونکہ فلیغیرہ سے متعلق ہے اس لیے اس کے معنی دل سے اس کو بدلنا (یا بدلنے کا عزم رکھنا) ہوں گے نہ کہ محض ناگوار سمجھنا۔
اس نوعیت کی ایک آواز بھارت سے بھی اُٹھ رہی ہے اور اسلام کے عالمی مشن کی اسی طرح کی تاویلات کر کے اسلام کی دعوت کو غیرمسلموں کی نظروں میں اتنا معصوم اور بے ضرر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اب بھارت میں ہندو ان کو اپنی مذہبی کتھائوں میں اسلام کی اس بے ضرر دعوت کا بھاشن دینے کے لیے بلانے لگے ہیں۔ ’’تعبیر کی غلطی‘‘ کے مصنف نے بزعم خود ثابت کیا ہے کہ ’’اقامت دین‘‘ کا مطلب دین کو قائم کرنا‘ تعبیر کی غلطی ہے اس کی صحیح تعبیر دین کو سیدھا رکھنا یعنی اس پر ٹھیک ٹھیک طریقے پر عمل کرنا ہے۔
اسی طرح دین کو غالب کرنے کے جس کام کا ذکر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہوا ہے: لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وہ مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں کہ جس کے لیے وہ سرگرم عمل ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کو اپنا کام بتایا ہے۔چنانچہ وہی اس کام کو اپنی قدرت کاملہ سے انجام دے دے گا۔
اسی طرح کی تاویلات لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید ۵۷:۲۵) میں بعثت انبیا کا مقصد لوگوں کا انصاف پر قائم ہونا جو بتایا گیا ہے اور کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ (النساء ۴:۱۳۵) یا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ ز (المائدہ ۵:۸) (انصاف کو لے کر اٹھنے والے اور اللہ کے لیے گواہی دینے والے (یا) اللہ کے لیے اٹھنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو)‘ اسی طرح مظلومین کوظلم سے بچانے کے لیے قتال کا حکم اور دین کے مکمل طور پر اللہ کے لیے ہو جانے تک قتال کرنے کا حکم وغیرہ‘ بے شمار احکام کو تاویل کی خراد پر چڑھا کر اس مکتب فکر نے اسلام کو بھکشوؤں کا مذہب بنانے کا بیڑا اُٹھا رکھا ہے۔
یہ حضرات کہتے ہیں کہ ہمارا کام صرف دعوت پہنچانا اور آخرت کے عذاب سے ڈرانا ہے اور جب تک کوئی ہماری اس دعوت میں رکاوٹ نہ بنے اور ہمیں اس دعوت و انذار سے بذریعہ طاقت نہ روکے ہم کو طاقت استعمال کرنے کا حکم نہیں ہے۔ لیکن کوئی ان سے یہ پوچھے کہ اگر آپ کی دعوت مسرفین کی اطاعت چھوڑ کر رسولوں کی اطاعت اختیار کرنا نہیں ہے‘ اگر آپ کی دعوت غیراللہ کی بندگی چھوڑ کر اللہ کی بندگی اختیار کرنا نہیں ہے‘ اگر آپ کی دعوت غیراللہ کی حاکمیت کا انکار کر کے صرف اللہ کی حاکمیت کے سامنے سراطاعت جھکانا نہیں ہے تو آپ سے لڑنے آئے گا کون؟ اور آئے گا تو کیوں لڑنے آئے گا؟ لیکن اگر آپ کی دعوت فی الواقع وہی ہے جو انبیا علیہم السلام کی تھی تو اس کو سمجھ لینے کے بعد آپ کی اس دعوت کو ٹھنڈے پیٹوں بھلا کون برداشت کرے گا؟
۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد دنیا کے جو حالات ہیں‘ اور مسلمانوں پر جو کچھ گزر رہی ہے‘ اس سے یہ حقیقت بالکل واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اگر ہمیں اُمت کی حیثیت سے زندہ رہنا ہے توتین پہلوئوں سے ضروری تدابیر لازماً اختیار کرنا ہوں گی:
۱- حقیقی شورائی نظام : اس نظام کے علاوہ اس اُمت کے لیے کوئی اور راہِ نجات نہیںہے۔ آمریت خواہ وہ فرد کی ہو یا خاندان کی یا پارٹی کی‘ بذاتِ خود پیغامِ موت ہے‘ خواہ غیر سیاسی ذہن رکھنے والے حضرات اس موت کو زندگی ثابت کرنے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کریں۔ یوں بھی کہا جا سکتاہے کہ تلوار اور طاقت کے بل بوتے پر اقتدار پر قبضہ کرنا شورائی نظام کی ضد ہے۔
شورائی نظام سے مراد نمایشی اور کھوکھلی شوریٰ‘ یا پارلیمنٹ‘ یا مجلس نہیں ہے بلکہ وہ نظام ہے جس میں حاکمِ ریاست کو منتخب کرنے کا حق ہر فرد کو حاصل ہوتا ہے اور جس میں کوئی فرد‘ خاندان‘ یا پارٹی اپنے فرد کوکبھی بادشاہ کے نام پر‘ کبھی صدرِ ریاست کے نام پر عوام کی گردنوں پر مسلط نہیں کرتی ہے۔
اس حقیقی شورائی نظام کی حقیقت اور ضرورت کو سیدنا عمرؓ بن خطاب نے اپنے اس تاریخی خطبے میں واضح کیا تھا جو انھوں نے اس اہم دستوری موضوع پر اپنی وفات سے چند روز قبل جمعہ کے دن مدینہ منورہ میں دیا تھا۔ اس خطبے کو امام بخاریؒ نے نقل کیا ہے۔
۲- آزاد عدالتی و تحقیقی نظام: عدالتی نظام کو ہر طرح اور ہر معنی میںآزاد ہونا چاہیے۔ عدلیہ سے وابستہ تمام اداروں کو اثر و رسوخ‘ رشوت ستانی‘ اقربا پروری اور ہر قسم کی کرپشن سے پاک صاف ہونا چاہیے تاکہ جو تحقیقاتی نتائج کسی جج کے سامنے پیش کیے جائیں وہ قابل اطمینان‘ قابل بھروسا اور عدالتی معیارات پر کھرے اُتریں۔ ان اداروں میں سب سے پہلے پولیس اور خفیہ پولیس کے نظام اورافراد ہیں کیونکہ معاملہ موقع واردات ہی سے شروع ہوتا ہے۔ اگر یہاں ہی گڑبڑ رہی اور ہوئی تو فیصلہ باطل ہی ہوگا۔ اس لیے کہ اس کی بنیاد جھوٹی ’’تحقیقات‘‘ اور’’معلومات‘‘ پر ہے اور ہوگی۔
۳- عصری علوم اور اسٹرے ٹیجک نقطۂ نظر کا فہم : عصرِحاضر کے مفتیانِ کرام اور ان اجتماعی اداروں کا‘ جوفتوے صادر کرنے کے اہم فرائض انجام دیتے ہیں‘ عصری تقاضوں اور عصری افکار و علوم سے باخبر ہونا ناگزیرہے۔ ان کا خصوصاً اسٹرے ٹیجک امور میں اسٹرے ٹیجک نقطۂ نظر کا حامل ہونا ازحد ضروری ہے۔ اگر یہ صفت ان میں نہیں ہے تو ان کو براعظم عبور کرنے والے میزائلوں‘ حیاتیاتی‘ کیمیاوی‘ اعصابی اور اقتصادی جنگ‘ نیزخوف و ہراس کی جنگ جیسے نہایت سنگین اور دُور رس اثرات کے حامل مسائل میں فتویٰ دینے کا ہرگز حق نہیں پہنچتا۔ یہ کوئی روایتی فقہی مسائل نہیں ہیں‘ یہ جدید دورکے مسائل ہیں جس میں نہ صرف قرآن کریم‘سنت ِ نبویہؐ اورفقہ میں گہری نظر چاہیے بلکہ ان کو ایک بالکل ہی نئی فقہ سے‘ جس کو میں ’’الفقہ الاسترے تیجی‘‘(حکمت عملی کا فہم)کا نام دوں گا‘ مسلح ہونا اور اس میں گہری نظر پیدا کرنا ضروری ہے۔
یہ’’حکمت عملی کا فہم‘‘ ہر ایک کے بس کا روگ نہیں ہے۔ اس کا تعلق گہرے علم اور گہری فکر سے ہے۔ اس کا تعلق ایسے نہایت نازک جذبات سے بھی ہے جو مستقبل کے احوال کا آئینہ بن کر اُمت ِ اسلامیہ کے حال اور مستقبل کے مفادات‘ ان کے بین الاقوامی تعلقات کی روشنی میں‘ معین کرتے ہیں اور ان کی ضروریات کا لحاظ کر کے فتویٰ صادر کرتے ہیں‘ اور ان وسائل اور اسباب کاتعین بھی کرتے ہیں جن سے آج اور کل کے خطرات کو رفع بھی کیا جا سکتا ہے اور فوائد بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
اسے دیگر معمول کے انسانی مسائل سے خلط ملط نہ کرنا چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جدید اور قدیم علوم کے ماہرین اور فقہا مل جل کر ان مسائل میں راہِ حق و صواب تلاش کریں۔ ان میں نت نئی ایجادوں کے ظہور پذیر ہونے اور نئے نئے مسائل کے سامنے آمنے پر نظرثانی کی گنجایش بہرحال ہے۔
’’حکمت عملی کا فہم‘‘ عالمی امور‘ ان کے پس منظر‘ نئے نئے ہتھیاروں‘ قوموںکے اغراض و مقاصد اورمفادات اور ان کے شیطانی منصوبے اور اس کے نتیجے میں ان سے آج پیدا ہونے والی کش مکش اوراس کا جنگ کی شکل میں ارتقا اور اس کے خوف ناک نتائج‘ سب پر محیط ہے۔ اس میں ان سے نمٹنے کے لیے انسانی‘ مادی‘ اخلاقی‘ دینی اور دنیاوی مسائل اور ذرائع خود بخود شامل ہوجاتے ہیں۔ اس کا حتمی نتیجہ سیاسی‘ عسکری‘ مالی‘ اقتصادی‘ اجتماعی اور بین الاقوامی اسٹرے ٹیجی کے میدانوں میں کام کرنے والے دانش وروں کا اپنے اپنے میدان میں‘اپنے اپنے تصورات اور نتائج فکر پیش کرنا اور پیش کردہ مسائل پر علماے کرام کی رہنمائی میں مسائل کا حل اور فتوے صادر کرنا ہوگا۔ تب یہ ممکن ہوگا کہ ہر صورت حال اور منظرنامے کے مطابق کم از کم عرصے میں مناسب ردوبدل کے ساتھ فتوے صادر کیے جا سکیں۔کیونکہ میدانِ عمل میں اور تصوراتی مناظر میں کافی فرق ہو سکتا ہے اور ہوتا بھی ہے اور بعض اوقات توناقابلِ تصور اور ناقابلِ تصدیق منظرنامہ نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ اس میدان کی طرف پیش رفت ناگزیر اور وقت کا تقاضا ہے۔
یہ کوئی مجذوب کی بڑ نہیں ہے۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے نیویارک اور واشنگٹن کے حوادث کے بعد جو بدحواسی امریکی انتظامیہ پر چھائی ہوئی ہے‘ خصوصاً انتھراکس کے پھیلنے کے بعد‘ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیا کچھ تیاری ہونا چاہیے۔
یہ دنیا سیدھے سادے لوگوں کی دنیا نہیں رہی ہے۔ اس لیے ہرمیدان میں اور ہر طرح کے تیز و طرار لوگوں کی ضرورت ہے جو مستقبل بعید کے ممکن احتمالات کا تصور کر کے ان کے حل تلاش کرسکیں اوران کے لیے مناسب تیاریاں بھی کریں۔
اب ہم اس تجویز کی عملی تطبیق کی طرف آتے ہیں۔ اس ضمن میں‘ دو مثالیں پیش کروں گا۔
ایک مثال انقلاب ایران ہے۔ اگر ہمارے فقہا اور قائدین اسٹرے ٹیجک نظر رکھتے توبرسوں پہلے شاہ کے زوال کا اندازہ کر کے آنے والے طوفان کا تصور کر کے مختلف منظرنامے تیار کرتے جن میں یقینا امریکی اور عراقی ردعمل کا منظرنامہ بھی شامل ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو آج مسلمان امریکی جال میں نہ پھنستے‘ خلیج اورسعودی عرب جنگ کا شکار نہ ہوتے اور عراق امریکی جنگ کا آلہ کار اور ہراول دستہ نہ بنتا۔ لیکن عملاً امام خمینی کے خلاف تکفیر کا فتویٰ جاری کیا گیا اور صدام کی امریکہ کے خلاف خلیجی جنگ کو جہاد مقدس قرار دیا گیا۔
اگر پیش بندی اور اسٹرے ٹیجی کے طور پر کچھ اقدامات اٹھائے جاتے اور کوئی منصوبہ پیش نظر ہوتا تو پھر امریکہ کو اپنے ریوالور کی آخری گولی کا نشانہ صدام اور عراق کو نہ بنانا پڑتا اور نہ امریکہ خلیج میں خوف وہراس اور دھونس اور دھاندلی کے ذریعے فوجی اڈے ہی حاصل کر سکتا تھا۔ وہ کویت پر عراقی قبضے کا ڈراما کھیلنے پر بھی مجبور نہ ہوتا۔
دوسری مثال سوویت یونین کا تقریباً ایرانی انقلاب کے وقت افغانستان میں گھس آنا تھا۔ یہ تصویر کا دوسرا رخ ہے۔ یہاں بھی امریکی جنگ تھی جو امریکہ اور امریکی افواج اور ان کے حواریوں کو لڑنی چاہیے تھی‘ لیکن امریکی حکمت عملی کو نہ سمجھا گیا۔ امریکہ نے روسی افواج کے مقابلے میں افغان عوام‘ عرب اور دیگر اسلامی ممالک کے مجاہدین کو آگے کیا‘ خود پیچھے رہا‘ اسلحے اور دیگر سامان رسد کی فراہمی جاری رکھی اور گولیوں کا نشانہ مسلمان بنتے رہے۔ علماے دین اور دینی جماعتوں نے جنگی حکمت عملی‘ امریکی عزائم اور منصوبوں پر غور کیے بغیر اس جہاد کی تائید کی اور اس میں بھرپور حصہ لیا۔ یہاں ’’حکمت عملی کے فہم‘‘ کو کام میں لا کر روایت کے ساتھ ساتھ اسلام دشمن قوتوں کے عزائم پر نگاہ رکھتے ہوئے مستقبل کے نتائج اور امکانات کے پیش نظر اسٹرے ٹیجی اپنانے کی ضرورت تھی‘ نہ کہ محض فتویٰ صادر کرنے کی۔
امریکہ کامیاب رہا۔ اس نے یہ جنگ مسلمانوں کے خون‘ لاکھوں شہدا اور بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان کے عوض جیت لی اور اپنی افواج اور قوت کومحفوظ رکھا۔ دوسری طرف وہ نوجوان جوجہاد میں عملاً شریک ہوئے اور عسکری تربیت حاصل کی وہ مسلح جدوجہد کے نقطۂ نظر کے زبردست حامی بن کر سامنے آئے۔ مسلح جدوجہد کا تصور اپنی پوری قوت کے ساتھ سامنے آیا۔ یہی مجاہدین پھر مختلف مسلح گروپوں کی صورت میں منظم ہو گئے۔ القاعدہ بھی اسی طرح منظم ہوکرسامنے آئی۔
آج وہی امریکہ سوویت یونین کے زوال کے بعد افغانستان میں ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کی آڑ میں اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے پھر آن دھمکا ہے اور بڑے پیمانے پرتباہی و بربادی کے بعد اپنی من پسند حکومت قائم کر کے اپنے عزائم کے حصول میں سرگرداں ہے۔
یہ سبق ہیں جو ہمیں ماضی قریب کے حالات سے سیکھنے چاہییں اور حقائق کو دیکھتے ہوئے نئے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے حقیقی شورائی نظام‘ آزاد عدالتی و تحقیقی نظام اور جدیدفقہی و عصری تقاضوں کی روشنی میں حکمت عملی وضع کرنی چاہیے۔ اُمت مسلمہ کے مستقبل کی صورت گری اسی طرح ممکن ہے۔
ڈاکٹر محمد یعقوب مرحوم نے ایک طویل بھرپور عملی زندگی گزاری۔مکمل تحریکی شعور کے ساتھ حق و باطل کی جنگ میں ہمہ وقت مصروف رہے۔ انھوں نے ہمیشہ یہ ثابت کیا کہ حق کی آواز میں طاقت ہوتی ہے‘ اور باطل کا وجود ہمیشہ بے وقعت اور قابل نفرت ہوتا ہے۔
وہ ضلع دیر کے علاقہ میدان میں ۲۵ جنوری ۱۹۲۷ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی محمد ایوب خاں نامور عالم دین تھے اور ’’خان استاد‘‘ کے نام سے معروف تھے۔مست خیل خاندان سے تعلق تھا۔ اس خاندان نے ہمیشہ انگریزی استعمار کی مزاحمت کی۔ نوابانِ دیر کی بھی ہمیشہ مخالفت کی۔
ڈاکٹر یعقوب مرحوم نے اپنے والد گرامی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے ۱۹۵۰ء میں سندِ فضیلت حاصل کی۔ ۱۹۵۶ء میں میٹرک کا امتحان اور پھر منشی فاضل اور ایف اے کے امتحانات پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے پاس کیے۔
دارالعلوم حقانیہ میں مفتی محمد یوسف مرحوم بھی استاد تھے۔ مولانا عبدالحق بانی مدرسہ کے پاس سید مودودیؒ کی کتابیں خطبات‘ دینیات اور تفہیم القرآن وغیرہ ہوتی تھیں۔ اِن کتب کے ذریعے وہ مولانا مودودیؒ سے متعارف ہوئے۔ سید مودودیؒ سے ان کی پہلی ملاقات ۱۹۷۰ء میں ہوئی۔
ریاست دیر میں شخصی حکومت تھی‘ کسانوں کے اور عام شہریوں کے حقوق غصب کر لیے گئے تھے اور ظلم و جبر کا دور دورہ تھا۔ ڈاکٹر یعقوب نے دیر میں علما کرام اور شاگردوں کو جمع کیا‘ اورانھیں دعوت دی اور ’’تنظیم العلما‘‘ کے نام سے ایک انجمن قائم کی۔ اس تنظیم کی سرگرمیوں سے علما اور عوام میں جماعت اسلامی کے اثرات اس قدر تیزی سے پھیلے کہ جب ریاست دیر کو ۱۹۶۹ء میں پاکستان میں ضم کیا گیا تو نواب دیر اور اُس کے فرزندوں کی یہ تجویز عوام میں پذیرائی حاصل نہ کر سکی کہ ریاست میں عوامی نمایندگی کے لیے نامزدگیاں ہوں۔ دیر کے نواب نے پانچ چھ صد صاحبان اثر و رسوخ کا اجلاس بلایا جس میں اس نے ’’سیاسی لوگوں‘‘ کو خطرناک لوگ کہا اورنامزدگیوں کا پروگرام پیش کیا۔ اس موقع پر اللہ کے اِس مجاہد نے نواب کو للکارا اور کہا کہ ’’حکومت پاکستان نے دیر کے عوام کو ووٹ کا حق دیا ہے‘ آپ کون ہوتے ہیں کہ اِس حق کو غصب کرنے کی تجویزیں دیں۔یہ لوگ جو آپ کے سامنے ہیں‘ آپ کے لوگ ہیں عوام کے نمایندے نہیں ہیں‘‘۔ نواب صاحب طیش میں آگئے اور ڈاکٹر صاحب کو سرزنش کرنے کی کوشش کی مگر ڈاکٹر صاحب مرحوم نے ایک نہ مانی اور آیندہ انتخابات میں پبلک پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کا اعلان کر دیا۔ چنانچہ صاحب زادہ صفی اللہ‘ مولانا عبدالسلام اور ۱۰‘ ۱۵ رفقا میدان عمل میں کود پڑے۔
اُن کی زندگی میں سب سے اہم دور وہ ہے جس میں انھوں نے سرحد اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی گروپ کی نمایندگی کی۔ یہ ایک طویل چوتھائی صدی پر محیط دور ہے جس میں آپ نے اپنے گروپ کے ہمراہ ایسا جان دار کردار ادا کیا ہے‘ جس کی نظیر پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں سے پیش کرنا مشکل ہے۔
سرحد اسمبلی میں آپ کئی بار جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر پہنچے اور جماعت کے پارلیمانی گروپ کے لیڈر رہے۔ ۱۹۹۰ء سے ۱۹۹۳ء تک آپ اسمبلی کے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر بھی رہے۔ ۱۹۷۰ء سے ۱۹۹۳ء تک آپ سرحد اسمبلی میں عوام کی نمایندگی کرتے رہے۔ کوئی بھی ایسا اہم مسئلہ نہیں بتایا جا سکتا جس پر انھوں نے اظہار خیال نہ کیا ہو۔ جب اسمبلی سیشن ہوتا تو صوبہ سرحد حکومت کے تمام محکمے اور اُن کے سربراہ دوسرے دن اخبارات دیکھتے کہ کہیں ڈاکٹر صاحب نے اُن کے محکمے کی گرفت تو نہیں کی۔
اسمبلی کے ممبر کی حیثیت سے آپ اور آپ کے رفقا کو پہلے پہل ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ لیکن جب اس طرح کام نہ نکلا تو اے این پی‘ پی پی پی اور نوازگورنمنٹ نے اپنے اپنے دور میں ماڈل ٹائون کے پلاٹ کی پیش کش کی۔ جسے آپ اور آپ کے رفقا نے ٹھکرا دیا۔
ڈاکٹر صاحب ایک فصیح و بلیغ مقرر‘ اعلیٰ پایے کے پارلیمنٹیرین‘ بہترین مدبر اور نہایت شریف النفس انسان تھے۔ وہ ایک باعمل صوفی‘ شب زندہ دار اور ذکروفکر میں مشغول رہنے والے انسان تھے۔ بے باکی ان کی شخصیت کا خاصہ تھی۔ اس میں اُن کی مثل کوئی نہ تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے آخری ۱۰ برسوں میں قلم سے احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا فریضہ بھی سرانجام دیا۔ داعی اور دعوت‘ اسلامی انقلاب کے امکانات اور ہماری ذمہ داریاں‘ تزکیہ و تربیت‘ الدعاء المستجاب اور تحریک اسلامی ضلع دیر‘ آپ کی تصانیف ہیں۔
مرحوم نے اپنے علاقے بلامبٹ میں خواتین کے لیے دینی مدرسہ بھی قائم کیا۔ الغرض ڈاکٹر صاحب علامہ اقبال کے اِس شعر کے مصداق اپنی زندگی گزار کر ہمارے لیے ایک نمونہ چھوڑ گئے ؎
آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
مردِ بیمار کی پھبتیاں سہنے والا ترکی‘ اس صدی کے آغاز پر بھی یورپ کے لیے مردِ بیمار ہی ہے۔ تمام تر چاپلوسی کے باوجود ترکی یورپی یونین کے لیے ناقابل قبول ہے۔ اتاترک اور اس کے پیروکار ۸۰ برس کی مسلسل کوششوں کے باوجود بھی مغرب کے دل میںجگہ نہیں بنا سکے‘اور نہ ترک قوم کے دل سے اسلام اور مشرقیت کی محبت نکال سکے ہیں۔
۳ اگست ۲۰۰۲ء کو پارلیمنٹ کے ذریعے کی جانے والی ترامیم کے مطابق ترکی میں سزاے موت ختم کر دی گئی ہے خواہ مجرم کا قاتل ہونا ثابت ہو جائے۔ قرآن کے اس واضح حکم کو قانوناً منسوخ کرنے سے عملاً جو فساد برپا ہوگا وہ تو اپنی جگہ پر ہے لیکن جس یورپی یونین کا ممبر بننے کے لیے یہ اقدام کیا گیا وہ اس کے باوجود بھی ممبر بنانے کے لیے تیار نہیں۔ اب کردوں کے علاوہ قبرص کا معاملہ بھی اٹھایا جا رہا ہے۔
۲۰۱۰ء تک یورپی یونین میں مزید ۱۳ ممالک شامل کیے جانا ہیں لیکن ترکی کا معاملہ مختلف ہے۔ جرمن رہنما ہیلمٹ کوہل کے مطابق:’’ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت ایک کثیر پہلو تہذیبی اقدام ہوگا‘‘۔ ۱۵ برس کے اندراندر ترک آبادی کئی گنا بڑھ چکی ہوگی‘ جرمنی سے کہیں زیادہ۔ اس کا مطلب ہے ترکی یورپی یونین کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا اور چونکہ یورپی کمیٹی میں ووٹنگ کا نظام ممبرملکوں کی آبادی کے تناسب سے ہے‘ ترکی کے ووٹ سارا کھیل خراب کر سکتے ہیں۔ دوہرے معیاروں کا عالم یہ ہے کہ یورپی یونین میں شمولیت سے ترکی کو جو فوائد و حقوق حاصل ہو سکتے ہیں‘ ان پر تو شرائط لگائی جا رہی ہیں‘ لیکن یورپی ٹیکس سسٹم میں شمولیت سے یورپ کو فائدہ اور ترکی کو نقصان ہوتا تھا‘ اس میں اسے ابھی سے شامل کرلیا گیا ہے۔ اب ترکی اور یورپی ممالک کے درمیان درآمدات و برآمدات پر کوئی ٹیکس عائد نہیں ہوسکتا۔اس اقدام کی وجہ سے ترکی کو ہر سال ۴ ارب ڈالر کا خسارہ اٹھانا پڑ رہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یورپی مال کی فراوانی کی وجہ سے ترکی کے کئی صنعتی یونٹ بند اور ملازمین بے روزگار ہو چکے ہیں۔ نجم الدین اربکان نے کوشش کی تھی کہ یورپ سے برآمد شدہ مال پر ۶ فی صد ٹیکس لگایا جائے لیکن ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔
ترکی میں جب حالیہ اقتصادی بحران پیدا ہوا تو اربکان کے سب سے بڑے مخالف اور سیکولرازم کے عاشق ایک صحافی امین گوچالان نے لکھا تھا: ’’ اس بحران کا مطلب ہے اربکان حق پر تھا‘‘۔ نجم الدین اربکان کے حق پر ہونے کا اعتراف کرنے کے باوجود ۱۹۹۸ء میں ان پر پانچ سال کے لیے پابندی لگادی گئی۔ وہ سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے۔ ان کی قائم کردہ ہر پارٹی ختم کر دی گئی۔ ۱۹۷۰ء میں ملّی سلامت پارٹی بنی اور ۱۹۷۴ء سے ۱۹۷۷ء کے درمیان دو بار حکومت میں شرکت کے باوجود ۱۹۸۰ء میں اسے بھی بند کر دیا گیا۔ اربکان اور ساتھی پھر گرفتار بلا ہو گئے۔۱۹۸۳ء میں رفاہ پارٹی کی بنیاد رکھی گئی جس نے ۱۹۸۳ء سے ۱۹۹۳ء تک اپوزیشن کی قیادت کی اور ۱۹۹۵ء میں استنبول و انقرہ سمیت بلدیاتی اداروں میں کامیابی حاصل کی۔
اصل قیامت اس وقت برپا ہوئی جب جون ۱۹۹۴ء میں اربکان کو وزیراعظم منتخب کر لیا گیا۔ اتاترک کے وفاداروں کی نیندیں حرام ہو گئیں اور سیکولرازم کی حفاظت کا حلف اٹھانے والی فوج نے کرپشن مافیا اور صہیونی میڈیا کی مدد سے صرف ایک سال بعد اربکان کو استعفا دینے پر مجبور کر دیا۔ ۱۶ جنوری ۱۹۹۸ء کو رفاہ پارٹی غیر قانونی قرار دے دی گئی۔ الزام یہی تھا کہ ’’رفاہ ملک کے سیکولر نظام کے مخالفین کا گڑھ بن گئی ہے‘‘۔ دسمبر ۱۹۹۸ء میں فضیلت پارٹی تشکیل دی گئی۔ پورے ملک میں پھیلے رفاہ کے مراکز پر R.P کے بجائے F.P لکھ دیا گیا۔ فضیلت پارٹی پوری قوت سے پارلیمنٹ میں داخل ہوئی۔ ۵۵۰نشستوں کے ایوان میں اسے ۱۱۰ نشستیں حاصل ہوئیں لیکن پوری سیکولر مشینری کو حرکت میں لاتے ہوئے اسے حکومت بنانے یا حکومت میں شرکت سے محروم رکھا گیا۔ نہ صرف یہ بلکہ پارلیمنٹ میں جانے اور لاکھوں ووٹ حاصل کرنے کے ایک ماہ بعد مئی ۱۹۹۹ء میں فضیلت پارٹی کے خلاف دستوری جنگ شروع کر دی گئی اور سیکولر دستور کی حفاظت کے نام پر ۲۲ جون ۲۰۰۰ء کو ’’فضیلت‘‘ پر بھی پابندی لگا دی گئی۔
۲۰ جولائی ۲۰۰۱ء کو فضیلت پارٹی کی جگہ سعادت پارٹی نے لے لی لیکن بیرونی دشمن کے ہاتھوں تمام چرکے سہہ لینے والوں کے لیے اس بار اندرونی چیلنج بھی مہیب تھے۔ فضیلت پارٹی میں کام کرنے کے دوران ہی اربکان کے حقیقی سیاسی وارث رجائی قوطان کو گمبھیرحالات کا سامنا کرنا پڑا۔ استنبول کے سابق میئر اور قائدانہ سحر رکھنے والے رجب طیب ایردوغان اور ان کے ساتھیوں نے ایک اور نوجوان سیاسی قائد عبداللہ گل کو پارٹی لیڈر بنانے پر اصرار کیا۔ پارٹی انتخابات میں انھیں بھاری ووٹ بھی ملے لیکن منتخب رجائی قوطان ہی ہوئے۔ اس وقت تو عبداللہ گل نے جو اربکان کے اہم وزیر بھی رہ چکے ہیں اور تحریک کا سرمایہ ہیں رجائی قوطان کو اپنا لیڈر تسلیم کیا‘ اسٹیج پر جا کر پھولوں کا گلدستہ پیش کیا اور پارٹی ارکان کی پُرجوش داد وصول کی لیکن بدقسمتی سے تقسیم کا عمل پورا ہو کر رہا۔ فضیلت پر پابندی لگی تو رجب طیب نے ’’انصاف و ترقی پارٹی‘‘ کے نام سے الگ پارٹی بنا لی۔ فضیلت کے تقریباً ۴۵ ارکان اسمبلی نے ’’سعادت‘‘ کے بجائے ’’انصاف و ترقی‘‘ میں شمولیت اختیار کی۔ دیگر کئی پارٹیوں سے بھی ارکان آئے اور طیب ایردوغان سیاسی لیڈروں میں اہم ترین ہوتے چلے گئے۔
جولائی ۲۰۰۱ء میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق طیب ایردوغان سیاسی قائدین میں سرفہرست ہیں۔ انھیں ۲۳ فی صد افراد کی تائید حاصل تھی‘ جب کہ خود صدر مملکت احمد نجدت سیزر کو ۱۳ فی صد اور وزیراعظم بلنت ایجوت کو صرف ۲ فی صد عوامی تائید حاصل تھی۔ ایجوت کو بیماری کے علاوہ پارٹی کے اندر بھی شدید مخالفت کا سامنا ہے۔
سیاسی پارٹیوں کے بارے میں کیے گئے ایک تازہ سروے کے مطابق‘ انتخابات کی اہل ۲۳ پارٹیوں میں سے صرف چار پارٹیاں پارلیمنٹ میں پہنچ سکیں گی کیونکہ ترک قانون کے مطابق ۱۰ فی صد سے کم ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی پارلیمنٹ میں شامل نہیں ہو سکتی اور اس کی جیتی ہوئی نشستیں اور ووٹ بھی جیتی ہوئی دیگر جماعتوں کو دے دیے جاتے ہیں۔
اس سروے کے مطابق طیب ایردوغان کی انصاف و ترقی پارٹی کو ۲۰ فی صد‘ ڈینز بائیکال کی کمیونسٹ ری پبلک پیپلز پارٹی کو ۱۱ فی صد‘ سعادت پارٹی کو ۱۰ فی صد اور تانسو چیلر کی صراط مستقیم پارٹی کو بھی ۱۰ فی صد ووٹ ملنے کی توقع ہے جب کہ نیشنلسٹ پارٹی کو ۸ فی صد‘ وزیرخارجہ اسماعیل جحم کی نئی قائم کردہ گریٹ یونٹی پارٹی کو ۵ فی صد‘ مسعود یلماز کی مدرلینڈ پارٹی کو ۳ فی صد اور حالیہ وزیراعظم بلنت ایجوت (بلند نہیں بلنت جس کا ترکی میں مطلب ہے جوان) کو صرف ایک فی صد ووٹ ملنے کی توقع ہے۔
مختلف چھوٹی پارٹیوں کے درمیان اتحاد بنانے کی کوششیں اپنی جگہ جاری ہیں لیکن اسی اثنا میں ۱۴ستمبر کو مسعود یلماز نے ایک نئی مہم کا آغاز کر دیا ہے اور وہ ہے الیکشن ملتوی کرنے اور اپنے اصل شیڈول کے مطابق کروانے کی مہم۔ اس کے لیے انھوں نے پارلیمنٹ کے فوری اجلاس کی تحریک شروع کی ہے۔ فوری اجلاس بلانے کی درخواست دینے کے لیے انھیں ۵۵۰ کے ایوان میں سے ۱۸۰ ارکان پارلیمنٹ کے دستخطوں کی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے انھیں ۱۸۰ ارکان کے دستخط مل جائیں لیکن کیا پارلیمنٹ الیکشن ملتوی بھی کر دے گی؟ حالات جہاں تک پہنچ گئے ہیں‘ اس کی روشنی میں اس کا امکان کم ہے۔
اسی اثنا میں ایک اہم عدالتی فیصلہ یہ سامنے آیا ہے کہ آیندہ انتخابات میں نجم الدین اربکان کو بھی الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اب وہ کسی پارٹی کی طرف سے تو نہیں‘ آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لے سکتے ہیں۔
اس صورت حال میں تمام تجزیہ نگار اس پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ اگر بڑی دھاندلی نہ ہوئی تو ۳نومبر ۲۰۰۲ء کو ہونے والے آیندہ الیکشن طیب ایردوغان کے ہیں۔ سعادت پارٹی کے بجائے انصاف و ترقی پارٹی میں شامل ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد اربکان کی خدمات و صلاحیتوں کی بھی معترف ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ سیکولر فوج نے ہر بار ان کا راستہ روکا ہے‘ اس لیے اس بار ان کے بجائے طیب کو منتخب کرنا ہے۔ اگرچہ استنبول کے اس سابقہ میئر کو بھی صرف اس بنا پر قید رکھا گیا اور سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگائی گئی کہ انھوں نے ایک تقریر میں کچھ اشعار پڑھے تھے جن کا مفہوم یہ تھا کہ اگر مجھے دہشت گرد کہتے ہو تو‘ ہاں میں دہشت گرد ہوں۔ مسجدوں کے مینار میری تلوار ہیں‘ ان کے گنبد میری ڈھالیں ہیں اور یہ مساجد ہماری بیرکیں ہیں۔
۱۰ رکنی نیشنل سیکورٹی کونسل کے نام پر ترکی کی اصل حکمراں‘ سیکولرازم کی محافظ فوج ہے۔ ۱۹۶۰ء‘ ۱۹۷۱ء اور ۱۹۸۰ء میں براہِ راست مداخلت اور فوجی انقلاب کے علاوہ سیکورٹی کونسل کے ذریعے دائمی مداخلت فوج اپنا حق سمجھتی اور بلاتکلف و حیا استعمال کرتی ہے۔ اب تک ترکی میں صرف دو جمہوری حکومتیں اپنی چار سالہ مدت پوری کر سکی ہیں۔ اتاترک کے بعد اب تک ۳۵ حکومتیں اسی سیکولر فوج کا شکار ہو چکی ہیں۔ لیکن سعادت اور اربکان کو ترک قانون کے مطابق کم از کم ۱۰ فی صد ووٹ حاصل کر کے پارلیمنٹ میں پہنچنے سے روکنے کے لیے شاید فی الحال طیب کا راستہ نہ روکا جائے اور جس طرح کے تجزیے اور سروے سامنے آ رہے ہیں ان کی روشنی میں شاید طیب کا راستہ روکنا ممکن بھی نہ ہو۔
۵ اگست ۲۰۰۲ء کو رفاہ کے قائم کردہ ٹی وی چینل میں دو صحافیوں فہمی قور اور نورشریک کا کہنا تھا: ’’طیب ایردوغان اور ان کے ساتھیوں کی حیثیت ۱۹۴۶ء میں عدنان مندریس اور ۱۹۸۳ء میں ترگت اوزال جیسی ہے۔ وہ دونوں بھی سنگین سیاسی بحرانوں کے بعد آئے اور اس وقت بھی ایک بڑا خلا پیدا ہو چکا ہے۔ طیب ایردوغان کا پارلیمنٹ اور اقتدار میں پہنچنا یقینی اور سہل ہو چکا ہے‘‘۔
ملکی سیاست میں فوج کا کردار اس وقت ہمارے ملک میں ایک گرم موضوع ہے۔ اس حوالے سے ہمارے لیے انڈونیشیا سے آنے والی یہ خبرآنکھیں کھولنے والی ہونا چاہیے کہ وہاں کے دستور میں سے فوج کا کردار ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ کردار اس سے بہت زیادہ تھا جتنا ہمارے ہاں اس بہانے تجویز کیا جا رہا ہے کہ فوج کو بار بار مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ انڈونیشیا میں تو منتخب اسمبلی میں فوج کے نامزد نمایندے بطور ممبر بیٹھتے تھے اور صدر کے انتخاب میں فیصلہ کن ووٹ ڈالتے تھے۔۳۰ سال کی سہارتوکی فوجی حکومت کے بعد جب جمہوری حکومتوں نے اقتدار سنبھالا تو ملک کی اصل تصویر عوام کے سامنے آئی۔ خوش حالی کے دعوئوں اور پٹرولیم‘ گیس‘ ٹیکسٹائل‘ سیمنٹ‘ لکڑی‘ربڑ اور سیاحت کی وسیع صنعتیں موجود ہونے کے باوجود‘ غربت اور بے روزگاری عام ہے اور ملک کے شہری پریشان حال ہیں۔ عوام آج بھی راہ نجات کی تلاش میں ہیں۔
عبدالرحمن واحد کی ناکامی کے بعد انڈونیشیا پر اس وقت سوئیکارنو کی بیٹی میگاوتی بطور صدر حکومت کررہی ہیں جو سیکولر ہیں اور جمہوری پارٹی کی سربراہ ہیں۔ ۱۹۹۹ء کے انتخابات میں ان کی جمہوری پارٹی نے ۱۵۴ اور سہارتوکی سابق حکمران گولکر پارٹی نے ۱۲۰ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ دائیں بازو کی اسلام پسند پارٹی یونائٹیڈڈویلپمنٹ پارٹی کے سربراہ حمزہ حاذ اس وقت ملک کے نائب صدر ہیں۔ اس نے ۵۸نشستیں حاصل کی تھیں۔ یہ سیکولر پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرتی ہے۔ ابھی حال ہی میں جب انڈونیشیا میں جعفر عمرطالب اور ابوبکر بشیر کو القاعدہ سے رابطے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو حمزہ حاذ نے بلاتکلف جیل جاکر ان سے ملاقات کی۔ اسمبلی کے اسپیکر امین رئیس کی قومی بیداری پارٹی نے ۳۵ نشستیں حاصل کیں۔ یہ دونوں پارٹیاں اور نہضۃ العلما اسلامی قوتوں کی ترجمان ہیں۔ سہارتو کے خلاف تحریک میں ان کا نمایاں کردار تھا اور اب بھی دستور میں ترامیم کے وقت انھوں نے ملکی قوانین میں اسلامی شریعت کی بالادستی کے لیے منظم کوشش کی لیکن یہ ترمیم دستور میں نہ ہو سکی۔ اس پر نیوزویک نے یہ تبصرہ بھی دیا کہ: ’’دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک کی اکثریت نے اسلام کو بحیثیت ملک کے قانون کو مسترد کر دیا‘‘۔
نظام حکومت میں شریعت اسلامی کی بالادستی کی علم بردار ایک پارٹی انصاف پارٹی ہے۔ جس کو سات نشستیں ملی تھیں۔ اس نے نوجوان نسل کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ اس کے ۳ لاکھ ممبر ہیں۔ اس کے سیکرٹری جنرل لطفی حسن اسحاق گذشتہ دنوں پاکستان آئے تو انھوں نے ایک ملاقات میں بتایا کہ ۵ فی صد چینی النسل آبادی نے ملک کی معیشت کو جکڑ رکھا ہے۔
مشرقی تیمور کی آزادی کے بعد وہاں آچے‘ پاپوا‘ ایم بون‘ سلاویسی میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ آچے کے عوام اسلامی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی خبریں برابر آتی رہتی ہیں۔ ایک عنصرعیسائی مسلم فسادات کا بھی ہے۔ سہارتو کے دور میں عیسائیوں نے بہت پیش رفت کی۔ ۱۹۵۵ء میں جو مسلمان۹۵ فی صد تھے‘ ۱۹۸۰ء میں ۸۷ فی صد رہ گئے۔ کلیسا اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہے اور انڈونیشیا ان کا سوچا سمجھا ہدف ہے۔
۲۰۰۴ء میں صدارتی انتخاب ہونے ہیں۔ نئی دستوری ترمیم کے مطابق یہ اب براہِ راست ہوں گے۔ پہلے کی طرح اسمبلی کے ذریعے بالواسطہ نہیں۔اس موقع پر یقینا اسلام اور سیکولر قوتوں کا پولرائزیشن ہوگا۔ نیوزویک نے اس سال سنٹر فار انٹرنیشنل کارپوریشن کے حوالے سے ایک سروے رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق۵۸ فی صد آبادی نے یہ پسند کیا تھا کہ انڈونیشیا کے تمام جزائر میں شریعت کی بالادستی بالفعل ہونا چاہیے۔ ملک کے حالات ابتر ہیں‘ اقتصادیات تباہ ہیں۔ اگر اسلامی قوتیں ایک پلیٹ فارم بناکرعوام کے سامنے آئیں تو بالکل ممکن ہے کہ آیندہ انتخاب میں حمزہ حاذ بطور صدرمملکت کامیاب ہو جائیں۔
دنیا میں کسی بھی جگہ مسلمان مل جل کر بیٹھیں اور اپنے اجتماعی مسائل پر غور کریں تو یقینا یہ ایک خوش گوار امر ہے۔ ایسا اجتماع اگر امریکہ میں ہو تو وہ زیادہ ہی اہم ہو جاتا ہے۔ ایک تو اس لیے کہ امریکہ میں ہورہا ہے اور دوسرا اس لیے کہ مسلمان اس وقت امریکہ کے ٹارگٹ پر ہیں۔ امریکہ میں ان کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہو‘ بہرحال وہ وہاں کی ایک موثراقلیت ہیں اور اگر مربوط اور منظم ہوں تو پوری اُمت مسلمہ کے لیے مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اس حوالے سے گذشتہ دنوں دو بڑے اجتماعات اخبارات میں موضوع بنے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق جو ضروری نہیں ہیں کہ درست ہوں‘ اس لیے کہ ہر جگہ کے اخبار‘ اخبار ہی ہوتے ہیں‘ ۳۶ ہزار مسلمانوں کا اجتماع واشنگٹن کے کنونشن سنٹر میں ۳۰ اگست سے ۲ ستمبر ۲۰۰۲ء تک جاری رہا۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کی برسی کی تقریبات سے ایک ہفتے قبل منعقد ہونے والا یہ اجتماع اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ (ISNA) (اسنا) کے زیراہتمام منعقد ہوا۔ اس کا مرکزی موضوع تھا: ’’اسلام‘ سلامتی کا مذہب‘‘۔ اس کلیدی موضوع کے حوالے سے تقریباً ایک سو سے زیادہ مسلم قائدین اور مختلف شعبہ ہاے زندگی کے نمایاں افراد نے خطاب کیا۔ ان میں امام حمزہ یوسف‘ مراد ہوف مین‘ اکبر ایس احمد‘ غلام نبی فائی‘ زاہد بخاری‘ آغا سعید اور ڈاکٹر مزمل حسین صدیقی شامل ہیں۔
اس وقت مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان پر ’’دہشت گردی‘‘ کا جو الزام چسپاں کر دیا گیا ہے‘ اسلام اور اپنے آپ کو وہ اس سے کیسے الگ کریں۔ کانفرنس کا موضوع بھی اسی کا اظہار ہے اور تمام مقررین نے اس حوالے سے اسلام کی تعلیمات کو نمایاں کیا۔ ساتھ ہی فلسطین‘ کشمیر اور دیگر علاقوں میں مسلمان جو جدوجہد کر رہے ہیں اس کو صحیح تناظر میں پیش کیا گیا۔
اسنا امریکہ کی اسلامی تنظیمات کا نمایندہ اور موثر وفاق ہے اور اس میں مقامی امریکی مسلمانوں کے علاوہ جو بیشتر ایفروایشین ہیں‘ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ بھارت‘ مصر‘ ایران‘سوڈان‘اُردن‘ تیونس‘ الجزائر‘ مغربی یورپ اور دیگر ممالک کی انجمنیں شامل ہیں۔ قابل ذکر تنظیموں میں مسلم امریکن یوتھ ایسوسی ایشن (MAYA)‘ ایسوسی ایشن آف مسلم سوشل سائنٹسٹ (AMSS)‘ نارتھ امریکہ اسلامک ٹرسٹ‘ کونسل فار اسلامک اسکولز وغیرہ ہیں۔ سوسائٹی کے موجودہ صدر نورمحمد عبداللہ ہیں‘ جو سوڈان کے رہنے والے ہیں‘ جب کہ سیکرٹری جنرل ایک کشمیری سید محمد سعید ہیں۔
اسی طرح کا ایک بڑا اجتماع دو ماہ قبل اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ (ICNA) (اکنا) کے زیراہتمام منعقد ہوا۔یہ سرکل ۴۰ سال قبل اسلامی جمعیت طلبہ کے سابقین نے حلقہ احباب کے نام سے قائم کیا تھا۔ بنیادی طور پر اس میں پاکستان سے گئے ہوئے تحریک سے وابستہ افراد شامل ہیں۔ لیکن اب یہ ایک بڑی اور منظم تنظیم ہے۔ اس کا اپنا مرکز ہے۔ مختلف شعبے اپنے اپنے میدانوں میں سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔ سرمایہ کاری کے مواقع بھی مہیا کیے جاتے ہیں‘ تعلیمی ادارے بھی قائم کیے جاتے ہیں۔ اسلامی مراکز اور مساجد بھی قائم ہیں۔ مسلم ممالک میں ریلیف کا کام بھی کیا جاتا ہے۔ مسیج کے نام سے رسالہ بھی ہے۔
۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد کے حالات کے پس منظر میں ۳‘۴‘۵ جولائی ۲۰۰۲ء کا سالانہ کنونشن خصوصی اہمیت رکھتا تھا۔ اس سال عرب نوجوانوں کی انجمن کے ساتھ مشترکہ اجتماع رکھا گیا تھا۔ مختلف اجلاسوں میں ۲۰ ہزار سے زائد شرکا نے حصہ لیا۔ انگریزی‘ اُردو‘ بنگلہ اور عربی بولنے والوں کے علیحدہ علیحدہ اجتماع اور گروہی مباحث ہوئے۔
یہ کنونشن بالٹی مور شہر کے کنونشن سنٹر میں ہوا۔ اس سال کا موضوع بحث یہ تھا:
Islam in North America, Challenges, Hopes and Responsibilities
امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی تعداد ۲ لاکھ سے متجاوز ہے۔ اتنی ہی تعداد میں برعظیم کے دوسرے ممالک کے مسلمان مختلف ریاستوں میں قیام پذیر ہیں۔ اجتماع سے اکنا کے مرکزی صدر ڈاکٹر ذوالفقار علی شاہ‘ امام سراج وہّاج‘ امام وارث دین محمد‘ امام نعیم سرویا‘ ڈاکٹر یونے حداد‘ ڈاکٹر احسان باگبی‘ ڈاکٹر ممتاز احمد‘ امام زیدشاکر‘ لارڈ نذیر احمد‘ڈاکٹر محمد مزمل صدیقی‘ محترمہ فوزیہ ناہید‘ ڈاکٹر زکیہ امین اور پاکستان سے آئے ہوئے ناظم کراچی نعمت اللہ خاں کے علاوہ دیگر سرکردہ شخصیات نے مختلف موضوعات پر خطاب کیا اور سرزمین امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کر کے ہی اسلام کا حقیقی چہرہ سامنے لایا جا سکتا ہے اور اس طرح اہل امریکہ کا متعصبانہ نقطۂ نگاہ تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ بھارت سے جماعت اسلامی کے کل ہند سیکرٹری جناب محمد جعفر‘مولانا یوسف اصلاحی اور سید غلام اکبر نے شرکت کی۔ سید غلام اکبر نے گجرات کے فسادات کا حال بتایا۔
اکنا کے کنونشن میں امریکی سفیدفام مسلمانوں کی نمایندگی بھی ہوتی ہے۔ غیرمسلم دانش ور بھی مدعو تھے جس میں مسلمانوں کے مشہور حریف اسٹیون ایمرسن اور انسانی حقوق کے علم بردار پال فنڈلے قابل ذکر ہیں۔ پال فنڈلے اپنے ضمیر کی آواز پر سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اتفاقی نہیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔ تین روز تک جاری رہنے والے اجتماع میں نہ صرف کتب‘ ملبوسات اور دیگر سامانِ زیست کی خرید کے وافر مواقع میسر آتے ہیں بلکہ لوگ اپنے اُن احباب سے بھی مل لیتے ہیں جن کے پاس ملازمت کی مصروفیات کے سبب جانا نہیں ہوتا۔ کئی باہمی معاملات بھی دورانِ اجتماع طے پا جاتے ہیں۔
ایک ایسے ساتھی کا بھی ذکر آیا جنھوں نے نفرت کی فضا میں صحیح راستہ اختیار کرتے ہوئے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی معروف کتاب دینیات کا انگریزی ترجمہ Towards Understanding Islam ۲۵ ہزار کی تعداد میں غیرمسلموں تک پہنچایا۔
اس طرح کے کنونشن بڑے امکانات رکھتے ہیں۔مسلمانوں میں یہ احساس بیدار کرنا کہ وہ اچھے مسلمانوں کی طرح رہیں‘ یہ بھی ایک بہت بڑا کام ہے۔اگر ۷۰ لاکھ مسلمان حقیقی اسلام کے سفیر بن جائیں تو بہت سارے مسئلے حل ہوجائیں۔ اس طرح کے کنونشن امریکی شہریوں اور ان کے میڈیا کو یہ موقع دیتے ہیں کہ جو بغیر تعصب کے مسلمانوں کا حقیقی چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں وہ دیکھ لیں۔ امریکی شہریوں اور مسلمانوں کے تعلقات بظاہر وہاں کا داخلی مسئلہ ہیں۔ لیکن دراصل اس پر پوری اُمت کا مستقبل دائو پر لگا ہے۔ اگر آج امریکی راے عامہ تعصب سے پاک صحیح رخ پر ہو‘ یقینا وہاں کی حکومت مسلم دشمن پالیسیوں کو نہیں چلا سکتی۔ اس لحاظ سے یہودیوں کی کارکردگی میں مسلمانوں کے لیے بڑا سبق ہے۔
سوال: اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنی جائز کمائی سے اپنے آرام و آسایش کے سامان مہیا کریں‘ اچھی غذائیں کھائیں‘ مگر کیا ایک ایسی سوسائٹی میں جہاں ہر طرف بھوک اور افلاس ہو‘ غریبی اور بے چارگی ہو‘ خصوصاً ایک داعی کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اچھے ملبوسات استعمال کرے‘ عمدہ غذائیں کھائے اور ایک پُرتکلف زندگی گزارے؟ کیا رسولؐ اللہ اور آپؐ کے صحابہؓ کی یہی روش تھی‘ جب کہ وہ اسلامی تحریک کو پھیلانے میں مصروف تھے؟ جماعت کے بعض لوگوں کے ایک حد تک متعیشانہ (luxurious) طرزِزندگی کو دیکھ کر میرے اندر یہ سوال پیدا ہوا ہے۔ براہ کرم میرے ذہنی خلجان کو دور کر دیں۔
جواب: مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے جماعت اسلامی کے کن لوگوں کو دیکھا ہے اور ان کی زندگی میں کیا چیز آپ کو متعیشانہ (luxurious) نظر آتی ہے۔ اس لیے آپ کے سوالات کا ٹھیک ٹھیک جواب دینا میرے لیے مشکل ہے جب تک کہ آپ کسی شخص کا اور اس تعیش (luxury) کا ذکر نہ فرمائیں‘ جو آپ نے اس کی زندگی میں دیکھا ہے۔
رہا صحابہ کرامؓ اور نبی کریمؐ کی زندگیوں کا معاملہ جن کا آپ نے حوالہ دیا ہے‘ تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ انھوں نے کبھی اپنی زندگی میں مصنوعی درویشی پیدا کرنے کی کوشش نہیں فرمائی‘ اور نہ محض اس غرض سے اپنے لباس‘مکان اور خوراک کا معیار کم تر رکھا کہ دیکھنے والے ان کی فقیرانہ شان دیکھ کر داد دیں۔ وہ سب بالکل ایک فطری‘ سادہ اور معتدل زندگی بسر کرتے تھے‘ اور جس اصول کے پابند تھے وہ صرف یہ تھا کہ شریعت کے ممنوعات سے پرہیز کریں‘ مباحات کے دائرے میں زندگی کو محدود رکھیں‘ رزق حلال حاصل کریں اور راہِ خدا کی جدوجہد میں بہرحال ثابت قدم رہیں‘ خواہ اس میں فقروفاقہ پیش آئے یا اللہ کسی وقت اپنی نعمتوں سے نواز دے۔ جان بوجھ کر برا پہننا ‘جب کہ اچھا پہننے کو جائز طریقے سے مل سکے‘ اورجان بوجھ کر برا کھانا‘ جب کہ اچھی غذا حلال طریقے سے بہم پہنچ سکے ان کا مسلک نہ تھا۔ ان میں سے جن بزرگوں کو راہِ خدا میں جدوجہد کرنے کے ساتھ حلال روزی فراخی کے ساتھ مل جاتی تھی وہ اچھا کھاتے بھی تھے‘ اچھا پہنتے بھی تھے اور پختہ مکانوں میں بھی رہتے تھے۔ خوش حال آدمیوں کا قصداً بدحال بن کر رہنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی پسند نہیں فرمایا‘ بلکہ آپؐ نے خود ان کو یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی نعمت کا اثر تمھارے لباس اور کھانے اور سواری میں دیکھنا پسند فرماتا ہے۔
میری سمجھ میں کبھی ان لوگوں کی ذہنیت نہیں آسکی جو خود اپنے لیے تو اللہ کی ساری نعمتوں کو مباح سمجھتے ہیں اور دوسرے کسی بھی شخص کا اچھا کھانا اور اچھا پہننا ان کی نگاہوں میں نہیں کھٹکتا‘ مگر جہاں کسی نے اللہ کے دین کی خدمت کا نام لیا‘ پھر اس کا سادہ لباس اور سادہ کھانا‘ معمولی درجے کا مکان اور فرنیچر بھی ان کی نگاہوں میں کھٹکنے لگتا اور ان کا دل یہ چاہنے لگتا ہے کہ ایسے شخص کو زیادہ سے زیادہ بدحال دیکھیں۔ شاید لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا کی نعمتیں صرف ان لوگوں کے لیے ہیں جو خدا کا کام کرنے کے بجائے اپنا کام کرتے ہیں۔ رہے خدا کا کام کرنے والے‘ تو وہ خدا کی کسی نعمت کے مستحق نہیں ہیں۔ یا پھر شاید ان کے دماغوں پر‘ راہبوں اور سنیاسیوں کی زندگی کا سکّہ بیٹھا ہوا ہے اور وہ دین داری کے ساتھ رہبانیت کو لازم و ملزوم سمجھتے ہیں‘ اس لیے کھاتا پیتا دین دار ان کو ایک اعجوبہ نظر آتا ہے …
میرے نزدیک ہر وہ جائز سہولت جو آدمی کو دین کا کام بہتر اور زیادہ مقدار میں انجام دینے کے قابل بنائے نہ صرف جائز ہے بلکہ اس سے فائدہ اٹھانا افضل ہے‘ اور اسے ترک کر دینا نہ صرف ایک حماقت ہے بلکہ اگر وہ اظہار درویشی کی نیت سے ہو تو ریاکاری بھی ہے۔ آپ خود غور کریں کہ ایک شخص اگر موٹر استعمال کر کے کم وقت میں زیادہ کام کر سکتا ہو تو کیوں اسے استعمال نہ کرے؟ اگر وہ سیکنڈ کلاس میں آرام سے سفرکر کے دوسرے دن اپنی منزل مقصود پر پہنچتے ہی اپنا کام شروع کر سکتا ہو تو وہ کیوں تھرڈ کلاس میں رات بھر کی بے آرامی مول لے اور دوسرا دن کام میں صرف کرنے کے بجائے تکان دُور کرنے میں صرف کرے؟ اگر وہ گرمی میں بجلی کا پنکھا استعمال کر کے زیادہ دماغی کام کر سکتا ہو تو وہ کیوں پسینوں میں شرابور ہو کر اپنی قوتِ کار کا بڑا حصہ ضائع کر دے؟ کیا ان سہولتوں کو وہ اس لیے چھوڑ دے کہ خدا کی یہ نعمتیں صرف شیطان کا کام کرنے والوں کے لیے ہیں‘ خدا کا کام کرنے والوں کے لیے نہیں ہیں؟ کیا انھیں جائز ذرائع سے فراہم کرنے کی قدرت رکھتے ہوئے بھی خواہ مخواہ چھوڑ دینا اور کام کے نقصان کو گوارا کر لینا حماقت نہیں ہے؟ کیا معترضین کا مطلب یہ ہے کہ شیطان کے سپاہی ہوائی جہاز پر چلیں اور خدا کے سپاہی ان کا مقابلہ چھکڑوں پر چل کر کریں؟ یا وہ چاہتے ہیں کہ کام ہو یا نہ ہو‘ ہم صرف ان کا دل خوش کرنے کے لیے اپنے آپ کو فقیر بناکر دکھاتے پھریں؟(سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ رسائل و مسائل ‘ دوم‘ ص ۴۲۲-۴۲۴)
س : ۱- تزکیہ نفس کی صحیح تعریف کیا ہے؟ اس بارے میں رسولؐ اللہ کی تعلیم کیا تھی؟ صوفیوں کا اس سلسلے میں صحیح عمل کیا رہا ہے؟ نیز ایک مسلمان کو اپنی زندگی کے اس شعبے میں کیا صورت اختیار کرنی چاہیے؟
۲- کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی آج کل کے صوفیا کی طرح تزکیہ نفس کیا کرتے تھے اورعالم بالا کے مشاہدات ہوتے رہتے تھے؟
ج : سوال کے پہلے جزو کے جواب میں یہ ذہن نشین کر لیجیے کہ عربی زبان میں ’’تزکیہ‘‘ کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے‘ ایک پا ک صاف کرنا‘ دوسرے بڑھانا اور نشوونما دینا۔ اس لفظ کو قرآن مجید میں بھی انھی دونوں معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ پس تزکیہ کا عمل دو اجزا سے مرکب ہے۔ ایک یہ کہ نفس انسانی کو انفرادی طور پر اور سوسائٹی کو اجتماعی طور پر ناپسندیدہ صفات اور بری رسوم و عادات سے پاک صاف کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ پسندیدہ صفات کے ذریعے سے اس کو نشوونما دیا جائے۔
اگر آپ قرآن مجید کو اس نقطۂ نظر سے دیکھیں اور حدیث میں اور کچھ نہیں تو صرف مشکوٰۃ ہی پر اس خیال سے نظر ڈال لیں تو آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں وہ کون سی ناپسندیدہ صفات ہیں جن کو اللہ اور رسولؐ دور کرنا چاہتے ہیں‘ اور وہ کون سی پسندیدہ صفات ہیں جن کو وہ افراد اور سوسائٹی میں ترقی دینا چاہتے ہیں۔ نیز قرآن و حدیث کے مطالعے ہی سے آپ کو ان تدابیر کی بھی پوری تفصیل معلوم ہو جائے گی جو اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے بتائی ہیں اور اس کے رسولؐ نے استعمال کی ہیں۔
اہل تصوف میں ایک مدت سے تزکیہ نفس کا جو مفہوم رائج ہو گیا ہے اور اس کے جو طریقے عام طور پر ان میں چل پڑے ہیں وہ قرآن و سنت کی تعلیم سے بہت ہٹے ہوئے ہیں۔
دوسرے جزو کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ نے تو عالم بالا کے معاملے میں صرف رسولؐ کے اعتماد پر غیب کی ساری حقیقتوں کو مان لیا تھا۔ اس لیے مشاہدے کی نہ ان کو طلب تھی اور نہ اس کے لیے انھوں نے کوئی سعی کی۔ وہ بجائے اس کے کہ پردۂ غیب کے پیچھے جھانکنے کی کوشش کرتے‘ اپنی ساری قوتیں اس جدوجہد میں صرف کرتے تھے کہ پہلے اپنے آپ کو اور پھر ساری دنیا کو خداے واحد کا مطیع بنائیں ‘اور دنیا میں عملاً وہ نظامِ حق قائم کریں جو برائیوں کو دبانے اور بھلائیوں کو نشوونما دینے والا ہو۔ (ا-م‘ رسائل و مسائل‘ اول‘ ص ۱۳۹-۱۴۰)
مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے پیرانہ سالی میں جب ان کی عمر ۸۰ سال سے متجاوز ہو چکی تھی‘ ۸۰کے عشرے میں‘ موطا امام مالک کا درس دیا۔ یہ اب ٹیپ سے اُتار کر تحریر کے اسلوب میں مرتب کرکے شائع کیے جا رہے ہیں۔ اس جلداول میں کچھ منتخب ابواب‘ مثلاً: زکوٰۃ‘ بیوع‘ حدود‘ دیت اور دیگر شامل کیے گئے ہیں۔
موطا بنیادی طور پر فقہ کی کتاب ہے‘ اس لیے اس کی شرح میں فقہ کے متنوع مسائل زیربحث آئے ہیں اور چونکہ مولانا نے امام مالکؒ کے فتاویٰ اورآرا کا محاکمہ بھی کیا ہے‘ اس لیے فقہی مسالک کا تقابلی مطالعہ بھی ہو گیا ہے۔ اس بات نے اس کتاب کی قدر وقیمت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ کا حدیث کی شرح کرنے کا اپنا ایک انداز ہے۔ وہ سند کو روایت کی تحقیق کا صرف ایک ذریعہ سمجھتے ہیں‘ اسے غیر معمولی اہمیت نہیں دیتے اور متن کو فطرت اور عقل سے پرکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بعض روایات پر وہ صرف یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ’’یہ میری سمجھ میں نہیں آئی‘‘۔
سیرحاصل تبصرے کا تقاضا تو بہت کچھ ہے‘ مگر اس کی گنجایش نہیں‘ تاہم کچھ اقتباسات:
۱- جھاڑ پھونک کے حوالے سے سات مرتبہ مسح کرنے کے سلسلے میں اعداد کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ سب بغیر حکمت کے نہیں‘ دین میں ان کا لحاظ ہے۔ اگر کوئی چیز قرآن مجید یا صحیح حدیث سے ثابت ہو تو ہرچند اس کی حکمت معلوم نہ ہو‘ اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ بلاحکمت بات ہے۔ ہاں اگر کسی ایرے غیرے کی بتائی ہوئی ہو تو اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ (ص ۴۱۹)
۲- بخارمیں پانی کے چھینٹے ڈالنے کی روایت کے سلسلے میں لکھتے ہیں: ’’بیماریوں کے علاج کی روایتوں کو جمع کر کے لوگوں نے طب نبویؐ کو باقاعدہ مرتب کر کے پیش کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے ایک متقی آدمی دوسرا علاج کیوں کروائے گا۔ وہ اسے تقویٰ کے خلاف سمجھے گا۔ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جسمانی بیماریوں کے نہیں‘ بلکہ روحانی بیماریوں کے معالج ہو کر آئے تھے۔ (ص ۴۲۴)
۳- داڑھی بڑھانے والی حدیث (اعفاء اللحی) کے حوالے سے: ظاہر مطلب تو یہ ہے کہ داڑھی کو بڑھنے دیا جائے‘ بالکل ہاتھ نہ لگایا جائے۔ لیکن ایک روایت میں آیا ہے کہ کان یاخذ عن یمینہ وشمالہ کہ آپ دائیں اور بائیں سے بال کاٹتے تھے۔ اگر دائیں اور بائیں سے بالوں کو کاٹ دیا جائے اور نیچے کی جانب بڑھنے کے لیے چھوڑ دیا جائے تو خدا جانے آدمی کیا بن جائے۔ لہٰذا روایت کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ داڑھی حسین ہو‘ بال دائیں بائیں اور طول و عرض میں کاٹے جائیں گے۔ اس کو ٹھیک کیا جائے گا… میرے نزدیک اعفا ء کا تقاضا یہ ہے کہ ڈاڑھی چہرے پر نمایاں ہو اور اس کو سنوار کر رکھا جائے ۔ اس کو دیکھ کر یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ شیو بڑھی ہوئی ہے ۔ (ص۴۲۸)
۴- نرد بساط‘ مہروں اور پانسے کے دانے پر مشتمل کھیل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کھیل کو اللہ اور رسولؐ کی نافرمانی قرار دیا ہے (ص ۴۴۹)۔ اس کی شرح میں لکھتے ہیں: شیطان نے وقت ضائع کرنے کے لیے ان سے زیادہ کارگر نسخے ایجاد نہیں کیے۔ اگر اس سے بھی زیادہ کوئی لغو کام ایجاد کیا ہے تو وہ کرکٹ کا کھیل ہے۔ (ص ۴۵۰)
کتاب کا مکمل مطالعہ یقینا قاری کو تفقہ فی الدین کی لذت سے آشنا کرتا ہے۔ مجلد کتاب بڑے سائز میں ہے اور نفیس کاغذ پر معیاری‘ صاف ‘روشن اور اجلی شائع کی گئی ہے۔ (مسلم سجاد)
دونوں کتابیں مختصر اخباری مضامین اور ’کالمیات‘ کا مجموعہ ہیں۔ مجلد ہیں‘ دبیز کاغذ پر شائع کی گئی ہیں۔ ہر تحریر دل دردمند کی تڑپ کی تصویر ہے۔ بقول مصنف حالات کا زہر ان میں تلخی گھولتا گیا لیکن یہ تلخی اس سے کہیں کم ہے جو میرے اندر گھل رہی ہے۔ (ص ۲۳‘ خ ت)
خدنگ تحریر‘ تازہ تحریریں ہیں ‘جب کہ دریچہ نگاہ میں ۱۹۵۶ء اور بعد کی تحریریں ہیں لیکن ۴۶ سال قبل بھی حالات مختلف نہ تھے۔ فوجی حکومت کا تجربہ اس دور میں ہو گیا تھا۔ ’’پیچھے مڑ کر دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ۱۹۵۶ء میں ملک و معاشرے کی جو کیفیت تھی اور جس پر ہم اس قدر نالاں تھے‘ تقریباً نصف صدی کی ’ترقی یافتگی‘ اورترقی پذیری کے باوجود آج ہم اس سے بھی زیادہ پستی کی حالت میں نظر آتے ہیں‘ اس اضافے کے ساتھ کہ اس وقت امید‘حوصلے اور ولولے کی جو سوچیں اٹھ رہی ہیں‘ وہ بھی اب کہیں بکھر گئی ہیں۔ (ص ۲۰‘ د ن)
یہ نہ سمجھیں کہ یہ وعظ ہیں۔ ہلکے پھلکے‘ مزاحیہ‘ حسن ادب کے نمونے‘ اشعار سے مزین (دل چاہتا ہے ہر صاحب ذوق پڑھے اور کچھ حاصل کرے) لیکن موضوعات: فوج کا آئینی کردار‘ آگرہ کی نوراکشتی‘ فی صد شماری کی طلسم کاری وغیرہ۔
مصنف شاعر ہیں۔ ان کے کئی مجموعۂ کلام بھی شائع ہو چکے ہیں۔ ۳۰ سے زائد تصنیفات کی فہرست دی گئی ہے۔ بچوں کے لیے بھی لکھتے ہیں۔ تجارت پیشہ ہیں۔ طویل مدت شارجہ میں رہے۔ایک بیٹے کی ذہنی معذوری کی وجہ سے ‘ اس میدان میں بہت مفید کام کیا۔ سائنوسا تنظیم بنا کر‘ اس کا رسالہ نکالا۔ کراچی میں دیوا اکیڈمی کتنے ہی معذور بچوں کا سہارا اور امیدوں کا مرکز ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں خوب نوازے۔ ان کے جذبے کو عام کرے۔ (م - س)
سیرت‘ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و شخصیت اور اخلاق حسنہ کا نام ہے‘ جب کہ تاریخ‘ ماہ و سال کی واقعات نگاری ہے۔ فاضل مصنف کے خیال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس‘ پوری تاریخ کی آئینہ دار ہے۔ آپؐ کی تاریخ کا مطالعہ تاریخی تناظر میں کرنا چاہیے۔ مصنف نے اپنے خیال میں زیرنظر تصنیف کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ کے طور پر پیش کیا ہے‘ سیرت کی کتاب کے طور پر نہیں۔ لیکن کتاب کا مجموعی اسلوب‘ ترتیب و مباحث مروجہ سیرت نگاری ہی کے مشابہ ہے۔
کتاب کے مباحث ایک مقدمے اور ۱۵ عنوانات پر مشتمل ہیں‘ جنھیں تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: اول: قبل از نبوت حالات (حضرت آدم ؑ تا آنحضرتؐ)‘ دوم: حضورِ اکرمؐ کے حالات (بہ ترتیب زمانی)‘ سوم: حضوراکرم ؐکا برپا کردہ انقلاب (تعلیمات کی اثرپذیری کے اعتبار سے)۔
مصنف کے خیال میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ انقلاب کو سمجھنے اور اس کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے تاریخِ عالم کا ادراک ضروری ہے مگر چھٹی اورساتویں صدی عیسوی میں عرب کے حالات کوانھوں نے نہایت اختصار سے بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ کے مآخذ کے ضمن میں تین اہم مآخذ (قرآن کریم‘ کتب احادیث اور کتب مغازی و سیرت) کا ذکر کیا ہے۔ فاضل مصنف نے ائمہ محدثین پر یہ اشکالات اٹھائے ہیں۔ اوّل: حدیث کی جمع و تدوین کا کام عجمیوں (غیر عربوں) کے ہاتھوں سرانجام پایا اور یہ تمام حضرات تیسری صدی ہجری سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوم: انھوں نے لاکھوں حدیثوں میں سے بہت کم کو صحیح قرار دے کر اپنے مجموعوں میں درج کیا۔ سوم: یہ تمام احادیث لوگوں نے انھیں زبانی سنائیں اور ان کا کوئی تحریری ریکارڈ پہلے سے موجود نہ تھا۔ چہارم: محدثین کا انتخاب ان کی ذاتی بصیرت‘ غوروفکر اور فیصلے کا نتیجہ تھا۔ ان احادیث کے صحیح ہونے کے متعلق نہ تو ان کے پاس خدا کی سند تھی اور نہ اس کی سند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمائی تھی۔ اس طرح محض اپنی فہم و فراست اور تحقیق کے مطابق جن احادیث کو صحیح تصور کیا ‘اپنے مجموعوں میں داخل کر دیا ۔(ص ۱۵۷)
احادیث نبویؐ کے بارے میں شکوک و شبہات کا یہ رجحان کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ ڈاکٹر حمیداللہ کی الوثائق السیاسیۃ‘ ڈاکٹر مصطفی السباعی کی السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی اور مولانا مودودی کی سنت کی آئینی حیثیت کا مطالعہ کر لیا جائے تو یہ شکوک ازخود رفع ہوجاتے ہیں۔
فاضل مصنف نے کتاب میں متعدد مقامات پر معروف سیرت نگاروں مثلاً: ابن اسحاق‘ ابن ہشام‘ ابن سعد‘ امام سہیلی اور علامہ شبلی نعمانی وغیرہم کے برعکس ایک مختلف نقطۂ نظر اختیار کیا ہے‘ مثلاً: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسری عورتوں کے دودھ پلانے اور حلیمہ سعدیہ کے پاس چار سال تک قیام کی روایت مشکوک بلکہ غلط معلوم ہوتی ہے… اور فطرت کے خلاف ہے (ص ۲۰۲)۔ آپؐ پر پہلی وحی خواب کی حالت میں نازل ہوئی (ص ۲۳۱)۔ مقاطعہ قریش بنی ہاشم اور بنی مطلب کے ساتھ نہ تھا بلکہ یہ محض مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ تھا (ص ۲۵۳)۔ جنگ خندق میں حضرت سلمانؓ فارسی کا مدینہ کے گرد خندق کھودنے کا مشورہ دینا اور آپؐ کا قبول کرنا آپ کی جنگی مہارت اور دفاعی تدابیر کے خلاف ہے (ص ۳۸۴) وغیرہ‘ مگر تعجب ہے کہ فاضل مصنف نے سواے چند مقامات کے‘ کسی جگہ بھی حوالہ جات کی ضرورت نہیں سمجھی اور نہ آخر میں مصادر و مراجع کی فہرست دی ہے۔ اس لیے حوالوں اور دلیل و استدلال کے بغیر متذکرہ بالا آرا کی حیثیت قیاس آرائیوں سے زیادہ کچھ نہیں۔
پوری کتاب میں کہیں آیات قرآنی کا عربی متن نہیں دیا‘ محض تراجم پر اکتفا کیا ہے۔
کتاب میں پروف کی بھی خاصی اغلاط ملتی ہیں۔ مصنف نے محبت اور لگائو کے ساتھ کتاب تصنیف کی ہے اور اس کی اشاعت کا اہتمام بھی ذاتی طور پر کیا ہے۔ امید ہے کہ آیندہ ایڈیشن میں وہ بعض ضروری نکات پر نظرثانی کریں گے۔ (ڈاکٹر محمد عبداللّٰہ)
۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی اور ۷ اکتوبر کو افغانستان پر امریکی حملے کے نتیجے میں اُمت مسلمہ‘ خصوصاً پاکستان‘ ایک انتہائی تکلیف دہ صورتِ حال سے دوچار ہے۔ محض اسلحے اور قوت کے بل بوتے پر ظالم اور مظلوم کا مفہوم ازسرنو متعین کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ امریکہ کے متکبرانہ رویے پر نہ صرف عالم اسلام اور دنیا کی دیگر چھوٹی اقوام بلکہ خود امریکہ کے بعض حلیفوں (جرمنی‘ کینیڈا وغیرہ) کی طرف سے بھی ایک ردّعمل سامنے آ رہا ہے۔
ترجمان القرآن میں صورت احوال پر پروفیسر خورشید احمد کے سیرحاصل اور چشم کشا تبصرے شائع ہوتے رہے ہیں۔ زیرنظر کتاب میں انھی اشاراتی تبصروں اور تجزیوں کو نظرثانی اور چند اضافوں کے ساتھ یک جا کیا گیا ہے۔ مذکورہ تجزیے پروفیسر سلیم منصور خالد نے تدوینی مہارت کے ساتھ مرتب کیے ہیں۔ پہلے چار مضامین ۱۱ستمبر سے پہلے کی صورت حال سے متعلق ہیں۔ ان کا زمانہ تحریر ۱۹۹۱ء‘ ۱۹۹۳ء اور ۲۰۰۰ء ہے‘ اور یہ ایک طرح سے موضوع اور کتاب کے پس منظر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ باقی مضامین کا تعلق ۱۱ستمبر کے بعد کے واقعات سے ہے۔ آخری مضمون کا عنوان ہے: ’’امریکہ میں دعوت اسلامی: امکانات‘ اہداف‘ مشکلات‘‘۔ اس طرح یہ کتاب ماضی‘ حال اور مستقبل کا احاطہ کرتی ہے۔
مرتب نے ہر مضمون کے متعدد ضمنی عنوانات قائم کر کے‘ اس کے مباحث کو واضح کر دیا ہے۔ مصنف نے ٹھوس اور وسیع مطالعے کی بنیاد پر اور ایک گہری بصیرت کے ساتھ مغربی استعمار کے عزائم اور اہداف کا تجزیہ کیا ہے۔
ان مقالات کو کتابی صورت میں پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ’’اہل پاکستان اور اُمت مسلمہ میں ان حالات‘ مسائل اور خطرات کا صحیح تصور پیدا ہو سکے‘‘ (ص ۱۵)۔ دشمن کے خطرناک عزائم کا ادراک ضروری ہے مگر اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں سے صرفِ نظر کرنا بھی دانش مندی نہیں۔ بقول مرتب: ’’زیرنظر کتاب کا اصل پیغام یہ ہے کہ حالات کا صحیح شعور ہو‘ مقابلے کے لیے موثر حکمت عملی تیار کی جائے اور حالات کے دھارے کا رخ موڑنے کے لیے جدوجہد کی جائے۔ یہی زندگی‘ ترقی اور کامیابی کا راستہ ہے‘‘۔ (ص ۱۵)
کتاب انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘اسلام آباد کے زیراہتمام تیار اور شائع ہوئی ہے۔ اشاعت و طباعت معیاری ہے۔ اشاریہ بھی شاملِکتاب ہے ۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مہدی علی صدیقی ‘ اپنی ذات میں ایک تاریخ ہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز سے کماحقہ آگاہ‘ اور اللہ کے فضل و کرم سے اپنی زندگی کی ’’سینچری‘‘ مکمل کرنے سے صرف چار سال پیچھے ہیں۔ طویل عمری بذات خود بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے لیکن اگریہ ملک و ملّت کے پردے پر وقوع پذیر ہونے والے سیاسی‘ تہذیبی‘ معاشرتی اور نظریاتی واقعات اور اس کے اسرار و رموز پر گواہ بن جائے اور وہ بھی ’’بلاکم و کاست‘‘--- تو کیا کہنا۔
مصنف پیشے کے لحاظ سے مملکت حیدر آباد دکن میں (۱۹۳۲ء تا ۱۹۴۸ء) سول سروس سے بطور سیشن جج وابستہ رہے۔ سقوط حیدر آباد کے بعد پاکستان آگئے اور ایک لمبے عرصے تک انصاف کے پرچم کو بلند کیے رکھا۔ انھوں نے سعادت حسن منٹو کے مشہور زمانہ مقدمے کی سماعت بھی کی۔ بلاکم و کاست پڑھنے والا اندازہ کر سکتا ہے کہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کا مفہوم کیا ہے۔ صرف ۲۷۳ صفحات پر اتنی طویل بھرپور زندگی کی تصویر نقش کرنا کوئی مصنف سے سیکھے۔ اس کتاب میں آپ کو علی گڑھ یونی ورسٹی میں طلبا کے روز و شب‘ تحریک خلافت کی جاں فشانیاں‘ جنگ عظیم کی تباہ کاریاں‘ ہندوئوں کی چالیں‘ مسلمانان برعظیم پاک و ہند کی جدوجہد آزادی کی پوشیدہ کہانیاں‘ تقسیم ہند کی خونچکاں داستانیں اور سقوطِ حیدرآباد کے الم ناک واقعات کے ساتھ ساتھ دیہاتی اور شہری زندگی کی کی خوب صورت عکاسی اور چار دیواری کے اندر محبت و اخوت کے موتی بکھرے ہوئے ملیں گے۔
مشاہدات و واقعات پر مبنی یہ سفرنامہ ایوب خان‘ یحییٰ خان‘ ذوالفقار علی بھٹو اور ضیا الحق جیسے حکمرانوں کے تذکرے اور کارگزاریوں کے ساتھ ساتھ‘ تحریک اسلامی کے نامور اکابرین کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات کا احاطہ بھی کرتا ہے۔ مہدی علی صدیقی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اس لیے زندگی کے اس حصے کا احاطہ کرتے ہوئے انھوں نے امریکی معاشرے کی خوبیوں اور خرابیوں کا بھی بلاتکلف جائزہ لیا ہے۔ بلاکم وکاست کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ جو ایک بار پڑھنا شروع کر دے تو آخری صفحے تک پڑھے بغیر رہ نہیں سکتا۔ طباعت و اشاعت کا معیار بھی نہایت اعلیٰ ہے۔ (نوراسلم خاں)
حافظ محمود خاں شیرانی (۱۸۸۰ء-۱۹۴۶ء) کو اُردو تحقیق کا ’’معلم اول‘‘ مانا گیا ہے۔ انھوں نے علم و تحقیق کے میدان میں جو کارہاے نمایاں انجام دیے ہیں‘ وہ آج بھی محققین اور علما کے لیے مشعل راہ ہیں۔ وہ ایک لمبے عرصے تک‘ شعبہ اُردو‘ جامعہ پنجاب‘ لاہور سے بطور استاد اور تحقیق کار وابستہ رہے‘ اسی تعلق کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے شعبۂ اُردو نے اُن کی یاد میں ایک علمی ارمغان پیش کیا ہے۔
اس کتاب میں حافظ محمود شیرانی اور ان کی علمی دل چسپی کے موضوعات پر ۱۴ علمی و تحقیقی مضامین شامل ہیں۔ ’’منتخب القوافی‘‘ از عشقی عظیم آبادی، ’’یہاں‘وہاں کا ارتقائی سفر‘ ایک تحقیق‘‘ ، ’’حکیم احسن اللہ خاں‘‘، ’’مصحفی سے منسوب دو تذکرے‘‘، ’’ذخیرۂ شیرانی سے متعلق چند اہم دستاویزات‘‘ ، ’’ولادت و وفات کی تاریخیں‘‘، ’’قدیم تذکروں کی روشنی میں‘‘، ’’والہ داغستانی کے دیوان کا ایک معاصر مخطوطہ اور اس کا اُردو کلام‘‘ اور ’’محمود شیرانی سے میرے استفادات‘‘، اس کتاب کے اہم ترین مضامین ہیں‘ جن کے ذریعے‘ علم و ادب کے حوالے سے ‘ کئی حقائق منظرعام پر آئے ہیں اور مزید تحقیق کی راہیں کھلی ہیں۔ مقالہ نگاروں میں صف اوّل کے مندرجہ ذیل محقق اور عالم شامل ہیں: ڈاکٹر مختارالدین احمد‘ شان الحق حقی‘ رشید حسن خاں‘ حکیم محمود احمد برکاتی‘ ڈاکٹر گیان چند جین‘ ڈاکٹر حنیف نقوی‘ ڈاکٹر محمد انصاراللہ‘ ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی (نبیرۂ حافظ محمود شیرانی)‘ ڈاکٹر فریداحمد برکاتی‘ ڈاکٹر عارف نوشاہی‘ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار‘ ڈاکٹر معین الدین عقیل‘ افضل حق قرشی اور ڈاکٹر تبسم کاشمیری۔ آخر میں مرتبین نے مقالہ نگاروں کا مختصر تعارف نامہ بھی شامل کر دیا ہے جو نہایت مفید اور معلوماتی ہے۔
ارمغان شیرانی اپنے مشمولہ مضامین کے حوالے سے بھی اہم کتاب ہے اور جامعہ پنجاب کی تابندہ علمی روایت کے سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر بھی اہمیت کی حامل ہے۔ کتاب کی ترتیب کے ساتھ ساتھ طباعت و پیش کش عمدہ ہے۔ علمی و ادبی حلقوں میں اس کتاب کی ضرورت کا احساس اور اس سے استفادہ ہونا چاہیے۔ مرتبین اور ناشر اس ارمغان کی تیاری اور اشاعت پر لائق صد مبارک ہیں۔ (رفاقت علی شاہد)
اس میں شبہہ نہیں کہ ’’نومسلموں کا موضوع اپنی نوعیت کے اعتبار سے دینی لٹریچر کا شاید سب سے دل چسپ اور مفید موضوع ہے‘‘ (ص ۱۰)۔ اس لٹریچر کی مقبولیت کا ایک سبب غالباً یہ بھی ہے کہ مسلم قاری نومسلموں کے قبولِ اسلام کی داستانیں پڑھ کر ایک نفسیاتی تسکین محسوس کرتا ہے۔ سبب جو بھی ہو‘ قبولِ اسلام کی ان سچی کہانیوں کی دل چسپی میں کلام نہیں۔ ملک احمد سرور صاحب نے ایک مخلصانہ دعوتی اور تبلیغی جذبے کے تحت تقریباً ۵۰ نومسلموں کی رودادیں‘ انٹرویو اور مضامین مرتب کیے ہیں جن میں سے بہت سے خود اُن کے ترجمہ کردہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے ڈاکٹر عبدالغنی فاروق کی کتابوں: ہم کیوں مسلمان ہیں؟ہمیں خدا کیسے ملا؟ نے اس راستے پر چلایا۔
دنیا کے مختلف ممالک اور براعظموں سے تعلق رکھنے والے بیشتر مرد و زن‘ قبول اسلام سے پہلے عیسائی تھے‘ کچھ ہندو اور بعض سکھ اور بُدھ۔ ان میں پارلیمنٹ کے رکن‘ فلمی اداکار‘ سفیر‘ صحافی‘ پروفیسر‘ دانش ور‘ ادیب‘ شاعر اور طالب علم شامل ہیں۔ کسی کو اوائل عمر میں ہدایت نصیب ہوئی تو کوئی حیاتِ مستعار کے آخری برسوں میں ایمان لایا۔
یہ رودادیں مؤلف کے بقول: قاری کے اندر بھی اسلام کے مطالعے اور اسلامی احکام پر عمل کرنے کا جذبہ اُبھارتی ہیں--- اصلاح کرتی ہیں--- ضمیر کو جھنجھوڑتی ہیں--- ذہن میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اسلام کے دین حق ہونے کے بارے میں جو سوالات اُبھرتے ہیں‘ ان کے جوابات دیتی ہیں۔ اس طرح یہ ایمان کی مضبوطی کا باعث ہیں۔ (ص ۱۷)
مصنف ایک معروف صحافی اور ادیب ہیں۔ بیش تر رودادیں ان کے ماہانہ جریدے بیدار ڈائجسٹ میں شائع شدہ ہیں۔اب ان رودادوں کو نہایت سلیقے سے ایک عمدہ ترتیب کے ساتھ مدون کیا گیا ہے۔ حسب موقع حوالے بھی دیے گئے ہیں۔ (ر - ہ )
’’۱۱ستمبر کی ستم کاریاں‘‘ (ستمبر ۲۰۰۲ء) میں آپ نے کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا۔ معلوم نہیں امریکہ کو کب اور کس طرح عقل آئے گی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ساری دنیا کو خصوصاً مسلمانوں کو اپنا ایسا دشمن بنا رہا ہے کہ شاید امریکی عوام کئی نسلوں تک اس کے نتائج بھگتیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری قیادتیں خوابِ غفلت میں مبتلا ہیں۔ اگر ملّت اسلامیہ منصوبہ بندی کرے اور امریکہ اور مغرب میں مقیم لاکھوں مسلمان اسلام کی صحیح تصویر بن جائیں تو امریکہ اور مغرب کے عام انسان کی رائے میں تبدیلی بالکل ممکن ہے۔ خودہلاکتی کی جس راہ پر بش اپنی قوم کو لے جا رہا ہے اس کا توڑ یہی ہے کہ وہاں کے میڈیا اور عوام کی آنکھیں کھلیں اور وہ یہود کے پنجے سے آزاد ہوں۔ اگر ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو بہت کچھ دیکھ سکتے ہیں‘ سیکھ سکتے ہیں پھر جو کرنا چاہیے وہ واقعی کریں بھی۔ یہ دنیا تو عالم اسباب ہے۔
’’مولانا مودودی: زندگی کا ایک پُرآشوب دور‘‘ (ستمبر ۲۰۰۲ء) بلاشبہہ معلومات افزا مضمون تھا‘ تاہم اگر اس کا عنوان ’’ترجمان القرآن کا ایک پُرآشوب دور‘‘ ہوتا تو زیادہ موزوں تھا۔ اس مضمون میں اعجاز الحق قدوسی صاحب کے مضمون ’’وہ ایک شمع کہ جس کے دم سے‘‘ کی بنیاد پر‘ حامد عبدالرحمن الکاف صاحب نے جو اقتباس دیا تھا‘وہ ادھورا نقل ہوا۔ جس سے قرض کی واپسی کے مسئلے میں کوتاہی سامنے آئی۔ یہاں پر میں قدوسی صاحب کے مضمون سے اصل پیرا نقل کر رہا ہوں جس سے مذکورہ ابہام دور ہو جائے گا۔اعجاز الحق قدوسی صاحب لکھتے ہیں:
میں نے سرور خاں صاحب کو ]نعیم صدیقی صاحب کے دستخط والا[ مولانا ] مودودی[ کا خط سُنا دیا۔ پھر سرور خاں صاحب نے بھی کچھ نہیں کہا۔ جب جماعت اسلامی قائم ہو گئی اور مولانا جنوبی ہند کانفرنس مدراس میں شریک ہونے کے لیے حیدرآباد میں فروکش ہوئے تو میں مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ملاقات کے بعد پوچھا کہ آپ سرور خاں صاحب کا روپیہ بھی لائے ہیں۔ مولانا نے اٹیچی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ روپیہ اس میں ہے۔ سرور خاں صاحب کو نظام آباد تار دو کہ وہ آکر اپنا روپیہ لے لیں۔ سرور خاں صاحب تشریف لائے تو مولانا ] مودودی[ نے قرض کی ادایگی میں ]بوجوہ [ تاخیر پر بڑی معذرت کی اور ایک ہزار روپے سرور خاں صاحب کے حوالے کیے۔ سرور خاں صاحب نے ان میں سے دو سو روپے جماعت اسلامی کے چندے میں دے دیے اور آٹھ سو روپے اپنی جیب میں رکھے۔ (ملاحظہ کیجیے: تذکرہ سید مودودی‘ جلد سوم‘ ‘ ص ۳۰۲‘ ۱۹۹۸ء)
ترجمان القرآن میں ایک عرصے کے بعد افغانستان پر کوئی تحریر پڑھنے کو ملی۔ڈاکٹر محمد ساعد نے ’’افغانستان: امریکی جارحیت اور خانہ جنگی کے چنگل میں‘‘ (ستمبر ۲۰۰۲ء) اعداد و شمار اور حالات و واقعات کے ذریعے بڑی عمدگی سے افغانستان کی صورت حال کو واضح کیا ہے اور ایک بھرپور تجزیہ پیش کیا ہے۔ اس سے افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے بہت سے سوالات کے جواب سامنے آتے ہیں۔
دو منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ Constitutional Law شائع ہونے والی ہے۔ یہ انگریزی میں مولویانہ کاوش ہے۔ چار جلدوں میں Legal Study of Sunnah پر کام کر رہا ہوں۔ تیسری جلد لکھ رہا ہوں۔ اگرچہ انگریزی کمزور ہوگی مگر بین الاقوامی طور پر احادیث سے استنباط احکام پر سادہ زبان میں کوئی کتاب نہ تھی۔ اس کے علاوہ The Story of the Quranلکھ رہا ہوں۔ ۴۰ سورتوں کی تلخیص ہو چکی ہے۔ اس کتاب کا مقصد یہ ہے کہ پوری دنیا اسلام کی طرف متوجہ ہو گئی ہے۔ ان کے لیے ایک مختصر تشریح کے ساتھ ترتیب نزولی کے مطابق قرآن کی تعلیمات کو پیش کیا جائے تاکہ ایک نظر میں قرآن‘ سیرت اور اسلامی تعلیمات قاری کے سامنے آجائیں۔ قبل اس کے کہ کارکردگی کی قوت جواب دے دے‘ میں ان منصوبوں کو مکمل کرنا چاہتا ہوں۔
ایک طویل عرصے سے اخبارات و رسائل میں یا مختلف ٹی وی چینلوں پر جب بھی القدس کے حوالے سے کوئی خبر پیش کی جاتی ہے تو ایک سنہرے گنبد والی خوب صورت عمارت کو بطور مسجداقصیٰ پیش کیا جاتا ہے۔ اس تصویر کو بڑے پیمانے پر دنیا بھر میں پھیلایا بھی گیا ہے جسے مسلمان بخوشی اپنے ڈرائنگ روم یا دفتر کی زینت بناتے ہیں۔ اس ہمہ گیر مہم کا نتیجہ ہے کہ دنیا کی ایک بڑی تعداد بشمول مسلمان سنہرے گنبد والی اس عمارت کو مسجد اقصیٰ سمجھتی ہے اور فلسطین سے متعلق شائع ہونے والی کتب کا سرورق یہی عمارت ہوتی ہے۔ یہ عمارت مسجد اقصیٰ نہیں بلکہ مسجد صخرہ ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک حضورؐ نے معراج کا آغاز اسی مقام سے کیا تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ کے عہد میں جب بیت المقدس فتح ہوا اور ہیکل سلیمانی کے شکستہ کھنڈرات پر مسجد اقصیٰ تعمیر ہوئی تو صخرہ پر بھی مسجد تعمیر کی گئی۔ اسے مسجد صخرہ یا مسجد عمرؓ بھی کہتے ہیں۔ سب سے پہلے پانچویں اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے صخرہ پر ایک شاندار گنبد تعمیر کروایا تھا۔ مسجد صخرہ دراصل مسجد اقصیٰ نہیں ہے۔ یہودیوں نے ایک سازش اور جعل سازی کے تحت مسجد صخرہ کو مسجد اقصیٰ کے طور پر متعارف کروایا ہے تاکہ کسی بھی وقت جب وہ اصل مسجد اقصیٰ کو شہید کریں تو لوگ اسی دھوکے میں رہیں کہ مسجد اقصیٰ قائم ہے۔ اس طرح وہ عالمی ردعمل سے بھی بچنا چاہتے ہیں اور اپنی خواہش کی تکمیل بھی کرنا چاہتے ہیں۔ اس یہودی سازش کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔
متشابہات: وہ جن کے مفہوم میں اشتباہ کی گنجایش ہے--- یہ ظاہر ہے کہ انسان کے لیے زندگی کا کوئی راستہ تجویز نہیں کیا جا سکتا جب تک کائنات کی حقیقت اور اس کے آغاز و انجام اور اس میں انسان کی حیثیت اور ایسے ہی دوسرے بنیادی امور کے متعلق کم سے کم ضروری معلومات انسان کو نہ دی جائیں۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جو چیزیں انسان کے حواس سے ماوراء ہیں‘ جو انسانی علم کی گرفت میں نہ کبھی آئی ہیں نہ آسکتی ہیں‘ جن کو نہ اس نے کبھی دیکھا‘ نہ چھوا‘ نہ چکھا‘ اُن کے لیے انسانی زبان میں نہ ایسے الفاظ مل سکتے ہیں جو انہی کے لیے وضع کیے گئے ہوں اور نہ ایسے معروف اسالیب ِ بیان مل سکتے ہیں جن سے ہر سامع کے ذہن میں اُن کی صحیح تصویر کھنچ جائے۔ لامحالہ یہ ناگزیر ہے کہ اس نوعیت کے مضامین کو بیان کرنے کے لیے الفاظ اور اسالیب ِ بیان وہ استعمال کیے جائیں جو اصل حقیقت سے قریب تر مشابہت رکھنے والی محسوس چیزوں کے لیے انسانی زبان میں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ مابعد الطبیعی مسائل کے بیان میں قرآن میں ایسی ہی زبان استعمال کی گئی ہے‘ اور متشابہات سے مراد وہ آیات ہیں جن میں یہ زبان استعمال کی گئی ہے۔ لیکن اس زبان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ بس اتنا ہی ہو سکتا ہے کہ آدمی کو حقیقت کے قریب تک پہنچا دے یا اس کا ایک دھندلا سا تصور پیدا کر دے‘ ورنہ اس کے مفہوم کو متعین کرنے کی جتنی زیادہ کوشش کی جائے گی اتنے ہی زیادہ اشتباہات و احتمالات سے سابقہ پیش آئے گا حتیٰ کہ انسان حقیقت سے قریب تر ہونے کے بجائے اور زیادہ دُور ہوتا چلا جائے گا۔ پس جو لوگ طالب حق ہیں اور ذوقِ فضول نہیں رکھتے وہ تو متشابہات سے حقیقت کے اُس دھندلے تصور پر قناعت کرلیتے ہیں جو کام چلانے کے لیے کافی ہے اور اپنی تمام تر توجہ محکمات پر صرف کرتے ہیں‘ مگر جو لوگ بوالفضول یا فتنہ جو ہوتے ہیں ان کا تمام تر مشغلہ متشابہات ہی کی بحث وتنقیب ہوتا ہے۔
یہاں کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ جب وہ لوگ متشابہات کا صحیح مفہوم جانتے ہی نہیں تو ان پر ایمان کیسے لے آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی کو قرآن کے کلام اللہ ہونے کا یقین محکمات کے مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ متشابہات کی تاویلوں سے۔ اور جب آیات محکمات میں غوروفکر کرنے سے اس کو یہ اطمینان حاصل ہو جاتا ہے کہ یہ کتاب واقعی اللہ ہی کی کتاب ہے تو پھر متشابہات اس کے دل میں کوئی خلجان پیدا نہیں کرتے۔ جہاں تک ان کا سیدھا سادہ مفہوم اس کی سمجھ میں آجاتا ہے اس کو وہ لے لیتا ہے ‘اور جہاںپیچیدگی رونما ہوتی ہے وہاں کھوج لگانے اور موشگافیاں کرنے کے بجائے وہ اللہ کے کلام پر مجمل ایمان لا کر اپنی توجہ کام کی باتوں کی طرف پھیر دیتا ہے۔ (’’تفہیم القرآن‘ ‘،ابوالاعلیٰ مودودی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۱‘ عدد ۳-۴‘ رمضان و شوال ۱۳۶۱ھ‘ اکتوبر‘ نومبر۱۹۴۲ء‘ ص ۱۴-۱۵)